حیات محمدصلی اللہ علیہ والہ وسلم حصہ دوئم محمد حسین ہیکل باب پندرھواں غزوۂ احد قریش کے دلوں پر غزوہ سویق نے تو کوئی اثر نہ چھوڑا لیکن بدر کا چرکا ان کے صفحہ قلب سے مندمل نہ ہو سکا، نہ زید بن حارثہؓ کی اس تاخت کا صدمہ مٹ سکا جس کے اثر سے ان کی جدید تجارتی راہ بھی مسدود ہو گئی جو انہوں نے بحیرۂ احمر کے ساحل کو چھوڑ کر عراق کی گزرگاہ پر تجویز کی۔ قریش حادثہ بدر اور اپنی اس راہ کی ناکہ بندی دونوں کے انتقام و مداوا کے لیے آتش زیرپا تھے۔ بدر انہیں فراموش بھی کیسے ہو سکتا تھا جس میں ان کے منتخب روزگار اور سرکردہ (اشخاص) تہ تیغ ہوئے جن کی یادوں میں قریش کی عورتیں ہر لمحہ مصروف گریہ تھیں؟ کوئی اپنے لخت جگر کو بیٹھ کر روتی، کسی کے دل سے اپنے ماں جائے کا ناسور رس رہا تھا، کوئی باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے سے شکستہ خاطر، کسی کا سرتاج مفقود اور کسی کا کوئی دوسرا قرابت دار نابود ہو گیا تھا۔ جن پر رونا اور سینہ کوبی قریش کی عورتوں کا مقدر بن گیا اور وہ اپنے نصیبے کو بھگت رہی تھیں۔ ان کا نوحہ ایسی رقت اور سوز سے بھرا ہوتا جسے قریش سنتے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے حواس باختہ انسانوں کی طرح ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے۔ جنگ احد کے ابتدائی مراحل: ادھر (مکہ میں) ابو سفیان کا وہ قافلہ شام سے لوٹ کر آ پہنچا جو غزوۂ بدر کا محرک تھا ادھر معرکہ بدر کے بقیۃ السیف مفرورین قریش شہر میں وارد ہوئے اور قریش کے اکابر میں مندرجہ ذیل پانچ ارکان : جبیر بن مطعم، صفوان (بن امیہ)، عکرمہ بن ابوجہل، حارث بن ہشام اور حویطب بن عبدالعزیز کے مشورہ سے قرار پایا کہ اس رقم سے سامان جنگ خرید کر (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لیا جائے، جس کی قوت سے اپنی فوج کی تعداد بڑھائی جائے گی، اور قرار پایا کہ قبائل عرب کو بھی قریش کے مقتولین کا بدلہ لینے کے مشتعل کیا جائے۔ اس کے لیے قریش کی ا یک ٹولی قبائل میں گشت کے لیے روانہ ہوئی، جس میں ابو عزہ شاعر بھی تھا جو اسیران بدر میں گرفتار ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے احساناً آزاد فرما دیا۔ اس اہتمام میں انہوں نے اپنی کمک کے لیے اپنے حبشی غلاموں کا ایک دستہ بھی ہمراہ لے لیا۔ احد کے لیے قریش کی عورتوں کی طرف سے پیش کش جوش انتقام میں مبہوت قرشی عورتیں بھی ہمراہ جانے کے لیے مصر ہوئیں، جس پر ایک شخص نے مجلس مشاورت میں یہ رائے پیش کی ہم لوگ سر سے کفن باندھ کر جا رہے ہیں اگر اپنے مقتولین کا بدلہ نہ لے سکے تو زندہ واپس نہ لوٹیں گے۔ عورتوں کی معیت ہمارے لیے مفید ثابت ہو گی۔ یہ ہمارے جذبات غضب کو اشتعال دلائیں گی اور ہمیں بدر کے واقعات یاد دلا کر آگے بڑھائیں گی۔ دوسرے نے کہا عورتیں ہماری آبرو ہیں۔ اگر ہمیں شکست ہوئی تو ان کی بے حرمتی سے ہمارا ناموس خاک میں مل جائے گا۔ اس موقع پر ہندہ (زوجہ ابو سفیان) بھی موجود تھی اس نے (اپنی تقریر میں) کہا: حاضرین مجلس! اس سے نہ گھبرائیں کہ آپ زندہ بچ کر نہ آ سکیں گے۔ آخر آپ لوگ بدر سے بھی بچ ہی نکلے اور اپنی عورتوں کو بھی آ کر دیکھ لیا! پھر آپ لوگ ہمیں شرکت سے منع کرنے والے ہی کون ہیں، جب کہ یہی غلطی بدر میں ہوئی جب آپ لوگوں نے اپنی ان جوان لڑکیوں کو حجفہ (مقام) سے واپس لوٹا دیا جو معرکہ کے وقت موجود ہوتیں تو آپ لوگوں کو غیرت دلا کر آگے بڑھاتیں۔ آہ! بدر جس میں ہمارے عزیز ترین مرد دشمن کے ہاتھ سے مارے گئے۔ قریش کا مدینہ پر خروج: اور قریش اپنے ہمراہ ایک جرار لشکر لے کر مکہ سے باہر جمع ہوئے جس کے ساتھ وہ عورتیں بھی تھیں جن کے عزیز و خویش بدر میں قتل ہوئے تھے۔ اس لشکر میں بنو ثقیف (ساکنان طائف) کے دو سو شمشیر زن سپاہیوں کے سوا مکہ میں سے اٹھائیس سو شمشیر زن نکلے، جن میں اشراف و سادات قریش کے قبائلی حلیف بھی تھے اور احابیش کا بھی ایک دستہ مع بے شمار سامان رسد و آلات کے بہ تفصیل ذیل ہمراہ تھا: الف۔ تین علم تے جن میں سب سے بڑا جھنڈا طلحہ بن ابو طلحہ کے ہاتھ میں تھا۔ یہ علم دار الندوہ میں بیٹھ کر بنائے گئے۔ ب۔ گھوڑے دو سو ج۔ تین ہزار اونٹ د۔ سات سو زرہیں ہ۔ اسلحہ حساب و شمار سے فزوں تر اور لشکر مدینہ کے رخ پر بہہ نکلا۔ سیدنا عباسؓ کی خبر رسانی: رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے عم مکرم سیدنا عباسؓ (بن عبدالمطلب) جو ابھی تک اپنے جدی مذہب پر قائم اور مکہ میں تشریف فرما تھے، قریش کی ہر سازش، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہوتی، نظر غائر سے مطالعہ فرماتے۔ اس کی دو وجوہات تھیں 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت داری اور 2 اپنے برادر زادہ کا حسن کردار! جس میں جناب عباسؓ کے ساتھ مسلمانوں کا وہ حسن سلوک بھی شامل ہو گیا جو ان کے اسیر بدر ہونے کے دوران میں ان کے ساتھ ہوا۔ جناب عباسؓ کا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدائیت کا ایک وقت پہلے بھی آ چکا ہے، ہجرت سے قبل اوس و خزرج کی بیعت کے موقع پر جو بیعت شب کی تاریکی میں ہوئی اور عقبۃ الکبریٰ کے عنوان سے ملقب ہے، جس کے لیے شب کے وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دولت خانہ سے نکلے تو جان نثار عم کریم سے اپنے برادر زادہ کا اہل مدینہ سے تنہا معاملہ طے کرنے پر ضبط نہ ہو سکا۔ سائے کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ محل بیعت (عقبۃ الکبریٰ) میں رہے اور مبایعین اوس و خزرج سے مخاطب ہو کر فرمایا: آپ لوگ میرے برادر زادہ کو تو اپنے ہاں لے جا رہے ہیں مگر اپنی عورتوں اور بچوں کی طرح ان کی پاسداری ہو سکے تو انہیں شوق سے مدینہ لے جائیے، ورنہ انہیں ان قبیلہ میں ہی رہنے دیجئے۔ جس طرح بنو ہاشم نے پہلے ان کی حفاظت میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی تھی آئندہ بھی انہیں اس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ آج حضرت عباسؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرابت داری، آپ کے حسن و کردار اور اسیر بدر ہونے کے دوران میں خود پر حسن مراعات کی وجہ سے ایک خط میں اطلاع دی جس میں قریش کا تازہ جنون، ان کے لشکر کی تعداد اور سامان جنگ کی پوری تفصیل قلم بند فرما کر ایک غفاری ہرکارہ کے ہاتھ مدینہ بھیجی جو مکہ سے چل کر تیسرے روز مدینہ جا پہنچا۔ قریش کی بربریت: کفار کا لشکر مقام ابوا پر آ پہنچا (جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا مزار ہے) تو جوش انتقام میں بھرے ہوئے قریش کے چند کوتاہ اندیش نوجوان جناب آمنہ کے مزار کی بے حرمتی پر آمادہ ہو گئے۔ انہیں ان کے سربراہوں نے یہ کہہ کر روک دیا کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اس سے عرب میں ایک وبا پیدا ہو جائے گی۔ بنو بکر اور بنو خزاعہ موقع پا کر ہمارے مردوں کی قبریں کھود کر رکھ دیں گے۔ اس پر وہ لوگ اپنے ارادے سے دستبردار ہو گئے۔ قریش کا احد میں پڑاؤ: قریش ابوا سے کوچ کرتے ہوئے (مقام) عقیق میں آ پہنچے اور احد پہاڑی کے دامن میں ایک ہموار میدان میں پڑاؤ ڈال کر جم گئے۔ یہ مقام مدینہ سے پانچ میل کی مسافت پر ہے۔ حضرت عباسؓ کی ہرکارہ کی باریابی: ادھر سیدنا عباسؓ کا غفاری ہرکارہ مدینہ میں آ پہنچا ۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد قبا میں دروازہ پر اپنے مرکب پر سوار ہونے کو تھے (قبا مدینہ سے چھ میل باہر ایک ملحقہ بستی ہے:م) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط کعب بن مالک سے پڑھوا کر سنا اور اس سے راز داری کی تاکید فرما کر خود (مدینہ میں) سعد بن ربیع کے ہاں تشریف لائے۔ انہیں خط کے مضمون سے آگاہ کیا اور ان سے بھی راز داری کی تاکید فرمائی لیکن سعد کی اہلیہ نے بالا خانہ میں بیٹھے ہوئے سن لیا اور ضبط نہ کر سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب انس و مونس (ابنائے فضالہ) کو قریش کی جاسوسی کے لیے بھیجا اور ان کی واپسی پر حباب بن منذرؓ (بن الجموح) کو پہلے دونوں بھائیوں نے قریش کے گھوڑے اور شتر مدینہ کے کھیتوں میں چرتے ہوئے دیکھنے کی اطلاع پیش کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر جناب عباسؓ کے خط کی تصدیق سے انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے۔ اسی طرح دشمن کا جائزہ لینے کے لیے حضرت سلمہ بن سلامہؓ نکلے اور قریش کے ایک دستہ کو شہر سے اس قدر قریب دیکھا جیسے ذرا دیر بعد شہر کے اندر داخل ہونے کو ہیں۔ سلمہ بھاگے ہوئے آئے اور مسلمانوں کو ان کے کوائف سے آگاہ کیا۔ ان خبروں سے قبیلہ اوس و خزرج کے مسلمان اور دوسرے لوگ آنے والی جنگ سے بے حد متاثر ہوئے کہ عرب کی تاریخ میں آج تک کسی جنگ کے لیے ایسی تیاری سننے میں نہ آئی تھی۔ قریش پوری قوت اور لشکر جرار لے کر حملہ آور ہونے کو ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے بے شمار مسلح مسلمان مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں رات بھر پہرے پر رہے اور مسلمانوں کا ایک دستہ تمام شب شہر کی حفاظت کرتا رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسروں سے مشاورت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح ہوتے ہی مسلمانوں کے ساتھ ان لوگوں کے اہل الرائے کو بھی طلب کر لیا جو خود کو مسلمان ظاہر کرتے اور قرآن انہیں انہی باتوں کی وجہ سے منافق سے نامزد کرتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ دشمن کی مدافعت کے لیے ایک متفقہ رائے قائم کر لی جائے اور سب سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی کہـ 1۔ مہاجرین قریش شہر سے باہر نگرانی کریں۔ 2۔ اہل مدینہ شہر میں قلعہ بند ہو کر موقع کے منتظر رہیں تاکہ دشمن کے حملہ پر مدافعت کی جا سکے۔ راس المنافقین عبداللہ کی رائے: عبداللہ (بن ابی سلول) نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیشہ سے اس شہر کے رہنے والوں نے مدینہ کی حفاظت اس طریق سے کی ہے: الف۔ عورتوں اور بچوں کو کسی محفوظ قلعہ میں بند کر کے ان کے چاروں طرف پتھروں کے ٹکڑے جمع کر دئیے۔ ب۔ شہر کے باہر فصیل کھڑی کر کے نگرانی کے لیے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چوکیاں تعمیر کر دیں۔ ج۔ اگر دشمن نے ہلہ ہی بول دیا ہے تو ادھر عورتیں اور بچے پتھراؤ کرنے لگے اور د۔ ادھر سے مراد تلواریں سونت کر پل پڑے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مدینہ کی مثال اس زن باکرہ کی سی ہے جس کی بکارت کبھی زائل نہ ہوئی۔ آج تک کسی دشمن نے ہم پر فتح حاصل نہیں کی لیکن ہم لوگ جب بھی شہر میں رہ کر دشمن کے مقابلہ پر آئے کبھی ناکام نہیں ہوئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! حملہ آوروں کو ان کے حال پر چھوڑ کر میری تجاویز پر عمل کیجئے۔ مدینہ کی حفاظت کے یہ داؤں مجھے اپنے بزرگوں سے ترکہ میں ملے ہیں اور میرے دور کے داناؤں نے بھی مجھے یہی بتایا ہے۔ 3۔ مہاجرین و انصار بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رائے سے متفق تھے کہ شہر میں بند رہ کر دشمن کی مدافعت کی جائے۔ 4۔ جو گروہ کھلے میدان میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے بے قرار تھا اس میں دو قسم کے لوگ تھے۔ الف۔ وہ نوجوان جو بدر کی شوکت سے محروم رہ گئے تھے اور اب موقع غنیمت سمجھ کر داد شجاعت دینے کے لیے سرگرم تھے۔ ب۔ وہ شیر بیشہ دلاور جنہیں بدر میں بھی شرکت کا موقع مل چکا تھا اور معرکہ کار زار میں ذات باری کی بر وقت نصرت نے جن کے حوالے پہلے سے بڑھا رکھے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ دنیا کی کوئی قوت ان پر غالب نہیں آ سکتی۔ یہ حضرات شہر میں بند ہونے کو بزدلی پر محمول کرتے کہ اس سے دشمن کو ہماری بزدلی کا یقین ہو جائے گا۔ اس گروہ کا خیال تھا کہ بدر کے موقع پر اپنے شہر سے دور ہونے کے باوجود ہم نے قریش پر فتح حاصل کر لی اور آ ج تو ہم اپنے شہر سے قریب تر ہیں۔ احد ہمارے شہر کا سوانا ہی تو ہے۔ اس کے نشیب و فراز ہمارے دیکھے بھالے ہیں نہ کہ دشمنوں کے! اور اس گروہ کے ایک نوجوان نے اپنی تقریر میں عرض کیا: مجھے یہ گوارا نہیں کہ وہ (قریش) یہاں سے واپس لوٹ کر کہیں کہ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ڈر کر یثرب اور اس کے قلعوں میں دبک گئے۔ شہر میں ہمارے بند ہو جانے سے دشمن کی جرأت اور بھی زیادہ ہو جائے گی۔ دوستو! جن دشمنوں نے ہمارے کھیت اور پھل اور پودے تاراج کر دئیے ہیں اگر ہم نے انہیں اپنے باغات کی بربادی سے نہ روکا تو ان درختوں کا پھل ہمیں کیسے نصیب ہو گا؟ ہمارا دشمن بدر کی شکست کے بعد ایک سال تک دوڑ بھاگ میں لگا رہا تب جا کر مٹھی بھر عرب اور ان حبشی غلاموں کو اپنے ہمراہ لانے میں کامیاب ہوا۔ قریش کی یہ جرأت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے اسپ اور شتر ہمارے شہر کے سوانے میں لے آئے! آپ لوگوں کو پسند ہے کہ وہ ہمیں شہر اور قلعوں میں بند کر کے خود زخم کھائے بغیر واپس لوٹ جائے اور یہ بات مشہور کرے کہ ہم نے مسلمانوں کو قلعوں میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارے خلاف دشمن کے حوصلے کس قدر بڑھ جائیں گے؟ وہ آئے دن اسی طرح ہمارے سرسبز و شاداب کھیت برباد کرتے رہیں گے ۔ کبھی کسی طرف سے ہمیں نرغہ میں لینے کی کوشش کریں گے، کبھی کسی جانب سے آ کر ہمیں گھیر لیں گے۔ ان کے جاسوس انہیں ہر وقت ہماری خبریں پہنچایا کریں گے اور ہمارا شہر ان کی گھات سے کبھی محفوظ نہ رہے گا۔ حتیٰ کہ ایک نہ ایک دن قریش ہم پر غالب آ جائیں گے۔ اس تقریر نے مسلمانوں کی ہمت اور ولولہ شہادت کو از سر نو بیدار کر دیا۔ ہر شخص کی زبان پر یہی نعرہ تھا۔ جو حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے، جن کے دل اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار تھے، خدا کی کتاب اور حساب آخرت پر یقین تھا، جنہیں اپنے اس کینہ توزجفا پیشہ دشمن کی ناکامی کا پورا بھروسہ تھا کہ ہماری تلواریں دشمن کی تکا بوٹی اڑا دیں گی اور اگر ان میں سے دس پانچ سلامت رہ گئے تو ہماری ہیبت سے تتر بتر ہو جائیں گے اور ہم میں سے جو مسلمان شہید ہو گا اسے جنت ملے گی جس کا وعدہ ایسے لوگوں کو دیا گیا ہے۔ ان الذین قالو ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملئکۃ الا تخافو ولا تحزنو وابشرو بالجنۃ النتی کنتم توعدون نحن اولو کم فی الحیوۃ الدنیا وفی الاخرۃ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون1؎ (31-30:41) بے شک جن لوگوں نے اللہ کی وحدانیت کا زبان سے اقرار کیا اور اس پر سدا قائم رہے، رحمت الٰہی کے فرشتے ان کے پاس یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ اب تمہیں کوئی خوف و ہراس نہ ہو گا بلکہ تمہارے لیے اس جنت کی بشارت ہے، جس کا تم سے ایمان لانے کے بدلے میں وعدہ کیا گیا تھا (اللہ کی طرف سے یہ انعام بھی ہے) کہ دنیا اور عقبیٰ میں ہم تمہارے ولی ہیں اور اس جنت میں تمہاری ہر خواہش پوری ہو گی۔ ان نوجوانوں کے دلوں میں یہ خیال بھی گدگدا رہا تھا کہ آج کے شہیدوں کی جنت میں اپنے ان بھائیوں سے بھی ملاقات ہو گی جو کل بدر میں دشمن کے ہاتھ سے جام شہادت پی کر ابدی نیند سو گئے۔ یہ ملاقات اس جنت میں ہو گی جہاں: لا یسمعون فیھا لغواً ولا تاثیماً الا قلیلا سلما سلما (26-25:56) جس (جنت میں) ایک دوسرے کے متعلق سلامت باشید کے سوا بے سود اور گناہ کی بات زبان پر آئے ہی گی نہیں۔ مرد معمر خیثمہ کی تقریر عسی اللہ ان یظفرنا بھم او تکون الاخریٰ الشھادۃ لقد اخطاتنی وقفۃ بدروکنت علیھا حریصاً حتیٰ بلغ من حرصی علیھا ان ساھمت ائنی فی الخروج فخرج سھمہ فارزق الشھادۃ وقدرایت ابنی البارحۃ فی النوم وھو یقول الحق بنا تر افقنا فی الجنۃ فقد و جدت ما وعدنی ربی حقا وقدو اللہ یا رسول اللہ اصبحت مشتاقا الی امرافقۃ فی الجنہ وقد کبرت سنی ورق عظمی واحییت لقاء ربی۔ امید ہے کہ اللہ ہمیں فتح یاب کرے۔ یا شہادت ہی نصیب ہو، جس شہادت سے میں بدر میں محروم رہ گیا ہوا ہوں۔ میں بدر میں شرکت سے دستبردار ہونے پر راضی نہ تھا۔ اور میرا فرزند (سعد) بھی اس پر مصر تھا۔ آخر دونوں نے قرعہ اندازی کی۔ میری فرزندت کی قسمت بیدار ہو گئی اور وہ اس معرکہ میں شہید ہو گیا۔ 1؎م: مصنف علام نے آیات کے مضمون کو بڑے دل کش انداز میں سمو دیا ہے مگر جہاں بھی مشاہدہ حق کی گفتگو چل نکلے بادہ و ساغر کی حکایت کے بغیر سرور نہیں بڑھتا اس لیے راقم نے ترجمہ کی بجائے آیت سے محفل کو گرمانا چاہا۔ اسی شب رویا میں اس نے مجھ سے کہا خدا نے ہمارے ساتھ جو وعدے کیے تھے ہم نے سب پورے ہوتے دیکھ لیے آپ بھی ہمارے ساتھ آ کر جنگ میں رہیے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بخدا! میں اسی لمحہ سے اپنے فرزند کے ساتھ جنت میں رہنے کے اشتیاق میں بیٹھا ہوں۔ یوں بھی بوڑھا ہو گیا ہوں، میری ہڈیوں میں دم نہیں رہا۔ اب میں اپنے رب سے ملاقات کو زیادہ پسند کرتا ہوں (اور حضرت خیشمہ احد میں فائز بہ شہادت ہوئے) (اصابہ نمبر:230-4:م) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان میں مقابلہ کرنے والوں کی اکثریت دیکھ کر اپنی اسی رائے کو پھر دہرایا کہ مجھے تمہاری شکست کا خطرہ ہے لیکن اس پر بھی لوگوں کا اصرار کم نہ ہو سکا جس کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثریت کی رائے پر عمل ضروری سمجھا کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نظام حیات مربوط رکھنے کے لیے شوریٰ کے فیصلہ پر توجہ کرنا زیادہ پسند فرماتے، الا اس صورت میں کہ خدا کی طرف سے وحی نازل ہو جس پر عمل کرنے میں صرف اپنی رائے کو سب پر ترجیح دیتے۔ اور احد کی تیاری: جمعہ کا دن تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز (جمعہ) پڑھ کر فرمایا مسلمانو! اگر تم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا تو تمہاری ہی فتح ہو گی اور مسلمانوں کے لیے تیاری کا فرمان صادر فرمایا۔ نماز عصر ادا کرنے کے بعد اپنے ہمراہ ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں کو لے کر دولت خانہ پر تشریف لائے، ان دونوں حضرت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمامہ باندھنے میں (آپ کی) مدد کی، زرہ پہنوائی اور تلوار حمائل کی اور جب تک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دولت خانہ میں رہے مسلمان قلعہ بندی یا میدان میں مقابلہ دونوں امور پر گفتگو کرتے رہے۔ اسید بن حضیرؓ اور سعد بن معاذؓ نے جو قلعہ بندی کے حامی تھے دوسرے گروہ سے کہا: آپ لو گ دیکھ رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قلعہ بندی چاہتے ہیں۔پھر بھی آپ حضرات کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میدان میں نکلنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مقدم سمجھی جائے اور جو کچھ حکم فرمائیں آپ بلا عذر اس کی اطاعت کریں۔ قلعہ بندی کا خلاف گروہ بہت پریشان تھا۔ انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ مبادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے جرم میں ان کے خلاف کوئی آیت نازل ہو۔ جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زدہ پہن کر باہر تشریف لائے ان لوگوں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارا مقصود آپ کی مخالفت کرنا نہیں۔ آپ قلعہ بند رہ کر مدافعت پر کاربند ہوں یا میدان میں صف آرائی کا حکم فرمائیں، ہم اطاعت کے لیے حاضر ہیں۔ خداکے بعد آپ کا فرمان ہمارے لیے واجب العمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! جب میں نے آپ لوگوں کو مشورہ دیا تو انکار کر دیا گیا لیکن کسی نبی کے شایاں نہیں کہ زرہ پہن لینے کے بعد دشمن کا مقابلہ کیے بغیر زرہ بدن سے اتارے۔ اب تم میرے حکم پر عمل کرو کہ اگر تم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا تو تمہاری ہی فتح ہو گی۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شوریٰ کی بنیاد رکھی جس پر نظام کی تعمیر کا انحصار ہے کہ جس مسئلہ کو بحث و تمحیص کے بعد طے کر لیا جائے اسے کسی رائے کے خلاف ہونے کی بناء پر مسترد نہیں کیا جا سکتا، بلکہ طے شدہ مشورہ پر عمل کیا جائے، اس کے نفاذ میں تعجیل اور اس کے نتیجہ کا انتظار مد نظر ہو۔ روانگی اور جنگ میں غیر مسلم گروہ کا امداد سے انکار: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء کو ہمراہ لے کر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے احد کی طرف کوچ فرمایا۔ مقام شیخین پر پہنچے تو وہاں ایک دستہ پہلے سے پڑاؤ ڈالے پڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ ابن ابی (منافق) اور یہود کے حلیف ہیں جو مسلمانوں کی نصرت کے لیے نکلے ہیں، فرمایا: لا یستنصر باھل الشرک علی اہل الشرک مالم یسلموا۔ مشرکوں کے ایک گروہ کے خلاف جنگ میں اسلام کی رو سے دوسری قسم کے مشرکوں کی امداد کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک ایسے لوگ تہ دل سے مسلمان نہ ہو جائیں۔ یہود کا یہ دستہ مدینہ واپس لوٹ گیا۔ راستے میں انہیں ابن ابی اور اس کا دستہ ملا۔ انہوں نے ابن ابی سے گلہ کیا: کہ آپ نے تو انہیں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوات اللہ علیہ) بہتر مشورہ دیا، اپنے بزرگوں کی رائے بتا دی۔ پہلے وہ آپ کی رائے سے متفق ہو گئے، لیکن بعد میں اپنے ناتجربہ کار نوجوان کی بات مان کر ان کے ہمراہ میدان میں جا پہنچے۔ ابن ابی نے کہا آپ لوگ صحیح کہتے ہیں میں ہی جا کر کیا کروں گا! اور اپنا دستہ واپس لے آیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف خالص مومنین رہ گئے۔ ان کی تعداد سات سو تھی اور وہ مکہ کے ان تین ہزار کینہ توز قریشیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ جو بدر میں انہی لوگوں سے شکست کھا کر فرار ہوئے اور آج نئے سرے سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے میدان میں اتر آئے۔ فریقین کی صف آرائی: مسلمان قدم بڑھاتے ہوئے احد میں آ پہنچے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف صف آرائی فرمائی کہ فوج کی پشت پہاڑ کے اس سمت میں رہے جس سمت میں درہ ہے، مبادا دشمن عقب سے حملہ آور ہو۔ اس درہ پر پچاس تیر اندازوں کا دستہ متعین کرنے کے بعد انہیں یہ ہدایات فرمائیں: مبادا دشمن ادھر سے حملہ آور ہو، آپ لوگ ان کے ساتھ جو برتاؤ کریں اسی موقع پر متعین رہتے ہوئے کیجئے۔ اگر ہم دشمن کے قدم اکھاڑ دیں تب بھی آپ محاذ نہ چھوڑیں۔ اگر دشمن ہمیں پامال کرتا ہوا نظر آئے تو بھی ہماری نصرت کے لیے آنے کی بجائے یہیں سے ان کے گھوڑوں پر تیر برساتے رہیے۔ گھوڑے تیروں کے سامنے نہیں جمتے۔ اس کے بعد آپ صفوں کی طرف لوٹے اور انہیں صرف ایک تاکید فرمائی جب تک میں حکم نہ دوں کوئی شخص اپنا حربہ استعمال نہ کرے۔ قریش کی صف آرائی میں عورتوں کا حصہـ: اہل مکہ نے اپنی صفیں اس طرح بنائیں میمنہ پر خالد بن ولید کو مقرر کیا، میسرہ پر عکرمہ بن ابوجہل کو متعین کیا۔ لشکر کا علم عبدالعزیٰ طلحہ بن ابو طلحہ کی سپردگی میں دیا اور سب سے بڑے مورچے کی کمان عورتوں کے ہاتھ میں ہے جن میں سے کسی کے ہاتھ میں دف ہے کوئی طبل لیے ہوئے ہے۔ ہر ایک عورت سولہ سنگھار کیے ہوئے اٹھلاتی، کبھی اس قطار کے آگے اور کبھی اس صف کے پیچھے۔ ان کی سپہ سالار اعظم ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ ہے۔ قریش کے زنانہ لشکر کا اسلحہ رجزیہ اشعار تھے جس کا ایک بند یہ ہے: وبھا بنی عبدالدار ویھا حماۃ الادبار ضرباً بکل بتار ان تقبلوا نعائق ونفرش النمارق او تدبروا نفارق فراق غیر وامق ہماری طرف دیکھو۔ ہم زہرہ اور مشتری کی کوکھ سے پیدا ہونے والیاں ہیں۔ نرم قالینوں پر ناز و نزاکت سے اٹھلانے والی! آج اگر تم نے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کیا تو کل ہم تمہیں اپنے سینے سے چمٹا لیں گی اور اگر تم پیچھے ہٹ گئے تو ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہ رہے گا۔ اسی طرح فریقین کے اکابر و اعاظم اپنے اپنے لشکروں کے دل بڑھاتے قریش بدر کی شکست کے حزنیہ اور اپنے چودہریوں کے قتل کے المیہ سے لشکر کو ابھارتے مگر مسلمانوں کے دلوں میں صرف خدا کی محبت اور نصرت کا سہارا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو خطبہ دیا اس میں بھی یہی فرمایا کہ اگر تم نے صبر و استقامت کا ثبوت دیا تو فتح تمہاری ہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوارپیش فرمائی: اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار میان سے نکال کر آگے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا: مسلمانو! تم میں سے کون بہادر اس تلوار کا حق ادا کر سکتا ہے؟ کئی مسلمان آگے بڑھے مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کی درخواست منظور نہ فرمائی۔ جناب ابو دجانہؓ ابودجانہ (سماک بن خرخشہ) عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تلوار کا کیا حق ہے؟ فرمایا اس تلوار کا حق یہ ہے کہ دشمن کے ٹکڑے بکھیرتی ہوئی خم کھا جائے۔ مرد شجاع ابو دجانہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر ہی سے سر پر وہ سرخ پٹی باندھ کر نکلے (جسے عرب میں موت کا تسمہ کہا جاتا ہے) انہوں نے ایک ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھا دوسرے ہاتھ سے سر کی پٹی کو مضبوطی سے کس لیا اور فاخرانہ چال سے قدم اٹھاتے ہوئے دشمن کی طرف بڑھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی چال پر فرمایا ایسے موقع کے سوا یہ انداز خدا کو قطعاً نا پسند ہے۔ احد میں قریش کا پہلا مبارز: مدینہ کا رہنے والا قبیلہ اوس کا فرد ابو عامر (عبد عمرو بن صیفی الاوسی) اسی غرض سے چل کر مدینہ سے مکہ پہنچا کہ آؤ سب مل کر (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں۔ وہ بدر کے معرکہ میں شریک نہ ہوا تھا۔ اس کی کمان میں اپنے قبیلہ (اوس) کے پندرہ شمشیر زن تھے اور اہل مکہ کے چند غلام۔ ابوعامر نے یہ گرہ باندھ رکھی تھی کہ جونہی وہ میدان میں آ کر مسلمانوں کو مبارزت کرے گا، لشکر اسلام سے اس کے قبیلہ داران اوس لپک کر اس کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے اور سب مل کر قریش کو فتح یاب کر دیں گے۔ ابو عامر نے بآواز بلند پکارا اے برادران اوس! دیکھو میں تمہارا بھائی ابو عامر ہوں۔ اوس کا جواب: ارے بد اطوار! ہم تجھے خوب پہچانتے ہیں۔ خدا تیری مدد نہیں کرے گا! اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ عکرمہ بن ابوجہل نے کہ (لشکر کفار کے) میسرہ پر تھے اپنے غلاموں کا دستہ لے کر مسلمانوں کے ہر اول (مقدمتہ الجیش) پر حملہ کیا، جسے کلمہ گویان توحید نے صرف پتھراؤ سے ناکام بنا دیا۔ عکرمہ کے ساتھ ابو عامر (مذکور) بھی پیٹھ دکھا کر لوٹ گیا۔ شید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب شیر ببر کی طرح گرجتے ہوئے رن میں نکلے کہ جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے اور لشکر کفار کے قلب میں شگاف کرتے ہوئے کئی کافروں کو فی النار کر کے دم لیا۔ ادھر طلحہ بن ابو طلحہ نے مبارزت کی ڈینگ ماری۔ علی بن ابی طالبؓ بڑھے۔ کچھ دیر دونوں ایک دوسرے پر وار کرتے اور بچاتے رہے۔ علیؓ کے آخری حملہ نے طلحہ کی کھوپڑی میں شگاف ڈال دیا۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند نعرۂ اللہ اکبر بلند کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کے ساتھ مسلمانوں نے اپنی آواز ملا کر سعادت دارین حاصل کی جس سے مسلمانوں کے قدم مضبوط ہو گئے۔ ابو دجانہؓ کی شجاعت: اتنے میں ابو دجانہؓ نکلے۔ ہاتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ شمشیر اور سر پر موت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ کافروں میں سے جو زد میں آ گیا زمین پر لوٹنے لگا۔ (ابودجانہؓ) مشرکین کو قتل کرتے ہوئے ان کے قلب میں در آئے۔ اتفاق سے ایک ایسے انسان پر نظر پڑی جو دوسرے انسان کے اعظاء قطع کر رہا تھا۔ ابودجانہؓ نے تلوار اٹھائی ہی تھی کہ بے رحم قاتل نے واویلا شروع کر دیا۔ غور سے دیکھا تو ابو سفیان کی بیوی ہندہ (بنت عتبہ) ہیں۔ ابودجانہ اس خیال سے واپس لوٹ آئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کو عورتوں پر آزمانا زیبا نہیں۔ قریش مکہ کے تمام سرغنے بدر کی بھینٹ ہو چکے تھے۔ آج انہوں نے خدا کے نبی کے ساتھ ایک اور جنگ چھیڑ دی۔ (واضح رہے) کہ بدر کی طرح اس جنگ میں بھی طرفین کی تعداد و سامان میں کوئی توازن تھا نہ دونوں کے مقاصد میں یکسانیت۔ ایک گروہ جذبہ انتقام سے مشتعل اور دوسرا فریق اپنے ایمان و اعتقاد کے لیے دشمنوں کی مدافعت اور وطن کی حفاظت کے لئے سربکف۔ انتقام کے دیوانے مسلمانوں کے مقابلہ میں قوت اور تعداد ہر ایک میں فائق، جن کے اس وصف کا مقابلہ کرنے کی مسلمانوں میں ذرہ برابر سکت نہ تھی۔ کہ اہل مکہ کے ہمراہ لولیان قریش سولہ سنگھار کیے ہوئے ہیجان انگیز نغمہ و سرود سے اپنے لشکر کو ابھار رہی تھیں اور ان میں کئی ایک نے اپنے غلاموں سے انعام و اکرام کے وعدے کر رکھے تھے۔ قریش کی انہی مہ و شوں میں کسی نے اپنا حقیقی بھائی بدر کی بھٹی میں جھونک دیا تھا، کسی کا خاوند اس لاوے میں بہہ چکا تھا، کسی کا باپ اس چتا میں بھسم ہو گیا تھا اور بدر میں جن مسلمانوں کی شمشیر خارا شگاف قریش کے اکابر کے قلب و جگر میں پیوست ہو کر ان کی ہلاکت کا سبب ثابت ہوئی ان (مسلمانوں) میں عرب کے سب سے بڑے دلاور حمزہ بن عبدالمطلبؓ ہیں جن کی ضربت سے ان مہ لقاؤں کی سردار ابو سفیان کی اہلیہ ہندہ کا باپ عتبہ مارا گیا۔ عتبہ کے ساتھ ہی ہندہ کا ایک بھائی اور چند عزیز بھی اپنی اپنی کرنی کا پھل بھوگ کر اوندھے منہ قلیب بدر میں پڑے ہوئے تھے۔ حمزہؓ، اسد اللہ و سیف اللہ، آج احد میں اپنی ہاشمیانہ ہیبت کے سائے میں دشمنوں کو موت کے پہلو میں دھکیل رہے تھے کفار کا مشہور شمشیر زن ارطاۃ بن عبد شرجیل بھی حمزہؓ کے ہاتھ سے ختم ہوا۔ سباع بن عبدالعزیٰ (الغبشانی) انہی کی تلوار سے کیفر کردار کو پہنچا۔ جس کافر پر حمزہؓ کی تلوار کا سایہ پڑتا اس کی روح جواب دے کر ایک طرف چلی جاتی۔ سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی شہادت: بدر یں جبیر بن مطعم قرشی کے چچا اور ہندہ زوجہ ابوسفیان کے باپ انہی حمزہؓ کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے۔ جبیر نے اپنے حبشی غلام سے جس کا نام وحشی تھا معاملہ کیا کہ اگر تم حمزہؓ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ اسی وحشی سے دوسری معاملت ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ نے جن کا باپ بدر ہی میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھ سے مارا گیا تھا کہ اگر تم حمزہؓ کو قتل کر دو تو میں تمہیں سیم و زر سے لاد دوں گی۔ سید الشہداء حمزہؓ اسی وحشی (غلام حبشی) کے ہاتھوں شہید ہوئے جس کی داستان بدنصیب وحشی نے (اسلام لے آنے کے بعد) یوں بیان کی ہے: سید الشہداء کے قتل کی داستان وحشی کی زبانی: مجھے بھی احد میں قریش کے ساتھ خروج کرنا پڑا ۔ میں حبشیوں کے مشہور حربہ (نیزہ) کا استعمال اس طریق سے جانتا تھا کہ میرا نشانہ کبھی خطا نہ کرتا۔ جب احد میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تب میں بھی اپنے شکار کی تاک میں نکل آیا۔ حمزہؓ کی رنگت گندم گوں تھی۔ میں نے بھیڑ میں بھی انہیں شناخت کر لیا۔ اس وقت (وہ) قریش کے قلب میں دراتے ہوئے ہر طرف کشتوں کے پشتے لگا رہے تھے۔ میں نے اپنا نیزہ تول کر ان کی طرف پھینکا جو ان کی ناف میں پیوست ہو کر پار ہو گیا۔ حمزہؓ نے مجھے دیکھ لیا وہ میری طرف بڑھے مگر گر پڑے۔ میں نے ان کے ٹھنڈے جسم سے اپنا نیزہ کھینچ لیا اور ان کی موت کا یقین آ جانے پر اپنے پڑاؤ میں آ کر بیٹھ گیا۔ میری شرکت کا مقصد حمزہؓ ہی کو قتل کرنا تھا جس کے بعد مجھ پر کوئی ذمہ داری نہ رہی۔ یہ بھی میں نے اپنی آزادی کے لیے کیا اور جب ہم واپس مکہ پہنچے تو مجھے آزاد کر دیا گیا۔ قزمان منافق کی وطن سے مدافعت: ادھر وطن پر سے حملہ کی مدافعت کرنے والوں میں ایک شخص قزمان نام جو منافق تھا اور صرف ظاہری طور پر اسلام کا اقرار کرتامسلمانوں کے ساتھ نہ آیا تھا ۔ جب اس دن کی صبح ہوئی تو عورتوں نے قزمان سے کہا شرم نہیں آتی۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ گئے اور قوم کے دوسرے حضرات رزم گاہ میں جا پہنچے! قزمان عورتوں کی طعن و تشنیع سے پیچ و تاب کھا کر گھر میں داخل ہوا اور اپنے تیر و ترکش اور تلوار لے کر نکلتے ہی بنی۔ مرد دلیر تھا۔ احد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف بندی میں مصروف تھے قزمان آنکھ بچاتا ہوا صفیں چیر کر پہلی صف میں جا پہنچا اور سب سے پہلے قریش پر اسی نے تیر پھینکا۔ قزمان کے تیروں کے پھل نیزہ کی انی کی مانند دشمنوں کے جسم میں پیوست ہو جاتے اور جان کے سات باہر نکلتے۔ دوپہر تک اس نے کافروں کے کئی آدمی قتل کر دئیے لیکن تیسرے پہر ایک لمحہ میں دشمن کے ساتھ آدمیوں کو ڈھیر کرنے کے بعد قزمان نے خود کشی کر لی۔ جس وقت وہ موت کے سکرات میں مبتلا تو ابو الغیداق ادھر سے گزرے اور قزمان کو شہادت کی مبارک باد پیش کی۔ قزمان نے جواب دیا اے دوست! میری موت دین کی حمایت کی وجہ سے نہیں جو آپ مجھے اس فراخ دلی سے شہادت پر مبارک دے رہے ہیں۔ میں صرف اس جذبہ سے بے قرار ہو کر گھر سے نکلا کہ مبادا قریش ہمارے کھیت برباد کر دیں یا ہماری عورتیں ان کے ہاتھوں ذلیل ہوں، بخدا! میں صرف قومی عصبیت سے لڑنے کے لیے خود کو نثار کر رہا ہوں۔ اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو میں گھر سے کبھی نہ نکلتا۔ مسلمانوں کا ثبات قدم: مخلص مومنین احد میں سات سو سے زائد نہ تھے۔ پھر بھی یہ اقلیت اپنے سے چار گنا زیادہ تعداد کے مقابل میں صف آرا تھی۔ قریش کی اکثریت و ہمت ور فوج کے مقابلہ میں حمزہؓ و ابودجانہؓ نے جس ثبات قدم کا ثبوت دیا اس سے مسلمانوں کی معنوی قوت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ ان کے سامنے قوی ہیکل دشمن کی صفیں بید کی طرح لچک اٹھیں۔ وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق گھما رہے تھے۔ ان قریش کو جن کی شجاعت و دلاوری کے سامنے تمام عرب تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ان کی ہمت و جان نثاری کا اس سے اندازہ کر لیجئے کہ ان میں جونہی کسی کے ہاتھ سے علم گرنے کو ہوتا دوسرا بہادر لپک کر اس سے لے لیتا۔ قریش کا یہ قومی جھنڈا سب سے پہلے طلحہ بن ابو طلحہ پکڑے ہوئے تھا۔ جب علی ابن ابی طالبؓ نے اسے ٹھکانے لگا دیا تو فوراًعثمان بن ابو طلحہ نے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ یہ (عثمان) حمزہ بن عبدالمطلبؓ کے ہاتھوں کیفر کردار کو پہنچا تو ابو طلحہ مقتول مذکور کا ناخلف ابو سعد بڑھا اور علم ہاتھوں میں لیتے ہی فخر و غرور سے مسلمانوں کو پیغام مبارزت دیا۔ ابو سعد قرشی کی تقریر: کیا تم اس گھنڈ میں ہمارا مقابلہ کر رہے ہو کہ تمہارے قتیل جنت نشین ہوں گے اور ہمارے مردے دوزخ کا کندہ بنیں گے؟ بخدا تم غلطی پر ہو۔ اگر تمہارا یہ گمان صحیح ہے تو آؤ! تم میں سے کون مجھے قتل کر سکتا ہے۔ ابو سعد (قرشی) کے اس متکبرانہ بول پر ادھر سے سعد بن ابی وقاص بڑھے اور ایک ہی وار سے اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے کر کے اسے ڈھیر کر دیا۔ ابو سعد کے بعد قبیلہ عبدالدار کے نو شجاعت پیشہ یکے بعد دیگرے علم لہراتے ہوئے مقابلے پر ڈٹے رہے جن کا آخری شمشیر زن اسی قبیلہ کا حبشی غلام صواب نامی تھا۔ جب اس کا دایاں ہاتھ قزمان کی ضربت سے قلم ہو گیا تو اس نے علم بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ قزمان نے اس کا یہ ہاتھ بھی القط کر دیا تو صواب نے اپنی دونوں کہنیوں کے سہارے اسے سنبھالے رکھا۔ وہ زخموں کی شدت سے نڈھال ہو کر زمین پر گر پڑا مگر اس حالت میں بھی اپنے علم کی حرمت قائم رکھنے کے لیے اسے پشت کے نیچے دبائے پڑا رہا۔ مرتے ہوئے اس کی زبان سے یہ کلمہ نکلا اے بنو عبدالدار! صواب قزمان یا سعد بن ابی وقاص کی ضربت سے قتل ہوا ہے۔ قریش کی شکست: جب قریش میں کوئی علم اٹھانے والا آگے نہ بڑھا تو وہ شکست خوردہ ہو کر بھاگ نکلے۔ اس بھگڈر میں انہیں اپنی ان ماہ پارہ نازنینوں کا خیال بھی نہ رہا جو مکہ سے ان کے ساتھ (اپنے لشکر کو) معرکہ کار زار میں اپنے حسن و جمال کی گرمی سے مشتعل کرنے کے لیے آئی تھیں، جنہیں مسلمانوں نے اپنے نرغے میں لیا۔ اور تو اور وہ قریش اس تباہ حالی میں ان مہ پاروں کو بھی اپنے ہمراہ نہ لے جا سکے۔ قریش اپنے صنم کو بچانا بھول گئے: اہل مکہ جنگ میں جس معبود کی برکت حاصل کرنے کے لیے اسے کعبہ سے اٹھا لائے تھے اور وہ تنہا ایک ہودج میں برا جمان تھا، آہ! قریش کا یہ بے بس پروردگار بھی اس افراتفری میں اپنے نشیمن سے اوندھے منہ زمین پر آ گرا اور دوست و دشمن دونوں کی روند سے پامال ہوتا رہا۔ احد میں مسلمانوں کی فتح پر تبصرہ: غزوۂ احد میں مسلمانوں کی پہلی فتح ان کی حربی قابلیت کا وہ ناقابل انکار معجزہ ہے جسے بعض اہل نظر جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی مہارت سے تعبیر کرتے ہیں، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ایسے دستہ کو درہ کے ناکہ پر متعین فرما دیا جس کا ایک ایک فرد قدر اندازی میں بے مثل تھا۔ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حربی مہارت اسی درجہ کی تھی۔ یوں اگر اس ناکہ بنددستہ پر دو یا تین سو دشمن مل کر ہلہ بول دیتے تو ان کا ثابت قدم رہنا ممکن نہ تھا۔ لیکن کثرت کے مقابلہ میں جو قوت سب سے بڑی طاقت ہے، جس کے اجزاء میں فکر صحیح ہے، عقیدہ ہے اور خدائے برحق و برتر پر ایمان۔ ایسے لوگوں کی قلیل سے قلیل تعداد پر غالب آنا محال ہے۔ بشرطیکہ ان کا مقصد محض خدا طلبی ہو۔ یہی وجہ ہے جس کی بناء پر قریش کے تین ہزار شمشیر زن بہادروں نے سات سو مسلمانوں کے مقابلہ سے منہ پھیر لیا۔ نرغے میں آئی ہوئی قریش کی عورتوں کو باقاعدہ گرفتاری میںلانے کے لیے مسلمان تل ہی رہے تھے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ بھاگتے ہوئے دشمن کے تعاقب میں انہیں دور تک پہنچا آیا، مگر یہی دستہ واپس لوٹ کر غنیمت سمیٹنے میں لگ گیا جیسا کہ لشکریوں کی عادت ہے۔ گویا اس معاملہ میں مسلمان دشمن کی گھات سے بے فکر ہو کر دنیا کے لالچ میں مبتلا ہو گئے۔ اور لڑائی نے اپنا رخ بدل لیا: درہ کی ناکہ بندی پر جو دستہ متعین تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید فرما رکھی تھی کہ اگر دشمن ہمیں قتل بھی کر رہا ہو تو آپ لوگ اپنے مورچہ سے قدم نہ ہٹائیں۔ مگر درہ والوں نے جب یہ دیکھا کہ دوسرے مسلمان غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی دنیا کی محبت عود کر آئی۔ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا اب یہاں پہرہ دینے کی کیا ضرورت ہے؟دشمن شکست کھا کر بھاگ چکا ہے۔ مسلمان ان کے پڑاؤ میں گھس کر غنیمت لوٹ رہے ہیں۔ چلو ہم بھی ان کے ساتھ مل کر دشمنوں کا متروکہ مال جمع کریں۔ اس معاملہ میں دوسری رائے بھی تھی۔ دوسرے گروہ نے کہا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تاکید نہیں فرمائی کہ اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہوتا ہوا بھی دیکھیں تو یہاں سے قدم نہ ہٹائیں؟ پہلے گروہ نے جواب دیا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منشا نہ تھا کہ مشرکین کی شکست ہو جانے کے باوجود ہم اس جگہ کو نہ چھوڑیں۔ ہر شخص کی اپنی اپنی رائے تھی۔ آخر دستہ کے امیر جناب عبداللہ بن جبیرؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی روا نہیں اس پر بھی دس سے کم حضرات کے سوا بقیہ لشکری مورچہ چھوڑ کر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہو گئے۔ مسلمان دشمن کے نرغہ میں: مشرکین کے سپہ سالار خالد بن ولید نے دیکھا کہ درہ پر متعین دستہ کے اکثر سپاہی مورچہ سے ہٹ کر غنیمت کشی میں لگے ہوئے ہیں۔ خالد نے پہلے تو ان مسلمانوں کا صفایا کیا جو عبداللہ بن جبیر کے ہمراہ درہ کے ناکہ پر رہ گئے تھے اور دیکھا کہ غنیمت سمیٹنے والے مسلمانوں کی نظر خالد کے حملہ پر پڑی ہی نہیں تو ان پر بھی ہلہ بول دیا۔ جب ایک ایک مسلمان کے ہاتھ سے غنیمت کی ہر چیز رکھوا لی گئی تو قریش کو اس انداز سے بلایا جیسے اس نے مسلمانوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ مشرکوں نے بھی یہی سمجھا اور شکست خوردہ فوج غافل مسلمانوں پر پل پڑی۔ اب فتح یاب مسلمان دشمن کے نرغے میں تھے۔ ہر چند انہوں نے مال غنیمت پھینک کر تلواریں سونت لیں لیکن وقت گزر چکا تھا اور صف بندی ختم ہو چکی تھی اور مٹھی بھر مسلمانوں کو کفار کے اتنے بڑے لشکر نے گھیر لیا۔ افسوس یہ ہے کہ جو مسلمان ذرا دیر پہلے کلمتہ اللہ کی سرفرازی اور عقیدہ کی حفاظت کے لیے صف بندی اور ترتیب کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے ذرا دیر بعد ان کی صفیں تسبیح کے دانوں کی مانند بکھر گئیں۔ وہ موت کی دلدل میں پھنس گئے اور بربادی و ہلاکت کے چنگل میں آ کر دم توڑنے لگے۔ جو سپاہی ابھی ابھی ایک دور اندیش اور حوصلہ مند کی نگرانی اور ہدایت کے مطابق دشمنوں کے ساتھ نبرد آزمائی میں مصروف تھے۔ اس لمحہ میں انہیں اپنے قائد لشکر کی اتنی خبر نہ تھی کہ وہ کس جگہ پر ہیں۔ اس افراتفری میں خود مسلمان مسلمانوں پر وار کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی افواہ: ناگہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی آواز سننے میں آئی، مسلمانوں کے دل بیٹھ گئے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ اب فوج کا کوئی امیر نہیں رہا۔ فوج میں پہلے ہی سے انتشار تھا۔ مصیبتوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اگرچہ دشمن کا مقابلہ کیا جا رہا تھا لیکن سردار لشکر کی سربراہی کے بغیر۔ اس عجلت و ہراس میں مسلمانوں سے وہی کچھ ہوا جس کی توقع کی جا سکتی تھی، حتیٰ کہ مہاجرین کے ہاتھ سے ان کے ہم وطن حذیفہ کے والد حسیل (بن جابر) شہید ہو گئے جنہیں حملہ کے وقت شناخت نہ کیا جا سکا۔ ایسا نازک وقت آ پہنچا کہ چند مسلمانوں کے سوا جن میں علی بن ابی طالبؓاور ان جیسے کچھ اور لوگ تھے ہر مسلمان کو اپنی جان بچانے کی فکر دامن گیر ہو گئی۔ جونہی قریش کے کانوں میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی آواز پڑی اس مقام کی طرف سیلاب کی مانند امنڈ کر جا پہنچے جہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوج کی نگرانی فرما رہے تھے۔ کفار مکہ کا ارادہ یہ تھا کہ فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش و بینی قطع کر کے دوسروں پر انہیں فخر حاصل ہو۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے گھیرے میں جب کافروں کا لشکر امنڈ کر آ پہنچا تو قریب کے مسلمان دائرہ بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد کھڑے ہو گئے۔ ایمان از سر نو لوٹ کر ان کے روئیں روئیں میں بس گیا۔ اسی موت سے انہیں محبت ہو گئی جس کے خوف سے وہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ دنیا کی اس زندگی کی ہوس ان کے دل سے نکل گئی جس کے لیے وہ ذرا دیر پہلے دم توڑ رہے تھے۔ اور جب مسلمانوں نے دیکھا کہ قریش کے پھینکے ہوئے پتھروں سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ زخمی ہو کر دو دندان مبارک شہید ہو گئے ہیں۔ لبوں پر زخم آ گیا ہے اور خود کے دو حلقے رخساروں میں دھنس گئے ہیں تو مسلمان کی نظر میں دنیا اور بھی حقیر ہو گئی۔ ان کی قوت ایمان ہزار گنا بڑھ گئی۔ ہر شخص نڈر دلیر کی طرح موت کے ساتھ کھیلنے کے لیے آمادہ تھا۔ (یہ پتھر عتبہ بن ابی وقاص نے پھینکاتھا) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سے ہٹ جانا گوارا کر لیا اور جو مسلمان آپ کو حصار میں لیے ہوئے تھے ان کے ہمراہ وہاں سے آگے بڑھ گئے۔ ذرا اور چل کر اس کھائی میں گر پڑے جو ابو عامر نے مسلمانوں کی ہلاکت کے لیے کھود کر گھاس سے ڈھانک رکھی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرنے پر علی ابن ابی طالب نے فوراً ہاتھ پکڑ کر آپ کو سنبھال لیا اور طلحہ بن عبید اللہ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر کھائی سے باہر نکال لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ احد پر تشریف لے گئے جہاں دشمنوں کے تعاقب سے قدرتی طور پر حفاظت حاصل تھی۔ مسلمانوں کی سر فروشی: جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے ہتھیلی پر سر رکھ لیا تھا اور کسی حالت میں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف گوارا نہ تھی (انہوں نے) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حصار میں لے لیا۔ ام عمارہؓ کی بہادری یہ نیک نہاد بی بی انصار کے خاندان سے تھیں۔ دوپہر تک ان کا یہ مشغلہ تھا کہ اپنے مشکیزہ میں پانی بھر کر زخمی سپاہیوں کو پلاتی رہیں۔ یہ سماں (دوپہر کے بعد) دیکھا کہ مسلمان کفار کے نرغے میں آجانے کی وجہ سے اس حالت تک آ پہنچے ہیں تو مشکیزہ پھینک کر تلوار سونت لی اور قریش پر ٹوٹ پڑیں۔ تیر اندازی کا موقع آیا تو ان کے پاس کمان اور ترکش میں تیر بھی تھے۔ تیروں سے کفار کی تواضع فرمانے لگیں۔ اس طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو دشمنوں سے بچاتی ہوئی زخمی ہو کے گر پڑیں م: لیکن اللہ نے ان کی زندگی ایک اور غزوہ کی شرکت کے لیے باقی رہنے دی حتیٰ کہ مسلیمہ کذاب کے غزہ میں شہید ہوئیں۔1؎ ابو دجانہ کی پشت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سپر بن گئی: حضرت ابو دجانہؓ کی محبت قابل دید ہے۔ بلا انتظار اپنا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ جو تیر سرور کائنات کی طرف آتا وہ اسے اپنی پشت پر روک لیتے۔ اے سعد تجھ پر میرے ماں باپ نثار: جناب سعد بن ابی وقاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑے ہوئے دشمنوں پر تیر برسا رہے تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے انہیں تیر عنایت فرماتے اور زبان مبارک سے ارم فداک ابی و امی! فرماتے کہ اے سعد! تجھ پر میرے ماں باپ نثار ہوں۔ یہ لو تیر اور کافروں پر چلاؤ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیر اندازی: سعد بن ابی وقاص کے یہاں پہنچنے سے پہلے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شدت سے کافروں پر تیر پھینکے کہ کمان کا چلہ بھی ٹوٹ گیا۔ مسلمانوں میں سے جن لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہونے کا یقین ہو گیا ان میں ابوبکرؓ اور عمرؓ بھی تھے۔ جب یہ افواہ ان کے کانوں میں پہنچی تو گھبرا کر ایک طرف پہاڑ کے کنارے جا بیٹھے۔ یہاں انہیں حضرت انس بن نضرؓ نے دیکھا اور یوں بیٹھ رہنے کا سبب پوچھا تو جناب ابوبکرؓ و عمرؓ نے جواب دیا ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر حیران ہیں۔ انس نے کہا اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے ہیں تو آپ لوگ زندہ رہ کر کیا کریں گے؟اٹھئے جس مقصد کی غرض سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی ہے آپ لوگ بھی اس مقصد کے لیے زندگی نثار کر دیجئے۔ اس کے بعد ہرسہ حضرات دشمنوں پر پل پڑے۔ انس بن نضرؓ دشمنوں کے ڈھیر میں در آئے اور داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ مقتل میں ان کا سا واسطہ کسی کو نہ پڑا ہو گا۔ زخموں کی کثرت کی وجہ سے (انہیں) شناخت کرنا دشوار ہو گیا۔ آخر ان کی حقیقی بہن تشریف ائیں تو اپنے بھائی کی انگشت پر ایک نشان کی وجہ سے انہیں شناخت فرمایا۔ 1؎ اصابہ ابن حجر کتاب النسائ:م قریش کی دم بازی: دشمنوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی افواہ سے کس قدر خوشی حاصل ہوئی! ابو سفیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود گرامی کو مقتولین میں تلاش کرنے لگا۔ اس کے ہوا خواہوں کو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا یقین اس لیے بھی ہو گیا کہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسی آواز کانوں تک نہ پہنچ سکی جس سے وفات کی تکذیب ہوتی ہو۔ لیکن مسلمانوں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی وجہ سے آپ کی زندگی کی اطلاع نہ کی۔ دوسرے یہ کہ اس اطلاع سے کافر ہم پر ٹوٹ پڑیں گے اور ہمیں مغلوب ہونا پڑے گا۔ اتفاق سے حضرت کعب بن مالکؓ جب ابو دجانہؓ کے دستہ کی طرف سے آگے بڑھے تو ایک چہرۂ گرامی پر نظر پڑی جس پر خود کے نیچے دونوں آنکھیں نور برسا رہی تھیں۔ کعب نے پہچان لیا اور دفعتہ نعرہ لگایا۔ یا معشر المسلمین! ھذا رسول اللہ اے مسلمانو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زندہ تشریف فرما ہیں۔ کعب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر بھی ضبط نہ کر سکے۔ مسلمانوں میں جس کے کان میں یہ آوازپڑی چشم زدن میں کعب کی آواز کی جگہ پر آ پہنچا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما سے یہاں سے ہٹ کر ایک پہاڑی گھراؤ میں چلے آئے۔ اس مقام پر جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حصار میں رکھا ان میں دوسرے حضرات کے سوا جناب ابوبکرؓ و عمرؓ و علیؓ اور زبیر بن العوامؓ بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابی بن خلف کی مبارزت: قریش کو پہلے سے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا پورا یقین نہ تھا بلکہ وہ اسے مسلمانوں کی چال سمجھتے تاکہ ان کے طرف دار جان کی بازی لڑا دیں۔ قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے موت کا پیش خیمہ سمجھتے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر دھاوا بول دیا۔ا ن کے اس دستہ کے سپہ سالار ابی بن خلف (قرشی) تھے۔ وہ اپنے ہاتھ میں چھوٹی برچھی لے کر نکلے اور کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے کرو۔ اگر انہیں اپنا نجات دہندہ مطلوب ہے تو ان کی یہ تمنا میں پوری کر دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جناب) حارث بن الصمہؒ کے ہاتھ سے ان کا حربہ (نیزہ) لے کر ابی کی طرف پھینکا جس کی ضرب سے ابی گھوڑے کی زین ہی پر اوندھا ہو گیا۔ اس کا گھوڑا جس طرف سے آیا تھا خود بخود اسی راہ پر چل نکلا تاکہ ابی راستے میں بے یار و مددگار زندگی سے نجات حاصل کر سکے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ دندان مبارک: ادھر علی ابن ابی طالبؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں کا زخم دھویا۔ بقیہ پانی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک تر کیا۔ ابو عبیدہ الجراحؓ نے رخساروں سے خود کے حلقے کھینچ کر نکالے جن کے ساتھ سامنے کے دو دانت مبارک خود بخود اکھڑ آئے۔ قریش کا ایک اور حملہ: مسلمانوں کو اس طرح مصروف پا کر خالد بن ولید نے ایک اور حملہ کیا جس کا رخ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو ملا کر پھیر دیا مگر مسلمان یہاں سے ہٹنے پر بھی مجبور ہو گئے۔ اب وہ احد کے ایک بلند ٹیلے پر جا پہنچے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخموں کی شدت سے بیٹھ کر نماز ادا کرنے پر مجبور ہوئے اور مسلمانوں نے بھی آپ کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز ادا کی۔ ابوسفیان کا نعرہ: قریش اپنی فتح کے نشے میں اس طرح بدمست ہو گئے جیسے انہوں نے معرکہ بدر کا انتقام لے لیا ہو۔ اسی جوش میں ابوسفیان نے نعرہ لگایا۔ یوم بیوم والموعد العام المقبل آج بدر کا انتقام لے لیا گیا ہے اگلے سال ایک میدان اور ہو گا۔ ہندرہ زوجہ ابو سفیان کی درندگی (مسلمان نعشوں کا مثلہ) ابوسفیان کی اہلیہ (ہندہ) نے نہ تو فتح پر ہی قناعت کی نہ اپنے باپ کے قاتل (سیدہ حمزہؓ) کی شہادت سے اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوا۔ اس نے اپنی آتش غیظ بجھانے کے لیے جاہلیت کی بہیمانہ خصلت سے کام لیا۔ اس نے مسلمانوں کی لاشوں سے ایک ایک کے کان اور ناک کٹوائے۔ ان سے گلے کا ہار گوندھا۔ باقی اپنے کرن پھول میں پروئے،ا لامان! اس پر بھی غضب کم نہ ہوا۔ عم رسولؓ کا کلیجہ چبانا: جناب حمزہؓ کی لاش ڈھونڈوائی اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا مگر نگلا نہ جا سکا، اگلنا پڑا۔ اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ (ہندہ نے) اپنی سولہ سہیلیوں کے ساتھ مسلمانوں کی لاشوں کی توہین میں بھی بہت کچھ کیا۔ اور یہ سعادت قریش کی عورتوں ہی کے لیے مقدر نہ تھی، ان کے مردوں نے بھی جی کھول کر ارمان نکالے۔ البتہ ابوسفیان نے اس سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ بایں ہمہ اس نے کہا نہ تو انہیں میری طرف سے یہ ترغیب دی گئی اور نہ مجھے ان کا یہ فعل ناگوار گزرا۔ حتیٰ کہ ابو سفیان نے ایک مسلمان کے بالمواجہہ یہ بھی کہہ دیا کہ تمہاری لاشوں کے مثلہ کرنے میں خوش ہوں نہ بیزار۔ نہ میں نے اپنے ساتھیوں کو یہ حکم دیا اور نہ اس سے انہیں منع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار غم:ـ قریش اپنے مردے دفن کر کے مکہ واپس لوٹ گئے تو مسلمان اپنے شہیدوں کی لاشیں جمع کرنے کے لیے میدان میں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عم بزرگوار کی لاش ڈھونڈ رہے تھے۔ جونہی ان کا پیٹ چاک اور مثلہ دیکھا کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خدا نہ کرے دوبارہ ایسی مصیبت دیکھوں۔ آج تک میں ایسے صدمے سے دوچار نہ ہوا تھا! اور فرمایا اگر خدا نے مجھے ان پر غلبہ دیا تو میں ان کی لاشوں کا ایسا مثلہ کروں گا جو عرب کے لیے مثال بن جائے! اس پر یہ آیت نازل ہوئی: وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین واصبر وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون (127-126:16) (او مسلمانو!) دین کی بحث میں مخالفین کے ساتھ سختی بھی کرو تو ویسی ہی سختی کرو جیسی تمہارے ساتھ کی گئی۔ اور اگر (لوگوں کی ایذاؤں پر) صبر کرو تو بہرحال صبر کرنے والوں کے حق میں صبر بہتر ہے اور (اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! تم مخالفوں کی ایذاؤں پر) صبر کرو اور خدا کی توفیق کے بدوں تم صبر کر بھی نہیں سکتے اور ان (مخافوں کے حال پر) افسوس نہ کرو اور یہ لوگ جو تمہاری مخالفت میں تدبیریں بھی کیا کرتے ہیں ان سے تنگ دل نہ ہو۔ جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ارادہ ترک فرما دیا اور مسلمانوں کو بھی متنبہ فرما دیا کہ کبھی کسی کا مثلہ نہ کریں۔ شہدائے احد کی تدفین: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہؓ کے کفن میں اپنی رداء مبارک استعمال فرمائی۔ ان پر نماز جنازہ پڑھی۔ اتنے میں سیدہ صفیہ (بنت عبدالمطلب) کہ سیدنا حمزہؓ کی ہمشیر اپنے بھائی کے شہید ہونے کی خبر سن کر تشریف لے آئیں۔ وہ بھی انہیں اس حالت میں دیکھ کر ہکا بکا رہ گئیں۔ آخر دعائے مغفرت کرنے کے بعد حمزہؓ کو دفن کر دیا گیا اور اسی طرح مسلمانوں کے دوسرے شہیدوں کو بھی مقتل ہی میں دفن کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ہمراہ لے کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ (احد میں ستر مسلمان شہید ہوئے) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تشویش: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دولت خانہ میں تشریف لائے اور مختلف تصورات میں ڈوب گئے۔ کبھی خیال گزرتا کہ مدینہ کے یہود و منافق اور مشرکین کو ہماری شکست سے بہت خوشی ہوئی ہو گی۔ کبھی یہ کہ کل تک یثرب میں کوئی شخص مسلمانوں کے سامنے سرتابی نہ کر سکتا تھا اور یہ کہ عبداللہ بن ابی سلول اپنی جماعت کو اس لیے احد سے واپس لوٹا لایا کہ میں نے اس کی رائے پر عمل کیوں نہیں کیا کہ مدینہ ہی میں بند ہو کر دشمن کی مدافعت کی جائے۔ ابن ابی سلول کو ہم سے یہ گلہ بھی تو ہو گا کہ میں نے اس کے حلیف یہودی جرگہ کو شہر سے جلاوطن کر دیا۔ کبھی یہ خیال گزرتا کہ اگر مسلمان احد کی شکست کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے تو ظاہر ہے کہ میں اور میرے رفقاء سب کے سب اہل عرب کی نظر میں حقیر ہو جائیں گے۔ مدینہ میں ہمارا وقار ختم ہو جائے گا اور قریش اپنے فرستادے ملک میں بھیج کر ان کی زبان سے ہمیں خوب ذلیل کرائیں گے، ہم پر تمسخر اڑا کر ہمیں تمام عرب میں رسوا کریں گے! ہمارے خلاف ان طریقوں سے مشرکین اور بت پرستوں کی جرات سے قیامت برپا ہو جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ مستحکم فرما لیا کہ جس طرح ہو سکے احد کی شکست کا دھبہ صاف کر کے مسلمانوں کے اندر ایسی قوت کو ابھارا جائے جس کے رعب سے یہود اور منافقین کے حوصلے بڑھنے نہ پائیں اور اپنے رفقاء کے ساتھ پہلے کی طرح یثرب میں عزت و شان کی زندگی بسر کی جا سکے۔ احد کے بعد رسولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا فیصلہ: دوسرے روز (17شوال دو شنبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مناد نے ان مسلمانوں کو قریش کے تعاقب کے لیے پکارا جو احد میں شریک ہوئے تھے اور سب کے سب دشمن کے تعاقب میں روانہ ہوئے۔ حمراء الاسد: ابو سفیان نے بھی سن لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (جب) حمراء الاسد تک پہنچے تو ابو سفیان اس سے چند میل آگے روحاء (مقام) میں پڑاؤ ڈالے پڑا تھا (حمراء الاسد، مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے) معبد الخزاعی سے جو ادھر (حمراء الاسد) سے گزر کر روحاء میں پہنچا اور ابھی مشرف بہ اسلام نہ ہوا تھا ابو سفیان نے دریافت کیا تو اس نے کہا (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا لشکر لے کر آ رہے ہیں جس کی مثال آج تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس فوج میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو احد میں شریک نہ ہوئے تھے۔ انتقام کے جوش میں ان کی تلواریں میان سے نکلی ہوئی ہیں۔ یہ سن کر ابوسفیان طرح طرح کے تفکرات میں غرق ہو گیا۔ کبھی اسے خیال گزرتا کہ احد کی فتح یابی کے بعد (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ سے فرار بہتر ثابت ہو گا مبادا مقابلہ کرنے کی صورت میں جیتی ہوئی بازی ہارنا پڑے۔ عرب خصوصاً میرے رفقاء ہی مجھے ملامت کریں گے۔ اسے یہ وہم بھی گزرتا کہ شکست کی صورت میں ہمارے خلاف قضا و قدر کا یہ آخری فیصلہ ہو گا جس کے بعد ہم کبھی نہ سنبھل سکیں گے۔ آخر ہمیں کیا کرنا چاہیے جس سے ملک میں سرخ رو رہ سکیں؟ ابوسفیان کو ایک تدبیر سوجھی جب قبیلہ عبدالقیس کا ایک کارواں مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اس نے دیکھا اور اسی کی زبانی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ تہدید پہنچانے کی سازش بنائی۔ جونہی قبیلہ مذکور حمراء الاسد (منزل گاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) میں پہنچا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف سے کہا ابوسفیان آندھی کی طرح آ رہا ہے تاکہ مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ کر نابود کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو اظہار ضعف و عجز کے بغیر اپنے قدموں پر جمے رہے اور قریش کے سامنے(انہیں دکھانے کی غرض سے) اپنا استقلال ثابت کرنے کے لیے مسلسل تین شب تک آگ کا بہت بڑا الاؤ جلائے رکھا۔ ابوسفیان بھی الاؤ کو جلتا ہوا دیکھتا رہا۔ آکر اس کی ہمت دوسرا مقابلہ کرنے سے جواب دے گئی اور وہ احد ہی کی فتح کو اپنے لیے غنیمت سمجھ کر مکہ کی ڈگر پر چل دیا۔ منافقین مدینہ کا تمسخر: ان کے چلے جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس تشریف لے آئے۔ منافقین نے اپنے مشہور انداز میں مسلمانوں کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ا ن میں سے ایک شوخ چشم (منافق) نے مسلمانوں سے سوال کیا بدر کی فتح مندی اگر (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توثیق رسالت کی نشانی تھی تو احد میں آپ کے صاحب کی شکست کو کس سے تعبیر کیجئے گا؟ ٭٭٭ باب16 احد کے نتائج ابوسفیان کی مکہ میں واپسی: مکہ میں مسلمانوں کی شکست کی خبر پہلے سے پہنچ چکی تھی، مگر جب ابو سفیان احد کا میدان مار کر مکہ پہنچا تو فخر سے اٹھلاتا ہوا پہلے کعبہ میں داخل ہوا (کیونکہ اس فتح سے قریش کی بدر میں شکست کا دھبہ دور ہو گیا تھا) اور اپنے پشتینی معبود ہبل کے حضور حمد و ثنا کا تحفہ پیش کیا۔ اس نے بت پرستی کی مروجہ رسم کے مطابق کانوں کی لو سے بڑھے ہوئے بال کٹوائے۔ لیجئے آج ابو سفیان کی وہ قسم پوری ہو گئی جس میں اس نے بدر کا انتقام لیے بغیر بیوی کو خود پر حرام کر لیا تھا۔ وہ خوشی خوشی اپنے گھر میں داخل ہوا۔ اور مدینہ میں مسلمانوں کی مراجعت: کافروں کے مکہ کی طرف لوٹ جانے کے بعد مسلمان مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو اپنے خلاف طرح طرح کی باتیں سنیں۔ باوجود یہ کہ انہوں نے (حمراء الاسد) میں مسلسل تین شب آلاؤ مشتعل رکھا جسے دشمن دیکھتا رہا اور اسے آگے قدم بڑھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ خود احد میں مسلمانوں کی باتوں سے ایذاء برداشت کرنا پڑی۔ بایں ہمہ شہر میں اب بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی اقتدار تھا تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک گہرے غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مدینہ اور اس کے باہر رہنے والے قبائل جو کل تک ہمارے مطیع و منقاد تھے وہ احد کے حادثہ سے ہمارے خلاف کوئی سازش نہ کر لیں۔ اس پیش بندی کے مدنظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور بیرونی قبائل کی خبریں حاصل کرنے کا پورا انتظام کر لیا تاکہ مسلمانوں کی سطوت و عظمت بحال رکھنے کی تدبیر میں کمی نہ آنے پائے۔ سریہ ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ: احد سے دو ماہ بعد اطلاع عرض ہوئی کہ بنو اسد کے سرغنے طلیحہ و سلمہ (پسران خویلد) اپنے گروہ لے کر مدینہ پر چڑھائی کر رہے تھے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ (جناب) محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے گھر میں حملہ کر کے تمام مال لوٹ لیا جائے اور مسلمانوں کے وہ مویشی مدینہ میں باقی نہ رہنے پائیں جو شہر کی ہری دوپ چر کر فربہ ہو رہے ہیں۔ بنو اسد کی جرأت کا سبب مسلمانوں کی احد میں ہزیمت ہی تو تھی جس کی بنا پر سمجھ لیا گیا کہ اب مسلمانوں میں تاب مقاومت نہیں رہی۔ یہ خبر سنتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سلمہ بن عبدالاسدؓ کو ان کے استیصال کی غرض سے نامزد فرمایا۔ علم دست مبارک سے تیار فرمایا۔ اس دستہ میں ایک سو پچاس مسلمان تھے جن میں سر عنوان ابو عبیدہؓ (الجراح) سعد بن ابی وقاصؓ اور اسید بن حضیرؓ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مندرجہ ذیل عنوانات فرمائیں: الف۔ (اہل دستہ) شب میں سفر اور دن میں کسی محفوظ مقام پر چھپے رہیں۔ ب۔ شب میں بھی عام شاہراہ سے ہٹ کر چلیں تاکہ کوئی رہ گزر نہ دیکھ لے۔ ج۔ دشمن پر اچانک حملہ کریں۔ سالار دستہ (حضرت ابو سلمہؓ) نے ہدایات نبویصلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پابندی کی اور ایک صبح کے وقت اچانک دشمن پر بزن بول دیا۔ کفار سنبھلنے نہ پائے تھے کہ مسلمانوں کی زد میں آ گئے اور فرار پر مجبور ہوئے۔ جناب ابو سلمہؓ نے دستہ کے دو گروہ اس کے تعاقب میں بھیجے اور انہیں ہدایت کر دیا کہ دشمن اور اس کے مال دونوں پر قابو پا لیا جائے! سپہ سالار خود کچھ دیر تک اسی مقام پر ہے حتیٰ کہ مسلمانوں سپاہی دشمنوں کا سامان لے کر واپس تشریف لے آئے۔ امیر دستہ نے وہیں غنیمت تقسیم کر دی۔ پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مساکین اور مسافروں کا خمس علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد جو کچھ بچا غازیوں میں تقسیم فرما کر ظفر یاب مدینہ میں واپس تشریف لائے۔ اس فتح سے مسلمانوں کی ہمت بندھ گئی اور احد کی ہزیمت کے صدمہ میں گونہ تخفیف ہو گئی، لیکن سالار دستہ حضرت ابو سلمہؓ نے جلدی وفات پائی۔ احد میں انہیں جو زخم لگا تھا وہ اس دوڑ دھوپ میں کھل گیا۔ سریہ عبداللہ بن انیس: مذکورہ واقعے کے بعد اطلاع عرض ہوئی کہ کافروں میں سے خالد بن سفیان (بن فبیح الٰہذلی) مقام نخلیا (عرنہ جائے است در عرفان منتہی الارب م) میں مدینہ پر یلغار کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن انیس کو جاسوسی پر متعین فرمایا جب عبداللہ حریف کے سر پر جا پہنچے اس وقت خالد مذکور اپنی (کئی) بیویوں کو ہمراہ لے کر ان کے پڑاؤ کی غرض سے جگہ کا انتخاب کر رہا تھا۔ جونہی عبداللہ کو دیکھا خالد نے کہا آپ کون ہیں؟ جواب میں بھی عرب باشندہ ہوں سنا تھا کہ آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لشکر جمع کر رہے ہیں۔ اسی خبر پر یہاں پہنچا ہوں۔ دشمن (خالد) نے اپنا منصوبہ عبداللہ کے سامنے بیان کر دیا۔ بے شک میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے فوج جمع کر رہا ہوں عبداللہ نے دیکھا تو دشمن کے ساتھ کوئی مرد نہ تھا وہ ان کے ساتھ ادھر ادھر پھرتے رہے جونہی موقعہ نظر آیا خالد کو قتل کر کے ان کی بیویوں کو اپنے شوہر کی لاش پر نوحہ گری کے لیے چھوڑ دیا اور مدینہ حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور واقعہ عرض کیا۔ خالد الہٰذلی کا انتقام: مقتول خالد بن سفیان کے قبیلہ دار کچھ مدت تک خاموش بیٹھے رہے۔ آکر ان کے ایک خاندانی جو بنو لحیان کے نام سے موسوم تھا نے مسلمانوں سے اپنے مقتول کا بدلہ لینے کی تدبیر پیدا کر لی۔ بنو لحیان کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا ہم مسلمان ہو چکے ہیں برائے خدا ہمارے قبیلہ میں ایسے مسلمان حضرات بھیج دیجئے جو ہمیں شریعت کی تلقین کریں اور قرآن کی تعلیم سے بہرہ مند فرما سکیں۔ غزوۃ الرجیع: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطیرہ تھا کہ جب کوئی شخص آپکے سامنے ایسی خواہش ظاہر کرتا آپ اس کی درخواست رد نہ فرماتے تاکہ لوگوں کو ایسے دین کی تعلیم سے ہدایت و راہ حق کی طرف لانے میں کامیاب ہوں اور رفتہ رفتہ انہی زیر تبلیغ لوگوں کے سامنے مسلمان ہو جانے سے دشمنان دین و حاسدان اسلام کے خلاف ان کی کمک حاصل ہو سکے جیسا کہ مکہ میں بیعت عقبۃ الکبریٰ کے موقعہ پر اوس و خزرج کی اسی قسم کی درخواست پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی یثرب میں اپنے داعی مقرر فرمائے۔ قبیلہ ھذیل کے لیے چھ صحابہ کا تقرر اور حادثہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درخواست کنندوں کی تربیت کے لیے چھ مومنین کو ان کے ساتھ بھجوا دیا مگر جونہی دونوں گروہ (ہذلی اور ہرشش مومنین) علاقہ حجاز کے رجیع نامی مقام پر پہنچے دھوکہ باز ھذیل نے مسلمانوں کے ساتھ غداری کی اپنے قبیلہ (ھذیل) کو پکارا جنہوں نے چاروں طرف سے ان چھ مومنوں کو گھیر لیا۔ مسلمانوں نے دیکھا اور تلواریں سونت کر مقابلہ پر اتر آئے۔ ھذیل نے مسلمانوں سے کہا ہم خود تمہیں قتل کرنے کی بجائے اہل مکہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں! یہ سن کر مسلمانوں نے اشاروں میں طے کر لیا کہ اہل مکہ جیسے دشمنوں کے ساتھ قید ہونے سے بہتر ہے کہ انہیں کے ہاتھوں ہو جائیں۔ اور انہوں نے حوالگی سے انکار کر دیا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ ان سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں گے اور مقابلہ میں ڈٹ گئے۔ مگر ھذیل نے ان میں سے تین مسلمانوں کو شہید کر دیا اور تین حضرات کو گرفتار کر کے مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں جناب عبداللہ بن طارق کافروں کے ہاتھ سے نکل گئے اور تعاقب پر تلوار سونت کر مقابلہ کے لیے کھڑے ہو گئے مگر کافروں نے مقابلہ کرنے کی بجائے پتھراؤ سے انہیں شہید کر دیا۔ حضرت زیدؓ و خبیب ؓ اہل مکہ کے ہاتھ میں ان دونوں کو مکہ لے گئے۔ حضرت زید بن دشنہؓ نے بدر میں امیہ بن خلف (قرشی) کو قتل کیا تھا۔ انہیں امیہ کے بیٹے صفوان نے خرید کر قتل کرنے کے لیے اپنے غلام نسطاس کے حوالے کر دیا۔ زیدؓ اور ابو سفیان کا مکالمہ: انہیں مقتل میں پہنچا دیا گیا تو ادھر سے ابو سفیان آ پہنچے۔ انہوں نے زیدؓ سے دریافت کیا: زیدؓ! آپ کو یہ گوارا ہو سکتا ہے کہ اس مقتل میں (جناب) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی گردن ماری جاتی اور آپ اپنے اہل و عیال میں ہوتے؟ زیدؓ! بخدا! مجھے یہ گوارا نہیں کہ میری جگہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور انہیں کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے اہل و عیال کے جھرمٹ میں بیٹھا رہوں۔ ابوسفیان نے حیرت سے کہا میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کے دوست (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیقوں سے بڑھ کر اپنے دوست کے محب ہوں! اس کے بعد نسطاس کی تلوار نے زید بن دثنہؓ کے خون سے مکہ کی گرم زمین کو سیراب کر دیا۔ زیدؓ نے اس راہ میں جس طرح جان دی اس سے ثابت ہوا کہ دین اور خدا کے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جان دینا کتنا سہل ہے! خبیبؓ کی شہادت: خبیب کو کئی روز قید میں رکھنے کے بعد قتل گاہ میں لایا گیا۔ آ ج انہیں دار پر لٹکایا جانا ہے۔ حضرت خبیبؓ کافروں سے اجازت لے کر دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد ان سے یوں مخاطب ہوئے: اما واللہ! لولا ان تظنوا انی انما طولت جزعا من القتل لا ستکثرت من الصلاۃ (بخدا! اگر تمہاری طرف سے اس بدگمانی کا شبہ نہ ہوتا کہ میں موت کے ڈر سے نماز کو طول دے رہا ہوں تو ابھی قیام و قعود میں اور اضافہ کرتا) حضرت خبیبؓ کی بد دعا سے کافروں پر لرزہ ایک ناہنجار جب ان کے گلے میں پھانسی کی رسی ڈالنے کے لئے تیار ہوا تو آپ نے غضب ناک ہو کر باآواز بلند یہ دعامانگی: اللھم احصھم عدداً واقتلھم بدداً ولا تغادر منھم احداً یا اللہ ! ان میں سے ایک ایک کو اپنی گرفت میں لے لیجیو۔ سب کے سب تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائیں ان میں سے کوئی زندہ نہ بچے۔ یہ سن کر کافروں کے دل بیٹھ گئے، مبادا انہیں غیبی عذاب گھیر لے اور سب پہلو کے بل زمین پر لیٹ گئے۔ ذرا سنبھلے تو خبیبؓ کے گلے میں پھانسی کی رسی کھول کر انہیں قتل کرا دیا۔ آہ! اپنے پیش رو زیدؓ بن دثنہ کی طرح حضرت خبیبؓ نے بھی دین اور خدا اور رسولؐ کی محبت پر جان نثار کر دی۔ ذرا دیر میں زیدؓ اور خبیبؓ دونوں کی روحیں پاک آسمان پر جا پہنچیں۔ اگر وہ دین سے انکار کر دیتے تو انہیں اپنی جان سلامت رہنے کا پورا موقعہ حاصل تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ انہیں خدا پر یقین تھا۔ انہیں ایک دفعہ مرنے کے بعد بقائے نفس اور یوم حساب پر تیقن تھا، یعنی: الیوم تجزی کل نفس بما کسبت (17:40) آج ہر شخص کو کیے کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور: الا تزروازرۃ وزرا اخری (38:53) کوئی شخص دوسرے کا بوجھ اپنی گردن پر نہیں لے گا۔ زیدؓ اور خبیبؓ دونوں نے موت کو اپنی اپنی طرف آتا ہوا دیکھ کر فیصلہ کر لیا کہ زندگی کا یہ رشتہ ایک نہ ایک دن یوں بھی منقطع ہونے کو ہے، کیوں نہ اسے خدا کی محبت پر نثار کر دیا جائے انہیں یہ تیقن بھی تھا کہ مکہ کی جو زمینا ٓج ہمارا خون پینے کے لئے بے قرار ہے۔ چند روز کے بعد ہمارے دینی بھائی اس سر زمین پر فاتحانہ کروفر کے ساتھ قدم رنجہ فرمائیں گے اور کعبہ کے ان بتوں کو اپنے پیروں سے مسل کر رکھ دیں گے۔ خدا کے گھر کو شرک اور بتوں کی نجاست سے پاک کر کے اس کی تقدیس میں وہ تحفہ پیش کریں گے کہ جو اس گھر کے شایان ہے جس کے بعد یہ کعبہ خدا کے سوا کسی کی پرستش کا گہوارہ نہ بن سکے گا۔ مستشرقین کی خیرہ چشمی حیرت ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے بدر کے د وجنگی اسیروں(نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط) کے قتل پر مستشرقین نے واویلا نے زمین و آسمان ایک کر دیے ‘ لیکن اہل مکہ کے ہاتھ سے حضرت زیدؓ ‘ و حبیبؓ جنگی قیدی بھی نہ تھے بلکہ انہیں فریب دیا گیا۔ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے بنو ھذیل کی تعلیم کی غرض سے لے جائے گئے ‘ جن میں سے چار مسلمانوں کو ھذیل ہی نے شہید کر دیا اور دو قریش کے ہاتھوں فروخت کر دیے گئے اور انہیں اہل مکہ نے نہایت بے رحمی و دنائت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارا۔ انصاف یہ ہے کہ مستشرقین نے جس قوت کے ساتھ نضر و عقبہ (بدر کے اسیروں) کے قتل پر واویلا کیا زیدؓ و خبیبؓ کے کافروںکے ہاتھ سے قتل ہونے پر بھی تو کچھ لکھتے آہ ! ان دو مسلمانوں کے قتل ناحق پر جنہیں ہذیل دین سکھانے کے فریب سے لائے‘ ان میں چار حضرات کے خون سے اپنا دامن رنگین کیا اوردو کو مکہ کے خونخوار وحشیوں کے حوالے کر دیا! نابکاران ھذیل نے جس فریب کے ساتھ ان چھ مومنوں کو شہید کیا‘ مسلمانوں کے لیے وہ بے حد رنج و ملال کا باعث بن گیا۔ صحابہ میں سے (شاعر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جناب حساب بن ثابتؓ نے حضرت خبیبؓ اور زیدؓ پر رقت انگیز مرثیہ کہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر کہ اگر اس حادثہ سے شہہ پا کر عرب مسلمانوںکو پامال کر نے کے لیے جمع ہو گئے تو کیا ہو گا۔ حادثہ بئرمعونہ اسی دوران (۴ھ : م:) میں قبیلہ کلاب کا سردار ابوبراء (عامر بن مالک) باریاب ہوا(اس کا لقب ملاعب الاسنہ ہے) مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے انکارکے باوجود ابوبراء نے عرض کیا کہ میں اسلام کا دشمن نہیں ہوں آپ میرے ہمراہ ایک وفد ہمار ے صوبہ نجد میں بھیج دیجے جووہاں اسلام کی تبلیغ کرے امید ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہوجائیں گے۔ ادھر ھذیل کا لگایا ہوا زخم ابھی تازہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبراہ کو نفی یا اثبات میں کوئی جواب نہ دیا۔ تب ابوبراء نے عرض کیا میں ذمہ دارہوں آپ اپنا وفد بھیجے جو انہیںاسلام کی دعوت پیش کرے۔ ابوبراء اپنی قوم میں موقرتھا وہ جس شخص کو امان دیتا تھا کسی کو اس سے تعرض کی مجال نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب منذر بن عمرو(برادر بنو ساعدہ) کی نگرانی میں چالیس( م: ستر: بروایت بخاری) منتخب روزگار مسلمانوں کا وفد بھجوادیا۔ یہ حضرات بئیر معونہ پر پہنچے(جو بنو عامر اور بنو سلیم دونوں کے حلقے میں واقع تھا) تو سب سے پہلے انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ک اگرامی نامہ جو عامر بن الطفیل( عدو اللہ و عدو رسول) کی طرف تھا ایک مسلمان جناب حرام بن ملحان کے ہاتھوں بھیجا جسے عامر نے کھولا تک ہیں اور حضرت حرامؓ کو قتل کر دیا۔ اس نے ابو براء (عامر بن مالک مذکور جو ان مسلمانوں کو تبلیغ اسلا م کے لیے لایا تھا) کے قبیلہ کو اپنی کمک کے لیے پکرا مگر انہوںنے اپنی ضمانت دہی کی وجہ سے عامر کی نصرت سے انکار کر دیا۔ تب بھی اس نے دوسرے قبائل کو اپنے ہمراہ ملا کرمسلمانوں کو قتل کرنا واجب سمجھ کر انہیں نرغہ میںلے لیا۔ اور محصورین نے خود کو اس بے بسی میں پا کر تلواریں سونت لیں اور ان ستر حضرات میں سے دو مسلمان زندہ رہ سکے (۱) کعب بن زیدؓ جنہیں عامر بن طفیل نے بے روح سمجھ کر چھوڑ دیا یہ صحیح سلامت مدینہ تشریف لے آئے (اور غزوہ خندق میں شہید ہوئے زاد المعاد : م:) اور (۲) حضرت عمرو بن امیہ ضمری جو اسیر کر لیے گئے۔ جب عامر کو ان کے ضمری ہونے کا علم ہوا تو ان کی چوٹی کاٹ کر غلام کی حیثیت سے آزاد کر دیا کہ ایک غلام آزاد کرنے کا قرج اس کی ماں کے ذمہ تھا جو عامر نے اس صورت میں ادا کیا۔ جناب عمرو ؓ (بن امیہ) مدینہ روانہ ہوئے ار مقام قرقرہ پر پہنچے تو آرام کرنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ مدینہ کی طرف سے دو شخص آ رہے تھے ۔ وہ بھی اسی درخت کے سائے میں آرام کرنے کے لیے آ بیٹھے۔ عمروؓکو معلوم ہو گیا کہ یہ اسیکلاب خاندان سے ہیں (فتح الباری: م:) جن کا سردار انہیں ہمراہ لے گیا تھا جب دونوں نیند میں ڈوب گئے تو عمرو بن امیہؓ نے انہیں موت کے سمندر میں بہا دیا۔ (م: باضافہ از زاد المعیاد) عمروؓ مدینہ پہنچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور تمام سرگزشت عرض کی تو معلوم ہوا کہ دونوں مقتول قبیلہ ابوبراء سے تھے جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامعاہدہ تھا۔ اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امان میں تھے س کی وجہ سے ان کی دیت ادا کرنا واجب تھی اور وہ ادا کر دی گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرط غم بئیر معونہ کے حادثہ سے رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور زیادہ صدمہ پہنچا فرمایا یہ ابوبراء کی شرار ت کا نتیجہ ہے۔ مجھے شروع ہی سے کھٹکا تھا(م: ابوبراء عامر بھی طفیل کا حقیقی بھائی تھا) ادھر ابوبراء (اپنے بھائی :م:)عامر ابن طفیل کا شاکی کہ ظالم نے میری ضمانت میں مداخلت کر کے میرا بھرم خاک میں ملا دیا ہے اور اسی شکوہ کی بنا پر ابوبراء نے اپنے فرزند حقیقی ربعی کے ہاتھوں عامر کو فی النار کر ا دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صدمہ ی وجہ سے مسلسل ایک مہینہ تک نماز فجر کے بعد قنوت میں ان ظالموں پر بددعا کرتے رہے۔ مسلمانوں کے قلوب بئر معونہ کے حادثہ سے علیحدہ مجروح تھے اگرچہ انہیں یقین تھا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوں ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہود اور منافقوں کے گھروں میں خوشی مدینہ کے یہود اور منافقین جن کے ہاں مسلمانوں کی ہر مصیبت پر خوشی کے شادیانے بجنے لگتے احد کے بعد بئر معونہ کے واقعہ نے ان کی خوشی میں اور بھی اضافہ کر دیا اگرچہ مسلمانوں کے حمراء الاسد میں کامیابی کا ناسور ان کے دلوں میں رسنا بند نہ ہوا تھا اورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت ان کے قلوب سے محو ہوئی تھی۔ یہود بنو نضیر کا امتحان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دور اندیش مفکر کی حیثیت سے فیصلہ کیا کہ اگر اہل مدینہ کے دلوں سے مسلمانوں کی ہیبت مٹ گئی تو قبائل کامدینہ میں در آنا ممکن ہوگا اور اس کے نتیجے میں شہر کے اندر خانہ جنگی سے مدینہ کی تباہی لازم ہے بہتر ہے کہ ایسا موقعہ آنے سے قبل یاران شہر ہی کاامتحان کر لیاجائے۔ مدینہ کے یہود بنو نضری اس مو قبیلہ (بنو عامر) کے بھی حلیف تھے جن کے دو آدمی شبہ میں حضرت عمرو بن امیہ کے ہاتھ سے قتل ہوئے اوربنو نضیر و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان معاہدہ بھی تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہی مقتولین کی دیت کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بنو نضیر کی گڑھی میں تشریف لائے جو شہر مدینہ سے باہر چھ میل کے فاصلے پر تھی۔ اس وقت آپ کے ہمراہ دس صحابی تھے جن میں ابوبکرؓ و عمرؓ اور علی بن الخطابؓ سرعنوان ہیں۔ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نضیر کو یہ بتائے بغیر ان سے مشورہ طلب کیا کہ بنو عامر کے ایک مقتول کی دیت کیا ہونا چاہیے۔ پہلے تو بنو نضیر اس میں اپنی عزت افزائی سمجھ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے لیکن ذرادیر کے بعد ان کی روش میں تبدیلی نظر آنے لگی۔ ان میں سے ایک ٹکڑی علیحدہ ہو کر باہم سرگوشی میں ڈوب گئی۔ آج ان کے اپنے مقتول سرغنہ کعب بن اشرف کا زخم پھر بھر آیا۔ اسی طرح ایک دوسرے سے اشارے کرتے کراتے ان میں سے عمرو بن حجاش بن کعب اس گھر میں داخل ہوا جس کی دیوار کے ساتھ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان چالوں کو دیکھ رہے تھے۔ رفتہ رفتہ آپ کا شک قوی ہوتا گیا اور اپنے رفقا سے کچھ کہے بغیر واپس تشریف لے آئے۔ اصحاب نے سمجھا کہ شاید قضائے حاجت کے لیے قصد فرمایا ہو لیکن یہودی سمجھ گئے کہ ان کا منصوبہ ناتمام ہو کر رہ گیا۔ بنو نضیر اصحاب رسول ے ساتھ وہ سلوک کرنے میں معاملہ میں گومگو میں پڑ گئے کہ جو برتائو ہم ان کے صاحب کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اگر ان کے ساتھ کیا گیا تو (جناب)محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے انتقام لیے بغیر نہ رہیں گے۔ بنونضیر کوی خیال بھی تھا کہ اگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلامت لوٹ گئے تو ممکن ہے کہ ہماری سازش کا انہیں علم نہ ہوا ہو اور اس طرح مسلمانوں کے ساتھ ہمارا سابقہ معاہدہ بدستور قائم رہ سکے گا۔ بنونضیر نے مسلما نوں کی چاپلوسی شروع کر دی لیکن وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کے لیے چشم براہ تھے۔ ان کی بتوں سے متوجہ ہوئے بغیر وہاں سے اٹھ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔راستے میں ایک صاحب نے جو مدینہ سے آ رہے تھے ان کی دریافت پر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں پہنچ گئے ہیں تب جا کر ان کی جان میں جان آئی اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قد م پر مدینہ میں حاضر ہو گئے۔ بنو نضیر کو اعلان جنگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان دوستوں سے بنو نضیر کے سرگوشی اور ایک دوسرے کے ساتھ اشارے کنایے سے ان کی بدنیتی کا تذکرہ فرمایا جسے یہ حضرات بھی موقع پر موجود ہونے کی وجہ سے دیکھ رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ن تنبہ سے ان کے سامنے بھی وہی حقیقت واضح ہو گئی جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کی بصیر ت اور وحی الٰہی کے ذریعہ منکشف ہو چکی تھی۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت محمدبن مسلمہؓ کے ذریعہ بنو نضیر کی طرف یہ اعلان جنگ بھیجا: ان اخرجوا من بلادی لقد نقضتم العھد الذی جعلت لکم بما ہممتم بہ لقد اجلتکم عشرا فمن ری بعد ذالک ضربت عنقہل۔ ہمارے شہر سے نکل جائو۔ تم نے باہمی معاہدہ کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے ورنہ دس روز کے بعد تم میں سے جو شخص مدینہ میں دیکھا گیا اس کی گردن مار دی جائے گی۔ بنو نضیر یہ پیغام سن کر د م بخود رہ گئے اور ان کے سوا ان سے کوئی جواب بن نہ آیا اے ابن مسلمہؓ قبیلہ اوس کے کسی فرد سے یہ توقع نہ تھی کہ اپنے صاحب کی طرف سے ہمیں ایسا پیغام پہنچائے۔ بنو نضیر کا یہ اشارہ اس عہد کی طرف تھا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے قبل قبیلہ خزرج کے خلا ف یہود او ر اوس ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ان کے جوا ب میں ابن مسلمہؓ نے صرف یہ فرمایا کہ دلوں کی حالت وہ نہیں رہی۔ بنو نضیر کو ابن ابی منافق کی شہ مگر بنو نضیر مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ مدینہ کے سب سے بڑے دم باز عبداللہ بن ابی (منافق) نے یہ رنگ دیکھ کر یہود کو شہ دینے کے لیے ان کے پاس اپنے دو ایلچی بھیجے مبادا تم مال اور گھربار چھوڑ کر جلا وطن ہونا منظور کر لو ثابت قدمی سے اپنے قلعو ں میں جمے رہنا۔ میرے ساتھیوں میں دو ہزار شمشیرزن اور گرد و نواح کے قبائل انہی قلعوں میں تمہاری نصرت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ ان میںکوئی ایسا شخص نہیں کہ اپنی زندگی میں مسلمانوں کو تم پر حاوی ہونے کا موقعہ آنے دے۔ بنو نضیر کی پریشانی انہیں ابن ابی کے پیغام پر کچھ کرتے دھرتے نہ بن آئی۔ جو لوگ اس کی طینت سے آگاہ تھے کہہ اٹھے کہ اس نے اسی قسم کی شہ بنو قینقاع کو بھی تو دی تھی۔ جب وہ نرغے میں لے لیے گئے تو ابن ابی نے انہیں بے یار و مددگار چھوڑ کر اپنی راہ لی۔ انہوںنے اپنے یاران طریقت بنو قریظہ کی طرف نظر دوڑائی مگر رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بنو قریظہ کے درمیان معاہدہ دوستی کی وجہ سے انہیں مایوس ہونا پڑا۔ انہوںنے یہ بھی سوچا کہ اگر انہیں شہر سے نکلنا پڑا تو وہ خیبر یا مدینہ کی کسی قریب جگہ پر بسیرا کر لیں گے تاکہ اپنے یثرب کے باغات کے پھل بھی حاصل کرتے رہیں۔ اس صورت میں انہوںنے مدینہ سے جلاوطنی پر اپنے لیے کوئی خسارہ نہ سمجھا۔ حی بن اخطب بنو نضیر کے سب سے بڑے چودھری نے کہا کہ یہ نہ ہو گا کہ ہم شہر خالی کر دیںَ ہم جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہلاتے ہیں کہ شہر اور اموال دونوں میں سے کسی شے سے ہم دست بردار نہیں ہو سکتے۔ ہمارے خلاف جو چاہے کیجیے یہ کہنے کے بعد انہوںنے قلعہ بندی کی تیاری شروع کر دی اور اپنے ساتھیوں سے کہا آئیے ہم اپنے اپنے قلعوں کو ضبوط کر کے ان میں بیٹھ جائیں۔ حاصرین پتھرائو کے لیے چھتوں پر پتھر کے ٹکڑے جمع کر لیں۔ ہمیں اپنے گھرائو پر کوئی خطرہ نہیں غلہ کی کوٹھاریں بھری پڑی ہیں جن یں ایک سال تک اجناس ختم نہیں ہو سکتا پانی کے قدرتی وسائل ہمارے بس میںہیں۔ (حضرت)محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اتنی سکت نہیں کہ ہمارا محاصرہ کر سکیں۔ بنو نضیر اپنے سرغنہ حی بن اخطب کی رائے پر عمل پیرا ہو کر قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں نے دس روز گزرنے پر بزن بو دیا۔ ان کے جس گھر پر مسلمان حملہ کرتے یہ خود اسے تاراج کر کے پاس کے مکان میں جا چھپتے۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کھجوروں کے درخت کاٹ کاٹ کر جلانے شروع کر دیے تاکہ مدینہ میں ان کی اقتصادی دل چسپیاں ختم ہوجائیں جس کی وجہ سے وہ جنگ جاری رکھنے کے لیے یوں قدم جمائے بیٹحے ہیں۔ بنو نضیر کی شکست اور اخراج اس پر یہود منتیں کرنے پر اترآئے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ تو دوسروں کو فساد کرنے سے منع کرتے ہیں پھر خود ہی ہمارے ہرے بھرے پودے کاٹ کرجلانا کہاں کا انصاف ہے ؟ ان کی تنبیہ کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں۔ ماقطعتم من لینتہ او ترکتمو ھا قائمۃ علی اصولھا فباذن اللہ والیخزی الفسقین (۵۹:۵) (اے مسلمانو!ان کے) کھجوروں کے درخت جوتم نے کاٹ ڈالے ہیں ان کو ہاتھ نہ لگانا اور بدستور ان کوجڑ سمیت کھڑارہنے دیا تو یہ سب کچھ خدا ہی کے حکم سے تھا اورخدا کو منظور تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔ ادھر ان کی نصرت کے لیے نہ تو ابن ابی منافق کے دو ہزار شمشیر بکف بہادر نکلے۔ نہ ان کی مصیبت کی طرف قبائل نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ مقابلہ جاری رکھنے کی صورت میں وہ کہیں کے نہ رہیں گے۔ اپنے انجام سے خائف ہو کر خود ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ ازراہ ترحم ہماری اور ہمارے بچوں کی جان بخشی فرمائی جائے۔ منقولہ اموال ہیں ساتھ ے جانے کی اجازت مرحمت ہو اورہم شہر خالی کیے دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شرط پر قبول فرما لیا کہ فی کس ایک شتر پر جس قدر کھانے پینے کا سامان اور اموال جو قسم وہ چاہیں ہمراہ لے جا سکتے ہیں۔ یہود نے اپنے سرغنہ حی بن اخطب کے زیر سایہ مقررہ شرائط کے مطابق مدینہ خالی کر دیا۔ یہاں سے نکلنے کے بعد کچھ لوگ خیبر میں آباد ہو گئے اور کچھ شام کی بستی ازرعات میں منتقل ہو گئے۔ بنو نضیر کے جلاوطن ہو جانے کے بعد غلہ کی بھری ہوئی کوٹھاروں اور باغات و اراضی کے سوا پچاس درعیں اور تین سو چالیس تلواریں حاصل ہوئیں۔ لیکن یہ اموال اور اراضی غنیمت کی اس حد میں نہ آ سکتی تھی۔ جس میں تمام مسلمان فوجی شری کہوں۔ یہ خاصہ تھا کہ جس میں صرف رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختار و مجاز تھے۔ تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غرباء و مساکین کے لیے اراضی کاایک قطعہ وقف کر دینے کے بعد مابقی اموال و اراضی اور باغات مہاجرین اولین میں تقسیم کر دیا جس کی وجہ سے یہ حضرات انصار کی محتاجی سے بے نیاز ہو کر تھوڑے دنوں میں انصار کے ہم پلہ ہو گئے۔ البتہ انصار میں حضرت ابودجانہؓ اور جناب سہیل بن حنیفؓ کو ان کی زبوں حالی کے اظہار کی وجہ سے مہاجرین کے برابر حصہ دیا گیا۔ اس موقعہ پر بنو نضیر میں سے دو حضرات مشرف بہ اسلام ہوئے جن کے اموال و اراضی سے کوئی تعرض نہ کیا گیا۔ بنو نضیر کی جلاوطنی سے مدینہ میں امن کا دور دورہ بنو نضیر کی جلاوطنی سے مسلمانوں کو جو کامیابی حاصل ہوئی ظاہر ہے خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اندازہ فرما لینے کے بعد مدینہ میں ان (بنو نضیر) کا وجود فتنوں کامنبع ہے‘ حتیٰ کہ مدینہ کے منافقین میں بھی مسلمانوں و کسی سیاسی مصیبت میں گھر ا ہوا دیکھتے تویہود ان کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھار کھتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس خیال کے مطابق بھی ان کا مدینہ سے اخراج ضروری تھا کہ اگر کبھی کوئی باہر سے دشمن مدینہ میں در آیا تو یہود کی بدولت شہر کاہر گھر لڑائی کا میدان بن جائے گا۔ قرآن مجید کی سورۃ حشر انہی امور کا مرقع ہے ازاں جملہ: الم ترا ای الذین نافقو یقولون لا خوانھم الذین کفروا من اہل الکتاب لئن اخرجتم لنخر جن معکم ولا نطیع فیکم احدا ابدا وان قوتلتم لنصرنکم واللہ یشھد انھم لکاذبون لئن اخرجو ا لا یخرجون معھم ولئن قوتلوا لا ینصرونھم ولئن نصروھم لیون الادبار ثم ا ینصرون لا نتم اشد رھبۃ فی صدروھم من اللہ ذلک بانھم قوم لا یفقھون (۵۹:۱۱تا ۱۳) (اے پیغمبر!) کیا تم نے منافقوں (کے حال پر نظر نہیں کی جو اپنے ہم جنس بھائیوں یعنی کفاراہل کتاب سے کہا کرتے ہیں کہ اگر تم گھروں سے نکالے جائو گے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی کسی کی ماننے ہی کے نہیں اور اگر تم سے او ر مسلمانوں سے لڑائی ہو گی تو ہم تمہار ی مدد کریں گے ؟ اور (مسلمانو!) اللہ (تم کو) بتائے دیتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹے ہیں کہ اگر اہل کتاب نکالے جائیں گے تو یہ ان کے ساتھ نہیں نکلیں گے اور اگر اہل کتاب سے اورمسلمانوں سے لڑائی ہو پڑے گی تو یہ منافق اہ کتاب کی مدد نہیںکریںگے۔ اور اگر ان کی مدد کریں گے تو ضرورپیٹھ دکھاکر بھاگتے نظر آئیں گے پھر کسی طرف سے ان کو کمک بھی تو نہیں پہنچے گی۔ اے مسلمانو! تمہاری ہیبت تو ان کے دلوں میں اللہ سے بھی بڑھ کر ہے اور یہ اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ ناسمجھ ہیں۔ اس سورۃ (حشر) میں ان آیات کے بعد ایمان باللہ او ر خدائے برتر کی سلطانی کے متعلق جو آیت مذکور ہے اس کے متعلق خیال رہے کہ خداوند عالم کے ساتھ ایمان کی قدر وقیمت اس کی سلطانی اور غلبہ ظہور کے بغیر واضح نہیں ہو سکتی۔ ہو اللہ الذی لا الہ الا ھو عالم الغیب والشھادۃ ھو الرحمن الرحیم ہو اللہ الذی لا الہ الاہو الملک القدوس السلام المومن المھیمن العزیز الجبار لمتکبر سبحان اللہ عما یشرکو ن۔ ھو اللہ الخالق الباری المصور لہ الاسماء الحسنیٰ یسبح لہ ما فی السموات والارض وھو العزیز الحکیم (۵۹:۲۲تا ۲۴) وہ اللہ ایسا(پاک ذات ) ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر (سب) کا جاننے والا وہ بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ وہ اللہ ایسا (پاک ذات) ہے کہ تمام عیبوںسے بری ہے۔ امن دینے والا نگہبان ہے۔ زبردست ہے بڑا دبائو والا ہے۔ بڑی عظمت رکھتا ہے یہ لوگ جیسے جیسے شرک کرتے ہیں اللہ (کی ذات) ا س سے پاک ہے۔ وہی اللہ (ہر چیز) کا خالق( ہر چیز) کاموجد (مخلوقات کی طرح طرح کی) صورتیں بنانے واالا ہے اس کی اچھی اچھی صفتیں ہیںجو مخلوقات آسمانوں میں اور زمین میں ہیں (سب ہی تو) اس کی (تسبیح و تقدیس) کرتی ہیں اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہودی محرر اب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محرر ایک یہودی نوجوان تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے عبرانی اور سریانی زبانوں کے احکام کی خط و کتابت کرتا مگر آپ نے اس اندیشہ سے کہ مبادا غیر مسلم محرر ہمارے رازوں سے واقف ہو جائے‘ ایک مسلمان محرر کو مقرر کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ اب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خط وکتابت کے بارے میں غیر مسلم پر اعتماد مصلحت کے منافی سمجھ کر حضر ت زید بن ثابت ؓ کو عبرانی زبانیں سیکھنے کا حکم دیا۔ انہوںنے چند دنوں میں یہ قابلیت حاصل کر لی۔ زید ؓ کاتب وحی بھی ہیں عہد صدیقی میں انہی کی نگرانی میں قرآن مجید مدون ہوا اور جب حضرت عثمان ؓ کی خلافت میں قرآن کے بعض الفاظ کی قرات میں اختلاف کا اندیشہ محسوس ہونے لگا تو جناب زیدؓ ہی نے وقت نظر کے بعد قرآن مجید کے ایک ایک حرف کی پڑتال کی۔ متعدد نقلیں خلافت کی طرف سے دوسرے صوبوں کو بھجوا دی گئیں اور تصحیح شدہ نسخہ کے سوا قرآن کے باقی نسخے جلوا دیے گئے۔ مدینہ میں سکون بنو نضیر کی جلا وطنی سے شہر میں پورے امن وسلامتی کا موجب ثابت ہوئی۔ اب مسلمانوں کونہ تو منافقوں کا ڈر تھا نہ مہاجرین کو فلاکت سے واسطہ رہا۔ انہیں بنو نضیر کی اراضی و باغات نے خوش حال کر دیا۔ انصا ر کو یہ خوشی تھی کہ خدا تعالیٰ کی نظر کرم نے ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی بے فکری سے گزر بسر کرنے کی توفیق بخشی۔ انصار و مہاجرین دونوںایکد وسرے کے د و ش بدوش مساویانہ زندگی بسر کرنے لگے۔ قریش کی طرف سے دوسرے بدر کا پیغام جنگ اسی طرح تھوڑا سا زمانہ گزرا تھا کہ ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تصور احد کی دت کی طرف منتقل ہوا تو ایک سال خت ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابوسفیان کا وہ قول یاد آ گیا جو اس نے احد سے لوٹتے ہوئے باآواز بلند دہرایا تھا۔ یوم بیوم بدر و الموعد العام المقبل بدر کا انتقام لے لیا گیا ہے۔ آئندہ سال پھر میدان ہو گا! اسی دوران میں ابو سفیان نے (مکہ سے) نعیم کو اس طرح پڑھا کر بھیجا کہ اس کی ہوائی سے مسلانوں کے حوصلے پست ہوجائیں۔ نعیم مدینہ پہنچا اوراس نے گھر گھر جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اس مرتبہ قریش نے جو لشکر جمع کیا ہے عرب کی کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ابو سفیان نے ارادہ کر لیا کہ مسلمانوں پر احد سے بھی زیادہ کوئی سختی برتی جائے۔ مسلمان ششدرر ہ گئے ۔ بہتوں کی خواہش تھی کہ اس دفعہ بدر کو آنکھوں سے بھی نہ دیکھا جائے مگر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کو تھڑدلی کا اندازہ ہوا تو اظہار برہمی کے بعد قسم کھا کر فرمایا اگر مجھے بدر میں تنہا بھی جانا پڑا تو پیچھے قدم نہ ہٹائوں گا۔ مسلمانوں کی بدر ثانی کے لیے روانگی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی سخت تہدید اور عملاً عزیمت کی وجہ سے ہر شخص اپنے لیے اسلحہ کی فراہمی میں مصروف ہو گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ پر حضرت عبداللہ بن ابی کو اپنا نائب مقرر کر کے بدر کی طرف کوچ فرمایا جہاں قریش کے ساتھ جنگ کے لیے جھنڈے گاڑ کر ان کا انتظار کیا جانے لگا۔ قریش کا بد ر ثانی کے لیے خروج کہنے کو تو ابو سفیان قریش کے دو ہزار سے زائد بہادروں کا دل لے کر نکل آیا لیکن استقلال و جواں مردی کا یہ حال تھا کہ دو روز کی مسافت طے کرنے کے بعد پائوں توڑ کر بیٹھ گیا ۔ اس نے اپنے یاران سرپل سے کہا: یا معشر قریش انہ لا یصلحک الا عام خصیب وان عامکم ھذا جدب وانی راجع فارجعوا ! اے دوستان قریش تم لوگ خوشحالی کے سال میں جنگ کر سکتے ہو۔ اس مرتبہ خشک سالی کا دور دورہ ہے میں تو واپس لوٹ رہا ہوں بہتر ہے کہ فی الحال تم بھی لوٹ چلو۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آٹھ روز تک اپنے لشکر سمیت (بدر میں) تشریف فرما رہے (یہ بدر تجارت کا بازار بھی تھا) اس اٹھوارے میں مسلمانوں نے خرید و فروخت سے تھوڑا بہت نفع بھی حاصل کر لیا۔ آخر کار قریش کی راہ دیکھتے دیکھتے واپس لوٹنا پڑا اورخدا کا شکر ہے کہ مسلمان مدینہ میں شاداں و فرحاں داخل ہوئے اللہ تعالیٰ فضل و نعمت سے بہرہ مند ہو کر اس واقعہ کے متعلق یہ آٹھ آیتیںنازل ہوئیں۔ ۱۔ الذین قالو الاخوانھم وقعدوا لو اطاعونا ما قتلوا قل فاددہ واعن انفسکم الموت ان کنتم صدقین ( ۳:۶۸) ’’جن لوگوں کا خیاال ہے کہ خود تو جنگ کے وقت اپنے گھروں میں بیٹھ رہے لیکن اب اپنے بھائیوں کے حق میں خہتے ہیں کہ اگر ہماری بات پر چلے ہوتے توکیوں مارے جاتے (اے پیغمبرؐ) تم کہہ دو کہ اچھا اگر تم واقعی اپنے خیال میں سچے ہو تو جب موت تمہارے سرہانے آ کھڑی ہو تو نکال باہر کرنا (اور اپنی چترائی اورپیش بینی سے ہمیشہ زندہ رہنا) ۲۔ ولا تحسن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا احیاء عند ربھم یرزقون(۳:۱۶۹) ’’۲۔ (اور اے پیغمبر ؐ) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں ان کی نسبت ایسا خیال مت کرو۔ کہ وہ مر گئے نہیں وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور اپنی روزی پا رہے ہیں‘‘۔ ۳۔ فرحین بما اتھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم الا خوف علیھم ولا ہم یحزنون (۳:۱۷۰) ’’۳۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے جو کچھ انہیں عطا فرمایا ہے ا س سے خوش حال ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے (دنیا میں) رہ گئے ہیں اور وہ بھی ان سے ملے نہیں ان کے لیے خوش ہو رہے ہیں کہ نہ تو ان کے لیے کسی قسم کا کھٹکا ہو گا نہ کسی طرح کا غم گیتی۔‘‘َ ۴۔ یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل وان اللہ لا یضیع اجر المومنین (۳:۱۷۱) ’’۴۔ وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے تعین سے مسرور ہیں۔ نیز اس بات سے کہ انہوںںے دیکھ لیا اللہ ایمان رکھنے والوں کااجر کبھی اکارت نہیں کرتا‘‘۔ ۵۔ الذین استجابو اللہ والرسول من بعد ما اصابھم القرح للذین احسنوا منھم واتقوا اجر عظیم (۳:۱۷۲) ’’۵۔ جن لوگوںنے اللہ اوراس کے رسول کی پکار کا جواب دیا( اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے) باوجودیکہ (ایک برس پہلے جنگ احد کا) زخم کھا چکے تھے سو یاد رکھو کہ ان میں جو لوگ نیک کردار اور متقی ہیں یقینا ان کے لیے اللہ کے حضور بہت بڑ ادرجہ ہے‘‘۔ ۶۔ الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعو ا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل (۳:۱۷۳) ’’۶۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے بعض آدمی کہتے تھے تم سے جنگ کرنے کے لیے دشمنوں نے بہت بڑا گروہ تیار کر لیا ہے پس چاہیے کہ ان سے ڈرتے رہو۔ (اور مقابلے کے لیے باہر نہ نکلو) لیکن (بجائے ا س کے کہ یہ بات سن کر وہ ڈر جاتے) ان کا ایمان اور زیادہ مضبوط ہو گیا (وہ بے خوف و خطر ہو کر ) بو ل اٹھے ہمارے لیے اللہ کا سہارا بس ہے اور جس کا کارساز اللہ ہو تو کیا ہی اچھا ہے اس کا کارساز ہے‘‘۔ ۷۔ فانقلبوا بنعمۃ من اللہ فضل لم یمسسھم سوء واتبعوا رضوان اللہ واللہ ذو فضل عظیم (۳:۱۷۴) ’’۷۔ پھر (ایسا ہوا ) کہ یہ لوگ بے خوف ہو کر نکلے اوراللہ کی نعمت اور فضل سے شاد کام واپس آ گئے۔ کوئی گزند ان کو نہ چھو سکا اوروہ اللہ کی خوشنیودیوں کی راہ میں گامزن ہوئے (یہ اللہ کا فضل تھا) اور اللہ بڑا فضل رکھنے والا ہے‘‘۔ ۸۔ انما ذلکم الشیطن بخوف اولیاء فلا تخافوھم وخافون ان کنتم مومنین (۳:۱۷۵) ’’۸۔ (اور یہ دشمنوںکا بھیجا ہوا ایک مخبر انہیںبہکانا چاہتا تھا تو) یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ شیطان تھا جو تمہیں اپنے ساتھیوں سے ڈرانا چاہتا ہے۔ اگر تم ایمان رکھنے والے ہو تو شیطان کے ساتھیوں سے نہ ڈرو اللہ سے ڈرو اگر تم دل سے اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔ قریش مکہ جو مسلمانوں کی ہیبت کے خوف سے جنگ کے بغیر واپس لوٹ گئے۔ اس سے مسلمانوں کے لیے احد کی تلافی کاایک گونہ ذریعہ پیدا ہو گیا۔ کافروں کا اس طرح لوٹ جانا بدر کی پہلی شکست سے کم موثر نہ تھا۔ تاہم قریش آئندہ سال کے لیے جنگ کے منصوبوں سے غافل نہ تھے۔ غزوہ ذات الرقاع رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر ثانیہ سے واپسی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طر ف سے یاوری کے صدقے میں بہت مطمئن تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں قریش پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھجانے کی مسرت موجزن تھی تاہم آپ دشمنوں کی جانب سے غاف نہ تھے اوراپنے جاسوس چاروں طرف لگا رکھے تھے۔ اس دوران میں اطلاع ہوئی کہ بنو غطفان مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے نجد میں جمع ہو رہے ہیں۔ ایسے معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طرز عمل یہ تھا کہ دشمن کی ایسی غفلت میں اس پر حملہ آور ہوتے جس کی وجہ سے مدافعت کا موقعہ نہ مل سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ خبر سنتے ہی چار سو سواروں کاایک دستہ لے کر بنفس نفیس نکلے ۔ ان کے پڑائو کے قریب تشریف لائے تو بنو محارب اور بنو ثعلبہ (از غطفان) دونوں جمع ہو رہے تھے۔ جونہی ان کی نظر مسلمانوں کے لشکر پر پڑی سامان کے ساتھ عورتیں بھی وہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ نکلے۔ ۱؎ ان کے متروکہ سامان میں سے جس قدر مسلمانوںسے اٹھایا گیا لے گیا اورمدینہ کی طرف کوچ فرمایا( مگر انکی عورتوں سے تعرض نہ کیا : م:) ۱؎ کفار کے اس لشکر میں خالد بن ولید بھی موجود تھے (زد المعاد ابن القیم :م) مسلمان دشمن کے تعاقب کے خطرہ کی وج سے راستے میں صلوۃ خوف ادا کرتے اس طرح کہ ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں نیت باندھ کر مصروف قیا م ہوتا اور دوسرا حصہ پاسبانی کرتا۔ ان کے بعد پاسبانی کرنے والا گروہ نماز میں مصروف ہوتا۔ اور پہلا حصہ ان کی چوکیدار ی کرتا۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفقاء کے ساتھ فتح مندانہ واپس مدینہ تشریف لائے یہ سفر پندرہ دن میں ختم ہوا۔ غزوہ دومتہ الجندل اس سے کچھ مدت بعد (رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ دومتہ الجندل میں تشریف لے گئے۔ یہ مقام اس نخلستان میں واقع ہے جو بحیرہ احمر(قلزم) سے خلیج فارس اور شام و حجاز کے مقام اتصال پر واقع ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دشمنوں کے سر پر اچانک جا پہنچے جن سے فرار کے بغیر کچھ نہ بن پڑا۔ ان پر اس قدر وحشت چھائی کہ اپنا بے حساب ال و سامان بھی چھوڑ گئے جو مسلمانوں کے غنیمت میں ان کے کام آیا۔ جغرافیائی حیثیت سے دومتہ الجندل کے بعد مسافت اور محل و وقوع سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اصحاب کی دھاک لوگوں کے دلوں پر کس قدر بیٹھ گئی۔ تمام عرب قسم کھانے پر مجبور ہو گئے اوریہ کہ مسلمان دین کی راہ میں کس ثبات و استقلال کے ساتھ مصائب کا استقبال کرتے‘ جس میں نہ تو موسم کی شدت سے گھبراتے نہ خشک سالی ان کے عزئم میں مانع ہوتی اورنہ پانی کی قلت ان کے عزائم میں حائل ہوتی۔ بات یہ ہے کہ ان کے استقلال و ہمت کا واحد ذریعہ ان کی وہ معنوی قوت تھی جس نے ان کاایمان خدائے یکتا سے اس طرح وابستہ کر دیا تھا ک وہ ااس کے ساتھ کسی کو شریک نہ گردانتے۔ آج ۵ھ ہے جس میںرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ میں چند مہینے اطمینان سے سانس لینے کا موقع نصیب ہا۔ اس دوران میںصرف قریش کی طرف سے آنے والے سال میں حملہ کا خطرہ ضرور پیش نظر تھا۔ اس وقفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلام کے اس اجتماعی نظام کی ترتیب پر توجہ فرما رہے تھے فی الحال جس میں صرف چند ہزار نفوس منسلک ہیں لیکن یہ وقفہ گزر جانے کے بعد کروڑوں انسانوں کے معاشرہ کا مدار آج کے مربوط شدہ نظام پر قائم کیا جانا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دقت نظر اور حسن سیاست سے مدون فرما لیا‘ جس کے نظم و ترتیب میں وحی الٰہی کی رہنمائی و تعلیم شریک تھی کہ اگر کسی معاملہ میں منشائے وحی کے خلاف شبہ ہو سکتا ہو تو وہ اس پر آگاہ کر دے۔ چنانچہ ایسے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے اعتراف اور اصلاح فرمانے میں ذرا تامل نہ فرماتے کہ: وانہ الکتاب عزیز لا یاتیہ الباطل من بین یدید ولامن خلفہ تنزیل من حکیم حمید (۴۱:۴۱‘۴۲) ’’(قرآن) بڑے پائے کی کتاب ہے کہ جھوٹ نہ تو اس کے آگے ہی کی طرف اس کے پاس پھٹکنے پاتا ہے اور نہ اس کے پیچھے کی طرف سے۔ کیوں کہ حکمت والے سزاوار حمد و ثنا (یعنی خدا) کی اتاری ہوئی ہے‘‘۔ ٭٭٭ باب ۱۷ تذکرہ ازواج مطہراتؓ سابقہ دو فصلوں (۱۵ اور ۱۶) میں جن حوادث کا بیان ہوا ان حوادث کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یکے بعد دیگرے) تین بی بیوں کو اپنے حبالہ عقد میں آنے کی عزت بخشی: ۱۔ (ام المو منین) زینب بنت خزاعہؓ ۲۔ (ام المومنین) ام سلمہؓ بنت امیہ ابن المغیرہؓ ۳۔ (ام المومنین) زینب بنت جحش ؓ ان میں ام المومنین زینبؓ دختر جحش کی پہلی شادی(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے مشور ہ سے) حضرت زید بن حارثہؓ سے ہوئی تھی۔ زید غلام تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو ام المومنین حضرت خدیجہب کے ال سے خرید کر آزاد کر دیا۱؎۔ (شادی اس آزادگی کے بعد ہوئی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی سے پہلے انہیں اپنا متنبیٰ ہونے کا شرف بخشا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ میاں بیوی دونوںکی بن نہ پائی اور حضرت زیدؓ نے انہیں طلاق دے کر علیحدگی اختیار کر لی‘ جس کے بعد رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ زینبؓ کو اپنی زوجیت کے فخر سے ممتاز فرمایا۔ یہ معاملہ ہے کہ جس پر مستشرقین اوران کے زلہ ربامسیحی واعظین نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی بنا پر دلوں کا غبار نکالنے میں کوئی کمی نہیں رہنے دی۔ مسیحی اعتراف مسیحی منادوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا حیرت انگیز تبدیلی رونما ہو گئی۔ مکہ میں تو ان کی حیثیت ای ایسے داعی کیتھی جو قناعت کا علم بردار ہے۔ زہد کا حامل ‘ توحید کا مدعی ہے اور خواہشا ت دنیا میں کوئی شغف نہیں رکھتا‘ مگر مدینہ پہنچ کر حالت یہ نہیں رہی۔ اب عورتیں ان میں رغبت و شق کے جذبات کو ابھار دینے میں کامیاب ہیں حتیٰ کہ پہلے کیتیھن بیویوں پر بھی اکتفا نہیں کیا۔ ان تین ککے بعد اور تین عورتیں حر سرا میں داخل فرما لیں۔ اور نہ یہ کہ صرف ایسی عورتوں کو اپنے عقد میں لائے ج کے سر پر ان کے شوہر نہ تھے بلکہ شوہر دار بی بیوں کو ان کے خاوندوں سے طلاق دلوا کر اپنے حبالہ عقد میں لانا شروع کر دیا۔ جیساکہ زینبؓ دختر جحش کا واقعہ ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام (رہ چکے) تھے۔ ۱؎ بلکہ جناب خدیجہؓ نے از خود انہیں خرید کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبہ کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں آزاد فرما یا(:م:) واقعہ اس طرح رونما ہوا کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیدؓ کے ہاں تشریف لے گئے جو گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی اہلیہ بی بی زینبؓ نے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت یہ پرتکف پوشاک پہنے ہوئے تھیں۔ انہیں ایسے لباس میں دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور رغبت ہو گئی اور زبان سے کلمہ سبحان اللہ مقلب القلوب کہتے ہوئے واپس تشریف لے آئے۔ یہ کلمہ زینبؓ کے کان میں بھی پڑ گیا انہوںنے سمجھا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر کسی قدر مہربان ہیں انہوںنے اپنے دل میں ایک امید ……………ان کے شوہر (زیدؓ) دولت خانہ پر تشریف لائے تو بی بی نے تمام ماجرا من و عن بیان کردیا۔ زیدب اسی وقت آپ کی خدت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ میں زینبؓ کو طلاق دینے کے لیے آمادہ ہوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیدؓ سے فرمایا کہ نہیںخدا سے ڈرو اوراپنی اہلیہ کو طلاق مت دو۔ لیکن اس وقت زینبؓ اپنے شوہر سے بے تعلق سی ہو گئیں جس سے زیدؓ نے مجبور ہر کر انہیں طلاق ہی دے دی۔ ادھر جناب محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دل سے اگرچہ بی بی زینبؓ کے ساتھ عقد داری کے خواہاں تھے۔ لیکن اس معاملہ میں وہ کوئی بات زبان پر نہ لاتے تھے جس پر یہ وحی نازل ہوئی: واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک واتق اللہ و تخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشہ فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائھم اذ قضوا منھن وطرا وکان امرالہ مفعولا (۳۳:۳۷) ’’اور (اے پیغمبرؐ اس بات کو یاد کرو کہ) جب تم اس شخص کو سمجھاتے تھے (یعنی زید بن حارثہ ؓ کو) جس پر اللہ نے اپنا انعام کیا اور تم بھی اس پر احسان کرتے رہے کہ اپنی بی بی زینبؓ کو اپنی زوجیت میں رہنے دو اور اللہ سے ڈرے اور اس کو چھوڑ کر نہیں اور تم (اس بات کو) اپنے دل میں چھپاتے رہے کہ جس کو(آخر کار) اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔ اور تم (اس معاملے میں)( لوگوں سے ڈرتے تھے اور خدا اس کا زیادہ حق دار ہے۔ کہ تم اس سے ڈرو۔ زیدؓ اس (عورت) سے بے تعلقی کر چکا (یعنی طلاق دے دی) اور عدت کی مدت پوری ہوگئی تو ہم نے تمہارے ساتھ اس عورت کا عقد کر دیا تاکہ (عام) مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بی بیوں سے بے تعلق ہو جائیں تو مسلمانوں کے لیی ان عورتوں سے نکاح کر لینے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے۔ او ر خدا کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہے‘‘۔ جس کے بعد آپ بی بی زینبؓ کے ساتھ عقد فرما کر انہیں اپنے دولت کدہ پر لے آئے۔ سوال یہ ہے کہ آپ عجیب قسم مکے نبی ہیں جو خود کو دوسروں کے ساتھ توازن میں اس قدر ترجیح دیتے ہیں کہ آخر وہ خود اس قانون کی پابندی کیوںنہیں کر سکتے (قانون) کے متعلق انہیں مرسل من اللہ ہونے کا دعویٰ ہے ان کے حر سرائے میں عورتوں کو وہ ہجو جو صرف ہوس ناک امراء کے محلوں میں ہو سکتا ہے نہ کہ انبیاء علیہم السلام کے حر م میں جو نیک نہاد ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح کے داعی بھی ہوں تعجب ہے کہ خلعت نبوت سے مفتخر ہوتے ہوئے زینبؓ کی محبت اس قدر دل دادہ کیوں ہو گئے کہ آپ کی وجہ سے آ پ کے آزاد کردہ غلام زید ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جس کے بعد آپ اسے اپنے حبالہ عقد میں لے آئے؟ اپنے متنبیٰ کی بیوی سے مناکحت تو جاہلیت میں بھی روا نہ تھی‘ لیکن مسلمانوں کے نبی نے ان تمام حدوں سے گزر کر اپے لے جائز کر لیا کہ صرف نفسانی متابعت پر مبنی ہو سکتا ہے۔ جواب مستشرقین یا مسیحٰ مناد اعتراضات کرنے کے موقع پر وضعی تصورات کی رو میں اس طرح بہہ جاتے ہیں ک جیسے آندھی کے ساتھ تنکا معترضن کا ایک طائفہ کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نیم برہنہ بالکل عریاں دیکھ لیا اس حالت میں کہ زینب ؓکی سیاہ زلفیں ان کے سیمیں بدن پر بکھری ہوئی تھیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں ان کی محبت کی لگن پیدا ہو گئی۔ دوسرا گروہ جس وقت آپ ؐ نے خود زینبؓ کے گھر کا دروازہ کھولا وہ شب باشی کا لباس پہنے سو رہی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیکھ لیا اور… مگریہ راز دل میں چھپائے رکھا لیکن تابہ کے! اس قسم کے ذہنی مفروضات خصوصاً مندرجہ ذیل مستشرقین کی قوت متخیلہ کی پیداوار ہیں ولیم میور‘ درمنگھم‘ واشنگٹن ارونگ‘ لامنس وغیرہ اور واعظین کلیسا میں سے ہر ایک عل بردار مسیحیت یہ اعتراضات دیکھنے کے بعد ان مدعیان تحقیق کے حامیان عدل و انصاف کی دیدہ دلیری پر خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے؟ انہوںنے سیرت او ر حدیث کی کتابوں کا اپنا ماخذنو بنایا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے حر کی نسبت ایسے مرویات کو اپنے تصورات کا جامہ پہنا کر پیش کیا جس پر تحقیق و عدل دونوں نے سر پیٹ لیا۔ ان نکتہ چینیوں کو سب سے بڑا سہارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حر م سرائے میں نویا اس سے کچھ زائد بیویوں کے ہونے سے مل گیا۔ ہم ان تمام نکتہ چینیوں کا ایک ہی اصولی جواب یہ دے سکتے ہیں کہ اس میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ اور اس سے خات المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت پر کیا حرف آ سکتا ہے؟ جبکہ قانون یں بعض مستثنیات ایسی بھی تسلیم کی جا چکی ہیں کہ جو عوام کی مانند (خواص)کے مقابلہ میں کہیں بلند درجہ رکھتے ہیں (مثلاً) (۱) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو باہم دست و گریبان دیکھا تو قطبی کو مکا مار کر ہاک کردی ظاہر ہے کہ اس قسم کا قتل جنگ یا جنگ کے قریب کی حالت میں ہی روا ہو سکتا ہے۔ کیا فرماتے ہیں کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معترض اس مسئلہ میں کہ حضڑت موسیٰ علیہ السلام یک ہاتھ سے یہ قتل روا تھا یاناروا؟ اگرجائز ہے تو شریعت موسوی سے بھی ثابت فرمایا جائے اور اگر ناروا ہے تو کیا حضرت کلیم اللہ کی نبوت و عظمت اسی طرح داغ دار نہیں ہو سکتی جس طرح آپ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ طعن فرما رہے ہیں؟ (۲) اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا قضیہ ہے جو حضرت موسیٰؑ کے متذکرہ الصدر واقعہ اورجناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر معترض علیہ معاملہ بلکہ تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے احوال و کوائف سے عجیب تر ہے اور کسی قانون و شریعت و حدود معاشرہ میں اس کے جواز کے لیے دلیل نہیں مل سکتی یا قانون شریعت و آئین فطرت سب کے خلاف ہے یعنی در ولادت جناب مسیح ابن مریمؑ جر الزامات کی بریت میں خود مسیحیوںنے دلیل میں کہا کہ خدا کی پاک روح انسانی روپ میں مریم عذرا کے ساتھ یہ کہہ کر ان سے ہم کنار ہوئی کہ وہ ان کے رح میں ایک پاک نہاد طف کا نطفہ رکھے تا۔ جسے سن کر مریم نے روح رحمانی سے کہا سبحان اللہ میر ے بطن سے فرزند متولد ہو گا۔ جسے مرد نے مس تک نہیں کیا روح رحمانی نے کہا کہ مرد نے بے شک مس نہیں کیا مگر خداوند خدا کا یہی ارادہ ہے کیونکہ وہ اس مولود کو نشان ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اور جب مریم پر وضع حمل کی ساعت نازل ہوئی تو وہ ادھرادھر دبکنے لگیں۔ اس ندامت کے عالم میں ان کی زبان سے بھی نکل گیاکہ کاش اس گھڑی سے پہلے مجھ پر موت وارد ہو جاتی اور دنیا نے مجھے بھلادیا ہوتا ۔ اس وقت بھی روح مقدس (رحمان) نے مریم کی سمع عالی تک یہ بات پہنچائی کہ آپ اس قدر غمگین کیوں ہو رہی ہیں ؟ خداوند تعالیٰ نے آپ کے قدموں ک نیچے پانی کا چشمہ جاری فرما دیا ہے۔ پھر جب مریم اس بچے کو گود میں اٹھائے باہر نکلیںتو لوگوں نے دیکھ کر بڑا تعجب کیا کہ ان کے سرپر تو شوہر تو ہے نہیں یہ بچے کیسے پیدا ہو گیا؟ اور لوگوں نے اسی حیرت و برہمی میں بی بی سے کہا سبحان اللہ یہ ان ہونی شے آپ کہاں سے لے آئیں؟ اس کا جواب مریم کے بجائے خود طفل نومولود نے دیا۔ میںاللہ کا غلام ہوں جس نے مجھے اپنی کتاب (انجیل) عنایت فرمائی اور میں جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایا اور جب تک میں زندہ رہوں گا مجھے نماز و زکوۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہود کا حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت پر اعتراض یہ ہے مسیحی مسلمات کے مطابق حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی داستان ولادت جس پر یہودیوں نے برملا کنواری مریم ؑ کو یوسف نجار کے سر منڈھ دیا۔ جیسا کہ ریناں اور موجودہ زمانہ کے بعد دوسرے یہودی مصنفین کا حال ہے۔ ان کے دشمن کچھ کہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت و رسالت اس امر کی ضامن تھی کہ خداوند عال نے اس کے اثبات کے لیے قانون فطرت میں تبدیلی پیدیا کر دی۔ لیکن ایک طرف مسیحی مبلغین کا یہ تقاضا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف فطرت پید ا ہونے کے معجزہ کی بنا پر تام عالم صرف انہی کو آخری اور ابدی نجات دہندہ تسلیم کر لے اوراگر اسی قسم کی استثنائی حالت جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق پائی جائے جو عام قانون سے علیحدہ نظر آتی ہو تو مسیحی حضرات اس پر اعتراض و مواخذہ شروع کر دیں۔ حالانکہ دنیا کی ممتاز شخصیتیں بعض حالات میں سماج کے عام قانون سے مستثنیٰ ہیں۔ ہم اس دعویٰ کا پھر اعادہ کرتے ہیں کہ حاسدان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعتراضات کا اور جواب بھی دیا جا سکتا ہے۔ مسیحی مبلغین اوران کے مستشرقین ارباب قلم دونوں کا ۔ لیکن یہ انداز تاریخ کا سب سے بڑا گناہ ہو گا جس سے جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رسالت کی ناقابل تسلیم توہین کا ارتکاب ہو گا۔ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان معترضین کے تصورات کے مطابق ایسے گئے گزرے نہ تھے کہ واقعی آپ کی عقل و فرزانگی محبت بے جا کر شاکر ہو گئی جب کہ آپ نے کسی بی بی کو صرف محبت کی بنا پر اپنے حر م سرائے میں شامل ہونے پر مجبور کر دیا اور جو بعض سیرت نویس مسلمانوں تک نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق اس قسم کے تصورات زیب قرطاس فرمائے ہیں تو ان کی ذاتی خو ش اعتقادی کے سوا اور کس سے تعبیر کیجیے گا؟ ان مسلمانوں نے بھی دشمنان اسلام کے ہاتھ اپنے خلاف مضبوط کردیے۔ اگرچہ اس میں ان کی نیک نیتی سہی۔ اس قسم کے مسلمان مصنفوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ ایسی گھٹیا درجہ کی باتیں منسوب کرنے کو بھی عشق رسول میں اپنا کمال دکھانے کاتحفہ حاصل کرنا چاہا حتیٰ کہ شہوت دنیا جیسی ادنیٰ خصلت بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کر دی گئی۔ حالانکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن ان لغویات سے قطعا مبرا ہے۔ انتخاب حرم کا طریق زندگی کی پچیسویں بہار آنے پر بی بی خدیجہؓ سے عقدفرما لیا۔ جب کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شباب کی فرحتوں سے متمتع تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہؓ کے ساتھ اٹھائس سال گزرے۔ بی بی کی وفات کے موقعہ پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سن پچاس سال سے متجاوز ہو چکا تھا عرب میں تعداد ازواج کا عام رواج تھا گر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حرم میں صرف ایک خاتون تھیں۔ ان کے بطن سے کئی فرزند پیدا ہوئے گر ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہ سکا۔ چار دختر تھیں اور خدا کے فضل و کرم سے چاروں زندہ اور بیٹے زندہ نہ رہنے کی وجہ سے دوسری عورت سے نکاح کرلینے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ عرب میں دختروں کے زندہ درگو ر کر دینے کا دستور و نجابت میں داخل تھا۔ وہ فرزندوں کی سلامتی پر جان چھڑکتے تھے اور ان کے تخلف میں خوشی محسوس کرتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہؓ کی معیت میں نبوت کے قبل سترہ سال او ربعثت کے بعد گیارہ سال رفاقت فرمائی۔ کل مدت اٹھائیس سال ہوتی ہے لیکن ربع صدی سے زائد عرصہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی دوسری عورت کو ان کے ساتھ حرم سرائے میں رکھنا گورار نہ کیا۔ نہ کبھی اس اٹھائیس سالہ زندگی میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ایسے تصورات کا اظہار ہی ہوا۔ حالاں کہ اس عہد تک (تابہ زمانہ مصاحبت ام المومنین حضرت خدیجہؓ) ملک میں عورتوں کی بے حجابی سے فتنوں کا طوفان برپا رہتا جو گھروں سے باہر نکلتیں ت اس طرح بن سنور کر جسے بعد میں اسلام نے حرام قرار دے دیا۔ اس لیے یہ امر قطعاً غیر طبعی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سن مبارک پچاس برس سے متجاوز ہونے پر آیا تو بی بی زینبؓ نے اپنی جگہ یہ متصور فرما لیا ہو تکہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جس نظر سے دیکھا ہے اس سے آپ کے قلب کی پہلی حالت میں سرااسر انقلاب آ گیا ہے‘ وہ بھی اس حالت میں کہ حر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پانچ بی بیاں موجود ہوں جن میں عائشہؓ جیسی نیک نہاد اہلیہ جن کی درازی عمر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں ہمیشہ تمنا رہی۔ لیکن زینبؓ کے معاملہ میں آپ کے قدم اس طرح ڈگمگا گئے اور شب و روز زینبؓ ہی کی دھن میں لگے رہے۔ غیر طبعی امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پچاس سال سن کے بعد انہیں دیکھ کر یوں وارفتہ بن گئے ہوں خصوصاً جب کہ پانچ سال میں آپ کے حرف میں سات بیویاں اور سات برس تک نو تک ہوں یہ صورت تمام ایسے اعتراض جو بے سمجھ مسلمان ارباب سیرت اور عیار فرنگی مورخین دونوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی تشویش پر کیے گئے ہیں سب کی نفی کرتی ہیں جو تشویش کہ پست ذہنیت کے آدمیوں میں نہیں پائی جا سکتی چہ جائے کہ ایسی عظیم المرتبت شخصیت جس نے تمام دنیامیں انقلاب کی روپیدا کر دی اورآج کے بعد جلد ہی توقع ہو کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت دنیا میںپھر ایک انقلاب آ کر رہے گا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اس پہلو پر نظر ڈالیے۔ سن گرامی پچاس سال کے قریب تھا۔ جب حر م اولیٰ جناب خدیجہؓ کے بطن سے اولادیں پیدا ہوئیں یا (حضرت )ماریہ قبطیہؓ کے ہاں ایک فرزند(ابراہیم)متولد ہوئے۔ اس وقت نبوت پناہ کا سن مبارک ساٹھ سال تک پہنچ چکا تھا۔ کہنا یہ ہے کہ ان د و حرم (جناب خدیجہؓ و حضرت ماریہؓ) کے ماسوا سات یا نو بیویوں میں سے کسی کے بطن سے اولاد پیدا نہیں ہوء باوجودیکہ ان بی بیوں یں سے ہر ایک کا سن گرامی تیس چالیس برس کے قریب تھا جو تولید کا مناسب زمانہ ہو سکتا ہے۔ انہی ازواج مطہرات کے ہاں ان کے پہلے شوہروں کے صلب سے اولاد پیدا ہو چکی تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حر م میں ان کے داخل ہونے کے بعد پھر ایسا اتفاق نہ ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کا حادثہ ان طبعی قوانین کے خلاف نہ تھا۔ جن کا طعنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زینبؓ دختر جحش کے مبادی عقد میں دیا جاتا ہے باوجودیکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسان تھے جس سے آ پ کی ذات میں اولاد کا میلان بھی ہو سکتا ہے جو ہر انسان میں پای جاتا ہے (اگرچہ خدا کا رسول ہونے کے اعتبار سے آپ تمام امت کے روحانی باپ ہیں)۔ تاریخ کا فیصلہ اور تعدد ازواج نبی پر مسیحانہ بہتانات مسیحی مناد ومستشرقین کی کارگاہ الزامات میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو الزام عائد کیے گئے ہیں ان میں تعدد ازواج کے بارے میں تاریخ ان کی تردید کے لیے کافی ہے بایں ترتیب کہ: (۱) ام المومنین خدیجہؓ آپ کی رفاقت میں اٹھائیس سال تک زندہ رہیں۔ ا س دوران ممدوحہ کے ساتھ کسی اور بی بی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرف زوج نصیب نہ ہو سکا اور ان کی رحلت کے بعد ام المومنین حضرت جناب سودہؓ بنت زمعہ سے عقد فرمایا جو اس سے قبل سکران بن عمرو کی زوجیت میں تھیں اورجو مسیحی کارگاہ بہتان کے خلاف حسن و جمال جیسے اوصاف سے غیر مشہور تھیں نہ ثروت و عالی مرتبت ہونے کے اعتبار سے قابل رشک تھیں۔ اس کے اسباب یہ ہیں کہ یہ بی بی پہلے اسلام لانے والی مسلمان عورتوں سے تھیں جنہوںنے اللہ کی را ہ میں ہر قسم کے رنج و محن برداشت کیے۔ اپنے شوہر اول کے ساتھ حبشہ میں ہجرت فرمائی اور اس سفر میںدوسرے مہاجرین کے ساتھ ہر قسم کے دکھ سکھ میں شریک رہیں(حتیٰ کہ آپ کے شوہر نے انتقال فرمایا:م:) اور ان کے بے مثل صبر و تحمل کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ام المومنین کہلانے کا شرف بخشا) یہ جذبہ کس قدر شائستہ اور قابل مدحت ہے۔ (۲‘۳) ام المومنین جناب عائشہؓ و حضرت حفصہؓ کے ساتھ مناکحت کی توجیہہ دونوں امہا ت المومنین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر دو وزراء کی صاحب زادیاں تھیں۔ ان سے تزویج کا ایک مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ دور اندیشی ہے جس میں دونوں حضرات کو اپنے اور قریب کرن مدنظر ہے۔ جیساکہ جناب عثمانؓ و حضرت علیؓ کو اپنی دامادی میں لینے سے اپنے قریب تر رکھنا مطلوب تھا۔ بلاشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جناب عائشہؓ کے اتھ بے حد محبت تھی لیکن تزویج کے قبل ان کے ساتھ کوئی اس محبت کاکوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ غور کیجیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ٓ کے لیے خطبہ فرمایا تو بی بی کا سن مبارک سات برس کا تھا رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی ظاہر ہے کہ اس سن میں رغبت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ام المومنین جناب حفصہؓ سے التفات آ پ کے ساتھ تزویج سے قبل یہ نوبت آئی تھی جیسا کہ حضرت حفصہؓ کے والد عمرؓ فرماتے ہیں: واللہ! انا کنا فی الجاھلیہ ما نعد للنساء امر احتی انزل اللہ فیھن ما انزل وقسم لھن ما قسم ال فیبنما انا فی امر آتمرہ ا ز قالت لی امراتی لو صنعت کذ و کزا فقلت لھا ومالک انت ولما ھ ہسنا و ما تکلفک فی امر اریدہ فقالت لی عجبالک یا ابن الخطاب ما ترید ان تراجع انت وان ابنتک لتراجع رسول اللہ حتی یظم یوہ غضبان قال عمر فاخذت ردائی ثم اخرج مکانی حتی ادخل علی حفصہ فقلت لھا یابنیۃ انک لتراجعین رسول اللہ حتی یظم یومہ غضبان؟ فقلت حفصہ واللہ انا لنراجعہ فقات تعلمین انی احذرک عقوبہ اللہ وغضب رسول یا بنیہ لا یغرنک ھدالتی قد اعجبھا حسنھا وحب رسول اللہ ایاھا وقال واللہ لقد علمت ان رسول اللہ لا یحبک ولاانا لطلقک ’’بخدا! اسلام سے قبل ہمارے نزدیک عورتوں کی کوئی منزلت نہ تھی مگر اسلام آیا تو اس نے انہیں ترکہ میں شریک فرمایا تب ہم نے سمجھا چنانچہ ایک مرتبہ میں اپنے گھر میں بیٹھا ہواتھا کہ کسی امر میںصلاح مشورہ کر رہاتھا کہ میری اہلیہ نے ایک بات کہہ دی۔ میں نے اپنی اہلیہ کو زجر کی۔ اس پرمیری بیوی نے کہا اے ابن الخطاب آپ گھر میں اپنی گفتگو میں بولنے نہیں دیتے لیکن جناب کی صاحبزادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاموں میں دخل اندازی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کر رکھا ہے حتیٰ کہ ایک پورا دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حفصہؓ نے ناراض کررکھا ہے عمر فرماتے ہیں کہ میں کاندھے پر اپنی ردا رکھ کر حفصہ ؓ کے ہاں پہنچا وار کہا کیوں بی بی تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مناشقہ کر کے آپ کو اس قدر برہم کر رکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن بھر ناراض رہتے ہیں؟ حفصہ نے کہا کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے میں نے کہا بی بی ! میں آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے ڈرانے آیا ہوں اے حفصہؓ آپ کو اس معاملہ میں عائشہؓ کی برابری نہ کرنا چاہیے۔ ان سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت محبت فرماتے ہیں پھر حضرت عمر نے فرمایا اور اے بیٹی میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تم سے کوئی لگائونہیں اگر میرا واسطہ نہ ہوتاتو طلاق ہی دے دی ہوتی‘‘۔ اس سے ثابت ہوا کہ جناب عائشہؓ و حفصہؓ کے ساتھ عقد ان کی محبت کی بجائے دونوں حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ کی شخصیت کی وجہ سے فرمایا تھا تاکہ ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اپنے قریب لایا جا سکے جیسا کہ حضرت عائشہؓ کے بعد۔ (۴) ام المومنین سودہؓ کے ساتھ عقد کی توجیہہ انہیں حبالہ عقد میں لانے سے سرفروشان اسلام کی دل جوئی مقصود تھی۔ اگر مسلمانوں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید ہوجائے تو اسے اپنے پس ماندگان پر اس وجہ سے نہ ڈرنا چاہے کہ ان کی وفات سے وہ فاقوں میں گھر جائیں گے۔ (۵) ام المومنین جناب زینبؓ بنت خزیمہ عبیدہ بن حارث بن عبدالمطلب کے عقد میں تھیںَ وہ غزوہ بدر میں شہید ہو گئے۔ بی بی زینبؓ عطاء و بخشش میں دست سخاوت رکھنے کی وجہ سے ام المساکین کے لقب سے مشہور تھیںَ نیک محضر اور صافی القلب تھیں نہ کہ حسن و جمال سے شہرہ یاب۔ پھر شباب کی حدوں سے متجاوز ہو چکی تھیں۔ ام المومنین زینبؓ بنت خزیمہؓ حرم نبویؐ میں شامل ہونے کے دو یا ایک سال بعد جنت کو سدھار گئیں(جناب خدیجہؓ کے بعد حرم رسول میں آپ نے رحلت فرمائی) (۶)ٌ ام المومنین جناب ام سلمہؓ یہ بی بی حضرت ابوسلمہؓ کی اہلیہ تھیں۔ جن کے صلب سے کئی فرزند بقید حیات تھے ان میں سے ابو سلمہؓ غزوہ احد میں مجروح ہو گئے۔ ان کے زخم ابھی پوری طرح بھرے نہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو غزوہ احمر الاسد میں امیر دستہ فرما کر بھیج دیا۔ جس میں کامیاب ہو کر واپس تشریف لے آئے۔ مگر زخموں کے منہ کھل چکے تھے کہ دوبارہ بھرنے پر نہ آئے۔ اسی حالت میں ملائے اعلیٰ سے ملاقات فرمائی۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوسلمہؓ کی بالیں پر تشریف فرما تھے۔ ادھر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابو سلمہؓ کے لیے دعا مغفرت فرما رہے تھے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ بی بی ام سلمہؓ کی عدت کے بعدآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خطبہ فرمایا تو ام سلمہؓ نے کثرت عیال کے ساتھ اپنی سن رسیدگی کا بھی عذر کیا۔ تزویج کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام المومنین کے بچوں کی تربیت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ فرمایا۔ اگر اس پر بھی مسیح مبشتین و مستشرقین کی کارگاہ اتہامات سے یہی ہوائیاں چلتی رہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہؓ کے ساتھ بھی صرف ان کے حسن و جمال کی وجہ سے عقد فرمایا تو آپ ہی انصاف کیجیے کہ ایسے دشمن کا کیا کرے کوئی! کیا انصار ومہاجرین کے ہاں ایسی عورتیں نہ تھیں جو حسن و جمال میں بے مثل اور ثروت و شہرت میں ام سلمہ سے بدرجہا بہتر ہوں اور ان میں کسی کی گود میں پہلے شوہر کی اولاد بھی نہ ہو۔ جناب ام سلمہؓ کے حبالہ عقد میں لانے کا وہی داعیہ تھا جو حضرت زینتؓ بنت حزیہ کو شرف تزویج بخشنے میں کارفرماتھا۔ مسلمانوں کے ساتھ مزید قرب ان کے دلوں میں خدا اور رسول کی عظمت بیش از بیش پیدا کرنے کا وسیلہ‘ مسلمانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی و رسول ہونے پر آپ کو امت کاروحانی بات متصور کرانا ہر ایک مسکین و بے نوا و ناتواں و محتاج اور بے کس بمنزلہ باپ ہونا اور وہ بچے جن کے باپ راہ خدا میں شہید ہو جانے کی وجہ سے اپنی اولاد کو یکہ و تنہا چھوڑ گء ہیں ایسے بچے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا باپ سمجھیں۔ متذکرۃ الصدر تاریخی تفحص میں کیا نتیجہ نکتا ہے؟ یہ کہ ملک و ملت کے عام حالات میں ایک بیوی پر اکتفا کیا جا سکتاہے جیسا کہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کے ساتھ اٹھائیس سال بسر کیے۔ اسی طرح قرآن مجید اموال و ظروف کے مطابق ایک سے لے کر چار بیویوں تک کی بھی اجازت دیتاہے۔ تعدد ازواج فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنیٰ و ثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ اوما ملکت ایمانکم (۴:۳) ’’ وہ عورتیں جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو (یعنی دوسری عورتوں سے جو تمہیں پسند آئیں نکاح کر لو ایک وقت میں) د و دو تین تین چار چار تک کر سکتے ہو (بشرطیکہ ان میں انصاف کر سکو یعنی سب کے حقوق ادا کر سکو اور سب کے ساتھ ایک ہی طرح کا سلوک رکھو) ۔ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ انصاف نہیں کر سکو گے تو پھر چاہیے کہ ایک بیوی سے زیادہ نہ کرو یا پھر جو عورتیں (لڑائی کے قیدیوں میں) تمہارے ہاتھ آ گئی ہیں (انہیں بیوی بنا کر رکھو)۔ ولن تستطیعوا ان تعدلو بین النساء ولو حرصتم فلا تمیلو ا کل المیل فتذروھا کالعلقۃ ( ۴:۱۲۹) ’’اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طو ر پر) عدل کر سکو (کیوں کہ دل کا) قدرتی کھچائو تمہارے بس کا نہیں۔ (کسی کی طرف زیادہ کھینچے گا کسی کی طرف کم) پس ایسانہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک جائو اور دوسری کو اس طرح چھو ڑ بیٹھو گویا کہ وہ معلقہ ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظا م کر لے اور نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عور ت کی طرح ہو بیچ میں لٹک رہی ہے)۔ یہ دونوں آیتیں ہجرت کے بعد آٹھ سال میں نازل ہوئیں۔ جس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جملہ ازواج سے عقد فرما یا تھا۔ اب آ کر چار عورتوں کی تحدید فرما دی گئی اور اس حکم آسمانی سے قبل ایک اور چار کی کوی حد بندی نہ تھی۔ اس سے معترضین کا یہ اعتراض رفع ہو گیا کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس شے کو دوسروں کے لیے حرام کر دیا ہے اسے اپنے لیے مباح بنا لیا لیکن تعداد اسی صورت میں روا ہے کہ جب ان کے درمیان پور ا عدل و انصاف قائم رکھنے کا ہو۔ ان آیات میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل و انصاف عام انسانوں کی طاقت سے باہر ہے۔ اگرچہ ایک ہی عورت عام حالات کے مطابق قطعاً مناسب ہے مگر قوم و ملک کے حالات میں تبدیلی بھی توممکن ہے جس تبدیلی کے زمانہ میں ایک مرد کا چار عورتوں کے ساتھ عقد جائز بلکہ ضروری ہے۔ لیکن تعدد کی حالت میں عدل و انصاف کی شرط لازم ہے اور ایک مرتبہ اس تعدد کی اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہی عہد میں فرما دی گئی۔ کیوں کہ جنگوں میں مسلمان مردوں کے میدان میں کام آ جانے کی وجہ سے عورتیں بے شوہر رہنے لگیںَ جس سے تعدد ازدواج کے بغیر چارہ نہ رہا۔ لیکن تعدد کی حالت میں ہم لوگ اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ کسی عالم گیر جنگ یا وبائے عام یا دوسرے حوادث جن کے نتائج میں لاکھوں مرد طعمہ اجل ہو جائیں ایسے دور میں صر ف ایک ہی عورت پر اکتفا لاز مہے ؟ کیا ایسے ارباب مغرب یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ عال گیر جنگ کے بعد ان کا یہ قانون کہ جو ایک بیوی پر اکتفا کے لیے ہے ان کے ہاں عملاً بھی اس طرح جاری ہے؟ ام المومنین خدیجہؓ کی زندگی میں دوسری شادی کا خیال قطعاً ثابت نہیں‘ نہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ خدیجہؓ سے تزویج سے قبل کسی عورت سے معاملہ کے لیے اپنا لگائو ظاہر کیا تھا۔ باوجودیکہ اس دور میں پردہ کا رواج بھی نہ تھا۔ عورتیں ایسے بنائو سنگار میں آزاد تھیں جسے بعد میں اسلام نے حرا کر دیا۔ اندرین حالات میں یہ بات قطعاً غیر عقلی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پچاس سال کے سن سے متجاوز ہونے کے بعد دفعتہ ایسے رجحانات میں گھر گئے کہ سیدہ زینبؓ بنت جحش کے معاملہ میں یوں دل گرفتہ ہوگئے چہ جائے کہ حر م میں پانچ ازواج تشریف فرما ہوں جن میں سیدہ طاہرہؓ جیسی مونسہ ہوں جو تادم رحلت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معتمد علیہا رہی ہوں۔ ان حالات میں کیو ں کر باور کیا جا سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن رات سیدہ زینبؓ کے خیال میں گھلے جا رہے تھے؟ یہ ایسے حقائق ہیں جو ان مسلمانوں کے مفروضات کی تردید کے لیے بھی کافی ہیں‘ جنہوںنے اپنی طرف سے اضافہ فرما کر مستشرقین کے سامنے ایسی روایات رکھ دیں جو مادہ پرست انسان کے بھی شایان شان نہیں ۔ چہ جائے کہ ایسی عظیم المرتبت ہستی جس نے نئی دینا بنانے کے لیی تاریخ عالم میں اپنا مقام تمام بنی نوع بشر سے بلند حاصل کر لیا ہو۔ حضرت زینبؓ بن جحش سے مناکحت کے مبادی میں بعض مسلم اور بے شمار مسیحی واعظین و مستشرقین نے جو اضافات فرمائے ہیں ان میں یہ واقعہ عشقیہ داستان بن گیا ہے۔ چہ جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تزویج سے آپ کے مفاخر میں ایک اور اضافہ ہو گیا ہے ایک ایسے کامل الایمان کی مانند جس نے اپنے لیے بھی وہ اختیار فرمایا ہو جو دوسروں کے لیے کہا بحسب حدیث لا یکمل ایمان امرء حتی یحب لا خہ ا یجب لنفسہ ’’کوئی انسان کامل الایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے لیے وہی پسند کرے جو اسے دوسروں کے لیے پسند ہو‘‘۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاہلیت کی ایک مذموم رسم توڑنے کے لیے سب سے پہلے خود قدم اٹھایا تاکہ اس نظام جدید میں جسے اللہ نے اپنے بندوں پر رح و کرم کی صورت پر عائد فرمایا تھا خالی نہ رہ جائے۔ اس افتراء کی تغلیط کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ زینب ؓ بنت جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں جو بچپن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیلا کرتی تھیں۔ ان معنوںمیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بمنزلہ دختر یا خواہر خورد کے ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پہچانتے تھے۔ ان کے زیدؓ کی تزویج میں آنے سے قبل انہیں دیکھا ہوا تھا۔ بی بی زینبؓ کی طفولیت سے لے کر عہد جوانی تک کے ہر ہر سال و ماہ و یوم میں اور زیدؓ کے لیے خطبہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اس کے بعد ان تمام مفتریات پر نظر دوڑائے جن میں دو باتیں کہی جاتی ہیں۔ (الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیدؓ کے ہاں تشریف لے گئے تو وہ گھر میں موجود نہ تھے اورآ پ زینبؓ کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر سبحان اللہ مقلب القلوب کہتے ہوئے وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ (ب) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس وقت ان کے ہاں تشریف لاء اس وقت بی بی زینبؓ ایک باریک عبا زیب تن فرمائے ہوئے تھیں۔ کیا ا س وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصور سے آ پ کو اپنی موجود چھ بیویوں کا وجود بھی محو ہو گیا خصوصا ً خدیجہؓ کا تصور جن کے متعلق عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے خدیجہؓ کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی بیوی پر رشک نہیں کیا۔ ؤجب بھی ذکر آتا ان کی بے حد مدح فرماتے ۔ بی بی زینبؓ کے متعلق یہ ارادہ ہوتا تو آپ شروع ہی میں زیدؓ کی بجائے اپنے لیے خطبہ فرما سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زینبؓ کی اس قدر قریبی رشتہ داری تھی کہ اس قسم کے مفروضہ الزامات کی تردید کے لیے کافی ہے کہ اگر زینب ؓ بی بی کا حسن و جمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں اس حد تک جاگزیں تھا تو آپ زیدؓ کی بجائے اپنے لیے خطبہ پیغام نکاح میں کیا مانع تھا؟ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جناب زینبؓ کی قرابت خاصہ اور بیبی کی طفولیت سے لے کر سن رشد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب رہنا افتراء بازوں کی خیاالی بندشوں پر ایسی ضرب ہے جس کے سامنے ان کے اتہامات کی کوئی حقیقت نہیں رہتی۔ خطبہ برائے زیدؓ اس معاملہ میں تاریخ ہماری کیا رہنمائی کرت ہے بیشک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدؓ یک لیے اپنی پھوپھی زاد ہمشیرہ سیدہ زینبؓ سے خطبہ فرمایا جس سے ان کے بھائی عبداللہ (پسر جحش) نے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ ان کی ہمشیرہ ہاشمیہ ہیں اور انہیں ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ کیا ایسی نجیب الطرفین خاتون کا عقد اس شخص سے کر دیاجائے جسے قریش کی ایک ہی خاتون (ام المومنین خدیجہؓ) نے خریدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آزاد کیا ؟ یہ امر نہ صرف زینبؓ بلکہ تمام عرب کے اشراف کے لیے عاروندامت کا موجب ہو گا کہ شرفاء کی صاحب زادی کو غلاموں کے حبالہ عقد میں دے دیاجائے۔ عرب کی عجم پر عدم فضیلت مگر رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اس قسم کے نسلی امتیازات عملاً ختم کرنے کو تھے کہ عربی النسال ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ ان سے ہر عجمی نژاد پر برتری حاصل ہو جیسا کہ قرآن جومجید میں ارشاد ہے: ان اکرمکم عنداللہ اتقکم (۴۹:۱۳) ’’اللہ کے نزدیک تم میں سے بڑا وہ ہے جو تم میں پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا باخبرہے‘‘۔ اور فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نسلی برتری کے مٹانے کی غرض سے اپنے خاندان کے سو ا کسی اور کو اس امر کے لیے اتنا مجبور نہ فرما سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھ لیا کہ آپ کی پھوپھی زاد زینبؓ عرب کے نسلی امتیاز کو اس طرح رفع کر سکتی ہیں کہ ایک شریف زادی کا عقد ایسے شخص سے بھی ہو سکتا ہے کہ جو عام نظروں سے اس قدر کم درجہ کا سمجھا جاتا ہو کہ سماعت اس تصور کو گوارا نہ کر سکے۔ جناب زیدؓ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہونے کے ساتھ حضرت کے متنبیٰ ہونے کے فخر سیبھی بہرہ مند تھے۔ اور دستو ر عرب کے مطابق دوسرے عصبات و ذی العروض ے ساتھ اپنے منہ بولے والد گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیک ورثہ میں بھی شریک جسے بعد میں اسلام نے ختم کر دیا آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسلسل اصرار پر آپ کی پھوپھی زاد زینبؓ اور ان کے بھائی (جناب عبداللہ بن جحش) اس پر رضامند ہو گئے کہ جن کی دح میں یہ آیت نازل ہوئی: وماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ ن امرھم ومن یعص اللہ ورسولہ فقد ضل ضلال مبینا (۳۳:۳۶) ’’ اور کسی مسلمان مرد اور کسی مسلمان عورت کو شایان نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے بارے میں کوئی بات ٹھہرا دیں تو وہ (اپنی رائے کو دخل دیں) اور اس بات میں ان کا (اپنا) اختیار(باقی) رہے اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑ چکا ۔ عقد زینبؓ میں جبری رضامندی آیت مذکور ہ نازل ہوے کے بعد عبداللہ اور زینبؓ دونوں بہن بھائی اظہار رضامندی پرمائل ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق مہر ادا فرما دیا۔ لیکن زینبؓ کے فخر و نسب اور زیدؓ سے نفرت کسی میں کمی نہ آئی ۔ زینبؓ بار بار زیدؓ کے مقابلہ میں اپنی نجابت اور تشخص پر برتیری سے اظہار فرماتیں میں آزاد شدہ نہیں ہوں! ہر گھڑی کی اس چپقلش نے زیدؓکا ناطقہ بند کردیا۔ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دکھڑا سناتے اور طلاق دینے کی اجازت طلب کرتے ۔ ہر چند رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امسک علیک زوجک واتق اللہ ؎۱ (۳۳:۳۷) سے تلقین فرماتے لیکن زیدؓ کا ان کے ساتھ زندگی بسر کرنا اجیرن ہو گیا۔ آخر کچھ مدت انتظار کرنے کے بعد انہیں طلاق دے کر برطرف ہو گئے۔ منہ بولے بیٹوں کا معاملہ بات یہ ہے کہ عرب میں منہ بولے بیٹوں کے معاملہ میں حد سے بڑھ چکے تھے۔ انہیں صلبی اولاد کے حقوق حاصل تھے مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت آفرینی اس کو بھی گوارا نہ کر سکی کہ وہ بلا حجاب گھروں میں گھس آئیں یا استحقاق و حرمت نسب میں انہیں صلبی اولاد کا ہم پلہ قرار دیا جائے۔ اور میراث و ترکہ میں برابر کا حصہ دار ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ضروری سمجھاکہ منہ بولے بیٹوں کے حقوق ایک دوست یا دینی بھاء سے زیادہ نہ رہنے پائیں۔ ان حقوق بندی پر آخر یہ آیت نازل ہوئی: وما جعل ادعیاء کم ابنائکم ذلکم قولکم بافواھکم واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل (۳۳:۴) ’’اور نہ تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا بنایا نہ تممہارے زبان بدلنے کی ضرورت ہے اور اللہ تو حق بات کو پسند فرماتا ہے اوروہی لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے‘‘۔ ۱؎ اپنی بی بی زینبؓ کو اپنی زوجیت میں رہنے دے ارو اللہ سے ڈر اور اسے چھوڑ نہیں۔ اس آیت کے مفہوم کے مطابق رسو م کے اصلاح کنندہ کو خود ہی ایسا قدم اٹھانا چاہیے کہ سب سے پہلے باپ اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے عقد کر سکے۔ اور متنبیٰ کو اپنے منہ بوے بیٹے کی زوجہ سے عقد گوارا ہو۔ لیکن کسے یارا تھا جو ان رسوم کے خلاف عملاً قدم اٹھائے پھر عرب جیسے ملک میں جہاں صدیوں سے یہ رسمیں قوی طور پر دستور کے طریق پر تہذیب و تمدن میں داخل ہو چکی تھیں ماسوائے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن کی قوت عزیمت اور حکمت خداوندی پر عمیق ادراک و فکر نے آپ کو عملاً اس پر آمادہ کر لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کے اس حک کو نافذ کرنے کے لیے بی بی زینبؓ کے ساتھ عقد فرما لیا جنہیں آپ کے منہ بولے فرزند زیدؓ نے طلاق دے کر برطرف کر دیا تھا۔ مگرآپ کے دل میں یہ احسس بھی تھا کہ ملک کی اتنی قدیم رسم کے توڑنے پر لوگ کیا کہیںگے جیسا کہ: وتخفی ی نفسک ما اللہ مبدیہ و تخشی الناس واللہ احق ان تخشہ (۳۳:۳۷) ’’اور تم اس بات کو اپنے دل میں چھپاتے تھے کہ جس کو آخر کار اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تم (اس مقابلے میں) لوگوں سے ڈرتے تھے اور اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ ت اس سے ڈرو۔‘‘ لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احکام الٰہی کی انجام دہی میں تمام امت سے پیش پیش اور ان حکموں کی تبلیغ کے ذمہ دار تھے۔ آپ نے لوگو ں کی چہ میگوئیوں سے بے پرو ا ہو کر اپنے آزاد کردہ غلام زیدؓ کی مطلقہ سے عقد فرما لیا کیوں کہ احکام خداوندی کی تعمیل میں لوگوں سے ڈرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی خشیت اصل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بی بی زینبؓ سے اس لیے عقد فرما لیاتاکہ حکیم و دانا شارع صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکم خداوندی کو جاری کر سکیں جو منہ بولے بیٹے اور باپ دونوں کی وجہ سے باطل ہو رہاہے۔ جیسا کہ اس آیت سے ثابت ہے : فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکی لا یکون علی المومنین ؤحرج فی ازواج ادعیائھم اذا قضوا منھن وطرا وکان امر اللہ مفعولا (۳۳:۳۷) ’’پھر جب زیدؓ (اس عورت) سے بے تعلقی کر چکا (یعنی طلا ق دے دی او ر عدت پوری ہوگئی تو) ہم نے تمہارے ساتھ اس عورت کا نکاح کر دیا تاکہ عام مسلمانوں کے لے پالک جب اپنی بی بیوں سے بے تعلق ہو جائیں تو مسلمانوں کے لیے ان عورتوں سے نکاح کر لینے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور خدا کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہیے‘‘۔ ام المومنین زینبؓ کے واقعات صرف اتنے میں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد ہیں اس رشتہ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں زیدؓ کے نکاح میں آنے سے قبل ہمیشہ دیکھا۔ آپ ہی نے زیدؓ سے ان کا خطبہ فرمایا۔ زیدؓ سے ان کا عقد ہوجانے کے بعد جب تک یہ آیہ حجاب نازل نہ ہوئی تھی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ار بی بی زینبؓ کے درمیان قرابت کی وجہ سیایک دوسرے کے سامنے آنے میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ ان کے ہاں آنے جانے میں کوئی تکلف کہ زینبؓآپ کے منہ بولے بیٹے زیدؓ کی اہلیہ تھیں بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دونوں میاں بیوی کے باہمی ان بن کی وجہ سے ان کے ہاں بار بار جانا پڑتا تھا اور اس لے بھی کہ اس معاملہ میں احکام الٰہی کا نزول شروع ہو گیا جن میں اس طلاق کے بعد بی بی زینبؓ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ککے عقد میں آنے کا اشارہ بھی تھا۔ غلام اور حقوق شہریت یہی احکا م دوسری حیثیت سے آزادہ کردہ غلا کو شہریت کے حقوق دلانے کا سبب ہوئے اور یہی احکا م منہ بولے بیٹوں کے وہ حقوق ختم کرنے کا موجب ہوئے جن (حقوق) کی وجہ سے ان صلبی بیٹوں کے ساتھ کلی مناسبت قائم ہو چکی تھی اور انہی احکام نے آئندہ کے لیے منہ بولے بیٹوں کے لیے کوئی ایسی گنجائش نہ چھوڑی کہ جس کے وہ مستحق نہ ہوتے ہوئے ان سے مستفید ہو رہے تھے۔ سوا ل یہ ہے کہ اس قدر واضح احکام اور صحیح واقعات کے ہوتے ہوئے ان فسانوں کی اہمیت کیا رہ جاتی ہے جو اس عقد میں وضع کیے گئے اور مستشرقین نے ان کی فسانوی حیثیت کو جانتے ہوئے ان سے اپنی تالیفات میں استفادہ کیا؟ ان محققین میں برسرعنوان میور ارفنج اسپرنگر سیل درمنگھم اور لامنس وغرہ ہیں جنہوںنے تحقیق کی آڑ میں مسیحیت کی تبلیغ کے لیے یہ گل کھلائے۔ ان مسیحی مصنفین کے دلوں میں حروب صلیبیہ کی وجہ سے جو آگ صدیوںسے سلگ رہی تھی اس کی وجہ سے یوں جلتے رہنا ان کے لیے مقدر میں تھا کہ وہ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایسی کتابیں لکھیں کہ ج میں آپ کی ازدواج خصوصاً زینبؓ کے عقد کی وجہ سے پانی پی پی کر کوسا جا سکے۔ انہوںے تاریخ کا کتنا بڑا گناہ کیا کہ دیدہ ودانستہ اپنی تحقیق کا مبنی ضعیف اورموضوع روایات کو قرار دیا۔ اگر یہ تحقیق صحیح روایتوں پر مبنی ہوتی تو پھر ہمیں یہ کہنے کا حق ہوتا کہ دنیا کے بلند ترین اشخاص کی عوام کی طرح ہر قانون کا پابند نہیں ہوتے جیساکہ: (الف) حضرت موسیٰؑ نے ایک قطبی کو قتل کردیا اور ان پر سزا وارد نہ ہو سکی ۱؎ (اور ان کے رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر نازل شدہ کتاب( تورات) یہودیت کا دستور شریعت قرار پائی :م:) (ب) جناب مسیحؑ باپ کے بغیر پیدا ہوئے اور مسیحیت کی روح سے انہیں روح القدس ۲؎ اور کیا کیا نہ کہا گیا بلکہ مسیح علیہ السلام کا اس طرح متولد ہونا ہی ان کے لیے وجہ تقدیس بن گیا (طریق تولید کے اس قدر خلاف اور اس کے متعلق یہ حسن عقیدہ :م) ۱؎ خروج باب ۱ نمبر ۱۲‘۱۳‘۱۴ ۲؎ لوقا‘ باب ۱ نمبر ۲۶ تا ۳۵ (۳) حضرت یونسؑ (جنہوں نے برملا خدا وند خدا کی بے فرمانی کی پاداش میں عبرت انگیز سزا پائی ۱؎ لیکن انبیائے مرسلین ؑ پر ایسے عوارض کی وجہ سے ان کے علو مرتبت کے ہوتے ہوئے طعن نہیں کیا جاتا)۔ بخلاف ان کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنہوںنے وحی خداوندی کی رہبری میںنظام اجتماعی کی بنیاد رکھی اور اسی الہام کی رہنمائی میں اس نظام کو مربوط و مستحکم فرمایا جس کی بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بلند مرتبہ نصیب ہوا اور آپ کے اس اسوہ حسنہ کو سراہا گیا کہ آپ نے خدا کے احکا م کی تبیلغ میں کس قدر فراست و تدبر کو سمو دیاہے ایسی جامع الصفات ہستی کے لیے مسیحی مبلغوں نے چاہا کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسروں کے لیے چار بیویوں کی تحدید کر دی خود بھی اسی حد تک رہتے او ر اپنی چار بیویوں کے ماسوا سب کو طلاق دے کر علیحدہ کر دیتے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے یہی مناسب ہوتا اور ایسا ہی کر گزرتے تو کیاآپ مسیحٰ مہربانوںکے ان طعنوں سے بچ سکتے تھے؟ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے حرم کے ساتھ سلوک کو جو تذکرہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی زبان سے پیش کیا گیا ہے اور ابھی اس کی اور وضاحت ہو گی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بیویوں کا جس قدر احترا م جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اس کے مطابق اس صنف پر لطف و کرم کی کوئی اورنظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ ۱؎ خداوند خدا کا کلام یوناہ (م: یعنی یونس) بن تی پر نازل ہوا کہ اٹھ اور اس شہر نینوا کو جا اور اس کے خلاف منادی کر کیوں کہ اس کی شرارت میرے حضور پہنچی ہے لیکن یوناہ خداوند کے حضور سے ترسیس کو اٹھ بھاگا اور یافا میںپہنچا ار وہاں سے اسے ترسیس کوجانے والا جہاز نہ ما اور وہ کرایہ دے کر اس پر سوار ہوا تاکہ خداوند خدا کے حضور سے ترسیس کو اہ جہاز کے ساتھ لے جائے۔ لیکن خداوند نے سمندرپر بری آندھی بھیجی اورسمندر میں سخت طوفان برپا ہوا اور اندیشہ تھا کہ جہاز تباہ ہو جائے۔ تب ملاح ہراساں ہوئے اورہر ای نے اپنے دیوتا کو پکارا۔ تب وہ خوف زدہ ہو کر اس سے کہنے لگے کہ تونے یہ کیا یا۔ کیوں کہ ان کو معلوم تھا کہ وہ خداوند کے حضور سے بھاگا ہوا ہے اس لیے کہ اس نے خود ان سے کہا تھا (یوناہ باب۱ نمبر ۱ تا ۱۰) :م۔ ٭٭٭ باب ۱۸ جنگ خندق (یا احزاب) اور یہود بنو قریظہ مدینہ میں یہود کے تین بڑے قبیلے آباد تھے: (الف) بنو قینقاع: سب سے پہلے انہی کا اخراج عمل میں آیا۔ (ب) بنو نضیر: (الف) کے بعد خارج البلد کیے گئے۔ (ج) بنو قریظہ: جن کی داستان زیر تسوید فصل اٹھارہ میں بیان ہو رہی ہے۔ بنو قینقاع کے بعد بنو نضیر بھی اپنے تمرد کی پاداش میں مدینہ سے جلا وطن کر دیے گئے۔ غزوہ بدر ثانیہ میں ابو سفیان مقابلہ پر آئے کہ واپس لوٹ گئے۔ قبائل نے غزوہ غطفان و دومتہ الجندل میں اپنی فوج کشی کا نتیجہ دکھ لیا تب کہیں مسلمانوں کو مدینہ میں سکھ کا سانس لینانصیب ہوا۔ اگرچہ وہ تجارت کے لیے اب بھی سفر نہ کر سکتے تھے نہ کھیتی باری کے لیے کھلے بندوں شہر کے باہر نق و حرکت کی گنجائش تھی بلکہ اس عرصہ میں غنیمت اور فے میں سے جو جس کے حصے میں آیا اسی پر گزربسر کر کے زندگی کا یہ وقفہ بسر کر دیا۔ اس وقفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فکر مندی لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقفہ میں یکسو نہ رہ سکے کہ دشمن کس وقت کون سی چال چل جائیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جاسوس ادھر ادھر پھیلا دے تاکہ وقت سے پہلے مدافعت کی تیاری کی جا سکے ۔ مسلمانوں کے لیے چارہ کار بھی کیاتھا۔ قریش مکہ اور قبائل نے ان کے خلاف جو قیامت برپا کر رکھی تھی کسی وضاحت کی محتاج نہیں ۔ ہر ایک رسم میں اندھی تقلید وار جمود کے باوجود ملک کے تمام باشندے شہری ہوں یا بدوی سبمیں ایک قسم کا جمہوری نظام مروج تھا۔ جس میںلباس و اطوار و خصائل بلکہ مذہب تک میں توحد تھا۔ عرب کے رہنے والے بعد مسافت کے باوجود ایک دوسرے کے اس قدر قریب تھے کہ جس کی نظیر دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب نژاد ہونے کی وجہ سے اپنے ملک میں بسنے والی قوموں کے شعور سے پوری طرح واقف تھے۔ اور ان سے ہمہ وقت خائف رہتے تھے کہ نہ معلوم کینہ توز عرب کس وقت مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں۔ قریش مکہ بدر کے مقتولین کی وجہ سے ان کے خون کے پیاسے بنو قینقاع اور بنو نضیر مدینہ سے اخراج کے غصہ میں ان کے دشمن بنو غطفان و بنو ھذیل ان سے انتقام لینے کے درپے اور قبائلی عصبیت کی وجہ سے تمام عرب ایک دوسرے کی حمایت میں کمر بستہ۔ عرب کاایک ایک متنفس رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی کئی وجوہ سے انتقام لینے کے لیے سربکف ہے۔ انہیں یہ دکھ بھی کھائے جارہا تھا کہ کل جو شخص اپنے وطن سے ایمان باللہ کے سوا کوئی اور دولت لیے بغیر نکل آیا تھا اسنے مدینہ میں پانچ سال کے اندر اس قدر قوت حاصل کر لی تھی کہ اطراف و جواب کے تام بڑے شہر اور صحرائے عرب کے ہر ایک قبیلہ میں اپنی ڈھاک بٹھالی۔ یہود کی خصومت حاسدان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام عرب سے زیادہ یہود کی خصومت خطرناک تھی‘ جو اپنی علمی بصیرت کے پرتو میں یہ جاننے کے باوجود کہ ایک نہ ایک روز جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے سامنے ان یہودکی سیادت کاچراغ بجھ جائے گا اگرچہ وہ خو د بھی توحید کا پرچار کر رہے تھے ادھر نصاریٰ کے ساتھ ان کی شروع سے رقابت تھی جن پر غالب آنے کی امید میں انہوںنے صدیاں گزار دیں۔ یہود کی برتری کی یہ تنا بعید از قیاس بھی نہ تھی کہ بلند مرتبہ انسان طبعاً توحید پر مائل رہتاہے اس کی وجہ سے انہیں مسیحانہ تثلیث سے رغبت نہ ہو سکی۔ آج یہود کے نصرانی دشمنان توحید کے مقابلہ میں ایک داعی توحید جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہور فرمایا جو عالی نژادگی میں بے مثل اور دنیا کی عظیم ترین تمام شخصیتوں سے برتر تھے۔ توحید کی دعوت جس انداز میں پیش فرمائی دلوں میں یوں بس گئی کہ جسے قبول کرنے والوں نے خود میں اپنی پہلی حالت سے بہت کچھ برتری دیکھی۔ اور جونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قوت حاصل کی پہلے یہود بنو قینقاع کو مدینہ سے خارج ہونے کے لیے مجبور فرمایا اور اس کے بعد یہود بنو نضیر کو انہی کے قدموں پر چنے کے جرم میں شہر سے باہر دھکیل دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہود کے یہ دونوں ٹولے جب اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنے آبائی وطن بیت المقدس (ارض موعود) کی ست لوٹے تو اپنے دل میں غیظ و غضب کے بغیر چلے گئے؟ یا انہوں نے یہ اراہ نہ کیا کہ جس طرح بن پائے اپنا انتقام لینے کے لیے قبائل عرب کو بھڑکایا جائے؟ بنو قریظہ کا مشرکین سے الحاق بنو قریظہ کے دل میں غیظ کی جو چنگاری سلگ رہی تھی اسے ہوا دینے کے لیے انہوںنے رو رو کر عرب سے التجائیں کیں۔ ابن ابو الحقیق کے دونوں بیٹے (سلام و کنانہ) اور حی بن اخطب ھرسہ یہودان ابو نضیر اور بنو وائل کے دو بڑے سرغے ہوذہ بن قیس اور ابو عمارہ (پانچ آدمیوں کا غول) وفد کی صورت میں قریش مکہ کے ہاں پہنچا جنہوںنے حیی بن اخطب سے دریافت کیا کہ بنو نضیر کے عزائم کیا ہیں۔ حیی: وہ خیبر اور مدینہ کے درمیان پڑائو ڈالے تمہاری راہ تک رہے ہیں۔ تاکہ قریش کے ساتھ مل کر جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں پر حملہ آور ہوں۔ قریش: اور بنو قریظہ کس حال میں ہیں؟ (یہ قبیلہ ابھی تک مدین ہمیں تھا) حیی: بنو قریظہ( حضرت ) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فریب میں رکھنے کے لیے ابھی تک مدینہ ہی میں موجود ہیں اور موقع کے منتظر ہیں ۔ اس منزل پر قریش اس فکر میں ڈوب گئے کہ آیا انہیں جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنا مناسب بھی ہے یا نہیں ۔ ان اک اختلاف ان کے ایمان باللہ کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ اب ان کی دعوت کا حلقہ رو زبروز وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ حق پر ہیں؟ یہاں پہنچ کر قریش نے یہود سے ایک اور سوا ل کیا: قریش کا یہود سے مذہبی تفاوت کا سوال قریش مکہ نے ان یہود سے برملا پوچھا کہ اے برادران یہود! حضرات کو اہل کتاب ہونے میں اولیت حاصل ہے آپ کو ہمارے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اختلاف بھی معلو م ہے۔ ہم آپ سے یہ دریافت کرنا اچاہتے ہیں کہ ہمارا دین بہتر ہے یا ہمارے حریف کا؟ یہود کا جواب صاحبو آپ کا دین اسلا م سے بہتر ہے اور ان کے مقابلہ میں آپ لوگ حق بجانب ہیں! ادھر یہود کے ا س کتمان پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی: الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یومنون بالجبت والطاغوت ویقولون للذین کفروا ھولاء اھدی من الذین امنوا سبیلا اولئک الذین لعنھ اللہ ومن یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیراہ (۴:۵۱:۵۲) ’’(اے پیغمبرؐ) کیا تم نے لوگوں (کے حال پر) نظر نہیں ک جن کو کتاب آسمانی سے حصہ دیا گیا اور لگے بتوں کا اور شیطان کا کلمہ پڑھنے اور (نیز)مشرکین کی نسبت کہنے لگے کہ مسلمانوں سے تو یہی لوگ زیادہ روبراہ ہیں۔ (اے پیغمبرؐ!) یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے پھٹکار دیا اور جس کو اللہ کی پھٹکار ہے ممکن نہیں کہ تم کسی کو اس کا مددگار پائو‘‘۔ یہود کے جواب سے ان کے مشہور مستشرق کی برمات توحید کے مقابلہ میں قریش کے سامنے بت پرستی کی تعریف میں ڈاکٹر اسرائیل ولنسفوں اپنی کتاب (تاریخ یہود فی العرب) میں فرماتے ہیں: ’’یہود نے کیسا ستم ڈھایا کہ جو قریش کے سامنے بت پرستی کو توحید اسلامی کے مقابلہ میں بہتر قرار دیا ! انہیں اس معاملہ میں اس درجہ دشمنی کا ثبوت نہیں دینا چاہیے تھا۔ کہ جادہ حق سے منحرف ہو جائیں اور قریش کے قائدین کے روبرو ہرگز یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ بت پرستی توحید سے بہرحال اعلیٰ ہے۔ چاہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ مشرکن مکہ اس سازش میں ان کے ہم نوا نہ ہو سکتے۔ مگر وہ بھول گئے کہ خود ان کے مورث اعلیٰ یعنی بنی اسرائیل نے بت پرستی کے خلاف کس طرح قوموں سے جنگیں جاری رکھیں اور توحید پھیلانے کے جرم میں ان کے پیش روئوں مٰںسے کتنے حضرات نے جام شہادت نوش کیا اور ان میں کتنے حضرات صرف خدائے واحد پرایمان لانے کی پاداش میں زخمی ہوئے ۔ یہود کو چاہیے تھا کہ بت پرستوں کو سرنگوں کرنے کے لیے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کر دیتے اور جس قدر مال و دولت ان کے قبضہ میں تھا اس راہ میں لٹا دینا اپنا فرض سمجھتے نہ یہ کہ انہوںنے بت پرستوں کے سامنے ا ن کے عقیدہ کو سراہا ۔ یہ تو اپنے عقیدہ کے خلاف جنگ کرنا تھا اور تورات کی ا س تعلیم کے منافی جس میں بت پرستوں سے نفرت اور ان کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم موجود ہے‘‘۔ قریش کے ساتھ سازش کے بعد قبائل میں تحریک قرار پایاکہ حملہ کیا جائے اور تیاری کے لیے اتنے مہینو ں کی مہلت طے کی گئی حیی بن اخطب اور ان کے دوسرے یاران سرپل (یہود) نے قریش مکہ ہی کے ساتھ معاہدہ کافی نہ سمجھا بلکہ مندرجہ ذیل قبیلوں میں سے ایک ایک کے ہاں چل کر گئے۔ غطفان (از قیس بن عیلان) بنومرہ‘ بنو فزارہ‘اشجع‘ سلیم‘ بنو سعد‘ بنو اسد‘ اور ان کے ہر اس قبیلہ کے پاس جس کا کوئی ایک متنفس مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جا چکا تھا۔ یہود نے ہر ایک قبیلہ کو مسلمانوں سے اپنا اپنا بدلہ لینے کے لیے بھڑکایا اور انہیں یہ کہہ کر تسکین دی کہ اس معاملہ میں قریش بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ یہود ان قبائل کے سامنے بھی بت پرستی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں پیش پیش رہے اور اس حملہ پر انہیں فتح و نصرت کا یقین دلانے میں انہوںنے کوئی کسر باقی اٹھا نہ رکھی۔ مدینہ تا راج کرنے کے لیے یہود بنو نضیر کی محنت کا ایک حصہ بار آور ہو ہی گیا۔ چاروںطر ف سے کفار کے دل یک دل امڈ آئے۔ ابو سفیان مکہ سے چار ہزار شمشیر زن لے کر نکلے جن کی سواری میںتین سو کمیت گھوڑے اور ایک ہزار باد رفتار سانڈنیاںتھیں لشکر کا علم قریش کے دارالندوہ میں بیٹھ کر بانس سے پرو یا گیا تھا۔ عثمان بن طلحہ کو علم برداروں کا منصب عطاہوا جس کا باپ احد میں اسی علم برداری کے صدقے میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو چکاتھا۔ قبائلی لشکر بنو فزارہ کے ان گنت نوجوان نکلے جن کے پاس سواری میں ایک ہزار تیز رو سانڈنیاں تھیں ان کا سپہ سالار عینیہ بن حصن بن حذیفہ تھا۔ قبلہ اشجع اور مرہ سے ہر یکک کے چار چار سو دلاور نکلے۔ ان کے امیر لشکر مسعر بن رحیلہ اور حارث بن عوف علی الترتیب تھے قبیلہ بنو سلیم جنہوںنے مقام قرقرہ الکدر پر اپنے خروج کی سزا پائی تھی۔ سات سو سورمائوں کے ہمراہ لے کر آ پہنچے۔ اسی طرح بنو سعد اورانہی کی مانند بنو اسد سب کی مجموعی تعداد د س ہزار کے قریب ہو گئی۔ لشکر کے سپہ سالار اعظم ابوسفیان بن حرب تھے۔ محاصرہ کے دوران میں قبائل نوبت بہ نوبت لڑتے۔ آج اگر ان میں سے ایک مورچہ پر آیا تو کل دوسرا اور اسی قبیلہ کا سپہ سالار انہیں لڑائی کے لیے مشتعل کرتا۔ مسلمانوں کی گھبراہٹ مدینہ میں تمام خبریں سنی جاتیں۔ مسلمان ڈر رہے تھے کہ مبادایہ لشکر جرار انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ کبھی خیال گزرتاکہ عرب کی تاریخ میں اتنی بڑی فوج آج تک یکجا نہیں ہوئی۔ یہ کیا ہوا؟ کبھی انہیں احد کا حادثہ یاد آ جاتا کہ وہاں اس سے ک فوج نے انہیں شکست دے دی اور اتنے بڑے لشکر کے سامنے وہ کیوں کر ثابت قدم رہ سکیں گے جو تعداد و اسلحہ و سواری اور رسد کی اس قدر قوت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کی مشاورت اور خندق کھودنے کی قرارداد قرار پایا کہ کھلے میدان میں نکل کر مقابلہ کرنے کی بجائے شہر میں رہ کر ہی مدافعت کی جائے اگرچہ مسلمانوں کو اس صورت میں بھی اپنے عہدہ برا ہونے کا یقین نہ تھا۔ سلمان فارسیؓ مدینہ میں تشریف فرما اور خندق کھودنے کے طریقے سے واقف تھے۔ (جس سے عرب بے خبر تھے) سلمان ؓ جنگ کے بھی ماہر تھے انہوںنے مشورہ دیا کہ داخلی قوت مجتمع کر کے شہر کے اردگرد ۱؎ خند ق کھو د لی جائے۔ ان کے نقشہ کے مطابق کھدائی شروع کر دی گئی۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شریک ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈلیا سرپر اٹھاتے سلمانوںکے حوصلے بڑھاتے اور صحابہ کو جدوجہد تیز کردینے کی تلقین کرتے۔ یہود بنو قریظہ آج تک مدینے میں موجود تھے اوران کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ بھی تھا۔ کھدائی کا ضروری سامان ڈلیا گیندارا کدال اور پھائوڑے وغیرہ جو یہودیوں کے پاس بکثرت تھے ان سے حاصل کیے گئے۔ تکمیل خندق عورتوںاور بچوں کی حفاظت خندق چھ روز میں مکمل ہوئی۔اسی عرصہ میں ان مکانوں کی مرتب بھی کرا لی گئی جو دشمن کی زد میں آ ستکے تھے اور خندق سے باہر دو فرلانگ کے فاصلہ کے اندر تھے۔ عورتوں اور بچوں کو محفوظ حویلیوں میں یکجا کر دیا گیا اور خندق کے اندرونی کنارے پر پتھر کے ایسے چھوٹے بڑے ٹکڑے جمع کر دیے گئے جووقت پڑنے پر دشمن پر برسائے جا سکیں۔ کفار کی خندق دیکھنے سے تلملاہٹ قریش اپنے گھر سے یہ امیدیں لے کر نکلے تھے کہ پہلے کی طرح اس مرتبہ تھی احد ہی میں رن پڑے گا اور اسی لگن میں میدان احد میں پڑائو ڈال دیا۔ جب وہاں کسی کو نہ پایا تومدینہ کی طرف بڑھے یہاں خندق کھدی ہوئی دیکھ کر تلملا اٹھے عرب کے لیے اس طرح سے اوٹ میں لڑنا عار ہے۔ کفار کے مورچے قریش اور ان کے لگے بندھے قبائل نے اس تلیا کے سہارے مورچہ بنا لیا ‘ جس میں وادی رومہ کا پانی سمٹ کر جمع ہوتا ہے۔ قبیلہ غطفان اور ان کے پہاڑی یاران سرپل نے مدینہ کی وادی نقمی کے کنارے پڑائو ڈال لیا۔ اورمسلمانوںکا محاذ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف تین ہزار مسلمان تھے۔ (اور کفار کی تعداد کا دس ہزار)خندق سے شہر کی سمت سلع نامی پہاڑی کی پشت کی طرف مسلمانوں کا مورچہ تھا۔ ۱؎ شہر سے باہر کے حصہ میں صرف شام کا رخ کھلا ہوا تھا اور ا س طرح خند ق کھودی گئی باقی تینوں سمتوں میں پہاڑ ہیں:م جس میں فخر کائناب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے سرخ رنگت کا خیمہ نصب کیا گیا۔ فریقین کے درمیان خندق حائل تھی۔ قریش اور ان کے فریب خوردہ لشکریوں نے جب خندق کا عبور کرنا موت سے کھیلنا سمجھا تب انہوںنے تیر برسانا شروع کر دیے جس کے جواب میں ادھر سے بھی ان کے تواضع میں کمی نہ ہونے پائی۔ لشکر کفار سردی کی زد میں ابوسفیان اور ان کے ساتھیوں کو یقین ہو گیا کہ خندق انہیں مدت تک کامیاب نہ ہونے دے گی۔ سرما کا موسم اور چلے کا جاڑا جسے ٹھنڈی ہوائوں نے اور مہمیز دے رکھا تھا اوپر سے مہاوٹ کا خطرہ۔ ٹھٹھرن سے ہر شخص کے سر پر موت منڈلا رہی تھی۔ کفار اپنے اپنے گھروں میں لاکھ بے سروسامان سہی مگر اہل مکہ اور غطفان کے گھر اور خیمے کے سرد خانے تو نہ تھے ۔ مہاوٹ کے تصور سے ان کی روحیں سمٹ کر رہ گئیں ایک وقت ایسا آیا تو یثرب کے میدانی خیمے انہیں موت کی گرفت سے کیوں کر بچا سکیں گے۔ پھر یہ احزابی لوٹے تو ایسی امید لے کر آئے تھے کہ احد کی طرح ایک ہی دن میں میدان مار لیں گے اور فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے واپس ہوں گے۔ غنیمت اور مسلمان قبیلوں کے سامان سے مالا مال ہو کر۔ یہود بنو نضٰر نے غطفان سے یہ وعدہ کر رکھا ھتا کہ یثرب فتح ہو جانے پر خیبر کے سرسبز و شادا باغوں کے یووں کی پوری فصل ان کی نذر ہو گی۔ بنو غطفان کے دماغ میں یہ منصوبہ کھول رہا تھا کہ یثرب فتح کرنے کے بعد ان کے ساتھ خیبر کے باغات کی پھلوں سے بھری ہوئی گونیں بھی ہوں گی۔ ایک طرف تو یہ توقعات تھیں اور سمانے خندق حائل‘ جس کا عبو ر کرنا ان کی ہمت سے باہر تھا۔ کفار کو اپنی نامرادی کا یقین سا ہو گیا۔ بنو نضیر کو یہ دغدغہ کھائے جا رہا تھا کہ اگر غطفان نے سردی کی شدت سے خیبر کے پھلوں کی پروا نہ کی اور مورچہ چھوڑ کر بھاگ گئے تو ان کا کیا حشر ہو گا۔ قریش کی جمعیت کو جوزخم بدر اور اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ سے پہنچے وہ ابھی تک رس رہے تھے کہ خندق اور مدینہ کے قلعوں نے ان زخموں پر اور نمک چھڑکا۔ حملہ آوروں کو یثرب میں رہنے والے یہود بنو قریظہ کی وجہ سے بھی خطرہ تھا۔ کہ ان کی طرف سے مسلمانوں کی امداد محاصرہ کی مدت میں کمی نہ آنے دے گی کبھی یہ خیال گزرتا کہ حملہ سے دست بردار ہو کر لوٹ جانے میں کیا مضائقہ ہے‘ لیکن ااس لمحہ سے وہ ڈر جاتے کہ روز روز اتنا بڑا لشکر جمع کرنا بھی تو آسان نہیں۔ اس مرتبہ حیی بن اخطب کی وجہ سے یہودی اپنے اور برادران ملتربنوقینقاع کی وجہ سے انتقام پر آمادہ ہو گئے تھے اگریہ موقع ہاتھ سے نکل گیااور لشکری اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح ہو گی جس کے بعد ابد الآباد تک یہود کا ٹھکانا کہیں نہیں رہے گا۔ حیی بن اخطب (یہود بنو نضیر کا سرغنہ) کے دماغ میں ایسے کئی خطرات پہلو بدل رہے تھ ے۔ وہ اپنے انجام سے بے حد خائف تھا۔ اس نے ایک آخری دائو لگانے کا تہیہ ککر لیا۔ جس طرح ہو سکے یہود بنوقریظہ(اور اہل مدینہ) کو مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی پر آمادہ کیا جائے۔ اگر اس میں کامیابی ہو گئی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسد بند ہو جائے گی اور اس تجویز کی بار آوری ان کی فتح پر منتج ہو گی۔ جب اس نے اپنے منصوبے سے قریش مکہ اوربنو غطفان کو آغاہ کیا تو سننے والے خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ حیی بن اخطب اور کعب بن اسد سے یہودی کی ملاقات (یثرب میں) بنو قریظہ کا سرغنہ کعب بن اسد تھا۔ شدہ شدہ یہ منصوبہ اس نے بھی سن لیا اور حیی کے آنے سے پہلے اپنی گڑھی کا دروازہ مقفل کرا دیا۔ اگرچہ اسے یقینت ھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد شکنی کے بعد اگر مسلمان معتوب ہو گئے تو نہ صرف اسے بلکہ تمہام یہود کو نفع ہوگا‘ لیکن حملہ آوروں کی شکست بنونضیر کو ہیں کا نہ رہنے دے گی۔ حیی بن اخطب کے اسرار پر دروازہ کھولنا ہی پڑا۔ حیی نے کعب سے کہا کہ اے کعب! تمہیں کیا ہو گیا ہے میں ںے دنیا کے مشہور لوگوں کا لشکر جمع کر لیا ہے۔ قریش اور بنو غطفان اپنے اپنے سرغنو ں کی سرکردگی میں شمشیر بکف ہیں وہ معاہدہ کر کے آئے ہیں کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے رفقا کو تہس نہس کر کے قدم پیچھے ہٹائیں گے۔ لیکن کعب ابھی تک متردد تھ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایفائے عہد اور صدق مقال کا تذکرہ کرنے کے بعد یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مبادا ہمارا حشر خراب ہو! مگر حیی بن اخطب متواتر اصرار کرتا رہا۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہود کو جو تکلیفیں پہنچ چکی تھیں ان کی بنا پر اس نے کعب سے کہا اگریہ حملہ ناکا رہا تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو دوسرے یہود کا ہوا ہے۔ اور حیی نے اس کے سامنے حملہ آور شکر کی قوت و جمیت کی تعریف میں زمین آسمان کے کلابے ملانے کے بعد کہا کہ اگر خندق ہمارے راستے میں حائل نہ ہوتی تو اب تک مسلمانوں کو ملیامیٹ کر دیا ہوتا۔ کعب مائل ہو ہی گیا۔ اس نے حیی سے ریافت کیا کہ اگر حملہ آور ناکام واپس لوٹ گئے تو ہماری نگہداشت کی کیا صور ت ہو گی؟ حیی نے کہا کہ اس وقت ہم لوگ بھی تہمارے ہی قلعوں میں آ جائیں گے اور تمہارے دکھ سکھ میں شریک رہیں گے۔ کعب (بن اسد) کی یہودیانہ عہد شکنی عود کر آئی‘ اس نے اپنے یہودی برادر حیی بن اخطب کے ہاتھ پر ہاتھ مار کرکہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے دوستوں کے ساتھ اس تحریری معاہدہ کو ختم کر دیا جس میں ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری کے عہد و پیمان تھے۔ کعب (بنو قریظہ) کی بد عہدی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراصحاب کبار بنو قریظہ اور حملہ آوروں کی نئی سازشوں سے مطلع ہو گئے‘ جس سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تصورات میں ایک نئے خطرے کا اضفہ ہو گیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب میں سے مندرجہ ذیل چار معتمد حضرات کو تصدیق خبر اور کعب بن اسد سے تجدید گفتگو کی غرض سے بھیجا اوراس میں یہ رعایت ملحوظ رکھی کہ شہر کے ہر دو ممتاز قبائل اوس و خزرج کا ایک ایک سربرآوردہ ہو۔ (۱) حضرت سعد بن معاذؓ سید قبیلہ اوس (۲) حضرت سعد بن عبادہؓ سردار قبیلہ خزرج(۳) جناب خوات بن جبیرؓ (از اوس) اور (۴) حضرت عبداللہ بن رواحہؓ خزرجی تھے۔ (ان چار حضرات کو کعب یہودی کے پاس بھیجا) آنحضر ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیںہدایت فرما دی کہ واپسی پر مسلمانوں سے وہاں کی گفتگو کا ذکر مبہم لفظوں میں کیا جائے۔ کعب کی شرائط یہ حضرات کعب کے پاس پہنچے تو وہ پہلے سے بھرا بیٹھا تھا۔ اناپ شناپ بکنا شروع کر دیا۔ مگر ان کے بار بار کہنے پر اس نے یہ شرط پیش کی۔ پہلے بنو نضیر کو شہر میں دوبارہ آباد ہونے کا موقع دیا جائے۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ بنو قریظہ کے ساتھ ذاتی معاہدہ بھی تھا۔ انہوںنے ازراہ ہمدردی کعب سے فرمایا مبادا آپ کا حشر بھی بنو نضیر ہی کا سا ہو۔ مگر بنو قریطہ کے دل بدل چکے تھے ۔ انہوںنے یہ الٹا جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ہیں؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں۔ حتیٰ کہ فریقین میںسخت کلامی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ مسلمانوں کے سفیر واپس تشریف لے آئے۔ بنو قریظہ کی عہد شکنی نے رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت متاثر کیا۔ خطرات بڑھ گئے اوریہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ عہد شکن بنو قریظہ کہیں حلہ آوروںکو شہر میں داخل ہوجانے کا راستہ نہ دے دیں جس سے کفا ر مسلمانوں کو پیس کر رکھ دیں۔ یہ خیال وہم ہی نہ تھا۔ مسلمانوں کو بنو قریظہ کے رسد بند کر دینے کاخطرہ بھی اس میں شامل تھا۔ حیی (ابن اخطب) کی واپسی پر حملہ آوروں کاجوش بنو قریظہ کے ہاں سے حیی بن اخطب کی کامیاب واپسی پر قریش و غطفان کے حوصلے بڑھ گئے۔ کعب اور حیی کے معاہدہ میں طے ہوا تھا کہ ادھر بنو رقریظہ دس روز تک جنگ کی تیار ی کر لیں اور اسمدت میں بغیر توقف حملہ آوروں کو مسلمانوں پر یلغار کر دینا چاہیے۔ حملہ احزاب کی صورت (الف) مشرق فوق الواد کی سمت پر بنو اسد اور غطفان بڑھے غطفان پر الک بن عوف النصری اور عینیہ بن حصن انفزاری کمان کررہے تھے اور بنو اسد پر طلیحہ بن خویلد الاسدی۔ (ب) مغرب بطن الوادی بمصداق قرآن ومن اسفل منکم (۳۳:۱۰) کی سمت پر قریش اور بنو کنا نہ جن کی کمان ابوسفیان کے ہاتھ یں تھی۔ (ج) خندق کی سمت پر عمرو بن سفیان ابو الاعور سلمی۔ کفار کا لشکر اور مومنین دونوں کے اس موقف پر یہ آیتیںنازل ہوئیں: اذ جاء کم من فوقکم ومن اسفل منکم واذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر و تظنون باللہ الظنونا ھنالک ابتلی المومنون وزلزلوا زلزالا شدیدا۔ واذ یقول المنفقون والذین فی قلوبھم مرض ما وعدنا اللہ ورسول الا غرورا (۳۳:۱۰۔۱۲) ’’جس وقت (دشمن) تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اترے اور تمہارے نیچے کی طرف سے بھی اورمارے خوف کے تمہاری آنکھیں پھری کی پھری رہ گئی تھیں اور کلیجے مونہوں کو آ گئے تھے اور خدا کی نسبت تم (لوگ) طرح طرح کے گما ن کرنے لگے تھے اس موقعہ پر مسلمانوں (کے استقلال) کی آزمائش کی گئی اور خوب ہی جھڑجھڑائے۔ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (شک کے) روگ تھے( بے اختیار) بو ل اٹھے کہ خدا اور اس کے رسول کے جو ہم سے وعدہ کیا تھا بس نرا دھوکا ہی تھا‘‘۔ واذ قالت طائفۃ منھم یثرب لا مقام لکم فارجعو ویستاذن فریق منھم النبی یقولون ان بیوتنا عورۃ وما ھی بعورۃ ان یریدون الا فرارا( ۳۳:۱۳) ’’اور جب ان سے ایک گروہ کہنے لگا کہ مدینے کے لوگو۱ تم سے (اس جگہ دشمن کے مقابلے میں) نہیںٹھہر ا جائے گاتو (بہتر ہے کہ لوٹ چلو) اور ان میںسے کچھ پیغمبر سے (گھر لوٹ جانے کی ) اجازت مانگتے اور کہتے کہ ہارے گھر غیر محفوظ ہیں‘ حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں ہیں بلکہ ان کا رادہ تو صرف بھاگنے کا ہی ہے‘‘۔ مدینہ میں محصور مسلمانوں کی پریشانی مصیبتوں نے (یثرب میں)محصور مسلمانوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ان کے دل دشمن کے اژدھام سے بیٹھ گئے محصورین میں منافقوں کے جس گروہ کے کارنامے شکوہ کے لائق تھے اس گروہ نے مسلمانوں سے الٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم سے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسریٰ و قیصر کے ذخیروںپر قبضہ ہونے کا وعدہ کر رکھا تھا یا یہ حالت ہے کہ آج ہم قضائے حاجب کے لیے بھی شہر سے باہر نہیں جا سکتے‘‘۔ ان میں سے ایسے لوگ بھیتھے جن کی آنکھیں حملہ آوروں کو دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئیںَ بعضو ں کے دل خوف سے بیٹھے جا رہے تھے۔ یہ لوگ قریش و غطفان کی شمشیروں کی چمک اپنے لیے برق خاطف سمجھ رہے تھے۔ کچھ لوگوںکے دل بنو قرظہ کی عہد شکنی سے پارہ پارہ ہو رہے تھے۔ اے یہود! ت پر خدا کی لعنت ہو کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو نضیر کو جلا وطن کرنے کی بجائے تہہ تیغ کر دیتے تو آج ان کے ہاتھوں یہ دن دیکھنانصیب نہ ہوتا۔ آہ اے حیی بن کعب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی ؤدن کے لیے تجھے زندہ رہنے دیا کہ تو قریش اور قبائل عرب کو مسلمانوں پر مشکا دے۔ اے کاش! جس زمین پر آج خندق کھو دکراپنا بچائو کیا جا رہا ہے مدینہ کایہ ٹکڑا حیی بن اخطب اور اس کے لگے بندھوں کے خون سے سیراب ہو گیا ہوتا تاکہ اس میں مسلمانوں کا لہو پینے کی تڑپ باقی نہ رہتی۔ آہ ! اے طامتہ الکبریٰ! وصد آہ! اے فزع الاکبر یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے ولا حول ولا قوۃ الا باللہ غزوہ خندق میں کفا ر کا حملہ الغرض حیی بن اخطب کی واپسی پر حملہ آوروں کاجوش سوا ہو گیا۔ خندق کا ایک کنارہ سمٹا ہوا تھا۔ کافروں نے یہیں سے خندق عبور کرنے کا تہیہ کیا۔ آگے آگے قریش کا لشکرتھا۔ پیش رومی میں سب سے بڑے سورما عمرو بن عبدود تھے۔ ان کے پیچھے عکرمہ بن ابوجیل ارو ضرار بن الخطاب وغیرہ۔ ان سب نے مل کر خندق کے بیرونی کنارے سے اپے گھوڑوں کو مہمیز جو دیا تو وہ چش زدن میں مسلمانو ں کے سر پر آ پہنچے۔ ادھرسے علیؓ بن ابی طالب اور عمر بن الخطاب : زاد المعاد :م: وغیرہ بڑھے اور حملہ آوروں کا راستہ روک لیا۔ یہ دیکھ کر ابن عبدود نے مبازرت طلبی کی تو علی بن ابی طالبؓ شمشیر بکف آگے بڑھے۔ عمرونے کہا اے عزیز من میں تجھے قتل نہیں کرنا چاہتا۔ علی ؓ نے فرمایا مگر میں تو اپنی ذوالفقار تمہارے خون میں تر کرنا چاہتا ہوں! دونوںبہادر آمنے سامنے ہوئے آخر علیؓ کے ہاتھ سے عمرو بن عبدود اپنی سزا کو پہنچ گیا۔ عمرو کے ساتھی اپنے سب سے بڑے پہلوان کو ایڑیاں رگڑتا ہوا دیکھ کر اس طرح بھاگے کہ ان میں سے کسی نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ غروب آفتاب کے بعد حملہ آوروں میں نوفل بن عبداللہ بن مغیرہ خندق کو عبور کرنے کے لیے آگے بڑھا۔ اس کا اپنے گھوڑ کو مہمیز دینا دونوں کی موت کا مقدمہ تھا۔ سوار اور سواری ہر دو اوندھے منہ خندق میں گر پڑے ۱؎۔ ابوسفیان نے نوفل کی لاش حاصل کرنے کے لیے دیت میں ایک سو اونٹ پیش کیے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرما کر ٹھکرا دیا کہ خبیث کی دیت ناقابل قبول ہے۔ اور اس کی لاش مٹی میں چھپا دی گئی۔ تخویف کا آخری پہلو اور شہر میں بنو قریظہ کی کارستانی حملہ آوروں نے شب کے وقت بہت بڑا الائو دہکایا جس کے شعلوں سے مسلمانوںکو ڈرانا مقصود تھا۔ اسی رات میں بنو قریظہ کے دلاور قلعوں اور برجیوں سے نکل کر شہر میں گشت کرنے لگے سیدہ صفیہ بنت عبدالمطلب کی دلاوری شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان بن ثابتؓ کی حویلی میں مسلمان عورتوں کو یکجا کر دیا گیا تھا۔ ان میں سیدہ صفیہ بنت عبدالمطلب بھی تھیںانہوںنے ایک یہودی کو حویلی کے اردگرد گھومتا ہوا دیکھ کر حسان کو اطلاع دی کہ ذرا اس یہودی بچے کے تیور تو دیکھو یہ ہماری جاسوسی کر کے یہود سے حویلی پر حملہ نہ کرا دے۔ ۱؎ بلکہ نوفل سے مبارزۃ طلبی ہوئی اور وہ زبیر بن العوام و بروایت دیگر علی کے ہاتھ سے قتل ہوا (فتح الباری : ضمن باب غزوہ الخندق) :م: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسری طرف متوجہ ہیں۔ اے حسان جائیے اور ا س کا قصہ ختم کر دیجیے۔ حسان نے جواب دیا کہ اے دختر عبدالمطلب خدا تعالیٰ ۱؎ آپ کو معاف فرمائے میں وہ مرد نہیں جسے کسی پر ہاتھ اٹھانے کی جرات ہو۔ سیدہ خود لاٹھی لے کر نکلیں ار یہودی کو قتل کرے کے بعد حسان کو فرمایا میں تو مرد کے بدن پر اسلحہ اور پوشاک نہ اتار سکی۔ یہ کام آپ کر لائیے مگر حسان میں اس کی جراب بھی نہ تھی۔ مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں۔ بنو غطفان سے خراج کی پیش کش میں مسلمان سیر نویسوں کی غلطی محصور مسلمان خائق ولرزاں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو غطفان کو محاصرہ سے دست بردار ہونے کے صلہ میں ایک تہائی ادا کرے کا پیام بھیجا۔ ادھر غطفان اپنی جگہ پشیمان کہ انہوںنے یہود کی باتوں میں آکر کیا کر لیا۔ ۱؎ طبرانی میں یہ واقعہ ان لفظوں میں مذکور ہے : جاء الحادث الغطفانی الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقال یا محمد نا صفنا تمر المدینہ والا ملانا ھا علیک خیلا و رجالا قال حتی استامر السعود سعد بن عبادۃ و سعد بن معاذ فشاورھما فقالا ل واللہ ما اعطینا الدنیہ من انفسنا فی الجاہلیۃ فکیف وقد جاء اللہ بالاسلام ورجع الیہ الحارث فاخبرہ فقال غدرت یا محمد فقال حسان یا حار ن یغدر بذمہ جارہ منکم فان محمداً یغدر ان تغدروا فالغدر من عاداتکم واللوم ینبت فی اصول السنجر وامانۃ الندھی حیث لقیتھا مثل الزجاجتہ صدعھا یجبر فقال حارث کف عنا یا محمد لسان حسان فلو مزج بہ ماء البحر لمزجہ (طبرانی و بزار) ترجمہ: حارث غطفانی نے رسول اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنی قوم کی طرف سے یہ مطالبہ کیا کہ آپ کو مدینہ کی پیداوار کا نصف بطور خراج ہمیں ادا کرنا منظور ہو تو بہتر ورنہ ہماری فوجیں مدینہ کو پامال کرنے کے لیے کافی ہیں۔ فرمایا میںاوس و خزرج کے دونوں سرداروں سے مشورہ کر کے جواب دے سکتا ہوں عرض کیا ایسی دنائت ہم نے جاہلیت میں بھی گوارانہ کی اور اب تو ہم اسلام ہی لا چکے ہیں ا س پر حسان بن ثابت نے ارتجالاً چند اشعار حارث کے سامنے پڑھے۔ حارث حسانؓ کی طنز کی تاب نہ لا سکا اوراس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدارا حسانؓ کو منع کیجیے۔ ان شعروں یں اس بلا کی تلخی ہے کہ اگر سمندر مین رکھ دیے جائیں تو اس کا پانی کڑوا ہو جائے۔ کہنا یہ ہے کہ: (الف) غطفان طول محاصرہ سے گھبرا چکے تھے اور حارث غطفانی ان کی طر ف سے بطور سفیر حاضر ہو کر خراج کی تجویز لائے تھے۔ (ب) مدینہ کی اراضی و باغات اور ان کی پیداوار انصار کی ملکیت تھی جن میں او س و خزرج کی غالب اکثریت تھی۔ دونوں کے سردار سعد بن معاذؓ وسعد بن عبادہؓ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے مشورہ دریافت کیا اور ان کے انکار پر آپ نے ایک لفظ کا اضافہ نہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ جو دنایت سعدین کو گوارانہ ہو سکی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا کیوں تحمل فرما سکتے ہیں۔ نعیم بن مسعود اتجعی کی تدبیر ان کے مسلمان ہو جانے کی خبر عام نہ ہونے پائی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت ہی سے انہوںنے ایک مہم جاری کی نعیم کی بنو قریظہ سے رانی راہ و رسم تھی۔ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور تعلقات کے ذکر اور اذکار کے بعد کہا کہ آپ نے کس قدر ہمت کی جوقریش اوربنو غطفان کو جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سمیٹ لائے۔ لیکن حالات اس قسم کے ہیں کہ بنو غطفان اور قریش دونوں میں سے کسی کے رکنے کی امید نہیں۔ اگر ایسا ہو اور وہ محاصرہ چھوڑ کر چلے گئے تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نشانہ آپ لوگ بن جائیں گے اور وہ آپ سے بدلہ لیے بغیرنہ رہیں گ۔ بہتر ہے کہ جب تک آپ قریش اور غطفان دونوں کے چند آدمی بطور یرغمال اپنے قبضہ میں نہ لے لیں لڑائی میں ان کی اعانت نہ کیجیے گا۔ بنو قریظہ کو نعیم کی یہ تجویز پسند آئی انہوںنے کہا ہم آپ کی ہدایت کے خلاف عمل نہ کریں گے۔ نعیم قریش کے ہاں نعیم بنو قریظہ کے ہاں سے اٹھ کرقریش کے ہاں پہنچے اور ان کے سامنے اس طرح گفتگو فرمائی مجھے معلو م ہوا ہے کہ بنو قریظہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی عہد شکنی پر پشیمان ہیں اور انہیں خوش کرنے کے لیے ہر تدبیر سوچ رہے ہیں۔ جس میں ان کی یہ تجویز ہے کہ اگر ان کے ہاتھ قریش کے کچھ آدمی آ جائیں تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش کرنے کے لیے ان کے قتل کی غرض سے پیش کر دیں مبادا آپ لوگ اپنے آدمی ان کے حوالے کر دیں۔ نعیم غطفان کے پاس وہ یہاں سے سیدھے بنو غطفان کے ہاں پہنچے اور جو کچھ قریش سے کہا تھا وہی ان سے کہا اورانہیں بھی قریش کی طر ح ہوشیار کر دیا کہ وہ اپنے آدمی بنو قریظہ کے حوالے نہ کریں۔ نعیم کی تجویز سے قریش اوربنو غطفان دونوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو گیا اور ابو سفیان نے فوراً اپنے ایک قاصد کی زبانی کعب بن اسد یہودی کو یہ پیغام بھیجا کہ اے کعب! ہمیں اس شخص (جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا محاصرہ کیے ہوئے اتنی مدت ہوگئی اور کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا۔ میری تجویز یہ ہے کہ آپ کل صبح اس پر حملہ کر دیجیے۔ او ر ہم آپ کی کمک پر ہوں۔ بنو قریظہ کا جواب کل یوم السبت ہے اور ا س روز جنگ یا دنیا کا کوئی کا م نہیں کیا جا سکتا۔ ابو سفیان کایہ دوسرا پیغام( یہ یقین کر لینے کے بعد کہ نعیم نے ان کے متعلق صحیح کہا) اے دوست! اس سبت کی عبادت کسی دوسری سبت میں کر لیجیے گا۔ مگر کل کے روز محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کرنا ضرویر ہے اگر ہم جنگ کے لیے نکلے اور آپ نے ہماری معیت نہ کی تو سمجھا جائے گا کہ آپ ہم سے معاہدہ توڑ کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیف بن گئے ہیں۔ بنو قریظہ کی طرف سے جواب سبت کے روز ہم کسی کو جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ جن لوگوں نے اس دن کی تعظیم سے منہ پھیرا ان پر خدا کا عذاب نازل ہوا حتیٰ کہ وہ بندر اور خنزیر بنا دیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی بنو قریظہ نے ابوسفیان سے ان کے چند آدمی بطور یرغمال اپنی تحویل میں رکھنے کے لیے طلب کر لیے یہ سن کر ابوسفان کو نعیم کی بات کا پورا یقین ہو گیا۔ کوئی بات بنتی نظر نہ آئی اس نے بنو غطفا ن سے مشورہ کیا مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مدینہ کی پیداوار میں حصہ کی امید میں بیٹھے تھے جسے بعد میں سعد بن عبادہؓ کی طرف سے صاف جواب مل گیا۔ تاہم بنو غطفان کی طرف سے ابوسفیان کی کوئی ہمت نہ بندھائی جا سکی۔ حملہ آوروں کی پسپائی اسی را ت آندھی اپنے دامن میں موسلا دھار بارش کا طوفان لے کر کافروں پر چھا گئی۔ بادلوں کی ہولناک گرج اور اس پر بجلی کے کوندے کفار کے خیمے زمین سے پرواز کر کے ہوا میں معلق ہو گئے۔ بھنڈارے دار دیگیں اوندھی ہو کر چولہوں میں دھنس گئیںَ کافروں میں سے ایک ایک متنفس لر ز اٹھا ۔ انہیں خطرہ لاحق ہو گیا کہ اگر ایسے یمں مسلمان ٹوٹ پڑے تو ہمارا کیا حشر ہو گا۔ قبیلہ اسد کے سپہ سالار طلیحہ بن خویلد نے باآواز بلند پکارا ے دوستو یہ مصیبت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے آئی ہے یہاں سے بھاگ کرنجات حاصل کرو۔ ابوسفیان کا زہر ہ آب آب ہو گیا تھا وہ پکار اٹھا اے برادران قریش طوفان نے ہماری سواری ے گدھے اور گھوڑے دونوں ختم کردیے ہیںَ بنو قریظہ پہلے ہی بد عہدی کر کے علیحدہ ہو چکے ہیں۔ اس پر یہ طوفان اب ہمارا یک لمحہ کے لیے رکنا حال ہے۔ بدنصیب اس قدر سراسیمہ و بدحواس تھے کہ پورا سامان بھی نہ اٹھا سکے۔ ا کے فرار پر ہو ا کی شدت نے ان کے قدم زمین پر جمنے نہ دیے۔ اس بھگدڑ میں قریش سب سے آگے تھے۔ ان کے پیچھے بنو غطفان اوران کے بعد دوسرے قبائل اتنا کچھ بھگتنے پر اور فرار کی حالت میں بھی حق تقدم و تاخر میں ترتیب نظر انداز نہ ہونے پائی۔ ادھر مدینہ میں صبح ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمنوں کا مورچہ خالی پایا تو شہر میں لوٹ کرایک ایک مسلمان نے خدا کے حضور ہدیہ امتنان وتشکر پیش کیا کہ انہیں مصیبت سے نجات ملی جیسا کہ اس معاملہ میں فرمایا: ورد اللہ الذین کفروا بغیظھم لم ینالو خیرا وکفی اللہ المومنین القتال (۳۳:۲۵) ’’خدا نے اپنی قدرت سے کافروں کو مدینہ سے ہٹا دیا وہ لوٹتے وقت غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ خدا نے مسلمانوں پر یہ کرم بھی فرمایاکہ انہیں جنگ کرنے سے بچا لیا‘‘۔ عہد شکن بنو قریظہ کی شامت اعمال دشمن کے لوٹ جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مستقبل پر نظر دوڑائی تو سب سے پہلے کفار کی ہزیمت پر چین کا سانس لیا۔ جو یہودی اس مرتبہ انہین اکسا کر مدینہ پر لے آئے تھے آئندہ کبھی ایسا کر سکتے ہیں صرف اس پیش بندی کے ساتھ کہ چلے کی سردی نہ ہو۔ خصوصاً بنو قریظہ کے معاملہ میں ان کی طرف ذہن منتقل ہوا کہ اگر قریش و غطفان سے ان کا اختلاف نہ ہو جاتاتو انہوںنے دشمن کومدینہ میں راہ دے کر مسلمانوں کو قلع قمع ہی کرا دیا ہوتا۔ سردست بنو قریظہ ہمارے دبائو میں ہی سہی لیک یہ دبائو اس سانپ کی مانند ہے جس کی دم زخمی ہو گئی ہو اور باقی تمام جسمم سلامت ایسے سانپ کی طرف سے حملہ کا اندیشہ کم نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بنو قریظہ کی سرکوبی ضروی ہے۔ مغضوب بنو قریظہ رپ نفیر عام کی منادی اس کا اعلان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفا ظ میں کرایا: من کانا سامعاً مطیعاً فلا یصلین العصر الاببنی قریظۃ ’’جوشخص ہمارا وفادار ہے اس کے لیے حکم دیا جاتا ہے کہ عصر کی نماز محلہ بنو قریظہ میں ادا کرے‘‘۔ اور اس منادی کے ساتھ ہ علی بن ابی طالب ؓ کو ایک مختصر سا دستہ کے ساتھ بنو قریظہ کے محلہ میں بھجوا دیا۔ باوجودیکہ مسلمان مدینہ پر طول محاصرہ کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے لیکن بنو قریظہ کے معاملہ میں انہیںاپنی کامیابی کاپورا یقین تھا۔ اگرچہ دشمن محفوظ قلعوں میں پناہ گزین تھے مسلمان اس سے قبل اسی وضع قطع کے قلعوں میںبنو نضیر یہود کا حشر دیکھ چکے تھے۔ بنو قریظہ کے ہر اول یعنی بنو نضیر اور ان میں اتنا فرق تھا کہ بنو نضیر کے مقابلہ میں ان کے قلعے ذرا زیادہ مضبوط تھے لیکن مسلمانوں کوبنو قریظہ کی طر ف سے کسی مقابلہ کا اندیشہ نہ تھا۔ ادھر بھگوڑے قریش بھاگتے ہوئے اس قدر غلہ چھوڑ گئے تھے کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو قلت رسد کا خطرہ نہ رہا۔ بنو قریظہ کامحاصرہ مسلمان شاداں و فرحاں علیؓ کے پیچھے پیچھے جانا شروع ہو گئے۔ جب ارض موعود میں پہنچے تو حیی بن اخطب اور دوسرے یہودی سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق بدزبانی کر رہے تھے۔ کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دروغ گو کہا جاتا تو کبھی ایسا ہی کوئی اور طعنہ! اور حرم مطہرات کی زبان میں زبانیں آلودہ کی جا رہی تھیں۔ لشکر کفار کی واپسی سے مایوسیوں نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ وہ اپنا حشر جان چکے تھے۔ انہوںنے دل کے پھپھولے یوں پھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اوربنو قریظہ سے سوال اتنے ہی میںسرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ۔ سیدنا علیؓ ے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ آپ ان کے سامنے نہ جائیے فرمایا میرے متعلق انہوںنے لب کشائی تو نہیں کی۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی باتہے۔ ان کی یہ ہمت نہیں کہ وہ میرے روبرو ایسی جرات کر سکیں۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے قریب پہنچ کر باآواز بلند فرمایا۔ یااخوان القردۃ ھل اخزاکم اللہ وانزل بکم نقمۃ ’’اے بندروں کی برادری! کیا خدا نے تمہیںذلیل نہیں کیا تھا ار تم پر اپنا غضب نہیں بھیجا تھا‘‘۔ یہود کا جواب یا ابو القاسم ماکنت جھولا ’’اے ابوالقاسم! آپ ہماری تاریخ سے بے خبر نہیں ہیں۔ مسلمان پے در پے آ رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے محاصرہ کا حک نافذ فرما ہی دیا۔ مدت محاصرہ مسلسل پچیس روز تک محاصرہ جاری رہا۔ ا س دوران میں دو ایک مرتبہ ادھر سے پتھرائو اور مسلمانوں کی جانب سے ان پر تیر برستے رہے۔ مگر بنو قریظہ کو باہر نکا کر لڑنے کی جرات نہ ہوئی۔ وہ گھبرا اٹھے کہ اس طرح ایک نہ ایک روز مسلمان ان پر قابض ہو کر رہیں گے۔ اور ہماری قلعہ بندی موت کے گڑھے میں دھکیل کرہمارا پیچھا چھوڑے گی۔ یہود کی طرف سے درخواست بنو قریظہ نے ایک قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیجیے ہم صلح کے معاملہ میں ان کے ذریعے سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ ابولبابہ نسبتاً قبیلہ اوس سے تھے اور بنو قریظہ سے ان کا ذاتی معاہدہ بھی تھا یہ ان کے ہاں پہنچے تو یہود کے زن و بچہ ان کے اردگرد جمع ہو گئے۔ عورتوں اور بچوں نے رو رو کر کہرام مچا دیا۔ جس سے ابولبابہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہود نہ کہا کہ کیا آپ متفق ہیں کہ ہم خود کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیں؟ ابولبابہ نے کہا میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ اور اپنی گردن پر ہاتھ پھیر دیا جس سے مقصود یہ تھا کہ تم جو چاہو کرو تمہیں قتل ہونا ہی ہے بروایت ارباب سیرت بعد میں ابولبابہ اپنی اسی حرکت سے بہت نادم ہوئے۔ اور وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ کعب بن اسد کی اپنی قو م کوہدایت اس نے اپنی قوم کو یکے بعد دیگرے تین مشورے دیے مگر انہوںنے ایک بھی آمادگی کا اظہار نہ کیا۔ پہلا مشورہ: بہتر ہے کہ آپ لو گ مسلمان ہو کر اپنی جان و مال اور اولاد کو تلف ہونے سے بچا لیں۔ جواب: ہم تورات سے منحرف ہہو کر دوسری شریعت قبو ل نہیں کر سکتے۔ دوسرا مشورہ: اپنے زن و بچہ کو خود قت کر کے مقابلہ کے لیے باہر نکل آئیے پھر جسے خدا دے اگر ہم ہلاک ہو گئے تو اپنے زن و بچہ کی ہلاکت کاغم دل میں لے کر نہ جائیں گے اور اگر زندہ بچ گئے تو اپنے اپنے گھر پھر آباد کر لیں گے۔ جواب: اپنے زن و بچہ کواپنے ہاتھ سے قتل کر دینے کے بعد ہم اگر سلامت بھی رہ گئے تو ان ککے بغیر ہماری زندگی سے کیا حاصل ہو گا۔ تیسرا مشورہ: پھر خود کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دیجیے۔ لیکن ابولبابہ کے اس اشارہ کر نہ بھولیے کہ حوالگی کے بعد ہمارا کیا حشر ہو گا۔ عوام بنو قریظہ کی کمیٹی (کعب بن سوار کے ماسوا) بنو قریظہ کے عوام مشورہ کے لیے علیحدہ ہو کر بیٹھے او رایک شخص نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمارا حشر بنو نصیر سے بڑھ کر نہ ہو گا۔ اس معاملہ میں قبیلہ اوس کے مسلمان دوت بھی ہماری دستگیری میںکوتاہی نہ کریںگے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں شام کی طرف جاے دیا جائے۔ اور انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیج کر درخواست کی کہ ہمیں اپنا مال اور سامان لے کر شام کی بستیوں میں ہجرت کاموقعہ دیاجائے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تسلیم نہ فرمایا اور حوالگی کامطالبہ کیا۔ بنو قریظہ نے فورا ً اپنا وکیل قبیلہ اوس کے مسلمانوں میں بھیج کر استدعا کی کہ اے برادران اوس جس طرح خزرج نے کل اپنے معاہدین بنو نضیر کی سفارش کی تھی آپ بھی ہماری سفارش کیجیے۔ اوس نے منظور کر لیا اور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش ہو کر عرض کیا کہ یا نبی اللہ جس طرح آپ نے خزرج کی سفارش ان کیحلیفوں کے بارے میں قبول فرمائی تھی یہ بنو قریظہ ہمارے حلیف ہیں ہم ان کی سفارش کر تے ہیں انہیں اپنا مال و اسباب لے کر مدینہ سے خارج ہونے کی اجازت مرحمت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو یہ منظورہے کہ میں اپنے اور بنو قریظہ کے معاملہ میں کسی ایک شخص کو ثالث تسلیم کر لوں۔ اوس نے اسے قبول کر لیا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بنو قریظہ کے ہاںجائیے اور میں اپنا اختیار بھی انہیں تفویض کرتاہوں کہ وہ جس شخص کو پسند کریں میرے اوراپنے درمیان حکم تسلیم کر لیں۔ اس پر بنو قریظہ نے جناب سعد بن معاذؓ کو ثالث تسلیم کر لیا امگر وہ اس گھری سے غافل رہ گئے جب یہی سعد محاصرہ کے دوران انکے پاس آئے تھے تو انہوںنے سعد بن معاذ ؓ سے کہا تھا کہ یاد ہو گاانہوںنے اس موقعہ پر نہ صڑف مسلمانوں کی توہین کی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شا ن میںبھی لب کشائی سے باز نہ رہ سکے۔ سعد بن معاذؓ کا فیصلہ بنو قریظہ کا قتل سعد نے طرفین سے عہد و پیمان لینے کے بعد اپنا فیصلہ ان لفظوں میں صادر فرمایا کہ: (الف) بنو قریظہ کے بالغ مرد قتل کیے جائیں۔ (ب) زن و بچہ گرفتار کیے جائیں۔ (ج) ان کا تمام مال و اسباب ضب کر کے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس فیصلہ پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بخدا اے سعد! آپ کا یہ فیصلہ خداوند عالم او ر مسلمانوں کی مرضی کے حرف بہ حرف موافق ہے۔ مجھے بھی وحی کے ذریعے یہی حکم دیا گیا۱؎۔ ۱؎ :م: سعد بن معاذؓ کا یہ فیصلہ تورا ت کے مطابق بھی تو تھا کہ جب تو کسی شہر پر حملہ کرنے کے لے جائے تو پہلے صلح کا پیغام دے اگر وہ صلح تسلیم کر لیں لیکن اگر صلح نہ کریں تو انکا محاصرہ کر ارو جب تک تیرا خدا تجھ کو ان پر قبضہ نہ دلا دے تو جس قدر مرد ہوں سب کو قتل کر دے باقی بچے عورتیں جانور اور جو چیزیں شہر میں موجود ہوں سب تیرے لیے مال غنیمت ہوں گی (تورات کتاب تثنیہ اصحاب (۲۰) آیت نمبر ۱۰) گویا اسی اصول کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے آسمانی فیصلہ سے تعبیر فرمایا۔ بازار کے وسط میںگہرے گڑھے کھودے گئے مجرموں کو ٹولیوں میںلایا گیا اورایک ایک کی گردن مار کر گڑھوں میں پھینک کر لاشیںمٹی سے بھر دی گئیں۔ یہ آیت بنو قریظہ ہی کے انجام پر نازل ہوئی۔ وانزل الذین ظاہروھم من اہل الکتب من صیاصیھم وقذف فی قلوبھم الرعب فریقا تقتلوا و تاسرون فریقا۔ و اورثکم ارضھم و دیارھم ا واموالھم و ارضالھم تطوھا وکان اللہ علی کل شئی قدیرا (۳۳:۲۶‘۲۷) ’’اوراہل کتاب میں سے جو (یہودی) مشرکین کے مددگار ہوئے تھے خدا نے انہیں ان کی گڑھیوں کے نیچے اتار لایا اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کی ایسی دھاک بٹھا دی کہ تم بے دھڑک لگے بعض کو قتل کرنے اور بعض کو قید کرنے اوران کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے مالوں کا (اور نیز) اس زمین (خیبر) کاجس میں تم نے قدم نہ رکھا تھا تم (ہی) کو مالک کر دیا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ بنو قریظہ کو سعد بن معاذؓ سے ایسی توقع نہ تھی بلکہ انہیں بھروساتھا کہ جس طرح کل عبدااللہ بن ابی (منافق) نے بنو قینقاع کی سفارش کر کے ان کا خون معاف کرا دیاتھا اسی طرح سعد ک ذریعہ ہماری جان بھی بخشی ہو سکے گی (لیکن بنو قینقاع اور بنو قریظہ دونوں کا معاملہ مختلف تھا) سعد بن معاذؓ کے سامنے وہ خوفناک منظر تھا کہ یہی لوگ تو کفار کے حملہ آوروں کو مدینہ میں رد آنے کا راستہ دے رہ یتھے اگریہ کامیاب ہو جاتے تو اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کی پود بھی دکھائی نہ دیتی۔ ایک ایک مسلمان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا اور کسی کی لاش مثلہ کے بغیر نہ چھوڑی جاتی (جیسا کہ قریش نے احد میں کیا)۔ مقتول میں یہود کی حوصلہ مندی جب حیی بن اخطب کو جلاد کے سپرد کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا اے حیی کیا خدا تعالیٰ نے تجھے رسوانہیںکیا؟ جواب: موت سے کس کو رستگاری ہے۔ جس قدرمیری عمر مقرر تھی مجھے مل چکی ہے آج بھی مجھے آپ کے ساتھ دشمنی پر کوئی ملال نہیں اور حیی بن اخطب ۱؎ نے دوسروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے لوگو خدا کے حکم سے گھبرانا مردانگی نہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی یہ مصیبت بھی ہمارے نوشتوں میں تھی۔ ۱؎ اس بدنصیب کے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ ازاں جملہ یہ کہ مدینہ سے جلاوطنی کے موقع پر اس نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کسی کی مدد نہ کرے گا۔ (از بلاذری طبع یورپ ص ۲۲ بحوالہ سیرۃ النبی ج ص ۴۳۷) :م:) اسی طرح زبیر بن باطا قرضی کا معاملہ ہے یوم بعاث میں ثابت بن قیس (بن شموس خزرجی: م:) کی جان بچائی تھی۔ آج ثابتؓ نے حضرت سعد بن معاذؓ کافیصلہ سن کر زبیر کے احسان کا بدلہ اتارنا چاہا تو ان کی سفارش پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کا خون معاف فرما دیا مگر مجرم نے کہا میں مرد مسن ہوں۔ اپنے اہل اور لڑکوں کے بغیر زندگی میںکیا لطف ہے؟حضرت ثابتؓ کی دوسری سفارش پر مجرم کے لڑکوں کا خون معاف کر دیاگیا اور اس کی بیوی کو بھی آزادی دے گی گئی۔ اب زبیر نے کعب و ابن اخطب و عزال بن سمول اور دوسری قرظی سرغنائوں سے دریافت کیا کہ کیا ان کا حشر معلوم ہونے پر مجرد نے کہا اے ثابت آج کے دن میں اپنے احسان کا یہ معاوضہ چاہاتا ہوں کہ مجھے میری قوم کے پاس پہنچا دے۔ بخدا! میں اپنے دوستوں سے ملاقات چاہتاہوں اور اس درجہ بے تاب ہوں کہ اتنے صبر کی بھی تاب نہیں رکھتا جتنا عرصہ ڈول کنویںمیں رہ سکتا ہے۔ بدنصیب مجرم کی یہ درخواست مظور کرنا ہی پڑی۔ اسی طرح ایک زن یہودیہ کی دلاوری کاواقعہ قابل ذکر ہے۔ معلو م ہے کہ مسلمان جنگوں میں عورتوںاور بچوںکا قتل نہ کرتے تھے۔۔ مگر آج کے دن انہیں اس یہودیہ کے خون سے ہاتھ رنگنا پڑے جس نے ایک مسلمان ے سر پر چکی کا پاٹ گرا کراسے شہید کر دیاتھا۔ مجرمہ نے کس دلاوری سے جان دی ام المومنین عائشہؓ فرماتی ہیں۔ واللہ میں اس عورت کو نہیں بھلا سکتی جو مقتل میں خوش و خرم آئی اورہنستے ہوئے اپنی گردن جلاد کے آگے رکھ دی۔ یہود میں چار حضرات نے مسلمان ہونے پرآمادگی ظاہر کی اور ان کا خون معاف کر دیا گیا۔ قتل بنوقریظہ کی ذمہ داری یہودیوںپر یہود نبو رقریظہ کاقتل انہی کے برادر دینی سرغنہ بنو نضیر حیی بن اخطب ک یگرن پر ہے جو کود بھی مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا۔ حیی نے پہلے وہ معاہدہ ختم کیا جو اس نے اپنی قو م بنو نضیر کو ساتھ لے کر مدینہ سے جلا وطن ہونے پر کیا تھا اس جس معاہدہ کی بدولت بنو نضیر میں سے ایک متنفس کو بھی رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حک سے قتل نہ کیا گیا لیکن حیی بن اخطب نے عہد شکنی کی قریش مکہ کو ابھارا اوربنو غطفان کو مسلمانوں کے خلاف آمادہ پیکارکیا اور تمام عرب میں ایک طرف سے لے کر دوسری طرف تک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلا ف آگ لگا دی۔ حیی بن اخطب کی ان کوششوں سے مسلمان اور یہودیوں کی دشمنی کا پودا تناور درخٹ کی انند چاروں طرف پھیل گیا۔ یہود کے دلو ں کی حالت ا س طرح ہو گئی کہ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقاکو ملیامیٹ کرنے کے بغیر ان کا دم گھٹ رہا ہو۔ پھر تام عرب کومدینہ رپ ھشکا دینے کے بعد بنو قریظہ نے عہد شکنی سے مسلمانوں کو ایسا چرکا دیا کہ جس کی نظیر تمامم عرب میںنہ تھی۔ اگر بنو قریظہ عہد شکنی نہ کرتے تو ان سے تعرض کا سوال ہی نہ تھا۔ مگر انہوںنے تو مسلمانوں پر ستم ہی برپا کردیا ہوتا حیی بن اخطب کفار کومدینہ میں جمع کر لینے کے بعد بنو قریظہ کے ہاں پہنچا اورانہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ مقاتلہ کے لیے آمادہ کر لیا۔ یہ بھی سہی لیکن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو قریظہ کے ہاں کفار کے لوٹ جانے کے بعد تشریف ائے تب بھی ان سے تعرض کا سوال نہ تھا۔ اگریہ قلعہ بند ہو کر مقاتلہ شروع کر دیتے اور یہ لوگ اس موقعہ پر خو د کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کر دیتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ان کی گردنیںماری جاتیںَ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلا ف حیی بن اخطب کے خمیر میں جو دشمنی سمو دی گئی تھی اوریہ دشمنی جو بنو قریظہ تک متعدی ہو گئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے حلیف سید المسلمین ۱؎ سعد بن معاذؓ کو بھی یقین ہو گیا کہ اگر آج یہ زندہ رہ گئے تو کل دوبارہ قریش اورقبائل عرب کو مدینہ پرچڑھا دیں گے۔ اور مسلمانوں کے زن و بچہ کو ان کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتا ر دیاجائے گا۔ اس لیے سعد کا یہ فیصلہ جو بظاہر ناگوار سا نظرآتا ہے۔ لیکن سعدکے نزدیک یہود کو زندہ رکھنا مسلمانوں کی پوری نسل کی موت کا مترادف تھال۔ اموال بنو قریظہ کی تقسیم ان کے اموال خمس علیحدہ کرنے کے بعد غازیوں میںتقسیم کر دیے گئے۔ ایک سوار کو تین حصھے دیے گئے۔ ایک اس کا حصہ اور دو حصے اس کی سواری کے۔ مگر پیادہ کو صرف ایک حصہ۔ بنو قریظہ پر چڑھائی کے موقع پر صرف چھتیس سوار تھ۔ اسیران بنو قریظہ کے لیے سعد بن زید انصاری کو حکم دیا گیا کہ انہیں نجد کی طرف لے جائیں ان کی قیمت سے دشمنا ن اسالم کے حملوں کی مدافعت کے لیے گھوڑے اورآلات حرب خریدے گئے۔ بی بی ریحانہ ان قیدیوں میںبی بی ریحانہ خمس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصہ میںآئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام پیش فرمایا جسے انہوںنے نامنظور کیا۔ پھر نبی صلوت اللہ علیہ نے ان سے فرمایا کہ تمہارے مسلمان ہونے پر میں تم سے عقد کر لوں گا بی بی نے عرض کیا جناب کی تزویج میں رہنے کی بجائے کنیز کی مانند آپ کی خدمت کروں گی اوریہ طرفین کے حق میں زیادہ مناسب ہو گا۔ بی بی ریحانی کا شادی سیانکار ان کی قومی عصبیت کی وجہ سے تھا۔ اسی وجہ سے وہ مسلمانوں اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ناخوش رہیں اور ان (ریحانہ) کے حسن و جمال کی تعریف میں زینب بنت جحش ؓ کے خدوخال کی طرح نہیںکی گئی اگرچہ وہ اس نعمت سے بہرہ مند تھیں۔ سیرنویس ؤحضرات نے ان کے پردہ میں رہنے کے متعلق اختلاف کیا ہے لیکن وہ تابہ زندگی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہاں رہیں۔ مدینہ سے کفار کی واپسی اور بنو قریظہ کے حشر سے مسلمانوں کو گونہ تسکین ہوئی منافقین مرعوب ہو گئے اور عرب کے گھر گھر میں مسلمانوں کی شوکت کے چرچے ہونے لگے مگر خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا منتہا صرف مدینہ ہی تک نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقانے دنیا کے ہر گوشے میں کلمۃ اللہ کی تبلیغ اور اس مہم میں حاء ہونے والے بدسرشت لوگوں سے راستہ صاف کرنے کی کوشش جاری ہی رکھی۔ ۱؎ اصابہ بن حجر در تذکرہ سعد بن معاذ ٭٭٭ باب ۱۹ بنو قریظہ کے استیصال سے لے کر صلح حدیبیہ تک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورمسلمانوں کے لیے وقفہ سکون جیسا کہ اٹھارہویں فصل کی آخری سطور میں بیان کیا گیا ہے کہ (مدینہ سے) لشکر کفار کی ہزیمت اور شہر میں بنو قریظہ کے استیصال سے خیر الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورآپ کے رفقا کو گونہ تسکین نصیب ہوئی اوردوسری طرف عرب کے گھر گھر میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی ۔ اس کے ساتھ ہی قریش اس غور وفکر میں ڈوب گئے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آخر ایک دوسرے کے قرابت دار ہیں۔ اگر ان سے تنازع ترک کردیاجائے تو کیا مضائقہ ہے۔ خصوصاً جب کہ ان کے رفقائے مہاجرین بھی ان کے ہی اکابر و سردارہیں۔ بہرحال مسلمان یہود کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے کے بعد پورے سکون و طمانیت کے ساتھ زندگی گزار رہیتھے۔ اسی طرح دشمنوں کے خوف سے یک سو ہو کر زندگی کے کیف و کم سے بہریاب ہوتہوئے چھ مہینے گزر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے منصب کی عملی تائید میںمصروف یعنی ازدیاد ایمان اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم کی تعمیل کاجذبہ بڑھانے کی استعداد میںمنہمک تھے۔ اجتماعیت کی طرح نو اس ششماہی میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان مل کر ایک ایسا اجتماعی نظام مربوط کرنے کی تگ و دو میں منہمک رہے جو آ ج سے پہلے عرب میں متشکل نہ ہوا تھا۔ اور اس دانش مند متمدن وم کو اس نظام کی بے حد ضرورت تھی جو اسلام پر عمل پیرا ہوئی اور اس کی قوت عمل اور مسائل دین و معاشرت میں دن بدن اضافہ وترقی ہوتی گئی۔ بنا بریں اسلام کایہ جدید نظام جسے ابھی ابتائی خاکہ سے زیادہ اہمیت نہ تھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقاء اس وقفہ سے یہاں تک مکمل کرنے کی سعی میں تھے جو اپنے دور کے ایرانی رومی اورمصری نظام اجتماعی کو اپنے اندر لیتاہوابتدریج اس حد کمال تک جا پہنچے کہ جس کے بعدیہ آیت نازل ہونے کامحل پیدا ہوجائے۔ الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا( ۵:۳) ’’آج کے دن تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اوراپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہار ے لیے پسند کر یا کہ دین اسلام کو‘‘۔ عرب کے شہروں کی قبل از اسلام تمدنی حالت قبل از اسلام اس ملک کی بدویت یا تمدن کے متعلق جو رائے بھی سہی یہاں تک بھی جو کہا جاتا ہے کہ مکہ و مدینہ اور ملک کی دوسری بری بڑی بستیاں بدوئوں کے مقابلہ میں تمدن سیزیادہ بہرہ مند تھیں۔ لیکن نہ صرف قرآن مجید بلکہ دوسرے تاریخی آثار سے ثابت ہے کہ ان شہروں کے رہنے والے عورتوںاور مردوں کے جنسی میلانات تک کا طریق چارپایوں سے بہتر نہ تھا۔ اس عہد میں مرد اور عورت کے ملاپ کا طریقہ اس دور (قبل از اسلام) میں عورتیں جاہلیت کا بنائو سنگار کرتیں زینت کے مقامات کے ابھار میںایڑی چوٹی کا زور لگاتیں اور قضائے حاجت کے لیے صحرا میں دور نکل جاتیںَ بعض ٹولیں میں جاتیں عض دو دو مل کر ارو کوئی ت تنہا یہاں ان کے قدر دان بھی پہنچ جاتے نوجوان اورادھیڑعمر مرد دونوں قسمیں۔ مرد و زن ایک دوسرے کے سامنے آنے کے وقت ہیجان انگیز حرکات اورجنسیت ابھارنے والے جملوں سے ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے۔ جیسا کہ ہندو زوجہ ابوسفیان نے احد کے معرکہ کارزار میں دھایا جن کے ساتھ ان کی سہیلیوں کا پورا جھمگٹاتھا۔ اٹھکیلیاں کرتی ہوئی مردوں کو اس قسم کے اشعار سے اپنی جانب راغب کرتیں۔ ان تقلبوا نعائق ونفرش المنرق او تدبروا نفارق فراق غیر وامق ’’آج اگر تم نے دل کھول کرمقاتلہ کیاتو کل تم ہماری آغوش میں ہو گے اور اگر دشمن کو پیٹھ دکھا کر بھاگے تو ہم تم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گی‘‘۔ عرب میں قبل از اسلام زنا پر کوئی پرسش نہ تھی اس دور میں زنا کی پرسش نہ تھی۔ عشق و ہوس دونو ں ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ ابوسفیان جیسے معز ز سرغنہ کی بیگم ہندہ برملادوسرے مردوں سے معاشقہ کرتی اوراس کے قبیلے کے لوگ دل میں میل نہ لاتے۔ (مکہ ت میں ٰہ دستور تھا کہ ایک ایک ماہ پارہ کے دسیوں باقاعدہ شوہر ہوتے : م:) اور جب ایسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو صرف نسب متعین کرنے کے لیے ان شوہروں میں جس میں اس بچے کا حلیہ ملتا ولود کو اس سے منسوب کر دیاجاتا۔ ادھر ایسی عورت کے شوہر اپنے گھروں میں باقاعدہ بیویوں اور زرخرید کنیزوں کا جھمگٹ بھی رکھتے۔ لطف یہ ہے کہ ان کی یہ بیویاں اور کنیزیں ادھر ادھر مبتلا رہتیںَ جس کے شوہروں اور مالکوں کو بھی اطلاع ہوتی مگر وہ ان سے تعرض نہ کرتے۔ یا یہ حالت کہ مرد اور عورت کے معاشقہ میں ایک دوسرے کے ہر عیب اور برائی کو چھپا کر رکھا ہے یا فریقین یں خصومت کے ساتھ یہ نوبت آ جاتی کہ اپنی محبوبہ کی پردہ داری کرتے۔ عرب سدا سے سقف آسمان کے سائے میں زندگی بسر کرنے والی قو ہے۔ بعینہ فکر معیشت کے لیے سرگردان خود ستائی اور دروغ گوئی سے انہیں کبھی نفرت نہیں ہوئی۔ صلح و آشتی اور جنگ و جدل دونوں حالتوںمیںمبالغہ آرائی ان کی طینت میں مضمر ہے یا تو محبت کے زمانہ میں محبوبہ اور اس کی عصمت و عفت کے سراپا میں اسے تقدیس کی دیوی ثابت کر رہے ہیں یا خصومت کے عہدمیں اسی پیکر عصمت کی عریانی اور بے حیائی کے دفتر اس طرح کھل جاتے ہیں جیسے برائی کے سوا اس میں خوبی ہے ہی نہیں۔ اس کی صا ف و شفاف گردن کا نقشہ اور اس کے ابھرے ہوئے سیے کا خاکہ اس طرح لفظوں میںڈھالا جاتاہے کہ شرم اپنا منہ نوچلے۔ اسی طرح کمر اور اس کا پیٹا جس کے بعد اس کی سرین کا پھیلائو ومادون ذلک الغرض بد ن کاکوئی حصہ نہیں جس کی ہجو اورمذمت اٹھارکھی جائے! ان قصیدوں میں شاعر ایک عورت کو صر ف عورت ہی فرض کرتاہے اور اس کی عزت و حرمت کا خیال رکھے بغیر جو چاہتا کہتا۔ جولوگ عرب کے تمد ن پر فریفتہ ہیں حتیٰ کہ انہیں قدیم جاہلیت کے سر پر بھی تمدن کا تاج رکھنے میں باک نہیں۔ آج کل کے انداز و نہج پرقیاس کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ قیاس بے محل ہے اورہم یہ سجھنے سے قاصر ہیں کہ آج کا مطالعہ کرنے والا اس دور کے صحیح حالات کا اندازہ کر سکے خصوصاً مر د اور عورت کے ان تعلقات کا جو ان کے باہمی روابط ازدواج یا طلاق اور میا ں بیوی کی دوسری علائق مثلاً اولاد کے متعلق دونوں کا معاملہ ہے اگر انہیں آج کے معیار پر پرکھا جائے تو یہ موازنہ و مقابلہ صد گونہ غلطی کا سبب ہو گا۔ خصوصاً وہ عرب کے قبائل جن کی بود و باش کا ایک شمہ ہم ساتویں صدی مسیحی میں عرب تمدن کا تدمن کے ماتحت بیان کرچکے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ اس دور (ساتویں صدی) کی مسیحی قوموں کے ساتھ بھی ان کا موازنہ کیا جائے۔ اس دور میں عرب قبائل نیم وحشی زندگی بسر کرنے کے باوجود یورپ اور شام میں رہنے والے مسیحی قوموں سے بدرجہا بہتر حالت میں تھے (ا س موازنہ میں چین و ہند کے تمدن سے ناواقف ہونے کی وجہ سے عرب کا موازنہ ان کے ساتھ نہیں کیا جا ستکا) لیکن شمالی اور مغربی یورپ میں آباد مسیحی قومیں اس دور میں تمدن و ترقی سے اس قدر دور تھیں کہ اگر انہیںمحض وحشی کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ساتویں صدی مسیحی میں روم کا تمدن ساتویں صدی عیسویں میں روم کا تمدن یہ تھا کہ ایک طرف انہیں حامل شریعت ہونے کا غراتھا۔ سیاسی غلبہ بھی حاصل تھا۔ ایران بھی ان کے زیر نگیں تھا۔ بایں ہمہ ان کے ہاں عورت کا شہری درجا توکجا بدوی عورت کے مساوی بھی نہ تھا۔ رو م میں عورت کا درجہ باندی کے برابر ساتویں صدی کے مسیحی رومیوں کے ہاں بیوی ایسی مملوکہ تھی کہ جس کا استعمال اس کے شوہر ہر طریق سے کر سکتاتھا۔ وہ اسے قتل بھی کر دے تو مواخذہ سے بری تھا۔ شوہر کا اپنی بیگم کو نیز کی حیثیت سے فروخت کر دینا تو کوئی بات ہی نہ تھی۔ کاوند کا یہ سلوک رومی شریعت کے منافی نہ سمجھا جاتاتھا۔ایک ہی وقت میں وہ اپنے حقیقی باپ کی دختر بھی تھی اور اس کی باندی بھی۔ کل جب وہی قسمت کی ماری شوہر کے گھرمیں آ گئی تو یہاں وہ بیگم بھی ہے اور کنیز بھی اور اب جو اس کی کوکھ سے جنا ہوا فرزند جوان ہوا تو شوہر کو اختیار ہے کہ صاحبزادہ کی حقیقی ماں کو اس کے فرزند کی باندی بنا دے۔ گویا عورت ذات ایک ایسی جنس بے مایہ ہے کہ بیگمم اور ماں بننے کے باوجود کنیز بھی ہے اور کنیزبھی خدمت گار ہی نہیں بلکہ قابل فروخت بمثل مویشی اور دیگر اشیائے فروختنی۔ عورت ذریعہ ہے اور وہ کسی حال میں سہی مردوں کی جنسیت کو تہج کرنے کا آلہ ضرورہی ہے پھر وہ اپنی عفت و عصمت کی خودمالکہ بھی نہیں۔ عورت صدیوں تک اس بے اعتباری کا شکار رہی ہے کہ اس کاشوہر یا مالک اگر سفر میں جاتا تو احتمال زنا سے بچنے کے لیے عورت کو غلاف عصمت پہننا پڑتا جو اس کی کمرسے لے کر دونوں پیروں کو جکڑے رکھتا اور جب شوہر یا مالک سفر سے لوٹتا تو اسے کو یہ بند کھولتا۔ یہ اس دور کاحا ل ہے جب جزیرہ عرب میں عورت آج سے کہیں بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہی تھی اور اس وقت بھی جب روم میں قائم شدہ مسیحیت کے بانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مریم مجدلیہ کو رحم کرنے کی تجویز پر فرمایاکہ جو تم میں بے گناہ ہو وہی پہلے اس کے پتھر مارے ۱؎۔ مسیحی یورپ میں عورت کی درگت اس زمانہ میں یورپ کے بت خانوں اور پرستاران عیسویت میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی رنے میں کوئی امتیاز نہیں تھا۔ حوا کی بیٹی کو تو شہوت رانی کا ذریعہ سمجھاجاتاتھا یا خدمت گار کنیز۔ اس سے زیادہ عجیب تو یہ امر ہے کہ اس دور میں مسیحٰ علماء میں عورت کے متعلق اس پر بحث ہونے لگی کہ اس میں انسانی روح بھی ہے یا نہیں؟ اور مردوں کی طرح ورت کا بھی حساب کتاب ہو گا؟ کیا وہ ایسا حیوان تھیں جس میں انسان کی سی روح نہ ہو اور عندالہ وہ سزا و جزا سے بے بہرہ ہو؟ ۱؎ فقیہ اور فریسی ایک ایسی عورت کولائے جو زنا میںپکڑی گئی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوعؑ سے کہا اے استاد ! یہ عورت زنا میں فع کے وقت پکڑی گئی ہے تو اس ے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں سے بے گناہ ہو وہی پہلے پتھر ا س کے مارے۔ (انجیل یوحنا باب ۸۹ آیت ۱تا۱۱: م:) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اجتماعی اصلاح و تجدید اسی عورت کے متعلق جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی خداوندی کی امداد سے یہ سمجھاکہ اجتماعیت کے فروغ اور ارتقاء کے لیے مرد اور عورت کا دوش بدو ش رہنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ دونوں ایک ہی جسم کے دو ایسے حصے ہیں جو باہم مودت و رحمت کے رشتہ میں منسلک ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی الٰہی سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یوں تو دونوں کے ایک دوسرے پر مساوی حقوق ہیں لیکن بعض صورتوںمیں عورت کے حقوق مردکے ذمہ اورزیادہ ہیں۔ لیکن مرد و زن دونوں کو بیک وقت ایک مقام بخش دینا آسان نہ تھا۔ صدیوں کے مزمن امراض کا ازالہ بتدریج ممکن ہے ہر چند یورپ کا قرآن اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قوی ایمان تھا جو تدریجا قوی تر ہوتا گیا اور مددگار ان اسلام کی تعداد بڑھتی گئی۔ قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے جو اجتماعی اصلاحات فرض کیں وہ رفتہ رفتہ حد کمال تک پہنچیں۔ عبادات میں نماز روزہ زکوۃ حج اور محرمات(حرام شدہ امور) میں شراب وجوا اور خنزیر ہر دو قسموں میں تدریجاً شدت پیدا کی گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرد و زن کے تعلقات میں اسی انداز سے اصلاح فرمائی‘ جس حد تک رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے حرم کے سات سلوک تھا اور جو مسلمانوں کے مشاہدہ میں بھی آتا رہتا تھا کیوں کہ آیت حجاب غزوہ خندق (در ماہ شوال ۵ھ کے ) نازل ہوئی۔ اسی طرح ایک شوہر کے لیے چار بیویوںکی تحدید بشرط عدل و انصاف غزوہ خیبر کے ایک سال بعد معین کی گئی۔ قابل غور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زن و شوہر کے تعلقات میں اس استواری کا لحاظ رکھا جو تمہید تھی آنے والے قرآنی حکم کی جس میں مرد اور عورت دونوں کے ایک دوسرے پر مساوی حقوق عائد کر دیے گئے بلکہ دونوں طبع تفاوت کے ہوتے ہوئے مردوں پر کچھ اور زیادہ۔ اسلام کے ابتدائی عہد میں بھی زن و مرد کے ظاہری میل جول میں جاہلیت ہی کے طور طریقے تھے جیسا کہ گزشتہ اورااق میں بیان ہوا ہے۔ عورتیںجاہلیت کا بنائو سنگار کر کے گھروں سے نکلتیںَ یہ زیب و زینت مردوں کے لیے بے پناہ کشش کا باعث تھی۔ اور دونوں کے ایسے چال چلن کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ مردو زن کے باہمی تعلقات میں شرف انسانی اور روحانی اشتراک کا وجود اکبرتی احمر سے کم نہ تھا۔ عورتوں کی بے حجابی اس پر بنائو سنگار کی مہمیز پر مدینہ ہی کا ایک واقعہ لکھا جاچکا ہے۔ (معلوم ہے کہ) مدینہ میں رہنے والے یہود اور منافقین نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرنے میں کوئی کمی نہرہنے دی۔ یہاں تک کہ دونوں گروہوںنے مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے میں بھی تامل نہ کیا۔ جس پر تنگ آ کر مسلمانوں نے (مدینہ کے یہود) بنو قینقاع پر بزن بول دیا اور ا ن کے قلعہ بند ہوجانے کے بعد انہیں خارج البلد کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کی بے حجابی ہی سے تو یہ نوبت پیش آئی۔ کاش! مسلمان بی بیاں جاہلیت کے سنگار سے اجتناب کرتیں تونہ ان کی طرف مردوں کامیلان ہوتا اورنہ ان کی توہین ہونے پاتیء اور نہ یہ مشکلات رونما ہوتیں۔ آیہ حجاب آخر اسلام نے مرد و زن کے درمیان مساوات حقوق کی بنیاد رکھ دی باوجودیکہ خود مسلمانوں کی قوت فکر کا اس طرف میلان نہ تھا۔ والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر ما اکتسبوا فقداحتملو بھتانا وائما مبینا (۳۳:۵۸) ’’اورجو لوگ مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوںکو بے اس کے کہ انہوںنے قصور کیا ہو ناحق کی تہمت لگا کر ایذ ا دیتے ہیں تو وہ (جھوٹ) طوفان اور صریح گناہ کا بوجھ انی گردن پر لیتے ہیں‘‘۔ یا ایھا الذین قل لا زواجک وابناتک ونساء المومنین یدنین علیھن من جلا بیبھن ذلک ادنی ان یعرفن فلا یوذین وکان اللہ غفورا رحیما (۳۳:۵۹) ’’اے نبی ! اپنی بیبیوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادروں کے گھونگھٹ نکال لیا کریں۔ اس سے غالباً یہ (الگ) ہچان پڑیں گی (کہ نیک بخت ہیں) اور کوئی چھیڑے گا نہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ لئن لم ینتہ المنافقون والذین فی قلوبھم مرض وامرجفون فی المدینۃ لنغرینک بھم ثم لا یجاورونک فیھا الا قللا ملعونین اینما ثقفواا خذوا وقتلو تقتیلا (۳۳۔۶۰تا۶۱) ’’منافق اور وہ لوگ جن کی نیتیں بدہیں اور جولوگ مدینے میں جھوٹی جھوٹی افواہیں پھیلایا کرتے ہیں اگر اپنی حرکات سے بازنہ آئیں گے تو اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم تم ہی کو ایک نہ ایک دن ان پر اکسا دیں دے۔ پھر (یہ لوگ) مدینے میں تو تمہارے پڑوس میں ٹھہرنے کے نہیں مگر چند روز (عارضی طورپر) ان کا یہ حال ہو گا کہ (ہر طرف سے پھٹکاریہوئے) جہاں ملے پکڑا اور مارے ٹکڑے اڑا دیے‘‘۔ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا(۳۳:۶۲) ’’اور جو لوگ پہلے ہو گزرے ہیں ان میں بھی خدا کا(یہی ) دستور رہاہے اور اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم خداکے دستور میں ہرگز (کسی طرح کا ) ردوبدل نہ کرپائو گے‘‘۔ مسلمانوں نے اسی تمہید (آیات متذکر ۃ الصدر) کی بناء پر جاہلیت کی ان رسوم کو پیروں تلے روند دیا جو عورتوں کے عریاں نکھار اوربے حجابی کا آلہ تھیں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس منشاء کے مطابق تھا کہ جس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرہ کو آلائشوں سے پاک کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے زنا کو سنگین جرم قرار دے کر مسلمانوں کو متوجہ کیا اور عورتوںکو بغیر محرم مردوں کے سامنے بن سنو ر کر نہ آنا چاہیے جیسا کہ: قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم ان اللہ خبیربما یصنعون وقل لمومنت یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدنی زینتھن الا ما ظہرمنھا ولیضربین بخمرمن علی جیوبھن ولا یبدین زینتھن الا لبععولتھن او ابائھن او اباء بعولتیھن او ابنائھن او ابناء بعولتھن او اخوانھن اونبی اخوانھن او نبی اخواتھن او نسائھن او ما ملکت ایمانھن او التبعین غیر اولی الاربۃ من الرجال او الطفل الذین لم یظھرو علی عورت النساء ولا یضربن بار جلھن لیعلمم ما یخفین ن زینتھن وتوبوا الی اللہ جمعیا ایۃ المومنون لعلکم تفلحون (۲۴:۳۰۔۳۱) ’’(اے پیغمبر ؐ) مسلمانوں سے کہو کہ اپنی نظریںنیچیرکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اس میں ان ی زیدہ صفائی ہے (لوگ) جو کچھ بھی کیاکرتے ہیںاللہ کو سب خبرہے۔ اور اے پیغمبرؐ ! مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مقامات کو ظاہرنہ ہونے دیں مگر جو اس میں سے (چار و ناچار) کھلا رہتا ہے و اس کا ظاہر ہوتے رہنا مضائقے کی بات نہیں اور اپنے سینوں پر دوپٹوں کے بکل مارے رہیں اوراپنی زینت (کے مقامات) کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دیں مگر اپنے شوہروںپر یا اپنے باپ پر یا اپنے خاوند کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی یعنی اپنے میل جول ک عورتوں پر یا اپے ہاتھ سے مال یعنی لونڈی غلاموں یا گھر پر لگئے ہوئے ایسے خدمتیوں ُر کہ مرد تو ہیں مگر عورتوں سے کچھ غرض و مطلب نہیں رکھتے۔ (جیساے خواجہ سرا یا بڈھے پھوس) یا لڑکوں پر جو عورتوں کے پردے کی بات سے آگاہ نہیں اور چنے میں اپنے پائوں ایسے زور سے نہ رکھیں خہ لوگوں کو ان کے اندرونی زیور کی خبر ہو اور مسلمانو! تم سب اللہ کی جناب میں توجہ کروتاکہ تم (آخر کار) فلاح پائو‘‘۔ عادات میں توراث اسلام کے اس طریق سے مردو زن کے باہمی روابط کی اصلاح فرمائی اور دونوں کو فتنہ و شرارت کے مواقع پر بچانے کے لیے ایک دوسرے سے دور رکھنے کی ہدایت فرمائیں۔ لیکن فتنہ و فساد کے سوا دوسرے مواقع میں دونوں کو ایک دوسرے سے دوررکھنے کی کوئی ہدایت نہ کی ‘ کیوںکہ دونوں کا درجہ برابر ہے۔ دونوں ایک خداکے بندے ہیں اور دونوں نیک کاموں میں ایکدوسرے سے معاون اگر ان میں کوئی جنسی میلان پر گامزن ہے تو اسے خدا کے حضور اپنی معیصیت میں رجوع کرنا چاہیے جو توبہ قبول کرنے میں پس وپیش نہیںفرماتا۔ لیکن عرب کے باشندے جو صدیوں سے بری رسومات کے عادی ہو چکے تھے۔ ایسی تعلیم اتنیکم مدت میں ان کے اندر اس قسم کا انقلاب پیدا نہ کر سکتی تھی۔ جس قس کا تغیر ان کا عیقدہ میںایمان باللہ اور ترک شر ک کی صورت میں رونما ہوا جو طبعی بھی ہے ۔ جس میں مادہ تدریج کے بغیر ارتقاء کی حدیں طے نہیں کر سکتا یعنی منزل بہ منزل۔ گویا مادہ ترقی کرنے میںایک قانون کا پابند ہے۔ اس طرح انسانی زندگی بھی انقلاب کے لیے قانون ارتقاء ہی میں مقید ہے ۔ جب انسان میں عادات متوارثہ اس حد تک جاگزیں ہو جائیں کہ اس کی زندگی کو اپنی جولان گاہ بنا لیںتو اسے ان (عادات ) سے نجات حاصل کرنے کے لیے آہستہ قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پھر جونہی طبیعت ان کے دبائو سے ہلکی ہونا شروع ہو انسان کو اپنے عواطف میں تبدیلی پیدا کرنے میں تامل نہ کرنا چاہیے۔ انسانی مزاج میں یہ ملکہ موج زن ہ۔ کہ وہ اپے گرد وپیش کے تغیرات کے مطابق اپنی زندگی کے قالب کو متغیر کر سکے جیسا کہ اسلا م نے مسلمانوں کے اندر توحید ایمان برسالت اوریوم آخرت کے بارے میں تلقین کی جسے مسلمانوں نے تسلیم کر لیا۔ بایں ہمہ بعض ایسی رسول جو ان کی زندگی کا لازمی جز و بن چکی تھیں اسلام کے آنے کے بعد بھی وہ ان رسوم سے کچھعرصہ نجات حاصل نہ کر سکے۔ جس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس عہد تک ان (مسلمانوں) کے اندر قبل از اسلا م کی زندگی میں نمایاں فرق نہ آنے پایا اوریہ ان کی صحرائی زندگی کے اثرات تھے۔ کہ جب صحرا میں قدم اٹھایاتو چلتے چلتے تھک گئے مگر رکے نہیں۔ ان کی یہی رغبت عورتوں کے معاملہ میں تھی کہ صدیوں سے ان کے ساتھ بے تکلافہ میل ملاپ اور نشست و برخاست میں خوگر ہونے کی وجہ سے یک دم تجنب پر مائل نہ ہوسکتے تھے۔ تاہم اسلام نے عورتوں کے ساتھ روابط میں ان کے رجحانات میں کسی حد تک اصلاح کرنے میںکامیابی حاصل کر لی تھی لیکن اس بارے میں اان عربوں کے بعض رجحانات ابھی پہلے کی طرح قائم تھے۔ بسا اوقات ایک مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در و دولت پر حاضر ہوتا(آیہ حجاب کے نازل ہونے سے قبل) آنے والا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امہات المومنین ؓ کے قریب گیٹھا ہوا گرم گفتار کیا کرتا۔ حالانکہ پردہ سے قطع نظر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشاغل نبوت پر طول مجلس سے اثر پڑتا جس کی وج سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مہمات امور پر یکسوئی سے متوجہ نہ ہو سکتے تھے۔ خدا تعالیٰ نے ارادہ فرما لیا کہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قسم کے ادنی ٰ مشاغل سے یک سوکر دیا جائے اور یہ آیت ازل فرمائی۔ مومنین کے لیے دربارہ امہات الامہ ہدایت خداوندی: یا ایھا الذین آمنوا لا تدخلو بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیر نظرین ان ولکن اذا عدیتم فادخلوا فاذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسین لحدیث ان ذلکم کان یوذی النبی فیستحی منکم واللہ لا یستحی من الحق واذا سالتموھن متاعا فسئلوھن من وراء حجاب ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ ولا ان تنکحوا ازواجہ من بعدہ ابدا ان ذلکم کان عنداللہ عظیما (۳۳:۵۳) ’’مسلمانو! پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں نہ جایا کرو مگریہ تم کو کھانے کے لیے (آنے کی) اجازت دی جائے (تو اس صورت میں ایسا وقت تاک کر جائو) تم کوکھانے کے لی یتیار ہونے یا انتظارنہ کرنا پرے۔ مگر جب تم کو لایا جائے تو عین وقت پر جائو اور جب کھا چکوتو اپنے گھر کو چل دو۔ اور باتوں میں نہ لگ جائو اس سے پیغمبر ؐ کو ایذا ہوتی ہے اور وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور اللہ تو حق بات کیکہن میں کسی کا کچھ لحاظ نہیں کرتا اور کہ پیغمبرؐ کی بیویوںسے تمہیںکوئی چیز مانگنی ہو تو پردے سے باہر (کھڑ ے رہ کر) ان سے مانگو۔ اس سے تمہارے دل (ان کی طرف سے ) خوب پاک (صاف) رہیں گے اور اس طرح ان کے دل (بھی) اور تم کو کسی طرح شایان نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دو اور نہ یہ بات (شایا ن ہے) کہ ان کے بع کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو۔ خدا کے نزدیک یہ بڑی (بے جا) بات ہے‘‘۔ اور جس طرح یہ آیہ ۳۳:۵۳ سورہ احزاب امہات المومنینؓ کے احترام حقوق پر ارشادفرمائی اسی طرح مومنین کے حقوق کی پاس داری کے لیے امہات الامہؓ کی اطلاح کے یے یہ د و آیتیں نازل فرمائیں: ۱۔ یا نساء النبی لستن کاحد من النساء ان اتقیتن فلا تخضعن بالقول فیطمع الذیفی قلبہمرض وقلن قولاً معروفا (۳۳:۳۲) ’’۱۔ اور اے پیغمبرؐ کی بی بیو! تم کچھ عام عورتوں کی طرح تو نہیں ہو (پس) اگر تم کو پرہیز گار ی مقصود ہے تو دبی زبان سے(کسی کے ساتھ) بات نہ کیا کرو کہ ایسا کرو گی تو جس کے دل میں کسی طرح کا کھوٹ ہے وہ خدا جانے تم سے کس طرح کی توقعات پید ا کر لے گا اور بات بھی کرو تو بے لاگ لپٹ جیسا کہ پاک لوگوں کا دستورہے‘‘۔ ۲۔ وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی واقمن الصلوۃ واتین الزکوۃ واطعن اللہ ورسولہ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطھیرا (۳۳:۳۳) ’’۲۔ اور اپنے گھروں میں جمی (بیٹھی ) رہو اوراگلے زمانہ جاہلیت کے سے بنائو سنگار کرتی دکھاتی نہ پھرو اور نماز پڑھو اور زکوۃدو اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرماں برداری کرو۔ (اے پیغمبرؐ کے گھر والو!) خدا کو تو بس یہی منظور ہے کہ تم سے (ہر طرح کی)گندگی کو در کرے اورتم کو ایسا پاک صاف بنائے جیسے پاک صاف بنانے کا حق ہے‘‘۔ اسلام نے فروغ انسانی کے لیے نظام جدید کی طرح ڈٓلی اور زن و مرد کے جنسی میلانات میںیہ اصلاح اسی کی تمہید ہے۔ مدنظر یہ تھا کہ طرفنین مردوزن کی جو توجہ جنسایت کے دائرہ یں محصور ہے اسے ہر دو کے لوح و قلب سے اس طرح مندمل کر دیا جائے کہ وہ اس کشش کو قدرت کے دوسرے مناظرہ و کوائف سے زیادہ نہ سمجھیں ۔ یہ ایسا طریقہ ہے کہ جس پر عمل پیرا ہو کر معاشرہ اصل راہ کا نشان معلوم کر سکتاہے۔ اور زندگی کے مادی ثمرات سے حط اندوز ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اس منزل پر پہنچ کر بھی نسان کو اپنا وقار برقرار رکھنے کے لیے جنسی میلانات کا مقابلہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ الغرض انسان اپنے کمال مراتب کی وجہ سے کائنات کے ساتھ زراعت و صنعت اور گردو پیش کے دوسرے فنون سے بہرہ اندوزہوکر ایسا غلو حاصل کر لیتا ہے کہ جس کے صدقے نیک نحضر انسانوں بلکہ ملائکہ مقربین کے حلقے میں شامل ہو جاتاہے۔ کیونکہ وہ صناعت و زراعت اور دوسرے علمی و عملی مشاغل کے ساتھ نماز بھی ادا کرتاہے۔ روزہ بھی رکھتاہے زکو ۃ بھی نکالتا ہے اسی قسم کے تمام حقوق خداوندی کی ادائیگی کے لیے دہل ہو جاتی ہے۔ جس کے ثمرہ میں وہ از خود زنا اور ا س کے مبادی سے تنفر کرنے لگتاہے۔ بے حیائی اور سرکشی کے ارتکاب سے اس کا مزاج بے اختیار انکار پر مائل اورا پنے قب اور نفس کو غیر اللہ کی محبت سے پاک کر لیتاہے۔ جس سے ایسے پاک طینت انسان ایک طرف مومنین کے رشتہ مودت میں منسلک ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف انسانیت اور کائنات کے درمیان وجہ تعلق ثابت ہونے لگتے ہیں۔ اس وقفہ میں اجتماعیت کی تشکیل تدریجا جاریتھی جو اس عالم گیر انقلاب کی تمہید تھی جس کا مکمل خاکہ انسان کی رفاہیت اور بہبود کے یلے اسلام کے سامنے تھا۔ اس وقفہ میں قریش اور قبائل دونوں وقت کے انتظار میں چشم براہ تھے کہ جس طرح ہو سکے جلد از جلد جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اثرات کو ختم کیا جائے۔ ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دشمنان توحید کے دوبارہ ہجوم کر کے مدینہ میں در آنے کے خطرہ سے لرزاں اورایسے موقعہ کی تیاری میں منہمک جس میں کفار کے قلب و جگر پر تاک کر نشان لگایا جا سکے۔ غزوہ بنو لحیان عادت شریف یہ تھی کہ جس سمت کا ارادہ ہوتا اعلان سے اجتناب فرماتے کہ مباداد شم پیش بندی کر لے۔ مدینہ سے کوچ کے موقعہ پر آپ نے شام کا ارادہ فرمایا تاکہ دشمن پر بے خبری میں حملہ کیاجائے۔ مقصد یہ تھا کہ دو سال قبل بنو لحیان نے از رہ فریب حضرت خبیب بن عدیؓ کو اسیر اورانکے رفقاء کو رجیع میں قتل کردیاتھا۔ ان سے اپے مقتولوں کا قصاص لیا جائے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بظاہر شام (جو مدینہ سے شمال مغرب کی سمت واقع ہے) کی طرف جانے کا قصد فرمایا تھا تاکہ غیروں پر منشکف نہ ہو۔ جمعیت ساتھ لے کر شام کی راہ پر گامزن ہوئے اور جب اطمینان ہو گیا کہ قریش اور ان کے ہواا خوابہوں پر آپ کا اصل مقصد ظاہر نہی ہو سکا سفر کا رخ مکہ کی جانب (جنوباً) پھیر لیااوررفتار تیز کر لی یہاں تک کہ قبیلہ بنو لحیان کی اس وادی تک آ پہنچے جو غران کینام سے مشہور ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس منزل میں اپنا رخ شمال سے پھیر کر جنوب کی سمت کر لیا تھا۔ بنو لحیان میں سے کسی نے دیکھ لیا اوروہ لوگ فوراً اپنے مویشی اور سامان لے کر پہاڑ میں جا چھپے جس سے حملہ ناکام ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے تعاقب میں ابوبکرؓ کو دو سو سواروں کے ہمراہ عسفان تک بھیجا مگر ان کا کہیں کھوج نہ ملا۔ اس کے بعد مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے۔ گرمی اس بلا کی تھی جیسے سورج سوا نیزے پر اتر آیا ہو۔ مدینہ میں داخل ہونے کے موقع پر زبان مبارک سے یہ کلمات سنائی دے رہے تھے۔ آئبون تائبون لربنا حامدون اعوذ بالل وعشائالسفر و کابۃ المنقلب و سو المنظر فی الاھل والمال۔ ’’ہم سب اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے واپس آ گئے‘ میں سفر کی مصیبت کی زحمت اور خاندان اور مال کو بری حالت میں دیکھنے سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ غزوہ ذی قرد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غزو ہ بنو لحیان سے واپسی کے چند روز بعد عینیہ بن حصن انفزاری نے مدینہ کی چراگاہ پر ڈاکہ ڈالا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور مقتول کی بیوی ۱؎ کو اونٹوں کے ریوڑ سمیت اسیر کر کے واپس ہونے کوتھا کہ جناب سلمہ بن عمرو بن الاکوعؓ نے دیکھ لیا۔ ڈاکو بھاگ رہے تھے اور سلمہؓ ان پر تیر برسا رہے تھے جب (مدینہ کے پہاڑ) سطع پر سے گزرے تو یہاں پہنچ کر سلمہؓ نے مسلمانوں کی دوہائی مچا دی اور خود بھی ان کا تعاقب نہ چھوڑا ڈاکو بھاگتے رہے اورسلمہ ۱؎ (یہ بی بی حارس کی اہلیہ تھیں) ان پر تیر برساتے رہے۔ ادھر شہر کی طرف منہ کر کے آوازیں دبا کیے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور شہر میں فوراً منادی کرا دی، جس کے سنتے ہی چاروں طرف سے مسلمان سمٹ کر آ گئے۔ ہر شخص مسلح تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو اپنی کمان میں لے کر ڈاکوؤں کے تعاقب میں آگے بڑھتے ہوئے ذی قرو نامی پہاڑ پر جا پہنچے۔ ادھر غارت گر عینیہ اپنے گروہ کو سمیٹ کر تیز رفتاری کے ساتھ بھاگ رہا تھا کہ جس طرح ہو سکے قبیلہ بنو غطفان میں پہنچ کر مسلمانوں کی گرفت سے بچ جائے، مگر مسلمان دلاوروں نے اس کے دستہ کے آخری حصہ کے اونٹوں پر قبضہ کر لیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپہنچے۔ ذرا دیر بعد وہ مسلمان بی بی تشریف لے آئیں جنہیں ڈاکو گرفتار کر کے لے گئے تھے۔ ان مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ڈاکوؤں کا تعاقب کیا جائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب وہ بنو غطفان میں پہنچ چکے ہوں گے اس لیے تعاقب مناسب نہیں اور مسلمان مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ مسلمان اسیر بی بی نے منت مان رکھی تھی کہ اگر یہ ناقہ (جس پر وہ سوار ہو کر مدینہ آئی) اسے صحیح سلامت مدینہ لے پہنچی تو اللہ کی راہ میں اس کی قربانی پیش کر دیں گی۔ اس نذر کی اطلاع رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے اس قربانی سے ان الفاظ میں منع فرمایا: بئس ماجزیتھا ان حملک اللہ علیھا ونجاک بھا ثم تنحرینھا انہ لا نذرنی معصیۃ اللہ ولا فیھا لا تملکین اتنا برا بدلا! اللہ نے اس ناقہ کے ذریعے دشمنوں سے نجات دلوائی اور اسے ذبح کرنے پر تیار ہو گئیں۔ یہ اللہ کی بے فرمانی ہے، ایسی نذر کوئی معنی نہیں رکھتی نہ وہ شے نذر کی جا سکتی ہے جو اپنی ملکیت نہ ہو (کہ اونٹنی تو مسلمانوں کی ملکیت تھی) غزوۂ بنی المصطلق (یا مریسیع) تقریباً دو ماہ قیام کے بعد غزوۂ بنی المصطلق (مقام مریسیع میں) پیش آیا۔ یہ (غزوۂ) ہر اس اہل قلم کی توجہ کا مستحق ہے جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نویسی کا آغاز کرے۔ نفس معرکہ یا مسلمانوں کی صعوبت و محنت کی وجہ سے نہیں، اس لیے کہ: الف۔ مسلمانوں میں ناکردنی خلفشار پیدا ہو گیا جس سے خطرہ تھا آئندہ کے لیے برے نتائج کا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن تدبیر نے اسے خوش اسلوبی سے سلجھا دیا۔ ب۔ اور اس لیے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب جویریہ بنت حارثؓ کو نکاح کی عزت بخشی (جس کے نتائج حیرت انگیز رونما ہوئے) ج۔ اور اسی غزوۂ کے دوران میں ام المومنین عائشہ صدیقہؓ پر ناگفتنی افترا تراشا گیا۔ حضرت صدیقہؓ کا سن سولہ سے متجاوز نہ تھا اور یہ وہ سن تھا جس میں بھرپور جوانی کے پہلو بہ پہلو ایمان کی فراوانیاں بھی شباب پر تھیں۔ لہٰذا کسی کو جرأت نہ تھی کہ صورت و سیرت کے اس پیکر جلال کے سامنے لب کشائی کر سکے۔ واقعات این غزوہ اطلاع عرض ہوئی کہ قبیلہ خزاعہ کی شاخ بنو مصطلق نے مکہ سے ادھر فوجیں جمع کر لی ہیں۔ ان کا سردار حارث بن ابو ضرار ہے جس نے لشکریوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر اکسا رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ راز ایک بدو بریدہ بن حصیب اسلمی (زاد المعاد :م) سے معلوم کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عجلت کے ساتھ نکلے تاکہ دشمن پر اس کی غفلت میں حملہ کیا جائے۔ جیسا کہ عام معمول تھا لشکر میں مہاجرین کا علم ابوبکرؓ اور انصار کا جھنڈا سعد بن عبادہؓ کو دیا اور بنو مصطلق کے اس تالاب پر اترے جو مریسیع کے نام سے مشہور ہے۔ اور ذرا دیر بعد دشمنوں کو گھیرے میں لے لیا۔ اس موقعہ پر وہ لوگ بھاگے نکلے جو ادھر ادھر سے ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ مسلمانوں کے ہاتھ سے دشمنوں کے دس آدمی قتل ہوئے۔ اور ایک مسلمان ہشام بن صبابہ (نام) ایک انصاری (مسلمان) کے ہاتھ سے شبہ میں شہید ہوئے۔ قبیلہ بنو مصطلق کے محصورین دیر تک تیروں سے مقابلہ کرتے رہے مگر جب اپنے سے قوی دشمن سے مفر نہ دیکھا تو خود کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ ان کے زن و مرد بچے، اونٹ اور مویشی تمام سامان مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ حادثہ مابین المسلمین: (جیسا کہ الف میں اشارہ کیا گیا ہے کہ) عمر بن الخطاب کے ہمراہ ان کا ایک سائیس بھی تھا وہ معرکہ ختم ہو جانے کے بعد گھاٹ پر پانی بھرنے کے لیے گیا تو ایک انصاری سے مناقشہ ہو گیا۔ (یہ) انصاری قبیلہ خزرج سے تھا۔ دونوں میں ہاتھا پائی ہونے لگی۔ تب سائیس نے مہاجرین اور انصار نے خزرج کی دوہائی پکاری (اور فریقین جمع ہو گئے:م) مدینہ کا بدنام منافق عبداللہ بن ابی جو اس غزوہ میں غنیمت کے طمع سے شریک ہوا تھا، ہمراہ ہی تھا۔ اس کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے جس قدر کینہ بھرا ہوا تھا سب اگل دیا: مہاجر ہمارے شہر میں امڈ کر آ گئے ہیں ۔ ہمیں ان کے استیصال میں داناؤں کے اس مقولہ پر عمل کرنا ہی پڑے گا کہ اگر اپنے سگ کو فربہ کر دیا تو پہلے اپنے مالک ہی کا گلا دبوچے گا 1؎ اور قسم کھا کر بولا کہ لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل (8-63) اگر ہم پھر مدینہ لوٹ کر پہنچے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال باہر کرے تو سہی (اور انہی الفاظ میں آیہ 8:63 نازل ہوئی) اس (ابن سلول) نے اپنے ہم مشربوں سے یہ بھی کہا: تم نے یہ مصیبت خود مول لی انہیں اپنے ہاں پناہ دی اور اپنے اموال میں سے ان کی اعانت کی! بخدا! جو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر جمع ہوئے ہیں اپنا پیسہ ان پر خرچ نہ کرو (عاجز آ کر) آخر کو (آپ ہی) تتر بتر ہو جائیں گے۔ 