حضرت ابوبکر صدیق ؓ از محمد حسین ہیکل حرف اول عالم اسلام کی تاریخ کا آغاز حقیقتاً اس وقت سے ہوتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل وطن کے مسلسل مظالم سے نہایت درجہ پریشان ہو کر مکہ کی سرزمین سے ہجرت کر نے اور مدینہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ اس عظیم الشان واقعے کو اسلامی تاریخ کا مبداء اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ ترقی اسلام کی بنیاد اسی وقت سے پڑی‘ اللہ کی تائید و نصر ت نہایت شاندار طور پر ظاہر ہوئی اور کفار مکہ کو جو مسلسل تیرہ سال تک اسلام کی سخت مخالفت کرنے اور اپنے مقصد میں ناکام رہنے کے بعد بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل پر متفق ہو چکے تھے۔ ایک بار پھر زبردست ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ واحد شخص تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کاشرف حاصل ہوا۔ اس واقعے کے دس برس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے اورنماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف نہ لا سکے توآپ نے اپنی جگہ جس شخص کو امامت کے لیے منتخب کیا وہ ابوبکرؓہی تھے ۔ یہ عظیم الشان شرف ایساتھا جو حضرت عمرؓ بن خطاب جیسے جلیل القدر صحابی کو بھی نہ حاصل ہو سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت جیسے نازک موقع پر ابوبکر ؓ کو اپنا ساتھی کیوں چنا اورمرض الموت میں اپنی جگہ نماز پڑھانے کا حکم کیوں دیا؟ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ ابوبکر ؓ ہی سب سے پہلے آ پ کی رسالت پر ایمان لائے تھے اوردین حق کی خاطر جان‘ مال اور عزت کی قربنی دینے میں بھی ان کا قدم دوسرے تمام مسلمانوں سے آگے رہا۔ وہ قبول اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے طویل عرصے میں برابر آ پ کی اعانت‘ دین اسلام کی اشاعت اورکفار کے مظالم سے مسلمانوں کو محفوظ رکھے میں ہمہ تن مشغول رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کوانہوںنے اپنے ہر کام پر مقدم رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنی جان تک کی مطلق پروا نہ کی تھی اور ہر جنگ میں آپ کے دو ش بدوش کفار سے مقابلہ و مقاتلہ کیا تھا۔ نہایت پختہ ایمان کے علاوہ ان کے اخلاق حسنہ بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔۔ اسی حسن خلق کی بدولت وہ بے حد ہر دل عزیز تھے اور ہر مسلمان ان سے محبت کرتا تھا۔ ابوبکرؓ کے دینی مرتبے اور ان سے لوگوں کی حد درجہ عقیدت ہی کا نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب آپ کی جانشینی کا سوال مسلمانوں کے سامنے آیا تو ان کی نظر انتخاب انہی پر پڑی اور سب نے ان کو بالاتفاق پہلا خلیفہ تسلیم کر لیا۔ اپنے مختصر عہد خلافت میں اسلام کی سربلندی کے لیے انہوںنے جو الوالعزمانہ کوششیں کیں ان کی نظیر عالم اسلام کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ابوبکرؓ ہی کے مبارک زمانے میں اسلامی سلطنت کا آغاز ہوا جس نے پھیلتے پھیلتے دنیا کے کثیر حصے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اس عظیم الشا ن مملکت کے کنارے ایشیا میں ہندوستان ور چین تک افریقہ میں مصر اور تونس و مراکش تک اور یورپ میں اندلس و فرانس تک پھیل گئے تھے۔ یہ سلطنت تھی کہ جس نے انسانی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جن کا اثر رہتی دنیا تک رواں دوا ں رہے گا۔ اپنی کتاب ’’حیات محمد‘‘ اور ’’فی منزل الوحی‘‘ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد میرے دل میں خیال آیا کہ میں اسلامی سلطنت کی تاریخ اور اس کے عروج و زوال کے اسباب کے متعلق بھی کچھ تحقیقی کام کروں۔ اس خیال نے اس وجہ سے اور بھی شدت اختیار کی کہ اسلامی سلطنت کا قیام کلیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رہین منت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انسانیت کی بقا اور اس کی ہدایت کے لیے جو بے مثال تعلیم پیش کی وہی اس عظیم الشان سلطنت کے قیام کا باعث بنی اور اس تعلیم کے مظاہر ہمیں جا بجا اسلامی حکومت کے مختلف ادوار میں نظر آتے ہیں۔ فی الواقع ماضی حال اور مستقبل آپس میں کچھ اس حد تک مربوط ہوتے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی قوم کے مستقبل کا اندازہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ اس کے ماضی کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ قو م میں جو خرابیاں راہ پا جاتی ہیں اور انہیں دور کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ ایام گزشتہ پر نظر دوڑائی جائے اور زمانہ حال سے ا ن کا مقابلہ کرکے خرابیوں کے ازالے کی کوشش کی جائے‘ بالکل اسی طرح جیسے کسی مریض کے مرض کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے مرض سے پہلے کے حالات کی اچھی طرح چھان بین کرنی ضرورتی ہوتی ہے۔ آج مسلمانوں پر بھی انحطاط کا دو ردورہ ہے ۔ جو قوم صدیوں تک بڑی شان سے دنیا کے ایک بڑے خطے پر حکومت کر چکی ہو وہ آج قصر مذلت میں پڑی ہے ۔ ضروری ہے کہ ہم بھی چودہ سو برس پہلے کے واقعات و حالات کا بہ نظر غائر جائزہ لے کر وہ اسباب ڈھونڈیں جو ہمارے انحطاط کا باعث بنے اور وہ راستے تلاش کریں جن پر گامزن ہو کر ہمیں آج بھی اپنی کھوئی ہوئی شان و شوکت اور قدر و منزلت حاصل ہو سکتی ہے۔ میں انہیں افکار میں غلطاں و پیچاں تھا کہ میرے بعض کرم فرمائوں نے میری کتاب’’حیات محمدؐ‘‘ پڑھ کر مجھ سے بہ اصرار کاہ کہ اسی طرح پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء اور اسلا م کے جلیل القدر فرزندوں کے سوانح حیات بھی معرض وجودمیں لائوں۔ میں تو پہلے ہی اس امر کے متعلق سوچ رہا تھا۔ دوستوں کے اصرار نے میرے سمندر شوق کے لیے تازیانے کا کام کیا ار میں نے اس کام کا بیڑا اٹھالیا اور اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام مجھ اکیلے کے بس کا نہیںبلکہ اسے انجام دینے کے لیے اہل علم کی ایک پوری جماعت کی ضرورت ہے۔ حضرت عمرؓ بن خطاب کے متعلق تو تحقیق کام بہت ہو چکا ہے اور ان کی بیشتر سوانح عمر ی موجود نہ تھی اس لیے میں نے سب سے پہلے انہیں کے سوانح حیات کی طرف توجہ کی۔ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدیم جاں نثاررفیق اور آپ کے کامل متبع تھے۔ پھرانتہائی پر سوز دل اور بے نظیر صفات کے مالک تھے۔ عالم اسلام میں پھیلے ہوئے لاکھوں مسلمان ان سے منسوب ہونے میں فخرمحسوس کرتے ہیں ۔ ابوبکرؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعدانہیں بالاتفاق مسلمانوں کا پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔ جب مرتدین کے ہاتھوں اسلام اپنے نازک ترین مرحلہ سے گزر رہاتھا صرف ابوبکرؓ کی شخصیت تھی۔ جس نے مسلمانوںکو تباہی کے غار میں گرنے سے بچایا۔ ایرانی اور رومی سلطنتوں پر فوج کشی کر کے انہوںنے اس عظیم الشان اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کے اثرات آج تک اقوام عالم کے دلوںسے محو نہیں ہوسکے۔ اسی لیے میں اپنی کتاب میں جو کچھ بیا ن کروں گا اس کا تعلق محض سیرت و سوانح سے نہ ہو گا بلکہ یہ اصل میں اسلامی سلطنت کی تاریخ ہو گی جس کی ابتداحضرت ابوبکرؓ صدیق کے عہد سے ہوئی۔ اس بابرکت عہدکے جو واقعات ہمیں مختلف کتابوں میں ملتے ہیں وہ انتہائی تعجب خیز اور مرعوب کن ہیں اوران سے حضرت صدیقؓ کی عظیم شخصیت کے عجیب و غریب پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک طرف یہ مرد حق غریبوں اور مسکینوں کی مدد کے لیے ہر لحظہ بے چین نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسا درد مند انسان دنیا کے پردے پرکوئی نہ ہو گا۔ دوسری طرف علامہ کلمۃ الحق اور اسلام کی سربلندی کی خاطر وہ بڑے سے بڑا خطرہ قبول کر لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسے اس کے عزم و ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتیں۔ عزم و استقلال کا یہ عظیم پیکر تردد اور ہچکچاہٹ کے نام سے بھی نا آشنا تھا۔ ا س عظیم الشان انسان کولوگوں کی مخفی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اجاگر کرنے اور ان سے ان کی استعداد کے مطابق کا م لینے کا بہترین ملکہ حاصل تھا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ابوبکرؓ نے ایک عاشق صادق کی طرح زندگی بسر کی ۔ جب قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذائوں اور مظالم کا نشانہ بناتے تھے تو کفار کے مقالبے میں ابوبکرؓ ہی سینہ سپر ہوتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر جس شخص نے سب سے پہلے لبیک کہا وہ ابوبکرؓ ہی تھے ۔ ابوبکرؓ ہی نے ہجرت کے نازک ترین موقع پر غار ثور سے یثرب تک پوری جاں نثاری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کی مکاریوں اور منافقین کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑا ور قریش مکہ اوریہود مدینہ کی پے در پے کوششوں کے نتیجے میں ساراا عرب آپ کے مقابلے میںاٹھ کھڑا ہوا تو ابوبکرؓ ہی نے آپ کے خاص الخاص مشیر کار کے فرائض انجا م دیے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے جو موقف ابوبکرؓ نے اختیار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کے ذیل میں جو بلند پایہ خدمات انہوںنے انجام دیں وہ نہ صرف مجموعی طور پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک ابوبکرؓ کے نام کا ابد الاباد تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابوبکرؓ کی رفعت شان کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں کیونکہ اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر جو قربانیاں انہوںنے پیش کیں ان کا تعلق اصل میں دل سے ہے اوریہ علم خدا ہی کو ہو سکتا ہے کہ ابوبکرؓ کے دل میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے جو جذبات موجزن تھے وہ ظاہر کے مقابلے میں کتنے شدید تھے اوران کا اندرونی اخلاص ظاہری اخلاص سے کتنا زیادہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جو واقعات پیش آئے ان سے ان کا حسن بصیرت اور دور رسی مزید آشکار ہو گئی ۔ مرتدین عرب سے فراغت پانے کے بعد جب آپ نے ایران و روم پر توجہ مبذول کی تو سب سے بڑا ہتھیار جو انہوںنے ان دونوں سلطنتوں کے خلاف استعمال کیا وہ مساوات کا تھا جسے اسلام نے اصل الاصول کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس ہتھیار کا سامنا ایرانی سلطنت کر سکتی تھی نہ رومی مملکت ۔ ایران اور روم کے باشندے شخصی اقتدار کی چکی میں پس رہے تھے۔ رعایا کے درمیان مختلف طبقات قائم تھے نسلی امتیاز کی لعنت بری طرح مسلط تھی حکمرا ن طبقہ ملک میں بسنے والے دوسرے طبقو ں کو اپنے سے کم تر بلکہ اچھوت سمجھتا تھا‘ اور انہیں ہر لحاظ سے دبانا فرض خیال کرتا تھا۔ عین اس وقت اسلام نے عدل و انصاف اور مساوات کا علم بلند کیا۔ ابوبکرؓ نے ایران جانے اور روم جانے والی افواج کے سپہ سالاروں کو خاص طور پر ہدایات فرمائیں۔ کہ وہ عدل و انصاف کادامن کسی طرح ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور مفتوحہ علاقوں کے تمام لوگوں سے بلا امتیا مذہب و ملت مساوی سلوک کریں۔ اس طرح جو ہاشیے ایک عرصے سے ظلم و ستم اور عدم مساوات کا شکار چلے آ رہے تھے وہ اسلام کے منصفانہ اصولوں کی جھلکیاں دیکھ کر اس کے گرویدہ ہو گئے اور ان سلطنتوں کو اپنی زبردست عسکری قوت اور عظیم الشان مسلح افواج کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں ہزیمت اٹھانا پڑی ۔ ظاہر ہے کہ ظلم و تشدد اور نسلی امتیاز روا رکھنے والی سلطنت خواہ اس کی ظاہری طاقت کتنی ہی ٹھوس اور اس کی فوج کتی ہی منظم ہو ایسی قوم کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھہر سکتی جو عدل و انصاف اور مساوات کی نہ صرف علم بردار ہو بلکہ جس کی زندگی انہیں سانچوں میں ڈھلی ہو۔ یہ طرز زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدکامل طورپر ابوبکرؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ عہد رسالت اور خلافت ثانیہ کے اتصال کے باعث حضرت ابوبکرؓ صدیق کا دور ایک خاص انفرادیت کا حامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عہد ارشاد و اصلاح کا عہد تھا۔ آپ کے عہد میں شریعت کا نزول ہو رہا تھا اللہ کی طرف سے بندوں کو ہدایت کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسلسل احکام دیے جا رہے تھے۔ اس کے بالمقابل حضرت عمرؓ کا عہد تنظیمی تھا۔ نوزائیدہ اسلامی سلطنت کے انتظام و انصرام کے لیے اصو و قواقد مرتب کیے جا رہے تھے اور مختلف محکموں کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا۔ ابوبکرؓ کا دور جہاں ان دونوں دوروں کی درمیانی کڑی تھا وہاں ان غیر معمولی حالات کی وجہ سے جوآپ کے عہد میں پیش آئے ان دونوں سے بڑی حد تک مختلف بھی تھا۔ اپنے مختصر دور میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جن مشکلات … او رمصائب کا سامنا کرنا پڑا ان کے باعث اسلام کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد معا بعد اس وحدت عربیہ میں انتشار کے آثار نظر آنے لگے جسے آپ نے تئیس برس کی محنت شاقہ کے بعد قائم کیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انتشار کے آثار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اواخر میں ہی نظر آنے لگے تھے۔ مسیلمہ بن حبیب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنے قاصدوں کے ہاتھ آپ کو یہ پیغام بھیجا کہ مجھے اللہ نے نبوت کے مقام پر سرفراز کیا ہے اور اس لیے عرب کی نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی۔ مسیلمہ کی دیکھا دیکھی اسود عنسی بھی نبی بن بیٹھا اور شعبدے دکھا دکھا کر اہل یمن کو اپنی طرف مائل کرنے لگا۔ طاقت حاصل ہونے پر اس نے جنوب کا رخ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمال کو وہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ اس کے بعد وہ نجران کی طرف بڑھا اوروہاں بھی تسلط قائم کر یلا۔ یہ حالات دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجبوراً اپنے عمال کو ان باغیوں کی سرکوبی کے لیے روانہ ہونا پڑا۔ اصل بات یہ تھی کہ عرب گو توحید کے قائل ہو چکے تھے اور بت پرستی بھی انہوں نے ترک کر دی تھی لیکن ان میں سے بیشتر کو اس حقیقت کا علم نہ تھا کہ دینی وحدت اور سیاسی اتحاد میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور اسلام قبول کرنے کا مطلب مدینہ کی حکومت کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔ اہل عرب آزاد منش انسان تھے اور کسی منظم حکومت کے آگے سر جھکانا اور دل و جان سے اس کی اطاعت کرنا ان کی سرشت کے خلا ف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جو ں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر پھیلی عرب کے اکثر قبائل نے اسلام کے اتداد اور مدینہ کی حکومت سے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ بغاوت کا فتنہ جنگل کی آگ کی طرح عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گیا۔ جب یہ خبریں مدینہ پہنچیں تو لوگوں میں سخت گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہو گئی … ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس نازک موقع پر بغاوت ختم کرنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں بعض لوگوں کی… جن میں حضرت عمربن خطابؓ بھی شامل تھے… ی رائے تھی کہ اس موقع پر مانعین زکوۃ ک نہ چھیڑا جائے۔ اور جب تک وہ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے اقراری رہیں انہیں ان کے حال پر قائم رہنے دیا جائے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مانعین زکوۃ کو بھی مرتدین کے زمرے یں شامل کرلیا گیا تو جنگ کی آگ وسیع پیمانے پر پھیل جائے گی۔ جس کا انجا م خدا جانے کیا ہو گا۔ لیکن ابوبکرؓ نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کرم مرتدین کی طرح مانعین زکوۃ سے بھی جنگ کرنے ک امصمم ارادہ کر لیا اورکوئی طاقت اور کوئی دبائو ایسا نہیں تھا کہ انہیں ایسا کرنے سے باز رکھ سکا۔ جنگ ہائے ارتداد کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگو ں کا یہ خیال غلط ہے کہ ان جنگوں میں فریقین کی تعداد چند سو سے متجاوز نہ ہوتی تھی۔ اس کے برعکس بعض لڑائیوں میں دس دس ہزار لوگوں نے حصہ لیااور فریقین کے ہزاروں آدمی ان جنگوں میں کام آئے۔ مزید برآں تاریخ اسلام میں انہیںفیصلہ کن اہمیت حاصل ہے۔ اگر ابوبکرؓ اہل مدینہ کی اکثریت کی رائے قبول کر کے ان لوگوں سے جنگ نہ کرتے تو فتنہ و فساد میں کمی ہونے سے بجائے اور زیادہ شدت پیدا ہو جاتی اور اسلامی سلطنت کا قیا م کبھی عمل میں نہ لایا جا سکتا۔ اگر خدانخواستہ ان جنگوں میں ابوبکرؓ کی فوجوںکو کامیابی حاصل نہ ہوتی تو معامہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کر جاتا اور اس کانتیجہ اسلام اور مسلمانوں دونوں کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا۔ یہ تمام حالات دیکھ کر بلاشبہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ابوبکرؓ نے مرتدین سے جنگ کرنے کا فیصلہ کرنے کے اور ان پر کامل تسلط پا کر تاریخ عالم کے دھارے کا رخ موڑ دیا اوراس طرح گویا نئے سرے سے انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ اگر جنگہائے ارتداد میں ابوبکرؓ کو کامیابی نصیب نہ ہوتی تو ایرانی اوررومی سلطنتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا فائز المرام ہوناتوکجا عرا ق و شام کی طرف پیش قدمی کرنا بھی ناممکن تھا۔ اس وقت نہ ان عظیم الشان سلطنتوں کے کھنڈروں پر اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جا سکتی اور نہ ایرانی و رومی تہذیب و تمدن کے بجائے‘ اسلامی تہذیب و تمدن کے لے راستہ ہموار کیا جا سکتا۔ اگر مرتدین کی جنگیں وقوع میںنہ آتیں اور ان میں سے کثرت سے حفاظ قرآن کا اتلاف جان نہ ہوتا توغالبا ٍ حضرت عمر ؓ ابوبکرؓ کو جمع قرآن کا مشورہ نہ دیتے اوراس طرح قرآن کریم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک جگہ محفوظ کرنے کا جلیل القدر کارنامہ عمل میں نہ آتا۔ اگر جنگہائے ارتداد خدانخواستہ مسلمانوں کی شکست پر منتج ہوتین تو ابوبکرؓ کے لیے مدینہ میں بھی نظام حکومت قائم کرنا مشکل ہو جاتا اور اس نظام کی بنیاد پر حضرت عمرؓ ایک رفیع المنزلت عمارت کبھی تعمیر نہ کر سکتے۔ یہ عظیم الشان واقعات ستائیس ماہ کی قلیل ترین مدت میںانجام پاگئے۔ اس قلیل مدت کو دیکھتے ہوئے بعض لوگوں نے ابوبکرؓ کے عہد کو نظر انداز کرکے اپنی تمام تر توجہ حضرت عمرؓ کے عہد کی جانب منعطف کر دی۔ ان کا خیال ہے کہ گنتی کے چند مہینے کسی طرح بھی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے والے عظیم امور کی انجام دہی کے لیے کافی نہیں ہو سکتے لیکن یہ درست نہیں کہ وہ انقلاب جنہوںنے انسانیت کادرجہ بہ درجہ اوج کمال تک پہنچایا بالعموم قلیل وقفوں ہی میں برپا ہوتے رہے اور دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ ابوبکرؓ نے اپنے عہد میں پیداہونے والی بے انتہا مشکلات پر کس طرح قابوپایا اور ان مشکلات کے باوجود ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد کس طرح رکھ دی؟ یہ سوال ہے کہ جو اکثر لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتاہے اور ہمارے لیے اس کاجواب دینا ضروری ہے۔ لاریب ابوبکرؓ کی عدیم النظر کامیابیوں میں ان کے ذاتی اوصاف کو بھی بڑی حد تک دخل ہے۔ لیکن سب سے برا دخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پاک صحبت کا ہے جو تواتر بیس سال تک انہیں حاصل رہی۔ اسی وجہ سے مورخین اس رمز پر متفق ہیں کہ حضرت صدیقؓ کی عظمت کلیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہین منت ہے۔ آپ ہی کے فیض کانتیجہ تھا کہ ان کی رگ رگ میں اسلام کی محبت سرایت کر گئی اور انہوںنے القاء کے ذریعے اس حقیقی روح کو پا لیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت میں پنہاں تھی۔ اسی القا کی روشنی میں انہیں اس حقیقت کا ادراک بھی ہو گیا کہ ایمان ایک ایسی قوت ہے کہ جس پر اس وقت تک کوئی طاقت غالب نہیں آ سکتی۔ جب تک مومن تمام نفسانی خواہشات سے کلیۃ منزہ ہو کر حض تبلیغ و صداقت کی خاطر اپنی زندگی وقف کیے رکھتا ہے بلاشبہ اس حقیقت کا ادراک مختلف زمانوں میں اور بھی بہت سے لوگوں کو ہوا ہے لیکن عقل محض و دانش اور غور و فکر کے نتیجے میں۔ اس کے بالمقابل ابوبکر ؓکے مصفا اور پاک دل نے بغیر کسی خارجی دبائو کے خو د بخود اس حقیقت کی طرف ان کی رہنمائی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطہرنمونے اور عمل نے اس ادراک کو اس حد تک جلا دی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دل میں کسی شک و شبہ کا راہ پانا ممکن ہی نہ رہا۔ یہی ایمان صادق تھاا کہ جس کی بدولت ابوبکرؓ میں اس قدر بے نظیر جرات اور عدیم المثا ل عزیمت پیدا ہوگئی کہ جب مرتدین سے جنگ کرنے کا سوال پیش ہوا اور تمام صحابہؓ نے انہیں موقع کی نزاکت کے لحاظ سے نرمی برتنے کا مشورہ دیا تو انہوںنے نہایت سختی سے اسے رد کردیا اور فرمایا کہ میں ضرور مرتدین سے جنگ کروں گا کہ خواہ مجھے اس کے لیے تنہا ہی کیوںنہ نکلنا پڑے ۔ اولا العزمی کا یہ سبق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے ابوبکرؓ کو پڑھایا تھا اور اپنے پاک نمونے کے ذریعے ان کے دل میں یہ بات راسخ کردی تھی کہ حق کے مقابلے میں جھکنے اور کمزوری دکھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا ابوبکرؓ وہ وقت بھول سکتے ہیں کہ جب شدید مخالفت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکہ و تنہا مکہ کی گلیوں میں خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے تھے ؟ مال و دولت اور عزت و وجاہت کا کوئی لالچ ظلم و ستم‘ بائیکاٹ اور قتل کی کوئی دھمکی آپ کو صراط مستقیم سے بال برابر بھی ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکی اور آپ معجزانہ اولو العزمی و استقامت سے برابر یہ اعلان فرماتے رہے: ’’ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ سور ج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑ ا کر دیں تو بھی میں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے سے باز نہ آئوں گا خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔ کیا ابوبکرؓ کی نظروں سے وہ واقعہ اوجھل ہو سکتا تھا کہ احد کی جنگ میں صحابہؓ کی ایک کثیر تعداد کی شہادت کے باوجود جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سناکہ کفار قریش پلٹ کر دوبارہ مسلمانوں پر حمہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ تمام خطرات کو پس پشت ڈالتے اور تمام عواقب کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف جنگ احد میں شریک ہونے والے مسلمانوں کو لیکر (جن میں زخمیوں کی بھی خاصی تعداد شامل تھی) کفارکے تعاقب میں روانہ ہو گئے اورحمراء الاسد پہنچ کر قیام فرمایا۔ مسلمانوںکا یہ استقلال دیکھ کر کفار کے حوصلے پست ہو گئے اور انہوںنے مقابلے پر آئے بغیر مکہ کو کوچ کر جانے ہی میں اپنی خیر سمجھی۔ اس طرح مسلمانو کے دلوں پر زخم بھی بڑی حد تک مندمل ہو گئے جو جنگ احد کی وجہ سے انہیں پہنچے تھے۔ پھر ابوبکرؓ اس واقعے کو کس طرح فراموش کر سکے تھے جب غزوہ حنین کے موقع پر بعض نومسلموں کی بے تدبیری سے اکثر مسلمان کی سواریاں بھاگ کھڑی ہوئیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند صحابہؓ کے ہمراہ انتہائی پامردی سے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے اور ان کے تیروں کی بے پناہ بوچھاڑ کی مطلق پرواہ نہ کی۔ بالآخر جب حضرت عباسؓ نے بلند آواز سے پکارنا شروع کیا ’’اے گروہ انصار! جنہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوپناہ دی اورہر موقع پر ان کی مدد کی اور اے گروہ مہاجرین جنہوںنے صلح حدیبییہ کے موقع پر موت کی بیعت کی خدا کا رسول زندہ ہے اور تمہیں بلاتا ہے ‘‘تو مسلمان پلٹے اور دوبارہ میدان جنگ میں دشمن کے سامنے صف آرا ہو گئے۔ ابوبکرؓ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ نمونے تھے جو انہوںنے آپ کے سچے اور کامل متبع کی حیثیت سے اختیار کیے۔ اس اولو العزمی ہ کے باعث مٹھی بھر مسلمانوں کو غرب کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے لا تعداد مرتد قبائل کے مقابلے میں زبردست کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے دلوں میں یہ بات میخ فولاد کی طرح گڑ گئی کہ ان کی سرشت میں ناکامی کا خمیر ہی نہیں۔ حق و صداقت کے رستے میں شہادت پانے کا جذبہ اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ ان کی نظروں میں شہادت ہی کامیابی کے حصو ل کا ذریعہ قرار پائی۔ آپ کو اس کتاب میں ا س قسم کے بہت سے واقعات ملیں گے جن کی نظیر تاریخ میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مسلمان اپنی کامیابی کی طرف سے پورے طور پر مطمئن تھے کیونکہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فتح و نصرت کا وعدہ فرما رکھا تھا اور ہر موقع پر ملائکہ کے ذریعے تائید ربانی کا نزول ہوتا تھا لیکن ابوبکرؓ کے عہد میں کوئی ایسی بت نہ تھی۔ وحی کا نزول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کوکاملاً اپنانے سے ہی مسلمان کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے تھے ۔ ابوبکرؓ نے کامیابی کا یہ گر معلو م کر لیا تھا اوریہی گر اختیار کرنے سے انہوںنے اپنے مختصر عہد خلافت میں وہ عظیم الشان کارنامے انجام دیی جن پر ایک دنیا انگشت بدنداں ہے۔ ایمان کا جو جذبہ آپ کے دل میں موجزن تھا اور دین کی خدمت کی جو روح آپ کے اندر کام کر رہی تھی ا س کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ نہایت قلیل عرصے میں ایسے جلیل القدرامور انجام پا گئے جو عام حالات میں سالہا سال کی ان تھک کوششوں کے باوجود پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو پورے طور پر اپنانے سے ابوبکرؓ کی اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے تھے کہ قوی ترقی اس وقت ناممکن ہے جب تک مشکلات اور مصائب کو صبر و استقلال سے جھیلنے اور اپنے اندر ان پر قابو پانے کا ملکہ پیدا نہ کیا جائے۔ درحقیقت قوموں کی حیات و ممات کار اسی گر کو اختیار کرنے یا ترک کردینے میں مستور ہے۔ ہر وہ قوم جو عزت کی خواہاں اور اقوام عالم میں اپنا ایک علیحدہ وممتاز مقام پیدا کرنے کی خواہش مند ہو جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنے پاس رکھتی ہو اور اسے یقین ہو کہ صرف اسی کے پیش کردہ پروگرا م پر عمل کرنے میں انسانیت کی جونجات اور دینا کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔ اس کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اپنے اندر قوت برداشت پیدا کرے۔ اس کے راستے میں خواہ مشکلات کے پہاڑ ہی کیوں نہ حائل ہوجائیں لیکن اسے عزم و استقلال سے ہر دم اپنا قد م آگے ہی بڑھانا چاہیے۔ مشکلات خواہ کتنی ہی ہیبت ناک اور مصائب کتنے ہی حوصلہ شکن ہوں لیکن باہمت قوم کو انہیں پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہ دینی چاہیے۔ اور راستے کی تمام دشواریوں اور ادائے حق کی راہ میں تمام رکاوٹوں پر نہایت جرات مندانہ اولو العزمانہ قابو پا کر منزل مقصود کی جانب قدم بڑھاتے رہنا چاہیے۔ ان اسباب کی محافظت اس وقت اور بھی ضروری ہو جاتی ہے جب ان قوموں کے لائحہ عمل اور قوت کی بنیاد مساوات کے قیام اور ظلم و ستم کی بیخ کنی پر استوار ہو۔ اکثر سلطنتوں کاقیام محض اس لیے عمل میں نہ آسکا کہ انہوں نے مساوات و جمہوریت کو اپنی اساس بنایا اور اسی کے سہارے استحکام حاصل کیا ۔ ا س کے برعکس بیشتر سلطنتیں مدت دراز تک اپنی شان و شوکت دکھانے کے بعد محض اس وجہ سے قلیل ترین عرصے میں نابود ہو گئیں کہ انہو ں نے مساوات کے اہم ترین رکن کو ترک کر دیا تھا۔ مساوات اسلام کا بنیادی اصول ہے جس کے بغیر اس کی عمارت پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکتی۔ اس بن اپر اسلام اصولاً ایک جمہوریت پسند مذہب ہے۔ اس حقیقت کو آج ہم نے محض اپنی عقل کے ذریعے سے معلوم کر لیا ہے اور ہ سے پہلے اس حقیقت تک جن لوگوں کی رسائی ہو چکی ہے ان کی رہنمائی ان کی عقل کے ذریعے ہوئی تھی۔ لیکن اس کے ادراک کے باوجود نہ ہم اور نہ ہمارے پیش رو ہی پوری طرح اسلامی سلطنت کی حفاظت کر سکے۔ لیکن ابوبکرؓ کو اس حقیقت کا علم غور و فکر اور تدبر کے ذریعے سے نہیں بلکہ القا ربانی کے ذریعے سے ہوا۔ وہ حق الیقین سے اس پر نہ صرف ایمان لائے بلکہ اپنے ساتھیوں کو اس نصب العین کی تکمیل کے لیے لگا بھی دیا۔ ابوبکرؓ اور مٹھی بھر مسلمانوں کی شبانہ روز جدوجہد کے نتیجے میں جو سلطنت عالم وجود میں آئی اس کی بنیاد کلیۃ مساوا ت پر تھی۔ یہی سبب تھا کہ دوسری سلطنتوں کے برعکس چند روزہ بہا ر دکھا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نابود نہ ہو گئی بلکہ صدیوں تک اپنی جلوہ افروزی سے دنیا کو منور کرتی رہی۔ ابوبکرؓ نے اپنے القا کی روشنی میں معلوم کر لیا تھا کہ اسلام مساوات کا علم بردار ہے اور ذات پات اور نسل کی بنا پر بنی نوع انسان کے درمیان کسی تفریق کا حامی نہیں۔ اسی وجہ سے اس کی دعوت کسی ایک قوم کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام بنی نو ع انسان کے لیے عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں رعربوں کے علاوہ غلاموں اور عجمیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام میں داخل ہوئی لیکن کسی غلام اور عجمی سے نفرت یا حقارت کا برتائو کرنا تو کجا اسلا م نے ان کی ذلت و نکبت عز و شرف میں تبدیل کر دی اور ان کا رتبہ اس قدر بلند کر دیا کہ آج بھی ان کا ذکر آنے پر ہر مسلمان فرط عقیدت سے سر جھکا دیتا ہے۔ ان لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلوک کا اندازہ اس امر سے ہو سکتاہے کہ سلمان فارسیؓ آپ کے مقربین خاص میں سے تھے زید بن حارثہؓ کو آپ نے آزاد کرکے اپنا متبنی بنا لیا تھا۔ غزوہ موتہ کے وقت لشکر کا قائد بھی انہیں کو بنایا تھا۔ اس سے پہلے بھی متعدد اہم ذمہ داری کے کام ان کے سپرد کیے تھے۔ زید کے بیٹے اسامہ کو اپنی وفات سے قبل شام پر حملہ کرنے والی فوج کا سردار مقرر کیا اور تمام بڑے بڑے مہاجرین و انصار کو جن میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی شامل تھے ان کی ماتحتی میں دیا اور بازان فارسی کو یمن کا حاکم مقرر فرایا۔ ان مثالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محض عربی یا معزز قبیلے کا فرد ہونا کسی شخص کی فضیلت کے لیے کافی نہ تھا آپ کے پیش نظر فضیلت کی کسوٹی تقویٰ اور صرف تقویٰ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص ممشیروں اور مقرب صحابہؓ پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کے محبوب صحابیؓ کا فرض بننے کا شرف صر ف انہیں لوگوں کو حاصل ہوا جنہوںنے ایمان و اخلاص پر قابل رشک ترقی کی اور جو دینی و ملی مفاد کی خاطر اپنی جان مال عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لیے ہر لحظہ مستعد رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کے دلوں سے ان کی نسبی شرافت‘ عزت اور فضیلت کا غرور بالکل نکال دیاتھا ور عربی اور عجمی آذاد اور غلام کا فرق مٹا کرانہیں ایک سطح پر لا کر کھڑ ا کیا تھا۔ ابوبکرؓ نے بھی اپنے آقا کی اس سنت پر پوری طرح سے عمل کیا اور وہ لوگوں کے درمیان صحیح اسلامی مساوات قائم کرنے میں آخر وقت تک کوشاں رہے۔ اسی مساوات کا اثرتھا کہ مسلمان ایک ایسی متحدہ قوت بن کر اٹھے جس کا مقابلہ کرنے سے ایرانی فوج اوررومی افواج قاہرہ عاجز آ گئیں اور انہیں ان مٹھی بھر لیکن آہنی طاقت والے عربوںکے سامنے بھاگتے ہی بن پڑی۔ ابوبکرؓکو اس حقیقت کا بھی پوری طرح ادراک تھا کہ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ صرف جزیرہ عرب تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے مخاطب دنیا کے آخری کناروں تک بسنے والے انسان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیرون عرب کے ابادشاہوں اور فرماں روائوں کو کثرت سے تبلیغی خطوط اور فرامین ارسال فرمائے تھے۔ یہ امر تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ہر مسلمان کا فرض ہو جاتا ہے کہ اس نے جس عظیم الشان نعمت سے حصہ لیا ہے اسے صرف اپنے تک محدود نہ رکھے بلکہ دوسروں کو بھی اس نعمت سے حصہ عطا کرے۔ او ردین خدا کی اشاعت میں جان تک کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کا پیغام بلا لحاظ قوم و ملت سب لوگوں تک پہنچا دیا۔ آپ کی تقلید میں آپ کے خلفاء کا بھی یہی فرض تھا کہ وہ دعوت اسلام کو زمین کے کناروں تک پہنچاتے اور اس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے۔ ابوبکرؓنے یہی کیا اور اسلام کو اقصائے عالم تک پہنچانے میں خوئی دقیقہ سعی فروگزاشت نہ کیا۔ ا س راہ میں انہیں شدید مشکلات اور مہیب مصائب سے دوچار ہونا پڑا لیکن انہوںنے ابتدائے خلافت ہی سے جو عزم کر لیا تھا اس میں آخری لمحے تک مطلق کمی نہ آنے دی اور اپنی جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچاکر ہی چھوڑا۔ ابوبکر کی مردانہ وار کوششوں اور اولو العزمی کا نتیجہ تھا کہ اسلامی سلطنت تھوڑے ہی عرصے میں معلومہ دنیا کے اطراف تک پہنچ گئی اور صدیوں تک اسی سلطنت نے دنیا میں تہذیب و تمدن کا علم بلند اور علم و عمل کا چراغ روشن کیے رکھا۔ لمبے عرصے تک دنیا پر شان و شوکت سے حکمرانی کرنے کے بعد اسلامی سلطنت پر بھی دوسری حکومتوں اور سلطنتوں کی طرح زوال آنا شروع ہو ااو ر بالآخر وہ انتہائی نکبت اور پستی کی حالت میں پہنچ گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس نکبت اور پستی کا سبب اسلام کے وہ بنیادی اصول تھے جن کا وہ علم بردار بن کر کھڑاہو ا تھا یا ان بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال دینے کے باعث مسلمانوں کو اضمحلال اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑا؟ مجھے یہ کہنے یں کوئی دقت نہیںکہ ہماری پستی اور کمزوری کا اصلی سبب یہ ہے کہ ہم نے ان بنیادی اصولوں کو ترک کر دیا ہے اور جو اسلامی سلطنت کے قیام کا باعث بنے تھے۔ جو بھی شخص اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرے گا وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اسلامی سلطنت کا زوال اس وقت سے شروع ہوا جب مسمانوں نے اتحاد جیسی نعمت کو خیر باد کہہ دیا۔ ابتدا میں جزیرہ عرب میں بسنے والے مسلمانوںکے درمیان معرکے سر ہونے لگے۔ بعد ازاں عربوںاور عجمیوں کے درمیان خانہ جنگیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس نے مسلمانوں کی طاقت و قوت عز و شرف شان و شوکت اور رعب و داب کو ملیا میٹ کر دیا ۔ اس عبرت ناک داستان کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کیلیے نہ تو وقت ہے اورنہ گنجائش اس لے میں اس کی طرف اشارہ کر کے اپنے بیان کو صرف عہد صدیقؓ تک محدود کروں گا جو اگرچہ بے حد مختصر تھا لیکن اثر پذیری کے لحاظ سے بڑی بڑی سلطنتوں پر حاوی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کی جدوجہد کے بعد قائم ہونے والی سلطنتیں اڑھائی سال کی اس مختصر ترین حکومت کے مقابلے میں ہیچ تھیں۔ ابوبکرؓ کے عہد کاحال لکھنے ہوئے مجھے قلبی مسرت محصوس ہو رہی ہے اور یں سچے جوش سے یہ تذکرہ لکھ رہا ہوں۔ اگر میں اس کتاب کے ذریعے قارئین کے سامنے ابوبکرؓ کے عہد کی واضح تصویر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عاشق صادق کے اپنے حسن کمال کا پورا نقشہ کھینچنے میں کامیاب ہو سکوں تو یہ میری انتہائی خوش نصیبی ہو گی۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ابوبکرؓ کا عہد اپنی گوناگوں خصوصیات کے باعث انفرادی حیثیت رکھتا ہے ۔ مختلف کتابوں کے مطالعے سے انسان ان کے عہد زریں کی بعض جھلکیاں دیکھ کر ان کی رفیع المنزلت شخصیت کا کچھ اندازہ تو کر سکتا ہے لیکن اس کے پہلوئوں کا جائزہ لینا آسان نہیں۔ یہ کام ایک عظی جدوجہد ور صبر آزما تحقیق و تدقیق کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ حقیت یہ ہے کہ ابوبکرؓ کے متعلق تحقیق کا حق ابھی تک ادا نہیں ہو سکا۔ اس بے نظیر انسان کی زندگی کے سینکڑوں گوشے ابھی تک منظر عام پر نہیں آئے اور یہ نورانی شخصیت اس پورے جلوے سے دنیا کے سامنے اب تک بے نقاب نہیں ہو سکی۔ اشد ضرورت ہے ہ اس امر کی ہے کہ ان کے سوانح لکھنے کے لیے از سر نو یک ان تھک جدوجہد کی جائے اور ان کی سیرت و سوانح کے مخفی گوشے اجاگر کرنے کے علاوہ معاصرین سے ان کی کامل موازنہ کیا جائے۔ یہ بھی بتایا جائے کہ ان کی ہم عصر قومیں تہذیب و تمدن کے کس دورمیںسے گزر رہی ہیں۔ ان کے مقابلے میں اہل عرب کی کیا حالت تھی اور ابوبکرؓ نے انہیں کس طرح ان اقوام کاہم پایہ بلک ہر لحاظ سے ان سے بدرجہا بہتر بنا دیا۔ مجھے یقین ہے کہ باہمت مورخین مستقبل قریب میں ا س اہم کام پر ضرور توجہ کریں گے اور مسلسل جدوجہد اور کاوش کے بعد ابوبکرؓ کی زندگی کے تمام گوشے اور ا س عہد کی تمام تفاصیل واضح طور پر بیان کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ابوبکرؓ کے عہد سے متعلق تو بالخصوص انتہائی چھان بین اور تحقیق و تدقیق کی ضرورت ہے۔ قدیم عربی ماخذ جن سے ان کے عہد کا کچھ حال معلوم ہو سکتاہے روایات کے لحاظ سے آپس میں اتنے مختلف ہیں کہ بعض اوقات کسی واقعے کا صحیح صحیح حال معلوم کرنا نہایت دشوار ہوجاتاہے۔ بعض روایات تو محض لغویت کی پوٹ اور مجموعہ خڑافات میں بعض روایات کو پڑھ کر انسان پیکر حیرت بن جاتاہے۔ ا س کی عقل چکرانے لگتی ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا واقعی ایسے واقعات کا معرض وجود میں آنا ممکن ہے؟ پھر بھی روایات میں تناقض اور اضطراب کے لیے متقدمین کو مجبورہی سمجھنا چاہیے کیونکہ جس زمانے میں ابوبکرؓ نے عنان حکومت ہاتھ میں ؒی تھی وہ کلیۃ جدال و قتال کا دور تھا۔ ہر مسلمان شو ق جہاد میں دیوانہ وار میدان جنگ کی جانب دوڑا چلا جا رہاتھا۔ کوئی بھی دن امن و چین سے نہ گزرتاتھا کسی شخص کو پچھلے واقعات پر نظر دوڑانے ار ان پر غوروفکر کرنے کی فرصت نہ تھی بلکہ ہر ایک کی نظر مستب ہی پر جمی ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے کسی شص نے اس زمانے میں پیش آنے والے واقعت کو باقاعدہ مرتب کرنے کی کوشش نہ کی اور نہ کیسی کو ایسا موقع میسر ا ٓسکا۔ روایات کی تدوین کے عد کے زمانوں میں ہوئی لیکن وہ بھی کسی باقاعدگی کے تحت نہیں بلکہ لوگوں نے جو روایات ایک دوسرے سے سن کر سنیوں میں محفوظ کررکھی تھیں انہیں بغیر کسی چھان بین کے اور نقد و نجرح کے ایک جگہ جمع کر دیا گیا۔ ان روایات کے جمع کرنے میں وہ احتیاط بھی نہ برتی گء یتھی جو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے میں برتی جاتی تھی۔ اور ایسا ہونا ممکن بھی کس طرح تھا جب اس زمانے میںمسلمان فتوحات میںمصروف اور ایک ایسی عظیم سلطنت کی تشکیل و تنظیم میں مشغول تھے کہ جس کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جا رہا تھا۔ چونکہ اس عہد کی روایات جمع کرنے میں کسی اصول اورقاعدے کو پیش نظر نہیں رکھا گیا اس لیے کتب تاریخ میں ہر قسم کی رطب و یابس روایات جمع ہو گئی ہیں۔ دور حاضر کے مورخ کے لیے ضروری ہے کہ کسی واقعے کے متعلق اصل حقیقت کو معلوم کرنیکے لیے وہ کسی ایک روایت پر انحصار نہ کرے بلکہ امکانی حد تک اس واقعے کے متعلق بیان کردہ تمام روایات کی چھان بین کرے ایک روایت کا دوسری روایت سے موازنہ کرے۔ اور اس طرح اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ قدیم مورخین نے روایات کی جرح و تعدیل میں خاصی محنت کی ہے پھر بھی ان کی کوششوں کو انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنے کے باوجود ہمیں اس امر کا اعتراف کرنا پڑتاہے کہ انہوںنے ابوبکرؓ اور ان کے عہد کی ایک ایسی روشن تصویر ہمارے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کے حسن و جمال سے ہماری آنکھیں فرحت محسوس کر سکیں۔ ہم نے آخر میں ان کتابوں کی فہرست جمع کی ہے جن سے اس کتاب کی تالیف میں مدد لی گء ہے۔ قارئین یہ کتابیں ملاحظہ فرما ئیں انہیں ہمارے دعوے کی صداقت کا علم ہو جائے گا بعض مورخین نے اپنی کتابوںمیں ابوبکرؓ کے جلیل القدر کارناموں اور اس عہد میں ۃونے والے عظیم الشان واقعات کو بیان ہی نہیں کیا اگر کہیںکیا بھی ہے تو نہایت معمولی طریقے سے ۔ چنانچہ طبری ابن اثیر اور بلاذری نے جمع قرآن کے متعلق کچھ نہیںلکھا حالانکہ جمع قرآن کا کارنامہ اتنا مہتم بالشان ہے کہ اگر ابوبکرؓ اس کے سوا اور کچھ بھی نہ کرتے تو بھی یہ ان کے نام کو بقائے دوا م کا خلعت پہنانے کے لیے کافی تھا۔ جنگہائے ارتداد فتح عراق اور فتح شام کے متعلق ان مورخین نے جو روایات بیان کی ہیں ان میں اس قدر اختلاف اور تضاد ہے کہ خداکی پناہ۔ یہی نہیں کہ ایک کتاب میں کوئی روایت ہے اور دوسری میں کوئی بلکہ ای ہی کتاب میں ایک وااقعے کے متلعق مختلف اور باہم متضاد روایات درج ہیں۔ جب انسان یہ روایات پڑھتا ہے تو سر چکرانے لگتاہے اور اس کی سجھ میں نہیں آتاکہ کس روایت کو لے اور کسے چھوڑے۔ واقعات کے زمانہ وقوع کے متعلق بھی اختلاف کی کمی نہیں۔ بعض اوقات تو اس باب میںانتہائی بے پروائی برتی گئی ہے او ر آنکھیں بند کر کے روایات درج کر دی گئی ہیں چنانچہ طبری میں مذکورہے کہ جنگہائے ارتداد ۱۱ھ میں وقوع پذیر ہوئی فتوحات عراق ۱۲ھ میں مکمل ہو گئیں اور فتوحات شام کی تکمیل ۱۳ ھ میں ہوئی۔ واقعات کی اس ترتیب پر ایک نظر ڈالنے سے یہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ عراق کی فتوحات اس وقت تک شروع نہ ہوئیں جب تک جنگہائے ارتداد کا خاتمہ نہ ہو گیا اور فتوحات شام کی ابتدا اس وقت تک نہ ہوئی کہ جب تک فتحات عراق پایہ تکمیل تک نہ پہنچ گئیں حالانکہ واقعتہً ایسا نہیں ہے۔ عراق پر لشکر کشی کی ابتداء جنگ ہائے ارتداد کے دوران ہی میں ہو چکی ہے۔ اور فتوحات شا م کا سلسلہ جنگہائے ارتداد کے معاً بعد اس وقت شروع ہو چکا تھا جب خالد بن ولیدؓ کی فوجیں عراق میں ایرانیوں سے برسرپیکار تھیں۔ اختلافات کی حد یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ کتابوں میں جہاں واقعات کے وقوع اور زمانہ وقع کے متعلق اختلافات کی بھرمار ہے وہاں مقامات کے متعلق اختلافات کی بھی کمی نہیں۔ بسا اوقات ان اختلافات کے باعث روایت کا حلیہ ہی بگڑ جاتا ہے۔ اور کچھ سمجھ میں نہیں آتاا کہ اصل حقیقت سے کس طرح آگاہی حاصل کی جائے۔ بعض اوقات ایک ہی نام کے کئی مقامات مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں لیکن روایات سے قطعاً پتہ نہیں چلتا کہ اس جگہ کون سے مقام کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ بعض مقامات کانام و نشان تک مٹ چکا ہے اور ان کا حقیقی محل وقوع معلوم کرنا نہایت دشوارہے (گو مستشرقین نے اس مشکل کو بڑی حد تک حل کری دیا ہے اور ایسے نقشے تیار کے ہیں کہ جن کی مدد سے نابود مقامات کا صحیح محل وقوع معلوم ہو سکتا ہے) بعض روایات اس قدر مشکوک ہیں کہ ان کی صحت پر مشکل ہی سے یقین کیا جا سکتا ہے۔ مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر دور حاضر کے بعض مورخین نے ابوبکرؓ کے عہد میں رونما ہونے والے واقعات کے متعلق بے حد تردد کا اظہار کیا ہے اور وہ ان واقعات کی تصدیق نہ کرنے کے لیے آسانی سے تیار نہیں ہوتے ۔ بیشتر مورخین نے ان کے عہد کا تذکرہ نہایت اختصا ر سے کیا ہے جس سے نہ واقعات کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے وار نہ اس جاہ و جلال کا کوئی واضح نقشہ ہمارے سامنے کھنچتا ہے جو عہد صدیقؓ کا طرہ امتیاز تھا اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ عہد صدیقیؓ کو تاریخ اسلام اور اسلامی سلطنت کے قیام میں فیصلہ کن اہمیت حاصل تھی۔ عہد صدیقیؓ کے ابتدائی ماخذوں پر نظر ڈالنے سے ایک اور عجیب و غریب امر کا پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مورخین ابوبکرؓ کے متعلق اتنا بھی بیان نہیں کرتے جتنا کہ خالد بن ولیدؓ اور ان سپہ سالاروں کے متعلق بیان کرتے ہیں جنہوںے شام جا کر وہاں کی فتوحات میں حصہ لیا۔ جب کوئی شص ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے ایسا معلوم ہوتاہے کہ جیسے ابوبکرؓ کو یاد الٰہی کے سوا اور کوئی کام ہی نہ تھا اور وہ مدینہ میں بیٹھے دن رات عبادت اور تسبیح و تمہید میں مشغول رہتے تھے ۔ امور سلطنت کی دیکھ بھال یا تو عمرؓ عثمانؓ اور علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓکرتے تھے یا قائدین عساکر اور مختلف علاقوں کے عمال۔ حالانکہ یہ بات صریحاً غلط اور سخت گمراہ کن ہے ابوبکرؓ کے عہد میں استحکام دین اور تعمیر سلطنت یک سلسلے میں جو کچھ ہوا وہ سب کچھ محض ان کی ذاتی توجہ اور کوششوں کے نتیجے میں ہوا اور اس کاسہراان کے سوا کسی کے سر پر نہیں باندھا جا سکتا۔ ہم پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیں کہ مرتدین اور مانعین زکوۃ کا فتنہ اٹھنے پر جب ابوبکرؓ نے ان سے جنگ کرنے کاارادہ کیا تو اکثر مسلمانوں نے جن میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے (حالات کی نزاکت کے پیش نظر) ابوبکرؓ کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا لیک انہوںنے صاف انکار کر دیا اور انتہائی اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مین ان ولگوں سے ضرور جنگ کروں گا خواہ مجھے اکلے ہی ان کے مقابلے میں نکلنا پڑے۔ مثنیٰ بن حارثہ شیبنای کی جانب سے امداد کی درخواست موصول ہونے پر ابوبکرؓ نے ان کی مدد کے لیے خالدؓ بن ولید کو عراق بھیجا۔ جب شام پر فوج کشی کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو سارے عرب سے فوجیں انہیں نے اکٹھی کیں اور جب ابوعبیدہ بن جراح اور شام میں مقیم دوسرے اسلامی سپہ سالاروں نے رومی سلطنت پر یورش کرنے میں سستی دکھائی تو انہیں نے اپنے خاص حکم کے ذریعے سے خالد بن ولیدؓ کو اس اہم کام کی انجام دہی کے لیے مامور کیا۔ ایک طرف ابوبکرؓ عراق اور شام کی جانب فوجوں پر فوجیں اور کمک پر کمک روانہ کر رہے تھے اور دوسری جانب بیت المال کی تنظیم مال غنیمت کی تقسیم عمال کے تقرر اور سلطنت کے انتظام وانصرام میں ہمہ تن مصروف تھے۔ امور سلطنت کی انجام دہی میں انہیں کسی چیز کا حتیٰ کہ اہل و اعیال کا بھی ہوش نہ تھا۔ ایک ہی دھن تھی اور ایک ہی لگن اور وہ یہ کہ اللہ کی طرف سے آپ کو جو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے ا س کی بجا آوری میں سرموفرق نہ آنے پائے۔ امور سلطنت میں اس درجہ انہماک ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوںنے انتہائی قلیل مدت میں وہ عظیم الشان کام کر دکھائے جو دوسرے لوگ سالہا سال کی طویل اور مسلسل جدوجہد کے باوجود نہیں کر سکتے اور نہ کر سکے۔ مورخین ابوبکرؓ اور ان کے عہد کی طرف سے اتنی بے پروائی برتنے کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے کہ انہیں مسلسل بیس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک اور پاک صحبت میں زندگی بسرکرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس دوران میں جو ان کا جو تعلق آپ سے رہا ہے اس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے: ’’اگر میں بندوں میں سے کسی کو اپننا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا‘‘۔ اس بنا پر مورخین اورراویوں نے یہ خیال کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک صحبت اور ابوبکرؓ کے حق می ااپ کے ان الفاظ کے مقابلے میں زمانہ خلافت میں رونما ہونے والے تمام واقعات اور کارنامے بالکل ہیچ ہیں۔ اس لیے ان کا تفصیل سے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکرؓ کے باہمی تعلقات کی نوعیت معمولی نہیں بلکہ اپنے اندر انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن ان کی خلافت کا زمانہ بھی کم اہمیت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ بست سالہ صحبت کے دوران میں جو ایقان و ایمان انہیں حاصل ہوا تھا اس کے عملی اظہار کا وقت تو زمانہ خلافت ہی میں میسر آیا تھا اور یہ عملی اظہار انہوںنے جس طرح کیا اور اس امانت کا حق جو ان کے سپرد کی گئی تھی جس طرح ادا کیا وہ تاریخ عالم کا ایک فراموش نہ ہونے والا ورق ہے۔ اس لحاظ سے ان کا عہد مستحق ہے کہ ان کی مفصل تاریخ قلم بند کی جائے۔ ماخذوں میں اختلاف اور عہد ابوبکرؓ کی نسبت مندرجہ بالا تاثر کے باعث متقدمین کی کتابوں میں ابوبکرؓ کے متعلق بہت کم ہی مواد ملتا ہے۔ اس کا اثر متاخرین کی کتابو ں میں بھی ظاہر ہوا کیونکہ ان کی بنیاد کلیۃ متقدمین اور ابتائی مورخین کی کتابوں اور روایات پر تھی۔ بعض متاخرین تو عہد صدیقؓ کا ذکر انتہائی اختصار سے رکتے ہیں ہمہ تن عہد عمرؓ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیںلیکن بعض مورخ تو دونوں کے عہد کا موازنہ شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ انتہائی نامناسب ہے ۔ ہر دو برگ عظمت و شوکت کے لحاظ سے دنیا کے کسی بڑے سے بڑے سیاست دان سے کم نہ تھے۔ حضرت عمرؓ کا عہد یقینا اسلام کا انتہائی درخشاں عہد ہے۔ اس میں سلطنت کی نبیادیں استوار کی گئیں قواعد مرتب کیے گئے نظام حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم کیا گیا ‘ مصر اور دیگر رومی وایرانی مقبوضات پر پہلی بار اسلامی علم لہرایا گیا۔ لیکن اس امر سے کسی شخص کا انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت عمر فاروقؓ کایہ عظیم دور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد کا تتمہ و تکملہ ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ابوبکرؓ کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کا تتمہ و تکملہ تھا۔ اگرچہ موجودہ زمانے می بہت کم کتابیں ایسی لکھی گئی ہیں کہ جن میں ابوبکرؓ اور ان کے عہد کا ذکر تفصیل و توضیح اور تحقیق و تدقیق سے ملتا ہے پھر بھی مجھے اعتراف کرنا پڑتاہے کہ بعض مستشرقین نے عہد صدیقؓ کی اہمیت محسوس کر کے اس کی کمی کوپورا کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ اٹھارویں صدی عیسویں میں ایسے دی ارینی نے تاریخ اہل عرب (History of Arabians) کے نام سے ایک کتاب تالیف کی جس میں ابوبکرؓ کا ذکر خصوصیت اور تحقیق سے کیا گیا ۔ انیسویں صدی کے اوائل میں کوسین دی پراسیوال نے ایک کتاب (Essa Sur I Historie des Arbes)کے نام سے تالیف کی اور اس میں بھی ابوبکرؓ کا ذکر تفصیل و توضیح سے کیا گیا ہے ۔ 1883ء میں سر ولیم مور نے (Annalas's of the Early Caliphate)تالیف کی اوراس کے اندر بڑے فاضلانہ انداز میں ابوبکرؓ کے عہد میں اور ان کے کارناموں پر تبصرہ کیا۔ اس وقت سے آج تک جرمنی اٹلی فرانس‘ انگلستان اور دوسرے یورپی ممالک کے متعدد مستشرقین تاریخ اسلام کے اس عہد زریں کے متعلق تحقیق و تدقیق میںمشغول رہے ہیں اور انہوںنے اس ضمن میں نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔ جہاں میں نے مستشرقین کی کوششوں کا ذکر کای ہے وہاں بعض ایسے مسلمان اور عرب مورخین کا تذکرہ کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ جنہوںنے عہد صدیقؓ کی اہمیت سمجھ کر اپنی کتابوں میں ان کے متعلق تفصیل اور تحقیق سے کام لیا ہے۔ مشہور مورخ رفیق بک العظم نے اپنی کتاب ’’اشہر مشاہیر الاسلام‘‘ کے جز اول میں بالخصوص ابوبکرؓ اور ان کے عہد کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کتاب کے اکثر حصوں کے مطالعے سے پتا چلتاہے کہ اسکے مولف متقدمین کے طریقوں سے بڑی حد تک متاثر ہیں۔ مرحوم شیخ محمد خضری نے بھی ابوبکرؓ کے عہد کا تذکرہ تفصیل و توضیح سے کیا ہے اور آخر مین لکھا ہے : ’’ہم بلا خوف تردید کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا وجود نہ ہوتا تو تاریخ اسلام کا دھارا کسی اور ہی طرف مڑا ہوا ہوتا۔ جب آپ نے عنا ن خلافت ہاتھ میں لی تو تمام مسلمانوں کے دلوں پر خوف و خطر طاری تھا اور مایوسی و بددلی محیط تھی۔ لیکن حضرت صدیقؓ نے حیر ت انگیز اولوالعزمی سے تمام فتنوں اور شورشوں کا قلع قمع کر ڈالا اور اسلام کا قافلہ شان و شوکت سے دوبارہ اپنے راستے پر گامزن ہو گیا‘‘۔ استاد عمر ابوالنصر نے اپنی کتاب ’’خلفاء محمدؐ‘‘ کا پہلا حصہ کلیۃ ابوبکرؓ کے حالات کے لیے وقف کی ہے اسی طرح شیخ عبدالوہاب نجار اور بعض دوسرے مورخین نے بھی ان کے متعلق بہت حدتک تحقیقی کام کیا ہے۔ میں یہ تمہید اس دعا پر ختم کرتاہوں اللہ ہمارے علماء اور مورخین کو توفیق عطا فرمائے کہ ابوبکرؓ کا حقیقی مقام سمجھیں اور کاوش و جاں فشانی سے ان کے متعلق ایسا تحقیقی مواد تیار کر دیں کہ جس سے ان کی عظیم شخصیت صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے آ سکے اور اب تک جو ناانصافی ان کے ساتھ ہوتی رہی ہے اس کی تلافی ہو جائے… آخر میں اللہ کا شکرادا کرتا ہوں کہ اس نے کسی حد تک مجھ ناچیز کو یہ فریضہ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی اور حقیقت تو یہ ہے کہ تمام کام اسی کی مہربانی و توفیق سے انجام پاتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کے حالات کے بعد اگراللہ نے توفیق عطا فرمائی تو حضرت عمرؓ کے حالات کو بھی اسی نہج پر لکھنے کا ارادہ ہے۔ محمد حسین ہیکل ٭٭٭ پہلا باب ابوبکرؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ابتدائی حالات حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بچپن اور جوانی کے متعلق اتنے کم واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں کہ ان سے نہ اس دور میں ان کی شخصیت کے صحیح خد وخال معلوم ہوتے ہیں اور نہ ان کے والدین کے ناموں کے سوا ان کے بارے میں کسی اور بات کاپتا چلتا ہے۔ قبول اسلام کے وقت ان کے والد بہ قید حیات تھے لیکن تاریخ ہمیں نہیں بتاتی کہ ان کے والد پر ان کے اسلام لانے کا کیا اثر ہوا اورنہ یہ معلوم ہوتاہے کہ انہوںنے اپنے والد سے ان کی زندگی میں یا اثر لیا‘ البتہ جہاں تک آپ کے قبیلے کا تعلق ہے مورخین نے اس کا ذکر کرت ہوئے قدرے تفصیل سے کام لیا ہے اور بتایا ہے کہ قریش میں اس قبیلے کو کیا مرتبہ حاصل تھا۔ مرتبے کاذکر خصوصیت سے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات محض قبیلے کے ذکر سے کسی شخص کے عادات و اطوار اور اخلاق و رزائل کے متعلق بہت کچھ معلوم ہو جاتا ہے۔ قبیلہ حضرت ابوبکرؓ قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا نسب آٹھویں پشت پرمرہ پر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتاہے تفصیل یہ ہے: کلاب…قصعی…عبدمناف…ہاشم…عبدالمطلب…عبداللہ…محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرہ یتم…سعد…کعب…عمرو…عامر…عثمان ابوقافہ…ابوبکرصدیقؓ مکہ میں بسنے والے تمام قبائل کو کعبہ کے مناصب میں سے کوئی نہ کوئی منصب ضرور سپرد ہوتاتھا۔ بنو عبد مناف کے سپر حاجیوں کے لیے پانی بہم رسای اورانہیں آسائش پہنچانے کے انتظامات موجودتھے۔ بنع عبدالدار کے ذمے جنگ کے وقت علم برداری کعبہ کی دربانی اور دارالندوہ کا انتظام تھا۔ لشکروں کی سپہ سالاری خالد بن ولید کیاجداد بنو مخزوم کے حصے میں آء تھی۔ خوں بہا اور دیتیں اکٹھا کرنا بنو تیم بن مرہ کا کام تھا جب ابوبکرؓجوان ہوئے تو یہ خدمت ان کے سپرد کی گئی۔ خوںبہا اور دیتوں کے تمام مقدمات ان کے سامنے پیش ہوتے تھے اورجو فیصلہ وہ کرتے تھے اسے قریش کو منظور کرنا ہوتا تھا۔ خون بہا کے متعلق تمام اموال بھی ان کے پاس جع ہوتے تھے۔ اگر ان کے سوا کسی اور شخص کے پاس جمع ہوتے تھے تو قریش اسے تسلیم نہ کر تے تھے۔ بنو تیم کے جو اوصاف کتابوں میںبیان ہوئے ہیں وہ دوسرے قبائل سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ان میں کوئی ایسا وصف مخصوص نہ پایاجاتا تھا جو انہیں ان کے ہم عصر دوسرے قبائل سے متاز کر سکے ۔ شجاعت سخاوت مروت‘ بہادری اورہمسایوں کی حمایت و حفاظت کی جو صفات دوسرے قبائل عرب میں موجود تھیں وہی بنوتیم میں بھی موجود تھیں۔ نام ‘ لقب اور کنیت حضر ت صدیقؓ کا نام عبداللہ تھا اور کنیت ابوبکرؓ والد کی کنیت ابوقحافہ تھی اورنام عثمان بن عامر۔ والدہ کی کنیت ام الخیر تھی اور نام سلمیٰ بنت صخر بن عامر۔ بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اسلام لانے سے قبل ابوبکرؓ کا نام عبدالکعبہ تھا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مشر کانہ نام تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا۔ بعض روایات کے مطابق انہیں عتیق بھی کہتے تھے وجہ یہ تھی کہ آپ کے والدہ کے لڑکے زندہ نہ رہتے تھے۔ انہوںنے نذر مانی کہ اگر ان کے لڑکا پیدا ہوا اور زندہ رہا تو وہ اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی اوراسے کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی۔ چنانچہ جب ابوبکرؓ پیدا ہوئے تو انہوںنے نذر کے مطابق ان کا نام عبدالکعبہ رکھا۔ جوان ہونے پروہ عتیق(آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے کیونکہ انہوںںے موت سے رہائی پائی تھی۔ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ عتیق کے لقب انہیں نہایت سرخ و سفید ہونے کے باعث دیا گیا۔ اوررویات میںآتا ہے کہ ان کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بعض لوگوں نے پوچھا کہ ان کے والد کو عتیق کیوں کہا جاتا ہے تو انہوںنے فرمایا: ’’ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا ھذا عتیق اللہ من النار (اللہ کا یہ بندہ آگ سے آزادہ شدہ ہے)۔‘‘ یہ روایت بھی اس طرح بھی آئی ہے کہ ایک مرتبہ ابوبکرؓ چند لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہیں دیھک کر آپ نے فرمایا: ’’جو چاہتا ہو کہ آگ سے آزاد شدہ بندہ دیکھے وہ ابوبکر کو دیکھ لے۔ ابوبکرؓ ان کی کنیت تھی اور عمر بھر اپنی کنیت ہی سے موسوم کیے جاتے رہے۔ لیکن اس کنیت کا حقیقی سبب معلوم نہ ہو سکا۔ بعد میں آنے واے مورخین کہتے ہیں یہ کنیت اس لیے پڑی کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے انہ بکر الی الاسلام قبل غیرہ ؎۱ بچپن او ر جوانی بچپن کا زمانہ انہوںنے ااپنے دوسرے ہم سن بچوںکے ساتھ مکہ کی گلیوں میں کھیلتے گزارا۔ جو ان ہونے پر ان کی شادی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے ہوئی۔ ان سے عبداللہ اور اسماء پیدا ہوئے۔ اسماء کا لقب بعد میں ذات النطاقین قرار پایا۔ قتیلہ کے بعد انہوںنے ام رومان بنت عامر بن عویمر سے شادی ی ان سے عبدالرحمن اور عائشہؓ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد مدینہ آ کر پہلے انہوںنے حبیبہ بنت خارجہ سیشادی کی پھر اسماء بنت عمیس سے اسماء کے بطن سے محمد پیدا ہوئے۔ ۱؎ مورخین نے اس کنیت سے مشہور ہونے کی ایک اور وجہ بھی لکھی ہے کہ عربی میں بکر جوان اونت کو کہتے ہیں ۔ چونکہ انہیں اونٹوں کی غور و پرداخت سے بہت دلچسپی تھی اوران کے علاج و معالجے میں بہت واقفیت رھتے تھے اس لیے لوگوں نے انہیں ابوبکرؓ کہنا شروع کر دیا جس کے معنی ہیں اونٹوں کا باپ (مترجم) پیشہ ‘ حلیہ اور اخلاق و عادات قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی او راس کا ہر فرد اسی شغل میں مشغول تھا چنانچہ ابوبکرؓ بھی بڑے ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں انہیں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور آپ کا شمار بہت جلد ملکے کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت کی کامیابی میں ان کی جاذب نظر شخصیت اور بے نظیر اخلاق کو بھی بڑا خاصا دخل تھا۔ ان کارنگ سفید بدن دبلا داڑھی خشخاشی‘ چہرہ شگفتہ‘ آنکھیں روشن اور پیشانی فراخ تھی وہ بہترین اخلاق کے مالک‘ رحم دل اور نرم خو تھے ہوش و خرد عاقبت اندیشی اور بلندی فکر و نظر کے لحاظ سے مکہ کے بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے۔ عقل و خرد جہاں انسان کے قلب و نظر کو جلا بخشتی ہے وہاں بسا اوقات بے راہ روی کا موجب بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے ابوبکرؓ کو قلب سلیم ودیعت ہوا تھا۔ اسی لیے وہ اپنی قوم کے اکثر گمراہ کن اعتقادات اور اسلام دونو ں زمانوں میں شراب کا قطرہ تک نہ چکھا اور حالانکہ اہل مکہ راب کے عادی ہیں نہیں بلکہ عاشق تھے۔ ابن ہشام اپنی سیرت میں ان کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ابوبکر! اپنی قوم میں بہت ہر دل عزیز تھے علم الانساب کے بہت بڑے ماہر تھے۔ قریش مکہ کے تمام خاندان کے نسب انہیں ازبر یاد تھے اورہر قبیلے کے عیوب ونقائص اور محامد و فضائل سے بخوبی واقف تھے۔ اس وصف میں قریش کا کوئی فرد ان کا مقابلہ نہ کر سکتاتھا۔ وہ خلیق‘ ایمان دار اور ملنسار تاجر تھے۔ قوم کے تمام لوگ ان کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ برتائو کے معترف تھے اور انہیں فضائل کے باعث ان سے بے حد محبت کرتے تھے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق اور قبول اسلا م ابوبکر ؓ کاقیام مکہ کے اس محلے میں تھا جہاں حضرت خدیجہؓ بنت خویلد اور دوسرے بڑے بڑے تاجر سکونت پذیر تھے۔ اور جن کی تجارت یمن و شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی محؒے میں رہنے کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا رابطہ پیدا ہو گیا اوردونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔ یہ اس زمانے کی با ہے کہ جب آپ حضرت خدیجہؓ سے شادی کرنے کے بعد انہیں کے گھر منتقل ہو گئے تھے۔ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سال چند ماہ چھوٹے تھے۔ گمان غالب ہے کہ یہ ہم عمری میں پیشے میں اشتراک‘ طبیعتوں میں یک جہتی قریش کے عقائد فاسدہ سے نفرت اور بری عادتوں سے اجتناب ان تمام باتوں نے دونوں کی دوستی کو پروان چڑھانے میں بہت مدد دی۔ مورخین اور راویوں میں دونوں کی دوستی کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض تو یہ لکھتے ہیں خہ بعثت سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابوبکرؓ کی گہری دوستی ہو چکی تھی اور یہی دوستی یک جہتی ان کے سب سے پہلے اسلا م لانے کا محرک ہوئی۔ لیکن بعض مورخین کا خیال یہ کہ دونوں کے تعلقات میں استواری اسلام کے بعد ہوئی‘ اسلام سے پہلے دونوںکے تعلقات صرف ہمسائیگی اور ذہنی میلانات و رجحانات میں یکسانی تک محدود تھے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزلت اور گوشہ نشینی پسند کرتے تھے اور انہوں نے کئی سال سے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر رکھا تھا۔ جب اللہ نے آپ کو رسالت کے شرف سے مشرف کیا تو خیال آیا کہ ابوبکرؓ کو اللہ نے عقل و خرد سے حصہ وافر دے رکھا ہے اس لیے سب سے پہلے انہیں اسلام کی تبلیغ کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ ان کے پاس گئے اور انہیں اللہ کی طرف بلایا جس پر ابوبکرؓ نے کسی تردد کا اظہار نہ کیا اور ایک لمحے کے توقف کے بغیر ایمان لے آئے۔ اس وقت سے دونوں کے درمیان تعلقات کا آغاز ہوا اور ان تعلقات میں روز بروز استواری پیدا ہو تی چلی گئی۔ ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و الفت میں اپنے آپ کو سرتاپا غرق کردیا اورایمان کا وہ نمونہ پیش کیاجس کی نظیر رہتی دنیا تک نہ پیش کی جا سکے گی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کودین اسلام کی محبت میں ترقی کرتے ہوئے دیکھا۔ کوئی دن ایسا نہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام تشریف نہ لاتے ہوں۔ آغاز اسلام سے ہی ابوبکرؓ اپنے اندردین حق کی اشاعت و ترویج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امداد و اعانت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ اور ہر وقت نہایت اخلاص سے اس میں مشغول رہتے تھے۔ چونکہ ابوبکرؓ عوام و خواص میںبہت ہر دل عزیز تھے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی بے حد عزت و عقیدت تھی اس لیے بہت جلد متعدد اشخاص ان کی تبلیغ سے اسلام لے آئے۔ عثمان بن عفانؓ‘ عبدالرحمن بن عوفؓ‘ طلحہؓ بن عبیداللہ‘ سعیدؓ بن ابی وقاص اور زبیرؓ بن عوام جواولین صحابہؓ میں سے ہیں ابوبکرؓ ہی کی کوششوںسے اسلام لائے تھے۔ بعد میں بھی ابوعبیدہ بن جراحؓ ۱؎ اور اکثر دوسرے لوگ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوئے۔ بلا تردد قبول اسلام کا سبب ابوبکرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ پڑھتے ہی طبعاً دل میں خیال آتاہے کہ یہ بڑی ہی حیرت انگیز بات ہے کہ انہوںنے اسلام قبول کرتے وقت کسی ہچکچاہٹ اور تردد کا اظہار نہ کیا اورجونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ا ن کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوںنے فوراً بے پش و پیش اسے قبول کر لیا اور چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں نے جس کسی کو اسلام کی طرف بلایا اس نے کچھ نہ کچھ تردد اور ہچکچاہٹ کا اظہار کیا سوا ابوبکرؓبن ابی قحافہ کے۔ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوںنے بغیر کسی تامل کے فوراً میری آواز پر لبیک کہا‘‘۔ صرف یہی امر تعجب انگیز نہیں کہ ابوبکرؓ نے توحید کی دعوت سنتے ہی اس امر پر لبیک کہا بلہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غار حرا میں فرشتے کے نزول اوروحی اترنے کا واقعہ انہیں سنایا تو بھی انہوںنے خفیف ترین شک کا بھی اظہار نہ کیا اوربے پس و پیش آپ کی تمام باتوںکا یقین کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابوبکرؓ مکہ کے ان عقل مند انسانوں میں سے تھے جو ایک طرف بتوں کی عبادت کو حماقت سے تعبیر کرتے تھے ۔ اور دوسری طرف دل و جان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت‘ امانت ‘ نیکی اور پاک بازی کے قائل تھے۔ جب انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سنیں تو کوئی شک دل میںلائے بغیر وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے کیونکہ انہیں نہ صرف آپ کی صداقت پر کامل یقین تھا بلکہ آپ کی پیش کردہ تمام باتیں بھی سراسر حکمت پر مبنی نظر آتی تھیں اور وہ انہیںعقل و فکر کے تقاضوں پر پورا اترتے دیکھتے تھے۔ ۱؎ یہ سب کے سب بلند پایہ صحابیؓ اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ابوبکرؓ نے جن لوگوں کو مسلمان کیا وہ تمام اپنے ایمان و اخلاص میں بے نظیر ثابت ہوئے (مترجم) جرات ایمانی ہمارے نزدک ان کے بلا توقف اور بلا تردد اسلام قبول کرنے سے بھی زیادہ تعجب انگیز امر ان کی وہ بے نظیر جرات ہے جو اسلام قبو ل کرتے ہی انہوں نے اس کی اشاعت کے سلسلے میںدکھائی۔ وہ نہ صرف دل و جان سے توحید و رسالت پر ایمان لائے بلکہ علانیہ ان باتوں کی تبلیغ بھی شرو ع کر دی۔ اور اس بات کا مطلق خیال نہ رہا کہ ا س طرح آئندہ چل کر ان کے لیے کتنے خطرات پیدا ہوں گے۔ ان کا شمار مکہ کے معززتاجروں میںہوتاتھا اورایک تاجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے گہرے دوستانہ و روادارانہ تعلقات رکھے اور ان باتوں کے اظہار سے احتراز کرے کہ جو عوا کے مروجہ عقائد واعمال کے خلاف ہوں مبادا ا س کی تجارت پر برااثر پڑے ۔ دنیامیںاس قسم کے مظاہر عام طورپر نظر آتے ہیں کہ اکثر لوگ عامتہ الناس کے عقائد و خیالات پر اعتقاد نہ رکھنے کے باوجود نہ صرف اپنے فائدے‘ مصلحت یا عافیت کی خاطر منہ میں گھگیاں ڈانے خامو ش بیٹھے رہتے ہیں بلکہ بسا اوقات اپنے ذاتی خیالات کے برعکس عوام کی انہی باتوں کی تائید کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جنہں وہ اپنے دل میںغلط فضول اور لا یعنی سمجھے ہیں۔ عام لوگوں ہی کا یہ حال نہیں بلکہ وہ لوگ بھی جنہیں قوم کی قیادت کا دعویٰ ہوتاہے۔ اور جو اس کے لیے راہ عمل متعین کرنے کے مدعی ہوتے ہیں بالعموم رائے عامہ کی کھل کھلا مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ لیکن ابوبکرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے ہ دن سے جو عظیم الشان نمونہ دکھایا ہے وہ نظیر نہیں رکھتا اگر وہ خفیہ طورپرصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق پر اکتفا کرتے تو اورتجارت میں نقصان کے ڈ رسے اسلام کو مخفی رکھتے تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاید کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اورآپ ان کی طرف سے محض اسلام کے اظہار ہی کو کافی سمجھتے لیکن ابوبکر ؓ نے ایسا نہ کیا۔ وہ علانیہ اسلام لائے اور معاً بعد اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دی ۔ انہوںنے نہ اپنی تجارت کا خیال کیا اورنہ کفار مکہ کی مخالفت او ایذا رسانی کا بلکہ بڑے انہماک سے تبلیغ دین میںمشغول ہو گئے۔ ایسا جرات مندانہ اقدام صرف وہی شخص کرسکتا ہے کہ جسے دین کے راستے میںنہ جان کی پروا ہو نہ مال کی اور جو مال و منال اور دنیوی وجاہت و عزت کو دین کی خدمت میں اس کی تبلیغ و اشاعت کے مقابلے میں بالکل ہیچ سمجھتا ہو۔ خادم اولین بے شک حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ اور حضرت عمر بن خطابؓ نے بھی اسلام کی سربلندی اور اس کی اشاعت کے لیے زبردست کوشش کی اوران کے ذریعے سے دین کو بے حد تقویت پہنچی۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں ذرا تامل نہیں کہ ابوبکرؓہی وہ شخص تھے جنہیں اللہ نے سب سے پہلے اپنے دین کی خدمت کے لیے چنا۔ دین اسلام اور اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نیک نفس اور انتہائی رقیق القلب شخص کے دل میں وہ قوت ایمانی پید اکر دی تھی کہ جس کا پید اکرنا دنیا میں کسی بھی طاقت کے بس میں نہ تھا۔ اور ایک ابوبکرؓ کی مثال سے معلوم ہو جاتا ہے کہ قوت ایمانی اپنے اندر کتنا زبردست اثر رکھتی ہے۔ غربا ء اور مساکین اور مظلوموں کی امداد ابوبکرؓ نے اپنے دوستوں اور ملنے جلنے والوں کو تبلیغ کرنے اور ان بیکس و مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کرنے پر ہی اکتفانہ کیا جو قریش مکہ کے ہاتھوں محض اسلام لانے کی وجہ سے سخت مظالم برداشت کر رہے تھے بلکہ انہوںنے اپنا مال بھی ان غریب لوگوں پر دل کھول کر خرچ کیا جنہیں اللہ نے اسلام کی جانب رہنمائی کی تھی اور دشمنان حق نے انہیں تکالیف پہنچانے اور ان پر نت نئے مظالم توڑنے میں کوی کسر اٹھا نہ رکی تھی۔ جس روز وہ اسلام لائے ا ن کے پاس چالیس ہزار درہم موجود تھے۔ تجارت کاسلسلہ انہوںنے اسلام لانے کے بعد بھی جاری رکھا اور اس سے وافر نفع حاصل کیا لیکجن اس کے باوجود جب دس سال بعد ہجرت کا وقع پیش ایا تو ان کے پاس صرف پانچ ہزار درہم باقی تھے۔ اس دوران میں انہوںنے جو کچھ کمایا اور جو کچھ پہیل پس انداز کر رکھا تھا وہ سب کا سب اللہ کی راہ میں اسلام کی تبلیغ اور ان کے غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کر دیا جو محض اسلام لانے کے جرم میں اپنے بے دین آقائوں کے ہاتھوں ہولناک سختیاں برداشت کر رہے تھے۔ ایک روز انہوںنے بلال کو دیکھاکہ ان کے آقا نے انہیں دوپہر کے وقت شدید دھوپ میں تپتی ریت پر لٹا یا اورا ن کے سینے پر پتھر رھ کر کہا کہ اسلام چھوڑ دینے کا اعلان کرو ورنہ اسی طرح مار ڈالوں گا۔ یہ دردناک منظردیھ کر ابوبکرؓ نے انہیں ان کے آقا سے خرید کر آزاد کر دیا۔ا ااسی طرح ایک اور غلام عامر بن فہیرہ کو مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت تکلیفیںپہنچائی گئیں۔ ابوبکرؓنے انہیں بھی خریدکر اپنی بکریوں کی نگہداشت اور چرانے کا کام سپر د کر دیا اسی طرح انہوں نے اور بھی بیسیوں غلام خرید کر انہیں اللہ کی راہ میں آزاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تائید و حمایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرتبہ قریش میں بہت بلند تھا۔ آپ کا شمار قبیلے کے معز ز ترین افراد میں ہوتاتھا۔ علاوہ ازیں بنو ہاشم بھی آپ کی حمایت پر تھے لیکن ان باتوں کے باوجود آپ قریش کی ایذ ا رسانیوں سے بچ نہ سکے۔ یہی حال ابوبکرؓ کا بھی تھا۔ انہیں بھی شہر کا سربرآوردہ فرد ہونے کے باوجوود محض اسلام لانے کے جرم میں قریش کے مظالم کانشانہ بننا پڑتاتھا۔ لیکن اسا پر جب کبھی آپ نے دیکھا کہ قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیفیں پہنچا رہے ہیں تو انہوںنے جان تک کی پرواہ نہ کرتیہوئے اپنے آپ کو حضورؐ کے بچانے کے لیے پیش کر دیا۔ ابن ہشام اپنی سیرت میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قریش کے ہاتھوں سب سے زیادہ ترکلیف ا س وقت پہنچی جب بت پرستی کی مذمت میں آیات نازل ہوئیں۔ وہ لوگ خانہ کعبہ میں اکٹھے ہوئے اور ایک شخص دوسرے سے کہنے لگا کہ تم نے سن لیا محمد ہمارے بتوں کے متعلق کیا الفاظ کہتا ہے۔ یہ محض تمہاری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ تمہارے دین اور تمہارے بتوں کے متعلق جس قسم کے الفاظ چاہتا ہے کہتا ہے لیکن تم خاموش رہتے ہو۔ ابھی وہ یہ باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ادھرسے گزرے۔ جب انہوںنے آپ کو دیکھاتو ایک دم آپ پر چھپٹ پڑے اور کہنے لگے’’ تم ہمارے بتوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال کرتے ہو ؟ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’بے شک میں نے یہی الفاظ کہے ہیں‘‘َ اس پر ایک آدمی نے آپ کی چادر چھین لی اور اسی سے آپ کا گلا گھونٹنے لگا ۔ اتنے میں ابوبکرؓ بھی ادھر سے گزرے انہو ںنے یہ دیکھ کر کفار کے نرغے سے آپؐ کو چھڑایا اور ان سے کہا’’کیا تم ایک شخص کو محض اس لیے قتل کر ڈالنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا ر ب اللہ ہے؟‘‘ راوی ذکر کرتاہے کہ یہ وہ دن تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کفارکے ہاتھوں سے سخت ترین تکلیف پہنچی۔ صرف اسی موقع پر نہیں بلکہ بعد میں بھی اکثر مواقع پر ابوبکرؓ نے خدا کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان کامل کا ثبوت دیا۔ ان کے اسی جذبہ ایمان کو دیکھ کر بعض مستشرقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا اعتراف کرنا پڑتاہے۔ وہ کہتے ہیں خہ ابوبکرؓ کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی قسم کے دنیاوی فائدے کی توقع نہ تھی۔ اس کے برعکس وہ سشب و روز یہ دیکھتے تھے کہ مکہ والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہر قسم کی تکلیفیں دیتے آ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے ماننے والوں کو تنگ کرتے ہیں۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دعوے میں جھوٹے ہوتے تو ابوبکرؓ جیسے عقل مند اور مدبر شخص کو آپ ؐ پر ایمان لانے آپؐ کے دعوے کی تصدیق کرنے آپؐ کی ہر طرح کی مد د کرنے اور قریش میں خود اپنی پوزیشن خراب کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ محض اپنی عقل و فراست کے بل بوتے پر اپنے اندر وہ ایمان پیدا نہ کر سکتے تھے کہ جو انسان کوتمام خطرات سے بے پروا کر کے اس میں شدید تڑپ اور دھن پیدا کرتا ہے جس ایمان کا مظاہرہ ابوبکرؓ نے کیا اور جس طرح انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول و فعل کی تصدیق کی وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام یقینا خدا ک یطرف سے ہے کیونکہ ایک باطل مذہب اور ایک جھوٹا شخص کبھی اپنے ماننے والوں کے دلو ں میں ایسا ایمان پیدا نہیں کر سکتا۔ اسراء کے موقع پر اسراء کے موقع پر ابوبکرؓ نے جس قوت ایمانی کا ثبوت دیا وہ نہ صر ف حیر ت انگیز ہے بلکہ اس نے بہت سے مسلمانوں کو ٹھوکر کھانے سے بچا لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مکہ سے بیان فرمایا کہ رات کو آپ خانہ کعبہ سے بیت المقدس لے جایا گیا اور وہاں آپؐ نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی تو مشرکین نے آپ کا مذاق اڑانا شروع کیا اور کہنے لگے کہ مکہ سے شام تک کا فاصلہ ایک مہینے کا ہے یہ کس طرح ممکن ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس جائیں اورایک ہی رات میں دو مہینوں کی مسافت طے کر کے واپس آ جائیں۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی تردد پیدا ہو گیا کہ انہوںنے جا کر ابوبکرؓ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ یہ سن کر کہ ابوبکرؓ پر دہشت سی طاری ہو گئی ہے ور وہ کہنے لگے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان باندھتے ہو لوگوںنے کہا’‘ہم جھوت نہیں کہہ رہے آپ نے ابھی مسجد میں یہ بات بیان فرمای ہے‘‘یہ سن کر ابوبکرؓ نے کہا ’’اگر آپ نے واقعی یہ کہا ہے تو بالکل سچ کہا ہے جب اللہ آصمان سے چند لمحوں میں وحی نازل فرما دیتاہے تو اس کے لیے رات بھر میں مکہ سے بیت المقدس لے جانا اور واپس لے آنا کیا مشکل ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ مسجد میں آئے۔ جب آپ مسجد اقصیٰ کا حال بیان کر کے فارغ ہوئے توا بوبکرؓ نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بالکل سچ فرماتے ہیں‘‘۔ اس وقت آپ ؐ نے ابوبکرؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ اگر ابوبکرؓبھی اسراء کے واقعے میں شک کا اظہار کرتے تو یقینا بہت سے مسلمان مرتد ہوجاتے اور جو لوگ اسلام پر قائم بھی رہتے ان کے دلوں میں بہرحال شکوک و شہبات گھر کر جائ۔ لیکن ابوبکرؓ کی قوت ایمانی نے نہ صرف لوگوں کو مرتد ہونے سے بچایا بلکہ ان کے دلوں کو بھی شکوک و شبہاب سے پاک کر دیا۔ یہ واقعات دیکھ کر بہر صور ت ماننا پڑے گا کہ ابوبکرؓ کے زریعے دین اسلام کو جو تقویت پہنچی وہ حضڑت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے ذریعے سے بھی حاصل نہ ہو سکی۔ او ر یہی وجہ تھی کہ ان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ لوکنت متخذا من العبداد خلیلا لا تخذت ابابکر خلیلا ’’یعنی اگر میں بندوںمیں سے کسی کو گہرا اور دلی دوست بناتا تو یقینا ابوبکرؓکو بناتا(گہرااوردلی دوست سوا خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا)۔ اسراء کے بعد اسراء کے واقعے کے بعد ابوبکرؓ ساراو قت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کمزور اور مظلوم مسلمانوں کی اعانت اور اسلام کی تبلیغ میں گزارنے لگے۔ تجارت صرف اسی حد تک کرتے جس سے اپنا اوراپنے اہل و اعیال کا گزارہ چلا سکیں۔ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکرؓ اور دوسرے مسلمانوں پر قریش کے مظالم میں زیادتی ہی ہوتی چلی گئی …قریش نے ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ اگر وہ چاہیں تو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں ۔ چنانچہ متعدد مسلمان ان مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طر ہجرت کر گئے لیکن ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا گوارانہ کیا۱؎۔ اور بدستور مکہ میں رہ کر تبلیغ کرنے مظلوموں کی مدد کرنے اورانہیں بے دینوں سے چھڑانے کے کام میں سرگرمی سے مصروف رہے اور مکہ میں اسلام پھیلانے کا فرض پوری خوبی اورتن دہی سے انجام دیتے رہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل مکہ کی طرف مایوس ہو گئے اور آپ نے دوسرے قبائل عرب تک خدائی پیغام پہنچانے کا ارادہ فرمایا اس غرض کے لیے آپ طائف تشریف لے گئے اوروہاں کے لوگوںکو اسلام کی دعوت دی۔ لیکن انہوں نے آپؐ کے ساتھ جو سلوک کیا وہ محتاج بیان نہیں۔ اس دوران میں ابوبکرؓ مکہ میں رہ کر مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے بلند رکھنے اور انہیں حتی المقدور کفار کے مظالم سے بچانے میںمشغول رہے۔ ۱؎ اس کے برعکس ایک روایت یہ ہے کہ ابوبکر ؓ بھی حبشہ ککی جانب ہجرت کر نے کے ارادے سے روانہ ہوئے تھے۔ راستے میں مکہ کا ایک سردار ابن دعنہ انہیں ملا۔ جب اسے ان کے ارادے کا علم ہوا تو بولا آپ ہجرت نہ کریں آپ صلہ رحمی کرتے ہیں نہایت صادق القول ہیں محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اوربیکسوں اور مظلوموں کا دکھ دورکرتے ہیںَ ۔ میں آپ کو پناہ دینا چاہتاہوں آپ واپس مکہ چلیے۔ چنانچہ وہ مکہ آ گئے۔ ابن دعنہ نے اپنے وعدے کے مطابق کعبہ میں اعلان کر دیا کہ میں نے ابوبکرؓکو پناہ دے دی ہے۔ قریش نے بھی اس پناہ کو قبو ل کر لیا۔ ابوبکرؓ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا رکھی تھی جہاں وہ نماز پڑھتے اور پر سوز لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے مشرکین کی عورتیں اور بچے تلاوت کی آواز سن کر ان کے گرد جمع ہو جاتے اوربڑے انہماک سے قرآن مجید سنتے رہتے تھے جب قریش نے یہ دیکھا توانہیں خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں ان کی عورتیں اور بچے ابوبکرؓ کی تلاوت سن کر اسلام کااثر قبول نہ کر لیں ۔ انہوںنے ابن دعنہ سے شکایت کی جس پر اس نے اپنی پناہ واپس لے لی او ر ابوبکرؓ پھر کفار کے مظالم کا نشانہ بن گئے۔ کمزور مسلمانوں کی حفاظت گو اس سلسلے میں مولفین سیرت اور ابوبکرؓ کے سوانح نگاروں نے کچھ زیادہ روشنی نہیں ڈالی پھر بھی ابوبکرؓ کی زندگی پر گہری نظر رکھنے والے لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کیہ اس دوران میں وہ خاموش نہ بیٹھے بلکہ انہوںنے حسب معمول حضرت حمزہؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ جیسے سربرآوردہ مسلمانوںسے مل کر کمزور مسلمانوں کو قریش کے مظالم سے محفوظ رکھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے وسیع اثر و رسوخ کے ذریعے سے کفار میںایسے اشخاص سے بھی تعلق قائم کیا جو بتوں کو پوجنے اوراسلام کی مخالفت کرنے کے باوجو د قریش کی ان ایذ ا رسانیوں کو جو وہ غریب و بے کس مسلمانوں پر روا رکھتے تھے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ انہوںنے انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے بھائی بندوں کی ان انسانیت سوز حرکات پر برملا نفرت کا اظہار کریں گے اور انہیں ایسا کرنے سے روکیں۔ چنانچہ کتب سیرت پڑھنے سے معلوم ہوتاہے کہ کفار مکہ میں سے بعض ایسے منصف مزاج ادمی اٹھ کھڑے ہوئے تھے جو اپنے ہم مذہب لوگوں کو مسلمانوں پر مظالم رنے سے روکتے تھے۔ اس کی واضح مثال اس وقت نظر آتی ہے جب قریش نے معاہد کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانان مکہ کا مکمل بائیکاٹ کر دیاتھا اور آپ شعب ابی طالب میں محصو رہونے پر مجبور ہوئے تھے۔ بائیکاٹ کا یہ سلسلہ لگاتار تین برس تک جاری رہا اور مسلمانوںپر معاش کے تمام دروازے بند کر دیے گئے اور انہیں ایسی ایسی تکالیف پہنچائیں گیئں جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی قلم تھرتھراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتاہے۔ آخر قریش میں ہی سے بعض لوگ اس ظالمانہ معاہدے کے خلاف اٹھ کھڑ ے ہوئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں کو مکمل بائیکاٹ اور محاصرے سے رہائی ملی۔ ہمیں یقین ہے کہ ابوبکرؓ ہی نے ان نیک لوگوں سے مل کر انہیں معاہدے کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار کیا گیا ہو گا۔ اسلام کے اولین دور میں مسلمانوں کی مدد کرنے ور ہمہ تن اسلام کی تبلیغ کرنے میں مشغول رہنے کے باعث ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایسا تعلق قائم ہو گیا تھا جسک نظیر ملنی ناممکن ہے۔ بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام پھیل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبتین کو اجازت دے دی کہ یثرب ہجرت کر جائیں۔ قریش قطعاً لا عم تھے کہ آیا اس مرتبہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کر جایں گے یا ہجرت حبشہ کی طرح مسلمانوں کو یثرب بھیج کر خود مکہ ہی میں مقیمرہیں گے۔ اس موقع پر ابوبکرؓ نے بھی ہجرت کرنے کی اجازت مانگی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرما کہ انہیں یثرب جانے سے روک دیا ’’ابھی ایسا نہ کرو‘ شاید اللہ تمہرا کوئی ساتھی پیدا کر دے جو ہجرت کے موقع پر تمہارے ہمراہ ہو‘‘۔ ہجرت کی تیاری اور ہجرت اس واقعے سے ابوبکرؓ کی پختگی ایمان کاایک ثبوت اور ملتاہے وار وہ یہ ہے کہ آپ کو پتا تھا کہ جب قریش کو مسلمانوں کی یثرب کی جانب ہجرت کرنے کی خبر ملی ہے وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ مسلمان مکہ سے کسی طرح باہر نہ نکلنے پائیں تاکہ وہ انہیں ستا ستا کراور عذاب دے د ے کر ہوس انتقام کی تسکینکا سامان پیدا کر سکیں۔ ابوبکرؓ کو یہ بھی علم تھا کہ قریش دار الندوہ میںجمع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے بند رہے ہیں اور اگر وہ (ابوبکرؓ ) ہجرت کے موقع پر آپ کے ساتھ ہوئے اور قریش خدانخواستہ آپ پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تو وہ آپ کے ساتھ انہیں بھی قتل کر دیں گے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جب اللہ نے اہیں ہجرت میں توقف کرنے کا ارشاد فرمایا تو وہ نہ صرف اپنے ارادے سے باز ہی رہے بلکہ ان کے دل میں سرو ر و بہت کی ایک لہر دوڑ گئی اورانہیں یقین ہو گیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ہجرت کے موقع پر اپنا ساتھی بنانا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرنا وہ نعمت تھی کہ دنیا کی ساری نعمتیں مل کربھی ان کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی َ چنانچہ وہ آپ کے حسب ارشاد ٹھہر گئے اور سمجھ لیا کہ اس موقع پر شہادت بھی نصیب ہو گئی تویہ ایسی شہادت ہو گی کہ جو اپنی جلو میں جنت اور اس کی تمام نعمتوں کو لیے ہو گی اور جس پر ہزاروں برس کی زندگی بہ خوشی قربان کی جا سکتی ہے۔ اسی روز ابوبکرؓ نے دو اونتنیوں کا انتظام کیااورانتظار کرنے لگے کہ کب ہجرت کا حکم نازل ہوکر انہیںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمرکابی ک شرف حاصل ہوتاہے۔ ایک روز حسب معمول شام کے وقت آپ ا ن کے گھر تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ نے انہیں یثرب کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی ہے۔ ابوبکرؓ نے بے تابی سے رفاقت کی خواہش ظاہر کی جسے آپؐ نے بڑی خوش دلی سے قبول کر لیا۔ ا ور بعض ضروری ہدایات دے کر واپس اپنے گھر تشریف لے گئے۔ اسی دن قریش کے نوجوانوں نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب آپ باہر نکلتے ہیں اورانہیں کب آپ کو قتل کرنے کے لیے اپنی تلواروں کے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے۔ آپؐ نے حضرت علیؓ بن ابی طالب کو حکم دیا کہ وہ آپ کی سبز حضرمی چادر اوڑھ لیں اور بے خوف و خطر آپ کے بستر پرسو جائیں۔ انہوںنے ایساہی کیا۔ جب رات کا تہائی حصہ گزر گیا تو آپؐ قریش کے لوگوں کو غفلت کی حالت میں پا کر اپنے گھر سے نکلے اورابوبکرؓ کے پاس پہنچے۔ وہ جاگ رے تھے فوراً دونوںگھر ک پشت کی ایک کھڑکی سے باہر نکلے اور جانب جنوب تین چار میل کی مسافت طے کرکے غار ثور تک پہنچے اوروہاں چھپ گئے۔ صبح ہونے پر جب قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکہ سے نکل جانے کا پتا چلا تو انہوںنے چاروں طرف سے آپ کی تلاش میں آدمی دوڑائے۔ مکہ کے قریب کوئی وادی کوئی میدان ورکوئی پہاڑ نہ تھا جو انہوںنے نہ چھان مارا ہو۔ وہ لوگ آپ کو تلاش کرتے کرتے غار ثور تک بھی پہنچ گئے اورایک آدی نے غار میں اترنے کا ارادہ بھی کیا۔ جب ابوبکرؓ نے ان لوگوں کی آوازیں سنیں تو ان کی پیشانی سے پسینہ چھوٹ نکلا اور انہوں نے اپنا سانس تک روک لیا کہ مبادا کسی قسم کی آواز نکل کر دشمنوں خو ان کے یہاں ہونے کا احساس دلا دے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بـڑے اطمینان سے اللہ کے ذکر اور دعائوں میں مشغول رہے۔ جب آپ نے ابوبکرؓ کی گھبراہت دیکھی تو جھک کر ان کے کان میں کہا لا تحزن ان اللہ معنا (ڈرو مت اللہ ہمارے ساتھ ہے) ادھر قریشی نوجوان نے اپنی نظر غارکے اردگرد دوڑائی تو دیکھا کہ غار کے منہ پر ایک مکڑی نے جالا تن دیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ واپس ہو گیا ۔ جب اس کے ساتھیوں نے س سے غار میں نہ اترنے کی وجہ پوچھ یتو اس نے کہا کہ غار کے منہ پر ایک مکڑی نے جالا تن دیا ہے ۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار میں جاتے تو یقینا جالا ٹوٹ جاتا اس لیے میں واپس آ گیا یہ سن کر وہ لوگ حالت مایوسی میں وہاں سے چلے گئے۔ جب وہ دور نکل گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پکار کرفرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر ابوبکرؓ نے بھی قدرت کا یہ عجیب تماشا دیکھ کر وجد میں آ گئے۔ غار ثور میں گھبراہٹ کی وجہ اس موقع پر سوال پید ہوتا ہے کہ ابوبکرؓ کی گھبراہٹ… جس کے باعث ان کی پیشانی سے پسینے چھوٹنے لگے تھے اور ان کا سانس بھی رک گیا تھا… اپنی جان بچانے کے خوف سے تھی یا اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کابال بیکا نہ ہو جائے؟ آیا کہ اس وقت انہیں اپنی جان کا خیال تھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کا؟ اس کا تسلی بخش جواب ہمیں مندرجہ ذیل روایات میں ملتاہے۔ ابن ہشام حسن بن ابوالحسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکرؓ آدھی رات کو غار میں پہنچے تو آپؐ سے پہلے ابوبکرؓ غار میں داخل ہوئے۔ اور اسے اچھی طرح دیکھا بھالا مباداکہ اس میں کوئی سانپ یا بچھو یا درندہ چھپا بیٹھاہوا ور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدانخواستہ کو ئی ضرر پہنچ جائے۔ بالکل یہی جذبہ ان کا ان نازک لمحات میں تھا۔ جب انہوںنے غار کے سرے پر قریش کے نوجوانوں کو دیکھااس وقت انہوں نے جھک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کان میں کہ ا کہ اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کے نیچے نظر کر لے تو یقینا ہمیں دیکھ لے گا۔ اس وقت ابوبکرؓ اپنی جان کی مطلق پروا نہ تھی اگر خیال تھا تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور اس دین کا جس کی خاطر انہوںنے اپنی جان کی کوئی حقیقت نہ سمجھی تھی۔ انہیں نظر آ رہا تھا کہ اگر اس وقت خدانخواستہ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قابو پا لیا تو دین اسلام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اپنی ذات کا خیال انہیں آ ہی کس طرح سکتاتھا جب انہوںنے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور دین اسلام کے عشق میں بالکل جذب کر لیا تھا۔ وہ تو اپنے نفس کو پہلے ہی عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فنا کر چکے تھے۔ اس لیے اللہ کے رستے میںدوبارہ فنا ہونے سے انہیں کیا ڈر ہو سکتا تھا؟ تاریخ کے مطالعے سے متعدد ایسے اشخاص کے حالات معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں اپنے سرداروں اور بادشاہوں پر قربان کر دیں۔ آج کل بھی ایسے اکثر زعماء ہیں جنہیں ان کیک معتقدین انتہائی تقدیس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں۔ لیکن ابوبکرؓ نے غار میں جو نمونہ دکھایا وہ ان سب سے الگ اور بالا حیثیت رکھتا ہے۔ کیا بادشاہوں اور لیڈروں کی تاریخوں میںایسی کوئی مثال پائی جاتی ہے۔ کہ ان کی رعایا معتقدین میں سے کسی فرد نے ان کے لیے ایسی قربانیاں پیش کی ہوں؟ ایثار و قربانی میں اس کی مثال کی نظیر پش کرنے سے تاریخ عاجز ہے۔ جب کفار کا جوش و خروش کچھ ٹھنڈا پڑا اور انہیں ان دونوں کے ملنے سے مایوسی ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او ر ابوبکرؓ غار سے نکلے اوریثرب کا رخ کیا۔ راستے میں بھی بعض ایسے واقعات پیش آئے جو خطرے کے لحاظ سے واقعے سے کم نہ تھے جو غار میں پیش آ چکا تھا۔ ابوبکرؓ نے مدینہ سے نکلتے ہوئے پانچ ہزار درہم بھی ساتھ لے لیے تھے جو تجارت کے منافع میں سے ان ے پاس باقی بچ گئے تھے۔ جب وہ مدینہ پہنچے تو انہوںںے ایک عام مہاجر کی سی زندگی بسر کرنی شروع کی اگرچہ ان کی حیثیت بدستوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر اور مشیر کی تھی۔ مدینہ میں مدینہ میں ان کا قیام شہر کے نواح میں مقام سخ پر خارجہ بن زید کے ہاں تھا اور جو قبیلہ خزرج کی شاخ بنو حارث سے تعلق رکھتے تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کا سلسلہ قائم کر دیا تو ابوبکرؓ اور خارجہ کو بھائی بھائی بنایا۔ جب ابوبکرؓ کے اہل و عیال مکہ سے مدینہ پہنچ گئے تو انہوںنے ان سے مل کر روزی کے وسائل تلاش کرنے شروع کر دیے ۔ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے رشتہ داروں کی طرح ان کے رشتہ دار بھی انصار کی زمینوں پر ان کے مالکوں سے مل کرکام کرنے لگے جن میں خارجہ بن زید بھی شامل تھے ۔ خارجہ کے ساتھ ان کے تعلقات اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوںںے اپنی بیٹی حبیبہ کو ان کے عقد میں دے دیا۔ حبیبہ کے بطن سے ام کلثوم پیدا ہوئیں۔ ابوبکرؓ کی وفات کے وقت حبیبہ حالت حمل میں تھیں۔ ابوبکرؓ ان کے اہل و عیال اور ان کے ساتھ مقام سخ میں خارجہ بن زید کے ہاں نہ ٹھہرے بلکہ ام رومان ان کی بیٹی عائشہ اور ابوبکرؓ کے تمام لڑکے مدینہ میں حضرت ابوایوب انصاریب کے مکان کے قریب مقیم تھے۔ ابوبکرؓ سخ سے روازانہ واہاں آیا کرتے تھے البتہ ان کا مستقل قیام اپنی نئی بیوی کے ساتھ سخ ہی میں تھا۔ ہجرت کے چند رو ز بعد وہ بخار میں مبتلا ہو گئے صرف وہی نہیں بلکہ آب و ہوا کی ناموافقت کے باعث اکثر مہاجرین بخار سے بیمار ہو گئے تھے مکہ کی آب و ہوا صحرا میں واقع ہونے کے باعث خشک تھی۔ اس کے مقابلے میں مدینہ کی آب و ہوا مرطوب تھی۔ کیونکہ وہ بارانی علاقہ تھا اور وہاں کھیتی باڑی ہوتی تھی۔ جب انہیں اطمینان ہو گیا ارو روزی کی طرف سے بے فکری نصیب ہوئی تو وہ اسلام کی اشاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معاونت اور مسلمانوں کے نئے مرکز کے استحکام میں اسی طرح منہمک ہوگئے کہ جس طرح مکہ میں مشغول رہتے تھے۔ غیر ت ایمانی ابوبکرؓ نہایت نرم مزاج انسان تھے لیکن جب وہ یہود اور منافقین کی زبانوں سے دین خدا کے متعلق تمسخر آمیز باتیں سنتے تھے تو ان کے غصے کی انتہا نہ رہتی تھی۔ مدینہ تشریف لانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور یہود کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت یہود اور مسلمانوں دونوںکو اپنے اپنے دین کی تبلیغ و اشاعت اور اپنے اپنے رسوم و رواج پر عمل کرنے کی آزادی حاصل تھی۔ یہود کا شروع میں یہ خیال تھا کہ وہ مہاجرین کو اپنے ڈھب پر لائیں کر انہیں مدینہ کے قبیلوں اوس اور خزرج کے خلاف استعمال کریں گے ۔ لیک چند ہی روز میں انہیں یہ پتا چل گیا کہ ایسا ہونا ناممکن ہے اور مہاجرین و اہ مدینہ میں ایسا تعلق قائم ہو چکا ہے کہ جو کسی صورت میں ٹوٹ نہی سکتا۔ اس وقت انہوںنے اپنی پہل روش بد ل کر مسلمانوں کی مخالفت میں کمر باندھی اوراسلام کے متعلق تمسخر اور استہزاء کی باتیں کرنی شروع کیں۔ ایک دن کاواقعہ ہے کہ چند یہودی اپنے ایک عالم فخاص کے گھر جمع ہوئے اتفاق سے اسی وقت حضرت ابوبکرؓ بھی اسی طرف آ نکلے۔ انہوںنے یہودیوں کے اجتماع کو غنیمت جانتے ہوئے انہیں اسلام کی تبلیغ کرنی چاہی اورفخا ص سے کہنے لگے: ’’اے فخاص! اللہ سے ڈرو اور اسلام لے آئو۔ اللہ کی قسم! ت جانتیہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اسی کی جانب تمہارے پاس وہ حق لے کر آئے ہیں جسے تم توریت میں لکھا ہوا پاتے ہو۔‘‘ یہ سن کر فخاص کے لبوں پر تمسخڑ آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی ار وہ کہنے لگا: ’’خدا کی قسم اے ابوبکرؓ ہمیں خدا سے کسی چیز کی حاجت نہیں خود اسے ہماری حاجت ہے۔ ہم اس کی طرف نہیں جھکے بلکہ وہ ہماری طرف جھکنے پر مجبور ہے۔ ہم اس کی مدد سے بے پروا ہیں لیکن وہ ہماری امداد سے مستغنی نہیں۔ اگر وہ ہماری امداد سے مستغنی ہوتاتو کبھی ہمارے مال ہم سے بطور قرض نہ مانگتا جس طرح تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہے۔ اللہ تمہیں سود لینے سے منع کرتاہے لیکن خود ہمیںسود دیتاہے اگر وہ ہم سے مستغنی ہوتا تو ہمیں کیوں سود دیتا؟‘‘ اس ناپاک گفتگو سے فخاص کامقصد دراصل اس آیت پر چوٹ کرنا تھا کہ جس میں اللہ فرماتا ہے کہ من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضا عفہ لہ اضعافا کثیرۃ ’’(کون ہے جو اللہ کو قرض دے‘ اس کے بدلے میں اللہ اس کے مال کوکئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا)‘‘۔ ابوبکرؓ نے فخاص وک اللہ کے اس قول اوراس کی وحی کا مذاق اڑاتے دیکھا تو وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سے اور فخاص کے اتنے زور سے تھپڑ مارا کہ اس کے حواس بجا نہ رہے اس کے بعد فرمایا: ’’اے اللہ کے دشمن ! اگر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو اللہ کی قسم! میں تیری گردن اڑا دیتا‘‘۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں خہ ابوبکرؓ نہایت رقیق القلب اوربردبار ہونے کے باوجود اس موقع پر جوش می آ گئے اور حالانکہ آپ کی عمر بھی پچاس سے متجاوز کرچکی تھی اور اس مرحلے پر بالعموم انسان میں جوش و خروش باقی نہی رہتاا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ غیر ت ایمانی کا مظاہرہ تھا اور اس بات کا ثبوت کہ آپ اللہ کی آیات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر استہزاء کرنے کو کسی صورت میںبرداشت نہیں کر سکتے تھے۔ رومیوں کے غلبے کی پیش گوئی اسی قسم کی ایک اور مثال ہمیں ابوبکرؓ کی زندگی میں نظر آتی ہے۔ یہ واقعہ ہجرت سے دس سال قبل رونما ہوا تھا جب ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ کے دوران میں ایرانی رومیوں پر غالب آ گئے تھے۔ چونکہ ایرانی مجوسی تھے اور رومی اہل کتاب ااس لیے مسلمانوں کو اہل کتاب کے مقابلے میں مشرکوںکے غالب آ جانے سے فطرتاً رنج پہنچا تھا۔ ان کی عین خواہش تھی کہ رومی فتح یاب ہوں کیونکہ وہ ان کی طرح اہل کتاب تھے۔ ایک مشرک نے ابوبکرؓ سے اس کا اظہار کیا اوراپنے ہم مذہب وگوں کے فتحیاب ہونے پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ یہ سن کر ابوبکرؓ کو سخت طیش آیا۔ اسی زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ الم غلبت الروم فی ادنی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین (اگرچہ رومی ایرانیوں کے ہاتھو مغلوب ہوگئے ہیں لیکن چند ہی سال میں وہ پھر غالب آجائیں گے) ابوبکرؓ نے اس پیشنگوئی کی بنا پر ا س مشرک سے شرط لگاء کہ ایک سال کے اندر اندر رومی ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے ۔ (بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادپرانہوںنے یہ مدت نو سال متعین کر دی) اور اگر ایسا نہ ہوا تو وہ ااسے دس اونٹ دیں گے۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ ابوبکرؓ جیسے حلیم الطبع اورنرم مزاج انسان کا غصہ صرف اس وقت بھڑکتا تھا جب کہ عقیدے اور ایمان کا سوال درپیش ہوتا تھا۔ جب سے ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرکے آپ کے دین میں داخل ہوئے اسی وقت سے ان کی رگ رگ میں ایمان صادق رچ گیاتھا۔ ان کے تما م اعمال و افعال میں اسی ایمان صادق کارنگ نمایاں تھا۔ خا ندان خواہشات غرض دنیا کی کوئی بھی چیز جو لوگوں کی زندگیوںپر اثر انداز ہوتی تھی ان کی نظر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھی۔ ان کاجس دل و دماغ اوران کی روح خالص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تھی۔ یہی جذبہ ایمانی تھا جس نے انہیں روحانیت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچا کر صدیقین کے زمر ے میں شامل کر دیا تھا۔ جنگ بدر ہجرت کے کچھ عرصے کے بعد بدر کا معرکہ پیش آتاہے۔ قریش مکہ اورمسلمان اپنی اپنی صفیں مرتب کرکے ایک دوسرے کے بالمقابل میدان جنگ میں کھڑے ہیں۔ مسلمانوں نے حضرت سعد بن معاذؓ کے مشورے سے قریب کی ایک پہاڑی پرایک شامیانہ لگا دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس شامیانے میں تشریف رکھیں اور اگر مسلمانوں کی حالت دگرگوں دیکھیں تو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں۔ ابوبکر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے جب جنگ شروع ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کی کثرت اورمسلمانوں کی کمی دیکھی تو آ پ نے قبلہ رو ہو کر اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا دیا اور اس سے اس کے وعدوں کی یاد دلا دلا کر مسلمانوں کے لیے فتح و نصرت کی دعائیں مانگنی شروع کیں۔ آپ فرمارہے تھے: اللھم ھذہ قریش قداتت بخیلائھا تحاول ان تکذب رسولک اللھم فنصرک الذی وعدتنی اللھم ان تھک ھذہ العصابۃ الیوم لا تعبدا (اے اللہ!یہ قریش اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے آئے ہیں اے اللہ اپنے اس وعدے کو پورا فرما جو تو نے مسلمانوں کی فتح کے متعلق کیا ہے۔ اے اللہ! اگر آج یہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہو گئی تو آئندہ تیرا کوئی نام لیوا باقی نہ رہے گا)۔ آپ اس قدر زاری اور اتنی بے چینی اور گھبراہٹ کی حالت میں اپنے رب کو پکار رہے تھے اورہاتھ دعا کے لیے پھیلا رہے تھے کہ بار بار آپ کی چادر زمین پر گر جاتی تھی۔ بالآخر آپ پر غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور اللہ کی طرف سے ایک بر پھر بڑے زور سے مسلمانوں کی فتح و نصرت کی خوشخبری دی گئی۔ آپ مطمئن ہو کر شامیانے کے باہر تشریف لائے اور بلند آواز سے مسلمانوںکو کفار پر حملہ کرنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ فرما رہے تھے کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے کہ آج کے روز ہر شخص کفار سے لڑے گا اور اس حالت میں شہید کیا جائے گا۔ کہ اس کے پیش نظر صر ف اللہ کی رضا اور اس ے دین کی مدد کاجذبہ ہو گا اور اس نے میدان جنگ میں کفار کو پیٹھ نہ دکھائی ہوگی اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا‘‘۔ گو پہلے ہی سے اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح کی خوشخبری دے دی تھی لیکن اس کے باوجود آپ برابر گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگتے رہے جب تک کہ ایک بار پھر اللہ کی طرف سے واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کی فتح و نصرت کا وعدہ نہ دے دیا گیا اور آپ کو دلی اطمینان نصیب نہ ہو گیا۔ واقعی ایک پیغمبر کی شان یہی ہوتی ہے۔ آپ جاتے تھے کہ اللہ کے وعدے سچے ہیں اور وہ ضرور مسلمانوں کو فتح عطا فرمائے گا۔ لیکن ساتھ ہی آپ کو یہ علم بھی تھا کہ اللہ غنی عن العالمین ہے ممکن ہے کہ مسلمانوں ؤسے دوران جنگ میں کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہوجائے جس کے باعث فتح و نصرت کا وعدہ دور جا پڑے اور مسلمان اولین مرحلے میں اپنا مقصود حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس پورے عرصے میں ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے اور انہیں یقین تھا کہ اللہ ضرور مسلمانوں کی مدد کرے گا اور انہیں فتح سے ہمکنار کر دے گا۔ اسی لیے وہ حیرت و استعجاب سے آپ کی مناجات سن رہے تھے۔ آپ انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کر رہے تھے اور اسے اس کا وعدہ یاد دلا رہے تھے آ پ کی چادر بار بار زمین پر گر جاتی تھی اور اسے ابوبکرؓ اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈال دیتے اورکہتے تھے: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ گھبرائیں نہیں۔ اللہ نے آپ کو فتح و نصرت کا وعد ہ دیا ہے اور وہ اپنا وعدہ ضرور پورافرمائے گا‘‘۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اپنے عقیدے میں اس قدر راسخ ہوتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہی کرتے جو ان عقائد میں اختلاف رکھتے ہوں۔ ایسے لوگ کہتے ہیں خہ حقیقی ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ مخالفین سے تعصب تندی اور سختی کا برتائو کیا جائے لیک ابوبکرؓ کامل الایمان ہونے کے باوجود نہایت نرم دل انسان تھے۔ سب و شتم تندی اور سختی سے وہ کوسوں دور تھے۔ قابو پانے کے بعد مخالف کو معاف کر دینا اور فتح یاب ہونے کے بعد دشمن پر احسان کرنا ان کا شیوہ تھا۔ اس طرح ان میں حق و صداقت کی حبت اوررحم و کرم کا جذبہ بہ یک وقت پایاجاتا تھا۔ حق کے راستے میں وہ ہر چیز حتیٰ کہ اپنی جانوں کو بھی ہیچ سمجھتے تھے او ر اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے کو بخوشی تیار ہو جاتے تھے ۔ لیکن جب حق غالب آ جاتا تو دشمن سے سختی کابرتائو کرتے اور اس سے مظالم کی جواب دہی کرنے کے بجائے ان میں رحم و کرم کا جذبہ ابھر آتا تھا۔ اسیران بدر کی سفارش مسلمانوں کو جنگ بدر میں فتح نصیب ہوئی اور وہ قریش کے ستر قیدی ہمراہ ے کر مدینہ واپس آ گئے۔ یہ قیدی وہی تھے جنہوںنے مکہ میں تیرہ برس تک مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے تھے ارو ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ انہیںدکھائی دے رہا تھا کہ ان مظالم کا بدلہ چکانے کا وقت آ پہنچا ہے اوراب مسلمان ان پر جس قدربھی سختی کریں کم ہے۔ اپنے آپ کو مسلمانوں کی سختیوں سے بچانے کی کوئی تدبیر انہیں اس کے سوا سمجھ میں نہ آئی کہ وہ ابوبکرؓ سے رحکم کی التجا کریں۔ چنانچہ قریش نے انہیں بلایا اور کہا: ’’اے ابوبکر! تم جانتے ہو کہ ہم قیدیوں میں سے کوئی تم لوگوں کا باپ ہے کوئی بھائی کوئی چچا ہے اور کوئی ماموں ۔ اب اگر ہمیںتم قتل کرو گے یا ایذا پہنچائو گے تو اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہی قتل کرو گے یا ایڈا پہنچائو گے ۔ ہم رشتہ داری کا واسطہ دے کر تم سے التجا کرتے ہیں کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ کر ہماری جان بخشی کرا دو۔ یاوہ ہم پر احسان کر کے ہمیں رہا کردیں یا فدیہ لے کر چھوڑ دیں‘‘۔ ان کی یہ عاجزانہ التجا سنکر ابوبکرؓ نے وعدہ کر لیا کہ وہ ان کی بھلائی کے لیے ضرور کوئی نہ کوئی تدبیر کریںگے۔ قریش کو در پید ا ہو گیا کہ کہیں عمرؓ کوئی گڑبڑ نہ کر دیں۔ انہوںنے حضرت عمرؓ کو بلا کر ان سے بھی وہی بات کہی جو حضرت ابوبکرؓ سے کہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے خشمگیں نظروںسے انہیں دیھکا اور کوئی جواب نہ دیا۔ ابوبکرؓ نے اپنے وعدے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے ان شرک قیدیوں کی سفارش کی حضرت عمرؓ کی یہ رائے تھی کہ ان سب قیدیوں کو قتل کر دیا جائے لیکن حضرت ابوبکرؓ نے اصرار کر کے اپنی بات منوا ہی لی اور تمام قیدی زر فدیہ کے عوض رہا کر دیے گئے۔ ابوبکرؓ کایہ فعل ان کی پاکیزگی قلب اور حد درجہ نرم دلی پر دلالت کرتاہے۔ شاید یہ وجہ بھی ہو کہ انہوںنے دور بین نظر سے اس امر کامشاہدہ کر لیا تھا کہ مشرکین مکہ بالآخر رحم کے مظاہروںسے ہی مغلوب ہوں گے۔ جب وہ دیکھی گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر قسم کی طاقت و قوت ریکھتے ہوئے ان سے مرو ت و احسان کا سلوک کیا ہے تو وہ آپ سے آپ اسلا کی آغوش میں آ گریں گے۔ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ ظاہری قوت کے ذریعے مخالف پر جسمانی لحاظ سے تو قابو پایا جا سکتاہے لیکن اس کیدل کو مطیع نہیں کیا جا سکتا مخالف کے دل پر اسی وقت فتح حاصل کی جا سکتی ہے کہ جب طاقت کے ذریعے سے نہیں بلکہ پیار و محبت کے ذریعیسے اسے اپنی طرف مائل کیا جائے۔ جنگ بدر کے بعد غزوہ بدر جس طرح مسلمانوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز تھا اسی طرح ابوبکرؓ کی کتاب زندگی کا ایک نیا ورق تھا۔ اس جنگ کے بعدمسلمانوں نے ایک نئے نہج سے اپنی سیاست کو مرتب کرنا شروع کیا۔ بدر کی فتح سے مسلمان کو بڑی سیاسی اہمیت حاصل ہو گئی تھی۔ اوران کے مخالفین کے دلوں میں ان کی جانب سے حسد اور غصے کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اس فتح نے جہاں یہود کو چوکنا کر دیا تھا اور انہوںنے سمجھ لیا تھا کہ اب مسلمان ان کے دست نگر بن کر نہیں رہ سکتے وہاں مدینے کے اردگرد بسنے والے قبائل کو بھی یہ فکر پیدا ہو گیا تھا کہ مبادا مسلمانوں کا رخ ان کی طرف پھر جائے۔ چنانچہ یہود اور مدینہ کے نواحی قبائل نے مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دیں۔ ان امور کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے یہ ضروری ہو گیا تھا کہ آپ ہر آن اور ہر لمحہ سختی سے صورتحال کاجائزہ لیتے رہیں اور صحابہ ؓسے مشورہ لینے کے بعد ان حالات کے مطابق اپنی پالیسی کا جائزہ لیں۔ ابوبکرؓ اور عمرؓ آپ کے خاص الخاص مشیر تھے۔ ان دونوں کی طبیعتوں میں بے حد فر ق تھا لیکن بہ ایں ہمہ دونوں نہایت مخلص اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار تھے اور ہر مشورہ انتہائی غور و فکر سے دیتے تھے۔ ان مشوروں کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے راہ عمل معین کرنے میں بہت آسانی رہتی تھی۔ ان دونوں کے علاوہ آپ دوسرے مسلمانوں کو بھی اپنے مشوروں میں برابر شریک کرتے تھے۔ جس کااثر لوگوں پر بہت اچھا پڑتاتھا اور ہر شخص خیال کرتا تھا کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتماد حاصل ہے اور آپ اسے بھی مشوروں میں شریک کر کے خدمت کا موقع عنایت فرماتے ہیں۔ جنگ احد یہود کی ریشہ دوانیاں بالآخر رنگ ائیں اور انہوںنے مسلمانوں کے خلاف اپنے ناپاک ارادوں کا اظہار کھلم کھلا شروع کر دیا۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوںکو مجبوراً بنو قینقاع کا محاصرہ کر کے انہیں مدینہ سے جلا وطن کرنا پڑا۔ اردگرد کے قبائل نے بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی طاقتیں جمع کرنی شروع کر دیں۔ لیکن ان کی سرگرمیاںبھی مسلمانوں کو نقصان نہ پہنہچا سکیں۔ جب وہ سنتے کہ سلمانوںکا کوئی دستہ ان کی سرکوبی کے لیے متعین کیا جا رہا ہے تو وہ بھاگ جاتے اور مقابلے کے لیے میدان میں نہ نکلتے۔ یہ تمام خبریں تواتر سے مکہ پہنچ رہی تھیں لیکن مسلمانوں کی یہ تمام کامیابیاں مشرکین مکہ کو جنگ بدرکا انتقام لینے کے عزم سے بازنہ رکھ سکیں اور ایک سال کے بعد انہوںنے پھر ایک لشکر جرار ے ساتھ مدینہ پر چڑھاء کر دی جس پر احد کا معرکہ پیش آیا۔ شروع میں مسلمانوںکو فتح حاصل ہوئی اور کفار نے شکست کھا کر بھاگنا شروع کر دیا لیکن بعض مسلمانوں کی بے تدبیری کے باعث جنگ کا پانسا پلت گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو ایک گھاٹی پر متعین کیا تھا تاکہ دشمن پشت کی طرف سے حملہ نہ کر سکے۔ لیکن جب نہوںنے کفار کوبھاگتے اورمسلمانوں کو مال غنیمت جمع کرتے دیکھاتو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت فراموش کر کے اپنی جگہ چھوڑ کر میدان جنگ میں پہنچ گئے۔ خالد بن ولیدؓ نے دور سے یہ سارا ماجرا دیکھ لیا اور موقع کو غنیمت جانا اورپشت کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ سلمان اس اچانک حملے کی تاب نہ لا سے اور منتشر ہو گئے۔ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی کفار کی سنگ بازی میں زخم آئے۔ قریش نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مارے گئے ۔ اس خبر نے مسلمانوں کی ہمتوںکو بالکل ہی پست کر دیا۔ اگر بعض جاں نثار صحابہ آپ کے چاروں طر ف کھڑے ہو کر دشمن کی لگاتار یورش کامقابلہ نہ کرتے تو اورآپ خدانخواستہ شہیدہو جاتے تو پھر اسلام کا خاتمہ تھا۔ لیکن اللہ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کو دشمنوں کے ناپاک ارادوںسے محٖوظ رکھا اورمسلمان عارضی انتشار کے بعدپھر مجتمع ہو گئے۔ اس دن ابوبکرؓ نے بھی بہادری کا مظاہرہ کرنے میںدوسروں سے کم حصہ نہ لیا۔ فتح مکہ تک کا پورا عرصہ مسلمانوں کو کفار سے جنگ یا اس کی تیاریاں کرتے گزارنا پڑا۔ ایک طرف یہود حیی بن احطب کے زیر سرکردگی مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے دوسری طرف قریش مکہ اپنی پوری طاقت سے مسلمانوں کوزیر کرنے اور ان پر غالب آنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپوں وار لڑائیوں کے علاوہ بنو نضیر خندق احزاب اور بنو قریظہ کے غزوات یہود کی فتنہ انگیز سیاست اور قریش کے غیض و غضب کے نمایاں عناصر ہیں۔ ان تمام لڑائیوں اورغزوات میں ابوبکرؓ نے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش بہ دوش حصہ لیا اوردوسرے تمام مسلمانوں سے زیادہ بہادری صدق و ثبات اور ایمان کا ثبوت دیا۔ صلح حدیبیہ ہجرت کے چھ سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا اور مسلمانوںکو مکہ چلنے کے لیے ارشاد فر مایا۔ مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملنے پر قریش نے تہیہ کر لیا کہ وہ کسی صورت آپ اور آ کے صحابہؓ کو مکہ میںداخل ہونے اور عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے کچھ فاصلے پر حدیبیہ می ںفروکش ہوئے اور مکہ والوں کوکہلا بھیجا کہ آپ کے آنے کا مقصد جنگ اور قریش مکہ سے چھیڑ چھاڑ کرنا نہیں بلکہ صرف عمرہ ادا کرنا ہے۔ قریش کے سفیر آپ کے پاس آنے شروع ہو گئے۔ بالآخر یہ معاہدہ ہوا کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آ کر عمرہ کریں۔ مسلمانوں اور بالخصوص حضرت عمرؓ بن خطاب کو معاہدے کی شرطیں سخت ناگوار گزریں ۔ وہ ان شرائط کو اپنی ہتک سمجھتے تھے اور اپنی کمزوری کا مظاہرہ خیا ل کرتے تھے لیکن ابوبکرؓ کے دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول و فعل کے آگے سر تسلیم کیے ہوئے تھے اور انہیں پختہ یقین تھا کہ آپ کی کوئی بات اور کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اور جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ یقینا دین اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے لیے کیا ہے اس طرح آ پ نے ایک بار پھر عمل سے اپنا صدیق ہونا ثابت کر دیا۔ بعد ازاں جب سورۃ فتح نازل ہوئی تو مسلمانوں کو معلوم ہو گیا کہ صلح حدیبیہ اصل میں ایک فتح مبین ہے جو اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرمائی ہے۔ اب مسلمانوں کو آئے دن قوت اور روز افزوں ترقی حاصل ہونے لگی۔ خیبر فدک اور یمامہ میں یہود کا محاصرہ کیاگیا اورانہیںمطیع ہونے پر جبور کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فارس ‘ روم‘مصرحیرہ‘ یمن اور دوسرے علاقوں کے بادشاہوں اور امراء کو خطوط لکھے جن میں انہیں اسلام کی دعوت دی گئی فتح مکہ اور محاصرہ طائف کی وجہ سے مسلمانوں کی ترقی عروج پرپہنچ گئی تھی۔ سارا جزیرہ نمائے عرب اسلام کے نور سے جگمگا اٹھا اور اسلامی سلطنت کی سرحدیں ایران اور روم کی عظیم الشان حکومتوں سے ٹکرانے لگیں جو اس زمانے میں دنیا کے بیشتر حصے پر قابض تھیں۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب کوئی طاقت اس نور کو بؤجھا نہیں سکتی اور اسلام کا غلبہ اب کسی کے روکے سے رک نہیں سکتا۔ جب عربوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی قوت روز بروز ترقی کر تی جا رہی ہے اور ان کے منصوبے اور کوششیں اسے ضعف پہنچانے کے بجائے اس ک ترقی میں ممد و معاون ثابت ہو رہی ہیں تو وہ فوج در فوج عرب کے گوشے گوشے سے اسلام قبول کرنے کے لیے دوڑے چلے آنے لگے۔ دیدہ بینا کے لیے یہ بات کس قدر اثر انگیزہے کہ ایک شخص تنہا و یکہ ایک مشن لے کراٹھتا ہے اور اس کی قوم اس کے ساتھ نہیں یہود اس کے مخالف ہیں قبائل عرب اس کے دشمن ہیں لیکن وہ تمام رکاوٹوں مخالفتوں اور پے در پے حملوں کے باوجود بالآخر کامیاب ہو جاتاہے یہود نصاریٰ جوسی اور مشرکین اس کے آغے سر تسلیم خم کر نے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یقینا حق ہی غالب ہوتاہے اور باطل مغلوب ۔ اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق پر تھے یا ناحق پر اور آپ کی دعوت سچی تھی یا جھوٹی صرف یہی دلیل کافی ہے کہ آپ نے شدید مخالفت کے ہوتے ہوئے ان تمام طاقتوں پر غلبہ حاصل کیا اور یہ طاقتیں اپنا پورازور لگانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں خائب و خاسررہیں۔ آ پ کا مقصد ان پر غبہ حاصل کرنا اور انہیں فتح کرکے ان پر حکومت چلانا نہ تھا بلکہ آپ صرف یہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ اللہ پر ایمان لا کر خدائی ملکت میں داخل ہو جائیں اور نیک اعمال بجا لا کر جنت کے وارث بنیں۔ امیر الحج فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے تمام رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں۔ اور آپ اسلام کے تمام فرائض و واجبات نہایت آسانی سے بجا لا سکتے تھے۔ حج بھی ایک دینی فریضہ ہے لیکن وفو د کے جوق درجوق مدینہ آنے کی وجہ سے آپ کو مکہ جانے اور بیت اللہ کا حج کرنے کی فرصت نہ مل سکی۔ اس لیے فتح مکہ کے اگلے سال آپ نے اپنی جگہ ابوبکرؓ کو امیر الحج مقرر فرما کر روانہ کیا۔ وہ تین سو مسلمانوں کو لے کر مکہ پہنچے اور واہں حج کے فرائض انجام دیے۔ اسی حج کے موقع پر علی ؓ بن ابی طالب نے اور بعض روایات کے مطابق خود ابوبکرؓ نے اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گ۔ا انہوںنے مشرکین کے لیے چار مہینے کی مہلت کا اعلان کیا کہ اس عرصے میں وہ مکہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چل جائیں ۔ اس وقت سے آج تک کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہیں کر سکا اورنہ آئندہ کر سکے گا۔ حجتہ الوداع ہجرت کے دسویںسال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خو د حج کے لیے تشریف لے گئے اس حج کو حجتہ الوداع بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ آپ کا آخری حج تھا آپ کے ساتھ ابوبکرؓ دوسرے صحابہؓ اور آپ کی ازواج مطہرات تھیں۔ اس موقع پر عرفات کے میدان میں مسلمانوں کا بے نظیر اجتماع منعقد ہوا۔ یہی جگہ تھی کہ کبھی کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات تک سننے کو تیار نہ تھا۔ لیکن آج اسی جگہ ایک لاکھ سے زائد اشخاص آپ کی اونٹنی کے گرد گردن جھکائے مودبانہ کھرے تھے اور انتہائی خاموشی سے آپ کے روح پرور ارشادات سن رہے تھے۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد آپ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ مدینہ آئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ آپ نے شا م پر فوج کشی کرنے کے لیے ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا جس کا سردار آپ نے اسامہ ؓ بن زید کو بنایا اور بڑے بڑے صحابہؓ کو جن میں ابوبکرؓ و عمرؓ بھی شامل تھے لشکر کے ساتھ جانے کے لیے ارشاد فرمایا ۔ یہ لشکر مدینہ کے ایک قریبی مقام جرف ہی تک پہنچا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت کی خبر آئی۔ یہ سن کر لشکر نے وہیں پڑائو ڈال دیا اور وہ آپ کی زندگی میں شام روانہ نہ ہو سکا۔ نماز پڑھانے کا حکم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت نے شدت اختیار کر لی تو آپ نے حکم دیا کہ ابوبکرؓ لوگوں کونماز پڑھائیں۔ اس ذیل میں حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت قابل اندراج ہے کہ آپ فرماتی ہیں: ’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیارہ بیمار ہوئے تو بلال نماز کے لیے عرض کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا ابوبکرؓ سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے کہا ابوبکرؓ بہت رقیق القلب انسان ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ضبط نہ کر سکیں گے اور اس طرح لوگوں کی نماز میں خلل پڑے گا ۔ اگر آپ عمرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں تو بہتر ہو۔ آپ نے یہ سن کر پھر فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ اس پر میں نے حفصہ سے کہا کہ ابوبکرؓ رقیق القلب ہیں وہ نما ز میں رونا شروع کر دیں گے اور لوگوں کی نماز میں خلل پڑے گا ۔ تم رسول اللہ سے کہو کہ وہ ابوبکرؓ کی جگہ عمر ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ چنانچہ حفصہؓ نے جا کر یہی بات آپ سے کہہ دی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا یقینا یقینا تم وہی عورتیں ہو جنہوںنے یوسفؑ کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائیں اس پر حفصہؓ نے مجھ سے کہا ت نے مجھے ناحق شرمندہ کرایا‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ارشاد ابوبکرؓ نے نماز پڑھائی۔ ایک دن ابوبکرؓ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلالؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نہ پا کر حضرت عمرؓ سے نما ز پڑھانے کو کہا۔ حضرت عمرؓ بلند آواز تھے ۔ جب آپ نے تکبیر کہی تو اس کی آواز حضرت عائشہؓ کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں تک پہنچی۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں۔ بعض لوگ اس واقعے سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس طرح آپؐ نے اپنے بعد خلافت کا فیصلہ فرما کر ابوبکرؓ کو اپنا خلیفہ نامزد کر دیا تھا کیونکہ لوگوں کو نماز پڑھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا پہلا مظہر ہے۔ ابوبکرؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں بیماری کے دوران میں ہی ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: ’’اللہ نے اپنے بندے کو یہ حق دیا ہے کہ خواہ وہ دنیا کو اختیار کرے خواہ آخرت کو لیکن اس نے آخرت میں اللہ کے قرب کو اختیار کیا‘‘۔ ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنا ذکر فرما رہے ہیں۔ وہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ہچکی بندھ گئی اور انہوںنے کہا: ’’یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ؐ پر ہماری جانیں قربان اورہماری اولاد قربان ہو کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ سکیں گے‘‘؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا مسجد میں لوگوں کے گھروں کے جس قدر دروازے ہیں وہ بند کر دیے جائیں سو اابوبکرؓ کے دروازے کے۔ پھر ابوبکر ؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ’’میں نے اپنے صحابہؓ میں سے ابوبکرؓ سے افضل کسی کو نہیں پایا اوراگر میں بندوں۱؎ میں سے کسی کو اپنا خلل بناتا تو وہ ابوبکرؓ کو بناتا لیکن ابوبکرؓ سے میرا تعلق ہم نشینی‘ بھائی چارے اور ایمان کا ہے یہاں تک کہ اللہ ہمیں اپنے پاس اکٹھا کرے‘‘۔ وفاات کے دن صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علیؓ اور فضل بن عباس کا سہارا لیے ہوئے مسجد میں تشریف لائے۔ ا س وقت ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ جب لوگوں نے آپؐ کو دیکھا تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور وہ نماز ہی میں رستہ بنانے کے لیے ادھر ادھر سمٹؤنے لگے۔ ۱؎ یہ روایت ابن ہشام کی ہے یہی حدیث صحاح میں مختلف الفاظ میں آئی ہو۔ ان میں سے بندوں کا لفظ نہیں بلکہ بعض میں میری امت بعض میں اس امت بعض میں لوگوں اور بعض میں اہل زمین کے الفاظ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارے سے انہیں اپنی جگہ رہنے کا حکم دیا۔ جب ابوبکرؓ نے آہٹ سنی تو سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اس پر وہ اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے لگے تاکہ آ پ کے لیے جگہ خالی کر دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اشارے سے اپنی جگہ ہی کھڑا رہنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ پھر آپ ابوبکرؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے نماز پڑھی۔ نماز کے بعد آپ ؐ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تشریف لے گئے اور کچھ دیر کے بعد آپ کو دوبارہ بخار آ گیا۔ آپؐ نے ایک برتن میں ٹھنڈا پانی منگوایا اور اسے اپنے چہرے پر ملنے لگے۔ اس سے تھوڑی دیر بعد آپ کی مقدس روح ملاء اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی ۔ ٭٭٭ دوسرا باب بیعت خلافت وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مسلمانوں کی سراسیمگی ۱۲ ربیع الاول ۱۱ھ مطابق ۳ جون ۶۳۲ء کو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوار رحمت میں بلا لیا۔ اس دن صبح کے وقت آپ ؐ نے مرض میں کچھ افاقہ محسوس کیا جس پر آپ ؐ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے کچھ باتیں کیں اسامہ بن زید امیر لشکر کی کامیابی کی دعا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ مملکت روم کی جانب روانہ ہو جائیں۔ اس کے بعد آپ ؐ واپس حجرے میں تشریف لے آئے۔ کچھ ہی دیر بعدجب لوگوں کو اچانک معلو م ہوا کہ ا ن کا محبوب آقا ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے تو ان کی حالت مارے غم کے دیوانوںکی سی ہو گئی۔ حضرت عمرؓ تلوار لے کر مسجد میں کھڑے ہو گئے اور کہنا شروع کیا: ’’جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ آپؐ ہرگز فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے رب کے حضور تشریف لے گئے ہیں۔ اسی طرح جیسے موسیٰؑ تشریف لے گئے تھے اور چالیس رات غیر حاضر رہنے کے بعد واپس اپنی قوم میں آ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یقینا واپس آئیں گے اور منافقین کے ہاتھ پائوں کاٹیں گے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کے حجرے میں واپس پہنچانے کے بعد ابوبکرؓ آپؐ کی صحت کے بارے میں مطمئن ہو کر مدینہ کے نواح میں اپنے گھر تشریف لے گئے تھے جو مقام سخ میں تھا۔ جب آپؐ کی وفات کی خبر پھیلی تو اایک شخص نے ابوبکرؓ سے جا کر خبر کی۔ وہ فوراً مدینہ آئے۔ مسجد نبوی میں حضرت عمرؓ تلوار ہاتھ میں لیے لوگوں کو دھمکا رہے تھے مگر انہوںنے اس طرف التفات نہ فرمایا بلکہ سیدھے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں چلے گئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اطہر رکھا ہوا تھا۔ ابوبکرؓ نے رخ مبارک سے کپڑا ہٹایا اوررخسار کوبوسہ دے کر فرمایا کیا ہی بابرکت تھی آپؐ کی زندگی اور کیا ہی پاکیزہ ہے آپ کی موت اس کے بعد حجرے سے باہر نکلے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا: ایھا الناس من کان یعبد حمد آفان محمد اقدامات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت (اے لوگو! جو شخص محمدؐ کو پوجتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمدؐ فوت ہو گئے ہیں لیکن جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ یقینا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہ ہو گی)۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی: وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا و سیجزی اللہ الشاکرین ’’(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ اگر محمد ؐ وفا ت پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل (کفر کی جانب) پھر جائو گے؟ او ر جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو ذرا سا بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر گزار بندوں کو نیک بدلہ دے گا)‘‘۔ جب حضرت عمرؓ کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اس یقین کاان پر اتنا شدید اثر ہوا کہ ان کی ٹانگیں ان کا بوجھ نہ سہار سکیں اور وہ بے سدھ ہو کر زمین پر گر پڑے۔ آئیے ذرا غور کریں اور اپنے نفوس میں اس واقعے کا بنظر غائر جائزہ لیں کہ جس سے ابوبکرؓ کی شخصیت کا ایک اور عظیم الشان پہلو واضح ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص ایسا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے صدمے کے اثر سے اس حد تک پہنچ سکتا تھا جس حد تک حضرت عمرؓ پہنہچے تو وہ صرف ابوبکرؓ ہو سکتے تھے کیونکہ وہ آپ کے صفی اور ہم نشین تھے۔ انہوںنے اپنی ساری عمر آپ ؐ کی خدمت میں اور آپ ؐ کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقت کر دی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ے اپنے ایک بندے کو حق دیا ہے کہ خواہ وہ دنیا کی زندگی اختیار کر لے یا آخرت کی زندگی اور اس نے آخرت کی زندگی اختیار کر لیل تو ابوبکرؓ کے روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور آپؐ نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر ہماری جانیں اور ہماری اولاد قربان ہو کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ سکیں گے؟ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کاسخت صدمہ آپ کو حضرت عمرؓ کی طرح بے ہوش نہ کر سکا اورجب انہیں یقین ہو گیا کہ آپؐ ملا ء اعلیٰ کو تشریف لے گئے ہیں تو انہوںنے فوراً مجمع عام میں آ کر اس کا اعلان کا دیا۔ ابوبکرؓ کا ضبط نفس جو تقریر انہوں نے اس وقت کی اور جو آیت اس موقع پر پڑھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اپنے نفس پر کتنا قابو حاصل تھا۔ اور ان میں مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی کتنی زبردست قوت موجو د تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات جیسے عظیم الشان صدمے کی بھی خبر سن کر انہوںنے ہوش وحواس بجا رکھے اور ان پر کسی قسم کی سراسیمگی طاری نہ ہوئی۔ ہماری حیرت و تعجب کی انتہا نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اوصاف ایک دوسرے شخص سے ظاہر ہوئے جو انتہائی رقیق القلب تھا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتاتھا۔ یہ گھڑی مسلمانو ں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ ابوبکرؓ نے نہ صرف ایسے سخت وقت میں اپنے اوسان بجا رکھے بلکہ بعد میں بھی جب کبھی مسلمانوں پرکوئی برا وقت پڑا تو اسی قوت ارادی اوراولوالعزمی سے کام لے کر تمام خطرات کو دور کر دیا۔ یہی قوت ارادی تھی کہ جسے بروئے کار لا کر ابوبکرؓ نے مسلمانوں اور اسلام کو ایک ایسے فتنے سے بچا لیا جو اگر خدانخواستہ شدت اختیار کرلیتا تو نہ معلوم اسلام کا کیا حشر ہوتا۔ مسئلہ خلافت حضرت عمرؓ اور وہ لوگ جو مسجد میں ان کے گرد جمع تھے ۔ انتہائی رنج و الم کے باعث سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا کیا انتظام ہونا چاہیے لیکن جن لوگوں کو آپ کی وفات کا یقین ہو گیاتھا ان کی نظر سب سے پہلے اسی مسئلے پرپڑی ارو حزن والم انہیں اہم معاملے پر غور کرنے سے روک نہ سکا۔ ہجرت کے بعد مدینہ کا سارا انتظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ آپؐ کی حکومت صرف مدینہ تک ہی محدود نہ رہی بلکہ آہستہ آہستہ سار ے عرب پر محیط ہو گئی۔ عرب کے تقریباً تمام باشندے مسلمان ہو گئے اورجو لوگ مسلمان نہ ہوئے انہوںنے جزیہ دینا قبول کر لیا۔ اب مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ اس سلطنت کا انتظام کون سنبھالے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا فخر کسے نصیب ہو گاا؟ انصار اور مہاجرین میں اختلاف انصار کا خیا ل تھا کہ انہوںنے مہاجرین کو پناہ دی اور آڑے وقت میںجب ان کی اپنی قوم نے انہیں نکال دیاتھا تو ان کی مدد کی۔ اس لیے خلافت کے حق دار وہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی انصار کے بعض لوگوں کی زبانو ں سے اس قسم کے فقرات نکل گئے تھے کہ جن سے معلوم ہوتا اہے کہ وہ اپنے آپ کو مہاجرین پر فائق سمجھتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب حنین اورطائف کے معرکے پیش آئے اور کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے ان لوگوں کی تالیف قلوب کے لیے جو نئے نئے اسلام لائے تھے اور ان جنگوں میں شریک ہوئے تھے مال غنیمت انہیں میں تقسیم کر دیا۔ یہ دیکھ کر انصار کے بعض لوگوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکہ والے لے گئے ہیں۔ جب رسول اللہ کو یہ اطلاع ملی تو آپؐ نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو حکم دیا کہ وہ تمام انصار کو جمع کریں جب تمام لوگ جمع ہو گئے تو آپؐ نے فرمایا: ’’اے انصار! تم لوگوں کی طرف سے مجھے ایک بات پہنچی ہے جس سے معلو ہوتاہے کہ غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں تم لوگوں کو شکایت ہے لیکن اس بات سے قطع نظر مجھے اس کا جواب دو کہ یا یہ واقعہ نہیں کہ تم گمراہ تھے میرے ذریعے سے اللہ نے تمہیں ہدایت دی۔ تم غریب تھے میرے ذریعے سے اللہ نے تمہیں امیر بنایا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے میرے ذریعے سے تمہارے درمیان الفت اور محبت پیدا کی۔ انصار نے یہ سن کر شرمندگی سے سر جھکا لیا اور کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے شک اور اس کے رسولؐ نے ہم پر بڑے بڑے احسانات کیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: اے انصار ! تم جواب کیوںنہیں دیتے؟ لیکن وہ اسی طرح سر جھکائے بیٹحے رہے اور اس کے سو ا کچھ نہ کہا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ یقینا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم پر بڑے بڑے احسانات ہیں‘‘۔ اس پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف سے جواب دیا: ’’اللہ کی قسم! اگر تم چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ تمہارا کہنا بالکل سچ ہوتا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ؐ کی قوم نے آپؐ کی تکذیب کی آپ ہمارے پاس آئے ہم نے آپ کی تصدیق کی اورآپؐ پر ایمان لائے ۔ آپؐ کی قوم نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ہم نے آپؐ کی مدد کی۔ آپؐ کو مکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ ہم نے آپ ؐ کو پناہ دی۔ آپؐ غریبی اور تنگ دستی کی حالت میں ہمارے پاس آئے ہم نے آپؐ کی ضرورت کا سارا سامان مہیا کیا ۔ آپؐ دل شکستہ تھے ہم نے آپؐ کی دل جوئی کی‘‘۔ یہ الفاظ ادا کرتے وقت آپؐ پر ایک خاص قسم کی کیفیت اور تاثر طاری تھا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’دنیا کی چند حقیر چیزوں کی خاطر تم نے یہ بات کہی ہے میں نے وہ مال قریش کو محض تالیف قلوب کے لیے دیا تھا تاکہ وہ اسلام پر پختہ ہو جائیں۔ تم پہلے ہی سے اسلا م پر پختہ ہو۔ تمہیں تالیف قلوب کے لیے دینے کی ضرورت نہیں۔ اے انصار! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ دوسرے لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اورتم اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے جائو۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے کہ ہجرت نہ ہوتی تو میں انصا ر کاایک فرد ہوتا۔ اگر لوگ ایک راستے پر چلیں اورانصار دوسرے راستے پر تو کیا میں انصار کے راستے پر چلوں گا۔ اے اللہ انصار پر رحم فرما انصار کے بیٹوں پر رحم فرما انصار کے بیٹوں کی اولاد پر رحم فرما‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی ان پر درد باتوں نے انصارپربے حد اثر کیا۔ وہ اتناروئے کہ ان کی داڑھیاں آنسوئوں سے تر ہو گئیں اورسب سے یک زبان ہو کر کہا: ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم اور بخشش پر دل و جان سے راضی ہیں‘‘۔ انصار کے اندیشوں کا اظہار حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے وقت ہی نہ ہو ا تھا بلکہ اس سے پہلے فتح مکہ کے وقت بھی ہو چکا تھا جب انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوہ صفا پر اہل مکہ سے خطاب کرتے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوںکو توڑتے اور برسوں پرانے جانی دشمنوں کواسلام کی آغوش میں آتے دیکھاتھا۔ اس موقع پر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن کوچھو ڑ کر مدینہ واپس تشریف نہیں لے جائیں گے بعض لوگوںنے اس کا اظہار کھلے لفظوں میں بھی کر دیا اور کہا: ’’اب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا ہے اورآپ کا وطن آپ کے قبضے میں آچکا ہے آپ مدینہ کیوں واپس جانے لگے؟‘‘ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپؐ نے فرمایا: ’’میرا جینا اور مرنا سب تمہارے ساتھ ہے میں تم سے علیحدہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ ان امور کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر وفات سنتے ہی انصار کے دل میں یہ خیال پیداہونا قدرتی امر تھا کہ آیا مدینہ کا انتظام اور امور سلطنت کی دیکھ بھال ان مہاجرین کے ہاتھ میں رہے گی اورجو مکہ سے بہ حالت تباہ مدینہ پہنچے اہل مدینہ نے انہیں پناہ دی اور انہیں عزت و قوت بخشی پایہ کام اہل مدینہ کے سپرد کیا جائے گا جن کے متعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما چکے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی جار ہی تھی آپ ان کے پاس آئے تو انہوںنے آپ کی تصدیق کی۔ آپ کو آپ کی قوم نے چھوڑ دیا تھا انہوںنے آپ کی مدد کی آپ ؐ کو مکہ سے نکال دیا گیا تھا انہوںنے آپ کو پناہ دی ۔ آپ دل شکستہ تھے انہوںنے آپ کی دل جوئی کی۔ سقیفہ بنی ساعدہ اسی مسئلے کو طے کرنے کے لیے بعض انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور اپنے ایک سردار سعد بن عبادہ کو جو اس وقت بیمار تھے ا ن کے گھر سے وہاں لے آئے اور بحث شروع کی۔ پہلے تو سعد ان کی باتیں سنتے رہے پھر انہوںنے اپنے بیٹے سے کہا: ’’میں اپنی بیماری کے سبب تمام لوگوں تک اپنی آوازنہیں پہنچا سکتا تم میری باتیں سن کرانہیں بتا دو‘‘۔ چنانچہ انہوںنے تقریر شروع کی اور ان کا لڑکا ان کی باتیں لوگوں تک پہنچاتا گیا انہوںنے حمد و ثناء کے بعد کہا: سعد بن عبادہ کی تقریر ’’اے انصار! تمہیں دین برحق کی امداد کرنے کا جو شرف اور اسلام کی اعانت کرنے کی جو فضیلت حاصل ہے وہ عرب کے کسی اور قبیلے کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کے درمیان تیرہ سال تک مقیم رہے اور اسے اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کرتے رہے اور بتو ں کی پرستش چھوڑ دینے کی تلقین کرتے رہے۔ لیکن سوائے چند لوگوں کے کسی نے آپؐ کی باتیں قبول نہ کیں ۔ مگر وہ لوگ جو آپؐ پر ایمان لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدافعت کرنے دین کو عزت بخشنے اور خود اپنے آپ کو کفار کے مظالم سے بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے ۔ اس وقت اللہ نے تمہیں اپنے انعامات کا وارث بنانے فضیلت عطا کرنے اور بزرگی سے سرفراز کرنے کا ارادہ فرمایا۔ ا س نے تمہیں ایمان کی نعمت سے بہرہ ور کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کی حفاظت کرنے دین کی عظمت قائم کرنے اپنی جانیں اسلام پر قربان کرنے اور دشمنوں سے جہاد کرنے کی توفیق عطافرمائی۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں پر سب سے زیادہ تخت تھے تمہاری تلواروں نے اسلام کی فتح کے دن کو قریب سے قریب کر دیا اورعربوں کو بہ امر مجبوری دین خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا چکے ہیں۔ وہ عمر بھر تم سے راضی رہے تم ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ اب تم خلافت اپنے ہاتھ میں لے لو کیونکہ تمہارے سوا خلافت کا مستحق کوئی نہیں‘‘۔ حاضرین نے سعد کی باتوں کو غور سے سنا اور بالاتفاق جواب دیا: ’’آپ نے جو کچھ کہا بالکل صحیح کہا۔ ہم آپ کی رائے سے اختلاف نہ کریں گے۔ خلافت کا کام بھی ہم آ پ ہی کے سپرد کرتے ہیں کیونکہ آپ ہی اس کے مستحق صالح اور عبادت گزار بندے ہیں‘‘۔ انصار کی پہلی کمزوری انصار نے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی لیکن اس پر قائم نہ رہ سکے ۔ قبل اس کے کہ ساری قوم سعد بن عبادہ کی بیعت کرنے کے لیے ٹوٹ پڑتی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ان کی بیعت کی دعوت دیتی ایک شخص نے اٹھ کر کہا: ’’اگر مہاجرین نے ہماری بیعت سے انکار کیا اور کہا کہ ہم مہاجرین ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولین صحابہب میں سے ہیں۔ آپ کے اہل خاندان ہیں اس لیے ہمیں خلافت کے مستحق ہیں اور انصار کو ہمارے اس حق کا انکار نہ کرنا چاہیے تو کیا ہو گا؟‘‘ یہ بات سن کر مجمع پر سناٹا چھا گیا اور کسی سے اس سوا ل کا جواب نہ بن پڑا۔ آخر بہت کچھ غو ر و فکر کرنے کے بعد ایک شخص نے اٹھ کر کہا: ’’اس وقت ہم ان سے کہیں گے کہ اگر ایسا ہی ہے تو ایک امیر تم میں سے ہو جائے اور ایک امیر ہم میں سے۔ ہم اس کے سوا اور کسی بات پر راضی نہ ہوں گے‘‘۔ سعد بن عبادہ خوب جانتے تھے کہ یہ تجویز لا یعنی ہے اور اس سے انصار کو کسی قسم کاا فائدہ نہ پہنچ سکے گا چنانچہ انہوںنے کہا: ’’تم نے تو ابتدا میں اپنی کمزوری کا مظاہرہ شروع کر دیا‘‘۔ ان کا اشارہ دراصل بنو اوس کی طرف تھا کیونکہ انہیں کے ایک فرد نے یہ بات کہی تھی ۔ خزرج ایسی بات نہ کہہ سکتے تھے کیونکہ ان کے سردار سعد بن عبادہ تھے اوران کی عین خواہش تھی کہ خلافت کی عنان انہیں کے ایک فرد کے سپرد کی جائے۔ اوس اور خزرج کی موروثی عداوت اسلام سے پہلے اوس اور خزرج ایک دوسرے کے حریف تھے۔ ان دونوں قبیلوں میں اس وقت سے دشمنی چلی آتی تھی جب سے ان کے آبائو اجداد یمن سے منتقل ہو کر یثرب میں آباد ہو ئے تھے۔ اس وقت یثرب اور اس کے گرد و نواح پر یہودیوں کا تسلط تھا۔ اوس و خزرج نے بھی مدت درراز تک یہودیوں کے اثر و اقتدار کے تحت غلامانہ حالت میں زندگی بسر کرتے رہے۔ بالآخر ان کی عزت و حمیت نے جوش مارا اور انہوںنے یہود کے خلاف بغاوت کر دی اوریہود کو ان کے مرتبے سے محروم کر دیا جس پر وہ مدت دراز سے فائز تھے۔ یہود کے پنجے سے تو انہوںنے رہائی حاصل کر لی لیکن خود ان کے درمیان اختلاف کی بنیاد پڑ گئی جس نے بڑھتے بڑھتے دشمنی کی شکل اختیار کر لی۔ جنگ بعاث بھی اسی دشمنی کا شاخسانہ تھی۔ جس میں طرفین کے سینکڑوں آدیموں کی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اس جنگ کے بعد یہودیوں نے یثرب میں پھر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کردیا۔ اوس و خزرج یہود کے پہلے سلوک کو نہ بھولے تھے۔ یہ دیکھ کر انہوںنے آپس میں صلح کرلی اور طے پایا کہ خزرج کے ایک شخص عبداللہ بن ابی بن سلول کو اپنا سردار بنایا جائے۔ وہ لوگ انہیں تیاریوں میں مشغول تھے کہ ان کی ایک جماعت حج کے موقع پر مکہ آئی وہاں ان کی ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوئی۔ آپ نے انہیں توحید کی تبلیغ کی ۔ اس پر انہوںنے ایک دوسرے سے کہا: ’’اللہ کی قسم!یہ وہی نبی ہے جس کی خبر ہمیں یہود دیا کرتے تھے۔ ہمیں اسے قبول کر لینا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہود اسے قبول کر کے ہم سے بڑھ جائیں‘‘۔ چنانچہ انہوںنے آپ کی دعوت قبو ل کر لی اور اسلام لے آئے۔ پھر آپ نے کہا: ’’ہم اپنے پیچھے ایک ایسی قوم چھوڑ آئے ہیں کہ عداوت اور بغض و عناد میں کوئی قوم ا س کامقابلہ نہیں کر سکتی ۔ امید ہے کہ اللہ آپ کے ذریعے سے انہیں متحد کر دے گا۔ اگر وہ آپ کے ذریعے سے متحد ہو گئے تو یثرب کا کوئی شخص عزت و بزرگی میں آپ سے بڑھ کرنہ ہو گا‘‘۔ یثرب واپس آ کر انہوںنے اپنی قوم سے سارا حال بیان کیا اوریہی واقعہ بیعت عقبۃ الکبریٰ کا باعث یثرب میں اسلام پھیلنے کا موجب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اہل یثرب کا اتحاد اسلام نے یثرب کے تمام مومنوں کواکٹھا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت نے تمام مسلمانوں کو اس طرح بھائی بھائی بنا دیا کہ دنیوی تعلقات میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ مسلمانوں کے اس عدیم النظیر اتحاد سے یہود کی قوت کو زبردست ضعف پہنچا۔ پھر بھی اوس و خزرج کے دلوں پر پرانی عدوت کے دھندلے دھندلے کچھ نقوش باقی رہ گئے تھے۔ یہود اور منافقین کے جوش دلانے سے یہ عداوت کبھی ظاہر بھی ہو جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب سعد بن عبادہ نے دیکھا کہ انصار کے بعض لوگ اس شخص کی باتوں سے متاثر ہو رہے ہیں تو جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایک امیر قریش میں سے ہونا چاہیے اور ایک امیر انصار میں سے تو انہوںنے کہا: ’’یہ پہلی کمزوری ہے جو ابتدا میں تم سے ظاہر ہوئی ہے کیونکہ یہ بات کہنے والا قبیلہ اوس کا ایک فرد تھا۔‘‘ عمرؓ اور ابوعبیدہؓ میں گفتگو جب انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے متعلق مشغول بحث تھے تو حضرت عمر ؓ بن خطاب او ر ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ مسجد نبوی می رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے عظیم سانحہ کا ذکر کر رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ و حضرت علیؓ اور دوسرے اہل بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہییز و تکفین کے انتظامات میںمصروف تھے۔ جب حضرت عمرؓ کو آپ کی وفاتکا کامل یقین ہوگیا تو انہوںنے بھی خلافت کے متعلق غور کرنا شروع کردیا۔ ان کے ہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انصار پہلے ہی اس معاملے پر بحث و تمحیص میںمشغو ل ہیں اور اپنے میں سے کسی شخص کو امیر بنانا چاہتے ہیں۔ ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابوعبیدہؓ کے پاس حضرت عمرؓ آئے اور کہا : ’’اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر سکوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے آپ کو امین الامت کا لقب مل چکا ہے‘‘۔ ابوعبیدہؓ نے یہ سن کر کہا: ’’عمرؓ تمہارے اسلا م لانے کے بعد پہلی مرتبہ میں نے تمہارے منہ سے ایسی جہالت کی بات سنی ہے۔ کیا تم میری بیعت کرو گے جب ہم میں وہ شخص موجود ہے جسے بارگاہ خداوندی سے ثانی اثنین اور صاحب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صدیق کا لقب مل چکا ہے؟‘‘ یہ دونوں آپس میں انہیں باتوں میں مشغول تھے کہ انہیں سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے اجتماع کی خبر ملی۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو جو اس وقت حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تھ کہلا بھیجا کہ ذرا باہر تشریف لائیے ابوبکرؓنے جواباً کہا میں مشغول ہوں اس وقت باہر نہیں آ سکتا‘‘۔ حضرت عمرؓنے دوبارہ پیغام بھیجا کہ فوری طورپر ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا ہے جس میں آپ کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ عمرؓ اور ابوبکرؓ سقیفہ بنی ساعدہ میں اس پر ابوبکر ؓ باہر تشریف لائے اورعمرؓ سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے زیادہ اس وقت اورکون سا کام ضروری ہے۔ جس کے لیے تم نے مجھے بلایاہے؟ عمرؓ نے کہا ’’آپ کو پتہ بھی ہے انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہیں اور ارادہ کر رہے ہیں کہ سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنا دیں؟ ان میں سے ایک شخص نے کہا ہے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر قریش میں سے‘‘۔ یہ سن کر ابوبکرؓ فوراً عمرؓ کے ساتھ سقیفہ کی جانب چل پڑے۔ ابوعبیدہ بن جراحؓ بھی ساتھ تھے۔ یہ تینوں ابھی راستے ہی میں تھے کہ انہیں عاصم بن عدی اور عویم بن ساعدہ ملے۔ یہ دونوں سقیفہ سے آ رہے تھے اور انصار نے اہیں ہی کہہ کر اپنی مجلس سے رخصت کر دیا تھا کہ تم یہاں سے چلے جائو کیونکہ جو تم چاہتے ہو وہ نہ ہو گاا۔ جب انہوںنے ابوبکرؓ عمرؓ اور ابوعبیدؓہ کو آتے دیکھا تو کہنے گلے کہ آپ لوگ اپنا کام کریں اور انصار کے پاس مت جائیں۔ عمرؓ نے جواب دیا یہ نہیں ہو سکتا ہم ضرور جائیں گے۔ چنانچہ یہ تینوں حضرات سقیفہ میں پہنچے انصار کی گفتگو اور بحث ابھی جاری تھی۔ انہوںنے نہ تو سعد کی بیعت کی تھی اور نہ کسی متفقہ فیصلے پر پہنچے تھے۔ انصار نے جب ان تینوں کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے اور بالکل خاموش ہو گئے۔ عمر ؓنے پوچھا ’’یہ شخص کون ہے جو درمیان میںکمبل اوڑھے بیٹھاہے‘‘ لوگوں نے کہا یہ سعد بن عبادہ ہیںاور اس وقت بیمار ہیں۔ ابوبکرؓ اور ان کے دونوں ساتھی بھی انصار کے درمیان بیٹھ گئے۔ اب ہر شخص یہ سوچ رہا تھا کہ خدا جانے یہ اجتماع کس حد پر جا کر ختم ہو گا‘‘۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کی اہمیت واقعہ یہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی زندگی میں اس اجتماع کو زبردست اہمیت حاصل تھی۔ اگر اس موقع پر ابوبکر ؓ اپنی اصابت رائے قوت ارادی اور ذہانت و فرزاندگی کو کام میں نہ لاتے تو خود اسلا کے مرکز میں وہ فتنہ پھیل جاتا جو بعد میں عرب کے دوسرے شہروں میں بھی پھیلا اور اس عالم میں پھیلتا کہ اسلام کے بانی کی نعش ابھی گھر ہی میں پڑی ہوتی۔ ذرا غور کیجیے کہ اگرانصار سعد بن عبادہ کی باتوں میںآکر اصرار کرتے کہ خلافت ان کا حق ہے اور انہیں کو ملنا چاہیے اور دوسری طرف قریش اپنے سوا کسی کو خلافت پر راضی نہ ہوتے تو ا س فتنے کا انجام کیا ہوتا؟ خصوصاً اس حالت میں کہ اسامہ کا لشکر ہتھیاروں سے یس دشمن سے جنگ کرنے کے لیے کوچ کرنے پر بالکل تیار تھا۔ کیا اس صورت میں وہی ہتھیار ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوتے؟ اگر سقیفہ جانے والے مہاجرن ابوبکرؓ عمرؓ اور ابوعبیدہؓ کے سوا دوسرے لوگ ہوتے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشیر کار ہونے کا شرف حاصل ہوتا اورنہ امین الامت ہونے کا اعزاز تو انصا ر و مہاجرین کے درمیان اختلاف کی خلیج بے حد وسیع ہوجاتی اور اس کا ہولناک انجام ہوتا اس کا اندازہ بھی آج کا مورخ نہیں کر سکتا۔ واقعات کا صحیح اندازہ کرنے والوں سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس اہم اجتماع کو اسلام کی تاریخ میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ جتنی بیعت عقبۃ الکبریٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت مدینہ کو۔ یہ بات بھی ان سے پوشیدہ نہیں کہ ابوبکرؓ نے اس موقع پر جو کارنامہ انجام دیا اس نے صریحاً ثابت کر دیا کہ وہ دینی لحاظ سے نہایت بلند مرتبہ رکھتے ہیں اور اسکے علاوہ بحر سیاست کے شناورانتہائی دور رس اور نتاائج و عواقب پر گہری نظر رکھنے واے بھی تھے اور ہرمعاملے میں ان کی تمام تر کوششیں یہہ ہوتی تھیں کہ اس سے بہترنتائج برآمد ہوں اورہر ایسی بات سے پہلو تہی کی جائے کہ جس سے شرو فساد پھوٹنے کاامکان ہو۔ حاضرین سقیفہ سے ابوبکرؓ کا خطاب موجودہ زمانے میں اسلوب بیان کے بعض پہلوئوں کو ماہرین سیاست نو ایجاد سمجھتے ہیں۔ منجملہ دیگر اسالیب بیان کے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ د مقابل سے اس طرح گفتگو کی جائے کہ اس کے جذبات کو ٹھیس بھی نہ لگے اوراسے قائل بھی کر لیا جائے۔ یہ طرز بالکل نو ایجاد سمجھا جاتاہے لیکن ابوبکرؓ نے انصار سے جس طرز پر بات کی او ر جس خوش اسلوبی سے معاملے کو سلجھایا آج کل کے ماہرین سیاست کو اس کی ہوا تک نہیں لگی۔ جب یہ تینوں مہاجرین اطمینان سے بیٹھ گئے تو انصار کی پریشانی کچھ کم ہوئی اور انہوں نے مہر سکوت توڑ کر اسی قسم کی باتیں شروع کیں کہ خلافت صرف ان کا حق ہے اور یہ حق انہیں کو ملنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے بعض باتیں سوچ رکھی تھیں جنہیںاس مجلس میں بیان کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن جب میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو ابوبکرؓ نے کہا : ’’ذرا ٹھہرو مجھے بات کر لینے دو۔ اس کے بعد تم بھی اپنی باتیں بیان کر دینا‘‘۔ اصل میں ابوبکرؓکو ڈر تھا کہ کہیں عمرؓ تیزی میںنہ آ جائیں کیونکہ یہ موقع تیزی اور سختی کا نہ تھا بلکہ ہنرمی اور بردباری برتنے کا تھا۔ عمرؓ اور ابوبکرؓ کی بزرگی اورا ن کی سبقت فی الاسلام کا لحاظ کرتے ہوئے بیٹھ گئے اور ابوبکرؓ تقریرکرنے کے لیے اٹھ کھرے ہوئے۔ انہوںنے حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آ پ کے لائے ہوئے پیغام کا ذکر کیا پھر فرمایا: ’’…عربوں کے لیے اپنے آبائو اجداد کا دین ترک کردینا نہایت شاق تھااور وہ ایسا کرنے کے لیے بالکل آمادہ نہ تھے اس وقت اللہ نے آپ کی قوم میں مہاجرین اولینکو آپ کی تصدیق کرنے آپ پر ایمان لانے آپ کی دلجوئی کرنے اوراپنی قوم کے مظالم کو صبر سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ہر شخص ان کامخالف تھا ان پر ظلم و ستم توڑے جا رہے تھے۔ انہیںبدترین ایذائیں دی جاتی تھیں لیکن وہ قلت تعداد اور کثرت اعداء کے باوجو د مطلق خوفزدہ نہ ہوئے وہ اس سرزمین میں اولین اشخاص ہیں جنہیں اللہ او ر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور اس طرح اللہ کے حقیقی بندے بننے کی توفیق ملی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محب اور رشتہ دار ہیں اس لیے خلافت کے وہی مستحق ہیں اور اس بارے میں صرف ظالم ہی ان سے جھگڑا کر سکتے ہیں۔ اورتم اے گروہ انصار! وہ لوگ ہو جن کی فضیلت دینی اور اسلا م میں سبقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ نے تمہیںاپنے دین کا اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامددگار بنایا ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت تمہاری طرف کی اور آپ کی اکثر ازواج اور بیشتر صحابہ تمہیں میں سے تھے۔ مہاجرین اولین کے بعد تمہارا ہی رتبہ ہے۔ اس لیے ہم امیر ہوں گے اور تم وزیر۔ نہ تمہارے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ کیا جائے گا اور نہ تمہیں شریک کیے بغیر کوئی کام انجام دیا جائے گا‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا ایک فقرہ پہلے بھی ایک انصاری ے منہ سے نکل چلا ھتا یعنی ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک ہاجرین میں سے۔ مگر یہ بات ناقابل عمل تھی لیکن ابوبکرؓ کی تجویز نہ صرف قابل عمل بلکہ اعلیٰ سیاست کا کرشمہ بھی تھی جس سے ان کے مقاصد بھی پورا ہو جاتا تھا اور انصار کا تردد بھی دور ہوجاتاتھا۔ اوس نے جو کہ اپنے آپ پر خزرج کاغلبہ گوارا نہ کر سکتے تھے۔ ابوبکرؓ کی اس تجویز کو اطمینان کا سانس لیا۔ خزرج کے بھی بہت سے افراد نے اسپر دلی اتفا ق کیا۔ کیونکہ ابوبکرؓ نے سعد بن عبادہ کی طرح صرف مہاجرین کو سلطنت کا انتظام سنبھالنے کاحق دار نہ ٹھہرایا تھا بلکہ انصاور کو وزراء کی حیثیت سے مہاجرین کا شریک کار بنایا تھا کیونکہ دونوں فریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لائے تھے آپ کی مدد کرنے اور جاں نثاری کا ثبوت دینے میں مساوی تھے۔ یہ ار قابل ذکر ہے کہ انہوںنے امارت اور وزارت کا حق دار علی الترتیب مہاجرین اور انصار کو ٹھہرایا کسی اور قبیلے کو جو عرب میں آباد تھا شریک کار نہ بنایا۔ وجہ یہ تھی کہ دوسرے قبائل کو دین میں وہ سبقت حاصل نہ تھی جو مہاجرین و انصار کو حاصل تھی نہ انہوںنے دین کے راستے میں وہ کارہائے نمایاں ہی انجام دیے تھے جومہاجرین و انصار نے انجام دیے۔ بعض انصار کی مخالفت ابوبکرؓکے دلائل پر روشنی یں تمام لوگوں کو مطمیئن ہو جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کی تمام باتیں مبنی برحق تھیں اور قرین انصاف تھیں لیکن بعض لوگوں نے مہاجرین کی امارت سرے سے ناپسند تھی ان کے دلائل سے کوئی اثر قبول نہ کیا کیونکہ ا ن لوگوں کو خدشہ تھا کہ مہاجرین ان کا حق غصب کر لیں گے اور سلطنت پر قابض ہوکر من مانی کارروائیاں کریںگے چنانچہ ان میںسے ایک شخص کھڑا ہو کر کہنے لگا: ’’ہم اللہ کے انصار اور اسلام کا لشکر ہیں اورتم اے مہاجرین ! ہم سے قلیل التعداد ہو لیکن اب تم ہمارا حق غصب کرنا اور ہمیں سلطنت سے محروم کرنا چاہتے ہو ایسا کبھی نہیں ہو سکے گا‘‘۔ یہ سن کر بھی ابوبکر ؓ کے ماتھے پر بل نہ پڑے۔ اور وہ بدستور اپنے دھیمے پن سے مجمع کو خطاب کرتے رہے۔ انہوںنے فرمایا: ’’ اے لوگو! ہم مہاجرین اولین اشخاص ہیں جو اسلام لائے۔ حسب و نسب اور عز و شرف کے لحاظ سے بھی ہم تمام عربوں سے بڑھ چڑھ کر ہیں ۔ ان تمام باتوں کے علاوہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ ہم تم سے پہلے ایمان لائے اور قرآن میں ہمارا ذکر تمہارے ذکر سے مقدم ہے۔ اللہ فرماتا ہے : والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان ہم مہاجرین ہیں اور تم انصار۔ تم دین میں ہمارے بھائی غنیمت میں ہمارے شریک اوردشمنوں کے مقابلے میں ہمارے مدد گار ہو۔ باقی تم نے اپنی فضیلت کا جوذکر کیا ہے اس سے ہمیں انکارنہیں۔ تم واقعی اس کے اہل ہو اور روئے زمین پر سب سے زیادہ تعریف کے مستحق ۔ لیکن عرب اس بات کو کبھی نہ ما نیں گے کہ سلطنت قریش کے سوا کسی اور قبیلے کے ہاتھ میں رہے۔ اس لیے امارت تم ہمارے سپردکر دو اور وزارت خود سنبھال لو‘‘۔ حباب بن منذر انصاری لیکن اب پر بھی انصار کے ایک طبقے کا جوش و خروش ٹھنڈا نہ ہو سکا۔ چنانچہ حباب بن منذر بن جموع اٹھے اور کہنے لگے: ’’اے انصار امارت اپنے ہاتھوں ہی میں رکھو کیونکہ لوگ تمہارے مطیع ہیں کسی شخص میں یہ جرات نہ ہو گی کہ وہ تمہارے خلاف آواز اٹھا سکے یا تمہاری رائے کے خلا ف کوئی کام کر سکے۔ تم اہل عزت و ثروت ہو۔ تم تعداد اور تجربے کی بنا پر دوسروں سے بڑھ چڑھکر ہو۔ تم بہادر اور دلیر ہو۔ لوگوں کی نگاہیں تمہاری طرف لگی ہوئی ہیں۔ ایسی حالت میں تم ایک دوسرے کی مخالفت کر کے اپنا معاملہ خراب نہ کرو۔ یہ لوگ تمہاری بات ماننے پر مجبور ہیں زیادہ سے زیادہ رعایت جو ہم انہیں دے سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم امیر میں سے ہو اور ایک ان میں سے‘‘۔ حضرت عمرؓ کی تقریر حباب نے ابھی اپنی تقریر ختم بھی نہ کی تھی کہ حضرت عمرؓ کھڑیہ ہوئے۔ وہ ا س سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے منع کرنے سے مجبوراً خاموش ہو رہے تھے لیکن ان سے ضبط نہہو سکا اور انہوںنے کہا: ’’ایک میان میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اللہ کی قسم! عرب تمہیں امیر بنانے پر ہرگز رضامند نہیں ہوں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں سے نہ تھے۔ ہاں اگر امارت ان لوگوں کے ہاتھ میں آئے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ گر عربوں کے کسی طبقے نے ہماری امارت اور خلافت سے انکار کیا تو اس کے خلاف ہمارے ہاتھ میںدلائل ظاہرہ اور براہین قاطعہ ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور امارت کے بارے میں کون شخص ہم سے جھگڑا کر سکتا ہے جب ہم آپ کے جاں نثار اور اہل عشیرہ ہیں۔ اس معاملے میں ہم سے جھگڑا کرنے والا وہی ہو سکتا ہے جو باطل کا پیروکار گناہوں سے آلودہ ہلاکت کے گڑھے میں گرنے کے لیے تیار ہو‘‘۔ حضرت عمرؓ اور حباب میں جھڑپ حباب نے انصار کو مخاطب کر کے حضرت عمرؓ کی تقریر کا جواب یہ دیا: ’’اے انصار! تم ہمت سے کام لو اور عمرؓ اور اس کے ساتھیوںسے بات نہ سنو۔ اگر تم نے اس وقت کمزوری دکھائی تو یہ سلطنت میں سے تمہارا حصہ غصب کر لیں گے اور اگر یہ تمہاری مخالفت کریں تو انہیں یہاں سے جلاوطن کر دو اور سلطنت پر خود قابض ہوجائو۔ کیونکہ اللہ کی قسم! تہیں اس سے سب سے زیادہ حق دار ہو۔ تمہاری ہی تلواروں کی بدولت اسلام کو شان و شوکت نصیب ہوئی ۔ اس لیے اس کی قدر ومنزلت کا موجب تمہیں ہو۔ تمہیں اسلام کو پناہ دینے والے اور اس کی پشت پناہ ہو اور اگر تم چاہو تو اسے اس کی شان و شوکت سے محروم بھی کر سکتے ہو ‘‘۔ حضرت عمرؓ نے یہ فقرہ سنا تو کہا: ’’اگر تم نے ا س قسم کی کوشش کی تو اللہ تمہیں ہلاک کرڈالے گا‘‘۔ حباب نے جواب دیا: ’’ہمیں نہیں اللہ تمہیں ہلاک کرے گا‘‘۔ حباب کی باتیں (اگر درست تسلیم کر لی جائیں تو) ایک خطرناک دھمکی کا رنگ رکھتی تھیں۔ اگر انصار کی اکثیرت حباب کے ساتھ ہوتی تو وہ سعد بن عبادہ کی بیعت پر رضامند ہو جاتے تو مہاجرین بھی انصار کے مقابلے میں اپنی من مانی کرتے اورایک عظیم الشان اور تباہ کن فتنہ برپا ہو جاتا جو کسی کے روکے نہ رکتا۔ بعض منافقین کی شرارت کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض منافقین نے حضرت عمرؓ اور حباب کی تلخ کلامی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شرارت برپا کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ طبری نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ خود حباب نے باتیں کرتے کرتے تلوار سونت لی ۔ لیکن حضرت عمرؓ نے ہاتھ جھٹک کر تلوار ان کے ہاتھ سے گرا دی اور اسے اٹھا کر سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے۔ اس وقت ابوعبیدہ بن جراحؓ جواب تک خاموش بیٹھے فریقین کی باتیں سن رہے تھے اس معاملے میں دخل دیے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ اٹھے اور اہ مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے انصار! ت ہی تھے جنہوںنے ا س دین کی نصرت اور حمایت کے لیے سب سے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا تھا اوراب تمہیں سب سے پہے اس کی تباہی کے درپے ہو رہے ہو‘‘۔ بشیر بن سعد کی تقریر ابوعبیدہؓ کے اس فقرے کا قبیلہ خزرج کے ایک سردار بشیر بن سعد ابو النعمان بن بشیر پر بے حد اثر ہوا۔ وہ کھڑے ہوئے اور تقریر کی: ’’اللہ کی قسم! اگر ہمیں مشرکین سے جہاد اور دین میں سبقت اختیار کرنے کے معاملے میں مہاجرین پر فضیلت حاصل ہے لیکن ہم نے یہ سب کچھ حض اپنے رب کی رضا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اپنے نفس کی اصلاح کے لیے کیا تھا اس لیے ہمیںزیبا نہیں کہ ہم ان باتوں کی وجہ سے فخر و مباہات کا اظہار کری ں اور اپنی دینی خدمت کے بدلے دنیا کا مال و منال طلب کریں۔ اللہ ہی ہمیں اس کی جزا دے گا اور اس کی جزا ہمارے لیے کافی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریش میں سے تھے اور آپ کی قوم ہی اس کی سب سے زیادہ حق دار ہے۔ اللہ نہ کرے کہ ہم اس بارے میں ان سے جھگڑا کریں۔ اس لیے اے انصار! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین کی مخالفت نہ کرو اور ان سے مت جھگڑو‘‘۔ بشیر بن سعد کی یہ باتیں سن کر ابوبکرؓنے انصار کی طرف نظر دوڑائی تاکہ یہ دیکھیں کہ انہوںنے کہاں تک ان کااثر قبول کیا ہے۔ انہوںنے دیکھا کہ اول آپس میں آہستہ آہستہ کچھ کہہ رہے ہیں۔ ادھر بنی خزرج کے چہروں سے بھی مترشح ہوتا تھا کہ ان کے دلوں پر بشیر کی باتوں کا بہت اثر ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر ابوبکرؓ کو یقین ہو گیا کہ معاملہ سدھر گیا ہے اور یہی لمحات فیصلہ کن ہیں‘ انہیں ضائع نہ کرنا چاہے وہ حضر ت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے ان یں سے ایک کا ہاتھ پکڑ کرکھڑے ہوگئے اور انصارکا اتحاد کی تلقین کی اور تفرقے سے خبردار کیا پھر فرمایا۔ ’’یہ عمرؓ اور ابوعبیدہؓ بیٹھے ہیں ان ی ںسے جس کی بیعت چاہو کر لو‘‘۔ عمر ؓ اور ابوعبیدہؓ کی بیعت ابوبکرؓ اس وقت شور و شغب بہت بڑھ گیا حضرت عمرؓ کی دینی فضیلت سے کسی شخص کا انکار نہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معتمد علیہ اور ام المومنینؓ حضرت حفصہؓ کے واالد تھے۔ لیکن ان کی سختی اور تیز مزاجی سے ہر کوئی ڈرتا تھا۔ اسی لیے ہر شخص ان کی بیعت سے پس و پیش کر رہا تھا۔ جہاں تک ابوعبیدہؓ کا تعلق تھا ان میں عمرؓ کی سی سختی نہ تھی لیکن انہیں دینی لحاظ سے حضرت عمرؓ کا سامقام و مرتبہ حاصل نہ تھا۔ اگر چندے اور یہی حالت رہتی تو اختلاف انتہائی شدت اختیار کر لیتا لیکن حضرت عمرؓ نے اسے بڑھنے نہ دیا اور بلند آوا ز سے کہا: ’’ابوبکرؓ اپنا ہاتھ بڑھائیے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور حضرت عمرؓ نے فوراً آپ کی بیعت کر لی اور کہا: ’’ابوبکر! کیا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم نہ دیا تھا کہ آپ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں اس لیے آپ ہی خلیفہ اللہ ہیں۔ ہم آپ کی بیعت اس لیے کرتے ہیں کہ آپ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب تھے‘‘۔ حضرت ابوعبیدہؓ بھی یہ کہتے ہوئے آپ کی بیعت کر لی: ’’آپ مہاجرین میں سب سے برتر ہیں۔ آپ غار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیر حاضری میں آپ ہی نماز پڑھایا کرتے تھے اس لیے آپ سے زیادہ کون شخص اس بات کا مستحق ہو سکتاہے کہ اسے خلافت کی ہام ذمہ داریاں سپرد کی جائیں‘‘۔ بشیربن سعد اور دوسرے انصار کی بیعت حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ نے بیعت کر لینے کے بعد بشیر بن سعد بھی جلدی سے آگے بڑھے اور بیعت کر لی۔ بشیر بن سعد کی بیعت کرتے دیکھ کر حباب بن منذر سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ کہنے لگے: ’’اے بشیر بن سعد! تم نے اپنی قوم کی ناک کاٹ ڈالی تمہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیاتم امارت کے معاملے میں اپنے چچیرے بھائی (سعد بن عبادہ) کی مخالفت کرو گے؟‘‘ بشیر نے جواب دیا: ’’میں نے اپنی قوم کو ذلیل نہیں کیا۔ لیکن مجھے یہ بات نا پسند تھی کہ میں مہاجرین سے اس حق کے بارے میں جھگڑا کرتا جو اور کسی نے نہیں بلکہ خود اللہ نے انہیں دیا تھا‘‘۔ اسید بن حضیر‘رئیس اوس نے جو بشیر بن سعد کی کارروائی کو بہ نظر غائر دیکھ رہے تھے اپنے قبیلے کی طرف رخ کیا اور کہنے لگے: ’’اللہ کی قسم اگر خررج ایک بار بھی خلافت پر قابض ہو گئے تو اس یک سبب انہیں ہمیشہ تم پر فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ تم انہیں کبھی اس میں حصہ دار بننے نہ دو اور ابوبکرؓ کی بیعت کر لو‘‘۔ چنانچہ اوس نے آپ کی بیعت کر لی۔ ادھر خزرج اپنے سردار بشیر بن سعد کی باتوں سے مطمئن ہو چکے تھے وہ بھی آگے بڑھ کر بیعت کرنے لگے۔ سعدبن عبادہ کا انکار بیعت لوگوں کو بیعت کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ ایک ایک کے اوپر گرتا تھا۔ بیعت کرنے کی عجلت میں انہیں سعد بن عبادہ کا خیال بھی نہ رہا۔ اور انہیں روند کر بیعت کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ یہ دیکھ کر بعض لوگوں نے کہا: ’’ارے دیکھو! کہیں سعد تمہارے پائوں کے نیچے نہ روندے جائیں‘‘۔ عمر نے کہا: ’وہ ہے ہی روندے جانے کے قابل۔ اللہ اسے ذلت نصیب کرے‘‘ ۔ ساتھ ہی سعدسے کچھ سخت کلامی کی۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: عمرؓ کیا کرتے ہو؟ نرمی سے کام لو۔ یہ موقع سختی کا نہیں۔ سعد بن عبادہ کو ان کے ساتھی اٹھا کر ان کے گھر لے گئے جہاں انہوںنے اپنی زندگی کے بقیہ ایام خاموشی اور تنہائی میں گزار دیے۔ ان سے کہا گیا: ’’آپ بھی بیعت کر لیجے کیونکہ تمام مسلمانوں نے اور خود آ پ کی قوم نے بیعت کر لی ہے‘‘۔ لیکن انہوںنے انکار کر دیا اور کہا: ’’اللہ کی قسم! ایسا نہیں ہو سکتا جب تک میرے ترکش میں آخری تیر تم پر وار کرنے میں ختم نہ ہو جائے میرے نیزے کا پھل تمہارے خون سے سرخ نہ ہوجائے اورمیری تلوار کے جوہر نمایاں نہ ہو جائیں اورمیں اپنے اہل خاندان اور پیروکاروں کے ساتھ ت سے جنگ نہ کرلوں‘‘۔ جب ان کی یہ باتیں حضرت ابوبکرؓ تک پہنچیں تو حضرت عمرؓ نے کہا: ’’اب سعد کو اس وقت تک نہ چھوڑنا چاہیے جب تک ان سے بیعت نہ لے لی جائے‘‘۔ لیکن بشیر بن سعد نے حضرت عمرؓ کی مخالفت کی اور کہا: ’’ان کا انکار حد کوپہنچ چکا ہے۔ وہ لڑ کر مرجائیں گے لیکن بیعت نہ کریں گے اور وہ اس وقت تک قتل نہیں ہو سکتے جب تک ان کے بیٹے اہل خاندان اور مددگار ان پر نثار نہ ہو جائیں۔ اس لیے تم انہیں چھوڑ دو۔ ایسا کرنے سے تمہیں کوئی ضرر نہ پہنچے گا کیونکہ اب ان کی حیثیت فرد واحد کی ہے‘‘۔ ابوبکرؓ نے بشیر کی رائے سے اتفاق کیا اور سعد کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔ سعد نہ ان کے ساتھ نماز پڑھتے اورنہ ان کے ساتھ شامل ہو کر حج کے ارکان بجا لاتے۔ ابوبکرؓ کی وفات تک ان کی یہی حالت رہی۔ سقیفہ کی بیعت میں حضرت علیؓ بن ابی طالب اور بعض کبار صحابہؓ شریک نہ ہوسکے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔ مسجد نبوی میںمہاجرین بھی کافی تعداد میں تھے چونکہ انہیں واقعہ سقیفہ کی خبر نہ تھی ا لیے وہ بھی اس بیعت میں شریک نہ تھے۔ بیعت سقیفہ کے متعلق ضروری راوی حضرت عمرؓ کی جانب تو قول منسوب کرتے ہیں کہ یہ بیعت بغیر کسی ارادے سے محض اتفاقاً ہو گئی ۔ بعض راوی یہ ذکر کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ عمرؓ اور ابوعبیدہؓ پہلے ہی سے یہ اتفاق کر کے سقیفہ گئے تھے کہ منصب خلافت پر ابوبکرؓ کو سرفراز کیا جائے گا۔ بہرحال ان دونوں روایتوں میں سے خواہ کوئی بھی صحیح ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں جو کچھ ہوا اس نے اسلما کو ایک ایسے ہولنا ک فتنے سے بچا لیا جس کا انجام اللہ جانے کیا الم ناک صورت اختیار کرتا۔ بیعت پر انصار کا قیام اس دن کے بعد پھر کبھی انصار کی طرف سے خلافت کی خواہش نہیں کی گئی۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ کی بیعت ہوئی۔ ان کی وفات کے بعد تخت خلافت پر حضرت عثمانؓ اور متمکن ہوئے لیکن انصار نے خلافت کا دعویٰ نہکیا۔ حضرت علیؓ کے عہد میں آپ کے اور حضرت معاویہؓ کے درمیان اختلاف برپا ہوا۔ جس نے بڑھتے بڑھتے جنگ کی صورت اختیار کر لی ۔ اس اختلاف کے موقع پر بھی انصار کی طرف سے خلافت کے حصول کی کوئی کوشش نہ کی گئی حالانکہ اگر وہ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے تو بخوبی اٹھا سکتے تھے۔ لیکن وہ ابوبکرؓ کے اس قول پر صدق دل سے ایمان لا چکے تھے کہ: ’’عرب سوا قریش کے کسی اور کی خلافت پر راضی نہ ہوں گے‘‘۔ بعد میں ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسب ذیل وصیت کے مطابق مہاجرین کے زیر سایہ اطمینان کی زندگی بسر کرتے رہے۔ ’’اے مہاجرین انصار سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ عرب کے اور قبیلوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا لیکن انصار کی تعداد میں اضافہ نہ ہو گا۔ میں نے انہی میں پناہ لی تھی اس لیے تم ان پر بھی احسان اور ان کی برائیوں سے درگزر کرنا‘‘۔ مسجد نبوی میں بیعت عامہ سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعت ختم ہونے پر مسلمان مسجد نبوی میںواپس آ گئے۔ اس وقت شام ہو چکی تھی ۔ اگلے روز حضرت ابوبکرؓ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پربیٹھ گئے ۔ سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے کھڑے وہئے اور پچھلے روز کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا جب انہوںنے تلوارہاتھ میں لے کر کہا ھتا کہ جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: ’’میں نے تم سے کل ایسی بات کہی تھی کہ جو نہ کتاب اللہ میں پائی جاتی ہے اور نہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی سنی تھی۔ لیکن میں اپنی محبت کے جوش میں یہ سمجھتاتھا کہ آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور ہمارے تمام کاموں کی نگرانی بہ نفس نفیس فرماتے رہیں گے۔ لیکن اللہ نے تمہارے لے وہ کتاب باقی رکھی ہے جس سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدایت حاصل کی پس اگر ت اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو اسی طرح ہدایت پائو گے جس طرح آپ نے پائی تھی۔ تمہارا خلیفہ اللہ نے اس شخص کو بنایا ہے جو تم سب میں سے بہتر ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرب ہے اور یہی ہے وہ جسے غار میں آ پ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ۔ اس لیے اٹھو اور اس کی بیعت کرو۔‘‘ چنانچہ اس کے بعد عام بیعت ہوئی جب سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت میں صرف خاص خاص لوگ شریک تھے۔ خلافت کا پہلا خطبہ بیعت کے بعد ابوبکرؓ کھڑے ہوئے اورخطبہ دیا جو خلافت کا پہلا خطبہ تھا۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ’’اے لوگو میں تمہارا حاکم بنایا گیاہوں لیکن تم سے بہتر نہیں۔ اگر میں نیک کام کروں تواس میں میری مدد کرو اور اگر برا کام کروں تو مجھے ٹوکو۔ صدق امانت ہے اور کذب خیانت تمہارا کمزور شص میرے نزدیک قوی ہے جب تک میں اسے اس کا حق نہ دلا دوں اور تمہار ا قومی آدمی میرے نزدیک کمزورہے جب تک میں اس کے ذمے جو حق ہے وہ اس سے نہ لے لوں۔ جو قوم اللہ کے راستے میں جہاد ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ کی ذلت و خواری مسلط کر دیتا ہے اور اگر کسی قوم میں بے حیائی پھیل جاتی ہے تو اللہ اس پر بلائیں اور عذاب عام کر دیتا ہے تم میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کروں۔ لیکن اگر مجھ سے کوئی کام ایسا سرزد ہو جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کا پہلو نکلتاہو تو تم پر میر اطاعت واجب نہیں۔ اب نماز کے لیے کھڑے ہو اللہ تم پر رحم فرمائے‘‘۔ ابوبکرؓ کی بیعت بالاجماع اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ابوبکرؓ کی بیعت مسلمانوں کے اجتماع سے ہوئی تھی جس میں سوائے سعد بن عبادہ( جنہوںنے سقیفہ کی خاص بیعت میں ان کی بیعت سے انکار کر دیا تھا) باقی تمام کبار صحابہ شریک تھے یا بعض صحابہ بیعت سے الگ بھی رہے تھے؟ بیعت سے مہاجرین کبار کی علیحدگی کچھ روایات میں مذکور ہے کہ بعض مہاجرین کبار بیعت سے علیحدہ رہے تھے جن میں حضرت علیؓ بن ابی طالب اور حضر ت عباسؓ بن عبدالطلب شمال تھے ۔ شیعہ مورخ یعقوبی لکھتا ہے: ’’مہاجرین اور انصار کے چند افراد حضرت ابوبکرؓ کی بیعت میں شامل نہ تھے بلکہ ان کا میلان حضرت علیؓ بن ابی طالب کی طرف تھا۔ ان میں سے مشہور لوگ یہ تھے ۔ عباسؓ بن عبداالمطلب‘ فضلؓ بن عباس‘ زبیرؓ بن عوام بن العاص‘ خالدؓ بن سعید‘ مقداد بن عمروؓ ‘ سلمان فارسی ؓ ‘ابوذر غفاری ‘ عمار بن یاسرؓ ‘ براء بن عازبؓ ابی بن کعبؓ۔ ابوبکرؓ نے عمرؓ ابوعبیدہؓ بن جراح اور مغیرہؓ بن شعبہ سے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ کیا تو انہوںنے جواب دیا کہ آپ عباسؓ بن عبدالمطلب سے ملیے اور خلافت میں ان کا حصہ بھی رکھ دیجیے جوان کی اولاد کی طرف منتقل ہوجائے۔ اس طرح ان کے اور ان کے بھتیجے علیؓ بن ابی طالب کے درمیان اختلاف واقع ہوجائے اور اورہ بات آپ کو علیؓ کے مقابلے میں فائدہ ندثابت ہو گی۔ ‘‘ اس مشورے کے مطابق حضرت ابوبکرؓ عباسؓ سے ملے دونوں کے درمیان طویل گفتگوہوئی ابوبکر نے کہا: ’’آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ہیں ہم چاہتے ہیں کہ خلافت میں آپ کا حصہ بھی ہو جو آپ کے بعد آ پ کی اولاد میں منقتل ہوتا رہے‘‘۔ لیکن عباسؓ نے یہ پیش کش رد کر دی اور کہا کہ اگر خلافت ہمارا حق ہے تو ہم ادھوری خلافت لینے پر رضامند نہیں ہو سکتے‘‘۔ مخالفین کا اجتماع ایک اور روایت جسے یعقوبی اور بعض دیگر مورخین نے بھی ذکر کیاہے مذکورہے کہ مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت حضرت علیؓ کی بیعت کرانے کے ارادے سے حضرت فاطمہ الزہراؓ بنت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں جمع ہوئی۔ ان میں خالد بن سعید بھی تھے خالد نے حضرت علیؓ سے کہا: ’’اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے لیے آپ سے بہتر اور کوئی نہیں اس لیے آ پ ہماری بیعت قبول کیجیے‘‘۔ جب حضرت ابوبکرؓ و عمرب کو اس اجتماع کی خبر ملی تو وہ چند وگوں کولے کر حضرت فاطمہؓ کے گھر پہنچے اور اس پر حملہ کر دیا۔ حضرت علیؓ تلوار ہاتھ میں لے کر گھر سیباہرنکلے سب سے پہلے ا ن کی مڈبھیڑ حضرت عمرب سے ہوئی۔ حضڑت عمرؓ نے ان کی تلوار توڑ ڈالی۔ اور دوسرے لوگوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہو گئے۔ اس پر حضرت فاطمہؓ اہر آئیں اورکہا: ’’یاتو تم میرے گھر سے نکل جائو ورنہ اللہ کی قسم! میں اپنے سر کے بال نوچ لوں گی۱؎ اورتمہارے خلاف اللہ سے مد د طلب کروں گی‘‘۔ حضرت فاطمہؓ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر سب لوگ گھر سے باہر نکل گئے۔ کچھ روز تو مذکورہ بالا اصحاب بیعت سے انکار کرتے رہے لیکن آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے سب نے بیعت کر لی۔ سوائے حضرت علیؓ کے جنہوںنے چھ مہینے تک بیعت نہ کی مگر حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد انہوںنے بھی بیعت کر لی۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ نے چالیس روز بعد بیعت کی تھی۔ انکار بیعت کی مشہور ترین روایت حضر ت علیؓ اور دیگر بنی ہاشم کے متعلق بیعت نہ کرنے کے متعلق مشہور ترین روایت وہ ہے جو ابن قیتبہ نے اپنی کتاب الامامۃ والاسیاسۃ میں درج کی ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے بعد حضرت عمرؓ چند لوگوں کو ساتھ لے کر بنی ہاشم کے پاس گئے اور جو اس وقت حضرت علیؓ کے گھر جمع تھے تاکہ ان سیبھی بیعت کا مطالبہ کریں۔ لیکن سب لوگوںنے حضرت عمرؓ کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا زبیر بن عوام تو تلوار ہاتھ میں لے کر حضرت عمرؓ کے مقابلے کے لیے باہر نکل آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ نے ساتھیوں سے کہا: ’’زبیرؓ کو پکڑ لو‘‘۔ لوگوں نے زبیر کو پکر کر ان کے ہاتھ سے تلوار چھین لی ۔ اس پر مجبوراًزبیر نے جا کر حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی۔ حضرت علیؓ سے بھی بیعت کا مطالبہ کیاگیا لیکن انہوںنے انکار کر دیا اور کہا: ۱؎ کیاحضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی باحیا باعصمت خاتون اپنے منہ سے (نعوذ باللہ) اس قسم کے رکیک الفاظ نکال سکتی تھیں ان فلاظ ہی سے روایت کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے(مترجم) ’’میں تمہار ی بیعت نہ کروں گا کیونکہ میں تم سے زیادہ خلافت کا حق دار ہوں اور تمہیں میری بیعت کرنی چاہیے تھی تم نے یہ کہہ کر انصار کی خلافت سے انکار کر دیا کہ ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی عزیز ہیں اور آپ کے قریبی عزیز ہی خلاافت کے حق دار ہیں۔ اس اصول کے مطابق تمہیں چاہیے تھا کہ خلافت ہمارے حوالے کرتے مگر تم نے اہل بیت سے خلافت چھین لی۔ کی اتم نے انصارکے سامنے یہ دلیل پیش نہ کی یکہ ہم خلافت کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے تھے اس لیے تم ہماری اطاعت قبول کرو اورخلافت ہمارے حوالے کر دو وہی دلیل جو تم نے انصار کے سامنے پیش کی تھی اب میں تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں ہم تم سے زیادہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی عزیز ہیں۔ اس لیے خلافت ہمارا حق ہے اگر تم میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو ہم سے انصاف کر کے خلافت ہمارے حوالے کر دو۔ لیکن اگر تمہیں ظالم بننا پسند ہے تو جو تمہارا جی چاہے کرو تمہیں اختیار ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر جوا ب دیا: ’’میں اس وقت تک آپ کو نہ چھوڑوں گا جب تک آپ بیعت نہ کر لیں گے‘‘۔ حضرت علیؓ ا س وقت تیزی میں آگئے اور کہنے لگے: ’’عمرؓ تم شوق سے دودھ دو جس میں تمہارا بھی حصہ ہے۔ آج تم اس لیے خلافت ابوبکرؓ کی حمایت کر رہے ہو کہ کل کو خلافت تمہارے پاس لوٹ آئے گی لیکن میں کبھی ان کی بیعت نہ کروں گا‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کو ڈر پیدا ہو اکہ کہیں بات بڑھ نہ جائے اور درشت کلامی تک نوبت نہ آ جائے انہوںنے کہا: ’’ علی! اگرتم بیعت نہیں کرتے تو میں بھی تمہیں مجبورنہیں کرتا‘‘۔ اس پر ابوعبیدہؓ بن جراح حضرت علیؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور نہایت نرمی سے کہا :بھتیجے ت ابھی کم عمر ہو اور یہ لوگ بزرگ ہیں۔ نہ تمہیںان جیسا تجربہ حاصل ہے اور نہ تم ان کی طرح جہاندیدہ ہو۔ اگر قوم میں کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جکی جانشینی کے فرائض صحیح طور پربجا لا سکتاہے اور خلافت کابوجھ اٹھا سکتا ہے تو وہ صرف ابوبکرؓ ہیں اس لے تم ان کی خلافت قبول کرلو اگر تم نے لمبی عمر پائی تو یقینا اپنے علم و فض دینی رتبے فہم و ذکا سابقیت اسلام حسب ونسب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دامادی کا شرف حاصل ہونے کے باعث تمہیں خلافت کے مستحق ٹھہرو گے۔ یہ سن کر حضرت علیؓ کے جوش کی انتہانہ رہی اور وہ غصے سے بولے: ’’اللہ اللہ اے گروہ مہاجرین تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کو آپ کے گھر سے نکال کر اپنے گھروں میں داخل نہ کرو۔ آپ کے اہل بیت کو ان کے صحیح مقام پر سرفراز نہ کرو۔ اور ان کا حق انہیں دو۔ اے مہاجرین! اللہ کی قسم ہم خلافت اور حکومت کے مستحق ہیں۔ کیونکہ ہم اہل بیت ہیں ہم اس وقت تک اس کے حق دار ہیں جب تک ہم میں اللہ کی کتاب کا قاری دین کا فقیہہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا عالم رعایات کی ضرورت سے واقف ان کی تکالیف کو دور کرنے والا اور ان سے مساوات کا سلوک کرنے والا قائم ہے ۔ اور اللہ جانتاہے کہ ہم میں ان صفات کا حامل موجود ہے اس لیے اپنی خواہشات کی پیروی کر کے اللہ کے راستے میں گمراہی اختیار نہ کرو اور حق کے راستے سے دور نہ چلے جائو‘‘۔ راویوں کے بیان کے مطابق بشیر بن سعد بھی اس موقع پر موجود تھے۔ جب انہوںنے حضرت علیؓ کی باتیں سنیں تو کہا: ’’اے علیؓ اگر یہ باتیں جو اس وقت تم نے کہی ہیں انصار کا گروہ ابوبکرؓ کی بیعت سے پہلے سن لیتا تو وہ لوگ تمہارے سوا کسی کی بیعت نہ کرتے‘‘۔ اس گفتگو کے بعد حضر ت علیؓ طیش میںبھرے ہوئے گھر چلے گئے۔ جب رات ہوئی تو وہ حضرت فاطمہؓ کو لے کرباہر آئے اور انہیں ایک خچر پر بٹھا کر انصار کے پاس لیے گئے حضرت فاطمہؓ گھر گھر جاتیں۱[ اوران سے حضرت علیؓ کی مدد کرنے کی درخواست کرتیں لیکن ہرجگہ انہیں یہی جواب ملتا: ’’اے بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم ابوبکرؓ کی بیعت کر چکے ہیں۔ اگر آپ کے خاوند بیعت سے قبل ہمارے پاس آتے تو ہم ضرور ان کی بیعت کر لیتے‘‘۔ یہ سن کر حضرت علیؓ غصے میںآ کرجواب دیتے : ’’کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعش کو بلا تجہیز و تکفین چھوڑ دیتا اورباہر نکل کر لوگوں سے آپ کی جانشینی کے متعلق لڑتا جھگڑتا پھرتا؟‘‘ حضرت فاطمہؓ بھی کہتیں: ’’ابوالحسن(علی) نے وہی کیا جو ان کے لیے مناسب تھا۔ باقی ان لوگوں نے جو کچھ کیا اللہ ان سے ضرور اس کا حساب لے گا اور باز پرس کرے گا‘‘۔ انتخاب متفقہ کے متعلق روایات یہ تو ہیں روایتیں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت علیؓ نے حضر ت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا تھاالیکن ان کے برعکس بعض ایسی روایتیں بھی ہیں جن میں اسا امر سے صراحتاً انکار کیا گیا ہے کہ بنو ہاشم اور بعض مہاجرین بیعت سے علیحدہ رہے۔ ان روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ سقیفہ کی خاص بیعت کے بعد عام بیعت کا وقت آیا تو مہاجرین اور انصار بالاجتماع آپ کی بیعت میںشریک تھے۔ چنانچہ طبری میں مذکورہے کہ کسی شخص نے سعید بن زید سے پوچھا: ۱؎ حضرت فاطمہؓ کی شان سے یہ بات قطعاً بعید ہے کہ وہ گھر گھرجا کر اپنے خاوند کی بیعت کے لیے لوگوں کو تیار کرتیں۔ ’’کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت مدینہ میں موجود نہ تھے: انہوںنے جواب دیا: ہاں اس شخص نے پوچھا : حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کب کی گئی؟ انہوںنے جواب دیا: اسی روز جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی۔ صحابہ کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ وہ ایک بھی روز بغیر خلیفہ کے زندگی گزاریں‘‘۔ اس پر اس شخص نے پوچھا: ’’کیا کسی شخص نے حضرت ابوبکرؓ کی مخالفت بھی کی ہے؟ انہوںنے جواب دیا: ’’نہیں سوائے مرتدین کے یا ان لوگوں کے جو حالت ارتداد کے قریب پہنچ چکے ہیں‘‘۔ پوچھا گیا۔ ’’کیا مہاجرین میں سے بھی کسی نے بیعت کرنے سے انکار کیا ؟‘‘ جواب دیا: نہیںمہاجرین نے تو اس بات کا انتظار بھی نہ کیا کہ کوئی شخص انہیں آ کر بیعت کے لیے بلائے بلکہ انہوںنے خود ہی آ کر ابوبکرؓ کی بیعت کر لی‘‘۔ ایک روایت میں یہ بھی مذکورہے کہ ؤحضرت علیؓ کو اپنے گھر میں یہ خبر ملی کہ حضرت ابوبکرؓ بیعت لینے کے لیے مسجد نبوی میں تشریف فرما ہیں تو ان کے بدن پر ایک قمیص کے سوا اورکوئی کپڑا نہ تھا۔ لین وہ اسی حالت میں گھر سے باہر نکل آئے اور جلد جلد قد م اٹھاتے ہوئے مسجد میں پہنچ گئے مبادا بیعت کرنے میں دیر ہوجائے۔ جب بیعت کر لی تو اس کے بعد گھر سے اور کپڑے منگوا لیے۔ بیعت علی کے متعلق درمیانی رائے بعض روایات میں حضرت علیؓ کی بیعت کے بارے میں درمیانی رائے اختیار کی گئی ہے۔ ان روایات کا ملخص یہ ہے کہ بیعت کے بعد حضرت ابوبکرؓ منبرپرجلوہ افروز ہوئے۔ آ پ نے حاضرین پر نظر دوڑائی تو زبیر کو نہ پایا۔ آپ نے انہیں بلا بھیجا او رکہا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر عم زاد اورحواری کیا آپ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ (کیا بیعت نہ کر کے مسلمانوں کی قوت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں)‘‘ انہوںنے کہا: ’’یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے سرزنش نہ کیجیے میں بیعت کرتا ہوں‘‘۔ چنانچہ انہوںنے کھڑے ہوکربیعت کر لی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے پھر ایک نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ حضرت علیؓ بھی موجود نہں۔ آپ نے انہیں بھی بلایا اور کہا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برادر عم زاد اور آ کے محبوب داماد کیا آپ مسلمانوں کی لاٹھی کو توڑناچاہتے ہیں؟ انہوںنے بھی جواب دیا: یا خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کی بیعت کرتاہوں۔‘‘ اور یہ کہہ کر بیعت کر لی۔ بنو امیہ کی فتنہ کوشی بعض روایات سے یہ بھی پتا چلتا ہیکہ بنو امیہ نے بنی ہاشم اور ابوبکرؓ کے درمیان اختلاف پیدا کر کے مسلمانوں میں فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ مذکورہے کہ جب لوگ ابوبکرؓ کی بیعت کر لیے مسجد میں جمع ہوئے تو ابو سفیان بنی ہاشم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’میں ایک غباردیکھتا ہوں جو خون بہانے ہی سے چھٹ سکتا ہے اے آل عبد مناف! ابوبکرؓ تمہارے امور کے نگران کب سے ہو گئے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو کمزور رہنا پسند کرتے ہیں؟ کہاں ہیں علیؓ اور عباسؓ جنہیں ذلت و خواری ہی محبو ب ہے؟‘‘ اس کے بعد یہ شعر پڑھے: ولا یقیم علی ضیم یرادبہ الا الا ذلان غیر الحی والرند ھذا علی الخسف محبوس برمتہ واذا شیج فلایبکی لہ احد ’’دو ذلیل چیزوں کے سوا کوئی بھی ظلم پر صبر نہیں کر سکتا۔ ایک تو قبیلے کا گدھا اور دوسر ی میخ۔ گدھا بوسیدہ رسی سے بندھا ہوا بھی ہر قسم کی ذلت سہتا رہتاہے او میخ گاڑتے وقت زخمی کیا جاتا ہے لیکن کوئی اس پر آنسو نہیں بہاتا‘‘۔ میراث کا مطالبہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بیعت نہ کرنے کے متعلق روایات غالباً عباسی عہد میں بعض مخصوص سیاسی اغراض کی خاطر وضع کی گئیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شیعہ حضرات حضرت علیؓ کی بیعت نہ کرنے کے ثبوت میں ایک واقعہ پیش کرتے ہیں۔ اس واقعے کے درست ہونے میںتوکوئی شک نہیں لیکن اس کا بیعت کرنے یا نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ابوبکرؓ کی بیعت کے بعد حضرت فاطمہؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عباسؓ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس آئے اور آپ کی اس میراث کا مطالبہ کیا ج ارض فدک اور خیبر کی جائیدادوں میں آپ کے حصے پر مشتمل تھی۔ ابوبکرؓ نے فرمایا: میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے کہ: نحن معاشر الانبیاء لانورث ماترکنا صدقۃ ہم انبیاء کا گروہ ہیں ۔ ہم کوئی میراث نہیں چھوڑتے اپنے پیچھے جو کچھ ہم چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا۔ اس جائیداد کی آمدنی سے جس کا تم نے ذکر کیا ہے آپ کے اہل و عیال کا گزارہ چلتا تھا اس لیے میں بھی اسے وہیں خرچ کروں گا جہاں آپ خرچ کرتے تھے‘‘۔ اس پر حضرت فاطمہؓ ناراض ہو گئیں اور آخری وقت تک انہوںنے حضرت ابوبکرؓ سے کلا م نہ کیا ۱؎۔ وفات کے بعد حضرت علیؓ نے انہیں رات کو ہی دفن کر دیا اور ابوبکرؓکو اطلاع نہ دی۔ حضرت فاطمہؓ کی وفات رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھ مہنیے بعد ہوئی تھی۔ ابوبکرؓ سے حضرت فاطمہ ؓ کی ناراضی کے باعث حضرت علیؓ بھی ان سے کشیدہ خاطر تھے۔ لیکن حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد انہوں نے مصالحت کر لی۔ یہ ہے وہ اصل روایت جس میں ابوبکرؓ سے حضرت فاطمہؓ کی ناراضی اور حضرت علیؓ کی ناراضی اور ان سے بول چال ترک کر دینے کا بیان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ ٹکڑا بھی ملا دیا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی وفات تک حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کی۔ وفات کے بعد ابوبکرؓ تعزیت کے لیے حضرت علیؓ کے پاس گئے اور علی ؓ ابوبکرؓ کو آتے دیکھ کر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: ’’اب ہمیں آپ کی بیعت کرنے میں کوئی روک نہیں لیکن ہمارے خیال میں خلافت ہمارا ہی حق ہے آپ نے اس پر قابض ہو کر ہمارا حق چھیناا ہے اور اس طرح ہم پر ظلم کیا ہے۔ ‘‘ حضرت ابوبکرؓ نے اس کے جواب میں کہا: ۱؎ میراث کے مطالبے پر حضرت فاطمہؓ کا حضرت ابوبکرؓ سے ناراض ہو جانا سمجھ میں نہیں آتا۔ جب ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سے آگاہ کر دیاتھاا تو ان کے لیے دو ہی راستے تھے ۔ یا تو یہ کہوہ اس حدیث کی صحت سے انکار کر دیتیں یا آپ کے ارشاد پر سرتسلیم خم کر دیتیں۔ کسی روایت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ انہوں نے ابوبکر ؓ کی بیان کردہ حدیث کی صحت سے انکار کیا ہو۔ جب یہ بات نہیں تو فاطمہؓ جیسی پرہیز گار خاتون کس طرح آپ کے ارشاد سے منہ موڑ کر محض زمین کے چند قطعات کے لیے ابوبکرؓ سے ناراض ہو سکتی تھیں؟ (مترجم) ’’اس مال و جائیداد کے سلسلے میں جو میرے اور تمہارے درمیان وجہ نزاع بنی رہی میں نے جو کارروائی کی وہ محض تمہاری بھلائی کے لیے تھی‘‘۔ مذکورہ صدر اصحاب یہ کہتے ہی کہ روایت کا آخری حصہ درایۃً ناقابل قبول ہے۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ حضرت ابوبکرؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ اسی وقت کر سکتے تھے جب کہ مسلمان بالاتفاق بیعت کر کے حضرت ابوبکرؓ کو اپنا خلیفہ منتخب کر لیتے ۔ خلافت سے پہلے اس قسم کا مطالطہ کرنے کے کوئی معنی نہ تھے۔ اگر حضرت علی ؓ اور بنو ہاشم نے ان سے بیعت ہی نہ کی تھی اور انہیں خلیفہ تسلیم ہی نہ کیا تھا تو ان سے میراث کا مطالبہ کرنا بے معنی تھا۔ جن لوگوں کا یہ دعوی ٰ ہے کہ حضرت علیؓ نے بلا توقف حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی اور ان میں سے اکثرکا خیال ہے کہ ان کی بیعت نہ کرنے کے متعلق جو روایات عباسیوں کے عہد میں بعض مخصوص سیاسی اغراض کے پیش نظر گھڑی گئیں ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ روایات عباسیوں سے بھی پہلے حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی جنگوں کے دوران میں بنی ہاشم اور بنی امیہ کی چشمک کے باعث وضع کی گیں۔ موخر الذکر گروہ کابیان ہے کہ عراق اور فارس کی فتح کے بعد وہاں ایرانی النسل لوگوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا تھا جس ے اپنے فائدے کی خاطر اس قسم کی روایات وضع کرنی شروع کیں۔ سلطنت اسلامیہ پر امویوں کے قبضے کی وجہ سے یہ لوگ کھلم کھلاا ان روایات کی تشہیر تو نہ کر سکتے تھے لیکن خفیہ طور پر ان کی اشاعت وسیع پیمانے پر کرتے تھے۔ اور ااس انتظار میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ کھلم کھلا اپنے عقائد کا اظہار کر سکیں ۔ ابو مسلم خراسانی کے خروج نے یہ ان کی دیرینہ تمنا پوری کر دی ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اور جس طرح ان روایات کا سہارا لے کر بنو عباس نے سلطنت حاصل کی وہ تاریخ کا ایک خونین باب ہے۔ جن لوگوں کا بینہے کہ حضرت علیؓ او ربنو ہاشم نے چالیس دن یا مہینے کے بعد بیعت کی وہ اپنی دلیل میں گزشتہ روایات کے علاوہ یہ امر پیش کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ اور ان کے مددگار لشکر اسامہ میں شامل نہ ہوئے حالانکہ حضرت علیؓ کی شجاعت اورمردانگی ضرب المثل تھی۔ جس کا اظہار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں کر چکے تھے۔ علاوہ بریں مہاجرین نے سقیفہ بنی ساعدہ میں بہ مقابلہ انصار اپنی خلافت کی یہ دلیل پیش کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روحانی تعلق کے علاوہ ان کا جسمانی تعلق بھی ہے اور عرب سوائے قریش کے کسی اور کی اطاعت قبول نہ کریں گے کیونکہ وہ کعبہ کے نگہبان ہیں اور جزیرہ نما عرب کے تمام لوگوں کی نگاہیں ہر امر میں قریش کی طرف اٹھتی ہیں۔ یہ دلیل بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ بنو ہاشم دوسرے ولگوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے زیادہ حق دار تھے۔ اس لیے لاز تھا کہ وہ اپنا حق مقدم سمجھتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے سے رے رہتے اور یہی حضرت علیؓ نے کیا بھی اگر بعد میں وہ بیعت پر رضامند ہو گئے تھے تو محض اس لیے کہ کہین ایسا فتنہ پیدا نہ ہوجائے کہ جو مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کر دے خصوصاً اس صورت میں کہ عرب کے طول و عرض میں ارتداد کا فتنہ پھوٹ پرا تھا اور مدینہ کی حکومت کے خلاف عربوں کی بغاوت سے دین اسلام کی تباہی کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ ابوبکرؓ کی پر امن خلافت خواہ مورخین میں حضرت علیؓ اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے متعلق کتنا ہی اختلاف ہو لیکن اس امر پر سب متفق ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے اول روز ہی سے خلافت کا کاروبار بغیر کسی شور و شر اور فتنہ و فساد سے سنبھال لیا۔ اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی موجود ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ بنی ہاشم یا کسی فرد یا کسی اور شخص نے ابوبکرؓ کے خلا ف مسلح بغاوت یا جنگ کااعلان کرنے کا سوچا ہو۔ چاہے ا س کا باعث لوگوں کے دلوں میں اس بلند ترین مرتبے کا احساس موجود ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ابوبکرؓ کو حاصل تھا یہاں تک کہ آ پ نے فرمایا تھا کہ اگر میں بندوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ یا وہ شرف قربت ہو جو ہجرت کے موقع پر انہیں حاصل ہو یا ان کے وہ فضائل و محاسن ہوں جن کے باعث لوگوں کے دلوں میں انکی قدر و منزلت کا احساس پیدا ہو گیا تھا یا وہ مدد ہو جو وہ ہر موقع پع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روا رکھتے تھے۔ یا یہ واقعہ ہو کہ آپ نے اپنی آخری علالت میں انہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ بہرحال انک ی بیعت کا سبب خواہ کوئی بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ ان کے مقابلے میں کویء شخص اٹھا او ر نہ کوئی اور شضخص جس نے ا یک مرتبہ ان کی بیعت کر لی تھی۔ بیعت سے کنارہ کشی کرنے والوں کے پاس گیا۔ یہ امر اس بات کی محکم دلیل ہے کہ اولین مسلمانوں کے دلوں میں خلافت کا جو تصور تھا وہ ا س تصور سے بالکل مختلف تھا جو بعد میں بنی امیہ کے زمانے میں پیدا ہو گیا تھا۔ اولین مسلمانوں کے دلوں میں خلافت کا تصور اس عربی تمدن ک عین مطابقت ھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں رائج تھا۔ لیکن جب اسلای فتوحات نے وسعت اختیار کی تو عربوں کا اختلاط کثرت سے مفتوحہ قوموں کے ساتھ ہونے لگا تو اس اختلاط اور مملکت اسلامیہ کی وسعت کے نتیجے میں خلافت یک متعلق مسلمانوں کے تصور میں بھی فرق آ گیا۔ مسلمانوں کا تصور خلافت ابتدا میں مسلمانوں کا تصور خلافت خاص عربی نقطہ نگاہ سے تھا۔ سب لوگ اس بات پر متعفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شص کے لیے خلافت کی وصیت نہ فرمائی۔ اس امر کے پیش نظر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دن سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان تنازع اورعام بیعت کے بعدبنی ہاشم اور دوسرے تمام مہاجرین کے درمیان خلافت کے سلسلے میں پیدا چشمک پر غور کرتے ہیں تو بلاشبہ صریحاً عیاں ہو جاتاہے کہ خلیفہ اول کا انتخاب کرنے کا موقع پر اہ مدینہ نے اجتہاد سے کا م لیا۔ کتاب و سنت میں خلافت ککے لیے کوئی سند نہ تھی۔ اس لیے مدینہ کے مسلمانوں نے جس شخص کو خلافت کی گراں بار ذمہ داری اٹھانے کا اہل سمجھا اسے خلافت سپرد کر د ۔ اگر انتخاب خلیفہ کا معاملہ مدیہ سے باہر دوسرے قبائل عرب تک بھی محیط ہو جاتا تو حالات بالکل مختلف ہوتے اور اس صورت میں حضرت عمرؓ کے قول یک مطاق حضرت ابوبکرؓ ک یبیعت اتفاقیہ اورناگہانی نہ ہوتی۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے موقع پر جو طریقہ استعمال کیا گیا تھا وہ بعد کے دوخلیفوں (حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ) کے انتخاب کے وقت استعمال نہ کیا جا سکا۔ حجرت ابوبکرؓ نے اپنی وفت سے قبل حضرت عمرؓ کی خلافت کی وصیت فرما دی تھی۔ اور حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے حضرت عثمانؓ کے لے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی۔ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں حضرت علیؓ اورامیر معاویہ کے درمیان اختلافات رونما ہو کر بالآخر خلافت امویوں کے ہاتھ میں آئی تو انتخاب کا طیقہ بالکل بدل گیا اور خلافت باپ کے بعد بیٹے اور بیٹے کے بعد پوتے کی طرف منتقل ہونے لگی۔ ان واقعات و حوادث کو دیکھتے ہوئے اس قول کی قطعاً گنجائش نہیں کہ اسلام نے سللطنت کا نظام سنبھالنے کے لیے باقاعدہ اصول مقرر کیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سراسر ای اجتہادی معاملہ ے جو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق بدلتا چلا گیا ہے اور مختلف مدتوں میں ہمارے سامنے پیش ہو تا چلا آیاہے۔ اسلام کا نظام حکومت ابوبکرؓ نے اپنے عہد می جو نظا م جاری کیا وہ خالص عربی نظام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اتصٓل اور خود ان کے آپ سے گہرے تعلقات کے باعث ان کے زمانے میں جو نظٓم رائج ہوا وہ تقریباً وہی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا تھا۔ لیکن جب حالات متغیر ہوئے او ر اسلامی فتوحات میں وسعت پیدا ہوء تو یہ نظام بھی آہستہ آہستہ منتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ عہد عباسیہ کے زمانہ عروج اور ابوبکرؓ کے زمانے کے نظام ہائے حکومت میں زمین و آسمان کافرق تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان یک بعد آنے والے تین خلفاء کے جاری کردہ نظاموں میں بھی بہت فرق ہے۔ ابوبکرؓ کا عہد اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل منفرد ہے۔ ان کا زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی سیاست اور حکومت کی دنیوی سیاست کا سنگم تھا۔ یہ درست ہے کہ دین مکمل ہو کچا تھاا اور کسی شخص کو اس میں تغیر و تدل اور اس کی تنسیخ کرنے کا حق حاصل نہ تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد معاً عرب میں ارتدااد کی وباپھیل گئی اور بہت سے قبائل اسالم سے روگرداں ہو گئے اس صورت حال کی موجودگی میں ابوبکر کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اس عظیم الشان خطرے کو دور کرنے کے لیے ایک مضبو ط پالیسی مرتب کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمسایہ مملکتوں کے سربراہوں کو اسلام کی دعوت پہنچانے کاایک اہم فریضہ بھی شروع کیا تھا ابوبکر کو اسے بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ انہوںنے یہ کام کس طرح انجام دیا؟ اور یہ اہم ذمہ داری کس طرح ادا کی؟ اس کی تفصیلی ذکر ہم آئندہ کے ابواب میں کریںگے۔ ٭٭٭ تیسرا باب عرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت ادھر مدینہ میں ابوبکرؓ کی بیعت کی جاررہی تھی اور ادھر قبائل عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر وفات آگ کی سی تیزی ک یساتھ پھیل رہی تی۔ واقعہ یہ ہے کہ عرب میں کوئی خبر اتنی تیزی سے نہیں پھیلتی جتنی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطلاع۔ جونہی اس حادثے کی شہرت ہوء یعربوں نے فوراً حکومت مدینہ کا جوا کندھوں سے اتارنے اور بعثت نبوی سے قبل کی بدویانہ و غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ آناً فاناً عرب کے ہر قبیلے میں ارتداد کی لہر دوڑ گئی نفاق کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا اوریہودیوں اوعر نصرانیوںکی بن آئی اور چاروں طرف سے مسلمانوں کے دشمنوں میں اضافہ ہونے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے مسلمانوں کی حالت اس بکری کی سی ہو گئی جو جاڑے کی سرد وار بارش والی رات کو صحرائے لق و دق میں بغیر چرواہے کے رہ جانے والے اور اسے سر چھپانے کے لے کوئی جگہ نہ مل سکے۔ قبل ازیں مہاجرین اورانصار کے درمیان قضیہ خلافت کے بارے میں تفصیل سے بحث کی جا چکی ہے اور اگر اس موقع پر اللہ کی مدد شامل حال نہ ہو تی او ر ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکمت عملی آڑے نہ آتی تو یہ قضیہ کسی صورت میں دبائے نہ دبتا اور مسلمانوں کو بھی اتفاق و اتھاد نصیب نہ ہوتا۔ اہل مکہ ارتداد کے دروازے پر اگر مدینہ اورمکہ کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو مدینہ کے واقعات مکہ کے حالات کے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھتے تھے۔ مدینہ میں تو صرف خلافت پر جھگڑا تھا لیکن اہ مکہ نے تو ارتداد کی تیاریاں شروع کر دی تھیں اور عامل مکہ عتاب بن اسید لوگوںکے خوف سے روپوش ہو گئے تھے اللہ کو یہ منظور تھا کہ اہ مکہ فتنے کی آگ سے بچے رہیں۔ اس لیے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخلص صحابی سہیل بن عمروؓ کی سعی کے بل پر ارتداد سے محفوظ رہے ہوا یہ کہ جب انہوںنے اہل مکہ کی تذبذب کی حالت دیکھی تو تمام لوگوں کو جمع کیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا ذکر کر کے کہا: ’’آپ کی وفات سے اسلام کی قوت میں کوئی کمی نہیں آئی اس بارے میں جو شخص شک و شبہ میں گرفتار ہو گا تذبذب کی راہ اختیار کرے گا اور ارتداد کے متعلق سوچے گا ہم اس کی گردن اڑا دیں گے‘‘۔ ممکن تھا کہ دھمکی کا اثر الٹا ہوتا اس لیے سہیل ؓ نے دھمکی کے ساتھ ساتھ ترغیب و تحریض سے بھی انہیں اسلاامپر قائم رہنے کی تلقین ان الفاظ میں کی: ’’یقینا اسلام بدستور قائم رہے گا اسے کوئی ضعف نہ پہنچے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ارشاد خلافت بھی تمہارے ہی حصے میں آئے گی‘‘۔ سہیلؓ کے س پر زور دعوے ے اہ مکہ والوں کے دلوں پر دھمکی سے زیادہ اثر کیا وہ ارتداداختیار کرنے سے رک گئے اور فوراً بعد انہوںنے یہ بھی سن لیا کہ خلافت ابوبکرؓ کے حصے میں آئی ہے جو قریش کے ایک معزز فرد ہیں۔ اس پر وہ مطمئن ہو گئے اور بدستور اسلام پر قائم رہے۔ فتنہ ارتداد اورقبیلہ ثقیف طائف کے قبیلے ثقیف نے بھی ارتداد اختیار کرنے کا ارادہ کیا۔ تھا۔ جب وہاں کے عامل عثمان بن ابو العاص کو معلوم ہواتو انہوںنے قبیلے والوں کو اکٹھا کرنے کا کہا: ۱۱؎ سہیل کا اشارہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کیط رف تھا الائمۃ من قریش یعنی خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔ ’اے ابنا ثقیف تم لوگ سب سے پہلے اسلام لائے تھے اب سب سے پہلے ارتداد اخیتار کرنے والے مت بنو‘‘۔ ثقیف کو وہ سلوک یاد تھا جو حنین کی جنگ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے کیا تھا۔ پھر انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے اور اہ مکہ کے درمیان قرابت ہے اس لیے وہ عثمان بن ابو العاص کے سمجھانے بجھانے پر اپنے ارادے سے باز آ گئے اور بدستور اسلام پر قائم رہے۔ غاالباً ابوبکرؓ کی خلافت نے ثقیف پر بھی اثر یا جو اہ کہ پر کیا تھا۔ دیگر قبائل عرب کا طرز عمل جس طرح مکہ مدینہ اور طائف کے درمیان بسنے والاے قبائل اسلا م پر قائم رہے اسی طرح مزینہ غفار جہینہ ‘ بلی ‘ اشجمع‘ اسلم اور خزاعہ نے بھی اسلا م کوترک نہ کیا۔ لیکن ان قبائل کے سوا سارے عرب میں اضطراب پیدا ہو گیا۔ جن لوگوں کو اسلام قبول کیے زیادہ دن نہ گزرے تھے یا جن لوگوں کے دلوںنے اسلامی تعلیمات کا اثر قبول نہ کیا تھا انہوںںے کھلم کھلا ارتداد اختیار کیا۔ باقیوں کے بھی عقائد میں فرق آ گیا۔ ایک گروہ اگر وہ ایسا تھا کہ جو گو اسلام پر تو قائم تھا لیکن مدینہ کی حکومت اور غلبے کو قبو ل کرنے کے لیے تیار نہ تھا خواہ اس پر مہاجرین قابض ہوں یا انصار۔ یہ لوگ ادائے زکوۃ کو جزیہ سمجھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک تو زکوۃ ادا کرنے میں کوئی حرج نہٰں تھا کیونکہ آپ نبی تھے آپ ؐ پر وحی آتی تھی اور جو کچھ آ پ ان سے طلب کرتے تھے وہ آپ کا حق تھا لیکن اب کہ آپ اللہ نے جوار رحمت میں بلا لیا ہے اہل مدینہ ان سے کسی بات میں بڑھے ہوئے نہیں اور انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح ان سے ادائے زکوۃ کا مطالبہ کریں۔ جن قبائل نے ادائے زکوۃ سے انکار کیاتھا وہ مدینہ کے قریبی قبائل عبس اور ذیبان اورا ن سے ملحقہ قبائل بنو کنانہ غطفان اور فزارہ تھے لیکن جو قبائل مدینہ سے خاصے فاصلے پر واقع تھے وہ ارتداد کی رو میں بہہ گئے تھے اور اکثر نے حسب ذیل مدعیان نبوت کا ذبہ ک پیروی اختیار کر لی تھی۔ طلیحہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ سجاح جس نے بنی تمیم میں نبوت کا دعویٰ یا تھا۔ مسلیمہ جس نے یمامہ میں علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ذوالتاج لقیط بن مالک جوعمان میں شورش برپا کرنے کا ذمہ دار تھا۔ ان کے علاوہ یمن میں اسود عنسی نے اپنے حامیوں کی ایک بھاری تعداد جمع کر ی تھی۔ یہ لوگ اس کے قتل ہونے تک لڑتے رہے اور بعد یں بھی جب تک جنگہائے ارتداد کا مکمل خاتمہ نہ ہ گیا وہ بدستو ر فتنہ و فساد میں مصروف رہے۔ بغاوت اور ارتداد کے عوامل غلبہ قریش کے خلاف عرب کے شہریوں اور بدویوں کا اٹھ کھڑا ہونا اور اکثیر قبائل کا اسلام سے ارتداد اختیار کر لینا صرف اس وجہ سے نہ تھا کہ یہ قباء مدینہ سے خاصے فاصلے پر واقع تھے اور انہوںنے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے علم بغاوت بلند کردیا بلکہ اس کے علاوہ بعض اور عواامل بھی تھے جنہوںنے اس فتنے کو پروان چڑھنے میں مدد دی۔ اسلام عرب کے طول و عرض اور مکہ و مدینہ سے دوردراز کے علاقوں میں ا س وقت تک پھیل ہ سکا جب تک فتح مکہ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف کے واقعات پیش نہ آگئے اس عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائرہ کارمکہ مدینہ اور ان دونوں شہروں کے درمیان بسنے والے قبائل ہی تک محدود رہا اسلام ہجرت مدینہ سے بہت تھوڑ ا عرصہ قبل کہ کی حدود سے نکلاتھا۔ ہجرت کے بعد بھی کئی سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں اسلام کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے کوشا ںرہے۔ بعد میں جب مسلمانوں نے یہود کے اثر و اقتدار کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکا اور قیرش کو زیر کر کے مکہ فتح کر لیا تو دیگر قبائل عرب بھی اسلام کی طرف متوجہ ہوئے اور عرب کے طول و عرض سے وفود مدینہ آ کر قبول اسلا م کا اعلان کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے عمال کو دین کا علم سکھانے اور صدقات وغیرہ وصو ل کرنے کے لیے ان علاقوں میں بھیجنا شروع کیا۔ جغرافیائی عوامل یہ طبعی امر تھا کہ ان قبائل کے دلوں میں مکہ اور مدینہ اور قریبی علاقوں کے مسلمانوں کی طرح دین اسلام کی حقانیت راسخ نہ ہوئی تھی۔ اسلام کو پوری طرح پاؤں جمانے میں بیس سال صرف ہوئے۔ مسلمانوں کو اپنی ہستی برقرار رکھنے کے لیے سخت جدوجہد سے کام لینا، سالہا سال تک مخالفین کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا اور متواتر دشمن سے لڑائیوں میں مصروف رہنا پڑا تھا۔ بالآخر مخالف قید ہو گئے اور مکہ، طائف، مدینہ اور قریبی قبائل کے لوگوں کے دلوں میں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے بکثرت ملنے جلنے کا موقع ملا۔ اسلامی تعلیمات راسخ ہو گئیں۔ لیکن ان لوگوں پر اسلامی تعلیمات کا کوئی اثر نہ ہو سکا جو اسلامی مراکز سے دور تھے اور جنہوں نے اسلام کی خاطر مسلمانوں کی جدوجہد کو نہ آنکھوں سے دیکھا تھا اور نہ ان کی قربانیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد انہوں نے اس نئے دین سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی شروع کر دی جو ان کے خیال میں زبردستی ان پر مسلط کر دیا گیا تھا۔ اجنبی عوامل: جغرافیائی عوامل کے علاوہ اجنبی عوامل بھی ان قبائل کے خلاف اسلام اٹھنے میں کم اثر انگیز نہ تھے مکہ، مدینہ کے ارد گرد کے علاقے تو ایرانیوں اور رومیوں کی دست برد سے محفوظ تھے لیکن عرب کا شمالی حصہ جو شام سے متصل تھا اور جنوبی علاقہ جو ایران سے ملا ہوا تھا ان دونوں عظیم الشان سلطنتوں کے زیر اثر تھا۔ ان دونوں سلطنتوں کو ان علاقوں میں بہت اثر و رسوخ حاصل تھا اور یہاں کے سردار بھی براہ راست رومیوں اور ایرانیوں کے تابع تھے۔ ان امور کی موجودگی میں کچھ تعجب نہیں کہ ارتداد کی رو میں مندرجہ ذیل عوامل کام کر رہے ہوں! 1۔ شخصی آزادی اور خود مختاری کا جذبہ 2۔ شمال میں مسیحی اور جنوب و مشرق میں مجوسی سلطنتوں سے قرب کے باعث مسیحیت اورمجوسیت کا دلوں پر اثر 3۔ آبائی عقیدے (بت پرستی) کی کشش۔ جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات مشہور ہوئی ان عوامل نے اثر دکھانا شروع کر دیا اور جا بجا ارتداد کا فتنہ برپا ہونے لگا۔ بعض علاقوں میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں ان عوامل نے اثر کرنا شروع کر دیا تھا جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں بیان ہو گی۔ متعدد ایسے لوگ اٹھ کھڑے ہو گئے جنہوں نے اپنے قبیلوں کو بغاوت کرنے پر اکسانا اور اپنے جھنڈے تلے جمع کرنا شروع کیا اور اس طرح عرب کے طول و عرض میں ایک زبردست فتنہ پھیل گیا۔ منکرین زکوٰۃ کی منطق: جو لوگ ادائے زکوٰۃ سے انکاری تھے آپس میں کہتے تھے کہ مہاجرین اور انصار چونکہ خلافت کے بارے میں جھگڑا کر چکے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل کسی شخص کی خلافت کے متعلق وصیت نہیں کی اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام پر قائم رہتے ہوئے خود مختاری کی حفاظت کریں اور ہمیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ انصار و مہاجرین کی طرح ہم بھی اپنے میں سے کسی شخص کو اپنا امیر مقرر کر لیں جو ہمارے لیے جانشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور پر ہو۔ ابوبکرؓ یا ان کے سوا کسی اور کی اطاعت سے متعلق نہ دین میں کوئی نص موجود ہے اور نہ کتاب اللہ سے اس کا پتا چلتا ہے اس لیے ہم پر صرف اسی شخص کی اطاعت واجب ہے جسے ہم خود اپنا امیر مقرر کریں۔ یہ لوگ اپنی تائید میں یہ امر بھی پیش کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے متعدد شہروں کو اپنی زندگی ہی میں بڑی حد تک خود مختاری عطا فرما دی تھی۔ اب اگر آپ کی وفات کے بعد وہ مکمل خود مختاری چاہتے ہیں تو اس میں کسی کو اعتراض کی گنجائش نہ ہونی چاہیے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ نے یمن کے عامل بدھان (یا بازان) کو جو ایرانیوں کی جانب سے وہاں حکومت کر رہا تھا۔ مجوسیت ترک کرنے اور اسلام لانے کے بعد بدستور وہاں کا حکم بنائے رکھا۔ا سی طرح بحرین اور حضر موت وغیرہ کے تمام امراء کو بھی قبول اسلام کے بعد ان کے عہدوں پر برقرار رکھا اوراپنی طرف سے کوئی نیا عامل ان علاقوں میں نہ بھیجا۔ زکوٰۃ کے بارے میں ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ اصل میں جزیہ ہے جو ان پر عائد کیا گیا ہے حالانکہ جزیہ صرف غیر مسلموں پر واجب ہے۔ اس صورت میں کہ وہ ویسے ہی مسلمان ہیں جیسے مدینہ والے تو وہ کیوں حاکم مدینہ کو زکوٰۃ ادا کریں؟ ان کے اور اہل مدینہ کے درمیان صرف ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے دین اسلام، اس کا مطلب یہ نہیں کہ مدینہ والے ان پر حکومت کرنے کے بھی حق دار ہیں۔ اہل مدینہ کو بے شک اسلام میں اولیت کا شرف حاصل ہے لیکن دوسرے قبائل پر اپنی اس فضیلت کا اظہار وہ صرف اس صورت میں کر سکتے ہیں کہ وہ ان کی طرف معلمین بھیجیں جو انہیں دین کا علم سکھائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ وہ اور ہم بے شک ایک ہی امت ہیں۔ لیکن اس سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ کسی فریق کو دوسرے فریق پر غلبہ و تسلط حاصل ہو اور ایک قبیلے کو اس کی آزادی و خود مختاری کی نعمت سے محروم کر دیا جائے۔ اس قسم کے خیالات ان قبائل میں پیدا ہو رہے تھے جو کہ مکہ، مدینہ اور طائف کے قریب واقع تھے۔ لیکن یمن اور دور دراز کے علاقوں کے حالات بالکل مختلف تھے۔ ان لوگوں میں جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات مشہور ہوئی ان کے ایمان متزلزل ہونے لگے اور انہوں نے نہ صرف ارتداد اختیار کر لیا بلکہ ان لوگوں کے جھنڈے تلے جمع ہو کر سلطنت اسلامیہ سے بغاوت کی تیاریاں شروع کر دیں جنہوں نے قبائلی عصبیت کی آگ بھڑکا کر لوگوں کے دلوں میں اہل مکہ و مدینہ کے خلاف سخت نفرت پیدا کر دی تھی۔ یہ لوگ کسی تبلیغ کی وجہ سے مسلمان نہ ہوئے تھے بلکہ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتدار نہایت تیزی سے روم و ایران کی سرحدوں تک پھیل گیا ہے اور سارے عرب پر آپ کی حکومت قائم ہو گئی ہے طوعاً و کرہاً اسلام لانے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کے وفود مدینہ میں آتے اور اپنے اپنے قبیلوں کی طرف سے اسلام لانے کا اعلان کرتے تھے۔ مدعیان نبوت کا خروج: فتنے کی آگ سب سے زیادہ بھڑکانے والے لوگ وہ تھے جو نبوت کے مدعی بن کر کھڑے ہوئے اور دعوے کرنے لگے کہ ان پر اسی طرح وحی نازل ہوتی ہے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر۔ ان لوگوں نے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن بعد میں خود نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ بعض نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں خروج کر دیا تھا۔ بنی اسد میں طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ ایک بار وہ اپنی قوم کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ سخت گرمی کے دن تھے اور پیاس کے مارے لوگوں کا دم نکلا جا رہا تھا۔ اچانک انہیں صحرا میں ایک شیریں چشمہ مل گیا۔ یہ دیکھ کر اس کی نبوت پر لوگوں کا ایمان مستحکم ہو گیا۔ بنی حنیفہ میں مسلیمہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس نے صرف دعوئے نبوت پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھی بھیجا کہ مجھے نبوت میں آپ کا شریک کیا گیا ہے۔ اس لیے نصف زمین قریش کی ہے اور نصف زمین میری۔ لیکن قریش بڑی بے انصاف قوم ہے۔ یمن میں اسود عنسی نبوت کا مدعی بن کر کھڑا ہوا تھا۔ اس نے طاقت حاصل کر کے یمن پر قبضہ کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل کو وہاں سے نکال دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مدعیان نبوت کی طرف زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ آپ کو یقین تھا، دین خدا میں اتنی قوت موجود ہے کہ ان مدعیوں کے کذب و افتراء کے مقابلے میں کافی ہو سکتی ہے اور مسلمانوں کاایمان اس قدر مضبوط ہے کہ وقت پڑنے پر بخوبی ان لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اسود عنسی کا فتنہ: یہ مدعیان نبوت بھی اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں وہ آپ کے مقابلے پر ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے اور اسی احساس کے باعث اسود عنسی کے سوا اور کسی مدعی نبوت نے آپ کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کرنے کی جرات نہ کی۔ اسود عنسی کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور آپ ہی کے عہد میں قتل کر دیا گیا۔ لیکن بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس نے بھی اپنے بھائیوں کی سی روش اختیار کیے رکھی۔۔۔ اور اندر ہی اندر اپنے لیے زمین ہموار کرتا رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے اعلانیہ اسلام کے خلاف بغاوت کر دی اور میدان مقابلہ میں آ گیا ۔ یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتا ہے: اسود عنسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے ترقی کرنی شروع کی اور اس کی قوم کے ہزاروں افراد اس کے حلقہ اطاعت میں داخل ہونے لگے۔ بالآخر دو شخصیتوں قیس بن مکشوح المرادی اور فیروز دیلمی نے اس کے گھر میں داخل ہو کر اسے قتل کر دیا۔ اس وقت وہ نشے کے عالم میں تھا۔ طبری بھی اپنی ایک روایت میں لکھتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتدین سے پہلی جنگ یمن میں اسود عنسی کے خلاف لڑی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری حصے میں عرب کا ملاً پر سکون نہ تھا بلکہ اندر ہی اندر فتنے کی آگ سلگ رہی تھی۔ عرب کا شمال مشرقی اور جنوبی حصہ سارے کا سارا اس آگ میں جل رہا تھا۔ اس حالت انتشار کو وہ روحانی قوت ہی دور کر سکتی تھی جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت فرمائی تھی۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بالغ نظری، حکمت عملی اور حسن تدبیر کے ساتھ اللہ کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو سخت خطرہ تھا کہ یہ آگ آپ کی زندگی ہی میں پورے طور سے بھڑکنے لگتی اور سارا عرب اس میں جل کر خاکستر ہو جاتا۔ یمن میں فتنہ اسود: اغلب گمان یہ ہے کہ اسود عنسی کا فتنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری حصے میں برپا ہوا تھا۔ مورخین اس بغاوت کا حال جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے بعض ایسے پہلو نمایاں ہوتے ہیں جو خاصے غور و فکر کے محتاج ہیں۔ اس واقعے کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کیے تو کسریٰ شاہ فارس کو بھی ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام لانے کی دعوت دی۔ جب اسے خط کے مضمون کا ترجمہ سنایا گیا تو اس نے اپنے عامل یمن بازان1؎ کو حکم بھیجا کہ حجاز سے اس آدمی کا سر منگوا کر مابدولت کے پاس بھیج دو جس نے عرب میں نبوت میں دعویٰ کیا ہے۔ 1؎ بعض روایت میں رائل کا نام بازان کے بجائے بدھان آیا ہے۔ اس زمانے میں رومی ایرانیوں کے زیر نگیں تھے لیکن کسریٰ کے یہ خط لکھنے کی دیر تھی کہ حالات بدل گئے اور وہ رومی جو اس سے قبل ایرانیوں کی ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھے اب ان کی غلامی کو جوا اتار پھینکنے کو تیا رہو گئے۔ نہ صرف انہوں نے ایرانیوں کی غلامی سے نجام حاصل کر لی بلکہ ان پر غلبہ پا کر ان کی طاقت و قوت کو بے حد کمزور بھی کر دیا۔ جب بازان کو اپنے آقا کا خط ملا تو اس نے اپنے دو آدمیوں کو وہ خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا مگر آپ نے ان آدمیوں کو یہ کہہ کر لوٹا دیاـ: میرے اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے بادشاہ (کسریٰ) کو اس کے بیٹے شیرویہ نے ہلاک کر دیا ہے اور اس کی جگہ خود بادشاہ بن بیٹھا ہے۔ ساتھ ہی آپ نے بازان کو اسلام لانے کی دعوت بھی دی اور وعدہ کیا کہ اگر وہ اسلام لے آیا تو آپ اسے بدستو ر یمن کا حاکم بنائے رکھیں گے۔ اسی عرصے میں ایران کی گڑ بڑ، تخت شاہی پر شیرویہ کے قبضے اور رومیوں کے غلبے کی خبریں بھی بازان کو مل گئیں۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے اپنے وعدے کے مطابق اسے بدستور یمن کا حاکم بنائے رکھا۔ بازان کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کو کئی حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے پر مختلف آدمیوں کو حاکم مقرر کر دیا۔ بازان کے لڑکے شہر کو صفاء اور اس کے گرد و نواح کی حکومت تفویض ہوئی۔ باقی عاملوں میں سے بعض تو یمن ہی کے باشندے تھے اور بعض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے حاکم مقرر کر کے بھیجا تھا۔ ان عمال نے اپنی اپنی ولایت میں پہنچ کر نظم و نسق سنبھالا ہی تھا کہ انہیں اسود عنسی کا پیغام ملا کہ وہ فوراً یمن سے نکل جائیں کیونکہ یمن پر حکومت کرنے کا حق اسی کو حاصل ہے۔ یہ تھی اس فتنے کی ابتدائ۔ اسود عنسی کے فتنے کا آغاز: اسود اصل میں ایک کاہن تھا ج ویمن کے جنوبی حصے میں رہتا تھا اس نے شعبدہ بازی اور مسجع و مفلی گفتگو کی وجہ سے بہت جلد لوگوں کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی۔ بالآخر وہ نبوت کا مدعی بن بیٹھا اور اپنا لقب رحمان الیمن رکھا بعینہ جیسے مسلیمہ نے اپنا لقب رحمان الیمامہ 1؎ رکھا تھا ۔ وہ لوگوں پر یہ ظاہر کرتا تھا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ آتا ہے جو ہر بات اسے بتا دیتا ہے اور اس کے دشمنوں کے تمام منصوبے طشت از بام کر دیتا ہے۔ اس کا قیام مذحج کے علاقے میں ایک غار میں تھا جسے خبان کہتے تھے۔ جہلاء کی ایک بہت بڑی جماعت ان کی باتوں سے مسحور ہو کر اس کے گرد اکٹھی ہو گئی۔ اسود اس جماعت کو لے کر نجران کی طرف روانہ ہوا اور وہاں کے مسلمان حاکموں، خالد بن سعید اور عمرو بن حزم کو شہر سے نکال دیا۔ اہل نجران کی ایک بھاری تعداد بھی اسود کے ساتھ مل گئی تھی وہ اسے لے کر صفاء روانہ ہوا۔ وہاں شہر بن بازان سے مقابلہ پیش آیا۔ اسود نے اسے شہید کر دیا اور اس کی فوج کو شکست دی۔ یہ دیکھ کر صفاء میں مقیم مسلمانوں کو وہاں سے مدینہ آنا پڑا۔ انہیں لوگوں میں معاذ بن جبل بھی تھے۔ ادھر خالد بن سعید اور عمرو بن حزم بھی نجران سے مدینہ پہنچ گئے۔ اب یمن پر اسود قابض تھا اور حضرت موت سے بحرین احسا اور عدن تک اسی کا طوطی بول رہا تھا۔ فتنہ عنسی کے عوامل: جب اسود صفاء میں شہر بن بازان کے مقابلے پر آیا تھا تو اس کے ساتھ صرف سات سو سوار تھے جن میں سے بعض اس کے ساتھ مذحج سے آئے تھے اور بعض نجران سے ہمراہ ہو لیے تھے۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس قلیل تعداد سے یہ کاہن اس علاقے کے لوگوں پر کس طرح فتح یاب ہو گیا اور کسی جانب سے بھی اس کے خلاف آواز کیوں نہ اٹھی؟ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس علاقے کے باشندے پہلے ایرانیوں کے زیر نگیں تھے، ان کے بعد حجازی مسلمانوں کے زیر تسلط آ گئے۔ یمن اور حجاز کے لوگوں میں دیرینہ حکومت اور بغض و عناد پایا جاتا تھا۔ جب اسود عنسی نے کھڑے ہو کر یہ نعرہ لگایا کہ یمن صرف یمنیوں کا ہے تو وہاں کے باشندے اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ کوئی شخص مسلمانوں کی حمایت میں اس کاہن اور شعبدہ باز کے سامنے کھڑا نہ ہوا۔ 1؎ لغت کی کتاب لسان العرب میں لکھا ہے کہ رحمن اللہ کی صفت ہے جو اس کے سوا اور کسی کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ اس کتاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ رحمن کا لفظ عبرانی ہے اور رحیم عربی۔ بعض مستشرقین کہتے ہیں کہ اسلام سے قبل عرب کے جنوبی حصے میں ایک معبود کا نام رحمان تھا جس سے اہل حجاز واقف نہ تھے۔ یمن مختلف مذاہب کا اکھاڑہ تھا۔ یہاں یہودیت بھی پائی جاتی تھی، نصرانیت کا وجود بھی ملتا تھا اور مجوسیت نے بھی اثر جما رکھا تھا۔ ان کے بعد اسلام نے اپنا علم بلند کیا لیکن ابھی تک اصول یمنیوں کے ذہنوں میں راسخ نہ ہوئے تھے۔ جب ایک مدعی نبوت کھڑا ہوا۔ لوگوں کو تحفظ قومیت کا واسطہ دے کر اپنی طرف بلایا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہ اجنبی عناصر کو یہاں سے کلیۃ نکال پھینکے گا تو وہ لوگ جو ایک عرصے سے اجنبی تسلط کے باعث تنگ آ چکے تھے، اس کی امداد کو دوڑ پڑے۔ اس صورت میں مسلمانوں کے لیے فرار کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ بقیہ ایرانیوں کے لیے بجز اس کے اور کوئی راستہ نہ تھا کہ یا تو اسود عنسی کی اطاعت قبول کر لیں یا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ فتنے کا مقابلہ: جب یہ تشویش ناک خبریں مدینہ میں پہنچیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ موتہ کا انتقام لینے اور شمالی جانب سے حملوں کا سد باب کرنے کے لیے رومیوں پر چڑھائی کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور اسامہؓ کے لشکر کو تیاری کا حکم دے چکے تھے مگر جب یہ خبریں ملیں تو اب آپ کے سامنے دو ہی راستے تھے، ایک یہ کہ آپ اس لشکر کو بغاوت کے فرد کرنے کے لیے یمن بھیج دیں تاکہ مسلمان وہاں دوبارہ قابض ہو سکیں یا پروگرام کے مطابق اسے رومی سرحد ہی کی جانب روانہ کر دیں اور اسود عنسی کا مقابلہ کرنے کے لیے فی الحال انہی مسلمانوں سے کام لیں جو یمن میں موجود تھے۔ اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہو سکتی ورنہ جب اسامہ کا لشکر رومیوں پر فتح یاب ہو کر آئے گا تو اسود اور دیگر باغیوں کے مقابلے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے روانہ کر دیا جائے گا۔ بہت ہی احتیاط سے معاملے پر غور کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری تجویز پر عمل کرنا مناسب سمجھا اور وبربن یمنس کو یمن لے کے مسلمان سرداروں کے نام یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے کی پوری جدوجہد کریں۔ اسود سے جنگ جاری رکھیں اور ہر ممکن طریقے سے اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں۔ آپ نے یمن کے متعلق فی الحال یہی کارروائی کرنی مناسب سمجھی اور پوری قوت سے لشکر اسامہ کی تنظیم میں مصروف ہو گئے۔ ابھی اسامہ کا لشکر روانہ بھی نہ ہوا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور لشکر رک گیا۔ دریں اثناء اسود عنسی اپنی سلطنت مضبوط کرنے کی تدابیر میں مصروف رہا اس نے تمام علاقوں میں اپنے عامل مقرر کیے اور جا بجا فوجیں متعین کیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی اس نے زبردست قوت حاصل کر لی اور عدن تک کا سارا ساحل اور صفاء سے طائف تک کی تمام وادیاں اور پہاڑ اس کے زیر نگیں آ گئے۔ اسود عنسی کے عہدیدار: قیس عبدیغوث کو اسود عنسی نے اپنا سپہ سالار بنایا اور دو ایرانیوں: فیروز اور داؤدیہ کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ اس نے شہر بن بازان کی بیوہ آزاد سے شادی بھی کر لی جو فیروز کی چچیری بہن تھی۔ اس طرح عرب اور عجم دونوں اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ جب اس نے اپنی یہ شان و شوکت دیکھی تو خیال کر لیا کہ روئے زمین کا مالک وہی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم سے سرتابی کر سکے۔ اسود عنسی کے خلاف بغاوت: لیکن وہی عوامل جو اس کی فتح مندی کا موجب ہوئے تھے، بالآخر اس کے زوال کا باعث بنے۔ انہی قیس، فیروز اور داؤدیہ سے جنہیں اس نے اعلیٰ عہدوں پر متمکن کیا تھا اسے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اور موخر الذکر شخصوں اور یمن میں مقیم ایرانیوں کے متعلق تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ حیلوں، سازشوں اور مکر و فریب سے اس کی سلطنت کا تختہ الٹنے کی فکر میں ہیں۔ اسو دکی ایرانی بیوی کو بھی اسود کی زبانی ان لوگوں کی مخالفت کا حال معلوم ہو گیا۔ اس کی رگوں میں بھی ایرانی خون دوڑ رہا تھا اور وہ دل میں اس کاہن کے خلاف نفرت و حقات کے جذبات پنہاں کیے ہوئے تھی۔ جس نے اس کے پیارے خاوند کو اس سے جدا کر دیا تھا۔ پھر بھی اس نے نسوانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نفرت و حقارت کو اس سے چھپائے رکھا، اور طرز سلوک سے اس پر ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ وہ اس کی نہایت وفادار بیوی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسود اپنی بیوی کی طرف سے بالکل مطمئن رہا اور اس کے دل میں یہ شائبہ تک نہ گزرا کہ وہ کبھی اسے دغا دے سکتی ہے۔ لیکن وہ اپنے دونوں وزیروں اور قائد لشکر سے مطمئن نہ تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے طرز عمل سے اس وفاداری کا ثبوت بہم نہیں پہنچا رہے جو غلام اپنے آقا اور ولی نعمت سے کیا کرتے ہیں۔ قیس کی طرف سے وہ خصوصاً فکر مند تھا۔ کیونکہ سارا لشکر اس کے ماتحت تھا اور وہ لشکر کی مدد سے اس کے خلاف جو چاہتا کر سکتا تھا۔ کیونکہ سارا لشکر اس کے ماتحت تھا اور وہ لشکر کی مدد سے اس کے خلاف جو چاہتا کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے قیس کو بلایا اور کہا میرے فرشتے نے مجھ پر یہ وحی نازل کی ہے کہ: اگرچہ تو نے قیس کی ہر طرح عزت افزائی کی لیکن جب اس نے ہر طرح عمل دخل کر لیا اور وہی عزت جو تجھے حاصل تھی، اسے بھی حاصل ہو گئی تو اب وہ میرے دشمنوں سے ساز باز کر رہا ہے اور تجھ سے غداری کر کے تیرا ملک چھیننے کے درپے ہے۔ قیس نے جواب دیا: آپ کا خیال درست نہیں۔ میرے دل میں آ پ کی قدر و منزلت بدستور ہے اور میں آپ کے خلاف بغاوت کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسود نے گہری اور غائر نظر سے قیس کا جائزہ لیا اور بولا: کیا تو فرشتے کو جھٹلاتا ہے ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ فرشتے نے ضرور سچ کہا ہے۔ البتہ مجھے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ تو اپنی پچھلی کارروائیوں پر نادم ہے اور جو مخفی ارادے تو نے میرے متعلق کر رکھے تھے۔ ان سے توبہ کرتا ہے۔ قیس کو اسود کی باتیں سن کر یقین ہو گیا کہ وہ اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس لیے وہ وہاں سے نکل کر فیروز اور دادویہ سے ملا اور ساری سرگزشت انہیں سنا کر رائے دریافت کی۔ انہوں نے کہا خود ہمیں بھی اسود کی طرف سے خطرہ ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اسود نے ان دونوں کو بلا بھیجا اور کہا کہ تم قیس سے مل کر میرے خلاف سازشیں کر رہے تھے لیکن یاد رکھو میری مخالفت کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ ان دونوں کو بھی یہ باتیں سن کر یقین ہو گیا کہ اسود کی نیت ان دونوں کی طرف سے ٹھیک نہیں۔ ان واقعات کی خبر یمن کے دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو گئی۔ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ ہدایت پہلے ہی آ چکی تھی کہ جس طرح بھی ہوا اسود عنسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ انہوں نے قیس اور اس کے ساتھیوں کو پیغام بھیجا کہ اسود کے معاملے میں ہم سب کی رائے ایک ہے اس لیے اس کے خلاف بالاتفاق کارروائی کرنی چاہیے۔ نجران اور اس کے قریبی علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی ان واقعات کا علم ہو گیا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جو اسود کے قریب رہتے تھے لکھا کہ وہ بھی دل و جان سے قتل اسود کے خواہش مند ہیں اور اس کام میں ہر طرح ان کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ ادھر سے انہیں جواب ملا کہ فی الحال وہ اپنی اپنی جگہوں پر مقیم رہیں اور کوئی کام ایسا نہ کریں جس سے اسود کو شبہ ہو کہ اس کے خلاف کوئی سازش کی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کی یہ رائے بالکل درست تھی کہ اسود کے خلاف جو کارروائی کی جائے خفیہ کی جائے کیونکہ راز داری سے اس کا کام تما م کر دینا کھلم کھلا لڑائی کرنے سے بہرحال بہتر تھا۔ اب ان لوگوں کے مشوروں میں اسود کی بیوی آزاد بھی شامل ہو گئی، گو بظاہر وہ اپنے خاوند کو یہی جتاتی تھی کہ اسے اس سے بے انتہا محبت ہے۔ اس نے فیروز، دادویہ اور قیس کو ساتھ ملایا اور انہیں اسود کے سونے کا کمرہ دکھا کر ہدایت کی کہ وہ رات کو نقب لگا کر داخل ہو جائیں۔ محل کے ہر گوشے میں اسود کے سپاہی موجود ہوتے ہیں لیکن سونے کے کمرے کی پشت سپاہیوں سے بالکل خالی ہوتی ہے۔ وہ پشت سے داخل ہوں او راسے خواب کی حالت میں اچانک قتل کر ڈالیں، خود بھی اس سے نجات حاصل کر لیں اور اسے بھی ایسے ظالم انسان سے مخلصی دلائیں۔ اسود کا قتل: چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور رات کو پشت کی طرف سے محل میں داخل ہو کر اسود کو قتل کر ڈالا۔ صبح ہونے پر انہوں نے اذانیں دینی شروع کیں اور بلند آواز سے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور عبہلہ (سود عنسی کا نام) کذاب ہے۔ اسود کا سر بھی انہوں نے محل کے باہر پھینک دیا۔ ان کی آوازیں سن کر محل کے پہرے داروں نے ان کا محاصرہ کر لیا لیکن اسی دوران میں اہل شہر کو اسود عنسی کے قتل ہونے کا پتا چل چکا تھا۔ وہ محل کی طرف بھاگے۔ اس وقت ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور بالآخر فیصلہ ہوا کہ قیس، فیروز اور دادو یہ تینوں جن کا انتظام سنبھالیں گے۔ اس بارے میں مورخین کا اختلاف ہے کہ اسود عنسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل قتل ہوا یا بعد میں ۔ اس سلسلے میں یعقوبی کی روایت ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔ طبری اور ابن اثیر کا بیان ہے کہ وہ آپ کی وفات سے پہلے ہی جہنم واصل ہو گیا تھا۔ جس رات اس کے قتل کا واقعہ ہوا اسی رات اللہ نے بذریعہ وحی آپ کو اس واقعے کی اطلاع دے دی۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا: عنسی قتل کر دیا گیا۔ اسے ایک بابرکت آدمی نے قتل کیا جو خود بھی ایک بابرکت خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ لوگوں نے دریافت کیا: حضور! اس کا قاتل کون ہے؟ آپ نے فرمایا فریوز ایک اور روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسود عنسی کے قتل کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مدینہ نہیں پہنچ سکی بلکہ بعد میں پہنچی اور یہ پہلی خوش خبری تھی جو ابوبکرؓ کو ملی۔ ایک روایت خود فیروز کی زبانی مروی ہے جس میں وہ کہتا ہے: جب ہم نے اسود کو قتل کیا تو وہاں کا انتظام اسی طرح برقراررکھا جس طرح اسود کے تسلط سے پہلے تھا۔ ہم نے معاذ بن جبل کو بلا بھیجا کہ وہ ہمیں نماز پڑھائیں اور دین کی تعلیم دیں۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی کیونکہ ہم نے اپنے بہت بڑے دشمن سے نجات حاصل کی تھی ۔ یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات پہنچی اور یمن میں دوبارہ اضطراب پیدا ہو گیا۔ یہ اضطراب کیوں اور کس طرح پیدا ہوا؟ اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، یہ بیان مرتدین کی جنگوں کے ذیل میں آئے گا۔ جنوبی عرب میں بغاوت: یمن کی مذکورہ بالا بغاوت تو اسلام کے خلاف ایک زبردست مظاہرہ تھا ہی لیکن یمامہ اور خلیج فارس سے ملحقہ قبائل میں بھی حالات پرسکون نہ تھے بلکہ وہاں بھی اندر ہی اندر بغاوت کی آگ سلگ رہی تھی۔ مسلمان اس صورتحال سے خاصے پریشان تھے۔ کبھی تو وہ شورش کے بانیوں سے صلح کرنے پر آمادہ نظر آتے تھے اور کبھی طاقت کے ذریعے سے ان کا سر کچلنے کی تدابیر میں مصروف ہو جاتے تھے تاکہ ان کا غلبہ و اقتدار بدستور قائم رہے اور اسے کوئی ضعف نہ پہنچے۔ یہ علاقے ایک طرف تو مکہ اور مدینہ سے دور تھے اور اسلام کی تعلیم ان لوگوں کے دلوں میں راسخ نہ ہوئی تھی، دوسری طرف یہ فارس سے متصل تھے اور ایرانیوں سے ان لوگوں کا تجارتی رابطہ قائم تھا، اس لیے تعجب نہیں کہ ان بغاوتوں اور شورشوں میں ایرانیوں کا بھی خفیہ ہاتھ ہو۔ مسلیمہ کا دعوائے نبوت: گزشتہ اوراق میں ہم اجمالاً بیان کر چکے ہیں کہ بنی حنیفہ کے مدعی نبوت مسلیمہ بن حبیب نے دو قاصدوں کے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خط مدینہ بھیجا تھا۔ من مسیلمۃ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ سلام علیک، اما بعد فانی قد اشرکت فی الاخر معک، وان لنا لنصف الارض ولقریش نصف الارض، ولکن قریشا قوم لا یعدلون (مسلیمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آپ پر سلامتی ہو۔ بعد ازاں واضح ہو کہ میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں۔ اس لیے نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی۔ لیکن قریش کی قوم انصاف سے کام نہیں لیتی۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو قاصدوں سے دریافت فرمایا: تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہم وہی کہتے ہیں جو خط میں لکھا ہے۔ آپ نے غضب ناک نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: اللہ کی قسم اگر قاصدوں کا قتل روا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ اس کے بعد مسلیمہ کو یہ جواب لکھوایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ من محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی مسیلمۃ الکذاب اما بعد فان الارض للہ یرثھا من یشاء من عبادہ المتقین۔ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے مسلیمہ کذاب کی طرف بے شک زمین اللہ کی ہے، وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خط کے مضمرات سے ناواقف نہ تھے۔ آپ نے اہل یمامہ کے دلوں سے مسلیمہ کا اثر زائل کرنے اور انہیں اسلامی تعلیمات سکھانے کے لیے مدینہ سے ایک شخص نہار الرحال کو یمامہ بھیجا لیکن وہ جا کر مسلیمہ سے مل گیا اور اہل یمامہ کے سامنے گواہی دی کہ واقعی مسلیمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے۔ نہاراً الرحال کی تائید نے مسلیمہ کے اثر و نفوذ میں بے پناہ اضافہ کر دیا اور اہل یمامہ جوق در جوق مسلیمہ کے حلقہ اطاعت میں شامل ہونے لگے۔ پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدائی رحمت سے قطعاً نا امید نہ ہوئے۔ آپ کو یقین تھا کہ اللہ مسلمانوں کو رومیوں پر ضرور فتح عطا فرمائے گا اور اس فتح کے نتیجے میں تمام داخلی فتنے اپنی موت آپ ہی مر جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی: اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی یہ تھی کہ ہر قیمت پر رومیوں کو زیر کیا جائے اور عرب کی شمالی حدودکو ہرقل کی فوجوں کی تاخت و تاراج سے محفوظ رکھا جائے۔ اس زمانے میں ہرقل کی قوت و طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا اس نے اپنے وہ تمام علاقے جو کچھ عرصہ قبل ایرانیوں کے قبضے میں چلے گئے تھے واپس چھین لیے تھے اور صلیب اعظم کو بھی ایرانیوں سے چھڑا کر بیت المقدس واپس لے آیا تھا۔ اس بات کا زبردست خطرہ تھا کہ کہیں رومی فوجوں کا رخ عرب کی جانب نہ پھر جائے کیونکہ وہاں کے حکمران سر زمین عرب میں ایک نئی قوت کو ابھرتے دیکھ کر سخت پریشان ہو رہے تھے۔ غزوہ موتہ میں اسلامی لشکر رومیوں کے مقابلے کی تاب نہ لا کر واپس ہونے پر مجبور ہوا تھا (گو اسے ان کے مقابل میں شکست کا سامنا نہ کرنا پڑا) غزوہ تبوک نے مسلمانوں کے رعب و داب میں خاصا اضافہ کر دیا تھا پھر بھی عرب پر رومیوں کے حملے کا خطرہ کلیۃ دور نہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال تھا کہ اگر اسلامی فوجیں رومیوں پر غالب آ گئیں تو نہ صرف آئندہ کے لیے عرب علاقوں پر ان کی تاخت و تاراج کا سلسلہ رک جائے گا بلکہ شوریدہ سر عربی قبائل بھی چھپ کر بیٹھ جائیں گے اور طوعاً و کرہاً مسلمانوں کی اطاعت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آپ کا یہ خیال بالکل درست تھا کیونکہ اس زمانے میں عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلمانوں ہی کا غلغلہ برپا تھا۔ انہیں عرب کی سب سے بڑی طاقت تسلیم کر لیا گیا تھا۔ یمامہ میں مسلیمہ، عمان میں لقیط اور بنی اسد میں طلیحہ اس قابل نہ تھے کہ مسلمانوں سے کھلم کھلا جنگ چھیڑ کر فتح یاب ہو سکتے۔ لقیط، طلیحہ اور مسلیمہ تینوں ایسے مناسب موقع کے انتظار میں تھے جب باقاعدہ بغاوت کا اعلان کر کے مسلمانوں کا تختہ الٹ سکیں۔ ابتداء میں ان تینوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن و تشنیع اور آپ کی رسالت پر اعتراض کیے بغیر اپنا پروپیگنڈہ شروع کیا۔ تینوں کا دعویٰ تھا کہ وہ نبی ہیں اور جس طرح ہر قوم میں اللہ کی طرف سے نبی مبعوث کیے گئے ہیں، انہیں بھی اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ وہ انہیں ہدایت کا راستہ دکھائیں۔ یہ صورت حال ان علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ ان کے زیر پا فتنہ کی آگ سلگ رہی تھی اور کسی کو علم نہ تھا کہ کب یہ آگ زور شور سے بھڑک اٹھے۔ جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات مشتہر ہوئی یہ آگ بھڑک اٹھی اور دیکھتے دیکھتے عرب ایک آتش فشاں پہاڑ میں تبدیل ہو گیا جس سے آگ اور سیال لاوا نکل کر چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ یہ فتنہ مختلف علاقوں کے اندر مختلف صورتوں میں پھیلاا ور ہر جگہ اس کے اسباب و عوامل بھی علیحدہ علیحدہ تھے۔ ان تمام باتوں کا ذکر ہم آگے چل کر وضاحت سے کریں گے لیکن یہاں بعض ضروری باتوں کا بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ عرب اور فتنہ مدعیان نبوت: فتنہ و فساد کے اس طوفان پر نظر ڈالنے سے بعض اہم امور کا علم ہوتا ہے جن پر غور و فکر سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو بھی فتنی اٹھا بڑی تیزی سے اٹھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسود عنسی نے تھوڑے ہی عرصے میں ملک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور اس کی حکومت جنوب میں حضر موت سے مکہ و طائف تک پھیل گئی۔ مسلیمہ اور طلیحہ نے بھی غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ مزید برآں جن علاقوں میں ارتداد کی وباء پھیلی اور جہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کی اطاعت کا جوا کندھوں پر اٹھانے سے انکار کر دیا وہ علاقے تہذیب تمدن اور دولت و ثروت کے لحاظ سے تمام قبائل عرب سے بڑھے ہوئے تھے اور ان کی حدود مملکت ایران سے بہت قریب تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ابوبکرؓ نے اس فتنے کو فرو کرنے میں پوری طاقت صرف کر دی اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک ان علاقوں میں اسلامی سلطنت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر کے امن و امان بحال نہ کر دیا۔ اسود عنسی کی بغاوت اور مسلیمہ و طلیحہ کی تیاریوں سے اس امر کا بھی علم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دینی اضطراب اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ اگر کوئی شخص مذہب کا نام لے کر ذاتی مفاد کے لیے کوئی تحریک چلانا چاہتا تو بڑی آسانی سے کامیاب ہو سکتا تھا۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ لوگوں میں کسی خاص مذہب کے متعلق تعصب پایا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے برعکس کوئی بھی عقیدہ ان لوگوں کے دلوں میں راسخ نہ تھا۔ نصرانیت، یہودیت، مجوسیت، بت پرستی، غرض ہر مذہب و ملت کے پرستار اور مددگار یہاں موجود تھے لیکن سب کے سب باہم لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ ہر مذہب کے پرستاروں کا دعویٰ تھا کہ انہیں کا مذہب مبنی برحق ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا راستہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ چونکہ ہر مذہب سچائی کا مدعی تھا۔ اس لیے عام انسان کے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ وہ کس مذہب کو قبول کرے اور کسے چھوڑے۔ اندریں حالات مدعیان نبوت کے لیے یہ بات آسان ہو گئی کہ وہ اپنے اپنے قبیلے میں عصبیت کے جراثیم پھیلا کر اور مختلف شعبدوں کو اپنی صداقت کے ثبو ت میں پیش کر کے انہیں اپنی طرف مائل کر لیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ان مدعیان نبوت نے کثیر التعداد لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے اسلامی حکومت کے خلاف بظاہر کامیابی حاصل کر لی۔ مدعیان نبوت کی عارضی کامیابی: ان مدعیان نبوت کی عارضی کامیابی کا راز ان کے دعوے اور لوگوں کے ان پر ایمان لانے میں مضمر نہ تھا۔ بلکہ اس میں بعض اور عوامل بھی کام کر رہے تھے۔ چنانچہ اسود عنسی کی کامیابی کی بڑی وجہ بے پناہ نفرت تھی جو اہل یمن کو اہل فارس اور اہل حجاز سے تھی۔ اسود نے یمنیوں کا یہ جذبہ نفرت ابھار کر انہیں آسانی سے حجازیوں کے مقابلے پر لا کھڑا کیا۔ مسیلمہ اور طلیحہ نے بھی اسود عنسی کے نقش قدم پر چل کر اپنی اپنی قوم میں عصبیت کے جذبات کو بھڑکایا اور اس طرح لوگوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر لیا۔ اگر ان علاقوں میں اسلام کی بنیاد مضبوط ہوتی اور اس کے اصول لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوتے تو ان مدعیان نبوت کو کبھی حکومت کے مقابلے میں کھڑے ہونے اور کثیر التعداد لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لینے کی توفیق نہ ملتی۔ کیونکہ جو عقیدہ دلوں پر غلبہ حاصل کر چکا ہو اسے شاذ و نادر ہی کوئی طاقت مغلوب کر سکتی ہے۔ لیکن مذکورہ بالا علاقوں کے لوگوں کا ایمان چونکہ محض رسمی تھا اور وہ اسلام کی حقیقی و ماہیت سے قطعاً ناواقف تھے اس لیے جونہی قومیت کے نام سے تحریکیں شروع ہوئیں اور عصبیت اک واسطہ دلا کر انہیں ابھارا گیا وہ اسلام کو خیر باد کہہ کر اسود اور مسیلمہ جیسے لوگوں کے پیچھے چل کھڑے ہوئے۔ ہمارے نظریے کی تائید اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ اس عظیم الشان شورش کے وقت مکہ اور طائف والے بدستور اسلام پر قائم رہے۔ یہ درست ہے کہ یمن میں اسلام کا چرچا وہاں کے حاکم بازان کے قبول اسلام کے وقت سے شروع ہو گیا تھا اور یہ واقعہ فتح مکہ و طائف سے پہلے کا ہے۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ سیزدہ سالہ قیام کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی سخت مخالفت کے باوجود آپ کی تعلیمات نے اہل مکہ کے دلوں پر اسلام کے متعلق ایسا مخفی لیکن گہرا اثر چھوڑا تھا جو بازان کے قبول اسلام اور معاذ بن جبل کی تعلیم و تربیت کے باوجود اہل یمن کے دلوں پر نہ ہو سکا۔ تیسری بات جس کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یمن کی بغاوت ہی نے بنی یمامہ اور بنی اسد کو اسلامی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات دلائی طلیحہ اور مسیلمہ دونوں مسلمانوں کی بے پناہ قوت سے خوف کھاتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں کبھی جیت نہیں سکتے۔ اسی وجہ سے انہوں نے ھکومت سے بغاوت اور سرکشی کی جرات نہ کی۔ لیکن جب اسود عنسی میدان مقابلہ میں آ گیا اور اسے ابتداء کامیابی بھی ہوئی تو ان دونوں کو بھی علم بغاوت بلند کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے ان کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے۔ اگر اسود عنسی مسلمانوں کے خلاف کھڑا نہ ہوتا اور یمن میں فتنہ و فساد اور بغاوت کی آگ نہ بھڑکتی تو ان دونوں کو کبھی مسلمانوں کے مقابلے میں آنے کی جرأت نہ ہوتی۔ جب ایک بار فتنہ برپا ہو گیا تو اسود عنسی کی موت کے باوجود دب نہ سکا۔ بلکہ اس میں زیادتی ہی ہوتی چلی گئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے شدت اختیار کر لی اور سارا عرب اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ فتنہ ارتداد اور مستشرقین: بعض مستشرقین کا خیال ہے کہ فتنے کا اصل باعث وہ عظیم تفاوت تھا جو عرب کے مختلف طبقوں اور علاقوں میں طرز معاشرت کے بارے میں پایا جاتا تھا اور جس کی نظیر عرب کے سوا دوسرے علاقوں میں کہیں نہیں ملتی۔ بدوی اور شہری طرز زندگی میں عظیم تفاوت کے باعث عربوں کو ایک قومیت میں ڈھال دینا آسان کام نہ تھا۔ بدویوں کے لیے حاکم کی اطاعت کا وہ تصور بھی حال تھا جو شہریوں کے ذہنوں میں تھا۔ بدو لوگ شخصی آزادی کے مقابلے میں ہر چیز کو ہیچ سمجھتے اور اس پر کبھی آنچ نہ آنے دیتے تھے۔ آزادی ان کے نزدیک متاع حیات تھی۔ اگر کبھی وہ اسے خطرے میں دیکھتے تھے تو زبردست قربانی دے کر بھی اس کی حفاظت کرنا اپنا فرض اولین خیال کرتے تھے۔ آزادی کا یہی جذبہ مدت دراز تک یمنیوں اور شمالی علاقے کے لوگوں کے لیے وجہ عداوت و خصومت بنا رہا۔ مستشرقین لکھتے ہیں کہ بدوی اور شہری طرز معاشرت، بود و باش اور طبائع میں فرق کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل ہی اضطراب پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اسلام نے توحید کا عقیدہ دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور بت پرستی کو مٹانا اس کا مقصد اولین تھا۔ا سلام کی تعلیم کا اثر اتنا ضرور ہوا کہ عقیدہ توحید عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہی عربوں کو یہ خدشہ بھی لاحق ہو گیا کہ عقیدہ توحید عرب کی سیاسی وحدت پر منتج نہ ہو اور اہل بادیہ آزادی کی نعمت سے محروم ہو جائیں۔ یہی خیالات تھے جن کے باعث یمن اور بعض دوسرے علاقے مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کی خاطر جدوجہد شروع کر دی۔ ارتداد میں اجنبی ہاتھ: مستشرقین کا یہ خیال صحیح ہو یا غلط، بہرحال اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربوں کی اس بغاوت اور فتنہ ارتداد میں اجنبی ہاتھ ضرور تھا۔ ایرانیوں اور رومیوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اسلام کی دعوت پہنچی اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے اسلام کے اثر و نفوذ کو بڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو اپنی خیرت اسی میں سمجھی کہ قبل اس کے کہ اسلام کا عظیم الشان سیلاب ان کی طرف رخ کرے خود عربوں میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کر دئیے جائیں اور انہیں اس نئے دین کے خلاف بھڑکا کر خود عربوں کو اپنے ہم قوم مسلمانوں سے بھڑا دیا جائے۔ اس فتنے کے بانیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں حصول مقصد کے لیے ریشہ دوانیاں شروع کر دی ہیں۔ آپ کی وفات سے مفسدین کے حوصلے اور بڑھ گئے اور انہوں نے پوری قوت سے بغاوت کے شعلے بھڑکا کر مسلمانوں کو انتہائی نازک مرحلے سے دو چار کر دیا۔ ابوبکرؓ نے فتنے کا مقابلہ کس طرح کیا، عربوں کا اتحاد دوبارہ کس طرح قائم کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیادوں کو دوبارہ استوار کرنے کے لیے کیا کیا طریقے اختیار کیے؟ ان سب باتوں کا جواب آئندہ صفحات میں ملے گا۔ ٭٭٭ چوتھا باب اسامہؓ کی روانگی خلیفہ اول کا پہلا حکم: عرب قبائل کی بغاوت کے نتائج و عواقب سے نہ تو ابوبکرؓ بے خبر تھے اور نہ انصار و مہاجرین کا کوئی فرد۔ اب ان کے سامنے ایک ہی سوال تھا۔ آیا اس موقع پر سب سے پہلے ارتداد کے فتنے کو کچلا جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تعمیل میں سرحدوں کی حفاظت کے لیے اسامہ کے لشکر کو شام روانہ کر دیا جائے؟ اگرچہ وہ وقت مسلمانوں کے لیے نازک تھا لیکن ابوبکرؓ، نے تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے بیعت کے بعد پہلا حکم یہ صادر فرمایاکہ اسامہ کا لشکر شام روانہ ہو جائے۔ اسامہ کے لشکر میں مہاجرین اور انصار کے معزز ترین افراد شامل تھے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی سرحد پر رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک کے بعد آپ کو خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں اسلام اور مسیحیت کے بڑھتے ہوئے اختلاف اور یہود کی فتنہ انگیزی کے باعث اہل روم عرب پر حملہ نہ کر دیں۔ جنگ موتہ اور غزوہ تبوک میں جو واقعات پیش آ چکے تھے ان سے آپ کے ان خدشات کو مزید تقویت پہنچی۔ جنگ موتہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ تینوں قائدین: زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ بالآخر خالد بن ولید نے مسلمانوں کے لشکر کو رومیوں کے نرغے سے نکالا اور انہیں بحفاظت مدینہ لے آئے۔ گو انہیں جنگ میں فتح حاصل نہ ہو سکی مگر اتنی قلیل التعداد فوج کو اتنے عظیم الشان لشکر کے محاصرے سے بحفاظت نکال لانا بجائے خود نہایت شجاعانہ کارنامہ تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس مسلمانوں کو ہمراہ لے کر جانب تبوک روانہ ہوئے لیکن دشمن کو میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہوئی اور اس نے شام کے اندرونی علاقوں میں گھس کر مسلمانوں کے حملے سے محفوظ ہو جانے میں اپنی خیریت سمجھی۔ ان غزوات کے باعث مسلمانوں کے متعلق رومیوں کے ارادے بہت خطرناک ہو گئے اور انہوں نے عرب کی سرحد پر پیش قدمی کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو بطور پیش بندی شام روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات: اسامہ بیس برس کے نوجوان تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس لیے سردار لشکر مقرر فرمایا تھا کہ ایک طرف تو نوجوانوں میں خدمت دین کے لیے آگے آنے اور اہم ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا شوق پیدا ہو، دوسری طرف اسامہ اپنے والد زید بن حارثہ کا انتقام لے سکیں جنہیں رومیوں نے جنگ موتہ میں شہید کر دیا تھا۔ آپ نے اسامہ کو حکم دیا کہ وہ فلسطین میں بلقاء اور داروم کی حدود میں پہنچ کر دشمن پر حملہ کریں اور اس ہوشیاری سے یہ کام انجام دیں کہ جب تک وہ دشمن کے سر پر نہ پہنچ جائیں اسے مسلمانوں کی آمد کا پتہ نہ لگے۔ انہیں یہ حکم بھی دیا گیا تھا کہ فتح کے بعد فوراً مدینہ واپس آ جائیں۔ اسامہؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت: اسامہؓ زمانہ طفولیت ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر اور محبوب تھے۔ آپ کو ان کی اس قدر پاس داری تھی کہ صلح حدیبیہ کے اگلے سال آپ عمرہ کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو انہیں اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا اور اسی حالت میں مکہ میں داخل ہوئے۔ اسامہؓ بھی دلیری اور بہادری میں کسی سے کم نہ تھے اور یہ صفات عہد طفلی ہی سے ان میں نمایاں تھیں۔ جنگ احد کے موقع پر وہ بچے تھے اور بچوں کو لشکر کے ساتھ جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن جب اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ راستے میں اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لیکن صغر سنی کی وجہ سے انہیں واپس کر دیا گیا۔ جنگ حنین میں انہوں نے بہادری کے خوب جوہر دکھائے اور ثابت قدمی کا بے نظیر مظاہرہ کیا۔ اسامہؓ کی امارت پر اعتراض: ان اوصاف کے باوجود بعض لوگوں کو اسامہ کی امارت پر اعتراض تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اسامہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اوراسامہ کی بہادری مسلم لیکن ایسے لشکر کی امارت جس میں ابوبکرؓ، عمرؓ اور دوسرے جلیل القدر صحابہ شامل ہیں، ایک بچے کو سپرد کرنا مناسب نہیں۔ ان چہ میگوئیوں کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عین مرض الموت میں مل گئی۔ اس وقت اسامہ کا لشکر مقام جرف میں مقیم تھا اور کوچ کی تیاریوں میں مشغول تھا۔ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کو حکم دیا کہ وہ آپ کو نہلائیں۔ چنانچہ پانی کی سات مشکیں آپ پر ڈالی گئیں۔ جن سے آپ کا بخار اتر گیا۔ اس وقت آپ مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر حمد و ثنا اور اصحاب احد کے لیے دعا کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو! اسامہ کے لشکر کو جانے دو۔ تم نے اس کی امارت پر اعتراض کیا ہے اور اس سے پہلے تم اس کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کر چکے ہو۔ اس کے باوجود امارت کے قابل ہے اور اس کا باپ بھی امارت کے لائق تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں اضافہ ہو گیا تو اسامہ کا لشکر جرف ہی میں رک گیا۔ اسامہ بیان کرتے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری بڑھ گئی تو میں اور میرے چند ساتھی مدینہ آئے۔ میں آپ کے پاس گیا۔ آپ کو شدید ضعف تھا اور بول نہ سکتے تھے۔ آپ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے اور مجھ پر رکھ دیتے ۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ میرے لیے دعا فرما رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے روز علی الصباح اسامہؓ نے آپ سے کوچ کی اجازت مانگی۔ آپ نے اجازت دے دی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد آپ کی وفات ہو گئی اور اسامہؓ اپنے لشکر کے ہمراہ جرف سے مدینہ آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں اسامہؓ اہل بیت کے ساتھ شریک رہے۔ وہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران آپ کے جسد اطہر پر پانی ڈالتے اور حضرت علیؓ غسل دیتے تھے۔ بیعت کے بعد جب ابوبکرؓ نے اسامہؓ کو کو چ کا حکم دیا تو معترضین کی زبانیں پھر حرکت میں آ گئیں اور وہ کوئی ایسا حیلہ تلاش کرنے لگے جس کے ذریعے سے ابوبکرؓ کو اس لشکر کے روانہ کرنے یا کم از کم اسامہؓ کو امیر بنانے سے باز رکھ سکیں۔ انہوں نے خلافت کے بارے میں مہاجرین اور انصار کے اختلافات اور عرب قبائل کی بغاوت کا سہارا لیا اور ابوبکرؓ سے جا کر عرض کیا کہ موجود دور مسلمانوں کے لیے سخت نازک اور پر خطر ہے، ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں، اس موقع پر لشکر کو شام بھیج کر مسلمانوں کی جمعیت کو منتشر کرنا مناسب نہ ہو گا۔ لیکن ابوبکرؓ نے نہایت ثابت قدمی اور اولو العزمی سے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تو بھی میں اسامہ کے اس لشکر کو روانہ ہونے سے نہیں روک سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا۔ اگر مدینہ میں میرے سوا کوئی بھی متنفس باقی نہ رہے تو بھی میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا۔ ایک روایت یہ بھی ہے، جب اسامہؓ نے دیکھا کہ ان کے خلاف چہ میگوئیاں کی جارہی ہیں تو انہوں نے عمرؓ سے کہا آپ ابوبکرؓ کے پاس جائیے اور ان سے کہیے کہ وہ لشکر کی روانگی کا حکم منسوخ کر دیں تاکہ بڑھتے ہوئے فتنوں کے مقابلے میں یہ لشکر ممد و معاون ہو سکے اور مرتدین کو آسانی سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو۔ ادھر انصار نے عمرؓ سے کہا اگر ابوبکرؓ لشکرکو روانہ کرنے ہی پر مصر ہوں تو ہماری طرف سے ان کی خدمت میں یہ درخواست کریں کہ وہ کسی ایسے آدمی کو لشکر کا سردار مقرر فرمائیں جو عمر میں اسامہؓ سے بڑا ہو۔ عمرؓ نے جا کر سب سے پہلے اسامہؓ کا پیغام دیا۔ ابوبکرؓ نے فرمایا: اگر جنگل کے کتے اور بھڑئیے مدینہ میں داخل ہو کر مجھے اٹھا لے جائیں تو بھی میں وہ کام کرنے سے باز نہ آؤں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ ابوبکرؓ کی ناراضگی: اس کے بعد عمرؓ نے انصار کا پیغام دیا۔ یہ سنتے ہی ابوبکرؓ نے غضب ناک ہو کر فرمایا: اے ابن خطاب! اسامہ ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم مجھے کہتے ہو کہ میں اسے اس کے عہدے سے ہٹا دوں۔ عمرؓ پریشان ہو کر سر جھکائے واپس چلے آئے۔ جب لوگوں نے پوچھا کہ ابوبکرؓ نے کیا جواب دیا تو انہوں نے بڑے غصے سے کہا: میرے پاس سے فوراً چلے جاؤ۔ محض تمہاری بدولت مجھے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھڑکیاں کھانی پڑیں۔ اس واقعے سے اس مسلک کی ا یک جھلک ہمارے سامنے آتی ہے جس پر ابوبکرؓ ابتداء خلافت سے آخر وقت تک گامزن رہے۔ اسی جھلک کا مظاہرہ آپ نے اس وقت کیا جب فاطمۃ الزہراؓ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اپنے والد کی میراث کا مطالبہ کرنے آئی تھیں۔ آپ نے انہیں فرمایا: واللہ! مجھ پر یہ فرض ہے جو کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھ چکا ہوں خود بھی وہی کروں اور اس سے سر مو انحراف نہ کروں۔ اور یہی نمونہ آپ نے اسامہؓ کے لشکر کو بھیجتے وقت دکھایا۔ لشکر کو روانگی کا حکم: معترضین کے اعتراضات کو رد فرمانے کے بعد ابوبکرؓ نے اسامہؓ کے لشکر کو روانہ ہونے کا حکم دیا اور فرمایا کہ مدینہ کا کوئی شخص جو اس لشکر میں شامل تھا، پیچھے نہ رہے بلکہ مدینہ سے نکل کر مقام جرف میں لشکر سے مل جائے۔ آپ نے فرمایا: اے لوگو! میں تمہاری مانند ایک انسان ہوں۔ میں نہیں جانتا آیا تم مجھ پر وہ وہ بوجھ رکھو گے جس کے اٹھانے کی طاقت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا تھا اور تمام آفات سے آپ کو محفوظ رکھا تھا۔ میں تو صرف آپ کی پیروی کرنے والا ہو، کوئی نئی چیز تمہارے سامنے پیش کرنے والا نہیں۔ اگر میں سیدھا رہوں تو میری پیروی کرو اور اگر کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ یہ تھا خلیفہ اول کا نظریہ سیاست۔ انہوں نے واقعی اس سے کبھی انحراف نہ کیا اور سب لوگوں سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کی۔ آپ کی زندگی میں جس قلبی تعلق کا ثبوت ابوبکرؓ نے دیا اس کا حال گزشتہ اوراق میں بیان کیاجا چکا ہے۔ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ایمان انہیں تھا اسے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی متزلزل نہ کر سکتی تھی اور آپ سے جو قلبی و روحانی تعلق تھا اس کی نظیر روئے زمین پر کوئی نہیں پائی جاتی۔ ابوبکرؓ آپ کی اطاعت کامل ایمان اور یقین سے کرتے تھے اور اس ایمان و اخلاص میں انہوں نے جس قدر ترقی کی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی گرد کو نہ عمرؓ پہنچ سکے، نہ علیؓ، نہ کوئی اور شخص روانگی لشکر کی تیاریاں: جرف پہنچ کر جب عمرؓ نے لوگوں کو ابوبکرؓ کے جواب سے مطلع کیا تو انہیں خلیفہ کے احکام کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ابوبکرؓ بھی جرف تشریف لائے اور اپنے سامنے لشکر کو رخصت کیا۔ روانگی کے وقت لوگوں نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ اسامہؓ سوار ہیں اور خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ لوگوں کے دلوں میں اسامہؓ کی تعظیم و تکریم کا جذبہ پیدا ہو اور وہ آئندہ اپنے سردار کے تمام احکام کی تعمیل بے چون و چرا کیا کریں۔ اسامہؓ کو بڑی شرم آئی کہ وہ تو گھوڑے پر سوار ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب ساتھی، خلیفۃ المسلمین اور مسلمانوں کا سب سے قابل تعظیم شخص بڑھاپے کے باوجود پیدل چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا: اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یا تو آپ بھی سوار ہو جائیے۔ ورنہ میں اتر پڑتا ہوں۔ ابوبکرؓ نے جواب دیا: واللہ! نہ تم اترو گے نہ میں سوار ہوں گا۔ کیا ہوا اگر میں نے ایک گھڑی اپنے پاؤں اللہ کی راہ میں غبار آلود کر لیے۔ جب لشکر کی روانگی کا وقت آیا تو انہوں نے اسامہ سے کہا: اگر تم چاہو تو میری مدد کے لیے عمرؓ کو چھوڑے جاؤ۔ اسامہ نے بڑی خوشی سے عمرؓ کو ابوبکرؓ کے ساتھ واپس جانے کی اجازت دے دی۔ لشکر کو نصیحتیں: واپسی کے وقت ابوبکرؓ فوج کے سامنے کھڑے ہوئے اور یہ تقریر فرمائی: اے لوگو! ٹھہر جاؤ۔ میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں، انہیں یاد رکھو۔ خیانت نہ کرنا، بد عہدی نہ کرنا، چوری نہ کرنا، مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا۔ بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا، کھجور کے درخت نہ کاٹنا نہ جلانا۔ پھل والے درخت نہ کاٹنا، کسی بھیڑ، گائے یا اونٹ کے سوائے کھانے کے ذبح نہ کرنا۔ تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجاؤں میں عبادت کے لیے وقف کر دیا ہے اور وہ رات دن انہیں میں بیٹھے عبادت کرتے رہتے ہیں، تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ تم ایسے لوگوں کے پاس پہنچو گے جو تمہارے لیے برتنوں میں مختلف کھانے لائیں گے، جب بھی کھانا شروع کرنا اس پر اللہ کا نام ضرور لے لیا کرنا۔ تم ایسے لوگوں سے ملو گے جنہوں نے سر کا درمیانی حصہ تو منڈا دیا ہو گا لیکن چاروں طرف بڑی بڑی لٹیں لٹکتی ہوں گی، انہیں تلوار سے قتل کر ڈالنا۔ اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنا اللہ تمہیں شکست اور وبا سے محفوظ رکھے ۔ اسامہ کو یہ نصیحت کی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جو کچھ کرنے کا حکم دیا تھا وہ سب کچھ کرنا۔ جنگ کی ابتداء قضاعہ سے کرنا۔ اس کے بعد آبل جانا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا۔ لشکر کا بلقاء کی جانب کوچ: یہ نصیحتیں فرما کر ابوبکرؓ تو عمرؓ کے ہمراہ مدینہ واپس آ گئے اور اسامہؓ شام روانہ ہو گئے۔ مئی کا مہینہ تھا اور سخت گرمی کے دن تھے۔ لشکر تپتے ہوئے صحراؤں اور جنگلوں کو قطع کرتا ہوا بیس روز بعد بلقاء پہنچ گیا۔ بلقاء کے قریب ہی جنگ موتہ ہوئی تھی جس میں اسامہؓ کے والد زید بن حارثہ اور ان کے دونوں ساتھی جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ شہید ہوئے تھے۔ اسامہ نے اپنے لشکر کو وہیں ٹھہرایا اور فوج کے مختلف دستوں کو آبل اور قبائل قضاعہ پر دھاوا بولنے کے لیے روانہ کیا۔ ان جنگوں میں مسلمانوں نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ بے شمار رومی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے، کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا اور اس طرح اسامہؓ اپنے والد کا انتقام لینے میں کامیاب ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ کو حملہ کرنے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں انہوں نے ان پر پوری طرح عمل کیا۔ جہاں جہاں جانے کے لیے آپ نے ارشاد فرمایا تھا وہاں گئے اور آپ کی ہدایات کے مطابق دشمن پر اس طرح اچانک حملہ کیا کہ جب تک مسلمانوں کے دستے رومیوں کے سروں پر نہ پہنچ گئے انہیں مسلمانوں کی آمد کا مطلق پتا نہ چل سکا۔ اور فتح کے بعد فوراً مدینہ واپس آ گئے۔ اسامہ کی کامیاب واپسی: دشمن پر کامیابی حاصل کرنے کی وجہ سے اسامہ کی شان اور عزت و توقیر میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ وہی مہاجرین اور انصار جنہوں نے اس سے پہلے تقرر اسامہ کی مخالفت کی تھی، اب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ وہ بڑے فخر سے اسامہ کے کارنامے بیان کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بار بار دہراتے تھے: اسامہ امارت کے لائق ہے اور اس کا باپ بھی امارت کے لائق تھا۔ اسامہ نے اس مہم میں صرف سرحدی جھڑپوں پر اکتفا کی۔ انہوں نے رومیوں کا تعاقب کرنے اور رومی سرحد پر بھرپور حملہ کر کے اندرونی علاقوں میں گھس کر اپنی کامیابی سے مزید فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کی کیونکہ ان کا مطمح نظر صرف یہ تھا کہ عرب کی سرحد رومیوں کے حملے سے محفوظ رہے اور رومی مسلمانوں کو کمزور پا کر مدینہ سے یہودیوں کی جلا وطنی کا انتقام لینے کے بہانے عرب کی سرحدوں میں گھس کر اسے اپنے گھوڑوں کے سموں سے پامال نہ کرنے پائیں۔ لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے تھے۔ رومی ایک وسیع خطہ زمین پر قابض ہونے کی وجہ سے زبردست قوت و طاقت کے مالک تھے۔ مسلمانوں کو بھی اس حقیقت کا پوری طرح علم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تین سال قبل 7ھ میں دحیہ کلبی کو تبلیغی خط دے کر ہرقل کی جانب روانہ فرمایا۔ ہرقل کا ستارہ اس وقت عروج پر تھا اور دحیہ کلبی نے روم کے تمام حالات اور رومیوں کی قوت و طاقت کا بغور مطالعہ کیا۔ علاوہ بریں اسی سال یہود خیبر، فدک اور تیماء میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھا کر فلسطین پہنچے تھے اور ان کے دل جوش انتقام سے بھرے ہوئے تھے۔ انہوں نے فلسطین پہنچ کر رومیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا اور یہ کہہ کر انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دی کہ جب رومی ایران جیسی زبردست طاقت پر فتح یاب ہو سکتے ہیں تو مسلمانوں پر بھی ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں بظاہر یہ زیادہ مناسب ہوتاکہ اسامہؓ سرحدی فتوحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرون ملک میں بھی پیش قدمی کرتے اور جو کام دو سال بعد شروع ہوا اس کا آغاز اسی مہم سے کر دیتے۔ لشکر کا استقبال: جب اسامہ اپنے مظفر و منصور لشکر کو لے کر مدینہ کے قریب پہنچے تو ابوبکرؓ نے کبار مہاجرین اور انصار کے ہمراہ شہر سے باہر نکل کر بڑی گرمجوشی سے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت سب مسلمانوں کے چہرے فرحت و انبساط سے کھلے ہوئے تھے۔ مدینہ میں داخل ہوتے ہی اسامہؓ نے مسجد نبوی کا رخ کیا اور شکرانے کے طور پر نماز دوگانہ ادا کی۔ مدینہ کوان کی واپسی چالیس دن اور بعض روایات کے مطابق ستر دن بعد ہوئی۔ بعض مستشرقین نے اس مہم کی اہمیت گھٹانے اور اس کا شمار معمولی سرحدی جھڑپوں میں کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ چنانچہ مستشرق فکا جس نے انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں اسامہؓ کے متعلق مقالہ لکھا ہے، کہتا ہے: جنگ ہائے ارتداد کے دوران مسلمانوں کو جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا انہیں دیکھتے ہوئے اسامہ کی فتح یابی مسلمانوں کی نظروں میں زبردست اہمیت حاصل کر گئی، حالانکہ اسامہ کی کامیابی کو اس کے سوا اور کوئی اہمیت حاصل نہ تھی کہ وہ بعد میں پیش آنے والی شامی لڑائیوں کی ابتداء ثابت ہوئی۔ اس مہم میں اسامہ کا کارنامہ صرف اس حد تک ہے کہ انہوں نے بعض قبائل پر اچانک حملہ کر دیا اور کسی بڑے رومی لشکر سے مٹ بھیڑ ہوئے بغیر مال غنیمت لیے واپس چلے آئے۔ اس کے باوجود مسلمانوں، باغی عربوں اور رومیوں۔۔۔ تینوں فریقوں پر اس کا دور رس اثر پڑا۔ جب باغی اور مرتد قبائل نے لشکر اسامہؓ کی روانگی کی خبر سنی تو وہ کہنے لگے اس لشکر کے بھیجنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان زبردست قوت و طاقت کے مالک ہیں اگر ان کے پاس قوت و طاقت نہ ہوتی تو وہ ہرگز ایسے موقع پر اس لشکر کو نہ بھیجتے۔ جب سارا عرب ان کے خلاف متحد ہو چکا ہے۔ ہرقل کو بھی جب اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع ہوئی تو وہ گھبرا گیا اور اس نے ایک بڑی فوج مسلمانوں سے مقابلے کے لیے بلقاء روانہ کی۔ یہ واقعات صراحتہً اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس غزوہ کے باعث رومی اور مرتد عرب قبائل دونوں مسلمانوں کی قوت و طاقت سے مرعوب ہو گئے اسی وجہ سے دومۃ الجندل کے سوا عرب کے شمالی حصے کے رہنے والوں نے مدینہ پر حملہ کرنے میں پس و پیش کیا حالانکہ اس سے قبل ان کا مصمم ارادہ تھا کہ مدینہ پر چڑھائی کر کے مسلمانوں کو رومی سرحدوں پر حملہ کرنے کا مزہ چکھایا جائے۔ پھر بھی شمالی عربوں کے سوا عرب کے دوسرے علاقوں کا یہ حال تھا ۔ اس سے قبل تفصیل سے بتایا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں بغاوت کی روح کس طرح عرب قبائل میں سرایت کر گئی تھی اور کئی قبائل میں نبوت کے مدعی پیدا ہو گئے تھے۔ اگر آپ کی غایت درجہ حزم و احتیاط اور مسلمانوں کی جانب سے قوت و طاقت کے مظاہروں کی وجہ سے ان قبائل اور مدعیان نبوت کو خوف و خطر لاحق نہ ہوتا تو آپ کی زندگی ہی میں ہر طرف سے بغاوت کے علم بلند ہو جاتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد باغیوں کے حوصلے بلند ہو گئے اور انہوں نے اپنے خطرناک مخفی ارادوں کا اظہار کھلم کھلا شروع کر دیا۔ اس وقت مسلمان قلت تعداد اور کثرت اعداء کی وجہ سے بے حد مضطرب تھے۔ اگر اس نازک موقع پر ابوبکرؓ کی طرف سے بلند پایہ سیاست کا مظاہرہ نہ کیا جاتا اور مضبوط و محکم پالیسی وضع نہ کی جاتی تو مسلمانوں کا خاتمہ عین ممکن تھا۔ ٭٭٭ پانچواں باب منکرین زکوٰۃ سے جنگ اسامہ شام جاتے ہوئے ابھی راستے ہی میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات سارے عرب میں پھیل گئی اور ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے۔ ان شعلوں کی زد میں سب سے زیادہ یمن کا علاقہ تھا، اگرچہ آگ کا بھڑکانے والا شخصی عنسی قتل ہو چکا تھا۔ بنی حنیفہ میں مسلیمہ اور بنی اسد میں طلیحہ نے نبوت کا دعویٰ کر کے ہزاروں لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا: اسد اور غطفان کے حلیف قبیلوں کا نبی ہمیں قریش کے نبی سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ محمد وفات پا چکے ہیں اور طلیحہ زندہ ہے۔ مدینہ میں بغاوتوں کی خبر: جب ان بغاوتوں کی خبر ابوبکرؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک ان علاقوں کے عمال اور امراء کی طرف سے تمام واقعات کی مکمل رپورٹیں موصول نہ ہو جائیں۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ امراء کی طرف سے دھڑا دھڑ رپورٹیں پہنچنے لگیں۔ ان رپورٹوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ باغیوں کے ہاتھوں نہ صرف سلطنت کا امن خطرے میں ہے بلکہ ان لوگوں کی جانوں کو بھی سخت خطرہ ہے جنہوں نے ارتداد کی رو میں باغیوں کا ساتھ نہیں دیا اور بدستور اسلام پر قائم ہیں۔ اب ابوبکرؓ کے لیے پوری قوت سے بغاوتوں کا مقابلہ کرنے اور باغیوں کو ہر قیمت پر زیر کر کے صورتحال کو قابو میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس ہمہ گیر شورش کے نتیجے میں بعض قبائل نے نو کلیۃ اسلام سے انحراف اختیار کر لیا تھا لیکن بعض قبائل اسلام پر تو قائم تھے البتہ زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ موخر الذکر گروہ میں سے بھی بعض لوگ تو ایسے تھے جو دل و جان سے مال و دولت پر فریفتہ تھے، اور اللہ کے راستے میں مالی قربانی کرنا ان کے لیے بے حد دشوار تھا۔ لیکن بعض لوگ اسے تاوان کہتے تھے اور ان کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل مدینہ کے مقرر کردہ امیر کو ان سے زکوٰۃ یابہ الفاظ دیگر تاوان کے مطالبے کا کوئی اختیار نہ تھا۔ چنانچہ ہر دوفریق نے ادائے زکوٰۃ سے انکار کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ نہ وہ ابوبکرؓ کو اپنا امیر تسلیم کرتے ہیں اور نہ ان کے احکام کی بجا آوری کو ضروری سمجھتے ہیں۔ مدینہ کے نواحی قبائل، عبس اور ذبیان، منکرین زکوٰۃ میں شامل تھے اور مسلمانوں کے لیے ان قبائل سے عہدہ برآ ہونے کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ ان سے لڑائی چھیڑ دینا آسان کام نہ تھا کیونکہ ابوبکرؓ لشکر اسامہؓ کو شام روانہ فرما چکے تھے اور مدینہ میں بہت ہی تھوڑی تعداد میں لڑائی کے قابل افراد رہ گئے تھے۔ اس حالت میں مسلمانوں کے لیے دو ہی راستے تھے۔ ایک یہ کہ منکرین زکوٰۃ کو ادائے زکوٰۃ کے لیے مجبور نہ کیا جائے اور نرمی و ملائمت سے انہیں ساتھ ملا کر ان قبائل کے مقابلے میں آمادہ پیکار کیا جائے جنہوں نے کھلم کھلا اسلام سے انحراف کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ ان سے جنگ کی جائے۔ موخر الذکر راستہ اختیار کرنے سے مسلمانوں کے دشمنوں کی تعداد یقینا بہت زیادہ ہو جاتی اور اسلامی لشکر کی غیر موجودگی میں بپھرے ہوئے باغی قبائل سے لڑائی چھیڑ دینا آسان کام بھی نہ تھا۔ صحابہ سے مشورہ: ابوبکرؓ نے کبار صحابہ کو جمع کر کے ان سے منکرین زکوٰۃ کے ساتھ جنگ کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ عمرؓ بن خطاب اور بیشتر مسلمانوں کی یہ رائے تھی کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے لوگوں سے ہرگز نہ لڑنا چاہیے بلکہ انہیں ساتھ ملا کر مرتدین کے خلاف مصروف پیکار ہونا چاہیے۔ بعض لوگ اس رائے کے مخالف بھی تھے۔ لیکن ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ بحث طول پکڑ گئی اور بالآخر ابوبکرؓ کو خود اس میں دخل دینا پڑا۔ وہ اس رائے کے حامی تھے کہ منکرین زکوٰۃ سے جنگ کر کے انہیں بزور ادائے زکوٰۃ پر مجبور کرنا چاہیے۔ اس امر میں ان کی شدت کا یہ عالم تھا کہ بحث کرتے ہوئے پر زور الفاظ میں فرمایا: واللہ! اگر منکرین زکوٰۃ مجھے ایک رسی دینے سے بھی انکار کریں گے جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے، تو بھی میں ان سے جنگ کروں گا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے کہا: ہم ان لوگوں سے کس طرح جنگ کر سکتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا ہے کہ مجھے اس وقت تک لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ زبان سے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ؐ نہ کہہ دیں۔ جو شخص یہ کلمہ زبان سے ادا کر دے گا اس کی حفاظت جان و مال مسلمانوں کے ذمے ہو گی البتہ جو حقوق اس پر واجب ہوں گے ان کی ادائیگی کا مطالبہ اس سے ضرور کیا جائے گا۔ ہاں اس کی نیت کا حساب اللہ سے خود لے گا۔ لیکن ابوبکرؓ پر عمر کے دلائل کا اثر کچھ نہ ہوا اور انہوں نے فرمایا: واللہ! میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کرنے والے لوگوں سے ضرور لڑوں گا کیونکہ زکوٰۃ مال کا ح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اسلام قبول کرنے والے لوگوں کے ذمے جو حقوق ہوں گے ان کی ادائیگی کا مطالبہ ان سے بہرحال کیا جائے گا۔ عمرؓ کہا کرتے تھیـ: یہ جواب سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ نے منکرین زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے لیے ابوبکرؓ کو شرح صدر عطا کیا ہے اور حق وہی ہے جو ابوبکرؓ کہتے ہیں۔ اس واقعے سے ملتا جلتا ایک و اقعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آیا تھا۔ طائف سے قبیلہ ثقیف کا وفد آپ کی خدمت میں قبول اسلام کی غرض سے حاضر ہوا لیکن ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ انہیں نماز معاف کر دی جائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا: اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں نماز نہیں۔ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا اپنا فرض اولیں خیال کرتے تھے، انہوں نے بھی یہی فرمایا: واللہ! میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں۔ دشمن قبائل کے وفود: باغی قبائل عبس، ذبیان، بنو کنانہ، غطفان اور فزارہ نے جو مدینہ کے گرد و نواح میں آباد تھے، مسلمانوں سے لڑنے کے لیے فوجیں اکٹھی کیں اور مدینہ کے قریب پڑاؤ ڈال دیا۔ یہ قبائل دو حصوں میں منقسم تھے۔ ایک حصہ ربذہ کے قریب مقام ابرق میں خیمہ زن تھا اور دوسرا ذی القصہ میں جو محلہ کے قریب نجد کے راستے میں واقع ہے۔ ان فوجوں کے سرداروں نے پہلے اپنے وفود مدینہ روانہ کیے جنہوں نے وہاں پہنچ کر بعض لوگوں کے ذریعے سے ابوبکرؓ کو پیغام بھیجا کہ وہ نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہیں البتہ انہیں ادائے زکوٰۃ سے مستثنیٰ کر دیا جائے۔ لیکن ابوبکرؓ نے وہی جواب دیا جو پہلے عمرؓ کو دے چکے تھے یعنی اگر انہوں نے زکوٰۃ کی ایک رسی بھی ادا کرنے سے انکار کیا تو میں اس رسی کی خاطر ان سے جنگ کروں گا۔ وفود کی ناکام واپسی: چنانچہ یہ وفود خائب و خاسر ہو کر واپس اپنے اپنے لشکروں میں چلے گئے لیکن قیام مدینہ کے دوران میں انہوں نے وہاں کے حالات کا بنظر غائر مطالعہ کر لیا تھا اور انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ ان دنوں اہل مدینہ بہت کمزور ہیں اور شہر کو بیرونی طاقت کے حملے سے بچا نہیں سکتے۔ ابوبکرؓ کی ہدایات: ابوبکرؓ کی دوربین آنکھ نے ان لوگوں کے ارادوں کو بھانپ لیا چنانچہ وفود کے واپس جانے کے بعد انہوں نے اہل مدینہ کو جمع کر کے فرمایا: تمہارے چاروں طرف دشمن ڈیرے ڈالے پڑا ہے اور اسے تمہاری کمزوریوں کا علم ہو گیا ہے۔ نہ معلوم دن اور رات کے کس حصے میں وہ لوگ تم پر چڑھ آئیں۔ وہ تم سے ایک منزل کے فاصلے پر خیمہ زن ہیں۔ ابھی تک وہ اس امید میں تھے کہ شاید تم ان کی شرائط قبول کر لو گے۔ لیکن اب ہم نے ان کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے اس لیے وہ ضرور تم پر حملہ کرنے کی تیاریاں کریں گے۔ تم بھی اپنے آپ کو لڑائی کے لیے تیار رکھو۔ اس کے بعد آپ نے علیؓ، زبیر، طلحہؓ اور عبداللہ بن مسعود کو بلایا ور انہیں ایک ایک دستہ دے کر مدینہ کے بیرونی راستوں پر متعین کر دیا۔ دوسرے تمام لوگوں کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں اور لڑائی کی تیاری کریں۔ عہد صدیقی کا پہلا معرکہ: ابوبکرؓ کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ ابھی تین روز بھی نہ گزرے تھے کہ منکرین زکوٰۃ نے مدینہ پر چڑھائی کر دی اور تہیہ کر لیا کہ خلیفہ سے اپنی بات منوا کر ہی واپس جائیں گے۔ مدینہ کے ارد گرد پھیلے ہوئے جاسوسوں نے منکرین زکوٰۃ کے ارادوں سے علیؓ، زبیرؓ، طلحہؓ، ابن مسعود اور دوسرے لوگوں کو مطلع کر دیا۔ انہوں نے ابوبکرؓ کے پاس خبر بھیجی۔ ابوبکرؓ نے انہیں تو ہدایت کی کہ وہ اپنی اپنی جگہوں پر ٹھہر کر شہر کے تمام ناکوں کی حفاظت کریں، اور خود اونٹ پر سوار ہو کر مسجد نبوی میں تشریف لائے اور تمام مسلمانوں کو جو وہاں جمع تھے، ساتھ لے کر ان لوگوں کے مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے جو بے خبری میں مسلمانوں پر شب خون مارنا چاہتے تھے۔ ان قبائل کے وہم میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی ان کے مقابلے میں آئے گا۔ کیونکہ انہیں اپنے وفود کے ذریعے سے اہل مدینہ کی کمزوری کا علم ہو گیا تھا۔ لیکن جب ان کی توقعات کے قطعاً برعکس ابوبکرؓ نے ان پر اچانک حملہ کر دیا تو ان کی سراسیمگی کی انتہا نہ رہی اوروہ پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ مسلمانوں نے ذی حسا تک ان کا تعاقب کیا۔ جب حملہ آور قبائل مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے نکلے تو انہوں نے اس خیال سے کہ مدینہ میں ان کا مقابلہ کرنے والی کوئی طاقت موجود نہیں اپنے چیدہ بہادروں کو ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ لیکن جب قبائل شکست کھا کر بھاگے اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرنا شروع کیا تو وہ لوگ جنہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا، موقع کی نزاکت بھانپ کر مسلمانوں کے بالمقابل آ گئے اور لڑائی شروع ہو گئی۔ رات بھر لڑائی ہوتی رہی لیکن کسی بھی فریق کے حق میں فیصلہ نہ ہو سکا۔ بالآخر مخالفین نے کمندیں پھینک کر مسمانوں کے اونٹوں کی گردنوں میں ڈالنی شروع کیں تاکہ مسلمانوں کو گرفتار کر سکیں۔ یہ اونٹ جنگی نہ تھے کہ اس چال کو سمجھ سکتے۔ انہوں نے خوفزدہ ہو کرمدینہ کی طرف واپس بھاگنا شروع کیا اور اپنے سواروں کو لیے شہر میں داخل ہو گئے۔ عبس، ذبیان اور ان کے مددگار، مسلمانوں کے بھاگ جانے سے بڑے خوش ہوئے اور اسے اپنی فتح مندی اور مسلمانوں کی کمزوری پر محمول کرتے ہوئے مقام ذی القصہ کے خیمہ زن لوگوں کو ان تمام واقعات کی اطلاع دی۔ ذی القصہ والے بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور آپس میں صلاح مشورہ ہونے لگا۔۔۔۔ بالآخر فیصلہ ہوا کہ وہ اس وقت تک واپس نہ جائیں جب تک مسلمانوں کو ناک چنے چبوا کر اپنی پیش کردہ شرائط قبول کرنے پر مجبور نہ کر دیں۔ ادھر ابوبکرؓ اور تمام مسلمانوں نے اس رات پلک تک نہ جھپکائی بلکہ دشمن سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول رہے۔ رات کے آخری تہائی حصے میں وہ مسلمانوں کو لے کر دوبارہ دشمن کی جانب روانہ ہوئے۔ پہلے کی طرح اب بھی انہوں نے اس امر کی کامل احتیاط کی کہ دشمن کو کانوں کان مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہونے پائے۔ صبح صادق کا ظہور ہوا تو مسلمان اور ان کے دشمن قبائل ایک ہی میدان میں تھے۔ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ مسلمان لڑائی کے لیے پوری طرح تیار تھے اور دشمن بڑے اطمینان اور آرام سے خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔ مسلمانوں کے لیے اس سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا تھا۔ انہوں نے بے دھڑک اپنی تلواریں دشمن کے سینوں میں پیوست کرنی شروع کر دیں۔ وہ لوگ اس اچانک حملے سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور اسی نیم بیداری کی حالت میں لڑنا شروع کر دیا لیکن تابہ کے؟ ابوبکرؓ کے ساتھیوں نے اپنی تلواروں کے خوب جوہر دکھائے اور ابھی سورج نے اپنا چہرہ افق عالم پر ظاہر ہی کیا تھا کہ دشمن کے لشکر نے نہایت بے ترتیبی کی حالت میں بھاگنا شروع کر دیا۔ ابوبکرؓ نے ذی القصہ تک ان کا تعاقب کیا۔ آخر جب یہ دیکھ لیا کہ وہ دوبارہ واپس آنے کی جرأت نہ کریں گے تو ابوبکرؓ اس جگہ واپس آ گئے جہاں پر تھوڑی دیر قبل میدان کار زار گرم تھا اورنعمان بن مقرن، سالار میمنہ کو تھوڑی سی جمعیت کے ہمراہ اس جگہ چھوڑ کر خود مدینہ تشریف لے آئے۔ جنگ ذی القصہ اور جنگ بدر میں مشابہت: اس موقع پر ابوبکرؓ نے ایمان و یقین، عزت و ثبات اور حزم و احتیاط کا جو مظاہرہ کیا اس سے مسلمانوں کے دلوں میں عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی یاد تازہ ہو گئی۔ ابوبکرؓ کے عہد کی یہ پہلی لڑائی بڑی حد تک جنگ بدر سے مشابہ ہے۔ جنگ بدر کے روز مسلمان صرف تین سو تیرہ کی قلیل تعداد میں تھے جبکہ مکہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ اس موقع پر بھی مسلمانوں کی تعداد بہت قلیل تھی، اس کے بالمقابل عبس، ذبیان اور غطفان کے قبائل بھاری جمعیت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تھے۔ جنگ بد رکے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے حیرت انگیز ایمان کا مظاہرہ کیا تھا اور اسی لیے اللہ نے انہیں مشرکین پر فتح عطا فرمائی۔ اس موقع پر ابوبکرؓ اور آپ کے ساتھیوں نے ایمان کامل کا ثبوت دیا اور دشمن پر فتح حاصل کی۔ جس طرح جنگ بدر دور رس نتائج کی حامل تھی۔ اسی طرح اس جنگ میں بھی مسلمانوں کی فتح نے اسلام کے مستقبل پر گہرا اثر ڈالا۔ ابوبکرؓ کا عزم و ثبات: ابوبکرؓ نے عزم و ثبات اور ایمان و ایقان کا جو مظاہرہ کیا وہ چنداں قابل تعجب نہیں کیونکہ انہوں نے آغاز اسلام ہی سے اپنا مقصد اولین یہ قرار دے رکھا تھا کہ وہ ہر کام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کریں گے اور ان کی ساری زندگی اس امر کی شاہد ہے کہ انہوں نے ہر موقع پر اپنے اس عہد کو پوری طرح نباہا اور بڑی سے بڑی روک بھی انہیں ان کے بلند مقصد سے علیحدہ نہ کر سکی۔ اس صورت میں یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ دشمنوں سے ایسے معاملے کے متعلق سمجھوتا کر لیتے جو سرا سر احکام الٰہی کے خلاف تھا۔ ابوبکرؓ کی نظروں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک ورق کھلا ہوا موجود تھا۔ جب کبھی کسی جانب سے منشائے الٰہی اور تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی کام کرنے کے لیے ان پر زور دیا جاتا تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فقرہ یاد آ جاتا جو ابو طالب کی درخواست پر آپ نے کہا تھا: واللہ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کھڑا کریں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام کو چھوڑ دوں جو مجھے اللہ کی طرف سے تفویض کیا گیا ہے تو بھی میں اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ یا تو میں دوسروں کو بھی اپنا ہم نوا بنا لوں یا اپنی کوشش میں ہلاک ہو جاؤں۔ ابوبکرؓ نے بھی بالکل اسی قسم کا جواب اپنے ساتھیوں کو اس وقت دیا تھا۔ جب انہوں نے اسامہؓ کی روانگی منسوخ کرنے پر زور دیا تھا اور یہی موقف انہوں نے اس وقت اختیار کیا جب لوگوں نے انہیں منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ یہی وہ ایمان صادق تھا جس کے مقابلے میں انہوں نے کسی چیز کی، حتیٰ کہ موت کی بھی، پروا نہ کی اور یہی ایمان صادق تھا، جس کے مقابلے میں دنیا کی تمام آسائشیں ان کی نظروں میں ہیچ تھیں، اس نازک وقت میں اسلام کو تباہی و بربادی سے بچانے میں بھی سب سے بڑا ممد و معاون ثابت ہوا۔ مشورہ صحابہ کے عدم قبول کی وجہ: سوال پیدا ہوتا ہے آخر کیا حرج تھا اگر ابوبکرؓ منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کرنے کے بارے میں عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ کا مشورہ قبول کر لیتے، اس کا جواب بہت سہل ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ عرب کے اکثر قبائل نے بہت تھوڑا عرصہ قبل بت پرستی سے نجات حاصل کی تھی اور جاہلیت کا دور ختم ہوئے نہایت قلیل عرصہ گزرا تھا۔ اگر ابوبکرؓ فرائض دینی کو ترک کر دینے کے متعلق قبائل عرب کا کوئی مطالبہ تسلیم کر کے ان سے سمجھوتا کر لیتے تو طلیحہ، مسلیمہ اور دوسرے خود ساختہ نبی فوراً یہ پروپیگنڈا شروع کر دیتے کہ فرائض دینی کی بجا آوری کے متعلق اس سمجھوتے سے ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیغام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ (نعوذ باللہ) اللہ کی طرف سے نہ تھا بلکہ آپ کا خود ساختہ تھا ورنہ ابوبکرؓ اس کے متعلق سمجھوتا کیوں کرتے۔ قبائل عرب پر اس پروپیگنڈے کا زبردست اثر ہوتا اور اس کے نتیجے میں وہ لوگ مدعیان نبوت سے مل جاتے جو ابھی ان پر ایمان نہ لائے تھے اور ان کی اطاعت قبول نہ کی تھی۔ ذی القصہ میں شرمناک شکست کا انتقام لینے کے لیے بنی ذبیان اور بنی عبس کے مشرکین نے ان تمام مسلمانوں کو قتل کر ڈالا جو ان کی دسترس میں تھے، لیکن اس کا اثر الٹا پڑا اور قبائل کے وہ لوگ جو بدستور اسلام پر قائم تھے اپنے عقیدے میں اور پکے ہو گئے اور انہوں نے بے پس و پیش ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر زکوٰۃ پیش کرنی شروع کر دی کیونکہ انہوں نے تمام حالات و واقعات کا مشاہدہ کر کے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ ابوبکرؓ اپنی قوت ایمانی کی بدولت ان مرتدین پر لامحالہ غالب آ جائیں گے، دین حق کا بول بالا ہو گا اور وہ بزدلانہ انتقام جو ہزیمت خوردہ قبائل نے کمزور و بے کس مسلمانوں سے لیا ہے ان کی ہزیمت کے داغ کو نہ مٹا سکے گا اور ان قبائل کو اس کی بہت مہنگی قیمت دینی پڑے گی۔ کسی شک کی گنجائش بھی کہاں تھی؟ صدیق اکبرؓ نے عہد کر لیا تھا کہان قبائل سے غریب و بے کس مسلمانوں کے قتل کا انتقام لیا جائے گا اور کسی بھی مشرک کو، جس نے مسلمانوں کے قتل میں حصہ لیا ہے، زندہ نہ چھوڑا جائے گا، اس کام کے لیے صرف لشکر اسامہ کی واپسی کی دیر تھی۔ بیرونی مسلمانوں کی ادائے زکوٰۃ: ذی القصہ میں مسلمانوں کی فتح پر قبائل کے جو لوگ بدستور اسلام پر قائم تھے جوق در جوق زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے مدینہ آنے شروع ہوئے۔ سب سے پہلے جو لوگ آئے وہ بنی تمیم کے رئیس صفوان اور زبرقان اور بنی طی کے سردار عدی بن حاتم طائی تھے۔ اہل مدینہ نے بڑی گرمجوشی سے ان لوگوں کا خیر مقدم کیا۔ لیکن اندر ہی اندر ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کہیں ان لوگوں کا آنا ہمارے لیے مصیبت کا باعث نہ ہو۔ مگر ابوبکرؓ ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ نہیں یہ لوگ تمہارے لیے مصیبت کا پیغام لے کر نہیں بلکہ خوش خبری لے کر آئے ہیں۔ یہ تمہارے دشمن نہیں مددگار ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کے حوصلے بلند رکھنا بے حد ضروری تھا کیونکہ ہر جانب خطرات کے بادل منڈلاتے دیکھ کر مسلمانوں کو طبعاً مضبوط سہاروں کی ضرورت تھی۔ عبداللہ بن مسعود اس وقت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم اس مقام پر کھڑے تھے اگر اللہ ابوبکرؓ کے ذریعے سے ہماری مدد نہ فرماتا تو ہماری ہلاکت یقینی تھی۔ ہم سب مسلمانوں کا بالاتفاق یہ خیال تھا کہ ہم زکوٰۃ کے اونٹوں کی خاطر دوسروں سے جنگ نہ کریں گے اور اللہ کی عبادت میں مصروف ہو جائیں گے یہاں تک کہ ہمیں کاملاً غلبہ حاصل ہو جائے۔ لیکن ابوبکرؓ نے منکرین زکوٰۃ سے لڑنے کا عزم کر لیا۔ انہوں نے منکرین کے سامنے صرف دو باتیں پیش، کیں، تیسری نہیں۔ پہلی یہ کہ وہ اپنے لیے ذلت و خواری قبول کر لیں اور اگر یہ منظور نہیں تو جلا وطنی یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ اپنے لیے ذلت و خواری کی حالت قبول کرنے کا مطلب یہ تھا وہ اقرار کریں کہ ان کے مقتول دوزخی اور ہمارے مقتول جنتی ہیں۔ وہ ہمیں ہمارے مقتولوں کا خون بہا ادا کریں۔ ہم نے ان سے جو مال غنیمت وصول کیا ہے اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں لیکن جو مال انہوں نے ہم سے لیا ہے وہ ہمیں واپس کر دیں۔ جلاوطنی کی سزا بھگتنے کا مطلب یہ ہے کہ شکست کھانے کے بعد اپنے علاقوں سے نکل جائیں اور دور دراز مقامات میں جاکر زندگی بسر کریں۔ شام سے اسامہؓ کی واپسی: مختلف قبائل کے مسلمان زکوٰۃ لے کر مدینہ پہنچ ہی رہے تھے کہ اسامہؓ بھی سر زمین روم سے مظفرو منصور واپس آ گئے۔ ابوبکرؓ اور کبار صحابہ نے مقام جرف میں لشکر کا استقبال کیا۔ عامۃ الناس نے بھی بڑے جوش و خروش سے اس فوج کا خیر مقدم کیا۔ جب لشکر مدینہ میں داخل ہوا تو ہر جانب سے خوشی اور مسرت کے گیتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اسامہؓ سب سے پہلے مسجد نبوی میں پہنچے وہ علم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے انہیں مرحمت فرمایا تھا، مسجد میں بلند کیا اور نماز شکرانہ ادا کی۔ دوبارہ جنگ: ابوبکرؓ نے نہایت دور اندیشی سے فیصلہ کیا کہ دشمن کو تیاری کا موقع نہ دیا جائے بلکہ اس پر پے در پے حملے کر کے اس کی قوت و طاقت توڑ دی جائے۔ انہوں نے اسامہ اور ان کے لشکر کو فی الحال آرام کرنے کا حکم دیا اور خود ان لوگوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے جو اس سے پہلے ذی القصہ کی لڑائی میں ان کے ساتھ شریک تھے۔ لوگوں نے درخواست کی کہ آپ اپنے آپ کو خطرے میں نہ ڈالیں کیونکہ اگر خدانخواستہ آپ کو کوئی ضرر پہنچ گیا تو اسلامی سلطنت کا نظام تہ و بالا ہو جائے گا، اس لیے آپ اپنی جگہ کسی اور کو لشکر کا سردار مقرر فرما دیں تاکہ اگر وہ میدان میں کام بھی آ جائے تو مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ لیکن ابوبکرؓ جب کسی کام کا ارادہ کر لیتے تھے تو جب تک اسے پورا نہ کر لیتے پیچھے ہٹنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ انہوں نے یہ باتیں سن کر فرمایا: واللہ! میں ہرگز پیچھے نہ رہوں گا بلکہ تمہارے ساتھ رہ کر تمہاری ہمتوں کو بلند رکھوں گا۔ مدینہ سے روانہ ہو کر ابوبکرؓ ابرق پہنچے جو ذی القصہ کے قریب واقع ہے۔ وہاں بنی عبس، ذبیان اور بنی بکر سے ان کی مٹ بھیڑ ہوئی۔ جنگ میں موخر الذکر قبائل کو شکست اٹھانی پڑی اور مسلمانوں نے انہیں اس علاقے سے نکال دیا۔ ابرق بنی ذبیان کی ملکیت تھا۔ لیکن جب ابوبکرؓ نے انہیں وہاں سے نکال دیا تو اعلان کیا کہ اب یہ سر زمین مسلمانوں کی ملکیت ہے، آئندہ بنی ذبیان اس پر قابض نہ ہو سکیں گے۔ کیونکہ اللہ نے اسے ہمیں غنیمت میں دے دیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہ مقامات مسلمانوں ہی کی ملکیت میں رہے اور حالات معمول پر آنے کے بعد بھی بنو ثعلبہ نے اس جگہ دوبارہ آباد ہونا چاہا تو ابوبکرؓ نے اجازت نہ دی۔ اس طرح منکرین زکوٰۃ کی شکست پا یہ تکمیل کو پہنچ گئی۔ مدینہ والے بے حد خوش تھے۔ ایک تو اسامہ کا لشکر پہنچ جانے کی وجہ سے شہر پر کسی حملے کا خطرہ باقی نہ رہا تھا، دوسرے غنیمت اور زکوٰۃ کے اموال متواتر پہنچنے کے باعث مسلمانوں کی غریبی و تنگ دستی بھی بڑی حد تک دور ہو گئی تھی۔ شکست خوردہ قبائل کی روش: عبس، ذبیان، غطفان، بنی بکر اور مدینہ کے قریب بسنے والے دوسرے باغی قبائل کے لیے مناسب تھا کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بغاوت سے باز آ جاتے، ابوبکرؓ کی کامل اطاعت اور ارکان اسلام کی بجا آوری کا اقرار کرتے اور مسلمانوں سے مل کر مرتدین کے خلاف نبرد آزما ہو جاتے۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا اور واقعات بھی اسی کی تائی دکرتے تھے۔ ابوبکرؓ کے ذریعے سے ان کا زور ٹوٹ چکا تھا، روم کی سرحدوں پر حصول کامیابی کے باعث اہل مدینہ کا رعب قائم ہو چکا تھا۔ مسلمانوں کی قوت و طاقت بڑھ چکی تھی اور اب وہ اس کمزوری کے عالم میں نہ تھے جو جنگ بدر اور ابتدائی غزوات کے ایام میں ان پر طاری تھی۔ اب مکہ میں بھی ان کے ساتھ تھا اور طائف بھی اور ان دونوں شہروں کی سیادت سارے عرب پر مسلم تھی۔ پھر خود ان قبائل کے درمیان ایسے مسلمان کثرت سے موجود تھے نہیں باغی کسی صورت ساتھ نہ ملا سکے تھے اور اس طرح ان کی پوزیشن بے حد کمزور تھی۔ لیکن مسلمانوں کی دشمنی نے ان کی آنکھیں اندھی کر دی تھیں اور سود و زیاں کا احساس دلوں سے جاتا رہا تھا۔ انہوں نے اپنے وطنوں کو چھوڑ دیا اور قبیلہ بنی اسد کے متنبی طلیحہ بن خویلد سے جا ملے۔ جو مسلمان ان کے درمیان موجود تھے وہ انہیں ان کے ارادوں سے باز نہ رکھ سکے۔ ان لوگوں کے پہنچ جانے سے طلیحہ اور مسیلمہ کی قوت و طاقت میں بہت اضافہ ہو گیا اور یمن میں بغاوت کے شعلے زور و شور سے بھڑکنے لگے۔ یہ حالات دیکھ کر ابوبکرؓ نے فیصلہ کیا کہ جنگ کا سلسلہ بدستور جاری رکھا جائے اور اس وقت تک دم نہ لیا جائے جب تک یمن کا چپہ چپہ اسلامی حکومت کے زیر نگین نہ آ جائے۔ اگر یہ قبائل عقل سے کام لیتے تو طلیحہ اور دوسرے مدعیان نبوت کو اتنا فروغ حاصل نہ ہوتا اور بہت جلد سارا عرب اسلام کی آغوش میں آ جاتا۔ لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ اس نے مخالفین کو مزید مہلت دی کہ وہ اس عرصے میں اپنی جمعیت اور مضبوط کر لیں۔ اسلام سے ان قبائل کے عناد اور نفرت کی اصل وجہ وہی تھی جس کا ذکر ہم ابتداء میں کر آئے ہیں یعنی قبائلی عصبیت اور یہ جذبہ کہ ہم کسی طاقت کا غلبہ تسلیم نہیں کر سکتے۔ جب ان قبائل کو مدینہ پر حملہ کرنے میں ناکامی ہوئی بلکہ اس کے برعکس انہیں اپنی بعض بستیوں ہی سے نکلنا پڑا تو بدوی طبائع نے فاتح طاقت کے سامنے سر جھکانا اور اس کی سیادت قبول کر کے اس کے ماتحت زندگی بسر کرنا گوارا نہ کیا۔ چنانچہ وہ اس خیال سے بنی اسد اور طلیحہ سے جا کر مل گئے کہ ممکن ہے ان کا ساتھ دینے سے وہ اپنی عبرت ناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ لیکن ابوبکرؓ تمام قبائلی عصبیتوں سے دور تھے۔ان کے پیش نظر صرف ایک مقصد تھا اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ طریقہ اختیار کیا جائے اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلا جائے۔ انہوں نے اپنی ساری جدوجہد اسی مقصد کے حصول کے لیے وقف کر دی۔ یہی سیاست تھی جس کے نفاذ کا اعلان انہوں نے بیعت کے دن کیا تھا اور اپنے عہد خلافت میں اسی پر نہایت سختی سے کاربند رہے۔ ٭٭٭ چھٹا باب مرتدین سے جنگ کی تیاریاں ابوبکرؓ نے قبائل عبس، ذبیان، بکر اور ان کے مددگاروں کو شکست دے کر جلاوطن کر دیا تھا اور وہ بزاخہ جا کر طلیحہ بن خویلد اسدی سے مل گئے تھے۔ ابوبکرؓ نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ یہ بستیاں چونکہ اللہ نے ہمیں غنیمت میں دی ہیں۔ اس لیے انہیں ان کے مفرور باشندوں کے حوالے نہ کیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے ابرق اور رندہ کے آس پاس کی تمام زمینیں اور چراگاہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیں اور مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اب ان کے پیش نظر مرتدین کا استیصال تھا جو عرب کے مختلف خطوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں اسلام اور مسلمانوں کو سخت خطرہ در پیش تھا۔ منکرین زکوٰۃ کی طرح مرتدین کے متعلق بھی انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ انہیں ہر قیمت پر عبرت ناک شکست دی جائے گی اور ان سے کسی قسم کی مصالحت نہ کی جائے گی۔ جنگ کی تیاری: جب اسامہؓ کا لشکر اچھی طرح آرام کر چکا تو ابوبکرؓ اسے لے کر مدینہ سے نکلے اور ذی القصہ میں قیام فرمایا۔ وہاں انہوں نے گیارہ علم تیار کیے۔ لشکر کو گیارہ حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے پر ایک امیر مقرر کیا۔ پھر ان امراء کو حکم دیا کہ وہ مرتدین کے استیصال کے لیے اپنے اپنے مقرر کردہ علاقے کی جانب روانہ ہوجائیں اور راستے میں جن قبیلوں کے پاس سے گزریں وہاں کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے لیں۔ 1؎ ابوبکرؓ نے مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج رکھ چھوڑی تھی وہ باہر جانے والے لشکروں سے بہت کم تھی کیونکہ اب مدینہ کو فوری حملے کا خطرہ نہ تھا۔ منکرین زکوٰۃ کی سرکوبی کے بعد وہاں کے باشندے بڑے اطمینان سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ 1؎ مرتدین کے مقابلے میں فوجیں بھیجتے ہوئے ابوبکرؓ نے اس امر کا خاص خیال رکھا کہ مرتدین کی جمعیت اور قوت و طاقت کا لحاظ رکھ کر ان کی طرف فوجیں روانہ کی جائیں۔ اسی لیے انہوں نے خالد بن ولید کو طلیحہ بن خویلد سے لڑنے کے لیے بنی اسد کی طرف روانہ فرمایا اور حکم دیا کہ طلیحہ سے فراغت حاصل ہونے کے بعد بطاح جا کر بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ سے جنگ کی جائے۔ بنو اسد اور بنو تمیم مدینہ کے قریب ترین مرتد قبائل تھے اس لیے ضروری تھا کہ جنگ کا آغاز انہیں سے کیا جائے تاکہ ان کی شکست کا اثر دوسرے قبائل پر بھی پڑے اور وہ با آسانی زیر ہو سکیں۔ خالد بجا طور پر مستحق تھے کہ انہیں ان طاقتور قبائل سے جنگ کرنے والی فوجوں کی کمان سونپی جائے۔ عکرمہ بن ابوجہل کو دوسرا جھنڈا دیا گیا اور انہیں یمامہ جا کر بنی حنفیہ کے سردار مسیلمہ سے جنگ کرنے کا کام سپرد کیا گیا۔ شرجیل بن حسنہ کو تیسرا جھنڈا سپرد کر کے حکم دیا گیا کہ وہ پہلے مسیلمہ کے خلاف عکرمہ کی مدد کریں اور یہاں سے فراغت حاصل ہونے کے بعد عمرو بن عاص کی امداد کے لیے قضاعہ کی جانب روانہ ہو جائیں۔ عکرمہ اور شرجیل کو یمامہ میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی بلکہ یہ فخر خالد بن ولید کے حصے میں آیا اور انہوں نے غزوہ عرقباء میں مسیلمہ کو قتل کر کے بنی حنیفہ کی کمر توڑ دی۔ چوتھا جھنڈا مہاجرین ابی امیہ مخزومی کے حوالے کر کے حکم دیا گیا کہ وہ یمن جا کر اسود عنسی کے لشکر اور عمرو بن معدی کرب زبیدی، قید بن مکشوح مرادی اور ان کے مددگاروں سے جنگ کریں۔ یہاں سے فراغت حاصل ہونے کے بعد کندہ اور حضرت موت جا کر اشعث بن قیس اور اس کے ساتھی مرتدین سے لڑیں۔ پانچواں جھنڈا سوید بن مقرن اوسی کو عطا کر کے انہیں تہامہ یمن جانے کا حکم دیا گیا۔ چھٹا جھنڈا علاء بن حضرمی کو مرحمت کر کے انہیں بحرین میں حطم بن ضبیعہ اور بنی قیس بن ثعلبہ کے مرتدین کی سرکوبی کا حکم دیا گیا۔ ساتواں جھنڈا م۔۔۔۔ حمیر کے حذیفہ بن محصن غلغانی کو دیا گیا اور انہیں عمان جا کر وہاں کے مدعی نبوت ذوالمتاج لقیط بن مالک ازدی سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا۔ آٹھواں جھنڈا عرفجہ بن ہرثمہ کو دے کر انہیں مہرہ بھیجا گیا۔ اس جانب اتنے کثیر لشکر بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ ارتداد کا فتنہ اسی حصے میں زیادہ پھل پھول رہا تھا اور یہاں کے مرتدین کی سرکوبی کے لیے زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت تھی۔ اس کے بالمقابل شمالی جانب تین فوجیں بھیجی گئیں۔ پہلی فوج عمرو بن عاص کے زیر سر کردگی قضاعہ سے لڑنے کے لیے روانہ کی گئی۔ دوسری فوج معن بن حاجز علمی کی قیادت میں بنی سلیم اور بنی ہوازن کے شوریدہ سر قبائل کی سرکوبی کے لیے روانہ کی گئی اور تیسری فوج خالد بن سعید بن عاص کی سالاری میں شام کی سرحدوں پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے بھیجی گئی۔ کسی قبیلے کو مدینہ پر حملہ کرنے کی جرات بھی کس طرح ہو سکتی تھی جب مسلمانوں کی فتح مندی کی خبریں ہر طرف پھیل چکی تھی، ان کا رعب سارے عرب پر چھا چکا تھا اور ان کی بہادری کا سکہ تمام قبائل پر بیٹھ چکا تھا۔ قیام مدینہ کی وجہ: ان لشکروں کو رخصت کرنے کے بعد ابوبکرؓ مدینہ واپس تشریف لے آئے اور مستقل طور پر یہیں قیام فرمایا۔ مدینہ میں قیام کی وجہ یہ تھی کہ اب یہ شہر مسلمانوں کا جنگی ہیڈ کوارٹر بن چکا تھا اور فوجوں کی نقل و حرکت کے متعلق تمام احکام یہیں سے صادر ہوتے تھے۔ اس لیے خلیفہ کا مستقل طور پر دار الخلافہ میں قیام نہایت ضروری تھا ورنہ فتوحات کا سلسلہ درہم برہم ہو جاتا اور مسلمانوں کو مخالفین کے مقابلے میں وہ کامیابی ہرگز حاصل نہ ہوتی جو ہوئی۔ سب سے ضروری حکم، جو ابوبکرؓ نے لشکروں کے سپہ سالاروں کی روانگی کے وقت دیا یہ تھا کہ کوئی سپہ سالار مخالف پر فتح پانے کے بعد اس وقت تک کسی دوسری جانب رخ نہ کرے جب تک دربار خلافت سے اس کی اجازت حاصل نہ کر لے کیونکہ ابوبکرؓ کے خیال میں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ دوران میں دار الخلافہ کی انتظامی مشینری اور جنگی قیادت میں کامل اتحاد ہونا چاہیے۔ مہاجرین کی قیادت کا سبب: اس موقع پر انصار کے بعض لوگوں کو خیال ہوا کہ ان لشکروں کے سپہ سالار تمام تر مہاجرین ہی ہیں اور انصار میں سے کسی شخص کو قیادت کا علم سپرد نہیں کیا گیا ، لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ ابوبکرؓ کا اصل منشاء یہ تھا کہ اہل مدینہ اپنے شہر کی حفاظت خود کریں کیونکہ وہ یہاں کے تمام حالات کو خوب جانتے تھے اور دوسروں کی نسبت اپنے شہر کی حفاظت اچھی طرح کر سکتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ خیال سراسر غلط تھا کہ ابوبکرؓ نے ثقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کی روش دیکھتے ہوئے انہیں اس خیال کے تحت قیادت سے محروم کر دیا کہ مبادا باہر جا کر وہ بغاوت کا علم بلند کر دیں۔ یہ فوجیں مرتدین سے جنگ کرنے کے لیے روانہ کی گئی تھیں اور ابوبکرؓ خوب جانتے تھے کہ انصار ایمان باللہ اور شیفتگی رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مہاجرین سے کسی طرح کم نہ تھے اس لیے انہیں انصار سے کسی قسم کا خدشہ کیونکر لاحق ہو سکتا تھا؟ اگر انصار کے متعلق یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اکابر مہاجرین مثلاً علی، طلحہ اور زبیر وغیرہ کے متعلق بھی یہی خیال کیوں درست نہیں ہو سکتا کہ ابوبکرؓ نے انہیں اس لیے مدینہ سے باہر نہ جانے دیا کہ ان کی طرف سے بغاوت کا اندیشہ تھا۔ حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ انہوں نے ان لوگوں اور عمرؓ کو اس وجہ سے مدینہ میں رہنے کا حکم دیا تھا کہ ان سے وقتاً فوقتاً مشورہ لیتے رہیں اور ان کے تدبر اور مشوروں سے فائدہ اٹھا کر مرکز قیادت کو مضبوط کر سکیں۔ ابوبکرؓ کی بے تعصبی: آخر ابوبکرؓ کے لیے ان لوگوں سے ڈرنے کی وجہ کیا ہو سکتی تھی؟ انہوں نے خلافت اپنی مرضی اور خواہش سے حاصل نہ کی تھی بلکہ یہ گراں بار ذمہ داری صرف اس لیے قبول کی تھی کہ مدینہ کے اہل الرائے اصحاب ان کی صلاحیتوں کی بنا پر انہی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے اور ان کے سوا کسی کی خلافت پر راضی نہ تھے۔ اڑھائی برس کے عرصے میں جو واقعات پیش آئے انہوں نے روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ ابوبکرؓ نے خلافت محض اللہ کے راستے میں قربانی دیتے ہوئے قبول کی تھی۔ چنانچہ بیعت لینے کے بعد انہوں نے پہلے ہی تقریر میں فرمایا: اے لوگو! مجھے خلیفہ تو بنا دیا گیا ہے۔ لیکن میں اسے ناپسند کرتا ہوں ۔ واللہ! میری تو دلی خواہش ہے کہ یہ بار گراں تم میں سے کوئی اور شخص اٹھائے۔ اسی طرح ایک بار خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: حکمران دنیا اور آخر ت میں سب سے زیادہ بدبخت ہوتے ہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا تو فرمایا: لوگو! تمہیں کیا ہوا؟ تم اعتراض کرنے والے اور جلد باز ہو ۔ جب کوئی شخص حکمران بنتا ہے تو چاہتا ہے کہ دوسروں کا مال بھی اس کے قبضے میں آ جائے۔ لیکن اس کی حالت محض سراب کی سی ہوتی ہے۔ وہ ظاہر میں تو خوش و خرم دکھائی دیتا ہے مگر اصل میں حد درجہ غمگین شخص ہوتا ہے۔ سخ میں ابوبکرؓ کا قیام جس مکان میں تھا وہ بہت معمولی اور دیہاتی طرز کا تھا ۔ اگر وہ چاہتے تو خلافت کے بعد اس کی حالت درست کر سکتے تھے لیکن خلافت کے پورے عہد میں مکان جوں کا توں رہا اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آئی۔ اسی طرح مدینہ کا مکان بدستور پہلی ہیئت پر قائم رہا۔ خلافت کے بعد چھ مہینے تک وہ روزانہ پیدل سخ سے مدینہ آتے تھے اور شاذ و نادر ہی کبھی گھوڑا استعمال کرتے تھے۔ خلافت سے پہلے وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ جب خلافت کا کام بڑھا اور سلطنت کی ذمہ داریاں زیادہ ہوئیں تو تجارت کے لیے وقت دینا مشکل ہو گیا۔ اس لیے انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ انصرام سلطنت اور تجارت کا کام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ چونکہ رعایا کی دیکھ بھال اور اس کی خبر گیری تجارت سے زیادہ ضروری ہے اس لیے میرے اہل و عیال کے واسطے اتنا وظیفہ مقرر کر دیا گیا جس سے ان کا اور ان کے اہل و عیال کا گزارہ چل سکے۔ لیکن جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو حکم دیا، جو وظیفہ میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارے کا سارا واپس کر دو، اس کی ادائی کے لیے میری فلاں زمین بیچ دی جائے اور آج تک میں نے مسلمانوں کا جو مال اپنے اوپر خرچ کیا ہے اس زمین کو فروخت کر کے وہ پوری کی پوری رقم ادا کر دی جائے۔ چنانچہ جب ان کی وفات کے بعد عمرؓ خلیفہ ہوئے اور وہ رقم ان کے پاس پہنچی تو وہ رو پڑے اور کہا: ابوبکرؓ! تم نے اپنے جانشین کے سر پر بہت بھاری بوجھ ڈال دیا ہے۔ جو شخص ان اعلیٰ صفات اور خصائل کا مال ہو اسے آخر کس چیز کا ڈر ہو سکتا تھا اور کس شخص کی مجال تھی کہ ان پر زبان طعن دراز کرتا۔ تمام مسلمانوں بلکہ سارے عرب میں ان کی عقل و خرد ، اصابت رائے، صدق مقال ، ایمان و اخلاص اور قربانی و ایثار کے بے نظیر جذبے کی وجہ سے ان کا بیحد احترام کیا جاتا تھا۔ اگرچہ ان صفات حسنہ سے ان کی زندگی کا کوئی بھی دور خالی نہ رہا لیکن ان کا اظہار جس طرح خلافت کی ذمہ داریاں تفویض ہونے کے بعد ہوا پہلے نہ ہو سکا۔ انہیں باتوں کو دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص نے ان بلند مقاصد کے بارے میں شک نہ کیا اور کسی بھی جانب سے ان کے احکام کی بجا آوری میں کسی قسم کے تردد کا اظہار نہ کیا گیا۔ خالد بن ولیدؓ: خالدؓ بن ولید کو ابوبکرؓ نے جس لشکر کی کمان سپرد کی تھی وہ تمام لشکروں سے زیادہ مضبوط تھا اور اس میں مہاجرین و انصار کے منتخب آدمی جمع تھے جن کا انتخاب خود خالد نے کیا تھا۔ صفحات آئندہ میں آپ دیکھیں گے کہ ان لوگوں نے جنگ ہائے ارتداد میں بے نظیر کارنامے انجام دئیے اور عراق و شام کی جنگوں میں تو انہوں نے وہ معرکے سر کیے جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان فوجوں کی کامیابی کا راز خالد بن ولید کی سپہ سالاری میں مضمر تھا۔ خالد کو جو جنگی مہارت حاصل تھی اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سکندر اعظم، چنگیز خاں، جولیس سیزر ہنی بال اور نپولین کی شخصیتیں خواہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ نظر آتی ہوں لیکن حق یہ ہے کہ خالدؓ کی شخصیت کے آگے وہ سب ہیچ ہیں۔ وہ اسلام کے بطل جلیل تھے اور ہر قسم کے خطرات و خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دشمنوں کی صفوں میں دلیرانہ گھس جانا ان کا خاص شیوہ تھا۔ فنون جنگ سے گہری واقفیت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ دشمن کا ہر چال اور اس کا ہر منصوبہ ان کی نگاہ میں ہوتا تھا اور مخالف کی کوئی حرکت ان سے چھپی نہ رہ سکتی تھی۔ تمام مسلمانوں کو ان کی صلاحیتوں کا علم تھا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ موتہ میں مسلمانوں کی قلیل التعداد فوج کو ہزار ہا رومیوں کے نرغے سے نکال لانے کی بنا پر سیف اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا۔ زندگی بھر انہوں نے کبھی شکست نہیں کھائی، ہمیشہ فتح یاب ہی ہوتے رہے اور اسی حالت میں وفات پائی۔ اسلام لانے سے قبل بھی خالد کا شمار قریش کے چوٹی کے بہادروں میں ہوتا تھا۔ جنگ بدر احد اور خندق میں وہ کفار کے دوش بہ دوش مسلمانوں سے لڑے۔ سرتاپا فوجی ہونے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں خشونت، تندی اور تیزی آ گئی تھی۔ دشمن کو سامنے دیکھ کر ان سے مطلق صبر نہ ہو سکتا اور چاہتے تھے کہ جس قدر جلد ممکن ہو اس پر ٹوٹ پڑیں۔ اللہ کا فضل ہمیشہ ان کے شام حال رہا ورنہ ممکن تھا کہ اپنی جلد بازی کے باعث انہیں بھاری نقصان سے دو چار ہونا پڑتا۔ دشمن بڑی سے بڑی تعداد اور کثر اسلحہ کے باوجود کبھی انہیں مرعوب نہ کر سکتا تھا۔ صلح حدیبیہ سے اگلے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرمۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو خالد مسلمانوں سے حد درجہ نفرت کے باعث مکہ چھوڑ کر ہی چلے گئے۔ لیکن اچانک اللہ نے ان کے دل پر پڑے ہوئے تاریک پردے ہٹا دئیے اور انہیں حق و صداقت سے آگاہی عطا فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ واپس تشریف لے جانے کے بعد خالد مکہ واپس آ گئے اور ایک روز انہوں نے قریش کے مجمع میں علانیہ کہہ دیا کہ اب ہر ذی عقل انسان پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ جادوگر ہیں نہ شاعر، ان کا کلام یقینا اللہ کی طرف سے ہے، اب قریش کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع اختیار کے بغیر چارہ نہیں۔ خالدؓ کی زبان سے یہ کلمات سن کر قریش کو سخت حیرت ہوئی۔ ان کے وہم میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ خالد کا میلان اسلام کی جانب ہو سکتا ہے۔ عکرمہ بن ابوجہل اور خالد کے مابین بحث بھی ہوئی لیکن خلاف معمول اس نے تیزی اختیار نہ کی۔ ابو سفیان اس اجتماع میں موجود نہ تھا۔ جب اسے اس واقعے کا علم ہوا تو اس نے انہیں بلا کر پوچھا کیا تمہارے اسلام لانے کی خبر سچ ہے؟ خالدؓ نے جواب دیا۔ ہاں میں اسلام لے آیا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ سن کر ابوسفیان کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا لات اور عزیٰ کی قسم! اگر یہی بات ہے تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تم ہی سے نپٹ لیتا ہوں۔ خالدؓ نے جواب دیا۔ اسلام بہرحال سچا ہے خواہ کوئی شخص اس بات کو کتنا ہی ناپسند کیوں نہ کرے۔ اسلام لانے کے بعد خالد مدینہ چلے آئے۔ اپنی جنگی قابلیت کی وجہ سے مسلمانوں میں خاص قدر و منزلت حاصل کر لی اور اس امر کے باوجود کہ ان کی ساری عمر اسلام کی مخالفت میں گزری تھی، ہر شخص انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ اس عزت و توقیر میں گراں قدر اضافہ اس وقت ہوا جب جنگ موتہ کے بعد انہیں دربار نبوی سے سیف اللہ کا خطاب مرحمت ہوا۔ بعد میں انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اس خطاب کا پورا پورا مستحق ثابت کیا۔ عراق اور شام کی فتوحات انہیں کے ذریعے سے ہوئیں۔ فارس اور روم کی عظیم الشان سلطنتیں جو اس زمانے میں روئے زمین کی مالک تھیں، انہیں کے ہاتھوں نابود ہوئیں ۔ ان ہی اوصاف کی بدولت انہیں مرتدین کے مقابلے میں سب سے بڑے لشکر کی سپہ سالاری نصیب ہوئی۔ مرتدین کو آخری پیش کش: لشکروں کی روانگی سے قبل ابوبکرؓ نے مرتدین کو آخری موقع دینے کے لیے انہیں دوبارہ اسلام لانے اور امن سے رہنے کی دعوت دی۔ عرب کے ہر حصے میں انہوں نے متعدد خطوط روانہ کیے جن میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ان کے بشیر و نذیر ہونے کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب وہ کام پورا ہو گیا جس کے لیے آپ دنیا میں تشریف لائے تھے تو اللہ نے آپ کو وفات دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ان خطوط میں یہ آیات بھی درج کیں۔ انک میت وانھم میتون (اے رسول! تمہیں بھی وفات دی جانے والی ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی) وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افئن مت فھم الخالدون (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے مجھ سے پہلے کسی شخص کو ہمیشہ کی زندگی سے نہیں نوازا یہ ممکن ہے کہ تو وفات پا جائے اور دوسرے لوگ زندہ رہیں؟) وما محمد الارسول قد خلت من قبلہ الرسل افئن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا وسیجزی اللہ الشاکرین (محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ اگر دوسرے رسولوں کی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پا جائیں یا شہید کر دئیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو اپنی ایڑیوں کے بل پھرے گا تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا اور عنقریب اللہ شکر گزار بندوں کو جزائے خیر دے گا) مرتدین کے نام خطوط: ان آیات کے درج کرنے سے ابوبکرؓ کا مقصد ان لوگوں کا فتنہ فرو کرنا تھا جو یہ کہہ رہے تھے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہوتے تو کبھی وفات نہ پاتے۔ ان آیات کے علاوہ آپ نے لکھا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے بعض لوگ مسلمان ہونے اور اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے بعد جہالت اور شیطان کے بہاکنے کے باعث دین حق سے پھر گئے ہیں۔ میں تمہاری جانب مہاجرین، انصار اور تابعین کا لشکر بھیج رہا ہوں۔ میں نے اسے حکم دے دیا ہے کہ جب تک وہ تمہارے سامنے اسلام کا پیغام نہ پہنچا دے جنگ نہ کرے۔ پس جو شخص یہ دعوت قبول کرے گا، اسلام کا اقرار کر کے تمام مخالفانہ سرگرمیوں سے باز آ جائے گا اور نیک کام کرے گا اس کی جان بخشی کر دی جائے گی، لیکن جو شخص انکار کرے گا اور فساد پر آمادہ ہو گا اس سے جنگ کی جائے گی اور وہ اللہ کی تقدیر کو اپنے اوپر نافذ ہونے سے روک نہ سکے گا۔ ایسے لوگوں کو آگ میں جلایا جائے گا اور بری طرح قتل کیا جائے گا۔ ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنا لیے جائیں گے۔ کسی شخص سے اسلام کے سوا کچھ قبول نہ کیا جائے گا ان باتوں پر غور کرنے کے بعد جو شخص ایمان لے آئے گا تو یہ ایمان اس کے لیے بہتر ہو گا، لیکن جو شخص بدستور حالت ارتداد پر قائم رہے گا وہ اللہ کو ہرگز عاجز نہ کر سکے گا۔ میں نے قاصد کو حکم دے دیا ہے کہ وہ میرا یہ خط مجمع عام میں پڑھ کر سنا دے۔ اسلام لانے کی علامت اذان ہو گی۔ اسی لیے جب مسلمان مرتدین کی بستیوں کے قریب پہنچ کر اذان دیتے اور اس کے جواب میں بستی کی جانب سے بھی اذان کی آواز سنائی دیتی تو مسلمان ان سے کوئی تعرض نہ کرتے لیکن اگر اذان کی آواز نہ آتی تو ایک بار پھر اتمام حجت کرنے کے بعد ان سے جنگ شروع کر دیتے۔ ہدایت کی کوشش: ابوبکرؓ نے قاصدوں کے ہاتھ یہ خطوط عرب کے گوشے گوشے میں بھیج دئیے۔ وہ چاہتے تھے کہ اس طرح متردد لوگوں کو غور و فکر کی مہلت مل جائے کیونکہ لوگ محض اس خدشے کے باعث مرتدین کے ساتھ ہو گئے تھے کہ اگر وہ اسلام پر قائم رہے تو انہیں مرتدین کے ہاتھوں سخت مظالم برداشت کرنے پڑیں گے۔ لیکن اب کہ انہوں نے اپنے آپ کو دو قوتوں کے درمیان گھرا ہوا دیکھا تو دوبارہ اسلام لانے کا اعلان کر دیا یا کم از کم مرتدین کے سرداروں کی حمایت سے دست کشی اختیار کر لی۔ اس وجہ سے ان کی جانیں بچ گئیں۔ یہ خطوط سن کر کثیر التعداد مرتدین کی ہمتیں بھی پشت ہو گئیں اور انہوں نے مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کا خیال چھوڑ دیا۔ غرض ابوبکرؓ کی اس پالیسی سے مسلمانوں کو زبردست فائدہ پہنچا۔ پھر بھی اس پالیسی سے کسی کمزوری کا اظہار مطلق نہ ہوتا تھا۔ ابوبکرؓ کا منشیا یہ نہ تھا کہ پہلے تو مرتدین کوبہلا پھسلا کر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں لیکن اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئیں تو مصالحت کی کوئی اور راہ اختیار کریں۔ اس کے برعکس انہوں نے اپنے خطوط کا لفظ لفظ نہایت سنجیدگی سے تحریر کیا تھا۔ جو دھمکیاں خطوط میں دی گئی تھیں وہ خالی خولی نہ تھیں بلکہ وہ انہیں لباس عمل پہنانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں لکھ دیا امرائے عساکر کو حکم دے دیا گیا ہے کہ وہ پہلے مرتد لوگوں کو دوبارہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ان سے در گزر کریں لیکن انکار کی صورت میں ان سے جنگ کریں اور اس وقت تک جنگ کریں کہ وہ اسلام لانے کا اقرار کر لیں، اسلام کا اقرار کر لینے کے بعد وہ انہیں ان حقوق سے آگاہ کریں جو ان پر عائد ہوتے ہیں اور ان حقوق سے بھی باخبر کریں جو حکومت کے ذمے عائد ہوتے ہیں پھر ان سے جو لینا ہو وہ لیں اور انہیں جو دینا وہ دیں۔ انہیں مہلت قطعا نہ دیں۔ جو شخص یہ دعوت قبول کر لے اس پر کسی شخص کو دست دراز کرنے کا حق نہیں ۔ اگر وہ اپنے دل میں ان باتوں سے مختلف باتیں چھپائے جو اس نے اپنی زبان سے ادا کی ہیں تو اس کا حساب لینا صرف اللہ کا کام ہے۔ لیکن جو شخص قبول دعوت سے انکار کر دے تو اس سے جہاں کہیں وہ ہو، جنگ کی جائے اور اسے قتل کیا جائے۔ اس سے اسلام کے سوا کوئی چیز قبول نہ کی جائے۔ قتل کرنے کے لیے تلوار اور آگ دونوں استعمال کی جائیں۔ بہترین سیاست کا کرشمہ: ابوبکرؓ نے اس موقع پر جو پالیسی اختیار کی وہ بہترین سیاست کا کرشمہ تھی۔ بعض لوگ اس امر پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نے نہایت نرم دل ہونے کے باوجود اس قدر سخت رویہ کیوں اختیار کیا؟ لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ ابوبکرؓ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کامل ایمان تھا اس کے باعث انہیں دین کے معاملے میں نرمی برتنے کا کبھی خیال بھی نہ آیا۔ یہ درست ہے کہ نرم دل لوگ سختی اور تندہی کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن اگر کسی جانب سے ان کے عقائد پر زد پڑے تو ان کی سختی کی انتہا نہیں رہتی۔ انسانی فطرت میں ایک خاص حد تک سختی اور نرمی کا مادہ رکھا گیا ہے مگر بعض اوقات جب معاملات اس مقرر حد سے بڑھ جائیں تو اس کا رد عمل بالکل الٹ ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبائع پر سختی غالب ہوتی ہے، انہیں دیکھ کر قیاس بھی نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کبھی نرمی بھی برت سکتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر نرمی نے پوری طرح قابو پا لیا ہوتا ہے اور انہیں دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ یہ کبھی سختی پر بھی اتر سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس قسم کے نظارے اکثر دیکھنے میں آتے ہیں کہ جن لوگوں سے سختی کی توقع نہیں کی جا سکتی وہ انتہائی سختی پر اتر آگے ہیں اور جن سے نرمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ انتہائی نرمی برتنے لگتے ہیں۔ وجہ وہی ہے جو پہلے بیان کی جا چکی ہے کہ سختی اور نرمی دونوں کی حدود مقرر ہیں۔ بعض واقعات کے نتیجے میں یہ حدود ٹوٹ جاتی ہیں تو ان کا رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ کیا کوئی شخص خیال کر سکتا تھا کہ اسامہ کو شام بھیجتے وقت ابوبکرؓ وہ رویہ اختیار کریں گے جو اکابر مہاجرین اور انصار کی رائے کے بالکل خلاف تھا؟ یا منکرین زکوٰۃ کے مقابلے میں اس قدر سختی برتیں گے کہ اسلامی لشکر کے مدینہ سے غیر حاضر ہونے کے باوجود چند آدمی لے کر ان کے مقابلے کو نکل آئیں گے؟ انہی واقعات پر بس نہیں بلکہ بعد کے واقعات نے بھی بتا دیا کہ ابوبکرؓ جن کی سرشت میں نرم دلی کوٹ کوٹ کر بھری تھی، مخالفین کے مقابلے میں نہایت سخت دل واقع ہوئے۔ اس کی وجہ جیسا کہ بیان کی جا چکی ہے یہی ہے کہ ابوبکرؓ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ایمان تھا اور انہیں وثوق تھا کہ انہوں نے جو چیز قبول کی ہے وہی حق ہے۔ اس لیے جب بعض لوگ اس چیز کے مقابلے کے لیے کھڑے تو ان سے مطلق صبر نہ ہو سکا اور وہ پورے عزم اور عدیم النظیر ہمت سے دین میں رخنہ اندازی کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ ابوبکرؓ نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ اس وقت تک خاموش نہ بیٹھیں گے جب تک منکرین زکوٰۃ اور مرتدین کو حق کی طرف نہ لے آئیں یا ان کا قلع قمع نہ کر لیں اور اگر اس غرض کے لیے انہیں تنہا بھی لڑنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہ کریں گے۔ جنگ ہائے ارتداد کی اہمیت: مرتدین سے جو جنگیں پیش آئیں ان کا شمار زمانہ اسلام کی فیصلہ کن جنگوں میں ہوتا ہے۔ اگر ان جنگوں میں مسلمان فتح یاب نہ ہوتے تو تھوڑے ہی عرصے میں عرب دوبارہ اسی پرانی جاہلیت کا شکار ہو جاتے جسے فنا کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ لیکن اللہ نے مقدر کر دیا تھا کہ اس کا دین غالب رہے گا۔ اس غرض سے اس نے ابوبکرؓ کو چنا۔ انہوں نے انتہائی پامردی سے تمام دشمنان اسلام کا مقابلہ کر کے انہیں دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہونے پر مجبور کر دیا۔ پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی ایسی نظیر نہیں ملتی جہاں ایسے محکم ایمان کا مظاہرہ کیا گیا ہو جیسا ابوبکرؓ نے کیا اور عزم و استقلال کا ایسا ثبوت دیا گیا ہو جیسا ابوبکرؓ نے دیا۔ ٭٭٭ ساتواں باب طلیحہ اور جنگ بزاخہ قبائل عبس، ذبیان، بنو بکر اور ان کے وہ مددگار جنہوں نے مدینہ پر چڑھائی میں حصہ لیا تھا داغ ہزیمت دھونے کے لیے طلیحہ بن خویلد اسدی سے جا کر مل گئے تھے۔ مزید برآں طی، غطفان، سلیم اور وہ بدوی قبائل بھی جو مدینہ کے مشرق اور شمال مشرق میں آباد تھے طلیحہ کے حامی بن گئے تھے۔ یہ سب قبائل عینیہ بن حصن فزاری کی طرح کہتے تھے حلیف قبائل (اسد اور غطفان) کا نبی ہمیں قریش کے نبی سے زیادہ محبوب ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں لیکن طلیحہ زندہ ہے۔ ان قبائل کو خوب معلوم تھا کہ ابوبکرؓ ان پر ضرور حملہ کریں گے لیکن انہوں نے مطلق پروا نہ کی اور برابر لڑائی کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ طلیحہ کی متابعت انہوں نے اس ضد میں آ کر اختیار کی تھی کہ وہ اپنے اوپر مدینہ کی حکومت کیوں تسلیم کریں؟ اپنی آزادی ہاتھ سے کیوں جانے دیں اور زکوٰۃ جو ایک قسم کا تاوان ہے، کیوں ادا کریں؟ طلیحہ پہلے سمیراء میں مقیم تھا۔ وہاں سے بزاخہ آ گیا کیونکہ اس کے خیال میں لڑائی کے لیے بزاخہ نسبتاً زیادہ مناسب اور محفوظ جگہ تھی۔ طلیحہ کا دعوائے نبوت: طلیحہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دعویٰ نہ کیا تھا بلکہ وہ اسود عنسی اور مسیلمہ کی طرح آپ کی زندگی کے آخری دنوں ہی میں یہ دعویٰ کر چکا تھا۔ اس نے اپنے دونوں ساتھیوں کے برعکس عربوں کو دوبارہ بت پرستی اختیار کرنے کی دعوت نہ دی۔۔۔۔ کیونکہ بت پرستی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب سے بالکل مٹا چکے تھے اور اب اس کے پنپنے کا کوئی امکان باقی نہ رہا تھا۔ توحید کی دعوت عرب کے کناروں تک پہنچ چکی تھی اور لوگوں کے دلوں میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ بت پرستی ہذیان کی ایک قسم ہے جس سے ہر شریف انسان کو شرمانا چاہیے۔ مدعیان نبوت نے لوگوں میں یہ بات پھیلانی شروع کی کہ ان پر اسی طرح وحی نازل ہوتی ہے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی ہے اور ان کے پاس بھی اسی طرح آسمان سے فرشتہ آتا ہے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا ہے۔ ان میں سے بعض نے آیات قرآنی کے مشابہ کچھ عبارتیں بنانے کی کوشش کی اور جیسی بری بھلی وہ بنیں انہیں لوگوں کے سامنے وحی آسمانی کے طور پر پیش کیا۔ لیکن ان عبارتوں پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور حیرت ہوتی ہے ان مدعیان نبوت کو کس طرح جرات ہوئی کہ انہوں نے ایسی بے سروپا باتوں کو وحی آسمانی کا نام دے کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور وہ لوگ بھی کس عجیب قسم کی ذہنیت کے مالک تھے جنہوں نے اس نامعقول اور بے ہودہ بکواس کو وحی الٰہی سمجھ کر قبول کر لیا۔ ذیل میں نمونۃ اس وحی کا ایک ٹکڑا پیش کیا جاتا ہے جو طلیحہ پر اترا کرتی تھی۔ والحمام والیمام، والصرد الصوام، قد صمن قبلکم باعرام لیبلغن ملکنا العراق والشام۔ تاریخ سے معلوم ہوت اہے کہ زمانہ جاہلیت میں کاہن لوگ مسجع و مقفی عبارتیں لوگوں کے سامنے پیش کر کے ان پر رعب بٹھاتے تھے۔ قریش بھی یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے تھے کہ یہ شخص کاہن ہے اور جو کچھ اس پر اترتا ہے وہ اسی قسم کی مسجع و مقفی عبارتیں ہیں جو عموماً کاہن لوگ سنایا کرتے ہیں۔ لیکن بالآخر عربوں اور تمام انسانوں پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اور جن و انس میں سے کسی کی طاقت نہیں کہ وہ اس کی نظیر پیش کر سکے۔ طلیحہ اور اسود عنسی وغیرہ بھی کاہن تھے اور دوسرے کاہنوں کی طرح انہوں نے بھی بعض مسجع و مقفی عبارتیں بنا کر انہیں اللہ کی طرف منسوب کر دیا تھا حالانکہ ان عبارتوں کو سننا بھی مذاق سلیم پر گراں گزرتا تھا اور کوئی باذوق ان عبارتوں کو برداشت نہ کر سکتا تھا۔ تعجب ہے کہ یہ خرافات سننے کے بعد لوگ کس طرح ان مدعیان نبوت کے پھندوں میں گرفتار ہو گئے اور ان عبارتوں کو کلام الٰہی یقین کرنے لگے۔ طلیحہ نے لوگوں کے سامنے جو تعلیم پیش کی وہ بیشتر پردہ اخفا میں ہے البتہ تاریخ سے اتنا ضرور پتا چلتا ہے کہ اس نے اپنے پیروؤں کو نماز میں رکوع و سجود کرنے سے منع کر دیا تھا اور کہا تھا، اللہ کا یہ منشاء نہیں کہ تم اپنے چہرے زمین پر رگڑو یا نماز میں اپنی پیٹھیں کمان بناؤ۔ صاف ظاہر ہے کہ اس نے یہ سب کچھ عیسائیوں کے طریقہ عبادت سے لیا تھا۔ طلیحہ، مسیلمہ او ران جیسے دوسرے مدعیان نبوت کی پیش کردہ تعلیمات اور باتیں اس لیے پردہ اخفا میں ہیں کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے انہیں مدون کرنے کی کوشش نہ کی۔ بعد میں جو چیزیں مدون ہوئیں وہ بھی صرف ان باتوں پر مشتمل تھیں جن سے دین اسلام کی تائید ہوتی تھی۔ ہر شخص کو علم ہے کہ صدر اول میں قرآن کریم کے سوا، جو ابوبکرؓ کے حکم سے یکجا کیا گیا، کوئی چیز مدون نہیں کی گئی۔ احادیث کی تدوین بھی پہلی صدی ہجری کے بعد عمل میں آئی۔ اس حقیقت کے پیش نظر تعجب نہیں کہ طلیحہ اور دوسرے مدعیان نبوت کے متعلق جن روایات کا وجود ملتا ہے وہ بے سروپا ہی ہوں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ یہ روایات اس زمانے کے عربی طرز بود و ماند، تہذیب و تمدن اور رسوم کے برعکس ہیں اور اس وقت کے واقعات و حالات سے قطعاً ناسبت نہیں رکھتیں۔ مرتدین کی سرکوبی اور ضرارؓ کی روانگی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں طلیحہ نے بنی اسد میں، اسود عنسی نے یمن میں اور مسیلمہ نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اسی لیے آپ نے ضرار بن ازور کو بنی اسد کے مسلمان عمال کے پاس یہ ہدایت دے کر بھیجا تھا کہ وہ مرتدین کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اس حکم کے مطابق مسلمانوں نے واردات کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور طلیحہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سمیراء کے مقام پر فروکش ہوا۔ مختلف میدان ہائے جنگ میں اپنی فتح یابی کی خبریں سن کر مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی اور مرتدین کی تعداد گھٹتی جاتی تھی۔ بالآخر ضرارؓ نے طلیحہ سے جنگ کرنے کے لیے سمیراء کی جانب کوچ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ایک مسلمان، اس خیال سے کہ طلیحہ کو جہنم واصل کرنے کا شرف اس کے حصے میں آئے، فوج سے علیحدہ ہو کر طلیحہ کے کیمپ میں جا پہنچا اور اس پر تلوار سے وار کیا لیکن تلوار چٹ گئی اور طلیحہ بچ گیا۔ یہ دیکھ کر طلیحہ کے حاشیہ برداروں نے یہ بات پھیلانا شروع کر دی کہ ان کے نبی پر کوئی ہتھیار اثر نہیں کرتا۔ مسلمان طلیحہ سے جنگ کی تیاریاں کرنے میں مصروف ہی تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات پہنچ گئی۔ اس پر ان میں اضطراب برپا ہو گیا اور ان کی تعداد گھٹنے لگی۔ بعض لوگ اسلامی لشکر سے بھاگ کر طلیحہ سے جا ملے۔ ابوبکرؓ کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد جب عبس اور ذبیان کے قبائل بھی طلیحہ سے مل گئے تو اس کی قوت و طاقت اور تعداد میں بے حد اضافہ ہو گیا اور ظاہر بین آنکھ کو نظر آنے لگا کہ طلیحہ کو مغلوب کرنا آسان کام نہیں۔ عینیہ اور مسیلمہ کا الحاق: طلیحہ کی قوت و طاقت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب عبس اور ذبیان کے علاوہ بعض دوسرے قبائل بھی اس کے ساتھ مل گئے۔ واقعہ یہ ہوا کہ بنو اسد، غطفان اور طئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ایک دوسرے کے حلیف تھے لیکن بعض رنجشوں کی بنا پر اسد اور غطفان، قبیلہ طئی کے خلاف ہو گئے اور انہوں نے طئی کے لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا۔ اس واقعے کا اثر اتنا ہی نہ ہوا کہ اسد و غطفان اور طئی کے درمیان رنجش پیداہو گئی بلکہ بنی اسد اور غطفان میں دوستی کا جو معاہدہ تھا وہ بھی ٹوٹ گیا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عینیہ بن حصن فزاری نے غطفان کو جمع کر کے کہا کہ جب سے ہمارے اور بنی اسد کے درمیان اختلاف برپا ہوا ہے ہمیں برابر نقصان ہی پہنچ رہا ہے۔ میں اب دوستی کے پرانے معاہدے کی تجدید او ر طلیحہ کی فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔ واللہ! اپنے حلیف قبیلے کے نبی کی اطاعت کرنا ہمارے لیے قریش کے نبی کی اطاعت کرنے سے بہتر ہے۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور طلیحہ زندہ ہے۔ عینیہ کی قوم نے اس کی بات تسلیم کر لی اور طلیحہ کی اطاعت کا اعلان کر دیا۔ اس طرح مرتدین کی شان و شوکت بہت بڑھ گئی اور ان قبائل میں جو مسلمان آباد تھے وہ بھاگ کر مدینہ پہنچ گئے۔ مرتدین کو ابوبکرؓ کی دھمکی: مذکورہ بالا قبائل نے بزاخہ میں جمع ہو کر ارتداد کا اعلان کیا اور مدینہ کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ابوبکرؓ نے دوسرے قبائل کی طرح ان سے بھی جنگ کرنے کا ارادہ کیا اور انہیں ایک خط بھیج کر دھمکی دی کہ اگر وہ دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل نہ ہوئے تو ان سے جنگ کر کے انہیں تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ خالد کو طلیحہ اور اس کے بعد مالک بن نویرہ سے جنگ کرنے کا حکم ملا تھا چنانچہ وہ ان بستیوں کی جانب روانہ ہو گئے۔ اسی اثناء میں قبیلہ طئی کے ایک سردار عدی بن حاتم زکوٰۃ لے کر مدینہ آئے۔ ابوبکرؓ نے انہیں بلایا اور ہدایت کی کہ وہ اپنے قبیلے میں جائیں اور مرتدین کو ڈرائیں کہ اگر وہ حالت ارتداد پر قائم رہے تو ان کا انجام اچھا نہ ہو گا۔ ادھر خالد نے فی الفور بزاخہ کا قصد نہ کیا بلکہ اجاء کی طرف مڑ گئے اور یہ ظاہر کیا کہ وہ خیبر کی جانب جا رہے ہیں اور وہاں سے مزید کمک لے کر پھر بزاخہ کی طرف کوچ کریں گے۔ عدیؓ کی سعی و جہد: ابوبکرؓ کی ہدایت کے مطابق عدی نے اپنے قبیلے میں پہنچ کر لوگوں کو سمجھایا بجھایا اور انہیں دوبارہ اسلام لانے کی تلقین کی لیکن لوگوں نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا اور کہاــ: ہم ابو الفیصل1؎ کی اطاعت کبھی نہ کریں گے اس پر عدی نے ان سے کہا: تمہاری جانب ایک ایسا لشکر بڑھا چلا آ رہا ہے جو تم پر ہرگز رحم نہ کرے گا اور قتل و غارت کا بازار اس طرح گرم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو امان نہ مل سکے گی۔ میں نے تمہیں سمجھا دیا ہے، آگے تم جانو تمہارا کام۔ عدی نے مسلمانوں کی قوت و طاقت اور بہادری کا ذکر تفصیل سے کیا اور انہیںسمجھایا کہ ابوبکرؓ نے اپنے تمام مخالفین کو حرف غلط کی طرح مٹا دینے کا تہیہ کر لیا ہے اس لیے تم اصرار سے باز آ جاؤ اور اسلام قبول کر لو ورنہ تمہارا انجام بہت برا ہو گا۔ 1؎ابوبکرؓ کے مخالفو نے ان کی کنیت مذاقاً ابو الفصیل رکھ چھوڑی تھی۔ عدی کی باتوں پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہ تھی کیونکہ وہ لوگ مشاہدہ کر چکے تھے کہ ابوبکرؓ نے اسلامی لشکر کے مدینہ سے سینکڑوں میل دور سرحد روم پر ہونے کے باوجود عبس، ذبیان اور ان کے مددگار قبائل کو بری طرح شکست دی تھی۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ خالدؓ بن ولید بہادری اور تندہی و سختی میں ضرب المثل ہیں اور وہ ان کا مقابلہ کسی صورت بھی نہ کر سکیں گے۔ بنی طئی کا دوبارہ قبول اسلام: عدی کی یہ باتیں سن کر بنو طئی نے باہم مشورہ کیا اور بالآخر طے پایا کہ عدی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بالکل سچ ہے اور انہیں دوبارہ اسلام لانے کی دعوت دینے سے ان کا مقصد ذاتی فائدہ حاصل کرنا نہیں بلکہ محض اپنی قوم کی خیر خواہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے عدی سے کہا: ہم آپ کا مشورہ قبول کرتے ہیں۔ آپ خالد بن ولید کے پاس جائیں اور انہیں ہم پر حملہ کرنے سے روک دیں۔ اس عرصے میں ہم اپنے ان بھائیوں کو بلانے کی کوشش کریں گے جو بزاخہ میں طلیحہ کے لشکر میں موجود ہیں کیونکہ ہمیں ڈر ہے، اگر ہم نے کھلم کھلا طلیحہ کی مخالفت کی تو وہ ہمارے ان بھائیوں کو قتل کرا دے گا۔ عدی اپنی قوم کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئے۔ وہ فی الفور سخ پہنچے اور خالدؓ سے جا کر کہا: آپ تین روز تک ٹھہر جائیں۔ اس عرصے میں آپ کے پاس پانچ سو بہادر جمع ہو جائیں گے جو دشمن کے مقابلے کے لیے بے حد مفید ثابت ہوں گے۔ تین روز کا یہ انتظار اس امر سے بہتر ہے کہ آپ انہیں آگ میں دھکیل دیں اور خود ان کے جلنے کا تماشا دیکھیں۔ خالدؓ بن ولید سے کوئی بات مخفی نہ تھی۔ وہ جنگی حالات سے پوری طرح باخبر تھے اور جانتے تھے کہ اگر طئی کے آدمی طلیحہ کا ساتھ چھوڑ گئے تو اس کی قوت و طاقت میں معتد بہ کمی واقع ہو جائے گی اور یہ بات مسلمانوں کے لیے بے حد مفید ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے بنی طئی کی جانب کوچ کرنے کا ارادہ تین روز کے لیے ملتوی کر دیا۔ عدی دوبارہ اپنے قبیلے میں پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ قبیلے کے لوگوں نے طلیحہ کے لشکر میں اپنے آدمیوں کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ فوراً واپس آ جائیں کیونکہ مسلمانوں نے طلیحہ کے لشکر پر حملہ کرنے سے پہلے ان پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا ہے اس لیے وہ آئیں اور اس حملے کو روکیں۔ یہ پیغام پہنچنے پر طلیحہ کو مطلق شبہ نہ ہوا اور اس نے بنی طئی کے لوگوں کو بڑی خوشی سے اپنے قبیلے کی طرف واپس جانے کی اجازت دے دی۔ قبیلے میں پہنچ کر ان کی بات چیت اپنے آدمیوں سے ہوئی اور بہت کچھ بحث و تمحیص کے بعد انہوں نے بھی عدی کی رائے سے اتفاق کر لیا چنانچہ تمام لوگ دوبارہ اسلام قبول کر کے عدی کے ہمراہ خالدؓ کے پاس پہنچ گئے۔ اب خالدؓ نے انسر کا قصد کیا کیونکہ ان کا ارادہ وہاں جا کر قبیلہ جدیلہ سے جنگ کرنے کا تھا ۔ عدی نے پھر مداخلت کی اور کہا: قبیلہ طئی ایک پرندے کے مانند ہے اور جدیلہ قبیلہ طئی کا ایک پر ہے۔ آپ مجھے کچھ روز کی مہلت دیں۔ شاید اللہ جدیلہ کو بھی اسی طرح بچا لے۔ جس طرح غوث کو بچایا ہے۔ خالدؓ نے بڑی خوشی سے عدی کی درخواست منظور کر لی اور انہیں جدیلہ کی طرف جانے کی اجازت دے دی۔ وہ وہاں گئے اور سمجھا بجھا کر انہیں بھی دوبارہ قبول اسلام پر آمادہ کر لیا۔ اس کے بعد وہ جدیلہ کے ایک ہزار سوار لے کر خالدؓ کے پاس پہنچ گئے۔ مورخین عدی کے اس کارنامے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قبیلہ طئی نے عدی جیسا مدبر، عقل مند اور بابرکت انسان آج تک پیدا نہیں کیا، وہ اس قبیلے کے بہترین فرد تھے۔ مقابلے کے لیے طلیحہ کا اصرار: طئی اور جدیلہ کے دوبارہ قبول اسلام کی خبریں طلیحہ کو بزاخہ میں ملیں۔ یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سن کر اسے کس قدر گھبراہٹ ہوئی اور کس طرح اس کے سب عزائم پراوس پڑ گئی۔ لیکن اس کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری اور مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ طلیحہ تو شاید اس ارادے سے باز بھی آ جاتا لیکن عینیہ بن حصن کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ عینیہ کو جو سات سو فزاریوں کے ساتھ طلیحہ کے لشکر میں موجود تھا، ابوبکرؓ سے سخت دشمنی تھی اور وہ مدینہ کی حکومت پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا۔ عینیہ وہی شخص ہے جو غزوہ احزاب کے موقع پر بنی فزارہ کا سردار تھا ۔ا س غزوے کے دوران میں جب کفار کے تین لشکروں نے بنو قریظہ سے مل کر مدینہ پر زبردست حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا تو ان میں سے ایک لشکر کا سپہ سالار عینیہ تھا۔ غزوہ احزاب میں کفار کی شکست کے بعد بھی اس نے مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر سے نکل کر اس حملے کو روکا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ غزوہ ذی قرد کہلاتا ہے۔ گو بعد میں حالات سے مجبور ہو کر اسے اسلام قبول کرنا پڑا لیکن اس کا دل بدستور اسلام کے خلاف بغض و عداوت سے بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے اعلان کر دیا کہ وہ ابوبکرؓ کی حکومت کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے طلیحہ، طئی اور جدیلہ کی جماعت اور ایک کثیر فوج سے محروم ہونے کے باوجود اپنی نبوت سے نہ پھر سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو عینیہ اس کا دشمن بن جائے گا اور ارد گرد کے قبائل کو اس کے خلاف بھڑکا کر اس کی زندگی خطرے میں ڈال دے گا۔ اس لیے اس نے یہی مناسب سمجھا کہ وہ بدستور مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کی تیاریاں کرتا رہے اور منتظر رہے کہ آئندہ کیا وقوع میں آتا ہے۔ طلیحہ کے خلاف پیش قدمی: قبیلہ طئی کی دونوں شاخوں کو ساتھ ملانے کے بعد خالدؓ نے طلیحہ کے خلاف پیش قدمی شروع کر دی اور عکاشہ بن محصنؓ اور ثابت بن اقرم انصاریؓ کو دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے لشکر سے آگے بھیجا۔ یہ دونوں عرب کے معزز ترین فردا ور بہادری میں ضرب المثل تھے۔ر استے میں ان دونوں کو طلیحہ کا بھائی حبال 1؎ مل گیا۔ انہوں نے اسے قتل کر ڈالا۔ جب طلیحہ کو بھائی کے قتل کی خبر پہنچی تو وہ اپنے دوسرے بھائی سلمہ کو ساتھ لے کر ان دونوں کی تلاش میں نکلا۔ اور بالآخر انہیں پکڑ لیا۔ سلمہ نے ثابت کو تو مقابلے کی مہلت ہی نہ دی اور فوراً شہید کر ڈالا لیکن عکاشہؓ نہایت جواں مردی سے طلیحہ کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ طلیحہ کو مجبوراً اپنے بھائی سلمہ سے مدد لینی پڑی۔ ان دونوں نے مل کر عکاشہ کو بھی شہید کر دیا اور اپنے کیمپ کو لوٹ گئے۔ مسلمانوں میں اضطراب: خالد بن ولید لشکر لیے آگے بڑھے چلے آ رہے تھے کہ لوگوں نے ان دونوں شہیدوں کی لاشیں میدان میں پڑی ہوئی دیکھیں۔ اسی سے ان میں سخت ہیجان برپا ہو گیا۔ خالد نے یہی مناسب سمجھا کہ سردست دشمن کی طرف کوچ کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے ہیجان میں کمی ہو جائے اور وہ اپنی فوج کو بیش از بیش منظم کر کے زیادہ کامیابی سے دشمن کا مقابلہ کر سکیں۔ چنانچہ وہ لشکر لے کر بنی طئی کی جانب لوٹ آئے اور عدی کی مددسے لشکر کی تعداد میں مزید اضافے کی تدابیر شروع کر دیں۔ جب مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ ان کی تعداد اور قوت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تو وہ دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہو گئے چنانچہ خالدؓ انہیں لے کر بزاخہ پہنچے۔ بنی طئی کا اظہار معذرت: قیس اور بنو اسد طلیحہ کے ہمراہ مسلمانوں سے لڑائی کے لیے جمع تھے۔ بنی طئی کے کچھ لوگوں نے خالد سے درخواست کی کہ ہمیں بنی اسد کے مقابلے سے باز رکھا جائے کیونکہ وہ ہمارے حلیف ہیں البتہ قیس کے مقابلے میں ہم آپ کی ہر طرح امداد کر سکتے ہیں۔خالد نے فرمایا: 1؎ یہ کامل ابن اثیر کی روایت ہے لیکن طبری اور قاموس میں مذکور ہے کہ حبال، سلمہ بن خویلد کا بیٹا تھا یعنی طلیحہ کا بھائی نہیں بھتیجا تھا۔ قیس بھی شان و شوکت اور قوت و طاقت میں بنو اسد سے کم نہیں لیکن میں تمہیں اختیار دیتا ہوں کہ تم کسی قبیلے سے چاہے لڑو چاہے نہ لڑو۔ مگر عدی نے مومنانہ جذبے کا اظہار کرتے ہوئے کہا: واللہ! حلیف ہونے کے باوجود مجھے کوئی چیز بنی اسد کا مقابلہ کرنے سے باز نہ رکھ سکے گی۔ جب انہوں نے دشمنان اسلام کا ساتھ دیا تو وہ ہمارے حلیف بھی نہ رہے۔ واللہ! اگر میرا اپنا خاندان بھی اسلام کی مخالفت کرے گا تو میں اس سے بھی جہاد کروں گا۔ یہ سن کر خالدؓ نے کہا: ایک فریق سے لڑنا بھی جہاد ہی ہے۔ تم اپنے اہل قبیلہ کی رائے کی مخالفت نہ کرو بلکہ وہی کرو جس میں تمہارے قبیلے والوں کی خوشی ہو اور اسی قبیلے سے لڑائی کرو جس سے تمہارے قبیلے والے لڑنا چاہیں۔ چنانچہ بنو طئی قبیلہ قیس سے لڑے اور باقی مسلمان بنو اسد سے۔ آغاز جنگ اور فرار طلیحہ: طلیحہ کے لشکر کی کمان عینیہ بن حصن کر رہا تھا۔ خود طلیحہ خیمے میں کمبل اوڑھے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے وحی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ جب لڑائی کا بازار خوب گرم ہو گیا اور عینیہ کو خالد اور مسلمانوں کی قوت کا پتا لا تو وہ طلیحہ کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: کیا جبریل آپ کے پاس کوئی وحی لائے؟ اس نے کہا ابھی نہیں۔ یہ سن کر وہ واپس چلا گیا اور لڑنے میں مشغول ہو گیا۔ جب لڑائی نے مزید شدت اختیار کی اور مسلمانوں کا دباؤ مرتدین پر برابر بڑھتا چلا گیا تو وہ پھر طلیحہ کے پاس آیا اور پوچھا: ’’ اب بھی جبریل کوئی وحی لائے یا نہیں؟‘‘ طلیحہ نے وہی جواب دیا کہ ابھی نہیں۔ عینیہ نے جھنجھلا کر پوچھا: ’’ آخر کب تک آئے گی؟‘‘ طلیحہ نے کہاــ: ’’ میری عرض تو ملاء اعلیٰ تک پہنچ چکی ہے۔ اب دیکھو کیا جواب ملتا ہے؟‘‘ اس پر وہ پھر میدان جنگ میں آ گیا اور لڑنا شروع کر دیا۔ جب اس نے دیکھا کہ خالدؓ نے اس کے لشکر کا محاصرہ کر لیا ہے اور اب شکست کوئی دم کی بات ہے تو وہ گھبراہٹ کی حالت میں پھر طلیحہ کے پاس آیا اورپوچھا: ’’ اب بھی کوئی وحی نازل ہوئی یا نہیں؟‘‘ طلیحہ نے جواب دیا’’ ہاں‘‘ اس نے پوچھا ’’ کیا‘‘ طلیحہ نے جواب دیا۔ یہ وحی نازل ہوئی ہیـ:ـ ان لک رحا کرحاہ و حدیثا الا تنساہ (تیرے پاس بھی ویسی ہی چکی ہے جیسی کے پاس ہے اور تیرا ذکر بھی ایسا ہے جسے تو کبھی نہ بھولے گا۔)1؎ یہ سن کر عینیہ اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا اور چیخ اٹھا: قد علم اللہ ان سیکون حدیثا الا تنساہ (بے شک اللہ کو معلوم ہے کہ عنقریب ایسے واقعات پیش آئیں گے جنہیں تو کبھی نہ بھولے گا۔) اس کے بعد وہ اپنی قوم کی طرف آیا اور پکار کر کہا: ’’ اے بنو فزارہ! طلیحہ کذاب ہے۔ اسے چھوڑ دو اور بھاگ کر جانیں بچاؤ۔‘‘ یہ سن کر فزارہ تو بھاگ کھڑے ہوئے۔ باقی لشکر طلیحہ کے گرد جمع ہو گیا اور پوچھاکہ اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ طلیحہ نے پہلے سے اپنے لیے ایک گھوڑے اور اپنی بیوی نوار کے لیے ایک اونٹ کا انتظام کر رکھا تھا۔ جب اس نے لوگوں کو اس پریشانی کی حالت میں دیکھا تو وہ کود کر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اپنی بیوی کو بھی سوار کر کے یہ کہتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا: 1؎ اہل عرب جنگ کوچکی سے تعبیر کرتے تھے۔ طلیحہ کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں بھی ویسی ہی سخت جنگ درپیش ہے جیسی مسلمانوں کو اور اس جنگ کے واقعات تمہیں کبھی نہ بھولیں گے۔ ’’ جو شخص میری طرح اپنے اہل و عیال کو لے کر بھاگ سکے وہ بھاگ جائے۔‘‘ طلیحہ کا دوبارہ قبول اسلام: اس طرح طلیحہ کی طاقت و قوت جو اس نے ابوبکرؓ کے مقابلے میں جمع کی تھی، ملیا میٹ ہو گئی اور اس کی نبوت کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ بھاگ کر شام پہنچا اور وہاں بنو کلب میں سکونت اختیار کر لی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ ان تمام قبائل نے جو اس سے پہلے اس کے حلقہ اطاعت میں شامل تھے، اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ بھی اسلام لے آیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ عمرہ کرنے کے ارادے سے مکہ آیا۔ جب وہ مدینہ کے قریب سے گزرا تو بعض لوگوں نے ابوبکرؓ کو اطلاع دی۔ انہوں نے فرمایا: اب میں اس کے خلاف کیا کر سکتا ہوں۔ اس سے تعرض نہ کرو کیونکہ اللہ نے اسے ہدایت دے دی ہے۔ جب عمرؓ خلیفہ ہوئے تو طلیحہ ان کی بیعت کرنے کے لیے آیا۔ اسے دیکھ کر عمرؓ نے فرمایا: تو عکاشہ اور ثابت کا قاتل ہے۔ میرا دل تیری طرف سے کبھی صاف نہیں ہو سکتا ۔ اس نے جواب دیا۔ میر المومنین! آپ کو ان دونوں کی طرف سے کیا فکر ہے؟ اللہ نے انہیں میرے ہاتھ سے عزت کے بلند مقام تک پہنچا دیا (شہادت دی) لیکن مجھے بھی ان کے ہاتھوں سے ذلیل نہ کرایا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اس کی بیعت لے لی۔ پھر فرمایا: اے دغا باز! تیری کہانت کا کیا بنا؟ اس نے جواب دیا: امیر المومنین! وہ ختم ہو گئی۔ ہاں ، کبھی کبھی ایک دو پھونکیں مار لیتا ہوں۔ عمرؓ سے رخصت ہو کر وہ اپنی قوم میں چلا آیا اور وہیں مقیم ہو گیا۔ عراق کی جنگوں میں اس نے ایرانیوں کے مقابلے میں کار ہائے نمایاں انجام دئیے۔ عینیہ بن حصن میدان جنگ سے فرار ہو کر اپنی قوم بنو فزارہ میں پہنچ گیا اور اعلان کر دیا کہ طلیحہ کذاب اور بزدل ہے اور اپنے لوگوں کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود اپنی بیوی کے ہمراہ فرار ہو گیا ہے۔ دوسرے مرتد قبائل کا استیصال: خالدؓ نے چشمہ بزاخہ پر کامل ایک مہینہ قیام فرمایا۔ اس دوران میں وہ ان بقیہ قبائل کی سرکوبی میں مصروف رہے جو ابھی تک ارتداد اور سرکشی پر قائم تھے اور ام زمل سے مل کر مسلمانوں کے مقابلے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو چن چن کر قتل کرا دیا جن کے ہاتھ بے گناہ مسلمانوں کے خون سے آلودہ تھے اور مرتدین کے متعدد سر بر آوردہ اشخاص کو، جو اسلامی فوجوں کے مقابلے کو نکلے تھے، گرفتار کر کے مدینہ بھجوا دیا۔ ان لوگوں میں سے مشہور شخص یہ تھے! قرہ بن ہبیرہ، فجائۃ السلمی، ابو شجرہ بن عبدالعزیٰ السلمی وغیرہ۔ یہ لوگ اس وقت تک حالت اسیری میں رہے جب تک ابوبکرؓ نے ان کے متعلق فیصلہ نہ سنا دیا۔ بقیہ مرتد قبائلـ: ام زمل اور طلیحہ کے لشکر کے مفرورین کا حال بیان کرنے سے قبل اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے کہ ان لوگوں کا کیا بنا جو طلیحہ کی قوم، بنی اسد کی طرح دوبارہ اسلام میں داخل نہ ہوئے؟ کیا ان کی عقل یہ تقاضا نہ کرتی تھی کہ جب طلیحہ کا کذب ان پر ظاہر ہو گیا تھا تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لے آتے؟ بات یہ ہے کہ اگرچہ سارے عرب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجبوراً سر تسلیم خم کرنا پڑا لیکن در حقیقت وہ لوگ صدق دل سے آپ پر ایمان نہ لائے تھے۔ ان میں بہت سے لوگوں کو بتوں کی عبادت فضول معلوم ہوئی تو وہ ان کی پرستش چھوڑ کر اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ لیکن اس عبادت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر جو دوسرے فرائض عائد کر دئیے وہ ان کے لیے بڑے تکلیف دہ تھے اور ان کی آزاد طبائع ان فرائض کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھیں اسی لیے انہوں نے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا۔ جب ابوبکرؓ کا یہ زمانہ آیا تو ان لوگوں نے ادائے زکوٰۃ سے انکار کر دیا کیونکہ مال کی محبت ان کے دلوں میں ہر چیز سے زیادہ رچی ہوئی تھی۔ اسی طرح وہ نماز اور دوسرے فرائض اسلام سے بھی نجات حاصل کرنا چاہتے تھے۔ طلیحہ، مسیلمہ اور دوسرے مدعیان نبوت کی پیروی انہوں نے اسی لیے اختیار کی تھی کہ اپنی گردنوں سے وہ طوق اتار کر پھینک سکیں جو فرائض اور ارکان اسلام کی شکل میں ان کی گردنوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ چنانچہ طلیحہ کے فرار ہونے کے بعد بھی وہ اپنے آپ کو اسلامی حکومت کی اطاعت کرنے پر آمادہ نہ کر سکے اور دوسری جگہ جا کر خالد سے دوبارہ جنگ کرنے کی تیاری شروع کر دی کیونکہ ان کا خیال تھا، وہ بالآخر ضرور فتح یاب ہوں گے اور ابوبکرؓ کو مجبور کر سکیں گے کہ فرائض اسلام کی بجا آوری میں ان پر اتنی سختی نہ کریں جتنی وہ اب کر رہے ہیں۔ لڑائی کے لیے دوبارہ تیار ہو جانے کا ایک سبب اور بھی تھا اور اس کا تعلق بدوؤں کی نفسیات سے ہے: ان قبائل او رمہاجرین و انصار کے درمیان پرانے جھگڑے چلے آ رہے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر غلبہ پا لیا تو انہوں نے سر تسلیم کم کر دیا اور آپ کے احکام کی بجا آوری پر بظاہر رضا مند ہو گئے۔ لیکن یہ سب کچھ انہوں نے بحالت مجبوری، اپنی مرضی کے خلاف، محض اس لیے کیا کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب ہو چکے تھے۔ جونہی انہیں کچھ مہلت اور آزادی ملی وہ مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک لمحہ بھی سوچ بچار میں ضائع نہ کیا۔ انہیں جنگ خندق کا واقعہ یاد تھا۔ جب قریب تھا کہ مدینہ اپنے دروازے کفار کے لیے کھول دیتا اگر ایک سخت آندھی کافروں کے تمام منصوبے تہ و بالا کر کے نہ رکھ دیتی۔ بظاہر مسلمان ہونے کے بعد یہ لوگ چپکے ہو رہے اور دیکھتے رہے کہ کیا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی۔ پھر کیا تھا، یہ لوگ مرتد ہو گئے اور انہون نے سارے ملک میں فساد برپا کر دیا۔ جب تک اسلامی فوجیں ان کی سرکوبی کے لیے پہنچیں انہوں نے اس وقفے سے فائدہ اٹھا کر اپنی جمعیت کو مضبوط تر کر لیا۔ ان کا خیال تھاکہ قسمت ضرور ان کا ساتھ دے گی اور وہ دوبارہ اس آزادی و خود مختاری سے بہرہ ور ہو سکیں گے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محروم ہو چکے تھے۔ اگر تمام قبائل اپنے اس موقف پر مضبوطی سے قائم رہتے تو یقینا خالدؓ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ آسانی سے مرتدین پر فتح نہ پا سکتے لیکن عدی بن حاتم کی کوششوں سے قبیلہ طئی کی دونوں شاخیں طلیحہ سے الگ ہو کر مسلمانوں سے مل گئیں۔ یہ دیکھ کر طلیحہ کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ یہی گھبراہٹ اور پریشانی اس کی شکست اور فرار کا موجب بنی۔ طلیحہ کے فرار ہونے کے بعد عینیہ بھی اپنے قبیلے میں جا کر بیٹھ رہا۔ اس دوران میں بنو عامر، جو طلیحہ کے طرف داروں میں سے تھے اور بزاخہ سے کچھ فاصلے پر آباد تھے، اس انتظار میں رہے کہ دیکھیں کس فریق کو غلبہ نصیب ہوتا ہے؟ جب خالدؓ نے بنو اسد اور قیس کو شکست فاش دے دی تو بنو عامر نے باہم مشورہ کر کے طے کیا کہ اب ان کے لیے مسلمان ہو جانا ہی بہتر رہے گا، چنانچہ وہ بھی اسد، غطفان اور طئی کی طرح خالدؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔ قاتلوں پر خالدؓ کی سختی: خالدؓ نے غطفان ، ہوازن، سلیم اور طئی کے لوگوں کی جان بخشی اس شرط پر کی تھی کہ وہ ان کو ان کے حوالے کر دیں۔ جنہوں نے ان غریب مسلمانوں کو قتل کیا تھا جو بزمانہ ارتداد ان کے چنگل میں پھنس گئے تھے۔ چنانچہ جب یہ لوگ ان کے سامنے پیش کیے گئے تو انہوں نے دوسروں کو عبرت دلانے کے لیے ان کے سرداروں کے سوا باقی سب کو قتل کر دیا اور ان کی لاشیں آگ میں جلا دیں۔ اس کے بعد قرہ بن ہبیرہ، عینیہ بن حصن اور دوسرے سرداروں کو بیڑیاں پہنا کر ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیا اور ساتھ ہی حسب ذیل مضمون کا ایک خط بھی ارسال کیا: بنو عامر ارتداد کے بعد اسلام لے آئے لیکن میں نے ان کی جان بخشی اس وقت تک نہ کی جب تک انہوں نے ان لوگوں کو میرے حوالے نہ کر دیا۔ جنہوں نے غریب و بے کس مسلمانوں پر سخت ظلم ڈھائے تھے۔ میں نے ایسے تمام لوگوں کو قتل کر دیا ہے۔ اس خط کے ساتھ قرہ بن ہبیرہ اور اس کے ساتھیوں کو روانہ کر رہا ہوں۔ خالد کی روش پر ابوبکرؓ کی خوشنودی: خالدؓ نے جن لوگوں کو قتل مسلماناں کی پاداش میں تلوار کے گھاٹ اتار دیا تھا ان کی طرف سے ابوبکرؓ کے دل میں قطعاً رحم پیدا نہ ہوا بلکہ انہوں نے ان دشمنان اسلام اور دشمنان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سزا کا قرار واقعی مستحق سمجھا اور خالدؓ کو جواب میں لکھا: اللہ تمہیں اپنے انعام سے بہرہ ور کرتا رہے۔ میری یہ نصیحت ہے کہ تم اپنے معاملات میں ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہا کرو اور ہمیشہ تقویٰ کی راہ پر چلو کیونکہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے اور اس کے بندوں پر احسان کرتے ہیں۔ اللہ کے راستے میں بڑھ چڑھ کر کام کرو اور کبھی سستی نہ برتو۔ ہر شخص کو، جس نے مسلمانوں کو قتل کیا ہو، قابو پانے کے بعد قتل کر دو۔ دوسرے لوگوں کے متعلق بھی، جنہوں نے اللہ سے دشمنی اور سرکشی اختیار کر کے اس کے احکام کی خلاف ورزی کی اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ ان کا قتل کر دینا مناسب ہے تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیا رہے۔ ابوبکرؓ کا یہ خط خالدؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے مرتدین کو مرعوب کرنے کی پالیسی پر اور زور شور سے عمل شروع کر دیا۔ چنانچہ ایک مہینے تک وہ بزاخہ کے چشمے پر مقیم رہ کر مرتدین کا قافیہ تنگ کرتے رہے۔ مرتد قیدیوں کو ابوبکرؓ کی معافی: لیکن خالدؓ کے برعکس ابوبکرؓ نے ان قیدیوں پر سختی نہ کی جو میدان جنگ سے پابجولاں مدینہ پہنچے تھے۔ عینیہ بن حصن مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا اور طلیحہ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں سے جنگ کر چکا تھا۔ وہ قرہ بن ہبیرہ کے ساتھ قید ہو کر مدینہ آیا اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ مدینہ کے لڑکے اسے کھجور کی شاخوں سے مارتے اور کہتے تھے: اے اللہ کے دشمن! تو ہی ایمان لانے کے بعد کافر ہو گیا تھا؟ عینیہ جواب دیتا: میں تو کبھی اللہ پر ایمان نہیں لایا۔ لیکن اس کے باوجود ابوبکرؓ نے اس کی جاں بخشی کر دی اور اسے کچھ نہ کہا۔ قرہ بن ہبیرہ: قرہ بن ہبیرہ بنو عامر سے تعلق رکھتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عمرو بن عاص عمان سے مدینہ آتے ہوئے راستے میں اس کے پاس ٹھہرے تھے۔ اس وقت بنو عامر ارتداد کے لیے پر تول رہے تھے۔ جب عمروؓ بن عاص نے وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ کیا تو قرہ نے علیحدہ میں ان سے مل کر کہا: عرب تمہیں تاوان (زکوٰۃ) دینے پر ہرگز راضی نہ ہوں گے۔ اگر تم ان کے اموال انہیں کے پاس رہنے دو اور ان پر زکوٰۃ عائد نہ کرو تو وہ تمہاری باتیں ماننے اور اطاقت قبول کرنے پر رضا مند ہو جائیں گے۔ لیکن اگر تم نے انکار کیا تو پھر وہ ضرور تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ سن کر عمرو بن عاص نے جواب دیا: اے قرہ! کیا تو کافر ہو گیا ہے اور ہمیں عربوں کا خوف دلاتا ہے؟ جب قرہ اسیر ہو کر مدینہ آیا اور ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو اس نے کہا: اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں تو مسلمان ہوں اور میرے اسلام پر عمرو بن عاص گواہ ہیں۔ وہ مدینہ آتے ہوئے ہمارے قبیلے میں سے گزرے تھے۔ میں نے انہیں اپنے پاس ٹھہرایا تھا اور بڑی خاطر تواضع کی تھی۔ ابوبکرؓ نے عمروؓ بن عاص کو بلایا اور ان سے قرہ کی باتوں کی تصدیق چاہی۔ عمرو بن عاص نے سارا واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔ جب وہ زکوٰۃ کی بات پر پہنچے تو قرہ کہنے لگا: عمروؓ بن عاص اس بات کو جانے دو۔ عمروؓ بن عاص نے کہا: کیوں؟ واللہ! میں تو سارا حال بیان کروں گا۔ جب وہ بات ختم کر چکے تو ابوبکرؓ مسکرائے اور قرہ کی جان بخشی کر دی۔ علقمہ بن علاثہ: عفو و در گزر کی یہ پالیسی ابوبکرؓ کی جانب سے کمزوری کی آئینہ دار تھی بلکہ اس سے صرف وہ جوش و خروش اس انداز سے سرد کرنا مقصود تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا فائدہ ہو۔ لیکن جہاں معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تک پہنچتا وہاں ابوبکرؓ کسی قسم کی نرمی ہرگز گوارا نہ کر سکتے تھے۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چند مثالیں کافی ہوں گی۔ بنی کلب کے ایک شخص علقمہ بن علاثہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا لیکن آپ کی زندگی ہی میں مرتد ہو گیا اور شام چلا گیا۔ آپ کی وفات کے بعد وہ اپنے قبیلے میں واپس آیا اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاری کرنے لگا۔ ابوبکرؓ نے خبر پا کر قعقاع بن عمرو کو اس کے مقابلے کے لیے بھیجا لیکن مقابلے کی نوبت آنے سے پیشتر ہی عقلمہ فرار ہو گیا۔ا س کی بیوی، بیٹیاں اور دوسرے ساتھی اسلام لے آئے اور اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں علقمہ بھی تائب ہو کر ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے اس کی توبہ قبول کر لی اور جان بخشی کر دی کیونکہ اس نے نہ مسلمانوں سے جنگ کی تھی اور نہ کسی مسلمان کو قتل کیا تھا۔ فجاۂ ایاس: لیکن اس کے مقابل انہوں نے فجاۂ ایاس بن عبد یا لیل کے عذرات قبول نہ کیے اور نہ اس کی جان بخشی ہی کی۔ یہ شخص ابوبکرؓ کے پاس آیا اور ان سے عرض کی کہ آپ مجھے کچھ ہتھیار دیجئے، میں جس مرتد قبیلے سے آپ چاہیں گے لڑنے کے لیے تیار ہوں۔ انہوں نے اسے ہتھیار دے کر ایک قبیلے سے لڑنے کا حکم دیا۔ لیکن فجاۂ نے وہ ہتھیا ر قبیلہ سلیم، عامر اور ہوازن کے مسلمانوں اور مرتدین دونوں کے خلاف استعمال کیے اور کئی مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ اس پر ابوبکرؓ نے طریفہ بن حاجز کو ایک دستے کے ہمراہ فجاۂ کی جانب بھیجا۔ لڑائی میں فجاۂ گرفتار ہوا اور طریفہ اسے اپنے ہمراہ مدینہ لے آئے۔ ابوبکرؓ نے اسے جلا دینے کا حکم دیا۔ اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر فجاۂ مسلمانوں کو قتل نہ کرتا تو اسے اتنی ہولناک سزا نہ دی جاتی جس پر بعد میں ابوبکرؓ کو افسوس بھی ہوا۔ ابو شجرہ: اسی ضمن میں ابو شجرہ بن عبدالعزیٰ کا واقعہ بیان کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ واقعہ عینیہ، قرہ اور علقمہ کے واقعات سے بڑی حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ ابو شجرہ، مشہور شاعرہ خنسا کا بیٹا تھا جس نے اپنے بھائی صخر کی یاد میں بڑے دل دوز مرثیے کہے ہیں۔ ابو شجرہ اپنی والدہ کی طرح شاعر تھا۔ وہ مرتدین سے مل گیا اور ایسے شعر کہنے لگا جن میں اپنے ساتھیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا جاتا تھا اور ان سے لڑنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ چنانچہ منجملہ اور اشعار کے اس کا ایک شعر یہ بھی تھا: فرویت رمحی من کتیبۃ خالد وانی لارجو بعدھا ان اعمرا (میں نے اپنا نیزہ خالدؓ کے لشکر کے خون سے سیراب کر دیا ہے اور مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی میں اسی طرح کرتا رہوں گا۔) لیکن جب اس نے دیکھا کہ خالد کے خلاف ترغیب و تحریض بار آور ثابت نہیں ہوئی اور لوگ برابر اسلام قبول کر رہے ہیں تو وہ بھی اسلام لے آیا۔ ابوبکرؓ نے اس کی بھی جان بخشی کر دی اور اسے معاف کر دیا۔ عمرؓ کے عہد خلافت میں ایک دفعہ ابو شجرہ ان کے پاس آیا۔ وہ اس وقت زکوٰۃ کا مال غرباء میں تقسیم کر رہے تھے۔ ابو شجرہ نے کہا: امیر المومنین! مجھے بھی کچھ دیجئے کیونکہ میں حاجت مند ہوں۔ عمرؓ نے پوچھا: تو کون ہے؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ابو شجرہ ہے تو فرمایا: اے اللہ کے دشمن! کیا تو وہی نہیں جس نے کہا تھا: فرویت رمحی من کتیبۃ خالد وانی لارجو بعدھا ان اعمرا اس کے بعد انہوں نے اسے درے مارنے کا حکم دیا مگر وہ بھاگ کر اونٹنی پر سوار ہو کر اپنی قوم بنو سلیم میں آ گیا۔ ام زمل کا خروج: جب لوگوں میں یہ خبریں مشہور ہوئیں کہ ابوبکرؓ بالعموم ایسے لوگوں کے متعلق عفو و در گزر سے کام لے رہے ہیں جو مرتد ہونے کے بعد اسلام لے آتے ہیں تو ان قبائل کا جوش و خروش ٹھنڈا ہو گیا جنہوں نے طلیحہ کی مدد کی تھی اور وہ بھی رفتہ رفتہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ لیکن غطفان، طئی، سلیم اور ہوازن کے بعض لوگ جنہوں نے بزاخہ میں خالدؓ کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، بھاگ کر ام زمل سلمیٰ بنت مالک کے پاس پہنچے اور وعدہ کیا کہ اس کے ساتھ مسلمانوں سے جنگ کریں گے اور جانیں قربان کر دیں گے لیکن پیچھے نہ ہٹیں گے۔ لاریب یہ مفررین اتنے آتش زیر پا تھے کہ مسلمانوں کے خلاف ان کا جوش و خروش نہ ان کی عبرت ناک شکست ٹھنڈا کر سکی اور نہ ابوبکرؓ کا عفو و در گزر ان پر کچھ اثر کر سکا اور وہ ایک بار پھر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے جمع ہو گئے۔ اگر مسلمانوں سے ان کی نفرت اوران کے خلاف سخت غیظ و غضب کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن نہ ہوتا تو طلیحہ کے بزدلانہ فرار اور اس کے کذب و افتراء کا حال ظاہر ہو جانے کے بعد وہ ضرور خالدؓ کی اطاعت قبول کر لیتے۔ ام زمل بھی مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھی تھی اور اس کے دل پر ایک ایسا چرکا لگا ہوا تھا جو مرور زمانہ کے باوجود مندمل نہ ہو سکا تھا۔ اسلئے طبعی امر تھا کہ بزاخہ کا شکست خوردہ لشکر ام زمل کے پاس جمع ہوتا اور اپنے مقتولین کا انتظام لینے کی ہر ممکن تدبیر اختیار کرتا۔ ام زمل ام قرفہ کی بیٹی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتل کر دی گئی تھی۔ یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ زید بن حارثہ بنی فزارہ کی جانب گئے۔ وادی القریٰ میں ان کا سامنا بنی فزارہ کے چند لوگوں سے ہوا۔ انہوں نے زید کے ساتھیوں کو قتل کر دیا اور خود انہیں گہرا زخم پہنچایا۔ وہ اسی حالت میں مدینہ پہنچے۔ا ن کے زخم مندمل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک لشکر کے ہمراہ دوبارہ بنی فزارہ کی جانب روانہ فرمایا۔ اس مرتبہ زید کے لشکر کو کامیابی ہوئی۔ بنی فزارہ کے اکثر آدمی قتل یا مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ ان قیدیوں میں ام قرفہ فاطمہ بنت بدر بھی تھی۔ چونکہ اس نے اپنی قوم کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر انہیں مقابلے کے لیے تیار کیاتھا اس لیے اس جرم کی پاداش میں اسے قتل کر دیا گیا اور اس کی بیٹی ام زمل کو لونڈی بنا لیا گیا۔ یہ عائشہ صدیقہؓ کے حصے میں آئی لیکن انہوں نے اسے آزاد کر دیا۔ کچھ عرصے تک تو یہ عائشہؓ ہی کے پاس رہی پھر اپنے قبیلے میں واپس چلی آئی۔ والدہ کے قتل نے اس کے دل میں انتقام کی آگ بھڑکا دی تھی چنانچہ وہ اس انتظار میں رہی کہ موقع ملنے پر مسلمانوں سے اس قتل کا بدلہ لے۔ فتنہ ارتداد نے اس کے لیے یہ موقع جلد بہم پہنچا دیا اور وہ بزاخہ کے ہزیمت خوردہ لشکر کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے بالمقابل میدان میں نکل آئی۔ اس کی والدہ ام قرفہ اپنی قوم میں بڑی عزت اور شان کی مالک تھی۔ وہ عینیہ بن حصن کی چچی اور مالک بن حذیفہ کی بیوی تھی۔ اس کے بیٹوں کا شمار بھی بنی فزارہ کے معزز ترین افراد میں ہوتا تھا۔ اس کے پاس ایک جنگی اونٹ تھا جس پر سوار ہو کر وہ دوسرے قبائل سے لڑنے کے الیے اپنی قوم کے آگے چلا کرتی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد یہ اونٹ ام زمل کے حصے میں آیا۔ عزت و افتخار میں ام زمل بھی اپنی والدہ کی ہم پلہ تھی اور اس کا مرتبہ اپنی قوم میں وہی تھا جو اس کی والدہ کا تھا۔ جب ابوبکرؓ اور خالدؓ کے مقابلے میں شکست کھانے والے مفرورین ام زمل کے گرد جمع ہوئے تو اس نے ان کی ہمت بندھا کر انہیں ایک بار پھر خالدؓ کی فوج سے ٹکر لینے کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس کے گرد جمع ہوتے گئے اور اس کی قوت و طاقت میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ جب خالدؓ کو اس کا پتا چلا تو وہ بزاخہ سے اس لشکر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے۔ ام زمل کی شکست: دونوں فوجیں میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوئیں اور لڑائی شروع ہو گئی۔ ام زمل اونٹ پر سوار اشتعال انگیز تقریروں سے برابر فوج کو جوش دلا رہی تھی۔ مرتدین بھی بڑی بہادری سے جان توڑ کر لڑ رہے تھے۔ ام زمل کے اونٹ کے گرد سو اونٹ اور تھے۔ جن پر بڑے بڑے بہادر سوار تھے اور وہ بڑی پامردی سے ام زمل کی حفاظت کر رہے تھے۔ مسلمان شہسواروں نے ام زمل کے پاس پہنچنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن اس کے محافظوں نے ہر بار انہیں پیچھے ہٹا دیا۔ پورے سو آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد مسلمان ام زمل کے اونٹ کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو سکے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور ام زمل کو نیچے گرا کر قتل کر ڈالا۔ اس کے ساتھیوں نے جب اس کے اونٹ کو گرتے اور اسے قتل ہوتے دیکھا تو ان کی ہمت نے جواب دے دیا اور بد حواس ہو کر بے تحاشا میدان جنگ میں بھاگنے لگے۔ اس طرح اس فتنے کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور جزیرہ نمائے عرب کے شمال مشرقی حصے میں ارتداد کا خاتمہ ہو گیا۔ جنوبی حصے کے مرتدین: ابوبکرؓ نے جس اولو العزمی سے شمال مشرقی عرب کی بغاوتوں کو فرو کیا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ باقی حصے اس عبرت حاصل کرتے اور اسلامی حکومت کی مخالفت سے باز آ جاتے۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ابوبکرؓ کے بھیجے ہوئے لشکر انتہائی نامساعد حالات میں بھی دار الخلافہ سے سینکڑوں میل دور جانے اور دشمن کو زیر کرنے میں دریغ نہ کرتے۔ انہیں خالدؓ بن ولید کی فتح یابی اور طلیحہ کے انجام کی بھی تمام خبریں معلوم ہو چکی تھیں۔ لیکن ان سب امور کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اصل میں ان کا خیال تھا کہ اگر قریش کا ایک شخص نبوت کا دعویٰ کر کے کامیابی حاصل کر سکتا ہے تو دوسرے قبائل کے لوگ کیوں نہیں کر سکتے۔ لیکن ان قبائل اور مدعیان نبوت نے یہ حقیقت فراموش کر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد اولیں اپنی قوم کو توحید کی طرف بلانا تھا، اپنے لیے اقتدار حاصل کرنا اور کسی صلے یا انعام کا مطالبہ کرنا نہ تھا ۔ توحید کی تبلیغ کے نتیجے میں تیئس سال تک آپ کو سخت تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ مکہ والوں نے آپ سے دشمنی کا برتاؤ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ آپ کا بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ کو قتل کرنے کے مشورے کیے گئے اور بالآخر آپ کو مکہ سے نکل کر مدینہ کی جانب ہجرت کرنی پڑی۔ وہاں بھی مکہ والوں نے آُ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا اور بار بار مدینہ پر فوج کشی کی۔ا نتہائی جدوجہد کے بعد آخر کار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مساعی بار آور ہوئیں اور عرب کثرت سے آپ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہونے لگے۔ لیکن مدعیان نبوت کی نظروں سے یہ تمام حقائق اوجھل ہو گئے۔ انہوں نے خیال کیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی سخت مخالفت کے باوجود کامیاب ہو سکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں ہو سکتے جب ان کی قوم پوری طرح ان کے ساتھ ہے۔ مگر انہیں یہ یاد نہ رہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دین حق کی تبلیغ کرتے تھے اور ان مدعیان نبوت کا سارا کاروبار ہی کذب و افتراء کی بنیادوں پر قائم تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ اس حالت میں کیونکر کامیاب ہو سکتے تھے؟ شمالی حصے سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ابوبکرؓ نے جنوبی حصے پر توجہ مبذول کی جہاں کے لوگ بدستور حالت ارتداد پر قائم تھے اور کسی طرح بھی اسلام قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ان لوگوں سے عہدہ برآ ہونے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے ابوبکرؓ نے خالدؓ کو بزاخہ سے بطاح اور وہاں سے یمامہ جانے کا حکم دیا۔ ٭٭٭ آٹھواں باب سجاح اور مالک بن نویرہ بنو عامر اور ان کے مسکن: عرب کے جنوبی حصے میں بنی تمیم کے قبائل بنی عامر کے قریب ہی آباد تھے۔ یہ قبائل مدینہ سے جانب شرق خلیج فارس تک پھیلتے چلے گئے تھے اور شمال مشرق میں ان کی حدود دریائے فرات کے دہانے تک تھیں۔ بنو تمیم کو عہد جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں قبائل عرب کے درمیان خاص مقام حاصل تھا۔ یہاں کے لوگ شجاعت اور سخاوت میں مشہور تھے اور شاعری اور فصاحت و بلاغت میں بھی یہ دوسرے قبائل سے کسی طرح کم نہ تھے۔ چنانچہ اب ایک تاریخ اور ادب کی کتابوں میں اس قبیلے کی شاخوں: بنی حنظلہ، دارم، بنی مالک اور بنی یربوع کے کارناموں کا ذکر محفوظ چلاتا ہے۔ ادائے زکوٰۃ سے انکار: چونکہ یہ قبائل دریائے فرات اور خلیج فارس تک آباد تھے۔ اس لیے ایرانیوں سے بھی ان کا تعلق تھا۔ یہ لوگ زیادہ قبر پرست تھے اگرچہ ان میں سے بہت سے عیسائی بھی ہو گئے تھے۔ دوسرے قبائل کی طرح یہ بھی مسلمانوں کی بالا دستی قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محصلین کو ان قبائل سے جزیہ وصول کرنے کی غرض سے بھیجا تو سب سے پہلے بنو تمیم نے جزیہ دینے سے انکار کیا اور بنو العنبر تو تلواریں اور نیزے لے کر محصل کا استقبال کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عینیہ بن حصن کو ان کی طرف بھیجا جنہوں نے ان قبائل کو بزور مطیع کیا اور کئی لوگوں کو گرفتار کر کے اپنے ہمراہ لے آئے۔ اس پر ان کا ایک وفد مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں تشریف فرما تھے۔ ان لوگوں نے با آواز بلند اپنی شرافت، عزت اور حسب و نسب کا واسطہ دے کر اور جنگ حنین کے واقعات کا ذکر کر کے اپنے قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آوازیں سن کر باہر تشریف لے آئے۔ انہوں نے کہا ہم آپ سے فخر و مباہات میں مقابلہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا خطیب ان کے خطیب سے زیادہ فصیح و بلیغ ، مسلمانوں کا شاعر ان کے شاعر سے زیادہ سحر بیان اور مسلمانوں کی گفتگو ان کی گفتگو سے زیادہ شیریں ہے تو یہ لوگ اسلام لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی رہا کر دئیے اور یہ انہیں اپنے ہمراہ لے کر خوشی خوشی واپس چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی تمیم کی مختلف شاخوں کے لیے مختلف امیر مقرر فرمائے تھے۔ ان میں مالک بن نویرہ بھی تھا جو بنی یربوع کا سردار تھا۔ جب ان عمال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات سنی تو ان میں اختلاف پیدا ہوا کہ آیا ابوبکرؓ کی خدمت میں زکوٰۃ بھیجی جائے یا خاموشی اختیار کی جائے۔ اس اختلاف نے یہاں تک شدت اختیار کی کہ آپس ہی میں سخت لڑائی ہونے لگی۔ ایک فریق مدینہ کا تسلط قبول کرنے کو تیار تھا لیکن دوسرے فریق کو اس سے انکار تھا اور وہ ابوبکرؓ کو زکوٰۃ بھیجنے پر آمادہ نہ تھا۔ مالک بن نویرہ موخر الذکر فریق سے تعلق رکھتا تھا۔ تمیم میں سجاح کا ورود: ابھی ان اعمال میں یہ اختلاف برپا ہی تھا کہ سجاح بنت حارث عراق کے علاقے الجزیرہ سے اپنے قبیلے تغلب کے ہمراہ پہنچی۔ تغلب کے علاوہ اس کے ساتھ ربیعہ، نمر، ایاد اور شیبان کے لوگوں پر مشتمل ایک لشکر بھی تھا۔ سجاح اصل میں بنی تمیم کی شاخ بنو یر بوع سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن اس کی ننھیال عراق کے قبیلہ تغلب میں تھی۔ اس کی شادی بھی بنو تغلب ہی میں ہوئی تھی اور یہ وہیں رہتی تھی۔ یہ بڑی ذکی اور فہیم عورت تھی اور اسے کہانت کا دعویٰ بھی تھا۔ لوگوں کی قیادت اور رہبری کا فن اسے خوب آتا تھا۔ جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات ملی تو اس نے نواحی قبائل کا دورہ کیا اور انہیں مدینہ پر ہلہ بولنے کے لیے آمادہ کرنے لگی۔ سجاح کے آنے کی غرض: بعض مورخین کہتے ہیں اور اپنے خیال میں وہ درست کہتے ہیں کہ سجاح کسی ذاتی لالچ اور کہانت کا کاروبار وسیع کرنے کے لیے شمالی عراق سے سر زمین عرب میں نہ ہوئی تھی بلکہ اصل میں وہ عراق کے ایرانی عمال کی انگیخت پر یہاں آئی تھی تاکہ فتنہ و فساد پھیلا سکے۔ اور اس شورش سے فائدہ اٹھا کر اہل ایران اپنے روبہ انحطاط اقتدار کو سنبھالا دے سکیں جو یمن میں دربار ایران کے مقرر کردہ ایک عامل بدبان کے اسلام لانے کے بعد سے گرنا شروع ہوگیا تھا۔ مذکورہ بالا مورخین اپنی تائید میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سجاح واحد عورت تھی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اس جیسی ہوشیار اور ذکی و فہیم عورتیں ہی اکثر اوقات جاسوسی اور لوگوں کو ورغلانے اور پھسلانے کے کام پر مامور کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ یہ عرب میں اس وقت تک ٹھہری رہی جب تک اس کی کوششوں سے فتنہ و فساد او ربغاوت کی آگ پورے زور سے نہ بھڑک اٹھی۔ جب ا س کا مقصد پورا ہو گیا تو یہ عراق واپس چلی آئی اور بقیہ عمر سکون و اطمینان سے بسر کی۔ ایرانیوں کی سرشت کو دیکھتے ہوئے کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے اسے بلاد عرب میں فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے کے لیے آلہ کار بنایا ہو اور یہ خیال کیا ہو، بجائے اس سے کہ عرب پر چڑھائی کرنے کے لیے ایرانی فوج روانہ کی جائے، اس ہوشیار عورت کے ذریعے سے خود عربوں کو ایک دوسرے سے بھڑا کر ان کی طاقت ختم کر دی جائے تاکہ کسی محنت و مشقت کے بغیر جزیرہ نما پر دوبارہ تسلط بٹھا سکیں۔ بنی تمیم کا طرز عمل: سجاح ان عوامل سے متاثر ہو کر جزیرہ عرب میں داخل ہوئی۔ یہ طبعی امر تھا کہ وہ سب سے پہلے اپنی قوم بنو تمیم میں پہنچی۔ بنی تمیم کا اس وقت جو حال تھا۔ وہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ ایک گروہ زکوٰۃ ادا کرنے اور خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے پر آمادہ تھا لیکن دوسرا فریق اس کی سخت مخالفت کر رہا تھا۔ ایک تیسرا فریق تھا جس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کرے، اور کیا نہ کرے۔ اس اختلاف نے اتنی شدت اختیار کی کہ بنو تمیم نے آپس ہی میں لڑنا اور جدال و قتال کرنا شروع کر دیا۔ اسی اثناء میں ان قبائل نے سجاح کے آنے کی خبر سنی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سجاح مدینہ پہنچ کر ابوبکرؓ کی فوجوں سے جنگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ پھر تو اس اختلاف نے مزید وسعت اختیار کر لی۔ سجاح اس ارادے سے بڑھی چلی آ رہی تھی کہ وہ اپنے عظیم الشان لشکر کے ہمراہ اچانک بنو تمیم میں پہنچ جائے گی اور اپنی نبوت کا اعلان کر کے انہیں اپنے آپ پر ایمان لانے کی دعوت دے گی۔سارا قبیلہ بالاتفاق اس کے ساتھ ہو جائے گا اور عینیہ کی طرح بنو تمیم بھی اس کے متعلق یہ کہنا شروع کردیں گے کہ بنو یربوع کی نبیہ، قریش کے نبی سے بہتر ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور سجاح زندہ ہے۔ اس کے بعد وہ بنو تمیم کو ہمراہ لے کر مدینہ کی طرف کوچ کرے گی اور ابوبکرؓ کے لشکر سے مقابلے کے بعد فتح یاب ہو کر مدینہ پر قابض ہو جائے گی۔ سجاح اور مالک بن نویرہ: سجاح اپنے لشکر کے ہمراہ بنو یربوع کی حدود پر پہنچ کر ٹھہر گئی اور قبیلے کے سردار مالک بن نویرہ کو بلا کر مصالحت کرنے اور مدینہ پر حملہ کرنے کی غرض سے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔۔۔ مالک نے صلح کی دعوت تو قبول کر لی لیکن اس نے مدینہ پر چڑھائی کے ارادے سے باز رہنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ مدینہ پہنچ کر ابوبکرؓ کی فوجوں کا مقابلہ کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اپنے قبیلے کے مخالف عنصر کا صفایا کر دیا جائے۔ سجاح کو بھی یہ بات پسند آئی اور اس نے کہا: جو تمہاری مرضی۔ میں تو بنی یربوع کی ایک عورت ہوں۔ جو تم کہو گے وہی کروں گی۔ مالک بن نویرہ کے اوصاف: سجاح اپنے ارادے سے فوراً کس طرح باز آ گئی اور مالک کی رائے کو بے پس و پیش کیونکر قبول کر لیا؟ تاریخ کے مطالعے سے ہمیں کوئی ایسی بات نہیں ملتی جو سجاح کی رائے کی اس فوری تبدیلی کے راز سے پردہ اٹھا سکے۔ البتہ روایات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مالک اپنے قبیلے کا نہایت معزز اور صاحب اثر شخص تھا، اعلیٰ درجے کا شہسوار اور بلند پایہ شاعر تھا ۔ تکبر اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس کی زلفیں لمبی لمبی اور خوبصورت تھیں۔ شیریں مقال، نہایت ہنس مکھ اور آداب مجالس سے پوری طرح واقف تھا۔ اس کا بھائی تمیم بن نویرہ اگرچہ شعر گوئی میں اس کے ہم پلہ تھا لیکن صورت کے لحاظ سے دونوں بھائیوں میں بعد المشرقین تھا۔ جہاں مالک انتہائی خوش شکل اور وجیہ تھا۔ وہاں متمم بن نویرہ انتہائی بد صورت اور کانا تھا۔ ایک مرتبہ عرب کے ایک قبیلے نے چھاپہ مارکت متمم بن نویرہ کو گرفتار کر لیا اور اپنے قبیلے میں لے جا کر اسے رسیوں سے جکڑ دیا۔ جب مالک کو یہ خبر ملی تو وہ اونٹنی پر سوار ہو کر اس قبیلے میں جا پہنچا اور لوگوں میں گھل مل کر باتیں کرنے لگا۔ اس نے اس خوبی سے ان کے دل لبھائے کہ انہوں نے متمم کو فدیہ لیے بغیر رہا کر دیا۔ زمانہ جاہلیت میں بنو تغلب نے بھی متمم کو قید کر لیا تھا۔ مالک اس کا فدیہ ادا کرنے کے لیے وہاں پہنچا۔ وہ لوگ اس کے حسن و جمال سے بے حد متحیر ہوئے۔ وہاں بھی مالک اپنی خوش گفتاری اور شیریں زبانی سے ان کے دل لبھانے میں کامیاب ہو گیا۔ انہوں نے متمم کا فدیہ لینے سے انکار کر دیا اور اسے فوراً چھوڑ دیا چنانچہ وہ رہا ہو کر اپنے قبیلے میں آ گیا۔ اسی طرح بہت ممکن ہے کہ سجاح بھی مالک کی خوش گفتاری اور مردانہ خوبصورتی سے متاثر ہو گئی ہو اور اس کے کہنے سے مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ فسخ کر دیا ہو۔ سجاح نے مالک کے علاوہ بنو تمیم کے دوسرے سرداروں کو بھی مصالحت کی دعوت دی۔ لیکن وکیع کے سوا کسی نے یہ دعوت قبول نہ کی۔ اس پر سجاع نے مالک، وکیع اور اپنے لشکر کے ہمراہ دوسرے سرداروں پر دھاوا بول دیا۔ گھمسان کی جنگ ہوئی جس میں جانبین کے کثیر التعداد آدمی قتل ہوئے اور ایک ہی قبیلے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو گرفتار کر لیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد مالک اور وکیع نے یہ محسوس کیا کہ انہوں نے اس عورت کی اتباع کر کے سخت غلطی کی ہے۔ اس پر انہوں نے دوسرے سرداروں سے مصالحت کر لی اور ایک دوسرے کے قیدی واپس کر دئیے۔ اس طرح قبلہ تمیم میں امن قائم ہو گیا۔ سجاح کی شکست: اب یہاں سجاح کی دال گلنی مشکل تھی۔ اس نے بنو تمیم سے بوریا بستر اٹھایا اور مدینہ کی جانب کوچ کر دیا۔ نباج کی بستی پر پہنچ کر اوس بن خزیمہ سے اس کی مٹ بھیڑ ہوئی جس میں سجاح نے شکست کھائی اور اوس بن خزیمہ نے اس طرح پر اسے واپس جانے دیا کہ اس امر کا پختہ اقرار کرے، وہ کبھی مدینہ کی جانب پیش قدمی نہ کرے گی۔ اس واقعے کے بعد اہل جزیرہ کی فوج کے سردار ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے سجاح سے کہا: اب آپ ہمیں کیا حکم دیتی ہیں؟ مالک اور وکیع نے اپنی قوم سے صلح کر لی ہے۔ نہ وہ ہمیں مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ اس بات پر رضا مند کہ ہم ان کی سر زمین سے گزر سکیں۔ ان لوگوں سے بھی ہم نے یہ معاہدہ کیا ہے اور مدینہ جانے کے لیے ہماری راہ مسدود ہو گئی ہے۔ اب بتائیے ہم کیا کریں۔ سجاح نے جواب دیا: اگر مدینہ جانے کی راہ مسدود ہو گئی ہے تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں، تم یمامہ چلو۔ انہوں نے کہا: اہل یمامہ شان و شوکت میں ہم سے بڑھے ہوئے ہیں اور مسیلمہ کی طاقت و قوت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ جب اس کے لشکر کے سرداروں نے سجاح سے آئندہ اقدام کے متعلق دریافت کیا تو اس نے جواب دیا: علیکم بالیمامہ، ود فواد فیف الحماہم، فانھا غزوۃ صرامہ، لا یلحقکم بعدھا ندامہ (یمامہ چلو۔ کبوتر کی طرح تیزی سے ان پر جھپٹو۔ وہاں ایک زبردست جنگ پیش آئے گی جس کے بعد تمہیں پھر کبھی ندامت نہ اٹھانی پڑے گی۔) یہ مسجع و مقفی عبارت سننے کے بعد، جسے اس کے لشکر والے وحی خیال کرتے تھے، انہیں اس کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس نے کس مقصد کے لیے یمامہ کا قصد کیا جب خود اسے اپنی قوم بنو تمیم میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد مدینہ کی جانب کوچ کرتے ہوئے اوس بن خزیمہ کے ہاتھوں اسے شکست اٹھانی پڑی تھی۔ کیا اس کے لشکر میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو ان ناکامیوں کو دیکھنے کے بعد اسے یمامہ نہ جانے کا مشورہ دیتا؟ یا یہ خیال کیا جائے کہ اس کی وفات پر ان لوگوں کو اس درجہ یقین تھا کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اس کی باتوں کو وحٰ خیال کرتے اور نہایت فرماں برداری سے اس کی اطاعت اور اس کے احکام کی تعمیل میں کوئی دقیقہ سعی و فروگزاشت نہ کرتے تھے؟ سجاح اور مسیلمہ کی شادی: سچ تو یہ ہے کہ سجاح کا سارا قصہ ہی عجائب و غرائب کا مجموعہ ہے۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ جب وہ اپنے لشکر کے ہمراہ یمامہ پہنچی تو مسیلمہ کو بڑا فکر پیدا ہوا۔ اس نے سوچا اگر وہ سجاع کی فوجوں سے جنگ میں مشغول ہو گیا تو اس کی طاقت کمزور ہو جائے گی، اسلامی لشکر اس پر دھاوا بول دے گا اور ارد گرد کے قبائل بھی اس کی اطاعت کا دم بھرنے سے انکار کر دیں گے۔ یہ سوچ کر اس نے سجاح سے مصالحت کرنے کی ٹھانی۔ پہلے اسے تحفے تحائف بھیجے پھر کہلا بھیجا کہ وہ خود اس سے ملنا چاہتا ہے۔ سجاح اپنا لشکر لیے پانی کے ایک چشمے پر مقیم تھی، اس نے مسیلمہ کو باریابی کی اجازت دے دی۔ یہ مسیلمہ بنی حنیفہ کے چالیس آدمیوں کے ہمراہ اس کے پاس آیا۔ کیمپ میں پہنچ کر خلوت میں اس سے تملق آمیز گفتگو کی اور کہا کہ عرب کی آدھی زمین کے مالک قریش ہیں اور آدھی زمین کی مالک تم ہو۔ اس کے بعد مسیلمہ نے کچھ مسجع و مقفی عبارتیں سجاح کو سنائیں جن سے وہ بہت متاثر ہوئی۔ سجاح نے بھی جواب میں اسے اسی قسم کی بعض عبارتیں سنائیں یہ ملاقات خاصی دیر تک جاری رہی۔ مسیلمہ نے اپنی خوش کلامی اور چال بازی سے سجاح کا دل موہ لیا اور سجاح کو اقرار کرتے ہی بن پڑی کہ مسیلمہ اس سے ہر طرح فائق ہے۔ سجاح کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینے اور ہم نوا بنانے کے لیے مسیلمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم دونوں اپنی نبوتوں کو یکجا کر لیں اور باہم رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جائیں۔ سجاح نے جو پہلے ہی اس کی خوش کلامی اور محبت آمیز باتوں سے مسحور ہو چکی تھی، نہایت خوشی سے یہ مشورہ قبول کر لیا اور مسیلمہ کے ساتھ اس کے کیمپ میں چلی گئی۔ تین روز تک وہاں رہی، اس کے بعد اپنے لشکر میں واپس آئی اور ساتھیوں سے ذکر کیا کہ اس نے مسیلمہ کو حق پر پایا ہے اس لیے اس سے شادی کر لی ہے۔ سجاح کا مرہ: لوگوں نے اس سے پوچھا آپ نے کچھ مہر بھی مقرر کیا؟ اس نے کہا مہر تو مقرر نہیں کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا۔ آپ واپس جائیے اور مہر مقرر کر آئیے کیونکہ آپ جیسی شخصیت کے لیے مہر لیے بغیر شادی کرنا زیبا نہیں۔ چنانچہ وہ مسیلمہ کے پاس واپس گئی اور اسے اپنی آمد کے مقصد سے آگاہ کیا۔ مسیلمہ نے اس کی خاطر عشاء اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی۔ مہر کے بارے میں یہ تصفیہ ہوا کہ مسیلمہ یمامہ کی زمینوں کے لگان کی نصف آمدنی سجاح کو بھیجا کرے گا۔ سجاح نے یہ مطالبہ کیا کہ وہ آئندہ سال کی نصف آمدنی میں سے اس کا حصہ پہلے ہی ادا کر دے ۔ اس پر مسیلمہ نے نصف سال کی آمدنی کا اسے دے دیا جسے لے کر وہ جزیرہ واپس چلی گئی۔ بقیہ نصف سال کی آمدنی کے حصول کے لیے اس نے اپنے کچھ آدمیوں کو بنو حنفیہ ہی میں چھوڑ دیا۔ وہ ابھی وہیں مقیم تھے کہ اسلامی لشکر آ پہنچا اور مسیلمہ سے جنگ کر کے اس کاکام تمام کر دیا۔ سجاح بد ستور بنو تغلب میں مقیم رہی یہاں تک کہ امیر معاویہ نے قحط والے سال (عام المجاعہ) اسے اس کی وم کے ساتھ بنو تمیم میں بھیج دیا جہاں وہ وفات تک مسلمان ہونے کی حالت میں مقیم رہی۔ یہ ہے سجاح کا قصہ ہے اور۔۔۔ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔۔۔۔ بہت ہی عجیب قصہ ہے۔ وہ جزیرہ سے ابوبکرؓ کے مقابلے کو روانہ ہوتی ہے لیکن مالک بن نویرہ سے بات چیت کے بعد اس کی رائے بدل جاتی ہے اور وہ مدینہ پر ہلہ بولنے کے بجائے یمامہ کا رخ کرتی ہے۔ وہاں مسیلمہ سے اس کی ملاقات ہوتی ہے اور ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے۔ شادی کے فوراً بعد وہ اپنے قبیلے میں لوٹ آتی ہے اور بقیہ ساری عمر اس طرح بسر کرتی ہے جیسے کبھی وہ اپنے قبیلے سے باہر نکلی ہی نہ تھی اور اپنے پہلے خاوند کے سوا کسی سے شادی کی ہی نہ تھی۔ مسیلمہ کا معاملہ بھی سجاح کے معاملے سے کم تر نہیں۔ اگر سجاح سے اس کی شادی کا قصہ درست ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسیلمہ اول درجے کا سیاست دان اور لوگوں کے دلی جذبات بھانپ لینے والا شخص تھا۔ اس نے چاہا کہ وہ اس طرح سجاح سے چھٹکارا حاصل کرے تاکہ ابوبکرؓ کی بھیجی ہوئی افواج کا مقابلہ دل جمعی سے کیا جا سکے۔ اس نے سجاح کو میٹھی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں سے رام کر لیا اور چال بازی سے کام لے کر اسے اس کے قبیلے میں واپس بھیج دیا۔ مالک بن نویرہ اور مسیلمہ کے ساتھ سجاح کے تعلقات جس قسم کے رہے ان پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ سجاح ایک ہوشیار کاہنہ، مسجع مقفی عبارتیں بنانے میں ماہر، بہت نرم طبیعت اور نسوانی خصوصیات کی پوری طرح حامل تھی۔ ادھر مسیلمہ بھی ایک ہوشیار سیاست دان تھا۔ وہ خوبصورت نہ تھا لیکن میٹھی میٹھی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لیتا تھا۔ عورتوں سے اسے بہت کم رغبت تھی اور عورت کا حسن و جمال اس پر مطلق اثر نہ کرتا تھا۔ اسی وجہ سے اس نے اپنی شریعت میں یہ بات رکھ دی تھی کہ جس شخص کے بیٹا پیدا ہو اس کے لیے اس وقت تک اپنی بیوی کے پاس جانا ناجائز ہے جب تک وہ بیٹا زندہ ہے۔ اگر بیٹا مر جائے تو دوسرے بیٹے کے حصول کے لیے بیوی کے پاس جا سکتا ہے لیکن جس کا بیٹا موجود ہو اس کے لیے عورتیں حرام ہیں۔ مالک کی پریشانی: جس زمانے میں مسیلمہ اور سجاح کے درمیان مندرجہ بالا واقعات ظہور پذیر ہو رہے تھے، خالد بزاخہ میں مرتدین کو شکست دے کر اسلامی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔ ام زمل سے جنگ اور اس کے قتل کا واقعہ پیش آ چکا تھا۔ بطاح میں مالک بن نویرہ تک یہ تمام خبریں پہنچ چکی تھیں۔ جنہیں سن کر اس کا دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو چکی تھی۔ اس نے زکوٰۃ کی ادائیگی بند کر رکھی تھی اور سجاح سے مل کر بنو تمیم کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باعث خالدؓ کی نظروں میں مجرم قرار پا چکا تھا۔ اس کے لشکر کی حالت یہ تھی کہ سجاح کے لشکر کی مدد کے باوجود مقابل قبائل کے ہاتھوں اسے شکست ہو چکی تھی۔ وکیع، جو اس کا دست راست شمار ہوتا تھا، اس کا ساتھ چھوڑ کر مسلمانوں سے مل گیا تھا اور زکوٰۃ ادا کر دی تھی۔ ان حالات کی موجودگی میں مالک سخت پریشان تھا کہ کیا کرے کیا نہ کرے۔ آیا مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دے اور پہلے کی طرح ابوبکرؓ کو زکوٰۃ دینے کا اقرار کرے یا اپنے ارادے پر قائم رہ کر انتظار کرے کہ آئندہ واقعات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ خالدؓ کا کوچ: خالد، اسد، غطفان اور اس علاقے میں بسنے والے دیگر قبائل کی سرکوبی سے فارغ ہو چکے تھے۔ اور ان تمام قبائل نے اسلام قبول کرنا اور مدینہ کی حکومت کو تسلیم کرنا منظور کر لیا تھا۔ چونکہ ان قبائل کی طرف سے کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھا اس لیے انہوں نے بطاح جا کر مالک بن نویرہ اور دوسرے قبائل سے جو ابھی تک تردد و تذبذب کی حالت میں تھے، لڑنے کا ارادہ کیا۔ جب انصار کو آپ کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے کچھ تردد کا اظہار کرتے ہوئے کہا: خلیفۃ المسلمین نے ہمیں بنی تمیم کی طرف جانے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے ہمیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب ہم طلیحہ کی سرکوبی سے فارغ ہوجائیں اور اس علاقے کے لوگوں کو اپنا مطیع کر لیں تو دوسرا حکم آنے تک یہیں مقیم رہیں۔ لیکن خالدؓ نے ان کی بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا: تم سے ابوبکرؓ نے خواہ کچھ ہی عہد لیا ہو لیکن مجھے پیش قدمی جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ میں تمہارا امیر ہوں اور تمام خبریں مجھ تک پہنچتی ہیں۔ اگر دربار خلافت سے میرے پاس کوئی حکم نہ بھی پہنچے لیکن میں دیکھوں کہ دشمن پر قابو پانے کے بعض مواقع مجھے فراہم ہیں تو میں ان سے ضرور فائدہ اٹھاؤں گا۔ اسی طرح اگر میں دیکھوں کہ ہمیں مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو گو ان سے نبٹنے کے لیے خلیفتہ المسلمین کی جانب سے کوئی ہدایت میرے پاس نہ بھی ہو پھر بھی میں جو قدم مناسب سمجھوں گا اٹھاؤں گا۔ مالک بن نویرہ کی شرارتیں روز بروز زیادہ ہوتی جا رہی ہیں۔ اس لیے میں اس کے مقابلے کو ضرور جاؤں گا۔ میں تمہیں ساتھ لے جانے پر اصرار نہیں کرتا۔ اگر تم جانا نہیں چاہتے تو نہ جاؤ، میں مہاجرین اور تابعین کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے انصار کو بزاخہ ہی میں چھوڑا اور خود بطاح کی جانب روانہ ہو گئے۔ بعد میں انصار نے باہم مشورہ کیا اور طے پایا کہ ان کے لیے پیچھے رہنا مناسب نہیں انہیں بھی اپنے ساتھیوں سے مل جانا چاہیے کیونکہ اگر خالدؓنے مالک بن نویرہ پر قابو پا لیا تو وہ اس فتح کے فوائد سے محروم رہ جائیں گے، اور اگر خدانخواستہ خالدؓ کے لشکر پر کوئی مصیبت پڑی تو لوگ یہ کہہ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے کہ انہوں نے ایسے نازک موقع پر اپنے بھائیوں کا ساتھ چھوڑ دیا۔ چنانچہ انہوں نے ایک قاصد کے ہاتھ خالدؓ کو کہلا بھیجا کہ وہ بھی آ رہے ہیں اس لیے اپنا کوچ ملتوی کر دیں چنانچہ خالد انصار کے انتظار میں تھوڑی دیر ٹھہر گئے۔ مالک کا اپنی قوم کو مشورہ: جب خالدؓ لشکر کے ہمراہ بطاح پہنچے تو انہوں نے میدان خالی پایا کیونکہ مالک بن نویرہ نے اپنی قوم کو گرد و نواح میں منتشر کر دیا اور کہا تھا: اے بنو یربوع! ہم نے اپنے امراء کا کہا نہ مانا جنہوں نے ہمیں ابوبکرؓ کی اطاعت کا مشورہ دیا تھا لیکن میں دیکھتا ہوں، ہماری حالت ایسی نہیں کہ ہم مسلمانوں کا مقابلہ کر سکیں اس لیے میں تمہیں صلاح دیتا ہوں کہ تم دوبارہ اسلام قبول کر لو اور منتشر ہو جاؤ تاکہ کسی کو یہ شبہ بھی پیدا نہ ہو سکے کہ تم مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہو۔ اپنی قوم کو منتشر کرنے کے بعد وہ خود بھی روپوش ہو گیا۔ بطاح پہنچ کر جب خالدؓ نے میدان خالی پایا تو انہوں نے اپنے لشکر کو مختلف دستوں میں منقسم کر کے ارد گرد کے علاقے میں روانہ کر دیا، اور حکم دے دیا کہ اگر مالک کے قبیلے کا کوئی شخص کہیں مل جائے تو پہلے اس کے سامنے اسلام پیش کیا جائے، اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرے اسے فی الفور قتل کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں ابوبکرؓ کی ہدایت اپنے امراء کو یہ تھی کہ جب مسلمان کسی جگہ پڑاؤ ڈالیں تو اذان دیں۔ اگر اس کے جواب میں قریبی بستیوں سے اذان کی آواز آئے تو انہیں چھوڑ دیں لیکن اگر نہ آئے تو ان کا مقابلہ کریں۔ بعد میں بھی اگر وہ اسلام کا اقرار کریں تو انہیں چھوڑ دیں اور ان سے زکوٰۃ کے متعلق دریافت کریں۔ اگر وہ زکوٰۃ دینے کا اقرار کریں ، فبہا ورنہ انہیں قتل کر دیں۔ مالک بن نویرہ کی گرفتار: خالدؓ بن ولید نے جو دستے نواحی علاقوں میں بھیجے تھے ان میں سے ایک دستہ مالک بن نویرہ کو بنو یربوع کے چند آدمیوں کے ساتھ گرفتار کر کے لے آیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ابوبکرؓ کی ہدایت کے مطابق اگر مالک اور اس کے ساتھی اسلام کا اقرار کر لیتے تو خالد انہیں چھوڑ دیتے لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے مالک کو قتل کرنے کا حکم دے دیا اور وہ قتل کر دیا گیا۔ مالک کے قتل نے مدینہ میں سخت ہیجان برپا کر دیا اور جو جوش و خروش اس موقع پر برپا ہوا وہ عرصے تک ٹھنڈا نہ ہو سکا۔ عمرؓ کی خلافت کے دوران میں عمرؓ اور خالدؓ کے درمیان جو معاملات پیش آئے ان میں مالک بن نویرہ کے قتل کو بھی بہت دخل تھا۔ قتل مالک پر مختلف روایتیں: مالک بن نویرہ کے قتل کے متعلق روایات میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ واقعہ اس طرح ہوا کہ خود ان لوگوں میں، جو مالک اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے لائے تھے، باہم اختلاف تھا کہ آیا مالک اور اس کے ساتھیوں نے اسلام کا اقرار کر لیا تھا اور اذان کی آواز کا جواب دیا تھا یا نہیں؟ طبری میں ابو قتادہ انصاری (جو خود بھی مالک کو گرفتار کرنے والوں میں شامل تھے) کی زبانی یہ روایت ہے ہم نے رات کے وقت ان لوگوں پر چھاپا مارا تو انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے۔ ہم نے کہا ہم مسلمان ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ ہم بھی مسلمان ہیں۔ ہم نے پوچھا اگر تم مسلمان ہو تو ہتھیار کیوں اٹھائے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا یہ ہتھیار تمہارے مقابلے کے لیے نہیں۔ ہم نے کہا اگر تم واقعی مسلمان ہو تو ہتھیار رکھ دو۔ چنانچہ انہوں نے ہتھیار رکھ دئیے اس کے بعد ہم نے نماز پڑھی اور انہوں نے بھی ہمارے ساتھ نماز ادا کی۔ یہاں تک تو سب لوگ متفق تھے۔ اختلاف آگے چل کر شروع ہوا۔ ابو قتادہ کہتے تھے کہ ان لوگوں نے ادائے زکوٰۃ کا اقرار بھی کر لیا تھا لیکن دوسرے لوگ کہتے تھے نہیں، انہوں نے زکوٰۃ دینے کا اقرار نہیں کیا اور زکوٰۃ نہ دینے پر اصرار کیا۔ گواہوں کے درمیان اختلاف کی موجودگی میں خالدؓ کے لیے کوئی قطعی فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ ایک روایت کے مطابق انہوں نے فی الحال مالک اور اس کے ساتھیوں کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔ رات سخت ٹھنڈی تھی اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا خنکی بڑھتی جاتی تھی۔ خالدؓ نے قیدیوں پر ترس کھاتے ہوئے یہ اعلان کرا دیا دافو اسراکم (اپنے قیدیوں کو گرمی پہنچاؤ) لیکن کنانہ کی زبان میں مدافاۃ کا لفظ قتل کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ جن لوگوں کی تحویل میں یہ قیدی تھے وہ کنانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ جب انہوں نے منادی کرنے والوں کی آواز سنی تو خیال کیا کہ خالدؓ نے ان قیدیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے تلواروں سے ان کا کام تمام کر دیا۔ جب خالدؓ نے چیخ و پکار سنی تو وہ اپنے خیمے سے باہر آئے لیکن اس وقت تک تمام قیدیوں کا کام تمام ہو چکا تھا۔ انہوں نے واقعہ سن کر فرمایا: جب اللہ کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ ہو کر رہتا ہے۔ لیکن اس کے بالمقابل ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ خالدؓ نے مالک کو اپنے پاس بلا کر باتیں کرنی شروع کیں تاکہ معلوم کریں کہ دونوں گواہیوں میں سے کون سی درست ہے، اس کے اسلام لانے کی یا ارتداد اور ادائے زکوٰۃ سے انکار کرنے کی۔ جب ادائے زکوٰۃ کے متعلق بات چیت ہو رہی تھی تو مالک نے کہا: میرا تو خیال نہیں کہ تمہارے صاحب نے تمہیں ایسا حکم دیا خالدؓ کو یقین ہو گیا کہ وہ ادائے زکوٰۃ سے انکاری ہے۔ انہوں نے جھنجھلا کر کہا: کیا تو انہیں اپنا صاحب خیال نہیں کرتا؟ یہ کہہ کر انہوں نے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی گردنیں مارنے کا حکم دے دیا۔ ابو الفرج اپنی کتاب الاغانی میں اس گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ابن اسلام کی روایت ہے، خالد کو غلطی پر سمجھنے والے کہتے ہیں کہ گفتگو کے دوران میں مالک نے خالدؓ سے کہا: کیا تمہارے صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہیں اسی بات کا حکم دیا ہے؟ اصل میں اس کی مراد یہ نہ تھی کہ وہ ادائے زکوٰۃ کا منکر ہے بلکہ یہ تھی؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ جو لوگ ادائے زکوٰۃ کے منکر ہوں ان پر چڑھائی کر دو؟ لیکن جو لوگ اس معاملے میں خالدؓ کو بے قصور سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس نے واقعی اسلام سے انکار کیا تھا اور دلیل میں مالک کے یہ اشعار پیش کرتے ہیں: وقلت خنوا اموالکم غیر خائف ولا ناظر فیما یجیئی من الغد فان قال بالامر المخوف قائم منعنا وقلنا الدین دین محمدؐ (میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنے اموال کو بے دھڑک قبضے میں رکھو اور نہ دیکھو کہ کل کیا وقوع میں آتا ہے۔ پھر اگر خوفناک امر (اسلامی حکومت) کو کوئی قائم کرے تو ہم اس کی مخالفت کریں گے اور کہہ دیں گے کہ دین وہی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے) یعنی اس نے اپنی قوم کو ہدایت کی تھی کہ وہ کسی صورت بھی زکوٰۃ ادا نہ کرے اور ادائے زکوٰۃ پر اصرار کیا جائے تو یہ کہہ دیا جائے کہ ہم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں، ابوبکرؓ کے دین پر نہیں۔ ابن خلکان یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ جب خالدؓ نے مالک کو گفتگو کے لیے بلایا تو اس نے کہا: میں نماز پڑھنے کا اقرار کرتا ہوں لیکن زکوٰۃ دینے سے انکاری ہوں۔ خالدؓ نے فرمایا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ نماز اور زکوٰۃ ایک ساتھ قبول ہوتی ہیں۔ نماز کے بغیر زکوٰۃ اور زکوٰۃ کے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی؟ مالک نے کہا: کیا آپ کے صاحب بھی یہی کہتے تھے؟ خالدؓ نے جواب دیا: کیا تو انہیں اپنا صاحب خیال نہیں کرتا؟ اللہ کی قسم! میں نے تیری گردن اڑانے کا مصمم ارادہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد بحث طول پکڑ گئی اور گفتگو میں تیزی آتی گئی۔ آخر خالدؓ نے کہا: میں تو تجھے قتل کر کے رہوں گا۔ اس نے کہا: کیا تمہارے صاحب نے تمہیں یہ حکم دیا تھا؟ خالد نے کہا: اب تو میں تجھے ضرور قتل کروں گا۔ یہ کہہ کر آپ نے اپنے آدمیوں کو اس کی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔ بعض لوگ موخر الذکر روایت کو پہلی روایت پر ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ روایت ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ قصہ قرہ بن ہبیرہ، فجاۃ السلمی، ابو شجرہ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی پیش آ چکا تھا لیکن خالدؓ بن ولید نے مالک بن نویرہ کی طرح قتل نہ کیا بلکہ ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ کہ وہ ان سے جو سلوک مناسب سمجھیں کریں۔ مالک بن نویرہ کا جرم ان لوگوں سے کسی طرح بھی بڑھ کر نہ تھا پھر انہوں نے اسے کیوں قتل کرا دیا۔ اور خلیفۃ المسلمین کے پاس نہ بھیجا؟ حالانکہ بن تمیم میں اسے جو درجہ اور رسوخ حاصل تھا وہ ان لوگوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھا اور خالدؓ اس سے خوب واقف تھے۔ خالدؓ سے ابو قتادہ کی ناراضگی: اس واقعے کے متعلق روایات میں یہ مذکور ہے کہ خالدؓ کے دافو اسراکم کا حکم دینے کے بعد جب لوگوں نے مالک اور اس کے ساتھی قیدیوں کو قتل کر دیا تو خالدؓ بہت ناراض ہوئے پھر بھی یہ فرمایا: جب اللہ کسی بات کے کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ ہو کر رہتی ہے۔ تو ابو قتادہ نے یہ سمجھا کہ یہ خالدؓ کا محض ایک بہانہ ہے ورنہ اصل میں ان کا منشاء بھی یہی تھا کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے، چنانچہ وہ خالدؓ کے پاس گئے اور کہا کہ یہ سب کچھ آپ کا کیا دھرا ہے۔ اس پر خالدؓ نے انہیں ڈانٹا اور وہ ناراض ہو کر مدینہ چلے گئے۔ اس کے بالمقابل دوسری روایات میں یہ مذکور ہے کہ ابو قتادہ خالدؓ کے ام تمیم سے نکاح کرنے کے بعد مدینہ گئے اور ان کے ساتھ مالک کا بھائی متمم بن نویرہ بھی تھا۔ جب مدینہ پہنچے تو ابو قتادہ سیدھے ابوبکرؓ کے پاس گئے اور انہیں مالک کے قتل اور لیلیٰ سے نکاح کا واقعہ سنایا اور یہ بھی کہا انہوں نے قسم کھا لی ہے کہ آئندہ کبھی خالدؓ کے ساتھ ہو کر نہ لڑیں گے۔ لیکن ابوبکرؓ خالدؓ کے کارناموں اور فتوحات سے بہتر متاثر تھے انہوں نے ابو قتادہ کی بات پر کوئی توجہ نہ کی اور کہا کہ انہیں ایسے شخص کے متعلق ایسی بات نہ کہنی چاہیے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا ہو۔ اس پر بھی ابو قتادہ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ وہ عمرؓ بن خطاب کے پاس گئے اور ان سے سارا قصہ سب یان کیا۔ عمرؓ ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ چنانچہ ابو قتادہ کو لے کر ابوبکرؓ کے پاس پہنچے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس جرم کی پاداش میں خالدؓ کو معزول کر دیں۔ انہوں نے کہا خالدؓ کی تلوار اب ظلم کرنے پر اتر آئی ہے۔ اس لیے آپ انہیں معزول کرنے ہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ قید بھی کریں لیکن ابوبکرؓ کو اپنے عمال سے ایسا برتاؤ سخت ناپسند تھا۔ جب عمرؓ نے ان کی معزولی پر اصرار کیا تو انہوں نے فرمایا: عمرؓ بس کرو۔ خالدؓ نے تاویل کی۔ یہ بات اور ہے کہ تاویل کرنے میں ان سے غلطی ہوئی۔ لیکن عمرؓ اس جواب سے مطمئن نہ ہو سکے اور برابر اپنے مطالبے پر قائم رہے۔ جب ابوبکرؓ بہت تنگ ہوئے تو انہوں نے فرمایا: عمرؓ ایسا نہیں ہو سکتا۔ میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اللہ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔ خالدؓ کے بارے میں ابوبکرؓ کا موقف: عمرؓ کے بالمقابل ابوبکرؓ کا خیال یہ تھا کہ ایسے وقت میں، جب مسلمانوں پر چاروں طرف سے خطرات کے مہیب بادل منڈلا رہے ہیں اور سارے عرب میں فتنہ و فساد اور بغاوت کی آگ زور و شور سے بھڑک رہی ہے کوئی سپہ سالار کسی فرد واحد یا جماعت کو غلطی سے قتل کرا دیتا ہے تو اس کا زیادہ خیال نہ کرنا چاہیے کیونکہ ایسے نازک وقت میں کسی سپہ سالار کو سخت سزا دینا اور اس کے الزام کی تشہیر کرنا مسلمانوں کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو گا۔ نیز وہ کہتے تھے کہ اس وقت مسلمانوں کو خالدؓ کی تلوار کی بے حد ضرورت ہے کیونکہ مسیلمہ بنے حنیفہ کے چالیس ہزار طاقت و راشخاص کے ساتھ بطاح کے قریب یمامہ میں مقیم تھا اور مسلمانوں کے خلاف اس کی بغاوت نے انتہائی خطرناک صورت اختیار کر لی تھی۔ عکرمہ بن ابوجہل، جنہیں فوج دے کر اس کی طرف بھیجا گیا تھا، اس کے مقابلے میں شکست کھا چکے تھے۔ مسلمانوں کی نظریں خالدؓ کی طرف اٹھتی تھیں۔ مالک بن نویرہ کے قتل اور اس کی بیوی لیلیٰ سے نکاح کرنے کے باوجود خالدؓ کو معزول نہ کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ اس صورت میں مسیلمہ کو اسلامی فوجوں پر بے پناہ غلبہ حاصل ہو جاتا اور دین اسلام کو شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑتا۔ خالدؓ اللہ کی تلوار اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے اس لیے ابوبکرؓ نے انہیں طلب فرما کر صرف زبانی سرزنش پر اکتفا کی اور انہیں یمامہ جا کر مسیلمہ کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا۔ یمامہ پر خالدؓ کی چڑھائی: یہ ہے میرے خیال میں ابوبکرؓ اور عمرؓ کے اختلاف کی صحیح تصویر اور ابوبکرؓ نے انہیں بلا کر مسیلمہ پر چڑھائی کرنے کا حکم بھی اس لیے دیا کہ اہل مدینہ خصوصاً عمر جیسی رائے رکھنے والے اشخاص کو دکھا سکیں کہ اس نازک وقت میں خالدؓ ہی کی شخصیت ایسی ہے جو میدان جنگ میں مسلمانوں کو تباہی کے خطرات سے بچا سکتی ہے۔ خالدؓ کو میدان جنگ سے بلا کر سرزنش کرنا اور لیلیٰ کو طلاق دینے کا حکم ہی ان کے لیے کافی سزا سمجھی گئی۔ خالدؓ نے یمامہ میں بھی اسی طرح ایک عور ت سے شادی کی تھی جس طرح بنو تمیم میں لیلیٰ سے کی تھی۔ ابوبکرؓ نے اس پر سختی سے خالدؓ کو سرزنش کی۔ مورخین نے ان واقعات پر عجیب و غریب گوہر افشانیاں کی ہیں اور انہیں پیش کر کے خالدؓ کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ان مورخین اور مصنفین کی حالت، جو ان واقعات کو پیش کر کے خالدؓ کے چہرے کو سیاہ داغوں سے چھپانا چاہتے ہیں، ان لوگوں سے زیادہ تعجب خیز ہے جو خالدؓ کو ان کے الزامات سے بالکل بری قرار دیتے اور ان کے لیے عذرات تلاش کرتے ہیں۔ مالک کا قتل اور لیلیٰ اور بنت مجاعہ سے نکاح کے واقعات ان کارناموں کے مقابلے میں قطعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو مرتدین کی جنگوں میں خالدؓ کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئے اور جنہوں نے انہیں سیف اللہ کے خطاب کا قرار واقعی مستحق ٹھہرایا۔ مسیلمہ کے مقابلے میں روانہ ہونے کا حکم ملنے کے بعد خالدؓ مدینہ سے بطاح واپس آ گئے اور وہاں اس کمک کا انتظار کرنے لگے جسے ابوبکرؓ نے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس امداد کے پہنچنے کے بعد وہ لشکر لے کر مسیلمہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہو گئے جو جھوٹے مدعیان نبوت میں سب سے زیادہ طاقتور تھا، جس کی بغاوت جزیرہ نمائے عرب کے مرتدین کی تمام بغاوتوں سے زیادہ مہیب تھی اور جس کی طرف سے مسلمانوں کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق تھا۔ ٭٭٭ نواں باب جنگ یمامہ مسیلمہ کے خلاف خالدؓ کی چڑھائی: بطاح سے خالدؓ بن ولید اپنے لشکر اور ابوبکرؓ کی بھیجی ہوئی کمک لے کر بنی حنفیہ کے متنبی مسیلمہ بن حبیب سے جنگ کرنے کے لیے یمامہ روانہ ہوئے۔ جو کمک ابوبکرؓ نے بھیجی تھی وہ تعداد اور قوت میں خالدؓ کے اصل لشکر سے کم نہ تھی۔ اس میں ان مہاجرین اور انصار کے علاوہ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کفار سے لڑائیاں کی تھیں، ان قبائل کے لوگ بھی شامل تھے جن کا شمار عرب کے طاقتور اور جنگجو قبیلوں میں ہوتا تھا۔ انصار ثابت بن قیس اور براء بن مالک کے زیر سرکردگی تھے اور مہاجرین ابو حذیفہ بن عتبہ اور زید بن خطاب کے ماتحت۔ دوسرے قبائل میں سے ہر قبیلے کا سردار علیحدہ تھا جسے ابوبکرؓ نے اس کی حسن کارکردگی کے باعث اس عہدے پر مقرر فرمایا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ جنگ کے وقت چالیس ہزار بنو حنفیہ مسیلمہ کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوں گے اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور اسلئے اس وقت مدینہ کی جانب سے بھی بہترین آدمیوں کو جو قیادت اور جنگ کا کامل تجربہ رکھتے ہوں، محاذ جنگ پر نہ بھیجا گیا تو ان مرتدین کا مقابلہ بے حد دشوار ہو جائے گا۔ ان لوگوں میں جنہیں ابوبکرؓ نے خالدؓ کی امداد کے لیے روانہ کیا تھا، قرآن مجید کے حافظوں اور قاریوں کی بھی بھاری تعداد شامل تھی۔ اسی طرح ایک خاص دستہ ان صحابہ کا تھا جنہوں نے جنگ بدرمیں حصہ لیا تھا۔ ایسا کرنا ابوبکرؓ کی اس پالیسی کے خلاف تھا جو انہوں نے اہل بدر کے متعلق وضع کی تھی۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں جنگوں میں اہل بدر کو استعمال نہ کروں گا یہاں تک کہ وہ اپنے نیک اعمال کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔ لیکن اس موقع پر نازک صورتحال کے پیش نظر انہوں نے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے اہل بدر اور دوسرے صحابہ کو جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی جنگوں میں حصہ لیا تھا، خالدؓ کی مدد کے لیے روانہ فرمایا کیونکہ یمامہ میں مسیلمہ کو خوب فروغ ہو چلا تھا اور وہ آسانی سے زیر ہونے والا نہ تھا۔ مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابی: حقیقت یہ ہے کہ یمامہ میں مسلمانوں کی کامیابی خالدؓ کا معمولی کارنامہ نہیں۔ یمامہ کی حالت دوسرے قبائل سے بالکل مختلف تھی۔ مدینہ کے قریبی مسائل میں سے جنہوں نے ابوبکرؓ کے خلیفہ بننے کے بعد مدینہ کا محاصرہ کرنا چاہا تھا، کوئی شخص نبوت کا مدعی نہ تھا اور زکوٰۃ کے معافی کے سوا انہیں اور کوئی خواہش نہ تھی۔ مزید برآں عدی بن حاتم اپنے قبیلے کو طلیحہ اسدی کی امداد سے باز رکھنے میں کامیاب ہو گئے تھے جس سے اس کے لشکر میں ابتری پھیل گئی اور وہ جم کر مسلمانوں کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اس کے لشکر کے مفرورین ام زمل کے پاس جا کر اکٹھے ہوئے لیکن ایک ہزیمت خوردہ فوج سے مقابلے کی توقع عبث تھی۔ اس لیے ام زمل ک وبھی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ رہ گئے بنو تمیم تو ان میں خود تفرقہ پڑا ہوا تھا۔ مسلمانوں سے کیامقابلہ کر سکتے تھے!سجاح کے عزم اور ہمت کو مالک بن نویرہ نے متزلزل کر دیا اور اس نے مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ ہی ترک کر دیا تھا مالک بن نویرہ مسلمانوں سے اس قدر خوف زدہ تھا کہ وہ خالدؓ کے مقابلے میں آنے کی جرأت ہی نہ کر سکا۔ ان لوگوں کے بالمقابل مسیلمہ اور یمامہ میں اس کے پیروؤں کو اصلاً اس بات ہی سے انکار تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف بھی رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش کی طرح نبوت و رسالت پر ان کا بھی حق ہے۔ انہیں بھی عرب میں وہی درجہ حاصل ہے جو قریش کا ہے۔ انکا لشکر قریش کے لشکر سے کئی گنا بڑا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں کامل اتحاد پایا جاتا ہے۔ آپس کی مخالفت اور شکر رنجی بالکل مفقود ہے۔ عقیدے اور قبیلے کا اختلاف ان میں بالکل نہیں۔ ان وجوہ کی بنا پر وہ اپنے آپ کو بہت طاقتو رسمجھتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ ابوبکرؓ کی فوجوں سے بڑی کامیاب ٹکر لے سکتے ہیں۔ عکرمہ کی ہزیمت: ابوبکرؓ کی نظر میں یہ تمام باتیں پہلے ہی سے موجود تھیں اس لیے انہوں نے پوری کوشش کی کہ یمامہ کی جانب جو لشکر بھیجے جائیں وہ طاقتور ہوں ۔ مرتدین سے لڑنے کے لیے انہوں نے گیارہ لشکر تیار کیے تھے اور ہر لشکر کو علیحدہ علیحدہ قبیلے کی طرف بھیجا تھا۔ لیکن مسیلمہ کے بارے میں ایسا نہ ہوا بلکہ اس کی جانب انہوں نے عکرمہ بن ابوجہل کو بھیجا اور ان کے پیچھے پیچھے شرجیل بن حسنہ کو ایک لشکر دے کر ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا عکرمہ یمامہ کی جانب بڑھتے چلے گئے اور شرجیل کے پہنچنے کا انتظار نہ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مسیلمہ پر فتح یاب ہونے کا فخر تنہا انہیں کے حصے میں آئے۔ عکرمہ ایک تجربہ کار ماہر جنگ اور دشمن کو خاطر میں نہ لانے والے شہسوار تھے۔ ان کی فوج میں بڑے بڑے بہادر شامل تھے جو پچھلی جنگوں میں لوگوں پر اپنے کارناموں کی دھاک بٹھا چکے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ مسیلمہ کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے اور بنو حنفیہ نے انہیں شکست دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ عکرمہ نے اپنی ہزیمت کا سارا حال ابوبکرؓ کو لکھ بھیجا جسے پڑھ کر ان کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے عکرمہ کو لکھا: اے ابن ام عکرمہ! (عکرمہ کی ماں کے بیٹے) میں تمہاری صورت دیکھنے کا مطلق روادار نہیں۔ تم واپس آ کر لوگوں میں بد دلی پھیلانے کا باعث نہ ہو بلکہ حذیفہ اور عرفجہ کے پاس جا کر اہل عمان اور مہرہ سے لڑو۔ اس کے بعد یمن اور حضر موت جا کر مہاجر بن ابی امیہ سے مل جاؤ اور ان کے دوش بہ دوش مرتدین سے جنگ میں حصہ لو۔ اس خط میں جو غیظ و غضب پنہاں ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ابن ام عکرمہ کا خطاب ہی اس غیظ و غضب کی صحیح کیفیت ظاہر کر رہا ہے۔ مسیلمہ کی قوت کا سبب: سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسیلمہ نے اتنی قوت کس طرح حاصل کر لی؟ مسیلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری ایام میں بنی حنیفہ کے ایک وفد کے ہمراہ مدینہ آیا۔ وفد کے باقی ارکان تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور قبول اسلام کا اعلان کر دیا لیکن مسیلمہ نہ جا سکا۔ کیونکہ وہ لوگ اسے سامان کی حفاظت کے لیے ڈیرے ہی پر چھوڑ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب عادت انہیں کچھ مال و منال عطا فرمایا جس پر انہوں نے مسیلمہ کا حصہ مانگا۔ آپ نے اس کے حصے کا مال بھی ان لوگوں کو دیا اور فرمایا: وہ مرتبے میں تم سے کم تر نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ اس کی حیثیت اتنی کم تر نہیں کہ تم اسے مال کی حفاظت کے لیے ڈیرے پر چھوڑ آئے ہو۔ مسیلمہ محض یہ بات پیش کر کے نبوت کا دعویٰ نہ کر سکتا تھا اس لیے شروع میں بہت ہی تھوڑے لوگوں نے اس کی باتوں پر کان دھرا۔ نہ دو سال میں ہزاروں آدمیوں کو اپنے گرد جمع کر لینا ہی کوئی معجزہ قرار پا سکتا ہے۔ یہ تو محض ایک شعبدہ بازی تھی۔ حقیقی امر، جس نے مسیلمہ کی طاقت بڑھائی، وہ تھا نہار الرجال کا اس سے مل جانا ۔ یہ شخص، جس کا نام نہار الرجال یا نہار الرحال بن عنفوہ تھا، اسی علاقے کا رہنے والا تھا اور ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ آ گیا تھا۔ یہاں اس نے قرآن کریم پڑھا اور دینی تعلیم حاصل کی۔ چونکہ وہ بہت ذہین شخص تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اہل یمامہ کو دین اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور لوگوں کو مسیلمہ کی متابعت سے روکنے کے لیے بھیجا۔ لیکن نہار مسیلمہ سے بھی زیادہ منہ زور ثابت ہوا۔ جب اس نے دیکھا کہ لوگ مسیلمہ کی اطاعت قبول کرتے جا رہے ہیں تو وہ ان لوگوں کی نظروں میں اپنے آپ کو سرخرو کرنے کے لیے ان سے مل گیا اور مسیلمہ کی نبوت کا قرار کرنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب یہ جھوٹا قول منسوب کیا کہ مسیلمہ ان کے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے۔ اہل یمامہ کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک شخص مسیلمہ کی نبوت کی گواہی دے رہا ہے اور وہ شخص معمولی آدمی نہیں بلکہ عالم، فاضل اور فقیہ بھی ہے۔ ان کے سامنے قرآن پڑھتا اوراس کی تعلیمات سے انہیں آگا ہ کرتا ہے۔ انہیں دین کا علم سکھاتا ہے۔ اب کہ وہ خود نبوت مسیلمہ کی گواہی دے رہا تھا تو مسیلمہ کی نبوت سے انکار کی گنجائش ہی کہاں رہی تھی چنانچہ بے وقوف لوگ جوق در جوق مسیلمہ کے پاس آنے اور بنی حنفیہ کے رسول کی حیثیت سے اس کی بیعت کرنے لگے۔ اس طرح چند ہی دنوں میں اس کی طاقت کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ مسیلمہ نے اس کے صلے میں نہار الرجال کو اپنا خاص معتمد علیہ بنا لیا اور اس کے مشورے سے نبوت کا کاروبار انجام دینے لگا۔ اس کے بدلے نہار الرجال کو دنیا بھر کی نعمتیں میسر آ گئیں۔ اور وہ ان سے جی بھر کر لطف اندوز ہونے لگا۔ جب علماء اور فقہاء ہی دنیا کی نعمتوں کے حصول پر تل جائیں اور اپنی غرض کے لیے ذلیل خوشامد اور جھوٹی گواہی سے بھی دریغ نہ کریں تو عوام جو بھی کریں تھوڑا ہے۔ جہاں تک مسیلمہ کے معجزات دکھانے کا تعلق ہے تاریخ سے ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ نہ لوگوں نے اس کا کوئی معجزہ دیکھ کر اسے قبول کیا اور نہ اس کی خود ساختہ وحی سے متاثر ہو کر اس پر ایمان لائے۔ مسیلمہ کا کاروبار چمکنے کے صرف وہی سبب تھے جن کا ذکر پہلے کر دیا گیا ہے۔ مسیلمہ کی اطاعت کیوں قبول کی گئی؟ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ عوام تو خیر جاہل ہوتے ہیں انہیں حق و باطل کی تمیز نہیں ہوتی لیکن دانشور ان قوم کی عقلوں پر کیا پتھر پڑ گئے تھے کہ انہوں نے آنکھیں بند کر کے مسیلمہ کی اطاعت قبول کر لی تو بات یہ ہے کہ اس کی تہہ میں عربوں کی قومی عصبیت اور قبائلی خود مختاری کا جذبہ کار فرما تھا۔ اس کے ثبوت میں مندرجہ ذیل واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ طلیحہ نمری یمامہ آیا اور لوگوں سے پوچھا: تم اس کا نام اس قدر بے ادبی سے لیتے ہو حالانکہ وہ اللہ کا رسول ہے۔ اس نے کہا میں تو اس وقت تک اسے رسول ماننے کے لیے تیار نہیں جب تک اس سے مل نہ لوں۔ تم مجھے اس کے پاس لے چلو مسیلمہ کے پاس پہنچ کر طلیحہ نے اس سے پوچھا: تمہارے پاس کون آتا ہے؟ رحمان مسیلمہ نے جواب دیا۔ روشنی میں یا اندھیرے میں؟ اندھیرے میں اس پر طلیحہ بولا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تم کذاب ہو اور محمد سچے ہیں لیکن اپنا کذاب ہمیں دوسروں کے سچے سے زیادہ محبوب ہے۔ چنانچہ اس نے مسیلمہ کی اطاعت قبول کر لی اور اسی کے ہمراہ لڑتا ہوا مارا گیا۔۔۔ مسیلمہ کی قوت و طاقت بڑھ جانے اور اس کے مقابلے میں عرکمہ کے شکست کھانے کے باعث ابوبکرؓ کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ خالدؓ بن ولید کو اس کی سرکوبی کے لیے روانہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے شرجیل بن حسنہ کو لکھا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں، جب تک خالدؓ ان کے پاس نہ پہنچ جائیں مسیلمہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد (شرجیل) عمرو بن عاص کے پاس چلے جائیں اور شمالی حصے میں قضاعہ کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں۔ شرحبیل کی شکست: ابھی خالدؓ یمامہ کے راستے ہی پر تھے کہ مسیلمہ کی فوجوں نے شرحبیل کی فوج سے ٹکر لی اور اسے پیچھے ہٹا دیا۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ شرحبیل نے بھی وہی کیا جو اس سے پہلے عکرمہ کر چکے تھے یعنی وہ مسیلمہ پر فتح یابی کا فخر خود حاصل کرنے کے شوق میں آگے بڑھے۔ لیکن انہیں بھی شکست کھا کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ پھر بھی میرے خیال میں واقعہ اس طرح نہیں بلکہ خود یمامہ کے لشکر نے اس خیال سے کہ کہیں شرحبیل خالدؓ سے مل کر انہیں نقصان نہ پہنچائیں، اگے بڑھ کر لشکر پر حملہ کر دیا اور شکست دے کر اسے پیچھے ہٹا دیا۔ دونوں میں سے کوئی بات ہوئی ہو مگر واقعہ یہی ہوا کہ شرحبیل اپنا لشکر لے کر پیچھے ہٹ گئے۔ جب خالدؓ ان کے پاس پہنچے اور انہیں تمام واقعات کا علم ہوا تو انہوں نے شرحبیل کو بہت برا بھلا کہا۔ آپ کا خیال تھا کہ اگر دشمن سے ٹکر لینے کی طاقت نہ ہو تو بے شک اس وقت تک اس کے مقابلے سے گریز کیا جائے جب تک مطلوبہ طاقت حاصل نہ ہو جائے بہ نسبت اس امر کے کہ طاقت نہ ہونے کے باوجود دشمن سے لڑاوئی چھیڑ دی جائے جس کے نتیجے میں شکست کھانی پڑے۔ خالدؓ سے مجاعہ کی مڈ بھیڑ:ـ اب خالدؓ نے اپنے لشکروں کے ہمراہ یمامہ کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ مسیلمہ کو بھی ان کی نقل و حرکت کی تمام خبریں پہنچ رہی تھیں۔ اسی دوران میں یہ واقعہ ہوا کہ بنی حنفیہ کا ایک شخص مجاعہ بن مرارہ، بنی عامر اور بنی تمیم کے چند اشخاص سے اپنے کسی رشتہ دار کے قتل کا انتقام لینے کے لیے چند لوگوں کے ہمراہ نکلا۔ اسے خدشہ تھا کہ اگر مسلمانوں سے جنگ شروع ہو گئی تو انتقام لینے کا موقع نہ مل سکے گا۔ چنانچہ اس نے ان قبائل میں پہنچ کر اپنا قصاص لیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس چل پڑا۔ جب یہ لوگ ثنیۃ الیمامہ پہنچے تو تھکاوٹ کی وجہ سے بے خبر پڑ کر سو گئے۔ دریں اثناء خالدؓ کا لشکر وہاں پہنچ گیا۔ اس وقت یہ ہڑبڑا کر اٹھے۔ خالدؓ کو معلوم ہو گیا کہ یہ لوگ بنو حنفیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس خیال سے کہ ان سے لڑنے کے لیے نکلے ہیں۔ انہیں قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ انہوں نے کہا ہم آپ سے لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بنو تمیم سے انتقام لینے کے لیے نکلے تھے۔ اس پر خالدؓ نے پوچھا اسلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ انہوںنے کہا: ایک نبی ہم میں ہے اور ایک نبی تم میں۔ اس پر خالدؓ نے انہیں قتل کروا دیا۔ اس موقع پر ایک آدمی (ساریہ بن عامر) نے عین اس وقت جب تلوار اس کا گلا کاٹنے کے لیے تیار تھی، مجاعہ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اگر تم اپنی بھلائی چاہتے ہو تو اس آدمی کو چھوڑ دو۔ خالدؓ نے بھی مجاعہ کو قتل نہ کرایا بلکہ بطو رضمانت اپنے پاس رکھ لیا۔ کیونکہ وہ بنی حنفیہ کے سرداروں میں سے تھا اور وہ لوگ اس کی بے حد عزت کرتے تھے۔ خالدؓ کا خیال بھی تھا کہ ممکن ہے آگے چل کر اس کے ذریعے سے کوئی کام نکل سکے۔ انہوں نے اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر اپنے خیمے میں ڈال دیا۔ خالدؓ اور مسیلمہ میں جنگ: مسیلمہ نے اپنا لشکر یمامہ کی ایک جانب عقرباء میں جمع کیا تھا اور سارا مال اسباب لشکر کے پیچھے رکھا تھا۔ اس کا لشکر بعض روایات کے مطابق چالیس ہزار اور بعض دوسری روایتوں کے رو سے ستر ہزار تھا۔ ایسے عظیم الشان لشکر کا ذکر عربوں نے اس سے پہلے بہت ہی کم سنا تھا۔ خالدؓ اسی روز، جب انہوں نے مجاعہ کو قید کیا تھا، مسیلمہ کی فوج کے مقابلے میں آ گئے۔ دونوں لشکر میدان جنگ میں کھڑے آخری اعلان کے منتظر تھے۔ ہر ایک کویقین تھا کہ فتح مندی و کامرانی اسی کے حصے میں آئے گی اور وہ دوسرے لشکر کو تباہ و برباد کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنگ یمامہ کا دن اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلام میں ایک منفرد دن ہے کیونکہ اس روز اسلام اور نبوت کا ذبہ کا آخری مقابلہ ہونے والا تھا۔ مسیلمہ کی طرف یمن ، عمان، مہرہ، بحرین، حضرت موت اور عرب کی جنوبی جانب، مکہ اور طائف سے خلیج عدن تک کے تمام علاقوں کے لوگوں کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ ایرانی بھی بڑی بے صبری سے اس جنگ کے نتیجے کے منتظر تھے۔ مسیلمہ کا لشکر اس پر کامل ایمان رکھتا تھا اور اس کی راہ میں کٹ مرنے کے لیے تیار تھا۔ علاوہ بریں حجاز اور عرب کے جنوبی علاقوں کی دیرینہ دشمنی بھی مسلمانوں کے خلاف اپنی ہیئت کے لحاظ سے کچھ کم طاقت ور نہ تھی۔ اس کے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ تھے جو بلا شبہ اپنے زمانے کے سالار اعظم تھے۔ لشکر میں کلام اللہ کے حافظوں اور قاریوں کی بھی کمی نہ تھی۔ یہ تمام لوگ اس جذبے سے میدان جنگ میں آئے تھے کہ اللہ کے راستے میں جہاد اور اس کے دین کی مدافعت مومن کا فرض اولین ہے اور علم و بصیرت رکھنے والے کے لیے تو یہ فرض عین ہے۔ اس جذبے ان کے ولولوں اور امنگوں کو بہت بڑھا دیا تھا اور وہ تعداد میں مرتدین سے بہت کم ہونے کے باوجود عزم و ہمت میں ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھے۔ ابن مسیلمہ کی آتش بیانی: لڑائی شروع ہونے سے پہلے مسیلمہ کا لڑکا بنی حنفیہ کی صفوں میں پھر کر اپنے آتشیں الفاظ سے ان کی غیرت و حمیت کی آگ بھڑکاتے ہوئے یہ کہتا پھر رہا تھا: اے بنو حنفیہ! آج تمہاری غیرت کا امتحان ہے۔ اگر تم شکست کھا گئے تو تمہارے پیچھے تمہاری عورتیں لونڈیاں بنا لی جائیں گی اور ان کے نکاح زبردستی دوسرے لوگوں سے کر دئیے جائیں گے۔ اس لیے اپنے حسب و نسب کی خاطر مسلمانوں سے جنگ کرو اور اپنی عورتوں کی عزت بچاؤ۔ مسلمانوں پر بنی حنفیہ کا دباؤ: آغاز جنگ میں مسلمان بنی حنفیہ کے مقابلے میں ثابت قدم نہ رہ سکے اور پیچھے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ بنو حنفیہ خالدؓ کے خیمے تک پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے مجاعہ کو بیڑیوں میں جکڑا ہوا اور ام تمیم کو اس کی نگرانی کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک آدمی نے لیلیٰ کو قتل کرنے کے لیے تلوار اٹھائی لیکن مجاعہ چیخ اٹھا: ٹھہر جاؤ، میں اسے امان دیتا ہوں تم اسے چھوڑ دو اور مردوں سے جا کر لڑو۔ لشکر کے سپاہیوں نے خیمے کی رسیاں کاٹ ڈالیں اور خیمے کو تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ لیکن انہوں نے مجاعہ کو آزادانہ کیا بلکہ اس امید میں کہ وہ ابھی مسلمانوں پر فتح یاب ہو کر واپس آ جائیں گے، اسے بیڑیوں میں جکڑا ہوا چھوڑ کر چلے گئے۔ نہار الرجال کا قتل: مسلمانوں نے پیچھے ہٹنے کے باوجود پہلے ہی ہلے میں بنی حنفیہ کے سینکڑوں آدمیوں کو قتل کر ڈالا تھا۔ ان قتل ہونے والوں میں سب سے پہلا شخص نہار الرجال تھا۔ جو بنی حنفیہ کے مقدمہ پر مقرر تھا۔ اسے حضرت عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن خطاب نے قتل کیا تھا۔ اس کے قتل سے فتنہ مسیلمہ کے سب سے بڑے سرغنے کا خاتمہ ہو گیا۔ خالدؓ کی حکمت عملی: لشکر اسلام کے پیچھے ہٹنے کے باوجود خالدؓ کے عزم و ثبات میں مطلق کمی نہ آئی اور انہیں ایک لمحے کے لیے بھی اپنی شکست کاخیال پیدا نہ ہوا۔ انہوں نے یہ بات بھانپ لی تھی کہ لشکر کے پیچھے ہٹنے کا سبب فخر و مباہات کا وہ جذبہ تھا جو مسلمانوں کے مختلف گروہوں میں پیدا ہو گیا تھا اور جس کے باعث ان میں کمزوری راہ پا گئی تھی۔ یہ خیال آتے ہی انہوں نے پکار کر اپنے لشکر سے کہا: اے لوگو! علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ اور اسی حالت میں دشمن سے لڑو تاکہ ہم دیکھ سکیں، کس قبیلے نے لڑائی میں بہادری کا سب سے اچھا مظاہرہ کیا۔ مجاہدین اسلام کا عزم و ثباتـ: خالدؓ کے اس حکم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور ہر قبیلے نے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر ثابت کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے دشمن کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔ آخر مسلمانوں کو بھی یہ احساس ہو گیا ہے انہوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فخر و مباہات اور تعلی کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ نامناسب تھا۔ چنانچہ انصار کے ایک سردار ثابت بن قیس نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے مسلمانو! تم نے بہت بری مثال قائم کی ہے۔ پھر اہل یمامہ کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے اللہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے میں اس سے بھی بیزاری کا اظہار کرتا ہو۔ اس کے بعد وہ تلوار سونت کر دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور بڑی بہادری سے لڑنے لگے۔ وہ لڑتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: میری تلوار کا مزہ چکھو، میں تمہیں صبر و استقلال کا حقیقی نمونہ دکھاؤں گا۔ وہ اسی طرح بے جگری سے لڑتے رہے۔ ان کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخم نہ لگے ہوں۔ آخر اسی طرح لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ براء بن مالک ان صنادید عرب میں سے تھے جو پیٹھ دکھانا جانتے ہی نہ تھے۔ جب انہوں نے مسلمانوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ تیزی سے کود کر ان کے سامنے آ گئے اور کہا: اے مسلمانو! میں براء بن مالک ہوں۔ میری پیروی کرو۔ مسلمان ان کی بہادری اور شجاعت سے خوب واقف تھے ان کی ایک جماعت براء کے ساتھ ہو لی۔ وہ اسے لے کر دشمن کے مقابلے میں آ گئے اور اس بہادری سے لڑے کہ دشمن کو پیچھے ہٹتے ہی بن پڑی۔ عین لڑائی کے دوران میں یہ اتفاق ہوا کہ سخت آندھی آ گئی اور ریت اڑ اڑ کر مسلمانوں کے چہروں پر پڑنے لگی۔ چند لوگوں نے اس پریشانی کا ذکر زیدؓ بن خطاب سے کیا اور پوچھا کہ اب کیا کریں۔ انہوں نے جواب میں کہا: واللہ! میں آج کے دن اس وقت تک کسی سے بات نہ کروں گا جب تک دشمن کو شکست نہ دے لوں یا اللہ مجھے شہادت عطا نہ فرمائے اے لوگو! آندھی سے بچاؤ کی خاطر اپنی نظریں نیچی کر لو اور ثابت قدم رہ کر لڑو۔ یہ کہہ کر تلوار سونت لی اور دشمن کی صفوں میں گھس کر بے جگری سے لڑنے لگے۔ ان کا دستہ بھی ان کے پیچھے ثابت قدمی سے لڑ رہا تھا آخر ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہو گئے اور انہوں نے اسی طرح لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا۔ ابو حذیفہ پکار پکار کر کہہ رہے تھے: اے اہل قرآن! اپنے افعال کے ذریعے سے قرآن کو عزت بخشو پھر خود بھی دشمن کی صفوں میں گھس گئے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت کے بعد جھنڈا ان کے غلام سالم نے اٹھایا اور کہا: اگر آج ثابت قدم نہ رہوں تو میں بدترین حامل قرآن ہوں گا۔ چنانچہ وہ بھی لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان آوازوں نے جو ایمان و یقین سے بھرپور قلوب سے نکل رہی تھیں مسلمانوں کے لشکر میں بہادری کی ایک نئی روح پھونک دی۔ زندگی ان کی نظروں میں حقیر بن کر رہ گئی اور شہادت کی تمنا ہر دل میں چٹکیاں لینے لگی چنانچہ وہ بے جگری سے لڑے اور تھوڑی دیر میں مسیلمہ کے لشکر کو اس کی پہلی جگہ پر لا کھڑا کیا۔ جہاں مسلمان دین حق کی حفاظت اور حصول جنت کی خاطر لڑ رہے تھے وہاں مسیلمہ کا لشکر اپنے وطن، حسب و نسب اور ایسے کمزور عقیدے کی خاطر لڑ رہا تھا جو ان کے نزدیک وطن اور حسب و نسب سے بھی بہت کم درجے کا تھا۔ اسی لیے مسلمانوں نے بنو حنفیہ سے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور انتہائی بے جگری سے لڑے۔ خالدؓ قتل مسیلمہ کے درپے: خالدؓ نے جب مسلمانوں کی جوش دلانے والی آوازیں سنیں تو انہیں بھی یقین ہو گیا کہ بنی حنفیہ کی سخت مدافعت کے باوجو انجام کار فتح انہیں کے حصے میں آئے گی۔ لیکن وہ چاہتے تھے کہ فتح کا حصول حتیٰ الامکان جلد ہو جائے اس لیے بہت غور سے ایک بار میدان کا جائزہ لیا۔ انہوں نے دیکھا کہ بنو حنفیہ مسیلمہ کے گرد کٹ کٹ کر گر رہے ہیں اور مسیلمہ کی حفاظت میں موت کی بھی پروا نہیں کرتے۔ یہ دیکھ کر انہیں یقین ہو گیا کہ فتح کے جلد از جلد حصول کا طریق یہ ہے کہ کسی طرح مسیلمہ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے آدمی لے کر آگے بڑھے اور مسیلمہ کے آدمیوں کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ اس کے بعد کوشش کی کہ کسی طرح مسیلمہ ان کے سامنے آ جائے تاکہ اس کا کام تمام کیا جا سکے۔ لیکن قبل اس کے کہ مسیلمہ ان کے سامنے آتا، اس کے آدمیوں نے بڑھ چڑھ کر خالدؓ پر حملے کرنے شروع کیے۔ خالدؓ تو ان کے بس میں کیا آتے البتہ جو شخص ان کے مقابلے میں آتا زندہ واپس نہ جاتا۔ اس طرح بے شمار آدمی قتل ہو گئے۔ مسیلمہ کا تردد و اضطراب: جب مسیلمہ نے دیکھا کہ اس کے حامیوں کی تعداد بہ سرعت کم ہوتی جا رہی ہے تو اس نے کود خالدؓ کے مقابلے پر آنے کا ارادہ کیا لیکن اس خیال سے رک گیا کہ اگر وہ بھی خالدؓ کے مقابلے کے لیے نکلا تو لا محالہ مارا جائے گا۔ اب اس کے تردد و اضطراب کی انتہا نہ رہی۔ اس کے جاں نثار کٹ کٹ کر گر رہے تھے اور اسے خود بھی اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی۔ وہ اس اضطراب کی حالت میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ یکایک خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس کے محافظین پر ایک بھرپور حملہ کر کے تلوار کے جوہر دکھانے شروع کیے۔ یہ دیکھ کر مسیلمہ کے ساتھیوں نے اس سے پکار کر پوچھا: آپ کے وہ وعدے، جو اپنی فتح کے متعلق آپ نے ہم سے کیے تھے، کہاں گئے؟ مسیلمہ کا فرار: اس وقت مسیلمہ کے حوصلے ختم ہو چکے اور اس نے میدان جنگ سے بھاگنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ چنانچہ اس نے پیٹھ پھیرتے ہوئے جواب دیا: اپنے حسب و نسب کی خاطر لڑتے رہو۔ لیکن ا ب وہ کیا لڑتے جب ان کا سردار انہیں مسلمانوں کی تلواروں کے سپرد کر کے انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کر چکا تھا۔ بنی حنفیہ کے ایک سردار محکم بن طفیل نے جب لوگوں کو بھاگتے اور مسلمانوں کو ان کا پیچھا کرتے دیکھا تو پکار پکار کر کہنے لگا: اے بنو حنفیہ! باغ میں داخل ہو جاؤ۔ یہ باغ جسے حدیقۃ الرحمن کہا جاتا تھا میدان جنگ سے قریب ہی تھا اور مسیلمہ کی ملکیت میں تھا۔ یہ بہت طویل و عریض تھا اور قلعے کی طرح اس کے چاروں بلند دیواریں کھڑی تھیں۔ محکم بن طفیل کی آواز سن کر لوگوں نے اس باغ کی طرف بھاگنا شروع کیا (جس میں مسیلمہ پہلے ہی داخل ہو چکا تھا) لیکن محکم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسلمانوں کو بنی حنفیہ کے تعاقب سے روکنے کے لیے میدان جنگ ہی میں رہ گیا تھا۔ اس نے بہت بہادری سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا اور آخر عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کے ایک تیر سے جو اس کے سینے میں لگا اس کا کام تمام ہو گیا۔ باغ کا محاصرہـ: مسیلمہ اور اس کی قوم باغ میں پناہ گزین ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے لیے باغ کا محاصرہ کر لینے اور کامل فتح کے حصول تک وہاں سے نہ ٹلنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ چنانچہ نے ایسا ہی کیا۔ باغ کے چاروں طرف مسلمانوں نے پڑاؤ ڈال دیا اور کسی ایسی کمزور جگہ کی تلاش کرنے لگے جہاں سے باغ میں گھس کر اس کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن انتہائی تلاش کے باوجود انہیں ایسی کوئی جگہ نہ ملی۔ آخر براء بن مالک نے کہا : ’’ مسلمانو! اب صرف یہ راستہ ہے کہ تم مجھے اٹھا کر باغ میں پھینک دو۔ میں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا۔‘‘ لیکن مسلمان یہ کس طرح گوارا کر سکتے تھے کہ ان کا ایک بلند مرتبت ساتھی ہزاروں دشمنوں میں گھر کر اپنی جان گنوا دے۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا لیکن براء نے اصرار کرنا شروع کیا اور کہا: ’’ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم مجھے باغ کے اندر پھینک دو۔‘‘ آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے انہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا۔ دیوار پر چڑھ کر جب براء نے دشمن کی زبردست جمعیت کی جانب نظر دوڑائی تو ایک لمحے کے لیے ٹھٹکے لیکن پھر اللہ کا نام لے کر باغ کے دروازے کے سامنے کود پڑے اور دشمنوں سے دو دو ہاتھ کرتے، دائیں بائیں لوگوں کو قتل کرتے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ آخر بیسیوں آدمیوں کے قتل کے بعد وہ دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے اور آگے بڑھ کر بڑی پھرتی سے اسے کھول دیا۔ بنی حنفیہ کا قتل: مسلمان، باہر دروازہ کھلنے کے منتظر تھے ہی۔ جونہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور تلواریں سونت کر دشمنوں کو بے دریغ قتل کرنے لگے۔ بنو حنفیہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن باغ سے باہر وہ کس طرح نکل سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ صرف براء نے نہیں بلکہ اور بھی کئی مسلمانوں نے دیواریں پھاند کر دروازے کا رخ کیا تھا۔ چونکہ براء نے دروازے کے بالکل قریب دیوار پھاندی تھی۔ اس لیے دروازے پر سب سے پہلے وہی پہنچے اور لڑتے بھڑتے دروازہ کھول دیا۔ بنو حنفیہ نے ان مٹھی بھر مسلمانوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن دیوار پر جو مسلمان متعین تھے انہوں نے تیار مار مار کر انہیں مسلمانوں سے دور رکھا۔ مسیلمہ کا قتل: مسلمانوں نے اگرچہ باغ میں گھس کر بنو حنفیہ کو بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا تھا۔ مگر بنو حنفیہ نے بھی بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے ان کی پیش نہ گئی طرفین کے کثیر آدمی اس معرکے میں قتل ہوئے لیکن بنی حنفیہ کے مقتولوں کی تعداد مسلمانوں سے بیسیوں گنا تھی۔ حبشی غلام وحشی، جس نے جنگ احد میں حمزہ بن عبدالمطلبؓ کو شہید کیا تھا اور جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہو گیا تھا، اس موقع پر موجود تھا۔ اس نے مسیلمہ کو باغ میں دیکھا اور اپنا چھوٹا سا نیزہ ترک کر مسیلمہ کے مارا جو سیدھا اسے جا کر لگا۔ اسی وقت ایک انصاری نے بھی مسیلمہ پر تلوارکا وار کیا۔ وحشی کہا کرتا تھا ’’ اللہ ہی جانتا ہے کہ ہم میں سے کس نے اسے قتل کیا۔ لیکن مسیلمہ اگر مرنے کے بعد زندہ ہوتا تو ہمیشہ ہی یہ کہتا کہ اسے اس سیاہ فام غلام نے قتل کیا ہے۔‘‘ جب بنو حنفیہ نے مسیلمہ کی خبر موت سنی تو ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ مسلمانوں نے انہیں بے تحاشا قتل کرنا شروع کیا۔ عرب میں اس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں یمامہ سے بڑھ کر کسی بھی جنگ میں اتنی خونریزی نہ ہوئی تھی۔ اس لیے حدیقتہ الرحمن کا نام حدیقتہ الموت پڑ گیا اور آج تک تاریخ کی کتابوں میں یہی نام چلا آتا ہے۔ جب باغ کا معرکہ ختم ہو چکا تو خالدؓ اپنے خیمے سے مجاعہ کو لے کر آئے اور اس سے کہا کہ وہ مقتولین کو دیکھ کر بتائے ان میں مسیلمہ کون سا ہے۔ مسلمان خود بھی مقتولین کی شناخت کے لیے باغ میں پھرنے لگے۔ جب وہ محکم الیمامہ کے پاس سے گزرے تو خالدؓ نے پوچھا: ’’ کیا یہ ہے تمہارا صاحب؟‘‘ مجاعہ نے جواب دیا نہیں، یہ تو محکم الیمامہ ہے جو مسیلمہ سے بہت بہتر اور نیک انسان تھا۔ آخر پھرتے پھرتے وہ ایک زرد روٹھنگنے قد کے لاشے پر پہنچے مجاعہ نے کہا کہ یہ مسیلمہ ہے جسے تم نے قتل کر دیا ہے۔ خالدؓ نے کہا: ’’ یہ وہی شخص ہے جس نے تمہیں گمراہ کر کے ایک عظیم فتنہ برپا کر دیا تھا۔‘‘ مفرورین کا تعاقب اور محاصرہ: اگرچہ مسیلمہ کا فتنہ ختم ہو چکا تھا اور وہ خود میدان جنگ میں اپنے ہزاروں آدمیوں کے ہمراہ مارا جا چکا تھا۔ لیکن خالدؓ ابھی مطمئن نہ تھے۔ جنگوں میں آپ کا طریق کار یہ تھا کہ اس وقت تک دشمن کا پیچھا نہ چھوڑتے تھے جب تک اس کی مخالفانہ سرگرمیاں دوبارہ شروع ہونے کا معمولی سا خدشہ بھی باقی رہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے طلیحہ کے مفرور ہو جانے کے باوجود اس وقت تک بنو اسد سے جنگ بند نہ کی جب تک ام زمل اور اس کے لشکر کا خاتمہ نہ کر دیا ۔ پھر بنی تمیم کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے والے ایک ایک شخص کا تیا پانچانہ کر دیا۔ یہی کام آپ نے اس موقع پر بھی کیا۔ جب خالدؓ حدیقتہ الموت کے معرکے سے فارغ ہو چکے تو عبداللہ بن عمرؓ اور عبدالرحمن بن ابی بکرؓ نے ان سے کہا کہ اب لشکر کو کوچ کا حکم دیجئے اور چل کر بنی حنیفہ کے قلعوں کا محاصرہ کر لیجئے کیونکہ بقیہ لوگ فرار ہو کر ان قلعوں میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ خالدؓ نے جواب دیا فی الحال تو میں دستوں کو ان لوگوں کی تلاش میں روانہ کر رہا ہوں جو قلعوں میں نہیں گئے بلکہ ارد گرد کے علاقوں میں پھر رہے ہیں، اس کے بعد جو ہو گا سو دیکھا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے چاروں طرف دستے روانہ کیے جو ارد گرد سے مال غنیمت اور عورتوں، بچوں کو لے آئے۔ خالدؓ نے انہیں قید کرنے کا حکم دیا اور فوج کو ہدایت کی کہ اب وہ چل کر بنی حنفیہ کے قلعوں کا محاصرہ کر لے تاکہ ان لوگوں میں جو دم خم باقی ہے وہ بھی ختم ہو جائے۔ صلح کی بات چیت: لیلیٰ ام تمیم کو بنی حنفیہ کے ہاتھوں سے بچانے اور مسیلمہ کے بارے میں سچی باتیں کہنے کے باعث خالدؓ کو مجاعہ پر پورا بھروسا ہو گیا تھا۔ جب مسلمان بنی حنفیہ کے قلعوں کا محاصرہ کر چکے تو وہ خالدؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ نے بنو حنفیہ پر فتح حاصل کر لی ہے۔ یمامہ کے قلعوں میں ہمارے جنگجوؤں کی ایک بھاری تعداد اسلحہ سے لیس ابھی تک موجود ہے۔ وہ لوگ بہت سختی سے آپ کا مقابلہ کریں گے۔ اگر آپ لڑائی سے بچنا چاہتے ہیں تو مجھے کچھ دیر کے لیے شہر میں جانے کی اجازت دیجئے۔ میں انہیں صلح پر آمادہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ خالدؓ کو معلوم تھا کہ لشکر کے لوگ لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بنو حنفیہ پر جو فتح انہوں نے حاصل کی تھی اسی پر اکتفا کریں اور مزید جنگ و جدل سے پرہیز کریں۔ انہوں نے سوچا کہ مجاعہ کی بات مان لینی چاہیے۔ چنانچہ اسے جانے کی اجازت تو مرحمت فرما دی لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ صلح میں بنو حنفیہ کو غلام نہ بنانے کی شرط شامل نہ ہو گی۔ مجاعہ کی چال بازی: مجاعہ نے شہر میں جا کر دیکھا کہ وہاں عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس نے انہیں زرہ بکتر پہنائے اور سکھا دیا کہ وہ سب قلعے کی فصیل پر جمع ہو جائیں تاکہ مسلمان انہیں دیکھ کر ان کی کثرت تعداد سے دھوکا کھا جائیں اور ہماری پیش کردہ شرائط پر صلح کر لیں۔ چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا اور زرہ بکتر پہن کر اور تلواریں اور نیزے ہاتھ میں لے کر فصیل پر پہنچ گئے۔ جب باہر سے خالدؓ اور مسلمانوں نے یہ نظارہ دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ مجاعہ نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا۔ واقعی ابھی بنو حنفیہ میں دم خم باقی ہے اور وہ ابھی مزید لڑنے کی تاب رکھتے ہیں۔ خالدؓ اور بنو حنفیہ میں صلحـ: تھوڑی دیر میں مجاعہ بھی پہنچ گیا اور کہا: میری قوم آپ کی شرائط پر صلح کرنا نہیں چاہتی اور میں نے آپ سے جو عہد و پیمان کیے تھے وہ انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ خالد دوبارہ لڑائی چھیڑنا نہ چاہتے تھے۔ انہوں نے مجاعہ سے کہا: ہم نصف مال اسباب، نصف مزروعہ باغات اور نصف قیدیوں کو بنی حنفیہ کے لیے چھوڑ دیں گے، تم انہیں جا کر سمجھاؤ کہ وہ اپنے آپ کو تباہی میں نہ ڈالیں اور صلح کر لیں۔ مجاعہ دوبارہ شہر میں گیا اور واپس آ کر کہا: وہ لوگ ان شرائط پر بھی صلح کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آپ چوتھائی مال اسباب لینے پر رضا مند ہو جائیں۔ خالدؓ راضی ہو گئے اور صلح نامہ لکھا گیا۔ صلح کے بعد جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں کسی جوان مرد کا نام و نشان بھی نہیں۔ انہوں نے مجاعہ سے پوچھا کہ تم نے مجھ سے دھوکا کیوں کیا؟ اس نے کہا ’’ میری قوم تباہ ہو جاتی۔ میرا فرض تھا کہ ان کی جانیں بچاؤں۔ اس لیے میں نے یہ تدبیر اختیار کی۔‘‘ خالدؓ نے اس کا عذر قبول کر لیا اور صلح نامہ برقرار رکھا۔ یہ روایت بھی آئی ہے کہ صلح نامہ لکھے جانے سے پہلے جب مجاعہ شہر میں گیا اور لوگوں سے صلح کی بات چیت کی تو ایک شخص سلمہ بن عمیر الحنفی نے کہا ’’ واللہ ! ہم تمہاری بات کبھی نہ مانیں گے کیونکہ ہمارے قلعے مضبوط ہیں، سامان خوراک وافر مقدار میں ہمارے پاس موجود ہے، سردی کا موسم بھی شروع ہو چکا ہے، مسلمان سخت سردی کی تاب نہ لا کر محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے۔‘‘ مجاعہ نے جواب دیا: ’’ یہ محض تمہاری خوش فہمی ہے۔ تمہارا خیال ہے کہ میں تمہیں صلح پر آمادہ کر کے تم لوگوں سے دھوکا کرنے لگا ہوں۔ حالانکہ یہ بات نہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ ابن مسیلمہ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے کہا تھا۔ اے لوگو! قبل اس کے کہ تمہاری عورتیں قیدی بنا لی جائیں اور غیر جگہ ان کے نکاح کر دئیے جائیں،تم مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دو۔ میں بھی تمہیں اسی خطرے سے بچانے کے لیے آیا ہوں۔ تم صلح کر لو اور اپنی جان کے دشمن نہ بنو۔‘‘ جب لوگوں نے مجاعہ کی باتیں سنیں تو وہ صلح کرنے پر آمادہ ہو گئے اور سلمہ بن عمیر کی بات کو ناقابل عمل سمجھ کر ترک کر دیا۔ بنی حنفیہ ابوبکرؓ کی خدمت میں: دریں اثناء ابوبکرؓ کا قاصد خالدؓ کے پاس یہ حکم لے کر آیا کہ اس شخص کو، جو لڑائی کے قابل ہو، قتل کر دیا جائے۔ لیکن خالدؓ ان سے صلح کر چکے تھے۔ انہوں نے صلح توڑنا اور بد عہدی کرنا نہ چاہا۔ اس کے بعد بنو حنفیہ بیعت کرنے اور مسیلمہ کی نبوت سے برا ء ت کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے۔ یہ تمام لوگ خالدؓ کے پاس لائے گئے جہاں انہوں نے بیعت کی اور اپنے دوبارہ اسلام لانے کا اعلان کیا۔ خالدؓ نے ان کا ایک وفد ابوبکرؓ کی خدمت میں مدینہ روانہ فرمایا۔ جب وہ لوگ ابوبکرؓ کے پاس پہنچے تو انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’ آخر تم لوگ مسیلمہ کے پھندے میں پھنس کر کس طرح گمراہ ہو گئے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’ اے خلیفہ رسول اللہ ؐ! ہمارا سال حال آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ مسیلمہ نہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچا سکا اور نہ اس کے رشتہ داروں اور قوم کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہو سکا۔‘‘ مجاعہ کا فریب اور خالدؓ کی مصالحت: اس موقع پر شاید کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ آخر خالدؓ مجاعہ کی فریب دہی کے باوجود کس طرح مصالحت پر تیار ہو گئے حالانکہ ان کی سختی ضرب المثل بن چکی تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کو فتح مبین حاصل ہونے کے علاوہ بنی حنفیہ کی جنگوں میں اس قدر خونریزی ہو چکی تھی کہ خالدؓ نے آخر ان سے درگزر کرنا اور رعایات سے بہرہ ور کرنا ہی مناسب خیال کیا۔ بنی حنفیہ کے مقتولین کی تعداد: روایات سے پتا چلتا ہے کہ حدیقتہ الموت کی لڑائی میں سات ہزار بنی حنفیہ قتل ہوئے تھے۔ میدان جنگ میں بھی ان کے مقتولین کی تعداد سات ہزار تھی۔ اس کے بعد جب خالدؓ نے اپنے دستوں کو مفرورین کے تعاقب میں روانہ کیا تو بھی سات ہزار آدمی قتل ہوئے۔ جو صلح مجاعہ کے ذریعے سے پایہ تکمیل کو پہنچی اور اس کی رو سے سارا مال غنیمت جو سونے چاندی اور ہتھیاروں پر مشتمل تھا، مسلمانوں کی ملکیت ٹھہرا، اس کے علاوہ چوتھائی قیدی بھی ان کے حصے میں آئے۔ بنی حنفیہ کی بستیوں اور علاقے میں جو باغات اور مزروعہ زمینیں تھیں ان پر بھی خالدؓ کا قبضہ تسلیم کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ مجاعہ نے اپنی قوم کے بقیتہ السیف لوگوں کو قتل ہونے سے بچا لیا تھا لیکن یہ تمام لوگ دوبارہ اسلام قبول کر کے ابوبکرؓ کی حکومت تسلیم کر چکے تھے ۔ اس لیے اب خالدؓ کے واسطے کوئی وجہ ایسی باقی نہ رہی تھی جس سے وہ مجاعہ پر ناراض ہوتے یا اس سے انتقام لیتے۔ مسلمان شہداء کی تعداد: اس جنگ میں جہاں بنی حنفیہ کے مقتولین کی تعداد پچھلی تمام جنگوں سے زیادہ تھی وہاں مسلمان شہداء کی تعداد بھی پچھلی تمام جنگوں کو مات کر گئی تھی۔ اس جنگ میں مسلمان شہداء کی تعداد بارہ سو تھی۔ تین سو ستر مہاجرین، تین سو انصار اور باقی دیگر قبائل کے لوگ، ان شہداء میں تین سو ستر صحابہ کبار اور قرآن کے حافظ بھی تھے جن کا مقام اور درجہ مسلمانوں میں بے حد بلند تھا۔ اگرچہ ان حافظوں کی شہادت سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا لیکن بعض اوقات ایک نقصان دہ چیز بھی آخر فائدے کا موجب بن جاتی ہے چنانچہ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ابوبکرؓ نے اس ڈر سے کہ کہیں آئندہ جنگوں میں بقیہ حافظوں سے بھی مسلمانوں کو ہاتھ نہ دھونے پڑیں، قرآن جمع کرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح پہلی مرتبہ قرآن کریم ایک جلد میں مدون کیا گیا۔ مسلمانوں کا حزن و الم: مسلمانوں کی بھاری تعداد کے شہید ہو جانے سے ان کے رشتہ داروں کو جس صدمے سے دو چار ہونا پڑتا تھا اس کی تلافی صرف یہ چیز کر سکتی تھی کہ گو مسلمانوں کو کئی قیمتی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا پھر بھی فتح کا شرف انہیں کے حصے میں آیا۔ عمرؓ بن خطاب کے صاحبزادے عبداللہ جنگ یمامہ میں بہادری کے عظیم کارنامے انجام دینے کے بعد مدینہ واپس آئے تو ان کے والد نے کہا: ’’ جب تمہارے چچا زید شہید ہو گئے تھے تو تم واپس کیوں آ گئے اور کیوں نہ اپنا چہرہ مجھ سے چھپا لیا؟‘‘ صرف عمرؓ ہی کا یہ حال نہ تھا بلکہ مکہ اور مدینہ کے سینکڑوں گھرانے اپنے بہادروں اور سپوتوں کی شہادت پر خون کے آنسو بہا رہے تھے۔ بنت مجاعہ سے خالدؓ کی شادی: کیا خالدؓ بھی غم اور حزن سے اسی طرح بے تاب تھے جس طرح دوسرے مسلمان؟ اور کیا انسانی خون کے مہیب و دہشت ناک سیلاب اور لاشوں کی کثرت نے ان کے دل میں گھبراہٹ کا کوئی جذبہ پیدا کیا تھا؟ ہرگز نہیں اگر خالدؓ کی بھی یہ حالت ہوتی تو وہ آئندہ کبھی سپہ سالاری کے قابل نہ رہتے اور انہیں عراق و شام کے فاتح بننے کا فخر کبھی حاصل نہ ہوتا۔ اسی لیے نہ خالدؓ کو اس دوران میں کسی قسم کا خوف لاحق ہوا اور نہ انہوں نے کبھی گھبراہٹ اور بے چینی کا اظہار کیا۔ جونہی وہ صلح نامے کی تکمیل سے فارغ ہوئے انہوں نے مجاعہ کو بلا بھیجا اور کہا اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دو۔ مجاعہ نے لیلیٰ ام تمیم کا واقعہ، دار الحکومت میں خالدؓ کی طلبی اور ابوبکرؓ کی ناراضگی کا حال سنا ہوا تھا اس لیے اس نے جرات کر کے کہا ’’ مجھے اس سے معاف کیجئے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ میری کمر توڑ دینے کا موجب بنیں گے اور خود بھی ابوبکرؓ کے عتاب سے نہ بچ سکیں گے۔‘‘ لیکن خالدؓ نے اس کی ایک نہ سنی اور کہا: ’’ تمہیں اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کرنی پڑے گی۔‘‘ اس پر مجبوراً مجاعہ کو اپنی بیٹی کی شادی خالدؓ سے کرنی پڑی۔ اس شادی پر ابوبکرؓ کی ناراضگی: جب خالدؓ کے اس فعل کی اطلاع ابوبکرؓ کو ہوئی تو انہیں شدید غصہ آیا۔ ام تمیم کے واقعے پر تو انہوں نے یہ کہہ کر خالدؓ کی مدافعت کی تھی کہ انہوں نے مالک کی بیوی سے شادی کرنے کے لیے اسے قتل نہ کیا تھا بلکہ یہ محض غلط فہمی کی بنا پر ہوا تھا۔ پھر اس موقع پر کسی ایک بھی مسلمان کی جان ضائع نہ ہوئی تھی لیکن مجاعہ کی بیٹی سے شادی تو حال میں ہوئی کہ بارہ سو مسلمانوں کی لاشیں خاک و خون میں غلطاں میدان جنگ میں پڑی تھیں اور تمام قبائل عرب میں ایک ماتم برپا تھا۔ وہ بے حد حلیم الطبع ہونے کے باوجود اپنے غصے پر قابو نہ پا سکے اور خالدؓ کو ایک سخت خط لکھا۔ا نہوں نے تحریر فرمایا: ’’ اے خالدؓ بن ولید! تمہیں کیا ہوا؟ تم عورتوں سے نکاح پھرتے ہو حالانکہ تمہارے خیمے کے سامنے بارہ سو مسلمانوں کا خون زمین پر پھیلا ہوا ہے جس کے خشک ہونے کی نوبت نہیں آئی۔‘‘ خالدؓ کو ابوبکرؓ کے خط سے بہت رنج ہوا۔ انہوں نے سر ہلا کر کہا ہو نہ ہو یہ سب کچھ عمرؓ بن خطاب کی کارستانی ہے۔ لیکن یہ معاملہ ابوبکرؓ کے خط اور اس پر کالدؓ کے اظہار افسوس سے آگے نہ بڑھا۔ یمامہ کی جنگ میں خالدؓ نے مرتدین کی کمر توڑ ڈالی تھی اور اب ان کے لیے خاموشی سے ابوبکرؓ کی اطاعت اور دوبارہ اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ رہا تھا ۔ مہرہ، عمان اور یمن کی جنگیں، جو جنگ یمامہ کے بعد وقوع پذیر ہوئیں، جنگ یمامہ سے زیادہ خطرناک نہت ھیں اس لیے ابوبکرؓ کو قدرے اطمینان کا سانس لینے اور خالدؓ کو تھوڑا آرام کرنے کا موقع مل گیا۔ خالدؓ مجاعہ کی بیٹی اور ام تمیم کو لے کر یمامہ کی ایک وادی ’’ ویر‘‘ میں مقیم ہو گئے حالانکہ انہیں ابوبکرؓ کی جانب سے عراق جا کر ایرانیوں سے لڑنے کا حکم ملا تھا۔ ٭٭٭ دسواں باب بقیہ محاربات ارتداد بحرین، عمان، مہرہ، یمن، کندہ اور حضر موت: شمالی عرب کے منکرین زکوٰۃ اور مرتد قبائل خالدؓ بن ولید کی فوج کشی کے نتیجے میں خلیفہ رسول اللہ ؐ کی اطاعت قبول کر کے دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے۔ ان قبائل کی حدود عرب کے شمال مشرقی حسے سے شروع ہو کر انتہائی مشرق میں خلیج فارس تک اور وہاں سے نیچے اتر کر مکہ کے جنوب مشرق تک پھیلی ہوئی تھیں۔ حالانکہ جب ابوبکرؓ نے زمام خلافت سنبھالی تھی تو ان کا دائرہ اقتدار مدینہ، مکہ اور طائف کے درمیان ایک چھوٹے سے مثلث نما خطے تک محدود تھا۔ مدینہ کے شمالی علاقے کے قبائل کی بغاوت نے بنی اسد اور بنی حنیفہ کی طرح خطرناک رنگ اختیار نہ کیا اور دومۃ الجندل کے سوا باقی تمام علاقوں نے کسی خاص قسم کی جدوجہد کے بغیر آسانی سے ابوبکرؓ کی اطاعت قبول کر لی۔ دومۃ الجندل کا حاکم اس زمانے میں اکیدر کندی تھا۔ وہ بدستور اسلامی حکومت کے مقابلے میں ڈٹا رہا۔ آخر عراق کی فتوحات کے دوران میں خالدؓ بن ولید نے اسے زیر کیا۔ جنوبی قبائل کا اصرار بغاوت: جہاں تک جنوبی علاقے کا تعلق ہے وہاں کے قبائل نے شمالی علاقے کے واقعات سے مطلق نصیحت حاصل نہ کی اور بد ستور ابوبکرؓ کے خلاف بغاوت پر آمادہ اور ارتدادپر جمے رہے۔ اسی سبب سے جنوبی قبائل اور مسلمانوں کے درمیان مدت دراز تک جدال و قتال کا سلسلہ جاری رہا۔ جنوبی علاقہ جو نصف عرب پر مشتمل ہے، خلیج فارس سے یمن کے عمال میں بحیرہ احمر تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں بحرین، عمان، مہرہ، حضرت موت، کندہ اور یمن کے صوبے واقع ہیں۔ مشرقی علاقوں سے مغربی علاقوں تک اور مغربی علاقوں سے مشرقی علاقوں تک آنے جانے کے لیے مذکورہ بالا تمام صوبوں سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ تمام صوبے خلیج فارس، خلیج عدن اور بحیرہ احمر کے ساحلی علاقوں پر واقع ہیں اور یمن کے سوا باقی تمام کی چوڑائی بہت کم ہے۔۔۔۔ اتنی کم کہ ان کی حدود اور ساحل بحر کا فاصلہ چند میل کا ہے۔ عرب کا سارا جنوبی علاقہ جو ان صوبوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ ایک خوفناک لق و دق صحرا پر مشتمل ہے جسے عبور کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔ اس صحرا کو دیکھ کر آج بھی اسی طرح دہشت طاری ہو جاتی ہے جس طرح پہلے زمانوں میں ہوتی تھی۔ اسے ربع الخالی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جنوبی عرب میں ایرانی اثر ونفوذ: ان صوبوں کے محل وقوع پر ایک نظر ڈالنے سے صاف پتا چل جاتا ہے کہ ان میں ایرانی اثر و نفوذ بہت آسانی سے راہ پا سکتا تھا۔شمالی اور جنوبی علاقوں کے مابین آمدورفت کا سلسلہ بے حد دشوار تھا کیونکہ درمیان کے ہولناک اور ویران صحرا کو قطع کرنا مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ حجاز سے عمان و بحرین تک پہنچنے اور عمان و بحرین سے حجاز تک جانے کے لیے طول و طویل ساحلی علاقہ اختیار کرنا پڑتا تھا۔ اس لحاظ سے بحرین، عمان، حضر موت اور یمن کے مشرقی و جنوبی صوبے حجاز کے شمالی علاقے سے تقریباً کٹ کر رہ گئے تھے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایرانی شہنشاہوں نے ان علاقوں پر توجہ مبذول کی اور یہاں اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں کہ یمن ’’ بدھان‘‘ کے اسلام قبول کرنے تک ایرانی عمل داری میں شامل رہا۔ ’’ بدھان‘‘ ابتداء میں کسریٰ کی جانب سے اس علاقے کا عامل تھا۔ اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدستور یہاں کا حاکم مقرر کیے رکھا۔ بحرین اور عمان بھی ایرانی عمل داری میں شامل تھے اور کثیر التعداد ایرانیوں نے بحرین اور عمان میں سکونت اختیار کر کے انہیں اپنا وطن بنا لیا تھا۔ اس وجہ سے ایرانی اقتدار میں مزید اضافہ ہو گیاتھا ۔ جب کبھی سلطنت ایران کو عربوں کی جانب سے بغاوت کا خطرہ ہوتا اور عرب ان کے اثر و اقتدار کو زائل کرنے کی کوشش کرتے تو وہ ان ایرانی نژاد لوگوں سے کام لے کر اس بغاوت کو فرو کر دیتی اور آزادی کی جدوجہد کو ناکام بنا دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے جن علاقوں کو سب سے آخر میں اسلام لانے کی توفیق ملی وہ عمان اور بحرین کے علاقے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انہیں نے سب سے اول ارتداد اختیار کیا مگر جب سخت جنگوں کے بعد فتنہ ارتداد پاس پاش ہو گیا اور اہل عرب دوبارہ ایک دینی اور سیاسی وحدت پر جمع ہو گئے تو یہی لوگ تھے جو سخت مجبور ہو کر سب سے آخر میں اسلام لائے۔ ان علاقوں میں جنگ ہائے ارتداد کے زمانہ وقوع کے متعلق مورخین میں خاصا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ جنگیں11ھ میں وقوع پذیر ہوئیں اور بعض کہتے ہیں 12ھ میں۔ پھر بھی یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ بہرحال یہ امر مسلم ہے کہ یہ جنگیں ابوبکرؓ کی خلافت کے اوائل سے شروع ہوئیں اور اس وقت تک ختم نہ ہوئیں جب تک سارے عرب نے کاملاً ان کی اطاعت قبول نہ کر لی۔ ابتدا شمالی عرب سے ہوئی اور وہاں کے مرتدین کا قلع قمع ہونے کے بعد جنگوں کا رخ جنوبی علاقے کی طرف پھر گیا۔ جغرافیائی محل و قوع کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ جنوبی علاقے میں سرگرمیوں کی ابتداء وہ یا تو بحرین سے کرتے اور عمان، مہرہ، حضر موت کے علاقوں کو زیر کرتے ہوئے یمن تک پہنچ جاتے یا اپنی کارروائیاں یمن سے شروع کرتے اور حضرت موت مہرہ اور عمان کے لوگوں کی سرکوبی کرتے ہوئے ان کارروائیوں کا اختتام بحرین پر کرتے۔ جنگی کارروائی کا آغاز: تمام حالات کے پیش نظر مسلمانوں نے بحرین سے جنگی کارروائی کا آغاز کرنا مناسب خیال کیا۔ کیونکہ اول تو بحرین یمامہ سے بالکل نزدیک تھا اور یمامہ میں عقرباء کے مقام پر وہ ابھی ابھی بنی حنفیہ کے مقابلے میں عظیم الشان فتح حاصل کر چکے تھے جس کی وجہ سے ان کی دھاک تمام قبائل عرب میں بیٹھ چکی تھی۔ دوسرے یمن کے مقابلے میں یہاں سے کارروائی کا آغاز کرنا نسبتاً سہل بھی تھا۔ اگر یہاں کامیابی حاصل ہو جاتی تو اس کا اثر دوسرے قبائل پر پڑنا لازم تھا۔ پھر بھی اس بیان سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ بحرین پر مسلمانوں کا تسلط کسی خاص کوشش کے بغیر ہو گیا تھا۔ بحرین اصل میں ہجر سے ملحق ایک تنگ ساحلی پٹی ہے جو خلیج فارس کے کنارے قطیف سے عمان تک پھیلی ہوئی ہے۔ بعض جگہوں پر تو صحرا اس پٹی کو قطع کرتا ہوا خلیج تک پہنچ گیا ہے۔ شمال مغربی جانب وہ یمامہ سے ملحق ہے۔ یمامہ اور بحرین کے درمیان اونچے نیچے ٹیلوں کا ایک سلسلہ ہے جسے عبور کرنا چنداں دشوار نہیں۔ ربیعہ کے قبائل: بنی بکر اور بنی عبدالقیس کا قیام بحرین اور ہجر کے علاقوں میں تھا۔ ان علاقوں میں تاجروں کی ایک جماعت بھی مقیم تھی جو ہندوستان اور ایران سے آئے تھے اور دریائے فرات کے دہانے سے عدن کے ساحلی علاقے تک کے درمیانی خطے میں آبادہو گئے تھے۔ ان تاجروں نے یہاں کے مقامی باشندوں سے سلسلہ ازدواج بھی قائم کر لیا تھا اور ان سے جو نسل پیدا ہوئی تھی اسے الانباء کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ بحرین کے علاقے کا بادشاہ ایک عیسائی، منذر بن ساوی العبدی تھا۔ 9ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قاصد علاء بن حضرمی وک اس کے پاس بھیجا تو یہ اسلام لے آیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بدستور بحرین کا حاکم مقرر کیے رکھا۔ اسلام لانے کے بعد اس نے اپنی قوم کو بھی دین حق کی دعوت دینی شروع کی اور جارود بن معلی کو دینی تربیت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ جارود نے مدینہ پہنچ کر اسلامی تعلیمات اور احکام سے واقفیت حاصل کی اور اپنی قوم میں واپس جا کر لوگوں کو دین کی تبلیغ کرنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کا کام شروع کر دیا۔ بحرین میں ارتداد کا آغاز: جس مہینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اسی مہینے منذر بن ساوی کا بھی انتقال ہوا اور عرب کے دوسرے علاقوں کی طرح بحرین والے بھی سب کے سب مرتد ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی علاء حضرمی کو بحرین سے نکلنا پڑا لیکن جارود بن معلی عبدی بدستور اسلام پر قائم رہے۔ انہوں نے اپنی قوم بنو عبدالقیس سے ارتداد کا سبب پوچھا۔ انہوں نے کہا: اگر محمد نبی ؐ ہوتے تو کبھی وفات نہ پاتے۔ جارود نے پوچھا: تم جانتے ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی اللہ اپنے انبیاء کو مبعوث فرماتا رہا۔ وہ سب کے سب کہاں گئے؟ انہوں نے جواب دیا: فوت ہو گئے جارود نے کہا: جس طرح دیگر انبیاء فوت ہو گئے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے۔ اگر دوسرے انبیاء کے فوت ہونے سے ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہونے سے آپ کی نبوت کس طرح زائل ہو سکتی ہے؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جارود کی باتوں کا ان کی قوم پر بہت اثر ہوا اور وہ لوگ دوبارہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ بنو عبدالقیس گو اسلام لے آئے۔ لیکن بحرین کے دوسرے قبائل حطم بن ضبیعہ کے زیر سرکردگی بدستور حالت ارتداد پر قائم رہے اور انہوں نے بادشاہی کو دوبارہ آل منذر میں منتقل کر کے منذر بن نعمان کو اپنا بادشاہ بنا لیا۔ سب سے پہلے انہوں نے جارود اور قبیلہ بنی عبدالقیس کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں یکسر ناکامی ہوئی۔ اس پر حطم بن ضبیعہ نے طاقت کے زور سے انہیں زیر کرنا چاہا۔ اس نے قطیف اور ہجر میں مقیم غیر ملکی تاجروں اور ان لوگوں کو، جنہوں نے اس سے قبل اسلام قبول نہ کیا تھا، اپنے ساتھ ملا لیا اور قصبہ جراثی کے قریب جارود اور ان کے ساتھیوں کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ نہایت سخت تھا۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے بنو عبدالقیس جاں بہ لب ہو چکے تھے ، لیکن انہوں نے انتہائی ثابت قدمی دکھائی اور دوبارہ ارتداد اختیار کرنا قبول نہ کیا۔ علاء بن حضرمی کی روانگی: بحرین سے ارتداد کی خبریں موصول ہونے پر ابوبکرؓ نے علاء بن حضرمی کو مرتدین کے مقابلے کے لیے روانہ فرمایا۔ دریں اثناء خالدؓ بن ولید، مسیلمہ اور ان کے پیروؤں کو عقرباء میں عبرتناک شکست دے چکے تھے۔ اس لیے جب علاء یمامہ سے گزرے تو بنی حنفیہ کی ایک کثیر جمعیت ثمامہ بن آثال اور قیس بن عاصم منقری کے زیر سرکردگی ان کے ساتھ ہو لی۔ اہل یمن اور بعض دیگر قبائل کے لوگ بھی کثیر تعداد میں ان کے لشکر میں شامل تھے جنہیں یقین تھا کہ مسلمان آخر سارے عرب پر قابض ہو جائیں گے کیونکہ ہر زمانے میں یہی ہوتا رہا ہے کہ لوگ قوت و طاقت ہی کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ چنانچہ قیس بن عاصم جو اپنے قبیلے بنو تمیم کو لے کر علاء کی فوج میں شامل ہو گئے تھے، اس سے پہلے منکرین زکوٰۃ کی صف اول میں شامل تھے قبیلے کی زکوٰۃ انہوں نے مدینہ بھیجنی بالکل بند کر دی تھی اور زکوٰۃ کا جمع شدہ مال لوگوں کو واپس کر دیا تھا لیکن جب خالدؓ نے بنو حنفیہ کو زیر کر لیا اور ان کے سب کس بل نکال دئیے تو قیس کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ خاموشی سے مسلمانوں کے آگے سر اطاعت خم کر دیں۔ چنانچہ جب علاء بن حضرمی یمامہ سے گزرے تو موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے انہوں نے قبیلے سے زکوٰۃ دوبارہ اکٹھی کی اور اسے لے کر علاء سے مل گئے اور ان کے ساتھ ہی اہل بحرین سے جنگ کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ مرتدین بحرین کی شکست: علاء بن حضرمی لشکر لے کر بحرین پہنچے اور حطم کے قریب خیمہ زن ہوئے۔ وہاں سے انہوں نے جارود کو، جو بنی عبدالقیس کے ساتھ قلعہ بند تھے پیغام بھیجا کہ اسلامی لشکر آ پہنچا اس لیے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ خود انہوں نے لڑائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ محاذ جنگ اور دشمنوں کا جائزہ لینے سے انہیں معلوم ہوا کہ مرتدین اس قدر بھاری تعداد میں ان کے مقابلے کے لیے موجود ہیں کہ بے سوچے سمجھے ان پر حملہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ انہوں نے اپنے لشکر کے ارد گرد خندق کھدوائی اور اس کے پیچھے لشکر لے کر پڑاؤ ڈال دیا۔ کبھی کبھی وہ خندق عبور کر کے مرتدین پر حملہ کرتے اور تھوڑی دیر کی لڑائی کے بعد پھر خندق کے پیچھے ہٹ آتے۔ اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا۔ کسی فریق کو معلوم نہ تھا کہ لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ آخر ایک رات مسلمانوں کو مرتدین پر بھرپور حملہ کرنے کا موقع مل ہی گیا جس سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے دشمن کو تہس نہس کر ڈالا۔ واقعہ اس طرح ہوا کہ ایک ر ات لشکر گاہ مشرکین کی طرف سے سخت شور و غل کی آوازیں آنے لگیں، علاء بن حضرمی نے اپنے جاسوسوں کو خبر لانے کے لیے دشمنوں کے کیمپ میں روانہ کیا۔ انہوں نے آ کر خبر دی کہ مشرکین کا لشکر شراب میں دھت ہے اور واہی تباہی بک رہا ہے۔ علاء نے موقع غنیمت جان کر فوج کو ہمراہ لیا اور خندق عبور کر کے دشمن کے لشکر میں داخل ہوتے ہی اسے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ دشمن نے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا۔ سینکڑوں لوگ بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے خندق میں گر پڑے۔ بیسیوں لوگوں کو گھبراہٹ اور دہشت کی وجہ سے کہیں جائے فرار نہ ملتی تھی اور وہ اسی حالت میں قتل کر دئیے گئے۔ ہزاروں لوگوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ اسی ہنگامے کے دوران میں قیس بن عاصم نے حطم کو زمین پر گرا ہوا پایا۔ اس نے جھٹ تلوار نکال آن کی آن میں اس کا کام تمام کر دیا۔ عنیف بن منذر الغرور کو مسلمانوں نے زندہ گرفتار کر لیا۔ جب وہ علاء کے سامنے پیش کیا گیا تو علاء نے کہا: تمہیں تھے جنہوں نے ان لوگوں کو دھوکا دیا تھا؟ غرور نے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر اسلام قبول کر لیا اور کہا: میں دھوکا دینے والا نہیں البتہ اپنی طاقت پر ناز ضرور تھا۔ یہ سن کر علاء نے اسے معاف کر دیا۔ دارین میں مفرورین کی پناہ: جو لوگ قتل اور قید ہونے سے بچ گئے تھے انہوں نے کشتیوں میں سوار ہو کر جزیرہ دارین میں پناہ لی۔ علاء نے فی الحال ان سے تعرض نہ کیا بلکہ اپنی توجہ بحرین کے دوسرے علاقوں میں امن و امان قائم رکھنے پر مبذول کی۔ جب سارے علاقے میں امن قائم ہو گیا، قبائل نے اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لی اور علاء کے لشکر میں بھی معتدبہ اضافہ ہوگیا تو انہوں نے لشکر کو دارین پر حملہ کرنے کا حکم دیا تاکہ کسی مرتد کے لیے کوئی جائے فرار جائے پناہ باقی نہ رہے۔ دارین کی فتح: دارین خلیج فارس کا ایک جزیرہ ہے جو بحرین کے بالمقابل چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں بعض عیسائی خاندان آباد تھے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ علاء نے جب مسلمانوں کو اس جزیرے پر حملہ کرنے کا حکم دیا تو ان کے پاس کشتیاں نہ تھیں جن پر سوار ہو کر وہ جزیرے تک پہنچتے۔ یہ دیکھ کر علاء کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! تمہیں اللہ نے خشکی میں اپنے نشانات دکھائے ہیں۔ کیا وہ سمندر میں اپنے نشانات نہیں دکھا سکتا؟ اس نے خشکی میں نشانات اسی لیے دکھائے ہیں کہ سمندر کی مہموں میں بھی تمہارے حوصلے قائم رہیں۔ اس لیے دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ اور بے دھڑک سمندر میں کود پڑو، اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو گا۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے تم مرتدین کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے اور تم آسانی سے ان پر غلبہ حاصل کر سکتے ہو۔ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور کمر ہمت کس کر سمندر کی موجوں سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ لشکر نے یک زبان ہو کر جواب دیا: اے ہمارے سردار! ہم ہر وقت آپ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہیں۔ جب ہولناک صحراء ہمیں مرعوب نہ کر سکے تو سمندر ہمارے آگے کیا چیز ہے۔ چنانچہ لشکر نے تیاریاں شروع کر دیں۔ ساحل بحر پر پہنچ کر وہ گھوڑوں، گدھوں، خچروں، اونٹوں پر سوار ہوئے اور اللہ کا نام لے کر انہیں سمندر میں ڈال دیا۔ لیکن اللہ کی قدرت سے انہیں مطلق نقصان نہ پہنچا۔ ان کی سواریاں سمندر میں اس طرح جا رہی تھیں جیسے خشکی پر سفر کر رہی ہوں۔ سمندر کا پانی اونٹوں کے صرف پاؤں تک تھا۔ ممکن ہے کہ اس وقت خلیج فارس میں جزر آیا ہو یا روایات میں مبالغہ ہو اور در حقیقت مسلمانوں کو مقامی باشندوں کے ذریعے سے کشتیاں دستیاب ہو گئی ہوں جن پر سوار ہو کر انہوں نے سمندر عبور کیا ہو (اگرچہ کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں) پھر بھی اس میں شبہ نہیں کہ مسلمان دارین تک پہنچ ہی گئے اور مفرورین کا سخت مقابلہ کر کے سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا۔ اس جنگ میں انہیں کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اس کی کثرت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ سوار کے حصے میں چھ ہزار درہم اور پیدل کے حصے میںدو ہزار درہم آئے۔ 1؎ بحرین کو علاء کی واپسی: دارین سے فراغت حاصل کر کے علاء بن حضرمی بحرین واپس پہنچے۔ لشکر کے چند لوگوں نے دارین ہی میں رہنا پسند کیا، باقی علاء کے ساتھ آ گئے۔ بحرین پہنچ کر انہوں نے ابوبکرؓ کی خدمت میں فتح کی خوش خبری بھیجی اور خود مزید احکام ملنے تک بحرین میں مقیم رہے۔ اب اگر انہیں خطرہ تھا تو بعض ان بدوی قبائل کی طرف سے جن کا پیشہ ہی لوٹ مار اور غارت گری تھا، یا ایرانیوں کی فریب کاریوں کا جن کے اثر و نفوذ کو مسلمانوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں سخت دھچکا لگا تھا۔ پھر بھی وہ اس طرف سے بڑی حد تک مطمئن تھے کیونکہ دارین جانے سے پہلے ہی بحرین کے متعدد قبائل اور انباء نے سچے دل سے ان کی اطاعت قبول کر کے اپنے آپ کو مسلمانوں کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ 1؎ ایک روایت میں مذکور ہے کہ علاء نے اس موقع پر جنگ نہیں کی اور یہ جزیرہ بہ دستور اسلامی سلطنت سے الگ تھلگ رہا اور عمرؓ بن خطاب کے زمانے میں اس کی فتح عمل میں آئی۔ ان لوگوں میں پیش پیش عتیبہ بن نہاس اور مثنیٰ بن حارثہ شیبانی تھے۔ ان لوگوں کی کوششوں سے شکست خوردہ قبائل اور فسادی عنصر کا دوبارہ سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ عراق کی جانب پیش قدمی: مثنیٰ بن حارثہ نے تو ایرانی فریب کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد شروع کر دی اور اس غرض کے لیے خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ پیش قدمی کر کے دریائے فرات کے دہانے تک پہنچ گئے۔ مثنیٰ کا عراق کی سرحد پر پہنچ کر دشمنان اسلام کی سرگرمیوں کی روک تھام کرنا اور اس علاقے میں تبلیغ اسلام کی جدوجہد کرنا عراق کی فتح کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ عمان میں جنگ و جدل: بحرین کے واقعات کے بعد اب ہم عمان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں ارتداد کا فتنہ دوسرے علاقوں کے فتنوں سے کسی طرح کم نہ تھا۔ عمان رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایرانیوں کی عمل داری میں شامل تھا۔ ایرانیوں کی جانب سے یہاں جیفر نامی ایک شخص عامل مقرر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی کا پیغام اس تک پہنچانے کے لیے عمرو بن عاص کو اس کے پاس بھیجا۔ جیفر نے کہا مجھے اسلام لانے میں تو کوئی عذر نہیں لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ اگر میں نے یہاں سے زکوٰۃ اکٹھی کر کے مدینہ بھیجی تو میری قوم مجھ سے بگڑ جائے گی۔ اس پر عمرو بن عاص نے اسے پیش کش کی کہ اس علاقے سے زکوٰۃ کا جو مال وصول ہو گا وہ اسی علاقے کے غربا پر خرچ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ جیفر اسلام لے آیا۔ عمرو بن عاص نے بھی ہیں سکونت اختیار کر لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب اہل عمان نے بھی ارتداد اختیار کیا تو عمرو بن عاص تومدینہ چلے آئے اور جیفر پہاڑوں میں بھاگ گیا۔ عمان میں فتنہ ارتداد کا بانیـ: عمان میں فتنہ ارتداد بانی ذوالتاج لقیط بن مالک ازدی تھا جس نے نبوت کا دعویٰ رکھا تھا۔ ابوبکرؓ نے حمیر کے ایک شخص حذیفہ بن محصن غلفانی کو عمان اور قبیلہ ازد کے ایک شخص عرفجہ بن ہرثمہ البارقی کو طبرہ بھیجا تھا اور حکم دیا تھا کہ وہ دونوں ساتھ ساتھ سفر کریں اور جنگوں کا آغاز عمان سے کریں۔ جب عمان میں جنگ ہو تو حذیفہ قائد ہوں گے اور جب مہرہ میں جنگ پیش آئے تو عرفہ سپہ سالاری کے فرائض انجام دیں گے۔ اس سے پہلے ہم ذکر کر چکے ہیں کہ ابوبکرؓ نے عکرمہ بن ابوجہل کو یمامہ میں فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا تھا اور شرحبیل بن حسنہ کو ان کی مدد کے لیے روانہ کیا تھا۔ لیکن عکرمہ نے شرحبیل کا انتظار کیے بغیر مسیلمہ کی فوجوں پر حملہ کر دیا۔ لیکن مسیلمہ نے انہیں شکست دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ ابوبکرؓ نے ان کی جلد بازی پر ملامت کرتے ہوئے انہیں آنے سے منع کر دیا اور حکم دیا کہ عمان جا کر باغیوں کے مقابلے میں حذیفہ اور عرفجہ کی مدد کریں۔ ابوبکرؓ نے ان دونوں سرداروں کو بھی اس کی اطلاع دے دی اور حکم دیا کہ وہ کوئی کام عکرمہ سے مشورہ کیے بغیر نہ کریں۔ عکرمہ ان دونوں سرداروں کے پہنچنے سے پہلے ہی عمان پہنچ گئے۔ جب یہ تینوں اکٹھے ہوئے تو باہم صلاح مشورے کے بعد طے پایا کہ جیفر اور اس کے بھائی عباد1؎ کو جو پہاڑوں میں چھپے ہوئے ہیں، لکھا جائے کہ وہ آ کر اسلامی لشکر سے مل جائیں۔ مسلمانوں کی کامیابی : جب لقیط کو مسلمانوں کے آنے کا پتہ چلا تو وہ لشکر لے کر دبا میں خیمہ زن ہو گیا۔ ادھر جیفر اور عباد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑوں سے نکل کر پہلے صحاء پہنچے اور وہاں سے چل کر اسلامی فوج سے آکر مل گئے۔ دبا کے میدان کار زار میں دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ ابتداء میں لقیط کا پلہ بھاری تھا۔ مسلمان شدید اضطراب کی حالت میں تھے اور ان کی صفوں میں انتشار کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1؎ کامل ابن اثیر میں جیفر کے بھائی کا نام عباد کے بجائے عیاذ لکھا ہے۔ قریب تھا کہ انہیں شکست ہو جاتی کہ اللہ کی نصرت بنو عبدالقیس اور بحرین کے دوسرے قبائل کی جانب سے بھاری کمک کی صورت میں نمودار ہوئی جس سے جنگ کا پانسا بالکل پلٹ گیا۔مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان کی قوت و طاقت میں معتد بہ اضافہ ہو گیا اور وہ بڑھ چڑھ کر لقیط کی فوج پر حملے کرنے لگے۔ اس جنگ میں انہوں نے دشمن کے دس ہزار آدمی قتل کیے، ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا اور کثیر مال غنیمت پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح عمان میں بھی ارتداد کے فتنے کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمانوں کی حکومت پائیدار بنیادوں پر قائم ہو گئی۔ جنگ کے بعد حذیفہ نے عمان ہی میں سکونت اختیار کر لی اور یہاں کے حالات کی درستی اور امن و امان قائم کرنے میں مصروف ہو گئے۔ عرفجہ ابوبکرؓ کی خدمت میں خمس پیش کرنے کے لیے مدینہ چلے گئے اور عکرمہ اپنا لشکر لے کر مہرہ کی بغاوت فرو کرنے اور اسلام کا علم دوبارہ بلند کرنے کے لیے روانہ ہو گئے۔ مہرہ میں جنگ: عکرمہ نے حذیفہ کو جنوبی عرب کے انتہائی مشرقی علاقے عمان میں چھوڑا تھا اور خود مہرہ کی بغاوت فرو کرنے اور ارتداد کا فتنہ مٹانے کی غرض سے بجانب غرب روانہ ہو گئے تھے۔ ان کے ہمراہ مسلمانوں کی بھاری جمعیت تھی، جو زیادہ تر ان قبائل کے لوگوں پر مشتمل تھی جو ارتداد سے تائب ہو کر دوبارہ اسلام کی آغوش میں آ چکے تھے۔ مہرہ پہنچ کر انہیں دو جماعتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف تھیں۔ ہر جماعت چاہتی تھی کہ ملک کا اقتدار اسی کے ہاتھ میں رہے اور دوسری جماعت اس کے ماتحت رہ کر زندگی بسر کرے۔ یہ صورتحال دیکھ کر عکرمہ نے مناسب سمجھا کہ وہ کمزور جماعت کو ساتھ ملا کر اس کی مدد سے طاقت ور جماعت پر غلبہ حاصل کریں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور کمزور جماعت کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ شروع کر کے اسے اسلام لانے کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی۔ عکرمہ اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر کے اپنی فوج اور اہل مہرہ کے نو مسلم لوگوں کو لے کر طاقت و ر جماعت کے مقابلے کیلئے روانہ ہوئے۔ اس موقع پر دبا سے بھی زیادہ گھمسان کا رن پڑا جس میں انجام کار مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور انہیں کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا۔ عکرمہ نے فتح کی خوش خبری اور خمس ارسال کرنے کے علاوہ حلیف جماعت کے سردار کو بھی ابوبکرؓ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا اور خود امن و امان بحال کرنے کی غرض سے کچھ عرصے کے لیے مہرہ ہی میں ٹھہر گئے۔ جب یہاں کے حالات کے متعلق انہیں کامل اطمینان ہو گیا تو خلیفتہ المسلمین کے احکام کے مطابق بھاری فوج کے ہمراہ جس میں دیگر قبائل کے علاوہ اہل مہرہ بھی شامل ہو گئے تھے۔ مہاجر بن ابی امیہ کی مدد کے لیے یمن کی جانب روانہ ہو گئے۔ یمن میں قیام امن کی مساعی: عکرمہ ساحل کے ساتھ ساتھ مہرہ سے حضرت موت اور کندہ کی جانب بڑھے اس سفر میں انہیں کسی خاص دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ کیونکہ حضرت موت مہرہ سے ملحق ہے البتہ مہاجر بن ابی امیہ کو وہاں تک پہنچنے میں سخت مشکلات پیش آئیں کیونکہ انہیں شمالی جانب سے یمن پہنچنا تھا۔ عکرمہ مہاجر سے ملنے کی خاطر تیزی سے سفر کرتے یمن پہنچے۔ یمن کی بغاوت کو مدت دراز گزر چکی تھی اور فتنے کے جراثیم نے سارا علاقہ سخت مسموم کر رکھا تھا۔ اس لیے اب کہ دوسرے علاقوں سے بغاوت اور فتنہ و فساد کے شعلے سرد کیے جا چکے تھے، ضروری تھا کہ یمن میں بھی امن و امان قائم کرنے کی سعی بلیغ کی جاتی تاکہ نہ صرف اس علاقے کی جانب سے سلطنت اسلامیہ کو اطمینان نصیب ہوتا بلکہ کندہ اور حضر موت کے بقیہ مرتدین کے استیصال میں بھی آسانی پیدا کی جا سکتی۔ یمن میں بغاوت کے اسباب: صفحات ما قبل میں اسود عنسی کی بغاوت کا حال بالتفصیل بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح ا س نے نبوت کا دعویٰ کر کے صنعاء کی طرف کوچ کیا، کس طرح انتہائی سرعت سے مکہ اور طائف تک اس کا اثر جا پہنچا اور کس طرح اس کی بیوی آزاد کی سازش سے جو قبل ازیں صنعاء کے بادشاہ شہر بن بازان کی زوجیت میں تھی، عنسی کیفر کردار کو پہنچا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عنسی کے قتل کی خبر مدینہ میں عین اس روز پہنچی جس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا۔ ابوبکرؓ نے فیروز کو یمن کا حاکم مقرر فرمایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر وفات سن کر بغاوت کے شعلے ایک بار پھر زور و شور سے بھڑک اٹھے۔ مزید برآں کئی عوامل اس قسم کے پیدا ہو گئے جنہوں نے اس آگ کو بھڑکانے میں اور زیادہ مدد دی۔ شورش یمن کا پہلا سبب: بغاوت کی آگ کو زیادہ بھڑکانے کا پہلا سبب یہ بنا کہ اس علاقے میں ایک متحدہ حکومت قائم کرنے کے بجائے اسے مختلف عمال کے درمیان تقسیم کر دیا گیا۔ چنانچہ بازاران کی وفات کے بعد یمن کی حکومت میں اس کے بیٹے شہر کے علاوہ دیگر عمال کو بھی شریک کر لیا گیا۔ شہر کو صنعاء کی ولدیت سپرد کی گئی اور دیگر عمال کو نجران اور ہمذان وغیرہ کی۔ اس صورت حال نے اسود عنسی کو بغاوت کرنے پر مزید جرات دلائی۔ صرف یمن ہی کا یہ حال نہ تھا بلکہ یمن کے شمالی علاقے میں بھی جو کہ اور طائف تک پھیلتا چلا گیا تھا، سلطنت کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اسے مختلف عمال کے زیر حکومت دے دیا گیا، چنانچہ تہامہ کا وہ علاقہ جو ساحل بحر کے متوازی واقع تھا ایک حاکم کے ماتحت تھا اور انرونی علاقہ دوسرے عمال کے ماتحت۔ اسود عنسی کا فتنہ فرو ہو جانے کے بعد ان عمال میں سے ہر ایک نے یہی چاہا کہ وہ اپنی جگہ واپس جا کر عنان حکومت ہاتھ میں سنبھالے اور اگر اس مقصد کے لیے لڑنا بھی پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے۔ دوسری طرف اسود عنسی کے مددگاروں کو یہ صورت حال گوارا نہ تھی کہ جو علاقہ عنسی نے سخت کوشش اور جدوجہد کے بعد قبضے میں کیا تھا وہ دوبارہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ اس لیے انہوں نے بھی مسلمان حکام کو دوبارہ اپنے اپنے علاقوں پر مسلط ہونے سے روکنے اور اسود عنسی کی جگہ لینے کے لیے کارروائی شروع کر دی۔ تیسری جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب میں ارتداد کا فتنہ وبا کی طرح پھوٹ پڑا تھا اور ہر قبیلے کی یہ کوشش تھی کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت سے آزاد ہو کر اور اسلامی حکومت کا جو ا گردن سے اتار کر خود مختاری حاصل کر لے۔ ان تمام اسباب نے مل کر یمن اور اس کے ملحقہ علاقے میں، جو اسود عنسی اور اس کے مددگاروں کی سرگرمیوں کا مرکز تھا، شدید ہیجان و اضطراب پیدا کر دیا۔ اسود کے بعد مددگاروں کی سرگرمیاں: اسود عنسی کی موت کے بعد بھی اس کے مددگاروں کا جوش و خروش ٹھنڈا نہ ہو سکا تھا اور انہوں نے نجران اور صنعا کے علاقے میں سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دی تھیں۔ عمرو بن معدی کرب نے جو شاعر ہونے کے علاوہ اعلیٰ درجے کا بہادر بھی تھا، جس کی شجاعت اور جواں مردی کی دھاک سارے عرب پر بیٹھی ہوئی تھی اور جس نے عنسی سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا تھا۔ یہ موقع غنیمت جان کر مسلمانوں کے خلاف علم شورش بلند کر دیا اور قیس بن عبد یغوث کو ساتھ ملا کر فیروز کو یمن سے نکال دیا، ساتھ ہی داذویہ کو بھی ملک بدر کر دیا۔ اس طرح یمن میں دوبارہ فتنہ برپا ہو گیا اور اس علاقے میں امن کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے سب سے ضروری امر یہ تھا کہ مدینہ اور یمن کے درمیانی راستے میں امن و امان قائم کیا جائے۔ اس راستے پر، جو ساحل بحر کے ساتھ ساتھ چلا گیا تھا، عک اور اشعریین کے بعض قبائل آباد تھے۔ انہوں نے شورش پسندوں سے مل کر مسلمانوں کے لیے یہ راستہ مسدود کر دیا۔ طائف اس راستے کے بالکل قریب واقع تھا۔ وہاں کے حاکم طاہر بن ابی ہالہ نے تمام واقعات سے ابوبکرؓ کو اطلاع دی اور خود ایک لشکر جرار لے کر ان لوگوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو گیا۔ بڑی سخت لڑائی ہوئی اور جس میں مفسدین کو شکست فاش اٹھانی پڑی۔ ان کے بے شمار آدمی قتل ہوئے۔ مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ان کی لاشوں سے سارا راستہ پٹ گیا اور آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی۔ ابوبکرؓ فتح کی خوش خبری پہنچنے سے پہلے ہی طاہر کو خط لکھ چکے تھے۔ جس میں اسے ڈھارس دیتے ہوئے ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے کی تلقین اور ہدایت کی گئی تھی کہ جب تک اس راستے میں، جس پر خبیث لوگ قابض ہیں، امن و امان قائم نہ ہو جائے اس وقت تک وہ اعلاب1؎ میں مقیم رہے۔ اس روز سے قبیلہ عک کی فوجوں کا نام جموع الاخابث اور راستے کا نام طریق الاخابث پڑ گیا۔ بعد میں لمبے عرصے تک یہ نام عربوں میں رائج رہے۔ شورش و اضطراب کا دوسرا سبب: یمن میں فتنے کے بھڑکنے اور اس میں شدت پیدا ہونے کا دوسرا بڑا سبب قومیت کا اختلاف تھا۔ شہر کے قتل ہونے کے بعد ابوبکرؓ نے صنعاء میں فیروز کو حاکم مقرر فرمایا تھا۔ اسود کے قتل کی سازش میں فیروز کے ساتھ شہر کے دو وزیر، داذویہ اور حشبنس اور سپہ سالار قیس بن عبد یغوث شریک تھے۔ فیروز، دادویہ اود حشبنس فارسی الاصل تھے۔ لیکن قیس عربی النسل اور یمن کے قبیلہ حمیر میں سے تھا۔ اس لیے جب ابوبکرؓ نے فیروز کو حاکم مقرر کیا تو قیس کو یہ بات بری لگی اور اس نے فیروز کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا۔ قیس کی فتنہ انگیزی: لیکن جب قیس نے گہری نظر سے حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ فیروز کا قتل آسان کام نہیں کیونکہ اس صورت میں تمام انباء اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ انباء ان ایرانی النسل لوگوں کو کہا جاتا تھا جنہوں نے سلطنت ایران کے دو اقتدارمیں یمن کو وطن بنا لیا تھا۔ یہاں انہوں نے بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر لیا حتیٰ کہ حکومت میں بھی ان کا عمل دخل ہو گیا۔ انباء کی طاقت و قوت کے پیش نظر قیس کے لیے ضروری تھا کہ وہ یمن کے تمام عربی قبائل کو ساتھ ملا کر وہاں کے ایرانی النسل باشندوں کا پوری طرح قلع قمع کرنے کی کوشش کرتا ورنہ اسے بھی ایسے ہی انجام سے دو چار ہونا پڑتا جس سے اسود کو ہونا پڑا اور اسے بھی اپنی جان اسی طرح کھونی پڑتی جس طرح اسود کی جان گئی۔ 1؎ اعلاب: مکہ اور ساحل بحر کے درمیان ایک مقام ہے جہاں بنوعک بن عدنان آباد تھے۔ چنانچہ اس نے ذوالکلاع حمیری اور یمن کے دوسرے عربی النسل سر بر آوردہ اشخاص اور سرداروں کو لکھا کہ انباء نے زبردستی تمہارے علاقے پر تسلط پر جمالیا ہے اور ناجائز طور پر ایران سے آ کر یہاں آباد ہو گئے ہیں۔ اگر تم نے ان کی طرف سے بے پروائی برتی تو عنقریب تم پر پورے طور سے غالب آ جائیں گے۔ میری رائے ہے کہ ان کے سرداروں کو قتل کر کے انہیں ملک سے نکال دیا جائے۔ تم اس کام میں میری مدد کرو۔ قیس کے جواب میں ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں نے غیر جانب داری کی پالیسی اختیار کیے رکھی، نہ قیس سے مل کر انباء کے خلاف کارروائی کی اور نہ انباء کی مدد کر کے قیس کو زک پہنچانی چاہی۔ قیس کو انہوں نے کہلا بھیجا کہ ہم اس معاملے میں دخل دینے سے معذور ہیں۔ تم اپنے ساتھیوں سے مل کر جو مناسب سمجھو کرو۔ انہیں انباء کے خلاف قیس کی مدد کرنے میں غالباً کوئی عذر نہ بھی ہوتا لیکن انہیں معلوم تھا کہ اس صورت میں ابوبکرؓ یقینا انباء کی مدد کریں گے کیونکہ انباء بدستور اسلام پر قائم اور مدینہ کی حکومت کے کامل فرمانبردار تھے۔ اس صورت میں ان کے خلاف محاذ قائم کرنا اپنے آپ کو ایسی مصیبت میں پھنسا لینے کے مترادف تھا جس کے متعلق کوئی نہ جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا، خصوصاً اس صورت میں کہ ارتداد کی وبا پھیل جانے کے باعث یمن اسلامی فوجوں کی آماجگاہ بننے والا تھا اور اس سے پہلے مسلمان ہر میدان میں فتح یاب ہو چکے تھے۔ معاونین عنسی سے قیس کی استمداد: ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں کے انکار کے باوجود قیس شکستہ خاطر نہ ہوا بلکہ اب اس نے خفیہ طور پر ان گروہوں سے خط و کتابت کرنی شروع کی جنہوں نے اسود عنسی کے خروج کے زمانے میں اس کی (عنسی کی)مدد کی تھی اور انباء کو یمن سے نکالنے میں ان کی مدد کا طالب ہوا۔ وہ لوگ پہلے ہی سے چاہتے تھے کہ انہیں اس غیر ملکی عنصر سے نجات ملے انہوں نے بڑی خوشی سے قیس کا ساتھ دینا منظور کر لیا اور اسے لکھ دیا کہ ہم تمہاری مدد کے لیے جلد از جلد پہنچ رہے ہیں، مطمئن رہو۔ چونکہ یہ خط و کتابت انتہائی خفیہ تھی اور فوجوں کی نقل و حرکت میں بھی نہایت راز داری برتی گئی تھی۔ اس لیے اہل صنعاء کو ان فوجوں کی اطلاع اس وقت تک نہ مل سکی جب تک وہ شہر کے بالکل قریب نہ پہنچ گئیں۔ جب ان فوجوں کے آنے کی خبر شہر میں پھیلی تو قیس فوراً فیروز کے پاس پہنچا اور اس پر یہ ظاہر کیا کہ اسے بھی یہ خبر ابھی ابھی اچانک ملی ہے۔ چہرے پر بھی اس نے گھبراہٹ اور سراسیمگی کی علامات پیدا کر لیں اور انتہائی مکاری سے کام لیتے ہوئے اس نے فیروز اور داذویہ سے موجودہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے متعلق مشورہ کیا۔ مزید صلاح مشورے کے لیے اس نے فیروز، داذویہ اور حشبنس کو اگلے روز صبح اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ داذویہ کا قتل: داذویہ حسب قرار داد اگلے روز قیس کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے دونوں ساتھی فیروز اور حشبنس ابھی تک نہ آئے تھے۔ جوں ہی داذویہ نے گھر میں قدم رکھا قیس نے تلوار کا ہاتھ مار کر اس کا کام تمام کر دیا تھوڑی دیر بعد فیروز بھی آ پہنچا مگر دروازے میں داخل ہوتے ہی اس نے سنا کہ اس کے ساتھیوں کے قتل کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ گھوڑے پر سوار ہو کر سرپٹ بھاگا۔ راستے میں اسے حشبنس ملا۔ یہ ماجرا معلوم ہونے پر وہ بھی اس کے ساتھ ہو لیا اور انہوں نے کسی ایسی جگہ کی تلاش شروع کی جہاں وہ دونوں پناہ لے سکیں۔ قیس کے آدمیوں نے گھوڑوں پر سوار ہو کر ان کا پیچھا کیا لیکن وہ انہیں نہ پا سکے اور ناکام واپس آ گئے۔ فیروز اور حشبنس جبل خولان پہنچے جہاں فیروز کی ننھیال تھی۔ لیکن انہیں اب تک یقین نہ تھا کہ وہ ہلاکت سے بچ گئے ہیں۔ صنعاء پر قیس کا مسلط: قیس صنعاء پر قابض ہو گیا اور بڑے اطمینان سے وہاں حکومت کرنی شروع کر دی۔ اس سے یہ خیال بھی نہ آ سکتا تھا کہ اب کوئی شخص اس کے اقتدار کو چیلنج اور اسے حکومت سے محروم کر سکتا ہے اسے معلوم ہوا کہ فیروز ابوبکرؓ سے مدد طلب کرنے اور بنو خولان کو ساتھ ملا کر اس پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ سن کر اس نے ازراہ تمسخر کہا: خولان کو دیکھو اور فیروز کو دیکھو۔ اس احمق کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ خولان کی قوت و طاقت کتنی ہے جس کے بل بوتے پر وہ مجھ سے مقابلہ کرنے کا خواہش مند ہے۔ قبیلہ حمیر کے عوام بھی قیس کے ساتھ مل گئے البتہ قبیلہ کے سرداروں نے اس کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گوشہ عزلت میں مقیم ہو گئے۔ ابناء سے قیس کا سلوکـ: جب قیس کو اپنی قوت و طاقت کا پوری طرح اندازہ ہو گیا تو اس نے ابناء پر توجہ مبذول کی اور انہیں تین گروہوں میں تقسیم کر کے ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ سلوک روا رکھا۔جن لوگوں نے قیس کی اطاعت قبول کر لی اور فیروز کی طرف میلان ظاہر نہ کیا انہیں اس نے کچھ نہ کہا، وہ اور ان کے اہل و عیال بدستور اپنی اپنی جگہ مقیم رہے۔ لیکن جو لوگ بھاگ کر فیروز کے پاس چلے گئے ان کے اہل و عیال کو اس نے دو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک گروہ کو عدن بھیج دیا تاکہ وہ جہازوں میں سوار ہو کر اپنے وطن چلے جائیں اور دوسرے گروہ کو خشکی کے راستے خلیج فارس کی جانب روانہ کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے شہروں کو چلے جائیں اور ان میں سے کوئی یمن میں نہ رہے۔ قیس کی شکست: فیروز کے اہل وطن پر جو کچھ بیتی اسے اس کا سارا حال معلوم ہو گیا۔ اسنے اپنی مدد کے لیے ان قبائل کو ابھارنا شروع کیا جو بدستور اسلام پر قائم تھے اور اس طرح مذہبی عصبیت کے ذریعے سے وطنی عصبیت کا سد باب کرنا چاہا۔ بنو عقیل بن ربیعہ اور بنو عک نے اس کا ساتھ دیا اور وہ ایک فوج مرتب کر کے قیس کے مقابلے کے لیے روانہ ہوا۔ صنعاء سے کچھ دور قیس کی فوجوں سے اس کا مقابلہ ہوا جس میں قیس کو شکست ہوئی۔ فیروز نے دوبارہ صنعاء پر قبضہ کر لیا اور خلیفتہ المسلمین کی طرف سے دوبارہ وہاں کی امارت سنبھال لی۔ قیس اپنے ہزیمت خوردہ لشکر کے ساتھ بھاگ کر اسی جگہ جا پہنچا جہاں وہ اسود عنسی کے وقت موجود تھا۔ اس کی شکست سے اس قوی عصبیت کا خاتمہ ہو گیا۔ جس کے بل بوتے پر اس نے اپنی دعوت کی بنیاد رکھی تھی۔ فیروز کی فتح اور تخت امارت پر اس کے دوبارہ متمکن ہونے سے بھی یمن میں متوقع امن قائم نہ ہو سکا۔ صناء میں تو بے شک فیروز کی حکومت قائم ہو گئی لیکن باقی یمن بدستور بغاوت کی آگ میں جل رہا تھا اور وہاں کے مرتدین مسلمانوں کے مقابلہ میں جمع ہوئے تھے۔ یمن اور حجاز کی دیرینہ دشمنی: اس جگہ ایک تیسرے سبب کا ذکر کر دینا بھی مناسب ہے جس نے اس علاقے میں بغاوت کے شعلے بھڑکانے میں مدد دی اور وہ تھا یمن اور حجاز کا دیرینہ جذبہ عناد و مخاصمت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں حجازیوں کے ہاتھوں یمن کے بنی حمیر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ ابوبکرؓ کے عہد میں اگرچہ خالدؓ اور عکرمہ کی فتوحات نے اہل یمن کے دلوں پر اثر ضرور کیا تھا اور وہ مسلمانوں سے دہشت زدہ ہو گئے تھے پھر بھی ان میں ابھی ایک بہادر شخص ایسا موجود تھا جس کی ہیبت سے بڑے بڑے بہادر کانپتے تھے اور وہ تھا عرب کا مشہور شہسوار اور بطل جلیل عمرو بن معدی کرب۔ یہ شخص قبیلہ بنو زبید سے تعلق رکھتا تھا اور اس پر اہل یمن کو بجا طور پر فخر تھا۔ بعد میں یہ شخص مسلمان ہو گیا۔ عمرؓ کے عہد کی فتوحات کے دوران میں اس نے مسلمانوں کی جانب سے بہت سے کارہائے نمایاں انجام دئیے جن کا ذکر آج تک کتب تاریخ میں محفوظ چلا آ تا ہے۔ باوجود پیرانہ سالی کے اس کی بہادری میں مطلق کمی نہ آئی۔ جنگ قادسیہ کے وقت اس کی عمر سو سال سے بھی متجاوز تھی لیکن اس نے معرکے میں جوانوں سے بڑھ کر شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ عمرو بن معدی کرب کی بغاوت: عمرو بن معدی کرب نے اپنی بہادری کے زعم میں اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور قیس بن عبد یغوث کو بھی ساتھ ملا لیا۔ یہ دونوں ہر قبیلے میں جاتے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر علم بغاوت بلند کرنے پر آمادہ کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سوا نجران کے عیسائی باشندوں کے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد مودت باندھا تھا اور ابوبکرؓ کے عہد میں بھی اپنے اسی معاہدے پر بہ دستور قائم رہے، باقی تمام قبائل نے عمرو بن معبدی کرب کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ عکرمہ اور مہاجر یمن میں: مسلمان اس صورت حال سے مطلق نہ گھبرائے۔ ایک طرف عکرمہ بن ابوجہل مہرہ سے یمن پہنچے اور اپنے لشکر کے ہمراہ مقام ابین میں فروکش ہوئے۔ دوسری جانب سے مہاجر بن ابی امیہ ابوبکرؓ کے عطا کردہ علم کے ہمراہ مکہ اور طائف سے گزرتے ہوئے جنوبی کی طرف روانہ ہوئے۔ بیماری کے باعث ان کی روانگی یمن میں چند ماہ کی تاخیر ہو گئی تھی۔ مکہ طائف اور نجران سے سینکڑوں آزمودہ کار اور جنگی لیاقت رکھنے والے اشخاص آپ کے ساتھ ہو گئے۔ جب اہل یمن کو ان سپہ سالاروں کے آنے کی اطلاع ہوئی اور انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مہاجر بن ابی امیہ نے راستے میں اپنے ایک مد مقابل قبیلے کو کلیتہً تہ تیغ کر دیا ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ ان کی یہ بغاوت خود انہیں کے لیے وبال جان بن جائے گی۔ اگرچہ انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تو ہرگز تاب مقاومت نہ لا سکیں گے ۔سینکڑوںلوگ قتل ہو جائیں گے اور بقیۃ السیف کو مسلمان غلام بنا کر ساتھ لے جائیں گے۔ قیس اور عمرو میں پھوٹ: ابھی اہل یمن اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ ان کے سرداروں، قیس اور عمرو بن معدی کرب میں پھوٹ پڑ گئی اور اس امر کے باوجود کہ دونوں نے مہاجر سے مقابلہ کرنے کا عہد کیا تھا دونوں در پردہ ایک دوسرے کو زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ قیس اور عمرو کی گرفتاری: آخر عمرو بن معدی کرب نے مسلمانوں سے مل جانے کا فیصلہ کیا ایک رات اس نے اپنے آدمیوں کے ساتھ قیس کی فرودگاہ پر حملہ کیا اور اسے گرفتار کر کے مہاجر کے سامنے لے جا کر پیش کر دیا۔ مہاجر نے قیس ہی کو گرفتار کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ ساتھ ہی عمرو بن معدی کرب کو بھی گرفتار کر کے ابوبکرؓ کی خدمت میں مدینہ روانہ کر دیا کہ وہ ان کے متعلق جو چاہیں فیصلہ صادر فرمائیں۔ ابوبکرؓ کی جانب سے معافی: ابوبکرؓ نے داذویہ کے قصاص میں قیس کو قتل کرنا چاہا اور اس نے کہا:ـ اے قیس! تو اللہ کے بندوں اور بے گناہ لوگوں کو ناحق قتل کرتا ہے اور مومنین کو چھوڑ کر مرتدین و مشرکین کی پناہ و امداد کا سہاراڈھونڈتا ہے۔ قیس نے داذویہ کے قتل سے انکار کیا۔ چونکہ اس کے خلاف واضح شہادت مہیا نہ ہو سکی۔ (کیونکہ یہ قتل انتہائی راز داری سے اور لوگوں کی نظروں سے چھپا کر کیا گیا تھا) اس لیے ابوبکرؓ نے اسے معاف کر دیا اور قصاص میں قتل نہ کیا۔ اس کے بعد ابوبکرؓ نے عمرو بن معدی کرب کی طرف توجہ فرمائی اور کہا: تجھے شرم نہیں آتی۔ تجھے روزانہ ذلتیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تو اپنے کرتوت سے باز نہیں آتا۔ اگر تو دین اسلام کی سربلندی کے لیے اپنی مساعی صرف کرتا تو اللہ بھی تجھے سربلند کر دیتا اور عزت بخشتا۔ عمرو بن معدی کرب نے جواب دیا: بے شک مجھ سے قصور ہوا۔ میں آپ سے اقرار کرتا ہوں کہ آئندہ مجھ سے اس قسم کی حرکات سر زد نہ ہوں گی اور میں مملکت اسلامیہ کا نیک شہری بن کر زندگی بسر کروں گا۔ اس پر ابوبکرؓ نے اسے بھی معاف کر دیا اور ان دونوں کو ان کے قبیلوں میں واپس بھجوا دیا۔ یمن میں امن و امان کا قیام: ادھر مہاجر نجران سے چل کر صنعاء پہنچے اور اپنے لشکر کو ان سرکش گروہوں کی سرکوبی کا حکم دیا جو اسود عنسی کے زمانے سے اس خطہ ملک میں فتنہ و فساد برپا کر کے ملک کے امن و امان کو غارت کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے لوگوں کو یہ ہدایت بھی دی کہ ان لوگوں میں سے وہ جس پر بھی قابو پائیں اسے بے دریغ قتل کر ڈالیں تاکہ فتنے کی جڑ کٹ سکے اور لوگوں میں دوبارہ فساد کے جراثیم نہ پھیل سکیں۔ عکرمہ نے اپنا قیام جنوبی یمن ہی میں رکھا اور وہاں قبائل نخع اور حمیر کی سرکوبی میں مصروف رہے۔ شمالی یمن کی طرف بڑھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ان دونوں سرداروں کی پیہم مساعی سے سارے یمن میں کاملاً امن و امان قائم ہو گیا اور یہاں کے باشندوں نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔ اب سارے جزیرہ عرب میں حضر موت اور کندہ کے سوا کسی جگہ مرتدین کا نام و نشان نہ رہا۔ ایرانیوں کی حمایت کا سبب: یہاں ہم بعض ان لوگوں کے شکوک و شبہات کا ازالہ کر دینا مناسب سمجھتے ہیں جو کہتے ہیں کہ آخر ابوبکرؓ نے یمن کے عربوں کے مقابلے میں ایرانیوں کی حمایت کیوں کی اور فیروز اور اس کے ساتھیوں نے کس مصلحت کے پیش نظر قیس کے مقابلے میں ابوبکرؓ کی مدد کی؟ اس شبہ کا جواب بہت آسان ہے۔ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ اسلام عربی اور عجمی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک بڑائی کا معیار صرف ایک ہے اور وہ ہے تقویٰ۔ یمن میں ایرانی النسل لوگ سب سے پہلے ایمان لائے تھے اور اسلام میں سبقت حاصل کرنے کی وجہ سے ابوبکرؓ کی نظر میں ان کی قدر و منزلت تھی۔ لیکن ان کے بالمقابل اس علاقے کے عرب باشندوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کی آگ زور شور سے بھڑکا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہاں اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔اسود کے بعد اس کے مددگاروں اور حامیوں نے بھی فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانے میں اسود سے کچھ کم حصہ نہ لیا۔ عمرو بن معدی کرب اور قیس بن عبد یغوث اس آگ کو ہوا دینے میں پیش پیش تھے۔ لیکن بازان، شہر، فیروز،ا ور دوسرے ایرانی النسل باشندے نہ صرف بہ دستور اسلام پر قائم رہے بلکہ اس خطہ زمین میں صرف وہی لوگ ایسے تھے کہ جب سارا عرب بغاوت اور ارتداد کی آگ سے جل رہا تھا اور مرتدین اور باغیوں کی جرار فوجیں اسلامی فوجوں کے مقابلے میں آ رہی تھیں تو انہوں نے کامل وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے ہر طرح ابوبکرؓ کی مدد کی اور اس فتنے کو فرو کرنے میں اسلامی فوجوں کے دوش بہ دوش حصہ لیا۔ اس صورت میں اگر ابوبکرؓ نے اپنی فوجوں اور سپہ سالاروں کے ذریعے سے فیروز کی مدد کی اور باغیوں پرفتح یاب ہونے کے بعد اسے دوبارہ صنعاء کا امیر مقرر فرما دیا تو اس پر کسی کو اعترااض کی گنجائش کیونکر ہو سکتی ہے؟ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے قبل شہر بن بازان کو سارے یمن کا حاکم مقرر فرما چکے تھے۔ کندہ اور حضرموت میں جدال و قتال ان حوادث اور واقعات کے ذکر کے بعد اب ہمیں کندہ اور حضر موت کے حالات کاجائزہ لینا ہے جہاں کے باشندے بھی ارتداد اختیار کر چکے تھے۔ اور جہاں مہاجرین ابی امیہ اور عکرمہ کے زیر قیادت مرتدین سے آخری جنگیں پیش آئیں۔ رسول اللہ نے اپنی وفات سے قبل زیادہ بن لبید کو حضر موت عکاشہ بن محصن کو سکاک اور سکون مہاجر بن ابی امیہ کو کندہ کاحاکم مقرر فرمایا تھا۔ مہاجر بیماری کے باعث زمام کار سنبھالنے کے لیے کندہ روانہ نہ ہو سکے۔ ان کی غیر موجسدگی میں زیاد بن لبید وہاں کے امور کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ مہاجر کی امارت کندہ کا واقعہ مہاجر کی امارت کندہ کا واقعہ بھی اک گونہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ مہاجر ام المومنین ام سلمہ کے بھائی تھے اور جنگ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ گئے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے ناراض ہو گئے اور ام سلمہ کو بہت رنج ہوا۔ ایک دن وہ آپ کا سر دھو رہی تھیں کہ باتوں باتوں میں انہوںنے آپ سے رقت آمیز لہجے میں اپنے بھائی کی سفارش کرتے ہوئے ناراضگی دور کرنے کی درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجر کا قصور معاف کر دیا اور انہیں کندہ کا امیر مقرر فرما دیا۔ ان کے وہاں پہنچنے تک زید بن لبید ان کی قائم مقامی کرتے رہے۔ اہل کندہ کا ارتداد کندہ یمن کے متصل واقع تھا۔ اسی لیے جونہی اسود عنسی نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا اہل کندہ نے بھی اہل یمن کی طرح اس کی دعوت پر لبیک کہنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ کندہ کے بعض صدقات اور اموال زکوۃ حضر موت کے بعض صدقات اور موال زکوۃ کندہ میں تقسیم کیے جائیں۔ زیاد نے زکوۃ کے حصول پر کچھ سختی برتی جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں میں ان کے خلاف جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ زیاد نے ’’سکون‘‘ کے ان لوگوں کے ذریعے سے جو بہ دستور اسلا م پر قائم تھے کندہ کے شوریدہ سرعناصر کو مغلوب کرنا چاہا لیکن سکون کے کسی بھی شخص نے ان کا ساتھ نہ دیا اور کوئی بھی شخص اہل کندہ کے مقابلے کے لیے نہ اٹھا۔ مسلمانوں سے اشعث کی جنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں ارتداد کا فتنہ پھیلا اور اس کے شعلے حضرموت اور کندہ تک بھی پہنچنے لگے تو زیاد ن اس فنتے کے جڑ سے پکڑنے سے پہلے ہی اس کی بیخ کنی ضروری سمجھی۔ چنانچہ انہوںنے ان قبائل کو ساتھ ملا دیا جو بہ دستور اسلام پر قائم تھے اور غفلت کی حالت میں بنو عمرو بن معاویہ پر حملہ کر کے ان کے مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں کو غلام بنا لیا قیدی عورتیں اور مال غنیمت لے کر وہ اس راستے سے واپس ہوئیء جو اشعث بن قیس رئیس کندہ کے قبیلے کے قریب سے ہو کر گزرتاتھا۔ ان عورتوں میں بعض نہایت معزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ جب یہ قافلہ اشعث کے قبیلے کے پاس سے گزراتو انہوںنے بلند آواز میں کہنا شروع کیا: ’’اے اشعث تیری خلائوں کی عزتیں خطرے میں ہیں تیرا فرض یہ ہے کہ انہیں ذلت و رسوائی سے بچاائے‘‘۔ یہ فریاد سن کا اشعث کی آنکھوں میں خون اترآیا اور اس نے قس کھا لی کہ یا تو وہ ان عورتوں کومسلمانوں کے پنجے سے چھڑا لے گا یا خود لڑ کر جان دے دے گا۔ اشعث بن قیس اپنی قوم کا محبوب اور بلند مرتبہ سردار تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری زمانے میں وہ آپ کی خدمت میں بنی کندہ کے ۸۰ آدمیوں کے ہمراہ مدینہ آیا جو سب کے سب قیمتی ریشمی لباس پہنے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر شعث نے اسلام قبول کر لیا اور ابوبکرؓ کی بیٹی ام فروہ کے لیے شادی کا پیغا دیا۔ ابوبکرؓ نے یہ پیغام قبول کر لیا اور اپنی بیٹی کی شادی اس سے کر دی۔ عورتوں کی فریاد سن کر اشعث نے زبردست اثر و رسوخ سے فوراً ساری قوم کواکٹھا کر دیا وہ سب مسلمانوں سے مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور اپنی عورتوں کے مسلمانوں کی قید سے چھڑا کر ہی دم لیا۔ کندہ کو عکرمہ و مہاجر کی روانگی اس دن سے اشعث نے کندہ اور حضرموت میں بغاوت کی آگ بھڑکانی شروع کر دی اور بیشتر قبائل کو اپنے ساتھ ملا لیا۔یہ حال دیکھ کر نہایت گھبرائے اور انہوںنے مہاجر بن ابنی امیہ کو فوراً کندہ پہنچنے کے لیے لکھا۔ مہاجر اور عکرمہ اس وقت یمن کی بغاوت فرو کر چکے تھے۔ اس لیے وہ دونوں فوراً زیاد کی مدد کو روانہ ہوئے۔ مہاجر صنعاء سے روانہ ہوئے اورعکرمہ عدن سے مارب میں دونوں قائد مل گئے اور صہید کا ریگستان قطع کرتے ہوئے کندہ کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ مہاجر کو زیادہ سے زیادہ کی حالت کا بہ خوبی علم تھا۔ انہوںنے عکرمہ کو تو شکر کے ساتھ چھوڑا اورخود ایک مختصر دستہ لے کر تیزی سے سفر کرتے ہوئے بہت قلیل عرصہ میں زیاد کے پاس پہنچ گئے ۔ جاتے ہی اشعث کی فوجوں پر حملہ کر کے اسے شکست فاش دی ۔ اشعث بھاگ گیا اور اس نے اپنے لشکر کے دیگر مفرورین کے ہمراہ قلعہ بخیر میں پناہ لی۔ قلعہ بخیر کا محاصرہ بخیر ایک مضبوط قلعہ تھا اور اس پر حملہ کرنا آسن نہ تھا۔ وہاں تک پہنچنے میں تین راستے تھے۔ ایک راستے پر تو زیاد نے قبضہ کرلیا۔ دوسرے راستے کی ناکہ بندی مہاجر ے کی تیسر ا راستہ کھلا تھا۔ اس کے ذریعے سے قلعہ والوں کو سامان رسد او رفوجی مدد برابر پہنچتی رہتی تھی۔ آخر عکرمہ بھی اپنی فوج کے ہمراہ آپہنچے اورانہوںنے اس تیسرے راستے پر قبضہ کر لیا جس سے قلعے والوں تک مد د پہنچنی بند ہو گئی اور وہ مکمل طورپر محصور ہوکر رہ گئے۔ عکرمہ نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے شہسواروں کو کندہ سے ساحل بحر تک پھیلا دیا اور حکم دے دیا کہ انہیں جو بھی باغی ملے اسے بے دریغ قتل کر دیں۔ بخیر میں محصور لوگوں نے اپنی قوم کی تباہی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب خون ان کے سامنے بھی موت گردش کر رہی تھی۔ انہوںنے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کیا جائے بعض لوگوں نے کہا: ’’تمہاری موجودہ حالات سے موت بہرحال بہتر ہے تم اپنی پیشانیوں کے بال کاٹ ڈالو اور ا س طرح یہ ظاہر کرو کہ تم نے اپنی جانوں کوخدا کے حضور میں پیش کر دیا ہے‘‘۔ شاید تمام لوگوں نے اپنی پیشانیوں کے بال کاٹ ڈالے اور عہد کیا کہ کوئی بھی شخص اپنے بھائیوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے مقابلے میں راہ فرار اختیار نہ کرے۔ اپنے قبیلے سے اشعث کی بد عہدی صبح ہونے پر وہ لوگ تینوں راستوں سے باہر نکلے اور مسلمانوں سے جنگ شروع کر دی۔ ان لوگوں کی تعداد صرف چھ ہی تھی۔ اس کے بالمقابل مہاجر اور عکرمہ کے لشکر کا شمار ہی نہ تھا۔ جب اہل بخیرنے دیکھا کہ مسلمان بھاری تعداد میں ان کے مقابلے کے لیے موجود ہیں تو انہیں یقین ہو گیا کہ وہ کسی صورت فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ مایوسینے ان پر غلبہ پا لیا اوروہ زندگی سے بالکل ناامید ہو گئے۔ اس وقت اان کے سرداروں کو اپنی جانیں بچانے کی سوجھی۔ اشعث عکرمہ کے پسا آیا اور ان سے درخواست کی کہ وہ مہاجر سے کہہ کر اس کی اور اس کے نو ساتھیوں کی جان بخشی کرا دیں۔ اس کے بدلے وہ قلعے کے دروازے مسلمانوں کے یے کھول دے گا۔ مہاجر نے اشعث کی درخواست منظور کر لی اور اسے ہدایت کی کہ وہ ان لوگوں کے نام جن کی وہ جان بکشی کرانا چاہتا ہے ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے حوالے کر دے۔ اشعث نے اپنے ااہل و عیال اور بھائیوں کے نام تو لکھ دیے لیکن اپنا نام لکھنا بھول گیا اور اسی طرح وہ کاغذ مہر لگا کر مہاجر کے حوالے کر دیاا۔ اس کے بعد اس نے نو آدمیوں کو قلعہ سے نکال دیا اور اس کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے ۔ مسلمانوںنے قلعے میں داخل ہو کر ہر اس شخص کو قتل کر دیا کہ جس نے لڑائی میں حصہ لیا تھا اوران کی عورتوں کو جن کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ تھی قیدی بنا لیا۔ پھر اشعث کو ان پر نگران مقرر کرکے اموال خمس کے ساتھ ابوبکرؓ کی خدمت میں روانہ کر دیا۔ زمانہ کے تصرفات بھی کس قدر عجیب ہوتے ہیں۔ اشعث جو محض اپنی جان بچانے کی خاطر بدترین بدعہدی اور خیانت کامرتکب ہواتھا اورج س نے اپنی قوم کو تلواروں کی دھاروں اور ایک ہازار عورتوں کو ونڈیاں بننے یکے لیے مسلمانوں کے حوالے کر دیا تھا۔ وہی اشعث تھا جو بنی عمر و بن معاویہ کی عورتوں کی اس فریاد کی تاب نہ لا سکا تھا کہ اسے اشعث تیری خالائوں کی عزتیں خطرے یمن ہیں۔ دی آواز سنتے ہی اس کا خون کھول اٹھا اور اس نے اس وقت تک دم نہ لیا جب تک کہ ان میں سے ایک ایک عورت کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھڑا نہ لیا۔ پھریہی اشعث تھا کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا تو اس کی وجاہت اوراپنی قوم میں ہر دلعزیزی کی وجہ سے مسلمانوں نے اس کی عزت و تکریم میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیاتھا۔ لیکن جب اس سے یہ شرمناک فعل صادر ہوا تو مسلمان تو علیحدہ رہے خود اس کی قیدی عورتوں نے اس پر لعنت بھیجی اوراس کانام عرب النار رکھ دیا جس کے معنی یمنی زبان میں غدار کے ہیں۔ لیکن جب موت کا خوف کسی شخص کو لاحق ہو جاتا ہے تو وہ پاے بچائو کی غرض سے ہر قسم کی ذلت برداشت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اور محض اپنی جان کی سلامتی کی خاطر دلیل سے ذلیل ہتھکنڈے اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ اشعث کی روانگی مدینہ مہاجر نے ان لوگوں کو جن کے نام اشعث نے کاغذ پر لکھے تھے بلایا اور انہیں رہا کر دیا۔ لیکن اشعث کا اپنانام چونکہ اس فہرست میں نہ تھا جو خود اس نے مہر لگا کر مہاجر کے حوالے کی تھی۔ اس لیے مہاجر نے اسے قتل کرنا چاہا اور کہا: ’’اللہ کا شکرہے کہ جس نے تیرے دل پر پردے ڈال دیے اورتو اپنا نام فہرست میں لکھوانا بھول گیا۔ میری بڑی خواہش تھی کہ اللہ تجھے ذلیل کرے۔ اب مرنے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ لیکن عکرمہ نے بیچ میں دخل دیتے ہوئے کہا: ’’آپ اسے قتل نہ کریں بلکہ ابوبکرؓ کے پاس بھیج دیں۔ وہ اس کے متعلق جو فیصلہ چاہیں گے صادر فرمائیں گے۔ اگر یہ شخص اپنا نام لکھنا بھول گیا ہے تو اسے اپنا عذر خلیفہ کے سامنے پیش کر دیں گے‘‘۔ مہاجر کو یہ با ت ناگوار تو بہت گزری تھی پھر بھی انہوںنے عکرمہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اسے دوسرے قیدیوں کے ہمراہ ابوبکرؓ کی خدمت میں مدینہ روانہ کر دیا۔ لیکن اشعث کا جینا مرنے سے بدتر تھا کیونکہ راستہ بھر اس کی قوم کے قیدی اور مسلمان محافظ اس پر پھٹکار ڈالتے رہے۔ ابوبکرؓ کی جانب سے اشعث کو معافی مدینہ پہنچنے پر اشعث کو ابوبکرؓ کے حضور پیش کیا گیا۔ ابوبکرؓ نے اشعث سے پوچھا: ’’تیرا کیا خیا ل ہے میں تجھ سے کیا برتائو کروں گا؟‘‘ اشعث نے جواب دیا: ’’مجھے آپ کے ارادے کا علم کیا ہو سکتا ہے۔ پھر بھی میں معافی کا خواستگار اور رحم کا امید وار ہوں‘‘۔ ابوبکرؓنے فرمایا: ’’میرا ارادہ تو تجھے قتل کرنے کا ہے‘‘۔ اشعث نے کہا: ’’میں ہی ہوں جس نے قلعے کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھولے تھے کیا اس کے باوجود مجھے قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ بات طول پکڑ گئی۔ آخر اشعث نے محسوس کیا کہ واقعہ ابوبکرؓ کا ارادہ قتل کرنے اک ہے اس پر اس نے ان سے کہا: ’’میں آپ سے عاجزانہ التماس کرتا ہوں کہ مجھ پر رحم فرمائیںَ میری قوم کی قیدی عورتیں چھوڑ دیں۔ یری لغزش سے درگزر فرمائیں۔ میرا اسلام قبول فرمائیں اور مجھ سے وہی سلوک کریں جو مجھ جیسی حیثیت رکھنے والے اشخاص سے آپ کرتے ہیں۔میری بیوی بھی جو آپ کی صاحبزادی ہیں مجھے واپس دے دیں‘‘۔ ابوبکرؓ نے درخواست کو منظور کرنے میں کچھ تردد کیا۔ اس پر اشعث نے پھر عاجزانہ التجا کرتے ہوئے کہا: ’’آپ مجھے چھوڑ دیجیے۔ میں آئندہ سچے دل سے اسلا م پر قائم رہوں گا اور آپ مجھے بہترین مسلمان پائیںگے‘‘۔ بہت کچھ غور و فکر کے بعد ابوبکرؓ نے اس کی جان بخشی کر نے کا فیصلہ کیا اپنی بیٹی کو دوبارہ اس کے عقد میں دے دیا اور فرمایا: ’’اپنے قبیلے میں واپس چلے جائو۔ امید ہے کہ آئندہ مجھے تمہارے متعلق کوئی شکایت موصول نہ ہو گی‘‘۔ لیکن اپنی قوم سے بدعہدی کرنے کے باعث اشعث اپنے قبیلے میں واپس جانے کی جرات نہ کر سکا اور قید سے چھوٹنے کے بعد ام فروہ کے ساتھ مدینہ میں قیام پذیر رہا عمرؓ کے عہد میں جب عراق اور شام کی جنگیںپیش آئیں تو وہ بھی اسلام فوجوں کے ہمراہ ایرانیوں اور رومیوں سے جنگ کرے کے لیے باہر نکلا اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں اس کا وقار پھر بلند ہو گیا اور اس کی گم گشتہ عزت اسے پھر واپس مل گئی۔ حضرموت اور کندہ میں امن مہاجر اورعکرمہ اس وقت تک حضر موت اور کندہ میں مقیم رہے جب تک وہاں پوری طرح امن و امان قائم نہ ہو گیا اوراسلامی حکومت کی بنیادیں مستحکم نہ ہو گئیں۔ مرتدین کے ساتھ یہ آخری جنگیں تھیں۔ ان کے بعد عرب سے بغاوت کا خاتمہ ہو گیا اور تمام قبائل کا مل طورپر اسلامی حکومت کے زیر نگیں آ گئے۔ ممہاجر نے اس علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور بغاوت وسرکشی کے اسباب کو پوری طرح مٹانے کے لیے اس سختی سے کام لیا جس سختی سے وہ یمن میں کام لے چکے تھے ۔ اس سلسلے میں صرف اس واقعے کا ذکر کرنا کافی ہے اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ مہاجر باغیوں اور مسلمانوں کے مخالفوں کے ساتھ کیسی سختی سے پیش آتے تھے۔ گستاخ رسول کو قتل کر دینا مناسب سزا ہے۔ کندہ میں د و گانے والیاں تھیں۔ ایک مغنیہ اپنے اشعار میں رسول اللہ کو گالیاں دیا کرتی تھی اوردوسری مغنیہ مسلمانوں کی ہجو کرتی تھی۔ مہاجر نے دونوں گانے والیوں کے ہاتھ کاٹ دیے اور اگلے دانت نکلوا دیے۔ جب ابوبکرؓ کو اس واقعے کا علم ہو ا تو مہاجر کو خط لکھا جس میں ان کی غلطیاں واضح کیں۔ انہوںنے لکھا کہ جو مغنیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھیں اسے قتل کر دینا مناسب تھا کیونکہ شتم انبیاء کی سزا دوسری سزائوں سے مشابہ نہیں ہو سکتی ۔ دوسری مغنیہ جو مسلمانوں کی ہجو کیا کرتی تھی اگر وہ ذمی تھی تو اس سے درگزر کرنا مناسب تھا۔ آدمیوں کا مثلہ کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ سخت گناہ ہے اور قصاص کے سوا کسی صورت میں جائز نہیں ۔ ان دوگانے والیوں یس مہاجر نے جو برتائو کیا اسی سے قیاس کیاجا سکتا ہے کہ دوسرے سرکش اور باغی لوگوں سے انہوںنے کس قسم کا سلوک کیاہو گا اور کس سختی سے ان کے ساتھ پیش آئے ہوں گے۔ مہاجر کی امارت یمن ابوبکرؓ نے مہاجر کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ حضر موت اوریمن کی امارت میں سے جسے چاہیں اختیار کریں۔ انہو ںنے یمن کی امارت پسند کی اور صنعاء چلے گئے جہاں فیروز سے مل کر کاروبار حکومت چلانا شروع کر دیا۔زیادہ بن لبید بدستور حضرموت کے حاکم رہے۔ بنت نعمان سے عکرمہ کی شادی عکرمہ نے مدینہ لوٹنے کی تیاریاں شروع کر دیں لیکن ان کے ہمراہ نعمان بن الجون کی بیٹی بھی تھیں۔ جس سے انہوں نے میدان ؤجنگ میں شادی کر لی تھی۔ انہیں معلوم تھاا کہ ام تمیم اور مجاعہ کی بیٹی سے شادی کر لینے کے باعث ابوبکرؓخالد بن ولیدؓ پر سخت ناراض ہوئے تھے لیکن انہوں نے مطلق پرواہ نہ کی اور بنت نعمان کی شادی کر ہی لی۔ اس واقعے سے ناراض ہو کر عکرمہ کی فوج کے بعض لوگوں نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ یہ معاملہ مہاجر کے سامنے پیش کیا گیا لینک وہ بھی کوئی فیصلہ نہ کر سکے اور تمام حالات ابوبکرؓ کی خدمت میں لکھ کر ان کی رائے دریافت کی۔ ابوبکرؓ نے لکھ بھیجا کہ ان کی رائے میں عکرمہ نے شادی کر کے کوئی نامناسب کام نہیں کیا۔ اصل میں واقعہ یہ تھا کہ نعمان بن الجون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ آپ اس کی بیٹی کو اپنے عقد زوجیت میں لے لیں۔ لیکن آپ نے انکارفرما دیا اور اس کی بیٹی کو اس کے والد کے ساتھ عدن واپس روانہ کر دیا۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لڑکی کورد فرما چکے تھے۔ اس لیے کہ عکرمہ کی فوج کے ایک حصے کا خیال تھا کہ آپ کے اسوہ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے عکرمہ کو بھی اس سے شادی نہ کرنی چاہیے تھی ۔ لیکن ابوبکرؓ نے یہ استدلال تسلیم نہ کیا اور عکرمہ کی شادی کو جائز قرار دیا۔ عکرمہ اپنی بیوی کے ہمراہ مدینہ آ گئے اور لشکر کا وہ حصہ بھی جو اس کی شادی کی وجہ سے ناراض ہو کر ان سے علیحدہ ہو گی تھا دوبارہ ان سے آ ملا۔ عرب کی بغاوتوں کا اختتام اب عرب کی تمام بغاوتیں فرو ہو چکی تھیں۔ مرتدین کا قلع قمع ہو چکا تھا اللہ نے اپنے دین کو عزت دے کر اسے غلبہ عطا فرما دیا تھا اور اسلامی حکومت کی بنیادیں اقصائے عرب میں مضبوطی سے قائم ہو چکی تھیں۔ ابوبکرؓ کو اسلام کے غلبے سے بے حد مسرت تھی لیکن ا س مسرت میں غرور و فخروتکبر کا شائبہ تک نہ تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سیہوا۔ ان کی یہ طاقت نہ تھی کہ وہ گنے چنے مسلمانوں کے ذریعے سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر سکتے اورانہیں شکست دے کر اسلام کا علم نہایت شان سے دوبارہ بلند کرسکتے۔ آئندہ اقدام اب ابوبکرؓ کے سامنے یہ مسئلہ تھاا کہ دین کی وحدت کو تقویت دینے اور اسلام کو عروج تک پہنچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں ۔ ابوبکر ؓ کی سیاست کا محور صرف اعلاء کلمۃ الحق تھا۔ یہی خواہش تھی کہ جو ہر آن ان کے دماغ میںگردش کرتی رہتی تھی۔ اسی جذبے کے تحت انہوںنے انتہائی بے سروسامانی ے باوجود مرتدین کے عظیم الشان لشکروں سے جنگیں لڑیں اوریہی جذبہ تھا کہ جو عراق و شام کی لڑائیوں میں کارفرما رہا۔ ٭٭٭ گیارہواں باب اسلامی فتوحات کی ابتداء عرب کی شمالی حدود جزیرہ عرب کا وہ حصہ جو ایک طرف خلیج عقبہ اور دوسری طرف خلیج فارس سے شروع ہو کر بجانب شمال پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اہل عرب کے لیے ہمیشہ ہی سے پرکشش بنا رہاا ہے ۔ خلیج عقبہ کا شمال مشرقی حصہ شام اور خلیج فارس کا شمال مغربی حصہ عراق سے موسوم لیا جاتاہے۔ دونوں خلیجوں کے درمیانی علاقے میں پہاڑوں کا ایک سلسلہ واقع ہے جو صحرائے نفوذ ۱؎ اور دشت شام کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ جرف کے علاقے میں دومتہ الجندل وہ مقام ہے جہاں قدیم زمانے میں شام عراق او ر عرب کی سرحدیں ملتی تھیں۔ اہل شام نسلاً فینقیی تھے اور عراق کے قدیم باشندے اشوری نسل سے تعلق رکھتے تھے ۔ عراق اور شام کے درمیان دشت شام واقع تھا جس نے دونوںملکوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رکھا تھا۔ خوفناک صحرائوں کو عبور کر کے دوسرے علاقوں میں جانا شہری باشندوں کے نزدیک جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ وہ ان گوناگوں خطرات میں پڑنا نہ چاہتے تھے۔ جو صحرائوں میں بالعموم پیش آتے رہتے ہیں۔ علاوہ بریں صحرائوں میں کو ئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جو ان کے لیے ایک کسی قسم کی کشش کا باعث ہو۔ آج بھی جب ذرائع رسل و رسائل میں بے حد ترقی ہو چکی ہے۔ وہاں کے لوگ موٹر میں بیٹھ کر بھی اس صحرا کو عبور کرنے سے گھبراتے ہیں اور عراق و شا م کے درمیان ہوائی جہاز سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ۱؎ صحرائے سماوہ کا جدید نام صحرائے شا م کی جانب نقل مکانی اس صحرا نے جس کی طرف قدیم زمانے میں نہ شام کے فینقیی باشندے متوجہ ہو سکے اور نہ عراق کے اشوری عرب کے بادیہ نشین لوگوں کواپنی طرف کھینچ لیا کیونکہ صحرائوں اورمیدانوں میں عمریں گزارنے کے باعث ان کی سرشت ہی اس قسم کی ہو گئی تھی کہ دنیا بھر کی خوبصورتی اور دلکشی انہیں صحرا میں نظر آتی تھی۔ شہری زندگی کو اس کے تمام لوازم کے باوصف وہ قید تصورکرتے تھے۔ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ شمالی جانب عربوں کی نقل و حرکت سب سے پہلے اس وقت شروع ہوئی جب یمن میں واقع مشہور سدمارب کے ٹوٹنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ بعد میں جب اس خدشے نے یقین کی صورت اختیار کر لی تو ازدی قبائل نے یمن سے نقل وطن شروع کر دیااور بہ جانب شمال حجاز اورشام میں جا کر آباد ہو گئے ۔ عربوں کے شمال میں منتقل ہو جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ رومیوںنے تجارت کے لیے خشکی کا راستہ ترک کر کے سمندری راستہ اختیار کر لیا تھا جس کے باعث جنوبی عرب میں رہنے والے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وروہ بھی بہتر طریق پر زندگی گزارنے کے لیے یمن چلے گئے اورشام چلے گئے۔ مورخین کے نزدیک ترک وطن کا یہ سلسلہ دوسری صدی عیسویٰ میں شروع ہوا اور اگر یہ خیال درست سمجھ لیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ عرب قبائل نے مدت درا ز سے صحرائے شام میں آباد ہونا شروع کر دیا تھا اور وہ نہ صرف باقاعدہ ٹولیوں کی صورت میں وہاں سکونت پذیر ہونے لگے تھے بلکہ لوٹ مار اور تجارت کی غرض سے عربوں کے جو قافلے شام اور عراق جاتے تھے ان سے بھی اکثر لوگ وطن واپس جانے کے بجائے وہیں آباد ہوجاتے تھے۔ شام اور عراق جا کر بسنے والے عربوں کا قیام گوشہروں کے بجائے صحرائی علاقوں میں تھا پھر بھی انہوںنے سکونت کے لیے جن خطوں کو پسند کیا تھا وہ شہری آبادی کے قریب واقع تھے۔ اس کی وجہ محض جذباتی تھی نہ یہ کہ ملکی حالات انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ کیونکہ ایک طرف تو بدوی ہونے کے باعث فطرتاً صحرا کی زندگی کے دل دادہ تھے اور اسے کسی طرح چھوڑ نہ سکتے ھتے۔ دوسری طرف ضروریات زندگی انہیں مجبور کرتی تھیں کہ وہ شہری آبادی کے قریب رہیں تاکہ آسانی سے انہیں حاصل کر سکیں۔ ہر زمانے میں بدوی لوگوں کا یہی حال رہا ہے۔ آج بھی مصر شام اور عراق میں بسنے والے بدو شہروں اور صحرائوں کے درمیان ایسی جگہوں پر آباد ہیں۔ جہاں وہ صحرا کے قدرتی اور دل کش نظارو ں سے بھی لطف اندوز ہوسکیں اور روزی کے وسائل تلاش کرنے کے لیے شہروں تک پہنچنے میں بھی انہیں کوئی دقت پیش نہ آئے۔ قبائل عرب کی شمالی حدودمیں جوق در جوق جا کر آباد ہونے سے شام بھی گویا عر ب کا ایک حصہ بن گیا۔ ان قبائل میں سب سے طاقت ور قبیلہ گسانیوں کاتھا۔ اس قبیلے نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر شام کی سرحدپر ایک سلطنت قائم کر لی۔ بنی غسان کی طرح لخمیوں نے بھی دریائے فرات کے ساحل پر مملکت حیرہ کے نام سے حکومت قائم کر رکھی تھی۔ صحرائے عرب میں بسنے والے ان کے ہم وطنوں کے ابتدا سے جو عادات و اطوار چلے آ رہے تھے شام اور عراق میں بسنے والے عربوں نے ان میں مطلق کوئی تبدیلی نہ کی تھی۔ عربوں کا یہ خاصہ تھا کہ جس ملک میں اقامت پذیر ہوتے تھے۔ وہاں کے باشندوں سے تما م معاملات میں گہرے اشتراک سے کام لیتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوںنے شام میں رومی حکومت اور عراق میں ایرانی سلطنت کے آگے سر تسیلم خم کر دیا تھا۔ چونکہ اطاعت و فرمانبرداری کا یہ جذبہ محض تعاون کی پالیسی کے تحت تھا اوراس میں کسی حاکم کے تسلط کا سواال نہ تھا۔ اس لیے جہاں تک ممکن ہوتا کہ عرب ایک غیر قوم کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے بھی شخصی آزادی اور خود مختاری پر حرف نہ آنے دیتے تھے اور اگر کسی جگہ ان کی شخصی آزادی کو ذرا سا بھی خطرہ لاحق ہوتا تھا تو وہ بڑی شدت سے اس کی مدافعت کرتے تھے۔ یہ امر تعجب خیز ہے کہ بدوی لوگ صحرائی زندگی کے عادی ہونے پر اور دشت نوردی میں مشغول ہونے کے باوجود شہری زندگی کے بھی بے حد دل دادہ تھے۔ چنانچہ جب وہ صحراء سے دورہوتے تھے تو دن رات اس کی تعریف و توصیف کے گیت گایا کرتے تھے لیکن شہری زندگی میں جو سہولتیں اور راحت و آرام کے جو وافر اسباب میسر تھے انہیں بھی وہ ہمیشہ رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے شام کے دل کش مرغزاروں اور پرفضاباغات ‘ تاکستانوں اور وہاں کی حسین و جمیل عورتوں کے تذکرے مکہ و مدینہ اور سارے حجاز میں بکثرت لوگوں کی زبانوں پر رہتے تھے۔ جب کبھی کوئی قافلہ شام کے تجارتی سفر سے واپس آتا تو اہل سفر اپنے ہم جلیسوں اور دوستوں رشتہ داروں اور واقف کاروں سے وہاں کے حالات بالتفصیل بیان کرتے۔ بعد میں مختلف راویوں کے ذریعے یہ باتیں دور دراز کے قبائل تک پہنچ جاتیں۔ جب کبھی وہاں کے مرغزاروں اور حسین و جمی وادیوں کا ذکر آتا تو تعجب کے مارے سامعین کے ملک کھلے کے کھلے رہ جاتے اوروہ پھٹی پھٹی نظروں سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگتے جو ان سے یہ حالات بیان کر رہا ہوتا تھا اور بے اختیار ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش انہیں بھی اپنے ملک میں یہ آسائشیں اورنعمتیں میسر ہوتیں اور وہ بھ ان دل کش مناظر سے لطف اندو ز ہو سکے۔ عربی طرز معیشت سے وابستگی عراق اور شام میں آباد ہونے والے عربی قبائل کا بھی یہی حال تھا۔ اگرچہ فی الحال انہیں شہری آسائشوں سے حصہ وافر ملا ہو ا تھا پھر بھی وہ سب کے سب عربی بود و باش کے دلدادہ تھے۔ کیونکہ عربی النسل ہونے کے علاوہ جزیرہ عرب سے ان کی صدیوں کے تعلقات قائم تھے۔ ان حالات کے بیان کرنے سے میری غرض عراق و شام کے عربوں سے متعلق کوئی تفصیلی مطالعہ لکھنا نہیں بلکہ بعض ان اسرار و رموز کو آشکارکرنا ہے جو لخمیوں اور غسانیوں کے ذریعے سے عربی فتوحات اور ابوبکرؓ کے عہد میں اسلامی سلطنت کی تشکیل کا باعث بنے۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ جنوب سے شمال کی جناب عربوں کا نقل مکان سد مارب کے انہدام اور رومی تجارتی راستوں کا رخ خشکی کے بجائے سمندر کی طرف تبدیل ہونے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ اگرچہ ان ہر دو واقعات کو عربوں کی تاریخ میں بڑ ی اہمیت حاصل ہے پھر بھی نقل مکان کایہ سلسلہ ان واقعات سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ عربوں کے اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ قدیم زمانے سے گہرے تعلقات قائم تھے کیونکہ مشرق اقصیٰ کی تجارت ساری انہیں کے ہاتھوں میں تھی اور وہ تجارت کے سلسلے میں اکثر شام مصر اور روم وغیرہ ممالک میں جاتے رہتے تھے۔ حضر موت سے تجارتی قافلے و راستوں سے شام جایا کرتے تھے۔ ایک راستہ بحرین اور خلیج فارس سے ہوتے ہوئے شا م جاتا تھا۔ دوسرا راستہ یمن اور حجاز سے ہوتا ہوا جاتا تھا مکہ موخر الذکر راستے کے وسط میں پڑتا تھا۔ اس تجارتی سلسلے کا آغاز سب سے پہلے عرب کے جنوبی علاقوں میں یعنی حضر موت یمن ‘ عمان اور بحرین کے لوگوں نے کیا کیونکہ وہ سرسبز وشاداب علاقوں کے مالک ہونے اور ایرانیوں سے گہرے تعلقات رکھنے کی وجہ سے شمالی علاقوں کی نسبت زیادہ مہذب تھے۔ یہ وجہ تھی کہ عراق اور شام کی طرف جن لوگوں نے نقل مکان کیا اور وہاں جا کرآباد ہو ئے ان میں زیادہ تر جنوبی قبائل کے لو گ تھے۔ غسانی جنہوںنے مشرقی شام میں اپنی مملکت قائم کر رکھی تھی عمان کے ایک قبیلہ ازد سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی طرح قضاعہ ‘ تنوخ اور کلب کے قبائل جو شا کی حدود پر آباد تھے۔ یمن کے مشہور قبیلے حمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ یہی حال عراق میں بھی تھا۔ عراق کی سرحد پر جو عربی قبائل آباد تھے وہ زیادہ تر حضرموت سے آئے ہوئے تھے۔ ان قبائل نے ابتدائی زمانوں میں صحرائے شام کی طرف نقل وطن کیاتھا اور عرق و شام کی سرحدوں پر اپنی نیم مختار سلطنتیں قائم کر لی تھیں۔ سدمارب کے ٹوٹنے اور تجارت کے صحرائی اور سمندری راستوں میں منقسم ہونے کے باعث جنوبی علاقوں کے بعض قبائل حجاز میں آ کرآباد ہو گئے۔ پھر ان قبائل میں سے بھی بعض نے روزی کے بہتر وسیلے تلاش کرنے اور صحرائی زندگی سے اکتا کر شہری زندگی کا لطف اٹھانے کی خاطر شام کا رخ کیا۔ ایرانیوں اور رومیوں سے تعلقات کی نوعیت عراق اور شام اس زمانے میں ایرانی اور رومی سلطنت کے درمیان پس رہے تھے ۔ کبھی ایرانی شام پر چڑھائی کر کے اسے رومیوں سے چھین لیتے اور عراق سے ملحق کر کے اسے اپنے ماتحت کر لیتے اور کبھی روی عراق کو ایرانیوں سے چھین کر شام میں ملا دیتے اور وہاں اپنی حکومت قائم کر لیتے۔ صحرائے شام میں آباد ہونے والے عربو کا بھی یہی حال تھا۔ وہ طبیعتوں کی افتاد کے باعث کبھی ایرانی لشکر سے مل جاتے کبھی رومیوں کی افواج سے ملحق ہو جاتے اور لوٹ مار میں خوب حصہ لیتے۔ آخر ان دونوں سلطنتوں نے ارادہ کیا کہ اپنی حفاظت کے لیے صحرا نشین لوگوں کو بہ طور ڈھال استعمال کیا جائے تاکہ کوئی سلطنت دوسری سلطنت پر حملہ نہ کر سکے اور شام کلی طورپر رومیوں کے لیے عراق خاص طورپر ایرانیوں کے لیے وقف ہو جائے۔ رومی اور ایرانی سلطنتوں کی پالیسی کے تحت شامی حدود کے قریب بسنے والے قبائل کو رومیوںنے اپنے ساتھ ملا لیا اور ان قبائل کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ بسنے والے قبائل کو ایرانیوںنے اپنے ساتھ ملا لیا اوران قبائل نے بھی اندرونی خود مختاری بدوی معیشت او رعربی معاشرت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ہمسایہ سلطنتوں کی بالادستی قائم کر لی۔ شام میں مقیم عربی قبائل اپنے قومی خصائص برقرار رکھنے کے باوجود رومی تہذیب و تمدن اور سیاسی اثرات قبول کرنے سے باز نہ رہ سکے ۔ مگر انہوںنے جہاں ایک طرف رومی تہذیب و تمدن کو اپنایا وہاں دوسری طر ف رومیوں پر بھی اثرڈالنے اور مملکت میں نفوذ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ مشہور رومی شہنشاہ فلپ دراصل عربی النسل اور قبیلہ سمیذع سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس قبیلے کے متعلق تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے اسی نے عرب سے شام کی طرف نقل مکان کیا ہے ۔ تخت شاہی پر متمکن ہونے سے پہلے فلپ اپنی قوم کا سردار تھا کہ اس وجہ سے شام میں مقیم عربوں کو بے حد عزت و وقعت حاصل ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود انہوںنے صحرا کو چھوڑنا اوررومیوںمیں مدغم ہوجانا پسندنہ کیا۔ شامی عربوں کے برعکس عراق کی سرحدوں پر آباد ہونے والے عربوں نے صحرا کو چھوڑنے اور عراقی حدود میں داخل ہونے سے پرہیز کیا۔ کیونکہ اس طرح انہیں کلیتہً ایرا نیوںکا مطیع و فرمانبردار ہو کر رہنا پڑتا تھا جسے ان کی آزاد منش طبیعت کسی طرح گوارا نہ کری تھی۔ لیکن بعد میں جب ایرانی سلطنت میں طوائف الملوکی اور خانہ جنگی پھیل گئی اور مختلف قبائل کے سردار اپنے اپے علاقے میں خود مختار حاکم بن بیٹھے تو ان عربوں نے عراقی حدود میں داخل ہونے اوروہاں آباد ہونے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا۔ کیونکہ اب ان کے دلوں سے ایرانی سلطنت کی غلامی کا خوف دور ہو چکا تھا۔ انہوںنے عراق کی حدود میں داخل ہو کر دریائے فرات کے کنارے ابناء کا شہر اور اس سے کچھ ہٹ کر حیرہ کا شہر آباد کیا اوریہاں سکونت پذیر ہو گئے۔ ا س روایت کے برعکس بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتاہے کہ دریائے فرات کے ساحل پر بسنے والے عرب قبائل اصل میںوہ قیدی تھے کہ جنہیں ایرانیوں نے عرب کے جنوبی علاقوںسے تاخت و تاراج کے دوران میںپکڑا تھا۔ بعض مورخین کہتے ہیں خہ شہنشاہ بخت نصر دوم نے عرب پر حملے کے دوران میں جن لوگوں کو قیدی بنایاتھا انہیں وہ ساتھ لے گیا اور عرااق پہنچ کرانہیں دریائے فرات کے کنارے مقام انبار میں آباد کیا لیکن کچھ عرصے ے بعد انہیں انبار سے بہ جانب جنوب منتقل کر دیا۔ وہاں ان عربوں نے شہر حیرہ کی بنیاد رکھی اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ عربوں نے عراق میں اپنا اثر و رسوخ اسی وقت سے بڑھانا شروع کردیا تھا ۔ ۱۵ء اور ۲۶۸ء کے درمیانی عرصے میں جب عراقی عربوں کی قیادت جذیمۃ الابرش یا جذیمۃ الوضاح کے ہاتھ میں آئی تو اس نے کمال ہوشیار سے عراق کی حدود میں آنے واے عربوں کو ساتھ ملا کر حیرہ سے انبار اور عین التمر تک کا علاقہ قبضے میں کر لیا اورفرات کے مغرب میں صحرائے شام تک خود مختار حکومت قائم کر لی۔ اس نے اسی پربس نہ کی بلکہ صحرائے شا م میں بسنے والے ایک عرب قبیلے مضر پر حملہ کر دیا اور وہاں کے باشندوں پر بھی تسلط بٹھا لیا۔ مضر کا ایک شخص عدی بن ربیعہ جذیمہ سے مل گیا تھا جس کی جذیمہ نے بڑی خاطر داری کی اور اسے اعزاز و اکرام سے نوازا۔ عدی نے جذیمہ کی بہن رقاش سے شادی کر لی تھی۔ عربی کتب ادبیات میں دونوں کے متعلق بڑے پر لطف قصے درج ہیں۔ رقاش کے بطن سے عمرو بن عدی پیداہوا جس کاذکر آگے آئے گا۔ جس زمانے میں جذیمۃ الوضاح نے عراق میں عربوں کے بادشااہ کی سی حیثیت حاصل کر رکھی تھی۔ اسی زمانے میں اذنیہ بن سمیذع شام میں مقیم عربوں کی قیادت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ایران کی شہنشاہی سادر کے ہاتھ میں تھی اور روم کی بادشاہی فلپ کے قبضے میں۔ فلپ بہت سنگ دل بادشاہ تھا اور رعایاپر بے حد ظلم و ستم توڑتا رہتا تھا ۔ ان مظالم سے تنگ آ کر اہل شام نے اس کے خلاف بغاوت کر دی سابور نے موقع کو غنیمت جانا اور شام پر چڑھائی کر کے روی فوج کو شکست دے دی۔ کہ سابور کے زیر سایہ وہ بھی عراق میں وہی رتبہ حاصل کر کے جو جذیمہ کو حاصل کر یا تھا لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہو سی اور کیونکہ اسی زمانے میں قالریان نے فلپ کو تخت شاہی سے اتار کر اس کی جگہ بادشاہی سنبھال لی بادشاہ بننے کے بعد اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ فوج لے کر خود شام کی طرف روانہ ہو گیا او رسابور کو شکست دے کر اسے ایران کی جانب بھگ دیا۔ اذنیہ نے بھی حیثیت بدل لی اور دوبارہ رومیوں کا حلیف بن گیا۔ لیکن قالریان کی بادشاہی بھی زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی اور بہت جلد اسے تخت و تاج سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس وقت اذنیہ نے دوبارہ سابور سے مل جانا چاہا لیکن سابور نے اس کی ابن الوقتی کے پیش نظر اسے اپنا حلیف بنانے اور اس کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اذنیہ کو اپنی قیادت کابھرم قائم رکھنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا کہ وہ شامی عربوں کو ساتھ ملا کر ایرانیوں سے اعلان جنگ کر دے۔ اس مرتبہ قسمت نے اس کا ساتھ دیا اوراس نے ایرانیوں کو شکست دے کر مدائن کی طرف بھگا دیا۔ اس کارنامے سے رومیوں کے دلوں میں بھی اس کی قدر و منزلت بڑھ گئی اور وہ سمجھنے لگے کہ ایرانیوں کے مقابلے میں انہیں ایک طاقت ور شخص کی خدمات میسر آ گئی ہیں۔ اذنیہ کے بعد اس کی اولاد حاکم بنی۔ انہیں میں ایک اس کی نہایت حسین و جمیل لڑکی زباء بھی تھی زباء نے جذیمہ کو جال میں پھنسا کر اسے رشتہ ازدواج منسلک ہوجانے کی دعوت دی جو اس نے بڑی خوشی سے قبول کر لی لیکن شادی کے بعد زباء نے موقع پا کر جذیہ کو قتل کرا دیا جذیمہ کے لڑکے عمرو بن عدی کے دل میں آتش انتقام بھڑک اٹھی اور اس نے قیصر بن عمرو کو ساھت لے کر زباء کا محاصرہ کر لیا۔ جب زباء نے دیکھا کہ بچ نکلے کا کوئی راستہ نہیں رہا اور اسے لامحالہ عمرو بن عدی کے ہاتھ سے قتل ہونا پڑے گا تو اس ذلت سے بچنے کے لیے اس نے خود کشی کر لی۔ اس کی وفات سے شام میں بنی سمیذع کی قیادت کا دور ختم ہو گیا اور ان کی جگہ غسانیوں نے لے لی۔ کچھ عرصے بعد بنی نصر کی ایک جماعت نے جو عراق میں برسراقتدار تھی شام کے عربوں پر تسلط بٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بار آور ثابت نہ ہوئی۔ اسلامی فتوحات کا پیش خیمہ ان واقعات کامطالعہ کرنے سے یہ پتا چل جاتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں ابتدا میں قیدی بنا کر سر زمین عرب سے لایا گیاتھا انہوںنے آہستہ آہستہ اتنی طاقت حاصل کر لی تھی کہ رومی اور ایرانی دونوں سلطنتیں ان کی مد د کی محتاج ہو گئیں اور ان کی پوری کوشش ان کی دوستی اور تائید حاصل کرنے میں صرف ہونے لگی۔ شجاعت اورفنون جنگ میں مہارت کی بدولت دونوں سلطنتیں انہیں اندرونی اور ذاتی خو د مختاری دینے پر مجبور ہو گئیں۔ سچ تویہ ہے کہ ایران اور روم کے زیر سایہ بسنے والے عرب قبائل یمن اور حضر موت کے قبائل سے نہ صف یہ کہ کسی طرح کم نہ تھے بلکہ ان قبائل سے زیادہ آزادی اور خود مختاری حاصل تھی۔ اسی لیے اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانے میں عرب کی حدود جنوب میں خلیج فارس اور خلیج عدن سے لے کر شمال میں موصل اورآرمینیہ تک پھیلی ہوء تھیں تو غلط نہ ہو گا۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی غلط نہہو گا کہ ایران اور شام کی حدود میں بسنے والے ان عرب قبائل نے آئندہ ہونے والی اسلامی فتوھات کے لیے مقدمہ الجیش کا کام دیا وار ان علاقوں میں اسلامی سلطنت کے قیام کی غرض سے زمین ہموار کر لی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان لوگوں کے دماغوں میں آئندہ پیش آنے والے واقعات کا دھندلا سا نقشہ بھی نہ تھا اورکسی کوسرزمین عرب میں ایک عظیم الشا ن نبی کی بعثت اور اس کے ذریعے سے عرب قوم کی سربلندی کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن دریائے فرات اور شام کی وادیوں کے درمیان ان قبائل کی سکونت ان کی طرف سے عربی رسوم و رواج اور عادات و خصائل کی شدت سے محافظت اورایران و شام اور عر ب قبائل سے مساوی بنیادوں پر ان کے تعلقات یہ تمام عوامل اس عربی سلطنت کی بنیاد بنے جس نے کامل چار صدی کے بعد ایرانی ورومی سلطنت کی جگہ لی۔ اس جملہ معترضہ کو ختم کر کے ہم ااپنے واقعات کو اسی جگہ سے شروع کر دتے ہیں کہ جہاں سے نہیں ہم نے چھوڑا تھا۔ جذیمۃ الابرش کے قتل کے بعد سابور کی جانب سے عمرو بن عدی کو عراق کے عربوں کا سردار اوعر بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس نے حیرہ کو دارالسلطنت بنا لیا اور اس کے بعد حیرہ س وقت تک لحمیوں کا دارالحکومت رہا جب تک حکومت ان کے ہاتھوں سے چھن نہ گئی۔ شاہان حیرہ عراق میں بسنے والے ایرانی شہنشاہ کے برائے نام محکوم تھے اقتدار حاکم حیرہ ہی ے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ ان عربوں کے فرائض صرف یہ تھے کہ اگر عرب یا شام کی طرف سے ایران پر حملہ ہو تو اسے روکیں اوران تجارتی راستوں کی حفاظت کریں جو فارس سے شام اور عرب کو جاتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود سرزمین ایران پر عربوں کے حملے نہ رک سکے۔ خلیج فارس کا قرب ان حملوں کے لیے ممد و معاون ثبات ہوا۔ وہ نہ صرف خشکی کی را ہ سے حملہ کرتے تھے بلکہ بسا اوقات سمندری راستے سے بھی دھاوا بول دیتے تھے۔ ایرانیوں نے بارہا ان پر حملوں کو روکا آخر ذوالاکتااف کو اپنی حدود میں ایک خندق کھدوانی پڑی تاکہ ان حملوں کی شدت کم ہو جائے اور ایرانیوں کو آئے دن کے درد سر سے نجات ملے۔ بنی نصر کے بادشاہ یکے بعد دیگرے تخت پر متمکن ہوتے رہے آخر چوتھی صدی عیسوی کے اواخر میں شہنشاہ یزدجرد کی طرف سے نعمان اکبر تخت پر بیٹھا۔ یہ شخص تھا جس نے دو مشہور محل خورنق اور سدید تعمیر کرائے تھے۔ مورخین بیان کرتے ہیں کہ عراق میں عیسائیت کا نفوذ نعمان ہی کے عہد سے شروع ہوا اور اس کی وجہ نعمان کی اس مذہب سے گہری دلچسپی تھی۔ پادریوں نے جب اس کا میلان عیسائیت کی طرف دیکھا تو اس کی اجازت سے ملک کے طول و عرض میں کئی گرجے تعمیر کر لیے۔ بعض مورخین تویہاں تک ذکر کرتے ہیں کہ یہ معاملہ صرف دلچسپی تک محدود نہ تھا بلکہ نعمان عیسائیت کا پر جوش رکن بن گیا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ شہنشاہ یزدجرد عیسائیوں کا سخت مخالف ہے اورعیسائیت قبول کرنے والوں کو شدید سزائیں دیتا ہے تو وہ اپنے بیٹے منذر اکبر کے حق میں بادشاہی سے دست بردار ہو گیا اور خود رہبانیت اختیار کر لی۔ شنہشاہ یزدجرد نے اپنے لڑکے بہرام کو بچپن ہی میں حیرہ بھیج دیا تھا تاکہ وہ وہاں پرورش پائے۔ حیرہ میں پرورش پانے کی وجہ سے بہرام کو عربی اور یونانی میں بڑی دسترس حاصل ہو گئی تھی۔ اور عربوں اور رومیوں کے معاشی اور سیاسی حالات سے وہ پوری طرح واقف ہو گیا تھا۔ یزدجرد ی وفات کے بعد ایرانی سرداروں نے کسریٰ بن اردشیر بن سابورذوالا کتاب کو تخت پر بٹھانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس کی پرورش ایران میں ہوئی تھی۔ اور وہ ا س کے عادات و خصائل سے اچھی طرح واقف تھا۔ لیکن بہرام ان کے نزدیک اجنبی کی حیثیت رکھتاتھا۔ بہرام نے اپنا تخت و تاج حاصل کرنے کے لیے منذر سے مدد حاصل کی تھی۔ جب وہ اپنی چھینی ہوئی میراث حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو منذر نے اسے نصیحت کی کہ وہ اپنے دشمنوں سے عفوودرگزرسے کام لے۔ بہرام نے اس نصیحت پ]ر عمل کیا اوراس طرح نہ صرف اپنے مخالف سرداروں اور امراء کو اپنا گرویدہ کر لیا بلکہ انعام واکرام دے کر اور ٹیکسوں کا بوجھ کم کر کے رعایامیںبھی ہر دل عزیزی ختم کر لی۔ عیسائیت بہرام گور اپنے باپ کی طرح عیسائیوں کاشدید دشمن تھا۔ اسی لیے اس نے تخت پر بیٹھتے ہی عیسائتی کے استیصال کی مساعی شرو ع کر دی جس کے نتیجے میں ایران اور روم کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں منذر نے بہرام کی مد د کی۔ پھر بھی یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چلا اور آخر فریقین میں صلح ہو گئی جو مدت دراز تک برقرار رہی ۔ شام میں بنی غسان کے عرب سردار اور حاکم ایرانیوں سے جنگ کے دوران میں رومیوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ اور لخمی ایرانیوں کے حلیف بن کر رومیںکے مقابلے میں نبرد آزما ہوتے تھے۔ ان جنگوں نے جو ان عظیم سلطنتوں کے درمیان رونما ہوئیں فریقین کے مذہبی جذبات کو ابھارنے میں بے حد مدد دی۔ چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں جب قسطنطین نے روی سلطنت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی تو اس وقت مسیحیت نے ترقی یکرنی شروع کی۔ رومی بادشاہوں نے اپنے مقبوضات میں اسے ترویج دینے کی کوشش کی اور عیسائی منادوں نے قریہ بہ قریہ پھر کر حضرت عیسیٰؑ کا پیغام دنیا کو سنانا شروع کیا۔ ان مبلغین نے اپنا دائرہ عمل صرف شام تک محدود نہ رکھا بلکہ عراق اور بلاد فارس میں بھی عیسائیت کی ترویج کے لیے مساعی شروع کر دیں۔ اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایرانیوں اور رومیوں کی ان مذہبی جنگوں کے دوران میں عراق اور شام کے عربی قبائل کا طرز عمل کیا تھا۔ آیا انہوںنے بھی اپے آقائوں کے ادیان کا اثر قبول کر کے مجوسی اور مسیحی مذہب اختیار کر لیا تھا یا وہ بدستور اپنے آبائی مذہب بت پرستی پر قائم تھے؟ اگلی بحث شرو ع کرنے سے پہلے اس سوال کا جواب دینا بے حد ضروری ہے کہ کیونکہ ان سے عربوں کی ذہنی افتاد کا اچھی طرح پتا چل جائے گا اوریہ بھی معلو م ہ وجائے گا کہ اس ذہنی افتاد نے اسلامی فتوحات کے لیے کس طرح راستہ ہموار کیا۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ عربوں نے عرا ق میں ایرانیوں کی اور شام میں رومیوں کی تہذیب و تمدن کا اثر بڑ ی حد تک قبول کر لیا تھا۔ عراق میں رہنے والے بعض عربوں نے فارسی میں اچھی دسترس حاصل کرلی تھی اورایرانی علوم و فنون ادب اور ادیان سے خوب واقف ہو گئے تھے اور انہوںنے مانی زردشت اور مزدک کی تعلیمات اور عقائد سے بھی گہری واقفیت حاصل کر لی تھی ۱؎۔ یہی حال شام یمں مقیم عربوں کا تھا۔ انہوںنے نہ صرف رومیوں کی ثقافت ادب اور ادیان کا مطالعہ گہری نظر سے کیا تھا بلکہ عقلی و ذہنی طورپر ہوہ حیرہ کے عربوں سے زیادہ ترقی یا فتہ تھے کیونکہ یونانی ثقافت اور رومی تہذیب و تمدن سے ا کا بہت قریبی تعلق تھا۔ ۱؎ فجر الاسلام از احمد امین صفحہ ۲۳ از الاعلاق النفسیہ لا بن رستہ عراقی عربوں نے ایرانیوں سے گہرے تعلقات اور میل ملاپ کے باوجود مجوسیت کو بھی قبول نہ کیا۔ اسی طرح شامی عربوں نے رومی اور یونانی دیوتائوں کی کبھی پرستش نہ کی تھی اس کے باوجود جب رومی سلطنت میں عیسائیت کو فروغ حاصل ہوا تو صرف شامی عربوں ہی نے نہیں بلکہ عراقی عربو نے بھی اس کی آواز پر لبیک کہا اور کثرت سے اس نئے دین میں داخل ہونے لگے۔ طبعاً سوال پیدا ہوتا ہے ک جب ان عربوں نے اپے آقائوں کے پہلے ادیان کو قبول نہ کیا تو وہ عیسائیت کی طرف کس طرح مائل ہو گئے؟ مورخین ذکر کرتے ہیں کہ بنو غسان میں سب سے پہلے عیسائی بادشاہ نے عیسائیت کے لیے اس قبول کی کہ شہنشاہ روم اپنی مملکت میں کسی جگہ بھی کسی غیر عیسائی کو حاکم مقرر کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ سی وجہ سے ن لوگوں میں عیسائیت پھیل گئی۔ پھر بھی ہمارا سوال برقرار رکھنا ہے کہ اگر یہ مان بھی لیاجائے کہہ تومی شہنشاہ کے دبائو کے ماتحت غساین امراء عیسائی ہو گئے تھے تو بھی عوام مین عیسائیت کی قبو ل کرنے کی کیا وجہ تھی؟ اگر یہ کہا جائے کہ الناس علی دین ملوکھم کی ضرب المثل کے تحت شامی قبائل اپنے سرداروں کی وجہ سے عیسائی ہو گئے تھے تو یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عراقی قبائل میں سے بیشتر لوگوں نے عیسائیت قبول کیونں کر لی تھی حالانکہ یہی لوگ ایرانیوں کی تائید میں رومیوں سے لڑتے تھے اس صور ت میں ماننا پڑے گا کہ عراق اورشام کے قبائل میں عیسائیت پھیلنے کی کچھ نہ کچھ وجو ہ ایسی تھیںجن کا تعلق عربوں کی ذہنی افتاد اور میلانات سے تھا اور جو ان وجوہ سے سراسر مختلف تھیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ عربوں کی سرشت میں سادگی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ نہ وہ پر پیچ باتیں کرتے اور نہ ایسی باتیں پسند کرتے تھے۔ مزدک اورمانی نے لوگوں کے سامنے جو عجیب و غریب نظریات پیش کیے تھے اسی طرح یونانی فلسفے کی بنیاد جن دقیق اور پر پیچ باتوں پر تھی عربوں کی عقلیں انہیں سمجھنے سے قاصر تھیں۔ اس کے بالمقابل عیسائیت چونکہ اپے اندر بڑی حدتک سادگی لیے ہوئے تھی ا س لیے عربوں نے اسے آسانی سے قبول کر لیا اور بہت ہی کم لوگ مجوسیت کی طرف مائل ہو سکے۔ چونکہ عیسائیت کاآغاز خدا کے ایک نہایت پاک باز بندے کے ذریعے سے ہوا تھا اسے قبول کرنے واالے اہل کتاب شمار ہوتے ہیں اوراسلام کے ظہور کے وقت متعدد نیک دل عیسائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا تھا اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ عراق اور شاام میں بسنے والے عرب باشندوں کا قبول عیسائیت عربی فتوحات اور اسلامی سلطنت کے قیام کے لیے نبیاد ثابت ہوا۔ تبدیلی مذہب سے ان عربوں کی سرشت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ نہ عیسائیت کے پیچھے انہوںنے اپنی شخصی اور قومی آزادی کو چھوڑا وارنہ اس بدویانہ طرز ندگی کو ترک کیا جو وہ صدیوں سے قائم رکھے ہوئے تھے۔ چوتھی صدی عیسوی کے اواخر میں ایک عورت ماریہ بنت ارقم بن حارث ثانی کو شام میں عربوں کی حکومت تفویض ہوئی ۔ رومیوں نے اسے کمزور جانتے ہوئے اس سے بادشاہی چھیننی چاہی کلیکن س نے عورت ذات ہوتے ہوئے بڑی بہادری سے رومیوں کا مقابلہ کیا اور انہیں مصالحت پر مجبور کر دیا۔ لیکن بعد میں جب رومیوں کے خلاف کچھ لوگوں نے بغاو ت کر دی تو ماریہ نے پچھلے واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے متعد د بہترین شہسوارومیوں کی مدد کے لیے بھیجے جنہوں نے قسطنطنیہ جا کر پامردی سے باغیوں کا مقابلہ کیا۔ پھر بھی نہ تو آزادی کا وہ جذبہ جو عراقی اور شامی عربوں میں یکساں جاری و سار ی تھا انہیںمتحد کر سکا اور نہ فریقین کا عیسائیت کی طرف گہرا میلان ہی ان کی باہمی عداوتوں کو مٹانے میں کامیاب ہو سکا۔ اس کے برعکس لخمی اور غسانی ایرانیوں اور رومیوں سے مل کرہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو زک پنچانے کا ہکوئی دقیقہ کبھی فروگزاشت نہ کرتے تھے۔ لخمی اور غسانی اوج کمال پر چھٹی صدی عیسوی کے اوائل میںعراق میں لخمی اور شام میں غسانی ترقی کی آخری منزلوں تک پہنچ گئے۔ اس زمانے میں لخمیوں کی قیادت منذر ثالث کر رہاتھا اور غسانیوں کی حکومت حارث بن جبلہ کے ہاتھ میں تھی۔ نذر ثالث بن ماء السماء شاہ حٰرہ کا دور حکومت ۵۱۴ء تا ۵۶۲ء تھا۔ اسی زمانے میں ایران کے تخت پر قباذ اور کسریٰ نوشیرون یکے بعد دیگرے متمکن ہوئے۔ حارث بن جبلہ(جو ماریہ بنت ارقم ذات القرطین کا خاوند تھا) شاہ غساسن نے ۵۲۹ء سے ۵۷۲ء تک حکومت کی۔ یہ عہد جستنیان ور جتین ثانی شاہان روم کا تھا۔ حارث بن جبلہ کو حارث الاعرج اور ھارث الوہاب کے ناموں سے بھی موسوم کیا جا تاہے۔ اسی زمانے میں ایرانیوں اوررومیوں کے در میان جنگ چھر گئی جس میں حسب سابق ایرانیوں کی طر ف سے منذر اور رومیوں کی طرف سے حارث شرک ہوئے منذر نے جنگ کے دوران یمں بہادری کے بے نظیر کارنامے انجام دیے اور بالآخر رومیوں کو صلح کرنے پر مجبور کر دیا۔ رومیوں نے منذر کو تاوان کے طور پر سالانہ خراج دینا بھی منظور کر لیا مگر یہ صلح زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہی۔ رومیوں نے صلح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگی تیاریں تیز کر دی تھیں۔ جس سے کسریٰ کو بڑی تشویش لاحق ہوئی ا س نے منذر بن حارث کوپر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کر دیا۔ جس کے نتیجے میؤں حارث کو ایک بار پھر شکست سے دوچار ہونا پڑٓ ۵۶۲ء میں رومیوںاور ایرانیوں میں وسیع پیمانے میںجنگ چھڑ گئی ۔ اس ساری مدت میں منذر ایرانیوں کے دوش بہ دوش جنگ میں حصہ لیتا رہا اور رومی سرحد کو پامال کرتا ہوا مصر کی حدود تک پہنچ گیا۔ منذر کے اس قدر طاقت حاصل کرنے کے باوجود رومیوں کی نظروں میں حارث کی وقعت کم نہ ہوئی۔ وہ اب بھی یہی سمجھتے رہے کہ ایرانیوں کی بڑھتی ہوئی قوت وار عراقی عربوں کے جارحانہ حملوں کے مقابلے میں شامی عرب ایک ڈھال ثابت ہو ں گے۔ اسی لیے شہنشاہ جسٹینین نے حارث کو ۵۲۹ء میں شام ک تمام عرب قبائل کا بادشاہ بنا دیا۔ اور اسے فیلارک و بطریق (Phylorqeet Patrice)کا خطاب دیا۔ یہی لقب شام میں متعین رومی حاکم کو دیا جات تھا۔ حارث نے منذر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تدابیر سوچنی شروع کیں۔ چونکہ وہ مرد میدان تھا اس یلے اس نے فریب کاری سے کام لینا چاہا۔ ایک دفعہ جب فریقین کے درمیان زور و شور کی جنگ جاری تھی تو حارث نے سو آدمیوں کی ایک جمعیت شاہ حیرہ کے پاس بھیجی جس نے جا کر اس سے کہا کہ حارث اس کی اطاعت کرنے کااقرار کرتا ہے۔ یہ سن کر منذر بہت خوش ہوا اور اس وفد کی خوب خاطر تواضع کی۔ مگر وفد کے ایک شخص نے موقع پا کر منذر کو قتل کر ڈالا۔ اس خبر سے عراق کے لشکر میں افراتفری پھیل گئی یہ دیکھ کر حارث نے زور شور سے حملہ کیا کہ عراقیوں کی جمعیت منتشر کر دی۔ اہل عرب اس دن کو یوم حلیمہ کے نام سے منسوب کرتے ہیں کیونکہ اس سو آڈمیوں کو حارث کی بیٹی حلیمہ نے عطر لگا کر منذر کے پاس بھیجاتھا۔ اس فتح سے شامی عربوں کے حوصلے بڑھ گئے اور ان کی عزت و توقیر میں بہت اضافہ ہو گیا۔ جاہلی ادب نے بھی اس زمانے میں خاصی ترقی کر لی۔ منذر ہی نے یوم نعیم اور یوم بوس ک بنیاد رکھی تھی۔ اور عرب کے مشہور شاعر عبید الابرص کو یوم بوس کے موقع پر اسی نے قتل کرایاتھا ۱؎۔ عرب کے مشہور شعراء نابغہ ذیبانی اور علقتہ الفصل حارث وہاب کے ہم عصر تھے۔ سلطنت حیرہ کے آخری دن منذر ثالث بن ماء السماء کے بعداس کا بیٹا عمرو بن ہند عراق کا بادشاہ بنا۔ اس کی بادشاہی کے نویں سا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ عمرو بن ہند کے بعد حیرہ کے تخت پریکے بعد دیگرے بنو منذر متمکن رہے یہاں تک کہ ابوتابوس نعمان بن منذر رابع ۵۸۳ء تا ۶۰۵ء سریر آرائے سلطنت ہوا۔ مشہور شاعر اعشی میمون بن قیس اسی کے دربار سے وابستہ تھا۔ نعمان کے عہد میں عراقی عربوں کی سلطنت دریائے دجلہ کے کناروں تک پھیل گئی تھی۔ اس کی سلطنت کی وسعت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ اس نے کسریٰ کے دارالحکومت مدائن سے بالکل قریب شہر نعمانیہ کی بنیاد رکھی تھی۔ ۱؎ یوم نعیم اور یوم بوس کو جاہلی ادب میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور اکثر شعراء نے اشعار کا ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان دونوں کی بنیاد اس طرح پڑی کہ منذر ثالث بن ماء الساء نے اپنے د و ندیموں خالد بن مضال اور عمر بن مسعود کو ایک دن شراب کے نشے میں زندہ دفن کر دیا۔ دوسرے روز جب اس کا نشہ اترا تو اسے اپنی حرکت کا علم ہوا تو وہ بہت پچھتایا لیکن اب کیا ہو سکتاتھا۔ اس حادثے کی تلافی اس نے اس صورت میں نکالی کہ اس نے ان قبروں پر دو چھوٹے چھوٹے ستون بنا دیے اور ان کا نام غریان رکھا۔ سال میں وہ دو دن وہاں جاتا تھا۔ ایک دن کانام یوم نعیم تھا۔ اس روز جو شخص سب سے پہلے اس کے سامنے آتا تھا اسے سو سیاہ اونٹ انعا م میں دیتا تھا ۔ دوسرا دن یوم بوس کہلاتا تھا اس دن جو شخص اسے سب سے پہلے نظر آتا تھا اسے قتل کر ڈالتا تھا۔ کئی سال تک یہ ہولناک رسم جاری رہی اور کئی بدقسمت اشخاص اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ (مترجم) اگرچہ نعمان انتہائی بدشکل تھا لیکن دنیوی نعمتوں اور آسائش حیات سے اسے حصہ وافر ملاتھا۔ اس نے اپنی سوتیلی والدہ متجردہ سے شادی کر لی تھی جو بے حد حسین و جمیل تھی ۔وہ منخل یشکری سے محبت کرتی تھی۔ اس بنا پر نعمان نے منحل کو قتل کر ا دیا۱؎۔ نعمان نے اپنے دور حکومت میں کئی شاندار باغات بنوائے تھے اور دنیا کے مختلف حصو ں سے قسم قسم کے خوبصورت پھولوں کے پودے منگوا کر ان باغوںمیں لگا دیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گل لالہ کا نام نعمان کی طرف منسوب ہو کر شقائق النعمان پڑ گیا۔ کسریٰ پرویز کو نعمان کی شان و شوکت اور اس کی سلطنت کی وسعت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اس نے اسے اپنے دربار میں طلب کر کے قتل کرا دیا۔ نعمان کے قتل سے لخمیوں ی بادشاہی کا دور ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔ ۔ کسریٰ پرویز نے نعمان کی جگہ ایاس بن قبیصتہ الطائی کو حیرہ کا بادشاہ مقرر کیا اورایک ایرانی شخص بہرجان کو مرزبان مقرر کر کے عراق بھجوا دیا تاکہ شاہ حیرہ اپنے آپ کو خود مختار نہ سمجھے اورایک ایرانی حاک کا وجود اسے ہر وقت ا س امر کی یاد دہانی کراتا رہے کہ وہ ایرانی حکومت کے تابع ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اس ہی کے عہد میں ہوئی۔ اسی زمانے میں ذوقار کی مشہور لڑائی ہوئی۔ ذوقار کی لڑائی کو عربوں کی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس جنگ کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ کسریٰ کی ناراضگی کا حال معلوم کرنے کے بعد نعمان بن منذر نے اپنے اموال اور ہتھیار ہانئی بن قبیصہ کے پاس بطور امانت رکھو دیے تھے۔ نعمان کے قتل ہونے کے بعد کسریٰ نے ہانئی سے نعمان کی چیزیں طلب کیں لیکن اسنے دینے سے اکار کر دیا ۔ اس اثنا میں بنوبکر بن وائل نے نعمان کے قتل سے طیش یں آ کر سواد عراق پر حملہ کر دیا اور بہت سا علاقہ ایرانیوں سے چھین لیا۔ کسریٰ نے اس صورت حال کا مداوا کرنے کے لیے عربوں کے مقابلے میں ایرانی فوج روانہ کی۔ کوفہ کے قریب ذوقار کے مقا م پر ایرانیوں اور عربوں کا مقابلہ ہوا جس میں ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی۔ روایت ہے کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ ؓ سے فرمایا: ۱؎ بعض عربی روایات میں پتا چلتا ہے کہ منخل نعمان کے ڈر سے روپوش ہو گیا تھا اور اس کا سراغ ہی نہ مل سکا۔ چنانچہ عربی میں ایک ضرب المثل ہے لا افعلہ حتی یوب المنخل (میں اس وقت تک کام نہ کروں گا جب تک منخل واپس نہ آ جائے ) (مترجم) ’’یہ پہلا روز ہے کہ جب عربوں کو عجمیوں پر غلبہ حاصل ہوا ہے اور انہیں یہ فتح صرف میری وجہ سے نصیب ہوئی ہے‘‘۔ ۱؎ یہ امر قابل ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت جنگ زوقار والے سال ہوئی تھی۔ نعمان کے بعد تخت حیرہ پر تین بادشاہ اور متمکن ہوئے آخری بادشاہ نذر مغرور تھا اس کا انتقال ۶۳۲ء میں ہوا۔ اس کے بعد عراق میں شاہان حیرہ کی حکومت کا دور ہمیشہ کے یے ختم ہو گیاا اورکسریٰ کی طرف سے داذویہ ایرانی کو حکوت کے مکمل اختیارات دے کر عراق بھیج دیا گیا۔ غسانی سلطنت کے آخری دن لخمیوں کے ذکر کے بعد اب ہم غسانیوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لخمیوں کی طرح غسانی امراء بھی یکے بعد دیگرے تخت امارات پر متمکن ہوتے رہے۔ شام کا آخری عرب حاکم جبلہ بن ایہم تھا۔ جس کی حکومت کا خاتمہ حضرت عمرب کے عہد میں اسلامی فوج کے ذریعے سے ہوا۔ ۵۸۷ء میں عمر والا صغر غسانی شامی عربوں کے عہد میں اسلامی فوجوں کا حاکم مقرر ہوا تھا۔ مشہور شاعرنابغہ ذیباء نے نعمان بن منذر حاکم حیرہ کے ڈر سے عمر والا اصغر ہی کے پاس پناہ لی تھی۔ عمر والا اصغر کے بعد ابوکرب النعمان السادس بن حارث الاصغڑ برسر اقتدار آیا ۔ نابغہ نے اس کی مدح میں جو شان دار قصائد تصنیف کیے انہیں عربی شاعری میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ نعمان سادس کے بعد غسانیوں میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور ہر علاقے میں علیحدہ علیحدہ حاکموں نے تسلط بٹھا لیا۔ آخر ایہم ثانی کے بیٹے جبکہ بن ایہ پر غسانی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ غسانی امراء میں طوائف الملوکی حقیقت میں رومی حکومت کی ایک چال تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں ایک متحدہ عرب حکومت رومی حکومت کے لیے پریشانی اور درد سر کا باعث نہ ہوجائے اس ییل اس نے حکمت عملی سے کام لے کر ہر علاقے میں علیحدہ علیحدہ حاکم مقرر کر دیے تاکہ عرب متحد نہ ہو سکیں اور رومی سلطنت کوکوئی نقصان و ضعف نہ پہنچ سکے۔ ۱؎ مروج الذہب مسعودی‘ جز اول‘ صفحہ ۲۳۶ بغداد عراق میں لخمیوں کا صرف ایک دارالحکومت تھا اور وہ تھا حیرہ اس کے بالمقابل شام میں غسانیوں کے متعدد دارلحکومت تھے۔ جابیہ بھی دارالحکومت تھا ۔ تدمر بھی دارالحکوت تھا ۔ جولان بھی دارالحکومت تھا۔ دمشق کے قریب جلق بھی ایک دارالحکومت تھا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ جہاں عراق میں لخمیوں کی خود مختاری کا دائرہ بے حد وسیع تھاا وہاں غسانیوں کی یہ حالت نہ تھی۔ انہیں اندرونی خو د مختاری ضرور حاصل تھی لیکن عراقی عربوںسے بہت کم۔ اندرونی خود مختاری اور خالص عربی طرز زندگی اختیار کرنے کا ایک اثریہ ہوا کہ عراقی اور شامی عربوں کی زبان بہ دستور عربی ہی رہی۔ نہ عراق میں فارسی ا س کی جگہ لے سکی اور نہ شام میں یونانی اورلاطینی زبانیںعربی کی قائم مقام بن سکیں۔ اسی طرح ایک فائدہ یہ پہنچا کہ شاہان حیرہ اور امراء بنی غسان کے تعلقات اپنے ہم وطن عربوں سے بہت گہرے تھے اور مخلصانہ رہے۔ ان تعلقات کی استواری میں عرب کے شعراء نے بے حد مدد دی جنہیں حیرہ اور غساان کے بادشاہوں کی طرف سے گراں قدر انعام ملا کرتے تھے۔ کتب ادب اور شعراء کے دیوان ان بادشاہوں کے افکار سے بھرے پڑے ہں نابغہ دیبانی اعشیٰ قیس اور علقمہ الفحل وغیرہ کثیر شعراء نے ان بادشاہوں کی مدح سرائی میں زور بیان صرف کیا تھا۔ اسی طرح دربار نبوی کے شاعر حسان بن ثابت کے اسلام لانے سے قبل جبلہ ایہم سے گہرے تعلقات تھے۔ ان تمام امورنے جن کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے اسلامی فتوحات کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب عربوں نے ان علاقوں میںپیش قدمی شروع کی تو یہاں بسنے والے عربوں نے بسا اوقات ان کی دد میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اورمسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اپنے رومی اور ایرانی حلیفوں سے جنگ کی۔ رومیوں اور ایرانیوں کے حملے اس زمانے میں رومی سلطنت میں بھی ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی تھی۔ اور ساری مملکت فساد اور شورش کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ شہنشاہ روم فوکاس(لوکس) کے حلاف ہرقل کی بغاوت زور وشور سے جاری تھی۔ ایرانیوں نے موقع غنیمت جان کر شام پرحملہ کر دیا۔ پہلے انطاکیہ پر قبضہ کیا اور اس کے بعد وہاں سے بیت المقدس کا رخ کیا۔ کہاں تو ہرقل شہنشاہ روم کے خلاف برسرپیکار تھا کہاں اب اسے جان کے لالے پڑ گئے تھے اس نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح ایرانی بیت المقدس کی طرف بڑھنے سے رک جائیں لیکن اسکی کچھ پیش نہ گئی اور وہ انہی روکنے اور مسیحی و یہودی آثار مقدسہ کی بے حرمتی سے باز رکھے میں مطلق کامیاب ہو گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہود بھی جوسیوںسے ل گئے اور انہوںنے عیسائیوں کے خلاف ان کی مدد کی۔ جب شام پر ایرانیوں کا کامل تسلط ہو گیا تو انہوںنے مصر کا رخ کیا اور رومیوں کی جگہ وہاں پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی۔ ایرانیوں کی ان پیہم کامیابیوں کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی۔ الم غلبت الروم فی الارض وھم من بعد غلبھم سیغلبون فی بضع سنین للہ الامر من قبل ومن بعد ویومئذ یفرح المومنون بنصر اللہ ’’اگرچہ رومی سرزمین شام میں مغلوب ہوگئے ہیں لیکن عنقریب چند ہی سال میں وہ اپنی مغلوبیت کے بعد غالب آ جائیں گے اور اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے۔ اس روز اللہ کی مدد کی وجہ سے مون خوش ہوں گے‘‘۔ اللہ کا وعدہ حرف بہ حرف پورا ہوا۔ چند ہی سال میں ہرقل نے دوبارہ طاقت پکڑلی اور ایرانیوں سے نبرد آزما ہو کر انہیں مصڑ و شام سے نکال دیا صلیب اعظم لے کر ان سے واپس چھین لی اور اسے بیت المقدس میں اس کی اصلی جگہ پر آویزاں کر دیا۔ ان مسلسل لڑائیوں میں جہاں ایرانیوں کے غلبہ واقتدار میں نمایاں فرق آ گیا وہاں رومیوں کی قوت و طاقت میں بھی بہت حد تک کمی آ گئی۔ دیگر امور کے علاوہ یہ امر بھی عربوں کی سلطنت کے قیام اور فتوحات اسلامیہ کے لیے ممد و معاون ثابت ہوا۔ ابوبکرؓ کا موقف رومیوں اور ایرانیوں پر جو کچھ گزر رہی تھی مکہ اور مدینہ والے اس سے بے خبر نہ تھے اسی طرح عرا ق اور شام کی حدود میں بسنے والے عربوں کا حال بھی ان سے پوشیدہ نہ تھا ان حوادث و واقعات کا طبعی نتیجہ یہ ہوا کہ عربوں کے دلوں یمں ایرانیوں اور رومیوں کاجو رعب و دبدبہ قائم تھا وہ جاتا رہا اور ان کی نظروں سے ان سلطنتوں کی وقعت کمہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اور متحدہ طورپرسارے عرب کے اسلامی جھنڈے تلے جمع ہو جانے سے اس رجحان کومزید تقویت ملی کہ پھر بھی اس کا مطلب یہ نہ سجھنا چاہے کہ عربوں کی نظروںمیں ان سلطنتوں کی وقعت حد درجہ کم ہوگئی تھی کہ وہ ان پر حملہ کرنے اور ان ی حدود کو پامال کرنے کا خیال بھی دل میں لا سکتے تھے۔ عربوں میں بیداری ضرورپیدا ہوئی مگر اس کا دائرہ جزیرہ عرب کوا ن سلطنتوں کے اثر و نفوذ سے پاک کرنے کی کوشش تک محدود تھا۔ چنانچہ یمن اور عرب کے تمام جنوبی علاقوںنے ایرانیوں کی اطاعت کا جو ا سر سے اتار پھینکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عہد مبارک میں ایرانیوں کی طرف خاص نگاہ رکھی اور اس غرض کے لیے بعض اقدامات بھی کیے۔ لیکن آپ کی غرض یہ بھی تھی کہ عرب کی شمالی سرحدوں کو قیصڑ کی فوجوں کے تاخت و تاراج سے محفوظ رکھا جائے۔ شام پرچڑھائی کرنانہ آپ کا مقصد تھا اورنہ مسلمانوں نے ہرقل کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبلیغی خط کو شا م پر چڑھائی کرنے کا بہانہ بنایا۔ پھر بھی حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں بعض ایسے واقعت پیش آئے کہ مسلمانوں کے لیے ایران اور شام پر چڑھائی کرنا ضروری ہو گیا۔ جس وقت یمامہ میں خالد بن ولیدب اوریمن اور ا س کینواح میں مہاجر بن ابی امیہ اور عکرمہ بن ابوجہل مرتد ین کی سرکوبی کے لیے مصروف عمل تھے اسی وقت سب لوگوں کو یقین ہو گیا تھا کہ اب جزیرہ عرب میں صرف خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمانروائی ہو گی اور آئندہ کسی فتنہ پرداز شخص کو شور و شر کرنے اور بغاوت کی آگ بھڑکانے کی جرات نہ ہو سکے گی مگر عام لوگوں کے برعکس حضرت ابوبکرؓ نے خوش فہمی سے کا م نہ لیا۔ یہ بات بعید از قیاس تھی کہ فساد کے شعلے ایک بار دب جانے کے بعد دوبارہ بھڑک اٹھتے اور ایک بار پھر جزیرہ عرب میں اتنشار پیدا کر دیتے۔ حضرت ابوبکرؓ تمام حالات کا بہ نظر غائر جائزہ لے رہے تھے اور سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ عرب قبائل کی شورش انگیزی کے خطرے سے بچنے کے لیے کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ان کی توجہات کو ایران اور شام کی طرف منعطف کر دیا جائے تاکہ انہیں حکومت کے خلاف سر اٹھانے اور بغاوت کرنے اور فسا د برپا کرنے کا کوئی موقع ہی نہ مل سکے۔ اس غرض کے لیے اللہ پہلے ہی سے سامان کر چکا تھا۔ صحرائے شام میں عرب قبائل کثرت سے آباد تھے اور ان سے امید کی جا سکتی تھی کہ وہ بھی دین اسلام کو اسی خندہ پیشانی سے قبول کر لیں جس طرح ان کے ہم قوم اورہم اصل لوگوں نے قبول کر لیا تھا اور وہ بھی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی میں شریک ہو جائیں۔ یہ خیالات اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے غرض ہر د حضرت ابوبکرؓ کے دماغ میں چکر لگاتے رہتے تھے۔ پھر بھی اس کا مطلب یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ نعوذ باللہ وسعت سلطنت کی ہوس تھی اور ایک وسیع علاقے پر اقتدار قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کا منشا سرف ی تھا کہ مسلمانوں ک واطمینان نصیب ہو اور وہ بے روک ٹوک احکا م دین پر عمل کر سکیں اور اسلام کی تبلیغ کے راستے میں انہیں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ لوگوں کو اطمینان اسی وقت نصیب ہو سکتا ہے جب حکومت کی بنیاد عدل و انصاف پر ہو اوراس میں ہوا و ہوس کابالکل دخل نہ ہو۔ عدل و انصاف پر قائم ہونے والی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ حاکم اعلیٰ ہر قسم کی نفسانی خواہشات سے یکسر پاک ہو اور اس میں خود غرضی و نفس پرستی کا شائبہ تک نہ ہو۔ مزید برآن وہ رعایا پر حد درجہ شفیق اور مہربان ہو۔ حضرت ابوبکرؓ اس معیار پر سو فیصد پورے اترتے تھے۔ وہ اپنے واسطے کسی عہدے اور مرتبے کے خواہش مند نہ تھے۔ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں انہوںنے کبھی انی ذات کو اجاگر کرنے کی کوشش نہ کی۔ رعایا پر وہ جس درجہ شفیق اور مہربان تھے اس کے بیان کی حاجت نہیں۔ عدل و انصاف کو وہ ہر چیز پر مقدم رکھتے اور اس کے قیام میں اپنی جان اور اہل عیال تک کو فراموش کردیتے تھے اس کے علاوہ سلطنت کے تمام امور کی نگہداشت انتہائی حز و احتیاط سے کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا پہلا سال زیادہ تر مرتدین کی شورش کا مقابلہ کرنے میں گزرا۔ مسلمان ہمہ تن اس فتنے کو فرو کرنے میں مصروف تھے اور جو ق در جوق اسلامی لشکروں میں شامل ہو کر جہاد کے لیے اطراف ملک میں جا رہے تھے۔ لیکن اس نازک ترین موقع پر حضرت ابوبکرؓ انتظامی اور ملکی امور میں سے غافل نہ رہے۔ انہوںنے حضرت عمرؓ بن خطاب کو مدینہ کا قاضی مقر ر کر دیا گو انہیں اس سلسلے میں کوئی کام کرنا نہ پڑا۔ دو سال بھر تک قضا کے عہدے پر متمکن رہے لیکن کوئی مقدمہ فیصلے کے لیے ا ن کے سامنے پیش نہ ہوا۔ ابو عبیدہ بن جراحؓ کے سپر د بیت المال کا انتظام تھا۔ زکوۃ اور صدقات کا جو مال اکٹھا ہوتا تھا وہ اس کی تقسیم کے لیے مامور تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ اور زید بن ثابتؓ کے سپرد کتابت تھی فرامیمن اور مراسلے حضرات لکھا کرتے تھے۔ ان کے مقرر کردہ اعمال اور قائدین بھی اطراف مملکت میں اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مشغول تھے۔ ان تمام لوگوں کا حضرت ابوبکر صدیقؓ سے گہرا رابطہ قائم تھا اور اہم ملکی امور میں کوئی شخص ان سے مشورہ لیے بغیر قدم نہ اٹھا سکتا تھا۔ اسی وجہ سے جنگہائے ارتداد کے دوران یں ان ے اور ان کے عمال و قائدین کے درمیان کثرت سے خط و کتابت ہوئی جو تاریخوں میں محفوظ ہے۔ جنگہائے ارتدد کے باعث چونکہ حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا پہلا سال سخت مصروفیت کا گزرا۔ اس لیے انہوںنے حج کے موقع پر اپنی جگہ عتاب بن اسید کوامیر الحج بنا کر بھیج دیا۔ جب تک مرتدین سے جنگیں جاری رہیں حضرت ابوبکرؓ کے لیے کسی اور جانب توجہ منعطف کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ جب مرتدین کا مکمل قلع قمع ہو چکا اور چپے چپے پر اسلامی حکومت کی عمل داری قائم ہو چکی تو حضرت ابوبکرؓ کی توجہ اسی ضروری مسئلے پر مبذول ہوئی کہ اعلا کلمۃ الحق اور دین حقہ کی اشاعت کے لیے مسلمانوں کو آئندہ کیا قدم اٹھانا اوراپنی جدوجہد کو کس شکل میں مرتکز کرنا چاہیے۔ اس غرض کی انجام دہی کے لیے ایک مشکل یہ تھی کہ رومیوں پر حملہ کیا جائے اور ان جنگوں کو جن کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے ذریعے فرما چکے تھے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ عربوں کی توجہ کلیۃ رومیوں کی طرف پھیر دینے سے نہ صرف آئندہ کے لیے عرب سے بغاوت اور فتنہ و فساد کا خطرہ دور ہو جاتاہے بلکہ مملکت رومی کے طول و عرض میں اشاعت اسلا م کے ذریعے بھی راستہ صاف ہو جاتا۔ لیکن اس سلسلے کا ایک دوسرا پہلو بھی تھا جس میںنظر رکھنا بے حد ضروری تھا۔ وہ یہ کہ اگر مسلمان رومیوں پر فتح یاب نہ ہو سکے تو وپرے جزیرہ عرب کو زبردست خطرہ لاحق ہو جاتا جو مرتدین کے فتنے سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوتا۔ رومی اپنے علاقے میں مسلمانوں کو شکست دے کر انہیں اپنے علاقے سے نکال دینے پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اہیں حملے کا مزہ چکھانے کے لیے جزیرہ عرب پر بھی حملہ کر دیتے۔ عرب پر رومیوں کی چڑھائی معمولی بات نہ تھی اس صورت میں اسلام کا کلیۃ قلع قمع ہو جاتا۔ مرتدین کے مقابلے میں مسلمانوں کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسلام نے آ کر عرب سے بت پرستی کا خاتمہ کر دیا تھا اور تمام عرب عقیدہ توحید کی لڑی میں منسلک ہو چکے تھے۔ یہ ایک زبردست قوت تھی جو اسلام کو حاصل تھی۔ مدعیان نبوت نے قبائلی عصبیت کی بنا پر سادہ لوح انسانوں کوچند روزکے لیے تو اپنے پیچھے لگالیا لیکن محض بے بنیاد عقیدوں اور مضحکہ خیز تعلیمات کی بنا پر زیادہ عرصہ تک انہیں اپنے ساتھ لگائے رکھنا ممکن نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جو نہ ان لوگوں کا کذب و افترا ان کے پیروئوں پر ظاہر ہونے لگا وہ ان کے ساتھ چھوڑنے لگے لیکن رو میوں کی بات علیحدہ تھی۔ وہ عیسائی تھے اور اس دین کے پیرو جو ایک شاندار ماضی کا حامل تھا۔ مسلمانوں کی طرح وہ اہل کتاب تھے اس کے علاوہ زبردست قوت و طاقت کے مالک بھی۔ یہ درست ہے کہ ان کے اور ایرانیوں کے درمیان سالہا سال جنگ و جدل کا سلسلہ جاری تھا۔ ابتدا میں ایرانی ان پر غالب آ گئے۔ لیکن بعد میں رومیوں کا پلہ بھاری رہا ۔ جدال و قتال کے اس غیر مختتم سلسلے نے دونوں سلطنتوں کی قوت و طاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا پھر بھی ان کا رعب وادب ہمسای اقوام پر بدستور تھا۔ آپس میں تو وہ جنگ و جدل میں مصروف اور ایک دوسرے کو زک پہنچانے میں مشغول تھے لیکن کسی دوسری سلطنت کی مجال نہ تھی کہ ان کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ دسکتی خصوصاً عرب جیسی حقیر قوم کی جس کی قوت و طاقت ایرانیوں اوررومیوں کے پاسنگ بھی نہ تھی اورجو ان سلطنتوں سے جنگ چھیڑنا اپنی موت کو اپنے ہاتھ سے دعوت دینے کے مترادف سمجھتی تھی۔ دوسرے عربوں کی طرح حضرت ابوبکرؓ کے دل میں بھی ایرانیوں سے جنگ کرنے کا خیال تک نہ آ سکتا تھا۔ حجاز فارس کے متصل نہ تھا اورع عرب کے جو علاقے ایران سے ملے ہوئے تھے ان میں قبل ازیں ارتداد کا فتنہ زور و شور سے بھڑک چکا تھا اور کسی جنگ کی صورت میں اس علاقے کے لوگوں پر قطعاً اعتبار نہیں کیا جا سکتا تھاا اس لیے حضرت ابوبکرؓ کے واسطے یہی صورت مناسب تھی کہ وہ فتنہ ارتداد کوفرو کرنے کے بعد تمام تر توجہ سلطنت کے اندرونی استحکام اور قیام امن پر مبذول کرتے تاکہ عرب ایک وحدت میں منسلک ہوکر اقوام عالم میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیتے اور ان کی قوت و طاقت میں شاندار اضافہ ہو جاتا۔ مثنیٰ بن حارثہ اور عراق حضرت ابوبکرؓ آئندہ اقدامات کے متعلق غور و فکر ہی میں مشغول تھے کہ خبر ملی کہ ایک شخص مثنیٰ بن حارثہ شیبانی ایک قلیل فوج کے ساتھ پیش قدمی کر کے بحرین کے شمال میں دجلہ اور فرات کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ وہ ایرانی حکام جنہوںنے بغاوت کی آگ بھڑکانے کے لیے بحرین کے مرتدین کی مدد کی تھی اس کے آگے بے بس ہو گئے ہیں اور تاب مقاومت نہ لا کر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کو اب تک مثنیٰ کے بارے میں کچھ علم نہ تھا ان خبروں کے پہنچنے کے بعد تحقیقات کرنے پر معلوم ہواکہ وہ بحرین کے قبیصہ بکر بن وائل سے تعلق رکھتاہے اور علاء بن حضرمی کے ساتھ مل کر مرتدین سے جنگ کر چکا ہے۔ بحرین اور اس کے نواح میں جو لوگ بدستور اسلام پر قائم رہے تھے اور جنہوںنے اسلامی فوجوں کے ساتھ مل کر مرتدین کی جنگوں میں حصہ لیا مثنیٰ اان کاسردا رتھا۔ ارتداد کا فتنہ ختم ہو نے کے بعد بھی وہ چین سے نہ بیٹھا اور اپنے لوگوں کو ہمراہ لے کر خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ بجانب شمال عراق کی طرف پیش قدمی شروع کر دی آخر وہ ان عربی قبائل میں پہنچا جو دجلہ اور فرات کے ڈیلٹائی علاقے میں آباد تھجے اس نے گفت و شنید کر کے انہیں ایرانی سلطنت کا جوا سر سے اتاردینے اور اسلامی حکومت کی حمایت کرنے میں آمادہ کر لیا ان امور کے علاوہ حضر ت ابوبکرؓ کو یہ بھی معلوم ہوا کہ مثنیٰ معمولی شخص نہیں بلکہ اپنے قبیلے کاا یک معزز فرد اورانتہائی قابل اعتماد شخص ہے۔ چنانچہ ان کے دریافت کرنے پر قیس بن عاصم المنقری نے کہا: ’’یہ شخص گم نام مجہول النسب اور فریب کار نہیں۔ یہ مثنیٰ بن حارثہ شیبانی ہے جو اعلیٰ حسب نسب اور شہرت و عزت کا مالک ہے‘‘۔ اس صورت حال نے حضرت ابوبکرؓ کے لیے غور و فکر کی نئی راہیں کھول دیں۔ اب ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ی تھا کہ کیا اس موقع پر مسلمانوں کو عرب کی حدود سے باہر بھیجنا مناسب ہو گا اور کیا مثنیٰ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ عراق میں گھس کر ایرانی سلطنت کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھولنے میں کامیاب ہو سکے گا؟ عراق کی صورت حال یقینا مسلمانوں کے لیے قابل توجہ تھی وروہ اس طر ف سے غافل نہ رہ سکتے تھے۔ عراق میں بنو لخم تغلب‘ ایاد ‘ نمر اور بنو شیبان متعدد عربی قبائل آباد تھے گویا یہ قبائل ایرانیوں کے محکوم اور ان کے مطیع و منقاد تھے۔ پھر بھی جزیرہ عرب سے ان کا جو قدرتی رشتہ تھا اسے بھی وہ کسی صورت میں فراموش نہ کر سکتے تھے ۔ عرب میں جو بھی تحریک اٹھتی ان کے لیے ا س کا بہ نظر غائر جائزہ لینا ضروری تھا۔ ادھر سجاح نے بھی عراق ہی سے نکل کر نبوت کا دعوی کیاتھا اور اس کی تمام امیدیں بھی ان مذکورہ دلائل ہی سے وابستہ تھیں۔ اس ضمن میں حضرت ابوبکرؓ کے لیے سب سے حوصلہ افز ابات یہ تھی کہ عراق میں ایرانی اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہرقل شہنشاہ روم نینوا اور دستجرد میں ایرانی فوجیں کو شکست فاش ددے چکا تھا۔ اس کی فوجیں ایرانی دارالسلطنت مدائن کے دروازوں تک پہنچ گئی تھیں۔ ہرقل کی فوج کشی کے بعد بعض علاقے بھی ایرانی عمل داری سے نکلنے اورآزاد ہونے شرو ع ہو گئے سب سے پہلے یمن نے ایرانی اقتدار سے چھٹکارا حاصل کر لیا اور وہاں کے عامل بازان نے اسلام قبول کر کے اسلامی حکومت کی ماتحتی قبو ل کر لی۔ بعد ازاں بحرین اور خلیج فارس و خلیج عدن کے تمام علاقوں نے بھی ایرانیوں کی غلامی کو خیر باد کہا اور وہاں بھی اسلامی حکومت کا دور دورہ ہو گیا سلطنت ایران نے ان علاقوں کی بازیابی کے یے کوئی بھی کوشش نہ کی اور اس ے مقرر کردہ حاکم اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے اطمینان سے مقبوضہ علاقوں پر غیر قوم کو قابض ہوتے دیکھتے رہے۔ اس موقع پر وہ کر بھی کیا سکتے تھے؟ خود سلطنت اندرونی انتشار کا شکار ہو رہی تھی۔ تخت ایران پر قبضہ کرنے کی خاطر ایرانی امراء میں جنگ و جدل برپا تھا۔ چار سال میں نو بادشاہ تخت نشین ہو چکے تھے۔ اور ہر بادشاہ نے پے درپے اپنے مخالفین کا قتل عام کرایا تھا۔ کسی بادشاہ کو چین سے حکومت کرنا نصیب ہن ہواتھا اور تخت پر متمکن ہونے کے چند ہی روز بعد اسے اپنے دشمنوں کی سازش کانشانہ بننا پڑاتھا۔ حضرت ابوبکرؓ آئندہ اقدام کے متعلق ابھی کوئی فیصلہ کرنے نہ پائے تھے کہ مثنیٰ خود مدینہ آ موجو د ہوئے اور تمام حالات خلیفہ کے گوش گزار کر دیے۔ انہیں اطمینان دلایا کہ شام کے برعکس عراق کی فتح سہل الحصول ہے اور عراق کے میدانوں میں عربوں کو ان مہیب خطرات سے بالعموم دوچار ہونا نہ پڑے گا جن خطرات سے شام پر فو ج کشی کی صورت میں ہونا پڑتاا۔ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ زرخیزی اور حسین قدرتی مناظر کے لحاظ سے شام سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اہل حجاز کو چونکہ عراق کی نسبت شام کا سفر اختیار کرنے میں زیادہ آسانیاں میسر ہیں اس لیے قدرتاً ان کی نظریں شام ہی کی طر ف اٹھتی ہیں۔ لیکن اگر وہ عراق کے دل فریب مناظر دیکھیں تو یقینا شام کی طرح یہ علاقہ بھی ان کے لیے پرکشش ثابت ہو۔ مثنیٰ نے یہ بھی بتایا کہ جو عرب قبائل دجلہ اور فرات کے ڈیلٹائی علاقے میں رہتے ہیں وہ وہاں کی مقامی باشندوں کے ہاتھوں سخت مصیبت میں مبتلا ہیں۔ عرب زیادہ ترکھیتی باڑی کا کا م کرتے ہیں جب فصل پک کر تیار ہوجاتی ہے تو ایرانی زمیندار آتے اور سارا غلہ سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ لیکن وہ غریب مزارع جنہوں نے رات دن سخت محنت و مشقت برداشت کرتے ہوئے خون پسینہ اک کر کے فصل تیار کی تھی بالکل محروم رہ جاتے ہیںَ اور ان کے حصوں میں چند ٹکوں کے علاوہ کچھ نہیں آٹا جو زمینوں کے مال ازراہ ترحم بخشش کے طورپر انہیں دے جاتے ہیں۔ اس ذلیل برتائو کے باعث عربوں کے دل ایرانی امراء اور زمینداروں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوتے ہیں اور اگر جزیرہ عرب کو ایرانی دسیسہ کاریوں سازشوں اور مخالفانہ کارروائیوں سے بچانے کے لیے عراق پر فوج کشی کی جائے تو ایرانیوں سے دلی نفرت کے باعث وہاں کے عرب قبائل ضرور اپنے ہم وطنوں کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ اور ہر طرح ان کی امداد کریںگے۔ اس لیے نادر موقع ہاتھ سے نہ کھونا چاہیے اور سرزمین عراق میں اسلامی فوجیں روانہ کر دینی چاہیں۔ عراق کا ڈیلٹائی علاقہ ہی اپنی خوبصورتی اور زرخیزی کے باعث عدم المثال نہ تھا بلکہ دجلہ و فرات کا علاقہ بھی جو تقریباً تین سو میل لمبا تھا سارے اک سارا قدرتی نظاروں سے معمور تھا۔ زمین کی زرخیزی اور شادابی کے علاوہ ہ علاقہ بھی تاریخی لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے چپے چپے پر آثار قدیمہ بکھرے پڑے تھے اور زبان حال سے پر ہیبت بادشاہوں اور پرشکوہ سلطنتوں کی داستانیں ہر آنے جانے والے کو سنا رہے تھے۔ چنانچہ شہر ارد جس کے آثار ہمارے زمانے میں دریافت ہوئے ہیں اور جس کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ی شہر اس زمانے میں تعمیر ہوا تھا جب کہ فراعنہ مصر پر حکمران تھے اسی منطقے میں واقع تھا۔ شمالی جانب تھوڑا سا اور آگے بڑھنے پر قدیم بابل ے آثار دکھائی دیتے ہیں ۔ دریائے فرات کے کنارے بابل کا برج اب تک کھڑا شورپین کی عظمت و شوکت کی داستان بیان کررہا ہے۔ اسی دریائے فرات کے ساحل پرساسانی جاہ و جلال کا مظہر اور ایرانی سلطنت کا دارلحکومت مادائن آباد تھا۔ جس کی ثروت اور شان و شوکت کا شہرہ اقصائے عالم تک پھیلا ہوا تھا۔ باغات کی کثرت غلے کی فراوانی اور دلفریب قدرتی مناظر کے باعث یہ علاہ جنت ارضی کے نا م سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اسی لیے جب مثنیٰ شیبانی نے حضرت ابوبکرؓ کے سامنے ساری صورت حال واضح کی تو و ہ اس علاقے میں اسلامی فوجیں بھیجنے پر رضامند ہو گئے مثنیٰ کا منشاء یہ تھا کہ عراق کے ڈیلٹائی علاقے میں اسلامی فوجیں بھیج کر عرب قبائل کو ظلم و ستم کے اس لامتناہی چکرسے نجات دلائی جائے جو ایرانی حکا م کی طرف سے ان پر روا رکھا جا رہا تھا اوراس طرح انہیں ممنون اھسان بنا کر اسلام کی طرف راغب کیاجائے۔ گر ایرانی حکام لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں تو فیہا ورنہ حکومت ایران سے باقاعدہ ٹکر لیے کر حریت ضمیر اور مذہبی آزادی کے لیے رستہ صاف کیا جائے اور دلائل و براہین کے ذریعے سے دین حقہ کی اشاعت کے سامان فراہم کیے جائیں۔ کوئی قطعی فیصل ہکرنے سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ کے اہل الرائے اصحاب سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ چنانچہ انہیں بلایا اور عراق کے تمام حالات سنا کرمثنیٰ کی یہ درخواست ان کے سامنے پش کی کہ انہیں ان کی قوم کا سردار بنا کر ایرانیوں سے نبرد آزما ہونے اور اس طرح ایک ایسا فرض ادا کرنے کا موقع دیا جائے جس کی بجا آوری درحقیقت اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ چونکہ اہل مدینہ عراق کے حالات سے بالکل ناواقف تھے ۔ اور انہیں ڈر تھا کہ سلطنت ایران پر چڑھائی کر کے اسلامی فوجیں کہیں الٹی مصیبت میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اس لیے انہوںنے مشورہ دیا کہ خالد بن ولیدؓ کو بلا کر یہ سارا معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیاجائے اور جورائے وہ دیں اس پر عمل کیاجائے۔ خالد بن ولیدؓ اس زمانے میں غزوہ عقرباء سے فارغ ہوکر اپنی دونوں بیویوں ام تمیم اور بنت مجاعہ کے ہمراہ یمامہ ہی میں مقیم تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے انہیں فوراً مدینہ طلب فرمایا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ نے عراق پر فوج کشی کے متعلق مثنیٰ کی تجاویز انکے سامنے رکھیں تو انہوںنے بلاا پس و پیش ان پر صادکر دیا۔ خالد ؓ نے خداداد فراست کی بنا پر بھانپ لیا تھا کہ مثنیٰ نے حدود عراق میں ایرانیوں کے خلاف جو کارروائی شروع کی ہے اگر خدانخواستہ وہ ناکام ہو گئی اور مثنیٰ کی فوج کو عرب کی جانب پسپا ہونا پڑاتو ایرانی حکا م دلیر ہو جائیں گے۔ وہ صرف مثنیٰ کی فوج کو عراق کی حدود سے باہر نکالنے پر اکتفا نہ کریںگے بلکہ بحرین اور اس کے ملحقہ علاقوں پر دوبارہ اثر و رسوخ قائم کرنے اور تسلط بٹھانے کی کوشش بھی کریں گے۔ اور اس طرح اسلامی حکومت کو سخت خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ اس خطرے سے بچنے کی صرف اایک صورت ہے وہ یہ کہ دربار خلافت سے مثنیٰ کوقرار واقعی امداد مہیا کی جائے اور ایرانیوں کو عرب کی حدودمیں اثر و رسوخ جمانے کے بجائے مزید پسپائی پر مجبور کیا جائے تاکہ ان کی جانب سے آئندہ کبھی عرب کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ خالد بن ولیدؓ کی یہ رائے سن کر دیگر اصحاب نے بھی مثنیٰ کی تجاویز قبول کر لیں اور حضرت ابوبکرؓ سے عرض کر دیا کہ انہیں مثنیٰ کی امارت پر کوئی اعتراض نہیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے مثنیٰ کو ان کی خواہش کے پیش نظر ان لوگوں کا سردار مقرر کر دیا۔ جنہیں ہمراہ لے کر انہوں نے عراقی حدود میں پیش قدمی کی تھی اور حکم دیا کہ فی الحال وہاں کے عرب قبائل کو ساتھ ملانے اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ کریں جلد ہی مدینہ سے ایک لشکر بھی ان کی امداد کے لیے روانہ کیاجائے گا۔ جس کی مدد سے وہ مزید پیش قدمی جاری رکھ سکیں گے۔ یہ ہے وہ روایت جسے ہمارے خیال میں دوسری روایات پر ترجیح حاصل ہے۔ لیکن بعض مورخین کا خیال ہے کہ مثنیٰ کی درخواست کرنے کے لیے مدینہ گئے اورنہ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے ملاقات کی۔ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ ڈیلٹائی علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے بہت دور نکل گئے۔ آگے جا کرانہیں ایرانی سپہ سالار ہرمز کی افواج کا سامنا کرنا پڑا۔ ابھی ہرمز اور مثنیٰ کے درمیان جنگ جاری تھی کہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی ان واقعات کی خبر ہو گئی۔ وہ اس وقت مثنیٰ کے نام تک سے بے خبر تھے۔ ان خبروں کے پہنچنے کے بعد جب انہوںنے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ مثنیٰ نے جنگہائے ارتداد کے دوران میں بحرین کے اندر متعدد کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ انہو ں نے خالد بن ولیدؓ کو حک دیا کہ وہ ایک لشکر کے ہمراہ مثنیٰ کی مدد کے لیے عراق جائیں اور ہرمز پر فتح یاب ہو کر لخمی عربوں کے دارالحکومت حیرہ کی جانب کوچ کریں۔ ساتھ ہی عیاض بن غنم کو حکم دیا کہ وہ دوتہ الجندل جائیں اور وہاں کے متمرد اور مرتد باشندوں کو مطیع کر کے حیرہ پہنچیں۔ دونوں قائدوں میں سے جو پہلے حیرہ پہنچ جائے اسی کو اس علاقے میں جنگی کارروائی کرنے والی فوجوں کی قیادت حاصل ہو گی۔ پہلی روایت کے مقابلے میںدوسری روایت ہمارے نزدیک قابل ترجیح نہیں لیکن ا س کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے سرے سے صحیح ہ نہیں سمجھتے۔ وجہ یہ ہے کہ اس عہد کے متعلق ہمارے پاس جو روایات پہنچی ہیں ان میں بے حد اختلاف پایا جاتاہے یہ اختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ ابتدائی مورخین طبری اور ابن اثیر وغیرہ بھی یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ کس روایت کو ترجیح دیں اور کسے نہ دیں۔ بعد میں آنے والے بعض مورخین کا خیال ہے کہ خالد اپنی فوجوں کے ہمراہ جب عراق کے ڈیلٹائی علاقے میں پہنچے تو ان کے سامنے کوئی نہ کوئی معین مقصد اور پہلے ہی سے تیار شدہ منصوبہ تھا۔ وہ صرف مثنیٰ کی مدد اور انہیں ایرانیوں کے لشکر سے نجات دلانے کے لیے آئے تھے۔ لیکن جب ابتدائی جنگوں میں انہیں کامیابی نصیب ہوئی تو انہوں نے بہ طور خود پیش قدمی کا ایک منصوبہ بنا کر حضرت ابوبکرؓ کی اجازت حاصل کیے بغیر حیرہ اورشمالی عراق کی جانب بڑھنا شروع کر دیا۔ اور حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں صرف خمس بھیجنے اور انہیں جنگی صورت حال سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا۔ لیکن یہ روایت ضعیف معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے مقرر کردہ قائدین کو واضح طورپر یہ احکا م دے رکھے تھے کہ وہ کسی جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اگلا قدم اس وقت تک نہ اٹھائیں کہ جب تک ان سے اجازت حاصل نہ کر لیں۔ جنگ ہائے ارتداد اور بعد میں عراق و شام کی فتوھات کے دورا ن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تمام قائدین نے حضرت ابوبکرؓ کی اس ہدایت پر پوری طرح عمل کیا۔ اس لیے ممکن نہیں کہ خالدؓ عرا ق میں پیش قدمی کرتے وقت یہ واضح اور ضروری ہدایت نظر انداز کر دیتے اور بہ طور خود ایک منصوبہ بنا کر خلیفہ کی اجازت حاصل کیے بغیر اس پر عمل شروع کر دیتے۔ ٭٭٭ بارہوا ں باب فتح عراق خالدؓ کی روانگی عراق حضرت ابوبکرؓ نے مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کی درخواست پر انہیں ایرانیوںپرحملہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمادی تھی اور چنانچہ مثنیٰ نے اپنا قبیلہ ہمراہ لے کر ایک نئے عزم و اولولہ سے عرا ق پر ہلہ بول دیاا اور دریائے دجلہ و فرات کے ڈیلٹائی علاقے میں پے در پے فتوحات حاصل کرنی شروع کیں۔ جب یہ خبریں مدینہ پہنچیں تو حضرت ابوبکرؓ نے مثنیٰ کو کمک بھیجنامناسب خیال کیا تاکا وہ فتوحات ا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ انہوںنے خالد ؓ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ عراق چلے جائیں اور لشکر کی کمان فی الحال اپنے ہاتھ میں سنبھال لیں عیاض بن غنم کو حکم دیا کہ وہ پہلے دومتہ الجندل جا کر وہاں کے سرکش لوگوں کو مطیع کریں اور وہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ہ جانب مشرق حیرہ پہنچیں۔ اگر وہ خالدؓ سے پہلے وہاں پہنچ جائیں تو ایرانیوں سے جنگ کرنے والے لشکر کے سپہ سالار وہ ہوں گے اور خالدؓ ان کے ماتحت ہو کار کام کریں گے اور اگر خالدؓ پہلے پہنچ جائیں تو سپہ سالاری کے فرائض خالدؓ سرانجام دیں گے اور عیاض ان کے ماتحت ہوں گے۔ عرب عراق کی زمینوں میں بہ طور کاشت کار کام کرتے تھے۔ فصل تیار ہونے پر انہیں بٹائی کا بہت تھوڑا حصہ ملتا تھا۔ اکثر حصہ ان ایرانی زمینداروں کے پاس چلاجاتا تھا جو ان زمینوں کے مالک تھے۔ یہ زمیندار غریب عربوں پر بے حد ظلم توڑتے تھے۔ وار ان کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنے سپہ سالاروں کو حکم دے دیا تھا کہ جنگ کے دوران میں ان عرب کاشت کاروں سے نیک سلوک کیاجائے ۔ انہیں قتل نہ کیا جائے نہ قیدی بنایا جائے۔ غرض ان سے کسی قس کی بدسلوکی نہ کی جائے کیونکہ وہ عرب ہیں اور ایرانیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہے کہ ان کی مظلومانہ زندگی کے دن ختم ہو ئے اور اب وہ اپنے ہم قو م لوگوں کی بدولت حقیقی عدل و انصا ف اورجائز آزادی و مساوات سے بہرہ ور ہو سکیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس حکمت عملی نے مسلمانوں کو بے حد فائدہ پہنچایا۔ ان کی فتوحات کے راستے میں آسانیاں پیدا ہو گئیں اور انہیں یہ خدشہ نہ رہا کہ پیش قدمی کرتے وقت کہیں پیچھے سے حملہ ہو کر ا ن کا راستہ مسدود نہ ہو جائے۔ حضرت خالد ؓ لشکر کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ایک تو اس کا بہت سا حصہ جنگ یمامہ میں کام آچکا تھا اور دوسرے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں ہدایت دی تھی کہ اگر کوئی شخص عراق نہ جانا چاہے تو اس پر زبردستی نہ کی جائے۔ اس کے علاوہ کسی سابق مرتد کواس وقت تک اسلامی لشکر میں شامل نہ کیا جائے جب تک خلیفہ سے خاص طور پر اجازت حاصل نہ کر لی جائے۔ خالدؓ نے ابوبکرؓ کی خدمت میں مزید کمک بھیجنے کے لیے لکھا تو انہوں نے صرف قعقاع بن عمرو التمیمی کو ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا۔ لوگوںکو بہت تعجب ہوا اور انہوںنے عرض کیا: ’’آپ خالدؓ کی مد د کے لیے صرف ایک شخص کو روانہ کر رہے ہیں حالانکہ لشکر کا بیشترحصہ اب ان سے الگ ہو چکا ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا: ’’جس لشکر میں قعقاع جیسا شخص شامل ہو وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا‘‘۔ صرف قعقاع سے یہ بات خاص نہ تھی۔ ایک بار عیاض بن غنم نے بھی ان سے مدد مانگی تھی تو انہوںنے صرف عبد بن عوف الحمیری کو ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا تھا اور لوگوں کے استفسار پر وہی جواب دیا تھا جو قعقاع کے بھیجنے پر دیا تھا۔ پھر بھی قعقاع کے ہاتھ آپ نے خالدؓ کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا تھا کہ وہ ان لوگو ں کو اپنے لشکر میں شامل ہونے کی ترغیب دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بدستور اسلام پر قائم رہے اور جنہوںنے مرتدین کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا ۱؎۔ یہ خط موصول ہونے پرخالدؓ نے اپنے لشکر کوترتیب دینا شروع کر دیا۔ د و ہزار سپاہ ان کے پاس موجود تھی۔ قبائل مضر سے اور ربیعہ سے انہوںنے آٹھ ہزار افراد مہیا کے اوردس ہزار کی جمعیت کے ہمراہ عراق روانہ ہوگئے خالدؓ سے پہلے جو امراء عراق میں موجود تھے اور جن کی سرکردگی مثنیٰ کر رہے تھے ان کے پاس آٹھ ہزار فوج تھی۔ اس طرح عراق میں لڑنے والی فوجوں کی تعداد اٹھارہ ہزار ہو گئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ کو ہدایت کی تھی کہ وہ عراق میں جنگ کا آغاز ابلہ سے کریں جو خلیج فارس پر ایک سرحدی مقام تھا۔ ہندوستان اور سندھ کو تجارتی قافلے جاتے تھے وہ یہاں سے سفر شروع کرتے تھے۔ اور ان دونوں ملکوں سے جو تجارتی قافلے عراق آتے تھے وہ سب سے پہلے ابلہ میں قیام کرتے تھے ابلہ کی فتح کے متعلق دو روائتیں مذکورہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں نے ابلہ کو سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں فتح کیا تھا لیکن بعد میں یہ دوبارہ ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیاا اور حضرت عمرؓ بن خطاب کے زمانے میں مسلمان اس پر پوری طرح قابض ہو گئے۔ ۱؎ ازدی نے خالدؓ کے لیے حضر ت ابوبکرؓ کے ایک خط کا ذکر کیا ہے تو جس میں انہوں نے خالدؓ کے لشکریوں کو نصائح فرمائی تھیں حمد و ثنا کے بعد انہوںنے لھکا تھا: میں نے خالد بن ولیدؓ کو عراق جانے کا حکم دیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ وہ اس وقت تک وہاں جنگوں میںمشغول رہیں جب تک میری طرف سے انہیں واپس آنے کا حکم نہ دیا جائے ت بھی ان کے ساتھ جائو اور دشمنوں سے جنگ کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کا ثبوت نہ دو ۔ اچھی طرح جان لو کہ تم نے اپنے لیے جو راستہ چنا ہے اگر حسن نیت سے اس میں قد م اٹھائو گے تواللہ کی طرف سے ثواب کے مستحق ٹھہرو گے۔ جب تم عراق جائو تو اس وقت تک وہیں مقیم رہو جب تک واپس آنے کے متعلق میرے احکام تمہیں نہ پہنچیں۔ اللہ دنیا اور آخرت میں ہمارے اور تمہارے ساتھ ہو اورسب کا م اس کی رضا سے انجام پائیں والسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ طبری ابن خلدون اور ابن اثیر نے اس خط کا ذکر نہیں کیا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اس کی فتح حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوئی البتہ مورخین اس امر رپ متفق ہیں کہ عراق میں سب سے پہلی جنگ حفیر کے مقام پر لڑی گئی ۱؎۔ ہرمز سے مقابلہ ہرمز کی بستی خلیج فارس اورکاظمہ کے سرحدی شہر سے قریب صحرا کے کنارے واقع ہے ایرانیوں کی طرف سے ہرمز اس علاقے کا حاکم تھا جو حسب و نسب اور شرف و عزت میںاکثر امرائے ایران سے بڑھا ہو ا تھا۔ ایرانی معززین کی عادت تھی کہ وہ معمولی ٹوپیوں کے بجائے قیمتی ٹوپیاں پہنتے تھے۔ حسب و نسب وار عزت و شرف میں جو شخص جس مرتبے کا ہوتا تھا اسی مناسبت سے قیمتی ٹوپی پہنتا تھا سب سے بیش قیمت ٹوپی ایک لاکھ درہم کی ہوتی تھی جسے وہی شخص پہن سکتا تھا جس کی بزرگی سلم الثبوت ہو اور جو شرف و عزت اور توقیر و وجاہت میںکمال درجے کو پہنچا ہو ۔ہرمز کے مرتبے کا اندازہ اا امر سے ہو سکتا ہے کہ اس کی ٹوپی کی قیمت بھی ایک لاکھ درہم تھی جسے کوئی کم درجے کاامیر ہرگز نہ پہن سکتا تھا۔ ایرانیوں کے نزدیک تو اس کی وجاہت مسلم الثبوت تھی لیکن عراق کی حدود میں بسنے والے عر ب اسے انتہائی نفرت کی نگاہو ںسے دیکھتے تھے۔ کیونکہ وہ ان عربوں پر تمام سرحدی امراء سے زیادہ سختی کرتا تھا۔ عربوں کی اس سے نفرت اس حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ وہ کسی شخص کی خباثت کا ذکر کرتے ہوئے ہرمز کانام بہ طور ضرب المثل لینے لگے تھے۔ چنانچہ کہتے تھے : فلاں شخص تو ہرمز سے بھی زیادہ خبیث ہے۔ ۱؎ طبری ابن خلدون اثیر دونوں میں ابلہ کے متعلق مذکور ہ اختلاف کاذکر ہے۔ ازدی لکھتے ہیں کہ اہل ابلہ سے جنگ کا آغاز سعید بن قطبہ ذہلی نے کیا تھا لیکن ابلہ والوں کی بہادری کے سامنے ان کی پیش نہ جا سکی۔ جب حضرت خالدؓ عراق پہنچ کر سوار سے ملے تو دونوں میں طے پایا کہ دشمنوں پر یہ ظاہر کیاجائے کہ خالدؓ سوید کوچھوڑ کر مثنیٰ کے پاس چلے گئے ہیں لیکن رات گئے وہ فوج لے کر لشکر گاہ میں پہنچ جائیںَ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جبرابلہ میں مقیم ایرانی لشکر نے خالدؓ کے لشکر کوواپس جاتے دیکھا تو خیال کیاکہ یہ اچھا موقع ہاتھ آیا ہے کہ سوید کی فوج ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی اس لیی یک بارگی بھرپور حملہ کر کے اس کی طاقت ختم کر دی جائے۔ چنانچہ انہوںنے اگلے روز صبح سویرے سوید کی فو ج پر حملہ کر دیا لیکن را ت کے اندھیرے میں خالدؓ کی فوج سوید سے آ کر مل چکی تھی۔ نتیجتاً ایرانیوں کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی۔ اسی قسم کی روایت فتوح البلدان بلاذری میں بھی موجود ہے۔ فلاں شخص ہرمز سے بھی زیادہ بدفطرت اور بدطینت ہے۔ فلاں شخص ہرمز سے بھی زیادہ احسان فراموش ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جزیرہ عرب کی حدود میں بسنے والے عرب اپنے بھائیوں پر مظالم کی داستانیں سن کر صبر نہ کر سکتے تھے۔ اور وقتاً فوقتاً ہرمز کے علاقے پر چھاپے مار کر اس کا آرام و سکون برباد کیے رکھتے تھے۔ ہرمز ایک طرف عربوںکے درپے چھاپوں اور غارت گری سے عاجز رہتاتھا دوسری طرف ہندوستان کے بحری قزاق اسے چین سے نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ وہ کشتیوں میں سوار ہو کر آتے اوراس کے علاقے میں غارت گری کر کے واپس چلے جاتے۔ خالد ؓ یمامہ سے دس ہزار کی جمعیت لے کر عراق روانہ ہوئے تھے۔ عراق کی سرحد پر انہوںنے مثنیٰ کو دو ہزار کی جمعیت کے ساتھ اپنا منتطر پایا۔ انہوںنے لشکر کو تین حصوںمیں تقسیم کر دیا اور ہر حصہ فوج کو ہدایت کی کہ وہ مختلف راستوںسے ہوتا ہوا حفیر پہنچ جائے۔ پہلا لشکر جس کے سردار مثنیٰ بن حارثہ تھے خالدؓ کے کوچ سے دو روز پہلے روانہ ہو گیا دوسرا لشکر جس کی قیادت عدی بن حاتم کر رہے تھے اگلے روز روانہ ہوا۔ تیسرے روز خالدؓ بھی لشکر لے کر روانہ ہوئے ان لشکروں کی روانگی سے قبل خالدؓ نے ہرمز کو ایک خط بھی بھیجا تھا جس میں لکھا تھا: ’’تم اسلام لے آئو۔ امن میںرہو گے اگر یہ بات منظور نہیں تو ذمی بن کر ہماری سلطنت میں شامل ہونا اور جزیہ دینا قبول کرو۔ اگریہ پیش کش بھی تمہیں منظور نہیں تو بعد میں پچھتانے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا ۔ اس صورت میں تم اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرنا کیونکہ ہم اپنے ساتھ ایک ایسی قوم کو لا رہے ہیں جو موت کی اتنی ہی عاشق ہے جتنے تم لوگ زندگی کے شائق ہو‘‘۔ جب ہرمز کو یہ خط ملا تو اس نے شہنشاہ اردشیر کو پیش آمدہ حالات کی اطلاع دی اورخود لشکر جمع کرکے خالدؓ کے مقابلے کے لیے کواظم روانہ ہو گیاا۔ راستے میں اسے معلوم ہوا کہ خالدؓ نے اپنے لشکروں کو حفیر میں جمع ہونے کی ہدایت کی ہے ۔ چنانچہ اس نے حفیر کا رخ کیا اور تیزی سے سفر کرتا ہوا خالدؓ سے پہلے وہاں پہنچ کر پانی پر ڈیرے ڈال دے۔ جب خالدؓ وہاں پہنچے تو انہیںایسی جگہ اترنا پڑا کہ جہاں پانی کانام ونشا ن تک نہ تھا لوگوں نے ان سے اس مشکل کا ذکر کیا تو فرمایا: ’’فکر کی کوئی بات نہیں اسی جگہ پڑائو ڈالواور دشمن کے ساتھ بے جگری سے لڑنے کے لیے تیار ہو جائو۔ مجھے یقین ہے کہ پانی آخر کار ااسی فریق کا قبضہ ہو گا جو لڑائی میں استقلال اور صبر و استقامت کا ثبوت دے گا‘‘۔ ہرمز نے میمنہ اور میسرہ پر شاہی خاندان کے دو آدمیوں قباذ اور انوشجان کو متعین کر رکھا تھا لڑائی شرو ع وہے سے پہلے ہرمز اپنی صفوں سے باہر نکلا اور خالد ؓ کو دعوت مبارزت دی۔ اسے خالدؓ کی بہادری اور شجاعت جوانمبردی اور عظیم مرتبے کا خوب علم تھا اور جانتا ھتا کہ اس نے خالدؓ پر قابو پر کا انہیں قتل کر دیا تو ایرانیوں کا اگر کامل فتح نہیں تو کم از کم آدھی فتح ضرور مل جائے گی لیکن اسے یہ بھی علم تھا کہ خالدؓ کو قتل کرنا اور ان پرقابو پانا آسان نہیں اس لیے اس نے فریب دہی سے کام لیا اور اپنے چند سواروں کو اس کام پر مامور کر دیا کہ جونہی وہ خالدؓ کو آتا دیکھیں فوراً اس پر جھپٹ پڑیں اور قتل کر دیں۔ ادھر جب خالدؓ نے ہرمز کی آواز سنی تو گھوڑ ے سے اترکر پیدل ہ اس کے مقابلے کے لیے رانہ ہوئے۔ قریب پہنچ کر تلوار کھینچی اورہرمز پر حملہ آور ہوئے۔ اس اثناء میں ہرمز کے مقرر کردہ سوارون نے کمین گاہوں سے نکل کر خالد کو قتل کرنا اور ہرمز کو ان کے ہاتھ سے چھڑانا چاہا۔ لیکن مسلمان کچی گولیاںنہ کھیلے تھے۔ قعقاع بن عمرو نے جو بہت غور سے دشمن کی حرکات و سکنات جانچ رہے تھے۔ جونہی ایرانی سواروںکو کمین گاہوںسے نکلتے دیکھا فوراً اپنے دستے کے ہمراہ ادھر کا دخ کیا اور خالدؓ کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی انہیں تلواروں کی باڑوں پر رکھ لیا۔ ا س دوران خالدؓ نے ایک دو واروں کے بعد ہرمز کی گردن اڑا دی اور اپنی صفوں میں واپس چلے آئے۔ اب دونوں فوجوںمیں دست بہ دست جنگ شروع ہو چکی تھی لیکن اپنے سپہ سالار کے مارے جانے کی وجہ سے ایرانیوں کی کمر ہمت ٹوٹ چکی تھی۔ وہ زیادہ دیرتک مسلمانوں کے مقابلے میںنہ ٹھہر سکے اور شکست کھا کر بھاگنے لگے۔ مسلمانوں نے رات کے اندھیرے میں ان کا تعاقب کیا اور دریائے فرات کے بڑے پل (جسر اعظم) تک جہاں آج کل بصرہ آباد ہے۔ انہیں قتل کرتے چلے گئے۔ ان مفرورین میں قباذ اورانوشجان شامل تھے جنہیں ہرمز نے میمنہ او رمیسرہ کاسردارمقررکر رکھا تھا۔ دشمنو ں پرپوری طرح قابوپا لینے کے بعد خالدؓ نے معقل بن مقرن المرفی کو ابلہ جا کر مال غنیت اور قیدیو کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا اور مثنیٰ بن حارثہ کو شکست خوردہ مفرور لشکر کا پیچھا کرنے کی ہدایت کی۔ چنانچہ معقل نے ابلہ کا رخ کیا۱؎ اور مثنیٰ ہزیمت خوردہ لشکر کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ اثنائے تعاقب میں مثنیٰ کا گزر ایک قلعے کی جانب سے ہوا۔ جس میں ایرانی شہزادی رہتی تھی۔ اسی مناسبت سے مورخین عرب اسے حص المراۃ کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ اس قلعے کے کچھ فاصے پر اس کے خاوندکا بھی ایک قلعہ تھا۔ مثنی ٰ نے انے بھائی عنی بن حارثہ کو تو شہزادی کے قلعے کامحاصرہ کرنے کا حکم دیا اور خود اس کے خاوند کے قلعے کا محاصرہ کر کے اسے شکست فاش دی۔ اس کے بعد بدستور ہزیمت خوردہ لشکر کا پیچھا شروع کر دیا جب شہزادی کو اپنے خاوند کی شکست کا حال معلو م ہوا تو اس نے معنی سے مصالحت کر کے اس سے شادی کر لی۔ ۱؎ بعض مورخین معقل کے ابلہ جانے کا واقعہ تسلیم نہیں کرتے ان کاخیال ہے کہ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہی۔ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ابلہ کو حضرت عمرؓ بن خطاب کے عہد میں فتح کیا ۔ اس کے برعکس بعض مورخین کا بیان ہے کہ معقل نے ابلہ فتح کر لیا تھالیکن بعد ازاں اسے ایرانیوں نے واپس لے لیا۔ حضرت عمرؓ کے عہد می عرب دوبارہ اس پر قابض ہو گئے موخر الذکر روایت اور سوید بن قطبہ کے ہاتھوں ابلہ کی تسخیر کی روایت میں (جو ہم پہلے درج کر چکے ہیں) تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ سوید بن قطبہ نے خالدؓ کی اعانت سے ابلہ فتح کیا ہو اور معقل نے جنگ کاظم کے بعد خالدؓ کے حکم کے مطابق صرف مال غنیمت جمع کرنے اور قیدی اکٹھے کرنے پراکتفا کیا ہو۔ عراق کی اس سب سے پہلی لڑائی کو غزوہ ذات السلاسل کا بھی نام دیا جاتاہے۔ کیونکہ اس جنگ میں ایرانیوںنے اپنے آپ کو ایک دوسرے کے ساتھ زنجیروں میں جکڑ لیا تھا تاکہ کوئی بھی شخص میدان جنگ سے فرار نہ ہو سکے۔ لیکن بعض لوگ ا س روایت کو تسلیم نہیںکرتے اور اسے جنگ کاظمہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ یہ جنگ کاظمہ کے قریب لڑی گئی تھی۔ جنگ کاظمہ دور رس نتائج کی حامل ثابت ہوئی۔ اس لڑائی نے مسلمانوں کی آنکھیںکھول دیں اور انہوںنے دیکھ لیا کہ وہ ایرانی جن کی سطو ت و شہرت کاشہرہ ایک عرصہ سے سننے میں آ رہا تھا اپنی پوری طاقت کے باوجود ان کی معمولی فوج کے مقابلے میں بھی نہ ٹھہر سکے ۔ ان کا سردار ہرمز خالدؓ کے ہاتھ سے مارا گیا اور ہزاروںسپاہیوںکو میدا ن جنگ میں کٹوا کر آخر انہیں فرار ہوتے ہی بن پڑی۔ اس جنگ میں مال غنیمت کی جو مقدار ان کے ہاتھ لگی اس کا وہ تصوربھی نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ ہتھیاروں کے علاوہ ہر سوار کے حصے میں ایک ہزار درہم آئے تھے۔ ا س جنگ میں مسلمانوں کی فتح ایک بڑی وجہ حضرت ابوبکرؓ کی وہ پالیسی تھی جو انہوںنے عراق کے کاشتکاروں کے بارے میں وضع کی تھی اور جسے خالدؓ نے سختی سے لباس عمل پہنایا تھا۔ اس پالیسی کے تحت انہوںنے کاشت کاروں سے مطلق تعرض نہ کیا۔ جہاں جہاں وہ آباد تھے انہں وہیں رہنے دیا اورجزیے کی معمولی رقم کے سوا اور کسی قسم کا تاوان یاٹیکس ان سے وصول نہ کیا۔ خالدؓ نے مال غنیمت کاپانچواں حصہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں ارسال کیا اس کے ساتھ ہرمز کی بیش قیمت ٹوپی اور اک ہاتھی بھی جسے مسلمانوں نے لڑائی کے دوران میں پکڑا تھاا۔ اہل مدینہ کو اس سے قبل ہاتھی دیکھنے کاکبھی اتفاق نہ ہوا تھا۔ مدینہ والوں کا تو ذکر ہی کیا عرب کے کسی باشندے نے بھی ابرہہ کے ہاتھی کے سوا آج تک ہاتھی کی صورت نہ دیکھی تھی۔ اس لیے جب عراق سے آئے ہوئے ہاتھی کے مہاوت نے سے مدینہ کی گلیوںمیں پھرایا تو اس عجیب و غریب جانور کو دیکھ کر اہل مدینہ کی حیرت کی انتہانہ رہی ۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ مخلوق کس قسم کی ہے۔ بعض عورتی حیران ہو کر پوچھتی تھیں کہ کیا یہ جانور واقعی اللہ کی مخلوقات میں سے ہے۔ بعض عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ایرانیوں کا بنایا ہواعجوبہ ہے ۔ حضر ت ابوبکرؓ ہاتھی کو مدینہ میں رکھنے کاکوئی فائدہ نظر نہ آیا ۔ اس لیے انہوں نے اسے اس کے مہاوت کے ہمراہ عراق واپس بھیج دیا۔ اس فتح یابی نے مسلمانوں کی ہمتوں کو دو چند کر دیا تھا اور ان میں ایک نیا عزم اور ولولہ پیدا ہو چکا تھا مثنیٰ شیبانی نے تیزی سے شکست خوردہ مفرور ایرانیوں کا تعاقب کر رہے تھے ان کاارادہ تھا کہ ان لوگوں کے لیے مدائن پہنچنے سے پہلے پہلے ان کا مکمل طور پر صفایا کر دیا جائے۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ انہیں مدائن سے خالد ؓ اور ان کے لشکر کے مقابلے کے لیے ایرانیوں کے ایک عظیم الشان لشکر کے روانہ ہونے کی اطلاع ملی۔ یہ لشکر شہنشاہ اردشیر نے اصل میں ہرمز کاخط ملنے پرترتیب دیا تھا اور اپنے ایک سالار قارن بن قریانس کو اس کا سردار مقرر کیاتھا۔ قارن لشکر لے کر مدائن سے روانہ ہو چکاتھا کہ راستے میں اسے قباذ اور انوشجان ملے جو ہرمز کے شکست خوردہ لشکر کے ساتھ بھاگے چلے آ رہے تھے۔اس نے ان کی ہمت بندھائی اوراپنے ہمراہ لے کر روانہ ہوا ۔ کچھ دور بڑھ کر اس لشکر نے مذار میںپڑائو ڈالا جو ایک ندی کے کنارے واقع ہے جو دجلہ اور فرات کو آپس میں ملاتی ہے۔ جنگ مذار جب مثنیٰ کو قارن کے لشکر کی اطلاع ملی تو انہیں خیال پیدا ہوا کہ اتنے عظیم الشان لشکر سے اکیلے مقابلہ کرنا اپنی شکست کو دعوت دینا ے اور سخت خطرہ مول لینے کے مترادف ہو گا۔ انہوں نے اپنے لشکر کیہمراہ مذار کے قریب ہی ایک جگہ پڑائو ڈالا اور خالدؓ کو ای خط لکھ کر تمام حالا ت سے آگاہ کیا۔ خالدؓ نے اس اندیشے کے تحت کہ کہیں قارن مثنیٰ کی قلیل فوج پر حملہ کر کے اسے تباہ و برباد نہ کر دے اپنی فوج کو تیاری کا حکم دیا اور تیزی سے سفر کرتے ہوئے مذار پہنچ گئے۔ خالدؓ کا اندیشہ صحیح تھا۔ قارن اس دورا ن میں برابر مثنیٰ کے لشکر پر حلہ کرنے کی تیاریوں میں مصروف رہا لیکن خالدؓ کے اچانک مذارپہنچ جانے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اصل میں ہرمز کے لشکر کی شکست نے ایرانیوں کے د ل میں ایک آگ لگا دی تھی اور ہر شخص مسلمانوں سے انتقام لینے کے درپے تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مثنیٰ کے کمزور لشکر کو شکست دے کر جذبہ انتقام کو تسکین دے سکیں گے۔ خالدؓ کے مذار پہنچ جانے سے ایرنایوں کو تشویش ضرور ہوئی لیکن ان کے جذبہ انتقام میں کوئی کمزوری نہ آئی۔ قباذ اور انوشجان نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ذلت و رسوئای کا وہ داغ دھونا چاہا جو معرکہ حفیر میں شکست کھانے اور میدان جنگ میں بری طرح فرار ہونے کی وجہ سے ان پر لگ چکا تھا ۔ انہوںنے اپنے لشکر کی ہمت بندھانی شروع کی اور ان کے جذبہ انتقام کو بھڑکا کر یا بار پھر مسلمانوںسے مقابلے کے یے تیار کر دیا۔ ان دو شخصوں اور قارن کا خیال تھا کہ اگر وہ اس وقت خالدؓ کے غیر منظم اور غیر مرتب لشکر پر حملہ کر دیںتو یقینا مسلمانوں کو شکست دے کر انہیں جزیرہ عرب کی جانب پسپا کر سکتے ہیں اور اس طرح ایرانی قوم اور کسریٰ کی نظروںمیں سرخروئی حاصل کرسکتے ہیں۔ خالدؓ نے جب ایرانی لشکر کو جنگ کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا تو انہوںںے بھی لشکر کو فوج کی تیاری کا حکم دے دیا اور ایرانیوں کو موقع نہ دیا کہ وہ انکے غیر مرتب و غیر منظم لشکر پر حملہ کر سکیں۔ جنگ شروع ہوئی تو خالدؓ کے اس مقولے کی علی تصویر ایرانیوں کے سامنے آ گئی کہ میں ایسے لوگوں کو تمہارے پا س لے کر آ رہا ہوںجو موت کے اتنے ہی عاشق ہیں جنتے تم زندگی کے۔ مسلمان ا س بے جگری سے لڑ رہے تھے کہ ان کے سامنے ایرانیوں کی کوئی پیش نہ جاتی تھی۔ مسلمانوں کی تلواریں بڑی بے دردی سے ایرانیوں کے سر اڑا رہی تھیں ۔ قارن قباذ اور انوشجان جن کے سپرد تمام ایرانی فوج کی کمان تھی اور جنہیں بہادری اور شجاعت پر ناز تھا ایک ایک کر کے مسلمان سرداروں کے سامنے آئے لیکن اپنے آپ کو قتل ہونے سے نہ بچا سکے اور تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد تینوں سردار تلوار کے گھاٹ اتر گئے۔ اپنے بڑے بڑے بہادروں اور سرداران فوج کیو ایسی بری طرح قتل ہوتے دیکھ کر ایرانی فوج کے چھکے چھوٹ گئے۔ ممسلمانوں نے ایرانیوں کی گھبراہٹ اور بے چینی سے پور ا پورا فائدہ اٹحایا اورانہیں گھیر کر قت کرنا شروع کر دیا۔ ایرانیوں سے شکست کے آثار تو پہلے ہی پیداہوچکے تھے۔ اس نئے حملے نے ان کے ہوش و حواس باالکل معطل کر دیے اورتھوڑی دیر میں وہ لشکر جو اپنی قوت و طاقت پر نازاں تھا اور جسے فتح سامنے نظر آ رہی تھی خالدؓ کے لشکر کے سامنے بری طرح بھاگ رہا تھا۔ تیس ہزار ایرانی اس دن میدان جنگ میں قتل ہوئے اگر ایرانی فوج کا بیشتر حصہ کشتیوں میں سوار ہو کر جس کا انتظام انہوںنے پہلے سے کر رکھا تھا پار نہ اتر جاتا یا بیچ میں نہر حائل نہ ہوتی تو اس دن مسلمانوں کے ہاتھوں ایک بھی ایرانی کا بچنا ناممکن تھا۔ فتح کے بعد خالد ؓ کچھ عرصے کے لیے مذار ہی میں مقیم ہو گئے اور غنیمت کا پانچواں حصہ فتح کی خوش خبری کے ساتھ سعید بن نعمان کے ہاتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں مدینہ ارسال کر دیا۔ جنگ کے بعد لڑائی میں حصہ لینے والوں اور ایرانی فوج کی حمایت کرنے والوں کو ع اہل و عیال کے قید کر لیاگیا۔ ان قیدیوں میں ابو الحسن بصری بھی شامل تھے۔ جہاں لڑائی میں شامل ہونے والوں اور ان کے مددگاروں پر اس قدر سختی کی گئی وہاں عام رعایا سے بے حد نرمی کا سلوک کیا گیا ۔ کاشت کاروں اور ان تمام لوگوں کو جنہوںنے جزیہ دینے کا اقرار کر لیا تھا ۔ کچھ نہ کہا گیا اور ان کی زمینوں اور جگہوں پر برقرار رکھا گیا ان ابتدائی امور سے فراغت حاصل کر کے خالدؓ نے مفتوحہ علاقے کے نظم و ضبط کی طرف توجہ کی۔ علاقے کے تمام لوگ ذمی قرار پائے اور ان پر جزیہ لگایا گیا۔ جزیہ وصول کرنے کے لیے جا بجا عمال مقرر کیے گئے۔ مفتوحہ علاقے کی حفاظت کے لیے اہوںںے حفیر اور جسیر اعظم پر فوجیں متعین کی تھیں ان کا انتظام اوربہتر بنایا گیا اور فوجوں کے تمام دستوں کو مختلف افسروں کی زیر نگرانی دے کر انہیں دشمنوں کی خفیہ و اعلانیہ سرگرمیوں سے خبردار رہنے اورموقع پڑنے پر ان کا مقابلہ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ خالدؓ کی جنگی مہارت کا ثبوت اس سے بڑ ھ کر اور کیا ہو گا کہ سرزمین ایران میں ان کی پیش قدمی کے آغاز ہی میں کسریٰ کی طاقت ورفوجیں مغلوب ہونی شروع ہو گئیں اور ان کے دم خم حوصلے اور ولولے سب سرد پڑ گئے۔ جنگ مذار حیرہ سے کچھ ہی فاصلے پر ہوء یتھی حیرہ خلیج فارس اور مدائن کے تقریباً درمیان میں واقع ہے۔ جنگ ولجہ ایرانیوںنے کوئی چارہ کار نہ دیکھ کر ان عربی قبائل کو ساتھ ملانا چاہا جو دریائے دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے میں عراق کی سرحدوں کے قریب آباد تھ۔ ان میں سے اکثر قبائل عیسائی تھے جنہیں ایرانی سر توڑ کوشش کے باوجود مجوسی مذہب قبو ل کرنے پر آمادہ نہ کر سے۔ جب مسلمان اس سرزمین میںو ارد ہوئے تو انہوںنے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔ بہ صورت دیگر جزیے کا مطالبہ کیا ان کا فائدہ سراسر جذیہ قبول کرنے میں تھا کیونکہ اس طرح وہ اپنی آادی بدستور برقرار رکھ کر ان مراعات سے فائدہ اٹھا سکتے تھے جو دوسرے مسلمانوں کو حاصل تھیں۔ لیکن مدت درراز تک ایرانیوں کی عمل داری میں رہنے کے باعث وہ ان کے احام کی سرتابی کی جرات نہ کر سکے۔ عراق میں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر ون وائل تھا۔ کسریٰ اردشیر نے انیہں طلب کیا اور انکی ایک فوج مرتب کر کے انہیں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے دجلہ کی جانب روانہ کر دیا۔ لیکن اس خیال سے کہ مسلمانوں رپ فتح یا بی کا فخر کلیۃ عیسائی عربوں کے حصے میں نہ آئے اپنے ایک بہت بڑے سپہ سالار بہمن جازویہ کو بھی ایک بھاری لشکر کے ہمراہ ان کے پیچھے پیچھے کر دیاا عیسائی لشکر نے حیر ہ اورولجہ کے درمیان بسنے والے دوسرے عرب قباائل اور کاشت کاروں کو بھی ساتھ ملا لیا اوراس طرح عربوں کا ایک عظیم الشان لشکر اپنے ہی وطن سے لڑنے کے لیے روانہ ہو گیا۔ جس کے پیچھے ایرانیوں کی ایک بھاری جمعیت چلی آ رہی تھی۔ خالدؓ کو مذار میں یہ خبرین پہنچیں۔ انہوںنے اپنے تمام فوجی افسروں کو جو حفیر کاظمہ اور عراق کے دوسرے حصوں میں موجود تھے کہلا بھیجا کہ وہ دشمن کی کاروائویں سے خبردار رہیں اور اس دھوکے میں نہ آئیں کہ ماضی میں چونکہ بعض عظیم فتوحات حاصل ہو چکی ہیں اس لیے اب دشمن ان کے مقابلے میں سر اٹحا ہی نہیں سکتا۔ وہ خود لشکر لے کر کسریٰ کی بھیجی ہوئی فوجوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ولجہ روانہ ہو گئے اور دشمن کی فوجوں کے سامنے پڑائو ڈال دیا۔ چونکہ دونوں فریق طاقت وقوت اور عزم و ارادہ میں ایک دوسرے سے کسی طرح ہٹیے نہ تھے۔ اس لیے خاصے وقت تک فرح و شکست کا کوئی فیصہ نہ ہو سکا۔ خالدؓ زیادہ دیر تکصورت حال برداشت نہ کر سکے اور دو سرداروں کو حکم دیا کہ وہ اپنا دستہ لے کر فوج سے علیحدہ ہوجائیں اور دشمن کی صفوں کے پیچھے جا کر چھپ جائیں۔ جب لڑائی شروع ہو تو وہ دشمن پر اچانک پیچھے کی طرف سے حملہ کر کے اس کا تیا پانچا کر دیں۔ لیکن ان دستوں کو کمین گاہوں کے اندر چھپنے میں دیر لگ گئی جس کے باعث وہ مقررہ وقت پر میدان جنگ میںپہنچ کر دشمن پر حملہ آور نہ ہو سکے۔ جنگ میں خبھی مسلمانوں کا پلہ بھاری ہوتاتھا اور وہ دشمن کو پیچھے دھکیل دیتے تھے کبھی دشمن کا زور بڑھ جاتا تھا اور وہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتے۔ آخر عین اس وقت جب فریقین میںسے کسی کو بھی واضح فیصلے کا یقین نہ رہا تھا ار دونوں مایوس ہو کر اپنے اپنے کیمپوں میںواپس جانے اور اگلے روز کی لڑائی کی تیاری کرنے واے تھے اسلامی فوج کے دستے کمین گاہوں سے نکلے اور عقب سے کسریٰ کے لشکر پر حملہ آور ہوئے۔ ایرانی پہلے ہی مسلمانوں کی زبردست مقاومت سے گھبرائے ہوئے تھے۔ یہ نئی مصیبت دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے اور حوصلہ ہار بیٹھے خالدؓ کی فوجوں نے سامنے اور کمین گاہوں سے نکل کر آنے ولاے دستوں نے پیچھے سے دشمن کو گھیر کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ جنگ الیس اس شکست نے جو قبیلہ بکر بن وائل کو اپنے ہم قوم اور ہم وطن لوگوں کے ہاتھوں ے اٹھانی پڑی تھی عراق کے عربی النسل عیسائیوں کو آتش زیر پا کر دیا۔ انہوںنے طیش میں آ کر مسلمانوں سے ایک بار پھر جنگ کرنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اپنا سردار بنو عجلان کے ایک شخص عبد السود عجلی کو بنایا اورحیرہ و ابلہ کے درمیان مقام الیس پر فوجیں اکٹھی کرنے لگے۔ ساتھ ہی دربار ایران سے مدد کی درخواست بھی کی۔ وہاں سے بہن جازویہ کو حکم ملا یکہ وہ بھاری جمعیت لے کر عیسائیوںکی مدد کو پہنچے۔ یہ احکا م ملنے پر بہمن جاذویہ نے مناسب خیال کیا کہ وہ مسلمانوںسے فیصلہ کن مقابلہ کرنے کے لیے شہنشاہ اردشیر سے بالمشافہ گفتگو کرے۔ اس نے فوج کی کجمان ایک سردار جابان کے سپرد کر کے اسے ہدایت کی کہ وہ فوج لے کر الیس جائے لیکن جہاں تک ممکن ہو دربا ر ایران سے اس کی واپسی تک جنگ کا آگاز نہ کیا جائے۔ خود وہ شہنشاہ سے مشورہ کرنے کے لیے روانہ ہو گیاا۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ شہنشاہ اردشیر بیمار ہے۔ وہ وہیںٹھہر گیا لیکن جابان کو کوئی ہدایت نہ بھیجی۔ ادھر جابان نے الیس پہنچ کر عیسائی فوجوں کے متصل پڑائو ڈال یلا اور انہیںمسلمانوں پر حملہ کرنے کے متعلق مشورے دینے لگا۔ خالدؓ کو معلو م تھا کہ عیسائیوں کی مدد کے لیے ایرانیو ں کا لشکر بھی جابان کے زیر سرکردگی میدان جنگ میں موجود ہے۔ انہیں صرف عربی النسل عیسائیوں سے مقام الیس میں اجتماع کی خبر ملی تھی۔ وہ اپنا لشکر لے کر پہلے حفیر پہنچے اور یہ اطمینان کر نے کے بعد کہ ان کے مقرر کر دہ اعمال وہاں کا نظم ونسق کامیابی سے چلارہے ہیں اور پشت کی جانب سے کسی حملے کااندیشہ نہیں دشمن کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ الیس پہنچتے ہی انہوںنے عیسائیوں کو وقع تیاری کا دیے بغیر ان سے لڑاایء چھیر دی۔ یہ حملہ اس قدر اچانک ہوا کہ عیسئای بالکل نہ سنبھل سکے اور پہلے ہ ہلے میں ان کا سالار قیس بن مالک مارا گیا۔ جب جابان نے محسوس کیا کہ عیسائیوں کی صفوں می اضطراب پیدا ہونے لگا ہے تو وہ ایرانی فوج کاایک دستہ لے کر آگے بڑھا اور جوش انگیز جملوں سے عیسائیوں کی ہمت بندھانے لگا اورانہیں جم کر مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرنے لگا۔ اس کے مقرر کیے ہوئے آدمی عیسائیوں کی صفوں میں اعلا ن کرتے پھرتے تھے کہ بہمن جازویہ ان کی مدد کے لیے عنقریب ایک لشکر جرار لے کر پہنچنے والا ہے۔ اس کے آنے تک پامردی سے مسلمانوں کامقابلہ جاری رکھیں اورتمام خطرات کو نظر انداز کر کے بہادروں کی طرح میدان جنگ میںڈٹے رہیں۔ چنانچہ عیسائی سنبھل گئے اورانہوںںے بڑی جرات اور دلیری سے مسلمانوں کے پیہم حملوں کو روکنااور ان کا مقابلہ کرنا شروع کیا۔ یہ عزم و ثبات اور صبر و استقلال دیکھ کر خالدؓ حیران رہ گئے اور انہوںنے مسلمانوںکو جوش دلایا کہ وہ ایک بارپھر بھرپور طاقت سے دشمن پر حملہ شروع کر دیں۔ عیسائیوں کو لڑتے ہوئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کی امیدوں کا واحد سہارا بہمن جاذویہ تھا۔ کیونکہ اس کے آنے تک ایرانی فوج ان سے مل کر جنگ میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ لیکن بہمن کا کہیں پتا نہ چتھا۔ جابان بھی حیران تھااکہ کیا کرے کیانہ کرے۔ ادھر مسلمانوں کا دبائو برابر بڑھتا چلا جا رہا تھا اور ان کے مقابلے میں عیسائیوں کی کوئی پیش نہ جا رہی تھی۔ آخر دشمن کی طاقتوں ے جواب دے دیا۔ ایک ایک کر کے ان کی صفیں ٹوٹنے لگیںَ اور وہ میدان جنگ سے فرار ہونے لگے۔ خالدؓ نے یہ دیکھ کر فوج میں اعلان کر دیا کہ بھاگنے والوں کا تعاقب کیا جائے اور انہیں زندہ پکڑ کر ان کے سامنے حاضر کیاجائے۔ صرف اسی شخص کو قتل کیا جائے جو کسی طرح قابو میں نہ آء یئاور مزاحمت پر آمادہ ہو جائے۔ چنانچہ مسلمانو ں اور ان کے مددگار عرواقی عربوں نے جو اسلامی فوج میں شامل تھے ایسا ہی کیا اور عیسائی گروہ در گروہ میدان جنگ میں لائے جانے لگے۔ جابان کی ایرانی فوجوں نے جنگ شروع ہونے سے پہلے کھانا تیار کیا تھا اور وہ اطمینان سے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مسلمان بلائے ناگہانی کی طرح ان پر آٓپڑے اور وہ کھانا اسی طرح چھوڑ کر فرار ہو گئے خالد ؓ نے اپنی فوج سے کہا: ’’یہ کھانا اللہ نے تمہارے لیے تیار کرایا تھا اب تم مزے سے اسے کھائو‘‘۔ مسلمان دستر کوانوں کے اردگرد بیٹھ کر اور کھانا شروع کر دیا۔ عجیب عجیب کھانے تھے جنہیںمسلمانوںنے کبھی دیکھ اتھا نہ چکھا تھا۔ وہ کھاتے جاتے تھے اوراللہ کا شکر ادا کرتے جاتے تھے۔ جس نے انہیں بے مانگے ان نعمتوں سے نوازا تھا۔ الیس کے قریب دریائے فرات اور دریائے باوقلی کے سنگم پر ایک شہر امغیشیایا منیشیا آباد تھا جو آباد ی کی کثرت اور مال و دولت کی فراوانی میں حیرہ کا ہم پلہ تھا۔ اس کے باشندو ں نے بھی الیس کی جنگ میں عیسائیوں اور ایرانیوں کی مدد کی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد خالدؓ نے اس قصبے کا رخ کر کے اسے فتھ خر لیا۔ یہاں سے بھی مسلمانوں کو کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا اورجس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ مال غنیمت میں ہر سوار کے حصے میں علاوہ احصے کے جو اسے ملا تھا پندرہ سو درہم آئے۔ اس کے بعد خالدؓ نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ اور ان جنگوں میں گرفتار ہونے والے قیدی حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میںروانہ کر دیے۔ انہیں کے ہمراہ ہی بنی عجل کے ایک شخص جندل کو بھی بھیج اگیا جس نے الیس کی فتح مال غنیمت اور قیدیوں کی کثرت اور خالدؓ کے کارناموں کا حال بالتفصیل حضرت ابوبکرؓ سے بیان کیا۔ یہ واقعات سن کر انہوںنیفرمایا : عورتیںاب خالدؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عاجز ہیں۔ انہوںنے جنگ الیس کے قیدیوں میں سے ایک لونڈی جندل کومرحمت فرمائی اور سطلنت کے تمام حصوںمیں قاصد روانہ کیے جنہوںنے قریہ قریہ پھیل کر لوگوں کو خالدؓ اور لشکر اسلام کی فتوھات اور عظیم الشان کارناموں سے آگاہ کیا۔ قدیم مورخین کے بیان کے مطابق ان جنگوں میں دشمن کے مقتولوں کی تعداد ستر ہزار تھی۔ بعض مورخین نے الیس اور امغیشیا کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ان جنگوں میں مسلمانوںںے انتہائی فساوت قلبی کا ثبوت دیا ۔ انہوںنے لکھا کہ کاش یہ واقعات جوتاریخوں میںبیان کیے گئے ہیں غلط ہوتے گو بظاہر انہیںجھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ کئی راویں نے ا نکا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تہذیب ابھی تک اس بلند مقام تک نہیں پہنچی کہ جہاں وہ اپنے آپ کو ہر قسم کی بہییمیت سے کاملاً مصون و مامون کر سکے۔ گوزبان سے ا س کا اقرار نہیں کیا جاتا لیکن درحقیقت آج بھی وحشت و بربریت کا شمار ان اسباب میں ہوتاہے جنہیں تہذیب و تمدن کی استواری میں ممد و معاون خیال کیا جاتا ہے۔ آج بھی قومی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے جنگ کاوجود ناگریزقرار دیا جاتاہے۔ وہی قومیں اقوام عالم کی نظروں میں سر بلند سمجھی جاتی ہیں جو ہلاکت خیز ہتھیاروں کی تیاری میںاپنی مد مقابل قوموں سے کسی طرح م ترنہ ہوں اورجو قوم جنگی تیاریوں میں کوتاہی برتتی ہے اس کا شمار پست اور غیر ترقی یافتہ اقوام میں کیا جاتاہے۔ اس صورت حال کی روشنی میں اگر کوئی سپہ سالار دوران جنگ میں اپنے مدمقابل سے جابرانہ طور سے پیش آتا ہے اور خونریزی کے لیے غیر معمولی طریقے استعمال کرتاہے تو انسانی سرشت کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی اہم اور قابل اعتراض بات نہیں۔ بعض اوقات سپہ سالار اس خدشے کے پیش نظر سختی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مد مقابل کو یونہی چھوڑ دیاگیا تو آئندہ چل کر اس کے لیے دوبارہ خطرے کا باعث بن جائے گا اس لیے وہ بد عہدی اور بغاوت کے ہرامکانی خطرے سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی غرض سے میدان جنگ میں بے دردانہ دشمنوں کا قتل عام کرتاہے اور ان کے ولولوں کو سرد کر کے انہیں دوبارہ سر اٹھانے کے ناقابل بنا دیتا ہے۔ خالدؓ کو بھی اسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ مذار اور حفیر میں ایرنیوں کو جو عبرتناک شکست اٹھانی پڑی تھی اس کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے عراق میں مقیم عربی النسل عیسائیوں کومسلمانوں کے خلاف نبرد آزما کر دیا اور ا س طرح االیس کا معرکہ پیش آیا۔ فتح یاب ہونے کے بعد خالدؓ نے چاہا کہ ایرانیوں اور ان کے مددگاروں کی جنگی روح کو بالکل کچل دیا جائے کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکیں ۔ اس غرض سے انہوںنے جو طریقے اختیار کیے اان کے باعث واقعی ایرانیوں کے حوصلے بالکل پست ہو گئے۔ کسریٰ اردشیر کو جو اس وقت بیمار تھا ا س قدر صدمہ پہنچا کہ اس کے اثر سے وہ جانبر نہ ہو سکا اورنہایت حسرت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ حیرہ اردشیر کی موت سے ایرانی دوگونہ مشکلات میں مبتلا ہو گئے۔ ایک طر ف شہنشاہ کی موت کا صدمہ دوسری طرف صحرائے شام اور دریائے دجلہ و فرات کے درمیان علاقے میں مسلمانوں کی روز افزوں پیش قدمی ۔ ان پر یاس و نومیدی کا غلبہ تھا وہ اپنے آپ میں مسلمانوں کے مقابلے کی طاقت نہ پاتے تھے اپنے علاقوں سے مسلمانوں کو نکالنا انہیں ناممکن نظر آتاتھا۔ پھر بھی خالدؓ ایرانیوں کی ساپژمردگی سے کسی قسم کے دھوکے میں مبتلانہ ہوئے اور ایرانیوں پر عظیم فتوحات حاصل کرنے کے باوجود اپنی قوت و طاقت پر کبھی نازاں ہوئے اور وہ جانتے تھے کہ عیسائی قبائل جنہیں ایرانیوں نے مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما کر دیا تھا ۔ اگرچہ اس وقت خاموش ہیں لیکن غیض و غضب اور انتقام کی آگ ان کے دلوں میں بدستور بھڑک رہی ہیں اور مناسب موقع آنے پر ظاہر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ اس لیے اگر اسی وقت بغاوت اور سرکشی کے ان جراثیم کا پوری طرح قلع قمع نہ کیا گیا ور جزیرہ عرب کو جانے والے تمام راستوں کی حفاظت نہ کی گئی تو آئندہ مسلمانوں کو عظیم خطرات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے انہوںنے مناسب سمجھا کہ حیرہ پر جلد ا ز جلد تسلط حاصل کرنا چاہیے تاکہ دریائے فرات کے مغرب سے جزیرہ نمائے عرب کی حدود تک سارا علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آ جائے اورانہیں پشت کی جانب سے کسی حملے کا اندیشہ نہ رہے۔ اس زمانے میں حیرہ کا حاکم ایک ایرانی مرزبان آزاذبہ تھا۔ پچیس سال بیشتر عراقی عربوں کا یہ دارالحکومت اپنی اس شان و شوکت سے محروم ہو چکا تھا جو اسے ان عربوں کی حکومت کے زمانے میں نصیب ہوئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ لخمیوں کا (جنہوںنے دوسری صدی عیسوی میں بہ مقام حیرہ اپنی سلطنت قائم کی تھی اور جو صدیوں تک یہاں حکمران رہے) طائیوں نے زبردست اختلاف پیدا ہو گیا اور دونوں میں جنگ چھڑ گئی۔ کسریٰ نے جنگ و جدل کے اس سلسلے میں فائدہ اٹھانا چاہا اور لخمی بادشاہ نعمان بن منذر کے خلاف طائیوں کی مدد کر کے نعماان کو قتل کراڈالا اور ایاص بن قبیضۃ الطائی کو حیرہ اور اس کے گرد و نواح کا حاکم بنا دیا۔ ابھی ایاس کو حاکم بنے چند سال ہی ہوئے تھے کہ ذوقار کے مقام پر بنو بکر بن وائل ے ایرانیوں کے لشکر کو جسے ایاس کی پشت پناہی حاصل تھی شکست دے دی اور جس کے نتیجے میں ایاس کی حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے اور کسریٰ نے اپنی طرف سے ایک شخض کو حیرہ کا رزبان حاکم بنا دیا۔ اس طرح حیرہ اپنی شان و شوکت سے محروم ہو گیا۔ پھر بھی عربوں کو اس سے دلی تعلق تھا اور وہ اس کی شان و شوکت سے دوبارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ جب خالدؓ نے مسلمانوں کے خلاف ان عیسائیوں کا غیض و غضب دیکھا تو انہیں اندیشہ پیدا ہو گیا کہ مبادا بنو بکر بن وائل طائیوں اور حیرہ میں مقیم دوسرے عربوں کو قومی عصبیت کی بنا پر ساتھ ملا کر ان کے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور پیچھے سے ا کا راستہ کاٹنے کی کوشش کریںَ اسی لیے انہوںنے حیرہ پر حملہ کر کے اس پر قابض ہو گئے اوراسے اپنا ہیڈ کوارٹر بنانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ ادھر اہل حیرہ بھی خوش فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ انہیں الیس اور امغیشیا کے معرکوں کا مفصل حال معلوم ہو چکا تھا اور یقین تھا کہ وہ دن دور نہیں جب کہ خالدؓ کی فوجوں کا رخ ان کی جانب پھرے گا۔ حاکم حیرہ نے پہلے ہی اندازہ کر لیا تھا کہ خالدؓ حیرہ پہنچنے کے لیے دریائی راستہ اختیار کریں گے اورامغیشیا سے کشیتوں میں سوار ہو کر حیرہ پہنچیں گے۔ وہ اپنی فوج لے کر حیرہ سے باہر نکلا اوراپنے بیٹے کو دریائے فرات کا پانی روکنے کا حکم دیا تاکہ خالد ؓ کی کشتیاں دریا میں پھنس جائیں اور آگے نہ برھ سکیں۔ آزازبہ کا اندازہ بالکل صحیح ثابت ہوا۔ خالدؓ امغیسیا سے کشتیوںمیں سوار ہو کر اور بہ جانب شمال حیرہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ انہوںنے ابھی تھوڑیسی مسافت طے کی تھی کہ دریا خشک ہوگیا اور تمام کشتیاں کیچڑ میں پھنس گئیںَ خالدؓ کو بے حد تعجب ہوا اور انہوںنے ملاحوں سے اس کا سبب پوچھا انہوںنے بتایا کہ اہل فارس نے دریا پر بند باندھ کر اس کا پانی روک لیا ہے اور ساراپانی دریا سے نکلنے والی نہروںمیں چھوڑ دیا ہے۔ یہ معلوم کر کے خالدؓ نے کشتیوں کو تو وہیں چھوڑا او ر خود فوج کا ایک دستہ لے کر دریا کے دھانے کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کرد یکھا کہ آزاذبہ کا لڑکادھانے پر کھڑ دریا کا رخ پھیرنے کے کام کی نگرانی کر رہا ہے۔ انہوںنے اچانک اس پرحملہ کر کے اس کی فوج کو قتل کرڈالا ور بند توڑ کر دریا میں دوبارہ پانی جاری کر دیا۔ وہ خود اپنے سواروں کے ہمراہ کھڑے ہوکر اس کام کی نگرانی کرتے رہے کشتیوں نے دوبارہ سفر شروع کر دیا اور اسلامی لشکر لے کر خورنق پہنچ گئیں جہاں خالد نے لشکرکو اترنے کا حکم دیا اور خورنق کے مشہور محل کے سامنے خیمہ زن ہو گئے ۔ آزاذبہ حاکم حیرہ کو اپنے بیٹے کے قتل اور اردشیر کی وفات کی خبر ایک ساتھ ملی۔ اس نے اپنی خیریت اسی میںسمجھی کہ وہ خالدؓ کے آنے سے پیشتر بھاگ کر جان بچا لے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ ادھر خالدؓ مکمل تیار یکے بعد فوج لے کرحیرہ کی جانب بڑھے ۔پہلے خورنق اور نجف پر قبضہ کیا جہاں گرمیوں کے ماسم میں حیرہ کے امراء آ کر ٹھہرتے تھے۔ اس کے بعدحیرہ کے سامنے پہنچ کر ڈیرے ڈال دیے۔ اگرچہ آزاذبہ جان بچاکر حیرہ سے بھاگ گیا تھا لیکن اہل حیرہ ے ہمت نہ ہاری۔ وہ شہر کے چار قلعوں میں محصو رہو کر بیٹھ گئے اور لڑائی کی تیاریاں شروع کر دیںَ خالدؓ نے ان قلعوں کا سختی سے محاصرہ کر لیا اور انہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیاا جب یہ لو کسی طرح صلح پر آمادہ نہ ہوئے تو خالدؓ نے انہیں کہلا بھیجاکہ اگر انہوں نے ایک دن کے اندر اندر ہتھیار نہ ڈالے او ران کی بیش کردہ تین باتوں میں سے ایک یعنی ’’اسلام‘‘ ’’جزیہ‘‘ یا ’’جنگ‘‘ قبو ل نہ کی تو انہیں بالکل تہس نہس کر دیا جائے گا اوران کی تباہی کی ذمہ داری انہیں پر ہو گی۔ لیکن ان لوگوں نے صلح کی بات چیت کرنے کے بجائے اسلامی فوجوں پر سنگ باری شروع کردی۔ مسلمان بھی جواب میں ایرانیوں پر تیروں کا مینہ برسانے لگے جس سے ان کے بے شمار آدمی ہلاک ہوئے ۔ یہ صورت حال دیکھ کر اہل حیرہ بہت گھبرائے اور شہر میں پادریوں اور راہبوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوںنے ایرانی سرداروں سے فریاد کی کہ اس خون ریزی کی ساری ذمہ داری تم پر ہے خدا کے لیے سنگ باری بندکر دو اور لوگوں کو اس مصیبت سے نجات دلائو۔ کوئی چارہ کار اور راہ فرار نہ دیکھ کر قلعوں کے سرداروں نے صلح پر آمادگی ظاہر کی۔ انہوںنے اسلامی فوج کے سرداروں کو کہلا بھیجا کہ ہم آپ کی پیش کردہ تین باتوں یں سے کوئی ایک بات قبول کرنے کے لیے تیار ہیں اس لیے براہ کرم تیر اندازی بند کر دیں اور اپنے سپہ سالار کو اس کی اطلاع دے دیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے تیر اندازی بند ک ردی اور خالدؓ کو مطلع کیا کہ اہل حیرہ صلح کرنے کے لیے تیار ہیں اور اس سلسلے میں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ خالدؓ نے انہیں اپنے پاس آنے کی اجازت دے دی۔ اپنے وعدے کے مطابق سرداران حیرہ اپنے اپنے قلعوں سے نکل کر معززین شہر کے ہمراہ اسلامی لشکرو کے سرداروں کے پاس پہنچے جہنوںنے انہیں خالدؓ کھے پاس رونہ کر دیا خالدؓ باری باری ہر قلعے کے لوگوں سے ملے اور انہیں ملامت کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم پر افسوس تم نے اپنے آپ کو کیا سمجھ کر ہم سے مقابلہ کیا اگر تم عرب ہو تو کس وجہ سے تم اپنے ہی لوگوں کا مقابلہ کرے پر آمادہ ہو جائو گے اور اگر عجمی ہو تو کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم ایک ایسی قوم کے مقابلے میں جیت جائوگے جو عدل و انصاف میں نظیر نہیں رکھتی!‘‘۔ سرداروں نے جزیہ دینے کا اقرار کر لیا۔ خالدؓ کوامید تھی کہ ہم قوم ہونے کی وجہ سے یہ عراقی عرب ضرور اسلام قبول کر لیںگے ۔ لیکن انہیں بے حد تعجب ہوا کہ جب انہوںنے بدستو ر عیسائی رہے پر اصرار کیا۔ خالدؓ نے فرمایا: ’’مجھے تم سے اس جواب کی امید نہ تھی۔ کفرکا رستہ یقینا ہلاکت کی طرف جاتاہے۔ احمق ترین عرب وہ ہے جو عربی شاہراہ ترک کر کے عجمی راہ اختیار کرتاہے‘‘۔ لیکن خالدؓ کی باتوں کا ان سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا اورانہوںنے بدستور عیسائی رہن یپر اصرار کیا۔ اس ی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ وہ مذہبی آزادی کے حق سے پوری طرح فائدہ اتھانا چاہتے ہوں گے اور اسلامی سپہ سالار کی طرف سے اسلام قبول کرنے کی دعوت کو اپنے حقوق میںناجائز مدافعت تصورکرتے ہوں گے۔ دوسرا سبب یہ ہو سکتاہے ک انہیں خیال ہو گا کہ نہ معلوم مسلمانوں کو عراق میں ثبات و استقلال میسر آتا ہے یا نہیں اور ان کی حکومت برقرار رہتی ہے یا نہیں ۔ اس لیے ان غیریقینی حالات میں مذہب کیوں تبدیل کریں۔ خالدؓ نے سرداران حیرہ سے ای لاکھ نوے ہزار درہ سالانہ جزیے پر صلح کی تھی اس سلسلے میں باقدہیہ صلح نامہ لکھا گیا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ عہد نامہ ہے جو خالدؓ بن ولید نے سرداران حیرہ عدہ بن عدی‘ عمرو بن عدی‘ عمرو بن المسیح‘ ایاس بن قبیصتہ الطائی اور حیری بن اکال سے کیا ہے۔ اہل حیرہ نے یہ عہد نامہ تسلیم کر لیا ہے اور اسے اپنے سرداروں کو اس کی تکمیل کے لیے مجاز گرداناہے۔ عہد نامے کے مطابق اہل حیرہ کو ایک لاکھ نوے ہزار درہم سالانہ جزیہ ادا کرنا ہو گا۔ یہ جزیہ ان کے پادریوں اور راہبوں سے بھی لیا جائے گا البتہ محتاجوں اپاہجوں اور تارک الدنیا راہبوں کو معاف ہو گا۔ اگریہ جزیہ باقاعدہ ادا کیا جاتا رہا تو اہل حیرہ کی حفاظت کی ساری ذمہ داری مسلمانو ں پر ہو گی اگر وہ حفاظت میں ناکام رہے تو جزیہ نہ لیاجائے گا اگرقول یا فعل کے ذریعے سے بدعہدی کی گئی تو یہ ذمہ داری ختم سمجھی جائے گی یہ معاہدہ ربیع الاول ۱۲ھ میں لکھا گیا‘‘۔ اہل حیرہ نے جزیے کے علاوہ خالدؓ کو کچھ تحفے بھی دیے جو انہوں نے مال غنیمت کے ہرماہ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیے۔ انہوں نے خالدؓ کوکہلا بھیجا کہ اگر یہ تحفے جزیے میں شامل ہیں تو خیر ورنہ انہیں جزیے کی رقم میں شامل کر کے باقی رقم اہل حیرہ کو واپس کر دو۔ جب حیرہ کی فتح کی تکمیل ہو چکی تو خالدؓ نے آٹھ نفل بہ طور شکرانہ پڑھے۔ اس کے بعد اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’جنگ موتہ کے دن میرے ہاتھ میںنوتلواریں ٹوٹیں تھیں لیکن جس قدر سخت مقابلہ مجھے اہل فارس سے پیش آیا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور اہل فارس میں سے الیس والوں نے جس جواںمردی سے میرا مقابلہ کیا اس کی نظیر میںنے پہلے کبھی نہیں دیکھی‘‘۔ فتح کے بعد خالدؓ نے حیرہ کو مسلمانوں کافوجی مستقر اور مفتوحہ علاقے کا دارالحکومت بنایا۔ یہ پہلا اسلامی دارالحکومت تھا جو جزیرہ عرب کے باہر قائم کیا گیا تھا۔ پھر بھی یہاں کا نظم و نسق آپ نے مقامی سرداروں ہی کے ہاتھوں میں رہنے دیا۔ و ہ اپنی اس قدر حوصلہ افزائی سے بہت خوش ہوئے اور دل و جان سے ان کی اطاعت و فرماں برداری کا دم بھرنے اورحیرہ اور اس کے گرد و نواح میں سکون و اطمینان کی فضا پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہونے لگے۔ جب حیرہ ے قریبی باشندوں نے دیکھا کہ اہل حیرہ اسلامی عدل انصاف سے کاملاً بہرہ ورہو رہے ہیں تو انہیں اپے مذبہ پر قائم رہنے مذہبی رسوم ادا کرنے اور عبادات بجا لانے کی پوری آزادی حاصل ہے اور وہ اطمینان سے اپنے کاروبار میںمصروف ہیں اوردوسری طرف ایرانی حکومت ان کی طرف سے بالک غافل ہے تو انہوں نے بھی خالدؓ سے مصالحت کرنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے کا ارادہ کر یلا۔ انہوںنے دیکھا کہ مسلمانوں کی حکومت میں غریب کاشت کار بڑے اطمینان سے کھیتی باڑی میںمشغول ہیںَ مسلمان نہ صرف ان سے مطلق تعرض نہیں کرتے بلکہ ایرانی زمینداروں کے ہاتھوں انہیں جن مظالم اور سختیوں سے گزرناا پڑتا تھا ان کا وجود بھی باقی نہیں مسلمان ان کے حقوق کی پوری نگہداشت کرتے ہیں تو ان کے دل بے اختیار مسلمانوں کی طرف مائل ہو گئے۔ سب سے پہلے جس شخص نے خالدؓ کی جانب صلح کا ہاتھ بڑھایا وہ دیر ناطف کا پادری صلوبابن نسطونا تھا اس نے بانقیا اور بسما کے ان قصبات کی ساری اراضی کے لگان کی ذمہ داری قبول کرلی جو دریائے فرات کے کنارے واقع تھی۔ کسریٰ کے موتیوں کے علاوہ اس نے اپنی ذات ور خاندان کی طرفف سے دس ہزار دینار دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ باقاعدہ یہ معاہدہ لکھا گیا۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ معاہدہ خالد بن ولیدؓ کی جانب سے صلوبا نسطونا اور اس کی قم کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق تم سے دس ہزار ددرہم سالانہ جزیہ وصول کیا جائے گا۔ کسریٰ کے موتی اس کے علاوہ ہوں گے۔ یہ رقم مستطیع اور کمانے والے افراد کے ان کی آمدنی اور حیثیت کے مطابق سالانہ وصول کی جائے گی اس جزیے کے بدلے مسلمانوں کی طرف بانقیا اوربسما کی بستیوں کی حفاظت کی جائے گی۔ تمہیں اپنی قوم کانقیب مقرر کیا جاتاہے جسے تمہاری قوم قبول کرتی ہے۔ اس معاہدے پر میں اور میرے ساتھ کے سب مسلمان رضاامند ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں اور اسی طرح تمہاری قوم بھی اس پر رضامند ہے اوراسے قبول کرتی ہے‘‘۔ صلوبا کے بعد عراق کے دوسرے زمینداروں نے بھی خالدؓ کی اطاعت قبول کر لی فلالیج سے ہرمزو جرد تک کے علاقے بیس لاکھ درہ پر مصالحت ہوئی۔ اس طرح وہ سارا علاقہ جوجنوب میں خلیج فارس سے شمال میں حیرہ تک اور مغرب میں جزیرہ عرب سے مشرق میں دریائے دجلہ تک پھیلاہواتھا خالدؓ کے زیر نگیں آ گیا۔ انہوںنے ان علاقوں میںامراء مقرر کے بھیجے جن کے سپرد امن و امان اور شہری نظام بحال کرنے کے علاوہ خراج کی وصولی کاکا بھی تھا۔ علاوہ بریں انہوںنے مختلف شہروں میں فوجی دستے بھی متعین کیے تاکہ اگر کوئی بغاوت پھوٹ پڑے یا کسی جانب سے حملے کا خطرہ ہو تو اس کا تدارک کیاجا سکے۔ ان دستوں کے تقرر سے شوریدہ لوگوں کے حوصلے بالکل پست ہو گئے ہیں او ر وہ اسلامی حکومت سے بغاوت کا خیال بھی دل میںنہ لا سکے۔ اس زمانے میں جب مسلمان دجلہ کے اس پار فتوحات پر فتوحات حاصل کرنے میںمصروف رہے تھے اہل فارس کا اپنے اندرونی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے تھے۔ اردشیر کی وفات سے ایرانی شہنشاہی کا شیرازہ منتشر ہو چکاتھا۔ تمام شہزادے جنہیںسلطنتکا وارث بننا تھا اپنے حریفوں کے ہاتھوں قتل کیے جا چکے تھے۔ اور ایرانیوں کی سمجھ میںنہ آ رہا تھا کہ کس شخص کے سر پربادشاہی کا تاج رکھیں یکے بعد دیگرے کئی لوگ تخت بادشاہی پر متمکن ہوئے۔ لیکن کسی کو بھی چند دن سے زیادہ بادشاہی کرنا نصیب نہ ہوئی اور اس طرح سلطنت کی کمزوری میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ ان حالات کی موجودگی میں ایرانیوں نے مناسب سمجھا کہ خالدؓ کے مفتوحہ علاقوں پر حملہ کر کے انہیں دوبارہ فتح کر نے کی نسبت بہتر یہ ہے کہ جو علاقہ اس وقت ں کے پاس ہے اسے ایرانی فوج کے بل بوتے پر مسلمانوں کے قبضے میں آنے سے محفوظ رکھا جائے۔ چنانچہ انہوںنے دریائے دجلہ کی دوسری طرف حفاظتی انتظامات شروع کر دیے۔ خالدؓ ان فوجی انتظامات اور ایرانی فوج کو مطلق خاطر میں لانے والے نہ تھے اورنہ ایرانی اپنی پوری قوت و طاقت کے باوجود اسلامی افواج کے مقابلے میں ٹھہر ہی سکتے تھے لیکن جس چیز نے خالد کو آگے بڑھنے سے روک رکھاتھا وہ حضرت ابوبکرؓ کا یہ حکم تھاا کہ جب تک عیاض بن غنم دومتہ الجندل کی فتح سے فارغ ہو کر ان کے پاس نہ پہنچ جائیں اس وت تک خالدؓ حیرہ کو نہ چھوڑیں اورنہ مزید فتوھاات کے لیے آگے بڑھیںَ ادھر عیاض دومتہ الجندل میںپھنسے ہوئے تھے اور جب سے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں وہاں بھیجا تھا انہیںکوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی خالدؓ کامل ایک سال تک حیرہ میں مقیم رہے۔ بے کاری کا یہ زمانہ خالدؓ جیسے مصروف عمل انسان کوبہت شاق گزر رہا تھا انہوںنے بار بار ساتھیوں سے کہا کہ اگر خلیفہ کا حک نہ ہوتا تو میں عیاض کا مطلق انتظا ر نہ کرتا اورنہ انہیں اپنی فوج میں شامل کرتاا۔ اس وقت ایران فتح کرنے سے زیادہ اور کوئی ضروری کام نہیں ہے۔ ایک سال گز ر چکا ہے لیکن محض عیاض کی وجہسے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ جب خالدؓ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تو انہوںنے تنگ آ کر ایک آدمی حیرہ کا اورایک انباط کا بلا بھیجا۔ حیری باشندے کے ہاتھ یں ایک خط ملوک فارس کے نام بھیجا اورانباطی کے ہاتھ ایک خط ایرنای مرزبانوں(عمال و امرائئ)کے نام ارسال کیا: ملوک فاراس کے نام جو خط بھیجا اس کا مضمون یہ تھا: ’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط خالدبن ولیدؓ کی طر ف سے ملوک فار س کے نام ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارا نظام درہم برہم کردیا تمہارے مکر وفریب کوناکام کردیااور تم میں اختلافات پیدا کر دیے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس میں تمہارا ہی نقصان تھا۔ اب تمہارے لے یہی بہتر ہے کہ ہماری اطاعت قبول کر لو۔ اگر ایسا کرو گے و ہم تمہیں اورتمہارا علاقہ چھوڑ کر دوسری طرف چلے جائیں گے اورورنہ تمہیں ایک ایسی قوم کے سامنے مغلوب ہونا پڑے گا جو موت کو اس سے زیادہ پسند کرتی ہے جتنا تم زندگی کو پسند کرتے ہو‘‘۔ ایرانی امر زبانوںکے نا م جو خط ھتا اس میں لکھا تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ خط خالد بن ولیدؓ کی طرف سے ایرانی مرزبانوں کے نام ہے۔ تم لوگ اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے۔ یا جزیہ ادا کر دو ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوںگے۔ ورنہ یاد رکھو کہ میں ںے ایک ایسی قوم کے ساتھ تم پر چڑھائی کی ہے جو موت کی اتنی ہی فریفتہ ہے جتنے تم شراب نوشی کے‘‘۔ انبار ایرانی فوج حیرہ کے بالکل قریب انبار اوررین التمر میں خیمہ زن ہو چکی تھی اور مسلمانوں کے اس فوجی مستقر کو سخت خطرہ پیدا ہو چکا تھا۔ دریں حالات اگر خالدؓ خاموشی سے حیرہ میں بیٹھے رہتے اور باہر نکل کر ایرانی فوجوں کے خلاف کارروائی نہ کرتے تو اندیشہ تھا کہ مسلمان اس علاقے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو انتہائی مشقت کے بعد ان کے ہاتھ آیا تھا چنانچہ انہوںنے فوج کو تیارہونے کا حکم دیا۔ قعقاع بن عمرو کو حیرہ کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑا اور اقرعبن ھابس کو مقدمہ الجیش پر مقرر کیا وار انبار روانہ ہو گئے۔ انبار پہنچ کر انہوںنے شہر کا محاصر ہ کر لیا اور لشکر کو حکم دیا کہ قلعے کی حفاظت پر فوج تیر برسائیں لیکن مضبوط شہر پناہ اور گہری خندق کے باعث جو شہر کے اردگرد کھدی ہوئی تھی ایرانیوں کو اس تیر اندازی سے کوئی گزند نہ پہنچا اور مسلمانوں کا ابتدائی حملہ ناکام رہا۔ خالدؓ زیادہ دیر تک صبرنہ کر سکے۔ انہوںنے شہر پر حملہ کرنے کی کوئی راہ معلوم کرنے کے لیے خندق کے ساتھ ساتھ شہر کے گرد چکر لگایا اورایک جگہ دیکھا کہ وہاںخندق نسبتاً کم چوڑی تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ لشکر کے جو اونٹ بہت بیمار اور ناکارہ ہوں وہ ذبح کر کے اس جگہ پھینک دیے جائیں ۔ مسلمانوںنے اس حکم کی تعمیل کی اور اونٹ ذبح کر کے خندق کے تنگ حصے میں پھینکنے شروع کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لاشوں سے وہ حصہ پٹ کر ایک پل سا بن گیا جس کے بعد خالد فوج کا ایک دستہ لے کر خندق کے پار ہو گئے اس دستے نے فصیل پھاند کر شہر کا دروازہ کھول دیاا ور اسلامی فوج شہر میں داخل ہوگئی ۔ یہ دیکھ کر ایرانی فوج کے سپہ سالار شیرزاد نے صلح کے لیے سلسلہ جنبانی شروع کی اور یہ پیش کش کی کہ اگرمیری جان بخش دی جائے تومیں سواروں کے ایک دستے کے ساتھ جس کے پاس کچھ سامان وغیرہ کچھ نہ ہو گا شہر سے نکل جائوں گا۔ خالدؓ نے یہ پیش کش قبول کر لی اور شیر زاد شہر سے نکل گیا۔ شہر میں مسلمان قابض ہو گئے اورانبار کے نواحی علاقے کے لوگوں نے خالدؓ سے مصالحت کر لی۔ عین التمر جب خالدؓکو انبار اور اس کے نواحی علاقے کی طرف سے اطمینان ہو گیاتو زبرقان بن بدر کو اپنانائب بنا کر انبار میں چھوڑا اور خود عین التمر کا قصد کیا جو عراق اور صحرائے شام کے دریان صحرا کے کنارے واقع ہے۔ انبار سے عین التمر تک پہنچنے میں تین دن لگے۔ ایرانیوں کی طرف سے وہاں کا حاکم مہران بن بہرام چوبین تھا۔ اس نے شہر کی حفاظت کے لیے ایرانیوں کی ایک بھاری فوج جمع کر رکھی تھی۔ ایرانی فوجوں کے علاوہ بنی تغلب اور نمر اورایاد کے بدوی قبائل بھی عقہ بن ابی عقہ اور ہذیل کے زیر سرکردگی بھاری تعداد میں مہران کے پاس جمع تھے جب عین التمر والوں نے اسلامی لشکر کوآتے ہوئے دیکھا تو عقہ نے مہران سے کہا: ’’عرب عربوں سے لڑنا خوب جانتے ہیں اس لیے تم ہمیں مسلمانوں سے نبٹ لینے دو‘‘۔ مہران نے مسکرا کر جواب دیا: ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ عربوں سے لڑنے میں تم اتنے ہی ماہر ہو جتنے ہم عجمیوں سے لڑنے کے ماہر ہیں تم مسلمانوں سے لڑو۔ل اگر ہماری ضروریات ہو گی تو ہم بھی میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے‘‘۔ ایرانی مہران کی چال کو نہ سمجھ سکے اور انہوںنے اس خیال سے کہ مہران کی ان باتوں سے ان کی کمزوری اور ناطاقتی عیاں ہوتی ہے اور اسے برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مہران نے جواب دیا: ’’تم میرے کام میں دخل نہ دو۔ میںے جو کچھ کیا ہے تمہاری بہتری کے لیے کیا ہے ا س وقت تمہارے مقابلے کے لیے ایک ایسا شخص آ رہا ہے جس نے تمہارے بادشاہوں کو قتل اور تمہاری سلطنت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔ میں ںے ان عربوں کے ذریعے سے تمہارا بچائو کیا ہے۔ اگر یہ لوگ خالدؓ کے مقابلے میں کامیاب ہو گئے تو کامیابی کا فخر تمہارے ہی حصے میں آء گا لینک اگر شکست کھا گئے تو ہماری تازہ دم فوج تھکے ماندے مسلمانوں کو آسانی سے زیر کر سکے گی‘‘۔ یہ سن کر ایرانی فوج مطمئن ہو گئی۔ عقہ فوج لے کر آگے بڑھا اور خالدؓ کے راستے میں حائل ہو گیا۔ لڑائی شروع ہوئی تو بڑی پھرتی سے کمند پھینک کر عقہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اپنے سردار کا یہ حشر دیکھ کر بدوئوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوںنے بے تحاشا بھاگنا شروع کر دی۔امسلمانو ں نے ان کا پیچھا کیا اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ االبتہ ہذیل اور بعض دوسرے سرداران لشکر بچ کر نکل گئے۔ مہران بڑے اطمینان سے قلعے میں فروکش تھا اور اسے یقین تھا کہ بدو ضرور مسلمانوں کا حملہ روک لیں گے لیکن جب اس نے یہ ماجرا دیکھات وبہت سٹپٹایا اور فوج لے کر قلعہ سے بھاگ گیا۔ قلعے میں جو فوج رہ گئی تھی وہ پہلے اس کی حفاظت کے لیے متعین تھی یا وہ بدوجو عقہ کے لشکر میں شامل تھے اور شکست کھا کے قلعے میں پناہ گزیں ہو گئے تھے۔ خالدؓ نے آگے بڑھ کر قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ کچھ رو ز تو قلعے والے دروازے بند کیے محاصرے کامقابلہ کرتے رہے لیکن جب انہوںنے دیکھا کہ ان میں خالدؓ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیںہے تو انہوںنے اس شرط پر دروازے کھولنے کی پیش کش کی کہ ان کی جان بخشی کر دی جائے لیکن خالدؓ نے غیر مشروط طورپر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کر دیا۔ آخر انہیں یہ مطالبہ ماننا ہی پڑا اور قلعے کے دروازے کھول دیے گئے۔ خالدؓ نے سب لوگوںکو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عقہ کو کھلے میدان میں لایا گیا اور اس کی گردن اڑا دی گئی۔ انبار اور عین التمر کی فتح کے بعد خالدب ن ولید بن عقبہ کو خمس دے کر فتح کی خوش خبری کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیجا ۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر تمام حالات سے آگاہ کیا اور بتایاکہ خالدؓ نے ان کے احکام نظر انداز کرتے ہوئے حیرہ اس لیے چھوڑا اورانبار و عین التمر پر اس لیے چڑھائی کی کہ انہیں حیرہ میں قیام کیے ہوئے پورا ایک سال ہو گیا تھا اور عیاض کا کچھ پتا نہ تھا اور وہ کب دومتہ الجندل سے فارغ ہو کر خالدؓ کی مدد کے لیے حیرہ پہنچتے ہیں۔ حجرت ابوبکرؓ بھی عیاض کی سست روی سے تنگ آ چکے تھے اور ان کا خیا ل تھا کہ وہ مسلمانوں کے حوصلے پست کر رہے ہیں۔ اگر دشمن کو خالدؓ کے ان کارنامو ں کی اطلاعات ن ملتیں رہتیں جو انہوں نے عراق میں انجام دیے تو یقیناوہ عیاض کی کمزوری سے فائد ہ اٹھا کر مسلمانوں کو سخت زک پہنچاتے۔ دومتہ الجندل جب ابوبکرؓ ولید سے عراق کے متعلق تما م رپورٹیں حاصل کر چکے تو انہیں عیاض کی مدد کے لیے دومتہ الجندل جانے کا حکم دیا ۔ جب ولید وہاں پہہنچے تو دیکھا کہ عیاض بن غنم دومتہ الجندل کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں۔ اورجواباً دومتہ الجندل والوں ے عیاض کا محاصڑہ کر کے ان کا راستہ مسدود کر رکھا ہے۔ عیاض سے بات چیت کرنے اورتمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد ولیدنے محسوس کیا کہ عیاض اپنی فوج کی مدد سے نہ دومتہ الجندل والوں کو شکست دے سکتے ہیں اورنہ ا ن کے چنگل سے نکل سکتے ہیں۔ ولید نے ان سے کہا کہ حالات میں عقل کی ایک بات زبردست لشکر سے مفید ثابت ہوتی ہے۔ اگر تم میری مانوتو خالدؓ کے پاس قاصد بھیج کر ان سے اعانت چاہو۔ عیاض کے لیے ولید کی بات ماننے کے سواکوئی چارہ نہ تھا کیونکہ انہیں دومتہ الجندل پہنچے ہوئے سال بھر ہو چکا تھا اور ابھی تک فتح کی کوئی شکل نظر نہ آتی تھی۔ انہوںنے اپنے قاصد کو خالدؓ کے پاس روانہ کیا اور قاصد ان کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ عین التمر کی فتح سے فارغ ہو چکے تھے۔ خالدؓ نے خط پڑھا۔ اس کے لفظ لفظ سے گھبراہٹ اور پریشانی عیاں تھی۔ انہوںنے عیاض کے نام ایک مختصر خط د ے کر قاصد کوفوراً واپس کر دیا تاکہ عیاض کی پریشانی کچھ کم ہو جائے خط میں لکھا تھا: ’’خالد بن ولیدؓ کی طرف سے عیاض کے نام۔ میں بہت جلدتمہارے پاس آتا ہوں۔ تمہارے پاس اونٹیناں آنے والی ہیں جن پرکالے زہریلے ناگ سوار ہیںَ فوج کے دستے ہٰں جن کے پیچھے اور دستے ہیں‘‘َ عیاض کے نام خالدؓ کے اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حیرہ میں بے کار پڑے رہنے کی وجہ سے حضرت خالدؓ کو کس قدر گھبراہٹ لاحق تھی اور انبار و عین التمر کی جنگیں اور فتوحات بھی ان کی آتش شوق کو سرد نہ کر سکی تھیں۔ اسی وجہ سے عیاض کا بلاوا پہنچتے ہی وہ دومتہ الجندل جانے کے لیے فوراً تیار ہو گئے۔ خالدؓ نے عویم بن کاہل اسلمی کو عین التمر میں اپنا نائب مقرر کیا اور خود فوج لے کر دومتہ الجندل روانہ ہوئے۔ دومتہ الجدل اورعین التمر کے درمیان تین سو میل کا فاصلہ ے۔ یہ مسافت خالدؓ نے دس روز سے بھی کم عرصے میں طے کر لی۔ شمال سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے درمیان میں شامل اورنفوذ کے خوف ناک اور لق و دق صحرا پڑتے تھے جن میں سے گزرتے ہوئے سینکڑوں خطرات کا سامنا تھا۔ لیکن خالدؓ تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ جب وہ دومتہ الجندل کے قریب پہنچے تو اہل شہر کو ان کی آمد کی اطلاع ہوئی تو وہ حیران و ششدر رہ گئے اور ان کے سردار سر جوڑ کر بیٹھ گئے اورآئندہ اقدامات کے متعلق غورکرنا شروع کردیا۔ دومتہ الجندل میں اس وقت جو قبائل ڈیرے ڈالے پڑے تھے ان کی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل عیاض بن غنم ان کی سرکوبی کے لیے پہنچے تھے وجہ یہ تھی کہ بنوکلب بہرا ء اور غسان کے قبائل اپنے ساتھ کئی اور قبائل کو ملا کر عراق سے دومتہ الجندل چلے آئے تھے اور خالدؓ کے ہاتھوں اپنی عبرتناک شکستوں کا بدلہ لینے عیاض سے لینا چاہتے تھے۔ ان قبائل کی روزافزوں آمد کے باعث عیاض کے لیے انتہائی صبر آزما حالات پیدا ہو گئے تھے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان کے مقابلے کے لیے کیا تدابیر اختیار کریں۔ دومتہ الجندل کی فوج دو بڑے حصوں میں منقسم تھی۔ ایک حصے کا سردار اکید بن عبدالملک کندی تھا اور دوسرے کا جودی بن ربیعہ۔ اکید ردومتہ الجندل کا حاکم تھا اور اس نے مدینہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ اس کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے عیاض کو روانہ کیا تھا۔ ان تمام قبائل میں جو اس جگہ جمع تھے اکیدر سے زیادہ خالدؓ سے اور کوئی واقف نہ تھا۔ وہ غزوہ تبوک کو نہ بھولا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے وفاداری کا عہد لے کر مدینہ واپس تشریف لے آئے تھے اور سے وہ وقت بھی خو ب یاد تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کے مطابق خالدؓ پانچ سو سواروں کے ہمراہ دومتہ الجندل پہنچے تھے اور اسے قید کر کے دھمکی دی تھی کہ اگر دومتہ الجندل کے دروازے مسلمانوں کے لیے نہ کھولے گئے تو اسے جان سے ہاتھ دھونے پریں گے۔ اسے یہ بھی معلو م تھا کہ مجبور ہو کر اس نے دومتہ الجندل کے دروازے کھولنے ہی پڑے تھے اور خالدؓ کو دو ہزار اونٹ آٹھ سو بکریاں چار سو وسق گیہوں اور چار سو درہم دے کر صلح کرنی پڑی تھی۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ اسے خالدؓ کے ہمراہ مدینہ آنا وہاں اسلام قبول کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوستی کا معاہدہ کرنا پڑا۔ یہ تمام باتیں اکیدر کے دل میں میخ کی طرح گڑی ہوئی تھیں۔ اسی لیے جب اس نے خالدؓ کے دومتہ الجندل پہنچنے کی خبر سنی تو وہ جودی بن ربیعہ سے ملا جو دومتہ الجندل کے لیے عراق سے آنے والے بدوی قبائل کا سردار تھا اور کہنے لگا: ’’میں تمہاری نسبت خالدؓ سے بہت زیادہ واقف ہوں۔ آج دنیا میں کوئی شخص خالد سے بڑھ کر اقبال مند اور فنون جنگ کا ماہر نہیں۔ جو قوم خالدؓ سے مقابلہ کرتی ہے خواہ تعداد میں کم ہو یا زیادہ ہر حال میں شکست کھاجاتی ہے۔ اس لیے تم میری بات مانو اور مسلمانوں سے صلح کر لو‘‘۔ لیکن ان قبائل ے جن کے دلوں میں انتقام کی آگ بھرک رہی تھی۔ اکید ر کا مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر اکیدر یہ کہ کر ان سے علیحد ہ ہو گیا کہ تم جانو تمہارا کام میں تو تمہارے ساتھ مل کر خالدب سے جنگ کرنے کے لیی تیار نہیں ہوں۔ وہ اپنے حلیفوں سے جد اہو کر خالدؓ کو ملنے کے ارادے سے ان کے کیمپ میں داخؒ ہوا ۔ یہاں پہنچ کر روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ جب اکیدر خالدؓ کے سامنے حاضر ہوا تو انہوںنے اس کی گردن مارنے کا حک مدیا لیکن بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے قید کر کے مدینہ بھیج دیا گیا حضرت عمرؓ کے عہد میں اسے رہائی ملی اور وہ مدینہ سے عراق چلا گیا۔ وہاں عین التمر کے قریب افک مقام دو متہ ہی میں اقامت پذیر ہو گیا اورآخر وقت تک وہیں رہا۔ خالدؓ نے آگے بڑھ کر دومتہ الجندل پہنچے۔ وہاں کی فوج مختلف قبائل میں بٹی ہوء تھی ہر قبیلہ اپنے سردار کے ماتحت تھا اوریہ تمام سردار جودی بن ربیعہ کے زیر سرکردگی تھے خالدؓ نے دومتہ الجندل کو اپنی اور عیاض بن غنم کی فوج کے گھیرے میںلے لیا۔ جو عربی النسل عیسائی دومتہ الجندل والوں کی امداد کے لیے پہنچے تھے وہ قلعے کے چاروں طرف جمع تھے کیونکہ قلعے میں ان کے لیے گنجائش نہ تھی۔ لڑائی شروع ہوئی تو جودی بن ربیعہ و ودیعہ خالدؓ کے بالمقابل اور ابن حد رجان او ر ابن الایم عیاض بن غنم کے مقابل صف آرا ہوئے خالدؓ نے جودی کو اور اقرع بن حابس نے ودیعہ کو گرفتار کر لا۔ باقی لوگ قلعے کی طر ف بھاگے ۔ لیکن واہں گنجائش نہ تھی۔ قلعہ بھر جانے پر اندر والوں نے دروازہ بند کر لیا او ر اپنے ان ساتھیوں کو جو باہر رہ گئے تھے مسلمانوں کی تلواروں کے حوالے کر دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر خالدؓ کی فوج کے ایک سردار عاصم بن عمرو نے اپنے قبیلے بنو تمیم سے اپنے حلیف بنی کلب کی امدا د کی درخواست کی۔ بنو تمیم فوراً ان کی حفاظت کے لیے پہنچ گئے اوراس طرح بنی کلب کی جانیں بچ گئیں۔ جو لوگ قلعے کی طرف بھاگے تھے خالدؓ نے ان کا پیچھا کیا اوراتنے آدمی قتل کیے کہ ان کی لاشوں سے دروازہ پٹ گیا او ر اندر جانے کا راستہ نہ رہا۔ انہوں ںے جودی بن ربیعہ اور دوسرے قیدیوں کی گردنیں بھی اڑا دیں۔ سوا بنی کلب کے قیدیوں کے جنہیں عاصم بن عمرو نے پناہ دے رکھی تھی۔ اس کے بعد خالدؓ نے قلعے کادروازہ اکھڑوا ڈالا اورجتنے بھی لوگ قلعے میں محصور تھے انہیں قتل کر دیا۔ فتح کے بعد انہوںنے اقرع بن حابس کا انبار واپس جانے کا حکم دیا اور خود دومتہ الجندل میں قیا م کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا بات تھی کہ مسلمانوں نے دومتہ الجندل پر تو اتنی مبذول کی اور اسے ہر قیمت پر فتح کرلینا چاہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدمیں دوبار اس پر چڑھائی ہوئی اور آخر اکیدر سے دوستی کا معاہدہ کر کے اسے اسلامی عمل داری میں شامل کر لیا گیا حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں مسلمان سال بھر تک اس کا محاصرہ کیے پڑے رہے اور اس وقت تک دم نہ لیا جب تک اسے کاملاً مطیع کرکے اپنی حکومت میں دوبارہ اسے شامل نہ کر لیا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دومتہ الجندل کی جغرافیائی حالت ایسی تھی کہ اس پر قبضہ کرنا ہر حالت میں ناگریر تھا ۔ دومتہ الجندل اس راستے کے سرے پر واقع ہے جہاں اسے ایک طرف حیرہ اورعراق کو راستہ جاتا ہے اور دوسری طرف شام کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی کوشش یہ تھی کہ شام اور جزیرہ عرب کی سرحدوں پر امن رہے اور رومی فوجیں مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر سرزمین عرب میں نہ گھس آئیں اسی لیے آ پ نے دومتہ الجندل کو اپنے زیر نگیں لانے کے لیے ہر ممکن کوشش فرمائی۔ یہی حال حضرت ابوبکرؓ کا تھا۔ ان کے زمانے میں اسلامی فوجیں ایک طرف عراق میں ایرانی فوجوں سے نبرد آزما تھیں تو دوسری طرف شام کی سرحدپر رومیوں سے مصروف پیکار تھیں۔ اور ضروری تھا کہ یہ اہم مقام مسلمانوں کے قبضے میں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ عیاض بن غنم ایک سال تک اس کا محاصرہ کیے پڑے رہے اور سخت مشکلات کے باوجود وہاں سے ہٹنے کا نام نہ لیا۔ جب خالدؓ کو دومتہ الجندل پہنچنے کے لیے کہا گیا تو وہ بھی بلا توقف اس کی جانب روانہ ہو گئے اگر خدانخواستہ دومتہ الجندل مسلمانوں کے قبضے میں نہ آتا تو نہ صرف عراق میں ان کی فتوحات کا کوئی بھروسا نہ ہوتا بلکہ شام کی فتح بھی ناممکن ہو جاتی۔ خالد ؓ کی عراق میں واپسی انسانی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ جب تک ایک قوی اور زبردست وجود ان کے درمیان رہتا ہے وہ بھیگی بلی بنے رہتے ہیں لیکن جونہی وہ شخص انہیں چھوڑ کر کہیں اور چلا جاتا ہے تو وہ میدان خالی پاکر من مانی کرنے پر تل جاتے ہیں۔ یہی حال خالدؓ کی غیر حاضری میں اہل حیرہ اور اہل عراق کا ہوا۔ ایرانیوں اور ان کے عرب مددگاروں نے سوچا کہ مسلمانوں کی اطاعت کا جوا سر سے اتار پھینکنے کا موقع اس سے بہتر اور کوئی ہاتھ نہ آئے گا …بنو تغلب نے یہ خیال کیا کہ عقہ کے قتل کا بدلہ لینے کا موقع اس سے اچھا اورکوئی نہیں۔ قعقاع اس موقع پرصرف یہ کر سکتے تھے کہ جن جن علاقوں پر مسلمان قابض ہو چکے ہیں انہیں ہاتھ سے نہ جانے دیں ار دشمن کو آگے بڑھنے سے روکیں۔ لیکن خالدؓ کی پالیسی کو لباس عمل پہنانے کی طاقت ان میں نہ تھی ہ دشمن کے حملوںسے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آگے بڑھ کر اس کے مقبوضات پر پے در پے حملے کیے جائیں اوراسے اپنے ہی علاقوں میں الجھائے رکھ کر اسلامی مقبوضات کی طرف پیش قدمی کرنے سے روکا جائے۔ ادھر جب خالدؓ کو ایرانیوں اور عربی النسل عیسائی قبائل کے ارادوں سے آگاہی ہوئی تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی دومتہ الجندل میں نہ رہ سکے اور انہوںنے فوراً کوچ کی تیاری کر لی۔ مقدمے پر اقرع بن حابس کو متعین کیا اور عیاض بن غنم کو ساتھ لے کر حیرہ کی جانب روانہ ہو گئے حیرہ پہنچ کر اے عیاض کی سپردگی میں دیا اور قعقاع کو حصید کی طرف بھیجا ۔ جہاں عربوں اور ایرانیوں کا اجتماع ہو رہا تھا۔ خود قسم کھا ئی کہ بنو تغلب پر اس طرح اچانک حملہ کریںگے کہ انہیں کسی طرح بھی سنبھلنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ جب اہل عراق کو معلو م ہوا کہ خالدؓان کی سرکوبی کے لیے ایک بار پھر عراق پہنچ چکے ہیںتو ان کی پریشانی کی کوئی حد نہ رہی اوراپنے علاقے کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے جو حسین خواب وہ دیکھ رہے تھے وہ سب آن کی آن میں ختم ہوگئے ۔ ان کا خیال تھا کہ دوسری اقوام کی طرح مسلمان بھی سرزمین عراق کو تاخت و تاراج کر کے چلے جائیں گے اور وہ بعد میں اپنے علاقوں پر قابض ہو سکیں گے۔ لیکن ان کے یہ خیالات پادر ہوا ثابت ہوئے۔ حصید‘ خنافس اور مضیح خالدؓ اس حکم کے مطابق قعقاع حصید کی جانب روانہ ہو گئے۔ ایرانی لشکر ان کے مقابلے می نہ ٹھہر سکا ا س کا سپہ سالار مارا گیا اور لشکر کنے میدان جنگ سے فرار ہونے میںہی اپنی عافیت سمجھ۔ ہزیمت خوردہ لشکر کا خیال تھا کہ وہ شہر خنافس میں پناہ ے سکے گا جہاں پہلے ہی سے ایک ایرانی لشکر موجو د تھا لیکن اسے اس می بھی ناکامی ہوئی کیونکہ خنافس میں مقیم ایرانی لشکرکا سپہ سالار مسلمانوں کی آمد کی خبر سن کر پہلے ہی وہاں سے فرار ہو کر مضیح پہنچ چکا تھا۔ جہاں کا حاکم ہذیل بن عمراان تھا۔ اس طرح مسلمان لڑے بغیر خنافس پر قابض ہو گئے اور اب کوئی ایسا فرد ہ تھا جو ایرانی لشکر کو مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تیار کر کے میدان جنگ میں لاتا۔ اب خالدؓ نے اپنے سرداروں کو مضیح کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا اور خود بھی ادھر کا رخ کیا۔ یہ پہلے ہی طے کر لیا گیا تھا کہ تمام قائدین کو کس رات اور کس وقت مضیح پہنچنا ہے ل چنانچہ مقررہ وقت پر تمام قائدین منزل مقصود پر پہنچ گئے اور آتے ہی تین اطراف سے ہذیل اور اس کی فوج پر جو بے خبر پڑی سو رہی تھی بھرپور حملہ کر دیا۔ ہذیل مع اپنے چند ساتھیوں کے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گیا۔ باقی تمام فوج قتل ہو گئی۔ لاشوں سے میدان اس طرح پٹ گیا گویا بکریاں ذبح ہوئی پڑی ہیں۔ اس جنگ کے دوران میں دو ایسے مسلمان اسلامی فوج کے ہاتھوں مارے گئے جو مضیح میں موجو د تھے اور جن کے پاس ابوبکرؓ کا عطا کیا ہو ا ایک صداقت نامہ بھی موجود تھا ۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو ان کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو آپ نے دونوں کا خوں بہا ادا کر دیا۔ جنگ مضیح سے فارغ ہونے کے بعد خالدؓ نے اپنی قسم پوری کرنے کا ارادہ فرمایا۔ انہوں نے اپنے دو سرداروں قعقاع اور ابو لیلیٰ کو بنی تغلب کی بستیوں کی جانب روانہ فرمایا اور خود بھی ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گئے اس حملے کا پروگرام بھی ویسا ہی بنایا گیا تھا جیسا جنگ ضیح کے وقت پر ترتیب دیا گیا تھا۔ خالدؓ نے اپنے ساتھیوں سے مل کر رات کے وقت تین اطراف سے دشمنوں پر زور و شور سے حملہ کر دی۔ا اس حملے میں بنی تغلب کا کوئی بھی مرد بچ کر نہ نکل سکا۔ عورتیں گرفتار کرلی گئیں۔ فتح کے بعد خالدؓ نے نعمان بن عوف شیبانی کے ہاتھ میں حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں خمس روانہ کیا ۔ حضرت علی نے انہیں قیدیوں میں سے ایک لڑکی صابحہ بنت ربیعہ بن بجیر کو خریدا تھا۔ جس سے ان کے یہاں عمراور رقیہ پید ا ہوئے۔ فراض خالدؓ کے ان اچانک حملوں ااور قبائل کے ان کے مقابلے سے عاجز رہنے کی خبریں عراق بھر میں پھیل چکی تھیں اور صحرا میں رہنے والے تمام قبائل سخت خوف زدہ ہو چکے تھے۔ انہوںنے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ خالدؓ نے اپنی فوجوں کے ہمراہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ وہ جہاں بھی پہنچتے وہاں کے باشندے ان سے مصالحت کر لیتے اور ان کی اطاعت کرنے کا اقرار کرتے۔ آخر وہ فراض پہنچ گئے جہاں شام عراق اورالجزیرہ کی سرحدیں ملتی تھیں۔ فراض عراق اور شام کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اگر عیاض بن غنم کی قسمت یاوری کرتی تو وہ ابتدا ہی سے دومتہ الجندل فتح کر لیتے تو غالباًخالدؓ یہاں تک نہ پہنچتے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کا منشاء سارے عراق اور شام کو فتح کرنے کا نہ تھاا۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جو عرب سے ملتی ہیں امن و امان قائم ہو جائے اور ان اطراف سے ایرانی اور رومی عرب پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔ لیکن اللہ کو یہی منطور تھا کہ یہ دووں مملکتیں کاملاً مسلمانوں کے قبضے میں آجائیں۔ اس لیے اس نے ایسے اسباب پید ا کر دیے کہ خالدؓ عراقی قباء کو مطیع کرنے کی غرض سے انتہائی شمال میں چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کے لیے بالائی جانب سے شام پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔ ایرانی سرحدات سے رومیوں پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔ ایرانی سرحدات سے رومیوں پر حملہ کا راستہ کھل جانا ای ایسا معجزہ تھا جس کا خیال حضرت ابوبکرؓ کو بھی نہ آ سکا اور یہ کارنامہ ایک ایسے شخص کے ہاتھو ں رونما ہوا تھا جس کی نظیر پیدا کرنے سے عرب اور عجم کی عورتیں واقعی عاجز تھیں۔ فراض میں خالدؓ کو کام ایک مہینے تک قیا م کانر پڑا۔ یہاں بھی انہوںنے ایسی جرات اور عزم و استقلا ل کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ وہ چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے۔ مشرقی جانب ایرانی تھے اور جو ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے مغربی جانب رومی تھے جن کا یہ خیال تھا یکہ اگر اس وقت خالدؓ اور اس کی معمت کو تباہ و برباد نہ کیا گیا تو پھر یہ سلات روکے نہ رکے گا۔ رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان صرف دریئاے فرات حائل تھا ۔ ان کے علاوہ چاروں طرف بدوی قبائل آباد تھے۔ جن کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کر کے خالدؓ نے ان کے دلوں میں انتقام کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ بھڑکا دی تھی۔ اس نازک صورت حال سے خالد لاعلم نہ تھے۔ اگر وہ چاہتے تو حیرہ واپس آ کراپنی قوت و طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے پھر رومیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو سکتے تھے۔ انہوں نے ایساا نہ کیا کیونکہ دشمن کو سامنے دیکھ کر خالدؓ کے لیے صبر کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ ان کی نظروں میں کیا ایرانی اور کیا اہ بادیہ سب حقیرتھے۔ ان کی عظیم الشان فوجوں کو نہ وہ پہلے کبھی خاطر میں لائے تھے اور نہ آئندہ خاطر میں لانے کو تیار تھے۔ اس لیے وہ بڑ ے اطمینان سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ ادھر رومیوں کو بھی خالدؓ سے واسطہ نہ پڑا تھا۔ اور وہ ان کے حملے کی شدت سے ناواقف تھے۔ جب اسلامی فوجیں فراض میں اکٹھی ہوئیں تو اور برابر ایک مہینے تک ان کے سامنے ڈیرے ڈلے رہیں تو انہیں بہت جوش آیا اور انہوںنے اپنے قریب کی ایرانی چوکیوں سے مدد مانگی۔ ایرانیوںنے بڑی خوشی سے رومیوں کی مدد کی کیونکہ مسلمانوں نے انہیں ذلیل و رسوا کر دیا تھا اوران کی شان و شوکت کو تباہ کر دیا تھال۔ اوران کا غرور خاک میں ملا دیا تھا ۔ ایرانیوں کے علاوہ تغلب ایاد اورنمر یک عربی النسل قبائل بھ رویوں کی پوری پوری مدد کی کیونکہ وہ اپنے رئوسا اور سر برآوردہ اشخاص کے قتل کو نہ بھولے تھے ۔ چنانچہ رومیوں‘ ایرانیوں اور عربی النسل قبائل کا ایک لشکر جرارمسلمانوں سے لڑنے کے لیے روانہ ہوا۔ دریائے فرات پر پہنچ کر انہوں نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ: ’’تم دریا کو عبور کر کے ہمارے پاس آئو گے یا ہم دریا کو عبور کر کے تمہاری طرف آئیں؟‘‘ خالد نے جواب دیا: ’’تم ہماری طرف آ جائو‘‘۔ چنانچہ دشمن کا لشکر دریا عبو ر کر کے دوسری جانب اترنا شروع ہوا۔ اس دوران میں خالدؓنے اپنے لشکر کی تنظیم اچھی طرح کر لی اور باقاعدہ صفیں قائم کر کے انہیں دشمن سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار کر دیا۔ جب لڑائی شرو ع ہونے کا وقت آیا تو رومی لشکر کے سپہ سالار نے فوج کو حک دیا کہ تمام قبائل علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ کس گروہ نے زیادہ شان دار کارنامہ انجامم دیا ہے۔ چنانچہ ساری فوج علیحدہ علیحدہ ہو گئی لڑائی شروع ہوئی تو خالدؓ نے اپنے دستوں کو حکم دیا کہ وہ چاروں طرف سے دشمن کے لشکر کوگھیر لیں اور انہیں ایک جگہ جمع کر کے اس طرح پے در پے حملے کریں خہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ چنانچہ ایساہی ہوا۔ اسلامی دستوں نے رومی لشکر کو گھیر کر ایک جگہ جمع کر لیا اور ان پر زو ر سے حملے شروع کر دیے۔ رومیوں اور ان کے حلیفوں کا خیال تھا کہ وہ قبائل کو علیحدہ علیحدہ سلمانوں کے مقابلے میں بھیج کر لڑائی کو زیادہ طول دے سکیں گے۔ اور جب مسلمان تھک کر چور ہو جائیں گے تو ان پر بھرپور حملہ کر کے انہیں مکمل طورپر شکست دے دیں گے لیکن ان کا خیال خام ثابت ہوا اوران کی تدبیر خود ان پر الٹ پڑی۔ جب مسلمانوں نے انہی ایک جگہ جمع کر کے ان پر حملے شروع کیے تو وہ ان کی تاب نہ لا سکے اوربہت جلد شکست کھا کر میداان جنگ سے فرار ہونے لگے۔ لیکن مسلمان انہیں کہاں چھوڑنے والے تھے۔ انہوںنے ان کا پیچھا کیا اور دور تک انہیں قتل کرتے چلے گئے۔ تمام مورخین اس امر پر متفق ہیں کہ اس معرکے میں عین میدان جنگ میں بعد ازاں تعاقب میں دشمن کے ایک لاکھ آدمی کام آئے۔ فتح کے بعد خالدؓ نے دس روز قیام فرمایا اور ۵ ۲ ذی قعد ۱۲ھ کو انہوںنے اپنی فوج کو واپس حیرہ کی جانب کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ خالدؓ کا خفیہ حج خالد ؓ یمامہ میں مرتدین کی سرکوبی کر چکے تھے عراق ان کے ذریعے سے فتح ہو چکا تھا۔ ان کے ہاتھوں کسریٰ کے اقتدارکا دیوالیہ نکل چکاتھاا۔ فراض کی فتح سے سلطنت رومی میں پیش قدمی کرنے کا راستہ صاف ہو چکا تھا۔ یہ سب کچھ اللہ کی عنایت تھی ورنہ خالدؓ کی کیا حیثٰت تھی کہ وہ یہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیتے اورایرانی سلطنت ان کے آگے سرنگوں ہونے پرمجبور ہو جاتی۔ جب وہ اللہ کے ان افضال و انعامات پر غور کرتے تو ان کا دل تشکر و امتنان کے جزبات سے معمور ہو جاتا۔ تشکر و امتنان کے یہی جزبات تھے کہ جنہوںنے جنگ فراض سے فارغ ہونے کے بعد انہیں بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے پر آمادہ کیا۔ جنگ کے بعد فراض کے دس روزہ قیام نے جذبات کی اس آگ کو اس حد تک بھڑکادیا کہ اب کوئی طاقت انہیں حج پر جانے سے باز رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی غیر حاضری میں مسلمانوں کے لیے سخت خطرات پیدا کرنے کا موجب ہو سکتی ہے ان کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی اس علاقے میں دوبارہ فتنہ و فساد کے شعلے بھڑکا سکتے ہیںَ پھر بھی حج بیت اللہ کے مقابلے میں انہوںنے ان تمام خطرات کو نظر انداز کر دیا۔ اگر دشمن کو خالدؓ کی غیر حاضری کا علم ہو جاتا تو وہ مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کا یہ زریں موقع کسی طرح ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے صرف یہی طریقہ تھا کہ وہ اس طور پر حج کرتے کہ سوا خاص سرداروں کے اسلامی فوج کے کسی بھی فرد کو یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ ان کا سپہ سالار لشکر سے غیر حاضر ہے۔ خالد ؓ کے لیے یہ ضروری بھی تھا کہ وہ حج کے لیے پہلے خلیفہ کی اجازت طلب کرتے لیکن اس صورت میں یہ خدشہ تھا کہ اگر خلیفہ کی طرف سے اجازت ل جاتی توسارے لشکر میں چرچا ہوجاتا کہ خالد ؓ حج کو جا رہے ہیں اور جونہی وہ روانہ ہوتے پیچھے سے ایرانی فوجیں مسلمانوں پر حملہ کر دیتیںَ اس صورت میں اس حج کا کیا فائدہ ہوتا جو مسلمان کی تباہی کا موجب بنتا اور اگر خلیفہ کی طرف سے اجازت نہ ملتی تو ان کے پا س اس آتش شوق کو سرد کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہوتا۔ جو حج بیت اللہ کے لیے ا ن کے دل میں بھڑ ک رہی تھی۔ اس لیے آپ نے یہی ناسب سمجھا کہ انتہائی خفیہ طور پر حج کیا جائے کہ نہ حضرت ابوبکر ؓ کو اس کا پتہ چلے اورنہ ہی اس کے لیشکر کے کسی فرد کو۔ انہیں یقین تھاا کہ اگر حضرت ابوبکرؓ نے ان کے اس فعل کی باز پرس کی تو وہ عذر معذرت کر کے انہیں راضی کر لیں گے۔ دوسری طرف اللہ بھی انہیں اس حج کے ثواب سے محروم نہ کرے گا۔ انہوںنے لشکر کو تو حیرہ کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا اور اپنے متعلق یہ ظاہر کر کے کہ وہ ساقہ کے ساتھ ساتھ آ رہے ہیں خفیہ طورپر حج کے لیے مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔ ان کے ساتھ چند اور لوگ بھی تھے ۔ وہ شہروں اوربستیوں سے دور سیدھے مکہ کی سمت روانہ ہوئے۔ یہ راستہ بہت عجیب و غریب اور سخت دشوار گزار تھا۔ کوئی رہبر نہ تھا لیکن جوانی کے ایام میں چونکہ تجارت کے لیے ملک درلک پھرنا پڑتا تھا اور سپہ سالار کی حیثیت سے پورا صحرا چھان مارا تھا اس لیے وہ اس علاقے کی تمام وادیوں ٹیلوں راستوں میدانوں غرض چپے چپے سے واقف تھے اور انہیں راستے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ حج سے پہلے ہی وہ مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ اور حج کے فرائض پوری طرح ادا کرکے واپس آگئے۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ قیام مکہ کے دوران میں کسی شخص کو ان کی وہاں پر موجودگی کا پتا نہ چلاا۔ حتیٰ کہ حضرت اابوبکرؓ کو بھی پتا نہ چلا جو بعض روایات کے مطابق اس سال حج پر موجود تھے۔ واپسی پر بھی انہوںنے وہی دہشت ناک راستہ اور دشوار گزار راستہ اختیار کیا۔ جو حج کے لیے جاتے ہوئے اختیار کیا تھا۔ ابھی لشکر کا آخری حصہ حیرہ پہنچا بھی نہ تھا کہ وہ ساقہ سے آملے اور اس کے ہمراہ شہر میں داخل ہوئے۔ اس طرح ان کے لشکر کے کسی بھی فرد اور عراق کے کسی بھی شخص کو یہ علم نہ ہو سکا کہ وہ اس نازک وقت میں لشکر سے غیر حاضر تھے اور حج ے لیے مکہ چلے گئے تھے۔ حیرہ میں قیام کے بقیہ دن انہوںنے بڑے اطمینان سے گزارے۔ ایک طرف یہ خوشی تھیکہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں حج بیت اللہ کی توفیق مرحمت فرما دی تھی اور دوسری طرف یہ اطمینان تھا کہ عراق میں ان کی فتوحات پایہ تکمیل کو پہنچ رہی تھی۔ اب ان کا خیال سلطنت ایران کے دارالحکومت مدائن کی طرف کوچ کرنے کا تھا۔ لیکن اللہ کو یہ منظوتھا کہ جنگ کے فراض میں کامیابی حاصل کر کے خالدؓ نے جس سلسلے کا آغا ز کیا تھا اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور رومی سلطنت میں بھیاسی طرح فتوحات کریں جس طرح ایرانی سلطنت میں کر چکے تھے۔ ۱؎ بعض تاریخوں میں مذکورہے کہ جس سال خالدؓ حج پر روانہ ہوئے اس سال امیر الحجاج حضرت عمرؓ تھے اور حضرت ابوبکرب نے اپنے ایام خلافت میں کبھی حج نہیں کیا۔ لیکن مورخین ا س روایت کو ترجیح دیتے ہیں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اس سال حج کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ خود مکہ میں موجود تھے ۔ بہرحال دونوں روایتوںمیں سے خواہ کوئی روایت بھی صحیح ہواس میں شبہ نہی کہ حضرت ابوبکرؓ کو اپنے سپہ سالار کے حج پر جانے کا اس وقت تک علم نہ ہوا جب تک وہ حیرہ واپس نہ آ گئے۔ ۱؎ عراقی فتوحات کے ذیل میں حیرہ کی فتح تو مورخین میں اتفاق ہے۔ بعض تفاصیل میں کچھ اختلاف ہے تو ہو لیکن وااقعات کی ترتیب اور ان کے نتائج میں کوئی اختلاف نہیں لیکن حیرہ کی فتح کے بعدپیش آنے والے واقعات میں اختلاف ہے ہم نے اس باب میں انبار التمر ور فراض کی جنگوں کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے اس پر طبری ابن اثیر اور ابن خلدون تو متفق ہیں لیکن بلاذری اذدی اور واقدی نہیں۔ یہ مورخین جنگ فراض کا سرے سے ذکر ہی نہیں کرتے۔ انبار اور عین التمر کی جنگوں کے متعلق یہ لکھتے ہیں کہ یہ اس وقت پیش آئیں جب حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کو شام کی فوجوں کا سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ ٭٭٭ تیرھواں باب شام پر حملے کے اسباب رومیوں کو تشویش سرزمین عراق میں خالد بن ولید ؓنے جو عظیم الشان کارنامے سرانجام دیے اور جس طرح ہر میدان میں ایرانی افرواج قاہرہ کو شکست دی اور ا س کا ذکر ہمسایہ ملکوں کے بچے بچے کی زبان پر تھا۔ ان خبروں پر سب سے زیادہ تشویش مشرق رومی سلطنت کے فرماں روائوں کو ہو رہی تھی۔ کیونکہ ان کے حالات بھی ایرانی سلطنت کے بارے میں کچھ زیادہ مختلف نہ تھے ۔ جس طرح عراقی سرحد پر لخم بنو تغلب ایاد اورنمر وغیرہ عربی النسل قبائل آباد تھے۔ اس طرح شام کی سرحد پر بنو بکر بنوعذبرہ بنو عدوان بنو بحرہ اور غسانی قبائل مقیم تھے۔ رومی سلطنت کا خیال تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے عراق پر پے درپے حملے کر کے اسے اپنی عمل داری میں شامل کر لیا ہے اسی طرح وہ شام پر حملے کر کے اسے بھی قبضے میںلانے کی پوری کوشش کریں گے اس خیال کے تحت انہوںنے پوری توجہ شام کی اس سرحد کومضبوط کرنے پر مبذول کر دی جو عرب سے ملتی تھی تاکہ مسلمانوں کی پیش قدمی کو ابتدا ہی میں روک کر انہیں رومی سلطنت پر حملہ کرنے سے باز رکھا جا سکے۔ اس سلسلے میں تعجب خیز امر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مسلمانوں نے رومیوں کے ڈر سے شام کی ملحقہ سرحدات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ ایسا نہ ہو کہ وہ عرب سے جلا وطن کیے ہوئے یہودو نصاریٰ کی انگیخت سے عرب پر حمہ کر دیں۔ مگر چند ہی سال میں حالات تبدیل ہو گئے کہ جن رومیوں سے ڈر کر مسلمانوں نے اپنی سرحدوں کو مضبوط کرنے کی طرف توجہ دی تھی اب انہں رومیوں نے مسلمانوں کے ڈرکر اپنی سرحدوں کی حفاظت اور انہیں مستحکم کرنے کے کام کو باقی کاموں پر فوقیت دینی شرو ع کر دی۔ ابوبکرؓ بھی ہرقل شام و روم کے ان جذبات و خیالات سے پوری طرح آگاہ تھا جنہوںنے اسے سخت سراسیمہ کر رکھا تھا۔ لیکن جب تک مرتدین سے جنگیں ختم نہ ہوجاتیں وہ شام پر توجہ مبذول نہ کرسکتے تھے کیونکہ اگر مرتدین کی پوری طرح سرکوبی سے پہلے ہی اسلامی فوجوں کو شامی سرحدات کی طرف روانہ کردیا جاتا تو خدشہ تھا کہ مبادا مرتد قبائل جنہیںرفتہ رفتہ مطیع کیا جا رہا تھا اسلامی فوجوں کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوبارہ وسیع پیمانے پر بغاوت کر دیں۔ بعد میں جب مثنیٰ بن حارثہ کی ان تھک کوششوں کے نتیجے میں مسلمانوں کو عراق میں کامیابی نصیب ہونے لگی اور خالدب نے ایرانی سلطنت میں گھس کر لخمیوں کے دارالحکومت حیرہ پر اسلامی پرچم لہرا دیا تو ابوبکرؓ کو شام کابھی خیال آیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ عراق کی طرح شام کی سرحد پر بھی عرب قبائل آباد تھے۔ اور جس طرح عراق کے بعض عرب قبائل نے عیسائیت پر قائم رہنے کے باوجود مسلمانوں سے مل کر کسریٰ کی فوجوں کا مقابلہ کیا تھا اسی طرح شام کے عرب قبائل کے بارے میں بھی یہ امید کی جا رہی تھی کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ دیں گے کیونکہ رومیوں کی حیثیت حاکم کی تھی اور اہل شام کی محکوموں کی اورحاکموںاور محکوموں کے درمیان نفرت و عداوت کے جو جذبات پنہاں ہوتے ہیں وہ ہر شخص کو معلوم ہیں۔ حاکم و محکوم کے تعلق کے علاوہ ایرانیوں اور عراق کی سرحد پر بسنے والے عرب قبائل کی طرح رومی اور شامی سرحد پر بسنے والے بادیہ نشین عرب قبائل کے درمیان جنس اور زبان کابین اختلاف بھی موجود تھا۔ ان باتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو امید تھی کہ شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کر کے جب و ہ رومی لشکروں پر غلبہ حاصل کر لیں گے تو شامی عر ب اپنے ہم وطن لوگوں سے آ کر مل جائیں گے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی طاقت و قوت میں معتدبہ اضافہ ہو جائے گااور وہ رومیوں پر مکمل فتح حاصل کر کے اس زرخیز سر زمین پر قابض ہو سکیں گے۔ رومیوں پر حملہ کرنے میں ابوبکر ؓکو جو تردد تھاوہ دومتہ الجندل کی فتح عمل میں آنے اور مسلمانوں پر اس کے دروازے کھل جانے کے بعد ختم ہو گیا۔ پھر بھی چونکہ ابھی تک عراق میں جنگوں کا سلسلہ جاری تھا اس لیے رومیوں پر فوری حملہ مناسب نہ سمجھا گیا ۔ ابوبکرؓ نے شامی سرحد پر مقیم مسلمان امراء کوواضح ہدایات دے رکھی تھیں کہ وہ اپنی طرف سے رومی سرحدات پر حملہ کرنے میں پہل نہ کریں اور جب تک رومیوں کی طرف سے حملہ کرنے کی ابتدانہ ہو وہ مدافعت کا پہلو اختیار کیے رکھیں اور اپنے آپ کو رومی تصادم سے ہر ممکن طریقے پر بچائیں۔ ادھر چونکہ رومیوں کو مسلمانوں کی فتوحات کا سارا حال معلو م تھا۔ اس لیے وہ بھی شام کی سرحد عبور کر کے اسلامی فوجوں پر حمہ کرنے ؤسے ہچکچاتے تھے۔ اور اپنی سرحد ہی کے اندر ڈیرے ڈالے پڑے تھے۔ ا س طرح فریقین کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق ڈر اور خوف کے جذبات پائے جاتے تھے ااور ہر فریق جنگ کی ابتدا کرنے سے پہلو تہی کر رہا تھا ۔ رومیوں کے ڈر اور خو ف کی بنیادزیادہ تر اس پر تھی کہ ابوبکرؓ نے بیعت کے بعد شمالی عرب کے مرتدین کی سرکوبی اور سرحدوں کے استحکام کے لیے جو فوجیں روانہ کی تھیں انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی ہوئی تھی اور وہ کسی قسم کا نقصان اٹھائے بغیر ظفر و منصور واپس آ گئی تھیں۔ تمام قبائل لڑے بغیر مسلمانوں کی اطاعت قبو ل کر لی تھی اور سوا دومتہ الجندل کے باقی تمام علاقے مسمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے۔ فلسطینیوں اور شامی سرحد پر بسنے والے عربوں پر مشتمل جو فوجیں شا م کے سرحدی مقامات پر موجود تھیں انہیں رومی کسی بھی طرح عربوں کے مقابلے کے لیے تیار نہ کر سکتے تھے۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ مبادا یہ لوگ مسمانوں سے مل جائیں۔ شامی سرحد پر اسلامی فوجوں کے سردار خالد بن سعدیب بن عاصؓ تھے ابوبکرؓ نے پہلے انہیں مرتدین سے جنگ کرنے کے لیے بھیجنا چاہا تھا لیکن عمرؓ نے ان کے اس ارادے کی مخالفت کی اور اتنا اصرار کیا کہ آخر ابوبکرؓ نے انہیں مرتدین کے مقابلے میں بھیجنے کا ارادہ ترک کر دیا اور ا س کے بجائے تیما میں امدادی دستے کا امیر مقرر کر کے شام کی سرحد پر بھیج دیا انہیں ہدایت تھی کہ جب تک خلیفہ کے واضح احکام ان تک نہ پہنچیں وہ نہ اپنی جگہ سے ہٹیںاور نہ اس وقت تک دشمن سے جنگ کا آغاز کریں جب تک دشمن خود پہل کر کے ان کے مقابلے میں آ جائے۔ البتہ وہ گردونواح میں بسنے والے قبائل کو ساتھ ملانے کی پوری کوشش کریں سوا ان قباء کے جو ارتداد اختیار کر چکے تھے۔ فریقین کی جنگی تیاریاں خالد بن سعیدؓ نے ابوبکرؓ ے احکا م پر پوری طرح عمل کیا جس کے نتیجے میں چند ہی دنوں کے اندر ان کے جھنڈے کے نیچے ایا جرارا لشکرتیار ہو گیا۔ جب ہرقل کو اپنی سرحدوں پر اس عظیم االشان لشکر کے اجتماع کی خبر ملی تو ا س نے بھی پورے زور و شور سے جنگی تیاریاں شروع کر دی ں۔ خالدؓ بن سعید ے فوراً ابوبکرؓ کوخط لیکھا جس میں ہرقل اور اس کی جنگی تیاریوں کا ذکر کر کے روی سرحدوں پر چڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی اور مبادارومیوں کا لشکر اچانک مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائے اور انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑے۔ ابوبکرؓ نے خالد بن سعیدؓ کے خط پر خوب غور و فکر کیا۔ جنوبی عرب سے آنے والی خبریں بہت حوصلہ افزا تھیں عکرمہ اورمہاجر نے اس علاقے کے مرتدین کا قلع قمع کردیا تھا اور عکرمہ ہاجر کو یمن میں چھوڑ کر خود اپنی فوجوں کو ساتھ واپس آنے والے تھے۔ ان فوجوں خی واپسی پر شام میں مقیم اسلامی فوجوں کی کمک بھیجنا آسان تھا لیکن سوال یہ تھا کہ آیا یہ فوجیں جن کی تعداد بہرحال رویموں کے جرار لشکرسے بہت کم تھی رویوں کے مقابلے کے لیے کافی بھی ہوں گی باخصوص اس حالت میں کہ رومیوں کے پاس سامان جنگ کی بھی کمی نہ تھی اوراس سے قبل ہرقل اپنی فواج کی کثرت اور سامان جنگ کی فراوانی کی بدولت ایرانیوں کی عظیم الشان فوجوں کو شکست دے چکا تھا۔ اس مشکل صورت حال سے عہدہ برا ہونے کا یہی طریقہ تھا کہ جنوبی عرب کے ان قبائل کو جو بدستور اسلام پر قائم تھے ساتھ ملایا جائے اور دوسری اسلامی فوجوں کے ساتھ انہیں بھی شام روانہ کر دیا جائے ۔ اس طرح امید ہو سکتی تھی کہ اسلامی فوجیں رومیوں کے سامنے ٹھہر نہ سکیں۔ ابوبکرؓ نے انتہائی غو ر و فکر کے بعد عمرؓ ‘ عثمانؓ علیؓ طلحہؓ زبیر عبدالرحمن بن عوفؓ سعد بن ابی وقاصؓ ‘ ابوعبیدہؓ بن جراحؓ معاذ بن جبلؓ ابی بن کعبؓ زید بن ثابت ب اور دوسرے بڑے بڑے مہاجرین و انصار کو طلب فرمایا اور یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کیا ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش تھی کہ اہل عرب کو شامیوں کے متوقع حملوں سے ہر طرح محفوظ رکھا جائے ۔ اس غرض سے آپ نے جو تدابیر اختیار کیں انہیں پوری طرح لباس عمل پہنانے نہ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی۔ اب آپ لوگوں نے سن لیا ہے کہ ہرقل ہمارے مقابلے کی غرض سے کثیر تعداد میں فوجیں جمع کر رہا ہے میرے خیال میں ہمیں اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح طاقت و جرا ت سے کام لینا ہو گا۔ اوررومیوں سے نبرد آزمائی کے واسطے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوجیں شام روانہ کرنی چاہئیں۔ جو شخص مارا گیا اسے شہادت کا رگتبہ حاصل ہو گا اور جو زندہ رہا وہ مجاہدین کے زمرے میں شام ہو گا۔ اور اللہ کے ہاں اس کے لیے جو اجر لکھا ہے اس کا کوئی حساب و شمار نہیں ہے۔ اب آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے‘‘۔ سب سے پہلے عمرؓ اٹھے اور کہنے لگے: ’’واللہ! ہم نے جس نیک کام میں بھی سبقت کرنے کی کوشش کی‘ اس میں آ پ کو سب سے آگے پایا۔ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں کسی کو کلام نہیں۔ اللہ کا منشاء بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم شام فتح کر لیں۔ آپ یقینا زیاہد سے زیادہ اآدمی شام روانہ کیجیے۔ اللہ اپنے دی کا مددگار ہے۔ وہ یقینا اسلام کوشان و شوکت بخشے گا اور اس کی ترقی کے لیے جووعدے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیے تھے انہیں ضرور پورا فرمائے گا‘‘۔ عبدالرحمن بن عوفؓ میں احتیاط کا مادہ زیادہ تھا۔ عمرؓ کے بعد وہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاملے میں اچھی طرح غور و فکر کر لیجیے۔ یقینی صورت حال سے دو چار کر دینا قرین دانش مندی نہ ہو گا۔ میرے خیال میں رومیوں پر پوری قوت سے حملہ کرنے کی نسبت بہتر یہ ہو گا کہ ابتداا میں چند دستے بھیجے جائیں جو سرحد چھاپہ مار اوررومیوں کو تھوڑا بہت نقصان پہنچا کر واپس چلے آئیں۔ ان کے بعد چند دستے اور بھیجیں جو پہلے کی طرح سرحدوں پر چھااپے ما ر کر سرحدی قبائل کو خوف زدہ کر کے واپس آ جائیں اسی طرح کچھ کچھ وقفے ے بعد دستے بھیجے جائیں اورکچھ عرصہ بعد انہیں واپس بلا لیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ای طرف تو اہل شام ہمارے مسلسل حملوں سے خوف زدہ ہو جائیں گے۔ دوسری طرف جب عرب دیکھی گے۔ کہ ہمارے دستے ہر بار رومیوں کو زک پہنچا کر اور مال غنیمت لے کر واپس آتے ہیں تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور ان میں رومیوں سے مقابلہ کرنے کی جرات پیداہو جائے گی۔ اس کے بعد آپ بہت آسانی سے اہل یمن اور ربیعہ و مضر کو اکٹھا کر کے انہیں رومیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کر ستے ہیں۔ یہ آپ کی مرضی ہو گی کہ آپ انہیں ساتھ لے کر خود جہاز پر روانہ ہو جائیں یا اپنی جگہ دوسرے سردار مقرر کر کے بھجوا دیں‘‘۔ مجلس پر سناٹا چھاگیا کچھ دیر خاموشی کے بعد ابوبکرؓ حاضرین کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’بتائیے اب آ پ لوگوں کی کیا رائے ہے؟‘‘ اس پر عثمان بن عفانؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’آپ مسلمانوں کے دلی خیر خواہ اورحائی دین ہیں۔ اگر آپ نے ان کی بھلائی کیلیے کوئی قطعی رائے قائم کر لی ہے تونتیجہ خواہ کچھ بھی ہو کیوں نہ ہو آ پ اسے نافذ کر نے کاحکم فرمائیں کوئی شخص آپ کی مخالفت نہ کرے گا‘‘۔ اس موقع پر دیگر حاضرین مجلس نے بھی عثمانب سے پوری طرح اتفاق کیا اورابوبکرؓ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’’آپ کی جو بھی رائے ہو اس پر عمل کیجیے ۔ ہم دل و جان سے آپ کی اطاعت کریں گے اور جو حکم آپ ہمیں دیں گے اسے بہ سرو چشم قبول کریں گے‘‘۔ یہ سن کر ابوبکرؓ بول اٹھے اور لووں کو شا پر لشکر کشی کے لیے تیار ہوجانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’میں تم میں چند امیر مقرر کرتاہوں۔ تم اپنے رب کی اطاعت کرو اور اپنے امرا ء کی مخالفت نہ ہکر تمہاری نیتیں اور سیرتیں پاک و ساف ہونی چاہئیں کیونکہ اللہ انہیں لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں‘‘۔ لیکن لوگوں کو رویوں پر اتنی ہیبت طاری تھی کہ خلیفہ کے احکا م سن کر تھوڑی دیر کے لیے وہ بالکل خاموش ہو گئے آخر عمرؓ نے اس خاومشی کو توڑا اور گرج کر کہنے لگے: ’’اے مسلمانو تمہیںکیا ہو گیا ہے کہ تم خلیفہ کی باتوں کا جواب نہیں دیتے حالانکہ اس کے پیش نظر صرف تمہاری بھلائی ہے‘‘۔ عمرؓ کی اس سرزنش نے حاضرین کے دلو ں پر فوری اثر کیا اور وہ شام روانہ ہونے کے لیے تیار ہو گئے ۱؎۔ ابوبکرؓ کی مصروفیات اور ذمے داریاں شام پر چڑھائی کے معاملے میں ابوبکرؓ کو اس درجہ انہماک تھا کہ دوسرے تمام معاملات ان کی نظر میں ہیچ تھے۔ جریر بن عبداللہ خالدؓ بن سعید کی فوج میں شامل تھے۔ وہ ان سے اجازت لے کر شام سے مدینہ آئے اور ابوبکرؓ کی خدمت میںبعض مطالبات پیش کیؤے ابوبکر ؓ کو بہت غصہ آیا اور انہوںنے فرمایا: ۱؎ ازدی لکھتے ہیں کہ خالد بن سعید اس مجللس میں موجود تھے اور ان ہی نے سب سے پہلے جہاد پر جانے کی حامی بھی تھی۔ لیکن طبری ابن خلدون اور ابن اثیر نے اپنی کتابوں میں وہی روایت درج کی ہے جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ ہم بھی طبری ہی کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ خالدؓ اس زمانے میں تیما میں مقیم تھے اور اس اجتماع میں حاضرنہ تھے۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان اس وقت ایران اور روم دو شیروں کے سمقابلے میں نبرد آزما ہیں۔ لیکن تمہیں اس وقت اپنے مطالبات کی پڑی ہے تم فوراً عراق پہنچ کر خالدؓ بن ولید کی فوج میں شامل ہوجائو اور اپنے مطالبات کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھو‘‘۔ ابوبکرؓ کا یہ جواب سن کر جریرہ حیرہ چلے گئے جہاں اس وقت خالد بن ولیدؓ مقیم تھے۔ ابوبکرؓ کو ابتدائے خلافت ہی سے اہم جنگی سائل سے واسطہ پڑ چکا تھا جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا اس لیے ان کا زیادہ تر وقت انہیںمسائل کو حل کرنے اور انہیں گتھیوں کو سلجھانے میں گزر جاتا تھا۔ کبھی عراق میں پھیلی ہوئی فوجوں کی فکر دامن گیر ہہوتی تھی کہ انہیں مدد کی ضڑورت تو نہیں۔ کبھی جنگوں میں گئے ہوئے لوگوں کے اہ و عیال کی طرف توجہ کرنی پڑتی تھی کہ ان کی ضروریات بہت اچھی طرح پوری وہ رہی ہیں اور انہیں تکالیف کا سامنا تو نہیں کرنا پڑ رہا۔ کبھی شمالی اور جنوبی عرب قبائل کا خیال آتا تھا کہ حکومت سے ان کی وفاداری اور دارالخلافے سے ان کی یہ ظاہر مخلصانہ تعلقات مشکوک تو نہیں کبھی میدان جنگ سے فتوحات کی دل خوش کن خبریں ا اکر مسرت و بہجت کی لہریں قلب یک گوشے گوشے میں پھیل جاتی تھیں اور کبھی بعض سرداروں کی پست ہمتی کی اطلاعات موسول ہوکر دل و دماغ پر تفکرات کے پردے ڈال دیتی تھیں۔ ہر خبر کے متعلق سوچنا پڑتا تھا کہ اسے لوگوں سے بیان کیا جائے یا نہ کیا جائے اوراگر بیان کیا جائے تو کس طریقے سے غرض ان کے شب وروز انہیںتفکرات میں گزرتے تھے اوروہ ناخن تدبیر کے ذریعے سے پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف رہتے تھے۔ اگرچہ ان کے مشیر کار بہت تجربہ کار مخلص اور تمام معاملات پر گہری نظر رکھنے واے تھے انہیں ان پر بے حد اعتماد بھی تھا اور اکثر اہم امورکے بارے میں وہ ان سے برابر مشورہ کرتے رہتے تھے پھر بھی وہ ان کے مشوروں کے پاابندنہ تھے بلکہ تمام معاملات میں آخری فیصلہ خود ہی کرتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ چونکہ عامۃ المسلمین کے سامنے جواب دہ صر ف خلیفہ کی ذات ہے اس یے ہر معاملے کی ذمہ داری بھی اسی کو اٹھانی چاہیے اوریہ بوجھ کسی اور فرد یا جماعت کے سرنہ ڈالنا چاہیے۔ ابوبکرؓکو اس سلسلے میں اپنی ذ مہ داریاں کا اتنا شدید احساس تھا کہ جب سے مرتدین کی جنگوں نے شدت اختیار کی تھی وانہوںنے مدینہ سے باہر نہ جانے کی قسم کھا لی تھی۔ ان کے شب و روز دارالخلافے ہی میں گزرتے تے۔ اور ہر وقت وہ انہیں افکار میں غلطاں و پیچاں رہتے تھے کہ پیش آمدہ حالات سے عہدہ برا ہونے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں فوجوں کو کس طرح کمک پہنچائی جائے فلاں علاقے کی بغاوت کس شخص کے ذریعے سے فرو کی جاء فتوحین سے کیا سلوک کیا جائے اور مفتوحہ علاقوں کا انتظا م وانصرام کس طرح عمل میں لایا جائے! مرتدین کی سرکوبی سے فراغت کے بعد جب اسلای فوجوں نے ایران و رو م کی عظیم الشان و باجبروت سلطنتوں کی طرف توجہ منعطف کی اور عراق و شام کے میدانوں میں عرکے س ہونے لگے تو ابوبکرؓ کی ذمہ داریاوں اور مصروفیتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ اپنے فراض کی بجا آوری میں انہیں اس درجہ انہماک تھا کہ ملکت کے علاوہ دیگر تمام امور ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے حتیٰ کہ انہوںنے اپنے آپ کو بھی فراموش کر کے اپنے آرام و آسائش اور صحت تک کو اس راہ میں قربان کر دیا۔ ابوبکرؓ کی اختیار کردہ سیاست کی کامیابی اور ظفر مندی کی ضامن تھی۔ ان کا عہد جہاں عدل و انصاف اور رعایاتوپر رحمت و شفقت کے لحاظ سے اپنی نظیر نہیں رکھتا وہاں اس اولوالعزی کا بھی جواب نہیں جس کانمونہ انہوںنے اپنے مختصر سے عہد خلافت میں پیش کیا۔ انہو ںنے انہتائی شجاعت سے سارے عرب کو اسلامی حکومت کا مطیع و فرماں بردار بنا دیا لیکن قباء کوان کے جائز حقوق دینے سے کبھی پہلو تہی نہ کی بلکہ جو آزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مرحمت فرما رکھی تھی اسی آزادی سے انہوںنے بھی انہیں بہرہ ور کیے رکھا اور سوا زکوۃ کے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے ان سے اور کسی چیز کی ادائیگی کا مطالبہ نہ کیا اس زکوۃ کا بھی بیشتر حصہ انہیں قبائل کے فقراء اور مساکین پر خرچ ہوجاتا تھا سلطنت کو خراج اور مال غنیمت کے ذریعے سے جو آمدنی ہوتی تھی اس میں ابوبکرؓ سے ایک دہم بھی اپنی ذات پر خرچ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ وہ سلطنت کے خزانے سے صرف اتنی رقم لیتے تھے جتنی مسلمانوں نے ان کے لیے گزارے کے طور پر مقرر کی تھی۔ آ مدنی کا بیشتر حصہ جنگوں کی تیاری میں خر چ ہوتا تھا او بقیہ فقراء او ر حاجت مندوںمیںتقسیم کر دیاجاتا تھا۔ ابتدائی عہد خلافت میں بیت المال سخ میں تھا جہاں ابوبکرؓ قیام پذیر تھے لیکن بعد میں جب کا کی زیادتی کے باعث انہیں اپنا قیامم مدینہ میں منتقل کرنااپڑا تو بیت المال کو بھی اپنے ساتھ مدینہ لے آئے۔ جب ایران سے بھاری مقدار میں مال غنیمت آناشروع ہوا تو ان سے عرض کیاا گیا کہ بیت المال کی نگراانی اور حفاظت کے لیے کسی شخص کو مقرر کر دیں لیکن انہوںنے ایسا کرنے سے انکار کر دیاا۔ کیونکہ جتنا مال ان کے پاس آتا تھا وہ اسی وقت لوگوں میںتقسیم کر دیتے تھے اور بیت المال میں اتنا بچتا نہ تھا کہ اس کی حفاظت کے لیے نگران کی ضرورت پڑتی۔ ایک مرتبہ ان کے عہد خلافت میں مدینہ کے قریب قبیلہ بنو سلیم میں سونے کی ایک کاان دریافت ہوئی۔ سونا بڑی قیمتی دھات ہے لیکن انہوں نے حسب معمول کان سے حاصل ہونے والا سونا بھی مسلمانوں میں تقسیم کردیا اور کچھ بچا کر نہ رکھا۔ تقسیم اموال میں وہ مساوات کا اصول ملحوظ رکھتے تھے اور ابتدائی دور کے مسلمانوں اور بعد میں اسلام قبول کرنے والوں آزاد لوگوں‘ اور غلاموں مردوںاور عورتوں میں کسی قسم کا فرق روا نہ رکھتے تھے بعض لوگوں نے ان سے کہا بھی کہ وہ لوگوں کے وظاائف ان کے مرتبے کے مطابق کیوں مقرر نہیں کرتے لیکن انہوںنے یہ جواب دے کر انہیں خاموش کر دیا کہ جو لوگ ابتدا میں اسلام لائے وہ اپنا اجر آخرت میںاللہ سے پائیں گے دنیا میں انہیں وہی کچھ ملے گا جو دوسرے مسلمانوں کو ملتاہے۔ عدل وانصاف اور مساوات کے اس سلوک نے تمام لوگوں کو ابوبکرؓ کا گرویدہ کر دیاا تھا اور ہر شخص کے دل میںان کی تعظیم و تکریم کے جذبات پنہاں تھے۔ عمر بن خطابؓ دلی رفیق اور سب سے زیادہ قابل اعتماد مشیر تھے۔ عثمانؓ علیؓ طلحہؓ اور زبیرؓ وغیرہ کا بھی اپنی اپنی جگہ ان سے خصوصی تعلق تھا۔ ان لوگوں سے مشورہ لیے بغیر وہ کوئی کام نہ کرتے تھے لیکن اس قدر احتیاط کے باوجود ان کے مشوروں کو قبو ل کرنا ان کے لیے لازم نہ تھا اپنے آپ کو بچانے کی خاطر مشورے کے بہانے وہ کسی کا کی ذمہ داری دوسروں پر نہ ڈالتے تھے بلکہ ہر قسم کی ذمہ داری خود اٹھاتے تھے۔ اس کی متعدد مثالیں ان کے عہد میں نظر آتی ہیں۔ چنانچہ جب اسامہ کے لشکر کو روانہ کر نے کا مسئلہ درپیش تھا تو ان کے تمام مشیروں کی رائے تھی کہ یہ وقت اس کام کے لیے موزوں نہیں۔ کیونکہ مدینہ کے چاروں طرف مرتدین کا زور ہے اور اسامہ کے لشکر کی روانگی کے باعث مدینہ میں لڑنے والوں کی تعداد بے حد کم ہو رہ جائے گی لیکن ابوبکرؓ نے تمام لوگوں کے مشوروں کو رد کرتے ہوئے اسامہ کو روانہ ہونے کاحکم دیا اور مرتدین سے اس طرح مقابلہ کیا کہ ان کے تمام مشیروں کو ان کی فراست عقل مندی اورکمال دو ر اندیشی کا اعتراف کرنا پڑا۔ کام کا بوجھ ان پر جتنا پڑتا جاتا تھا ان کی طبیعت میں اتنا ہی انکسار فروتنی اور سادگی آتی جاتی تھی۔ جب تک آپ سخ میںرہے آپ نے آرام کے لیے کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ وقت نکال ہی لیا کرتے تھے۔ اور عموماًوہ صبح کے وقت گھوڑے پر سوار ہو کر سخ سے مدینہ آیا کرتے تھے اور ان کی جگہ ہر نماز پڑھاتے تھے جمعہ کے روز وہ دوپہرکو وہاں ہی رہتے تھے اور سر اور ڈاڑھی کو خضاب لگاتے تھے اس کے بعد مدینہ آ کر جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے۔ لیکن کام بڑھ جاے کے باعث انہیں جب سخ کا قیام ترک کر کے مدینہ میں رہنا پڑا تو انہوںنے آرام کا سارا وقت مسلمانوں کی خاطر قربان کر دیا اور لمحہ لمحہ سلطنت کے امور کی دیکھ بھال میں صرف کرنے لگے۔ لیکن کام کی انتہائی کثرت کے باوجود انہوںنے اپنے لیے کبھی کوئی خادم مقرر نہیں کیا۔ دن کا بڑا حصہ مسجد میں تشریف فرما رہتے اور لوگوں کی شکایات سنتے ۔ جہاد کے متعلق مختلف ہدایات بھیجتے اور لوگوں کو مشورے دیتے رہتے تھے۔ جب ضروری ہوتا تو ان سے مشورے لیتے بھی تھے۔ سلطنت کے تمام چھوٹے بڑے معاملات مسجد ہی میں ان کے سامنے پیش کیے جاتے تھے۔ اور وہیں بیٹھے بیٹھے آپ ان کے متعلق احکام صادر فرمادیتے تھے۔ غریبوں اور مسکینوں پر بے حد مہربان تھے۔ سردیوں میں کمبل خریدتے اور انہیں محتاجوں میں تقسیم کر دیتے۔ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ کر فقراء اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے تھے۔ عمرؓ بن خطاب ذکر کرتے ہیں کہ مدینہ میں ایک بوڑھی اندھی عورت رہتی تھی۔ میں روزانہ علی الصبح اس کی خبر گیری کے لیے جایا کرتا تھا لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہاں جا کر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص پہلے ہی سے آکر اس بڑھیا کا سارا کا کاج کر گیا ہے۔ آخر ایک روز اس نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اس شخص کا پتا لگا کر ہی رہوں گا۔ ابھی رات باقی تھی کہ میں بڑھیا کی جھونپڑی کے قریب چھپ کر بیٹھ گیا اور اس شخص کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ابوبکرؓ چلے آ رہے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے دل میں کہا کہ ابوبکرؓ ! یقینا یہ کام تمہارے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ چنانچہ انہوںنے آ کرا س اندھی عورت کا کام کاج کیا اور واپس چلے گئے۔ یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ ابوبکرؓ کی ذات ان کے تمام عمال کے لیے نمونہ تھی عرب کی آتش فشان سر زمین میں جہاں ہر طرف بغاوت او ر ارتداد کے شعلے بھڑک رہے تھے مایو س دلوں کے لیے ان کی ذات اس مشعل کی مانند تھی جو اندھیری رات اور تنگ و تاریک مکان میں ضیاء افروز ہو اور تاریکی کو روشنی میں تبدیل کررہی ہو۔ سارا عرب ان کے عدل و انصاف رحمت و شفقت حکمت و حسن سیاست سے بہرہ اندوز ہو رہا تھا اور یہی خصوصیات ان کی کامیابی کا اصل باعث تھیں۔ جہاد اور غنیمت ابوبکرؓ کو کامل یقین تھا کہ اللہ انہیں ہر میدان میں کامیابی عطا فرمائے گا۔ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین کی مدد کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ خواہ زمین و آسمان ہل جاتے لیکن خدائی باتوں کاٹلنا ناممکن تھا۔ چنانچہ اس کے وعدے پورے ہوئے مرتدین کی جنگوں میں مسلمانوں کو شاندار کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ عراق کے میدان ہائے جنگ میں فتح و نصرت ان یک قدم چوم رہی تھی اور مسلمان ہر دم تائید ایزدی سے بہرہ یاب ہو رہے تھے۔ کوئی جنگ ایسی نہ ہوتی تھی کہ جس میں کثیر مال غنیمت ہاتھ نہ آتا ہو۔ دربار خلافت تقسیم ہو جاتاتھا اور ہر سپاہی کے حصے میں ہزاروں درہم آتے تھے۔ جنگوں میں پیچھے رہنے والے لوگ جب یہ دیکھتے تھے تو ان کے دلوں میں بھی لڑائیوں میں شرکت کرنے کا شوق پیدا ہو جاتا تھا اور جونہی حضرت ابوبکرؓ کی طر ف سے جہاد میں شمولیت کا اعلان ہوتا فوراً ہی قبائل عرب دیوانہ وار آگے بڑھ کر ان کی دعوت پر لبیک کہتے تھے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صرف مال غنیمت کا لالچ عربوں کو کشاں کشاں میدان ہائے کارزار کی طرف لے جاتا تھا بلکہ جنگوں میں شامل ہونے کا بڑا سبب وہ جذبہ تھا کہ جو ہر مسلمان کے دل میں موجزن رہتا تھا ۔ کون شخص اس بات سے بے خبر تھا کہ مجاہدین اور ان کے دشمنوں کی قوت و طاقت و تعداد میں کوئی نسبت ہی نہ رہی تھی۔ دشمن ہمیشہ بہترین جنگی تیاریوں اور جرار لشکروں کے ساتھ مسلمانوں کے مقابل میدان جنگ میں آیا اوراپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے میں کبھی کسی قسم کی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ ان حالات میں شریک جنگ ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا لیکن نڈ ر اور بے خوف مجاہدین نے اللہ کے راستے میں کسی بھی خطرے کی پروا نہ کی اور ہمیشہ دشمن کی صفوں میں دیوانہ وار گھستے چلے گئے۔ حصول شہادت کا یہی جذبہ دیکھ کر خالد بن ولید ؓایرانی سرداروں کو یہ پیغام بھجوایا کرتے تھے کہ میں تمہارے پاس ایک ایسی قوم کو لا رہا ہو جو موت کی اتنی ہی عاشق ہے جتنے تم زندگی کے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ جو قوم موت سے بے خوف ہوتی ہے اقوام عالم میں اسی کو زندہ رہنے کا مستحق سمجھا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ اپنی خواہشات اللہ کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں قوموں کی سرداری کا تاج انہیں کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے موت پسند کی جس پر انہیں ہمیشہ کے لیے زندگی عطا کی گئی۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں ہر قسم کی تکالیف اور مصائب برداشت کیے اس لیے انہیں دونوں جہان کی عزت سے سرفراز کی گیا۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیںکیا جا سکتا کہ مال غنیمت کا شوق بھی کسی حد تک انہیں میدان جنگ میں لے جانے کا باعث بنا۔ عرب قبائل کی فطرت میں یہ بات داخل تھی کہ وہ غنیمت کو دیکھ کر کسی طرح صبر نہ کر سکتے تھے۔ اگرچہ اسلام نے آ کر اس نفسانی جذؓے کو بڑی حد تک مٹا دیا تھا اور غنیمت کے لالچ میں دشمن سے جنگ کرنے کی بجائے اللہ کے دین کی خاطر جہاد می شرکت کرنے کی تمنا ان کے دلوں میں پیدا کر دی تھی لیکن قدرتی جذبے کو یکسر مٹانا آسان نہ تھا۔ کسی نہ کسی حد تک یہ جذبہ ان کے دلوں میں موجود تھا۔ چنانچہ خود خالد بن ولیدؓ نے الیس کی جگ کے اختتام پر کہاتھا کہ عراق میںمال و دولت کی فراوانی اور مال غنیمت کی کثرت جوعربوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتی تھی۔ آتش جنگ بھڑکا دینے کے لیے یقینا کافی تھی۔ مرتد قبائل جنہیں ارتداد کی سزا میں عراق کی جنگوں میں شرکت سے بہ زور منع کر دیا گیا تھا۔ اپنے بھائیوں کے گھروں میں دولب کی ریل پیل دیکھ کر اپنے کیے پر پچھتا رہے تھے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ جو لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے تھے وہ نہ صرف کامیابی و کامرانی سے ہم کنار بلکہ مال و دولت سے بھی بہرہ ور ہو رہے تھے۔ مگر مرتدین کے حصے میں حسرت و مایوسی کے سوا کچھ نہ تھا۔ روانگی شام بایں ہمہ جب ابوبکرؓ نے لوگوں جانے کی دعوت دی تو ابتدا میں رومیوں کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی زبردست جنگی طاقت دیکھ کر مسلمانوں کو ان کے مقابلے میں جانے کی جرات نہ ہوئی لیکن ابوبکرؓ جانتے تھے کہ رومیوں کی ہیبت کا یہ اثر عارضی ہے اورجونہی انہیں حالات کی نزاکت کا احساس ہو گا جو جوق در جوق جہاد پر جانے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ چنانچہ یہی ہوا اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد لوگوں نے یکے بعد دیگرے اپنے آپ کو شام جانے کے لیے پش کرنا شروع کر دیا۔ اہل مدینہ کی طرف سے مطمئن ہوجانے کے بعد ابوبکرؓ نے اہل یمن کو بھی اس غرض کے لیے تیار کرنا چاہا اور انہیں یہ خط لکھا: ’’اللہ نے مومنوں پر جہاد فرض کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تنگی ہو خواہ فراخی سامان جنگ کی کمی ہو یا افراط انہیں ہر حال میں دشمنوں کے مقابلے میں تیار رہنا چاہیے۔ چنانچہ وہ فر ماتاہے وجاھدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل اللہ (اے مومنو! اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ذریعے سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو) جہاد ایک لازم فریضہ ہے۔ او راس کا ثواب بھی اس قدر عظیم ہے جس کا اندازہ ناممکن ہے ۔ تمہار ے ان بھائیوں کو جو میرے سامنے موجود تھے میں نے جہاد کے لیے شام جانے پر آمادہ کیا چنانچہ وہ میری آواز پر لبیک کہہ کر خلوص نیت سے شام روانہ ہو رہے ہیں۔ اے اللہ کے بندو! اب تمہاری باری ہے ۔ تم بھی میری آواز پر لبیک کہو اور جو فریضہ تمہارے پروردگار کی طر ف سے تم پر عائد کیا گیا ہے اس کی بجا آوری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو‘‘۔ اہل یمن پر ا س خط کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ جونہی ابوبکرؓ نے قاصد نے اسے مجمع عام میں پڑھ کر سنایا ذوالکاح حمیری اپن قو م اور یمن دکے بعض اور قبائل کو ہمراہ لے کر شام جانے کے ارادے سے مدینہ روانہ ہو گئے۔ ذوالکلاع کی پیروی میں بیلہ مذحج سے قیسبن ہیبر مرادی ‘ ازد سے جندب بن عمر والدوسی اور طی سے حابس بن سعد طائی نے اپنے اپنے ساتھیوں اور قبیلوں کے ہمراہ مدینہ کی راہ لی۔ اس دوران میں جب ابوبکرؓ کا قاصد یمن میں قبیلہ در قبیلہ جا کر ان کا پیغام لوگوں تک پہنچا نے میں مشغول تھا اور اہل یمن کوچ کی تیاریوں میں مصروف تھے ابوبکرؓ مہاجرین انصار‘ اہل مکہ اور دوسرے فوجی قبائل کو اکٹھا کر کے شام بھیجنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ابوبکرؓ نے ان لشکروں کو کس وقت بھیجنا شروع کیا؟ شا م کی طرف کوچ کرنے والا سب سے پہلا لشکر کون سا تھا ؟ جو لشکر مدینہ آ کراکٹھے ہوئے تھے ان کے امیر کون تھے؟ ان امور کے متعلق مورخین میں خاصا اختلاف ہے۔ اکثر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ شام کی جانب سب سے پہلا لشکر ۱۲ھ کے اواخر میں ابوبکرؓ کے حج سے واپس آنے کے بعد روانہ ہو ا تھا۔ بعض روایات میں یہ مذکورہے کہ ابوبکرؓ نے ۱۲ھ کے اوائل میں جب خالد بن ولیدؓ کو عرا ق روانہ فرمایا تو انہیں کے ساتھ خالدؓ بن سعید بن عاص کو شام جانے کا حکم دیا۔ لیکن ہمارے خیا ل میں اصل واقعات اس طرح ہیں کہ خالدؓ بن ولید نے ابتدا میں جب ابھی یمن، کندہ اور حضر موت میں مرتدین سے جنگیں جاری تھیں، عراق جا کر اسلامی افواج کی قیادت سنبھالی تھی۔ خالد بن سعید کو بھی اسی زمانے میں شام بھیجا گیا تھا لیکن ان کے بھیجنے کی اصل غرض محض سرحدوں کی حفاظت تھی نہ کہ رومیوں سے جنگ چھیڑنا۔ ابوبکرؓ کو شام پر چڑھائی کرنے کا خیال یمن اور عرب کے دوسرے علاقوں میں مرتدین کے کامل استیصال، عرق میں حیرہ کی فتح اور شام کے سرحدی شہر دومۃ الجندل کی تسخیر کے بعد آیا۔ ہماری اس رائے کی تائید اس واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ جب شام پر چڑھائی کرنے کا سوال پیدا ہوا تو ا بوبکرؓ نے سب سے پہلے اہل یمن کو وہاں جانے کے لیے آمادہ کیا اور یہ اس وقت تک نہ ہو سکتا تھا جب تک وہاں سے فتنہ ارتداد کا بالکل قلع قمع نہ کر دیا جاتا۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ عکرمہ اور ذوالکلاع یمن میں امن و امان قائم کرنے کے بعد وہیں مقیم نہیں رہے بلکہ مہاجر کو ساتھ لے کر کندہ اور حضر موت میں فتنہ ارتداد کو فرو کرنے کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ جب جنوبی عرب میں کلیۃً امن قائم ہو گیا اور مدینہ کو عکرمہ کی واپسی کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے اس لشکر کو چھوڑ کر، جس کے ذریعے سے انہوں نے مرتدین کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا تھا، ایک اور لشکر کی قیادت سنبھال لی جسے بدیل نے مرتب کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یمن اور جنوبی عرب کی بغاوتوں کو دبانے، یمن سے مدینہ لوٹنے اور وہاں سے شام روانہ ہونے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ اکیلا مکہ سے مدینہ تک کا راستہ اونٹوں پر دس دن سے کم میں طے نہیں ہوتا اور مدینہ سے شام کا فاصلہ ایک مہینے کی مسافت سے کسی طرح کم نہیں۔ مذکورہ بالا معاملے کی طرح اس امر میں بھی مورخین میں اختلاف ہے کہ شام پر چڑھائی کا خیال پیدا ہونے کے بعد ابوبکرؓ نے سب سے پہلے کس شخص کو امیر بنا کر وہاں بھیجا۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ یہ سعادت سب سے پہلے خالد بن سعید بن عاص اموی کے حصے میں آئی ۔ ہم قبل ازیں یہ روایت بھی بیان کر چکے ہیں کہ مرتدین سے جنگیں شروع ہوتے ہی انہیں شام کی سرحد پر تیماء بھیج دیا گیا تھا تاکہ رومی مسلمانوں کی مصیبت (ارتداد) سے فائدہ اٹھا کر عرب پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ان دونوں روائتوں کے برعکس ایک روایت یہ بھی آتی ہے کہ خالدؓ بن سعید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یمن کے حاکم تھے اور آپ کی وفات سے ایک مہینہ بعد مدینہ پہنچے تھے مدینہ پہنچ کر وہ علیؓ اور عثمانؓ سے ملے اور کہنے لگے: اے بنو عبد مناف! تم نے ہنسی خوشی خلافت کی باگ ڈور دوسروں کو کیوں سپرد کر دی حالانکہ اس پر تمہارا حق فائق تھا؟ بعد میں جب ابوبکرؓ نے شام کی طرف اسلامی لشکر بھیجنا چاہا اور خالدؓ بن سعید کو اس کا سپہ سالار مقرر کیا تو عمرؓ نے ان سے عرض کیا کہ آپ ایسے آدمی کو سالار لشکر بنا کر بھیج رہے ہیں جو قبل ازیں فساد انگیز باتیں کر چکا ہے۔ اس معاملے میں عمرؓ کا اصرار اس حد تک بڑھا کہ آخر حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ بن سعید کو ہٹا کر ان کی جگہ زید بن ابو سفیان کو شامی لشکروں کا سپہ سالار مقرر کر دیا۔ ایک اور روایت کے مطابق حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا تھا خالدؓ بن سعید برخود غلط اور متکبر انسان ہے۔ اس لیے اسے ایسی مہم پر بھیجنا مناسب نہ ہو گا جہاں ہر قدم پر انتہائی حزم و احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی روائتیں بھی آتی ہیں کہ خالدؓ بن سعید کو کبھی امیر بنا کر بھیجا ہی نہیں گیا، وہ ابو عبیدہؓ بن جراح کے لشکر میں شامل تھے۔ ان تمام روایات کے برعکس ہمارا خیال وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یعنی خالدؓ بن سعید کو شام کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تیما بھیجا گیا تھا اور وہ اپنے دستے کے ہمراہ وہیں مقیم رہے۔ جب ابوبکرؓ نے جہاد شام کے لیے عام تحریک فرمائی تو وہ مدینہ میں موجود نہ تھے۔ یہ تحریک انہوں نے خالدؓ بن سعید ہی کی طرف سے یہ رپورٹ موصول ہونے پر کی تھی کہ رومی فوجوں میں نقل و حرکت کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اور اگر دربار خلافت سے ان کی مدد کے لیے فوجیں روانہ نہ کی گئیں تو خطرہ ہے کہ مبادا رومی ان کے دستے پر حملہ کر کے اسے تباہ و برباد کر دیں۔ رومی بھی جنگی تیاریوں اور فوجی نقل و حرکت میں حق بجانب تھے۔ کیونکہ انہیں پیہم یہ خبریں پہنچ رہی تھیں کہ عراق میں مسلمان فتوحات پر فتوحات حاصل کر رہے ہیں اور عرب میں مسلمانوں کے خلاف مرتدین نے جو جا بجا فتنے کھڑے کیے تھے ان سب کا قلع قمع کر دیا گیا ہے۔ ان کے دلوں میں اب تک غزوہ تبوک کی یاد باقی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کثیر صحابہ کے کو ساتھ لے کر رومی سرحدوں تک پہنچ گئے تھے اور رومی سرحدوں پر بسنے والے قبائل سے معاہدات صلح کر کے مدینہ واپس چلے گئے تھے۔ اب آپ کے متبیعن دوبارہ رومی سرحدوں تک پہنچ کر اسے عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے رومی سلطنت نے غسانیوں اور شام کی سرحد پر بسنے والے دوسرے قبائل کو ہدایت کی کہ وہ سرحد پر ایک زبردست روک بن کر کھڑے ہو جائیں اور مسلمانوں کو کسی طرح بھی شامی حدود میں قدم رکھنے کی اجازت نہ دیں۔ چنانچہ ان قبائل نے کثیر فوج فراہم کر کے اسے سرحد پر جمع کر دیا۔ اب رومیوں اور مسلمانوں کی فوجیں ایک دوسرے کے بالمقابل کیل کانٹے سے لیس تیار کھڑی تھیں۔ مسلمانوں کی فوج سرحد کے اس طرف عرب کی حدود میں تھی اور غسانیوں کی فوج سرحد کے اس پار شام کی حدود میں۔ دونوں فوجیں منتظر تھیں کہ کب حکم ملے اور دوسرے فریق پر دھاوا بول دیں۔ اسی دوران میں خالدؓ بن ولید کی پے در پے فتوحات کی خبریں موصول ہو کر رومیوں کے لیے مزید پریشانی اور سراسیمگی کا باعث بن گئیں۔ آج اہل انبار نے عاجز آ کر شہر کے دروازے اسلامی لشکر کے لیے کھول دئیے۔ آج عین التمر پرمسلمانوں کا تسلط ہو گیا۔ آج فلاں شہر کی فوج نے مسلمانوں کے مقابلے میں شکست کھائی اور آج فلاں فوج نے تاب مقاومت نہ لا کر راہ فرار اختیار کی۔ رومیوں کو یقین تھا کہ تیماء پر مقیم اسلامی فوج بھی چین سے بیٹھنے والی نہیں، وہ بھی اپنے بھائیوں کی تقلید میں شامی سرحد پر دست درازی کرنے سے کسی صورت باز نہ رہے گی۔ چنانچہ انہوں نے ایک نئے جوش اور ولولے سے مسلمانوں کے مقابلے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ یہ دیکھ کر خالدؓ بن سعید نے دوبارہ ابوبکرؓ کو خط لکھا۔ جس میں رومیوں کے جوش و خروش اور بہراء کلب، تنوخ، لخم، جذام اور غسان کے قبائل کی جنگی تیاریوں کی اطلاع دیتے ہوئے شامی سرحد کے اندر پیش قدمی کی اجازت طلب کی۔ ابوبکرؓ اس وقت شام بھیجنے کے لیے فوجوں کی فراہمی میں مصروف تھے۔ انہوں نے خالدؓ کو جوابا لکھا: تمہاری درخواست پر تمہیں پیش قدمی کی اجازت دی جاتی ہے لیکن حملہ کرنے میں کبھی پہل نہ کرنا اور ہمیشہ اللہ سے مدد مانگتے رہنا۔ شامی فتوحات کے سلسلے میں یہ پہلے کلمات تھے جو ابوبکرؓ کے قلم سے نکلے۔ ٭٭٭ چودہواں باب فتح شام اسلامی فوجوں کی پیش قدمی: خالد بن سعید اپنے مختصر سے دستے اور بدوی قبائل کے ہمراہ شام کی سرحد پر تیماء میں مقیم تھے۔ ان کے مقابلے کے لیے سرحدی قبائل پر مشتمل رومیوں کا عظیم الشان لشکر سرحد کے دوسری طرف تیار کھڑا تھا لیکن اپنے سے کئی گنا فوج کو دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے اور ان کے عزم و ارادہ میں پہلے سے زیادہ پختگی آ گئی۔ جب خالدؓ بن سعید کو ابوبکرؓ کی یہ ہدایات موصول ہوئیں تو انہوں نے فوراً اپنی فوج کو تیار ہونے کا حکم دے دیا اور اسے لے کر شامی حدود میں داخل ہو گئے۔ رومیوں اور ان کے مددگاروں نے جونہی اسلامی لشکر کو اپنی طرف آتے دیکھا وہ حواس باختہ ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ خالدؓ بن سعید لشکر گاہ میں داخل ہوئے اور رومیوں کا چھوڑا ہوا سامان قبضے میں کر لیا۔ اس کے بعد ابوبکرؓ کی خدمت میں اس پہلی فتح کی اطلاع بھیجی۔ وہاں سے جواب آیا: آگے بڑھتے چلے جاؤ لیکن جب تک تمہارے پاس مزید فوجیں نہ پہنچ جائیں۔ بہ طور خود دشمن پر حملہ کرنے سے پرہیز کرو۔ چنانچہ خالدؓ بن سعید آگے بڑھتے چلے گئے۔ بحر مراد کے مشرقی ساحل کے قریب مقام قسطل پر انہیں ایک اور رومی لشکر کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اسے بھی شکست دی اور پیش قدمی جاری رکھی۔ یہ دیکھ کر رومیوں اور اہل شام کو بہت طیش آیا۔ ان کی آتش حمیت بھڑک اٹھی اور انہوں نے پہلے سے بھی زیادہ زور سے جنگی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب خالدؓ بن سعید نے ان کی یہ جنگی تیاریاں دیکھیں تو انہوں نے ابوبکرؓ کی خدمت میں جلد از جلد کمک روانہ کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ کامیابی سے سفر جاری رکھ سکیں۔ ان دوران میں مدینہ سے فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ ابوبکرؓ کو ان کی کامیابی کا پورا یقین تھا اور خدائی امداد پر کامل بھروسا۔ وجہ یہ تھی کہ رومی ایرانیوں سے کسی طرح بھی بہتر نہ تھے۔ جب سے انہوں نے ایرانیوں پر غلبہ حاصل کیا تھا انہیں عیش و آرام کے سوا کوئی کام ہی نہ رہا تھا۔ سرحدوں کی حفاظت کا سارا کام انہوں نے بدوی قبائل پر چھوڑ رکھا تھا۔ یہ قبائل اگرچہ شجاعت و بہادری میں تو کسی سے ہیٹے نہ تھے لیکن جنس اور زبان کے لحاظ سے جو تعلق انہیں اہل عرب سے تھا وہ رومیوں سے نہ تھا۔ شامی عرب اگرچہ عیسائی مذہب کے پیرو تھے پھر بھی ہرقل کی عیسائیت اور ان کی عیسائیت میں بڑا فرق تھا۔ شامی عرب ارژوذ کسی (آرتھوڈوکس) عقیدے کے پیرو تھے اور قیصر کاثولیکی (کیتھولک) فرقے کا متبع۔ جب شامیوں نے دیکھا کہ قیصر کھلم کھلا مسلمانوں کے مقابلے میں آنے سے جی چرا رہا ہے وہ سمجھ گئے کہ قیصر کو اپنے اہل وطن کی تباہی و بربادی کا خطرہ ہے، اس لیے وہ ا نہیں مسلمانوں کے مقابلے میں لانے کے بجائے ہمیں قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔ اس پر شامی عیسائیوں کے حوصلے بھی پست ہو گئے اور اس خیال سے کہ وہ خواہ مخواہ رومیوں کی سلطنت کے بچاؤ کی خاطر اپنی جانیں کیوں قربان کریں، انہوں نے لڑائی سے دست کشی اختیار کر لی اور خالدؓ بن سعید کی پیش قدمی کے لیے راستہ صاف کر دیا۔ اسلامی لشکروں کی روانگی: مورخین میں اس کے متعلق اختلاف ہے کہ سب سے پہلے کون سا لشکر خالدؓ بن سعید کی مدد کے لیے روانہ ہوا تھا؟ طبری ابن اثیر اور ابن خلدون نے اس سلسلے میں جو روایات بیان کی ہیں وہ ان روایات سے مختلف ہیں، جو واقدی، ازدی اور بلاذری نے لکھی ہیں۔ ذیل میں سب سے پہلے ہم طبری اور اس کے مذکورہ بالا ساتھیوں کی روایات کا تذکرہ کرتے ہیں اور بعد میں واقدی، ازدی اور بلا ذری کی روائتیں درج کریں گے۔ عکرمہ بن ابوجہل کندہ اور حضر موت کی بغاوتوں کو فرو کر کے یمن او رمکہ کے راستے مدینہ پہنچے۔ اس وقت ابوبکرؓ نے انہیں خالدؓ بن سعید کی مدد کے لیے جانے کا حکم دیا۔ عکرمہ اپنا وہ لشکر چھوڑ چکے تھے جس کے ساتھ انہوں نے جنوبی علاقوں میں مرتدین سے جنگیں کی تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک اور لشکر تیار کیا اور عکرمہ کو اس کی قیادت سپرد کر کے شام کی طرف روانہ کر دیا۔ اسی وجہ سے اس لشکر کا نام جیش بدال پڑ گیا۔ عکرمہ کے ساتھ ہی انہوں نے ذوالکلاع حمیری کو اس لشکر کا سردار بنا کر جو ان کے ساتھ یمن سے آیا تھا، شام روانہ ہونے کا حکم دیا تاکہ خالدؓ بن سعید کو اطمینان رہے اور وہ پیش قدمی جاری رکھ سکیں۔ اسی زمانے میں عمرو بن عاص مرتدین سے فراغت پا کر قضاعہ میں مقیم تھے۔ ابوبکرؓ کی خواہش تھی کہ وہ بھی شام جا کر خالدؓ بن سعید کے ممد و معاون ثابت ہوں لیکن ان کے کارناموں کی وجہ سے جو انہوں نے فتنہ ارتداد فرو کرنے کے سلسلے میں انجام دئیے تھے، ابوبکرؓ نے انہیں اختیار دیا کہ خواہ وہ قضاعہ ہی میں مقیم رہیں، خواہ شام جا کر وہاں کے مسلمانوں کی تقویت کا باعث بنیں۔ ابوبکرؓ نے انہیں لکھا: اے ابو عبداللہ! میں تمہارے سپرد ایسا کام کرنا چاہتا ہوں جو دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے تمہارے لیے بہتر ہے۔ لیکن تمہاری خودی مجھے بہرحال منظور ہے۔ عمرو بن عاص نے جواب میں لکھا: میں اسلام کے تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپ اس کے تیر انداز جس طرف آپ کو کوئی خطرہ نظر آئے آپ بلا تامل اس تیر کو چلائیے جو بہت سخت اور جگر چھلنی کرنے والا ہے۔ ابوبکرؓ نے ولید بن عقبہ کو بھی اسی مضمون کا خط لکھا تھا۔ انہوں نے بھی جوبا میں عمرو بن عاص کی طرح اخلاص و محبت اور ایثار کا اظہار کیا، چنانچہ ابوبکرؓ نے عمرو بن عاص کو فلسطین ا ور ولید کو اردن کا حاکم مقرر کر کے شام روانہ ہونے کا حکم دیا۔ تعمیل حکم میں دونوں صاحب شام روانہ ہو گئے۔ سب سے پہلے ولید بن عقبہ خالد بن سعید کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ اہل مدینہ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے بے تاب ہیں اور ابوبکرؓ فوجیں بھیجنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ یہ سن کر خالدؓ کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور انہوں نے اس خیال سے کہ رومیوں پر فتح یابی کا فخر انہی کے حصے میں آئے، ولید بن عقبہ کو ساتھ لے کر رومیوں کی عظیم الشان فوج پر حملہ کرنا چاہا جس کی قیادت ان کا سپہ سالار اعظم باہان کر رہا تھا۔ انہوں نے سوچا تھا کہ جس طرح خالدؓ بن ولید نے مٹھی بھر فوج کے ہمراہ ہرمز کو شکست دے کر عراق میں اپنا سکہ بٹھایا تھا اسی طرح وہ بھی باہان کو شکست دے کر رومیوں پر اپنا رعب قائم کر سکیں گے۔ باہان کو جب خالدؓ بن سعید کے ارادہ کا پتا چلا تو اس نے لشکر لے کر دمشق کا رخ کیا۔ خالدؓ اس کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ واقوصہ اور دمشق کے درمیان مقام مرج الصفر میں پڑاؤ ڈال کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ باہان کا پیچھے ہٹنا اصل میں ایک چال تھی اور وہ مسلمانوں کو گھیرے میں لے کر پشت سے ان پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔ اسی خطرے سے ابوبکرؓ نے بار بار انہیں خبردار کیا تھا۔ لیکن کامیابی کے نشے اور فخر و مباہات کی محبت نے خالدؓ بن سعید کے دل سے یہ بات قطعاً فراموش کر دی کہ وہ اپنی پشت کی حفاظت کا بندوبست کیے بغیر آگے نہ بڑھیں۔ جب وہ مرج الصفر کے قریب پہنچے تو باہان لشکر لے کر پلٹا اور مسلمانوں کا محاصرہ کر کے ان کی پشت کا راستہ کاٹ دیا۔ اتفاق سے اسلامی فوجوں کا ایک دستہ باقی لشکر سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ا س دستے میں خالدؓ کا لڑکا سعید بھی تھا۔ باہان نے سب سے پہلے اس دستے پر حملے کیا اور تمام لوگوں کو جن میں سعید بن خالد بھی شامل تھا، قتل کر دیا۔ جب خالدؓ بن سعید کو اپنے بیٹے کے مارے جانے کی اطلاع ملی اور اپنے آپ کو خوں خوار دشمنوں سے محصور پایا تو ان کی آنکھوں میں اندھیرا آ گیا، انہوں نے لشکر کو عکرمہ کی سرکردگی میں چھوڑ کر چند آدمیوں کے ہمراہ راہ فرار اختیار کی اور مدینہ کے قریب ذوالمروہ ہی پہنچ کر دم لیا۔ جب ابوبکرؓ کو اس واقعے کا پتا چلا تو انہوں نے خالدؓ کو بہت سخت خط لکھا اور انہیں مدینہ آنے سے منع کر دیا۔ چنانچہ وہ اپنے شکست خوردہ ہمراہیوں کے ساتھ انتہائی حزن و الم کی حالت میں ذوالمروہ ہی میں مقیم رہے۔ ابوبکرؓ فرمایا کرتے تھے: عمرؓ اور علیؓ مجھ سے زیادہ خالد کی سرشت سے واقف تھے۔ اگر میں ان دونوں کا کہا مانتا تو مسلمانوں کو اس شکست سے دوچار ہونا نہ پڑتا۔ خالدؓ بنس عید کے فرار کے باوجود ابوبکرؓ کے عزم و حوصلہ میں مطلق فرق نہ آیا۔ جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ عکرمہ بن ابوجہل اور ذوالکلاع حمیری اسلامی لشکر کو رومیوں کے چنگل سے بچا کر واپس شام کی سرحد پر لے آئے ہیں اور وہاں مدد کے منتظر ہیں تو ابوبکرؓ نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر کمک بھیجنے کا انتظام شروع کر دیا۔ شرحبیل بن حسنہ عراق میں خالدؓ بن ولید کے ساتھ تھے اور اس زمانے میں قیدی اور مال غنیمت لے کر مدینہ آئے ہوئے تھے۔ ابوبکرؓ نے انہیں ولید بن عقبہ کی جگہ شام جانے کا حکم دیا۔ ولید بن عقبہ بھی ان ہزیمت خوردہ لوگوں میں شامل تھے۔ جو خالدؓ بن سعید کے ہمراہ شام سے فرار ہو کر ذوالمروہ میں مقیم تھے۔ شرحبیل نے ابن سعید اور ابن عقبہ کے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں لے کر عکرمہ کے پاس روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد ابوبکرؓ نے ایک اور بھاری لشکر جمع کیا جس میں اکثریت مکہ والوں کی تھی۔ اس لشکر کا سردار انہوں نے یزید بن ابی سفیان کا بنایا اور انہیں شام روانہ ہونے کا حکم دیا۔ یزید کے پیچھے انہوں نے خالد بن سعید کے بقیہ لشکر پر ان کے بھائی معاویہ بن ابی سفیان کو امیر بنا کر اسے بھی شام بھیجا۔ اسی پر بس نہ کیا بلکہ ابوعبیدہ بن جراح کو بھی حمص کا والی بنا کر ایک بھاری لشکر کے ہمراہ شام کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ یہ تمام لشکر جرف میں جا کر خیمہ زن ہوتے تھے۔ جب کبھی کسی لشکر کی روانگی کا وقت آتا ابوبکرؓ خود شہر سے باہر تشریف لے جاتے اور سالار لشکر کو یہ نصائخ فرما کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتیـ: یاد رکھو ہر کام کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ جس نے اس مقصد کو پا لیا وہ کامیاب ہو گیا۔ جو شخص اللہ کے لیے کوئی کام کرتا ہے اللہ خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے۔ تمہیں کوشش اور جدوجہد سے کام لینا چاہیے کیونکہ جدوجہد کے بغیر کوئی کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ یاد رکھو جس شخص میں ایمان نہیں وہ مسلمان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ جو کام ثواب کی خاطر نہ کیا جائے اس کا کوئی ثواب بھی نہیں ملتا۔ جس کام میں نیک نیتی شامل نہیں وہ کام ہی نہیں۔ کتاب اللہ میں اللہ کی خاطر جہاد کرنے والوں کو بہت بڑے اجر اور ثواب کی خوش خبری دی گئی ہے لیکن کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اس ثواب کو صرف اپنے لیے مخصوص کرنا چاہے۔ جہاد فی سبیل اللہ ایک تجارت ہے جسے اللہ نے مومنوں کے لیے جاری فرمایا ہے۔ جو شخص اسے اختیار کرتا ہے اللہ اسے رسوائی سے بچا لیتا ہے اور دونوں جہان کی عزت بخشتا ہے۔ یزید بن ابی سفیان کی روانگی کے وقت انہون نے جو نصائح فرمائیں وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اپنے لشکر کے ساتھ اچھی طرح رہنا۔ ان سے عمدہ سلوک کرنا۔ انہیں نصیحت کرتے وقت اختصار سے کام لینا کیونکہ زیادہ باتیں کرنے سے بعض حصے بھول جاتے ہیں۔ دوسروں کو نصیحت کرنے سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنا، اس طرح لوگ بھلائی سے پیش آئیں گے۔ دشمن کے ایلچیوں کی عزت کرنا اور انہیں زیادہ دیر پاس نہ بٹھانا کہ جب وہ تمہارے لشکر سے باہر نکلیں تو انہیں جنگی رازوں کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو سکے۔ جب وہ تمہارے پاس آئیں تو لشکر کے سب سے شاندار حصے میں انہیں ٹھہرانا۔ اپنا بھید چھپانا تاکہ تمہارا نظام درہم برہم نہ ہو جائے۔ ہمیشہ سچی بات کہنا تاکہ صحیح مشورہ ملے۔ راتوں کو اپنے رفیقوں کے ساتھ بیٹھنا، اس طرح تمہیں ہر قسم کی خبریں مل سکیں گی۔ لشکر میں پہرے کا انتظام کرنا اور پہرے والے سپاہیوں کو سارے لشکر میں پھیلا دینا۔ا کثر ان کا اچانک معائنہ بھی کرنا۔ اگر کسی ایسے شخص کو سزا دو جو اس کا مستحق ہو تو اس میں کسی قسم کا خوف دل میں نہ لانا۔ مخلص اور وفادار رفیقوں سے میل جول رکھنا۔ جن سے ملو اخلاص سے ملنا، بزدلی نہ دکھانا کیونکہ اس طرح دوسرے لوگ بھی بزدلی کا اظہار کرنے لگیں گے۔ ان لشکروں کو روانہ کر کے ابوبکرؓنے اطمینان کا سانس لیا۔ انہیں کامل امید تھی کہ اللہ ان فوجوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو رومیوں پر غلبہ عطا فرمائے گا۔ وجہ یہ تھی کہ ان میں ایک ہزار سے زیادہ مہاجر اور انصار صحابہ شامل تھے جنہوں نے ہر موقع پر انتہائی وفاداری کا ثبوت دیا تھا اور ابتدائے اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش لڑائیوں مے حصہ لیا تھا۔ ان میں وہ اہل بدر بھی شامل تھے جن کے متعلق آپ نے اپنے رب کے حضور یہ التجا کی تھی: اے اللہ! اگر آج تو نے اس چھوٹی سی جماعت کو ہلاک کر دیا تو آئندہ پھر کبھی زمین پر تیری پرستش نہ کی جائے گی۔ یہی وہ لوگ تھے جن کی مدد کے لیے اللہ نے آسمان سے فرشتے نازل کیے اور جن کے متعلق یہ آیات مقدسہ نازل ہوئیں: کم من فئۃ فلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ واللہ مع الصابرین۔ (کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے اذن سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آ جاتی ہیں۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔) جس لشکر کے ہمراہ خالدؓ بن ولید نے عراق پر چڑھائی کی تھی اور جس کے ذریعے سے انہوں نے سلطنت ایران کو پارہ پارہ کر دیا تھا اس میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی جنہوں نے جنگ یمامہ میں شرکت کی تھی۔ زیادہ تر تعداد بحرین اور عمان کے ان لوگوں کی تھی جو بدستور اسلام پر قائم تھے اور جنہوں نے مرتدین کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا تھا۔ کیا ان لوگوں کو بہادری شجاعت اور اخلاص و محبت میں بدر، احد اور حنین کی جنگوں میں شرکت کرنے والے صحابہ کرام کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدداور حفاظت کی؟ اسی طرح کیا ان لوگوں کو مکہ، مدینہ اور طائف کے ان عظیم شہسواروں کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے جن کا کام ہی ہر وقت ستیزہ کاری میں مصروف رہنا اور اپنی تلواروں کے جوہر عالم پر آشکارا کرتے رہنا تھا؟ اس لیے اگر خالدؓ بن ولید جنوبی عرب کے کمزور اور بے حقیقت باشندوں کے ذریعے سے حکومت ایران پر غالب آ سکتے تھے تو کیاعکرمہ، ابو عبیدہ ، عمرو بن عاص اور یزید بن ابی سفیان مکہ اور مدینہ کے مشہور بہادروں کے ذریعے سے رومی سلطنت کا قلع قمع نہ کر سکتے تھے؟ عراق میں اسلامی فوجوں کی کامیابی کے بعد ابوبکرؓ نے شام کی جانب تیزی سے فوجیں بھیجنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اگر ابوبکرؓ خالدؓ بن سعید کی شکست سے بد دل ہو کر شام پر توجہ مبذول کرنا چھوڑ دیتے اور وہاں سے اپنی فوج واپس بلا لیتے تو اس کا نتیجہ بہت خطرناک نکلتا۔ اس طرح نہ صرف عراق کی تمام فتوحات اکارت چلی جاتیں بلکہ الٹا رومی، سر زمین عرب میں یلغار شروع کر دیتے اور اسلام ایران و روم کی عظیم الشان طاقتوں کے درمیان پس کر ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتا۔ لیکن ابوبکرؓ کے عہد مبارک میں یہ کس طرح ہو سکتا تھا؟ ابوبکرؓ کے احکام کے مطابق امراء عساکر نے شام پہنچنا شروع کیا، البتہ عمرو بن عاص اپنے لشکر کے ہمراہ عربہ میں مقیم رہے۔ ابو عبیدہ سر زمین بلقاء کو عبور کر کے جابیہ پہنچ گئے۔ راستے میں انہیں شامی عربوں کی جانب سے کچھ مزاحمت پیش آئی لیکن انہیں شکست دے دی گئی۔ شرحبیل اردن پہنچے اور یزید بن ابی سفیان نے بلقاء میں پڑاؤ ڈالا۔ ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ داشن کے مقام پر انہیں رومیوں اور بدوؤں کی ایک فوج کا سامنا کرنا پڑا لیکن لڑائی کے بعد رومیوں کو شکست فاش اٹھانی پڑی۔ اس جگہ پہنچ کر روایات میں باہم اختلاف پیدا ہو جاتاہے۔ بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کو فلسطین کے جنوب میں قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا اور وہ بے روک ٹوک منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ لیکن بعض روایات اس کے خلاف ہیں۔ ان روایات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اسلامی لشکر عکرمہ کے پاس نہ پہنچ گئے اس وقت تک رومیوں نے ان کا باضابطہ مقابل نہ کیا اور نہ باقاعدہ فوجیں ان کے مقابلے کے لیے ہی لائے بلکہ یہ کام بادیہ نشین لوگوں کے سپرد رہا جنہوں نے مختلف مقامات پر مسلمانوں کی مزاحمت کی لیکن معمولی لڑائیوں کے بعد پسپا ہوتے گئے۔ فلسطین کی جنوبی جانب رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان جو معرکے ہوئے وہ بعد میں عمرؓ بن خطاب کے عہد خلافت میں پیش آئے۔ لیکن روایات کا اختلاف اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب مسلمانوں کے مختلف لشکر عکرمہ کے لشکر کے قرب و جوار میں پہنچ جاتے ہیں۔ ابو عبیدہ نے دمشق کے راستے میں پڑاؤ ڈالا۔ شرحبیل نے طبریہ اوردریائے اردن کی بالائی جانب غور کے قریب ایک سطح مرتفع میں قیام کیا۔ یزید نے بلقاء میں بصرہ کا محاصرہ کر لیا اور عمروؓ بن عاص نے عربہ میں جبرون کو فتح کرنے کی مساعی شروع کر دیں۔ یرموک ۔ رومی فوجوں کی چڑھائی: ابتداء میں رومیوں نے مسلمانوں کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم تبوک تک آ کر واپس چلے گئے تھے۔ اسی طرح اب بھی تھوڑی بہت ترکتازیوں کے بعد عرب آخر واپس چلے جائیں گے۔ چنانچہ جب خالد بن سعید نے رومیوں کے مقابلے میں شکست کھائی اور میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کی تو رومیوں کے اس یقین میں اور بھی پختگی پیدا ہو گئی۔ انہوں نے ان خبروں کو بھی زیادہ اہمیت نہ دی کہ عکرمہ کی مدد کے لیے مسلمانوں کی فوجیں دم بہ دم شام کی سرحد کی طرف بڑھی چلی آ رہی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ان فوجوں کا حشر بھی خالد بن سعید کے لشکر جیسا ہو گا۔ لیکن جب اسلامی فوجیں مجتمع ہونے لگیں جن کا پہلے ذکر آ چکا ہے تو رومی خواب غفلت سے جاگے اور انہیں حالات کی نزاکت کا احساس ہوا۔ ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر انہوں نے پوری قوت سے مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا تو عراق کے حالات یہاں بھی پیش آئیں گے اور سارا شام مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ ہرقل نے ہر اسلامی لشکر کے مقابلے کے لیے زبردست فوجیں روانہ کیں تاکہ ان پر علیحدہ علیحدہ حملہ کر کے ان کی قوت و طاقت کو نابود کیا جا سکے اور انہیں ہمیشہ کے لیے سر زمین شام سے نکال دیا جائے۔ مختلف روایات سے پتا چلتا ہے کہ اس موقع پر مسلمان فوجوں کی کل تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ تھی لیکن ان کے مقابلے میں رومی افواج دو لاکھ چالیس ہزار افراد پر مشتمل تھیں۔ عکرمہ کے لشکر کی تعداد چھ ہزار تھی اور ابو عبیدہ، یزید اور عمرو بن عاص کے لشکروں میں سے ہر ایک کی تعداد سات اور آٹھ ہزار کے درمیان تھی۔ رومی افواج میں سب سے بڑا لشکر ہرقل کے بھائی تذارق (تیو دوریک) کا تھا جو نوے ہزار سپاہ پر مشتمل تھا۔ یہ لشکر عمروؓ بن عاص کے بالمقابل صف آرا تھا۔ ابو عبیدہؓ کے بالمقابل فیقابن فسطوس کا لشکر تھا جس کی تعداد ساٹھ ہزارتھی۔ یزید بن ابی سفیان سے لڑائی کے لیے چرچہ بن تدرا کو بھیجا گیا تھا۔ ہرقل خود حمص میں مقیم تھا اور تمام حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔ پل پل کی خبریں اسے مل رہی تھیں اور اس کی تمام تر کوشش سلطنت کو عربوں کے قبضے میں جانے سے بچانے پر صرف ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے بھائی تذارق کو اس عظیم مہم پر مامور کیا تھا۔ تذارق ہی نے اس سے قبل ایرانیوں کے لشکر جرار کو شکست دی تھی۔ اسی تذارق کے ذریعے سے عربوں کو نیست و نابود کرنے اور انہیں ایسا سبق دینے کا تہیہ کیا جا رہا تھا جسے وہ عمر بھر فراموش نہ کر سکیں۔ رومیوں کی عظیم الشان افواج کو دیکھ کر مسلمانوں کے اوسان خطا ہو گئے۔ انہوں نے عمروؓ بن عاص کے پاس قاصد بھیج کر ان کی رائے طلب کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ میری رائے میں اس نازک ترین موقع پر دشمن سے علیحدہ علیحدہ جنگ کرنا مسلمانوں کے لیے کسی طرح بھی سود مند نہ ہو گا اس لیے تمام اسلامی فوجوں کو یکجا ہو کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم یکجا ہو گئے تو دشمن کثرت تعداد کے باوجود ہمارے مقابلے پر نہ ٹھہر سکے گا لیکن اگر ہم اپنی موجودہ صورت پر قائم رہے تو ہماری کوئی بھی فوج دشمن کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکے گی اور بہت جلد شکست کھا جائے گی۔ دربار خلافت سے بھی وہی مشورہ موصول ہوا۔ جو عمروؓ بن عاص نے دیا تھا۔ ابوبکرؓ نے اپنے سپہ سالاروں کو لکھا: اکٹھے ہو کر ایک لشکر کی شکل اختیار کر لو اور متحد ہو کر دشمن کے مقابلے کے لیے نکلو۔ تم اللہ کے مددگار ہو۔ جو شخص اللہ کا مددگار ہو گا اللہ بھی اس کی مدد کرے گا لیکن جو اس کا انکار کرے گا اور ناشکری کا ثبوت دے گا اللہ بھی اسے چھوڑ دے گا۔۔۔۔ گناہوں سے یکسر اجتناب کرو۔اللہ تمہارا حافظ و ناصر ہو۔ چاروں اسلامی لشکروں نے ان مشوروں کے تحت یکجا ہو کر دمشق کے راستے میں یرموک کے بائیں کنارے پر پڑاؤ ڈال دیا۔ تذارق نے یہ دیکھا تو اپنی پوری طاقت دریا کے دائیں کنارے پر لا کر جمع کر دی۔ دریائے یرموک حوران کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور مختلف پہاڑیوں کے درمیان بڑی تیزی سے گزرتا ہوا خورا دن اور بحر مردار میں جا گرتا ہے۔ دریائے یرموک اور دریائے اردن کے مقام اتصال سے تیس چالیس میل اوپر دریائے یرموک ایک طویل و عریض میدان کے گرد چکر کاٹتا ہے جسے تین اطراف سے اونچی اونچی پہاڑیاں گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ میدان اس قدر وسیع ہے کہ اس میں ایک عظیم الشان فوج آسانی سے خیمہ زن ہو سکتی ہے۔ رومیوں نے یہ جگہ پسند کی اور وہاں ڈیرے ڈال دئیے۔ لیکن اس کے انتخاب میں رومیوں سے سخت غلطی ہوئی۔ یہ میدان وسیع تو بے شک تھا لیکن تین طرفوں سے پہاڑیوں میں محصور ہونے کے باعث باہر نکلنے کا صرف ایک راستہ تھا جس پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا اور رومی بالکل گھیرے میں آ گئے۔ عمروؓ بن عاص نے یہ دیکھا تو وہ چلا اٹھے: مسلمانو! تمہیں خوش خبری ہو۔ رومی گھیرے میں آ چکے ہیں اور محصور فوج محاصرہ کرنے والی فوج کے چنگل سے شاذ و نادر ہی بچتی ہے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ نہ رومی اپنی طاقت و قوت اور تعداد کے بل بوتے پر مسلمانوں پر غالب آ سکتے تھے اور نہ مسلمان اس قدرتی امداد کے باوجود رومیوں پر غلبہ حاصل کر سکتے تھے۔ مسلمان رومیوں کے باہر نکلنے کے راستے پر قبضہ کیے بیٹھے تھے۔ جب رومی اس راستے سے باہر آنے کی کوشش کرتے تو مسلمان انہیں مار مار کر پیچھے ہٹا دیتے اور جب مسلمان رومیوں پر حملہ کرتے تو یہ خیال کر کے بہت جلد واپس اپنی جگہوں پر آ جاتے مبادا ارومی ان کی قلت تعداد کے باعث ان کا محاصرہ کر کے انہیں تباہ و برباد کر دیں۔ اس طرح دو مہینے گزر گئے اور کوئی فریق دوسرے پر غلبہ حاصل نہ کر سکا۔ آخر مسلمانوں نے ابوبکرؓ کو یہ تمام حالات لکھے اور ان سے مدد بھیجنے کی درخواست کی کہ لمبا عرصہ گزر جانے پر لشکر بد دل نہ ہو جائے اور جوش و خروش ختم ہو کر طاقت و قوت میں کمزوری کا باعث نہ بنے۔ ابوبکرؓ شامی لشکروں کے امراء سے زیادہ بے چین تھے۔ ان کے گمان میں بھی یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ ابو عبیدہؓ اور ان کے ساتھی یہ طریقہ اختیار کریں گے ۔ ان اہل بدر کے متعلق، جنہوں نے قلت تعداد کے باوجود اہل مکہ کے کثیر التعداد لشکرکو شکست فاش دی تھی ابوبکرؓ کو یہ خیال بھی نہ ہو سکتا تھا کہ وہ رومیوں کے مقابلے میں اس قدر عاجز آ جائیں گے کہ ان سے کسی طرح بھی عہدہ برآ نہ ہو سکیں گے۔ انہوں نے ا س معاملے پر خوب غور و فکر کیا۔ عمرؓ علیؓ اور مدینہ میں مقیم دیگر اہل الرائے اصحاب سے مشورہ لیا۔ اسی غور و فکر کے دوران میں ان پر اصل حقیقت واضح طور پر منکشف ہو گئی۔ مسلمانوں نے کبھی کثرت تعداد کے بل بوتے پر دشمن کو نیچا نہ دکھایا تھا۔ اعلیٰ قیادت اور ایمانی قوت، یہ دو سبب تھے جنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو کامیابی و کامرانی سے ہم کنار کیا۔جہاں تک ایمانی قوت کا سوال تھا وہ شامی لشکروں میں کسی طرح بھی کم نہ تھی کیونکہ ان میں سابقون الاولون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ شامل تھے او روہ اہل بدر تھے جن کے ہاتھوں فتح مکہ عمل میں آئی اور مرتدین کا خوفناک فتنہ انجام کو پہنچا۔ اس لیے خرابی لازماً قیادت میں تھی۔ رومیوں سے مقابلے کے لیے ایسے قائد کی ضرورت تھی جو نڈر اور بے باک ہو، نرمی سے نا آشنا ہو، لڑائی میں کسی بھی موقع پر اس کا قدم پیچھے ہٹنے والا نہ ہو، موت کا خوف اس کے پاس بھی نہ پھٹکتا ہو۔ ادھر جب ابوبکرؓ اپنے قائدین پر نظر ڈالتے تھے تو پتا چلتا تھا کہ ابو عبیدہ باوجود کامیاب جرنیل ہونے کے نرم دل ہیں، عمرو بن عاص انتہائی عقل مند ہونے کے باوجود میدان جنگ کے شہسوار نہیں۔ عکرمہ میدان جنگ کے شہسوار تو ہیں لیکن ان میں پیش آمدہ امور کا صحیح اندازہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ ان تمام سالاروں کو اب تک بڑی بڑی جنگوں سے واسطہ نہ پڑا تھا مزید برآں ان میں سے کوئی بھی دوسرے کی برتری تسلیم کرنے اور ماتحتی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔ یہ حقیقت ابوبکرؓ پر منکشف ہوتے ہی معاً ان کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جوان تمام صفات سے کاملاً بہرہ ور تھا جو ایک عظیم سپہ سالار میں ہونی چاہئیں اور وہ شخص تھا خالدؓ بن ولید۔ یہ خیال آتے ہی ابوبکرؓ نے انہیں شام بھیجنے کا ارادہ کر لیا اور ساتھیوں سے فرمایا: واللہ! میں خالدؓ کے ذریعے سے رومیوں کے دلوں میں کوئی بھی شیطانی وسوسہ نہ رہنے دوں گا۔ خالد ؓ کی روانگی شام: کسی بھی شخص نے ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کرنے کی ضرورت نہ سمجھی کیونکہ شام کے معاملات اب اس نہج کو پہنچ چکے تھے کہ مزید التوا مسلمان افواج کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوتا۔ سب لوگ خالدؓ بن ولید کو شام بھیجنے پر رضا مند ہو گئے یہ وہ زمانہ تھا جب خالدؓ خفیہ حج کر کے عراق واپس پہنچ چکے تھے۔ ابوبکرؓ نے خالدؓ کو یہ خط ارسال فرمایا: تم یہاں سے روانہ ہو کر یرموک میں مسلمانوں کی افواج سے مل جاؤ کیونکہ وہاں وہ دشمن کے نرغے میں گھر گئے ہیں۔ یہ حرکت (خفیہ حج) جو تم نے کی ہے آئندہ کبھی سرزد نہ ہو۔ یہ اللہ کا فضل ہے کہ تمہارے سامنے دشمن کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور تم مسلمانوں کو دشمن کے نرغے سے صاف بچا لاتے ہو۔ اے ابو سلیمان! میں تمہیں تمہارے خلوص اور خوش قسمتی پر مبارک باد دیتا ہوں۔ اس مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤ، اللہ تمہاری مدد فرمائے۔ تمہارے دل میں غرور نہ پیدا ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کا انجام نقصان اور رسوائی ہے۔ اپنے کسی فعل پر نازاں نہ ہونا۔ فضل و کرم کرنے والا صرف اللہ ہے اور وہی اعمال کا صلہ دیتا ہے۔ خالدؓ اس وقت عراق سے جانا نہ چاہتے تھے۔ وہ عراق میں اس وقت تک مقیم رہنے کے خواہاں تھے جب تک ایرانیوں کا دار الحکومت ان کے ہاتھ پر فتح اور کسریٰ شاہ ایران کا تخت و تاج پاش پاش نہ ہو جاتا۔ ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی دشوار امر نہ تھا کیونکہ ایرانی عساکر خالدؓ کے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے ہر میدان سے بھاگ رہے تھے۔ ان کی قوت و طاقت ختم ہو چکی تھی اور ایک ہلے میں ان کی سلطنت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا جا سکتا تھا۔ فتح مدائن کا فخر معمولی فخر نہ تھا۔ یہ وہ عظیم الشان اعزاز تھا۔ جس کے حصول کی تمنا قیصر و روم جیسے بادشاہ کے دل کو بھی بے چین کیے رکھتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں جب خالدؓ کے پاس عراق کو چھوڑ کر شام جانے کا حکم پہنچا ہو گا تو ان کے دل میں ضرور انقباس پیدا ہوا ہو گا۔ ابوبکرؓ بھی جانتے تھے کہ خالدؓ کے دل میں ضرور یہ خیالات گردش کریں گے اور ان کا اثر ان کے کاموں پر پڑے گا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے خط میں یہ فقرہ لکھ دیا تھا کہ جو حرکت (خفیہ حج) تم سے صادر ہوئی ہے آئندہ کبھی سرزد نہ ہو۔ اس طرح وہ انہیں تنبیہ کرنا چاہتے تھے کہ ان کا اولین فرض خلیفہ کے حکم کی اطاعت کرنا ہے اور انہیں کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جو خلیفہ کی مرضی یا احکام کے خلاف ہو۔ گمان غالب ہے چونکہ ابوبکرؓ کو خالدؓ کی طرف سے ناراضگی کا اندیشہ تھا اس لیے انہوں نے خط میں جہاں ان کی بہادری اور ان کے کارناموں کی تعریف کی وہاں انہیں عجب و تکبر اور فخر و غرور سے بچنے کی تلقین بھی کر دی اور واشگاف الفاظ میں یہ حقیقت ظاہر کر دی کہ فضل و کرم کرنے والا صرف اللہ ہے، کسی بندے کی مجال نہیں کہ وہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر فتوحات حاصل کر سکے۔ لیکن ابوبکرؓ نے خالدؓ کے دل میں پیدا شدہ شکوک و شبہات کو بھی صاف کر دینا چاہا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ نصف فوج مثنیٰ بن حارثہ کے زیر سرکردگی عراق میں چھوڑ دیں اور بقیہ نصف فوج لے کر خود شام روانہ ہو جائیں۔ خط کے آخر میں لکھا: جب اللہ تمہیں شام میں فتح نصیب کرے تو اس فوج کو ہمراہ لے کر عراق چلے جانا اور وہاں اپنا پہلا عہدہ دوبارہ سنبھال لینا۔ اس طرح ابوبکرؓ نے خالدؓ پر واضح کر دیاکہ انہیں عراق میں عمرؓ یا کسی اورشخص کے آنے کی پروا نہ کرنی چاہیے کیونکہ ان کے قائم مقام مثنیٰ بن حارثہ ہوں گے اور شام کی فتح کے بعد انہیں عراق میں ان کا پہلا عہدہ دوبارہ تفویض کر دیا جائے گا۔ خالدؓ کو اس بارے میں کوئی شک نہ تھا کہ اللہ انہیں شام میں فتوحات جلیلہ سے نوازے گا۔ اگرچہ انہیں وہاں کی تمام خبریں مل رہی تھیں لیکن وہ مطمئن تھے۔ ان کا دل اس یقین سے بھرپور تھا کہ وہ سیف اللہ ہیں اور اللہ کی تلوار بندوں کے ہاتھوں کبھی مغلوب نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ انہوں نے ابوبکرؓ کے حکم کے مطابق شام روانہ ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چونکہ خالدؓ کو شام میں پیش آنے والے حالات کا بہ خوبی اندازہ تھا اس لیے انہوں نے تمام صحابہ کو ساتھ لے جانا چاہا۔ ابوبکرؓ نے انہیں آدھی فوج مثنیٰ کے پاس چھوڑ جانے کی ہدایت کی تھی۔ اس لیے انہوں نے فوج کی تقسیم اس طرح کی کہ تمام صحابہ تو اپنی فوج میں رکھے اور مثنیٰ کے لیے صحابہ کرام کی تعداد کے برابر ایسے لوگ چھوڑ دئیے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت نصیب نہ ہوئی تھی۔ اس کے بعد باقی فوج کا جائزہ لے کر ایسے لوگوں کو اپنی فوج میں شامل کر لیا جو وفود کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے اور ان لوگوں کی تعداد کے مساوی ایسے لوگوں کو مثنیٰ کے لیے چھوڑ دیا جو اپنے اپنے قبیلوں میں مقیم رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوئے تھے۔ اس کے بعد جو لوگ بچ گئے انہیں نصف نصف تقسیم کر لیا۔ مثنیٰ کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا اور انہوں نے خالدؓ سے کہا: واللہ! میں تو آپ کو ابوبکرؓ کے حکم سے سر مو انحراف نہ کرنے دوں گا۔ ان کے حکم کے مطابق آدھے صحابہ میرے پاس رہنے چاہئیں اور آدھے آپ کے پاس۔ آپ کیوں مجھے ان سے محروم کرتے ہیں حالانکہ میری فتوحات کا انحصار بھی صحابہ پر ہے؟ جب خالدؓ نے مثنیٰ کا اصرار دیکھا تو ان کی منت سماجعت کر کے جلیل القدراور بہادر صحابہ کو اپنے ساتھ رکھنے پر رضا مند کر لیا۔ چونکہ خالدؓ کو ڈر تھا کہ ان کے جانے کے بعد کہیں مسلمانوں پر کوئی مصیبت نہ آ پڑے اس لیے انہوں نے کمزور مردوں اور عورتوں کو مدینہ واپس بھیج دیا تاکہ اگر خدانخواستہ ایرانی مسلمانوں کو کچھ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی ان کی عورتوں اور بچوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ ان تمام امور سے فراغت حاصل کرنے کے بعد وہ لشکر کے ہمراہ شام کی جانب روانہ ہو گئے۔ مثنیٰ بھی ایک دستہ فوج کے ہمراہ صحرا تک انہیں رخصت کرنے گئے۔ عراق سے شام جانے کے لیے قریب ترین راستہ ایک لق و دق صحرا سے ہو کر گزرتا تھا۔ لیکن اول تو یہ صحرا بڑا خوفناک اور سخت دشوار گزار تھا، اسے عبور کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا اور ہوشیار سے ہوشیار رہبر کو بھی اس میں راستہ بھولنے کا خوف لاحق رہتا تھا۔ دوسرے اگر بہ ہزار دقت و دشواری اسے عبور کر بھی لیا جاتا تو بھی بقیہ راستہ آسانی سے کاٹنا نا ممکن تھا کیونکہ شام کی سرحد پر بسنے والے تمام عربی قبائل رومیوں کے مددگار تھے قیصر کا ایک لشکر بھی وہاں مقیم تھا جو بہت آسانی سے اسلامی لشکر کا راستہ قطع کر سکتا تھا۔ ایک صورت یہ بھی تھی کہ خالدؓ بن ولید عراق سے عرب پہنچتے اور وہاں سے شام جانے والا عام راستہ اختیار کرتے جس سے قبل ازیں عکرمہؓ ابوعبیدہؓ اور دوسرے اسلامی سپہ سالار گزر کر شام پہنچے تھے۔ لیکن اس طرح بے حد دیر ہو جاتی اور جس مقصد کے لیے انہیں شام جانے کا حکم دیا گیا تھا وہ فوت ہو جاتا ۔ اب خالدؓ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ شام جانے کے لیے ایسا کون سا راستہ اختیار کیا جائے جس میں نہ تو دشمن سے مڈبھیڑ کا خطرہ ہو اور نہ ساتھیوں تک پہنچنے میں دیر لگے۔ بہ ظاہر کوئی ایسی تدبیر نظر نہ آتی تھی اور یہی دکھائی دیتا تھا کہ یا تو خوف ناک صحرا سے گزر کر اور صحرا کے دشمن قبائل سے دو دو ہاتھ کر کے ساتھیوں تک رسائی حاصل کرنی ہو گی یا ایک طویل راستہ اختیار کر کے شام پہنچنا ہو گا۔ آخر یہاں بھی اللہ کی نصرت آڑے آئی۔ قدرت کی جانب سے ایک عجیب و غریب راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی گئی۔ ان کے ساتھیوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ اس راستے سے گزرنا کیونکر ممکن ہو گا لیکن خالدؓ کا ارادہ اٹل تھا اور ساتھیوں کو مجبوراً انہیں کی بات ماننی پڑی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خالدؓ نے وہ صحرائی راستہ اختیار کرنا مناسب نہ سمجھا جو عین التمر سے شروع ہو کر شمالی شام پہنچتا تھا۔ اس راستے کی مسافت اگرچہ دوسرے راستوں کی نسبت کم تھی لیکن درمیان میں چونکہ رومیوں کے حامی قبائل آباد تھے اور قیصر کی فوجیں بھی اس جگہ ڈیرے ڈالے پڑی تھیں اس لیے تصادم کے خطرے سے بچنے کے لیے خالدؓ نے یہ راستہ ترک کردیا اور وہ راستہ اختیار کیا جو اس سے قبل عیاض بن غنم کی امداد کے لیے حیرہ سے دومۃ الجندل جانے کے لیے اختیار کیا تھا۔ وہ لشکر لے کر پہلے دومۃ الجندل پہنچے اور دومہ سے یرموک پہنچنے کے لیے وادی سرحان کا راستہ اختیار کیا۔ درمیان میں قرا قر کی بستی پڑتی تھی جہاں بنو کلب کے بعض قبائل آباد تھے۔ انہوں نے بستی پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ اگر وہ وادی سرحان کے معروف راستے ہی پر سفر کرتے رہتے تو چند روز میں بصریٰ پہنچ جاتے اور وہاں ابو عبیدہ کا لشکر ساتھ لے کر یرموک میں اسلامی افواج سے مل جاتے لیکن ان کا خیال تھا کہ بصری پہنچنے سے پہلے ہی رومی ان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح انہیں یرموک پہنچنے میں دیر ہو جائے گی۔ اس اندیشے کے پیش نظر انہوں نے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ہم رومیوں کے عقب میں پہنچ جائیں اور کسی رومی لشکر سے مقابلہ بھی نہ کرنا پڑے کیونکہ اگر راستے میں رومیوں سے مڈبھیڑ ہو گئی تو ہم دیر سے یرموک پہنچیں گے۔ سب نے بالاتفاق جواب دیا کہ ایسا راستہ ہے تو ضرور لیکن اس سے لشکر کسی طرح نہیں گزر سکتا، صرف اکیلا آدمی گزر سکتا ہے۔ اس لیے آپ وہ راستہ اختیار کر کے مسلمانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ لیکن خالدؓ وہی راستہ اختیار کرنے کا عزم کر چکے تھے۔ انہوں نے فرمایا: تم نے اپنے آپ کو اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے پیش کیا ہے، اب تمہارا قدم پیچھے ہٹنے اور یقین کم ہونے نہ پائے۔ یاد رکھو تائید الٰہی کا مدار نیت ہی پر ہوتا ہے اور اجر نیکی ہی کے مطابق ملتا ہے۔ کسی مسلمان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اللہ کی نصرت سے بہرہ ور ہوتے ہوئے مشکلات سے ڈر جائے اور ہمت ہار دے۔ جب ساتھیوں نے یہ تقریر سنی تو ان کا خوف و ہراس جاتا رہا اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیا: اللہ نے آپ کی ذات میں ہر قسم کی خیر و برکت جمع کر دی ہے۔ اس لیے آپ بے کھٹکے اپنے ارادوں کو لباس عمل پہنائیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مجوزہ راستے پر سفر کرنے کے لیے رہبر طلب فرمایا۔ لوگوں نے رافع بن عمیرۃ الطائی کا نام لیا۔ انہوں نے اسے بلا کر کہا: ہم اس راستے سے سفر کرنا چاہتے ہیں، تم ہماری رہبری کے فرائض انجام دو۔ اس نے جواب دیا: آپ گھوڑوں اور اتنے ساز و سامان کے ساتھ اس راستے سے نہیں گزر سکتے۔ وہ راستہ ایسا ہے کہ اس سے صرف ایک سوار گزر سکتا ہے اور وہ بھی بے خوف و خطر نہیں۔ پوری پانچ راتوں کا سفر ہے۔ راستے سے بھٹکنے کے خوف کے علاوہ پانی کا بھی کہیں نام و نشان نہیں۔ خالدؓ نے اسے تیز نظروں سے گھورا اور فرمایا: خواہ کچھ ہو جائے، مجھے تو اسی راستے سے جانا ہے۔ تم بتاؤ اس راستے سے چلنے کے لیے کیا کیا انتظامات کیے جائیں؟ رافع نے کہا: اگر آپ ضرور اسی راستے سے جانا چاہتے ہیں تو لوگوں کو حکم دیجئے کہ وہ بہت سا پانی ساتھ لے لیں اور جس جس سے ہو سکے اپنی اونٹنی کو پانی پلا کر اس کا ہونٹ باندھ دے۔ کیونکہ یہ سفر بے انتہا خطرات کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ بیس اونٹنیاں بڑی موٹی تازی اور عمر رسیدہ مجھے مہیا کی جائیں۔ خالدؓ نے رافع کی اس خواہش کے مطابق اونٹنیاں مہیا کر دیں۔ رافع نے پہلے انہیں خوب پیاسا رکھا۔ جب پیاس کی شدت سے نڈھال ہو گئیں تو انہیں خوب پانی پلایا۔ جب وہ خوب سیر ہو گئیں تو ان کے ہونٹ چھید کر باندھ دئیے تاکہ جگالی وغیرہ نہ کر سکیں۔ اس کے بعد خالدؓ سے کہا کہ اب فوج کو کوچ کا حکم دیجئے۔ خالدؓ لشکر اور ساز و سامان لے کر اس کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جہاں کہیں پڑاؤ کرتے ان میں سے چار اونٹنیوں کے پیٹ چاک کرتے۔ جو پانی ان کے معدوں سے نکلتا وہ گھوڑوں کو پلا دیتے اور جو پانی ساتھ لائے تھے وہ خود پیتے۔ جب صحراء میں سفر کا آخری دن آیا تو خالدؓ نے رافع سے جسے آشوب چشم کی شکایت تھی، کہا کہ پانی ختم ہو چکا ہے، اب کیا کرنا چاہیے۔ رافع نے جواب دیا: گھبرائیے نہیں۔ ہم انشاء اللہ جلد پانی تک پہنچ جائیں گے۔ تھوڑی دیر آگے چل کر جب فوج دو ٹیلوں کے پاس پہنچی تو رافع نے لوگوں سے کہا: دیکھو ! عوسج کی کوئی جھاڑی آدمی کے سرین کی مانند نظر آتی ہے؟ انہوں نے کہا ہمیں تو ایسی کوئی جھاڑی نظر نہیں آتی۔ اس پر رافع نے گھبرا کر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور کہا کہ اگر خیریت چاہتے ہو تو جس طرح ہو سکے اسے ڈھونڈ نکالو۔ آخر بڑی تلاش سے وہ جھاڑی ملی مگر کسی نے اسے کاٹ دیا تھا اور صرف تنا باقی رہ گیا تھا۔ جھاڑی ملنے پر مسلمانوں نے زور سے تکبیر کہی۔ رافع نے کہا: اب اس جھاڑی کی جڑ کے قریب مٹی کھودو۔ مٹی کھودنے پر وہاں ایک چشمہ نکل آیا جس سے سب نے سیر ہو کر پانی پیا۔ جب مسلمانوں کو اپنی سلامتی کی طرف سے اطمینان ہو گیا تو رافع نے کہا: میں اس چشمے پر صرف ایک مرتبہ بچپن کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ آیا تھا۔ اب خالدؓ شام کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے۔ آگے چل کر راستے میں انہیں کوئی دقت و پریشانی لاحق نہ ہوئی اور وہ جلد جلد سفر کرتے ہوئے سویٰ پہنچ گئے ۔ وہ صبح سے ذرا پہلے وہاں پہنچے تھے اور پہنچتے ہی بستی پر حملہ کر دیا وہاں کے باشندوں کو مسلمانوں کی آمد کا سان گمان بھی نہ تھا۔ وہ گھبرا گئے اور مقابلے کی تاب نہ لا کر مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی۔ آگے چل کر اہل تدمر سے مقابلہ پیش آیا۔ وہ بھی تھوڑی سی مقاومت کے بعد زیر ہو گئے۔ دمشق قریب ہی تھا۔ لیکن خالدؓ نے اس پر حملہ نہ کرنا چاہا کیونکہ اس طرح وہ راستے ہی میں رومیوں سے الجھ جاتے اور اپنے پروگرام کے مطابق مسلمانوں کی مدد کے لیے یرموک نہ پہنچ سکتے۔ اس لیے انہوں نے عام راستہ چھوڑ کر حوارین کا راستہ اختیار کیا اور قصم پہنچے۔ وہاں کے باشندوں نے جو قبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ صلح کر لی۔ وہاں سے اذرعات کی جانب مڑے۔ مرج راہط پر پہنچ کر غسانیوں سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ خالدؓ نے انہیں شکست دے کر وہاں کے لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ مرج راہط سے چل کر وہ بصریٰ پہنچے۔ یہاں ابو عبیدہ بن جراح، شرحبیل بن حسنہ اور یزید بن ابی سفیان فوجیں لیے پڑے تھے۔ خالدؓ نے انہیں ساتھ لے کر شہر پر حملہ کر دیا اور اسے فتح کر لیا۔ یہاں سے یہ تمام قائدین فوجوں کے ہمراہ عمروؓ بن عاص کے پاس پہنچے جو فلسطین میں غور کے نزدیک عربات میں مقیم تھے۔ خالدؓ ساتھیوں کے قریب ہی خیمہ زن ہوئے اور اس طرح تمام اسلامی فوجیں یرموک کے مقام پر جمع ہو گئیں۔ یہ ہے وہ روایت جو خالدؓ کے سفر شام سے متعلق بالعموم کتب تاریخ میں پائی جاتی ہے۔ بادی النظر میں یہ روایت ان افسانوں سے زیادہ مختلف نہیں جو عموماً بڑے بڑے لوگوں کے متعلق گھڑ کر مشہور کر دئیے جاتے ہیں۔ رافع بن عمیرہ کی رہبری میں صحرا کو عبور کرنے کا واقعہ بظاہر بہت عجیب و غریب معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی تصدیق سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خالدؓ کی ساری زندگی ہی عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کیا عیاض بن غنم کی امداد کے لیے عین التمر سے دومتہ الجندل پہنچنے کا واقعہ عجیب و غریب نہیں؟ کیا خالدؓ کے خفیہ حج کرنے کا واقعہ لوگوں کی عقلوں کو حیرت میں نہیں ڈال دیتا؟ اور کیا مسیلمہ کی سرکوبی اور عراق کی عظیم الشان فتوحات لوگوں کو ششدر کرنے کے لیے کافی نہیں؟ خالدؓ مقصد کے حصول کے لیے ہمیشہ ایسے طریقے استعمال کرتے تھے جن کی بنا پر کم سے کم وقت میں بہتر سے بہتر طور پر مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ اس موقع پر بھی خالدؓ نے حسب معمول یہی کیا اور اس خوفناک و دشوار گزار صحرا سے گزر کر شام پہنچے تاکہ راستے میں دشمنوں سے مڈبھیڑ نہ ہو سکے اور وہ بہ آسانی اسلامی افواج تک پہنچ سکیں۔ چنانچہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور دشمن انہیں راستے میں نہ روک سکا۔ بعض مورخین نے اس روایت کو تو اپنی کتابوں میں درج کر دیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ احتیاط بھی کی ہے کہ روایت میں کوئی حصہ ایسا نہ آنے پائے جو عقل کے خلاف ہو۔ا سی لیے مورخین میں اس لشکر کی تعداد کے متعلق بھی اختلاف موجود ہے جو خالدؓ کے ساتھ عراق سے آیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کی تعداد نو ہزارتھی۔ بعض کہتے ہیں کہ چھ ہزار تھی۔ بعض کا خیال ہے کہ آٹھ سو اور پانچ سو کے درمیان تھی۔ جو لوگ لشکر کی تعداد نو ہزار بتاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ابوبکرؓ کے حکم کے ماتحت خالدؓ عراق سے آدھی فوج لے کر چلے تھے۔ اس وقت عراق میں مسلمانوں کی فوج اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ جو لوگ فوج کی تعداد ایک ہزار سے کم بتاتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ خالدؓ کو شام محض اس لیے بھیجا گیا تھا کہ عرب اور عجم میں ان کی بہادری: شجاعت اور قیادت کی دھوم مچی ہوئی تھی اور بڑے بڑے سپہ سالار اور پر ہیبت شہنشاہ ان کے نام سے کانپتے تھے۔ اس لیے ان کا وہاں بھیجا جانا محض دشمن پر رعب ڈالنے کے لیے تھا ورنہ جو فوجیں رومیوں کے بالمقابل صف آرا تھیں وہ تعداد میں ہرگز کم نہ تھیں، علاوہ بریں مدینہ سے ان کے لیے برابر کمک پہنچ رہی تھیں۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ خالدؓ عراق سے تو یقینا آدھی فوج لے کر روانہ ہوئے تھے لیکن قراقر پہنچنے پر جب تنگ و تاریک جنگل سے گزرنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو انہوں نے اپنے ساتھ صرف چند سو سپاہی رکھے اور باقی لشکر کو وادی سرحان کے عام راستے سے شام پہنچنے کی ہدایت کی۔ انہیں چند سو ساتھیوں کے ساتھ وہ بصریٰ پہنے ۔ ہماری رائے میں یہی روایت زیادہ قابل قبول ہے کیونکہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے، خالدؓ راستے میں رومیوں کے تصادم سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آسان راہ یہی تھی کہ وہ اپنے لشکر کا بڑا حصہ چھوڑ دیتے اور بہت تھوڑے آدمی لے کر کوچ کرتے کیونکہ ایک معمولی دستے کے لیے تو یہ ممکن ہوتا ہے کہ اگر وہ دشمن کو دیکھ بھی لے تو چابک دستی کی بدولت راہ کاٹ کر پھرتی سے نکل جائے لیکن کئی ہزار پر مشتمل ایک بھاری لشکر کے لیے ممکن نہیں کہ وہ دشمن کی آنکھ بچا کر ایک طرف کو ہٹ جائے۔ بہرحال اس بارے میں خواہ روایات کچھ ہی کیوں نہ ہوں، یہ بات یقینی ہے کہ خالدؓ بہ خیریت یرموک پہنچ کر اسلامی لشکروں سے مل گئے اور ان کے ساتھ رومیوں سے جنگ کی تیاریاں کرنے لگے۔ ہرقل نے باہان کو سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا۔ وہ بڑے کروفر سے آیا اور واقوصہ میں مقیم رومی فوج سے جا ملا۔ باہان وہی شخص تھا جس نے خالدؓ بن سعید کو شکست دی تھی۔ رومیوں کو باہان کے پہنچنے کی بے حد خوشی ہوئی اور مسلمانوں کو خالدؓ بن ولید کے پہنچنے سے بے اندازہ مسرت۔ اب دونوں فوجیں کیل کانٹے سے لیس ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑی تھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کرنے اور مد مقابل کو زیر کرنے کے لیے ہمہ تن تیار تھیں۔ مسلمانوں کے لیے یہ موقع بے حد نازک تھا۔ ایک تو رومیوں کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔ دوسرے ساز و سامان اور جنگی تیاری کے لحاظ سے بھی مسلمانوں اور رومیوں کا کوئی مقابلہ نہ تھا۔ رومی پوری سج دھج اور کامل جنگی تیاری سے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلے تھے۔ پھر بھی اس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ رومیوں کو عربوں سے زیادہ جنگی مہارت بھی حاصل تھی اور وہ لڑائی کے طور طریقوں کو عربوں سے زیادہ جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کامل دو ماہ تک فریقین کے درمیان کوئی فیصلہ نہ ہو سکا اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے ڈیرے ڈالے پڑے رہے۔ رومیوں کو ظاہری قوت و طاقت کے لحاظ سے تو بے شک عربوں پر برتری حاصل تھی لیکن باطنی قوت میں مسلمان ان سے کئی گنا بڑھے ہوئے تھے۔ رومی افواج شام میں مقیم بدوؤں اور ہرقل کے ان لشکروں پر مشتمل تھیں جنہوں نے اس سے قبل ایرانیوں سے جنگ کی تھی۔ اول تو ان دونوں گروہوں میں کوئی قدر مشترک نہ تھی، دوسرے ان کے سامنے کوئی بلند نصب العین نہ تھا جس کی خاطر وہ جنگ کے لیے نکلے تھے۔ لیکن ان کے مقابل مسلمانوں کی فوجیں تمام تر عربوں پر مشتمل تھیں، دوسرے انہیں کامل یقین تھا کہ رومیوں سے لڑائی جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں شامل ہے۔ جو شخص اس لڑائی میں مارا جائے گا اسے شہادت کا درجہ حاصل ہو گا، آخرت میں اسے جنت الفردوس ملے گی اور وہ اللہ کی رضا و خوشنودی سے کاملاً بہرہ ور ہو گا مگر جو شہادت حاصل نہ کر سکے گا اللہ کے دربار میں اسے بھی مجاہدین کا درجہ نصیب ہو گا اور وہ بھی شہداء کی طرح اجر عظیم کا مستحق ہو گا۔ اس دنیا میں اسے مال غنیمت سے جو حصہ ملے گا وہ اس کے علاوہ ہو گا۔ گویا ایک طرف اپنی زبردست جمعیت کا زعم تھا اور دوسری طرف ایمانی قوت کار فرما تھی۔ ایک طرف ظاہری ساز و سامان پر بھروسا تھا اور دوسری طرف روحانیت جلوہ گر تھی۔ دن اور ہفتے گزرتے چلے گئے لیکن فریقین کی فوجیں اپنی اپنی جگہ برقرار رہیں او ران میں حرکت کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ خالدؓ بن ولید کے لیے یہ صورت حال قطعاً ناقابل برداشت تھی۔ آج تک مد مقابل کو دیکھ کر ان سے صبر نہ ہو سکا تھا۔ لیکن موقع ایسا تھا کہ خالدؓ اکیلے کچھ نہ کر سکتے تھے۔ اس وقت مسلمان افواج چار حصوں میں بٹی ہوئی تھیں۔ ہر حصہ فوج علیحدہ علیحدہ قائد کے ماتحت تھا۔ حد یہ کہ اذان بھی ہر لشکر میں علیحدہ علیحدہ ہوتی تھی۔ خالدؓ عراق سے صرف ساتھیوں کی امداد کے لیے آئے تھے، انہیں ان پر امیر بنا کر نہ بھیجا گیا تھا۔ ان کے لیے ناممکن تھا کہ وہ قلیل التعداد فوج کے ساتھ اکیلے ہی دشمنوں کے لشکر جرار پر حملہ کر دیتے۔ رومیوں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملے کرنے شروع کر دئیے۔ لیکن ان کے حملے بھی زیادہ کارگرثابت نہ ہو سکے۔ مسلمان ان کے حملوں کو پسپا کر کے اپنے کیمپوں میں واپس آ جاتے۔ خالدؓ کے لیے یہ ایام بڑے صبر آزما تھے۔ ابوبکرؓ نے انہیں شامی افواج کی قیادت سپر دنہ کی تھی۔ خالدؓ خود بھی ایسی درخواست نہ کر سکتے تھے کیونکہ اس طرح دوسرے امراء کے دلوں میں حسد پیدا ہو جاتا۔ لیکن یرموک کے کنارے جو واقعات پیش آ رہے تھے وہ مسلمانوں کی ہمتیں پست کر دینے کے لیے کافی تھے۔ رومی برابر صفیں منظم کرنے میں مصروف تھے اور ان کے کیمپ سے آنے والی خفیہ خبروں سے پتا چلتا تھا کہ وہ مسلمانوں پر بھرپور حملہ کرنے کے لیے کسی مناسب موقع کی تلاش میں ہیں۔ خالدؓ کے علاوہ دیگر تمام امراء کو رومیوں کی تیاریوں اور ان کے خوفناک ارادوں کا علم تھا۔ اس صورت میں خالدؓ کے لیے یہی راستہ تھا کہ وہ ان امراء کو ایک متحدہ قیادت قبول کرنے کا مشورہ دیتے لیکن اپنی ذات کے سوا انہیں اور کسی پر بھروسہ نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر انہوں نے کسی بھی شخص کو تمام اسلامی فوجوں کا سپہ سالار بنانے کی تجویز پیش کی تو دوسرے لوگ ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ اب کریں تو کیا کریں؟ باہان کے آنے کے بعد رومیوں کی جنگی تیاریاں تیز تر ہو گئیں۔ وہ متعدد بار پادریوں کو بھی ساتھ لے کر آیا تھا۔ یہ پادری اشتعال انگیز تقریروں سے رومیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے اور عیسائیت کی سلامتی کا واسطہ دے کر انہیں جنگ پر ابھارتے تھے۔ واشگاف الفاظ میں رومیوں کو بتاتے تھے کہ اگر اس موقع پر انہوں نے جم کر مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا اور انہیں ختم کرنے کی تدابیر نہ کیں تو عیسائیت کا خاتمہ ہے اس لیے انہیں عیسائیت کی بقاء کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگا دینی چاہیے اور کسی طور مسلمانوں کو زندہ نہ چھوڑنا چاہیے۔ ان آتشیں تقریروں کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ رومی لشکر میں زبردست جوش و خروش پیدا ہو گیا اور ہر رومی عیسائیت کی بقا کی خاطر جان دینے کو تیار ہو گیا۔ آخر ایک دن مسلمانوں کو اطلاع ملی کہ رومی کیل کانٹے سے لیس اگلے روز ان پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ باہان نے اس طرح ان کی صف بندی کی جس کی نظیر آج تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ سن کر مسلمان امراء کو فکر پیدا ہوا اور وہ اکٹھے ہو کر رومیوں سے مقابلہ کرنے کی تدابیر سوچنے لگے۔ ہر امیر نے مختلف تجاویز پیش کیں لیکن لشکر کی صف بندی کے متعلق کسی نے کوئی رائے نہ دی کیونکہ ہر امیر اپنے لشکر کی صف بندی کا خود ذمہ دار تھا۔ جب خالدؓ کی باری آئی تو وہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا: ’’ آج کا دن اللہ کے اہم دنوں میں سے ہے۔ آج کسی کے لیے فخر و مباہات اور خود رائی و خود ستائی مناسب نہیں۔ تمہارا جہاد خالص اللہ کے لیے ہونا چاہیے اور تمہیں اپنے اعمال کو خدا کی خوشنودی کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ یاد رکھو آج کی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی ہے۔ ایک ایسی قوم سے جو ہر طرح منظم و مرتب ہے، تمہارا علیحدہ علیحدہ لڑنا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ جو تم سے دور ہیں (ابوبکرؓ) انہیں تمہارے حال کا علم ہوتا تو وہ کبھی تمہیں اس طرح لڑنے کی اجازت نہ دیتے۔ بے شک تمہیں ان کی طرف سے تو کوئی حکم نہیں ملا لیکن تم اس معاملے کو اس طرح انجام دو گویا یہ تمہارے خلیفہ اور ان کے خیر خواہوں کا حکم ہے۔‘‘ خالدؓ کی یہ تقریر سن کر کچھ دیر تک امراء عساکر پر مکمل خاموشی طاری رہی اور ہر شخص سر جھکائے اس معاملے کے متعلق سوچتا رہا۔ آخر انہیں یقین ہو گیا کہ جو کچھ خالدؓ نے کہا وہ بالکل سچ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ تین مہینے ہونے کو آئے وہ رومیوں کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے، الٹا مسلمانوں کی حالت۔۔۔ سے فائدہ اٹھا کر رومیوں نے اپنے آپ کو مضبوط اور طاقت ور بنا لیا۔ آخر انہوں نے کہا: ’’ آپ ہی بتائیے! اس موقع پر کیا تدبیر اختیارکی جائے؟‘‘ خالدؓ نے جواب دیا: ’’ ابوبکرؓ نے ہمیں اس خیال سے یہاں بھیجا تھا کہ ہم یہ مہم بہ آسانی سر کر لیں گے۔ اگر انہیں موجودہ حالات کا علم ہوتا تو وہ ضرور تمہیں اکٹھا رکھتے۔ جن حالات میں سے تم گزر رہے ہو وہ پہلے واقعات کے مقابلے میں بہت سخت اور مشرکین کے لیے بہت زیادہ فائدہ مند ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم علیحدہ علیحدہ ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو الگ شہر کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ لیکن اگر تم اس موقع پر کسی ایک شخص کو امیر تسلیم کر کے اس کی اطاعت اختیار کر لو تو اس سے نہ تمہارے مراتب میں کوئی فرق پڑے گا اور نہ اللہ اور امیر المومنین کے نزدیک تمہارا درجہ کم ہو گا۔ ذرا دیکھو تو سہی دشمن نے کتنی زبردست تیاری کر رکھی ہے۔ یاد رکھو اگر آج ہم نے انہیں ان کی خندقوں میں دھکیل دیا تو ہم ہمیشہ انہیں دھکیلتے ہی رہیں گے، لیکن اگر انہوں نے ہمیں شکست دے دی تو ہم پھر کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔ میری تجویز اس بارے میں یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص کو باری باری امارت کا موقع ملنا چاہیے۔ اگر آج ایک امیر ہے تو کل دوسرا، پرسوں تیسرا، ترسوں چوتھا یہاں تک کہ ہر شخص کو امیر بننے کا موقع مل جائے۔ آج کے لیے تم مجھے امیر بنا دو۔‘‘ جنگ کا آغاز: خالدؓ کی رائے نہایت معقول تھی۔ تمام امراء اس پر متفق ہو گئے اور پہلے روز کے لیے انہوں نے خالدؓ کو امیر مقرر کر دیا۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ رومیوں کی یورش آج بھی عام دنوں کی طرح ہو گی اور لڑائی بہرحال طول کھینچے گی۔ اس لیے باری باری ہر ایک کو امیر بننے کا موقع مل جائے گا۔ خالدؓ نے اس ایک مہینے کے دوران میں رومیوں کی ترتیب اور صف بندی کا بہ غور مطالعہ کر لیا تھا۔ انہوں نے ان کے مقابلے کے لیے ایک ایسا طریقہ استعمال کرنا چاہا جو نہ صرف رومیوں پر رعب ڈالنے والا ہو بلکہ اس کے ذریعے سے فتح بھی حاصل ہو سکے۔ انہوں نے اسلامی لشکر کو اڑتیس دستوں میں تقسیم کیا (ہر ایک دستہ کم و بیش ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا) اور فرمایا: ’’ تمہارے دشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ کثرت تعداد پر نازاں ہے۔ اس کے مقابلے میں یہی تدبیر مناسب ہے کہ ہم اپنی فوج کے بہت سے دستے بنا لیں تاکہ دشمن کو ہماری تعداد اصل سے بہت زیادہ نظر آئے۔‘‘ قلب میں انہوں نے اٹھارہ دستے رکھے اور ابو عبیدہ کو ان کا سردار بنایا۔ ان دستوں میں عکرمہ بن ابوجہل اور قعقاع بن عمرو بھی شامل تھے۔ میمنہ پر دس دستے متعین کیے اور ان کا سردار عمرو بن عاص کو بنایا۔ ان دستوں میں شرحبیل بن حسنہ بھی تھے۔ میسرہ پر دس دستے متعین کیے اور ان کا سردار یزید بن ابی سفیان کو مقرر کیا۔ ہر دستے کا علیحدہ سردار بھی تھا جو میمنہ، میسرہ اور قلب کے سرداروں سے احکام حاصل کرتا تھا۔ ان دستوں کے سردار وہ لوگ تھے جو بہادری، جواں مردی اور شجاعت میں اپنی نظیر آپ تھے، مثلاً قعقاع بن عمرو، عکرمہ بن ابوجہل، صفوان بن ا میہ وغیرہ۔ خالدؓ نے اس ترتیب کے علاوہ لشکر کا ایک ہر اول دستہ بھی بنایا تھا۔ جس پر غیاث بن اشیم مقرر تھے۔ قاضی کی خدمت ابوالدراء کے سپرد ہوئی۔ لشکر کے قاری مقداد تھے جو لشکر کو سورۂ انفال پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ سامان کے افسر عبداللہ بن مسعود تھے۔ واعظ ابو سفیان تھے۔ وہ لشکر میں گشت کرتے رہتے اور ہر دستے کے سامنے ٹھہر کر کہتے: ’’ اللہ اللہ! تم حامیان عرب ہو اور دین اسلام کے مددگار۔ تمہارے مد مقابل حامیان روم اور شرک کے مددگار ہیں۔ اے اللہ آج کی جنگ صرف تیرے نام کے لیے ہے۔ اے اللہ! اپنے بندوں پر اپنی مدد نازل فرما۔‘‘ خالدؓ نے ایک شخص کو کہتے سنا: ’’ اوہو، رومی کتنے زیادہ ہیں اور مسلمان کتنے کم!‘‘ یہ سن کر خالدؓ کو سخت طیش آیا اور وہ چلا کر بولے: ’’ اوہو، رومی کتنے کم ہیں اور مسلمان کتنے زیادہ! یاد رکھو فوجیں اللہ کی مدد کی بدولت زیادہ ہوتی ہیں اور ناکامی و بزدلی کی وجہ سے کم ہوتی ہیں۔ فتح و شکست کا انحصار آدمیوں کی کثرت و قلت پر نہیں ہوتا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ کاش (میرے گھوڑے) اشقر کا پاؤں اچھا ہوتا پھر چاہے دشمن تعداد میں ہم سے کتنا گنا زیادہ کیوں نہ ہوتے مجھے ان کی مطلق پروا نہ ہوتی۔‘‘ خالدؓ کے یہ الفاظ سارے لشکر میں پھیل گئے۔ ہر شخص کے سینے میں غیرت و حمیت کے جذبات بھڑکنے لگے اور ہر دل میں شہادت کی تمنا لہریں لینے لگی۔ ہر زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: ’’ فوجیں اللہ کی مدد کی بدولت زیادہ ہوتی ہیں اور ناکامی و بزدلی کی وجہ سے کم ہوتی ہیں۔‘‘ ہر شخص کے سامنے پچھلی جنگوں کے منظر آ گئے جن میں کفار بے پناہ طاقت سے مسلمانوں کے مقابلے میں آئے لیکن ایمانی قوت کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی اور ہر ایک بار انہیں انتہائی ذلت و رسوائی سے پسپا ہونا پڑا۔ مسلمانوں میں اس وقت اتنا جوش و خروش پیدا ہو چکا تھا کہ شام آنے کے بعد سے اب تک پیدا نہ ہوا تھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ خالدؓ نے آج فتح حاصل کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جب خالدؓ کسی کام کا ارادہ رک لیں تو کوئی طاقت انہیں باز نہیں رکھ سکتی۔ ادھر انہوں نے رومیوں کو پوری طاقت و قوت سے میدان جنگ میں صفیں باندھتے ہوئے دیکھا۔ وہ مسلمانوں کی طاقت کو کلیۃً ختم کر دینے کے ارادے سے میدان میں آئے تھے۔۔۔۔ اس وقت انہیں خالدؓ کے یہ الفاظ یاد آئے: ’’ آج کا دن اللہ کے اہم دنوں میں سے ہے۔ اللہ نے جنت کے دروازے مومنوں کے لیے کھول دئیے ہیں۔ آج جو شخص موت قبول کرتا ہے اسے ہمیشہ کی زندگی عطا فرمائی جائے گی۔‘‘ ان الفاظ نے ان کے عزم و حوصلہ میں بے پناہ زور پیدا کر دیا اور وہ انتظار کرنے لگے کہ کب حملے کا حکم ملتا ہے اور وہ میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ جس طرح مسلمانوں کو رومیوں کی تیاری کی اطلاع مل گئی تھی اسی طرح رومیوں کو بھی مسلمانوں کی نقل و حرکت کا حال معلوم ہو گیا۔ غالباً اس علاقے کے رہنے والے کچھ بدو دونوں لشکروں کے درمیان جاسوسی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ خالدؓ کو منجملہ دیگر اطلاعات کے یہ اطلاع بھی ملی کہ ان کے آنے کی وجہ سے رومیوں کے بعض سرداروں کے دلوں میں سخت گھبراہٹ اور بے چینی پیدا ہو گئی ہے۔ ان گھبرائے ہوئے بے چین سرداروں میں ’’ چرچہ‘‘ بھی شامل تھا۔ یہ شخص یا تو عربی النسل تھا یا تھا تو رومی لیکن سالہا سال سے شام میں رہنے کے باعث عربی بہت اچھی طرح جانتا تھا اور اسے مسلمانوں کی بہت سی باتوں کا بخوبی علم تھا۔ جب اس کے جاسوسوں نے اسے خالدؓ کی بے نظیر اور عظیم الشان فتوحات کی اطلاع دی تو بے اختیار اس کے دل میں خالدؓ سے ملنے اور ان سے گفتگو کی خواہش پیدا ہوئی۔ خالدؓ کو بھی اس کی اس خواہش کا علم ہو گیا۔ جب باہان نے رومی دستوں کو مسلمانوں کے مقابلے کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو چرچہ ہر اول دستے پر متعین تھا۔ اس نے موقع غنیمت جان کر خالدؓ کو پکارا۔ خالدؓ فوج سے نکل کر آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان اسے ملے دونوں میں باتیں ہونے لگیں۔ رومیوں نے یہ سمجھا کہ چرچہ کو مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور شور سے حملہ کیا اور انہیں اپنی جگہ سے پیچھے ہٹا دیا۔ عکرمہ خالدؓ کے خیمے کے سامنے اپنا دستہ لیے کھڑے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں رومیوں کے حملے کی تاب نہ لا کر پیچھے ہٹنے لگے تو غیرت و حمیت ان کی رگ رگ میں سرایت کر گئی اورانہوں نے چلا کر رومیوں سے کہا: ’’ میں رسول اللہ جیسے مقدس انسان ے ہر میدان میں لڑتا رہا ہوں، کیا آج کی لڑائی تم سے ڈر کر بھاگ جاؤں گا؟ واللہ! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ساتھیوں کی طرف مڑے اور کہا: ’’ آؤ، موت کے لیے کون بیعت کرتا ہے؟‘‘ یہ سن کر ضرار بن ازور، حارث بن ہشام، ان کے لڑکے عمرو بن عکرمہ اورچار سو دو سرے بہادر معزز مسلمانوں اور شہسواروں نے عکرمہ کے ہاتھ پر موت کی بیعت کی اور عکرمہ انہیں لے کر رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ رومیوں کے پاؤں اس ناگہانی حملے کی وجہ سے لڑ کھڑا گئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ عین اسی وقت چرچہ نے خالدؓ سے گفتگو کے نتیجے میں اسلام قبول کر لیا اور اپنا دستہ لے کر مسلمانوں سے مل گیا۔ یہ امر رومیوں میں مزید بدحواسی اور ابتری پیدا کرنے کا موجب ہوا۔ فتح یرموک: جب خالدؓ نے رومی لشکر کو پیچھے ہٹتے دیکھا تو انہوں نے اپنے لشکر کو آگے بڑھنے اور رومیوں پر زبردست حملہ کرنے کا حکم دیا۔ عکرمہ کے دستے کا زور کیا کم تھا جو اب خالدؓ کے لشکر نے قیامت ڈھانی شروع کی۔ رومیوں کے لیے اب کوئی جائے فرار نہ تھی۔ پیچھے واقوصہ کی ہول ناک گھاٹی اور گہرے کھڈے ان کا راستہ روکے ہوئے تھے اور سامنے سے مسلمانوں کا لشکر انہیں بے دریغ قتل کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ خالدؓ تلوار ہاتھ میں لیے سب سے آگے آگے تھے۔ اس موقع پر مسلمان عورتیں بھی اپنے مردوں سے کم نہ رہیں اور انہوں نے بھی بہادری کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ ابوسفیان کی بیٹی جویریہ نے جو نمونہ اس موقع پر دکھایا اس نے اس واقعے کی یاد تازہ کر ی جو غزوہ احد کے موقع پر اس کی والدہ ہند کے ذریعے سے ظہور پذیر ہوا تھا۔ رومی بھی اپنی مدافعت میں جان توڑ کر لڑے۔ جو مسلمان ان کے قابو میں آ گیا زندہ نہ بچ سکا۔ رومیوں کی شجاعت اور جواں مردی کی وجہ سے خاصی دیر تک لڑائی کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ شام ہو گئی مگر لڑائی جاری رہی۔ عکرمہ اور ان کے ہاتھ پر موت کی بیعت کرنے والے لوگوں میں سے کوئی بھی اپنی جگہ سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹا۔ یہ لوگ معرکے کے آغاز سے انجام تک انتہائی جواں مردی سے دشمن کے سامنے ڈٹے رہے اور بڑھ چڑھ کر حملے کرتے رہے۔ سورج غروب ہونے پر رومیوں میں ضعف کے آثار پیدا ہونے لگے۔ ان کے سواروں کے چہروں سے شدید تھکاوٹ کے آثار ہویدا تھے اور وہ بھاگنے کے لیے کسی راستے کی تلاش میں تھے لیکن اس وقت ان کے لیے کوئی راہ فرار نہ تھی۔ واقوصہ کی گھاٹی ان کے پیچھے تھی اور مسلمان ان کے آگے۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ خالدؓ نے اندازہ کر لیا کہ رومی سواروں کا فرار ان کے ساتھیوں کے لیے مزید کمزوری کا باعث ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمیوں کو ایک طرف ہٹ جانے کا حکم دیا۔ جب ان سواروں نے راستہ کھلا دیکھا تو بے تحاشا گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس راستے سے نکلتے چلے گئے اور سر زمین شام میں منتشر ہو گئے۔ جب میدان رومی سواروں سے خالی ہو گیا تو خالدؓ اپنے سوار اور پیدل دستے لے کر رومیوں کے پیدل دستوں پر ٹوٹ پڑے اور ان کا صفایا کرنا شروع کیا۔ رومی اپنی خندق میں گھس گئے۔ خالدؓ وہاں بھی پہنچ گئے تو انہوں نے واقوصہ کی گھاٹی کا رخ کیا۔ اکثر رومیوں نے میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے کے لیے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں۔ وہ دھڑا دھڑ اس گھاٹی میں گرنے لگے۔ اگر ایک گرتا تھا تو دس کو ساتھ لے کر گرتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا کوئی دیوار مع بنیاد زمین بوس ہو گئی ہے۔ اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ وہ لوگ کھڈ کو نہ دیکھ سکے۔ جو رومی بھاگ بھاگ کر ادھر آتے انہیں خبر نہ ہوتی کہ آگے والوں پر کیا گزری، وہ بھی اس کھڈ میں گر جاتے۔ طبری کے بیان کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار رومی واقوصہ کی کھائی کی نذرہوئے۔ ان میں سے اسی ہزار نے اپنے آپ کو بیڑیوں سے باندھ رکھا تھا۔ یہ تعداد ان سواروں اور پیدلوں کے علاوہ ہے جو میدان جنگ میں کام آئے۔ یہ لڑائی دن اور رات کے اکثر حصے میں جاری رہی۔ صبح ہونے سے پہلے ہی خالدؓ رومی لشکر کے سپہ سالار اعظم کے خیمے تک پہنچ چکے تھے۔ ہرقل کا بھائی تذارق بھی اسی معرکے میں قتل ہوا۔ فیقار اور اس کے ساتھی، جن کا شمار رومیوں کے سرکردہ اور معزز اشخاص میں ہوتا تھا۔ جنگ میں مارے جانے سے بچ گئے تھے لیکن وہ اس عبرت ناک شکست کو برداشت نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے آپ کو ذلت سے بچانے کے لیے ٹوپیوں سے منہ چھپا لیے اور میدان کے ایک جانب بیٹھ کر کہا کہ اگر ہم مسر ت کا دن دیکھنے اور عیسائیت کی حمایت کرنے کے قابل نہیں تو ذلت و بدبختی کا یہ دن بھی آنکھوں سے دیکھنا نہیں چاہتے۔ چنانچہ وہ لوگ اسی حال میں قتل کر دئیے گئے اور موت انہیں عاد سے بچانے کا موجب ہوئی۔ باہان نے بھاگ کر جان بچائی اور بعد کی جنگوں میں دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے پر آیا لیکن اس کا حشر ہمیشہ یرموک سے کم نہ ہوا۔ رومیوں کی کامل شکست ہو چکی تھی۔ مسلمان ان کی لشکر گاہ میں داخل ہوئے۔ خالدؓ نے ہرقل کے بھائی تذارق کے خیمے میں رات گزاری۔ صبح کو جب انہوں نے میدان میں نگاہ دوڑائی تو حد نظر تک کسی رومی کا نشان دکھائی نہ دیتا تھا۔ جو میدان ایک روز قبل رومی افواج قاہرہ سے بھرپور تھا، جہاں بڑے قیمتی جنگی گھوڑے جولانیاں دکھاتے تھے، جہاں ہر طرف عالی شان اور بلند و بالا خیموں کی قطاریں نظر آتی تھیں۔ وہاں اب ہو کا عالم طاری تھا، نہ کسی رومی کا نام و نشان نظر آتا تھا نہ کسی گھوڑے کا ۔ عالی شان اور بلند و بالا خیمے موجود تھے لیکن مالکوں سے خالی تھے اور ان کی جگہ مسلمان ان میں آرام کر رہے تھے۔ یہ نظارہ دیکھ کر خالدؓ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور انہوں نے اللہ کے اس عظیم الشان احسان کا شکر ادا کرنے کے لیے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا لیے۔ جنگ یرموک میں مسلمان شہداء کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ اس لڑائی میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے جن میں جلیل القدر صحابہ اور بڑے بڑے بہادروں اور شہسواروں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ معرکے کے دوران میں عکرمہ بن ابوجہل اور ان کے بیٹے عمرو بن عکرمہ کے جسم تلواروں اور نیزوں سے چھلنی ہو چکے تھے۔ فتح کے بعد انہیں عراق تذارق کے خیمے میں خالدؓ کے پاس لایا گیا۔ خالدؓ نے عکرمہ کا سر اپنی ران پر اور عمرو بن عکرمہ کا سر اپنی پنڈلی پر رکھ لیا اور ان کے چہروں سے مٹی پونچھنے اور حلق میں پانی ٹپکانے لگے۔ اسی عالم میں انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ابوسفیان کی آنکھ میں ایک تیر لگ گیا جسے ابوحشمہ نے نکالا۔ اس جنگ کا انجام رومیوں کے لیے بہت حسرت ناک تھا۔ ان کی تمام امیدیں خاک میں مل گئی تھیں۔ تمام منصوبے ملیا میٹ ہو گئے تھے۔ ہرقل ان دنوں حمص میں مقیم تھا جونہی اس نے اپنے لشکر کی عبرت ناک شکست کی خبر سنی وہ ایک شخص کو اپنا قائم مقام بنا کر خود وہاں سے بھاگ گیا۔ ادھر مسلمانوں نے جنگ یرموک سے فراغت حاصل کرتے ہی اردن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور تھوڑے ہی عرصے میں اسے رومیوں سے پاک کرا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دمشق کا رخ کیا اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ دمشق کا محاصرہ، اس کی فتح اور بعد کے واقعات طبری اور ان کے خوشہ چینوں کے بیان کے مطابق حضرت عمرؓ کی خلافت کے ایام میں پیش آئے۔ جنگ یرموک کے دوران میں بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے جن کا ذکر ہم نے درمیان میں کرنا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ گو تمام مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے پھر بھی ترتیب میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ہم نے اس سے پہلے صرف انہی واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو طبری اور اس کے کوشہ چین مورخین نے بالاتفاق اپنی کتابوں میں بیان کیے ہیں ۔ ان واقعات میں سب سے مشہور واقعہ یہ ہے کہ عین اس وقت جب گھمسان کی جنگ جاری تھی، مدینہ سے ایک قاصد محمیہ بن زینم میدان جنگ میں پہنچا۔ لوگوں نے اسے گھیر لیا اور مدینہ کے حالات پوچھنے شروع کیے۔ اس نے موقع کی نزاکت کو دیکھ کر کہا کہ مدینہ میں ہر طرح خیریت ہے اور تمہاری امداد کے لیے فوجیں آ رہی ہیں۔ لوگ اسے خالدؓ کے پاس لے آئے۔ اس نے انہیں علیحدگی میں لے جا کر ابوبکرؓ کی وفات کی خبر سنائی اور ایک خط بھی دیا۔ یہ خط عمرؓ کی طرف سے تھا اور اس میں انہوں نے خالدؓ کو امارت سے معزول کر کے ان کی جگہ ابوعبیدہؓ کو قیادت سنبھالنے کا حکم دیا تھا۔ خالدؓ نے یہ خط پڑھا اور اسے ترکش میں ڈال لیا مبادا یہ خبر لشکر میں پھیل کر لوگوں کی پست ہمتی کا سبب بن جائے۔ جب جنگ ختم ہو چکی اور خالدؓ نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے رومیوں پر فتح حاصل کر لی تو لشکر کی قیادت سے علیحدہ ہو گئے اور خلیفہ ثانی کے احکام کے مطابق امارت ابو عبیدہؓ کو سونپ دی۔ جہاں تک خالدؓ کی معزولی کا تعلق ہے کسی بھی مورخ کو اس سے اختلاف نہیں۔ البتہ اختلاف ہے تو اس بات میں کہ آیا یہ خط خالدؓ کے نام تھا یا ابو عبیدہؓ کے نام۔ بعض مورخین لکھتے ہیں کہ خالدؓ کی معزولی کا حکم خود ان کے پاس نہیں بلکہ ابوعبیدہؓ کے پاس آیا تھا لیکن ابو عبیدہؓ نے اسے مخفی رکھا اور دمشق کے محاصرے تک اس کی اطلاع خالدؓ کو نہ دی۔ مگر بعض دوسرے مورخین کا کہنا ہے کہ ابو عبیدہؓ نے یہ حکم اس وقت تک مخفی رکھا جب تک دمشق مسلمانوں کے ہاتھوں فتح نہ ہو گیا۔ شہر پر کامل تسلط کے بعد ابوعبیدہؓ نے یہ خط خالدؓ کو دکھا کر امارت خود سنبھالی۔ طبری نے شامی افواج کو سپہ سالاری سے خالدؓ کی معزولی کے جو واقعات بیان کیے ہیں انہیں پڑھ کر قارئین کو عجیب پریشانی لاحق ہوتی ہے کیونکہ خالدؓ صرف اس فوج کے امیر تھے جو عراق سے ان کے ساتھ آئی تھی، شام میں مقیم دوسری اسلامی افواج میں سے کسی کی امارت سے انہیں واسطہ نہ تھا۔ اسی طرح ابوعبیدہ بھی عمرو بن عاص، یزید بن ابی سفیان اور شرحبیل بن حسنہ کی طرح صرف اپنی فوج کے سردار تھے۔ جنگ یرمو ک کے دن خالدؓ کو کلکل فوجوں کا سپہ سالار تمام سرداروں کی رضا مندی سے بنایا گیا تھا اور اگر پہلے ہی روز مسلمانوں کو فتح حاصل نہ ہو جاتی تو دوسرے روز کوئی دوسرا سردار سپہ سالار بنتا۔ یہ واقعات ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں طبری کے علاوہ دوسرے مورخین کی کتابیں بھی دیکھنی چاہئیں کہ آخر وہ اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ فتح شام کے متعلق دوسری روایات: اصل میں شام کی فتوحات کے بارے میں ازدی، واقدی اور بلاذری کا طبری سے بہت زیادہ اختلاف ہے۔ ان صحاب کی بیان کردہ روایات کے مطابق جنگ یرموک شام کی پہلی جنگ نہ تھی۔ بلکہ اجنادین اور دمشق کی جنگیں اس سے پہلے ہو چکی تھیں۔ ان روایات کے مطابق ابوبکرؓ نے جنگ ہائے مرتدین ختم ہوتے ہی شام کی فتح کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس وقت سرحد پر کوئی مسلمان فوج نہ تھی۔ ایک روز انہوں نے مدینہ کے اہل الرائے حضرت کو طلب فرمایا اور ان کے سامنے شام کی چڑھائی کے متعلق اپنی تجاویز رکھیں جن کا ذکر ہم پچھلے باب میں کر چکے ہیں۔ جب انہوں نے تمام لوگوں کو اپنا ہم نوا پایا تو یمن اور جنوبی عرب کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کو پیغام بھیجے کہ وہ شام پہنچ کر اپنے آپ کو جہاد کے لیے پیش کریں۔ اس اثناء میں وہ مدینہ، مکہ، طائف اور حجاز کے مسلمانوں کو بھی اسی غرض کے لیے تیار کرتے رہے۔ فوجوں کے اکٹھا ہو جانے پر انہوں نے چار آدمیوں کو علم عنایت فرمائے اور انہیں فوجوں کا سردار بنا کر شام کی جانب روانہ کر دیا۔ یہ چار اشخاص یزید بن ابی سفیان، ابو عبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل اور شرحبیل بن حسنہ تھے۔ ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ انہوں نے ان چاروں اشخاص کے لیے وہ علاقے بھی مخصوص فرما دئیے تھے جہاں کا انہیں والی بننا تھا۔ تصادم سے بچنے کے لیے انہیں یہ ہدایت بھی دی تھی کہ اگر کسی امیر کے مقرر کردہ علاقے میں کفار سے جنگ چھڑ جائے اور کوئی دوسرا امیر بھی اس وقت اس علاقے میں موجود ہو یا اسے مدد کے طلب کیا گیا ہو تو لشکر کی قیادت عامہ اس امیر کے سپرد ہو گی جس کے علاقے میں جنگ ہو رہی ہو۔ اس کے بالمقابل ایک اور روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے ابو عبیدہ بن جراح کو ان تمام افواج کا سپہ سالار اور یزید بن ابی سفیان کو امارت میں ان کا نائب بنایا تھا۔ 1؎ ان لشکروں کی روانگی کے انتظامات کی تکمیل اس وقت ہوئی جب ذوالکلاح حمیری اور یمن کے دوسرے تمام افراد اپنے قبائی مذحج،طئی اور اسد وغیرہ کو لے کر مدینہ میں حاضر ہو گئے۔ تیاری مکمل ہونے پر ابوبکرؓ نے سب سے پہلے یزید بن ابی سفیان کو ان کے لشکر کے ہمراہ شام روانہ فرمایا اور ان کے پیچھے پیچھے زمعہ بن اسود کو ایک فوج دے کر بھیجا۔ باقی لشکر ابھی مدینہ ہی میں تھے۔ جب گلیاں باہر سے آنے والی مجاہدین سے بھر گئیں تو ابوبکرؓ انہیں لے کر مدینہ سے باہر نکلے اور ثنیۃ الوداع پہنچ کر انہیں رخصت کیا۔ خالد بن سعید بن عاص بھی ان لشکروں کے ساتھ شام روانہ ہوئے لیکن انہوں نے اپنے چچیرے بھائی یزید بن ابی سفیان کے بجائے ابو عبیدہ بن جراح کے لشکر میں شامل ہونا پسند کیا کیونکہ وہ سابقون الاولون میں سے تھے اور انہیں رسول اللہ ؐ کی زبان مبارک سے ’’ امین الامت‘‘ کا لقب مل چکا تھا۔ ان لشکروں کی روانگی کے بعد مدینہ میں یمن اور عرب کے دوسرے علاقوں سے مزید لشکر پہنچنے شروع ہوئے۔ انہیں بھی ابوبکرؓ نے شام کی جانب روانہ فرما دیا اور اجازت دے دی کہ وہ اگلے لشکروں میں سے جس لشکر کے ساتھ چاہیں مل جائیں۔ 1؎ بلاذری کی روایت ہے کہ جب ابوبکرؓ نے ابوعبیدہ کو علم دے کر شام بھیجنا چاہا تو انہوں نے معذرت چاہی بعد میں عمرؓ بن خطاب نے انہیں اپنے زمانہ خلافت میں سارے شام کا والی بنا کر بھیجا۔ ہرقل ان دنوں فلسطین میں تھا۔ جب اسے مسلمانوں کی تیاریوں کی خبریں ملیں تو اس نے علاقوں کے سرداروں کو جمع کیا اور ان کے سامنے جوشیلی تقریریں کر کے انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ ان نے کہا یہ بھوکے ننگے غیر مہذب لوگ صحرائے عرب سے نکل کر تم پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔ تم انہیں ایسا نہ توڑ جواب دو کہ پھر یہ کبھی تمہاری طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کر سکیں۔ سامان حرب اور فوجوں کے ذریعے سے تمہاری پوری مدد کی جائے گی۔ جو امراء تم پر مقرر کیے گئے ہیں تم دل و جان سے ان کی اطاعت کرو، فتح تمہاری ہی ہو گی۔ فلسطین کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ پیکار کر کے ہرقل دمشق آیا۔ وہاں سے حمص اور انطاکیہ پہنچا اور فلسطین کی طرح ان علاقوں میں بھی اس نے جوشیلی تقریریں کر کے وہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ خود انطاکیہ کو ہیڈ کوارٹر بنا کر مسلمانوں سے مقابلے کی تیاری کرنے لگا۔ اسی اثناء میں ابو عبیدہ وادی قریٰ اور حجر سے گزر کر سر زمین شام میں داخل ہو چکے تھے۔ ماب میں ایک رومی لشکر سے ان کی مڈ بھیڑ ہوئی۔ رومی لشکر مسلمانوں کے مقابلے کی تاب نہ لا سکا اور اسے جلد ہی شکست کھا کر پسپا ہونا پڑا۔ جابیہ پہنچنے پر ابو عبیدہ کو معلوم ہوا کہ ہرقل نے مسلمانوں کے مقابلے کے لیے ایسا عظیم الشان لشکر تیار کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس پر انہوں نے ابوبکرؓ کو تمام حالات لکھ کر مشورہ طلب کای اور امداد کی درخواست بھی کی۔ ادھر یزید بن ابی سفیان نے بھی ابوبکرؓ کو ایک خط لکھا لیکن اس میں رومیوں کی زبردست جنگی تیاریوں سے خوف کھانے کے اس امر کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہرقل کا فلسطین سے انطاکیہ پہنچ جانا خود اس کے خوف وہراس پر دلالت کرتا ہے۔ ابوبکرؓ کو یزید کے خط سے بہت خوشی ہوئی اور انہیں جواب میں لکھا کہ تم اسی طرح ہمت بلند رکھو، اللہ یقینا تمہاری مدد فرمائے گا۔ لیکن ابو عبیدہ کو جو جواب بھیجا اس میں اس امر پر تاسف کا اظہار کیا گیا تھا کہ وہ رومیوں کی قوت و شوکت سے مرعوب ہو گئے۔ پھر بھی دونوں خطوں میں انہوں نے مزید کمک بھیجنے کا وعدہ کیا۔ ابوبکرؓ نے اہل مکہ کو خطوط لکھ کر ان سے بھی موجودہ حالات کے متعلق مشورہ طلب فرمایا تھا۔ اس اثناء میں عرب قبائل جہاد کے شوق میں چاروں طرف سے آ کر مدینہ میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ اہل مکہ کی بھی ایک کثیر تعداد مدینہ پہنچ چکی تھی ابوبکرؓ نے ان تمام لوگوں کا سردار عمرو بن عاص کو بنایا اور انہیں شام روانہ ہونے کا حکم دے دیا۔ عمرو بن عاص نے پوچھا: ’’ کیا شام میں لڑنے والی فوجوں کی قیادت بھی میرے پاس رہے گی؟‘‘ ابوبکرؓ نے جواب دیا: ’’ تم صرف ان لوگوں کے سردار ہو جو یہاں سے تمہارے ساتھ بھیجے جا رہے ہیں لیکن شام پہنچ کر اگر اسلامی لشکروں کو مل کر دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا تو تمہارے امیر ابو عبیدہ بن جراح ہوں گے۔‘‘ روانگی کا وقت آیا تو عمروؓ بن عاص نے عمرؓ سے درخواست کی کہ وہ ابوبکرؓ سے سفارش کر کے انہیں شام میں لڑنے والی اسلامی افواج کا سپہ سالار مقرر کرا دیں لیکن عمرؓ نے صاف جواب دے دیا اور کہا: ’’ میں تمہیں دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتا۔ میں ہرگز ابوبکرؓ سے یہ سفارش نہ کروں گا۔ کیونکہ میرے نزدیک درجے کے لحاظ سے ابوعبیدہ تم سے افضل ہیں۔‘‘ عمروؓ بن عاص نے کہا: ’’ میرے امیر بن جانے سے ابوعبیدہ کے درجے اور فضیلت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔‘‘ لیکن عمرؓ پر عمرو بن عاص کی باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا او رانہوں نے جواب دیا: ’’ عمرو! تمہیں کیا ہو گیا؟ تم اپنے لیے امارت کے خواہش مند ہو اور اس سے تمہاری غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ تمہیں ایک دنیوی رتبہ اور قدر و منزلت حاصل ہو جائے۔ تمہیں اللہ سے ڈرنا اور اس کی خوشنودی کے سوا اور کسی چیز کا طالب نہ ہونا چاہیے ۔ تم لشکر لے کر شام روانہ ہو جاؤ۔ اگر اس مرتبہ تم امیر نہیں بن سکے تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ امارت کے موقعے آگے چل کر بہت آئیں گے۔‘‘ اس قسم کی باتیں کر کے عمرؓ نے عمرو بن عاص کو راضی کر لیا اور وہ ابوبکرؓ سے قیمتی نصائح حاصل کرنے کے بعد فوج لے کر شام روانہ ہو گئے۔ اگرچہ ابوبکرؓ کی طرف سے ابوعبیدہ کو پیش قدمی کی ہدایات مل رہی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود پیش قدمی کی رفتار بہت سست تھی۔ مدینہ سے بھیجی ہوئی امداد اور عمرو بن عاص کے شام پہنچنے پر بھی اس سست روی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی بلکہ ابوعبیدہ برابر ابوبکرؓ کو لکھتے رہے: ’’ رومی اور ان کے حاشیہ نشین قبائل مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بھاری تعداد میں اکٹھے ہو رہے ہیں اس لیے مجھے رائے دیجئے کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟‘‘ ابو عبیدہ کے پے در پے خطوط سے ابوبکرؓ تنگ آ گئے، اور انہوں نے خالدؓ بن ولید کو شام بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس وقت عراق میں تھے۔ ابوبکرؓ نے انہیں لکھا: ’’ جونہی میرا یہ خط تمہارے پاس پہنچے عراق سے شام روانہ ہو جاؤ۔ مثنیٰ کی فوج کو عراق ہی میں چھوڑ دو اور اپنے ساتھیوں میں سے بہترین آدمی چن کر ساتھ لے لو۔ شام پہنچ کر ابوعبیدہ بن جراح سے ملو۔ اس وقت شام کی افواج ابو عبیدہ کے زیر سرکردگی ہیں لیکن آئندہ ان فوجوں کے سپہ سالار تم ہو گے۔ والسلام علیک۔‘‘ جن مورخین نے واقعات اس ترتیب سے بیان کیے ہیں وہ یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ جب ابوبکرؓ کا خط خالدؓ کو ملا تو وہ حیرہ میں تھے اور انبار و عین التمر کی فتوحات ابھی تک وقوع میں نہ آئی تھیں۔ خط ملنے پر انہوں نے تیاری کی اور شام روانہ ہو گئے۔ یہ دونوں مقام راستے میں پڑتے تھے، انہیں فتح کیا اور قراقر پہنچے۔ قراقر سے وہ صحرا کو قطع کر کے سویٰ پہنچنے جہاں سے سر زمین شام شروع ہو جاتی تھی۔ ابوبکرؓ نے خالدؓ کے ساتھ ہی ابوعبیدہؓ کو بھی ایک خط ارسال کیا تھا جس میں لکھا تھا: ’’ میں نے خالدؓ بن ولید کو رومیوں سے جنگ کرنے کا کام سپرد کیا ہے تم ان کی مخالفت نہ کرنا اور بہ دل و جان ان کے تمام احکام کی اطاعت کرنا۔ میں نے انہیں تمہارا امیر مقرر کیا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دینی لحاظ سے تمہارا مرتبہ خالدؓ سے بلند تر ہے لیکن جو جنگی مہارت خالدؓ کو حاصل ہے وہ تمہیں حاصل نہیں۔ اللہ ہمیں اور تمہیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ ادھر خالدؓ بن ولید نے بھی ابو عبیدہؓ کو یہ خط لکھا: ’’ میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں اور تمہیں خوف کے دن امن عطا فرمائے اور اس دنیا میں دشمنوں کے ہاتھوں شکست کھانے سے محفوظ رکھے۔ میرے پاس خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط آیا ہے جس میں مجھے شام جانے اور وہاں اسلامی لشکروں کی کمان سنبھالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ واللہ، نہ میں نے شامی افواج کی سپہ سالاری کی خواہش کی، نہ میرے خیال میں یہ بات آ سکتی تھی کہ مجھے شامی افواج کا سپہ سالار مقرر کر دیا جائے گا، نہ میں نے کبھی خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور شخص کو اشارۃ و کنایۃً کوئی خط ہی لکھا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جو مرتبہ اس وقت آپ کا ہے آئندہ بھی اسی طرح برقرار رہے گا۔ نہ آپ کے کسی حکم سے روگردانی کی جائے گی، نہ آپ کی کسی رائے کی مخالفت کی جائے گی اور نہ کوئی کام آپ کے مشورے کے بغیر کیا جائے گا کیونکہ آپ مسلمانوں کے سردار ہیں۔ آپ کی فضیلت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا اور نہ آپ کی رائے سے پہلو تہی کی جا سکتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنے احسان کی دولت سے مالا مال کر دے اور آگ کے عذاب سے بچائے۔ والسلام علیک و رحمتہ واللہ۔‘‘ خالد سویٰ سے لویٰ پہنچنے ، وہاں سے قصم آئے جہاں انہوں نے بنو مشجعہ سے صلح کی۔ یہاں سے وہ غویر اور ذات انضمین کی طرف مڑے اور راستے میں مقیم قبائل کو مرعوب کرتے ہوئے غوطہ دمشق پہنچ گئے۔ راستے میں تدمر کی تسخیربھی عمل میں آئی۔ 1؎ غوطہ سے ثنیہ العقاب کے راستے انہوں نے دمشق کا قصد کیا۔ اس ثنیہ (گھاٹی) کو ثنیتہ العقاب کا نام خالدؓ کے حملے کے بعد دیا گیا کیونکہ یہاں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا عقاب لہرایا تھا۔ دمشق کے مشرقی دروازے سے ایک میل کے فاصلے پر وہ ایک گرجے میں اترے جسے بعد میں دیر خالد کا نام دے دیا گیا۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ ابو عبیدہؓ ان سے یہیں ملے تھے اور دمشق کا محاصرہ اصل میں اس روز شروع ہوا تھا۔ بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ خالدؓ نے دمشق کے سامنے زیادہ دن تک قیام نہ کیا بلکہ آگے بڑھ رک قناۃ بصریٰ پہنچے جہاں مسلمانوں کی افواج مجتمع تھیں۔ اس اثناء میں مسلمانوں کو خبریں پہنچنی شروع ہوئیں کہ ہرقل نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے اجنادین میں ایک عظیم الشان لشکر جمع کیا ہے یہ خبریں سن کر پہلی روایت کے مطابق مسلمان دمشق کا محاصرہ چھوڑ کر2؎ اور دوسری روایت کے مطابق بصریٰ کا محاصرہ ختم کر کے رومیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اجنادین کی جانب روانہ ہوئے اور ابوبکرؓ کی وفات سے چوبیس روز پہلے اجنادین میں مسلمانوں اور رومیوں کی پہلی مڈ بھیڑ ہوئی۔ 1؎ بلاذری میں مذکور ہے کہ آپ تدمر سے حوارین اور مرج الراہط ہوت ے ہوئے غوطہ دمشق پہنچے تھے۔ 2؎ازدی کی روایت اس بارے میں یہ ہے کہ خالدؓ دمشق سے گزرے تو ضرور تھے لیکن انہوں نے اور ابو عبیدہ نے غوطہ اور اس کے نواحی علاقوں میں اچانک دھاوے بولنے کے سوا کوئی باضابطہ حملہ نہ کیا۔ اسی دوران میں انہیں خبر ملی کہ حمص کا حاکم رومیوں کی ایک عظیم الشان جمعیت کے ہمراہ اس ارادے سے باہر نکلا ہے کہ بصریٰ کے مقام پر شرحبیل بن حسنہ کا راستہ کاٹ دے تاکہ وہ ساتھیوں سے نہ مل سکیں۔ پھر خبر ملی کہ رومیوں کی عظیم الشان افواج اجنادین میں جمع ہوئی ہیں اور تمام اہل شہر اور شام میں مقیم عرب قبائل رومیوں سے مل کر مسلمانوں کے مقابلے کی زبردست تیاریاں کر رہے ہیں۔ یہ خبر سن کر خالدؓ اور ابوعبیدہؓ دمشق سے نکلے اور اجنادین کا قصد کیا۔ ابو عبیدہ فوج کے پچھلے حصے میں تھے۔ اہل دمشق نے موقع پا کر ان کا راستہ کاٹ دیا اور ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا۔ خالدؓ کو معلوم ہوا تو وہ فوج لے کر پلٹے اور ابو عبیدہ کو اہل دمشق کے چنگل سے چھڑایا۔ اہل دمشق خالدؓ کے حملے کی تاب نہ لا کر فرار ہوگئے اور قلعے میں پہنچ کر پناہ لی۔ خالدؓ ابو عبیدہ کو ساتھ لے کر اجنادین روانہ ہو گئے۔ خالدؓ نے تینوں امراء یعنی زید بن ابی سفیان،شرحبیل بن حسنہ اور عمرو بن عاص کو لکھا تھا کہ وہ اپنی اپنی فوجیں لے کر اجنادین پہنچ جائیں چنانچہ یہ تینوں قائدین حکم کی تعمیل میں اپنی فوجوں کے ہمراہ اجنادین پہنچ گئے۔ خالدؓ نے تمام افواج کی کمان سنبھالی اور لشکر کو مرتب کرنا شروع کر دیا۔ پیدل فوج پر ابوعبیدہ کو مقرر کیا، میمنہ پر معاذ جبل کو، میسرہ پر سعید بن عامر بن حزیم جمحی کو اور سواروں پر سعید بن زید بن عمرو کو مقرر کیا اور خود مسلمانوں کو جوش دلانے کے لیے صفوں کے درمیان گشت کرنے لگے۔ رومیوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ مسلمانوں پر حملہ شروع کر دیا۔ خالدؓ نے اپنے آدمیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ نماز ظہر تک جنگ شروع نہ کی جائے لیکن جب سعید بن زید نے دیکھا کہ رومیوں کے حملے کے نتیجے میں مسلمانوں کو جانی نقصان ہو رہا ہے تو انہوں نے خالدؓ سے رومیوں پر جوابی حملہ کرنے کی اجازت طلب کی۔ خالدؓ نے سب سے پہلے گھڑ سوار دستے کو آگے بڑھ کر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد باقی فوج کو بھی لے کر دشمن پر پل پڑے۔ رومیوں کو شکست فاش ہوئی، مسلمانوں نے ان کے بے شمار آدمی قتل رک ڈالے اور بے حساب مال غنیمت حاصل کیا۔ معرکہ اجنادین میں فتح یاب ہو کر خالدؓ واپس دمشق آ گئے اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ خالدؓ اس گرجے میں اترے جو باب شرقی سے متصل تھا۔ ابو عبیدہ نے باب جابیہ کے سامنے پڑاؤ ڈالا۔ عمرو بن العاص باب تو ماکے سامنیے فروکش ہوئے۔ش رحبیل باب فراویس اور یزید باب صغیر کے سامنے خیمہ زن ہوئے۔ اس طرح مسلمانوں نے پوری طرح شہر کا محاصرہ کر لیا۔ اہل دمشق نے ہرقل کو لکھا کہ وہ اس وقت سخت مصیبت میں مبتلا ہیں۔ مسلمانوں نے سختی سے ان کا محاصرہ کر رکھا ہے اس لیے جلد از جلد ان کی مدد کے لیے فوج روانہ کی جائے۔ چنانچہ ہرقل نے ایک فوج روانہ کی۔ مرج الصفر میں خالدؓ کی فوج سے اس فوج کا مقابلہ ہوا جس میں رومی فوج کو شکست فاش اٹھانی اور فرار ہوتے ہی بن پڑی۔ خالدؓ دوبارہ دمشق آ گئے اور محاصرہ شروع کر دیا۔ اہل دمشق سے جب تک بن پڑا انہوں نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ شہر کی دیواروں کو مضبوط بنا لیا اور ان کے اوپر سے مسلمانوں پر تیر برسانے شروع کیے۔ شہر کے دروازوں پر مضبوط دستے متعین کیے کہ مسلمانوں کو شہر میں داخل ہونے سے روکیں ۔ لیکن کوئی بھی چیز مسلمانوں کو محاصرے کی سختی سے باز نہ رکھ سکی۔ ناچار امرائے دمشق نے ایک بار پھر ہرقل کو لکھا کہ اگر اس نے اس نازک موقع پر ان کی مدد نہ کی تو دشمن سے مصالحت کے سوا ان کے لیے کوئی چارہ کار باقی نہ رہے گا۔ ہرقل نے جواب میں لکھا کہ جرات وہمت سے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہو اور کسی بھی قیمت پر اسے شہر پر قبضہ نہ کرنے دو، تمہاری مدد کے لیے میں قاصد کے پیچھے فوجیں روانہ کر رہا ہوں۔ اہل دمشق نے بے صبری سے ان فوجوں کا انتظار شروع کیا لیکن آخر ان کی امیدیں حسرتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہرقل کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ اہل دمشق کی ہمتوں نے جواب دے دیا اور انہیں مسلمانوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور ان سے صلح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اس صلح کے متعلق مختلف روایات تاریخوں میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اہل دمشق سے صلح ابو عبیدہ نے باب جابیہ کے قریب کی تھی۔ صلح نامہ پر کرنے کے بعد جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو انہیں معلوم ہوا کہ خالدؓ باب شرقی سے بہ زور اندر گھس آئے ہیں اور اپنے سپاہیوں کی مدد سے شہر پر قبضہ کر رہے ہیں، جب دونوں سردار آپس میں ملے تو ابو عبیدہؓ نے کہا کہ شہر والوں نے صلح کر لی ہے اور اب مسلمانوں کو شہر والوں کے مال و جان پر کسی قسم کا اختیار نہیں لیکن خالدؓ نے کہا کہ انہوں نے اپنے زور بازو سے شہر کو فتح کیا ہے اس لیے شہر والوں سے مفتوحین جیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ آخر تھوڑی کی بحث و تمحیص کے بعد دونوں کا اس پر اتفاق ہو گیا کہ صلح برقرار رکھی جائے اور شہر والوں سے مفتوحین کا سلوک نہ کیا جائے۔ اس کے برعکس بعض روایات میں یہ مذکور ہے کہ خالدؓ نے اہل دمشق سے باب شرقی کے قریب صلح کا معاہدہ کیا تھا اور ابو عبیدہ باب جابیہ سے بہ زور شہر میں داخل ہوئے تھے۔ پھر بھی تمام روایتوں میں اس امر پر اتفاق ہے کہ آخر صلح کی شرائط ہی برقرار رکھی گئیں اور شہر والوں سے مفتوحین کا سلوک نہ کیا گیا۔ روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ ابھی دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ ابوبکرؓ کی وفات ہو گئی اور ان کی جگہ عمرؓ خلیفہ بنے۔ انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ خالدؓ کو ان کے عہدے سے معزول کر کے ان کی جگہ ابو عبیدہ کو سالار لشکر مقرر کر دیا اور اس کی اطلاع ابو عبیدہؓ کو بھی بھیج دی۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے یہ حکم اس وقت تک خالدؓ سے چھپائے رکھا جب تک دمشق مسلمانوں کے ہاتھ نہ آ گیا۔ البتہ ایک روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ فتح دمشق سے پہلے ہی ابو عبیدہؓ نے یہ اطلاع خالدؓ کو دے دی تھی لیکن ان کی تیوری پر ذرا بھی بل نہ پڑے اور انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے خلیفہ ثانی کے احکام کے آگے سرتسلیم خم کر دیا۔ یہ ہیں وہ روایات جو ازدی، بلاذری اور واقدی نے شامی فتوحات کے متعلق بیان کیں اور جو ہم نے بالاختصار نقل کر دی ہیں۔ انہیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی واقعات کی ترتیب کے لحاظ سے یہ روایات جہاں طبری سے مختلف ہیں وہاں خالدؓ بن ولید کی امارت اور ان کی معزولی کے سوال پر بھی دونوں میں بین اختلاف موجود ہے۔ پھر بھی دو باتیں ایسی ہیں جن میں کسی قسم کا اختلاف نہیں اول یہ کہ ابوبکرؓ ہی نے عراق کی طرح شام کی فتح کا بیڑا اٹھایا تھا اور اس غرض کے لیے فوجیں اور ہر قسم کی امداد روانہ کی تھی۔ یہ امر قابل ہے کہ عراق اور شام کی ان ابتدائی فتوحات ہی سے جو ابوبکرؓ کے عہد میں ہوئیں، اسلامی سلطنت کی بنیاد پڑی۔ دوم یہ کہ خالدؓ بن ولید نے شام میں بھی وہی کارہائے نمایاں انجام دئیے جن کا مظاہرہ وہ عراق میں کر چکے تھے۔ وہ ہر مقام پر مظفر و منصور ہوئے اور قیادت سے معزولی کے باعث نہ ان کے رتبے میں کوئی کمی واقع ہو سکی اور نہ ان کی جنگی صلاحیتوں میں۔ یہ ان کی جنگی صلاحیتیں ہی تو تھیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھ کر انہیں سیف اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا تھا اور جن کا اعتراف ابوبکرؓ نے ان الفاظ سے فرمایا تھاـ: میں اس تلوار کو کسی طرح میان میں نہیں ڈال سکتا جسے اللہ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔ ان مختلف روایات کی موجودگی میں یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ یرموک کی جنگ ابوبکرؓ کے عہد میں واقع ہوئی یا حضرت عمرؓ کے عہد میں۔ اگر اس امر کو دیکھا جائے کہ واقوصہ کی گھاٹی، جس کے قریب یہ جنگ لڑی گئی، صحرائے شام، عرب کی سرحد اور وادی سرحان کے راستے کے قریب واقع ہے تو طبری کی رائے کی تائید کرنی پڑی ہے کہ یہ جنگ ابوبکرؓ کے عہد میں ہوئی کیونکہ ابتدائی جنگیں سرحد کے قریب ہی لڑی جاتی ہیں۔ لیکن ایک اور نقطہ نگاہ سے بلاذری کی اس روایت کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جنگ عمرؓ کے عہد میں واقع ہوئی۔ اس نے بیان کیا ہے کہ جب ابتدائی جنگیں شروع ہوئیں تو رومیوں نے دمشق کی جانب ہٹنا شروع کیا۔ دمشق کا شہر نہ صرف خود بہت مستحکم تھا بلکہ اس کے ارد گرد بھی ایسی بستیاں آباد تھیں جہاں سے مسلمانوں کے حملے کا دفاع بہت اچھی طرح کیا جا سکتا تھا۔ رومیوں کا ارادہ تھا کہ وہ پیچھے ہٹتے ہفتے مسلمانوں کو ایسی جگہ لے آئیں گے جہاں سے ان کے لیے واپس ہونا بے حد مشکل ہو گا، اس وقت وہ یک بارگی ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دے دیں گے، پھر کبھی مسلمانوں کو شامی علاقے پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مسلمان دمشق تک پہنچ گئے لیکن رومیوں کی توقعات کے برعکس شہر کا محاصرہ ہوتا چلا گیا اور اخر ہار کر رومیوں کو صلح کرنی پڑی اور شہر پر مسلمانوں کا تسلط ہو گیا۔ واقعات کی اصل ترتیب کا فیصلہ تو واقعی مشکل ہے لیکن جہاں تک حضرت خالدؓ کے سپہ سالاری سے معزول کیے جانے کا تعلق ہے اس کا فیصلہ آسان ہے۔ طبری، بلاذری اور دوسرے تمام مورخین کا اس امر پر تو کلی اتفاق ہے کہ ابوبکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو عراق سے شام اس غرض کے لیے بھیجا تھا کہ وہ رومیوں کے دلوں سے تمام شیطانی وسوسے دور کر دیں اور اس جمود کو، جو ایک لمبے عرصے سے شام میں مقیم اسلامی فوجوں پر چھا چکا تھا، توڑ دیں۔ اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ آیا خالدؓ وہاں تمام اسلامی فوجوں کے سپہ سالار بن گئے تھے یا صرف اس فوج کے امیر بن کر جو آپ کے ساتھ عراق سے شام پہنچی تھی۔ اگر یہ اختلاف دور ہو جائے تو معزولی کا سارا واقعہ سمجھ میں آ جاتا ہے۔ طبری بیان کرتے ہیں کہ خالدؓ صرف اس فوج کے امیر بن کرشام گئے تھے جو عراق سے ان کے ساتھ آئی تھی۔ تمام اسلامی فوجوں کی قیادت صرف جنگ یرموک کے دن ان کے ہاتھ میں آئی تھی اور وہ بھی دیگر امراء کے مشورے رضا مندی کے بعد۔ لیکن بلاذری اور ان کے خوشہ چین ذکر کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نے انہیں شام میں مقیم تمام اسلامی فوجوں کا سپہ سالار بنا کر بھیجا تھا اور ثبوت میں وہ دو خط پیش کرتے ہیں جو اس معاملے کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ بن ولید اور عبیدہؓ بن جراح کو بھیجے تھے۔ بہت کچھ غور و فکر کے بعد ہم نے بلاذری کی روایت کو زیادہ قرین قیاس اور درست خیال کیا ہے کیونکہ یہ امر بعید از عقل ہے کہ ایک ہی سلطنت کی مختلف فوجیں ایک جگہ ڈیرہ ڈالے پڑی رہیں اور وہ ایک قیادت کے تحت منظم ہونے کے بجائے علیحدہ قیادتوں اور امارتوں میں بٹی رہیں۔ طبری خود یہ بات تسلیم کرتے ہیں، ابوبکرؓ نے تمام اسلامی لشکروں کو حکم بھیجا تھا کہ وہ آپس میں ضم ہو کر ایک لشکر کی صورت اختیار کر لیں اور متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کریں۔ اس حکم کا نفاذ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک تمام اسلامی لشکر ایک قیادت کے ماتحت منظم نہ ہو جاتے۔ ابوبکرؓ نے یہ حکم خالدؓ بن ولید کو شام بھیجنے سے پہلے دیا تھا اس لیے لازم تھا کہ اسلامی لشکروں کی قیادت ابو عبیدہ، یزید بن ابی سفیان یا اور کسی قائد کے سپرد ہوتی۔ اکثر مورخین کا خیال یہی ہے کہ ان لشکروں کے سپہ سالار ابو عبیدہ تھے گو بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ انہوں نے ابوبکرؓ کی خدمت میں خط لکھ کر یہ ذمہ داری اٹھانے سے معذرت چاہی تھی۔ جب ان باتوں کے تسلیم کرنے سے ہم انکار نہیں کر سکتے تو اس میں بھی کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ابوبکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو کل شامی افواج کا سپہ سالار مقرر کر کے شام بھیجا تھا اور یہی بات بلاذری نے بیان کی ہے۔ اگر خالدؓ تمام افواج کے سپہ سالار نہ ہوتے تو عمرؓ خلیفہ بنتے ہی سب سے پہلے انہیں اپنے عہدے سے معزول کرنے کا حکم نہ بھیجتے کیونکہ طبری اور دوسرے مورخین کی بیان کردہ روایات سے ثابت ہے کہ خالدؓ اپنے معزول ہونے کے بعد بھی ان فوجوں کی قیادت کرتے رہے جو ان کے ساتھ تھیں اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک حضرت عمرؓ نے انہیں قنسرین کی امارت اور فوج کی سپہ سالاری سے معزول نہ کر دیا۔ یہ واقعہ 17 ھ میں عمرؓ کی خلافت کے پانچویں سال پیش آیا اس صورت میں پہلی معزولی قیادت عامہ سے قرار پاتی ہے اور دوسری معزولی، جو پہلی معزولی سے چار سال بعد وقوع میں آئی، صرف اس امارت سے تھی جو انفرادی طور پر انہیں ایک حصہ فوج پر حاصل تھی۔ یہ ہے ہماری رائے جس پر ہم مضبوطی سے قائم ہیں۔ اس رائے کو تسلیم کرنے سے ان مختلف شبہات کا ازالہ ہو سکتاہے جو اس ذیل میں پید اہوتے ہیں۔ اگر خالدؓ صرف اس فوج کے امیر ہوتے جو عراق سے ان کے ساتھ آئی تھی تو عمرؓ کو ان کی معزولی کا حکم بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی اور طبری کی روایت کے مطابق جنگ یرموک کے بعد اور بلاذری کی روایت کے مطابق دمشق کی فتح کے بعد ابو عبیدہ دوبارہ تمام اسلامی فوجوں کی قیادت سنبھال لیتے۔ ٭٭٭ پندرہواں باب مثنیٰ عراق میں عراق میں مثنیٰ کے لیے مشکلات: مثنیٰ بن حارثہ: خالدؓ بن ولید کو صحرائے شام کی سرحد پر چھوڑ کر حیرہ واپس آ گئے تھے۔ واپس آ کر انہوں نے اپنی فوج کے ذریعے سے مفتوحہ شہروں کے دفاع کا بندوبست کرنا شروع کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جونہی ایرانیوں کو خالدؓ بن ولید کے شام جانے کا حال معلوم ہو گا وہ اپنے چھنے ہوئے شہروں کو واپس لینے اور سر زمین عراق سے مسلمانوں کو نکالنے کے لیے پوری جدوجہد شروع کر دیں گے۔ اس وقت حالات واقعی نازک صورت اختیار کر گئے تھے۔ خالدؓ نے عراق میں رہنے والے بدوؤں سے جس سختی کا سلوک کیا تھا اس کے باعث وہ مسلمانوں کے دشمن بن چکے تھے اور ان سے بدلہ لینے کے لیے کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔ ادھر ایرانیوں کو یقین تھا کہ عراق میں اسلامی سلطنت کا قیام ان کے لیے پیغام موت سے کم نہیں اس لیے وہ بھی اس فکر میں تھے کہ کب موقع ہاتھ آئے اور وہ مسلمانوں کی کسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر یک بارگی حملہ کر کے انہیں حدود عراق سے پیچھے دھکیل دیں۔ خالدؓ بھی سمجھتے تھے کہ ان کے عراق سے چلے جانے کے بعد ایرانی ضرور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اسی لیے شام جانے سے پیشتر انہوں نے تمام مسلمان عورتوں، بچوں اور کمزور مردوں کو مدینہ بھجوا دیا تھا۔ مثنیٰ کے سامنے یہ تمام باتیں روز روشن کی طرح عیاں تھیں اور وہ عجیب مخمصے میں گرفتار تھے۔ مثنیٰ ہی تھے جنہیں ابوبکرؓ نے سب سے پہلے عراق پر چڑھائی کا کام سپرد کیا تھا اور انہیں کی مدد کے لیے خالدؓ بن ولید اور دوسرے اسلامی لشکر عراق بھیجے گئے تھے ۔ اس صورت میں مثنیٰ کے لیے یہ بات قطعاً ناقابل برداشت تھی کہ انہیں اسی سر زمین میں ناکامی منہ دیکھنا پڑے۔ جہاں سب سے پہلے انہی کے فاتحانہ قدم پڑے تھے۔ ان تمام امور کے علاوہ ایک او ربات بھی مسلمانوں کے لیے حد درجہ پریشان کن تھی اور وہ یہ کہ سالہا سال کی نا اتفاقی اور لڑائی جھگڑوں کے بعد اہل ایران نے بالا تفاق شہر یران 1؎ بن ارد شیر بن سابور کو اپنا شہنشاہ تسلیم کر لیا تھا اور ساری رعایا نے بہ دل و جان اس کی اطاعت کرنے کا عہدہ کیا تھا۔ نئے بادشاہ کو کچھ دن تو سلطنت کا اندرونی نظم و نسق درست کرنے میں لگے۔ جب اس طرف سے فراغت نصیب ہو گئی تو سب سے پہلے اس نے عراق کی طرف توجہ کی خالدؓ عراق کی آدھی فوج لے کر شام جا چکے تھے۔ شہر یران کو اس سے بہتر موقع مسلمانوں کو عراق سے نکالنے کا نظر نہ آیا۔ اس نے فوراً ہرمز کو دس ہزار کی جمعیت کے ساتھ مثنیٰ کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کر دیا۔ ہرمز ایک مہیب ہاتھی پر سوار ہو کر اس عزم کے ساتھ روانہ ہوا کہ وہ مسلمانوں کو عراق کے چپے چپے سے نکال کر انہیں عرب کی حدود میں پہنچا کر ہی دم لے گا۔ جب مثنیٰ کو ان تیاریوں اور ہرمز اور اس کے لشکر کی نقل و حرکت کی اطلاعات ملیں تو وہ انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ہرمز مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں سے گزرتا ہوا حیرہ پہنچے جہاں وہ اس وقت مقیم تھے بلکہ اپنا لشکر لے کر خود اس کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے۔ اپنے دونوں بھائیوں، معنی اور مسعود کو بالترتیب میمنہ اور میسرہ پر مقرر کیا اور حیرہ سے روانہ ہو کر بابل کے کھنڈروں تک آ پہنچے۔ ابھی ان کا سفر جاری تھا کہ انہیں شہر یران شہنشاہ ایران کا خط ملا جس میں لکھا تھا: میں نے تمہارے مقابلے کے لیے ایرانیوں کا ایک لشکر بھیجا ہے۔ ہیں تو وہ مرغیوں اور سوروں کے چرانے والے لیکن تمہارا بھرکس اچھی طرح نکال دیں گے۔ مثنیٰ نے شہنشاہ ایران کے قاصد کے ہاتھ سے خط لیا، پڑھا اور اسی وقت یہ جواب لکھ کر اس کے حوالے کر دیا: 1؎ روایات میں اس کا نام شہر بازان، شہر باز اور شہر براز بھی آیا ہے۔ مثنیٰ کی جانب سے شہر یان کے نام۔ تمہارا حال دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا تو تم سرکش ہو۔ یہ چیز تمہارے لیے بری ہے۔ ہمارے لیے ا چھی۔ یا تم جھوٹے ہو اور یہ تمہیں پتا ہی ہے کہ اللہ کے نزدیک اور اس کے بندوں کی نظروں میں عقوبت اور فضیحت کے لحاظ سے سب سے زیادہ جھوٹے بادشاہ ہی ہوتے ہیں۔ تمہارے خط سے ہمیں علم ہو گیا ہے کہ اب تم اس حد تک مجبور ہو گئے ہو کہ مرغیاں اور سور چرانے والوں کے سوا تمہیں اور لوگ ہمارے مقابلے میں بھیجنے کے لیے ملتے ہی نہیں۔ پس اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہارا مکر و فریب خود تم پر ہی لوٹا دیا اور تم مرغیاں چرانے والوں سے مدد لینے پر مجبور ہو گئے۔ جب اہل ایران کو مثنیی کے اس خط کا علم ہوا اور یہ بھی پتا چلا کہ وہ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے خود سرحد ایران کی طرف بڑھے چلے آ رہے ہیں تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ انہیں ہرگز توقع نہ تھی کہ خالدؓ کے چلے جانے کے بعد بھی مسلمانوں میں اس قدر قوت باقی رہی ہو گی کہ وہ اس بے باکی سے ان کے بادشاہ کو جواب دیں گے۔ بعض لوگوں کو اپنے بادشاہ کا انداز تحریر بھی بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے اس سے کہا: آپ نے خط لکھ کر مسلمانوں کو اور دلیر بنا دیا ہے۔ براہ مہربانی آئندہ جب آپ کسی کو خط لکھیں تو پہلے اس کے متعلق لوگوں سے مشورہ کر لیا کریں۔ مثنیٰ مدائن سے پچاس میل دور بابل کے کھنڈروں میں ایک اونچی جگہ خیمہ زن ہو کر ہرمز کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔ آخر ہرمز بھی آ پہنچا۔ اسے کامل اطمینان تھا کہ مسلمان اس کے چنگل سے کسی طرح بھی نہ نکل سکیں گے اور وہ انہیں تباہ کر کے ہی دم لے گا۔ اس کا مہیب ہاتھی دائیں بائیں زور زور سے سونڈ ہلا رہا تھا۔ مسلمانوں کو آج تک کبھی ہاتھی سے پالا نہ پڑا تھا۔ یہ خوف ناک جانور دیکھ کر ان کے دلوں پر ہیبت طاری ہو گئی۔ مثنیٰ کو بھی یقین ہو گیا کہ جب تک ہاتھی میدان جنگ میں موجود رہے گا مسلمان اطمینان سے ایرانیوں کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ خود چند لوگوں کو ساتھ لے کر نکلے، تلواریں سونت کر ہاتھی پر پل پڑے اور اسے مار کر ہی دم لیا۔ مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ان کی بے چینی دور ہو گئی اور انہوں نے نئے جوش اور نئے ولولے سے ایرانیوں پر حملہ کر دیا اور اس وقت تک بس نہ کای جب تک انہیں شکست فاش نہ دے لی۔ ایرانی لشکر نے بدحواس ہو کر بھاگنا شروع کیا۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں مدائن کے دروازوں تک پہنچا کر ہی دم لیا۔ ایران میں دوبارہ خلفشار: ہرمز کی شکست کی خبر شہر یران پر بجلی بن کر گری۔ اسے اسی وقت بخار چڑھ آیا اور اسی حالت میں اس نے جان دے دی۔ سرداران ایران نے اس کی جگہ کسریٰ کی بیٹی کو تخت پر بٹھانا چاہا تاکہ ایک بار پھر وہ اپنی طاقت و قوت کو مجتمع کر کے مسلمانوں کا مقابلہ کر سکیں۔ لیکن ابھی اسے سریر آرائے سلطنت ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ اسے معزول کر دیا گیا اور اس کی جگہ سابوربن شہر یران تخت پر بیٹھا۔ اس نے فرخ زاد کو اپنا وزیر بنایا اور اس سے کسریٰ کی بیٹی آزرمیدخت کی شادی کرنی چاہی لیکن آزرمیدخت شاہی خاندان کے باہر شادی کرنے پر رضا مند نہ تھی۔ اس نے سابور سے کہا اے ابن عم! کیا تم میرے غلام سے میری شادی کر وگے؟ میں یہ بات کسی طرح منظور نہیں کر سکتی۔ لیکن سابور نے اس کی ایک نہ سنی اور بڑی تلخ کلامی سے پیش آیا۔ اس پر آزرمیدخت نے یک مشہور عجمی بہادر سیاؤخش رازی کو ساتھ ملایا۔ شادی کی رات کو جب فرخ زاد حجلہ عروسی میں داخل ہوا: سیاؤخش نے اس پر اچانک حملہ کر کے اسے قتل کر ڈالا۔ اس کے بعد وہ آزرمیدخت اور اس کے اعوان و انصار کو ساتھ لے کر سابور کے محل پر آیا اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ پہرے داروں نے مزاحمت کی لیکن یہ لوگ انہیں قتل کر کے محل میں گھس گئے اور سابور کو مار ڈالا۔ آزرمیدخت تخت شاہی پر متمکن ہو گئی۔ ان واقعات کی اطلاع مثنیٰ کو ملی تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ ایرانیوں کا اتحاد ان کے لیے سخت خطرے کا باعث تھا لیکن اب اللہ نے ان کے درمیان پھوٹ ڈال دی تھی اور وہ تخت پر قبضہ کرنے کی خاطر ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے۔ موجودہ حالات مثنیٰ کے لیے انتہائی سازگار تھے۔ انہوں نے ان سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہا اور یہ سوچ کر کہ نہ معلوم آئندہ حالات کیا رخ اختیار کریں، مدائن کی جانب کوچ کر دیا اور ایرانیوں سے لڑتے بھڑتے شہر کے دروازوں تک جا پہنچے۔ ان کی عین خواہش مدائن کو فتح کرنے کی تھی۔ لیکن اس کے لیے زبردست جمعیت کی ضرورت تھی جو ان کے پاس موجود نہ تھی۔ ابوبکرؓ بھی ان کی مدد کے لیے کوئی لشکر روانہ نہ کر سکتے تھے کیونکہ اس وقت تمام فوجیں شام میں رومیوں سے برسر پیکار تھیں۔ بہت کچھ سوچ بچار کے بعد انہوں نے ابوبکرؓ کو ایک خط لکھا جس میں فتوحات کی خوش خبری دینے کے بعد ان مرتد قبائل سے مدد لینے کی اجازت طلب کی جو توبہ کر کے دوبارہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے اور جن کے متعلق ابوبکرؓ نے حکم دے دیا تھا کہ انہیں کسی اسلامی فوج میں شامل نہ کیا جائے۔ مثنیٰ جانتے تھے کہ ابوبکرؓ ان کی درخواست آسانی سے قبول نہ کریں گے لیکن دوسری طرف انہیں یہ بھی علم تھا کہ سابق مرتد قبائل اپنے کیے پر پچھتار ہے ہیں اور اسلامی افواج میں شامل ہونے کے لیے بے چین ہیں۔ خط لکھے ہوئے عرصہ ہو گیا لیکن مثنیٰ کو جواب موصول نہ ہوا۔ اس پر انہوں نے خود مدینہ جا کر ابوبکرؓ سے بالمشافہ گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ لشکر کو زیریں عراق میں سرحد کے قریب لے آئے اور بشر بن فصاحیہ کو عراق میں اپنا قائم مقام بنا کر خود مدینہ روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے ابوبکرؓ کو مرض المو ت میں مبتلا پایا۔ پھر بھی ابوبکرؓ نے گرم جوشی سے ان کا خیر مقدم کیا۔ بڑی توجہ سے ان کی باتیں سنیں اور عمرؓ کو بلایا جنہیں وہ اپنے بعد خلیفہ مقرر کر چکے تھے۔ عمرؓ آئے تو انہوں نے فرمایا: عمرؓ! میں جو کہتا ہوں اسے سنو اور اس کے مطابق عمل کرو۔ مجھے امید نہیں کہ میں آج شام تک زندہ رہ سکوں گا۔ میرے مرنے کے بعد تم کل کا دن ختم ہونے سے پہلے پہلے مثنیٰ کے ساتھ لوگوں کو لڑائی پر روانہ کر دیا۔ تمہیں کوئی مصیبت دینی کام اور حکم الٰہی سے غافل نہ کر پائے۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کیا کیا تھا حالانکہ اس وقت مسلمان ایک بڑے ابتلاء میں تھے۔ اگر میں اس وقت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجا آوری میں دیر کرتا اور کمزوری دکھاتا تو نہ صرف مدینہ آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی نذر ہو جاتا بلکہ اسلام کا بھی خاتمہ ہو جاتا۔ جب اہل شام پر فتح حاصل ہو جائے تو اہل عراق کو عراق واپس بھیج دینا کیونکہ وہ عراق ہی کے کاموں کو خوب انجام دے سکتے ہیں اور عراق ہی میں ان کا دل کھلا ہوا ہے۔ ابوبکرؓ کی وصیت کے مطابق عمرؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ مثنیٰ کے ساتھ ایک فوج عراق بھیجی انہیں سابق مرتدین کو اسلامی افواج میں شامل ہونے کی اجازت بھی مل گئی تھی کیونکہ اب اسلام طاقت پکڑ چکا تھا اور ان کی طرف سے کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ باقی نہ رہا تھا۔ ٭٭٭ سولہواں باب جمع قرآن غزوہ یمامہ کے اثرات: جمع قرآن کریم کی تاریخ بیان کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم غزوہ یمامہ کا ذکر دوبارہ کریں کیونکہ اسی جنگ کے نتیجے میں اس عظیم الشان کام کو لباس عمل پہنانے کا خیال بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا۔ ابتداء ہم نے اس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ جنگوں اور فتوحات کے واقعات کے تسلسل میں فرق نہ آئے۔ جنگ ہائے مرتدین میں غزوہ یمامہ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ جنگ نہ صرف بڑی ہولناک تھی بلکہ اثرات کے لحاظ سے بھی دور رس نتائج کی حامل تھی۔ مسیلمہ بن حبیب کے قتل سے سارے عرب کے مدعیان نبوت پر ضرب کاری لگی، بحرین میں مرتدین کے استیصال سے بنو حنفیہ کو دوبارہ اسلام لانے کی توفیق ملی اور اسی امر نے مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کو عراق کی طرف پیش قدمی کرنے کی جرات دلائی۔ جنگ یمامہ میں مسیلمہ کے لشکر کو شکست دینے کے لیے خالدؓ بن ولید نے پوری قوت صرف کر دی تھی۔ ادھر مسیلمہ نے بھی مسلمانوں کے مقابلے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ جنگ ختم ہوئی تو مسیلمہ کو شکست فاش ہو چکی تھی۔ اس کے ہزاروں آدمی میدان جنگ میں مارے جا چکے تھے اور وہ خود بھی وحشی غلام کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا۔ ادھر مسلمانوں کا بھی کچھ کم نقصان نہ ہوا تھا ان کے بارہ سو آدمیوں نے جام شہادت نوش کیا تھا جن میں کبار صحابہ اور حافظ قرآن کی ایک کثیر تعداد شامل تھی۔ جہاں یہ فتح مسلمانوں کے لیے اس لحاظ سے دل خوش کن تھی کہ اس کے ذریعے سے عرب میں ایک بہت بڑے فتنے کا خاتمہ ہو گیا وہاں یہ امر سخت غم و اندوہ کا موجب تھا کہ اس جنگ میں کبار صحابہ اور حافظ قرآن کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی تھی اور اس طرح انہیں ایسے عظیم نقصان سے دو چار ہونا پڑا تھا جس کی تلافی کی کوئی صورت انہیں نظر نہ آ رہی تھی۔ عمرؓ بن خطاب کو تو خصوصیت سے سخت رنج پہنچا تھا کیونکہ ان کے بھائی زید اس معرکے میں شہید ہو گئے تھے۔ ان کے رنج و الم کا یہ عالم تھا کہ جب ان کے بیٹے عبداللہ اس جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دے کر واپس مدینہ آئے تو ان سے کہا: جب تمہارے چچا زید شہید ہو گئے تو تم کیوں چلے آئے۔ تم نے اپنا منہ مجھ سے کیوں نہ چھپا لیا؟ عبداللہ نے صرف یہ جواب: انہوں نے حصول شہادت کی تمنا کی، انہیں مل گئی۔ میں نے بھی اس غرض کے لیے پوری جدوجہد کی لیکن افسوس میں اسے حاصل نہ کر سکا۔ حضرت عمرؓ کا مشورہ: لیکن اپنے بھائی اور دیرینہ رفقاء کی شہادت کا الم ناک حادثہ عمرؓ کو اس کام کے متعلق غور و فکر کرنے سے نہ روک سکا جو بلاشبہ اسلامی تاریخ کے عظیم الشان کارناموں میں سے ہے۔ غزوہ یمامہ میں حافظوں کی ایک کثیر تعداد شہید ہو چکی تھی اور ابھی جنگوں کا سلسلہ جاری تھا جس کسی طرح ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ یہ دیکھ کر عمرؓ کو خیال پیدا ہوا کہ اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور آئندہ جنگوں میں حفاظ کثرت سے شہید ہونے لگے تو قرآن بالکل مٹ جائے گا اس لیے اسے ایک جگہ جمع کر لیا جائے تاکہ اس کے مٹ جانے کا خطرہ جاتا رہے۔ اس معاملے پر انہوں نے کئی دن تک خوب غور و فکر کیا اور اسکے بعد ایک دن مسجد میں ابوبکرؓ کے سامنے اسے پیش کرتے ہوئے کہا: یمامہ کی جنگ میں حفاظ کی بھاری تعداد نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ دوسری جنگوں میں بھی حفاظ کی اکثریت شہید ہو جائے گی اور اس طرح قرآن کریم کا بیشتر حصہ ضائع ہو جائے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں تاکہ وہ مٹنے سے محفوظ رہے۔ ابوبکرؓ نے اب تک اس معاملے کے متعلق کچھ نہ سوچا تھا۔ اس لیے جونہی انہوں نے عمرؓ کی زبان سے یہ باتیں سنیں، فرمایا: میں وہ کام کیونکر کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ اس پر دونوں بزرگوں کے درمیان طویل گفتگو ہوئی جس کی تفصیل مورخین نے بیان نہیں کی مگر آخر ابوبکرؓ عمرؓ کی رائے سے متفق ہو گئے اور انہوں نے زیدؓ بن ثابت کو طلب فرمایا۔ اس کے متعلق صحیح بخاری میں زیدؓ بن ثابت کی ایک روایت درج ہے۔ جس میں وہ فرماتے ہیں: جنگ یمامہ کے بعد ایک دن ابوبکرؓ نے مجھے طلب فرمایا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو عمرؓ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ عمرؓ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جنگ یمامہ میں متعدد حفاظ شہید ہو گئے ہیں۔ اگر جنگوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور کسی وقت خدانخواستہ تمام حفاظ شہید ہو گئے تو قرآن کا اکثر حصہ ضائع ہو جائے گا اس لیے میری رائے میں آپ قرآن جمع کرنے کا حکم دیں کہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رہے۔ زید بن ثابت کہتے ہیں ابوبکرؓ نے فرمایا میں نے یہ سن عمر ؓ سے کہا اس کام میں امت کی بھلائی ہے اس لیے اسے ضرور کرنا چاہیے ۔ انہوں نے اپنی بات پر اتنا اصرار کیا کہ آخر اللہ نے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میں نے بھی عمرؓ کی رائے سے اتفاق کر لیا۔ زید بن ثابت کہتے ہیں کہ اس وقت عمرؓ سر جھکائے خاموش بیٹھے تھے۔ ابوبکرؓ نے مجھ سے کہا تم جو ان اور عقل مند انسان ہو۔ ہم تمہاری صداقت اور راست گفتاری میں کسی قسم کاشک نہیں کر سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وحی لکھنے کا شرف بھی تمہیں حاصل ہوتا رہا ہے اس لیے قرآن کریم کو تلاش کر کے اسے ایک جگہ جمع کر دو۔ واللہ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جانے کا حکم دیا جاتا تو یہ کام میرے قرآن جمع کرنے سے زیادہ سہل ہوتا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ دونوں وہ کام کس طرح کر سکتے ہیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ لیکن عمرؓ کی طرح ابوبکرؓ نے بھی یہی کہا کہ اس میں امت کی بھلائی ہے۔ وہ برابر میری باتوں کا جواب دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے ابوبکرؓ اور عمرؓ کی طرح میرا بھی سینہ کھول دیا چنانچہ میں نے یہ کام کرنے کی حامی بھر لی اور قرآن کریم کو تلاش کرنے اور چمڑے، لکڑی، پتھر کے ٹکڑوں اور آدمیوں کے سینوں سے جمع کرنا شروع کیا۔ سورہ توبہ کی دو آیتیں مجھے خزیمہ انصاری سے ملیں۔ ان کے سوا اور کسی کے پاس وہ آیتیں نہ مل سکیں۔ آئتیں یہ تھیں: لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم۔ فان تولو افقل حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلف وھو رب العر العظیم۔ جب ہم نے قرآن کریم کے اوراق لکھ لیے تو معلوم ہوا کہ ان میں سورۂ احزاب کی ایک آیت نہیں۔ جسے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا کرتا تھا۔ آخر وہ آیت بھی خزیمہ انصاری سے ملی جن کی اکیلی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی شہادت کے برابر قرار دیا تھا۔ وہ آیت یہ تھی: من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ و منھم من ینتظر یہ آیت مل جانے پر میں نے اسے سورہ مذکورہ بالا میں شامل کر لیا۔ جن اوراق میں قرآن کریم جمع کیا گیا تھا وہ ابوبکرؓ کے پاس محفوظ رہے۔ ان کی وفات کے بعد ام المومنین حفصہ کے پاس آ گئے۔ یہ ہے زیدؓ بن ثابت کی وہ حدیث جو امام بخاری نے اپنی صحیح میں درج کی ہے۔ تمام روایات اس کی صحت پر متفق ہیں۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ زید نے جو قرآن جمع کیا تھا اس میں سورتوں کی کوئی خاص ترتیب مقرر نہ تھی اور یہ بالترتیب ابوبکرؓ عمرؓ اور ام المومنین حفصہؓ کے پاس منتقل ہوتا رہا۔ دیگر روایات: ایک روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ قرآن کریم کو سب سے پہلے جمع کرنے کا شرف عمرؓ کو حاصل ہوا۔ 1؎ انہوں نے ایک آیت کے متعلق دریافت فرمایا تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ آیت فلاں صحابی کو یاد تھی لیکن وہ جنگ یمامہ میں شہید ہو گئے۔ یہ سن کر انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فوراً قرآن کریم کو جمع کرنے کا حکم دیا۔ مگر یہ روایت اس سلسلے میں بیان کی ہوئی دیگر تمام روایات کے متناقض ہے۔ عمرؓ نے قرآن کریم کو جمع کرنے کا مشورہ تو بے شک سب سے پہلے دیا لیکن اسے جمع کرنے کا فخر ابوبکرؓ کے سوا اور کسی کے حصے میں نہیں آ سکتا۔ علیؓ کی مندرجہ ذیل روایت بھی ہماری رائے کی تائید کرتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں: اللہ ابوبکرؓ پر رحمت نازل فرمائے۔ قرآن کریم جمع کرنے کے کام میں وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اجر کے مستحق ہیں کیونکہ انہیں سب سے پہلے اسے جمع کیا۔ جن لوگوں کی رائے میں قرآن کریم جمع کرنے کا کام عمرؓ کے ذریعے سے انجام پذیر ہوا تھا ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ کام شروع کرنا چاہا تو پہلے ایک خطبہ دیا جس میں صحابہ کو ہدایت کی کہ جس جس شخص نے قرآن کریم کا کوئی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست حاصل کیا ہو وہ اسے ہمارے پاس لائے۔ صحابہ کی عادت تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتے اسے چمڑوں، تختیوں اور ہڈیوں پر لکھ لیا کرتے تھے۔ 1؎ کتاب المصاحف، ابن ابی داؤد، صفحہ 20 و کتاب الاتفان فی علوم القرآن، سیوطی، صفحہ56 چنانچہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب عمرؓ کے پاس لے آئے۔ وہ کسی شخص سے اس وقت تک قبول نہ کرتے تھے جب تک وہ اپنے ثبوت میں دو گواہ نہ پیش کر دیتا تھا جو آ کر یہ گواہی دیتے تھے کہ واقعی یہ آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمائی تھیں۔ عمرؓ اس کام کو ابھی ختم نہ کرنے پائے تھے کہ ان کی شہادت ہو گئی۔ ان کے بعد عثمانؓ نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ انہوں نے زیدؓ بن ثابت کو بلا کر قرآن کریم جمع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا اور ہدایت کی اگر طرز تحریر میں کہیں اختلاف واقع ہو تو اسے مضر کی زبان میں لکھ لیا کرو۔ کیونکہ قرآن کریم مضر ہی کے ایک شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہوا تھا۔ قرآن جمع ہونے کا زمانہ: قبل اس کے کہ میں تاریخ جمع قرآن پر روشنی ڈالوں ابوبکرؓ کے اس قول کی تشریح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں وہ کام کیونکر کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول، نبوت تفویض ہونے کے وقت سے مدینہ میں وفات کے وقت تک، مسلسل تیئس سال تک ہوتا رہا۔ بعض اوقات چند آیات نازل ہوتی تھیں، بعض اوقات پوری سورت نازل ہو جاتی تھی۔ سب سے پہلے وحی جو آپ پر نازل ہوئی۔ وہ سورہ قلم کی یہ آیات تھیں: اقراء باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق، اقراء و ربک اکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم۔ اس صورت کی بقیہ آیات، جنہیں ہم آج کل قرآن کریم میں مندرجہ بالا آیات کے ساتھ شامل پاتے ہیں۔ نہ صرف بعد میں نازل ہوئیں بلکہ ان کا نزول وحی کے بیشتر حصے کے نزول کے بعد ہوا۔ کیا ابوبکرؓ کے مندرجہ بالا قول کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قرآن کریم پراگندہ حالت میں تھا۔ نہ اس کی آیات میں کوئی ترتیب تھی نہ سورتوں میں۔ سب متفرق حالت میں تھیں اور جو ترتیب آج کل نظر آتی ہے وہ اس زمانے میں مفقود تھی؟ بعض مورخین کا خیال یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت قرآن کریم واقعی منتشر اور پراگندہ حالت میں تھا۔ اپنی تائید میں انہوں نے زیدؓ بن ثابت کی یہ حدیث بھی پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے اور قرآن کسی ایک جگہ جمع نہ تھا۔ مستشرقین کا ایک مخصوص گروہ بھی اسی امر کو قابل ترجیح قرار دیتا ہے مشہور انگریز مورخ سر ولیم میور تو اپنی کتاب کے مقدمے میں زیدؓ بن ثابت کا یہ قول بڑے زور سے اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے: قرآن کریم کے اجزاء نہایت سادہ طور پر ایک دوسرے سے ملا دئیے گئے ہیں، اس میں کسی قسم کا تکلف نہیں برتا گیا اور فنی مہارت اور چابک دستی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اس امر سے جمع کرنے والے شخص کے ایمان و اخلاق اور اس سچی عقیدت کا پتا چلتا ہے جو اسے اس کتاب سے تھی۔ ان آیات مقدسہ سے مرتب کی گہری عقیدت اور احترام ہی کا نتیجہ تھا کہ اس نے نہیں باقاعدہ ترتیب دینے کی کوشش نہ کی بلکہ جو آیات اسے ملتی گئیں، انہیں وہ ایک جگہ جمع کرتا گیا۔ جو مستشرقین اس رائے کے موید ہیں وہ کہتے ہیں کہ زیدؓ بن ثابت اور ان کے معاونین نے قرآن جمع کرتے وقت اس کی نزولی ترتیب ملحوظ خاطر نہیں رکھی اور مکہ میں اترنے والی آیات کو مدینہ میں نازل ہونے والی آیات سے پہلے درج کرنے کا کوئی التزام نہیں کیا بلکہ بلا لحاظ اس بات کے کہ موقع اور محل متقاضی ہے یا نہیں، مکی سورتوں کے درمیان مدنی آیات کو داخل کر دیا۔ مستشرقین کی رائے میں اگر زیدؓ بن ثابت تاریخی ترتیب مد نظر رکھتے تو یہ چیز علمی تحقیق کے سلسلے میں بہت مفید ثابت ہوتی اور رسول عربی کے حالات کی چھان بین کرنے اور آپ کی سیرت کو پرکھنے میں اس سے بے حد مدد ملتی۔ مستشرقین یہ بھی لکھتے ہیں کہ قرآن جمع کرنے والوں نے آیات کو ان کے موضوعات کے اعتبار سے بھی ترتیب نہیں دیا۔ اس کے نتیجے میں ایک ہی سورت میں قصص اور تاریخ کے متعلق بھی باتیں ملتی ہیں اور ایمان و عبادات کے متعلق بھی۔۔۔ تشریعی احکام بھی ملتے ہیں اور انسانی فطرت سے تعلق رکھنے والے قوانین بھی۔ مزید برآں مختلف موضوعات کے متعلق ایک قسم کی روایات کو بجائے ایک جگہ اکٹھا کرنے کے مختلف سورتوں میں پھیلا دیا گیا ہے۔ اس طرح ایک چیز کو تلاش کرنے کے لیے سارے قرآن کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے تو کہیں جا کر گوہر مراد حاصل ہوتا ہے۔ مستشرقین کی رائے میں جامعین قرآن نے موضوعات کا خیال نہ رکھ کر اور بالخصوص ترتیب نزولی سے غفلت برت کر زبردست کوتاہی کا ثبوت دیا ہے اور اس طرح دنیا کو ایک علمی انکشاف سے محروم کر دیا ہے۔ مستشرقین کی ان تمام آراء کی بنیاد ابوبکرؓ کے اس قول پر ہے کہ میں وہ کام کیونکر کر سکتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ لیکن انہوں نے ابوبکرؓ کا یہ قول سمجھنے میں سخت غلطی کھائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ آیات قرآنیہ ابتدائے نزول ہی سے پراگندگی کی حالت میں تھیں حالانکہ خلیفہ اول اور خلیفہ سوم کے زمانوں میں انہیں یکجا کر دیا گیا لیکن یہ خیال قطعاً درست نہیں۔ یہ امر ثابت شدہ ہے کہ تمام آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے حکم سے سورتوں میں مرتب ہو چکی تھیں۔ اس دعوے کے ثبوت میں چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔ مالک کہتے ہیں کہ قرآن مجید اسی طرح تالیف کیا گیا ہے جس طرح صحابہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے ہوئے سنتے تھے۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ستر سے زیادہ سورتیں سن کر یاد کیں اور ایک دفعہ میں نے آپ کے سامنے ان اللہ یحب التوابین و یحب المتطھرین کی آیت تک سورۂ بقرہ تلاوت کی۔ زین بن ثابت روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا۔ مسلم اور بخاری میں انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جملہ اشخاص نے قرآن کریم جمع (حفظ) کیا تھا اور چاروں انصار میں سے تھے یعنی ابی بن کعب، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید انس کا مطلب یہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان چاروں صحابہ کے سوا اور کسی صحابی نے قرآن کریم حفظ نہ کیا تھا۔ اس روایت کی تشریح کرتے ہوئے قرطبی لکھتے ہیں: یہ امر متعدد شہادتوں سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عثمانؓ، علیؓ، تمیم الداری، عبادہ بن صامت اور عبداللہ بن عمرو بن عاص نے بھی قرآن کریم حفظ کیا تھا۔ ان روایات کی موجودگی میں انس بن مالک کی روایت قرآن کریم انصار کے چار آدمیوں کے سوا اور کسی نے حفظ نہیں کیا کا مطلب یہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان چار آدمیوں کی جماعت کے سوا اور کسی بھی شخص نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر قرآن حفظ نہ کیا۔ صحابہ مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآں سن کر حفظ کر لیا کرتے تھے اور دوسروں کو سکھاتے تھے۔ پھر بھی تمام صحابہ کے لیے ناممکن تھا کہ انہوں نے قرآن کریم کی تمام آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی ہوں۔ اس طرح اکثر صحابہ نے قرآن کریم کا کچھ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کچھ حصہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے حاصل کیا تھا۔ متعدد روایات سے پتا چلتا ہے کہ چاروں اصحاب کو براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر قرآن کریم حفظ کرنے کا شرف اس لیے حاصل ہوا کہ یہ بہت مخلص اور سابقون الاولون مسلمانوں میں سے تھے اور آپ ان سے بہت لطف و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ یہ روایت بھی کثرت سے کتب احادیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جبریل کے سامنے قرآن کریم کا ایک دور کیا کرتے تھے لیکن وفات والے سال آپ نے ایک کی بجائے دو دور کیے۔ سیرت نبوی میں بھی جو واقعات درج ہیں وہ ان متذکرہ بالا روایات کی پوری تائید کرتے ہیں۔ منجملہ دیگر واقعات کے عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دس سال بعد وقوع پذیر ہوا۔ جب دین اسلام نے مکہ میں فروغ حاصل کرنا شروع کیا اور اہل مکہ میں باہم تفریق پیدا ہونے لگی تو عمرؓ کو جو اس وقت حالت کفر میں تھے، سخت طیش آیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ وہ قتل کے ارادے سے آپ کی جانب جا ہی رہے تھے کہ راستے میں نعیم بن عبداللہ سے مڈ بھیڑ ہوئی۔ انہوں نے عمر کو ننگی تلوار ہاتھ میں لیے ہوئے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا کہ اس ہیئت میں کہاں جا رہے ہو۔ جب انہیں عمرؓ کے مقصد کا علم ہوا تو انہوں نے کہا۔ محمد کو تو بعد میں قتل کرنا، پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید مسلمان ہو چکے ہیں۔ یہ سن کر عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جانے کی بجائے اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ باہر سے انہوں نے سنا کہ خباب ان دونوں کو قرآن سنا رہے ہیں۔ انہوں نے گھر میں داخل ہو کر بہن اور بہنوئی دونوں کو زد و کوب کرنا شروع کیا لیکن آخر انہیں اپنے فعل پر ندامت ہوئی اور انہوں نے بہن سے کہا کہ جو کتاب تم پڑھ رہی تھیں مجھے بھی دکھاؤ۔ چنانچہ بہن چند اوراق اٹھا لائیں۔ ان پر سورہ طہٰ لکھی ہوئی تھی۔ جب عمرؓ نے یہ صحیفہ پڑھا تو قرآنی اعجاز اور اس کے جلال کا ان پر اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ وہ اوراق، جن پر سورۂ طہٰ لکھی ہوئی تھی، منجملہ ان کثیر صحیفوں کے تھے جو مسلمانوں کے درمیان متد اول تھے اور جن پر سورۂ طہٰ کے علاوہ قرآن کریم کی اور بھی کئی سورتیں لکھی ہوئی تھیں۔ عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس زندہ رہے۔ آپ نے صحابہ کو ہدایت کر رکھی تھی کہ مجھ سے سوا قرآن کے اور کچھ نہ لکھا جائے اور اگر کسی نے قرآن کے سوا کوئی حدیث لکھ لی۔ تو وہ اسے مٹا دے۔ یہ امر لازم تھا کہ صحابہ نماز میں تلاوت کرنے اور احکام دین سیکھنے کے لیے قرآن کریم کا جس قدر حصہ لکھ سکتے تھے لکھتے تھے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی قرآن کریم لکھتے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کی طرف قرآن سیکھنے اور دینی تعلیم دینے کے لیے روانہ فرماتے تھے۔ یہ لوگ علیحدہ علیحدہ آیات نہ لکھتے تھے بلکہ پوری کی پوری سورتیں لکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورتیں انہیں لکھواتے تھے۔ قرآن کریم سے بھی ہماری تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ یاایھا المزمل قم للیل الا قلیلاً نصفہ او انقص منہ قلیلاً اوزد علیہ ورتل القرآن آن ترتیلا (اے اوڑھنے والے! رات کو قیام کر، تھوڑے حصے کے لیے یعنی اس کا آدھا یا اس سے کچھ کم کر لے یا اس پر بڑھا لے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر باترتیب پڑھ)1؎ سورۂ مزمل کی آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ابتداء میں نازل ہوئیں تھیں۔ اللہ کا اپنے نبی سے یہ مطالبہ کہ وہ رات کو اٹھ کر قرآن باترتیب پڑھے ظاہر کرتا ہے کہ آیات قرآنیہ کسی بھی وقت بے ترتیب اور پراگندگی کی حالت میں نہ رہیں بلکہ جونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی وحی نازل ہوتی تھی آپ اسے اس کی جگہ رکھنے کا حکم دے دیتے تھے۔ ایک حدیث میں بھی آتا ہے کہ جب یہ آیت واتقوا یوماترجعون فیہ الی اللہ ثم تو فی کل نفس ماکسبت وھم لایظلمون نازل ہوئی تو جبریل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ! اسے سورۂ بقر کی دو سو اسی ویں آیت کے شروع میں رکھیں۔ قرآن کریم بار بار اپنی تعریف کتاب کے الفاظ سے کرتا ہے۔ سورۂ بقرہ، فاتحہ کے بعد، قرآن کی سب سے پہلے سورت ہے۔ اس کا آغاز ہی اللہ اس آیت سے کرتا ہے الم ذالک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین (یہ قرآن ایک کتاب ہے جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔ یہ متقیوں کے لیے ہدایت کا موجب ہے) اسی طرح اور بھی کئی جگہ قرآن کے لیے کتاب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کتاب اس چیز کو کہتے ہیں جو لکھی ہوئی ہو اور اس سے پہلے ہم متعدد احادیث کی رو سے ثابت کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قرآن لکھا جاتا تھا۔ 1؎ ترتیل کے معنی صرف ٹھہر ٹھہر کر اتارنے اور بیان کرنے ہی کے نہیں بلکہ اس کے معنی میں تالیف اور ترتیب بھی شامل ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے رتل القرآن احسن تالیفہ وابانہ وتمھل فیہ یعنی ترتیب کو نہایت عمدہ کیا اور اسے کھول کر اور ٹھہر ٹھہر کر بیان کیا۔ (مترجم) زید بن ثابت کا یہ قول ہم پہلے نقل کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور قرآن کریم کسی ایک جگہ جمع نہ تھا لیکن ایک اور موقع پر انہوں نے فریاما۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتے تھے اور قرآن کو کپڑے کے ٹکڑوں پر تالیف کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور اشارات کے مطابق متفرق آیات اپنے اپنے موقع پر لکھ لیا کرتے تھے چنانچہ تالیف کا لفظ اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ علاوہ بریں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اور نماز کے علاوہ بھی پوری پوری سورتیں مثلاً بقرہ، آل عمران، نسائ، اعراف، جن، نجم، رحمن اور قمر وغیرہ تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ان تمام باتوں سے پتا چلتا ہے کہ آیات کی ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں آپ کی ہدایات کے مطابق مکمل ہو گئی تھی اور قاریوں، حافظوں اور دوسرے مسلمانوں نے اسے اپنے اپنے سینوں میں مکمل طور پر محفوظ کر لیا تھا۔ صحابہ نہ صرف قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا تھا بلکہ چار اصحاب نے تو اسے باقاعدہ لکھ بھی لیا تھا۔ اس امر پر مورخین کا اتفاق ہے کہ جہاں تک آیات کی ترتیب کا سوال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل لکھے ہوئے مصحفوں اور آپ کی وفات کے بعد مرتب کیے ہوئے مصحفوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ آیات کی ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں خود فرما دی تھی، البتہ سورتوں کی ترتیب کے بارے میں اختلاف ہے۔ کہا جاتاہے کہ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ جب یہ امر ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں جمع ہو گیا تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوبکرؓ کے اس قول کا کیا مطلب لیا جائے گا جو انہوں نے جمع قرآن کی تجویز پیش کیے جانے پر عمرؓ سے کہا تھا یعنی میں وہ کام کیونکر کر سکتا ہوں جو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔ اور وہ کیا دلیلیں تھیں جنہوں نے آخر ابوبکرؓ اور زید بن ثابت کے دلوں کو کھول دیا اور وہ دونوں عمرؓ کی تجویز کے مطابق قرآن کریم جمع کرنے پر متفق ہو گئے۔ جب ابوبکرؓ کی بیعت ہو چکی تو علیؓ اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ لوگوں نے یہ بات ابوبکرؓ سے جا کر کہی۔ انہوں نے علی ؓ کو کہلا بھیجا کیا آپ میری بیعت کرنا پسند نہیں کرتے کہ اپنے گھر جا کر بیٹھ گئے ہیں؟ علیؓ نے جواب میں کہلا بھیجا واللہ! یہ بات نہیں بلکہ مجھے ڈر ہے کہ مبادا لوگ کتاب اللہ میں زیادتی کر دیں اس لیے میں نے قسم کھا لی ہے کہ اس وقت تک گھر سے باہر نہ نکلوں گا جب تک قرآن جمع نہ کر لوں۔ 1؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قرآن کریم جمع کرنے میں علیؓ اکیلے نہ تھے بلکہ کئی اور صحابہ بھی اس کام میں ان کے شریک تھے۔ ابوبکرؓ نے جمع قرآن کے سلسلے میں علیؓ اور دوسرے صحابہ کے کام کو سراہا اور اس عظیم کام سے کسی ایک شخص کو روکنے کا خیال بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوا۔ وہ مطمئن تھے کہ اللہ ہی نے قرآن کریم نازل کیا ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ کسی مسلمان کے دل میں اس بات کا خیال بھی نہیں آ سکتا کہ وہ اپنی طرف سے قرآن کریم میں کمی بیشی کرے اور اگر کوئی ایسا کرے گا بھی جس کا خدشہ علیؓ بن ابی طالب نے ظاہر کیا ہے تو اللہ خود ہی اپنی کتاب کی حفاظت فرمائے گا اور اسے اپنے ارادے میں قطعاً ناکام و نامراد رکھے گا۔ اسی لیے جب عمرؓ نے ان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ آپ اپنے حکم سے قرآں کریم جمع کرنے کا کام شروع کرائیں تو ابوبکرؓ کو تردد ہوا کیونکہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو اور کسی ایسے کام سے پہلو تہی اختیار نہ کرتے تھے جو آپ نے انجام دیا ہو۔ 1؎ علیؓ کا یہ قول مجھے ڈر ہے کہ مبادا لوگ کتاب اللہ میں زیادتی کر دیں۔ صرف سیوطی نے کتاب الاتفان میں درج کیا ہے۔ دیگر مولفین نے علیؓ کا صرف یہ قول لکھا ہے میں نے قسم کھا لی ہے کہ ایک اس وقت تک گھر سے باہر نہ نکلوں گا جب قرآن جمع نہ کر لوں۔ ابن ابی داؤد نے کتاب المصاحف میں یہ روایت درج کی ہے کہ ابوبکرؓ نے بیعت کے چند روز بعد علیؓ کو کہلا بھیجا اے ابو الحسن! کیا آپ میری امارت سے ناراض ہیں؟ انہوں نے جواباً کہلا بھیجا واللہ! نہیں، میں نے قسم کھا لی ہے کہ سوا جمعہ کے گھر سے باہر نہ نکلوں گا۔ پھر خود ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کر کے واپس چلے آئے۔ ابن ابی داؤد روایت کے آخر میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ دوسرے مورخین نے علیؓ کی جانب یہ قول منسوب کیا ہے میں اس وقت تک باہر نہ نکلوں گا جب تک قرآن جمع نہ کر لوں۔ یہاں جمع کرنے سے مراد حفظ کرنا ہے کیونکہ اس وقت جو شخص قرآن کریم حفظ کر لیتا تھا اس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس نے قرآن جمع کر لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم لکھنے کا کام عامۃ المسلمین کے سپرد کر رکھا تھا، بعض لوگوں کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم لکھوا دیتے تھے۔ دوسرے لوگ ان کاتبین سے نقل یا سن کر سینوں میں محفوظ کر لیتے تھے۔ ابوبکرؓ چاہتے تھے کہ ان کے زمانے میں بھی وہی طریقہ جاری رہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جاری تھا۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ کر قرآن کریم لکھ لیں یا حفظ کر لیں۔ دربار خلافت سے بالخصوص اس کے لیے کوئی اہتمام نہ کیا جائے۔ یہ تھی ابوبکرؓ اور زید بن ثابت کی دلیل۔ لیکن جب عمرؓ نے اس بارے میں اصرار کرنا شروع کیا اور اس کے حق میں دلائل بھی دئیے تو ابوبکرؓ کو اپنی رائے تبدیل کرنی پڑی اور عمرؓ کی رائے پر عمل کرتے ہوئے قرآن کریم جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ افسوس ہے کہ تاریخ سے اس گفتگو کی تفصیلات کا علم نہ ہو سکا جو اس باب میں ابوبکرؓ اور عمرؓ کے درمیان ہوئی، اگر تفصیلات بھی کتب تاریخ میں محفوظ ہوتیں تو اس سے معاملے کے کئی اور بھی پہلو نظروں کے سامنے آ جاتے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمع قرآن کریم کے سلسلے میں وہ کون سا کام تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا اور ابوبکرؓ اور زیدؓ بن ثابت کو اسے کرتے ہوئے تردد ہوا کیونکہ جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ اسے فوراً لکھوا کر ہدایت کر دیتے تھے کہ یہ آیت فلاں سورت میں فلاں جگہ لکھ لی جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو درست ہے کہ آپ اتری ہوئی آیات کے بارے میں کاتبان وحی کو ان کا محل اور موقع بتا دیا کرتے تھے لیکن یہ تمام آیات متفرق جگہ لکھی ہوئی تھیں۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول تواتر سے ہو رہا تھا اس لیے آپ اپنی زندگی میں اسے ایک جگہ جمع نہ کرا سکے۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد جب وحی کا نزول بند ہو گیا اور کتاب اللہ کامل ہو گئی تو اس بات کی ضرورت پیش آئی کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں انجام نہ دے سکے اسے ضائع ہونے اور تحریف و تبدل کے خدشے کے پیش نظر آپ کے بعد فی الفور مکمل کر لیا جائے۔ یہ تھیں وہ وجوہ جن کے پیش نظر عمرؓ نے ابوبکرؓ سے جمع قرآن پر اصرار کیا۔ چونکہ عمرؓ کے دلائل بہت ٹھوس اور وزنی تھے اور اس میں سراسر اسلام اور مسلمانوں کے لیے بھلائی مضمر تھی اس لیے ابوبکرؓ نے عمرؓ کی بات مان لی اور زید بن ثابت کو قرآن کریم جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ چنانچہ ابو عبداللہ زنجانی اپنی کتاب تاریخ القرآن میں لکھتے ہیں۔ شواہد سے پتا چلتا ہے عمرؓ کا موقف صرف یہ تھا کہ قرآن کریم کو، جو اب تک ہڈیوں، لکڑیوں اور کھالوں پر لکھا ہوا بکھرا پڑا تھا، باقاعدہ اوراق پر لکھ کر ایک جگہ پر جمع کر لیا جائے لیکن صحابہ میں چونکہ حد درجہ احتیاط تھی اور وہ ایسا کوئی کام نہ کرنا چاہتے تھے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو اس لیے وہ ڈرتے تھے کہ کہیں یہ کام بدعت میں شمار نہ ہو۔ حضرت عثمانؓ کے عہد میں جمع قرآن: یہ بیان کرنے سے پہلے کہ جمع قرآن کے سلسلے میں کیا کام ہوا، یہ ذکر کر دینا ضروری ہے کہ عثمانؓ کے عہد میں جو واقعات پیش آئے انہوں نے ثابت کر دیا کہ عمرؓ نے جمع قرآن کے سلسلے میں جو رائے دی تھی وہ انتہائی صائب تھی اور انہوں نے اپنی دور رس نگاہوں سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ اگر قرآن کریم ایک جگہ جمع نہ کیا گیا تو آئندہ مسلمانوں کو کس قدر عظیم خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا عمرؓ اور عثمانؓ کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ بے حد وسیع ہو گیا تھا۔ مفتوحہ علاقوں میں نو مسلموں کو قرآن کریم پڑھانے اور سکھانے کا کام صحابہ کرام کے سپرد تھا۔ لیکن اسلامی سلطنت کی حدود چونکہ وسیع ہو چکی تھیں اس لیے لوگوں کی قرأتوں میں اختلاف پیدا ہونا شروع ہو گیا پھر یہ اختلاف آہستہ آہستہ وسعت اختیار کرنے لگا اور لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ہماری قرأت تمہاری قرأت سے بہتر ہے۔ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ لوگوں نے قرأت کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی تکفیر شروع کر دی اور اس طرح ایک زبردست فتنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ حذیفہ بن یمان نے جو اس زمانے میں آرمینیا اور آذربائیجان میںمصروف پیکار تھے، تکفیر و تفسیق کا بڑھتا ہوا طوفان دیکھ کر سخت خطرہ محسوس کیا۔ وہ فوراً مدینہ پہنچے اور عثمانؓ سے عرض کیا۔ امیر المومنین! امت کی خبر لیجئے وہ ہلاک ہونے کو ہے۔ عثمانؓ نے پوچھا کیا ہوا؟ حذیفہ نے سارا ماجرا عرض کر کے بتایا ہماری فوج میں عراق، شام اور حجاز کے لوگ شامل ہیں، ان کے درمیان قرأتوں میں سخت اختلاف واقع ہو گیا ہے اور نوبت ایک دوسرے کی تکفیر تک پہنچ گئی۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی کتاب اللہ میں اسی طرح اختلاف نہ کرنے لگیں جس طرح یہود و نصاریٰ نے اپنی کتابوں میں کیاتھا۔ حذیفہ کی باتیں سن کر عثمان ؓ نے بھی خطرے کی اہمیت محسوس کی اور لوگوں کو جمع کر کے یہ سارا معاملہ ان کے سامنے رکھا۔ لوگوں نے کہا آپ ہی بتائیے اس خطرے سے نبٹنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جائیں۔ انہوںنے فرمایا میری رائے تو یہ ہے کہ لوگوں کو ایک قرأت پر اکٹھا کر دیا جائے کیونکہ اگر آج مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا تو آئندہ پیدا ہونے والا اختلاف موجودہ رونما ہونے والے اختلاف سے بہت زیادہ سخت ہو گا۔ تمام صاحب الرائے حضرات نے عثمانؓ کی تجویز کی تائید کی۔ اس پر انہوں نے ام المومنین حفصہؓ کو کہلا بھیجا کہ مصحف ابوبکرؓ، کچھ روز کے لیے ہمیں دے دیجئے ہم اس سے نقلیں کراکے مختلف علاقوں میں بھجوا دیں گے اور آپ کا مصحف آپ کو واپس کر دیں گے۔ چنانچہ ام المومنین نے وہ مصحف عثمانؓ کو بھجوا دیا اور انہوں نے اس کی نقلیں کرا کے اطراف مملکت میں پھیلا دیں۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے باقی نسخوں اور تحریرات کو تلف کرنے کا حکم دے دیا۔ عثمانؓ کے عہد کا یہ اختلاف عمرؓ کی دور بینی اور بالغ نظری کا زبردست ثبوت ہے۔ عثمانؓ نے مصحف ابوبکرؓ کی نقلیں اطراف مملکت میں پھیلا کر اور باقی تمام مضمون کو تلف کرنے کا حکم دے کر مسلمانوں کے درمیان قرأت کا اختلاف مٹا دیا۔ اگر ابوبکرؓ قرآن جمع کرنے کا حکم نہ دیتے تو یہ اختلاف وسیع تر ہو جاتا اور مسلمانوں کو ایسے فتنے کا سامنا کرنا پڑتا جو سیاسی فتنوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہوتا۔ اسی امر کو دیکھتے ہوئے علیؓ بن ابی طالب نے فرمایا تھا اور بالکل سچ فرمایا تھا: قرآن کریم جمع کرنے کے کام میں ابوبکرؓ تمام لوگوں سے زیادہ اجر کے مستحق ہیں کیونکہ آپ وہ شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرآن جمع کیا۔ ابن مسعود کی ناراضگی: عمرؓ سے گفتگو کرنے کے بعد جب ابوبکرؓ کو انشراح صدر ہو گیا تو انہوں نے زید بن ثابت کو قرآن کریم جمع کرنے کا مہتمم بالشان کا سپرد کیا۔ بض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن مسعود کو ابوبکرؓ کا یہ فعل ناگوار گزرا اور انہوں نے کہا: مسلمانو! مجھے تو قرآن کریم لکھنے سے ہٹا دیا گیا ہے اور ایسے شخص کے سپرد یہ کام کر دیا گیا ہے جو میرے اسلام لانے کے وقت ایک کافر کے صلب میں تھا۔ ان کی مراد زید بن ثابت سے تھی جو عبداللہ بن مسعود کے اسلام لانے کے وقت پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ ابن مسعود نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب عثمان نے اپنے عہد میں زید بن ثابت کو قرآن کریم لکھنے کا کام سپرد کیا تھا اور چند صحابہ کو بھی اس کام میں ان کے ساتھ شامل کر دیا تھا۔ ہو سکتا ہے عبداللہ بن مسعود نے دونوں مرتبہ ناراضگی کا اظہار کیا ہو چنانچہ قرطبی لکھتے ہیں۔ ابوبکرؓ انباری کہتے ہیں، ابوبکرؓ اور عثمانؓ کی جانب سے زید کو جمع قرآن کا کام سپرد کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان دونوں حضرات کو ابن مسعود سے کوئی پرخاش تھی۔ عبداللہ یقینا زید سے زیادہ فاضل سابقون الاولون میں شامل اور دیگر خدمات دینیہ میں ان سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے لیکن ان تمام خوبیوں اور فضیلتوں کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ جہاں تک حفظ قرآن مجید کا تعلق ہے ابن مسعود زید بن ثابت کے ہم پلہ نہ تھے۔ اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابن مسعودؓ کی ناراضگی ابوبکرؓ اور عثمانؓ دونوں کے عہد میں ظاہر ہوئی۔ ابن مسعود کی ناراضگی یہاں تک بڑھ چکی تھی کہ وہ صرف یہ کہنے پر اکتفا نہ کرتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ستر سے زیادہ سورتیں سن کر یاد کیں لیکن زید بن ثابت اس وقت بچوں کے ساتھ کھیلتے کودتے پھرتے تھے۔ بلکہ عثمان کے عہد میں انہوں نے اہل عراق کو ابھارنا شروع کیا تھا کہ وہ جمع قرآن کریم کے کام میں زید بن ثابت کی اعانت نہ کریں وہ کہتے تھے میں نے اپنا مصحف چھپا لیا ہے اور جو بھی شخص اپنا مصحف چھپا سکتا ہے وہ ضرور چھپا لے۔ ایک دن انہوں نے خطبہ دیا اور کہا: اے لوگو! اپنا اپنا مصحف چھپا لو تم مجھ سے یہ امید کس طرح کر سکتے ہو کہ میں زید بن ثابت کی قرأت اختیار کروں گا حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ستر سے زائد سورتیں سنی اور یاد کی ہیں لیکن زید بن ثابت اس وقت بچے تھے اور اپنے ہمجولیوں کے ساتھ مدینے کی گلیوں میں کھیلتے کودتے پھرتے تھے۔ واللہ! مجھ سے زیادہ کوئی شخص نہیں جانتاکہ فلاں آیت کہاں اور کس موقع پر نازل ہوئی۔ مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا جاننے والا اور کوئی نہیں۔ لیکن میں تم پر اپنی بڑائی نہیں جتاتا۔ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کو جاننے والا موجود ہے تو میں سفر کی سخت صعوبتیں اٹھاؤن گا او راس کے پاس ضرور پہنچوں گا۔ پھر بھی بڑے بڑے صحابہ نے ابن مسعود کی ان باتوں کو پسندیدگی کی نگاہوں سے نہ دیکھا۔ کیونکہ ان سے فتنہ پھیلنے کا اندیشہ تھا جس سے اسلام نے بڑی سختی سے روکا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ عبداللہ بن مسعود بدری تھے اور زید بن ثابت بدری نہ تھے۔ ابن مسعود کو اسلام لانے میں یقینا زید اور ان کے والد سے سبقت حاصل تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ ابن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر سے زیادہ سورتیں سیکھی تھیں، لیکن بہ ایں ہمہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ زید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے اور انہوں نے آپ کی وفات تک سارا قرآن آپ سے حاصل کر لیا تھا۔ یہ خصوصیت ایسی تھی جو عبداللہ بن مسعود کو حاصل نہ تھی۔ قرطبی لکھتے ہیں: یہ بات بالعموم مشہور ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نہ سیکھا تھا بلکہ بعض حصے ایسے رہ گئے تھے جو انہوں نے آپ کی وفات کے بعد سیکھے۔ بعض ائمہ تو یہاں تک کہتے تھے کہ عبداللہ بن مسعود پورا قرآن سیکھنے سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔ یہ امر بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ابن مسعود کا مصحف قرآن کریم کی آخری دو سورتوں یعنی معوذ تین سے خالی تھا۔ ابوبکرؓ نے زید بن ثابت کو جمع قرآن کریم کی ذمہ داری اس لیے سپرد کی تھی کہ وہ انہیں اس کام کا پوری طرح اہل سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب انہوں نے عمرؓ کے اصرار سے یہ کام شروع کرنے کا ارادہ کیا تو زید بن ثابت کو بلا کر کہا تھا: تم عقل مند نوجوان ہو۔ ہم تمہارے متعلق یہ خیال نہیں کر سکتے کہ تم کتاب اللہ میں تحریف و تبدل کر دو گے۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وحی لکھتے رہے ہو اس لیے اب ہم تمہیں قرآن کریم جمع کرنے کا کام سپرد کرتے ہیں۔ قرطبی نے عبداللہ بن مسعود پر زید بن ثابت کی فضیلت کے بارے میں ابوبکرؓ انباری کا جو قول اپنی کتاب میں درج کیا تھا اس کا کچھ حصہ ہم پہلے درج کر چکے ہیں بقیہ حصہ یہاں درج کیا جاتا ہے: ابوبکر انباری کہتے ہیں کہ زید عبداللہ بن مسعود سے بڑھ کر قرآن کے حافظ تھے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں انہیں سارا قرآن سکھا دیا تھا لیکن عبداللہ بن مسعود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ سے ستر کے قریب سورتیں سیکھ کر حفظ کی تھیں، باقی سورتیں انہوں نے آپ کی وفات کے بعد سیکھیں۔ اس لیے جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم ختم کر کے اسے حفظ بھی کر لیا ہو اسی شخص کو حق پہنچتا ہے کہ وہ قرآن کریم جمع کرے اور اس کام کے لیے اسی کو دوسروں پر ترجیح دینی چاہیے۔ ابوبکرؓ نے زید کو دیگر اصحاب رسول اللہ پر غالباً اس لیے بھی ترجیح دی کہ وہ نوجوان تھے اور زیادہ محنت سے کام کر سکتے تھے۔ نوجوانی کی وجہ سے ان میں اپنی رائے پر اڑ جانے اور اپنے علم و فضل کے جا و بیجا اظہار کا مادہ بھی نہ تھا۔ وہ صحابہ کرام کی باتوں کو غور سے سنتے تھے اور قرآن جمع کرنے میں انتہائی تحقیق و تدقیق اور تفتیش سے کام لیتے تھے حالانکہ انہیں سارا قرآن کریم حفظ تھا۔ مزید برآں متعدد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سال جب آپ نے جبریل ؑ کے سامنے قرآن کریم کا دو بار دور کیا تھا تو زید بن ثابت دوسرے دور کے وقت موجود تھے جو آپ کا آخری دور تھا۔ زید بن ثابت کو بھی اس عظیم الشان ذمہ داری کا پوری طرح احساس تھا جو ابوبکرؓ کی جانب سے ان پر ڈالی گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب ابوبکرؓ نے ان سے قرآن مجید جمع کرنے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا: واللہ! اگر مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھنے کا حکم دیا جاتا تو بھی یہ کام میرے لیے قرآن کریم جمع کرنے سے زیادہ سہل ہوتا۔ وجہ یہ تھی کہ ابوبکرؓ، عمرؓ، علیؓ اور دیگر بڑے بڑے صحابہ کو قرآن کریم حفظ تھا۔ چار انصاری صحابہ نے (جن کا ذکر پہلے آ چکا ہے) براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم سیکھا تھا اور اسے باقاعدہ ترتیب دے کر لکھ رکھا تھا۔ عبداللہ بن مسعود نے بھی ایک مصحف ترتیب دے رکھا تھا۔ بعض لوگوں کے مصحف مکمل تھے اور بعض۔۔۔۔ کے نامکمل۔ اس صورت میں کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ زید بن ثابت کی نگرانی اور ان کا شدید محاسبہ کرنے کے لیے موجود تھے، ان کا یہ عظیم الشان بوجھ سر پر اٹھا لینا یقینا پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دینے سے بھی زیادہ مشکل کامت ھا۔ ان جلیل القدر صحابہ کے علاوہ سب سے بڑا محاسبہ کرنے والی ذات اس خدائے بزرگ و برتر کی تھی جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل فرمایا تھا اور جس کی نظر سے خفیف سے خفیف غلطی اور کوتاہی بھی مخفی نہ رہ سکتی تھی۔ اللہ کے محاسبے ہی کا ڈر تھا جس کے باعث زید بن ثابت نے انتہائی جان کاہی سے کام لیا۔ ہڈیوں، چمڑوں، درختوں کی چھالوں، پتھروں وغیرہ پر لکھی ہوئی ایک ایک آیت جمع کرنے، ان کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنے اور انہیں ترتیب وار ایک جگہ لکھنے میں انہوں نے حزم و احتیاط کا کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ اس طرح وہ مصحف تیار ہو گیا جس نے آئندہ قرآن کریم کا کوئی حصہ ضائع ہونے کا خطرہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔ جب عثمانؓ کو قرأتوں کا اختلاف مٹا کر تمام مسلمانوں کو ایک قرأت پر جمع کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے اسی مصحف کو سامنے رکھ کر اس کی نقلیں کرانے اور انہیں اطراف مملکت میں بھیج دینے کے احکام صادر کیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ زید بن ثابت نے اپنے مصحف میں قرآنی آیات ان کی تاریخ نزول کے لحاظ سے مرتب نہ کی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانے میں آیات کی ترتیب خود فرما چکے تھے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ آپ مدینہ میں اتری ہوئی آیات مکی سورتوں میں شامل کر دیتے تھے۔ زید بن ثابت کے لیے اپنی طرف سے کوئی ترتیب قائم کرنا غیر ممکن تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر فرمائی ہوئی ترتیب قائم رکھی اور اسی ترتیب کے مطابق قرآن کریم چمڑے کی کھالوں پر لکھ کر جمع کر دیا۔ زید کا طریق کار: سوال پیدا ہوتا ہے کہ زید بن ثابت نے جمع قرآن کریم کے سلسلے میں کیا طریق کار اختیار کیا۔ اس کا جواب بلاتردد یہی دیا جا سکتا ہے کہ وہی علمی اور تحقیقی طریق کار جو آج کل کے محققین اختیار کرتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ زید نے جس قدر محنت اور جاں فشانی سے کام کیا موجودہ محققین میں سے کسی کو اس کا عشر عشیر بھی کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ابوبکرؓ نے اعلان کر دیا تھا کہ جس جس خص نے قرآن کریم حفظ کیا ہو یا اس کا کوئی حصہ لکھا ہو وہ زید کو اس کی اطلاع دے اور لکھا ہوا حصہ ان کے سامنے پیش کرے۔ چنانچہ زید کے پاس ہڈیوں، پتوں، کھجور کے درخت کی چھالوں، چمڑوں اور پتھروں پر لکھی ہوئی آیات اور سورتیں کثیر تعداد میں جمع ہونے لگیں۔ جب آیات اورسورتوں کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام مکمل ہو گیا تو زید بن ثابت نے ان کی جانچ پڑتال کی اور ترتیب کا کام شروع کیا۔ کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کرتے تھے جب تک اچھی طرح تحقیق نہ کر لیتے تھے کہ واقعی یہ آیت اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی۔ ذیل کی مثال سے زید کی غایت درجہ احتیاط کا بہ خوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ ایک مرتبہ عمرؓ نے آیت السابقون الاولون من المھاجرین الانصار الذین اتبعوھم باحسان پڑھا یعنی انصار اور الذین کے درمیان سے واؤ حذف کر دی۔ زین بن ثابت نے سن کر کہا کہ اصل آیت والذین اتبعوھم باحسان ہے لیکن عمرؓ مطمئن نہ ہوئے۔ آخر انہوں نے ابی بن کعب کو بلایا اور ان سے آیت کے متعلق دریافت کیا۔ ابی نے زید کی قرأت کی تصدیق کی اور عمرؓ کے دل سے ہر قسم کا شک و شبہ دور کرنے کے لیے یہ بھی کہا واللہ! یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس وقت پڑھائی تھی جب آپ بازار میں گندم کی خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ اس پر عمرؓ نے اپنی غلطی تسلیم کر لی اور کہا کہ واقعی زید ہی کی قرأت صحیح ہے۔ صرف عمرؓ پر موقوف نہیں بلکہ جب بھی کسی صحابی سے زید بن ثابت کو قرأت میں اختلاف ہوتا وہ تحقیق کی خاطر یہی طریقہ استعمال کرتے تھے اور صحیح قرأت کا تعین کرنے کے لیے اگر اشخاص میں شہادتیں طلب کرتے تھے۔ اگر پتوں اور ہڈیوں وغیرہ پر لکھی ہوئی آیات میں اختلاف ہوتا تو بھی جب تک ان کی صحت کے بارے میں اچھی طرح اطمینان نہ کر لیتے تھے آگے نہ بڑھتے تھے اور۔۔۔۔ اس بارے میں اپنے حافظے پر بھی اعتماد نہ کرتے تھے حالانکہ انہوں نے قرآن کریم حفظ کر رکھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل جبریل کے سامنے قرآن کریم کا جو آخری دور کیا تھا اس وقت وہ بھی موجود تھے۔ السابقون الاولون والی آیت میں محض ایک واؤ پر اختلاف کرنے کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنیہ کی تحقیق و تدقیق میں زید کا پایہ کس قدر بلند تھا اور جو کام ابوبکرؓ نے ان کے سپرد کیا تھا وہ انہوں نے کس قدر محنت و جانفشانی سے انجام دیا۔ قرآن کریم جمع کرنے میں زید بن ثابت نے جس شدید محنت سے کام لیا اس نے آئندہ کے لیے کلام اللہ کو ہر قسم کی تحریفات سے پاک کر دیا، چنانچہ تمام منصف مزاج مستشرقین کو اس امر کا اعتراف ہے کہ موجودہ قرآن بعینہ وہی قرآن ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا اور جو زید بن ثابت نے انتہائی محنت و مشقت سے جمع کیا تھا۔ چنانچہ سر ولیم میور لکھتے ہیں: ہمیں علم ہے دنیا بھر میں ایک بھی کتاب ایسی نہیں جو قرآن کی طرح کامل بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو۔ سورتوں کی ترتیب: زید بن ثابت نے آیات کی صحت اور ان کی ترتیب میں کمال جان فشانی سے کام لیا تو سورتوں کی ترتیب و تنسیق پر کوئی خاص توجہ نہ کی۔ سورتوں کی موجودہ صورت عثمانؓ کے عہد کی قائم کردہ ہے۔ 1؎ اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ سورتوں کی ترتیب کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض سورتوں کی ترتیب تو متعین فرما دی تھی لیکن باقی سورتوں کو غیر مترتب حالت میں چھوڑ دیا تھا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ نے تمام سورتوں کا نظام اور ان کی ترتیب اپنی زندگی ہی میں متعین فرما دی تھی۔ ابن وہب اپنی جامع میں لکھتے ہیں: ربیعہ سے کسی شخص نے پوچھا کہ سورۂ بقرہ اور آل عمران کو دوسری سورتوں پر مقدم کیوں رکھا گیا حالانکہ ان سے پہلے 80 سے زیادہ سورتیں نازل ہو چکی تھیں اور یہ دونوں سورتیں بھی مکہ میں نہیں بلکہ مدینہ میں نازل ہوئیں۔۔۔۔ ربیعہ نے جواب دیا، بے شک ان دونوں سورتوں کو مقدم رکھا گیا ہے۔ قرآن کریم اسی ترتیب سے ان لوگوں کے سامنے پڑھا جاتا تھا جنہوں نے اسے جمع کیا، لیکن وہ خاموش رہے اور اس بارے میں کچھ نہیں کہا اور اسی ترتیب پر ان کا اجماع ہوا۔ اس لیے ہمیں اس بارے میں سوال کرنے کی ضرورت نہیں۔ 1؎ یہ درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورتوں کی ترتیب مقرر نہ فرمائی تھی اور موجودہ ترتیب عثمانؓ کے عہد کی قائم کردہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ آیات کی طرح سورتوں کی ترتیب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی مقرر فرما دی تھی۔ دیگر امور کے علاوہ ابو داؤد اور مسند احمد بن حنبل کی مندرجہ ذیل حدیث بھی اس کا بین ثبوت ہے: اوس بن ابی اوس حذیفہ ثقفی کہتے ہیں کہ ثقیف کے اس وفد میں جو اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ آیا تھا، میں موجود تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کہا کہ مجھے قرآن شریف کی منزل پوری کرنی ہے اور میرا ارادہ ہے کہ جب تک وہ ختم نہ کر لوں باہر نہ نکلوں۔ اس پر ہم نے صحابہ سے پوچھا کہ آپ لوگوں نے قرآن کریم کو کس طرح حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سورتوں، پانچ سورتوں، سات سورتوں، نو سورتوں، گیارہ سورتوں، تیرہ سورتوں اورق سے شروع ہو کر آخر قرآن تک جسے مفصل کہتے ہیں۔ بعض اہل علم کہتے ہیں: قرآن کریم کی سورتوں کی جو ترتیب آج کل کے مصحفوں میں پائی جاتی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ ہے۔ باقی ابیؓ بن کعب، علیؓ بن ابی طالب اور عبداللہؓ بن مسعود کے مصحفوں میں جو اختلاف پایا جاتا تھا وہ اس لیے تھا کہ آخری بار جبریل کے سامنے قرآن کریم پڑھنے سے پیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورتوں کی ترتیب مقرر نہ فرمائی تھی۔ لیکن اس واقعے کے بعد آپ نے صریحاً صحابہ کو اس کے متعلق ہدایات دے دی تھیں۔ 1؎ بعض صحابہ اس رائے کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سورتوں کی ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ نہیں۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ علیؓ بن ابی طالب اور عبداللہ بن عباس نے اپنے مصحفوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جمع کیا تھا۔ اگر آپ نے اپنی زندگی میں سورتوں کی ترتیب مقرر فرمائی ہوتی تو یقینا علیؓ اور ابن عباس اسے ملحوظ خاطر رکھتے اور اپنے مصحفوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ترتیب کے مطابق ترتیب دیتے۔ زیدؓ بن ثابت نے ابوبکرؓ کے عہد میں قرآن جمع کرتے ہوئے سورتوں کو بالترتیب نہیں لکھاتھا۔ یہ ترتیب کلیۃً صحابہ کے اجتہاد سے عمل میں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق خود کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ 2؎ میری رائے بھی یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ طور خود سورتوں کی ترتیب مقرر نہیں فرمائی بلکہ یہ کام امت کے لیے چھوڑ دیا۔چنانچہ ابن عباس سے اسی سلسلے میں ایک روایت مروی ہے جس میں وہ کہتے ہیں: 1؎ الجامع الاحکام القرآن، قرطبی، جلد اول صفحہ52 2؎ تاریخ القرآن از ابو عبداللہ زنجانی، صفحہ48تا59 میں نے عثمان سے پوچھا کہ آپ نے انفال اور برأۃ کی سورتوں کو جو بالترتیب80 اور دو سو آیات پر مشتمل ہیں، اس طرح کیوں ملایا ہے کہ ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی اور اس طرح ان دونوں سورتوں کو سات لمبی سورتوں (سبع طوال) میں شامل کر دیا ہے۔ عثمان نے جواب دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض دفعہ ایک ہی وقت میں کئی سورتوں کی آیات نازل ہوتی تھیں۔ جب آپ پر کوئی وحی نازل ہوتی تو آپ کاتبین وحی میںسے کسی کو بلا لیتے اور اسے حکم دیتے کہ یہ آیت فلاں سورت کے فلاں موقع پر لکھ دو۔ سورت انفال مدنی زندگی کے اوائل میں آپ پر نازل ہوئی تھی اور سورت برأت کا نزول آخری زمانے میں ہوا۔ چونکہ ان دونوں سورتوں کا مضمون آپس میں ملتا جلتا تھا اس لیے میں نے یہ خیال کیا کہ سورت برأت سورت انفال ہی کا حصہ ہے۔ چونکہ آپ نے ہمیں صریحاً نہ فرمایا تھا کہ یہ سورت کس سورت کا حصہ ہے اس لیے میں نے دونوں سورتیں اکٹھی کر دیں اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھا۔ اس طرح انہیں سات طویل سورتوں میں شامل کر دیا۔ 1؎ 1؎ اس حدیث سے قطعاً یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عثمانؓ کی رائے کو ترتیب قرآنی میں کوئی دخل تھا بلکہ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی طرح سورتوں کی ترتیب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی کر رکھی تھی۔ اس کے علاوہ عثمانؓ کی غایت درجہ احتیاط کا بھی پتا چلتا ہے۔ حالانکہ تمام سورتوں کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنے کا عام قاعدہ تھا مگر اس سورت کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سینہ پا کر اپنی رائے کو اتنا دخل بھی نہ دیا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیمہی اس پر لکھ دیتے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ابن عباس نے عثمانؓ سے اس کی وجہ سے دریافت کی تھی کہ انفال اور برأت کو ملا کر کیوں رکھا گیا ہے انہوں نے جواب میں فرمایا کہ آیتوں اور سورتوں کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود انہیں خاص خاص مقامات پر رکھواتے تھے جس کا مطلب صاف ہے کہ آپ ہی کی ہدایت سے یہ دونوں بھی اس طرح رکھی گئیں۔ اس کے بعد عثمانؓ اپنا خیال ظاہر کرتے ہیں کہ میرا خیال یہ تھا انفال اور برأت ایک دوسری ہی کا حصۃ ہیں مگر آپ نے چونکہ ایسا نہ فرمایا اس لیے میں انہیں ایک دوسری کا حصہ نہیں کہتا۔ یہ روایت ایک مضبوط اور زبردست شہادت ہے اس بات پر کہ آیتوں اور سورتوں کی تمام ترتیب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی اور جو کچھ آپ نے کیا یا فرمایا اس سے صحابہ نے سر مو انحراف نہ کیا۔ (مترجم) اصل میں سورتوں کی ترتیب کا تعلق ہمارے ا سباب سے نہ تھا۔ اس کا ذکر ضمناً قرطبی کے اس قول کی وضاحت کے سلسلے میں آ گیا کہ زید بن ثابت نے قرآن کریم کو سخت محنت و مشقت کے بعد جمع کیا تھا لیکن اس کی سورتیں آپ کی مرتب کی ہوئی نہیں۔ جمع قرآن کی تکمیل: ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا زید نے سارا قرآن ہی ابوبکرؓ کے عہد میں جمع کر لیا تھا یا اس کام کی تکمیل عمرؓ کے زمانے میں ہوئی۔ اس کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے۔ بخاری کی ایک روایت پہلے گزر چکی ہے جس میں ذکر ہے کہ وہ اوراق جن میں زید نے قرآن جمع کیا تھا، ابوبکرؓ کے پاس رہے ان کی وفات کے بعد عمرؓ نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا۔ عمرؓ کی وفات کے بعد وہ ان کی بیٹی ام المومنین حفصہ کی تحویل میں آ گئے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جمع قرآن کا کام ابوبکرؓ کے عہد میں مکمل ہو چکا تھا لیکن بعض روایتیں اس قسم کی بھی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ اس کی تکمیل عمرؓ کے عہد میں ہوئی۔ یہ معلوم کرنا بے حد دشوار ہے کہ کون سی روایت صحیح ہے۔ البتہ دونوں قسم کی روایتوں میں اس طرح کی تطبیق دی جا سکتی ہے کہ زید بن ثابت نے قرآن کریم کا اکثر حصہ ابوبکرؓ کی زندگی ہی میں جمع کر لیا تھا۔ جن اوراق پر وہ قرآن کریم لکھتے تھے ابوبکرؓ کو دیتے جاتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد وہ اوراق عمرؓ کے پاس منگوا لیے۔ زید نے جب ان کے عہد میں قرآن کریم کی تکمیل کی تو بقیہ اوراق بھی انہیں کے سپرد کر دئیے۔ اس طرح قرآن کریم کے مکمل اوراق عمرؓ کے پاس جمع ہو گئے اور یہی اوراق سامنے رکھ کر عثمانؓ نے دیگر مصاحف تیار کرائے۔ آج ہم جس قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔ وہ بعینہ وہی ہے جو ابوبکرؓ نے زید بن ثابت کے ذریعے سے جمع کرایا تھا اور یہی قرآن انہیں الفاظ او راسی ترتیب سے قیامت تک پڑھا جائے گا۔ حضرت ابوبکرؓ کا سب سے بڑا کارنامہ: اللہ ابوبکرؓ پر رحمت نازل فرمائے۔ قرآن کریم جمع کرنے کی وجہ سے وہ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اجر کے مستحق ہیں۔ یہ تھے وہ الفاظ جو علیؓ نے ابوبکرؓ کے متعلق بیان فرمائے اور انہیں الفاظ پر ہر مسلمان کا یقین و ایمان ہے۔ اس کتاب کی تصنیف کے وقت دل میں کئی مرتبہ یہ سوال پیدا ہوا کہ ابوبکرؓ کا کون سا کارنامہ سب سے زیادہ عظیم الشان ہے۔ مرتدین کی سرکوبی اور سر زمین عرب سے ارتداد کا مکمل خاتمہ؟عراق اور شام کی فتوحات جو اس عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ثابت ہوئیں جس کی بدولت انسان کو تہذیب و تمدن سے آگاہی نصیب ہوئی؟ یا کلام اللہ کو جمع کرنے کا کام جو ایک امی نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جس نے اپنی روشنی سے دنیا بھر کو منور کر دیا۔ جب بھی یہ سوال ذہن میں آیا یہ جواب دینے میں قطعاً تردد محسوس نہ ہوا کہ بلاشبہ جمع قرآن کریم ابوبکرؓ کا سب سے بڑا اور مہتم بالشان کارنامہ ہے او راسی سے اسلام اور مسلمانوں کو سب سے زیادہ برکت نصیب ہوئی۔ جزیرہ عرب کی حالت میں آہستہ آہستہ اضمحلال پیدا ہوتا گیا اور جو قوت و شوکت اسے خلافت راشدہ اور عہد بنی امیہ میں نصیب ہوئی تھی بنی عباس کے زمانے میں وہ مفقود ہو گئی۔ اسلامی سلطنت پر بھی آہستہ آہستہ زوال آتا گیا اور مسلمان پستی کی حالت میں گرتے چلے گئے حتیٰ کہ اسلامی سلطنت کا نام بھی لوگوں کے دلوں سے محو ہونا شروع ہو گیا۔ لوگ عرب کو بھی بھولنے لگے اور اگر اللہ نے مسلمانوں کے لیے حج کرنا فرض قرار نہ دیا ہوتا تو یقینا ایک دن ایسا بھی آتا کہ عرب کا شمار دنیا کے گمنام گوشوں میں ہونے لگتا ۔ لیکن کتاب اللہ ابتدائے نزول سے آج تک زندہ موجود ہے اور جب تک دنیا میں ایک بھی انسان کا وجود باقی ہے کتاب اللہ زندہ اور برقرار رہے گی۔ اس بیان کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ ہمیں جنگ ہائے مرتدین اور اسلامی سلطنت کے قیام کی اہمیت سے انکار ہے۔ بلاشبہ یہ دونوں کام انتہائی اہمیت رکھتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک ابوبکرؓ کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ابوبکرؓ مرتدین کی سرکوبی کے سوا اور کوئی کام نہ کرتے تو بھی یہ ایک کارنامہ ان کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔ اسی طرح اگر وہ اسلامی سلطنت کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے سوا اور کوئی کام ہاتھ میں نہ لیتے تو بھی یہ کارنامہ ان کا نام تاریخ کے صفحات پر تا ابد زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا۔ لیکن جب ان عظیم الشان کارناموں کے ساتھ جمع قرآن کا مہتمم بالشان کارنامہ بھی ملا لیا جائے جو اپنی شان اور افادیت میں ان دونوں کارناموں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے تو ہمیں اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مادر گیتی ابوبکرؓ جیسا فرزند پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ ابوبکرؓ پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے جن کی مخلصانہ مساعی اور پیہم جدوجہد کے نتیجے میں آج بھی ہمیں قرآن کی نعمت اعلیٰ اسی طرح میسر ہے جس طرح چودہ سو برس پیشتر صحابہ کرام کو میسر تھی۔ ٭٭٭ سترہواں باب خلافت ابوبکرؓ خلافت کا تصور: بیعت خلافت کے بعد ایک شخص نے ابوبکرؓ کا یا خلیفتہ اللہ کہہ کر پکارا۔ انہوں نے فوراً اسے ٹوکا اور فرمایا: میں خلیفتہ اللہ نہیں بلکہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ ابوبکرؓکی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ مورخین نے ان کے کمال انکسار اور فروتنی کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ فقرہ گہرے غور و خوض کا مستحق ہے کیونکہ اس سے نہ صرف ابوبکرؓ کا انکسار ظاہر ہوتا ہے بلکہ حکومت کا وہ تصور بھی عیاں ہو جاتا ہے جو صدر اول کے مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں تھا۔ رسول اللہ کے عہد سے پہلے لاتعداد صدیاں گزر گئیں اور آپ کے بعد بھی سینکڑوں سال گزر چکے ہیں۔ اس طویل ا ور صد ہا صدیوں پر محیط زمانے میں ہزاروں بادشاہ اور حکام گزرے ہیں جن کے متعلق خود ان کا اور ان کی محکوم رعایا کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ اس سر زمین پر اللہ کے نائب کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اس لیے جو تقدیس انہیں حاصل ہے وہ روئے زمین پر اور کسی شخص کو حاصل نہیں۔ فراعنہ مصر کا حال کسے معلوم نہیں۔ انہیں فراعنہ میں سے ایک فرعون تو یہاں تک بڑھ گیا کہ اس نے انا ربکم الا علیٰ (میں تمہارا بزرگ و برتر پروردگار ہوں) کا نعرہ لگا کر الوہیت تک کا دعویٰ کر دیا۔ اس زمانے میں فی الحقیقت مصریوں کے سواد اعظم کا یہی خیال تھا کہ ان کے بادشاہوں کو ربوبیت کی صفات حاصل ہیں۔ رہی سہی کسر ان کے مذہب پیشواؤں نے پوری کر دی اور انہوں نے اپنے متبعین کو بادشاہوں کی تقدیس کا یقین دلانا شروع کر دیا۔ اشور، ایران، ہندوستان اور دوسرے ملکوں کا بھی یہی حال تھا اور وہاں کے اکثر بادشاہ اپنے آپ کو زمین پر خدا کا نائب اور ظل اللہ خیال کرتے تھے اور یہی حال ان کی رعایا کا تھا۔ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ کے اندر بھی پادریوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا جس نے بادشاہوں کے اشارے پر انہیں تقدیس و احترام کا بلند ترین مرتبہ دینے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ پادریوں کے دعوے کے مطابق بادشاہوں کو یہ مرتبہ خدا کی طرف سے تفویض ہوا تھا۔ اس بناء پر ان کے اقتدار میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ وہ زمین پر خدا کے نائب سمجھے جانے لگے۔ ان کی زبانوں سے نکلا ہوا ہر حرف بمنزلہ وحی خیال کیا جانے لگا۔ ان کا حکم خدا کی مانند سمجھا جانے لگا۔ جس سے انحراف ممکن نہ تھا۔ پندرھویں صدی اور بعض اقوام میں سترہویں صدی تک یہی حال رہا۔ا گرچہ اس وقت یورپ نے علم و ہنر اور تہذیب و ثقافت میں خاصی ترقی کر لی تھی لیکن اندھی عقیدت کا جو پردہ لوگوں کی آنکھوں پر پڑا ہوا تھا وہ اس وقت تک نہ ہٹ سکا جب تک آزادی ضمیر اور مساوات کے علم برداروں نے ان ناروا پابندیوں اور انسانی ضمیر کو کچل دینے والے عقائد کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کر دیا اور ہزاروں لاکھوں جانیں خانہ جنگیوں میں ضائع نہ ہو گئیں۔ بادشاہوں کے لیے تقدیس و احترام کا یہ جذبہ اقوام عالم میں صدیوں تک کار فرما رہا اور یورپ نے تو قریب کے زمانے میں اس سے نجات حاصل کی ہے لیکن ابوبکرؓ کی بے نفسی اور انکسار کا عالم دیکھئے کہ جب ایک شخص انہیں خلیفتہ اللہ کہہ کر پکارتا ہے تو وہ فوراً یہ کہہ کر اسے ٹوک دیتے ہیں کہ میں خلیفتہ اللہ نہیں بلکہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بھی کسی شان و شوکت اور بڑائی کا اظہار مطلوب نہ تھا بلکہ ان کی مراد صرف یہ تھی کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی قیادت اور امور سلطنت کی انجام دہی کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں۔ لیکن ابوبکرؓ کو ان امور کی جانشینی کا خیال بھی نہ آ سکتا تھا جو صرف رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تھے۔ اسی امر کو واضح کرتے ہوئے ابوبکرؓ نے اپنے پہلے خطبہ خلافت میں فرمایا تھا: مجھے یہ ذمہ داری (امر خلافت) تفویض تو کر دی گئی ہے لیکن میں اپنے آپ کو اس بار گراں اٹھانے کے قابل نہیں پاتا۔ واللہ! میری خواہش تھی کہ تم میں سے کوئی شخص اسے اٹھائے۔ دیکھو! اگر تم میں سے کسی شخص کا یہ خیال ہے کہ میں بھی وہیں کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیے تو یہ خیال خام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اللہ کے بندے تھے لیکن اللہ نے انہیں نبوت کی نعمت سے سرفراز فرمایا تھا اور ہر قسم کے گناہوں سے منزہ قرار دیا تھا۔ میں بھی اللہ کا بندہ ہوں مگر تم میں کسی بھی شخص سے بہتر نہیں۔ تم میرے کاموں کی نگہداشت کرو، اگر دیکھو کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے راستے پر جا رہا ہوں تو میری اطاعت کرو لیکن اگر مجھے صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا پاؤ تو ٹوک کرسیدھی راہ پر لگا دو۔ ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کی قیادت اور سلطنت کی نگہداشت کا کام مسلمانوں کے انتخاب اور ان کی رضا مندی سے اپنے ذمے لیا تھا۔ اللہ نے انہیں اس طرح خلیفہ بنا کر نہ بھیجا تھا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر مبعوث فرمایا تھا۔ اگر انہیں دوسرے مسلمانوں پر فضیلت تھی اور یقینا تھی تو صرف تقوے کے سبب، خلافت کی وجہ سے نہیں۔ اسی لیے وہ لوگوں کو صرف وہی حکم دینے کے مجاز تھے جو اللہ کی نازل کردہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیمات کے مطابق ہوں۔ احکام الٰہی اور ارشادات مصطفیٰ کے مخالفانہ وہ کوئی حکم دے سکتے تھے اور نہ مسلمان اسے قبول کر سکتے تھے۔ چنانچہ خطبہ اولیٰ میں انہوں نے یہ فقرہ کہہ کر اس معاملے کو بالکل صاف کر دیا تھا: میری اطاعت اس وقت تک کرو جب تک میں اللہ کے احکام کی اطاعت کروں لیکن اگر میں اس کے احکام کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت فرض نہیں۔ حضرت عمرؓ کا لقب: ابوبکرؓ کے بعد عمرؓ خلیفہ ہوئے لیکن انہوں نے اپنا لقب خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ رکھا بلکہ اس بارے میں دوسرے لوگوں سے استفسار کیا۔ بعض لوگوں نے امیر المومنین کا لقب تجویز کیا جو انہون نے پسند فرما کر اختیار کر لیا اور آئندہ تمام خلفاء کو امیر المومنین ہی کہاجانے لگا۔ خلیفہ کا لقب ترک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ عمرؓ خلیفہ، خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکرار سے بچنا چاہتے تھے۔ بعد میں تو یہ تکرار عجیب و غریب صورت اختیار کر لیتی کیونکہ اگر عمرؓ کا لقب، خلیفہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا تو عثمان کا لقب،خلیفہ، خلیفہ، خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونا چاہیے تھا اور علیؓ کو خلیفہ، خلیفہ، خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے یاد کرنا پڑتا۔ عمرؓ کے خلفیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لقب چھوڑ کر امیر المومنین کا لقب اختیار کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابوبکرؓ نے میں خلیفتہ اللہ نہیں بلکہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ کے فقرے میں خلیفہ کا لفظ اس کے لغوی معنی میں لیا تھا اور مسلمانوں پر واضح کر دیا تھا کہ ان کی حیثیت امور سلطنت کی انجام دہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کی ہے۔ اگر خلیفہ کے لقب سے اس کے لغوی معنی کے سوا کوئی اور معنی مراد لیے جاتے تو عمرؓ کو یہ لفظ چھوڑ کر امیر المومنین کا لفظ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ امیر المومنین کا لقب اختیارکرنے کا ایک سبب غالباً یہ بھی تھا کہ عمرؓ کے مشاہدے میں یہ بات آ چکی تھی کہ اسلامی نظام حکومت نے جزیرہ عرب اور دوسرے مفتوحہ علاقے میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا اور یہ انقلاب اس سرعت سے برپا ہوا تھا کہ لوگوں کی نظریں حیرت زدہ ہو کر رہ گئی تھیں۔ لیکن کتاب اللہ اور سنت نبوی میں نظام حکومت کے لیے تفصیلی احکام موجود نہ تھے۔ البتہ قرآن کریم میں شوریٰ کو نظام حکومت کے لیے بہ طور بنیاد ضرور بیان کیا گیا تھا۔ چنانچہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا تھا وشاورھم فی الامر (اے نبی! دنیوی معاملات میں لوگوں سے مشورہ کر لیا کرو) اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا: وامرھم شوری بینھم (مسلمانوں کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں) سیاسی اور ملکی امور کی انجام دہی کے لیے چونکہ اللہ کی طرف سے تفصیلی احکام موجود نہ تھے اور یہ سارا کام عمرؓ کو مشورے اور اپنی صواب دید سے کرنا تھا اس لیے ان کی حیثیت ایک سپہ سالار اور امیر لشکر کی تھی جسے جنگ کے سلسلے میں بادشاہ کی طرف سے اصولی ہدایات تو مل جاتی ہیں لیکن لشکر کی صف بندی اور جنگ کے جملہ امور کی نگہداشت خود ہی کرنی پڑتی ہے۔ عمرؓ کو امور سلطنت کا سارا انتظام وقتی صورت حال کے مطابق شرعی حدود میں رہتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے خود ہی کرنا تھا۔ وہ پابند نہ تھے کہ اگر کسی معاملے کے متعلق ابوبکر نے کوئی خاص راہ عمل اختیار کی تھی تو وہ بھی لازماً وہی اختیار کریں۔ اس لیے انہوں نے خلیفہ، خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے امیر المومنین کا لقب اختیار کرنا پسند فرمایا۔ اس انقلاب پر نظر ڈالنے سے جو ابوبکرؓ نے انتہائی قلیل عرصے میں پیدا کر دیا تھا، یہ حقیقت واشگاف ہو جاتی ہے کہ سختی اور نرمی کے مواقع علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور اس وقت تک کوئی کام صحیح طور پر نہیں ہو سکتا جب تک سختی کے موقع پر سختی اور نرمی کے موقع پر نرمی سے کام نہ لیا جائے۔ ابوبکرؓ کی عظیم الشان کامیابی اور ان کی بے پناہ قوت کا اصل سبب یہی تھا کہ وہ ان دونوں خصلتوں کو برتنے کے صحیح مواقع جانتے تھے۔ عرب کا سیاسی نظام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک عرب بے شمار مذاہب کا گہوارہ تھا اس کے شمالی اور جنوبی حصے ایک دوسرے سے بالکل کٹے ہوئے تھے اور ایک حصے کے لوگ دوسرے حصے کے باشندوں سے بالکل مختلف تھے۔ یمن ایرانیوں کی عمل داری میں شامل تھا اور وہاں مسیحیت اور بت پرستی پہلو بہ پہلو قائم تھیں۔ وہاں کے لوگ حمیری زبان بولتے تھے جو تلفظ کے اعتبار سے قریش کی زبان سے بالکل مختلف تھی۔ مزید برآں یمن صدیوں سے تہذیب و تمدن کا گہواہر بھی تھا۔ اس کے مقابلے میں حجاز کے لوگوں پر بدویت غالب تھی۔ اس میں صرف تین شہر تھیـ: مکہ، یثرب اور طائف۔ ان تینوں شہروں کا بھی آپس میں اس کے سوا اور کوئی علاقہ نہ تھا کہ یہ حجاز میں واقع تھے اور ان کے باشندوں کی باہم رشتہ داریاں تھیں۔ ویسے ان شہروں کا نظام قبائل کی طرح ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ تھا۔ جہاں تک مذاہب کا تعلق تھا، مکہ میں بت پرستی زوروں پر تھی لیکن عیسائیت کو بھی وہاں نفوذ حاصل تھا۔ مدینہ میں یہودی قبائل گو بہت طاقتور تھے لیکن اکثریت بت پرستوں کی تھی۔ جب جزیرہ نمائے عرب میں توحید کی صدا گونجی اور خدا نے چاہا کہ دین اسلام عرب کے اطراف و جوانب میں پھیل جائے تو اس نے اس کے لیے سامان بھی ویسے ہی مہیا کر دئیے۔ یمن کو ایرانیوں کی غلامی سے چھٹکارا مل گیا اور وہ غیر ملکی اثرات سے بالکل آزاد ہو گیا۔ فتح مکہ کے بعد حجاز میں تیزی سے اسلام پھیلنے لگا۔ حجاز کے بعد دوسرے عرب علاقوں کی باری آئی اور تھوڑے ہی عرصے میں سارا جزیرہ نمائے عرب حلقہ بگوش اسلام ہو کر ایک ہی مسلک میں منسلک ہو گیا۔ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی تعلیمات پر ایمان لانے میں کل عرب متحد تھا مگر تمام قبائل اپنی اپنی جگہ آزاد خود مختار تھے۔ البتہ ارکان اسلام میں ایک اہم رکن کی بجا آوری کے سلسلے میں انہیں زکوٰۃ ضرور مدینہ بھیجنی پڑتی تھی۔ یہ دینی وحدت عرب کے سیاسی نظام میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ مدینہ کے نواحی قبائل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی کے معاہدے کر رکھے تھے۔ جب آپ مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو ان معاہدات کے مطابق قبائل سلیم، مزنیہ اور غطفان بھی اسلامی لشکر میں شامل ہو کر مکہ کی جانب روانہ ہو گئے۔ فتح مکہ کے بعد جب وہاں کے لوگوں نے مزید اسلام قبول کر لیا تو انہوں نے بھی اسلامی غزوات میں شرکت کی خواہش ظاہر کی چنانچہ حنین اور طائف کے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر میں اہل مکہ بھی شامل تھے۔ بعد ازاں جب اسلام کثرت سے قبائل عرب میں پھیل گیا تو آپ نے نو مسلموں کو قرآن سکھانے اور دینی تعلیم دینے کے لیے اپنے عمال کو اطراف و جوانب میں بھیجنا شروع کیا۔ ان عمال کے سپرد جہاں لوگوں کو قرآن سکھانے اور دینی تعلیم دینے کا کام تھا وہاں یہ ذمہ داری بھی تھی کہ صاحب نصاب لوگوں سے زکوٰۃ اکٹھی کر کے مدینہ بھیجا کریں یا اسی علاقے کے فقراء اور غرباء میں تقسیم کر دیا کریں۔ طبعی امر تھا کہ اس دینی انقلاب کے نتیجے میں، جو ایک قلیل مدت میں عرب کے اطراف و جوانب میں برا ہو چکا تھا، ایک سیاسی انقلاب بھی برپا ہوتا اور جہاں دینی اور مذہبی لحاظ سے عرب ایک وحدت میں تبدیل ہو چکا تھا، سیاسی اور انتظامی لحاظ سے بھی ایک وحدت میں تبدیل ہو جاتا۔ لیکن اہل عرب اس سیاسی انقلاب سے بالکل نا آشنا تھے۔ کسی شخص کے دل میں یہ خیال نہ آ سکتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں آپ کے جانشین کی اطاعت بھی قبول کرنی ہو گی۔ وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ تعلیمات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انہیں ملی ہیں وہ تو یقینا ان کے دلوں میں راسخ رہیں گی اور وہ بدستور احکام اسلام پر عمل کرتے رہیں گے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ بالکل خود مختار ہوں گے اور ہر قبیلہ پہلے کی طرح آزاد اور بیرونی حکومت کے اثرات سے بالکل پاک ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں جو فتنہ برپا ہوا اور جس کے نتیجے میں جنگ ہائے مرتدین وقوع میں آئیں اس کا سبب خود مختاری کا یہی جذبہ تھا جو بیشتر عرب قبائل کے دلوں میں راہ پا رہا تھا۔ ابوبکرؓ چاہتے تھے کہ عرب سیاسی لحاظ سے اسی حالت پر برقرار رہے جس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا لیکن قبائل عرب چاہتے تھے کہ انہیں ان کی گم گشتہ خود مختاری اور آزادی واپس مل جانی چاہیے۔ ابوبکرؓ اس ایمان کی بدولت، جو انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا۔ مصر تھے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والا ہر شخص وہ تمام ذمہ داریاں ادا کرے جو بحیثیت ایک مسلمان کے اس پر عائد ہوتی ہیں اور تمام وہ اموال جو وہ رسول اللہ کے عہد میں مدینہ بھیجا کرتے تھے، بدستور بھیجیں۔ لیکن آزادی کے دل دادہ قبائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی اور شخص کو اپنا حاکم مطلق ماننے، حکومت میں مہاجرین و انصار کا حق فائق سمجھنے اور اموال زکوٰۃ مدینہ بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے۔ وہ صاف کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور تھی ۔ وہ اللہ کے نبی تھے، ان پر وحی اترتی تھی اور بندوں پر ان کی اطاعت فرض تھی لیکن ان کے بعد کسی قبیلے یا کسی فرد کا یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے قبائل کو آزادی سے محروم کر کے ان پر حکومت کرے۔ مہاجرین و انصار او رخلافت: ابوبکرؓ کی بیعت کے باعث عرب میں جو حالات رونما ہو رہے تھے۔ ان کا ہمیں ایک اور جہت سے بھی جائزہ لینا ہے یعنی مہاجرین اور انصار مسئلہ خلافت کو کس نظر سے دیکھتے تھے اور ان کے نظریا ت کی وجہ سے اس وقت کے سیاسی نظام میں کیا انقلاب رونما ہوا؟ یہ حقیقت مسلم ہے کہ اپنے تقدم اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں پیش پیش رہنے کے باعث مہاجرین اور انصار صرف اپنے آپ کو سلطنت اور حکومت کا مستحق سمجھتے تھے حتیٰ کہ اپنے ان رشتہ داروں کو بھی، جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکے تھے، یہ حق دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ مرتدین کے فتنے کے بعد، جسے فرو کرنے میں اہل مکہ نے نمایاں حصہ لیا تھا، جب شام کی جانب پیش قدمی کرنے کا سوال درپیش ہوا اور ابوبکرؓ نے اہل مکہ سے بھی اس نئی مہم کے متعلق مشورہ کرناچاہا تو عمرؓ نے مخالفت کی۔ اس موقع پر عمرؓ اور سہیلؓ بن عمرو کے درمیان تو اچھا خاصا مباحثہ بھی ہوا۔ سہیل نے عمرؓ کی روش پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: ہم تمہارے مسلمان بھائی ہیں۔ ہمارا اور تمہارا حسب نسب بھی ایک ہی ہے۔ اس کے باوجود تمہیں رشتہ داری کا مطلق پاس نہیں اور تم ہمارے حقوق غصب کرنے پر مصر ہو۔ یہ درست ہے کہ اسلام قبول کرنے میں تمہیں ہم پر سبقت حاصل ہے لیکن محض اس وجہ سے حکومت اور سلطنت کے معاملات میں تمہیں دوسرے لوگوں پر فوقیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ لیکن عمرؓ اپنی بات پر مصر رہے اور واشگاف الفاظ میں اس امر کا اظہار کیا کہ اولین مسلمانوں اور اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے والوں ہی کو مجلس شوریٰ میں نمائندگی دی جا سکتی ہے اور وہی نظام حکومت چلانے اور سلطنت کی دیکھ بھال کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب اپنے رشتہ داروں اور ہم وطنوں کے بارے میں جو فتح مکہ کے بعد اسلام لائے تھے، عمرؓ اور ان کے حامیوں کے یہ خیالات تھے تو دیگر عرب قبائل کے بارے میں ان کی طرف سے جتنے بھی تند و تیز احساسات کا اظہار ہوتا کم تھا۔ عمرؓ کے مقابلے میں اہل مکہ کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی اس سے نبٹنے اور نظام سلطنت چلانے کے لیے اگر مہاجرین اور انصار نے باہمی مشورے سے ایک راہ اختیار کر لی اور ابوبکرؓ کو خلیفہ مقرر کر لیا تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن انہیں ہمیشہ کے لیے یہ حق نہیں دیا جا سکتا۔ اہل مکہ اور اہل طائف قبول اسلام اور مرتدین سے جنگ کرنے میں ان کے برابر کے شریک ہیں اس لیے امور سلطنت اور مشورے میں انہیں مناسب نمائندگی ضرور ملنی چاہیے اور محض اس وجہ سے کہ وہ نافہمی کی بنا پر ابتداء میں اسلام نہ لا سکے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کرنا چاہیے۔ ابوبکرؓ کا بھی خیال تھا کہ جب دیگر اسلامی قبائل نے اہل مدینہ سے مل کر جنگ ہائے مرتدین اور فتوحات عراق میں حصہ لیا تو انہیں امور سلطنت میں شریک ہونے سے کیونکر روکا جا سکتا ہے؟ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی مشورہ اور امور سلطنت میں اسی طرح شریک کیا جائے جس طرح اہل مدینہ اور سابقون الاولون مسلمانوں کو کی اجاتا ہے۔ اسی لیے جب شام پر چڑھائی کا مرحلہ درپیش ہوا تو انہوں نے اس بارے میں اہل مکہ سے بھی صلاح مشورہ کیا اور ان سے امداد کے طلب گار ہوئے۔ مال غنیمت اور وظائف کی تقسیم کے وقت بھی انہوں نے یہ اصول پیش نظر رکھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ مدینہ کے قریب ایک مفتوحہ زمین میں سونے کی کان برآمد ہوئی اور اس کا سونا مدینہ آنا شروع ہوا۔ انہوں نے یہ سونا تمام مسلمانوں میں بہ حصہ رسدی تقسیم کر دیا اور یہ خیال نہ کیا کہ کون سا شخص سابقون الاولون میں شامل ہے اور کس شخص نے بعد میں اسلام قبول کیا ہے۔ جب بعض لوگوں نے کہا کہ اس سونے میں سے سابقون الاولون کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے، تو انہوں نے فرمایا: وہ لوگ محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر اسلام لائے تھے۔ اس لیے انہیں اجر دینا بھی اللہ ہی کا کام ہے اور یہ اجر انہیں آخرت میں ملے گا۔ اس دنیا میں تو ان کا تنا ہی حق ہے جتنا دوسرے مسلمانوں کا۔ جب عمرؓ کا دور آیا تو انہوں نے اپنی پہلی رائے پر اصرارکرتے ہوئے ابوبکرؓ سے مختلف پالیسی اختیار کی اور ہر شخص کے درجے اور مرتبے کے مطابق اس کا وظیفہ مقرر کیا گو آخر عمر میں ان کی بھی یہی رائے ہو گئی کہ ابوبکرؓ ہی کی سیاست اور پالیسی درست تھی۔ انہوں نے وظائف کی تقسیم کا طریق کار بدلنے کا ارادہ بھی کر لیا تھا لیکن اتنی مہلت نہ ملی اور وہ اس طریق کارمیں تبدیلی کیے بغیر ہی وفات پا گئے۔ ابوبکرؓ کے حکیمانہ طرز عمل اور دانش مندانہ پالیسی نے عرب کو ایک سیاسی وحدت میں تبدیل کر دیا اور ہر شخص یہ سمجھ کر کہ اسے ملک میں مساوی حقوق حاصل ہیں، بہ دل و جان حکومت کی اطاعت میں مشغول ہو گیا۔ اس کی وفاداری کا مرکز و مرجع خلیفہ کی ذات تھی اور اس کے احکام پر عمل کرنا اس کے نزدیک فرض عین تھا۔ اسلام میں حکومت کا نظام: سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابوبکرؓ کی حکومت کس قسم کی تھی، آیا اسے پاپائیت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، مطلق العنان شخصی حکومت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے یا جمہوریت کا نام دیا جا سکتا ہے؟1؎ تاریخ سے معمولی واقفیت رکھنے والے شخص سے بھی یہ امر پوشیدہ نہیں کہ ابوبکرؓ کی حکومت پر پاپائیت کا شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ 1؎ قارئین کو اس موقع پر یہ امر ذہن نشین کر لینا مناسب ہے کہ دینی اور مذہبی حکومت کو پاپائیت اور تھیوکریسی سے تشبیہ نہیںدی جا سکتی۔ اسی طرح لا دینی حکومت (Secularism) سے مراد ہر وہ حکومت ہوتی ہے جس میں کسی مذہبی گروہ یا علمائ، پروہتوں اور پادریوں کے طبقے کو حکومت پر اجارہ داری حاصل نہ ہو اور نہ کسی مذہب کو سلطنت کا سرکاری مذہب قرار دیا جائے۔ غیر لادینی حکومت میں مذہبی گروہ بندیوں اور علمائ، پروہتوں اور پادریوں وغیرہ کے طبقے کا کچھ نہ کچھ اثر حکومت پر ہوتا ہے اور کسی خاص مذہب کو سلطنت کا سرکاری مذہب بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔ بہ این ہمہ ملک میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہوتی ہے اور سلطنت کا مزاج بالعموم جمہوری ہوتا ہے، پاپائیت سے اسے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ پاپائی طرز حکومت میں شہنشاہ کے متعلق یہ سمجھا جاتا تھا کہ وہ ہر قسم کے گناہوں سے مصئون اور پاک ہوتا ہے۔ اسے براہ راست خدا کی طرف سے احکام ملتے ہیں اور اسے ان احکام کو نافذ کرنے اور لباس عمل پہنانے کا کامل اختیاردیا گیا ہے۔ چونکہ اس نظام حکومت میں شاہی فرمانوں کو خدائی فرمانوں کا درجہ دیا جاتا تھا اس لیے کسی شخص کو ان پر اعتراض کرنے کا حق نہ تھا اور سب کو بے چون و چرا ان کی اطاعت کرنی پڑتی تھی۔ چنانچہ جیسا کہ ہم اس باب کے شروع میں بیان کر چکے ہیں فراعنہ مصر کا شمار اسی قسم کے شہنشاہوں میں کیا جاتا ہے۔ پندرہویں صدی عیسوی تک یورپ کے شہنشاہ بھی اپنے آپ کو اسی زمرے میں شامل کرتے رہے۔ اس نظام کا وجود آج کہیں بھی نہیں پایا جاتا۔ مطلق العنان شخصی حکومت (Aristocracy)سے امراء اور نوابوں کی حکومت مراد ہے۔ یہ طرز حکومت بھی یورپ میں عرصے تک رائج رہا۔ مختلف علاقوں میں خود مختار رؤساء حکمران تھے۔ یہ علاقہ انہوں نے بالعموم لوٹ کھسوٹ او رقتل و غارت کے ذریعے سے حاصل کیا ہوتا تھا۔ ان امراء و رؤسا کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ان کے جانشین ہوتے تھے۔ یہ طرز حکومت بھی آج کل کہیں رائج نہیں۔ جمہوریت البتہ ایک ایسا طرز حکومت ہے جو قدیم زمانے سے اب تک مختلف صورتوں میں دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا رہا ہے۔ آج کل تو اسی کا دور دورہ ہے۔ جمہوریت سے مراد وہ حکومت ہے جس میں اقتدار اعلیٰ عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور عوام ہی کے نمائندے ملکی نظم و نسق چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ فراعنہ مصر اور شاہان یورپ جس طرز سے حکومت کرتے تھے، ابوبکرؓ کے ہاں اس کا گمان بھی نہیں پایا جاتا۔ وہ براہ راست خدا سے احکام لینے کے دعوے دار نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وحی کا نزول بند ہو چکا تھا۔ اب صرف کتاب اللہ مسلمانوں کی رشد و ہدایت کے لیے باقی رہ گئی تھی۔ کتاب اللہ کے احکام ہی مسلمانوں کے لیے حجت تھے اور ان کا دستور العمل سوا قرآن مجید کے اور کوئی نہ تھا۔ ہر حاکم مجبور تھا کہ کتاب اللہ کے بتائے ہوئے طریق پر چلے اور اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہ کر کام کرے۔ مسلمان کے لیے اسی وقت تک حاکم کی اطاعت فرض تھی جب تک وہ کتاب اللہ کے احکام پر عمل پیرا رہے اور اس کی مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔ لیکن اگر کوئی حاکم کتاب اللہ کے احکام کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود ساختہ خلاف شریعت احکام پر عمل درآمد کرانا چاہتا تو اس کی اطاعت مسلمانوں پر فرض نہ تھی۔ اسلام کا مقرر کیا ہوا یہ ضابطہ عمل اور طرز حکومت پاپائیت کے بالکل الٹ ہے۔ خلیفتہ المسلمین کو اللہ کے نازل کردہ احکام کا پابند رہنا اور اس کی مقررہ حدود کے اندر مقید رہنا پڑتا تھا۔ مطلق العنانی کی مطلق گنجائش نہ تھی لیکن پاپائی طرز حکومت میں یہ بات نہ تھی۔ وہاں حاکم مختار کل ہوتا تھا، جو چاہتا کرتا تھا، کسی کو اس کے آگے دم مارنے یا اعتراض کرنے کی گنجائش نہ تھی، اس کے نافذ کیے ہوئے احکام خدائی احکام سمجھے جاتے تھے۔ اسے کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت نہ تھی، ہر قسم کا اقتدار اس کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور رعایا کو غلاموں کی طرح اس کی فرماں برداری کرنی پڑتی تھی۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کتاب اللہ کو احکام سلطنت کا سرچشمہ ماننے اور حدود شریعت قائم رکھنے کے باعث اسلامی حکومت بھی پاپائیت کا روپ دھار لیتی ہے اور اس میں اور دوسری مستبد حکومتوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ لیکن یہ اعتراض محض ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ قرآنی شریعت میں صرف اصول بیان کر دئیے گئے ہیں لیکن تفصیلات سے بالعموم احتراز کیا گیا ہے۔ اگر تفصیلات آئی بھی ہیں تو صرف ایسی جگہ جہاں ان کا ذکر کرنا ناگزیر تھا اسلامی حکومت میں سارے نظام کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی جاتی ہے اور ان اصولوں کی روشنی میں فروعات و تفصیلات کا طے کرنا جمہور مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو اصول قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں، صالح معاشرے کے قیام اور قومی زندگی کی بقا کے لیے ان کا بروئے کار لانا از بس ضروری ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان ان اصولوں پر عمل پیرا رہے اور انہوں نے اپنی قومی و انفرادی زندگیوں کو ان اصولوں کے مطابق ڈھالا وہ ترقی کے زینوں پر چڑھتے رہے لیکن جب انہوں نے ان اصولوں پر عمل پیرا ہونا چھوڑ دیا اور اپنے لیے ایسا نظام تجویز کیا جو ان اصولوں کے مخالف اور ذاتی خواہشات کا مظہر تھا تو اسی وقت سے ان کا تنزل شروع ہو گیا۔ اگر کتاب اللہ کے بیان کیے ہوئے اصولوں کی تشریح و توضیح کا کام کلیتہً ایک خاص گروہ پر چھوڑ دیا جاتا اور دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی کاہنوں جیسا ایک طبقہ وجود میں آ جاتا تو یقینا اس اعتراض کی گنجائش تھی کہ اسلام بھی پاپائیت کا وجود موجود ہے لیکن ہر شخص کو معلوم ہے کہ اسلام مذہبی امور میں کسی خاص طبقے کی اجارہ داری تسلیم نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کو بلا استثناء مساوی طور پر یہ حق دیتا ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور کر کے اس سے اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق نتائج اخذ کر لے۔ اس صورت میں اسلام پر پاپائیت کی تہمت لگانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اسلامی نظام حکومت کی یہ خصوصیت ہے کہ ایک طرف تو خدائی احکام کی اطاعت اور شریعت کی مقرر کردہ حدود کی پابندی حاکم و محکوم، ادنیٰ و اعلیٰ، غریب و امیر ہر شخص پر یکساں رض ہے۔ دوسری طرف عوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ جب چاہیں اپنے حاکم سے اس کی غلط روی پر باز پرس کر سکتے ہیں۔ اس نظام حکومت میں بر سر اقتدار طبقے کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے لیے کچھ اور قانون وضع کر لے اور غریب رعایا کے لیے کچھ اور اور اپنے آپ کو دوسروں سے فائق، برتر اور افضل سمجھ کر اپنے لیے ایسی مراعات حاصل کر لے جو عوام کو حاصل نہیں۔ ابوبکرؓ کے دور حکومت پر چھچھلتی ہوئی نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت نبوی پر سختی سے عمل کرنے کے باعث دنیوی آلائشوں سے بالکل پاک تھے اور ان کے دل میں یہ بات میخ فولاد کی طرح جاگزیں ہو چکی تھی کہ جس شخص کے سپرد قوم کی امانت کی جائے اور وہ اس میں خیانت کر کے اس کا کچھ حصہ ذاتی تصرف میں لے آئے وہ کسی اور پر نہیں بلکہ خود اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور قیامت کے دن اسے اس خیانت کی نہایت درد ناک سزا ملے گی۔ ابوبکرؓ نے اس امانت کا حق، جو قوم کی طرف سے ان کے سپرد کی گئی تھی، جس طرح ادا کیا اور ایام خلافت میں جس بے نفسی و پرہیز گاری کا ثبوت دیا اسے موجودہ زمانے کے لوگ غیر ممکن العمل سمجھتے ہیں۔ خلافت و امارت نے ان کی زندگی میں ذرا بھی تو تغیر و تبدل پیدا نہ کیا۔ مسلمانوں کے اموال سے فائدہ اٹھانے کا خیال ایک لمحے کے لیے بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوا۔ خلافت کی ذمہ داریاں تفویض ہوتے ہی وہ اپنے آپ اور اپنے اہل و عیال کو بالکل بھول گئے اور اللہ کے دین کی خدمت میں اور اس اسلامی سلطنت کے انتظام و انصرام کے لیے اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیا۔ عدل و انصاف کا قیام ان کا اولین مقصد تھا اور کمزوروں اور حاجت مندوں کی امداد و اعانت سے زیادہ پسندیدہ مشغلہ ان کے نزدیک اور کوئی نہ تھا۔ جو حکومت اس طرز کی ہو، جہاں مطلق العنانی کا مطلق دور دورہ نہ ہو، جس کا حاکم اپنے آپ کو فوق البشر ہستی نہ سمجھتا ہو اس سے کسی طرح بھی پاپائی اور مطلق العنان شخصی حکومت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ خلیفہ کا انتخاب یقینا مہاجرین اور انصار ہی نے مل کر کیا تھا اور عرب کے دوسرے قبیلوں سے مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی لیکن اس پر بھی کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ مہاجر اور انصار ایک ہی قبیلے کے افراد نہ تھے جنہوں نے ملی بھگت کر کے اپنے میں سے ایک آدمی کو خلیفہ منتخب کر لیا ہو بلکہ وہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور یہ کام بھی انہوں نے صرف اس لیے کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جو خلا پیدا ہو گیا تھا اسے پر کیا جا سکے اور کسی رہنما کی غیر موجودگی کے باعث امت کی بقا کو جو خطرہ لاحق ہو گیا تھا اس کا فوری سد باب ہو سکے۔ ابوبکرؓ کی حکومت کی بنیاد کلیتہً صلاح مشورے پر تھی۔ ان کی بیعت عام انتخاب کے ذریعے سے کی گئی اور محض اس لیے کی گئی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے محبوب ساتھی اور رفیع الشان شخصیت کے مالک تھے۔ خاندانی وجاہت اور قبائلی عصبیت کا اس انتخاب میں مطلق دخل نہ تھا۔ ابوبکرؓ نے خود اپنے لیے خلافت کا مطالبہ نہ کیا بلکہ انہوں نے تو لوگوں کو اپنے بجائے عمرؓ اور ابو عبیدہ بن جراح میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے خلافت سازشوں کے ذریعے سے حاصل نہ کی بلکہ سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع عام میں خاصی بحث و تمحیص کے بعد۔۔۔۔ جس میں انصار اور مہاجرین کے سر بر آوردہ اشخاص نے حصہ لیا۔۔۔۔ ان کی خلافت پر مسلمانوں کا اجماع ہوا۔ پھر جب انہی کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ ہو گیا تو بیعت کرنے میں انصار بھی کسی طرح مہاجرین سے پیچھے نہ رہے۔ انہوں نے نہ صرف صدق دل سے ان کی خلافت قبول کر لی بلکہ بعد میں جب کبھی ان کی طرف سے مالی اور جانی قربانیوں کا مطالبہ ہوا، انصار نے بڑھ چڑھ کر اور دلی ذوق و شوق سے ان میں حصہ لیا۔ خلافت کے بعد انہوں نے جو پہلا خطبہ ارشاد فرمایا اس کے لفظ لفظ سے یہ بات عیاں ہو رہی تھی کہ ابوبکرؓ کو جمہوریت کا کتنا پاس تھا اور وہ شوریٰ کو سلطنت کی بہبود کے لیے کس قدر ضروری خیال کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا: میں تم پر حاکم تو بنا دیا گیا ہوں لیکن تم سے بہتر نہیں۔ اگر میں نیکی کی راہ پر چلوں تو میری فرماں برداری کرو۔ لیکن اگر میرا قدم نیکی کی راہ سے ڈگمگا کر بدی کی راہ پر چلا جائے تو مجھے درست کر دو۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا رہوں تم میری اطاعت کرتے رہو لیکن اگر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت فرض نہیں۔ ان الفاظ سے صریحاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عوام الناس کو خلیفہ کے کاموں کی نگہداشت کرنے اور اسے نیک مشورے دینے کا حق حاصل ہے اور اگر کبھی بہ فرض محال خلیفہ سے اللہ کے احکام کی نافرمانی صادر ہونے لگے تو رعایا پر اس کی اطاعت فرض نہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ شوریٰ کی اہمیت کے متعلق ان الفاظ سے زیادہ اور کون سے پر زور الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ جنگوں کا سلسلہ طویل تر ہونے کے باوجود ابوبکرؓ کے عہد میں شوریٰ کا نظام اعلیٰ قائم رہا اور وہ کوئی بھی اہم کام بغیر مشورہ لیے انجام نہ دیتے تھے۔ تمام مسلمان ان کی نظروں میں مساوی حقوق کے حامل تھے اور کسی شخص کو اس کی دنیوی وجاہت اورمرتبے کی بنا پر دوسرے لوگوں سے برتری حاصل نہ تھی سابق مرتدین کے متعلق انہوں نے ابتداء میں یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ انہیں جنگی مہمات میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ ابھی ان کی طرف سے پورا اطمینان نہ تھا۔ لیکن جب یہ خدشہ دور ہو گیا تو انہیں اسلامی فوجوں میں شرکت کی اجازت دے دی اور عمر کو ہدایت کی کہ عراق کی جنگوں میں مذکورہ بالا لوگوں سے بھی کام لیا جائے۔ ابوبکرؓ اور عرب کی سیاسی وحدت: اس طرح ابوبکرؓ نے اسلامی نظام حکومت کی بنیادیں استوار کر کے اپنے بعد آنے والے خلفاء کے لیے ان بنیادوں پر ایک رفیع الشان عمارت تعمیر کرنے اور عرب کو ایک سیاسی وحدت میں ڈھالنے کا موقع فراہم کر دیا۔ ابوبکرؓ کی عفو و در گزر کی پالیسی نے عرب کی سیاسی وحدت کے حصول میں بے حد آسانی پیدا کر دی۔ جو بھی باغی سردار ان کے سامنے حاضر کیا گیا انہوں نے اس کے پچھلے اعمال سے درگزر کرتے ہوئے ان کی جان بخشی کر دی۔ قرہ بن ہبیرہ، عمرو بن معدی کرب، اشعث بن قیس وغیرہ سرداران عرب کیمثالیں سب کے سامنے ہیں۔ بغاوت اور سرکشی کو سختی سے فرو کرنے اور بعد میں بغاوت کے سرغنوں کو معافی دے دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے سچے دل سے اطاعت اور فرمانبرداری قبول کر لی اور وحدت کی لڑی میں منسلک ہو گئے۔ شوریٰ کے طریق کار نے وحدت کے نظام کو مزید استواری بخشی جس کے نتیجے میں عراق اور شام کی فتح آسان تر ہو گئی۔ اس زمانے میں عوام کی فکری نہج بھی اس امر کی متقاضی تھی کہ نظام حکومت کی بنیادریں شوریٰ اور جمہوریت پر استوار کی جاتیں۔ اسلام کا ظہور عرب میں ہوا تھا۔ اسلامی شریعت عربی زبان میں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سر زمین عرب سے تعلق رکھتے تھے۔ عرب قبائل بدوی ہوں یا شہری، آزادی اور خود مختاری کے دلدادہ تھے اور آزادی سے بڑھ کر انہیں کوئی شے عزیز نہ تھی۔ بدوی لوگوں میں مساوات کی روح سرایت کر چکی تھی۔ اسلامی تعلیمات نے اس فکر و نظر کو مزید جلا دی کیونکہ اسلام کامل مساوات کا علم بردار تھا۔ اللہ نے اپنی کتاب میں بہ وضاحت اعلان کر دیا کہ اس کے نزدیک خاندانی وجاہت کوئی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اصل حیثیت بندوں کے اعمال کو حاصل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واشگاف الفاظ میں اس حقیقت کا اظہار کر دیا تھا کہ اسلام گورے کالے، عربی، عجمی، آقا اور غلام میں کسی قسم کی تمیز رکھنے کا روادار نہیں۔ اس کے نزدیک برتری اور فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ آج جمہوریت کا دور دورہ ہے اور ہر جا جمہوریت ہی کے گن گائے جاتے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو حقیقی جمہوریت کا نظارہ چشم بینا نے صرف اسلام کے دور اولین میں دیکھا ہے۔ اس زمانے میں جمہوریت کی بنیاد اخوت و محبت اور حریت و مساوات پر تھی اور اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے نتیجے میں ایسی فضا پیدا ہو گئی تھی کہ ہر شخص اپنے مومن بھائی کا خیر خواہ تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی بات پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا ہو ایہ ارشاد کوئی معمولی ارشاد نہیں بلکہ جمہوریت کی جان ہے اور کوئی جمہوری حکومت اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس حکیمانہ فقرے کو مشعل راہ بنا کر رعایا کے افراد کو ایک دوسرے کا خیر خواہ اور مونس و غم خوار نہ بنا دے۔ انہیں تعلیمات کے باعث جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں تک پہنچایا، اس عربی وحدت کا قیام عمل میں آ سکا جس کے سہارے ابوبکرؓ نے ایک رفیع الشان سلطنت کی بنیاد رکھی اورایک نرالا نظام دنیا کے سامنے پیش کر کے ایک عالم کو انگشت بدندان کر دیا۔ اسلام کی طاقت کا سبب: ابوبکرؓ کی حکومت جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہ تھی بلکہ عرب سے بھی باہر نکل کر دور دور تک پھیل گئی تھی اور وہ اسلامی سلطنت کا قیام عرب کے علاوہ عراق اور شام میں بھی عمل پذیر ہو چکا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غیر عربی علاقوں میں اسلامی سلطنت کا قیام محض چند حملوں کا نتیجہ تھا جن میں اتفاق سے مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہو گئی یا اس انقلاب نے، جس کی نشان دہی ہم پہلے کر آئے ہیں، ان فتوحات کے لیے راستہ صاف کیا اور اس طرح مسلمانوں کو دنیا کے ایک وسیع خطے میں اسلامی سلطنت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کا موقع مل گیا؟ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے کسی شخص سے یہ امر پوشیدہ نہیں کہ اسلامی افواج کی کامیابی کو وقتی اور اتفاقی قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ فتوحات و حوادث کے ایک لمبے سلسلے کی کڑی ہیں۔ اسلام نے دنیا میں آ کر جو انقلاب پیدا کیا اس کا برپا ہونا لابدی تھا۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات ایک انقلاب پذیر قوت اپنے اندر رکھتی تھیں اور نا ممکن تھا کہ یہ قوت اپنا اثر دکھائے بغیر رہتی۔ اسلام کو طاقت و قوت بخشنے والے عوامل میں عقیدے کی حریت کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اسلام آزادی ضمیر کا سب سے بڑا علم بردار ہے اور دین کے معاملے میں کسی شخص پر جبر کاروادار نہیں۔ گو اس کی دعوت ساری دنیا کے لیے عام ہے لیکن وہ کسی شخص کو اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کرتا۔ ہاں، یہ امید ضرور رکھتا ہے کہ اس کی پیش کردہ تعلیمات پر لوگ غور کریں۔ اسے اطمینان ہے کہ جو لوگ سچے دل سے ان تعلیمات کا مطالعہ کریں گے ان کے لیے انہیں قبول کیے بغیر چارہ نہ ہو گا۔ کیونکہ وہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں اور عقل سلیم انہیں قبول کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر سکتی۔ جہاں اسلام آزادی ضمیر کا سب سے بڑا علم بردار ہے وہاں اسلام کے مخالف آزادی ضمیر کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر لوگوں کو عقائد و اعمال میں آزادی دے دی گئی اور انہیں اختیار دے دیا گیا کہ وہ جو مذہب اور طریقہ چاہیں اختیار کر لیں تو اسلام کی پاک تعلیم انہیں اپنی طرف کھینچ لے گی اور ان کے حق میں سوا نامرادی اور ناکامی کے اور کچھ نہ آئے گا۔ اسلام نے آزادی ضمیر کا جو اصول دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس پر مسلمانوں نے پوری طرح عمل کر کے دکھا دیا۔ انہوں نے لاتعداد ممالک فتح کیے لیکن کسی شخص کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے جو شہر کو فتح کیا وہاں کے باشندوں کو کامل مذہبی آزادی دے دی۔ جو شخص بہ رضا و رغبت اسلام قبول کر لیتا اسے وہی حقوق مل جاتے جو دوسرے مسلمانوں کو ملے ہوئے تھے لیکن جو شخص اپنے آبائی مذہب پرقائم رہنا چاہتا اسے جزیہ اد اکرنا پڑتا تھا۔ جزیہ کوئی تاوان نہ تھا جو غیر مسلموں سے نفرت و حقارت کے باعث ان پر عائد کیا گیا ہو بلکہ اس کی حیثیت زکوٰۃ کی طرح ایک ٹیکس کی تھی جو سلطنت کی طرف سے ان کی حفاظت کے بدلے ان پر عائد کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اہل عراق اور اہل شام سے صلح کے جو معاہدات کیے گئے ان میں یہ صراحت کر دی گئی تھی کہ غیر مسلموں سے جزیہ صرف ان کے مال و جان کی حفاظت کے بدلے وصول کیا جائے گا۔ اور اسلامی حکومت ذمہ دار ہو گی کہ غیر مسلم اپنے اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کر سکیں اور دینی عبادات بے خوفی سے بجا لا سکیں۔ آج بھی کتب تاریخ میں جو معاہدات محفوظ ہیں ان میں اسلامی حکومت کی طرف سے غیر مسلموں کے گرجوں، کلیساؤں، معبدوں، مذہبی پیشواؤں اور راہبوں کی حفاظت کی شقیں موجود ہیں۔ اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آ جاتی کہ مسلمان اپنے مواعید کی بجا آوری سے قاصر ہو جاتے تو نہ صرف آئندہ کے لیے جزیہ لینا بند کر دیا جاتا بلکہ پچھلی وصول کی ہوئی رقم بھی انہیں واپس کر دی جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائیوں کے ہاتھوں قائم شدہ حکومت، جس کی بنیاد حریت و مساوات اور اخوت و محبت کے اصولوں پر قائم کی گئی تھی، رومی شہنشاہیت سے یکسر مختلف تھی اور آج کل کی جمہوریتیں بھی افادیت کے لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اسلامی سلطنت کا مقصد قطعاً نہ تھا کہ لوگوں کو عربوں کا مطیع و منقاد بنایا جائے اور انہیں رومیوں اور ایرانیوں کی غلامی سے نکال کر عربوں کی غلامی میں دے دیا جائے۔ اس کے برعکس اس کا اولیں مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو آزادی کی فضا میں سانس لینے کا موقع دیا جائے اور ان کے درمیان اخوت و مروت اور رحمت و شفقت کے ناقابل شکست رشتے پیدا کر دئیے جائیں۔ اسلامی سلطنت میں مفتوح اقوام کا درجہ فاتحین سے کسی طرح کم نہ تھا۔ مفتوح اقوام عربوں کی طرح تمام بنیادی حقوق سے بہرہ ور تھیں۔ جو شخص اسلام لے آتا تھا اس سے مسلمانوں کا سا برتاؤ کیا جاتا تھا اور جو شخص اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتا تھا اسے وہ تمام حقوق حاصل ہوتے تھے جو عرب کے دوسرے غیر مسلموں کو حاصل تھے۔ عرب فاتحین نے اپنے کسی بھی فعل سے یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ عربوں اور غیر عربوں میں تفریق کے حامی ہیں۔ اہل عراق اور اہل شام میں جو لوگ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے ان سے وہی سلوک کیا گیاجو نجران اور عرب کے دوسرے علاقوں کے عیسائیوں سے کیا جاتا تھا۔ بے شک مسلمان ان لوگوں میں اسلام کی تبلیغ اور ان پر اتمام حجت کرنے میں کوئی دقیقہ سعی فرو گزاشت نہ کرتے تھے لیکن اس کے باوجو داگر کوئی شخص ان کی دعوت پر کان نہ دھرتا اور اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوتا تھا تو یہ خدائی فرمان ذہن میں رکھ کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتے تھے: من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا وما انا علیکم بوکیل۔ (جو شخص ہدایت قبول کرتا ہے اس کا فائدہ خود اسی کو پہنچے گا اور جو شخص گمراہی کے راستے پر گامزن رہنا چاہتا ہے اس کے نقصان کا ذمہ دار بھی وہ خود ہے۔ اے رسول ! ان لوگوں سے کہہ دو میرا کام صرف یہ ہے کہ تم لوگوں تک آواز پہنچا دوں، ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ تمہاری ہدایت اور گمراہی کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔) ابوبکرؓ کا نظام حکومتـ: اسلام نے حکومت کا جو نظام تجویز کیا تھا ابوبکرؓ کو مفتوحہ ممالک میں اسے پوری طرح رائج کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ عراق میں خالدؓ بن ولید نے بلدیاتی نظم و نسق کا کام خود وہاں کے باشندوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ مسلمان صرف عام نگرانی اور سیاسی امور کی نگہداشت کرتے تھے۔ اس طرح کوئی باقاعدہ منظم حکومت معرض وجود میں نہ آ سکی۔ جنگی صورت حال کے پیش نظر ایک عبوری طرز حکومت اختیار کر لیا گیا اور پیشتر توجہ جنگی امور کی تکمیل پر دی گئی۔ شام کا حال بھی عراق سے مختلف نہ تھا۔ شورائی نظام حکومت یہاں کے باشندوں کے لیے اسلام کی طرح بالکل نئی چیز تھا۔ فتوحات اسلامیہ کے وقت یہاں مطلق العنانی دور دورہ تھا۔ شہنشاہ ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا اور من مانی کرتا تھا۔ پادری اور راہب شہنشاہ کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے اور مطلق العنانی کو جائز ٹھہرانے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملاتے تھے۔ ایک طرف حکومت کے دباؤ دوسری طرف مذہبی پیشواؤں کے وعظ کے نتیجے میں عوام الناس اپنے فرماں رواؤں کو انتہائی تقدیس کی نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے تھے اور انہیں ان کے آگے سجدہ کرنے میں بھی باک نہ تھا۔ اسلامی فتوحات کے موقع پر جب انہوں نے ایسے نظام حکومت کا مشاہدہ کیا جس کی بنیاد عدل و انصاف اور شوریٰ پر تھی اور جہاں اس شاہی کروفر اور رعب و دبدبہ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ جسے دیکھنے کے وہ صدیوں سے عادی تھے تو ان کے دل بے اختیار اسلام کی طرف مائل ہونے شروع ہوئے اور انہوں نے بڑی گرمجوشی سے مسلمانوں کا خیر مقدم کیا۔ اسلام کی طرف لوگوں کے اس میلان کے باعث مسلمانوں کی سلطنت بڑھتی ہی چلی گئی اور اس کے ڈانڈے ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف افریقہ سے جا ملے۔ مسلمان جہاں بھی گئے حق و صداقت، عدل و انصاف اور ایمان و صداقت کا علم لہراتے ہوئے گئے اور حریت و مساوات اور محبت و شفقت کے بیج ہر زمین میں بو دئیے۔ ابوبکرؓ کو اتنی مہلت نہ مل سکی کہ وہ عرب اور دوسرے مفتوحہ علاقے میں اسلامی نظام حکومت کاملاً رائج کر سکتے۔ ان دنوں اس سلسلے میں جو کام ہوا وہ ابتدائی نوعیت کا تھا۔ بعد میں آنے والے خلفاء کے عہد میں سلطنت نے جس طرح منظم صورت اختیار کر لی تھی اور جس طرح باقاعدہ محکموں کا قیام عمل میں آ چکا تھا اس طرح ابوبکرؓ کے عہد میں نہ تھا۔ ان کے عہد میں نہ حکومت نے باقاعدہ تنظیمی شکل اختیار کی تھی اور نہ مختلف محکمے قائم ہوئے تھے۔ اس کے دو طبعی سبب تھے: اول یہ کہ ابوبکرؓ کا عہد پچھلے تمام زمانوں سے مختلف تھا اور انہیں بالکل نئے سرے سے ایسے وقت میں ایک حکومت کی تشکیل کرنی پڑی تھی۔ جب پچھلی تہذیبیں دم توڑ چکی تھیں اور ان کی جگہ ایک نئی تہذیب نے لے لی تھی۔ عقائد کے لحاظ سے ایک انقلاب آ چکا تھا اور جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا۔ فکر و نظر کے انداز بدل چکے تھے اور معاشرے میں زبردست تبدیلی آ چکی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں قلیل وقفے کے اندر ایک بالکل نیا نظام حکومت رائج کرنا کس قدر دشوار امر تھا۔ منظم حکومت عمل میں نہ آنے کا دوسرا سبب یہ تھا کہ وہ زمانہ حرب و پیکار کا تھا۔ ابوبکرؓ کی حکومت عسکری حکومت کہلانے کی زیادہ مستحق تھی۔ جنگ و جدل کے مواقع پر مقررہ نظم و نسق کا قیام تک ناممکن ہوتا ہے چونکہ ایسے علاقے میں ایک منظم حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے جہاں اسلام سے قبل نظم و نسق کا وجود ہی نہ تھا۔ خلافت کے بعد ابوبکرؓ کوسب سے پہلے مرتدین کا سامنا کرنا پڑا اور پہلا سال ان کی بغاوتیں فر وکرنے میں گزر گیا۔ ابھی مرتدین سے جنگوں کا سلسلہ جاری تھا کہ ایرانیوں سے جھڑپیں شروع ہو گئیں اور ابوبکرؓ کی توجہ عراق کی طرف منعطف ہو گئی۔ عراق میں کامل امن و امان نہ ہوا تھا کہ شام پر چڑھائی کا مسئلہ در پیش ہو گیا۔ اس صورت میں نظام حکومت وسیع بنیادوں پر قائم کرنا اور اس کی تفاصیل طے کرنا ناممکن تھا۔ اس وقت ابوبکرؓ کے سامنے دو بڑے مقصد تھے اور انہیں کی تکمیل میں وہ ہمہ تن مشغول رہتے تھے۔ اول مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر کے انہیں دشمن کے مقابلے کے لیے تیار کرنا، دوم دشمن پر فتح حاصل کر کے وسیع اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنا۔ ابوبکرؓ کی عسکری حکومت کا نظام اس بدوی طریق کے زیادہ قریب تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بھی پہلے قبائل عرب میں رائج تھا۔ اس وقت حکومت کے پاس کوئی منظم لشکر موجود نہ تھا بلکہ ہر شخص اپنے طور پر جنگی خدمات کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا تھا۔ جب طبل جنگ پر چوٹ پڑتی اور لڑائی کا اعلان کر دیا جاتا توقبائل ہتھیار لے کر نکل پڑتے اور دشمن کی جانب کوچ کر دیتے۔ ہر قبیلے کا سردار ہی اپنے قبیلے کی قیادت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ ان کی عورتیں بھی انہیں ہمت دلانے اور جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ساتھ ہوتی تھیں۔ سامان رسد اور اسلحہ کے لیے وہ مرکزی حکومت کی طرف نہ دیکھتے تھے بلکہ خود ہی ان چیزوں کا انتظام کرتے تھے۔ حکومت کی طرف سے انہیں تنخواہ بھی ادا نہ کی جاتی تھی بلکہ وہ مال غنیمت ہی کو اپنا حق الخدمت سمجھتے تھے۔ میدان جنگ میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا تھا اس کا 4/5 حصہ جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کر دیا جاتا تھا اور پانچواں حصہ خلیفہ کی خدمت میں دار الحکومت ارسال کر دیا جاتا تھا جسے وہ بیت المال میں جمع کر دیتا تھا۔ خمس کے ذریعے سے سلطنت کے معمولی مصارف پورے کیے جاتے تھے اور مدینہ کے مفلس و قلاش اور محتاج لوگوں کی امداد کی جاتی تھی۔ ابوبکرؓ کی خواہش تھی کہ جونہی خمس مدینہ پہنچے اسے تقسیم کر دیا جائے اور ایک درہم بھی آئندہ کے لیے اٹھا نہ رکھا جائے۔ بعض لوگوں نے ان کے سامنے تجویز پیش کی کہ بیت المال پر پہرے دار مقرر کیے جائیں لیکن انہوں نے یہ تجویز نامنظور کر دی کیونکہ بیت المال میں کچھ بچتا ہی نہ تھا جس کی حفاظت کے لیے پہرے دار مقرر کیے جاتے۔ ابوبکرؓ کی حکومت کا نظام نہایت سادہ اور بدویانہ طرز کا تھا۔ اپنے عہد کی منظم او رمتمدن سلطنتوں کا رنگ انہوں نے بالکل قبول نہ کیا۔ عہد رسالت سے اتصال کے باعث ان کا عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بڑی حد تک مشابہ ہے۔ ابوبکرؓ بھولے سے بھی وہ کام نہ کرتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند کرتے تھے اور وہ کام کرنا سعادت سمجھتے تھے جو آپ نے کیا تھا لیکن وہ جامد مقامدین کی طرح نہ تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل نمونہ اختیار کرنے کی وجہ سے ان کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھل چکا تھا۔ یہی اجتہاد تھا جس کے باعث اللہ نے ان کے ذریعے سے عراق اور شام فتح کرائے اور ان کے ہاتھ سے ایسی متحدہ سلطنت کی بنیاد رکھوائی جس کا دستور العمل احکام الٰہی اور شوریٰ پر مبنی تھا۔ وہ افراط و تفریط سے ہمیشہ پاک اور اللہ کے نور سے حصہ لے کر ہمیشہ صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ یہ خیال ہر وقت ان کے دل میں جاگزیں رہتا تھا کہ جہاں وہ بندوں کے سامنے جواب دہ ہیں وہاں اللہ کے سامنے بھی جواب دہ ہیں او روہ قیامت کے دن ان سے ان کے تمام اعمال کا حساب لے گا۔ اللہ اور بندوں کے ساتھ جواب دہی کا یہی تصور تھا جس نے ہمیشہ آپ کو صراط مستقیم پر گامزن کیے رکھا اور ان کا ایک قدم ایک لمحے کے لیے بھی جادہ استقامت سے ہٹنے نہ پایا۔ ابوبکرؓ کے بعد اسلامی حکومت مختلف ادوار میں سے گزرتی رہی۔ عمرؓ بن خطاب نے ایرانی اور رومی سلطنتوں کا نظام حکومت سامنے رکھ کر مختلف شعبوں کی تشکیل کی لیکن کتاب اللہ اور اس کی مقررہ حدود سے مطلق تجاوز نہ کیا۔ عثمانؓ اور علیؓ کے عہد میں عمرؓ کا مقررہ طرز حکومت ہی جاری رہا۔ خلافت راشدہ کے بعد جب سلطنت امویوں کے ہاتھ میں آئی تو شورائی طرز حکومت کی جگہ موروثی بادشاہی نے لے لی۔ عباسیوں کے زمانے میں بھی موروثی بادشاہی کا سلسلہ قائم رہا۔ عباسیوں کے عہد میں سلطنت پر اہل روم اور اہل ایران کا اثر اس قدر بڑھ گیا کہ خلفاء ان کے ہاتھوں میں بے بس ہو کر رہ گئے۔ا یران اور روم کی مکمل فتح عمرؓ اور عثمانؓ کے عہد میں ہوئی تھی۔ لیکن اس وقت سلطنت پر عجمی باشندوں کا ثر بہت کم تھا۔ امویوں کے عہد میں ان کا اثر قدرے بڑھا مگر سلطنت عربی رنگ میں رنگی رہی۔ عباسیوں نے چونکہ خلافت اہل ایران کی مد دسے حاصل کی تھی۔ اس لیے ان کے عہد میں ان لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خلفاء ان کے ہاتھوں میں محض کٹھ پتلیاں بن کر رہ گئے۔ اس اثناء میں علماء اسلام، جن میں اکثریت غیر عربوں کی تھی، حکومت کے لیے قواعد اور تفاصیل مرتب کرنے میں مصروف رہے۔ ان علماء میں اکثر اختلاف ہو جاتا تھا جو بعض اوقات بڑھتے بڑھتے فساد اور شورش کی صورت اختیار کر لیتا تھا اور حاکم وقت کو سختی سے اسے فرو کرنا پڑتا تھا۔ کتنا بڑا فرق تھا ابوبکرؓ کی اور امویوں اور عباسیوں کی حکومتوں میں۔ اول الذکر حکومت بالکل سادہ تھی لیکن اس کی وجہ سے ایک دن کے لیے بھی ملک کے امن و امان میں خلل نہ پڑا۔ موخر الذکر حکومتیں شان و شوکت کے لحاظ سے جواب نہ رکھتی تھی، بڑے بڑے علماء و فضلاء حکومت کا آئین تیار کرنے میں مصروف تھے۔ لیکن اندرونی بغاوتوں نے ان سلطنتوں کو ایک دن کے لیے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور یہ ہمیشہ داخلی جھگڑوں اور خانہ جنگیوں ہی میں مصروف رہیں۔ ابوبکرؓ کا ایمان تھا کہ جس طرح ہمیں ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑے گا اسی طرح امور سلطنت کی انجام دہی کے سلسلے میں وہ بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہیں۔ اللہ اور بندوں کی اسی جواب دہی کے ڈر سے وہ جب بھی کسی اہم کام میں ہاتھ ڈالتے اللہ کے احکام کو پیش نظر رکھتے اور لوگوں کے سامنے وہ معاملہ رکھ کر ان سے بھی مشورہ لیتے۔ اسی طرح جب کوئی معاملہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو جب تک اس کے بارے میں خوب غور و فکر نہ کر لیتے اور اس کے نتائج و عواقب کو اچھی طرح جانچ نہ لیتے فیصلہ نہ فرماتے۔ مر الموت میں بھی ان کا طرز عمل یہی رہا او ر وہ برابر مسلمانوں کی آئندہ فلاح و بہبود کے طریقوں پر غور فرماتے رہے۔ اسی دوران میں مثنیٰ شیبانی عراق سے مدینہ آئے اور باریابی کی اجازت چاہی تو انہوں نے باوجود حد درجہ ضعف و نقاہت کے انہیں اپنے پاس بلوا لیا اور بڑے غور سے ان کی معروضات سنیں۔ اسی وقت عمرؓ کو حکم دیا کہ شام ہونے سے پیشتر مثنیٰ کی مدد کے لیے مسلمانوں کا لشکر عراق روانہ کر دیا جائے۔ غرض اس طرح ابوبکرؓ زندگی کے آخری سانس تک اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں مصروف رہے۔ ٭٭٭ اٹھارہواں باب حضرت ابوبکرؓ کی وفات حضرت ابوبکرؓ نے ارتداد کا وہ فتنہ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کے گوشے گوشے میں اٹھ کھڑا ہوا تھا، کمال مستعدی سے فرو کر دیا تھا۔ عراق میں اسلامی فوجیں دور دور تک گھس گئی تھیں اور ایرانی دار الحکومت مدائن کی فتح چند دن کی بات رہ گئی تھی۔ شام میں رومی افواج قاہرہ کو ذلت آمیز شکستوں سے دو چار ہونا پڑ رہا تھا اور فتوحات اسلامی کے اثرات پایہ تخت شام، دمشق تک محسوس کیے جا رہے تھے۔ ایک طرف ان حیرت انگیز فتوحات کا سلسلہ جاری تھا، دوسری طرف ابوبکرؓ مدینہ میں ایک ایسی متحدہ عربی حکومت کی تشکیل میں مصروف تھے جس کی اساس باہمی مشورے پر تھی ۔ قرآن کریم کی تدوین ہو چکی تھی۔ اسلامی سلطنت کی تشکیل کے لیے راستہ صاف ہو چکا تھا اور حقیقی عدل و انصاف پر مبنی حکومت کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ حیرت بالائے حیرت یہ ہے کہ یہ تمام عظیم الشان اور اہم امور دو سال تین مہینے کے قلیل ترین مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچے تھے۔ کیا یہ تاریخ کا ایک معجزہ نہیں؟ ستائیس مہینے کی قلیل مدت میں ایک طویل و عریض علاقے کی خطرناک بغاوت بالکل فرو ہو جاتی ہے اور آن واحد میں سارا عرب وحدت کی سلک میں اس طرح منسلک ہو جاتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے یہاں کبھی بغاوت اور شورش کا نام و نشان تک نہ تھا۔ پھر یہی اہل عرب، جو پہلے فتنہ و فساد اور شورش و اضطراب کے شکار تھے، ان دو عظیم الشان سلطنتوں پر ہلہ بول دیتے ہیں جنہیں اپنی عسکری قوت اور تہذیب و تمدن کی بنا پر دنیا کی تمام اقوام پر برتری حاصل تھی اور یہ سلطنتیں اپنے عساکر جرار اور وافر اسلحہ کے باوجود حقیر و ذلیل عربوں کے سامنے عاجز رہ جاتی ہیں اور ایرانی و رومی تہذیب کی جگہ اسلامی تمدن کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ عربوں کا اپنی ہمسایہ سلطنتوں پر اس قدر جلد غلبہ ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ ہے جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ کسی شخص کی مجال نہیں کہ وہ بغیر تائید ایزدی اور توفیق خداوندی کے ایسے کارنامے انجام دے سکے جن پر ایک عالم حیران و ششدر رہ جائے۔ ابوبکرؓ اللہ کی قدرتوں پر مکمل ایمان رکھتے تھے۔ چنانچہ ان کی انگوٹھی کا نقش بھی نعم القادر اللہ تھا۔ اسی ایمان کے نتیجے میں اللہ نے ان کے لیے اپنی قدرتوں کا نزول کیا اور جو کام بڑے بڑے سیاست دان اور سپہ سالار برسوں میں انجام نہ دے سکتے تھے وہ ایک نحیف و نزار شخص نے مہینوں میں انجام دے دئیے۔ موت کے بارے میں روایات: ابوبکرؓ کے مرض الموت کی تعین کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہود نے انہیں کھانے میں زہر دیا تھا۔ کھانے میں ان کے ساتھ عتاب بن اسید اور حارث بن کلدہ بھی شریک تھے۔ حارث بن کلدہ نے تو چند لقموں ہی پر اکتفا کیا اس وجہ سے وہ زہر کے اثر سے محفوظ رہے لیکن ابوبکرؓ اور عتاب پر زہر نے پورا پورا اثر کیا۔ زہر سریع التاثیر نہ تھا بلکہ کہیں سال بھر میں جا کر اس کا اثر ظاہر ہوتا تھا۔ چنانچہ جس روز ابوبکرؓ نے مدینہ میں وفات پائی۔ اسی روز عتاب نے مکہ میں انتقال کیا۔ لیکن یہ روایت قابل اعتماد نہیں۔ اول تو اس کے روایوں میں کوئی ثقہ آدمی نہیں، دوسرے ابوبکرؓ اور یہود کے درمیان کوئی ایسا نزاع نہ تھا جس کی بنا پر خیال کیاجا سکے کہ یہود نے مطلب براری کے لیے انہیں زہر دے دیا تھا۔ تمام یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ہی میں مدینہ سے جلا وطن کیے جا چکے تھے۔ اس سلسلے میں وہ روایت قابل اعتبار ہے جو ان کی بیٹی ام المومنین عائشہؓ اور بیٹے عبدالرحمن سے مروی ہے یعنی مرض الموت کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ سخت سردیوں کے دنوں میں وہ ٹھنڈے پانی سے نہا لیے جس سے انہیں بخار چڑھ آیا اور پندرہ روز بخار میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پا گئے۔ اس دوران میں ان کے حکم سے عمرؓ بن خطاب لوگوں کو نماز پڑھاتے رہے۔ مرض کی شدت انہیں امور سلطنت کے بارے میں غور و فکر کرنے سے نہ روک سکی۔ مرض کی ابتدا ہی میں انہیں یقین ہو گیا تھا کہ ان کی وفات قریب آ چکی ہے اور وہ بہت جلد اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والے ہیں۔ وہ اس اطمینان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھے کہ اللہ نے ان کے سپرد جو کام کیاتھا اس کی انجام دہی میں انہوں نے حتی المقدور کوئی دقیقہ سعی فروگزاشت نہ کیا۔ ایک روز لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ آپ طبیب کو بلا کر مشورہ لیتے تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے فرمایا میں نے مشورہ کیا تھا۔ لوگوں نے پوچھا پھر اس نے کیا بتایا؟جواب دیا اس نے کہا میں جو چاہوں گا کروں گا۔ ابوبکرؓ کا مطلب اصل میں یہ تھا کہ وہ راضی بہ قضا ہیں اوران کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ اب اللہ انہیں اپنے پاس بلا لے۔ جانشینی کا مسئلہ: مرض الموت میں ابوبکرؓ کو سب سے بڑا فکر مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق تھا۔ ان کی نظروں کے سامنے سے پچھلے واقعات ایک ایک کر کے گزر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد سقیفہ بنی ساعد میں مہاجرین اور انصار کے درمیان خلافت پر جھگڑا برپا ہو گیا تھا اور اگر اللہ مسلمانوں کو ان کے ہاتھ پر متحد نہ کرتا تو زبردست فتنہ برپا ہونے کا خدشہ تھا۔ یہ فتنہ صرف مہاجرین و انصار تک محدود نہ رہتا بلکہ سارے عرب کو لپیٹ میں لے لیتا۔ پہلے اس کے شعلے مکہ اور طائف میں بھڑکتے پھر یمن کی باری آتی۔ اس اختلاف کی نوعیت دینی نہ ہوتی بلکہ خالص دنیوی ہوتی او رمحض شخصی اقتدار کے قیام کے لیے قبائلی عصبیت کا یہ فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ اول تو کسی بھی طبقے کی طرف سے اقتدار کی ہوس قومی اتحاد میں رخنہ ڈال دیتی ہے دوسرے ایسے وقت میں جب ایرانی اور رومی سلطنتیں شیر کی طرح منہ پھاڑے عرب کی طرف دیکھ رہی تھیں، مسلمانوں کا باہم دست و گریباں ہو جانا ان سلطنتوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوتا اور وہ بہ آسانی مسلمانوں کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر عرب پر تسلط بٹھا لیتیں۔ ابوبکرؓ کی خلافت کے باعث ان کی زندگی میں تو اس فتنے کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکا لیکن کون کہہ سکتا تھا کہ آئندہ کے لیے بھی اس کا سد باب ہو چکا ہے۔ مرض الموت میں ابوبکرؓ کا دل برابر انہیں افکار کی جولان گاہ رہا۔ انہوں نے تمام حالات کا بہ غور جائزہ لیا اور آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو آئندہ اختلاف سے بچانے کی صرف یہ صورت ہے کہ وہ زندگی ہی میں آئندہ آنے والے خلیفہ کا تعین کر جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہ کیا تھا۔ آپ کسی شخص کو خلیفہ مقرر کیے بغیر وفات پا گئے تھے لیکن اس میں بھی اللہ کی ایک حکمت تھی یعنی لوگ یہ خیال نہ کرنے لگیں کہ اس شخص کو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا خلیفہ مقرر فرمایا ہے اس لیے یہ براہ راست اللہ سے احکام حاصل کرتا ہے اور اس طرح اس کی حیثیت اصل میں خلیفتہ اللہ کی ہے۔ ابوبکرؓ زندگی ہی میں اپنا جانشین مقرر کرنا تو ضرور چاہتے تھے لیکن ساتھ ہی ان کی خواہش یہ تھی کہ اہل الرائے اصحاب سے اس کے متعلق مشورہ لے لیا جائے اور ان کی رضا مندی سے ہونے والے خلیفہ کا تقرر عمل میں آئے۔ ان کے خیال میں صرف عمرؓ بن خطاب کی ذات ایسی تھی جو صحیح معنی میں ان کی جانشینی کے فرائض انجام دے سکتی تھی۔ لیکن انہیں خطرہ تھا کہ مشورہ لیے بغیر عمرؓ کی نامزدگی لوگوں پر گراں گزرے گی اور مسلمان اس انتخاب کو اچھی نظروں سے نہ دیکھیں گے۔ چنانچہ انہوں نے عبدالرحمن بن عوف کو بلایا اور ان سے پوچھا: عممرؓ بن خطاب کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ عبدالرحمن نے جواب دیا: جس امر کے متعلق آپ مجھ سے دریافت کر رہے ہیں خود اسے بہتر جانتے ہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا: پھر بھی؟ عبدالرحمن نے جواب دیا: اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، واللہ عمرؓ بہترین شخص ہیں لیکن ان کے مزاج میں سختی ہے۔ ابوبکرؓ نے کہا: عمرؓ میں سختی صرف اس لیے ہے کہ میں نرمی سے پیش آتا ہوں۔ اگر خلافت کا کام ان کے سپرد کر دیا جائے تو ان کی سختی بڑی حد تک دور ہو جائے گی۔ میں خود بھی دیکھتا ہوں کہ اگر میں کسی شخص پر ناراض ہوتا ہوں او رسختی سے پیش آتا ہوں تو عمرؓ اس سے نرمی کا سلوک کرنے پر مائل ہوتے ہیں اور اگر میں کسی سے نرمی کا سلوک کرتا ہوں تو وہ میرے سامنے اس شخص کے بارے میں درشتی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر ابوبکر ؓ خاموش رہے پھر فرمایا: اے ابو محمد! جو کچھ میں نے تم سے کہا اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ عبدالرحمن بن عوف کے بعد ابوبکرؓ نے عثمانؓ بن عفان کو بلایا اور فرمایا: اے ابو عبداللہ! عمرؓ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ عثمانؓ نے جواب دیا: ان کے متعلق آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا: اس کے باوجود میں تم سے ان کے متعلق رائے دریافت کرتا ہوں۔ عثمان نے جواب دیا: عمرؓ کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ ان کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے اور وہ علم و فضل کے لحاظ سے ہم میں یکتاو ہیں۔ ابوبکرؓ نے کہا: اے ابو عبداللہ! اللہ تم پر رحم فرمائے۔ واللہ! اگر میں عمرؓ کو تمہارا امیر مقرر کر جاؤں تو وہ تم پر کسی قسم کی زیادتی نہ کریں گے۔ عبدالرحمن کی طرح ابوبکرؓ نے عثمان کو بھی یہ ہدایت کر دی کہ وہ کسی سے ان باتوں کا ذکر نہ کریں۔ ابوبکرؓ نے صرف عبدالرحمنؓ بن عوف اور عثمانؓ سے مشورہ لینے پر اکتفا نہ کیا بلکہ سعید بن زید، اسید بن حضیر اور دیگر مہاجرین و انصار سے بھی اس کے متعلق گفتگو کی۔ بعض صحابہ نے جب یہ سنا کہ ابوبکرؓ آئندہ ہونے والے خلیفہ کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لے رہے ہیں اوراپنے بعد عمرؓ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں بے حد فکر پیدا ہوا کیونکہ عمرؓ کی سختی ضرب المثل تھی اور انہیں خطرہ تھا کہ مبادا ان کے خلیفہ بن جانے سے مسلمانوں میں افتراق پیدا ہو جائے۔ ان لوگوں نے مشورہ کیا کہ ابوبکرؓ کے پاس جا کر انہیں اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے ۔ چنانچہ ان لوگوں کا ایک وفد اجازت لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور وفد کے قائد طلحہ بن عبداللہ نے عرض کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ عمرؓ بن خطاب کو اپنا جانشین مقرر کر رہے ہیں۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو جب اللہ آپ سے عمرؓ کو خلیفہ بنانے کے متعلق باز پرس کرے گا تو آپ اسے کیا جواب دیں گے؟ آپ کی موجودگی میں تو وہ لوگوں سے جس طرح پیش آتے ہیں اس کا حال آپ پر عیاں ہے مگر آپ کے بعد تو ان کے ظلم و ستم کی کوئی حد نہ ہوگی۔ یہ سن کر ابوبکرؓ کو سخت طیش آیا اور بخار کی حالت میں چلا کر بولے: مجھے بٹھا دو۔ چنانچہ آپ کو بٹھا دیا گیا۔ آپ نے ان لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا: کیا تم مجھے اللہ کے غضب سے ڈراتے ہو؟ واللہ! جب میں اللہ کے دربار میں حاضر ہوں گا تو عرض کروں گا کہ اے اللہ! میں نے تیرے بندوں پر تیرے سب سے بہتر بندے کو خلیفہ بنایا ہے۔ اس کے بعد طلحہ سے مخاطب ہو کر بولے: جو کچھ میں نے اس وقت کہا ہے اسے دوسرے لوگوں تک بھی پہنچا دینا۔ اس تند و تیز گفتگو کے بعد ابوبکرؓ دوبارہ بستر پر دراز ہو گئے اور یہ لوگ شرمندہ ہو کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اگلے روز صبح سویرے عبدالرحمن بن عوف ان کے پاس پہنچے اور انہیں دیکھ کر کہنے لگے: اللہ کا شکر ہے آج آپ کی صحت بحال معلوم ہوتی ہے۔ ابوبکرؓ نے کہا: کیا واقعی؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ابوبکرؓ کچھ دیر خاموش رہے پھر درد انگیز لہجے میں بولے: میں نے تمہارا امیر اس شخص کو مقرر کیا ہے جو میرے نزدیک تم سب میں بہتر ہے لیکن یہ سنتے ہی تم میں سے ہر شخص کا منہ سوج جاتا ہے اور وہ میرا انتخاب ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف نے بھانپ لیا کہ ابوبکرؓ کو کل کی باتوں سے سخت تکلیف پہنچی ہے۔ انہوں نے عرض کی: آپ لوگوں کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ اس وقت بعض لوگ تو ایسے ہیں جو عمرؓ کی خلافت کے بارے میں آپ سے بالکل متفق ہیں، ان کے بارے میں تو کسی فکر کی ضرورت ہی نہیں۔البتہ بعض لوگ عمرؓ کی خلافت پر راضی نہیں لیکن اگر انہوں نے آپ کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے تو صرف بطور مشورہ۔ انہیں آپ کی مخالفت مقصود نہیں۔ بہرحال جو فیصلہ آپ فرمائیں گے وہ انہیں منظور ہو گا کیونکہ انہیں یقین ہے کہ آپ جو کچھ کریں گے وہ مسلمانوں کی بہتری ہی کے لیے کریں گے۔ جب ابوبکرؓعمرؓ کی خلافت کے بارے میں کلیتہً مطمئن ہو گئے تو انہوں نے اپنے کاتب عثمانؓ بن عفان کو بلایا اور کہا: جو کچھ میں تمہیں بتاؤں اسے لکھ لو۔ اس کے بعد یہ عبارت لکھوائی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ وہ وصیت ہے جو ابوبکرؓ بن ابو قحافہ نے اس دنیا سے رخصت اور آخرت کی زندگی میں داخل ہوتے وقت لکھوائی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب بڑے سے بڑا کافر بھی ایمان لے آتا ہے اور جھوٹے سے جھوٹا شخص بھی سچ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ میں اپنے بعد عمرؓ بن خطاب کو تمہارا خلیفہ نامزد کرتا ہوں۔ تم اس کے احکام کی کامل اطاعت کرو۔ میں نے حتیٰ الامکان تم سے بھلائی کرنے میں کوئی دقیقہ سعی فروگزاشت نہیں کیا۔ اگر عمرؓ نے عدل و انصاف سے کام لیا تو مجھے اس سے بھی یہی امید ہے۔ لیکن اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو ہر شخص قیامت کے دن اللہ کے سامنے اپنے برے اعمال کا جواب دہ ہو گا۔ بہرحال میں نے اپنی دانست میں تمہاری بھلائی ہی کی تدبیر کی ہے۔ ورنہ غریب کا علم تو اللہ ہی کو ہے۔۔۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ابوبکرؓ نے عثمانؓ کو وصیت لکھوانی شروع کی۔ جب ان الفاظ پر پہنچے کہ میں تم پر خلیفہ بناتا ہوں تو ان پر غشی طاری ہو گئی۔ عثمانؓ کو ابوبکرؓ کا منشاء معلوم ہی تھا۔ انہوں نے حالت غشی ہی میں یہ الفاظ لکھ دئیے: میں عمرؓ بن خطاب کو تم پر خلیفہ مقرر کرتا ہوں اور میں نے تمہاری بھلائی میں کوئی دقیقہ سعی فروگزاشت نہیں کیا۔ جب ابوبکرؓ کی غشی دور ہوئی تو انہوں نے فرمایا: جو میں نے لکھوایا تھا اسے دوبارہ پڑھو۔ جب عثمانؓ نے پوری عبارت پڑھی تو ابوبکرؓ نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا: معلوم ہوتا ہے تمہیں ڈر تھا کہ اگر غشی کی حالت میں میری جان نکل گئی اور میں پوری وصیت نہ لکھوا سکا تو لوگوں میں خلیفہ کے بارے میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ عثمانؓ نے کہا: آپ درست فرماتے ہیں۔ واقعی میرا یہی خیال تھا۔ ابوبکرؓ نے عثمان کی لکھی ہوئی عبارت برقرار رکھی اور فرمایا: اللہ تمہیں اس کی بہترین جزا دے۔ لیکن اس پر بھی ابوبکرؓ کو اطمینان نہ ہوا اور انہوں نے اس وصیت کا اظہار عام لوگوں میں بھی کرنا چاہا تاکہ آئندہ کے لیے کسی اختلاف کا خدشہ باقی نہ رہے۔ انہوں نے مسجد کی طرف کا دروازہ کھلوایا اور اس میں کھڑے ہو گئے۔ ان کی بیوی اسماء بنت عمیس دونوں ہاتھوں سے انہیں تھامے ہوئے تھیں۔ انہوں نے لوگوں کو جو مسجد میں موجود تھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں جس شخص کو تم پر خلیفہ مقرر کروں تم اس پر راضی ہو؟ کیونکہ واللہ! میں نے تمہاری بھلائی کے لیے کوئی دقیقہ سعی فروگزاشت نہیں کیا اور نہ اپنے کسی قریبی رشتہ دار ہی کو خلیفہ بنایا ہے۔ میں نے اپنے بعد عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ نامزد کیا ہے ۔ تم اس کے احکام کی کامل اطاعت کرو۔ لوگوں نے یہ سن کر کہا: ہم آپ کے انتخاب پر راضی ہیں اور آپ سے عہد کرتے ہیں کہ ہر حال میں عمرؓ کی اطاعت اور فرماں برداری کریں گے۔ ابن سعد کی بعض روایات میں یہ ذکر بھی ہے کہ ابوبکرؓ کی وصیت تحریر کرنے اور اس پر مہر لگانے کے بعد عثمانؓ باہر آئے۔ مہر شدہ وصیت ان کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے لوگوں سے کہا: جس شخص کی خلافت کا اس وصیت میں ذکر ہے تم اس کی بیعت کر لو گے؟ لوگوں نے جواب دیاـ: یقینا چنانچہ انہوں نے عثمانؓ کے کہنے کے مطابق عمرؓ بن خطاب کی بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد ابوبکرؓ نے عمرؓ کو اپنے پاس بلا کر انہیں امور سلطنت کے متعلق بعض اہم ہدایات دیں۔ روایات میں ان ہدایات کی تفصیل اس طرح آئی ہے: میں اپنے بعد تمہیں اپنا جانشین مقرر کر کے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اللہ نے بعض عمل رات کو کرنے کے لیے فرمائے ہیں، وہ انہیں دن میں قبول نہیں کرتا اور بعض عمل دن کو کرنے کے لیے مقرر فرمائے ہیں، انہیں وہ رات کو قبول نہیں کرتا۔ جب تک فرضی عبادات کی بجا آوری نہ کی جائے نفلی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں۔ جس شخص کے پلڑے قیامت کے دن بھاری ہوں گے وہ دنیا میں نیک اعمال بجا لانے والا ہو گا کیونکہ حق کی بجا آوری کے بغیر پلڑوں کا بھاری ہونا غیر ممکن ہے اور جس شخص کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہ دنیا میں برے اعمال بجا لانے والا ہو گا کیونکہ باطل کی پیروی کیے بغیر پلڑوں کا ہلکا ہونا غیر ممکن ہے۔ اللہ نے قرآن کریم میں جہاں اہل جنت کا ذکر کیا ہے وہاں نیک اعمال بجا لانے کی وجہ سے ان کی تعریف اور ان کی برائیوں سے درگزر کی ہے۔ جب تم ان آیات کی تلاوت کرو تو کہو اے اللہ! مجھے ڈر ہے کہ مبادا امیر شمار ان لوگوں میں نہ کیا جائے۔ اسی طرح جہاں اہل دوزخ کا ذکر کیا ہے وہاں ان کے برے اعمال کا ذکر کیا ہے لیکن ان کی اچھی باتوں کا ذکر نہیں کیا۔ جب تم ان آیات پر پہنچو تو کہو اے اللہ! مجھے امید ہے کہ میرا شمار ان لوگوں میں نہ ہو گا۔ اللہ نے اکثر جگہ رحمت اور عذاب کی آیات یکجا کر دی ہیں تاکہ بندے کو جہاں ذوق و شوق سے نیکی کی طرف قدم اٹھانے کی رغبت پیدا ہو۔ وہاں اسے خدائی عذاب کا ڈر بھی پیدا ہو۔ وہ صرف حق کی پیروی کرے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالے۔ اے عمرؓ! اگر تم میری ان نصائح پر کان دھرو گے اور ان پر عمل کرو گے تو موت سے زیادہ کوئی چیز تمہیں محبوب نہ ہو گی اور تم بڑی بے قراری سے اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر کے اس انعامات سے بہرہ ور ہونے کی خواہش ظاہر کرو گے لیکن اگر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دو گے تو موت سے زیادہ او رکوئی چیز تمہارے لیے ڈر کا باعث نہ ہو گی اور یاد رکھو کہ اس طرح تم ہرگز اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ جب یہ نصائح سن کر عمرؓ ابوبکرؓ کے کمرے سے باہر آئے تو ابوبکرؓ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی: اے اللہ! میں نے عمرؓ کو اپنا جانشین بنا کر اپنی دانست میں مسلمانوں کے لیے بھلائی کا سامان کیا ہے۔ مجھے اپنے بعد فتنے کا ڈر تھا۔ میں نے یہ کام محض فتنے کی روک تھام کے لیے کیا ہے۔ میں نے خوف غور و فکر کر کے ایسے شخص کو ان کا امیر مقرر کیا ہے جو ان میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ مستعد اور مسلمانوں کی بھلائی کا سب سے زیادہ خواہش مند ہے۔ میری موت نزدیک آ چکی ہے۔ میرے بعد تو ہی مسلمانوں کی نگہداشت فرما کیونکہ وہ تیرے بندے ہیں اور تیرے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اے اللہ! ان کے امیر کو نیک اعمال بجا لانے کی صلاحیت عطا فرما۔ اے خلفاء راشدین میں سے بنا اور اس کی رعایا کو بھی اس کا مطیع و فرماں بردار بنا۔ مذکورہ بالا ہدایات اور دعا کی توثیق کرنا ہمارے لیے بے حد مشکل ہے خصوصاً اس فقرے سے کہ اے اللہ اسے خلفاء راشدین میں سے بنا! یہ شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ عبارات فرضی طور پر ابوبکرؓ کی طرف منسوب تو نہیں کر دی گئیں کیونکہ جب ایک شخص نے انہیں خلیفتہ اللہ کے لقب سے پکارا تو انہوں نے فوراً کہا کہ میں خلیفتہ اللہ نہیں بلکہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ چنانچہ اپنے انکسار کے باوصف وہ اپنے لیے راشد کا لفظ شاید ہی استعمال کرتے۔ ساتھ ہی جب ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکرؓ کے عہد کے متعلق متضاد روایات کتب تاریخ میں درج ہیں تو ہمارے لیے ان روایات کی چھان بین کرنا اور انہیں قبول کرنے میں بے حد احتیاط سے کام لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ محاسبہ نفس: جب ابوبکرؓ عمرؓ کے تقرر سے فارغ ہو چکے اور انہیں اطمینان ہو گیا کہ انہوں نے اپنے بعد مسلمانوں کی نگہداشت کا کامل انتظام کر دیا ہے تو اپنے نفس کا محاسبہ کرنا شروع کیا۔ عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ ابوبکرؓ کو مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق جو پریشانی تھی میں اسے دور کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان سے تشفی آمیز گفتگو کیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے کہا۔ آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے آپ کی تمام خواہشات پوری کر دیں اور آپ کے دل میں دنیا کی کسی بات کے متعلق کوئی حسرت باقی نہیں رہی۔ یہ سن کر ابوبکرؓ نے فرمایا: تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں کوئی حسرت لیے ہوئے اس دنیا سے نہیں جا رہا۔ البتہ تین باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ میں نے انہیں کیوں کیا، کاش میں انہیں نہ کرتا۔ تین کام میں نے نہیں کیے، کاش میں انہیں کر لیتا اور تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کر سکا، کاش انہیں دریافت کر لیتا۔ تین باتیں جو مجھے نہ کرنی چاہیے تھیں وہ یہ ہیں: 1۔ کاش میں فاطمہؓ کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہوتا خواہ ان لوگوں نے لڑائی ہی کی خاطر اسے بند کیا ہوتا۔ 1؎ 2۔ کاش میں فجاۃ السلمیٰ کو آگ میں نہ جلاتا۔ یا تو اسے تلوار سے قتل کر دیتا، یا اس کی جان بخشی کر کے چھوڑ دیتا۔ 3۔ کاش میں سقیفہ بنی ساعدہ والے دن خلافت کا بار عمرؓ اور ابو عبیدہ میں سے کسی پر ڈال دیتا۔ ان میں سے کوئی امیر ہوتا اور میں اس کا وزیر۔ جو امور مجھے بجا لانے چاہئیں تھے وہ ہیں: 1؎ جو لوگ علیؓ کے بیعت نہ کرنے کا واقعہ تسلیم نہیں کرتے وہ اس صورت کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اسی طرح بعض لوگ یہ روایت بھی تسلیم نہیں کرتے کہ ابوبکرؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش وہ انصار کے حق خلافت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیتے۔ 1۔ جب اشعث بن قیس حالت اسیری میں میرے پاس لایا گیا تھا تو مجھے اس کی گردن اڑا دینی چاہیے تھی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ فتنہ پرداز آدمی ہے اور کوئی فتنہ پیدا ہونے پر اسے ضرور بھڑکانے میں حصہ لے گا۔1؎ 2۔ اسی طرح جب میں نے خالدؓ بن ولید کو مرتدین سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا تھا تو مجھے مدینہ سے نکل کر ذوالقصہ میں مقیم ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر مسلمان کامیاب ہو جاتے فبہا ورنہ میں ذوالقصہ میں پڑاؤ ڈالنے کی وجہ سے فوراً ان کی مدد کے لیے پہنچ سکتا۔ 3۔ جب میں نے خالدؓ بن ولید کو شام بھیجا تھا تو اس کے ساتھ ہی عمرؓ بن خطاب کو عراق بھیج دیتا اور یوں دونوں ہاتھ خدا کی راہ میں پھیلا دیتا۔ وہ تین باتیں، جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لینا چاہیے تھا، یہ ہیں: 1۔ خلافت کے متعلق آپ سے دریافت کر لیتا تاکہ بعد میں کسی کے لیے جھگڑا کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ 2۔ آپ سے یہ بھی دریافت کر لیتا کہ خلافت میں انصار کا بھی حصہ ہے یا نہیں۔ 3۔ بھتیجی اور چچی کی میراث کے متعلق استفسار کر لیتا کیونکہ ان دونوں رشتہ داروں کی میراث کے متعلق میرے دل میں خلش باقی ہے۔ وظیفے کی واپسیـ: ابوبکرؓ مرض الموت میں صرف انہیں باتوں کے متعلق غور و فکر میں مشغول نہ تھے بلکہ بعض اور خیالات بھی ان کے ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ خلافت سے پہلے وہ تجارت کیا کرتے تھے لیکن جب امور سلطنت کا بار ان کے کندھوں پر پڑا تو انہوں نے مجبوراً اس پیشے کو خیر باد کہا اور بیت المال سے اپنے لیے وظیفہ مقرر کرا لیا جو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لیے کافی ہوتا۔ 1؎ ابوبکرؓ کی قراست کا کمال دیکھیے کہ ان کا یہ خدشہ ہو بہو پورا ہوا۔ جنگ صفین میں علیؓ کے لشکر میں شامل ہونے کے باوجود اشعث در پردہ امیر معاویہ سے مل گیا اور جب تحکیم کا فتنہ برپا ہوا تو یہ اسے بھڑکانے میں پیش پیش تھا۔ (مترجم) مرض الموت میں انہیں اس وظیفے کا بھی خیال آیا۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر ہدایت کی کہ میں نے دوست خلافت میں بیت المال سے جو رقم لی تھی اسے واپس کر دیا جائے اور اس غرض سے میری فلاں زمین بیچ کر اس سے حاصل شدہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ جب عمرؓ اور ابوبکرؓ کی ہدایت کے مطابق وہ رقم بیت المال میں جمع کی تو فرمایا: اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وفات کے بعد کسی بھی شخص کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع ہاتھ نہ آئے۔ ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جب ابوبکرؓ کی وصیت کے مطابق ان کے متعلقین نے بیت المال سے لی ہوئی رقم عمرؓ کو لوٹائی تو انہوں نے ابوبکرؓ کے لیے دعا کی اور فرمایا: ان کے بعد میں امیر مقرر ہوا ہوں اور میں یہ رقم تم ہی کو لوٹاتا ہوں۔ اس سلسلے میں تیسری روایت یہ ہے کہ وفات کے وقت ابوبکرؓ کے پاس ایک بھی دینار یا درہم نہ تھا۔ انہوں نے ترکے میں ایک غلام، ایک اونٹ اور ایک مخملی چادر چھوڑی۔ اس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ وفات کے بعد ان چیزوں کو عمرؓ کے پاس بھیج دیا جائے۔ وصیت کے مطابق جب یہ چیزیں عمرؓ کے پاس پہنچیں تو وہ رو پڑے اور کہا: ابوبکرؓ نے اپنے جانشین پر بہت سخت بوجھ ڈال دیا ہے۔ ہمیں اس روایت کی صحت میں تامل ہے کیونکہ اس کے بالمقابل اکثر روایات ایسی موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ابوبکرؓ نے کچھ نہ کچھ ضرور چھوڑا تھا گو وہ بہت ہی قلیل تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کے لیے اپنے ترکے کے پانچویں حصے کی وصیت کی تھی اور کہا تھا کہ جس طرح مال غنیمت میں حکومت کو پانچواں حصہ ملتا ہے اسی طرح میرے رشتہ داروں کو بھی میرے مال کا پانچواں حصہ ہی ملنا چاہیے۔ جب بعض لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ بجائے پانچویں حصے کے چوتھے حصے کی وصیت کر دیں تو انہوں نے کہا کون شخص نہیں چاہتا کہ اپنے متعلقین کے لیے وافر مال اسباب چھوڑ کر جائے لیکن اللہ کا حق مقدم ہوتا ہے۔ اگر میں بجائے پانچویں حصے کے چوتھے حصے کی وصیت کر جاؤں تو تم کہو گے کہ تیسرے حصے کی وصیت کرو اور جو شخص اپنے رشتہ داروں کے لیے تیسرے حصے کی وصیت کرتا ہے وہ اللہ کے لیے کچھ باقی نہیں چھوڑتا۔ اگر ابوبکرؓ نے کچھ ترکہ نہ چھوڑا تھا اور عائشہؓ کی طرف منسوب کی ہوئی یہ روایت صحیح مان لی جائے کہ ابوبکرؓ نے ایک بھی دینار اور درہم باقی نہیں چھوڑا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ابوبکرؓ نے پانچویں حصے کی وصیت کیونکر کر دی؟ وصیت تو وہی شخص کر سکتا ہے جس کے پاس مال ہو خواہ تھوڑا ہو خواہ بہت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل ابوبکرؓ کو ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا تھا جسے انہوں نے درست کر کے اس میں درخت لگوائے تھے۔ بعد میں انہوں نے یہ قطعہ اپنی بیٹی عائشہ کو دے دیا۔ جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے عائشہؓ سے کہا: اے میری بیٹی! میں یہ بالکل نہیں چاہتا کہ میرے بعد تمہیں اعتبار سے کسی قسم کی تنگی برداشت کرنی پڑے۔ میری دلی خواہش ہے کہ تم بافراغت زندگی بسر کرو پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ جو قطعہ زمین میں نے تمہیں دیا تھا وہ تم مجھے واپس کر دو تاکہ میں احکام وراثت کے مطابق اسے تمہارے بھائیوں اور بہنوں میں تقسیم کر دوں۔ عائشہؓ کی صرف ایک بہن تھیں۔ وہ بہت حیران ہوئیں کہ بہنوں کا کیا مطلب۔ انہوں نے والد سے اس کی وضاحت چاہی۔ ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ تمہاری سوتیلی والدہ حبیبہ بنت خارجہ کو حمل ہے اور میرا خیال ہے کہان کے ہاں لڑکی پیدا ہو گی۔ اس روایت سے بھی ابوبکرؓ کے ترکے کی موجودگی کا پتا چلتا ہے۔ تجہیز و تکفین کے متعلق وصیت: ابوبکرؓ نے اپنی تجہیز وتکفین کے متعلق بھی ورثاء کو وصیت کر دی تھی۔ ان کی ہدایت تھی کہ انہیں دو کپڑوں میں کفن دیا جائے جو وہ بالعموم پہنا کرتے تھے کیونکہ نئے کپڑے پہننے کا زیادہ حق دار زندہ شخص ہے۔ 1؎ غسل اسماء بنت عمیس دیں اور اگر وہ اکیلی یہ کام نہ کر سکیں تو اپنے بیٹے عبدالرحمن کو بھی ساتھ ملا لیں۔ ابوبکرؓ اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق ہدایات دینے میں مشغول تھے کہ مثنیٰ عراق سے مدینہ پہنچے اور باریابی کی اجازت چاہی۔ انہوں نے باوجود حد درجہ نقاہت کے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ مثنیٰ نے درخواست کی کہ عراق کی صورت حال کے پیش نظر ان لوگوں کو اسلامی فوج میں داخل ہونے کی اجازت دے دیجئے جو مرتد ہو گئے تھے اور اب اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔ انہوں نے عمرؓ کو بلا کر کہا کہ شام ہونے سے پہلے پہلے مثنیٰ کی مدد کے لیے فوج روانہ کر دو، میری وفات تمہیں ایسا کرنے سے مطلق نہ روکے۔ 1؎ تجہیز و تکفین کے متعلق روایات مروی ہیں اور وہ تمام عائشہؓ سے منسوب ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے وہ ایک کپڑا پہنے رہا کرتے تھے۔ وفات کے وقت انہوں نے کہا کہ جب میں وفات پا جاؤں تو میرا یہ کپڑا دھو کر اور دو نئے کپڑے اس سے ملا کر مجھے کفن دیا جائے۔ عائشہ کہتی ہیں میں نے کہا ہم تین کپڑے نئے کیوں نہ لے لیں؟ انہوں نے فرمایا: نہیں بیٹی! کفن تو اس لیے ہوتا ہے کہ خون اور پیپ وغیرہ جسم سے نکلے تو اس میں جذب ہو جائے۔ نئے کپڑے پہننے کا زیادہ حق دار زندہ شخص ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابوبکرؓ نے عائشہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا تین میں۔ آپ نے فرمایا میرے یہ دونوں کپڑے دھو لینا اور ایک کپڑا ساتھ ملا کر ان میں مجھے کفن دے دینا۔ عائشہ نے کہا ابا جان! ہم میں اتنی استطاعت ہے کہ ہم نئے کپڑوں میں آپ کو کفن دے سکیں۔ انہوں نے فرمایا اے میری بیٹی! زندہ شخص نئے کپڑے کا زیادہ حق دار ہے۔ کفن تو اس کے لیے ہوتا ہے کہ پیپ وغیرہ اس میں جذب ہو جائے۔ ان کے علاوہ اور بھی روایات ہیں جو طبقات ابن سعد میں درج ہیں۔ وفات: نزع کے وقت ان کی بیٹی عائشہ ان کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ انہوں نے باپ کی یہ حالت دیکھ کر حاتم کا یہ شعر پڑھا: لھرک ما یغنی الثراء عن الفتی اذا حشر جت یوما وضاق بھا صدر جب (نزع کی حالت طاری ہوتی ہے اور سینہ سانس نہ آنے کی وجہ سے گھٹنے لگتا ہے تو دولت انسان کے کام نہیں آتی۔) یہ شعر سن کر ابوبکرؓ نے غصے سے عائشہؓ کی طرف دیکھا اور کہا: بیٹی اس کے بجائے یہ لفظ پڑھ: وجائت سکرۃ الموت بالحق ذالک ما کنت منہ تحید (نزع کی حالت طاری ہو گئی، یہ وہ وقت ہے جس سے تو خوف کھایا کرتا تھا) ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تو عائشہؓ نے ان کے سرہانے بیٹھ کر یہ شعر پڑھا: وکل ذی غیبتہ یودب وغائب الموت لا یودب (ہرجانے والی کی واپسی کے لیے امید کی جا سکتی ہے مگر اس شخص کی واپسی ناممکن ہے جسے موت ساتھ لے جائے۔) ایک روایت میں مذکور ہے کہ یہ شعر ابوبکرؓ نے پڑھا تھا۔ آخری بات جو ان کے منہ سے نکلی وہ یہ دعا تھی: رب توفنی مسلما والحقنی بالصالحین (اے میرے پروردگار! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دینا اور مرنے کے بعد مجھے صالحین کے پاس جگہ دینا) ابوبکرؓ کی وفات21جمادی الاخریٰ13ھ (مطابق22اگست634ئ) پیر کو سورج غروب ہونے کے بعد ہوئی اور اسی رات انہیں دفن کر دیا گیا۔ وفات کے وقت ان کی عمر تریسٹھ برس کی تھی۔ وصیت کے مطابق ان کی بیوی اسماء بنت عمیس نے انہیں غسل دیا اور ان کے بیٹے عبدالرحیم نے جسم پر پانی ڈالا۔ اس کے بعد ان کی نعش اسی چارپائی پر رکھ کر مسجد نبوی میں لے گئے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر اٹھا کر قبر میں اتارا گیا تھا۔ مسجد نبوی میں ان کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔ نماز عمرؓ نے پڑھائی۔ اس کے بعد جنازہ عائشہؓ کے حجرے میں لے گئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ان کے لیے قبر تیار کی گئی تھی۔ عمرؓ، عثمان، طلحہؓ اور عبدالرحمن بن ابی بکرؓ ساتھ گئے۔ عبداللہ بن ابی بکرؓ نے حجرے میں داخل ہونا چاہا مگر عمرؓ نے کہا جگہ نہیں۔ ابوبکرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں اس طرح دفن کیا گیا کہ ان کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھواں کے متوازی تھا۔ قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد سب لوگ با چشم گریاں حجرے سے باہر نکل آئے اور خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں چھوڑ آئے۔ زندگی بھر دونوں ساتھ رہے۔ یہ رفاقت مرنے کے بعد بھی ختم نہ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب خادم اپنے آقا کے برابر ہی آرام کر رہا ہے۔ ابوبکرؓ کی وفات سے مدینہ تھرا اٹھا اور لوگوں پر کرب و اضطراب کی وہی کیفیت طاری ہو گئی جس کا نظارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت دیکھنے میں آیا تھا۔ علیؓ بن ابی طالب روتے ہوئے آئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر کہنے لگے: اے ابوبکرؓ! اللہ تم پر رحم کرے۔ واللہ! تم پہلے آدمی تھے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کیا تھا ۔ ایمان و اخلاص میں تمہارا ہم پلہ کوئی نہ تھا۔ خلوص و محبت میں تم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخلاق، قربانی، ایثار اور بزرگی میں تمہارا ثانی کوئی نہ تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کی جو خدمت تم نے کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت میں جس طرح ثابت قدم رہے اس کا بدلہ اللہ ہی تمہیں دے گا۔ جب ساری قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب میں مشغول تھی تو تم نے آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ جب ساری قوم آپ کو اذیتیں پہنچانے کے درپے تھی تو تم نے آپ کی حفاظت کی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر لوگ مطلق کان نہ دھرتے تھے۔ تو تم نے آپ سے مل کر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ تمہیں اللہ نے اپنی کتاب میں صدیق کے لقب سے سرفراز فرمایا۔ چنانچہ فرماتا ہے والذی جاء بالصدق و صدق بہ (اے کافرو! اس شخص کے حالات پر غور کرو جو تمہارے پاس صدق و یقین سے بھرپور باتیں کرنے آیا ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اسے بھی دیکھو جو ان باتوں کی تصدیق کرتا ہے (ابوبکرؓ) واللہ! تم اسلام کے حصن حصین تھے۔ کافروں کے لیے تمہارا وجود انتہائی اذیت بخش تھا۔ تمہاری کوئی دلیل وزن سے خالی نہ ہوتی تھی اور تمہاری بصیرت اور فہم و فراست کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ تمہاری سرشت میں کمزوری کا ذرا سا بھی دخل نہ تھا۔ تم ایک پہاڑ کی مانند تھے جسے تند و تیز آندھیاں بھی اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتیں۔ اگرچہ تم جسمانی لحاظ سے کمزور تھے لیکن دینی لحاظ سے جو قوت تمہیں حاصل تھی اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا۔ تم اپنے آپ کو بندہ پر تقصیر سمجھتے تھے لیکن اللہ کے نزدیک تمہارا مرتبہ بے حد بلند تھا۔ تم دنیا والوں کی نظروں میں واقعی ایک جلیل القدر انسان تھے اور مومنوں کی نگاہوں میں انتہائی رفیع الشان شخصیت کے مالک۔ لالچ اور نفسانی خواہشات تمہارے پاس بھی نہ پھٹکتی تھیں۔ ہر کمزور انسان تمہارے نزدیک اس وقت تک قوی تھا اور ہر قوی انسان وقت تک کمزور تھا۔ جب تک تم قوی سے کمزور کا حق لے کر اسے نہ دلوا دیتے تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمہارے اجر سے محروم نہ رکھے اور ہمیں تمہارے بعد بے یار و مددگار نہ چھوڑ دے بلکہ ہمارے سہارے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے۔ ام المومنین عائشہؓ نے کہا: اے ابا جان! اللہ آپ کے چہرے کو تروتازہ رکھے اور دین اسلام کو آفات و مصائب سے بچانے کے لیے جو مساعی آپ نے کی ہیں ان کا بہتر بدلہ آپ کو دے۔ آپ نے اس فانی دنیا کو چھوڑ کر اسے ذلیل کر دیا ہے اور آخرت کو اپنے دم سے عزت بخشی ہے۔ آپ کی وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے لیے سب سے زیادہ درد ناک حادثہ ہے۔ اللہ نے اپنے کلام میں بندوں کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بدلے بہترین انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس لیے ہم بھی آپ کی وفات پر صبر و استقامت کا اظہار کرتے ہیں اور اللہ سے ان انعامات کے طالب ہیں جو اس نے صبر کرنے کے بدلے میں ہم سے کر رکھے ہیں۔ اللہ آپ پر اپنی رحمت او رسلامتی نازل فرمائے۔ عمرؓ کو تو اس صدمے کا باعث گفتگو کا یارا ہی نہ رہا تھا۔ وفات کے بعد جب وہ حجرے میں داخل ہوئے تو صرف یہ الفاظ ان کے منہ سے نکل سکے: اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہاری وفات نے قوم کو سخت مصیبت اور مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم تو تمہاری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے، تمہارے مرتبے کو کس طرح پا سکتے ہیں؟ جب ابوبکرؓ کی وفات کی خبر مدینہ سے باہر قبائل عرب میں پھیلی تو کوئی درد مند آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ عظیمہ کے باعث پرنم نہ ہوئی ہو۔ جب مکہ میں یہ خبر پہنچی تو وہاں بھی ہر طرف سے آہ و شون کی آوازیں آنے لگیں۔ ابوبکرؓ کے والد ابو قحافہ اس وقت تک زندہ تھے۔ جب انہوں نے گریہ و زاری کی آوازیں سنیں تو لوگوں سے واقعہ پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کا لڑکا فوت ہو گیا۔ یہ سن کر ان کے دل پر اس قدر سخت صدمہ ہوا کہ وہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر خاموش ہو گئے اور اس کے بعد اور کوئی بات نہ کی ۔ جب لوگوں نے ابوبکرؓ کے ترکے میں سے ان کا حصہ ان کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا: ابوبکرؓ کے لڑکے اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ ابوبکرؓ کی وفات کے بعد ان کے والد کو بھی زیادہ عرصہ زندہ رہنا نصیب نہ ہوا اور وہ اس عظیم حادثے کی تاب نہ لاتے ہوئے چھ مہینے بعد وفات پا گئے۔ صحابہ کی بے چینی اور بے قراری یقینا حق بجانب تھی۔ ابوبکرؓ نے اسلام کی سربلندی کی خاطر جو مشکلات اور تکالیف برداشت کیں اور جس طرح اپنے آپ کو اس کی خدمت کے لیے وقف کیا اس کی نظیر اور کوئی نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے پاک نمونے سے دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں بھی دین کی تڑپ پیدا کر دی تھی۔ انہوں نے ہر قسم کی سختیاں جھیل کر اور ایمان و استقامت اور عزم و استقلال سے کام لے کر اسلام کو ہر امکانی خطرے سے بچایا اور اس راہ میں اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔ اللہ نے خلیفہ اول کے عہد میں مومنوں کا امتحان لیا تھا۔ وہ اس امتحان میں پورے اترے اور خلیفہ کے ایمان و ایقان اور مسلمانوں کی جرأت و ہمت کی بدولت اسلام عرب کی حدود سے نکل کر رومی اور ایرانی مقبوضات میں دور دور تک پھیل گیا۔ ابوبکرؓ کے ذریعے سے اللہ جو کام کرانا چاہتا تھا جب وہ پورا ہو چکا تو اس نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ اگر ابوبکرؓ، عمرؓ کو جانشین مقرر نہ کرتے تو نہ معلوم اس کا کیا نتیجہ نکلتا ۔ یہ آخری کارنامہ جو ابوبکرؓ نے انجام دیا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کی بدولت اسلام عروج کی آخری منزل تک پہنچ گیا۔ عمرؓ کے عہد میں اسلام کو جو ترقی نصیب ہوئی اسے دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ عمرؓ کا انتخاب خدائی انتخاب تھا جو اسی کی دی ہوئی توفیق سے ابوبکرؓ نے کیا۔ اس انتخاب میں زبان ابوبکرؓ کی لیکن مشیت خدا کی کام کر رہی تھی۔ لاریب ابوبکرؓ اور عمرؓ وہ مقدس وجود تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی آلائشوں سے کلیتہً پاک کر کے خالصتہ اللہ کے لیے وقف کر دیا تھا۔ دونوں کی طبیعتیں مختلف تھیں ۔ لیکن مقاصد ایک ہی تھے یعنی عدل و انصاف کا قیام اور اعلاء کلمتہ الحق۔۔۔۔ دونوں بزرگوں نے ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی زندگیاں یکسر وقف کر دی تھیں اور دونوں نہایت درجہ کامیاب و کامران ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے۔ اللہ ابوبکرؓ پر فضل فرمائے اور انہیں اس دنیا کی طرح بہشت میں بھی اپنی نوازش ہائے بے پایاں سے نواز کر اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ دے آمین! حرف آخر: میں نے کتاب کے آغاز ہی میں بیان کیا تھا کہ ابوبکرؓ کا عہد اسلامی تاریخ کا ایک ہم باب ہے اور ان کے کارنامے ذہن انسانی پر رعب و ہیبت طاری کر دیتے ہیں۔ میری اس رائے کی تائید وہ اصحاب بھی کریں گے جنہوں نے اس کتاب کو اول سے آخر تک پڑھا ہے اور ان عظیم الشان کارناموں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے جو ابوبکرؓ نے اپنے انتہائی مختصر عہدخلافت میں انجام دئیے۔ ابوبکرؓ کے عہد کی یہ تاریخ درس و موعظت کا بے پایاں دفتر بھی اپنے اندر رکھتی ہے اور اس کے پڑھنے سے قوموں کے عروج و زوال کا واضح نقشہ بھی ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کے پردے پر دو ہی عظیم الشان سلطنتیں تھیں۔ جن میں سے ایک مغربی تہذیب و تمدن، عقائد اور علوم و فنون کی علم بردار تھی اور دوسری مشرقی تہذیب و تمدن، عقائد اور علوم و فنون کا مقور۔ سلطنت رومہ لاطینی، فینیقی اور فرعونی تہذیب و آثار کا مجموعہ تھی اور سلطنت ایران، ایرانی اور ہندوستانی تمدن اور مشرق بعید کے مذاہب کا نقشہ پیش کرتی تھی۔ مقدم الذکر سلطنت وسطی یورپ بلکہ اس سے بھی پرے بحیرہ روم کے مشرق تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور موخر الذکر مملکت وسطی ایشیا سے لے کر دجلہ اور فرات کے طویل و عریض میدانوں پر محیط تھی۔ ان دو عظیم الشان سلطنتوں کے درمیان ایک ہولناک اور لق و دق صحرا حائل تھا جہاں دور دور تک روئیدگی کا نام و نشان تک نہ ملتا تھا۔ یہ ریگستان، جسے صحرائے شام کہا جاتا ہے، ان خانہ بدوش قبائل کا مسکن تھا جو جزیرہ نمائے عرب سے نکل کر رومی اور ایرانی سرحدوں پر آباد ہو گئے تھے۔ یہ دونوں عظیم قوتیں کبھی چین سے نہ بیٹھتی تھیں بلکہ ہمیشہ جنگ و جدل میں مصروف اور آئے دن ایک دوسری کے خلاف طاقت و قوت کے مظاہرے کرتی رہتی تھی۔ صدیوں سے ان کا یہی مشغلہ چلا آ رہا تھا اور دنیا پر اپنی عظمت و ہیبت کا سکہ بٹھانے کے لیے حرب و پیکار کے سوا اور کوئی وسیلہ ان کے پاس نہ تھا۔ باہم جنگ و جدل کا سبب یہ نہ تھا کہ ان سلطنتوں میں افلاس و ناداری نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اور تنگ دستی دور کرنے کی غرض سے انہوں نے ایک دوسرے کے علاقے پر دست درازی و غارت گری کو وطیرہ بنا رکھا تھا بلکہ اس کے برعکس یہ سلطنتیں بے حد خوش حال تھیں۔ ان کے پاس مال و دولت کی کمی نہ تھی۔ سرسبز و شاداب علاقے اور سونا اگلنے والی زمینیں ان کے قبضے میں تھیں۔ ہر قسم کی صنعتیں ان ملکوں میں فروغ پا رہی تھیں۔ علم و ادب کے چشمے ہر طرف جاری تھے۔ غرض دونوں سلطنتوں کو کسی چیز کی قلت نہ تھی۔ وہاں کے باشندے ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال تھے۔ اور بافراغت زندگی بسر کر رہے تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہر سلطنت یہ خیال کرتی تھی کہ ان نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کا حق صرف اسی کو حاصل ہے۔ اسی ذہنیت کے زیر اثر وہ دوسروں کا مال غصب اور لوٹ مار کا بازارگرم کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہ سمجھتی تھیں بلکہ اسے فرض اولین خیال کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ دونوں سلطنتیں متواتر سات سو سال تک ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں۔ کبھی ایک سلطنت کو فتح حاصل ہو جاتی تھی اور کبھی دوسری حکومت خوشی کے شادیانے بجاتی دوسرے کے علاقے پر قابض ہو جاتی تھی۔ لیکن فتح و شکست کے اس پیہم کے سلسلے کے باوجود دوسری اقوام کے دلوں سے ان کی ہیبت کم نہ ہوتی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ جو فریق آج کسی کمزوری کی وجہ سے شکست کھا گیا ہے وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا جب تک اس شکست کا انتقام لے کر فاتح قوم پر اپنی برتری ثابت نہ کر دے گا۔ جو آج غالب ہے وہ کل مغلوب ہو گا اور جو آج مغلوب ہے وہ کل غالب آ جائے گا اور فتح و شکست کا سلسلہ باری باری چلتا جائے گا۔ اس زمانے میں جب ہر جگہ ان دونوں سلطنتوں کا غلغلہ بلند تھا ہر طرف انہیں کی ثقافت کا ڈنکا بج رہا تھا، عرب کی سر زمین سے ایک بظاہر غیر مہذب قوم اٹھی اور آن کی آن میں ربع مسکون پر چھا گئی۔ یہ ایسا حیرت آفرین واقعہ تھا جس کی تہ کو کوئی نہ پہنچ سکا۔ کسی کے سان گمان میں یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ عرب کی سنگلاخ سر زمین سے ایک ایسی امت و ملت جنم لے سکتی ہے جو ایران اور رومیہ کے اقتدار اور ان کی صدیوں پرانی تہذیب کو آن کی آن میں پیوند خاک کر دے۔ کون خیال کر سکتا تھا کہ اس سر زمین سے تہذیب و تمدن کے سوتے پھوٹ سکتے ہیں۔ ۔۔۔ سوتے پھوٹنا تو بڑی بات ہے وہاں سے علم و عمل کی کوئی ہلکی سی کرن بھی ضوفشاں ہو سکتی ہے۔۔۔جس کے باشندوں کی حیثیت کسریٰ شاہ فارس کے نزدیک اونٹوں اور بکریوں کے چرواہوں سے زیادہ نہ تھی اور قیصر روم بھوکے اور ننگے کا لقب دے کر جن کی تذلیل کرتاتھا کیا یہ بھوکی، ننگی، مویشی چرانے والی قوم، جس کی طرف اہل ایران اور اہل رومہ حقارت کی وجہ سے آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے، ایسے فرزند پیدا کر سکتی تھی جو کسریٰ اور قیصر کی سلطنتوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیتے؟ لیکن یہ سب منصہ شہود پر آیا اس قوم نے انتہائی کسمپرسی کی حالت سے ترقی کی، بہت ہی قلیل عرصے میں عرب کی سر زمین سے نکل کر قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کے مقابلے صف آرا ہو گئی اور اس وقت تک دم نہ لیا جب تک دونوں مملکتوں کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل نہ کر دیا۔ آپ نے اس کتاب میں ملاحظہ فرمایا ہو گا کہ عرب ان سلطنتوں پر جنگی ساز و سامان کی برتری یا تعداد کی زیادتی کے باعث غالب نہ آئے بلکہ یقین محکم اور عزم راسخ کی بدولت کامیاب و کامران ہوئے اور اسی ایمان و یقین نے اس اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جس نے متواتر دس صدیوں تک اقصائے عالم میں علم و عرفان کا چراغ روشن کیے رکھا۔ یہی چراغ تھا جس نے اہل یورپ کو روشنی بخشی اور انہیں جہالت کے اتھاہ اندھیروں سے نجات دلا کر علم و عمل کی وہ راہ دکھائی جس پر آج وہ گامزن ہیں۔ اسلام نے اپنا دائرہ عرب، ایران اور شام ہی تک محدود نہ رکھا بلکہ اس نے ایشیا میں ہند، چین ا ور ترکستان، افریقہ میں مصر، تونس، الجزائر اور مراکش اور یورپ میں روس، اطالیہ اور ہسپانیہ تک ضوفشانی کی اور ان علاقوں کی پیاسی سر زمین کو باران رحمت سے سیراب کیا۔ اس معجزے کا ظہور کس طرح ہوا او رتہذیب و تمدن سے کورے علوم و فنون سے نا آشنا، حقیر و ذلیل عرب کم مائیگی اور قلت تعداد کے باوجود ایران اور روم کی مہذب و شائستہ اقوام پر کس طرح غالب آ گئے؟ کیا یہ سب کچھ اتفاقاً واقع ہو گیا؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اسلام کا یہ غلبہ کوئی اتفاقی امر نہ تھا جس کی نظیر اقوام عالم کی تاریخ میں ملنا غیر ممکن ہو۔ اگر بہ فرض محال ابوبکرؓ کے عہد میں بعض اتفاقی حوادث کی وجہ سے مسلمانوں کو عدیم النظیر کامیابی نصیب ہو بھی گئی تھی تو لازماً اس کا اثر صرف ابوبکرؓ کے عہد تک محدود رہنا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عمرؓ اور عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں بھی فتوحات کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ مسلمانوں کو سلطنت ایران اور سلطنت روم کے مقابلے میں روز افزوں کامیابیاں نصیب ہوتی چلی گئیں اور کوئی طاقت انہیں آگے بڑھنے سے روک نہ سکی۔ اس لیے ان کامیابیوں کو اتفاقی حوادث کا نام دے کر ان کے اصل اسباب نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔ واقعات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں جو کچھ پیش آیا وہ طبع دوراں کے اقتضاء کے عین مطابق تھا۔ زمانے کا تقاضا ہمیشہ یہی رہا ہے کہ افراد کی طرح قوموں پر بھی لازماً انحطاط کا زمانہ آتا ہے اور جس قوم پر انحطاط کا دور آ جائے فتنہ و فساد اور شورش و اضطراب اس میں راہ پا کر اس کی زندگی کا خاتمہ نزدیک لے آتے ہیں۔ اس وقت اس زوال پذیر طاقت کی جگہ لینے کے لیے ایک اور قوم کھڑی ہو جاتی ہے اور جو پرانی ثقافت کے آثارکو مٹا کر ایک نئی ثقافت کی بنیاد رکھ دیتی ہے۔ اس کتاب میں پہلے بھی کئی بار شورش و اضطراب کے ان عوامل کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے جو بارہا فارس اور روم میں برپا ہوتے رہتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں ان عوامل نے اثر دکھانا شروع کیا اور فارس میں فتنہ و فساد نقطہ عروج تک پہنچ گیا۔ اس زمانے میں وہاں ہر جانب بد نظمی اور ابتری کا دور دورہ تھا۔ تخت شاہی کے متعدد دعوے دار پیدا ہو گئے تھے۔ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈے اختیار کیے جا رہے تھے اور خود غرضی لوگوں کے دلوں میں سرایت کر چکی تھی۔ اس فساد کا اثر دوسرے شعبہ ہائے حیات پر بھی پڑا۔ ملک کے باشندے اتحاد و اتفاق کی دولت کھو بیٹھے ۔ گروہ بندیاں قائم ہو گئیں۔ مختلف جھگڑے جنم لینے لگے اور لوگوں کے عقائد میں انتشار پیدا ہو گیا۔ یگانگی اور اخوت کی جگہ عصبیت اور مذہبی و سیاسی گروہ بندیوں نے لے لی۔ اس لیے جو بھی گروہ بر سر اقتدار آ جاتا وہ مخالفین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے سے نہ چوکتا اور دوسروں کو مال و دولت اور جاہ و جلال سے محروم کر کے ہر قسم کا آسائش و آرام اپنے لیے مخصوص کرنا چاہتا۔ یہ انتشار اس امر کا متقاضی تھا کہ سلطنت ایران کی صف لپیٹ دی جائے، خدائی نعمت اس سے چھین لی جائے اور اس قوم کے حوالے کر دی جائے جو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنا جانتی ہو۔ سلطنت رومہ کا حال بھی ایرانی سلطنت سے کسی طرح کم نہ تھا۔ مذہبی مناقشات اور حصول اقتدار کا سلسلہ وہاں بھی جاری تھا۔ مختلف عیسائی فرقوں کے درمیان لامتناہی اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور ہر فرقہ اپنے عقائد دوسرے فرقے کے لوگوں پر زبردستی ٹھونسنا چاہتا تھا۔ حصول اقتدار کی خواہش بھی وہاں کے سرداروں کو بے چین کیے ہوئے تھی اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے سر پھٹول اور جنگ وجدل کا سلسلہ برابر جاری رہتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں بھی ضعف و انحطاط کے آثار ہویدا ہونے لگے۔ گو جسٹینین نے بالغ نظری، اثر و رسوخ، عدل و انصاف اور زور و قوت کے بل بوتے پر سلطنت رومہ کے نیم مردہ جسم میں زندگی کی روح پھونکنے کی کوشش کی لیکن بیماری اس قدر بڑھ چکی تھی اور ضعف اس حد تک سرایت کر چکا تھا کہ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور اس کے جانشینوں کے عہد میں سلطنت کی حالت برابر ابتر ہوتی چلی گئی۔ اس کے جانشینوں میں نہ وہ۔۔۔۔ حکمت عملی تھی اور نہ وہ بالغ نظری، نہ وہ اثر و رسوخ تھا نہ وہ زور و قوت جس کے بل بوتے پر سلطنت کی بگڑی ہوئی حالت بنا سکتے۔ ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں فوکاس سریر آرائے سلطنت ہوا اور اس نے ڈنڈے کے زور سے ملک پر حکومت کرنی شروع کی لیکن یہ حکومت اسے راس نہ آئی۔ کچھ عرصے کے بعد سلطنت رومہ کے افریقی مقبوضات کے حاکم ہرقل نے فوکاس کے خلاف بغاوت کر دی اور اسے قتل کر کے خود سلطنت پر قابض ہو گیا۔ فوکاس کے آخری اور ہرقل کے ابتدائی عہد حکومت میں رومیوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایرانیوں نے سلطنت رومہ کے بہت سے حصے پر قبضہ جما لیا تھا۔ جب ہرقل کی حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی تو اس نے چھینے ہوئے مقبوضات کو رومی عمل داری میں واپس لانے کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ چنانچہ ایک بار پھر رومیوں اور ایرانیوں میں جنگ چھڑ گئی جس میں انجام اکر رومیوں کو فتح نصیب ہوئی اور ہرقل نے اپنے تمام مقبوضات ایرانیوں سے واپس لے لیے۔ اس طرح ہرقل کی قوت و طاقت میں معتدبہ اضافہ ہو گیا اور لوگ خیال کرنے لگے کہ جسٹینین کا عہد لوٹ کر آ گیا ہے۔ بیرونی دشمن پر فتح حاصل کرنے کے بعد ہرقل نے سلطنت کی اندرونی حالت کو مستحکم کرنا چاہا ملک کے استحکام میں سب سے بڑی رکاوٹ نا اتفاقی اور سلطنت کے باشندوں کی باہمی عداوت نے ڈال رکھی تھی۔ عیسائی بے شمار فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور ہر فرقہ دوسرے فرقے کا جانی دشمن تھا ہرقل نے اس رکاوٹ کو دور کرنے اور مذہبی اختلاف مٹا کر سلطنت کے تمام باشندوں کو ایک ہی مذہب پر جمع کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن بدقسمتی سے اس غرض کے لیے اس نے جو طریق کار اختیار کیا اس نے تمام فرقوں کے لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکا دیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ہرقل ہمارے فرقے اور مذہب کی بیخ کنی پر تلا ہوا ہے اور تمام لوگوں کو بہ جبر اپنے فرقے میں داخل کرنے کا خواہاں ہے تو وہ اس کے مقابلے پر اٹھ کھڑے ہوئے اور سارا ملک مہیب خانہ جنگی میں مبتلا ہو گیا۔ اس طرح ہرقل نے جس طریق کار کو اپنی سلطنت کے استحکام کے لیے مفید خیال کیا تھا وہی اس کی سلطنت کے ضعف کا باعث بن گیا۔ یہ تھے وہ عوامل جن کی بنا پر دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں کو عروج کی آخری منزلوں تک پہنچنے کے بعد آخر ضعف و اضمحلال سے ہمکنار ہونا پڑا۔ گردش ایام کا تقاضا یہ تھا کہ ان نحیف و نزاد قوام کی جگہ نئی امنگوں سے بھرپور ایک اور قوم کھڑی ہوتی جو حیرت انگیز کارناموں کی بدولت دنیا کی نظروں کو اپنی طرف کھینچ لیتی۔ عروج و زوال کے طبعی قوانین کے ماتحت اس نئی قوم کے مقدر میں اس وقت تک کامیابی کے مراحل طے کرنے لکھے تھے جب تک وہ حقیقتاً پیغام الٰہی کی حامل رہتی اور دنیا کو اسی کی پیروی میں اپنی نجات کے سامان نظر آتے۔ انسان کی آزادی اور خود مختاری کا چھن جانا اس کے لیے مادی تکالیف سے بدرجہا زیادہ اذیت بخش ہوتا ہے۔ آزادی پر قدغن عائد ہونے اور ضمیر کی حریت کا گلا گھونٹ دینے والے قوانین و عقائد سے انسانی ذہن پر جمود کی حالت طاری ہو جاتی ہے اور انسان غور و فکر کی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں شگفتگی مطلق باقی نہیں رہتی۔ اطمینان اور سکون کی کیفیت بالکل مفقود ہو جاتی ہے۔ جب قوم کے افراد دیکھتے ہیںکہ ان کی آزادی چھینی جا رہی ہے، ان کے افکار و خیالات اور عقائد و اعمال پر قیود عائد کی جا رہی ہیں تو ان کے دل و دماغ میں باغیانہ خیالات پیہم گردش کرنے لگتے ہیں، باغیانہ روح ان میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مقصد براری کے لیے ہر قسم کے جائز و ناجائز وسائل اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ لاریب جب کسی قوم کے فکر و نظر پر پابندیاں عائد کر دی جائیں اور انسانی ذہن کو منجمد کر کے اسے اپنے کمالات ظاہر کرنے کا موقع نہ دیا جائے تو اسی وقت سے اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے اور ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ بالکل رک جاتی ہے۔ ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ فکر و نظر کے دروازے کھلے ہوںاور ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہو، تاریخ ارتقائے عالم کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے بنی نوع انسان کی ترقی کا راز آزادی فکر و عمل میں مضمر رہا ہے۔ ہمارے اولین اسلاف کا جو جنگلوں اور پہاڑوں کی کھوہوں میں زندگی بسر کرتے تھے، شب و روز جنگلی جانوروں سے واسطہ پڑتا رہتا تھا اور ان خون خوار درندوں کے مقابلے میں وہ اسی لیے کامیاب ہو جاتے تھے کہ وہ ذہنی آزادی کے سبب ایسے ہتھیار ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو ان جانوروں کے مقابلے میں کار آمد ثابت ہو سکیں۔ اس کے بعد جب بنی نوع انسان کی پہلی جماعت جنگلوں اور پہاڑیوں کی کھوہوں سے نکل کر دریائے نیل کے کنارے آباد ہوئی اور پہلی بار دنیا میں تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی گئی تو فطرت انسان نے لوگوں کو ایسے نظام کی ضرور ت کا احساس دلایا جس کے ذریعے سے امن و امان اور حریت عمل کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے بعض اصول و ضوابط مرتب کیے اور ہر شخص کے لیے ان پر عمل پیرا ہونا اور ان کا احترام کرنا لازم قرار دیا۔ جب ذہن انسانی نے ترقی کی مزید راہیں طے کیں اور قدرت کے بعض اور راز اس پر منکشف ہوئے تو انسانی ضمیر نے انگڑائی لی، انسان کے لیے غور و فکر کے راستے کھل گئے اور ان راستوں کی بدولت اس نے علم و ادب اور فنون تک رسائی حاصل کر لی۔ انسنای ذہن اسی طرح کبھی ترقی منازل طے کرتا اور کبھی تنزل کی راہوں پر قدم مارتا رہا۔ جب کبھی انسان نے عقل و خرد کا آزادانہ استعمال کیا ترقی نے آگے بڑھ کر اس کے قدم چومے لیکن جب عقل پر جمود کی کیفیت طاری ہو گئی تو ترقی بھی رک گئی۔ آزادی فکر و نظر کی بدولت عجیب و غریب ایجادیں عمل میں آئیں۔ انسان نے کائنات کو مسخر کرنے کے پروگرام تیار کیے۔ علم و عمل کی راہیں کھلیں۔غرض ترقی کی منازل تیزی سے طے ہوتی رہیں اور انسان کہیں کا کہیں۔۔۔۔ جا پہنچا۔ لیکن جب انسانی ذہن پر قیود عائد کر دی گئیں یا اس نے خود اپنے آپ پر عقل و فکر کے دروازے بند کر لیے تو کاروان انسانیت کے بڑھتے ہوئے قدم بھی رک گئے اور ترقی کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ یہی حال ایرانیوں اور رومیوں کا بھی ہوا۔ جب تک ان میں فکر و عمل کی آزادی برقرار رہی وہ ترقی کے زینے طے کرتے چلے گئے لیکن جب حریت فکر اٹھ گئی اور لوگوں کے ذہنوں پر پہرے بٹھا دئیے گئے تو ترقی کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا او ران کی عظیم الشان تہذیب آہستہ آہستہ نابود ہونے لگی۔ خدائی قانون کے تحت ضروری تھا کہ ایک اور تہذیب ان مٹتی ہوئی تہذیبوں کی جگہ لے۔ یہ شرف ازل سے عربوں کے لیے مقدر ہو چکا تھا۔ چنانچہ اللہ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس غرض کے لیے چنا اور آپ کے ہاتھ سے اس تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی گئی جس نے ایرانی اور رومی تہذیب و تمدن کی جگہ لے کر دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں آ کر بت پرستی اور آتش پرستی میں جکڑے ہوئے انسانوں کو ان بھاری زنجیروں سے نجات دلائی اور تلقین کی کہ اگر وہ اپنے لیے ترقی کی راہیں کھولنا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ غور و فکر کو کام میں لائیں اور آسمان و زمین کی لاتعداد طاقتوں اور قوتوں کو مسخر کر کے انہیں اپنے فائدے کی خاطر استعمال کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے جو تعلیم پیش کی تھی وہ ان لوگوں کے لیے ناقابل برداشت تھی جنہوں نے سادہ لوح عوام کو پھانس کر انہیں بے بنیاد توہمات، عقائد اور رسوم کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا۔ وہ بھلا کس طرح برداشت کر سکتے تھے کہان کے پیرو انہیں چھوڑ کر ایک نیا راستہ اختیار کریں۔ اس لیے انہوں نے آپ کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان برپا کر دیا اور سالہا سال تک آپ سے جنگوں میں مصروف رہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے عزم راسخ عطا ہوا تھا۔ آپ نے نہایت پامردی سے ان کا مقابلہ کیا اور اس وقت تک میدان مبارزت میں موجود رہے جب تک اللہ نے اپنے دین کو کامل فتح عطا نہ فرما دی۔ مشیت ایزدی یہی تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم کو فروغ حاصل ہو اور وہ اپنی سادگی و پاکیزگی کی بنا پر لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ہی اسلام اقصائے عرب میں پھیل گیا اور سارے ملک سے بت پرستی کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے سے مخصوص نہیں بلکہ ہر دور میں جب بھی حق و صداقت کی آواز بلند ہوئی، اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا اور علم برداران حق کو ان لوگوں کے ہاتھوں سخت تکالیف برداشت کرنی پڑیں جنہیں اپنی لیڈری ان آسمانی تحریکوں کے سامنے ختم ہوتی دکھائی دیتی تھی۔ حق و باطل کے درمیان یہ آویزش ابتدائے آفرینش سے اب تک جاری ہے۔ پھر بھی اس سلسلے میں ایک فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ انسانی ضمیر ابھی تک دور طفولیت سے گزر رہا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں اس کی جو حالت تھی کم و بیش وہی اب بھی ہے۔ اس دوران میں جنگ ہائے مدائن اور عراق و شام کے سوا باقی جتنی جنگیں ہوئیں ان کا مقصد تو کچھ اور تھا لیکن دنیا پر یہ ظاہر کیا گیا کہ یہ جنگیں حریت، عدل و مساوات اور اخوت کے قیام کے لیے لڑی جا رہی ہیں۔ سادہ لوح عوام ہمیشہ عدل و انصاف اور مساوات کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے لیڈروں کے دام تزویر میں پھنستے رہے، انہوں نے ایک خوش آئند مستقبل کے حصول کی خاطر لیڈروں کے ساتھ جنگوں میں شریک ہو کر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا اور جانیں تک قربان کرنے سے نہ ہچکچائے۔ جنگوں کے اختتام پر لوگوں کو بجا طور پر یہ امید ہوتی تھی کہ ان سے کیے ہوئے وعدے پورے کیے جائیں گے اور جن اصولوں کے قیام اور بقا کی خاطر انہوں نے جنگ میں شرکت کی تھی۔ انہیں لباس عمل پہنایا جائے گا لیکن ہمیشہ ہی لوگوں کو مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا اور آخر ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ ان کے لیڈروں اور حاکموں کے سامنے صرف ذاتی مفاد تھا اور اسی ذاتی مفاد اور مادی اغراض کے حصول کے لیے انہوں نے سینکڑوں ہزاروں جانیں میدان جنگ میں تلف کرا دیں۔ ان کے عد ل و انصاف اور حریت و مساوات کے قیام کے وعدے جھوٹے تھے اور ان کی حقیقت سراب سے زیادہ نہ تھی۔ یہ واقعہ ہے کہ بیشتر جنگیں جو عدل و انصاف اور حریت و مساوات کے نام پر لڑی گئیں ان کا فائدہ صرف خود غرض، لالچی اور حریص لیڈروں کو پہنچا۔ انہوں نے ذاتی مطلب براری کے لیے عوام الناس کو جنگ کے شعلوں میں جھونکا اور ان کی لاشوں پر اپنے لیے عالی شان محل تعمیر کر لیے۔ عوام الناس کے بار بار دھوکا کھانے کی وجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں، یہ ہے کہ انسانی ضمیر ہنوز عالم طفلی میں ہے۔ بچہ جب چلنے کی کوشش کرتا ہے تو لڑکھڑاتا ہے اور بار بار زمین پر گرتا ہے لیکن باز نہیں آتا۔ ایک مرتبہ زمین پر گرنے کے بعد اٹھتا ہے پھر لڑکھڑاتا ہوا چلنے لگتا ہے۔ دوبارہ گرتا ہے پھر اٹھتا ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن یہی لغزشیں بچے کو توازن قائم کرنا سکھاتی ہیں اور آخر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ باقی نہیں رہتی اور وہ بالکل سیدھا ہو کر چلنے لگتا ہے۔ عالم طفلی سے نکل کر وہ جوانی کی عمر تک پہنچتا ہے اور جوانی کا زمانہ گزار کر بڑھاپے کی عمر میں داخل ہو جاتا ہے۔ جس طرح بچہ لڑکھڑانے اور بار بار منہ کے بل زمین پر گرنے کے باوجود اٹھنے اور دوبارہ چلنے سے باز نہیں آتا اور یہی لغزشیں آخر اس کی چال میں توازن پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں اسی طرح اقوام عالم کا حال ہے۔ فارس اور روم کی سلطنتوں کے اوندھے منہ زمین پر آ گرنے سے انسانیت کو ایک زبردست دھکا لگا۔ لیکن یہی دھکا اس کے لیے باعث رحمت ثابت ہوا۔ ان عظیم الشان سلطنتوں کی جگہ اسلامی سلطنت کی صورت میں دنیا کے لیے امن و راحت کا سامان پیدا ہو گیا او رانسانی ضمیر کو پختگی حاصل کرنے کا موقع مل گیا۔ اسلام نے آ کر انسانیت کی لاج رکھ لی اور حریت و مساوات کا وہ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جسے دیکھ کر وہ ششدر رہ گئی۔ اس موقع پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے جزیرہ نمائے عرب کو نبی آخر الزمان کی بعثت کے لیے کیوں چنا اور اس خطہ زمین کو اپنے غیر مختتم انوار کے نزوال کے لیے کیوں منتخب فرمایا؟ اس سوال کا قطعی اور یقینی جواب دینا تو ہمارے بس کی بات نہیں لیکن اقوام عالم کے سلسلہ عروج و زوال پر نظر ڈالنے سے ہمیں اس امر کا تھوڑا سا اندازہ ضرور ہو سکتا ہے کہ کیوں اللہ نے اپنی مشیت سے جزیرہ نمائے عرب کو اس غرض کے لیے چنا۔ مصر، یونان، اشور اور رومہ کی سر زمین صدیوں سے انسانی تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھی۔ دنیا کے دوسرے خطوں میں علم و فضل اور تہذیب و تمدن کی جو روشنی نظر آ رہی تھی وہ سب انہیں علاقوں سے فیضان حاصل کرنے کا نتیجہ تھا۔ ان علاقوں میں عقل انسانی پختگی کی اس حد کو پہنچ گئی تھی کہ دوسرے ممالک کے لوگ اس کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ اسی لیے فارس اور روم کی سلطنتیں اپنے زمانے میں دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھیں۔ مگر عروج و زوال کے طبعی قوانین کے تحت آخر ان سلطنتوں پر بھی زوال آ گیا اور تہذیب و تمدن اور علم شائستگی کے چراغ کی روشنی، جو صدیوں سے ایک عالم کو منور کر رہی تھی، آہستہ آہستہ مدہم پڑنی شروع ہو گئی۔ جزیرہ نمائے عرب ایران اور روم کے متصل واقع تھا۔ چونکہ یہ علاقے صدیوں سے تہذیب و تمدن اور علم و شائستگی کے مرکز تھے اس لیے ان میں کتنا ہی ضعف و اضمحلال راہ پا جاتا پھر بھی یہ امید کی جا سکتی تھی کہ اگر اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر مشتمل کوئی تعلیم ان کے سامنے پیش کی جائے گی تو وہ نہ صرف اسے قبول کرنے میں پس و پیش نہ کریں گے بلکہ پہلے کی طرح اسے دوسرے علاقوں تک پہنچانے میں بھی ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ خدائی نوشتوں میں جہاں ایران و رومہ کے زوال کی تفصیل مندرج تھی۔ وہاں یہ بھی مذکور تھا کہ ان علاقوں کے بالکل متصل عرب کی آزاد خود مختار سر زمین میں ایک جلیل المنزلت شخصیت مبعوث کی جائے گی جسے قبول کرنے میں دنیا کی نجات مضمر ہو گی، عرب سے یہ تعلیم ایران اور روم کے علاقوں میں جائے گی اور وہاں سے دنیا بھر میں پھیلے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اللہ نے اپنے نوشتوں کے مطابق عرب کی سر زمین میں اپنے پیغام بر کو مبعوث کیا اور کیا بھی اس شہر میں جو اپنے تقدس اور احترام کے لحاظ سے عرب کے تمام شہروں میں منفرد حیثیت رکھتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دے کر اس کے سامنے انسانیت کی اعلیٰ قدریں متعین کر دی تھیں۔ عربوں کے قلوب فتح کرنے کے بعد آپ نے اپنی توجہ ایران اور روم کی طرف منعطف کی اور ان لوگوں کو اس شریعت غراء اور آسمانی تعلیم پر ایمان لانے کی دعوت دی جو ہر خطے کے لوگوں کے لیے یکساں مفید اور ہر زمانے کے تقاضوں کو یکسر پورا کرنے والی تھی۔ جب تک آپ زندہ رہے اعلاء کلمتہ الحق کے کام میں تن من دھن سے مصروف رہے اور اپنے بعد وفادار صحابہ کا ایک ایسا مقدس گروہ چھوڑ گئے جنہوں نے آپ کا مشن پورا کرنے اور اللہ کا پیغام اقصائے عالم تک پہنچانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ ابوبکرؓ کو اسی مقدس گروہ کی قیادت کا شر ف حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے فرائض جس تن دہی سے انجام دئیے، حق و صداقت کا بول بولا کرنے کے لیے جس جان فشانی سے کام کیا اور تائید دین کی خاطر جن مہیب خطرات کا سامنا کیا انہیں ہم مسلمان کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ انہوں نے عشق الٰہی، حب رسول، بے نفسی اور اخلاص و استقامت کے جو نمونے دکھائے ان کی نظری پیش کرنے سے زمانہ قاصر ہے۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ ان کی ذہنی پختگی کمال کو پہنچ چکی تھی۔ اگر تمام انسانوں میں اسی طرح ذہنی پختگی پیدا ہو جائے تو لڑائیوں کا نام و نشان مٹ جائے اور دنیا بھر میں امن و امان اور سلامتی کا دور دورہ ہو جائے۔ لیکن ابھی یہ وقت دور ہے۔ لوگوں کی سرشت میں اب بھی یہ بات داخل ہے کہ جب ان سے ان کے آبائی عقائد اور رسم و رواج کے خلاف کوئی بات کہی جائے، تو خواہ وہ کتنی ہی مفید اور دل نشین کیوں نہ ہو، وہ ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیں گے اور اپنے باپ دادا کے عقائد اور پرانے رسم و رواج پر قائم رہیں گے خواہ وہ کتنے ہی مضحکہ خیز اور بعید از عقل کیوں نہ ہوں۔ وجہ یہی ہے کہ ابھی تک ان کی ذہنی افتاد اس حد تک نہیں پہنچی جسے پختگی سے تعبیر کیا جا سکے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ شور و غوغا کر کے اور خاندانی عزت و وجاہت کی دہائی دے کر حق و صداقت پر غالب آ سکتے ہیں۔ ان کی حالت بالکل اس بچے کی سی ہوتی ہے جو شور و غل مچا کر اور چیخ پکار کر کے والدین سے اپنا کہا منوا لیتا ہے لیکن جب ماں باپ دیکھتے ہیں کہ ان کا بچہ بے جا ضد کر رہا ہے اور اس کی بد تمیزیاں حد سے بڑھ رہی ہیں تو وہ اسے سرزنش کرتے ہیں اور بچہ خاموش ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ چنانچہ ابوبکرؓ کے عہد میں بھی مرتدین نے اسلامی حکومت کے خلاف شورش برپا کر کے من مانی کرنی چاہی تھی لیکن ابوبکرؓ کی بروقت کارروائی سے یہ فتنہ بڑھنے نہ پایا اور جس طرح نافرمان بچے ماں باپ کی گوش مالی کے بعد ان کا کہا ماننے اور اطاعت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اسی طرح مرتد قبائل ابوبکرؓ کی جنگی کارروائی کی تاب نہ لا کر ان کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ مرتدین کے استیصال سے عرب میں اسلام کا بول بالا تو ہی چکا تھا۔ اللہ نے چاہا کہ ایران اور روم میں بھی اسلام کے درخت کی آبیاری کرے۔ اس غرض کے لیے اس نے صد ہا برس پیشتر سے انتظام شروع کر دیا تھا اور اپنی خاص تقدیر کے تحت جزیرہ عرب کے ہزاروں باشندوں کو ایران اور روم کے درمیان صحرائے شام میں آباد کر کے انہیں بطور بیج کے استعمال کیا تھا۔ ان تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو معجزہ ابوبکرؓ کے عہد میں رونما ہوا وہ دو متحارب طاقتوں کی باہمی آویزش کا ثمرہ نہ تھا بلکہ اس خدائی تقدیر کے تحت ظہور پذیر ہوا تھا۔ جسے بہرحال پورا ہو کر رہنا تھا اور جس کے پورا ہونے کے اسباب اللہ نے پہلے ہی سے مہیا کر دئیے تھے۔ اگر جزیرہ نمائے عرب شام اور عراق کے متصل واقع نہ ہوتا، اگر عربی زبان ان قبائل کی زبان نہ ہوتی جو صدیوں سے صحرائے شام میں مقیم تھے، اگر اللہ عین اس وقت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث نہ فرماتا جب زمین علم و عرفان کی پیاسی اور عالم نور حق کے لیے بے تاب تھا تو اس دنیا کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی ۔ نہ رومی اور ایرانی تہذیب کے بجائے اسلامی تہذیب جلوہ گر ہو سکتی اور نہ آفتاب ہدایت اقصائے عالم پر ضو فشاں ہو سکتا۔ جب خدائی مشیت کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو اس کے لیے اسباب بھی مہیا ہو جاتے ہیں اور جن لوگوں کے ذریعے سے خدا کی تقدیر کا ظہور مقدر ہوتا ہے ان کی مخفی صلاحیتیں آپ سے آپ ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ ابوبکرؓ، عمرؓ بن خطاب، خالدؓ بن ولید اور دیگر امراء عساکر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسلامی سلطنت کی تشکیل انہیں لوگوں کے ذریعے سے ہوئی۔ لیکن کیا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ اگر اللہ کا ارادہ سر زمین عرب میں ایک حیرت انگیز معجزہ بروئے کار لانے کا نہ ہوتا تو بھی یہ لوگ ایسے ہی عظیم الشان کارنامے انجام دے سکتے جیسے اسلامی فتوحات کے وقت انجام دئیے؟ اگر اللہ کی مشیت کار فرما نہ ہوتی تو ابوبکرؓ کی حیثیت عام لوگوں میں ایک معمولی تاجر سے زیادہ نہ ہوتی جسے ہر وقت مال و دولت کی فکر دامن گیر رہتی اور قوم میں ان کا مرتبہ زیادہ سے زیادہ قبیلہ تیم بن مرہ کی سرداری سے بڑھ کر نہ ہوتا۔ اگر اسلام کا ظہور نہ ہوتا تو خالدؓ بن ولید کی حیثیت بنی مخزوم اور قریش کے ایک معمولی بہادر آدمی سے زیادہ نہ ہوتی اور تاریخ میں ان کا نام کبھی سکندر اعظم، جولیس سیزر ، ہنی بال، چنگیز خاں اور نپولین بونا پارٹ جیسے عظیم سپہ سالاروں کے ساتھ نہ لیا جاتا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعث نہ ہوتی تو عمرؓ بن خطاب کا شمار کسی گنتی میں نہ ہوتا اور امیر المومنین کی حیثیت سے جو عظیم الشان کام انہوں نے انجام دئیے اور جس طرح ایران و روام کی سلطنتوں کو تہہ و بالا کر دیا ان کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہ آتا۔ آج اگر ان لوگوں کا نام تاریخ کے صفحات پر ابدی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور ان کے کارنامے درخشندہ ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں تو محض اس لیے کہ یہ لوگ اس مشیت کی عملی تصویر تھے جس کا ظہور ازل سے مقدر ہو چکا تھا۔ مخالفین اسلام اکثر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تلوا رکے زور سے پھیلا ہے۔ میں نے حیات محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ثابت کیا تھا کہ قرآن کریم جارحانہ جنگ کی مذمت کرتا ہے اور اسے کسی صورت میں بھی جائز نہیں ٹھہرانا۔ چنانچہ فرماتا ہے: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا اے مومنو! اللہ کے راستے میں جہاد کرو لیکن یاد رکھو تمہیں صرف ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت ہے جو تم سے لڑتے ہیں۔ تمہیں بطور خود جارحانہ جنگ چھیڑ دینے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے: فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم واتقوا اللہ واعلموا ان اللہ مع المتقین جو قوم تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس سے اتنی ہی سختی کر سکتے ہو جتنی اس نے تم سے کی تھی۔ اللہ سے ڈور اور یاد رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ اسلام لوگوں کو صلح کی دعوت دیتا ہے۔ ایک دوسرے کی غلطیوں پر عفو اور در گزر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ دشمن سے بھی نرمی کا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔ آزادی رائے کا وہ سب سے بڑا علم بردار ہے اور مذہب و عبادات میں کسی قسم کی مداخلت وہ قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ اسلام کی اس تعلیم کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اعلیٰ، بلند اور پاکیزہ اصولوں کی موجودگی میں ابوبکرؓ نے مسلمانوں کو مرتدین سے جنگ کرنے کا حکم کیوں دیا اور عراق و شام کی فتوحات کس غرض سے کی گئیں؟ ابوبکرؓ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی دل و جان سے اطاعت کرنا فرض سمجھتے تھے۔ خدائی احکام کی خلاف ورزی کا ان پر شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسلام اگرچہ رحمت و شفقت، عفو و در گزر اور صلح و آشتی کا داعی ہے پھر بھی وہ مسلمانوں پر یہ پابندی عائد نہیں کرتا کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے جبر و تعدی کو کام میں نہ لائیں بلکہ انہیں اجازت دیتا ہے کہ جہاں موقع ہو وہ اس غرض کے لیے سختی اور جبر سے بھی کام لیں اور اسی لیے مسلمانوں نے ملکوں اور شہروں پر چڑھائی کی اور وہاں کے باشندوں کو تلوار کے زور سے اسلام میں داخل کیا؟ ان سوالات کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک مرتدین کا تعلق ہے ابوبکرؓ نے ان سے خدائی احکام کے مطابق جنگ کی تھی جو اللہ نے سورۂ برأت میں نازل فرمائے ہیں: فان تابو اوا قاموا الصلوٰۃ وآتو الزکوٰۃ فاخوانکم فی الدین و نفصل الایات لقوم یعلمون۔ وان نکثو ایمانھم من بعد عھدھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفرا نھم لا ایمان لھم لعلم ینتھون۔ اگر کافر توبہ کر لیں، نمازیں پڑھیں، زکوٰۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ تم ان سے مسلمانوں کا سا سلوک کرو۔ ہم اپنی آیات گوش و ہوش رکھنے والی قوم کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ لیکن اگر وہ عہد شکنی کریں اور دین اسلام میں طعنہ زنی کریں تو ان ائمہ کفر سے لڑو کیونکہ ان کی قسمیں ذرا بھی اعتبار کے لائق نہیں۔ شاید اسی طرح یہ شرارتوں سے باز آ جائیں۔ اس لیے جب مرتدین عہد شکنی کر کے کھلم کھلا مسلمانوں کے مقابلے میں آ گئے اور دین اسلام پر طعنہ زنی شروع کر دی تو خدائی حکم کے مطابق ان سے لڑنا ضروری ہو گیا۔ اسی طرح جب ابوبکرؓ نے ایران اور روم کی طرف اسلامی فوجیں روانہ کیں تو بھی انہوں نے خدائی احکام سے سر مو تجاوز نہ کیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کی بقا کے لیے جنگ و جدل بہرحال ضروری ہے اور جب تک تلوار کے ذریعے سے قوموں کو زیر نہ کیا جائے اسلام کے اعلیٰ اور بلند مقاصد پورے ہو ہی نہیں سکتے۔ بات یہ ہے کہ انسانی ضمیر چونکہ ان دنوں عالم طفلی میں سے گزر رہا تھا اس لیے اسے راہ راست پر لانے اور تربیت دینے کے لیے مناسب حال طریقے استعمال کیے گئے۔ کہیں ملائمت اور نرمی سے سمجھایا گیا اور کہیں سختی و درشتی سے۔ مسلمانوں نے جب اسلام کے تابندہ اصول دنیا کے سامنے پیش کیے تو وہ اس امر سے غافل نہ تھے کہ انسانیت کے اعلیٰ تقاضے اس وقت تک کاملاً پورے نہیں ہو سکتے جب تک انسانی ضمیر پختگی کی حد کو نہ پہنچ جائے۔ اس بات کی تکمیل کے لیے ابھی ہزاروں سال چاہئیں۔ اسلام چونکہ بندوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لیے اس نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے جا راستہ تجویز کیا ہے وہ ان کے حالات کے عین مطابق ہے۔ اس راستے پر چلنے سے انسان آہستہ آہستہ منزل مقصود کے نزدیک ہوتا جاتا ہے۔ اسلام کی مثال اس باپ کی سی ہے جو بچے کی تربیت کے وقت اس کی جسمانی نشوونما اور ساخت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ وہ کبھی اس پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور اس سے کبھی یہ امید نہیں رکھتا کہ وہ بچپن کی حالت میں جوانوں کی طرح کام کرے گا۔ تربیت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ باپ کبھی تو اپنے بچے کی معصوم خواہشات کا احترام کرتے ہوئے انہیں قبول کر لیتا ہے لیکن بعض اوقات وہ دیکھتا ہے کہ اس طرح بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو وہ انہیں رد بھی کر دیتا ہے اور بچے کی ناراضگی کی پروا نہیں کرتا۔ اسی طرح کبھی تو وہ پیار و محبت سے بچے کی تربیت کرتا ہے لیکن جب دیکھتا ہے کہ پیار اور محبت کا سلوک بچے پر اثر انداز نہیں ہوتا تو وہ اس کی گو شمالی کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ لیکن ہر حال میں اس کے پیش نظر بچے کی بھلائی ہی ہوتی ہے۔ وہ اگر پیار او رمحبت کرتا ہے۔ تو بچے کے فائدے اور اصلاح کی خاطر، اور ڈانٹتا اور گو شمالی کرتا ہے تو بھی بچے کے فائدے اور اصلاح کی خاطر۔ یہی حال اسلام کا بھی ہے۔ وہ ضمیر انسانی کو تدریجاً پختگی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے وہ سب سے پہلے والدین کی طرح اس کی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اسے کبھی محبت اور پیار سے کام چلانا پڑتا ہے اور کبھی سختی کی طرح مائل ہونا پڑتا ہے لیکن ہر حال میں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان آہستہ آہستہ اس منزل کے قریب ہوتا چلا جائے جو اس کے لیے متعین کر دی گئی ہے اور ان اعلیٰ اقدار کو پا لے جو اس کا منتہائے مقصود ہیں اور جن کا ذکر بالتفصیل کلام اللہ میں کر دیا گیا ہے۔ انسانی ضمیر پر بسا اوقات جمود کی حالت بھی طاری ہو جاتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ اس کی نشوونما بالکل رک چکی ہے۔ چنانچہ ہمارے زمانے میں مسلمانوں کے ادبار اور پستی کی وجہ یہی ہے کہ طبعی قوانین کے مطابق انسانی ضمیر پر جمود کی حالت طاری ہو چکی ہے لیکن جمود کی یہ حالت ہمیشہ کے لیے برقرار نہیں ر ہ سکتی۔ یقینا ایسا وقت آئے گاجب یہ حالت ختم ہو گی، انسان کی مخفی صلاحیتیں ایک بار پھر بیدار ہوں گی اور انسانی ضمیر آہستہ آہستہ پختگی کی آخری حد تک پہنچ جائے گا۔ یہ حالت خواہ صدیوں بعد پیدا ہو، بہرحال پیدا ضرور ہو گی۔ یہی وہ دن ہو گا جب انسان اخلاق کے اس بلند ترین مرتبے تک پہنچ جائے گا جس کا اسلام اس سے تقاضا کرتا ہے۔ زمین پر ہر طرف امن و سلامتی۔۔۔۔ کا دور دورہ ہو گا اور بنی نوع انسان کی باہمی کدورت و شکر رنجی یکسر مفقود ہو جائے گی۔ لیکن یہ صورت حال تب ہی پیدا ہو گی کہ کل روئے زمین کے لوگ آسمانی آواز پر کان دھر کر اللہ کی بادشاہی میں داخل ہو جائیں گے کیونکہ انسانی ضمیر تب ہی حد کمال کو پہنچ سکتا ہے کہ زمین کا چپہ چپہ اللہ کے نور سے معمور ہو جائے۔ اگر زمین کا ایک گوشہ تو آسمانی نور سے حصہ پا لے لیکن باقی حصے بدستور ضلالت و گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈھکے رہیں تو مناقشات اور جنگ و جدل کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا ۔ اس صورت حال کا مداوارا کرنے کے لیے ہر زمانے میں ایسے انسان پیدا ہوتے رہیں گے جو ابوبکرؓ کے نقش قدم پر چل کر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا کام انجام دیں گے اور جس طرح والدین اور استاد ہر ممکن طریقے سے اپنے بچوں اور شاگردوں کی تربیت کرتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بھی بنی نوع انسان کی تربیت کے لیے مناسب حال طریقے استعمال کرنے سے دریغ نہ کریں گے۔ انسانی ضمیر نے حد کمال کو پہنچنے کے لیے اب تک جو ترقی کی ہے اس میں بڑا اثر اسلامی تعلیمات کا ہے اور آئندہ بھی وہ ترقی کی منازل اسی وقت طے کر سکے گا جب وہ اسلام کی پیش کردہ تعلیمات کو اپنا لے۔ یہ وقت یقینا آئے گا اور زمین کا گوشہ گوشہ اللہ کے نور سے جگمگا اٹھے گا۔ ہم یہ بات محض خوش اعتقادی کی بنا پر نہیں کہہ رہے بلکہ مغربی مفکرین بھی غور و فکر کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ چنانچہ ذیل میں ہم مشہور انگریز ادیب جارج برناڈشا کا ایک حوالہ پیش کرتے ہیں جسے پڑھنے سے ہماری رائے کی تصدیق ہو جاتی ہے برنارڈ شا لکھتا ہے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش کردہ دین کو ادیان عالم میں بہت ہی بلند مرتبہ حاصل ہے۔ دیگر ادیان کے برعکس اس دین میں دائما زندہ رہنے کی حیرت انگیز قوت موجود ہے۔ اس کی وجہ، جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہ ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اپنے اندر مختلف طریقہ ہائے حیات کو سمونے کی اہلیت اور بنی نوع انسان کے ہر طبقے کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے۔۔۔۔ کہ یورپ میں بھی اسے روز بہ روز مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ جہالت و تعصب کے باعث از منہ وسطیٰ میں اسلام کو انتہائی بھیانک صورت میں عوام کے سامنے پیش کیا گیا اور انہیں یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام یسوع مسیح کا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتا ہوں اور میرا اعتقاد ہے کہ آج بھی دنیا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خو بو رکھنے والے کسی شخص کی خدمات میسر آ جائیں تو بنی نوع انسان کی تمام مشکلات یکسر کافور ہو سکتی ہیں اور زمین میں امن و امان اور خوش بختی کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔ آج زمانے کو انہیں چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں کارلائل اور گبن جیسے جلیل القدر مفکرین نے اسلام کو حقائق و انصاف کی کسوٹی پر پرکھا اور جو نتائج اخذ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیے ان کی بنا پر یورپ والوں کے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور انہوں نے اسلام پر ہمدردانہ نظر سے غور و فکر کرنا شروع کیا۔ موجودہ بیسویں صدی میں تو اسلام کے متعلق اہل یورپ کے نقطہ نظر میں بہت زیادہ تبدیلی آچکی ہے اور نفرت و عداوت کی جگہ اسلام کی محبت نے لے لی ہے۔ اس رفتار کو دیکھتے ہوئے کچھ تعجب نہیں کہ اگلی صدی تک اسلام پورے طور پر اہل یورپ کے دلوں میں گھر کر جائے اور اسے وہ نجات کا ذریعہ سمجھ کر جوق در جوق اس میں داخل ہونا شرو ع ہو جائیں۔ میری اپنی قوم اور یورپ کے دیگر ممالک کے متعدد اشخاص اسلام قبول کر چکے ہیں اور اب یہ بات بلاشک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ یورپ کے کلیتہً اسلام قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ 1؎ برنارڈشا کے علاوہ دنیا کے اور بھی بڑے بڑے مفکرین نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے متعلق انہیں خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جن سے یہ اندازہ کرنا دشوار نہیں کہ انسانی ضمیر آہستہ آہستہ تکمیل کے مدارج طے کر رہا ہے اور یہ مقدر ہو چکا ہے کہ جلد یا بدیر دنیا آلات و مصائب کے چکر سے نجات حاصل کر کے واقعی امن و سکون حاصل کر لے۔ اس کے آثار ابھی سے نظر آ رہے ہیں۔ زمین کی طنابیں کھچ چکی ہیں۔ باشندگان ارض کو میل ملاپ کی جو سہولتیں آج میسر ہیں ایسی پہلے کبھی نہیں ہوئیں، چھاپا خانوں کی بدولت کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو رہی ہے اور کبھی علم و فن اور مذہب و ملت کے متعلق کتابوں کا دستیاب ہونا دشوار امر نہیں رہا۔ 1؎ کلمات برنارڈ شا ماخوذ از رسالہ نور الاسلام نمبر40صفحہ572 ،1353ھ صحافت، جو خیالات و عقائد کی اشاعت کا سب سے موثر ذریعہ ہے، عروج پر ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی فون کے ذریعے سے سات سمندر پار کی خبریں پل بھر میں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ یہ سب سامان اس یوم موعود کو نزدیک تر لانے کے لیے کیے جا رہے ہیں جب ساری دنیا کا ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی دین جو فضائیں آج جنگ کے نعروں سے گونج رہی ہیں وہ کل امن و سلامتی کے ترانوں سے معمور ہوں گی اور جہاں اس وقت تعصب اور جہالت کی گھنگھور گھٹائیں چھار ہی ہیں وہاں آفتاب اسلام طلوع ہو کر ہر قسم کی تاریکی دور کر دے گا۔ اس صبح درخشاں کا ظہور کب ہو گا اور آفتاب سعادت کب جلوہ دکھائیگا؟ گو ہمارے ظاہری اندازوں کے مطابق یہ وقت ابھی دور ہے پھر بھی اللہ کی رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ یہ دن ہمارے لیے قریب تر آ جائے۔ اس دن انسان اپنے اوج کمال کو پہنچ جائے گا۔ عدل و انصاف، رحم و شفقت، برو تقویٰ سے زمین بھر جائے گی۔ ہر شخص اپنے بھائی کا خیر خواہ ہو گا۔ تمام اقوام بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے پیش آئیں گی۔ منافقت کا جذبہ بالکل مفقود ہو جائے گا۔ کوئی قوم دوسری قوم پر للچائی ہوئی نظر نہ ڈالے گی بلکہ ترقی کی راہ میں چھوٹی بڑی اقوام ایک دوسری کے دوش بہ دوش گامزن نظر آئیں گی۔ اس دور کا انسان جب پچھلے زمانے پر نظردوڑائے گا تو اسے جنگ و جدل، قتل و غارت، خونریزی و سفاکی، عیاری و مکاری اور ظلم و تعدی کا ایک لا متناہی سلسلہ نظر آئے گا۔ وہ حیرت و استعجاب سے بنی نوع انسان کے ان کارناموں کو دیکھے گا جو انہوں نے شخصی مفاد اور ذاتی اقتدار کی خاطر انجام دئیے اور یہ کارنامے انجام دیتے ہوئے انہوں نے اخوت و محبت، عدل و انصاف اور رحمت و شفقت کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سنگ دلی اور نا انصافی کو شعار بنا لیا۔ اپنے آباء و اجداد کی یہ کار ستانیاں دیکھ کر اس کا دل بے اختیار ان پر نفرین بھیجنے کو چاہے گا لیکن یکایک اس کی نظر ابوبکرؓ کے نہایت مختصر مگر انتہائی درخشاں دور حکومت پر پڑے گی اور وہ مبہوت ہو کر پکار اٹھے گا: اللہ کی ہزاروں برکتیں اور رحمتیں ہوں اس مقدس اور پاک باز انسان پر جس نے اپنی ساری عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفاقت اور اسلام کی اشاعت میں صرف کر دی۔ وہ ضعیف تھا لیکن دین کی راہ میں اس نے عدیم المثال استقامت کا ثبوت دیا۔ وہ غریب لیکن اللہ کے راستے میں اپنا ایک ایک پیسہ خوش دلی سے کرچ کر دیا۔ اس کے راستے میں سنگ گراں حائل تھے۔ مگر اس کے پائے استقلال میں خفیف سی بھی جنبش پیدا نہ ہوئی اور وہ اسلام کی کشتی کو خوفناک طوفانوں اور مہیب چٹانوں سے صحیح سلامت نکال کر لے گیا۔ ابوبکرؓ کے کارناموں کو آنے والی کوئی بھی نسل فراموش نہ کر سکے گی اور قیامت تک ان پر سلام بھیجنے والے پیدا ہو تے چلے جائیں گے۔ ہم بھی ان کی مقدس اور مطہر روح پر ہزاروں سلام بھیجتے ہوئے ان کا مبارک تذکرہ ختم کرتے اور اللہ کے حضور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم میں پھر صدیق اکبر فاروق اعظم اور خالدؓ سیف اللہ جیسے صف شکن اولو العزم اور پہاڑ کی مانند مستقل مزاج انسان پیدا کر دے جن کی اس وقت اسلام کی کشتی کو کھینچنے کے لیے اشد ضرورت ہے۔ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End