مجموعہ آغا حشر (ڈرامائے) حصہ اول آغا حشر کاشمیری ٭ اندر سبھا، ۱۸۶۴ء گل روزرینہ، ۱۸۶۷ء اور یوں یہ کاروبار چل نکلا اور اس نے عوامی مقبولیت حاصل کر لی۔ امتیاز علی تاج نے ۱۲ جلدوں میں بمبئی سٹیج، قدیم ناٹکوں اور ان کے خالقوں کے بارے میں معلومات اور کوائف جمع کرنے کے ساتھ ساتھ بعض مطبوعہ ناٹکوں کے متن، مع ضروری حواشی طبع کیے تھے۔ ذیل میں ان سے بنیادی معلومات پیش کی جاتی ہیں؟ جلد۱۔ بمبئی کا ابتدائی اردو ڈراما:’’ سونے کے مول کی خورشید‘‘ (بمبئی۱۸۷۱ئ) ایدل جی جمشید جی کھوری کے ’’ ہندوستانی ناٹک‘‘ کو سیٹھ بہرام جی مزدوں جی مر زبان نے ہندوستانی زبان میں ترجمہ کیا۔ جلد۲۔ ’’ آرام کے ڈرامے‘‘ :’’ نور جہاں‘‘ (بمبئی۱۸۷۲ئ) ’’ حاتم‘‘ (بمبئی ۱۸۷۲ئ) ’’جہانگیر شاہ گوہر‘‘ اردو اوپیرا تھیٹر (بمبئی ۱۸۷۴ئ) پہلے دو کے گجراتی مصنف بھی ایدل جی جمشید جی کھوری اور ’’ ہندوستانی زبان‘‘ کے مترجم نسروان جی مہروان جی آرام ہیں۔ (نام گجراتی تلفظ کے مطابق) جبکہ تیسرے کے مصنف نوشیروان جی مہربان جی خان صاحب ہیں۔ (ٹائٹل پر تخلص درج نہیں) جلد ۳۔ ’’ آرام کے ڈرامے‘‘ :’’ بے نظیر بدر منیر عرف نو طرز اردو‘‘ (دہلی، سن نہیں مگر ۱۸۷۲ء میں لکھا گیا)’’ ہوائی مجلس عرف قمر الزمان ماہ‘‘ (دہلی سنہ نہیں)’’ لعل و گوہر‘‘ (شہر، سنہ؟) ’’تماشائے پرس زاد و زنگی مرد عرف گل بہ صنوبر چہ کرد‘‘ (بمبئی ۱۸۹۰) تیسرے اور چوتھے ناٹک پر نام یوں ہے۔ نسروان جی مہروان جی خان صاحب آرام جبکہ پہلے پر نسروان جی مہربان جی خان صاحب مرحوم، دوسرے پر نسروان جی مہروان جی خان صاحب درج ہے۔ جلد ۴۔ ’’ ظریف کے ڈرامے‘‘ :’’ تمہاشائے نتیجہ عصمت عرف رنج و راحت یعنی آصف و مہ وش‘‘ (بمبئی سنہ نہیں مگر ۱۸۸۴ء میں لکھا گیا) نیرنگ عشق عرف گلزار عصمت (بمبئی ۱۸۸۶ئ) ’’انجام سخاوت عرف خدا دوست‘‘ (آگرہ، سنہ نہیں لکھا) مصنف غلام حسین میاں ظریف۔ جلد۵۔’’ رونق کے ڈرامے‘‘ :’’ سانحہ دل گیر عرف رانجھا ہیر‘‘ (بمبئی ۱۳۰۸ھ) بقول ’’تاج‘‘ برٹس میوزیم کی فہرست کتب میں ۱۸۸۰ء میں درج ہے ’’ عجائبات پرستان عرف بہارستان عشق‘‘ (بمبئی ۱۸۸۳ئ) ’’ ظلم عمران روسیاہ عرف انصاف محمود شاہ‘‘ (بمبئی، سنہ نہیں ) غالباً ۱۸۸۲ء میں لکھا۔ مصنف محمود میاں رونق۔ جلد ۶: ’’ رونق کے ڈرامے‘‘ :’’ انجام ستم یا ظلم اظلم عرف جیسا دو ویسا لو‘‘ (بمبئی ۱۸۸۳ئ) ’’تماشائے جاں گداز، ظلم مست ناز عرف خون عاشق جانباز‘‘ (بمبئی سنہ نہیں)’’ غرور رعد شاہ عرف چندا مور خورشید نور‘‘ (دہلی ۱۸۹۰ئ) مصنف محمود میاں رونق۔ جلد۷’’ حباب کے ڈرامے‘‘ :’’ شرر عشق، طلسم ارض العمان ‘‘ (بمبئی ۱۸۸۱ئ) نیرنگ تاخت غزالہ ماھرو (لکھنو ۱۹۰۰ئ) ’’ سلیمانی تلوار، معروف بہ نقش سلیمانی و بہشت شداد‘‘ (لکھنو ۱۹۰۲ئ) پہلے دو پر نام محمد الف خان حباب جبکہ آخری پر امان اللہ خان حباب درج ہے۔ جشن کنور سین عرف سیر پرستان (شہر؟ سنہ؟) جلد۸۔ ’’ کریم الدین مراد کے ڈرامے‘‘ :’’ گلستان خاندان ہامان‘‘ (۱۸۸۵ئ) ’’ چتر ابکاولی‘‘ (۱۸۸۷ئ) وادی دریا عرف بادشاہ خدا داد(۱۸۹۰ئ) مصنف کا نام کریم الدین مراد۔ دیباچہ حواشی اور تبصرے از سید وقار عظیم۔ جلد۹۔ ’’ نامعلوم مصنفین کے ڈرامے‘‘ :’’ فتنہ دغالم عرف دل پسندی عالم‘‘ ’’ ظلم وحشی‘‘ دو رنگی دنیا عرف کسوٹی (لاہور سنہ نہیں) مصنف مہتہ تلسی داس دت شیدا، کلکتہ، امتیاز علی تاج اور سید وقار عظیم کے دیباچے/تبصرے جلد۱۰۔’’ حافظ عبداللہ کے ڈرامے‘‘ :’’ پسندیدہ آفاق معروف بہ علی بابا و چہل قزاق‘‘ (آگرہ، سنہ نہیں) مگر ۱۸۸۹ء میں طبع چہارم۔ سوانح قیس مفتوں معروف بہ عشق لیلیٰ و مجنوں (آگرہ، ۱۹۰۱ئ) شکنتلا اردو (آگرہ، ۱۹۱۰ئ) مصنف حافظ محمد عبداللہ زمیندار بلپورہ پروپرائٹر انڈین امپریل تھیٹریکل کمپنی۔ جلد۱۱۔ ’’ متفرق مصنفین کے ڈرامے‘‘ :’’ گل روز رینہ ‘‘ (۱۹۰۶ئ) مصنف سید عباس علی ’’فسانہ عجائب ناٹک معروف بہ جان عالم و انجمن آرائ‘‘ ۱۸۸۸ء میں لکھا (آگرہ، ۱۹۲۱ء طبع بستم) مصنف مرزا نظیر بیگ نظیر۔ دیباچہ/تبصرے سید وقار عظیم۔ جلد۱۲۔ ’’ طالب بنارسی کے ڈرامے‘‘ :’’ نگاہ غفلت عرف بھول میں بھول کانٹوں میں پھول‘‘ ۱۸۸۸ء میں لکھا (دہلی ، ۱۸۹۲ئ) دلیر دل شیر عرف قسمت کا ہیر پھیر (شہر؟ سنہ؟ ) راجہ گوپی چند (لاہور، سنہ نہیں) ۱۸۹۳ء میں لکھا۔ مصنف و نایک پرشاد طالب بنارسی۔ پارسی اور تھیٹر: زرتشت کی پیروکار اور آگ کو مقدس جاننے والی پارسی قوم ہندوستان کی متمول اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ وثوق سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے ڈرامہ سے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیوں کیا لیکن اتنا یقینی ہے کہ ڈرامے کے کاروبار میں روپیہ کمانے کے وسیع امکانات کے پیش نظر وہی سب سے پہلے اس میں روپیہ لگانے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہو گئے۔ یہ قوم فنکارانہ مزاج تو نہیں رکھتی لیکن روپیہ کمانے کے لیے فنکارانہ انداز اپنانا جانتی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ڈرامہ کی مد میں خوب روپیہ لگایا، خوب روپیہ کمایا اور ضمنی پیداوار کے طور پر ڈرامہ نے بھی ترقی کر لی۔ یہی نہیں بلکہ بمبئی کے سٹیج کے اولین ڈرامہ گناروں میں بھی پارسیوں کی خاصی تعداد مل جاتی ہے۔ ان میں سے نسروان جی مہروان جی خان مشہور ہیں۔ اس کا تخلص آرام تھا۔ یہ دادا بھائی پٹیل کی ’’ وکٹوریہ ناٹک منڈلی‘‘ سے منسلک تھے۔ ان کے ڈراموں میں’’ لعل و گوہر‘‘ اور میر حسن کی مثنوی بدر منیر پر مبنی ’’بے نظیر اور بدر منیر‘‘ (۱۸۷۲ئ) مشہو رہیں۔ تھیٹر کمپنی کے پارسی مالکوں میں سے پسٹن جی فرام جی (اریجنل تھیٹریکل کمپنی) بہت اہمیت رکھتے تھے۔ وہ اردو کے شاعر بھی تھے۔ (تخلص: اورنگ) انہوں نے اپنی کمپنی ۱۸۷۰ء میں تشکیل کی تھی۔ اسی سال دادا پٹیل نے وکٹوریہ ناٹک منڈلی خرید لی اور یوں ۱۸۷۰ء سے اردو تھیٹر نے واضح صورت ہی اختیار نہ کی بلکہ زبان، ادب اور تکنیک کے اعتبار سے ڈراما بھی ترقی کرتا گیا۔ ہر چند کہ ان ترقی کی رفتار بہت سست رہی البتہ ڈرامہ کا نفع بخش کاروبار خوب چمکا۔ چنانچہ پسٹن جی فرام جی کی وفات کے بعد ان کے دو ساتھیوں خورشید بالی والا اور کاؤس جی نے پارسی وکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی اور الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے نام سے علیحدہ کمپنیاں قائم کیں جنہوں نے بے حد شہرت حاصل کی۔ پارسیوں کی چند مشہور تھیٹریکل کمپنیوں کے نام یہ ہیں۔ امپیریل تھیٹریکل کمپنی، انڈین تھیٹریکل کمپنی، ایمپریس وکٹوریا تھیٹریکل کمپنی، اوریجنل تھیٹریکل کمپنی، ایمپائر تھیٹریکل کمپنی، پارسی تھیٹریکل کمپنی، پارس ڈرامیٹک کور، پارسی ناٹک منڈلی، وکٹوریا ناٹک منڈلی، الفریڈ ناٹک منڈل، رائزنگ سٹار تھیٹریکل کمپنی یہ صرف ایسی چند نمایاں کمپنیوں کے نام ہیں جو شہر بہ شہر ڈرامے دکھاتی تھیں اور جن کی بہت شہرت تھی ورنہ ان کے علاوہ اور بھی متعدد کمپنیوں کے نام ملتے ہیں۔ جہانگیر جی پسٹن جی کھمباتا’’ میرے چالیس سالہ ناٹکی تجربات‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ بمبئی اور پورے ہندوستان میں اردو ناٹکوں کو پارسیوں ہی نے پھیلایا تھا اور اردو ناٹک کا پہلا مصنف بھی پارسی تھا۔‘‘ 9؎ ابتداء میں پارسیوں نے گجراتی میں ڈرامے پیش کیے مگر زبان کی وجہ سے سامعین کی تعداد قدرے محدود رہتی تھی۔ اس لیے بعد میں خالص تجارتی اغراض کے پیش نظر اردو ڈراموں کا چلن عام ہو گیا۔ شروع شروع میں گجراتی کے مقبول ڈراموں کے تراجم کرائے گئے اور یوں جب سامعین کا حلقہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا تو پھر طبع زاد ڈرامے بھی سٹیج کیے جانے لگے۔ بقول ابراہیم یوسف گجراتی ڈراما نگاروں میں ایدل جی کھوری کے ڈرامے بالعموم پسند کیے جاتے تھے۔ چنانچہ سب سے پہلے انہیں کے ڈرامے ترجمہ کرائے گئے جن میں خصوصیت کے ساتھ خورشید، نور جہاں اور حاتم طائی بہت نمایاں ہیں۔ خورشید کامر زبان نے نور جہاں اور حاتم طائی کا آرام نے ترجمہ کیا۔ اس زمانے میں چونکہ امانت کی ’’ اندر سبھا‘‘ بے حد مقبول تھی اور ہر چھوٹی بڑی کمپنی اسے ضرور کھیلتی تھی، اس لیے اس کی مقبولیت کو دیکھ کر آرام کو یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ایسے ہی منظوم ڈرامے لکھے جائیں تو وہ بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ۱۸۷۲ ء میں ’’ بینظیر بدر منیر‘‘ ایک منظوم ڈراما لکھا۔ اسی سال انہوں نے ایک اور ڈراما’’ ہیرا‘‘ لکھا جو نثر میں تھا۔ اس طرح مسٹر کھمباتا کے دعویٰ کو اس جزوی تبدیلی کے ساتھ کہ اردو تجارتی تھیٹر کا پہلا ڈراما نگار پارسی تھا، قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ فی الحال آرام سے پہلے کا کوئی ایسا ڈراما نگار دریافت نہیں ہوا ہے جس نے ان سے پہلے اردو میں تجارتی تھیٹر کے لیے ڈرامے لکھے ہوں۔10؎ جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ پارسی تجارتی تھیٹر پر سب سے پہلے اردو میں کون سا ڈراما کھیلا گیا تو ابراہیم یوسف کے بقول ’’ فی الحال خورشید پہلا اردو دستیاب ڈراما ہے جو تجارتی تھیٹر میں کھیلا گیا۔ اس سے پہلے کا کوئی ڈراما دستیاب نہیں جو تجارتی اردو تھیٹر میں کھیلا گیا۔۔۔۔ خورشید سے پہلے اگر کسی کھیل کے ہندوستان میں کھیلے جانے کا سراغ ملتا ہے تو وہ ’’ گوپی چندر اور جلندھر‘‘ ہے لیکن یہ ڈراما دستیاب نہیں اور نہ ہی اس کے مصنف کا پتہ چلتا ہے۔ نامی صاحب نے جگ ناتھ شنکر سیٹھ کو اس کا مصنف لکھا ہے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔‘‘ 11؎ پارسی جہاں ڈرامہ کی پیشکش کے کاروباری معاملات کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے، وہاں وہ اداکاری کی صلاحیتوں سے بھی بہرہ ور تھے۔ مثلاً وکٹوریہ تھیٹریکل کمپنی کے ماک بالی والا کامیڈین تھا۔ الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کا مالک کاؤس جی ٹریجڈی کے ایکٹر کی حیثیت سے مشہور تھا۔ ایدل جی کھوری ڈرامے لکھتے تھے اور اداکاری کے جوہر بھی دکھاتے تھے۔ چنانچہ ’’ ہیرا‘‘ میں ایدل جی نے سیلانی کا کردار ادا کیا اسی طرح ’’ پگلا حجام‘‘ میں حجام کا مرکزی کردار بھی اسی نے ادا کیا تھا۔ نسروان جی مہروان جی آرام نسروان جی مہروان جی خان صاحب آرام وکٹوریہ ناٹک منڈلی سے منسلک تھے۔ (جس کے مہتمم کنور جی ناظر اور دادی پٹیل تھے) اس کمپنی نے پہلی مرتبہ طویل ڈرامے سٹیج کیے تھے۔ ان کی پہلی پیشکش ’’ خورشید‘‘ تھا جسے ایدل جی کھوری ایک پارسی نے گجراتی میں لکھا اور سیٹھ بہرام جی فیردوں مر زبان نے اسے اردو کا روپ دیا۔ اس کمپنی کا دوسرا ڈراما ’’ نور جہاں‘‘ بھی ایدل جی کا تھا جسے آرام نے اردو کا جامہ پہنایا۔ اس کے بعد آرام نے ایدل جی کے تیسرے ڈراما ’’ حاتم‘‘ کا اردو ترجمہ کیا۔ ڈراموں کی تعداد ۲۴ ہے۔ آرام نے نثر کے علاوہ منظوم ڈرامے بھی لکھے اور قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے وقت کے مقبول ڈراما نگار تھے۔ اس نے سب سے پہلے شیکسپیئر کے ’’ مرچنٹ آف وینس‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جواں بخت‘‘ کے نام سے کیا۔ آرام کے منظوم ڈرامے یہ ہیں:’’ نور جہاں، بے نظیر بدر منیر، جہانگیر شاہ اور گوہر عرف درنا سفتہ، لیلیٰ مجنوں، شکنتلا، پدماوت، لعل و گوہر، چھل بٹاؤ اور مونہارانی عرف جیسا کرنا ویسا بھرنا، ہوائی مجلس جبکہ نثر میں گل بہ صنوبر برچہ کرد، گل بکاؤلی، باغ و بہار، گوپی چند، حاتم طائی اور جواں بخت وغیرہ اہم ہیں۔ آرام اپنے زمانہ کے مقبول اور مہنگے ڈراما نگار تھے۔ اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب بمبئی والنٹیر تھیٹریکل کمپنی کے مالک وٹھل داس نے ان سے بطور خاص ڈراما ’’ ہیرا‘‘ لکھوایا تو اس کا تین سو روپے معاوضہ دیا گیا جو اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ہے۔‘‘ امتیاز علی تاج مقالہ بعنوان ’’ نسروان جی مہروان جی خاں صاحب‘‘ (مطبوعہ ’’ صحیفہ‘‘ جولائی ۱۹۶۷ئ) میں لکھتے ہیں’’ جن ڈراما نویسوں کے حالات اب تک معلوم کئے جا سکے ہیں ان میں آرام پہلا شخص ہے جس نے ڈراما نویسی کو پیشے کے طور پر اختیار کیا اور سٹیج کے لیے طرح طرح کے بہت زیادہ ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈراموں کی تعداد زیادہ ہونے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت کی تھیٹر کی دنیا میں ان کے ڈراموں کی مانگ تھی اور مانگ جبھی پیدا ہوتی ہے، جب تماشا دیکھنے والے ڈراموں کو شرف قبولیت بخشیں۔‘‘ طالب بنارسی عوام کے ذوق و شوق کی تشفی کے لیے اب تک بے شمار نئے ڈراما نگا ربھی میدان میں آ چکے تھے۔ اس عہد کے ڈرامہ نگاروں میں سے آرام کے بعد شیخ محمود احمد رونق بنارسی (۱۸۲۵ئ۔ ۱۸۸۶ء )غلام حسین عرف حسینی میاں ظریف، حافظ محمد عبداللہ (وفات ۱۹۲۲ئ) مرزا نظیر بیگ اور پنڈت ونائک پرشاد طالب مشہور ہیں۔ طالب (۱۸۵۲ء ۔ ۱۹۲۲ئ) ہم عصروں سے اس بناء پر ممتاز ہیں کہ انہوں نے ’’ اندر سبھا‘‘ کے اثرات سے شعوری طور پر بچتے ہوئے نثر کے مکالموں پر خصوصی توجہ دی ۔ ہندی گانوں کی جگہ اردو گانے لگے۔ انگریزی تراجم کیے، مزاحیہ مکالموں اور واقعات کو ابتذال سے پاک کیا۔ الغرض اجتہاد کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ وکٹوریہ ناٹک کمپنی سے منسلک تھے۔ شاعری کا اچھا ذوق تھا اور مضامین ’’ مخزن‘‘ ایسے جریدہ میں چھپتے تھے۔ ڈراموں میں سب سے مشہور ڈراما ’’لیل و نہار‘‘ کے علاوہ یہ بھی معروف ہیںـ: ہریش چندر، نگاہ غفلت، وکرم دلاس، دلیر دل شیر اور نازاں۔ احسن اور بے تاب طالب تک بے شمار ڈرامے سٹیج کیے جا چکے تھے لیکن ڈرامہ نگاروں کی اکثریت عوام کے ذوق اور پارسی مالکوں کے مذاق کے دائرہ میں محبوس تھی۔ ان ڈراموں کا مقصد سستی تفریح بہم پہنچانا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ڈرامہ کا قدیم انداز ہی برقرار رہا۔ منظوم یا مقفی مکالمے، بے شمار گانے اور ناچ، سوقیانہ مزاح، طالب کے بعد جن ڈراما نگاروں نے عصری تقاضوں کی ہم نوائی کے ساتھ ساتھ ان میں اصلاح کی کوشش بھی کی، ان میں سے نواب مرزا شوق لکھنوی کے نواسے سید مہدی حسن احسن لکھنوی اور پنڈت نرائن پرشاد بے تاب (وفات ۱۵ اگست ۱۹۴۵ئ) نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ احسن نے شیکسپیئر کے معروف ڈراموں رومیو جیولٹ(بزم فانی عرف گلنار) ہملٹ (خون ناحق عرف مار آستین) مرچنٹ آف وینس (دلفروش) اوتھیلو (شہید وفا) کامیڈی آف ایررز(بھول بھلیاں) کے تراجم کیے مگر ترجموں میں ادبی معیار کی بلندی کو عوامی پسند کی پستی پر ترجیح دی گئی یعنی انہیں اپنے ماحول کے مطابق اپنایا گیا۔ بہت سے مناظر کا اضافہ کر دیا گیا اور عوام کو خوش کرنے کے لیے المیہ کو طربیہ میں تبدیل کرنے سے بھی پرہیز نہیں کیا گیا۔ البتہ مکالموں میں نثر اور ا س میں بھی سلاست پر زیادہ زور دیا گیا۔ اچھے شاعر تھے۔ سو گانوں کا ادبی معیار بھی بلند کیا۔ اسی طرح ہندی کے بے ضرورت استعمال سے بھی گریز کیا۔ بے تاب نے ہندوا اساطیر پر مبنی بہت کامیاب ڈرامے لکھے جن میں سے مہا بھارت، امرت، رامائن اور کرشن سوامی وغیرہ مشہور ہیں۔ اردو ہندی کے علاوہ عربی، فارسی پر بھی عبور تھا۔ چنانچہ ہندی اور اردو دونوں میں لکھتے تھے۔ نثری مکالموں کی طرف انہوں نے خصوصی توجہ دی۔ شیکسپیئر کے بھی تراجم کیے لیکن احسن کی طرح واقعات اور اختتام میں حسب منشاء رد و بدل کر لیتے تھے۔ پہلا ڈراما ’’ قتل نظیر‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ پتن پرتاپ، زہری سانپ، فریب محبت، مدر انڈیا اور سماج وغیرہ بھی مشہور ہیں لیکن کامیڈی آف ایررز کا ترجمہ ’’ گورکھ دھندا‘‘ سب سے زیادہ مقبول اور معروف ہوا۔ اس میں بھی انہوں نے مزاحیہ واقعات اور گانوں کا اضافہ کیا ہے۔ حافظ محمد عبداللہ فتح پوری آغا حشر کے معاصرین میں ایک اہم ڈراما نگار حافظ محمد عبداللہ فتح پوری کے بارے میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ’’ قدیم اردو ڈراما کے ایک اہم فنکار: حافظ محمد عبداللہ فتح پوری‘‘ مقالہ قلم بند کیا ہے (مشمولہ: تحقیق و تنقید کراچی ۱۹۶۳ئ) اس سے ان کا تعارف پیش ہے۔ حافظ محمد عبداللہ انڈین امپریل تھیٹریکل کمپنی کے مالک اور اپنے عہد کے معروف ڈراما نگاف تھے۔ پچاس سے زائد ڈرامے لکھے، کھیلے، سٹیج کیے اور شائع کرائے۔ حافظ صاحب چتورا ضلع فتح پور سہوہ کے رئیس تھے۔ ان کے ساتھ ان کے شاگردوں محمد عبدالوحید قیس فتح پوری اور نظیر بیگ اکبر آبادی کے بھی اداکاری اور ڈراما نگاری کے سلسلہ میں نام لیے جاتے ہیں۔ قیس حافظ محمد عبداللہ کا بھتیجا اور داماد بھی تھا۔ حافظ محمد عبداللہ رئیس تھے اس لیے دولت وافر تھی لہٰذا عمر ڈراما نگاری، اداکاری میں بسر کی۔ ۸۲۔ ۱۸۸۱ء میں دی انڈین امپریل کمپنی آف انڈیا قائم کی اور اپنے تحریر کردہ منظوم ڈرامے سٹیج کرنے شروع کئے۔ یہ کمپنی دور دراز کے شہروں میں بھی ڈرامے پیش کرتی تھی۔ حافظ محمد عبداللہ نے عصری مذاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کامیاب ڈرامے پیش کئے بلکہ ڈاکٹر عبدالعلیم نامی کے بموجب تو ’’ محمد عبداللہ فتح پوری اور نظیر ڈرامائی صلاحیتوں میں حشر سے بہت اونچے تھے۔‘‘ حافظ محمد عبداللہ منظوم ڈرامے لکھتے تھے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اس مقالہ میں ان کے ۲۴ ڈراموں کے بارے میں کوائف مہیا کئے ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں انتقال ہوا۔ ڈاکٹر فرمان صاحب نے قیس کے بھی چھ ڈراموں کے کوائف درج کئے ہیں۔ قیس کا ۱۹۴۴ء میں انتقال ہوا۔ حافظ محمد عبداللہ فتح پوری نے اپنے تمام ڈراموں کو طبع کروایا مع تاریخ تحریر اور سنہ اشاعت۔ سرسید کا ’’ ڈراما‘‘ ؟ جی نہیں! عنوان سے دھوکا کھانے کی ضرورت نہیں کہ سرسید بھی ڈراما نگار تھے یا ان کے کسی خفیہ ڈرامے کا گمشدہ مسودہ دستیاب ہو گیا ہے۔ ایسا نہیں، تاہم ڈاکٹر سید عبداللہ کی ایک تحریر کی روشنی میں ڈرامے بلکہ زیادہ بہتر تو یہ کہ قومی ڈرامے سے سرسید کی دلچسپی کا سراغ بھی ملتا ہے۔ ’’سرسید کے ثقہ رفقا کاروں نے یوں تو ڈراما اور سٹیج کی طرف توجہ نہیں کی مگر ’’ قومی تھیٹر‘‘ کے نام سے ۶ فروری ۱۸۹۴ء کو انہوں نے مدرستہ العلوم کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے اس رسم کی ابتداء بھی کر دی تھی۔ اگرچہ انہوں نے اسے ’’ مسخرگی‘‘ اور’’ مطربی‘‘ قرار دیا تھا مگر جس سنجیدہ انداز سے انہوں نے اور ان کے رفقاء نے یہ تماشا دکھایا، اس سے یہ سند ضرور مل گئی کہ ڈراما اور تھیٹر شاعری اور ادب کی دوسری اصناف کی طرح اجتماعی مسائل کا ترجمان اور حیات قومی کا مصلح ہو سکتا ہے۔‘‘ 12؎ افسوس ڈاکٹر صاحب نے سکرپٹ اور اداکاری کے بارے میںمزید معلومات بہم نہ پہنچائیں مثلاً حالی نے کیا کردار ادا کیا؟ میرا ذاتی خیال ہے شبلی نے بڑے جوشیلے مکالمے بولے ہوں گے اور خود سرسید۔۔۔؟ ہو سکتا ہے انہوں نے ہدایتکار کے فرائض انجام دیئے ہوں لیکن یہ ڈراما جس قومی درد اور مقصد کی لگن کا مظہر ہے وہ سبق آموز بھی ہے اور باعث تقلید بھی۔ قدیم سٹیج آج کل آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر ڈراما دیکھنے والے سامعین یہ اندازہ نہیں کر سکتے کہ قدیم سٹیج کا کیا انداز تھا۔ اس مقصد کے لیے اس عہد کی ان تحریروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جن میں یا تو بالواسطہ طور پر تھیٹر اور سٹیج کا ذکر آ گیا اور یا پھر وہ لکھی ہی اس مقصد کے لیے گئی تھیں۔ ایسی تحریروں میں پروفیسر جان کیمپبل اومان کی تصنیف Cults, Customs and Supersitions of India 1908اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ اس میں انہوں نے ہندوستان کے تھیٹر اور سٹیج کے بارے میں قابل قدر معلومات جمع کی ہیں او ربخوبی یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس عہد کے سٹیج کیسے ہیں اور ڈراموں کی پیشکش کا کیا انداز تھا۔ جان کیمپبل نے لاہور میں ڈرامہ ’’ الہ دین کا چراغ‘‘ دیکھا تھا۔ اس کے بارے میں وہ یوں رقمطراز ہے: ’’ تھیٹر عارضی طور پر لاہور میں میو ہسپتال کے قریب بنایا گیا تھا۔ ایک لمبے چوڑے سائبان کے وسط میں فانوس لٹکا ہوا تھا جس میں چار شمعیں تھیں۔ دائیں بائیں دو چوبی کھمبوں پر دیواری لیمپ آویزاں تھے۔ ان سب کے مجموعے سے جو روشنی تھیٹر میں ہوئی ہو گی، اس کا آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان چھ شمعوں کے علاوہ سٹیج کے سامنے ایک طرف سے ڈھکی ہوئی روشنیوں کی قطار بھی تھی۔ بس پورے تھیٹر میں روشنی کا یہی انتظام تھا۔ سٹیج پر تو فانوس کی وجہ کچھ ہلکی ہلکی روشنی موجود تھی، باقی سارا پنڈال نیم تاریکی میں تھا ۔ میں اور میرا دوست کھیل شروع ہونے سے تقریباً بیس منٹ پہلے تھیٹر میں پہنچے۔ یہ اونچے طبقہ کے سوا دیسی لوگوں کے ہر طبقے سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اگلی قطاروں میں نچلے طبقے کے کچھ یورپی اور اینگلو انڈین بھی موجود تھے۔ ان میں سے چند معزز خواتین بھی شامل تھیں جو نیم عریاں لباس پہنے ہوئے تھیں اور ظاہر ہے کہ یہ خاص لباس انہوں نے اس موقع ہی کے لیے پہنا تھا۔ سٹیج یورپی طرز کا بنایا گیا تھا جس میں کئی فرشی دروازے اور اوپر پہنچانے والی خود کار سیڑھیاں لگی ہوئی تھیں۔ تاکہ اس کہانی میں بار بار آنے والا جن اچانک نمودار ہو سکے اور اچانک غائب ہو سکے۔‘‘ 13؎ جان کیمپبل نے’’ اندر سبھا‘‘ کے سٹیج کا حال یوں بیان کیا ہے: ’’ تھیٹر بانسوں کا کھڑا ہوا ایک بڑا ڈھانچہ تھا جس کے جوڑنے میں مہارت کا ثبوت نہیں دیا گیا تھا اور جو باریک کپڑے یا کینوس کی چادروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ سٹیج اچھی خاصی تھی اور روشنی بھی اچھی تھی۔ تقریباً پندرہ شمعیں عکس اندازوں سمیت چکا چوند کر رہی تھیں۔ بڑے احاطے میں کہیں کوئی شمع نہ تھی لیکن گرمیوں کی چاندنی کپڑے کی چھت سے چھن چھن کر آ رہی تھیں۔ مخصوص نشستیں کرسیوں کی دو قطاروں پر مشتمل تھیں۔ ویسی ہی دو قطاریں ذرا پیچھے فرسٹ کلاس کے لیے تھیں۔ ایک جنگلا تھا رکاوٹ کے لیے اور پیچھے تو سینکڑوں تماشائیوں کے لیے نشستیں بے ترتیبی سے بکھری پڑی تھیں۔ ٹکٹ تین روپے سے لے کر چار آنے تک تھی اور ایک خاص جگہ ’’ دیسی خواتین‘‘ کے لیے مخصوص تھی اور یہاں کا ٹکٹ فی نشست آٹھ آنے تھا لیکن اس تھیٹر میں دیسی خواتین مجھے کہیں بھی نظر نہ آئیں۔۔۔۔‘‘ سٹیج کے پیچھے لگے پردے کا یہ عالم تھا: ’’ پس منظر میں دو شاخہ بجلی کوند رہی ہے، سورج ہیں، ستارے ہیں، پہاڑوں کے سلسلے ہیں اور یہ سب کچھ مصور نے اس انداز میں بنائے ہیں کہ یقینی دنیا میں تو کہیں موجود نہیں۔‘‘ 14؎ جان کیمپبل نے تو صرف ایک خاص تھیٹر کا آنکھوں دیکھاحال قلمبند کیا ہے۔ ویسے ’’ آغا حشر سے پہلے اور ان کی وفات تک سٹیج کا پہلا پردہ جس کو ڈراپ سین کہتے تھے، ہمیشہ مختلف سین، سینریوں سے آراستہ ہوا کرتا تھا اور یہ لکڑی کے رولر پر لپٹا ہوا سیدھا اوپر جاتا تھا اور اس کے پیچھے سہیلیوں کا سیٹ ہاتھ جوڑے ہوئے سلامی گاتا ہوا نظر آتا تھا۔ سلامی ختم ہونے کے بعد یہ سہیلیاں ایک خاص ترتیب کے ساتھ اندر جاتی تھیں۔ ان سلامی گانے والی سہیلیوں میں اصل ڈرامے کا کوئی کردار شامل نہیں ہوا کرتا تھا۔‘‘ (بحوالہ مضمون سید اظہر علی اظہر روزنامہ جنگ ۱۶ جون ۱۹۶۹ئ) ۱۹۱۴ء میں پہلی خاموش فلم ’’ پریس چند‘‘ اور ۱۹۳۱ء میں پہلی ناطق فلم ’’ عالم آرا‘‘ بنی 15؎ ناطق فلموں کے سامنے سٹیج کا چراغ ٹمٹانے لگا حتیٰ کہ خود آغا حشر نے بھی کلکتہ میں ’’ نیو تھیٹرز‘‘ کے لیے شیریں فرہاد، عورت کا پیار، یہودی کی لڑکی، قسمت کا شکار اور دل کی آگ فلمی ڈرامے لکھے بلکہ لاہور میں انتقال کے وقت وہ اپنی ذاتی فلم کمپنی ’’ حشر پکچرز‘‘ کے لیے ’’ بھیشم پرتگیا‘‘ کی فلم بندی میں مصروف تھے۔ اردو ڈرامے کی تاریخ، سٹیج اور فن کے ضمن میں مزید مطالعہ کے لیے یہ کتب تجویز کی جاتی ہیں: ’’ برصغیر کا اردو ڈراما: تاریخ، افکار، انتقاد‘‘ از ڈاکٹر اسلم قریشی (اسلام آباد ۱۹۸۷ئ) ’’ اردو سٹیج ڈراما‘‘ از ڈاکٹر اے بی اشرف (اسلام آباد ۱۹۸۶ئ) آج فلم کے ساتھ ساتھ سٹیج پر بھی سیکسی لڑکیاں نظر آتی ہیں مگر قدیم سٹیج پر لڑکی بننے کا فریضہ بالعموم مرد سر انجام دیتے تھے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ شریف عورتوں کا تھیٹر میں کام کرنا تو کجا انہیں تو تھیٹر دیکھنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ ادھر طوائفوں کے لیے بھی سٹیج میں کوئی کمائی نہ تھی، لہٰذا اپنا ڈراما اپنے کوٹھے پر ہی کر لیتی تھیں، اس لیے خوش ادا مرد اور ناز و انداز والے مرد زنانہ کردار ادا کرتے تھے۔ خود آغا حشر کے چھوٹے بھائی آغا محمود شاہ زنانہ کردار ادا کیا کرتے تھے۔ اس زمانہ کے ماسٹر نثار کی اس بناء پر خاص شہرت تھی کہ وہ مردانہ اور زنانہ کردار بخوبی ادا کر لیتے تھے۔ واضح رہے کہ ابتدائی دور کی بعض خاموش فلموں میں بھی مرد زنانہ کردار کر لیتے تھے۔ اس زمانہ کے بعض نامور اداکاروں کے نام یہ ہیں۔ عبدالرحمن کابلی، بابا پربھوداس، اطہر بھائی، روشن شاہ سینور۔ انارکلی امتیاز علی تاج (پیدائش ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۰۔ وفات ۱۹ اپریل ۱۹۷۰ئ) کا ڈراما ’’ انارکلی ‘‘ ادبی ڈراموں میں سب سے زیادہ مقبول سمجھا جاتا ہے۔ یہ کیونکہ تھیٹر تکنیک پر پورا نہ اترا، اس لیے سٹیج نہ ہو سکا۔ البتہ دس سال بعد ۱۹۲۸ء میں طبع ہوا۔ یہ انارکلی کی غیر تاریخی مگر رومانی داستان ہے جسے پر زور مکالموں نے اثر انگیز بنا دیا ہے۔ تاج ہر کردار کی شخصیت، سماجی حیثیت اور نفسیاتی ساخت کے مطابق مکالمے لکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مثال کے لیے اکبر کے مکالمے ہی کافی ہیں۔ وہ باپ ہو یا شوہر، آقا ہو یا شہنشاہ، اس کے ایک ایک لفظ سے اس کا شہنشاہ ہند ہونا عیاں ہے۔ اس کا ایک فقرہ (ایکٹ ۱۲۰ منظر ۳۰) اور ابھی تک ہندوستان ایک مسکین کتے کی طرح میرے تلوے چاٹ رہا ہے۔ تاج کے فن کی تفہیم کو کافی ہے، عورتوں کے مکالمے بھی کامیاب ہیں۔ ادبی ڈراما تھیٹر کے بعد ڈرامہ کو ادبی جرائد نے زندہ رکھا۔ ادھر ۱۹۳۵ء کے بعد ریڈیو نے اپنی مخصوص ضروریات کے تحت ایک ایکٹ کے ڈراموں کو فروغ دیا۔ ویسے دیکھا جائے تو ادبی ڈرامہ کی تاریخ بھی خاصی قدیم ہے اور اس میں محمد حسین آزاد (ڈراما اکبر) احمد علی شوق قدوائی (قاسم و زہرا) عبدالحلیم شرر (شہید وفا) مرزا رسوا (مرقع لیلیٰ مجنوں) ایسے نام نظر آتے ہیں۔ متاخرین میں مولانا ظفر علی خان، ڈاکٹر ذاکر حسین، محمد مجیب، اشتیاق حسین قریشی، کیفی، عابد علی عابد، شاہد احمد دہلوی وغیرہ نمایاں ہیں۔ حکیم احمد شجاع کو آغا حشر سے تلمذ تھا۔ ’’ باپ کا گناہ‘‘ سب سے مشہور ڈراما ہے۔ یہ سٹیج بھی کیا گیا تھا۔ مزید تفصیلات کے لیے ڈاکٹر اے بی اشرف کی کتاب ’’ حکیم احمد شجاع اور ان کا فن‘‘ (کراچی ۱۹۸۷ئ) کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی ایسے ڈرامے لکھے جاتے رہے جو سٹیج کے تقاضے تو پورے نہیں کرتے لیکن ادبی لحاظ سے ان کا مطالعہ دلچسپ ہے۔ ایسے ڈراموں میں طویل بھی ہیں اور ایک باب کے بھی۔ میرزا ادیب کے ڈراموں کے کئی مجموعے ہیں۔ ان کے علاوہ رفیع پیرزادہ، ہاجرہ مسرور، آغا بابرا، انتظار حسین، ابراہیم جلیس اور عشرت رحمانی کافی نمایاں ہیں۔ کتاب، ریڈیو، سٹیج، ٹیلی ویژن کی صورت میں پاکستان میں ڈرامے کے چار روپ نظر آتے ہیں۔ اگرچہ چاروں کے فنی تقاضوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں مگر بالعموم ان سب کا ایک ہی سانس میں نام لے لیتے ہیں۔ ڈرامے کے کتابی روپ سے مراد وہ ڈراما ہے جو کر کے نہ دکھایا جا سکے، لہٰذا صرف کتاب کی صورت میں شائع کر دیا جاتا ہے۔ ریڈیو سے پہلے اور سٹیج کی قوی روایت نہ ہونے کی بناء پر زیادہ تر ڈرامے صرف طباعت کی غرض سے لکھے جاتے، جرائد میں افسانوں کی مانند چھپتے اور بعد میں کتابی روپ اختیار کر لیتے۔ ڈراما بنیادی طور پر دکھانے کی چیز ہے مگر اسے سنانے کی چیز بنایا ریڈیو نے، ریڈیو کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ اس نے ون ایکٹ پلے (یک بابی ڈراما) کو مقبول بنایا۔ چنانچہ بعض اچھے ڈرامے ریڈیو کی وجہ سے لکھے جاتے تھے۔ امتیاز علی تاج، عابد علی عابد، رفیع پیرزادہ، شوکت تھانوی، سعادت حسن منٹو، میرزا ادیب، آغا بابر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انتظار حسین اور ہاجرہ مسرور یہ چند معروف نام ہیں۔ اگر پاکستان کے تمام ریڈیو سٹیشنوں سے نشر ہونے والے ڈراموں کی گنتی کی جائے تو صرف ریڈیائی ڈراموں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچے گی۔ تمام ریڈیائی ڈرامے کتابی روپ میں آ کر محفوظ نہ رہ سکے۔ یوں بیشتر ڈرامے رزق ہوا ثابت ہوئے۔ اس ضمن میں یہ بھی واضح رہے کہ مدتوں تک ریڈیو ڈراما براہ راست نشر ہوتا تھا، ریکارڈنگ کی سہولت حاصل نہ تھی۔ ترقی پسند ادیبوں نے اپنے مخصوص نقطہ نظر سے ریڈیو کے علاوہ ادبی جرائد کے لیے بھی ڈرامے قلمبند کیے۔ چنانچہ سعادت حسن منٹو (آؤ۔ کروٹ) میرزا ادیب (ستون، آنسو اور ستارے) اوپندر ناتھ اشک، کرشن چند(سرائے کے باہر) عصمت چغتائی (دھانی بانکیں) کنہیا لال کپور اور راجندر سنگھ بیدی نے متعدد کامیاب ڈرامے لکھے۔ منٹو نے اپنے تیکھے مکالموں سے زندگی کے غیر معمولی پہلوؤں اور افراد کی ناہمواریوں پر روشنی ڈالی۔ میرزا ادیب نے مدت سے خود کو ڈراما نگاری کے لیے وقف کر رکھا۔ انسانی ضمیر کی چھان پھٹک اور اس سے وابستہ نفسی کیفیات کے ساتھ ساتھ انسان دوستی ان کے ڈراموں کے خصوصی موضوعات ہیں۔ ’’ پس پردہ‘‘ پر آدم جی انعام بھی ملا۔ اشک کرداروں کی تحلیل پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ کرشن چندر نے طبقاتی کشمکش اور احساس محرومی تلے دبے اور پسے انسانوں کا المیہ اجاگر کیا۔عصمت نے فسادات کے موضوع پر ’’دھانی بانکیں‘‘ بہت خوبصورت ڈراما لکھا۔ کپور نے اپنے مضامین کی طرح طنز و مزاح سے معاشرہ کی خامیاں اجاگر کیں۔ بیدی نفس انسانی کی پیچیدگیوں کا نباض ہے۔ ٹیلی ویژن ڈراما ٹیلی ویژن نے اردو ڈرامہ کے احیاء میں خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر چند کہ ٹی وی پروڈیوسروں کی عنایات خسروانہ سے ایسے ایسے ڈراما نویسوں کی فصلیں اگ رہی ہیں جن کا ادب میں کوئی مقام نہیں۔ وہ زمانے گئے جب پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈرامے شناخت کا ایک انداز تھے۔ بھارت میں انہیں سراہا جاتا تھا اور ناظرین کے لیے آگہی کا ایک اسلوب تھے۔ ضیاء الحق اور اس کے بعد نواز شریف کی میڈیا پالیسی نے ڈراموں پر جو قدغنیں لگائیں ان کی وجہ سے ڈرامے کا تخلیقی پہلو مجروح ہوا اور ڈراما انسانی نفسیات کی عکاسی کرنے کے بجائے میڈیا پالیسی کے مطابق ’’ منجی پیڑھی ٹھکاؤ‘‘ قسم کی چیز بن کر رہ گیا۔ ان حالات میں اگر کبھی اچھا ڈراما دیکھنے کو مل جائے تو تعجب ہوتا ہے کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی۔ ٹیلی ویژن ڈراموں کے چند بڑے نام یہ ہیں: کمال احمد رضوی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، امجد اسلام امجد، انور سجاد، منو بھائی، اصغر ندیم سید، نور الہدیٰ شاہ، ڈاکٹر طارق عزیز، انتظار حسین، حمید کاشمیری، یونس جاوید، عطا الحق قاسمی، مستنصر حسین تارڑ، محمد منشا یاد، صفدر میر، خواجہ معین الدین، سلیم چشتی، عبدالقادر جونیجو، اطہر شاہ خان۔ دیکھا جائے تو ان کی تخلیقی مساعی کے باعث پاکستان میں ٹیلی ویژن ڈراموں کا ادبی معیار قائم اور تخلیقی مزاج متعین ہوا۔ ابصار عبدالعلی نے سب سے پہلے ٹی وی ڈراموں کے دو مجموعے کتابی روپ میں پیش کرنے کی اولیت کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ مجموعے ہیں ’’ شہ رگ‘‘ اور’’ کیسے کیسے لوگ‘‘ اس کے بعد ان ٹی وی ڈراموں کے یہ مجموعے طبع ہوئے ہیں۔ صفدر میر (آخر شب) میرزا ریاض (غمگسار) حمید کاشمیری (کافی ہاؤس) اور امجد اسلام امجد کا مقبول ترین ڈراما (وارث) اس کے بعد اشفاق احمد، بانو قدسیہ، انور سجاد اور متعدد دیگر اچھے ڈرامہ نگاروں کے ٹیلی ویژن ڈرامے بھی کتابی روپ میں آ گئے۔ ڈراما۔۔۔۔جگتوں کے بھنور میں جب فلم کی وجہ سے پارسی تھیٹر کو زوال آیا تو کمرشل سٹیج برائے نام رہ گیا۔ آ جا کر کالجوں میں ڈرامے ہو جایا کرتے۔ پاکستان اس وقت سٹیج کا یہ عالم ہے کہ عوامی بننے کے جنون میں وہ عامیانہ بن گیا ہے۔ جگتیں، ہزل، پھکڑ پن، ذومعنی فقرے، لچر مکالمے اور فحش کنائے سکہ رائج الوقت ہیں۔ کراچی میں خواجہ معین الدین نے البتہ ستھرے طنز کا ثبوت دیتے ہوئے ’’ تعلیم بالغاں‘‘ جیسا کامیاب ڈراما لکھا۔’’ مرزا غالب بند روڈ پر‘‘ اور’’ لال قلعہ سے لالو کھیت تک‘‘ ان کے دوسرے کامیاب ڈرامے ہیں۔ کسی زمانے میں رفیع پیر، امتیاز علی تاج (کہ دونوں بہت اچھے اداکار بھی تھے) سٹیج سے وابستہ رہے اور معیاری ڈرامے پیش کرتے رہے۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ جامہ حسن، غالباً واجد علی شاہ کا ایجاد کیا ہوا کوئی لباس۔ ۲۔ رہس، سے یہاں حلقے کا ناچ مراد ہے۔ ۳۔ بینا، ماتھے پر لگانے کا ایک زیور۔ ۴۔ یہ ہدایتیں کلکتے میں لکھی گئی تھیں اس لیے بنگالی گھونگھٹ کا ذکر آ گیا۔ ۵۔ امانت نے اس مصرع سے اس کی تاریخ نکالی ’’ خلائق میں ہے دھوم اندر سبھا کی‘‘ (۱۲۷۰ھ) 6. Schimmel Anne Marie (Foreword) Three Mughal Poets by Ralth Russell, London ۷۔ نیا ہندوستانی تھیٹر صحیفہ نمبر ۴۰، جولائی ۱۹۶۷ء ۸۔ ایضاً ۹۔ اردو کے اہم ڈراما نگار (ص۵) ۱۰۔ ایضاً (ص۲۳۔ ۲۴) ۱۱۔ ایضاً (ص۲۳) ۱۲۔ ’’ سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی اردو نثر کا فکری اور فنی جائزہ‘‘ (ص۲۷۴) ۱۳۔ جان کیمپبل ’’ نیا ہندوستانی تھیٹر‘‘ (ترجمہ سید قاسم محمود) صحیفہ ۴۰ جولائی ۱۹۶۰ء ۱۴۔ ایضاً ۱۵۔ برصغیر کی سب سے پہلی ناطق فلم ’’ عالم آرا‘‘ ۱۴ مارچ ۱۹۳۱ء کو میجسٹک سینما بمبئی میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ اس میں زبیدہ ہیروئن تھی۔ ٭٭٭ آغا حشر کے ڈرامے: تجزیاتی مطالعہ سٹیج اور تماشائی ڈراما دیگر اصناف ادب سے اس بناء پر جداگانہ قرار پاتا ہے کہ یہ کاروبار بھی ہے۔ ہو سکتا ہے بعض اصحاب لفظ کاروبار پر اعتراض کریں مگر حقیقت یہی ہے کہ جس طرح موضوعات کی تیاری، تشہیر اور فروخت کی جاتی ہے اسی طرح ڈرامے کی بھی ’’ تیاری‘‘ ’’ تشہیر‘‘ اور ’’ فروخت‘‘ ہوتی ہے۔ کل سٹیج کاروبار تھا جبکہ آج سٹیج کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن اور فلم کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ شاعر کمزور غزل کہے تو زیادہ سے زیادہ مشاعرہ میں پٹ جائے گا، لیکن ڈراما فلاپ ہو تو رقمیں ڈوب جاتی ہیں۔ ڈراما کے تجارتی پہلو پر ڈرامے کی مذمت کے لیے زور نہیں دیا جا رہا بلکہ اس لیے کہ تخلیقی اپج اور خوش ذوقی کے ضمن میں جو مفاہمتیں ملتی ہیں اور اسلوب کی اجمالیات کے سلسلہ میں جیسے جیسے سمجھوتے کئے جاتے رہے، وہ سب تجارتی اغراض سے مشروط تھے۔ شاعر کے برعکس ڈراما نگار محض اپنا دل خوش کرنے کے لیے ڈراما نہیں لکھتا، ڈراما سٹیج ہوتا ہے، سٹیج پر ڈرامے کی پیشکش پر زر کثیر صرف ہوتا ہے جس کی مع نفع وصولی کے لیے ناظرین کی ضرورت ہوتی ہے جن کی پسند و نا پسند پر ڈرامے کے ناکام یا کامیاب ہونے کا انحصار ہوتا تھا اور اب بھی ہے۔۔۔ ٹیلی ویژن پر اب یہ کردار سپانسر ادا کرتے ہیں۔ ڈراما سامعین کی پسند کے تابع رہا ہے اور رہے گا۔ سید وقار عظیم نے ’’ ڈرامے کے تماشائی‘‘ میں لکھا ہے: ’’ وکٹر ہیوگو نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تین طرح کے لوگ ڈراما دیکھنے جاتے ہیں۔۔۔۔ زیادہ تماشائی تو ایسے ہیں جو صرف حرکت اور عمل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جو ڈرامے میں جذبہ تلاش کرتے ہیں اور کچھ ایسے جو ڈرامے میں بھی نئے اشخاص اور افراد سے ملنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔۔۔ جو ڈراما نگار اپنے تماشائیوں کی آرزوؤں کی تکمیل کو اپنا فنی مطمع نظر اور نصب العین بناتا ہے، اسے اپنے عہد میں بھی شہرت و عظمت حاصل ہوتی ہے اور آنے والے زمانے میں بھی اور اسی لیے ڈرامے کی دنیا میں شہرت و عظمت کی باگ ڈور تماشائیوں کے ہاتھ میں ہے۔ تماشائی ہی ڈراما نگار کے قدر دان اور سرپرست بھی ہیں اور اس کے فنی احساس کے محرک اور فنی عمل کے رہنما بھی یہی وجہ ہے کہ ڈراما نگاروں نے کبھی ان کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‘‘ (اردو ڈراما: فن اور منزلیں ص ۷۳) اگر سامع، ناظر اور تماشائی کے معیار پر ڈراما پرکھیں تو پھر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ پندرھویں صدی میں ملکہ ایلزبتھ کے عہد کے تماشائی بے حد اعلیٰ تخلیقی مذاق اور جمالیاتی ذوق کے حامل تھے کہ شیکسپیئر سے عالمی شہرت کے حامل ہیملٹ ’’ میکیتھ اور اوتھیلو جیسے ڈرامے لکھوائے جبکہ ان ے برعکس زندہ دلان لاہور غلیظ ذوق کے حامل ہیں جنہیں ڈراما جگتوں، ذومعنی فقروں اور ابتذال کے مترادف نظر آتا ہے۔ آغا حشر کس حد تک عوامی مذاق کا خیال رکھتے تھے، اس کا اندازہ وقار عظیم کی اسی کتاب میں درج اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ کسی ڈرامے کا کوئی منظر لکھتے جاتے تھے تو اس کے حسن و قبح کا اندازہ لگانے کے لیے یہ ٹکڑا کسی معمولی پڑھے لکھے آدمی کو سناتے تھے، خود پڑھتے جاتے اور سننے والے کے چہرے سے اندازہ لگاتے کہ اس پر اس منظر کے مختلف ٹکڑے سننے کے بعد کیا اثر ہوا۔‘‘ (ایضاً ص ۲۶۳) لہٰذا آغا حشر کے ڈراموں پر ہر نوع کی تنقیدی گفتگو کے سلسلہ میں یہ امر ہمیشہ اساسی اہمیت کا حامل رہے گا کہ پارسی سٹیج کے تجارتی مقاصد کے تابع وہ کمرشل ڈراما نویس تھے، ڈرامے کی مارکیٹ کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ لیکن اور یہ ’’ لیکن‘‘ بہت بڑی ہے کہ آغا حشر نے تجارتی مقاصد اور عوامی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی بتدریج اور ڈرامے کو نک سک سے درست کرنے اک عمل جاری رکھا، اسی لیے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ڈرامے ادبی معیار کے لحاظ سے بلند سے بلند تر ہوتے گئے اور تخلیقی اپج کے گراف نے عمودی سفر جاری رکھا۔ آغا حشر کاشمیری ظاہر ہے مرگ حشر سے راز دوام حشر یعنی کلام حشر سے ہے زندہ نام حشر آغا حشر کے ایک عزیز آغا جمیل احمد شاہ کاشمیری کا ’’ آغا حشر: حیات اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون’’ عصری ادب‘‘ (شمارہ ۵۱ جنوری ۱۹۸۳ء دہلی) میں طبع ہوا ہے۔ اس میں آغا حشر کی حیات اور ڈراموں کے بارے میں بعض دلچسپ معلومات اور ڈراموں کے بارے میں نئے کوائف بھی ملتے ہیں، لہٰذا اس مضمون کی روشنی میں آغا حشر کا تذکرہ پیش ہے۔ بنارس میں مقیم آغا حشر کے والد کا نام آغاغنی شاہ تھا۔ ان کا نکاح ۳۰ جولائی ۱۸۶۸ء کو ہوا۔ پہلا بیٹا ۱۸۶۹ء میں ہوا مگر جلد ہی وفات پا گیا اور پھر’’ منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے بعد۱۱ ربیع الثانی ۱۲۶۹ھ مطابق ۳ اور ۴ اپریل ۱۸۷۹ء کی درمیانی شب میں دوسرے بیٹے کی ولادت ان کے مکان ۴۳/۱۶۳ ناریل بازار بنارس میں ہوئی‘‘ گھر کا ماحول مذہبی تھا اور ان کے والد جو کہ خود بھی بہت مذہبی انسان تھے، اپنے بیٹے کو عالم دین بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ عربی، فارسی اور دینیات کے ساتھ ساتھ قرآن مجید بھی حفظ کرایا گیا (یہ امر اس بناء پر قابل توجہ ہے کہ آغا حشر نے بعد میں مذہبی مناظرات اور قومی فلاح و بہبود کے کاموں میں جو بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو یہ گھر کے مذہبی ماحول اور ابتدائی مذہبی تربیت کے باعث تھا۔) بچپن میں آغا حشر کو کشتی، پیراکی اور شطرنج سے خصوصی شغف تھا۔ اسی طرح شاعری کا آغاز بھی بچپن ہی سے ہو گیا تھا اور ڈرامے سے دلچسپی بھی اور روایت ہے کہ وہ بچوں کو جمع کر کے ’’ اندر سبھا ‘‘ کھیلا کرتے تھے۔ جوبلی کمپنی بنارس آئی تو اس کے ڈراما نگار احسن لکھنوی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور انہیں کو چیلنج کر کے اپنا پہلا ڈراما ’’ آفتاب محبت‘‘ لکھا یہ ڈرامہ جواہر اکسیر پریس بنارس سے ۱۸۹۷ء میں شائع ہوا۔ والد انہیں میونسپل کمیٹی بنارس میں ملازم کرانا چاہتے تھے مگر یہ ڈراما نگاری کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکتے تھے۔ چنانچہ بمبئی بھاگ آئے جہاں الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کے مالک کاؤس جی کھٹاؤ کے پاس ۳۵ روپے ماہانہ مشاہرہ پر بطور ڈراما نگار ملازمت کر لی اور یوں بیس برس کی عمر میں انہوں نے اس کمپنی کے لیے پہلا کمرشل ڈرامہ ’’ مرید شک‘‘ (۱۸۹۹ئ) لکھا جسے زبردست شہرت حاصل ہوئی اور پھر’’ مار آستین‘‘ لکھا اس کے بعد نو روز جی پری کی کمپنی میں ڈیڑھ سو روپے پر ملازم ہو گئے۔ اس کمپنی کے لیے ۱۹۰۱ء میں ’’ اسیر حرص‘‘ لکھا مگر کاؤس جی کھٹاؤ نے دوبارہ بلا کر ۳۰۰ روپے تنخواہ مقرر کر دی۔ ۱۹۰۲ء میں ’’ شہید ناز‘‘ لکھا بمبئی کے قیام میں ۱۹۰۳ء سے لے کر ۱۹۰۹ء تک اڈسیر کمپنی کے لیے ’’ صید ہوس‘‘ ’’ سفید خون‘‘ سہراب جی اگر اکی کمپنی کے لیے ’’ خواب ہستی‘‘ ’’ خوبصورت بلا‘‘ ڈرامے لکھ کر انہوں نے اپنی شہرت میں چار چاند لگائے۔ اب آغا حشر کو کسی کی ملازمت کی ضرورت نہ تھی چنانچہ حیدر آباد کے ایک تعلقہ دار راجہ راگھواندراؤ کی شرکت میں انڈین شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی کی بنیاد ڈالی اور ۱۹۱۰ء میں اپنا پہلا مجلسی ڈراما ’’ سلور کنگ عر ف نیک پروین‘‘ سٹیج کیا۔ کمپنی حیدر آباد، گجرات، سورت اور مدراس میں جب اپنے ڈرامے کھیل رہی تھی، اس زمانے میں حشر نے’’ مشرقی حورعرف یہودی کی لڑکی‘‘ ڈراما لکھا اور سٹیج کیا۔اس کمپنی کو ساتھ لے کر حشر مارچ۱۹۱۳ء میں لاہور اور ۱۹۱۴ء میں کلکتہ پہنچے جہاں انہوں نے اپنا سب سے پہلا ہندی ڈراما ’’ بلوا منگل عرف بھگت سور داس‘‘ لکھوایا (حشر پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ جانے کے باعث ہسپتال میں تھے) بعد میں اپنی کمپنی توڑ کر کلکتہ میں جے ایف میڈنس اینڈ کو کے پاس ایک ہزار روپے پر ملازم ہو گئے۔ اس کمپنی کے لیے ۱۹۱۸ء میں ’’ مشرقی ستارہ عرف شیر کی گوج‘‘ ۱۹۱۹ء میں ’’ مدھر مرلی‘‘ بھارت رمنی ۱۹۲۰ء میں بھگیرت گنگا ۱۹۲۱ء میں پراچین اور ’’ نوین بھارت‘‘ ہندی میں اور ۱۹۲۲ء میں اردو میں ’’ ترکی حور‘‘ اور ہندی میں ’’ سنسار چکر عرف پہلا پیار‘‘ لکھے اسٹار تھیٹریکل کمپنی کے لیے بنگلہ زبان میں ’’ اپرادھی کے‘‘ اور’’ مصر کماری‘‘ ڈرامے لکھے۔ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۳ء تک کی مدت میں میڈنس لمیٹڈ کی خاموش فلموں میں اداکاری بھی کی۔ ’’ بھارت رمنی‘‘ فلم میں ان کی اداکاری نے خصوصی شہرت حاصل کی۔ ۱۹۲۳ء میں ’’ بھیشم پتامہ‘‘ اور ۱۹۲۴ء میں ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میڈنس اینڈ کو کے لیے لکھے۔ ۱۹۲۴ء میں آغا حشر نے پھر اپنی کمپنی ’’ دی گریٹ نیو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی آف کلکتہ‘‘ کی تشکیل کی۔ ۱۹۲۷ء میں الہ آباد میں مہاراجہ چرکھاری کی فرمائش پر سیتا بن باس لکھا جسے مہاراجہ نے آٹھ ہزار روپوں میں خرید لیا۔ سیتا بن باس ڈراما ناگری رسم الخط میں ولسن پریس چرکھاری سے ۲۰ مئی ۱۹۲۹ء کو شائع ہوا۔ ۱۹۲۹ء ہی میں ’’ رستم سہراب‘‘ بمبئی میں سٹیج کرایا اور اسی برس ’’ دھرمی بالک عرف غریب کی دنیا‘‘ لکھا۔ اگلے برس’’ بھارتی بالک عرف سماج کا شکار‘‘ اور ۱۹۳۱ء میں ’’ دل کی پیاس‘‘ ہندی ڈرامے لکھے۔ اب تک ناطق فلمیں بھی مقبولیت حاصل کر رہی تھیں چنانچہ میڈنس کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر فرام جی ’’ پانیئر فلم کمپنی‘‘ قائم کر کے انہیں فلم کے لیے ڈرامے لکھنے کو کہا۔ چنانچہ آغا حشر نے فلم کے لیے ’’ شیریں فرہاد‘‘ لکھی (ہیرو ماسٹر نثار، ہیروئن مس کجن) اس کی مقبولیت کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے ’’ عورت کا پیار‘‘ لکھا (اس میں مختار بیگم نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا، یہی وہ مختار بیگم ہے جس کے عشق کا احوال منٹو نے اپنے خاکہ میں قلمبند کیا تھا) فرام جی کی پانیئر کمپنی کے لیے ’’ دل کی آگ‘‘ اور ’’ شہید فرض‘‘ ڈرامے لکھے جو فلمائے نہیں جا سکے۔ ۱۹۳۲ء میں نیو تھیٹرز لمیٹڈ کے لیے انہوں نے ’’ یہودی کی لڑکی‘‘ لکھا۔ ڈرامے کی قیمت کے علاوہ بارہ فیصد منافع طے ہوا۔ ۱۹۳۳ء میں ’’ چندی داس‘‘ فلمی ڈراما نیو تھیٹرز کو دیا۔ یہ سب ہٹ فلمیں تھیں۔ اس زمانے میں میڈنس لمیٹڈ کو ’’ بھگت سور داس‘‘ شرون کمار’’ آنکھ کا نشہ‘‘ ہندی میں’’ ترکی حور‘‘ ’’ قسمت کا شکار‘‘ اردو میں فلمی ڈرامے دیئے جو فلمائے گئے۔ ۱۹۳۴ء میں اپنی فلم کمپنی بنا کر’’ رستم سہراب‘‘ بنانے کا اعلان کیا مگر بنا نہ پائے آغا حشر بیمار ہو کر بغرض علاج لاہور آئے تو یہیں’’ حشر پکچرس ‘‘ کی بنیاد ڈالی اور ’’ بھیشم پتامہ‘‘ کی ریہرسل اور شوٹنگ شروع کر دی مگر اب مسلسل محنت کے باعث صحت خراب ہو چکی تھی۔ ۲۸ اپریل ۱۹۳۵ء کو ۶ بجے شام جہان فانی سے کوچ کر گئے اور اگلے دن میانی صاحب میں اپنی بیوی کی قبر کے پہلو میں دفن کر دیئے گئے۔ اس مقالہ سے یہ دلچسپ معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں کہ مولوی محمد جفار نے ۲۸ ربیع الثانی ۱۲۹۶ھ فارسی میں نومولود کا منظوم زائچہ مرتب کیا اور خلیل احمد شاہ اور محمد شاہ دو نام تجویز کیے۔ والدین کی نگاہ انتخاب نے محمد شاہ کو ترجیح دی۔ بنارس کے مشہور استاد مولوی حافظ عبدالصمد صاحب سے دینیات اور حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی کے درس کی تحصیل کا آغاز ہوا۔ ذہین طالب علم پندرہ برس کی عمر میں تعلیم کے ابتدائی مراحل طے کر کے فارغ التحصیل ہو گیا مگر حفظ سولہ سیپاروں سے زیادہ نہیں ہو سکا۔ انڈین شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی دہلی اور پنجاب کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتی ہوئی مارچ ۱۹۱۳ء میں جب لاہور پہنچی تو انجمن حمایت اسلام کے دعوت نامے پر ۲۱ مارچ ۱۹۱۳ء کو انجمن کے سالانہ جلسے میں حشر نے ایک نظم پڑھنے کا وعدہ کر لیا۔ یہ نظم تھی ’’ شکریہ یورپ‘‘ جس کا یہ شعر زندہ جاوید ہو چکا ہے: آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لیے بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لیے ۱۹۱۴ء میں آغا حشر اپنی تھیٹریکل کمپنی لے کر کلکتہ آئے۔ ’’ حشر سٹیشن کے ٹرین پر انتظار میں کسی مصرع پر غور کرتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔ محویت کے عالم میں پلیٹ فارم کے نیچے گر گئے اور ان کے داہنے پیر کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ نتیجے میں ہسپتال داخل کئے گئے۔ اس زمانہ میں لیٹے لیٹے انہوں نے اپنا سب سے پہلا ہندی ڈراما ’’ بلوا منگل عرف بھگت سور داس‘‘ لکھوایا جس کو آغا محمود شاہ نے ڈائریکٹ کر کے کلکتہ میں پہلی بار سٹیج کیا اور خود بلوا منگل کا پارٹ ادا کیا۔‘‘ مناظرہ کے سلسلے میں ہندو الٰہیات اور ہندو علم و ادب کی کتابوں کے پڑھنے اور جمع کرنے کا شوق حشر کو پہلے سے تھا جو ’’ بلوا منگل‘‘ لکھتے وقت اور آئندہ ہندی ڈراموں کی تصنیف میں کام آیا۔ کمپنی کلکتہ سے کھڑک پور، مظفر پور، پٹنہ ہوتی ہوئی بنارس آئی جہاں ۲ ستمبر ۱۹۱۴ء کو حشر کے یہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام نادر شاہ رکھا گیا مگر تین ماہ بعد جب کمپنی لکھنو میں تھی، اس کا انتقال ہو گیا۔ کمپنی یوپی اور پنجاب کے دیگر اضلاع سے سفر کرتی ہوئی ۱۹۱۷ء میں ایک بار پھر لاہور پہنچی۔ ۱۹۱۸ء میں ان کی اہلیہ کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔ آغا حشر کے ڈرامے آغا حشر کی ڈراما نگاری کو بالعموم چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عشرت رحمانی اور وقار عظیم سے لے کر ڈاکٹر اے بی اشرف تک سب نے ان ہی ادوار میں آغا حشر کے ڈراموں کو تقسیم کیا کیونکہ خود آغا حشر نے بھی اپنے ڈراموں کو ان ہی چار ادوار میں تقسیم کیا تھا۔ میں ذاتی طور پر عمر بھر کے فن کو یوں خانہ بند کرنے کے حق میں نہیں۔ تخلیقات کی ادوار بندی کا صرف اسی صورت میں جواز ہے۔ جب تخلیقی زندگی کے مختلف مدارج میں بلحاظ فکر و نظر ایسی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہوں کہ تخلیقات فی الواقع جداگانہ تخلیقی ذائقوں کی حامل ثابت ہو سکیں، ورنہ برعکس صورت میں ادوار میں تقسیم فن کی تقسیم میں سود مند ثابت نہ ہو سکے گی۔ یوں دیکھیں تو آغا حشر کے ڈراموں میں سماجی موضوعات کی تلاش بھی ہے اور اسلوب میں ادبی ذائقہ کا امتزاج بھی۔۔۔۔۔۔ بحیثیت مجموعی ڈرامے خوب سے خوب تر کا تخلیقی سفر بھی طے کرتے نظر آتے ہیں لیکن یہ عمل مسلسل سیڑھیاں چڑھنے سے مشابہ ہے۔ ایک کمرہ سے دوسرے کمرہ میں جانے والی بات نہیں۔ آغا حشر کے ناقدین نے ان کے ڈراموں کے جو چار ادوار مقرر کیے ہیں وہ درج ہیں: اول (۱۹۰۱ئ۔ ۱۹۰۵ئ) مرید شک(۱۸۹۹ئ) مار آستین (۱۹۰۰ئ) اسیر حرص(۱۹۰۰ئ) میٹھی چھری عرف دورنگی دنیا (۱۹۰۱ئ) دام حسن (۱۹۰۱ئ) پاک دامن، ٹھنڈی آگ۔ دوم (۱۹۰۶ئ۔ ۱۹۰۹ئ) شہید ناز عرف اچھوتا دامن (ترجمہ میر فارمیر ۱۹۰۲ئ) سفید خون (ترجمہ: کنگ لیئر ۱۹۰۷ئ) صید ہوس (ترجمہ: کنگ جان ۱۹۰۸ئ) خواب ہستی (۱۹۰۸ئ) خوبصورت بلا (۱۹۰۹ئ) سوم (۱۹۱۰ئ۔ ۱۹۱۶ئ) سلور کنگ عرف نیک پروین (۱۹۱۰ئ) پہلا پیار(۱۹۱۱ئ) انوکھا مہمان (۱۹۱۳ئ) بن دیوی، شام جوانی، خود پرست۔ چہارم (۱۹۱۰ئ۔ ۱۹۳۵ئ) مشرقی ستارہ شیر کی گرج یا نعرہ توحید (۱۹۱۸ئ) مدھر مرلی(۱۹۱۹) بھارت رمنی (۱۹۱۹ئ) بھگیرت گنگا (۱۹۲۰ئ) آتما پرماتما عرف بلوا منگل یا بھگت سورداس (۱۹۲۰ئ) ترکی حور (۱۹۲۲ئ) بھیشم پتامہ (۱۹۲۳ئ) آنکھ کا نشہ (۱۹۲۴) سیتا بن باس(۱۹۲۸ئ) بھیشم پرتگیا (۱۹۲۹) دھرمی بالک عرف غریب کی دنیا (۱۹۲۹) بھارتی بالک عرف سماج کا شکار (۱۹۲۹ئ) رستم سہراب (۱۹۳۰ئ) دل کی پیاس(۱۹۳۰ئ) پریمی بالک، عورت کا دل، ہندوستان (شرون کمار، اکبر اور آج پر مشتمل Triology) آغا حشر کے مکالمے مکالمہ ڈرامے کی جان ہے۔ ناول اور افسانہ میں بیانیہ رنگ غالب ہوتا ہے اس لیے مکالموں کے بغیر کہانی سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن مکالموں کے بغیر ڈراما خالی پانی کی ہنڈیا میں تبدیل ہو جائے گا۔ ڈراما نگار نے جو کچھ کہنا ہے اس کا وسیلہ اداکار بنتے ہیں جبکہ اداکاروں نے مکالمہ کی زبان سے ڈراما نگار اور ناظرین کے درمیان رابطہ کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ جتنے جاندار مکالمے اتنا ہی موثر رابطہ۔ ہر اچھا ڈراما نگار۔۔۔۔ ڈرامے میں مکالموں کی اساسی اہمیت سے آگاہ ہوتا ہے۔ ماضی میں فلم/ٹیلی ویژن/ریڈیو کے برعکس ڈراما’’ زندہ‘‘ ہوتا تھا اس لیے ڈراما نگار عوامی مذاق کو ملحوظ رکھتا تھا جبکہ اداکار کے لیے لازم تھا کہ اس کی آواز سب سے آخر میں بیٹھے تماشائی تک بھی پہنچے۔ اس لیے بھاری اور گونج دار آواز والے اداکار ہی سٹیج کے لیے موزوں سمجھے جاتے تھے۔ مکالموں کی ادائیگی میں بعض اوقات تصنع کا جو احساس ہوتا ہے تو اس کا باعث بھی پنڈال/ہال میں بیٹھے آخری شخص کے کانوں میں آواز کا پہنچانا ہے۔ اردو ڈرامے کے ابتدائی دور میں منظوم مکالمات یا نثر میں قوافی کا التزام کرنے کی بھی بڑی وجہ یہی تھی کہ سادہ نثر کے مقابلہ میں منظوم یا مقفیٰ مکالمے نسبتاً زیادہ گھن گرج کے ساتھ بآسانی ادا ہو سکتے تھے۔ سامعین کو نثر کے مقابلہ میں شاعری یا شعر نما مکالمے زیادہ مزیدار معلوم ہوتے ہوں گے جبکہ اداکار بھی ان پر مبنی اداکاری میں زیادہ سہولت محسوس کرتا ہو گا۔ آغا حشر مکالموں کی حشر سامانی سے آگاہ تھے اس لیے انہوں نے ہر ممکن طریقہ سے اپنے ڈراموں کے مکالموں کو موثر بنانے کے لیے تمام شاعرانہ تدابیر اور غیر شاعرانہ ہتھکنڈے اپنا کر ہر لحاظ سے مکالموں کو پر زور بنا کر ہر ذہنی سطح کے حامل تماشائی سے داد وصول کی۔ ذیل میں آغا حشر کے چند ڈراموں سے مکالمے نقل کئے جاتے ہیں جن سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ دور اول کے ڈرامے ’’ ٹھنڈی آگ‘‘ میں زیادہ تر شاعری ہے جبکہ آخری عمر کے ڈرامے ’’رستم و سہراب‘‘ میں زیادہ تر نثر ہے۔ ایسی نثر جو ملا وجہی کی ’’ سب رس‘‘ کی بازگشت معلوم ہوتی ہے۔ آغا حشر کے مکالموں کا اسلوب ان کے ڈراموں کے تقاضوں کے تابع رہتا ہے۔ اسی لیے آغا حشر حسب ضرورت زبان کو مفرس اور ہندی آمیز بھی بنا لیتے تھے۔ ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر چوتھا عیش گاہ (شہزادے اور شہنواز کا مع چند درباریوں کے نظر آنا) (سہیلیوں کا گانا) سوتن کے گھر جات سانوریا، مانت ناہیں مور برہا اگن دیہہ پھوکت ہے سلکت ہے چاروں اور سوتن۔۔۔۔ باوریا کالی کالی برسے، پیا بن نیناں ترسے جیا بیکل ہے ڈر سے گھن گرجت ہے گھور سوتن۔۔۔ آؤ آؤ سیاں، نظر ملاؤ سیاں، نہ ترساؤ سیاں دیکھو بھئی ہے اب بھور سوتن۔۔۔۔ (دوہا) سہیلی نمبر۱: ہر گل کھلا بمثل ساغر ہے یہ زمانہ بدلی ہے سر پہ چھائی ہے کیا سماں سہانا سہیلی نمبر۲: باقی نہ رکھنا ساقی شیشہ میں پری خانہ گائیں گی بلبلیں اب اک اور ہی ترانہ کردے صراحی خالی، آنکھوں میں آوے لالی برسے گھٹا ہے کالی، جھولی ہے ڈالی ڈالی نہریں رواں ہیں ساری، پھولی پھلی ہے کیاری کوئلیا بولے پیاری، بولیں مور، مچاویں شور بادل گرجے گھور گھور، او ساقی میرے یار! دلدار، غم خوار، اڑا دو کاگ، سنا دو راگ ہاں ہو بے لاگ۔ شہنواز:آ ہا ہا ہا ہا ہا۔ شہزادہ: ہر حور لقا چور جوانی میں ہے اک خلد ہی بزم کامرانی میں ہے زاہد کو ملے گی بعد مردن جنت! زندہ کو بہشت زندگانی میں ہے ہاں رقاصاؤ! کچھ سناؤ۔ میرے دل پژمردہ کو اپنے دلکش نغموں سے رجھاؤ۔ گانا سہیلیاں (ابیات) سہیلی نمبر۱: میکشی سے خاک اب توبہ کریں ایک دو دم زندگانی اور ہے توبہ بھی کر لیں گے ناصح پی تو لیں کوئی دن کی یہ جوانی اور ہے سہیلی نمبر۲: فائدہ کیا تسبیح و زنار سے دین کی زاہد نشانی اور ہے کیا ہوا گر حشر تک زندہ رہے خضر عمر جاودانی اور ہے رنگ رلیاں مناویں۔ آج۔ دہر پہ نان سناویں آج بھر بھر جام پلاویں۔ نئی راگنی گاویں آج ناز و انداز سے۔ شان و غماز سے۔ دہن سے گن سے گاویں آج۔ شاہ کے سر پہ تاج وکلاہ آسمان پہ نور کھلا۔ روشن ہے تاروں میں۔ چاند ستاروں میں۔ قربان ہزاروں میں آج۔۔۔ آؤ شہزادہ: آئی ہے صبا باد بہاری بن کر شبنم جی پڑی ہے آبکاری بن کر شیشہ بھی کھلے سخی کے دل کے مانند اور جام چلے باد بہاری بن کر درباری نمبر۱: کہاں ہے جام ہے یہ لالہ فام ہاتھوں میں سمند عیش کی ہے یہ لگام ہاتھوں میں درباری نمبر۲: ہوا ہے ناچ کا واللہ کانچ پر بھی اثر شراب سے بھرا تھرکے ہے جام ہاتھوں میں درباری نمبر۳: حضور! ہمارے دھولے کی پڑیا جل گئی۔ شہزادہ: کوئی کبوتری جال میں پھنسی۔ درباری نمبر۳: جی ہاں وہی قیدی منہ زور سلجوق کی بیٹی۔ شہزادہ: (ہنس کر) بہت خوب۔ ہاں ہاں اچھا آنے دو۔ (شمیم کا گانا گاتے ہوئے آنا) گانا: اے شاہ عالی دو زماں، اے دستگیر بے کساں باغ وطن کے باغباں، تو پھولتا پھلتا رہے کرنا ہے والد کو رہا، دیتی ہوں میں تجھ کو دعا مشرق سے مغرب تک سدا، سکہ تیرا چلتا رہے کر لے یتیمی پر ترس، معصوم کے فریاد رس جو ہو تیرا بدخواہ بس، وہ ہاتھ ہی ملتا رہے دل سے ہے عرض بندگی، اے قابل تابندگی تیرا چراغ زندگی، لاکھوں برس جلتا رہے شہزادہ: شاخ گل اس زباں پر ہے نثار پھول جھڑتے ہیں کیا دم گفتار شمیم: اے شاہ زماں کہاں ہے وہ میرا پرانا شامیانہ۔ تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام پاؤں۔ اگر وہ قید کی کشاکش سے شکستہ ہو گیا ہو۔ تو تھگلیاں لگاؤں۔ شہنواز: شاباش لڑکی! مجھے یقین ہے کہ تو ضرور تھگلیاں لگائے گی۔ شہزادے والا شان کی خوشی کو اپنے باپ کے زخموں کا مرہم بنائے گی۔ شمیم: باپ کے زخم۔ پیارے باپ کی قسم! زخم محتاج جو مرہم کے نظر آئیں گے دل کے ٹکڑے وہیں آنکھوں سے اتر آئیں گے شہنواز:ـ اگر حجت نہ ہوئی تو تیرا باپ ضرور رہائی پائے گا۔ شمیم: تو کیا ابھی رہا نہیں ہوئے؟ شہنواز: بس ہوئے سمجھو۔ کھل چکے ہیں کواڑ زنداں کے منتظر ہیں فقط تری ہاں کے شمیم: وہ رہا ہوں اگر مری ہاں سے کام لوں میں زبان کا جاں سے شہزادہ: مگر اے حسین لڑکی! تو اس کے معنی تو غالباً سمجھ گئی ہو گی۔ شمیم: ہاں؟ شہزادہ: ہاں! شمیم: مگر میرے ابا ہیں کہاں؟ شہنواز: یہیں ہیں۔ اور تو ان ہی کے کہنے سے بلائی گئی ہے اور اس کی خوشی کے ساتھ سڑی ہوئی گودڑی سے نکال کر مخملی فرش تک لائی گئی ہے۔ شمیم: کبھی نہیں، وہ مجھے ایسی ہاں کے لیے کبھی نہیں بلائیں گے۔ ایسے مقتل میں جہاں بکروں کی جگہ بکر حلال کیا جائے نہیں لائیں گے۔ پھانسی کے تختہ پر خوشی سے جان دیں گے۔ مگر اس گندے کمینے کی طرف جانے کے لیے عزت کو نہ جلائیں گے۔ شہزادہ: جھلکتا ہے جو آب زندگی شیریں مقالی میں دہن کا مرتبہ اب بڑھ گیا امرت کی پیالی میں شمیم: اے سلطان ابن سلطان! مجھے معاف کر۔ شہزادہ: معاف کروں؟ اور پھر ایسے عالم تنہائی میں۔ جبکہ جوبن پہ ترا حسن ہو رعنائی ہو رات سنسان ہو اور عالم تنہائی ہو سیج پھولوں کی بچھی ہو۔ شمیم: سیج۔ خدا کے واسطے اس سیج پر انگارے ڈال دو۔ اسے اٹھا کر جہنم کے کنارے ڈال دو۔ دفن لاکھوں عصمتیں ہیں نحس چادر کے تلے ایک قبرستان پوشیدہ ہے بستر کے تلے شہزادہ: تو جس قدر حجت سے کام لے گی، اسی قدر تیرا اور تیرے باپ کا بچنا محال ہو گا۔ کیونکہ یہاں تو جبراً وصال ہو گا۔ درباری نمبر۱: بجا ہے۔ جبراً وصال ہو۔ درباری نمبر۲: درست ہے۔ جبراً وصال ہو۔ درباری نمبر۳: جی ہاں حضور! جبراً وصال ہو۔ شمیم: او جی حضور کے نوکرو! بجا اور درست کے چاکرو! شرم کرو زباں کو ہو رہی ہے مشق ہاں میں ہاں ملانے کی ہے آنکھوں کو مہارت رات میں سورج دکھانے کی خوشامد چاپلوسی جمع ہو اک جا زمانے کی طلب پاتے ہو تم انسان کو شیطاں بنانے کی شہزادہ: اب تو مجھے ضرور اٹھانا پڑا۔ درباری نمبر۱: توبہ توبہ حضور غلاموں کے ہوتے ہوئے آپ تکلیف فرمائیں گے۔ درباری نمبر۲: تو کیا حضور ہم بالائی خدمت بھی نہ بجا لائیں گے۔ شمیم: او ہڈیوں کے چچوڑنے والو! اگر میری جگہ تمہاری بہن ہوتی تو کیا اسے یوں ہی اٹھانا پسند کرتے۔ اس وقت بھی کیا بالائی خدمتوں سے حضور کے سامنے لانا پسند کرتے۔ شہنواز: خاموش۔ا و بد زبان لڑکی! بارگاہ عالیٰ سے ہمیں نائٹ سر اور خان بہادر کا خطاب، اور ہماری شان میں یہ جواب۔ شمیم: خطاب ایسی ہی کار گذاریوں کے صلے میں ہوں گے۔ بھول ہے خطاب دینے والوں کی نائٹ، سر، خان بہادر کی جگہ دلال حرامخور کا خطاب ہونا تھا۔ شہنواز: ہائے رے نادانی، ایسے لمبے جھگڑے کو رہنے دو۔ ہٹیلی لڑکی تو اپنے باپ سے زیادہ دور اندیش نہیں ہے۔ پہلے اس سے دریافت کر تو سہی۔ پھر چلی جانا اپنے گھر۔ شمیم: وہ کہاں ہیں؟ شہنواز: وہ رہے اس کمرہ میں۔ (شمیم کمرے کے اندر جاتی ہے اور چوبدار سلجوق کو لے کر آتا ہے) ایک درباری: یہ لیجئے حضرت سلجوق بھی آ گئے۔ شہنواز: آیئے آیئے بیٹی کے والد مہربان آیئے۔ سلجوق: پڑے رہنے دیا ہوتا خدارا قید کے غم میں مجھے کیوں کھینچ بلوایا ہے جنت سے جہنم میں شہنواز: اس لیے کہ آپ کو آج بد دعا کا انجام دکھائیں گے اور پھر تمہاری بد دعا کو واپس کرائیں گے۔ سلجوق: بد دعا نہ سر پر میرے چڑھی ہو گی۔ نہ بد دعاؤں کا دریا ادھر بڑھا ہو گا ادھر ہی جائے گا پانی جدھر گڑھا ہو گا شہنواز: اپنی لڑکی سے دریافت کر کے شیخی بگھارنا۔ سلجوق: وہ کہاں ہے؟ شہنواز: ہمارے شہزادے کے پاس۔ سلجوق: او شیطان کے شاگرد! دربار کے کتو! تم فقط دیکھنے میں خنجر فولاد ہو، کہنے کو شریفوں کی اولاد ہو۔ دیگر گھڑی ناپاک اور قسمت غلاموں کی لڑی ہو گی تمہارے جسم کی بنیاد چھپ چھپ کے پڑی ہو گی درباری نمبر۲:یہ قدرتی بات ہے کہ چراغ کو بھی پانی کی بوند ڈال کر بجھاتے ہیں تو وہ چرچراتا ہے۔ سلجوق: تو حرامخور ہے۔ اور شہنواز تو بھی۔ درباری نمبر۳: خاموش۔ ورنہ اپنی موت قریب جان۔ سلجوق: او موذی بے ایمان! اب تو موت ہی ہے میری زندگی کا سامان۔ افسوس آج میری رکابی میں بھی گوشت کے ٹکڑے ہوتے تو ایک کتانہ کاٹتا بوٹیاں دیکھتا۔ اور تلورے چاٹتا۔ ارے تمہارا ستیاناس ہو۔ اسے چھوڑ دو۔ اور اس کے بدلے میں یہ قدرت کی بخشی ہوئی پوستین اتارو۔ تمہاری جوتیوں کے کام آئے گا۔ مگر خدا کے واسطے اسے چھوڑ دو۔ درباری نمبر۱: تو پھر تیری کیا مرضی ہے۔ سلجوق: میری بیٹی کو میری قید نجس سے نکال دو۔ یہ بھیک اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو، اس کے واسطے میں تمہارے پاؤں پڑتا ہوں۔ (شمیم کا آگے آگے فیر کرتے ہوئے آنا۔ اور پیچھے شہزادے کا گھبرائے ہوئے آنا) (’’ ٹھنڈی آگ‘‘ ) ٭٭٭ باب پہلا سین پہلا شاہی باغیچہ (رامشگر حمد و ثناء کرتے ہوئے نظر آتے ہیں) گانا یہ جگ مالی پھولی ڈالی ڈالی چھائی نرالی رنگ والی لالی ہریالی آگ گاتی بھاتی کوئل کالی بھنبور رپپہیا اوٹھ بھور پاروں اور جپے تورا نام والی۔ گنجن گنجن ہی پھولن کے بن میں حشر کے من میں مہنت ست ہے چھب توری نرالی یہ جگہ ہالی۔ (جانا) ٭٭٭ باب پہلا سین دوسرا جشن گاہ شاہی باغیچہ میں جہاندار شاہ کی سالگرہ کا جلسہ ہے۔ میرو امراء بیٹھے ہوئے ہیں۔ گانا سہیلیاں دائم داور درتنے لانا۔ تاتانی تانا تانا تانا تانا دارے دانی نندیا نرے نندیا نرے نی تارے دانی اودانی اودانی تادانی۔ تم تانامن تلے تے لاناتے لے لے لے تے تے لے لے لے سالا نانی تارے تانا تانا تانا نت تارے نا دائم پہلا امیر: گاؤ گاؤ دوستو شہنشاہ عالم کی سالگرہ کی تہنیت میں فرحت و مسرت کے نغمے گاؤ۔ مئے عشرت کے جام پہ جام چڑھاؤ۔ غم و فکر مٹ جائیں دلوں میں نور ہو جائے نگاہ شوق میں ہر بام مثل طور ہو جائے ہمیشہ دوستوں کو ہو میسر فارغ البالی! ذلیل و خوار مضطر دشمن مغرور ہو جائے دوسرا: ہاں ہاں اے ساقی مہوش شراب ناب کا ایک دور اور چلا۔ مشتاقان بے خودی کو جادۂ محبت بنا۔ تیسرا: عنادل کی جہاں میں زیست رنگ گلستان تک ہے ہماری زندگی جام شراب ارغواں تک ہے چوتھا: گاؤ گاؤ! کوئی نغمہ مسرت گاؤ۔ گانا سہیلیاں: لائی پیاری گیاں نسیم بہار لائی۔ سبھ گھڑی آئی۔ گیویرہ کے دن۔ امن سجن لگن مگن رہو ہر بار لائی۔ دوہا زمین سے تا فلک شور مبارکباد پہنچا ہے یہ کس کے طالع فرخ کو یا رب فرما وسعت ہے (جانا رامشگراں کا) (گانے کے بعد تمام باغ کی گشت میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ قاتل کا آ کر ایک سایہ دار درخت کی آڑ میں کھڑے ہو کر کہنا) قاتل:کینہ، بدلہ، انتقام، اگرچہ یہ تمام نام دنیا والوں کے نزدیک ذلیل و خوار ہیں مگر حقیقت میں یہی وہ چنے ہوئے ہتھیار ہیں کہ جن سے انسان زمین کی آخری تہہ تک جا سکتا ہے۔ دشمن تو کیا ہمالیہ کی خوفناک چوٹیوں کا سینہ چھید سکتا ہے۔ اس نا منصف بادشاہ کے ساتھ کیا میں زور و زر سے لڑ سکتا ہوں یا دو بدو ہو کر اس خنجر سے نہیں۔ موقعہ خوفناک کے تیر اور گھات کے۔ او جہاندار شاہ اور خود مختار سن، ڈر اور لرز۔ گو آج تیرا زمانہ ہے مگر تھوڑی دیر میں وہ زمانہ ہو گا کہ شاہی تخت کے بدلے تختہ گور تیرا ٹھکانہ ہو گا۔ جس طرح تو نے اس ملعون شخص کی طبیعت شاد کی جس نے میری بہن کی عصمت برباد کی۔ اس طرح میں تجھے قتل کر کے اپنا رنج دور نہ کروں۔ تیری حیات کا صدقہ دے کر اپنے انتقام کے شیطان کو مسرور نہ کروں۔ تو میرے دل پہ سدا ملامت برسے مر بھی جاؤں تو میری قبر پہ لعنت برسے (قاتل کا ایک طرف ہو جانا، امیروں کا باغ اور شراب کی تعریف کرتے ہوئے داخل ہونا) گانا پہلا: سبحان اللہ! باغ کی بہار، صنعت گلزار کا نمونہ ہے۔ ہر شجر افزائش میں شجر طور سے دونا ہے۔ دوسرا: نم یافتہ ہر برگ و بار پر نکھار ہے۔ ہر شاخ اسرار الٰہی سے سرشار ہے۔ مستانہ وار جھوم رہے ہیں شباب سے ہو مست جس طرح کوئی نشہ شراب سے تیسرا: واللہ شراب کے نام نے بے تاب کر دیا۔ دل و جگر کو کباب کر دیا۔ بیا ساقی مشفق بیا جام شراب! کہ شوق دید میں دل کھا رہا ہے پیچ و تاب (ایک سہیلی کا جام دینا) چوتھا: اے دوست جانی۔ ذرا ادھر بھی لانا شراب ارغوانی۔ ساقی: (گلاس بھر کر) لیجئے جناب عالیٰ۔ حاضر ہے گلابی پر تگالی۔ پہلا: (گلاس لے کر) اس دم نہ نیم حشر نہ خوف عذاب ہے نے فرط غم سے دل ہی کچھ پیچ و تاب ہے دوسرا: سچ فرمایا۔ دوست سچ فرمایا۔ (جام پی جانا۔ سہیلی کا دوسرے امیر کو جام دینا) جام بلور ساقی مہوش کے ہاتھ ہے تقدیر سے ملے تو عجب اضطراب ہے دوزخ کا خوف ہے نہ جہنم کا وسوسہ رندان بادہ کش کے لیے ناصواب ہے تیسرا: دلدار سچ ہے دور مئے ارغواں رہے رقص و سرور بزم میں ہو اور شاں رہے یہ وہ مئے شریف ہے کہ وقت شباب تک آخر کو نہ شباب رہے اور نہ جاں رہے ان کی زلفوں کا لے لیا بوسہ آج ہم نے دلاوری کر کے خون کے چھینٹے دیئے لفافے پر خط جو بھیجا رجسٹری کر کے برگ گل رکھ دیا جنازے پر لاش ان کی ہری ہری کر کے (گانا کے بعد جہاندار شاہ اور صفدر جنگ کا آنا) پہلاـ: اقبال یار شوکت حشمت مزید ہو دوسرا: صولت کثیر دولت و ثروت مزید ہو تیسرا: ہر دم نزول رحمت رب مجید ہو چوتھا: شاہ کا نظیر دید ہو اور ناشنید ہو صفدر: ہر شب شب برات ہو ہر روز عید ہو جہاندار: میری شوکت، میری صولت، میری جان و جگر، تم ہو میری دولت، میری حشت میرے نور نظر تم ہو۔ شجر میں ہوں ، ثمر تم ہو۔ صدف میں ہوں، گہر تم ہو۔ فلک میں ہوں، قمر تم ہو۔ اثر تم ہو۔ صفدر: زمین پر انس و جاں اور چرخ پر جب تک ستارے ہوں تیرے خادم ہوں ہم اور رنج و غم خادم ہمارے ہوں ساقی کدھر ہے اور عشرت کا جام دے رقص و سرور عیش کا دل کو پیام دے (ساقی کا شراب پلانا، رنڈی کا گانا، جہاندار شاہ کا سو جانا) گانا رنڈی: تم سوں لاگی نجر یا ہماری رے وعدہ پہ تم نہ آئے تو کچھ ہم نہ مر گئے کہنے کو بات رہ گئی اور دن گذر گئے پھولے پھلے نہ آ کے گلستان دہر میں ہم وہ شجر ہیں باغ سے جو بے ثمر گئے کیوں نہ لینی خبریا ہماری رے کارے نینوں نے ٹونوا ڈالا رے، من سہر لے گئی چھب اعلیٰ واہ کیا گاتی ہو بی بی نرا نارے تیرے نخر میں گرم مصالحہ، آؤ سنو یار موری سجریا، بیتی جاتی عمریا ہماری رے تم سوں لاگی نجریا ہماری رے (گانے کے بعد صفدر جنگ کا سب کو رخصت کرنا اور آپ بھی جانا) (’’ شہید ناز‘‘ ) ٭٭٭ آغا حشر کے ڈراموں میں شاعری اور شاعرانہ اسلوب۔۔۔۔۔ نشہ بڑھتا ہے شرابوں میں شرابیں جو ملیں۔۔۔۔ جیسی کیفیت پیدا کرتے ہیں ایک لمحہ کے لیے اگر ذہن سے یہ نکال دیں کہ یہ ڈرامے پبلک کے سامنے پیش کئے جاتے تھے پھر بھی آج کا قاری ان ڈراموں کے برمحل اشعار، جذباتی مگر مقفیٰ مکالموں اور بحیثیت مجموعی ادبی حسن سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ آغا حشر کے ان شاعرانہ مکالموں میں شاعرانہ تجمل بھی ملتا ہے اور جذبات کی تصویر کشی بھی۔ ورڈز ورتھ نے کہا تھا کہ قوی جذبات کے بے ساختہ چھلک جانے کا نام شاعری ہے۔۔۔ ایک رومانی کی شاعری کی اس تعریف پر آغا حشر کے مکالمے ہر لحاظ سے پورے اترتے ہیں۔ جذبات شاعرانہ اسلوب میں اظہار پاتے ہیں جبکہ شاعرانہ اسلوب جذبات کو دو آتشہ بنا دیتا ہے۔ ’’ صید ہوس‘‘ سے مثال پیش ہے، یہ واحد مثال نہیں بلکہ آغا حشر کے تمام ڈراموں کے مکالمے اسی انداز و اسلوب کے حامل ہیں: نادر: یہ بھی عورت تو بھی عورت یہ بھی قاتل تو بھی ہے یہ بھی اندھی تو بھی اندھی یہ بھی جاہل تو بھی ہے اس سے تو کچھ کم نہیں یہ تجھ سے بھی کچھ کم نہیں ظلم پیشہ تو بڑی ہے تو چھری ہے ہم نہیں! مہر: بیشک میں چھری ہوں۔ مگر وہ نہیں۔ جسے قصائی بے گناہوں کے گلے پر پھیرتا ہے۔ بلکہ میں وہ چھری ہوں جس سے حکیم سڑے ہوئے گوشت کو کاٹ کر بیمار کی جان بچاتا ہے۔ میں وہ آگ ہوں جس سے بھٹکے ہوئے اجالا پاتے ہیں۔ میں وہ زہر ہوں جس کو حکماء دوا میں ملا کر مریض کی جان بچاتے ہیں۔ نادر: عقل کی اندھی آنکھیں نہ تھیں دماغ نہ تھا یا کہ سر نہ تھا یا سر میں عقل و ہوش ترے اس قدر نہ تھا لے کے چھری جو آئی مری موت کے لیے الٹی نہ موت آئے تجھے اس کا ڈر نہ تھا مہر: کیا موت او نادان موت سے تجھ جیسے گنہگار ڈرتے ہیں، جن کو خدا کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ موت تو ایک رحمت ہے جو نیک انسانوں کو دنیا کی برائیوں سے آ کر چھڑاتی ہے۔ نادر: اگر تو میرے قتل کا سبب نہ بتائے گی، روتی ہی آئے گی اور روتی ہی جائے گی۔ مہر: سبب، سبب تیرے گناہ۔ نادر: میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ مہر: میں نے کون سا گناہ نہیں کیا؟ نادر: میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ مہر: قسم کس کی کھاتا ہے۔ نادر: اس دل کی۔ مہر: وہ فریب اور دغا سے بھرا ہے۔ نادر: اس سر کی۔ مہر: اس پر تو گناہوں کا بوجھ دھرا ہے۔ نادر: فرشتوں کی۔ مہر: وہ تو سب کہتے ہیں کہ تو بڑا مکار ہے۔ نادر: اچھا تو خدا کی۔ مہر: خدا تیرے نام سے بیزار ہے۔ نادر: بس کر! اب زیادہ نہ پیچ و تاب دے۔ جواب سن یا جواب دے۔ قتل کو آئی تھی میرے کیا سمجھ کر دیکھ کر غصہ آتا ہے ترے ہاتھوں میں خنجر دیکھ کر (نادر کا مہر عالم کو جھٹک کر خنجر لینا) مہر: تجھ کو اک غصہ ہے لیکن مجھ کو سو افسوس ہے تجھ کو بے رحم اور تیرے دل کو پتھر دیکھ کر نادر: بے سبب خفا ہونا۔ مہر: دنیا کے بدلے دین کھونا۔ نادر: اپنے عزیزوں سے بدگمانی۔ مہر: اپنے بھائی سے بے ایمانی۔ نادر: جس کو دنیا نے وفادار مانا اس پر بے ثبوت الزام لگانا۔ مہر: جس درخت کا پھل کھانا۔ پھر اسی کی جڑ پر کلہاڑی چلانا۔ نادر: کس نے مجرم ٹھہرایا؟ مہر: وفا نے۔ نادر: کس نے مجھے جرم کرتے پایا؟ مہر: خدا نے۔ نادر: کس نے گواہی دی؟ مہر: زمین و آسمان نے۔ نادر: پچھتائے گی لگا کے یہ الزام دیکھنا۔ مہر: سب کام ہو چکے ہیں۔ اب انجام دیکھنا۔ نادر: بے وقوف مہر: ظالم۔ نادر: جنونی ہے۔ مہر: تو خونی ہے۔ نادر: تو مجھ پر الزام لگا رہی ہے۔ میری طرف سے کبھی معاف نہ ہو گا۔ مہر: تو نے اس خون سے ہاتھ بھرا ہے جو فرشتوں سے بھی صاف نہ ہو گا۔ جب ایک بے کس پہ ہو رہا تھا ستم تری تیغ آہنیں کا فلک تھا وحشت سے تھرا تھراتا لرز رہا تھا جگر زمیں کا قریب آتا ہے روز محشر چھپے گا کشتے کا خون کیونکر جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا نادر: بے وقوف! بھائی بھائی کا خون کیونکر کرے گا۔ مہر: تو ظالم بیٹا باپ کے گلے پر چھری کس دل سے چلائے گا۔ نادر: جس طرح سنجر نے چلائی۔ مہر: تو جھوٹا ہے۔ بے گناہ کی زندگی کا شیشہ میرے جگر ٹھوکر سے نہیں بلکہ او مجسم شیطان تیرے ہاتھ سے ٹوٹا ہے۔ خنک کر ڈالا سمندر اک گہر کے واسطے آگ دے دی گل چمن میں اک ثمر کے واسطے سلطنت تو نے ڈبوئی سلطنت کی حرص میں بال و پر توڑے مرے اس مال و زر کے واسطے نادر: بیداد برا قتل میں دیری نہیں کرتا دولت کے لیے کون دلیری نہیں کرتا مہر: کانٹا کوئی رستے میں بچھایا نہیں کرتا نادر: آدمی پیدا ہوا لطف جوانی کے لیے عیش رانی حکمرانی زر فشانی کے لیے نیک و بد کی فکر دل سے دور کرنی چاہیے سارے کانٹے ہیں یہ باغ زندگانی کے لیے مہر: مگر وہ زندگی کتنی ہے جس کی ہوس اتنی ہے۔ زندگی ہوا کا جھونکا ہے اور پانی کا بلبلہ۔ آنکھ کی جھپک، بجلی کی چمک، سوتے کا خواب ہے۔ جب آنکھ کھول کے اپنے کو قبر میں پائے گا جس طرح رات کا نشہ دن کو دکھ دیتا ہے، اسی طرح آنکھ کھلنے پر پچھتائے گا۔ زندگی مثل شجر ہے جو ہرا ہے کچھ برس! گر پڑے گا کٹ کے آخر کیونکہ آندھی ہے نفس یہ سر ناپاک کیا ہے؟ ایک ہڈی کا قفس آ پھنسا ہے اس میں دو دن کے لیے مرغ ہوس موت کا صیاد جب آئے گا شوق جبر میں چڑیا اڑ جائے گی پنجرہ پھینک دے گا قبر میں نادر: قبر میں پھینکے کہ یا دوزخ میں فکر اس دم نہیں ابتدا اچھی ہو تو انجام کا کچھ غم نہیں سکہ و زر لوں گا اس راج اور ادھراج سے ہو گی تاراجی سے پھر سر کی زینت تاج سے مہر: یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب تک میں زندہ ہوں تو حق حقدار کو دلایا جائے گا۔ اگر رعایا سنجر کو تاج نہ پہننے دے گی تو پھر قیصر کو پہنایا جائے گا۔ نادر: اگر ایسا چاہا تو بچی ہوئی پونجی بھی کھوئے گی ایک آنکھ سے سنجر کو دوسری سے قیصر کو روئے گی۔ قزل جاؤ قیصر کو پکڑ لاؤ۔ (قزل کا جانا۔ مہر عالم کا روکنا) مہر: ظالم ٹھہر۔ نادر: بے وقوف سن۔ شیر: (آ کر) اگر خدا نے چاہا تو ایسا کبھی نہ ہو گا میں ہوں اک شیر جو بپھرا تو چبا ڈالوں گا میں ہوں اک آگ جو بھڑکا تو جلا ڈالوں گا الگ آئے ہیں مگر ساتھ ہی جانا ہو گا ایک ہی قبر میں دونوں کا ٹھکانا ہو گا دنیا میں چیونٹی اور کیڑے کی حفاظت خدا کرتا ہے۔ اس کی قدرت اگر زندہ ہے تو سنجر کب مرتا ہے؟ نادر: زندہ حماقت، تجھے یہاں کس نے بھیجا اور کون لایا؟ شیر: ایمان نے بھیجا اور انصاف لے کر آیا۔ نادر: مگر تجھے یہاں آنا ہی کیا ضرور تھا؟ شیر: ایک اندھے کو ٹھوکر سے بچانا منظور تھا۔ نادر: کون ہے اندھا؟ شیر: جس کا دل ہے گندا۔ جو ہے شیطان کا بندہ ۔ جو بچھانے چلا پھندا۔ نادر: تو کیا ایمان نے تجھے یہاں بد زبانی کے لیے بھیجا ہے؟ شیر: اور کیا خدا نے تجھے یہاں بے ایمانی کے لیے بھیجا ہے؟ نادر: ہاں بے ایمانی کے لیے۔ بالکل بے ایمانی کے لیے۔ اگر میرے دل میں حرص و ہوس، غصہ و طاقت، جوش و ہوش، یہ سب نہ بخشا تو میں کس لیے دنیا کی محبت میں گرفتار ہوتا۔ ہاتھی کا کیا قصور جو موروں کو مل دیا طاقت خدا نے بخشی انہیں زور بل دیا مہرـ: او کور نمک! خدا نے اندھیرا ہی نہیں بلکہ روشنی بھی بنائی ہے۔ اگر انسان کو نیکی کے ساتھ بدی کی بھی دعوت ہے تو اس قوت پر حکومت کرنے کے لیے شریعت اور عقل فرمائی ہے۔ شیر: غصہ اس لیے دیا ہے کہ ظالموں کو ڈراؤ اور زور اس لیے دیا ہے کہ کمزوروں کو بچاؤ۔ حرص اس لیے دیا ہے کہ نیکیوں کو جمع کرو۔ ہمت اس لیے دی ہے کہ بدی کو فنا کرو۔ نادر: سر میں ہے اگر عقل تو بکنا زیادہ چھوڑ دے مہر: دل میں ہو ارماں تو یہ خونی ارادہ چھوڑ دے نادر: دیکھ تو مجنوں ہے۔ مہر: تو ملعون ہے۔ نادر: تیرے سر پر قضا سوار ہے۔ شیر: تیرے سر پر خون سوار ہے۔ نادر: اسے کہتے ہیں وفا۔ شیر: کون مانے گا؟ مہر: شرافت۔ نادر: کون خوش ہو گا؟ شیر: خدا۔ نادر: بے ادب بس کوئی اب حرف سنانا ہی نہیں میں بلا ہوں مجھے تو نے ابھی جانا ہی نہیں اس کی قسمت کی طرح تیرا مقدر ہوں میں یاد رکھنا تیری تقدیر کا چکر ہوں میں شیر: تو ڈرائے گا تو کیا دل میں دغا آئے گی دل میں جو بات ہے وہ لب پہ سدا آئے گی مہر: دے خدا نیک عوض تیری نکو کاری کا! شرم کر سیکھ سبق اس سے وفاداری کا! نادر: اس سے اچھا میں سکھاؤں گا سبق خنجر کو اور خنجر سے پڑھاؤں میں ترے سنجر کو عمر بھر تو بھی نہ بھولے گا یہ صدمہ سن لے (قزل کا قیصر کو لے کر آنا) مہرـ: میرا بچہ۔ قیصر: میری ماں۔ (مہر کی طرف جانا۔ نادر کا روکنا) مہر: یہ ستم! نادر: روک دم۔ شیر: بچے پہ ظلم کرتا ہے کیسا لئیم ہے ظالم اس کو چھوڑ دے یہ بیوہ وہ یتیم ہے مہر: اور کر دے ٹکڑے ٹکڑے اس دل صد چاک کو تن جلا دے اور اڑا دے ٹھوکروں سے خاک کو آنکھ میری پھوڑ دے، سر اور بازو توڑ دے چھوڑ دے تو چھوڑ دے بچے کو میرے چھوڑ دے نادر: تاج کے بارے میں اف کی تو تماشہ دیکھنا آج اس کی لاش تو کل اس کا لاشہ دیکھنا (قزل لے جاؤ اسے) شیر: ہو الگ، ہو خون کے پیاسے ابھی جیتا ہوں میں نادر: ٹھہر تو اے بے حیا تیرا ہی خوں پیتا ہوں میں (طمنچہ مارنا۔ شیر کا گرنا۔ قزل کو لے جانا۔ اقبال کا آنا) شیر: حق ادا۔ اقبال: حق ادا۔ مہر: عادل خدا۔ ٭٭٭ باب پہلا سین پانچواں قید خانہ میں پھانسی گھر سپاہیـ: لوہے کی سڑک سے تجھے جانا ہے عدم کو چل نذر چڑھا جان کی شمشیر دو دم کو سنجر: احسان و مروت کو نہ برباد کرو تم برسوں ہے نمک کھایا مرا یاد کرو تم سپاہی: ہم حکم سے لاچار ہیں۔ (یکایک طمنچہ کا فائر ہونا۔ سپاہی کا گرنا۔ سنجر کے ماموں اور اقبال کا ظاہر ہونا۔ سپاہی کا مر جانا۔ جلاد کا پھانسی کے پیچھے ڈر کر پوشیدہ ہو جانا) سنجر: کون؟ اقبال: وقت کم ہے۔ نکل جایئے۔ اس خوفناک جگہ سے باہر آیئے۔ یہ آپ کے ماموں جان ہیں۔ سنجر: کون ماموں جان۔ ماموں: ہاں میرے ارمان! وقت نازک ہے جلدی نکل چلو۔ گفتگو کا موقع نہیں۔ سپاہی: (پہرہ والا) یہ ہمت یہ دلیری۔ ماموں: چپ خبردار (طمنچہ مار دینا) (سنجر و اقبال وغیرہ کا جانا۔ نادر کا آنا) نادر: کیوں ذبح کیا گیا؟ (ادھر ادھر دیکھ کر) ہیں سنجر بھی نہیں اور خون میں تر خنجر بھی نہیں۔ (جلاد کا سامنے آنا اور قدموں پر گرنا) جلاد: رحم رحم عالی جاہ رحم۔ نادر: ہیں رحم کروں، تجھ پر جس نے دشمن سے مل کر دغا دی۔ اس پر رحم کروں؟ قزل: سر تن سے اڑا دے۔ (قزل کا جلاد کو قتل گاہ پر بٹھانا۔ اس کا سر کاٹ دینا اور کٹا ہوا سر دیکھنا) (’’ صید ہوس‘‘ ) ٭٭٭ بحیثیت مجموعی آغا حشر کا مکالماتی اسلوب، ڈرامے کے تقاضوں کے تابع رہتا ہے کہ مکالمے مقصود بالذات نہیں، حصول مقصد کا ذریعہ ہیں۔ اگرچہ وہ ڈرامے کی سچویشن یا کردار کی مناسبت سے زبان کو فارسی اور ہندی آمیز بنا لیتے ہیں لیکن رومن ماحول میں تحریر کردہ ’’ یہودی کی لڑکی‘‘ کے مکالمے رومن ماحول یا انداز گفتار کی عکاسی کے برعکس اپنی زبان پر مبنی ہیں۔ اس ضمن میں وہ قدیم داستان نگاروں سے مشابہ ہیں یعنی ماحول چین و عجم کا مگر محاورہ خالص دہلی کا۔ چنانچہ ’’ یہودی کی لڑکی‘‘ کے مرد وزن بھی ہمارے ہی لہجہ اور زبان میں گفتگو کرتے ہیں۔ مکالموں کا یہ اسلوب ڈراما نگار کی کمزوری نہیں بلکہ مجبوری ہے۔ آغا حشر شیکسپیئر نہ تھے اس لیے ’’ مرچنٹ آف وینس‘‘ کا اسلوب نہ اپنا سکتے تھے۔ ذیل میں’’ یہودی کی لڑکی‘‘ کے کچھ مکالمے پیش ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ رومن کیسی فصیح اردو بولتے اور کیسے اچھے شعر پڑھتے تھے: راحیل: آہا یہ تو اسی فتنہ پرداز کی آواز ہے۔ زہے تقدیر جذب دل نے کی تاثیر دشمن پر پس مردن وہ آیا فاتحہ کو میرے مدفن پر مارکس: آہ! راحیل میں اپنے برتاؤ سے سخت شرمسار ہوں اور جو سزا دو اسے قبول کرنے کو تیار ہوں۔ راحیل: پیارے کیوں آئے بزم عیش سے بزم عزا میں تم کیوں آئے میرے واسطے پڑنے بلا میں تم نہ دیکھا جائے گا صدمہ تمہارے دل سے عاشق کا مری جاں دم نکلتا ہے بڑی مشکل سے عاشق کا مارکس: ایسے میں تجھ سے آنکھ چراؤں تو حیف ہے اب بھی نہ تجھ کو پوچھنے آؤں تو حیف ہے راحیل: شہزادی سے اب عقد مری جان کرو تم! بے خوف و خطر عیش سے گزران کرو تم مارکس: اب پیار کسی سے مرا زنہار نہ ہو گا جب تم ہی نہ ہو گی تو مرا پیار نہ ہو گا راحیل: تم مرے غم میں نہ دل اپنا دکھانا پیارے مرے خوں بہنے پر آنسو نہ بہانا پیارے تم کو تکلیف جو اے میرے دل آرا ہو گی کنج مرقد میں مری روح کو ایذا ہو گی مارکس: پیاری راحیل! کیا تمہارا باپ تمہارے لیے اپنا آبائی مذہب نہیں چھوڑ سکتا؟ راحیل: نہیں وہ زاویہ حق و وفا سے نہ پھرے گا پھر جائے گا دنیا سے خدا سے نہ پھرے گا مارکس: مجھ کو کچھ ایسے وقت میں فرمان تو کرو اظہار اپنے دل کا تم ارمان تو کرو راحیل:ـ ارمان یہ ہے کہ میرے باپ کا دیا ہوا خریطہ اپنے پاس رکھنا۔ ہم دونوں باپ بیٹی کے مر جانے کے بعد اس خریطے کو کھولنا۔ اگر کوئی حکم قابل تعمیل پانا تو اسے میری روح رواں کی خاطر بجا لانا۔ مارکس: منظور جو کچھ خطا ہوئی ہے، کرنا اسے عطا تم پیارے معاف کرنا میرا کہا سنا تم راحیل: میری قسمت نے مجھے پیک قضا کو سونپا جا مری جان تجھے میں نے خدا کو سونپا (مارکس کا جانا) ٭٭٭ سین دوسرا ایک میدان (تیل کی کڑھائی کھول رہی ہے۔ ایک طرف عذرا اور راحیل کھڑے اور دوسری طرف بروٹس اور سپاہی کھڑے ہیں) بروٹس: عذرا! تو دعویٰ کرتا ہے کہ ہم رومنوں سے تیری کشادہ دلی، تیرا مذہب، تیری نیکی بہت زیادہ ہے۔ عذرا: بے شک۔ بروٹس: تو اس کا ثبوت دے؟ عذرا: کس طرح؟ بروٹس: ثابت کر تو درگذر اور نیکیوں کا دل دادہ ہے۔ ثابت کر کہ تیری روح میں انتقام سے رحم کا مادہ زیادہ ہے۔ عذرا: مگر میں رحم کس پر کروں؟ بروٹس: مجھ پر مرہم ہے تیرے پاس میرے زخم جگر کا بتلا دے مجھے حال مری نور نظر کا عذرا: بتلا دوں تجھے حال تری نور نظر؟ سب ہو گا مگر یہی نہیں ہو گا۔ تماشا دیکھتے تھے تم غریبوں کے تڑپنے کا پڑا ہے صبر اب ان بے گناہوں کے کلپنے کا کڑھو، معلوم ہوتا کہ ستم کیا ہے جفا کیا ہے تمہیں بھی تو خبر ہو کہ تڑپنے میں مزا کیا ہے بروٹسـ: عذرا! جو مفلس ہے وہ دولت چاہتا ہے، جس کے پاس دولت ہے وہ خطاب چاہتا ہے، جس کے پاس خطاب ہے، وہ حکومت اور اختیار چاہتا ہے۔ میں تجھے یہ تمام چیزیں دینے کو تیار ہوں۔ یہ لے لے اور اپنے دل کا راز مجھے دے دے۔ تری اجڑی ہوئی قسمت کی دنیا پھر سے بستی ہے بتا اک ہاں سے تجھ پر دولت و عزت برستی ہے عذرا: خود غرض رومن! تیرے ظلم و ستم کا کفارہ دولت سے ادا نہیں ہو سکتا۔ دولت اور خطاب زندگی کے خیالی سائے ہیں۔ اگر تو تمام دنیا کی دولت مجھے دے دے تو بھی یہ ان آنسوؤں کی قیمت نہیں ہو سکتی جو تیرے ظلم و ستم نے غریبوں کی آنکھ سے ٹپکائے ہیں۔ تو ہی نے کھوج مٹایا ہے بدنصیبوں کا تو ہی ہے جس نے اجاڑا چمن غریبوں کا کبھی بلکتے تھے وہ آج تو بلکتا ہے انہیں کا خون ہے جو آنکھ سے ٹپکتا ہے بروٹس: تو ظلم کر رہا ہے۔ عذرا: تجھ سے تھوڑا۔ بروٹس: تو بے رحم ہے۔ عذرا: تجھ سے کم۔ بروٹس: تو جہنم میں جائے گا۔ عذرا: تیرے بعد۔ بروٹس: تو نہیں؟ عذرا: نہیں۔ بروٹس: کب تک؟ عذرا: موت تک۔ بروٹس: اچھا تو حوالہ عذاب کرو۔ اس کے سامنے اس کی لڑکی کو کباب کرو۔ اس طرح بھونوں کہ ٹوٹے کوہ غم گم راہ پر لاکھ لاکھ آنسو بہائے اس کی ایک ایک آہ پر راحیلـ: ابا! پیارے ابا! مرنے سے پہلے مجھے برکت دو تاکہ میرے دل سے نامراد مرنے کا خیال نکل جائے اور عورت کی فطرت پر جان دینے والے مردوں کے ارادے بدل جائیں۔ بل نہ تیور پہ پڑے، دل نہ گھٹے، آن نہ جائے جان اس طرح سے دوں، بات رہے شان نہ جائے کر دوں حیرت زدہ جرأت سے جفاکاروں کو پھول سمجھوں میں دہکتے ہوئے انگاروں کو عذرا: (خود سے) اس لڑکی کی محبت اور میرے ارادے میں جنگ شروع ہو گئی۔ بچاتا ہوں تو یہودی مذہب کی برکت اور نجات سے محروم رہ جاتی ہے۔ اور نہیں بچاتا ہوں تو گلاب کے سوکھے ہوئے پھول کی طرح بھاڑ میں جھونک دی جاتی ہے۔ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ میں راہ کون سی بول اے دل شکستہ لوں سمجھ میں کچھ نہیں آتا کدھر کا رستہ لوں حوالے اس کے کروں یا جفا پسندوں کو خدا کو سونپ دوں اس کو کہ اس کے بندوں کو بروٹس: عذرا! دنیا کے کسی باپ کے کلیجے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اپنی اولاد کی موت کو، اپنی گلاب کی پنکھڑی کے مرجھانے کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکے۔ اس لیے: راز جس صندوق میں ہے بند اس کو توڑ دے کھول دے دل کی گرہ، یہ لب ہلا ضد چھوڑ دے عذرا: راحیل! یہ دنیا بڑی دلچسپ اور خوبصورت ہے۔ راحیلـ: بے شک! لیکن جب تک دل کے ساتھ امیدوں کی مسرت ہے۔ عذرا: ایک جوان آدمی کو دنیا چھوڑتے وقت بوڑھے سے زیادہ تکجلیف ہوتی ہے۔ راحیل: سچ ہے! لیکن جو مصیبت کے شروع ہوتے ہی مصیبت کا خاتمہ کر دے، اس کی سمجھ اور دور اندیشی کی تعریف ہوتی ہے۔ عذرا: اگر تو چاہے تو اس دنیا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ راحیل: بغیر خوشی کے۔ بغیر امید کے۔ بغیر تمہارے؟ نہیں پیارے ابا! نہیں۔ نفرت ہے مجھ کو شہد سے اور سم قبول ہے یہ ہولناک موت، یہ ماتم قبول ہے تنہا جو ہوں تو چھوڑ کے بھاگوں بہشت کو تم ساتھ ہو تو مجھ کو جہنم قبول ہے عذرا: راحیل! دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اور پیاری چیز اپنا مذہب ہے اگر دنیا میں زندگی کی خواہش ہے تو اپنے سر کا تاج اتار کر پاؤں سے مل ڈال۔ اپنا دین اور اپنا مذہب بدل ڈال۔ دین و دنیا دونوں منہ بھر دیتے ہیں محتاج کا اس کا وعدہ کل کا ہے پر اس کا وعدہ آج کا راحیل: ابا جان! کروں ایمان پر قربان دنیا کی بہاروں کو ہے سورج پاس تو خاطر میں کیا لاؤں ستاروں کو اگر خضر اور قاروں سے بھی عمر وزر سوا پایا تو کیا حاصل، اسے سب کچھ ملا جس نے خدا پایا بروٹس: جب اسے تبدیل مذہب سے انکار ہے تو دیر بے کار ہے۔ لے جاؤ۔ آگ میں ڈال دو۔ تڑپ تڑپ کے مرے، اس طرح ہلاک کرو جھلس دو آگ میں ان کو جلا کے خاک کرو عذرا: بروٹس! اس پر رحم کر۔ بروٹس: ہرگز نہیں۔ عذرا: اسے چھوڑ دے۔ بروٹس: کبھی نہیں۔ عذرا: اس کی جان خیرات میں دے دے۔ بروٹس: اگر اس کی زندگی کا پیار ہو تو وہ سوال جس کو میں دہراتے دہراتے تھک گیا ہوں، اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہو۔ عذرا: اچھا بتاتا ہوں۔ بروٹسـ: بتاتے ہو؟ عذرا: ہاں! بروٹس:ـ تو بول، جلد بول! عذرا: مگر ایک شرط ہے۔ بروٹس: وہ کیا شرط ہے، اظہار کر۔ عذرا: ان کو تاکید کر دے کہ جس وقت میں تیری لڑکی کا بھید ظاہر کر دوں۔ اس وقت پس و پیش کا خیال دل سے نکال دیں اور بغیر دوسرا حکم پائے اس لڑکی کو اٹھا کر تیل کے جلتے ہوئے کڑاہے میں ڈال دیں۔ بروٹس: میں اس شرط کو منظور کرتا ہوں۔ عذرا: دل و جان سے؟ بروٹس:ـ دین و ایمان سے۔ عذرا: اچھا تو سنو! شہر روم کے جلنے سے دو برس پہلے کا واقعہ ہے کہ تم نے محض سلام نہ کرنے کے جرم میں میری پانچ برس کی بچی کو اس کی ماں کی گود سے زبردستی چھین کر شیروں کے پنجرے میں ڈال دیا تھا۔ مگر اب یہودی کے سلوک کو دیکھو کہ اس وقت جبکہ شاہ نیرو کے حکم سے تمام شہر روم میں آگ لگی ہوئی تھی، میں نے تمہارے جلتے ہوئے محل میں گھس کر تمہاری چھ ماہ کی اکلوتی بیٹی کو موت کے منہ سے باہر نکالا۔ انتقام او رکینے کو، جس سے میرا سینہ جل رہا تھا، بھول گیا اور اسے اپنی اولاد کی طرح پالا۔ بروٹس: تم نے نکالا؟ عذرا: ہاں ہاں! میں نے ظالم رومن۔ ایک یہودی نے اور اس یہودی نے جس کو تم ٹھوکریں مارتے تھے، جس کے مذہب اور رواج کو بے عزت کرتے تھے۔ روئی جو اس کے حال پہ اس چشم نم کو دیکھ اپنے ستم کو دیکھ، ہمارے کرم کو دیکھ بروٹس: وہ کہاں ہے؟ عذراـ: کیا جن آنکھوں سے خدا کی ہزاروں قدرتوں کو دیکھ کر نہ پہچان سکے، انہی آنکھوں سے اپنی لڑکی کو بھی نہیں پہچانتے؟ دیکھو۔ دیکھو۔ غور سے دیکھو! خون آپ سے آپ جوش مارے گا۔ اگر تمہارا ہی لہو ہے تو رگوں کے اندر سے پکارے گا۔ بروٹس: نہیں، نہیں۔ عذرا! تو مجھ سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ تو مجھے تیر اور تلوار سے نہیں مار سکتا۔ تو جھوٹی خوشی دلا کر دیوانہ بنانا چاہتا ہے۔ چہرہ دکھلا دے کہ نور آئے خجل آنکھوں میں شوق دیدار میں کھچ آیا ہے دل آنکھوں میں عذرا: وہ دیکھ، تیرے سامنے ہڈی اور گوشت سے بنا ہوا آئینہ کھڑا ہے، جس میں تیری کھوئی ہوئی لڑکی کی صورت نظر آئے گی۔ جو تیری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے گی۔ بروٹس: کون؟ راحیل! یہ یہودن لڑکی؟ عذرا: یہودن نہیں، رومن نژاد ہے۔ میری بچی نہیں، تمہاری اولاد ہے۔ بروٹس: میری؟ عذرا: ہاں، تیری یہ وہی لڑکی ہے جسے میں نے بھڑکتی ہوئی آگ سے نکالا اور اپنی اولاد بنا کر راحیل کے نام سے پالا۔ بروٹس: مگر اس کا ثبوت؟ عذرا: تیرے خاندان کی یادگار یہ کنٹھی مالا۔ خدا کی دین ہے ملتا ہے یہ نصیبوں سے ہے رحم سیکھنا تو سیکھ ہم غریبوں سے (کنٹھی اور مالا کا دینا) بروٹس: وہی بے شک وہی! آ۔ آ۔ عذرا: خبردار! میرا وعدہ پورا ہوا۔ اب تمہارا وعدہ پورا ہونے کا وقت آیا۔ (سپاہیوں سے) چلو! سوچ اور فکر کے خیال کو دل سے نکال دو اور باپ کے سامنے بیٹی کو اٹھا کر اس کڑاہے میں ڈال دو۔ بروٹس: نہیں، عذرا! یہ نہیں ہو سکتا؟ عذرا: نہیں ہو سکتا! کیوں نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ جانتے تھے غیر کی اولاد ہے تب تلک یہ تھا زباں پر قابل بے داد ہے جب کھلا یہ کون ہے، کیا ذات کی بنیاد ہے تب یہ چلانے لگے، فریاد ہے فریاد ہے کیا ہوئی وہ ضد، کہاں ہے شور و شراب آپ کا سامنے بیٹی کے جلنے دو کلیجا باپ کا بروٹس: نہیں، عذرا!نہیں جب پڑی خود اپنے اوپر آ کے عبرت ہو گئی غیر کا بھی دکھ ہے دکھ مجھ کو نصیحت ہو گئی (سین کا ٹرانسفر ہونا) (سب کا جانا) ٭٭٭ ڈراما مختلف مناظر پر استوار ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض مناظر جذباتی لحاظ سے دھیمے یا پھیکے ہوتے ہیں جبکہ بعض تیز اور شوخ، ڈراما کے آغاز میں مختلف سیرتوں کے حامل طرح طرح کے کردار متعارف ہو رہے ہوتے ہیں۔ ادھر واقعات میں الجھاؤ اور کرداروں کی کشمکش بھی نمایاں تر نہیں ہوتی، اس لیے ابتدائی مناظر بالعموم اس ڈرامائی تاثر سے عاری ہوتے ہیں جس نے بعد میں ڈرامائی کشمکش میں شدت پیدا کر کے نقطہ عروج کی صورت میں سسپنس کا رنگ چوکھا کرنا ہوتا ہے، لہٰذا مختلف مناظر کے تقاضوں کی مناسبت سے مکالمات لکھے جاتے ہیں۔ ایک ماہر فن ڈراما نگار ہونے کی بنا پر آغا حشر اس رمز سے آگاہ ہیں کہ کس منظر میں کیسے مکالمے ہونے چاہئیں۔ کشمکش اور تذبذب والے مناظر میں تماشائی کرداروں کے ساتھ تطبیق کی وجہ سے کشمکش اور تذبذب کو داخلی طور پر بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے مناظر میں موزوں مکالمے تماشائی کے داخلی تاثرات اور باطنی کیفیات میں مزید شدت پیدا کرتے ہیں اور آنسوؤں یا تالیوں کی صورت میں ڈرامہ نگار کو داد دیتے ہیں۔ کشمکش پر مبنی جذباتی مناظر میں آغا حشر کے قلم کے جوہر کھلتے ہیں۔ یوں کہ مکالمے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ آغا حشر کی زبان ڈرامے کی سچویشن اور کرداروں کے تابع رہتی ہے، اس لیے تمام کردار یکساں اسلوب میں گفتگوکرتے ہیں۔ وہی شاعری اور شاعرانہ مکالمے جو سٹیج کی مجبوری تھی اور جس میں خود آغا حشر مشاق تھے۔ آغا حشر کو صحیح معنوں میں زبان پر عبور حاصل تھا، چنانچہ وہ حسب ضرورت ہندی الفاظ کے استعمال سے مکالموں کا رنگ چوکھا کرنے پر بھی قادر تھے۔ وہ ہندوانہ ماحول اجاگر کرنے کے لیے ہندی اسلوب اپناتے تھے یا پھر بعض اوقات منظر کے تقاضوں کی بنا پر ہندو کرداروں سے ہندی میں گفتگو کراتے تھے۔ ’’ بلوا منگل سورداس‘‘ کے شنکر کا مکالمہ بطور مثال پیش ہے: ’’ میں یہ وچار کر رہا ہوں کہ جس پر کاریہ منوہر مورتی جھوٹے کو یوں کی کویتا گا کر تمہارے کا مدیو کولبھا رہی ہے۔ اسی طرح پوتر و چار اور بھاؤ کے سکھوں پر ہستا ہوتا یہ گھر اور پرکان جھوٹی للکاروں اور واہ کی پکاروں سے گونج رہے ہیں۔ یدی ہری نام اور ہری کیرتن کی جب سے گونجتے ہوتے تو ہر طرف آنند برستا ہوتا۔‘‘ ڈرامے میں استعمال کی جانے والی زبان کے سلسلہ میں یہ امر ملحوظ رہے کہ ادبی حسن کی حامل ہونے کے باوجود بھی ڈرامہ کی زبان، اس کی شاعری یا شاعرانہ اسلوب خود مختار اور خود کار ادب پارہ نہیں بلکہ ڈرامے کے مقاصد سے مشروط ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اچھے سے اچھے ڈرامے کے پرتاثیر مکالمے بھی سٹیج سے ہٹ کر، سیاق و سباق سے منقطع ہونے کے بعد وہ مزا کھو دیتے ہیں جو سٹیج پر اداکار کی زبان سے سننے میں آتا ہے۔ آغا حشر ڈراموں سے بتدریج شاعری کم کرتے گئے حتیٰ کہ آخری دور کے ڈراموں (مثلا ’’رستم و سہراب‘‘ ) میں شاعری آٹے میں نمک کے برابر رہ جاتی ہے جبکہ ابتدائی دور کے ڈراموں میں وہ کان نمک تھی۔ آغا حشر تجربہ کار ڈرامہ نگار تھے۔ اس لیے وہ مکالموں میں شاعری کی تاثیر سے آگاہ تھے۔ آخری عمر کے ڈراموں میں شاعری پر انحصار کم کیا مگر بعض اوقات زور دار طریقہ پر ختم کرنے کے لیے وہ مکالمے کے آخر میں اشعار درج کر دیتے ہیں۔ یوں جذباتی مکالمے پر زور اشعار پر ختم ہو کر مزید جذباتی بن کر سامعین کو بھی جذباتی بنا دیتے ہوں گے۔ ’’ رستم و سہراب‘‘ کے مکالمے پیش ہیں جو مرصع نثر کی بہت اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔ بالخصوص رستم کی خود کلامی میں جو طلوع آفتاب کی شاعرانہ منظر کشی بھی ہے اور تاریخ کے مد و جزر پر تبصرہ بھی۔ واضح رہے کہ سٹیج پر خارجی مناظر دکھانے ممکن نہ تھے لہٰذا ایسے ہی مکالموں کے ذریعہ سے مناظر فطرت، خارجی واقعات و حوادث، سامعین کی چشم تصور میں لائے جاتے ہیں۔ ٭٭٭ باب پہلا سین پہلا توران کا دلفزا جنگل (رستم، حسین گھوڑے پر سوار خراماں خراماں آتا ہے) رستم: دنیا کے لیے روشنی، پھولوں کے لیے مسکراہٹ، پرندوں کے لیے زمزمہ، دریاؤں کے لیے ترنم ریز روانی، سوئے ہوئے قوائے عمل کے لیے بیداری کا پیغام لانے والا آفتاب، افق مشرق کی پیشانی پر تاج زر افشاں کی طرح چمک رہا ہے۔ کتنا پر جلال نظارہ! یہ معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب نہیں ایک نورانی کتاب ہے جس میں دنیا جاگنے کے بعد اپنی ماضی کے خواب کی تعبیر پڑھ رہی ہے۔ ستاروں کے ملک سے آیا ہوا ایک نورانی فرشتہ ہے جس سے کائنات کی ہر شے زندگی کی برکتیں مانگ رہی ہے۔ آسمان کی مانند! اس زمین پر بھی ہر روز اسی طرح طلوع و غروب کے منظر دکھائی دیتے ہیں۔ انسانوں کی قسمت کا ستارہ اور قوموں کے اقبال کا آفتاب بھی یونہی گمنامی کا رات کا سیاہ پردہ ہٹا کر شہرت کی فضا میں چمکتا، کامیابی کے سنہرے دنوں پر حکومت کرتا اور آخر دنیا کی یادداشت و تواریخ کے صفحوں پر اپنے دھندلے یا روشن نشان چھوڑ کر شام فنا کی تاریکی میں غائب ہو جاتا ہے۔ دنیائے بے ثبات میں ہر شے ہے تیزگام ہر دن کے ساتھ رات ہے ہر صبح کی ہے شام رنگ زوال سے ہیں رنگے گل بھی خار بھی دھوکا ہے اس چمن کی خزاں بھی بہار بھی (گھوڑے کی پیٹھ سے اترتا ہے) آفتاب کی سنہری کرنوں کے ساتھ چاروں طرف خوبصورتی اور رنگینی بکھری ہوئی ہے اور پرندوں کے ترانوں پر ہوائیں رقص کر رہی ہیں۔ زمین پر صبح کی روشنی، پھولوں کی خوشبو اور بلبل کے نغموں کا سیلاب بہہ رہا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگل قدرت کا بنایا ہوا ایک شعر اور یہ سرخ زرد پھول اس شعر کے حسین استعارے ہیں۔ (پیار سے گھوڑے کی گردن تھپتھپاتا ہے) میرے بچپن کے رفیق، جوانی کے دوست، جنگ کے وفادار ساتھی۔ وہ دیکھو ہرے بھرے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں تمہارے لیے دور تک سبز مخمل کا دستر خوان بچھا ہوا ہے۔ خوشبو میں نہائے ہوئے کے جھونکے بار بار تمہیں بلانے آ رہے ہیں۔ جاؤ ان کو قبول کرو۔ (گھوڑے کو چرنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے) سردی، گرمی، بھوک پیاس کی تکلیفوں سے بے پرو ہوا کر آسمان سے ٹوٹے ہوئے تارے کی طرح جو فضا میں راستہ بھول گیا ہو، دو مہینے سے شکار کے پیچھے جنگلوں اور پہاڑوں میں بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ بس شکار اور سفر دونوں ختم ہوئے تھکے ہوئے جسم کو تھوڑا آرام دینے کے بعد آج ہی ایران روانہ ہو جاؤں گا۔ (ڈھال کا تکیہ بنا کر زمین پر لیٹتا ہے) نیند، پیاری نیند، تم فطرت کی لاڈلی بیٹی ہو، برکتوں کے ملک کی ملکہ ہو، آرام کی سلطنت کی شہزادی ہو۔ راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو ٹھکراتی ہوئی آؤ، آؤ مسکراتی، پھول برساتی ہوئی! روح کو تسکین دو اور جسم کو آرام دو زندگانی کو خدا کا بہترین انعام دو (رستم سو جاتا ہے۔ چند تورانی سردار جو ایران کی سیاحت سے واپس ہو کر اپنے وطن سمنگان کی طرف جا رہے ہیں، داخل ہوتے ہیں) سردار نمبر۱: دنیا کے عجائبات میں تم بھی ایک عجیب چیز ہو۔ بہشت کو دیکھنے کے بعد بھی کہتے ہو کہ بہشت خوبصورت نہیں ہے۔ سردار نمبر۲: ہاں۔ سردار نمبر ۱: تب یقینا ایران کے سفر میں آنکھیں ساتھ لے کر نہیں گئے تھے۔ مجھے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ جمشید اور فریدوں کی سرزمین میں نہیں، کسی شاعر کے خیال کی رنگین دنیا میں سیر کر رہا ہوں۔ سردار نمبر۲: جس طرح موت اور زندگی، ظلمت اور نور، اہرمن اور یزداں میں ازل سے جنگ ہو رہی ہے۔ اسی طرح قدیم سے ایران اور توران بھی ایک دوسرے کی دشمنی پر اپنی زندگی کا واجب الاد فریضہ سمجھتے ہیں۔ ہم تورانی ہیں، تورانی کے گلے پر خنجر رکھ دو، تب بھی ایرانی کی تعریف نہ کرے گا۔ سردار نمبر۱: تعریف نہ کرے گا، کیوں؟ سردار نمبر۲: کیونکہ وہ ہمارے دشمنوں کا وطن ہے۔ سردار نمبر۱: ایرانی قوم تورانی قوم کی دشمن ہے لیکن ایران کے پرعظمت پہاڑ، خوبصورت شاداب جنگل، پریوں کی زلفوں کی طرح لہراتے بل کھاتے ہوئے دریا ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ کیا اس سفر میں تورانی سمجھ کر۔۔۔۔ ایران کے آسمان نے تمہیں اپنے سورج، چاند کی روشنی نہیں دی۔ ایران کے چشموں نے تمہاری پیاس نہیں بجھائی۔ ایران کی زمین نے تمہیں بیٹھنے، سونے کی جگہ دینے سے انکار کیا۔ تم دشمن سے اپنے ہونٹوں کو سچ بولنے کی اجازت نہ دو لیکن میں توران کے شہنشاہ افراسیاب کے سامنے بھی بے خوف ہو کر کہہ دوں گا کہ دنیا کا بہشت ایشیا ہے اور ایشیا کہ بہشت ایران ہے۔ سردار نمبر۲: بس بس میں ایران کی تعریف میں قصیدہ سننا نہیں چاہتا۔ تم شاعر نہیں، سپاہی ہو۔ سردار نمبر۱: میں تمہارے جیسا چھوٹا دل، تنگ نظر، پست خیال لے کر اس دنیا میں نہیں آیا ہوں۔ اچھے کو اچھا کہنا شاعری نہیں، انصاف ہے۔ تم جتنے ایران کے دشمنے ہو، اس سے زیادہ انصاف اور عقل کے دشمن ہوں۔ سردار نمبر۲: تمہارے لفظ زہر کی طرح کڑوے اور چھری کی طرح تیز ہیں۔ (میان سے تلوار نکال کر) واپس لو ورنہ اس کا جواب مجھے تلوار سے دینا ہو گا۔ سردار نمبر۱: تو اس جواب کا جواب بھی تلوار ہی کی زبان سے سننا ہو گا۔ (دونوں یاک دوسرے پر حملہ کرتے ہیں) سردار نمبر ۳: (روک کر) یہ کیا۔ تلوار ار طاقت کا ایسا ذلیل استعمال۔ کیا دنیا میں اب ہمارا کوئی دشمن نہیں رہا کہ تلوار کو زنگ سے بچانے کے لیے ہم نے آپس ہی میں جنگ شروع کر دی۔ تورانیوں کے پاس حربہ، لشکر، دولت، طاقت، ہمت سب کچھ ہے، صرف ایک چیز اتفاق نہیں ہے۔ اسی لیے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی ہر فتح شکست بن جاتی ہے۔ تلواریں پھینک دو، ٹوٹی ہوئی محبت کے جوڑنے کے لیے ہاتھ ملاؤ۔ جو قوم ہمدردی اور اتفاق کے ساتھ ایک دل، ایک خیال ہو کر دنیا میں زندگی بسر کرنا نہیں جانتی، یاد رکھو اس کی قسمت کے نوشتہ پر دائمہ ذلت کی مہر ہو چکی ہے۔ وہ آزاد دنیا میں غلامی کے لیے پیدا ہوئی اور آخری سانس تک غیر قوم کی غلام رہے گی۔ گردلوں میں اتفاق اور خواہشوں میں میل ہے زندگی کی راحتوں کو فتح کرنا کھیل ہے کامیابی کے لیے احساس حالت چاہیے ایک ہو جاؤ اگر دنیا میں عزت چاہیے (دونوں تلواریں میان میں رکھ کر ہاتھ ملاتے ہیں) سردار نمبر۱: دوست! ندامت کے ساتھ میں اپنی غلطی کا اقرار کرتا ہوں۔ سردار نمبر ۲: یہ لڑائی نہ تھی، ہماری دوستی نے ایک لحظہ کے لیے تلواروں کی جنگ کا خواب دیکھا تھا۔ سردار نمبر۳: ہمیں شام ہونے سے پہلے سمنگان پہنچ جانا چاہیے۔ تلواریں تیز کر چکے، اب قدموں کو تیز کرو۔ (آگے بڑھتے ہوئے سوئے ہوئے انسان پر نظر پڑتی ہے) سردار نمبر۱: کون انسان ہے۔ یا قدرت کے جلال، پہاڑ کی مضبوطی، شیر کی ہیئت نے انسان کا جسم اختیار کر رکھا ہے۔ سردار نمبر۳: یہ معلوم ہوتا ہے کہ گوشت اور ہڈی سے گھرا ہوا طاقت کا سمندر نیند میں چھاتی پھیلا کر آہستہ آہستہ سانس لے رہا ہے۔ سردار نمبر۱: اس کے چہرے کی طرف جتنا دیکھو، اتنا ہی تعجب بڑھتا ہے۔ قدرت بھی پیدا کرنے کے بعد مدتوں حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتی رہی ہو گی۔ سردار نمبر۲: (گھوڑے کو دیکھ کر) وہ دیکھو ہرن کی آنکھیں، مور کی گردن، گینڈے کی چھاتی، چیتے کی کمر، ہنس کی چال، تمام خوبصورتیوں کو ایک آئینہ میں دیکھنا ہو تو سامنے دیکھو۔ سردار نمبر۱: کیسا شاندار گھوڑا۔ گویا ہری گھاس پر جنگل کا بادشاہ گھوم رہا ہے۔ سردار نمبر۲: اسے باندھ کر سمنگان لے چلو، بادشاہ کو نذر کریں گے۔ سردار نمبر۱: لیکن یہ چوری ہے۔ سردار نمبر۲: یہ چوری نہیں کیونکہ چور کو سزا ملتی ہے اور ہمیں بادشاہ سے انعام ملے گا۔ سب جانتے ہیں رستم آہستہ آہستہ بیدار ہوتا ہے۔ رستم: جس طرح گرمی کی گود میں دم توڑتے ہوئے کھیت بارش ہونے کے بعد زندہ ہو جاتے ہیں، اسی طرح جاگنے کے بعد سونا اور محنت کے بعد آرام انسان کے جسم میں نئی زندگی اور نئی طاقت پیدا کر دیتا ہے(اٹھ کر) آفتاب شہنشاہ کیکاؤس کے اقبالکی طرح بلند ہوتا جاتا ہے اور اس کی دھوپ سخی کی ہمت کی طرح بڑھتی جاتی ہے۔ (گھوڑے کو پکارتا ہے)آؤ۔ آؤ۔ جنگ اور سیر و سفر ہر جگہ ساتھ دینے والے دوست آؤ۔ ایران کا راستہ ہماری واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔ نہیں سنتا، کہاں ہو، کیا دور نکل گئے؟ دیکھوں۔ (گھوڑے کی تلاش میں جاتا ہے۔ دو دیہاتی داخل ہوتے ہیں) دیہاتی نمبر۱: گھوڑا تھا یا خوبصورت طوفان۔ اس کی نسوں میں لہو کی جگہ بجلی بھری ہوئی تھی۔ دیہاتی نمبر۲: اس کے جسم کے ہر جھٹکے کے ساتھ دو چار آدمی زمین پر گیند کی طرح لڑھکتے دکھائی دیتے تھے۔ دیہاتی نمبر۱: اور ہر لات پر دو چار پسلیوں کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ دیہاتی نمبر۲: جب گھوڑا اتنا بہادر ہے تو اس کا مالک کتنا بہادر ہو گا؟ یہ کون آ رہا ہے۔ ماتھے پر شکن، بھنوؤں میں کھنچاؤ۔ آنکھوں میں سرخی۔ چہرے پر غصہ کی تمتماہٹ۔ کیا اس جنگل کو اس کے جرم کی سزا دینا چاہتا ہے؟ (رستم واپس آتا ہے) رستم: کہیں دکھائی نہیں دیا۔ کہیں پتہ نہیں ملا ۔ کیا میں یہ یقین کر لوں کہ جس طرح انسان کو بڑھاپے میں تندرستی چھوڑ دیتی ہے۔ دوسری جگہ لیاقت سے زیادہ تنخواہ مل جانے پر آقا کو نمک حرام نوکر چھوڑ دیتا ہے۔ مصیبت آنے پر خوشامدی مصاحب اور جھوٹے دوست چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح دنیا سے دغا بازی سیکھ کر آج میرے رخش نے بھی مجھے چھوڑ دیا۔ نہیں نہیں! یہ نا ممکن ہے، پھر کہاں ڈھونڈوں، کس سے پوچھوں۔ آسمان سے پوچھا۔ زمین سے پوچھا۔ چشمے کی لہروں، ہوا کے جھونکوں، جنگل کے درختوں سے پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں دیتا۔ سب چپ ہیں۔ سنو سنو۔ درختو سنو۔ تمہارے ہی سبز سائے کے نیچے میری زندگی کا سایہ غائب ہوا ہے۔ اسے پیدا کرو ورنہ اس جنگل میں آگ لگا کر تمہیں دھوئیں اور بربادی میں دفن کر دوں گا۔ زمین کنیز مری ہے فلک غلام مرا اجل کی طرح ہے بے رحم انتقام مرا آغا حشر کے ڈراموں میں مزاح ارسطو نے ’’ بوطیقا‘‘ میں طربیہ کو ’’ بری سیرتوں کی نقل‘‘ قرار دیا تھا، بری سے مراد اخلاقی لحاظ سے بری نہیں بلکہ مضحکہ خیز برائیاں مقصود تھیں۔ ارسطو نے ’’ المیہ‘‘ اور’’ طربیہ‘‘ کا الگ الگ ذکر کیا تھا اس لیے کہ اس وقت یونان میں ’’ المیہ‘‘ اور’’ طربیہ‘‘ ڈراموں کے جداگانہ انداز تھے چنانچہ ارسطو کے زیر اثر مدتوں تک یورپ میں سنجیدہ اور مزاحیہ ڈرامے جداگانہ تشخص کے حامل رہے، تاہم بعد میں یہ تفریق ختم ہو گئی اور ایک ہی ڈرامے میں سنجیدہ اور مزاحیہ واقعات اور کرداروں کی آمیزش ہونے لگی۔ بعض اوقات یہ بھی کیا جاتا کہ اصل ڈراما کی ڈرامائیت برقرار رکھنے کے لیے مزاحیہ واقعات و کرداروں کے لیے سنجیدہ مناظر سے غیر متعلق، جداگانہ ’’ کامک‘‘ مناظر چلتے۔ یعنی سنجیدہ کے متوازی مزاحیہ ڈراما آغا حشر اور ان کے معاصرین کے ڈراموں میں بالعموم ’’کامک‘‘ کا یہی انداز ملتا ہے۔ عموماً ڈراما میں مزاح تین طریقوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے: ۱۔ صورتحال کی مضحکہ خیزی سے مزاح پیدا کرنے والے واقعات، یہ بہتر طریقہ ہے کیونکہ واقعات کے زیر اثر کرداروں کی مضحکہ خیزی فطری معلوم ہو گی۔ ۲۔ طنز، پھبتی،فقرہ بازی پر مشتمل مکالموں سے مزاح پیدا کرنا، اس میں خرابی یہ ہے کہ سامعین کو زیادہ ہنسانے کی خاطر ذومعنی الفاظ اور مبتذل اسلوب اپنا کر بے ہودہ، لچر اور فحش مکالمے تحریر کئے جاتے ہیں۔ ۳۔ کرداروں کا محض مسخرا بن کر حرکات و سکنات سے ہنسانا، جیسے خواہ مخواہ ہی ٹھوکریں کھانا، دوسروں سے ٹکرانا، بہرہ بن کر الٹی سیدھی باتیں کرنا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تینوں طریقے قطعی طور پر ایک دوسرے سے لاتعلق اور خود کار ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں! یہ تینوں بالعموم باہم آمیز ہوتے ہیں اور بالخصوص نمبر۲ اور نمبر۳۔۔۔۔ ویسے نمبر ۳ ڈراما نگار کے مقابلہ میں ہدایت کار سے متعلق ہے، جس نے سٹیج پر کرداروں کے عمل کا انداز متعین کرنا ہوتا ہے۔ جب اس تناظر میں آغا حشر کے ڈراموں میں ’’ کومک‘‘ کا مطالعہ کریں تو ان کے بعض ڈراموں میں’’ کامک‘‘ کا منظر ڈرامے کے سنجیدہ مناظر سے الگ ہوتا ہے جیسے ’’ سفید خون‘‘،ط ’’صید ہوس‘‘ میں ’’ کومک‘‘ کے جداگانہ مناظر۔ انہوں نے ’’ صید ہوس‘‘ میں’’ کومک‘‘ کرداروں کے نام ڈراما کے سنجیدہ کرداروں کے ساتھ نہیں بلکہ الگ لکھے ہیں۔ آغا حشر ان کے معاصرین بلکہ معاصر سٹیج ڈرامے میں ایک بات مشترک نظر آتی ہے کہ نوکر اور نوکرانی ہی ہمیشہ مزاحیہ کردار ادا کرتے ہے۔ کبھی نوکروں کی نوک جھونک ہے تو کبھی نوکر اور نوکرانی کا مزاح پرور رومان، جب یہ دونوں نہیں تو مالکوں کے بارے میں فقرہ بازیاں اور مالکوں سے ذو معنی گفتگو! اردو ڈراما متعدد صورتوں سے تغیر آشنا رہا مگر مزاح بذریعہ نوکر برقرار رہا۔ اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ قدیم ڈرامے بالعموم بادشاہ، ملکہ شہزادہ، شہزادی یا پھر رئیسوں، جاگیرداروں، امرائ، وزراء جیسے کرداروں پر مشتمل ہوتے تھے، ان سے بیہودہ یا وہ گوئی کی توقع نہ تھی لہٰذا ان پڑھ، جاہل، گنوار اور غریب نوکر کے ذمہ ناظرین کو ہنسانے کی ڈیوٹی لگا دی گئی جسے وہ آج تک ہنستے ہنساتے کامیابی سے نباہ رہا ہے۔ ’’ صید ہوس‘‘ میں مالکن اور نوکر کی گفتگو سنئے:ـ خانم: اگر تم نے چار دن کے بعد نوکری چھوڑ دی؟ کریم: کبھی نہیں آپ زندہ رہئے تو میں مر کر بھی یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا۔ رحیم: حضور! میری عورت کے دو ماہ کے بعد لڑکا ہونے والا ہے۔ اگر وہ نالائق جیتا رہا تو اس کو بھی آپ ہی کے پاس نوکر رکھاؤں گا۔ خانم: ہاں ضرور رکھانا۔ مگر یہ تو کہو کہ نوکر کو مالک کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے؟ کریم: حضور پہلے تو آداب بجا لائے۔ مالک جو کچھ کہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے مگر ہاں میں ہاں ضرور ملائے۔ رحیم: اگر چار آنے کا سودا منگایا جائے تو تین آنے کھا جائے۔ خانم: اگر مالک ایک کام کہے تو؟ کریم: دو کر کے آنا۔ رحیم: اجی دو کیا بلکہ چار۔ خانم: یعنی؟ کریم: یعنی آپ کو آیا بخار۔ خانم: چپ نابکار۔ کریم: سنیئے سرکار! اگر آپ کو بخار آیا تو آپ ضرور کہیں گی کہ جاؤ اور حکیم صاحب کو بلاؤ۔ خانم: بے شک۔ کریم: تو میں چار کام کر کے آؤں گا۔ خانم: کیا کیا؟ کریم: اول حکیم، دوم درزی، سوم گورکن اور چہارم محلے والے، سب کو بلا کر لاؤں گا۔ خانم: یہ سب کیوں آئیں گے؟ کریم: حضور! حکیم صاحب تو آپ کا علاج فرمائیں گے اور اگر علاج سے مر گئیں تو درزی سے آپ کا کفن سلائیں گے۔ گورکن آپ کی قبر کھودیں گے اور محلہ والے آپ کا جنازہ اٹھائیں گے۔ خانم: ارے تیرا مردہ نکلے۔ نکل یہاں سے مجھے ایسے نوکروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آج میرا خاوند ضرور سفر سے واپس آئے گا۔ اگر تم جیسے نوکروں کو دیکھ پائے گا تو مجھے شرمندہ کرے گا۔ کریم: حضور میں بڑا لائق آدمی ہوں۔ مجھے دیکھتے ہی ان کا دل خوش ہو جائے گا۔ رحیم: ارے حضور میں تو بالکل بھولا ہوں۔ خانم: (کریم سے) یہ موا بھولا ہے یا بے وقوف ہے۔ کریم: اجی بے وقوف کم اور بھولا زیادہ ہے۔ خانم: اچھا کام کرو۔ ہمیشہ کی نوکری میرے خاوند کے آنے پر موقوف ہے۔ رحیم: بہت خوب۔ کریم: خدا حضور کو عقلمند بیٹا دے۔ رحیم: اور وہ بھی میرے جیسا لنگڑا۔ خانم: ہیں پھر بے تکی کہنے لگا۔ ابے تو تو بڑا الو ہے۔ رحیم: حضور! بڑا الو تو میرا باپ تھا۔ میں تو چھوٹا الو ہوں۔ یعنی پورا الو بھی نہیں، ابھی الو کا پٹھا ہوں۔ یہ مکالمے جیسے بھی ہوں مگر قافیہ آرائی سے مزاح کا اسلوب پیدا کرنا ناقابل توجہ ہے۔ آغا حشر کے سنجیدہ اور سمجھدار کرداروں کے مقابلہ میں نوکر بیوقوف ہی نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حماقتیں سنجیدہ کرداروں کی سنجیدگی نمایاں کرنے کے ذریعہ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ آغا حشر کے ڈراموں کا نوکر گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا کی زندہ تصویر نظر آتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی اس کی بھی خودی بیدار ہو جاتی ہے۔ ’’ خواب ہستی‘‘ کا منوا فضیحتاً کی عورت سے یوں ہم کلام ہوتا ہے۔ عورت: مشورہ بیوی سے کرتے ہیں یا خدمت گار۔ دو کوڑی کے پاجی کو یار غار بناؤ گے تو خطا کھاؤ گے۔ جوتیاں مار کر نکالو۔ موئے کتے کے منہ پہ خاک ڈالو۔ منوا: اری کٹ کھنی کتیا بھونکے جاتی ہے اور مجھے کتا بناتی ہے (تھوڑی دیر کے بعد) منوا: کتیا تیرے باپ کا گھر ہے جو بھونکے جاتی ہے کہ اس کو نکال دو، اس کو نکال دو۔ شاید آج ان مکالموں کو پڑھ کر ہمیں ہنسی نہ آئے مگر آغا حشر کے زمانہ کے سٹیج کے ناظرین ایسے ہی مزاح کے رسیا تھے۔ مزاح کے ضمن میں یہ امر بھی واضح رہے کہ آغا حشر مزاح نگار نہ تھے۔ ان کے متعدد ایسے ڈرامے ملتے ہیں جن میں جداگانہ طور پر مزاحیہ کردار نہیں ملتے ہیں۔ ’’ بلوا منگل سور داس‘‘ ’’ رستم و سہراب‘‘ ’’ یہودی کی لڑکی‘‘ ترکی حور وغیرہ۔ شاید اس لیے کہ مزاح سے سنجیدہ تاثر پر مبنی ڈرامہ کی وحدت تاثر مجروح ہو جاتی ہے۔ ویسے سٹیج کل کا ہو یا آج کا۔۔۔۔ اس پر مزاح ہمیشہ عامیانہ اور بازاری ہی رہا ہے۔ آغا حشر نے تو پھرہر ممکن طریقہ سے مزاح کو ایک خاص حد سے نیچے گرنے سے بچائے رکھا۔ آغا حشر کے فنی مقاصد آغا حشر نے کوئی تین درجن ڈرامے لکھے اور خوب لکھے۔ ایسے ڈرامے جو سٹیج کی تجارت سے وابستہ مقاصد کے ساتھ ادبی مزا بھی رکھتے تھے۔ جہاں ان کے ڈراموں کے فنی مقاصد کا تعلق ہے تو ان سے کسی واضح قسم کی سماجی کمٹمنٹ کی توقع عبث ہے۔ بعض ناقدین نے ان کے بعض ڈراموں (مثلاً’’ آنکھ کا نشہ‘‘ ’’ نیک پروین‘‘ ’’ بلوا منگل سور داس‘‘ ) کے اصلاحی پہلوؤں پر بطور خاص زور دیتے ہوئے لمبی چوڑی اخلاقیات دریافت کی ہے۔ ایسی بات نہیں۔ مقصدی ادب کی تحریر کے لیے قلم کار کے ذہن میں مقاصد واضح اور متعین ہونے چاہئیں۔ اس ضمن میں ڈپٹی نذیر احمد اور ان کے بعد ترقی پسند ادیبوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ ان کے مقاصد سے اختلاف ممکن ہے لیکن ان کی مقصد پسندی سے نہیں۔ یوں دیکھیں تو آغا حشر کے ذہن میں واضح قسم کے سماجی مقاصد نہ تھے۔ ڈراما نگاری کا اصل مقصد تفریح تھا۔۔۔۔ لہٰذا اساسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کہیں سماجی امور کا بھی تذکرہ کر دیا اور وہ بھی جذباتی مکالموں میں جیسے ’’ آنکھ کا نشہ‘‘ میں طوائف کی مذمت میں یہ مکالمے: ’’ اری ویشیاؤ! تمہارے پاس کون سی شکتی ہے جس کے دوارا تم بدھی مانوں سے بدھی، آنکھ والوں سے آنکھیں، دھن والوں سے دھن، باپوں سے بیٹے اور گھر کی ستیوں سے ان کی سوامی چھین لیتی ہو۔ آہ! یہ کیسا نیائے، کیسا بھیشن اتیا چار ہے کہ آج اس دیش میں دھن اور دھرم کا ناش کرنے والی کلٹاؤں کی پریم کے پھولوں سے پوجا ہوتی ہے اور کل کی مریادا اور پتی کی لاج رکھنے والی دیویوں کی آنکھ سے بہنے ہوئے آنسوؤں کی پروا نہیں کی جاتی۔ دیالے بھارت واسیوں کو سمجھا دو۔ نہیں تو بھارت ستیوں کے آنسوؤں میں ڈوب جائے گا۔‘‘ جب کسی تجربہ کار اداکار نے گونج دار آواز میں زیرو بم کے ساتھ پرجوش طریقہ سے یہ مکالمہ ادا کئے ہوں گے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا ہو گا۔ ’’ بلوا منگل سورداس‘‘ بھی طوائف کے موضوع پر ہے۔ اس میں چنتا منی کے کوٹھے پر مراسیوں کے یہ مکالمے بھی اسی انداز کے ہیں: مراسی۱: کہو بڑی بائی جی کیا کر رہی ہے؟ مراسی۲: چھوٹی بائی جی کو سان پر چڑھا رہی ہیں۔ مراسی۱: یعنی چھری کو دھار دے کر تلوار بنا رہی ہیں۔ مراسی۲: دھار نہ دی جاوے گی تو سیٹھ ساہوکاروں کے گلے کیسے کٹیں گے۔ اٹھنا، جھینپنا، ٹھمکنا، ٹھنڈی سانس بھرنا، انگڑائی کے بہانے گدرائے ہوئے جوبن کا ابھار دکھانا، دانتوں تلے ہونٹ دبا کر قسمیں کھانا، جھک کے پان دیتے وقت چونکنا اور تیوڑی چڑھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ بدن سمیٹ کر پیچھے ہٹ جانا۔ کبھی آنکھوں میں آنسو بھر لانا، منہ پھیر کر مسکرانا۔ غرض تماش بینوں کو پھانسنے کے جتنے گھر گھاٹ اور جتنے چونگے ہیں، سب بتا دیئے اور بتا کر چھوڑیں گی۔ تھوڑے ہی دنوں میں دیکھ لینا چھوٹی بائی جی پتھروں سے پانی نچوڑیں گی۔ یہ جاندار مکالمے عبارت آرائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، اس انداز و اسلوب کے مکالمات آغا حشر کے ڈراموں کی جان سمجھے جا سکتے ہیں، لیکن مکالموں کا جوش محض سٹیج تک ہے۔ ان مکالمات سے سماجی مسائل کا حل ممکن نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی بھی نوع کے ڈرامے سے سماجی مسائل کا حل ممکن نہیں۔ اگر ایسا ہو سکتا تو پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی بدولت ملک جنت میں تبدیل ہو چکا ہوتا اور ہم سب جنتی ہوتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ڈرامے کا سماجی کردار نہ ہونا چاہیے۔ یا تفریح کی خاطر ڈراما اپنے عصر اور عصری تقاضوں سے منہ موڑ لے۔۔۔۔ ایسا نہیں، ادب کی دیگر اصناف کی مانند ڈراما کا بھی سماجی کردار ہوتا ہے یا ہونا چاہیے چنانچہ آغا حشر کے ڈرامے بھی اس خصوصیت سے معرا نہیں لیکن مقصد اجاگر کرنے کے لیے جس بے لاگ حقیقت نگاری کی ضرورت ہوتی ہے کمرشل سٹیج اس کا متحمل نہ ہو سکتا تھا لہٰذا سماجی مقاصد شاعری، مرصع اور مقفی مکالموں کی آرائش، رومان اور گلیمر کی چمک میں دب جاتے ہیں۔ آغا حشر کا پہلا باضابطہ ڈراما ’’ مرید شک‘‘ (۱۸۹۹ئ) تھا اور آخری ڈراما ’’ دل کی پیاس‘‘ (۱۹۳۱ئ) ہے۔ اس دوران میں کل ۳۳ ڈرامے لکھے۔ آغا حشر اور ان کے نقادوں نے بھی ان کی ڈرامائی زندگی کے چار ادوار مقرر کر رکھے ہیں لیکن آغا حشر کے فن کی تفہیم میں ان ادوار سے کوئی خصوصی مدد نہیں مل سکتی۔ ان کے فن کے بارے میں تو بس یہ سیدھی سی بات ہے کہ ابتداء میں عوامی مذاق کی پیروی کرتے رہے لیکن ملک گیر مقبولیت اور شہرت سے جو خود اعتمادی پیدا ہوئی، اس کی بناء پر اپنے ڈراموں سے مقفی مکالموں اور گانوں کی تعداد میں بتدریج کمی کرتے گئے حتیٰ کہ آخری زمانہ کے ڈرامے (جیسے رستم سہراب) بالکل نثر میں ہیں اور گانے بھی صرف درجن ڈیڑھ درجن رہ گئے۔ یہ تبدیلیاں اور اصلاحات صرف حشر سے ہی مخصوص نہیں سمجھی جا سکتیں کیونکہ ان اصلاحات کا سلسلہ طالب سے شروع ہو چکا تھا اور احسن او ربے تاب مزید راہ ہموار کر چکے تھے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حشر کی ذات میں یہ تمام تبدیلیاں نقطہ عروج تک پہنچ جاتی ہیں۔ آغا حشر کو عقیدت یا تنقیدی بصیرت کے فقدان ان کی بناء پر انڈین شیکسپیئر کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حشر کا شیکسپیئر تو کجا یورپ کے بعض اور چھوٹے ڈراما نگاروںسے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ہاں اس گہرائی اور ژرف نگاہی کا فقدان ہے جو کسی بھی عظیم ڈراما نگار کے لیے ضروری ہے۔ ان کے ہاں انسانوں کا تو مشاہدہ ہے مگر انسانی فطرت کے بارے میں گہری نفسیاتی بصیرت نہیں۔ اس لیے ڈراموں کا نقطہ عروج افراد کی ذہنی کشمکش کے برعکس خارجی واقعات سے جنم لیتا ہے۔ ڈراما کشمکش سے جنم لیتا ہے اس کشمکش کا خارجی روپ کچھ ہی کیوں نہ ہو، اس کی اساس ہمیشہ افراد اور ان کی نفسی کشمکش پر استوار ہوتی ہے۔ حشر اپنی اس خامی کو چھپانے کے لیے بلند آہنگ الفاظ، پر جوش مکالموں اور خطیبانہ خروش سے کام لیتے ہیں۔ وہ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا ظفر علی کے ساتھ مل کر عیسائی مشنریوں سے مناظرے کرتے رہے تھے، شاید اسی لیے زبان زد عوام قسم کے مکالمے لکھنے میں کامیاب رہے۔ آخری عمر کے ڈراموں مثلاً عورت، آنکھ کا نشہ، دل کی پیاس، عشق اور فرض کو اصلاحی ڈرامے کہا جاتا ہے لیکن ان اصلاحی ڈراموں کے مسائل کو جذباتی رنگ میں پیش کیا گیا ہے اس لیے ان کی تدبیر کاری سطحی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ان کے یہ اصلاحی ڈرامے تاثر آفرینی میں اردو فلموں سے کسی صورت میں بھی بلند نہیں سمجھے جا سکتے۔ آغا حشر نے شیکسپیئر اور بعض دیگر یورپی ڈراموں کے ترجمے بھی کیے لیکن اپنے پیشرو ڈراما نگاروں کی مانند المیہ کو طربیہ میں تبدیل کر دیتے تھے۔ اسی طرح عوامی ذوق کی تشفی کے لیے سوقیانہ مزاح بھی عام ہے۔ فنی لحاظ سے ان کی سب سے بڑی اور اہم خصوصیت مکالمے ہیں۔ گو انہوں نے منظوم اور مقفی مکالمے بعد میں ترک کر دیئے لیکن پھر بھی وہ نثری مکالمے کا اپنے یا کسی اور کے برجستہ شعر پر خاتمہ کر کے تاثر کی شدت میں اضافہ کر لیتے ہیں ۱۹۱۴ء کے بعد انہوں نے ہندی میں بھی ڈراما نگاری شروع کی۔ چنانچہ بھارت رمنی، سیتا بن باس، بھیشم پرتگیا، مدھر مرلی، بھگیرت گنگا، دھرمی بالک وغیرہ بے حد مقبول ہوئے۔ حشر نے بھاشا کے خوبصورت رواں دواں الفاظ اور سنسکرت کے بوجھل الفاظ کے فنکارانہ امتزاج سے ہندی میں کسی پنڈت سے بڑھ کر کامیاب مکالمے لکھے۔ ان ڈراموں سے ہندو اساطیر اور ہندو تلمیحات سے ان کی گہری واقفیت کا اندازہ لگانا دشوار نہیں رہتا۔ آغا حشر شاعر بھی تھے اور اپنے اشعار سے ڈراموں میں کلی پھندنوں کا کام لینے کے علاوہ قومی اور ملی موضوعات پر کامیاب اور پر جوش نظمیں بھی لکھیں۔ چنانچہ ’’ شکریہ یورپ‘‘ اور ’’ موج زم زم‘‘ کو نقادوں نے بالخصوص سراہا ہے۔ مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجئے۔ اسلم قریشی، ڈاکٹر: ’’ برصغیر کا ڈراما: تاریخ، افکار اور انتقاد‘‘ لاہور، مغربی پاکستان اردو اکیڈیمی ۱۹۸۷ء اے بی اشرف، ڈاکٹر: ’’ اردو ڈراما اور آغا حشر‘‘ ملتان: بیکن بکس ۱۹۹۲ء ایضاًـ: ’’ اردو سٹیج ڈراما‘‘ اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان ۱۹۸۶ء ظہیر انور: ’’ ڈراما فن اور تکنیک‘‘ کلکتہـ: شرجیل آرٹس پبلی کیشنز ۱۹۹۶ء وقار عظیم، پروفیسر سید: ’’ اردو ڈراما: فن اور منزلیں‘‘ (مرتبہ: ڈاکٹر سید معین الرحمن) لاہور، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج ۹۳۔ ۱۹۹۲ء ٭٭٭ اسیر حرص تختہ ناٹک مردانہ کردار چنگیز: ناصر کا چچا زاد بھائی ناصر: چنگیز کا بھائی رستم: ناصر کی فوج کا سپہ سالار صفدر: وفادار افسر حماقت: ایک جھکی اہلکار سلیم: حماقت بیگ کا لڑکا جھنجھٹ: حماقت بیگ کا نوکر قمر: ناصر کا لڑکا (علاوہ ازیں سپاہی، داروغہ، قاتل وغیرہ) زنانہ کردار: نوشابہ: چنگیز کی بیوی مہ جبیں: ناصر کی بیوی نحوست: حماقت بیگ کی بیوی حسینہ: سلیم کی بیوی (اس کے علاوہ رقاصائیں اور سہیلیاں وغیرہ) باب پہلا سین پہلا منظر: جنگل، آبشار (سہیلیوں کا گانا) گانا سہیلیاں: دینا ناتھ موہے ڈوبت اتارو، اگارو، کرنا نہ سونیاں سے بھکے بھول سے اودھار، کروپار، بھوگا مت دارو تمرو نام نسدن سرن کوجگ مجھ دھام، تمری دیا سے دھام جیا من سے ہام، تو کو تجے ڈوبے ساگر میں سنسار، جاوے نہیں پار، رہے منجدھار، ہووے مزے دار، تیری لیلا، جو کوئی بھولا واکو نہیں ٹھار، حشر کو سہارو! دوہرا پہلی: بہار آئی ہے ہر سو رنگ رلیوں کا زمانہ ہے زباں پر بلبلوں کی شادی گل کا ترانہ ہے دوسری: چمک دیتے ہیں کیا پانی کے قطرے صبح روشن میں ٹکی ہیں موتیوں کی جھالریں صحرا کے دامن میں تیسری: مزین کل زمین و کوہ فرش مخملی سے ہے صدا آتی مبارکباد کی ہر ہر کلی سے ہے چوتھی: اری! چپ !چپ! چپ! شہنشاہ بیگم تشریف لا رہی ہیں۔ گانا سہیلیاں: چلتی چپلا چنچل چال سندریا البیلی جو بن رسماتی ڈولے، نین امرت رس گھولے دوہرا: ایک تو نیناں مدھ بھرے درجے انجن سار اے بھوری کہیں دیت ہے جو بنا ای ہتھیار1؎ آہا آہا شان نرالی، اوہو اوہو بھولی بھالی، نئی نویلی ہے نار۔ چلتی چپلا۔۔۔۔ 1؎ اے بھولی! کوئی جوبن کو یہ ہتھیار دیتا ہے۔ (نوشابہ بیگم کا اندر سے آواز دیتے ہوئے آنا) نوشابہ: گلشن! گلشن: پیاری! نوشابہ: دیکھو قدرت کی گل کاری آمد جو باغ دہر میں باد صبا کی ہے پھولوں میں بھی یہ رنگ ہے قدرت خدا کی ہے کیا کیا کھلے ہیں پھول جو پہچان جایئے اس باغباں کی شان کے قربان جایئے گلشن: واری گئی، پیاری، کیا اس پھول میں جوانی کے پھولوں سے زیادہ بہار ہے جو اس قدر تعریف کا سزاوار ہے۔ بلبل جو ایسے پھول کو پہچان جائے گا ان گورے گورے گالوں پہ قربان جائے گا سہیلی نمبر۲:ـ اس وقت تو شوخی و حیا اور ہی کچھ ہے یہ چاند سا منہ نام خدا اور ہی کچھ ہے گلشنـ: معشوق تو ہوں گے زمانے میں ہزاروں پر آپ کا یہ حسن و ادا اور ہی کچھ ہے نوشابہ: گلشن، اس وقت جو تم نے میری تعریف سنائی، رعنائی اور زیبائی بتائی، مجھے ہرگز پسند نہ آئی۔ گانا موری کاہے کرت ہو بڑائی، سجنی موری جگ میں ہیں لاکھن صورت انیک حور، رب کی دیا سے موہے گرب گمان ناہیں، جگو اکو کرو بھرپور، کھوٹ بنے نور، کرتار کریو پار، جب ہووے دکھ دور موری کاہے۔۔۔۔ دوہرا: ہمیں میں فقط دل ربائی نہیں ہے ہمیں نے پری شکل پائی نہیں ہے زمانے میں ہے ایک سے ایک بڑھ کر حسینوں سے خالی خدائی نہیں ہے موری کاہے ۔۔۔۔۔ گلشن: آج کا دن تو ہے عیش و کامگاری کے لیے شاہ کیا بھیجیں گے تحفہ آبیاری کے لیے نوشابہ: وعدہ تو کیا تھا تجھے بھجواتے ہیں تحفہ اب دیکھئے کبا ٓتے ہیں کیا لاتے ہیں تحفہ گلشن: پیاری آپ تحفہ تو لیجئے گا، مگر اس کے بدلے میں انہیں بھی کچھ دیجئے گا؟ نوشابہ: میں تو انہیں پہلے ہی دے چکی ہوں۔ گلشن: کیا؟ نوشابہـ: دل! گلشن: واہ جی واہ! یہ تو ان کی جان فدائی کا عوض ہے۔ خیر دیجئے گا نہیں تو کچھ کھلایئے گا، پلایئے گا؟ نوشابہـ: ہاں کھلانے پلانے کو تو سب کچھ تیار ہے، لیکن ان کو کیا درکار ہے؟ زردہ، متنجن، بریانی، شیر مال وغیرہ، سب کچھ تیار ہے۔ گلشن: واہ بی واہ! ایسے کھانے تو انہوں نے بہت کھائے ہوں گے۔ آج تو کوئی ایسی چیز ہو جو ان کو عزیز ہو۔ نوشابہ: تو کیا چاہیے، بنارس کے سنبو سے؟ گلشن: جی نہیں۔ نوشابہ: تو؟ گلشن: ان گورے گورے گالوں کے بوسے۔ سب: بوسے؟ گانا گورے گورے گالوں کی جان، لمبے لمبے بالوں کی شان، مان مان او پیاری مان، آن بان پہ واری جان، عاشق کو بوسہ دینے میں کیوں ہو پریشان اجی واہ وا، اجی واہ وا، بوسہ تو ہے اس جوبن کا دان1؎ اجی واہ وا! اجی واہ وا! چوبدار: اے گل خوبی ترے اقبال میں ایزاد ہو دوست ہو دل شاد دشمن خانماں برباد ہو آپ کو بھیجا ہے تحفہ شاہ والا جاہ نے حاضر خدمت کیا جائے اگر ارشاد ہو (دلاور جنگ کا مع صفدر جنگ کے آنا) نوشابہ: تحفے کے ساتھ گرفتار ہے، یہ کیا اسرار ہے؟ گلشن ادھر آؤ، کشتی پر سے ظروف اٹھاؤ۔ گلشن: اوئی اوئی بیوی خون، خون! نوشابہ: ہیں ہیں کیا ہو گیا جنون؟ ٹھہر میں خود دیکھتی ہوں (دیکھ کر) اف خون! تعجب ہے مجھے آنکھوں نے کس حیرت میں ڈالا ہے الٰہی خیر کرنا اس جگہ کیا ہونے والا ہے (قیدی سے) کیوں اے گرفتار قیدی، آپ کو کس نے سزا دی؟ صفدر: جس نے نمرود کا زور ڈھایا اور ضحاک کو خاک میں ملایا۔ نوشابہ: مگر وہ تو تھا امر الٰہی 1؎ صدقہ صفدر: یہ بھی ہے اک تباہی نوشابہ: صاف صاف حال بیان کیجئے میرا اطمینان کیجئے، کیونکہ آپ کے چہرے سے شرافت پائی جاتی ہے صفدر: مٹ چکی اس دن سے بس ساری شرافت چھوٹ کر گر پڑی تلوار جب ہاتھوں سے میرے ٹوٹ کر اب تو بے عزت ہوں ننگ خانداں ہوں خوار ہوں ایک قیدی ہوں ذلیل و خوار ہوں لاچار ہوں نوشابہ: کیا تلوار ہاتھ سے گئی تو شرافت بھی ذات سے گئی؟ صفدر: جی ہاں، جب تک تلوار ہاتھ میں ہے، شرافت بھی ساتھ میں ہے۔ جب میدان جنگ میں ذلت اٹھائی، تلوار چھٹوائی، پھر کہاں رہی شرافت آبائی؟ جن کو عزت کی جگہ بے غیرتی مرغوب ہے ایسے جینے سے تو ان کا ڈوب مرنا خوب ہے نوشابہ: تو کیا یہ بھی کسی آپ کے ساتھی کا سر ہے جو خون میں تر ہے؟ صفدر: آہ! نہ پوچھو یہ کس آسماں کا ہے تارا سمجھ لو کہ ہے موت نے اس کو مارا نوشابہ: تو یہ بھی کوئی بہادر یا صاحب دماغ تھا؟ صفدر: آہ ! افسوس! بانو یہ میرے اندھیرے گھر کا چراغ تھا۔ نوشابہ: ہیں تو یہ ہے آپ کا بیٹا؟ صفدر: جی ہاں! وہی قسمت کا بیٹا، جو موت کی گود میں لیٹا پھول تو دو دن بہار جاں فزا دکھلا گئے حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے نوشابہ: بس بس اے مظلوم انسان! آپ کے بیان سے میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے، دل گھبراتا ہے۔ اب تو اس زخم کا مرہم یہ نظر آتا ہے۔ اب تلک رنج سہے، مورد بیداد ہوئے جایئے آپ غم قید سے آزاد ہوئے صفدر: اے عصمت و جمال کی ملکہ! کہاں جاؤں؟ مجھ جیسے بہادر صف شکن کو چرخ نے چرخ کی طرح گھمایا۔ ملک غیر، ریاست غیر، اس پر طرہ یہ کہ ایک دشمن خونخوار سے بیر۔ پھر کس طرف اپنی جان بچا کر جاؤں اور آپ کو اس مصیبت میں پھنساؤں، بس اب تو یہی نظر آتا ہے۔ چرخ نے ظلم و ستم کا جب سے مارا تیر ہے سر جلا سینہ پھٹکا اور دل ہوا نخچیر ہے لوح دل پر دست قدرت نے کیا تحریر ہے خاک کا پتلا بنا اور خاک کی تصویر ہے خاک میں مل جائیں گے اور خاک دامن گیر ہے نوشابہ: بیٹے نے تو بہادری دکھائی، تلوار چھنوائی، جان گنوائی، اب تم بھی اپنی جان کو برباد کرو گے تو کیا بہادر بیٹے کی روح کو شاد کر وگے؟ مٹی ہی میں مٹی جو ملانی ہے بدن کی بہتر ہے ملا دو اسے مٹی میں وطن کی صفدر: بانو! باتو! تو کیا آپ کی زبان سے مرحوم کی روح بول رہی ہے؟ نوشابہ: ہاں ہاں تمہاری فہمائش کے لیے وہی زبان کھول رہی ہے۔ صفدر: خیر مجبوری، بجا لاتا ہوں حکم حضوری۔ جوہر بہادری کے جو ہوں گے سرشت میں بیٹے سے جا ملوں گا ریاض بہشت میں (صفدر کا طشت اٹھا کر لے جانا) نوشابہ: یا الٰہی میری آنکھوں کو کیا ہیبت ناک نظارہ دکھایا۔ کیا میرا سمجھانا الٹا رنگ لایا غضب ہے اس بات کافر پہ اپنا دم نکلتا ہے نیا تابوت جس کے کوچے سے ہر دم نکلتا ہے (بگل کی آواز آنا) گلشن یہ بگل کی آواز کہاں سے آئی؟ گلشن: بانو صاحبہ! شاید صاحب عالم کی سواری باد بہاری لائی۔ گانا سہیلیاں: چلو گوئیاں ٹھمک چال جیناں، سجن تورے آئیں گے، اجی سجن تورے آئیں گے، چلو گوئیاں۔۔۔۔۔ نوشابہ: اجی آئیں گے تو ہم سمجھائیں گے، دلبر کی قسم سب: اس کے سر کی قسم نوشابہ: ہاں ہاں جاؤ، دلبر کو بلاؤ، نین میں بٹھاؤ، بچن سناؤ، مگن بناؤ۔ چلو گوئیاں۔۔۔۔ سب: سجن تورے آئیں گے، چلو گوئیاں۔۔۔۔ چنگیز: اللہ اللہ آج تو غضب کا نکھار ہے۔ بہار پر بہار ہے۔ چشم بد دور جانی، یہ حسن و جوانی، اس پر پوشاک دھانی، قیامت کی نشانی تم دست نازنیں سے جو چھولو چمن کے پھول کلیاں تمام باغ کی رہ جائیں بن کے پھول تم پر فدا ہزار کلی، ہر کلی کا رنگ تم پر نثار لاکھ چمن، ہر چمن کے پھول نوشابہ: مگر اے گل گلزار! میرے باغ حسن کی بہار، تمہارے دم سے ہے آشکار تجھ سے ہی میری شوکت دلدار ہو گئی ہے یوسف سے آب و تاب بازار ہو گئی ہے ہم تم چمن میں جا کر دونوں ٹہل رہے ہیں بلبل میں اور گل میں تکرار ہو گئی ہے گانا انبوا کی ڈاری تلے آؤ ری، جھولنا جھلاؤ ری بھولے پیا سنگ دھر کے امنگ، جھولوں جھلاؤں، ریشم کی ڈوری بندھاری انبوا کی ڈاری۔۔۔۔ سہیلیاں دوہرا: جھولنے والی ہے رشک گل لالہ جھولا جا کے بلبل تو رگ گل کا بنا لا جھولا آج دکھلائے گا انداز نرالا جھولا چاند پیاری ہے تو بن جائے گا ہالا جھولا پیارا لاثانی ہے، پیاری دل جانی ہے جوڑی سہانی ہے، مکھڑا نورانی ہے نوشابہ: چنچل دیوانی ہے، ہل مل پینگ جھولاؤ ری، انبوا کی ڈاری۔۔۔ چنگیز: خیر یہ تو فرمایئے وہ تحفہ میرا قبول ہوا، مطلب حصول ہوا؟ نوشابہ: ثبوت شکر کا باہر مری زبان سے ہے تمہارا تحفہ تو مجھ کو قبول جان سے ہے مگر پیارے ایک سوال ہے۔ چنگیر: فرمایئے وہ کیا خیال ہے؟ نوشابہ: کمہار جو مٹی کا کھلونا بناتا ہے وہ کس کام آتا ہے؟ چنگیز: اس سے دل بہلایا جاتا ہے۔ نوشابہ: اگر وہ کمہار کے ہاتھ سے چھوٹ جائے یا ٹھوکر سے ٹوٹ جائے؟ چنگیز: تو کمہار کو سخت ملال ہو گا۔ نوشابہ: کیوں ایسا خیال ہو گا؟ چنگیز: کیونکہ اس شخص نے کمہار کی محنت برباد کی۔ نوشابہ: واہ وا! سبحان اللہ خوب بات ارشاد کی۔ آپ سے میں دریافت کرتی ہوں پیارے! کہ کمہار کو اپنے مٹی کے کھلونے کے ٹوٹنے کا اس قدر ملال ہو گا تو اس قدرت کے مصور کو اپنے بنائے ہوئے کھلونے کے ٹوٹنے کا کس قدر خیال ہو گا؟ چنگیز: اخاہ! کہہ گئیں ڈھنگ سے سارا مطلب خوب سمجھ امیں تمہارا مطلب مگر یہ بھی جانتی ہے دلدارا! جس کا میں نے سر اتارا وہ کون تھا ستم آرا؟ نوشابہـ: ہاں کوئی دشمن تمہارا؟ چنگیز: تو کیا دشمن کو چھوڑ دینا چاہیے سانپ کو دیکھ کر لاٹھی کو توڑ دینا چاہیے؟ نوشابہ: دشمن کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرنا کیا خلاف انسانیت ہے؟ چنگیز: اگر مہربانی سے وہ شیر ہو جائے؟ نوشابہ: ممکن نہیں وہ دلیر ہو جائے۔ چنگیز: نوشابہ جانی! بہادری آگ ہے اور نرمی دریا کا پانی، جس طرح پانی کی لہر آگ کے دہکتے ہوئے سمندر کو بجھا دیتی ہے، اسی طرح ذرا سی نرمی تمام عمر کی بہادری کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ نوشابہ: تو کیا جو لوگ کسی کو بے قصور مارتے ہیں، ان کو بھی لوگ بہادر کہہ کر پکارتے ہیں؟ چنگیز: ہیں! یہ اشارہ کس کی طرف ہے؟ تمہارے خیال میں میں نے اسے ناحق مارا ہے؟ وہ تو کتوں سے نچھوائے جانے کا سزاوار تھا، کیونکہ وہ کم بخت ناصر الدولہ کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ نوشابہ: اے گل گلزار رعنائی! چچا زاد بھائی اور اس سے برائی! کہیں ایسا بھی ہوتا ہے پیارے! کہ عزیز اپنے کا سر اتارے؟ چنگیز: کیوں نہیں؟ موقع پہ چھوٹے نہیں دشمن کی جان کو کھاتے ہیں کاٹ دانت بھی اکثر زبان کو نوشابہ: لڑائی تو پہلے آپ ہی نے اٹھائی سلطنت پائی جو اس نے باپ کی کون سی اس میں خطا کی آپ کی چنگیز: توکیا میں چچا کے مال میں کوئی حق نہیں رکھتا؟ نوشابہ: نہیں! ہر گز نہیں! جب بیٹا موجود ہے تو بھتیجے کا حق نابود ہے۔ چنگیز: حق نابود ہے تو اسے ہست کروں گا نوک شمشیر سے دشمن کو پست کروں گا غرور اس کو تو بے شک لشکر جرار پر ہو گا مگر جب ہاتھ میرا تیغ جوہر دار پر ہو گا سماں محشر کا اس دم دیکھنا تکرار پر ہو گا بیان الاماں تب ہر لب گفتار پر ہو گا کہ جب سر کٹ کے موذی کا مری تلوار پر ہو گا نوشابہ: کیا یہی تلوار ہے؟ چنگیز: ہاں یہی تلوار ہے۔ نوشابہ: ہاتھ میں جب کسی نادان کے آ جاتی ہے عقل و دانائی کی جڑ کاٹ کے کھا جاتی ہے چنگیز: کیا تم میرے کام میں عیب نکالتی ہو؟ نوشابہ: بے شک میں تمہارے کام میں عیب نکالتی ہوں۔ چنگیز: کیوں، کس لیے؟ نوشابہ: اس لیے کہ تمہارے دامن سے خون ناحق کا دھبا دھل جائے اور تمہارا نام آج سے نیک ناموں میں مل جائے۔ یاد کیوں کر آئے لوگوں کو بھلائی آپ کی اک زمانہ کرنے بیٹھے جب برائی آپ کی بڑھ گئی ہے کس قدر اب خود نمائی آپ کی صلح پہلے جن سے تھی اب ہے لڑائی آپ کی چنگیز: جہنم کا غار بند کرنا آسان ہے، مگر لوگوں کا منہ بند کرنا مشکل ہے۔ نہیں ہے ہمیں کچھ خدائی سے مطلب برائی سے مطلب بھلائی سے مطلب انہیں کو ہے شوکت نمائی سے مطلب جو رکھتے ہیں کچھ خود نمائی سے مطلب مگر ہم کو تیغ آزمائی سے مطلب نوشابہ: سنا ہے وہاں لشکر کا اہتمام ہے۔ چنگیز: تو کیا مضائقہ ہے۔ فتح ہمارے ہی نام ہے۔ کمہار کی ایک سال کی محنت اور لاٹھی کا ایک گھڑی کا کام ہے۔ نوشابہ جانی! جتنا تم میں حسن ہے اتنا سمجھ داری کا طور نہیں۔ نوشابہ: اور آپ میں جتنی بہادری ہے، اتنا فکر و غور نہیں۔ چنگیز: نوشابہ! نوشابہ! تمہاری زبان، بیان سے زیادہ کرخت ہے۔ نوشابہ: اور میری زبان سے زیادہ آپ کا دل سخت ہے۔ چنگیز: میرے دل کی سختی بہادری کا خزانہ ہے۔ نوشابہ: اور میری زبان کی سختی سچائی کا تازیانہ ہے۔ چنگیز: شوہر کا حکم ماننا عورت کا سنگار ہے۔ نوشابہ: دشمن پر رحم کرنا بہادر کا شعار ہے۔ چنگیز: ہرگز نہیں۔ جب تک میری جان میں جان باقی رہے گی، ناصر الدولہ کی جان کی مشتاقی رہے گی۔ نوشابہ: مگر پیارے یہ ایک تلوار ہزاروں کا جھگڑا کیونکر چکائے گی؟ چنگیز: ابھی تم کو یہ دکھائے دیتا ہوں، جس طرح یہ ایک کے جگر میں سمائے گی، اسی طرح سینکڑوں کی رگوں سے جان کھینچ کر باہر لائے گی۔ نوشابہ: الٰہی توبہ! کوئی اور خون کرنا منظور ہے؟ چنگیز: بے شک تم کو یہ نقشہ دکھانا ضرور ہے۔ نوشابہ: کس غریب کا؟ چنگیز: ایک بد نصیب کا۔ نوشابہ: رحم! پیارے چنگیز رحم! چنگیز: بس رحم کو آگ لگاؤ۔ لاؤ، لاؤ، اس قیدی کو۔ نوشابہ: قہ قہ قیدی۔ چنگیز: قیدی کہنے میں کیوں انتشار ہوا؟ کیا وہ قیدی فرار ہوا؟ نوشابہ: نہیں۔ چنگیز: تو؟ نوشابہ: اس کو۔۔۔۔ چنگیز: کیا۔۔۔۔؟ نوشابہ: میں نے۔۔۔ چنگیز: تو نے؟ کیا؟ نوشابہ: چھوڑ دیا۔ چنگیز: آہ! سب منصوبہ توڑ دیا۔ او نادان! نافرمان! مجھے آنے تو دیا ہوتا۔ تجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا۔ نوشابہ: جناب عالیٰ! جب ایک چیز آپ نے مجھ کو دے ڈالی، میں اس چیز کی مالک ووالی، پھر آپ کا دعویٰ ہے خالی۔ چنگیز: بس بس خوب بنائی، بے وقوف یہ ڈھٹاوئی، چلی جانا سزائی! (نوشابہ کا جانا) خیر کہاں جاتا ہے سودائی، تو سہی جو پھر زنجیر نہ پہنائی (دستک دینا) دلاور! دلاور! نصیب اس کا مری غفلتوں سے جاگ گیا شکار مجھ کو ملا تھا وہ آج بھاگ گیا تلاش اس کی ابھی جا کے دور دور کرو کسی طرح سے بھی حاضر اسے ضرور کرو (سب کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین دوسرا منظر: جنگل اور چنگیزی کیمپ پہلا سپاہی: مرزا صاحب ہٹئے۔ مرزا حماقت بیگ: اوں ہوں، میں تو نہیں ہٹنے کا۔ پہلا: مرزا صاحب سنتے ہو؟ مرزا: میں تو سنتا ہوں مگر مرزا صاحب نہیں سنتے۔ دوسرا: تو کھڑے رہو۔ مرزا: تو اڑے رہو۔ (دونوں کو آ کر تیسرے سپاہی کا الگ کر دینا) تیسرا: کہیے مرزا صاحب مزاج تو اچھا ہے؟ مرزا: اے بھائی! مردوں کو اس نام سے ہراس ہوتا ہے۔ مزاج تو عورتوں ہی کے پاس ہوتا ہے۔ کہو دوست کیسی کہی؟ دوسرا: بہت اچھی کہی۔ مرزا: بھائی آج کل عورتوں کا مزاج ہے۔ ان کے واسطے مسی، کاجل، ساڑی، چولی، سب کچھ لانا پڑتا ہے اور اوپر سے جوتیاں کھانا پڑتی ہیں۔ پہلا: مرزا صاحب! بہادر مرد بھی عورتوں کے ہاتھ سے جوتیاں کھاتے ہیں؟ مرزا: ارے نادان! آج کل عورت کی جوتیاں کھانے میں بڑائی ہے۔ بڑے بڑے امیر کبیر، شہنشاہ تک گھر میں تو عورتوں کی جوتیاں کھاتے ہیں اور باہر آ کر مونچھوں پر تاؤ چڑھاتے ہیں اور خان بہادر کہلاتے ہیں۔ دراصل یہ جوتیاں نہیں ہیں بلکہ بہادری کا سرٹیفکیٹ ہیں۔ میں خود ہی کبھی کبھی اپنے شوق سے جوتیاں کھاتا ہوں۔ سپاہی: (قہقہہ لگا کر) ارے واہ! مرزا: یار معلوم ہوتا ہے کہ تم نے ابھی شادی نہیں کی ہے۔(بگل کی آواز کا آنا) گانا سہیلیاں: پل پل تن من دھن وارو رے پر ان پیارو، چھل بل وارو، نینن کے نینن سے چتون چرائے گیو، جادو مورے ڈارورے پیا کے درس بن موہے کل نہ پڑت، کنت رین گن گن تار ورے اے ری آلی موری، کچھ نہ سہائے موہے پل پل نینوا کی آن بان یاد آوت، ساتھ لگت کٹاری نرناری، پیا کر گیو مو کو نیارو رے (دلاور جنگ کا آنا) دلاور: اے شاہ نامدار! شہنشاہ ذی وقار! حاضر ہے یہ گنہگار لایا ہوں پکڑ اس کو بڑی جدوجہد سے جاتا یہ کہاں صید مرے تیر کی زد سے چنگیز: کیوں مغرور! او مفرور! عورتوں سے کرنا حیلہ و بہانہ، فریب دے کر بھاگ جانا۔ صفدر: اے شہ زمانہ! جس نے بیٹے کا سر کٹتے وقت نہ کیا حیلہ و بہانہ، ایک عورت سے کیسے کرے گا حیلہ وبہانہ؟ ہوتا نہیں ہے خوف بہادر کو موت سے کرتے ہیں وہ گریز جو ڈرتے ہیں موت سے چنگیز: بھاگ کیوں نکلا تھا جو ڈر موت کا کچھ بھی نہ تھا کیا جہنم کو چلا تھا جو خطر کچھ بھی نہ تھا صفدر: ہاں جہنم میں صاحب جہنم میں۔ چنگیز: کیوں؟ کس لیے؟ صفدر: اس لیے کہ میں وہاں جا کر دیکھوں کہ وہاں صرف شیطان ہی کی بادشاہی ہے یا تجھ جیسے اسیر حرص کی بھی شہر یاری ہے۔ چنگیز: اوخانہ خراب! یہ کیا جواب؟ جہنم میں اور میری بادشاہی! کیا مجھ کو بھی شیطان کے برابر سمجھتا ہے واہی؟ صفدر: جی نہیں۔ چنگیز: تو؟ صفدر: وہ کم اور آپ زیادہ! چنگیز: او سفید بالوں والے غلام! چھوڑ دے یہ خیال خام، کیا نہیں دیکھا اپنے بیٹے کا انجام؟ صفدر: جی ہاں بیٹے کا انجام تو دیکھ چکا، اب تمہارا انجام باقی ہے، جس کی دل کو مشتاقی ہے۔ دیکھیں کیا رنگ دکھاتا ہے یہ پیارا انجام دیکھیں کس گھاٹ کا دیتا ہے سہارا انجام پہلے فرعون کا انجام تو سب نے دیکھا اب فقط دیکھنا باقی ہے تمہارا انجام دلاور: کس قدر گستاخیاں پیدا ہیں اس گفتار سے اس کی باتوں کا جواب اب دیجئے تلوار سے چنگیز: اچھا تو بتا سکتا ہے کہ دشمن کی فوج جتنی ہے، وہ شمار میں کتنی ہے؟ صفدر: جتنے اس میدان میں ریت کے دانے ہیں، اتنے ہی ہماری فوج میں مرد مردانے ہیں۔ چنگیز: بس اسی قدر؟ صفدر: جی نہیں میں بھولتا ہوں۔ جتنے ان جنگلی درختوں میں پتوں کے خزانے ہیں۔ اتنے ہی ہماری فوج میں مرد سیانے ہیں، بلکہ اس قدر جنگلی سپاہ ہیں، جس قدر تیرے نامہ اعمال میں گناہ ہیں۔ چنگیز: بے ادب! ادب کے قریب ہو تاکہ موت کے بدلے قید نصیب ہو۔ صفدر: قیدی؟ قیدی تو سارا زمانہ ہے، جس میں تم جیسے بدمعاشوں کا ٹھکانا ہے۔ دلاور: خیر! قید خانہ جو زمانہ ہے دکھائی دیتا میں تجھے قید سے ہوں آج رہائی دیتا (دلاور جنگ کا صفدر کو گولی سے اڑا دینا) ٭٭٭ باب پہلا سین تیسرا محل (جھنجھٹ کا چھینکتے ہوئے آنا) جھنجھٹ: آچھیں! آچھیں! آچھیں! الٰہی خیر، یہ چھینکیں ہیں یا بندوق کے فائر۔ صبح ہی صبح میرا ہاتھ کھجلایا تو میں سیدھا یہاں آیا کہ ضرور کچھ نہ کچھ ملے گا، مگر یہاں آیا تو کچھ نہ پایا۔ مرزا: سلارو!ارے سلارو! جھنجھٹ: ہیں یہ کون؟ حماقت بیگ! کم بخت کا پیٹ ہے یا پلاؤ کی دیگ! یہ کم بخت بھی عجیب ناہنجار و نابکار ہے۔ سن دیکھئے تو ساٹھ کے بھی پار ہے اور صورت دیکھئے تو خاصا ناہنجار ہے اور سیرت دیکھئے تو ایک کمسن عورت یعنی میری بی بی حسینہ بیگم پر بے سمجھے بوجھے نثار ہے، مگر اس کو نہیں معلوم کہ وہ تو اس کے بیٹے سلیم کی دلدار ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیم کو خبر ہو جائے۔ اگر ہو گئی تو عجیب نہیں کہ باپ کو چچا ہی بنا کر چھوڑے ۔۔۔۔ ارے یہ کم بخت ادھر کو ہی آتا ہے۔ اب ذرا چھپ کر دیکھوں کہ کیا رنگ لاتا ہے۔ (جھنجھٹ کا چھپ جانا اور حماقت بیگ کا آنا) مرزا: فکر فکر فکر! جتنی فکر مجھ کو ہے اتنی فکر اگر کوئی ساہوکار کرتا تو مفلس بینک کا حصہ دار بن جاتا۔ اگر کوئی ناٹک کا منشی کرتا تو اس کا نیا کھیل پاس ہو جاتا۔ اگر جنرل کو پرکرتا تو ٹرانسوال کا ستیاناس ہو جاتا۔ کم بخت مجھے جورو بھی ملی ہے تو عقل سے خالی۔ ایک درجن بچے دینے والی۔ جھنجھٹ: (خود سے)1؎ باپ رے؟ مرزا: اس پر طرہ یہ کہ ایک نوجوان لڑکی کا عشق، یعنی حسینہ کا عاشق کہلایا۔ ہائے پیاری حسینہ! اب کیسے ہو گا جینا؟ (اپنا گلا دبانا) جھنجھٹ: (ظاہر ہو کر) اجی مرزا صاحب یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ 1؎ یہ بھی گویا اسٹیج کے فن کی ایک مفاہمت ہے۔ کردار بلند آواز سے اپنے آپ سے کچھ کہتا ہے۔ یہ آواز تماشائیوں کو تو سنائی دیتی ہے لیکن اسٹیج پر کھڑا ہے دوسرا کردار نہیں سنتا۔ مرزا: مرتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ جھنجھٹ: نہیں میں تو آپ کو نہیں مرنے دوں گا۔ مرزا: ہیں! کیوں نہیں مرنے دے گا؟ تو کوئی خدائی فوجدار ہے یا بیمہ کمپنی کا حصہ دار ہے؟ تجھے ہمارے مرنے جینے سے کیا سروکار ہے؟ جھنجھٹ: اجی اور تو کچھ نہیں۔ صرف یہ خیال ہے کہ اگر آپ مر جائیں گے تو دنیا سے ایک بے وقوف کم ہو جائے گا۔ مرزا: ارے کیا کہا؟ ہیں کیا کہا؟ (مارنا) جھنجھٹ: اجی نہیں حضور میں بولا، دنیا سے ایک عقل مند کم ہو جائے گا۔ معاف کیجئے گا حضور! چمڑے کی زبان تھی پھسل گئی۔ مرزا: ہاں ہاں یار تو سچ کہتا ہے۔ آگے ایک گھن چکر تھا وہ بھی مر گیا۔ لال بجھکڑ تھا وہ بھی مر گیا۔ اب خدانخواستہ اگر میری بھی پامالی ہو جائے گی تو واقعی دنیا عقل مندوں سے خالی ہو جائے گی۔ کیوں دوست کیسی کہی؟ جھنجھٹ: بہت اچھی کہی۔ مرزا: مگر یہ تو بتا بدلگام! میرے گھر میں تیرا کیا کام؟ جھنجھٹ: اجی میاں ! بیوی نے شیرینی بھجوائی تھی۔ وہ دینے آیا تو بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ میاں کو بلا لا۔ مرزا: بیگم! کون بیگم؟ جھنجھٹ: اجی وہ آپ کی نحوست بیگم بلاتی ہیں۔ قہوہ پینے کو فرماتی ہیں۔ مرزا: (منہ بنا کر) ہوں، ایک تو میں خود ہی صبح صبح گرم ہو رہا ہوں، اس پر طرہ یہ کہ قہوہ پینے کو بلاتی ہیں۔ جا اس سے کہہ دے کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ جھنجھٹ: مگر میاں میں جھوٹ کیسے بولوں؟ آپ تو یہاں کھڑے ہیں۔ مرزا: میں ہوں، مگر تو یہ سمجھ لے کہ میں نہیں ہوں۔ جھنجھٹ: تو یہ بولتا کون ہے؟ آپ کا بھوت؟ مرزا: ارے جاتا نہیں شیطان کے پوت۔ جھنجھٹ: تو کیا میاں، میں بالکل ہی چلا جاؤں؟ مرزا: جا بھائی جا، میرا سر نہ پھرا، چلا جا، چلا جا، چلا جا۔ جھنجھٹ: (گھوم کر) تو لو میاں میں گیا۔ مرزا: ارے گیا کہاں؟ تو تو کھڑا ہے۔ جھنجھٹ: کھڑا ہوں، مگر آپ سمجھ لیجئے کہ میں نہیں کھڑا ہوں۔ مرزا: ارے تو نہیں جائے گا شیطان؟ جھنجھٹ: تو کیا میں چلا جاؤں اسی آن؟ مرزا: ارے ہاں! اسی آن، اسی آن، اسی آن۔ جھنجھٹ: (پھر آنا) میاں! مرزا: ہت تیرے کم بخت کی۔ ایک تو۔۔۔ جھنجھٹ: تو میاں۔۔۔۔ مرزا: نہیں جاتا شیطان تو میں خود ہی۔۔۔۔۔ جھنجھٹ: (آ کر) میاں! (چھپ جانا دنگ میں) مرزا: کم بخت اب کے آیا تو ٹانگ ہی توڑ دوں گا۔ ایک تو آگے میں حسینہ کے عشق میں تڑپ رہا ہوں۔ دوسرے مجھے قہوہ پینے کو بلوایا جاتا ہے۔ ہائے ہائے! پیاری حسینہ! تیرے عشق میں اب مشکل ہے جینا۔ اب تجھے ماروں یا اپنا گلا گھونٹ کر مر جاؤں۔ خیر میں اب گھر کو چھوڑ کر چلا جاتا ہوں۔ مگر جاؤں کہاں؟ جھنجھٹ: (خود سے) بڑے قبرستان یا شمشان میں۔ مرزا: دیکھ پیاری سنبھال۔ (دونوں ہاتھوں سے گلا دبا کر) جھنجھٹ: (سامنے آ کر) اجی میاں میاں، بڑا غضب ہوا، ستم ہوا۔ مرزا: ارے بھائی کیا غضب ہوا؟ کیا ستم ہوا؟ جھنجھٹ: اجی کچھ نہ پوچھو۔ حسینہ بی بی کی داستان نحوست نے چھپ چھپ کر آپ کی زبان سے سن پائی۔ غصے سے آگ ہوئی جاتی ہے۔ ہاتھ میں چھ فٹ کی لمبی جوتی لے کر آتی ہے۔ مرزا: ارے ہائے ہائے مر گیا۔ مٹ گیا۔ ستیاناس ہو گیا۔ مگر بھائی جوتی ریشمی ہے یا سوتی؟ جھنجھٹ: اجی ادھوڑی چمڑے کی۔ مرزا: ہائے ہائے اب کیا تدبیر کروں؟ جھنجھٹ: اجی میاں تدبیر تو ہزار ہے مگر بغیر مٹھی گرم ہوئے بتانا دشوار ہے۔ جو کوئی تدبیر بتاتا ہے وہ پہلے کچھ پاتا ہے۔ مرزا: بتا بتا بھائی! جلدی بتا، کیا درکار ہے؟ جھنجھٹ: تو میاں دس روپے دلوا دو تو آپ کا کام بن جائے گا۔ مرزا: ارے بھائی اس کان میں میری جورو کی جوتی اٹکی ہوئی ہے دوسرے میں آ کر کہو۔ ادھر کے کان میں۔ جھنجھٹ: اگر بیس روپے دو تو تمہارا کام بن جائے گا۔ مرزا: ارے دس روپے والے کان میں آ کر کہو، دس روپے والے میں۔ جھنجھٹ: اب دینے ہیں تو دو ورنہ میں بیگم صاحبہ کو بلاتا ہوں۔ اجی بی! مرزا: ارے ارے! جھنجھٹ: جلدی کرو جلدی۔۔۔۔ اجی بی! مرزا: ابے لے بھائی لے۔ جھنجھٹ: ارے جلدی کرو جلدی۔ مرزا: ارے میں کیا کروں، روپیہ دینے کو میرا دل نہیں چاہتا۔ جھنجھٹ: دل نہیں چاہتا تو بلاتا ہوں بیگم صاحبہ کو۔ اجی بیگم صاحبہ آنا! مرزا: ابے لے دس روپے (دینا) ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس۔ جھنجھٹ: اجی میاں! آپ کیوں اس قدر رنجیدہ ہوتے ہیں۔ حسینہ سے شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ مرزا: ارے یا شادی تو کروں۔ مگر اس کے جوتوں کی شرطیں بڑی کڑی ہیں۔ جھنجھٹ: اجی اس کا فکر بے کار ہے۔ آپ کے بیچ میں یہ ملاؤ خاں جو تیار ہے۔ آنے دو شادی میں کہہ دوں گا کہ ذرا دھیرے دھیرے لگانا۔ چاہے سر کے بال اڑ جائیں مگر تکلیف نہ ہو۔ مرزا: مگر یار جوتے کی شرط بڑی کڑی ہے۔ مجھے تو اپنی عزت کی پڑی ہے۔ جھنجھٹ: اجی میاں، یہ کون سی بات ہے۔ بڑے بڑے معشوقوں کے ہاتھوں سے جوتیاں کھاتے ہیں۔ مرزا: اچھا بھائی کھا لیں گے۔ اپنی غرض کے لیے کھا لیں گے۔ یا رچلیں گے تو سہی مگر وہاں بات کیا کروں گا، بات؟ جھنجھٹ: اجی وہی معمولی بات، یعنی محبت کی گھات۔ مرزا: اچھا تو میں گل بکاؤلی اور اندر سبھا کے عاشقانہ فقرے سنا دوں گا۔ جھنجھٹ: بس اور کیا؟ مرزا: مگر یار؟ جھنجھٹـ: یار! مرزا: تو میری سفارش ضرور کرنا۔ جھنجھٹ: اجی سفارش تو میں ایسی کروں گا کہ تم یاد ہی کرو گے۔ مرزا: اچھا تو چلو، جلدی چلو جھنجھٹ: آپ چلئے میں ابھی آتا ہوں۔ مرزا: یار؟ جھنجھٹ: یار! مرزا: آؤ! جھنجھٹ: آپ چلئے، میں آپ کے پیچھے پیچھے آتا ہوں۔ (مرزا کا جانا) چلو منحوس ٹلا، کیوں کیسا دبایا گلا۔ تب مزا ہے کہ ایسی گھات چلے کہ باپ بیٹوں میں خوب جوتا اور لات چلے۔ گانا اجی واہ جی واہ، دیوانہ ہے بندر، مچھندر، قلندر سے پالا پڑا ارے واہ جی واہ، یہ لونا چماری ہو، صورت پہ واری ہو قربان، شیطان یہ پیٹ نکالا کاندو کا نالا ہے بولو سردار اجی واہ جی واہ، بڑھاپے کا ٹٹو، محبت پہ لٹو، نکھٹو مردار ادھر ادھر رنگی جوانوں میں، جنگی گھرانوں میں، ہوتا شمار ساری باتیں دیوانی، اوندھی پیشانی کا الو گنوار، ارے واہ جی (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین چوتھا باغیچہ ناصر الدولہ (قمر پسر ناصر الدولہ کا جھولا جھولنے اور مہ جبیں کا مع سہیلیوں کے نظر آنا) گانا سہیلیاں: سکھی پھولن میں راجن جھولت جھولنا، ماند ہوا مکھ چاند واہ واہ! جھولو جھولو سرتاج، جھولو جھولو راجن کے راج، سکھی پھولن میں راج جھولت جھولنا تورا باغ جوں پھلواری رے، کرودائم سرتاج جگ سرداری رے جے، جے، لالہ، آنکھ کا اجالا، جگ جگ راج ساج، سکھی پھولن۔۔۔ قمر: (جھولے سے اتر کر آتا ہے اور ناصر الدولہ پیچھے داخل ہوتا ہے) امی جان! مہ جبیں: (بوسہ لے کر) خاہ آب حیات! خدا کی بخشی ہوئی نعمت یا محبت کے پاک درخت کا پھل جی جائے اس دوا سے جسے دم میں دم نہیں بوسہ ترا علاج مسیحا سے کم نہیں گانا قمر: اماں مجھے اچھی سی ٹوپی منگا دے، ٹوپی منگا دے، گھوڑا ادلا دے، گاڑی میں لیٹوں گا، گھوڑے پہ بیٹھوں گا، گاڑی میں سوؤں گا، گھوڑے کو ہانکوں گا، ٹک ٹک ٹک، ہوں ہوں ہوں، آہستہ آہستہ، بس تھم تھم تھم تھم۔۔۔۔ اماں مجھے چھوٹی سی بندوق لا دے، تیر و کمان دلا دے، توپوں کو چھوڑوں گا، قلعہ کو توڑوں ۔۔۔ دھڑ ڑ ڑڑ دھم دھس، دھڑ دھم دھس۔ اماں مجھے۔۔۔۔۔ ناصر: اخاہ، خوشی خوشی! حسن و عشق کے دو گل و بلبل یا شجر عشق کا میٹھا ثمر۔ سچی خوشی! مہ جبیں: (دیکھ کر) ہیں یہ کون کھڑا ہے؟ باغبان؟ ناصر: ہیں باغبان؟ یہ تو میں ہوں آپ کا عاشق نیم جان۔ مہ جبیں: عاشق نیم جان؟ کچھ شامت تو نہیں بد زبان؟ ناصر: شامت! مہ جبیں: (دیکھ کر) اوہو، آپ ہیں حضور! نہیں نہیں معاف کیجئے گا قصور۔ ناصر: خوب! معاف کیجئے گا قصور۔ اجی واہ جناب عالی! یہ تو آپ نے اچھی چال ہے نکالی۔ کبھی دو گالی، کبھی بناؤ باغبان یا مالی اور پھر معافی مانگ کر بچ جاؤ گی خالی خطا معاف نہ ہرگز حضور کی ہو گی خطا جو کی تو سزا بھی قصور کی ہو گی مہ جبیں: سزا دو لائق کار محبت کھڑی ہے لو گنہگار محبت ہمارے ہاتھ باندھ گیسوؤں سے ہمیں سمجھو گنہگار محبت ناصر: خیر جب گنہگار دل میں شرمایا تو حاکم کو بھی اس پر رحم آیا جب گنہگار اپنے دل میں جرم پر نادم ہوا معاف کر دینا اسے انصاف سے لازم ہوا مہ جبیں: آداب آداب! تسلیم تسلیم! ناصر: ہاں مگر اس لیے کہ آئندہ نہ ایسا قصور ہو، اس لیے مجرم پر کچھ جرمانہ ضرور ہو۔ (بوسہ لینا) مہ جبیں: ہمارے جرم کا جرمانہ یہ حضور نہ تھا خطا زباں کی تھی گالوں کا کچھ قصور نہ تھا نہ اس طرف سے بھی اب درگذر خطا ہو گی سزا تو دے چکے اب آپ کو سزا ہو گی ناصر:ـ ہاں ہاں چوکئے نہیں، چوکئے نہیں بدلہ ضرور جرم کا سرکار لیجئے بھر بھر کے جی مزے سے مرے پیار لیجئے میں ایک لوں تو آپ مرے چار لیجئے مہ جبیں:ـ بس ہٹئے! ناصر: اجی لیجئے۔ مہ جبیں: میں یہ سمجھوں گی سزا آپ کو کافی دے دی جاؤ ان گالوں کے صدقے میں معافی دے دی دھوکا پھر کھاؤں جو اب بھی نہ میں ہشیار بنوں کیا غرض مجھ کو ہے جو پھر میں گنہگار بنوں ناصر: گر یہی طور ہے اپنا تو یہی طور سہی جب خطا کی ہے تو پھر ایک خطا اور سہی (قمر سے) کیوں بیٹا! تم کس کے ساتھ رہو گے؟ اپنی کے ساتھ یا ہمارے ساتھ؟ قمر: ابا جان! آپ کے ساتھ، مگر آپ کھلائیں گے؟ ناصر: بیٹا جو تم کہو گے۔ (ناصر کا بگڑنا، مہ جبیں کا منانا اور گانا) مہ جبیں: بولو بولو سنوریا پیارے، نجریا پہ میں واری، کہہ دو کہہ دو جو ہو مو سے تقصیر، بولو بولو۔۔۔۔۔۔ ناصر: ہم نہیں بولیں گے، تم ہی سمجھ لو ہو جو تقصیر جاناں سزا میں دوں گا تمہیں اور تم قبول کرو مہ جبیں: وہ کیا سزا ہے صنم مطلقاً نہ بھول کرو (رستم جنگ کا آنا) رستم: اے جہاں دار آفتاب آثار، اے شہنشاہ ذی وقار تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار ناصر: آؤ آؤ میری سلطنت کے فدائی، میرے مہربان بھائی! رستم: عالی جاہ! میں شرمندہ ہوں کہ آپ مجھے بھائی کے نام سے یاد فرماتے ہیں، ورنہ میرا جو خیال ذاتی ہے، اس میں تو غلامی کی لیاقت بھی نہیں پائی جاتی ہے۔ ناصر: یہ تمہاری عالی صفاتی ہے جو اپنی تعریف پسند نہیں آتی ہے۔ کبھی کرتا نہیں تعریف اپنی جو کہ عالی ہے ہمیشہ بولتا ٹھوکر سے ہے برتن جو خالی ہے رستم: عالی جاہ! افواج دشمن آ پہنچی، فوج چنگیز پہاڑوں کے قریب جا پہنچی نہ ہو ایسا کہ کسی وقت وہ حملہ کر دیں ہم تو غفلت میں رہیں اور وہ پسپا کر دیں فوجیں تیار کھڑی ہیں کہ فدا جان کریں آپ اب آئیں تو ہم کوچ کا سامان کریں ناصر: لو پیاری! اب آ گئی جدائی کی باری۔ مہ جبیں: نہیں نہیں میری جان، میرے ارمان، ایسا نہ فرماؤ، مجھے تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ۔ میرے شیشہ دل کو سنگ مفارقت سے توڑ کر نہ جاؤ۔ تم تو کہتے تھے ہمیشہ کہ مری جان تمہیں ہو جب جان چھوٹے جیتے جی پھر کیسے یقیں ہو ناصر: یہ سچ ہے پیاری! تم جان ہو ہماری، لیکن یہ بھی تو ہے دشواری کہ بروقت تیغ باری، دشمنوں سے لڑوں گا، اپنی جان کی حفاظت کروں گا۔ مہ جبیں: نہیں نہیں، تم اس بات کی مطلق فکر نہ کرو جان میری کھو گئی تو کھو گئی یہ سمجھنا مجھ پہ صدقے ہو گئی (گانا، ناصر کا دامن پکڑ کر) مورے شام، مورے دھام، مورے سنوریا! نہ مجھ سے پھیر نجریا، تم بن سنوریا، جائے عمریا، بن تورے نین تکے ڈگریا، مورے شام۔۔۔۔ ناصر: خیر جاؤ، لباس بدل کر آؤ۔ مگر خبردار خیمے سے باہر نہ آنا۔ (مہ جبیں و قمر کا جانا) پیارے رستم! رستم: صاحب عالم! ناصر: تھوڑی دیر میں کیا ملے گا؟ رستم: فتح یا موت! ناصر: اگر دشمن کے لیے فتح اور میرے لیے موت ہو؟ رستم: تو ہم سب کے لیے موت ہو۔ ناصر: پیارے رستم! مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری قضا دامن گیر ہے۔ اگر میں میدان جنگ میں مارا گیا تو پھر میری بیوی او ربچے کو کون سنبھالے گا؟ رستم: وہی جو دو جہان کو پالے گا۔ ناصر: پیارے رستم! یہ مت سمجھنا کہ عیش و عشرت کی گود میں پلا ہوا ناصر تیر و تفنگ کے منہ میں جانے سے خوف کھاتا ہے۔ نہیں، بلکہ آتش فشاں توپوں کی چادر میری پوشاک ہے، تلواروں کا پھل میری خوراک ہے، مگر خدا معلوم آج کیا ہونے والا ہے جو دل خود بخود تہ و بالا ہے۔ اچھا اگر سب کے لیے موت ہے تو اپنی بیوی اور بچے کو خدا کے بھروسے پر چھوڑتا ہوں۔ اگر بالفرض میرے لیے ہی موت ہو تو تم میرے بعد میری بیوی مہ جبیں کے شوہر اور میرے بچے کے پدر بننا۔ رستم: مہ جبیں کے شوہر اور قمر کے پدر؟ یہ میں کیا سنتا ہوں؟ ناصر: جو میں کہتا ہوں۔ رستم: پھر کیوں نہیں مرتا ہوں؟ کیوں نہیں مرتا ہوں، کیا ذی شان سے سنتا ہوں میں دیکھتا کس آنکھ سے، کس کان سے سنتا ہوں میں اے آنکھوں تم کور ہو جاؤ، اے کانوں، تم زندہ درگور ہو جاؤ۔ ناصر: تو میں تم سے نا امید ہو جاؤں؟ رستم: بے شک آپ مجھ سے نا امید ہو جایئے۔ مگر خدا سے نا امید نہ ہو جایئے۔ ناصر: بہادر رستم! تمہارے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عیش و عشرت کی گود میں پلا ہوا ناصر تیر و تفنگ سے جھجکتا ہے۔ نہیں نہیں پیارے رستم! میدان جنگ میرا مکان ہے اور تیر و تفنگ میرا سامان ہے۔ خیر اگر تم منہ سے کہنے میں ہو منفعل تو میں خط میں لکھے دیتا ہوں حال دل یا تو تم جا کر زبانی ہی سنا دینا اسے یا جو خط دوں میں تمہیں وہ جلد جا دینا اسے رستم: منظور ہے کلام بھی سلطانی نام بھی راضی ہیں شہ اسی میں تو خوش ہے غلام بھی ناصر: پیارے رستم چلو خدا فتح دینے والا ہے۔ رستم: چلئے (دونوں کا جانا اور مہ جبیں کا اندر سے گاتے ہوئے آنا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین پانچواں منظر: حسینہ کا محل (حسینہ کا سلیم کے فراق میں اندر سے گاتے ہوئے آنا) حسینہ: ہائے مجھے درد جگر نے ستایا فغاں میں آہ میں فریاد میں شیون میں نالوں میں سناؤں درد دل طاقت اگر ہو سننے والوں میں ٭٭٭ کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں اہل بے داد ملا، سخت جلاد ملا، پورااستاد ملا سانس دیکھا تن بسمل میں جو آتے جاتے اور چرکا دیا جلاد نے جاتے جاتے ہائے مجھے درد جگر۔۔۔۔ خدایا راستے میں کیا غضب آیا جو جھنجھٹ میرے پیارے کو لے کرا بھی تک نہ آیا۔ (جھنجھٹ کا آنا) جھنجھٹ: بیگم صاحبہ! آداب، تسلیمات! حسینہ: کیوں رے موئے صبح کا گیا اب آیا؟ کہیں میرے پیارے سلیم کا بھی پتہ پایا یا یوں ہی خالی ہاتھ چلا آیا۔ جھنجھٹ: سلیم؟ وہ سامنے کون کھڑے ہیں؟ سلیم: آداب بجا لاتا ہوں، دلدار من، بندہ پرور! حسینہ: بس ! قدم نہ رکھنا گھر کے اندر۔ سلیم: ہیں ہیں خیر تو ہے؟ یہ آج کیا فقرہ منہ سے نکالا جاتا ہے، بندہ کوئی بلا ہے جو ٹالا جاتا ہے۔ (سلیم کا حسینہ کو گلے لگانا چاہنا اور اس کا بگڑنا) حسینہ: نہیں نہیں! بس مجھے نہ ستایئے۔ جایئے جایئے کسی اور سے دل بہلایئے۔ سلیم: اب خفگی کو دور کیجئے اور یہ بتایئے کہ آج اس گل سے چہرے پر اداسی کیوں چھائی ہوئی ہے؟ حسینہ: چار دن تک منہ نہ دکھانا، جلانا ، کڑھانا، ستانا۔ سلیم: اف تیرا تیوری چڑھانا۔ (سلیم اور حسینہ کا مل کر گانا) توری چھل بل ہے پیاری، توری کل بل ہے نیاری، کرو باتیں سندریا جان۔ توری زلفیں ہیں کالی، تورے گالوں پہ لالی، تیرے نینوں کی لاگی کٹریا جان۔ جاؤ نادان، مجھے نہ بناؤ جان! اجی نینوں سے نیناں ملاؤ جان! اجی چھوڑو جی ہاتھ، نہیں ہو گی یہ بات، کرو اوروں سے گھات، اجی واہ واہ۔ سلیم: ہیں یہ سامنے سے کون آتا ہے؟ یہ تو میرے قبلہ و کعبہ تشریف لا رہے ہیں۔ حسینہ: پیارے سلیم تمہارے والد بالکل پاگل ہو گئے ہیں۔ رات دن میرے مکان کے گرد چکر لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے بھی اپنے شیدائیوں میں داخل کر لو۔ سلیم: پیاری حسینہ، تم جانتی ہو کہ جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو اس کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔ ان کا سن تو ساٹھ سے بھی پار ہے، کس طرح ان کو بدنامی کی ندامت سے بچاؤں، کس طرح کلنک کا ٹیکہ مٹاؤں؟ حسینہ: ہاں پیارے جس طرح ممکن ہو پردے ہی پردے میں ان کو نصیحت پہنچانے کی کوشش کریں، شاید پشیمان ہو کر باز آئیں۔ سلیم: اچھا آؤ ذرا چھپ کر دیکھیں۔ مرزا: (آ کر) یار جھنجھٹ آج تو تو نے مجھ پر بڑا احسان کیا جو حسینہ کو مجھ پر مہربان کیا۔ خدا کرے تیرے گھر میں بھی میرے ہی جیسا بہادر لڑکا ہو۔ جھنجھٹ: اور وہ بھی حسینہ پر شیدا ہو۔ مرزا: یار دیکھنا یہ تو تلوارچلنے کی بات ہے۔ جھنجھٹ: ہاں حضور کیوں؟ مرزار: یار؟ جھنجھٹ:یار! مرزا: یار؟ جھنجھٹ: اجی ! حسینہ تو تم کو بیٹے سے زیادہ جانیں گی۔ مرزا: تو یار میں بھی اسے سگی ماں سے زیادہ پیار کروں گا۔ کہو کیسی کہی؟ سلیم: توبہ توبہ یہ بوڑھا تو پاگل خانے جانے کے قابل ہو گیا۔ خیر پیاری، تم اس کے سامنے جاؤ اور ظاہراً پیار محبت کا رنگ جماؤ۔ میں بھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں اور تم کو ایک نیا سوانگ دکھاتا ہوں۔ جھنجھٹ: مرزا صاحب آپ یہاں ٹھہریں میں حسینہ کو لاتا ہوں۔ مرزا: جھنجھٹ؟ جھنجھٹ: جی! مرزا: اس سے بات کیا کریں گے؟ جھنجھٹ: اجی وہی ناٹک کے یاد کیے ہوئے فقرے کہہ دیں۔ مرزا: ناٹک کے فقرے اسے دیکھتے ہی کہنے شروع کر دوں۔ جھنجھٹ: جی ہاں۔ حسینہ: (آ کر) آ گئے میری جان۔ مرزا: جھنجھٹ! یہ تو بڑی فصاحت سے بات کرتی ہے۔ جھنجھٹ: پھر دیر کیا ہے، تم بھی شروع کرو۔۔۔۔ وہی ترانہ۔ مرزا: اے حسینوں کی ستیاناسی کا مسالا، مر جائے تیرا باپ سہراب کا سالا۔ تشریف کا ٹوکرا لایئے جناب والا! کہو دوست کیسی کہی؟ جھنجھٹ: بہت اچھی کہی۔ مرزا: جھنجھٹ؟ جھنجھٹ: جی! مرزا: یار میرے گلے میں تو آواز اٹک گئی۔ جھنجھٹ: آواز اٹک گئی؟ تو پہلے ہی سے جمال گوٹے کا جلاب لیا ہوتا۔ مرزا: نظر آتا ہے نہ اپنا نہ پرایا مجھ کو (اندر سبھا باب دوسرا، پردہ چوتھا) کہو کیسی کہی؟ جھنجھٹ: بہت اچھی کہی۔ مرزا: مجھے کون گھر سے ہے لایا یہاں؟ یہ بتا دو کہ ہے یہ کس کا مکاں؟ سب بچھڑے کوئی سنگی نہ ساتھی، حسینہ کو اپنی میں پاؤں کہاں۔۔۔۔ (ناٹک چندر اول باب سترواں، پردہ ساتواں) کہو دوست کیسی کہی؟ جھنجھٹ: بہت اچھی کہی۔ حسینہ: آپ کو میرے اس غم کدے میں آنا مبارک ہو۔ جھنجھٹ: تمہیں جوتے لگانا اور انہیں کھانا مبارک ہو۔ حسینہ: کہو پیارے، کیا تم سچ مچ مجھ سے محبت کرتے ہو۔ مرزا: جھنجھٹ؟ جھنجھٹ: جی! مرزا: عاشق ہوں نا عاشق؟ جھنجھٹ: جی اول نمبر۔ مرزا: اول نمبر، اول نمبر گانا تو ہے میری جانی، تو ہے نانی، تو ہے میری خالہ جان، جان لے، ایمان لے، مکان لے پیاری پیاری باتیں، ساری ساری راتیں سنوں کر کے دھیان، تو ہے میری۔۔۔۔ حسینہ: توری ترچھی نجریا کو پیارکروں، موہے مارے کٹاری نین کی، بانکا سپیہا تومورا سیاں، ڈالوں تورے گل بیاں، تو ہے میری۔۔۔۔ (نثر) پیارے اچھا میری شرط منظور ہے یا نہیں؟ مرزا: جھنجھٹ؟ جھنجھٹ: جی! مرزا: یہ تو جوتیاں کھانے والی بات ہے۔ جھنجھٹ: اجی محبت کی خاطر تو لوگ جوتیوں کے ہار پہنتے ہیں۔ معشوق کے ہاتھوں کی جوتیاں کیا ہیں۔ یہ تو پھل جھڑیاں ہیں۔ اب کہہ دو منظور ہے۔ مرزا: اچھا باوا منظور ہے۔ حسینہ: اچھا تو بیٹھ جاؤ، میں جوتیاں لگاتی ہوں اور تم تعریف کرتے جاؤ۔ مرزا: مگر پیاری ذرا آہستہ آہستہ لگانا، کہیں سر کو چوراہے کا ناریل یا صدقے کا بکرا نہ سمجھ لینا۔ حسینہ: (جوتے مارتی ہے) ایک، دو، تین۔ مرزا: بس یار رہنے دے، باقی شادی کے دن کے لیے۔ حسینہ: ہیں تم بیچ میں کیوں بول اٹھے؟ میں بھول گئی، پھر سے کھاؤ۔ مرزا: اور اتنی جوتیاں جو کھائی تھیں وہ سب فضول گئیں؟ حسینہ: تم بیچ میں بول اٹھے، میں گنتی بھول گئی۔ مرزا: میں تو اب نہیں کھاؤں گا۔ حسینہ: نہیں کھاؤ گے تو میں جاتی ہوں۔۔۔۔ ایک، دو، تین، چار۔ مرزا: دیکھنا یاد رکھنا، کہیں پھر نہ بھول جانا۔ حسینہ: ہیں پھر بیچ میں بولے۔۔۔۔ ایک، دو، تین، چار۔ مرزا: ارے اس نے تو سال بھر کے لیے حجامت ہی کی چھٹی کر دی۔ کم بخت جوتی اور سر دونوں بے غیرت ہیں۔ حسینہ: ہیں، پھر بولے! مرزا: خدا کرے جو ہم کو دیکھ کر ہنسے، وہ اس آفت میں پھنسے۔1؎ حسینہ: ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ۔ (جھنجھٹ کا اندر سے روتے ہوئے آنا) جھنجھٹ: بانو صاحبہ! آپ کے والد صاحب تشریف لائے ہیں۔ مرزا: ارے اس کا باپ بھی عجیب نالائق ہے۔ کم بخت جوتے کھاتے وقت مر گیا۔ جو شادی کے وقت آن کودا۔ اس وقت کباب میں ہڈی بن کر کہاں سے آ گیا؟ حسینہ: اوئی اللہ! میں مر گئی۔ 1؎ یہ تخاطب تماش بینوں سے ہے۔ جھنجھٹ: اجی مرزا صاحب! حسینہ مر گئی۔ مرزا: ارے مر گئی تو مر جانے دے، پہلے مجھے تو کہیں چھپا۔ جھنجھٹ: ارے بھائی، میں کہاں چھپاؤں؟ حسینہ: اے اللہ! میری تو لاکھ کی عزت خاک ہوا چاہتی ہے۔ مرزا: ارے ہائے ہائے، اب کیا تدبیر کروں؟ جھنجھٹ: اجی میاں، مجھے ایک تدبیر یاد آتی ہے، مگر انعام کا اقرار کرو۔ مرزا: ضرور، ضرور، دوں گا، جلدی بیان کر۔ جھنجھٹ: اچھا ٹھہریئے (ساڑی اور چکی اندر سے لا دینا) لو یہ ساڑی اور گھگرا پہن کر بیٹھ جاؤ اور چکی چلاؤ۔ مرزا: ارے چل، میں یہ کام کبھی نہیں کروں گا۔ جھنجھٹ: نہیں کرو گے تو میں میاں کو بلاتا ہوں۔ مرزا: ارے ٹھہر باوا پہنتا ہوں۔ جھنجھٹ: اجی لوگ تو محبت کی خاطر خدا جانے کیا کیا کرتے ہیں۔ تم ابھی سے گھبراتے ہو۔ حسینہ سن پائے گی تو کہے گی جھوٹا عاشق ہے۔ مرزا: ہاں ہاں یار کہتا تو ٹھیک ہے۔ جھنجھٹ: تو پھر چکی پیسنی شروع کر دو۔ مرزا: جھنجھٹ؟ جھنجھٹ: جی! مرزا: اس ٹوپی کو کیا کروں؟ جھنجھٹ: اس ٹوپی کو بچہ بناؤ بچہ۔ مرزا: بچہ؟ جھنجھٹ:ـ جی ہاں اور ساتھ ساتھ گاتے جایئے۔ گانا مرزا: مرے من کی بتیاں نہ بھائے رے، مرے پیا گھر نہ آئے رے سلیم: پیاری حسینہ! دروازہ کھولنے میں اس قدر وقفہ لگایا؟ حسینہ: اجی چکی کی کھڑ کھڑ میں آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ سلیم: اچھا پیاری، ذرا میرے گلے سے لگ جا۔ مرزا: ہائے ہائے! جی میں آتا ہے کہ چکی کا پاٹ کم بخت اپنے سر میں اٹھا کر مار لوں۔ جھنجھٹ: چپ رہ۔ سلیم: پیاری حسینہ، یہ کون بیٹھی ہے؟ زرینہ؟ (لات مار کر) اری منہ سے کیوں نہیں بولتی بد قرینہ! اٹھ اس جگہ سے۔ جھنجھٹ: (حماقت بیگ کو لات مار کر) اری بول۔ مرزا: ارے بولتا ہوں۔ جھنجھٹ: ارے بولتا نہیں۔ مرزا: اچھا باوا بولتا ہوں۔ سلیم: ارے پیچھے ہٹ کر بیٹھ۔ مرزا: بیٹھتا ہوں باوا، بیٹھتا ہوں۔ جھنجھٹ: ارے بیٹھتا کیوں نہیں؟ مرزا: ارے بیٹھتا نہیں، بیٹھتی ہوں۔ سلیم: اچھا پیاری حسینہ، اب میں جاتا ہوں۔ حسینہ: بہت اچھا (سلیم کا جانا) لو پیارے، اب تم بھی یہ گھگری ساڑی پہنے ہوئے گھر سے نکل جاؤ، ورنہ بڑے میاں آئیں گے، پھر کسی وقت آنا۔ میں آپ سے شادی رک لوں گی۔ مرزا: ارے جاؤں کہاں؟ زمین ٹلت مگر مرزا صاحب نہ ٹلت۔ بیٹھا ہوں تیرے در پہ کچھ کر کے اٹھوں گا یا تو ہو وصال ہی یا مر کے اٹھوں گا کہو دوست کیسی کہی؟ جھنجھٹ: بہت اچھی کہی۔ حسینہ: نہیں جاتے تو میں بلاتی ہوں میاں کو۔ مرزا: اچھا جاتا ہوں باوا جاتا ہوں۔ جھنجھٹ: نہیں جاتے؟ وہ آئے۔ گانا حماقت: (مرزا) جانا ہمارا یاد رکھنا۔ جھنجھٹ: جوتیاں کھانا یاد رکھنا۔ مرزا: چپ بے سرے (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین چھٹا منظر: میدان جنگ پہلا سپاہیـ: مارو مارو۔ دوسرا: دیکھو، یہ سامنے سے کون آتے ہیں؟ پہلا: یہ تو دشمنوں کے جاسوس نظر آتے ہیں۔ ناصر: خبردار او آمادۂ شرارت، اف ناکامی! بدنامی! پہلا: تم کون ہو؟ دوسرا: تمہاری موت کا پیغام۔ ناصر: تم کو کس کی تلاش ہے؟ سپاہی: دلاور و ہوشیار! ٹھہر او بدمعاش، تیری جان کی ہے تلاش! ناصر: کیا خوب کرے ہے بزدل ہم سے شیر نر کی تلاش تجھے تلاش مری، مجھ کو تیرے سر کی تلاش (تلوار نکالتا ہے) (لڑائی کرنا۔ آخر ناصر الدولہ کا گرفتار ہونا) سپاہی:ـ پکڑو، پکڑو۔ رستم: ٹھہرو ٹھہرو، نامردو! میں تم کو حکم دیتا ہوں۔ تم مرد نہیں بلکہ عورتیں ہو۔ تمہارے ہاتھ تلوار پکڑنے کے لائق نہیں، بلکہ چوڑیاں پہننے کے قابل ہیں۔ سپاہی: حضور کیا کریں، ذلت سہی نہیں جاتی، جان بوجھ کر جان دی نہیں جاتی۔ رستم: اے ہے یہ کیا شور مچایا، کہیں شاہ کا بھی پتہ پایا؟ سپاہی: ہائے ہائے! شاہ کہاں، شاہ ہلاک ہوا۔ رستم: اف جگر چاک ہوا، خدایا! میرے کانوں کو کیا سنایا۔ مہ جبیں: ناصر ناصر، پیارے ناصر! بتاؤ بتاؤ کہاں ہے؟ میرا گل رعنا کہاں ہے؟ ہیں تم نے گردن کیوں جھکائی؟ میرا پیارا کس حال تباہ میں ہے؟ کس جا چھپا ہوا ہے، وہ کس پناہ میں ہے؟ رستم: افسوس صد افسوس! وہ اس کی پناہ میں ہے جہاں قیامت کے دن چنگیز کو پناہ لینا دشوار ہو گا۔ مہ جبیں: ہیں تو کیا میرا پیارا دنیا سے سدھارا۔ افسوس! (خنجر مارنا چاہنا، رستم کا روکنا) ڈراپ سین ٭٭٭ باب دوسرا سین پہلا جنگل (چنگیزی فوج کا شراب پینا اور سب کا گانا) چلی ناؤ منجدھار، لگادے پار، پلا دے یار، بنے سرشار، ہر ایک میخوار، تجھ پر میں قربان، ساقیا دونی ہو تیری شان، اونچی ہو تیری دکان ساقیا ساغر لانا، بھر کے پلانا پیمانہ، رنگ لانا، مے اڑانا، مل کر گانا کوئی ترانا، لو یا رشوخ شنگ، چھیڑ چنگ کا سا رنگ، جام کا جما دے رنگ۔۔۔۔ چلی ناؤ منجدھار۔۔۔۔ دوہرا: ساقیا ترسا نہ ہم کو بوند پانی کے لیے دل ترستا ہے شراب ارغوانی کے لیے پھر کہاں یہ دوست ہوں گے اور کہاں یہ بزم چنگ آ گئی پیری تو روویں گے جوانی کے لیے ۔۔۔۔ چلی ناؤ منجدھار پہلا: بھائی آج تو بڑی خوشی کا دن ہے، کیونکہ ہمارے شہنشاہ نے ناصر الدولہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ دوسرا: ہاں بھائی خوب مزے اڑاؤ، گاؤ بجاؤ، جام پر جام لنڈھاؤ۔ پہلا: مگر یار مرزا صاحب کے بغیر محفل بے نمک ہے۔ خدا جانے وہ کیوں اس جلسے میں نہیں آئے۔ ہاں بڑی عمر ہے، لو وہ سامنے سے آ گئے۔ آیئے! مرزا صاحب آیئے، جلسے میں شریک ہو جایئے۔ مرزا: یار جلسے میں تو شریک ہوں گا، مگر چندہ نہیں دوں گا۔ پہلا: نہ دینا یار نہ دینا۔ دوسرا: چلو بھائی۔۔۔۔ آؤ شاہ کے پاس جائیں اور اپنا اپنا قصیدہ سنا کر انعام پائیں۔ مرزا: ہاں بھائی چلو۔۔۔۔ میں بھی شاہ کو ایک قصیدہ مبارکباد سنانے والا ہوں۔ سب: چلو بھائی چلو! سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین دوسرا خیمہ (رقاصاؤں کا ناچنا اور گانا) گانا سہیلیاں: آؤ آؤ چھیلا! میں مدھوا پلاؤں چین پائے جیا، مورے پیارے پیا، تو ہے من میں بٹھاؤں بل بل جاؤں، سجن مناؤں مے کا پینا ہے نیک قرینہ، چار دن ہے زمانے میں جینا، سچی باتیں تمہیں سناؤں۔ آؤ، آؤ۔۔۔۔ دوہرا: شراب ناب بھی ہو صاف اور پیالہ صاف میں نربل ساقی بنوں اور پینے والا صاف اجی آ جاؤ، آ جاؤ آ جاؤ ہاں۔۔۔۔ آؤ آؤ چھیلا۔۔۔۔ دلاور: اجی مرزا صاحب وہ جو قصیدہ آپ نے تیار کیا ہے سناؤ۔ مرزا: جھنجھٹ؟ جھنجھٹ: جی! مرزا: اب کیا کروں؟ جھنجھٹ: اجی کوئی شعر ویر بنایا ہو تو سنا دینا۔ مرزا: ارے بھائی! میں نے کبھی شیر چھوڑ کر بکری بھی نہیں بنائی۔ جھنجھٹ: بکری بھی نہیں بنائی۔ مرزا: نہیں۔ جھنجھٹ: سب شاعر نظم میں تعریف کرتے ہیں، تم نثر میں تعریف کرو۔ مرزا: مجھے تو وہ بھی نہیں آتی۔ جھنجھٹ: اچھا جس ططرح میں کہوں کہتے جاؤ۔ مرزا: واہ بھائی بول۔ جھنجھٹ: اے لاکھ چھتر کے شاہ! مرزا: اے لائق تھپڑ کے شاہ! جھنجھٹ: ارے تھپڑ نہیں چھتر مرزا: ارے چھتر نہیں تھپڑ جھنجھٹ: اے جنگیوں کے سردار! مرزا: اے بھنگیوں کے سردار! جھنجھٹـ: اے سلطان خاص و عام! مرزا: اے سلطان کے خاص حجام! جھنجھٹ: آپ کے گلے میں پھولوں کا ہار! مرزا: آپ کے گلے میں جوتوں کا ہار! جھنجھٹ: ارے جوتوں کے نہیں، پھولوں کے ہار۔ مرزا: ارے پھولوں کے نہیں جوتوں کے ہار۔ جھنجھٹ: آپ سب کے سرتاج۔ مرزا: آپ سب کے محتاج۔ جھنجھٹ: تمام زمانوں کے شاہ۔ مرزا: تم زنانوں کے شاہ! آگے بول۔ جھنجھٹ: آگے کیا بولوں؟ تیرا سر۔ مرزا: آگے کیا بولوں، تیرا سر۔ جھنجھٹ: ہائے ہائے کم بخت تو نے سب کا ستیاناس کر دیا۔ مرزا: ہائے ہائے کم بخت تو نے سب کا ستیاناس کر دیا۔ جھنجھٹ: کم بخت مجھے دربار سے نکلوائے گا۔ مرزا: کم بخت مجھے دربار سے نکلوائے گا۔ جھنجھٹ: ہت تیرا باپ مرے۔ مرزا: ہت تیرا باپ مرے۔ جھنجھٹ: قصیدہ تمام بابا قصیدہ تمام۔ چنگیز: ٹھہرو، مرزا صاحب ٹھہرو۔ پہلا: اے شاہ نامدار! شہنشاہ ذی وقار! دوسرا: یہ جشن تجھ کو مبارک ہو لاکھ بار۔ تیسرا: شاہ کی فتح ہو اور عدو کی شکست ہو، ہر نیک سر بلند ہو، بد خواہ پست ہو۔ چنگیز: اچھا اے میرے بہادرو! میرے شکار کو سامنے لاؤ۔ مرزا: آؤ ! اچھا اپنا قصیدہ ہی رہا سب سے۔ جھنجھٹ : تیرا سر رہا۔ مرزا: جھنجھٹ، چل اب حسینہ کے گھر بھی چلنا ہے۔ جھنجھٹ: چلو۔ (سب کا جانا۔۔۔۔ ناصر الدولہ کو سپاہی کا پابہ زنجیر لانا) چنگیز: کیوں اے شاہ زمانہ، آپ نے اس غلام کو بھی پہچانا؟ ناصر: شیطان کو کون نہیں جانتا، بلکہ ہر ایک شخص پہچانتا ہے ۔ شکل و صورت دیکھ لی اور سب رعونت دیکھ لی نام تو پہلے سنا تھا آج صورت دیکھ لی چنگیز: مغرور تو زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے مگر اتنا اکڑا ہوا ہے۔ سر سے غرور مسند مخمل نہیں گیا رسی تمام جل گئی پر بل نہیں گیا ناصر: عزت والے مصیبت میں کب ڈرتے ہیں، تارے دن کے بدلے رات کو چمکتے ہیں بھری برسات میں کیا ندی نالوں میں رونی ہے انہیں گرمی میں دیکھو تو نہ موجیں ہیں نہ پانی ہے ٭٭٭ مگر دریا کو اس گرمی سے ہرگز غم نہیں ہوتا لگا دو آگ بھی اس میں تو پانی کم نہیں ہوتا ٭٭٭ عطر کی مٹی میں بھی مل کر مہک جاتی نہیں توڑ بھی ڈالو تو ہیرے کی چمک جاتی نہیں ٭٭٭ جان جائے گی مگر جوہر نہ جائیں گے کبھی قید میں بھی شیر کی شیرانہ خو جاتی نہیں چنگیز: تو نے بادشاہی اس لیے چاہی کہ مجھ سے ہی کرے لڑائی۔ میں تیرا کون تھا ناسزائی؟ ناصر:ـ کون؟ چنگیز: چچا زاد بھائی۔ ناصر: اف بھائی کا نام لے کر تو نے میرے مرحوم چچا کو قبر کی میٹھی نیند سے جگا دیا۔ اس کے مردہ دل کو ہلا دیا۔۔۔۔ ارے ناسزائی!چچا زاد بھائی اور اس سے یہ برائی، لعنت ہے قصائی جن کی گودوں میں پلا دشمن انہیں کا ہو گیا تو نہیں پیدا ہوا اک سانپ پیدا ہو گیا چنگیزـ: جب تم جانتے ہو کہ عیش کا نتیجہ دل گیری ہے، شاہی کا انجام فقیری ہے۔ تو ناخق رنج اٹھائے تو نے بن کے ملک کا والی مجھے ہی اس طرح کی سلطنت پھر کیوں نہ دے ڈالی ناصر: تم کو؟ چنگیز: ہاں مجھ کو۔ ناصر: تم کو سلطنت دینا ایسا ہے جیسے انصاف کو ظلم کے ہاتھ میں دینا یا شیر سے بکری کی حفاظت کا کام لینا۔ کر سکوں گا تب میں اس ظلم و جفا کا سامنا جب نہ کرنا ہو قیامت میں خدا کا سامنا چنگیز: جب تیری تقدیر میں خراب ہونا ہے تو پھر تجھے کس بات کا رونا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ سب کو ہو رنج و الم یاں غم نہیں تو کچھ نہیں اور روئیں اپنے گھر ماتم نہیں تو کچھ نہیں آدمی دنیا میں بھی بے غم نہیں تو کچھ نہیں دم کے ہیں سب دمدمے جب دم نہیں تو کچھ نہیں ساری دنیا ہیچ ہے جب ہم نہیں تو کچھ نہیں ناصر: تم کو جس آرام کی ضرورت ہے اس کا اس دنیا میں پورا ہونا دشوار ہے۔ البتہ اگر خدا کے یہاں جاؤ گے تو وہاں پورا آرام پاؤ گے۔ چنگیز: تو نے میری موت اس لیے چاہی کہ تیری قید ٹوٹ جائے اور تو اس عذاب سے چھوٹ جائے۔ ناصر: نہ صرف میں تیرے عذاب سے چھوٹ جاؤں گا بلکہ تمام دنیا تیرے اس ظلم سے چھوٹ جائے گی۔ اوخوں ریز چنگیز! کون سا مل جائے گا اس رہزنی میں فائدہ تو نے کیا سوچا ہے آخر دشمنی میں فائدہ چنگیز: فائدہ؟ سلطنت حاصل کرنے کا قاعدہ، جس طرح ایک میان میں دو خنجر آبدا نہیں رہ سکتے، اسی طرح ایک ملک میں دو شہریار نہیں رہ سکتے۔ بھوک جب ہو تو طبیعت صبر کر سکتی نہیں ایک دو روٹی بشر کا پیٹ بھر سکتی نہیں ناصر: یہ تو انسانی خصلتوں میں برابر ہے۔ ایک انسان ایک روٹی دس آدمیوں میں مل کر کھاتا ہے مگر کتا اکیلا ہی ہڈی چباتا ہے۔ جہاں میں رہ کے جن لوگوں میں ایسی کج ادائی ہے وہ اک کتے ہیں لیکن شکل انسانوں کی پائی ہے چنگیز: خیر یہی سہی کہ تیری نظروں میں خار ہوں، مکار ہوں، عیار ہوں۔۔۔۔ مگر اپنی طرف دیکھ کہ کس مصیبت میں گرفتار ہے اور مجھ کو دیکھ کہ مئے عشرت سے سرشار ہوں۔ ناصر: یہ کون سی بات ہے، جن بہادروں کو اپنی عزت عزیز ہوتی ہے، ان کے ہاتھ میں ہمیشہ دو چیز ہوتی ہے۔ چنگیز: کیا کیا؟ ناصر: تیغ و شمشیر یا ہتھکڑی و زنجیر۔ ایک شاخ پر دو پھول ہوتے ہیں۔ ایک کو شادی کے وقت سہرے میں لگایا جاتا ہے اور دوسرا قبر پر چڑھایا جاتا ہے۔ ایک صدف میں دو گوہر برآمد ہوتے ہیں۔ ایک کو شاہی تاج میں لگاتے ہیں اور دوسرے کو کھرل میں پیس کر سرمہ بناتے ہیں۔ چنگیز: دیکھ اگر اس وقت میرا غصہ نہ نکل جائے گا تو آفتاب نکلنے سے پیشتر قتل کیا جائے گا۔ ناصر: جہاں تجھ جیسا کور باطن ہے وہاںآفتاب کا نکلنا غیر ممکن ہے۔ چنگیز: کیوں، کس لیے؟ ناصر: اس لیے کہ تیرے گناہوں کی تاریکی نے تمام جہان میں اندھیرا کر رکھا ہے۔ آفتاب کی روشنی کو سیاہی نے چھپا رکھا ہے اور مغرور یہ کون سی بات ہے۔ عزت و دولت خدا کے ہات 1؎ ہے۔ چنگیز: بد زبانی نہیں یہ تو ہے حماقت تیری خیر معلوم ہوا آ گئی شامت تیری ارے کوئی ہے؟ لے جاؤ اس کو قید کرو آج کی رات خون پی لوں گا تیرا ناشتہ صبح کے سات2؎ 1؎ قافیے کی وجہ سے یہ املا 2؎ قافیہ کی وجہ سے یہ املا ناصر: خون؟ سپاہیـ: بس بات نہ کر۔ (ناصر کا پابہ زنجیر لے جانا) چنگیز: او دشمن جانی! اب کون بچائے گا زندگانی؟ (نوشابہ کا آنا) نوشابہ: وہ ذات رحمانی، وہ ذات رحمانی، اے عدم کے سونے والو، ذرا ہوش سنبھالو، قیامت آتی ہے، زمین تھراتی ہے۔ چنگیز: نوشابہ جانی کیا حال ہے؟ کدھر خیال ہے؟ نوشابہ: زمانے کی برائی کے انجام کا خیال ہے۔ چنگیز: انجام! اے دل آرام، کیا میری محبت کا انجام؟ نوشابہ: آہ، کیا محبت کا انجام ابھی باقی ہے، جس کی دل کو مشتاقی ہے۔ گئے وہ دن کہ راحت ملتی تھی دل کے لگانے سے مزا ملتا ہے اب بھائی کو بھائی کے ستانے سے تم جو اس قدر اس کو ستاتے ہو، آخر کیا چاہتے ہو؟ چنگیز: موت موت، ناصر کی موت، جب تک اس کے جسم میں روح کے ذرے دوڑتے رہیں گے تب تک موت، جب تک آگ میری تلوار کی اس کے خون سے نہ بجھے گی تب تک موت، بس موت۔ میں نے کیا گناہ تو پھر تم کو کیا غرض رنگیں ہے قتل گاہ تو پھر تم کو کیا غرض دنیا ہوئی تباہ تو پھر تم کو کیا غرض روتے ہیں مہر و ماہ تو پھر تم کو کیا غرض کرتے ہیں لوگ آہ تو پھر تم کو کیا غرض نوشابہ: غرض؟ انسان کا فرض۔ وہ انسان نہیں جس کے دل میں رحم اور ایمان نہیں۔ چنگیز: نوشابہ تو دیکھنے میں روئی مگر چبھنے میں سوئی ہے۔ نوشابہ: مگر تم بھی دیکھنے میں امرت کی نہر ہو اور پینے میں زہر ہو۔ چنگیز: کیا میرے سینے میں دل نہیں؟ نوشابہ: آپ کے سینے میں دل نہیں۔ چنگیز: ہیں، میرے سینے میں دل نہیں۔ نوشابہ: اگر ہے تو سوراخ دارہے، جن سوراخوں سے شیطان آتا جاتا ہے اور آپ کو بہکاتا ہے۔ چنگیز: نوشابہ، تو پری کی سی شکل پا کر چڑیلوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ نوشابہ: اور آپ بھی فرشتوں کی سی شکل پا کر شیطانوں کی سی باتیں کرتے ہیں۔ چنگیز: بس بس چلی جا، او نادان عورت، چلی جا، ورنہ میری تلوار میان سے باہر آئے گی تو ناصر کی زندگی کے ساتھ تیری زندگی کی جڑ بھی کاٹ کر پھینک دے گی۔ نوشابہ: یہ تلوار جو دیکھنے میں اتنی چمکتی ہے، زندگی کی جڑ کاٹ سکتی ہے، مگر ایمان کی جڑ نہیں کاٹ نہیں۔ چنگیز: تو کیا میری بیوی ہو کر تو میرے کام میں شریک نہیں؟ نوشابہ: بے شک مظلوم سانپ کی ٹھیک ہے ، مگر ظالم شوہر کی شراکت ٹھیک نہیں۔ چنگیز: خیر، شوہر کی نہیں تو دشمن کی شراکت کرنا، ناصر کے ساتھ ہی قبر میں اترنا۔ شوہر سے بڑھ کر دشمن جانی کا دھیان ہو چل دور ناسزائی یہاں سے دفان ہو (چنگیز کا غصے سے کانپتے ہوئے جانا) نوشابہ: خود غرض مطلبی! تو نے ایک عورت کی محبت تو دیکھ لی۔ اب یہ دیکھنا کہ عورت تجھ سے نفرت کس طرح کرتی ہے۔ سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین تیسرا مکان حسینہ جھنجھٹـ: (آ کر) اجی بیگم صاحبہ، آپ کے نام ایک پارسل کہیں سے آیا ہے۔ حسینہ: یا الٰہی، اپنا نہ پرایا، یہ پارسل کہاں سے آیا؟ جھنجھٹ: یہ تو مجھ کو خبر نہیں، باہر دو قلی لیے کھڑے ہیں۔ اگر حکم ہو تو اندر لے آؤں۔ حسینہ: دو قلی اور ایک پارسل! اچھا لے آؤ (پارسل لے آنا) جھنجھٹ دیکھ اس میں کیا بند ہے؟ جھنجھٹ: اجی اس میں ایک پہاڑی الو ہے الو۔ حسینہ: اچھا کھول تو سہی۔ جھنجھٹ: بہت اچھا کھولتا ہوں (کھول کر) دیکھئے بانو صاحبہ! پورا الو بلکہ الو کا پٹھا ہے۔ حسینہ: ارے جھنجھٹ، کہیں دم گھٹ کر تو نہیں مر گیا۔ ٹھہر میںخود دیکھتی ہوں۔ (ہاتھ منہ پر رکھ کر دیکھنا، حماقت بیگ کا ہاتھ کا بوسہ لینا، حسینہ کا چلا جانا) مرزا: چلی گئی، چلی گئی، ارے یار جھنجھٹ چلی گئی۔ جھنجھٹ: اجی چلی گئی تو میں ابھی بلا کر لاتا ہوں۔ کہیے مرزا صاحب، کیسے انگریزی طریقے سے آپ کو بلایا؟ مرزا: واقعی یار قاعدہ تو ولائتی تھا، مگر اس روز جوتیاں بہت کھانی پڑیں۔ جھنجھٹ: اجی اس کی کیا فکر ہے سو جوتے سے کم رتبہ عالی نہیں ہوتا عزت وہ خزانہ ہے کہ خالی نہیں (حسینہ اور سلیم کا چھپ کر باتیں کرتے آنا) 1؎ صحیح لفظ دفعان ہے۔ زبانوں پر دفان ہے اور یہاں قافیہ کی درجہ سے درست ہے۔ حسینہـ: دیکھو پیارے، تمہارے والد پھر آ گئے۔ اگر یوں نہ آ سکے تو پارسل بن کر آئے۔ سلیم: خیر پیاری تم جاؤ، ظاہرا محبت کا رنگ جماؤ۔ میں ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ تم کو ایک نیا سوانگ دکھاتا ہوں۔ حسینہ: (قریب آ کر) اوہو میرے چاہنے والے نرالے، آپ آ موجود ہوئے۔ مرزا: ہاں پیاری میں آ گیا۔ اب جلدی قاضی کو بلوانا چاہیے اور نکاح پڑھوانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر بیچ میں گڑ بڑ پڑ جائے۔ حسینہ: ہائے بلائے گا بلائے گا جلدی نکاح پڑھوائے گا۔ (دونوں کا مل کر گانا) جوان دولہا پہ ہوں میں نثار، موئے کھوسٹ پہ ہوں میں نثار مرزا: تیری میری جوڑی بنی مزے دار۔ حسینہ: اندھی کانی جوڑی بنی مزے دار۔ مرزا: دولہا بنوں گا، گھوڑے چڑھوں گا، اب نہ کرو تکرار۔ حسینہ: مجھے بالی بھی لا دو، بندے بھی لا دو، جوتا گٹھا دو، موچی کے ہاتھ۔ مرزا: ابھی لاؤں ابھی لاؤں ابھی لاؤں جانی، شادی کا کرو اقرار، تیری میری جوڑی۔۔۔ بس اب میں جاتا ہوں دلدار۔ (سلیم کا دیو کی شکل میں آنا) سلیم: بس خبردار! مرزا: جان گئی پروردگار۔ سلیم: تو یہاں کیا کرنے آیا تھا؟ مرزا: جوتیاں کھانے آیا اور کیا کرنے آیا تھا۔ سلیم: ارے تو تو حسینہ سے شادی کرنے آیا تھا۔ مرزا: ارے یار کیوں جھوٹ بولتا ہے۔ حسینہ تو میرے چچا کی بیٹی ہے۔ میں اس سے ملنے آیا تھا۔ سلیم: پانچ مرتبہ اٹھ بیٹھ کر، ورنہ میں تجھ کو کھا جاؤں گا۔ مرزا: اچھا بھائی، ایک، دو، تین سلیم: ابے یہ کیا؟ مرزا: ذرا دم لیتا تھا۔ سلیم: دم لیتا تھا۔۔۔۔ تو پھر نئے سرے سے شروع کر۔ مرزا: ارے یہ تو حسینہ کا بھائی ہے، مگر یار تو ہے کون؟ سلیم: میں کالی کلکتہ والی کابیر، یعنی بیر کلوا۔ مرزا: اچھا بھائی۔۔۔۔ ایک، دو، تین سلیم: ابے کہاں چلا تھا؟ مرزا: ذرا ہوا کھاتا تھا۔ سلیم: ہوا کھاتا تھا کہ ہوا ہو جاتا تھا۔ اچھا یہ لے کاغذ اور پنسل اور لکھ کہ حسینہ میری ماں ہے۔ مرزا: یہ تو میں نہیں لکھوں گا۔ سلیم: نہیں لکھے گا تو میں تجھے کھا جاؤں گا۔ مرزا: اچھا باوا، حسینہ تیری ماں ہے۔ سلیم: ابے میری نہیں، تیری۔ مرزا: ابے تیری میری ایک ہی بات ہے۔ سلیم: نہیں جو میں کہتا ہوں وہ کر۔ مرزا: لیجئے باوا، حسینہ میری ماں ہے۔ سلیم: لکھ حسینہ میری بیٹی ہے۔ مرزا: ارے یار، میری جگہ تیری لکھ دوں تو کیا ہرج ہے؟ سلیم: ابے یہ مکا۔ مرزا: لکھتا ہوں۔۔۔۔ حسینہ میری بیٹی ہے۔ سلیم: اچھا پھر تو یہاں نہیں آئے گا؟ مرزا: ارے نہیں باوا، اگر یہاں سے جاؤں گا تو تیرے نام کا ایک بکرا بھینٹ چڑھاؤں گا۔ (مرزا کا جانا) سلیم: ہت تیرا باپ مرے۔ حسینہ: آج تو بہت ہی ذلت اٹھائی ہے۔ سلیم: اجی مرتے مر جائیں گے، مگر اب ادھر نہ آئیں گے۔ جھنجھٹ: (اب ذرا سلیم کو بھی ہتھیلی پر چاند دکھاؤں) اجی آئیںاوربیچ کھیت آئیں۔ سلیم: نہیں، کبھی نہیں۔ جھنجھٹ: نہیں تو ایک خط حسینہ سے ان کے نام کا لے کر ان کے پاس جائیں اور پھر دیکھئے وہ لیتے ہیں یا انکار کرتے ہیں۔ حسینہ: ہاں ہاں پیارے آپ کو ضرور خط لے کر جانا چاہیے اور ان کی بے وقوفی کو آزمانا چاہیے۔ سلیم: ارے ہیں، یہ تم کیا کہتی ہو؟ بیٹے سے باپ کی دلالی کراتی ہو؟ حسینہ: میرے پیارے اس میں دلالی کی کون سی بات ہے۔ یہ تو ان کو آزمانا ہے۔ ان کی بے وقوفی چھڑوانا ہے۔ سلیم: اچھا تم لوگوں کے کہنے سے جاؤں گا اور ان کی بے وقوفی آزماؤں گا۔ حسینہ: ہاں پیارے، ابھی جانا۔ سلیم: ابھی تو ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ بے قصور ناصر الدولہ کا پتہ لگانا ہے۔ جھنجھٹـ: اجی میاں، جب آپ بھی اور سب لوگ بھی ان کو بے قصور ٹھہراتے ہیں، پھر ان کی رہائی کے واسطے کوشش کیوں نہیں فرماتے ہیں۔ اگر آپ سے نہ ہو سکے تو مجھ کو ہمراہ لیجئے، پھر دیکھ لیجئے میں کیسی حکمت عملی سے کام لیتا ہوں۔ سلیم: ارے بے وقوف یہ تیرے جیسے بے وقوف آدمی کا کام نہیں ہے۔ جھنجھٹ: اجی آپ چلئے تو سہی! سلیم: اچھا آؤ۔ (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین چوتھا (مہ جبیں کا بحالت پریشانی آنا) گانا مہ جبیں: چھوٹ جائیں غم کے ہاتھوں سے جو نکلے دم کہیں خاک ایسی زندگی پر تم کہیں اور ہم کہیں ٭٭٭ شکل راحت نہیں زمانے میں جان جاتی ہے دل لگانے میں کیا ترا کام بن گیا اے یاس میری امید کے مٹانے میں ٭٭٭ معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت (نثر) رخصت میری دنیا کی نعمت رخصت، بس ہمیشہ کے لیے رخصت جب تلک انجام بزم عشق کا کاشانہ تھا شمع تھی امید دنیا اور دل پروانہ تھا نشہ غفلت کا جب اترا پھر تو ظاہر ہو گیا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا قمر: امی جان کیا کرتی ہیں، چلئے نہ مکان پر۔ مہ جبیں: بیٹا تیرا کدھر دھیان ہے، اب یہی ہمارا مکان ہے۔ قمر: اماں جان یہ تو ویران ہے، ہمارا تو بستی میں مکان ہے۔ مہ جبیں: بیٹا تو نادان ہے، بستی میں نہیں بیابان میں مکان ہے۔ گانا دو دن کی ہے راحت منزل، دو دن کا کاشانہ ہے دو دن کی ہے راحت محفل، دو دن کا خس خانہ ہے سدا جہاں نہیں رہنا ہے، پھر جنگل یا ویرانہ ہے رہے مسافر کمر کو باندھے آج آنا کل جانا ہے جس کو کہتے ہیں دنیا وہ ایک مسافر خانہ ہے دو دن کی ہے۔۔۔۔ (قمر کا سو جانا اور رستم کا آنا) رستم: صبر صبر، اے وفاداری کے روشن ستارے، صبر، اگر ہمیشہ کے لیے نہیں تو تھوڑے عرصہ کے لیے صبر۔ مہ جبیں: کیوں صبر کی کیا ضرورت؟ رستم: مرحوم شاہ کی آخری وصیت۔ مہ جبیں: وصیت؟ کیا میرے پیارے کی آخری وصیت۔ بول بول دل بے آرام ہے کیا وصیت ہے اور کیا کام ہے؟ (رستم کا خط دینا اور مہ جبیں کا پڑھنا) گانا: ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے یہی دنیا کا کارخانہ ہے جو کہ تھے بادشاہ ہفت اقلیم ہوئے جا کے وہ زیر خاک مقیم نہ ہے شیریں نہ کوہکن کا پتہ نہ کسی جا ہے نل دمن کا پتہ بوئے الفت تمام پھیلی ہے باقی اب قیس ہے نہ لیلیٰ ہے نثر: مبادا ہوا کا جھونکا برف کی طرح جم جائے۔ نظام شمسی کے ستاروں کی رفتار تھم جائے۔ زمین پورب سے پچھم کی طرف چلنے لگے۔ آفتاب دن کے بدلے رات کو نکلنے لگے، مگر جو مر گیا ہے اس کا زندہ ہونا غیر ممکن ہے۔ لہٰذا اب تم غم کو دور کرو اور رستم جنگ کو اپنے بچے کا پدر اور اپنا شوہر منظور کرو۔ شوہر، شوہر، یہ میںکیا پڑھ گئی! رستم: مرحوم شاہ کی آخری وصیت۔ مہ جبیں: وصیت! او بے حمیت! کیا تو اس جعلی وصیت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے؟ رستم: رستم اپنے آقا کو دیا ہوا آخری قول نبھانا چاہتا ہے۔ مہ جبیں: رستم رستم! کیا یہی رستم بول رہا ہے۔ رستم: ہاں ہاں، یہی رستم مہ جبیں: او خدایا! یہ کیسا اندھیرا میری آنکھوں میں چھایا۔ او بے کس شہید اب تیری موت کا باعث میری سمجھ میں آیا۔ تو نے، او دغا باز تو نے، جس چنگیز کے نام سے تمام دنیا کانپتی تھی، اس سے میرے شوہر کو اکیلا لڑایا۔ وہ شیر تھا، وہ دلیر تھا، وہ لڑا بھڑا، مگر تو نے او دغا باز اسے نہ بچایا۔ اس جعلی وصیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے نمک حرامی کا داغ اپنے دامن پر لگایا۔ رستم: اوہ کیسی لعنت بھری بدگمانی، کیسی سخت نا انصافی آبرو زیر فلک خون بہانے میں نہیں با وفائی کی کوئی قدر زمانے میں نہیں مہ جبیں: با وفا! جھوٹا مکار! اگر تجھ جیسے مکار کو دنیا وفادار کہے گی تو ان جاں نثاروں کو کیا کہے گی۔ جن کی جاں جنت گئی اور دھیان پیکاروں میں ہیں ہاتھ قبضوں پر پڑے ہیں، قبضے تلواروں میں ہیں مر گئے پر ہمتیں ویسی ہی بے چاروں میں ہیں تم وفاداروں میں ہو یا وہ وفاداروں میں ہیں اور دوزخ کیا تجھ میں اتنی آگ نہیں جو اس کی زبان کو جلا دے۔ اے پہاڑ کیا تجھ میں اتنے پتھر نہیں کہ اس بدکار پر برسا دے۔ رستم: جلا دو، جلا دو، بے شک جلا دو۔ اگر میرے دل نے میری زبان کو یہ بات سکھلائی ہے تو اس کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلا دو۔ اے عورت اگر یہ رستم ہی تیرا گنہگار ہے تو لے یہ حاضر تلوار ہے۔ بھونک دے اس کو میرے سینے میں ہے مزا خاک ایسے جینے میں مہ جبیں: نہیں نہیں تو جی، اپنی بدکاری کا انجام دیکھنے کے لیے، تو تو آخری وصیت سنا چکا، اب میری بھی آخری وصیت سن لے۔ اس سے پہلے کہ میں تجھ کو شوہر کے نام سے پکاروں یا میرا لاوارث بچہ تجھے باپ کے نام سے بلائے، وہ میری چھاتی سے قاتل زہر پی کے سو جائے گا اور میرا بھی اس کے بعد خاتمہ ہو جائے گا۔ رستم: او نادان عورت! او بدگمان عورت (اندر سے نوشابہ بیگم کا آنا) کیوں کیوں کیا ہے؟ سپاہی: حضور میں نے ابھی ایک چنگیزی سپاہی سے خبر پائی ہے کہ شاہ ناصر نے جان نہیں گنوائی ہے۔ رستم: (خوش ہو کر) تو کیا شاہ مارا نہیں گیا؟ سپاہی: نہیں حضور ابھی تک ہم غریبوں کا سہارا نہیں گیا۔ رستم: او خدا تیرا شکر کس زبان سے ادا کروں۔ اب چاہے آن جائے، شان جائے، جان جائے، ضرور شاہ ناصر الدولہ کو چھڑاؤں گا اور اپنی پیشانی سے بدنامی اور کلنک کا ٹیکا مٹاؤں گا۔ (رستم کا جانا، بعد میں دو سپاہیوں کا آنا) پہلا: بھائی ہم تو چلتے چلتے تھک گئے۔ اب کہیں بیٹھنے کا ٹھکانا ہو تو ذرا دم لے لیں۔ دوسرا: ہاں جتنے پہاڑی راستے ہیں ان سب میںخرابیاں ہیں۔ اب انشاء اللہ کل اپنے کیمپ میں پہنچ جائیں گے۔ پہلا :(قمر کو دیکھ کر) ہیں یہ کون؟ دوسرا: ارے یہ تو اپنے جانی دشمن کا کلیجہ ہے۔ خدا نے شاہ کے لیے تحفہ بھیجا ہے۔ چلو اگر بہت سا انعام لینا ہے تو اس کو اٹھا کر لے چلو۔ شاہ کی نذر گذاریں گے اور باپ کے ساتھ بیٹے کو بھی ماریں گے۔ (قمر کو اٹھا کر لے جانا) قمر: امی جان! سپاہی: چپ شیطان! (دوبارہ مہ جبیں کا آنا) گانا مہ جبیں: نینن کو بھائے پتیم، دل میں سمائے پیتم تم بن مورے سنوریا، ہمری چلی عمریا، جلدی لوکبھریا، برہا ستائے پیتم چھٹ گئیں سکھیاں سگری، بھٹکت ہوں ڈگری ڈگری، ڈھونڈوں کون نگریا کون پردیس جائے پرتیم (قمر کو آواز دینا) قمر! قمر! کیا میں تجھ سے بھی بچھڑ گئی۔ مانگ کے ساتھ کوکھ بھی اجڑ گئی۔ افسوس ایک دل اور دو داغ، ایک گھر دو چراغ (بے ہوش ہو جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین پانچواں راستہ (رستم کا لباس تبدیل کر کے آنا) رستم: اے خدائے دو جہاں! اے مالک کون و مکاں! پیدا کنندہ زمین و آسماں! اگر رستم کو کچھ امید ہے تو فقط تیری ہی ذات سے ہے امید وہ ہے جو شیروں کا کام لیتی ہے امید وہ ہے جو گرتوں کو تھام لیتی ہے او نادان عورت، تو نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا، خطا وار ٹھہرایا۔۔۔۔ مگر یہ سامنے سے کون آتے ہیں۔ کوئی نیک دل انسان، یا چنگیزی فوج کے شیطان، ذرا چھپ کر دیکھوں۔ سلیم: ارے چل، بڑھ بڑھ کے باتیں نہ کر۔ اتنی سی جان اور گز بھر لمبی زبان! یہ کام تم جیسے آدمی کا نہیں ہے۔ جھنجھٹ: اجی میاں جتنا چھوٹا ہوں اتنا ہی کھوٹا ہوں۔ اگر یقین نہیں آتا تو آزما لو۔ سلیم: ارے نادان، میری رائے بے کار ہے۔ اس کام کے لیے کوئی صاحب شجاعت شخص درکار ہے۔ اگر ایسا آدمی مل جائے تو اپنا کام انجام پائے اور بے گناہ ناصر الدولہ چھوٹ جائے۔ رستم: ارے، یہ تو میرے آقا کا ذکر کرتے ہیں اور اسی کا نام لیتے ہیں۔ جھنجھٹ: مگر ایسا آدمی ملنا دشوار ہے۔ رستم : (سامنے آ کر) تیار ہے، تیار ہے، جیسا، آدمی تم چاہتے ہو ویسا ہی تمہاری مدد کو تیار ہے۔ سلیم: ہیں تم کون؟ رستم: گو میں ایک شخص پرایا ہوں، مگر جس کا ذکر کرتے ہوں اس کا وفادار، ادنی رعایا ہوں اس قدر ظلم سے چنگیز کے بے زار ہوں میں ساتھ کیا جان تلک دینے کو تیار ہوں میں بات میری جو نہ باور ہو نوشتہ لے لو شاہد انساں کے عوض چاہو فرشتہ لے لو جھنجھٹ: بے شک میاں، یہ آدمی اجنبی تو معلوم ہوتا ہے مگر اس کی زبان سے سچائی کی بو آتی ہے۔ ضرور اس کو شریک بنانا چاہیے اور بے گناہ ناصر الدولہ کو ظالم کے پنجے سے چھڑانا چاہیے۔ سلیم: غیر شخص کو ساتھ لیتے ہوئے طبیعت ڈرتی ہے، مگر آپ کے چہرے سے سچائی ٹپکتی ہے۔ چلو ہم تم ایک جگہ بیٹھ کر صلاح کریں۔ پھر اس کام میں ہاتھ ڈالیں۔ (تینوں کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین چھٹا جیل خانہ دلیر خاں: کیوں بھائی شیر خاں! شیر خان: ہاں بھائی دلیر خاں! دلیر: رات کتنی گئی ہو گی؟ شیر: یہی کوئی بارہ بجے ہوں گے۔ (حماقت بیگ کا آنا) مرزا: خبردار، ہوشیار، جاگتے رہو، سونے سے بھاگتے رہو۔ دلیر: اوہو، مرزا صاحب آپ ہیں؟ مرزا: اور کون تمہارے باپ ہیں۔ ارے بھائی نوکری کرنے آئے ہو یا حکومت کرنے۔ اگر ایسا ہی سونا ہے تو بڑا قبرستان دریافت کرتا ہوا چلا جا۔ دلیر: اجی مرزا صاحب، اس وقت کون دیکھتا ہے، رات دن تو پہرہ دیتے دیتے تھک گئے۔ مرزا: اور میں تمام فوج کا گشت کر کے آ رہا ہوں۔ چکر لگاتے لگاتے حیران ہو گیا ہوں، مگر تم نے پانچوں سواروں میں نام تو لکھوا لیا۔ پر کچھ قواعد وغیرہ بھی آتی ہے؟ دلیر:ـ قواعد کس چڑیا کا نام ہے؟ مرزا: کیا قواعد نہیں آتی؟ دونوں: نہیں۔ مرزا: اچھا تو سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ میں تمہیں سکھاتا ہوں۔ دونوں: اچھا سکھاؤ۔ مرزا: اچھا تو سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ ہیں یہ کیا کیا؟ دونوں: اجی ہم تو ویسے ہی کھڑے ہیں۔ مرزا: ابے پھر؟ شیر: اور دیکھئے میرے ہاتھ کو دو گھنٹے سے لقوہ ہو گیا ہے۔ مرزا: ابے کنگال جیب سے ہاتھ نکال۔ دلیر: (ہاتھ نکال کر) اب سر ڈال دوں؟ مرزا:لمبے اونٹ، تیری جیب ہے یا ولائتی بوٹ؟ اگر نہیں سیکھتے تو میں جاتا ہوں۔ دونوں: سیکھتے کیوں نہیں، مرزا صاحب، سیکھتے ہیں۔ مرزا: اچھا تو سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ دم دھوس اف اف۔ دلیر: ٹھہریئے مرزا صاحب ٹھہریئے۔ مرزا: کیوں؟ دلیر: آپ کے پاؤں میں گھنگھرو باندھ دوں؟ مرزا: اس سے کیا ہو گا؟ دلیر: مزا ہو گا، اجی آپ انگریزی ناچ ناچتے ہیں نا؟ مرزا: ابے تو کیا تو نے مجھے بھانڈ کا لڑکا مقرر کیا ہے۔ لو میں جاتا ہوں۔ دلیر: اجی ٹھہرو، ٹھہرو، مرزا صاحب۔ دو گھڑی یاروں میں دل بہلاؤ اور مزے اڑاؤ، پھر جہاں جی چاہے جاؤ۔ مرزا: ارے پاس کچھ کھانے پینے کو بھی ہے؟ دلیر: اجی کھانے کو نہیں، پینے کو ہے۔ مرزا: کیا؟ دلیر: وسکی۔ مرزا: کس کی؟ ارے یار اس کی جس کی ہولے آؤ۔ (شراب لانا اور پینا) دلیر: ہاں مرزا صاحب، وہ آپ کیا گانا گایا کرتے تھے۔ لپیٹ میں جھپیٹ میں۔ مرزا: میری جانی شراب، ارغوانی شراب، آ جا، تجھے ڈالوں میں پیٹ میں، جی میرا آیا تیری لپیٹ میں، کوفتے، پسندے منگا کر پلیٹ میں، تجھ کو پیوں گا سلیٹ میں یارو خطا معاف کرو، میں نشہ میں ہوں شیشے میں مے ہے، صاف کرو، میں نشہ میں ہوں یوں کہتے ہیں مرزا حماقت بیگ، سنو بھائی تم بیچ کے گھر پی جاؤ، پاس نہ ہو گر پائی چوکو نہ یارو انسلیٹ1؎ میں۔۔۔۔ میری جانی شراب، ارغوانی شراب۔۔۔۔ (اندر سے جھنجھٹ کا گانا) مزا دیتے ہیں کیا یار۔۔۔ (گانے کی آواز) مرزا: ہیں یہ کیسی آواز ہے؟ دلیر: مرزا صاحب، معلوم نہیں یہ کس کی آواز ہے؟ مرزا: میں دیکھوں؟ (دیکھ کر) ارے یارو، یہ تو کوئی لنڈی منڈی رنڈی ہے۔ گانا جھنجھٹ: مزا دیتے ہیں کیا یار، تیرے بال گھونگریالے نکلی میرے دل سے آہ، جاتا تھا وہ رشک ماہ، دیکھا، دشمن کے ہمراہ دونوں ہاتھ گلے میں ڈالے پہلے تھی مجھ سے تکرار، اب کیوں کرتا ہے پیار، اب تو تیری طرف سے یار میرے دل میں پڑ گئے، چھالے تیری بھویں ہیں یا شمشیر، تیری چتون ہے یا تیر، تیری آنکھیں بت بے پیر جیسے زہر بھرے دو پیالے کوئی دم کا ہوں مہمان، ایک نظر ادھر بھی جان، تیری آنکھوں کے قربان او منہ پھیر کے جانے والے مرزاـ: بھلا، بیگم صاحبہ آ پ کا نام؟ جھنجھٹ: بندی کا نام ہے دل آرام! مرزا: آپ کا مکان؟ جھنجھٹ: آنکھ کی کوٹھڑی اور دل کا دالان۔ مرزا: بھلا آپ کے پاس وہ تو ہو گا؟ جھنجھٹ: کیا؟ بے واؤ پیش بو، سین الف زبرسا۔ مرزا: کیا؟ بھوسا تو کسی بقال کے پاس ہو گا، یہاں تو ملتا ہے لات اور گھونسا۔ 1؎ Insult کا بگڑا ہوا مزاحیہ تلفظ شیر: اچھا بی صاحب، کوئی عمدہ گانا سناؤ۔ جھنجھٹ: اجی گانے کاتب مزا ہے کہ دور بھی چلتا رہے، بندی کا دل بھی بہلتا رہے۔ گر پاس ہو شراب تو پیمانہ بھی چلے گانے کا جب مزا ہے کہ میخانہ بھی چلے دلیر: اجی شراب تو ہمارے پاس نہیں ہے۔ جھنجھٹ: آپ کے پاس نہیں ہے تو میں خود لاتی ہوں۔ دلیر: مرزا صاحب، لاتی ہے، لاتی ہے، لاتی ہے۔ جھنجھٹ: (خود سے) اب شراب میں دھتورا ملا کر ان سب کو الو بناتا ہوں اور شاہ ناصر الدولہ کو چھڑاتا ہوں۔ گانا جھنجھٹ: بنوا دو جان موہے سلمہ ستارے کی انگیا، موہے درزی نے انگیا بگاڑی، میں تو پہنوں بنارس کی ساری، اس پہ گوٹے کناری کی انگیا! اجی بنوا دو اپنے سیاں کی میں ہوں بھولی، میں تو پہنوں گی ریشم کی چولی۔ جس میں اعلیٰ مسالا ہو۔ ہاں اس پہ کھلتی ہزارے کی انگیا۔۔۔۔ اجی بنوا دو۔۔۔۔ مرزا: کیوں بی صاحب پھر تو وہی گانا سنانا، ترے ہجر میں یار مر گئے۔ سسرے سالے اور پھر گانا۔ مجھے منگوا دو جان پلاؤ متنجن کی ہنڈیا۔ جھنجھٹ: اجی جناب، کیایہ مسافر خانہ ہے۔ مرزا: اجی ہاں مسافر خانہ، اس میں تیس تیس برس رہتے ہیں۔ جھنجھٹ: اجی کیوں میاں، ہم کو بھی اس جیل خانہ کی سیر کرایئے گا۔ میں بھی کیا یاد کروں گی، جیل خانہ کے سرداروں سے دوستی ہوئی تھی۔ مرزا: پیاری کو جیل خانہ کی سیرکراؤ۔ (سب نشہ میں) دلیر: سب سے پہلے میں سیر کراتا ہوں۔ شیر: نہیں، پہلے میں سیر کرتا ہوں۔ جھنجھٹ: اجی لڑتے کیوں ہو، باری باری سے سب سیر کرانا، کیا مجھے بھاگ کر کہیں جانا ہے، مگر یہ کیا ہے؟ مرزا: اجی یہ بھی ایک قسم کا قید خانہ ہے۔ اس میں قیدی کو جکڑتے ہیں۔ جھنجھٹ: کس طرح جکڑتے ہیں؟ مرزا: پہلا پاؤں اس میں ڈالا۔ دلیر: دوسرا پاؤں اس میں ڈالا۔ جھنجھٹ: اجی پاؤں! یہ تو آپ نے ہاتھ ڈالا۔ دلیر: ہاتھ ڈالا ہے تو لو پاؤں لو۔ شیر: میرا پیر اس میں ڈالو۔ جھنجھٹ: مگر اس سے فائدہ کیا ہوا؟ جب چور کے جی میں آئے گا تختہ اٹھا کر فوراً باہر نکل جائے گا۔ مرزا: بڑا نکلنے والا، کوتوال کا سالا، ابھی تو ایک اور ہے باقی مسالا۔ جھنجھٹ: وہ کیا ہے جناب والا؟ مرزا: کنجی اور تالا، تالے میں کنجی کو ڈالو۔ جھنجھٹ: ڈالا۔ مرزا: تالہ لگا کر کنجی نکالو! جھنجھٹ: نکالا، یہ لو اب پڑ گیا تالا۔ مرزا: تو پھر قیدی بھی پکڑا گیا میری خالہ! جھنجھٹ: واہ رے دانائی (سیٹی بجانا، رستم کا آنا، ناصر کو باہر نکالنا) رستم: آپ سیاہ چوغہ پہن کر نکل جایئے اور میں چنگیز کو اس قید کا مزا چکھا کر ابھی آتا ہوں۔ ناصر: مگر بھائی، میری رہائی کی تدبیر کس طرح ہاتھ آئی؟ رستم: عالی جاہ! اس وقت بات کرنے کا موقع نہیں ہے۔ آپ یہاں سے نکل جایئے۔ پھر کسی وقت عرض کروں گا۔ (ناصر الدولہ اور رستم کاجانا۔ سلیم کا آنا) سلیم: کون؟ ابا جان! ہائے قسمت! (کاٹھ سے چھڑا کر حماقت بیگ کو لے جانا) مرزا: پیاری کہاں لیے جاتی ہو، دل آرام؟ جھنجھٹ: دیکھا مے خواری کا انجام سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین ساتواں محل مرزا: اس کم بخت نے مجھے شراب پلا کر بالکل بے ہوش کر دیا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ مجھے جلدی ہوش آ گیا اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ خدا جانے ان بے چارے سپاہیوں پر کیا غضب شیطانی ٹوٹا (نوکر کا آنا) کیوں کیا ہے؟ نوکر: حضور ایک اجنبی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ مرزا: ہیں، کہیں اس دن کی طرح کلوا بیر تو نہیں آیا۔ اچھا آجایئے۔ (سلیم کا آنا) کیوں بھائی تو کون ہے اور کیوں آیا ہے؟ سلیم: حضور، بندہ ایک امیر زادہ ہے، مگر آج کل دلالی کے پیشے پر آمادہ ہے۔ مرزا: ہیں؟ دلال؟ گھوڑے کا یا مکان کا؟ سلیم: عورت کا۔ مرزا: اجی آپ تو دل لگی کرتے ہیں، یہ کوئی پیشہ نہیں۔ سلیم: بے شک بے شک، یہ کوئی پیشہ نہیں صرف غریب ہونے کی وجہ سے یہ پیشہ اختیار کیا ہے۔ مرزا: کیوں؟ سلیم: سنئے، اس لیے کیا ہے کہ میں نے اپنی ساری دولت عیاشی اور عیش و عشرت میں اڑا دی اور میرا باپ بھی میری معشوقہ پر عاشق ہو گیا۔ مرزا: تمہارا باپ، تمہاری معشوقہ یعنی بہو پر عاشق ہو گیا۔ سلیم: جی ہاں! مرزا: اور تم نے اس کو منع نہ کیا؟ سلیم: اجی کئی دفعہ کیا۔ ایک دن وہ میری معشوقہ کے گھر اس سے ملنے کو آیا۔ تو میں اپنی معشوقہ کا باپ بن کر وہاں آیا اور اس کو بہت ذلیل کیا۔ مرزا: (خود سے) ارے یہ تو میرا اور حسینہ کا واقعہ ہے۔ کہیں چھپ کر دیکھ تو نہیں لیا۔ یار تمہارا باپ بڑا ہی بے وقوف تھا، جو اپنی بہو پر عاشق تھا، اچھا پھر تو وہ کبھی نہ آیا ہو گا؟ سلیم: اجی پھر آئے۔۔۔۔ مگر اب کے نئی ترکیب سے آئے۔ یعنی پارسل میں بند ہو کر آئے۔ مرزا: اچھا تو پھر تم نے کیا ترکیب نکالی؟ سلیم: جی میں نے بھوت بن کر ان کی گردن دبالی۔ مرزا: ارے کیا خوب ! (خود سے) یہ تو بالکل میرا اور حسینہ کا قصہ ہے، مگر حسینہ کا نام نہیں۔۔۔ یار تمہارا باپ بالکل اندھا ہے جو اپنے بیٹے کو نہیں پہچانتا۔ اچھا آگے کیا ہوا؟ سلیم: پھر میں نے ان کو ایک کاغذ اور پنسل دے کر کہا کہ لکھ، میری معشوقہ میری ماں ہے۔ مرزا: ارے کیا خوب! یہ تو اس نے کبھی نہ لکھا ہو گا۔ سلیم: جی، سب لکھ دیا۔ مرزا: تمہارا باپ بھی بڑا الو کا پٹھا تھا۔ اگر اس وقت میرے سامنے ہوتا تو پچاس جوتے لگاتا۔ سلیم: اجی نہیں نہیں، ابا! مرزا: ابے تو آدمی ہے یا گھاس کا ڈبہ۔ سلیم: اجی آپ کچھ خیال نہ کریں، کیونکہ میرے باپ کی آپ سے شکل ملتی جلتی ہے، اس لیے زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔ مرزا: ملتی جلتی ہے۔ غریب کا تو کوئی باپ نہیں بنتا اور امیر کے سو بیٹے بننے کو تیار ہیں۔ سلیم: پھر تو جناب انہوں نے ناک سے لکیریں کھینچیں کہ پھر میں یہاں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے زندہ یہاں سے جانے دے، میں تیرے نام پر بکرا چڑھاؤں گا۔ مرزا: اچھا تو یہاں کس لیے آیا ہے؟ کیا اپنے باپ کی طرح مجھے بھی بے وقوف بنانا چاہتا ہے؟ سلیم: جناب عالی! میں آپ کے پاس حسینہ کا خط لے کر آیا ہوں۔ مرزا: کیا، حسینہ کا؟ حسینہ کا خط؟ سلیم: جی ہاں، حسینہ کا خط۔ مرزا: یار واہ! پھر تو تو نے مجھ پر بڑا احسان کیا، جو حسینہ کو مجھ پر مہربان کیا۔ (خط پڑھنا) اے میرے چاہنے والے! متوالے! نرالے! مجھ کو اس وقت سو ڈگری بخار ہے تم جلدی آؤ اور مجھ سے نکاح پڑھاؤ۔ مگر تم اپنی اصلی حالت میں نہ آنا، کیونکہ اس دن کی طرح اگر کلوا بیر آ گیا تو پھر خرابی ہو گی۔ اس لیے تم بھنگی کے لباس میں آنا۔ مرزا: نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ سلیم: اجی ، محبت کی خاطر لوگ سب کچھ کرتے ہیں۔ مرزا: اچھا یار، یہ بازی بھی کھیلیں گے۔ اب تو جا، میں جاتا ہوں او رجھاڑو والے سے اس کا لباس لاتا ہوں اور بھنگی بن کر آتا ہے۔ سلیم: بہت اچھا۔ مرزا: ارے، بہت اچھا، کہیں میری کرسی اٹھا کر نہ لے جانا۔ (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین آٹھواں پچھلا محل نحوستـ ـ: ارے ہائے ہائے حسینہ! تیرا ستیاناس ہو جائے۔ اری او شیطان کی خالہ تو نے میرے بھولے بھالے شوہر کو کس علت میں ڈالا۔ جھنجھٹ! کیا سچ مچ بوڑھا ہر روز ایسے سوانگ لاتا ہے؟ جھنجھٹ: اجی تو کیا بندہ آپ کو جھوٹ سناتا ہے۔ نحوست: ارے خدا کرے وہ مرے، اس کا چاہنے والا سڑے۔ جھنجھٹ: لو اور سنو، اپنے بیٹے کو آپ کوستی ہے۔ نحوست: جھنجھٹ! کیا حسینہ سچ مچ دیوانی ہو گئی ہے۔ جھنجھٹ: اجی بالکل شیطان کی نانی ہو گئی ہے۔ کل ہی بریلی کے پاگل خانے سے آئی ہے۔ نحوست: خیر میں جاتی ہوں۔ اسے اچھی طرح ٹھیک بناتی ہوں۔ حرامزادی کا دیوانہ پن بھلاتی ہوں۔ جھنجھٹ: مگر بیگم، وہاں تم خالی ہاتھ نہ جانا۔ نحوست: کیا مجھ سے لڑے گی، میں چوٹی کاٹ لوں گی مردار کی۔ اچھا چل تو سہی دیکھا جائے گا۔ جھنجھٹ: ہاں ہاں چلو سب جمع خرچ حسینہ کے گھر وصول ہو جائے گا۔ (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین نواں خواب گاہ (چنگیز کا سوتے ہوئے نظر آنا اور بہکنا) چنگیز: موت! قتل! اے ناپاک پلیدو! مجھے جہنم میں نہ جھونکو۔ میرے سینے میں خنجر نہ بھونکو۔ (نوشابہ کا خنجر لے کر آنا) نوشابہ: اے دل نادان ٹھہر، اے ضبط ہمت صبر کر۔ اے آنکھ مت رو گر یونہی آنسو کا طوفاں اور دم بھر رہ گیا یاد رکھنا تم کہ یہ دل خون ہو کر بہہ گیا یہ شمع جل رہی ہے اسے بجھا کر میں پھر روشن کر سکتی ہوں۔ مگر اے بزم حیات کی جاں سوز شمع! اگر تجھ کو بجھاؤں گی تو تجھے کیسے روشن کروں گی۔ دیکھ لوں جی بھر کے تجھ کو آج اے روشن چراغ لیکن اس سے پہلے کر لوں روشن اپنے دل کے داغ مگر اس ظالم کا زندہ رہنا ٹھیک نہیں۔ اف خون، خون، خون۔ (نوشابہ کا حملہ کرنا چاہنا، رستم کا باہر نکل کر نوشابہ کا ہاتھ روکنا) کون؟ رستم: ایک انسان۔ نوشابہ: اگر تو انسان ہے تو دیکھ یہ تیرا دشمن شیطان ہے۔ رستم: آخر اس بے وفائی کا سبب؟ کج ادائی یا دنیا کی بھلائی! نوشابہ: زمانے کی بھلائی۔ رستم: اگر تم زمانے کی بھلائی کے لیے اپنے گھر کا چراغ بجھاتی ہو تو خدا تم کو اس کا اجر نیک دے گا، مگر اس خونی کام کے لیے یہ نازک ہاتھ نہیں بلکہ پتھر کے ہاتھ درکار ہیں۔ خنجر مجھے دیں۔ آپ تشریف لے جاویں۔ نوشابہ: تمہارا قول مرے دل نشین کیوں کر ہو تمہاری بات کا مجھ کو یقین کیوں کر ہو رستم: اے ملکہ ذی وقار، رستم جنگ کا اقرار۔ نوشابہ: ہیں کون؟ رستم جنگ، بھائی ناصر کا سپہ سالار، بس مجھے ہے اعتبار۔ پھرتے نہیں ہو تم کبھی اقرار سے اپنے میں جاتی ہوں غفلت نہ کرو کار سے اپنے (جانا) رستم: اخاہ! انسانوں میں فرشتہ، باغ میں گلاب کا پھول، مبارک ہیں وہ انسان جو اوروں کی بھلائی کے لیے اپنا گھر برباد کرتے ہیں اوروں کا چراغ روشن کرنے کے لیے اپنا چراغ گل کرتے ہیں۔ یا رب ذوالکرام، مظلوموں پر یہ ظلم اور ظالموں کو یہ آرام، بس اس کی زندگی ہے میرے حوالے۔ ایک وار میں جھگڑا پاک (قریب جا کر، چنگیز کے سینہ پر گھٹنا رکھ کر اس کو بیدار کرنا) اٹھ چنگیز اٹھ۔ چنگیز: تو کون؟ رستم: تیری موت کا سامان۔ چنگیز: پہرہ گیر! رستم: چپ شریر! پہرہ گیر کے آنے سے پہلے میرا ہاتھ چل جائے گا۔ یہ بالشت بھر کی چھری تجھے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دے گی، تو خاک کا ڈھیر ہو جائے گا۔ ایک دم میں، روح تیری تڑپتی ہو گی جہنم میں۔ چنگیز: اس بے ادبی کا سبب، آخر تو کون ہے بے ادب! رستم: او بدلگام! نہیں سنارستم جنگ کا نام؟ چنگیز: کون؟ رستم جنگ! ہائے افسوس۔ رستم: ہیں چنگیز تو تو کانپتا ہے۔ تو تو خدا کے خوف سے بھی نہیں کانپتا تھا۔ اب موت کے ڈر سے کیوں کانپتا ہے؟ چنگیز: کیا تو میری جان لے گا ؟ رستم: نہیں، یہ بات میرے دل میں آتی تو تیرے بند حشر تک نہ کھلنے پاتے۔ وہ بھیڑیے ہیں جو سوتوں پہ وار کرتے ہیں جو شیر ہیں وہ جگا کر شکار کرتے ہیں (رستم کا خنجر پھینک دینا، چنگیز کا اٹھ کر کہنا) چنگیز: حیرت! تعجب! دشمن اور رحم! رستم: تعجب کا کون سا مقام ہے۔ رحم کرنا بہادروں کا ادنیٰ سا کام ہے۔ آن یہی، بان یہی، شان یہی ہے دنیا میں جواں مرد کی پہچان یہی ہے چنگیز: اگر قتل کرنا نامنظور تھا تو پھر یہاں آنا کیا ضرور تھا؟ رستم: چنگیز، میں تجھے چھری اور کٹاری سے نہیں مارنے آیا ہوں بلکہ تیرے حلق میں نصیحت کا زہر اتارنے آیا ہوں۔ چنگیز: اگر نصیحت سے ملک و دولت حصول ہو تو ایک بار کیا ہزار بار قبول ہو۔ رستم: او نادان! زردار تو وہی ذی مقدور ہے، جس کے دل سے حرص و لالچ کوسوں دور ہے۔ دانائی عقل سے ہے سن وسال سے نہیں زردار دل سے ہوتا ہے کچھ مال سے نہیں چنگیز: رستم تو نے میری جان بچائی ہے، دشمنی میں دوستی دکھائی ہے۔ مانگ جو چیز مانگنی منظور ہے۔ رستم: مانگتا ہوں، اگر آپ دو چیزیں دیں تو مانگتا ہوں۔ چنگیز: دو چیزیں؟ رستمـ :ـ ہاں، دو چیزیں۔ چنگیز: کیا؟ رستم: عدل و انصاف اور ظلم سے انحراف! چنگیز: جس دل میں ان کمزور چیزوں کا خیال ہے، اس کا دلیر ہونا محال ہے! رستم: تو وہ دل نہیں بلکہ سوکھی ہوئی ڈالی ہے جو پھلنے پھولنے سے پہلے مرجھانے والی ہے۔ او اسیر حرص! دو دن جینا اور اس قدر کینہ، پانی سے بنا ہوا دل اور آگ سے بڑھ کر قاتل۔ چنگیز: بس ہو چکا، ہو چکا۔ نوشابہ :( آ کر) کیا ہو چکا؟ قتل و خون؟ چنگیز: کیسا قتل و خون، او مجنون؟ نوشابہ: کیا ابھی تک یہ زندہ ہے؟ او دغا باز فریبی سردار، تو نے صرف مجھ سے ہی دغا نہیں کی، بلکہ اپنے بھائیوں اور شاہ ناصر کے ساتھ دغا کی۔ چنگیز: تو کیا تو ہی میرے قتل کے واسطے یہاں لائی تھی؟ نوشابہ: بے شک، میں مکرتی نہیں ہوں۔ یہ خنجر میرا ہی دیا ہوا ہے مگر افسوس کہ اس نے دغا کی۔ یہ کام خود کرنے کا تھا جو میں نے اس نامرد کے سپرد کیا۔ چنگیز: افسوس اگر مجھ کو معلوم ہوتا کہ تو وہ بے وفا چڑیا ہے تو اس پنجرے کو جو تیری محبت کی رگوں سے بنا ہوا تھا، توڑ دیتا اور تیری محبت کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیتا۔ ایسا کیا جو موم سے آہن بھی نہ کرتا وہ وار کیا تو نے جو دشمن بھی نہ کرتا اچھے سے برا نیک سے بدظن بھی نہ کرتا نوشابہ: ظالم، میرے وار کا تونے اتنا ملال کیا اور اپنے وار کا ذرا بھی نہ خیال کیا، جس نے ایک زمانے کو حلال کیا۔ رستم: اب آپ اندر جاتی ہیں یا حجت بڑھاتی ہیں۔ نوشابہ: نہیں، اب گھر کے اندر نہیں قبر کے اندر جاؤں گی، جہاں اس جیسے مکار کو جگہ نہ ملے۔ چنگیز: اب اماں تیرے لیے او ستم انگیز نہیں گر ترا خون نہ پی لوں تو میں چنگیز نہیں رستم: ہیں ہیں، یہ کیا جنون ہے ؟ (سپاہی کا آنا) لے جاؤ اس کا سر کاٹ لو، ہڈیاں اور خون چاٹ لو۔ نوشابہ: بس آخری سلام، اے نامنصف سردار سلام، او خدا کے پکے گنہگار سلام۔ نہ ملے گی مرض غم کی دوا میرے بعد پائے گا ظلم و ستم کا تو مزا میرے بعد یاد آئے گی تجھے میری وفا میرے بعد میں جاتی ہوں مگر اتنا کہے جاتی ہوں کہ تو بھی اس ظلم و ستم کا نتیجہ جلدی پائے گا۔ چنگیز:ـ بس بس، میں اب کچھ نہیں سننا چاہتا۔ لے جاؤ اس ناسزائی کو میرے سامنے سے۔ اس کی بوٹیاں نوچ کر چیل کوؤں کو کھلا دو۔ اس منحوس صورت کو صفحہ ہستی سے مٹا دو۔ رستم: رحم کر چنگیز، رحم۔ چنگیز: نہیں، ہرگز نہیں۔ رستم: افسوس! (رستم کا جانا چاہنا، چنگیز کا روکنا) چنگیز: ٹھہر رستم ٹھہر، تو نے میری جان بخشی کی ہے، اس لیے میں تجھے بغیر ہتھیار نہیں دیکھنا چاہتا (تلوار دے کر) یہ ایک دشمن کی تلوار ہے، مگر سچے دوست کی یادگار ہے۔ رہیں گے ہم بہم بس استخوان و پوست کی صورت ملیں گے دشمنوں سے اور رہیں گے دوست کی صورت رستم: پہلے تو نوشابہ پر رحم کر، پھر میں بھی مان جاؤں گا بلکہ تیرا دوست بن جاؤں گا۔ چنگیز: دوستی کا انعام کس طرح دینا چاہیے۔ یہ میں خوب جانتا ہوں۔ رستم: اور لوگوں کی بھلائی کو کس طرح بھول جانا چاہیے۔ یہ بھی میں خوب جانتا ہوں۔ سپاہی: اے شہنشاہ۔ ذی حشم، لشکر دشمن کا رنگ ڈھنگ جا کر دیکھ آئے ہم اور آتے آتے ایک مژدہ ہاتھوں ہاتھ لائے ہم، یعنی کہ اپنے دشمن جانی کا کلیجہ ساتھ لائے ہم۔ رستم: ہیں، کون قمر؟ قمر: چچا جان! چنگیز: پھینک دو، شیطان کے بچے کو، دریا میں پھینک دو۔ رستم: چنگیز! معاف کر اسے۔ چنگیز: لڑائی کے وقت اس کا سر کاٹ کر نیزہ پر چڑھاؤں گا اور اس کی ماں کو فتح کی مبارکباد دینے جاؤں گا۔ رستم: چنگیز، جو رستم کسی کے آگے نہ جھکا تھا، اب اپنے مالک کے بچے کے لیے تیرے آگے سر جھکاتا ہے، رحم کر، رحم کر۔ چنگیز: کبھی نہیں، ہرگز نہیں۔ رستم: چنگیز، میں تجھ سے بھیک مانگتا ہوں۔ چنگیز: کیا؟ رستم: اس کی جان۔ چنگیز: بس بس، اب اگر تاخیر ہو گی تو تمہاری زندگی بھی اخیر ہو گی۔ رستم: توبدکار، سمجھ کہ یہ تلوار تیری دی ہوئی نہیں، بلکہ خدا کی بخشی ہوئی غیبی مدد ہے۔ لے ہوشیار ہو جا اور سنبھل۔ (قمر کو لے کر لڑتے ہوئے فرار ہونا۔ پل کے پار ہو جانا۔ پل پر بجلی کا گرنا، پل کا ٹوٹ جانا، سپاہیوں کا اس طرف اور رستم کا اس طرف کھڑا نظر آنا) ڈراپ سین ٭٭٭ باب تیسرا سین پہلا محل گانا من دھر و دھیر، موری سجنی، ہاں دھیر و دھیر، دن رین چیت ہوں بھجتی، ہاں روکے پھٹتی چھتیاں، کیسی ہائے صورتیاں، تو ہے چین نہیں دن رین، ہاں دھر ودھیر، تمہاری زاری، موری پیاری، سن سن کے اٹھت ہے پیر، دکھ سگرے پیارے، تورے نینوں کا لگاوے تیر، من دھیر ودھیر موری سجنی۔۔۔۔ نثر پہلی: ہمارے شاہ آئے۔ دوسری: سچ! ہائے! تیسری: تیرے سر کی قسم! دوسری: لیکن ادھر نہ آنے دینا ان کے قدم۔ پہلی: گل سے جلنا کیا برا ہے بلبل بے برگ کا دوسری: یک بیک ملنے سے ڈر ہوتا ہے شادی مرگ کا ناصر: کیا بہت ہی حال تباہ ہے؟ پہلی: حضور! اب خدا پر نگاہ ہے۔ ناصر: آخر کچھ اس کی وجہ بھی پائی۔ دوسری: آپ کا صدمہ اور قمر کی جدائی۔ ناصر: افسوس ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ! نئی مہ جبیں: اے ستارو، میرے ناصر کو نہ مارو، قمر کے کپڑے بھی نہ اتارو، اے چاند، میرے قمر کو پکڑ کر کیوں مارتا ہے؟ قمر، میرا قمر۔ سب: جی؟ مہ جبیں: میرا قمر کہاں ہے؟ سب: رستم جنگ کے پاس۔ مہ جبیں: کون رستم جنگ؟ سب: آپ کا وفادار۔ مہ جبیں: نہیں نہیں، وفادار نہیں ہے، عصمت کا شکاری ہے، آہ پانی نہیں برسا، ارے بھاگ بھاگ، آگ لگنے کی تیاری ہے۔ سب: کہاں کہاں؟ مہ جبیں: وہاں وہاں (سب کا جانا، مہ جبیں کا ہاتھ میں مشعل لیے گاتے ہوئے آنا) گانا تمہیں کون انریت سکھائی۔ سن ساجن موری سدھ بسرائی۔ اے آسمان ظالم، پتی بن ستی اتی درگتی، تن من تج کر برہن نسدن پل چھن گن گن، تڑپ تڑپ پتی کٹھن، اب ملت کہاں ہمرا سکھ درشن، تمہیں کون۔۔۔۔ نثر: جلائی نورانی مشعل، رات آ گئی، اندھیری چھا گئی۔ دل کو جلایا، جسم کو اور جان کو جلا گذری ہے آدھی رات اب ارمان کو جلا (مہ جبیں کا آگ لگانے کا ارادہ کرنا، ناصر کا روکنا) ناصر: ہیں ہیں، پیاری مہ جبیں، یہ کیا کرتی ہو؟ مہ جبیں: رب العالمین مجھے بچا، مجھے بچا۔ ناصر: پیاری، میں کوئی غیر نہیں، تمہارا شوہر ناصر ہوں۔ مہ جبیں: نہیں نہیں، ناصر کو تو موت نے مارا۔ قبر میں گیا وہ میرا پیارا۔ تم اس کی روح ہو یا اس کا بھوت۔ رستم: (قمر کو لے کر آنا) کیوں کیوں خیر ہے؟ ناصر: خیر ہے یا خدا کا قہر ہے۔ قمر: امی جان! مہ جبیں: کون؟ میرا قمر۔ نہیں، قمر کی روح، قمر کا بھوت، ہٹ جا، سرک جا۔ (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین دوسرا محل حسینہ:ـ ارے جھنجھٹ! کیا نحوست سچ مچ دیوانی ہو گئی ہے؟ جھنجھٹ: اجی بانو صاحبہ! بالکل شیطان کی نانی ہو گئی ہے۔ نحوست: ارے جھنجھٹ؟ حسینہـ: ہیں یہ کون؟ جھنجھٹ: اجی یہ تو نحوست بیگم کی آواز ہے۔ نحوست: ارے دروازہ کھول حسینہ: بیگم صاحبہ بندگی! نحوست: میں نے تیرے سب کرتوت دیکھ لیے۔ حسینہ: میرے کیا کرتوت آپ نے دیکھے۔ نحوست: تو نے ہی تو میرے شوہر کو پھسلایا ہے۔ حسینہ: جھنجھٹ کیا یہ سچ کہتی ہے؟ جھنجھٹ: اجی تم بھی سناؤ۔ حسینہ: بیگم صاحبہ! دیکھئے میرے ساتھ ایسی بدکلامی نہ کیجئے۔ نحوست: جھنجھٹ تو سچ کہتا تھا کہ حرامزادی لڑائی بغیر بات ہی نہیں کرتی۔ جھنجھٹ: اجی تم کیا دیکھتی ہو، خوب سناؤ۔ نحوست: تو کیا مجھ سے لڑے گی، یہ جوتی بھی دیکھی ہے؟ حسینہ: یہ لکڑی بھی دیکھی ہے؟ جھنجھٹ: خچ چلی۔ نحوست: (گانا) چل چل دیوانی، تو تو ہو گئی دیوانی۔ سلیم: ہیں ہیں، یہ کیا ہے؟ حسینہ: دیکھو پیارے، تمہاری اماں جان کہتی ہیں کہ تو نے ہی میرے شوہر کو پھسلایا ہے۔ سلیم : نہیں نہیں اماں جان! اس نے نہیں پھسلایا ہے۔ وہ دیکھئے سامنے سے جناب آتے ہیں۔ ذرا چھپ کر ان کا تماشا دیکھنا چاہیے۔ مرزا: کہو دوست کیسی کہی؟ یار شکر ہے کہ اس شکل میں تو مجھے کوئی نہیں پہچان سکتا۔ شکر ہے کہ جھنڈو بھنگی سے میری جان پہچان تھی جو یہ لباس مل گیا ورنہ بڑی مشکل ہوتی۔ حسینہ: کیوں پیارے، تم آ گئے؟ مرزا: ہاں پیاری میں آ گیا۔ حسینہ: اب تمہیں کوئی نہیں پہچان سکتا، کیونکہ تم پورے ماسٹر بن گئے۔ اگر خدانخواستہ فوج میں سے نوکری چھوٹ جائے تو کمیٹی میں درخواست دے کر گٹرس ماسٹر ہو سکتے ہو۔ مرزا: اور آہستہ آہستہ کمیٹی کے ممبر ہو جائیں گے پھر تو کسی کو بھی خاطر میں نہ لائیں گے، اپنے ہی بھائیوں کے گلے پر چھری چلائیں گے اور مرزا حماقت بیگ کے بدلے خان بہادر مرزا صاحب کہلائیں گے۔ گانا صورت سیرت میں چندا، ہرفن میں کامل ہے بندا، شکل مچھندر، عقل میں بندر، خاصے قلندر، بن کر ممبر، گھر گھر پھر کر ٹیکس لگائے گا بندا، واہ واہ خوب نکالا یہ دھندا، تیرے بھلے میں، سب کے گلے میں، ٹیکس کا ڈالوں گا پھندا، صورت سیرت میں۔۔۔۔ ساروں میں، یاروں میں، بھنگی چماروں میں، دھوبی کہاروں میں، پاؤں گانام، کرسی پہ بیٹھوں گا، یاروں میں اینٹھوں گا، دولت سمیٹوں گا، میں صبح شام خان بہادر بن کے، زر لوں گا اور گھر رشوت سے بھر لوں گا، چال چلوں گا تن کے، میری تیری جوڑی، ایک اندھا ایک کوڑھی، مطلب پائیں گے من کے، صورت سیرت میں۔۔۔۔ نثر حسینہ: لو پیارے، کوئی سامنے سے آتا ہے۔ جھاڑو دینا شروع کرو۔ جھنجھٹ: کم بخت کیا آہستہ آہستہ جھاڑو دیتا ہے۔ مرزا: ارے ہائے ہائے مر گیا۔ جھنجھٹ: اوہو، آپ ہیں جناب والا، میں سمجھا تھا گھر کا جھاڑو دینے والا۔ رزا: ہت تیرے باپ کا منہ کالا۔ مرزا: آتی ہے! اسے بھی میرے بغیر چین نہیں آتا ۔ مگر یہ اتنی بڑی کیوں ہو گئی؟ ہاں، شاید شادی کی خوشی میں بڑھ گئی۔۔۔۔ اچھا ذرا آنکھ تو ملاؤ۔۔۔ ہائے ہائے! سلیم: اوں ہوں۔ مرزا: تری اداؤں سے مجھ کو سرور ہوتا ہے خطا معاف ہو مجھ سے قصور ہوتا ہے سلیم: ارے چھوڑ چھوڑ میرا بدن چور ہوتا ہے۔ مرزا: ارے اس میں اتنا زور کہاں سے آ گیا۔ پیاری ذرا اپنا منہ تو ہم کو دکھاؤ۔ سلیم: اجی یہ تو میں ہوں آپ کی سبز پری۔ مرزا: واہ رے استاد زمانہ، کیا آپ نے مجھ کو اپنے باپ کی طرح بے وقوف جانا۔ سلیم: اجی نہیں، میرے دل میں آیا کہ ذرا آپ سے دل لگی کروں۔ مرزا: اچھا، ذرا اپنے بے وقوف باپ کا قصہ تو بیان کرو۔ سلیم: لو سنو، جب میں شکل بدل کر خط لے کر اس کے پاس گیا تو حکم پاتے ہی میری پیاری کے گھر پہنچا۔ مرزا: پھر بھی اس الو نے تم کو نہ پہچانا۔ سلیم: اجی، بالکل نہ جانا۔ مرزا: اس وقت لباس کیا پہنے تھا؟ سلیم: یہی جو آپ پہنے ہیں۔ مرزا: واہ واہ، کیا کہنے۔۔۔ اچھا پھر؟ سلیم: پھر کچھ دیر تو ہم نے ان کی حرکتوں کو دیکھ ابھالا۔ مرزا: پھر؟ سلیم: پھر میں نے اپنی نقلی داڑھی جو شکل چھپانے کے واسطے لگا رکھی تھی، اتار ڈالی، پھر تو سب نے کہا، سلیم تھا۔ سب: سلیم تھا؟ مرزا: او، کون سلیم؟ سلیم: ابا جان! تسلیم مرزا: اور یہ کون؟ نحوست، کم بختوں نے پہلے سے میرا گھر اڑانے کو بارود تیار کر رکھا تھا۔ نحوست: کم بخت، اتنی بڑی داڑھی اور بھنگی کی پوشاک۔ مرزا: دیکھو دیکھو، نحوست، داڑھی کی مسخری نہکرو۔ نحوست: چپ بے شرم۔ مرزا: اری واہ ری میری کڑک مرغی۔ نحوست: کم بخت اتنی ذلت پا کر بھی ہنستا ہے۔ مرزا: ہنستے ہی گھر بستے ہیں۔ سلیم: ابا جان، یہ سب کم بخت جھنجھٹ کی شیطانی ہے۔ حسینہ: اسی نے مجھ سے کہا کہ نحوست بڑا چلتا سیلانی ہے۔ نحوست: اور اسی نے مجھ سے کہا کہ حسینہ دیوانی ہے۔ جھنجھٹ: اجی اس میں کیا آنا کانی ہے، یہ تو یاروں ہی کی کارستانی ہے۔ مرزا: ٹھہریئے، میں ابھی اس کو ٹھیک کرتا ہوں۔ (مارنا) جھنجھٹ: بس حضور، بندہ بھول گیا۔ مرزا: کہو دوست کیسی کہی۔ (سب کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین تیسرا جنگل چنگیزـ: افسوس، ذلت، تباہی، رستم کیسا دلیر شیر، اگر رستم کی آدھی ہمت بھی میرے سپاہیوں میں ہوتی تو آج یوں ذلت نہ اٹھانی پڑتی۔ سپاہی: بچانا سرکار! چنگیز: کون؟ میرا شکار، ناصر بدشعار، مجھے خاک میں ملانے والے، اب کہاں ہیں تیری جان بچانے والے؟ نوشابہ: یہ روح بھٹکے گی میری جب تک نہ جسم تیرا فگار ہو گا خوشی نہ ہو گی نصیب مجھ کو نہ تیرا جب تک مزار ہو گا چنگیز: کس قدر تیز ہے اس کی گفتار میں اثر۔ اگر زندہ ہے تو لے لیتا ہوں تیری خبر۔ اگر ہو گی روح تو نہ ہو گا تجھ پر تلوار کا اثر۔ سپاہی: لے لوں اب تو عوض بھائی کے خون کا۔ چنگیز: یہ کیا کام تو نے جنون کا؟ رستم: ظالم! نتیجہ خوئے بدکام ہے یہی دنیا میں اہل ظلم کا انجام ہے یہی چنگیز: رستم، میرا غصہ تجھ کو دوست سمجھ کر چھوڑتا ہے اور تمجھ پر یہ ستم توڑتا ہے۔ رستم: جہاں میں ظلم سے تیرے مچا اندھیرا ہے جہاں کا گر ہے تو دشمن تو دشمن پہلے میرا ہے چنگیزـ: چر کے دیتا ہے مجھے تو نشتر گفتار سے یوں نہیں سمجھا اگر تو لے سمجھ تلوار سے رستم: بول، اب کیا تیرا غرور ہو گیا، نشہ غرور کہاں کافور ہو گیا؟ ناصر: (آ کر) رحم، پیارے رستم، رحم! رستم: عالی جاہ! اگر اس کو بھی کسی پر رحم کرنا آتا تو مجھ کو بھی اس پر ضرور رحم آتا۔ چنگیز: نہیں نہیں، مجھ کو اب ہلاک کر ڈالو، سب سے پہلے میرا سینہ چاک کر ڈالو دعا کرو نہ ہزاروں میں شرمسار کرے دعا کرو کہ خدا میرا بیڑا پار کرے ٭٭٭ نہ تو شیشہ ہی ملا اور نہ ساغر پایا ساقیا ہم تیری محفل سے پر ارماں نکلے ناصر و نوشابہ: ہیں ہیں، خیر ہے۔ چنگیز: کچھ نہیں، ملک عدم کی سیر ہے۔ رستم: کیوں اب قتل کی دہشت طاری ہوئی، جو خود کشی کی تیاری ہوئی۔ چنگیز: سکے بیٹھے تھے مرے ہر شہر اور انبوہ میں زلزلہ تھا نام سے میرے زمین وہ کوہ میں ٭٭٭ ہائے قسمت سے وہ سارا ولولہ جاتا رہا ایسا کچھ دیکھا کہ دل کا حوصلہ جاتا رہا ناصرـ: اگر پہلے سے یہ خیال ہوتا تو کیوں ایسا حال ہوتا۔ چنگیز: عزیز ناصر، میرے پچھلے گناہوں کی سزا مجھے ندامت میں ڈبوتی ہے۔ مجھے معاف کرو، میری طرف سے دل صاف کرو۔ رستم: آپ بھی عالی جاہ، نوشابہ کی طرف سے دل صاف کریں، کیونکہ جب میں قمر کو آپ کی خواب گہا سے لے کر فرار ہوا تو راہ میں ان سپاہیوں سے دو چار ہوا۔ وہ آپ کا حکم بجا لا رہے تھے اور اس بے گناہ کا خون بہا رہے تھے۔ سمجھانے کے طور پر کہا جب وہ نہ مانے تو زبردستی لے کر فرار ہو گیا۔ چنگیزـ: پیاری نوشابہ کے علاوہ تیرا بھی گنہگار ہوں، تم دونوں میرا قصور معاف کرو۔ نوشابہ: پیارے چنگیز مجھے اس سماعت سے بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ ایک تو آپ کا راہ نیک پر آنا۔ دوسرے مہ جبیں کا جو بھائی ناصر کے غم میں دیوانی ہو گئی تھی، حکیم صاحب کی دوا سے صحت پانا۔ چنگیز: بھائی ناصر، اب ایک خوشی کا دن مقرر ہو، تاکہ یہ تاج میرے ہاتھ سے تیرے زیب سر ہو۔ سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین چوتھا تخت چنگیز:ـ دنیا کی پاؤ سروری، تاج عدالت گستری مل کر مبارکباد دیں جن و بشر حور و پری دل شاد ہو، آباد ہو دشمن سدا ناشاد ہو تا حشر محو داد ہو پاؤ جہاں کی سروری سب: آمین، آمین، آمین۔ مرزا: حضور، ایسی خوشی کا وقت آیا، مگر بندے نے انعام نہ پایا، عقل دیتے وقت تو خداوند تعالیٰ بھول گئے اور انعام دیتے آپ بھولے جاتے ہیں۔ چنگیز: کیا مرزا صاحب، ابھی تک آپ کو انعام نہیں ملا؟ مرزاـ: نہیں حضور! ابھی تک تو کچھ نہیں پایا۔ چنگیز: اچھا مل جائے گا۔ جھنجھٹ: اچھا چلو، آج سے آپ کو گھسیاروں کا جمعدار بنایا۔ مرزا: چپ بے نالائق (سہیلیوں کا ناچنا اور پردے کا اوپر سے گرنا) تمام شد ٭٭٭ خوبصور ت بلا تختہ ناٹک مردانہ کردار: توفیق: ایک وفادار سلطنت امیر دربار (نیکی کا مجسمہ) نواب قتلو: عیار وزیر (ظالم و جابر، بدی کا مجسمہ) طغرل بیگ: ایک سردار قہرمان: ایک سردار شہریار: ایک سردار صفدر: شمسہ کا ملازم(نیک طینت) سہیل: مقتول بادشاہ کا کمسن لڑکا (ولی عہد سلطنت) رشید: توفیق کا کم سن لڑکا خیر سلا: قتلو کا مصاحب ماشاء اللہ: شہریار کا ملازم ایجنٹ: شادی کے دفتر کا کپتان: ایک فوجی پنشنز، بگڑا رئیس شہباز:ـ ایک لا اوبالی شخص مشکل آسان: ایک لا اوبالی شخص چچا:ـ مشکل آسان کا فیضو: شہریار کا ملازم سیفو: خیر سلا کا ملازم ڈاکٹر: جمعدار: چوبدار: قاصد: درباری: سپاہی اور دوسرے نوکر چاکر وغیرہ ٭٭٭ زنانہ کردار شمسہ: بدچلن ملکہ (بدی کا مجسمہ) طاہرہ: توفیق کی نیک بیوی تسنیم: ایک نوجوان امیر زادی، شہریار اور طغرل کی محبوبہ شیریں: ایک نوجوان حسینہ میڈم: خیر سلا کی بیوی ممتاز: مشاء اللہ کی بیوی سہیلیاں اور خواصیں وغیرہ۔ ٭٭٭ باب پہلا سین پہلا (اندر سے نیکی کا گاتے ہوئے آنا) گانا: رب کی شان نیاری، نیاری پرواری بلہاری، توری کہانی گھر گھر من مانی، جان یکتائی چترائی، پیاری پیاری ساری، رب کی۔۔۔۔ نیکی پر بندے دھیان دھرنا، کرودھ کام سے نت ڈرنا، ہوس لپٹ کرت پھرت چھل کی ماری، دنیا ساری، نس دن آری ہے خواری، رب کی۔۔۔۔ نثر: خداوند کا جلال ہو۔ مقدس ہے وہ خدا جو آدم کے سرکش اور باغی بیٹوں کو ماں باپ کی طرح پیار کرتا ہے۔ مبارک ہے وہ انسان جو سچے دل سے اور پوری سچائی کے ساتھ اس کی اطاعت اختیار کرتا ہے، اے گمراہ ہستی! جو اندھی اور دیوانی بنی ہوئی تباہی کے غار کی طرف دوڑی جا رہی ہے، آ! روشنی کی طرف! خدائے رحیم تیری پکار پر کان لگائے ہے۔ اس کی رحمت تجھے گود لینے کے لیے محبت کے بازو پھیلائے ہے۔ جس راہ میں ہوں ٹھوکریں وہ راہ اے انساں نہ چل جرم و گنہ کے بوجھ سے ورنہ گرے گا منہ کے بل تاریکیاں ہیں ہر طرف اندھا نہ بن اب بھی سنبھل ایمان کا فانوس لے اور اس میں جلا شمع عمل اٹھ دوڑ بھاگ آ اس طرف، طاقت ابھی ہے پاؤں میں آرام و راحت زندگی سب ہیں خدا کی چھاؤں میں بدی: (آ کر) میں ہوں، جہان کی خوشی، میں ہوں! نیکی: دنیا کی مصیبت، خدا اور انسان کے بیچ میں دیوار! بدی: دنیا کی قسمت میرے داہنے ہاتھ میں ہے اور اس کی کنجی میرے بائیں ہاتھ میں ہے۔ تم جو بہشت کی امید میں دنیا کو دوزخ بنائے ہوئے ہو، میری طرف آؤ اور میرا دروازہ کھٹکھٹاؤ۔ میری سخاوت کے بادل موتی برسائیں گے اور تمہارے دامن کو بھی مالا مال کر دیں گے۔ نیکی: تو جھوٹی ہے، تو آدمی کو ذلت، مصیبت اور خوفناک موت کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ بدی: چپ! تو ہی میری طرف آنے والوں کو روکتی ہے نیکی: اور تو نیک راہ چلنے والوں کو جہنم کے اندھیرے غار میں گراتی ہے بدی: تو نہ ہوتی تو دنیا میں بہشت کا مزہ آتا۔ نیکی: بدی! تو نہ ہوتی تو خدا جہنم کو پیدا ہی نہیں کرتا۔ بدی: نیکی! لڑائی چھوڑ! نیکی: بدی! بڑائی چھوڑ! بدی: اری دنیا عاشقوں کا بازار ہے۔ اس میں کوئی تیرا خریدار ہے کوئی میرا مطلب گار ہے۔ اگر نفرت ہے میرے عاشقوں کو تیری صورت سے تو مجھ سے کس لیے لڑتی ہے جا لڑ اپنی قسمت سے نیکی: جو آج جانتے ہیں دنیا کی حور تجھ کو دے بیٹھے ہیں جو دل سے عقل و شعور تجھ کو جس روز روشنی میں دیکھیں گے شکل تیری نفرت کی ٹھوکروں سے پھینکیں گے دور تجھ کو بدی: نادان کبھی ایسا نہ ہو گا۔ کیا تو نہیں جانتی کہ دنیا کی مٹی خود غرضی اور لالچ کے پانی سے گوندھی گئی ہے۔ نیکی: جھوٹی تیرا ہر لفظ عداوت سے بھرا ہے۔ دنیا کا چمن بس مری کوشش سے ہرا ہے۔ بدی: بس بند کر قیل و قال، اب دیکھ میرے عاشقوں کا حال۔ (طغرل کا شراب پیتے دکھائی دینا، رامشگر کا گانا) گانا: اے پیارے مہاراجہ، دلارے مہاراجہ، پیالے مے کے پی لو جی۔ جیو جانی، پیو جانی، پیالے کے پی لو جی، اے پیارے۔۔۔۔ دوہرا: بہار آئی ہے بھردے بادۂ گلگوں سے پیمانہ رہے لاکھوں برس ساقی ترا آباد مے خانہ گھڑی گھڑی پل پل چھن چھن کامنی کمسن پیارے مہاراجہ۔۔۔۔ بدی: میرے عاشقوں کا حال دیکھ چکی۔ اب اپنے چاہنے والوں کی ذلت اور مصیبت دیکھ۔ نیکی: بدی! ہوئی شرط دیکھنا میں ہارتی ہوں یا تو ہارتی ہے ۔ (جانا) (پردہ پھٹنا اور شمسہ کا عالی شان مکان نظر آنا) (سب درباریوں کا دست بستہ کھڑے دکھائی دینا) پہلا چوبدار: جلال ہمرہ، کمال ہمدم، عروج مانند چھتر سر پر دوسرا: زمانہ حامی، فلک محافظ، سپہر بندہ، ستارہ چاکر پہلا: نصیب درباں، قضا مگس راں، قدر ثنا خواں، ہو بخت یارو دوسرا: سحاب قلزم قدم قدم پر، زر و جواہر نثار سر پر پہلا: وقار ہر سمت چھا رہا ہے، دلوں کی عظمت بڑھا رہا ہے دوسرا: حضور تشریف لا رہی ہیں، کھڑے ہوں خدام سر جھکا کر (شمسہ کا آنا سہیلیوں کا ناچنا اور مل کر گانا) گانا: رہیں حکم سے تخت و تاج، ملک و راج، مال و منال، بلند نام ہو، دن بدن عزت بڑھے جاہ و جلال، زمین پہ آج ہے جس طرح آسمان محیط یونہی جہان پہ چھایا رہے ترا اقبال۔ رہیں۔۔۔۔ (سہیلیوں کا ناچتے اور گاتے ہوئے اندر جانا) شمسہ: جاؤ اس ضدی کتے کو میرے سامنے لاؤ۔ ضد کس سے؟ مجھ سے جو طوفانی سمندر کی طرح غصے میں دیوانی ہو جاتی ہے، جو دم کے دم میں آندھی کی طرح بلائے ناگہانی ہو جاتی ہے۔ اگر یہ راہ پر نہ آیا تو پھر اس کو دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (قتلو کا توفیق کو پابہ زنجیر سامنے لانا) شمسہ: کیوں توفیق کس حال میں ہے؟ توفیق: کس حال میں ہے؟ شیر لوہے کے جال میں ہے۔ شمسہ: سرکش! کیوں تباہی لا رہا ہے اپنے عزوجاہ پر چھوڑ دے گمراہی آ جا اب بھی سیدھی راہ پر توفیق: دنیا میں سچی اور سیدھی راہ فقط نیکی ہے جو قبر کے دروازے سے نکال کر قیامت کے میدان سے ہوتی ہوئی بہشت کے دربار میں پہنچاتی ہے۔ باقی ہر ایک راہ ٹھوکریں کھلاتی ہے، کانٹوں میں پھنساتی ہے اور آخر کار جہنم کے اندھیرے غار میں گراتی ہے۔ پروا نہیں جو آج زمانہ خلاف ہے رستہ وہی چلوں گا جو ٹھیک اور صاف ہے دکھ اور سکھ تو ہیچ ہیں میری نگاہ میں میں جان بھی جو دوں گا تو نیکی کی راہ میں شمسہـ: میں نہیں سمجھتی کہ نیکی کیا چیز ہے جو تجھ کو اور تیرے جیسے چند بے وقوفوں کو عزیز ہے۔ توفیق: نیکی کیا چیز ہے؟ نیکی ایک پاک نور ہے۔ نیکی خدا کے ہاتھ کا بنایا ہوا قلعہ ہے، جس میں پاک انسان بیٹھ کر شیطان کی فوج سے مقابلہ کرتا ہے۔ شمسہ: پاگل ہو گیا ہے؟ توفیق: ہاں ہاں میں پاگل ہو گیا ہوں، مگر شکر ہے۔ خدا کا باغی، حرص کا بندہ، شیطان کا غلام، بے رحم، خونی اور نمک حرام نہیں ہوں۔ شمسہ: او نمک حرام! ہمارے سامنے یہ گستاخانہ کلام؟ توفیق: میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں بہادر ہوں اور بہادر ہمیشہ سامنے آ کر وار کرتے ہیں۔ صاف دل اس طرح کہتے ہیں برابر صاف صاف جس طرح آئینہ کہہ دیتا ہے منہ پر صاف صاف قتلو:ـ اگر تو ضد چھوڑ دے تو میں ایمان سے کہتا ہوں۔۔۔۔۔ توفیق: چپ بدمعاش! اس مقدس چیز کا نام نہ لے جس کا ایک ذرہ بھی تیرے ناپاک تن میں نہیں ہے۔ تم دونوں شیطان سے زیادہ ایمان کے دشمن ہو۔ شمسہ: بیشک ہیں اور ا سلیے ہیں کہ بہادر کو نامرد اور سرخ کو زرد بنانے والا یہی ہے۔ توفیق: جس طرح خدا نے جسم کے لیے جان کا لیمپ جلایا ہے، اسی طرح جان کے لیے ایمان کا چراغ بنایا ہے۔ شمسہ: مگر میں ہوں تو ضرور اس چراغ کی روشنی بجھاؤں گی۔ توفیق: اری تو کیا اگر دنیا کے شیطان مل کر کوشش کریں پھر بھی یہ خدائی چراغ ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اور جہان میں رحم اور انصاف کی روشنی پھیلاتا رہے گا۔ شمسہ: توفیق تو جانتا ہے کہ میں کیسی عورت ہوں؟ توفیق: ذلت کی پتلی! تجھے کون عورت کہتا ہے۔ عورت وہ ہے جس میں رحم ہو، شرم ہو، سچائی ہو، باوفائی ہو، پارسائی ہو، جس نے فرشتوں کی طینت اور حور کی عصمت پائی ہو، تو کبھی عورت نہیں ہو سکتی، جس طرح تو نے معصوم شہزادی کا دغا سے حق چھینا ہے، اسی طرح عورت کے نام پر بھی زبردستی قبضہ کر لیا ہے۔ شمسہ: توفیق سن! سانس سے آگ جو برساؤں وہ اژدرہوں میں ضد میں طوفان تو غصے میں سمندر ہوں میں پیس ڈالوں گی، مٹا دوں گی، فنا کر دوں گی یاد رکھنا تری تقدیر کا چکر ہوں میں توفیق: دل کا جوش ایسے ڈراوے سے کہیں گھٹتا ہے موم سے پنجہ فولاد کہیں دبتا ہے مت سمجھ دل سے مرے زہر دغا نکلے گا چیر کر دیکھ شرافت سے بھرا نکلے گا روئیں روئیں کی زباں پر یہ سخن جاری ہے جان پیاری نہیں، دنیا میں وفا پیاری ہے قتلو: مذہبی دیوانے! کیوں جان کر دنیا کی خوشیوں سے بیزار ہے۔ تیری ایک ہاں پر شاہی مہربانیوں کا بادل عزت و دولت اور رحم کی بارش برسانے کے لیے تیار ہے۔ توفیق: مجھے کوئی ایسی مہربانی نہیں چاہیے، او حرص کے غلام! یاد رکھ یہ کلام۔ چار دن ہے شان و شوکت کا خمار موت کی ترشی نشہ دے گی اتار جب اٹھائیں گے جنازہ مل کے یار ہاتھ مل مل کے کہے گا بار بار کس لیے آئے تھے ہم کیا کر چلے جو یہاں پایا یہیں سب دھر چلے شمسہ: بس بس یہ وعظ پاگلوں کے لیے رکھ چھوڑ۔ سہیل کو ہمارے حوالے کر۔ تاج کا تابعدار ہو۔ ورنہ خوفناک انجام کی پیشوائی کے لیے تیار ہو۔ توفیق: کیا معصوم شہزادے کو تم قصابوں کے پنجے میں ذبح ہونے کے لیے دے دوں؟ رحم اور انصاف کے گلے پر چھری پھیر دوں؟ تخت و تاج کے لٹیروں کی تعظیم کروں؟ شیطان کو بہشت کا مالک و وارث تسلیم کروں؟ نہیں وفادار توفیق سے ایسا کبھی نہ ہو گا۔ قتلو: مگر تم کو ایسا ضرور کرنا پڑے گا۔ توفیق: کیوں؟ شمسہ: ہماراحکم۔ توفیق: تیرا حکم کوئی خدا کا حکم نہیں ہے شمسہ: میں شاہی حکم دیتی ہوں۔ توفیق: میں تیری شاہی سے بھی منکر ہوں۔ تیر و تلوار و تبر نیزہ و خنجر برسیں زہر، خوں، آگ مصیبت کے سمندر برسیں بجلیاں چرخ سے اور کوہ سے پتھر برسیں ساری دنیا کی بلائیں مرے سر پر برسیں ختم ہو جائے ہر اک رنج و مصیبت مجھ پر مگر ایمان کو جنبش ہو تو لعنت مجھ پر شمسہ: غور کر پھر غور کر ورنہ اجل تیار ہے تیرا سر ہے اور اس جلاد کی تلوار ہے توفیق: مصیبت کے ڈر رنج کے ہول سے بہادر بدلتے نہیں قول سے خدا لے کہ تو لے یہ جاں ایک ہے مگر بات ایک اور زباں ایک ہے شمسہ: مجھ پہ لعنت ہے جو تجھ کو اب میں زندہ چھوڑ دوں کاٹ لا سر تاکہ اس کو ٹھوکروں سے پھوڑ دوں (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین دوسرا اگلا محل (آنا خیر سلا کا) خیر سلا: واہ رے قسمت برسوں کنی کاٹی بھاگی کترائی، مگر آخر کار یاروں کے اڑنگے میں آئی۔ ملکہ شمسہ نے نواب قتلو خاں کو بلایا اور اپنے بھائی برجس کو اس کے ہاتھ سے قتل کرایا تو ما بدولت نے ابھی ان کا ہاتھ بٹایا۔ جس کے صلے میں ایڈی کانگ کا عہدہ پایا۔ اس کام میں تھوڑی سی بے ایمانی تو ضرور کرنی پڑی، مگر تقدیر کھل گئی۔ اماں کہاں کا دین اور ایمانداری! یہ تو لوگوں کے ڈرانے کے لیے یاروں نے ڈھکوسلا بنا رکھا ہے، ورنہ ایمانداری میں کیا رکھا ہے۔ ارے سیفو، ارے سیفو! سیفو: (آ کر) جناب آپ کسے پوچھتے ہیں؟ خیر سلا: ابے اپنے مالک کو نہیں پہچانتا؟ سیفو: جناب وہ اس وقت گھر میں نہیں ہیں۔ خیرسلا: ابے کیا اتنی جلدی بھول گیا۔ ذرا غور سے دیکھ۔ سیفو: کون میاں خیرو؟ خیر سلا: چپ بے ادب، خیرو کسی موچی کے لڑکے کا نام ہو گا۔ سیفو: پھر تم کون ہو؟ خیر سلا: مرزا خیر سلا بیگ۔ سیفو: اماں کاہے کو جھوٹ بولتے ہو۔ خیرسلا: چپ! دیکھ آج سے ہمیں جناب اور صاحب کے نام سے پکارنا۔ سیفو: کس لیے؟ خیر سلا: کیونکہ اب ہماری ڈگری بڑھ گئی ہے۔ گانا دیکھو میرا رتبہ اعلیٰ، میں ہوں ایڈی کانگ، بڑی آن بان شان کیسا بنا ہاں؟ وہ عمامہ، ڈھیلا پاجامہ پھینکا، ڈاٹا بوٹ شوز واسکوٹ یہ کلنگ ہے، چڑھی اس کو بھنگ ہے، میری عقل دنگ ہے، کوٹھی بنگلے میں رہوں، کلب ہوٹل میں پھروں،ا من چمن میں کروں، ٹھاٹ باٹ دیکھو۔۔۔۔۔ سیفو: اماں کاہے کو جھوٹ بولتے ہو۔ تمہاری صورت پر تو وہی پاجی پن برستا ہے۔ خیر سلا: دیکھ پہلے میں ایک معمولی جمعدار تھا۔ اب طغرل بیگ کا ایڈی کانگ کہلاتا ہوں۔ سیفو: واہ میاں واہ! خیر سلا: پہلے ہم چٹائی پر بیٹھ کر چٹنی روٹی کھاتے تھے، اب کرسی ٹیبل پر مٹن چاپ اڑاتے ہیں۔ سیفو: واہ بھئی واہ! خیر سلا: پہلے ہم گدڑی بازار سے لا کر پرانی جوتی پہنا کرتے تھے۔ اب ولائتی بوٹ ڈالتے ہیں۔ سیفو: بھلا یہ ولائتی بوٹ آپ کو کیا بھاؤ پڑتا ہے؟ خیر سلا: ابے چپ! تو سنتا جا، پہلے میں ڈھیلا کرتہ پاجامہ پہنا کرتا تھا اور اب پتلون کوٹ ڈانٹتا ہوں اور قمیض پر ٹائی لگاتا ہوں۔ سیفو: ارے واہ میاں! میں تو سمجھتا تھا کہ تم موچی کے موچی ہی رہو گے مگر ہو قسمت کے دھنی کہ آپ سپاہی سے ایک دم ایڈی کانگ بن گئے۔ خیر سلا:ـ ارے یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ایڈی کانگ بن کر رہ گئے، ورنہ ہمارے والد تو عجیب شان کے آدمی تھے۔ تو نے ان کو دیکھا ہو گا۔ سیفو: کیوں نہیں! کئی دفعہ، وہ ہمارے محلے میں پاپڑ بیچنے کے لیے آیا کرتے تھے۔ خیر سلا: ارے چپ رہ! وہ کوئی اور الو ہو گ۔ا سیفو: الو ہو یا گدھا مگر صورت تو آپ کے باپ کی تھی۔ خیر سلا: خیر! اس ذکر کو دفعان کر اور یہ بتا کہ میرے گھر میں کیا پکا ہے؟ سیفو: پکا کیا ہے، وہی باجرے کی روٹی اور ابالی ہوئی دال۔ خیر سلا: ارے دال کو بھاڑ میں ڈال، کیا امیروں کے گھر میں ایسے کھانے پکتے ہیں؟ دیکھو آج سے ہمارے گھر میں ایسے کھانے پکا کریں۔ قورمہ، قلیہ، متنجن، بریانی، پلاؤ، مٹن چاپ، پٹاٹا چاپ اور کٹلس کباب۔ سیفو: اجی میاں کل وہ الم غلم کھا لینا۔ آج تو شکر کر کے یہ چٹنی روٹی کھا لو۔ خیر سلا: تم جیسوں نے چٹنی روٹی پر شکر کر کے خداوند تعالیٰ کی عادت بگاڑ دی ہے۔ اس نے دیکھا جب یہ بے وقوف چٹنی روٹی پر ملہار گاتے ہیں تو انہیں پلاؤ کھانے کی کیا ضرورت ہے۔ سیفو: بھلا کھانے ایسے نہ کھاؤ گے تو تمہیں یہ پرانا مکان کیسے پسند آئے گا؟ خیر سلا: ابے پرانا مکان کیا، میں تو اب پرانی جورو بھی بدل دوں گا۔ سیفو: دیکھو میاں ایسا نہ کرنا، وہ بے چاری تو تمہیں بیٹے کی طرح چاہتی ہے۔ خیر سلا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ پرانی جنتری اور پرانی جوتی ہر سال بدل دیتے ہیں اور میں نے تو نئی جورو کے واسطے اخبار میں اشتہار دے دیا ہے۔ سیفو: بھلا میاں میں تم کو کوئی پٹا خاسی جورو دلا دوں تو طغرل بیگ سے سفارش کر کے مجھے بھی خان بہادری کا خطاب دلا دینا۔ خیر سلا: ابے خان بہادری کے خطاب کو لے کر کیا کرے گا، وہ آج کل ٹکے سیر بکتا ہے۔ جو بلی چوہے کی آواز سے گھبراتے ہیں، وہی آج کل خان بہادر کہلاتے ہیں۔ سیفو: اچھا یہ نہیں تو شیر جنگ کا خطاب دلا دو۔ خیر سلا: ہاں یہ دلا دوں گا، کیونکہ کل تو نے دو چوہے مارے تھے۔ سیفو: اچھا سنو! میرے خیال میں جتنی عورتیں ہیں ان سب کی فہرست پیش کرتا ہوں۔ فلاں محلے میں مٹھو گھاس والا رہتاہے، اس کی ایک لڑکی ہے۔ خیر سلا: ارے مجھے کیا کوئی گھسیارہ سمجھا ہے جو گھسیارے کی لڑکی سے شادی کراتا ہے؟ سیفو: تو پھر تم جیسے مداری کو گھسیارے بھٹیارے کے سوا کون لڑکی دے گا؟ خیر سلا: ابے دے گا کیوں نہیں؟ ذات صفات اور شرافت اگلے زمانے میں دیکھا کرتے تھے۔ اب تو فقط پیسے کو دیکھتے ہیں، جہاں چار پیسے دیکھ پاتے ہیں، بڑے بڑے اپنی لڑکی دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ سیفو: اچھا تو فلاں محلے میں عبدالکریم قصاب کا سالہ رہتا ہے، اس کی سات بیٹیاں ہیں۔ خیر سلا: خوب! جب تو سب نے مل کر باپ کا دیوالہ نکال دیا ہو گا۔ سیفو: ان میں چار تو اندھی ہیں، ایک کانی ہے، ایک گنجی ہے، مگر سب سے جو چھوٹی لڑکی کریمن ہے، وہ آپ کے لائق ہے، لیکن ذرا سا لنگڑاتی ہے۔ خیر سلا: ابے تو کیا تو نے مجھے لولا لنگڑا مقرر کیا ہے جو لنگڑی جورو دلاتا ہے۔ سیفو: خیر تو فلاں محلے میں مرزا فجو رہتے ہیں۔ ان کی ایک بہن ہے اور بڑی نیک ذات ہے اور مزا تو یہ ہے کہ ایک گلاب کے پھول جیسا بچہ بھی ساتھ ہے۔ خیر سلا: ابے تو مجھے سیکنڈ ہینڈ مال دلاتا ہے۔ شیر بھی کہیں دوسروں کا جھوٹا کھاتا ہے۔ سیفو: تو پھر آپ کو کیسی جورو چاہیے؟ خیر سلا: دیکھو! نیک ہو، شریف ہو، حسین ہو، جوان ہو، ہوشیار ہو، بلکہ عصمت دار ہو اور بڑی بات یہ کہ وفادار ہو۔ سیفو: ایسی تو آپ کو فلاں محلے میں ایک سو برس کی کنواری لڑکی ملے گی۔ خیر سلا: ابے مجھے جورو کی ضرورت ہے یا اماں کی؟ سیفو: یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں، تو پھر آپ کو جورو مل چکی۔ خیر سلا: ارے ملے گی کیوں نہیں، یہ تو ہماری مہربانی ہے جو ہم جورو تلاش کر رہے ہیں، ورنہ اس مہنگے زمانے میں شوہر ملتے ہی کہاں ہیں۔ (ایجنٹ کا آنا) ایجنٹ: جناب تسلیم عرض! خیر سلا: آداب عرض! ایجنٹ: جناب آپ کا نام؟ خیر سلا: مرزا خیر سلا بیگ۔ سیفو: اماں کاہے کو جھوٹ بولتے ہو۔ خیر سلا: ارے چپ رہ! دوسرے کے سامنے عزت کیوں اتارتا ہے۔ مگر آپ کون صاحب ہیں؟ ایجنٹ: ہم انڈین میرج کمپنی لمیٹڈ کے ایجنٹ ہیں اور فلاں مقام پر ہمارا ہیڈ آفس ہے۔ خیر سلا: میں سمجھا نہیں کہ آپ کیا کہتے ہیں؟ ایجنٹ: ہمارا یہ کام ہے کہ دنیا کی آبادی بڑھاویں۔ جورو کو شوہر اور شوہر کو جورو دلوا ویں۔ خیر سلا: تو پھر آپ دلال ہیں۔ ایجنٹ: دلال کی ایسی تیسی، ہم ایک شریف آدمی ہیں۔ خیر سلا: شرافت تو آپ کے پیشے سے ٹپکتی ہے۔ سیفو: جب تو یار ہمارا بھی ایک کام بنا دو۔ ایجنٹ: وہ کیا؟ سیفو: پرانی جورو اور تھوڑا سا روپیہ لے کر ایک نئی جورو ہم کو دلا دو۔ ایجنٹ: پرانی جورو کو صندوق میں بند رکھو، ہم تو بالکل نئے مال کی تجارت کرتے ہیں۔ خیر سلا: بھئی واہ، اس ترقی کے زمانے میں کیا کیا نئے دھندے نکلے ہیں۔ ایجنٹ: آپ نے شادی کے لیے اخبار میں اشتہار دیا ہے؟ خیر سلا: جی ہاں! مجھے ایک جورو کی سخت ضرورت ہے۔ ایجنٹ: فرمایئے آپ کو کیسی جورو چاہیے؟ خیر سلا: حسین ہو، جوان ہو، پڑھی لکھی ہو، چنچل ہو، بلکہ فیشن ایبل ہو۔ ایجنٹ: ہنگامی ہو یا دوامی؟ خیر سلا: دوامی۔ ایجنٹ: اکسٹری مسٹ ہو یا ماڈریٹ؟ خیر سلا: نہیں نہیں اکسٹری مسٹ نہیں چاہیے۔ وہ کم بخت ناراض ہو گی تو ہم کو بم کے گولے سے اڑا دے گی۔ ایجنٹ: عمر کیا ہو؟ خیر سلا: سولہ برس کی۔ ایجنٹ: اگر سولہ برس کی نہ ملے۔ سیفو: تو آٹھ آٹھ برس کی دو لے آنا۔ خیر سلا: نکل کمبخت! بیچ میں گڑ بڑ کرتا ہے۔ ایجنٹ: او رکیا خوبیاں ہوں؟ خیر سلا: سنئے! نہ ایسی بدصورت ہو کہ دیکھتے ہی جی متلائے، نہ ایسی خوبصورت ہو کہ سارا زمانہ زیارت کو آئے۔ نہ ایسی دبلی ہو کہ ایک ایک پسلی نظر آئے۔ نہ اتنی موٹی ہو کہ ریل کے پھاٹک میں بمشکل سمائے۔نہ اتنی چھوٹی ہو کہ بیوی کی جگہ لڑکی نظر آئے اور نہ اتنی لمبی ہو کہ بوسہ لینے کے لیے سیڑھی لگائی جائے، نہ اتنی کنجوس ہو کہ برسوں تک بچہ نہ دے، نہ اتنی فیاض ہو کہ بچوں سے گھر بھر دے، نہ اتنی تندرست ہو کہ دن میں چھ چھ دفعہ کھائے، نہ اتنی بیمار ہو کہ ڈاکٹر کا بل چکاتے چکاتے دیوالہ نکل جائے، نہ اتنی بے عزت ہو کہ پاس بٹھاتے شرم آئے اور نہ اتنی عزت دار ہو کہ میاں کے پاس آتے بھی شرمائے۔ غرضیکہ تھوڑی تھوڑی سی سب خوبیاں اس میں موجود ہوں۔ ایجنٹ: ٹھیک! ٹھیک! میں سمجھ گیا۔ دیکھئے اس شہر میں فی الحال ایسی ایک عورت بھی نہیں۔ ہاں ایک ڈاکٹر پڑوس میں رہتے ہیں ان کی ایک لڑکی ہے اور وہ آپ کے لائق ہے۔ خیر سلا: اجی کوئی ہو، ہمیں تو جورو سے کام ہے۔ ایجنٹ: تو بس آپ کو ہفتہ بھر میں مل جائے گی۔ خیر سلا: دیکھئے ذرا اچھا مال ہو تو آپ کا کمیشن بھی اچھا رہے گا۔ ایجنٹ: آپ بے فکر رہیں۔ خیر سلا: مگر کہیں دھوکا نہ کھا جانا، کیونکہ آج کل ساٹھ ساٹھ برس کی بڑھیاں منہ پر چونا مل لیتی ہیں اور ہاتھ پر پنکھا لے کر ٹوٹی بائیسکل کی طرح کہیں تھرکتی پھرتی ہیں۔ دیکھو نئی ٹم ٹم سمجھ کر پرانے چھکڑے کو نہ اٹھا لانا۔ ایجنٹ:اجی واہ! ہم کہیں دھوکا کھانے والے ہیں۔ خیر سلا: مگر ذرا جلدی! اور کام بھی سستے میں ہو۔ ایجنٹ: یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب میں آپ کو غیر تھوڑا ہی سمجھتا ہوں۔ بندگی! (ایجنٹ کا جانا) خیر سلا: بھئی واہ اب تو دو چار روز میں ایک فیشن ایبل جورو کے خاوند کہلائیں گے اور خدا نے چاہا تو دو چار مہینوں میں دس بیس بچوں کے باپ بن جائیں گے۔ گانا بڑی بانکی دلہنیا، موہنیا، سجیلی، البیلی، ملے موری نار، بن جاؤں کہلاؤں دس بیس بچوں کا باپ، بڑی بانکی۔۔۔۔ وہ کہیں مجھے فادر میں کہوں او مائی ڈیئر۔۔۔۔ بڑی بانکی۔۔۔۔ بنوں بنوں میں جنٹلمین، ہاں رے باغ بنگلے سجا ڈالوں، میڈم کو ساتھ ساتھ بغل میں ڈال ہاتھ، واکنگ کو لے جاؤں رے، دیکھو یار غار کہیں لک ہیر! بانکی۔۔۔۔ (خیر سلا کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین تیسرا محل طاہرہ (طاہرہ کا اندر سے گاتے ہوئے آنا) طاہرہ: جل تھل میں تو ہے، ہر پل میں تو ہے، داتا بدھاتا، بھکھانے میں پربھوناتھ! جگ مات! جگ انوپ روپ دیکھ کر کیرتی گاویں، ہیں جل تھل۔۔۔۔ دوہرا نہ کر عوض مرے جرم و گناہ بے حد کا الٰہی تجھ کو غفور الرحیم کہتے ہیں کہیں کہیں نہ عدو دیکھ کر ہمیں محتاج یہ ان کے بندے ہیں جن کو کریم کہتے ہیں کشپ ہریں تمرے چرن گئیں آویں‘ جل تھل میں… نثر سہیل: امی جان کل مجھ سے طغرل مرزا کہتے تھے کہ بغیر تیر و تلوار کے سلطنت کا کام انجام نہیںدیا جا سکتا۔ طاہرہ: ہاں سچ ہے۔ مگر تیر و تلوار سے رعیت کا سر بادشاہ کے سامنے جھک سکتا ہے دل نہیں جھکتا۔ دل ا س وقت اطاعت کرتا ہے جب بادشاہ نرمی اور انصاف سے پیا ر کرتا ہے۔ سہیل: امی جان میں بڑے رحم اور انصاف سے بادشاہت کروں گا۔ طاہرہ : تو بیٹا تمہاری بادشاہت کو کبھی زوال نہ ہو گا۔ (خادم کا آنا) خادم: حضور عالی! نواب قتلو خاں کے فرزند آپ کی زیارت کے لیے آئے ہیں کیا حکم ہے؟ طاہرہ: ان کو عزت کے ساتھ لائو۔ جائو بیٹا کل کا سبق یاد کرو۔ باغ عالم میں تم خوش حال رہو میرے بچے سدا نہال رہو (طغرل کا آنا) طغرل: خادم کورنش ادا کرتا ہے۔ طاہرہ: خوش آمدی! طغرل خوش آمدی! طغرل: میں اپنی خوش نصیبی پر مغرور ہوں۔ طاہرہ: کوئی شاہی پیغام لائے ہو؟ کیا جنگ فتح ہوگئی اس کا پژمردہ دینے آئے ہو۔ طغرل: بے شک ہم نے دشمنوں پر شاندار فتح پائی اورساتھ ہی ایک بہت بری شکست کھائی۔ طاہرہ: وہ کیا ہے؟ طغرل: آہ کیا کہوں خون امید ہو گیا رعیت کا باپ ہمارا بادشاہ شہید ہو گیا۔ طاہرہ: او خدا! او خدا! یہ کیا می سنتی ہوں؟ طغرل یہ تم کیا کہتے ہو؟ طغرل: وہ جو آپ سے نہیںکہنا چاہتا تھا۔ طاہرہ: تو واقعی سہیل یتیم ہو گیا کی اس کا نصیبہ سو گیا؟ طغرل: بانو ! قسمت اور موت سے کون لڑ سکتا ہے؟ طاہرہ: او قسمت! او بے رحم موت! معصوم سہیل نے تمہارا کیا بگاڑا تھا۔ جو تم دونوں نے مل کر اس کو تباہ کیا؟ طغرل: لیکن آپ تسلی رکھیں جب تک ملکہ عالم سلامت ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیںپہنچ سکتی وہ خود شہزادے کی حفاظت اور آئندہ آرام کے لیے کفی انتظام کریں گی۔ طاہرہ: کون انتظام کرے گی؟ اس کی سنگدل پھوپھی جو مدت سے تخت و تاج کے لیے بھائی کی مو ت کا انتظار کر رہی ہے جو کل تک معصوم سہیل پر نفرت کا اظہار کر رہی تھی۔ طغرل: اگر ملکہ کی نیت حریص و بے انصاف ہوتی تو جس وقت ان کی شاہی ک ااعلان کیا گیا تھا رعایا ضرور برخلاف ہوتی۔ طاہرہ: ہییں تو وہ تاج بھی پہن چکی ؟ تخت پر بھی بیٹھ گئی؟ طغرل: جی ہاں! ملک کی مرضی سے نہ کہ اپنی خود غرضی سے۔ طاہرہ: افسوس! خدا اور انصاف کے ہوتے ہوئے ایک معصوم کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ طغرل : نہیں ایسا نہیں ہوا۔ طاہرہ: ضرور ایسا ہی ہوا۔ طغرل: فرض کر لو کہ ایسا ہی ہوا تو حکومت اور اطاعت کے سامنے کون سر اٹھا سکتاہے؟ طاہرہ: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اب دنیا شریفوں اور بہادروں سے خالی ہے؟ طغرل: میرے نزدیک تو آج ایسا ایک آدمی بھی نہیں ہے طاہرہ: نہیںضرور ہے۔ طغرل : کون؟ طاہرہ: ملک کا رفیق میرا شوہر توفیق۔ طغرل : آپ یہ یقین سے کہتی ہیں؟ طاہرہ: یقین اور ساتھ ہی غرور کے کہتی ہوں۔ طغرل: لیکن انسان کا غرور کبھی قائم نہیں رہتا۔ طاہرہ: اس کی تیغ شجاعت ضرور باغیوں کو نیچا دکھائے گی اور حقدارکو اس کا حق دلائے گی طغرل: آپ اس انگوٹھی کو پہچانتی ہیں۔ طاہرہ: یہ انگوٹھی تو مییر شوہر کی ہے مگر اس سے تمہارا مطلب؟ طغرل : مطلب یہ ہے کہ آپ کے شوہر بھی ملکہ کے طرف دار بن گئے ہیں۔ انہیں کے حکم سے شمسہ کی تاج پوشی کا حال سنانے او ر سہیل کو اپے ہمراہ لے جانے کے لیے آیا ہوں اور اپنی سچائی کے ثبوت میں یہ گواہ ساتھ لایا ہوں طاہرہ: او خدا! اگر توفیق جیسے فرشتے پر دولت اور لالچ کا جادو چل گیا تو کیا معلوم ہو ا کہ ایمان اس فریبی دنیا پر لعنت کر کے نکل گیا۔ طغرل: کہیے اب آپ کو یقین ہوا کہ آپ کے شوہر… طاہرہ: چپ رہو تم میرے شوہر کی توہین کرتے ہو میں ایسے الفاظ ان کی شان میں نہیں سننا چاہتی۔ طغرل: تو کیا آپ سہیل کو دینا نہیں چاہتیں؟ طاہرہ: ارے تم ااور تمہارا بزدل توفیق تمہاری ملکہ اور ملک کے شیطان بھی مل کر زور لگائیں تو سہییل کیا میں اس کا ایک ناخن بھی یہاں سے نہ لے جا سکیں گے۔ طغرل: دیکھو اژدھے کو نہ جگائو۔ شیر کو نہ چھیڑو۔ پہاڑ سے نہ ٹکرائو۔ اگر سہیل اور شمسہ کے بیچ میں آئو گی تو پرانی دیوار کی طرح گرا دی جائوگی۔ تیر سے تلوار سے سختی سے ظلم و جور سے یوں نہیں تو اس کو لے جائوں گا میں اس طور سے طاہرہ: اگر بے عزت ہو کر جانا نہیں چاہتے تو جلدی یہاں سے چلے جائو۔ طغرل: ہاں؟ طاہرہ: جب تک یہ مہر آتش غیرت سے گرم ہے چہرہ پہ آنکھ آنکھ میں دنیا کی شرم ہے کاندھے پہ سر ہے سر میں وفا کا جنون ہے تن میں رگیں رگوں میں شرافت کا خون ہے سینے میں دل ہے دل میں خدا کا خیال ہے ایذا دے میرے لال کو کس کی مجال ہے طغرل: بہت اچھا ابھی آپ کو معلوم ہو جائے گا۔ یہ سرکشی دکھائے گی اب روز بد تمہیں دیکھوں گا کون دیتا ہے آ کر مدد تمہیں (توفیق کا آنا) توفیق: ہیں دغا باز کے بچے! طغرل : کون توفیق اور آزاد! توفیق: نیند کی حالت میں میری انگوٹھی اتار کر ایک نیک خیال عورت کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ بھونک دوں شمشیر قبضے تک دل ناپاک میں توڑ دوں سر ٹھوکروں سے منہ ملا دوں خاک میں طغرل: توفیق! زبان روک ورنہ پچھتائے گا۔ ایک بار شیر پنجے سے نک گیا تو کیا دوبارہ قابو میں نہ آئے گا؟ توفیق: جا چلا جا! یہاں سے جان سلامت لے کر چلا جا ورنہ اس کاجواب زبان کے بدلے ٹھوکروں سے دیا جائے گا۔ طغرل: اس قلعہ کو پامال کر کے اینٹ سے اینٹ نہ بجا دوں اور جس قید سے بھاگ نکلا ہے پھر زنجیروں میں جکڑ کر اسی قید میں نہ پھنسا دوں تو مجھے قتلو خاں کا بیٹا طغرل نہ کہنا۔ (طغرل کا جانا) توفیق: چپ! باد ل کے گرجنے سے شیر نہیںڈرتے۔ تیری گیدڑ بھبکیوں سے ہم جیسے دلیر نہیں مرتے۔ طاہرہ: پیارے شوہرمعاف کرنا آج میرے منہ سے تمہارے شریف نام کی توہین ہوئ۔ توفیق: پیاری بیوی یہ کیا ؟ اگر اس دغا باز کی باتیں سن کر اس سے بھی زیادہ کہتی تو میں نہایت خوش ہوتا۔ طاہرہ: مگر آپ نے شمسہ کی قید سے رہائی کیوں کر پائی؟ توفیق: میرے دوست جنرل قہرمان نے دلائی۔ طاہرہ: لیکن اب وہ دن بہت قریب ہے کہ شمسہ کی فوج ہمارے قلعے کے چاروں جانب وبائی کیڑوں کی طرح پھیلی ہو گی۔اب ہمیں قلعہ اور سہیل کی بغور حفاظت کرنی چاہیے۔ توفیق: نہ گھبرائو۔ جنرل قہرمان نے ہمیں کافی مد د دینے کا وعد ہ کیا ہے۔ ہم نے بھ ینشان بغاوت بلند کیاہے بس میں پہنچا کہ جنگ چھڑی۔ اب میں آپ سے رخصت چاہتا ہوں۔ طاہرہ: شوق جانبازی ہو اک اک رگ میں اک اک بال میں دیکھنا لغزش نہ آنے پائے استقلال میں توفیق: فرق آنے دوں گا میں ہرگز نہ اپنی آن میں مار کر آئوں گا یا مر جائوں گا میدان میں گانا کارزار میں ہزار ماروں دشمن بجلی بن کے تیغ چمکے شرربار رعد گرجے جو دم کارزار‘ جنگ و جدال دم قتال اس کمال سے کروں دشمن کو قابو میںڈال‘ دم بھر میں کروں نڈھال‘ کہیں یہ سرنہ ہو کہیں یہ تن نہ ہو کارزار میں… (گاتے گاتے چلے جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین چوتھا خیر سلا کا محل (میڈم اور سیفو کا مل کر گانا) گانا میڈم: نئے فیشن سے پوزیشن سے سیفو: اویس! میڈم: آئی ایم اے بیوٹی فل میڈمل جس پارٹی میں جاتی ہوں سب کہتے ہیں ویلکم اڑای پھرتی ہوں ٹم ٹم۔ سیفو: آ ہاہاہاہا! میڈم: منہ پر لگایا پوڈر بالوں میں سینٹ ڈالا۔ سائیکل جو گھر سے لی تو راستہ سنبھالا۔ تھیٹر میں رات کاٹی ہوٹل میں د ن گزارا۔ پوچھا اگر میاں نے دن کس جگہ گزارا۔ وہ ڈانٹ دی ہو آر یو۔ کالے چمڑے والا فیشن سے پوزیشن سے… (گاتے گاتے دونوں کا اندر جانا) گانا خیر سلا: قسمت کا ہوں میں اعلیٰ میری جوروبھی ہے بیوٹی فل۔ اب بنا ہوں جنٹل مین اعلیٰ ویری ویل مسٹر خیر سلا۔ ہپ ہپ ہرے ہپ ہپ ہرے ہپ ہپ ہرے جھٹ پٹ لائو کرسی ٹیبل تا خوش ہووے جورو فیشن ایبل کہلائوں تو پھر آنریبل ویری ویل مسٹر خیر سلا ہرے۔ خوشتر ہو کر ڈب کر بن کر اب چلوں بن تن کر میں فیشن سے… دیکھو یار میری آن بان آ ہاہاہاہا ہو ہو ہو۔ نثر واہ بھئی اب تو سنگل سے ڈبل ہو گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ڈربی کی لاٹری اور جو روقسمت سے ملتی ہے۔ مگر ہم کو گھر بیٹھے فیشن ایبل جورو مل گئی ۔ مگر اتنی بات ضرور ہے کہ وہ پرانی جورو آٹھ روپے میں گھر کا خرچ چلاتی تھی اور یہ آٹھ سو اٹھاتی ہے پرھ بھی خرچ کم بتاتی ہے۔ جی اس کی کیا پروا ہے۔ ہمارے اور ان کے روپے کچھ دو ہیںَ آج ہم کماتے ہیں وہ اڑاتی ہے کل وہ کمائے گی ہم اڑائیں گے ارے سیفو سیفو ! (سیفو کا آنا) سیفو: آل رائٹ صاحب! خیر سلا: یہ لومالک نے ٹھاٹ بدلا تو نوکر نے بھی پرانی کنچیلی اتار دی۔ سیفو: فرمائیے کیا حکم ہے؟ خیر سلا: میم صاحبہ کہاں ہیں سیفو: اپنے ڈریس روم میں۔ خیر سلا: کیا بال بناتی ہیں؟ سیفو: نہیں کل ایک بندر مارکیٹ سے خرید لائی ہیں اسے چھری کانٹے سے کھانا کھلا سکھاتی ہیں۔ خیر سلا: بے وقوف بندر کو چھری کانٹے سے کھانا کیسے آئے گا؟ سیفو: کیوں نہیں آئے گا؟ آخر آپ کیسے سیکھ گئے؟ خیر سلا: چپ بے ادب کیا بکتاہے؟ جا میم صاحبہ کو بلا لا۔ سیفو: اچھا تو اپنے نم کا کارڈ دو۔ خیر سلا: کیوں؟ سیفو: میم صحب کا حکم ہے۔ خیر سلا: اے میم صاحب کا بچہ جاتا ہے یا نہیں۔ (سیفو کو مارنا) سیفو: او میم صاحبہ دوڑو مارڈالا ما ر ڈالا۔ میم: (آ کر) وٹ از دی میٹر۔ تم غریب آدمی پر کیوں ہاتھ اٹھاتے ہو؟ خیر سلا: چھوڑو میں اس کی جن لوں گا۔ میم: آخر ا س سے قصور کیا ہوا ؟ سیفو: صرف اتنی سی با ت پر بگڑ گئے کہ میں نے کہا کہ میم صاحبہ سے ملنے کے لیے اپنا کارڈ دو۔ میم: یہ سچ کہتا ہے۔ خیر سلا: تو کیا اپنی بیوی سے ملنا ہو تو کارڈ دکھائو نہیں تو بیرنگ واپس چلے جائو۔ میم: یہ تو ایک قاعدے کی بات ہے۔ خیر سلا: میرے گھر میں ایسا قاعدہ نہیں چلے گا۔ میم: کیوں نہیں چلے گا؟ خیر سلا: تم مجھے دھمکاتی ہو میں تمہارا شوہر ہوں۔ میم: مگر گھر میں آنے کے بعد جورو بن کر رہنا ہو گا۔ خیر سلا: نہیں تو کیو ہوگا؟ میم: میں کبھی ایسے گھر میں نہ رہوں گی یہاں قاعدہ اور فیشن کی عزت نہیں۔ خیر سلا: بھئی واہ شوہر چھوٹے تو چھوٹے مگر قاعدہ اور فیشن نہ چھوٹے۔ یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ اچھا جانے دو۔ میم: نہیں تم نے میرا انسلٹ کیا ہے۔ اس لیے مجھ سے معافی مانگو۔ خیر سلا: ہیں ہیں میںمرد ہو کر عورت سے معافی مانگوں؟ سیفو: اجی مانگ لیجیے یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ خیر سلا: اچھا بھئی معاف کر دو۔ میم ا س برتائو سے معلوم ہوا کہ آپ ایک جنٹل مین ہیں۔ بوائے جائو۔ ہمارے واسطے ایک کپ چائے لائو۔ سیفو: بہت اچھا۔ خیر سلا: اور میرے واسطے؟ سیفو: ٹھہریے صاحب پہلے میں اپنے مالک کا کام کروں گا پھر تمہارا۔ خیر سلا: میں تمہارا مالک نہیں ہوں؟ سیفو: نہیں میں تو میم صاحبہ کا نوکر ہوں۔ خیر سلا: سنتی ہو؟ میم: سچ کہتا ہے کیونکہ تنخواہ میرے ہاتھ سے پاتا ہے۔ خیر سلا: مگر روپے تو میرے ہوتے ہیں میم: اور حکم تو میرا چلتا ہے۔ خیر سلا: تم چاہو گی تو ہم کو بھی کسی روز نکال دو گی۔ میم: یہ کیا واہیات بات کرتے ہو؟ بوائے جائو آیا کو بولو صاحب کے واسطے چائے لائو۔ سیفو: بہت اچھا میم صاحب! میم: ڈیر تم ذرا سی بات پر خفا ہو جاتے ہو؟ دیکھو میں تمہاری کیسی اطاعت کرتی ہوں۔ ذرا یہ چشمے کا بل تو چکا دو۔ خیر سلا: اے بیوی! تمہیں چشمہ لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ تم کو تو اندھیرے میں بلی کی طرح نظر آتا ہے۔ کیا آنکھیں خراب کرو گی؟ میم : آنکھیں خراب ہو جائیں تو بلا سے چشمہ لگائو کیونکہ یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ سیفو: (آ کر) ارے غضب ہوا غضب ہوا۔ میم: کیا ہوا؟ سیفو: آپ کے بندر نے لیمپ گرا دیا۔ سرکار کا نیا کوٹ پتلون سارا جل گیا۔ میم: تو شور کیوں مچاتا ہے؟ کہیں سرکار تو نہیں جل گئے؟ سیفو: اجی سرکار کے کپڑے جلنے کا تو مجھے کوئی بھی افسوس نہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ آس کے ساتھ آپ کے ریشمی موزے بھی جل گئے۔ میم: ہیں ہیںموزے بھی جل گئے۔ ارے کم بخت! کیو ں نہ بچائے! ارے تیرا ستیا ناس ہو جائے۔ خیر سلا: لو! سرکار کا کوٹ پتلون جل گیا تو ٹس سے مس نہ ہوئی۔ اور چھ آنے کے موزے جل گئے تو چھچھوندر کی طرح تھرکنے لگی یہ بھی آج کا فیشن ہے۔ (کپتان کا آنا) میم: کیوں صاحب! آپ نے کیوں تکلیف اٹھائی؟ کپتان: نواب قتلو خاں کا حکم ہے کہ تم لیفٹیننٹ شہریار کو ساتھ لے کر گھوڑے خرید نے جائو۔ خیر سلا: بہت اچھا مگر آج کل ذرا… کپتان: ہاں ہاں جانتا ہوں کہ تم نے ایک خوبصورت عورت سے شادی کی ہے اس لیے گھر سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ۔ مگر تم اس کی مطلق پرواہ نہ کرو۔ تمہارے جانے کے بعد میں تمہارے گھر کی خود حفاظت کروں گا۔ خیر سلا: سرکار! میری عورت نہایت بدصورت ہے۔ کپتان: تو جھوٹا ہے پاجی ہے خبیث ہے۔ (میم کا آنا) میم: بڑے بے ادب نوکر ہیں گولی مار دینے کے لائق ہیں۔ کپتان: خیر سلا! یہ کون ہے؟ خیر سلا : (ارے کہاں سے آئی) حضور یہ میری بیٹی ہے۔ کپتان: کیا کہا؟ کون ہے؟ خیر سلا: میری بیوی ہے۔ ارے تم یہاں کیوں آئیں؟ میم: یہ کون صاحب ہیں؟ خیر سلا: تمہیں اس سے کیا؟ کوئی ہیں۔ میم: میں یہ چاہتی ہوں کہ ہمارا ان سے انٹروڈیوس کرائو۔ خیرسلا: تو نے مجھے کوئی ملائو خاں سمجھا ہے۔ میم: او تم ایٹی کیٹ سے محض ناواقف ہو۔ خیر سلا: اپنی جورو کو دوسرے سے ملانا اس کا نام ایٹی کیٹ ہے۔ میم: اچھا تو میں خود ان سے ملتی ہوں جناب میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں؟ خیر سلا: نا م کیا آپ تو گلے بھی مل سکتی ہیں؟ کپتان: ہاں منظور ہے جو جناب کہتے ہیں۔ میم: میں آپ سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ کپتان: میں آ پ کو دیکھ کر بہت مسرور ہوا۔ خیر سلا: اور میں تم دونوں سے نہایت بیزار ہوا بیگم… کپتان: بیگم؟ خیر سلا: ارے جائو! حضور کے واسطے کچھ شربت وغیرہ لائو۔ کپتان: نہیں شربت سے مجھے ان کی باتیں زیادہ میٹھی لگتی ہیں۔ خیر سلا: باتیں میٹھی معلوم ہوتی ہیں تو آپ خوب باتیں کریں۔ یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ کپتان: بیگم ایسی حسین اور خوش ادا عورت میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ خیر سلا: جناب صرف گھوڑے ہی گھوڑے خریدنے ہیں یا گدھے بھی؟ کپتاں: صرف گھوڑے ہی گھوڑے۔ میم: کیا میں امید کر سکتی ہوں کہ آپ کو پھر بھی… خیر سلا: جناب میں یہ کہتا تھا … کپتان: چپ رہو! بازو میںکھڑے رہو۔ خیر سلا: میری ہی بیوی اور بازو میں کھڑا ہوجائوں یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ کپتان: میں آپ کی زیارت ضرور… خیر سلا: حضور میں… میم: دو آدمیوں کے بیچ میں بار بار بولنا کہا ں کا قاعدہ ہے؟ خیر سلا: ان کو جانے دو پھر میں تجھے قاعدہ بتاتا ہوں۔ کپتان: اب چونکہ وقت ہو گی ہے اس لیے اب میں زیادہ نہیں ٹھہر سکتا ہوں۔ خیر سلا: جناب یہ صلاح آپ کو میں بھی دے سکتا ہوں۔ کپتان: سنو خیر سلا دو گھنٹے کے بعد کیل کانٹے سے لیس ہو کر چھائونی میں دونوں ضرور حاضر رہنا۔ خیر سلا: بہت اچھا۔ کپتان: بیگم خدا حافظ! میم: مہربانی! (کپتان کا جانا) خیر سلا: دیکھو جی میں یہ کہتا ہوں… میم: چپ رہو ! ایک دم چپ رہو! اگر تمہیں ہماری یہ حرکتیں پسند نہیں تو تمہارا وہ راستہ اورہمارا یہ راستہ۔ خیر سلا: خوب ٹکا سا جوا ب دیا۔ میم: تم کیا جانو آج دو روز سے میں کس فکر میں ہوں۔ خیر سلا: کس فکر میں ہو؟ میم: کیا تمہاری آنکھیں پھو ٹ گئی ہیں؟ دیکھتے نہیں کہ میرے پیارے کتے کو زکام ہو گیا ہے۔ خیر سلا: اجی اس کتے کو گولی مارو۔ میم: خبردار جو میرے کتے کا نام لیا۔ میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔ خیر سلا: لو بھئی! کتے کے لیے میاں کا منہ نوچا جاتا ہے یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ (ڈاکٹر کا آنا) ڈاکٹر: گڈ مارننگ میڈم! خیر سلا: ارے او گڈ مارننگ کے بچے پہلے میاں کو سلام کرنا تھا یا بیوی کو۔ ڈاکٹر : کیا تم ان کے شوہر ہو؟ خیر سلا: نہیں تو کیا ان کا باپ ہوں۔ ڈاکٹر: معاف کیجیے! میں آپ کا نوکر سمجھا تھا۔ خیر سلا: ایسے نوکر تو تیرے باپ کے گھر ہوں گے۔ میم: ڈاکٹر صاحب یہ ذرا ان پڑھ آدمی ہیں۔ ان کے کہنے کا آپ کچھ خیال نہ کریں۔ خیر سلا: ارے تیرے لکھے پڑھے کی ایسی کی تیسی مجھے بت ابتاتی ہے۔ میم: ڈیر کیوں خفا ہوتے ہو؟ خیر سلا : کیا سمجھتی نہیں… میم: تمہاری صورت پر سب کو گمان ہوتا ہے… خیر سلا: کیا میں تمہارا بیٹا ہوں۔ میم: آپ کچھ خیال نہ کریں بعض وقت ان سے ایسی بے ہودگی وقوع میں آ جاتی ہے۔ خیر سلا: واہ کیا میاں کی تعریف ہو رہی ہے۔ یہ بھی آج ک کا فیشن ہے۔ میم: ڈاکٹر صاحب آپ میری طرف دیکھیں۔ خیر سلا: اری یہ جب سے آیا ہے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تیری ہی طرف دیکھ رہا ہے۔ مگر اس قبرستان کے ٹھیکیدار کوکیوں بلایا ہے؟ میم: تم سے نہیں کہاتھا کہ رات سے میرا کتابیمار ہے؟ خیر سلا: ارے کتے کے لیے ڈاکٹر بلایا جارہا ہے۔ کیا گھر میں ڈاکٹر نہیں تھا؟ میم: کیا تم بھی ڈاکٹر ہو؟ خیر سلا: میں تو خاندانی ڈاکٹر ہوں مریض کی نبض دیکھ کر اس کے باپ دادا تک کا مرض بتا یتا ہوں۔ ڈاکٹر: اچھا میاں خاندانی ڈاکٹر یہ تو بتائو کہ اگلے زمانے میں سب سے بڑا حکیم کون گزرا ہے؟ خیر سلا: اگلے زمانے میں سب سے بڑا حکیم عبدالرحمن۔ ڈاکٹر عبدالرحمن یا حکیم لقمان؟ خیر سلا: دیسی لوگ حکیم لقمان کہتے ہیں اور انگریزی پڑھنے والے اسے ڈاکٹر عبدالرحمن کہتے ہیں۔ ڈاکٹر: میں سمجھ گیا یہ ڈاکٹر واکٹر کچھ نہیںمگر ایک بات اور پوچھتا ہوں؟ خیر سلا: کیا؟ ڈاکٹر: بھلا کہو انسان ک دل کہاں رہتا ہے؟ خیر سلا: ارے واہ تم اتنا بھی نہیں جانتے۔ ڈاکٹر ہو یا دو پائوں کے گدھے؟ میم: ہیں! یہ گالی گفتہ کیسا؟ خیر سلا: واللہ بے وقوف ہو تو ایسا۔ سنو میاں بلی کا دل چھیچھڑوں میں مفلس کا پیسے میں جنٹل مینوں کا دل انگریزی ٹھاٹ میں سو دیشیوں کا دل بائیکاٹ میں۔ ڈاکٹر: میں یہ نہیں پوچھتا ہوں۔ آدمی کا دل سینے میں کہاں رہتا ہے؟ خیر سلا: لیور کے پاس اور کلیجے کے پیچھے۔ ڈاکٹر: کہاں؟ خیر سلا: ٹھیک داہنی پسلی کے نیچے۔ ڈاکٹر: غلط آدمی کا دل سینے کے بائیں طرف ہوتا ہے۔ خیر سلا: وہ اگلے زمانے میں رہتا تھا۔ ایک طرف بہت دن رہتے گھبر ا گیا ہے اس لیے بائیں طرف سے داہنی طرف کو آ گیا۔ ڈاکٹر: اچھا میم صاحبہ مجھے اب آ پ وہ کتا دکھائیے۔ میم: چلیے ڈاکٹر صاحب میں اپنا پیارا کتا آپ کو دکھاتی ہوں۔ خیر سلا: میں بیمار ہوں تو ڈاکٹر کو نہیں بلایا جاتا اور کتے کے لیے گھر میں ڈٓکٹر کو بلایا جاتا ہے۔ میم: ڈیئر ناراض نہ ہو مجھے تم سے اپنا کتا پیارا ہے۔ خیر سلا: یہ بھی آج کل کا فیشن ہے۔ خدا جانے اس کتے والی عور ت سے کس طرح نباہ ہو گا؟ گانا یہ عورت ہے ‘ یہ آفت ہے‘ بدخصلت ہے‘ بے عزت ہے‘ اس کی صورت غارت ہے‘ مجھ کو نفرت نفرت ہے۔ ملے جورو جس کو ایسی وہ بہار دیکھے کیسی لعنت بھیجو یارو جورو کی ایسی تیسی‘ لے موٹر سائیکل چنچل تن کر فیشن ایبل بن کر سڑکوں پر کرکر چھل بل کرتی ہے کیا کیا دھاندل ملے جورو… کبھی جھٹ پٹ گاڑی اور تھیٹر پر جا دوڑی نہیں ہوتی دل میں تھوڑی‘ بالکل اڑیل گھوڑی لعنت بھیجو یارو جورو کی ایسی تیسی۔ (گاتے گاتے اندر جانا) سین ختم ٭٭٭ باب پہلا سین پانچواں قلعہ ٹاور (لوگوں کی آواز کا آنا) طاہرہ: او خدا ! او خدا! او خدا! یہ خوفناک آوازیں کیسی آ رہی ہیں؟ شاید جنگ چھڑ گئی۔ افسوس ملک کی عورتو! ماتم کرو کہ آج تمہاری سینکڑوں بہنیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے۔ بچو گریہ زاری کرو۔ لوگو! سیاہ لباس پہنو کہ آج تمہارے ہزاروں بھائی ہمیشہ کے لیے تم سے جدا ہوجائیں گے۔ زباں پہ فریاد لب پہ نالے جگر میں حسرت کے داغ ہوں گے جو گھر تھے کل تک جگمگاتے وہ آج سب بے چراغ ہوں گے (توفیق کاآنا) توفیق: پیاری بیوی! طاہرہ: کون؟ توفیق وائے بے عزتی! دور کھڑے رہو! توفیق: طاہرہ! تم مجھے غصے سے دیکھ رہی ہو۔ طاہرہ: ہاں میں تمہیں غصے اور نفرت سے دیکھ رہی ہوں۔ توفیق: لیکن سبب؟ طاہرہ: تم بزدل ہو۔ مرد بن کر دنیا کو دھوکا دے رہے ہو۔ کیا جنگ فتح ہو گئی؟ اس کا مژدہ دینے آئے ہو؟ توفیق: افسوس! سوائے ہار کے اور شکست کے اب ہمارے نصیبوں میں اور کیا رکھا ہے؟ تمام فوج بے زبان بھیڑوں کی طرح وفاداری کی قربان گاہ میں ذبح ہو گئی طاہرہ: تم کیسے زندہ رہے؟ جس کو سب سے پہلے مرجانا تھا کیامیدا ن جنگ سے شکست کھا کر میری گود میں چھپنے کے لیے آئے ہو؟ توفیق: نہیں مرنے سے پہلے تیری آخری وفاداری آزمانے آیا ہوں۔ طاہرہ: کیا مالک اپنی لونڈی کو آزماتا ہے؟ شوہراپنی بیوی کا امتحان لیناچاہتا ہے؟ تو لو سر حاضر ہے۔ گردن اڑا دو۔ فرماں برداری آزما چکے اب وفاداری بھی آزما لو۔ توفیق: ہاں تجھے قتل کروں گا مگر ہاتھ سے نہیں صرف ایک بات سے۔ طاہرہ: میرے مالک! میرے سرتاج! میں آپ کا کہنا ابھی تک نہیں سمجھی۔ توفیق: اچھا سمجھو اور سنو جس لڑکے کو آٹھ برس تک پلا اور کلیجے سے لگایا آج اس کی قربانی کا روز آیا۔ طاہرہ: یعنی ؟ یعنی؟ توفیق: سہیل کو وفادار ہشام کے ساتھ کہیں بھگا دو۔ کہیں چھپا دو اس کے عوض میں ظالم طغرل کی شمشیر پر اپنے لخت جگر کو بھینٹ چڑھا دو۔ طاہرہ: تم باپ ہو کر یہ کیا فرما رہے ہو؟ میں ماں ہو کر یہ کام کس طرح کر سکتی ہوں؟ افسوس میرا بچہ میرا رشید! توفیق: اگر بچے کی محبت مالک کی بے وفائی سکھاتی ہے تو دنیا کی خوشی کے لیے عاقبت ک گنہگا ر بناتی ہے تو اس کو جانے دو۔ہرگز نزدیک نہ آنے دو۔ طاہرہ: یہ سب سچ ہے۔ مگر میرے مالک بچالو سہیل کے ساتھ میرے بچے کو بھی بچا لو۔ چاہے اس کے عوض میری جان نکال لو۔ توفیق: نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ جب تک ظالم طغرل کو یقین نہ ہو جائے کہ دشمن مر گیا تب تک سہیل نہیں بچ سکتا۔ بس جلدی کرو اور مانو۔ طاہرہ: میں مانتی ہوں مگر مامتا نہیں مانتی۔ توفیق: ایسی مامتا کو پھونک دو آگ لگا دو۔ میرے ہر روئیں پہ جس کے لاکھ لاکھ احسان ہیں ایسے سو بیٹے اس کے لال پر قربان ہیں طاہرہ: خیر تمہاری اور خدا کی یہی مرضی ہے تو میں جی کڑا کر کے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کو تیار ہوں۔ توفیق: آفرین! اے وفادار عورت آفرین! اے دنیا کی عورتو شوہر کا حکم کس طرح ماننا چاہیے وہ اس عورت سے سیکھو۔ اٹھ اے شریف بی بی اٹھ۔ میں اس میدان جنگ میں خوشی اور راحت سے مروں گا اور قیامت کے دن غرور اور عزت کے ساتھ اٹھوں گا۔ طاہرہ : لونڈی تابعدار ہے۔ دم قدم کے ساتھ ہے۔ توفیق: میری عزت سلام! یہ آخری ملاقات ہے۔ (توفیق کا جانا) طاہرہ: ہائے میرے سینے میں دھاڑیں مار مار کر کون رو رہا ہے۔ نکل جا اے بے رحم الگ ہو جا۔ بیٹے کی محبت مجھے خدا اور شوہر سے بے ایمان بنانا چاہتی ہے۔ وفاداری کی راہ سے پھرانا چاہتی ہے۔ نہیں نہیں میں بیتیکے خون سے وفاداری کی کتاب پر دستخط نہ کروں گی۔ اے عورت کے دل ہمت پکڑ بے رحمی تو اس کے دروازہ پر پہرہ دے تاکہ ڈر اور خوف گھسنے نہ پائے۔ اے رات تو اس قدر گہری ہو ج کہ میرے ہاتھ کا کام میری آنکھیں دیکھنے نہ پائیں۔ (ہشام کا گھبرائے ہوئے آنا) ہشام: حضور بچوں کی حفاظت کیجیے۔ قلعے کا مغربی دروازہ بھی فتح ہو گیا۔ طاہرہ: ہشام ہشام! اب وفاداری دکھائو۔ سہیل کو لے کر اس چور دروازے سے نکل جائو۔ میں اس کے عوض میں اپنے لخت جگر کو بھینٹ چڑھا دوں گی۔ ہشام: مگر یہ دائو کیوں کر چلے گا دشمن اسے پہچان نہ لے گا۔ طاہرہ: نہیںسہیل اور رشید کی عمر میں تھوڑا سا فرق ہے اس لیے کوئی ان دونو ں میں تمیز نہیں کر سکتا۔ بس اب دیر نہ لگائو۔جلدی سے سہیل کو لے کر کہیں چللے جائو۔ سہیل: امی جان! مجھے کہاں بھیجتی ہیں؟ طاہرہ: وہاں جہاں دشمن سے امان ہو۔ سہیل: نہیں میں کہیں نہیں جائوں گا۔ کیا تمہارے دل سے میر ی محبت جاتی رہی ؟ طاہرہ: ہائے میں اسے کس طرح بتائوں؟ کیا دل چیر کر دکھائوں؟ سہیل بھاگ بھاگ اس قصاب خانے سے نکل جا ۔ موت خونی کتے کی طرح تیری بو سونگھتی ہوئی آ رہی ہے۔ سہیل: نہیں میں ہرگز نہیں جائوں گا۔ (ہشا م کا گود میں اٹھا کر لے جانا) طاہرہ: سہیل خدا حافظ! (طاہرہ کا بیہوش ہو کر گر جانا رشید کا آنا) رشید: امی جان! امی جان! یا اللہ! امی جان کو کیا ہو گیا ہے؟ امی پیاری امی! طاہرہ: کون ؟ رشید؟ میرا لال! میرا بیٹا! مگر نہیں کم بخت دور ہو تو میرا بیٹا نہیں ہے۔ رشید: امی! تم کیا کہہ رہی ہو؟ میں تمہارا بیٹا ہوں۔ طاہرہ: ہاں ہاں! تو میرا بیٹا ہے۔ میر ا رشید ہے۔ آ ! آ! میری گود میں آ۔ تو میرے گھر کا اجالا ہے ۔ آ میرے بچے میں نے تجھے بڑی محنت سے پالا ہے۔ مگر بچہ! کس کا بچہ؟ کیسا بچہ؟ شیطان بن کر میرے ایمان کو ٹھگنے آیا ہے تجھے کس ے بلایا ہے؟ میرا کوئی بچہ نہیں۔ میں کبھی ماں نہیں بنی۔ کیا میں ماں ہوتی تو تجھے اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح کراتی؟ رشید: امی! امی! تم تو دیوانی ہو گئی ہو۔ طاہرہ: ہاں! ہاں! میں دیوانی ہو گئی ہوں۔ بلکہ ڈائن بھی ہو گئی ہوں۔ رشید: یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ طاہرہ: افسوس اے دنیا کے لوگو! یہ کون سے مذہب کا دستور ہے؟ کون سی شریعت کا قانون ہے؟ دوسرے کے بچے کے لیے اپنے بچے کا خون بہانا رشید ادھر آ۔ (اندر سے زہر کی شیشی لا کر رشید کو سونگھانا) رشید: یہ کیا ہے طاہرہ: بے ہوشی کی دوا۔ رشید: کیوں؟ طاہرہ: تاکہ تجھے مرتے وقت تکلیف نہ ہو۔ رشید: نہیں ایسا نہ کہو۔ طاہرہ: اے کم بخت! تجھے سونگھنا ہو گا۔ تجھے مرنا ہو گا۔ رشید: آہ ! رحم ! رحم! طاہرہ: سو گیا بے ہوش ہو گیا۔ جا جا! راحت کی دنیا میں! وہاں جا کر حوروں سے دل بہلا۔ وہاں تیرے بزرگوں کی پاک روحیں ہیں۔ تو ان سے میری مصیبت بیان کر دینا۔ رشید: اے مہربان ماں! میری طرف نفرت سے نظر نہ اٹھائو۔ اگر میری مجبوری جانتی ہو تو بہت نہیںفقط دو ہی آنسو رحم کے بہائو۔ طاہرہ: یہ میں نے کیا کیا؟ بیٹا بیٹا! رشید! کیا اتنی جلدی اپنی ماں سے خفا ہو گئے؟ ہمیشہ کے لیے سو گئے؟ بولو! بولو! فقط ایک بار بولو۔ اٹھو! آئو! میرے پیارے ! ذرا لگ جائو سینے سے خفا ماں سے نہ ہو گر ہو گئے بے زار جینے سے (پٹاخے کا پھٹنا اور دیوار میں ایک دروازہ سا ہو جانا) یا خدا! یہ خوفناک دھماکہ! یک بیک دیوار میں دروازہ کیسا ہو گیا؟ (طغرل کا مع فوج وغیرہ کے آنا) طغرل: فتح فتح! کامیابی یہی ہے گنج مراد یہی ہے خزانہ کامگاری طاہرہ: زمین کے بوجھ تو کون ہے؟ طغرل: کون ہوں طغرل بہادر سپاہی فاتح جہان کی عزت۔ طاہرہ: نہیں جہان کی ذلت نیکی اور ایمان کا دشمن۔ طغرل: اگر سہیل کو نہ دیا تو اس سے زیادہ تیرا دشمن بن جائوں گا۔ تمام دنیا کو الٹ دوں گا۔ طاہرہ: ارے تو کیا اگر تمام دنیا کے شیطا ن مل کر آئیں تو بھی سہیل تو کیا اس کا ایک ناخن بھی یہاں سے نہ لے جا نے پائیں۔ طغرل: بدذات یہ بات ادھر آئو اسے باندھ کر کوڑے لگائو۔ طاہرہ: ارے کوڑے کیا تو موت کے شکنجے میں کھنچوا دے سر تن سے اڑا دے۔ جلا دے یا مٹا دے سر کٹا دے نہیں ممکن زباں اس کا پتا دے طغرل: موت مجھ سے زیادہ بے رحم نہیں۔ صفدر بڑھو! کیاتو میرا حکم نہیںسنتا؟ صفدر: حضور! مجھے شرافت آپ کا حکم سننے سے منع کرتی ہے۔ طغرل: بودے! نامرد! بزدلی دکھاتاہے۔ صفدر: معاف کیجیے! بزد ل ے جو مرد ہو کر ایک عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔ طغرل: ذلیل دغا باز نمک حرام! صفدر: ٹھہریے میں نمک حرام نہیں ہوں۔ میں نے آج تک ہمیشہ آپ کے پسینے پر خون بہایا ہے۔ لیکن مجبور ہوں کہ خدا نے یہ ہاتھ عورت کے لیے نہیں بلکہ مرد کے لیے بنایا ہے۔ طغرل: تو کیا تو میرا حکم بجا نہ لائے گا؟ صفدر: جو شریف اور بہادر سپاہی ہے وہ مر جائے گا مگر مرتی ہوئی عورت پر کبھی ہاتھ نہ اٹھائے گا۔ طاہرہ: یا خدا کیا ان قصابوں کی جماعت میں بھی کوئی نیکی کا فرشتہ موجود ہے؟ اے کم بخت دیکھ اس کو کہتے ہیں جواں مرد اور شریف۔ طغرل: تو جھوٹی ہے اگر نوکر وفادار ہو تو کبھی ایسی نافرمانی نہیںکرے گا۔ صفدر: صاحب! اگر مالک شریف ہو تو کبھی ایسا ذلیل حکم نہ دے گا۔ طغرل: چپ بدسیر ! لے جائو! ماردو تلوار اڑاد و سر! صفدر: ہاں مجھے لے چلو یہ دنیا فانی ہے۔ ہیضہ طاعون کھانسی بخار میں سسک سسک کے مرنے سے وفاداری اور نیکی کی راہ میں مرنا خدا کی مہربانی ہے۔ طاہرہ: ارے ظالم! اس آئینے کو نہ توڑ جو تجھے تیری اصلی صورت دکھاتا ہے۔ صفدر: بانو آپ میرے لیے رنج نہ کریںَ کیونکہ برے درخت سے ہمیشہ براپھل اور بے مالک کی نوکری سے ہمیشہ برا نتیجہ ملتاہے۔ طغرل: دیکھ اس طرح ملتا ہے۔ (صفدر کو پستول سے مار دینا) صفدر: آہ! او خدا (مرجانا) (توفیق کا زخمی اور ہتھکڑی پہنے ہوئے آنا) طغرل: کون میرا شکار؟ طاہرہ: میرا غریب شوہر؟ توفیق: مصیبت کے طوفان تکلیفوں کی آندھیاں آفتوں کے ریلے فقط جیتے جی کے ہیں جھمیلے زمین پر آسمان چکی کے پاٹ کی طرح جاری ہے بچپن اور جوانی کو پیس چکا اب بڑھاپے کی باری ہے۔ ہیچ دنیا ہے یہ عقبیٰ کی طلب گاری میں آخری سانس بھی نکلے تو وفاداری میں طغرل: ذلیل! باغی مجسم غداری! یہ ذلت و خواری پھر بھی نہ گئی وفاداری؟ توفیق: وفاداری سچا دین ہے ۔ پاک ایمان ہے وفاداری پر بال بچے بیوی سب کچھ قربان ہے۔ طغرل: نجس بوڑھے زبان بند رکھ۔ زندگی اور سہیل دونوں میں سے جو پیاری ہو اپنے لیے پسند کر۔ توفیق: خونی کتے ہم زندگی دیں گے مگر پیارے سہیل کو کبھی نہ دیں گے۔ طغرل: کیاتو موت سے نہیں ڈرتا؟ توفیق: سپاہی موت کے ساتھ ہر روز کھیلا کرتے ہیں۔ طغرل: تو لے موت! یہ تیرا شکار۔ (پستول سے توفیق کو مار دینا) توفیق: او خدا حق ادا۔ طاہرہ: ارے کم بخت ظالم ! یہ تو نے کیا کیا! او خدا! تو اپنی خدائی کو چھوڑ کر کہاں چلا گیا۔ غفلت کی نیند میںکیا اب تو سو رہا ہے کیا دیکھتا نہیں ہے کیا ظلم ہو رہا ہے طغرل: چپ نابکار! خدا کو نہیں اب موت کو پکار! اگ رسہیل کو نہ دیا تو تجھے بھی تیرے خون میںنہلائوں گا۔ تمام دنیا کو الٹ دوں گا۔ سارے گھر میں آگ لگائوں گا۔ جہاں سے ملے گا سہیل کو ڈھونڈ لائوں گا اور اس کے خون سے اپنی تلوار کی پیاس بجھائوں گا۔ طاہرہ: یا خدا تاج سر سے گر پڑا اب گود بھی خالی کروں اپنے ہاتھوں سے میں اپنے گھر کی پامالی کروں طغرل: بول وہ موت کا نوالا میرے خجر کو چورنگ میرے تیر کا ہدف‘ میرے نیزے کا نشانہ کہاں ہے؟ طاہرہ: جا خونی کتے! وہ تیری خوراک پڑی ہے کھا لے مار ڈال۔ سر تن سے اڑا ڈال۔ اے منعم حقیقی ! کیا تو سو گیا۔ کیا قانون قدرت منسوخ ہو گیا۔ غصے کی آگ سے اب تن من جلا دے اس کا قہر و غضب سے اپے سب زور ڈھا دے اس کا (رشید کو اٹھاکر لانا اور اسے خنجر سے ہلاک کرنا) طغرل: یہی ہے میرے درخت شجاعت کا ثمر یہی ہے۔ طاہرہ: او خدا! او خدا! یہ خوں فشاں نظارہ آنکھوں سے دیکھا جائے گا۔ دنیا کی تمام مصیبتیں ایک ہمارے ہی واسطے ہیں۔ نہیں ہوتی جو نازل ہر بلا ہے مرا گھر ہے کہ ظالم کربلا ہے (بے ہوش ہو کر گر جانا) ڈرا پ سین ٭٭٭ باب دوسرا سین پہلا اگلا جنگل (سب کا مل کر گانا) کب تک بھٹکیں گے اے یارو! میدان ندی نالے جھالے جھرنے جھاڑی جھیل‘ کاٹے چکر سو سو میل‘ لوٹو گھرکو کیا ہے ڈھیل‘ ہم کس بلا کے پڑ گئے پالے‘ تن پر تو ہے زر کی جھول‘ منہ پر جمی ہے نومن دھول‘ مل گئی بھائی اپنی بھول‘ پڑگئے پائوں میںاب چھالے کب تک… نثر پہلا: مل جا بھائی سہیل مل جا! تو نے ہم کو حیران کر دیا دربدر پھرتے ہیں ہم پیروں میں چھالے پڑ گئے دھوپ میں جل جل کر سب کے چہرے کالے پڑ گئے دوسرا: ہاں ہاں بتائو سوچ کے کس سمت ہم بڑھیں باندھیں کدھر کی سیدھ کدھر کو قدم بڑھیں پہلا:یہ راستہ تو بڑا دشوار ہے۔ دوسرا: اب یوں بڑھیں۔ پہلا: تو اس راستہ میں ایک غٓار ہے۔ دوسرا: اور یوں جھکیںَ پہلا: تو دور تک کوہسار ہے۔ دوسرا: اور اس طرف۔ پہلا: تو جان لو بیڑا پار ہے۔ تیسرا: جب سب طرف خطرہ ہے تو پھر ہم کدھر چلیں۔ چوتھا: میری تو یہ صلاح ہے کہ بس اب گھر چلیں۔ پہلا: لو یہ تو لوٹ چلنے کو تیار ہو گیا کیا زندگی سے اپنی بے زار ہو گیا شمسہ کی سختیوں کی تمہیں کیا خبر نہیں پیچھے ہٹے قدم تو سمجھ لو کہ سر نہیں چوتھا: ارے بھائی! سہیل کو نہ پائیں تو کہاں جائیں؟ مفت ا س جنگل میں کسی بھیڑیے یا شیر کا نوالہ ہو جائیں۔ پہلا: تو تو بزدل معلوم ہوتا ہے۔ چوتھا: اور تم کیا رستم کے سگے ہو؟ پہلا: میں بے شک خاندانی بہادر ہوں۔ چوتھا : شاید فردوسی نے شاہنامہ میں تمہارے ہی باپ دادا کا ذکر کیا ہے۔ تیسرا: ارے تم سہیل کو ڈھونڈنے آئے ہو یا گپیں ہانکنے؟ دوسرا: اب چلو زور لگائو۔ سب : کب تک بھٹکیں گے یار۔ (سب کاجانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین دوسرا باغ (سہیلیوں کا آنا) گانا بار بہار آئی‘ ہونے نثار آئی‘ کرتی ہیں جھیلیں شور ‘ پیاری نگار آئی‘ چھاتی ہر گل پہ ہے لالی بلبل جھولے ہر ڈالی ‘ پھولوں کی جھلک سے جیا شاد‘ کرو ہل ہل سنگ پھولوں کی پہن چلت پون ہر گل پہ تم پہ واری سکھیاں ساری‘ جیرا ہر وا گرے میں ڈاریں سندر پیر و اگلشن تم پہ واریں۔ نثر چوتھی: واہ واہ! تیسری: سبحان اللہ! دوسری: ماشاء اللہ جام بہار پی کر اشجار جھومتے ہیں اک دوسرے کو مل کر مستی سے چومتے ہیں فیاضیاں چمن میں اپنی دکھا رہے ہیں بادصبا کے جھونکے خوشبو لٹا رہے ہیں پہلی: جھوم رہی ہے پتی پتی اس گلشن کی ڈالی میں کلیاں کھل کر پھول رہی ہیں ہر جانب ہریالی میں کوئل ڈھول بجاتی ہے اور بلبل تان لگاتی ہے دل کو فرحت تاک دھنا دھن کیا کیا ناچ نچاتی ہے تسنیم: جس طرف دیکھو چمن میں مرے رعنائی ہے محو نظارہ ہے دل چشم تماشائی ہے موتی بکھرے ہیں یہ قطرے ہیں نہیں شبنم کے آتش گل کا دھواں ہے کہ گھٹا چھائی ہے تیسری: گلعذار و سروقد غنچہ دہن تم بھی تو ہو سر سے لے کر پائوں تک پیاری چمن تم بھی تو ہو چوتھی:پیاری باغ کے ستھ کچھ اپنی بھی تو تعریف کیجیے۔ تسنیم: مجھ میں کیا دیکھا جو پیاری چمن کہتی ہو تم چھیڑ خانی کو مری ایسے سخن کہتی ہو تم دوسری: اجی سرکار ! یہ شچمن بھی وہ گل بے خار ہے جس پر بلبل جاں نثار ہے۔ پہلی: ہاں ہاں اس گل کو کسی بلبل کا انتظار ہے۔ جہاں پھول ہوتاہے وہاں بلبل آتاہے۔ چوتھی: جہاں چوہا ہوتا ہے وہاں بلی کودتی ہوئی جاتی ہے۔ دوسری: مگر کوئی بلبل آئے تو اسے غصے سے نہ ڈرانا۔ چوتھی: بلکہ چمکار کے پاس بٹھانا۔ تیسری: پھر اسے شادی کے پنجرے میں پھنسانا۔ پہلی: جب پھنس جائے تو ہر روز نخروں کی چھری چلانا۔ تسنیم: دیکھو بھئی! اب ہم صبر کھودیں گے۔ زیادہ ستائو گی تو خدا کی قسم ہم رو دیں گے۔ دوسری: پیاری تمہیں اپنی قدر نہیں۔ پری ہو مشتری ہو حور ہو محو تماشا ہو اٹحا کرآئینہ دیکھو تو ہو معلوم تم کیا ہو تسنیم: نگوڑیو! کیا تم سبھوں نے مل کر مجھے چھیڑنے کی قسم کھا لی ہے؟ پہلی: پیاری! شادی کا ذکر کرنا کیا کوئی گالی ہے؟ گانا سہیلیاں: البیلا چھبیلا اسیا لا دیں گے جو رنگیلا ہو۔ ئی آن کا نئی بان کا دل و جان کا البیلا چھبیلا۔ اری موٹر چلانے والی سیر کرادے ‘ ایسی شان کا البیلا چھبیلا۔ تسنیم: بڑی موٹر چلانے والی اری چل چل چل۔ بڑی باتیں بنانے والی اری چل چل چل۔ سہیلیاں: اجی واہ واہ وا! تسنیم: نئے نئے فیشن تو ساجن سہیلیاں: بڑی فیشن دکھانے والی اری چل چل چل۔ سیکل پر بٹھا کے سیر کرا دے۔ واہ ذی شان کا البیلا چھبیلا۔ (سب کا جانا شہریار و فیضو کا آنا) فیضو: اجی بندہ نواز گھر سے گھوڑے خریدنے نکلے ار یہاں دھنس پڑے۔ یہ باغ کسی زنان خانہ کا ہے۔ یہاں مردوں کا آنا منع ہے۔ اگر بے دم کے چوہوں کو پولیس کا باگڑ بلا دیکھ پائے گا تو سیدھا بڑے گھر پہنچائے گا۔ شہریار: ابے تیری طبیعت تو مرغی کی طرح خوف کے انڈے دیا کرتی ہے۔ راہ ک تھکے ماندے ہیں ذرا سو جائیں گے۔ کسی کا باغ اپنے گھر نہ اٹھا کر لے جائیں گے ۔ ناحق کیوں سر پھراتا ہے؟ فیضو: اگر میری باتوں سے آپ کا سر پھرتا ہے تو مرغا اپنی ککڑوں کوں کو بند کرتا ہے؟ سہیلیاں: (اندر سے) بھاگو بھاگو شیر آیا (پٹاخہ) شہریار: موذی سر د ہو گیا ہائے گلاب سا چہرہ خوف سے زرد ہو گیا۔ (تسنیم کا پہلو بہ پہلو ہو کر شہریار کی گو دمیں گرنا) فیضو: ہت تر ے ک یہ کیا؟ شہریار: کیوں بے تو یہاں کیوں آیا؟ فیضو: آ پ کا ناٹک دیکھنے۔ شہریار: چل نکل یہاں سے اس وقت یہاں خلوت ہے۔ فیضو: سچ ہے بابا کباب میں ہڈی کی کیا ضرورت ہے۔ شہریار: اے مصور کے قلم شاعر کے خیال قدرت کی کاری گری! فیضو: جناب آپ کے ہاتھ تھک گئے ہوں گے لائیے میں لے لوں۔ شہریار: کم بخت تو پھر آیا یہاں سے فوراً چلا جا۔ فیضو: جی بجا ہے قبلہ! شہریار: جاگ جاگ! اے حسینہ جاگ اور قدرت کا تماشا دیکھ! تسنیم: اری نرگس! سوسن ! چھوئی موئی سب کدھر ہو؟ شہریار: گھبرائیے نہیں وہ سب یہیں ہیں شیر کے ڈر سے ادھر ادھر ہو گئی ہیں۔ تسنیم: صاحب! کیا شیر سے میری جان آپ نے بچائی؟ شہریار: انسان کی کیا مجال بچانے والا وہ ذوالجلال ہے۔ تسنیم: میرے بچانے میں آ پ کوکوئی زخم تو نہیں آیا؟ شہریار: یوں تو کوئی زخم نہیں آیا۔ ہاں دل کے اندرجو چرکا لگا ہے اس کی خبر نہیں۔ فیضو: عشق کی اندر سبھا کا پہلا باب شروع ہو گیا۔ تسنیم: آپ کون صاحب ہیں؟ شہریار: بانو! میں ایک پردیسی سپاہی ہوں۔ تسنیم: یہاں کس غرض سے تشریف لائے ہیں؟ فیضو: ایک بیوی کے لیے آئے ہیںَ تسنیم: میں سمجھتی ہوں کہ آپ ش ش فیضو: ہاں ہاں شادی کے طلب گار ہیں۔ ماشاء اللہ آپ بڑی ہوشیار ہیں (سہیلیوں کاآنا) پہلی: یہ لو یہاں تو کچھ اور ہی ہو رہا ہے۔ دوسری: یہ سیر کے بھائی سوا سیر کہاں سے آن کودے؟ تیسری: پیاری! یہ کون صاحب ہیں؟ تسنیم: کون؟ کہاں؟ دوسری: وہ جو بہت خوش نظر آتے ہیں۔ ہمیں یا تمہیں خدا جانے کسے دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ تسنیم: کہاں ہے؟ کدھر ہے یہاں کوئی بھی نہیں ہے۔ پہلی: یوں دیکھو یوں۔ تسنیم: یہ چوتھی: ہاں بولو نا! تسنیم: یہ وہ ہیں جنہوںنے میری جان بچائی۔ تیسری: تو پھر آپ کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ فیضو: بے چاری شکریہ ہی تو ادا کر رہی ہیں۔ دوسری: تو کیا ہماری بانو کو احسان فراموش سمجھتے ہیں؟ اجی شکریہ ادا کرنا ہو گا تو اس کے صلے میں کوئی بڑا بھاری انعام بھی عطا کرنا ہو گا۔ پہلی: ہاں ہاں! پیاری! کیا انعام دیا؟ ہمیں بھی بتائو؟ چوتھی: اجی واہ! بس سمجھ جائو۔ تسنیم: جائو جائو ! مجھے نہ ستائو مفت کی پھبتیاںنہ اڑائو۔ تیسری: اچھا اچھا نہ شرمائو۔ اب بہت دیر ہوئی چلو گھر کو آئو۔ تسنیم: ہاں ہاں چلو بندگی! (جانا) شہریار: کورنش سونگھنے تک بھی نہ پایا تھا کہ وہ گل اڑ گیا رہ گیا الو کا پٹھا اور وہ بلبل اڑ گیا ہت تیری کی یہ تو پھر آ گئی۔ تسنیم: (آ کر) جناب مجھے معاف کیجیے۔ میں جلدی میں آپ کا شکریہ ادا کرنا بھول گئی ہوںَ شہریار: لیکن خدا کے لیے کہیں مجھے دل دے نہ بھول جانا۔ تسنیم: آ پ کی مہربانی کہیں بھول جانے کے قابل ہے۔ پہلی: (آ کر) اجی واہ! تم پھر یہیں ہو چلو آئو! جلدی قدم بڑھائو۔ شہریار: میری امیدوں کی دنیامیں اندھیرا ہو گیا فیضو: بھائی اب تم گھر چلو یاہں تو سویرا ہو گیا شہریار: چل ہٹ ادھر سے ۔ بک بک نہ کر۔ تسنیم: (آ کر) کہیے آپ نے بلایا؟ فیضو: یہ عورت کوئی گلے پڑو معلوم ہوتی ہے۔ شہریار: ہاں میں یہ پوچھتا ہوںکہ چاند رات کو اور سورج صبح کو نظر آئے گا مگریہ نورانی چہرہ پھر کب دکھائی دے گا؟ پہلی: اے واہ! تم پھر یہاں آ گئیں۔ چوتھی: اجی میاں تمہار گھر پر ہے کہ نہیں؟ فیضو: گھر! اب تو ان کی قبر یہیں بنے گی۔ تیسری: کیا یہاں چمک پتھر ہے جو بار بار تجھے کھینچ لاتا ہے؟ دوسری: بس بس زیادہ نہ مچلو۔ اب گھر چلو۔ تسنیم : ارے ہائے! پہلی: کیا ہوا؟ تسنیم: پائوں میں کانٹا چبھ گیا فیضو: پائوں میں کانٹا چبھ گیا یا دل میں بسولا اتر گیا۔ شہریار: اگر حکم ہو تو ی کانٹا میں نکالوں۔ پہلی: بے شک! یہ کانٹا آپ ہی سے نکلے گا۔ تسیم: اری چپ ! کیا دیوانی ہو گئی ہے؟ پہلی: بس بس! اب چونچلے چھوڑو اور سیدھی طرح گھر کی طر ف منہ موڑو۔ بندی یہ سب دل کی گھاتیں خوب ہے پائی ہوئی اس کو سمجھاتی ہو جو ہے سمجھی سمجھائی ہوئی گانا سہیلیاں: ہاں رے گوری چلو نہ ٹھارہ البیلی اربیلی دیکھو باتوں میں جو بن لوٹے نہ کوئی نویلی اربیلی سکھی ری میں ہاری‘ ہاری موہے نہ ستائو اب جائو کون رنگیلے رسیلے سے پیاری نہیا لگا بتائو ہاں اب نہ بولوں گی تم سے گوئیاں روز نہ چھپائو گئیں سب جان سکھیاں کر کے سب گھات من کی بات کاہے چھپائے بھیت ہیں موہنی اکھیاں ہاں رے گوری… سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین تیسرا اگلا محل (شمسہ و قتلو کا گفتگو کرتے ہوئے آنا) شمسہ: قتلو میں نہیں خیال کر سکتی کہ چالاک طاہرہ نے کس طرح غافل طغرل کی آنکھوں میں خاک جھونک کر سہیل کو بچا لیا۔جب میں اس کی طرف خیال دوڑاتی ہوں تو اپنی آزادی اور امیدوں کو خطرے میں پاتی ہوں۔ قتلو: لیکن آپ اب تسلی رکھیں۔ سہیل اب زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کی گرفتاری کے لیے کافی بندوبست کر دیا ہے اس کی تلاش میں ایک دستہ سپاہ کا چو طرف روانہ کیا ہے۔ شمسہ: بہت خوب۔ (قہرمان کاآنا) شمسہ: جنرل قہرمان میں امید کرتی ہوں کہ جیسی دلاوری سے آپ اپنے ملک کے لیے لڑ رہے تھے ویسے ہی ہماری آپ ہمارے ملک کے لیے بھی کریں گے اور اپنے مالک کی وفاداری کا ثبوت دیں گے۔ قہرمان: ملکہ عالم! اس جھوٹی اور دغا باز دنیا میں وفادار ہونے کا میں کس طرح وعدہ کر سکتا ہوں جس میں بھاء بھائی کا بیٹا باپ کا دشمن ہو رہا ہے۔ دوست دوست سے بھائی بہن سے بدظن ہو رہا ہے۔ لیکن میں کون ہوں اور کیا ہوں او ر اپنے محسن کے لیے کیا کر سکتا ہوں یہ آپ کو آئندہ معلوم ہو گا۔ شمسہ: مجھے تم پر ہر طرح سے بھروسا ہے۔ قہرمان: مجھے بھی اپنی کامیابی کی امید ہے۔ شمسہ: آج شام کے کھانے کے بعد تم اور قتلو دونوں مل کر میرے پاس آنا۔ مجھے جنگ کے متعلق کچھ خاص باتیں کرنی ہیں۔ قہرمان: جو حکم! (جانا) قتلو: سلطانہ! اب تو آپ کو آزادی اور حکومت دونوں چیزیں حاصل ہو گئیں اب اپنا وعدہ پورا کیجیے۔ شمسہ: کون سا وعدہ؟ قتلو: مجھ سے شادی کا۔ شمسہ: کیا شادی شادی کیا ہے؟ قتلو: شادی ایک خوشی کی زندگی ہے۔ شمسہ : تو کیا تم یہ چاہتے ہوں کہ جس غم سے میں نے ابھی ابھی آزادی حاصل کی ہے پھر میں اسی میں مبتلا ہو جائوں اپنی آزاد طبیعت کو پھر شادی کی قید میں پھنسا ئوں؟ قتلو: چاہے کچھ بھی ہو تم کو اپنے وعدے کے مطابق… شمسہ: مگر میں نے شادی کا وعدہ کیا ہی کب تھا؟ قتلو: شمسہ! شمسہ! دیکھو تم اور تمہاری زندگی ابھی دونوں میرے ہاتھ میں ہیں جو شربت کا پیالہ میرے ہونٹوں تک آ گیا ہے کیا تم اسے میرے ہاتھ سے چھین کر پھینک دینا چاہتی ہو؟ ایسا کبھی نہ ہو گا۔ میں نے کانچ کی گولیاں نہیں کھیلیں۔ میں زہر کے اتار اور سانپ کے منتر سے خوب واقف ہوں۔ شمسہ: اررر یہ تو کام بگڑ چلا ۔ ۱؎ اجی واہ بس آپ کو دیکھ لیا۔ اتنی سی بات پر بگڑ گئے۔ ہنسی ہنسی میں ہی اکڑ گئے۔ میں تو تمہیں آزماتی تھی ذرا ہنسی سے آپ کو بتاتی تھی۔ قتلو: میں تمہارے بہانے میں آنے والا نہیں ہوں ۔ یاد رکھو ابھی تو تم اپنے مطلب کے لیے چمکار کے پچارے پھیر رہی ہو۔ مگر اپنا کام ہوتے ہی طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لو گی۔ لیکن میرا نام بھی جب ہے کہ تم سے اس کا بدلہ ضرور لے کر چھوڑوں گا اور تم کو اس دنیا میں چین ہرگز نہیں لینے دوں گا۔ ۱؎ اپنے آپ علیحدگی میں شمسہ: ہیں! ہیں! کیوں گھبراتے ہو؟ آپے سے باہر ہوئے جاتے ہو۔ ذرا سہیل کو گرفتا ر ہو جانے دو۔ یہ خلش بے کار ہو جانے دو ۔ پھر تم میرے اور شمسہ تمہاری۔ قتلو: خیر یہ بھی دیکھا جائے گا۔ شمسہ: چلو اب سہیل کی گرفتاری کا کوئی معقول انتظام کرو۔ (دونوں کا جانا) قہرمان: خونی غاصب ملعون کتو! کیا مزے سے ہنستے ہوئے جا رہے ہو؟ کیا تم ہمیشہ اسی طرح ہنستے ہنساتے رہو گے؟ اسی طرح خوشیاں مناتے رہو گے؟ نہیں! تمہاری خوشی غم سے تہماری شادی ماتم سے بدل جائے گیی۔ تم نے جو اپنے رہنے کے لے دنیا کو بہشت بنا رکھا ہے۔ میںہمیشہ کے لیے اسے جہنم بنا دوں گا۔ تم نے میرے دوست توفیق پر اس کی بیوی اور بچے پر جوستم گزارے ہین مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ اے غفلت میں پھنسے ہوئو نہ گھبرائو تم یہ سمجھتے ہو کہ جنرل قہرمان فقط عہدے دار اور تنخواہ کے لیے تیر و تفنگ سے کام لے گا۔ اے عقل کے اندھو! یہ نہیں جانتے کہ ہو تم سے ضرور خوفناک انتقا م لے گا۔ تم کشتی راحت ہو تو میں طوفان بلا ہوں تم عیش کی دنیا ہو تو میں اس میں وبا ہوں تم حرص کی جنت ہو تو میں دوزخ کی ہوا ہوں تم خرمن عشرت ہو تو میں برق فضا ہوں ہاں دیکھنا تم پاتے ہو یا فتح و ظفر میں لکھا ہے یہ قسمت میں ادھر تم ادھر میں (قہرمان کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین چوتھا محل تسنیم (ماشاء اللہ و خیر سلا کا گفتگو کرتے ہوئے آنا) ماشاء اللہ: ٹھہریے پہلے میں جائوں گا۔ خیر سلا: نہیں پہلے میں جائوں گا۔ ماشاء اللہ: یہ دیکھ پہلے میں آیا۔ خیر سلا: نہیں پہلے میں آیا۔ ماشاء اللہ: ابے مرغے چونچ سنبھال! خیر سلا: جاانڈے بیچ اور بچے پال۔ ماشاء اللہ: کیا تو لڑنے پر آمادہ ہے؟ خیر سلا: بے شک اگر تیرا ارادہ ہے۔ ماشاء اللہ: یہ دم! ٹھونک خم خیر سلا: بس دوست معلوم ہو گیا کہ ہم دونو ں جنٹل مین ہیں۔ دو جنٹل مینوں کا آپس میں لڑنا کوئی انصاف ہے؟ ماشاء اللہ: بالکل فیشن کے خلاف ہے۔ مگر مسٹر خیر سلا آج تم یہاں کس لیے آئے ہو؟ خیر سلا: دیکھو میاں ماشاء اللہ آج تسنیم کی سالگرہ ہے اس لیے میں اپنے آقا طغرل بیگ کی طرف سے یہ موتیوں کا ہار دینے اور مبارکباد دینے آیا ہوں۔ مگر یہاں تمہارا کیا کام ہے؟ ماشاء اللہ: سنو میں بھی اپنے آقا شہریار کی طرف سے آیا ہوں اور پھولوں کا ہار نذرانہ لایا ہوںَ خیر سلا: ارے جا جا! منہ بنو ا کے آ۔ تسنیم تیرے پھولوں کے ہار پر نظر بھی نہ اٹھائے گی۔ ماشاء اللہ: ہوش کر تیرے موتیوں کے ہار کو ٹھوکروں سے اڑائے گی۔ خیر سلا: ابے کہاں سچے موتیوں کا ہار اور کہاں یہ پھولوں کا ہار۔ ماشاء اللہ؟ عورت اسی چیز کو زیادہ پسند کرتی ہے جس میں سچی محبت کی بو آتی ہو۔ خیر سلا: تو خبط الحواس ہے۔ ماشاء اللہ: دیکھ آنے تو دے۔ تعریف کے دسترخوان پر وہ نمک مرچ لگائوں گا کہ طبیعت بحال ہوجائے۔ خیر سلا: اور میںوہ مصالحہ لگائوں وہ چٹخارے دکھائوں کہ تیرا پکاپکایا قورمہ پھیکی دال ہو جائے۔ ماشاء اللہ: ابے جانتا نہیں کہ میں ایک شاعر کا بیٹا ہوں۔ خیر سلا: تو میں مدت تک فردوسی کی قبر پر لیٹا ہوں۔ ماشاء اللہ: اچھا تو شاعر ہے تو میرے مصرعے پر مصرعہ لگا۔ خیر سلا: کہوں گا فی البدیہہ۔ ماشاء اللہ: اچھا سن بلبل کی انکھڑیوں میں رگ گل کی پھانس ہے خیر سلا: بلبل کی انکھڑیوں میں رگ گل کی پھانس ہے شاعروں کے بھیجے میں تھوڑا سا گوبر تھوڑی سی گھانس ہے ماشاء اللہ: ابے مصرعہ تو بڑھ گیا۔ خیر سلا: مصرعہ اول سے مصرعہ ثانی بڑھ کر ہونا چاہیے۔ ماشاء اللہ: نہیں نہیںیہ مصرعہ تو لمبا ہوگیا۔ خیر سلا: تو کیا ہوا شاعری ہمارے گھر سے نکلی ہے۔ ہم چاہیں تو اس کو بڑھا دیں چاہے گھٹا دیں۔ ماشاء اللہ: نہیں ٹھیک مصرعہ لگا موزونیت کے ساتھ۔ خیر سلا: یہ بات ہے! اچھا پھر سنا۔ ماشاء اللہ: بلبل کی انکھڑیوں میں رگ گل کی پھانس ہے۔ خیر سلا: مصرعہ تو کچھ نہیں ہے فقط ٹھونس ٹھانس ہے۔ ماشاء اللہ: یہ بھی بامعنی نہ ہوا۔ اچھا اب دوسرے مصرعے پر مصرعہ لگائو۔ خیر سلا: وہ بھی سنا۔ ماشاء اللہ: کل شب کو مجھے خواب میں الو نظر آیا۔ خیر سلا: کل شب کو مجھے خواب میں الو نظر آیا آنکھیں جو کھلیں سامنے تو تو نظر آیا ماشاء اللہ: جا جا بھائی جا تمجھے خدا جانے شاعر کس الو کے پٹھے نے بنایا ہے۔ خیر سلا: کیوں بچہ اب قافیہ تنگ ہو گیا؟ ماشاء اللہ: بھلا اب کیک تیسرے مصرعہ پر مصرعہ لگا۔ خیر سلا: اچھا سنائو۔ ماشاء اللہ: رات و انڈہ پکایا وہ بھی کچا رہ گیا خیر سلا: رات کو انڈہ پکایا وہ بھی کچا رہ گیا مر گئے شاعر فقط الو کا پٹھا رہ گیا ماشاء اللہ: کیوں بے شعر کہنے سے گھبرایا تو گالیاں دینے پر اتر آیا۔ خیر سلا: اچھاتو لے میں چلا۔ ماشاء اللہ: ادھر آ کہاں جاتا ہے؟ راستہ نظر نہیں آتا ہے؟ خیر سلا: نہیں میں تو ادھر ہی جائوں گا۔ ماشاء اللہ: میں ایک چانٹا لگائوں گا۔ خیر سلا: تو کیا میں دب جائوں گا۔ (سہیلیوں کا آنا) پہلیَ ہیں ہیں یہ کیسی لڑائی ؟ مفت کی ہاتھا پائی۔ خیر سلا دیکھو دیکھو رزیل رزالا نان کباب بیچنے والا مر جائے اس ی خالہ۔ تسنیم: مگر ان سے یہ تو پوچھو کہ یہاں کس لیے آئے ہیں؟ خیر سلا: میں اپنے آقا طغرل بیگ کی طرف سے آپ کی سالگرہ کی تقریب میں یہ موتیوں کا ہار نذرانہ لایا ہو ۔یہ خلعت قبولیت سے سرفراز ہو گا تو یہ امر آقا کے لیے باعث اعزاز ہو گا۔ ماشاء اللہ: یہ اردو بولتا ہے یا ہمالیہ کی چوٹی سے پتھر روکتا ہے۔ تسنیم: اور ماشاء اللہ تم کیسے آئے ہو؟ ماشاء اللہ: میں اپنے آقا شہریار کی طرف سے آیا ہوں او ر یہ پھولوں کا ہار نذرانہ لایا ہوں۔ تسنیم: آہا طغرل بیگ کی طرف سے یہ موتیوں کا ہار اور شہریار کی طرف سے پھولوں کا ہار۔ اس کی تیاری میں ایک بھی جان کا نقصان نہ ہو ا ہو گا۔ اور اس ہار کی تیاری میں سینکڑوں جانیںضائع ہوئی ہوں گی۔ یہ فقط امیروں کے محلوں سے چمکتا ہے اور یہ امیروں کے محل میں غریبوں کی جھونپڑیوں بلکہ ہر جگہ مہکتا ہے۔ اس کو ادنیٰ و اعلیٰ امیر و پیر و پیغمبر اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس میں نخوت اور رعونت کی خو ہے اوراس میں سچی الفت و محبت کی خوشبو ہے۔ اس لیے اسے پیر و پیغمبر کی پسندیدہ چیز میں تجھے منظور کرتی ہوںَ دور جا او دنیا کے جھوٹے چمکتے ہوئے فریبی میں تجھے نفرت سے دور کرتی ہوں۔ خیر سلا: ہیں ہیں حضور یہ کیا کرتی ہیں؟ تسنیم: بس جائو اپنے آقا سے کہہ دو کہ آئندہ کوئی تحفہ بھیجنے کی ہرگز تکلیف نہ اٹھاویں۔ ماشاء اللہ: چل نکل اور ڈگڈگی بجاتا ہوا چلا جا۔ خیر سلا: اچھا بچہ یہ تیرا ہی فتو ہے۔ تو کیا تو بھی ہمارے محلے کی طرف نہ آئے گا۔ ماشاء اللہ: ابے جا نہیں تو مار کھائے گا۔ خیر سلا: نامرد کہیںکا پیٹھ کے پیچھے مارتاہے منہ پر مارتا تو بتا دیتا۔ (جانا) ماشاء اللہ: اچھا اب مجھے بھی اجازت دیجیے۔ تسنیم: مگر تم اپنے آقا سے کیا کہو گے؟ ماشاء اللہ: مژدہ شادمانی سنائوں گا اور آپ کی تعریف کے ڈھیر لگائوں گا۔ تسنیم: مجھے تعریف کی ضرورت نہیں۔ف میں تو صرف ان کی عنایت کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ ماشاء اللہ: مگرشاعری میں بغیر جھوٹ کے مزہ نہیںآتا۔ تسنیم: جو سادگی میں اثر ہے وہ جھوٹ میں ذرا نہیں آتا۔ ماشاء اللہ: اچھا بندہ آداب بجا لاتا ہے۔ (جانا) پہلی: بی بی سلام! دوسری: پیاری سلام! تیسری: بلبل کو گل ملا ہے یہ کہہ دو پکار کے دن آئے باغ دہر میں فصل بہار کے گانا سہیلیاں: بنو بنو سکھی دولہنیا‘ پیارے کے گردا میں ڈارو گوری بہنیاں‘ رہو گوئیاں وا کی چھتیاں ایسو پایو تو نے سیاں‘ بنو بنو سکھی دولہنیا… تسنیم: کیا ہے زیب گلو ہار دیکھیے کیا ہو صبح کو چرخ ستم گار دیکھیے کیا ہو امید و بیم کی حالت میں دل دھڑکتا ہے کہ رنگ غیب سے اظہار دیکھیے کیا ہو سہیلیاں:واہ جی واہ کیا خوب ملا پیارا پیارا دلارا… بنو بنو سکھی… (سب کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین پانچواں جنگل قہرمان: ریب ہے قریب ہے ملعون قتلو اور طغرل اور غاصبہ شمسہ کا خوفناک انجام قریب ہے۔ پہلا سپاہی: جنرل قہرمان! انہیں وحشیوں کے مظام سے ہم سب وطن سے بے وطن ہو کر وحشیوں کی طرح پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور اسی روز کے امیدوار جب کہ انتقام کا خنجر دشمنوں کی آنکھوں کے سامنے چمکتا ہو گا اور ذبح ہو کر ان پیروں کے سامنے پڑا سسکتا ہو گا۔ دوسرا: خدا کا شکر ہے کہ معصوم سہیل اور وفادار ہشام پہاڑ کی کھوہ میں چھپا ہو ا اور بدنصیب طاہرہ جنگل میں بھٹکتی ہوئی ہمیں مل گئی۔ قہرمان: ہاں بدنصیب طاہرہ کو اب کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ گھر لٹ گیا سہاگ اجڑ گیا۔ کوکھ کے لال کو کھو بیٹھی۔ دن رات دیوانہ وار جنگلوں اور پہاڑوں میں پھرتی ہے۔ مگر ہاں کبھی ذرا ہوش آ جاتا ہے ورنہ وہی دیوانے پن کا دورہ شروع ہو جاتا ہے۔ تیسرا: دیکھیے دیکھیے وہی سامنے سے آ رہی ہے۔ گانا کسی کی آس میں میں نے یہ جان گنوائی ہے ہوں تنگ جینے سے مولا تری دہائی ہے ہاں رے مورے سیاں گھائل منوا غم کی ستائی میں تو راکرت ہوں مان رے سدھ بدھ بسری ری گوئیاں چین نا پڑت موئے‘ کل آوے کیونکر‘ ہاں رے موری کوکھ اجڑ ی گوئیاں ہاں رے… راتیں گئیں نشاط و مسرت کے دن گئے دو لعل شب چراغ تھے سو وہ بھی چھن گئے قہرمان:خدا یا اس کی مصیبت کا خاتمہ کر۔ طاہرہ: اے خوبصورت چاند تو ہی اپنا ایک ٹکڑا دے دے۔ میں اسی کو رشید سمجھ کر پیار کروں؟ آسماں پر چاندنی ہے اور زمین پر چاندنی ہو رہی ہے تیرے دم سے آج گھر گھر چاندنی آ تو آجا تاکہ رکھ لوں اپنے سینے میں تجھے میرے بھی ویرانے میں ہو جائے دم بھر چاندنی قہرمان: بانو یہ کیا حا ل ہے؟ طاہرہ: دیکھو دیکھو شمسہ میرے بچے کو مار رہی ہے۔ ارے طغرل تو چھری کیوں تیز کررہا ہے۔ اب میری گود میں کوئی بچہ نہیں ہے۔ دیے بیٹھی ہوں سب کچھ میں جو تھا افلاک کے نیچے دبی ہے زندگی بھر کی کمائی خاک کے نیچے چوتھا: ہائے بے چاری کو جنون ہو گیا طاہرہ: ارے کسی اولاد والے سے پوچھ وہ کہے گا کہ تو مجنون ہو گیا۔ چوتھا: بانو میں بھی اولاد رکھتا ہوں طاہرہ: ہاں سچ ہے مگر۔ تو ہے سرسبز شاخ اور طاہرہ اک خشک ڈالی ہے بھری ہے گود تیری اور میری گود خالی ہے چوتھا: بانو غم کے درخت کو آنسوئوں سے سینچ سینچ کر ہرا رکھنا کیا فائدہ دے گا؟ طاہرہ: ہاں مجھے رونے دو۔ خوب جی بھر کے رونے دو۔ میں اپنی آنکھوں سے خون کا دریا بہائوں گی۔ اس میں تیروں گی آخر اسی میں ڈوب کر مر جائوں گی۔ (ہشام کا سہیل کو لے کر آنا) سہیل: پیاری امی! طاہرہ: لڑکے تو کون ہے؟ ہشام: کیا آپ معصوم سہیل کو بھول گئیںَ طاہرہ: بھول گئی؟ میں کبھی بھولی نہں۔ کوئی ماں اپنے بچے کو بھولتی ہے۔ تم کیسے کہتے ہو؟ میرا بچہ مجھ کو بھول گیا ۔ پہلا: بانو یہ کون ہے؟ طاہرہ: لڑکے تو کون ہے؟ سہیل: امی میں آپ کا سہیل ہوں۔ طاہرہ: کون؟ سہیل سہیل بادشاہ کی آخری نشانی میرا پرا میرے پیاروں کا پیارا۔ قہرمان: بانو ٓپ کی یہی حالت رہی تو آپ اس غریب کے لیے کب کچھ کر سکتی ہیںَ طاہرہ: آہ میرے بچے میں تیرے واسطے کچھ نہ کر سکی۔ قہرمان: اگر آپ کو غم فرصت دے تو آپ اس غریب کے لیے سب کچھ کر سکتی ہیں۔ طاہرہ: ہاں میں اب سب کچھ کروں گی۔ جہاں اس کی حفاظت میں دو جانیں پہلے دے چکی ہوں وہاں اگر ضرور ت ہوئی تو یہ تیسری جان بھی قربان کر دوں گا مگر اس کی حفاطت ہر آن کروں گی۔ قہرمان: نیکی کا فرشتہ! پہلا: وفاداری کی روح۔ دوسرا: عورتوں کی آبرو۔ (سب کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین چھٹا اگلا محل (خیر سلا کا آنا) خیر سلا: حضور! میر ی کچھ خطا؟ طغرل: بول میرے ہار کا کیا حال ہوا؟ خیر سلا: مگر میری گردن تو چھوڑیے جناب والا! طغرل: ابے بولتا ہے کہ نہیں؟ خیر سلا: بولتا ہوں مگر میری تو ہڈیاں تمام بول گئیںَ طغرل: مگر نہ بولو تو تو بے حیا نہ بولا۔ خیر سلا: میری تو چیں بول گئی۔ طغرل: کیوں بے ہودہ کیا بکتاہے؟ تسنیم نے میرے ہار کے ساتھ کیاسلوک کیا؟ خیر سلا: آپ کے ہار کو دیکھ کر اورجانچا بہت تعریف کی۔ پھر موتیوں کو گن گن کر گالیاں دیں۔ طغرل: اور؟ خیر سلا: دیر تک بڑبڑاتی رہی۔ آخر پرانی جوتی کی طرح میرے منہ پر مار کر پھینک دیا۔ طغرل: میری محبت کا یہ انجام؟ خیر سلا: میری محنت کا یہ انعام؟ طغرل: میرے ہار کی یہ بے عزتی؟ خیر سلا: ایک ایڈی کا نگ کی یہ انسلٹ؟ طغرل: غضب! خیر سلا: ستم! طغرل: میرے ہار کو کیوں نہیںقبول کیا؟ خیر سلا: حضور! یہ میں کیا جانوں یہ تو اسی سے جا کے پوچھیے۔ طغرل: بول تو نے تسنیم سے کیا کہا تھا؟ خیر سلا: میں نے کہا کہ ہمارے آقا نے تحفتاً یہ ہار آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اس کو قبول کیجیے۔ طغرل اس نے کیاکہا؟ خیر سلا: اس نے کہا جہاں فرشتوں کا گزر نہیں وہاں بھوتوں کو کون پوچھتا ہے۔ طغرل: یہ کہا؟ خیر سلا: اور یہ کہا کہ اپنے مالک سے جا کر کہہ دے کہ ایسے دیوانے کتے میری گلی میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ طغرل: نمک حرام! ٹکر گدا اس نے ایسی بے نقط سنائی اور تجھے شرم نہ آئی۔ خیر سلا: واہ گالیاں وہ آ پ کو سنائے اور شرم مجھ کو آئے۔ طغرل: تو کیا تو نے میرا ایڈی کانگ نہیں؟ خیر سلا: ایڈی کانگ ہوں بلکہ شیطان کی ٹانگ ہوں۔ طغرل: تو پھر تو نے کیوں نہیں کچھ میری طرف سے کہا؟ خیر سلا: میں نے اس کو بہت دھمکایا۔ طغرل: کیا کیا کہا؟ خیر سلا: کہ ہمارے آقا طغرل بیک بڑے ہی نامعقول ہیںَ بڑے ہی پاجی ہیںَ جب غصے میں آتے ہیں تو دیوانے کتے یکی طرح کاٹ کھاتے ہیںَ طغرل: ابے شیطان! تو نے یہ میری تعریف کی؟ خیر سلا: تریف نہیں تو پھر اسے کیا کہتے ہیں؟ طغرل: ہائے ایسی نفرت ہزار لعنت۔ خیر سلا: ہائے ایسا پیار؟ ہزار پھٹکار۔ طغرل: اے خدا میں کیا کروں؟ خیر سلا: ہرجانے کی نالش۔ طغرل: کس پر؟ خیر سلا: اپنے رقیب پر اپنی معشوقہ کے عاشق پر۔ طغرل: تو کیا تسنیم کا دل کسی اورکا شیداہو گیا ہے؟ خیر سلا: جی ہاں جو ہنڈیا آپ مدت سے پکا رہے تھے اس کا کھانے والا ایک اور پیداہو گیا ہے۔ طغرل: کون؟ خیر سلا: شہریار۔ طغرل: شہریار؟ خیر سلا: جی سرکار۔ طغرل: مگر شہریا ر کو اس کی طرف دیکھنے کی جرات کیوں کر ہوئی؟ خیر سلا: تو دیکھنے کے لیے کیا لائسنس کی ضرورت ہے؟ طغرل : ابے بدذات تیرا سر تو نہیںپھر گیا۔ خیر سلا: بے شک آثار تو ایسے ہی ہیں۔ طغرل: میرے پھول کی طرف اسے ہاتھ بڑھانے کا کیا حق ہے؟ خیر سلا: بالکل نہیں قانون صاف منع کرتا ہے طغرل: کیا تسنیم نے میرے ہاتھ سے نکل جائے گی؟ خیر سلا: نہیں ہرگز نہیں! طغرل : میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ خیر سلا: بے شک حضور۔ طغرل: بس نکل جا یہاں سے میں اب تنہائی چاہتا ہوں۔ خیر سلا: مگر ایڈی کانگ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہیے۔ طغرل: ایڈی کانگ کا بچہ نکل جا یہاں سے ورنہ کھا جائوں گا۔ ناہنجار نابکار! شہریار! میں تم سے ضرور انتقام لوں گا۔ خیر سلا: نہیںایسا نہ کرنا۔ طغرل: ابے تو نہیں گیا نا فرجام! کیوں ٹھہرا ہے؟ خیر سلا: آپ کو دلاسا دینے کے لیے طغرل: مجھے دلاسے کی ضرورت نہیں ۔ خیر سلا: حضور! آپ کو دلاسے کی سخت ضرور ت ہے۔ طغرل: بس چلا جا فوراً چلا جا ورنہ تیرے انجر پنجر ڈھیلے کر دوں گا۔ شہریار: اچھا تسلیم! طغرل: شہریار! شہریار! میںتیرا خون یکر دوںگا۔ خیر سلا: مگر پولیس کو خبر نہ ہونے پائے۔ طغرل: ارے تو پھر آ دھمکا۔ تو نہیں جائے گا خانہ خراب؟ خیر سلا: اچھا آداب! طغرل: نا ہنجار نابکار میںتم سے خوفناک انتقا م لو ں گا۔ خیر سلا: توبہ! توبہ! خوفناک انتقام جناب والا؟ طغرل: یہ گستاخی؟ شریر رذالا! (دونوںکا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین ساتواں محل تسنیم (تسنیم کا اندر سے گاتے ہوئے آنا) گانا کلیجوا میں ماری کٹاری رے سپہیا ظلمی بانکے سپہیا کارے مورے دیا سانوری صورت‘ متواری سنیا مدھر مدھر بولے جیسا مینا پیرو ا کلیجوا مورے چھیلا جیرو ا میں واروں بیاں گر ڈاروں کلیجوا… نثر شہریار: پیاری تسنیم سچ ہے کہ عشق کے دیوانے کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ تسنیم: یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ شہریار: اگر آنکھیںہوتیں تو مالدار کے آگے نادار شہر یار ہرگز کامیابی نہ پاتا۔ تسنیم: پیارے شہریار! آپ کی سمجھ دھوکا کھاتی ہے۔ دیکھو عشق کی بانسری کیا راگ سناتی ہے۔ گانا چلے عشق کے آرے جگر پر دو دھارے ‘ چین عاشق کو دم بھر کیوں کر ہوا چلے… طبیعت کھیلی مصیبت جھیلی بلا سر لے لی پہن گلے سیلی پوجن عشق کو۔ دوہرا: پریم پیالہ جب تم دینو مت ہمری بورائی ہردے بان نین کے لاگے سدھ بدھ بسرائی پیاری پیاری بتیاں کرت چھتیاں ملت رتیاں کٹت پیارے تورے واری پیارے جلے۔ (سہیلی کا آنا) سہیلی: جناب عالی! آپ کو کوئی شخص دروازے پر پوچھ رہا ہے۔ شہریار: ذرا دیکھو تو یہ کون ہے؟ تسنیم: مگر جلدی آنا دیر نہ لگانا۔ شہریار: میں ابھی آیا۔ (جانا) تسنیم: آہ! آہ! کیا شان پروردگار ہے۔ تسنیم کی دوسری بہشت کا نام شہریار ہے۔ گانا ہاں رے کوئی بانکو سپہیا لبھائے گیورے مورے جیا ہیا میں سمائے گیورے‘ ہاں رے تن من بالا جو بن پیاری پھبن واروں سجن دیوانی بنائے کے رجھائے کے سہائے کوئی بانکو… دوہرا: اور کچھ سوجھت ناہیںایسی جھلک دکھائے آن بسے ینن میں مورے راکھوں پلک چھپائے اب تو دھیان یہی ان پر قربان گئی تن ن دھن وارا۔ اب تو ہے (گانے کے بعد طغرل کا آنا) طغرل: بس آخری سوال اور آخری فیصلہل تسنیم: ہیں یہ موذی سانپ کیا زہر اگلنے آیا ہے۔ طغرل: تسنیم ادھر آئو اور جو میں پوچھتا ہوں اس کا جواب دو۔ تسنیم: جناب عالی! آپ نے کس لیے تکلیف فرمائی؟ طغرل: یہ پہنا طوق لعنت بے وفا عیار کس کا ہے یہ پھانسی کس نے بھیجی ہے گے کا ہار کس کا ہے؟ تسنیم: پھانسی نہیںیہ پھانس ہے دشمن کے جگر میں اور حلقہ زنجیر وفا میری نظر میں طغرل: بیوقوف کانٹا کہاں اور ایک بت لالہ رو کہاں ناچیز شہریار کہاں اور تو کہاں زہریلا وہ درخت ہے بھاگ اس کی چھائوں سے اس ہار کو اتار کے مل ڈال پائوں سے تسنیم: غیر ممکن ہے گلے سے دور میرے ہار ہو چاہے جو آزد ہو یا زندگی کی ہار ہو طغرل: نہیں؟ تسنیم: ہرگز نہیں۔ طغرل: یہی ضد‘ یہی وطیرہ ‘ اگر اے ستم شعار ہو گا تو پھر نہ باقی گلا رہے گا اور نہ باقی یہ ہار ہو گا تسنیم: چولی اب تو بندھ گئی ہے اس کے دامن سے مری ہار یہ زنہار اترے گا نہ گردن سے مری طغرل: ہار سر پر رھک کے روئے گی نصیوں کے لیے ایک دولت مند سے نفرت غریبوں کے لیے تسنیم: شہریار اک تازہ فرحت ہے مرے گلزار کی جان سے زیادہ محبت ہے مجھے اس ہار کی طغرل: میرے آگے اس قدر توقیر ناہنجار کی دیکھ یہ عزت ہے اس کی اور اس کے ہار کی (جھٹکا مار کر ہار توڑ دینا) تسنیم: آہ! اوجلاد! ظالم پر جف یہ کیا کیا؟ طغرل: جو ہوا اچھا ہوا اور جو کچھ کیا اچھا کیا۔ وہ بھی یاں ہوتا تو یوں ہی پائمالی دیکھتا آسماں فرش زمیں کو اس سے خالی دیکھتا تسنیم:بس اس سے زیادہ میںاپنے پیارے کے لیے کچھ نہیں سننا چاہتی۔ طغرل: کیا پیارا؟ وہ ذلیل آوارہ ناکارہ شہریار اور تیرا پیارا؟ تسنیم: ہاں ہاں میرا پیارا۔ طغرل: تسنیم! ہوش سنبھال دیکھ تو دھوکا کھا رہی ہے۔ تسنیم: چھوڑو مجھے جانے دو میں اب تمہارے لائق نہیں ہوں۔ طغرل: تو پھر کس کے لائق ہے؟ تسنیم : وہی جو تمہاری نظروں میں نالائق ہے۔ طغرل: دیکھو تم دونوں پچھتائو گے۔ تسنیم: جیسا کرو گے ویسا پائو گے۔ طغرل: مغرور! سرکش مردار مجھ سا جرار ذی وقار طرح دار‘ مالدار‘ عاشق زار‘ اور شادی سے انکار؟ (شہریار کا آنا) طغرل: لٹیرے ‘ ڈاکو مکار‘ آقا کا شکار مالک پروار؟ شرم نہ آئی نابکار؟ شہریار: جناب اس خفگی کا سبب آپ بتا سکتے ہیں؟ طغرل: اچھی طرح بتا دیا جائے گا۔ بے ایمان نمک حرام! شہریار: بس حضور! شہریار نوکر ہے نہ کہ غلام طغرل: خدا کی شان! کہاں زمین اور کہاں آسمان کہاں پھول اور کہاں ببول! کہاں میٹھا شہد اور کہاں کڑوا نیم تو اور تسنیم؟ شہریار: تو آپ اس لیے ناراض ہیں کہ میں تسنیم سے محبت کرتا ہوں۔ طغرل: مگر تجھے اس محبت کرنے کا کیا حق ہے؟ شہریار: کیوں میں آدمی نہیں ہوں؟ یرے سینے میں دل نہیں ہے؟ طغرل: دور رہو دور ہو شہریار میرے راستے سے دور ہو۔ شہریار: آپ مجھے دھمکی دیتے ہیں؟ طغرل: مجھ میں دھمکی دینے کی طاقت ہے۔ طغرل: ایک باادب ماتحت کی طرح گفتگو کر۔ شہریار: تو آپ بھی ایک افسر کی طرح کلام کریں۔ طغرل: دیکھ پچھتائے گا۔ شہریار: پتھر کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ طغرل: گستاخی کا جواب خنجر آبدار ہے۔ شہریار: تو میرے پاس بھی اسی لوہے کی تلوار ہے۔ طغرل: تو کیا مجھ سے طاقت میں زیادہ ہے؟ شہریار: اس کا جواب بازو دیںگے۔ طغرل: کیا تو مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے؟ شہریار: اس کا جواب آئینہ دے گا۔ طغرل: کیا تو مجھ سے مقابلہ کر کے جیت جائے گا؟ شہریار: اس کا جواب قسمت دے گی۔ طغرل: دیکھ میں تجھ سے زیادہ تسنیم کا حق دار ہوں۔ شہریار: کس طرح؟ طغرل: اس طرح کہ تو ایک معمولی افسر ہے اورمیں سپہ سالار ہوں۔ شہریار: تو کیا عشق و محبت پر سپہ سالاری کی مہر لگی ہوئی ہے؟ طغرل: چپ بدلگام؟ شہریار: کیوں؟ طغرل: کیوں تو میرا ماتحت ہے۔ شہریار: اگر افسری اور ماتحتی پر دارومدار ہے تو بندہ ایسی نوکری سے بیزار ہے۔ طغرل: شہریار! ہوش سنبھال! شہریار: اپنی نوکری بھاڑ میں ڈال۔ طغرل: یہ ہے پکڑ لو! جکڑ لو۔ (شہریار کو سپاہیوں کا گرفتار کر کے لے جانا) تسنیم: دھوکا دھوکا یا پروردگار! طغرل: بس خبردار۔ (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین آٹھواں محل ممتاز ممتاز: وٹ اس دس نان سینس۔ یہ مردود ے تو ہمیں کچھ خیال میں نہیں لاتے۔ کہتے ہیں کہ ہم عورتوں کو پائوں کی جوتی کے برابر سمجھتے ہیںَ گھر میں جھاڑ و ہم دیں برتن ہم صاف کریںَ روٹی ہم پکاویںَ بچے ہم پالیں غرضیکہ تمام گھر کا کام تو ہم کریں اور ذرا کہیں کہ باہر سیر کو یا تفریح کو جاویں تو کیوں گئی؟ کھڑکی میں سے کیوں جھانکی؟ اسے کیوں دیکھا اسے سے کیوں آنکھ ملائی؟ مگر شکر ہے کہ پہلے ہی اب بے وقوف نہیں ہوںَ کچھ انگریزی پڑھنے لکھنے سے کچھ مس خیر سلا کی صحبت میں رہنے سے آٹھوں گانٹھ کمیت ہو گئی ہوں۔ اب میاں کی ایک نہیں مانتی ہوں۔ اگر کچھ کہتے ہیں تو ایک کی دس د س سناتی ہوں۔ گھرداری کا کام نہیں کرتی ہوں۔ گانا گھرداری سنساری ناری کیا جانو کیسو ہے پائیو بھانوروا ایسورہ کے ٹوکے موہے نیہڑوا جرے موراجگروا گھر کی گھر کی جھڑکی نت نت جرجرمورا جیا زا کاٹ کاٹ موہے قید گھر داروکت مورا جگر دبا ہے سبھائو گھرداری… (گاتے ہوئے اندر جانا۔ ماشاء اللہ کا ڈھونڈتے ہوئے آنا) ماشاء اللہ: ہیں کدھر گئی؟ زمین کھا گئی یا ہوا لے اڑی۔ مکان کے دالان میں گھر کے آنگن میں کوٹھے کے چھجے کے نیچے اناج کے مٹکے میں مرغی کے ڈربے مین پانی کے گھڑے میں سب جگہ چھان مارا مگر حیرت تعجب پورے ساڑھے پانچ فٹ کا آدمی غائب ہے۔ افسوس میری بیوی نے مجھے پریشا کر دیا ہے۔ میں نے بھی کیا بیوقوفی کی کہ اس کو انگریزی پڑھائی جو بات بات پر میراناطقہ بند کرتی ہے بلکہ استانی بن کر مجھے سبق پڑھاتی ہے۔ بغیر پوچھے گچھے جہاں چاہتی ہے چلی جاتی ہے جس کو چاہتی ہے گھر میں بلاتی ہے یا باری تعالیٰ اب تو ہی ہے میری عزت بچانے والا۔ (خیر سلا کا آنا) خیر سلا: کیوں جناب والا؟ ماشاء اللہ: کون خیر سلا؟ خوب روئو۔ خیر سلا: ارے پر کیوں روئوں؟ کو مر گیا؟ ماشاء اللہ: میری مصیبت پر میری حالت پر۔ خیر سلا: کیوں کیوں؟ کچھ خیر ہے؟ ماشاء اللہ: خیر کیسی؟ جس گھر میں عورت ایسی ہو وہاں خیر کیسی؟ (ممتاز کاآنا) ممتاز: کیا کہا؟ کیوں صاحب! یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ خیر سلا: آئی بے چارے کی کم بختی کچھ نہیں ذر ا آپ کی تعریف کر رہے تھے۔ ماشاء اللہ: تو جھوٹا ہے اس میں خوبی کون سی ہے جو میں تعریف کروںَ خیر سلا: تو اس میں برائی کون سی ہے؟ ماشاء اللہ: ایک برائی نہیں لاکھ۔ ممتاز: جھوٹے کے منہ میں خاک۔ خیر سلا: واہ بھائی یہ تو میری جورو کی بھی نانی ہے۔ ماشاء اللہ: عورت اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ آزاد پھرا کرے؟ ممتاز: نہیں تو کیا کرے؟ ماشاء اللہ : گھر سنبھالے اور بچے پالے۔ خیر سلا: تو کیا عورت کوئی مرغی ہے جو بچوں کولے کر ڈربے میں بیٹھی رہے۔ ممتاز: ہاں دیکھو صاحب کیا خدا نے عورتوں کو ایسے ذلیل کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ ماشاء اللہ: پھر کس لیے پیداکیا ہے؟ ممتاز: عورت کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ اچھا سے اچھا کھائے اور عمدہ سے عمدہ پہنے سیر و تماشے میں جائے تھیٹر دیکھے پارٹی دے لیکچر دے ڈانس کرے۔ خیر سلا: پروگرام بالکل برابر ہے۔ ماشاء اللہ: مرد کی بات نہ ماننا یہ عورت کو زیبا نہیں۔ خیر سلا: ہرگز نہیں۔ ممتاز: عورت کودن بھر قید رکھنا کیا زیبا ہے؟ خیر سلا: کبھی نہیں۔ ممتاز: اگر ضرورت پڑے اور عورت باہر جاوے تو کیا نقصا ن ہے؟ خیر سلا: کچھ بھی نہیں۔ ماشاء اللہ: مردوں کو راضی کرنا عورتوں کا فرض ہے۔ خیر سلا: برابر۔ ممتاز: عورتوں کو خوش رکھنا مردوں کا کام ہے۔ خیر سلا: یہ بھی برابر۔ ماشاء اللہ: لا حول ولا قوۃ! یہ بھی برابر وہ بھی برابر۔ خیر سلا: اور کیا؟ ماشاء اللہ: اچھا تجھے میرے رائے سے اتفاق ہے؟ خیر سلا: اتفاق ہے۔ ممتاز: اور میری رائے سے؟ خیر سلا: اتفاق ہے۔ ماشاء اللہ: ٹھیک! خیر سلا: مرد کا رتبہ… ممتاز: مگر اس ترقی کے زمانے میں عورت کا رتبہ زیادہ ہے یا مرد کا؟ خیر سلا: عورت کا۔ ماشاء اللہ: عجب ڈھلمل ہے۔ تھالی کے بینگن کی طرح ادھر بھی لڑھکتا ہے ادھر بھی۔ خیر سلا: ارے یار خفا کیوں ہوتا ہے؟ میں تو برابر کا فیصلہ کر رہا ہوں۔ ماشاء اللہ: نہیںکبھی نہیں آگ اور پانی برابر نہیں ہو سکتے۔ چاہے شیطان ہو چاہے گدھا۔ خیر سلا: اگر تم آدمی ہوتے تو میرے فیصلے کی تعریف کرتے۔ ممتاز: میاں دنیا میں تمہارا حصہ ہے تو ہمارا بھی حصہ ہے تم آزادی برتو گے تو ہم آزادی برتیں گے۔ تم باہر چین اڑائو گے تو ہم بھی مردوں سے عیش اڑائیں گے۔ کیا خدا نے تم کو انسان بنایا ہے اور ہم کو جانور۔ (تینو ں کا مل کر گانا) گانا ممتاز: ہم بھی موٹر سائیکل پہ سیر کرن نت جائیں۔ کیر سلا: اجی بے شک جہاں من بھائے وہاں جائیں۔ ماشاء اللہ: بتیاں کیوںنہ بنیں بھائے فیشن کو جھلسا۔ ممتاز: بتیاں ساری ٹھیک ہیں ان کی یہی چاہت ہے منوا۔ پھاڑ پھینکوں میں دیسی ساڑھی پہنوں انگریزی پوشاک بھاری گھر بیٹھوں تو چین نہ پڑے۔ خیر سلا: ٹینس کھیلو‘ تھیٹر دیکھو‘ ہم بھی موڑ پہ…(جانا) نثر کیا دیکھاعورتوں کو انگریزی پڑھانے کا نتیجہ ؟ میں نہ کہتا تھا کہ عورتوں کو انگریٰ نہ پڑھائو اس وقت نہ مانا اب بھگتو سزا۔ ماشاء اللہ: توبہ توبہ! عورت ہے یا چینی بلا؟ خیر سلا: ارے تیری عورت کے ہی تو یہ سارے وطیرے ہیں۔ جب سے وہ فیشن ایبل بلا میرے گھر میں آنے جانے لگی ہے تب سے ہی میری عورت کا ستیا ناس ہو گیا ہے۔ خیر سلا: ارے کیوں میری بیوی پر الزا م لگاتا ہے۔ توبہ کر نہیں تو بخشا نہ جائے گا۔ ماشاء اللہ: بس یہی جیی میں آتا ہے کہ اپنے بھیجے میں پستول مار کر مر جائوں۔ خیر سلا: اس میں اس یک باپ کا کیا جائے گا؟ وہ کوئی اورمشٹنڈا کر لے گی۔ ماشاء اللہ: جا جا دل لگی نہ کر۔ میں آگے ہی عورت کا ستایا ہوا ہوں۔ ضرور اس نے کوئی یار رکھا ہوا ہے۔ خیر سلا: مگر یار تو کسے کہتا ہے؟ ماشاء اللہ: ارے میرے یار خیراتی شیخ شبراتی خدا بخش قصائی گھسیٹا حلوائی سلارونا نانبائی پیرو بھٹیارا کلو گھسیارا یاران سب نے میرے گھر کو بھنڈار خانہ بنا رکھا ہے خیر سلا: ارے یہ صر ف دھوکا ہے کیوں جی جلاتا ہے۔ ماشاء اللہ: نہیں نہیں وہ ضرور آتا ہے اور میری عورت اسے کہیں چھپا دیتی ہے۔ خیر سلا: ارے تجھے ضرور کسی نے بہکایا ہے۔ ماشاء اللہ: بس کچھ نہیں اس اٹھائی گیرے پر اس عورت پر اس گھر پر لعنت کرتا ہوں تو میرا دوست ہے کہ نہیں؟ خیر سلا: دوست کیوں نہیں ہوں۔ ماشاء اللہ: اور سچا دوست؟ خیر سلا: صدق دل سے۔ ماشاء اللہ: تو میرا ساتھ دے گا؟ خیر سلا: ضرور! ماشاء اللہ: کہاں تک؟ خیر سلا: اس جہان میں قبر تک اس جہان میں جنم تک۔ ماشاء اللہ: دوہ اتھ۔ خیر سلا: یہ لے۔ ماشاء اللہ: میں ہاتھ کے بدلے پائوں۔ خیر سلا: یعنی بندہ اپنے قدم پر قائم رہے گا۔ ماشاء اللہ: تو سن! اب یہ عورت میرے کسی کام کی نہیں رہی۔ خیر سلا: عورت کام کی نہیں رہی یا تم عورت کے کام کے نہیں رہے۔ ماشاء اللہ: میں اب اس کا منہ دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوں۔ خیر سلا: مگر وہ بھی تمہارا منہ دیکھنا نہیں چاہتی۔ ماشاء اللہ: بس اب میں نے یہ ٹھان لی ہے کہ پستول کے ذریعہ اپنی غمگین زندگی کا خاتمہ کر لوں۔ خیر سلا: ارے یار! کہیں سچ مچ ایسا نہ کرنا۔ ماشاء اللہ: مجھے مجبوراً ایسا کرنا پڑے گا اورتجھے بھی میرے ساتھ مرناپڑے گا۔ خیر سلا: ہیں ہیں! ماشاء اللہ: ہیں ویں کچھ نہیں چل تیار ہو جا۔ خیر سلا: تیار ہو جا وہ کس لیے؟ ماشاء اللہ: میرے ساتھ مرنے کے لیے ۔۔ خیر سلا: ارے مرنے؟ میں کیوں مرنے لگا۔ ماشاء اللہ: کیوں تو نے ابھی نہیں کہا تھا کہ میں قبر تک ساتھ دو ں گا؟ خیر سلا: میں قبر تک ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ ماشاء اللہ: وہ کس طرح؟ خیر سلا: اس طرح کہ تو مر جا میں تجھے نہلائوں گا۔ کفن منگائوں گا۔ اسے سلائوں گا۔ پھر تجھے کفنائوں گا۔ جنارے میں رکھ کر قبرستان تک لے جائوں گا۔ چاہے ابھی مر کے دیکھ لے۔ ماشاء اللہ: تو ساتھ کے یہی معنی ہیں۔ خیر سلا: نہیں تو اور کیا بن بلائے خدا گنج کو جائوں؟ ماشاء اللہ: دیکھ یہ دنیا ایک دوزخ ہے اوروہاں بہشت ملے گی۔ خیر سلا: بھائی تو ہی بہشت میں چلا جا۔ گنہگار کو اس دوزخ ہی میں پڑا رہنے دے مگر تو خواہ مخواہ کیوں جانے کو تیارہے؟ ماشاء اللہ: اس لیے کہ میری بیوی بدکار ہے۔ خیر سلا: بدکام کرتے ہوئے آنکھوں سے دیکھا؟ ماشاء اللہ: مگر کانوں سے تو سنا۔ خیر سلا: بھلے آدمی کوئی کہہ دے کہ تو مرغی کے انڈے سے پیدا ہوا ہے تو اس کو مان لے گا؟ اس لیے ایسا کر کہ میں بھیس بدل کر تیری عورت کے پاس جاتا ہوں اور تیرے مرنے کی خبر سناتا ہوں۔ اگر وہ سن کر روئے تو نیک ہے اور اگر بے پروائی کرے اور ہنسے تو سمجھ لینا بدکار ہے۔ پھر تجھے اختیار ہے۔ ماشاء اللہ: ٹھیک ہے منظور ہے ضرور جانا اور جلد آکر خبر سنانا۔ اب میں جاتا ہوں۔ (ماشاء اللہ کا جانا) خیر سلا: توبہ ! توبہ! کیسا جن سوارہے۔ کم بخت اپنے ساتھ مجھے بھی مارنے کو تیار ہے۔۔ یہ تو ان عورتوں کا سب فتو رہے۔ میرا بس چلے تو سب ڈاڑھی مونچھوں والے مردوں کو ساتھ لے کر خدا سے فریاد کروں کہ ان عورتوںکا پیدا ہونا ہی بند کر دو۔ (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب دوسرا سین نواں کورٹ مارشل طغرل: سنائو؟ سر رشتہ دار: علیہ حضرت ملکہ معظمہ شمسہ نامی کے فوجی قانون کے منظور کردہ اور نواب قتلو خاں کے حسب منشاء بارھویں رجمنٹ کے لفٹننٹ شہریار ولد شیر افگن ملزم پر مندرجہ ذیل جرائم قائم کیے گئے ہیں۔ اول افسر بالا کی بلا اجازت چھائونی سے غیر حاضر رہنا۔ دوم بغیر استعفیٰ دیے ملازمت چھوڑ دینا۔ سوم اپنے افسر طغرل بیگ پر بحالت ادائے فرض مہلک حملہ کرنا۔ مذکورہ بالا تمام جرائم فوجی اراکین مندرجہ ذیل کے روبرو پیش کیے۔ جنرل شاہ نواز کرنل ظفر مرزا۔ میجر دلاور خاں‘ ڈپٹی ظہور بیگ‘ ملزم نے اپنی بریت کی تائید میں اورمندرجہ بالا جرائم کی تردید میں جو ثبوت پیش کیے ہیں وہ استغاثہ کی روئیدا د سے بے سود ٹھہرائے گئے۔ لہٰذا عدالت نے مجبور ہو کر بتاریخ ۲۵ محرم الحرام ۱۲۰۶ہجری بروز چہار شنبہ بمقام قاہرہ کیمپ حکم دیا ہے کہ ٹھیک بارہ بجے دن کے گولی مار کر نمک حرام شہریار کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ دستخط عزت پاشا کورٹ مارشل چوبیس محرم ۱۲۰۶ ہجری مقام قاہرہ کیمپ۔ ایک افسر: شہریار! چند منٹ کے بعدموت آ کرتم سے مصافحہ کرے گی کیا تم ایک دلیر سپاہی کی طرح اس کے استقبال کے لیے تیار ہو؟ شہریار: بے شک تیار ہوں۔ افسر: کوئی خواہش ہے؟ شہریار: کوئی نہیں۔ افسر: کچھ کہنا چاہتے ہو؟ شہریار: کچھ نہیں ۔ افسر: کچھ بھی؟ شہریار: کیا کہوں؟ جو انصاف اور قانونکے گلے پر چھری چلائیں عدالت کامضحکہ اڑائیں ان سے کیاکہوں۔ دوسرا: تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ انصاف سے ہوا ہے۔ شہریار: جھوٹے ہو تم سب جھوٹے ہو۔ طغرل: یہ بے ہودہ بکواس تیرے سینے کو گولیوں کا نشانہ بنانے سے نہیں روک سکتی۔ شہریار: چپ بزدل نامرد! میں تجھ سے بات کرنا بھی اپنی بے عزتی سمجھتا ہوں۔ اگر تو مرد ہوتا تو تلوار لے کر میدان میں آ جاتا اور اپنی شکست کا بدلہ لیتا۔ ایک شریف سپاہی کو مارتا یا مر جاتا۔ سامنے آ کر لڑے جو مرد اس کا نام ہے آڑ لے کر وار کرنا بزدلوں کا کام ہے طغرل: احمق اب تیرے پاس صر ف چند سانسیںباقی رہ گئی ہیں۔ انہیں بے ہودہ بکواس میں ضائع نہ کرو بلکہ موت کے ماتم میں صرف کر۔ شہریار: موت پر ماتم کرنا یا رونا عورتوں یا تیرے جیسے نامردوںکا کام ہے۔ موت کیا ہے ایک مقام کو چھوڑ کر دوسرے مقام پر جانے کا نام ہے۔ خضر ہو یا کوئی عیسیٰ ہو مگر مرنا ہے اس کو اس منزل ہستی سے سفر کرنا ہے صاحب تاج گئے مفلس و محتاج گئے ہم بھی جاتے ہیں اگر کل نہ گئے آج گئے طغرل: تو کیاتجھے اپنے مرنے کا غم نہیںَ شہریار: مطلق نہیں مگر ہاں ایک غم پیاری تسنیم جاں سوز کا ہے کہ اس دغا باز دنیا میں اسے تنہا چھوڑے جاتا ہوں۔ طغرل زندگی میں بھی تسنیم اور مرتے وقت بھی تسنیم۔ او بدنصیب۔ تسنیم نظر آئے گی اب میری بغل میں تو قبر میں ہو گا وہ مرے رنگ محل میں شہریار: ہرگز نہیں ستارے سیاہ ہوجائییں چاند سورج مل کر ٹکرا جائیں اور تباہ ہو جائیں فرشتے گمراہ ہو جائیں مگر تیری میدوں کی دنیا اندھیری رہے گی تسنیم میری تھی اور میری رہے گی۔ (تسنیم کا شہریار سے گلے ملنا) تسنیم: ہاں ہاں میں تیری ہوں اور تیری ہی رہوں گی۔ طغرل: کم بخت نامراد کیا تو اس بدنصیب کی لاش پر ماتم کرنے آئی ہے؟ تسنیم: نہیںمیں یہ کہنے آئی ہو کہ موت ہر وقت حملہ کرنے کو تیار ہے اور وہ ہاتھ جس نے بڑے بڑے فرعونوں کو نیست و نابد کردیا ابھی تک ویسا ہی قہار ہے۔ اگر جانتے ہو کہ تم اک بشر ہو اگر اپنی طاقت کی تم کو خبر ہو تو ہستی مٹائو نہ اس بے خطا کی کرو رحم رحم اک صفت ہے خدا کی شہریار: وہ رحم جو شیطان کے آگے ہاتھ پھیلا کر گڑا گڑا کر حاصل کیاجاوے مجھے نہیں چاہیے۔ تسنیم: نہیں پیارے ٹھہرو مجھے بونے دو قسمت آزمانے دو۔ سر رشتہ دار: نہیں جس کے واسطے عدالت سے سزائے مو ت کا حکم ہو چکا ہے اس کے لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تسنیم: اگر عدالت سے موت کا حکم ہو چکا ہے تو تمہاری انسانیت کی عدالت میں اپیل کرتی ہوں۔ شہریار: تسنیم! اپنے منہ کے موتیوں کو ان کوں کے آگے نہ ڈال۔ کیا تو میرے حریف کے سامنے مرتے وقت شرمندہ کرنے آئی ہے؟ بس بس کر مجھے مرنے دے۔ تسنیم: دو منٹ! صرف دومنٹ ! مجھے بولنے دو۔ شہریار: نہیں ! تسنیم نہیں! تسنیم: میرے پیارے تم کیا کہتے ہو؟ شہریار: یہی کہ میں بدنصیب ہوں عقل کی روشنی میں میرے بعد تم اپنے لیے کوئی نایاب ہیرا پسند کر لینا۔ تسنیم: پیارے! تم میری محبت کو بازاری عورتوں کی محبت کی طرح جانتے ہو مجھے بے وفا گردؤانتے ہو۔ سر رشتہ دار: وقت پورا ہوا۔ طغرل: ہٹ جائو۔ تسنیم: نہیںہرگز نہیں جب تک میں لاش بن کر اپنے پیارے کے قدموں میں جان نہ دے دوں مجھے کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ طغرل: دیکھ پھر میں کہتا ہوں کہ اس کم بخت کے لیے اپنی جان نہ دے۔ تسنیم: اور میں بھی یہی کہتی ہوں کہ چند روزہ زندگی کے لیے ایمان نہ دے۔ چار دن ہے شان و شوکت چار دن کا جبر ہے پھر خدا ہے اور تو ہے پھر اندھیری قبر ہے طغرل: بے وقوف کیا اس اجل رسیدہ کے ساتھ تو بھی اپنی زندگی سے ہاتھ دھوئے گی؟ تسنیم: چھن گئیں آنکھیں تو پھر زندگی کو کیا کروں زندگی کا سکھ گیا تو زندگی کو کیا کروں عورتوں کا فرض ہے اور دین ہے ایمان ہے یسے مرنے پر مری سو زندگی قربان ہے طغرل: نہیں ہٹتی تو اس کے ساتھ اس مردار کو بھی جہنم میں پہنچا دو۔ تسنیم: او فرشتو! میرے فرشتے کو بچائو۔ (جنرل قہرمان کا اندر سے فیر کرنا اور جلادوں کا مر جانا سپاہیوں کو جنرل قہرمان کے ہمراہ آنا اور طغرل کا بھا گ جانا ڈراب کا گرنا) ڈراپ سین ٭٭٭ باب تیسرا سین پہلا بیچ کا جنگل سہیل: دیکھو ہم کیسے پر فضا مقام پر رہتے ہیں۔ بلبلوں کی کلیل کوئل کی کو کو سارے درخت پر آب سبزہ شاداب پھل پھول بہار دکھاتے ہیں دل کو کیسی فرحت پہنچاتے ہیں۔ ہشام: بے شک حضور صنعت کردگار ہے عجیب بہار ہے۔ سہیل: جہاں بھر کا سامان راحت یہیں ہے یہ جنگل نہیں ہے بہشت بریں ہے گانا اس جنگل میں کوئی سیر کو آوے‘ فرحت پاوے من بھاوے‘ جماہے رن برنگ کا‘ قدرت پر ہوں نثار لالہ زار ہر طرف چھائی ہے بہار دل کی اس میں لگن ہے۔ چمن میں رشک عدن ہے۔ ماہ ختن۔ پیاری پھبن پرمن للچائے۔ اس جنگل… (سپاہیوں کا آنا) پہلا: یہی ہے پکڑ لو۔ سہیل: نہیںنہیں میں نہیں جائوں گا ہشام: چھوڑو بدکارو اسے چھوڑو۔ سپاہی: نا ہنجار بند کر تکرار۔ ہشام: خونی لٹیرے چور دوڑو دوڑو۔ طاہرہ: ہشام تم خون میں تر ہو۔ ہشام: میری فکر چھوڑو مجھے مرنے دو جائو سہیل کو دشمنوں کے پنجے سے چھڑائو۔ طاہرہ: کیا سہیل گرفتار ہو گیا؟ ہشام: افسوس قسمت مجبوری! طاہرہ: نہیں نہیںوہ کبھی ضائع نہیں ہو گ۔ا جب تک میں زندہ ہوں اسے کوئی نہیں مار سکتا۔ شہریار: جلدی چلو اور اپنے پیارے بچے کو دشمنوں سے بچائو۔ پہلا ساتھی: اب کیا کرنا چاہیے شہریار: ہمت اور مدد (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین دوسرا محل شمسہ: قتلو کیاخبر لائے قتلو: میںایسی خبر لایا ہوں کہ جس کو سن کر اچھل پڑو گی۔ شمسہ: واقعی کوئی ایسی بات ہے؟ قتلو: بڑی کوشی کی بات ہے۔ شمسہ: جلدی کہو نہیں تو مجھے دیوانے پن کا عارضہ ہو جائے گا۔ قتلو: تو سنو سہیل ہمارے ہاتھوں میں گرفتار ہے۔ شمسہ: یہ میں کیا سنتی ہوں؟ قتلو: جو میں کہتا ہوں۔ شمسہ: بس تو جلدی کرو۔ آستیں الٹو چھری لو آج درد سر گیا آ کے پھر جلدی کہو مجھ سے کہ موذی مر گیا قتلو: نہیںنہیں ! اس طرح مارنا اچھا نہ ہو گا۔ شمسہ: کیوں اس میں کیا قباحت ہے؟ قتلو: ایک خاص مصلحت ہے۔ شمسہ: آخڑ کیا وجہ ہے؟ میں بھی تو سنوں۔ قتلو: اگر یوں کھلے طور پر سہیل کو قتل کر دیں گے تو رعایا ضرور بدگمان ہو جائے گی۔ یہ خوف ہے کہ بغاوت سر اٹھائے گی۔ شمسہ: پھر کیا تدبیر ہے جس سے یہ موذی دفعا ن ہوا اور مجھے اطمینان ہو۔ قتلو: جس مکان میں سہیل کو قید کیا ہے کل رات کو ۱۲ بجے سرنگ کے ذریعہ بارو د سے اڑا دیں گے اوریہ کہہ دیں گے کہ اتفاقیہ امریہ مکان گر گیا۔ شمسہ: بہت خو ب رائے ہے۔ اچھا جائو سرنگ کا انتظام کرو۔ قتلو: میں ابھی جاتا ہوں مگر وہ شادی کا قول؟ شمسہ: گھبرائو نہیں وہ مجھے یاد ہے۔ ذرا سہیل کا خاتمہ ہو لینے دو پھر شوق سے شادی کرو۔ قتول: بہت اچھا! (جانا) شمسہ: او بے وقوف انسان شادی کس سے؟ مجھ سے جس نے سلطنت اور حکومت کے لیے اپنے بھئی پر جس کو تیرے ہی ہاتھ سے قتل کرا کے ٹھکانے لگا دیا اس سے تو شادی کرنے آیا ہے ذرا سہیل کا کام ہو جانے دے پر تیرا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ میں کیا بلا ہوں ابھی جانتانہیں مجھ کو غضب کی آگ ہوں پہچانتا نہیں مجھ کو مری کٹار کسی دن ہے اور گلو تیرا میں وہ بلا ہوں کہ پی جائوں گی لہو تیرا سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین تیسرا محل الماری والا ممتاز: معلوم نہیں کہ مس خیر سلا ابھی تک کیوں نہیں آئیںَ میں نے ان کے لیے پارٹی کی ہے اور انہوںنے تھیٹر چلنے کا وعدہ کیا ہے۔ میم: (آ کر)ممتاز مجھے معاف کرنا کہ ٹائم کچھ ایسا زیادہ نہیں ہوا ہے۔ ممتاز: آہا! آپ آ گئیں کوئی مضائقہ نہیں۔ ٹائم کچھ زیادہ نہیں ہوا ہے۔ میم: مگر اس دیر سے ایک عمدہ بات ہاتھ آ گئی ۔ ممتاز: فرمائیے! وہ کیا بات ہے؟ میم: میںجیسے ہی آپ کے کار سٹون کے اندر آئی تو ایک درخت کے نیچے کیا دیکھتی ہوں کہ میرے میاں خیر سلا بہروپیا بنے پھر رہے ہیں اور آ کے شوہر ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ممتا: یہ تو نہایت مزے کی بات ہے۔ میم: اور وہ غالباً یہیں آویں گے۔ ممتاز: یہ کیسے معلوم ہوا؟ میم: ان کی باتوں سے معلوم ہوا۔ ممتاز: اگر یہاں کچھ رنگ جمائیں گے تو ہم بھی انہیں خوب بنائین گے۔ میم: دیکھو تو سہی کیسا چٹکیوں میںاڑائیں گے۔ دیکھیے وہ آ رہے ہیں۔ ممتاز: اچھا تو وہاں کب چلو گی؟ میم: میں بالکل تیار ہوں۔ خیر سلا: (آ کر) اب مجھے مردے کی خبر پہنچانی ہے ۱؎ ہائے ہائے بڑا غضب ہو گیا بیچارہ مر گیا۔ ممتاز: کیوں صاحب آ پ کیا فرماتے ہیں؟ خیر سلا: ماشاء اللہ آپ کے کون تھے؟ ممتاز: میرے شوہر تھے۔ خیر سلا: مجھے کہتے ہوئے رونا آتا ہے۔ ممتاز: مجھے تمہارے رونے پر ہنسی آتی ہے۔ خیر سلا: مگر ہنسنے کے بعد آپ ضرور روئیں گی۔ ممتاز: امید تو نہیں مگر آپ کہیں تو سہی۔ خیر سلا: وہ بے چارہ مر گیا۔ ممتاز: بس اس لیے آ پ روتے ہیں؟ خیر سلا: لو یہاں تو کچھ اثر ہی نہ ہوا۔ ۲؎ ممتاز: کیوں مس صاحبہ! آپ کی اس معاملے میں کیا رائے ہے؟ میم: اجی جانے دو اگر شوہرمر جائے تو میں سمجھوں گی کہ گھر کا کتا مر گیا۔ خیر سلا: دیکھو کتنا مجھے کتا بناتی ہے۔ ممتاز: تاہم ا س خبر سے میرے نازک دل کو نہایت صدمہ پہنچا ہے۔ خیر سلا: یہ تو آ پ کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے مگر اب کیا کرو گی؟ ممتاز: کروں گی کیا؟ کوئی اور مشٹنڈا کر لوں گی۔ ۱؎ علیحدہ ۲؎ علیحدہ خیر سلا: یہ تو مجھے پہلے ہی یقین تھا۔ ممتاز: کیوں صاحب! آپ کا اس معاملے میں کیا خیال ہے؟ خیر سلا: جو آپ کا اور ا ن کا ہے۔ ممتاز: میں میاں کے مرنے کی خوشی میں جلسہ کرائوں گی پارٹی دوں گی ڈانس کروں گی۔ خیر سلا: بھئی واہ! اچھا میاں کا سوگ کرتی ہے۔ میم: اگر میرا شوہر بھی جہنم واصل ہو جائے میں بھی کوء مرد کر لوں خوب مزے اڑائوں۔ خیر سلا: دیکھو صلح بھی مجھ سے ہی پوچھتی ہے ۔ بھل اب رنڈوا مرد کرو گی یا کنوارا؟ میم: کنوارا ہو مگر بے وقوف وار مالدار ہو۔ خیر سلا: تو بے وقوف تو ایک میں ہی موجود ہوں۔ میم: ایک اور بھی ہے۔ خیر سلا: وہ کون؟ میم: میرا شوہر خیر سلا۔ خیر سلا: مگر میں نے سنا ہے کہ وہ بڑا ہوشیا ر ہے۔ میم: اجی وہ تو بالکل گدھا ہے ایک دن میں ڈاکٹر محبت خان سے گال اور کس کھیل رہی تھی۔ خیر سلا: یہ کھیل کیسا ہوتا ہے میم: اس کا نام ہے کسنگ۔ خیر سلا: پھرکیا ہوا؟ میم: میں نے جھوٹ دانت کے درد کا بہانہ کر کے ٹال دیا۔ خیر سلا: بہت تیزی کی اگر مجھے معلوم ہوتاتو گلا ہی دباتا ۔ اچھا غیر مرد کو تم نے بوسہ دیا۔ میم: اس سے کیا ہوا؟ جب میں کنواری تھی تو ایک بوسہ کی دوگنی لیتی تھی۔ اب چونکہ میرا بیاہ ہو گیا ہے اس لیے اب ایک بوسہ کی ایک گنی لیتی ہوں۔ خیر سلا: بھئی واہ کیا عورت ہے گویا بوسوں کی مارکیٹ ہے جتن یکا بوسہ چاہے لے لو۔ میم : کہیے آپ کو کہاں کا بوسہ چاہیے؟ خیر سلا: میرے پاس تو ہاف گنی ہے۔ میم: تو ہاف گنی میں ہاتھ کا بوسہ دوں گی چلو جلدی نکالو۔ خیر سلا: مگر اس وقت مجھے نہیں چاہیے۔ میم: کیوںنہیں چاہیے؟ آپ کو ضرور بوسہ لینا پڑے گا۔ خیر سلا: ہیں کچھ زبردستی ہے۔ میم: بے شک پہے بھائو کیوں پوچھا؟ تم یوں نہ مانو گے(ہاتھ سے گنی چھین لینا) اب ہاتھ کا بوسہ لینا ہے تو لو ورنہ یوں ہی چل دو۔ خیر سلا: اچھا صاحب ہاتھ کا بوسہ دے دو۔ میم: کیوں صاحب بوسہ کیسا میٹھا ہے؟ خیر سلا: بوسہ تو میٹھا تھا مگر گنی لینے سے کڑوا ہو گیا۔ میم: اچھا صاحب پھر کبھی بوسے کا شوق ہو تو ضرور آئیے گا۔ (جانا) خیر سلا: بھئی واہ لوگ دعائیں مانگتے ہیں کہ خڈا کرے ہمیں کمائوبیٹا نصیب ہو۔ مگر ہم کو بغیر مانگے کمائو جورو مل گئی۔ اگر بوسوں کی ایک عدد جنرل ٹریڈنگ کمپنی کھولوں تو یاروں کا پلائو اور مٹن چاپ کہیں نہیں گیا۔ ماشاء اللہ: (آ کر) مرنے کی خبر لے کر آئے ہو یا خود ہی مر رہے ہو؟ خیر سلا: واہ خوب مزا رہا۔ ماشاء اللہ: میں کیا پوچھتا ہوں؟ خیر سلا: ارے یار (ہنس کر) ماشاء اللہ: کیا بک رہا ہے؟ خیر سلا: بندہ بک نہیں رہا ہے سچ کہہ رہا ہے۔ ماشاء اللہ: ارے تو نے اور اس نے کیا کہا؟ خیر سلا: اسنے کہا میرا بوسہ لے۔ ماشاء اللہ : ہیں اس بے شرم نے یہ کہا؟ خیر سلا: ہاں تو مجھے بوسہ لینا ہی پڑا۔ ماشاء اللہ: کیاکہا ذلیل بدمعاش تو نے اس کا بوسہ لیا۔؟ خیر سلا: اس نے جبراً دیات و میں نے لیا۔ ماشاء اللہ: مگر تجھے بوسہ لینے کا کیا حق تھا؟ خیر سلا: حق تو نہیں تھا آدھی گنی جو دی تھی۔ ماشاء اللہ: مگر تو نے اس کا بوسہ لیا کر طرح۔ خیر سلا: دیکھ اسطرح(ماشاء اللہ کا منہ چومنا) ماشاء اللہ: غیرت کر ڈوب مر تجھے میری بیوی کا بوسہ لیتے ہوئے شرم نہیں آئی۔ خیر سلا: ارے تیری بہن اور میری بیوی۔ ماشاء الہ: ارے پہلے بوسہ لیا اب پوری عورت ہضم کرنا چاہتا ہے۔ خیر سلا: ارے تیری نہیں میں نے اپنی بیوی کا بوسہ لیا۔ ماشاء اللہ: میں نے تو یہ سمجھا کہ تو نے میری بیوی پر ہاتھ صاف کیا ہے خیر اس ذکر کو دفعان کر۔ بول مرے مرنے کی خبر سن کر اس پر کیا اثر ہوا؟ خیر سلا: اس نے کہا کہ ایک کتا مر گیا اور خوب ہنسی اورخوش ہوئی۔ ماشاء اللہ: بے وفا کتیا! تجھے غم کے بدلے خوشی اور رونے کے بدلے ہنسی۔ خیر سلا: جناب اس نے کہا کہ ہر جمعرات کو گھی کے چراغ جلائوں گی رت جگا منائوں گی اور اس کی قبر پر ڈھولک بجائوں گی۔ ماشاء اللہ: اس زندگی پر لعنت بس جھگڑا ہی مٹائے دیتا ہوں مرنے کے لیے تیار ہوں۔ خیرسلا: لو اس طرف کا دروازہ بند ہے اور دھر سے وہی آتی ہیں۔ ذرا اب چھپ جانا چاہیے۔ میم: (آ کر) اچھا جی آ پ بھی یہیں موجو د ہیں دیکھا جائے گا۔ ممتاز: چلو چلو اب تھیٹر کا وقت ہو گیا۔ میم: تھیٹر س یزیادہ تو یہیں تماشا ہو رہا ہے۔ ممتاز: وہ کیا؟ میم: کباٹ ۱؎ کے پیچھے میرے میاں چھپے ہیں۔ ذرا تم مرد بن کر مجھ سے عشق وشق کی باتیں کرو۔ ممتاز: ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ میر جان کس خیال میںہو؟ میم اس خطاب سے تو آپ ممتاز ہی کو پکارا کریں۔ خیر سلا: اور یہ کون بدمعاش ہے؟ کہیںوہ نہیں جس کا ذکر ماشاء اللہ نے کیا تھا؟ ممتاز: تو آپ کو میر ی محبت سے انکار ہے۔ میم: دیکھی میں ایک عورت ہوں آ کو مجھ سے ایسا کلام نہ کرنا چاہیے۔ خیر سلا: بے شک سچ کہتی ہے۔ ممتاز: تم کو ہماری محبت کا یقین نہیں ہے۔ میم: آپ تو ممتاز کو پیار کرتے ہو۔ ممتاز: تو کیا ہوا مجھے تم سے محبت ہے اورتمہیں بھی محبت کا اقرار کرنا چاہیے۔ خیر سلا: ہرگز نہیں! ممتازَ کیوں! جواب نہیں دیتیں؟ خیر سلا: میں جو جواب دے رہا ہوں۔ میم: بھلا قسم کھائو۔ خیر سلا: اررر یہ تو پھسل چلی یا خدائے توانا میری بیوی کو بچانا۔ ممتاز: اپنے دل کی قسم تمہاری محبت کی قسم۔ میم: جب تو… خیر سلا: اور کام بگڑ گیا آخری گئی نہ اپنی ذات پر۔ ممتاز: اور میں اس محبت پر تصدیق کی مہر لگاتاہوں۔ (بوسہ لینا) خیر سلا: تو نے بوسہ دے دیا ارے گنی تو لے لی ہوتی۔ ممتاز: خیر پستول نہ ملا تو چھری ہی سہی۔ ایک وار اور جھگڑا پار۔۔ خیر سلا: تو یہاں آ گیا۔ (ماشاء اللہ کا آنا) ۱؎ CUPBOARD ماشاء اللہ: میں سمجھا یہی ہے وہ رزالا جس نے میرا گھر گھالا کیوں ی کیوں آئے ہو؟ خیر سلا: ہماری خوشی! ماشاء اللہ: خوشی کا بچہ! دور ہونہیں تو کھا جائوں گا۔ خیر سلا: بس دل نے چاہا تو ہم آئے۔ ماشاء اللہ: ابے تجھے اس گھر میں آنے کا کیا حق ہے؟ خیر سلا: حق کیوںنہیں میری معشوقہ کا گھر ہے۔ ماشاء اللہ: کون معشوقہ؟َ خیر سلا: مست ناز سراپ]ا ناز میری پیاری ممتاز۔ ماشاء اللہ: تیری پیاری کیسے؟ کیاتو نے اس سے شادی کی ہے؟ ممتاز: لو مفت میں ایک حسین عورت ہاتھ آئے تو شادی کرنے کی کیا ضرور ت ہے؟ ماشاء اللہ: تجھے نہیں معلوم کہ یہ میری بیوی ہے۔ خیر سلا: تمہاری ہو یا تمہارے باپ کی ہو مگر آج کل تو ہماری ہے ۔ ماشاء اللہ: بے شک! ممتاز: اور آپ جائیے اور وہ پستول لائیے۔ خیر سلا: چلو روس اور جاپان کی جنگ چھڑ گئی۔ ماشاء اللہ: پاجی دیکھ تو میرے ہاتھ سے کیونکر بچتاہے مرد کون اور عورت کون ہے۔ میم: یہ لیجیے اور آپ یہ لیجیے۔ اچھا دونوں صاحب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہوجائیں۔ ماشاء اللہ: میں یہ جگہ لیتا ہوں۔ میم: اور آپ اس جگہ کھڑے ہو جائیں۔ خیر سلا: ارے یہاں کھڑ ا ہوتا ہے وہ پستول چلائے گا تو میرا خاتمہ ہو جائے گا۔ میم: اچھا دیکھو جب میں ایک دو تین کہوں تو اپنے اپنے پستولوں کا ایک دوسرے پر فائر کرنا۔ ریڈی ون ٹو ٹھہرو یہ جگہ ٹھیک نہیں تم یہاں سے نشانہ باندھو۔ خیر سلا: او یہ کم بخت یہاں بھی آ گیا؟ میم: ریڈی ون ٹو تھری! یہ جگہ بھی اچھی نہیں تم یہاں آ جائو۔ خیر سلا: بیٹا خیر سلا اب جان کی خیر نہیں۔ میم: ریڈی ون ٹو تھری! ماشاء اللہ: ہٰں کون خیر سلا؟ خیر سلا: ارے مار مار اس نے تیری ہی نہیں میری جورو بھی ہضم کی ہے۔ ماشاء اللہ: کیوں بے لنگاڑے تونے کتنے شریفوںکے گھر بگاڑے؟ خیر سلا: دیکھو بدمعاش موچھوں پر تائو دیتا ہے۔ اس کی موچھیں اکھاڑے لیتا ہوں۔ ماشاء اللہ: ہیں! کون ممتاز؟ ممتاز: کیوں میاں کیسا بنایا؟ میم: کیوں میاں! گنی کیسے وصول کی (سب کا مل کر گانا) گانا کیساڈال جال چلی ہم نے چال‘ پیار بولو‘ ہاری ہاری بولوو جی تو نے مجھ کو ٹھگا مجھے جھانسا دیا۔ کہو کییس دیوانے بنے‘ کسیے سیانے بنے بے شک بنے‘ پھنسے بالکل پھنسے‘ بل جیناں اوسیاں یہ بیاں میں ڈاروں گلے بار بار کر کر دلیریاں‘ پیارے مورے شاہ ماں بیگماں ہاں کیسا جال ڈالا… نثر یہ کون ممتاز؟ کون پیاری؟ دیکھوجی تمہیں ایسا کرنا ہے۔ بس چپ رہو اگر ہماری حرکتیں آپ کو پسندنہیں تو ہمارا یہ راستہ اور تمہارا وہ راستہ (جانا)۔ (دونوں کا مل کر گانا) گانا ہوا بائیکاٹ‘ ملائیں پاٹ‘ جورو رے تیری میری جورو رے مانگے ڈاسن کے بوٹ‘ کیسی ڈالی ٹوٹ لاوے نہ سوٹ‘ جورو جاوے روٹھ‘ گھر سے بلا پاپ سے سر ٹلا‘ اب یہ ٹوپی پاجامی عمامہ ملا‘ سجا کر کریں ٹھاٹ باٹ ہوابائیکاٹ۔ سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین چوتھا اگلا محل قہرمان: افسوس کیا سہیل اور بدنصیبی ساتھ ہی پیدا ہوئے ہیں جو ابھی تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے۔ میں نے معتبر شخص سے سنا ہے کہ وہ پھر شمسہ کے سپاہیوں کے ہاتھ گرفتار ہو گیا۔ پہلا: واقعی یہ دہشت خیز اور خوفناک خبر ہے۔ قہرمان: سیاہ کار قتلو کی صلاح سے شمسہ نے اسے سنگین مکان میں قید کر دیا ہے۔ اور آج ہی رات بارہ بجے بارود سے مکان کو اڑا دینے کا مشورہ ٹھہرایا ہے۔ دوسرا: خدا غارت کرے شیطا ن کو۔ تیسرا: اس نام کے انسان کو۔ پہلا: جس میں رہتا ہو اس مکان کو جس میں بستا ہو اس جہان کو۔ قہرمان: میرے بہادرو اس معاملے کو خوب مشورہ کرو۔ پہلا: میں افسوس کرتا ہوں کہ ہم لوگ ظالم شمسہ اور ناپاک قتلو کے لیے بیسیوں انتظا م کرسکتے ہیں۔ مگر طاہرہ اور مظلوم کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ جس طرح جنرل قہرمان نے عین موقع پا کر شہریار کی جان بچائی یتھی اسی تدبیر سے ان دونوں کی جان بھی بجائیں گے۔ قہرمان: ضرور ایسا ہی ہو گا۔ ہم بارہ بجے سے پہلے جا کر حملہ کر دیں گے اور اسے موذی کے پنجے سے چھڑائیں گے۔ تیسرا: میں آپ کی ذات با برکات سے پوری امید رکھتاہوں۔ قہرمان: قسم ہے اس تلوار کی جس کو بوسہ دے کر مر جانا ہر ایک سپاہی کی آخری آرزو ہے۔ وفاداری اور ایمان کے پیچھے اپنی تمام زندگی خوار کروں گا۔ اگرمیرے پاس ہزار جانیں ہوں گی تو طاہرہ اور سہیل پر نثار کر دوں گا۔ چوتھا: ارو ہم بھی اپنے ایمان کو قوی اور دل کو جری سمجھ کر آ کا ساتھ دیں گے۔ پہلا: میں بھی اس کی تائید کرتاہوں۔ معصوم سہییل کو بچانے کے لیے میں تو کیا میری لاش بھی اٹھ کر دشمنوں پر حملہ کرے گی۔ تیسرا: ہماری یک دلی اور سچائی دو سنگین مکان تو کیا اگر بھاری پہاڑ بھی ہوں گے تو اڑا دیں گے۔ قہرمان: اے میرے شریف دلیرو! میں قسم کھاتا ہوں کہ جب تک اس سر میں نامداری کاجنون ہے۔ اور جب تک ان رگوں میں شریف ماں باپ کا خون ہے جسم میں جان ہاتھ میں تلوار ہے اور اس میں دھار ہے جنرل قہرمان سہیل کی جان ضرور بچائے گا۔ تیار ہر طرح سے دلیر و جوان ہوں ایمان کی ہوں تیغ وفا کی زبان ہوں ہمت کا ہاتھ ہوں تو دلیری کی جان ہوں ٹوٹوں گا قہر بن کے اگرقہرمان ہوں (جانا) سین ختم ٭٭٭ باب تیسرا سین پانچواں سنگین محل طاہرہ: اے بے رحم سنگین مکان اے خونی دیوارو کیا تم کو بناتے وقت مزدوروں نے اچھی طرح پانی نہیں پلایا تھا جو ایک معصوم بچے کے خون سے اپنی پیاس بجھانا چاہتی ہو؟ چار دیواری میں اسے قید کیا ہے وہ تو اس کے لیے نہایت بے آرام جگہ ہے تم سب میری آہ سوز سے نرم ہو جائو۔ میرے بچے پر رحم کھائو۔ شہریار: بانو صاحبہ! صبر کیجیے۔ شکر کا مقام ہے اس طرف کی دیوار میں ایک اینٹ سرکی ہوئی ہے میں جا کر وزنی ہتھوڑا لاتا ہوں اور اندر جانے کا راستہ بناتا ہوں۔ طاہرہ: اگر تو جلدی نہ آیا تو میں اپنے سر کی ٹکروں سے اس دیوار میں راستہ بنائوں گی اور اپنے بچے کو چھڑائوں گی۔ (جانا) شمسہ: (آ کر ) کون طاہرہ؟ طاہرہ: افسو س شمسہ؟ شمسہ: میری دشمن میرے دشمنوں کی دوست! طاہرہ: رحم رحم شمسہ رحم! شمسہ: میں نہں سمجھتی کہ بے وقوف تیرے یہاں آنے کا مطلب کیا ہے؟ طاہرہ: شمسہ میرا بچہ مجھے دے دے۔ دیکھ اپنے بھتیجے کا خون نہ کر خدا سے ڈر۔ شمسہ: کیا تو چاہتی ہے کہ اس سانپ کے بچے کو چھوڑ دوں اور وہ زندہ رہ کر مجھے ہی ڈسے طاہرہ: نہیں نہیں تجھے رحم کرنا چاہیے وہ میرا نہیں تیرا بھتیجا ہے۔ شمسہ: ہاں ہاں میرا بھتیجا ہے۔ اس لیے کہ اس کا یہ نتیجہ ہے۔؛ طاہرہ: یہ کا قابل نفرت ہے۔ شمسہ: تو بے وقوف عورت ہے۔ طاہرہ: ہاں عورت ہونے کے لحاظ سے میں اور تو ایک ہی ہیں مگر تیرے خیال بد اور میرے خیال نیک تو ظلم پر آمادہ ورا میں رحم کی دلدادہ۔ تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند شمسہ: اچھا اگر اپنی سلامتی چاہتی ہے تو یہاں سے چلی جا۔ طاہرہ: نہیں نہیں مجھے اپنے دروازے سے خالی نہ پھیرل۔ دیکھ وہ عورت جس نے اپنے خاوند اور بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح ہوتے ہوئے دیکھا اور اف تک نہ کی وہ آج اپنے مالک کے بچے کے لیے تیرے آگے گڑگڑاتی ہے۔ شمسہ: تو جھک مارتی ہے۔ طاہرہ: او شمسہ شمسہ میرا بچہ مجھے دے جا۔ شمسہ: دوں گی مگر زندہ نہیںمردہ۔ طاہرہ: اری ظالم! میں نے اپنا دامن تیرے آگے پھیلاتی ہوں۔ سہیل کی زندگی کی بھیک مانگتی ہوں۔ شمسہ: میں تجھے بھیک میں ٹھوکر دیتی ہوں۔ (جانا) طاہرہ: ہائے شہریار: (آ کر ) چلیے! اب جلدی کیجیے۔ طغرل: کون ؟ شہریار اور طاہرہ؟ (طغرل اور شہریار کا لڑنا طغرل کا پست ہونا ایک سپاہی ک شہریار سے مقابلہ کرنا‘ طغرل کا مکان کے اندر بھاگ جان قہرمان کا آکر فیر کرنا‘ سپاہی کا مرنا مکان کا گرنا طغرل کا مکان کے نیچے آ کر مر جانا) شمسہ : فتح فتح! کوشی خوشی! قہرمان: نہیں شکست شکست! شمسہ: تو کون؟ قہرمان: میں۔ شمسہ: کون ؟ دغا باز قہرمان؟ قہرمان: ادھر دیکھ! شمسہ : کون طاہرہ؟ اور سہیل فرار؟ قہرمان: بس خبردار! (سب کا جانا وار ڈراب سین کا اوپر سے آہستہ آہستہ گرنا) ڈراپ سین ٭٭٭ باب چوتھا سین پہلا پریڈ سہیل: کیوں دوستو! اگر دشمنوںنے سر اٹھایا لڑنے کا موقع آیا تو تم کیا کرو گے پہلا: ہم کیا کریں گے؟ اگر وہ پہا ڑ ہو گاتو ہم اس پر پل پڑیں گے۔ دوسرا: اگر وہ دریا ہو گاتو ہم اس میں کود پڑیں گے۔ تیسرا: اگر وہ آگ ہوئی تو اس میں جل مریں گے چوتھا: کافر کیدو ہوں ہاتھ جو میں دوں جنیو کا منہ پھیر دوں اک آن میں تھپڑ سے دیو کا میدان جنگ اسی کا ہے جس کا میں ساتھ دوں رستم بھی بول جائے اگر ایک ہاتھ دوں دیکھے جو آنکھ اٹھا کر تو صورت بگاڑ دوں دشمن پہاڑ ہو تو میں جڑ سے اکھاڑ دوں سب: پھر آ پ کا کیا حکم ہے؟ سہیل: ہمیںتم اپنی قواعد دکھائو۔ گانا لشکر چلاہے بن کر یہ اس طرح دوانہ گھنگھور جیسے گردوں پہ ہو بادلوں کا آنا من میں جرمن یونانی رشین پرفن جاپانی دشمن تیغ ایرانی سب سے ییہ پلٹن ہے اصفہانی لشکر… (سب کا جانا) سین ختم ٭٭٭ باب چوتھا سین دوسرا میدان جنگ شمسہ: افسوس دشمن آندھی کی طرح منڈلا رہا ہے۔ شکست و فتح میں امید و بیم کے بادل میرے سرپر چھا رہے ہیں۔ میری عقل بانجھ ہوئی ج رہی ہے۔ کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی۔ قتلو نے بھی کوئی قاصد نہیں بھجا۔ جس سے جنگ کا نتیجہ معلوم ہو تا ۔ ہاں وہ کوئی آ رہا ہے۔ قاصد: (آ کر) ملکہ عالم کے مراتب اعلیٰ کرنیل دلیر جنگ کے سو بہادروں نے دشمنوں کو گھاس کی طرح کاٹ ڈالا۔ شمسہ: آہا خوشی خوشی! قاصد: حضور سال بیگ کے دستے نے بھی بہت سخت نقصان پہنچایا۔ شمسہ: مبارک مبارک! قاصد تو بہت اچھی خبر لایا ہے آج سے میں نے تجھے کرنل بنایا۔ قاصد: اگرچہ شجاعت خان کے رسالے نے بھی پانی کی طرح حریفوںکا خون بہایا… شمسہ: مگر ہاں ہاں آگے بول۔ قاصد: حضور افسوس! شمسہ: ہیں افسوس کیسا؟ قاصد: نامراد شہریار نے اس زور سے حملہ کیا کہ ہماری جیتی بازی پلٹ گئی اور نصف سے زیادہ فوج کٹ گئی۔ شمسہ: کمینے نمک حرام۔ قاصد: مگر حضور میرا قصور؟ شمسہ: نکل جا یہاں سے بے شعور! قاصد: حضور حضور نامرد سپاہی بھاگے جاتے ہیں اور جان باز بہادر فتح فتح پکارتے پیچھے چے آتے ہیں۔ شمسہ: اور کامیابی فتح فتح! قاصد: مگر ہماری نہیں دشمنوں کی۔ شمسہ: دشمن کی فتح! خاموش مردود بے حیا۔ قاصد: مگر حضور میری خطا؟ شمسہ: نکل یہاں سے ملعون پاجی افسوس خدایا ایک بھی اچھی خبر نہیں آئی اگر واقعی شکست ہوئی توپھر میں زندگی کا دنیا سے خاتمہ ہے۔ قاصد: حجور دشمن کا جھنڈا قلعہ پر گڑ گیا ۔ چوتھا: حضور! ہمارا لشکر آپس میں لڑ گیا۔ پانچواں : پناہ لیجیے حضور… چھٹا: حضور وہ گولیوں کی بارش ہوئی کہ نواب قتلو خاں کی فوج بکھر گئی اور وہ تن تنہا رہ گئیل۔ شمسہ: نکلو یہاںسے چغد کہیں کے موت کے راگ گانے کے سوا اور راگ نہیں آتا۔ (قتلو کا آنا) کہو تم کیا خبر لائے؟خدا کے لیے کوئی نامبارک بات زبان سے نہ نکالنا۔ قتلو: شمسہ ۔ اب یہاں دم نہ لو دشمن سولی اورہتھکڑی لیے ہوئے پیچھے آ رہے ہیں۔ شمسہ: اچھا بھاگو! قہرمان: (آ کر) خبردار جانے نہ پائیں۔ قتلو: وہ آ پہنچے! سب بھاگو بھاگو (بھاگنا) قہرمان: وہ بھاگے جا رہے ہیں فوراً گرفتار کر لو۔ طاہرہ: غاصبہ شمسہ تو اب تک انسانی قربانیوں کا اپنا قانون اور حکومت بنائے ہوئے تھی۔ اب انصاف کی عدالت میں اپنا فیصلہ سننے آ رہی ہے۔ (شمسہ اور قتلو کا گرفتار ہو کر آنا) شمسہ اور قتلو جہاں ایک حاکم کا قانون اورانصاف جاری ہوتاہے۔ وہاں کوئی فرد بشر جرم کا ارتکاب نہیں کرتا۔ مگر تم نے خدا کے حاکم اور سورج چاند ستاروں اور فرشتوں جیسے حقیقی قانون اور پاک انصاف کے ہوتے ہوئے کیسے کیسے گناہ کیے ہیں اور بریت ک کوئی ثبوت تمہارے پاس نہیں ہے۔ شمسہ: یہ تو کس سے کہہ رہی ہے؟ طاہرہ: تجھ سے جس نے چند روزہ زندگی کے لیے کیسے کیسے ظلم کیے اب وہ تیرا مکرو و فریب ہاں ہے؟ دیکھ تو اس وقت کس حال میں ہے وہ تیرا عروج پستی ہے اب تو معافی کس منہ سے مانگ سکتی ہے؟ شمسہ: معافی تم سے؟ جو میرے دستر خون سے گرے وہئے ٹکڑے جمع کر کے اپناپیٹ پالتے تھے ۔ ان سے میں معافی مانگوں گی۔ آسمان زمین کے آگے سر جھکائے گا ؟ دن کے بعد رات رات کے بعد دن زندگی کے بعد موت اور انتہائے بلندی پر جا کر گرنا قدرت کا قانون ہے۔ اگر میں اس کاافسوس کروں تو پاگل ہوں اور جوتو خوش ہوتی ہے تو تو بے وقوف ہے۔ طاہرہ: یہ تیرا خیال خام ہے۔ کسی کی مصیبت دیکھ کر خوش ہونا بدوں کا کام ہیھ۔ لیکن میں جس وقت تیرے پاس آئی تھی اور سہیل کی زندگی کے لیے بھیک مانگنے کے لیے گود پھیلائی تھی… شمسہ: تو کیا تو چاہتی ہے کہ میں بھی تیرے آگے زندگی کے لیے عاجزی کروں؟ طاہرہ: نہیںمیرا خیا ل یہ نہیں ہے۔میں فقط تجھے یاد دلاتی ہوں کہ اس وقت تو نے مجھے بھیک میں ٹھوکر دی تھی۔ لیکن میں تجھے بغیر معافی مانگے تیری زندگی بخشتی ہوں۔ شمسہ: میں تیری معافی کوتیرے چہرے پر نفرت سے واپس پھینکتی ہوں۔ قہرمان: خڈا کی قسم کبھی ایسی کافر عورت پر رحم نہیں کرنا چاہیے۔ طاہرہ: نہیں اس کی موت سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اگر یہ زندہ رہے گی تو آئندہ توبہ کر کے نیک بنے گی تو ہم انسان کو بدی سے بچانے کا ثواب ملے گا۔ قہرمان: قتلو جواب دے کیوں لاش کی طرح سرد اور قبر کی طرح زرد کھڑا ہے۔ شمسہ: خبردار بہادر قتلو دشمن کو جواب دیتے وقت بزدلی نہ دکھانا ۔ عزت میں پیدا ہوا ہے عزت ہی میں مر جانا۔ قتلو: مگر ہم دونوں اس قابل نہیں رہے کہ خدا اور انسان کو غرور سے جواب دیں۔ شمسہ: نامرد! بودے! تیری باتوں سے بزدلی کی بو آ رہی ہے۔ قتلو: مگرتجھے معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ شمسہ صرف موت قتلو: مگر ہم دونوں موت کے لیے تیار نہیں ہیں۔ شمسہ: کیوں؟ قتلو: موت سے زندگی پیار ی ہے۔ شمسہ: غلاموں کی طرح جینے سے آقائوں کی طرح مرنا بہترہے۔ قتلو: اوناشکرگزار عورت ! شمسہ: چپ بزرل پست ہمت۔ قتلو: خدا کے لیے جی ارو جینے دے۔ شمسہ: ہاں تجھے جینے دوں گی مگر یوں۔ (شمسہ کا قتلو کو اور اپنے آپ کو پستول سے ہلاک کرنا) قتلو: افسوس یہ ہے کہ بدکار عورت کی محبت کانتیجہ۔ شمسہ آگ جہنم! سین ختم ٭٭٭ باب چوتھا سین تیسرا ڈاک بنگلہ شہباز: میرا نام شہباز خان ڈنڈے باز اور مرے ڈنڈ ے کا نام پاجی نواز۔ کوئی شخص کھنیایا تو میں نے اس پر ڈنڈا جمایا ۔ آج کئی آدمیوں کے کہنے سے میں ایک عورت پر عاشق ہو گیا ہوں۔ مگر وہ میرے دام میں نہیں آتی۔ اپنے کو شوہر والی بتاتی ہے ۔ خیر دیکھا جائے گا؛ اب میں ا س کی جستجو مین جاتا ہوں کچھ پتا لگاتاہوں۔ (جانا) خیر سلا: (آ کر) شمسہ اور قتلو کا جو انجام ہوا اس کی اب ضرورت نہیں۔ بندے نے ان کے انجام کے ساتھ اپنا نتیجہ بھی خوب نہ جانا اور دل میں یہی ٹھانا کہ نیو فیشن ایبل جورو کو کسی دوسرے شہر میں لے جائوں۔ وہ ذرا فیشن سے ناچے گی اور ہم ذرا فیشن سے ڈھول بجائیں گے۔ مگر وہ سنتے ہی سایہ کی طرح چلتی بنی۔ اور ہم ڈنڈے بجاتے رہ گئے۔ ایڈی کانگ کے ساتھ جورو کا خاتمہ ہو گیا۔ سرکاری آڈمیوں کی نگاہ بچاتاہوا اس کوٹ پتلون کی آڑ میں آ نکلا۔ شیریں: (آ کر) واللہ وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ خیر سلا: ہیں یہ اندھیرے میں گیس لائٹ کہاںسے آ گئی؟ شیریں: صاحب کون ہیں؟ خیر سلا: جناب میں صاحب نہیں ہوں میں ایک معمولی دیسی آدمی ہوں۔ شیریں: معاف کیجیے! آپ کے لباس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی جنٹل مین ہیں۔ خیر سلا: بیشک یہ تو نے ظاہری لفافہ بند کر رکھا ہے۔ کیونکہ آج کل دیسی پنجروں کے ساتھ ریلوے والے بدسلوکی سے پیش آتے ہیں ا س لیے میں نے یہ کوٹ پتلون اور واسکوٹ پہن لیا کہ صاحب سمجھ کر مییر کمرے میں کوئی نہ آئے شیریں: آپ کا نام؟ خیر سلا: خیر سلا شیریں : جناب میں اپنے شوہر کے ساتھ ریل میں آ رہی تھی۔ میرا شوہر ایک سٹیشن پر پانی پینے کے واسطے اترا۔ اتنے میں سیٹی ہوئی اور ریل چل پڑی۔ میں یہاں آئی تو ایک نیم وحشی شخص میرے پیچھے پڑ گیا۔ خیر سلا: آپ جیسی ععورت کو تنہا سفر نہ کانا چاہئے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں۔ آج کل ریلوے میں عورتوں پر بدمعاش آدمی بزدلانہ حملہ کرتے ہیں۔ شیریں: میں امید کرتی ہوں کہ میرے شوہر کے آنے تک آپ مجھے اس شخص کے ظلم سے ضرور بچائیں گے۔ خیر سلا: آپ بالکل بے فکر رہیں اس کا سر توڑ دوں گا۔ شیریں: اب میں ذرا بازار جاتی ہوںَ وہ ظالم میرے پیچھے نہ آنے پائے۔ خیر سلا: آ پ بالکل بے فکر رہیں۔ ہرگز نہیں جانے دوں گا۔ شیریں: تو میں آپ پر بھروسہ رکھوں؟ خیر سلا: بلکہ یہ سمجھیے کہ آپ اپے شوہر کی حفاظت میں ہیں۔ شیریں: تسلیم! (شیریں کا جانا) خیر سلا: بھئی واہ کیا لذیذ با ت ہے۔ اگریہ کسی ناٹک میں ناکری کر لے تو تھیٹر والوں کے دن پھر جائیں۔ (شہباز خان کا آنا) شہباز: ابے تو کون ہے؟ اس کا باپ ہے یا شوہر؟ وہ کہاں ہے؟ خیر سلا: یہ نئی ٹائپ کا جانگلی کہاں سے نکل آیا؟ شہباز : میں کیا پوچھتا ہوں؟ خیر سلا: کیا بکتے ہو؟ شبہاز: اے گدھے کے بچے میری طرف کیا دیکھ رہا ہے؟ نگاہ نیچی کر اور بول وہ کہاں ہے؟ خیر سلا: وہ بلی جو میرے چوہے جیسے دل کو زخمی کر گئی ہے؟ شہباز: وہ کہاں ہے؟ خیر سلا: میں کسی کو نہیں جانتا۔ شہباز: دیکھنا خبردار! ہوشیار ورنہ ڈنڈے سے تیرا بھیجا ہوا میں اڑتا ہوا نظر آئے گا۔ خیر سلا: ارے ارے یہ کیا کرتا ہے؟ شہباز: ٹھہر جا میں دیکھتا ہوں کہ تو کس طرح مرتا ہے؟ خیر سلا: ارے دوست خواہ مخواہ لڑتا ہے اپنا مطلب تو بتا۔ شہباز: اچھا تو دیکھ اگر تو اس کا شوہر ہے تو میں اس کے عشق سے باز آ جائوں گا۔ خیر سلا: اچھا؟ میںتجھ سے کہتا ہوں کہ تجھے باز رہنا پڑے گا۔ شہباز: کیوں؟ خیر سلا: کیونکہ وہ میری بیوی ہے۔ شہباز: کیا کہا؟ بیوی؟ جاجا تو تو اس کا باپ معلوم ہوتا ہے۔ خیر سلا: تیرے باپ کی قسم کل جمعرات کو میرا اور اس کا نکاح ہوا ہے۔ شہباز: کہاں؟ خیر سلا: گرجے میں۔ شہباز: کیا تو کرسٹان ہے؟ خیر سلا: بندہ آدھا کرسٹان ہے اور آدھا مسلما ن ہے۔ شہباز: یہ کیسے؟ خیر سلا: ایسے کہ نماز پڑھتا ہوں مگر روزے نہیں رکھتا شراب پیتا ہوں مگر حرام نہیں کھاتا۔ شہباز: اچھا اب میں اس کے عشق سے ہاتھ اٹھاتا ہوں اور اپنے مرحوم عشق کے جنازے کو کسی اور معشوق کی قبرپر فاتحہ خوانی کراتا ہوں مگر تیرا نام؟ خیر سلا: میرا نام مسٹر خیر سلا۔ شہباز: تو جھوٹا ہے پاجی ہے خبیث ہے اس نے تو اپنے شوہر کانام مشکل آسان بتایا تھا۔ خیر سلا: مشکل آسان نے تو اوربھی مشکل کر دی۔ ہاں ہاں دوست میرا یہی نا م ہے۔ شہباز: تو پہلے کیوں نہیں بتایا؟ خیر سلا: میں نے ذرا تمہیں ہنسی میں آزمایا۔ شہباز: اچھا اب میں جاتا ہوں۔ خیر سلا: جا بھائی خدا کے لیے جا۔ شہباز: مگر دیکھنا اگرتو اس کا شوہر نہ ہوا تو مارے ڈنڈوں کے تیری کھوپڑی توڑ دوں گا۔ خیر سلا: ارے کم بخت پھر آ گیال جا بھائی جا میں سچ کہتا ہوں۔ کم بخت نے ڈنڈا تان تان کرمجھے ادھ موا کر ڈالا چلو گیا م بخت کا منہ کالا۔ ارے یہ موت کا فرشتہ اور کون آ رہا ہے؟ (جمعدار کا آنا) جمعدار: ہاں یہیں۔ خیر سلا: ہاں یہیں کیا کوئی پاگل تو نہیں؟ جمعدار: ہیں ہیں! نہیں۔ خیر سلا: خدا جانے کیا بڑبڑاتا ہے؟ جمعدار: مگر ذرا اچھی طرح دیکھ کر شک مٹانا چاہیے چلو اپنی پیٹھ دکھائو۔ خیر سلا: پیٹھ دکھائو۔ کیامجھے کوئی سزا یافتہ سمجھتا ہے؟ جمعدار: چپ رہو ہم کون ہیں؟ جانتے ہو؟ خیر سلا: آپ اس شہر کے جھاڑوہیں۔ جمعدار: کیا کہا؟ خیر سلا: جیسے صفائی والے شہر کے گندے کوڑے کرکٹ کو صاف کرتے ہیں ویسے ہی آپ شہر کے بدمعاشوں کو پاک کرتے ہیں۔ جمعدار: بھلا یہ کیا ہے؟ خیر سلا: یہ بدمعاشوں کی حجامت بنانے والا استرا۔ جمعدار: اچھایہ بتائو ادھر کوئی نیم وحشی آدمی تو نہیں آیا تھا۔ خیر سلا: ہاں اہاں ابھی ادھر سے گیا ہے۔ لم تڑنگا ت بات پر سونٹا تانتا جاتا تھا جمعدار: تو تم نے اسے پکڑاکیوں نہیں؟ خیر سلا: یہ کام تمہارا ہے۔ جمعدار: دیوانے کوپکڑنا ہمارا کام نہیں۔ خیر سلا: پھر تمہارا کام سود بیچنے والوں کو دھمکانا اور کسی شریف آدمی پر مقدمہ بنانا ہے؟ جمعدار: دیکھو پولیس والوں سے اڑی نہ کرو۔ خیر سلا: اچھا بھائی خطا ہوئی معاف کرو۔ جمعدار: اچھا تو بتا وہکس طرف گیا ہے؟ خیر سلا: وہ سیدھا کانچی ہوس کی طرف گیا ہے۔ جمعدار: اچھا ہم ا س کی تلاش میں جاتے ہیں اگر وہ یہاں آئے تو اسے پکڑ رکھنا۔ خیر سلا: ضرور اس کی مشکیں کس کر تھانے میں پہنچا دوں گا۔ (جمعدار کا آنا) خیر سلا: لو میں اس کو پکڑوں بات بات پر تو وہ پاگل ڈنڈا تانتا ہے۔ اگرپکڑوں تو میرا بھرکس نکال دے۔ مشکل آسان: (آ کر) ہاں میرے چچا یہی ہیں۔ شہباز: (آ کر) کیا مشکل آسان مشکل آسان! ہاں مشکل آسان دیکھو وہ کون ہے؟ مشکل آسان: یہ کیا؟ شہباز: کیوں تم اپنے چچا کو نہیں پہچانتے؟ مشکل آسان: نہیں شہباز: سبب مشکل آسان: سبب یہ کہ یہ بہت عرصے سے یہاں چلے آئے ہیں آج تک میں نیؤان کو اور انہوںنے مجھ کو نہیں دیکھا۔ مجھ کو اپنے قدم چومنے کی اجازت دیجیے۔ خیر سلا: ہیں تو کون ہے بھائی؟ مشکل آسان: آپ کا بھتیجا۔ خیر سلا: میرا تو کوئی بھائی نہ تھا۔ یہ بھتیجاکہاں سے ٹپک پڑا۔ مشکل آسان: میں آپ کا خط پاتے ہی خدمت میں حاضر ہوتا مگر ذرا رستے میں ریل چھوٹ گئی اس لیے وقت پر نہ آ سکا۔ معاف کیجیے۔ خیر سلا: خدا جانے کس بات کی معافی مانگتا ہے مگر تیرا نام؟ مشکل آسان: مشکل آسان۔ خیر سلا: کم بخت مشکل آسان تو مشکل بڑھائے چلا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ اور کے دھوکے میں مجھے چچا جانتا ہے۔ اب میں اوٹ پٹانگ پھینکتا جائوں۔ مشکل آسان: چچا جان؟ خیر سلا: چپ شیطان تو بڑا نالائق ہے۔ مشکل آسان: بے شک۔ خیر سلا: تیرا باپ تجھ سے بھی زیادہ گدھا تھا۔ مشکل آسان: سچ ہے میں نے جیسا آتش مزاج سنا تھا اس سے زیادہ پایا۔ خیرسلا: چل ہٹ میں ایک شریف آدی ہوں اس لیے تیرا قصور معاف کرتا ہوں۔ شہباز: چل اپنے چچا کو آداب کر۔ مشکل آسان: آداب! خیر سلا: آداب سے کیا ہو گا کان پکڑ۔ مشکل آسان : لیجیے کان پکڑے۔ خیر سلا: کان پکڑنے سے کیا ہوتا ہے پائوں پڑ۔ مشکل آسان: لیجیے پائوں پڑتا ہوں۔ خیر سلا: پائو ں پڑنے سے کیا ہوتاہے… شہباز: بس دوست بس اتنی عاجزی پر تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے۔ چلو اب اپنے بھتیجے کو گلے لگائو ۔ (مشکل آسان اور خیر سلا کا آپس می گلے ملنا اور دونوں کا خوش ہونا) ہپ ہپ ہرے۔ مشکل آسان: چچا جان آپ کی کنیز بھی آئی ہے اگر اجازت ہو تو آپ کی خدمت میں آئے۔ شہباز: پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔جا بلا لا۔ (مشکل آسان کا جانا اوراس کے اصلی چچا کا آنا) خیر سلا: چلو ایک بلا تو ٹلی۔ یہ دوسری بھی ٹل جائے تو بندہ یہاں سے نکل جائے۔ چچا: میں نے اپنے بھتیجے کو خط بھیج کر بلوایا ہے۔ یقین ہے کہ وہ آیا ہو گا۔ بولو تم دونوں میں سے کون میرا بھتیجا ہے۔ جواب دو میں کس کا چچا ہوں؟ بولتے کیوں نہیں؟ کیا تم دونوں گونگے ہو؟ تمہارا نام؟ شہباز: شہباز خان ڈنڈے باز۔ چچا: اور تمہارا نام۔ خیر سلا: مشکل آسان۔ چچا: مشکل آسان بس تو ہی میرا بھتیجا ہے۔ خیر سلا: لو تھوڑی دیر پہلے چچا تھا اب بھتیجا ہو گیا۔ چچا: نالائق ادھر دیکھ بتامیں تجھے کی کہوں؟ خیر سلا: تم مجھے کچھ نہ کہو۔ چچا : تو اس دنیا میں ایک ہی بیوقوف ہے۔ خیر سلا: نہیں یہ اور میں۔ چچا: کیوں بے! خیر سلا: معاف کرو۔ چچا: مجھے اس بات ا جواب دے تو نے شاد ی کیوں کی؟ خیر سلا: اس لیے کہ ایک اور بے وقوف پید اہو۔ چچا: شادی کی بھی تو کس عور ت کے ساتھ! خیر سلا: عورت کے ساتھ نہیں تو کسی مرد کے ساتھ۔ چچا: اورپھر ڈھٹائی کہ شادی کے لیے میرا حم بھی نہ لیا۔ خیر سلا: شادی کے لیے حکم لینے کی کیا ضرورت ہے؟ شہباز: ضرورت کیوں نہیں ؟ آج چچا کے حکم کے بغیر ایک بیوی کا شوہر بن گیا۔ کل بغیر اجازت کے ایک بچے کا باپ بن جائے گا۔ چچا: خیر اگر یہ چاہتا ہے کہ وصیت نامے سے تیرا نام ردنہ کروں تو پھر اپنے گناہوں کا اقرار کر اورآئندہ نیک چلنی اختیار کر۔ خیر سلا: پر میں نے کوئی گناہ بھی کیا ہو۔ اگر صاف بولتا ہوں تو یہ کم بخت ڈنڈا تانتا ہے۔ اگر چپ رہتا ہوں تو بڈھا گلے پڑتا ہے ۔ کیوں دوست آج کھانا کھانے نہیں جائو گے؟ شہباز: نہیںمیں نے ڈھائی دن کا روزہ رکھا ہے۔ خیر سلا: روزہ رکھا ہے تو کچھ سوڈا لیمن لے آئوں؟ شہباز: ارے کوئ۸ی روزوں میںسوڈا لیمن پیتا ہے؟ خیر سلا: خدا نے پانی بھی منع کر رکھا ہے؟ چچا: نالائق معلوم ہوتاہے کہ تو نے مذہب بھی چھوڑ دیا ہے۔ خیر سلا: میں نے مذہب تو نہیں چھوڑا۔ چچا: بس بس مذاق چھوڑ۔ اپنے قصور کی معافی مانگ اوربول کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ خیر سلا: کس گناہ کی معافی مانگوں ؟ چچا: معافی کیوں نہیں مانگتا؟ شرم آتی ہے؟ خیر سلا: نہیں نہیں شرم کاہے کی؟ چچا: بول کہہ چچا میں خطا وار ہوں۔ خیر سلا: چچا جان میں شیطان سے زیادہ گنہگار ہوں۔ چچا: اور معافی کا طلب گار ہوں۔ خیر سلا: اور معافی کا امیدوار ہوں۔ چچا: شاباش! زندہ باد! اب میںتیرے قصور کو معاف کرتا ہوں اورتیری بیوی کی طرف سے دل صاف کرتا ہوں۔ خیر سلا: میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں (شیریں کا آنا) شیریں: معلوم نہیں کہ میرے میاں نے کہاں دیر لگائی؟ خیر سلا: بیگم آئو اور اپنے چچا کو آداب کرو۔ شیریں: آپ تشریف لے آئے میں قدم بوس ہوتی ہوں۔ چچا: بیٹی تجھے یہ نس کر بہت خوشی ہو گی کہ میں نے تیرے شوہر کے قصور بالکل معاف کر دیے ہیں۔ شریں: چچا جان اس وقت شکریہ کے لیے میرے شوہر موجود نہیں ہیں لیکن میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرتی ہوں۔ چچا: بیٹی تیرا شوہر تو پہلے ہی یہاں موجود ہے۔ شیریں: آپ کسے شوہر بتاتے ہیں؟ میںسمجھی نہیں۔ خیر سلا: بیوی ادھر آئو میں سمجھائوں۔ شیریں: ہیں صاحب ٓپ دیوانے تو نہیں ہو گئے؟ خیر سلا: ہوا تو نہیں مگرہو جائوںگا۔ شیریں: چھوڑوچھوڑو میرا ہاتھ میں تمہیں ایک شریف آدمی سمجھتی تھی مگر تم تو کمینے نکلے۔ خیر سلا: شریف تو ہوں مگر ضرورت کے وقت پاجی بن جاتا ہوں۔ شہباز: کیوں بے ادھر چھپ کر کیا سمجھارہا ہے؟ خیرسلا: چپ میاں بیوی کے معاملے میں کیوں دخل دیتا ہے؟ شیریں: تم نے مجھے بیوی کہا؟ خیر سلا: خدا کے لیے پانچ منٹ کے لیے میری بیوی بن جائو اور مجھے ا س آفت سے بچائو۔ شیریں: تم کہیں پاجی تو نہیں ہو گئے ہو؟ خیر سلا: دیکھو بیوی مان جائو۔ شیریں: ارے جا بھائی! چچا: نالائق یہ کیا معاملہ ہے۔ یہ تو تجھے بھائی کہتی ہے تو اسے بیوی بتاتا ہے۔ تم دونوں کا گڑبڑ گھٹالا کچھ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ (مشکل آسان کا آنا) مشکل آسان: آہا پیاری شیریں تم آ گئیں! شیریں: واہ صاحب خوب راہ دکھائی۔ مشکل آسان: میں نے راہ دکھائی یا تم نے دیر لگائی۔۔ چلو چچا جان کے قدم چومو۔ شیریں: ہیں تمہارے چچا جا ن یہ ہیں؟ مشکل آسان: یہ نہیں پیاری شیریں میرے چچا یہ ہیں۔ شیریں: نہیں پیارے مشکل آسان تمہارے چچایہ ہیں۔ چچا: ہیں مشکل آسان تو اس کا نام ہے۔ شیریں؛ کون کہتاہے اس کا نام تو خیر سلا ہے۔ خیر سلا: بس اب تو اللہ ہی اللہ ہے۔ چچا: معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرا بھتیجا نہیں ہے۔ مشکل: معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرا چچا نہیں ہے۔ شہباز: معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کا شوہر نہیں ہے۔ خیر سلا: ارے بھائی میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ خدا کے لیے مجھے اب جانے دو۔ چچا: بھاگتا کہاں ہے نا فرجام تو میرا بھتیجا ہے یہ تو نے کہ ہی کیوں؟ شیریں: تو میرا شوہر ہے یہ کہا ہی کیوں خیر سلا: اچھا تو الگ الگ جوا ب دوں یا ایک دم؟ چچا: ایک دم خیر سلا: بہت اچھا سنو! اے جنٹلم مین اینڈ لیڈیز! میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ اپنا قیمتی ٹائم ویسٹ کر کے میرا لیکچر سننے کے لیے تیار ہیں۔ چچا: ابے تجھے لیکچر بازی کرنے کے لیے کس نے کہا ہے؟ خیر سلا: اچھا او مائی لارڈ اینڈ لیڈیز تم سب کے سامنے میں خدا کو حاضرو ناظر جان کربیان کرتا ہوں کہ نہ کوئی میرا چچاہے نہ کوئی میرا بھتیجا۔ یہ جو کچھ ہواہے اس ڈنڈے باز کے سونٹے کا نتیجہ ہے۔ اس نے کہا کہ جب تک میں اس عورت کا شوہر نہ ہو گا میں اس کے عشق سے ہاتھ نہ اٹھائوں گا۔ تومیں نے اس کا شوہر بن کر اس کی عصمت بچائی ۔ جس سے یہ مصیبت میرے سر آئی چچا: مگر تو نے اپنا نام مشکل آسان کیوں بتایا؟ خیر سلا: اگر میں اپنا نام مشکل آسان نہ بتاتا تو یہ کم بخت اس کے عشق سے کبھی باز نہ آتا۔ چچا: توبہ ! توبہ! کیسے بھلے آدمی کو میں نے ستایا۔ بھائی میرا قصور معاف کرنا۔ مشکل آسان: میں نے بھی جو کچھ کہا ہے اس کی معافی چاہتا ہوں۔ شیریں: جناب فقط میری عزت بچانے کی خاطر آپ پر یہ مصیبت آئی تھی تو برائے خدا مجھے معاف کیجیے۔ خیر سلا: جائو سب سے پہلے میں نے تمہار ا قصور معاف کیا۔ (جمعدار کا آنا) جمعدار: ہت ترے کی بہت مشکل سے ہاتھ آیا ۔ مشکل آسان: ارے بھائی اس بے گناہ کو کیوں گرفتار کرتے ہو؟ جمعدار: یہ نیم وحشی پاگل خانے کی دیوار سے کود کر بھاگ آیاہے۔ اس کم بخت نے ہمیں سخت پریشان کر رکھا ہے۔ شہباز: ارے مجھے چھوڑو نہیں تو ماڑ ڈالوں گا۔ پیس ڈالوں گا۔ رگڑ ڈالوں گا۔ خیر سلا: کیوںچچا اب ڈنڈا تاننا بھول گئے؟ کم بخت نے ڈنڈا تان کرمیرا ناک میں د م کر دیا تھا۔ گانا سب کا: ہمیں معاف کرنا اب جو کچھ ہم نے ہے کیا۔ خیرسلا: مجھ کو گھن چکر یہ ڈنڈے باز نے کیا۔ سب: بے شک پاگل نے ہم سبھی پر یہ اندھیرا کر دیا۔ گڑبڑ جھالا سب گھوٹالا ہوا جیا ‘ اندیشہ مٹ گیا‘ ہر اک تھا بھولا بھالا آیا ہے مدعا کیا ہی دوبارہ سب کا اندیشہ تو مٹ گیا۔ (گاتے گاتے سب کا اندر جانا) سین ختم ٭٭٭ باب چوتھا سین چوتھا جشن تاج پوشی پہلا چوبدار: زہے مقدر کہ نکہت مشک از سر نو ختن میں آئی دلوں کو فرحت ہوئی میسر کہ روح پھر جان و تن میں آئی مبارک افسردہ خاطروں کو بہار ہے پھر چمن میں آئی نوید ہو چشم منتظر کو شمع پھر انجمن میں آئی! پہلا: گزر گئی رات رنج و غم کی جہاں میں راحت کا زور آیا جلوس کرنے کو تخت دولت پہ مہر عالم فروز آیا قہرمان: خدا کا شکر ہے کہ غاصبوں کو شکست اور حق داروں کو فتح نصیب ہوئی اور ملک کے خیر خواہوں نے جس کام کا ذمہ لیا تھا بڑے فخر کے ساتھ کامیاب ہوئے ‘ جب تک چاند سورج کی روشنی زمین و آسمان میں پائیدار رہے گی تب تک ا س زندہ وفاداری کی یہ تصویر دنیا میں یادگار رہے گی۔ دوسرا: سچی پیشن گوئی ہے۔ شہریار: بے شک دنیا کی کوئی طاقت اس کو مٹا نہیںسکتی۔ یہ جملہ تمام ملک کی زبان بن کر اس بیان کی تائید کرتا ہے۔ طاہرہ: میں بھی اپنی قسمت پر نازاں ہوں کہ خدا کا فرض اور شوہر کا حکم پورا کرنے میں صبر و استقال نے میرا ساتھ دیا اور مجھے ایمان کے ساتھ کامیاب کیا او ر میں آج اپنے آقا زادے کو آبائی حقوق پاتے ہوئے دیکھ کر گزشتہ غموں کو بھول گئی۔ اپنی امید کے گلزار میں اس نونہال کو دیکھ کر مسرت سے پھول گئی قہرمان: محترم بانو بے شک آپ اس معصوم کے واسطے جو جو قیمتی قربانیاں کی ہیں دنیا کی تریخ میں اس کی مثال ملنا دشوار ہے آپ کی وفاداری اور نمک حلالی صفحہ عالم میں ایک نقش کالحجر یادگار ہے۔ طاہرہ: جناب عالی آپ میرے پچھلے غموں کی طرف بار بار اشارہ کر کے اپنی موجودہ خوشی کو غمگین نہ بنائیے۔ مگر ریاض بہشت کی روشوں پر ان کی روحیں آج کا نظارہ دیکھ کر خوش ہو رہی ہیں اور خوشی کے پھول برسا کر ہمیں مبارکباد دے رہی ہوں۔ شہریار: معزز بانو! یہ تو آپ ہی کے شریف خاندان کے طفیل ہے جو آن زندہ اور باحیثیت بادشاہ ہمارے سامنے سہیل ہے۔ قہرمان: بے شک! طاہرہ: جنرل صاحب آ پ ملک کے محسن ہیں اس لیے تاجپوشی کی مبارک رسم آپ ہی کے مبارک اور نیک ہاتھوں سے ادا ہونی چاہیے۔ قہرمان: میں اس تحریک کو اپنا فخر اور عزت سمجھتا ہوں۔ سہیل: ٹھہریے پہلے یہ تاج امی جان کو پہنائیے۔ طاہرہ: نہیں بیٹا اسے تم پہنو ی تمہارا حق ہے سہیل: کیوں میں آ پ کا بیٹا نہیں ہوں؟ یہ تاج آپ کو ضرور پہننا پڑے گا۔ طاہرہ: تم نے کبھی ماں کے ساتھ ضد نہیں خی اب کیوں کرتے ہو؟ سہیل: تم نے بھی کبھی بیٹے کی بات نہیں ٹالی آج کیوں ٹالتی ہوں؟ قہرمان: کتنی خوبصورت دلیل! طاہرہ: اچھا تمہاری ضد اور خوشی سے لاچار ہوں۔ سہیل: اب میرا دل بہت خوش ہوا۔ طاہرہ: بس تو تمہاری خوشی پوری ہو گئی لو اب تم پہنو اور اس کے ساء میں عدل و انصاف سے رعیت کو خوش کرو۔ نور اقبال ترا آج سے گھر گھر چمکے حشر تک تاج حکومت ترے سر پر چمکے قہرمان: بے زباں کو اپنے آقا کی جدائی شاق ہے ایک مدت سے قدم بوسی کا یہ مشتاق ہے آئیے اور تخت پر جلوہ فرمائیے۔ سہیل: نہیں امی جان کو بٹھلائیے۔ طاہرہ : نہیں بیٹا اس پر تم بیٹھو تا کہ تمہیں بلندی پر دیکھ کر میری آنکھیں روشن ہوں۔ سہیل: مگر پہیل آپ بیٹھیں گی پھر میں بیٹھوں گا۔ طاہرہ: نہیں بیٹا! اس پر بیٹھنے کا مجھے کوئی حق نہیں۔ سہیل: کیوں کیا میں تمہار ا بیٹا نہیں؟ اگر اس پر میرا حق ہے تو پھر تمہارا بھی ہے۔ قہرمان: بانو اپنے پیارے کی دوسری ضد بھی پوری کیجیے۔ طاہرہ: اچھا مجبوری۔ قہرمان: یا الٰہی ترا اقبال تابندہ رہے ملک کی قسمت کا مالک حشر تک زندہ رہے (سب کا مل کر مبارک باد دینا) گانا سب: ساجے رے دلہن ساجے پھولن سیج بنی بنی تیار مل مل جیا پیسو ہے شادی کا رنگ باجے مردنگ اچرنگ ہے ہے ہے ہے دلہن ساجے پیاری مالنیاا سہرا گندھا دے بنی کے گل ہار سو ہاوے باجے دھنانا نا باجے دھنانانا اچرنگ ساجے (سب کا گاتے گاتے اندر جانا ڈراپ کے پردے کا گرنا) تمام شد ٭٭٭ ترکی حور مردانہ کردار عارف: ایک تعلیم یافتہ لا ابالی فضول خرچ رئیس زادہ فرید بے: قسطنطنیہ کا معزز رئیس عارف کا خسر انور: فرید بے کا سعادت مند فرزند۔ ترکی فوج کا کپتان ایاز: عاف کے گھر کا وفادار داروغہ غانم: ایک آوارہ اور بے اصول نوجوان عار ف کا ہم پیالہ و ہم نوالہ دوست زیاد بے ایک عیاش رئیس ترکی سلطنت کا ماتحت جاگیردار طارق‘ نعمان: زیاد کے مصاحب التمش‘ جلال ا نور کے فوجی دوست ناظم: ایک دولت مند عیاش پولیس افسر جیل کا جمعدار قیدی‘ ہوٹل کا مالک خانساماں زنانہ کردار رشیدہ: عارف کی وفا شعار بیوی فرید بے کی لڑکی۔ لیلیٰ: ایک باعصمت شریف گل فروش لڑکی شمیم: ایک طوائف نسیم: شمیم کی ماں رشیدہ کی سہیلیاں اور کنیزیں وغیرہ باب پہلا منظر پہلا (رشیدہ اور سہیلیاں حمد خدا میں مصروف نظر آتی ہیں) گانا سہیلیاں: تارن ترن بھئے پاپ دکھ ہرن سر نر تمرو کرتے سمرن رشیدہ: سوریہ چندر۔ گگن کے تارے تمرے تیج بن ہیں سب اندھیارے سہیلیاں: تم ہی جگ شوبھا جگ دھرن رشیدہ: تم ہی سے من بدھ تیج وان ہے جگت دیہہ تم نام پران ہے۔ سہیلیاں: رٹت جیسہی کٹ سبھی بندھن۔ رشیدہ: دیاندھان تمرودھیان راکھت ہیں سب کو شرن۔ سہیلی نمبر۱: آپا! دولہا بھائی آفس سے آ گئے ہوں گے۔ اب گھر جانے کی اجازت لو۔ رشیدہ: اے بیٹھو بھی اتنی کیا جلدی ہے۔ سہیلی نمبر ۲: نہیں بہن! وہ میرا راستہ دیکھ رہے ہوں گے ۔ مگر دیکھو تم نے پرسوں آنے کا وعدہ کیا ہے وعدہ بھولیں تو پانچ سیر مٹھائی جرمانہ کر دوں گی رشیدہ: اور جو میں نے جرمانہ نہ دیا تو… سہیلی نمبر ۲: تو مجھے وصول کرنے کا طریقہ معلوم ہے۔ مٹھائی کے جتنے روپے ہوتے ہیں اتنے ہی روپے تمہارے میاں کے ہاتھ بیچ ڈالوں گی۔ رشیدہ: بڑی مہربانی۔ (سہیلیوں اور رشیدہ کا اندر جانا) (عارف کا آنا) عارف: خانم بھی کتنا دلچسپ آدمی ہے۔ آج کا غم اور کل کی فکر دونوں کو پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ اس کا قول ہے کہ شراب کا پیالہ ہے اسے منہ بنا بنا کر نہیں بلکہ مزے لے لے کر پینا چاہیے۔ (رشیدہ کا آنا) رشیدہ: ارے یہ محبت کا قیدی کہاں بھاگا جا رہا ہے؟ (پیچھے سے جا کر آنکھیں بند کرنا) عارف: ارے یہ دن کو ڈاکہ کیسا؟ یہ کون؟ رشیدہ: نہیں پہچانا میں ہوں اس گھر کا کوتوال۔ عارف: توبہ توبہ ! مجھے تو چور کا دھوکہ ہوا تھا۔ رشیدہ صدقے اس سمجھ ے کوتوال کو چور سمجھ لیا۔ عارف: ہاں میں سمجھا کوئی چورمیری آنکھیں بند کر کے میرے سینے کی جیب سے دل کی نقدی نکال رہا ہے۔ رشیدہ: مگر آپ کے پا س دل کہاں ہے جو چوری ہو گا۔ دل تو آپ پہلے ہی ایک شریف لڑکی کی نذر کر چکے ہیں۔، عارف: وہ کون ہے ؟ اس کا نام؟ رشیدہ: شادی سے پہلے اس کا نام رشیدہ تھا ااور اب ا س کا نام ہے… عارف: جورو یعنی تم رشیدہ: اے واہ! میں کیوں میرا نام تو بیوی ہے۔ عارف: لیکن تم بھی تو اپنے کو گھر کا کوتوال کہتی تھیں۔ رشیدہ: کہتی تھیں نہیں کہتی ہوںَ بولو کوتوال کا کیا کام ہے۔ عارف: انتظام اور حفاظت! رشیدہ: ٹھیک ہے تو تم جواب میں فیل… ہونے کے بدلے پاس ہو گئے… اب سنیے شریف بیویں بھی اپنے شوہر کے گھر کا انتظام او ر شوہر کے جان و مال کی عزت کی حفاظت کرتی ہیں۔ اس لیے انہیں گھر کا کوتوال کہتے ہیں۔ سمجھے یا کہ کوتوال کی طرح ڈانٹ کر سمجھائوں۔ عارف؛ رشیدہ! تم پیار کرنے والی بیوی ہی نہیں بلکہ میرے گھر کی روشنی اور میرے دل کی دیا کی ملکہ ہو۔ رشیدہ: میرے مالک میں صرف تمہاری لونڈی ہوں۔ گانا رشیدہ: بلم میں تو پریم کی پیاسی تمہاری میں ہوں داسی نین کے سین سے لیو سیاں مورے گرے ڈار بہیاں عارف: من ہرناری بھولی ناری۔ رشیدہ: ہرلیت مورے تن من دکھ شوک روگ اوداسی عارف: میں ہوں تیرا دیوانہ رشیدہ: بس رہنے دو پھسلانا… بلم میں تو… (دونوں کاجانا) ٭٭٭ باب پہلا منظر دوسرا زیاد بے کا محل گانا سہیلیاں: ساقی بھر دے پیمانہ… آباد رہے میخانہ دے ڈھال ڈھال نین لال گال پہلو میں ہے جانانہ کلی کلی پر بھونرا ناچے گائے کوئل کالی کیا لالی ہریالی ہر پھول بنا مستانہ دادر کوئل مور پپیہا کنجن میں بول رہے چھن چھن ساجن میں تن من ہیں ڈول رہے بھر دے پیالہ کر متوالا کب تک جی ترسانا ناظم: واللہ! جب سے آپ کی دوستی کا فخر حاصل ہوا ہے تب سے زندگی بڑی پرلطف ہو گئی ہے۔ (غلام کا آنا) غلام: حضور! عارف آفندی تشریف لائے ہیں۔ زیاد: خوش آمدید کہو (غلام کا جانا) اس شہر کی دلچسپی اور دوستوں کی صحبت ہی ہے جو میرے قلعے اور ریاست سے بار بار مجھے یہاں کھینچ لاتی ہے۔ عارف: نیاز مند کی تسلیم قبول ہو۔ غانم: خادم بھی ٓداب کی نظر پیش کرتا ہے۔ زیاد: آہا! عارف کے ساتھ غانم بھی۔ غانم: جناب! میں ان سے کس طرح الگ رہ سکتا ہوں۔ جہاں آقا ہو گا وہییں خادم بھی ہو گا۔ کیونکہ یہ مارچ کا مہینہ ہیں تو میں گڈ فرائڈے ہوںَ یہ دسمبر ہیں تو میں کرسمس ہوں۔ یہ نئے برس ہیں تو میں نئے برس کا کیلنڈر ہوں۔ زیاد: مگر عارف! چاند کے اوپر سے گزرتے ہوئے بادل کے ٹکڑے کی طرح اس وقت آپ کے چہرے پر اداسی کا تاریک سایہ کیوں دکھائی دیتاہے۔ خیریت تو ہے؟ عارف: کیا کہوں میرے پچھلے قرضوں میں سے صرف پانچ ہزار کا قرض باقی رہ گیا تھا۔ جس کی بے باقی کے لیے جو میرے سسر نے آج ہزار ہزار کے پانچ قطعہ نوٹ دیے تھے۔ قرض خواہ کے آفس میں پہنچ کر دیکھا تو ایک دم چونک پڑا۔ جیب موجود اور نوٹ غائب۔ زیاد: کیا ہوئے؟ عارف: نہ جانے کیسے گئے اورکہاں گئے۔ غانم: (سائیڈ میں)قرض خواہ کی تجوری میں پہنچنے کے بدلے غانم کی پاکٹ میں پہنچ گئے۔ زیاد: ساتھ کون تھا؟ عارف: میرا دوست غانم! غانم: جناب بے چارہ غانم کیا کرتا۔ اس شہر میں تو ایسے ایسے جیب کترے رہتے ہیں کہ جیب سے نوٹ تو کیا کتے کی دم سے ٹیڑھا پن اور سیانی رنڈی کے دل سے چھل کپٹ تک نکال لیتے ہیں۔ عارف: دولت کے رہتے ہوئے چاہے دولت کی فکر نہ ہو۔ مگر ضائع ہونے کے بعد دولت کو سنبھال کر نہ رکھنے کا رنج ضرور ہوتا ہے۔ غانم: لیکن رنج کا مرض سر کے سوائے علاج ہی کیا ہے میں تو یہی دوا جانتا ہوں (زیاد سے) کیا آپ کے پاس اس بیماری کی کوئی اور دوا ہے زیاد: نہایت مفید او ر نہایت لذیذ… طارق! گلاس میںرنج کی دوا کا ایک ڈوز انڈیلو۔ (طارق گلاس بھر کے لاتا ہے) طارق: لیجیے نوش کیجیے۔ یہ رنج اور فکر کو بھلانے کی پیٹنٹ دوا ہے۔ حلق سے اتری کہ بس آرام پایا جان نے یہ دوا ایجاد کی ہے ڈاکٹر لقمان نے عارف: معاف کیجیے۔ ناظم: کیوں یہ تو مردے کو زندہ کرنے والا آب حیات ہے۔ عارف: لیکن میں اسے ساری بیماریوں کا اور تمام خوفناک زہر کا نچوڑ سمجھتا ہوںَ ناظم: اجی اس کی رنگت تو دیکھیے۔ عارف: یہ رنگت نہیں شیطان کے چہرے کی چمک ہے۔ ناظم: ا س کی خوشبو تو سونگھیے۔ عارف: یہ خوشبو نہیں گناہ کے پرنالے کی بدبو ہے۔ ناظم: اس کی لذت تو چکھیے۔ عارف: یہ لذت نہیں موت کے پیالے کی کڑواہٹ ہے۔ ناظم: شراب غمگین روح اور سست پڑ گئے ہوئے دل کے لیے ایسی ہوتی ہے جیسے بجھتے ہوئے چراغ کے لیے تیل یا بند ہو گئی گھڑی کے لیے چابی۔ مجھے تو شراب میں خوبیوں کے سوا کوئی نقصان دکھائی نہیں دیتا۔ عارف: شراب کے نقصان ان پولیس کے سپاہیوں سے پوچھیے جو ہر روز سڑک پر پڑے ہوئے شرابیوں کو لے جا کر حوالات میں بند کرتے ہیں۔ شراب کے نقصان ان غریب بدنصیب عورتوں سے پوچھیے جن کے شرابی آدھی رات کو جھومتے ہوئے گھر میں آ کر بیوی بچوں کے ساتھ لات اورگالیوں سے اپنی محبت ظاہر کرتے ہیں۔ شراب راحت نہیں ہے غم ہے شراب امرت نہیں ہے سم ہے شراب دروازہ موت کا ہے شراب سیدھی رہ عدم ہے نہ زر نہ طاقت نہ تندرستی کسی طرح سانس چل رہی ہے شراب غٹ غٹ جو تھے نگلتے شراب انہیں اب نگل رہی ہے غانم: بڑی دھنکی لے رہا ہے آج اسے شراب ضرور پلانا چاہیے۔ طارق: اس کی ترکیب! غانم: نارنگی کے عرق میں وسکی ملا کر شربت کے نام سے پلا دو۔ طارق: زندہ باد اچھی سجھائی (شراب میںعرق ملا کر) جناب رندوں کی محفل میں گلاس تو ہاتھ میں ؒینا ہی ہو گا۔ شراب نہٰں تو شربت ہی سے شوق کیجیے۔ عارف: آپ ہر شخص کے ہاتھ میں گلاس دیکھنا چاہتے ہیں خواہ شربت کا ہو خواہ شراب کا بہتر ہے لائیے۔ طارق: شوق کیجیے مگر دیکھیے شرابیوں کے قانون کے مطابق یہ پورا گلاس ایک ہی سانس میں ختم ہونا چاہیے… خداوند! آپ بھی گلاس کی پری کو اپنے ہونٹوں کا بوسہ لینے دیجیے۔ (عارف پیتا ہے) غانم: او بارود میں چنگاری پڑی بس قلعہ فتح۔ اب اس کے پیسے ہیں اورمیرے مزے۔ عارف: عجیب طرح کا مزہ ہے یہ کیا سینے میں گرمی کیوں معلوم ہوتی ہے۔ آپ نے مجھے کیا پلا دیا:؟ سب: ہا ہا ہا ہا! ناظم: پینے کے بعد دوا کا ام پوچھنے سے فائدہ۔ اگر پوچھنا ہی ہے تو آنکھوں میں سرور آنے کے بعدپوچھیے گا۔ عارف: تو کیا یہ شراب تھی؟ ناظم: اور آپ کیا سمجھے کہ نارنگی کا شربت تھا۔ عارف: اف غضب ہو گیا۔ تم نے میرے گرہستی سکھ کا خاتمہ کر دیا۔ آرام اور آبرو کا گلا گھونٹ دیا۔ تباہی اور بربادی کے لیے میرے مکان کا دروازہ کھول دیا۔ تم نے شراب پلا کر آج میرے آرام اور خوشی کے انبار میں ایک چھوٹی سی چنگاری ڈال دی ہے جو آج چنگاری ہے کل انگارہ ہو گی۔ پرسوں شعلہ بنے گی اور ترسوں دھک دھک کرتی ہوئی آگ کی شکل اختیار کر لے گی۔ ارو اس آگ میں میرا سب کچھ جل جائے گا۔ خوشی بھی عزت بھی اور زندگی بھی۔ غانم: بھائی جان! جو ہونا تھا وہ ہو گیا… اب پرانی زندگی کو بائیکاٹ کر کے آج ہی سے نئی زندگی شروع کیجیے… یار منہ کیا دیکھتے ہو انڈیلو ن اتنے برسوں کی پیاس کیا ایک ہی گلاس میں بجھ جائے گی دو اور دونا! عارف: بس اور نہیں۔ زیاد: توبہ ٹوٹنے کے بعد بھی انکار۔ عارف: مجھے نشہ ہو چلا۔ زیاد: تھوڑی سی وہ بھی میری خاطر سے… عاشق ہے آج ایک زمانہ شراب کا ہاں مل کے گائو کوئی ترانہ شراب کا گانا سہیلیاں: داریاں۔ واریاں من ہر چھب پہ مورے شام واریاں… چتون پرواردوں تن من دہام ساجنوا رے بوتل کا جل امرت جل سمان مدھر مدھر مدھوا پیو پان بنے رس کھان واریاں… (سہیلیاں عارف کو حلقہ میں لے شراب پلاتی ہیں) ٭٭٭ باب پہلا منظر تیسرا فرید بے کا محل (رشیدہ کا آنا) رشیدہ: تما م شب کا جاگا ہوا چاند ستاروں کی روشنی گل کر کے سو گیا۔ رات کی سیاہ چادر میرے آنسوئوں سے دھل کر سفید ہو گئی۔ روشن دن مشرق کی کھڑکی کھول کرجھانکنے لگا لیکن وہ جن کا انتظار کرتے کرتے ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی ابھی تک نہیں آئے۔ دیکھیے کب دیکھتے ہیں مڑ کے وہ گھر کی طرف کان آہٹ پر لگے ہیں اور نظر در کی طرف (ایاز کا جانا) ایاز: بیٹی رشیدہ! انتظار میں صبح سے شام ہو گئی۔ جائو ذرا آرام کر لو۔ کب تک جاگو گی اور کب تک پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دروازہ کی ٹکٹکی لگائے رہو گی۔ رشیدہ: آہ ایاز! ایاز! مجھے دو دن سے ڈرائونے خواب اور بدشگونیاں نظر آ رہی ہیں۔ آسماں کی گردشیں ہیں کس نئی تدبیر میں اور کیا لکھا ہے اس پھوٹی ہوئی تقدیر میں ایاز: کل شام کو گھر کس کے ساتھ گئے تھے؟ رشیدہ: غانم کے ساتھ۔ ایاز: کیا کروں غانم تمہار ا دو رکا رشتہ دارہے۔ ورنہہ میں اس بے اصول یار مار آدمی کو کبھی اس گھر کے دروازے کے اندر قدم نہ رکھنے دیتا۔ رشیدہ: لیکن وہ اسے رشتہ دار ہی نہیں اپنا سب سے بڑاخیر خواہ دوست بھی سمجھتے ہیں۔ ایاز: لیکن یہ دوست ہی ان کاسب سے بڑا دشمن ثابت ہو گا۔ وہ مریی باتیں مانیں یا نہ مانیں لیکن میں نے انہیں خبردار کر دیا ہے کہ زہر اور آگ سے دوستی کرو لیکن اس غانم سے دوستی نہ کرو۔ دوستی کے غلاف میں چھپی ہوئی تلوار ہے۔ آج جھک کر میل گا اور کل گلا کاٹ کر الگ ہو جائے گا۔ (فرید بے کا آنا) فرید بے: بس آج سب ختم ہوگیا۔ قسمت پر بربادی کی مہر لگ گئی۔ امید کی آخری کرن بھی تاریکی میں ڈوب گئی۔ رشیدہ: پیارے ابا کیا ہوا؟ فرید بے : کیا کہوں ڈر ہے کہ تو سنتے ہی پاگل ہو جائے گی میں دیوان خانے کی کھڑکی سے سڑک کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں کسی رئیس کی شاندار گاڑی جس میں سرنگ جوڑی جتی ہوئی تھی دروازے پر آ کر ٹھہری پٹ کھلا اور اندر سے پائیدان پر پائوں رکھ کر پہلے غانم اترا اور پھر اس نے ہاتھ پکڑ کر عارف کو اتارا۔ رشیدہ : تو کیا وہ آ گئے؟ فرید بے: ہاں مگر جانتی ہو کس حال میں عقل سے خارج۔ ٹانگوں پر کھڑے ہونے سے مجبور۔ شراب کے نشے میں بالکل چور۔ رشیدہ: کیا نشے میں؟ ایاز: شراب پی لی؟ رشیدہ: آہ میں برباد ہو گئی۔ فرید بے: جس گھر میں شراب آئی وہاں بربادی ضرور آئی۔ ایاز: بدذات غانم! یہ تیری دوستی کے درخت کا پہلا کڑوا پھل ہے۔ (عارف کی نشہ کی حالت میں آنا) عارف: غانم بھی کیسا ڈرپوک ہے۔ گھر والوں کی ناراضگی کے خوف سے دروازے پر سے ہی لو ٹ گیا۔ فرید بے: افسوس! ان آنکھوں کو یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ عارف: کوئی چیز بھی صاف دکھائی نہیںدیتی۔ دماغ گھوم رہا ہے یا زمین کے ساتھ گھر گھوم رہا ہے۔ رشیدہ: شام کو گئے اور صبح کو لوٹے (عارف کو ڈکار آتی ہے) اف کیسی بدبو! انسان عقل رکھ کر ایسی گندی اور غلیظ چیزکیوں پیتا ہے کہاں تھے؟ عارف: کیا کہا؟ رشدہ: کہاں تھے؟ عارف: نہ میں مجرم ہوں نہ تم جج اور نہ گھر عدلات کا اجلاس۔ پھر کس حق سے یہ سوا ل کرتی ہو؟ ایاز: اس حق سے جو محبت کے رشتے اور شادی کے قانون کی ر و سے بیوی کو حاصل ہے۔ عارف: یعنی؟ ایاز: جو شوہر کے گھر واپس آنے تک۔ تمام گھر کے سوجانے پر بھی بھوکی پیاسی انتظار میں بیٹھی رہتی ہے۔ جو شوہر کے چہرے پر ذر ا سی اداسی دیکھ کر تڑپ اٹھتی ہے۔ جو شوہر کے دکھ اور بیماری میں لونڈی کی طرح پلنگ کے گرد پھرتی رہتی ہے کیا اس بیوی کو کہاں تھے اتنا پوچھنے کا بھی حق نہیں ہے؟ عارف: کیا کہہ گیا میں تو کچھ نہیں سمجھا۔ فرید بے: عارف مجھے امید تھی کہ دنیا میں ٹھوکریں کھانے کے بعد اب تم دیکھ کر اور سنبھل کر چلو گے۔ مگر آج معلوم ہوا کہ بربادی تمہارا آخری راستہ او ر آخر ی انجام ہے۔ گھر میں آئے لڑکھڑاتے ٹھوکریں کھاتے ہوئے شرم بھی تم کو نہ آئی سامنے آتے ہوئے کیا رہا ہنستا ہے تم پر بے نوا محتاج بھی عقل و دولت کھو چکے آج کھو دی لاج بھی عارف: بے شک میں نے دولت بھی پھونکی اور شراب بھی پی لیکن نہ وہ دولت آپ کی اور نہ شراب آپ کی ۔ بزرگ سمجھ کے معاف کرتا ہوں۔ آئندہ ایسے الفاظ نہ کہیے گا۔ فرید بے: تب کی کہوں کن لفظوں میں اس نالائقی اور بدچلنی پر ملامت کروں۔ بدبخت آدمی تو نے صرف اپنی ہی نہیں اپنے ساتھ اس غریب کی مٹی بھی برباد کر دی۔ اگر میں جانتا کہ تو ایک دن دولت عزت شرم سب سے مفلس ہو جائے گا تو کبھی اس کا ہااتھ تیرے ہاتھ میں نہ دیتا۔ عارف: اگر ایسا داماد چاہیے تھا تو کبھی مفلس نہ ہو تو مجھ سے شادی کرنے کے بدلے ایک سونے کا پتلا بنا کر اس کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کر دی ہوتی۔ فرید بے: دیکھو ایا ز دیکھو۔ دیہ ہے شراب پینے کا پہلانتیجہ۔ پینے کے ساتھ ہی آدمی کے منہ سے گندی باتیں اور گالیوں کا پرنالہ بہنے لگتا ہے۔ ایاز: یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ عارف: میں رشتے اور بزرگی کا خیال کر رہا ہوں اپنی عزت کی حفاظت کیجیے اور چلے جائیے۔ فرید بے: چلا ہی جانا ہو گا۔ کیوکہ یہ حالت نہیں دیکھ سکتا ہوں نہ برداشت کر سکتا ہوں۔ مگر جانے سے پیشتر تجھے ہوشیار کرتا ہوں کہ زندگی کے درخت کی جڑ میں زہر نہ ٹپکا۔ اسے پہچان آفت اک نئی صورت میں آئی ہے نہ ڈال اس آگ میں ایندھن جو قسمت نے جلائی ہے (جانا) رشیدہ: پائوں قبضے میں نہیں ہیں انہیں سہارا دے کر کمرے میں لے چلو۔ ایاز: خدا تمہاری مصیب پر رحم کرے اور انہیں نیک ہدایت دے۔ …آئیے! عارف: ہٹ جائو مجھے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ کدھر ہے راستہ وہ رہا۔ (گر پڑتاہے) ایاز: حضور ! حضور!! رشیدہ : ہائے قسمت ! (رونا) ایاز: روتی ہو روئو خدا نے شرابی کی بیوی کے نصیب میں رونا ہی لکھا ہے۔ تم اکیلی ہی نہیں روتیں۔ شراب کی بدولت اپنے شوہر اور گھر کی بربادی دیکھ کر آج اس بدقسمت ملک میں ہزاروں شریف بیویاں اسی طرح اٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہیں۔ کوئی چارہ نہیں آنکھوں سے بد ندیاں بہاتی ہیں کلیجہ اور جگر جلتا ہے آنسو سے بجھاتی ہیں رشیدہ: شراب! شراب!! اے شیطان کی بیٹی! گناہوں کی ماں بوتلوں میں رہنے والی چڑیل تو نے اس ملک کی کیا حالت کر دی۔ آج مسجد گرجے شوالے آدمیوں سے خالی اور ہوٹل اور راب کی دکانیں آباد ہو رہی ہیں۔ دولت اور تندرستی سے کر موت خریدی جا رہی ہے۔ بیوقوفی اور پاگل پن کو زندگی کا مزا سمجھا جا رہا ہے جا جا جہاں سے پیپوں اوربوتلوں میں بند ہو کر ہزاروں بیماروں اور برائیوں کو ساتھ لیتے ہوئے آتی ہے وہیں واپس جا۔ بے کسوں اور بے بسوں کی التجا منظور کر یا الٰہی ملک سے تو اس بلا کو دورکر (ٹیبلو) ٭٭٭ باب پہلا منظر چوتھا (شمیم کا مکان ۔ کامک) گانا شمیم: موری جلمی نجریا پتلی کمریا لچک لچک جائے بل کھائے موری بالی عمریا تاکے سنوریا موہے نجر لگ جائے بانکی چتون کا گھائل زمانہ ہوا گوری گوری صورت کا دیوانہ ہوا دیوانہ ہوا ہاںنشانہ ہوا باات میں جادو ہے نن میں رس سندر روپ لبھائے جوبن کی کلی پھول بنی موری چولی نہ انگ سمائے موری جلمی… (شمیم کا اندر جانا نسیم کا آنا) نسیم: ہائے ہائے یہ لونڈا تو ان لچھنوں سے تین پشت کی جمی جمائی دکان چوپٹ کر دے گی رنڈیوں میں بدنصیب کون جس کے ہاں لڑکا پیداہو ا اور خوش نصیب کون جس کے ہاں لڑکی پیدا ہو۔ لیکن میری کوکھ سے گھر بنائو کے بدلے گھر اجاڑو پیدا ہوئی ہے۔ دس کی جیب کاٹری ہے اور ایک کی جیب بھرتی ہے۔ (شمیم کا آنا) شمیم: کیا اندھیر ہے چیر رکھو اور غائب۔ اماں سنگار میز پر لالی اور پوڈر بک رکھا ہواتھا کیا ہوا۔ نسیم: میں اٹھا لے گئی تھی۔ میرے کمرے میں آئینے کے پاس رکھا ہوا ہے۔ شمیم: جوانی ڈھلی جھریاں پڑیں سائیکل سے چرخہ بن گئی۔ لیکن ابھی تک لالی پوڈر کا شوق نہیں گیا۔ دنیا کو دھوکہ دے چکیں اور بڑھاپے کو دھوکہ دے رہی ہو کیوں ٹھیک ہے نا؟ نسیم: نزلہ سے دوبچار بال چاندی کے تار بن گئے تو کیا میں بڑھیا ہو گئی۔ اب بھی جب کسی دن بن سنور کر کھڑکی سے چلمن اٹھا کر سڑک کی طرف جھانکتی ہوں تو راستہ چلتے لوگوں کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ ہائے جانی مار ڈالا۔ شمیم: ارے وہ کوئی اندھے ہوں گے جنہیں لالی پوڈر کے پیچھے بڑھاپے کی جھریاں دکھائی نہیں دیتیںَ میں تو جب تمہیں کھڑکی سے دیکھتی ہوں تو یہ معلو م ہوتا ہے کہ پنجرے میں پر کٹی چیل بیٹھی ہے۔ نسیم: تو گورے رنگ اور رسیلی آنکھوں کے سوام تم میں بھی اور کون سے لال جڑے ہیں۔ ہاں اتنا ہی کہ تم جوان ہو لیکن جوانی میں تو گدھی بھی خوبصورت ہوتی ہے۔ شمیم: اچھا برا نہ مانو۔ آج تک تمہیںلوگ بڑھیا سمجھ کر میری ماں اور مجھے جوان سمجھ کر تمہاری بیٹی کہتے تھے۔ لیکن اب کوئی پوچھے گاتو میں کہہ دوں گی کہ یہ میری بیٹی ہے اور میں انکی ماں ہوں ہا ہا ہا! نسیم منہپھٹ ماں سے بھی دل لگی کرتی ہے۔ خیر تو یہ بول کہ یہ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ رندیوں کاگھر فقیر کی جھولی ہے۔ جب تو مانگے گی نہیں اور لوگ دیں گے نہیں تو یہ گھر بھرے گا کیسے؟ شمیم: تو کیا لوگوں کا گلا گھونٹ کر لوٹ لیا کروں۔ نسیم: جب لوگ خوشی سے دینے کو تیار ہیں تو لوٹنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن تیری نظر میں تو بس غانم ہی چاند کا ٹکڑا ہے اور کسی کی طرف دیکھتی ہی نہیں۔ شمیم: کیا خاک دیکھوں دیکھنے کے لائق صورت بھی تو ہو۔ ایک موا وہ بوڑھا جوہری آتا ہے۔ جھاڑو جیسی بھنوئیں۔ چوہیا جیسی آنکھیں کوڑھی کے بدن جیسی چت کبری داڑھی۔ پا س بیٹھتا ہے تو معلوم ہوتااہے کہ فاختہ کی بغل میں جنگلی چوہا بیٹھا ہے اور دوسرا وہ شیر مارکیٹ کا دلال ہر وقت پیپے کی طرح پییٹ سے مہن تک شراب سے بھرا رہتاہے۔ اور اس پر بینگن جیسی ناک سے اس طرح پھوں پھوں سانس لیتاہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہوا ریل کا انجن سیٹی دے رہا ہے اور تیسرا… نسیم: بس بس میں عاشقں کی فہرست نہیں سننا چاہتی۔ اری پاگل! شکاری بندوق چلاتے وقت یہ تھوڑا ہی دیکھتا ہے کہ شکار خوبصورت ہے یا بدصورت۔ ہمیں شکل نہیں دولت چاہیے۔ وہ خوبصورت نہ سہی ان کا روپیہ تو خوبصورت ہے۔ شمیم: چپ چپ وہ موا ناظم آ رہا ہے۔ میں ںے ہیرے کے ہار کی فرمائش کی تھی لایا ہے تو اوپر ی دل سے دو چار بچارے پھیر دوں گی اور خالی ہاتھ آیا ہے تو سر کے درد کا بہانہ کر کے یہاں سے چلتا کروں گی۔ نسیم: مگر دیکھنا سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے۔ ایسا نہ کرنا کہ ہمیشہ کے لیے گھر کا ڈربہ ہی بھول جائے۔ (ناظم کاآنا) ناظم: سرکار بندگی… اماں جان تسلیم! نسیم: جیتے رہو بیٹا… ابھی شمیم تمہیں کو یاد کر رہی تھی کہ تم آ گئے۔ بہت دن جیو میرے لال! ناظم: یہ ان کی مہربانی پر موقوف ہے۔ چاہے ماریں چاہے جلائیں۔ نسیم: لوجن ککے لیے تڑپ رہی تھیں اب ن سے جی بھر کے باتیں کرو بیٹا! ناظم: اماں! نسیم: میاں جاتی ہوں جہاں بیٹی داماد ہو وہاں ساس کو نہ رہنا چاہیے۔ ناظم: (خود سے) خدا تیری جیسی ساس کا ستیا ناس کرے۔ نہ جانے حرام زادی ساس بن کر کتنے دامادوں کا گلا گھونٹ چکی ہو گی۔ نسیم: اچھا لعل! میں چلی۔ ناظم : جہنم کے حوالے( نسیم کا جانا) مائی لارڈ اینڈ جیوری ادھر کیا دیکھ رہی ہو۔ ا س گناہ گار کی طرف تو دیکھیے! شمیم: کیا دیکھوں دیکھ تو لیا کہ ایک آدمی آیا ہے اگردم لگی ہوتی تو سمجھتی کہ جانور آیا ہے۔ ناظم: آپ کے دربار سے چاہنے والوں کو جانور کا خطاب ملتا ہے تو مجھے نہیں چاہیی اس عزت کے بلے کو کسی اور بے وقوف کے سینے پر دیوانی کچہری کے سمن کی طرح چپکا دیجیے۔ شمیم: تو پھر آپ کو کس خطاب سے پکاروں؟ ناظم: بیوی ہوتیں تو میاں کہتیں بہن ہوتی تو بھائی کہتیں صرف پیاری ہو اس لیے پیار ا کہہ کر پکارو۔ شمیم: اوہو رنڈی کا پیارا بننے کے لیے لاکھوں خرچ کرنے پڑتے ہیں اور آج کل کے پیارے بننے والوں کی یہ حالت ہے کہ جان دیں گے دل دیں گے کلیجہ دیں گے مگر ٹکا نہیں دیں گے۔ ناظم: یہ بات؟ شمیم: تم اپنے ہی کو دیکھو کہ میرا پیار چاہتے ہو مگر میری فرمائش دینا نہیں چاہتے۔ فرمائش دینے کے وقت گدھے کے سینگ کی طرح غائب اور تار لانے والے ڈاکیہ کی طرح سلام صاحب کہہ کر انعام مانگنے کوموجود۔ ناظم: بگڑیے نہیں میں جانتا ہوں کہ جیسے نیکیاں ساتھ لیے بغیر جنت میں نہیں جا سکتے ویسے ہی جب تک جیب میں پیسہ اور بغل میں فرمائش نہ ہو۔ رنڈی کے گھر میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ (ہار نکال کر) یہ لیجیے آپ کی فرمائش۔ شمیم: واہ جیسا چاہتی تھی ویسا ہی ہے۔ اب تم مجھے بہت پیارے معلو م ہوتے ہو۔ ناظم: کیا جانے میں پیارا معلو م ہوتا ہوں یا میرا روپیہ پیارا معلوم ہوتا ہے۔ شمیم: بڑا ہی خوبصورت ہے۔ اسے کس سنار سے بنوایا ہے ۔ ناظم: سنار سے بنوانے میں آٹھ دن صرف ہوتے اور تم نے تو کل دو دن کی مہلت دی۔ شمیم: پھر… ناظم: یہ ہار میری بیوی کا ہے۔ میں نے دوسرا بنوا دینے کے وعدے پرپہلے منہ مانگا وار جب وہ رکی تو ہاتھ جھٹک کر زبردستی گلے سے اتار لیا۔ شمیم: اس طرح چھیننے سے تو بیوی رونے لگی ہوگی۔ ناظم: اوہ بیوی کے رونے کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ ہم تو تمہیں ہنستا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بیوی مرجائے گی تو دوسری مل جائے گی مگر تم کہاں ملو گی رانی! شمیم: اف کتنی بے وفائی ۔ گر میں گھر کی بیوی ہوتی تو ایسے شوہر کو چوراہے پر گولی مار دیتی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جو مرد اتنے بے وفا ہوںوہ رنڈی کو کس منہ سے دغا باز کہہ سکتے ہیں۔ ناظم: اب ذرا صراحی دار گردن میں پہن کر ان اآنکھوں کو تو خوش کرو۔ شمیم: کیا کہوں مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ ناظم: وہ اللہ میاں جانتے ہوں گے۔ شمیم: بس چلتا تو… ناظم : تو؟ شمیم: دل کے اندر رکھ لیتی۔ ناظم: برانہ ماننا اس دل میں تو ہزاروں کپٹ اورپاپ پائوں پھیلائے سو رہے ہیں مجھے کہاں جگہ ملے گی؟ شمیم: پیارے تم نے میری گردن میں ہیرے کا ہار پہنایا ہے۔ میں تمہارے گلے میں اپنی گوری گوری بانہوں کا ہار پہناتی ہوں۔ گانا شمیم: بانکے رسیا من بسیا سوہنی من موہنی توری صورتیں ناظم: پھولو سیگالوں پہ کیا لالیاں رس والیاں ہیں توری بتیاں! شمیم: سوتن سے ناہیں نیناں لگانا پریت کی ریت نبھانا سجن موسے ناظم: ہیں لال جڑے جوبن میں شمیم: یہ روپ رچے نین میںالبیے چھب کھیلے من میں نیاری شان پیاری آن میری جان میں قربان بانکے رسیا… ٭٭٭ باب پہلا منظر پانچواں عارف کا گھر (غانم اور عارف شراب پی رہے ہیں) عارف: تم میری عقل کی ریل گاڑی کے انجن ہو۔ جدھر کھینچو گے ادھر ہی چلوں گا۔ لیکن یہ تو کہو کہ اتنی محنت مجھ سے ہو سکے گی۔ غانم: اجی محنت کر کے پیدا کرنا مزدوروں کا کام ہے۔ میں تو آپکو ایسا دھندا بتلاتا ہوں کہ دس بجے بازار گئے گیارہ بجے سوداکیا اور بارہ بجے دس بارہ ہزار جیب میں ڈا ل کر گھر لوٹ آئے ۔ دماغ کا ٹائر ڈھیلا ہو گیا ذرا ہوا بھر لیجیے۔ عارف: دو گلاس پینے کے بعد ضرور گرجائوں گا۔ (غانم شراب بھر کر دیتا ہے عارف پیتا ہے) اچھا کہوکون سا دھندا سوچا ہے۔ غانم: میرے جیسا دوست کبھی آپ کو نقصان کا دھندا نہیں بتائے گا۔ گاہک جوت لاتا ہوں۔ باغ اور مکان بیچ کر جو روپیہ مل ان سے سٹہ کھیلنا شروع کیجیے ۔ عارف: سٹہ! ارے اس دھندے میں تو سینکڑوں کے ٹاٹ الٹ گئے ہیں غانم: کون بیوقوف کہتا ہے۔ میں ہزاروں کو جانتا ہوں جوایک دن میں سٹے کی بدولت بھکاری سے کروڑ پتی بن گئے سٹہ کھیت اور روپیہ بیج ہے۔ تھوڑے سے بیج چھڑ گئے اور سٹے کے کھیت سے گاجر مولی کی طرح مٹھی بھر بھر کے روپے توڑیے۔ عارف: سٹے میں اتنا روپیہ ہے تو ہر مہینے سول کا ز کورٹ میں دو چار سٹے کھیلنے والوں کی طر ف سے دیوالیی کی درخواست کیوں گزرتی ہے۔ غانم: وہ دیوالیے کی درخواست نہیں امیر بننے کا سرٹیفکیٹ ہے۔ جائیداد بیوی اور بھائی کے نام لکھ چھوڑتے ہیں کھاتے بنا کر دوسروں کے لاکھوں روپے مار لینا اور دیوالہ ہو چکنے کے بعد کسی اور کے نام سے نیا دھندا شروع کر دینا۔ یہ آج کل کا فیشن ہو گیا ہے۔ عارف: تب تو میں ضرور سٹے کا دھندا کروں گا۔ لا میرے بیوپاری بننے کی خوشی میں ایک گلاس بھر کے لا۔ غانم: لیجیے پیجیے۔ یہ سب مزے دنیا ہی میں ہیں۔ جنت میں سب ملے گا مگر ایکشا نمبر ون نہیں ملے گی۔ (پی کر) عارف: اہاہاہاہا کیسا دھندا ہے بتایا دس بجے بازار گئے گیارہ بجے سودا کیا اور بارہ بجے دس پانچ ہزار جیب میں ڈال کر گھر آ گئے اہاہا بھئی واہ سٹہ بھی امیر بنانے کی مشین ہے۔ غانم: ایسی اچھی صلاح میرے سوا آپ کا نوکر بیوی سسر کوئی نہیں دے سکتا۔ عارف: جہنم میں گئے وہ سب۔ مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ میرا دوست ہے تو تو ہے۔ نوکر ہے تو تو ہے۔ سسر ہے تو تو ہے بیوی ہے تو تو ہے۔ غٓنم: اچھا تو اس مونچھوں والی بیوی کے ہاتھ سے ایک محبت کاجام اور چڑھایے لیجیے۔ (ایاز کا آنا) ایاز: یہ کیا دن کو اور وہ بھی گھر میں خبردار گلاس نہ دینا۔ غانم: کیوں کیا اس گلاس میں زہر بھرا ہوا ہے؟ ایاز: ہاں یہ زہر ہی ہے اور ایسا زہر ہے جو پھن اٹھا کا ناچتے ہوئے سانپ کی طرح پہلے تماشے دکھا کر خوش کرتاہے پھر ڈس لیتا ہے اور بے ہوش کر دیتاہے اور آخر میں جان لے لیتا ہے۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کے جج زہر کھلانے والوں کو پھانسی اور کالے پانی کی سزادیتے ہیں۔ لیکن تم جیسے قاتلوں کو جو بوتل کے زہر سے ہزاروں کی جان لے رہے ہیں ٹکٹکی باندھ کر دس پانچ بیدلگانے کا بھی حکم نہیں دیتے۔ غانم: دیکھ لیجیے یہ میرا کتنا دشمن ہے۔ میں گھر میں آتا رہا تو ضرور کسی نہ کسی دن لوٹا یا دیگچی تھما کر مجھے پولیس کے حوالے کر دے گا۔ عارف: ایاز تم بہت گستاخ ہو گئے ہوں میں پیتا ہوں میری خوشی یہ پلاتا ہے اس کی مہربانی! غانم: تھینک یو! عارف: ڈونٹ مینشن پلیز اس کو برا کہنے اور مجھے روکنے کی وجہ یہ میرا دوست ہے تم کون ہو؟ ایاز: جس ایاز کے سامنے پیدا ہوئے جس ایاز کی گودیوں میں پل کر بڑے ہوئے جس ایاز کے ہاتھوں سے اس سر پر شادی کا سہرا بندھا وہ ایاز تمہارا کوئی نہیں اور یہ پیسو کا یار۔ دستر خوان کی مکھی۔ سوچا جیون کا پاجی آج تمہارا دوست ہو گیا تف ہے تمہاری سمجھ پر۔ غانم: سن لیجیے ابھی تف کہاہے اب تھوڑی دیر میں گالیاں دے گا۔ عارف : ایاز چلے جائو اس وقت میں نشے میں ہوں۔ زیادہ بولو گے تو اس بوڑھے منہ پر یہ بوتل کھینچ کر مار دوں گا۔ ایاز: اس منہ پر بوتل نہیں جوتیاں مارو۔ اس منہ پر بوٹ کی ٹھوکر لگائو۔ اس منہ پر تھوک دو۔ لیکن یہ منہ جس نے چالیس برس تمہارے باپ کانمک کھایا ہے جو نصیحت کرے اسے سن لو۔ شراب تندرستی میں گھن لگاتی ہے۔ امیروں سے بھیک منگواتی ہے شریفوں سے جرم کراتی ہے۔ پڑھے لکھوں کو کتے کی طرح کیچڑ میں لٹاتی ہے۔ بھائی بیٹے کے منہ سے ماں بہن کوگالیاں سنواتی ہے شرابی شوہروں کے ظلم سے تنگ آئی ہوئی بیویوں کو بازار کی رنڈی بنا کر کوٹھوں پر بٹھاتی ہے ایسی گندی اور خوفناک چیز کو مت چھوئو اور اس منہ پر تھوکنے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے اس بوتل پر تھوک دو۔ عارف: بول چکے یا کچھ اور بولنا ہے۔ جتنی ضد دلائو گے اتنی ہی پیوں گا۔ لا گلاس بھر کے لبالب بھر کے۔ غانم: لیجیے غٹ سے اتار جائیے۔ ایاز: پھینک دے پھینک دے گلاس وہ رہا دروازہ۔ آج سے اس گھر میں قدم رکھے گا تو دسوں انگلیاں گردن میں دھنسا کر دم نکال دوں گا۔ نکل جا حرام زادے۔ (ایاز غانم کو مارتا ہے) عارف: ہیں میری آنکھوں کے سامنے میرے دوست پر حملہ گھر کے پالتو کتے کی اتنی ہمت بدمعاش کمینے۔ (مارنے کے لیے کرسی اٹھاتا ہے) (فریدبے اور رشیدہ کاآنا) رشیدہ: ہیں یہ کیا یہ کیا؟ غانم: غانم اب کھسک جا اس نے گردن تو ڑ دی اور یہ دونوں مل کر سر توڑ ڈالیں گے۔ (جانا) فریدبے: یہاں تک نوبت پہنچ گئی۔ رشیدہ: تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ تم چندہی دن میں کتنے بدل گئے یہ کیا ہے؟ ایاز: یہ میری زندگی بھر کی خدمت کا مجھے انعام دے رہے ہیں۔ (ایاز کا جانا) عارف: یہ اپنے آپ کو بھول گیا ہے۔ میں اسے سکھانا چاہتا ہوں کہ یہ میرا مالک نہیں نوکر ہے۔ فرید بے: شرم کر بولت کے بندے۔ نشے کے غلام شرم کر۔ آج تو نے اس وفادار فرشتے پر کرسی اٹھائی کل بیوی کو لاتیں مارے گا اور پرسوں مجھ پر ہاتھ اٹھائے گا۔ سمجھ اندھی نظر بے کار سر چکر میں ہوتا ہے سجھائی کچھ نہیں دیتا نشہ جب سر میں ہوتا ہے نہ رنج اوروں کے صدمے کا نہ شرم اپنی خرابی سے ہر اک جرم اور بدی ممکن ہے پاگل اور شرابی میں عارف: حد کے اندر رہو۔ غصے کی باتیں صرف تمہارا خریدا ہوا غلام سن سکتاہے۔ پاگل میں نہیں۔ پاگل وہ بڈھا ہے۔ پاگل تمہاری لڑکی ہے یا پاگل تم ہو۔ فریدبے: بے شک میں پاگل ہوں۔ پاگل نہ ہوتا تو اتنی نالائقی پر تیرا بھلا کیوں چاہتا۔ لوگ سچ کہتے ہیں کہ انسان وحشی ریچھ اور خونی بھیڑیے کے ساتھ گزارا کر سکتا ہے لیکن شرابی کے ساتھ ایک منٹ بھی بسر نہیں کر سکتا۔ عارف: تو کون ہاتھ جوڑتاہے۔ ساتھ نہیں رہنا چاہتے ہو نہ رہو میں دونوں پر لعنت بھیجتا ہوں اس گھر میں بھی اور اس گھر والوں پر بھی۔ فرید بے: پتھر کا دل بھی اس سے زیادہ صدمے کی چوٹ نہ سہہ سکتا۔ اچھا تو چلا جال ۔ نکل جا ۔ اسی وقت نکل جا۔ تیرا دنیا میں آنا اورنہ ہونا دونوں برابر ہیں۔ میں یہ سمجھوں گا کہ نالائق عارف شراب پیتے پیتے مر گیا اور اس کی بدقسمت بیوی جوانی میں بیوہ ہو گئی۔ عارف: بس اور ایک حر ف نہیں ایاز گاڑی لا؟ رشیدہ اپنے گھر چل۔ فرید بے: گھر چلے کیوں۔ رونے کے لیے کڑھنے کے لیے ۔ انجام میں فاقہ کرنے اور بھیک مانگنے کے لیے۔ اب یہ باپ کے گھر کا سکھ چھوڑ کر تیرے دکھوں میں حصہ نہیںلینے جائے گی۔ عارف: نہیں جائے گی؟ فرید بے: ہاں نہیںجائے گی۔ رشیدہ ایک طرف شوہر ہے اور ایک طرف باپ ہ بول تو کس کا حکم سنے گی؟ سکھ سے جینا ہے تو امیدوں کے رشتے توڑ دے جس طرح میں چھوڑتا ہوں تو بھی اس کو چھوڑ دے رشیدہ: چھوڑ دوں اباجان کیسے چھوڑ دوں۔ شادی کارشتہ دوخود غرض آدمیوں کی شرکت سے شروع کیا ہوا بیوپار نہیں ہے کہ نفع ہو تو شریک رہیں اور نقصان ہو تو ایک دوسرے سے الگ ہو جائیںَ جسے ماں باپ بیٹی کی شادی کا دن کہتے ہیں وہ لڑکی کی قربانی کاروز ہوتا ہے۔ جہاں تک دم میں دم ہے میں بھروں گی صرف دم ان کا نہ جب تک ہاتھ کٹ جائیں نہ چھوڑوں گی قدم ان کا کھلی پھولی پھلی اب تک انہیںچھائوں کے نیچے مری دنیا مری جنت ہے ان کے پائوں کے نیچے فرید بے: یہ قبر کے کنارے پہنچا ہوا بیمار۔ ڈوبتی ہوئی کشتی گرتی ہوئی چھت جلتا ہوا مکان ہے۔ اس کا ساتھ نہ دے۔ یہ خود بھی تباہ ہو گا اور تجھے بھی تباہ کر دے گا۔ بند ہونے کے نہیں جاری جو یہ سوتے ہوئے ختم ہو گی زندگی تقدیر کو روتے ہوئے رشیدہ: وفادار بیوی سکھ کے لالچ سے شوہر کی محبت اور خدمت نہیں کرتی۔ شوہر ان کا مجازی خدا شوہر کی محبت اس کا ایمان اور شوہر کی خدمت اس کی عبادت ہے۔ ہزاروں دوست بن جاتے ہں آ کر خوش نصیبی میں مگر وہ دوست ہے جو ساتھ دے دکھ اور غریبی میں وہی بیوی ہے جو دکھ درد میں دے ساتھ شوہر کا! ہنسی چھوڑے خوشی چھوڑے نہ چھوڑے ساتھ شوہر کا فرید بے: باپ کے منع کرنے پر بھی اس کی قسمت کے کڑوے پیالے سے زہر کے گھونٹ پینا چاہتی ہے تو جا تو بھی جا۔ دکھوں میںڈوب مر خوش ہے اگر خود کو ڈبونے میں نہ مانے گا جو دل رولوں گا جا کر ایک کونے میں عارف: شراب برف کو آگ نامرد کو مرد اور مچھیر کو شیر بناتی ہے لیکن میں اتنے نشے میں ہونے پر بھی ضبط کر کے درگزر کر رہا ہوں اگر تم اسے نہیں بھیجنا چاہتے تو میں بھی اسے نہیں لے جانا چاہتا۔ کیوں ذلیل و خوار ہوں ساتھ اک ذلیل و خوار کے تم نے بھیجا بھی تو لوٹا دوں گا ٹھوکر مار کے فرید بے: سن سن شوہر کے منہ سے اپنی قسمت کا فیصلہ سن۔ چبھے گا رات دن نشتر جگر میں اس کی باتوں سے ترے سب پیار کے قرضے چکائے گا یہ لاتوں کے رشیدہ: جو بیوی شوہر سے سکھ چاہتی ہے پیاری چاہتی ہے۔ عزت چاہتی ہے لیکن شوہر کا غصہ برداشت کرنا نہیں چاہتی۔ اسے بیوی نہیں بازار کی خود غرض عورت سمجھنا چاہیے۔ یہ ماریں یا جلائیں ساتھ ہوں اور ساتھ رہنا ہے میں ان کے ہاتھ کے زخموں کو سمجھوں گی کہ گہنا ہے نہ بھولی ہوں نہ بھولوں گی کبھی پہلے کرم ان کے یہ لاتیں جو بھی ماریں گے تو چوموں گی قدم ان کے فرید بے: رشیدہ! تو اس کے لیے میری محبت ہی نہیں سب کچھ کھو رہی ہے۔ یاد رکھ میری لاکھوں کی دولت سے تجھے ایک پیسہ بھی نہیں ملے گا۔ رشیدہ: اباجان! مجھے دولت کا لالچ نہ دیجیے۔ شریف بیویاں شوہر کی محبت کو سب سے بڑی دولت سمجھتی ہیں۔ آپ کی دی ہوئی دولت کو چور چرا سکتا ہے۔ ڈاکو لوٹ سکتا ہے لیکن میری اس دولت کو مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ امیری مال و دولت میں سمجھنا کم نگاہی ہے جہاں مل کر رہیں دو دل وہیں پر بادشاہی ہے امیروں کے محل سے بڑھ کے ٹوٹے گھر کا کونہ ہے خوشی کی شے محبت ہے نہ چاندی ہے نہ سونا ہے فرید بے: آٹھ لاکھ نقد ؤاور جائیداد تو پھونک چکا۔ اب صر ف ایک باغیچہ اورمکان رہ گئے ہیں۔ انہیں بھی چند دن میں شراب خانے کی نذر کر دے گا پھر دیکھوں گا اسے فاقوں سے کون بچاتاہے۔ رشیدہ: کیا یہ انگلیاں کشیدہ نہیں کاڑھ سکتیں۔ کیا یہ آنکھیں رات کے وقت چراغ کے سامنے نہیں جاگ سکتیں۔ کیا یہ ہاتھ محنت نہیں کر سکتے۔ میں سوئی کے ساتھ آنکھیں پھوڑوں گی کپڑے سیوں گی۔ دوسروں کے گھر میں نوکری کر کے جھوٹے برتن مانجھوں گی لیکن اپنے جیتے جی کبھی انہیں افاقہ نہ کرنے دوں گی۔ میرا سکھ ان میں ہے ان کے گھر نہ ان کے مال میں ہو امیری ی غریبی شاد ہوں ہر حال میں بے وفائی آ نہیں سکتی مرے نزدیک بھی آ پڑا گر وقت تو مانگوں گی مل کر بھیک بھی (ٹیبلو) ٭٭٭ باب پہلا منظر چھٹا راستہ (زیاد پاشا کا اپنے مصاحبوںکے ساتھ آنا) زیاد: جانتے ہو میں اپنا قلعہ محل اور ریاست چھوڑ کر ایک معمولی رئیس کی طرح سال کے آٹھ مہینے اس شہر میں کیوں گزارتاہوں؟ طارق: جناتا ہوں خداوند حضور حسن کے شکاری ہیں اور یہا ں کے ہوٹلوں اور تھیٹروں میں تھوڑے خرچ اور تھوڑی کوشش سے حضور کو ہر ملک کے خوبصورت شکار مل جاتے ہیں۔ زیاد: خوب سمجھے اور ٹھیک سمجھے۔ یونہی اپنی گزرتی ہے یہاں کے گلغداروں میں گھرارہتا ہوں جیسے چودھویں کا چاند تاروں میں وہ خوشیاں ہیں بغل میں فاصلہ تھا جن سے کوسوں کا نظر کو دید کا ملتا ہے لطف اور لب کو بوسوں کا طارق:خاصے کا وقت ہو چکا حضور! دوپہر کا کھانا کہاں نوش فرمائیں گے؟ زیاد: ک والے ارمنی کے ہوٹل میں (سب کا جانا) (لیلی کا گاتے ہوئے آنا) گانا مرے پھول رنگیلے آئو رسلے لوٹو بہار چن چن کلیاں میں بیچن لائی لے لو البیلے بیلے کا ہار جوہی چمیلی کی دیکھو رے جوتی ۔ دھاگے می ںپروئے ہیں موتی من سگندھ تھکن سب کھوتی بیچت ہوں میں سکھ اور سنگار میرے پھول… لیلیٰ: ماں کے مرنے کے بعد دنیا کے سمندر میں ٹوٹی ہوئی کشتی کی طرح غریبی اور مصیبت کے طوفان کا مقابلہ کر رہی ہوں۔ باغ سے پھول چننا۔ گلدستے بنانا۔ گلی گلی پھر کر بیچنا۔ بدمعاشوں کی ناپک نظر اور جارحانہ حملوں سے اپنے آپ کو بچانا اور عزت و حرمت سے چار پیسے مل گئے تو کچھ کھا لینا اور نہ بھوکی ہی سو جانا یہی میری زندگی کے روزانہ کام ہیں۔ خداوندا بس اتنی عرض تجھ سے دست بستہ ہے ادھر تو مجھ کو لے جانا جدھر نیکی کا رستہ ہے (لیلیٰ کا جانا) (انور کا دو مصاحبوں کے ہمراہ آنا) انور: میرے دوست! جب ایک طرف غصہ اور ایک طرف گستاخی ہو تب یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ دونو ں طرف سے کھنچنے میں ملے ہوئے دل تو کیا آپس میں جڑی ہوئی زنجیر کی کڑیاں بھی الگ ہو جاتی ہیں۔ التمش: مگر آپ کو یہاں کا حال کیونکر معلوم ہوا۔ انور: ایاز کے خط سے جس دن خط ملا اسی دن دو مہینے کی چھٹی لی اور اسی دن شام کو چھائونی سے وطن کی طرف روانہ ہو گیا۔ جلال: اور گھر پہنچنے پر آپ کے والد اور عارف کسی نے بھی آپ کی ینیک صلاح قبول نہ کی۔ التمش: یہی تو صدمہ ہے۔ انور: آپ جانتے ہیں کہ رشیدہ میری سگی بہن ہے۔ ایسا کون بھائی ہے جسے بہن کی بربادی کا صدمہ نہ ہو گا۔ جلال: وہ سامنے ارمنی کاہوٹل ہے آئیے چائے پئیں گے اور باتیں بھی کریں گیل (لیلیٰ کا گاتے ہوئے دوبارہ اندر سے آنا) لیلیٰ : میں نظر کی تازگی اور دماغ کی فرحت بیچتی ہوں کیا حضور موسم بہار کے یہ خوش رنگ جواہر خریدیں گے۔ انور: کیسے ستھرے لفظوں میں سودا بیچتی ہے۔ اس گلدستے کی کتنی قیمت ہے لیلیٰ : غریبوں کی قسمت میں جتنی خوشی ہوتی ہے اس سے بھی کم صرف چار آنے۔ انور: جب کوئی لڑکی شائستہ لفظوں میں شرم اور شرافت کے ساتھ پھول بیچتی ہے تو اس پھول کے دام شریف آدمی کی نظر میں ایک سے چوگنا ہو جاتے ہیں۔ یہ روپیہ لو۔ لیلیٰ: معاف کیجیے میں زیادہ دام نہیں لے سکتی۔ کیوں کہ یہ غریب لڑکی کے لیے لالچ ہے اور لالچ ہی گناہ کا راستہ ہے۔ انور: کسی نیک لڑکی کو لالچ دینا یہ کسی شریف کی نہیں کمینے کی حرکت ہے۔ لیلیٰ: تو پھر کیا آپ مجھے بھیک دیتے ہیںَ اگر یہ بھیک ہے تو اس روپے پر میرا نہیں یتیموں بیوائوں اور ہاتھ پائوں سے لاچار محتاجوں کا حق ہے۔ میں اپنی روٹی محنت سے پیدا کر سکتی ہوںَ انور: پیسے نہیں ہیں اس لیے روپیہ دیتا ہوں۔ لیلیٰ: پیسے نہیں ہیں تو یہ گلدستہ آپ کی نظر ہے۔ (گلدستہ دے کر چلے جانا) انور: اتنا امیر دل اس کا جس نے ایک غریب گھر میں جنم لیا ہے۔ (سب کا جانا) (ٹیبلو) ٭٭٭ باب پہلا منظر ساتواں شراب خانہ ہوٹل گانا شمیم: سجن مورے بالے جوبن کی انگیا میںپھولے انار اے ری بالی بھولی گئی مسک ولی کیسے چھپائوں ابھار جب سے بالم تم سنگ لا گے ان نین کے بھاگ جاگے آدھورے پیرو ا تو ہے لگائوں گروا مورے ساجنوا جوبن کے دن چار لوٹو بہار سجن مورے… غانم: واہ ری میری لقا کبوتری کیا کمانی کی طرح کمر لچک رہی ہے۔ یہ معلوم ہوتاہے کہ گھاگھرا پہن کر مور ناچ رہا ہے۔ عارف: غانم! کیا ہو رہا ہے؟ غانم: حضور! عشق بازی کی ریس میںروپے کے گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔ آپ کی جیب میں بھی تو ٹپ موجود ہے ون نہیں تو پلیس ہی کھیل لیجیے۔ عارف: سمجھ گیا۔ بے شک ضرور انعام دینا چاہیے۔ غانم: لو چلو ایک ہی لات مارنے میں نصیب کا پھاٹک کھل گیا۔ لیکن جو کچھ ملے داہے ہاتھ سے لے کر بائیں ہاتھ سے اس کوٹ کے سیونگ بینک میں جمع کر دینا۔ شمیم: لیکن یہ تو بتائو آج تم دو روزسے گھر کیوں نہیں آئے؟ کیا اور کوئی خالہ مل گئی ہے؟ غانم: کی سر پھٹول کرنے آئوں۔ تمہاری ماں تو مجھے دیکھ کر ایسی گرم ہوتی ہے کہ جیسے پییپل کی چڑیل کو بخار آئے۔ شمیم: اجی جب میں تمہیں چاہتی ہوں تو بڑھیا کے لا پیلی ہونے سے ہوتا ہی کیا ہے۔ رنڈیوں کی نائکہ تو گھر کی پالتو بلی ہوتی ہے۔ جہاں نوچی نے ڈانٹ دکھائی تو ایک دو دفعہ غرانے کے بعد دم دبا کے کونے میں بیٹھ گئی۔ غانم: اچھا آئو( زیا د اور عارف کے پا س لے جا کر) حضور! یہ آگئے مسٹر رام بھگان۔ زیاد: آ گئیں خوب ناچتی ہو لٹوبھی اتنی جلدی نہیں پھر سکتا۔ لو وہاں سے یہاں تک آنے کا انعام۔ عارف: یہ ناچنے کا انعام۔ زیاد: یہ گانے کا انعام۔ عارف: اور یہ ہم دونوں کی دوستی کا انعام۔ (غانم سب روپے لے کر پاکٹ میں ڈال لیتا ہے) شمیم: ارے ان نوٹوںمیں سے مجھے بھی دو۔ غانم: جب میں تمہیں اپنا دل دے چکا تو اب دینے یکو باقی ہی یا رہا۔ جائو دینے کے لیے یہ بہت سے بے وقوف موجو د ہیں۔ شمیم: واہ رے محبت کا اندھیر۔ میں دنیا کو لوٹتی ہوں اور تم مجھے لوٹتے ہو (شمیم کاجانا) عارف: اچھا تو اب میں رخصت ہوتاہوں۔ زیاد: اتنا جلدی کہاں جائیے گا؟ عارف: میں نے اپنی ایک لاکھ کی جائیدا د ضرورت کے لیے صرف ستر ہزار میں بیچ ڈالی ہے۔ اس وقت کورٹ میں اس کی رجسٹری کرانے جا رہاہوں تسلیم! (زیاد جانے کے لیے ہاتھ ملاتا ہے زیاد ہوٹل کے اندر کی طرف جاتا ہے بوائے بل لے کر آتا ہے) بوائے : (عارف سے) حضور! غانم: (بوائے سے) ابے یہ روپے تیرہ آنے والے تو نہیں ہیں کیونک ہوٹل والے شرابیوں کو نشے میں دیکھ کر کھوٹے روپے دے دیا کرتے ہیں… کتنے بچے؟ بوائے: سرکار نے پچاس کا نوٹ دیا تھا۔ سینتیس روپے دس آنے کا بل ہوا۔ باقی بارہ روپے چھ آنے حاضر ہیں۔ (عارف سے ) حضور عارف: کیا ہے؟ بوائے: آپ نے پچاس کا نوٹ دیا تھا۔ سینتیس روپے دس روپے دس آنے کا بل ہوا۔ باقی بارہ روپے چھ آنے حاضر ہیں۔ عارف: بارہ روپے چھ آنے لے جائو یہ تمہاری بخشیش۔ بوائے لے کر چلتا ہے غانم پکڑ لیتا ہے) غانم: ابے کہاں چلا۔ ایک وقت میں اتنے روپے کبھی تیرے باپ کو انعا م میں ملے تھے۔ رکھ نہیں تو ڈاکے کے مقد مہ میں دھروا دوں گا۔ اٹھا لے چونی چل تیرا کالا منہ دفعان… بوائے: ایسے ہی کمبخت کسی کو بھلا نہیں ہونے دیتے اچھا بیٹا! کبھی تم میرے گھر کے پاس مل گئے تو محلے کے بل ڈاگ تیرے پیچھے لگوا دوں گا آجا میرے گھر کے پیچھے سمجھ لوں گا (غانم کا مارنا) غانم: کیوں بے دوا ٓنے کی جگہ چار آنے انعام پانے پر بھی میرے پیچھے کتے لگا دے گا۔ اور چاہیے انعام۔ لے انعام! (مارتاہے) مینجر ہوٹل: یہ کیا بے ہودگی ہے متوالے ہو کر میرے نوکر پر ہاتھ اٹھاتے ہو۔ غانم: ابے ہے لمبو ہمیں متوالا کہتا ہے ہم سکی کی دو بوتلیں نسوار کی طرح سونگھ جاتے ہیں… یہ اس کی گستاخی کا انعام اور یہ تیری حماقت کا انعام (مارنا) مینجر ہوٹل: اگر تم جیسے بدمعاش آئیں گے تو اس ہوٹل میں ایک شریف بھی نہیں آئے گا۔ لچے فسادی نکل جا میرے ہوٹل سے۔ (غانم کا مارنا عارف کا پکڑنا) عارف: شریفوں سے یہ برتائو۔ دوست کی بے عزتی خود میری بے عزتی ہے (گردن پکڑ کر) کتے اس کے پیروں میں گر کر معافی مانگ نہیں تو کتے کی طرح گردن کے دو ٹکڑے کر دوں گا۔ مینجر ہوٹل: ہوٹل میں خونی گھس آئے ہیں پولیس پولیس (پولیس کا مع سپاہیوں کے آنا) افسر: یہ کیا قانون اور عدالت کی اتنی بے پروائی۔ غانم: جیل خانے کے ایجنٹ آ گئے۔ ا ب کھسک جاتا ہوں… باوا میں تو سکھ اور مزے کا ساتھی ہوں۔ مصبیت اور جیل کا ساتھی نہیں ہوں(جانا) افسر: چھوڑ دو گردن… پولیس کا حکم نہیںسنتے… یوں کھڑے رہو کیا معاملہ ہے؟ مینجر ہوٹل: اس کے ساتھی نے میرے نوکر کو مارا اور جبمیں نے منع کیا تو اس نے اپنے دوست کی طرف داری میں مجھے گردن سے پکڑ لیا خیر گزری کہ آپ آ گئے۔ ورنہ یہ ہوٹل کی چیزوں کو نقصان پہنچاتا اور میرا بھی گلا گھونٹ دیتا۔ افسر: باندھ لو مشکیں۔ (عارف کو ہتھکڑی پہنانا ایاز کا آنا) یہ کیا۔ کیا یہی ماجر ا دیکھنے کے لیے انہیںگھر سے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ ایک شریف آدمی کو کیوںگرفتار کیا۔ افسر: آدمی شراب پینے سے پیشتر شریف ہوتاہے۔ لیکن پینے کے بعد پاجی بن جاتا ہے اسے بد مستی اور مار پیٹ کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ ایاز: دیکھ لیا غانم جیسے کمینوں کی دوستی کا نتیجہ۔ دیکھ لیا شراب پینے کا انجام۔ کہتے تھے سانپ سے دوستی نہ کرو۔ کہتے تھے زہر کو شربت سمجھ کر نہ پیو۔ باپ سے زیادہ محبت کرنے والے سسر نے سمجھایا۔ میں نے سمجھایا۔ پیروں پر سر رکھ کر رو رو کر بیوی نے سمجھایا لیکن تم نے کسی کی پکار اوردہائی نہ سنی۔ آج اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شریف گھرانے اور شریف باپ کے بیٹے ہو کر چور اور گرہ کٹ کی طرح ہتھکڑی پہنے ہوئے پولیس کے گھیرے میں کھڑے ہو۔ نشہ لاتا ہے اپنے ساتھ ذلت اور خرابی کو یہی عزت ملا کرتی ہے دنیا میں شرابی کو افسر: جن کوٹھریوں میں چور اور بدمعاش بند ہوتے ہیں انہی کوٹھریوں میں ان بدمست شریفوں کو بند کرتے ہوئے ہمیں خود افسوس ہوتا ہے لیکن خود ان شریفوں کو اپنی حالت پر افسوس نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ دن کو مجسٹریٹ کی کچہری میںجرمانہ دینے کے بعد شراب کو لعنت سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور شام ہتے ہی اسی لعنت کو گلاس میں بھر بھر کر پینے لگتے ہیں ۔ ایاز: خاندان اور آبرو کے دشمن اپنی حالت دیکھواور شرم کرو۔ جس بیوی نے تمہارے باپ گھر بھائی بہن سب کو چھوڑ دیا۔ جب وہ یہ ذلت سنے گی تو اس کا کیا حال ہو گا۔ جب تم ہتھکڑی میں بندھے ہوئے پولیس کے ساتھ بازاروں سے گزرو گے تو دیکھنے والے کیا کہیں گے۔ یہی کہیں گے کہ نشے نے کیا خراب اس کو چلی ہے لے کے حوالات میں شراب اس کو افسر: بڑھو لے چلو۔ ایاز: ٹھہرو۔ یہ خون اور چوری کا نہیں معمولی لڑائی کا مقدمہ ہے۔ میں ملزم کی طرف سے ضمانت دینے کو تیار ہوں۔ افسر: ضمانت یہاں نہیں ہو سکتی۔ تھانے میں آئو۔ (افسر سپاہی اور عارف کا جانا) ایاز: اے شراب کے متوالو دولت عزت برباد کرنے والو ایک شریف کا حال دیکھو اور اپنے انجام پر غور کرو۔ ڈسنے دو انہیں آ جائو اب بھی تم حواسوں میں بھرے ہیں سانپ بچھو بوتلوں میں گلاسوں میں گلاسوں میں جو ڈوبے پھر نہ ابھرے زندگانی میں ہزاروں بہہ گئے ان بوتلوں کے بند پانی میں یہ دارو کا پیالہ موت کا کڑوا پیالہ ہے ملا ہے زہر شربت میں چھپی ہے آگ پانی میں نہ کر برباد اپنی زندگی بوتل کے دیوانے وہ کاٹے گا بڑھاپے میں جوبوتا ہے جوانی میں (ایاز کاجانا اور طارق کا آنا) زیاد: دیکھو دروازے پر موٹر حاضر ہے۔ طارق: بہت خوب حضور دیکھیے پھولوں کے بھیس میں ایک پرستان کی پری چلی آ رہی ہے۔ (جانا) زیاد: کتنا شاندار حسن۔ آج تک ان آنکھوں نے اتنی حسین خوبصورت نہیں دیکھی۔ (زیاد کا چھپ جانا) (لیلیٰ کا آنا) لیلیٰ: میں ای شریف کا گھر سمجھ کر پھول بیچنے آئی تھی لیکن یہ تو شراب خانہ معلوم ہوتا ہے چھی چھی کیسی ؤگندی جگہ ہے مجھے ابھی لوٹ جانا چاہیے۔ (سامنے آ کر) زیاد: تالاب میں چمکتے ہوئے چودھویں کے چاند کی طرح چھوٹی سی ٹوکری میں موسم بہار کی پوری خوبصورتی نظر آ رہی ہے کیا یہ باغ کے ستارے بیچنے کے لیے ہیںَ لیلیٰ: جی ہاں اگر حضور پسند کریں۔ زیاد: اچھا شعر خوش رنگ پھول اور خوبصورت چہرہ کون پسند نہیں کرے گا۔ لیکن ان پھولوں میں دلفریبی ہے بتائو ان کی قیمت کیا ہے۔ یہ دونوں چادن کے ٹکڑے بھی ہیں اور شمع محفل بھی کرو سودا میں زر بھی دوں گا زر کے ساتھ یہ دل بھی لیلیٰ: ہٹ جائو۔ دور ہو جائو۔ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ جگہ جہاں میںدھوکہ سے آ گئی ہے اس شہر کا ناپاک دوزخ ہے اور تم اس دوزخ کی ایک لعنتی ہو۔ زیاد: غصہ بھی حسن کا زیور ہے۔ گالوں پر حسن کی سرخی آ جانے سے تمہارا خوبصورت چہرہ ارو بھی زیادہ خوبصورت ہو گیا ہیل۔ ہاں کہو کیا چاہے دولت بھی ہے آرام بھی بڑھ گیا جب حسن تو بڑھ جائیں گے دام بھی لیلیٰ : تم امیر ہو ہم غریب ہیں۔ تم محلوں میں رہتے ہو ہم جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ تم مخمل پہنتے ہو ہم چیتھڑے پہنتے ہیئںَ لیکن یہ نہ سمجھو کہ پیسہ اورگناہ ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں مگر چیتھڑے اور نیکی عصمت اور غریبی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ تمہیں زر تو ہمیں ایمان ہمت اور قناعت دی وہ تم نے بھی نہ پائی جو خدا نے ہم کو دولت دی فقط بازار کی کتیاں پھسل جاتی ہیں پیسوں پر جو عصمت دار ہیں وہ تھوک دیتی ہیں تم ایسوں پر زیاد: پھول والی کی زندگی سے بیگم کی زندگی زیادہ شاندار ہوتی ہے۔ تم خوش قسمت ہو کہ میرے جیسا دولت مند تمہارے حسن کی قدر کر رہا ہے۔ لیلیٰ: میں تمہیں دولت مند نہیں ایک بھکاری سے بھی بدتر جانتی ہوں زیاد: کیوں؟ لیلی: کیونکہ تم سونے چاندی کو اور میں شرافت اور نیکی کو دولت سمجھتی ہوں۔ وہ سکھ تم کو نہیں جو سکھ ہے قسمت میں فقیروں کی غریبوں سے بھی ہے تقدیر بدتر تم امیروں کی تمہارا گھر ہے اصلی عیش کے سامان سے خالی بھری ہے جیب تو کیا دل ہے جب ایمان سے خالی زیاد: حسن بیچ کر تمہیں دولت اور عیش ملیں گے۔ لیکن پھول بیچ کر پہننے کے لیے موٹے کپڑے اور کھانے کے لیے سوکھی روٹی کے ٹکڑے کے سو ا او ر کیا ملے گا؟ لیلیٰ: لالچ دینے والے شیطان منہ بند کر۔ میں نہیںسمجھتی کہ خدا ایسے گنہ گاروں کو کس طرح معاف کرے گا۔ یہ تیرے ہی جسیے بدنیت بدکاروں کا ظلم ہے کہ ہزاروں غریب لڑکیاں جو بے زر و بے سہارا ہونے پر بھی مزدوری کر کے عزت و آبرو کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتی تھیں آج بازار کے کوٹھوں پر بیٹھی اپنی ماں اور اپنے باپ کی عزت برباد کر رہی ہیں زیاد: تعجب ہے ک پھول کی پنکھڑی سے شہد کے بدلے زہر ٹپک رہا ہے۔ لفظ کڑوے ہیں لیکن ہونٹ میٹھے ہوں گے۔ (لیلیٰ کو پکڑ لیتا ہے) لیلیٰ: بدمعاش پاجی!! زیاد: چپ (ہاتھ پکڑتا ہے) (انور کاآنا) انور: یہ کیا چھوڑ دو اسے شرم کرو۔ مرد ہوکر ایک بے کس شریف لڑکی پر ظلم کر رہے ہو۔ زیاد: ظلم سے بچنا تھا تو اسے خوبصورت چہرہ لے کر یہاں نہ آنا چاہیے تھا۔ انور: تو گویا عورت کا خوبصورت ہونا جرم ہے اور تم جسے بدکار مرد عورت کو اس جرم کی سزا دینا چاہتا ہے۔ زیاد: چلے جائو ورنہ میں گھونسہ مار کر منہ بند کر دوں گا۔ انور: تیرے گھونسے کا جواب لوہے کے گھن سے دیاجائے گا۔ زیاد: کمینے سنبھل! (لڑائی انور کا زیادپر غالب آنا۔ زیاد کے مصاحبوں کا آکر انور کو تلوار سے مارنا چاہنا۔ انور کے دونوں مصاحبوں کاآ کر تلوار سے تلوار کو روکنا) (ٹیبلو) ڈراپ سین ٭٭٭ باب دوسرا منظر پہلا باغیچہ گانا رشیدہ: آیو ساون جاوت چینا من ڈولت جب بولت مینا مدھر تان پر جیارا ڈولے ڈار ڈار کوئلیا بولے یاد پڑت پیو کی دن رینا آئو مورے ہردے باسی دوار ٹھاری پریم پیاسی بن درس ترس رہے نینا آیو ساون… رشیدہ: زبان تھک گئی لفظ ختم ہو گئے۔ آنکھوں کے چشمے آنسو بہا بہا کر سوکھ گئے لیکن ہائے پھر بھی وہ نظر اٹھا کر اپنے خوفناک انجام کی طرف نہیں دیکھتے۔ تقدیر پھن اٹھائے ہے ڈسنے کے واسطے شعلے بھڑک رہے ہیں جھلسنے کے واسطے سر پر چمک رہی ہیں تباہی کی بجلیاں بادل گھرے ہوئے ہیں برسنے کے واسطے (عارف اور انور کا آنا) عارف: بس زبان سے چھری کٹاری برسانا بند کرو۔ یہ نصیحت کا لہجہ نہیں اعتراض اور حملے کا لہجہ ہے۔ انور: آپ کی رائے بھی آ پ کی طرح غلطی کے راستے پر جا رہی ہے۔ میں جو کچھ کہتا ہوں محبت سے کہتاہوں۔ دل کے دکھ سے کہتا ہوںَ اورآپ کی بہتری کے لیے کہتا ہوں۔ عارف: جب تمہارے باپ نے بیٹی کے ہاتھ اور گلے سے ہار و چوڑیاں اتروا کر داماد کو دروازے کا فقری سمجھ کر گھر سے باہر نکال دیا تھا اس وقت آ کر اسے نصیحت نہیں کی تھی اور آج مجھے نصیحت کرنے آئے ہو۔ میری نظر میں تمہاری نصیحت اتنی ذلیل اور حقیر ہے کہ جتنا تمہارا باپ بے رحم اور سنگدل ہے۔ انور: آپ میرے بزرگ والد کی شان میں سخت اور کڑوے لفظ استعمال کرتے ہیں۔ عارف: سچے الفاظ کڑوے ہی ہوتے ہیں۔ انور: میرے صبر کا امتحان نہ لیجیے۔ کوئی شریف بیٹا باپ کے گوشت کے خون سے پیدا ہو کر باپ کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا۔ عارف : میں اوپر سے فرشتہ اور اندر سے شیطان نہیں ہوں۔ میرا دل اور زبان اک ہے۔ منہ پر کہتا ہوں اور صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر تم صرف اور سچ سن سکتے ہو تو یہاں ٹھہرو اور نہیںسن سکتے تو باہر نکل جائو۔ رشیدہ: یہ کیا کہہ رہے ہو اور کس کو کہہ رہے ہو؟ عارف: رشیدہ می گھر بیچ کر سٹہ کھیلتا ہوں۔ شراب پیتا ہوں۔ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو کر کچہری میں جرمانہ دیتا ہوںَ دنیا بھر کے گناہ اور برائیاں کرتا ہوں لیکن اگر تمہیں اس گنہگار اور برے شوہر کے ساتھ جینا اور مرنا ہے تو جس طرح باپ کو چھوڑ دیا اسی طرح آج بھائی کوبھی چھوڑ دینا ہو گا۔ رشیدہ: غریب کا قصور؟ عارف: کچھ نہیں۔ رشیدہ: پھر؟ عارف: شوہر کا حکم۔ انور: بجلی کے جھلسے ہوئے درکت کی طرح چہرہ کیوں مرجھا گیا ے۔ ابھی ا س سے بھی بدتر دن دیکھو گی اور اس سے بھی بدتر حکم سنو گی۔ عارف: تم محبت کو نفرت کا سبق پڑھا رہے ہو۔ میں پھر کہتا ہوں کہ چلے جائو انور: بدنصیب بہن! مصیبت آنے سے پہلے انسان کی عقل خراب ہو جاتی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر مجھے خوف ہوتا ہے کہ ایک دن نشے کا دیوانہ پن اس خاندان کی آبرو اورشرم کو لات مار کر تمہیں بھی اس گھر سے باہر نکال دے گا۔ یہ نہ ہو سکھ کی طرح عزت کو بھی کھو کر چلو آج میں بھی رائے دیتا ہوں کہ اپنے گھر چلو رشیدہ: بھائی شادی ہو جانے کے بعد شریف لڑکی کے دو ہی ٹھکانے ہوتے ہیںَ شوہر کا گھر یا قبر کا کونہ۔ وہ بیاہ کا جوڑا پہن کر شوہر کے گھر میں آتی ہے اور کفن پہن کر جنازے کے ساتھ شوہر کے گھر سے باہر ہوتی ہے۔ ہوں گے جدانہ ہرگز ہم ان سے اور یہ ہم سے لکھی گئی ہے قسمت دونوں کی اک قلم سے انور: اچھا تو خدا کی مرضی تم آنے والی مصیبتوں پر رونا اور باپ بھائی تمہاری بدقسمتی پر روئیں گے۔ (انور کا جانا) عارف: آنکھوں کے کناروں پر آنسوئوں کے قطرے دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا بھائی سے جدا ہونے کا رنج ہے؟ رشیدہ: میرے سرتاج! جس دن لڑکی بیوی بن کر اپنے گھر سے پرائے گھر میں قدم رکھتی ہے اسی دن سے وہ باپ سے ماں بھائی بہن اپنے بیگانے سارے زمانے سے زندگی بھر کے لیے الگ ہو جاتی ہے۔ میں سب کو چھوڑ بیٹھی مرا سکھ اور آسرا تم ہو مری تقدیر اک کشتی ہے جس کے ناخدا تم ہو تمہاری ہی خوشی میں یہ کنیز باوفا خوش ہے کہ جس بیوی سے شوہر خوش رہے اس سے خدا خوش ہے (ایاز کا آنا) ایاز: حضور یہ کیا خود میاں انور سے سنا۔ پھر بھی یقین نہ آیا۔ کیا آ پ واقعی ایک سچے خیر خواہ اور سچے ہمدرد اکو گھر میں آنے سے منع کر دیا۔ عارف: ہاں وہ اسی سلوک کے قابل تھا۔ ایاز: افسوس ہے کہ آپ اپنے خیر خواہوں کی نصیحت کو بکواس سمجھتے ہیں۔ جا گئے اب بھی نیند سے جاگیے۔ ستر ہزار میں سے صرف تیس ہزار کی رقم باقی رہ گئی ہے۔ اگر شراب خوری اور سٹے بازی میں یہ بھی ختم ہو گئی تو تب بھی زندگی کے سہارے سے کاٹئے گا بیوی کا ہاتھ پکڑ کر فقیروں کی طرح کس کے دروازے پر جا کر مدد کے لیے آواز دیجیے گا۔ مفلسی کے وقت پوچھے گا نہ کوئی بات بھی گو ابھی دن ہے مگر دن کے پیچھے رات بھی روئیے گا اک نوالہ ایک کمبل کے لیے آج ہے قبضے میں کچھ رکھ چھوڑیے کل کے لیے عارف: میں سٹے کے ذریعہ اپنی کھوئی ہوئی دولت کو دوبارہ پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ کل فکر کوں گا تو آج کی کوشش نہیں ہو سکتی۔ بیج بونے جا رہا ہوں پھول اور پھل کے لیے سوچ لوں گا پھر کسی دن بیٹھ کے کل کے لیے (عارف کا جانا) رشیدہ: جو تھا غلطی سے کھو چکے اور جو ہے وہ بھی غلطی لالچ اور امید میںکھو دینا چاہتے ہیں۔ ایاز ایاز! تم باپ کی جگہ ہے۔ گھر کے بزرگ ہو ۔ خاندان کے خیر خواہ ہو۔ بچائو ! بچائو! حال تباہ ہو چکا ہے۔ مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائو۔ مر جائوں گیدیکھا جو انہیں رنج و محن میں وہ دن نہ کہیں آئے کہ ہو چاند گہن میں ایاز: اگر قسمت اپنی مہربانیوں کی قیمت مانگتی ہے تو میں تمہارے شوہر کی بہتری کے لیے اس دنیا کی کمائی ہوئی نیکیاں اور اس دنیا کی جنت دینے کو تیار ہوں کہو میری بچی میںکیا کروں۔ رشیدہ: میں کیا بتائوں جو ممکن ہو جو تم سے ہو سکتا ہے۔ خیال آنے سے کانپتی ہوں کہ کیسے گزرے گی کیا کریں گے بھلے ہو تم کچھ کرو بھلائی جئیں گے جب تک دعا کریں گے (رشیدہ کا اندر جانا) ایاز: جو میں سوچتا ہوں وہی یہ بھی سوچ رہی ہے۔ تھیلی کے پنجرے کی تیلیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ روپے شراب اور سٹے میں لگ چکے ہیں نصف سے زیادہ اڑ چکے ہیںَ اور باقی چند دن میں اڑ جائیں گے۔ کیا کروں۔ بس یہی آخری راستہ ہے۔ (جانا) ٭٭٭ باب دوسرا منظر دوسرا خواب گاہ عارف (تجوری کے پاس کوچ پر عارف سو رہا ہے۔ ایاز کا آنا) ایاز: قدرت جاگ رہی ہے یا شب بیدار چاند جاگ رہا ہے۔ (تھیلیاں چرا کر لے جانا) عارف: (چونک کر) اف اف یہ کیا ہے۔ تین روز سے برابر بھیانک خواب میری آرام کی نیند پر حملہ کر رہے ہیں۔ آنکھیں بند ہوتیہیی دماغ خوف و دہشت کی مخلوق پیدا کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ آج بھی دیکھا کہ انم ننے میرے گلے میں خوش رنگ پھولوں کا ہار پہنایا جس کے تمام پھول تھوڑی دیر میں زہری بچھو بن گئے۔ اور سب کے سب مل کر مجھے ڈنک مارنے لگے… میرے خدا تجوری کس نے کھولی… یہاں تو کچھ بھی نہیں تیس ہزار میں سے تیس پائیاں بھی نہیں… میں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ قسمت مجھ سے ٹھٹھا تو نہیںکر رہی ہے… بالکل خالی۔ ایک روپیہ بھی نہیں۔ میں سوکھے پھولوں میں خوشبو ڈھونڈ رہا ہوں۔ کس نے لیا۔ چاند کی روشنی اور ہوا کے سوا باہر سے کون آیا۔ آہ میں گھر رشیدہ سب تباہ ہو گئے دولت بھی گئی اور دولت کے ساتھ زندگی کی آخری امید بھی گئی۔ (گر پڑتاہے ایا ز کا آنا) ایاز: ارادہ تھا کہ تیس ہزار میں سے ایک کوڑی بھی نہ چھوڑوں لیکن ناگہانی آفت سے یہ بالکل پاگل ہو جائے گا۔ اس لیے رحم کر کے پانچ ہزار تجوری میں دوبارہ رکھ دیتاہوں۔ (روپیہ رکھتا ہے تجوری کے اوپر سے طشت گرتا ہے) عارف: (چونک کر) کون کون یہ کون؟ چور لٹیرے… ایاز… اور یہ کیا ہزار ہزار کے تیس میں سے صرف پانچ ایاز باقی نوٹ نہیں سنا میں پوچھتا ہوں باقی نوٹ۔ ایاز: میں نہیں جانتا۔ عارف: سانپ کی طرح رینگتے ہوئے نشے میں سوئے ہوئے مالک کو ڈسنا جانتا ہے۔ خدا اورضمیر کی موجودگی میں ایمان کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے۔ دوزخ کے گھر کا کرایہ ادا کرنے کے لیے چوری کرنا جانتا ہے لیکن نوٹوں کا حال نہیں جانتا۔ نہیں جانتا تو تجوری سے کہاں گئے۔ ایاز: تجوری میں ان لگوں کے روپے روپے رہتے ہیں جن کو غریبی کا خوف اور کل کی فکر ہے۔ نوٹ نہیںملتے تو جائو غانم کی جیب میں تلاش کرو۔ سٹے کے بازار میں دیکھو۔ شراب کی بوتل میں ڈھونڈو۔ کچھ سنبھالو کچھ رکھو دن رات سمجھاتا رہا آج کیوں ہے زر کا غم خوش ہو اگر جاتا رہا عارف: بس نمک حرام کتے! نوٹ دے کر میرے غصے اور انتقام سے رحم مانگ تو نے روپے نہیں چرائے۔ ڈوبتے کا سہارا پیاسے کا پنی بیمار سے زندگی کی امید چھین لی ۔ سمجھ لیا ہے کہ ٹھگ لوںگا صرف باتوں سے نکال ورنہ اگلوائوں گا میں لاتوں سے ایاز: جس طرح سوکھے ہوئے درخت پر جانو راورفضول خرچ کی تجوری پر روپے کبھی نہیں رہتے جو روپے شراب اور سٹے میں کل برباد ہونے والے تھے سمجھ لو کہ آج ہی برباد ہو گئے۔ عارف: معلوم ہوا کہ لوہے کو نرم کرنے کے لیے آگ میں تپانا ہو گا۔ تیری ایمانداری کے ساتھ میرے رحم کا بھی خاتم ہو چکاآستین کا سانپ زہر کی چھری‘ نکال نوٹ نکال! ایاز: تمہیں میری خدمت کی شرم نہ ہو لیکن مجھے تمہارے نمک کی شرم ہے۔ مار ڈالو۔ میں تمہیں اپنا خون معاف کرتا ہوں۔ عارف: ان ہنٹروں کے بعد پولیس کی ہتھکڑی اور پھر جیل کی نوبت آئے گی۔ آخری ذلت… بچانا چاہتا ہے تو روپے واپس دے نہیں سنتا۔ تب یوں ؤسنے گا کورنمک ٹھگ کمینے۔ (ہنٹرمارتا ہے) (رشیدہ کا آنا) رشیدہ: رات کے وقت کیسا شور۔ ارے گھر کے بزرگ سے یہ سلوک کرتے ہو ٹھہرو! عارف: ہٹ جائو شیطان۔ شریف آدمی کا چہرہ لگا کر آج تک ہمیں دھوکہ دے رہا تھا۔ اس نمک حرام کو ہم نے بھیک منگوانے کے لے تمام روپے چوری کر لیے۔ رشیدہ: چوری کی؟ عارف: ہاں۔ رشیدہ: ایاز نے؟ عارف: ہاں ہاں رشیدہ: ناممکن جیسے قطب شمالی میں افریقہ کے ریگستان کی گرمی سفید دودھ میں کالا پن اور گلاب کے درخت میں دھتورا پیدا نہیں ہو سکتا اسی طرح ایاز کے شریف دل میں کبھی دغا بازی نہیں آ سکتی۔ وفاداروں سے جرم ایسا ہوا ہے اورنہ ہونا ہے کبھی پیتل نہ نکلے گا حقیقت میں جو سونا ہے عارف: قبر تیار ہو چکی پھر موت کا یقین نہیں ہوتا۔ دغا باز! میں تیری پچھلی خدمتوں اور بڑھاپ کا خیال کر کے اب بھی معاف کر دوں گا۔ بول روپے کہاں چھپائے ہیں؟ نہیںبولتا معلوم ہوتا ہے کہ توحوالات میں پولیس کے پوچھنے پر جواب دے گا گنہگار چل اپنے دوزخ میں۔ رشیدہ: ٹھہرو پولیس کے حوالے نہ کرو۔ ہم ان کی سچی محبت اور خدمت کے قرض دار ہیںَ اگر انہوںنے چرابھی لیے ہیں تو یہ سمجھو کہ آج ان روپوں سے ان کا پچھلا قرض ادا ہو گیا۔ محسنی کی قدر کرنا فرض ہے انسان کا یہ سمجھ کر چھوڑ دو بدلہ دیا احسان کا عارف: چپ رہو۔ جب یہ مجھ پر رحم نہیں کرتا تو میں اس پر رحم نہیں کروں گا۔ حرامزادے آگے بڑھ۔ رشیدہ: سنو! سنو!! عارف: الگ ہٹ۔ رشیدہ: لاکھ سمجھانے پر بھی نہ مانے ایاز کو لے گئے۔ یا خدا اب تو ہی نگہبان ہے۔ ٭٭٭ باب دوسرا منظر تیسرا شمیم کا مکان (کومک) غانم: چلو چھٹی شد قسمت جھاڑ و دے کر صندوق اورجیب کا سارا کوڑا کرکٹ اٹھا لے گئی لوگ سچ کہتے ہیں کہ تین اور تیرہ کی منحوس گنتی ہوتی ہے۔ پانچ ہزار کے نوٹ عارف کی جیب سے ہاتھ آ گئے۔ پانچ ہزارمکان بکوانے کے کمیشن میں جھٹکے اور تین ہزار سٹے کے حساب میں ہڑپ کیے۔ سمجھتا تھا کہ اسی تیرہ ہزار میں کم سے کم تیرہ مہینے چین کی بنسری بجے گی لیکن آج صبح شراب اور شامت ریس میں گھسیٹ کر لے گئی اورتین ہی گھنٹے کے الٹ پھر میں تیرہ ہزار کا صفایا ہو گیا۔ ابھی اسی مالزادی شمیم سے کچھ اینٹھوں تب کام چلے گا۔ ارے سامنے سے وہی ماں بیٹی لڑاکا مرغیوں کی طرح ایک دوسرے سے چونچیں مارتی ہوئی چلی آ رہی ہیں۔ اب چھپ کر ان کی چخ چخ سننا چاہیے۔ (چھپنا) (شمیم اور نسیم کا آنا) شمیم: کیا کہا کیا کہا؟ نسیم: سچ کہا یہ تو رنڈی کا پیشہ ہے۔ دیکھ لینا ایک دن کسی کے گھر میں برن مانجھے گی یا کسی رئیس کے بچے کھلایا کرے گی۔ شمیم: دیکھو غصہ دلا کر مجھے اپنے ہاتھ سے نہ کھوئو۔ میں تمہاری روزی کا ٹھیکرا ہوں۔ نسیم: یہ ٹھیکر ا سلامت رہے یا ٹوٹ جائے مگر میں سو مرتبہ کہہ چکی ہوںاور پھر کہے دیتی ہوں کہ جب تک وہ اٹھائی گیرا غانم اس گھر میں آتا جاتا رہے گا تب تک یہ گھر کبھی نہیں بسے گا۔ غانم: آ ہا ہاہا بڑھیا! کیا محبت سے میری تعریف کر رہی ہے۔ شمیم: بس رہنے دو اگر محبت کرنا برا ہے تو تم اس کالے کلوٹے موٹر ڈرائیور پر ابھی تک جان کیوں دیتی ہو۔ نوچیوں کی استاد نائکہ جو تم سکھائو گی وہی ہم سیکھیں گے۔ نسیم: اسی دن کے لیے ناچنا گانا اور اسامی پھنسنا سکھایا تھا۔ چار پیسے کمانے کے لائق ہوء تو ماں کو جوتی کی نوک پر ماتی ہے اپنا ستیاناسی چاہتی ہے تو جا تیرا بھی ستیا ناس ہو۔ (جانا) شمیم: دیکھو اس نمک حرام پھا پھا کٹنی کو میری کمائی کھاتی ہے اور مجھ ہی کو کوستی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ایسی ماں کا چونڈا پکڑ کر ابھی گھر سے باہر کر دوں۔ غانم: یہ صلاح تو میں بھی دے سکتا ہوںاب تم خود شیطان کی ماں ہو۔ تمہیں اماں کی کیا ضرورت ہے۔ کوئی اور بات کرو۔ شمیم: ہاں جی! میں دیکھتی ہوں کہ اب اس کے ساتھ زیادہ دن نہیں نبھیں گے۔ غانم: اسی لیے تو میں نے کئی بار کہا کہ روپے پیسے اور زیور کا بکس بغل میں دبا کر میرے گھر میں بیوی بن کر بیٹھ جائو اور کوئی نیا باپ ڈھونڈ کر ماں کو اس کے حوالے کر دو۔ شمیم: میںبیوی بن کر تمہارے گھرمیں چولہا پھونکوں اور تم ہی روپوں سے اور جگہ گلجچھڑے اڑائو نہیں رے باوا۔ پھول کی بہار ڈالی تک رنڈی کی قدر رنڈی کے گھر تک میںیہیں اچھی ہوں۔ غانم: بڑی سیانی چڑیا ہے۔ جال پھینکتا ہوں مگر پھندے توڑ کر پھر سے نکل جاتی ہے۔ شمیم: بڑھیا تمہیںروز برا بھلا کہا کرتی تھی۔ آج میں نے ایسی کھری کھری سنائیں کہ منہ ہی بند ہوگیاکہوں خوش ہو نا؟ غانم: جیتی رہو تم تو مجھے ہمیشہ خو ش رکھتی ہو۔ مگر کل سے ایک قرضدار میرے لیے وارنٹ لیے پھر رہا ہے۔ اگر اس کا قرض ادا کرنے کے لیے اس وقت صرف ایک ننھی سی رقم صرف دو سو روپے دے دو تو میں ڈبل خوش ہوجائوں گا۔ شمیم: تم تو بہانہ بنانے میں رنڈیوں اور مانگنے والے فقیروں سے بھی آگے بڑھ گئے ہو۔ اب تک ہزاروں روپے دے چکی ہوں کہاں تک تمہارا ابھرنا بھروں گی۔ غانم: تو کون سا کشیدہ کاڑھ کے یا چکی پیس کے پیدا کرتی ہو۔ مفت میں آتا ہے اور مفت میںجاتا ہے۔ تم لوگوں کامال کھانے کے لیے تو ہم ہی لوگ پید اہوئے ہیں۔ شمیم: مگر دوں کہاں سے دو ہزا ر روپے تھے۔ ان کا میں نے سونا خرید لیا۔ اب تو پھوٹی کوڑی بھی نقدنہیں ہے۔ غانم: نقد نہیں ہے تو یہ گلے کا ہار اتار کر دے دو۔ شمیم: واہ ایک بے وقوف اپن بیوی کے گلے سے اتار کر مجھے دے گیا ہے۔ اور میں احمق بن کر تجھے دے دوں۔ غانم: تو کیا ہوا۔ دنیامیں آدمی نما گدھوں کی کمی نہیں کوئی نیا بے وقوف آ کر پھر تمہیں دے دے گا۔ شمیم: بس بہت دے چکی ہیرے کا ہار تو کیا تانبے کا چھلا بھی نہیں دوں گی۔ غانم: چھلا بھی نہیںدو گی تو پھر جائو یارانہ ختم۔ جائو تین طلاق۔ شمیم: یہ کیوں؟ غانم: میں روپیہ لیے رنڈی سے محبت نہیںکرتا۔ شمیم: رنڈیوں کو دھمکا کر روپیہ لینا کیا یہ شریفوں کا کام ہے؟ غانم: جیسے لوگ کمرے میں آنے سے پہلے چوکھٹ پر جوتا اتار لیا کرتے ہیں ویسے ہی میں بھی اپنی شرافت کو دروازے کے باہر چھوڑ کر رنڈی کے گھر میں قدم رکھتا ہوں۔ شمیم: تو یہ سمجھتے ہو کہ تمہیںدیکھے بغیر میںمر جائوں گی۔ جائو کوڑی بھی نہ دوں گی جائو۔ غانم: اب مجھے بلانے کے لیے کسی کو نہ بھیجنا۔ میری خوبصورتی تو سلامت ہے تو تمہاری جیسی سینکڑوں پائوں دھوئیں گی۔ شمیم: ہائے ہائے یہ تو بگڑ گیا۔ غانم: (خود سے ) سوچ رہی ہے پھنسے گی۔ ضرور پھنسے گی(ظاہر) ہاں تو سن لیا آدمی بھی نہ بھیجنا او ر کبھی اھدر سے گزروں تو کھڑی سے آدھا دھڑ نکال کر اجی سنو جی اجی سنو ایسی باتیں سننے کے لیے قسمیں بھی نہ دینا۔ غانم: اچھا تو میں چلا آخ تھو میری محبت پر۔ شمیم: سنو سنو ارے ظالم! تو تو سرکاری آدمی کی طرح محبت کرنے کا مجھ سے ٹیکس وصول کرتاہے (ہار دینا) بے ایمان لے ۔ غانم: ایمان دار لا (ہار لینا) (نسیم کا آنا) نسیم: یہ کیا اج پھر چپکے سے ہار اتار کر دے رہی ہے۔ ارے کیوں محبت میں اندھی بن رہی ہے۔ یہ تو گھر میں ڈاکو گھسا ہے تجھے لوٹ کر راستے کی فقیرنی بنا دے گا۔ شمیم: لوٹتا ہے تو لوٹنے دے۔ تجھے کیامیں اپن کمائی دیتی ہوں تیری کمائی تو نہیںَ نسیم: ارے موئے تو نے میری لڑکی پر جادو کر دیا ہے یہ ڈاکوئوں کے ہتھکنڈے چھوڑ دے۔ نہیں تو میں تیرا گھر میں گھسنا بند کر دوں گی۔ غانم: سنتی ہو یہ پائوں سے اتار کر پھینکی ہوئی جوتی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ گھر میں گھسنا بند کر دے گی۔ شمیم: کیا کہا: گھر می گھسنا بند کر دے گی بڑی بند کرنے والی آئی ۔ بند تو کر اگر اپنے ہی باپ کی بیٹی ہے۔ نسیم: بیٹا شمیم! یہ جواب۔ غانم: بڑھیا ٹھنڈی ہو گئی۔ نسیم: ارے میںتیری ماں ہوں۔ شمیم: چل چل تیری جیسی مائیںہزاروںملیں گی۔ غانم: بڑھیا سے بدلہ لینے کا یہی موقع ہے۔ سنو جی بس میں بھولا بھالا آدمی ہوں کسی دن تمہارے ماں مجھے کھانے میں زہر دے دے گی۔ شمیم: نہیں نہیں خفا نہ ہو۔ تمہیں میری قسم۔ حرامزادی قحبہ ! تو میرے سکھ کا ستیاناس کر نا چاہتی ہے۔ ابھی چولہے سے جلتی لکڑی لا کر منہ جھلس دوں گی۔ غانم: میں لکڑی لا دوں۔ نسیم: آشنا کے لیے ماں کو گالیاں دیتی ہے۔ ابھی مارے جوتیوں کے منہ سلیٹ کر دوں گی۔ غانم: سن لیا تیرا ہی کھائے گی اور تجھ ہی کو جوتیاں لگائے گی۔ دے کھینچ کر منہ پر طمانچہ۔ شمیم: نکل میرے گھر سے اسی ایک کپڑے سے نکل مردار کتیا۔ نسیم: ارے تیرے ہاتھ ٹوٹیں تجھ پر کھڑے قد بجلی گرے۔ موئے موئے تو نے میرا ستیا ناس کر دیا خدا تیراستیا ناس کرے گا ہائے ہائے پاجی کے پلے میرے گانے بجانے کی ڈفلی چھین لی۔ غانم: بڑھیا اب تیرا اس گھر میں کام نہیں جا تو پان کی دکان لگا۔ (نسیم کا جانا) بس بس اب یہ ہمیشہ دب کر رہے گی۔ آئو کمرے میں بیٹھ کر اس کے رونے پر قہقہے مار کر ہنسیں۔ شمیم: پیارے کمرے میں تو وہ نگوڑا ناظم بیٹھا ہے تم تھوڑی دیر… غانم: کیا تھوڑی دیر تم نے تو کہا ھتا کہ میں نوچ کھسوٹ کر ناظم کو دھتا بنا دو ں گی۔ شمیم: کیسے دھتا بنادوں۔ وہ تو رکھائی کو بھی ادا سمجھتا ہے۔ بے وقوف کہیں کا۔ غانم: یہ جھانسے رہنے دو۔ صاف کیوں نہیںکہتی کہ مجھے ناظم سے محبت ہو گئی ہے اب تم دفع ہو جائو۔ شمیم: ارے یہی تو ہم رنڈیوں کی قسمت ہے کہ جو پیار کریں روپیہ دیں نا ز اٹھائیں۔ ان سے محبت نہیں کرتے ہم تو تم جیسوں سے محبت کرتے ہیں جوہمارا ہی مال کھائے ارو ہمیں کو جوتیاں لگائے۔ غانم: اچھا بخشو جائو تمہارے اکلوتے چہیتے یاد کر رہے ہوں گے۔ شمیم: جان دیکھو بس دس منٹ باہر چکر لگائو۔ میں ابھیاس سمت کو دوانچھروں میں گھر سے بھگاتی ہوں۔ غانم: اچھا تو د س سے گیارہ منٹ نہ ہوں ورنہ واپس آ کر تھپڑوں سے منہ کا پوڈر اڑا دوں گا۔ شمیم: بڑے ظالم ہو (جانا) غانم: واہ رے! ان رنڈیوں کا مال کھنا ایسے ویسوں کا کام نہیں قسمت والوں کا کام ہے۔ (غانم کا جانا) (شمیم او رناظم کا آنا) ناظم: سمجھ گیا تم بچھو کی اولاد ہو۔ لاکھ پیار کرو مگر تم ضرور ڈنگ مارو گی۔ شمیم: اپنے پیار کو نسوار کی ڈبیہ میں بند رکھو۔ جب ضرور ت ہو چٹکی سے نکال کر سونگھ لیا کرو۔ ناظم: وہ محبت کی ٹھنڈی ٹھندی سانسیں کدھر گئیں؟ شمیم: بادل میں بیٹھ کر آسمان کی ہوا کھانے۔ ناظم: وہ کبھی نہ بجھنے والی پیاس کہاں گئی؟ شمیم: ہوٹل میں سوڈا پینے۔ ناظم: شمیم مجھے آج معلوم ہوا کہ تو ایسی جھوٹی اور اتنی بے وفا ہے۔ شمیم: آج مجھے سمجھے تو جلد سمجھے۔ میرے عقل مند! بیوفائی ارو جھوٹ کا دوسرا نام رنڈی ہے۔ اگر ہم میں سچی محبت اور وفاداری ہوتی تو بازار کی بیسوا اور گھر کی شریف بیوی میںکیا فرق ہے۔ ہمارے پاس صرف جھوٹا دل اور جھوٹی ہنسی اور جھوٹا پیار ہے جسے ہم بازار میں بیٹھ کر بیچتے ہیں اورتم آنکھوں والے اندھے عقل اور روپیہ دے کر خریدتے اور خوش ہوتے ہو۔ ناظم: میں نے چار مہینوں میں روپوں اور زیوروں سے تیرا بکس بھر دیا ہے۔ دو مہینے ہوئے ایک مکان خریددیا۔ اس کے چند ہی دن بعد دو ہزار کا گھوڑا گاڑی دلایا۔ تھوڑے رو ز ہوئے کہ بیوی کا ہار دے دیا۔ ان احسانوں کایہ انعام کہ میرا بابو آ گیا ہے۔ چلے جائو اچھا جاتا ہوں شرف ہوں تو کبھی نہ آئوں گا۔ شمیم: ہوں بڑے بڑے شریفوں کو دیکھ لیاہے بگڑتے ہیں تنتے ہیں قسمیںکھاتے ہیں اوردوہی دن کے بعد آ کر رنڈی کے پائوں پڑتے ہیں۔ ناظم: وہ کوئی نکٹے ہوں گے۔ نکٹے لیکن میں ناک والا ہوںَ اب آئوں تو اسو اونچی ناک پر تھوک دینا۔ شمیم: ا چھا دیکھوں گی دوبارہ جھک مارنے کو آئے تو تھوکنا منہ پر کیسا منہ پر پورا پیکدا ن الٹ دوں گی ۔ ناظم: شیطان کی بچی میں ضرور تجھ سے بدلہ لوں گا۔ شمیم: شیطان کے ماموں چل دو۔ ورنہ جھاڑو مار کر گھر سے باہر کر دوں گی۔ سن سنتا جا۔ گانا کسی رنڈی کے پھندے میں آنا نہیں بیوفائوں سے دل کو لگانا نہیں وفا دل میں ہے منہ سے چاہ کا اظہار کرتے ہیں زمانہ حسن کو اور ہم ٹکوں کو پیار کرتے ہیں دل لگانا کبھی ہم نے جانا نہیں کسی رنڈی… یہ صورت بھولی چڑیوں کو پھنسا لینے کا پھندا ہے چڑی ماروں کا اور ہم رنڈیوں کا ایک دھنداہے میٹھی باتوں کے دھوکے میں آنا نہیں کسی رنڈی… یہی انجام تم ایسوں کا آخر کار ہوتا ہے زباں پر اف گلے میں جوتیوں کا ہار ہوتا ہے شرم ہو تو کبھی منہ دکھانا نہیں کبھی رنڈی… ٭٭٭ باب دوسرا منظر چوتھا ٹوٹا پھوٹامکان (چکی پیستے ہوئے) گانا رشیدہ: دن رات آسمان ہیں کالے قسمت کے کھیل نرالے نہیں آج پھٹی کملی بھی کل پاس تھے شال دوشالے روٹھی بہار مرجھائے گل بوٹے نیند چین گھر دھن سب چھوٹے کیسے مورے بھاگ پھوٹے پیست چکی ہاتھوں میں پڑ گئے چھالے رشیدہ: پیاری چکی تو عورت کے لیے صبح کی ورزش ہے۔ تنہائی میں باتیں کرنے والی سہیلی ہے۔ امیری میں دل بہلانے کا مشغلہ ہے۔ غریبی میں روزی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ گائے جا گائے جا پیاری چکی وہ گانا جو تو نے دنیا کی سب سے پہلی عورت کے ساتھ مل کر گایا تھا ۔ اب بھی گائے جا۔ غریبی اور مصیبت میں دلاسا تجھ سے پاتی ہوں ترے گانے میں اپنے دکھ کا رونا بھول جاتی ہوں (لیلیٰ کا آنا) لیلیٰ: کیسی صبر والی ہے۔ اتنی مصیبت پر بھی نہ خداکو الزام دیتی ہے۔ نہ شوہر کی شکایت کرتی ہے۔ بہن گلو بند تیار ہو گیا ہو تو دے دو۔ ایک بیگم صاحبہ نے اپنے بچے کے خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔ رشیدہ: لیلیٰ بہن تمہیںاپنے غریب پڑوسیوں کی کتنی فکر ہے۔ یہ لو کل ساری رات چراغ کے سامنے آنکھیں پھوڑیں۔ تب خدا خدا کر کے پورا ہوا دام کی کمی بیشی کا خیال نہ کرنا کیونکہ گھر میں آٹھ آنے پیسے اور تھوڑے سے گیہوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ لیلیٰ: کیسے افسوس کی بات ہے بیوی تندرسی اور آرام کا خیال تج کر چھ بجے دن سے بارہ بجے رات تک محنت مزدوری کر کے ڈیڑھ روپے پیدا کرتی ہے اور شوہر ان محنت کے روپوں سے بھی شراب کے دام چھین کر لے جاتا ہے۔ بہن کیا انہیں کبھی سمجھ نہ آئے گی رشیدہ: سمجھ ہی آ گئی ہوتی تو ایاز جیسے خیر خواہ کو محض شک پر پولیس کے حوالے کیوں کرتے اور اس بے گناہ کو چوری کے جرم میںعدالت سے چھ مہینے کی جیل کیوں ہوتی۔ سمجھ ہی آ گئی ہوتی تو چوری کے بعد بچے ہوئے پانچ ہزار روپے بھی تین ہی مہینے کے اندر جوئے اور شراب میں کھو کر کوڑی کوڑی کو محتاج کیوں ہوجاتے۔ مری جانب سے رخ تقدیر کے سورج نے پھیرا ہے اسی سے سب کے گھر میں دن مرے گھر میں اندھیرا ہے (جانا) (انور کا آنا) لیلیٰ : کون غریبوں کے مددگار… میرے محسن! انور: حیرت تم اور یہاں۔ لیلیٰ: میں اسی غریب محلے میں اس گھر سے ملے ہوئے گھر میں رہتی ہوں اوردن میںایک دو مرتبہ اپنی پڑوسن کی خیریت پوچھنے آ جایا کرتی ہوںَ انور: تم اس مکان کے رہنے والوں کو کب سے جانتی ہو؟ لیلیٰ: جب سے میرے پڑوس میں کرائے پر گھر لیا ہے۔ میاں بڑا ہی ناسمجھ دار ہے لیکن بیوی بے حد نیک ہے۔ مجھے اس کی خدمت سے بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔ انور: تم تو خود غریب ہو۔ پھر کیا کدمت کرتی ہو گی؟ لیلیٰ: میرے پاس روپے نہیں لیکن انسانیت اور ہمدردی ضرور ہے۔ میں اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزیں بازار میں بیچ آتی ہوں اور جو کچھ ملتاہے اسی سے یہ غریب اپنا گزارہ چلاتی ہے۔ انور: جتنا خوبصورت چہرہ ہے اس سے زیادہ خوبصورت دل ہے۔ نیکی اور رحم کی پتلی۔ میں اس بے لوث ہمدردی کا اپنی بدنصیب بہن رشیدہ کی طرف سے شکریہ اد ا کرتا ہوں۔ لیلیٰ: کیا آپ میری رشیدہ کے بھائی ہیں آپ کا نام؟ انور: دنیا مجھے کپتان انور کہتی ہے۔ لیکن تمہارے ہونٹوں سے صرف انور سن کر خوش ہوں گا۔ لیلیٰ: کیسا پیارا نام ہے۔ یہ معلوم ہوا کہ کانوں کے پاس سے بلبل گاتی ہوئی نکل گئی۔ انور: تمہاری دکھیا سہیلی کہاں ہے؟ لیلیٰ: ابھی کسی کام کے لیے اندر گئی ہے۔ انور: تو میں وہیں جا کر ملتا ہوں… کوئی میرے لائق خدمت ہو تو یاد کرنا۔ لیلیٰ: کتنا فیاض احسان کر کے احسان کا بدلہ کیسا شکریہ بھی نہیں چاہتا۔ وہ عورت دنیا میں بڑی خوش نصیب ہو گی جسے اس شریف آدمی کی بیوی بننے کا فخر حاصل ہو گا۔(جانا) (رشیدہ اور انور کا آنا) انور: مصیبت کے بوجھ سے کندھے ٹوٹے جا رہے ہیںَ پھر بھی کہتی ہو کہ کوئی دکھ نہیں ہے۔ رشیدہ: ہاں کوئی دکھ نہیں ہے۔ ذرابھی نہیں۔ نہ کھانا ہے نہ کپڑا ہے نہ زیور ہے نہ پیسے ہیں مگر پھر بھی خوش ہیں جس حال میں ہیں اور جیسے ہیں زمانے بھر کا سکھ اک لفظ شوہر میں سمایا ہے وہیں دنیا کی راحت ہے جہاں شوہر کا سایا ہے انور: بہن میرے زخم پر نمک نہ چھڑکو۔ میں دنیا کے برے سے برے آدمی کی تعریف سن سکتا ہوں۔ لیکن تمہارے اس احمق اندھے نابکار شوہر کی تعریف سن کر اپنے غصے کو ضبط نہیں کر سکتا۔ رشیدہ: بس بھائی بس۔ بیوی کے سامنے شوہر کو ایسے برے لفظوں میںیاد نہ کرو۔ وہ کچھ بھی ہیں لیکن میرے لیے بہشت کی امید کی طرح پیارے مذہب کی طرح پاک اور خدا کے نام کی طرح قابل عزت ہیں۔ بنی ہے اور بنے گی دو جہاں میں میری بات ان سے یہاں ہے آبرو ان سے وہاں ہو گی نجات ان سے اگر معبود برحق کے سوا سجدہ روا ہوتا تو شوہر بھی خدا کے بعد عورت کا خدا ہوتا انور: میں اس گھر میں قدم نہ رکھنے کے عہد کو توڑ کر تمہاری محبت سے تمہیں سمجھانے آیا ہوں۔ لیکن آج فیصلہ کر لیا کہ تم کبھی نہ سمجھو گی۔ قسمت نے تو تمہاری عقل پرتالا لگا کر اس کی کنجی سمندر میں پھینک دی ہے… اچھا یہ لو۔ رشیدہ: یہ کیاہے؟ انور: یہ پانچ سو روپے کا نوٹ ہے۔ اسے وقت اور ضرورت کے لیے رکھ چھوڑو۔ رشیدہ: انور مجھے معاف کر دو۔ میں ان کی اجازت کے بغیرتمہارانوٹ نہیں لے سکتی۔ میری محنت کے پیسے میری ضرورت کے لیے کافی ہیں۔ انور: یہ کسی غیر کا روپیہ نہیں ہے رہنے دو وقت پر کھوٹا پیسہ بھی اشرفی کا کام دیتا ہے۔ (انور کا جانا) رشیدہ: سنو سنو نوٹ لے جائو۔ نہیں لیا۔ کہاں سے آیا۔ کس نے دیا۔ میرے حکم کے بغیر کیوں لیا… ان سوالوں کی بارش کے ساتھ جب ان کا غصہ گرجنے لگا تو کیا جواب دوں گی نہیں یہ نوٹ ضرور واپس کر دوں گی… یا خدا پھر وہی حالت۔ (عارف کا بوتل میں لے کر آنا) عارف: نشہ نشہ کس کو نہیں ہے۔ کسی کو دولت کا نشہ ہے۔ کسی کو خوبصورتی کانشہ ہے۔ کسی کو حکومت کا نشہ ہے۔ جب یہ نشے برے نہیں تو پھر بوتل کا نشہ کس طرح برا ہو گا رشیدہ۔ رشیدہ: اب نہیں کی جواب دوں۔ عارف: ادھر آئو! رشیدہ: صبح جب میں ہاتھ جوڑ کر روتی ہوئی تمہارے پیروں پر گر پڑی تھی تب تم نے میرا سر چھاتی پر لگا کر اور آنسوپونچھ کر وعدہ کیا تھا کہ اب سے شراب نہیں پیوں گا اورپھر پی لی۔ عارف: ہاں پی لی۔ رشیدہ: کیوں ؟ عارف: شروع میں بھول سے پی۔ پھر دوستوں کی خوشی کے لیے پی۔ اس کے بعد زندگی کا مزہ سمجھ کر پیتا رہا اور اب غم بھلانے کے لیے پی رہا ہوں نہ پیوں گا تو مصیبت مجھے پاگل کر دے گی۔ رشیدہ: لونڈی مالک کو سمجھا سکتی ہے حکومت نہیں کر سکتی۔ صبح سے اب تک کہاں تھے؟ عارف: جہاں اس دکھ کی دوا بکتی ہے اور دوا کے دام لے کر پھر وہیں جائوں گا… لائو کچھ روپے دو۔ رشیدہ: روپے عارف: کہہ دو کہ نہیں ہیںَ رشیدہ : پرسو ں بیچاری لیلیٰ نے گلو بند اور موزے بیچ کر چار روپے لائے تھے جس میں سے ڈیڑھ روپے گیہوں منگائے دو روپے آج صبح تم لے گئے۔ اب اور روپے کہاں سے آئیں۔ عارف: تو کیا کچھ نہیں ہے۔ رشیدہ: صرف آٹھ آنے باقی رہ گئے ہیں عارف: اچھا تو وہی لائو… نہیں سنا؟ کیا کان بہرے ہو گئے؟ رشیدہ: گھر میں تھوڑے سے گیہوں ہیںجو آج شام تک ختم ہو جائیں گے اور اگر یہ پیسے بھی نہ رہے تو کل ہمیں فاقہ کرنا ہو گا۔ عارف: فاقے کا بہانہ کیوں بناتی ہے۔ صاف کیوں نہیںکہتی کہ مجھے شوہر پیارا نہیں پیسہ پیارا ہے۔ رشیدہ: چھی چھی یہ تم کیا کہتے ہو۔ تم اگر میری کھال کی جوتیاں بنا کر پہنو توبھی میں اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گی… خفا ہو گئے … اچھا یہ لو۔ عارف: قسمت بدل گئی دنیا بدل گئی اور اب دیکھتا ہوں کہ تو بھی بدلتی جا تی ہے۔ رشیدہ: ٹھہرو تم نشے میں کہاں جاتے ہو۔ عارف: غم جاگ اٹھا ہے اسے سلانے کے لیے اور پیوں گا۔ رشیدہ: نہیں نہیں میں نہیں جانے دوںگی۔ دولت کھو چکے عزت کھو چکے۔ اب کیا پی پی کرجان بھی کھو دو گے۔ عارف: ہٹ جائو۔ تم کو میرے ساتھ مرنا نہیںہو گا۔ رشیدہ: میرے مالک میرے سرتاج قسمت کی چھری پر سان نہ دو۔ دیکھو! میں پائوں تھام کر منت کرتی ہوں۔ عارف: میں شراب خانے کے راستے کے سوا تمام راستے بھول چکا ہوں۔ پائوں چھوڑ دو۔ رشیدہ: جیسے مغرور امیروں کی گاڑیاں غریبوں کو کچلتی ہوئی نکل جاتی ہیں۔ ویسے ہی تم بھی مجھے روند کر نکل جائو۔ لیکن میں خود سے کبھی یہ پائوں نہ چھوڑوں گی۔ عارف: یہ فرمانبرداری کی آڑ میں مرد پر عورت کی حکومت ہے ہٹ جا۔ رشیدہ: آہ! گانا راحت کا اس طرح سے زمانہ گزر گیا جھونکاا ہوا کا تھا ادھر آیا ادھر گیا صیاد نے بڑھائی ہے اس طرح مشق ظلم جب آیا مجھ اسیر کے دو پر کترگیا غم وہ غذا ہے جس کا مزا ہی کچھ اور ہے بھوکی بھی میں رہی تو مرا پیٹ بھر گیا ٭٭٭ باب دوسرا منظر پانچواں راستہ غانم: چوری کے جرم میں ایاز کو چھ مہینے کی جیل ہونے کے بعد عارف نے نڈر ہو کر باقی تمام پانچ ہزار بھی میری رائے پر چل کر چند ہی دن میں ختم کر دیے اور جس دن اس کے روپے ختم ہوئے اسی دن سے میں نے بھی بے رس کاآم سمجھ کر اس سے ملنا جلنا بھی ختم کر دیا۔ سوچ رہا تھا کہ اب کس کے ساتھ نیکی کر کے ثواب کمائوں اتنے میں زیاد اپنی قبر ڈھونڈتا ہوا مل گیا۔ اگر میں پٹنیٹ شریف ہوں تو چندہی دن میں اس کا بھی کفن بیچ کر کھا جائوںگا۔ بھئی واہ میرا نصیب بھی ڈاک گاڑی کا انجن ہے۔ آرام کے جنکشن کے سوا غریبی اور مفلسی کے سٹیشن پر ٹھہرنا ہی نہیں جانتا۔ (عارف کا آنا) عارف: غور سے کیا دیکھ رہے ہو۔ جس طرح خود غرضی سے تمہاری بے مروت آنکھیں اور دغا بااز دل بدل گیا ہے۔ اسی طرح مصیبت اور غریبی سے میری صورت اور حالت بدل گئی ہے۔ پھر بھی میں وہی عارف ہوں یہ پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ البتہ تم وہی غانم ہو یہ پہچاننا بہت مشکل ہے۔ غانم: تو میں آج سے اپنے ماتھے پراپنے نام اور پتے کا سائن بورڈ لگا کر پھروں گا۔ عارف: خیال ہے کہ ہم دونوں آج کتنے دنوں کے بعد ملے ہیں۔ غانم: کیا خبر میں کیا کوئی جیل کا قیدی ہوں جو سزا پانے اور رہا ہونے کی تاریخ یاد رکھوں عارف: غانم! جب تک میرے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑاتھا تب تک تم کتے کی طرح تدم لہاتے ہوئے میرے پیچھے پیچھے پھرتے تھے غانم: یہ تو دنیا کا قاعدہ ہے اس میں میں کیا کروں۔ عارف: اور اب میری صورت دیکھتے ہی اس سانپ کی طرح جو ڈس کر بھاگنا چاہتا ہو چھپنے کے لیے بل ڈھونڈنے لگتے ہو۔ میں نہیں جانتا تھا کہ انسان اتنا دغا باز اور اتنا بے ایمان ہوتا ہے۔ غانم: تو کیا تمہاری خواہش تھی کہ جیسے اندھا ایک اندھے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کربھیک مانگتا ہے ویسے ہی میں تمہارے ساتھ دو اندھوں میں ایک روٹی کی صدا لگاتا پھرتا۔ عارف: شرم کر شرم کر! ان لفظوںکو سن کر شیطان بھی اپنے آپ کو انسان سے بہتر سمجھنے لگے گا۔ غانم: چھی چھی کیسی بدبو آ رہی ہے شراب پیتا ہے۔ دیکھو جس دن ایاز کو چھ مہینے کی جیل ہوئی تھی اسی دن تمہاری بیوی نے غصے اور جوش میں آ کر مجھے آستین کا سانپ لٹیرا یار مار اور گلا کاٹو سب کچھ کہہ ڈالا تھا۔ جس کا میں ایک روز ضرور بدلہ لوں گا اور اب آج تم میری عزت اور شرافت کے سر پر چپت لگا رہے ہو۔ عارف: میں تجھے کئی روز سے ڈھونڈ رہا تھا۔ تسلی اورمدد مانگنے کے لیے نہیں۔ غانم: میرے پاس رکھا ہی کیا ہے جو میں مدد کروں گا۔ عارف: صرف یہ کہنے کے لیے جب قدرت کا قانون نیک انسانوں کو بھی ان کے جرم کی سزا دیے بغیر نہیں چھوڑتا تب تیرے جیسے بدکار اپنی بدی کا بدلہ پانے سے کس طرح بچ سکتے ہیں۔ عنقریب لعنت اور بددعاکی گھٹائیں تیرے سر پر برسیں گی اورتوتنکے کی طرح گناہ کے پرنالے میں بہہتا ہوا دوزخ میں جا گرے گا بدمعاش پاجی! (جانا) غانم: دوزخ اہاہاہا دوزخ میں بھی پہنچا تو مزہ ہی رہے گا۔ کیونکہ وہاں پہلے سے میرے بڑے بڑے پرانے دوست موجود ہیں۔ (زیاد کا آنا) زیاد: (آ کر) غانم کب انعام لو گے۔ انو ر سے بدلہ لینے کی کوئی ترکیب سوچی۔ غانم: ضرور بدلہ لیجیے گا۔ زیاد: ہاں۔ غانم: یہ آخری فیصلہ ۔ زیاد: آخری فیصلہ۔ اس کا سامنا ہونے پر اپنی پچھلی ذلت کا خیال کر کے میری آنکھیں نیچی ہو جاتی ہیں۔ ہر طرف سے نامرد بزدل کم ہمت کی آوازیں آ آ کر کانوں کے پردے سے ٹکرانے لگتی ہیں۔ بتائو یہ روح کی تکلیف دل کی ملامت کہاں تک برداشت کر سکتا ہوں۔ بس یا مجھے ہمیشہ کے یے یہ شہر چھوڑ دینا ہو گا یا اسے مرنا ہو گا۔ غانم: تو سنیے انسان کو مال سے زیادہ جان اور جان سے زیادہ عزت عزیز ہوتی ہے۔ وہ یتیموں اور غریبوں پر اپنا تمام مال بانٹ دے گا۔ ملک اور قوم کے لیے جان قربان کر دے گا۔ لیکن اپنی عزت کبھی دوسرے کو نہیں دے گا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ جان اورمال سے زیادہ عزت قیمتی چیز ہے۔ آپ کو بدلہ لینا ہے تو جان کے بدلے اس کی عزت پر حملہ کیجیے۔ زیاد: اس سے فائدہ غانم: فائدہ یہ کہ تلوار کے گھائو سے ایک منٹ میں مر جائے گا۔ لیکن عزت پہ چوٹ پڑی تو اس کو رنج اور شرم سے ہر روز مرنا پڑے گا۔ زیاد: ٹھیک رائے دے رہے ہو لیکن حملے کا طریقہ۔ غانم: انور کی سگی بہن رشیدہ جو عارف کو بیاہی گئی ہے اس ملک کی عورتوں میں جوانی ااور خوبصورتی کا نمونہ سمجھی جاتی ہ۔ ایسی جوان جیسے چودھویں کا چاند ۔ ایسی خوبصورت جیسے موسم بہار کا کھلا ہوا تارہ پھول۔ آگے کہو ں یا سمجھ گئے۔ زیاد: چاند کی طرح جوان۔ پھول کی طرح خوبصورت۔ سمجھ گیا تم چاہتے ہو کہ خوشبو دار رنگت اور رس لوٹ کر اس کے حسن کے پھول کو تباہ کر دیا جائے۔ غانم: ہاں یہ خوفناک بدلہ ہے۔ بہن کی بے عزتی کے بعد انور کبھی آپ کے سامنے آنکھیں اونچی کر کے بات نہ کرسکے گا۔ جس دن رشیدہ کی عصمت تباہ ہو گئی اسی دن انور کی ہمت زدگی اور خوشی بھی تباہ ہو گئی۔ زیاد: لیکن رشیدہ نہن شوہر سے بے وفاہے نہ دولت اور عیش کی لالچی ہے۔ پھر کس طرح ہمارے قبضے میں ا ٓ سکتی ہے۔ غانم: جہاں دولت اور طاقت کام نہیں دیتی وہاں دھوکہ کام کرتا ہے۔ انعام مقرر کیجیے۔ میرا ایک ہی فقرہ س خوبصورت ہرنی کو بھوکے شیر کے منہ میں پہنچا دے گا۔ زیاد: اگر تم دھوکہ دے کر میرے محل میں اسے لے آئے تو میں اس کی خدمت کے عوض تمہیں دس ہزار روپے انعام دوں گا۔ (جانا) غانم اخوہ ! دس ہزار بے ایمانی کے درخت میں ایک ساتھ اتنے پھل نکل آئے۔ اگر ایمان دار ہوتا تو دس ٹکے بھی نصیب نہ ہوتے۔ (جانا) ٭٭٭ باب دوسرا منظر چھٹا محل (غانم کا آنا) غانم: واہ رے میں ! لائیے انعام۔ کانٹا ڈالتے ہی مچھلی پھنس گئی۔ زیاد: پھنس گئی کس طرح؟ غانم: سینے میں بے باپ بچے کی طرح رونی صورت بنا کر رشیدہ کے سامنے گیا اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہا کر کہا کہ عارف شراب کے نشے میں موٹر کے نیچے دب گیاہے اورایک رحم دل بیگم جو گاڑی میں اس طرف سے گزر رہی تھی اسے زخمی حالت میں اٹھا کر اپنے مکان پر لے گئی ہیں۔ زیاد: تم نے یہ کہا کہ عارف موٹر کے نیچے دب گیا ہے۔ غانم: ہاں پھر میں نے کہا کہ آخری دیدار کرنا ہے تو میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اس نیک بیگم کے گھر تک چلی چلو۔ دیر کی تو پھر شوہر سے دنیا کے بدلے جنت میں ملاقات ہو گی زیاد: تو کیا وہ شوہر کی محبت میں پاگل ہو کر تمہارے ساتھ چلی آئی تھی؟ غانم: نہ آتی تو میں اسے وفادار بیوی نہ سمجھت۔ زیا: میں تمہاری پیٹھ ٹھونکتا ہوں… شاباش! غانم: اجی ابھی تو آ پ سینکڑوں مرتبہ شاباش دیں گے۔ میرے جیسا آدمی گھڑی گھڑی پیدا نہیں ہوتا۔ میں تو مرنے کے بعد قبر کے بدلے عجائب گھر کی الماری میں رکھا جائوں گا۔ زیاد: اچھا تو وہ کہاں ہے؟ غانم: دروازے پر گاڑی میں میں شکار کولاتا ہوں آپ بھوکے بھیڑیے کی طرح ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار رہیے۔ (غانم کا جانا) زیاد: پاجی کیسازہری آدمی ہے۔ سانپ کو ڈس لے تو وہ بھی پانی ہو کر بہہ جائے۔ (زیاد کا چھپنا) (رشیدہ اور غانم کا آنا) رشیدہ: کہاں ہیں میرے مالک میرے سرتاج کہاں ہیں۔ ہجوم اشک و حسرت سے ہے اک طوفان آنکھوں میں دکھا دو شک کھینچ کر آ گئی ہے جان آنکھوں میں غانم: تم یہاں ٹھہرو میں بیگم صاحبہ کوتمہارے آنے کی اطلاع دیتاہوں۔ رشیدہ: اف دماغ گھوم رہا ہے۔ کہوں کس سے اس تقدیر نے کیا پائمالی کی تو ہی سنتا ہے یارب خیر کیجو میرے والی کی (زیاد کا ظاہر ہونا) یہ کون وہ بیگم کہاں ہیں۔ یا خدا یہ اس طرح مجھے کیوں گھور رہا ہے۔ زیاد: ڈر کر پیچھے کیوں ہٹ گئیں اطمینان رکھیے۔ یہ بھی آپ ہی کا گھر ہے۔ رشیدہ: جناب میں اپنے شوہر کو جو موٹر سے زخمی ہو گئے ہیں لینے آئی ہوں۔ مہربانی فرما کر بتلائیے کہ وہ کون سے کمرے میں ہیں۔ زیاد: ہاہاہاہا… رشیدہ: ہیں آپ ہنستے کیو ںہیں؟ زیاد: اس لیے کہ آپ میرے مکان کو زخمیوں کا ہسپتال سمجھ رہی ہیں۔ اس گھر میں میرے دل کے سوا جوان بھنوئوں کی تلواروں اور نگاہ کیچھریوں سے گھائل ہو گیا ہے اور کوئی زخمی نہیں ہے۔ رشیدہ: تو کیا دغا باز کمینہ غانم مجھے دھوکہ دے کر یہاں لایا ہے؟ زیاد: دنیا خود دھوکہ ہے اس لیے یہاں کا ہر کام دھوکہ ہی سے چلتا ہے۔ رشیدہ: سمجھ گئی آنکھوں کے سامنے سے اندھیرا دور ہو گیا بدمعاش۔ کمینے غانم! خدا تجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ (جانا چاہتی ہے) (زیاد روکتا ہے) زیاد: ٹھہرو کہاں جاتی ہو؟ رشیدہ: جناب میں اپنے گھر جائوں گی راستہ چھوڑ دیجیے۔ زیاد: چھوڑ دوں خوب مرتے کو زندگی مفلس کو دولت فقیر کو بادشاہت مل جائے تو کیا وہ اسے چھوڑ دے گا۔ آئو تم نور کی محفل میں یہ کاشانہ بنے تم بنو شمع وفا دل میرا پروانہ بنے رشیدہ: خبردار! میرے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا سایہ بھی نہ ڈالنا۔ زیاد: کس لیے؟ رشیدہ: اس لیے کہ یہ ہاتھ گلی گلی عزت بیچنے والی مردار کا نہیں۔ ایک عصمت مآب شریف عورت کا ہاتھ ہے۔ اس ہاتھ کو سوائے شوہر کے کسی مرد کو چھونے کا حق نہیں ہے۔ جب خدا نے جلوہ گاہ آب و گل پیدا کیا عشق اور ایثار سے عورت کا دل پیدا کیا باوفا رہتی ہے بیوی زندگی بھر کے لیے ہاتھ کیا دل روح سب ہیں صرف شوہر کے لیے زیاد: شوہر کون شوہر وہ مفلس شرابی عارف وہی شوہر جس کی شراب کا قرض ادا کرنے کے لیے یہ نازک نرم انگلیاں گلو بند اور موزے بنتی اور سوئیوں سے زخمی ہوتی ہیں۔ نصیب اپنا خود اپنے آنسوئوں میں کیوں ڈبوتی ہو پڑی ہو خاک میں پھر اب بھی تم خوش آب موتی ہو نہ کھائو ٹھوکریں نکلو اندھیرے سے اجالے میں مری آغوش میں آ جائو جیسے چاند ہالے میں رشیدہ: دیکھو انسان کے دل کی عزت نیکی و شرفت سے ہوتی ہے جس کے پاس شریف دل نہیں وہ انسان نہیں۔ برائی کابرا انجام ہوتا ہے زمانے میں نہ جل جائو کہیں خود دوسروں کا گھر جلانے میں بدی کا گھر سیہ کاری کا دوزخ اس کا سینہ ہے جو تاکے اور کی بیٹی بہن کو وہ کمینہ ہے زیاد: رشیدہ ! رشیدہ!! زندگی خوبصورتی اور جوانی دوبارہ نہیں مل سکتی۔ یہ نیکی پارسائی باوفائی سب کہانی ہے اٹھا لو زندگی کا لطف دو دن کی جوانی ہے رشیدہ: دنیا کی خوبصورتی عورت ہے اور عورت کی خوبصورتی اس کی عصمت اور شرم ہے۔ کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ جو عورت جوان اور خوبصورت ہو اس کو اپنے آرام کے لیے نیکی اور پارسائی کو ٹھوکر مار دینا چاہیے۔ زیاد: میں تو اسے یہی صلاح دوں گا۔ رشیدہ: یہی صلاح بے شرم اور بدکار بننے کی صلاح اچھا فرض کرو کہ ا س وقت میری جگہ تمہاری خوبصورت بہن یا جوان لڑکی آ کھڑی ہو جائے تو تم اسے بھی یہی صلا ح دو گے۔ نظر شوہر کے چہرے کے سوا ہر سو نہ جائے گی یہ دل وہ پھول ہے جس سے وفا کی بو نہ جائے گی نہ پائو دغا میری کسی بات اور قرینے سے کہ پی ہے دودھ کے بدلے شرافت ماں کے سینے سے زیاد: شرافت کی قدر فرشتوں کی دنیا میں ہو گی لیکن انسانوں کی دنیامیں شرافت کو کون پوچھتا ہے۔ شرافت سے دنیا کا کون سا کام چل سکتا ہے۔ کیا تم شرافت کے جھوٹے سکے سے آٹا خرید سکتی ہو؟ کیا تم اینٹ پتھر کے بدلے شرافت کے گارے سے رہنے کا گھر بنا سکتی ہو؟ وہ جینا موت سے بدتر ہے جو وقت مصیبت ہے شرافت کی نہیں انسان کو سکھ کی ضرورت ہے مری بن جائو پھر جھولو گی تم راحت کے جھولوں میں سدا کھیلا کرو گی بن کے خوشبو سکھ کے پھولوں میں رشیدہ: ڈاکو پرائے مال پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور تمہارے جیسا بدکار لالچ اور فریب سے شریف عورتوں کی عزت برباد کرنے میں اپنا سکھ سمجھتے ہیں لیکن ایک وفادار بیوی ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہ کر گزی گاڑھا پن کر نمک سے سوکھی روٹی کا ٹکڑا کھا کر سچی محبت کے ساتھ شوہر کی خدمت میں اپنا سکھ جانتی ہے۔ وفا ہے میرا سکھ نیکی مرا گنجینہ زر ہے حیا پوشاک میری اور محبت میرا زیور ہے غریبی میں بھی ہنس پڑت ہے نیکی مال والوں پر مری عصمت کی چادر تھوک دیتی ہے دو شالوں پر زیاد: رشیدہ! اگر تم میری محبت کا نفرت سے جواب دو گی… رشیدہ: تو کیا کرو گے۔ زیاد: کیا کروں گا۔ میں بڑا بے رحم ہوں سمجھی نہ رہنا بھول میں دو گھڑی میں رنگ ہی ہو گا نہ بو اس پھول میں رشیدہ: جاجا میں ان دھمکیوں کو کتے کا بھونکنا سمجھتی ہوں۔ زیاد: ہاں۔ رشیدہ: ہاں ہاں!! کب آفتوں میںخیال وفا بدلتا ہے یہ وہ چراغ ہے جو آندھیوں میں جلتا ہے مرے گلے پہ چھری تیز کر لے تو اپنی میں جان دوں گی نہ دوں گی پر آبرو اپنی زیاد: رشیدہ مجھے جبر کے لیے مجبور نہ کرو۔ اگر شوہر کے سوا دوسرے مرد کو پیار کرنا گناہ بھی ہے تو اس گناہ کو اس اکیلے گھر میں کوئی نہیں دیکھتا ہے۔ رشیدہ: ضرور دیکھتا ہے۔ زیاد: کون؟ رشیدہ: وہی جو ہر جگہ حاضر و ناظر رہتا ہے۔ قیامت میں کرے گا کس طرح اس سے دوچار آنکھیں تری ہیں صرف دو لیکن خدا کی ہیں ہزار آنکھیں زیاد: خوب تو پھر اچھا وہی ہونے دے جو تیرا ارادہ ہے مجھے بھی دیکھنا ہے اب کہ کس کی ضد زیادہ ہے (مقابلہ ۔ جنگ میں زیاد کی شکست) (ٹیبلو) ڈراپ سین ٭٭٭ باب تیسرا منظر پہلا محل گانا سب کا: شیروں میں شیر سب میں دلیر دنیا میں وہی مردانہ جو کھیل جانے مر جانا یوں تیغ چمکے جھوم جھوم کے میدان جنگ میں جانا جیسے کوئی مستانہ شیر ببر غصہ میں گرجے جیسے بن میں یونہی جھنکار ہورن میں خنجر چمکے دشمن میں کانپیں دل گھائل ہو تن میں چوڑی عورت کا گہنا تلوار مرد کا بانا شیروں میں شیر۔۔۔۔ سپاہی:(انور سے) جناب والا! ایک نوجوان شریف لڑکی جس کا مسکن قسطنطنیہ اور نام لیلیٰ ہے، آپ کی خدمت میں باریابی کی اجازت چاہتی ہے۔ انور: لیلیٰ اور اتنی دور کا سفر۔ اسے یہاں کوئی ضرورت لائی ہے۔ یا میرا خیال۔ اچھا آنے دو (سپاہی کا جا کر لیلیٰ کو لانا) حسن، نیکی، عصمت اور خود داری، ان چاروں کو الگ الگ نام سے پکارنے کے بدلے اگر ایک نام سے پکارنا ہو تو وہ نام صرف لیلیٰ ہے کتنی شریف اور کتنی دلفریب۔ (لیلیٰ کا آنا) لیلیٰ: میرے محسن! اپنی ادنیٰ کنیز کا نیازمندانہ سلام قبول کیجئے۔ انور: نیک لیلیٰ! خوش آمدید۔ کہو میری کس خدمت کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے تم نے تن تنہا اتنے بڑے سفر کی زحمت گوارا کی۔ لیلیٰ: شوہر کی فکر اور رات دن کی محنت سے بدنصیب رشیدہ کے چہرے کی تازگی اور دل کی خوشی تو مدت سے ختم ہو چکی۔ اب اس کی تندرستی بھی ایک ایک قدم پر قبر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس لیے میں یہ کہنے آئی ہوں کہ اگر آپ کے دل میں بہن کی محبت اور اس کی مصیبت کے لیے رحم موجود ہے تو ایک مرتبہ پھر سمجھا بجھا کر گھر لے جانے کی کوشش کیجئے اور اس غریب کو قبل از وقت موت سے بچا لیجئے۔ انور: وہ شوہر کی محبت میں پاگل ہو رہی ہے، میں اسے لاکھ سمجھاؤں لیکن پہاڑ سے گرتے ہوئے پانی کی چادر کی طرح اپنے راستے سے کبھی واپس نہیں لوٹے گی۔ لیلیٰ: درخت انسان لگاتا ہے اور ہوا، پانی، روشنی کے ذریعے سے اس میں پھل پھول خدا پیدا کرتا ہے۔ آپ کوشش کیجئے نتیجے کو اس کار ساز پر چھوڑ دیجئے۔ انور: سورج کا زمین کے گرد گھومنا ممکن ہے لیکن بہن رشیدہ کے خیال کا بدلنا ناممکن ہے۔ پھر بھی تم امید بندھاتی ہو تو اچھا ایک بار اور کوشش کروں گا۔ لیلیٰ: لیکن کب۔ کس دن۔ کیا گھر جل چکنے کے بعد پانی لے کر پہنچنے کی کوشش کیجئے گا۔ اگر اپنے فرض کا احساس ہے تو آپ کو آج ہی سب سے پہلے ٹرین میں میرے ساتھ استنبول روانہ ہو جانا چاہیے۔ انور: بہتر ہے میں آج ہی روانگی کا انتظام کروں گا۔ کوئی ہے؟ (سپاہی کا آنا) میں آج ہی وطن جاؤں گا۔ اگر میری بہن رشیدہ کی طرف سے کوئی مدد مانگنے آئے تو خیال رکھنا۔۔۔۔ اچھا میں آج ہی چلوں مگر ایک شرط سے۔ لیلیٰ: شرط۔ وہ کیا ہے؟ انور: تم نے یہاں تک آنے میں جو تکلیف برداشت کی ہے، میں اس کے شکریہ میں تمہیں ایک ناچیز تحفہ نذر کرنا چاہتا ہوں۔ قول دو کہ میں وہ تحفہ قبول کروں گی۔ لیلیٰ: بڑی خوشی اور فخر کے ساتھ۔ انور: تو میں سچائی، وفاداری اور محبت سے بھرا ہوا دل پیش کرتا ہوں۔ کہو میری زندگی کے ساتھی میں نے قبول کیا۔ سر جھکا کر چپ کیوں ہو گئیں۔ لیلیٰ: دنیا میں نیکی و محبت کی قدر نہیں۔ خاندان، خطاب اور دولت کس قدر ہے۔ جب میرے اور آپ کے درمیان امیری اور غریبی کے دو سمندر موجیں ما ررہے ہیں۔ تب ہم اس زندگی میں کس طرح ایک ہو سکتے ہیں؟ انور: شادی کے پاک رشتے سے بندھ کر اس طرح ۔ (ہاتھ پکڑنا) گانا دونوں: میرے جیون ادھاران چرنن پہ نثار چھین لیو من جادو ڈار کے چتون من ہر گئی سدھ بدھ بسر گئی چندر مکھ نہار کے من میں تمرو پریم بست ہے نینن میں چھب نیاری رسیلی پیاری پریم پیالہ پی گئی میں، ہو گئی متواری ساجن باندھ لیو بندھن میں پیار کے مورے جیون۔۔۔۔ ٭٭٭ باب تیسرا منظر دوسرا قید خانہ قیدی نمبر۱: دوست! کیا یہ بات سچ ہے کہ تم اڑتالیس گھنٹے کے بعد پھر سے اڑ کر جیل کا پنجرا خالی کر دو گے۔ ایاز: ہاں دوست! میں صرف چھ مہینے کے لیے جیل کی مٹی ملی ہوئی روٹی اور پانی سے بگھاری ہوئی بے نمک کی بھاجی کھانے آیا تھا۔ دو دن اور رہ گئے ہیں۔ اگر کل رات تک میاں ملک الموت نے کوٹھڑی کی چھت سے چھاتی پر کود کر سوتے میں گلا نہ دبا لیا تو پرسوں اپنا کمبل اور تھالی کسی نئے مہمان کے لیے چھوڑ کر اس سرکاری مسافر خانے سے رخصت ہو جاؤں گا۔ قیدی نمبر۲: چھ ہی مہینے رہنا تھا تو جیل میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔ تم تو گویا جیل خانے کا نمک چکھنے کے لیے آئے تھے۔ ایاز: تو کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اسی طرح جیل میں پڑا رہوں۔ جیسے لوگوں کا دل گھوڑ دوڑ کی ٹپ میں پڑا رہتا ہے۔ قیدی نمبر۱: وہ دیکھنا سامنے سے کوئی نیا قیدی ا رہا ہے۔ قیدی نمبر۲: چلو جیل کی برادری میں ایک اور ممبر بڑھا۔ (غانم اور جیلر کا آنا) غانم: تمام دوستوں کو آداب عرض ہے۔ ایاز: یہ کون غانم؟ مسٹر شیطان کے ایڈی کانگ۔ آیئے آیئے۔ نئے تماشے کے اشتہار کی طرح ہم تو آپ کے آنے کا راستہ ہی دیکھ رہے تھے۔ جیلر: دیکھو نمبردار! اسے چکی خانے میں لے جاؤ۔ یہ بہت دبلا پتلا آدمی ہے۔ اس لیے ڈاکٹر صاحب نے ازراہ کرم حکم دیا ہے کہ اس سے بائیس سیر گیہوں روز پسوایا جائے تاکہ بیمار نہ ہو جائے۔ ایاز: جمعدار صاحب اسے چکی کے عوض کولہو پر دے دیجئے، کیونکہ اس نے جیل کے باہر بہتوں کی دولت کا تیل نکالا ہے۔ یہاں گھانی میں اس کا تیل نکلنا چاہیے۔ جیلر: دیکھو یہ نیا آدمی ہے۔ خوش قسمتی سے پہلی مرتبہ جیل میں آیا ہے۔ غانم: پہلی مرتبہ نہیں چوتھی مرتبہ آیا ہوں۔ جیلر: اگر پاؤ آدھ پاؤ کم پیسے تو سختی نہ کرنا۔ ایاز: ہاں میں بھی یہی صلاح دیتا ہوں۔ کام برابر نہ کرے تو بہت نرمی سے دس پانچ گالیاں دینا اور نہایت مہربانی کے ساتھ دس بیس لاتیں اور سو دو سو گھونسے لگا دینا۔ بس اتنا کافی ہے۔ جیلر: ٹھیک ہے۔ بہت ٹھیک رائے دے رہا ہے۔ ایاز: جمعدار صاحب! لوگ دنیا میں ننگے پیدا ہوئے ہیں، لیکن یہ تو ماں کے پیٹ ہی سے شرافت کا کوٹ پہنے پیدا ہوئے ہیں۔ پھر یہ دس نمبر کے حلال زادے جیل میں کیسے آئے؟ جیلر: ناظم نامی ایک بگڑے ہوئے رئیس نے کسی بے وفائی پر جل کے شمیم طوائف کی ناک کاٹ ڈالی اور اس نے نکٹی رنڈی کا بدلہ لینے کے لیے دانت سے ناظم کی ناک کا صفایا کر دیا۔ ان ہی دو ناکوں کے بدلے میں اسے کان پکڑ کر دو برس کے لیے جیل بھیجا گیا ہے۔ غانم: جمعدار صاحب! آپ جانتے ہیں چار آدمی ہیں۔ مہربانی کر کے تاش بھیج دینا۔ قیدی نمبر۱: دیکھو سکندر، نپولین دنیا میں بڑے بڑے بہادر گذرے ہیں مگر تم ان سب سے زیادہ بہادر ہو، کیونکہ انہوں نے اپنے دشمنوں کا سر کاٹا ہے اور تم نے ناک کاٹی ہے۔ بہادر قیدی! میں تمہیں جیل میں آنے کی مبارکباد دیتا ہوں۔ ایاز: تمہارے آنے سے اندھیری جیل میں روشنی ہو گئی ہے، لیکن بڑھاپے میں بے چارے شیطان کی کمر ٹوٹ گئی۔ وہ تو یہ سمجھتا ہو گا کہ آج میرا پالا پوسا اکلوتا بیٹا مر گیا۔ غانم: افسوس جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ گناہ کے بیج سے ہمیشہ بربادی اور ذلت ہی اگتی ہے۔ بے اصول زندگی، یار ماری اور رنڈی کی دوستی کا یہی نتیجہ ہے۔ ایاز: عالی جناب جیل میں تشریف لانے کا رنج نہ کیجئے۔ اگر اس لمبی ناک پر آنسوؤں کی بوند دکھائی دے گی تو لوگ کہیں گے کہ جاپانی کتے کی دم میں کیچڑ لگی ہوئی ہے۔ غانم: ابے تو آدمی ہے یا پتھر۔ پہلے مجھے دیکھ کر مسکراتا بھی نہ تھا اور آج بیتسی نکال کر میری مصیبت پر ہنستا ہے۔ ایاز: تو مسٹر رحم دل! کیا آپ دوسروں کی مصیبت پر رویا کرتے تھے۔ بیٹا اب قسمت کے اڑنگے میں آئے ہو۔ دو برس کے اندر قیدیوں کے ہاتھ سے جوتے کھاتے کھاتے کھوپڑی آٹا چھاننے کی چھلنی بن جائے گی۔ قیدی نمبر۲: چکی بیگم بلائیں لینے کے لیے یاد کر رہی ہیں۔ چلو! بڑھو۔ غانم: او میرے باپ دادا کے پرانے اللہ میاں! یہ دو برس کیسے کٹیں گے؟ ایاز: چکی پیستے اور بھنگی کے ہاتھ سے جھاڑو کھاتے! (سب کا جانا) ٭٭٭ باب تیسرا منظر تیسرا معمولی سا مکان رشیدہ: پہلے سر میں درد ہوا پھر بخار آنے لگا اور اب دھیمی دھیمی کھانسی بھی شروع ہو گئی ہے۔ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے دو قدم چلنا، دو کوس کی مسافرت معلوم ہوتی ہے۔ پانی کی لہر کی طرح ہمت کر کے اٹھتی ہوں اور دو ہی منٹ میں بے دم ہو کر گر پڑتی ہوں۔ (عارف کا آنا) عارف: لالچی۔ خود غرض۔ مجھے وہم بھی نہ تھا کہ طوطے کی طرح آنکھیں، صاف جواب دے دے گا۔ رشیدہ: کس پر نا راض ہو رہے ہیں۔۔۔۔ کہاں گئے تھے؟ عارف: کلال سے شراب ادھار مانگنے کو گیا تھا، لیکن اس پاجی نے کہا کہ قرض دینے سے روپیہ بھی جاتا ہے اور دوستی بھی۔ نقد لاؤ میں ادھار نہیں دوں گا۔ رشیدہ: جب تم ادھار شراب مانگنے کے لیے گھر سے نکلے، اس وقت تمہیں یہ خیال نہ آیا کہ اپنے کو ذلیل کرنے جا رہا ہوں۔ عارف: اس میں ذلت کی کون سی بات تھی۔ شراب والے سے شراب ادھار مانگنے گیا تھا۔ اس کے پاس بھیک مانگنے نہیں گیا تھا۔ رشیدہ: ادھار اور بھیک میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ دونوں حالتوں میں مسکین صورت بنا کر دوسروں کے سامنے گڑگڑانا اور ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ چھوڑ دو! چھوڑ دو! میرے پیارے اب بھی انسان کو حیوان اور آباد گھر کو ویران کرنے والی شراب چھوڑ دو۔ دیکھو بیویاں اپنے شوہروں سے آرام مانگتی ہیں۔ کپڑے مانگتی ہیں۔ زیور مانگتی ہیں، لیکن میں نے بیاہ کے دن سے اب تک تمہارے پیار کے سوا اور کچھ نہیں مانگا۔ آج ان قدموں پر بیٹھ کر اور دامن پھیلا کر تم سے شراب چھوڑ دینے کی بھیک مانگتی ہوں۔ کہو۔ کہو۔ کیا تم اس بھکارن رشیدہ کو یہ بھیک نہ دو گے؟ عارف:ـ رشیدہ اٹھو! میں بچہ جاہل یا پاگل نہیں ہوں۔ سب سمجھتا ہوں، لیکن کیا کروں۔ اتنا آگے بڑھ گیا ہوں کہ پیچھے لوٹنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ اف کتنا درد، سر پھٹا جا رہا ہے کیا تمہارے پاس چار آنے پیسے بھی نہیں ہیں۔ رشیدہ: میں نے تمہاری قسم کھائی۔ پھر بھی اعتبار نہیں آتا۔ چار آنے پیسے تو کیا دنیا کی بادشاہت کے لیے بھی تمہاری جھوٹی قسم نہ کھاؤں گی۔ عارف: یہ ہمیشہ تکیہ کے نیچے پیسے رکھا کرتی ہے۔۔۔۔ دیکھوں شاید بھول میں کچھ آنے پڑے رہ گئے ہوں۔۔۔۔۔ یہ کیا پانچ سو کا نوٹ۔ جس محتاج عورت کو تن ڈھانگنے بھر کپڑے اور پیٹ بھر اناج کا سہارا نہیں، اس کے پاس اتنے روپے کہاں سے آئے؟ سمجھ گیا نیکی کا ملمع اڑ کر بے وفا دل کا کھوٹ ظاہر ہو گیا۔ دولت۔ دولت۔ آج میں نے مان لیا کہ جس طرح تو سونے چاندی سے بازاری عورتوں کی عصمت مول لے سکتی ہے، اسی طرح گھر کی چار دیواری میں رہنے والی بیویوں کی پارسائی بھی خرید سکتی ہے۔ رشیدہ: سر کا درد بڑھ جائے گا۔ دماغ کو آرام دو۔۔۔۔ اتنا کیا سوچ رہے ہو؟ عارف: سوچ رہا ہوں کہ اندھیرے میں چھری مارنے والے دشمن اور پارسا بن کر بے وفائی کرنے والی بیوی دونوں میں سے کون زیادہ قاتل ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ شیطان کی روح اور عورت کا دل دونوں میں سے کون زیادہ ناپاک ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ عارف کی بیوی رشیدہ اور بازار کی بیسوا دونوں میں سے کون زیادہ کمینی ہے۔ رشیدہ: یہ کیا بے انتہا نشے اور حد سے گذرے ہوئے غصے میں بھی جس زبان سے کبھی تو کہہ کر نہیں پکارا، آج اسی زبان سے رشیدہ کے لیے گالی نکل رہی ہے۔ کیا مجھ سے محبت میں کوئی کمی یا ایک شریف عورت اور شریف بیوی کا فرض ادا کرنے میں کوئی قصور ہوا ہے۔ عارف: چاند کی پوری روشنی اندھیری رات میں۔ عورت او ربیوی کی خوبیاں مفلسی میں ظاہر ہوتی ہیں، جو دکھ کے وقت طوفان میں چٹان کی طرح نیکی پر قائم نہیں رہتی، اسے اپنے کو عورت اور بیوی کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ قصور مجھ سے پوچھتی ہے۔ مجھ سے نہیں اپنے بے وفا دل سے پوچھ اور دل دوسرے کے پاس ہو تو اس کے دیئے ہوئے اس نوٹ سے پوچھ۔ رشیدہ: یا خدا! یہ تو میرے بھائی انور کا نوٹ۔۔۔۔ جو خوف تھا وہی ہوا۔ عارف: تو تو گلے میں باہیں ڈال کر اور میری قسم کھا کر کہتی ہے کہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ پھر پانچ سو کا نوٹ کہاں سے آیا؟ چپ کیوں ہو گئی ہو۔ جواب دے۔ رشیدہ: میرے پیارے وہم نہ کرو۔ یہ نوٹ میرے بار بار۔۔۔۔ عارف: بہانہ نہ بنا۔ گھر، سکھ، دولت سب کچھ کھو دینے کے بعد میرے پاس صرف بیوی کا پیار رہ گیا تھا، آج تو نے وہ پیار بھی دوسرے کو دے کر مجھے پوری طرح کنگال کر دیا۔ بے حیا فاحشہ، جس دل میں تو نے غیر مرد کی محبت کو جگہ دی ہے، اس دل میں میری چھری کو بھی جگہ دینی ہو گی۔ شرم اور عصمت مر گئی۔ تو تو بھی مر! (عارف رشیدہ کے چھری مارتا ہے) رشیدہ: او خدا! (گر پڑتی ہے) (انور اور لیلیٰ کا آنا) انور: میرے خدا میں کیا دیکھتا ہوں۔ یہ کیا، خون، قتل۔ لیلیٰ: رشیدہ! رشیدہ!! آہ کچھ نہیں۔ مار ڈالا۔ ظالم شرابی شیطان نے دنیا کی حور کو مار ڈالا۔ انور: بے رحم۔ وحشی۔ حیوان! یہ کیا کیا۔ا س خون کی قیمت تجھے اپنے خون سے ادا کرنی ہو گی۔ بلا رہی ہے جہنم کی راہ صاف تجھے خدا کی مار جو اب میں کروں معاف تجھے لیلیٰ: معافی۔ اس سنگ دل کو معافی۔ اس کو معاف کرنا دنیا کے بے رحم شوہروں کو غریب بیویوں پر ظلم کی تعلیم دینا ہے۔ میں ابھی پولیس کو بلا کر لاتی ہوں۔ اس کے رہنے کی جگہ عورت کا دل نہیں، پھانسی کی کوٹھڑی ہے۔ (جانا) انور: بول! خونی بول!! جھک کے ان قدموں پہ جیتے جی نہ جس کا سر اٹھا کس طرح اس با وفا کے قتل پر خنجر اٹھا زندگی کے سارے سکھ ملتے تھے جس کی چھاؤں میں تو نے اس نخل وفا کو روند ڈالا پاؤں میں عارف: با وفا بیوی! شوہر کے غریب ہو جانے پر اپنے لیے امیر عاشق تلاش نہیں کرتی۔ عورت اپنی آبرو جو شوہر کی امانت ہے، روپے لے کر غیر مرد کو نہیں دے دیتی۔ انور: تو کیا اس نے ایسا کیا؟ عارف: ہاں۔ انور: ثبوت؟ عارف: یہ پانچ سو کا نوٹ۔ انور: جلد باز احمق! یہ تو خرچ کی تکلیف دیکھ کر میں زبردستی اس کو دے گیا تھا۔ یقین نہ ہو تو نوٹ کی پشت پر دیکھ! میرا نام بھی لکھا ہوا ہے۔ لہو رو کر خدا سے شکوۂ بیداد کرتے ہیں کھلے ہیں زخم کے منہ سن کہ کیا فریاد کرتے ہیں (پولیس افسر، لیلیٰ اور سپاہیوں کا آنا) لیلیٰ: وہ رہا قاتل! یہ دیکھو اسی چھری سے خون ہوا ہے۔ افسر: مقول، گواہ، ثبوت سب موجود ہیں۔ مجرم کو ہتھکڑی لگاؤ۔ انور: دیکھئے، دیکھئے، اس ناشکرے انسان کو دیکھئے۔ اس سونے کی پتلی نے جو زمین پر ٹوٹی ہوئی پڑی ہے، امیر باپ کی بیٹی ہو کر شوہر کے لیے فقیری اختیار کی۔ زندگی اور جوانی کے سکھ چھوڑے۔ فاقے کیے، چکیاں پیسیں اور اس شریف نما کمینے نے اس کی محبت اور خدمت کا یہ بدلہ دیا۔ بناوٹ کی جلا دیدی ہے شیشے کے نگینے میں وگرنہ شرم ہے دل میں نہ ہے دل اس کے سینے میں افسر: لے چلو۔ عارف: لے چلو۔ دولت۔ عزت اور بیوی کے قاتل کو پھانسی کے تختے پر لے چلو۔ یہ اپنے واسطے خود موت کا پیغام ہوتا ہے اک احمق اور شرابی کا یہی انجام ہوتا ہے لیلیٰ: دیکھو، دیکھو یہ ہوش میں آ رہی ہے۔ رشیدہ: معاف کرو، میرے پیارے معاف کرو۔ انور: رشیدہ! رشیدہ!! رشیدہ: یہ گھر میں پولیس کیسی۔ ارے یہ کیا۔ انہیں کیوں گرفتار کیا ہے؟ افسر: خون کے جرم میں، اگر تم بچ گئیں تو بھی اسے سخت سے سخت سزا ملے گی۔ رشیدہ: سزا ملے گی میرے سرتاج کو۔ میرے سہاگ کے مالک کو، کیوں؟ کس لیے؟ افسر: اس لیے کہ اس نے جان لینے کے ارادے سے تمہیں چھری ماری ہے۔ رشیدہ: چھری ماری ہے انہوں نے۔ کس وقت؟ کس نے دیکھا۔ نہیں، جھوٹ ہے۔ انہوں نے مجھے چھری نہیں ماری۔ انور: بہن! بہن!! کیا کہہ رہی ہو۔ کیا ابھی تک محبت کا پاگل پن نہیں گیا۔ افسر: اگر ملزم نے چھری سے وار نہیں کیا تو پھر تم کس طرح گھائل ہو ئیں؟ رشیدہ: بیماری اور کمزوری کی وجہ سے مجھے چکر آ گیا تھا۔ چھری زمین پر پڑی ہوئی تھی، اس کے اوپر گری، زخمی ہو گئی۔ انور: آپ اس کی بات کا یقین نہ کیجئے۔ یہ وفاداری کے جوش میں شوہر کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بول رہی ہے۔ افسر: میں بھی سمجھتا ہوں مگر کچھ نہیں کر سکتا۔ ہتھکڑی کھول دو۔ جیسے شیشے کا فانوس آندھی میں چراغ کو بجھنے نہیں دیتا، ویسے ہی وفادار بیوی کی محبت شوہر پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔ مبارک ہے وہ ملک جو اس بدکاری اور آزادی کے زمانے میں نیکی اور عصمت کے پھولوں سے مہک رہا ہے اور مبارک ہیں وہ مائیں جن کی کوکھ سے ایسی شریف اور نیک لڑکیان جنم لیتی ہیں۔ (سپاہیوں کا جانا) انور: دیکھ! دیکھ!! اپنے ظلم اور اس کی محبت کو دیکھ۔ تو نہیں سنتا کسی کی تھک گئے سب بول کر حال و ماضی پر نظر کر اب بھی آنکھیں کھول کر عارف: کھل گئیں، میری بند آنکھیں کھل گئیں۔ اے دولت اور تندرستی کی دشمن۔ اے ذلت اور بربادی کی جڑ۔ اے دنیا کی آدھی سے زیادہ مصیبتوں کی تنہا سبب، دو ہو۔ میرے دل اور میرے گھر سے ہمیشہ کے لیے دور ہو۔ معاف کر میری حور! اپنے گنہگار شوہر کو معاف کر! (ٹیبلہ) ٭٭٭ باب تیسرا منظر چوتھا زیاد بے کا محل زیاد: شیر جب تک گولی کھا کر گر نہ پڑے، شکار کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ چالاک اور دلیر رشیدہ میری غلطی سے مجھے زخمی کر کے اپنی عصمت بچا لے گئی، لیکن کب تک بچے گی۔ جب میں سائے کی طرح اس کے ساتھ ہوں۔ تو اب مجھ سے کہاں تک بھاگے گی۔ طارق: میں نے آپ کے حکم کے مطابق آٹھ وفادار بہادر چن لیے، اگر ان آٹھ کے مقابلے میں اٹھائیس آدمی بھی تلوار لے کر بچاؤ کے لیے کھڑے ہوں گے تو یہ ان سب کی گردنیں توڑ کے رشیدہ کو زبردستی گھر سے اٹھا لائیں گے۔ زیاد: یہ کام آج ہی ہونا چاہیے۔ طارق: آج ہی ہو گا۔ ہم صرف رات کے اندھیرے اور سناٹے کا انتظار کر رہے ہیں۔ زیاد: تو جاؤ اپنے دل کو ہمت سے گرم اور اپنی تلواروں کو مقابلے کے لیے تیز رکھو۔ اگر تم رشیدہ کو اٹھا لائے تو میں تمہارے سر پر انعام کی بارش کر دوں گا او رنہ لا سکے تو تمہارے سروں کو بوٹ کی ٹھوکروں سے توڑ دوں گا۔ (سب کا جانا) ٭٭٭ باب تیسرا منظر پانچواں محل رشیدہ رشیدہ: ابا جان تین مہینے سے بیماری کے بستر پر پڑے ہوئے ہیں اور انور نے ان کے سخت بیمار ہونے کا حال آج ظاہر کیا۔ عارف: تمہارے والد نے محبت سے تمہیں یاد کیا ہے تو میں تمہیں ساتھ لے کر خوشی سے چلنے کو راضی ہوں، لیکن وہ روپے پیسے سے مدد کریں گے تو میں شکریہ کے ساتھ واپس کر دوں گا، کیونکہ میں اپنی کھوئی ہوئی دولت اپنی محنت اور کوشش سے دوبارہ پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مفت میں ملی ہوئی دولت آدمی کو نکما اور اپاہج بنا دیتی ہے۔ انسان جس دولت کو اپنی محنت سے پیدا کرتا ہے، اس دولت کی قدر بھی کرتا ہے۔ (ایاز کا آنا) ایاز: اگر تم دولت کی قدر کرنا سیکھ گئے تو اب دولت ناراض ہو کر کبھی تمہارا ساتھ نہ چھوڑے گی۔ رشیدہ: یہ کون ایاز۔ وفا کا فرشتہ ایاز؟ ایاز: میری بچی! چکی کا شور اور بیڑیوں کی جھنکار میں بھی تمہارے یہی محبت بھرے لفظ تسلی کی آوازیں بن کر میرے دل کی ڈھارس بندھاتے تھے۔ میں قید سے رہا ہو گیا ہوں مگر تمہاری نمک خواری اور غلامی کی قید سے رہا نہیں ہوا ہوں۔ عارف: آنکھیں چار کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ایاز! شراب کے نشے میں غصے میں جو غلطی ہوئی ہے، میں اس کے لیے نادم ہوں۔ معافی کے لائق نہیں۔ پھر بھی معاف کر دو۔ ایاز: میرے آقا! معافی کے لفظ سے اپنے گھر کے غلام کو شرمندہ نہ کیجئے۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد راستے میں آپ کے شراب چھوڑ دینے اور نیک زندگی اختیار کرنے کا حال سن کر مجھے جو خوشی حاصل ہوئی، اس خوشی اور آپ کی بہتری کے لیے میں ایک نہیں، تین ہزار مرتبہ اور جیل جانے کے لیے تیار ہوں عارف: ایاز! دنیا میں بدنصیب وہ ہے جس کو غلطیوں میں گرا ہوا دیکھ کر کوئی بھی نصیحت نہیں کرتا او راس سے زیادہ بدنصیب وہ آدمی ہے جو نصیحت سن کر اس پر عمل نہیں کرتا۔ اگر میں تمہاری نصیحت سنتا تو آج یہ حالت کبھی نہ ہوتی۔ ایاز: غانم کی بری صحبت اور شراب کی بدولت زندگی بسر کرنے کے لیے آج آپ کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ اسی دن کے لیے میں نے دنیا کی بدنامی اور جیل کی مصیبت سے بے پرواہ ہو کر آپ کی تجوری سے پچیس ہزار کے نوٹ نکال کے زمین میں چھپا دیئے تھے۔ آپ نے مجھے چور سمجھا، لیکن میں چور نہیں تھا۔ا ٓپ کا خیر خواہ تھا۔ آپ کے پچیس ہزار کے نوٹ میرے پاس امانت کے طور پر موجود ہیں۔ لیجئے یہ ہیں آپ کے روپے۔ (نوٹ دیتا ہے) عارف: کیسا کیسا عجیب انسان۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایاز: اب اس روپے سے کنگالی کو خوشحالی میں بدلنے کے لیے دیانت اور محنت کے ساتھ کوئی روزگار شروع کیجئے اور میری اس نصیحت کو جو ہمیشہ دیتا آیا ہوں ۔ یاد رکھئے۔ گانا ایاز: دنیا میں جب دھن پانا کل کے لیے بچانا دولت بھی ہے اک کھیتی جو بوئے اسے پھل دیتی رکھ دھن جو ہو پھل کھانا برے دن میں نہ بھائی اور جایا کام آتا ہے فقط اپنا کمایا اور بچایا کام آتا ہے سبھی ہنستے ہوئے ملتے ہیں جب تک چار پیسے ہیں نہ پوچھے گا کوئی بھی مفلسی میں آپ کیسے ہیں مطلب کا یار زمانہ کل کے لیے بچانا نہیں رہتی ہے پچھلی بھی ندی جب سوکھ جاتی ہے جو دولت ہے تو تم دولہا ہو اور دنیا براتی ہے جو کل سے بے خبر ہو کر نہیں آج آپے میں! وہ در در بھیک مانگے گا غریبی اور بڑھاپے میں مت دولت مفت گنوانا کل کے لیے بچانا جہاں سکھ تھا وہاں لالے پڑے ہیں زندگانی کے ہزاروں گاؤں اور گھر بہہ گئے ریلے میں پانی کے جو تم دولت اڑاتے ہو اگر اس میں کمانا ہے تو دو ان کو کہ جن کے پاس کپڑا ہے نہ کھانا ہے نہیں دولت مفت گنوانا کل کے لیے بچانا (جانا) (رشیدہ کا آنا) رشیدہ: قسمت کے کھیل بھی عجیب ہیں۔ یہ جب بگڑتی ہے تو خوشی کے باغ کا سارا سنگار چھین لیتی ہے اور جب مہربان ہوتی ہے تو مرجھائی ہوئی زندگی کو راحت کے پھولوں سے بھر دیتی ہے۔ (عارف اور ایاز کا آنا) (طارق اور طارق کے آدمیوں کا آنا) طارق: وہ کھڑی ہے، اٹھا لے چلو۔ رشیدہ: یہ کیا۔ تم کون؟ ایاز! ایاز! عارف! طارق: چپ۔ رشیدہ: چھوڑ دو۔ بزدل کمینو مجھے چھوڑ دو۔ طارق: تیری طرف سے طارق کے ساتھ کون لڑے گا؟ رشیدہ: میری ہمت طارق: کون بچائے گا؟ رشیدہ: میرا خدا۔ طارق: اچھا معلوم ہو جائے گا۔ رشیدہ: میں کبھی نہ جاؤں گی۔ طارق: تجھے جانا ہو گا اور اس طرح جانا ہو گا۔ (مقابلہ، کش مکش کے بعد بدمعاش رشیدہ کو اٹھا کر لے جاتے ہیں) ٭٭٭ باب تیسرا منظر چھٹا محل طارق زیاد: گلاب کی پنکھڑی جیسی نازک اور برگد کے درخت کی طرح مضبوط۔ جتنی خوبصورت اتنی ہی بہادر۔ اس دن میرا مقابلہ کر کے رشیدہ نے ثابت کر دیا کہ عورت کے سینے میں بھی شیر کا دل ہوتا ہے۔ (طارق کا آنا) شکست یا فتح۔ طارق: جب حضور کا اقبال ساتھ ہے تب ہمیشہ فتح ہو گی۔ زیاد: تو رشیدہ کے گھر میں ڈاکہ ڈال کر حسن کی دولت کو اٹھا لائے۔ طارق: جی ہاں۔ ضرور رشیدہ ہمارے قبضے میں ہے۔ کیا حکم ہے؟ زیاد: میں اس کے حسن کی پوری بہار دیکھنا چاہتا ہوں۔ کنیزوں سے کہو اسے غریب لباس کے بدلے زیور اور موتیوں سے جمگمگ کرتی ہوئی بیش قیمت امیرانہ پوشاک پہنا کر اسے عورت سے پری بنائیں۔ میں وہیں پر آتا ہوں۔ (طارق کا آنا) رشیدہ! مغرور رشیدہ!!آخر تو دوبارہ میرے قبضے میں آئی۔ (رشیدہ کو کنیزیں پوشاک پہناتی ہوئی لا رہی ہیں) رشیدہ: دیکھو! دیکھو! مجھے نہ ستاؤ۔ میں سنگار نہیں کروں گی۔ زیاد: خوش آمدید بانو صاحبہ! رشیدہ: خبردار! مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ انور: خبردار۔ بدمعاش۔ عورت پر ظلم! زیاد: بس زندگی کا خاتمہ سمجھ۔ میری پیاسی چھری تیرا خون پئے گی۔ انور: میرا خون تیری چھری کے لیے نہیں، لڑائی کے میدان میں اپنے ملک اور قوم کی خدمت پر بہانے کے لیے ہے۔ زیاد: تجھے مرنا ہو گا۔ انور: بہادر نامرد کی چھری سے نہیں مرتے۔ زیاد: تب روک وار۔ (لڑائی) (رشیدہ اور انور کا زخمی ہونا۔ انور کی تلوار سے زیاد کی ناپاک زندگی کا خاتمہ، رشیدہ کی نجات) ٭٭٭ باب تیسرا منظر ساتواں عارف کا مکان (سب مصاحب وغیرہ اور فوج، رشیدہ، انور، لیلیٰ کا آنا) گانا اور ناچ ہاں ساقی میخانہ بھر دے مرا پیمانہ بدمست گھٹا ہے یا اڑتا ہوا میخانہ ہوتی ہیں شب غم میں یوں دل سے مرے باتیں جس طرح سے سمجھائے دیوانے کو دیوانہ کیا تم نے کہا دل سے کیا دل نے کہا مجھ سے بیٹھو تو سناؤں میں اک روز یہ افسانہ مطرب سے یہ کہتا ہے حشر اپنی غزل سن کر ہے میری جوانی کا بھولا ہوا افسانہ رشیدہ: میرے نیک فیاض بہادر بھائی! تم نے دنیا کے رنگا رنگ جواہر میں سے عورت کی بے لوث محبت اور نیکی کو انتخاب کیا ہے اور میری شریف بہن! تم نے انسانوں میں بہترین انسان کو اپنی قسمت کا مالک بنانا پسند کیا ہے۔ خدا تمہاری پسند کو برکت دے اور تم دونوں ایک دوسرے کے لیے مبارک ہو۔ (انور اور لیلیٰ کا ہاتھ ملا دیتی ہے) آمین! آمین!! گانا اور ناچ سہیلیاں: پیا بن بیت چلی دے جوانی قدر نہیں جانی کہوں میں کیسے پریم کہانی رسیلے متوارے سینا، چھن گئے چینا درشن بن تڑپت نینا، ناہیں کٹت رینا برہا بان لاگے اے ری دئی ان بن بھائے نہیں، سیجیا سوہائے نہیں چھائے من ہر، سو تن کے گھر پریت کی دیکھو دئی ریت نئی نیہاں لگا کے بھئی نادانی پیا بن بیت چلی ۔۔۔۔۔ ڈراپ سین ٭٭٭ ٹھنڈی آگ ایکٹ پہلا منظر پہلا سہیلیوں کا گاتے ہوئے نظر آنا ہے ہے ہے تو رب سائیں۔ نسدن تموردھیان دھرت ہیں کرم کریں پورن کرو آشا موری، قدرت توری نیاری۔ کیسی پیاری کھلی پھلواری۔ متواری کیاری کیاری۔ سیاری سب گل مہک رہے ہیں۔ بلبل چہک رہے ہیں۔ کوئیل کرت پھرت کو کو۔ تمری شرن سے تان لیت ہیں، تنانا توم، تنانا توم۔ تنانا توم۔ کڑنگ کٹ دھا۔ کڑنگ کٹ دھا۔ کڑنگ کٹ دھا۔ ہے ہے تو رب سائیں۔ ایکٹ پہلا منظر دوسرا شہنواز کا سلجوق کو خطاب کرنا شہنواز: کیوں سلجوق! کچھ دماغ ٹھکانے آیا۔ اوہو! نہ میری تعظیم۔ تعظیم تو ایک طرف، سوال تک کان پر اڑایا۔ سلجوق: میں آپ کے مرتبے اور عہدے کے آگے سر جھکاتا ہوں۔ شہنواز: اور میرے آگے۔ سلجوق: نہیں۔ شہنواز: کیوں؟ سلجوق:ـ آپ کی آنکھیں ایسے غریب اور کنگال سر کا جھکنا نہیں دیکھ سکیں گی۔ شہنواز: اچھا ادھر آؤ اور اچھی طرح سمجھو۔ ہم تمہیں پانی کے قطرہ سے گوہر بناتے ہیں۔ سلجوق: جی ہاں! آپ میرے کلیجے میں سوراخ کرنے کی تدبیر فرماتے ہیں۔ شہنواز: اگر تمہاری لڑکی گھڑی دو گھڑی کے لیے شہزادہ کے پاس آ جاتی تو کیا اس کی عزت گھٹ جاتی۔ رہائی تم کو ملتی اس عذاب تنگدستی سے بلندی پر چڑھے ہوتے نکل غربت کی پستی سے کبھی پالا نہ پڑتا رات دن کی فاقہ مستی سے سلجوق: شکم سیری ملی حاصل جو ہے شہوت پرستی سے ملائیں تو ذرا آنکھیں وہ میری فاقہ مستی سے اگر ہو جائے دم لب پر عذاب تنگدستی سے اتر جاؤں اگر میں اور بھی پستی کی ہستی سے گنہ سرزد نہ ہو ہرگز میری ناچیز ہستی سے شہنواز: تو اس سے معلوم ہوا کہ تم گو بر کے کیڑے ہو اور عمدہ غذا کو بھی بدبودار بناتے ہو۔ سلجوق: اور تم وہ تیغ آب دار ہو کہ حلال پانی تمہارے ہونٹوں پر موجود ہے، مگر حرام خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہو۔ شہنواز: جس تنگ برتن میں۔ ہمارے مدعا کا ہے مربہ وہ نکالیں گے نہ نکلے گا وہ ہاتھ سے تو شیشہ توڑ ڈالیں گے سلجوق: ستم ہو گا اگر اہل جہاں اندوہ گیں ہوں گے جہاں توڑو گے شیشہ ایک سو نشتر وہیں ہوں گے تو کیا تم اس لیے شہزادہ کے اتالیق بنے ہو کہ اسے بدمعاشی کرنا سکھاؤ، غریبوں کی بہو، بیٹیاں پکڑ لاؤ اور اس حرام کمیشن سے اپنی جاگیر بڑھاؤ۔ اگر عقل کوئی چیز ہے۔ ایمان عزیز ہے، تو ستم ناروا سے باز آؤ۔ بیداد سے ہاتھ اٹھاؤ۔ شہنواز: نہ اس کا نام بیداد ہے نہ تمہاری چیخ و پکار کا نام فریاد ہے۔ جب بکرے کو حلال کرتے ہیں تو شور مچاتا ہے۔ کیا اسے پکارتے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے؟ سلجوق: نہ چھو ڑ رحم کے دشمن، قصائی! نہ چھوڑ۔ مگر یاد رہے۔ اگر توڑے گا اے ظالم کسی مظلوم کی گردن فلک کو چیر کر جائیں گے اس کے نالہ و شیون ہلا دیں گے مکرر داور محشر کا سنگھاسن بترس از آہ مظلوماں کا ہنگام دعا کردن اجابت از در حق بہر استقبال می آید شہنواز: کیوں ارے بدمعاش بک بک یہ تیری جاتی نہیں شیشہ خالی سے قل قل کی صدا آتی نہیں سلجوق: ہر صراحی سے نہ مے نوشی کا تو ارمان کر شیشہ خالی ہوں میں رکھ دے نکما جان کر میرے پاس خزانہ بھی ہے۔ میرے سر پر تاج بھی ہے۔ میرے پاس فقط منت و سماجت ہیں انہیں منظور کر! شہنواز: انہیں منظور کر کے کیا کروں؟ سلجوق: میری لڑکی کو شرمندہ نہ کر تو پاک کنواری سے کہ میں فرش زمیں بنتا ہوں فرط اشکباری سے شہنواز: باریاب منزل شاہی گدائی ہو گئی دے دعا مجھ کو کہ اس در تک رسائی ہو گئی سلجوق: دعا شہنواز: ہاں دعا۔ سلجوق: اچھا تو میں دعا دیتا ہوں۔ خدا کرے کہ تمہاری بی بی حاملہ اور اس کے لڑکی پیدا ہو۔ وہ میری لڑکی سے خوبصورت بنے اور جب تک تیری لڑکی جوان ہو خدا کرے کہ شہزادہ بھی زندہ رہے۔ جس طرح میری لڑکی کو بازاری عورت جانتا ہے، اسی طرح اپنی باعصمت بیٹی کو بھی عصمت فروش جانے۔ شہنواز: اف! کچھ اور۔۔ سلجوق: بس یہی کہ تو اسے بھی اپنے کندھے پر چڑھا کر شہزادے کے پلنگ تک لائے۔ شہنواز: بس خاموش۔ ورنہ (شہنواز، سلجوق کے منہ کو ہاتھ سے بند کر دیتا ہے) (پردہ گرایا جاتا ہے) ایکٹ پہلا منظر تیسرا شاہی محل بادشاہ: بخشے ہیں سواری کے لیے اسپ اور فیل اور زینت سر کے لیے شاہی مندیل ہر چیز کے دینے میں سخی ہے لیکن اک عمر کے دینے میں ہے البتہ بخیل ارباب بزم دہر کو صورت دکھا چلے آئے تھے آگ لینے کو اور لے کے کیا چلے اس وقت بھی کم بخت بیٹے کا ہر وقت کھٹکا سن شعور کو پہنچا اور تخت سے نیچے ٹپکا۔ (ایک چوبدار آتا ہے) چوبدار: عالی جاہ کا اقبال یاور۔ بادشاہ: کیا ہے۔ کون ہے؟ وہ وزیراعظم تو نہیں؟ چوبدار: جی نہیں۔ (چوبدار کا لفافہ دینا اور بادشاہ کا پڑھ کر خوش ہونا) بادشاہ: کون؟ ڈاکٹر صاحب۔ بلاؤ۔ جلد بلاؤ۔ ہوتے تو چلے ہیں کچھ سامان جوانی کے مر مر کے ہوئے زندہ ارمان جوانی کے (ڈاکٹر کا آنا) ڈاکٹر: طلبگار دعا بندہ ہے درگاہ الٰہی سے سفیدی سر کے بالوں کی بدل جائے سیاہی سے بادشاہ: لیکن۔ لاتا ہے رنگ خوب سہاگہ طلا کے ساتھ کچھ کچھ دوا بھی چاہیے کچھ کچھ دعا کے ساتھ ڈاکٹر: یہ خضاب حاضر ہے۔ پڑے گا سر کے بالوں کو نہ پالا اب سفیدی کا نہیں اب آئینہ منہ دیکھنے والا سفیدی کا سیاہی اس کی یوں لیتی ہے دمبالا سفیدی کا ذرا چھوتے ہی ہو جاتا ہے منہ کالا سفیدی کا جواں بخت و جواں سال و جواں صورت بناتا ہے ضعیفی میں نظارے نوجوانی کے دکھاتا ہے بادشاہ: ہاں ہاں ایسا سیاہ کار۔ (درباری راگی کا گانا) ایسی رنگت کے قربان جولائے رنگ جوانی روئی جیسے بھورے بال۔ ہوں بھونرائے۔ من کی منشا پوری ہو گی ، ہوں گے یہ کالے، رہے رنگ شاہا یہ جاوداں۔ لاکھ جتن سے کہی نہ جائے۔ رنگ جوانی۔ کگوا کے، پنکھوا ایسے ہوں گیسوا دل پر رہے نہیں غم شباب۔ رنگ جوانی۔ چوبدار: شاہنشاہ کی عمر دراز۔ بادشاہ: آمین! چوبدار: وزیراعظم تشریف لائے ہیں۔ بادشاہ: طائروں کی طرح یہ تیر کہاں سے آیا محفل عیش میں یہ پیر کہاں سے آیا اچھا آنے دو۔ ڈاکٹر: اور بندہ کو جانے دو۔ بادشاہ: اچھا خدا حافظ۔ (ڈاکٹر کا جانا۔ وزیراعظم کا آنا) وزیراعظم: کٹے دن رات محشر تک خوشی سے شادمانی سے کنول کھلتا رہے دل کا نوید زندگانی سے بادشاہ: آمین! وزیراعظم: ظل سبحانی! ملک کے ہر حصہ سے بد امنی کی شکایتیں وصول ہو رہی ہیں۔ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو شکایتیں بھی معقول ہو رہی ہیں۔ بادشاہ: تو پھر کیا کیا جائے؟ وزیر: یہی کہ جہاں شہزادے صاحب کو عیش و آسائش کی ہدایت کی جاتی ہے، وہاں قانون ملک داری بھی سکھایا جائے۔ بادشاہ: اس قدر اضطرابی کیا ضرور ہے۔ ابھی وہ وقت بہت دور ہے۔ وزیر: تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار بادشاہ: آمین! وزیر: مگر حضور! آج کی تعلیم آج کے لیے نہیں ہے۔ دور اندیشی ضروری شے ہے شاہی کے لیے آج فصلیں بوتے ہیں اگلی چھ ماہی کے لیے بادشاہ: اچھا میں غافل ہی سہی۔ مگر اس میں میرا کیا قصور ہے۔ سفیدی کی خاصیت سے انسان مجبور ہے۔ وزیر: حضور اس مضمون کو الٹا سمجھے۔ بادشاہ: تو آپ سیدھا سمجھا دیجئے۔ وزیر: ہوئی ہے جو کافور سر کی سیاہی سفیدی وہاں جلوہ گر ہو چکی ہے یہ کہتی ہے اے غافلو جاگو جاگو کہ شب جا چکی ہے سحر ہو چکی ہے بادشاہ: تو تم ضرور ہی زہر دو گے۔ دریا میں ڈباؤ گے۔ میں ضرور اس کی فریاد کروں گا۔ ہوا سے کہوں گا۔ مٹی سے درخواست کروں گا، آگ سے التجا کروں گا۔ کیا یہ سب کے سب میرے بدن کے اجزاء نہیں ہیں۔ کیا میرے ہوش و حواس بھی نہیں ہیں۔ کیا میں ابھی سو دو سو برس سلطانی کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ ضرور ہوں؟ دیتے ہو یہ سزائیں جو تم ایسے نیک کو بس دیکھ لوں گا آج سے میں ایک ایک کو (جاتا ہے) وزیر: ضعیفی میں جوانی سے زیادہ جوش ہوتا ہے! بھڑکتا ہے چراغ صبح جب خاموش ہوتا ہے (وزیر جاتا ہے) ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر چوتھا عیش گاہ (شہزادے اور شہنواز کا مع چند درباریوں کے نظر آنا) (سہیلیوں کا گانا) سوتن کے گھر جات سانوریا۔ مانت ناہیں مور برہا اگن دیہہ پھوکت ہے سلکت ہے چاروں اور سوتن ۔۔۔۔ بادریا کالی کالی برسے، پیا بن نیناں ترسے جیا بیکل ہے ڈر سے گھن گرجت ہے گھور سوتن ۔۔۔۔ آؤ آؤ سیاں، نظر ملاؤ سیاں، نہ ترساؤ سیاں دیکھو بھئی ہے اب بھور ۔۔۔۔ سوتن ۔۔۔۔ (دوہا) سہیلی نمبر۱: ہر گل کھلا بمثل ساغر ہے یہ زمانہ بدلی ہے سر پہ چھائی ہے کیا سماں سہانا سہیلی نمبر۲: باقی نہ رکھنا ساقی شیشہ میں پری خانہ گائیں گی بلبلیں اب اک اور ہی ترانہ کردے صراحی خالی، آنکھوں میں آوے لالی برسے گھٹا ہے کالی، جھولے ہے ڈالی ڈالی نہریں رواں ہیں ساری، پھولی پھلی ہے کیاری کوئلیا بولے پیاری، بولیں مور، مچاویں شور بادل گرجے گھور گھور، او ساقی میرے یار! دلدار، غم خوار، اڑا دو کاگ، سنا دو راگ ہاں ہو بے لاگ شہنواز: آ ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔ شہزادہ: ہر حور لقا چور جوانی میں ہے اک خلد ہی بزم کامرانی میں ہے زاہد کو ملے گی بعد مردن جنت زندوں کو بہشت زندگانی میں ہے ہاں رقاصاؤ! کچھ سناؤ۔ میرے دل پژمردہ کو اپنے دلکش نغموں سے رجھاؤ۔ گانا سہیلیاں (ابیات) سہیلی نمبر۱: میکشی سے خاک اب توبہ کریں ایک دو دم زندگانی اور ہے توبہ بھی کر لیں گے ناصح پی تو لیں کوئی دن کی یہ جوانی اور ہے سہیلی نمبر۲: فائدہ کیا تسبیح و زنار سے دین کی زاہد نشانی اور ہے کیا ہوا گر حشر تک زندہ رہے خضر عمر جاودانی اور ہے رنگ رلیاں مناویں۔ آج۔ دھر پدتان سناویں آج بھر بھر جام پلاویں۔ نئی راگنی گاویں آج ناز و انداز سے۔ شان و غماز سے۔ دھن سے گن سے گاویں آج۔ شاہ کے سر پہ تاج وکلاہ۔ آسمان پہ نور کھلا۔ روشن ہے تاروں میں۔ چاند ستاروں میں۔ قربان ہزاروں میں آج۔۔۔۔ آؤ شہزادہ: آئی ہے صبا باد بہاری بن کر شبنم جی پڑی ہے آبکاری بن کر شیشہ بھی کھلے سخی کے دل کے مانند اور جام چلے باد بہاری بن کر درباری نمبر۱: کہاں ہے جام ہے یہ لالہ فام ہاتھوں میں سمند عیش کی ہے یہ لگام ہاتھوں میں درباری نمبر۲: ہوا ہے ناچ کا واللہ کانچ پر بھی اثر شراب سے بھرا تھرکے ہے جام ہاتھوں میں درباری نمبر۳: حضور! ہمارے دھوکے کی پڑیا چل گئی۔ شہزادہ: کوئی کبوتری جال میں پھنسی؟ درباری نمبر۳: جی ہاں وہی قیدی منہ زور سلجوق کی بیٹی۔ شہزادہ: (ہنس کر) بہت خوب۔ ہاں ہاں اچھا آنے دو۔ (شمیم کا گانا گاتے ہوئے آنا) گانا: اے شاہ عالی دو زماں، اے دستگیر بے کساں باغ وطن کے باغباں، تو پھولتا پھلتا رہے کرنا ہے والد کو رہا، دیتی ہوں میں تجھ کو دعا مشرق سے مغرب تک سدا، سکہ تیرا چلتا رہے کر لے یتیمی پر ترس، معصوم کے فریاد رس جو ہو تیرا بدخواہ بس، وہ ہاتھ ہی ملتا رہے دل سے ہے عرض بندگی، اے قابل تابندگی تیرا چراغ زندگی، لاکھوں برس جلتا رہے شہزادہ: شاخ گل اس زباں پر ہے نثار پھول جھڑتے ہیں کیا دم گفتار شمیم: اے شاہ زماں کہاں ہے وہ میرا پرانا شامیانہ، تاکہ میں اس کے سایہ میں آرام پاؤں۔ اگر وہ قید کی کشاکش سے شکستہ ہو گیا ہو، تو تھگلیاں لگاؤں۔ شہنواز: شاباش لڑکی! مجھے یقین ہے کہ ضرور تھگلیاں لگائے گی۔ شہزادے والا شان کی خوشی کو اپنے باپ کے زخموں کا مرہم بنائے گی۔ شمیم: باپ کے زخم۔ پیارے باپ کی قسم! زخم محتاج جو مرہم کے نظر آئیں گے دل کے ٹکڑے وہیں آنکھوں سے اتر آئیں گے شہنواز: اگر حجت نہ ہوئی تو تیرا باپ ضرور رہائی پائے گا۔ شمیم: تو کیا ابھی رہا نہیں ہوئے؟ شہنواز: بس ہوئے سمجھو۔ کھل چکے ہیں کواڑ زنداں کے منتظر ہیں فقط تری ہاں کے شمیمـ: وہ رہا ہوں اگر مری ہاں سے کام لوں میں زبان کا جاں سے شہزادہ: مگر اے حسین لڑکی! تو اس کے معنی تو غالباً سمجھ گئی ہو گی۔ شمیم: ہاں؟ شہزادہ: ہاں! شمیم: مگر میرے ابا ہیں کہاں؟ شہنواز: یہیں ہیں۔ اور تو ان ہی کے کہنے سے بلائی گئی ہے اور اس کی خوشی کے ساتھ سڑی ہوئی گودڑی سے نکال کر مخملی فرش تک لائی گئی ہے۔ شمیم: کبھی نہیں، وہ مجھے ایسی ہاں کے لیے کبھی نہیں بلائیں گے۔ ایسے مقتل میں جہاں بکروں کی جگہ بکر حلال کیا جائے، نہیں لائیں گے۔ پھانسی کے تختہ پر خوشی سے جان دیں گے، مگر اس گندے کمینے کی طرف جانے کے لیے عزت کونہ جلائیں گے۔ شہزادہ: جھلکتا ہے جو آب زندگی شیریں مقالی میں دہن کا مرتبہ اب بڑھ گیا امرت کی پیالی میں شمیم: اے سلطان ابن سلطان! مجھے معاف کر۔ شہزادہ: معاف کروں؟ اور پھر ایسے عالم تنہائی میں۔ جبکہ جوبن پہ ترا حسن ہو رعنائی ہو رات سنسان ہو اور عالم تنہائی ہو سیج پھولوں کی بچھی ہو۔ شمیم: سیج۔ خدا کے واسطے س سیج پر انگارے ڈال دو۔ اسے اٹھا کر جہنم کے کنارے ڈال دو۔ دفن لاکھوں عصمتیں ہیں نحس چادر کے تلے ایک قبرستان پوشیدہ ہے بستر کے تلے شہزادہ: تو جس قدر حجت سے کام لے گی، اسی قدر تیرا اور تیرے باپ کا بچنا محال ہو گا، کیونکہ یہاں تو جبراً وصال ہو گا۔ درباری نمبر۱: بجا ہے۔ جبراً وصال ہو۔ درباری نمبر۲: درست ہے۔ جبراً وصال ہو۔ درباری نمبر۳: جی ہاں حضور! جبراً وصال ہو۔ شمیم: او جی حضور کے نوکرو! بجا اور درست کے چاکرو! شرم کرو۔ زباں کو ہو رہی ہے مشق ہاں میں ہاں ملانے کی ہے آنکھوں کو مہارت رات میں سورج دکھانے کی خوشامد چاپلوسی جمع ہو اک جا زمانے کی طلب پاتے ہو تم انسان کو شیطاں بنانے کی شہزادہ: اب تو مجھے ضرور اٹھانا پڑا۔ درباری نمبر۱: توبہ توبہ حضور غلاموں کے ہوتے ہوئے آپ تکلیف فرمائیں گے۔ درباری نمبر۲: تو کیا حضور ہم بالائی خدمت بھی نہ بجا لائیں گے۔ شمیم: او ہڈیوں کے چچوڑنے والو! اگر میری جگہ تمہاری بہن ہوتی تو کیا اسے یوں ہی اٹھانا پسند کرتے۔ اس وقت بھی کیا بالائی خدمتوں سے حضور کے سامنے لانا پسند کرتے۔ شہنواز: خاموش۔ او بد زبان لڑکی! بارگاہ عالی سے ہمیں نائٹ، سر اور خان بہادر کا خطاب، اور ہماری شان میں یہ جوبا۔ شمیم: خطاب ایسی ہی کار گذاریوں کے صلے میں ہوں گے۔ بھول ہے خطاب دینے والوں کی نائٹ، سر، خان بہادر کی جگہ دلال حرامخور کا خطاب ہونا تھا۔ شہنواز: ہائے رے نادانی، ایسے لمبے جھگڑے کو رہنے دو۔ ہٹیلی لڑکی تو اپنے باپ سے زیادہ دور اندیش نہیں ہے۔ پہلے اس سے دریافت کر تو سہی۔ پھر چلی جانا اپنے گھر۔ شمیم: وہ کہاں ہیں؟ شہنواز: وہ رہے اس کمرہ میں۔ (شمیم کمرے کے اندر جاتی ہے اور چوبدار سلجوق کو لے کر آتا ہے) ایک درباری: یہ لیجئے حضرت سلجوق بھی آ گئے۔ شہنواز: آیئے آیئے بیٹی کے والد مہربان آیئے۔ سلجوق: پڑے رہنے دیا ہوتا خدارا قید کے غم میں مجھے کیوں کھینچ بلوایا ہے جنت سے جہن میں شہنواز: اس لیے کہ آپ کو آج بد دعا کا انجام دکھائیں گے اور پھر تمہاری بد دعا کو واپس کرائیں گے۔ سلجوق: بد دعا نہ سر پر میرے چڑھی ہو گی۔ نہ بد دعاؤں کا دریا ادھر بڑھا ہو گا ادھر ہی جائے گا پانی جدھر گڑھا ہو گا شہنواز: اپنی لڑکی سے دریافت کر کے شیخی بگھارنا۔ سلجوق: وہ کہاں ہے؟ شہنواز: ہمارے شہزادے کے پاس۔ سلجوق: او شیطان کے شاگردو! دربار کے کتو! تم فقط دیکھنے میں خنجر فولاد ہو، کہنے کو شریفوں کی اولاد ہو۔ دیگر گھڑی ناپاک اور قسمت غلاموں کی لڑی ہو گی تمہارے جسم کی بنیاد چھپ چھپ کے پڑی ہو گی درباری نمبر۲: یہ قدرتی بات ہے کہ چراغ کو بھی پانی کی بوند ڈال کر بجھاتے ہیں تو وہ چرچراتا ہے۔ سلجوق: تو حرامخور ہے۔ او رشہنواز تو بھی۔ درباری نمبر۳: خاموش۔ ورنہ اپنی موت قریب جان۔ سلجوق: او موذی بے ایمان! اب تو موت ہی ہے۔ میری زندگی کا سامان۔ افسوس آج میری رکابی میں بھی گوشت کے ٹکڑے ہوتے تو ایک کتا نہ کاٹتا، بوٹیاں دیکھتا اور تلورے چاٹتا۔ ارے تمہارا ستیاناس ہو۔ اسے چھوڑ دو اور اس کے بدلے میں یہ قدرت کی بخشی ہوئی پوستین اتارو۔ تمہاری جوتیوں کے کام آئے گا۔ مگر خدا کے واسطے اسے چھوڑ دو۔ درباری نمبر۱: تو پھر تیری کیا مرضی ہے۔ سلجوق: میری بیٹی کو میری قید نجس سے نکال دو۔ یہ بھیک اس فقیر کی جھولی میں ڈال دو، اس کے واسطے میں تمہارے پاؤں پڑتا ہوں۔ (شمیم کا آگے آگے فیر کرتے ہوئے آنا اور پیچھے شہزادے کا گھبرائے ہوئے آنا) شہزادہ: پکڑ لو۔ پکڑ لو۔ یہ جنونی لڑکی قابو میں نہیں ہے آنے والی۔ شمیم: نہیں ہے غم کہ رہے جان آبرو جائے مجال کیا ہے جو دامن کو غیر چھو جائے (سلجوق شمیم سے پستول لے کر ایک درباری کو مار دیتاہے۔ سب خوف سے بھاگ کر چھپ جاتے ہیں۔ بعد میں شمیم کے گولی مار کر خود بھی مر جاتا ہے۔) ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر پانچواں مکان خان بہادر بادل خان زمیندار (کومک) (فرحت دختر بدلو خان کا گاتے ہوئے آنا) ہردے میں بس گیو۔ سانوری صورتیا۔ وہیر نہیں موہے آوت ہے رے۔ نین کے بان لگے ہردے پہ کاری۔ سدھ بدھ ہر لینو موری ساری۔ دلبر پیا مورے بس نہیں آوے۔ برہا جیارا ستاوت ہے رہے۔ ہردے (اندر سے فرحت کی والدہ شبنم اسے بلاتے ہوئے آتی ہے) شبنم: فرحت! فرحت!! فرحت: جی آئی اماں جان! (بادل خان آتا ہے) بادل خاں: کیٹ، ریٹ، میٹ، اوہو! وقت ہو چکا اور ابھی تک میں نے جنٹلمین سوٹ نہیں ڈانٹا۔ ارے ہے کوئی خانساماں۔ خانساماں: حاضر حضور! بادل خاں: یو گدھا۔ حضور مت بولو۔ خان بہادر بولو۔ خانساماں: اچھا خان بہادر صاحب! بادل خاں: دیکھ وبیرا۔ وہ بازار سے رومال پر لگانے کی چیز لایا؟ خانساماں: بیرا تو ابھی نہیں آیا۔ خان بہادر صاحب! بادل خاں: جا یو فول (جاتا ہے) اہو ہو اب ہم جنٹلمین فیشن ایبل لباس میں کتنا رعب دار اور خوب صورت نظر آتا ہے۔ ارے واہ! بس اب تو پورا انگلش مین بن گیا ہوں۔ نہیں نہیں بلکہ اس سے زیادہ رتبہ پایا ہے کہ میں ایک اعلیٰ کمسن باپ رے نہیں نہیں۔ بلکہ خاصہ جنٹلمین بن گیا ہوں۔ آج پانچ روز ہوئے کہ مجھے کلکٹر صاحب نے بدلو سے بدل کر بادل خان بہادر بنایا ہے اور اس کے ساتھ خان بہادری کا خطاب میرے لیے ولایت سے منگوایاہے اور دوسرے اس کے ساتھ یہ بلا بھی میرے لیے آیا ہے۔ اس لیے اب یورپین زبان سیکھ سکتا ہوں۔ سیکھنا کس کا بلکہ میں تو اب سیکھ چکا ہوں۔ جیسے قمیض، پتلون، اسٹاکنگ، نکٹائی، جاکٹ، کالر، انگلش ٹوپی، فل بوٹ اور ان سب کے اوپر یہ خان بہادری کا بلا۔ اور جب فل ڈریس میں باہر نکلوں گا تو دور سے لوگ دیکھ کر مجھے یہ سمجھیں گے کہ شاید کوئی لاٹ صاحب آتے ہیں۔ بیرا: خان بہادر صاحب یہ لو! بادل: خان: کیا لایا؟ بیرا: استری لایا۔ بادل خاں: اویو استری کا بچہ۔ کس نے منگایا تھا۔ بیرا: ارے صاحب! تم ہی تو کہو۔ اسے کہ کپڑے پر لگانے کا استری لاؤ۔ بادل خاں: او یو فول گدھا۔ تم بڑے آدمی کے پاس نوکری کرنے کے لائق نہیں ہے، تم جانتا نہیں کہ ہم خان بہادر ہیں۔ ہم کچھ دھوبی نہیں ہیں۔ یہ دھوبی کی استری ہم کیا کرے گا۔ بیرا: پھر یا کاہم کاکری۔ خان بہادر صاحب جو آپ منگاؤ۔ تو ہم لے آؤں۔ بادل خاں: تم بڑا گدھا ہے۔ ہم نے وہ منگایا تھا وہ وہ چھڑکنے کا طملب سمجھا۔ بیرا: ہاں ہاں۔ خان بہادر صاحب۔ سمجھا۔ سمجھا۔ گلاب گلاب۔ بادل خاں: نہیں گلاب جلاب نہیں۔ اویو کالا چمڑے والا۔ گلاب۔ گنوار لوگ لگاتے ہیں۔ ہم خان بہادر لوگ وہ لگاتا ہے وہ ارے تم اس کا انگلش نام بولو۔ بیرا: ناں حضور ہم تو وہ ناہیں جانت۔ بادل خاں: پھر تم کچھ کام کا آدمی نہیں۔ بیرا: خان بہادر صاحب انگلش تو ہم ناہیں پڑھت رہت۔ آپ بتا دیں تو ہم جانیں۔ بادل خاں: چپ گدھا۔ ہم وہ نام بھول گئے کچھ کچھ اس طرح۔ اس طرح۔ بیرا: کاہو کہو استرا۔ بادل خاں: نہیں استرا نہیں۔ الو جنگلی حجام، تم اتنا بڑا ہو اور انگلش نام نہیں جانتا۔ بیرا: ارے تو ہم کا کا ہے کرکاوت ہے۔ ارے جب اتنا بڑا خان بہادر ہوئے کے انگریجی نام وام نہیں جانتا تو ہم کا جانی۔ بادل خاں: او یو گدھا۔ جاؤ تم کسی کام کا آدمی نہیں ہو۔ اوہو اوہو یہ کیا ہوا۔ ارے ہاں میں وہ لگانا تو بھول گیا۔ خاں ساماں۔ خانسامہ : (اونچی آواز سے) حاضر حضور۔ بادل خاں: الو کا گدھا۔ نہیں نہیں بچہ ہم تم کو بولا۔ حجور مت بولو۔ خان بہادر صاحب بولو۔ خانسامہ: اچھا خان بہادر صاحب۔ بادل خاں: دوڑ جلدی وہ والا لاؤ۔ خانسامہ: وہ کیا صاحب! وہ تو ہم ناہیں سمجھا۔ بادل خاں: یو جنگلی! تم بھی بیرا کے موافق کچھ نہیں سمجھتا۔ ارے وہ کل چمڑے کا جکڑ بند کرنے کا بازار سے لایا تھا۔ خانسامہ: ہاں ہاں صاحب سمجھا۔ سمجھا۔ا بھی لاوت ہوں۔ بادل خاں: اف بڑا آدمی بننا بہت مشکل کام ہے اور یہ تمام فیشن کی چیزوں کے انگلش نام یاد رکھنا تو اس سے بھی سوا مشکل ہے۔ خانسامہ: یہ لیو صاحب۔ بادل خاں: اویو گدھے کا پٹھا۔ گھوڑے کا سامان کاہے کو لایا۔ خانسامہ: تو اور کیا لاؤں۔ تم ہی تو کہورے کہ وہ چمڑے کا جکڑ بند کرنے کا لے کر آؤ۔ بادل خاں: او یو فول ہٹ جاؤ۔ ہاں مائی فرینڈ یہ کیا ہوا۔ (انگریزی بیرا آتا ہے) بادل خاں: دیکھئے اس گدھے سے میں نے پتلون کا یہ منگایا تھا تو گھوڑے کا اٹھا لایا۔ انگریزی بیرا: اوہو۔ شاید آپ نے بریسس منگایا ہو گا۔ بادل خاں: ہاں ہاں وہی وہی برسیس برسیس۔ خانسامہ: نائیں حضور۔ برسیس برجس نائیں بولے رہے ۔ یو تو بولے رہے جو چمڑے کا۔ کلہڑ ہٹر کلہڑ بند کرنے کا لاؤ۔ انگریزی بیرا: اچھا جاؤ برسیس لاؤ۔ بادل خاں: اور جنگلی بیرے کو میں نے وہ جو آپ نے رومال پر چھڑکنے کا بتلایا تھا وہ لانے کو بھیجا تو کم بخت کچھ کا کچھ اٹھا لایا۔ انگریزی بیرا: میں نے تو آپ کو ایکسٹر کٹ اف چری بلازم بتایا تھا۔ بادل خاں: ہاں وہی وہی۔ بیرا: ناہیں حضور تو ناہیں۔ بولے رہے۔ بولے کیسے رہے کہ جوں کپڑے پر لگانے کا استری لاؤں۔ بادل خاں: جا یو گدھا۔ آہا اب یہ بڑے لوگوں کا فیشن مجھے کیسی زینت دیتا ہے۔ شبنم: اے ہائے میرے اللہ! یہ کیسے سوانگ بھرتا ہے۔ بادل خاں: بس اب میں انگلش بولنا سیکھوں گا اور پھر ولایت جاؤں گا اور وہاں سے میڈم شادی کر کے لاؤں گا اور پھر اس کے ساتھ۔ (گانا بادل خاں کا) نیاری اکڑ پھبن کر کے چلوں! سارے گاؤں کا خان بہادر بنوں آگے پیچھے سپاہی دو چار رکھوں ذرا رعب سے تن کے ہر اک سے ملوں مجھ سے بڑھ کر ہے کون کہ اس سے جھکوں ابے تبے سے نہ بات کروں ساہوکاروں سیٹھوں کو ہیچ جانوں بلا تمغہ تو اعلیٰ سے اعلیٰ سے بنوں شان میری اب شاہی ہے ذات میری اب اونچی ہے تھینک یو کیسے کوئی! سر سے تسلیمات جھکے کوئی آداب دے۔ شبنم: یا خدا اس کو یہ کیا ہو گیا۔ بادل خاں: ارے تو کون ہے۔ نکل یہاں سے تو یہاں کیوں آئی؟ شبنم: میرے اچھے خاوند! میں دیکھتی ہوں کہ آئے دنوں سے تمہارے دماغ میں کچھ خلل پایا جاتا ہے کہ جو رفتہ رفتہ جنون کا رنگ پکڑتا جاتا ہے۔ بادل خاں: گو اوے گو اوے (Go away) گنواری بھٹیاری۔ شبنم: جس کی جورو گنواری بھٹیاری تو پھر ا سکے خاند کی کیا ہے شان لیاقت داری۔ بادل خاں: اویو جب گنواری دہاتن سے میری شادی ہوئی تھی۔ اس وقت ہم دونوں گنوار تھے۔ شبنم: اور اب کیا کہلاتے ہیں؟ بادل خاں: اب تو سرکار سے ہے ہمارا۔ بادل خان بہادر کا خطاب۔ شبنم: بادل خان بہادر یا پاگل خان بندر۔ بادل خاں: او یو نان سنس فول کیا کروں تو میری جورو ہے۔ اگر اور کوئی ہوتی اپنی بہادری دکھاتا۔ شبنم: اجی بس رہنے بھی دو۔ دیکھی آپ کی بہادری۔ اس رات کو جب ذرا برتن کھڑکھڑایا تو آپ کے بدن پر خوف سے لرزہ چڑھ آیا۔ بادل خاں: ہا ہا ہا نادان۔ نادان۔ اری لرزہ۔ وہ تو بہادری کے زعم میں جذبہ چڑھ آیا۔ شبنم: ارے واہ ری تیری بہادری کا جذبہ۔ بادل خاں: اری او گنواری۔ اگر میں بہادر نہ ہوتا تو سرکار کیا کوئی بے وقوف تھی جو مجھے خان بہادر بناتی۔ کیا یہ خطاب سب کو مل سکتا ہے؟ شبنم: میں تو تمہاری اس جہالت اور حماقت پر افسوس کرتی ہوں۔ بادل خاں: اری او گنواری! اب تو یہاں سے جا ورنہ افسوس کرتے کرتے میرا ہی سر پھر آئے گی اور آپ بھی خبط الحواس ہو جائے گی۔ چل نکل جا تو ہرگز کسی جنٹل مین کی بیوی بننے کے لائق نہیں ہے۔ شبنم: ہیں جنٹل مین کیا بلا ہے؟ بادل خاں: ارے یہ بلا نہیں۔ جنٹل مین اس کو کہتے ہیں جیسے کہ میں۔ شبنم: تو میں پھر تمہاری بیوی تو ہوں۔ بادل خاں: تو ہم ایسی نیٹو گنواری نہیں مانگتا۔ شبنم: کیوں؟ بادل خاں: کیونکہ تم کو کانٹے چھری سے کھانا نہیں آتا۔ صاحب لوگوں کے ساتھ ڈانس کرنا۔ اس فیشن کا گون لینا۔ جنٹل مین سے ہاتھ ملانا۔ سب کچھ نہیں آتا۔ (گانا۔ شبنم) اس فانی ہستی کی کلیاں ہیں کی بے ڈھنگی پل چھن ہی صفائی کر کے چلے سیدھے کاہے کون سنگی شان گمان جہاں میں کرے نہ کوئی انسان زبان پر شکریہ خدا کا ہو ہر آن نیکی کا ہے راستہ ہے دنیا میں خوب رنگین کتنے دنوں کے واسطے خود سر یہ شان گمان کس کی رہی ہے جو تیری آخر رہے گی شان ارے مٹی کا تو پتلا ہے تو مکان گور کی تنگی بادل خاں: گواوے، گواوے، یو گنواری گنواری بھٹیاری۔ (دلاور آتا ہے) دلاور: آداب عرض ہے جناب! بادل خاں: کون دلاور؟ تم یہاں کیوں آئے؟ دلاور: میں نے سنا ہے کہ آپ کو خان بہادر کے خطاب کا بلا ملا ہے۔ بادل خاں: پھر؟ دلاور: اس کی مبارکبادی دینے کو بندہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ہے۔ بادل: اچھا بس یا اور بھی کچھ کہنا مانگتا ہے؟ دلاور: اور بھی ایک آپ کے قدموں میں گذارش کرنی ہے۔ بادل خاں: اچھا یہ لو میرے قدم، ان پر گذارش کرو۔ دلاور: مگر میری گذارش کو گستاخی نہ سمجھئے گا حضور! بادل: ہیں بے حضور۔ ہم سے یہ گستاخی۔ بے شعور۔ لنڈن لے لنگور۔ دلاور: کیسی گستاخی جناب؟ بادل: پھر وہی بے تکی ہانک لگا دی۔ خر بے دم تمام دنیا جانتی ہے کہ ہمیں خان بہادر کا خطاب ملا ہے۔ پھر ہم کو حضور جناب سے القاب کرنا گستاخی نہیں تو اور کیا ہے۔ دلاور: ہاں اب سمجھا۔ جناب معاف کیجئے گا۔ ٹھیک بندہ سزاوار ہے۔ اچھا خان بہادر صاحب! میں یہ دریافت کرنے آیا ہوں کہ اب میری شادی اپنی صاحبزادی سے کس تاریخ پر مقرر کریں گے؟ بادل خان: کوئی نہیں۔ اب وہ تاریخ حشر تک بھی نہیں آئے گی۔ شبنم: وجہ؟ بادل خاں: بس یہی وجہ بڑی بھاری ہے کہ تو خان بہادر نہیں اور نہ ہی تیرے کوئی بلا ولا ہے۔ شبنم: ہاں ٹھیک درست فرمایا۔ اس نے کوئی کتا بلا نہیں پالا ہے۔ بادل خان: اری گنوارو کی جورو کتا نہیں۔ یہ خطاب بہادری وغیرہ کا کوئی بھی اس کے پاس بلا نہیں ہے اور ایسا معمولی حیثیت رکھنے والا ہمارا داماد نہیں ہو سکتا۔ اس سے ہماری بے عزتی ہے۔ ہماری لڑکی کا شوہر وہی ہو سکتا ہے کہ جس کو گورنمنٹ سے بڑا بڑا بلا ملا ہو یا جس کے نام کے ساتھ سردار خان بہادر یا سی آئی ڈی کا خطاب لگا ہوا ہو۔ فرحت: نہیں نہیں، ابا جان معاف کیجئے۔ ویسا شوہر مجھے بالکل درکار نہیں، کیونکہ جس طرح والدہ کو آپ کی حرکتیں ناپسند ہیں، اسی طرح مجھے ویسا شوہر پسند نہیں۔ شبنم: شاباش۔ میری دختر نیک اختر شاباش۔ بادل خان: شاباش، بیٹی شاباش، اس کا کیا مطلب (سر منصور کا مع اپنے دوستوں کے آنا) سر منصور: اجی جناب خان بہادر صاحب تسلیم! بادل خاں: اجی آداب ! حضرت قبلہ حاجات۔ کہیے آج یاروں کا جمگھٹا کس طرف کو چلا ہے اور بندہ کے گھر پر کس طرح آنا ہوا ہے؟ سر منصور: اجی صاحب اس وقت ہم سب یاروں کا آنا بڑی حجتوں اور دلیلوں سے ہوا اور اس کا فیصلہ بھی آپ تک ہی محدود ہے۔ بادل خاںـ: فیصلہ، فیصلہ، کس بات کا فیصلہ! سر منصور: آپ کی مہ جبین لڑکی کی شادی کا۔ آنریری مجسٹریٹ: کہیے ان چاروں میں سے کس کے ساتھ اس کا نکاح ہو گا! بادل خاں: غریب پرور! یہ سمجھ لیجئے کہ جس شخص کا درجہ میری نظروں میں زیادہ ہے۔ بس اس سے فرحت کا عقد باندھنا ہے۔ خاں صاحب : اوہ (علیحدہ) الو کے پٹھے۔ یہ تو مرغ بے ڈھب بولا۔ خان بہادر: تو کیا اس سے یہ مراد ہے کہ فرحت مجھے ملے گی؟ آنریری مجسٹریٹ: اجی بس رہنے دیجئے۔ جناب تو صرف خان بہادری میں ہی زمین پر قدم نہیں رکھتے، مگر کیا معلوم نہیں کہ مجھے لوگ آنریری مجسٹریٹ صاحب کہہ کر بلاتے ہیں۔ بادل خاں: مگر حضرات آپ دونوں ناحق جھگڑا بڑھاتے ہیں۔ اگر سچ پوچھوتو میں بھی خان بہادر ہوں اور یہ بھی خان بہادر۔ سر منصور: اور خان بہادر صاحب کو کوئی خان بہادر کے خطاب سے بھی اعلیٰ مرتبہ والا مل جائے تو پھر کیا کرنا ہو گا؟ بادل خان: بس پھر گویا معاملہ طے ہوا۔ میں اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دوں گا۔ سر منصور: تو مجھے گورنمنٹ سے سر کا خطاب ملا ہے۔ بادل خان: تو بس ان سب کو جواب ہے۔ دلاور: جناب خان بہادر صاحب معاف کیجئے گا۔ میں ایک سوال کرتا ہوں اس کا جواب دیجئے گا۔ خان صاحب: ارے بھائی تو کون ہے۔ نہ تیری پوچھ نہ تیری بات اور مفت میں دخل در معقولات۔ دلاور: جناب میں ہوں سنئے۔ منطق والوں کا گورو گھنٹال۔ خان صاحب: بول تو کیا کہتا ہے؟ دلاور: میں یہ عرض کرتا ہوں کہ انہوں نے کونسا ملک فتح کیا جس پر ان کو خان بہادر کا خطاب ملا۔ بادل خاں: چپ۔ بے ایمان۔ میرے سامنے ایسا واہیات کلام۔ اپنی زبان کو دے لگام۔ خان صاحب: مجسٹریٹ صاحب! کیا دیکھتے ہو۔ نکالو کوئی قانون۔ گرفتار کراؤ اس شیطان کو اسی آن۔ بڑے گھر کی سیر کراؤ۔ آنریری مجسٹریٹ: خان صاحب تیر ہو جاؤ۔ خان صاحب: خان بہادر صاحب! اس وقت آپ بھی کوئی بہادری دکھلاؤ۔ آنریری مجسٹریٹ: نہیں نہیں اس وقت تو سر صاحب ہی کوئی تجویز نکالیں گے۔ دلاور: اجی بس بس رہنے دیجئے۔ ان جھوٹی شیخیوں اور گیدڑ بھبکیوں میں کیا رکھا ہے۔ خان صاحب: بس بس بہت بک چکا۔ اب یہاں سے تیر ہو جا۔ ورنہ روئی کی طرح توم دیا جائے گا۔ سر منصور: کیوں ہم اتنی دیر سے بولے نہیں۔ کیا اس واسطے سر چڑھا جاتا ہے۔ یاد رکھو بچہ کہ غصے میں آ کر جس طرح ایک مرغ سینے پر لات مار کر دوسرے مرغ کو گرا دیتا ہے، اسی طرح تجھے بھی وہ لات ماروں گا کہ چاروں شانے چت گرے گا۔ آنریری مجسٹریٹ: کم بخت یہ بھی نہیں جانتا کہ اس وقت کیسے بڑے بڑے عالی دماغ اور رعب داب والے شخصوں کے روبرو کھڑا ہوں اور کیا بک رہا ہوں۔ دلاور: بس بس خاموش۔ تم جیسے مکار شریفوں کو تو میں ایک ذلیل آدمی سمجھتا ہوں۔ بادل خاں: اوہو۔ ہو یہ دماغ اور یہ منہ دلاور: بے شک بادل خاں: میرے مغرور دوستو! تم اس بک بکاری سے باز آؤ۔ چلو گھر چلیں۔ سر منصور: مگر جناب جس سے آپ فرحت کی شادی کرنا چاہیں اس کو اندر لے جائیں اور باقی سب کو رخصت ہو۔ بادل خاں: بے شک ٹھیک ہاں آپ جناب خاں بہادر صاحب و اناڑی مجسٹریٹ صاحب و خالی خان صاحب و خان بہادر صاحب آپ لوگ جائیں۔ ناحق امیدواری میں دھکے نہ کھائیں۔ میں سر صاحب کو پسند کرتا ہوں اور سب کو جواب صاف دیتا ہوں۔ سب: ہیں اس قدر ناکامی؟ سر منصور: بے شک آپ لوگوں کو تو ہو گئی سلامی۔ بادل خاں: ہاں اور زبان دراز فتنہ پرداز تو یہاں کس لیے کھڑا ہے؟ دلاور: آپ سے اپنی امیدوں کا جواب لینے کے لیے۔ بادل خاں: ابے الو کی دم۔ جواب تو ہزار بار دے چکے، مگر پھر بھی تو سایہ کی طرح موجود ہے۔ باز نہیں آتا۔ نکل جا یہاں سے۔ (سب جاتے ہیں) فرحت: آہ تیری چاہت کے تو سودے میں یہ سر جاتا ہے پھیر کر منہ تو کہاں جان جگر جاتا ہے گانا دل چرا کر کوئی دزدیدہ نظر جاتا ہے دیکھو وہ نور جہاں رشک قمر جاتا ہے کوئی توڑے ہوئے اللہ کا گھر جاتا ہے لگے موہے بان ہائے رے مدن موہن توری تیکھی چتون کے جی چاہت ہے واکو ملن کو جتن بتاؤ موہے ہائے سکھی ری جس بدھ سے دیکھوں چندر بدن کو برہا کی کھائے کٹاری بسر گیو سدھ بدھ ہے ساری خواری بھئی متواری بچاری کرمن کی ہاری لگی موہے بان دوہا اس ستمگر کا پتہ ہائے میں پاؤں کیونکر اور پاؤں تو کہوں حال سناؤں کیونکر سامنے بھی ہوا اگر گھر تو بلاؤں کیونکر روٹھ جائے تو ستمگر کو مناؤں کیونکر خوف ہے مجھ کو کہ میں آنکھ ملاؤں کیونکر ہاری میں ہاری جاؤں میں واری سیاں دلبر آؤ من لبھاؤ، دکھ مناؤ نہ کسی غم سے جات موری جان لگے موہے بان ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر چھٹا راستہ (طلحہ کا دایہ کے ہمراہ آنا) گانا اچھے سے پھول لائیں بابا کو چن کر بنائیں گے پھر ہار، ہاں، اچھے سے طلحہ: کیوں تم پھر آ گئے؟ ایرج: آستان یار سے سو بار اٹھائے جائیں گے تشنہ دیدار ہیں ہم پھر بھی آئے جائیں گے طلحہ: سوالی بن کے لینا ہاتھ میں کاسہ گدائی کا سوال اس پر ڈھٹائی سے کسی کا پارسائی کا ایرج:ـ طلحہ۔ بے درد طلحہ۔ طلحہ: بے درد طلحہ۔ اگر میں بے دردی کو اپنا ہتھیار بناتی تو لفظ بے درد کہنے کی ہی نوبت نہ آتی۔ ایرج: چلو رہنے دو یہ سب ناز ہیں خواہی نخواہی کے دبیں گے دبدبے ہرگز نہ میری کج کلاہی کے اچھلتی ہو یہاں تک بل پہ اک ادنیٰ سپاہی کے لگی رتبہ بڑھانے ماہ سے ناچیز ماہی کے طلحہ: اچھا تمہیں زیبا تمہاری کج کلاہی مجھے منظور ہے میرا سپاہی اگر اپنی جان بچانا ہے تو یہاں سے چلے جاؤ۔ تھلی پر شیر کی آنا ہرن کا خوب نہیں نظر بچا کے بھی چر جاؤ یاں وہ دوب نہیں ایرج: دیکھ میرا کہنا مان؟ طلحہـ: ورنہ کیا ہو گا۔ ایرج: یہ یاد رہے کہ شہنواز کی عورت ایرج کے پہلو میں ہو گی یا کہیں بھی نہ ہو گی۔ کروں گا مٹی خراب تیری ہزار فسق و فجور کر کے نہ گل سلامت رہے گا ہرگز جگر سے کانٹے کو دور کر کے طلحہ:جا جا موذی جو تیرے جی میں آئے کر لینا (جانا طلحہ کا معہ دایہ اور لڑکی کے) ایرج: وفا کے غم میں باہر ہوئی جاتی ہے جامہ سے ٹکے کی اوڑھنی اور سرکشی زریں عمامہ سے چراغ آرزو تو نے کیا ہے آج گل میرا تجھے دیکھوں گا میں اور دیکھنا ناداں تو جل میرا گانا ساری شیخی ساری آن تان اب تو ہے ضرور کوئی دن کی مہمان میرے آگے یوں کرے زبان کیا مجال ہے کسی کی کیا کسی کی جان جینا کیسا نام اور نشان۔ چال سے فریب سے مٹاؤں بن کے آسمان۔ پاجی کو تیرے کر کے بدگمان۔ خاک میں ملاؤں یہ وفاداری کی آن۔ (طلحہ کا جانا اور ایرج کا خط لکھنا) مضمون خط حضرت شہنواز اور میں سخت تعجب کرتا ہوں کہ تم سا ذی عقل شخص اپنے گھر سے اس طرح لاپروا ہو جائے اور مطلق خبر تک نہ لے، جبکہ اس کے گھر میں ایرج نامی شخص اس کی عزت لے رہا ہو۔ شاید تم نہ سمجھو تو خلاصہ لکھے دیتا ہوں کہ جس عورت کو تم عصمت دار سمجھتے تھے، وہ تمہاری عدم موجودگی میں ایرج کے ہاتھ اپنی عصمت کا خزانہ بیچ ڈالے اور تم کو خبر تک نہ ہو۔ غیر قوم سے شادی کرنے کا نتیجہ دیکھا اور خصوصاً مور قوم سے۔ کیا تم جانتے تھے کہ مور قوم کی عورتیں خربا ہوتی ہیں۔ اگر لکھنے کا یقین نہ ہو تو خفیہ طور سے آ کر دیکھ لو۔ جھوٹ سچ معلوم ہو جائے گا۔ آپ کا خیر خواہ (جانا) ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر ساتواں مکان (شہنواز کا ہاتھ میں کاغذ لیے ہوئے آنا) شہنواز: خدا برباد مٹی کر دے اس خونخوار کاغذ کی کہ برچھی ہو گئی دل اور جگر کے پار کاغذ کی ادھر ہے تیغ لوہے کی ادھر ہے دھار کاغذ کی نظر آتی ہے لیکن تیز ہم کو دھار کاغذ کی جو یہ کاٹے کرے مجروح اور مجروح کے ٹکڑے اگر وہ کاٹ پر آئے تو کر دے روح کے ٹکڑے (چوبدار کا آنا) چوبدار: حضور! مولوی صاحب تشریف لائے ہیں۔ اگر حکم ہو تو اندر آئیں۔ شہنواز: آنے دو۔ (مولوی صاحب آتے ہیں) مولوی صاحب: فرمایئے ۔ کیوں یاد فرمایا۔ شہنواز: میں آج آپ کو مہتاب کے بدلے آفتاب میں داغ دکھاؤں گا۔ صندل میں تارپین کی بو سونگھاؤں گا۔ مولوی صاحب: خیر باشد۔ شہنواز: لیجئے اور اسے دیکھئے۔ اگر شیرنی کو گیڈر کے پہلو بہ پہلو دیکھنا ہو تو اسے دیکھئے۔ اگر میری پاکدامن بی بی کے اعمالوں کا فوٹو دیکھنا ہو تو اسے دیکھئے اور یہ بتلایئے کہ یہ سرخی سے لکھنا تھا یا سپاہی سے۔ یہ میرے یقین کا خون ہے یا اس میری بی بی کا۔ (شہنواز کا مولوی صاحب کو خط دینا) مولوی: یہ خط کس کی طرف سے آیا ہے؟ شہنواز: نہ معلوم کس بندۂ خدا نے کنویں میں گرے ہوئے شہنواز کے لیے زنجیر لٹکائی ہے۔ مولوی: کیا ایرج نے یہ گھر گھالا۔ شہنواز: ایرج کون؟ مولوی: وہی ایرج۔ کیا آپ نے خط میں پڑھا نہیں۔ شہنواز: اف پڑھ کر بھی دھیان نہ رہا۔ مولوی: (دل میں) ابھی تو کیا ہوا ہے جواب ہو گا۔ جس نے میری بھتیجی شمیم کی عصمت کو خاک میں ملانا چاہا۔ یہ وہی پاجی بے اصل ہے۔ میرے ہاتھ میں یہ خط نہیں ہے بلکہ دشمن کی بربادی کی گل ہے۔ شہنواز: اچھا مولوی صاحب کہیے ایسی حرام کار عورت کا قتل کرنا عذاب ہے یا ثواب؟ مولوی: لازم نہیں یقین زن بد صفات پر سو سو فریب کرتی ہیں یہ بات بات پر شہنواز: مگر اس میں اس پاجی ایرج کا قصور ہے یا میری بیوی کا؟ مولوی: بنیاد اگرچہ ایرج نے ہے ڈالی کب جرم سے طلحہ بھی ہے خالی مثل مشہور ہے ایک ہاتھ سے بجتی نہیں تالی شہنواز: خیر اس مصیبت کو سر پر اٹھانا میرا ذاتی کام ہے۔ غیر مذہب کی عورت سے شادی کرنے کا یہی انجام ہے۔ میں آج ہی جا کر دیکھتا ہوں۔ اگر عصمت کی پاک گرہ کسی کے ناپاک ناخنوں نے کھولی ہو گی، تو ان گلچھروں کا جواب اسی پستول کی گولی ہو گی؟ کیا ہے جس نے مجھے پشیماں دکھاؤں گا اس کو سیر اس کی جفا کرے گی جو کام اپنا تو پیٹھ ٹھوکے گی خیر اس کی مولویـ: او ناپاک شہنواز! کس جوش میں چلا ہے طمنچہ سنبھال کر منہ دیکھتا نہیں ہے گریبان میں ڈال کر اے عورتوں کے دلال، بدکاری کے ٹھیکیدار! میرے ہاتھ سے بچ کر کہاں جا سکتا ہے۔ چل تیرا سایہ بھی تیرے پیچھے پیچھے آتا ہے۔ (جانا مولوی کا) ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر آٹھواں مکان شہنواز (طلحہ کا گاتے ہوئے آنا بگیا بسائی اے بلما نے مالن کارن کانٹوں کی ڈالی میں گردا لگائی رے بلماں کے کارن سجن کے سر چھائی جوانی جو بنوا کا ہے زور پل پل اٹھت سول بدن میں مدن کرے ہے شور اے ہاں سجن رین چین سے کٹے تو کیونکر، ملت نہیں چت چور پی بنا بیتی بہار جوانی، بن بن ناچے مور، بگیا بسائی (ایرج کا آنا) ایرج: طلحہ! میرا کہنا مان۔ میں تیرا پورا پورا بندوبست کر چکا ہوں۔ تیرے شوہر کے کان کاغذ کی زبان سے بھر چکا ہوں۔ طلحہ: یا اللہ! تو کیا کوئی جھوٹا خط لکھا ہے۔ ایرج: ہاں۔ ڈالے ہے خط کو بھیج کے رخنے یقین میں آتش لگا چکا ہوں میں اس میگزین میں دنیا میں اب ٹھکانہ ہے تیرا نہ دین میں اب ہے جگہ بغل میں میری یا زمین میں تیرے واسطے یہی بہتر ہے کہ تو میرے ساتھ چل نکل۔ طلحہ: تیرے ساتھ چل نکلوں؟ ایرج: ہاں میرے ساتھ چل نکل۔ طلحہ: جا جا۔ زور دکھلاتا ہے بیکار تو بن کر رستم ڈگمگائیں گے نہ ہرگز میری عصمت کے قدم یہ تو کیا سر پہ چڑھا دے گر تیغ دو دم من نہ مانم کہ سر از خط وفا برادرم ایرج: تو میں دوسری ترکیب عمل میں لاؤں گا۔ جس کا تجھے گھمنڈ ہے اس کو خاک میں ملاؤں گا۔ طلحہ: اوپر جفا۔ کھجلا رہے ہوں ہاتھ تو اس سر کو توڑنا پر ان کے سر پہ ہاتھ خدارا نہ چھوڑنا ایرج: چھی۔ نہ تو قانون قدرت جانتی ہے اور نہ نیچر کو زبان کرتی ہے جب تقصیر ملتی ہے سزا سر کو طلحہ: نہیں، ان کے عوض مجھے قتل کر۔ ایرج: تجھ کو قتل کروں گا تو اس کے سوگ میں سیاہ لباس کون پہنے گا؟ طلحہ: یا اللہ میں دیکھوں ڈوبنا جب اپنی قسمت کے ستارے کا ابھی اس سانس میں دم خم مرے ہو جائے آرے کا مگر اس ہاتھ سے دامن نہ چھوٹے میرے پیارے کا شہنواز: (اندر سے) دامن میرے پیارے کا۔ ٹھہر جا خبیث! (ایرج کا آواز سن کر بھاگنا اور کھڑکی سے کود جانا۔ شہنواز کا فائر کرتے ہوئے تعاقب کرنا اور کھڑکی سے کود جانا۔ طلحہ کا کھڑکی سے جھانک کر دیکھنا۔) ٭٭٭ ایکٹ پہلا منظر نواں پہاڑ، جنگل (ایرج کے تعاقب میں شہنواز کا پل پر سے بھاگتے ہوئے نظر آنا، طلحہ ودایہ اور بچوں کا کھڑکی سے ان کو دیکھنا۔ ایرج کا زخمی ہو کر گر پڑنا بعد میں زخم کو رومال سے پونچھ کر خون سے بھرے ہوئے رومال کو پھینک دینا۔) (ایرج کا آنا) ایرج: خیر موذی!میں تجھ سے کسی وقت اس کا بدلہ لے لوں گا۔ (شہنواز کا آنا) شہنواز: نشانہ تو کارگر ہوا۔ طلحہ: پیارے شہنواز! کھوئی تمام شان دلیری جنون میں غوطے دیئے ہیں تیغ کو ناپاک خون میں شہنوازـ: طلحہ! ظاہرا طور پر اس خون کو ناپاک بتا کر خدا کو دھوکہ نہ دے۔ میرے نزدیک یہ خون پاک ہے۔ اسے سونگھ۔ اس میں سے محبت کی بو آئے گی تو تیرے دماغ کی بارہ دری کو فرحت پہنچائے گی۔ طلحہ: (چونک کر) ہیں۔ فرحت پہنچائے گی۔ کٹ جائے وہ ناک جسے یہ محبت کی بو سونگھائے گی۔ پھٹ جائے وہ دماغ جسے یہ فرحت پہنچائے گی۔ شہنواز: ہو گا، ایسا ہی ہو گا۔ جو گل کھلائے گی وہ کھلائے گی داغ بھی یہ ناک تو کٹی ہے پھٹے گا دماغ بھی طلحہ: ہیں وفاداری کے بدلے یہ جفا شعاری۔ شہنواز: رہے جو غیر کی ہو کر کروں پھر بھی میں پیار اس سے اگر جلتا ہو سر تیرا تو سلگاؤں سگار اس سے طلحہ: خیر اگر آپ میری موت سے خوش ہوں تو خوشی سے ایک وفادار بی بی کو مار ڈالو، مگر یاد رکھو اس کے بعد یاد کر کے روؤ گے۔ پچھتاؤ گے۔ شہنواز: تجھ کو ذبح کر کے پچھتاؤں گا۔ کبھی نہیں، ہرگز نہیں۔ نہ روؤں میں جو تیری جان پر ہزار بنے چراغ گھی سے جلے تو تیرا مزار بنے طلحہ: اچھا بھولے شوہر! خدا کے لیے اتنا کہہ دے کہ جا تجھے خدا بخشے۔ شہنواز: تجھے اور خدا بخشے۔ تجھ سی حرام کار مردار کو خدا بخشے۔ ذلیل بدکار۔ طلحہ: خیر میں ذلیل سہی بدکار سہی۔ مگر یہ لڑکا معصوم ہے۔ اگر یہ اپنی ماں کی گود کو یاد کرے،تو اپنی گود میں بٹھا لینا۔ شہنواز: یہ نہ۔ نہ معلوم یہ نطفہ حرام کس کی اولاد ہے۔ اس لیے دیکھ یہ تجھ سے پہلے جہنم کو روانہ ہوتا ہے۔ (گولی سے لڑکے کو مار دیتا ہے) طلحہ: خدایا انصاف۔ شہنواز: مکار، فاحشہ! تو بھی اس کے ساتھ روانہ ہو جا۔ دایہ: اف خدا بچانا۔ شہنواز: بس ٹھہر۔ مولوی: خبردار۔ (دایہ کا چھوٹی لڑکی کو لے کر بھاگنا) (شہنواز کا اس کے تعاقب میں فیر کرتے ہوئے جانا۔ مولوی کا آنا اور اپنا عصا دکھا کر کہنا۔ شہنواز کا رک جانا) (پہلے ڈراپ کا اختتام پانا) ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر پہلا عیش گاہ (شیر ویہ شہزادہ مع شہنواز و دیگر مصاحب درباریوں کے بیٹھے نظر آنا) گانا سہیلیاں مالنیاں بولو بولو۔ دوہنیوا تو ہم لیتے ہیں۔ کہدو ان کا مول۔ کیسی ہے ان کی بو دیکھیں ۔ کہدو تو ذرا چھو دیکھیں۔ قیمت پوری پوری۔ پھر گھونگٹو ڈالو کھو۔ مالنیاں۔۔۔ شہزادہ: مزا آتا نہیں کچھ اب تو ان کے ناچ گانے میں کہاں لذت اگر ہو ایک ہی شے روز کھانے میں مابدولت کی خوشی تھی کہ تمام تھیٹر ایکٹر سیں بلائی جائیں اور وہ اپنا اپنا کمال مع جمال دکھائیں۔ شہنواز: حضور میں نے بندوبست کیا ہے اور ایک آدمی پھر روانہ کرتا ہوں۔ (مولوی صاحب تشریف لاتے ہیں) مولوی: خداوند تعالیٰ دین و ایمان کی حفاظت کرے۔ تمام مسجدوں یتیم خانوں سے رپورٹیں آ چکی ہیں۔ مگر اس لڑکی کا کچھ پتہ نہ چلا۔ شہزادہ: اچھا آپ تشریف رکھیں۔ میں اس قصہ کو اور بھی اطمینان کے ساتھ سنوں گا۔ (ناٹک کے منیجر و ڈائریکٹر کا مع ایکٹروں کے آنا) ہمارے معزز مہمانوں کا تعارف کرایا جائے۔ (سب ایک طرف بیٹھ جاتے ہیں) مولوی: ہاں بڑے معزز مہمان۔ مصاحب: حضور آپ پرنس تھیٹریکل کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ دو ایکٹرس آپ کے یہاں ملازم ہیں اور آپ پنو کمپنی کے منیجر ہیں۔ آپ کے ساتھ کی ایکٹرس نے ’’ ایزیو لایک اٹ‘‘ میں روز کا پارٹ بے مثل ادا کی اتھا۔ تمام شہر میں شہرت ہو رہی ہے۔ مولوی: خدا بچائے ان ناہنجاروں سے۔ شہزادہ: اچھا شروع کیجئے۔ (ایک ایکٹرس کا گانا) مجھے تیکھے چتون سے کیو گھائل، چشم میری غمناک ہوئی ہے حسرت ساری خاک ہوئی ہے۔ جب سے نظر آیئو سانوریا۔ نظریا کی ماری۔ کیسی ہردے میں گڑیا۔ سدھ بدھ بسرگیو ہے تن کی۔ وا کے درشن کی لگن لگی۔ کہو کوئی جائے پیاسے موری بتیاں۔ برہا بروگ سے پھٹت ہے چھتیاں۔ ہوا ہوں توبہ دل سے مائل۔ شہزادہ: وہ لیڈی کس اکھاڑے کی پری ہے۔ ڈائریکٹر: حضور یہ غیبی امداد میرے حق میں نازل ہوئی ہے۔ شہزادہ: اچھا اسے گانے کو کہو۔ (گانا راحیل کا) کیسے ملوں ہائے رے البیلا چھیلا سے۔ جرادے چنتا چنتا موہے بھاری اوٹھت ہردے میں مورے گھڑی گھڑی پیڑ۔ درشن بن آوے ناہیں موہے دھیر۔ ہوں بے قرار۔ ہوں دلفگار۔ ہوں میں لاچار۔ کیسے ملوں۔ ایک بار پھر دیجئے درشن موہے شیام تجھ بن گہرا یو لگت جیون دیپک بن دہام برہا میں تڑپت ہوں توری ہی نسدن۔ جیسے جل بن مچھلیاں پیا شیام جی موری عرض مان لو۔ ہوں بے قرار، ہوں دلفگار، ہوں میں لاچار۔ کیسے ملوں۔ (شہزادہ راحیل کے گانے کو سن کر اس پر فدا ہو جاتا ہے اور خوشی سے کہتا ہے) شہزادہ: ’’ اچھا انہیں درجہ بدرجہ انعام دیا جائے۔‘‘ (سب کا چلا جانا۔ مولوی صاحب رہتے ہیں) مولوی: (خود سے) سلطنت کے کام کی نوبت کہاں عیش و عشرت سے تجھے فرصت کہاں ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر دوسرا راستہ شہزادہ: خدا کا شکر ہے ہر سو ہے جلوہ کامیابی کا نہ اپنے کام میں کھٹکا رہا اب لاجوابی کا نہایت مضطرب ہے دل میرا راحیل کی خاطر مداوا کیجئے اب جلد دل کی اضطرابی کا شہنواز: میری رائے تو یہ ہے کہ آپ راحیل کی محبت سے ہاتھ اٹھائیں۔ شہزادہ: کیوں؟ شہنواز: اس لیے کہ وہ آپ کے چھوٹے بھائی برجیس کی معشوقہ ہے۔ شہزادہ: اگر برجیس کو راحیل کی چاہ ہو تو بس اسے آج ہی شہر سے نکال دو اور اس کی فوج کو سرحدی انتظام کے حیلے سے ٹال دو۔ (جانا شہزادہ کا) شہنواز: (خود سے) اب کیا کیا جائے۔ اگر برجیس کا خیال کرتا ہوں، تو اپنے عہدہ کی خیر نہیں۔ نہایت مشکل ہے۔ ہے پر خطر دوراہا کیونکر قدم بڑھاؤں قسمت سے آ پڑے ہیں دو کشتیوں میں پاؤں بس کچھ نہیں جو جی میں آئے گا وہ کروں گا اب مجھے پوچھنے والا کون ہے۔ (برجیس کا آنا) برجیس: کیوں میرے مہربان! کچھ میرا بھی ذکر آیا؟ شہنواز: ہاں ذکر تو آیا تھا۔ برجیس: پھر کیا ہوا؟ شہنواز: مگر شاہ نے قطعی نامنظور کیا۔ برجیس: نامنظور کیوں؟ شہنواز: کہنے لگے کہ میں اپنے بھائی کی شادی ایک بازاری عورت ناچنے گانے والی سے کراؤں۔ کیا شہزادیوں کا کال ہے۔ برجیس: یہ پابندی یہ وضع تو میرے لیے جنجال ہے۔ شہنواز: میری رائے تو یہ ہے کہ تم اس خیال کو چھوڑ دو۔ برجیس: ہرگز نہیں۔ کیا میں راحیل کا خیال چھوڑ دوں۔ ممکن نہیں، آپ ہی کچھ فکر کیجئے۔ شہنواز: آپ کے واسطے اگر میری جان بھی کام آئے تو مجھے انکار نہیں۔ مگر جان دینے سے کام چلتا نہیں۔ تمہارے لیے حکم ہو چکا ہے کہ ایران کی سرحد پر مع فوج کے جاؤ اور دشمنوں کو ہٹاؤ۔ برجیس: بہت مناسب۔ شہنواز: پھر چند روز کے بعد میں خود راحیل سے مل کر وہاں موجود ہوں گا اور آپ کی شادی وہیں کر دوں گا، مگر جاتے وقت ایک خط دینا کہ جس سے راحیل کو اطمینان ہو اور میرے ساتھ آنے سے انکار نہ کرے۔ برجیس: بہت خوب! میں ابھی جاتا ہوں اور اسے سمجھا جاتا ہوں۔ (جانا) شہزادہ: ابھی یہاں برجیس آیا تھا۔ پھر اس نے کیا جواب دیا۔ شہنواز: انہوں نے منظور کر لیا اور وہ کل ہی یہاں سے روانہ ہونے والے ہیں۔ شہزادہ: بہت خوب! شہنواز: صرف اتنا ہی نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ او ربھی خوشامد کا مصالحہ لگایا ہے۔ برجیس اور راحیل کے پھانسنے کے لیے ایک جال تیار کیا ہے۔ شہزادہ: وہ کیا؟ شہنواز: جس کمپنی میں راحیل ملازم ہے اس میں مشکبو، پری نام کی ایک ایکٹرس ہے۔ بس اس سے عارضی میل جول کیجئے۔ اس کے ذریعے سے راحیل کو پھانسیں اور آپ ہمیسہ برجیس کے لباس میں جایا کریں اور ان باتوں پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے۔ شہزادہ: بہت خوب! شہنواز: بس اس ذریعہ سے برجیس بدنام ہو گا اور آپ کا کام ہو جائے گا۔ (شہنواز جاتا ہے) شہزادہ: کچھ پروا نہیں اگر ایسے پانچ سو برجیس مارے جائیں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔ چاہے کسی پر کوئی بھی عذاب ہو۔ بس میرا عشق کامیاب ہو۔ گانا کوئی جئے کوئی جائے جی سے مجھے کیا میری بلا سے۔ ایسی باتوں کی کروں پروا کیوں۔ کوئی جئے۔ دیوانہ کیا ہو جانفشانی زبانی نامہربانی۔ شام و سحر مدام غم خواری۔ جاں نثاری یہاں بے زر کی بانی سے بیزاری سے، منہ دیکھے کی یاری، جھوٹی تابعداری۔ دنیا کا جینا مرنا۔ ان باتوں سے کیا ڈرنا۔ بس اپنی مرضی مرنا۔ اور اپنا ہی مطلب کرنا۔ کوئی جئے۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر تیسرا مکان راحیل (ایرج کا عورت کے بھیس میں آنا) ایرج: (راحیل سے) آؤ آؤ۔ کیا آ گئیں اور جوتے کے بند کھول دوں۔ آج تو پسینے پسینے ہو گئیں۔ راحیل: ہیں تم میرے بزرگ اور ماں کی جگہ ہو کہ میرے جوتے کے بند کھولو۔ میں خود کھولے لیتی ہوں۔ ایرج: نہیں بیٹا! تیرا حسن، تیری وضع، تیری شان اس کام کے لائق نہیں۔ راحیل: تم تو مجھ پر ایسی شفقت فرماتی ہو، گویا مجھے ماں سے بھی زیادہ چاہتی ہو۔ تم نے میرے ساتھ وہ برتاؤ کیا ہے کہ پہلی دایہ کا خیال دل سے بھلا دیا ہے۔ ایرج: (برجیس کو دیکھ کر) بیٹی! برجیس آتا ہے۔ (ایرج کا اندر چلا جانا اور راحیل کا استقبال کو جانا۔ دونوں کا بغل گیر ہو کر گاتے ہوئے آنا) راہ تکت ہوں تمہاری الگ ہی۔ چوموں جو تلووں کو زمین سے اپنے پلکیں چھبیں گی۔ وئی ماری پگ ہی۔ جو یوں رولائے گئے نیناں لگا کے۔ ہم پر ہنسیں گے نرناری، پگ ہی۔ برجیس: آیا ہوں تم سے ملنے عجب اضطراب میں اک پاؤں اس طرف ہے تو اک ہے رکاب میں راحیل: تو کیا کہیں جانے کا ارادہ ہے۔ برجیس: مجبوری۔ ایران کی سرحد پر مع فوج جانے کا حکم ہوا ہے۔ (گانا راحیل کا) جوبن بالارے ساجنوا چالے کس پہ ترپتی چھوڑ۔ اب آنکھیں میں نیند نہ آوے۔ جاؤ نہیں منہ موڑ۔ مجھے لیل و نہار۔ نہیں آوے قرار۔ ہوئی زار و زار۔ لگے اشکوں کے تار۔ غم دوری سے ہار۔ جاؤں زیر مزار۔ دے کے آہ و نالے چالے۔ پھر آپ میدان جنگ سے کب واپس ہوں گے۔ برجیس: جب خدا لائے۔ راحیل: تم تو تڑپتا چھوڑ کے میدان کو چلے کچھ بندوبست دل کی بھی تڑپن کا کر چلے برجیس: بندوبست اطمینان سے۔ میں نے اپنا ایک دستخطی پرچہ وزیراعظم سلطنت شہنواز کو دیا ہے۔ وہ تمہیں موقع پا کر خود دے آوے گا اور اپنی مسجد میں نکاح پڑھاوے گا۔ اس کے ساتھ آنے میں عذر نہ کرنا۔ راحیل: کبھی نہیں، بلکہ خوشی کے ساتھ۔ (گانا راحیل) شادماں جاؤ جاؤ، دلدار، آؤ مورے چھیلا ڈالوں تورے گل بئیاں، مل بجیاں او سیاں جس طرح سے جاتے ہو میری جان پھر آنا جوں پشت دکھاتے ہو یوں ہی رخ بھی دکھانا واں رکھنا میری یاد کہیں بھول نہ جانا سوز غم فرقت سے مجھے جاں نہ جلانا (دونوں جاتے ہیں) ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر چوتھا چڑیا خانہ خان بہادر (فرحت کا گاتے ہوئے آنا) مورے من بھاوے۔ وا کی سانوری مورت۔ کیسے کیسے درس پاؤں۔ توری دیکھ دیکھ کر نیاری شان۔ جیا مگن مگن بھو پھولوں کا۔ سجن پھبن مدن موہن سندر جوبن۔ کاہے کروں۔ جیا دھرکت سجن نین کے تیکھے بان مو پہ چلا گئورہے۔ (دلاور کا ریچھ بن کر آنا) فرحت: تم کہاں کے رہنے والے ہو اور یہ ریچھ کہاں سے لائے ہو؟ منچلا: بیگم صاحبہ! میں دوست نگر کا باسی ہوں۔ اور اس ریچھ کو برہم نگر سے لایا ہوں۔ فرحت: دوست نگر سے کجلی بن نزدیک ہے۔ کیوں کہ ریچھ وہاں بہت ہوتے ہیں، مگر تم نے اس کو کیسے پکڑا؟ منچلا: جی ہاں سچ ہے۔ مگر کجلی بن کے نزدیک ایک تاگنی لہن بڑا جنگل کہلاتا ہے۔ اس پر یہ بہت دل و جان سے شیدا ہے۔ اس لیے جب اس طرف نکل جاتا ہے تو بچارا وہیں پھنس کر رہ جاتا ہے اور پھر وہاں سے نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ پھر ہزار ہا ہم جیسے انسان وہاں جاتے ہیں اور آپ لوگوں کو تماشہ دکھانے کے لیے پکڑ لاتے ہیں۔ فرحت: اچھا اس کا نام کیا ہے؟ منچلا: اس کا نام کا لوگھلیا۔ فرحت: ذرا اس کا تماشہ تو دکھاؤ۔ منچلا: بہت اچھا، چلو بیٹا کولا گھلیا۔ کھڑے ہو جاؤ اور ناچ کر دکھاؤ۔ (گانا منچلا) ناچونا چو کانوں کو اٹھاؤ۔ دم کو ہلائے جاؤ۔ چلو جی اور کھڑے ہو جاؤ ناچ دکھاؤ۔ ہے تیار تین چار گھلوٹی۔ ہاں بڑھے گا۔ اوج کرو گے موج۔ یہاں پہ واہ واہ۔ بجے لوڈگ ڈو گیا۔ ہو صدقے تجھ پہ جیا۔ چلو تم آپ آپ اچھا تیرا نام کالو گھلیا۔ پیو شراب کھاؤ کباب، ہوئے تیار یہاں۔ فرحت: واہ تم نے بہت اچھا سکھایا ہے۔ منچلا: بیگم صاحبہ! اس ظالم نے مجھے بہت حیران کیا ہے، جب کہیں اس قدر ڈھنگ پر آیا ہے۔ فرحت: مگر یہ ریچھ کچھ دوسرے ریچھوں سے علیحدہ نظر آتا ہے۔ منچلا: اجی اس میں تعجب ہی کیا ہے۔ ریچھ اور بندر اگلے زمانے میں انسان تھے۔ یہ تو عشق بے درنگ کی وجہ سے جانوروں کے جسم میں چلے گئے تھے۔ فرحت: مگر یہ ریچھ ہم کو بہت پیارا معلوم ہوتا ہے۔ منچلا: اگر ایسا ہے تو لے لو۔ چڑیا خانے کی سجاوٹ ہو گی۔ فرحت: اس کی قیمت کیا ہے؟ منچلا: پانچسو۔ فرحت: پانچسو تو بہت ہے۔ اگر منظور ہے تو سو لے لو۔ منچلا: اجی نہیں۔ سو روپیہ تو اس کی دم کی قیمت ہے۔ فرحت: اچھا یہ لو پانچسو روپیہ کے نوٹ اور اس کے ساتھ کے پنجرہ میں بند کر دو۔ منچلا: چلو بیٹا کالو! اب یہاں مزے اڑاؤ اور بندہ چلا۔ بیگم صاحبہ! یہ آپ کے نام کا ڈنکا اور یہ بیٹا تیرے نام کا ڈنکا بجا۔ (ڈگ ڈگی) فرحت: پیارے دلاور! تیری محبت مجھے کیسا ستا رہی ہے۔ (کالو گھلیا جو دراصل دلاور ہے) دلاور: اور تیری جدائی بھی مجھے ریچھ بنا کر جا بجا نچوا رہی ہے۔ فرحت: میرے پیارے ریچھ! کیا تجھ پ ربھی کسیبے وفا نے ظلم کیا ہے؟ دلاور: بے شک جس طرح تجھ کو حضرت عشق نے دیوانہ بنا رکھا ہے، اسی طرح مجھے بھی ایک نازنین نے ریچھ بنا رکھا ہے۔ فرحت: (حیران ہو کر) ہیں یہ کیا، ریچھ تو باتیں کرتا ہے؟ دلاور: اجی اس میں تعجب ہی کیا ہے۔ جو اصلی ریچھ ہوتا ہے تو وہ انسانی کلام برابر سمجھتا ہے۔ فرحت: بھلا بتا تو سہی۔ اس وقت میرا پیارا دلاور کہاں ہے؟ دلاور: اس کو ایک حسیں کافرہ نے لوہے کے پنجرے میں بند کر رکھا ہے۔ فرحت: تو کیا وہ صورت شکل سے بھی بدل گیا۔ دلاور: جی ہاں! بالکل وہ آج کل انسان سے حیوان بن گیا ہے۔ فرحت: تو کیا تو اس سے میری ملاقات کرا سکتا ہے؟ دلاور: اجی ملاقات کس کا نام۔ بندہ آپ کو اس کے پہلو میں بٹھا سکتا ہے۔ فرحت: اچھا تو پنجرے سے باہر آ اور میری تمنا برلا۔ دلاور: دیکھئے جس طرح میں کہوں، اسی طرح کیجئے گا تو ضرور امید ہے کہ خدا کی قدرت سے ابھی آپ کا دلاور خود یہاں موجود ہو جائے گا۔ فرحت: اچھا میں کیا کروں؟ دلاور: بس صرف آپ خدا سے دعا کیجئے۔ فرحت: وہ کیسے؟ دلاور: جیسے میں بتاؤں۔ فرحت: اچھا بتا؟ دلاور: اچھا تیار ہو جاؤ۔ پہلے دونوں ہاتھوں کو اٹھاؤ۔ آنکھوں کو بند کر لو۔ پھر بولو۔ وہ منتر پڑھتی جاؤ۔ کہو بادل گرجے گھورم گھور۔ دلاور میرے آرے میرے ٹھور۔ چلو آنکھیں کھول دو۔ فرحت: کون پیارا دلاور۔ یہ تو نے کیا حال بنایا؟ دلاور: پیاری جب تیرے باپ نے چڑیا بنا کر اس میں تجھے نظر بند کیا اور مجھے ملاقات کرنے کے لیے کوئی رستہ نہ ملا، تو آج اپنے منچلے دوست کو مداری بنایا اور میں خود ریچھ بن کر تیرے پاس آیا تاکہ تیرا دیدار نصیب ہو۔ فرحت: اور میں نے بھی تیری جدائی میں بہت دکھ اٹھایا۔ گانا دلاور: (دونوں کا مل کر ) تورے جوبن کی نرالی بہار۔ پیاری کامنیاں۔ دل سے کروں۔ جاں نثار۔ نرالی بہار۔ مت کر غم تو ہمدم نادر سرور۔ تن من سارا۔ پیارا پیارا۔ نرالی بہار۔ فرحت: جی جان سے تو ہے موہے پیارا۔ تم پرواروں پران رے۔ اے میرے ذیشان ہے یہ اب ارمان۔ تو من سے پیارا۔ تن سے پیارا۔ دھن سے پیارا۔ دلداد تو۔ گلزار تو۔ تو گھر بار کا سہارا۔ مورا پیارا۔ نرالی بہار۔ دلاور: پیاری فرحت! جب تیری جدائی نے مجھے بیقرار کر دیا تو میں وحشت میں آ کر فوراً ایک پیپا شراب میں ساڑھے سیر کڑوا سم پیس کر پی گیا کہ مر جاؤں۔ مگر کمبخت سخت جان۔ نہ نکلی۔ صرف غش آ کر رہ گیا اور پانچ روز کے بعد صحیح و سلامت کان پھٹ پھٹا کر اٹھ کھڑا ہو۔ ذری دیکھ۔ دیکھ سامنے سے تیرے والد اور سر منصور آ رہے ہیں۔ فرحت: ہاں ہاں چھپ جاؤ۔ دلاور سے ریچھ فوراً بن جاؤ۔ (بادل خاں و سر منصور آتے ہیں) بادل خاں: اجی آپ ان باتوں کا ہرگز خیال نہ کریں۔ اس میں شک نہیں کہ دلاور فرحت پر دل و جان سے شیدا ہے۔ مگر دیکھئے نامیں نے بھی یہ چڑیا خانہ اس واسطے بنوایا ہے کہ لڑکی بھی الگ رہے اور دلاور بھی کسی صورت اس سے ملنے نہ پاوے۔ دلاور: (سائڈ) مگر بندہ تو یہاں ہی سے حاضر ہے۔ سرمنصور: مکھڑا تیرا غضب کا انداز ہے بلا کا کیا خاک مانگے پانی مارا تیری ادا کا دلاور: بے دم کا الو آیا ہے عشق دلربا کا ماروں وہ جوتا پھٹ جائے سر ہی بے حیا کا سر منصور: خان بہادر صاحب! آپ یہ تو فرمایئے کہ شادی خانہ آبادی کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ بادل خاں: بس آپ برابر گیارہ تاریخ بدھ کی رات کو سہرا باندھ کر آیئے اور نکاح پڑھا کر فرحت کو ساتھ ہی گاڑی میں بٹھا کر لے جایئے۔ (دونوں کے بیچ میں دلاور کا بشکل ریچھ کے کھڑا ہونا) سرمنصور: ہائے ہائے مر گیا۔ فرحت: گھبراؤ نہیں۔ یہ ریچھ کاٹتا نہیں ہے۔ میں نے آج ہی خریدا ہے۔ بادل خاں: اری چھوکری! تو نے کس کے حکم سے ریچھ خریدا ہے؟ فرحت: ابا جان! یہ ریچھ مجھے پیارا معلوم ہوا۔ اس لیے میں نے خرید لیا۔ سر منصور: ارے اب تو اس ظالم کالے بھوت کو پنجرے میں بند کر۔ فرحت: ابا جان نہ گھبراؤ۔ یہ ریچھ آدمی کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ سرمنصور: ارے یہ کم بخت آدمیوں سے نفرت کرتی ہے اور حیوانوں سے محبت کرتی ہے۔ بادل خاں: جناب سر صاحب ابھی اس کی طبیعت میں بچپن ہے، کیونکہ نادان ہے۔ سرمنصور: ہاں سچ ہے۔ کیونکہ ابھی تو یہ کنواری ہے۔ یہ کیا جانے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ بادل خاں: خیر چلئے، دیر نہ کیجئے۔ فرحت! خبردار کسی کو گھر میں آنے نہ دینا۔ ہوشیار رہنا۔ سر منصور: ہاں ہوشیار خبردار! (دونوں کا جانا) فرحت: پیارے! جس دن سے میرے باپ کو خان بہادری کاخطاب ملا ہے۔ تب سے یہ خبط کا سودا ہو گیا ہے کہ میں اپنی بیٹی کو کسی بڑے بھاری خطاب والے سے بیاہوں گا، اس لیے تم بھی ایک ترکیب کرو۔ دلاور: یعنی۔ فرحت: کہ تم بھی ایران کے سپہ سالار بن کر آ جاؤ اور اس پھندے میں میرے باپ کو پھنساؤ۔ دلاور: ہاں یہ ترکیب خوب ہے پیاری۔ لے بس سپہ سالار بننا میرا کام ہے۔ خدا کی قسم! وہ جادو چلاؤں کہ خان بہادر صاحب کو بندر کی طرح نچاؤں۔ (گانا دلاور) چلوں چلت چال جنیاں ہر بار بار ایسی کروں جیسے مجنوں۔ فرحت: دیوان میں پیا گھر الگ تھلگ خوشی سے رہو۔ جاؤ ٹھہراؤ ٹھہرتی ہوں جانی دلبر مورے من مہروا۔ (چلے جاتے ہیں) ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر پانچواں خواب گاہ (شہنواز کا سوتے ہوئے نظر آنا) شہنواز: خون۔ خون۔ او پکڑو خونی کو، میں کوئی نہیں۔ او میرے خدا! کیا میں طلحہ کو زندہ دیکھ رہا ہوں۔ او طلحہ! تو اس طرح سولہ برس سے ستا رہی ہے اور یہاں تک ستانے لگی کہ عالم ارواح سے اپنے مددگاروں کو لائی ہے۔ خیر دیکھا جائے گا۔ آج ہی بس آج ہی او رابھی فی الفور۔ او میرے خیالوں کو بزدل بنانے والی روح! ہٹ جا۔ دیکھوں طلحہ! اب تجھے قبرستان میں کون پناہ دے سکتا ہے۔ کیا تو آرام سے سو سکے گی۔ کبھی نہیں۔ بس یہ کدال ہے اور تیرا نشان ہے۔ اب اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ (شہنواز کا بڑبڑاتا ہوا وہاں سے قبرستان کو جانا) ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر چھٹا قبرستان (شہنواز کا کدال لیے ہوئے آنا) شہنواز: لعنت۔ پھٹکار۔ بنایا جس نے ان قبروں کو اس معمار پر لعنت شجر پر کیا حجر پر کیا در و دیوار پر لعنت اے نادان! یہ سماں تو اپنے آپ دیوانہ بنا جو اس گندے جسم کی خاطر کا شامیانہ بنا۔ طلحہ مجھے بتا۔ تو کس مکان میں ہے۔ او پلید بدکار! جواب دے کہ شہر خموشاں کے کس اجزائے ایمان میں ہے۔ ورنہ تیرے لیے ناحق تیرے کسی ہمسایہ کا جھونپڑا جڑ سے اکھڑ جائے گا۔ او بدکار! تیرے لیے محلہ کا محلہ اجڑ جائے گا۔ میں نہیں بولتی۔ (ایک قبر کو کھود کر) خیر نکلو ایک ایک کر کے نکلو۔ دی ہے پناہ تم نے جو ان بدخصال کو اب بھاگتے کہاں ہو سنبھالو کدال کو غیبی آواز: عذاب ہو گا جو ڈھائے گا تو حویلیاں منزل عدم کی کہ اس جگہ کا یہ پتہ پتہ گواہی دے گا تیرے ستم کی شہنواز: دینے دو ۔ یہاں اس سے کون ڈرتا ہے۔ (پھر کھودتا ہے) غیبی آواز: خبردار! شہنواز: ہیں کون؟ کوئی نہیں۔ (پھر کھودتا ہے) غیبی آواز: (ظاہر ہو کر) زمیں کے ہوں اوپر نہ زیر زمیں ہوں ہوں میں ہر جگہ اور کہیں بھی نہیں ہوں (شہنواز روح کو مارنے دوڑتاہے) تمام قبریں پڑی ہیں خالی نہ کام آئے گی یاں کدالی! کہ رکتی مٹھی میں کب ہوا ہے ترا ہے شاید دماغ خالی (اتنے میں روح کا غائب ہونا، شہنواز کا حیرت زدہ ہونا) (ٹیبلو) ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر ساتواں مکان بادل خاں بادل خاں: بھلا استاد! یہ تو بتاؤ کہ جو پٹے کا ہاتھ جانتا ہے وہ دشمن سے سامنا کر سکتا ہے۔ استاد پہلوان: ہزاروں دشمنوں سے۔ بادل خاں: بھلا میں پٹہ پھرانا سیکھ جاؤں تو کیا سر کا خطاب مل جائے گا۔ استاد پہلوان: سر تو ادنیٰ ہے۔ سر سے بھی اعلیٰ خطاب ملے گا۔ بادل خاں: اچھا آپ مجھے اپنی پٹے بازی سکھایئے۔ استاد پہلوان: اچھا تو سامنے آ جاؤ۔ وہاں کھڑے ہو جاؤ۔ اور دیکھو! جیسے ہم قدم اٹھائیں، ویسے ہی تم بھی اٹھاؤ۔ اور جیسے ہم ہاتھ چلائیں، ویسے تم چلاؤ۔ دیکھو خبردار اگر دشمن دایاں ہاتھ روکے تم کود کر بائیں ہاتھ پر چلے جاؤ۔ وہاں سے ویسے کود کر لاٹھی چلانا۔ (پہلوان کا لاٹھی چلانا اور لاٹھی کا منشی کے سر میں لگ جانا) منشی: اوہ تمہارا بیڑا تباہ ہو۔ میرا سر پھوڑ ڈالا۔ بادل خاں: اوہ اپنے پہلوان کا ہاتھ منشی جی کو لگ گیا۔ توبہ توبہ یہ برا ہوا۔ منشی جی معاف فرمایئے۔ا ٓئندہ ایسی گستاخی کو خیال میں نہ لایئے۔ منشی: وہ جناب وہ پہلے تو ٹکور دینا۔ پھر معافی مانگنا۔ خدا کی قسم! آپ بھی خوب ہیں۔ (پہلوان کا جانا) بادل خاں: خیر اب کل کا سبق جو باقی ہے سو دیجئے۔ منشی: سنو! نثر اس کلام کا نام ہے کہ جیسے ہم اور آپ باتیں کرتے ہیں۔ اور نظم وہ جسے شاعر لوگ غزل کہتے ہیں۔ بادل خاں: اوہو! کیا تعجب کیا بات ہے کہ چالیس برس سے میں نثر میں باتیں کرتا ہوں، مگر آج تک اس سے بے خبر تھا۔ منشی: اور نظم یہ ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔ نامی خاں حجام سب کے مونڈتے تھے سر کے بال عشق کے کوچے میں اس کی بھی حجامت ہو گئی بادل خاں: واہ واہ! منشی جی کی خوب حجامت ہو گئی۔ یہی تو بڑے مطلب کی بات ہے۔ جو نثر نہیں۔ وہ نظم۔ اور جو نظم نہیں وہ نثر۔ یہ تو مجھے خوب یاد آیا۔ منشی: اور جو عورت ہے اسے مونث کہتے ہیں اور جو مرد ہے اس کو مذکر کرتے ہیں۔ بادل خاں: سبحان اللہ! آج بہت نئی نئی باتیں معلوم ہو گئیں۔ یہ بھی تعجب کی بات ہے کہ میں اتنا بڑا مرد ہوا مگر اب تک میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میں مذکر ہوں یا مونث۔ منشی: اور خواجہ سرا کہتے ہیں ہیجڑے کو۔ ہیجڑے کو محنث بھی کہتے ہیں۔ بس یہ اچھی طرح سے یاد کر لو۔ آج یہیں تک ہی رہنے دیجئے۔ پھر کل نیا سبق لیجئے۔ بادل خاں: اچھا آپ یوں ہی اور سبق پڑھایا کیجئے۔ دیکھو گھڑ یار سنگھ ہم نے منطق پڑھنا شروع کر دیا ہے۔ گھڑیار سنگھ: کاہو کہو وہ منقط کیا چیز ہے۔ بادل: منطق۔ منطق میں بڑا مزا ہے۔ گھڑیار سنگھ: بڑا مجا ہے۔ کیسا چوری لڈو پیڑا ایسا ہے۔ بادل: ارے بے وقوف لڈو پیڑا نہیں۔ اس میں مونث اور مذکر رکھا ہے۔ گھڑیار سنگھ: بھلا ہو مونث اور مذکر کا ہو کہاوت ہے۔ بادل: منشی جی کہتے ہیں کہ ہم تم سب مذکر ہیں۔ گھڑیار سنگھ: یار منشی جی تو بڑا بدماش ہے۔ ہم سب کو جو مذکر کہت ہے وہ مذکر، اس کا باپ مذکر، اس کا دادا مذکر اور جواب دے کر کہے ۔ تو رام کی دیا سے لاٹھی سے کروں مرمت۔ منشی: ارے او گنوار کالٹھ! تو کیا جانے علم کی باتیں جو تو کرتا ہے روباہ بازی کی گھاتیں۔ گھڑیار سنگھ: دیکھو ہو کھان بہادر صاحب تنے یا کا سجھائے۔ جو ہم سے ٹر ٹر کر ہے۔ تو رام جانے ایک لاٹھی وا کی منطق و نطق کو بھلا دیوے۔ بادل: او چپ رہو۔ ان کے منہ نہ لگو۔ یہ بانک پٹے کا بڑا استاد ہے۔ اس کو ایسا ہنر یاد ہے کہ ایک لاٹھی میں لاکھوں آدمیوں کو گرا دیتا ہے۔ منشی: لاحول ولا قوۃ یہ کیا ڈینگ مارتا ہے۔ ارے گنوار کالٹھ ہے بھینس ہانکنے کا ہتھیار۔ علم قلم کی لیاقت وہ جو بڑے بڑے سرکشوں کی گردن ایک بات میں جھکا دیتی ہے۔ قلم کی ایک جنبش تیغ دو دم بن کر لاکھوں آدمیوں کا سر دم بھر میں اڑا دیتی ہے۔ گھڑیار سنگھ: اچھا ٹھہر جاؤ۔ ہم کا تو لگ وردم ٹمٹم بناوت ہے۔ استاد: توبہ توبہ حضور یہ کیا طوفان۔ یہ خان بہادر کا گھر ہے یا جنگ کا میدان۔ بادل: دیکھو تو استاد یہ دونوں اپنے اپنے علم کی بڑائی کرتے ہیں اور زبان سے دعویٰ کرتے کرتے لٹھ اور قلمدان سے لڑتے مرتے ہیں۔ استاد: مگر حضور یہ دعویٰ کس بات کا کرتے ہیں۔ بادل: ایک کہتا ہے کہ پٹے بازی کا ہنر سب سے اعلیٰ ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ قلم کا زور سب پر بالا ہے۔ استاد: نہیں نہیں جس کو گانے بجانے کا علم نہیں وہ ایسے خان بہادر کے جلسے کے بالکل ناقابل ہیں۔ گھڑیار سنگھ: ارے او تمبورے خان بند کر اپنی جبان۔ ورنہ تمبورے کی تان کے ساتھ نکس جائے تورا پران۔ استاد: ارے دیکھ زبان سنبھال کر بات کر۔ گھڑیار سنگھ: ارے ایک رنڈی کا لکتانی گویا ہوئے کے ہم سے سوائے میر امیری کرت ہے جو تیری طرح سمجھے سرگتی تمبورا بجائیں۔ ناچتے گائیں۔ تو گلت کا کام اور راج پاٹ حکومت کون چلائے۔ خان بہادر صاحب تو بس بہادری کا علم سیکھنا چاہیے۔ منشی: ارے او گدھے! یہ کیا جھک مارتا ہے؟ گھڑیار سنگھ: اب اس کی سارنگی اور تمبورا دونوں کرتا ہوں چورا چورا۔ گانا آئی قضا پاؤ سزا ہائے موا مورے باپ رے۔ میں موا۔ ہائے ہائے میرا تمبورا ٹوٹا۔ چپ چپ ابھی توری ہٹ نہیں لاگا۔ ابے جابے نہیں تو ماروں گا گھونسا۔ گلے گلے چپکے سے ایک جوتا اور دھوم کیل مچا۔ آفت میں تو تو موا۔ خوب آیا مزا۔ اجی واہ واہ۔ شبنم: کیوں جی یہ کیا ہے دنگا مچانا۔ گھر ہے خاصہ بھٹیار خانہ۔ ذرا سوچو۔ بادل: لو ایک آفت آ گئی اور دوسری بلا آئی۔ ارے کچھ نہیں دنگا۔ یہ تو بڑے استادوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ شبنم: باتیں اور گھاتیں سب جانتی ہوں۔ دیکھو میں صاف کہہ دیتی ہوں کہ میرے گھر میں ایسے بدمعاش نہ آنے پائیں اور یہاں لڑائی نہ مچائیں۔ بادل خاں: (ہنس کر) کیا زور زور سے باتیں کرنے سے ہم ڈر گئے۔ آخر ہے نہ وہی عورت بد ذات۔ اری تو اتنا نہیں سمجھتی کہ مجھ ایسے خان بہادر کے ہوتے یہاں کون دم مار سکتا ہے۔ جانتی نہیں کہ ولایت کے شہنشاہ نے مجھے خان بہادر کا خطاب دیا ہے۔ شبنم: آپ کو خطاب کیا دیا ہے، گویا گھر بھر کی جان کے لیے ایک عذاب دے دیا ہے۔ بھلا وہ آپ نے منشی اور مولوی کیوں رکھا ہے۔ بادل خاں: علم پڑھنے کے لیے رکھا ہے۔ کیا تو یہ جانتی ہے کہ میں نے بچپن سے نہیں سیکھا۔ تو اب چالیس برس کا بھی ہو کر نہ سیکھوں۔ بھلا میرے سوال کا جواب تو دے۔ تو نے جو اتنی دیر سے باتیں کیں ۔ وہ سب کیسی باتیں تھیں۔ شبنم: میں نے تو سب تمہاری بھلائی کی باتیں کیں اور کیسی باتیں تھیں۔ بادل خاں: ارے بھلائی برائی کو رہنے دے۔ میں تو یہ پوچھتا ہوں کہ میں اور تو جو باتیں کرتے ہیں اس کو کیا کہتے ہیں؟ شبنم: اس کو تو میاں بیوی کا جھگڑا کہتے ہیں۔ بادل: بیوقوف جاہل۔۔۔۔ جو ہم تم باتیں کرتے ہیں، اس کو نثر کہتے ہیں۔ شبنم: نثر وہ کیا ہے؟ بادل خاں: جو نظم نہیں، وہ نثر جو نثر نہیں وہ نظم۔ سمجھی۔ دیکھ اس کو نظم کہتے ہیں۔ نائی اور حجام سب کے مونڈتے تھے سر کے بال کوچہ دلدار میں ان کی حجامت ہو گئی اب اس کو علمی لیاقت سنا کر دنگ کیے دیتا ہوں۔ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ تو کون اور میں کون؟ شبنم: تم خاوند اور میں بیوی۔ بادل خاں: چپ یہاں خاوند کون گدھا۔ اری میں تو پوچھتا ہوں کہ تیری ماں کون اور میرا باپ کون؟ بھینس کون اور بھینسا کون؟ شبنم: دیکھو اب تم حد سے زیادہ بڑھنے لگے۔ خدا جانے کیا بکنے لگے۔ بادل خاں: کیوں بس ناطقہ بند ہو گیا۔ اری میں منطق پڑھتا ہوں۔ بس تو اس کا جواب دے تو جانوں کہ مرد کو کیا کہتے ہیں اور عورت کو کیا کہتے ہیں۔ شبنم: ارے یہ کیا پاگلوں کی طرح بکتے ہو۔ یہ کیسی فضیحتی کرتے ہو۔ بادل خاں: اری فضیحتی تو تیری ہوتی ہے۔ میری کاہے کی۔تو یہ سن لو اور اچھی طرح یاد رکھو۔ جو مرد ہے اس کو مذکر کہتے ہیں اور عورت کو مونث اور اسی طرح ہیجڑے کو محنث کہتے ہیں۔ شبنم: افسوس آپ تو کچھ لال بجھکڑ کے ڈھنگ سیکھتے جاتے ہو۔ آفت ہے خان بہادری کا دے کے یہ خطاب بدبو سے اس گبر جنے کو بادل بنا دیا پٹہ گلے میں باندھ لیا اور اکڑ گیا وحشی تھا اس کو اور بھی پاگل بنا دیا گانا اک وہ ہیں جو ستم و جور جفا کرتے ہیں ایک ہم ہیں کہ سدا ظلم سہا کرتے ہیں لے کے دل باتوں ہی باتوں میں اڑا دیتے ہیں کیا دغا باز ہیں مل مل کے دغا کرتے ہیں حاجت شمع نہیں قبر میں ہم کو ہرگز داغ حسرت مرے ہر شب یہ جلا کرتے ہیں منچلا: آداب عرض حضور انور! بادل: ہیں تم کون؟ منچلا: حضور میں ایران کے سپہ سالار کا ایڈی کانگ ہوں۔ بادل: بس ایران کے ایڈی کانگ اور پھر سپہ سالار کے اوہو! آیئے آیئے آپ جیسے بڑے آدمی کا یہاں آنا میرے لیے خوش نصیبی ہے۔ کہیے کیونکر آنا ہوا۔ منچلا: پہلے آپ تو یہ بتلایئے کہ آپ کی کوئی نیک سیرت لڑکی بھی ہے۔ بادل: ہاں ہاں۔ مگر اس سوال سے آپ کو کیا مطلب؟ منچلا: اجی یہی تو سارا مطلب ہے۔ ہمارے سپہ سالار عالی وقار نے یہ سوال کیا ہے کہ بادل: (بات کاٹ کر) کیا سوال مجھ سے کیا ہے؟ منچلا: جی ہاں کہیں جاتے جاتے ان کی نگاہ کھڑکی پر پڑ گئی اور سنان الفت سینہ میں گڑ گئی۔ تب سے اس کے بغیر زندگی محال ہے، اس لیے آپ سے شادی کا سوال ہے۔ بادل: ہیں کیا کہا شادی وہ بھی مھ سے؟ منچلا: جی نہیں آپ کی لڑکی سے۔ بادل: میری لڑکی سے؟ کیا یہ میں نے ٹھیک سنا۔ کیا یہ آپ نے سچ کہا کہ وہ میرے داماد بننا چاہتے ہیں۔ منچلا: جی ہاں۔ مگر وہ دامداد بننے سے پیشتر آپ کو شاہ ایران کی طرف سے خلعت فاخرہ پہنانا چاہتے ہیں۔ بادل: کیا شاہ ایران کی طرف سے مجھے خطاب ملے گا۔ او خدا، او خدا۔ منچلا: جی ہاں۔ وہ آپ کو جیا موا احبار ہو۔ اول جلول آغا، ولہم دھوکار جنگ بہادر پی آئی ایف کا ایرانی خطاب بھی دینا چاہتے ہیں۔ بادل: اوہو! میں تو خان بہادر کے خطاب پر پھولا ہوا تھا اور وہ بھی کس کس کی خوشامد کر کے اور کہاں کہاں زور لگایا تھا۔ تب کہیں یہ خان بہادر کا خطاب ملا تھا۔ جناب! کیا خان بہادر کے خطاب سے بھی یہ بڑا خطاب ہے؟ منچلا: اجی اس کے سامنے بیچارے خان بہادر کی کیا اوقات ہے۔ وہ کس شمار قطار میں ہے۔ یہ ایک انچ کا ذرا سا موٹا اور یہ بیس فٹ کا یہاں سے وہاں تک کا خطاب۔ بادل: کیوں جناب ایڈی کانگ صاحب ایران کے دربار میں ایسے ہی بڑے بڑے خطاب ملتے ہیں۔ منچلا: جی ہاں۔ مگر یہ خطاب فقط ہمارے سپہ سالار ہی دے سکتے ہیں۔ بادل خان: خدا کی دین ہے۔ گھر بیٹھے میرے نصیب نے رنگ دکھایا جو ایرانی سپہ سالار کو یہاں کھینچ لایا۔ کیوں صاحب ان جنگی سپہ سالار کا خطاب تو سب سے بڑا ہو گا۔ منچلا:ـ جنگی سپہ سالار کوئی ایسا ویسا نہیں ہے۔ اس کا خطاب تو سب سے اونچا ہے۔ سب سے لمبا ہے۔ بادل: ذرا مہربانی کر کے وہ بھی سنایئے۔ منچلا: سنیے رستم جنگ شیرفگن۔ توپ شکن۔ شمشیر فلک، دھرتی دھمک، پر بہار، آغا بیگ خان دلاوری خان بہادر۔ سی ۔ ایس آئی۔ ایم۔ بی۔ بادل: اوہو اتنے بڑے خطابوں والا ایران کا سپہ سالار میری بیٹی فرحت کا عاشق زار ہے۔ کیوں جناب سپہ سالار کب میری بیٹی سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ منچلا: ابھی اور اس وقت۔ بادل: ہیں اتنی جلدی؟ منچلا: ہاں جی! ان کو تو ایک دم بھی قرار نہیں۔ جب سے انہوں نے اپنے دل کا حال مجھ سے اظہار کیا کہ من بردختر پری پیکر بادل خان بہادر از دل و جان فریفتہ شدم۔ بادل: آہا! فارسی زبان بھی کیسی شیریں ہے۔ میں ضرور سیکھوں گا۔ جب اتنے بڑے متمول سپہ سالار صاحب کا میں سسر ہوں گا تو پھر فارسی بولنا ضرور ہو گا۔ منچلا: اوہو دیکھئے دیکھئے خان بہادر صاحب آپ کے لیے خلعت و خطاب آ گئے۔ بادل: اب میں کیا کروں۔ ارے سب نوکر چاکر کہاں گئے۔ ارے بندو، مردو۔ دور دور۔ منچلا: اجی خان بہادر آپ گھبرایئے نہیں۔ آپ اپنے نوکر کو لے کر کسی دوسرے کمرے میں چلئے اور لباس پہن کر واپس آ جایئے۔ اتنے میں سپہ سالار صاحب بھی تشریف لائیں گے۔ (گانا بادل خان کا) بڑی اومنگ اڑے گا سنگ بنے گی شاہوں سے بڑھ کر شان یہ خوشی کی حد بے حد ہوئی بن ٹھن خلعت پہن کے۔ سر سے بھی سوا اونچا بنوں۔ وہ گھاٹ اور ٹھاٹھ ہر دم ہر بل کر کر پھروں۔ چلوں، اٹھوں، بیٹھوں، گھوموں، گھوں اب تک جو ایسا نہ ہو گا۔ کبھی نہ ہوں شیر جنگ میں والا۔ ملا ہے مجھ کو بلا جو دیکھئے کوئی چھیلا۔ مچاوے تو یہ تلا۔ (گاتے گاتے چلے آنا) ٭٭٭ ایکٹ دوسرا منظر آٹھواں محل خوابگاہ (شہنواز آتا ہے) راحیل: خضر بن کر شب تاریک میں آنے والے خواہشوں کو میری بے تاب بنانے والے شہنواز: تو کیا برجیس کے خط کو نہیں سمجھتی۔ (خط دیتا ہے) راحیل: ہاں ہاں میرے پیارے جو تمہاری خوشی (شہنواز سے) نہیں نہیں وہ یہاں کہاں؟ بھلا کیا شہنواز وزیراعظم آپ ہی کا نام ہے؟ شہنواز: ہاں میرا ہی نام ہے۔ راحیل: آہ کیساباعظمت اور بزرگ نام ہے۔ کیا آپ کو کبھی اپنی عورت کی پاکبازی پر شک ہوا تھا؟ شہنواز: خاموش۔ عورت اور پاکباز۔ راحیل: نہیں میرے حضرت نہیں۔ دنیا کی سب عورتوں پر تہمت نہ لگایئے۔ شہنواز: کیا تو بھی بدشعار عورتوں کی طرف دار ہے۔ شاید تو کسی حور کی بیٹی ہے۔ راحیل: ہاں۔ شہنواز: ہاں تو یہ قدرت کی منصفانہ کارروائی ہے کہ تو برجیس کے بدلے کسی غیر کی عیش گاہ میں آئی ہے۔ راحیل: میں۔ کیا، غیر کی عیش گاہ! شہنواز: ہاں قدرت کے زبردست اور عادل ہاتھ نے تیری کشتی کو ڈبو دیا ۔ جہاں کا موتی تھا، ویسی ہی جگہ پرو دیا۔ راحیل: نہیں نہیں میرے صاحب آپ بچوں والے ہو کر کبھی ایسا کریں گے؟ شہنواز: تو تو ہی کہہ کہ میں اس گندے پانی سے پیدا نہیں ہوں۔ راحیل: ہوں مگر۔ شہنواز: مگر کیا۔ راحیل: ہوں مگر آدھی۔ شہنواز: آدھی کیا؟ راحیل: جو دو شاخوں کی کی ہے دست قدرت نے قلمبندی اس ٹہنی سے یہ پیدا ہوئی ہے پر الم بندی شہنواز: تو مور تیرا باپ تھا یا ماں؟ راحیل: ماں۔ شہنواز: یا اللہ! مور ماں کی بیٹی! تیرا نام؟ راحیل: پیدائشی نام نرگس اور فرضی راحیل۔ شہنواز: تو کیا تو اسی طلحہ کی بیٹی ہے۔ راحیل: تو کیا آپ شہنواز ہیں؟ شہنواز: ہاں۔ راحیل: او ابا جان۔(دونوں کا بغلگیر ہونا) شہنواز: میری آنکھوں کی پتلی نرگس۔ راحیل: ابا جان! تم اپنی بیٹی کو کاندھے پر چڑھا کر غیر کی عیش گاہ تک پہنچانے لائے ہو۔ (روح سلجوق ظاہر ہوتی ہے) روح: او بد انجام۔ دیکھا قدرت کا انجام۔ پلنگ کس کا ہے۔ کس کی بیٹی ہے۔ کس کا کاندھا ہے؟ (غائب ہو جاتی ہے) شہنواز: بد دعاؤں کا تیر دغا کی کمان سے چل رہا ہے۔ بڈھے کا سراب پھل رہا ہے۔ اوہ غریب سلجوق میں آج تیرے دکھ کا اندازہ کر سکتا ہوں۔ ہائے! (شہنواز کا راحیل کو گودی میں لینا اور شہزادہ کا آنا) شہزادہ: خوب وفا شرط دیانت ہو رہی ہے امانت میں خیانت ہو رہی ہے شہنواز: میرے لائق تعظیم شاہ! آپ کو اس وقت الٹے پاؤں واپس ہو جانا چاہیے۔ شہزادہ: کیونکہ آپ کو اس وقت تنہائی درکار ہے۔ شہنواز: خوب ہوتا اگر آپ بھی جان لیتے کہ یہ کون ہے۔ شہزادہ: جی ہاں میری معشوقہ نہیں بلکہ آپ کی معشوقہ۔ شہنواز: ہاں میری معشوقہ اور مجھے اس کے ساتھ ایسا ہی عشق ہے جیسا کہ مرحوم شاہ کو آپ کی ہمشیرہ کے ساتھ اور آپ کے نانا کو آپ کی والدہ کے ساتھ۔ شہزادہ: تو کیا یہ آپ کی بیٹی ہے۔ جب جان کا خوف ہوا تو بیٹی بنا لیا۔ خیر میں معاف کرتا ہوں۔ اس کو میرے حوالے کیجئے۔ شہنواز: بس حضور بس! اب یہ اپنے باپ کی آغوش محبت میں آ گئی۔ اب اس کو جہنم کی ہوا لگنا دشوار ہے۔ شہزادہ: بیٹی ہے تو کیا ہوا۔ اس کا چاہنے والا تمہارا سلطان ہے۔ شہنواز: مجھے معلوم ہے کہ وہ ایک مجسم شیطان ہے۔ شہزادہ: میری منظور نظر ہے۔ شہنواز: مگر میری نور نظر ہے۔ شہزادہ: اچھا، تو یہ یاد رہے کہ میں اگر اپنے وقت کا سلطان ہوں تو اسے تیرے ہی ہاتھوں اپنے بستر تک منگاؤں گا۔ (غصے میں جاتا ہے) شہنواز: جا جا موذی شیطان۔ کیا تیری دھمکیوں سے شہنواز ڈر جائے گا۔ ہرگز نہیں۔ جہاں اتنے خون ہوئے۔ وہاں ایک تیرا اور بھی۔ میں بھی اس وقت تک چین نہ لوں گا کہ جب تک تجھ کو تیرے ہی خون میں لوٹتا نہ دیکھوں گا۔ راحیل: ابا جان! میری ماں تو عصمت مآب تھی۔ شہنواز: کیا کوئی گواہ رکھتی ہو؟ راحیل: آہ ایسا کون ہے جو اس بے گناہ کی طرف سے گواہی ہے۔ (ایرج کا دایہ کے بھیس میں آنا) ایرج: میں گواہ ہوں کہ وہ بے قصور تھی۔ راحیل: میری پیاری دایہ! بتا جلد بتا۔ تو کیا جانتی ہے؟ شہنواز: بتلا۔ بتلا جلد بتلا (ایرج کا مصنوعی کپڑے اتار کر پھینک دینا۔ شہنواز ایرج کو پہچان کر) او ظالم! تو میری بیوی کی عصمت لے کر ابھی تک زندہ ہے۔ (خنجر لے کر مارنا چاہتا ہے) ایرج: اونہہ مجھ کو جان کی کچھ پروا نہیں، لیکن یاد رہے کہ یہ راز یونہی سربستہ رہ جائے گا۔ راحیل: (شہنواز سے لپٹ کر) میرے ابا! پہلے ان سے دریافت تو کر لیجئے۔ شہنواز: اچھا بتا تو کیا جانتا ہے؟ ایرج: دیکھ او نادان دیکھ! یہ خط طلحہ نے میرے نام بھیجے ہیں۔ جن میں سرا سر مجھ سے نفرت ظاہر کی ہے اور بعض خطوط میں بھائی بنایا ہے۔ جب ایسے خطوط میرے پاس آئے۔ تو میں نے تجھ کو لکھا کہ طلحہ خراب ہے۔ اور تو نے بے سمجھے اس غریب کی جان لی۔ (خط دکھاتا ہے) شہنواز: آہ میری عصمت مآب بی بی ! خدا تجھ کو بخشے۔ (طلحہ کی روح ظاہر ہوتی ہے) شہنواز: کون؟ طلحہ۔ معاف کر للہ مجھ کو معاف کر۔ روح طلحہ: تمہاری آنکھوں میں آئے آنسو تو دھلا منہ تمام میرا جہاں میں سولہ برس سے اب تک اسی لیے تھا قیام میرا میں اب ہوں خلد بریں کو جاتی یہ آخری ہے سلام میرا (غائب ہوتی ہے) راحیل: اماں جان! (راحیل کا گرنا، ایرج کا سنبھالنا اور شہنواز کا دو زانو ہو کر تھامنا) (دوسرے ڈراپ کا اختتام پانا) ٭٭٭ ایکٹ تیسرا منظر پہلا محل (شہزادہ شرویہ شراب پیتے نظر آتا ہے) (گانا سہیلیاں) میخواروں پہ رحمت باری۔ چھائی بدریا کاری کاری میخواروں پہ۔۔۔۔ جام چڑھا کر آتشیں تڑکے اب یہاں سے کیونکر جائیں گے شہزادہ: تم رکھو جاری۔ میخوروں پہ سہیلیاں: ہلکی ہلکی بوندیاں برسیں۔ مدہوا بنے۔ دھن کی صافی میں چھن چھن کے ہاں سامان۔ لے مئے نوشی کا گردوں پہ پیاری۔ مجھے پی کر رکھنا ہوشیاری ورنہ ہے دشواری۔ سہیلیاں: کالی گھٹا جمی ہے۔ شہزادہ: بے خود چہک رہے ہیں۔ سہیلیاں: بوندیں بھی پڑ رہی ہیں۔ شہزادہ: شیشے چھلک رہے ہیں۔ سہیلی نمبر۲: بجلی چمک رہی ہے۔ شہزادہ: ہوگی کوئی گلابی۔ اہل فلک کو ہنس کر پیالی پلانے والی۔ سہیلی نمبر۲: کالی بتا رہے ہیں برق کمان کو نشہ زمین کا چڑھ گیا ہے آسمان کو شہزادہ: سامان نشے پانی کا ہیں سب کئے ہوئے بادل بھی آج تو ہیں یقینا پئے ہوئے (اتنے میں مصاحب مع ظالم کے آتا ہے) مصاحب: حضور خادم حاضر ہے۔ شہزادہ: اچھا آ گئے (ظالم کی طرف دیکھ کے) آؤ دلیر، آؤ دلیر! ظالم: حضور میں تو دل رکھتا ہوں نہ دلیری۔ شہزادہ: تو ظالم: (خنجر دکھا کر) حقیقت میں سکہ ہے سچا دلیر بناتا ہے جو لومڑی کو ہی شیر شہزادہ: اچھا ایک خون کا کیا دام ہے؟ ظالم: جناب! جیسا خون ویسا ہی دام ہے۔ کم از کم ایک صد اشرفی۔ شہزادہ: اور جو زندہ پکڑ کر حاضر کرنا ہو۔ ظالم: اس کے ریٹ علیحدہ۔ شہزادہ: اس کے کہو۔ ظالم: پچاس اشرفی۔ شہزادہ: اچھا منظور ہے۔ ظالم: تو لاؤ بیعانہ۔ شہزادہ: (مصاحب سے) اسے ۵۰ اشرفی نقد دے دو۔ اور ۵۰ اشرفی انعام بعد میں ملے گی۔ ظالم: مگر کس کو گرفتار کرنا ہو گا؟ شہزادہ: (ایک مصاحب سے اشارہ کر کے۔ مصاحب کا ظالم کے کان میں کہنا۔ جسے سن کر ظالم کا خوش ہونا اور روپیہ لے کر وہاں سے چلا جانا) بس اب میرے ہاتھ سے اس بد حواس کو کمبخت بچا کر کہاں جائے گا۔ ہاں میرے جان نثارو! میرے قوت بازوؤ! تخلیہ (تمام حاضرین سوائے ایک حبشی غلام کے چلے جاتے ہیں) شہزادہ: وقت؟ حبشی غلام: تیار۔ شہزادہ: ہوشیاری سے۔ حبشی غلام: حضور! جب شاہ مشرقی کو دریچہ مغرب سے گذر کر جنوب کے شاہی محل میں جانا ہو گا۔ بس ادھر کام تمام ہو گا۔ آپ مطمئن رہیے۔ (شہزادہ ہنستا ہوا جاتا ہے) ٭٭٭ ایکٹ تیسرا منظر دوسرا خواب گاہ (ایک مسہری پر راحیل سوتی نظر آتی ہے) (ایک طرف سے ایک سیاہ پوش آتا ہے اور راحیل کو کچھ سونگھا کر اٹھا لے جاتا ہے۔ دوسری طرف سے شہنواز آتا اور مسہری کو خالی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے) شہنواز: آہ ظالم کی چل گئی۔ ایرج ایرج۔ (اندر سے ایرج کی آواز۔ جواب دیتا ہے) ایرج: جی حضور! شہنواز: آہ ہم تباہ ہو گئے۔ (اتنے میں مسلح سپاہیوں کا دستہ اندر آ جاتا ہے اور شہنواز کو زبردستی گرفتار کر کے لے جاتے ہیں۔ مگر ایرج وہاں سے بھاگ جاتا ہے) ٭٭٭ ایکٹ تیسرا منظر تیسرا پہاڑی میدان، خیمہ گاہ (برجیس کچھ سوچتے ہوئے آتا ہے) برجیس: ہے جان کشاکش میں عجب راز نہاں ہے کچھ زور نہ دل پر ہے نہ کہنے میں زباں ہے اب ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ لڑائی تو فتح ہو گئی۔ کیا واپس چلا جاؤں، یہ عدول حکمی ہو گی۔ مگر وہ میرا کیا کریں گے۔ بہت یہی ہو گا کہ جرنیلی سے معزول کر دیں گے، لیکن پیاری راحیل کے جمال جہاں آرا کو تو دیکھ لوں گا۔ (ایک سپاہی آتا ہے) سپاہی: حضور ایک اجنبی شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ برجیس: (دل میں) خدا خیر کرے (سپاہی سے) اچھا آنے دو۔ سپاہی: بہت اچھا حضور ! (سپاہی کا ایرج کے ہمراہ آنا) برجیس: (ایرج کو پہچان کر) آؤ میرے مہربان! آپ یہاں کس طرح آئے۔ مزاج تو اچھا ہے۔ فرمایئے تو سہی۔ یہاں تک آنے کی کیونکر تکلیف گوارا فرمائی؟ ایرج: آپ کو میرے ساتھ ہی چلنا چاہیے اور جو معاملہ ہے وہ آپ کو وہاں جا کر ہی معلوم ہو جائے گا۔ مجھے آپ کو لانے کے لیے ہی شہنواز اور راحیل کا حکم ہے۔ برجیس: ہائے جو خیال تھا وہی ہوا۔ (دونوں جاتے ہیں) ٭٭٭ ایکٹ تیسرا منظر چوتھا محل (شہزاد شرویہ اور چند مصاحبوں کا بیٹھے دکھائی دینا اور سامنے ایک بورے کا کھڑا نظر آنا) شہزادہ: (بورے کی طرف دیکھ کر) ہاں اسے کھولو اور اسے ہوش میں لانے کی فکر کرو۔ (ایک مصاحب آگے بڑھ کر بورے کو کھولتا ہے اور اندر سے راحیل کو عالم بے ہوشی میں نکالتا ہے اور پاکٹ سے ایک شیشی نکال کر اسے سونگھاتا ہے جس کی بو سے اسے چھینکیں آتی ہیں۔ دم زدن میں اسے ہوش آ جاتا ہے اور اپنے سامنے شہزادہ کو جس نے اس وقت برجیس کا لباس زیب تن کیا ہو تاہے، بیٹھا دیکھ کر اس کے گلے سے لپٹ جاتی ہے۔ مگر شہزادہ اسے زبردستی اپنے گلے سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ ادھر سے سپاہی شہنواز کو گرفتار کیے ہوئے لاتے ہیں۔) شہزادہ: (اس کی طرف دیکھ کر) کیوں او مغرور شہنواز! وہ تیرا غرور کیا ہوا۔ آہ وقت کے حاکم سے دشمنی۔ او بیوقوف تو نے مجھے جانا ہی نہیں۔ شہنواز: آہ ظالم! تیری تقدیر یاور تھی کہ تو بچ گیا۔ مگر کیا ہوا کیا بچ کر جائے گا۔ مجھے تو اپنا قیدی مت سمجھ کر۔ میرے سینہ میں دل ہے اور اس دل میں جوش ہے۔ جو تجھ سے اس حالت میں بھی مقابلہ کر سکتا ہے۔ صید پربستہ جسے سمجھتے تھے وہ صیاد ہے قتل کرواتے تھے جس کو اب وہی جلاد ہے شہزادہ: بیٹی بیٹی کر کے میری معشوقہ کے ساتھ مزے اڑانا اور سلطان وقت کے راستہ میں انتقام کے کانٹے بچھانا۔ دیکھ وہ سامنے کون ہے؟ شہنواز: آہ راحیل! شہزادہ: خاموش راحیل کے بے وقوف باپ! اب وہ تیری لڑکی نہیں ہے، بلکہ میری معشوقہ ہے۔ راحیل: ہائے ستم۔ دغا۔ پیارے برجیس! تم نے مجھے کہیں کانہ رکھا۔ آہ مجھ سے دھوکہ کیا گیا۔ یہ تیرے لباس میں تو کوئی غیر انسان ہے۔ آہ و عہد وفا پہچان اب یہاں تک موت کا سامان ہے۔ شہزادہ: (شہنواز کے سامنے راحیل کو زبردستی اپنے پہلو میں بٹھا کر اسے زیر کرنا چاہتا ہے) شہنواز جوش وحشت سے دیوانہ ہو کر زنجیروں کو توڑتا ہوا سپاہیوں کا کھینچتا ہوا شہزادہ سے روبرو ہو کر لڑتا ہے مگر پھر دوسرے مصاحب اسے گرفتار کر لیتے ہیں۔ اتنے میں ایک طرف سے ایرج مع برجیس آتے ہی راحیل کو شیروں کے پنجے سے آزاد کرتا ہے۔ مگر شہنواز اپنے غصہ کو برداشت نہ کر کے برجیس کے ہاتھ سے پستول چھین لیتا ہے اور جھٹ ایک گولی شیرویہ کے سینہ پر چلاتا ہے اور دوسری اپنی چھاتی میں مار کر مر جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ سے مارے جاتے ہیں۔ راحیل اور برجیس بغلگیر ہوتے ہیں۔) ٭٭٭ ایکٹ تیسرا منظر پانچواں مکان بادل خاں دلاورـ : کون ہوں میں۔ کیا ہوں۔ میرا حال کون جانے۔ جانتا ہو تو مجھے شکل دکھائے، میرا ذمہ جواب کوئی مجھے پہچان پائے۔ میں شرط کرتا ہوں۔ اگر مجھ کو بتا دے کوئی ماشاء اللہ میں نے خوب رنگ ڈھنگ بدلا ہے۔ گانا آہا یہ سب گن پر فن یار غار بتا دے کوئی کیسا بھین بھائی شان دکھائی پوری سرداری پائی کیا بدلا روپ یہ بالائی یا اللہ! تو ہی میرے اس کام میں مدد کرنا۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔ منچلا بھی نظر آتا نہیں۔ وہ خلعت اب تک پہنچاتا نہیں۔ یارو! کہیں بھید تو نہیں کھل گیا۔ ساتھی نمبر۱: بھید کھل جاتا ہے۔ تو ہمارا منچلا ہم کو فوراً سے پیشتر آگاہ کرتا ہے۔ ساتھی نمبر۲: خان بہادر کے بچے کو وہ تو کسی کمرہ میں الو بناتا ہو گا۔ ساتھی نمبر۳: خان بہادر تو خلعت پہن کر جامے میں پھولا نہ سماتا ہو گا۔ ساتھی نمبر۴: اور جب سپہ سالار کی طرف سے خطاب دیا جائے گا تو وہ خوشی میں آ کر ناچنے لگے گا۔ دلاور: یارو! بھلا ہماری طرح بھی کسی نے بیاہ کیا ہو گا کہ اول سے لے کر آخر تک سفید جھوٹ۔ (سامنے سے بادل خاں جھومتا آتا ہے) دلاور: خاموش ہو جاؤ سامنے سے خان بہادر آتے ہیں۔ بادل خاں: آداب ہے ایران کے سپہ سالار صاحب کو آداب ہے۔ دلاور: من از دیدار بہادر بادل خان بہادر بسیار خوش شدم۔ ایدی کانگ من کاج است بادل خاں: افوہ! یہ کیسی مصیبت پڑ گئی۔ اب میں تو خاک بھی نہ سمجھا اس کو کیا جواب دوں۔ ہاں ایدی کانگ (اشارہ کر کے) صاحب آوے ہیں۔ منچلا: جناب میں آ پہنچا۔ فکر نہ کیجئے۔ دلاور: من از بسیار مسرور شدم۔ منچلا: سپہ سالار گلفشاں ہیں کہ ہم آپ سے بہت خوش ہوئے۔ بادل خاں: بلے بلے۔ اب میری طرف سے بھی عرض کر دیجئے کہ میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور بے حد خوش ہوں۔ دلاور: ہاں ایرانی خطاب دادہ برائے عقد آمادہ ۔ منچلا: خوب خوب۔ دلاور: ایں پری پیکر بسیار حسیں۔ خوب تر است من از دل و جان فریفتہ شدم۔ منچلا: سپہ سالار صاحب آپ کی لڑکی کی بہت تعریف فرماتے ہیں۔ بادل خاں: دیکھو فارسی بھی کیسی شیریں زبان ہے کہ جیسے مصری کی ڈلی۔ حضور یہ میری بیوی اور یہ میری دختر نیک اختر۔ شبنم: دیکھو خبردار جو میرا نام لیا۔ بادل خاں: ڈری چپ رہو او باؤلی۔ دلاور خاں: خان بہادر ار خطاب بدو۔ منچلا: اب آپ کو خطاب عطا کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی آپ بھی مناسب فرماتے ہیں۔ دلاور: ہاں قاضی راخواہم کہ رشتہ زوجیت گرہ دادہ شود۔ منچلا: ہاں اب سپہ سالار صاحب کہتے ہیں کہ شادی کا رشتہ گانٹھ دیجئے۔ شبنم: ارے دیکھو خبردار! میں کہے دیتی ہوں کہ تم چاہے پاگل بنو۔ خبطی بنو۔ جاہل بنو۔ مگر مجھے اورمیری لڑکی کو اس سوانگ میں شامل نہ کرو۔ بادل خاں: بہت خوب۔ آ چل بیٹی! خدا تجھے خوش و خرم رکھے۔ لو آؤ تیرا ہاتھ سپہ سالار سے ملایا جائے اور رشتہ شادی کا لگایا جائے۔ آؤ نیک بیٹی آؤ۔ کیوں شرماتی ہو۔ آخر تجھے ایک دن تو جانا ہی تھا۔ پھر شرم کس بات کی۔ آؤ میرے ساتھ کھڑی ہو۔ تاکہ تمہاری گرہ اس کے ساتھ باندھ دی جائے۔ شبنم: ارے یہ تم کیا گڑ بڑ گھوٹالہ بنا رہے ہو۔ شرم نہیں آئی۔ خدا جانے یہ موئے بہروپئے کہاں سے آئے ہیں۔ کیا بے جانے پہچانے ایسے ڈاکوؤں کو اپنی لڑکی حوالے کر دوں گی۔ (گانا شبنم) ڈالا کیسا فریبی کے پھندے۔ یہ دھندے۔ یہ گندے دور نکل دور نکل۔ بد کلام۔ بد لگام۔ بد غلام جا فرحت: چھوڑو جی ایسے ہو نہ خفا تم۔ عرض عرض سن۔ چہرے گن سچے۔ بادل خاں: شرم سار۔ شرم سار ۔ شرم سار ہوں میں۔ کرم دھرم شرم راکھو موری۔ شبنم: چل چل بد صفات۔ بادل خاں: ارے ہائے ہائے۔ اب میں کیا کروں۔ اری او میری جورو تم کیوں ہماری اور اپنی چمکتی ہوئی تقدیر کو سیاہ بنا رہی ہے۔ (سر منصور آتا ہے) سر منصور: ارے ٹھہرو ٹھہرو۔ یہ کیا الٹا انصاف ہے کہ سہرا میرے سر ہے اور شادی اس کے ساتھ ہے۔ منچلا: لویک نہ شد دو شد۔ سر منصور: اجی آپ کون ہیں؟ (ساتھی دلاور کے) کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ کیا اندھے ہو۔ یہ ایران کے سپہ سالار ہیں اور خان بہادر کی دختر نیک اختر فرحت سے شادی کرنے آئے ہیں۔ سر منصور: ابے او ایران کے باورچی! جاتا ہے کہ بے عزت ہوتا ہے اگر میری منگیتر سے بیاہ کرے گا تو میں اس جگہ اپنا اور تیرا دونوں کا خون ایک کر دوں گا۔ دلاور: مشفق من ایں تند خو کیست؟ منچلا: حضور ایں شخص دشنام مے دہد و قصد قتل میدارو۔ دلاور: او بغلول شاچہ مہدی و من فیل مست شوم۔ ترا بر سینہ ہائے چشم اندوختم۔ سر منصور: ابے جا اندو ختم پندوختم کے سالے! تیری طاقت کیا جو فرحت کو بیاہ لے جائے۔ منچلا: اے تیری کیا مجال ہے، جو اسے ہاتھ لگائے۔ شادی کا اقرار ان کے ساتھ ہوا ہے۔ تیرے ساتھ نہیں۔ سرمنصور: خان بہادر نے قول ہم کو دیا ہے ان کو بھی۔ بادل خاں: تو بکتا ہے میں نے تجھ سے کوئی وعدہ نہیں کیا۔ کیا تیرے پاس میری کوئی تحریر ہے؟ سر منصور: توبہ توبہ کم بخت سسرے کا سالار ابھی سے منکر ہو گیا۔ تو کیا آپ نے مجھے دولہا بن کر آنے کو نہیں کہا تھا۔ بادل خاں: نہیں میں نے بالکل نہیں کہا تھا۔ سر منصور: تو میں خواہ مخواہ سہرا باندھ کر آیا۔ منچلا: بس بس اب یہاں سے پر لگا کر اڑ جاؤ۔ ورنہ وہ پڑے گی کہ تالو گنجا ہو جائے گا۔ سر منصور: ہائے ہائے میرا سرسبز باغ اجڑ گیا۔ ہرا بھرا گھر بگڑ گیا۔ بادل خان: ہیں جب تک کہ قائم یہ لیل و نہار رہے جوڑا ان دونوں کا برقرار زمین و زماں ان کے حامل رہیں کہ جب تک یہ دنیا میں شامل رہیں سب: آمین۔ آمین۔ آمین۔ سر منصور: ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ سب: مبارک سلامت۔ مبارک سلامت۔ سر منصور: لعنت سلامت، لعنت سلامت۔ بادل خاں: جاؤ بیٹی سکھی رہو۔ خاوند کا گھر بساؤ۔ سر منصور: جاؤ۔ خاوند کا جلد دیوالیہ نکلواؤ بادل خاں: خداوند رب العالمین تم دونوں دولہا دلہن کو سکھ کی نیند سلائے۔ سر منصور: خدا کرے کہ میری بد دعا اثر کر جائے اور یہ دلہن گھر جاتے ہی مر جائے۔ دلاور: اچھا سسرے صاحب! اب ہم وطن کو واپس جاتے ہیں۔ بادل خاں: ہیں! یہ کمبخت داماد فارسی بولتے بولتے اردو کیسے بولنے لگا؟ دلاور: اجی صاحب یہ بندے نے اپنے مطلب کے لیے جال بچھایا تھا۔ ورنہ فارسی جاننے والا اور ایران کا رہنے والا میرا نگڑ دادا بھی نہ تھا۔ بادل خاں: ہیں تو کیا تم ایرانی سپہ سالار نہیں ہو۔ دلاور: نہیں ہرگز نہیں۔ بادل خان: تو ہو کون؟ دلاور: بس آپ کا وہی پرانا تابعدار دلاور۔ بادل خاں: اف تیرا ستیاناس ہو جائے دلاور ابن بختاور۔ مسجد کے مجاور۔ افسوس نیا ڈوب گئی۔ لٹیا ڈوب گئی۔ سر منصور: لڑکی چھن گئی۔ لڑکی چھن گئی۔ بادل خاں: افسوس صد ہزار افسوس! سر منصور: جناب بلکہ ہزار بار افسوس۔ بادل خاں: اجی میں تو کسی بڑے بلے والے سے بیاہنے والا تھا۔ دلاور: اجی خان بہادر صاحب بڑے بلے والے کو کیا کرنا ہے۔ بڑے خطاب پانے سے کچھ کسی کی عزت اور مرتبہ تو نہیں بڑھ جاتا۔ بھیا تم ہی بتاؤ کہ اگر کسی گدھے کو شیر کی کھال پہنا کر اس کا نام ضیغم رکھا جائے تو وہ کیا شیر ببر بن سکتا ہے۔ بادل خاں: بس چپ رہو۔ ڈیم بلاڈی گواوے۔ کالا آدمی کیا مجھ کو گدھا بناتا ہے۔ دلاور: بس پھر وہی مرغی کی ایک ٹانگ والا معاملہ آ ٹھہرا۔ اجی حضرت میں نے تو اکثر خطاب پانے والے سینے پر بلے اور چاند تارے لگانے والے ایسے دیکھے ہیں، جن کی لوگ ہنسی اڑاتے ہیں اور خان بہادر کے بدلے چمگادڑ کہلاتے ہیں۔ سرمنصور: اب جو ہوا سو ہوا۔ اچھا شادی کی روٹیاں تو کھاتے چلو۔ بادل خاں: خشکہ کھاؤ۔ خشکہ کھاؤ۔ خیالی میٹھا پلاؤ اڑاؤ۔ گانا اس شادی میں کیسی بہار آئی رے بن دولہا کی کچھ نہ بن آئی رے الو سارے جاؤ جاؤ ۔ قدم بڑھاؤ ہاں۔ جنوائی ہے یہ کیسا بن بلاؤ ہاں ہاں۔ جورو کو کہے جاؤ یارو۔ دلہن کی بھی چھین تیاری ہائے سسرے تین پارٹ دیارے۔ واہ تمغہ رہ گیا رے۔ بالکل گڑ بڑ تیری شادی کی ہیں پورے پاجی چلو اپنی تو دلہن کے جاؤ۔ (جاتے ہیں۔ پردہ گرتا ہے) ٭٭٭ ایکٹ تیسرا منظر چھٹا جشن شادی (قاضی صاحب تشریف لاتے ہیں۔ اس کے بعد برجیس و راحیل دونوں شاہی لباس میں نظر افروز وہتے ہیں۔ قاضی صاحب نکاح پڑھاتے ہیں اور اپنے مبارک ہاتھوں سے برجیس کے سر پر تاج شاہانہ رکھتے ہیں اور شہنواز کو وزیراعظم بناتے ہیں۔) قاضی: تاج پہناتے ہوئے۔ گلفشاں باغ جہاں میں حشر تک نخل مراد لوگ سمجھیں فیض کو تیرے شعاع آفتاب سب: آمین۔ آمین۔ آمین۔ اس جلوس میمنت افروز کی ہو ایسی دھوم گل بھی چہرہ سے ہٹا دے اپنے غنچہ کی نقاب (سہیلیوں کا ناچ) ڈراپ ٭٭٭ آنکھ کا نشہ کردار: جگل: (ہیرو) بڑے گھرانے کا سرمایہ دار، سروجنی کا پتی۔ سدارنگ: کام لتا کا استاد بینی: (ویلن) جگل کا دوست مادھو: جگل کا رشتے دار، وفادار بختاور: ایک تماشبین کندن لال: ایک بیا جڑیا کنجوس سرمایہ دار نیل کنٹھ: طبلچی رامسرن: ایک چھوٹا بچہ نوکر جگل مسافر: پھول والا، جمعدار، تماشبین، تاڑی باز، کنڈکٹر، بیلف، انسپکٹر وغیرہ وغیرہ۔ سروجنی: جگل کی پتنی کام لتا: ایک نامور طوائف راج کنور: نائیکہ، کام لتا کی ماں دلاری: ایک کٹنی کامنی: کام لتا کی لڑکی باب پہلا پردہ پہلا محل اگلا گانا سہیلیاں موہے گردھر، بھوسا گرسے کروادھار ہے، جگ کے دکھ ہرتا، سکھ راشی دکھ ناشی تمری دیا کے سر نرا بھیلاشی۔ بارم بار سنسار چرنن سیس ہم دھرتا۔ جو سکھ نت پرکاش ۔ وبھو نام روپ ادھار۔ متی نہ لکھے جیہی منے لکھی چیتن شدھ اپار۔ اودہی اپار سروپ تم ہری پلنو مہیش دوہی ردی چند اولین دھم شکتی دھنش گنیش۔ تم دین بندھو ہو۔ کرونا سندہو ہو۔ وپدوٹاری رش۔ ہمری بھنور میں ڈولت ہے نیا۔ تم ہی کھویا سکھ کہنٹی۔ سروجنی: دیوتا! مجھے اپنی اننت بھگتی کاوردان دو۔ میں تمہارے پوتر چرنوں میں پرنام کرتی ہوں۔ جگل: (آ کر) گھر کی رانی آرو دھروئی ہردے اسے پیار کر۔ سوہاسنی! سروجنی: آؤ پران ناتھ۔ جگل: یہ کیا کر رہی تھیں؟ سروجنی: دیوتا سے ہاتھ جوڑ کر ان کی اننت بھگتی کا وردان مانگ رہی تھی۔ جگل: کس دیوتا سے؟ سروجنی: جن کی پوجا اور سیوا کو میں اپنا سوبھاگیہ سمجھتی ہوں۔ جگل: اس دیوتا کا نام؟ سروجنی: کون کون سا نام بتاؤں؟ ان کے توا نیکوں نام ہیں۔ جگل: انیکوں میں سے دو چار نام تو میں بھی سنوں۔ سروجنی: اچھا تو گنتے چلو، ناتھ، سوامی، پربھو، پریتم، جیون جیوتی، من موہن، پران، ولبھ اور ایشور۔ جگل: ٹھہرو ٹھہرو! میں گنتی بھول جاؤں گا۔ یہ سب دیوتا مہاراج کے نام ہیں تو انہی ناموں سے پتی مہاشے کو کیوں پکارتی ہو؟ سروجنی: نہیں سمجھے۔ سنو! سکھ سوبھاگیہ کی منگل مئی پریتما کا نام ہے پتی اور پتی کا ہی دوسرا نام ہے دیوتا۔ جگل: سروجنی پرش نے سنسار میں سب کچھ سیکھ لیا۔ کنتو ناری کے سماں سچا چل تیاگ اور پورن پریم کرنا نہیں سیکھا۔ سروجنی: نہیں۔ جگل: من کی دنیا چاہے کتنی ہی کروٹ لے۔ کنتو ناری ہمالیہ کی طرح سدا اپنے کرتو یہ پرستھیر رہتی ہے اور پرش پگھلتی ہوئی برف کی طرح چھن چھن میں اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے۔ سروجنی: تو؟ جگل: یدی میں تمہیں پریم نہ کروں تو کیا تب بھی تم مجھے اسی طرح پریم کرتی رہو گی؟ سروجنی: ناتھ! میں کیا اتر دوں؟ ندی اپنی ترنگ روپی باہوں کا ہار پہنانے کے لیے ساگر کی اور کیوں دوڑتی ہے؟ بھنور اکاشی اور پریاگ کو چھوڑ کر کمل پشپ کی پرکیتھما کو پنیہ کیوں سمجھتا ہے؟ چکور گنگا جمنا کے بدلے چندر ماں کی چاندنی سے اشنان کرنے کو کیوں اپنا سوبھاگیہ سمجھتا ہے؟ پریم میں کیا سکھ ہے؟ یہ نہیں سمجھ سکتی کنتو اتنا بتا سکتی ہوں کہ پتی پریم ہی ناری جیون کا سندریہ اور ناری کا ایک ماتر دھرم ہے۔ گانا ناری کا لوک اور پرلوک ہے سوامی کے پگ میں۔ پتی سیوا سے پائے مان ناری جاگے بھاگ سکھ بلاس سوہاگ پتی پریم سے جگ میں ناری کا لوک ہے۔ پتی درشن جب پاوت نیناں۔دن بن جاوت کاری ریناں۔ تمری بھگتی روم روم روم۔ ناری کالوک۔۔۔۔ ٭٭٭ باب پہلا پردہ دوسرا محل دوسرا کام لتا کا مکان، سدا رنگ اور نیل اپنے اپنے ساز بجا رہے ہیں۔ کام لتا ناچ رہی ہے۔ جگل اور بینی پرشاد ناچ دیکھ رہے ہیں۔ ناچ کے بعد۔ سدا رنگ: جیتی رہو بیٹی! بڑی بائی جی کا نام روشن کر رہی ہو۔ نیل: جوانی بنی رہے۔ آنکھوں سے مارتی اور ٹھوکروں سے جلاتی رہو۔ سدا رنگ: اے میں صدقے ہو جاؤں۔ اسی کا نام تو ناچ ہے کہ پیر سے بتاشا بھی نہ ٹوٹے۔ کام لتا: گرو جی! یہ سب آپ ہی کی سکھشا ہے۔ میں تو ابھی تک تاتاتھیا بھی نہیں جانتی۔ راج کنور بائی:ـ سدا رنگ جی کندن لال سیٹھ کی گدی دس بجے بند ہو جائے گی۔ میں ذرا ہوتی آؤں۔ بینی: راج کنور بائی! جلسہ سونا کر کے کہاں چلیں؟ راج کنور بائیـ: کیا کہوں یہ بچوں کی طرح ہٹ کر بیٹھی ہے۔ آج ایک گلابی سا ٹن پرکار چوبی کام کی پشواز بکنے آئی تھی۔ وہ دیکھئے آنکھ مار کر منع کر رہی ہے۔ نا بابا! میں نہ کہوں گی۔ کام لتا: کہہ دو ناں۔ کہہ دو ناں۔ یہ سن کر کیا مجھے پھانسی دے دیں گے؟ بینی: تمہارے ہی روکنے سے تو چلتی ہوئی موٹر کار میں پنکچر ہو گیا۔ بڑی بائی جی! اب تو آپ کو کہنا ہی ہو گا۔ راج کنور بائیـ: سرکار! آج سدا رنگ جی کے بہنوئی۔ سدا رنگ: بہنوئی نہیں۔ وہ تو میرے سالے ہوتے ہیں۔ راج کنور بائی: کسی رنڈی کی نئی پشواز بیچنے لائے تھے۔ مال تو ہزار سے اوپر کا نہ تھا مگر چھوٹی بائی نے جھٹ سے بارہ سو دام لگا دیئے اور کہنے لگی کہ پرسوں بسنت پنچمی ہے۔ یہی پشواز پہن کر سرکار لوگوں کے سامنے ناچوں گی۔ بینی: سوجھی تو اچھی۔ ان کی سمجھ کبھی بے تالی نہیں جاتی۔ راج کنور بائی: بس آپ ہی لوگوں نے ناز نخرے اٹھا اٹھا کر اس کا مزاج بگاڑ دیا ہے۔ یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ گھر میں بینک کی طرح ہر وقت روپے رکھے نہیں رہتے۔ کندن لال سیٹھ نے چار آنے بیاج پر بھی روپے نہیں دیئے۔ تب چھوٹی بائی نئی پشواز پہن کر سرکار کو کیسے خوش کریں گی؟ سدا رنگ: بڑی بائی جی! یہی دن تو ان کے اوڑھنے پہننے کے ہیں۔ گھر کے لوگوں سے کاہے کی شرم ہے۔ باہر سے نہ ملے تو سرکار لوگوں سے ادھار لے لو۔ کام لتا: استاد جی! کمبل ڈال کر سرکار کو لوٹ لو ناں۔ انہیں باتوں سے رنڈی اور میراثیوں کا نام بدنام ہو گیا۔ دیکھو جی تم ایک پیسہ بھی دو گے تو میں بگڑ جاؤں گی۔ جگل: پیسہ دوں گا تب بگڑو گی نا۔ میں تو روپے دوں گا روپے۔ راج کنور بائی! یہ لو۔ راج کنور بائی: دولت بڑھتی ہے۔ روپوں کو بکس میں سمجھنا۔ میں بیاج کے ساتھ مول بھی لوٹا دوں گی۔ جگل: مول معاف ہے اور بیاج میں ان کی مہربانی چاہیے۔ کام لتا: دیکھا مول معاف ہے۔ یہ سنتے ہی بڑھاپے پر جوانی آ گئی۔ اری او نائیکاؤ! تم پیسے کی بڑی لو بھی ہوتی ہو۔ چھی۔ چھی بینی! اچھا کچھ اور چھیڑو۔ سدا رنگ جی سوئی ہوئی سارنگی کو جگاؤنا! سدا رنگ: سرکار! کیا جاگے۔ اس میں تو ابھی کچھ پڑا ہی نہیں۔ جگل: اچھا تم بھی لو۔ بینی: اے ہاں میں توبھول ہی گیا تھا۔ جگل کل گورنر کپ ہے۔ نگین داس نے ٹیپ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تم طبلے اور سارنگی کی ریس دیکھو اور فلوک گھوڑے کی طرح ابھی آ پہنچتا ہوں۔ راج کنور بائی: واہ تم تو اس سبھا کے راجہ ہو۔ تم چلے گئے تو یہ سبز پری کس کے سامنے ناچے گی؟ بینی: راجہ اندر نہ سہی لیکن یہ گل فام کالا دیو اور لال دیو تو موجود ہیں (جانا) سدا رنگ: ہاں بیٹا! وہی اپنی خاندانی چیز شروع کرو۔ جسے سن کر پٹنے کے مہاراج نے تمہاری نانی کو ایک ہاتھی اور دو گاؤں انعام دیئے تھے۔ نیل: اور ساتھ میں دو گدھے بھی دیئے تھے۔ سدا رنگ: جس میں سے ایک یہ موجود ہے (کوئی سا گانا) جگل: کام لتا! تم نے کون سی شراب پلا دی جس کا نشہ کم ہونے کے بدلے سانپ کے زہر کی طرح چھن چھن میں بڑھتا ہی جاتا ہے؟ میں اپنے آپ کوبھول بیٹھا ہوں اور دکھائی دے رہا ہے کہ تھوڑے ہی دنوں میں تمہارے سوا جگت کی ہر ایک وستو کو بھول جاؤں گا۔ کام لتا: میری جان! جگل: کام لتا! میں تمہیں ابھی تک نہیں پہچان سکا۔ مجھے سمجھاؤ کہ تم پریم کی بولتی ہوئی پریتما ہو؟ ناری ہو، اپسرا ہو؟ جادوگرنی ہو؟ کون ہو؟ مادھو: (آ کر) یہ کون ہے؟ مجھ سے پوچھواس کا کل پاپ ہے۔ اس کا پتا ادھرم ہے۔ اس کی ماتا نرلجتا ہے۔ اس کے سمبندھی سوارتھ اور لوبھ ہیں۔ اس کا گھر چھل کا نرک ہے اور یہ اس نرک میں نو اس کرنے والی راکششی ہے۔ کام لتا: آتے ہی ساون کے بادل کی طرح برس پڑا۔ تم کون ہو؟ مادھو: میں درپن ہوں۔ کنتو وہ شیشے کا درپن نہیں۔ جس میں تم اپنے بالوں کا گھونگر، آنکھوں کا کاجل اور گالوں کا پوڈر دیکھتی ہو۔ میں وہ درپن ہوں جس میں تمہیں اصلی روپ دکھائی دے گا۔ وہی روپ جسے تم بازار میں بیچ کر اپنا پیٹ پالتی ہو۔ وہی روپ جو ویشیا کے چہرے پر کوڑھ کی سفیدی اور پتی ورتا استری کے چہرے پر ایشور کا اشیرواد دکھائی دیتا ہے۔ کام لتا: تمہارا چہرہ اسے دیکھ کر پیلا کیوں پڑ گیا تم اسے جانتے ہو؟ جگل: مادھو! تم یہاں کیوں آئے؟ مادھو: آپ میرے سورگیہ چچا کی سنتان اور میرے بڑے بھائی ہیں اس لیے مجھے یہاں آنے کے لیے مجبور کیا۔ جگل: کس نے مجبور کیا؟ مادھو: آپ کے پریم نے، آپ کے بھوش کی چنتا نے۔ دیکھئے وش کو امرت سمجھ کر نہ پیجئے۔ زہریلی ناگن کو پھولوں کا ہار سمجھ کر گلے میں نہ ڈالیے۔ کل دان پرش ہو کر ایک نیک استری کے ہاتھ کا کھلونا نہ بنئے۔ یہ آپ جیسے کتنے ہی دولت کے کھلونوں سے کھیل چکی ہے اور کتنے ہی کھلونوں کو نیا کھلونا مل جانے پر ٹھوکر مار کر توڑ چکی ہے۔ جگل: جاگو۔ مادھو! واپس جاؤ۔ تمہیں یہاں آنے کے لیے شرم کرنی چاہیے۔ مادھو: شرم! میں کیا شرم کروں۔ میں گھر کا پرتو پرشاد چھوڑ کر بازار کی جھوٹی تھالی پر مکھی بن کر نہیں گرتا۔ شرم انہیں چاہیے جو رنڈی کے گھر میں جیب کا پیسہ خرچ کر کے بے وقوف بننے آتے ہیں۔ شرم انہیں چاہیے جو گھر کی استریوں سے تو سیوا کراتے ہیں اور رنڈی کے گھر آ کر اس کے پاؤں دباتے ہیں۔ جگل: تم نے میرے سامنے اتنے ڈھیٹ ہو کر کبھی بات نہیں کی۔ خیال ہے کہ تم کیا بک رہے ہو؟ مادھو: جی ہاں! مجھے دھیان ہے کہ میں بک رہا ہوں۔ کنتو آپ کو بھی دھیان ہے کہ آپ کیا کر رہے ہو؟ کیا گھر کی استری اپنا دیوتا سمجھ کر آپ کی پوجا نہیں کرتی؟ سیوا نہیں کرتی؟ پریم نہیں کرتی؟ پھر آپ جیون کا کون سا سکھ ڈھونڈنے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ یاد رکھئے گھر کی کل کامنی سے ملا ہوا دکھ دیوتاؤں کا وردان ہے اور رنڈی کا دیا ہوا سکھ کتے کی قے ہے۔ جگل: تم مجھ سے چھوٹے ہو اس لیے مجھے اپدیش دینے کا ادھیکار نہیں رکھتے۔ مادھو: چھوٹا اور بڑا کیا، سچی بات اور کلیاں کاری اپدیش دیوار پر بھی لکھا ہو تو اسے گرہن کرنا چاہیے۔ ایشور نے پاپ اور ادھرم کی رکھشا کے لیے آپ کو روپیہ نہیں دیا ہے۔ آج اس پوتر بھارت ورش میں لاکھوں ودھوائیں ان اور وستر کے لیے لاکھوں اناتھ بچے پالن اور پوشن کے لیے، لاکھوں بیروزگار آدمی ایک وقت کی روٹی کے لیے اور لاکھوں گنوئیں پیٹ بھر چارے اور گھانس کے لیے ترس رہی ہیں۔ ان کی روتی ہوئی آتماؤں کے بدلے ان ہنستی ہوئی پاپ کی مورتیوں کو روپیہ دینا دھن، دھرم اور دیش کی ہتیا کرنا ہے۔ کام لتا: دیکھو میں ان کے وچار سے چپ ہوں۔ تم میرا اپمان کرتے ہو۔ مادھو: اپمان اس کا ہوتا ہے جس کے پاس عزت ہے چوری اس کی ہوتی ہے جس کے پاس دھن ہے۔ تم اتنی تچھ ہو کہ تمہارے روپ کی پوجا کرنے والے بھی تمہیں لالسا سے دیکھتے ہیں۔ کنتو عزت سے نہیں دیکھتے۔ ناری کا بکھان روپ سے نہیں گن سے ہوتا ہے اور ناری کی عزت کا جل اور پوڈر سے نہیں، دھرم اور ستیتا سے ہوتی ہے۔ جگل: بس اور نہیں۔ تمہارے شبد سوئی سے بھالے بنتے جاتے ہیں۔ کام لتا! اندر چلو۔ (کام لتا اور جگل کا جانا) مادھو: اری ویشیاؤ! تمہارے پاس کون سی شکستی ہے جس کے دو اراتم بدھی دانوں سے بدھی، آنکھ والوں سے آنکھیں، دھن والوں سے دھن، باپوں سے بیٹے اور گھر کی ستیوں سے ان کے سوامی چھین لیتی ہو۔ آہ یہ کیسا نیائے، کیسا بھیشن اتیا چار ہے کہ آج اس دیش میں دھن اور دھرم کا ناش کرنے والی کلٹاؤں کی پریم کے پھولوں سے پوجا ہوتی ہے اور کل کی مریادا اور پتی کی لاج رکھنے والی دیویوں کی آنکھ سے بہنے ہوئے آنسوؤں کی پروا نہیں کی جاتی۔ دیالے بھارت واسیوں کو سمجھ دو۔ نہیں تو بھارت ستیوں کے آنسوؤںمیں ڈوب جائے گا۔ ٭٭٭ باب پہلا پردہ تیسرا راستہ راہ گیر: واہ رے کلکتہ! بختاور بابو! یہ کون سا بازار ہے؟ بختاور: یہاں بنگال کی پریاں رہتی ہیں پریاں۔ اس لیے اس بازار کا نام ہے چیت پور روڈ۔ پان والا: بختاور بابو! کہاں چلے گئے تھے شوشیلا بائی کا نوکر کل ہی پوچھ رہا تھا۔ پان تو کھا لیجئے۔ پھول والا: بیل پھول، بیل پھول، بیل پھول۔ رنڈی: او بیل پھول والے! ادھر آؤ۔ پھول والا: آیا بائی جی! (رنڈی کے نوکر سے ٹکر ہوتی ہے) نوکر: دوں گھانسا منہ پر۔ آنکھوں کا اندھا ہے۔ دیکھ کر نہیں چلتا؟ پھول والا: ارے تو کیا تیری آنکھیں بائی جی کے پیچھے مجیرا بجانے چلی گئی تھیں؟ نوکر: گدھے کا بچہ۔ پھول والا: گدے کا ناتی۔ جمعدار: ارے بدمعاشو! سرکاری سڑک پر کیا گول مال مچا رکھا ہے؟ چلو تھانے میں۔ رنڈی: ارے سکھو! کیوں جھگڑا کرتا ہے؟ گجندر سنگھ! دیا کرونا۔ یہ ہمارا نوکر ہے۔ جمعدار: تمہارا نوکر ہے۔ جاؤ بائی جی کا منہ دیکھ کر چھوڑ دیا۔ نہیں تو ابھی پھاٹک بند کر دیتا۔ بائی جی! ایک سگریٹ تو پھینک دیجئے۔ مادھو: جب کہا۔ بھائی! سنتا ہوں کہ تم آگ سے کھیل رہے ہو تو یہی اتر دیا کہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں۔ انت میں میں نے یہ نر نے کیا کہ چوری کی جگہ پر اچانک پہنچ کر چور کے منہ سے اس کی چوری سویکار کرانی چاہیے۔ یہی ہوا کنتو پر نیام اس کا اثر میں نہیں دے سکتا۔ سمے دے گا۔ بینی:(آ کر)بھارت کا سورگ کون؟ کلکتہ اور کلکتے کا سورگ کون؟ یہ چیت پور روڈ۔ دنیا میں کوئی کمانے اور جوڑنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور کوئی کھانے اور اڑانے کے لیے۔ کوئی تالاب اور کنوئیں کی طرح اکٹھا کرتا ہے اور کوئی فوارے اور نل کی ٹونٹی کی طرح خرچ کرتا ہے۔ میرا باپ تو دھن کھانے اور جوڑنے کے لالچ میں پڑ کر مرنا ہی بھول گیا۔ جس دن بڈھا لڑھکا، اسی دن اس سورگ میں سات رنڈیوں کا مجرا کراؤں گا۔ مادھو: جیتے رہو بینی بابو! سپوت ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بینی: کون مادھو؟ مادھو: لوگ باپ کے مرنے پر دان پنیہ کرتے ہیں اور تم رنڈیاں نچواؤ گے؟ بینی: تو کیا برا کروں گا۔ میرے باپ نے زندگی بھر کسی رنڈی کا گانا نہیں سنا۔ مرنے کے بعد اس کی آتما سن کر خوش ہو جائے گی۔ یہ بھی ایک پرکار کی پتا سیوا ہے۔ مادھو: تمہارے باپ نے تمہیں اس لیے جنم دیا تھا کہ بڑے ہو کر اس کے مرنے کی پرارتھنا کیا کرو۔ سچ ہے غریب کا لڑکا باپ کو چاہتا ہے اور دھن وان کا لڑکا باپ کے دھن کو چاہتا ہے۔ غریبوں کے لڑکے پرارتھنا کرتے ہیں کہ باپ جیتا رہے اور دھن والوں کے لڑکے پرارتھنا کرتے ہیں کہ باپ جلدی مرے اور روپیہ ملے۔ بینی: لیکن باپ سمجھ دار ہو آپ ہی مر جائے تو پرارتھنا کرنے کی ضرورت کیوں پڑے۔ تم ہی نیائے کرو کہ میرا باپ آج کل اسی اور پانچ پچاسی کا پہاڑا یاد کر رہا ہے۔ لاکھوں کی دولت کمائی۔ تین وواہ کیے۔ سات لڑکیاں اور تین لڑکے پیدا کین جن میں نو تو مر گئے۔ مادھو: اوریم راج کو رشوت دے کر آپ سپوت بیٹے موجود ہیں۔ بینی: لیکن مادھو بھائی! وہ بوڑھا اب بھی مرنا نہیں چاہتا۔ ارے بھائی! اگر بڈھے اسی طرح جیتے رہے تو ہم جوانوں کو دھرتی پہ چلنے کے لیے جگہ نہ ملے گی۔ مادھو: بینی بابو! جیسے چھری سے پران رکھشا اور آتم ہتیا دونوں ہو سکتی ہیں۔ ویسے ہی آدمی پیسے سے اپنے سکھوں کی رکھشا بھی کر سکتا ہے اور اپنا سروناش بھی کر سکتا ہے۔ یاد رکھو! جس دن تمہاری جیب میں پیسہ نہ ہو گا، اس دن اس محلے کے کتے بھی تمہاری طرف منہ اٹھا کر بھونکتے سمے یہ سمجھیں گے کہ ہمارا سمے نشٹ ہو رہا ہے۔ بینی: یہاں کے کتوں کو سمے کا خیال رکھنا ہی چاہیے۔ کاٹ کھانا، کپڑے کھینچنا، پیٹ پر اگلی ٹانگوں کے پنجے رکھ کر دم ہلانا، انہیں بہت سے کام رہتے ہیں۔ مادھو: بینی بابو! تم آج میرے اپدیش کا ٹھٹھا کر رہے ہو۔ کنتو ایک دن سمے تمہارا ٹھٹھا کرے گا۔ اپنے متر جگل کو بھی تم ہی نے اس محلے کا راستہ دکھایا ہے۔ اپنے باپ کی عزت پر، اپنی جوانی پر، اپنے پیسوں پر دیا کر کے یہ راستہ چھوڑ دو۔ یدی اس راستے پر چلتے رہے تو تم بھی نشٹ ہو جاؤ گے اور تمہارا ساتھ دینے سے اس کا جیون بھی سروناش کی آندھی میں مٹھی بھر دھول کی طرح اڑ جائے گا۔ بینی: مادھو! مجھ سے آڑی ترچھی باتیں نہ کرو۔ میں بڑا پاجی آدمی ہوں۔ مادھو: یہ تو آپ کی صورت ہی سے معلوم ہوتا ہے۔ بینی: تم جانتے ہو اگر میں بگڑ جاؤں گا۔ مادھو: آپ کے بگڑنے میں باقی ہی کیا ہے؟ بینی: اگر میں بگڑ جاؤں تو جانتے ہو کیا کروں گا؟ مادھو: ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ کیا کریں گے اور اپنا انجام بھی مجھ سے سن لو! گانا یہ سکھ نہیں آنکھ کا نشہ ہے۔ پیا جو یہ وش برا کرو گے۔ تم اپنے ہاتھوں سے اپنا بیڑا ڈباؤ گے اور کیا کرو گے۔ ٹکوں سے جب جیب ہو گی خالی۔ سنو گے پھر بائی جی کی گالی۔ گلے میں غیروں کے ہاتھ ڈالے ہنسے گی اور تم جلا کرو گے۔ یہی قرینہ اگر رہے گا نہ گھر رہے گا نہ زر رہے گا۔ گلی کے کتے ہیں جیسے پھرتے اس طرح سے پھرا کرو گے۔ (ایک طرف سے ٹرام اور دوسری طرف سے وکٹوریہ گاڑی کا آنا۔ دونوں کی ٹکر) مسافر نمبر۱: کوچوان! کوچوان! گاڑی روکو۔ سب: باندھو، باندھو، گاڑی باندھو! مسافر نمبر۲: بابو! کیا چوٹ کھایا؟ مسافر نمبر۱: آدمی گرنے سے چوٹ نہیں کھاتا تو کیا لڈو کھاتا ہے؟ باپ رے باپ! سانس بند ہوئی جاتی ہے۔ بابو جی! ذرا ناڑی تو دیکھئے۔ میں جیتا ہوں یا مر گیا؟ مسافر نمبر۲: کیا یہ ناڑی ہے؟ گھبراؤ نہیں، تم جیتا ہے۔ جیتا۔ مسافر نمبر۱: بابو جی! دھرم چھوڑ کر بولنا۔ اگر میں مر گیا ہوں تو تم سچ سچ بولنا۔ مسافر نمبر۲: ابے او الو کے پٹھے! اندھا ہو کر گاڑی چلاتا ہے۔ دیکھ تیرا باپ گر گیا۔ پاجی کہیں کا۔ مسافر نمبر۱: بابو جی! ڈرائیور کا کیا قصور ہے۔ گالی نہ دو۔ چپ رہو گدھا۔ ڈرائیور: دیکھ بابو لوگ ساکشی رہنا۔ یہ گالی دے رہا ہے میں اس پر عزت کا دعویٰ کروں گا۔ مسافر نمبر۲: اب میں تیرے باپ کو بھی یہی گالی دوں گا۔ مسافر نمبر۳: ارے کیوں لڑتے مرتے ہو؟ ہائے ہائے دنیا سدھر گئی مگر ہندوستانی نہیں سدھرے۔ آج سنسار کی ساری جاتیاں آپس کی پھوٹ کا پرنیام سمجھ کر اپنے دیش میں پریم اور ایکتا کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھ گئیں کنتو دین دکھی بھارت جننی کے کپوت ابھی تک چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ بھائی! تم اس گاڑی کے منہ کی طرف پیٹھ کر کے کیوں اترے؟ مسافر نمبر۱: بھائی! مجھے کلکتہ آئے ہوئے آٹھ دن ہوئے۔ مگر ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا منہ کدھر ہے۔ پولیس۔ پولیس۔ جمعدار: کیا ہے؟ کیا ہے؟ مسافر نمبر۱: اس بے دم او ربے منہ والی گاڑی نے مجھے نیچے گرایا ہے۔ اسے ہتھکڑی لگا کر پولیس اسٹیشن لے چلو۔ جمعدار: کیا ٹرام کوئی گنڈا ہے جو ہتھکڑی ڈال کر تھانے لے جاؤں؟ ہٹ جاؤ۔ کنڈکٹر چلو۔ بیٹھ جاؤ۔ گھنٹی بجاؤ۔ مسافر نمبر۱: تم گھنٹی بجاؤ یا گھنٹہ، لیکن میں ضرور کروں گا ٹنٹا، اے جمعدار صاحب! گاڑی بھاگتی ہے۔ پکڑو! پکڑو! (سین ختم) ٭٭٭ باب پہلا سین چوتھا جگل کا مکان دلاری: (آ کر) پرسوں اس سندری کو گنگا گھاٹ پر دیکھ کر بینی بابو ایسے ریجھے کہ اب تک ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ پھانس کر لے جانے پر دو سو روپے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ سودا بیچنے والی کا روپ دھارن کر کے جال پھینکنے آئی ہوں۔ دیکھوں چڑیا پھنستی ہے یا دانہ کھا کر اڑ جاتی ہے۔ انجن، مسی، ٹکلی، چوڑی، گوٹا، لیس کناری، بہو جی! کچھ خریدو گی؟ سروجنی: (آ کر) تم کون؟ دلاری: تمہاری پڑوسن لاجونتی کی بہو دلاری۔ سروجنی: کیوں کیا ہے؟ دلاری: بہو جی! بریلی کا انجن، لکھنو کی مسی، دہلی کا گوٹا، بمبئی کی چوڑی، کلکتے کی لیس، سبھی کچھ ہے۔ سہاگ بنا رہے۔ آج تمہارے ہی ہاتھ سے بوہنی کروں گی۔ سروجنی: تم پڑوس میں رہتی ہو۔ اس لیے پیسوں کی ضرورت ہو تو لے جاؤ کنتو میں ان بناوٹی چیزوں کو پسند نہیں کرتی۔ دلاری: بہو جی! لینا یا نہ لینا، ایک بار دیکھ تو لو۔ یہ دیکھو آنکھیں لگاتے ہی جگایا ہوا جادو بن جاتی ہے۔ یہ خاص بریلی کا انجن ہے۔ سروجنی: استری کی آنکھوں کو بریلی کا انجن نہیں، کل کی لاج سندر بناتی ہے۔ دلاری: یہ دیکھو لکھنو کی مسی۔ سروجنی: ناری کا منہ لکھنو کی مسی لگانے سے نہیں، پتی دیو کا نام جپنے سے پوتر ہوتا ہے۔ دلاری: یہ دیکھو بنارس کی ٹکلی۔ سروجنی: ایک کل دو ہو کے ماتھے کو بنارس کی ٹکلی نہیں، پتی ورت دھرم کا تیج شوبھے من بناتا ہے۔ دلاری: یہ دیکھو بمبئی کی چوڑی۔ سروجنی: گرہ لکشمی کے ہاتھوں کی شوبھا بمبئی کی چوڑی سے نہیں، پتی کی چرن سیوا سے ہوتی ہے۔ دلاری: بہو جی! پتیوں کی نظر میں پریم اور سیوا کا مان ہوتا تو آج اس دیش میں پتی پتی رٹنے والی مورکھ استریوں کی یہ درگتی نہ ہوتی۔ برا نہ ماننا اپنے ہی کو دیکھو کتنی سندر، کتنی کومل، کتنی آگیا کاری پھر بھی تمہارے پتی جنگلی بابو گھر کی اپسرا چھوڑ کر تیل پھلیل سے مہکتی ہوئی ویشیاؤں کے کوٹھے پر کیوں جھانکتے پھرتے ہیں؟ سروجنی: اگر وہ اپنا کر تو یہ بھول گئے تو میں بھی اپنا دھرم بھول جاؤں؟ وہ میرے دیوتا ہیں، دیوتا کی مورتی سامنے نہ ہو تو اس کا دھیان کرنے سے بھی سکھ مل سکتا ہے۔ مادھو: (آ کر) یہ کیا دیوی کے پاس راکھششی۔ یہ سروناشنی یہاں کس واسطے آئی ہے؟ دلاری: بہو جی! ذرا آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے روپ کی چھبی دیکھو۔ ایسے روپ کا ایسا انادر؟ دنیا کی لاج سے آنکھیں نہ روئیں کنتو پتی کے اتیا چار پر تمہارا دل ضرور روتا ہو گا۔ دکھ تو یہی ہے کہ تم گھر کی استریاں رونا ہی جانتی ہو بدلہ لینا نہیں جانتیں۔ سروجنی: استری بدلہ لے کس سے؟ دلاری: اپنے پتی سے۔ سروجنی: پتی سے؟ لوک پرلوک کے سوامی سے؟ جنگل میں اکیلا چھوڑ جانے پر کیا دمنتی نے نل سے بدلہ لیا تھا؟ متھرا جا کر بھول جانے پر کیا رادھیکا جی نے بھگوان سری کرشن چندر سے بدلہ لیا تھا؟ بن باس دیئے جانے پر ستی شرومنی سیتا جی نے کیا شری رام چندر سے بدلہ لیا تھا؟ سنو! ہندو ناری بدلہ لینا نہیں جانتی۔ کیول پتی سے پریم کرنا اور پتی کے اپرادھوں کو شما کرنا جانتی ہے۔ دلاری: دیا اور شما کے شبد اب کیول دھرم پشتکوں کی شوبھا کے لیے رہ گئے ہیں۔ تمہارے بھلے کے لیے میں تو یہی صلاح دوں گی کہ تمہیں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے۔ سروجنی: ارتھات۔ دلاری: ارتھات یہ کہ دنیا کا سکھ نہ بھوگا تو دنیا میں جنم لینے کا لابھ ہی کیا ہے۔ پتی نے اپنا من غیر استری کو دے دیا تو تم بھی اپنا پریم دوسرے پرش کو دے سکتی ہو۔ سروجنی: کیا کہا: ڈشٹا! پاپنی! مادھو: ورا چارنی! پشتاچنی! کیا تو سودا بیچنے کے بہانے گرہستیوں کے گھر میں جا کر ان کی بہو اور بیٹیوں کو یہی سکھشا دیتی ہے؟ اپنے گندے ہونٹوں سے ان کے پوتر کانوں میں یہی وش انڈیلتی ہے۔ا ٓہ! ان روپ دھارنی ٹھگنیوں نے کہیں بھکارنی، کہیں سنیاسنی اور کہیں سودا بیچنے والی بن کر کتنے کلوں میں کلنک لگایا ہو گا! جو لوگ اپنی بہو بیٹیوں کی رکھشا چاہتے ہیں انہیں باہر کی بے جانی بوجھی عورتوں کو اپنے گھر میں کبھی نہ آنے دینا چاہیے۔ دلاری: شما کرو۔ مجھے یہاں آنے میں بھول ہوئی۔ مادھو: کلٹا پیٹ کا گڑھا پاٹنے کے لیے من دومن ہیرے موتی کی نہیں، تھوڑے چاول یا آٹے کی ضرورت ہے۔ کیا تو دو مٹھی اپنے پوتر دھندے سے پیدا نہیں کر سکتی؟ جا دور ہو میرے سامنے سے۔ پھر کبھی نہ آنا۔ ٭٭٭ باب پہلا پردہ پانچواں کام لتا کا گھر سدا رنگ:رسیلی آنکھیں، جڑواں بھویں، پتلے پتلے ہونٹ، چنبیلی کی سفیدی اور گلاب کی لالی سے بنا ہوا گورا رنگ، کیلے کے پتے جیسے چکنے چکنے ہاتھ پاؤں، اری میری درشنی ہنڈی، آج کل اس شہر کے سیٹھ ساہوکاروں کے پاس بہت پیسے ہو گئے ہیں، تو کب جوان ہو گی اور کب ان کا دیوالہ نکالے گی؟ گانا بھوش جیون کا ساہوکاروں سے کب پیام و سلام ہو گا۔ یہ تیرے روپ اور رنگ کا سودا کب تلک جگ میں عام ہو گا ۔ بھرے ہوئے ہیں جگت کے کھیسے کرے گا خالی تو اک ہنسی سے۔ بڑی سے بڑی خوشی سے، یہ سب کے لب پر کلام ہو گا۔ رکی ہے سب ساہوکاری آڑھت تو کب بڑی ہو یہ ہے رکاوٹ۔ اری مری درشنی سی ہنڈی تجھی سے لیکھا تمام ہو گا۔ بینی: (آ کر) او کتنی بے مروت! کتنی بے وفا! آدمی کے چہرے پر طوطے کی آنکھیں لگی ہوئی نہ دیکھی ہوں تو ان رنڈیوں کو دیکھ لو۔ یہ محبت سے بھرے دل کو نہیں دیکھتیں روپوں سے بھری ہوئی جیب کو دیکھتی ہیں۔ راج کنور بائی: (آ کر) لال نیبو سے چٹنی کا اور لڑائی سے پیار کا مزا بڑھ جاتا ہے۔ بگڑ کر جاتے کہاں ہو؟ سدا رنگ: کیا ہوا بابو جی؟ بینی: ہوا کیا۔ تمہاری چھوٹی بائی جی نے ہیرے کی کنٹھی اور جڑاؤ رسٹ واچ کی فرمائش کی تھی۔ میں نے آٹھ دن کا سمے مانگا۔ بس اتنی سی بات پر نتھنے پھول گئے اور تیور بدل کر کہنے لگی کہ رنڈی گھر کی بیوی نہیں ہے۔ جو کھلاؤ گے کھائے گی اور جو پہناؤ گے پہنے گی۔ رنڈی کی فرمائش نہیں دے سکتے تو رنڈی کے گھر آتے ہی کیوں ہو۔ کہو کہو یہ اسے کہنا چاہیے تھا؟ سدا رنگ: بابو جی! یہ جگت تو لوہار کی دکان ہے جس میں رات دن کھٹ پٹ کھٹ پٹ ہوا کرتی ہے۔ ایک نے کہا آؤ جی! دوسرے نے کہا جاؤ جی۔ اس آؤ جی اور جاؤ جی کو لڑائی نہیں کہتے۔ بینی: تو پھر کیا کہتے ہیں؟ سدا رنگ: اسے من رجھانے کا ڈھنگ اور رنڈی کا چوچلا کہتے ہیں۔ بینی: کہتے ہوں گے تمہاری بھاشا میں۔ کام لتا: کیا ہے ماں۔ راج کنور بائی: اب تم ہی مناؤ یہ تو جا رہے ہیں۔ کام لتا: کہاں جا رہے ہو؟ بینی: نرک میں۔ کام لتا: اچھی بات ہے۔ کل ایک آدمی کہہ بھی رہا تھا کہ آٹھ دن سے نرک کے دروازے پر ٹو لیٹ لکھا ہوا ہے۔ جاؤ آرام سے رہو گے۔ ہے پرماتما! نرک میں انہیں کوئی اچھی سی جگہ دینا۔ بینی: میں تمہارے ہتھ کنڈے خوب اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ تمہیں جگل جیسا سیدھا سادا پیسے والا اسامی مل گیا ہے۔ اس لیے مجھ سے علیحدہ ہونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہو کنتو سنو! جگل میرا دوست ہونے پر بھی میرے اور تمہارے پرانے سمبندھ کا حال نہیں جانتا۔ جس دن جان لے گا، اسی دن سے تمہاری صورت بھی نہ دیکھے گا۔ کام لتا: اونہہ! یہ رس گلے جیسے گال سلامت رہیں۔ ایک مکھی اڑ گئی تو سو مکھیاں بھنبھناتی ہوئی آ جائیں گی۔ راج کنور بائیـ: اری کیسی لڑکی ہے۔ ماں باپ لڑ رہے ہیں اور تو ٹکر ٹکر دیکھ رہی ہے لال! یہ لو اس برف کے ٹکڑے کو کلیجے سے لگاؤ۔ ابھی غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ بینی: کام لتا! یہ میرے اور تمہارے پریم ورکش کا اپوتر پھل ہے۔ نہ جانے اس نے پورو جنم میں کون سا اپرادھ کیا تھا جو کسی کل ودھو کی کوکھ سے جنم لینے کے بدلے تم جیسی ویشیا کے گربھ سے جنم لیا۔ میں باپ ہونے کے آدھیکار سے اب اپنی سنتان کو تمہارے زہریلے دودھ سے پالنا نہیں چاہتا۔ کام لتا: تو؟ بینی: آدمی کا بچہ بھیڑیوں کے بھٹ میں پل کر بھیڑیئے کے سبھاؤ کے سوا اور کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ اس لیے اپنی سنتان کا بھوش، اپنی عزت، اپنی کل کی مریادا بچانے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ میں یہ کبھی سہن نہیں کر سکتا کہ یہ بڑی ہو کر کل ودھو بننے کے بدلے تم جیسی ویشیا بنے۔ کام لتا: یہ وچار آج آیا۔ کنبھ کرن کی نیند لنکا جل چکنے کے بعد ٹوٹی۔ بابو صاحب! یہ بات اسی دن سوچنی تھی جب باپ کی کمائی کا پوتر روپیہ جیب میں ڈال کر پہلی مرتبہ رنڈی کے کوٹھے کی طرف آنکھ اٹھائی تھی۔ رنڈی کے گربھ سے جنم لینے والی کنیائیں اکاش سے نہیں اترتیں۔ تم ہی جیسے دھنوان اور کلوان پرشوں کی سنتان ہوتی ہیں۔ جو لوگ اپنی کل کو کلنک لگانا، رنڈی کی لڑکی کا باپ کہلانا، ویشیا کے پیٹ سے جنم لینے والی سنتان کو کوٹھے پر نچوانا نہیں چاہتے، انہیں رنڈی کی چوکھٹ پر پاؤں بھی نہ رکھنا چاہیے۔ بینی: جو نہ ہونا چاہیے تھا وہ ہو چکا۔ لیکن اب۔۔۔ کام لتا: بینی پرشاد جی! رنڈی کے گھر کو کبوتر کی چھتری کہتے ہیں۔ تمہارے پاس کیا پرمان ہے کہ یہ تمہاری لڑکی ہے؟ بینی: اس کے جنم لینے کے چھ مہینے بعد تم نے میرے نام کا پہلا اور دوسرا اکھشر اس کی کلائی پر کھدوایا تھا۔ یہ دیکھو بینی کابی اور پرشاد کاپی موجود ہے۔ کیا ان دو اکھشروں کے ہوتے ہوئے بھی کسی ار پر مان کی اوشکتا ہے؟ کام لتا: اونہہ! کلائی پر کھدے ہوئے ان دو اکھشروں سے اگر لڑکی پر ڈگری مل سکتی ہے تو جاؤ، عدالت میں دعویٰ کرو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے اب تک اس کے لامن پالن میں ہزاروں روپے خرچ کیے ہیں۔ بینی: لیکن وہ روپے بھی تمہاری تجوری سے نہیں بلکہ میری ہی جیب سے نکلے تھے۔ پھر بھی لڑکی کے بدلے میں تم پانچ سو مانگو تو میں پانچ ہزار دینے کو تیار ہوں۔ کام لتا: کیا پانچ ہزار؟ بس اتنے ہی؟ ارے اسے جوان تو ہونے دو۔ جس دن یہ اپنا روپ اور جوانی بیچنے کے لیے بازار میں نکلے گی اس دن پانچ ہزار تو میں اس کی ایک مسکراہٹ وصول کر لوں گی۔ بینی: تو کیا تم اسے بھی ویشیا بنانے کا وچار رکھتی ہو؟ کام لتا: رنڈی کے گھر میں پیدا ہونے والی لڑکی ویشیا نہ بنے گی تو کیا اکاش کی دیوی بنے گی؟ اشچرئے سے کیا دیکھتے ہو؟ رنڈی کی دوستی کا پرینام ہے۔ میں نے رنڈی بن کر اپنے باپ کا سر نیچا کیا ہے اور یہ ویشیا بن کر تمہاری ناک کاٹے گی۔ بینی: وہ دن آیا تو نہ یہ جئے گی، نہ تو اور میں۔ لا لڑکی ادھر لا! راج کنور بائیـ : بیٹا! یہ تو غصہ دلا کر دل لگی دیکھنے کے لیے تمہیں چھیڑ رہی ہے۔ لال! اتنی ننھی سی جان کو ماں اور نانی کے سوا دوسرا نہیں پال سکتا۔ کون روکتا ہے؟ اسے تین چار برس کی ہو لینے دو۔ پھر لے جانا۔ بینی: اتنا سمے؟ اچھا اس کے بعد روپے سے، زبردستی سے، عدالت سے، جس طرح بھی تم راضی ہو گی اسے میرے حوالے کرنا ہو گا۔ سن لیا؟ تین برس کی تاریخ یاد رکھنا! (جانا) راج کنور بائی: چلے گئے ڈگڈگی بجاتے ہوئے۔ دیکھا سدا رنگ جی! چور کے گھر میں سیندھ لگانا چاہتا تھا۔ کام لتا: کنتو ماں! تم بھی اپنے باپ کی چچی ہو۔ ایک ہی چھومنتر میں اڑیل گھوڑے کو مریل گدھا بنا دیا۔ سدا رنگ: چھوٹی بائی جی! نائکہ بننا سہل نہیں ہے۔ رنڈی کو تو چوہے کی طرح پھونک پھونک کر کاٹنا چاہیے۔ کام لتا: اچھا ماں یہ موا تو گیا۔ تھوڑی دیر میں جگل آ جائے گا۔ اب اس کو پھانسنے کے لیے ہمیں تیار ہونا چاہیے۔ سدا رنگ: بائی جی! اپنے جھوٹے پریم کاوشو اس دلانے کے لیے ماں کے ساتھ جھوٹی لڑائی لڑ کر جگل کے گھر جا تو رہو گی۔ کنتو مجھے ڈر ہے کہ جانے کے بعد واپس آنا نہ بھول جاؤ۔ کام لتا: پاگل ہو گئے ہو؟ کہیں اڑنے والا پکھیرو پنجرے میں بند رہ سکتا ہے؟ دو ہی چار مہینے کے اندر اس کی جیب، بینک اور صندوق کے روپیوں کا صفایا کر کے کوئی نیا شکار پھانسنے کے لیے اپنی پرانی چھتری پر آ بیٹھوں گی۔ راج کنور بائی: اور تمہاری دودھ پیتی بچی؟ کام لتا: وہ تمہارے پاس رہے گی۔ آٹھویں دسویں دیکھنے کو بلا لیا کروں گی۔ راج کنور بائی: ارے چپ چپ جگل آ پہنچا۔ کام لتا: ہاں تو لڑائی کے ناٹک کا پہلا سین شروع ہو جانا چاہیے۔ دیکھو ٹھیک ٹھیک پارٹ کرنا۔ یہ معلوم ہو کہ قریب کے اسٹیج پر ماں بیٹی نہیں، دو مرغیاں لڑ رہی ہیں۔ سدا رنگ: بس تو ڈراپ اٹھا دو۔ جگہ جگہ پر میں بھی ونس مور کرتا رہوں گا۔ راج: اری چل چل کس بھاگیہ وان کو بھاگ چرا کر لائی تھی جو میری کوکھ سے جنم لیا؟ حرامزادی کھال سے باہر ہوئی جاتی ہے۔ کام: دیکھ بڑھیا دیکھ تو بھیگی ہوئی جوتی کی بڑھتی جاتی ہے۔ منہ بند کر، نہیں تو سرکار ایک ایک بال نوچ کر گنجی بندریا بنا دوں گی۔ (جگل آ کر حیرت سے سائڈ میں دیکھتا ہے) راج: ارے واہ! ہاتھی کی مستک پر مینڈ کی ناچے گی۔ دیکھ، دیکھ! مجھے بڑھیا مت سمجھ۔ ایسا گھونسا جڑوں گی کہ منہ تو دکھائی دے گا لیکن منہ پر ناک نہ دکھائی دے گی۔ سدا: جانے دو۔ جانے دو۔ بائی جی! پولیس آگئی تو دونوں کا دفعہ ۳۴ میں چالان ہو جائے گا۔ کام لتا: بس تم چونچ بند رکھو۔ کوئل اور مینا کی لڑائی میں کوے بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جگل : (سائڈ) آج یہ نئی بات کیسی؟ (ظاہراً) کام لتا! آگ کیوں ہو رہی ہو؟ کام: مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ جس کا روپوں سے گھر بھر دیا ہے، اس نمک حرام بڑھیا سے پوچھو۔ جگل: یہ تو اپنے آپے میں نہیں ہے۔ ماں! تم ہی بتاؤ۔ راج: اے میں کیا بتاؤں۔ جو تمہارے کوٹ کا بٹن بن کر رہنا چاہتی ہے، وہی بتائے گی۔ سدا: جیتی رہو ماں! خوب پارٹ کر رہی ہو۔ جگل: سمجھ میں نہیں آتا گرو جی! یہ کیا جھگڑا ہے؟ سدا: بابو جی! میں کیا بتاؤں۔ جہاں جہاں ایسے مردنگ بج رہے ہوں، وہاں ڈفلی کی آواز کون سنتا ہے؟ راج: سدا رنگ جی! تم نے کتھک کے گھر میں جنم لیا ہے تو کیا ہوا، لیکن آدمی دھرماتما ہو گلے کی کنٹھی چھو کر کہو کہ کس کا دوش ہے؟ کام لتا: دوش کی بچی! ماما سے کیا پوچھتی ہے؟ اپنی ماسی سے پوچھ حرام کار! کھا کھا کر کتنی پھولتی جا رہی ہے۔ ارتھی بھاری ہو جائے گی۔ ارے مر، جلدی مر! سدا رنگ: ارے کیا کرتی ہو؟ یہ تو ہماری روزی کا ٹھیکرا ہے۔ اگر یہ مر گئی تو ہمیں اپنا پیٹ پالنے کے لیے سارنگی بیچ کر حجام کا استرا خریدنا پڑے گا۔ راج کنور بائی: ارے تیرے ہاتھ ٹوٹیں۔ تجھ پر کھڑے قد بجلی گرے، تجھے مانگے بھیک نہ ملے۔ کیوں بیٹی کے ہاتھ سے ماں کا گلا گھٹوا کر کلیجہ ٹھنڈا ہوا؟ ارے! میں کبھی نہ مانوں گی۔ تو نے ضرور اس پر جادو کر دیا ہے۔ کیوں استاد جی! جادو کیا ہے نا؟ جگل: یہ کیا؟ مدراس کا بادل کلکتے پر کیوں برسنے لگا؟ سدا رنگ: کھوپڑی سے سمجھ باہر نکالنے کے لیے۔ کام لتا: دیکھو جی! میرا شریر رنڈی کی رکت مانس سے بنا ہے۔ کنتو میرا دل رنڈی کا نہیں ہے۔ بڑھیا نے تو کئی دفعہ پھونک مار کر بجھانا چاہا، لیکن اس پاپ کے مندر میں ابھی تک دھرم کا دیا جلتا ہے۔ جگل: لیکن مجھے یہ تو سمجھاؤ کہ ہوا کیا؟ کام لتا: تم نے کرم چند کباڑیئے کا نام تو ضرور سنا ہو گا۔ اس کے سالے بھاگ چند کو چھ دفعہ دیوالہ نکال لینے کے بعد پھر سٹے میں پچاس لاکھ روپے مل گئے ہیں۔ اس کا آدمی آ کر کہنے لگا کہ جگل بابو کی نوکری چھوڑ دو تو بھاگ چند سیٹھ پانچ ہزار پیشگی اور دو ہزار مہینہ دینے کو تیار ہے۔ بس پانچ ہزار کا نام سنتے ہی بڑھیا پکی ہوئی پھوٹ کی طرح کھل گئی، لیکن میں نے صاف کہہ دیا کہ ہم بے وفا نہیں ہیں۔ جس بابو کا ہاتھ پکڑتے ہیں، اس کا مسان تک ساتھ دیتے ہیں۔ سدا رنگ: سچ ہے۔ بائی جی ایسی وفادار ہیں کہ بابو جی کا پیسہ ہی نہیں، بابو جی کی جان لے کر چھوڑتی ہیں۔ راج کنور بائی: جب تو نے کہہ دیا تو میں کیوں چھپاؤں۔ بابو صاحب! ملتا ہوا دھن کون چھوڑتا ہے۔ رنڈی تو نیلام کا مال ہے۔ جو بڑھ کر بولی بولے گا، وہی خریدے گا۔ کام لتا: دیکھو پریتم! مجھے اس رنڈی کے دھندے سے گھنا آ گئی ہے۔ اب میں تمہاری چرن سیوا سے اپنے پاپی جیون کو پوتر بنانا چاہتی ہوں۔ کیا تم مجھے چار موٹے کپڑے اور دو مٹھی ان نہیں دے سکتے۔ جگل مجھے اس پاپ کے نرک سے نکال کر اپنے گھر لے چل۔ بھٹکتی ہوئی ناری کو دھرم کا راستہ بتاؤ۔ دیکھو نہیں نہ کہنا۔ یدی تم نے مجھے شرن نہیں دیا تو میں آج ہی سنیاس لے کر بندرا بن چلی جاؤں گی۔ جگل: کام لتا میں اور ہر پرکار سے تمہاری رکھشا کرنے کے لیے تیار ہوں، کنتو بند ہو، بھائی، بیوی، کنبے کے ہوتے ہوئے تمہیں گھر لے جانے کا ساہس نہیں کر سکتا۔ کام لتا: تب میں پاپ سے بچنے کے لیے کنویں میں جا کر پھاند پڑتی ہوں۔ استاد جی! ارتھی اور چتا تیار کرو۔ میں ڈوبنے جاتی ہوں۔ سدا رنگ: ٹھہرو، ٹھہرو! بابو جی! مرنے سے روکئے۔ ایسی خوبصورت استری گھڑی گھڑی پیدا نہیں ہوتی۔ یہ تو سانچا ہی ٹوٹ گیا ہے۔ راج کنور بائیـ: مرتی ہے تو مرنے دو بابو جی! کیا سوچتے ہو۔ جانا چاہتی ہے تو لے جاؤ نا۔ بہتوں کو دیکھ چکی ہوں۔ اور اب تمہیں بھی دیکھوں گی کہ کتنے دن اسے سکھ سے رکھتے ہو۔ او ابھاگنی! سنتی ہے جو آج تیرے پیروں کے نیچے نوٹ بچھاتے ہیں وہی کل تیرے بدن کا زیور بیچ کر کھا جائیں گے۔ کام لتا: میں زیور کی بھوکی نہیں۔ میں تو پریم کی بھوکی ہوں۔ تو ضرور انہیں کل بدنام کرے گی کہ زیور کے لالچ سے میری بیٹی کو بھگا کر لے گئے ہیں۔ جب حرام کا دھندا چھوڑا تب حرام کی کمائی کا زیور بھی نہیں چاہیے۔ یہ لے اٹھا اپنا زیور۔ (زیور اتارنا) سدا رنگ: شاباش !رنڈی وہی ہے جو اپنے گھر کی جھاڑو بھی باہر نہ جانے دے۔ راج کنور بائی: ناک والی بن کر زیور تو دے چلی۔ اب یہ سات سو روپے کی ساڑھی سنبھال کر رکھنا۔ بابو کے گھر سے نکالے جانے کے بعد اس کو گروی رکھ کر کچھ دنوں بھیک مانگنے سے بچ جائے گی۔ کام لتا: بھیک مانگے تو اور تیری ہونے والی۔ ٹھہر جا میں تیری خریدی ہوئی ساڑھی بھی تیرے منہ پر مارتی ہوں۔ (اندر جانا) جگل: استاد جی! تم کچھ نہیں بولتے یہ کیا ہو رہا ہے؟ سدا رنگ: بابو جی! یہ تو ماں بیٹی کا ناٹک ہو رہا ہے۔ دو ڈراپ ہو چکے ہیں۔ تیسرا ڈراپ شروع ہونے والا ہے۔ آپ ٹکٹ لے کر آئے ہیں اور میرے پاس سیزن ٹکٹ ہے۔ کام لتا: (آ کر) ہیرا دینے والا جیتا رہے۔ مجھے کیا پروا ہے۔ زیور پا چکی۔ لے اپنی سات سو کی ساڑھی بھی رکھ چھوڑ۔ دیکھ اب نہ کہنا کہ مجھے لوٹ کر لے گئی۔ میں اس دھوتی کے سوا تیرے گھر کا ایک تنکا بھی لے کر نہیں جاتی۔ راج کنور بائی: ہمارے لیے تو مر چکی۔ بابو کے یہاں جا یا نرک میں جا! آؤ سدا رنگ جی! سدا رنگ: چلو بائی جی! میں تو سمجھتا تھا کہ دو ایک سین اور دیکھوں گا۔ یہاں تو ڈراپ سین گر گیا۔ (سدا رنگ اور راج کا جانا) جگل: کام لتا! یہ کیا کیا؟ پھر سوچ لو۔ ایک ہی پرش کو دیوتا مان کر اس کی سیوا اور بھگتی میں اپنا سارا جیون بتا دینا یہ ناری کی تپسیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لالسا کاراکھشش کسی دن تمہاری تپسیا نابھنگ کرا دے۔ کام لتا: ناتھ! مجھ پر وشواس کرو۔ جیسے سانپ کینچلی اتار دیتا ہے، ویسے ہی میں ویشیا پن اسی گھر میں چھوڑ کر تمہارے ساتھ چل رہی ہوں۔ دیکھ لینا میں اپنے آپ کو ایسا بدل ڈالوں گی کہ جو لوگ آج مجھے ویشیا سمجھتے ہیں، وہی کل مہاستی کے نام سے پکاریں گے۔ گانا سلونے بانکے سانوریا، تک تک مارے نیناں تیر۔ پران تڑپت چھن چھن۔ تم بن پڑت ناہیں دھیر۔ تیری چھبی متواری چال ڈھال منر ناری۔ مورامن ہر لینو سانورد۔ تمہارے درشن بن ساجنا۔ نینو اسے برسے آنسوؤں نیر۔ (سین ختم) ٭٭٭ باب پہلا پردہ چھٹا اگلا محل (سروجنی اور مادھو کا پردیش) سروجنی: مادھو! مادھو! تمہارے بھائی کل سے گھر نہیں آئے، جیسے راستے میں بچھڑ گئی ہوئی گائے اپنے گوالے کو پکارتی ہے۔ ویسے ہی میرا ہردے ان کے لیے پھڑک رہا ہے۔ جانتے ہو وہ کہاں ہیں؟ مادھو: میں ایک رسی کو دکھ دینے کے پاپ سے بچنا چاہتا تھا۔ اس لیے آج تک چھپایا کنتو جب آگ پہاڑ کی چوٹی پر جل رہی ہے تو اسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ ہاں بہن! میں جانتا ہوں۔ سروجنی: تو بتاؤ میرے پتی دیو کہاں ہیں؟ مادھو: تم سے تھوڑی دور، اس گھر سے ملے ہوئے باغ میں۔ سروجنی: باغ میں اور اکیلے؟ مادھو: جس چندن کے درکش میں سانپ لپٹے ہوں، اسے اکیلا نہیں کہہ سکتے۔ ان کے ساتھ کون کون ہے۔ سنو گی؟ سنو ! دراچار، لالسا، انا دنا، دربدھی اور شما کرنا باد پر ہو کر کہتا ہوں کہ بازار میں بیٹھنے والی کام لتا ویشیا۔ سروجنی: کیا کام لتا او رباغ میں؟ مادھو: وہاں وہ اپنی ماں سے لڑ کر چلی آئی ہے اور اب تمہارے پتی کے گلے کا ہار بن کر ہمیشہ اسی باغ میں رہے گی۔ سروجنی: نہیں، نہیں۔ تم جھوٹ کہتے ہو۔ میرے پتی پردوش لگاتے ہو۔ وہ بھول کر سکتے ہیں۔ پیتل پر سونے کا دھوکا کھا سکتے ہیں۔ کنتو سچی بھگتی اور سچے پریم کے ساتھ ایسا انیائے نہیں کر سکتے۔ کہو کہ میں نے جھوٹ کہا۔ چپ ہو، بولتے نہیں۔ تب کیا یہ سچ ہے؟ یدی یہ سچ ہے۔ تب سنسار میں میرے لیے کیا رہ گیا ہے؟ رونا اور مرتیو۔ مادھو: بہن! اٹھو۔ جیون ساگر میں سدا جوار بھاٹا آتا رہتا ہے۔ سروجنی: تاروں کی جگمگاہٹ، دھرتی کی شوبھا، پھولوں کی ہنسی، کوئل کی کوک، ندیوں کا سنگیت، سنسار کی کوئی وستو مجھے سکھی نہیں کر سکتی۔ اری کام لتا! اری اور نردئی ناری! تو میرا گھر چھین لے، زیور چھین لے۔ ایشور کے دیئے ہوئے سارے سکھ چھین لے کنتو میرے سوامی کو مجھ سے نہ چھین سوامی ہی جیون ہے اور سوامی ہی جیون کا مان ہے۔ مادھو: ارے ویشیاؤں کے پھندے میں پھنسے ہوئے کامی پرشو! تمہاری منشتا اور دیا کہاں چلی گئی؟ تم ان گھر کی گئوؤں کو ایکانت میں بہتے ہوئے جھرنوں کے سمان رات دن رلاتے ہو۔ کنتو یاد رکھو تمہیں ان ستیوں کے ایک ایک آنسو کا ایشور کے سامنے اتر دینا ہو گا۔ گانا یہ ورت مان بھارت کب ساودہان ہو گا ہم کون اور کیا ہیں کس دن یہ دھیان ہو گا تم دروپدی کے بھانتی ستیوں کو مت رلاؤ ان کا ہر ایک آنسو ارجن کا بان ہو گا جس دیش میں نہیں ہے گھر کی ستی کا آدر اس دیش میں جگت میں کس طرح مان ہو گا جب دھرم پریم ست کی گھر گھر میں ہو گی پوجا تب سورگ دھام اپنا ہندوستان ہو گا ٭٭٭ باب پہلا پردہ ساتواں باغیچہ سٹ سین (کام لتا اور جگل اک شراب پیتے دکھائی دینا) کام لتا: کیا دیکھتے ہو پریتم! کبھی شراب کے پیالے کی طرف اور کبھی میرے مکھ کی اور کیا دیکھتے ہو؟ جگل: جب تمہارے مکھ کی اور دیکھتا ہوں تب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جوانی کے پیالے میں سندریے کی مدیر اربس اور رنگ کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ کام لتا! نہیں سمجھ سکتا۔ پہلے کسے پیوں؟ گلاس کی مدیرا کو یا تمہارے روپ کی مدیرا کو؟ کام لتا: پیو، پیو، اتنا پیو کہ گلاس میں ایک بوند بھی باقی نہ رہے۔ ایک کو ہونٹوں سے پیو اور دوسرے کو آنکھوں سے پیو۔ جگل: جس گھر میں کامنی اور نرپتی کا مدھر ملن ہے، روپ ہے، مدیرا ہے، سنگیت ہے، وہی گھر سورگ ہے۔ سندری! میں نے تمہارے پریم سے وردان پا کر بنا تپسیا کے سورگ کو جیت لیا ہے۔ (جانا) کام لتا: یہ کامی پرش کتنے جھوٹے اور کتنے نرلج ہیں۔ اخباروں میں، لیکچروں میں، سماج میں، سینما میں، تھیٹر میں سب جگہ ہی ویشیاؤں کو بازار کی گھرنت کتیا کہتے ہیں اور پھر ایک جھوٹی مسکراہٹ کے لیے اسی کتیا کو ہر دیشوری اور سندری کہہ کر اپنا تھوکا ہوا آپ ہی چاٹتے ہیں۔ جوں جوں گلاس بھرتا جاتا ہے، بوتل خالی ہوتی جاتی ہے۔ جگل، ٹھہر جا! میں اس بوتل کی طرح ایک دن تیرے گھر کو بھی دھن اور سکھ سے خالی کر دوں گی۔ سروجنی: (آ کر) پریم کی انمتا یہاں تک کھینچ لائی کنتو اب پاؤں آگے نہیں اٹھتے۔ چھی، چھی۔ مجھے یہاں نہ آنا چاہیے تھا۔ لوٹ جاؤں؟ پاگل ہر دے! تب یہاں لایا ہی کیوں تھا؟ نہیں اب تو کرم کا لکھا پڑھ کر ہی لوٹوں گی۔ کیا تم کام لتا ہو؟ کام لتا: ہاں، تم کون ہو؟ روجنی: پہلے میرا نام سروجنی تھا کنتو اب ابھاگنی ہے۔ کام لتا: پہچان گئی۔ تمہارے پتی سے یہ نام کئی مرتبہ سن چکی ہوں کنتو یہ کیا کہا؟ ایسا تیج، ایسا روپ اور ابھاگنی۔ سروجنی: اسے روپ نہ سمجھو۔ یہ میرے جلے ہوئے بھاگ کی راکھ ہے، جو بدہاتا نے میرے منہ پر مل دی ہے۔ کام لتا! کیا تم ناری ہو؟ کام لتا: تم کیا سمجھتی ہو؟ سروجنی: یدی تم ناری ہو تو ایک ناری کا دکھ ضرور سمجھ سکو گی۔ کام لتا! میں تمہارے پاس پرارتھنا لے کر آئی ہوں۔ کام لتا: کہو کیا کامنا ہے؟ سروجنی: جو سہاگ کی شوبھا ہے، ماتھے کا تلک ہے، مانگ کا سیندھور ہے، ہردے کا راجہ ہے، اس کی کامنا کے سوا ہندو ناری کی اور کیا کامنا ہو سکتی ہے۔ میں ایک بڑے گھر کی کل دوہو ہو کر بھکارنی کی طرح تمہارے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہوں۔ بھکشا دو، کام لتا! مجھے میرے پتی کی بھکشا دو۔ کام لتا: کیا تمہارا پتی تمہیں دے دوں؟ سروجنی: ہاں بھکارنی کا دھن بھکارنی کو دے دو! کام لتا: ٹھہرو ۔ مجھے سوچنے دو۔ اس کی دکھ بھری پکار سے میرے ہردے میں سوئی ہوئی دیا کروٹ لینے لگی ۔ کیا اسے جھنجھوڑ۔ سروجنی: کیا سوچ رہی ہو؟ میرا دھن، سکھ، مان، نیند، چین، جو کچھ ہے پتی ہے۔ ان کے بناء میرے لیے سنسار میں کچھ نہیں ہے۔ کنتو تمہارے لیے سب کچھ ہے، کیونکہ میں دھرم بندھن سے بندھی ہوئی گھر کی استری ہوں اور تم سوتنتر ویشیا ہو۔ کام لتا: کیا کہا، ویشیا؟ آہ! میں دیا کرنے چلی تھی کنتو تم نے ٹھیک سمے پر تھپڑ مار کر میری بھول مجھے سجھا دی۔ ہاں، نشچے میں ویشیا ہوں۔ سنو ایک سمے تھا۔ جب میں بھی دھرم پارائینا تھی۔ اچ تھی۔ پوتر تھی۔ کلنک کے سپرش سے بچنا اور پنیہ کے شرن میں جیون بتانا چاہتی تھی کنتو تمہارے ہی بھائیوں اور بیٹوں نے تمہارے ہی سماج کے بھدر پرشوں نے میرے اور سورگ کے بیچ میں پاپ کی دیوار کھڑی کر دی۔ میں کامنا اور تین کرنے پر بھی دیوی نہ بن سکی۔ کیا بنی؟ ویشیا۔ جانتی ہو ویشیا کیوں بنی؟ سروجنی: چپ رہو۔ میں تم سے بحث کرنا نہیں چاہتی۔ کیول اپنا پران پتی چاہتی ہوں۔ ایک بھکارنی تمہارے ہردے کے دروازے پر آوازیں دے رہی ہے۔ بھکشا دو۔۔۔۔ دیا کی دیوی۔۔۔! اسے بھکشا دو۔ کام لتا: آ ہا ہا ہا سمے کیسا بلوان ہے۔ شو کی جٹا میں نواس کرنے والی گنگا کو بھی دھرتی پر اترنا پڑا۔ وہ سماج جو آ گیا نتا کی پریتم بھول پر بھی دیا نہیں کرتا، آج اسی سماج کی پتی ورتا استری ہاتھ پھیلا کر ایک ویشیا سے دیا کی بھیک مانگ رہی ہے۔ نہیں، سماج کے کسی پرش نے اور کسی ناری نے ہم پر دیا نہیں کی۔ ہم بھی کسی پر دیا نہیں کریں گے۔ ہم ویشیا ہیں۔ گھر کی ناریوں کا سہاگ اور ان کے بھائیوں، بیٹوں اور پتیوں کا جیون نشٹ کرنا یہی ہمارا دھرم ہے۔ سروجنی: نہیں، نہیں۔ ایسا نہ کہو۔ دان دینے کی شکتی رکھ کر بھکارنی کو دروازے سے نہ لوٹاؤ۔ تم لالی اور پڈر کے دو ارارات دن بڑھاپے س ینشٹ ہو جانے والے روپ کی رکھشا کیا کرتی ہو۔ کیا آج اپنے دیا اور دھرم کی رکھشا نہ کرو گی؟ کام لتا: گرہستھ گھر کی ہر ایک استری ہم ویشیاؤں کی شترو ہے۔ شترو پردیا نہیں کی جا سکتی۔ تم بھی ناری ہو، تم بھی روپ دان ہو، تم بھی پریم بھرا ہوا غصہ اور ہنسی ملا ہوا رونا جانتی ہو۔ یدی تمہارے ہونٹوں میں سمجھانے اور پریم میں منانے کی شکتی ہے، تو اپنے پتی کو میرے باہو بندھن سے چھڑا لے جاؤ۔ آج دیکھنا ہے کہ کس میں ادھک شکتی ہے۔ استری کے پریم میں کہ ویشیا کے روپ میں۔ سروجنی: اتنی کٹھورتا! کام لتا: ہاں۔ سروجنی: اتنا ابھیمان! کام لتا: ہاں۔ سروجنی: اچھا میں بھی دیکھتی ہوں کہ پاپ پنیہ کا چہرہ لگا کر کہاں تک پریم اور وشواس کو دھوکا دے سکتا ہے۔ رکھشسنی آج ہو، کل ہو، دس برس ہو کنتو وہ دن نشچے آئے گا جب میرے پربھوہردے کی پیاس بجھانے کے لیے اپنے گھر کے انند سر دور کی طرف دوڑیں گے اور تمہیں اس طرح چھوڑ دیں گے جس طرح لوگ دیوی کے مندر میں پردیش کرتے سمے گندی جوتی کو باہر چھوڑ دیتے ہیں۔ جگل: (آ کر) پریئے اندر چلو! بادل گھرے آ رہے ہیں۔ کون؟ سروجنی؟ کام لتا: ہاں۔ تمہیں مجھ سے چھیننے کے لیے آئی ہے۔ کہتی ہے کہ ہم ویشیاؤں کو پیار کرنے کا ادھیکار نہیں ہے۔ جگل: پاپ کی پریتما کے سامنے پنیہ کی مورتی کھڑی ہے۔ وشواس گھاتک اب اسے کیا اتر دے گا۔ سروجنی تم یہاں کیسے آئیں؟ سروجنی: جیون پربھو ہندو ناری اپنے سوامی کو اپدیش دینے کا ادھیکار نہیں رکھتی کنتو شما کرنا۔ آج ساہس کر کے تمہارے ہی منگل کے لیے دو شبد بولنے کی آ گیا مانگتی ہوں۔ ناتھ ناری کا مان روپ سے نہیں گن سے ہوتا ہے۔ جھوٹے روپ، جھوٹے پریم اور جھوٹی ہنسی کے سوا اس ناری میں کون سا گن ہے جو تمہیں دکھائی دیتا ہے ۔ اور دنیا کو دکھائی نہیں دیتا۔ دیکھو اس کے مکھ کی اور دیکھو۔ اس کے مکھ پر بجلی کی چمک ہے کنتو سیتا کا تیج کہاں ہے۔ ان آنکھوں میں کام کا نشہ ہے کنتو لاج کی شوبھا کہاں ہے۔ ان گالوں میں پھولوں کی لالی ہے کنتو پوتر تاکی سوگندھ کہاں ہے۔ پربھونرک اور سورگ ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ ویشیا کا روپ ہی سندر ہوتا ہے۔ ہردے سندر نہیں ہوتا۔ جگل: ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اس نے کام کا نشہ پلا کر اپنے روپ کی چھری میرے ہاتھ میں دے دی ہے جس سے میں اپنے جیون کو گھائل کر رہا ہوں۔ کیا کروں بہت سویا، جاگنا چاہیے جاؤ کام لتا! گھر واپس جاؤ تم روپ دے سکتی ہو، پریم کر سکتی ہو کنتو سچا سکھ دکھ نہیں دے سکتیں۔ پریئے! پریئے! مجھے شما کرو۔ میں تمہارا تھا اور تمہارا ہی رہوں گا۔ کام لتا: اررر یہ الٹا چکر کیوں گھوم گیا؟ سروجنی: آؤ ناتھ! میں ان بازار کی ٹھگنیوں سے ڈر گئی ہوں۔ اب تمہیں اپنے ہردے میں چھپا کر رکھوں گی۔ کام لتا: دھنیہ ہے! سچے مہا پرش دھنیہ ہے۔ کیا اسی مکھ سے پاپ کے اندھیرے میں بھٹکتی ہوئی ناری کو دھرم کا مارگ بتانے کا وچن دیا تھا؟ جگل! میں نے اپنے روپ کے پجاریوں کو، دھن کو، گھر کو، سوتنتر تا کو لات مار کر اپنے ماتھے سے ویشیا کے نام کا کلنک مٹانے کے لیے تمہاری شرن لی تھی۔ آج تم کہتے ہو کہ شرن نہ دوں گا۔ اچھا، نہ دو! میں پاپ کے اتھاہ ساگر میں ڈوبنے جاتی ہوں۔ ایشور کا نیائے تمہیں کبھی شما نہ کرے گا۔ جگل: سچ کہہ رہی ہے۔ یدی اس نے نراد پائے ہو کر پھر دھرم ہتھیا کا پاپ کیا تو اس پاپ کا ڈنڈ مجھے بھی ضرور بھوگنا ہو گا۔ ٹھہرو مجھ سے بھول ہو گئی۔ میں ہردے کو چھاتی سے الگ کر سکتا ہوں کنتو تجھے الگ نہیں کر سکتا۔ کام لتا: آہا! میں نے اپنا کھویا ہوا سورگ پھر پا لیا۔ سروجنی: یہ کیا! یہ کیا! ناتھ! جس ویشیا جاتی کو دھرم، نیتی، شاستر سب چھل اور کپٹ کی مورتی کہتے ہیں، پھر اس کے دھوکے میں آ گئے؟ سوامی! پربھو! بھاگ آؤ۔ اس سروناشنی سے ہاتھ اٹھا کر بھاگ آؤ۔ ویشیا اور سانپ میں کوئی بھید نہیں ہے۔ سانپ کے دانتوں میں وش ہے اور ویشیا کے ہردے میں وش ہے۔ وہ دیہہ کو ڈستا ہے اور یہ دھن اور دھرم کو ڈستی ہے۔ جگل: نشچے میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہوں جو کسی کی نہ ہوئی وہ میری کیسے ہو سکتی ہے؟ سروجنی! مجھے ایک بار اور شما کرو۔ کام لتا: ہت تیرا ستیاناس جائے۔ نس سہائے ناری کے وشواس کو روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ اچھا جاؤ، جتنی دور جا سکتے ہو جاؤ۔ آج میں سمجھ گئی کہ ویشیا پرش کے لیے اپنے آپ کو مٹا دے تو بھی گھر کی استری کے سمان سچی اور پریمی نہیں سمجھی جا سکتی۔ پاپنی! چل، اپنے نرک کی طرف چل۔ تیرا جنم بھی پاپ میں ہوا اور مرتیو بھی پاپ میں ہو گی۔ جگل: اوں! میں نے پتھر مار کر اس کا ہردے توڑ دیا ہے۔ جا رہی ہے۔ کام لتا: آ رہا ہے۔ جگل: اور اس کے ساتھ ہردے کی شانتی اور سنسار کی شوبھا بھی جا رہی ہے۔ نہ جاؤ، کام لتا نہ جاؤ، بند ہو، متر، استری سب کچھ چھوڑ دیں کنتو میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ سروجنی: اوہ! میں مکھ پر پانی چھڑ کر جگاتی ہوں اور تم جاگ کر پھر آنکھیں بند کر لیتے ہو۔ پہچانو۔ ناتھ! اسے پہچانو۔ یہ استری نہیں، استری کے روپ میں راکھشسنی ہے۔ کام لتا: سنتے ہو، کیا کہا؟ میں استری نہیں راکھشسنی ہوں۔ اف جگل! میں تمہاری گالی سہن کر سکتی ہوں کنتو دوسرے کے منہ سے اپمان بھرے شبد نہیں سن سکتی۔ جگلـ: سروجنی! تم نے یہاں آ کر میری سکھ کی سرشٹی میں پر لے مچا دی۔ دھرم اور ستنتا کا ابھیمان اتنا بڑھ گیا۔ پتی پتی جپنے سے ہونٹ اتنے نربھے ہو گئے۔ جاؤ ان شبدوں کے لیے کام لتا سے شما مانگو۔ سروجنی: کیا کہا؟ ناتھ! شما مانگوں؟ ناتھ! کس اپرادھ کے لیے؟ کیا اسی اپرادھ کے لیے کہ میں اپنے پتی کا کلیان چاہتی ہوں؟ جگل: بس شما مانگو۔ میں تمہارا پتی ہوں اور یہی پتی کی آگیا ہے۔ سروجنی: اچھا۔ پتی دیو! یدی تمہاری یہی اچھیا ہے تو میں تمہیں سکھی کرنے کے لیے اپمان کا یہ گھور دکھ بھی سہن کر لوں گی۔ کام لتا! مجھے شما۔۔۔۔۔ (مادھو کا آنا) مادھو: ساؤ دھان بہن! یہ کیا کرتی ہو؟ سروجنی: داسی کیا کرے۔ سوامی کی یہی آ گیا ہے۔ مادھو: بیاہ کے دن سنسار کے دکھ سکھ کا بوجھ دونوں کے کندھوں پر رکھا جاتا ہے۔ پتی کی آگیا پالنا اور سیوا کرنا اگر استری کا کرتویہ ہے تو استری کے سکھ اور مریادا کی رکھشا کرنا پتی کا دھرم ہے۔ جگل: مادھو! میرے شانتی کنج میں پہلے یہ آندھی بن کر آئی اور اب تم وجر بن کر آئے ہو۔ معلوم ہوا کہ تم دونوں میرا سکھ نہیں دیکھ سکتے۔ مادھو: کہاں ہے سکھ؟ کیا اس شراب کی بوتل میں سکھ ہے؟ کیا کام اور روپ کے اپوتر ملن میں سکھ ہے؟ کیا سینٹ اور لونڈر سے مہکتی ہوئی اس کلٹا کی ٹیڑھی بھوؤں اور آڑی مانگ میں سکھ ہے؟ دھوکا نہ کھایئے۔ آپ آنکھ کے نشے اور جوانی کے پاگل پن کو سکھ سمجھ رہے ہیں۔ جگل: اپدیش سے ہٹ اور ہٹ سے کر ودھ اتپن ہوتا ہے۔ جاؤ تمہیں بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اپنے جیون کا راستہ خوب پہچانتا ہوں۔ مادھو: نہیں۔ جیون کا راستہ پہچاننا کیسا آپ راستے کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔ جگل: کیوں؟ مادھو: یوں کہ اس نے روپ اور چھل کے ہاتھوں سے آپ کی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یدی آپ دیکھ سکتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا کہ یہ وشواس ہے اور یہ دھوکا ہے، یہ پریم ہے، یہ لالسا ہے۔ یہ سیوا ہے۔ یہ سوارتھ ہے۔ یہ جیتی ہے پتی کے لیے اور یہ جیتی ہے اپنے مزے کے لیے۔ اسے دھرم پیارا ہے اور اسے دھن پیارا ہے۔ کام لتا: جگل! میرے کانوں پر یہ وجر پات کہاں تک ہوتا رہے گا؟ آدمی ایک ساتھ دو کشتیوں پر پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ تمہیں اپنے سکھ کے پھول سے اگر کانٹا الگ کرنا ہو تو ہم دونوں میں سے ایک کو بھول جانا ہو گا۔ سنتے ہو؟ اب اس گھر میں ایک ہی رہے گی۔ یہ یا میں۔ جگل: سروجنی! تم نے کام لتا سے شما نہ مانگ کر پتی کی آگیا کا انادر کیاہے۔ میں ابھیمان اور اپمان سہن نہیں کر سکتا، جاؤ۔ میرے گھر سے ابھی چلی جاؤ۔ سروجنی: کیا کہا ناتھ! چلی جاؤ؟ جس گھر میں کل دوہو بن کر آئی، لکھشمی بن کر رہی، دیوی بن کر پوجی گئی۔ اسی گھر میں چلی جاؤں؟ جگل: ہاں آج ہی چلی جاؤ۔ مجھے تمہاری بھگتی بھی نہیں چاہیے اور سیوا بھی نہیں چاہیے۔ مادھو: تب کیا چاہیے؟ کیول روپ، کیول انادٹا، کیول سروناش؟ سوچو، سوچو، چنتا میں دکھ میں، بیماری میں، مرتیو کی شیامیں کیول جیون سنگنی ہی ساتھ دیتی ہے۔ بازار کی کلٹا ساتھ نہیں دیتی۔ جگل: بس میرے پاس تمہاری بکواس سننے کا سمے نہیں ہے۔ سروجنی! کیا مجھے اپنی آ گیا پھر دہرانی ہو گی؟ جاؤ۔ میرے گھر کے سوا تمہارے رہنے کے لیے سارا جگت پڑا ہوا ہے۔ سروجنی: ناتھ! میرا جگت، میرا جیون، میرا لوک پرلوک، سب کچھ انہیں چرنوں میں ہے۔ تم مجھے اپنے ہردے میں رکھو یا لات مارو کنتو میں ان چرنوں کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤں؟ جگل: اپنے ماتا پتا کے گھر جاؤ۔ سروجنی: ماتا پتا نے تو کنیا دان کرتے سمے تمہارے آدھین کیا تھا۔ جگل: تب نرک میں جاؤ۔ مادھو: شرم کرو، شرم کرو۔ جسے ماں باپ نے، سماج نے، دھرم نے، کرتویہ نے تمہارے جیون کے ساتھ جوڑ دیا تھا، اسے آج ایک ویشیا کی پرسنتا کے لیے اپنے گھر سے الگ کر رہے ہو۔ یاد رکھو۔ روپ مل سکتا ہے، دھن مل سکتا ہے، راج مل سکتا ہے۔ کنتو ستی کے ہردے کے سوا سچا پریم اور کہیں نہیں مل سکتا۔ جگل: تمہارا اپدیش اور اس کے آنسو دونوں مل کر بھی میرے وچار نہیں بدل سکتے۔ مجھ سے دیا مانگنی ہے تو پہلے کام لتا سے شما مانگو۔ مادھو: اوہ! کبھی نہیں۔ میں ندو ہو کر ایک پتی پارائینا ہندو استری کو ایک گھرنت ویشیا کے پیروں پر جھکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ یہ شما نہیں مانگے گی۔ ستی کے مان کے لیے اسے شما مانگنی ہو گی۔ راکھشسنی! آگے بڑھ اور ہاتھ جوڑ کر گرہ لکشمی سے شما مانگ (مادھو کام لتا کی گردن پکڑ لیتا ہے۔) کام لتا: یہ کیا؟ یہ کیا؟ مادھو: بس شما یا مرتیو۔ جگل: مادھو ! مادھو! مادھو: ساودہان جب تم پتی کا دھرم بھول گئے تو میں بھی بھائی کا مان بھول گیا۔ جگل: مادھو! کیا کرتے ہو؟ مادھو: آپ ہٹ جایئے، پاپنی! ٹیک گھٹنے اور بول کہ دیوی مجھے شما کرو۔ کام لتا: ش، شما۔۔۔۔ (ڈراپ) ٭٭٭ باب دوسرا پردہ پہلا محل اگلا گانا سروجنی: پی سنگ گئے سکھ سہاگ۔ کیسے مورے بھاگ۔ جل جل راکھ بھئی میں ایسی من میں لگی ہے آگ۔ ہائے ہائے موری جائے عمریا آنسوئن جل سے بھیجے سجریا۔ بیرن رین بیتے جاگ جاگ۔ دلاری: (آ کر) بھولی ہرنی کھڑی ہے۔ ایک دفعہ بچ گئی۔ اب کی نشانہ نہیں چوک سکتا۔ بہو جی! سروجنی: کیوں سر جو! پھر کیوں آئی؟ دلاری: میں یہ کہنے آئی ہوں کہ کل کی رات اور آج کا تین پہر بیت گیا۔ کیا اب بھی بھوجن نہ کرو گی؟ سروجنی: اچھا، کھا لوں گی۔ دلاری: کب؟ سروجنی: جب بھوک لگے گی۔ دلاری: چولھا بھی بنا ایندھن گرم نہیں رہتا۔ اس طرح یہ شریر کیسے چلے گا؟ سروجنی: سرجو! تم میرے شریر کی چنتا نہ کرو۔۔۔۔ اس سنسار میں ہم جیسی ابھاگنی استریوں کے لیے دکھ ہے مرتیو نہیں۔ دلاری: بہو جی! مجھ سے اب تمہارا دکھ نہیں دیکھا جاتا۔ تم پتی کو اپنا بنانے کے لیے دکھ کر چکی۔ سوچ کر چکی۔ دیوی دیوتاؤں سے پرارتھنا کر چکی۔ اب کئی دن سے جو اوپائے میں بتا رہی ہوں۔ اس کی بھی پریکشا کر لو۔ سروجنی: کیا تم کو سچ مچ وشواس ہے کہ تانترک مہاراج اپنے جادو ٹونے کی شکتی سے میرے کرم کا لکھا بدل دیں گے؟ دلاری: انہیں سادھارن تنترک نہ سمجھو۔ وہ بارہ برس تک آدھی رات کو شمشان بھومی میں سمادھی لگا کر تپسیا کرتے رہے ہیں۔ تب انہیں یہ شکتی پراپت ہوئی ہے۔ بہن! تم ایک دفعہ چلو تو سہی۔ سروجنی: اچھا سرجو! کل چلوں گی۔ دلاری: ایشور تمہارا منگل کرے۔ آہ! چڑیا پھنس گئی۔ (جانا) سروجنی: آہ! ہردے کی پتی پتی مرجھا گئی ہے۔ آؤ ناتھ! اس اجڑے ہوئے باغ میں پھر ایک بار بسنت اتسو بن کر آؤ۔ (مادھو کا آنا) بھائی مادھو! کچھ خبر ملی؟ مادھو: پہلے گھر اور بینک کے روپیوں سے گلچھرے اڑائے۔ ان کا صفایا ہونے کے بعد دس ہزار میں باغ اور چھتیس ہزار میں باپ دادا کے رہنے کا مکان گروی رکھ کر روپیوں کی ہولی کھیلی۔ یہ رنگ بھی جب پھیکا پڑ گیا تب ایک کی جگہ دس کا پرونوٹ لکھ کر مہاجنوں سے ادھار لینا شروع کیا۔ اب یہ اوستھا ہے کہ ادھار بھی نہیں ملتا۔ تھوڑے دنوں میں مانگنے سے بھیک بھی نہیں ملے گی۔ سروجنی: نہ، نہ، مادھو! ایسی بری بھاؤنا نہ کرنا۔ کیوں کہ تم بھائی اور میں استری ہوں۔ ہمیں ان کے منگل کے لیے ان سے پرارتھنا کرنی چاہیے۔ مادھو: اور سنو! ہم تم آج تک جانتے تھے کہ انہوں نے ایک لاکھ کا مکان خرید کر کام لتا کے نام رجسٹری کر دیا ہے اب معلوم ہوا کہ وہ ٹھگنی لگ بھگ چالیس ہزار کے زیور بھی اینٹھ چکی ہے۔ آہ! باپ کی پوتر کمائی کیسی یوگیہ دیوی کود ان دی گئی۔ سروجنی: مادھو بھائی! دو برس بیت گئے۔ دنیا کا ہر ایک نشہ تھوڑی دیر کے بعد اتر جاتا ہے، لیکن ان کا نشہ کب اترے گا؟ مادھو: روپے کے ابھاؤ اور مہاجن کی لاؤ لاؤ نے کھٹاس بن کر نشہ پھیکا تو کر دیا ہے جس دن شراب کے گلاب کی جگہ میز پر عدالت کے وارنٹ اور کام لتا کی جگہ گھر میں مہاجن اور بیلف دکھائی دیں گے، اسی دن پورے طور پر آنکھیں کھل جائیں گے۔ (جانا) سروجنی: کیا تھا اور کیا ہوا! گانا پیاکی بولی نہ بول پپیہا۔ پریم ساگر میں میرے ہردے کا پپیہا بھید نہ کھول۔ بن دھوئیں کی آگ سلگتی۔ تن میں من میں اور جیون میں۔ چھوڑو یہ پریم کی ڈور۔ ٭٭٭ باب دوسرا پردہ دوسرا محل تیسرا گانا کام لتا: ان کی ضد ہے کہ مقتل میں جائیں گے ہم اپنے عاشق کو اب آزمائیں گے ہم آج دیکھا جائے گا کس کس کو الفت ہم سے ہے اب پتا چل جائے گا کس کو محبت ہم سے ہے اب تو جی بھر کے خنجر چلائیں گے ہم سدا رنگ: ہے اختیار جسے چاہو تم حلال کرو تم اپنے چاہنے والوں کو پائمال کرو صفایا کرتی ہو تم جس کے گھر میں جاتی ہو جو بے دھڑک یونہی تم بار بار گاتی ہو اب تو جی بھر کے خنجر چلائیں گے ہم کام لتا: غیر سے کیوں ہو جو کچھ ہو زیب و زینت ہم سے ہو آج مقتل کی اگر ہو شان و شوکت ہم سے ہو سب سے پہلے وہاں سر جھکائیں گے ہم سدا رنگ: تمہاری چاہ کا یہ آخرش نتیجہ ہے خبر نہیں ہے چچا ہے کہ یہ بھتیجا ہے وہ دونوں مل کے ہی اس نرک گھر میں رہتے ہیں بڑے گھمنڈ سے بیٹے سے باپ کہتے ہیں سب سے پہلے وہاں سر جھکائیں گے ہم (گانا ختم) سدا رنگ: استاد جی! ودیا کی قسم! کیا گاتی ہو۔ کام لتا: استاد جی! کیا یہ خبرسچ ہے کہ بینی بابو کے باپ پر فالج گر پڑا؟ سدا رنگ: اجی وہ تو ویدوں اور ڈاکٹروں کا اگلے جنم کا قرضہ چکا کر کریم پوری پہنچ گیا۔ کام لتا: بڑا ہی کنجوس تھا۔ مانو پیسہ جوڑنے کے لیے جنم لیا تھا۔ اچھا سپوت بیٹے کے اڑانے کے لیے کتنا روپیہ چھوڑا ہے؟ سدا رنگ: آٹھ لاکھ نقد اور چار لاکھ کے پرا میسری نوٹ۔ اب تو بینی بابو کے مزے ہی مزے ہیں۔ کام لتا: سدا رنگ جی! لنڈوری چڑیا کو پھر سونے کے پر لگ گئے ہیں تو پھندا لگاؤ۔ میں بھی دو چار دن میں جگل کو دھتا بنا کر روپ اور ہنسی کا پنجرا لیے ہوئے آ پہنچتی ہوں۔ سدا رنگ: کل شام کو بینی بابو دو چار ہالی موالیوں کے ساتھ نشے میں جھومتے جھامتے راج کنور بائی سے ملنے کے لیے آئے تھے۔ میں نے جھک کر سلام کیا تو مجھے دیکھ کر کہنے لگے ’’ ابے حرامی! تو ابھی زندہ ہے؟‘‘ اور سر پر ایک چپت رسید کی اور کھٹ سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دے دیا۔ کام لتا: کچھ میرے لیے کہا؟ سدا رنگ: ہاں کہا کہ کام لتا بڑی ہی حرام زادی ہے۔ بڑی ہی پاجی کی بچی ہے۔ کام لتا: تو کیا بینی نے مجھے گالیاں دیں؟ سدا رنگ: تو تم نے اس کے ساتھ کونسی بھلائی کی ہے جو گالیوں کے بدلے تمہیں اشیر واد دیتا؟ اجی یہ بھی اس کا اوپکار مانو کہ اب بھی کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے۔ روپیہ نہ سہی تو گالیاں ہی سہی۔ کام لتا: چپ رہو۔ وہ سامنے سے جگل آ رہا ہے۔ اب تم یہاں سے چل دو۔ (سدا رنگ کا جانا) بھگوان! اب اس پھانسی سے کب گلا چھڑاؤ گے؟ جگل: (آ کر) پانچ نوٹ۔ کیول کاغذ کے پانچ ٹکڑے۔ اتنے میں پانچ ہزار بہانے بنانے لگا۔ اسی منہ سے کہتا تھا کہ تم اپنے ماتھے سے دکھ کا پسینہ پونچھنے کے لیے جیب سے رومال کی طرح میری جان تک کا اپ یوگ کر سکتے ہو؟ کام لتا: کہاں سے آئے ہو؟ جگل: ڈھائی برس ہوئے میں نے سکول کا ساتھی اور بچپن کا دوست سمجھ کر بینی بابو کو پانچ ہزار روپے ادھار دیئے تھے کنتو آج کل کے دوستوں اور دوستی کو دیکھو کہ ایسے سنگٹ کے سمے میں اپنی جیب سے سہائتا کرنے کے بدلے میری جیب سے لیے ہوئے روپے بھی مجھے نہیں دیئے۔ کام لتا: چند دن اور۔ جیب میں روپیوں کی کھنکھناہٹ کے بدلے سناٹا، گھر میں اداسی، دروازے پر لین دار داہنے بائیں قرض اور ڈگری، اس طرح دن کیسے کٹیں گے؟ ابھی تو بہت دن جینا ہے۔ جگل: دولت کی ندی سوکھ گئی اور پیاسے باقی رہ گئے۔ تم ہی بتاؤ کہ کیا کروں؟ کام لتا: میں بتاؤں۔ مانو گے؟ سنو۔ ایک جانور پھونس کے چھپر کے نیچے سو کر گھاس اور بھوسی کھا کر گردن کے جھٹکے سے منہ کی مکھیاں اڑا کر بھی گذارا کر سکتا ہے کنتو آدمی کو اچھا گھر، اچھا کھانا، اچھا سونا، اچھی سیوا سبھی کچھ چاہیے اور ان سبھی کچھ کے لیے روپیہ چاہیے۔ جگل: سچ ہے کنتو روپیہ؟ کام لتا: جب تک میرے گلے میں تان، باتوں میں رس، روپ میں جادو اور اس جادو میں آدمی کو موہ لینے والی شکتی ہے تب تک روپوں کی کیا کمی ہے؟ سکھ اور روپیہ چاہتے ہو تو مجھے اپنے گھر جا کر پھر سے ناچ مجرا شروع کرنے دو۔ جگل: کیا کہا؟ تم جس گھر میں بنا بیاہ کے دو برس تک جیون سنگنی بن کر رہی، اسی گھر کی عزت پر ٹھوکر مار کر کوٹھے پر مجرا کرو گی؟ اور میں اس مجرے کے روپے سے۔۔۔۔ کام لتا: چین کرو گے۔ سکھ بھوگو گے اور جب تک مجرا ختم نہ ہو بغل کے کمرے میں بیٹھ کر بوتل اور گلاس سے جی بہلاؤ گے۔ جگل: بس چپ رہو۔ دنیا میں روپوں کے بنا سکھ نہ مل سکتا ہو کنتو پھانسی لگا کر دکھ سے چھٹکارا پانے کے لیے رسی کا ٹکڑا ضرور مل سکتا ہے۔ میں نے دھن کھویا کنتوا بھی تک کلو ان گھر میں جنم لینے کی لاج نہیں کھوئی۔ کام لتا: برا نہ ماننا۔ جس کے پاس دھن نہیں رہتا اس کے پاس لاج بھی نہیں رہتی۔ میں نے بڑے بڑے کلوانوں اور دھنوانوں کو کنگال ہو جانے کے بعد رنڈی کے گھر میں تماشبینوں کی چلمیں بھرتے اور اگال دان دھوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جگل: یہ کون؟ مہاجن اور بیلف۔ سب ختم ہو گیا۔ (کندن، بیلف اور سپاہی کاآنا) کندن: یہ رہا اسامی۔ گرفتار کرو۔ بیلف: جگل بابو! تم نے سیٹھ کندن لال کے قرض کے روپے نہیں دیئے، اس لیے کندن لال نے ڈگری کروالی۔ میں سرکاری بیلف ہوں اور کورٹ کے حکم سے تمہیں گرفتار کرنے آیا ہوں۔ یہ دیکھو تمہارے نام کا باڈی وارنٹ ہے۔ جگل: کندن لال! بدن سے چمٹی ہوئی جونک بھی پیٹ بھر خون پی لینے کے بعد چھوڑ دیتی ہے۔ کنتو تم مول سے چوگنا بیاج لے کر بھی بیماری اور موت کی طرح آدمی کا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے۔ کندن: تو۔ جگل: تم جیسے دیالو پرشوں سے ادھار لینا بھی ایک پاپ ہے۔ ایشور بھی بڑے سے بڑے پاپی کو پرائشچت کے لیے سمے دیتا ہے۔ تم بھی روپوں کے بندوبست کے لیے تھوڑا سا سمے دو۔ کندن: اب اور کتنا سمے دوں؟ جب میں پہلے ہی روز تم سے روپے مانگنے آیا تھا۔ یدی اس دن تم تیوری چڑھا کر مجھے انڈ بنڈ باتیں نہ سناتے تو میں کبھی دیوانی میں دعویٰ نہ کرتا ۔ تمہارے لیے ہر مہینے ڈھائی سو روپے بیاج کا کھانا سہن کر رہا ہوں اور کتنا ترس کھاؤں؟ جگل: آج میری دشا اس بیمار شیر جیسی ہے جس کی شکتی چھن گئی ہو۔ جس کے ناخن اور دانت گر گئے ہوں۔ کندن لال! میں تم سے دیا مانگتا ہوں۔ بیلف: دیا۔ جو لوگ اپنے روپوں سے بھوکوں کو کھانا، ننگوں کو دستر، اناتھوں کو آسرا دیتے ہیں، انہیں کیول دھن ہی نہیں بلکہ دھن واد بھی دینا چاہیے کنتو جو لوگ جیب میں روپیہ ڈال کر، رنڈی کے کوٹھے پر، ریس کے میدان اور شراب کی دکان میں روپیہ لٹا کر غریب ہو جاتے ہیں، ان پر کبھی دیا نہیں کرنی چاہیے۔ کندن: آہا یہ دیا چاہتا ہے اور میں روپیہ چاہتا ہوں۔ اس کے پاس روپیہ نہیں اور میرے پاس دیا نہیں۔ اسامی کو ہتھکڑی پہناؤ۔ جگل: ٹھہرو، ٹھہرو۔ ابھی اس سوارتھی سنسار میں میرا ایک سچا متر باقی ہے جو اس سنکٹ کے بندھن سے مکت کرا سکتا ہے۔ کندن: تمہارا سچا متر۔ وہ کون؟ جگل: یہ۔ کندن: آہا! میں نے گرہست استریوں کی مہانتا تو سنی ہے پرنتو یہ آج معلوم ہوا کہ ویشیا بھی کسی پرش کی سچی متر ہو سکتی ہے۔ جگل: پریئے۔ میں نے آج تک جو تمہیں دیا ہے اس دیئے ہوئے دھن میں سے ایک پیسہ بھی لینا نہیں چاہتا کنتو آج نراؤ پائے ہو کر کہتا ہوں کہ میری سہائتا کرو۔ کام لتا: سہائتا کروں؟ کس چیز سے سہائتا کروں؟ کیا تم نے میرے پاس روپوں کی تھیلی رکھ چھوڑی ہے؟ جگل: اچھا روپیہ نہ سہی، میرے دیئے ہوئے پچاس ہزار کے گہنے تو ہیں۔ ان میں سے ایک زیور بھی بیچ ڈالو گی تو میں آج بے عزت ہونے سے بچ جاؤں گا۔ کام لتا: اچھا سن لیا۔ سوچوں گی۔ جگل: ٹھہرو! کہاں جاتی ہو؟ کندن: تمہاری سچی متر ہے نا۔ اس لیے روپیہ لینے جا رہی ہے۔ جانے دو۔ جانے دو۔ جگل: کام لتا! تم مجھے ایسے سنکٹ کے سمے بھی روپیہ دینا نہیں چاہتیں؟ اچھا یوں نہیں تو ادھار سمجھ کر دو۔ کام لتا: ادھار مہاجن سے ملتا ہے۔ جگل: اچھا تو میری اور میری کل کی لاج بچانے کے لیے دان سمجھ کر دو۔ کندن: آہا! ایک رنڈی کے پیچھے خوار ہونے والے کی یہی دشا ہوتی ہے۔ ایک وہ سمے تھا کہ یہ انہی ہاتھوں سے سینکڑوں کو دان دیا کرتا تھا اور آج خود دان مانگ رہا ہے۔ وہ بھی کس سے؟ ایک رنڈی سے۔ چھی چھی۔ کام لتا: رنڈی کو مفت روپیہ کوئی نہیں دے جاتا۔۔۔۔۔ جب وہ اپنا دل مارتی، دھرم بیچتی، روپ بانٹتی، جس کا منہ دیکھنے سے گھن آئے اس کے پیروں میں بیٹھ کر خوشامد کرتی ہے، تب اسے روپیہ ملتا ہے۔ چھی بھالو۔ بندر کہیں کا! کندن: سن رہے ہو۔ یہ لال چقندر کیا کہہ رہی ہے؟ جگل: کام لتا! کام لتا: جگل بابو! سنو۔ میں نے گھر چھوڑا، ماں چھوڑی، لڑکی چھوڑی۔ اتنا ہی نہیں۔ دو برس تک پالتو چڑیا کی طرح تمہارے گھر کے پنجرے میں بند رہی۔ میں کوئی مہا پرویکارنی یا سنیاسی نہیں تھی۔ پھر اس ہنستے ہوئے سنسار کو کیوں چھوڑ دیا تھا؟ جگل: میرے پریم کے لیے۔ کام لتا: اونہہ! پریم، پریم، پریم پان کی طرح منہ لال کر سکتا ہے کنتو پیٹ نہیں بھر سکتا۔ پیٹ کو ان اور شریر کو استر روپیوں سے ملتا ہے۔ میں اتنی مورکھ نہیں ہوں کہ جوانی کا کمایا ہوا روپیہ تمہیں دان دے کر بڑھاپے میں بھیک مانگتی پھروں۔ جگل: کام لتا! دیکھو! دھن کے لیے استری کے کرتویہ کو نہ بھولو۔ دکھ میں سیوا کرنا اور سنکٹ میں ساتھ دینا استری کا دھرم ہے۔ کام لتا: اس دھرم کا پالن لگن منڈپ سے چتا تک ساتھ دینے والی گھر کی استری کر سکتی ہے۔ ریشمی ساڑھی اور سونے کی کردھنی کے لیے دھرم بیچنے والی ویشیا نہیں کر سکتی۔ جگل: خوب صورت ناگن! تو نے میرے وشواس ہی کو نہیں، آنکھوں کو بھی دھوکا دیا ہے۔ بتا بتا تیرا یہ روپ کہاں چھپا ہوا تھا؟ میں نے اس سے پہلے یہ روپ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کام لتا: جگل بابو! ویشیا کا اصلی روپ یہی ہے۔ اب بھی پہچانا یا نہیں؟ جگل: پہچانا، لیکن بہت دیر کے بعد۔ اسی دن پہچاننا تھا جس دن میں نے تیرے جھوٹے پریم پر وشواس کیا تھا۔ اسی دن پہچاننا تھا جس دن مادھو کا اپدیش سن کر اس سے منہ پھیر لیا تھا۔ اسی دن پہچاننا تھا جس دن میں نے تیری جیسی راکھشسنی کے لیے گھر کی منگل مئی دیوی کو گھر سے باہر کر دیا تھا۔ یہ میری بھول تھی جو یہ سمجھ رہا تھا کہ دیا اور سہانو بھوتی سے ویشیا بھی دیوی بن سکتی ہے کنتو آج پرماننت ہو گیا کہ پنیہ کے صابن اور گنگا کے پوتر جل سے دھونے پر بھی ویشیا کا کالا اور پاپی جیون بھی پوتر اور اجلا نہیں بن سکتا۔ کام لتا: بس آگ کے ساتھ کھیلنے کا ساہس نہ کرو۔ جگل: سرپنی، ڈائن۔ کندن: کیا دیکھتے ہو، گرفتار کر لو۔ (سپاہیوں کا جگل کو گرفتار کرنا) ٭٭٭ باب دوسرا پردہ تیسرا بینی کا گھر بینی: روپیہ، روپیہ۔ سفید گول ٹھپے دار روپیہ۔ روپے مہاشے کو دو، انگلیوں کے سنگھاسن پر بٹھا کر اسے انگوٹھے سے ہوا میں اچھال دو۔ بس اس کی ایک ہی سریلی کھنانا نانا کی آواز میں دنیا کے سارے راگ سنائی دے جائیں گے۔ اسی کھنانا نانا کی راگنی پر دلاری کٹنی بھی لوبھ کا ناچ ناچ رہی ہے۔ دس بجے کا وعدہ رک گئی تھی۔ ساڑھے نو ہو چکے۔ سروجنی کو پھانس کر رہی ہو گی۔ چلوں، بابو بینی پرشاد کا چولا تیاگ کرتا نترک مہاراج کا روپ دھارن کر لوں۔ (دلاری اور سروجنی کا آنا) دلاری: یہ دیکھو۔ یہی تانترک مہاراج کا آشرم ہے۔ سروجنی: کیول پتی کی منگل کا منا اور تمہارے بار بار کے انورودھ سے یہاں تک آئی کنتو نہ جانے کیوں من آگے بڑھنے کے لیے منع کرتا ہے۔ نہ، نہ۔ میں نہ جاؤں گی۔ سر جو۔۔۔۔! گھر لوٹ چلو۔ دلاری: کیوں؟ سروجنی: ایشور کی دیا گنڈے جادو سے کچھ نہیں ہوتا۔ دلاری: بہو جی! گھبراؤ نہیں جیسے اور سب ودیائیں ہیں ویسے ہی جادو ٹونا بھی ایک ودیا ہے۔ ٹھہرو! میں ابھی تانترک مہاراج کو پکارتی ہوں۔ تانترک مہاراج! تانترک مہاراج! کوئی ہے؟ (بینی کا تانترک مہاراج کے روپ میں آنا) بینی: مجھے کس نے پکارا؟ دلاری: داسی پرنام کرتی ہے۔ بینی: کلیان ہو مائی! کیا اچھیا رکھتی ہو؟ دلاری: پربھو! یہ میری مالکن ہیں۔ ان کے پتی دو برس سے ایک ویشیا کے پھندے میں پھنس کر ان کا اور اپنا جیون نشٹ کر رہے ہیں۔ آج آپ کا نام سن کر بڑی آشا کے ساتھ آپ سے دیا مانگنے آئی ہیں۔ دیا کرو۔ دیا کرو۔ پربھو! اس دکھیا پر دیا کرو۔ بینی: اکیس دن برت رکھ کر ہر روز ایک ہزار منتر کا جاپ کرنا ہو گا۔ کیول کیا اتنا کشٹ سہن ہو سکے گا؟ دلاری: پربھو! یہ تو ایک سادھا رن کشٹ ہے۔ استری تو اپنے پتی کے لیے پران تک دے سکتی ہے۔ بینی: تب میں پتر پر منتر لکھ دیتا ہوں۔ بھدرے آشرم میں چلو۔ دلاری: آؤ بہو جی! ارے تم تو کانپ رہی ہو! یہ کیوں؟ سروجنی: سر جو! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں بھیشن بھول کر رہی ہوں۔ دلاری: ساہس کرو۔ میں جو ساتھ ہوں۔ گھبراؤ نہیں۔ آؤ اندر چلو! (سروجنی کا جانا، مادھو کا آنا) مادھو: یہ کون سرجو؟ دلاری: آ ہا ہا ہا! پھنس گئی چڑیا پھنس گئی۔ سروجنی! تجھے اپنے پتی ورت دھرم پر بڑا ناز تھا۔ پکار، پتی کو پکار! دیوار کو پکار، ایشور کو پکار! اب دیکھتی ہوں کہ تیری کون سہائتا کرتا ہے؟ مادھو: ٹھہر! پشاچنی کہاں جاتی ہے؟ بول یہ کس کا گھر ہے؟ دلاری:م م م۔ میں نہیں جانتی۔ مادھو: کتیا! جس گھر میں ایک دیوی کو دھوکا دے کر لائی، اس گھر کے مالک کا نام نہیں جانتی! بتا نام نہیں تو اس گھر کی دیوار سے سر ٹکرا کر چور چور کر دوں گا۔ دلاری: م م م میں نہیں جانتی۔ مادھو: بتا نام نہیں تو چونڈا پکڑ کر۔۔۔۔ یہ کیا سوجوداسی کے بھیس میں دلاری کٹنی۔ دلاری: شما کرو۔ شما کرو۔ مادھو: شما، شما، دھرم کے کلیجے میں چھری مارنے والی، سماج کا سر جھکانے والی، پتی ورتا استریوں کا ستیہ نشٹ کرنے والی کے لیے شما۔ تیرے جیسی نرک کی کتیا کو منش تو کیا ہردے ہین، راکھشس بھی شما نہیں کر سکتا۔ دلاری: مجھے بینی بابو نے دو سو روپے کا لالچ دیا تھا۔ اس لیے میں سروجنی کو یہاں لائی تھی۔ مادھو: بینی! کون بینی؟ دلاری: تمہارے بھائی جگل کے متر۔ مادھو: دھتکار ہے۔ دھتکار ہے اس کل جگ پر۔ آج کل کے پاپی منہ سے ایک پرش کو اپنا متر کہتے ہیں اور پھر منش سے پشو بن کر اسی متر کی بہو، بیٹی پر بری نظر ڈالتے ہیں۔ کیا کروں میرے پاس سمے نہیں ہے۔ سروجنی کی رکھشا نہ کرنی ہوتی تو تجھے بھیشن ڈنڈ دیئے بنا کبھی نہ چھوڑتا۔ جا چلی جا۔ آج سے اس گھر میں نہ دکھائی دینا۔ (دلاری کا جانا) اندر کون ہے؟ کھولو۔ سنتے ہو۔ نہیں کھولتے۔ دیکھوں، شاید کوئی راستہ مل جائے۔ نہ ملا، تب دروازہ توڑنا ہو گا۔ ایشور! میری سہائتا کرو۔ ٭٭٭ ٹرانسفر سین چوتھا تہہ خانہ سروجنی: بس اور انہیں۔ اگر تمہارے پاس میرے لیے دیا نہیں ہے تو کیا اپنے لیے دھرم بھی نہیں ہے؟ بینی: سنسار کا ہر ایک منش دھرم کی پوجا کر سکتا ہے۔ کنتو کبھی ایسا سمے بھی آ جاتا ہے جو دھرم کو استری کے روپ کی پوجا کرنی پڑتی ہے۔ سروجنی: استری کے روپ کی پوجا دھرم نہیں، منش کی لالسا کرتی ہے۔ ہٹو! مجھے جانے دو۔ بینی: ٹھہرو! میری آگیا بنا تم یہاں سے نہیں جا سکتیں۔ سروجنی: تمہاری آ گیا؟ تم کون ہو جو مجھے روکتے ہو؟ بینی: ابھی تک نہیں پہچانا۔ اچھا، تو اب پہچانو۔ (حلیہ تبدیل کر لینا) سروجنی: یہ کیا! دو موہے سانپ کی طرح منش کے دو روپ! بولو۔ بولو۔ تم تانترک نہیں تو پھر کون ہو؟ بینی: یہ بھی جاننا چاہتی ہو؟ اچھا تو سنو۔ میرا نام بینی بابو ہے۔ سروجنی: یہ نام تو میں نے اپنے سوامی کے منہ سے کئی بار سنا ہے۔ تمہیں تو میرے پتی دیو اپنا متر بتاتے تھے۔ بینی: جب تک تمہارے روپ کی بھگتی نہیں دیکھی تھی، تب تک میں تمہارے پتی کا متر تھا۔ کنتو متر کی مترتا اور متر کی روپ دان استری کی کامنا دونوں ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ اس ہردے میں اور کوئی نہیں ہے۔ کیول ایک ہی ہے اور وہ تم ہو۔ سروجنی: دیکھو۔ دیکھو۔ میں تمہارے متر کی استری ہوں اور متر کی استری بہن سمان ہوتی ہے۔ میں دھرم کے نام پر دہائی دیتی ہوں کہ بھائی بہن کے ستنتو کی رکھشا کرو۔ بینی: میں اس مکھ سے اپدیش کی ارادھنا نہیں، پریم کی مدھر راگنی سننا چاہتا ہوں سندری! ان نیلے کومل رسیلے ہونٹوں سے ایک بار، کیول ایک بار پریتم کہہ کر پکارو اور ان گوری گوری کلائیوں کو میری گردن میں ہیرے کے ہار کی طرح چمک اٹھنے دو۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ میں تمہاری روپ دان مورتی کو کتنا پریم کرتا ہوں؟ سروجنی: سن کامی پرش! سن۔ جس پریم میں پتا کے پریم کا گورو، بھائی کے پریم کا تیج اور پتی کے پریم کی پوترتا نہ ہو ناری اس گھرنت پریم پر تھوک دیتی ہے۔ ناری کے ہردے کی دیا سارے سنسار کے لیے کنتو ناری کے ہردے کا پریم کیول پتی کے لیے ہے۔ بینی: سروجنی! ادھر دیکھو دروازے بند ہیں۔ دیواریں اونچی ہیں اور میں پریم میں انمت ہوں۔ انمت پریمی سے یدھ نہ کرو۔ تم وجے نہیں پا سکتیں۔ سروجنی: چھوڑ دے۔ میرا ہاتھ چھوڑ دے۔ ہٹو مجھے جانے دو۔ بینی: ٹھہرو۔ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کوئی نہیں چھڑا سکتا۔ سروجنی: ضرور چھڑا سکتا ہے۔ درو پدی کی لاج بچانے والا میری پکار پر یہاں آ سکتا ہے۔ بینی: اچھا تو بلا۔ (بینی سروجنی سے ہاتھا پائی کرتا ہے۔ مادھو کا آنا) مادھو: پاجی کتے۔ ستی سے دور کھڑا رہ ۔ کیا تو نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ایشور اتنا دور ہے کہ ایک ابلا در مل کی پکار نہ سن سکیں گے۔ بینی: یہ کہاں سے آ گیا؟ مادھو: پھینک دے۔ پھینک دے چھری۔ تیرے جیسے ناری گھاتک کائر کے ہاتھ میں چھری نہیں، کانچ کی چوڑیاں شوبھا دیتی ہیں۔ بینی: بس مادھو ساودن زبان روک۔ کیا تو مجھے نہیں جانتا؟ مادھو: جانتا ہوں کہ تو اتنا ادہم ہے کہ گلی کا کتا بھی تجھے اپنے سے زیادہ نیچ سمجھتا ہے۔ بینی: اچھا تو میری چھری اور تیری زبان۔ دونوں میں سے کون زیادہ تیز ہے؟ (بینی اور مادھو کا لڑنا۔ مادھو کا بینی کو گرا کر مارنا) ٭٭٭ باب دوسرا پردہ پانچواں اگلا محل (سروجنی اور مادھو کا آنا) سروجنی: ماتا پتا چندر ماں جیسا مکھ دیکھ کر کہتے ہیں کہ میری کنیا کتنی سوروپی ہے۔ ساس اور بھاوجیں بہو کا گھونگھٹ سرکا کر پڑوسنوں سے کہتی ہیں کہ میری گرہ لچھمی کتنی سندر ہے۔ مادھو: بھرے ہوئے پیالے کو چھلکنا ہی چاہیے تھا۔ منش کی چھایا کی طرح پاپ کا پرنیام پاپ کے ساتھ ہی چلتا رہتا ہے۔ سروجنی: دیا سے دھیرج کی اور پریکشا نہ لینا۔ مادھو بھائی! کیا ہوا؟ مادھو: وہی جس کے لیے رہ رہ کے سوچ میں پڑ جاتا تھا۔ جانتی ہو تمہارے جیون پربھو تمہارے دیوتا کل دوپہر سے کہاں ہیں؟ سروجنی: ایشور ان کا منگل کرے۔ بولو بولو بھائی وہ کہاں ہیں؟ مادھو :دیوانی عدالت کی حوالات میں۔ سروجنی: یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم پاگل ہو گئے ہو یا مجھے پاگل بنانا چاہتے ہو؟ مادھو: تم پاگل ہو جاؤ گی تو پتی کے ہاتھ سے دکھ کون بھوگے گا؟ سروجنی: تو کیا میں ابھاگنی پتی کے امنگل کی خبر سننے کے لیے ہی جی رہی تھی۔ ارے!وہ تو گئو سمان! کسی کو دکھ دینا ہی نہ جانتے تھے۔ پھر انہیں کس نردئی نے حوالات میں بھیجا؟ مادھو: جس کا روپیہ ادا نہ ہو سکا اسی مہاجن نے۔ سروجنی: اس مہاجن کے کتنے روپے ہیں؟ مادھو: ساڑھے تین ہزار سروجنی: تو کیا تم اتنے روپے کا پربندھ نہیں کر سکتے۔ مادھو بھائی! جاؤ، جلدی جاؤ انہیں کسی نہ کسی طرح چھڑا لاؤ۔ دیکھو میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ مادھو: بہن! یہ کیا کر رہی ہو۔ اٹھو! کیا بھائی کا دکھ بھائی کو نہیں ہوتا؟ کنتو کیا کروں۔ گھر میں اس وقت دو سو روپے ہیں اور کسی سے ترت ادھار ملنے کی بھی آشا نہیں ہے۔ سروجنی: جب تک تم جیتے ہو، میں جیتی ہوں، استری اور بھائی کا کرتویہ جیتا ہے تب تک وہ حوالات میں بند نہیں رہ سکتے۔ روپے نہیں ہیں تو ٹھہرو، میں لاتی ہوں۔ (جانا) مادھو: جو خرچ کے سوا ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتی وہ ساڑھے تین ہزار روپے لینے گئی ہے۔ کہیں سچ مچ ہی یہ دکھ سے پاگل تو نہیں ہو گئی ہے۔ سروجنی: (آ کر) مادھو بھائی! استری کو پتی کا ایک ایک روم تر لوک کے دھن سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ لو انہیں بیچ کر میرے پتی کو چھڑا لاؤ۔ مادھو: بہن! تمہارے جیون بتانے کا سہارا یہی گہنے ہیں۔ کیا تم آج یہ سہارا بھی کھو دینا چاہتی ہو؟ سروجنی: گرہست استری گہنا دیکھ کر نہیں، پتی کا مکھ دیکھ کر جیتی ہے۔ میرا اصلی گہنا جب حوالات میں پڑا ہوا ہے تو میں ان نقلی گہنوں کو رکھ کر کیا کروں گی؟ مادھو: میں کسی سے ادھار لیے کا پربندھ کروں گا۔ انہیں رکھ چھوڑو۔ کسی دن کام آئیں گے۔ سروجنی: جب پتی کا دیا ہوا دھن پتی کے کام نہ آیا تو اور کس کام آئے گا۔ مجھے اپنے دیہہ کی شوبھا نہیں چاہیے۔ مانگ کا سیندھور چاہیے۔ مادھو: بہن! دھن ہو تو، اور دھن ہو تمہاری پتی سیوا۔ سروجنی: مادھو بھائی! جاؤ کنتو ایک دنے ہے۔ انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ بھائی اور استری نے میری سہائتا کی۔ مادھو: کیوں؟ سروجنی: یہ جاننے سے انہیں لاج آئے گی اور لاج آنے سے ہردے کو دکھ ہو گا۔ میں کیول ان کا منگل چاہتی ہوں، دکھ نہیں چاہتی۔ مادھو: کتنا وشال ہردے! تم پتی ورتا ستی استریوں میں ایک آدرش استری ہو۔ اچھا میں اپنا بھیس اور روپ بدل لوں گا کہ وہ کسی طرح نہ پہچان سکیں گے۔ سروجنی: جاؤ۔ ایشور تمہارا منگل کرے۔ میں تمہارے لوٹ آنے تک دیوی کی مورتی کے سامنے بیٹھ کر رکھشا کی پرارتھنا کرتی رہوں گی۔ مادھو: یہ ہے بھارت کی استری۔ جس کام لتا کو پچاس ہزار کے زیور دے دیئے۔ میں نے سنا کہ اس نے ہاتھ جوڑ کر بھیک مانگنے پر بھی ایک تانبے کا چھلا تک نہ دیا کنتو دکھ کا سماچار سنتے ہی پتی کی تیاگی اور ستائی ہوئی ملتا نے سر سے پاؤں تک کے زیور پتی کے منگل کے لیے اتار کر دے دیئے۔ سچ ہے بھارت کی پتی ورتا ناری ایک پوتر دیپک ہے جو پتی کے ہاتھ سے جل کر بھی پتی کے گھر میں اجالا کرتی ہے۔ سروجنی: دیالے مجھ دکھیا پر دیا کرو۔ ٭٭٭ باب دوسرا پردہ چھٹا جگل کا گھر پھاٹک والا کام لتا: دوسرے کو مجسٹریٹ سزا دے کر جیل خانے بھیجتا ہے اور میں اپنے پیروں سے چل کر دو برس کے لیے اس جیل خانے میں آئی تھی۔ بھید اتنا ہی تھا کہ سرکاری قیدی جوکی روٹی اور ابالی ہوئی دال کھاتے ہیں اور میں یہاں ہر طرح آرام سے اچھے سے اچھے کھانے کھاتی رہتی ہوں۔ آج اس قیدی کی سزا پوری ہو چکی۔ زیوروں کے بکس اور روپوں کے صندوق تو پہنچ چکے۔ اب میں بھی گاڑی منگاتی ہوں اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے گھر پہنچ جاؤں گی۔ میں نے خط میں لکھ دیا تھا کہ جگل کل سے حوالات میں بند ہے۔ اس لیے تم بے دھڑک آ سکتے ہو۔ پھر بینی کیوں نہیں آیا؟ کیا نہ آئے گا؟ یہ کون؟ یہ تو وہی اور پریم کے جھوٹے آنسوؤ اور شبدو! میرے روپ کی سہائتا کے لیے تیار ہو جاؤ۔ آج اس الو کو پھر پھانسا ہے۔ بینی: (آ کر) بائی جی! سدا رنگ کے ہاتھ چٹھی بھیج کر آج دو برس کے بھولے ہوئے کو کیوں یاد کیا؟ کام لتا: بینی! مجھے اور سب دوش دو کنتو بھول جانے کا دوش نہ دو۔ یدی تم نے مجھ سے پہلے دن اپنی لڑکی نہ مانگی ہوتی اور تم ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر نہ چلے گئے ہوتے تو میں تمہیں جلانے کے لیے جگل کا ہاتھ کبھی نہ پکڑتی۔ پھر بھی میں اپنی بیوقوفی پر پچھتاتی تھی اور تمہیں اور تمہارے ساتھ بیتے ہوئے سکھ کے دنوں کو یاد کر کے آٹھ آٹھ آنسو رویا کرتی تھی۔ بینی: کام لتا! اب میں تمہارے روپ کے سرور میں ڈوبے ہوئے پتھر کی طرح نہیں بلکہ تیرتی ہوئی کائی کی طرح رہنا چاہتا ہوں۔ روپے زیور فرمائش سب کچھ دے سکتا ہوں۔ کنتو پہلے کی طرح من نہیں دے سکتا۔ کام لتا: کیوں؟ بینی: یوں کہ میں اس سونے کو کسوٹی پر پر کھ چکا ہوں۔ کام لتا: اچھا تم مجھ سے پریم نہ کرو کنتو میری سہائتا تو کرو گے؟ بینی: نشچے۔ دھن سے بھی اور بل سے بھی۔ کام لتا: اچھا تو سنو! میں جگل کو منانے اور سدھارنے کا یتن کر کے تھک گئی۔ آج بہت دکھی اور نراس ہو کر اس گھر کو چھوڑ رہی ہوں کنتو مجھے بھے ہے کہ جگل نشے اور غصے میں میرے کوٹھے پر آ کر مارنے مرنے کو تیار ہو جائے گا۔ بینی: تو! کام لتا: اسی لیے تو میں نے تمہیں بلایا ہے۔ سنو اس کا کرودھ شانت ہونے تک مجھے اپنے گھر میں لے چلو۔ کیا تم اتنی سہائتا نہ کرو گے؟ بینی: اچھی بات ہے۔ میں ایک گھنٹے میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔ کام لتا: بینی! ٹھہرو۔ ناری کے کومل انگ کی طرح ناری کا ہردے بھی دربل ہوتا ہے۔ مجھ سے بھول ہوئی۔ پریتم! مجھے شما کرو۔ (کام لتا بینی کے گلے میں باہیں ڈالتی ہے، جگل آ جاتا ہے) جگل: ہائے! ایک ویشیا کے لیے دھن بھی گیا اور عزت بھی۔ یہ کیا؟ کام لتا اور بینی۔ دن کے اجالے میں پاپ ننگا ہو کر ناچ رہا ہے۔ بینی: کام لتا! میں دیکھتا ہوں کہ جس گلے کو میں نے تم سے چھڑا لیا تھا، تم اپنی کومل کلائی کی زنجیروں میں اسے پھر باندھ لو گی؟ کام لتا: آہا! تمہارے یہ شبد تو پریم چمن سے بھی آدھک میٹھے ہیں۔ جگل: مورکھ وشو اس سن۔ چھل بھیچار سے کیا کہہ رہا ہے؟ بینی: کام لتا! تم مجھے۔۔۔۔ کام لتا: نہیں، کام لتا نہ کہو۔ جیسے پہلے پکارتے تھے اسی نام سے پکارو۔۔۔ بینی: پریتمے کام لتا: پرانیشور۔ جگل: دیکھ، دیکھ، اندھے جگل! دیکھ یہی ہے جس نے ویشیا کے گھر سے نکلتے سمے ستی بننے کی پرتگیا کی تھی۔ ایشور! راکھشسنی بھی اتنی سندر ہوتی ہے۔ بینی: رمنی! تم لوگ بھڑکیلا گہنا ہو۔ جانتے ہو کہ کھوٹ ملا ہوا ہے۔ پھر بھی خوبصورت سمجھ کر خرید لیتے ہو۔ اچھی بات ہے میں ابھی گاڑی لے کر آتا ہوں۔ (بینی کا جانا) کام لتا: اونہہ، کہتا تھاکہ پریم نہیں کروں گا۔ پرنتو پریتم کہہ کر گلے میں ڈالتے ہی دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی طرح پگھل گیا۔ ارے کامی پرشو! تم کتنے جھوٹے اور کتنے نرلج ہو۔ سنو، سنو۔ اس پاپ کے بھنور میں ناچتی ہوئی کشتی پر نہ بیٹھو۔ پہلے دھن ڈوبے گا، پھر لاج ڈوبے گی، انت میں تم بھی ڈوب جاؤ گے۔ جگل: وشواس گھاتنی۔ پشاچنی اپنے ہاتھوں سے دوسروں کے گھروں میں آگ لگاتی ہے اور منہ سے نہ جلو، نہ جلو پکارتی ہے۔ کام لتا: ہیں؟ یہ کیا جگل! جیل سے چھوٹ گیا۔ کس نے چھڑایا؟ جگل: پاپنی! میں اپنا جیون اور دھرم تجھے قیمت میں دے کر تیرا روپ اور پریم مول لیا تھا۔ بتا بیچے ہوئے روپ اور پریم کو دوسرے کے ہاتھ بیچنے کا تجھے کیا ادھیکار تھا؟ آہا! آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ چاہے سونے کی تھالی میں دیوتاؤں کا پرشاد پروس دو کنتو ویشیا کا پیٹ سڑک کی کتیا کی طرح جھوٹا کھائے بنا کبھی نہیں بھر سکتا۔ کام لتا: جگل بابو! یدی ویشیا ایک کی بن کر رہتی تو تم لوگ کبھی اس کا مان نہ کرتے۔ جگل: اس کا پرمان۔ کام لتا: پرمان چاہتے ہو تو گھر کی گئو سمان پتی ورتا استریوں کی دشا دیکھو۔ وہ ایک کے لیے جنم لیتی، ایک لیے جیتی اور ایک ہی پتی کا نام جپتے جپتے مر جاتی ہے کنتو تم لوگ برسوں ان کا منہ بھی نہیں دیکھتے اور ویشیا جو کبھی ایک کی ہو کر نہیں رہتی، رات دن اس کے پاؤں چاٹتے رہتے ہو۔ جگل: میں تیری اچھیا کے وردھ تجھے زبردستی کھینچ کر نہیں لایا تھا۔ جب اس گھر میں ایک کی ہو کر نہیں رہنا تھا تو روتی اور ہنستی ہوئی آنکھوں سے وشواس دلانے والے آنسو ٹپکا ٹپکا کر کیوں کہتی تھی کہ میں تمہاری ہوں؟ کیوں کہتی تھی کہ میں تم سے پریم کرتی ہوں؟ کام لتا: نشچے میں پریم کرتی تھی! جگل: مجھ سے۔ کام لتا: نہیں، تمہارے روپوں سے۔ جگل: تب تو آج تک مجھ سے جھوٹ بول رہی تھی۔ کام لتا: ہاں۔ کیوں کہ تم لوگ ویشیا کے منہ سے جھوٹ ہی سن کر خوش ہوتے ہو۔ جگل: خوب صورت ناگن! صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ ویشیا ایک پاپ کی دکان ہے جس میں پریم کے نام سے چھل اور کپٹ بکا کرتا ہے۔ کام لتا: نشچے ہم ویشیاؤں نے محلے محلے چھل اور کپٹ کی دکانیں کھول رکھی ہیں کنتو اس خوبصورت دکان کے کھولونوں کو کون خریدتا ہے؟ تم خریدتے ہو۔ یہ چھل اور کپٹ کی دکانیں کس کے روپیوں سے چل رہی ہیں؟ تمہارے روپوں سے چل رہی ہیں۔ یدی تم دھن کا لوبھ دکھا کر استری کا دھرم مول لینا چھوڑ دو تو اس پاپ کی ساری دکانیں آج ہی بند ہو سکتی ہیں۔ جگل: ڈوبتے ہوئے جہاز کا بھی کوئی نہ کوئی تختہ پانی پر تیرتا ہوا رہ جاتا ہے کنتو میرا سکھ، گھر، دھن، مان، آشا جو کچھ تھا سب تباہ و برباد ہو گیا۔ کس کے لیے؟ تیرے لیے۔ اور انت میں تو نے بھی دھوکا دیا۔ کام لتا: یدی دھوکا دینا پاپ ہے تو ایشور کداچت میرا پاپ شما بھی کر دے گا کنتو تمہارا پاپ کبھی شما نہ کرے گا۔ کیوں کہ میں نے تم کو دھوکا دیا ہے اور تم نے اتھاہ وشواس رکھنے والی پریم مئی، پنیہ مئی، منگل مئی گھر کی لکھشمی کو دھوکا دیا ہے۔ جگل: نشچے دھوکا دیا ہے کنتو پھر پوچھتا ہوں کہ کس کے لیے؟ اس مایا مورتی کے لیے، اس دھوپ چھاؤں کے لیے، یدی میں جانتا کہ ویشیا کے ہونٹ کبھی سچ نہیں بولتے تو جس دن تو نے پہلی مرتبہ کہا تھا کہ تم مجھ سے پریم کرتی ہو، اسی دن دھوکا باز کہہ کر تیرے منہ پر تھوک دیتا۔ کام لتا: جب تم اپنے ہی شہر میں سینکڑوں کو ویشیاؤں کے پیچھے خوار ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہو۔ جب ایک نہیں، ہزاروں کے منہ سے ویشیا کے چھل کپٹ کی کہانی سن چکے تھے۔ تب اندھے اور بے وقوف بننے کے لیے رنڈی کے کوٹھے پر کیوں آئے تھے؟ تم میرے پریم پر تھوکتے ہو اور میں تمہاری سمجھ پر تھوکتی ہوں۔ جگل: بس یہ رہا دروازہ۔ اپنے پران بچا کر چلی جانہیں تو ان ہاتھوں سے تیرے گلے کی نسیں ہی تیرے لیے پھانسی کا پھندا بن جائیں گی۔ نیچ راکھشسنی، سوارتھی، خانگی۔ کام لتا: بس زبان سنبھال کر بات کرو۔ میں کوئی گھر کی بیوی نہیں ہوں جو گالیاں کھاؤں گی اور منہ دیکھ کر چپ ہو جاؤں گی۔ جگل: میں پھر کہتا ہوں کہ لات اور ٹھوکر کھا کر نکلنا نہ ہو تو چلی جاؤ۔ ورنہ ایک شریف کا غصہ۔۔۔ کام لتا: ارے چل، چل۔ بڑا شریف، میں نے تیرے جیسے بڑے شریف دیکھے ہیں۔ تو کیا لات مارے گا؟ میں نے تیرے جیسے کئی شریفوں کو اپنے کوٹھے سے نوکروں کے ہاتھ سے جھاڑو مروا کر نیچے اتار دیا ہے۔ جگل: بیسوا، حرام زادی۔ کام لتا: حرام زادہ تو اور حرام زادہ تیرا باپ۔ جگل: بس، بس۔ سب کچھ ہو چکا۔ کیول رنڈی کے منہ سے گالیاں کھانی باقی رہ گئی تھیں وہ بھی کھا لیں۔ سرپنی تیرے ہی لیے حوالات ہوئی تھی اور تیرے ہی لیے پھانسی ہو گی۔ (گلا دباتا ہے) کام لتا: کوئی آؤ مجھے بچاؤ۔ بینی: (آ کر) ہیں یہ کیا! لوٹ جاؤ؟ نہیں، بچن دیا ہے، تو ضرور بچانا ہو گا۔ الگ ہٹ۔ کیا پاگل ہو گیا ہے؟ جگل: پھر تو آیا کتے! اس نے وشواس کو پیروں سے روندا ہے اور تو نے مترتا کے کلیجے میں چھری بھونکی ہے۔ چلا جا۔ نہیں تو آج اس گھر کی دھرتی پر تم دونوں کے خون کی ندی ایک ساتھ بہتی ہوئی دکھائی دے گی۔ بینی: ایک عورت کو دھمکا کر اتنی ہمت بڑھ گئی کہ مجھے بھی دھمکانے لگا۔ میں تیری بکواس کو کتے کا بھونکنا سمجھتا ہوں۔ جگل: دغا باز! کمینے! (بینی سے لپٹ جانا) بینی: الگ ہٹ، نہیں تو تیری موت میرے ہاتھ میں ہے۔ کام لتا: میرے سامنے اور بینی پر حملہ! جگل: سرپنی چھوڑ دے۔ اس جیون کی آج ہی پرلے ہے۔ بینی: دغا باز! (بینی ریوالور نکال کر فائر کرتا ہے۔ گولی کام لتا کے لگ جاتی ہے) کام لتا: آہ! جگل: خون۔ بینی: ہیں مر گئی۔ اب پولیس کو دھوکا دے کر اپنی رکھشا کرنی چاہیے۔ کام لتا: آہ! اس روپ نے پران بھی لیے اور دھرم بھی۔ آہ! (کام لتا کا مرنا) جگل: کلٹا! اسی تجھ جیون کے لیے اتنے پاپ کیے تھے۔ آنکھ کھول سکتی ہے تو دیکھ۔ روپ کا دیپک بجھ گیا۔ اب نرک کا اندھیرا ہے اور پاپی آتما۔ مادھو: (آ کر) آہ! وہی ہوا۔ یہ کیا کیا؟ جیل کے دروازے پر آپ کے مکھ سے غصے بھرے الفاظ سن کر میں پہلے ہی ڈر رہا تھا۔ جگل: مجھے جیل سے چھڑانے والے پر دپکار پرش! آشچر یے نہ کرو۔ اس گھر سے بہت دنوں سے در بھاگیہ ہی راج کر رہا تھا۔د ر بھاگیہ ہی کے کارن میں نے ستی کے پریم کو نرک سمجھ کر ویشیا کے پریم کی لالسا کی تھی۔ اس در بھاگیہ کے کارن اسی کے ہاتھ سے میرے سکھوں کی مرتیو ہوئی اور آج بینی کے ہاتھ سے اس کے چھل بھرے جیون کا ہانت ہوا۔ مادھو: خون بینی نے کیا۔ تب اس کے ساتھ آپ کے بچنے کی بھی آشا نہیں۔ یہ کون؟ چھپ جایئے۔ پولیس آ پہنچی۔ جگل: میں کیوں چھپوں؟ پولیس اور نیائے سے نردوش کے لیے کوئی بھے نہیں۔ مادھو: پہلے رنڈی سے دوستی، پھر جھگڑا، اس کے بعد خون۔ یہ سب باتیں آپ کے وردھ نہیں۔ اس لیے پرمان ایکتر ہونے تک نیائے کے سامنے نہ جایئے۔ جلدی یہاں سے اٹھئے۔ ہیں! یہ کیا؟ پستول!(جگل کا چھپنا، مادھو کا لباس تبدیل کر لینا، انسپکٹر کا مع سپاہیوں کے آنا) انسپکٹر: ہاں میں جگل کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ رہی لاش۔ اسامی کہاں گیا؟ تم کون؟ مادھو: ایک لین دار۔ روپوں کے تقاضے کے لیے یہاں آیا تھا۔ کنتو یہاں آ کر جگل کی جگہ یہ لاش پڑی دیکھی۔ انسپکٹر: تب تو نشچے ہے کہ وہ خون کر کے اندر چھپ گیا ہے۔ مادھو: سنبھوھے اندر دیکھئے (پولیس کا اندر جانا) انو سبھو دھوکا کھا گیا۔ آیئے، آیئے! ایشور نے بھاگنے اور چھپنے کا اوسر دیا ہے۔ (بینی آ کر کھڑکی کے راستے چھت پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے) بینی : (آ کر) ہیں! یہ کیا؟ جگل اور سوتنتر! میری بھیجی ہوئی پولیس کہاں گئی؟ جگل: نرک کے کیڑے۔ مادھو: یہ بدلہ لینے کا سمے نہیں، نکل چلئے۔ بینی: مرتیو اسے بھاگنے کا موقع نہیں دے سکتی۔ مادھو: بس، وہیں (مادھو بینی سے لڑتا ہے اور جگل بھاگ جاتا ہے۔) (ڈراپ) ٭٭٭ باب تیسرا پردہ پہلا تاڑی خانہ گانا سب کا: نشے بازوں کا کوئی مت کرئیورے جھمیلا تاتا تھیا ناچو بھیا نشے باز البیلا نشے بازو! دارو بھی ہے تاڑی بھی ہے چرس بھی ہے بھنگ بھی ناچت ہے من بھی اٹھت ہے ترنگ بھی ڈھول بھی مجرا بھی ہے راگ بھی ہے رنگ بھی گوری سی کلائی بھی ہے یاروں کا ہے سنگ بھی آٹھ پہر رہے میلا، نشے بازو کا کوئی جگل: اسی اوستھا میں بارہ برس بیت گئے۔ یدی سانس لینے کا نام جینا ہے تو میں اپنے لئے نشچے ابھی تک جی رہا ہوں۔ لیکن گھر والوں کے لیے سماج کے لیے، سنسار کے لیے، سب کے لیے مر چکا۔ جیون نہیں۔ جیون میں مرتیو ہے۔ تاڑی باز نمبر۱: چرنا! او چرنا! ادھر آ۔ جگل: آیامہاراج! نمبر۱: کیا سوچ رہا ہے؟ جگل: وہ دیکھئے۔ پہاڑی کے نیچے سورج غروب ہو رہا ہے۔ دوپہر کو کیسا چمک رہا تھا اور اس وقت اپنا سارا تیج لٹا کر کیسا پھیکا پڑ گی اہے۔ اس کی اور دیکھ کر سوچ رہا تھا۔ نمبر ۱: کیا سوچ رہا تھا؟ جگل: مہاراج! کیا سوچ رہا تھا۔ یاد نہیں رہا۔ نمبر۱: چرنا! آج کل تو کس کے کھیت میں کام کرتا ہے؟ جگل: دو مہینے سے ہر رات کو جاڑا دے کر بخار آتا ہے۔ پھر بھی دن ہوتے ہی گرتے پڑتے کام ڈھونڈنے جاتا ہوں، لیکن جو بیمار آدمی ایک گھنٹہ محنت کر کے دو گھنٹے کھیت کی منڈ یر پر سر رکھ کر بے سدھ پڑا رہے، اسے کام کیسے مل سکتا ہے؟ نمبر۱: تو پھر کھاتا پیتا کہاں سے ہے؟ جگل: آپ لوگوں کی سیوا کر کے دو چار پیسے مل جاتے ہیں، انہیں سے پیٹ کے نرک میں ایندھن ڈال لیتا ہوں۔ نمبر۱: او رجب کسی دن یہاں سے بھی نہ ملا تو؟ جگل: ایشور نے منش کا ابھیمان توڑنے کے لیے ہی پیٹ بنایا ہے۔ تب پیٹ کے لیے یہ۔۔۔ نمبر۱: رک کیوں گیا؟ جگل: دو روٹی کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔ نمبر۱: ارے! تو تو رو دیا۔ چرنا! چرنا! تیری آنکھوں میں آنسو کیوں آئے؟ جگل: کہاں؟ نہیں تو۔ اس دو مہینے کی بیماری میں میری آنکھیں بھی کمزور ہو گئی ہیں، اس لیے ان میں کبھی کبھی پانی آ جاتا ہے۔ نمبر۱: تیرا اترا ہوا منہ کہتا ہے کہ تو آج بھی بھوکا ہے ۔ اچھا لے ایک اکنی، کچھ کھا لینا۔ جگل: آپ کی جے ہو۔ نمبر۲: چرنا! آ۔ ادھر آ۔ ایسی ہی ایک اکنی اور ملے گی۔ ذرا پاؤں دبا۔ جگل: آ گیا مہاراج! نمبر۳: ارے یار۔ بھرونہ۔ آج تو نشہ بھی نہیں چڑھتا۔ کم بخت خالص کہتے ہیں اور پانی ملا دیتے ہیں۔ نمبر۲: ارے ذرا زور لگا۔ ہاتھ میں دم ہے یا نہیں۔ حرام کی ملتی ہے تو محنت کاہے کو ہو گی۔ حرام خور۔ الگ ہٹ۔ (جگل کے لات مارنا) نمبر۱: چھی، چھی۔ غریب بیمار کے لات مار دی۔ کمزور کے سامنے بہادر بنتا ہے۔ اچھا آ جا۔ دیکھوں تو سہی تجھ میں کتنا کس بل ہے۔ نمبر۲: یہ بات ہے تو اس کی طرف سے لڑنا چاہتا ہے؟ نمبر۱: ہاں، ہاں۔ ہم کیوں نہیں لڑیں گے۔ غریب دربل نس سہائے کی طرف سے خود ایشور بھی لڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ نمبر۲: اچھا تو آ جا۔ (لڑنا) نمبر۴: ٹھہرو، ٹھہرو۔ یہ کیا۔ غیر کے لیے آپس میں لڑنا۔ یہ کون سی دانائی ہے؟ نمبر۲: نیچ کتے! تیرے ہی لیے تو جھگڑا ہوا۔ اب تو اس گاؤں میں نہیں رہ سکتا۔ نمبر۱: چلے جاؤ۔ ایشور کی دھرتی تمہاری نہیں ہے۔کیسا نیچ منش ہے۔ چرنا! جگل: مہاراج! نمبر۱: تجھے چوٹ لگی؟ جگل: مہاراج! دو چوٹیں لگیں۔ ایک لات سے، ایک بات سے۔ لات کی چوٹ دیہہ پر لگی اور بات کی چوٹ ہردے پر لگی۔ دیہہ کی چوٹ کا دکھ دو ایک دن میں کم ہو جاتا ہے اور ہردے کی چوٹ کا دکھ بہت دنوں تک رہتا ہے کنتو مجھے دکھ سہنے کا ابھیاس ہو گیا ہے، اس لیے یہ دونوں دکھ بھی سہن کر لوں گا۔ نمبر۱: چرنا! ڈرنا نہیں۔ آج سے میں تمہارا سہائیک ہوں۔ جگل: جب تک تندرستی ہو، پیسہ ہو، عزت ہو، بل ہو، سوتنترتا ہو، جگت کی سہاو بھوتی ہو اور اپنے پرائے کا پیار ہو۔ تبھی تک جینا ٹھیک ہے۔ آہ! سنسار کے سارے سکھوں کو کھو کر کیول جیون کو بچا رکھنے میں کون سا مزا ہے؟ بھگوان! نراشا اور دکھ میں بھی آتم ہتیا پاپ ہے تو ایک پاپ اور سہی۔ اب میں جینا نہیں چاہتا، لیکن اتنی دیا کرو کہ مرنے سے پہلے ایک بار دکھیا سروجنی کو دیک ھلوں اور اس دیوی کے چرنوں میں گر کر اپنے اپرادھوں کی شما مانگ لوں۔ اس جیون میں تم سے یہی پرارتھنا ہے۔ ٭٭٭ باب تیسرا پردہ دوسرا مکان کامنی کامنی: گانا اوئی ری وئی کیسے چھپاؤں جوانی گورے گورے گالوں پر سب للچائے کالی کالی لٹوں کو کہیں ناگن زہریلی کارے نینوں میں جادو بھرا ہے کوئی آنکھیں لڑائے، کوئی بولے ہائے ہائے برچھی کلیجے میں مار گئی کاہے کروں میں تو ہار گئی روکت روکت، گھیرت چھیڑت موری لاج گنوائے (نثر) لگاوٹ سے دیکھو، بناوٹ سے ہنسو، ناز سے اٹھو، لچک کے چلو، تیل پوڈر سے دن رات جوانی پر پالش کرتے رہو اور ساتھ ہی خوشامد کرو۔ پھبتیاں سنو، جھوٹ بولو، دھوکا دو، بکاؤ مال کی طرح سج سجا کر کھڑکی میں بیٹھے رہو اور پان سگریٹ کی تھالی کی طرح ایک ایک گاہک کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرو۔ یہی تو رنڈی کا جیون ہے۔ آہا! کیسا سندر جیون ہے۔ دھتکار ہے ایسے جیون پر۔ سدا رنگ: سن لیا! خوب صورت گدھی کا ملہار۔ بیٹی کامنی رات دن یہی بے سرا راگ الاپتی رہو گی تو اپنی روزی کا ٹھیکرا کس طرح چلے گا۔ جانتی ہو تم کیا وستو ہو۔ کامنی: ہاں جانتی ہوں۔ میں پاپ کے کھیل میں ہاتھوں ہاتھ پھرنے والا تاش کا پتا ہوں۔ روپوں کی ریس میں نائیکاؤں کو جتانے والی ریس کی ٹیپ ہوں اور دوسروں کی جیب اور گھروں میں آگ لگانے کے لیے تمہارے ہاتھ میں جلتی ہوئی دیا سلائی ہوں۔ نیل: اور یہ بھی تو کہو کہ ولایتی فرنیچر سے سجے ہوئے کمرے میں پیار اور مان کے بریکٹ پر رکھا ہوا سودیشی کھلونا ہوں۔ کامنی: پیار اور مان آ ہا ہا ہا! استاد جی! کیا چرس کا دم لگا کر پرنالے میں لیٹے ہوئے سورگ کا سوپن دیکھ رہے ہو؟ جگت کا سچا اور سکھ گرہست استریوں کے بھاگیہ میں ہے۔ میلا صاف کرنے والی بھنگن کو بھی اگر تم ویشیا کہہ دو تو وہ بھی ایک طرف کی مونچھ پکڑ کر بیس جھاڑو سے کم نہ مارے گی۔ نیل: سد ارنگ جی! تم کو کس گدھے نے کہا تھا کہ اس کو ناچ گانے کے ساتھ پڑھنا لکھنا بھی سکھانا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ پڑھنے لکھنے سے آدمی کی سمجھ چوپٹ ہو جاتی ہے؟ سدا رنگ: دیکھو میری بیٹی! رنڈی کے دھندے کو برا نہ سمجھو۔ ارے رنڈی تو اس جگت میں ہزاروں کا کلیان کرنے آئی ہے۔ نیل: سنو! یہ سمجھ کی بات کاغذ کی پستک میں نہیں ملے گی۔ سدا رنگ: سنو! یدی ویشیا نہ ہوتی تو مکان والوں کو پچاس روپے کرائے کی جگہ ایک سو پچاس روپے کون دیتا۔ ویشیا نہہوتی تو آرگن اور پیانو بنانے والے کاری گر طبلہ اور سارنگی بجانے والے دیسی کاریگروں کی روزی چھین لیتے۔ اگر ویشیا نہ ہوتی تو انگریزی گانے کے آگے سنگیت ودیا کا ناش ہو جاتا۔ کامنی: اور ایک بات کو بھول ہی گئے۔ اگر ویشیا نہ ہوتی تو ڈھاری اور میراثی طبلہ اور سارنگی بجانے کے بدلے ہائے روٹی، ہائے روٹی کہہ کر اپنا پیٹ بجایا کرتے۔ دانتوں میں ہونٹ کیوں دبا لیے؟ کیا پتے کی سن کر شرم آ گئی؟ نیل: شرم۔ ارے شرم کو تو ہم لوگ اپنے پاس تو کیا محلے میں بھی نہیں آنے دیتے۔ شرم ہوتی تو یہ دھندا ہی کیوں کرتے۔ سدا رنگ: دیکھو بیٹا کامنی! کال کے سمے میں تمہارے غریب ماں باپ سے میں نے تمہیں سو روپے میں مول لیا تھا۔ پانچ ہزار تمہیں عورت سے پری بنانے میں خرچ ہوئے۔تین ہزار تمہیں کھلا پلا کر بڑا کرنے میں خرچ ہوئے۔ دو ہزار مکان کی سجاوٹ میں خرچ ہوئے۔ یہ سب مل کر لگ بھگ دس ہزار کا آ نکڑا ہوتا ہے۔ یہ رقم یا تو لوگوں سے ہنس بول کر وصول کرا دو۔ نہیں تو کسی بینک میں تمہارے باپ دادا کا روپیہ جمع ہے تو اس بینک کے نام کا چیک کاٹ دو۔ نیل: نخرے کے پھوڑے کو ایسے ہی اپریشن کی ضروت تھی۔ دیکھو کامنی بائی! تم ٹھہریں رنڈی، رنڈی سے کوئی بھلا آدمی بیاہ نہیں کر سکتا۔ گرہست گھر میں نوکری نہیں مل سکتی اور ان سکھوں کے پلے ہوئے ہاتھوں سے مزدوری نہیں ہو سکتی اور روٹی کے بدلے گھاس کھا کر پیٹ نہیں بھر سکتیں۔ پھر یہ دھندا نہ کر وگی تو کیا کرو گی؟ کامنی: ٹھیک کہتے ہو۔ یہ گھر اور نرک کیول دو ہی ٹھکانے دکھائی دیتے ہیں۔ اچھا سدا رنگ جی! اس جھوٹ اور دھوکے کی دھوتی پر دوسروں کی ہڈیوں کے چونے اور لہو کے گارے سے اپنے سکھ کا محل تیار کرو اور میں اس محل میں جیون کے اننت تک پشاچنی ناچ ناچا کروں گی۔ سدا رنگ: شاباش بیٹی! جیتی رہو۔ اتنے دنوں کے بعد آج سمجھ کی بات کی ہے۔میں تمہیں اشیر واد دیتا ہوں کہ جتنی میری مونچھ کے بال ہیں، اتنے ہی تمہاری عمر کے دن ہوں گے۔ نیل: اور میں بھی تمہیں اشیر واد دیتا ہوں کہ عمر بھر تمہارا ویواہ نہ ہو اور سہاگ بنا رہے۔ سدا رنگ: گلا کٹوانے کے لیے اسامی آیا ہی چاہتے ہیں۔ چلو روپ کی چھری کو لالی اور پوڈر سے دھار دے دو۔ نیل: اماں استاد جی! وہ ٹھمری جو تم ہمیشہ سے بے تالی گایا کرتے ہو اسے تو ٹھیک کر لو۔ کامنی: دنیا میں سب کہتے ہیں کہ پاپ برا ہے کنتو یہ کوئی نہیں سوچتا کہ دنیا میں پاپ کیوں ہوتا ہے۔ آج میرے پاس دو مٹھی ان کا سہارا ہوتا تو کیا میں روپ کا دیپ لے کر پاپ کے اندھیرے میں روٹی ڈھونڈنے نکلتی؟ اے دنیا کے لوگو! کسی استری کو نرلجتا کے بازار میں دیکھ کر اس کے ہردے کا دکھ جانے بنا کر ودھ نہ کرو۔ استری کے سروناش کا سب سے بڑا کارن بھوک اور غریبی ہے۔ جب تک اس دیش میں بھوک اور غریبی ہے۔ جب تک اس دیش میں بھوک اور غریبی ہو گی، پاپ بھی ہو گا۔ ٭٭٭ باب تیسرا پردہ تیسرا راستہ مادھو: رام سرن! تو کندن لال مہاجن کو جانتا ہے؟ رام سرن: وہی منحوس مکھی چوس جس کا نام لینے کے بعد منہ میں جل ڈال کر کلی کر لیا کرتے ہیں۔ مادھو: ہاں وہی۔ دوڑتا ہوا جا اور اس کو بلا لا(رام سرن کا جانا) کندن لال کو منانے کے لیے بلایا تو ہے، لیکن کیا پتھر میں جونک لگے گی؟ چکنے گھڑے پر پانی ٹھہرے گا۔ آشا تو نہیں ہے یدی۔۔۔۔ ارے! تو لوٹ کیوں آیا؟ (رام سرن کا آنا) رام سرن: دروازے سے نکلتے ہی ایک آدمی نے چھینکا۔ میں نے اچک کر غصے میں اس کی ناک پکڑ لی تو کیا دیکھتا ہوں کہ کندن لال کی ناک میرے ہاتھ میں ہے۔ مادھو: تو کیا دروازے پر ہی مل گیا؟ رام سرن: جی ہاں۔ مادھو: جا بلا، سیدھی طرح مانا تو ٹھیک، نہیں تو پاجی کے ساتھ پاجی بننا پڑے گا۔ (رام سرن کا جانا) آیئے کندن لال جی! کندن لال: جے گوپال۔ مادھو جی! جے گوپال۔ آپ کی چٹھی پاتے ہی میں سمجھ گیا تھا۔ کیوں کہ آج کل بازار میں بڑا ٹوٹا ہے۔ اچھا فرمایئے۔ مادھو: میرا یہ کہنا ہے۔ کندن لال: ہاں زیور پر روپیہ چاہیے یا مکان پر۔ اب رہا بیاج سو تم اپنے ہی آدمی ہو۔ دوسروں سے پانچ روپیہ سینکڑہ لیتا ہوں تو تم ایک پیسہ کم دینا۔ اور کیا چاہیے؟ مادھو: آپ میری تو سنئے۔ کندن لال: اب اور کیا رہ گیا ہے۔ میری بات سنئے۔ پیسہ کم نہیں دینا چاہتے۔ غریب کندن لال کا ہی گلا دبانا چاہتے ہو تو دھیلا اور گھٹا دو۔ تم خوش رہو۔ میں تو پریم کا بھوکا ہوں بیاج کا بھوکا نہیں ہوں۔ مادھو: تم اپنی ہی کہے جاتے ہو۔ میری بھی تو سنو۔ میں نے روپیہ ادھار لینے کے لیے نہیں بلایا ہے۔ کندن لال: تو! مادھو: اپنی کنیا کے ویواہ کے لیے گوپی ناتھ برہمن نے جو تمہارے پاس دو ہزار روپیہ جمع کیا تھا۔ مانگنے پر تم نے کہا تھا کہ تم نے میرے پاس کبھی ایک پائی نہیں رکھی تھی۔ اس نے لاچار ہو کر وکیل کی معرفت نوٹس دیا تو اس نوٹس کا بھی تم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کندن: تو ایک گلے پڑوکو اور کی اجواب دیتا۔ اگر میرے پاس روپیہ جمع کیا ہے تو میرے ہاتھ کی رسید کیوں نہیں بتاتا؟ مادھو: رسید اس بوڑھے برہمن سے کھو گئی ہے۔ اور اس کا یہ کہنا کہ کھوئی ہوئی رسید کے نہ ملنے کا وشواس ہو جانے سے ہی تم لیے ہوئے روپے دینے سے انکار کر رہے ہو۔ کندن: پھر وہی روپیہ جب میرے خیال میں نہیں۔ نوٹ بک میں نہیں۔ بہی کھاتے میں نہیں۔ پھر یہ روپیہ کہاں سے آئے؟ کب دیئے؟ کس کے سامنے دیئے؟ مادھو: کندن لال! تھوڑے روپوں کا منہ نہ دیکھو۔ منش گھر سے لکڑی کی ارتھی سے نکلتے وقت تجوری اور بینک کا روپیہ چھاتی پر دھر کر نہیں لے جاتا ہے۔ میں اس کے بھلے کے ساتھ ساتھ تمہارے بھی بھلے کی کہتا ہوں۔ دیکھو یہ بریچ آف ٹرسٹ کا کیس ہے۔ یدی برہمن کی کھوئی ہوئی رسید مل گئی تو اس بڑھاپے میں ہتھکڑی لگ جائے گی۔ کندن: میرے پاس روپیہ، میرے پاس وکیل، میرے ساتھ عدالت کی دوستی اور مجھے ہتھکڑی لگ جائے گی۔ تم مجھے گھر میں بلوا کر میرا اپمان کر رہے ہو۔ مجھے کیا سمجھا ہے؟ رام سرن: الو کا پٹھا۔ کندن: میں کوئی ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں۔ تم نے مجھے کیسا سمجھا ہے؟ مادھو: میرے منہ سے اپنی تعریف سننا چاہتے ہو؟ اچھا، تو میں تمہیں کیا سمجھتا ہوں، سنو تم گوبر کا ڈھیر ہو۔ دھرتی کا کوڑا ہو۔ بھلے مانسوں کی جوتیوں کی خاک ہو۔ سونے چاندی کے ٹکڑوں کے پیچھے دوڑنے والے کتے ہو۔ بھبکیاں دکھانے میں بندر ہو۔ دوسروں کا خون چوسنے میں بھیڑیئے ہو۔ نوچنے کھسوٹنے میں ریچھ ہو۔ رام سرن: اررر تب تو اسے کسی چڑیا خانے میں بند کر دینا چاہیے۔ کندن: میں کوئی ایسا ویسا آدمی نہیں ہوں اس شہر کا بڑا مہاجن ہوں۔ رام سرن: مگر صورت تو چماروں جیسی ہے۔ مادھو: اور سنو گے؟ دھوکے باز ہو، چور ہو، ٹھگ ہو، نیچ ہو، پاجی ہو۔ کندن: ارے بس بس، اتنی گالیاں تو کبھی میرے باپ نے بھی مجھے نہیں دی تھیں۔ رام سرن: تو آج سے انہی کو اپنا باپ سمجھ لو۔ مادھو: اور سنو گے۔ کیا سمجھتا ہوں؟ کندن: دیکھ تو نے ایک سانس میں ایک درجن گالیاں دی ہیں۔ میں تجھ پر اپنی بے عزتی کا دعویٰ کر دوں گا۔ مادھو: بے عزتی تو تب ہوتی جب میں تمہیں تھرڈ کلاس گالیاں دیتا۔ میں نے تو تمہیں چن چن کر فسٹ کلاس گالیاں دی ہیں۔ کندن: اچھا بیٹا! وکیل اور بیرسٹر کی فیس دینے کے لیے روپیہ تیار رکھنا۔ دو کوڑی کا آدمی ہو کر مجھ سے یہ زبان درازی۔ رام سرن: کیوں بے بن بلاؤ کے بچے! میرے ہی سامنے میرے مالک کو گالیاں دے رہا ہے۔ یاد رکھ، تو ندہی پھوڑ ڈالوں گا۔ کندن: ابے او تیتا مرد! یہ کیا کرتا ہے؟ مادھو: آپ کے روپوں کا سود دے رہا ہوں۔ رام سرن اس کی گردن میں ہاتھ دے کر نکال دے۔ رام سرن: چل بے! اب مجھے مالک کا حکم مل گیا ہے۔ اب تو میں تیری گردن میں ہاتھ دے کر تجھے عزت کے ساتھ نکالتا ہوں۔ مادھو: کیا سنسار ہے۔ منش کو جتنا ملتا ہے۔ اتنی ہی لاؤ لاؤ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ٭٭٭ باب تیسرا پردہ چوتھا کامنی کاسجا ہوا محل (کامنی ناچ رہی ہے۔ تماش بین داد دے رہے ہیں) تماشبین۱: واہ وا۔ واہ وا۔ تم تو راگ راگنی کی دھندلی تصویر میں تان پلٹوں سے رنگ بھر دیتی ہو۔ نمبر۲: جبھی تو مٹیا برج سے لے کر ہاوڑہ اور تمام بازار سے لے کر ڈم ڈم تک انہی کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ نمبر۳: واقعی دھوم تو خوب مچی ہوئی ہے۔سدا رنگ جی!تم تو بڑی بھاگیہ وان لڑکی کے پتا ہو۔ سدا رنگ: سرکار! میں پتا نہیں گرو ہوں۔ نمبر۱: تو کیا یہ بغیر باپ کے پیدا ہوئی ہیں؟ کامنی: رنڈی اس جگت میں پتی کہہ کر سب کا دامن پکڑ سکتی ہے کنتو پتا کہہ کر کسی کا ہاتھ نہیں تھام سکتی۔ آپ لوگ میرا پالن پوشن کرتے ہیں۔ اس لیے میں تو آپ ہی لوگوں کو اپنا ماں باپ سمجھتی ہوں۔ سدا رنگ: دیکھا ہنسی ہنسی میں کانٹا چبھا گئی۔ نمبر۱: بائی جی! جیسی تمہاری صورت سلونی ہے، ویسی ہی تمہاری باتیں بھی چٹ پٹی ہیں۔ تمہیں اپنا نام کامنی بائی کے بدلے کچالو بائی رکھنا چاہیے۔ نمبر۲: روپ لٹاؤ۔ روپیہ لوٹو۔ رام رام۔ (تماش بینوں کا جانا) سدا رنگ: کیوں جی! تم ہماری دکان چلنے دو گی یا چوپٹ کرو گی؟ کامنی: تمہارے لیے قینچی بن کر لوگوں کی جیب کاٹنے میں ہر طرح سے تمہاری مدد کرتی ہوں۔ گدھوں کو آدمی سمجھ کر مان دیتی ہوں۔ کٹھ پتلی کی طرح تمہاری آنکھ کے اشارے پر ناچتی ہوں۔ اس سے زیادہ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ سدا رنگ: میں یہ چاہتا ہوں کہ رنڈی بنی ہو تو پوری بنو۔ ہنسی ہنسی میں ایسی بات نہ کہہ جاؤ کہ پاگل آدمی بھی سیانا ہو جائے۔ نیل: ٹھیک تو ہے یہ اپنی خوشامد کی شکر ملا کر قلا قند تیار کرتے ہیں اور تم اس میں باتوں کا نمک جھوک کر پرول کی بھاجی بنا دیتی ہو۔ کامنی: تو کیا تمہارا مطلب یہ ہے کہ میں کبھی بھول کر بھی سچ نہ بولوں؟ نیل: اونہہ! کیسی الٹی کھوپڑی کی عورت ہے۔ سچ بولنے کے لیے تمام دنیا پڑی ہے۔ میں، تم، یہ تین آدمی اگر سچ نہ بولیں گے تو کیا دنیا کا کام رک جائے گا؟ سدارنگ: ٹھہرو! سیڑھی پر کسی کے پیروں کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ نیل:ـ آیئے بابو جی! کیوں رک گئے؟ یہاں اور کوئی نہیں ہے؟ سدا رنگ: آیئے نا بابو جی! یہ کون؟ بینی! اب ۔ اوہ۔ لوٹو جی! اس گھر میں تو روز یہی کھیل ہوتا ہے آیئے بابو جی! اور کوئی نہیں ہے۔ رک کیوں گئے؟ بینی: (آ کر) کون سدا رنگ؟ سدا: ہاں بابو جی! بینی: کیا یہ تم ہی لوگوں کا ڈیرا ہے؟ سدا: ہاں بابو جی! یہ ہم ہی لوگوں کا ڈیرا ہے۔ جس دن بہو بازار میں آپ کے درشن ہوئے تھے، اس دن کے بعد آج آپ کو دیکھ اہے۔ بینی: جس دن تم سے ملاقات ہوئی تھی، اسی دن آب و ہوا بدلنے کے لیے میں دار جیلنگ چلا گیا تھا۔ پرسوں ہی لوٹا ہوں۔ آج شام کو گاڑی سے ادھر نکلا تو کھڑکی میں بائی جی کے درشن ہو گئے۔ سدا رنگ جی! چیز تو خوب لائے ہو۔ نیل: اور ایسی چیز کی قدر آپ جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ بینی: بائی جی! تمہارا کیا نام ہے؟ کامنی: نگر ناری، رام جنی، کنچنی، چاتر، تریا، طوائف، بائی جی، یہ سب ہمارے ہی نام ہیں۔ جس نام سے آپ کا دل خوش ہو، اسی نام سے پکاریئے۔ بینی: لیکن جیسے ناٹک کے اشتہار پر لکھا ہوتا ہے۔ چتر ابکاؤلی عرف تاج الملوک، ویسے ہی تمہارے نام کے ساتھ بھی کوئی پھڑکتا ہوا عرف تو ضرور ہو گا۔ کامنی: سودیشی وچار کے لوگ مجھے کامنی بائی اور انگریزی فیشن کے لوگ مس کامنی کہتے ہیں۔ بینی: اچھا تو مس کامنی طبلے اور سارنگی کا کھیت سوکھا پڑا ہے۔ اپنے گلے سے کہو کہ امرت برسا کر اسے ہرا کر دے۔ سدا رنگ جی! ایک وسکی کی بوتل اور آدھا درجن سوڈا لاؤ۔ نیل: اور جو باقی بچے وہ؟ بینی: وہ اپنے ادھار کھاتے میں جمع کر لینا۔ نیل: ہے بھگوان! روز ایسے ہی الو کے پٹھوں کو اس گھر میں بھیج دیا کرو۔ سدا رنگ: بابو جی! دو چار پیگ تو گھر میں ہی پڑے ہوں گے۔ بوتل کے آنے تک اسی سے دل بہلایئے۔ بینی: تو نکالو نا۔ واہ واہ سدا رنگ جی! تم تو اپنے گھر میں تمام دنیا کا سکھ رکھتے ہو۔ روپ بھی، گانا بھی، اور شراب بھی۔ سدا رنگ: بابوجی! اس کے سکھ کی ایجنسی لے رکھی ہے۔ بینی: بائی جی! گلاس تمہیں بھرنا ہو گا۔ ان گورے گورے ہاتھوں سے ڈالو گی تو ان متوالی آنکھوں کا نشہ اور گلاس کا نشہ مل کر دو آتشہ ہو جائے گا۔ سدا رنگ: (کامنی سے کان میں) جیب میں کئی ہزار کے نوٹ ہیں۔ شراب پلا کر ایسا مست کر نا کہ نشے کی جھوک میں کوٹ بھی اتار کر دے دے۔ کامنی: آہ! رنڈی کا گھر بھی کیسی وچتر جگہ ہے۔ جیسے لڑائی کے میدان میں ایک سپاہی کے گرتے ہی دوسرا سپاہی اس کی جگہ آ کر کھڑا ہو جاتاہے۔ اسی طرح روپ اور روپے کی یدھ بھومی میں ایک کے پیچھے دوسرا گلا کٹوانے کے لیے آ ہی پہنچتا ہے۔ اچھی بات ہے۔ اندھو! بے وقوفو! آؤ مرو۔ تمہارے بھاگیہ میں یہی لکھا ہے۔ سدا رنگ: بابو جی! شما کیجئے۔ دیسی شراب ہے۔ ولایتی نہیںہے۔ بینی: اب اس لالچی ٹٹو کو کچھ گھاس دکھانی چاہیے۔۔۔ ارے ہاں سدا رنگ جی! تم نے مجھے ایک روز پانچ سو روپے ادھار دیئے تھے۔ کچھ یاد ہیں یا نہیں؟ سدا رنگ: نہیں تو بابو جی! پانچ سو روپے میں نے دیئے تھے؟ مگر آپ کہتے ہیں تو ضرور دیئے ہوں گے۔ مگر کب دیئے؟ کہاں دیئے؟ کس وقت دیئے؟ مجھے نہیں معلوم۔ بینی: میں یاد دلاؤں؟ اگلے جنم میں۔ سدا رنگ: ہاں، ہاں، تو دے دیجئے بابو جی! ادھار کا رکھنا بھی ٹھیک نہیں میری تو عادت ہو گئی ہے کہ روپے دے کر بھول جاتا ہوں۔ بینی: اچھا تو یہ لو۔ سدا رنگ: اور بابو جی! بیاج۔ بینی: تمہیں تو مول بھی معلوم نہ تھا اور بیاج مانگ رہے ہو۔ سدا رنگ: مول معلوم نہ ہو مگر بیاج ضرور یاد رہتا ہے۔ بینی: اچھا تو یہ لو ہم تو تمہارے سدا کے قرض دار ہیں۔ اچھا اب بائی جی کو بلاؤ۔ سدا رنگ: کامنی! کامنی! کامنی: گانا بانکی چھب دکھلائے سندریا، جھومت جھومت آئے جو بنوا کا بھار نہ سنبھلے، لچک لچک بل کھائے کمریا بابا جوبن چھب متوالی، بات رسیلی، گھات نرالی لٹ کالی ناگن جیسی لہرائے پیاری، اکھیاں مدھ کی بھریاں، گالوں میں پھولوں کی لالی، گوری چمن کو للچائے (گانا ختم) بینی: چمپئی رنگ کی وسکی اور چمپئی رنگ کی سندری۔ سامنے بھی بسنت اور گلاس میں بھی بسنت۔ رمنی پیو۔ کامنی: میں نے آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بوتل اور گلاس کو ہاتھوں سے چھوا ہے، لیکن ہونٹوں سے کبھی نہیں چھوا۔ اس لیے شما کیجئے۔ گلاس کا سکھ میرے بھاگیہ میں نہیں ہے۔ بینی: ادھر دیکھو۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گلاس میں پگھلا ہوا سونا ڈھل ڈھل کر رہا ہے۔ جانتی ہو یہ کیا ہے؟ کامنی: بے سمجھ کے لیے امرت اور سمجھ دار کے لیے زہر۔ گلاس کا اجالا اور آتما کا اندھیرا۔ شروع میں نشہ اور انت میں پاگل پن۔ بینی: جب تم پیتی ہی نہیں تو لوگوں کو خوش کس طرح کرتی ہو گی؟ کیا تمہیں سدا رنگ جی نے یہ نہیں بتایا کہ گھر میں روپ، پریم، سکھ کے ہوتے ہوئے بھی لوگ گھر اور گھر کی استری کو چھوڑ کر رنڈیوں کے گھر کیوں آتے ہیں؟ کامنی: جانتی ہوں آپ لوگ ناز نخرے، لپٹ جھپٹ، ہاں ہوں اور پینے جھومنے کا مزا چاہتے ہیں اور یہ سب مزے رنڈی کے ہی گھر میں مل سکتے ہیں۔ گرہستی کے پوتر مندر میں نہیں مل سکتے۔ گھر کی استری پریم کر سکتی ہے، لیکن ہماری طرح نرلج نہیں بن سکتی۔ سر جھکا کر باتیں سن سکتی ہے، لیکن بھوؤں کو ٹیڑھی کر کے تم یا تو نہیں کہہ سکتی۔ پتی کے پاؤں چھو سکتی ہے، لیکن رنڈیوں کی طرح بگڑ کر پتی کو لات نہیں مار سکتی۔ پھر آپ لوگ گھر کی استری سے کس طرح خوش ہو سکتے ہیں؟ بینی: کیا یہ ایک ویشیا بول رہی ہے؟ کامنی: آپ بھی اپنی جیب کے پیسوں کا مزا لینے اور میرے روپ سے کھیلنے کے لیے میرے گھر میں آتے ہیں۔ کھیلئے، کھیلئے مزے میں ڈوبا ہوا پاپ کا کھیل رنڈی ہی کے گھر میں کھیلا جا سکتا ہے۔ بینی: میں نے کوٹھے پر بیٹھنے والیوں کے مکھ سے ایسی باتیں کبھی نہیں سنیں۔ تمہارے وچاروں سے تو یہ پرگھٹ ہوتا ہے کہ تم رنڈی ہو کر بھی رنڈی کے دھندے کو سکھ کا دھندانہیں سمجھتی ہو۔ کامنی: ہوں۔ رنڈی اور سکھ۔ بابو صاحب! استری کا سکھ دھرم میں ہے۔ ستیہ میں ہے۔ لاج میں ہے۔ ماتا، پتری اور بہو کی پدوی میں ہے۔ ویشیا شبد میں نہیں ہے۔ سونے کے زیور، ریشمی کپڑے، پشت پر طبلے اور سارنگی کی آواز کے سوا رنڈی کے لیے اس سنسار میں اور کیا رکھا ہے؟ سہانو بھوتی نہیں، مان نہیں، سماج نہیں، دھرم نہیں، مکتی نہیں، سورگ نہیں، آہ! دھتکار ہے۔ اس گھر پر جس میں ایک کنیا ویشیا کا جنم ہوتا ہے۔ بینی: سندری تیل اور پانی کی طرح جب تمہارے پیشے اور وچار میں میل نہیں ہو سکتا، تب تم اس دھندے اور گھر کو کیوں نہیں چھوڑ دیتیں؟ کامنی: کہاں جاؤں؟ کس سے شرن مانگوں؟ بھارت کا ورتمان سماج جج بننا چاہتا ہے کنتو نیائے کرنا نہیں جانتا۔ ایک پاجی کامی لمپٹ پرش چھل بل سے ایک استری کی لاج اور دھرم کو لوٹ لیتا ہے کنتو اس ڈاکو کو لات مار کر نکال دینے کے بدلے سماج میں بیٹھنے کے لیے کرسی دی جاتی ہے اور جس استری کا لوک پرلوک سب کچھ لٹ گیا ہو، اسے کوئی آدمی اپنے دروازے پر بیٹھ کر رونے کی آگیا بھی نہیں دیتا۔ پھر ایسا کون دیالو ہے جو مجھ ابھاگنی کو شرن دے گا؟ بینی: رمنی! آج کل جب مٹی تک بک جاتی ہے تو کیا سونا بنا گاہک کے پڑا رہ سکتا ہے۔ تمہاری اچھیا ہو تو میرے گھر میں میری استری بن کر رہ سکتی ہو۔ پریئے ہر دیشوری! بولو، میری استری بنو گی؟ کامنی: استری؟ بینی: ہاں، استری بچن لینے سے وشواس ہو سکتا ہے تو لاؤ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو، اس گوری کلائی کے سندر ہاتھ پر چومن کے اکھشروں سے لکھے دیتا ہوں کہ آج سے میں تمہارا پتی ہوں اور یہ پتی کا پہلا چومن ہے۔۔۔ ہیں! یہ کیا! بی پی وہی اکھشروں تم تم کون ہو؟ کامنی: اور کون ہوں؟ روپ کی دکان میں کام کے ہاتھوں سے بنی ہوئی نرلجتا کی مورتی۔ بینی: آہ! ایشور کا نیائے بھی کتنا کٹھور ہے۔ میں نے وچار بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن میرا ہی پاپ میرے سر پر بجلی بن کر ٹوٹ پڑے گا۔ مگر نہیں کداچت یہ میرا بھرم ہے۔ ابھاگنی سچ بول تو کس کی لڑکی ہے؟ کامنی: کئی بار پوچھا، لیکن سدا رنگ نے یہی اتر دیا کہ کال کے سمے میں تمہارے غریب ماں باپ سے تمہیں سو روپے میں مول لیا تھا۔ بینی: یہ کیا! یہ کیا! گھنا اور دھتکار کی آوازیں کہاں سے آنے لگیں؟ ہردے پاگل ہو کر باہر نکل پڑنے کے لیے چھاتی کے کواڑے توڑے ڈالتا ہے۔ دھرتی پر نرک ناچتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ پاپی ابھاگے۔ کامنی: یہ کیا! بہتی ہوئی ندی مانو ایک چھن میں سوکھ گئی۔ بابو صاحب! اٹھئے۔ بینی: کام لتا! کام لتا! تو ایک ویشیا تھی۔ تو نے اپنے پاپی ہونٹوں سے جو بھوش بانی کی تھی وہ آج پوری ہو گئی۔ نرک سے آ کر دیکھ کہ تیری کوکھ سے جنم لینے والی کنیا ویشیا کے روپ میں اپنے باپ کے سامنے کھڑی ہے اور اس کا پاپی باپ اسے دیکھ کر لاج کے آنسوؤں میںڈوبا جا رہا ہے۔ کامنی: کیا کہا۔ آپ میرے پتا جی ہیں۔۔۔۔؟ سر کیوں جھکا لیا؟ آہ! جان گئی۔ بینی: آہ! شرم گلا گھونٹ رہی ہے۔ کامنی! نہ پوچھ۔ کس منہ سے ہاں کہوں؟ کامنی: کلوان پتا جی! اس منہ سے ہاں کہئے جس منہ سے اپنی کنیا کو ہر دیشوری اور سندری کہہ رہے تھے۔ اسی منہ سے ہاں کہئے جس منہ سے باپ ہو کر بیٹی کی لاج خریدنے آئے تھے۔ پہلے دھن کا ناش اور پھر عزت کا ناش۔ ویشیا گامیوں کو اپنے بوئے ہوئے بیج سے انت میں بھی یہی دو پھل ملا کرتے ہیں۔ بینی: آہ! میں نے پاپ کے راستے پر چلنے سے پیشتر ان پیروں کو پتھر سے کیوں نہیں کچل ڈالا؟ پر استری کے روپ کو دیکھنے سے پہلے ان آنکھوں میں آگ کے اندر تپائے ہوئے سوئے کیوں نہیں پھیر دیئے؟ جس دنیا میں تھوڑی دیر پہلے ہنسی، روپ، گانا اور سکھ دکھائی دیتا تھا، اب دھتکار اور شرم کے سوا کچھ نہیں دکھائی دیتا۔ کامنی: شرم، شرم۔ گھر کی پریم مئی دیوی کا دل توڑنے وقت شرم نہ آئی۔ جیب کے روپوں سے جیون کے پوتر مندر میں آگ لگاتے ہوئے شرم نہ آئی۔ ارے باپ ہو کر بیٹی کے گال کا چومن لیتے ہوئے شرم نہ آئی۔ اب شرم آتی ہے۔ یدی پہلے سے شرم ہوتی تو آج اس اجلے منہ پر دکھ اور دھتکار کی کالک کبھی دکھائی نہ دیتی۔ بینی: سچ کہتی ہو۔ پیسہ، جوانی اور ویشیا کے روپ کے نشے میں پاگل ہو کر کامنی پرش کیول آج کا سکھ دیکھتے ہیں؟ کل کا پرنیام نہیں سوچتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس گھر میں باپ جاتا ہے، وہاں بیٹا بھی جا سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جسے ہم دھوکے میں ویشیا کی کنیا سمجھتے ہیں، وہ حال کھلنے پر ماں، بہن اور بیٹی پر بھی پرمانت ہو سکتی ہے۔ ابھاگنی پیدا ہونے کے ساتھ ہی تیرا گلا گھونٹ کر کیوں نہیں مار ڈالا؟ پھانسی ہو جاتی لیکن کام وش ہو کر بیٹی کے گال کا چمن لینے اور باپ ہو کر بیٹی کو ہر دیشوری اور رمنی کہنے کے دکھ سے پھانسی کا دکھ زیادہ نہ ہوتا۔ سدا رنگ: (اندر سے) کامنی! کامنی! (سدا رنگ کا آنا) بینی: نیچ ادھم! راج کنور کی مرتیو کے آٹھ دن بعد تونے مجھے ڈھاکہ سے تار دیا تھا کہ تمہاری لڑکی نمونیا سے مر گئی۔ کلکتہ آنے کے بعد بھی مجھے یہی وشواس دلایا تھا۔ پرنتو! ادھر دیکھ۔ وہی مری ہوئی لڑکی تیرے سامنے زندہ کھڑی ہے۔ بول، بول! تو نے کس جنم کی دشمنی کا مجھ سے ایسا بھیشن بدلہ لیا؟ نیچ! بولتا کیوں نہیں؟ سدا رنگ: لوبھ اور سوارتھ نے ہماری پر کرتی بدل دی ہے یہ ہمارا نہیں ہماری پرا کرتی کا دوش ہے۔ ہم اپنے سوارتھ اور سکھ کے لیے دوسروں کی بہو بیٹی تو کیا، اپنی بہن اور بیٹی بیچنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ شما کیجئے۔ بینی: شما، شما۔ ایک بالکا کا جیون ایک گرہستھ گھر کا گورو۔ ایک کل کی مریادا۔ ایک پرش کے سکھ شانتی کا ناش کر کے شما مانگتا ہے۔ شما کیول اس کے لیے ہے جس سے دھوکے اور بھول میں کوئی اپرادھ ہو جائے۔ جان بوجھ کر اپرادھ کرنے والے کے لیے شما نہیں، ڈنڈ ہے۔ اور تیرا ڈنڈ مرتیو ہے کتے! مر (سدا رنگ کو گولی مارنا) دیکھ پاپی جگت میں ویشیا اور بھیچاریوں کی کمی نہیں۔ تو بھی مر (کامنی کو گولی مارنا) سب شیش ہو گئے۔ پاپ کا ناٹک ہنسی سے شروع ہوا اور آنسوؤں پر سماپت ہو گیا۔ ایک پاپ کے دروازے پر مری۔ ایک نرک کی گود میں مرا اور ایک پھانسی کے تختے پر مرے گا۔ ویشیا اور ویشیا گامیوں کا انت میں یہی پرینام ہوتا ہے۔ ٭٭٭ باب تیسرا پردہ پانچواں بازار جگل: یہی شہر ہے جس میں ایک راجہ کی طرح رہتا تھا اور یہی شہر ہے جس میں آج ایک راستے کا بھکاری بن کر آیا ہوں۔ کیسی درد شا، ننگے پاؤں، پھٹے کپڑے، دھنسی ہوئی آنکھیں، بھیانک چہرہ۔ کیا اس کنگال اوستھا میں دیکھ کر سروجنی مجھے پہچان سکے گی؟ اف ! بھوک سے چلا نہیں جاتا۔ تین دن ہو گئے، روٹی کے ایک سوکھے ٹکڑے کی بھی صورت نہیں دیکھی۔ ہائے جس ہاتھ سے ایک دن کتنے آدمی پیتے تھے، آج وہی ہاتھ اپنے شہر میں دوسروں کے آگے پھیلانا ہو گا۔ اس جنم کی کرنی کا پھل اس جنم میں مل رہا ہے۔ ایشور ادھار نہیں کرتے۔ (کندن کا آنا) شریمان! کندن لال: تم کونْ جگل: تین دن کا بھوکا، دکھی، ابھاگا، کنگال۔ کندن: کیا چاہا ہے؟ جگل: دیا۔ کندن: ارتھاست۔ جگل: تھوڑا سا ان یا دو چار پیسے۔ کندن: تو اندھا نہیں، اپاہج نہیں، لولا نہیں، لنگڑا نہیں، جا کر کہیں محنت مزدوری کر کے کھا۔ جگل: تو کیا کچھ بھی سہائتا نہ کیجئے گا۔ کندن: منش کی سہائتا اس کی جیب کے پیسے کیا کرتے ہیں اور کوئی نہیں کرتا۔ جگل: سچ کہتے ہو۔ مجھے پیسہ کھونے کے بعد معلوم ہوا کہ سنار بڑا ہی سوارتھی ہے۔ منش کے لیے دو ہی اپنے سکھوں کا بلیدان کر سکتے ہیں۔ بچپن میں ماتا اور جوانی میں پتی ورتا استری اور دو ہی سچے سہائیک ہیں۔ اس لوک میں پیسہ اور اس لوک میں دھرم۔ کندن: تو کیا تو بھی کبھی دھنوان تھا؟ جگل: نہیں مہاشے! غریب بھی کبھی کبھی اپنے آپ کو امیر دیکھتا ہے۔ میں نے بھی ایسا سوپن دیکھا تھا۔ کندن: تو کیا یہ سوپن کی بات تھی؟ جگل: آپ کو اشچرئے کیوں ہوتا ہے؟ سارا سنسار کھلی ہوئی آنکھوں سے سوپن دیکھ رہا ہے۔ امیری، غریبی، آشا، نرشا، مان، اپمان۔ یہ سب سوپن کی وستوئیں ہیں۔ جب تک آنکھ کھلی رہتی ہے دکھائی دے رہے ہیں، جب آنکھ بند ہو جائے گی تب کچھ دکھائی نہ دے گا۔ کندن: تو کہاں رہتا ہے؟ جگل: جہاں ست یگ میں پنیہ رہتا ہے اور اس کل جگ میں پاپ رہتا ہے۔ کندن: ارتھات۔ جگل: اس دھرتی پر۔ اچھا جاتا ہوں۔ دکھ ایک بھیانک بیماری ہے۔ دین دکھیوں کی چھایا سے اسی طرح بچتے رہئے گا۔ (جانا) کندن: یہ کون تھا؟ سونچوں تو سہی۔ نشچے یہ جگل تھا۔ کیا اس کو خبر نہیں کہ پولیس نے اس کو گرفتار کرانے والے کو پانچ ہزار روپے انعام دینے کا اشتہار چھپوایا ہے؟ دھرم روکتا ہے۔ پانچ ہزار روپے ایک دن میں پیدا نہیں ہوتے۔ خالی دیالو بن کر اتنی بڑی رقم نہیں چھوڑ سکتا۔ ہائے! میرے پانچ ہزار ۔ جگل! میں تجھے ضرور گرفتار کراؤں گا۔ ہٹ جا! میرے راستے سے ہٹ جا۔ دھرم ست نیتی، کچھ نہیں جو کچھ ہے روپیہ، روپیہ، پانچ ہزار، پورے پانچ ہزار۔ ٭٭٭ باب تیسرا پردہ چھٹا مندر (لاسٹ سین) جگل: آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایاجاتا ہے۔ مانو بھوک کی آگ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ کس سے مانگوں؟ (سروجنی کا ایک عورت کے ساتھ آنا) عورت نمبر۱: بچارا گر پڑا۔ عورت نمبر۲: کچھ مانگنا چاہتا تھا۔ سروجنی: یہ بچارا دکھی جان پڑتا تھا۔ نمبر۳: سنسار میں سبھی دکھی ہیں۔ آؤ بہن! چلو۔ سروجنی: نہیں ایسا نہ کہو۔ راہ چلتے میں کسی منش کو سرپ ڈس لے تو کیا اس کو مرتے ہوئے چھوڑ کرچلا جانا دھرم ہے؟ نہیں، نہیں۔ پھر ہم تو استریاں ہیں۔ ناری کا ہردے ایشور نے اپنی دیا سے بنایا ہے۔ تم کون ہو؟ جگل: دکھی، ابھاگا، کنگال، تین دن کا بھوکا، ہو سکے تو کچھ دیا کرو۔ سروجنی: میں مندر میں پوجا کرنے آئی تھی۔ اس لیے تمہاری سیوا نہ کر سکی۔ گھر ہوتا تو تتھا شکتی وشیشٹ سیوا کر کے اپنے بھاگیہ کو دھنیہ داد دیتی۔ یہ لو جگل: دیوی! تمہارا منگل ہو۔ سروجنی: یہ کون! تم کون! سچ بولو۔ تم کون ہو؟ جگل: وہی روپ، وہی آواز، کون؟ سروجنی! سروجنی: کون؟ دیوتا ہر دیشور! (سروجنی جگل کے پیروں پر گر پڑتی ہے۔پولیس اور کندن کا آنا) کندن: یہ رہا آسامی۔ گرفتار کر لو۔ انسپکٹر: گرفتار کر لو۔ سروجنی: ہیں یہ کیا! میرا پھوٹا ہوا بھاگ۔ ان آنکھوں کے آنسوؤں کو سوکھنے نہ دے گا۔ انہیں کیوں گرفتار کرتے ہو؟ انسپکٹر: بارہ برس ہوئے، یہ کام لتا رنڈی اک خون کر کے بھاگ گیا تھا۔ کندن: اس لیے چھاپے میں پولیس نے خبر دی تھی کہ جو پکڑوائے گا اسے پانچ ہزار روپیہ انعام ملے گا۔ سروجنی: اسی پانچ ہزار کے لیے تم دیا دھرم والے ایک ابھاگے کے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر خوش ہونا چاہتے ہو؟ ان پاپ کے روپوں سے تم پنیہ، ونش، مکتی، سورگ کو کون سی چیز خرید سکتے ہو؟ دیا کرو۔ دیا کرو۔ انسپکٹر: ہم دیا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم نیائے کے نوکر ہیں سروجنی: نہیں، نہیں۔ ایسا نہ کہو۔ ایسا کوئی نردئی ہے جس نے اپنے سارے جیون میں ایک مرتبہ بھی بھکاری کو بھیک نہ دی ہو۔ دیکھو! یہ دیا کی بھکارن تم سے دیا کی بھیک مانگتی ہے۔ دیا کرو۔ ناتھ! تم بھی دیا مانگو۔ جگل: میں نے اپنے کل کی عزت پر دیا نہیں کی۔ تیرے آنسوؤں پر دیا نہیں کی۔ اپنی جوانی اور پیسے پر دیا نہیں کی اب کس منہ سے دیا مانگوں؟ منش اور ایشور کوئی مجھ پر دیا نہیں کر سکتا۔ کندن: لے چلو۔ سروجنی: ٹھہرو! سنسار میں ان سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہیں ہے۔ میں انہی کی سوگند کھاتی ہوں کہ یہ نردوش ہیں۔ انسپکٹر: یہ نردوش نہیں خونی ہے۔ (بینی کا آنا) بینی: خونی! کس نے خونی کہا؟ تم نے؟ میں ابھی پولیس افسر کی کوٹھی جا رہا تھا۔ اچھا ہوا کہ آپ یہیں مل گئے۔ تم یہیں مجھے گرفتار کر لو۔ ہتھکڑی لگا لو۔ یہ کون؟ یہ کیا؟ میں سے دیکھ رہا ہوں؟ تم! جگل: ہاں جو تم سمجھتے ہو میں وہی ہوں۔ جس دن تم سے میری دوستی ہوئی، جس دن تم نے مجھے گھر کی ستی کو دھوکا دینا سکھایا، جس دن تم مجھے ہاتھ پکڑ کر ویشیا کے کوٹھے پر لے گئے۔ اسی دن میرے پاپی جیون کا پہلا سویرا تھا اور یہ دشا میرے جیون کی آخری رات ہے۔ وہ پاپ کا آدھ تھا اور یہ پاپ کا انت ہے۔ انسپکٹر: دیر ہوتی ہے، ہتھکڑی پہناؤ۔ بینی: ہتھ کڑی، ہتھکڑی، اسے کیوں؟ انسپکٹر: بارہ برس ہوئے اس نے کام لتا رنڈی کا خون کیا تھا۔ بینی: یہ جھوٹ ہے۔ اس نے خون نہیں کیا تھا۔ انسپکٹر: پھر اور کون خونی ہے؟ بینی: جس نے دھرم اور دوستی کا خون کیا ہے، کام لتا کا خونی میں ہوں۔ انسپکٹر: کیا تم؟ خون تم نے کیا ہے؟ بینی: ہاں! میں نے۔ وہ بھی ایک نہیں، تین خون۔ انسپکٹر: ہیں! تین خون؟ بینی: ہاں۔ تین خون۔ دو آج اور ایک بارہ برس پہلے انسپکٹر: جب یہ سویم خونی ہونا سویکار کرتا ہے، اس لیے اسے گرفتار کرو۔ کندن: ارے! اسے بھی گرفتار کرو۔ انسپکٹر: دیکھو! اگر اس نے کورٹ میں یہی بیان دیا تو چھٹ جائے گا۔ کندن: چھوٹے گا جب چھوٹے گا۔ ابھی تو چرغنپٹو بناؤ۔ کیا تمہارے پاس دوسری ہتھکڑی نہیں ہے؟ تو یہ لو میرے انگوچھے سے اس کی مشکیں باندھ لو۔ بینی: نیچ! کیا بک رہا ہے؟ کندن: تم چپ رہو۔ خود بھی ڈوبے اور میرے پانچ ہزار بھی ڈبائے۔ ہائے رے میرے پانچ ہزار! سروجنی: ہتیارے تجھے منش کی جان کی پروا نہیں اور پانچ ہزار کی اتنی پروا ہے۔ کندن: پانچ ہزار آدمی ایک دن میں پیدا ہو سکتے ہیں، پرنتو پانچ ہزار روپے ایک دن میں پیدا نہیں ہو سکتے۔ ہائے رے میرے پانچ ہزار! انسپکٹر: ابے تو تو بڑا ہی لو بھی ہے۔ دھتکار ہے تیرے لوبھ پر۔ کندن: یہ لو میں نے یہ چاہا تھا کہ اسامی دہروا کر تمہارا عہدہ بڑھ جائے گا۔ مجھے شاباش دینے کے بدلے دھتکار دیتے ہو؟ کیا اسی بات پر پولیس کی نوکری کرتے ہو؟ انسپکٹر: چپ رہو۔ تم میرا اپمان کرتے ہو۔ کیوں جی! اسی کے گھر میں کوکین اور افیون بکتی ہے؟ کندن : ارے باوا! یہ تو الٹی آنتیں گلے پڑیں۔ اب بچنے کی آشا نہیں ہے۔ بیٹا کندن لال! اپنی جوتی بغل میں دبا کے یہاں سے بھاگو۔ مادھو: (آ کر) ٹھہرو۔ یہی ہے کندن لا۔ لگاؤ ہتھ کڑی پاپی کو۔ اس بچارے برہمن کی کھوئی ہوئی رسید مل گئی۔ کندن: مل گئی، تب تو لٹیا ڈوب گئی۔ مادھو: پولیس، بینی، ہتھ کڑی اور دوسری طرف یہ کون؟ پیارے بھائی جگل! بینی: جگل، بہن سروجنی اور مادھو پھانسی ہو چکنے کے بعد دنیا مجھے بھول جائے گی۔ تم بھی میرے پچھلے اپرادھ بھول جانا۔ (تمام شد) اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End