1؎ یہ کلمہ حضرت زید بن ارقم نے سن لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کر دیا (سیرۃ ابن ہشام) (بمعنی آیہ 7-63م: یعنی ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتی ینفضوا) رسول خداؐ کی مآل اندیشی سرغنہ منافقین (ابن ابی) کی بدگوئی پر جب آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی اس وقت حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ انہوں نے از رہ غیرت عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس بے ایمان کے قتل کا حکم بلال کو دیجئے! مگر خاتم المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر اپنی متانت و حکمت اور مال اندیشی کے مطابق فرمایا اے عمرؓ! اگر ایسا کیا گیا تو دنیا کہے گی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہیوں کے قتل کرانے میں باک نہیں کیا۔ اس وقت آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھا کہ اگر فوری توجہ نہ کی گئی تو مبادا ابن ابی کا پیدا کردہ فتنہ کوئی اور رنگ لے آئے۔ آپ نے کوچ کی منادی کرا دی، حالانکہ موسم کے لحاظ سے یہ وقت سفر کے لیے موزوں نہ تھا۔ اسی لمحہ میں ابن ابی (منافق) باریاب ہوا اور حسب عادت اپنے قول پر قسمیں کھانے لگا۔ مگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے التوائے سفر پر توجہ نہ فرمائی۔ کوچ کے روز لشکر دن بھر چلتا رہا اور شب کو بھی پڑاؤ نہ ہونے پایا۔ دوسرے دن ظہر تک سفر جاری رہا۔ تب آ کر پڑاؤ کیا۔ تو بدن زمین میں مس ہوتے ہی نیند میں ڈوب گئے۔ آنکھ کھلی تو ابن ابی کا طعنہ دماغوں سے نکل چکا تھا۔ یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصلحت اور جب مدینہ میں داخل ہوئے تو بنو مصطلق کے اسیروں اور اموال و مویشی سے لدے پھندے قیدیوں میں دشمن کے سردار حارث بن ابی ضرار کی صاحبزادی جویریہ بھی تھیں (جن کے ذکر خیر اور برکت کا تذکرہ آگے منقول ہے) ابن ابی بھی مدینہ آ پہنچا۔ اگرچہ اسلام و ایمان کا تذکرہ اس کی زبان پر ہمیشہ کی طرح اب بھی جاری تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے حسدکا سانپ بدستور اس کے دل پر لوٹ رہا تھا۔ مریسیع (مقام) پر جو کچھ اس نے کہا تھا یہاں آ کر اس سے قسمیں کھا کھا کر انکار کرنے لگا جس پر یہ آیت نازل ہوئی: ھم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتیٰ ینفضوا وللہ خزائن السموات والارض ولکن المنفقین لا یفقھون یقولون لئن رجعلنا الی المدینۃ لیخرجن الاعز منھا الاذل وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین ولکن المنفقین لا یعلمون (63:8-7) یہی تو ہیں جو (لوگوں کو) بہکایا کرتے ہیں کہ جو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آ جمع ہوئے) ہیں (اپنا پیسہ) ان پر نہ خرچ کرو (عاجز آ کر) آخر کو (آپ ہی ) تتر بتر ہو جائیں گے۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین میں جتنے خزانے ہیں۔ (سب) اللہ ہی کے ہیں مگر منافقوں کو اتنی سمجھ نہیں۔ (یہ منافق) کہتے ہیں کہ اگر مدینہ لوٹ کر گئے تو عزت والا ذلیل کو وہاں سے نکال کرے تو سہی! حالانکہ اصلی عزت اللہ کی، اس کے رسول ؐ کی اور مسلمانوں کی ہے۔ ان آیات (کے نزول) میں مسلمانوں کو ابن ابی (منافق) کے قتل کیے جانے کا یقین ہو گیا جن میں اس کے مسلمان فرزند بھی تھے۔ یہ نیک محضر (عبداللہ بن ابن ابی) رسول اللہ کی خدمت میں عرض گزار ہوئے؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سنا گیا ہے آپ میرے والد (ابن ابی) کو قتل کرانا چاہتے ہیں۔ اگر حکم ہو تو میں ہی اپنے باپ کا سر آپ کے سامنے پیش کر دوں؟ یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! قبیلہ خزرج میں کوئی ایسا شخص نہیں جو مجھ سے زیادہ اپنے باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہو۔ لیکن مجھے خود سے خطرہ ہے کہ اگر آپ نے میرے سوا کسی اور شخص کے ہاتھ سے میرے باپ کو قتل کرایا تو مجھے اپنے باپ کے قاتل کا چلنا پھرنا برداشت نہ ہو گا۔ اسے قتل کیے بغیر مجھے چین ہی نہ آئے گا اور کافر کے بدلے مومن کو قتل کر کے جہنم کا ایندھن بننا مجھے گوارا نہیں! حضرت عبداللہ (بن عبداللہ بن ابن ابی) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور جو کچھ عرض کیا، میں نہیں سمجھ سکتا کہ دلی اضطراب کا اظہار اس سے زیادہ بلیغ پیرایہ میں بھی ہو سکتا ہے۔ آہ ایسا اضطراب! ایک طرف محبت فرزندانہ ہے اور دوسری طرف حفاظت ایمان! حضرت عبداللہ کو خطرہ تھا کہ مبادا نخوت و غرور اسلامی سکینت پر غالب آ کر مسلمانوں میں انتقام در انتقام کی آگ مشتعل کر دے۔ عجیب معاملہ ہے کہ جان نثار فرزند جو اپنے باپ کو واجب القتل سمجھ رہا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی جان بخشی کی درخواست نہیں کرتا، کیوں کہ اسے یقین ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم ہر کام خدا کے حکم سے کرتا ہے۔ اسے اپنے باپ کے کفر کا یقین ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے یہ خطرہ بھی ہے کہ اس کے باپ کے قتل ہونے پر اس کی محبت فرزندانہ اور عربوں کی عادت انتقام دونوں یک جا ہو کر اسے اپنے باپ کے قاتل سے بدلہ لینے پر نہ اکسا دیں۔ اس نے خود ہی باپ کی گردن مارنے کا ارادہ کر لیا۔ اگرچہ اسے یہ بھی اندیشہ ہے کہ کہیں اپنے ہاتھ سے باپ کو قتل کرنے پر اس کا دل خون ہو کر نہ بہہ جائے۔مگر آج حضرت عبداللہ اس لیے خود کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں کہ اگر ان کا باپ کسی دوسرے مسلمان کے ہاتھ سے قتل ہوا تو ایسا نہ ہو کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو قتل کر کے جہنم کے مستوجب قرار پاؤں۔ حضرت عبداللہ (بن عبداللہ منافق) کیسی کشمکش میں مبتلا ہیں! ایک طرف ایمان اور دوسری جانب محبت فرزندانہ! جس کے ساتھ عبداللہ جیسے سپوت کی اخلاقی قوت بھی شامل ہے۔ آہ! اس سے زیادہ روحانی کشمکش کیا ہو سکتی ہے! سرور دو عالمصلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عبداللہ کو (ان کے ایسے باپ کے قتل کی اجازت طلب) کرنے پر کیا جواب دیا؟ (فرمایا) ہم قتل کی بجائے ان کے ساتھ مہربانی اپنی مجلس میں حاضر باشی کا موقعہ اور ان کی اصلاح کی کوشش میں کمی نہ رہنے دیں گے۔ اللہ! اللہ! یہ عفو و رحمت! اور ایسے شخص کے ساتھ جو سدا سے مدینہ کے ہر مسلم و غیر مسلم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کے خلاف مشتعل کرتا رہا ہو۔ لطف یہ ہے کہ آج اس بد نصیب پر رحمت عالم کے کرم و مہر کا پلہ اس کے دشمن کی طرف سے ایذا رسانی کے مقابلہ میں بھاری ہے۔ اس منافق کی جان بخشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لب کشائی کرتا تو سننے والے اسے کہتے ارے بے شرم! ان کے خلاف یہ زبان درازی جنہوں نے تیری جان بخشی فرمائی! اس واقعہ کے بعد ایک روز عمرؓ خدمت رسالت پناہصلی اللہ علیہ وسلم میں باریاب تھے۔ ابن ابی کی زبان درازی اور مسلمانوں کے جوش و خروش کا تذکرہ ہونے لگا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمرؓ! اگر اس روز میں اسے قتل کرا دیتا تو مخالفین غراتے ہوئے امڈ آتے لیکن اگر آج میں اس کے قتل کا حکم دوں تو کوئی بات پیدا نہ ہو گی! ابن الخطابؓ نے عرض کیا بخدا! مجھے یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بہت برکت ہے میرے رائے کے مقابلہ میں! ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کا واقعہ افک مذکورۃ الصدر حوادث غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی اور اموال و اسیران جنگ کی تقسیم کے بعد رونما ہوئے، جن کے بعد (فوراً ہی) ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس کا اثر ابتداء میں اس قدر ہمہ گیر نہ تھا جیسا کہ اس نے بعد میں عبرت ناک صورت اختیار کر لی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ میں شرکت کا ارادہ فرماتے، حرم پاک میں سے کسی ایک بی بی کو قرعہ اندازی سے مشایعت میں لے لیتے۔ غزوۂ بنو مصطلق میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہ فخر نصیب ہوا۔ سفر کے موقعہ پر ڈیوڑھی سے ہودج لگا دیا جاتا اور آپ کی تشریف فرمائی کے بعد ساربان ہودج کو اٹھا کر شتر پر رکھ دیتا اور ام المومنینؓ کے تقلیل وزن سے اسے ذرا بار محسوس نہ ہوتا۔ اب معرکہ مریسیع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعجلت واپسی اور صعوبت کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ بعد پہلی منزل میں پڑاؤ کیا۔ شب کا کچھ حصہ استراحت فرمانے کے بعد پھر روانگی کا اعلان فرما دیا۔ اس منزل میں! کوچ کے واقعہ پر ام المومنینؓ رفع حاجت کے لیے لشکر گاہ سے دور تشریف لے گئی تھیں۔ واپسی پر محسوس ہوا کہ گلے کا ہار گر پڑا ہے، الٹے قدم تلاش کرتی ہوئی اسی طرف واپس لوٹیں۔ بہت دیر ہو گئی ممکن ہے پچھلے سفر میں تکان کے غلبہ سے آنکھ بھی جھپک گئی ہو۔ ہار تو مل گیا مگر جب لشکر گاہ میں واپس تشریف لائیں تو قافلے روانہ ہو چکے تھے اور روانگی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء نے یہ سمجھا کہ ام المومنین ؓ بھی اپنے ہودج میں ہیں جسے انہوں نے اٹھا کر اونٹ پر رکھ لیا ہے اور اس تصور میں کوچ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم پاک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت ہی میں ہیں۔ ام المومنینؓ کو اس پر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔ کیونکہ وہ سمجھے ہوئی تھیں کہ جونہی ساربان کو محسوس ہو گا فوراً سواری واپس لے آئے گا۔ اس لیے ام المومنینؓ نے صحرا میں سفر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آپ نے برقعہ بدن پر لپیٹ لیا اور زمین پر استراحت فرما ہو گئیں۔ صفوان (بن معطل سلمی) جو رفع حاجت کی وجہ سے کارواں سے بچھڑ گئے تھے اس طرف سے گزرے انہوں نے آیہ حجاب نازل ہونے سے قبل ام المومنین کو دیکھا تھا۔ آپ کو اس حال میں پایا تو بے ساختہ : انا للہ وانا الیہ راجعوان پڑھ کر کہا واحسرتا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حرم پاک! اے ام المومنینؓ! اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ کیسے بچھڑ گئیں؟ ام المومنین نے کوئی جواب نہ دیا۔ صفوان نے اونٹنی قریب بٹھا کر سوار ہونے کے لیے عرض کیا اور خود دور ہٹ گئے اور ناقہ کو تیز ہانکتے ہوئے چل دئیے تاکہ لشکر کے ساتھ مل جائیں۔ لیکن لشکری مدینہ پہنچ کر تکان سفر دور کرنے اور ابن ابی (منافق) کی ریشہ دوانی سے بچنے کے لیے اور زیادہ گرم رفتار تھے۔ صفوان لشکر سے ذرا دیر بعد ہی دن ہی دن میں شہر میں جا پہنچے۔ ام المومنین بدستور ناقہ پر تشریف فرما تھیں۔ دولت کدہ کے قریب آ کر سواری سے اتریں اور چند قدم چل کر اپنے حجرہ میں پہنچ گئیں کسی فرد بشر کے قلب میں وسوسہ تھا نہ کسی کی زبان پر ایسا حرف آیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دل میں ابوبکرؓ کی نیک طینت صاحب زادی اور صفوان جیسے مرد مومن کے متعلق کسی قسم کا خدشہ گزرا اور حقیقت میں کوئی ایسی بات تھی بھی نہیں۔ تبصرہ بر حوادث ایں وقفہ ام المومنینؓ لشکر کے مدینہ پہنچ جانے سے ذرا دیر بعد روز روشن میں سب کے سامنے شہر میں وارد ہوئیں۔ اتنا فصل تھا ہی نہیں جو کسی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا۔ دولت خانہ میں وارد ہوئیں تو کشادہ پیشانی بشاش، بشرے پر کسی پریشانی کا شائبہ نہیں اور چونکہ ایسا کوئی شبہ رونما نہ ہوا اس لیے شہر کے حالات کو معمول پر رہنا ہی تھا۔ مسلمان اپنے حریف بنو مصطلق کے مال و اسباب اور گرفتار شدہ اسیروں کی تقسیم میں مصروف ہو گئے تاکہ اپنی محنت کش زندگی میں ایک وقفہ کے لیے نعمتوں کا لطف حاصل کر سکیں۔ جس زندگی میں اپنی قوت ایمان کی بدولت دشمنوں پر غالب آئے، جس زندگی میں ان کے عزم صادق نے انہیں دشمنوں کے مقابلہ میں فائز المرام کیا اور کبھی ایسا بھی ہوتا رہا کہ ان میں سے بعض حضرات کو خدا کی راہ میں اور دین و عقیدہ کی محنت میں موت کے پہلو میں سونا پڑا۔ مسلمانوں کی یہ زندگی ایسی ہے جس سے کل تک عرب خود کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ سیدہ جویریہؓ اسیران بنو مصطلق میں ان کے سردار (قبیلہ) حارث کی صاحبزادی بھی گرفتار ہو کر آئیں۔ ان کا اسم گرامی جویریہ تھا۔ جمال ظاہری سے آراستہ اور تقسیم اموال میں ایک انصاری کے حصہ میں آئیں، جس کے ساتھ بی بی نے مکاتبت کی درخواست کی تو انصاری نے بڑے اونچے گھرانے کی دختر ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ زر فدیہ طلب کیا۔ کتنا بھی سہی نیک محضر جویریہ فدیہ کی رقم میں استعانت کے لیے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئیں۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے ہاں فروکش تھے۔ عرض کیا میں سردار قبیلہ حارث بن ابی ضرار کی دختر ہوں۔ میری مصیبت سے آپ آگاہ ہیں۔ جس صاحب کے حصہ میں آئی ہوں ان سے مکاتبت کر چکی ہوں۔ آپ کی خدمت میں زر فدیہ کی استعانت کے لیے حاضر ہوئی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک بہتر صورت پیش کرتا ہوں یہ کہ زر فدیہ میں ادا کیے دیتا ہوں اور آپ میرے ساتھ عقد کرنا منظور کر لیجئے! مسلمانوں نے سنا کہ بنو مصطلق سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خویشاوندی ہو گئی ہے تو سب نے اپنے اپنے حصہ کے اسیروں کو زر فدیہ لئے بغیر رہا کر دیا۔ ان کی تعداد چھ سو تھی جن میں ایک سو صرف بنو مصطلق کی تعداد تھی۔ جناب بنت الحارث کی اس پذیرائی پر ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا جویریہؓ سے بڑھ کر کوئی دوسری عورت اپنی قوم کے لیے برکت کا سبب ثابت نہ ہو سکی! سیدہ جویریہؓ کے بارے میں دوسری اور تیسری روایات: الف۔ حارث اپنی صاحبزادی کا زر فدیہ لے کر حاضر ہوا اور پناہ ملنے کے بعد اسلام لے آیا۔ آزاد ہو جانے کے بعد ان کی صاحبزادی بھی اسلام لے آئیں۔ جس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خطبہ فرمایا اور چار سو درہم حق مہر ادا فرما دیا۔ ب۔ سیدہ کے والد اس تزویج پر رضا مند نہ تھے مگر بی بی کے ایک اور قرابت دار کی شرکت سے یہ عقد مکمل ہوا۔ فسانہ افک ام المومنین حضرت جویریہؓ کی رہائش کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم سرائے سے ملحق حجرہ بنوا دیا۔ ادھر حجرہ تعمیر ہو رہا تھا، ادھر شہر کے بد لگام آپس میں کانا پھوسی کر رہے تھے کہ عائشہ کا لشکر سے بچھڑ کر صفوان کی سواری پر آنے کا کیا مطلب ہے جب کہ صفوان خوبصورت بھی ہے اور جوان بھی۔ مسلمانوں میں سے بی بی حمنہ کے دل میں یہ خلش تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ان کی حقیقی بہن (ام المومنین زینب بنت حجشؓ) پر حضرت عائشہؓ کو اس قدر تقدم کیوں ہے۔ حمنہ نے اس کینہ سے بے تاب ہو کر افترا کو ہوا دینا شروع کر دیا۔ در پردہ ان کے پشت پناہ حسان بن ثابتؓ تھے جن کی مجالس علی ابن ابی طالب سے بہت زیادہ رہتیں۔ بے ایمانوں میں راس المنافقین ابی کے نفس (امارۃ بالسوئ) کو بھی اس معاملہ میں ایسی چراگاہ مل گئی جس میں اس کے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے ہر قسم کی خشک اور تر گھاس موجود تھی۔ ابن ابی نے جی بھر کر ہوائیاں اڑائیں۔ وفاداران ازلی یعنی مسلمانان قبیلہ اوس: باوجودیکہ مومنین اوس میں سے ایک ایک متنفس ام المومنین صدیقہ طاہرہؓ کی عفت و عصمت کی قسم کھانے کے لیے وقف تھا، پھر بھی یہ خبر تمام شہر میں پھیل ہی گئی۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب: شدہ شدہ یہ ہوائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمع عالی تک پہنچی۔ آپ کے تعجب کی کوئی حد نہ رہی۔ ذہن میں مختلف خیالات موجزن تھے الٰہی! کیا ہوا؟ عائشہ اپنا دامن آلودہ کرنے والی تو نہ تھیں پھر اس علو و تمکنت کے ہوتے ہوئے! ناممکن ہے! رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المومنینؓ کی ذات پر اس قدر اعتماد تھا کہ آپ کے دل میں ان کے متعلق ایسا خیال گزرنا بھی دشوار تھا، لیکن اس کے ساتھ دوسرا پہلو بھی متخیلہ میں گردش کر رہا تھا کہ آخر تو عورت ذات ہے! مرد سے مختلف المزاج! اس کے دل کا بھید کون پا سکتا ہے! پھر یہ خیال گزرتا کہ ان کا سن بھی تو نہیں کہ ہار گم ہو جانے سے انہیں اتنی تشویش لاحق ہو اور نصف شب میں اسے تلاش کرنے کے لیے تگ و دو میں لگ جائیں۔ خداوند! انہوں نے لشکر کے کوچ کرنے سے پہلے ہار کے گم ہو جانے کا تذکرہ مجھ سے کیوں نہ کیا! غرض رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میں اسی قسم کے تخیلات گردش کر رہے تھے حتیٰ کہ آپ موافق و مخالف دونوں میں سے کوئی رائے قائم نہ کر سکے۔ ام المومنینؓ کی شدید علالت: حرم سرائے رسالت ماب اور دولت کدہ صدیق اکبرؓ دونوں گھروں میں کسی کو جرأت نہ تھی کہ حضرت عائشہؓ کے بالمواجہہ یہ بات زبان پر لا سکے جس کی وجہ سے آپ محض بے خبر تھیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کرم بھی پہلی سی نہ رہی۔ اس غم میں وہ علیل ہو گئیں۔ تیمار داری کے لیے آپ کی والدہ ماجدہ حاضر خدمت رہتیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیادت بھی فرماتے تو صرف اس جملہ میں کہ طبیعت کیسی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرد مہری دیکھ کر ام المومنینؓ کے مرض میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے شوہر(صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بے اعتنائی کی حضرت جویریہؓ ام المومنین سے رغبت پر محمول فرمایا اور اس خلش کی وجہ سے درخواست کی کہ مجھے صحت یاب ہونے تک اپنے والدین کے ہاں جانے کی اجازت ہو اور میکے تشریف لے آئیں۔ لیکن اجازت سے دل پر آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی بے اعتنائی کا اثر اور بھی گہرا ہو گیا ۔ مسلسل انیس روز بستر علالت پر پڑی رہیں اور سوکھ کر کانٹا ہو گئیں۔ ابھی تک خود پر عائد شدہ افتراء کا علم بھی نہ ہو سکا ۔ افک کی تحقیق: اسی دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا صاحبو! بعض اشخاص میرے حرم پر ناحق افتراء باندھ رہے ہیں جو میری ایذاء کا موجب بن گیا ہے۔ بخدائے لایزال! مجھے اپنے اہل بیت کی عصمت و عفت پر پورا یقین ہے اور یہ افتراء جس شخص سے منسوب ہے (صفوان) میں اسے بھی نیک محضر سمجھتا ہوں اور وہ میرے ہاں اگر آیا بھی ہے تو میری معیت میں! اسید بن حضیر (از قبیلہ اوس) نے سروقد کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مفتری اگر قبیلہ اوس میں سے ہے تو اس کا نام معلوم ہونے پر ہم انسداد شر کر سکتے ہیں اور اگرا فتراء کنندہ برادران خزرج (قبیلہ) میں سے ہو تو اس کے متعلق جو ارشاد ہو بسر و چشم تعمیل کے لیے حاضر ہیں۔ بخدا! ایسا بد نہاد مفتری قابل گردن زدنی ہے۔ یہ سن کر قبیلہ خزرج کے سربراہ جناب سعد بن عبادہؓ دست بستہ عرض گزار ہوئے کہ اسید نے تمام بات ہمارے سر تھوپ دی ہے۔ کاش! اگر اس افواہ کا مبداء قبیلہ اوس ہوتا تو اسید یوں سخن آرائی نہ فرماتے! طرفین کی تقریر نے اوس و خزرج میں اشتعال پیدا کر دیا لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و حسن مداخلت سے یہ فتنہ سرفراز نہ ہونے پایا۔ اصلی حقیقت پر ام المومنینؓ کی اطلاع یابی: آخر یہ سناؤنی مہاجرین کی ایک نیک نہاد خاتوں کے ذریعہ ام المومنینؓ کے گوش گزار ہوئی۔ عصمت پناہ طاہرۂ صدیقہؓ اپنے دامن عفت پر بدنمائی کی خبر سے کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ شدت گریہ سے دل پارہ پارہ ہونے کے قریب آ پہنچا۔ بستر سے اٹھیں اور خود کو اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں ڈال دیا، آواز مدہم پڑ گئی۔ ذرا حواس سنبھلے تو اپنی والدہ سے یوں شکوہ فرمایا والدۂ مہربان! آپ نے تو ضرور سنا ہو گا پھر مجھ سے کیوں چھپائے رکھا؟ ام المومنینؓ کا گریہ دیکھ کر آپ کی والدہ نے عرض کیا دختر نیک طینت! ایسی عورت کون سی ہے جو تمہاری طرح اپنے شوہر کی چہیتی ہو اور اس کی سوکنیں اس سے دشمنی نہ کریں یا دوسرے اشخاص اس کے حسد سے جل کر کباب نہ ہوں! لیکن طاہرۂ صادقہؓ کو والدہ کی اس دل جوئی سے ذرا تسکین نہ ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حد سے زیادہ نگہ کرم کے بعد اس سرد مہری کا تصور فرماتیں تو اس خطرہ سے کہ مبادا آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آپ کے متعلق گرہ بیٹھ گئی ہو، ام المومنینؓ کا اضطراب اور سوا ہو جاتا۔ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا ارادہ ہو جاتا۔ بعض اوقات آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے صدقے میں تسلیم اتہام کے بعد قسم سے خود کو تہمت سے بری کرنے کے مسودے بناتیں۔ کبھی یہ منصوبہ کہ ان دنوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ پیش آ رہے ہیں میں بھی آپ سے اسی قسم کی بے اعتنائی کا برتاؤ کروں۔ آخر یہ ذہن میں آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا کے برگزیدہ پیغمبر ہیں، جس نے آپ کو ازدواج پر برتری عنایت فرما دی ہے، یہ افتراء عوام کی کارستانی ہے جنہیں میرے قافلہ سے بچھڑ جانے کے بعد صفوان کے ناقہ پر آنے سے موقعہ مل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں دخل نہیں! بالآخر ام المومنینؓ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے خداوند! مجھے سیدھی راہ بتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر میری بے گناہی واضح ہو جائے اور مجھ پر پہلے کی طرح نگاہ کرم منعطف فرمانے لگیں۔ تحقیق افک میں مجلس مشاورت: عام چہ مے گوئی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یک سو نہ تھے۔ آخری تدبیر پر توجہ فرمائی اور ابوبکرؓ کے ہاں تشریف لے جا کر اپنے معتمدین میں سے اسامہ ابن زیدؓ اور علی بن ابی طالبؓ کو طلب فرما کر دونوں سے مشورہ پوچھا۔ اسامہؓ نے سادگی سے بریت کرتے ہوئے نفس الامر کو افتراء و بہتان سے تعبیر کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی تصور تھا ان کے بعد علیؓ سے دریافت فرمایا تو انہوں نے تصدیق و تکذیب دونوں سے یک طرف ہو کر ان النساء لکثیر (عورتوں کی کمی نہیں) کہنے کے ساتھ عرض کیا اس معاملہ میں ام المومنینؓ کی کنیز (بریدہ: م) سے بھی دریافت فرما لیجئے اور علیؓ نے کنیز کے آتے آتے انہیں اچھی طرح زد و کوب کیا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچی شہادت پیش کریں۔ کنیز! بخدا وہ تو سراپا عصمت ہیں: اور کنیز نے اس کے سوا بھی ام المومنینؓ کی بریت میں بہت کچھ کہا (اصل واقعہ بخاری باب حدیث الافک: کتاب المغازی میں ہے:م) ام المومنینؓ سے جواب طلبی: اس تفتیش کے بعد ام المومنینؓ سے دریافت کرنا باقی رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جناب ابوبکرؓ کے ہاں تشریف لائے۔ اس وقت سیدہؓ کے والدین کے سوا ایک انصار خاتون بھی حاضر خدمت تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال پر ام المومنینؓ نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ خاتون انصار بھی گریہ ضبط نہ کر سکیں۔ سیدہ صدیقہؓ کے تاثرات کا مبنی یہ تھا کہ جو وجود گرامی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اس حد تک قدر دان تھا، ان پر ہر طرح سے انہیں اعتماد تھا یا یہ کہ آج انہوں نے انہیں یوں نظروں سے گرا دیا۔ اور جب ام المومنینؓ نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کیا تو آنسو خود بخود تھم گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہؓ! اللہ سے ڈرتی رہو۔ اگر لوگوں کا خیال صحیح ہے تو اس کے حضور توبہ کرو! اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توجہ قبول فرماتا ہے! آنحضرت کی تنبیہہ ختم ہونے کے ساتھ ہی ام المومنینؓ کی رگوں میں غصہ سے خون دوڑ اٹھا، آنکھوں سے آنسو بہنا بند ہو گئے۔ پہلے انہوں نے اپنی والدہ کی طرف دیکھا۔ وہ مہر بہ لب بیٹھی تھیں پھر والد پر نظر دوڑائی۔ وہ بھی خاموش! ام المومنینؓ نے دونوں سے گلہ فرمایا آپ لوگ خاموش بیٹھے ہیں؟ دونوں نے عرض کیا ہمیں حقیقت کا کوئی علم نہیں! اور یہ کہہ کر دونوں نے سر جھکا لیا۔ ام المومنینؓ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ جس سے قدرتاً غصہ کا ہیجان کم ہو گیا۔ اسی گریہ و زاری کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جو آپ مجھے توبہ کا مشورہ دے رہے ہیں، جب میں نے گناہ ہی نہیں کیا پھر توبہ کس جرم میں کروں؟ دشمن مجھ پر جو افتراء باندھ رہے ہیں میں اس حقیقت سے خوب واقف ہوں۔ اس ر میں توبہ کروں گی اور اگر میں اپنی بریت پر کچھ کہوں تو اللہ تعالیٰ پر میری پاک دامانی پوری طرح منکشف ہے اور اگر میں لوگوں کے سامنے اپنی بریت کروں تو وہ میری تصدیق کیوں کرنے لگے؟ کچھ دیر سکوت کرنے کے بعد ام المومنینؓ نے کہا میں اپنی صفائی میں اتنا ہی کہہ سکتی ہوں جتنا حضرت یوسف علیہ السلام کے والد گرامی (جناب یعقوب علیہ السلام) نے کہا تھا: فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون(18:12) خیر صبر و شکر! اور جو حال تم بیان کرتے ہو خدا ہی مدد کرے کہ اس کا پردہ فاش ہو۔ مجلس میں طویل خاموشی کے بعد نزول برمات اس گفتگو کے بعد مجلس پر ایسا وقفہ گزرا جس میں کسی کی زبان پر ایک حرفہ بھی نہ آیا۔ دوسروں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سکوت فرما تھے۔ کسی کو طول و اختصار وقفہ کا تصور ہی نہ تھا۔ اتنے ہی میں نزول وحی کے آثار ظاہر ہوئے۔ ختم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ردا سے ڈھانک دیا گیا۔ بالین پر تکیہ لگ گیا۔ ام المومنینؓ فرماتی ہیں اس وقت نہ تو مجھے اپنی بے گناہی کی وجہ سے نزول وحی پر کوئی دغدغہ تھا، نہ ذات باری کے منصف ہونے میں شبہ لیکن میری ماں اور باپ ایسے ضغطے میں تھے، جیسے روح مائل پرواز ہو۔ انہیں خطرہ تھا کہیں وحی سے الزام کی تصدیق نہ ہو جائے! ان کی یہ حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراغ وحی سے بعد ہوئی۔ جب نبی صلوات اللہ علیہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہے تھے اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا: ابشری یا عائشہ! قد انزل اللہ براء تک! اے عائشہؓ! مبادک باد! اللہ نے تمہاری بریت میں قرآن نازل فرما دیا۔ ام المومنینؓ نے صرف الحمد اللہ کہا اور خاموش رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت مسجد میں تشریف لائے اور مسلمانوں کو یہ آیتیں سنائیں: ان الذین جاء و بالافک عصبۃ منکم لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم لکل امریء منھم ما اکتسب من الاثم والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم (11-24) مسلمانو! جن لوگوں نے (ام المومنین عائشہؓ کی نسبت) طوفان اٹھا کھڑا کیا تم ہی میں کا ایک گروہ ہے اس (طوفان) کو اپنے حق میں برا نہ سمجھو بکہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہوا (کہ سچے مسلمان اور منافق کی پہچان پڑے) طوفان اٹھانے والوں میں سے جتنا گناہ جس نے سمیٹا (اس کی سزا) بھگتے گا اور جس نے ان میں سے طوفان کا بڑا حصہ لیا (ویسی ہی) اس کو بڑی (سخت) سزا ہو گی۔ لولا اذا سمعتموہ ظن المومنون والمومنت بانفسھم خیرا وقالو ھذا افک مبین (13-24) مسلمانو! جب تم نے ایسی (نالائق) بات سنی تھی ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں نے اپنے (مسلمان بھائی بہنوں کے) حق میں نیک گمان کیوں نہ کیا اور سننے کے ساتھ ہی کیوں نہ بول اٹھے کہ یہ صریح بہتان ہے۔ لولاء جاء وعلیہ باربعۃ شھداء فاذلم یاتوا بالشھداء فاولئک عنداللہ ہم الکاذبون (15-24) (جن لوگوں نے یہ طوفان اٹھا کھڑا کیا) اپنے بیان (کے ثبوت) پر چار گواہ کیوں نہ لائے؟ پھر جب گواہ نہ لا سکے تو خدا کے نزدیک (بس) یہی جھوٹے ہیں۔ ولو لا فضل اللہ علیکم ورحمتہ فی الدنیا ولاخرۃ لمسکم فی ما افضتم فیہ عذاب عظیم (14-24) اور اگر تم (مسلمانوں) پر دنیا اور آخرت میں خدا کا فضل اور اس کا کرم نہ ہوتا تو جیسا تم نے ایسی (نالائق) بات کا چرچا کیا تھا اس میں تم پر کوئی بری آفت نازل ہو گئی ہو۔ اذ تلقونہ بالسسنتکم وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم وتحسبونہ ھینا وھو عنداللہ عظیم (15-24) کہ تم لگے اپنی زبانوں سے اس کی نقل در نقل کرنے اور اپنے منہ سے ایسی بات بکنے جس کی تم کو مطلق خبر نہیں اور تم نے اس کو ایسی ہلکی (سی) بات سمجھا حالانکہ (وہ) اللہ کے نزدیک بری سخت بات ہے۔ ولو لا اذا سمعتموہ قلتم ما یکون لنا ان نتکلم بھذا سبحنک ھذا بھتان عظیم (16-24) اور جب تم نے ایسی نالائق بات سنی تھی تو سننے کے ساتھ کیوں نہیں بول اٹھے کہ ہم کو ایسی بات منہ سے نکالنی زیبا نہیں؟ حاشا و کلا! یہ تو بڑا (بھاری) بہتان ہے۔ یعظکم اللہ ان تعودوا! لمثلہ ابدا ان کنتم مومنین ویبین اللہ لکم الایت واللہ علیم حکیم (18,17-24) مسلمانو! خدا تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو پھر کبھی ایسا نہ کرو اور اللہ (اپنے) احکام تم سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ (سب کے حال سے) واقف اور حکمت والا ہے۔ ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا ولآخرۃ واللہ یعلم وانتم لا تعلمون (19:24) تو جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فاحش باتوں کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا درد ناک ہے اور آخرت میں (بھی) اور ایسے لوگوں کو اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ تعزیرافک اور اسی (افک) کے سلسلہ میں پارسا عورتوں کو تمہم کرنے کی سزا کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا: والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتو باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمنین جلدۃ ولا تقبلوا لھم شھادۃ ابدا واولئک ھم الفاسقون (4:24) اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں اور چار گواہ نہ لا سکیں تو ان کے (اسی) درے مارو اور (آئندہ) کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ خود بدکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افتراء سازی کے مندرجہ ذیل مجرموں کو اس آیہ کی تعمیل میں اسی دروں کی سزا دی ۔ مسطح بن اثامہ حسان بن ثابت اور (بی بی ) حمنہ (دختر حجش) کو انہی ہرسہ نے صدیقہ طاہرہ (ام المومنینؓ) کے خلاف طومار باندھا تھا۔ نزول قرآن کے بعد حضرت عائشہؓ کو پہلے کی طرح رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں وقار حاصل ہو گیا اور اپنے باپ کے گھر سے آپ حرم سرائے نبوت میں تشریف لے آئیں۔ سر ولیم میور کی رائے: واقفہ افک پر سر ولیم میور (جن کی توثیق کے بغیر وحی الٰہی کی تصدیق ناکافی تھی جیسا کہ میور صاحب کے افادات ابتدا میں گزر چکے ہیں:م) فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت عائشہؓ افک سے قبل اور اس کے بعد دونوں عہدوں میں اس قدر پاک دامنی سے رہیں کہ آپ کے متعلق ایسا شبہ نہ صرف بے بنیاد بلکہ اس کی تردید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مجرمین کی تعزیر کے بعد ان میں سے حسان بن ثابتؓ سزا یابی کے بعد پہلے ہی کی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لطف و عنایات کا مورد بن گئے۔ مسطح کی دست گیری حضرت ابوبکرؓ جس طرح ہمیشہ فرماتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش سے از سر نو ان کا وظیفہ جاری فرما دیا۔ مدینہ کی فضا بدستور اپنی سطح پر آ گئی۔ مسلمانوں کے دلوں میں ام المومنینؓ کا وقار پہلے سے زیادہ قائم ہو گیا۔ خاتم النبینؓ یک سوئی سے تبلیغ اسلام پر منعطف ہو گئے اور مسلمانوں کے سیاسی سود وبہبود میں تگ و دو کی صورت میں اس قرار داد کا وقت قریب آ گیا جس کی بدولت اللہ نے مسلمانوں کو فتحاًمبیناً (1:48) سے سرفراز فرمایا اور جس کی تفصیل اس سے ملحقہ (بیسویں) فصل میں ملاحظہ فرمائیے گا۔ ٭٭٭ باب20 حدیبیہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کو مکہ سے ہجرت کئے ہوئے چھ سال گزر گئے۔ اس مدت میں وہ خود دشمنوں کی مدافعت کی وجہ سے مسلسل جنگوں میں مصروف رہے۔ کبھی قریش کے حملوں سے خود کو محفوظ رکھنے میں منہمک اور گاہے یہود کی ریشہ دوانیوں سے نجات حاصل کرنے کی فکر! لیکن مسلمانوں کی ان پریشانیوں کے باوجود اسلام ہر طرف پھیلتا گیا اور اس کے حامیوں میں قوت و استقلال بڑھتا گیا۔ ہجرت کے پہلے سال نمازوں میں مسجد اقصی واقع (در بیت المقدس) کی بجائے مسجد الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا، یعنی مسلمانوں نے اس کعبہ کو قبلہ نماز بنا لیا جو مکہ میں ہے اور جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ ان کے بعد وقتاً فوقتاً اس کی مزید تعمیر ہوتی رہی۔ اس کی تعمیر میں جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدو شباب میں حصہ لیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کے حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے اس کے محل نصب میں رکھا۔ یہ اس دور کا تذکرہ ہے جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے عطیہ رسالت کی توقع تھی نہ آپ کے متعلق کسی اور کے ذہن میں یہ امید کہ آپ رسالت پر فائز ہونے والے ہیں۔ مسجد الحرام (کعبہ) اہل عرب کی عبادت گاہ تھی، جس میں اد ب والے چار مہینوں میں زائرین آتے۔ تقدیس کا یہ عالم کہ اس میں داخل ہو جانا خود کو دشمن کے حملہ سے محفوظ کر لینا تھا۔ اس کے جواز میں بھی کسی پر وار کرنے کی جرأت نہ کی جاتی (زخمی کرنا یا جان سے مارنا تو بڑی بات ہے) یہ تقدیس صدیوں سے اسی طرح چلی آ رہی تھی۔ لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی اہل مکہ نے ان کے بیت اللہ میں داخل نہ ہونے پر قسم کھا لی۔ مامن کی تعریف: اہل مکہ کے اس رویہ پر ہجرت نبویؐ کے پہلے سال یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ 1۔ یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ قل قتال فیہ کبیر وصد عن سبیل اللہ وکفر بہ والمسجد الحرام واخراج اہلہ منہ اکبر عندا اللہ الخ (217:2) اے پیغمبر! لوگ تم سے پوچھتے ہیں جو مہینہ ہرمت کا سمجھا جاتا ہے اس میں لڑائی کرنا کیسا ہے؟ ان سے کہہ دو، اس میں لڑائی کرنا بڑی برائی کی بات ہے مگر (ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھو کہ) انسان کو اللہ کی راہ سے روکنا (یعنی ایمان اور خدا پرستی کی راہ اس پر بند کر دینی) اور اس کا انکار کرنا اور مسجد حرام میں نہ جانے دینا، نیز مکہ سے وہاں کے رہنے والوں کو نکال دینا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برائی ہے۔ 2۔ اور غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ وما لھم الا یعذبھم اللہ وھم یصدون عن المسجد الحرام وما کانوا اولیاء ان اولیا وہ الا المتقون ولکن اکثرھم لا یعلمون (34-8) اور اب (کہ تم مکہ سے ہجرت کر کے چلے آئے) تو ان (کفار مکہ) کو کیا استحقاق رہا کہ یہ تو مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ میں جانے) سے (مسلمانوں کو) روکیں اور خدا ان کو عذاب نہ دے۔ حالانکہ یہ گو اس کے متولی ہونے کے مدعی ہیں مگر (انصافاً) اس کے مستحق نہیں اس کے مستحق تو بس پرہیز گار لوگ ہیں۔ لیکن ان (کافروں) میں سے اکثر اس بات کو نہیں سمجھتے۔ وما کان صلاتھم عند البیت الا مکاء و تصدیۃ فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون (35-8) اور خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا ان کی نماز ہی کیا تھی تو (اے کافرو!) جیسا تم کفر کرتے رہے ہو اب اس کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو۔ ان الذین کفروا ینفقون اموالھم لیصدوا عن سبیل اللہ فسینفقونھا ثم تکون علیھم حسرۃ ثم یغلبون والذین کفروا الی جھنم یحشرون (36:8) اس میں شک نہیں کہ یہ کافر اپنے مال (اس لئے) خرچ کرتے رہتے ہیں تاکہ (لوگوں کو) راہ خدا سے روکیں۔ سو (یہ لوگ تو) مال کو (اسی طرح پر) خرچ کرتے ہی رہیں گے۔ مگر پھر (آخر کار وہی مال) ان کے حق میں موجب حسرت ہو گا۔ (خرچ بھی کریں اور) پھر مغلوب بھی ہوں گے اور قیامت کے دن کافر (سب) جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔ اس قسم کی بے شمار آیات ہجرت سے چھ سال بعد کے زمانہ تک نازل ہوئیں، جن میں کعبہ کی مرجعیت اور اس کے مامن ہونے کا بیان تھا، مثلاً: واذ جعلنا البیت مثابہ للناس وامنا (125:2) اور (پھر دیکھو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (مکہ کے) اسی گھر کو(یعنی کعبہ کو) انسانوں کی گرد آوری کا مرکز اور امن و حرمت کا مقام ٹھہرا دیا۔ قریش تل ہی گئے کہ جب تک حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب جو ہبل و اساف و نائلہ اور دوسرے دوسرے بتان کعبہ کی خداوندی کے منکر ہیں، ان کے اور اپنے اسلاف کے خداؤں کو نہ مانیں، ان کے ساتھ جنگ کرنا فرض اور انہیں کعبہ میں آنے سے روکنا واجب ہے۔ مسلمان ان چھ سالوں میں کعبہ کی زیارت سے محروم اور اس دینی فریضہ کی ادائیگی سے قاصر تھے، جس سے ان کے آباء و اجداد ہمیشہ سے مستفیض رہے۔ خصوصاً مہاجرین بیت اللہ کے فراق کا صدمہ زیادہ محسوس کرتے، جس کے ساتھ انہیں مکہ کی جدائی کا الم بھی گھن کی طرح کھائے جا رہاتھا۔ اس کے ساتھ انہیں وطن اور اپنے اہل و عیال سے بچھڑ جانے کا غم بھی چین نہ لینے دیتا۔ لیکن مہاجرین و انصار دونوں خدا کی نصرت کے امیدوار تھے کہ وہ ایک نہ ایک دن اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے تابع داروں کو کامیاب کرے گا اور اسلام کو ہر ایک دین پر غلبہ عنایت فرمائے گا۔ انہیں اس ساعت کے بہت جلدی آنے کا یقین تھا جس میں خداوند عالم ان پر مکہ کے دروازے کھول دے گا۔ وہ بیت اللہ العتیق! ولیطوفو بالبیت العتیق(29:22) کا طواف کریں گے اور دوسروں کی طرح انہیں بھی اس فریضہ کے ادا کرنے کا موقع نصیب ہو گا جسے اللہ نے تمام عالم پر فرض کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کا اشتیاق طواف: کئی سال گزر گئے جن میں مسلمانوں کو جنگوں نے گھیرے رکھا۔ بدر کا معرکہ ختم ہوا تو احد کی ہولناکی مسلط کر دی گئی۔ اس کے بعد دفعتہ خندق (احزاب) میں مبتلا کر دئیے گئے۔ اسی طرح دوسری لڑائیوں نے انہیں چین نہ لینے دیا لیکن انہیں کعبہ کا طواف کرنے کا جو یقین تھا اس اشتیاق میں وہ ہمہ وقت چشم براہ تھے جس میں ان کے رہرو منزل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی مانند کعبہ کے مشتاق تھے۔ انہوں نے اپنے پیروؤں کو اس روز بشارت دی کہ یہ وقت اب قریب آ گیا ہے۔ کعبہ اور قریش: قریش نے اپنے جاہ و نخوت کی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر کعبہ کا دروازہ اس طرح بند کر رکھا تھا۔ کہ مسلمان حج و عمرہ میں سے کوئی فریضہ ادا نہ کر سکتے۔ سوال یہ ہے کیا یہ بیت عتیق (29:22)یعنی کعبہ قریش کی ملکیت تھی؟ وہ تمام عرب کی یکساں ملک تھی۔ قریش تو اس کے صرف محافظ تھے۔ ان کے متعلق کعبہ کی کلید برداری یا حاجیوں کے پانی اور دعوت کی چاکری تھی اور ان کے یہ مناصب بھی کعبہ کے لئے آنے والوں کا صدقہ تھا۔ طرفہ یہ کہ اس کعبہ کے اندر ہر ایک قبیلہ کا بت علیحدہ علیحدہ نصب تھا اور کسی قبیلہ کو اپنے صنم کے سوا دوسروں کے بت سے واسطہ نہ تھا اور قریش مجاور کسی قبیلہ کو کعبہ کی زیارت و طواف اور دوسرے مراسم سے منع نہ کرتے۔ لیکن جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تو آپ نے عوام کو بت پرستی کی نجاست سے پاک کرنے کی مہم شروع کرتے ہو ئے خدائے وحدہ لا شریک کی پرستاری کی دعوت دی، تاکہ انہیں انسانیت کا صحیح مرتبہ حاصل ہو اور دنیا میں اس قدر سربلند ہوں جس سے اوپر کسی رفعت و سربلندی کا امکان نہیں۔ رسول خدا نے انسان کو ایسے روحانی ارتقاء سے سرفراز کرنا چاہا جس سے یہ روحانیت وجود حقیقی تک رسائی حاصل کر سکے، ایسی توحید جس کے فرائض میں حج و عمرہ بھی شامل تھے، مگر قریش کی ستم رانی دیکھئے کہ انہوں نے اسلام کے پیراوؤں کو اس فریضہ کی ادائیگی سے قطعاً روک دیا۔ قریش کو خطرہ تھا کہ اگر جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان کبھی کعبہ کی زیارت کے لئے آ ہی پہنچے تو ان کا آنا قریش کے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ آخر تو وہ (مسلمان) اہل مکہ کے اقارب و احباب سے ہیں۔ جونہی ان کے چہروں پر نظر پڑے گی، جذبہ محبت موج زن ہو گا جس سے اہل مکہ کو بے حد دکھ ہو گا کہ ان کے بھائی بندوں کا اپنے اہل و اولاد سے یوں بچھڑے رہنا بڑا ظلم ہے۔ ممکن ہے کہ مسلمانوں کے ان بہی خواہوں اور ان کے ان جیسے دشمنوں میں خانہ جنگی ابھر آئے۔ اس کے سوا ان کے دلوں میں یہ خلش بھی تھی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء نے ہمارے لئے شام کی تجارتی شاہراہ بھی تو بند کر رکھی ہے: ان امور کی بناء پر قریش کے دل میں مسلمانوں کا کینہ اور دشمنی پوری طرح سما چکی تھی۔ ان کے ذہن میں کبھی یہ خیال نہ گزرتا کہ وہ کعبہ کے مالک نہیں بلکہ اس کے مجاور اور زائرین کے لئے پانی اور کھانا فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ کعبہ اور مسلمان: مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کیے ہوئے چھ سال گزر گئے۔ وہ زیارت و طواف کے لئے سراپا اضطراب بنے ہوئے تھے ایک صبح کے وقت وہ مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں جمع تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مژدہ لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امنین (27:48) 1؎ سنایا تو مسلمانوں نے بآواز بلند خدا کا شکر الحمد للہ پکارا۔ یہ خوشخبری بجلی کی سرعت کے ساتھ آنا فاناً مدینہ میں پھیل گئی۔ لیکن ہر مسلمان حیران تھا کہ وہ کس طرح بیت اللہ میں داخل ہوں گے۔ کیا جنگ کے ذریعے سے یا حملہ کر کے قریش کو مکہ سے نکال کر یا قریش اطاعت گزارانہ طریق سے ان سے متعرض نہ ہوں گے؟ مگر حقیقت یہ تھی کہ مسلمان جنگ یا حملہ کے بغیر مکہ میں داخل ہوں گے؟ عمرۂ بیت اللہ کے لئے عام منادی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں منادی کرا دی اور غیر مسلم حلیف قبائل کی طرف وفود بھیجے کہ وہ بھی آپ کے ہمراہ زیارت کعبہ کے لئے چلیں مگر جنگ کا ارادہ کر کے کوئی شخص گھر سے نہ نکلے۔ البتہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد مطلوب تھی تاکہ عرب پر آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادب والے دنوں میں جنگ نہ کرنے کا ثبوت واضح ہو جائے اور انہیں یقین آ جائے کہ مسلمانوں کا مقصود صرف بیت اللہ کی زیارت ہے۔ اور یہ فریضہ جو اسلام نے ان پر عائد کیاتھا کچھ مسلمانوں ہی کے لئے خاص نہ تھا۔ اہل عرب بھی اسے فرضیت ہی کی صورت میں ادا کرتے۔ اس لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم قبائل کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ 1؎ اور تم مسلمان مسجد حرام میں بے خوف و خطر باطمینان (تمام) داخل ہو گے۔ ختم المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر یہ امر بھی تھا کہ اس پر بھی اہل مکہ نے اگر مقابلہ سے ان کا استقبال کیا توعرب میں سے نہ کوئی ان کی تائید کرے گا اور نہ ان کی حمایت میں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہو گا بلکہ انہیں یقین ہو جائے گا کہ اہل مکہ لوگوں پر کعبہ کی زیارت کا دروازہ بند کر کے انہیں اسماعیلی دین اور ملت ابراہیمی سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اگر قریش نے ایسا ہی کیا تو آئندہ وہ مسلمانوں کے خلاف کبھی خندق کا سا عام بلوہ نہ کرا سکیں گے۔ ایسی حالت میں عرب انہیں برملا کہہ دیں گے کہ اہل مکہ نے ان لوگوں کو بھی کعبہ کی زیارت سے روک دیا ہے جن کی تلواریں نیام میں تھیں احرام باندھے ہوئے قربانی کے جانوروں کے آگے چل رہے تھے یہ غریب تو صرف طواف بیت اللہ کی فرضیت سے سبکدوش ہونے کے لئے آئے تھے۔ غیر مسلم قبائل کی کنارہ کشی: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منادی میں غیر مسلم قبائل میں سے بہت تھوڑی تعداد میں نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر آغاز ذیقعد میں شروع ہوا (یہ مہینہ بھی ادب والے چار مہینوں کا ایک جز ہے) اپنے ناقہ (قصواء نام) پر سوار مشایعت میں چودہ سو مسلمان زائرین، جن میں مہاجر و انصار دونوں طبقے تھے اور کچھ غیر مسلم قبائلی۔ مسلمانوں کے ہمراہ قربانی کے لئے ستر اونٹ تھے۔ جن میں ابوجہل کی سواری کا وہ شتر بھی تھا جو غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ ذوالحلیفہ 1؎ آ کر عمرہ کی نیت سے احرام باندھا۔ فضاء تلبیہ اللھم لبیک کی آواز سے گونج اٹھی۔ زائرین نے سر کے بالوں کی مینڈھیاں گوندھ لیں، مسلمانوں کے پاس صرف تلواریں تھیں وہ بھی نیام میں اور تلوار باندھنا عرب کا عام دستور ہی تھا۔ ازواج مطہرات میں حضرت ام سلمہؓ اس سفر میں ہم رکاب تھیں۔ قریش کی پیش بندی: اہل مکہ نے خبر سنتے ہی معاملہ کے ہر پہلو پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کا حریف اس تدبیر (عمرہ) سے مکہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ گویا وہ ان سے مدینہ پر حملہ کرنے کا انتقام لینے آ رہا ہے وہ جس میں کامیاب ہو جائے گا مگر انہیں وہاں سے ناکام واپس لوٹنا پڑا۔ آج وہ ان کے شہر پر اس حیلہ سے قابض ہونے کے لئے ان کے سر پر آ پہنچا ہے۔ اہل مکہ کے ذہن میں مسلمانوں کا احرام باندھے ہوئے عمرہ کی نیت سے آنا اور تمام عرب میں یہ اعلان کر دینا کہ وہ دینی فریضہ ادا کرنے کے لئے مکہ جا رہے ہیں،قطعاً اثر انداز نہ ہو سکا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیارت و طواف سے روکنے کا مصمم ارادہ کر لیا، اگرچہ اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ قریش نے دو سو جاں بازوں کا لشکر خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابوجہل کی سپہ سالاری میں بھیجا جس نے مقام ذی طویٰ پر مسلمانوں کی ناکہ بندی کر کے راستہ روک دیا۔ 1؎ مدینہ سے پانچ چھ میل پر ایک مقام کا نام اور یہ اہل مدینہ کا میقات ہے۔ م دونوں لشکروں کی اطلاع: ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام عسفان (مکہ سے دو منزل) پر آ پہنچے تو بنو کعب کا ایک شخص ادھر سے آ رہا تھا ۔ رہ گزر سے قریش کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا اہل مکہ آپ کے ادھر آنے کی خبر سنتے ہی طیش میں آ گئے۔ اب ان کا لشکر (مقام) ذی طویٰ میں ہے۔ ان میں سے ایک ایک لشکری نے قسم کھائی ہے کہ آپ لوگوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ خالد بن ولید انہیں (مقام) کراع الغمیم تک لے پہنچا ہے۔ (یہ مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ عسفان سے آٹھ میل کی مسافت پر تھا) یہ داستان سننے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یاویح قریش! لقد اھلکتم الحرب ماذا علیھم وخلوا بینی وبین سائر العرب فان ھم اصابونی کان ذلک الذی ارادوا وان اظھر فی اللہ علیھم دخلوا فی الاسلام واخرین۔ وان لم یفعلو قاتلوا وبھم قوۃ فماتظن قریش! فو اللہ! لا ازال اجاھد علی الذی بعثنی اللہ بہ حتیٰ یظھرہ اللہ او تنفرد ھذہ السالفۃ وائے برحال قریش!وہ جنگوں سے برباد ہو گئے مگر پھر بھی نہ سمجھے۔ آج اگر وہ مسلمانوں اور عرب زائرین کو طواف و زیارت سے نہ روکتے (توان کا کیا بگڑتا!) پیش نظر صورت حال میں اگر وہ مجھ پر غالب آ گئے تو انہیں بڑی خوشی ہو گی اور اگر مجھے ان پر اللہ نے غالب کر دیا تو وہ جوق در جوق اسلام قبول کر لیں گے۔ اگر انہوں نے جنگ شروع کر دی، جس کی ان میں قوت ہے ہی کہ وہ گھروں سے اسی نیت سے نکلے ہیں (اور مسلمان صرف طواف و زیارت کے لئے:م) مگر میرے متعلق کس مغالطہ میں ہیں! بخدا میں اسلام کو قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ ہمیشہ جہاد کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ اللہ اسلام کو غالب کرے یا دست اجل مجھ پر اپنا قبضہ کر لے۔ اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکر میں ڈوب گئے، کیوں کہ آپ مدینہ میں جہاد کے لئے مسلح ہو کر نکلنے کے بجائے، طواف بیت اللہ کی نیت سے احترام باندھ کر نکلے تھے تاکہ وہ فریضہ ادا کریں جو خدا نے اپنے تمام بندوں پر عائد کر رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال بھی گزرا کہ اگر قریش غالب آ گئے تو فخر کے مارے ان کا دماغ کہیں سے کہیں پہنچ جائے گا۔ اور یہ خیال بھی گزرا کہ خالد اور عکرمہ کو انہوں نے اس اطلاع پر بھیجا ہو گا کہ مسلمان جہاد کے ارادہ سے نہیں آئے، اس لئے ان پر فتح حاصل کرنا آسان ہے۔ لشکر قریش کا سامنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح طلبی: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم انہی تفکرات میں محو تھے کہ دور سے اہل مکہ کا لشکر آتا ہوا دکھائی دیا۔ طور طریقوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر مسلمانوں نے مکہ میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو انہیں بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں قریش اپنے جاہ و شرف اور وطن میں سے ایک ایک کے تحفظ پر سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے طلب گار نہ تھے۔ لیکن اگر آپ کو مقابلہ کرنا ہی پڑا تو یہ قریش کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبور کرنا ہو گا، لیکن عرب کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملزم ثابت کرنے کا موقعہ مل جائے گا۔ اس صورت میں آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں پر پورا اطمینان تھا کہ آپ کے رفقاء قریش کی سی حمیت کی بجائے خود پر سے ظلم دور کرنے کے لئے اپنی شمشیریں نیام سے نکال کر دشمنوں سے محفوظ ہو جائیں گے۔ ان تصورات میں یہ خیال گزرتا کہ لڑائی درپیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کا مقصد بھی فوت ہو جائے گا اور قریش کو بھی یہ بہانہ مل جائے گا کہ مسلمان حرمت والے دنوں میں جنگ کرنے کے لئے چڑھ آئے۔ اس لئے جنگ نہ صرف مسلمانوں کے نظریہ کے خلاف ہو گی بلکہ ان کے لئے باعث تکلیف اور سیاست کے بھی منافی ہو گی۔ اپنے رفقاء سے فرمایا جو شخص وادی کی راہوں سے واقف ہو ہماری رہنمائی کرے یعنی جس راہ سے دشمن کا لشکر آ رہا ہے اس سے علیحدہ کوئی پگڈنڈی مل جائے تاکہ جنگ سے بچاجائے کہ مقصود جنگ کرنا نہیں بلکہ طواف اور زیارت کعبہ ہے۔ کیوں کہ مدینہ ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر پر امن طریق پر طواف و زیارت کعبہ تھا۔ پہاڑیوں سے نکل کر جونہی ذرا کشادہ راستہ ملا دائیں سمت مڑ کر اس مقام سے قریب ہو کر گزرے جو ثنیۃ المرار یعنی لشکر کی فرودگاہ حدیبیہ کے نام سے مشہور اور مکہ کے قریب ہی ہے۔ ادھر قریش کے لشکر نے دیکھا کہ مسلمان عام راہ چھوڑ کر اس راستے پر پڑ گئے ہیں جو مکہ کی طرف جاتا ہے۔ ان کے دل میں ہول بیٹھ گیا کہ مبادا مکہ پر حملہ کر دیں۔ کفار اسی جگہ سے مسلمانوں کا حملہ بچانے کے لئے مکہ واپس لوٹ گئے۔ مسلمان حدیبیہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ناقہ (قصوائ) خود بخود بیٹھ گیا۔ مسلمانوں نے سمجھا وہ تھک گیا ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قصواء تکان سے نہیں بیٹھا اس کا بیٹھ جانا اسی قوت کا کرشمہ ہے جس نے ابرہہ کے ہاتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک لیا تھا پھر فرمایا آج اہل مکہ انسانیت کی بھلائی کے لئے مجھ سے جس شرط کا مطالبہ کریں گے میں اسے تسلیم کر لوں گا اور اپنے ساتھیوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم صادر فرمایا ۔ مسلمانوں نے اس جگہ پانی نہ ملنے کی اطلاع عرض کی۔ اس پر (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنے ترکش سے تیر نکال کر ایک شخص کو دیا کہ اسے وادی کے کسی کنوئیں کی تہہ میں نصب کر دے۔ جونہی یہ تیر ایک کنوئیں کی تہہ میں نصب کیا گیا پانی جوش مار کر ابل پڑا اور لشکر سیراب ہو کر پینے کے بعد پڑاؤ کے لئے اتر پڑا۔ ادھر مسلمانوں نے حدیبیہ میں پڑاؤ ڈال لیا ادھر قریش اس ضغطے میں پڑ گئے کہ اگرجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں داخل ہونے کا قصد کیا تو انہیں جان پر کھیل جانے کے بغیر چارہ نہ رہے گا۔ کیا اس موقعہ پر مسلمانوں کا مقابلہ کے لئے آمادہ ہونا مناسب تھا تاکہ آئے دن کے خرخشہ سے یکسوئی ہو جائے اور مقدرات الٰہی کی آخری آزمائش آج ہی کر لی جائے، جیسا کہ بعض مسلمانوں کا ارادہ بھی تھا۔ قریش اس حد تک تشویش میں مبتلا تھے کہ اگر مسلمان فتح منف ہو گئے تو وہ ملک میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ کعبہ کی تولیف، کلید برداری اور دوسرے دینی مناصب سب کے سب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں چلے جائیں گے۔ آخر انہیں کون سی راہ اختیار کرنا چاہیے؟ دونوں فریق اسی انداز سے اپنی جگہ پر سوچ رہے تھے مگر دونوں کے مطمع نظر میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر وہ مقصد عظیم تھا جسے آپ مدینہ سے دل میں لے کر نکلے ۔ عمرہ! جس کے لئے صلح و امن اور قتال سے اجتناب ضروری تھا۔ تاوقتیکہ قریش انہیں تلوار پکڑنے پر مجبور کر دیں۔ اور قریش کا مطمع نگاہ یہ تھا کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے دیدہ ور آدمیوں کا وفد بھیجا جائے جو ایک طرف ان کی قوت کا جائزہ لے اور دوسری طرف انہیں طواف و زیارت کے بغیر لوٹ جانے کی تلقین کرے۔ حدیبیہ میں قریش کے قاصد: قریش نے یکے بعد دیگرے قاصدوں کے چار وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجے۔ پہلا وفد: قبیلہ خزاعہ کے سربراہ بدیل بن ورقاء کے ہمراہ چند اشخاص پر مشتمل تھا انہیں گفتگو سے ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی نہیں کرنا چاہتے۔ مسلمان کے آنے کا مقصد زیارت و طواف کعبہ ہے۔ بدیل نے جو کچھ دیکھا اور سنا، واپس لوٹ کر اہل مکہ کو وہی مشورہ دیا۔ کہ مسلمانوں کے لئے خدا کے گھر کی زیارت کا راستہ کھول دیں۔ لیکن قریش نے انہیں الٹا ملزم گردانا اور انہیں برملا سخت سست کہا: لڑائی کے لئے نہیں آئے نہ سہی، تب بھی وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، نہ ہم عرب کو یہ موقعہ دے سکتے ہیں کہ وہ ہماری کمزوری کی داستان بیان کرتے رہیں۔ دوسرا وفد: جس کے سامنے وہی گفتگو ہوئی جو پہلے وفد کے ساتھ ہوئی تھی مگر واپس آنے کے بعد انہوں نے قریش کی تہمت تراشی کے خوف سے ادھر ادھر کی باتیں کر کے انہیں ٹال دیا۔ تیسرا وفد: احابیش1؎ کا تھا۔ اب قریش نے ان کے سردار حلیس کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ مقصود یہ تھا کہ اگر (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) نے حلیس کو ٹھکرا دیا تو یہ لوگ ان کی نصرت میں اور بھی پیش پیش ہوں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلیس کو شناخت کر لیا اور مسلمانوں سے فرمایا کہ قربانی کے جانوروں کو اس کے آگے کی طرف سے نکالا جائے۔ حلیس کے ذہن نشین یہ کرنا تھا کہ اہل مکہ جن لوگوں کا مقابلہ کرنے کی فکر میں مرے جا رہے ہیں، وہ تو بیت اللہ کی تقدیس کی وجہ سے صرف حج عمرہ کے لئے آئے ہیں۔ حلیس نے یہ بھی دیکھا کہ قربانی کے ستر جانور بھوک کی شدت سے ایک دوسرے چوپائے کے بدن سے بال نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ حلیس مسلمانوں کی دیانتداری سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے قریش کے ظلم اور ان لوگوں کی صلح جوئی کا یقین آ گیا۔ 1؎ ان لوگوں کو احابیش یا تو سیاہ رنگ کی بناء پر کہتے تھے اور یا حبشی نامی پہاڑ کی طرف منسوب ہیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کیے بغیر واپس لوٹ آیا مگر پہلے دو وفود کی طرح اس کی باتوں سے بھی قریش نے چراغ پا ہو کر اسے کہا خاموش! آخر تم بدو ہی نکلے! تم ان باتوں کو کیا سمجھو۔ یہ سن کر یہ حلیس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس نے قریش سے کہا میں لوگوں کو کعبہ کی زیارت سے روکنے کے لئے تمہارا حلیف نہیں ہوں حلیس نے قریش سے یہ بھی کہا کہ احابیش میں سے کوئی شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو طواف سے روکنے کے لئے حائل نہ ہو گا حلیس کی اس دھمکی سے قریش کے بدن پرر عشہ طاری ہو گیا۔ منت سماجت کر کے اتنی مہلت مانگی کہ اس معاملہ میں ذرا سوچ لینے دیجئے۔ چوتھا وفد: اب قریش نے ایسا آدمی تجویز کرنے کا منصوبہ بنایا جو حکمت و دانائی میں سب سے بہتر ہو اور ان کی نظر عروہ بن مسعود ثقفی (طائفی) پر پڑی ۔ پہلے وفد کی مذلت عروہ کے سامنے ہی ہوئی تھی۔ اس نے انکار کر دیا۔ لیکن قریش کے اطمینان دلانے پر وہ حدیبیہ میں چلا گیا۔ عروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مکہ آپ کا بھی وطن ہے۔ آج اگر آپ نے ان ملے جلے اور کم رتبہ 1؎ لوگوں کے ہاتھ سے اسے پامال کرا دیا تو قریش ہمیشہ کے لئے رسوا ہو جائیں گے اور ان کی رسوائی میں آپ بھی ملوث ہوں گے۔ قریش کے ساتھ آپ کی لڑائی ہوتی رہتی ہے لیکن ان کی یہ ذلت آپ کو بھی گوارا نہ ہونا چاہیے۔ ابوبکرؓ نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ عروہ اپنی حکمت عملی سے مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بد دل کرنا چاہتا ہے۔ عروہ سے برملا کہہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی کسی حالت میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے ۔ عرب کے عام دستور کے مطابق دوران گفتگو میں عروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک سے ہاتھ لگا لگا کر بات کر رہا تھا اور حضرت مغیرہ بن شعبہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں با ادب کھڑے تھے۔ وہ ہر مرتبہ عروہ کا ہاتھ جھٹک دیتے باوجودیکہ مغیرہ ؓ کو عروہ بن مسعود کا یہ احسا ن فراموش نہ ہوا تھا کہ ایک مرتبہ اس نے مغیرہ کی طرف سے تیرہ مقتولوں کی دیت ادا کی تھی۔ عروہ قریش کے پاس لوٹے تو انہوں نے برملا کہہ دیا اے برادران قریش! میں نے کسریٰ و قیصر اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے دربار دیکھے۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سی عظمت کسی بادشاہ کی نہ دیکھی۔ اور تو اور ان کے ساتھی ان کے وضو کرنے پر پانی کے قطرے بھی زمین پر نہیں پڑنے دیتے! ان کا بال زمین سے اٹھا کر کسی قیمت پر دوسروں کو دینا گوارا نہیں! میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔ 1؎ مولف نے یہاں لفظ اوشاب لکھا ہے اور اسی رعایت سے ہم نے ترجمہ بھی کیا اور ابن ہشام کے نسخہ میں اوباش بھی ہے۔ ابن القیم نے بھی زاد المعاد میں اوشاب کو ترجیح دی ہے:م رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قاصدوں کی روانگی: پہلے قاصد وفود قریش کی ناکامی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ فرمایا کہ قریش کی طرف سے آنے والے واپس لوٹ کر انہیں پوری کیفیت سے آگاہ نہیں کرتے۔ تب خاتم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانب سے ایک صاحب کو مکہ بھیجا، مگر قریش نے انہیں دیکھتے ہی پہلے تو ان کی سواری کا اونٹ ہلاک کر دیا، پھر انہیں نرغہ میں لے لیا (ان کا نام خراش بن امیہ الخزاعی ہے:م)لیکن احابیش نے مداخلت کر کے ان کی جان بچا دی۔ اہل مکہ نے اپنے اس رویہ سے ثابت کر دیا کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے متعلق بغض و کینہ بھرا ہوا ہے۔ ان کی روش دیکھ کر بعض مسلمان قتال کے متعلق سوچنے لگے۔ قریش کا حدیبیہ پر حملہ: اسی وقفہ میں شب کے وقت قریش کے چالیس یا پچاس نوجوان نکلے۔ پہلے انہوں نے مسلمانوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے بعد یک دم جھپٹ پڑے۔ لیکن سب کے سب اسیر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ تمام مجرموں کو رہا کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو صلح و مصالحت تھا اور ادب والے دنوں (ماہ ذیقعد) کا احترام، اور حدیبیہ جو حرم بیت اللہ میں واقع ہونے کی وجہ سے محترم تھا، اس کا وقار مطلوب! قریش اپنے آدمیوں کی اسیری اور رہائی سے بے حد نادم ہوئے۔ انہیں یقین ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے ارادہ سے تشریف نہیں لائے۔ قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگر مسلمانوں پر زیادتی کی گئی تو عرب انہیں طعنہ دیں گے اور یقین کر لیں گے کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے ساتھ جو سلوک بھی کریں انہیںاس کا حق پہنچتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا قاصد: قریش کو ایک اور موقعہ دینے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا قاصد بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے حضرت عمرؓ سے فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قریش مجھ پر جس قدر برہم ہیں آپ سے پوشیدہ نہیں اور میں بھی ان کے حق میں بہتر نہیں ہوں۔ مکہ میں میرے خاندان بنی عدی میں سے بھی کوئی نہیں۔ اگر آپ عثمانؓ (بن عفان) کو بھیج دیں تو مناسب ہو گا۔ اہل مکہ ان کی بے حد تعظیم کرتے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے (خویش) عثمانؓ کو طلب فرما کر انہیں ابوسفیان و سادات عرب کے ساتھ گفتگو کے لئے مکہ روانہ فرمایا۔ مکہ میں سب سے پہلے ابان بن سعید سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ابان نے ان کے قیام مکہ تک از خود اپنی ضمانت میں لے لیا۔ جب حضرت عثمانؓ نے قریش کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیام پیش کیا تو انہوں نے کہا اے عثمانؓ! اگر آپ چاہتے ہوں تو بیت اللہ کا طواف کر لیجئے۔ مگر حضرت عثمانؓ نے کہا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طواف نہ کریں میں بھی نہیں کر سکتا۔ اے قریش! ہم لوگ بیت اللہ کی زیارت کے لئے آئے ہیں، جس کی تعظیم ہمارے دین میں داخل ہے۔ عمرہ کے معمولات ادا کرنا مقصود ہے اور قربانی کے جانور ہمارے ہمراہ ہیں۔ یہ رسوم ادا کر کے ہم واپس چلے جائیں گے۔ قریش کا جواب: مگر ہم نے قسم کھا لی ہے کہ اس سا ل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا جائے ۔ گفتگو کا دامن وسیع ہوتا گیا، جس سے حضرت عثمانؓ کا قیام طول پکڑ گیا۔ اس تاخیر سے مسلمانوں میں عثمانؓ کے قتل کی ا فواہ پھیل گئی لیکن۔ قطع نظر اس کے شاید وہ لوگ حضرت عثمانؓ کے ساتھ اپنی اس قسم کا ایسا حل تلاش کر رہے ہوں، جس سے قسم اپنی جگہ قائم رہے اور مسلمان بھی زیارت و طواف کر سکیں او ریہ کہ حضرت عثمانؓ کی وساطت سے قریش اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات خوشگوار ہو سکیں۔ بیعۃ الرضوان: مسلمان حضرت عثمانؓ کے متعلق اس خبر سے بے حد مضطرب تھے کہ اہل مکہ نے عرب کی روش کے خلاف ادب والے دنوں اور کعبہ کے اندرقتل کرنے میں بھی تامل نہیں کیا۔ مسلمانوں میں سے ایک ایک متنفس نے خون عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بیٹھ سا گیا کہ اہل مکہ نے عثمانؓ کو ادب والے مہینے سے قتل کر دیا۔ فرمایا لا نبرح حتی نناجز القوم (میں ان سے جنگ کیے بغیر یہاں سے قدم پیچھے نہ ہٹاؤں گا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ بیعت (جہاد) کی دعوت فرمائی ۔ ایک ایک مسلمان نے بیعت کی کہ وہ موت کو فرار پر ترجیح دے گا۔ پورے استقلال و استقامت کے ساتھ بیعت ہوئی۔ جن لوگوں نے قاصد کو ادب والے زمانہ میں قتل کر دیا، یہ بیعت ان کے خلاف دلوں میں جوش انتقام لئے ہوئے تھی جس کا تذکرہ قرآن کے ان لفظوں میں ارشاد ہوا: لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرۃ فعلم ما فی قلوبھم فانزل السکینۃ علیھم واثابھم فتحا قریباً (18:48) (اے پیغمبر!) جب مسلمان(ایک کیکر کے) درخت تلے تمہارے ہاتھ پر (لڑنے مرنے کی) بیعت کر رہے تھے خدا (یہ حال دیکھ کر ضرور) ان مسلمانوں سے خوش ہوا اور اس نے ان کی دلی عقیدت کو جان لیا اور ان کو اطمینان (قلب) عنایت کیا اور اس کے بدلے میں ان کو قریب کی فتح دی۔ جب تمام مسلمان بیعت کر چکے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست راست اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ھذا ید عثمان ؓ (یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے!) اسی طرح اپنے دوسرے قاصد کی طرف سے تکمیل بیعت فرمائی اور بیعت کے بعد مسلمانوں نے اپنی تلواریں نیام سے باہر نکال لیں۔ اب نہ انہیں مقاتلہ میں شک تھا نہ اس میں شبہ کہ ذرا دیر بعد ہماری فتح ہو گی یا جام شہادت نصیب ہو گا جس کے لئے ان کی روح شاداں و فرحاں منتظر تھی تاکہ اپنے رب کے حضور یایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ(28-27:89) 1؎ پیش ہوں جس کے لئے ان کے قلوب اطمینان و سکینہ کا خزانہ بنے ہوئے تھے۔ 1؎ روح مطمئن اپنے پروردگار کی طرف چل! تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی! اتنے ہی میں حضرت عثمانؓ کے متعلق خیریت کی ا طلاق آ گئی جس سے ذرا دیر بعد ممدوح بھی تشریف لے آئے۔ لیکن بیعۃ الرضوان کے ثمرات آج سے کئی سال قبل عقبۃ الکبریٰ کی بیت کی سی کیفیت کی طرح پر بہار رہے ۔ خود رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیعۃ الرضوان کے اثرات میں گونہ کیف و سرور رہا۔ جب اس کا تصور فرماتے، اپنے صحابہ کی فدا کاری کا نقشہ ذہن میں مرتسم ہو جاتا اور ظاہر ہے کہ جو شخص موت سے نہیں گھبراتا خود موت اس کے نام سے لرزتی ہے۔ کامیابی ایسے ہی لوگوں کے لئے چشم براہ رہتی ہے۔ حضرت عثمانؓ نے قریش کی داستان ان لفظوں میں عرض کی اب انہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء کے تشریف لانے کا مقصد معلوم ہو گیا ہے۔ وہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ آئندہ سے انہیں حرمت والے دنوں میں حج و عمرہ کے لئے (مکہ) آنے والوں کے روکنے کا کوئی حق نہ ہو گا۔ لیکن اسی وقفہ میں خالد بن ولید ایک دستہ اپنے ہمراہ لے کر مسلمانوں پر پل پڑے اور دیکھتے ہی دیکھتے فریقین میں جھڑپ ہو گئی۔ کیوں کہ اہل مکہ کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان طواف کے لئے کعبہ میں داخل ہو گئے تو ملک میں ان کی سبکی ہو گی اور عرب کے باشندے انہیں طعنہ دیں گے کہ اہل مکہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بھاگ نکلے۔ قریش چاہتے تھے کہ اس سال مسلمان مکد میں نہ آئیں، جس پر وہ کئی طریقوں سے سوچ رہے تھے کہ اگر مسلمان اس اقدام سے باز نہ آئیں، تو انہیں طوعاً و کرھا ان سے جنگ کرنا پڑے گی۔ قریش دو گونہ کشمکش میں مبتلا تھاے۔ ادب والے دنوں میں جنگ کرنے سے بھی انہیں گریز تھا اور یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ان کی طرف سے ان دنوں کے احترام میں لغزش ہوئی تو وہ قبائل جو ان مہینوں میں تجارت کے لئے مکہ میں آتے ہیں انہیں ادھر آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ رہے گی اور ان کے نہ آنے سے اہل مکہ کی معاشی زبوں حالی حد سے گزر جائے گی۔ پھر مذاکرات صلح کی تجدید اہل مکہ کے پانچویں اور آخری وکیل: مذاکرات صلح پھر جاری ہوئے۔ اہل مکہ نے سہیل بن عمرو کو بھیجا (یہ ان کے پانچویں اور آخری قاصد تھے) اور انہیں تاکید کر دی کہ مسلمانوں کی طرف سے عمرہ کی شرط قبول نہ کی جائے ورنہ میں ملک میں ان کا منہ کالا ہو جائے گا شرائط صلح میں طوالت کی وجہ سے بارہا سلسلہ گفتگو میں انقطاع کا خطرہ پیدا ہو گیا لیکن فریقین کے باہمی جذبہ مسالمت سے پھر یہ رشتہ قائم ہو جاتا۔ اس مجلس میں جو مسلمان موجود تھے انہیں وکیل قریش (سہیل بن عمرو) کی شرائط صلح گوارا نہ تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کی شرائط تسلیم کر لیتے تو مسلمان کبیدہ خاطر ہو جاتے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پر ان کا ایمان اور اعتماد نہ ہوتا تو مسلمان اس قسم کے یک طرفہ معاہدہ سے متفق ہونے والے نہ تھے۔ وہ عمرہ کر کے ہی رہتے۔ اس کے بعد جو ان کی قسمت میں ہوتا۔ حضرت عمرؓ اور ابوبکرؓ کا مکالمہ: وکیل قریش سہیل بن عمروؓ کے شرائط معاہدہ کی ناہمواری پر حضرت عمرؓ نے ابوبکرؓ سے یوں گلہ کیا: عمرؓ: کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول نہیں؟ ابوبکرؓ:بے شک آ پ خدا کے رسول ہیں۔ عمرؓ: ہم لوگوں کے مسلمان ہونے میں کوئی شک ہے؟ ابوبکرؓ: ہرگز نہیں۔ عمرؓ: ان شرائط میں اسلام کی توہین نہیں؟ ابوبکرؓ: ضبط و تحمل سے کام لیجئے، میں تصدیق کرتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ عمرؓ: اور میں بھی اس کا معترف ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے رسول ہیں۔ عمرؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکالمہ: حضرت عمرؓ اسی حالت انقباض میں سرور کائناتصلی اللہ علیہ وسلم کے حضور باریاب ہوئے۔ جس طرح ابوبکرؓ سے مکالمہ کیا تھا اسی انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوئے اور آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے ضبط و عزیمت میں بھی کمی نہ دیکھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری جملہ یہ تھا: انا عبد اللہ ورسولہ لن اخالف امرہ ولن یضیعنی میں خدا کا بندہ ہوں اور اس کے رسول ہوں، مجھے اس کا حکم کی خلاف ورزی گوارا نہیں، نہ وہ مجھے ضائع ہونے دے گا۔ عنوان معاہدہ کی تحریر: نفس شرائط یک طرف، تحریر معاہدہ کے دوران میں وکیل قریش کی بات بات پر قدغن سے مسلمانوں کا غم و غصہ اور زیادہ ہو گیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے تحریر کے لئے فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھئے تو اہل مکہ کے وکیل نے کہا ہم لفظ رحمن و رحیم کے روا دار نہیں۔ اس کے بجائے باسمک اللھم لکھوایا جائے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ سے فرمایا ایسے ہی لکھ دیجئے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے (لکھنے کے لئے) فرمایا ھذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سہیل بن عمرو! سہیل نے علیؓ سے کہا قلم روک لیجئے۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر بولے اگر ہم آپ کو رسول ہی مانتے تو ہماری آپ کی جنگ و جدال کیوں ہوتی رہتی، بلکہ صرف اپنا ناما ور ولدیت تحریر کرائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ سے ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبداللہ 1؎ لکھنے کے لئے فرمایا، اور اسی طرح لکھا گیا۔ 1؎ یہ وہ معاہدہ ہے جو (حضرت) ابن عبداللہ اور سہیل بن عمرو کے درمیان قرار پایا۔ شرائط صلح: (اور صلح ان شرائط پر طے ہوئی جو تحریر میں لے آئی گئیں۔) 1۔ فریقین ایک دوسرے کے خلاف دس سال تک جنگ نہ کریں گے (و اقدی دو سال اور ان کے ماسوا تمام اہل سیر دس سال کے موید ہیں۔) 2۔ قریش مکہ میں سے جو شخص مسلمان ہو کر اپنے والی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے واپس لوٹانا پڑے گا۔ 3۔ مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مکہ میں چلا آئے تو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ 4۔ اہل عرب فریقین میں سے جس کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیں، دوسرا فریق اس میں حائل نہ ہو گا۔ 5۔ مسلمانوں کو اس مرتبہ طواف و زیارت کعبہ کیے بغیر مدینہ واپس لوٹنا ہو گا۔ 6۔ مسلمان آئندہ سال مکہ میں ان شرائط کی پابندی کے ساتھ آ سکتے ہیں: الف: اسلحہ میں صرف تلوار، اور وہ بھی نیام میں بند ہو۔ ب: تین روز سے زیادہ مکہ میں قیام نہیں کر سکتے۔ حدیبیہ ہی میں قبیلہ خزاعہ نے رسول اکرم کے ساتھ اور (قبیلہ) بنو بکر نے قریش سے معاہدہ (وفاداری) کیا۔ حضرت ابو جندل وکیل قریش کے صاحبزادے: جب کہ شرائط صلح پر گفتگو ہو رہی تھی اس سے ذرا قبل وکیل قریش (سہیل بن عمرو) کے صاحبزادے ابو جندل اس حالت میں تشریف لائے کہ پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ یہ قریش کے ہاں اسلام لانے کی پاداش میں قید تھے۔ موقعہ نکال کر جیل خانے سے بھاگ نکلے۔ سہے۔ نے فرزند کو دیکھا تو ان کا گریبان پکڑ کر منہ پر زور سے طمانچے رسید کیے۔ ابو جندل چلانے لگے اے برادران اسلام! اگر مشرکین مجھے واپس لے گئے تو یا مجھے دین سے لوٹا دیں گے یا قتل کر دیں گے۔ ابو جندل کو اس حال میں دیکھ کر مسلمانوں کا غم و غصہ اور سوا ہو گیا، مگر صلح کی بات چیت ابھی جاری تھی اور تحریر مکمل نہ ہوئی تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجندل سے فرمایا۔ اے ابوجندل! اپنی مصیبت کا اجرخدا سے طلب کیجئے جو تمہارے ساتھ مکہ کے تمام محصورین کے لئے نجات کی سبیل پیدا کرے گا۔ قریش کے ساتھ ہماری گفتگو مکمل ہو چکی ہے، اس میں فریقین نے اللہ کو ضامن قرار دیا ہے۔ میں ان سے بد عہدی نہیں کر سکتا۔ آخر ابو جندل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پابندی شرائط کی وجہ سے قریش کے ہاں واپس جانا پڑا۔ بعد از تحریر معاہدہ: تحریر معاہدہ کے بعد سہیل بن عمرو واپس مکہ چلے گئے مگر مسلمانوں کے بشرے سے غم و غصہ کے آثار نہ مٹ سکے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی متاثر تھے۔ آپ نے نماز ادا کی۔ دل کو سکون ہوا، پھر قربانی ذبح کی اور اس کے بعد تکمیل عمرہ کے لئے استرے سے سر کے بال اتروائے۔ روح مبارک کو مزید سکینۃ حاصل ہوئی صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح شاداں و فرحاں دیکھا تو انہوں نے بھی اپنی اپنی قربانیاں ذبح کر دیں۔بعض نے استرے سے سر کے بال اتروائے اور بعض نے قینچی سے ترشوائے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی متابعت دیکھ کر فرط خوشی سے فرمایا اللہ کی رحمت ہو استرے سے موئے سر اتروانے والوں پر! صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا اکمال حج و عمرہ کے لئے قینچی سے بال ترشوانے والے گنہ گار ہیں؟ فرمایا! ان پر بھی اللہ کی رحمت ہو! صحابہ نے پھر وہی سوال دہرایا کیا اس موقعہ پر قینچی سے بال ترشوانے والے گنہ گار ہیں؟ فرمایا بال ترشوانے والوں پر بھی اللہ کی رحمت ہو! صحابہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جناب نے پہلے صرف استرے سے بال صاف کرانے والوں کے لئے دعائے رحمت کی تھی؟ فرمایا انہیں اس لئے مقدم رکھا گیا کہ میرے سامنے انہوں نے زبان شکوہ نہیں کھولی تھی! مدینہ کی مراجعت سے قبل کا نقشہ: (اب) مسلمانوں کے ذہن میں مدینہ جا کر زیارت کعبہ کے لئے سال آئندہ تک انتظار کرنے کے سوا کوئی اور گنجائش نہ تھی۔ انہیں یہ تلخ گھونٹ حلق سے اتارنا ہی پڑا، اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعمیل حکم کی وجہ سے! ورنہ ان کی عادت یہ تھی کہ یا تو دشمن سے مقاتلہ کر کے اسے بھاگا دیتے یا خود کو اس کے حوالے کر دیتے۔ وہ اپنے لئے شکست کے نام سے واقف نہ تھے۔ اگر سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت دیتے تو اپنے اس عقیدہ کے سہارے کہ خدا جن کا ناصر و مددگار ہو ان کے لئے اللہ کے رسول اور اس کے دین کی کامیابی میں کوئی شبہ نہیں تو وہ مکہ میں داخل ہو کر دکھا دیتے۔ مسلمان قربانی کرنے اور احرام کھولنے کے بعد بھی حدیبیہ میں چند روز (تین ہفتے) تک ٹھہرے رہے۔ اس اثناء میں بعض مسلمان ایک دوسرے سے معاہدہ کی حکمت دریافت کرتے۔ مراجعت مدینہ اور فتح مبین کی بشارت: حتیٰ کہ حدیبیہ سے واپسی کے لئے کوچ فرمایا اور مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے وحی کے ذریعہ فتح مبین کی بشارت نازل ہوئی۔ قرآن کی اس سورۂ کا نام ہی فتح ہے۔ انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراطاً مستقیما (2-1:48) (اے پیغمبر یہ حدیبیہ کی صلح کیا ہوئی حقیقت میں ہم نے کھلم کھلا تمہاری فتح کر دی تاکہ (تم اس فتح کے شکریہ میں دین حق کی ترقی کے لئے اور زیادہ کوشش کرو اور خدا اس کے صلے میں) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کرے اور تم پر اپنے احسانات پورے کرے اور تم کو دین کے سیدھے رستے لے چلے اور کوئی تمہارا مانع (مزاحم) نہ ہو۔ قریش کا اسلام کو دولت نوزائیدہ اور مذہب مرسوم کی حیثیت سے تسلیم کرنا: صلح حدیبیہ بلا شبہ فتح مبین ہی تھی۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ اس (صلح) میں سیاسی حکمت اور دور اندیشی (دونوں) اسلام اور عرب کے مستقبل میں اثر انداز ہو کر رہیں گی۔ جیسا کہ اب تک قریش رسالت مآب کو سرکش اور باغی سے زیادہ اہمیت نہ دیتے لیکن حدیبیہ میں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حریف و مقابل تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہ رہا۔ گویا اہل مکہ نے حدیبیہ میں اسلام کو دولت نوزائیدہ کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ پھر اس صلح نامہ کی رو سے مسلمانوں کا حق زیارت و طواف اور حج تسلیم کرنے کے یہ معنی تھے کہ اہل مکہ کے نزدیک اسلام کو بھی عرب کے دوسرے مذاہب کا مقام حاصل ہے اور عہد نامہ حدیبیہ ہی کی ایک دفعہ کے مطابق لڑائی کا دو یا دس سال تک بند رکھنا طے پایا تو اس سے مسلمانوں کو سمت جنوب (مکہ) کی طرف سے دشمن (قریش) کی یلغار کا خطرہ زائل ہو گیا اور اسلام کی تبلیغ کا موقعہ مل گیا۔ پھر مسلمانوں کے بدترین دشمن اور اس کے خلاف ہمیشہ نار حرب مشتعل رکھنے والا جو کل تک اسلام کو مذہب تسلیم کرنے کے روادار نہ تھے آج انہوں نے اسے ملک کے مروجہ مذاہب میں سے ایک مستقل دین تسلیم کر لیا۔ ان وجوہات کی بناء پر آج سے مسلمانوں کو اسلام کی تبلیغ کا بہترین موقعہ ہاتھ آ گیا۔ اس صلح میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ اعتراض اس دفعہ پر تھا کہ: قریش مکہ میں سے جو شخص مسلمان ہو کر اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے اسے واپس لوٹانا پڑے گا۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی شخص مرتد ہو کر مکہ میں چلا آئے رتو اسے واپس نہ کیا جائے گا۔ اس تضاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ مسلمانوں میں جو شخص مرتد ہو کر مکہ چلا جائے اسے لوٹا کر مسلمانوں میں رکھنے کے کوئی معنی ہی نہیں۔ رہا اس شخص کا سوال جو اہل مکہ میں سے مسلمان ہو کر مدینہ میں آ جائے اور اسے دوبارہ مکہ بھیج دیا جائے تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ خود نجات کی سبیل پیدا کرے گا۔ جیسا کہ حدیبیہ سے کچھ ہی عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصابت رائے پر آپ کے رفقاء حیران رہ گئے۔ جب اسلام کو اس قدر تقویت حاصل ہو گئی کہ آج سے دو مہینے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرد و نواح کے بادشاہوں اور نوابوں کی طرف دعوتی خطوط بھیجے۔ جناب ابوبصیرؓ کا واقعہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصابت رائے کے نتائج جلد از جلد ظاہر ہونے پر آ گئے۔ ہوا یہ کہ اہل مکہ میں سے ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ تشریف لے آئے۔ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر آئے۔ اس کے مطالبہ پر انہیں واپس کرنا ضروری تھا۔ قریش میں سے ازھ ربن عوف اور اخنس بن شریق نے ابوبصیر کی واپسی کے لئے ایک غلام اور قبیلہ بنو عامر کے ایک شخص کو مدینہ بھیجا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بصیر کو طلب فرما کر حکم دیا کہ: انا قد اعطینا ھولاء القوم ماقد علمت ولا یصلح لنا فی دیننا الغدر۔ ہم نے اہل مکہ کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے (اے ابو بصیر!) تمہیں بھی معلوم ہے ہمارے دین میں بد عہدی نہیں (تم مکہ واپس چلے جاؤ) ابو بصیر نے عرض کیا آپ مجھے مشرکوں کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جو مجھے مرتد کر دیں گے۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انہیں مکہ واپس جانے کی ہدایت فرماتے رہے۔ آخر ابو بصیر ان (دونوں اہل مکہ) کے ہمراہ چل پڑے۔ جب ذوالحلیفہ (مقام) میں پہنچے تو ابو بصیر نے عامری کی تلوار دیکھنے کی فرمائش کی اور قبضہ پر ہاتھ رکھتے ہی اس سرعت کے ساتھ وار کیا کہ عامری کا سر بدن سے کٹ کر خاک میں لوٹ رہا تھا۔ مقتول کا ساتھی (غلام) یہ رنگ دیکھ کر بے تحاشا بھاگتا ہوا مدینہ پہنچا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا خدا خیر کرے! یہ شخص خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ دریافت پر اس نے کہا آپ کے رفیق نے میرے ساتھی کو قتل کر دیا ہے۔ اتنے میں ابوبصیر آ پہنچے۔و ہی خون آلود تلوار ہاتھ میں تھی۔ دریافت کرنے کے بغیر ہی عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے دشمنوں کے سپرد کر کے وعدہ پورا فرما ہی دیا لیکن مجھے اسلام سے پھر جانا پسند نہ آیا۔ نہ یہ کہ مکہ جا کر خود کو کافروں کا مضحکہ بنا لوں۔ ابوبصیر کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس قدر عظمت تھی وہ اسے چھپا نہ سکا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تیور سے سمجھ گئے کہ اگر اس کے ساتھ ایسے ہی کچھ اور لوگ شامل ہو جائیں تو یہ قریش کے ساتھ جنگ کیے بغیر نہ رہ سکے گا۔ ابوبصیر مدینہ سے نکل گیا اور مقام عیص نامی پر ڈیرا ڈال لیا جو بحیرۂ اسود کے کنارے شام کی شاہراہ پر واقع ہے۔ معاہدہ (حدیبیہ) میں فریقین نے یہ راستہ تاجروں کی آمد و رفت کے لئے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری نہ اٹھائی تھی۔ ابوبصیر کے عیص کو مامن بنالینے کی خبر مکہ کے محصور مسلمانوں نے سنی تو انہیں یقین ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ابوبصیر کے اس اقدام کی توثیق فرما دی ہو گی۔ ان (محصورین مکہ) میںسے جس کسی کو موقعہ ملا نظری بندی سے بچ کر ابوبصیر کے پاس آ پہنچا۔ جب ستر مسلمان جمع ہو گئے۔ تب انہوں نے ابوبصیر کی قیادت میں قریش کی ناکہ بندی شروع کر دی۔ ان کے اکا دکا آدمی کو قتل اور تجارتی قاتلوں کو لوٹنے لگے۔ قریش نے اپنا یہ حشر دیکھا تو مکہ میں محصور مسلمانوں کے عوض میں اپنے جانی و مالی خسارہ سے تلملا اٹھے۔ ان پر واضح ہو گیا کہ صادق الایمان شخص کو محبوس رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ایک نہ ایک دن اس کی مخلصی کی راہ نکل ہی آتی ہے اور وہ اپنے قید کرنے والوں پر بزن بول کر انہیں مبتلائے آفت کر دیتا ہے۔ اس وقفہ میں ان کے تصور میں اپنا گزشتہ مال بھی گھومنے لگا جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت پر مجبور کر کے مکہ سے نکال دیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ان کی تجارتی ناکہ بندی کر دی۔ آخر انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفارتی وفد بھیجا جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریش کے ساتھ رحم و قرابت کا واسطہ دے کر ابوبصیر اور ان کی جمعیت کو عمیص سے واپس مدینہ بلانے کی استدعا کی اور یہ شرط منسوخ کر دی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست و اصابت رائے دیکھئے۔ آج قریش اپنے ہی وکیل سہیل بن عمروؓ کے اس کیے کی سزا بھگت رہے ہیں کہ قریش میں سے جو شخص مسلمان ہو کر اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ پہنچ جائے اسے واپس لوٹانا پڑے گا۔ اور مسلمانوں میں سے حضرت عمرؓ نے جناب ابوبکرؓ سے معاہدہ کی جس شق کا گلہ کیا تھا انہوں نے بھی اپنے گلہ کا نتیجہ دیکھ لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر کو قریش کی استدعا سے مطلع فرما کر ان کے مدینہ واپس آنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ جب ابوبصیر نے دیکھا کہ اب ہم سے تعرض نہ ہو گا کہ تمام جمعیت عیص سے ڈیرہ اٹھا کر مدینہ چلی آئی۔ اس وقفہ میں مکہ سے آنے والی مومن بی بیوں کا معاملہ: اس مسئلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مومن مردوں کے معاملہ سے مختلف تھی۔ چنانچہ ام کلثوم دختر عقبہ بن ابی معیط اہل مکہ کی حراست سے نکل کر مدینہ تشریف لے آئیں اور جب ان کی بازگشت کی غرض سے ممدوحہ کے بھائی عمارہ و ولید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر ان کے واپس کرنے سے انکار فرما دیا کہ اس معاہدہ ہی کی شق کے مطابق عورتوں کا معاملہ مردوں سے مختلف ہے۔ 1؎ جو عورت ہم سے پناہ طلب کرے ہم پر اس کی حفاظت واجب ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ عورت مسلمان ہو جانے کے بعد مشرک شوہر کی زوجیت میں نہیں رہ سکتی۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی مومن عورتوں کی بازگشت سے انکار فرما دیا جو قریش کی حراست سے جان بچا کر مدینہ تشریف لے آئیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم خداوندی کی وجہ سے یہ انکار فرمایا: یایھا الذین امنوا اذ جاعکم المومنت مھجرت فامتحنوھن اللہ اعلم یایمانھن فان علمتموھن مومنت فلا ترجعوھن الی الکفارلا ھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن واتوھم ما انفقوا ولا جناح علیکم ان تنکحوھن اذا تیتموھن اجورھن ولا تمسکوا بعصم الکوافر وسئلو ما انفقتم ولیسئلو ما انفقوا ذلکم حکم اللہ یحکم بینکم واللہ علیم حکیم (10:60) مسلمانو! جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آیا کریں تو تم ان کے (ایمان) کی جانچ کر لیا کرو۔ (یوں تو) ان کے ایمان کو اللہ (ہی) خوب جانتا ہے (تاہم جانچ لینا ضروری ہے) تو اگر (جانچنے سے) تم ان کو سمجھو کہ مسلمان ہیں تو ان کو کافروں کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ (تو) یہ (عورتیں) کافروں کو حلال ہیں اور نہ کافر ان (عورتوں) کو حلال، اور جو کچھ کافروں نے (ان پر) خرچ کیا ہے وہ ان (کافروں) کو ادا کر دو اور اس میں بھی تم پر گناہ نہیں کہ ان عورتوں کوان کے مہر دے کر تم (خود) ان سے نکاح کر لو اور کافر عورتوں کے ناموس پر قبضہ نہ رکھو (جو تمہارے نکاح میں ہوں) اور جو تم نے (ان پر) خرچ کیا ہے وہ کافروں سے مانگ لو اور جو انہوں نے اپنی عورتوں پر خرچ کیا ہے وہ (اپنا خرچ کیا ہوا) تم سے مانگ لیں۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو تم لوگوں کو ایسے جھگڑوں کے بارے میں صادر فرماتا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ 1؎ اور اس شق کی وضاحت قرار داد مفاہمت میں بھی آ چکی تھی۔ ولم یات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد من الرجال الا ردہ (بخاری کتاب المغازی غزوۃ الحدیبیہ م) اس طرح (صلح حدیبیہ سے بعد کے) حوادث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست و دور اندیشی اور سیاست میں اصابت رائے کی تصدیق کر دی۔ حدیبیہ میں صلح کی بنیاد اس طرح رکھی جس پر اسلام کی سیاست و اشاعت کی تعمیر اس خوبی کے ساتھ ہونے کو تھی۔ قریش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دوسرے کی جانب سے پورا اطمینان ہو گیا۔ قریش نے اس امید پر اپنی تجارت کا دامن وسیع کر دیا کہ گزشتہ سالوں میں مسلمانوں کی طرف سے شام کی ناکہ بندی پر انہیں جو نقصان اٹھانا پڑا اس کی تلافی ہو جائے۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقفہ میں مشرق و مغرب میں تبلیغ رسالت کی ادھیڑ بن میں مصروف رہے اور کچھ اس فکر میں منہمک کہ ایسے کون سے اسباب ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمان بھی دوسروں کی طرح عرب میں آزادی سے رہ سکیں۔ اس (آزادی) کے لئے آپ نے دو کام کیے: الف۔ گرد و نواح کے بادشاہوں او رنوابوں کے ہاں سفیروں کی روانگی ب۔ غزوۂ خیبر(جو اس وقفہ کے آخر میں پیش آیا) کے بعد فریب پیشہ یہود کا جزیرۂ عرب سے اخراج (جس کا تذکرہ اس سے بعد کی فصل میں ہے۔) ٭٭٭ باب22 شراب کی حرمت اور غزوہ خیبر سے لے کر عمرۃ القضا تک حدیبیہ سے واپسی کے بعد: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء نے حدیبیہ میں تسلیم ہی کر لیا کہ اس مرتبہ کی بجائے آئندہ سال زیارت کعبہ کے لیے آئیں گے اور تکمیل معاہدہ کے بعد مسلسل تین ہفتہ تک حدیبیہ میں اقامت فرما رہے۔ مگر جب مدینہ کی طرف لوٹے تو بعض افراد نے نفس قرار داد کو مسلمانوں کی تذلیل پر محمول کیا۔ اسی دوران سورۂ فتح نازل ہوئی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ سے واپسی کے وقت دو باتوں کی سب سے زیادہ فکر تھی: الف۔ مسلمانوں کی قوت و استقامت ب۔ اسلام کی توسیع ان کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گرد و نواح کے غیر مسلم بادشاہوں اور نوابوں میں سے مندرجہ ذیل حکمرانوں کے پاس سفیر بھیجے: ہرقل، کسریٰ، مقوقس، نجاشی، حبش، نجاشی مذکور کے یمنی گورنر کی طرف اور حارث عیسائی کی طرف جس سے اسلام کی دعوت مقصود تھی۔ اس وقفہ میں دوسرا کام جزیرۃ العرب سے یہودیوں کی جلا وطنی تھی۔ دعوت اسلام کا نشوونما: اب دعوت اسلام اپنے نشوونما کے اعتبار سے اس حد تک آ پہنچی جسے پورے عالم کے سامنے پیش کیا جا سکتا تھا۔ اب اسلام صرف توحید اور اس کے لوازمات ہی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کا دامن اجتماعی زندگی کے مختلف گوشوں پر پھیلتا جا رہا تھا۔ وہ جماعتی زندگی کو رفعت بخش کر افراد کو انسانی کمالات کے مرتبہ کے قریب لا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں شریعت کے مختلف احکام کی تفصیلات کا آغاز ہوا۔ حرمت شراب: حرمت شراب کے زمانہ کی تعیین میں سیر نویس حضرات مختلف الرائے ہیں۔ ان کی مختصر تعداد سے 4 ھ میں بتاتی ہے اور زیادہ تعداد حدیبیہ (6ھ) میں اگرچہ شراب کی حرمت کی توحید کے نظریہ سے اتنا زیادہ ربط نہیں، اور یہ بھی ثابت ہے کہ بعثت مقدس و نزول قرآن دونوں سے بیس سال تک شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے مسلمان اس مدت تک شراب میں ملوث رہے۔ نہ وحی نے شراب کو دفعتہ حرام کیا بلکہ (پہلے تو) نوبت بہ نوبت اس پر تہدید نازل ہوئی تاکہ مسلمان اس سے رفتہ رفتہ بے رغبت ہوتے جائیں، اور آخر میں قطعی حرمت وارد ہوئی جو اس طرح سے منقول ہے: پہلی مرتبہ: حضرت عمرؓ نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا اور بارگاہ خداوندی میں بار بار عرض کیا:اللھم بین لنا فیھا (یا اللہ شراب کے متعلق واضح حکم نازل فرما) اس پر یہ آیت نازل ہوئی: یسئولنک عن الخمر والمیسر قال فیھما الم کبیر و منافع للناس واثمھما اکبر من نفعھما (219:2) اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! تم سے لوگ شراب اور جوئے کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ ان سے کہہ دو ان دونوں چیزوں میں نقصان بہت ہے اور انسان کے لیے فائدے بھی ہیں لیکن ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن شراب کے رسیا اس تنبیہہ سے کلیۃً متاثر نہ ہوئے۔ شغل ناؤ نوش جاری رہا۔ شب بھر جام و سبو سے ہم آغوش رہنے سے فجر کی نماز میں کچھ کا کچھ پڑھ جاتے۔ دوسری مرتبہ: سیدنا عمرؓ اتنی سی پابندی پر مطمئن نہ ہو سکے حتیٰ کہ: تاکے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس بارگاہ خداوندی میں یہ التجا پیش کی: اللھم بین لنا فیھا فانھا تذھب العقل والمال خداوند! شراب کے متعلق واضح حکم نازل فرما۔ یہ تو مال اور دانش دونوں کی دشمن ہے۔ اب کے مرتبہ صرف سکر اور نشہ کی حالت میں نماز کی ممانعت نازل ہوئی: یایھا الذین امنو لا تقربو الصلوٰۃ وانتم سکریٰ حتیٰ تعلموا ماتقولون (43:4) مسلمانو! ایسا کبھی نہ کرو کہ تم نشہ میں ہو اور نماز کا ارادہ کرو۔ نما زکے لیے ضروری ہے کہ تم ایسی حالت میں ہو کہ جو کچھ زبان سے کہو (ٹھیک طور پر) اسے سمجھو۔ تیسری مرتبہ: اس آیت کے نازل ہونے پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے یہ منادی کرا دی گئی: لا یقربن الصلوٰۃ سکران کوئی شخص مستی کی حالت میں نماز کی طرف نہ بڑھے۔ ان دونوں (آیت اور منادی) کا اثر (طبعاً) ہونا ہی تھا۔ مسلمانوں میں شراب نوشی کی عادت میں کمی آ گئی۔ لیکن جناب عمر اس پر بھی قانع نہ رہے۔ اب انہوں نے اور زیادہ الحاح سے عرض کیا: اللھم بین لنا فی الخمر بیانا شافیاً لھا تذھب العقل والمال خدایا! شراب کے متعلق اور مبنی بر شفا حکم نازل فرما! یہ مال و عقل دونوں کی دشمن ہے۔ شراب کی حرمت طلبی میں سیدنا عمر بن الخطابؓ حق بجانب تھے کیوں کہ آئے دن عرب کے نا مسلمان نہیں۔ مسلمان بھی شراب کی مستی میں ایک دوسرے کی ڈاڑھی پکڑ لیتے۔ کوئی شرابی دوسرے کو اٹھا کر سر کے بل پٹک دیتا۔ اس وقفہ میں ایک مرتبہ جب مسلمانوں ہی میں دعوت کے بعد شراب کا دور چلا تو ذرا دیر میں عقل پر مستی چھا گئی اور دوت کی آبرو دوست ہی کے ہاتھ سے خاک میں مل گئی مہاجرین و انصار میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ ایک شرابی نے مہاجرین کی طرف داری میں زبان کھولی ہی تھی کہ ادھر سے ایک انصاری نے دستر خوان سے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی اٹھا لی، جس سے ایک مہاجر کی ناک زخمی ہو گئی۔ اس تقریب میں ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانے والے انصار و مہاجر باہم دست و گریباں ہو گئے۔ کئی مسلمان زخمی ہوئے اور بعد میں دونوں (انصار و مہاجرین) کے دلوں میں کینہ پکنے لگا، حالانکہ اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے کے دوست اور جان نثار تھے۔ اس واقعہ کی قعی حرمت نازل ہوئی۔ یایھا الذین امنو انما الخمر والمیسر والانصاب ولازلام رجس من عمل الشطین فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (90-5) مسلمانو! بلا شبہ شراب، جوا، معبودان باطل کے نشان اور پانسے، شیطانی کاموں کی گندگی ہے، ان سے اجتناب کرو تاکہ تم کامیاب ہو۔ انما یرید الشطین ان یوقع بینکم العدواۃ والبعضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوٰۃ فھل انتم منتھون (91:5) شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں خدا کے ذکر اور نماز سے باز رکھے (کیوں کہ ان دونوں چیزوں میں پڑنے کا لازمی نتیجہ یہی ہے) پھر (بتلاؤ! ایسی برائیوں سے بھی) تم باز رہنے والے ہو یا نہیں) اور شراب پانی کی طرح بہا دی گئی: آیت (مذکورۃ الصدر) اس وقت نازل ہوئی جب حضرت انسؓ شراب کی بزم میں ساقی بنے بیٹھے تھے۔ا تنے ہی میں حرمت میں شراب کی منادی شروع ہو گئی۔ یہ آواز جناب انسؓ کے کان میں پڑی تو انہوں نے شراب پانی کی طرح بہا دی لیکن بعض لوگوں نے اس پر ازرہ اعتراض کہا کہ اگر یہ (شراب) رجس (گندگی) ہی ہے تو ان لوگوں کا کیا حشر ہو گا جنہوں نے عزوۂ بدر اور احد میں بھی شراب پی رکھی تھی؟ اور اس اعتراض پر یہ آیت نازل ہوئی: لیس علی الذین امنو وعملو الصلحت جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا وامنو وعملو الصلحت ثم اتقوا وامنوا ثم اتقوا واحسنوا واللہ یحب المحسنین(93:5) جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جو کچھ (حرمت کے حکم سے پہلے) کھا پی چکے ہیں اس کے لیے ان پر کوئی گناہ نہیں جب کہ وہ (آئندہ کے لیے پرہیز گار ہو گئے اور ایمان لے آئے اور اچھے کام کیے اور جب انہیں کسی بات سے روکا گیا تو اس سے رک گئے اور (حکم الٰہی پر) ایمان لائے اور اچھے کام کیے۔ اسی طرح پھر(روکے گئے تو پھر بھی) پرہیز کیا۔ اور (حکم الٰہی پر) ایمان لائے اور اچھے کام کئے۔ تو (یقینا ایسے لوگوں سے ان کی سابقہ باتوں کے لیے کوئی مواخذہ نہیں ہو سکتا) وہ نیک کردار ہیں اور اللہ نیک کرداروں کو دوست رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیم نیکی اور حسن عمل ہے: اسلام اپنے پیروؤں کو نیکی، لطف و کرم اور حسن عمل کی دعوت پیش کرتا ہے۔ عبادت سے یہی مقصود ہے اس سے روحانیت میں ترقی اور اخلاقی کمالات کی تکمیل مطلوب ہے۔ جیسے کہ نماز میں رکوع و سجود سے غرور و نخوت کا سر نیچا کرنا مقصود ہے۔ اسی طرح اسلام اپنی انوکھی ترتیب کے ساتھ گزشتہ مذاہب کے مقابلہ میں بمراحل طبعی کمالات تک جا پہنچا اور اس میں تمام عالم کے لیے قبول کی استعداد پیدا ہو گئی۔ دولت روم و ایران: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ظہور میں نواحی ملکوں میں کسریٰ (ایران) و ہرقل(روم) دونوں اس قدر طاقت ور بادشاہ تھے کہ اپنے ملکوں کے سوا قریبی ممالک میں بھی انہی دونوں کی سیاست کار فرما تھی اور دونوں ایک دوسری سلطنت کے حریف بھی تھے۔ جیسا کہ قارئین پچھلے صفحوں میں ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متصل ہی ایران روم کے خلاف صف آراء ہو کر مصر، شام اور اس کے مذہبی مرکز بیت المقدس پر حملہ کر کے مقدس صلیب تک کو اٹھا کر لے گیا، جس مصیبت پر ہرقل نے منت مانی کہ اگر مقدس صلیب پہلے کی طرح پھر ہمارے سر پر سایہ فگن ہو جائے تو میں بیت المقدس کی زیارت کے لیے حمص (دار الخلافہ روم) سے پیدا چل کر جاؤں گا اور یہ عیسائی بادشاہ (قیصر روم) اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہو گیا۔ کسریٰ اور ہرقل دونوں میں یہ چپقلش صدیوں سے چلی آ رہی تھی جس میں کبھی وہ غالب اور یہ مغلوب کبھی یہ فتح مند اور وہ شکست خوردہ لیکن دونوں ملکوں کے گرد و نواح کی سلطنتیں اور باشندے کسریٰ اور ہرقل کے نام سے تھر تھر کانپتے رہتے، ان سے تعرض کی تو کسے مجال تھی بلکہ ہر ایک ملک ان کی نگاہ کرم و رحم کا منتظر رہتا۔ عرب کی بے چارگی: یہ تو ایران و شام کے ان نواحی ملکوں کا حال تھا جہاں کسی نہ کسی شکل میں امن قائم تھا، مگر ان کے مقابلہ میں عربستان کی یہ حالت کہ قبائلی زندگی نے ایک کو دوسرے سے جدا کر رکھا تھا، جس کی وجہ سے عرب کے باشندے ایران و روم کے رحم و کرم میں دوسرے ملکوں سے زیادہ محتاج تھے خصوصاً جب کہ عرب کے سب سے بڑے دو خطے یمن و عراق ایران کے زیر نگیں اور مصر و شام جیسے وسیع ملک ہرقل کی مملکت میں داخل ہوں۔ اس وجہ سے حجاز اور جزیرۃ العرب اتنی پر ہیبت اور مضبوط سلطنتوں میںگھرا ہوا تھا۔ پھر عربوں کا ذریعہ معاش صرف تجارت ہی ہو اور ان کی جولان گاہ کا ایک کنارہ یمن اور دوسرا گوشہ شام ہو، جس کی وجہ سے عرب کے باشندے کسریٰ ایران اور قیصر روم دونوں کے ساتھ دعا سلام رکھنے پر مجبور ہوں۔ اور جب عرب کے سیاسی انتشار کا یہ عالم ہو کہ بھولے سے کبھی صلح صفائی ہو گئی تو فبہا ورنہ آپس میں سدا جنگ و پیکار ان کا شیوہ ہو۔ نہ کبھی یہ توفیق ہو سکے کہ منظم ہو کر رہیں اور وقت آ پڑے تو قیصر یا کسریٰ کے مقابلہ میں قسمت آزمائی کر سکیں۔ عرب کے اس انتشار و نکبت اور اس کے مقابلے میں گرد و نواح کے بادشاہوں کی ہیبت و شکوہ کے ہوتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیصر و کسریٰ جیسے طاقت ور بادشاہوں کو اسلام کی طرف دعوت! ادھر بادشاہان غسان و مصر اور اسکندریہ اور یمن کے حکمرانوں سے یہی معاملہ کس قدر حیرت افزا ہے! وہ بھی اپنے مستقبل کے اس نتیجہ سے بے نیاز ہو کر کہ مبادا ایسی دعوت کی پاداش میں آپ کے ساتھ تمام عرب کو ان بادشاہوں میں سے کی رعایا ہو کر رہنا پڑے۔ کہنا یہ ہے کہ مخاطب بادشاہوں کو شوکت و دبدبہ کے باوجود محمد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دین حق کی دعوت دینے میں تامل نہ فرمایا ایک روز اپنے رفقاء سے یوں ہم کلام ہوئے: ایھا الناس! قد بعثنی اللہ رحمۃ للناس کافۃ فلا تختلفوا علی کما اختلف الحواریون علی عیسیٰ ابن مریم۔ صاحبو! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام عالم کے لیے باعث رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ مبادا تم لوگ بھی عیسیٰ ابن مریم ؑکے حواریوں کی طرح میری نافرمانی پر اتر آؤ۔ صحابہ نے عرض کیا اے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم !حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری کن معنوں میں ان کے خلاف ہو گئے؟ فرمایا: دعاھم الی الذی دعوتکم الیہ فاما من بعثہ مبعثا قریباً فرضی وسلم واما من بثہ مبعثاً بعیدا فکرہ وجھہ و تثاقل ابن مریم ؑنے اپنے حواریوں کے ذریعے یہی پیغام بادشاہوں کو پہنچانا چاہا۔ ان میں سے جو کو نزدیک کے بادشاہ کے پاس بھیجا اس نے خوشی سے تعمیل کر لی مگر دور بھیجے جانے والوں میں سے بعض کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے۔ اس طرح یہ گروہ اپنے فرائض کی انجام دہی پر پورا نہ اتر سکا۔ اس کے بعد فرمایا میں تم لوگوں کو اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے (مندرجہ ذیل) بادشاہوں اور نوابوں کے پاس بھیجنا چاہتا ہوں: ہرقل، کسریٰ، مقوقس، حارث الغسانی (امیر صوبہ حیرہ شام) حارث الحمیری (حکمران یمن) اور نجاشی شہنشاہ حبشہ کی طرف صحابہ نے خندہ پیشانی سے خدمات پیش کیں۔ چاندی کی ایک انگشتری بنوائی گئی جس کے نگینے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ منقش کیا گیا۔ دعوتی خطوط لکھوائے گئے جن پر یہ نقش چسپاں ہوا۔ ان میں سے ایک خط کا یہ نمونہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد عبداللہ ورسولہ الی ہرقل عظیم الروم! سلام علی من اتبع الھدیٰ اما بعد! فانی ادعوک بدعایۃ الاسلام اسلم تسلم! یوتک اللہ اجرک مرتین! افان تولیت فانما علیک اثم الاریسین۔ یا اھل الکتاب تعالو الی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الا نعبد الا اللہ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضاً اربابا من دون اللہ فان تولو افقولو اشھدوا بانا مسلمون (64:3) بسم اللہ الرحمن الرحیم! از طرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم جو خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے بنام ہرقل شہ روم! پیر و ہدایت کے لیے سلامتی ہے اور میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر تم نے اسے قبول کر لیا تو تم بھی سلامت رہو گے اور خدا تعالیٰ اس کا اجر دگنا عنایت فرمائے گا۔ اگر انکار کر دیا تو اہل ملک کا گناہ بھی تمہارے ذمہ ہو گا۔ (اے پیغمبر!) تم (یہود اور نصاریٰ سے) کہہ دو کہ اے اہل کتاب! (اختلاف و نزاع کی ساری باتیں چھوڑ دو) اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لیے یکساں طور پر مسلم ہے، یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کی ہستی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ ہم میں سے کوئی ایک انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہ کرے گویا خدا کو چھوڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا جائے! پھر اگر یہ لوگ (اس بات سے) روگردانی کریں تو تم کہہ دو گواہ رہنا کہ (انکار تمہاری طرف سے ہے) اور ہم خدا کے ماننے والے ہیں۔ ان سفیروں کے نام 1۔ جناب دحیہ بن خلیفہ کلبی بسوئے ہرقل (روم) 2۔ جناب عبداللہ ابن حذافہ = کسریٰ ایران (خسرو پرویز) 3۔ جناب عمرو بن امیہ الضمری = نجاشی حبشہ (اصمہ) 4۔ جناب حاطب بن ابو بلتعہ = مقوقس (شاہ مصر و اسکندریہ) 5۔ جناب عمرو بن العاص = شاہان عمان (جیفرو عبد پسران الجلندی) 6۔ جناب سلیط بن عمرو = رئیس یمامہ ہوذہ 7۔ علاء بن حضری = رئیس بحرین (منذر بن ساوی) 8۔ جناب شجاع بن وہب اسدی = رئیس غسان (حارث بن ابی شمر الغسانی) 9۔ جناب مہاجرین امیہ مخزومی = رئیس یمن (حارث حمیری) سفیران رسالت مآب کی مدینہ منورہ سے روانگی کے متعلق دو روایات ہیں بیک وقت مدینہ سے روانہ ہوئے اور بعض مورخین کے نزدیک مختلف اوقات میں۔ عہد رسالت میں ایران و روم کے مذہبی نکبت: سوال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہم عصر بادشاہوں کی طرف اسلام کی دعوت تعجب انگیز امر نہیں اور اس سے بھی زیادہ یہ امر حیرت افزا نہیں کہ اس دعوت کے بعد تیس سال کی مدت کے اندر یہ ممالک بھی اسلام کے زیر نگین ہو گئے اور ان ملکوں کے بیشتر باشندے ابتداء ہی میں مسلمان ہو گئے؟ لیکن عربستان کے ان نواحی ملکوں میں سے اکثر و بیشتر خطوں کا فتح ہونا ہمارے لیے اس قدر تعجب کا سبب بھی نہیں، اس لیے کہ جب ہم ان خطوں میں سب سے بڑے دو ملکوں یعنی ایران و روم کی قوت اور تمدن کا تصور کرتے ہیں جو ظہور اسلام کے بعد تک بدستور تمام عالم میں ممتاز تھے۔ ان کا عروج اور ترقی صرف مادی بنیادوں پر قائم تھا۔ دونوں ملکوں کی بادشاہتیں روحانی قوت کے لحاظ سے دم توڑ چکی تھیں۔ ایران مذہبی حیثیت سے دو (بت پرست اور مجوس) طبقوں میں منقسم تھا۔ روم (بزنطیہ) میں مسیحیت کا بٹوارہ کئی ٹکڑوں میں ہو چکا تھا، جس کی وجہ سے ان کے عقیدہ میں بھی اتنی سکت نہ تھی کہ اس کے بل بوتے پر اس کے ماننے والوں کے دلوں میں قوت و استقامت پیدا ہو سکے۔ اب ان کا مذہب صرف ظاہری رسوم و قواعد کا ملغوبہ بن کر رہ گیا تھا، جس نے اس کے ماننے والوں کی عقل پر چھائیاں سی ڈال رکھی تھیں۔ ایران و روم دونوں کے بالمقابل مذہب: ایران کی بت پرستی اور مجوسیت اور روم کی مسیحیت کے مقابلے میں مذہب اسلام کا ظہور ہوا، جس کے ترجمان جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے خالص روحانیت کی دعوت پیش کرتے، جس کے ثمرہ میں اس (اسلام) کے ماننے والے انسانیت کے اعلیٰ تریں مراتب حاصل کر سکتے تھے اور مسلمات سے ہے کہ مادیت و روحانیت کی آویزش سے جب وقتی خواہشوں کے مقابلہ میں روحانی عیش اور جاودانی نعمتیں صف آرا ہوں تو اول الذکر (وقتی نعمتوں) کو سرنگوں ہونا پڑتا ہے۔ بلاشبہ اس وقت ایران و روم(دونوں) اقتدار و عظمت میں اپنا حریف نہ رکھتے تھے، لیکن مصیبت یہ تھی کہ دونوں تجدید و تکر نو کے دشمن اور قدامت و رسوم پرستی کے دلدادہ تھے حتیٰ کہ ہر ایسے نظریہ اور فکر و جدت کو بدعت و ضلالت سمجھتے جو ان کی دقیانوسی رسومات کے خلاف ہو۔ وہ اپنی پرانی اور پر پیچ ڈگر کو ترقی کی شاہراہ سمجھ کر اس پر چکر کاٹ رہے تھے۔ اور دونوں (ایران و روم) نے اپنے اپنے ذہن کے دروازے بند کر رکھے تھے) کیوں کہ انسانی جماعت بھی فرد بلکہ دوسرے دوسرے موجودات کی طرح ہر لمحہ ترقی کی ایک منزل طے کر سکتی ہے۔ نہ صرف اسی قدر بلکہ جماعتوں کو بھی اوج کمال پر پہنچ کر اپنی مزید کوشش کو ترک نہ کر دینا چاہیے۔ ورنہ ایسی ترقی پذیر جماعت کی مثال اس دولت مند کی سی ہو گی جو اپنے سرمایہ کو کاروبار کی وسعت میں صرف کرنے کی بجائے زندگی کے مصارف میں بہانا شروع کر دے۔ اسی طرح متمدن قوموں کا ترقی کی مزید کاوش چھوڑ کر بیٹھ رہنا گویا صدیوں کی جمع کردہ تہذیب و رفعت کو کھو دینا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک نہ ایک دن قعر مذلت و نکبت میں سرنگوں ہو کر گر پڑتی ہیں اور جو جماعت اس طرح ذلیل و خوار ہو کر رہ جائے، اسے کسی ایسی خارجی قوت کے زیر نگیں ہونے کے بغیر چارہ نہیں جس میں زندگی کے آثار نمایاں ہوں۔ جب وہ قوم کسی پس ماندہ قوم کو اپنے دامن میں پناہ دے تو اس (پس ماندہ) قوم کی ترقی کے اسباب بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ عہد رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی پس ماندہ اقوام میں یہی ایران اور روم دنیا کی دو سب سے بڑی سلطنتیں تھیں جن کی نشاۃ ثانیہ (نئی زندگی) کے لیے نہ تو چین میں سکت نہ ہندوستان میں مقدرت، اور یہی بے مائیگی وسط یورپ کے ملکوں پر مسلط تھی۔ یہ جوہر تو خود جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جن کی دعوت اس کمال تک آ پہنچی کہ اپنے ساتھ ان قوموں کو بھی آگے بڑھا سکیں جو دین کے غلط تصورات اور رسوم پرستی کی وجہ سے سر منزل تھک کر بیٹھ چکی ہوں۔ ایمان کے جس نور نے نفس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر مجلی و منور کر دیا اور روحانی قوت بخش دی، جس کی برابری کا کسی مقابل قوت کا یورانہ تھا، آخر اسی نور ایمان کو دوسروں تک پہنچانے کے لیے جناب محمد کو ایسے ذرائع پر مائل کیا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مبلغین کے ذریعہ گرد و نواح کے بادشاہوں اور رئیسوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ وہ اسلام جو دین حق اور اپنے اوصاف کی وجہ سے ہر قسم کے روحانی کمالات کا مجموعہ ہے، جس (دین) کے سر پر خدا کا ہاتھ ہے، جو (دین ) عقل کو نیک و بد کے پرکھنے کی تاکید اور دلوں کو خیر و شر میں امتیاز کی قوت بخشتا ہے اور جو (دین ) اپنے ماننے والوں کو عقیدہ کے پرکھنے کی بھی ایسی ہی تلقین کرتا ہے جیسے جماعتی نظم و نسق کے لیے قوانین کی ہدایت فرماتا ہے جن سے مادہ اور روح دونوں میں متبادل توازن قائم رہ سکے تاکہ انسان کے لیے جس قدر قدرت و ارتقاء ممکن ہے اسے حاصل کرنے کے دوران میں وہ راستے ہی میں تھک کر نہ بیٹھ جائے۔ یہی قوت ہے جس پر نہ کوئی مانع اثرا نداز ہو سکتا ہے اور نہ فریب یا دھوکہ اس کے راستے میں حائل ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ (نکبت زدہ) قوم اس نظام کی دست گیری سے ایسے بلند ترین مقام پر فائز ہو سکتی ہے جو عالم کون و مکان میں حاصل ہونا ممکن ہو۔ حالات کا دوسرا رخ ملک سے یہود کی جلا وطنی کا منصوبہ یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان بادشاہوں اور نوابوں کی طرف تبلیغی خطوط بھیجنا مقتضا نے حال کے مطابق تھا خصوصاً جب کہ مدینہ سے سمت شامل پر بسنے والے (یہود) ہر لمحہ خاتم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فریب اور بد عہدی کرنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے تھے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرار داد حدیبیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف قریش بلکہ اس پوری سمت (جنوبی) سے مطمئن کر دیا تھا۔ بخلاف اس کے مدینہ سے شمال میں رہنے والے یہود کی طرف سے ہر وقت خطرہ تھا کہ ہرقل یا کسریٰ ایران خیبر کے ان یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف نہ بھڑکا دیں اور یہود کا وہ پرانا ناسور رسنے لگے جو ان کے برادران دین بنو قینقاع و بنو نضیر کی مدینہ سے جلا وطنی اور بنو قریظہ کے قتل عام کی صورت میں رونما ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی طینت کا علم تھا کہ وہ کینہ توزی میں قریش سے کہیں بڑھے ہوئے ہیں، اسی طرح دینی حیثیت سے قریش کے مقابلہ میں جامد بھی زیادہ ہیں اور دور اندیشی میں اہل مکہ سے ان کا پلہ بھاری ہے۔ پھر جب کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ حدیبیہ کا سا معاہدہ کرنا گوارا تھا نہ ان کی طرف سے اطمینان اور آج سے پہلے فریقین میں مقابلہ بھی ہو چکا تھا جس میں یہود ہی کو نیچا دیکھنا پڑا۔ پس اگر انہیں ہرقل کی طرف سے مدد مل سکتی تو مسلمانوں سے انتقام لینے میں انہیں کیوں تامل ہوتا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ ہی کر لیا کہ یہود کو جڑ سے اکھاڑ کر عرب سے دھکیل دیا جائے تاکہ مسلمانوں کے خلاف یہ خلش ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق مناسب کارروائی عمل میں لانے کا تہیہ کر لیا۔ا س میں اور بھی عجلت سے کام لیا تاکہ بنو غطفان یا مسلمانوں کا کوئی اور دشمن قبیلہ بر وقت یہود کی کمک کے لیے نہ پہنچ سکے۔ یہود خیبر پر حملہ کی تیاری: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) یہود خیبر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر دیا اور حدیبیہ سے واپسی پر پچیس روز یا ایک مہینہ کے بعد (باختلاف روایات) لشکر کو روانگی کا حکم دیتے ہوئے صرف انہی مسلمانوں کے لیے لشکر میں شریک ہونے کی اجازت فرمائی جو حدیبیہ میں شامل تھی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں کی شمولیت سے انکار تو نہ فرمایا مگر انہیں غنیمت سے مستثنیٰ فرما دیا۔ اس لشکر میں سولہ سو مسلمان شامل ہوئے جن میں سواروں کی تعداد صرف ایک سو تک تھی۔ ہر ایک مسلمان کے دل میں نصرت خداوندی کا یقین موج زن تھا اور حدیبیہ سے واپسی پر سورۂ فتح کی بشارت کی وجہ سے پر امید۔ سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتا خذوھا ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلو کلام اللہ قل لن تتبعونا کذلکم قال اللہ من قبل فسیقولون بل تحسدوننا بل کانوا لا یفقھون الا قلیلا (15:48) (مسلمانو!) اب جو تم (کیبر کی) غنیمتیں لینے کے لیے جانے لگو گے تو جو لوگ تم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ (تم سے) کہیں گے ہم کو بھی اپنے ساتھ چلنے دو!(اس سے) ان کا مطلب یہ ہے کہ فرمودۂ خدا کو بدل دیں (نہ ہونے دیں) اے پیغمبر! ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم ہرگز ساتھ نہیں چلنے پاؤ گے۔ اللہ نے پہلے ہی ایسا فرما دیا ہے۔ یہ سن کر لوگ کہیں گے کہ (خدا نے تو کیا فرمایا ہو گا) بلکہ (بات یہ ہے کہ) تم ہم سے حسد رکھتے ہو۔ (حسد نہیں) بلکہ یہ لوگ تو اصل مطلب کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں (کہ یہ ان کے سفر حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے کی سزا ہے۔) خیبر میں مسلمان مدینہ سے چل کر تیسرے روز (نماز مغرب کے بعد) خیبر میں آپہنچے اور شب بھر قلعہ خیبر ہی کے نیچے پڑے رہے۔ اہل خیبر کو مسلمانوں کے آنے کی کوئی خبر نہ ہوئی۔ صبح کے وقت جب کسان پھاوڑے اور ڈلیاں لے کر کھیتوں کی طرف جانا شروع ہوئے تو شہر سے باہر لشکر پڑا ہوا دیکھا یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر آ پہنچے! کہتے ہوئے بستی کی طرف بھاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آوازہ سنا تو فرمایا خربت خیبر انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین (خیبر کی تباہی کا وقت آ پہنچا۔ جب ہم کسی قوم پر حملہ کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے۔) خیبر کے یہودی پہلے سے یہ بھی خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ان کے دشمنوں کو پناہ دینے کی وجہ سے جنگ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ وہ ایسے وقت کے ٹالنے کی تدبیر سے غافل نہ تھے۔ ان میں سے بعض لوگ جو قبائل میں سے کسی سے استمداد نہ چاہتے تھے (بربنائے حفظ ماتقدم) وادی القریٰ اور تیماء کے یہودیوں سے ساز باز بھی کر چکے تھے۔ قبل ازیں ان کا ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرنے پر بھی مائل تھا، تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں جو کینہ حیی ابن اخطب کی طرف سے مدینہ پر بلوہ کی صورت میں رونما ہو چکا ہے اس کی تلافی ہو جائے۔ اس معاملہ میں یہود خیبر کا میلان انصار (مدینہ) کی طرف اور بھی زیادہ تھا لیکن فریقین کے دل ایک دوسرے کی طرف سے اتنے دور ہو چکے تھے کہ آخر مسلمانوں نے خبر پر بزن بول ہی دیا اور اس سے قبل مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کے دو بڑے چودھری سلام بن ابو الحقیق اور یسیر ابن ازام بھی قتل کیے جا چکے تھے جس سے متاثر ہو کر انہوں نے بنو غطفان سے رشتہ مودت جوڑ لیا تھا ۔ یہی وجہ سے کہ جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیاری کی سن گن پائی تو غطفان 1؎ کو فوراً اطلاع کر دی۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ بنو غطفان ان کی یاوری کرنے کے لیے آئے یا نہیں۔2؎ 1؎ نقشہ بلاد العرب فی حیاۃ محمد دیکھیے تومعلوم ہو گا کہ مدینہ سے خیبر سمت راست شمالاً واقع ہے۔ خیبر کے بعد فدک شمال سے ذرا ہٹ کر غرباً اور بنو غطفان خیبر سے سمت مشرق دور واقع ہے۔ م 2؎ بنو غطفان آئے مگر مسلمانوں نے ان کی ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ الٹے پاؤں واپس لوٹ گئے۔ اسلامی لشکر خیبر میں بنو غطفان ہی کی سمت پر پڑا ہوا تھا۔ م قطع نظر اس کے کہ بنو غطفان یہود خیبر کی مدد کے لیے پہنچے یا اپنی اقامت گاہ تک کو نہ چھوڑا۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان (غطفان) سے خیبر کی غنیمت میں حصہ کی پیش کش کی یا نہیں۔ لیکن ارباب سیرت اس پر متفق ہیں۔ کہ خیبر کے یہود عرب میں نہ صرف اپنی ہی قوم میں طاقت ور، فنون جنگ میں مشاق اور تونگر تھے بلکہ ان کے پاس تمام عرب سے زیادہ اسلحہ تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کو یقین تھا کہ جب تک یہ گروہ عرب میں موجود ہے دین جدید کے ساتھ ان کی دشمنی دین اسلام کو فروغ حاصل نہ ہونے دے گی۔ نہ وہ اپنی شرارتوں سے باز رہیں گے اور نہ ان کے اثرات کی وجہ سے اسلام پنپ سکے گا۔ یہی وجوہ ہیں جن سے گھبرا کر مسلمان نے ان کے خلاف بزن بول دیا۔ خیبر پر مسلمانوں کے حملے کی خبر بجلی کی طرح تمام عرب میں پھیل گئی۔ ملک کا ہر شخص نتیجے کے لیے گوش بر آواز تھا۔ خصوصاً قریش نہایت بے تابی کے ساتھ انجام کے منتظر تھے۔ انہیں امید تھی کہ خیبر کے یہودی اپنی دلاوری اپنے قلعوں کی سربلندی اور پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیوں کی وجہ سے مسلمانوں کا حملہ ناکام کر دیں گے۔ چنانچہ ان میں سے اکثر نے شرط تک بد رکھی تھی۔ محاصرہ: مگر یہاں مسلمانوں نے صف بندی سے خیبر کے قلعوں کو چاروں طرف سے محاصرہ میں لے لیا۔ یہود نے اپنے سرغنہ سلام بن مشکم کے مشورہ سے یہ انتظام کیا کہ مال اسباب، مستورات اور بچوں کو قلعہ وطیح و سلام میں پہنچا دیا۔ اجناس و رسد قلعہ ناعم میں منتقل کر دی گئیں اور سپاہی اپنے جنگ آزمودہ سپہ سالاروں کی قیادت میں غنیم کے حملے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے (یہود اور ان کے زن و بچے) سب کے سب قلعہ نظاۃ میں جمع ہو گئے۔ 1؎ مقابلہ شروع ہو گیا: سب سے پہلے دونوں لشکر قلعہ نظاۃ کے نیچے آمنے سامنے ہوئے۔ معرکہ قتال دیر تک گرم رہا جس میں مسلمانوں کے پچاس سپاہی زخمی ہوئے۔ اندازہ کر لیجئے کہ لشکر یہود پر کیا بیتی ہو گی جب کہ ان کا سپہ سالار اعظم سلام بن مشکم بھی مارا گیا جس کے قتل ہو جانے پر (قلعہ) ناعم کے لشکر کی سپہ سالاری حارث بن ابو زینب کو تفویض ہوئی۔ بنو خزرج نے اسے رگید کر قلعہ میں دھکیل دیا۔ مسلمانوں نے پوری قوت کے ساتھ محاصرہ قائم رکھا اور محصورین بھی جانفشانی سے مدافعت میں سرگرم رہے۔ انہیں یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بنو اسرائیل کی یہ شکست جزیرۃ العرب سے ہمیشہ کے لیے ان کا استیصال کر دے گی۔ 1؎ خیبر دس قلعوں کے مجموعہ کا نام تھا جن میں دس ہزار جنگی سپاہی رہتے۔ پھر یہ قلعے تین حلقوں میں واقع تھے۔ الف ۔ حلقہ نظاۃ: اس میں چار قلعہ تھے۔ ناعم، نظاۃ، صعب ابن معاذ، قلعتہ الزبیر ب۔ حلقہ: (تین قلعے) حصن شق، حصن البر، حصن ابی ج۔ حلقہ کتیبہ: اس میں بھی تین ہی قلعے تھے قموس، وطیح ، سلام بفتحہ و کسرہ دونوں:م قلعہ ناعم کی فتحـ: مسلمانوں کو قلعہ ناعم کا محاصرہ کیے ہوئے کئی روز گزر گئے اور کوئی نتیجہ مرتب نہ ہوا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو علم دے کر ناعم کی مہم سپرد فرمائی۔ انہوں نے جی توڑ کر مقاتلہ کیا مگر قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ دوسرے روز علم عمرؓ بن الخطاب کو تفویض فرمایا وہ بھی شام تک مصروف پیکار رہے۔ مگر مہم سر نہ ہو سکی۔ تیسرے روز رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالبؓ کو پرچم دے کر فرمایا: خذ ھذہ الرایۃ فامض بھا حتی یفتح اللہ علیک (اے علیؓ! علم لیجئے اور حملہ کر دیجئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھ سے اسے فتح فرمائے!) یہودی قلعہ سے نکل کر مقابلہ پر ڈٹ گئے اور ان کے ایک سپاہی کی ضرب سے علیؓ کی سپر ہاتھ سے گر پڑی۔ اتفاق سے قلعہ کے پاس چوکھٹ کا ایک در پڑا ہوا تھا۔ علیؓ نے ہاتھ میں لے کر اس سے سپر کا کام لیا اور یہود کے لشکر کو قلعہ میں دھکیلنے کے بعد اسی تختہ سے خندق کا پل بنا لیا۔ جس پر سے گزر کر مسلمان سپاہی قلعہ میں داخل ہو گئے اور یہودی سپہ سالار (حارث بن ابو زینب) کی موت کے بعد مسلمان قلعہ ناعم پر قابض ہو گئے۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہودیوں نے جنگ میں کس بہادری کے ساتھ جان دی اور مسلمان ان کے مقابلہ میں کس طرح سینہ سپر ہو کر سر گرم پیکار رہے۔ حصن قموص و قلعہ صعب بن معاذ کا محاصرہ اور فتح: مسلمانوں نے حصن قموص کا محاصرہ کیا اور وہ بھی شدید معرکہ کے بعد فتح ہو گیا، لیکن اس نوبت پر آ کر رسد ختم ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اطلاع عرض کی مگر آپ سے کوئی مداوا نہ بن آیا۔ ناچار لشکریوں کو سواری کے گھوڑے ذبح کرنے کی اجازت فرما دی۔ اسی اثناء میں یہود کے ایک قلعہ سے بکریوں کا ریوڑ اتر رہا تھا جس میں سے دو بکریاں بچھڑ گئیں اور مسلمانوں نے ان کے گوشت پر اکتفا کیا۔ اب قلعہ صعب بن معاذ کا محاصرہ ہوا اور اس میں بھی یہودیوں نے شکست کھائی) یہاں سے اس قدر رسد حاصل ہوئی کہ مسلمانوں نے کھانے پینے کی طرف سے بے فکر ہو کر محصورین کو گھیرنا شروع کر دیا لیکن یہودی اپنی سر زمین کا ایک چپہ تک آسانی سے چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ اپنے ہر قلعہ کی حفاظت میں نہایت دلاوری سے لڑتے اور جب تک پوری طرح بے بس نہ ہو جاتے قبضہ نہ چھوڑتے۔ رستم یہود مرحب کی طرف سے مبارزت: اب یہود خیبر کا رستم مرحب پہلوان پوری طرح اسلحہ باندھ کر فخر سے یہ اشعار کہتا ہوا نکلا: قد علمت خبیر انی مرحب شاکی السلاح بطل مجرب خیبر مجھے پہچانتا ہے کہ میں ہتھیار بند بہادر اور مرد میدان مرحب ہوں۔ اطعن احیانا و حینا اضرب اذ اللیوث اقبلت تحرب جب شیر مجھ پر بپھر کر حملہ کرتا ہے تو کبھی اسے نیزہ چبھو دیتا ہوں اور گاہ تلوار سے مضروب کرتا ہوں۔ ان حمای للحمی لا یقرب یحجم عن صولتی المجرب میں ایسی چراگاہ کا مالک ہوں جس کے قریب پھٹکنا اپنی موت مول لینا ہے، میرے آزمودۂ جنگ ہونے کی وجہ سے! محمد بن مسلمہ کے ہاتھ سے رستم خیبر کا قتل: مرجب کا نعرہ سن کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: اس کے مقابلہ کے لیے کون نکلے گا؟ جناب محمد بن مسلمہ (انصاری) نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کل اس کے ہاتھ سے میرا بھائی (محمود) شہید ہو چکا ہے! اجازت نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دونوں میں مقابلہ شروع ہوا۔ مرحب نے ایسا تلا ہوا وار کیا کہ اگر ابن مسلمہ اسے سپر نہ روک لیتے تو ان کا کام تمام ہو چکا ہوتا۔ مگر مرحب کی تلوار ڈھال ہی میں اٹک کر رہ گئی اور وہ محمد بن مسلمہ کی ضربت سے زمین پر لوٹنے لگا۔ جنگ شدت سے جاری تھی مگر یہود کے مضبوط قلعوں کے تسلسل نے انہیں ڈگمگانے نہ دیا۔ قلعہ زبیر کا محاصرہ: اب مسلمانوں نے حصن زبیر پر دھاوا بول دیا۔ فریقین میں سے ہر ایک نے جی کھول کر داد شجاعت دی۔ پھر بھی قلعہ کا فتح کرنا مشکل ہو گیا۔ آخر مسلمانوں نے محصورین کا پانی بند کر دیا، جس سے یہود جان پر کھیل کر میدان میں نکل آئے۔ گھمسان کا رن پڑا اور دشمن جی چھوڑ کر بھاگ نکلا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک قلعہ ان کے ہاتھ سے نکلتا گیا۔ آخری دو قلعوں پر دھاوا یہود کا اقرار شکست اور اراضی بٹائی پر دینے کا فیصلہ: منطقہ کتیبہ میں دو قلعے وطیح و سلام باقی رہ گئے تھے لیکن یہود کا تمام مال و اسباب قلعہ شق و نظاۃ و منطقہ کتیبہ میں ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ یہود نے جان بخشی کی شرط پر صلح کی درخواست پیش کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لی اور مفتوحہ اراضی کاشت کے لیے ان کے سپرد ہو گئی اور نصف بٹائی مقرر کر کے انہیں آباد رہنے دیا۔ 1؎ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے لیے تو ان کی اراضی پر حق کاشت قائم رہنے دیا مگر (اس سے قبل مدینہ کے یہود بنو قینقاع اور بنو نضیر کو ان کی اراضی سے متمتع ہونے کا موقع نہ دیا ۔ حتیٰ کہ دونوں قبیلوں کو شہر سے جلا وطن فرما دیا۔ لیکن خیبر کا معاملہ بوجوہ یہود مدینہ سے مختلف ہے، اس لیے کہ: الف۔ فتح خیبر کے بعد یہاں کے یہود کے سر اٹھانے کا خطرہ نہ تھا۔ ب۔ خیبر میں باغات و نخلستان اور اراضی کی اس قدر افراط تھی، جس کی نگہداشت اور پیداوار حاصل کرنے لیے بڑی کاوش درکار تھی۔ 1؎ خیبر کی اراضی کے دو حصے ہیں۔ 1؎ جنگ سے فتح شدہ اسے مجاہدین میں تقسیم کر دیا۔ 2؎ صلح سے حاصل شدہ۔ اور یہ ریاست کی ملکیت ہے حصہ 2۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بٹائی پر دے دیا۔ یوں خیبر میں سب اراضی شامل ہے۔ اس لیے دونوں قسموں پر لفظ (خیبر) استعمال ہوتا ہے۔ مزید بحث کے لیے زاد المعاد ابن القیم جلد اول در تذکرہ خیبر فضل و منھا حرص الثمار کی آخری سطور ملاحظہ فرمائیے۔م ج۔ مدینہ کے مسلمان زراعت پیشہ تو تھے لیکن خود ان کی ذاتی اراضی ان کے بغیر آبادہ نہ رہ سکتی تھی۔ اس لیے انہیں اس غرض کے لیے مدینہ سے خیبر آباد کرنے کا سوال نہ تھا۔ د۔ انصار کی مدینہ کی جنگوں میں ہر وقت ضرورت تھی۔ ہ۔ یہود خیبر کی بساط سیاست الٹ جانے سے ان کے لیے کاشت کاری پر اکتفا بھی بہت غنیمت تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان کی بد طینتی کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہاں کی اراضی بنجر ہوتی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مزید احسانات کے باوجود کہ فتح میں تورات کے کئی نسخے مسلمانوں کے قبضے میں آئے، جو ان کی درخواست پر انہیں عنایت کر دئیے چہ جائیکہ مسیحی روم نے اس کتاب مقدس کو یروشلم فتح کر کے جلا کر ان کی راکھ پیروں تلے روندی۔ پھر انہی نصرانیوں نے جب یہودیوں کے ہاتھ سے اس کو حاصل کیا تو وہاں انہوں نے بھی کتاب مقدس کی یہی درگت کی۔ تقسیم پیداوار پر یہود خیبر کی حیرت: اور یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر سال حضرت عبداللہ بن رواحہؓ پیداوار کی بٹائی کے لیے تشریف لاتے اجناس کی تمام اقسام دو حصوں میں تقسیم فرما کر مزارعین سے فرماتے کہ دونوں میں جونسا ڈھیر پسند ہو اٹھا لو اس پر ایک مرتبہ اہل خیبر نے کہا اسی عدل پر ارض و سما قائم ہیں۔(از فتوح البلدان:م) خیبر کے بعد یہود کے بقیہ تین مراکز الف: فدک۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود فدک کی طرف قلعہ وطیح و سلام کے محاصرہ کے دوران میں پیغام بھیج دیا کہ مسلمان ہو جاؤ تو فبہا ورنہ تمہیں اپنے اموال ہمارے سپرد کرنا پڑیں گے! یہ لوگ خیبر کی خبروں سے متاثر تھے انہوں نے حوالگی میں خیریت سمجھی اور نصف پیداوار پر تصفیہ کر لیا۔ سر زمین فدک اور خیبر کی اراضی دونوں کی دو مختلف حیثیتیں قرار دی گئیں۔ آخر الذکر لڑائی سے فتح ہوئی تھی۔ اس کی اراضی غازیوں میں تقسیم فرما دی گئی۔ فدک کسی جدوجہد کے بغیر حاصل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لیے مختص کر لیا۔ ب: وادی القریٰ۔۔۔۔ یہ بستیاں خیبر اور مدینہ کی گزرگاہ پر واقع تھیں۔ خیبر سے واپسی پر مسلمان وادی القریٰ سے ذرا دور ہی تھے کہ یہود نے تیر برسانا شروع کر دئیے جس سے مقابلہ کی نوبت آ پہنچی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی فرمائی مگر نبرد آزمائی سے پہلے انہیں اسلام پیش کیا۔ یہود کا ایک ایک پہلوان نکلنا شروع ہوا مگر اس کی قسمت میں واپس لوٹنا نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہر بہادر کے قتل کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کرتے۔ رات ہو گئی۔ دوسری صبح یہود نے از خود اطاعت کا پیغام بھیجا۔ ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے گئے اور انہیں بٹائی پر اراضی و باغات سونپ دئیے گئے۔ وادی القریٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار روز تک قیام فرمایا۔ ج: وادی تیمائ۔۔۔۔ اسی راہ پر وادی تیماء واقع ہے اس میں بھی یہود آباد تھے مگر انہوں نے کسی تعرض کے بغیر قبول اطاعت و ادائے جزیہ دونوں شرطیں تسلیم کر لیں۔ سطوت یہود کا آخری انجام:ـ آج سے عربستان میں صدیوں کی باوقار قوم یہود کا دبدبہ ختم ہو گیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ماتحتی پر مجبور ہو گئے اور جس طرح مدینہ کی جنوبی (مکہ) جانب سے صلح حدیبیہ کے بعد خطرات کا انسداد ہو گیا، اسی طرح خیبر تک کی فتح نے شمال کی طرف سے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا۔ یہود کے سرنگوں ہو جانے سے ان کے متعلق مسلمان۔ بالخصوص انصار، کا غصہ فرو ہو گیا۔ ان میں سے بعض کی مدینہ میں آباد کاری پر بھی مسلمانوں نے چشم پوشی سے کام لیا جس وقت مدینہ کے راس المنافقین ابن ابی پر موت نے حملہ کیا یہودی اپنے اس قدیم مربی کی مرگ پر مصروف گریہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے فرزند حضرت عبداللہ بن ابی مذکور کے پاس اس کے باپ کی تعزیت کے لیے تشریف لئے تو یہود سے شانہ ملا کر ایستادہ ہونے سے مضائقہ نہ سمجھا۔ یہود کے ساتھ مراعات کی وجہ سے حضرت معاذ بن جبلؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ انہیں دین موسیٰ ترک کرنے کے لیے نہ کہا جائے۔ اسی وقفہ میں خاتم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین کے یہود بنو عریض اور بنو غازیہ کے ساتھ اطاعت، جزیہ اور اپنے دین پر استقرار کی صورت میں معاہدہ کر لیا۔ الحاصل یہود کو مسلمانوں کے زیر نگین ہو کر رہنا ہی پڑا۔ پورے عرب میں ان کے مراکز ٹوٹ چکے تھے۔ انہیں احساس ذلت کی وجہ سے اس سرزمین کو خیر باد کہنا پڑا، جہاں صدیوں سے ان کی سطوت کا ڈنکا بج رہا تھا یہ اور بات ہے کہ اس ملک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کا انخلا کامل ہوا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد (اس میں دو مختلف روایات ہیں) خیبر اور جزیرۃ العرب کے یہودی اپنی سطوت سے محروم ہونے کے بعد دفعتہ عربستان کو خیر باد کہہ کر نہیں چلے گئے بلکہ کچھ مدت تک یہاں آباد رہے۔ لیکن جب تک عرب میں رہے مسلمانوں پر غصے سے دانت پیشتے رہے اور جو کچھ ان کے خلاف بن آیا کرتے رہے۔ زہر آلود گوشت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضیافتـ: یہ واقعہ خیبر میں رونما ہوا فتح کے بعد لڑائی کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ فریقین معاہدہ کے پابند ہو گئے۔ اسی حالت سکون میں یہود کے سرغنہ سلام بن مشکم کی زوجہ زینب (ہمشیرہ مرجب مقتول) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چند رفقاء کی دعوت میں زہر آلودہ گوشت پیش کیا۔ آپ کے رفیق طعام (بشر ؓ ابن البرائ) تو مزے لے لے کر کھاتے گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا ہی لقمہ چبا کر پھینک دیا اور فرمایا ان ھذا العظم الیخبرنی انہ مسموم (گوشت کے اس پارے نے مجھے اپنا زہر آلود ہونا بتا دیا ہے) دریافت پر مجرمہ نے اقتبال کرتے ہوئے کہا آپ نے میری قوم سے جو برتاؤ کیا ہے آپ کو بھی علم ہے میں نے یہ ارتکاب اس لیے کیا ہے کہ اگر آپ بادشاہ ہیں تو میری قوم کو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو وحی کے ذریعے آپ کو اطلاع ہو جائے گی اس اعتراف جرم پر اسے معاف کر دیا گیا یا نہیں اس میں دو مختلف روایتیں ہیں۔ 1۔ اس کے باپ اور شوہر کے مقتول ہو جانے کی وجہ سے اسے معاف کر دیا گیا۔ 2۔ حضرت بشرؓ کے انتقال کی بناء پر اسے قتل کر دیا گیا۔ زینب کے اس کرتوت کی وجہس ے مسلمان بہت متاثر ہوئے۔ انہیں یہود پر کوفی اعتماد نہ رہا اور ان کی جمعیت پراگندہ ہونے کے باوجود ان کے شر سے خائف رہنے لگے۔ بی بی صفیہ خیبر کی ایک بی بی صفیہ بھی اسیروں میں آئیں۔ یہ بنو نضیر مدینہ کے سرغنہ حیی بن اخطب کی دختر اور مدینہ کے بنو قریظی رئیس اعظم کنانہ بن ربیع کی بیوہ تھیں۔ کنانہ مذکور مدینہ سے جلا وطنی پر چمڑے کے ایک بڑے تھیلے میں نقد و زر بھر کر ہمراہ لے آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرار داد صلح کے مطابق کنانہ سے اس تھیلے کا مطالبہ کیا تو اس نے قسم کھا کر صاف انکار کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر ثابت ہو جائے کہ مال تمہاری تحویل میں ہے تو قسم کے عوض میں تمہیں اپنا قتل منظور ہے۔ کم بخت نے از خود اپنے محضر قتل پر دستخط کر دئیے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص ذرا دیر پہلے کنانہ کو ایک کھنڈر میں دیکھ چکا تھا۔ اس نے یہ حکایت رسول اللہ سے بھی عرض کر رکھی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کھنڈا کی تلاشی کا حکم دیا تو اس میں خزانہ برآمد ہو گیا اور کنانہ اس کی شرط کے مطابق قتل کرا دیا گیا۔ کہنا یہ تھا کہ بی بی صفیہ کے اسیر ہو کر آنے پر مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ صفیہ سیدۃ بنی قریظہ والنضیر لا تصلح الا لک (اے رسالتؐ پناہ! بی بی صفیہ بنو قریظہ و نضیر دونوں قبیلوں میں ممتاز ہونے کی وجہ سے صرف آپ کے حرم میں شامل ہونے کے شایاں ہیں) یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے اپنے حرم میں شمولیت کی عزت سے ممتاز فرما دیا۔ اس معاملہ میں آنحضرت کے پیش نظر ان فاتحین و اکابر کا عمل تھا۔ جو مفتوح بادشاہوں کی شہزادیوں کو اپنے محل میں داخل کر کے ان کے دلوں سے شکست کا داغ ہلکا کرتے اور ان کے اعزاز میں اضافہ کرتے۔ شب تزویج میں جناب ابو ایوب خالد الانصاریؓ خیمہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم پر از خود شمشیر برہنہ لیے ہوئے پاسبانی کرتے رہے۔ انہیں خطرہ تھا کہ مبادا سیدہ صفیہ کے دل میں اپنی قوم اپنے والد اور شوہر کے قتل ہونے سے کینہ ابھر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وار کر بیٹھیں۔ اس رات کی صبح ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پردہ پر دیکھ کر سبب دریافت کیا اور ایوبؓ نے عرض کیا نبوت مابصلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے بی بی صفیہ کے باپ، شوہر اور برادری کو قتل کر ادیا شاید ان کے دل میں کفر کے اثرات پوری طرح مندمل نہ ہوئے ہوں۔ مجھے بی بی سے آپ کے متعلق یہی خدشہ تھا۔ نواحی بادشاہوں کی طرف تبلیغی وفود کا زمانہ یہ تنقیح ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل اور کسریٰ اور نجاشی وغیرہ غیر مسلم بادشاہوں کے لیے جو تبلیغی وفود مقرر فرمائے انہیں غزوہ خیبر سے قبل بھیجا گیا یا اس کے بعد۔ اس تعیین میں بھی مورخین کا بے حد اختلاف ہے۔ ظن غالب یہ ہے کہ ان حضرات کو بیک وقت روانہ نہ کیا گیا اور یہ کہ بعض داعی فتح خیبر سے قبل اور بعض حضرات اس کے بعد بھیجے گئے۔ ازاں جملہ حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ ہیں جو خیبر کی لڑائی میں شریک ہوئے اور فتح (خیبر) کے بعد مکتوب رسالت دے کر ہرقل (روم) کے ہاں بھیجے گئے۔ ہرقل روم کے دربار میں فرمان رسولصلی اللہ علیہ وسلم جس وقت ہرقل روم ایران کو شکست دے کر اس صلیب مقدس کو ان سے واپس لانے میں کامیاب ہو گیا جسے کسریٰ ایران بیت المقدس کو فتح کر کے اپنے ہمراہ لے گیا تھا۔ اس نے نذر ماونی کہ اگر میں مقدس صلیب کو دوبارہ حاصل کر سکا تو اسے پا پیادہ اٹھا کر بیت المقدس میں نصب کروں گا۔ جب ہرقل صلیب کو لے کر حمص میں پہنچا تو یہاں اسے مکتوب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ملا لیکن اس واقعہ میں بھی دو قسم کی روایات ہیں۔ الف۔ رسالت مآب کے قاصد جناب دحیہ کلبیؓ نے اپنے رفقائے عرب کی معیت میں ہرقل کے دربار میں تشریف لا کر اپنے ہاتھ سے مکتوب رسالتؐ کو عنایت کیا؟ ب۔ یا اس کے عامل مقیم بصری کے توسط سے بادشاہ تک پہنچایا؟ دونوں میں کوئی صورت سہی بہرحال ہرقل نے مکتوب سر دربار پڑھوا کر اس کا ترجمہ سنا۔ جس پر نہ وہ برہم ہوا نہ اس کے بشرے سے کوئی ایسی کیفیت ظاہر ہوئی، نہ اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے اپنے دماغ میں کوئی منصوبہ بنایا۔ بلکہ اس نے ایسے مودبانہ انداز سے جواب لکھوا کر حضرت دحیہؓ کے حوالے کیا کہ بعض مورخین نے غلطی سے اس طرز خطاب کو ہرقل کے مسلمان ہو جانے پر محمول کر لیا۔ (حارث غسانی عامل روم) حارث غسانی (عامل روم) کا قاصد حمص ہی میں ہرقل کے پاس پہنچا، جس میں حارث نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطلاع کے ساتھ آپ کے دعویٰ رسالت کی پاداش میں بادشاہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی۔ اس کی بجائے ہرقل نے حارث کو حکم دیا کہ بیت المقدس کی زیارت کے موقعہ پر وہ بھی شریک ہو تاکہ مقدس صلیب کے احترام میں اضافہ ہو سکے اور ہرقل نے دین جدید کے مدعی (جناب خاتم الرسلؐ) کے سد باب پر توجہ ضروری نہ سمجھی۔ اسے یہ خبر نہ تھی کہ چند سال بعد یہی بیت المقدس اور شہنشاہ اعظم کی مملکت (روم) پر اسلام کا پرچم لہرا رہا ہو گا اور اس کا مقبوضہ شہر دمشق حکومت اسلامیہ کا دارالخلافہ بن جائے گا۔ قیصر کو یہ علم بھی نہ ہو سکتا تھا کہ مسلمان بادشاہ اور روم کی آویزش ترک مسلمانوں کو 1353ء میں قسطنطنیہ پر مسلط کر دے گی، جہاں کے سب سے بڑے کلیسا کو مسجد کا مرتبہ نصیب ہو گا ۔ جس مسجد کی محراب پر اسی نبی کا اسم گرامی منقش ہو گا، حتیٰ کہ چند صدیاں گزر جانے کے بعد یہی مسجد رومی فن نقش و نگار کا نمونہ قرار پائے گی۔ کسریٰ (شاہ ایران) کے دربار میں فرمان رسالتؐ: جب اس بادشاہ کے سامنے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتی فرمان پڑھا گیا تو اپنی طرف دعوت اسلام کا پیغام سن کر آگ بگولا ہو گیا۔ نامہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاک کر کے پھینک دیا۔ کسریٰ نے اسی وقت اپنے نائب یمن باذان کی طرف حکم بھیجا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر (مبارک) اس کے حضور پیش کیا جائے۔ غالبا ً اسے اپنی اس شکست کی تلافی دکھانا مقصود تھی جو اسے ابھی ابھی ہرقل روم کے مقابلہ میں اٹھانا پڑی۔ جب مسلمان قاصد نے ایران سے واپس آ کر رسالت مآبؐ کی خدمت میں کسریٰ کے یہ کرتوت بیان کئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح اللہ اس کی بادشاہت کو پارہ پارہ کر دے گا ۔ ادھر عامل یمن باذان نے اپنے آقائے ولی نعمت (شدہ ایران) کی تعمیل حکم کے لیے اپنے دو آدمی مدینہ بھیج دئیے ادھر کسریٰ (ایران)کا فرزند شیرویہ اپنے باپ کو قتل کر کے خود تخت پر بیٹھ گیا۔ باذان کے سپاہی رسول اللہ کے سامنے ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسریٰ کے قتل ہو جانے کی خبر سنائی، جس سے بذریعہ وحی آپ کو مطلع کیا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کے سپاہیوں سے فرمایا کہ وہ یمن واپس جا کر باذان کو اسلام کی دعوت دیں۔ نائب والی یمن کا قبول اسلام: ہرقل روم کے مقابلہ میں ایران کی ہزیمت اور اس کے اقتدار کا زوال اہل یمن کے سامنے تھا۔ اس کے ساتھ ہی قریش کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور یہود کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کلی استیصال بھی ان پر منکشف ہو چکا تھا۔ جب اس کے سپاہیوں نے مدینہ سے لوٹ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف باذان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو اس نے اپنی سعادت کی وجہ سے اسلام قبول کر لیا اور خود کو ایران کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یمن کا عامل تصور کر لیا۔ قارئین! آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے کہ باذان سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کا مطالبہ (از قسم خراج، عشر و زکوٰۃ) فرما سکتے تھے۔ جب کہ یمن او رمدینہ کے درمیان ہنوز مکہ حائل تھا؟ البتہ یہ وقفہ باذان کے لیے مغتنم تھا کہ وہ ایران کے تسلط سے اپنی گردن نکال کر عرب کی جدید سطوت کی پناہ میں آ جائے اور اس وقفہ میں نہ تو ایران کو کسی قسم کا خراج ادا کرے اور نہ اس سطوت جدید (اسلام) کے حضور۔ شاید باذان اس موقعہ پر یہ اندازہ نہ کر سکا کہ اگر وہ اسی وقت اپنا الحاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیتا تو اس الحاق سے اسلام کی قوت نفوذ کو جزیرۃ العرب میں کس قدر عروج حاصل ہو جاتا، جیسا کہ دو سال بعد باذان پر واضح ہو گیا۔ مقوقس شہنشاہ مصر کے دربار میں فرمان رسالت ؐ قبطیوں کے شہنشاہ اعظم مقوقس کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد (جناب حاطب بن ابی بلتعہؓ) پہنچے۔ بادشاہ نہایت احترام سے پیش آیا ۔ بادشاہ نے فرمان رسالتؐ کے جواب میں پورا ادب ملحوظ رکھا کہ میرے علم کے مگابق بھی ایک نبی آنے والا ہے لیکن اس کا ظہور ملک شام میں ہو گا ! بہرحال اس نے قاصدکو عزت و تحائف کے ساتھ رخصت کیا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور مندرجہ ذیل تحائف پیش کئے۔ دو نوجوان بی بیاں1؎ ، سفید رنگ کا خچر (بار برداری) کے لیے ایک گدھا اور کئی ہدایا جن میں مصر کی مصنوعات بھی تھیں۔ 1؎ مولف علام نے متن (ص394، ص16) صرف جاریتین لکھا ہے جس پر فارسی مترجم صاحب زندگانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کنیز سے نص فرما کر شاہی خاندان کی شہزادیوں کو باندی ثابت کر دیا حالانکہ مقوقس کے خط میں مرقوم ہے وبعثت الیک بجایتین لھما مکان فی القبط عظیم (زاد المعاد ابن القیم) میں آپ کے لیے دو نو عمر لڑکیاں بھیجتا ہوں جن دونوں کی قبطیوں میں بے حد عظمت ہے۔ کنیز کی عظمت کا تو سوال ہی نہیں پھر بادشاہ وقت کی قوم میں! مگر یہ کہ ناقلین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں شاہی خاندان کی شہزادی کو باندی ثابت کرنے میں اپنے سلیقہ کے اظہار میں کمی نہ رہنے دی۔م نجاشی (شہ حبش) کے دربار میں مکتوب رسالتؐ مسلم ہے کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو مسلمانوں کے ساتھ جس قسم کا میلان تھا اس کا یہی تقاضا تھا کہ وہ مکتوب رسالتؐ کا جواب سلیقہ سے دے گا۔ بعض روایات میں اس کے مسلمان ہو جانے کا تذکرہ بھی ہے مگر بعض مستشرقین نجاشی کے اسلام سے اس خط کی بناء پر انکار کرتے ہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تبلیغی مکتوب کے ماسوا نجاشی کی طرف بھیجا، جس میں حبشہ کے اندر مقیم مہاجرین کو مدینہ لوٹا دینے کا فرمان تھا اور جس خط پر بادشاہ نے انہیں حضرت جعفر بن ابو طالبؓ کی سربراہی میں دو کشتیوں میں سوار کرا دیا۔ جب بی بی ام حبیبہ مدینہ تشریف لائیں اور حرم نبویؐ کی حیثیت سے امہات المومنین کے زمرہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس تزویج میں مستشرقین کی دومختلف رائیں ہیں (اور دونوں غلط۔ م) الف۔ سرغنہ قریش ابو سفیان (ام حبیبہ کے والد) سے قرابت کی وجہ سے اہل مکہ کو قرار داد حدیبیہ پر قائم رکھنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد فرمایا۔ ب۔ ابو سفیان کے بت پرست ہونے کے غصہ میں ان کی صاحبزادی کو عقد میں لا کر ایسے شخص کو رنجیدہ کرنے کے لیے! نوابین عرب کے دربار میں فرمان نبویؐ 1,2۔ امیر یمن و عمان دونوں نے فرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں بد تمیزی کا مظاہرہ کیا۔ 3۔ امیر بحرین (منذر بن ساوی۔ م) مسلمان ہو گئے۔ 4۔ امیر یمامہ (ہوذہ بن علی۔ م) نے اپنی بادشاہت کی شرط منوانے پر اسلام قبول کرنے کا وعدہ کیا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس طمع پر اسے لعنت کی اور وہ ایک سال بعد دنیا ہی کو چھوڑ بیٹھا۔ سلاطین نے خطوط کا جواب نرمی سے کیوں دیا: یہ بادشاہ اور نواب جن کی طرف تبلیغی خطوط بھیجے گئے ان میں سے زیادہ تعداد نے جواب میں رفق وسلیقہ کا اظہار کیوں کیا؟ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ان میں سے نہ تو کسی نے کسی مبلغ کو قتل کیا نہ کسی کو قید و بند میں ڈالا، الا یہ کہ دو ایک کے جوابات میں لہجہ ضرور درشت تھا (مثلاً کسریٰ ایران و حارث غسانی) رہا یہ کہ ان بادشاہوں نے دین جدید کی تبلیغ سے برفروختہ ہو کر صاحب دعوت (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف جدوجہد کیوں نہ کی؟ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام بادشاہ متحد ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹانے کا تہیہ کر لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہمارے اس عہد میں مادیت کو توسع حاصل ہے اور اس کے مقابلہ میں روحانیت نقطہ لا یتجزی تک سمٹ کر آ چکی ہے۔ اسی طرح اس دور میں بھی زندگی عیش و تنعم کا دوسرا نام تھا، جب کہ قوموں کی جنگ اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے برپا ہوتی یا مادی منافع حاصل کرنا مقصود ہوتا تاکہ ہوس رانی کا دامن ہاتھ سے چھٹنے نہ پائے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پر آشوب عہد میں جہاں عقیدہ اور ایمان دونوں روحانیت کے مقابلہ میں اس طرح لفس کی بھینٹ چڑھا دئیے جائیں کہ بظاہر دین کے شعار و اعمال پوری پابندی کے ساتھ ادا کیے جائیں مگر ان اعمال کی پشت پر یقین و اذعان کا شائبہ تک نہ ہو بلکہ مطمح نظر یہ ہو کہ ایسے لوگ جس صاحب کے اثر ونفوذکے غلبہ میں جی رہے ہیں وہ ان کے کھانے پہننے کے ساتھ ان کے عیش و تلعب میں بھی ان کی سرپرستی فرما رہا ہے۔ ان لوگوں کی عزت ودولت مندی بھی اسی کی دست گیری کا صدقہ ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے اشعار و اعمال سے اسی حد تک وابستگی ہو جس کے طفیل ان کے مادی منافع بار آور رہے ہیں۔ اور جب ایسے لوگوں کو یہ منافع حاصل نہیں ہوتے تو شعار دین کی اتنی سی ادائیگی میں بھی ان پر درماندگی غالب آ جاتی ہے۔ ان کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور قوت مقاومت سلب ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسے لوگوں نے دین جدید (اسلام) کی حکایت ایمان اور اس کے اثر و نفوذ کے واقعات سنے، جن میں انہیں معلوم ہوا کہ اس دین میں تمام انسانوں کو ایک خدا کے ساتھ مساوات کا درجہ حاصل ہے، اس کے ماننے والے تنہا ایک ہی خدا کی عبادت کرتے اور اسی سے طالب امداد ہوتے ہیں، جن کا خدا کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ نفع و ضرر کا بلا شرکت غیرے وہی مالک ہے، اس کی رضا وخوشنودی کی ایک شعاع دنیا جہان کے بادشاہوں کی آتش غصب کو ٹھنڈاکر سکتی ہے، اس مالک الملک کا خوف دلوں کو ہلا دیتا ہے اگرچہ ایسے دلوں کو تمام دنیا کے بادشاہوں نے اپنی اپنی نعمتوں اور رضا مندی سے مال مال کیوں نہ کر رکھا ہو۔اور وہ شخص اس ذات مطلق سے مغفرت کا امیدوار ہے۔ جو اس کے حضور اپنی لغزشوں سے توبہ کر کے ایمان اور خالص عمل صالح کی ضمانت پیش کر سکے۔ دعوت جدید (اسلام) کے سلسلہ میں لوگوں نے یہ بھی سنا کہ صاحب دعوت کے خلاف ظلم و تعذیب برپا رہنے کے باوجود اس کا اقتدار روز بروز ترقی حاصل کر رہا ہے۔ ہر قسم کی مادی قوتیں اس کے خلاف حرکت میں رہتے ہوئے بھی وہ دشمنوں پر غالب آ رہا ہے۔ انہیں یہ اطلاعیں بھی پہنچ گئیں کہ صاحب دعوت بچپنے میں یتیم تھا اور بلوغت کے زمانہ میں بے مال و زر، مگر اس نے کبھی دوسروں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ اس پر بھی اس کے اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ نہ صرف اس کے مولد (مکہ) بلکہ تمام عرب میں آج تک اس کے سوا کوئی بادشاہ بھی اس قدر طاقتور نہیں گزرا، جس کے سامنے سارے ملک کی گردنیں جھکی رہیں۔ دنیا اس کی آواز پر کان لگائے کھڑی رہے۔ دل اس کی محبت سے لبریز ہوں، جیسے وہ مسیحا ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہو جائے۔ اوریہ جو کچھ لوگ ابھی تک حقیقت سے دور تھے اگر ان کی راہ میں خوف و شبہ شامل نہ ہوتا تو وہ بھی اسی چشمہ جاوداں سے حیات نو حاصل کرتے اور انہیں وجوہ کی بناء پر ان بادشاہوں نے ختم الرسلؐ کی دعوت کے جواب میں نرمی اور سلیقہ ظاہر کیا جس سے مسلمانوں کے ایمان و سکون میں اور اضافہ ہوا۔ مہاجرین حبشہ، دعوتی وفود کی واپسی اور عمرۃ القضا کی ادائیگی کے بعد: ادھر رسول خدا ؐ خیبر سے مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اسی وقفہ میں حضرت جعفر بن ابو طالبؓ اپنے مسلمان ہمراہی مہاجرین کے ساتھ حبشہ سے مدینہ وارد ہوئے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تبلیغی وفود بادشاہوں کی طرف بھیجے تھے وہ بھی لوٹ کر آ گئے۔ برسوں کے بچھڑے ہوئے دوست گلے ملے ۔ مسلمان تمادی حدیبیہ ختم ہونے کے لیے ایک ایک گھڑی شمار کرنے لگے تاکہ سال گزشتہ عمرۃ القضا ادا کرنے کا جو وعدہ زبان وحی نے فرمایا تھا (یعنی:) لقد صدق اللہ رسولہ الرء یا بالحق لتد خلن المسجد الحرام ان شاء اللہ امنین محلقین رئوسکم و مقصرین لا تخافون (27:48) بے شک اللہ نے اپنے رسول کو واقعی سچا خواب دکھایا تھا کہ ان شاء اللہ تم (مسلمان) مسجد حرام میں کسی خوف و خطر کے بغیر باطمینان (تمام) داخل ہو گے (وہاں جا کر) تم (کچھ تو) اپنا سر منڈواؤ گے (اور کچھ فقط) بال ہی کترواؤ گے۔ مسلمان اس (عمرۃ القضائ) سے بہریاب ہوں اور حضرت جعفر بن ابو طالبؓ کے ورود مدینہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر مسرت حاصل ہوئی۔ فرط خوشی سے فرمایا میں نہیں بتا سکتا کہ مجھے خیبر فتح ہونے کی خوشی زیادہ ہوئی ہے یا جعفرؓ کے خیریت سے واپس آ جانے کی! واقعہ سحر: کہا جاتا ہے کہ یہودیوں نے اس وقفے میں لبید نامی ساحر کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرا دیا جس کا اثر آپ پر یہاں تک ہوا کہ ایک کام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی کیا تھا ذرا دیر بعد خیال گزرا کہ اسے نہیں کیا۔ لیکن واقعہ سحر کی روایات میں اس قدر اضطراب ہے کہ جو لوگ نفس واقعہ کے منکر ہیں ان کی تائید سے مفر نہیں۔ اس دوران میں مسلمان مدینہ میں رہ کر سکون و طمانیت کے ساتھ فضل خداوندی اور اس کی نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے اور کسی بڑی لڑائی سے انہیں سابقہ نہیں الایہ کہ گاہ بگاہ ان گروہ بندوں کے خلاف فوجی دستے بھیجنا پڑتے جو مسلمانوں کی جان و مال پر دستبرد کی تیاری میں مستغرق ہو جاتے۔ جب صلح حدیبیہ کے ایک سال بعد (ماہ) ذیقعد لوٹ کر آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہ دو ہزار مسلمانوں کو لے کر عمرۃ القضا کے لیے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ حدیبیہ کی قرار داد کے مطابق زیارت و طواف سے اپنی روحوں کو متمتع کر سکیں۔ ٭٭٭ باب22 عمرۃ القضا سے لے کر خالدؓ بن ولید کے اسلام لانے تک عمرۃ القضاء قرار داد حدیبیہ کے مطابق ایک سال گزر جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے مکہ جانے کا وقت آ گیا۔ آپ نے مسلمانوں کو عمرۃ القضاء کی تیاری کا حکم دیا، جس سے مسلمانوں کو گزشتہ سال (حدیبیہ میں) روک دیا گیا تھا، یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان پر مسلمانوں نے کس خوشی سے لبیک کہا۔ ان میں مہاجرین مکہ بھی تھے جو کئی سال سے وطن کی صورت دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے۔ مسلمانوں کے اسی اشتیاق کا نتیجہ ہے کہ سال گزشتہ زیارت کعبہ و ادائے عمرہ جس کے لیے چودہ سو افراد مدینہ سے نکلے تھے آج اس کے لیے دو ہزار مسلمان پابہ رکاب ہیں۔ پابندی شرائط کے احترام کی وجہ سے کسی مسلمان نے تلوار کے سوا کوئی اور اسلحہ اپنے ساتھ نہیں لیا۔ اگرچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کی بے وفائی سے خائف بھی تھے اس لیے بربنائے احتیاط ایک سو مسلمانوں کا دستہ محمد بن مسلمہ کی سپہ سالاری میں پہلے سے روانہ کر دیا، مگر انہیں تاکید فرمائی کہ حرم مکہ میں داخل نہ ہوں بلکہ (مقام) مر الظھران (متصل حرم) میں پڑاؤ کر لیں۔ مدینہ سے روانگی کا نظارہ: مدینہ سے روانگی کے وقت مسلمانوں کے ہمراہ ساٹھ ہدی (قربانی کے جانور) تھیں۔ سید المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ناقہ قصواء پر سوار آگے آگے تھے۔ زائرین کے دل میں مکہ معظمہ کی زیارت اور بیت اللہ کا طواف کرنے کی مسرت جوش مار رہی تھی۔ مہاجرین اور بھی بے تاب کہ جس بستی میں انہوں نے آنکھیں کھولیں اسے دیکھنا بھی نصیب ہو گا! جس شہر کی دیواروں کے سائے میں جوان ہوئے، ان سے مس کرتے ہوئے شہر کی گلیوں میں گشت کریں گے! جن دوستوں کے ساتھ زندگی کا طویل عرصہ گزارا انہیں دیکھ کر آنکھوں کو تراوٹ نصیب ہو گی! وطن کی خوشگوار ہوا سے مشام جاں معظر ہو گا! اور اس مبارک بستی کی خاک سرمہ چشم بنے گی، جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا اور جس سر زمین میں خدا کی پہلی وحی کا نزول ہوا۔ دو ہزار مسلمانوں کی فوج اسی جوش و خروش کے ساتھ گامزن تھی۔ ان کے دل فرط خوشی سے بلیوں اچھل رہے تھے۔ تصورات میں یہ نقشے تھے کہ جونہی اپنی اپنی سواریوں سے اتر کر شہر میں داخل ہوں گے (دوستوں سے مل کر) زندگی کے اس دور کی یاد تازہ کریں گے جس کی آخری گھڑیوں میں قضا اور قدر نے انہیں گھر سے بے گھر کر کے نکال دیا تھا، ان احباب کا تذکرہ ہو گا جنہیں مکہ سے جلا وطن ہوتے وقت زندہ چھوڑ گئے تھے اور اس کے بعد وہ آسودۂ لحد ہو گئے! عزیزوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے مال و اسباب کی لوٹ اور غارت کی داستان بھی دریافت کی جائے گی جس سے خدا کی راہ میں ہجرت کے موقعہ پر ہاتھ دھو کر روانہ ہو گئے تھے۔ اور یہ تصور بھی ان کے دماغ میں کروٹیں لے رہا تھا کہ جس ایمان نے ان کی زندگی میں یہ انقلاب پیدا کر دیا ہے، وہ انہیں کس انداز سے خدا کے گھر کی طرف لے آیا ہے۔ جو گھر بنی نوع آدم کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ بفحوائے: واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وآمنا (125:2) (اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم !) بنی اسرائیل کو وہ وقت بھی یاد دلاؤ جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا مرجع اور امن کی جگہ ٹھہرا دیا۔) ابھی تک وہ منظر بھی ان کی نظر سے اوجھل نہ ہوا تھا، جب انہیں اس مقدس فرض کے ادا کرنے سے سالہا سال سے رد کر دیا گیا۔ آج وہ کس قدر خوش تھے کہ ذرا دیر بعد اس متبرک سر زمین میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہوں گے! ان شاء اللہ امنین محلقین رء وسکم و مقصرین لا تخافون (27:48) ان شاء اللہ تم مسلمان مسجد حرام میں کسی خوف و خطر کے بغیر باطمینان تمام داخل ہو گے (وہاں جا کر) (کچھ تو) اپنا سر منڈواؤ گے اور (کچھ فقط) بال ہی کترواؤ گے۔ مکہ سے قریش کی روپوشی: مسلمان شہر میں داخل ہوئے تو اس سے پہلے قریش مکہ سے روپوش ہو گئے۔ کسی نے (قریبی) پہاڑوں میں خیمے نصب کر لیے، کوئی درختوں کی آڑ میں جا چھپنا۔ بعض کوہ ابو قبیس پر چڑھ گئے، کسی نے حرا میں پڑاؤ ڈال لیا۔ الغرض سب مرد و زن ندامت سے منہ چھپانے کے لیے گرد و نواح کی پہاڑیوں میں دبک گئے۔ روپوشی کے ساتھ قریش کا ہر فرد مسلمانوں کی طرف تاک لگائے دیکھ رہا تھا کہ جن لوگوں کو دھتکار کر مکہ سے نکال دیا تھا، آج وہ اس شان و شوکت کے ساتھ شہر میں داخل ہو رہے ہیں۔ مکہ میں مسلمانوں کا داخلہ: جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کی مشایعت میں مکہ کی شمالی سمت میں شہر میں داخل ہوئے۔ آپ کے ناقہ (قصوائ) کی مہار حضرت عبداللہ بن رواحہ ہاتھ میں لیے ہوئے آگے چل رہے تھے۔ پیدل اور سوار دونوں قسم کے رفقاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں اور پشت کی جانب سے حلقہ میں لیے ہوئے۔ کعبہ نظر آیا اور تمام مسلمانوں نے بیک زبان لبیک لبیک پکارا۔ ان کے دل اور روح دونوں خدائے ذوالجلال کی طرف راغب اور فرط عقیدت و جذبہ محبت سے خدا کے اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد حلقہ بنے ہوئے جسے خدا نے ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب رکھے۔ تاریخ عالم میں اس منظر کی مثال تلاش کرنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ اس نظارہ نے ان سنگ دل مشرکوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچ لیے، جن کا رواں رواں بتوں کی بندگی کے لیے وقف تھا۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں! لبیک! لبیک! (حاضر! حاضر!) کی گونج کانوں کے پردوں سے چھن کر دلوں میں اتر گئی اور استعجاب و حیرت میں ڈوب گئے۔ بیت اللہ میں تشریف آوری: قصواء بیت اللہ کے دروازہ پر آ پہنچی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چوکھٹ پر تشریف لائے تو ردائے احرام کا ایک پلہ دائیںبغل سے نکال کر بائیں کندھے پر رکھ لیا اور یہ دعا پڑھی: اللھم ارحم امراً اراھم الیوم من نفسہ قوۃ! یا اللہ! اس شخص پر رحم فرمائیو جو دشمن کے سامنے وقار سے آئے۔ عمرہ کے اعمال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن یمانی سے مس فرمانے کے بعد حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر کعبہ کے سات طواف کیے، جن میں پہلے تین طواف میں تیز رفتار اور مابقی چار طواف معمولی رفتار کے ساتھ۔ ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہزار رفقا اسی طرح قدم بہ قدم ادائے اعمال میں مصروف تھے۔ قریش کوہ ابو قبیس پر کھڑے ہوئے جھانک رہے تھے اور اس منظر پر حیران۔ ذرا دیر پہلے انہوں نے آپس میں یہ گفتگو کی تھی کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھکے ماندے سے ہیں! لیکن جب طواف میں ان کی پھرتی (تیز رفتاری) دیکھی تو ان کے دل سے پہلا خیال دور ہو گیا۔ عمرہ کے موقعہ پر رزمیہ اشعارپر تادیب: مکہ میں داخل ہونے کے موقعہ پر ناقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساربان حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے رزمیہ اشعار پڑھنا شروع کر دئیے۔ (جس سے) پہلے حضرت عمرؓ نے انہیں روکا اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا: مھلا یا بن رواحۃ و قل لا الٰہ الا اللہ وحدہ نصر عبدہ واعز جندہ وخذل الاحزاب وحدہ۔ اے ابن رواحہؓ! ان شعروں کے بجائے یہ کہو ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی نے اپنے بندے (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نصرت فرمائی۔ اس کے لشکر کو عزت بخشی اور غزوۂ خندق میں عرب فوجوں کو شرم سار کر کے ناکام واپس فرمایا۔ سیدنا ابن رواحہؓ کے ساتھ مسلمانوں نے بھی یہ کلمات دہرائے۔ ان کی آواز سے دشت و جبل گونج اٹھے اور پہاڑ میں دبکے ہوئے مشرکوں کے دل ہیبت سے کانپ اٹھے۔ تکمیل عمرہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء طواف کعبہ سے فارغ ہو کر کوہ صفاپر تشریف لائے۔ صفا و مروہ کے درمیان بحسب دستور سات مرتبہ گردش (سعی) فرمائی۔ مروہ کے قریب قربانی ذبح کر کے سر کے بال منڈوائے اور عمرہ سے فراغ حاصل ہوا۔ سقف کعبہ پر اذان: دوسرے روز بیت اللہ میں تشریف لائے۔ کعبہ میں بدستور بت موجود تھے۔بایں ہمہ حضرت بلالؓ نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہو کر اذان کہی اور رسول اللہ نے اپنے دو ہزار صحابہ سمیت ظہر کی نماز ادا کی۔ یہی کعبہ ہے جس میں انہیں سات برس تک عبادت کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ قرار داد حدیبیہ کے مطابق تین روز تک مکہ میں قیام فرمایا۔ قریش روپوش ہو کر پہاڑوں میں دبکے ہوئے تھے۔ مسلمان شہر کے ہر گلی کو چے میں چلتے پھرتے اور کوئی شخص ان سے معترض نہ ہوتا۔ مہاجرین اپنے چھوڑے ہوئے گھروں کو دیکھنے کے لیے انصار کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے، جو ان کے ساتھ اسی طرح شہر میں گھومتے، جیسے وہ بھی مکہ ہی کے رہنے والے ہیں۔ مسلمانوں میں سے ہر ایک کا چلن اسلامی سیرت کا نمونہ تھا۔ نمازیں ادا کر رہے ہیں، جن سے نفس کا غرور دب رہا ہے۔ ان میں سے تنومند اپنے ضعیف بھائی کو سہارا دے رہا ہے۔ تونگر محتاج کی مدد کر رہا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شفیق باپ کی مانند ان کے درمیان آ جا رہے ہیں، کسی سے مسکرا کر بات ہو رہی ہے، کسی کے ساتھ مزاح فرمایا جا رہا ہے اور مذاق بھی حقیقت کے خلاف نہیں۔ قریش اپنے دوسرے مکی یاران طریقت کے ساتھ پہاڑوں کی چوٹیوں سے جھانک جھانک کر دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ عالم کا یہ حیرت ناک منظر! اہل مکہ مسلمانوں کے طور طریقے دیکھ رہے ہیں کہ نہ شراب پی رہے ہیں، نہ برائی کا ارتکاب کر رہے ہیں، نہ خور و نوش کی کوئی شے انہیں فریب میں ڈال رہی ہے۔ کوئی فتنہ ان پر قابو نہیں پا سکتا۔ وہ خدا کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ فرمان الٰہی کی تعمیل ان کا شعار و دثار ہے جن مناظرمیں مخالفین کی جذب و کشش کا یہ سامان ہو، ایسے منظر تکمیل انسانیت کا حسین مرقع ہونے کی وجہ سے دیکھنے والوں کے دل میں واقعی کوئی اثر پیدا نہیں کر سکتے۔ سیدہ میمونہ کے لیے شرف تزویج: سیدہ میمونہ نے مسلمانوں کے اسی حسن کردار سے متاثر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقد کا تہیہ کر لیا۔ یہ بی بی سیدہ ام الفضل زوجہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب کی ہمشیرہ اور خالد بن ولید کی خالہ تھیں۔ ام الفضل نے وکالت حضرت عباسؓ ہی کے سپرد کی جسے رسول اللہؓ نے قبول فرما کر بعوض چار سو درہم (مساوی یک صد روپیہ سکہ حالیہ پاکستان۔ م) بہ مد حق مہر عقد فرما لیا۔ آج قرار دادحدیبیہ کے مطابق مکہ میں قیام کے تین روز ختم ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اپنے قریب لانے کے لیے دعوت (طعام) کرنا چاہی۔ جب قریش کے وکیل سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزی یہ پیغام لے کر آئے کہ آپ کی میعاد ختم ہو چکی ہے، اب شہر خالی کر دیجئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: میں آپ لوگوں کی شمولیت کی امید پر دعوت ولیمہ کرنا چاہتا ہوں۔ سہیل: ہمارے شہر سے نکل جائیے ہمیں آپ کی دعوت منظور نہیں۔ ادائے عمرہ کے دوران میں مسلمانوں کے اعمال و کردار نے اہل مکہ پر جو اثر پیدا کیا تھا اور جس سے ان کا غصہ ایک حد تک ٹھنڈا پڑ گیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ دعوت میں شریک فرما کر اس میں اور اضافہ کرنا چاہتے تھے۔ قضائے عمرہ کے بعد مکہ سے مراجعت: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے احترام معاہدہ کی غرض سے وکلائے قریش کے اس مطالبہ پر کوئی اعتراض نہ فرمایا۔ مسلمانوں کو مراجعت کا حکم دیا اور جس انداز سے مکہ میں داخل ہوئے تھے اسی شان سے رخصت ہوئے۔ آگے آگے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم قصواء (ناقہ) پر سوار ہیں۔ مشایعت میں دو ہزار مسلمانوں کا جم غفیر ہے۔ (اپنے غلام) ابو رافع سے فرمایا کہ ام المومنین میمونہؓ کو ہمراہ لائیں۔ پہلی شب (مقام) سرف میں گزاری۔ یہ مقام مکہ معظمہ سے چند میل کے فاصلے پر ہے اور ازدواج مطہرات میں سیدہ میمونہؓ آخری حرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے پچاس سال بعد تک زندہ رہیں اور وفات سے قبل سرف (مقام مذکور) ہی میں اپنی تدفین کی وصیت فرمائی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مراجعت پر ام المومنین کی دو بہنوں کو بھی اپنے ہمراہ مدینہ لائے۔ ایک کا نام سلمیٰ ہے۔ (سید الشہدائ) حمزہ کی بیوہ اور دوسری عمارہ (جو ابھی ناکتخدا تھیں۔) ورود مدینہ: مسلمان (مکہ سے) واپس لوٹ کر مدینہ میں آ پہنچے اور امن و سلامتی کے ساتھ رہنے لگے۔ رسول اللہ کو ان محرکات کی تاثیر میں کوئی شک نہ تھا جو عمرۃ القضاء نے قریش اور اہل مکہ کے دلوں میں پیدا کیے، نہ اس میں شبہ کہ ذرا ہی دیر بعد اس کے نتائج برآمد ہونے کو ہیں۔ خالد بن ولیدؓ کا حلقہ بگوش اسلام ہونا: اور عمرۃ القضاء کے تاثرات کا نتیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکہ سے مراجعت فرما ہونے کے بعد کا واقعہ ہے۔ قریش کے جانباز خالد بن ولید جنہوں نے غزوۂ احد میں لڑائی کا نقشہ بدل دیا تھا آج انہوں نے قریش کے مجمع میں اعلان فرما دیا: لقد استبان لکل ذی عقل ان محمداً لیس بساحر ولا شاعر وان کلامہ کلام رب العلمین فحق علی کل ذی لب ان یتبعہ۔ عقل مندوں پر واضح ہو چکا ہے کہ جناب محمد نہ شاعر ہیں نہ جادوگر ہیں۔ ان کا کلام رب العالمین ہی کی وحی ہے اور آپ کی اطاعت ہر شخص پر واجب ہے۔ اس مجمع میں عکرمہ (فرزند ابوجہل) بھی موجود تھے۔ انہوں نے خالد کی تردید میں کہاـ: تم نے ستارہ پرستوں کا مذہب اختیار کر لیا ہے۔ اور دونوں کے درمیان مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی: خالد: بلکہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ عکرمہ: بخدا! قریش کو یہ توقع نہیں کہ تم اسلام اختیار کر لو گے۔ خالد: آخر قریش کو میرے مسلمان ہو جانے کی توقع میں کیا مانع ہے؟ عکرمہ: (جناب محمد نے تمہارے والد (ولید) کو قتل کرایا، تماہرے چچا اور عم زاد برادر (انہی ) مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے۔ بخدا! اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو نہ اسلام قبول کرتا نہ ایسی گفتگو۔ خالد: یہ جاہلیت کی پرستاری ہے۔ مجھ پر حقیقت منکشف ہو چکی ہے اور میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ اور حضرت خالد بن ولیدؓ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنے اسلام کی اطلاع اور تحفہ میں کئی گھوڑے مکہ سے روانہ کیے۔ حضرت خالدؓ اور ابوسفیان کا مکالمہ: ابوسفیان نے جناب خالدؓ کے اسلام کی خبر سنی تو انہیں اپنے ہاں بلا کر دریافت کیا: ابوسفیان: (غضب ناک ہو کر) لات و عزیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر یہ صحیح ہے تو میں (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تجھ سے فیصلے کروں گا۔ خالد: کسی کو بھلی لگے یا بری معلوم ہو، یہ خبر بالکل صحیح ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں۔ ابو سفیان اپنے ساتھیوںکو لے کر خالدؓ پر پل پڑا۔ اتفاق سے عکرمہ بن ابوجہل بھی موجود تھے۔ انہوں نے ابو سفیان کا دامن کھینچتے ہوئے کہا: اے ابو سفیان! بخدا! جس خطرہ سے تم ڈر رہے ہو، اس سے میں بھی خائف ہوں۔ ورنہ خالد ہی کی مانند میں بھی کہتا اور اس کا دین قبول کر لیتا۔ اے ابو سفیان! مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایک سال کے اندر اندر تمام مکہ والے یہی دین قبول نہ کر لیں۔ عمرو بن العاص اور کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ کا قبول اسلام: حضرت خالدؓ کے بعد عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ بھی اسلام لے آئے۔ عثمان کعبہ کے کلید بردار تھے۔ ان دونوں حضرات کے سوا اہل مکہ میں بہت سے اور خوش نصیب حلقہ اسلام میں داخل ہوئے، جس سے اسلام کی شوکت میں اضافہ ہو گیا اور شہر (مکہ) نے خاتم الرسلؐ کے فاتحہ داخلہ کے لیے اپنے دروازے کھول دئیے، جس میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ ٭٭٭ باب 23 غزوۂ موتہ و غزوہ سلاسل اور دیگر غزوات اور سرایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ فتح کرنے کی عجلت بھی نہ تھی۔ آپ پر واضح ہو چکا تھا کہ اس معاملہ میں خود زمانہ آپ کی مساعدت کر رہا ہے۔ علاوہ ازیں صلح حدیبیہ کو پورا ایک سال منقضیٰ ہو جانے کے باوجود نہ تو مسلمانوں کی طرف سے کوئی ناگوار حادثہ وقوع میں آیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے یہ مترشح ہو سکا، اور کیسے ہو سکتا تھا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات سے اس قدر پابند وفا تھے کہ قول یا عمل دونوں میں کسی ایک سے بھی وعدہ کے خلاف عمل نہ فرماتے۔ عمرۃ القضاء سے واپسی پر کئی مہینے گزر گئے۔ اس دوران میں مندرجہ ذیل مناقشات رونما ہوئے: 1۔ سریہ بنو سلیم: رسول اللہ نے پچاس مسلمانوں کا ایک وفد قبیلہ بنو سلیم کی طرف تبلیغ کے لیے بھیجا اور اہل قبیلہ نے دھوکہ سے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ حسن اتفاق سے صرف ایک صاحب زندہ بچ کر آئے اور انہوں نے روئداد پیش کی۔ 2۔ سریہ بنو اللیث: مسلمان فتح یاب ہو کر کچھ غنیمت بھی ہمراہ لائے۔ 3۔ سریہ بنو مرہ: اس قبیلہ کی بد عہدی کی وجہ سے۔ 4۔ سریہ ذات طلحہ: اس قبیلہ کی طرف تبلیغ کے لیے پندرہ مسلمان بھیجے گئے۔ اہل قبیلہ نے رئیس وفد کے سوا مسلمانوں کو شہید کر دیا (یہ مقام ملک شام کی حدود میں واقع ہے۔) ملک شام کی طرف تبلیغ پر توجہ گرامی: صلح حدیبیہ کی بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے جنوبی سمت یعنی قریش مکہ کے افراد سے مطمئن ہو گئے۔ ادھر باذن عامل یمن کے اسلام قبول کر لینے سے جنوب کی طرف سے خطرات اور بھی کم ہو گئے۔ اب توجہ گرامی (مدینہ سے) شمال (صوبہ شام) میں اسلام پھیلانے پرمرکوز تھی۔ غزوۂ موتہ اور اس کے اسباب: عمرۃ القضاء سے واپسی کے بعد مدینہ میں چند ماہ قیام کے دوران میں دو حادثے پیش آئے: الف۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موضع ذات طلح میں جن پندرہ مسلمانوں کو تبلیغ کے لیے بھیجا، ان میں سے ایک کے سوا تمام حضرات کو شہید کر دیا گیا (ان کا نام کعب بن عمیر ہے) ب۔ اسی وقفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم ہرقل (یا اس کے عامل) شرجیل بن عمرو غسانی کی طرف (بصری) میں جناب حارث بن عمیر ازدی کو دعوت اسلام کے لیے بھیجا جنہیں عامل نے نہایت بے رحمی سے قتل کرا دیا (ان کے سوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور سفیر کو قتل نہیں کیا گیا۔ زاد المعاد : م) ظاہر ہے کہ نہ تو عامل بصری سے قصاص سے طلب کیے بغیر مفر تھا نہ ذات طلح کے مشرکوں سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار مسلمانوں کا لشکر اپنے مقتولوں کا قصاص لینے کے لیے متعین فرمایا۔ یہ معرکہ شام کے موضع موتہ (نہایہ ابن اثیر۔ م)میں پیش آیا جہاں مقابلہ میں لشکر کفار ایک لاکھ (بروایت دیگر دو لاکھ) کی تعداد میں تھا۔ عجیب معاملہ ہے کہ جس طرح حدیبیہ کی قرار داد مفاہمت عمرۃ القضاء کے وسیلہ سے فتح مکہ کا مقدر ثابت ہوئی ۔ اسی طرح موتہ کی (یہ) لڑائی غزوۂ تبوک (در حیات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مقدمہ ثابت ہونے کی وجہ سے پورے ملک شام کے فتح (بعہد عمر بن الخطابؓ) پر منتج ہوئی۔ بہرحال اس غزوہ (موتہ) کی علت عامل بصری(شرجیل) کے ہاتھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبلغ (حارث بن عمیرؓ) کا قتل ہوا یا ذات طلح میں کافروں کے ہاتھ سے چودہ مبلغین اسلام کی شہادت، دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں اسباب سہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین ہزار منتخب روزگار مسلمانوں کا لشکر مرتب فرمایا۔ جسے ماہ جمادی الاول 8ھ (629ع) میں حضرت زید بن حارثہؓ کی سپردگی میں دے کر فرمایا۔ کہ اگر زیدؓ کام آ جائیں تو سپہ سالاری جعفری (طیار) بن ابو طالبؓ کے سپرد ہو۔ یہ شہید ہو جائیں تو عبداللہ بن رواحہؓ افسر اعلیٰ مقرر ہوں۔ خالد بن ولیدؓ بھی اسی فوج میں تھے اور اپنے حسن اسلام کو حسن کردار سے ثابت کرنے کے لیے موقعہ کے منتظر۔ لشکریوں کو ہدایات: رسول اللہ امرائے جیش اور لشکر دونوں کو ہدایات فرماتے ہوئے شہر سے باہر (ثنیۃ الوداع: باضافہ۔م) تک تشریف لے آئے۔ یہاں پہنچ کر تمام لشکریوں کو متنبہ فرمایا کہ عورتوں، نابالغ و کم سن بچوں اور اندھوں کو قتل نہ کیا جائے، نہ کوئی مکان منہدم ہونے پائے اور نہ درخت کاٹے جائیں۔ 1؎ روانگی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مل کر دعا کی۔ آخر میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کے ساتھ الوداع فرمایا: صبحکم اللہ ودفع عنکم وردکم الینا المسلمین اللہ تمہاری مدد کرے! تم سے ضرر دور رکھے اور صحیح و سالم واپس لائے! لشکریوں نے اہل شام پر اچانک حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا، تاکہ فتح اور غنیمت دونوں حاصل ہوں۔ مسلمان مقام معان (شام) پر پہنچے تو غیر متوقع طور پر شرجیل (عامل بصری) کے لشکر جرار کے ساتھ آنے کی خبر سنی۔ اسے بھی مسلمانوں کے آنے کی خبر مل چکی تھی۔ یہ فوج شرجیل نے اپنے نواحی قبائل سے جمع کی تھی۔ ادھر سے ہرقل نے یونانی اور عرب فوجیں ریل دیں۔ 1؎ قال رسول اللہ صلعم: اغزوا بسم اللہ فی سبیل اللہ لاتغزوا ولا تغلوا ولا تقتلو ولیدا ولا امراۃ ولا کبیرا فانیا ولا منعزلا بصومعۃ ولا تقربو اتخلا ولا شجرۃ ولا تھذا موابناء : متن بعض روایات کے مطابق خود ہر قل کا آنا ثابت ہے اور اس کے ہمراہ ایک لاکھ رومی سپاہ کے علاوہ بنی لخم و بنی جذام و القین و بہرا وبلی قبیلوں کے ایک لاکھ سپاہی تھے اور ہرقل نے (علاقہ) بلقا کے مقام مآب میں ڈیرے ڈال دئیے۔ ایک اور روایت کے مطابق (ہرقل کی بجائے) اس کے بھائی تیو دور نے یہ لشکر جمع کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی تقریر: بہرحال جب مسلمانوں نے معان میں پہنچ کر دشمن کا ٹڈی دل دیکھا تو دو روز تک گومگو میں پڑے رہے کہ اتنے بڑے لشکر سے کس طرح عہدہ برآ ہوا جائے۔ ایک مسلمان نے یہ تجویز پیش کی کہ صورت حال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کیا جائے تاکہ کمک کے طور پر کچھ اور فوج بھجوائیں ورنہ جو حکم ہو تعمیل کی جائے۔ فوج اس تجویز پر کاربند ہونے کو تیار تھی کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓجو دلاوری میں یکتا اور فصاحت میں فرد روزگار تھے بول اٹھے: صاحبو! عجیب بات ہے کہ شہادت کے لیے آپ لوگ یہاں تشریف لائے اور اسی سے دور بھاگ رہے ہیں۔ دوستو! ہماری جمعیت تعداد و قوت پر منحصر نہیں بلکہ اس دین پر موقوف ہے، جس دین سے اللہ نے ہمیں دنیا میں ممتاز فرمایا ہے۔ اٹھو اور دشمن پر یلغار کر دو! فتح نہ ہو گی تو شہادت ہی کیا کم نعمت ہے۔! مقاتلہ: بلند ہمت شاعر کی تقریر نے تمام لشکر میں روح پھونک دی۔ سننے والے بیک زبان پکار اٹھے بخدا! ابن رواحہ نے بہت صحیح فرمایا ہے! مسلمان آگے بڑھے بلقا کی سرحد پر پہنچے تو دیکھا کہ قریہ مشارف کی وادی میں ہرقل کی رومی اور عربی فوجیں ڈیرے ڈالے پڑی ہیں۔ مسلمان موضع موتہ کی وادی کو مشارف سے محفوظ سمجھ کر ادھر ہٹ آئے اور معرکہ شروع ہو گیا۔ تین ہزار کا ایک یا دو لاکھ سے مقابلہ! جنگ کے شعلے پوری قوت کے ساتھ بھڑک اٹھے۔ مگر ایمان کی قوت اور دبدبہ ملاحظہ ہو۔ کہ حضرت زید بن حارثہؓ (سپہ سالار) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کردہ علم لیے ہوئے دشمن کی صفوں میں پیر نے لگے۔ انہیں یقین تھا کہ موت سے مفر نہیں، لیکن وہ اس موت کو شہادت فی سبیل اللہ سمجھتے اور مومن کی نظر میں موت کا درجہ فتح و کامرانی سے کم نہیں۔ حضرت زیدؓ اسی طرح موت سے کھیلتے ہوئے دشمن کے تیروں کی آماج گاہ بن گئے اور راہ خدا میں شہادت سے فائز ہوئے۔ جعفر طیارؓ کی شجاعت: یہ دیکھ کر جعفر بن ابو طالبؓ آگے بڑھے۔ علم اٹھا لیا۔ آج ان کا سن تینتیس سال کا تھا۔ قوی ہیکل نوجوان جس کا شباب اور ہیبت دونوں ایک سے ایک زیادہ! غنیم کی فوجوں میں دراتے ہوئے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد دشمنوں نے نرغے میں لے لیا۔ حضرت جعفر یہ دیکھ کر اپنے گھوڑے سے اتر پڑے۔ پہلے اس کی کونچیں کاٹیں، پھر تلوار سونت کر چومکھی لڑائی شروع کر دی۔ دشمنوں کے سر گاجر مولی کی طرح اڑانے لگے۔ علم ان کے دائیں ہاتھ میں تھا، جسے دشمنوں نے قلم کر دیا۔ جعفرؓ نے اسے بائیں ہاتھ میں لے لیا۔ کافروں نے یہ ہاتھ بھی کاٹ کر علیحدہ کر دیا۔ تب انہوں نے علم اپنے بازوؤں میں دبا کر سینے سے چمٹا لیا لیکن تابہ کے ! حضرت جعفرؓ شہید ہو گئے اور دشمن نے ان کے جسم کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت: حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے آگے بڑھ کر علم تھام لیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھے۔ دشمن کی صفوں کی طرف بڑھے۔ گھوڑے سے اترتے اترتے کسی گہری سوچ میں پڑ گئے، مگر ذرا دیر بعد سنبھلے تو یہ شعر پڑھتے ہوئے مقابلہ پر ڈٹ گئے: اقسمت یا نفس لتنزلنہ لنتزلن او لتکرھنہ ان اجلب الناس و شد والرنہ مالی اراک تکرھین الجنہ1؎ اور شہید ہو گئے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں شہید ہونا: تینوں سپہ سالار زیدؓ، جعفرؓ اور ابن رواحہؓ ایک ہی وقفہ میں یکے بعد دیگرے راہ خدا میں شہید ہو گئے۔ اس واقعہ کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو جعفرؓ اور زیدؓ کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا مجھے رویا میں تینوں حضرات کے سونے کے تختوں پر استراحت فرماتے ہوئے دکھایا گیا ہے، البتہ ابن رواحہؓ کا تخت ایک طرف ذرا سا جھکا ہوا سا دیکھا گیا! عرض ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیوں؟ فرمایا زیدؓ اور جعفرؓ تردد جنگ میں کود پڑے اور عبداللہ بن رواحہؓ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد آگے قدم بڑھایا۔ قارئین اس درس عبرت اور موعظہ حسنہ پر غور فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ مومن کے لیے خدا کی راہ میں موت سے ڈرنا جائز نہیں۔ اس کا فرض یہ ہے کہ جس بات پر اسے یقین ہو اور اس میں خدا کی رضا یا اس کے اپنے وطن کی بھلائی ہو تو ادنیٰ تامل کے بغیر جان ہتھیلی پر رکھ لے اور جو شخص اس کی راہ میں حائل ہو اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔ کامیابی کی صورت میں اس نے خدایا وطن کا حق ادا کر دیا اور شہید ہو جانے پر اس کی یاد ان لوگوں کی مانند ہے جو اس کی وفات کے بعد دنیا میں زندہ ہیں۔ ایسے اشخاص کی شہادت کے بعد ان کا یادکا زندہ رہنا ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ خدا کی راہ یا وطن کی بھلائی کے لیے جان دینے کے مقابلہ میں زندہ رہنے کی کوئی قیمت نہیں اور انسانیت کی سب سے زیادہ مذمت ہر قیمت پر زندہ رہنے کے جتن کی وجہ سے ہے۔ ایسی زندگی موت سے بدتر اور ایسے شخص کی موت کے بعد اس کے ذکر خیر کے کوئی معنی نہیں۔ 1؎ میں بہ قسم کہتا ہوں اے نفس تو پسند کرے یا نا پسند کرے تجھے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ دوست جوش و خروش سے آگے بڑھیں اور تو جنت میں جانے سے پہلو تہی کرے! اسی طرح جو شخص کسی ادنیٰ غرض کے لیے اپنی جان کو خطرہ میں مبتلا کر دے، وہ اپنی جان ناحق کھو بیٹھتا ہے، لیکن جب داعی برحق باطل کو مٹانے کی غرض سے پکارے اور سننے والے اپنی جان بچانے کے لیے منہ چھپاتے پھریں، تو ایسے لوگوں کی زندگی موت سے زیادہ ننگ و عار کا موجب ہے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ کی طرف دیکھئے۔ ایک لمحہ تامل کیا اور ان کے مقابلہ میں جناب زیدؓ و حضرت جعفرؓ ہیں، جنہوں نے تردد کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ درجہ شہادت جناب ابن رواحہؓ کو بھی نصیب ہوا اور حضرت زیدؓ و جعفرؓ کو بھی۔ لیکن ابن رواحہؓ کے لمحہ بھر تامل اور زیدؓ و جعفرؓ کے بلا تردد پیش قدمی کرنے سے درجات میں کس قدر تفاوت پیدا ہو گیا۔ ان کے مقابلہ میں ان لوگوں کو کیا کہئے جو جاہ و مال اور زندگی کے دوسرے مقاصد کے طمع میں ہمیشہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ناچیز و حقیر کیڑے ہیں، اگرچہ عوام میں ان کی کتنی ہی عزت کیوں نہ ہو اور مال و دولت میں قارون کی برابری کیوں نہ حاصل ہو جائے۔ انسان کے لیے اس سے زیادہ مسرت اور عزت اس میں ہے کہ جس امر کو وہ حق سمجھتا ہو اس کے برقرار رکھنے کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرے حتیٰ کہ جان نثار کرنے میں بھی اسے تامل نہ ہو یا اپنے مقصد ہی میں کامیاب ہو جائے۔ خالد بن ولید کی سپہ سالاری: حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے شہید ہو جانے پر قبیلہ بنو عجلان کے نامور جناب زید بن ثابتؓ نے علم اور زبان سے فرمایا اے مسلمانو! کس شخص کو اس منصب کے لیے منتخب کرتے ہو؟ سامعین نے کہا آپ ہی مناسب ہیں! زیدؓ کے انکار پر مسلمانوں نے (سیف اللہ) خالدؓ بن ولید کو تجویز کیا۔ خالدؓ سے مسلمانوں کی قلت تعداد اور ضعف قوت پوشیدہ نہ تھی۔ لیکن خالدؓ فوج کو لڑانے کے ماہر اور رزم گاہ کے نشیب و فراز کے سمجھنے میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ از سر نو فوج کو مرتب کیا۔ غروب آفتاب تک انہیں دشمن سے لڑاتے رہے مگر معمولی جھڑپیں، اور رات سر پر آ گئی۔ شب کے وقت حضرت خالدؓ نے جنگی چال چلی۔ فوج کی بھاری تعداد کو رزم گاہ سے دور چھپا دیا۔ یہ دستہ صبح ہوتے ہی نعرے لگاتا ہوا میدان جنگ میں آ کر مسلمانوں سے مل گیا۔ دشمن کے تصور میں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تازہ کمک تھی۔ ان کے دل دہل گئے کہ مسلمانوں کی تین ہزار فوج نے کل کس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے کتنے آدمی موت کے گھاٹ اتار دئیے۔ اب تو انہیں اور کمک پہنچ گئی ہے! کہیں انہیں شکست سے دوچار نہ ہونا پڑے! مگر اصلی راز کافروں میں سے کسی کو معلوم نہ ہو گا۔ جنگ کا خاتمہ: روسی فوجیں خالد بن ولیدؓ کے داؤ پیچ سے گھبرا ٹھیں۔ انہیں حملہ کرنے کی جرأت نہ رہی۔ وہ جہاں کھڑے تھے بھجکے سے وہیں کھڑے رہے۔ مسلمانوں نے دیکھا دشمن آگے نہیں بڑھتا اور انہوں نے وقار و تحمل کے ساتھ مدینہ کی طرف اپنا رخ پھیر دیا۔ بیشک مسلمانوں کو فتح حاصل نہ ہوئی مگر دشمن بھی کامیاب ہو کر نہ لوٹا۔ رزم گاہ موتہ کے غازی مدینہ میں: حضرت خالدؓ فوج کے ہمراہ مدینہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید معرکہ حضرت جعفرؓ کے (کم سن) صاحبزادے عبداللہ کو ان کے گھرسے بلا کر گود میں اٹھا لیا۔ ادھر بعض جوشیے مسلمانوں نے لشکریوں کے منہ پر دھول پھینک کر کہا اے مفرورین (فرارین)! تم جہاد فی سبیل اللہ سے بھاگ آئے! رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا یہ فرار نہیں بلکہ کرار ہیں ان شاء اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اظہار اطمینان کے باوجود واپس آنے والے مسلمانوں کے متعلق مسلمان یہی سمجھتے رہے کہ وہ بہت بڑے قصور وار ہیں۔ یہاں تک کہ (جناب) سلمہ ابن ہشامؓ نے اسی طعن (یا فرار! فررتم فی سبیل اللہ!) سے ڈر کر مسجد میں آنا ترک کر دیا۔ اگر شرکائے موتہ کو اپنی شجاعت اور ان کے سپہ سالار خالدؓ کو اپنی دلاوری اور حسن تدبیر پر ناز نہ ہوتا تو انہیں فراری کا طعنہ اپنے حق میں تسلیم کرنا پڑتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا حزن و ملال: حضرت زیدؓ اور جعفرؓ کی موت سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم غم میں ڈوب گئے اور یہ خلش آپ کے دل میں پیوست ہو ہی گئی۔ جعفرؓ کے ہاں تشریف لائے۔ ان کی اہلیہ (جناب) اسماء ؓ (بنت عمیس) آٹا گوندھ رہی تھیں۔ بچوں کو نہلا دھلا کر ان کے بالوں میں تیل لگا رکھا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو پیار کر کے انہیں سینے سے لگا لیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ گیا۔ا سماء چوک اٹھیں۔ عرض کیا میرے ماں باپ نثار ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کہیں جعفرؓ اور ان کے دوستوں کے متعلق کوئی خبر تو نہیں آئی؟ فرمایا وہ شہید ہو گئے! اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے! بی بی (اسمائؓ) نے گریہ و بکا سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ عورتیں جمع ہو گئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دولت خانہ پر تشریف لے آئے اور اہل بیت سے فرمایا جعفرؓ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اور آل جعفرؓ رونے دھونے میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کرو۔ اسی اثناء میں حضرت زید بن حارثہؓ کی صاحب زادی آ پہنچیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوؤں پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کر دیا۔ شہدائے موتہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گریہ و زاری دیکھ کر مسلمان بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مفہوم کا ایک جملہ ارشاد فرمایا یہ رونا اپنے گم شدہ رفیق کے فراق میں ہے۔ ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت جعفرؓ کی لاش مدینہ میں لائی گئی۔ خالد اور مسلمانوں کے مدینہ واپس آ جانے سے تین روز بعد دفن کئے گئے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو گریہ و بکا سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ جعفرؓ کو ان کے دو بازوؤں کے عوض میں دو پردار بازو دئیے گئے ہیں، جن سے وہ جنت میں اڑ کر سیر کر رہے ہیں (انہی پروں کی مناسبت سے حضرت جعفر طیار (یعنی پرواز کرنے والے) کے لقب میں مشہور ہوئے۔ م) غزوۂ ذات سلاسلـ: حضرت خالد بن ولیدؓ کی غزوۂ موتہ سے واپسی کو چند ہفتے گزر گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے شمالی عرب (شام) میں مسلمانوں کی از سر نو دھاک بٹھانے کے لیے عمرو بن العاصؓ کو بھیج کر حکم دیا کہ راستے میں اہل عرب کو اپنی امداد کی غرض سے ہمراہ لے لیں۔ اس توقع پر کہ حضرت عمرو (سپہ سالار دستہ) کی والدہ کے میکے اس نواح میں تھے۔ اس رشتہ کی وجہ سے اس خطہ کے باشندے (غیر مسلم بھی۔ م) مسلمانوں کی اعانت پر آمادہ ہو سکتے تھے۔ لیکن جونہی مسلمان جذاب کے ایک چشمے سلسل (نام) پر پہنچے، حضرت عمرو ڈر گئے اور کمک کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قاصد روانہ کیا۔ جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب ابو عبیدہ الجراحؓ کی سپہ سالاری میں مہاجرین کا ایک دستہ بھیج دیا۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر بن الخطابؓ بھی اس دستہ میں شامل تھے۔ مبادا عمرو ان (ابوعبیدہؓ) سے اختلاف کر بیٹھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہؓ اور عمروؓ دونوں کو اختلاف سے منع فرما دیا اور یہی ہونے کو تھا کہ اگر آخر الذکر تحمل نہ فرماتے۔ عمرو بن العاصؓ نے ابو عبیدہ سے کہا میں امیر جیش ہوں اور آپ میری اعانت کے لیے تشریف لائے ہیں۔ ابوعبیدہؓ بہت نرم دل اور بردبار تھے۔ مناصب کے بھی طلب گار نہ تھے۔ عمروؓ سے فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کو اختلاف سے منع فرما دیا ہے۔ اگر آپ میری اطاعت کرنے پر رضا مند نہیں تو میں آپ کی فرماں برداری کے لیے بسر و چشم حاضر ہوں۔ نمازوں میں بھی حضرت عمروؓ ہی امامت فرماتے حتیٰ کہ لشکر آگے بڑھا۔ اہل شام جو لڑائی کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے، منتشر ہو گئے۔ اور ان کے یوں بھاگنے سے گرد و نواح میں مسلمانوں کی ہیبت بیٹھ گئی۔ اس اثناء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اہل مکہ کے معاملہ پر بھی غور فرمایا کیے لیکن آپ کے نزدیک صلح حدیبیہ کی پابندی بہت اہم تھی، جیسا کہ گزشتہ صفحوں میں لکھا جا چکا ہے (جس میں دو سال کی مدت متعین تھی) اس وقفہ میں دور و نزدیک کے جو گروہ مسلمانوں پر حملہ کی سازش کرتے ان کی سرکوبی کے لیے دستے بھیج دئیے جاتے جن میں زیادہ صعوبت نہ تھی۔ قبائلی وفود کی اطاعت: اسی اثناء میں گرد و نواح سے مختلف قبائل از خود مدینہ حاضر ہوئے اور اپنی اپنی اطاعت کا قبالہ (خدمت رسالتؐ میں) پیش کیا کہ دفعتہ ایک حادثہ رونما ہوا جو فتح مکہ کا مقدمہ بن گیا اور اسلام کے دائمی استقرار و عظمت کا موجب ثابت ہوا۔ ٭٭٭ باب24 فتح مکہ و تطہیر کعبہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کا لشکر غزوۂ موتہ سے واپس لوٹ آیا۔ اس جنگ میں فتح ہوئی نہ شکست، تاہم مسلمانوں نے اس واپسی کو اپنے حق میں بھلائی سے تعبیر کیا۔ دوسری طرف حضرت زیدؓ (بن حارثہ) و جناب جعفر بن ابو طالبؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی شہادت نے مختلف طبقات پر مختلف اثرات چھوڑے۔ 1۔ اہل روم پر مسلمانوں کی شجاعت کا اثر: الف۔ باجوودیکہ عیسائی ایک (یا دو) لاکھ کی تعداد میں تھے اور مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تک تھی، لیکن رومیوں نے مسلمانوں کی طرف سے جنگ سے دست برداری کو اپنے حق میں بے حد غنیمت سمجھا۔ ب۔ یا شاید اس لئے کہ مسلمانوں کے چوتھے سپہ سالار (خالد بن ولیدؓ) کے ہاتھوں میں نو تلواریں ٹوٹیں اور اس پر بھی ان کی ہمت میں فرق نہ آیا۔ ج۔ یا شاید اس لئے کہ لڑائی کے دوسرے روز حضرت خالدؓ نے اپنے لشکر کو دو حصوں میں منقسم کر کے رومیوں کے دل میں یہ خوف پیدا کر دیا کہ ان کے حریف کے لئے مدینہ سے مزید کمک آ گئی ہے۔ د۔ یا شاید اس لئے کہ شام کے نواحی قبائل بھی مسلمانوں کی شجاعت دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ہ۔ یا شاید اس لئے کہ قیصر روم کے ماتحت عرب فوجوں کے سپہ سالار فزوہ بن عمرو (الجذامی) مسلمان ہو گئے، جنہیں بادشاہ کے فرمان سے خیانت کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا اور ہرقل نے انہیں دوبارہ مسیحی مذہب اختیار کر لینے پر بدستور منصب و جاہ پر فائز رہنے کا موقعہ دے دیا۔ لیکن جناب فزوہ اس سودے پر راضی نہ ہو سکے اور انہیں قتل کرا دیا گیا۔ و۔ اوریا شاید اس لئے کہ صوبہ نجد میں جو عراق و شام کی سرحد پر واقع اور ہرقل کے ماتحت تھا، اسلام کا اثر و نفوذ شروع ہو گیا۔ رومیوں کے تاثرات کا محور یہ اسباب (از الف تا و) یا ان میں سے کوئی ایک یا اور زائد امور تھے۔ البتہ وہ عرب جو ہرقل کے ماتحت مشرقی روم میں آباد تھے، ان کے اسلام کی طرف مائل ہونے کا دوسرا سبب ہے۔ ہوا یہ کہ رومی فوج میں جو عرب رضا کارانہ شامل ہو کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ ایک موقع پر رسد تقسیم کرنے والے رومی اہل کار نے اعلان کر دیا کہ رضا کار فوج سے نکل جائیں۔ بادشاہ سلامت کی طرف سے صرف سرکاری فوج کے لئے راشن ہے۔ حتیٰ کہ سرکار کے پالتو کتوں کے لئے بھی کچھ مہیا نہیں کیا جا سکتا! اس سے رضا کار بدگمان ہو گئے۔ اور رومی لشکر سے علیحدگی اختیار کر لی۔ عجب نہیں کہ جس وقت یہ لوگ قیصر سے بد دل ہو کر اس کے لشکر سے نکلے ہوں، اس لمحہ میں دین جدید کی روشنی نے ان کی رہنمائی کی ہو اور حقیقت ان کی دست گیری کر کے انہیں منزل مقصود پر لے آئی ہو، کیوں کہ اسی وقفہ میں مندرجہ ذیل قبائل میں سے ہزاروں خوش نصیب دولت اسلام سے مالا مال ہوئے: 1۔ قبیلہ بنو سلیم اپنے سردار عباس بن مرداس کی رہبری میں، 2۔ قبیلہ اشجع، 3۔ یہود کے حلیف بن غطفان، جن کے مسلمان ہو جانے سے خیبر میں مقیم یہودیوں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، 4۔ قبیلہ بنو عبس، 5۔ قبیلہ ذبیان اور 6 ۔ قبیلہ بنو فزارہ۔ غزوۂ موتہ عرب کے شمال میں تابہ (ملک) شام مسلمانوں کے اثر و نفوذ کا سبب ثابت ہوا، جس سے اسلام کی قوت و شوکت میں اور اضافہ ہو گیا۔ 2۔ اور اہل مدینہ پر مسلمان فوجوں کا فتح کے بغیر لوٹنے کا اثر: رومیوں پر جو اثر ہوا اس کے خلاف مسلمانوں اور ان کے سپہ سالار حضرت خالدؓ کے سرحد شام سے فتح کے بغیر لوٹ آنے کا یہ اثر ہوا کہ انہوں نے برملا (لوٹنے والوں سے) یا فرار! فررتم فی سبیل اللہ! (اے مفرورین! تم جہاد فی سبیل اللہ سے بھاگ آئے!) کہنا شروع کر دیا۔ جس سے لشکر کے کچھ دلاور بھی شرمندہ ہو کر گھروں میں چھپگ ئے تاکہ عمر اور نوجوان مسلمانوں سے فرار کا طعنہ نہ سنیں۔ 3۔ اور قریش پر غزوۂ موتہ کے نتائج کا اثر: انہوں نے اس حد تک اسے مسلمانوں کی شکست اور ذلت سے تعبیر کیا کہ ان میں سے کسی شخص کو مسلمانوں کے ساتھ کیے ہوئے عہد و پیمان کا پاس نہ رہا۔ قریش اس پر بھی آمادہ ہو گئے کہ ہو سکے تو عمرۃ القضاء کے پہلے کی فضا قائم کر لی جائے بلکہ صلح حدیبیہ ہی کو پس پشت ڈال کر بلا خوف قصاص (جناب ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حلیف قبیلوں پر یلغار شروع کر دی جائے۔ قریش کی طرف سے قرار داد حدیبیہ کا خلاف: صلح حدیبیہ کی ایک شرط میں تھا کہ اہل عرب فریقین میں سے جس فریق کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہیں دوسرا فریق اس میں حائل نہ ہو گا۔ اس قرارداد کے مطابق بنو خزاعہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور قبیلہ بنو بکر، قریش کے حلیف بن گئے لیکن بنو خزاعہ اور بنو بکر دونوں کے درمیان پشتینی عداوت چلی آ رہی تھی، جو صلح حدیبیہ کے بعد بظاہر ٹھنڈی پڑ گئی اور دونوں فریق ایک دوسرے سے قریب نظر آنے لگے۔ لیکن غزوۂ موتہ نے جہاں قریش کے دل میں مسلمانوں کی شکست کا خیال پیدا کر دیا، وہاں بنوبکر کے دل میں بھی یہی گرہ لگا دی اور بنو خزاعہ کے متعلق ان کی پشتینی عداوت کا ناسور بہہ نکلا۔ وہ موقعہ غنیمت سمجھ کر بنو خزاعہ سے انتقام پر تل گئے۔ قریش مکہ میں سے عکرمہ بن ابوجہل نے انہیں شہہ دی (بلکہ بھیس بدل کر ان کے ساتھ حملہ میں شریک ہوئے۔ م) قریش کے بعض سرغنوں نے بنو بکر کی مدد اسلحہ سے کی اور ایک شب کو جب بنو خزاعہ کے بہت سے افراد و تیر نامی گھاٹ پر نیند میں ڈوبے ہوئے تھے، بنو بکر کی شاخ بنی الدئل نے ان پر شب خون مار کے ان کے کئی آدمی موت کے پہلو میں سلا دئیے۔ جو بچ گئے بھاگ کر مکہ میں بدیل بن ورقا کے گھر میں آ چھپے اور ان سے کہا قریش اور بنوبکر دونوں نے (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ ختم کر دیا ہے۔ قبیلہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن سالم فوراً مدینہ پہنچا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے اندر مسلمانوں کے حلقہ میں تشریف فرما تھے۔ وہ بنوبکر کی بد عہدی اور حملہ کا ماجرا بیان کرنے کے بعد امداد کا طلب گار ہوا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اے عمرو! تمہاری اداد کی ہی جائے گی! عمرو بن سالم خزاعی کے بعد بدیل بن ورقا نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ میں آ کر قریش کی بنو بکر کو خفیہ امداد کا تذکرہ عرض کیا۔ آخر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رائے قائم کر لی کہ قریش کی طرف سے قرار داد حدیبیہ کے نقض کی تلافی مکہ فتح کیے بغیر نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزدیک اور دور کے مسلمانوں کی طرف یہ پیغام بھیج دیا کہ ہر شخص جہاد کے لئے کمر بستہ رہ کر دوسرے حکم کا انتظار کرے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی یہ رائے کسی پر ظاہر نہ ہونے دی کہ چڑھائی کہاں ہو گی۔ قریش کے دل میں خطرہ: آخر اس حادثہ کے چند روز بعد مدینہ میں قریش کو عکرمہ اور اس کے نوجوان ہمراہیوں کی غلطی کے احساس نے اپنی طرف سے صلح کے خلاف ارتکاب کرنے کی بناء پر پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ ان پر ثابت ہو چکا تھا کہ عرب میں رسول اللہ کا اثر و نفوذ عام ہو چکا ہے۔ اس تصور نے ان کے خوف میں اور بھی اضافہ کر دیا اور وہ اس فکر میں پڑ گئے کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ان کے مدبرین نے طے کیا کہ ابوسفیان کو وفد کے ہمراہ بھیجا جائے تاکہ حدیبیہ کی دو سالہ میعاد کو دس سال تک بڑھایا جا سکے۔ ابوسفیان (مقام) عسفان میں پہنچے تو بدیل ابن ورقا سے ملاقات ہوئی ابو سفیان کے دل میں یہ بات کھٹک گئی کہ ہو نہ ہو بدیل (جناب) محمد ہی کے ہاں سے آ رہا ہو۔ اس نے مکہ کا تمام ماجرہ انہیں سنا دیا ہو گا! یہ تو غصب ہو گیا، مگر بدیل صاف مکر گئے۔ ابو سفیان نے ان کے ناقہ کی مینگنی سے پہچان لیا کہ وہ مدینہ ہی سے آرا ہیں۔ ابوسفیان اپنی صاحب زادی ام المومنین ام حبیبہؓ کے دولت خانہ پر: ابوسفیان مدینہ پہنچے تو سیدھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے کی بجائے، ادھر ادھر کی سن گن لینے کا منصوبہ بنا کر اپنی دختر ام المومنینؓ حضرت ام حبیبہؓ کے دولت خانے پر آئے۔ قریش کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحجانات کا اندازہ ام المومنینؓ کو بھی تھا۔ لیکن آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ پر اطلاع نہ تھی۔ اپنے والد کو آتا دیکھ کر ام المومنینؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر سمیٹ لیا۔ ابو سفیان نے کہا کیا یہ بستر تمہارے باپ کے شایان نہیں یا تمہارا باپ اس بستر پر بیٹھنے کے قابل نہیں؟ فرمایا یہ بستر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے آپ مشرک نجس ہیں مجھے گوارا نہیں کہ آپ اس بستر سے مس کریں! ابوسفیان جھلا کر بولے بیٹی ! میرے بعد تمہیں شر سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غضب ناک ہو کر ام المومنینؓ کے دولت خانہ سے باہر آئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مدت صلح میں توسیع کی استدعا کی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثبت یا منفی کوئی جواب نہ دیا۔ ابوسفیان حضرت ابوبکرؓ کے ہاں باریاب ہوئے کہ ان سے سفارش کرائیں۔ انہوں نے بھی انکار فرما دیا۔ یہاں سے جناب عمر بن الخطابؓ کے ہاں پہنچے۔ انہوں نے فرمایا میں اور تمہارے لئے سفارش!البتہ تماہرے ساتھ جنگ کرنے میں برائے نام فائدہ کی توقع بھی ہو تو اس سے دریغ نہ کروں گا۔ ابوسفیان دولت کدۂ علی بن ابی طالب ؑ میں: سیدہ فاطمہؓ بھی تشریف فرما تھیں۔ ابوسفیان کی اسی درخواست پر بی بی نے نہایت نرم انداز میں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کا ارادہ فرما لیتے ہیں تو اس سے کوئی شخص آپ کو نہیں روک سکتا۔ ابوسفیان: مجھے حسنؓ (بن علیؓ) کی پناہ میں دے دیا جائے۔ سیدۃ الزھراؓ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی دشمن کسی کو پناہ نہیں دے سکتا۔ علیؓ: ابوسفیان تمہارے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ چونکہ تم بنوکنانہ کے سردار ہو، مدینہ سے کسی مناسب مقام پر کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ صلح قائم ہے۔ اور اس کے بعد فوراً واپس چلے جاؤ۔ ابوسفیان کا از خود توسیع صلح کا اعلان: ابوسفیان مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچے اورکھڑے کھڑے یہ کہہ کر کہ صلح قائم ہے۔ مکہ کی راہ لی۔ لیکن ان کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ خصوصاً اپنی صاحب زادی جناب ام حبیبہؓ کے برتاؤ سے۔ ابوسفیان کو یہ ندامت بھی کھائے جا رہی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے سے قبل جو لوگ ان کی رضا و کرم کے منتظر تھے وہ لوگ آج کس طرح پیش آئے۔ ابوسفیان مکہ میں: مکہ پہنچ کر ابوسفیان نے مدینہ کی سرگزشت من و عن بیان کر دی، لیکن جب مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں کھڑے ہو کر اپنی طرف سے توسیع صلح کے اعلان کاتذکرہ کیا تو ان کے حواریوں نے کہا تم سمجھے نہیں، علیؓ نے تمہارے ساتھ مذاق کیا۔ اس کے بعد مدبرین قریش آئندہ کے لئے تدبیر کار پر غور کرنے بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور فتح مکہ کی تیاری: باوجودیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوت اور اللہ کی طرف سے نصرت کا بھروسہ تھا پھر بھی آپ نے قریش مکہ کو مہلت دینا مناسب نہ سمجھا تاکہ وہ مقابلے کے لئے اس طرح تیاری نہ کر سکیں جس کی مدافعت دو بھر ہو جائے حتیٰ کہ قریش مقابلہ کے بغیر ہتھیار ڈال دیں۔ پہلے آپ نے صرف جہاد کے لئے تیار ہو جانے کا حکم فرمایا۔ دوسرے درجہ میں اعلان فرما دیا کہ مکہ پر چڑھائی ہے۔ مسلمانو! تیزی سے بڑھے چلو! اور اللہ سے دعا کی کہ اہل مکہ کو مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہونے پائے۔ حاطب بن ابی بلتعہ (مہاجر) کی طرف سے مخبری: جب مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے حضرت حاطب بن ابو بلتعہ مہاجر مکی نے قریش کی طرف خط لکھ کر سارہ (نام) کنیز کے حوالے کیا۔ یہ بنو عبدالمطلب کے اک صاحب کی باندی تھیں۔ حاطب نے ان (کنیز) کے معاوضہ بھی متعین کر دیا۔ اس خط میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مکہ پر چڑھائی کی مخبری تھی۔ جناب حاطب سرکردہ مسلمانوں میں سے تھے لیکن انسان ہی تو ہے جو کبھی ایسے ادنیٰ مقاصد کے لئے کھو جاتا ہے۔ کہ اگر ہی کام کوئی اور شخص کرے تو اسے بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاطب کی مخبری کی اطلاع مل گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علیؓ اور زبیرؓ دونوں کو (خبر رساں) سارہ کے تعاقب کا حکم دے کر فرمایا جاؤ! اور اس سے خط حاصل کرو! سارہ کی گرفتاری پر اس کے سامان سے خط برآمد نہ ہوا تو حضرت علیؓ نے دھمکا کر فرمایا اگر خط ہمارے حوالے نہ کیا گیا توہم جامہ تلاشی لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ سارہ نے گھبرا کر علیؓ سے ادھر کی طرف منہ پھیر لینے کی استدعا کی اور خط اپنی مینڈھیوں سے نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔ دونوں حضرات اطلاع نامہ لے کر مدینہ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کو بلا کر جواب طلب فرمایا۔ حاطب نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرا ایمان خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جس طرح سے تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ صرف یہ کہ میرے بال بچے ابھی تک مکہ میں گھرے ہوئے ہیں اور وہاں میرا کوئی عزیز و قرابت دار نہیں! (باضافہ: اس اطلاع سے صرف اپنے اہل و عیال کے لئے قریش کی ہمدردی مطلوب تھی۔ زاد المعاد ابن القیم ۔۔۔م) حضرت عمرؓ نے استدعا کی یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم !حاطب منافق ہو گیا ہے۔ مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت فرمائی جائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اے عمرؓ! حاطب غزوۂ بدر میں شریک تھے اور اللہ نے شرکائے بدر کے گناہوں پر قلم عفو کھینچ دیا ہے۔ اس واقعہ پر یہ وحی نازل ہوئی: یایھا الذین امنو لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودہ (1:60) مسلمانو! اگر ہماری راہ میں جہاد کرتے اور ہماری رضا مندی ڈھونڈنے کی غرض سے (اپنے وطن چھوڑ کر نکلے) تو ہمارے اور اپنے دشمنوں (یعنی کافروں) کو دوست مت بناؤ کہ لگو ان کی طرف دوستی (کے نامہ و پیام) دوڑانے۔ مکہ کی طرف کوچ: اسلامی لشکر نے (مدینہ سے) کوچ کر دیا تاکہ مکہ فتح کر کے اس گھر کی زیارت کا اذن عام کر دے، جسے خدا نے ازل سے امن و پناہ کا گہوارہ قرار دے رکھا ہے۔ مدینہ کے رہنے والوں نے کبھی اتنی تعداد میں فوج نہ دیکھی تھی۔ اس لشکر میں مہاجرین و انصار کے سوا بنو سلیم تھے، بنو مزینہ اور غطفان کا جم غفیر تھا۔ ان کے علاوہ اور لوگ بھی شامل تھے۔ چمکیلی زرہیں پہنے ہوئے انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے صحرا کی سطح پر عجیب نظارہ پیدا کر دیا۔ ریگستان میں جہاں خیمے نصب ہوتے، دیکھنے والوں کی نظر زمین پر نہ پڑ سکتی۔ ہزاروں کی تعداد میں فوج تیز رفتاری سے مکہ کی طرف چلی جا رہی تھی۔ جوں جوں آگے بڑھتے آس پاس کے مسلمان قبائل بھی لشکر میں شامل ہوتے جاتے۔ قدم قدم پر تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہر ایک کے دل میں یقین تھا کہ اللہ کے سوا انہیں کوئی مغلوب نہیں کر سکتا۔ فوج کے آگے (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما تھے، اس فکر میں ڈوبے ہوئے کہ خداوند! کسی طرح خون کا ایک قطرہ بہانے کے بغیر ہم بیت اللہ میں داخل ہو جائیں۔ اسلامی لشکر نے (مقام) مر الظہران(مکہ سے ایک منزل دور) میں پڑاؤ کیا تو ان کی تعداد دس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ قریش ان کی آمد سے محض بے خبر تھے۔ وہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہ کر سکے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کا مداوا کیوں کر کیا جائے۔ سیدنا عباسؓ کا قبول اسلام: حضرت عباسؓ قریش کو اس ضغطے میں چھوڑ کر اپنے چند قبیلہ داروں کے ہمراہ مقام حجفہ (مکہ سے تراسی میل) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے 1؎ جب کہ بنو ہاشم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر پہلے سے اطلاع تھی۔ بنو ہاشم ہر قیمت پر مسلمانوں کی یلغار سے خود کو بچانا چاہتے تھے۔ 1؎ عباس کے اسلام لانے کے معاملہ میں دو مختلف خیال ہیں: الف۔ سیر نویسوں کا ایک گروہ: اس لاقات کی کڑی (مقام) رابغ سے ملاتا ہے۔ رابع یا حجفہ دونوں میں سے کوئی مقام سہی ان حضرات کے نزدیک حضرت عباسؓ اسی وقفہ میں اسلام لائے۔ ب۔ دوسرا گروہ: جناب عباس فتح مکہ سے پہلے مدینہ تشریف لے گئے اور اسلام لانے کے ساتھ ہی اس لشکر کے ہمراہ مکہ آئے۔ لیکن (ب) کی تردید میں کہا جاتا ہے کہ یہ روایت خلفائے عباسیہ کی خوش نودی حاصل کرنے کے لئے وضع کی گئی۔ فریق (ب) کی اس حمایت کی پشت ر یہ دلیل بھی ہے کہ قبل از ہجرت ان کا مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاس داری ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے تھی۔ لیکن حضرت عباسؓ اپنے اسلام کا اظہار اور مکہ سے ہجرت اس لئے نہ کر سکے کہ مبادا ان کی تجارت اور سودی لین دین تباہ ہو جائے۔ اس بارے میں فریق (ب) کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اگر عباسؓ کا فتح مکہ سے قبل مسلمان ہونا تسلیم کر لیا جائے تو وہ اس وفد میں ضرور شامل ہوتے جو صلح حدیبیہ کی توسیع کے لئے مدینہ میں حاضر ہوا تھا۔ اسی طرح ابوسفیان بن حارث (رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عم زاد برادر) اور ابو سفیان و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ ہر وونے نبق العقاب (نام مقام) پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریابی کی التجا کی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرما دیا۔ عبداللہ ام المومنین ام سلمہؓ کے برادر حقیقی تھے۔ سیدہ ممدوحہ اس سفر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت میں تھیں۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو سفیان (بن حارث) آپ کے برادر عم زاد ہیں۔عبداللہ سے آپ کا دوہرا ناتا ہے۔ وہ میرے بھائی اور آپ کے پھوپھی زاد ہیں۔ فرمایا میرے عم زاد برادر نے میری تذلیل میں کوئی کمی رہنے دی؟ اور اس پھوپھی زاد نے مکہ میں مجھے کیسا رسوا کیا! بی بی تم رہنے دو، میں ان سے در گزرا۔ ابو سفیان نے رسول اللہ کی برہمی کا حال سن کر کہا: واللہ لیوذنن لی اولا خذن بید بینی ھذا ثم لنڈھبن فی الارض حتیٰ نموت عطشا وجوعا بخدا! اگر آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے باریابی کا موقعہ نہ دیا تو میں اپنے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر صحرا میں نکل جاؤں گا اور بھوکا پیاسا مر جانے کو ترجیح دوں گا۔ ابوسفیان کی رقت کا ماجرا سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا۔ دونوں کو شرف باریابی بخشا، دونوں کا جرم معاف فرما دیا اور دونوں مسلمان ہو گئے۔ سیدنا عباسؓ کی اہل مکہ کے لئے سفارش عفو حضرت عباسؓ اپنے عالی منزلت برادر زادہ کی فوجی قوت اور ولولہ سے بے حد متاثر ہوئے۔ اگرچہ وہ خود اسلام لا چکے تھے مگر (انہوں نے) غازیوں کی کثرت سے اندازہ کر لیا کہ پورے عربستان میں جس لشکر کے مقابلہ کسی کو تاب نہیں اہل مکہ اس سے کیوں کہ عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ عباسؓ اس سے چند ہی ساعت قبل مکہ سے آئے تھے۔ جہاں ان کے اہل و عیال اور دوست احباب سب موجود تھے۔ انہیں پوری طرح یقین تھا کہ اسلام اپنے مقابلہ میں کمزور اشخاص سے قطع کرنے کا روادار نہیں۔ عباسؓ نے اہل مکہ کے متعلق اپنا اضطراب ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا اگر قریش طالب امان ہوں؟ ممکن ہے کہ ان کے برادر زادہ کو اپنے عم بزرگوار کی تقدیم کلام پسند آئی ہو۔ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عباسؓ سے متعلق یہ غور فرمایا کہ انہیں بطور سفیر قریش کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اس حد تک قریش کو مرعوب کر لیں کہ کشت و خون کے بغیر پر امن طور سے مکہ پر قبضہ ہو جائے اور وہ جس طرح ازل سے امن و سلامتی کا گہوارہ چلا آ رہا ہے، آج بھی اس کی سلامتی میں خلل نہ آنے پائے۔ جناب عباسؓ حضرت رسالت مآب ؐ کے ناقہ بیضا پر سوار ہوئے اور گزرگاہ اراک پر ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کا (عباسؓ کے ارشاد کے مطابق) اس راہ سے آنے کا منشا یہ تھا کہ اگر کوئی لکڑ ہارا یا شیر فروش یا کوئی شخص مکہ میں جانے والا نظر آ جائے تو اس کے دل میں ایسے انداز سے مسلمان فوجوں کی کثرت اور ولولہ کا یقین پیدا کیا جائے جس سے وہ شخص از خود اہل مکہ کو ذرا دے اور شہر پر حملہ ہونے سے قبل قریش رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر امن کی درخواست پیش کریں۔ (جناب عباسؓ کو علم تھا کہ) جب سے مسلمانوں نے(مقام) مر الظہران پر ڈیرے ڈالے ہیں، قریش اس اطلاع کے بغیر اپنے مستقبل سے گھبرا رہے ہیں کہ ان کے خیال میں خطرات ان کے قریب آ چکے ہیں۔ قریش کا وفد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور: قریش نے پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے تین نامور مدبروں کا وفد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا: 1۔ ابوسفیان بن حرب اموی، 2۔ بدیل بن ورقائ، 3۔ حکیم بن حزام (تینوں حضرات ام المومنین خدیجہ کے قرابت دار تھے) راستے میں بھی یہ لوگ مسلمانوں کی خبریں سننے کے لئے گوش بر آواز تھے اور خطروں کی وجہ سے ان کے دل میں بیٹھے جا رہے تھے۔ حضرت عباسؓ نے راستہ چلتے ہوئے ان کی یہ گفتگو سن لی۔ ابوسفیان: آج رات میں نے اس قدر روشنی اور اتنی فوج دیکھی کہ اس سے قبل کبھی یہ اتفاق نہ ہوا تھا۔ بدیل: قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بنو خزاعہ ہیں جو لڑائی کے لئے آئے ہیں۔ ابوسفیان: بنو خزاعہ کی کیا حقیقت ہے نہ وہ اتنی فوج جمع کر سکتے ہیں نہ ایسی آگ روشن کر سکتے ہیں۔ وفد قریش کی حضرت عباسؓ سے اتفاقیہ ملاقات: سیدنا عباسؓ نے ابو سفیان کو ان کی آواز سے پہچان لیا اور انہیں ان کی کنیت ابو حنظلہ سے پکار کر فرمایا: تمہارا برا ہو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر جرار لے کر آ پہنچے۔ا گر کل دن چڑھے مکہ میں داخل ہو گئے تو تمہارا کیا حشر ہو گا! ابو سفیان: میرے باپ تم پر نثار! کوئی تدبیر؟ سیدنا عباسؓ نے بدیل و حکیم دونوں کو مکہ واپس لوٹا دیا اور ابوسفیان کو اپنے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ پر سوار کر کے اسلامی لشکر کی طرف روانہ ہوئے۔ مسلمان ناقہ کے اعزاز میں خود بخود راستہ بناتے گئے۔ دونوں (سوار) دس ہزار لشکر کے درمیان ہوتے ہوئے نکلے۔ مسلمانوں نے اہل مکہ کو مرعوب کرنے کے لئے آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کر رکھے تھے۔ جب حضرت عمرؓ کے الاؤ کے قریب سے گزرے، انہوں نے دونوں کو دیکھ کر اندازہ کیا کہ ابوسفیان جناب عباسؓ کی پناہ میں ہیں تو ان سے تعرض کرنے کے بجائے رسول اللہ کے خیمے میں حاضر ہوئے اور ابو سفیان کے قتل کرنے کی اجازت طلب کی۔ حضرت عباسؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کو میں اپنی ضمانت پر لایا ہوں۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ عباسؓ اور عمرؓ دونوں میں تیز گفتگو ہو رہی تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ سے فرمایا اس وقت انہیں اپنے خیمے میں لے جائیے اور صبح کے وقت پیش کیجئے۔ رسول خدا اور صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان کی گفتگو: صبح ہوتے ہی مجرم پیش ہوا۔ مہاجرین و انصار دونوں گروہ موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو سفیان! ابھی تک تیرے لئے خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا وقت نہیں آیا؟ ابوسفیان: جناب پر میرے ماں باپ نثار! اس ذات برحق کی قسم جس نے آپ کی ذات میں تحمل و کرم اور صلہ رحم جیسی صفات سمو دی ہیں، اگر ایک خدا کے سوا اور کوئی خدا ہوتا تو آج وہ کچھ نہ کچھ تو میری حمایت کرتا! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم :ابھی وہ وقت نہیں کہ تو مجھے خدا کا رسول تسلیم کر سکے؟ ابوسفیان: جناب پر میرے ماں باپ نثار! اس ذات برحق کی قسم جس نے آپ کی ذات میں تحمل و کرم اور صلہ رحم جیسی صفات سمو دئیے ہیں۔ میں آپ کو اس کا رسول تسلیم کرنے میں ابھی متامل ہوں۔ اس موقعہ پر حضرت عباسؓ نے سبقت فرما کر ابو سفیان کو زجر کی اور فرمایا ابوسفیان! قیل و قال چھوڑ کر لا الہٰ الا اللہ محمد الرسول اللہ کا اقرار کر لو، ورنہ تمہاری گردن مار دی جائے گی۔ اور ابو سفیان اسلام لے آئے اس مرحلہ پر حضرت عباسؓ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ابو سفیان کو اس پر فخر کا موقعہ مل جائے گا اگر ان کے اعزاز میں کچھ فرما دیا جائے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں پناہ گزیں ہو جائے یا اپنے ہی گھر کا دروازہ بند کر کے اندر چھپ جائے یا بیت اللہ میں داخل ہو جائے ان میں سے کسی شخص سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ کیا مذکورۃ الصدر واقعات اتفاق سے پیش آئے؟ مورخین اور سیر نویس ان واقعات کے ظہور پر متفق ہیں۔ البتہ بعض اہل تاریخ فرماتے ہیں کہ ان واقعات کو حسن اتفاق کی بجائے پہلے سے طے شدہ کیوں نہ سمجھ لیا جائے؟ الف۔ کیا حضرت عباسؓ واقعی اپنے گھر(مکہ) سے مدینہ جانے کے ارادہ سے نکلے اور (مقام) حجفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات حسن اتفاق سے ہو گئی؟ ب۔ آج وہی بدیل بن ورقاء جو چند ہفتہ قبل مدینہ گئے تھے تاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو خزاعہ کی سرگزشت سنا کر آپ کی نصرت حاصل کر سکیں اپنے (بنو خزاعہ) کے دشمن ابو سفیان کے شامل مسلمانوں کی جاسوسی کے لئے بھی آئے؟ ج۔ کیا ابو سفیان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کا علم نہ تھا کہ یہ لشکر مکہ فتح کرنے کے لئے لائے ہیں؟ د۔ کیا عباسؓ و ابو سفیان دونوں نے پہلے سے اس موقعہ پر ملاقات کا منصوبہ بنا رکھا تھا جہاں بدیل بن ورقاء اور حکیم بن حزام کے ساتھ عباسؓ کی مڈ بھیڑ ہوئی کہ ادھر وہ (عباسؓ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کر کے آ جائیں گے اور ادھر (مکہ کی طرف سے) ابوسفیان آ کر انہیں اسی راہ میں ملیں گے؟ دوسرا احتمال (ب) صحیح ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ جب ابوسفیان میعاد صلح کی توسیع کے لئے مدینہ گئے مگر پذیرائی نہ ہوئی تو انہیں پوری طرح یقین ہو گیا کہ قریش مکہ کا (جناب) محمد پر غالب آنے کا دور ختم ہو چکا ہے۔ آج ابو سفیان نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں مکہ فتح ہونے کا یقین کر لیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں (ابوسفیان) نے مکہ میں اپنی سیادت قائم رکھنے کا منصوبہ بھی سوچ لیا۔ آج ابوسفیان نے محسوس کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ اپنے ان یاران وفادار کے سوا کسی پر منکشف نہیں ہونے دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانا اپنے لئے حیات جاوید سمجھتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس موقع پر جب وہ (ابوسفیان) عباسؓ کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر ہوئے تو سیدنا عمرؓ نے ان کے قتل کرنے کا تہیہ کر لیا لیا۔ مگر ان واقعات کے متعلق دونوں قسم کی روایات موجود ہیں، اس لئے دونوں جہتوں میں سے قطعیت کے ساتھ کسی ایک کی تائید اور دوسری کی تردید میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ یہ امر حتمی ہے کہ مذکورۃ الصدر تمام حوادث اتفاق سے رونما ہوئے ہوں یا ان میں سے بعض از روئے اتفاق اور بعض سوچی سمجھی تجویز کے مطابق یا علی السبیل النتزل اس سلسلہ کی کوئی کڑی (جناب ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان کے کسی خفیہ سمجھوتہ کے مطابق منسلک ہوئی ہو۔ دونوں میں سے کوئی حیثیت سہی لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فتح مکہ جیسی اہم ترین کامیابی جو کسی خونریزی یا مقابلہ کے بغیر وقوع میں آئی، تاریخ کے ان اہم ترین حوادث میں سے ہے، جن سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال مہارت اور زیر کی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ داخلہ مکہ پر حسن تدبیر: بیشک نصرت و کامیابی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے یوتیہ من شیاء 1؎ لیکن خدا بھی اسی کی مدد کرتا ہے جو حسن تدبیر و موقع شناسی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر قابض ہونے کے لئے صرف ابوسفیان کو اس تنگ و رہ پر روک کر کھڑے رہنے کا حکم دیا جہاں سے اسلامی لشکر کو گزرنا تھا تاکہ مسلمانوں کی تعداد اور قوت سے خود متاثر ہونے کے ساتھ اپنی قوم کو بھی ان سے ڈرائیں اور اہل مکہ میں سے کسی کو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ رہے۔ ابوسفیان کے سامنے سے ہو کر مسلمانوں کے ایک قبیلہ کا دستہ گزرتا گیا، لیکن انہوں نے صرف ایک دستے کے متعلق دریافت کیا جس کا علم سبز رنگ کے کپڑے سے بنا ہوا تھا۔ اس دستہ میں مہاجرین و انصار دونوں کے شمشیر زن شامل تھے۔ ان میں سے ہر سپاہی ایسی زدہ اور خود میں لپٹا ہوا تھا کہ آنکھوں کے سوا بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آتا۔ ابوسفیان نے مسلمانوں کا یہ کروفر دیکھ کر سیدنا عباسؓ سے عرض کیا اے عباسؓ! آج کسی کو اس لشکر کے مقابلہ کی تاب نہیں۔ یہ خدا کی شان ہے اے ابو الفضل! تمہارے برادر زادہ کی بادشاہت قائم ہو گئی ہے! یہ کہہ کر ابو سفیان قریش کی طرف بڑھے اور ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارا2؎: یا معشر قریش! ھذا محمد قد جاء کم فی مالا قبل لکم بہ البتہ اے قریش! (جناب) محمد ایسا لشکر جرار لے کر پہنچے ہیں جس کا تم مقابلہ نہیں کر سکتے۔ 1؎ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے مالا مال کر دیتا ہے۔ 2؎ حضرت عباسؓ نے فرمایا بات یہی ہے جو تم نے کہی لیکن ابو سفیان!یہ بادشاہت نہیں بلکہ نبوت ہے (زاد المعاد ابن القیم فصل فی الفتح العظیم:م) البتہ! من دخل دار ابی سفیان فھو آمن ومن اغلق علیہ الباب فھو آمن ومن دخل المسجد فھو آمن! جو شخص ابو سفیان کے گھر میں جا چھپے، جو کوئی اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اس کے اندر چھپ جائے اور جو شخص بیت اللہ میں پناہ گزیں ہو، ان کے لئے بھی معافی ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم لشکر ہمراہ لے کر آگے بڑھے۔ (مقام) ذی طویٰ میں پہنچ کر دیکھا کہ اہل مکہ کو مقابلہ میں آنے کی ہمت نہیں۔ فوج کو توقف کا حکم فرما کر خود سواری ہی پر حضور خداوندی میں سجدۂ شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے رسول کے لئے اول محیط وحی کے دروازے کھلوا دئیے اور مومنین کے لئے اطمینان و سکون کے ساتھ بیت اللہ میں آ جانے کی راہ پیدا کر دی۔ ابوبکرؓ کے والد ابو قحافہ کا واقعہ: ابو قحافہ نے جو ابھی تک مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے اور کبر سنی کے باعث بینائی سے بھی محروم ہو چکے تھے، اس موقع پر اپنی نواسی سے کہا بیٹی! میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کوہ ابو قبیس پر لے چلو۔ جب دونوں پہاڑ پر پہنچے تو صاحب زادی ایک طرف غور سے دیکھنے لگیں۔ ابو قحافہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے بچی اس سمت میں کوئی اجنبی شے دیکھ رہی ہے دریافت پر صاحب زادی نے عرض کیا کچھ سیاہی سی نظر آ رہی ہے ابو قحافہ نے کہا سیاہی تھوڑی ہے یہ تو لشکر ہے !لڑکی نے دیکھا تو سیاہی غائب ہو چکی تھی۔ عرض کیا ارے سیاہی کیا ہوئی؟ ابو قحافہ: وہ لشکر تھا جو مکہ میں داخل ہو گیا۔ اے بیٹی! خدارا مجھے جلدی گھر پہنچا دو۔ ابو قحافہ کے گھر پہنچنے سے قبل لشکر مکہ میں داخل ہو گیا۔ اسی مقام پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن ان آثار فتح کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی احتیاط و تدابیر کو اس طرح مدنظر رکھا کہ پہلے تو لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرمان عام کے طور پر سمجھا دیا کہ مجبوری و اضطرار کے سوات (مدافعت کے طور پر) نہ کسی پر حملہ کیا جائے نہ کسی کی خوں ریزی روا رکھی جائے۔ اور لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس ترتیب سے داخلہ کا فرمان صادر ہوا: 1۔ مکہ سے شمالی دروازے سے، حضرت زبیر بن العوام: میسرہ کو ہمراہ لے کر 2۔ پائین شہر سے، حضرت خالد بن ولید، میمنہ کے ساتھ 3۔ غربی سمت سے، سیدنا سعد بن مبادہ (انصاری) اہل مدینہ کو لے کر 4۔ جبل ہند کے سامنے والی راہ سے، حضرت ابو عبیدہ ہمداع کو پیادہ اور نہتے مہاجرین کی سپہ سالاری دے کر ۔خاتم المرسلین بھی اس دستہ کے ہمراہ تھے۔ نعرۂ قتال پر سعد بن عبادہ کی معزولی دستوں کی روانگی کے ساتھ ہی حضرت سعد بن عبادہؓ کی زبان سے جوش انتقام میں آ کر یہ جملہ نکل گیا: الیوم یوم الملحلمہ! الیوم! تستحل الحرمہ! آج گھمسان کا رن پڑنے کو ہے جس میں کعبہ کی حرمت بھی بالائے طاق رکھ دی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ سعد بن عبادہؓ کے نعرہ کا مفہوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا تقیض تھا کہ مسلمان اضطرار کے بغیر نہ تو اہل مکہ میں سے کسی پر ہتھیار اٹھائیں نہ خون ریزی ہونے پائے۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا کہ سعد سے علم ضبط کر کے ان کے فرزند قیسؓ کو تفویض ہو۔ جناب قیسؓ (ابن سعد) قوی ہیکل ہونے کے ساتھ بردبار بھی تھے۔ اہل مکہ کا ایک دستہ پر حملہ: اسلامی لشکر کے تین دستے کسی تعرض کے بغیر اپنے اپنے مقررہ راستوں سے شہر میں داخل ہو گئے مگر حضرت خالدؓ کے دستہ کو دفاع کے بغیر چارہ نہ رہا۔ پائین شہر میں داخل ہونے والے پہلے ہی سے مورچہ سنبھالے بیٹھے تھے۔ یہ بدنصیب مکہ کے دوسرے لوگوں کے مقابلہ پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں بہت زیادہ دیوانے واقع ہوئے تھے۔ انہی لوگوں نے مسلمانوں کے حلیف (قبیلہ ) بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی حمایت کا ارتکاب کیا تھا۔ آج انہوں نے اپنے سردار ابوسفیان کے اعلان اطاعت کو پس پشت ڈال کر مقاتلہ کی تیاری کر لی۔ محلہ کے چند آدمی ادھر ادھر کترا گئے مگر ان کی کثیر تعداد مورچہ سر جم کر موقعہ کا انتظار کرنے لگی۔ ان کے سرغنہ صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابوجہل تھے۔ جونہی حضرت خالدؓ کا دستہ قریب پہنچا، انہوں نے تیروں کی باڑھ چھوڑ دی۔ لیکن خالد بن ولیدؓ کے جوابی حملے سے لمحہ بھر میں تیرہ اور بروایت دیگر اٹھارہ مقتول چھوڑ کر تتر بتر ہو گئے۔ مسلمانوں کے دو ایسے آدمی شہید ہوئے جو دستہ سے بچھڑ جانے کے وجہ سے کفار میں گھر گئے تھے۔ سپہ سالاران کفار صفوان و سہیل اور عکرمہ نے خود کو خالدؓ کے نرغے میں دیکھا تو ان کی جنگی مہارت اور شجاعت کے خوف سے اپنی اپنی جان بچا کر ادھر ادھر سرک گئے اور اپنے جن ہمراہیوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو تیروں کے نشانے پر رکھ لیا تھا انہیں اسلام کے بطل عظیم خالد بن ولیدؓ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضطراب: ادھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جبل ہندی کی برابر والی پہاڑی پر مہاجرین کے دستہ کی معیت میں تشریف فرما ہوئے اور اس تصور سے نہایت مسرور تھے کہ بارے خدا مکہ معظمہ امن و سلامتی سے سر ہو گیا، لیکن جونہی شہر کی طرف دیکھا تو پائین مکہ میں تلواریں چمک رہی تھیں جن کے سائے میں خالدؓ کا دستہ خود کو دشمن سے بچا رہا تھا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم غم میں ڈوب گئے۔ ارے! میں نے تمہیں قتال سے منع کر دیا مگر تم نے وہی کر دکھایا! جب اصل واقعہ سے آگہی کے بعد سکون حاصل ہوا تب فرمایا شاید اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی مصلحت ہی ہو! نصب خیمہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جبل ہندی کے سامنے والے درہ اعلیٰ مکہ(نام) سے شہر میں داخل ہوئے (جس کے متصل ام المومنین سیدہ خدیجہؓ اور جناب ابو طالبؓ دونوں کے مزار ہیں) سید البشر صلوات اللہ علیہ کے لئے اسی کے قریب خیمہ نصب کیا گیا۔ لیکن شہر میں داخل ہونے سے قبل عرض ہوا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے آبائی دولت کدہ پر استراحت فرمائی کا قصد ہو تو اس کا انتظام کیا جائے فرمایا نہ آبائی گھر میں اترنا چاہتا ہوں نہ میرے قدر دانوں نے اسے میرے لئے باقی ہی رہنے دیا یہ فرمانے کے بعد اپنے مختصر سے خیمے میں تشریف لے گئے، قلب بے حد مسرور اور ہر بن مو زبان حال سے شکر خداوندی میں رطب اللسان کہ جو شہر میرے لئے سرا سر محن تھا، جس کے رہنے والوں کو جلا وطن ہونے پر مجبور کیا گیا، آج مجھے اس شہر میں ان مظلومین کی معیت میں فاتحانہ غلبہ کی توفیق عنایت فرمائی۔ ختم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم نے وادی پر نگاہ دوڑائی، ارد گرد کے پہاڑوں کی طرف دیکھا تو شعب ابو طالب پر نظر رک گئی، جہاں قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے بنو ہاشم کا مقاطعہ کر کے انہیں دھکیل دیا تھا۔ یہاں سے نظر اچٹی تو وہ کوہ ابو قبیس پر آ کر رکی۔ اسی پہاڑ کے ایک غار میں برسوں گوشہ نشینی کے کیف و کم میں محورہے اور اسی پہاڑ کے غار (حرا) میں وہ پہلی وحی نازل ہوئی: اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم (1:96تا5) (اے پیغمبر! قرآن جو وقتاً فوقتاً تم پر نازل ہو گا اس کو ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھ چلو جس نے مخلوق کو پیدا کیا، (جس نے) آدمی کو گوشت کے لوتھڑے سے بنایا۔(قرآن) پڑھ چلو اور خدا پر بھروسہ رکھو کہ تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے (جس نے) آدمی کو قلم کے ذریعے سے علم سکھایا (اس نے وحی کے ذریعے سے بھی) انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اس کو معلوم نہ تھیں۔ ان پہاڑوں کے سلسلہ اور جابجا بکھری ہوئی وادیوں کے وسط میں شہر (مکہ) کی توبر تو حویلیوں کے درمیان بیت اللہ پر آ کر نظر رکی تو ذات باری کے کرم و رحمت کے تصور سے رقت طاری ہو گئی۔ حضور خداوندی میں جذبہ اظہار سپاس و تشکر کی وجہ سے آنسو بھر آئے ذہن میں گزرا کہ بے شک ! خدائے برحق ہی کے ساتھ ہر امر کی ابتداء و انتہا ہے۔ شہر میں داخلہ اور اعمال مبارک: اس امر پر انعطاف توجہ ہوا کہ اسلامی فوجوں کی مہم ختم ہو چکی۔ او رخیمہ میں زیادہ دیر تک استراحت فرما رہنے کی بجائے باہر تشریف لائے۔ (اپنے) ناقہ (قصوائ) پر سوار ہو کر بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ سواری ہی پر کعبہ کے سات طواف کیے۔ اپنی خم دار موٹھ والی چھڑی کی نوک رکن یمانی سے لگا کر چھڑی ہی کے ذریعے استلام (بوسہ دہی۔۔۔۔م) پر اکتفا فرمایا۔ کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ کو طلب فرما کر کعبہ کا دروازہ کھلوایا اور خود (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) دروازہ سے باہر تشریف فرما رہے۔ بیت اللہ کے وسیع ترین صحن میں لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریر فرمائی1؎ جس میں یہ آیہ مبارک پڑھی: یایھا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلنا کم شعوباً و قبائل لتعارافوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر(13:49) لوگو! ہم نے تم (سب) کو ایک مرد(آدم) اور ایک عورت (حوا) سے پیدا کیا اور پھر تمہاری ذاتیں اور برادریاں ٹھہرائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو (ورنہ) اللہ کے نزدیک تم میں بڑا شریف وہی ہے جو تم میں بڑا پرہیز گار ہے۔ بیشک اللہ جاننے والا باخبر ہے۔ مجرموں کے عفو عام کا اعلان: خطبہ کے بعد حاضرین مجلس (بیت اللہ) سے دریافت فرمایا: یا معشر قریش ماترون انی فاعل بکم؟ اے قریش! میری طرف سے تمہیں اپنے لئے کس سلوک کی توقع ہے؟ (باضافہ: اہل مکہ کے وکیل حدیبیہ سہیل بن عمرو) نے جواب میں عرض کیا: 1؎ تقریر: لا الٰہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ صدق وعدہ ونصر عبدہ و ہزم الا حزاب وحدہ لا اماثرۃ اودم اومال یدعی فھو تحت فدمی ماتبن الاسدانۃ البیت وسفایۃ الحاج الا وفصل الخطاء شبہ الصمد! ذات واحد کے سوا کوئی قابل پرستش نہیں۔ آج اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا جو اپنے بندے (رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ظفر یاب کیا اور دوسرے گروہوں کو شکست دلوائی۔ ہاں سنو! آج سے قبل اسلام کے تمام مالی اور فوجداری مطالبات کے دعاوی ناقابل سماعت ہونے کی وجہ سے میرے پیروں تلے روند کر رکھ دئیے۔ ماسوائے بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کے لئے پانی فراہم کرنے کی خدمت کے۔ ہاں! آج قتل خطا کی دیت بھی قتل شبہ عمد کے مساوی ہو گی۔ یا معشر قریش ان اللہ قد ذھب عنکم تخوۃ الجاھلیۃ و تعطمھا مالا باء الناس من آدم و آدم من تراب ثم تلاھذہ الایۃ یا ایھا الناس انا خلقنا کم الخ اے دوستان قریش! آج سے اللہ نے جاہلیت کی نخوت و برتری ختم کر دی۔ حسب و نسب کا غرور رخصت کر دیا۔ سنو! ہر انسان آدم کی اولاد ہے اور آدم کو مٹی سے خلق کیا گیا۔ آخر میں آپ نے آیہ یا ایھا الناس انا خلقنکم پڑھی۔ (م.....) خیراً! اخ کریم وابن اخ کریم! آپ ہمارے فیق برادر اور مہربان برادر کے فرزند ہیں۔ ہمیں آپ سے بھلائی ہی کی توقع ہے۔ فرمایا فاذھبوا! فانتم الطلقاء جہاں جی چاہے رہیے۔ آپ لوگ آزاد ہیں۔ دوستو! ایک ہی کلمہ قریش اور اہل مکہ کی جاں بخشی کا سبب بن گیا۔ یہ عفو عام اور دشمنوں پر پوری قدرت حاصل ہونے کے باوجود! ہر قسم کے جذبہ انتقام اور حسد و کینہ سے دامن بچا کر! آج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ازلی دشمنوں کی جان آپ کی مٹھی میں ہے۔ جلو میں دس ہزار مسلح جان نثاروں کا لشکر! ایک لفظ بزن سے سب کے سرتن سے جدا ہو سکتے ہیں اور دوسرے لفظ سے لمحہ بھر میں دشمنوں کی اس کمین گاہ کے سر بفلک محل زمین سے پیوست! لیکن یہ وجود گرامی انسان کا دشمن نہیں۔ یہ صاحب صد مدحت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، خدا کے نبیصلی اللہ علیہ وسلم! اخبار الٰہی کے مبین! عالم کے رسول! اور بندوں کو احکم الحاکمین کے احکام پہنچانے پر نام زد! آپ ان لوگوں میں سے نہیں جن کے دل میں لمحہ بھر کے لئے بھی بنی نوع بشر کے ساتھ دشمنی یا انتقام کا جذبہ ابھر سکے! نہ سخت گیر اور نہ متکبر!بے شک آج اللہ نے آپ کو آپ کے قدیم دشمنوں پر غالب فرما دیا، لیکن آپ نے ان پر پورے اختیار و قدرت کے باوجود انہیں معاف فرما کر تمام عالم کے سامنے عفو و احسان کی ایسی مثال پیش کر دی جس کی دوسری نظیر ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتی! ابن آدم میں اس کردار کا دوسرا نمونہ کہاں پائیے گا! تطہیر کعبہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں تشریف لے گئے۔ ہر طرف بتوں کی بھرمار دیکھنے میں آئی۔ دیواروں پر ملائکہ اور نبیوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ جن میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ کے ہاتھ میں فال کے تیر دکھائے گئے تھے۔ گویا خدا کے فرستادہ پیغمبر بھی فال ہی کے سہارے نبوت کی تبلیغ فرماتے ہیں! کاٹھ کا کبوتر بھی پرستش کے لئے موجود ہے، جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر پٹک کر توڑ ڈالااور جناب ابراہیم ؑ کی تصویر پر کچھ دیر تک نظر جمائے رکھنے کے بعد فرمایا ان پر خدا کی مار! انبیاء ؑ کے جد اعلیٰ کو فال پرست ٹھہرا دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ اور تیروں سے تفاول! (پھر فرمایا:) ما کان ابراہیم یھودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین (67:13) ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہمارے ایک فرماں بردار (بندے) تھے اور مشکروں سے(بھی) نہ تھے۔ ملائکہ کی تصویروں پر نظر ڈالی تو پری جمال نازنینوں کے روپ میں جلوہ ہار ہیں۔ فرمایا ارے! یہ غضب فرشتے تو مرد ہیں نہ عورت ان کو مٹا دینے کا حکم فرما کر جب اوپر نظر اٹھائی تو محراب کعبہ کے ہر طرف بت رکھے ہوئے دیکھے جنہیں دیوار کے ساتھ چونے سے جما دیا گیا تھا۔ ہبل وسط خانہ میں دھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک بت کی طرف چھڑی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت پڑھتے جاتے تھے اور بت منہ کے بل زمین پر گرتے جا رہے تھے: وقل جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کن زھوقا (18:17) اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دو (بس دین) برحق آیا اور (دین) باطل نیست و نابود ہوا اور (دین) باطل تو نیست و نابود ہونے والا ہی تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم آج سے بیس سال قبل جس مقصد کے لئے دعوت دے رہے تھے اور قریش جن بتوں کی حمایت میں اس پوری مدت تک سینہ سپر رہے، آج ان جھوٹے خداؤں، ان کی تصویروں او رمجسموں سے خدا کا گھر پاک ہو گیا۔ لوگوں کے سامنے ان کے معبودوں کی تصویریں کھرچ دی گئیں اور ان کے بالمواجہہ ان کے معبود اکبر ہبل اور اس کے حاشیہ برادر بتوں کے مجسمے اٹھوا کر باہر پھنکوا دئیے گئے۔ قریش حیران تھے کہ انہیں تو وہ اور ان کے بڑے بوڑھے حاجت روا سمجھے ہوئے تھے، انہیں کیا ہو گیا ہے کہ اپنی ذات سے بھی آفت کو دور نہیں کر سکے۔ انصار کو خدشہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی رفقاء ہر موقعہ پر شریک اور ہر منظر کو دیکھ رہے تھے۔ جب بیت اللہ کی تطہیر کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (کوہ) صفا پر کھڑے ہو کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو انصار کے دل میں یہ خیال ابھر آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولد پر فتح حاصل کر لی ہے۔ اب آپ مدینہ کیوں جانے لگے۔ حتیٰ کہ ان میں سے دو ایک حضرات نے آپس میں ایسی گفتگو بھی کی: آپ کی کیا رائے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مولد پر فتح حاصل کر لی ہے۔ آپ مدینہ تشریف لے جائیں گے یا مکہ ہی میں قیام فرمائیں گے؟ ان کے اس خدشہ کے لئے بظاہر اسباب کی کمی نہ تھی کہ آپ خدا کے رسول ہیں اور مکہ خدا کا گھر ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ختم کرنے کے بعد (انصار سے) دریافت کیا، پھر ان کے اظہار تردد پر فرمایا معاذ اللہ! تم لوگ کیا سمجھ رہے ہو! میرا ارادہ یہ ہو سکتا ہے! جس کی زندگی اور موت دونوں تمہارے ساتھ وابستہ ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اشارہ بیعت عقبہ کی طرف تھا، جس میں انصار کے ساتھ عہد و پیمان ہوئے تھے اور انصار نے بھی اپنی طرف سے وفاداری کا یقین دلا دیا تھا۔ وہ عہد و پیمان جنہیں وطن اور اہل و عیال ایک طرف مکہ جیسے مامن کی خاطر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بیت اللہ میں اذان صلوٰۃ تطہیر (کعبہ) کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ سقف کعبہ پر جا کر اذان کہیں۔ اذان کے بعد مسلمانوں نے آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی جو چودہ سو سال سے اسی بیت اللہ میں بلا انقطاع ادا کی جا رہی ہے۔ بلالؓ کی طرح ان کے قائم مقام موذن اور ان کے نائبین اپنے اپنے زمانہ میں یہ اذان پکار رہے ہیں۔ اسی بیت اللہ کے اندر دن رات میں پانچ مرتبہ مسجد الحرام کے مکبر پر سروقد کھڑے ہو کر اسی طرح نہ صرف جوار بیت اللہ بلکہ ہر جگہ کے رہنے والے مسلمان اللہ کی طرف سے عائد شدہ فریضہ صلوٰۃ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے میں عمل پیرا ہیں اور اسی بیت اللہ الحرام کی طرف منہ کر کے بارگاہ خداوندی میں خشوع و خضوع کے ساتھ جس گھر کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرنے پر بتوں کی نجاست سے پاک کر دیا۔ قریش مکہ کی سراسیمگی: قریش نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و کرم نے انہیں اپنی جانوں اور مال کے معاملہ میں پوری طرح مطمئن رکھا مگر انہیں اپنے سابقہ رویہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی طرف سے خوف کھائے جا رہا تھا۔ ناقابل معافی مجرموں کے لئے اذن قتل قریش میں سترہ ایسے مجرم بھی تھے، جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شفقت سے محروم کر کے واجب القتل قرار دیتے ہوئے فرما دیا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غلاف کعبہ کے نیچے چھپا ہوا ملے تب بھی اسے معاف نہ کیا جائے۔ جن لوگوں کے متعلق فرمان قتل نافذ ہوا ان میں سے بعض لوگ ادھر ادھر روپوش ہو گئے، بعض بھاگ کر مکہ سے دور چلے گئے، لیکن ان مجرموں کے ساتھ یہ برتاؤ کسی کینہ یا برہمی کی وجہ سے نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ذمائم (برے) اخلاق سے مبرا تھے، بلکہ ان بدنصیبوں نے خود اپنے اعمال کی وجہ سے یہ روز بد دیکھا۔ ان مجرموں میں مندرجہ ذیل اشخاص تھے: 1۔ عبداللہ ابن ابی سرح تھے جو مسلمان ہو جانے کے بعد کاتب وحی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کی طبیعت رنگ لائے بغیر نہ رہی۔ ترک اسلام کر کے قریش کے ہاں چلے آئے اور یہاں آ کر یہ ڈینگیں مارنے لگے کہ میں قرآن میں کمی بیشی کرتا ہوں۔ 2۔ عبداللہ ابن خطل یہ بھی اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو گیا اور مرتد ہونے کے بعد اپنے بے گناہ غلام کو قتل کر دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی دو کنیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کے قصائد سوز میں سننے سنانے کا مشغلہ بنا لیا۔ 3,4۔ مذکورۃ الصدر دونوں کنچنیوں کے لئے۔ 5۔ عکرمہ بن ابوجہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے حسد و دشمنی میں حد سے گزرے ہوئے۔فتح مکہ کے زمانے میں بھی حضرت خالد بن ولیدؓ کے دستے پر حملہ کر دیا۔ 6۔ صفوان بن امیہ۔ 7۔ حویرث بن نقیذ۔ جناب زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقعہ پر سیدہ کے درپے آزار ہوا۔ بی بی کی سواری کے جانور کو اس زور سے کونچا دیا کہ سواری بے تحاشا بھاگ اٹھی۔ سیدہ زمین پر گر پڑیں اور اسقاط ہو گیا۔ 8۔ مقیس بن حبابہ۔ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو کر مشرکوں کا ناصر و معین بن گیا۔ 9۔ ھبار بن اسود۔ 10۔ ہند بنت عتبہ (زوجہ ابو سفیان) سید الشہداء (عم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ) حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی۔ ان میں چار اشخاص کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ ابن اخطل، اس کی کنیز قریبہ، مقیس، حویرث باقیوں کی سرگزشت یہ ہے۔ 1۔ عبداللہ بن سرح: (نمبر ایک) حضرت عثمان کے سوتیلے رضاعی بھائی تھے۔ ممدوح اسے ہمراہ لائے۔ جاں بخشی کی سفارش پیش کی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر سکوت کے بعد معاف فرما دیا۔ 2۔ عکرمہ بن ابوجہل (نمبر5) کی اہلیہ سیدہ ام حکیم بنت الحارث اسلام لے آئی تھیں۔ عکرمہ فرمان قتل سن کر یمن کی طرف بھاگ گئے۔ ام حکیم نے اپنے شوہر کی جاں بخشی کی التجا کی اور قبول عرض کے بعد بی بی خود یمن کی طرف گئیں۔ 3۔ صفوان بن امیہ (نمبر6) بھی عکرمہ کے ہمراہ تھے۔ دونوں ایک کشتی میں سوار ہو کر یمن کی طرف جانے کے لئے پتوار کھول رہے تھے کہ بی بی ام حکیم جا پہنچیں اور جاں بخشی کے مژدہ سنا کر دونوں کو مکہ واپس لے آئیں۔ 4۔ سیدہ ہند (نمبر10) زوجہ ابوسفیان۔ فتح مکہ کا دوسرا خطبہ: فتح کے دوسرے روز بنو خزاعہ نے قبیلہ بدیل کے ایک مشترک کو اپنی سابقہ دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا۔ یہ خبر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے مجمع عام میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا: یا ایھا الناس ان اللہ حرم مکہ یوم خلق السموات والارض فھی من حرام الی یوم القیامۃ لا یحل لامرء یومن باللہ والیوم الاخران یسفک فیھا دما او یعضد فیھا شجراً لم تحلل لا حد کان قبلی ولا تحل لا حد یکون بعدی ولم تحلل لی الا ھذہ الساعۃ غضباً علی اھلھاثم رجعت کحر متھا بالامس فلیبلغ الشاھد الغائب فمن قال لکم ان رسول اللہ قد قاتل فیھا فقولوا ان اللہ قد احلھا الرسولہ ولم یحللھا لکم۔ دوستو! اللہ نے ازل ہی سے مکہ کی حرمت فرما دی اور تابہ قیامت بحال رکھی۔ جو شخص خداوند عالم اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے مکہ کی حدود میں کسی کو قتل نہ کرنا چاہیے بلکہ یہاں کا درخت تک نہ کاٹنا چاہیے۔ مجھ سے قبل اور میرے بعد کسی کے لئے مکہ کی یہ حرمت ختم کرنا حلال نہیں اور میرے لئے بھی ایک ہی ساعت کے لئے روا ہوئی۔ وہ بھی اہل مکہ نے خود پر خدا کو ناراض کر دیا۔ تو فقط اس برہمی کی بنا پر اور اتنی ہی دیر کے لئے جس کے بعد یہ حرمت پہلے ہی کی مانند پھر لوٹ آئی۔ دوستو! جو لوگ یہاں موجود نہیں انہیں بھی یہ مسائل بتا دیجئے۔ خیال رہے اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم مکہ کے حدود میں جنگ کی تو جواب میں کہنا یہ تو اللہ نے صرف اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حلال کیا تھا مگر تمہارے لئے یہ اجازت نہیں۔ خزاعہ سے خطاب: یا معشر الخزاعہ! ارفعوا ابدبکم عن القتل فلقد کثران نفح، بعد قتلتم قتیلا لا دینہ فمن قتل بعد مقالتی ہذا! فاھلہ بخیر النظرین ان شاوا فدم قاتلہ وان شاوا فعقلہ۔ اور اے دوستان خزاعہ! قتال سے ہاتھ روک لو، اگرچہ تمہارے لئے اس میں کوئی منفعت ہی سہی۔ میں یہی فیصلہ کرتا ہوں کہ تمہارے ہاتھ سے جو شخص قتل ہوا ہے اس کے عوض میں قاتلوں کو اپنی طرف سے خوں بہا دیئے دیتا ہوں لیکن آئندہ کے لئے مقتول کے وارثوں کو اختیار دیتا ہوں کہ اپنے قتیل کا خوں بہا لیں یا قصاص، انہیں اختیار ہے۔ اور قتیل کی دیت (خون بہا) اس کے وارثوں کو اپنی طرف سے ادا کر کے تنازعہ ختم کر دیا۔ اہل مکہ پر اثر: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز خطاب اور انداز کرم نے اہل مکہ کے دلوں کو اپنی طرف اس طرح مائل کر لیا کہ دنیا جہاں کی دولت اور بادشاہت بھی انہیں اس طرح متوجہ نہ کر سکتی۔ جوق در جوق لوگ اسلام کی طرف بڑھے۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا جس کسی کا ایمان خدا اور آخرت پر ہے اگر اس کے گھر میں صنم ہو تو اسے تھوڑ کر پھینک دے۔ سنگ میل حرم کی مرمت: بنو خزاعہ سے فرمایا کہ حرم کے سنگ میل (بارہ پتھر) میں سے جو برجی مرمت کے قابل ہو اس کی تعمیر کرا دیں جس سے اہل مکہ کے دلوں پر نقش ہو گیا کہ (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک حرم بیت اللہ کی تقدیس و محبت کس حد تک راسخ ہے۔ اہل مکہ کی فریفتگی: اسی لمحہ اہل مکہ سے فرمایا آپ لوگ دنیا جہان کی بہتر جماعت سے ہیں۔ مجھے تم سے بے حد محبت ہے۔ میں تمہیں چھوڑ کر مدینہ نہ جاتا اور کسی کو تمہارے ہم پلہ نہ ٹھہراتا مگر کیا کروں تم ہی نے تو مجھے جلا وطن کیا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنے متعلق یہ کلمات سن کر اہل مکہ آپ پر اور بھی فریفتہ ہو گئے۔ شیخ نابینا پر شفقت: اور اسی وقفہ میں (جناب) ابوبکرؓ نے اپنے والد ماجد ابو قحافہ کو حاضر کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ! یہ ضعیف ہیں، میں خود ہی ان کے ہاں چلا جاتا۔ آپ نے انہیں یہاں آنے کی زحمت کیوں دی؟ ابوبکرؓ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ان کا فرض تھا، نہ کہ آپ تکلیف فرماتے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کے نابینا باپ کو اپنے سامنے بٹھا کر ان کا سینہ مس کرنے کے بعد فرمایا اے شیخ! اسلام قبول کیجئے ابو قحافہ نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ ؐ پڑھا اور جب تک زندہ رہے، اسلام کو اپنے حسن کردار سے مزین کرتے رہے۔ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیغمبرانہ خلق عظیم کے وسیلہ سے ان لوگوں کو اپنی محبت کا وارفتہ بنا لیا، جو کل تک خون آشام بھیڑیوں کی مانند ختم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم کے تعاقب میں مارے مارے پھرتے۔ وہی لوگ آج رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام و تقدیس کی وظیفہ خوانی پر زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عوام و خواص، قاتل و مقتول، عبادت گاہیں و عباد اور بیت اللہ و حرم مکہ کا تقدس دیکھ کر مکہ کے زن و مرد از خود آپ کی بیعت کا قلاوہ گلے میں ڈال کر زبان قال و حال سے: شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم کہہ رہے ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقاء کے ہمراہ مکہ معظمہ میں پندرہ روز تک قیام فرمایا۔ اس دوران میں (مکہ کے ریاست اسلامی میں داخل ہو جانے کی وجہ سے: باضافہ) وہاں کے نظم و نسق کی ترتیب اور جدید الاسلام لوگوں کی تربیت میں ان کی رہنمائی فرماتے رہے۔ یہاں متعدد وفود (بصورت دستہ) اسلام کی دعوت کے لئے غیر مسلم قبائل میں بھیجے، جنہیں تاکید فرما دی کہ جہاں بت نظر آئیں انہیں تہس نہس کر دیا جائے۔ لیکن خونریزی سے بچ کر۔ اس سے قبل حضرت خالد ابن ولیدؓ مقام نخلہ میں بت (عزیٰ) کے توڑنے کی غرض سے (باضافہ: تیس سپاہیوں کی مشایعت میں ۔۔۔۔م) تشریف لے گئے۔ (عزیٰ کے پجاری بنو شیبان تھے۔) حضرت خالدؓ کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا تبرا: جناب خالد ؓ عزیٰ کو ختم کرنے کے بعد قبیلہ بنو جزیمہ کی طرف بڑھ گئے۔ اہل قبیلہ نے انہیں اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو مسلح ہو کر نکل آئے۔ حضرت خالدؓ نے ہتھیار ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ دوسرے لوگ تو مسلمان ہو گئے ہیں۔ قبیلہ کے ایک شخص نے ان سے کہا ارے! یہ خالدؓ ہیں۔ اگر تم نے ہتھیار ڈال دئیے تو یہ تمہیں گرفتار کر لیں گے اور قید کر لینے کے بعد تمہاری گردنیں اڑا دیں گے۔ اس کے جواب میں قبیلہ کے چند اشخاص نے اپنے (اس) صلاح کار سے کہا آپ ہمیں قتل کرانا چاہتے ہیں۔ دوسرے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں۔ لڑائی مٹ چکی ہے۔ ہر طرف امن و امان کا پہرہ ہے! آخر ایک ایک نے ہتھیار ڈال دئیے مگر اس کے بعد حضرت خالدؓ نے وہی کیا جو ان کے اس ناصح نے ان سے کہا تھا ۔ ان کے مشکیں بندھوا دی گئیں اور قتل گاہ میں لے جا کر (95آدمی: باضافہ۔۔۔م) تہ تیغ کرا دئیے: مقتولین بنو جزیمہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حزن اور ادائے دیت! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرط غم سے بے قرار ہو گئے اور دونوں ہاتھ پھیلا کر حضور خداوندی میںالتجا کی: اللھم انی ابرامن ماصنع خالدؓ بن ولید۔ یا اللہ! میں خالدؓ کی اس کرتوت سے بری الذمہ ہوں۔ اور حضرت علیؓ کو بہت سا مال و زر دے کر مظلومین کی طرف بھیجا تاکہ ان کی تعداد کے مطابق دیت ادا کی جائے اور جناب علیؓ کو تاکید فرما دی کہ ضیاع نفوس و اموال کو معاملہ میں جاہلیت کی ناپ تول کو اپنے قدموں تلے روند دیجئے۔ حضرت علیؓ نے فراخ دلی کے ساتھ دیت اور امول کا تاوان ادا کیا اور ادائے دیت کے بعد جو رقم بچی وہ بھی احتیاطاً انہیں عطا فرما دی تاکہ اگر کسی اور قسم کے ضیاع کا انکشاف نہیں ہوا تو اس کی تلافی ہو جائے۔ قیام مکہ کے اس پندھر واڑے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر اور گرد و نواح سے بتوں کا ایک ایک مٹھ زمین کے برابر کر دیا اور بیت اللہ کے مناصب میں صرف دو عہدے برقرار رکھے۔ مناصب کعبہ: 1۔ کلید برداری: جناب عثمان بن طلحہ کو نسلاً بعد نسل (ان کے خاندان میں) یہ فرمانے کے ساتھ کہ ان سے یہ چابی ظالم کے سوا دوسرا لینے کی جرأت نہ کرے۔ 2۔ سقایت: (زائرین بیت اللہ کو پانی پلانا) نسلاً بعد نسل سیدنا عباسؓ بن عبدالمطلب ؓ کے لئے۔ (باضافہ: عثمان اور سیدنا عباسؓ دونوں کے خاندان نسلاً بعد نسل ان مناصب پر پہلے سے فائز تھے) آج سے مکہ اور اس کا حرم از سر نو امن و سلامتی کا گہوارہ بن گئے جہاں سے نور توحید کی درخشندہ رو اٹھ کر آسمان سے ٹکرائی۔ وہ رو جس کی ضیاء نے چودہ سو سال سے تمام عالم کو منور کر رکھا ہے۔ ٭٭٭ باب 25 غزوۂ ہوازن و طائف ہوازن اور ان کے حلیف قبائل کا مکہ پر حملہ کے لئے اجتماع: فتح مکہ کے بعد مسلمان چند روز تک یہیں مقیم رہے۔ خدا کے دین پر شاداں و شکر گزار اور اتنی بڑی فتح میں قتل عام سے اپنا دامن پاک رکھنے پر خوش! بلال اذان کہتے اور ٹھٹھ کے ٹھٹھ مسرت و شادمانی کے ساتھ بیت اللہ میں نماز کے لئے جمع ہو جاتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شہر اور نواح میں جہاں تشریف لاتے مشایعت میں مہاجرین و انصار موجود ہوتے۔ مہاجرین اپنی متروکہ حویلیوں میں جاتے تو ان میں بسنے والوں سے مل کر (دونوں فریق) خوشی کا اظہار کرتے کہ اللہ نے اس فتح کی بدولت انہیں بھی ہدایت فرمائی۔ اس خوشی سے فاتح اور مفتوح دونوں شریک ہوتے کہ البلد الامین (مکہ) میں اسلام کو نفوذ و استقرار حاصل ہوا۔ مسلمانوں کے مکہ فتح کرنے کا یہ خوش گوار نتیجہ مرتب ہوا۔ یہ پندھر واڑہ اسی طرح گزرا۔ اتنے میں مکہ کے قریبی جنوب مشرقی پہاڑوں میں قبیلہ ہوازن اور ان کے حلیفوں کے اجتماعی کی خبر پہنچی جو مکہ پر حملہ کی تیاری میں مصرو ف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فتح مکہ اور وہاں کے بتوں کو ملیا میٹ کرنے کے بعد ممکن ہے مسلمان ان پر ہلہ بول دیں ۔ انہو ں نے فیصلہ کر لیا کہ اپنی طرف سے مدافعت کرنے کے بجائے خود ہی مکہ پر دھاوا بول دیا جائے ورنہ (جناب) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی جنہیں قدر اندازی میں بلا کی مہارت ہے اور اپنی جمعیت و مشق جہاد کے غرور میں عربستان کے تمام قبائل کو رشتہ اسلام میں منسلک کرنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ انہیں بھی ان کے حال پر نہ رہنے دیں گے۔ یہ تھا ہوازن کا منصوبہ جس کے لئے ان کے نوجوان اور دلاور سردار مالک بن عوف نے (جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔۔۔۔م) اپنے قبیلہ کے ہمراہ بنو ثقیف اور (قبیلہ) بنو نصر وجشم کو بھی شامل کر لیا (صرف ہوازن کی دو شاخوں قبیلہ کعب و کلاب نے شرکت سے انکار کیا۔) قبیلہ جشم کے جنگ آزمودہ مرد پیر کا مشورہ: قبیلہ جشم کے کہنہ مشق میدان کار زار کے تجربہ کار درید بن صمہ بھی شریک کر لئے گئے۔ مگر آج وہ شیخ فانی کے درجہ پر آ پہنچے تھے۔ انہیں صرف جنگ میں مشورہ دینے کے لئے اٹھا کر لایا گیا پلنگ پر! شرکائے جنگ اپنے اموال و مویشی اور زن و بچہ تک کو ہمراہ لے آئے۔ میدان کے ایک کونے کی طرف سے اونٹوں کے بلبلانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گدھوں کی ہنہناہٹ سے فضا مکدر تھی۔ بکریوں کی ممیاہٹ کانوں کے پردے چیر رہی تھی۔ بچوں کی چیخ پکار سے دشت و جبل گونج رہے تھے۔ یہ مختلف آوازیں سن کر درید نے سپہ سالار ہوازن (مالک بن عوف) سے دریافت کیا کہ مویشی اور زن و بچے ہمراہ لانے میں کیا مصلحت ہے۔ مالک: تاکہ دلاور ان بیشہ جنگ لڑائی سے منہ نہ موڑیں اور انہیں دیکھ کر جی توڑ کر مقابلہ پر ڈٹے رہیں۔ درید: یہ چیزیں فوج کے اکھڑے ہوئے قدم نہیں جما سکتیں۔ ایسے موقع پر صرف فوج، تلوار اور تیر کام آتے ہیں۔ اے مالک! اگر جنگ شروع ہونے سے پہلے انہیں یہاں سے علیحدہ نہ کیا تو بے حد ندامت کا سامنا ہو گا۔ لیکن مالک بن عوف نے اس مر دپیر کی رائے پر عمل نہ کیا اور لشکر نے بھی درید کی بجائے اپنے تیس سالہ نوجوان سپہ سالار کی اطاعت کو ترجیح دی جو ان کے نزدیک عزم و ارادہ اور شجاعت میں بے مثل تھا۔ درید بن صمہ نے اپنے مدت العمر کے تجربہ کے خلاف ہوتا ہوا دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی۔ کفار کی مورچہ بندی: مالک بن عوف نے اپنی فوج کو حنین کی چوٹی اور پہاڑ کے تنگ دروں کے بالائی کناروں پر تعینات کر کے تاکید کر دی کہ جوں ہی مسلمان ادھر سے وادی میں اتریں یک دم بزن بول دیا جائے تاکہ ان کی صفوں میں ایسے شگاف پیدا ہو جائیں کہ گھبراہٹ میں خود ہی ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، انہیں بھاگنے کے بغیر چارہ نہ رہے اور ان کے دماغ سے فتح کا نشہ ہرن ہو جائے۔ عربستان میں کفار کی دلاوری کی دھاک بیٹھ جائے کہ حنین میں ایسی قوت کو پارہ پارہ کر دیا گیا جس نے تمام عرب کو سرنگوں کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ ان کی فوجوں نے مالک بن عوف کے ارشاد کی تعمیل میں ذرا پس و بیش نہ کیا اور ہر ایک جتھہ نے اپنے سپہ سالار کی ہدایت کے مطابق مورچہ سنبھال لیا۔ مسلمانوں کی حنین کی طرف پیش قدمی: مکہ میں قیام کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔ مسلمانوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سپہ سالاری میں حنین کا رخ کیا۔ اس فوج میں ان کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی اور اس کا مقصد قبیلہ ہوازن اور ان کے حلیفوں کے مکہ پر حملہ کا انسداد تھا۔ اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں دس ہزار وہ فوج تھی جو مدینہ سے مکہ کے لئے آئی تھی اور دو ہزار جدید الاسلام قریش مکہ سے شامل ہو گئے۔ جن میں ابو سفیان بن حرب بھی شریک غزوہ تھے۔ مسلمان سپاہیوں کی زرہوں کی چمک دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی۔ مقدمہ فوج میں گھڑ سواروں کا دستہ تھا۔ جس کی نگرانی میں رسد کی بار بردار اونٹ بھی تھے۔ عرب نے اتنا بڑا لشکر آج تک نہ دیکھا تھا۔ ہر ایک قبیلہ کا دستہ اپنا اپنا علم سنبھالے ہوئے اور ہر ایک سپاہی اپنی فوج کی کثرت پر اس قدر نازاں کہ ان میں سے بعض افراد نے ایک دوسرے سے گفتگو میں یہاں تک کہہ دیا کہ اتنی کثیر التعداد فوج کو کون شکست دے سکتا ہے! یہ فوجیں غروب آفتاب کے بعد حنین میں جا پہنچیں اور رات سر پر آ جانے کی وجہ سے درے سے ادھر میدان میں پڑاؤ ڈال لیا۔ دوسرے روز پو پھٹنے سے ذرا پہلے آگے بڑھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سپید رنگ ناقہ پر سوار سب کے آگے تشریف لئے جا رہے تھے۔ دشمنوں کی یلغار پر اسلامی فوجوں میں کھلبلی: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں خالدؓ بن ولید کی سپہ سالاری میں بنو سلیم کا دستہ مقدمہ الجیش میں تھا۔ ان کے ہاتھ میں علم بھی تھا۔ جونہی یہ دستہ تہامہ کا میدان طے کر کے حنین کی تنگ گھاٹی سے گزرا، دشمن کی فوجوں نے جو درہ کی چوٹی پر گھات لگائے بیٹھی تھیں اپنے سپہ سالار مالک بن عوف کی ہدایت کے مطابق پے بہ پے تیروں کی باڑھ چھوڑ دی۔ ادھر یہ مصیبت کہ دن کا اجالا بھی پوری طرح نہ ابھرا تھا۔ کہ مسلمانوں میں خلفشار پڑ گیا۔ دشمن کے حملے سے گھبرا کر ادھر ادھر چھٹ گئے۔ بعض بھاگ ہی نکلے، جن کی بد دلی پر ابوسفیان نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے کل مکہ جیسا مورچہ فتح کیا تھا کہا ان کے طور طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمندر1؎ سے ادھر نہیں رک سکتے۔ اس وقت ابو سفیان کے چہرے پر تعجب کے آثار تھے۔ تکلم کے وقت ان کے دونوں ہونٹ کھل گئے اور دانٹ نظر آنے لگے۔ اسلامی فوج کے ایک سپاہی (شیبہ بن عثمان بن ابو طلحہ جن کا باپ احد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا) کی زبان سے نکل گیا آج میں بھی اپنے باپ کے خون کا بدلہ (جناب) محمد سے لے کر رہوں گا! اسی لشکر میں سے کلدہ بن حنبل نے کہا آج سحر باطل ہو گیا کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا تیرے منہ میں آگ پڑے! بخدا! مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مرد قریش کی فرماں روائی زیادہ محبوب ہے۔ (باضافہ: اور صفوان اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے: اصابہ ابن حجر۔۔۔۔م) اور ہوازن کی ضرب سے مسلمانوں میں بری طرح ابتری پھیل گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم راحلہ پر تشریف فرما تھا۔ فوج کے شکست خوردہ سپاہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرتے اور بھگدڑ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبات و قوت عزیمت: اس نازک ساعت میں کیا چارہ کار تھا؟ کیا خاتم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل بیس سالہ قربانی کا ثمرہ اسی لمحہ میں تلف ہونے کو ہے، یعنی آج کے دن کی فجر کی تاریکی میں؟ اور ان کے رب نے اپنا دامن ان کے ہاتھ سے جھٹک کر انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی نصرت سے محروم فرما دیا ہے، نہیں یہ ایسی نازک ساعت تھی جس کے پیش آنے سے قبل ایک قوم یا تو اپنے مقابل کو ملیا میٹ کر سکتی ہے یا خود کو فنا! ولکل امۃ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون2؎ 1؎ وادی حنین مکہ سے جنوب مشرق کی طرف ہے اور حنین و مکہ دونوں سے سمندر عین مغرب کی سمت! یہی بحرۂ احمر ہے۔ (نقشہ عرب۔۔۔۔م) 2؎ 34:7۔۔۔ اور ہر ایک قوم کے مٹنے کا ایک وقت مقرر ہے۔ پھر جب ان کا وقت آ پہنچتا ہے تو اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے نہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مسلمان رٹ میں لوٹ آئے: لوٹنے والوں کی تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی۔ ایک دوسرے کو یوں واپس آتا ہوا دیکھ کر مسلمانوں کے قدم پھر سے جم گئے۔ کبھی انصار نے اپنے آدمیوں کو اے انصار کہہ کر پکارا اور گاہے اے خزرج! سے انہیں لڑائی جاری کرنے کے لئے بلایا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی کارکردگی کے نظارہ میں مصروف تھے۔ ذرا دیر میں گھمسان کا رن آ پڑا اب مسلمان دشمنوں کو رگید رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند پکار کر فرمایا مسلمانو! ہمت نہ ہارنا۔ لڑائی نے زور پکڑ لیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول سے نصرت کا جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ عباسؓ کے ہاتھ سے کنکری لے کر دشمن کی طرف پھینکنا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ سے فرمایا کنکریوں کی ایک مٹھی مجھے دو۔ اور دست مبارک میں لے کر شاھت الوجوہ کہہ کر دشمنوں کی طرف پھینکیں۔ مسلمان موت سے نڈر ہو کر داد شجاعت دے رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ آج کے شہید اپنے زندہ رہنے والوں سے بہتر ہوں گے۔ ہوازن کی شکست: لڑائی نے ہول ناک صورت اختیار کر لی۔ ہوازن بن ثقیف اور ان کے رفیقوں نے یہ سمجھ کر جی چھوڑ دیا کہ مقابلہ پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ موت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے۔ مال غنیمت کی مقدار: دشمن نے میدان میں عورتیں، بچے اور مویشی بکثرت چھوڑے جن کی تعداد یہ ہے: شتر2200 چاندی 40000(اوقیہ1؎) بکری40000 عورتیں اور بچے 6000 مسلمان اموال غنیمت جعرانہ میں پہنچا کر خود مفرورین کے تعاقب میں لگ گئے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعہ پر اعلان فرمایا کہ اصل قاتل اپنے مقتول کی سواری، اسلحہ وغیرہ کا حق دار ہے۔ جس سے مسلمانوں کا ولولہ اور زیادہ ہو گیا۔ حضرت ربیعہ اور درید بن صمہ کا قتل: ربیعہ ابن دغنہ نے بڑھ کر ایک شتر گرفتار کیا جس پر ہودج کی بجائے پلنگ تھا۔ ربیعہ سمجھے کہ اس پر کسی امیر کیع ورت ہو گی، جس سے بہت سا مال و زر حاصل ہو گا مگر پلنگ پر ایک ضعیف عمرؓ مرد لیٹا ہوا تھا، جسے ربیعہ پہچان نہ سکے۔ یہ ہوازن کا جنگی مشیر درید بن صمہ تھا۔ درید نے ربیعہ سے ان کا مقصد دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا میں تجھے قتل کرنا چاہتا ہوں۔ 1؎ فی اوقیہ بہ مساوی 10تولہ (پاکستانی) ارجع الاقاویل فی اصح الموازین والمکائیل مفتی محمد شفیع صاحب دیو بندی اس حساب سے 40000اوقیہ کا وزن 4لاکھ20 ہزار تولہ۔ اس کے ساتھ ہی تلوار کا ہاتھ تول کر مارا جو خالی گیا۔ درید نے اس سے کہا ربیعہ! تمہاری ماں نے تمہیں ناکارہ تلوار دے کر بھیجا ہے۔ میری پشت کی طرف جو شمشیر رکھی ہے اس سے کام لو اور دیکھو! مغزوا ستخوان مغز سے لے کر ذرا نیچے (یعنی گلے پر۔ م)۔۔۔۔ اے ربیعہ! میں بہادروں کو اسی طرح قتل کرتا رہا ہوں۔ اور ہاں! اے ربیعہ! اپنے گھر لوٹ کر اپنی ماں کو بتا دینا کہ تم نے درید بن صمہ کو قتل کیا ہے۔ ارے میں نے تو تمہارے قبیلہ کی کئی عورتوں کو ان کے دشمنوں سے بچایا تھا۔ حضرت ربیعہ نے یہ واقعہ اپنی والدہ سے بیان کیا تو اس نے کہا تو نے کیا ستم ڈھایا! درید کا تجھ پر یہ احسان کہ اس نے تیرے قبیلہ کی تین عورتوں تیری ماں، نانی اور دادی کو دشمنوں سے بچایا اور تو نے اسے قتل کر دیا۔ مسلمانوں نے (مقام) اوطاس تک تعاقب جاری رکھا اور یہاں آ کر کفار کو نرغہ میں لے لیا۔ ایک مرتبہ پھر جنگ کے شعلے تیزی سے بھڑک اٹھے مگر کفار بھاگ کھڑے ہوئے اور حنین میں سے جو عورتیں اور بچے اور اموال ہمراہ لائے تھے وہ بھی چھوڑتے گئے، جنہیں مسلمان سمیٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (جعرانہ میں) لے آئے اور اب سے ہوازن کی شکست پر مہر لگ گئی۔ مالک بن عوف (سپہ سالار ہوازن) مشرکین ہوازن کے سپہ سالار مالک بن عوف بھی اپنے مفرور دوستوں کے ساتھ اوطاس میں گھر گئے تھے لیکن وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے اور اپنے چند سپاہیوں کے ہمراہ (مقام) نخلہ (از ملحقات طائف) میں جا چھپے۔ دوستو، یہ ہے کفار ہوازن کی داستان شکست جس کا ایک روح فرسا حصہ یہ ہے کہ مسلمان آخر شب کی تاریکی میں مشرکوں کے حملہ کی تاب نہ لا کر منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ دوسرا یہ کہ آخر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبات قدم کامیاب ہو کر رہا جن کے ساتھ صرف گنتی کے چند آدمی رہ گئے تھے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے رسوخ قدم کے صدقہ میں مسلمانوں کو فتح اور دشمنوں کو شکست ہوئی جس کی حکایت میں یہ آیتیں نازل ہوئیں: لقد نصر کم اللہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین (25-9) (مسلمانو!) اللہ بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے اور(خاص کر) حنین (کی لڑائی) کے دن جب کہ تمہاری کثرت نے تم کو مغرور کر دیا تھا (کہ ہم بہت ہیں) تو وہ (کثرت) تمہارے کچھ کام نہ آئی اور (اتنی بڑی) زمین باوجود وسعت لگی تم پر تنگی کرنے۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ ثم انزل اللہ سکیسنتہ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنوداً لم تروھا وعذب الذین کفرواً وذالک جزاء الکافرین (26-9) پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور (نیز) مسلمانوں پر( اپنی طرف سے) تسلی نازل فرمائی اور (تمہاری مدد کو) فرشتوں کے ایسے لشکر بھیجے جو تم کو دکھائی نہیں دیتے تھے اور (آخر کار) کافروں کو بڑی سخت مار دی اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ ثم یتوب اللہ من بعد ذالک علیٰ من یشاء واللہ غفور رحیم (27-9) پھر اس کے بعد خدا جس کو چاہے توبہ نصیب کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یایھا الذین آمنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا وان خفتم علیۃ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء ان اللہ علیم حکیم (28:9) مسلمانو! مشرک تو نرے گندے ہیں۔ اس برس کے بعد ادب و حرمت والی مسجد (یعنی خانہ کعبہ) کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اور اگر (ان کے ساتھ لین دین بند ہو جانے سے) تم کو مفلسی کا اندیشہ ہو تو (خدا پر بھروسہ رکھو) وہ چاہے گا تو تم کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ بیشک خدا (سب کی نیتوں کو) جانتا (اور) حکمت والا ہے۔ لیکن فتح حنین کی قیمت: مسلمانوں کو یہ فتح سستے داموں نہ پڑی اور انہوں نے اس کی بہت زیادہ قیمت ادا کی۔ البتہ اگر اس صبح کے حملہ میں انہیں شکست کا منہ نہ دیکھنا پڑتا اور مسلمان اس طرح میدان چھوڑ کر نہ بھاگتے جس پر ابوسفیان کو بھی کہنا پڑا ان کے طور طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمندر سے ادھر نہیں رکیں گے۔ تو ان کے اتنے دلاور شہید نہ ہوتے۔ آہ! حنین میں مسلمانوں کا یوں تہ تیغ ہونا تاریخ پوری طرح ان کی تعداد بتانے سے قاصر ہے، ماسوائے ازیں کہ ان کے دو قبیلے یا تو بالکل ختم ہو گئے ای ان میں سے معدودے چند حضرات زندہ رہے اور شہدائے حنین کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے مغفرت فرمائی۔ تاہم اس غزوہ میں مسلمان ہی فتح یاب ہوئے۔ انہوں نے دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا اور ان کے ہاتھ جس قدر مال اور اسیر آئے اس سے قبل انہیں اس قدر غنیمت کبھی دستیاب نہ ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر یہ وضاحت بھی ضروری تھی کہ لڑائی سے اصل مقصد ایسی فتح یابی ہے جس میں اگر شرافت کا لحاظ بھی رکھا جائے تو ایسی فتح کی جس قدر قیمت لگائیے۔۔۔ ع۔۔۔۔ بحمد اللہ بسے ارزاں خریدم کی مصداق ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس فتح پربے حد مسرت حاصل ہوئی اور اب وہ تقسیم غنائم کے خواہاں تھے۔ طائف کا محاصرہ: اس فتح میں درخشندہ پہلو مشرکین کے سپہ سالار اعظم مالک بن عوف نصریٰ کا ماجرا ہے، جس نے اپنے دامن سے اس آگ کو مشتعل کیا اور جب مغلوب ہوا تو اپنے ہمراہ قبیلہ ثقیف کے بقیۃ السیف اشخاص کو لے کر طائف (کے قلعہ) میں چھپ کر پناہ لی، جس سے مسلمانوں کو ایسی مصیبت سے دوچار ہونا پڑا (کہ اگر وہ مالک سے اغماض کرتے ہیں تو یہ خطرہ ہے کہ مبادا وہ اس چنگاری کو پھر ہوا دے اور انہیں طائف کا معاملہ یک سو کیے بغیر مفر نہ رہا۔۔۔۔ م) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ جنگ میں ایک دستور یہ بھی تھا کہ کسی بڑے معرکہ سے فارغ ہونے کے بعد در پردہ دوسرے دشمنوں کا محاصرہ فرماتے جیسا کہ احد سے واپس تشریف لانے کے بعد یہود خیبر کو گھیر لیا اور غزوۂ خندق سے فارغ ہو کر مدینہ کے یہود بنو قریظہ کو حصار میں لے لیا۔ محاصرۂ طائف کے متعلق مولف علام کا دوسرا تصور: (م۔۔۔۔ اور محض مفروضہ!) طائف کے محاصرہ کا محرک کہیں قبل از ہجرت کا حادثہ نہ ہو، کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تبلیغ کے لئے تشریف لائے تو پہلے یاران شہر نے خوب کھل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تمسخر اڑایا۔ پھر شہر کے نو عمر لڑکوں کو بھڑکایا، جنہوں نے جی بھر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھراؤ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لہولہان ہو کر انگوروں کی بیل کے سائے میں جا بیٹھے۔ آج شاید اپنی اس ناتوانی کا تصور ذہن میں آ گیا ہو، جس موقع پر بجز ذات وحدہ لا شریک کی امداد کے کوئی سہارا نہ تھا یا اس قوت ایمانی کا آسرا جس سے قلب مبارک مسحورتھا اور یہ ایسی قوت ہے جو پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کر سکتی ہے۔ آج خاتم الرسلصلی اللہ علیہ وسلم طائف پر ایسی کوہ پیکر فوج کے ساتھ یلغار کرنے کو ہیں جس کی سی قوت اور تعداد جزیزۃ( العرب نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ طائف کے ارد گرد عرب کے دوسرے مشہور شہروں کی طرح چاروں طرف سر بفلک فصیل کھڑی تھی اور شہر میں آمد و رفت کے لئے ہر طرف ایک صدر دروازہ۔ شہر کے باشندے فنون حرب کے ماہر، ملک کے بڑے سرمایہ داروں نے شہر کی حفاظت کے لئے قلعوں کا ایک جال پھیلا رکھا تھا۔ حملہ : رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے لیے نامی قلعہ پر حملہ کرنے کا حکم فرما دیا، جس میں مالک بن عوف اپنے ثقفی ساتھیوں کے ساتھ چھپا بیٹھا تھا۔ مسلمانوں نے قلعہ تک پہنچنے سے قبل بنو ثقیف کی حفاظتی دیوار کو زمین کے برابر کر کے قلعہ مسمار کر دیا اور طائف کے قریب جا پہنچے مگر آگے بڑھنے کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق شہر سے ادھر ایک مقام پر رک گئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ یہاں جمع ہو کر مشورہ کیا جائے۔ ادھر بنو ثقیف بھی تاک میں تھے انہوں نے قلعہ کی ایک بلند دیوار پر کھڑے ہو کر اس زور سے تیروں کی باڑھ ماری جس سے کئی مسلمان شہی دہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو جنگ کے طریقے پر غور ضروری سمجھا۔ یہ کہ بنو قریظہ و یہود خیبر کا سا محاصرہ کارگر ثابت ہو گا اور بنو ثقیف بھی قلت رسد سے گھبرا کر شہر حوالے کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، یا اگر وہ مقابلہ کرنے کے لئے شہر سے باہر نکل آئیں تو مسلمانوں کے لئے اپنی کثیر التعداد فوج سے انہیں جلد از جلد مغلوب کر لینا آسان ہو گا اس قسم کی مختلف صورتیں زیر غور تھیں۔ ضروری سمجھا کہ دشمنوں کے تیروں کی زد سے دور ہٹ کر مشورہ کیا جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز کے مطابق اسلامی فوجیں پہلے مقام سے ہٹ کر وہاں جمع ہو جائیں جہاں اہل طائف نے شکست تسلیم کرنے اور قبول اسلام کے بعد مسجد تعمیر کرائی (کیوں کہ) پہلے مقام (مشاور گاہ) پر کفار کے تیروں سے اٹھارہ مسلمان شہید ہو چکے تھے، جن میں حضرت ابوبکرؓ کے ایک صاحب زادے بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مطہرات میں سے ام المومنین ام سلمہؓ و زینب بنت حجشؓ بھی ہمراہ تھیں دونوں کے لئے دو علیحدہ علیحدہ سرخ چمڑے کے نصب کیے گئے جن کے وسط میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی جو اس مقام پر تعمیر مسجد کی تمہدی تھی۔ مسلمان چشم براہ تھے کہ دیکھئے اب پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے اور دشمن کونسا پہلو اختیار کرے گا۔ اسی وقفہ میں ایک بدو1؎ ادھر آ نکلا۔ اس نے رسول پاک سے عرض کیا بنو ثقیف اپنے قلعوں میں اس طرح دبک گئے ہیں جس طرح لومڑی بھٹ میں۔ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو وہ کوئی گزند نہیں پہنچا سکتی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ناکام لوٹنا شاق تھا۔ آپ کو خیال گزرا کہ پائین مکہ کے رہنے والے قبیلہ بنو دوس منجنیق اور دبابہ کے فن سے آگاہ ہیں۔ ان کے رئیس طفیل (بن عمروؓ الدوسی) اس محارہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے۔ وہ غزوۂ خیبر میں بھی آنحضرت کے ہم رکاب تھے۔ آپ نے طفیل سے فرمایا اور وہ مکہ جا کر اپنے قبیلہ کے چند ایسے دلاوروں کو ہمراہ لے آئے جو اسی قسم کے آتش گیر گولے اور دبابے (کپے) ساتھ لائے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے محاصرہ کرنے سے چار روز بعد طائف پہنچے۔ مسلمان ان کی کمان میں منجنیق اور آتش گولے لے کر قلعہ کی دیوار میں شگاف کرنے کے لئے دبابوں میں چھپ کر آگے بڑھے۔ لیکن اہل طائف بھی فنون سپہ گری میں کچھ کم نہ تھے۔ انہوں نے گرم لوہے کے غلے غلیل میں رکھ کر پھینکنا شروع کیے جن سے کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ اور مسلمان مورچہ چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ مسلمانوں کا یہ وار بھی خالی گیا اور وظائف کے قلعوں کا مسخر کرنا محال ہو گیا ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر غور فرمایا تو اپنے ہاتھوں بنو نضیر کے باغات جلوانے کا نقشہ ذہن میں گھومنے لگا، جس سے عاجز آ کر انہوں نے از خود جلا وطن ہونے پر آمادگی ظاہر کی۔ ہاں ہاں! طائف میں انگوروں کے باغات تو بنو نضیر (مدینہ) کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بیش قیمت ہیں اور یہاں کے انگور تمام عرب میں مشہور ہیں۔ اہل طائف کو اپنی اسی دولت پر ناز ہے۔ طائف کو انگور کے شہر ہونے کی وجہ ہی سے تو صحرا کا بہشت سمجھا جاتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اس طرف منتقل ہو گیا کہ ان کے باغات پر دست برد ہوئے بغیر یہ لوگ راہ پر نہ آئیں گے۔ آپ نے فیصلہ کر ہی لیا اور مسلمانوں کو حکم دیا (ہمارے جن دشمنوں نے مالک بن عوف کو اپنی بغل میں چھپا رکھا ہے۔۔۔۔م) ان کے سرسبز و شاداب باغات پھونک دئیے جائیں اور جن پودوں پر آگ اثر نہ کر سکے انہیں قلم کر کے پھینک دو! طائف کو اپنی جس دولت پر ناز تھا چشم زدن میں پامال ہونے کو ہے۔ وہ تھرا اٹھے اور فوراً پیغام بھیجا کہ ایسی نعمت خود برد کرنے کی بجائے اسے اپنے لیے برقرار رکھیے تو ہمیں تعرض نہ ہو گا اور ہمارے ہی لئے رہنے دیجئے تو یہ کرم مزید ہو گا۔ آخر بنو ثقیف سے آپ کی قرابت 2؎ بھی تو ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے منع فرما دیا (لیکن یہ معاہدہ صلح نہ تھا، نہ اہل طائف سے جنگ کرنا مقصود۔ یہ تو صرف مالک بن عوف کو پناہ دینے پر انہیں متنبہ کرنا تھا۔) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرما دیا طائف کے غلاموں میں سے جو کوئی ہمارے لشکر میں آ جائے وہ آزاد ہے۔ اس منادی پر تقریباً بیس اشخاص طائف سے بھاگ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے، جنہوں نے مخبری میں عرض کیا کہ اہل طائف کے پاس رسد کا اس قدر ذخیرہ ہے جو مدت تک کافی ہو سکتا ہے۔ 1؎ نوفل بن معاویہ وئلی جو فتح مکہ کے روز اسلام لائے (زاد المعاد ابن قیم و اصابہ ابن حجر) 2؎ بوجہ رضاعت سیدہ حلیمہ سعدیہ جن کی صاحب زادی جناب شیماء غزوۂ اوطاس میں گرفتار ہوئیں ۔ اس رضاعت کی وجہ سے جناب عبداللہ و انیسہ اور حذیفہ ابنائے حارث از بطن حلیمہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عم بزرگ وار کے رشتہ میں تھے۔ (اصابہ ابن حجر در تذکرۂ بی شیماء ۔۔۔۔م) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے محاصرہ کو طول دینا پسند نہ فرمایا۔ ادھر لشکری بھی تقسیم اموال (غنایم) کے لئے بے قرار تھے۔ مبادا ان کے صبر و استقامت میں تزلزل آ رہا ہو۔ حرمت والا مہینہ (ذوالقعدہ) آ رہا ہے، جس میں قتال و جہاد جائز نہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم (طائف کا) ایک ماہ تک محاصرہ کرنے کے بعد مراجعت فرمائے جعرانہ ہوئے ہی تھے کہ ماہ ذوالقعدہ شروع ہو گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر سمیت عمرہ کا احرام زیب تن فرما لیا۔ بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ طائف سے مراجعت کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ محرم ختم ہو جانے کے بعد پھر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اموال ہوازن کی تقسیم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو مشایعت میں لے کر طائف سے (بارادہ عمرہ) مراجعت فرما ہوئے اور راستے میں جعرانہ رکنا پڑا تاکہ اموال و اسیران ہوازن کی تقسیم کر دی جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس رسول علیحدہ کر کے مابقی اموال اور اسیر لشکریوں میں تقسیم فرما دئیے۔ وفد ہوازن برائے واپسی اموال و نفوس: اتنے میں ہوازن کے ان حضرات کا ایک وفد حاضر ہوا جو مسلمان ہو چکے تھے وہ اپنے مال اور ان افراد کی واپسی پر مصر ہوئے جو کئی روز سے ان سے جدا ہو چکے تھے اور ان کی مفارقت کا ملال انہیں کھائے جا رہا تھا۔ وفد کے ایک رکن نے عرض کیا: یا رسول اللہ! انما فی الحظائر عماتک وخالاتک وحواجتک اللواتی کن یکفلنک ولو انا ملحنا للحارث بن ابی شمر او لنعمان بن المنذر ثم نزل منابمثل الذی نزلت بدرجونا عطفہ و عائدتہ علینا وانت خیر المکفولین۔ یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم !ان اسیروں میں بعض عورتیں آپ کی پھپھی ہوتی ہیں، بعض خالہ کے رشتہ میں ہیں اور کوئی آپ کی کھلائی ہے۔ اے صاحب! اگر ہماری اسیر بیبیوں میں سے کسی نے حارث بن ابو شمر یا نعمان بن منذر امیر غسان کو اپنا دودھ پلایا ہوتا اور وہ آپ ہی کی طرح ہم پر غالب آ جاتا۔ پھر ہم اس سے اپنی عورتوں کی واپسی کا مطالبہ کرتے تو ناممکن تھا وہ ہماری استدعا کو مسترد کرتا اور آپ تو دنیا بھر کے مربیوں سے بہتر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی بہن شیماء کی شکایت: اسیروں میں بی بی شیماء بنت حارث (جناب حلیمہ کی صاحب زادی۔۔۔م) بھی تھیں جنہیں گرفتار کرتے وقت مسلمانوں نے جنگی سختی سے کام لیا۔ بی بی شیماء کہولت کی حدود سے گزر رہی تھیں۔ انہوں نے لشکریوں سے فرمایا: تعلموا واللہ انی لاخت صاحبکم من الرضاعۃ جانتے نہیں ہو، میں تمہارے صاحب کی رضاعی بہن ہوں؟ میرے ساتھ ادب سے بات کرو۔ لیکن سپاہیوں کو یقین نہ آیا۔ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا یہ تو شیماء ہیں (حارث بن عبدالعزی کی صاحبزادی) ختم المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم نے ردائے پاک کا فرش بی بی شیماء کے بیٹھنے کے لئے بچھا دیا اور فرمایا اے بہن! تم میرے ہاں رہنا چاہو تو تمہارا گھر ہے اور واپس تشریف لے جانا منظور ہو تب بھی مجھے اصرار نہیں ۔ سیدہ شیماء نے اپنے قبیلہ میں جانے کو ترجیح دی (مگر اسی روز مسلمان ہو گئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غلام و اموال خمس میں سے دے کر رخصت فرمایا۔۔۔۔ اصابہ۔۔۔۔م) سیدۂ شیماء کے ساتھ صلہ رحمی میں حوازن کے امیال و عواطف: ہوازن نے بی بی شیماء کی یہ منزلت دیکھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر شفقت فرما کر صلہ رحمی کا پاس دکھایا تو ہوازن کی ڈھارس بندھ گئی اور اس سرکار میں ہمیشہ یہی ہوا کہ جس کسی نے قرابت یا محبت کا واسطہ پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سبقت کرنے میں کوتاہی کو دخل انداز نہ ہونے دیا۔ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک آپ کی طینت ہی میں تھا۔ ہوازن کی درخواست پر فرمایا آپ لوگوں کو اپنے زن و بچے زیادہ محبوب ہیں یا مویشی اور مال و اسباب وفد: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ نے ہی ہمیں دونوں چیزوں میں سے کسی ایک شے کے لئے ترجیح کا اختیاط عطا فرمایا ہے تو ہمیں اپنے بال بچے زیادہ محبوب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !بہت خوب! خمس اور بنو عبدالمطلب کا حصہ دونوں مدوں کی عورتیں مرد اور بچے واپس کر دئیے جائیں گے۔ رہے وہ اشخاص جنہیں میں آپ سے پہلے دوسروں کو تقسیم کر چکا ہوں تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد آپ مجھ سے میرے تمام رفقاء کے بالمواجہہ ان لفظوں میں استدعا کیجئے: انا نسفثفع برسول اللہ الی المسلمین و بالمسلمین الی رسول اللہ فی ابناء نا ونساء نا اے صاحبو! ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے آپ لوگوں سے ملتجی ہیں اور آپ حضرات کے وسیلہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مستدعی کہ ہماری عورتیں اور بچے ہمیں واپس فرما دیجئے۔ اس لمحہ میں میں اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ واپس کر دوں گا اور مسلمانوں سے بھی واپسی کے لئے آپ لوگوں کی سفارش کروں گا۔ نماز ظہر ادا کرنے کے بعد ان ہی قدموں پر ہوازن نے فرمودۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنی درخواست مسلمانوں کے سامنے پیش کی جس پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سبقت کرتے ہوئے فرمایا: دوستو! میں اپنا اور بنو عبدالمطلب کا حصہ واپس کرتا ہوں۔ مہاجرین اور انصار کا ایک ہی سا جواب تھا ما کان فھو لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے حصے کے بھی مختار ہیں) ابتداء میں فاتحین میں ذیل کے تین حضرات نے اپنے اپنے حصہ کے اسیر واپس کرنے سے انکار کر دیا: 1۔ اقرع بن حابس نے 2۔ عینیہ بن حصن نے 3۔ عباس بن مرداس لیکن اپنے قبیلہ داروں کے اصرار سے عباس بن مرداس بھی اسیروں کی واپسی پر رضا مند ہو گئے م۔۔۔ اور اقرع و عینیہ نے بھی برضا و رغبت اپنے حصہ کے اسیر واپس کر دئیے۔ (زاد المعاد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حصہ داراپنا حصہ واپس کر دیں انہیں میں پہلی غنیمت پر ایک غلام کے عوض میں چھ غلام عطا کر دوں گا۔ یہ تقریب ہے ہواز ن کے زن و بچہ واپس ہونے کی۔ مالک بن عوف کی حوالگی: اس موقعہ پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد (ہوازن) سے مالک بن عوف (مفرور سپہ سالار ہوازن) کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کیا مالک ابھی تک طائف میں بنو ثقیف کے ہاں پڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالک بن عوف اگر از خود مطیع ہو کر آ جائے تو اس کے تمام اہل و عیال اور تمام مال و اسباب کے علاوہ اسے ایک سو شتر اور عطا ہوں گے۔ مالک نے اپنے متعلق یہ مژدہ سنا تو بنو ثقیف سے چھپ کر اپنے اسپ پر زین کسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور ان کے زن و بچہ اور حسب فرمان یک صد شتر عطا ہوئے۔ تقسیم عطا یا اور بعض شرکاء کی بے حوصلگی: عطایا کی یہ بارش دیکھ کر بعض لشکری گھبرا اٹھے اور ایک دوسرے سے کھسر پھسر شروع کر دی کہ اگر نو وارد ان اسلام کے لئے داد دہش کا یہی عالم ہے تو ان کے لئے کیا باقی رہ جائے گا! شدہ شدہ! یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچی۔ آپ ایک شتر کے قریب تشریف لائے اور اس کے بدن سے چند بال اچٹا کر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ایھا الناس! واللہ مالی من فیئکم ولا ھذا الوبرۃ الا الخمس! والخمس مردود علیکم۔ بخدا! مجھے تمہارے اموال غنیمت میں ان بالوں کے برابر بھی طمع نہیں! رہا میرے حصے کا خمس تو اسے بھی آپ لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ جو چیز جس کی تحویل میں ہو اسے مال خانے میں جمع کرا دیا جائے تاکہ عدل کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔ (اور فرمایا): فمن اخذ شیئا فی غیر عدل و لو کان ابرۃ کان علی اہلہ عارو نارو شنار الی یوم القیامۃ جو شخص از خود کسی شے پر قابض رہے اگرچہ وہ سوئی کیوں نہ ہو قیامت کے دن اس کے خاندان کے لئے ملامت کا باعث ہو گا اور اس کے لئے ندامت و تعذیب کا موجب یہ تنبیہہ اس برہمی کی وجہ سے فرمائی جب ایک مسلمان آپ کے اوڑھنے کی ردا آپ کے کندھے پر سے جھپٹ کر لے گیا اور آپ نے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ردوا الی ردائی ایھا الناس فوا اللہ!لو ان لکم بعد شحر و تھنامہ نعما لقسمتہ علیکم ثم ما الفتبونی نجیلا ولا جبانا ولا کذابا ارے! میری ردا مجھے واپس کرو! بخدا! اگر آپ لوگوں کو غنیمت میں وادی تہامہ کے پودوں کی تعداد میں بکریوں کے ریوڑ ہاتھ ا ٓئیں تو میری تقسیم پر تم مجھے نہ تو کسی سے ڈر کر کم و بیش حصہ دینے والے دیکھو گے نہ بخیل اور نہ دروغ گو۔ ابوسفیان بن حرب، معاویہ پسر ابو سفیان، حارث بن حارث بن کلدہ، حارث بن ہشام۔ سہیل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزیٰ ہر ایک نو وارد اسلام کو ایک ایک سو شتر دئیے گئے۔ اور ان حضرات سے دوسرے درجہ کے اشراف و روسائے مکہ جن کو فی کس پچاس شتر عنایت فرمائے۔ جن کی تعداد دس سے زائد تھی، آنحضرت نے جس خندہ پیشانی سے عطا و بخشش فرمائی، کل کے دشمن جی کھول کر ستائش کرنے لگے بلکہ جس نے جس قدر طلب کیا اسے عنایت فرما دیا (ازاں جملہ ابوسفیان نے اپنے فرزند معاویہ کے لئے!) اور عباس بن مرد اس بھی جو اپنے حصہ سے مطمئن نہ تھے ان کی زبان سے نکل گیا عینیہ و اقرع کو مجھ پر ترجیح۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا انہیں علیحدہ لے جاؤ اور جس شے سے یہ خوش ہوں انہیں دے کر ان کی زبان بند کر دو۔ آخر عباس کو اس طریق سے مطمئن کیا گیا۔ انصار کا گلہ: جیسا کہ معلوم ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے متذکرۃ الصدر افراد کو ان کی تالیف قلب کے لئے جو بخشش فرمائی انصار مدینہ کو بھی گوارا نہ ہو سکی۔ حتیٰ کہ ان کے بعض نوجوانوں کی زبان سے نکل ہی گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلہ کی کس قدر پاس داری فرمائی۔ یہ اطلاع حضرت سعدؓ بن عبادہ (انصاری) کے ذریعے خود ان کی تائید کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے فرمایا آپ انصار کو اس باغیچہ میں جمع کیجئے میں ابھی آتا ہوں اور مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی۔ انصار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باہم گلہ شکوہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا۔ پھر فرمایا۔ یا معشر الانصار! ما قالۃ بلغی عنکم وجدۃ وجد نموہ فی انفکسم الی اتکم ضلالا فھدا کم اللہ وعالۃ فاعتاکم اللہ وعداء فالف اللہ بین قلوبکم۔ اے دوستان انصار! آپ حضرات نے یہ کیسے بات پیدا کر دی؟ دلوں میں کوئی گرہ تو نہیں پڑ گئی کلیا آپ لوگ بھول گئے کہ آپ راہ ہدایت سے ناواقف تھے اور میری وجہ سے اللہ نے آپ لوگوں کو سیدھی راہ پر چلایا۔ میرے ہی صدقے میں آپ کی ناداری تونگری سے مبتذل ہوئی، آپس میں ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے تھے اور خداوند تعالیٰ نے میری برکت سے آپ کو اے دوسرے کا ہمدرد بنا دیا؟ انصار: بل اللہ ورسولہ امن و افضل بیشک خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر بے حد احسان ہوئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! الا تجیبونی یا معشر الانصار؟ برادران انصار! آپ لوگ مجھے جواب کیوں نہیں دیتے؟ انصار: بماذا نجیبک یا رسول اللہ ! للہ ولرسولہ المن والفضل۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا کیا منہ ہے جو آپ پر اپنا کوئی احسان جتائیں بلکہ جب کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات سے ہم سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اما واللہ لو شئتم لقلتم فلتصدقتم ولصدقتم آتینا مکذبا فصدقناک! ومخذولا فنصرناک و طریداً فاؤیناک وعائلاً فاسیئاک! یا مشعر الانصار، فی بضاعہ من الدنیا ثالفت بھا قوما لیسلوا ووکلتکم الی اسلامکم۔ بخدا ! تم یہ بھی کہہ سکتے ہو اور ا س میں کوئی شبہ بھی نہیں کہ آپ دوسروں سے اپنی تکذیب کرانے کے بعد ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم نے آپ کی تصدیق کی اوروں نے آپ کو ستایا اور انصار نے آپ کی حمایت کی، آپ کے ہم وطنوں نے آپ کو جلا وطن کیا اور ہم نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھول دئیے آپ ہمارے ہاں بے یار و مددگار تشریف لائے اور ہم نے اپنی آنکھیں آپ کے قدموں تلے بچھا دیں۔ الا ترضون یا معشر الانصار ان یذھب الناس بالشاۃ والبعیر و ترجعوا برسول اللہ الی رحالکم! فوا الذی نفس محمد بیدہ لولا الھجرۃ لکنت امراً من الانصار! ولو سلک الناس شعبا لسکت شعب الانصار۔ اللھم ارحم الانصار وابناء الانصار، وبناء ابناء الانصار۔ اے یاران انصار! جو چیزیں میں دوسروں کو بخش رہا ہوں دنیا کی معمولی سی دولت ہے اور اس لئے کہ وہ لوگ اسلام پر پختہ ہو جائیں۔ مگر اس دولت کے مقابلہ میں جس نعمت سے تم مالا مال ہو کیا دونوں بربار ہیں یعنی اسلام سے؟ دوستان انصار! تمہیں یہ پسند نہیں کہ دوسرے لوگ یہاں سے لوٹیں تو اونٹ اور بکریاں ہمراہ لے کر جائیں اور تم اپنے گھروں میں خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمراہ لے کر جاؤ۔ قسم ذات کبریا کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، اگر مہاجر ہونے کا ثواب نہ ہوتا تو میں خود کو لفظ انصار ہی سے منسوب کرتا۔ دوسرے لوگ اگر یک جا ہو کر ایک راستے سے چلیں اور انصاری دوسری راہ پر گامزن ہوں تو میں انصار کے ہمراہ چلنا گوارا کروں گا۔ یا اللہ !انصار اور ان کی اولاد و احاف پر رحم فرمائیو! انصار کا اظہار تاسف: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واردات جس رقت اور دلسوزی کے ساتھ بیان فرمائی ان کی تاثیر کا عالم تھا کہ انصار جو بیعت کرنے کے بعد آپ کی حمایت میں ہر وقت سر بکف رہے اور کسی وقت آپ کی تعظیم و تکریم کا خیال دل سے محو نہ ہونے دیا، جذب محبت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ سب کے سب رو پڑے اور بیک زبان عرض کیا رضینا برسول اللہ قسما وحطا (ہمارے لئے سب سے بڑی دولت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے بے پایاں دولت سے اپنی بے رغبتی کا ثبوت کس حکمت و فراست سے پیش کیا اور دوسری طرف اس دولت کو کس طرح نواردان اسلام کی تالیف قلب کا وسیلہ بنا دیا جو آج سے تین چار ہفتہ قبل اسلام میں داخل ہوئے تھے، یہ جتانے کی غرض سے کہ اسلام لانے میں آخرت اور دنیا دونوں کی بھلائی ہے۔ اتنے کثیر مال کے عطا و بخشش پر مسلمانوں کے دل میں بھی خلش ابھر آئی اور قدیم الاسلام مسلمانوں نے اہل مکہ پر تقسیم شدہ مال کے بارے میں نکتہ چینی سے دریغ نہ کیا، لیکن آنحضرت نے صلی اللہ علیہ وسلم جدید الاسلام اہل مکہ کے دل اس طرح مٹھی میں لے لئے کہ جو دوسخا سے متاثر ہو کر یہ لوگ بھی خدا کی راہ میں سر کٹانے کے لئے کمربستہ ہو گئے۔ عمرۃ الجعرانہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ (محل تقسیم غنائم ہوازن) سے بہ قصد عمرہ مکہ معظمہ روانہ ہوئے۔ ادائے عمرہ کے بعد عتاب بن اسید کو مکہ کی خلاف تفویض فرمائی۔ جناب معاذ بن جبل کو معلم دین کی حیثیت سے مکہ رہنے کا حکم دیا اور خود مہاجرین و انصار کی معیت میں مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تاکہ اپنے مولود نو ابراہیم کی دید سے آنکھوں کو ٹھنڈا کریں اور کچھ مدت آرام کے بعد ان مسیحی دشمنان اسلام کا سد باب کریں جو تبوک میں جمع ہو کر اسلام کو مٹانا چاہتے تھے۔ ٭٭٭ باب26 مراجعت مدینہ مراجعت مدینہ: مکہ کی فتح اور طائف کا (طویل) محاصرہ کرنے کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفقاء کی معیت میں مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے۔ اب پورے جزیرۃ العرب میں نہ تو کسی کو یہ ہمت تھی کہ آنحضرت کا مقابلہ کر سکے نہ کسی میں اتنی سکت کہ (پہلے کی طرح) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق طعن و تشنیع کے لئے زبان کو جنبش دے۔ مہاجرین اور انصار دونوں (طبقے) اس خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ اللہ نے اپنے نبی کو مسجد الحرام پر قبضہ کرنے کی توفیق بخشی، اہل مکہ نے اسلام قبول کیا، قبائل عرب جوق در جوق اسلام کے سامنے جھکنا شروع ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ مدت عافیت و یک سوئی کے ساتھ مدینہ میں رہنے کا موقعہ نصیب ہو گیا۔ عتاب بن اسیدؓ کی تقرری: الغرض مسلمان مدینہ واپس آ گئے کہ سکون کے ساتھ زندگی کے دن بسر ہوں۔ عتاب بن اسیدؓ کو مکہ پر نائب مقرر فرماتے آئے اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو اہل مکہ کا دینی معلم تاکہ نوواردوں کی تربیت سے یک سوئی ہو جائے۔ مکہ و حنین کی تسخیر نے تمام عرب پر مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی۔ کل تک ملک کے جو اکابر مجرمیہا یہ سودا لئے پڑے تھے کہ ان کے مقابلہ میں (جناب) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اثر و نفوذ حاصل کرنے کی کوئی گنجائش ہے، نہ ان کے جدید دین میں پذیرائی کی صلاحیت، جن کے شعراء دین جدید کی ہجو میں اپنے سرغنوں کی خوش نودی مزاج کے لئے بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دیتے وہ خود ہی اسلام لے آئے۔ تغیر احوالـ: قبائل جو صحرائی زندگی کے مقابلہ میں بہتر سے بہتر نظم و نسق کو ترجیح دیتے اور اپنے اس طرز بود و ماند کو کسی قیمت پر ہاتھ سے دینا گوار انہ کرتے، اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے جان نثار کر دینا اپنا فخر سمجھتے، ان میں سے بے شمار لوگ اسلام میں داخل ہو چکے تھے اور جو اس نعمت سے متمتع ہوئے وہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ظفر مندی اور اسلام کا نفوذ و پذیرائی دیکھ کر جامے میں پھولے نہ سماتے۔ تسخیرمکہ سے گھر گھر خوشی کے شادیانے بجنے لگے کل تک جو شاعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دین جدید کی منقصت میں داد سخن دیتے تھے اور ملک میں جو چند اکابر و قبائل ایسے رہ گئے جنہیں نہ تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ ابھی تک وہ اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ اپنی جگہ کھوئے کھوئے پھر رہے تھے کہ اب ان کا موقف کیا ہو گا۔ ان شعرایء قادحین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کعب بن زہیر بھی پیش پیش رہتے مگر مکہ فتح ہو جانے سے قریش کے سرغنہ ہی سرنگوں ہو گئے تو خالی الفاظ و حروف سے مقابلہ کرنے والوں کی پرسش کیا تھی! یہ سماں کعب (مذکور) کے برادر حقیقی حضرت بجیر بن زہیر نے مکہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جب ممدح (بجیر) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مشایعت میں طائف سے مکہ واپس تشریف لائے تو انہوں نے کعب کی طرف خط لکھا کہ جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذائیں پہنچائیں یا آپ کی ہجو میں سبقت کی ان کی گردنیں ماری جا رہی ہیں اور جو لوگ گرفت سے بچ گئے ہیں وہ ادھر ادھر سر چھپاتے پھرتے ہیں۔ بجیر نے کعب کو تاکید کی کہ جس قدر جلدی ہو سکے مدینہ پہنچ کر معافی نامہ پیش کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو معاف کرنے میں ذرا تامل نہیں فرماتے۔ یہ نہیں کر سکتے تو کسی دور دراز ملک میں نکل جائے۔ یجیر نے صحیح لکھا تھا کہ تسخیر مکہ کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے چار ایسے اشخاص کو قتل کرایا جن میں ایک شاعر بھی تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرنے میں پیش پیش رہتا اور وہ شخص بھی تھا جس نے سیدہ زینب بنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ تذلیل کی جب ممدوحہ اپنے شوہر کی اجازت سے اپنے باپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے بادیہ پیما تھیں۔ بانت سعد: کعب اپنے بھائی کی نصیحت کے مطابق مدینہ پہنچے اور شب کو اپنے ایک دوست کے ہاں پناہ لی اور فجر کی نماز کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور جان بخشی کے بعد دربار رسالت میں قصیدہ پڑھا جس کا پہلا شعر ہے: بانت سعاد فقلبی الیوم متبول متیم اثرھا لم یغد مکبول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب کو معاف فرما دیا۔ بعد میں انہیں نے مسلمان ہو کر خود کو حسن عمل سے ستودہ کر دکھایا۔ وفود اب اسلام کا اثر قبائل تک نفوذ کرنے لگا۔ ہر طرف سے (ان کے) وفود امڈ کر(مدینہ میں) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خراج عقیدت پیش کر کے اعتراف اسلام کرنے لگے۔ قبیلہ بنو طے کا وفد: ان کے امیر زید الخیل (نامی) تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے استقبال میں بے حد اہتمام فرمایا زید الخیل کمالات معنوی کے ساتھ خوش کلام بھی تھے۔ (ان کی گفتگو) پر فرمایا اب تک عرب کے جن جن ارباب کمال کا تذکرہ میرے سامنے کیا گیا ان سے ملاقات پر میں نے بہت کم مرتبہ پایا لیکن زید الخیل کی خوبیاں ان کی شہرت کے مقابلہ میں بہت زیادہ دیکھنے میں آئیں! اور آنحضرت نے ان کا لقب (زید الخیل کی بجائے) زید الخیر سے تبدیل فرما دیا۔ حاتم طائی کے فرزند و دختر کا قبول اسلام: عرب کے شہرہ آفاق حاتم طائی کے فرزند عدی نام مذہباً عیسائی تھے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد متنفر تھے۔ ملک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر اور اسلام کی پذیرائی دیکھ کر تاب نہ لا سکے اور بال بچے مع سامان و شتر ہمراہ لے کر شام میں منتقل ہو گئے، جہاں ان کے ہم مذہب رہتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو 8ھ میں پچاس سپاہیوں کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا کہ قبیلہ طے کا صنم نابت نامی توڑ دیا جائے جہاں کے اسیروں میں حاتم طائی کی صاحب زادی بھی قید کر کے مدینہ میں لائی گئیں۔ قیدی مسجد نبویصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والے باغیچے میں نظر بند کیے گئے۔ حاتم کی صاحبزادی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر واویلا شروع کر دیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! غاب الرافد وانقطع الوالد وانا عجوز کبیرۃ مابی خدمہ فمن علی من اللہ علیک یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ! میرا سرپرست روپوش ہے اور والد وفات پا چکے! میں کبر سنی کی وجہ سے کام کاج کے قابل نہیں رہی۔ مجھ پر احسان فرمائیے۔ اللہ آپ پر کرم فرمائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ـ: تمہارا سرپرست کون تھا؟ بی بی: میرے سرپرست حاتم طائی کے فرزند عدی تھے جو خدا اور اس کے رسول سے بھاگ کر روپوش ہو گئے ہیں۔ بی بی نے اپنے والد حاتم کی جود و سخا کا تذکرہ بھی کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا انہیں خلعت و زاد راہ اور سواری کے لئے اونٹنی دے کر جو قافلہ سب سے پہلے جانے والا ہو، اس کے ہمراہ واپس بھیج دیجئے! بی بی فرماتی ہیں! شام میں جا کر یہ واقعہ میں نے اپنے بھائی کو سنایاتو وہ از خود مدینہ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور مسلمانوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ اسی طرح مکہ و حنین کی فتح اور طائف کے محاصرہ سے مدینہ واپس تشریف لے آنے کے بعد وفود کا تانتا بندھ گیا۔ یہ لوگ آتے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق و قبول اسلام سے مشرف ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقفہ میں نہایت صبر و سکون کے ساتھ زندگی بسر فرما رہے تھے۔ بنت نبی سیدہ زینب کی وفات: لیکن سدا ایک سا وقت نہیں رہتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت و شادمانی کا یہ دور بھی جلدی غم میں مبدل ہونے پر آ گیا۔ جگر گوشہ رسول سیدۂ زینب (علیہا السلام) عرصہ سے بستر علالت پر دن گزار رہی تھیں۔ گزشتہ اوراق میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ جب ممدوحہ نے سفر ہجرت کیا تھا تو حویرث و ھبار نے سیدہ کی سواری کو کونچا دے کر چمکا دیا تھا جس کی وجہ سے بی بی سواری سے گر پڑی تھیں اور جنین ہو گیا۔ اس صدمہ کی وجہ سے دن بدن ان کی صحت گرتی ہی گئی اور اسی مرض میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر اولاد کے صدموں کی حد ہو گئی۔ سیدۂ زینبؓ سے قبل بی بی ام کلثومؓ اور تیسری صاحب زادی سیدۂ رقیہؓ رحلت فرما چکی تھیں جن کے بعد اب صرف ایک صاحب زادی سیدۂ فاطمہؓ باقی رہ گئیں۔ سیدۂ زینب کے شوہر (ابو العاص بن ربیع) بدر میں مسلمانوں کے خلاف نبرد آزمائی کے بعد اسیر کر لئے گئے ۔ جب زینب نے سنا تو ان کے فدیہ کے لئے گلے کا ہار پیش کر دیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحب زادی کا ان کے شوہر کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ فرما کر زار زار رو دیتے کہ زینب نے خود مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کافر شوہر کی وفاداری کا کیسا نمونہ پیش کیا ہے۔ یہی شوہر ہے جس نے زینب کے والد کے خلاف قتال میں حصہ لیا۔ تصور تو کیجئے اگر ابو العاص کی طرح خاتم الرسل کافروں کے ہاتھ میں گرفتار ہوجاتے تو وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ چھوڑ سکتے تھے؟ جگر گوشہ رسول جناب زینب نے سفر ہجرت میں جو صعوبتیں برداشت فرمائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی انہیں دھراتے، کبھی صاحب زادی کے دین و تقویٰ کا سراپا بیان فرماتے، کبھی ان کی شدت مرض کا المیہ سناتے اور مرحومہ کی ایک ایک تکلیف کا بیان فرمانے کے بعد رو دیتے۔ یہ تو جگر گوشہ ہی تھیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دل دوسروں کی مصیبت پر بھی اسی طرح پسیج جاتا۔ کسی کے بیمار پڑ جانے کی خبر سنتے تو کشاں کشاں اس کے ہاں تشریف لاتے، ناداروں کی دست گیری شب و روز کا مشغلہ تھا اور مصیبت زدوں کے غم میں انہیں تشفی دینا گویا فریضہ بنا رکھا تھا۔ آہ! صدموں کا یہ عالم! زینبؓنے آپ کے سامنے کراہ کراہ کر جان دی۔ اس سے قبل ان کی دو بہنیں سیدۂ ام کلثومؓ و رقیہؓ قبر میں جا سوئیں۔ بعثت سے قبل دو فرزند (از بطن سیدہ خدیجہؓ) آنکھیں بند کر کے موت کی گود میں چلے گئے۔ یہ پیہم صدمے! سیدنا ابراہیم کی ولادت: بارے غم کا بوجھ ہلکا ہونے کا وقت بھی آ گیا۔ دن بدلنے کا انتظار زیادہ مدت تک نہ کرنا پڑا۔ سیدۂ ماریہؓ (قبطیہ) کے بطن سے فرزند پیدا ہوا، جس کا نام حضرت جد الانبیاء کے اسم مبارک کی برکت حاصل کرنے کے لئے ابراہیم رکھا گیا۔ یاد رہے کہ ام المومنین ماریہؓ والی ، مصر (مقوقس) کی طرف سے پیش کی گئی تھیں۔ سید البشرؓ نے بی بی کو تولید فرزند تک کنیز کے درجہ میں رکھا۔ دوسری ازواج کی طرح ان کے لئے مسجد کے قرب میں حجرہ بنوانے کی بجائے مدینہ سے باہر ایک قریہ میں مکان مہیا فرما دیا جو آج بھی مشربہ ابراہیم کے نام سے مشہور ہے۔ اس گھر کو چاروں طرف سے انگور کی بیل نے گھیر رکھا تھا۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ سیدۂ خدیجہؓ کی رحلت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بیبیوں کو شرف مناکحت سے ممتاز فرمایا ان میں بعض نوجوان اور بعض ایسی ادھیر عمر بھی تھیں، جن کے ہاں ان کے پہلے شوہر کے صلب سے اولاد بھی پیدا ہوئی، لیکن حرم رسول میں منسلک ہونے کے بعد ان کی کوکھ خالی ہی رہی۔ کہنا یہ ہے کہ آنحضرت کو بی بی ماریہؓ کی گود بھری ہوئی دیکھ کر کس قدر مسرت حاصل ہوئی اور اس عالم میں کہ سن مبارک ساٹھویں برس میں آ پہنچا۔ اتنے بلند انسان کے قلب میں اولاد کی خوشی سماتی نہ تھی۔ سیدہ ماریہؓ جو کنیز کی حیثیت سے پیش ہوئی تھیں، آج سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں دوسرے حرم کے مساوی بلکہ ان سے بھی زیادہ موقر رہنے لگیں۔ ازواج رسول صلوات اللہ علیھا میں کسی کے بطن سے اولاد نہ تھی۔ ماریہؓ ابراہیم کی ماں بن جانے کی وجہ سے اپنی تمام سوکنوں کے رشک کا مورد بن گئیں اور اس میں دن بدن شدت بڑھتی گئی۔ مولود (ابراہیم) پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر محبت لمحہ بہ لمحہ بڑھنے لگی جس سے حرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رحجانات میں اور تلاطم بڑھتا گیا۔ قابلہ کی خدمت بی بی سلمی (زوجہ ابو رافع) نے سر انجام دی۔ مولود نو کے موئے فرق کے ہم وزق چاندی خیرات فرمائی۔ ام سیف کو بچے کی رضاعت تفویض ہوئی، جس کے لئے سات بکریاں عنایت ہوئیں۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہر روز مشربہ (دولت کدہ ماریہؓ) میں تشریف لاتے اور فرزند کے حسن و جمال و معصوم تبسم کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتے، مگر یہ امور ان ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے طبعاً رشک کا باعث تھے، جن کے بطن سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آنے کے بعد کوئی اولاد پیدا نہ ہوئی۔ اسی دوران میں ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے بی بی عائشہؓ کے ہاں تشریف لائے اور محبت پدری سے مولود کی طرف دیکھ کر ام المومنینؓ سے فرمایا عائشہؓ دیکھ رہی ہو، ہم دونوں میں کس قدر مشابہت ہے! ام المومنینؓ نے ابراہیم کی طرف دیکھ کر عرض کیا آپ کے خدوخال اور ان کے چہرہ مہرہ میں تو بہت فرق نظر آتا ہے۔ ام المومنین نے جب یہ دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرزند کو دیکھ دیکھ کر باغ ہو رہے ہیں تو رشک میں اور شدت پیدا ہو گئی۔ عرض کیا ہر بچہ اسی طرح دودھ پی کر پنپتا آتا ہے، ابراہیم ہی پر کیا منحصر ہے۔ یہ تو ابھی کچھ بھی نہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے حرم کو بھی ابراہیم کا وجود کھل گیا۔ ہر ایک کی زبان اور عمل سے آئے دن اسی قسم کی حرکات کا ظہور ہوتا رہا۔ ان واقعات انے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ میں بھی اپنا اثر پیدا کر لیا بلکہ قرآن مجید میں بھی یہ ذکر موجود ہے۔ ایلا اور ازواج سے برہمی:ـ ان واقعات کی وجہ سے ازواج اور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان شکر رنجی لازمی تھی، جو اس حد تک رونما ہوئی کہ تاریخ اسلام کا ایک جزو بن گئی۔ واضح رہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو جو تفوق بخشا اس کی نظیر قبل از اسلام عرب میں ملنا ناممکن تھی، جیسا کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: قبل از اسلام ہمارے معاشرہ میں عورت کی حیثیت پر کاہ کے برابر نہ تھی۔ حتیٰ کہ اللہ نے ان کے لئے وحی قرآنی کے ذریعہ تفوق و برتری پر احکام نازل فرما دئیے، جیسا کہ میں اپنے گھر میں ایک معاملہ میں کچھ مشورہ کر رہا تھا کہ میری بیوی مجھ سے پوچھے گچھے بغیر مجھے صلاح دینے لگیں۔ مجھے بے حد ناگوار گزرا۔ ان سے کہا میں نے تو آپ کو مشاورت کی تکلیف دی نہیں آپ دخل در معقولات فرمانے والی کون ہوتی ہیں؟ میری اہلیہ نے جواب دیا آپ کے معاملہ میں مجھے لب تک ہلانے کی جرأت نہ ہو، مگر جناب کی صاحب زادی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر زچ کر رکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خفا ہونے میں بھی کمی اٹھا نہیں رکھی! میں نے یہ سنتے ہی (اپنی) چادر کندھے پر رکھی اور (ام المومنین) حفصہؓ کے ہاں پہنچ کر کہا صاحبزادی! تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مناقشہ کر کے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کو خود پر خفا کر رکھا ہے؟ بی بی حفصہؓ! ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔ آپ کو اس سے کی اغرض ہے؟ میں: اے حفصہ! میں تمہیں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ اور اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں، مبادا تم اپنی ہم عمر (م۔۔۔۔ مراد از ام المومنین عائشہؓ) کے نقش قدم پر چلو! ان پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر لطف سب حرم کے مقابلہ میں پیش از پیش ہے۔ میں یہاں سے نکل کر ام المومنین ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا جو میری قرابت دار تھیں۔ ان سے یہ تذکرہ کیا تو (انہوں نے) اور زیادہ تنبیہہ فرمائی کہ اے ابن الخطابؓ! تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر معاملہ میں دخل دینے لگے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھریلو معاملات تک میں! مجھے سیدۂ ام سلمہ کے زجر سے بے حد احساس ہوا اور میں وہاں سے اٹھ کر چلا آیا! دوسری روایت: صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ بن الخطاب سے (دوسری روایت) مروی ہے کہ: میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا۔ اتنے میں ابوبکرؓ اجازت لے کر باریاب ہوئے۔ آنحضرت فرط غم سے سر جھکائے ہوئے خاموش بیٹھے تھے۔ تمام ازواج جمع تھیں اور سب کی سب مہر بہ لب۔ خیال گزرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسنے پر مائل کیا جائے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر بنت خارجہ (اہلیہ عمرؓ) مجھ سے (ایسے) نفقہ کا مطالبہ کریں تو اس زور کی پٹخنی دوں کہ سر کے بل زمین پر گر پڑیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہنسی ضبط نہ کر سکے اور فرمایا دیکھو! یہ سب مجھے اسی قسم کے مطالبہ میں گھیرے بیٹھی ہیں۔ یہ سن کر ابوبکرؓ اٹھے اور اپنی صاحب زادی جناب عائشہؓ کی گردن پر طمانچہ رسید کر کے فرمایا تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ شے طب کرتی ہو جو آپ کے قبضہ میں نہیں۔ عمرؓ نے اپنی دختر (سیدۂ) حفصہؒ کے تھپڑ مار ااور یہی فرمایا کہ تم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ شے طلب کرتی ہو جو آپ کے قبضے میں نہیں۔ عائشہؓو حفصہؓ دونوں نے بیک زبان وعدہ کیا کہ اب سے ہم آپ سے کوئی ایسی چیز طلب نہ کریں گی، جس پر آپ کی قدرت نہ ہو! اس موقعہ پر ابوبکرؓ و عمرؓ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے در و دولت پر حاضر ہونے کا موجب یہ تھا کہ اذان ہو جانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف نہ لا سکے جو مسلمانوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی۔ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں کے اس واقعہ سے جس کا تعلق (من جملہ مابقی امہات کے ۔۔۔م) ام المومنین عائشہؓ و حفصہؓ (ہر دو) سے بھی ہے یہ آیات نازل ہوئیں: یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسرحکن سراحا جمیلا وان کنتن تردن اللہ ورسولہ والدار الاخرۃ فان اللہ اعدا للمحسنات منکن اجرا عظیما (29-28:33) اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیبیوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کے ساز و سامان کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں (کچھ) دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کروں اور اگر تم خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عاقبت کے گھر کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکو کار ہیں ان کے لئے خدا نے بڑے بڑے اجر تیار کر رکھے ہیں۔ دوسرا واقعہ دربارہ اکل شہد: (جیسا کہ لکھا جا چکا ہے۔۔۔۔م) تمام حرم رسول مولود نو کی وجہ سے جناب ماریہؓ کے معاملہ میں متفق ہو چکی تھیں۔ اسی دوران میں یہ واقعہ رونما ہوا۔ معمول مبارک یہ تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نماز عصر کے بعد حرم میں سے ہر ایک بی بی کے حجرہ میں ذرا دیر کے لئے تشریف لاتے۔ ایک روز سیدۂ حفصہؓ (و بروایت دیگر سیدہ زینب بنت حجش لیکن روایت ہذا کا تعلق اول الذکر سے ہے۔۔۔م) کے ہاں تشریف لے گئے اور معمول سے زیادہ دیر لگا دی، جس سے دوسری حرم رشک سے بے تاب ہو گئیں۔ ام المومنین عائشہؓ فرماتی ہیں میں اور حفصہؓ دونوں اس پر متفق ہو گئیں کہ حضرت جس کے ہاں تشریف لائیں وہ عرض کرے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !دہن مبارک سے یہ مغافیر کی سی بو کیسے آ رہی ہے؟ آپ نے کہیں مغافیر تو نہیں فرما لیا؟ (مغافیر کھانے میں شیریں مگر اس کی بو سے کراہت پیدا ہوتی ہے) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے دونوں کے ہاں تشریف لائے۔ بحسب قرار داد دونوں نے مغافیر کھانے کا شبہ ظاہر کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے فرمایا نہیں! میں تو زینبؓ کے ہاں سے شہد کھا کر آیا ہوں۔ اگر یہی بات ہے تو آج سے شہد استعمال نہ کروں گا۔ بروایت ام المومنین سودہؓ جو اس تجویز میں جناب عائشہؓ سے متحد تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے تو میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! شاید آپ نے مغافیر کے پھل عرفط کا شہد استعمال فرما لیا ہے اسی طرح جناب عائشہؓ نے عرض کیا۔ جب ان کے ہاں قدم رنجہ فرمایا اور سیدۂ صفیہ کے ہاں تشریف لائے تو انہوں نے بھی اسی طرح شبہ ظاہر کیا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متاثر ہو کر خود پر شہد کا استعمال ہی حرام کر دیا۔ اس کامیابی پر سودہؓ نے فخر سے کہا سبحان اللہ! ہم کامیاب ہو گئیں۔ مگر بی بی عائشہؓ نے معنی خیز نظر سے دیکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا اور وہ چپ ہو گئیں۔ یہ بیبیاں جن کادرجہ اب تک عرب کی عام عورتوں کا سا تھا کہ جو اپنے حقوق طلب کرنے میں مردوں کے سامنے زبان کھولنے کی جرات نہ کر سکتی تھیں۔ لیکن پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم کا درجہ ملک کی دوسری عورتوں کے مقابلہ میں بہت بلند فرما دیا تھا جس سے بیبیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے معاملہ میں حد سے تجاوز کرنے لگیں کہ ایک پورا دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غم و رنج میں ڈوبے رہے۔ حرم میں سے ایک بی بی نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمواجہہ گفتگو ہی اس انداز سے کی، جس سے آپ رنجیدہ ہو جائیں۔ اس سے قبل بارہا ایسا ہوتا رہا کہ بیبیوں میں سے جب کسی نے باہمی سوتیاپے کے اثر سے مزاج اقدس کے خلاف گفتگو کی تو آپ نے ان کے متعلق ظاہری ملاطفت کے دامن کا پھیلاؤ ذرا کم کر دیا تاکہ حدود ادب سے تجاوز نہ ہونے پائے، لیکن ابراہیم کی ولادت سے تمام ازواج کا رشک ناخوش گوار حد تک ابھر آیا۔ بی بی عائشہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مولود کی مشابہت تک سے انکارفرما دیا جس کا منشا شاید بی بی ماریہؓ (والدہ ابراہیم) کو گناہ سے ملوث کرنا ہو۔ ازواج کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گلہ شکوہ: اسی طرح ایک روز بی بی حفصہؓ اپنے والد حضرت عمرؓ کے ہاں تشریف لے گئیں۔ ان کی موجودگی میں سیدۂ ماریہؓ حرم سرائے نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں آئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر جناب حفصہ ؓ کے حجرہ میں رونق فرما تھے۔ بی بی ماریہؓ اسی حجرہ میں آ بیٹھیں۔ ذرا دیر بعد سیدہ حفصہؓ واپس آئیں۔ بی بی ماریہؓ ابھی تک ان کے حجرہ میں موجود تھیں۔ حفصہؓ رشک سے بے قابو ہو گئیں۔ جونہی ماریہؓ ان کے حجرہ سے نکلیں سیدہ (حفصہؓ) نے حجرہ میں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ میں نے ماریہؓ کو اپنے حجرہ میں دیکھ لیا ہے۔ آپ کے نزدیک میری ذرہ برابر منزلت بھی ہوتی تو آپ مجھے اس کی وجہ سے اتنا ذلیل نہ فرماتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم حیران تھے کہیں یہ (حفصہؓ) عائشہؓ یا دوسری بیبیوں کے سامنے بھی میرا راز افشا نہ کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہؓ کو مطمئن کرنے کے لئے ماریہؓ کو خود پر حرام کر دیا، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس واقعہ کا تذکرہ عائشہؓ سے نہ کریں (سیدہ) حفصہؓ نے زبان سے یہ شرط تسلیم کر لی، لیکن کسی انداز سے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ آپ کا یہ راز سب کے سامنے افشا کرنے کے بعد ہی حاضر ہوئی ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بارہا خیال گزرا کہیں یہ معاملہ عائشہؓ سے گزر کر دوسری بیبیوں تک نہ پہنچ گیا ہو۔ ممکن ہے کہ اسی وجہ سے سب یک زبان ہو رہی ہوں۔ اگرچہ واقعہ اہم نہ تھا۔ میاں بیوی کے درمیان مناقشات ہو ہی جاتے ہیں۔ اسی طرح آقا اور اس کنیز میں بھی باہم شکر رنجی پیدا ہو سکتی ہے جو اپنے آقا کے لئے (بمصداق ما ملکت ایمانکم 1؎ 28:4۔۔۔۔م) حلال ہو مگر سیدنا ابوبکر و حضرت عمرؓ کی صاحب زادیوں کے شایان شان نہ تھا۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور ماریہؓ کے معاملہ میں خود پر اس قدر کاوش گوارا فرما لیں، اگرچہ اس سے قبل بھی چند مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے حرم کے درمیان زندگی کے بعض مصارف یا سیدۂ زینب (بنت حجشؓ) کے ہاں سے شہد تناول فرمانے پر مناقشہ ہو چکا تھا یا دوسرے دوسرے امور مثلاً سیدۂ عائشہؓ کی طرف مابقی حرم کے مقابلہ میں زیادہ انعطاف اور اسی طرح ماریہؓ پر مزید کرم و لطف کی وجہ سے۔ سیدۂ زینب بنت حجشؓ اور بی بی عائشہؓ کا مناقشہ: اتنے ہی میں جناب زینبؓ دوسرے حرم کو اپنے ساتھ ملا کر آنحضرت کی خدمت میں گلہ گزار ہوئیں کہ آپ نے (بی بی) عائشہؓ کو ہم سب پر ترجیح دے رکھی ہے، چہ جائے کہ شوہر کو سب بیویوں کے ساتھ مساوی برتاؤ کرنا چاہیے۔ا ستدعا یہ ہے کہ اپنے ہر ایک حرم کے لئے ایک ایک دن کو نوبت مقرر فرما دیجئے۔ اس وفد میں یہ واقعہ بھی رونما ہوا کہ ام المومنین جنہیں اپنی ذات کی طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی کم رغبتی کا احساس تھا، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استرضاء کے لئے اپنی نوبت بی بی عائشہؓ کو تفویض فرما دی۔ اس موقعہ پر ایک اور حادثہ بھی رونما ہوا۔ سیدۂ زینب بنت حجشؓ جو دوسرے حرم کو اپنے ساتھ شامل کر کے حاضر ہوئی تھیں ان سے بی بی عائشہؓ کو معاملہ میں بے جا شکر رنجی کا اظہار ہو گیا۔ جس کے جواب کے لئے سیدۂ عائشہؓ کو آمادہ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اشارے سے) منع فرما دیا۔ 1؎ ہاں (لڑائی کے قیدیوں میں سے) جو عورتیں تمہارے قبضہ میں آ گئی ہوں۔ لیکن سیدۂ زینب خود پر قابو نہ رکھ سکیں۔ بی بی عائشہؓ کی تحقیر میں اور زیادہ جرأت پر اتر آئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ جرأت دیکھ کر اس طرح خاموش ہو گئے جسے آپ ہی نے (سیدۂ) عائشہؓ کو دفاع کے لئے متوجہ فرما دیا ہو۔ بی بی عائشہؓ نے حضرت زینبؓ کو مغلوب کر لیا، جس سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی مسرت پھر لوٹ آئی۔ امہات المومنین کے باہمی رشک و رقابت کا نتیجہ (ایلا) امہات المومنین کی باہمی مناقشت و رقابت اس حد تک بڑھ گئی کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ مدارات و عنایات تک کا تحمل دشوار ہو گیا۔ ان منازعات کا اثر یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے بعض کو طلاق دے کر یک طرفہ کر دینے پر غور فرمانے کی نوبت آ گئی۔ اور ابراہیم کی ولادت نے تو انہیں اور بھی زیادہ بے قرار کر رکھا تھا جس میں سب سے پیش پیش جناب عائشہؓ تھیں ۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لطف و کرم ہی نے سیدۂ ممدوحہ کو اس قدر دلیر کر رکھا تھا۔ ادھر ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاغل اس قسم کے نہ تھے کہ رسالت جیسے فریضہ سے دامن بچا کر اس قسم کے مناقشات کو سلجھانے میں عمرؓ ختم کر دیں۔ ضروری تھا کہ حرم کی تادیب و تنبیہہ کا راستہ تجویز کیا جائے تاکہ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرض کی تبلیغ یک سوئی سے فرما سکیں۔ خاتم الرسل نے اپنی تمام ازواج سے عارضی علیحدگی (یعنی ایلا۔م) کا ارادہ کر لیا اگر بیبیاں اپنی روش میں قطعی تبدیلی کر لیں تو فبھا، ورنہ ان میں برملا فرما دیا جائے۔ فمتعوھن و سر حوھن سراحاً جمیلا (28:33) (اے میرے حرم! آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر خوش اسلوبی سے رخصت کر دوں۔) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پورا ایک مہینہ (تمام) ازواج سے کامل طور پر علیحدہ رہے۔ ان کا ذکر کرنے سے بھی اجتناب تھا۔ اصحاب میں سے کسی کو یہ جرأت نہ تھی کہ اس وقفہ میں آپ کے پاس آئیں اور اس بارے میں گفتگو کر سکیں۔ آخر نصف ماہ کے قریب توجہ گرامی اس امر پر منعطف ہوئی کہ مسلمانوں کو جزیرۂ عرب سے باہر دعوت اسلام اور اپنا وقار کس انداز سے قائم کرنا چاہیے۔ اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فکر دامن گیر اور ادھر جناب ابوبکر و عمرؓ اور وہ لوگ جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی دونوں کی سی قرابت تھی، سب کے سب امہات المومنین کے معاملہ میں خوف زدہ کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پر ناراض کرنے میں کس قدر غلطی کی ہے۔ مبادا انہیں خدا، اس کے رسول اور ملائکہ کے غضب سے دو چارہونا پڑے! ایک روز تو یہاں تک افواہ اڑ گئی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کی صاحب زادی کو ایسے راز کے افشا کرنے کی وجہ سے طلاق ہی فرما دی ہے۔ جس کے مخفی رکھنے کی انہیں (سیدۂ حفصہؓ کو) تاکید فرمائی گئی تھی۔ اس خبر کی وجہ سے مسلمانوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ بعض کی زبان سے یہ بھی نکل گیا کہ اب تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمام بیویوں ہی کو طلاق دے کر رہیں گے۔ ازواج اپنی جگہ بے قرار و نادم کہ ہم نے ایسے مہربان شوہر کو کیوں ستایا، جو ہماری زندگی اور موت ہر حالت میں باپ، بھائی اور بیٹے تک کے حصہ کا سلوک کرنے میں بھی پس و پیش نہ فرماتے۔ اس زمانہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم (مسجد میں نمازیں گزارنے کے سوا۔۔۔۔م) پورے اوقات اپنے بالا خانے میں صرف کرتے جو ایک بلند مقام پر (حجرہ ہائے حرم۔۔۔م) کے قریب تھا رباح نامی غلام دہلیز پر دربانی کرتے۔ بالا خانے میں تشریف لانے کے لئے زینہ نہ تھا بلکہ کھجور کے خشک تنے کے سہارے اترتے اور اوپر تشریف لے جاتے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد زحمت برداشت کرنا پڑتی۔ حضرت عمرؓ کی طرف سے سعی استرضائ: اسی انداز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالا خانے میں وہ پورا ایک مہینہ گزار دیا، جس میں آپ نے اپنے حرم سے علیحدہ رہنے کا التزام فرمایا تھا۔ اس مہینہ کے آخری روز مسلمان مسجد میں غمگین بیٹھے، سر جھکائے ہوئے زمین کرید رہے ہیں۔ ہر شخص اپنے دل میں غم لئے بیٹھا ہے۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم کو طلاق فرما ہی دی۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑی ہوئیں! ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کر لیا۔ رباح (دربان) کے ذریعے اجازت طلب کی مگر وہ (رباح) اس طرح گم سم کھڑے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اجازت طلب کرنے کا اذن بھی نہ ہو۔ جناب عمرؓ کے دوسری مرتبہ اصرار پر بھی رباح اسی طرح کھڑے رہے۔ تیسری نوبت پر عمرؓ نے چلا کر کہا اے رباح! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے لئے اجازت طلب کیجئے۔ شاید آنحضرت نے آپ کو اس لئے منع کر دیا ہو کہ میں اپنی صاحب زادی حفصہؓ کی سفارش کرنا چاہتا ہوں۔ حاشا و کلا! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حفصہؓ کی گردن اڑا دینے کا حکم فرمائیں تو میں ایک لمحہ کے لئے تامل نہ کروں۔ حضرت عمرؓ بالا خانے میں بیٹھتے ہی رو دئیے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب گریہ دریافت فرمایا۔ بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کو بالا خانے کے اسباب معیشت نے متاثر کر دیا تھا جس میں چار ہی قسم کی اشیاء تھیں۔ 1۔ سونے کے لئے ایک چٹائی جس کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر دکھائی دے رہے تھے۔ 2۔ کس (چمڑا رنگنے کی چھال) 3۔ ایک کھال 4۔ مٹھی بھر جو یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کل کائنات جسے دیکھ کر حضرت عمرؓ ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ گیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے باعث گریہ سننے کے بعد انہیں دنیا کی نعمتوں سے استغناء و طمانیت کی خوبیوں سے آگاہ فرمایا۔ اس کے بعد عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ازواج کے معاملہ میں اس قدر پریشان ہیں اگر آپ نے واقعی انہیں مطلقہ قرار دے دیا ہے تو سہی! اللہ تعالیٰ آپ کا والی ہے۔ اس کے فرشتے آپ کے نگہبان ہیں۔ جبرئیل و میکائیل آپ کی حفاظت پر مامور ہیں۔ میں آپ کی نصرت کے لئے سر بکف ہوں، ابوبکرؓ آپ پر جان و مال سے نثار ہیں اور تمام مسلمان آپ کے مددگار و معین ہیں ۔ کس کی مجال ہے جو آپ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے! اس کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کچھ اس انداز سے بات شروع کی، جس سے ذرا دیر میں خفگی زائل ہو گئی اور آپ بے ساختہ ہنس پڑے۔ عمرؓ نے یہ کیفیت دیکھ کر سبقت کی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مسلمانوں کا برا حال ہو رہا ہے۔ وہ غم میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مسجد سے انہیں اٹھتے کہ آپ نے ازواج کو طلاق دے دی ہے۔ میں انہیں یہ سنانے جاتا ہوں کہ طلاق نہیں دی گئی۔ یہ کہہ کر حضرت عمرؓ بالا خانے سے اتر کر مسجد میں آئے اور بآواز بلند پکار کر کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق نہیں دی۔ اس واقعہ پر مندرجہ ذیل آیتیں نازل ہوئیں۔ 1۔ یایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتعی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم (1:66) اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! جو چیزیں خدا نے تمہارے لئے حلال کی ہیں تم نے اپنی بیویوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیوں حرام کر دیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ 2۔ قد فرض اللہ لکھم تحلتہ ایمانکم واللہ مولکم وھو العلیم الحکیم (2:66) تم مسلمانوں کے لئے خدا نے تمہاری قسموں کے توڑ ڈالنے کا (بھی) ٹھہراؤ کر دیا ہے اور اللہ ہی تمہارا مددگا ر ہے اور (وہ) سب کے حال سے واقف(اور) حکمت والا ہے۔ 3۔ واذ سر النبی الی بعض ازواجہ حدیثا فلما نبات بہ واظھرہ اللہ علیہ عرف بعضہ واعرض عن بعض فلما نباھا بہ قالت من انباک ھذا قال نبانی العلیم الخبیر(3:66) اور جب پیغمبر نے اپنی بیویوں میں سے کسی سے ایک بات چپکے سے کہی تو (اتفاق سے بات کا بتنگڑ بن گیا کہ ان بی بی نے دوسری بی بی کو اس کی خبر کر دی اور) جب انہوں نے اس کی خبر کر دی اور خدا نے پیغمبر پر اس کو ظاہر کر دیا تو پیغمبر نے کچھ (تو ان بی بی کو) جتایا اور کچھ ٹال دیا۔ پس جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر جتانا منظور تھا ان (بی بی) کو جتایا تو ان بی بی نے (حیران ہو کر پیغمبرؐ سے) پوچھا کہ آپ کو یہ (سب) خبر کس نے دی؟ پیغمبر نے جواب دیا کہ مجھ کو خبر دی اس (خدا) نے جو سب کچھ جانتا (اور ہر طرح کی) خبر رکھتا ہے۔ 4۔ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما وان تظاھرا علیہ فان اللہ ھو مولہ و جبریل و صالح المومنین والملئکۃ بعد ذالک ظھیر(4:66) سو(پیغمبر کی دونوں بیبیو!) اس حرکت سے خدا کی جناب میں توبہ کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے کیوں کہ تم دونوں نے کج راہی اختیار کی ہے اور اگر پیغمبرؓ کے خلاف سازشیں کرو گی تو ان کا (حامی و مددگار) اللہ ہے اور جبریل علیہ السلام اور (اچھے) نیک مسلمان اور ان کا پروردگار ان کے علاوہ (دوسرے) فرشتے(بھی) پیغمبر کے (حامی) و مددگار ہیں 5۔ عسیٰ ربہ ان طلقکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن مسلمت مومنت قنتت تبت عبدت سئحت ثیبت و ابکارا؟ (5:66) اگر پیغمبر تم (عورتوں) کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ ان کا پروردگار ان کے لئے تمہارے بدلے تم سے بہتر بیبیاں بہم پہنچا دے، فرماں بردار (با ایمان) نمازی(خدا کی جناب میں) توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار، روزے دار، دو ہاجنیں اور کنواریاں۔ ازواج رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آنکھیں کھل گئیں۔ معاملات یوں آ کر سلجھ سکے۔ اب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہر بی بی صافی القلب اور مطیع فرمان ہو کر پیش آنے لگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کی طرح ان خانگی و ظائف پر متوجہ ہو گئے، جن کے بغیر کسی انسان کو مفر نہیں۔ دوستو! راقم مولف نے اس سلسلہ میں امور ذیل کی ترتیب پوری وضاحت سے نقل کر دی، یعنی: الف۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ازواج سے ایلا (علیحدگی) ب۔ آپ کا بحکم خداوندی ازواج کو تخییر طلاق ج۔ ان حوادث اور ان کی دوسری کڑیوں کے مقدمات و نتائج اور ان حوادث کے متعلق ہر اس صحیح روایت کو مسطور کر دیا ہے جو حدیث و تفسیر یا سیرت کی کتابوں میں بکھری ہوئی ہیں، ایک دوسری (روایت) سے مربوط اور باہم دگر موید۔ ماسوائے ازیں کہ اس سلسلہ کے تمام مرویات نہ تو کسی ایک جگہ منقول ہیں اور نہ اس ترتیب کے ساتھ مسطور جس صورت میں انہیں ہم نے نقل کیا ہے۔ ہمارے لئے یہ مشکل قدم قدم پر سد راہ بن گئی کہ بعض مسلمان سیر نگار حضرات ان حوادث پر صرف ایک نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ اس لئے کہ انہیں ترتیب و مقدمہ و نتیجہ میں ناقابل برادشت کاوش کا سامنا کرنا پڑتا اور بعض مسلمان سیرت نویس ایلا (علیحدگی) کا سبب عسل و مغافیر کو بیان کرنے کے بعد خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔ یہ جامعین حضرت حفصہؓ و ماریہؓ کے واقعات پر توجہ بھی نہ کرسکے۔ حضرت حفصہؓ و ماریہؓ کے قضیہ پر مستشرقین کی غمازی: مسلمان مورخین کے برخلاف بعض مستشرقین نے اس راہ میں ایک نئی چال اختیار کر لی کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی علیحدگی (ایلا) کا مبنیٰ صرف جناب حفصہؓ و ماریہؓ کے واقعہ کو ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی تمام عمر ختم کر دی۔ یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہؓ سے کس لجاجت کے ساتھ ماریہؓ کا معاملہ عائشہؓ سے چھپانے کا وعدہ لیا اور بی بی (حفصہؓ) سے فرمایا کہ اب سے میں خود پر ماریہؓ کو حرام کرتا ہوں۔ اسلام کے ان مہربان مستشرقین نے ایلا (علیحدگی) کے مقدمات میں سے صرف اسی ایک واقعہ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی تاکہ اپنے مسیحی ہم مذہبوں کے سامنے ثابت کر سکیں کہ رسول آخر الزمانصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم نہ ہو سکے۔ اللہ رے انصاف! تاریخ دنیا کے بلند پایہ انسانوں میں سے کسی کے متعلق اس قسم کی لغزش ثابت نہیں کر سکی، چہ جائیکہ (جناب) محمدصلی اللہ علیہ وسلم جیسی شخصیت، ہر یگانہ و بے گانہ کے مونس و غم خوار محمد، ہمہ وقت بنی نوع بشر کی محبت میں سرشار، ان تمام صفات سے متصف جنہیں محققین نے آنحضرت کی ذات میں تسلیم کیا ہے۔ کیا یہ جلیل القدر انسان صرف اس بات پر اپنے تمام ازواج سے علائق قطع کر سکتا ہے کہ خود آپ ہی کی مملوکہ کنیز کے ساتھ آپ کو ان کی ایک منکوحہ حرم نے خلوت میں دیکھ کر اپنی دوسری ہم عصر (جناب عائشہؓ ) کو بھی بتا دیا؟ عجیب! اور کیا یہ ممکن ہے اتنا رفیع المنزلت انسان اتنی سی بات پر اپنے حرم سے یوں کنارہ کشی اختیار کر لے اور انہیں طلاق دینے پر آمادہ ہو جائے؟ اگر ان واقعات کو ایمان دارانہ ترتیب کے ساتھ باہم منسلک کیا جائے تب ایسے صحیح نتائج کا استنباط ممکن ہے جو عقل صریح اور علم صحیح کے معیار پر پورا اتر سکیں جیسا کہ ہم نے ان حوادث کی تنقیح کا فریضہ سر انجام دیا ہے جو حضرت محمد جیسی بے بدل شخصیت کی عظمت و شان کے مطابق ہے۔ مستشرقین کی حرف گیری کا جواب: سورۂ تحریم کی جو آیات نقل کی گئی ہیں، بعض مستشرقین انہیں آیتوں کو اپنے اعتراضات کا ذریعہ بنا کر فرماتے ہیں قرآن کے ماسوا دوسری آسمانی کتابوں میں کسی نبی کے متعلق اس قسم کا حادثہ منقول نہیں ۔ لیکن اگر ہم: 1۔ آسمانی کتابوں سے جن میں قرآن بھی شامل ہے، قوم لوط ؑ کے جنسی مشاغل کا اقتباس پیش کریں، جنہیں ہر شخص جانتا بھی ہے؟ 2۔ نبی اللہ حضرت لوط ؑ کے ان دو مہمانوں کی سرگزشت جو حقیقت میں فرشتے تھے مگر خوش رو بلند بالا قامت امرد لڑکوں کے روپ میں حضرت لوط کے ہاں اجنبی مہمان بن کر آئے اور ۔۔۔ 1؎ یہ تذکرہ تو رات ہی میں منقول ہے۔ 3۔ تورات ہی میں نبی اللہ حضرت لوط ؑ کی بیوی کی وہ داستان بھی مسطور ہے۔ جس کی پاداش میں وہ اپنی بدچلن قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئیں۔ 4۔ اور تورات ہی میں نبی اللہ جناب لوط ؑ اور ان کی دونوں صلبی صاحب زادیوں کے شرم ناک اختلاط کی حکایات بھی درج ہیں۔ جب رات کو ایک صاحب زادی نے اپنے باپ کو دھوکے سے شراب پلا دی اور جب وہ ہوش کھو بیٹھے تو ان سے ۔۔۔۔! اس طرح دوسری دختر نے خدا کے پیغمبر حضرت لوطؑ کو جو اس کے حقیقی باپ بھی تھے شراب پلا کر مدہوش دیکھا تو یہ بھی ان سے۔۔۔۔! حضرت لوطؑ کی دونوں صاحب زادیوں نے اس لئے اپنے باپ سے نطفہ حاصل کیا کہ ان کی قوم عذاب آ جانے سے فنا ہو چکی تھی۔ انہیں فکر لاحق ہوئی کہ مبادا قوم ختم ہو جائے، وہ اپنے باپ ہی کے نطفے سے تناسل 2؎ کا انتظام کیوں نہ کر لیں۔ 1؎ تورات: پیدائش باب19آیت:1تا25۔۔۔م 2؎ اور لوط ؑ ضفر سے نکل کر پہاڑ پر جا بسا اور اس کی دونوں بیٹیاں اس کے ساتھ تھیں کیوں کہ اس ضفر میں بستے ڈر لگا اور وہ اور اس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگے۔ تب پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بڈھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو دنیا کے دستور کے مطابق ہمارے پاس آئے۔ آؤ! ہم اپنے باپ کو مے پلائیں اور اس سے ہم آغوش ہوں تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو انہوں نے اسی روز اپنے باپ کو مے پلائی اور پہلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی پر اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی! اور دوسرے روز یوں ہوا کہ پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات میں اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی۔ آؤ! آج رات بھی اسے مے پلائیں اور تو بھی جا کر اس سے ہم آغوش ہو تاکہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اس رات بھی انہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی گئی اور اس سے ہم آغوش ہوئی تھی پر اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی۔ لوطؑ کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی کے ایک بیٹا ہوا اور اس نے اس کا نواب موآب رکھا۔ وہی موآبیوں کا باپ ہے جو اب تک موجود ہیں اور چھوٹی کے بھی ایک بیٹا ہوا اور اس کا نام بن عمی رکھا۔ وہی بنی عمون باپ ہے جو اب تک موجود ہیں۔ (پیدائش باب19از30تا 38) ہر آسمانی کتاب انبیاء کے واقعات دوسروں کی عبرت کے لئے پیش کرتی ہے اور قرآن میں بھی ایسے واقعات منقول ہیں جنہیں خداوند عالم نے احسن پیرایہ میں بیان فرمایا۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے پیغمبروں کی مانند خدا کے رسول ہیں، جن کا یہ قصہ قرآن مجید میں منقول ہے۔ پس اگر قرآن کسی واقعہ کو نقل کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بیان کرنے سے مسلمانوں کے سامنے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے ایک مثال پیش کرنا مقصود ہے تاکہ ان کے پیرو اس مثال سے اپنے لئے مشعل راہ کا کام لے سکیں۔ کتب سماوی میں انبیاء ؑ کے واقعات بیان کرنے میں یہی حکمت کار فرما ہے۔ اس لئے اگر انبیاء کرام ؑ میں سے کسی نبی کی سیرت کا تذکرہ قرآن مجید میں منقول ہے یا کسی اور سماوی کتاب میں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے حرم سے ایلا کسی ایک واقعہ پر موقوف نہیں، نہ اس پر مبنی کہ حضرت حفصہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بی بی ماریہؓ کے ساتھ خلوت میں دیکھ کر اپنی ہم عصر بی بی عائشہؓ کے سامنے بیان کر دیا۔ کیا خاوند کا اپنی اہلیہ یا آقا کا اپنی کنیز سے یہ تعلق رکھنا جرم ہے؟ قارئین نے مستشرقین کے ان اتہامات کا مطالعہ کر لیا، تاریخی حیثیت سے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ نہ وہ سابقہ آسمانی کتب ان کی موید ہیں، جن میں انبیاء ؑ کے حرف و حکایات اور سیرت کے واقعات جا بجا منقول ہیں۔ ٭٭٭ باب27 غزوۂ تبوک اور وفات ابراہیم ؓ یہ خانگی حوادث جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی ازواج کے درمیان رونما ہوئے، معمولات کی عام رفتار پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ مکہ فتح ہو جانے سے اسلام کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ قبائل عرب میں اس کی عظمت قائم ہو گئی۔ بیت اللہ جو سدا سے عرب میں زیارات و حج کا مرجع تھا، اس کے مختلف مناصب از قسم کلید برداری و سبیل اور دوسرے امور کی تقسیم و اعطاء اب کلیۃ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں تھی، جس میں اسلام کے دستور پر عمل فرمایا جاتا۔ بیت اللہ اور کعبہ پر مسلمانوں کے قبضہ نے ان کے مشاغل میں اور اضافہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو ریاست میں خرچ کرنے کے لیے محاصل (آمدنی) کی فکر ہوئی۔ انہیں یقین تھا کہ جزیرۃ العرب کے چپہ چپہ اسلام کے زیر نگیں ہونے کو ہے۔ تجویز ہوا کہ مسلمانوں پر زکوٰۃ اور غیر مسلم (عرب) پر خراج مقرر کیا جائے۔ا ٓخر الذکر طبقہ کو بار خاطر تو ہوا لیکن مسلمانوں کے اقتدار کے سامنے انہیں سرتابی کی جرأت نہ ہو سکتی تھی۔ تحصیل داران وصول زکوٰۃ مکہ فتح کر لینے کے تھوڑی مدت بعد پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم نے وصول زکوٰۃ کے لیے تحصیل دا رنامزد فرمائے، جنہیں ہر اس قبیلہ کی طرف بھیجا گیا جو اسلام لا چکا تھا۔ انہوں نے نہایت خندہ روئی اور اطاعت کے ساتھ ان کا مستقبل کیا اور پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنے اپنے حصہ کی زکوٰۃ ادا کی۔ ماسوائے دو قبیلوں (بنو تمیم کی شاخ بنو عنبر اور بنو مصطلق) کے۔ بنو تمیم کی طرف سے تحصیل داران زکوٰۃ پر اچانک حملہ: محصلین زکوٰۃ کے تقاضا کرنے سے قبل ان لوگوں نے زرہ کمان پر چڑھا لی اور مسلمانوں پر تیروں کی باڑ چلانا شروع کر دی۔ مسلمان جنگ کے لیے تو گئے ہی نہ تھے واپس لوٹ آئے۔ یہ ماجرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو عیینہ بن حصن کی سپہ سالاری میں پچاس سپاہیوں کا دستہ بنو عنبر کی سرزنش کے لئے بھیجا جن کے حملہ کی تاب نہ لا کر وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمان ان کے پچاس سے زیادہ اسیر لے کر مدینہ واپس لوٹ آئے، جنہیں نظر بندی میں دے دیا گیا۔ وفد بنو تمیم کی آمد اور مفاخرہ: ہرچند بنو تمیم میں سے کچھ لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور فتح مکہ و حنین میں بھی مسلمانوں کے ساتھ تھے مگر ان کا ایک حصہ ابھی تک کفر پر قائم تھا۔ آخر الذکر گروہ کا وفد مدینہ آیا اور مسجد میں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ کے سامنے آ کر بآواز بلند یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یا محمد ؐ! کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ طرز خطاب پسند نہ آیا۔ اگر نماز ظہر کے لیے مسجد میں تشریف لانا ضروری نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو باریاب نہ ہونے دیتے۔ ادائے ظہر کے بعد انہوں نے اپنا حال کہنا شروع کیا کہ عینیہ نے کس طرح انہیں گھیرے میں لے کر ان کے آدمی اسیر کر لیے فتح مکہ میں اپنے قبیلہ کی شرکت کا تذکرہ ملک میں اپنے مرتبہ کی حکایت الغرض اپنے لئے جو کچھ مناسب سمجھا پیش کرنے کے بعد کہا اے صاحب! ہم لوگ آپ کے ساتھ مفاخرہ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ اپنے ان شعراء اور خطیبوں کو بلا لیجئے جو ہمارے شاعر اور خطیب سے مفاخرہ کر سکیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ مطالبہ بھی منظور فرما لیا۔ بنو تمیم کی طرف سے ان کے خطیب عطادر بن حاجب اٹھے اور مجلس کے سامنے اپنا خطبہ بیان کیا ان کے بعد مسلمانوں کی طرف سے جناب ثابت بن قیس حلقہ میں تشریف لائے اور عطارد کے مقابلہ میں خطبہ دیا۔ شاعری میں مفاخرہ پر بنو تمیم کی جانب سے زبر قان بن بدر حلقہ میں آئے اور اپنے قبیلہ کے محاسن پر داد سخن سے مجلس کو گرما دیا۔ ان کے جواب میں حضرت حسان بن ثابتؓ نکلے، جنہوں نے اسلام کے محاسن پر اس قسم کا قصیدہ پڑھا جس پر بنو تمیم کے ایک سردار اقرع بن حابس نے اعتراف شکست میں یہ الفاظ کہے ہمارے حریف کی پشت پر کوئی غیبی قوت کار فرما ہے۔ ان کے خطیب ہمارے خطیب کے مقابلہ میں زیادہ فصیح ہیں۔ ان کے شاعر ہمارے شعراء کے سامنے کہیں زیادہ بلیغ ہیں۔ ان کے خطیب اور شاعروں کی آواز ہمارے سے بلند اور خوش گوار ہے۔ اور اس کے بعد سب نے اسلام کا اقرار کر لیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تمام زن و بچے رہا کر کے انہیں عزت و احترام کے ساتھ واپس فرمایا۔ دوسرا سرکش گروہ (بنو مصطلق): جونہی انہوں نے فرستادگان رسالت پناہ کو اپنی طرف آتے دیکھا دھن سمائی اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے، مگر جب کچھ دور جانے کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہی عذر گناہ پیش کیا کہ آپ کے فرستادوں کو دیکھتے ہی ہمارے حواس گم ہو گئے اور ہم اسی بد حواسی میں بھاگ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں معاف فرما دیجئے اور انہیں معاف فرما دیا گیا۔ چار دانگ عرب میں اسلام کا طنطنہ ملک کے چپہ چپہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت چھاتی جا رہی تھی۔ جو قبیلہ آپ کے خلاف سر اٹھاتا، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سرکوبی کے لئے تھوڑی بہت فوج بھجو ادیتے۔ جو ان میں سے اپنے سابق دین پر رہنا چاہتا اسے خراج کا پابند کر کے چھوڑ دیا جاتا اور جو اسلام قبول کر لیتا اسے ادائے زکوٰۃ کا مکلف ہونا پڑتا۔ روم کی مسیحی حکومت کا جنگی اقدام اس وقفہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر توجہ عربستان پر اسلامی اقتدار مسلم ہونے میں اس طرح منعطف تھی کہ ملک کے کسی حصہ میں اسلام کے کسی دشمن کو سر اٹھانے کی جرأت نہ ہو سکے۔ اتنے ہی میں یہ خبر سننے میں آئی کہ روم کا مسیحی بادشاہ (ہرقل۔۔۔۔زاد المعاد) عرب کے شمال میں لشکر جرار جمع کر رہا ہے تاکہ (مقام) موتہ میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے مقابلہ میں جس پامردی سے جم کر مقابلہ کر کے عرب میں اپنی دھاک بٹھا دی اور ان سے پہلے ایرانیوں نے حیرہ میں عیسائیوں کو مغلوب کر کے اہل عرب سے اپنی بہادری کی سند حاصل کر لی دونوں (مسلمان اور مجوس) کا طنطنہ ملک سے محو کر دیا جائے۔ رومیوں کی تیاری کی خبریں بجلی کی طرح اطراف ملک میں پھیل گئیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ تن اس پر متوجہ ہو گئے اور اپنی سپہ سالاری میں اس غزوہ کا اعلان فرما دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہیہ کر لیا کہ مسیحیت پر ایسی ضرب لگائی جائے، جس سے ان کے منہ پھر جائیں اور پھر کبھی انہیں مسلمانوں کے سامنے آنے کی جرأت نہ ہو۔ لیکن موسم کا یہ حال کہ گویا دوزخ نے منہ کھول رکھا ہے۔ دشت و جبل کرہ نار بنے ہوئے تھے۔ بلا کی ھمس، قدم قدم پر جاں کنی کا خطرہ۔ اس پر مدینہ سے لے کر تبوک تک طویل مسافت، جس کے لئے ہمت کے ساتھ زاد راہ اور پانی کی ضرورت تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرما لیا اور اس مرتبہ ہمیشہ سے مختلف انداز میں اعلان فرما دیا کہ یہ سفر کس مقام کا ہے۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر اخفاء سا فرماتے تاکہ دشمن کو مسلمانوں کے آنے کی خبر نہ ہونے پائے۔ مگر اس مرتبہ اظہار سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان پوری طرح سے تیاری کر لیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک میں چاروں طرف قاصد دوڑا دئیے تاکہ مسلمان پوری جمعیت کے ساتھ مسیحی ٹڈی دل کی مضرت سے بچنے کے لئے نکلیں اور اپنے سفیروں کو تاکید فرما دی کہ ہر مسلمان اپنی مقدرت کے مطابق مال و اسباب بھی اسی راہ میں پیش کرے تاکہ مسیحی فوجیں جنہیں اپنی کثرت پر اس قدر فخر ہے، مسلمانوں کی جمعیت اور کثرت دیکھ کر متاثر ہو سکیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے ایسی مشقت میں پڑنے سے کیا حال تھا جس کی وجہ سے انہیں اپنے زن و بچہ سے علیحدہ ہونا پڑتا۔ مال و دولت سے چشم پوشی کیے بغیر چارہ نہ تھا۔ شدید گرمی اور بے آب و گیاہ صحرا کی طویل منزلیں طے کرنا پڑتیں پھر ایسے قوی دشمن کے خلاف صف آرائی۔ جس سے کل موتہ میں مقابلہ ہوا تو مسلمان اسے شکست دئیے بغیر واپس لوٹ آئے؟ اس سے بھی کہیں سوا دشواریاں تھیں۔ لیکن مسلمانوں کا اللہ پر ایمان، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور دین الٰہی سے لگاؤ نے ان کے جذبہ شوق و محبت میں ایسا تلاطم پیدا کر دیا کہ صحرا اپنی وسعت کے باوجود ان کی کثرت کے سامنے عاجز آ گیا۔ وہ اموال اور گلہ ہائے شتر جن کی کشش انہیں آگے قدم بڑھانے سے روک سکتی تھی انہوں نے اس مال مویشی ہی کو اپنے ساتھ لے لیا۔ مسلمان مسلح ہو کر چمکتی ہوئی زرہیں پہنے ہوئے اس انداز سے نکلے کہ ان کے طمطراق کی خبر سن کر دشمن میں مقابلہ کرنے کی ہمت نہ رہے۔ ایسے بہادروں کے لئے منزل کی صعوبت، گرمی کی شدت، بھوک اور پیاس کی دقت کیوں کر دخل انداز ہو سکتی ہے! غزوۂ تبوک کے زمانے میں مسلمانوں کے دو گروہ تھے: الف: کامل الایمان، قلوب نور ہدایت سے منور رواں رواں ایمان کی روشنی سے پر ضیا۔ ب: طمع اور خوف کی وجہ سے اسلام کا اقرار کرنے والے! لالچ تھا اس مال سے حصہ لینے کا جو ان قبائل سے حاصل ہوتا جنہوں نے نہ تو اسلام قبول کیا تھا نہ انہیں مسلمانوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت تھی، اور آخر ناچار انہیں جزیہ دینا پڑتا۔ اور خوف تھا اس قسم کے (نام نہاد) کلمہ گویوں کو خالص مسلمانوں کی اس سطوت کا۔ جس کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ان کے مقابلہ پر صف آرا نہ ہونا چاہتا۔ (یعنی مدینہ کے یہ منافق اب تک اس لئے ظاہری اسلام اور باطنی کفر پر جمے ہوئے تھے کہ اگر اسلام سے انکار کرتے ہیں تو مسلمانوں کی آمدنی میں سے حصہ ایک طرف، الٹا جزیہ دینا پڑتا ہے۔ اور مقابلہ کرتے ہیں تو مدینہ کے یہودیوں کی طرح استیصال ہوتا ہے۔۔۔۔م) مسلمانوں کے پہلے گروہ (الف) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ تبوک کی دعوت پر بلا تامل لبیک کہا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان میں سے بعض حضرات ناداری کے ہاتھوں اتنے طویل سفر کے لئے اپنے لئے سواری کے انتظام سے قاصر تھے۔ اگرچہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے رضا و رغبت کے ساتھ اپنے اموال میں سے کثیر حصہ پیش کر دیا۔ ان لوگوں کے مدنظر راہ خدا میں فائز بہ شہادت ہو کر اللہ تعالیٰ کا قرب اور حضوری تھا۔ مگر دوسرا حریص و طامع گروہ جہاد کے نام سے جن کے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر حیلہ سازی پر اترآیا۔ باہم سرگوشیاں کرنے لگے۔ موسم گرما اور بعد مسافت کی وجہ سے جہاد پر تمسخر اڑانا شروع کر دیا۔ یہ منافقوں کا طائفہ تھا۔ ان کے اسی معاملہ میں سورۂ توبہ نازل ہوئی جس میں ایک طرف جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت و اصابت اور اس کا دوسرا پہلو مسلمان کہلا کر رسول کی اس دعوت سے انکار پر تعذیب کا خوف دلانا مقصود تھا۔ اس دعوت کے موقع پر منافقین نے ایک دوسرے سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایسی گرمی میں گھر سے نہ نکلنا یعنی لا تنفروا فی الحر (81:9) جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: وقالوا لا تنفروا فی الحرقل نار جھنم اشد حرالو کانو یفقھون فلیضحکوا قلیلاً ولیبکوا کثیراً جزاء بما کانو یکسبون(82-81:9) اور لوگوں کو بھی سمجھانے لگے کہ ایسی گرمی میں (گھر سے) نہ نکلنا! اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! (ان لوگوں سے) کہو کہ گرمی تو آتش دوزخی کی بہت زیادہ ہے۔ اے کاش! ان کو اتنی سمجھ ہوتی تو (ایک دن ہو گا کہ) یہ لوگ ہنسیں گے کم اور روئیں گے بہت (اور یہ) بدلہ(ہو گا) ان اعمال کا جو (دنیا میں) کیا کرتے تھے۔ ان منافقوں ہی میں سے جد بن قیس (از قبیلہ بنو سلمہ) سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بنو اصفر (رومی عیسائی) کے ساتھ جہاد کے لئے نہیں چلو گے؟ جد: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے اپنے ہمراہ نہ لے چلیے۔ میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کے معاملہ میں کس قدر حواس باختہ ہوں۔ بنو اصفر کی عورتیں حسن و جمال میں شہرہ آفاق ہیں۔ انہیں دیکھ کر میں خود پر قابو نہ پا سکوں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جد کی طرف پشت مبارک فرما دی۔ بعد میں اسی کے جواب پر یہ آیت نازل ہوئی: ومنھم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنۃ سقطوا وان جھنم لمحیطۃ بالکافرین (49:9) اور ان (ہی منافقوں) میں وہ نابکار بھی ہے جو تم سے درخواست کرتا ہے کہ مجھ کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دیجئے اور مجھ کو (حسینان روم) کی بلا میں نہ پھنسائیے۔ سنو جی! یہ لوگ بلائیں تو (آ ہی) گرے (حسینان روم) کی بلا نہ سہی، نافرمانی خدا کی بلا سہی اور بے شک جہنم (سب) کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ منافقین نے عوام و خواص کو ورغلانے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان لوگوں کے محاسبہ میں فرو گزاشت نہ ہونے دی اور ایسے غداروں پر گرفت کا پورا تہیہ فرما لیا۔ یہودی کے گھر میں آتش زنی: جونہی اطلاع پیش ہوئی کہ سویلم یہودی کے ہاں کچھ لوگ جمع ہیں، جو لوگوں کو شرکت غزوہ سے روکنے کی سازش کر رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب طلحہ بن عبید اللہ کی سربراہی میں چند مسلمانوں کو بھجوا کر سویلم کے گھر میں آگ لگوا دی۔ آگ کے شعلوں سے گھبرا کر ایک فتنہ جو چھت سے کود پڑا اور اپنا پاؤں توڑ بیٹھا۔ باقی لوگ بھاگ نکلے۔ اس واقعہ کے بعد کسی منافق و دشمن کو زبان سے بات نکالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی گرفت نے سب کے حواس درست کر دیئے۔ جیش عسرہ (یا تبوک) کے لئے مال و اسباب کی فراہمی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہداشت سے ہریگانہ و بیگانہ کو موقعہ کی اہمیت کا احساس ہو گیا۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک پر) دولت مند مسلمانوں نے جی کھول کر مالی امداد پیش کی۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے ایک ہزار درہم نقد اور تین سو اونٹ مع پالان و نکیل (زاد المعاد۔۔۔م) پیش کیے۔ چند حضرات نے اپنا پورا ثاث البیت حاضر کر دیا (صرف ابوبکر صدیقؓ نے۔۔۔۔م) بیشتر مسلمانوں نے اس معاملہ میں اپنی مقدرت کے مطابق سبقت کی۔ لیکن جو مسلمان اپنی عسرت کی وجہ سے اپنے لئے بھی سواری کا انتظام کرنے سے قاصر تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استدعا کی۔ تو جس کے لئے ہو سکا اپنی طرف سے سواری فراہم کر دی اور بقیہ سے معذرت۔ جس پر انہوں نے زار و نزار رونا شروع کر دیا اور ان کی شدت گریہ و بکا کی وجہ سے ان کا لقب بکائین پڑ گیا ۔ اس جیش میں تیس ہزار مسلمان تھے۔ اسلامی لشکر مدینہ سے باہر جمع ہوا۔ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے انتظام کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے، نماز میں حضرت ابوبکرؓ نے امامت کے فرائض ادا کیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد محمد بن مسلمہؓ کو مدینہ کی نیابت تفویض فرمائی اور اپنے اہل و عیال کی نگرانی کے لئے حضرت علیؓ (بن ابی طالب) کو مناسب ہدایت فرما کر لشکر گاہ میں تشریف لائے۔ یہاں سب سے پہلا کام عبداللہ بن ابی (مشہور منافق) کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ فوج سے باہر سے دھکیل دینا تھا۔ مدینہ میں جیش کی روانگی: کوچ کا نقارہ بجنے کے ساتھ ہی لشکر میں حرکت پیدا ہوئی۔ ذرا دیر میں ہر طرف غبار اڑ رہا تھا۔ گھوڑوں کی ہنہناہٹ نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ (شہر کی) عورتیں اپنی اپنی چھتوں پر سے اس کوہ پیکر لشکر کا نظارہ دیکھنے لگیں جو صحرا کو پامال کرتا ہوا شام جیسے دور و دراز ملک کی طرف جا رہا ہے۔ خداوند! اس لشکر کا جذبہ جہاد و شہادت! انہیں گرمی کا خوف ہے نہ بھوک اور پیاس کا خطرہ! متخلفین: جن لوگوں نے سائے اور عیش و تنعم کو ایمان و رضائے الٰہی پر ترجیح دی وہ گھروں میں بیٹھے رہے (م۔۔۔۔ اور قرآنی اصطلاح میں ان کا لقب متخلفین ہے) دس ہزار سواروں کا دستہ لشکر کے آگے آگے چل رہا تھا۔ مدینہ کی چھتوں پر عورتوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ کھڑے ہوئے جو اس لشکر کی قوت و جلال سے متاثر ہو رہی تھیں۔ لیکن دوسری طرف ان عورتوں کے نظارہ نے بعض ایسے مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کر لیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہونے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہے۔ انہی میں ابو خثیمہؓ بھی ہیں جو اس منظر کو دیکھنے کے بعد اپنے گھر واپس لوٹے تو ان کی دونوں بیویاں اپنے اپنے دالان اور آنگن سجائے زمین پر چھڑکاؤ کیا ہوا اور شوہر کے لئے کھانا تیار کیے بیٹھی تھیں۔ ابو خشیمہؓ نے یہ اہتمام دیکھ کر فرمایا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم دھوپ کی شدت اور گرم لو کے تھپیڑوں سے دوچار ہوں اور ابو خشیمہ ؓ پر بہار سایہ، خوش ذائقہ خوان اور حسین و ماہ پارا بیویوں کے جھرمٹ میں داد عیش دے۔ ایسا نہیں ہو سکتا! میرے لئے زاد راہ تیار کرو اور چشم زدن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر روانہ ہو گئے۔ (ابو خشیمہؓ تبوک میں لشکر سے جا ملے۔۔۔۔م۔) متخلفین کو جب چاروں طرف سے ندامت اوررسوائی نے گھیر لیا تو شاید ان میں سے کچھ اور حضرات بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد ابو خشیمہؓ کے تتبع میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے ہوں۔ وادی حجر (ثمود) میں پڑاؤ اور مسلمانوں کے لئے تنبیہہ اسلامی لشکر (مقام) حجر میں پہنچا جو قوم ثمود کی آبادی تھی۔ وہ لوگ پتھر کھود کر گھر بنایا کرتے۔ ایسے پتھر ابھی تک وہاں بکھرے ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ پڑاؤ کا حکم فرمایا مگر یہ تاکید بھی فرما دی: نہ تو کوئی شخص اس وادی کا پانی پیئے نہ اس سے وضو کیا جائے۔ اگر کسی نے پکانے کے لئے آٹا گوندھ لیا ہے تو اسے اونٹوں کو کھلا دیا جائے۔ کوئی شخص ایسے آٹے کی روٹی پکا کر نہ کھائے۔ نہ کوئی شخص لشکر گاہ سے اکیلے نکلے۔ بعض اوقات اس وادی میں ایسی ہوائیں چلتی ہیں جن کے جلو میں ریت کے پہاڑ ہوتے ہیں جو انسان بلکہ اونٹ کو بھی اپنے دامن میں چھپا لیتے ہیں۔ بدقسمتی سے دو مسلمان (علیحدہ علیحدہ) شب کے وقت لشکر گاہ سے باہر چلے گئے۔ ایک کو ہوا جھپٹ کر لے گئی اور دوسراریت کے نیچے دب گیا۔ صبح ہوئی تو جس کنویں کے پانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔ منہ تک ریت سے اٹا ہوا تھا۔ مسلمان پانی نہ ملنے سے خوف زدہ ہو رہے تھے۔ کالے کوسوں کا یہ سفر پانی کے بغیر طے ہو گا! دیکھتے ہی دیکھتے ابر کا ایک چھوٹا سالکہ نمودار ہوا اور چشم زدن میں جل تھل کرتا ہوا نظروں سے غائب ہو گیا۔ لشکر نے شکم سیر ہو کر پانی پیا۔ زاد راہ کے لئے چھاگلیں بھر لیں۔ خوشی کی حد نہ تھی۔ ایک گروہ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ سے تعبیر کیا۔د وسروں نے کہا نہیں ! یہ تو غیر موسمی مہینہ تھا ۔ اطلاع ملی کہ عیسائیوں کا جو لشکر سرحد پر پڑا ہوا تھا اسے شام میں واپس لے جایا گیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گریز سے ان کے خوف و ہراس کا اندازہ تو کر لیا لیکن ان کا تعاقب غیر ضروری سمجھنے کے باوجود عرب و شام کی اس سرحد پر پڑاؤ ڈال دیا۔ یہ ایک قسم کی مبارزت ہے کہ اگر رومیوں کو مقابلہ کرنا ہی ہو تو ہمیں میدان! ہم چوگان! ہم گو! اور اس درمیانی سرحد کو مضبوط کرنے کا انصرام فرمایا تاکہ آئندہ کے لئے اس راہ سے عرب سے آنے کی ہمت نہ ہو (مگر حفاظت کی صورت معلوم نہیں ہو سکی۔) بادشاہ ایلہ کی طرف سے قبول اطاعت کا قبالہ: اس سرحد پر بادشاہ ایلہ ابن روبہ کی حکومت تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سفیر بھیجا کہ اگر ہماری اطاعت منظور ہے تو فبہا ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ رئیس ایلہ یوحنا خود حاضر ہوا۔ اس کے سینے پر سونے کی صلیب لٹک رہی تھی اور نذر گزارنے کے لئے قسم قسم کے تحائف ہمراہ۔ یوحنا نے ادائے جزیہ منظور کر لیا۔ اسی طرح قریہ جربا اور اذرح کے حکم رانوں نے اطاعت کے لئے سر جھکا دئیے جن (تینوں) کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری معافی نامے لکھوا کر ہر ایک کے حوالے کر دئیے۔ ان میں سے یوحنا کے معافی نامے کا متن یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم ھذہ امنۃ من اللہ و محمد النبی رسول اللہ لیوحنۃ ابن روبۃ سفنھم و سیارتھم فی البر و البحر لھم ذمۃ اللہ! ومحمد النبی! ومن کان معھم من اھل الشام و اھل الیمن و اھل البحر فمن احدث منھم حدثا فانہ لا یحول مالہ دون نفسہ وانہ طیب لمحمد اخذہ من الناس وانہ لا یحل ان یمنعوہ ماء یردونہ ولا طریقاً یریدونہ من بر او بحر۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم: یہ معافی نامہ ہے خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی کی طرف سے جو اس کے رسول ہیں یوحنا ابن روبہ کے لئے (م مشتمل بر مراعات ذیل) الف۔ یوحنا کے کسی دشمن کی طرف سے ان کے بحری و بری نقصان کی ذمہ داری اللہ اور اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد ہو گی، بشمول ان لوگوں کے جو حلیف ہوں جو شام و یمن اور ساحل سمندر کے رہنے والے ہیں۔ ب۔ اور اگر ان کا کوئی آدمی ہمارے ساتھ بد عہدی کرے گا تو اس کا تمام مال و اسباب ضبط کر لیا جائے گا اور ایسا مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مباح ہو گا، البتہ مالی نقصانات کے عوض کسی کی جان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ ج۔ یوحنا اور ان کے دوسرے حلیفوں کو ان دریاؤں کا پانی بند کرنے کا مجاز نہ ہو گا جو اب تک ان کے علاقوں سے گزر کر مسلمانوں کی اراضی سیراب کر رہے ہیں۔ د۔ یوحنا اور ان کے حلیفوں کو ہمارے ان راستوں کی ناکہ بندی کا مجاز نہ ہو گا جو خشکی یا سمندر میں ہماری گزر گاہ ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی نامہ کی مزید توثیق کے طور پر یوحنا کو اپنی یمنی ردائے مبارک عطاء فرمائی۔ مدارات و تواضح سے اسے ہر طرح آرام پہنچایا اور جزیہ میں تین سو دینار سالانہ ادا کرنا قرار پایا۔ غزوۂ دومہ: رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ محسوس فرمایا کہ رومی از خود اپنی فوجیں واپس لے گئے ہیں اور سرحدی امراء نے اطاعت قبول کر لی ہے، اب کسی کے ساتھ جنگ کے لئے یہاں پڑاؤ ڈالے رہنا ضروری نہیں۔ البتہ اکیدر بن عبدالملک (نصرانی) امیر دومہ کی طرف سے یہ اندیشہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہرقل روم ہی پھر کسی وقت سر اٹھائے تو وہ (اکیدر) بھی اس کی کمک کے لئے نہ نکل آئے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیدر کی سرکوبی ضروری سمجھ کر خالد بن ولید کو پانچ سو سپاہیوں کے ہمراہ دومہ جانے کا حکم فرمایا۔ خالد کچھ اس انداز سے بڑھے کہ اکیدر کو ان کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ اکیدر نے اس شب کی چاندنی کو غنیمت سمجھ کر اپنے بھائی حسان کو ہمراہ لیا اور دونوں ٹیل گائے کے شکار کے لئے قلعہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ حضرت خالد کی نظر پڑ گئی۔ انہوں نے حسان کو قتل کر کے اکیدر کی جان بخشی اس شرط پر منظور فرمائی۔ کہ وہ مسلمانوں کے لئے شہر کے دروازے کھول دے گا اور اہل شہر نے اپنے امیر کے فدیہ میں اسے قبول کر لیا۔ حضرت خالدؓ نے یہاں سے مندرجہ ذیل غنیمت حاصل کی: اونٹ1000، بکری 8400، گندم400 وسق، زرہیں400اور حضرت خالد سالما غانما اکیدر کو ہمراہ لئے ہوئے باریاب ہوئے۔ وہ اکیدر حاضر ہونے کے ساتھ مسلمان ہو گیا اور آج سے بحیثیت حلیف اپنے علاقہ دومہ پر بدستور حکمران بنا دیا گیا (م۔۔۔۔۔۔ اور وہ بعد میں مرتد ہو گیا: اصابہ در تذکرہ اکیدر و بجیر ابن بجیر) تبوک سے مراجعت: لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنی دور سے جیش العسرۃ کی اس کثیر تعداد کو خوش و خرم لے کر واپس مدینہ تشریف لانا آسان نہ تھا کہ ان مسلمانوں ہی میں سے اکثر حضرات امیر ایلہ اور جربا و اذرح سے معاہدوں کی افادیت کو نہ سمجھ سکے، نہ ان کے نزدیک شام و عرب کی سرحدوں کی حفاظت اس قدر اہم تھی، انہیں ملال تھا کہ اس طویل مسافت میں انہوں نے کیسی کیسی سختیاں برداشت کیں، لیکن نہ کہیں غنیمت حاصل ہوئی نہ قیدی دستیاب ہوئے۔ اور تو اور ان کی تلواریں بھی میان ہی میں پڑی رہیں۔ ادھر وہ مدینہ کے موسمی میووں سے بھی محروم ہو گئے۔ لشکر میں چھپے ہوئے منافق ان باتوں سے شہ پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان درازی اور استہزاء پر اتر آئے۔ مخلص مومنین ان کی باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے لگے جس سے منافق ذرا احتیاط سے زبان کھولتے، لیکن باز نہ رہ سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کو واپسی کا حکم دیا۔ راستے میں اہل لشکر پر اس قسم کی باتوں پر نگرانی رکھی۔ بارے امن و سلامتی کے ساتھ مدینہ وارد ہوئے اور چند روز بعد حضرت خالدؓ دومہ کی غنیمت لے کر باریاب ہوئے۔ خالد کی کمند میں دومہ کا امیر اکیدر تھا، زربفت کی بیش قیمت چادر کندھے پر ڈالے ہوئے۔ اہل مدینہ اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ مستخلفین تبوک: (مدینہ سے تبوک کی طرف روانگی کے بعد جو مسلمان گھروں میں بیٹھے رہے وہ قرآن کی اصطلاح میں متخلفین ہیں۔۔۔۔م): یہ (متخلفین) ندامت سے سر چھپا رہے تھے اور منافقین خوف کے مارے پشیمان! طلبی پر ایک ایک متخلف پیش ہوا اور ان میں کعب بن مالک و مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (تین حضرات) کے سوا باقی (متخلفین) نے جھوٹے سچے عذر پیش کر کے بریت حاصل کر لی، لیکن کعب و مرارہ اور ہلال نے جب اپنا اپنا جرم تسلیم کر لیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے مقاطعہ کا فرمان صادر فرما دیا۔ مسلمانوں نے سلام و کلام کے ساتھ ان کے ہاتھوں خرید و فروخت بھی ترک کر دی باوجودیکہ ہر سہ حضرات عذر خواہی میں راست گو تھے۔ آخر اللہ نے ان پر کرم فرما کر معاف کر دیا: لقد تاب اللہ علی النبی ولمھاجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ من بعد ماکاد یریغ قلوب فریق منھم ثم تاب علیھم انہ بھم رء وف رحیم (117-9) البتہ خدا نے پیغمبر پر بڑا ہی فضل کیا اور (نیز) مہاجرین اور انصاف پر جنہوں نے تنگ دستی کے وقت میں پیغمبر کا ساتھ دیا ، جب کہ ان میںسے بعض کے دل ڈگمگا چلے تھے۔ پھر اس نے ان پر بھی اپنا فضل کیا (کہ ان کو سنبھال لیا) اس میں شک نہیں کہ خدا ان سب پر نہایت درجہ مہربان اور ان کے حال پر اپنی مہر رکھتا ہے۔ وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا حتیٰ اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوآ ان لا ملجا من اللہ الا الیہ ثم تاب علیھم لیتوبوا ان اللہ ھو التواب الرحیم (118:9) اور (علیٰ ہذا القیاس) ان تینوں شخصوں پر بھی جو (بانتظار امر خدا) ملتوی رکھے گئے تھے، یہاں تک کہ جب زمین باوجود فراخی ان پر تنگی کرنے لگی اور وہ اپنی جان سے بھی تنگ آ گئے اور سمجھ گئے کہ خدا کی گرفت سے سوا اس کے اور کہیں پناہ نہیں۔ پھر خدا نے ان کی توبہ قبول کر لی (تاکہ قبول توبہ کے شکرئیے میں آئندہ کے لئے بھی) توبہ کیے رہیں۔ بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ منافقین پر گرفت: تبوک سے واپس تشریف لانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں پر پہلے سے زیادہ گرفت شروع کر دی، اس لئے بھی کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو جانے سے ان کی طرف سے مزید ریشہ دوانی کا خطرہ بڑھ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کا استیصال ضروری سمجھا۔ پھر خدا تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی نصرت اور سربلندی کا وعدہ بھی فرما دیا، جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بدن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کا یقین بڑھ گیا۔ منافق جو پہلے ہی فتنہ انگیزی سے باز نہ رہ سکتے تھے، آئندہ ان کے اس کاروبار کا اندیشہ اور زیادہ ہونے لگا کیوں کہ ابھی تو اسلام مدینہ اور اس کے گرد و نواح ہی میں محصور تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غور فرمایا کہ جب اسلام تمام عرب میں مقبول ہونے کے بعد بیرونی ممالک تک اپنا اثر ونفوذ قائم کر لے گا تو یہ (منافق) کیا کیا ستم برپا نہ کریں گے۔ اب ان کے بارے میں تغافل برتنا اسلام کا انجام خراب کرنا ہے۔ ان کے جراثیم تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ مسجد ضرار کا احراق: منافقین نے مدینہ سے ملحقہ بستی ذواوان میں ایک علیحدہ مسجد تعمیر کر لی۔ ان کا مقصد نماز کے بہانے اسلام کی تحریف تھا، تاکہ مسلمانوں کے اندر مسائل بازی سے تفریق پیدا کی جائے۔ یہ مقام شہر سے ایک ساعت سفر کے فاصلہ پر تھا۔ مسجد کے بانیوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ پہلی نماز آپ پڑھا کر افتتاح فرما دیجئے (غزوۂ تبوک میں روانہ ہونے سے قبل منافقین نے یہ تجویز رسول پاک کے حضور پیش کی تھی جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی پر ملتوی فرما دیا اور اب یہ مسئلہ دوبارہ پیش ہوا) اس مسجد کی حقیقت تعمیر واضح ہو چکی تھی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جلانے کا فرمان صادر فرما دیا اور جب یہ جلا دی گئی تو منافقوں کے کان کھڑے ہو گئے۔ عبداللہ ابن ابی (راس المنافقین) کے ماسوا ایسے تمام اشخاص مہربہ لب ہو کر رہ گئے۔ مسجد ضرار کے مسمار کر ادینے کے بعد یہ بدنصیب بھی دو ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا۔ جس دل میں مسلمانوں کے کینہ کی آگ ان کے ورود مدینہ سے سلگ رہی تھی آج وہ دل ہی نہ رہا۔ اس پر بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ابن ابی کی مذمت کرنے سے منع فرما دیا اور جب اس کے فرزند جناب عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کی لاش پر نماز جنازہ ادا کرنے کی درخواست کی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی انکار نہ فرمایا اور جب تک اس کی لاش دفن نہ ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے سرہانے تشریف فرما رہے۔ عبداللہ بن ابی کی موت سے منافقت کا ستون پاش پاش ہو گیا۔ اس کے ہم زاد اسلام کی طرف بڑھے اور صدق دل سے توبہ کر کے مخلصین میں شمار ہونے لگے۔ مدینہ میں دائمی امن وامان کا دور دورہ: سفر تبوک کے بعد تمام عرب میں اسلام کا اثر و نفوذ بڑھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے دشمنوں کی طرف سے خالی الذہن ہو گئے۔ قبائل میں جو خاندان تاہنوز مشرف بہ اسلام نہ ہوئے تھے اپنے رؤسا کی معرفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور قبول اسلام کا تحفہ پیش کرنے کے لئے چاروں طرف سے وفود کی صورت میں امڈ آئے۔ تبوک آخری غزوہ تھا جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی اس دین پر سکون و طمانیت کے ساتھ مدینہ میں فروکش رہے۔ لخت جگر ابراہیم سے شغف: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کے ساتھ اپنی توجہ بڑھا دی۔ اس موقعہ پر ان کا سورہ یا اٹھارہ مارہ سے متجاوز نہ تھا۔ وفود سے فراغ اور مسلمانوں کو خدا اور رسول کی طرف سے ہدایات دینے کے بعد جس قدر مہلت ملتی اپنے نور نظر سے دل بہلانے میں صرف فرماتے۔ ابراہیم دن بدن تونا ہوتے جا رہے تھے۔ ان کی کھلائی ام سیف کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بکریاں عطا فرمائی تھیں وہ ان کا دودھ پلا کر انہیں سیر رکھتیں۔ ابراہیم کی شکل و شباہت اپنے رفیع المنزلت والد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی جلتی تھی۔ اس وجہ سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے ساتھ زیادہ میلان تھا۔ مگر اپنے فرزند ابراہیم کے ساتھ یہ تعلق نہ تو رسالت کا مقتضی تھا نہ اس پر مبنی کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعدانہیں اپنے دنیوی ترکہ کا وارث بنانا چاہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی ذات اور اپنی رسالت پر اس قدر یقین و ایمان تھا کہ اپنی اولاد کی توریث کی بجائے فرمایا: نحن معاشر الانبیاء لانرث ولا نورث ما تر کناہ صدقہ (ہم) جماعت انبیاء کا یہ دستور ہے کہ نہ خود ترکہ کا وارث بنتے ہیں نہ کسی کو اپنے ترکہ کا وارث بناتے ہیں۔ صاحبزادہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جذبہ اس شفقت پدری کی بناء پر تھا جس سے تمام والدین یکساں بہرہ مند ہیں۔ البتہ رسول خدا کصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یہ شفقت تمام بنی آدم سے بیش تر تھی۔ یہ جذبہ ہر عربی نژاد میں بھی تھا کہ اس کے بعد اس کی نسل کسی طرح قائم رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس جذبہ سے محروم نہ تھے۔ پھر اس سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صاحبزادے (قاسم و طاہر) جو سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے تھے۔ آپ کے سامنے طعمہ اجل ہو چکے تھے۔ اپنی تین صاحب اولاد اور شوہر والی صاحب زادیوں کو (یکے بعد دیگرے) اپنے ہاتھوں سپرد خاک فرما چکے تھے۔ جن کے بعد سیدۂ فاطمہؓ باقی رہ گئی تھیں اپنے سامنے اولاد کی دائمی مفارقت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو گھاؤ ہو چکا تھا، ابراہیم اس کا مداوا تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کی وجہ سے انبساط و خوشی موجزن تھی اور صاحب زادہ کے وجود پر آپ کا فخر بے محل نہ تھا۔ پسر نبی علیہ السلام (ابراہیم) کی علالت و وفات: لیکن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے نور نظر سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا یہ دوسر صرف سولہ یا اٹھارہ مہینے تک رہا۔ صاحب زادے ایسے علیل ہوئے کہ زندگی کی امیدیں منقطع ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ان کی کھلائی ام سیف کے ہاں سے اپنی والدہ عالیہ (سیدہ ماریہؓ) کے ہاں مشربہ ام ابراہیم کے ہاں منتقل کر دئیے گئے۔ جناب ماریہؓ اور ان کی ہمشیرہ سیدۂ سیرین دونوں تیمار داری فرمانے لگیں، لیکن علالت نے شدت اختیار کر لی۔ مریض کی یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اطلاع بھیجی گئی۔ سنتے ہی دل بیٹھ گیا۔ عبدالرحمان بن عوف کے کندھے کا سہارا لئے ہوئے تشریف لائے۔ بچہ اس وقت دم توڑ رہا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا کر اپنی گود میں دم توڑتے ہوئے دیکھ کر فرمایا: انا یا ابراہیم لا تغنی عنک من اللہ شیئا ابراہیم! میں قضائے الٰہی کو تجھ سے روک نہیں سکتا! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک جھکائے ہی رہے۔ صاحبزادے پر جان کنی کا صدمہ طاری تھا۔ اس کی والدہ اور خالہ دونوں گریہ وبکاہ میں مصروف! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا۔ بچے کے دم توڑنے کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی جوت جو کئی مہینوں سے خوشی کا اجالا کر رہی تھی ہمیشہ کے لئے گل ہو گئی۔ آنکھوں نے آنسوؤں کا تار باندھ رکھا تھا اور زبان پر یہ کلمات جاری: یا ابراہیم! لولا انہ امر حق ووعد صدق وان آخرنا سیلحق باولنا لجزنا علیک اشد من ھذا! اے ابراہیم! اگر موت برحق نہ ہوتی اور خدا کا وعدہ سچا نہ ہوتا تو ہم تمہاری موت پر زیادہ بے قرار ہوتے لیکن مرنے والوں کی ملاقات کے لئے ہمیں بھی ایک نہ ایک دن ان کے پاس پہنچنا ہی ہے! (اس کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنبھل کر بیٹھ گئے اور زبان مبارک سے فرمایا: تدمع العین ویحزن القلب ولا نقول الا ما یرضیٰ الرب وانا یا ابراہیم لمحزونون۔ چشم اشک بار اور دل مبتلائے غم ہے۔ لیکن زبان سے ہم ایسا کلمہ نکالیں گے جو ہمارے پروردگار کی خوشنودی کا باعث ہو! اے ابراہیم! میں تیری موت کے صدمے سے بے حد مغموم ہوں۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے گریہ و ملال سے مسلمان بے حد متاثر تھے۔ دو ایک دانش مندوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! گریہ و ملال سے تو آپ دوسروں کو منع فرماتے ہیں۔ فرمایا: ما عن الحزن نھیت وانھا نھیت عن الحزن بالبکاء وان ماترون بی اثر ما فی القلب من محبۃ ورحمۃ ومن لم یبد الرحمۃ لم یبد غیرہ علیہ الرحمۃ میں نے حزن و غم سے کسی کو نہیں روکا۔ بین و نوحہ سے منع کیا ہے۔ میرے حزن و غم کا سبب محبت قلبی و شفقت پدری ہے۔ جو شخص دوسروں پر شفقت و رحمت نہیں کرتا، وہ بھی اوروں کی مہربانی و لطف سے محروم رہ جاتا ہے۔ یہ فرمانے کے بعد جب اپنے جذبات غم کو چھپانے پر میلان ہوا تو سیدۂ ماریہؓ اور سیرین کی طرف مہر کی نظر سے دیکھ کر دونوں کو تسکین د یتے ہوئے فرمایا: ان لہ لمرضاً فی الجنۃ! ابراہیم کے لئے جنت میں ایک دائی موجود ہے۔ مرحوم کی لاش کو بی بی ام بردہ ( اور بروایت دیگر سیدنا عباسؓ کے صاحب زادے جناب فضل) نے غسل دیا۔ کھٹولے پر نعش رکھ لی گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عم بزرگوار مسلمان میت کی مشایعت میں اسے (گورستان) بقیع میں لے گئے۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین کے بعد فرمایا قبر میں دراڑیں نہ رہ جائیں درستی کرنے کے بعد دست مبارک سے تربت بنا کر پانی چھڑکا اور علم کے طور پر قبر کے سرہانے پتھر رکھ دیا ۔ آخر میں یہ کلمات ارشاد فرمائے: انھا لا تضرو لا تنفع ولکھنا تقرعین الحی وان العبد اذا عمل عملا احب اللہ ان یتفنہ قبر کی ساخت پر میت کے نفع و ضرر کا مدار نہیں۔ ان سے زندوں کو تسکین سی ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ ایسے شخص کا دوست دار ہے جو کسی شے کو ادھورا نہ چھوڑے۔ ابراہیم کی موت کے بعد سورج گرہن کا اتفاقی حادثہ: ابراہیم کی وفات کے روز ہی سورج کو گرہن لگ گیا جسے بعض سادہ لوح مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ سے تعبیر کرنے لگے کہ آپ کے صاحب زادہ کی وفات پر آفتاب غم سے کالا پڑ گیا ہے۔ یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچی۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صاحب زادہ کی موت پر جس طرح غم سے بے تاب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کا یہ قیاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین قلب میں مددگار نہ ہو سکتا تھا۔ یہ خبر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہی رہے اور کم فہم عوام کے ایک اتفاقی حادثہ کو معجزہ قرار دینے پر چشم پوشی میں کیا تکلف تھا؟ مگر نہیں! ایسے نازک مواقع عوام کی طرف سے اور اس قسم کے خلاف واقعہ قیاسات ہی تو انہیں حقیقت سے دور کر دیتے ہیں یہ نہ ہو تو نفس واقعہ ان کے مزید حزن و ملال کا سبب بن جائے! عوام کے ایسے دور از حقیقت قیاسات پر مرد دانا سکوت نہیں کر سکتا۔ چہ جائے کہ ایک عظیم المرتبت رسول! یہی مصالح تھے جن کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن پر عوام کو اپنے صاحب زادے (ابراہیم) کی وفات کے صدمہ سے بے تعلق ثابت کرنا چاہا اور مسلمانوں کے مجمع سے خطبہ کے دوران میں فرمایا: ان الشمس والقمر آیات من آیات اللہ لا تخسفان الموت احد ولا لحیاتہ! فاذا رایتم ذالک فافزعوا الی ذکر اللہ بالصلوٰۃ! یہ سورج اور چاند بھی ہستی باری تعالیٰ کے دلائل میں سے دو ثبوت ہیں۔ انہیں کسی کی موت یا زندگی پر گرہن کیوں لگنے لگا! البتہ گرہن کے موقع پر اے مسلمانو! ادائے نماز سے اللہ کی یاد تازہ کیا کرو۔ رسالت کے لئے اس سے زیادہ واضح دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے غم و اندوہ میں مبتلا ہیں مگر تبلیغ رسالت کے فریضہ میں سر مو فرق نہیں آنے پاتا۔ مستشرقین کو بھی اس واقعہ پر آپ کی عظمت و برتری کا اعتراف کرنا پڑا اور ان کے قلم سے بے ساختہ نکل گیا کہ یہ صاحب صلی اللہ علیہ وسلم نازک ترین موقعوں پر بھی حق و صداقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابراہیم کی جدائی میں اس قدر مغموم دیکھا تو ان پر کیا اثر ہوا ہو گا۔ عام الوفود: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدستور فرائض رسالت کی ادائیگی میں مصروف اور اسلام کی ترویج میں منہمک رہے۔ اس وقفہ میں اطراف سے بکثرت وفود حاضر ہوئے جن کی وجہ سے اس سال کا لقب عام الوفود ہو گیا اور اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت ابوبکرؓ نے کعبہ کا حج کیا۔ یہ 10ھ تھا۔ ٭٭٭ باب28 سال وفود نتیجہ تبوک: غزوۂ تبوک کا نتیجہ تمام جزیرہ عرب میں اسلام کے اثر و نفوذ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے یک سوئی ہو گئی اور مدینہ میں سکون و طمانیت کے ساتھ زندگی کے دن گزارنے کا موقع حاصل ہوا۔ جو قبائل اب تک اپنے قدیم مسلک شرک پر قائم تھے۔ کسی تدبیر یا شرارت کی بجائے تبوک میں مسلمانوں کی کامیابی دیکھ کر اپنے مستقبل کی فکر میں ڈوب گئے۔ مسلمان جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت کا شرف حاصل تھا اور اس غزوۂ میں شریک تھے، اپنی جگہ شکوہ سنج کہ شام جیسا طویل و پر صعوبت سفر اختیار کیا، جس میں گرمی کی شدت اور لو کے تھپیڑوں کے ساتھ پانی نہ ملنے کی وجہ سے قدم قدم پر ہلاکت کا خطرہ تھا۔ رومی اپنی فوجیں میدان سے ہٹا کر اندرون ملک کے قلعوں میں جا دبکے اور جنگ نہ ہونے کی وجہ سے غنیمت بھی نہ مل سکی۔ دوسری طرف ان قبائل کے دل پر بے حد اثر قائم کر دیا۔ عرب کے ان منتشر قبائل کے علاوہ ملک کی جنوبی سمت یمن و حضر موت اور عمان تک رومیوں کی پسپائی سے حیران گئے۔ کل کی بات تھی یہی رومی ایران جیسی عظیم الشان مملکت کو تہ و بالا کر کے اپنی مقدس صلیب ان سے واپس لے آئے تھے جسے انہوں نے جم غفیر کی مشایعت میں بیت المقدس میں اس کے اصلی مقام پر نصب کیا۔ وہی ایران ہے جس کے زیر نگین یمن جیسا وسیع ملک اور دوسرے عربی صوبے (اس کے) باج گزار تھے۔ عام الوفود: نہ صرف یمن ور اس کے قرب و جوار بلکہ ملک کے ہر خطہ میں اسلام کا اثر ہو چکا تھا۔ جو قبیلے اب تک مسلمان نہ ہوئے تھے ان کے لئے اس سے بہتر کیا تھا کہ وہ خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے سائے میں لے آئیں، جس سے انہیں روم اور ایران جیسے خونخوار شہنشاہوں کے مظالم سے نجات مل جائے۔ بدیں وجوہ ایسے قبائل جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور تحفہ اسلام قبول کرتے، ان کے لئے پس و پیش کا سوال نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبائل کے سرداروں کو ان کے عہدوں پر بدستور قائم رکھتے۔ ایسے قبائل چاروں طرف سے جوق در جوق مدینہ آنا شروع ہو گئے۔ جو خود کو قبول اسلام کی خلعت سے مزین کر کے واپس ہوتے۔ وفود اس کثرت سے آئے کہ یہ سن (10ھ) عام الوفود کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ اب تک تبلیغ اسلام میں مکہ اور حنین کی فتح اور طائف کے محاصرہ کا اثر غالب تھا لیکن آج سے تبوک میں مسلمانوں کے لشکر کشی کی ہیبت سے رومیوں کا میدان جنگ سے لڑائی کے بغیر واپس لوٹ جانا کہیں زیادہ موثر ثابت ہوا۔ عروہ ابن مسعود طائفی کا قبول اسلام اور شہادت: ان اتفاقات میں اہل طائف کا معاملہ حیرت انگیز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین کے بعد ان کا محاصرہ کرنے پر مجبور ہو گئے مگر مقاتلہ و فتح کیے بغیر یہ محاصرہ ترک کرنا پڑا۔ حسن اتفاق یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تبوک سے مراجعت کے بعد سب سے پہلے اہل طائف نے اپنی اطاعت کا اعلان کیا، باوجود یہ کہ وہ عرصہ سے شش و پنج میں تھے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ہوا یہ کہ اہل طائف کے سردار عروہ بن مسعود جو محاصرۂ طائف کے زمانہ میں (وطن سے دور) یمن گئے ہوئے تھے۔ اس دوران میں جب یمن سے واپس آئے تو واقعہ تبوک سے متاثر ہو کر مدینہ حاضر ہوئے۔ خود اسلام قبول کرنے کے بعد اپنی قوم کو مشرف بہ دین کرنے کے لئے بعجلت واپسی پر مصر ہوئے۔ جناب عروہ (ابن مسعود) رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سے نا آشنا نہ تھے۔ حدیبیہ کے موقع پر قریش کی طرف سے وکیل ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یہاں سے لوٹ کر اہل مکہ کو تلقین فرمائی تھی۔ حضرت عروہ کو اپنی قوم میں عزیمت دعوت کے ارادہ کا احساس رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ثقیف کی اپنے معبود لات کے بارے میں عصبیت سے بھی خطرہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ کو اس نزاکت کی وجہ سے ان میں تبلیغ سے منع کرتے ہوئے فرمایا اگر تم نے بنو ثقیف میں تبلیغ کی تو کہیں وہ تمہیں قتل نہ کر دیں! لیکن عروہ کو اپنے متعلق بنو ثقیف میں احترام کی وجہ سے یہ خطرہ نہ تھا۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے تو بنو ثقیف اپنی آنکھ کا تارا سمجھتے ہیں! آخر وہ طائف پہنچے اور اپنی قوم کو اسلام کی دعوت پیش کی۔ یاران شہر نے چھپ کر مشورہ کیا جس سے عروہ کو آگاہ نہ ہونے دیا۔ صبح ہوئی تو عروہ نے ایک بلند مقام پر کھڑے ہو کر بنو ثقیف کو نماز کے لئے جمع ہونے کا حکم دیا۔ اس موقع پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست ظاہر ہوئی۔ چاروں طرف سے ان کا محاصرہ کر کے تیر برسانا شروع کر دیے گئے۔ ایک تیر سے جناب عروہ جاں بحق ہوئے۔ یہ دیکھ کر ان کے اہل و عیال جمع ہو گئے۔ ہنوز زندگی کی رمق باقی تھی۔ حضرت عروہ نے آخری الفاظ میں فرمایا: کرامۃ اکرمنی اللہ بھا و شھادۃ ساقھا اللہ الی فلیس منی الا ما فی الشھداء الذین قتلوا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبل ان یرتحل عنکم یہ (اسلام) خدا کا دین ہے جو مجھے عطا ہوا اور یہ موت شہادت ہے جو میرے مقدر میں تھی۔ میں بھی ان ہی شہیدوں کی طرح ہوں جو (قبل ازیں) رسول خدا کی معیت میں کفار سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ جناب عروہ نے وصیت میں فرمایا کہ انہیں ان لوگوں کے ساتھ دفن کیا جائے جو محاصرۂ طائف میں شہید ہوئے تھے۔ لیکن عروہؓ کا خون رائیگاں نہ جا سکتا تھا۔ طائف کے نواحی باشندے جو مسلمان ہو چکے تھے، انہیں اپنے سردار (عروہؓ) کے قتل کا بے حد ملال تھا۔ بنو ثقیف نے حضرت عروہؓ کو شہید تو کر دیا لیکن اب وہ پشیمان تھے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ان کا حشر کیا ہو گا! وہ تو جسے دیکھ لیں گے قتل کیے بغیر نہ رہیں گے۔ انہیں مسلمانوں کے ساتھ مصالحت کرنے کے بغیر چارہ نہ تھا۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر موت ہی ان کا مداوا کر سکتی۔ بنو ثقیف نے مشورہ کر کے عبد یا لیل کو اپنی طرف سے صلح کے لئے نام زد کیا، جس نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے) بدیں وجہ انکار کر دیا کہ اس کا حشر بھی کہیں عروہؓ ہی کی طرح نہ ہو۔ مزید اصرار پر اس نے اپنے ہمراہ چار اور اشخاص کو شامل کر لیا کہ اگر یاران شہر پہلے کی طرح برافروختہ ہوئے تو ہم سب کے قبیلہ دار انہیں سمجھا بجھا کر فتنہ سے روک سکیں گے۔ بنو ثقیف بحضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم : وفد مدینہ پہنچا تو سب سے پہلے جناب مغیرہ بن شعبہؓ نے دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور بشارت کی غرض سے روانہ ہوائے۔ راستے میں حضرت ابوبکرؓ نے مغیرہؓ کو اس طرح رواں دواں جاتے ہوئے دیکھ کر سبب دریافت کیا تو مغیرہ سے یہ خبر سن کر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عبد یا لیل کے آنے کی خوش خبری پیش کی۔ اہل طائف مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کھوے سے کھوا ملا کر چل رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محاصرہ طائف اور اس سے دست کش ہو کر تشریف لے آنے کا ذکر اذکار زبانوں پر تھا۔ حضرت مغیرہ نے انہیں اسلامی طریق پر ملاقات و سلام کے آداب اور الفاظ بتائے، لیکن انہوں نے ان آداب پر عمل کرنے سے انکار کر دیا اور باریابی کے موقع پر جاہلیت ہی کے انداز سے آداب و سلام بجا لائے۔ وفد بنو ثقیف کا خیمہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بنو ثقیف کے لئے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحن میں خیمہ نصب ہوا، مگر طائفہ بہر صورت (اپنے متعلق) مسلمانوں سے خائف تھے۔ شرائط مصالحت میں حضرت خالدؓ بن سعید بن العاص وکیل تھے۔ جنہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور ارباب طائف کے درمیان پیام بری کی۔ خالدؓ ہی ان کے لئے خوان لاتے لیکن بنو ثقیف حضرت خالدؓ کو اپنے سامنے اس خوان میں سے تھوڑا بہت چکھائے بغیر کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتے۔ بنو ثقیف نے ایک پیغام میں کہلا بھیجا کہ ہمارے معبود لات کو تین سال تک منہدم نہ کیا جائے اور فی الحال ہمیں نماز کی تکلیف سے بھی بری رکھا جائے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی شرط تسلیم نہ کی حتیٰ کہ اپنے معبود لات کے لئے ایک ماہ کی مہلت مانگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی انکار فرما دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انکار ایسی قطعیت کے ساتھ تھا جس میں کسی استثناء یا ترمیم و اضافہ کی گنجائش نہ تھی مامور من اللہ جو خدائے واحد القہار کے دین کی دعوت کے لئے مبعوث ہوئے اور جنہوں نے کبھی کسی صنم کی بقا گوارا نہ کی ہو آج وہ ایک قبیلہ کی خاطر استثناء کا روادار ہو سکتے تھے۔ اس لئے بنو ثقیف کے لئے آج ایک اور رعایت فرما دی جائے کہ کل اسی قوم کے محاصرہ (طائف) پر خدا کے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگزر کر کے محاصرہ ترک کر دیا تھا؟ نہیں نہیں! انسان ایمان لا سکتا ہے۔ یا ایمان نہیں لا سکتا! ایمان اور عدم ایمان کے درمیان ارتیاب و شک کے سوا کوئی اور مقام نہیں لیکن جس طرح ایمان اور کفر یکجا نہیں ہو سکتے، اسی طرح ایمان باللہ اور شرک دونوں ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ بنو ثقیف کی طرف سے بقائے لات کا مطلب یہ تھا کہ وہ خدائے بزرگ و برتر اور لات کو مساوی مقام دینا چاہتے تھے۔ یہی تو شرک ہے! وان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ (48:4) جب بنو ثقیف نے نماز سے استثناء کی شرط پیش کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہ لا خیر فی دین لا صلوٰۃ فیھا! جس دین میں عبادت نہ ہو اس میں کیا بھلائی ہو سکتی ہے؟ (م۔۔۔۔ باضافہ: امیر وفد عبد یا لیل نے عرض کیا ہمارے ہاں تجرد کی رسم عام ہے اور تجربہ کی وجہ سے۔۔۔۔ میں شغف فرمایا) ھو علیکم حرام فان اللہ یقول: ولا تقربو الزنی انہ کان فاحشۃ(32:17) یہ۔۔۔۔ تم پر حرام ہو گیا ہے خدا فرماتا ہے کہ زنا کے پاس(ہو کر بھی) نہ پھٹکنا کیوں کہ وہ بے حیائی ہے اور (بہت ہی) برا چلن ہے۔ ربا کے استثناء پر عرض ہوا ہماری معیشت سود خواری ہی پر موقوف ہے فرمایا: لکم رء وس اموالکم (ان اللہ یقول) یایھا الذین امنو اتقوا اللہ وذرو مابقی من الربوا ان کنتم مومنین (279-278:2) جس قدر سود تمہارے مقروضوں کے ذمے ہے۔ مسلمانو! اگر فی الحقیقت تم خدا پر ایمان رکھتے ہو تو اس سے ڈرو! اور جس قدر سود مقروضوں کے ذمے باقی ہے اسے چھوڑ دو! اگر تم ایمان دار ہو۔ انہوں نے شراب نوشی کی اجازت طلب کی کہ یہ ہمارے خطہ کی سوغات ہے، تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے حرام فرمایا ہے۔ اور یہ آیت تلاوت فرمائی: یایھا الذین امنو انما الخمر والمیسر رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ (90:5) مسلمانو! بلاشبہ شراب اور جوا سب شیطانی کاموں کی گندگی ہے۔ ان سے اجتناب کرو! بنو ثقیف نے دیکھا کہ واقعی اسلام کے ساتھ ان امور کی کوئی نسبت نہیں۔ درخواست پیش کی ہمارے ہاتھ سے ہمارے بتوں کو نہ تڑوایا جائے۔ کیوں کہ وہ ابھی نئے نئے ایمان لائے تھے۔ ادھر ان کے وطن (طائف) میں ان کے مدینہ سے واپس آنے کا انتظار ہو رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ درخواست تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہ سمجھا۔ مقصود بتوں کو توڑنا ہے، اہل طائف خود اپنے ہاتھ سے توڑیں یا کوئی اور دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی ہے۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی پابندی نہ لگائی۔ یہی سہی لات کو جلدی توڑ دیا جائے گا اور طائف میں اللہ کی عبادت کا دور دورہ شروع ہو جائے گا! فرمایا تمہارے ہاتھ سے تمہارے بتوں کو توڑنے کی شرط نہیں۔ ان کی دینی تربیت کے لئے جناب عثمان ابن ابو العاص کا تقرر ہوا۔ ان کا ابھی عنفوان شباب ہی تھا۔ عثمان مسائل دین اور قرآن پڑھنے کے بڑے دلدادہ تھے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ اور دوسرے مہاجرین اولین کی (عثمان کے متعلق) شہادت سے معلوم ہوتا ہے۔ وفد ثقیف آخر رمضان تک مدینہ میں رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزے بھی رکھے۔ افطاری اور سحری دونوں وقت کا کھانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محل سرائے سے جاتا اور مدینہ سے ان کی مراجعت کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان سے فرمایا: تجاوز فی الصلوٰۃ واقدر الناس ضعفھم فان فیھم الکبیر والصغیر والضعیف و ذوالحاجہ با جماعت نمازوں میں قیام و سجود میں طول مت دو۔ مقتدیوں میں کم زور اور ضعیف عمر کی رعایت کرو! جن میں بوڑھے، بچے، ناتواں اور کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ انہدام لات: ارباب وفد (ثقیف) اپنے وطن کی طرف لوٹے تو ان کے ہمراہ ابوسفیان (بن حرب) اور مغیرہ بن شعبہؓ کو طائف بھیج دیا۔ دونوں حضرات بنو ثقیف کی قرابت اور مودت میں دوسروں سے زیادہ قریب تھے۔ طائف وارد ہوئے تو من جملہ اور شرائط کے لات کے انہدام کا تذکرہ بھی ہوا۔ ابوسفیان اور مغیرہؓ ہاتھوں میں کدالیں لئے ہوئے لات کے صنم کدہ کی طرف جا رہے تھے۔شہر کی عورتیں چھتوں پر بہ حسرت و یاس ان کی طرف تک رہی تھیں۔ جونہی لات پر ضرب لگائی اور یہ آواز لوگوں کے کان میں پہنچی عورتوں نے نالہ و شیون سے زمین آسمان ایک کر دئیے۔ لیکن وفد کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے کسی نے مغیرہ کے ہاتھ پکڑنے کی جرأت نہ کی۔ لات کے چڑھاوے میں جو مال و زر اور زیور جمع تھا، حضرت مغیرہؓ نے جناب عروہ بن مسعودؓ اور ان کے والد مسعود دونوں کا قرض ادا کر دیا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہؓ سے فرما دیا تھا اور ابو سفیان بھی اس سے متفق ہو گئے۔ لات کے انہدام اور اہل طائف کے قبول اسلام کی ہیبت سے حجاز کے باقی قبائل او رقریے بھی مسلمان ہو گئے۔ آج سے جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سطوت کا شہرہ شام میں روم کی دیواروں تک ٹکرایا تو جنوب میں یہ غلغلہ یمن و حضر موت تک جا پہنچا۔ حج ابوبکر صدیقؓ اس دوران میں اطراف ملک سے پے بہ پے وفود برائے اظہار و قبول اسلام آنا شروع ہوئے۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد حج کا موسم آ پہنچا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آج تک پورے شروط کے ساتھ بیت اللہ کا حج نہ کیا تھا اور روم پر (برموقعہ تبوک) نصرت حاصل کرنے، طائف کے مطیع و مسلمان ہو جانے اور ملک کے دور و دراز سے وفود کے حلقہ بگوش اسلام ہو کر آنے کے شکریہ میں واجب نہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سال (سنہ 9ھ ) میں حج کے لئے شدر حال فرماتے۔ لیکن ابھی بعض مواقع باقی تھے۔ ملک میں خال خال قبیلے تاہنوز کفر سے وابستہ تھے۔ یہود و نصاریٰ ابھی کہیں کہیں باقی رہ گئے تھے۔ کفار ابھی تک ادب والے مہینوں (م۔۔۔ رجب، ذی قعد، ذوالحجہ، محرم) میں عمرہ و حج کے لئے آتے۔ یہ لوگ کفریہ عقائد کی وجہ سے نجس تھے۔ جب تک عرب کے چپہ چپہ پر ہر فرد کے دل میں کلمتہ اللہ (اسلام) کا نفوذ نہ ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج کا قصد نہ فرما سکتے تھے۔ اس لئے ابوبکرؓ کو حج کے لئے مبعوث فرمایا جن کے ہمراہ تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ بھی تھا۔ یوں بعثت نبویصلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک اور پہلے ہی کی طرح مشرکین ہمیشہ سے بیت اللہ کا حج و زیارت کرتے چلے آ رہے تھے۔ اس سال بھی انہیں بحسب معمول آنا ہی تھا کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایسے لوگوں (مشرکین) کے درمیان وقت کی تحدید پر کوئی معاہدہ نہ تھا جس کی رو سے ان لوگوں پر نہ آنے کی پابندی عائد ہو سکے۔ پھر وہی ادب والے چار مہینوں میں سفر کی سہولتیں جس میں کسی رہ گزر کو رہزن کا خطرہ نہ تھا۔ دوسرے معنوںمیں حج بیت اللہ کے لئے آنے کی ہر عقیدہ و عمل کے افراد کو اجازت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عتاب بن اسید کو مکہ معظمہ کا امیر مقرر فرما دیا، باوجودیکہ کعبہ کے باہر اندر اور شہر و نواحی کے تمام بت اور صنم کدے مسمار ہو چکے تھے لیکن غیر مسلم اشخاص مناسک کے رسوم اپنے پرانے طریق ہی پر ادا کرتے، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب (مکہ) کی طرف سے کوئی قدغن نہ تھی۔ یہی دستور بیت المقدس کے زائرین میں رائج تھا کہ یہود اس کے ارض موعود اور نصاریٰ اس کے مولد مسیح ہونے کی وجہ سے وہاں جاتے مگر شرک وبت پرستی کی کون سی رسم تھی جو بیت المقدس میں ادا نہ ہوتی۔ قدیم کعبہ کی طرح یہاں بھی تو اصنام ہی کی جلوہ گری تھی۔ اہل کتاب اور مسلمانوں کا شریعت میں عملی فرق: لیکن بیت اللہ الحرام میں اہل اسلام اور بت پرستوں کا ایسا اجتماع جس میں مسلمان اپنے طریق پر مناسک ادا کریں اور مشرکین بت پرستانہ رسوم کے مطابق، ناقابل برداشت اور فہم و فراست سے دور تھا۔ ضروری تھا کہ جس طرح مشرکین کے خداؤں کو کعبہ سے نکال دیا گیا، ان (بتوں) کے پرستاروں کو بھی یہاں آنے سے روک دیا جائے۔ سورۂ براۃ بھی اس معاملہ میں حرف آخر کے طور پر نازل ہوئی۔ موسم حج میں ایک مہینہ (ذی قعدہ) رہ گیا تھا۔ مشرکین نزدیک و دور سے چل کر حرم کعبہ میں پہنچ چکے تھے۔ مشیت خداوندی نے فیصلہ ہی کر لیا کہ اس سال (سنہ 9ھ ) عوام و خواص کے اجتماع میں اعلان کر دیا جائے کہ شرک و ایمان یک جا نہیں رہ سکتے۔ دین کے کسی معاملہ میں دونوں کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی سے معاہدہ ہوا ہو تو مسلمانوں پر اس کی پابندی واجب ہے۔ حضرت علیؓ کی نیابت: معلوم ہے کہ ابوبکر صدیقؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ان کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ابن ابی طالبؓ کو ان کے قدموں پر بھیجا تاکہ عرفہ کے روز مجمع عام میں لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سنائیں۔ اسی روز حضرت علیؓ پہنچے۔ لوگ عرفات کی طرف آ رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علیؓ کو دیکھتے ہی فرمایا آپ کو امیر کی حیثیت سے بھیجا گیا ہے یا ماتحت کے طور پر! علیؓ نے عرض کیا ماتحت کے طور پر! آنے کی وجہ بیان کی: سورۃ براۃ کی عام منادی کے لئے بھیجا گیا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ پر یہ اعتماد ان کے اہل بیت ہونے کی وجہ سے کیا۔ مجمع عام میں اعلام برأۃ ادائے مناسک کے بعد جب لوگ منیٰ میں جمع ہوئے تو حضرت علیؓ نے سورۂ براۃ کی مندرجہ ذیل ابتدائی آیتیں بآواز بلند پڑھ کر سنائیں: 1۔ برآء ۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین (1-9) 1 ۔ مسلمانوں جن مشرکوں کے ساتھ تم نے (صلح و امن) کا معاہدہ کیا تھا اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بری الذمہ ہونے کا ان کے لئے اعلان ہے کہ: 2۔ فسیحو فی الارض اربعۃ شھروا علموا انکم غیر معجزی اللہ وان اللہ مخزی الکفرین (2-9) 2 ۔ چار مہینے تک ملک میں پھرو (کوئی روک ٹوک نہیں اس کے بعد جنگ کی حالت قائم ہو جائے گی) اور یاد رکھو تم کبھی اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے اور اللہ منکروں کو(پیروان حق کے ہاتھوں) ذلیل کرنے والا ہے۔ 3۔ واذا من اللہ ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بریء من المشکرین ورسولہ فان تبتم فھو خیر لکم وان تولیتم فاعلموا انکم غیر معجزی اللہ وبشر الذین کفروا بعذاب الیم (3-9) 3۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کے بڑے دن منادی کی جاتی ہے کہ اللہ مشرکوں سے بری الذمہ ہے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی (یعنی اب کوئی معاہدہ اللہ کے نزدیک باقی نہیں رہا اور نہ اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاہدہ کے لئے ذمہ دار ہے) پس اگر تم (اب بھی ظلم و شرارت سے) توبہ کر لو تو تمہارے لئے اس میں بہتری ہے۔ اگر نہ مانو گے تو جان رکھو تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور (اے پیغمبر! ) جو لوگ کفر کی راہ چل رہے ہیں انہیں عذاب درد ناک کی خوش خبری سنا دو۔ 4۔ الا الذین عھدتم من ا لمشرکین ثم لم ینقصو کم شیئا ولم یظاھروا علیکم احدا فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم ان اللہ یحب المتقین (40-9) 4۔ ہاں مشرکوں میں سے وہ لوگ کہ تم نے ان سے معاہدہ کیا تھا، پھر انہوں نے (قول و قرار نباہنے میں) کسی طرح کمی نہیں کی اور نہ ایسا کیا کہ تمہارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی ہو، اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ پس چاہیے کہ ان کے ساتھ جتنی مدت کے لئے عہد ہوا ہے اتنی مدت تک اسے پورا کیا جائے۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے۔ جو ہر بات میں متقی ہوتے ہیں۔ 5۔ فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم وخذوھم واحصروھم واقعدوالھم کل مرصد فان تابوا واقاموا الصلوٰۃ واتو الزکوٰۃ فخلوا سبیلھم ان اللہ غفور رحیم (5-9) 5۔ پھر جب حرمت کے مہینے گزر جائیں (تو جنگ کی حالت قائم ہو گئی) مشرکوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کرو اور جہاں کہیں ملیں گرفتار کر لو۔ نیز ان کا محاصرہ کرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر ایسا ہو کہ وہ باز آ جائیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان سے کسی طرح کا تعرض نہ کیا جائے۔ بلاشبہ اللہ بڑا بخشنے والا رحمت والا ہے۔ 6۔ وان احد من المشرکین استجارک فاحرہ حتیٰ یسمع کلام اللہ ثم ابلغہ ما منہ ذالک بانھم قوم لا یعلمون (6-9) 6۔ اور (اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم !) اگر مشرکوں میں سے کوئی آدمی آئے اور تم سے امان مانگے تو اسے ضرور امان دو یہاں تک کہ (وہ اچھی طرح) اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے (بامن) اس کے ٹھکانے پہنچا دو۔ یہ بات اس لئے ضروری ہوئی کہ یہ لوگ (دعوت حق کی حقیقت کا) علم نہیں رکتھے۔ 7۔ کیف یکون للمشرکین عھد عند اللہ وعند رسولہ الا الذین عھدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا لکم فاستقیموا لھم ان اللہ یحب المتقین (7-9) 7۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ان مشرکین کا عہد اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ ہو؟ ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد حرام کے قریب (حدیبیہ میں) عہد و پیمان باندھا تھا (اور انہوں نے اسے نہیں توڑا) تو ان کا عہد ضرور عہد ہے اور جب تک وہ تمہارے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے ساتھ (اپنے عہد پر) قائم رہو۔ اللہ انہیں دوست رکھتا ہے جو (اپنے تمام کاموں میں) متقی ہوتے ہیں۔ 8۔ کیف وان یظھروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمۃ یرضونکم بافواھھم وتابی قلوبھم واکثرھم فاسقون(8-9) 8۔ ان مشرکوں سے عہد کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر آج تم پر غلبہ پا جائیں تو نہ تمہارے لئے قرابت کا پاس کریں نہ کسی عہد و پیمان کا؟ وہ اپنی باتوں سے تمہیں راضی کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دلوں کا فیصلہ اس کے خلاف ہے اور ان میں زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں (یعنی راست بازی کے تمام طریقوں اور پابندیوں سے باہر ہو چکے ہیں۔) 9۔ اشتروا بایت اللہ ثمنا قلیلا فصدوا عن سبیلہ انھم ساء ما کانوا یعملون(9-9) 9۔ ان لوگوں نے اللہ کی آیتیں ایک بہت ہی حقیر قیمت پر بیچ ڈالیں (یعنی ہوئاے نفس کے تابع ہو گئے اور اللہ کی آیتوں پر یقین نہیں کیا۔) پس اس کی راہ سے لوگوں کو روکنے لگے (افسوس ان پر ) کیا ہی برا ہے جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ 10۔ لا یرقبون فی مومن الا ولا ذمۃ واولئک ھم المعتدون(10-9) 10۔ کسی مومن کے لئے نہ تو قرابت کا پاس کرتے ہیں نہ عہد (اقرار) کا۔ یہی لوگ ہیں کہ ظلم میں حد سے گزر گئے ہیں۔ 11۔ فان تابوا واقاموا الصلوٰۃ واتو الزکوٰۃ فاخوانکم فی الدین و نفصل الایت لقوم یعلمون(11-9) 11۔ بہرحال اگر یہ باز آئیں، نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں تو (پھر ان کے خلاف تمہارا ہاتھ نہیں اٹھنا چاہیے وہ ) تمہارے دینی بھائی ہو گئے۔ ان لوگوں کے لئے جو جاننے والے ہیں ہم اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کر دیتے ہیں۔ 12۔ وان تکثوا ایمانھم من بعد عھدھم وطعنوا فی دینکم فقاتلوا ائمۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینقھون(12-9) 12۔ اور اگر یہ اپنے عہد و پیمان جو خود کر چکے ہیں توڑ ڈالیں۔ اور تمہارے دین کو برا بھلا کہیں تو پھر (اس کے سوا چارہ نہیں کہ ان) کفر کے سرداروں سے جنگ کرو۔ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی سو گند سوگند نہیں (اور تمہیں جنگ اس لئے کرنی چاہیے) تاکہ یہ (ظلم و بد عہدی سے ) بازآ جائیں۔ 13۔ الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بدء وکم اول مرۃ اتخشونھم فاللہ احق ان تخشوہ ان کنتم مومنین(13-9) 13۔ مسلمانو! کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں جنہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہارے برخلاف لڑائی میں پہل بھی ان ہی کی طرف سے ہوئی۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیوں کہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہو۔ 14۔ قاتلوھم یعذبھم اللہ بایدیکم ویخزھم وینصرکم علیھم ویشف صدور قوم مومنین۔ 14۔ مسلمانو! ان سے بلا تامل جنگ کرو۔ اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب دے گا، انہیں رسوائی میں ڈالے گا، ان پر تمہیں فتح مند کرے گا اور جماعت مومنین کے دلوں کے سارے دکھ دور کر دے گا۔ 15۔ ویذھب غیظ قلوبھم ویتوب اللہ علی من یشاء واللہ علیم حکیم (15-9) 15۔ اور ان کے دلوں کی جلن باقی نہیں رہے گی اور پھر جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا۔ اللہ سب کچھ جانتاہے اور (اپنی ہر بات میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ 16۔ ام حسبتم ان تترکوا ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ولم یتخذوا من دون اللہ ولا رسولہ ولا المومنین ولیجۃ واللہ خبیر بما تعملون (16-9) (مسلمانو!) کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ تم اتنے ہی میں چھوڑ دئیے جاؤ گے۔ حالانکہ ابھی تو اللہ نے ان لوگوں کو پوری طرح آزمائش میں ڈالا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں کو چھوڑ کر کسی کو اپنا پوشیدہ دوست نہیں بنایا ؟ (یاد رکھو) جیسے رکچھ بھی تمہارے اعمال ہیں خدا ان سب کی خبر رکھنے والا ہے۔ 17۔ ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ شھدین علی انفسھم بالکفر اولئک حبطت اعمالھم وفی النارھم خالدون۔ (17-9) 17۔ مشرکوں کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، ایسی حالت میں کہ وہ اپنے کفر کا اعتراف کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے سارے عمل اکارت گئے اور وہ عذاب آتش میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ 18۔ انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر واقام الصلوٰۃ واتی الزکوٰۃ ولم یخش الا اللہ فعسی اولئک ان یکونوا من المھتدین (18-9) 18۔ فی الحقیقت مسجدوں کو آباد کرنے والا تو وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا، نماز قائم کی، زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہ مانا۔ جو لوگ ایسے ہیں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ (سعادت و کامیابی کی) راہ پانے والے ثابت ہوں گے۔ 19۔ اجعلتم سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام کمن امن باللہ والیوم الاخر وجھد فی سبیل اللہ لا یستون عند اللہ واللہ لا یھدی القوم الظلمین (19-9) 19 ۔ کیا تم نے یہ ٹھہرا رکھا ہے کہ حاجیوں کے لئے سبیل لگا دینا اور مسجد حرام کو آباد رکھنا، اس درجہ کا کام ہے جیسے اس شخص کا کام جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں اور اللہ (کا قانون ہے کہ وہ) ظلم کرنے والوں پر (کامیابی کی) راہ نہیں کھولتا۔ 20۔ الذین امنوا وھاحروا وجھدوا فی سبیل اللہ باموالھم وانفسھم اعظم درجۃ عند اللہ واولئک ھم الفائزون (20-9) 20۔ جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی اور اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو یقینا اللہ کے نزدیک ان کا بہت بڑا درجہ ہے۔ اور وہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ 21-22یبشرھم ربھم برحمۃ منہ ورضوان و جناب لھم فیھا نعیم مقیم۔ خالدین فیھا ابدا ان اللہ عندہ اجر عظیم۔ 21-22۔ ان کا پروردگار انہیں اپنی رحمت او رکامل خوشنودی کی بشارت دیتا ہے۔ نیز ایسے باغوں کی جہاں ان کے لئے ہمیشگی کی نعمت ہو گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ یقینا اللہ کے پاس (نیک کرداروں کے لئے) بہت بڑا اجر ہے۔ 23۔ یایھا الذین امنوا لا تتخذوا اباء کم واخوانکم اولیاء ان استحبو الکفر علی الایمان ومن یتولھم منکم فاولئک ھم الظالمون (23-9) 23۔ مسلمانو! اگر تمہارے باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے مقابلے میں کفر کو عزیز رکھیں تو انہیں اپنا رفیق و کار ساز نہ بناؤ اور جو کوئی بنائے گا تو یہ ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ 24۔ قل ان کان ابائکم وابناوکم واخوانکم وازواجکم و عشیر تکم واموال اقتر فتموھا و تجارۃ تخشون کسادھا و مساکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ و جھاد فی سبیلہ فتربصوا حتیٰ یاتی اللہ بامرہ واللہ لا یھدی القوم الفاسقین (24-9) 24 ۔ اے پیغمبر! مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر ایسا ہے کہ تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہاری برادری، تمہارا مال جو تم نے کمایا ہے،تمہاری سودا گری جس کے مندا پڑ جانے سے ڈرتے ہو، تمہارے رہنے کے مکانات جو تمہیں اس قدر پسند ہیں کہ ساری چیزیں تمہیں اللہ سے، اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہیں تو (کلمہ حق تمہارا محتاج نہیں) انتظار کرو۔یہاں تک کہ جو کچھ خدا کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ کا (مقررہ) قانون ہے کہ وہ فاسقوں پر (کامیابی و سعادت کی) راہ نہیں کھولتا۔ 25۔ لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرۃ و یوم حنین اذا عجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین (25-9) 25۔ (مسلمانو!) یہ واقعہ ہے کہ اللہ بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے (جب کہ تمہیں اپنی قلت و کمزوری سے کامیابی کی امید نہ تھی) اور جنگ حنین کے موقعہ پر بھی جب کہ تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے اور سمجھتے تھے کہ محض اپنی کثرت سے میدان مار لو گے تو دیکھو وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین ساری وسعت پر بھی تمہارے لئے تنگ ہو گئی۔ بالآخر ایسا ہوا کہ تم میدان سے پیٹھ دکھا کر بھاگنے لگے۔ 26۔ ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المومنین وانزل جنودا لم تروھا عذب الذین کفروا وذالک جزاء الکافرین (26-9) 26۔ پھر اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنی جانب سے دل کا سکون و قرار نازل فرمایا اور ایسی فوجیں اتاریں جو تمہیں نظر نہ آئی تھیں اور اس طرح ان لوگوں کو عذاب دیا جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور یہی جزا ہے ان لوگوں کو جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں (یعنی ان کی بد عملی کا لازمی نتیجہ یہی ہے۔) 27 ۔ ثم یتوب اللہ من بعد ذالک علی من یشاء واللہ غفور رحیم (27-9) 27۔ پھر اس کے بعد اللہ جس پر چاہے گا اپنی رحمت سے لوٹ آئے گا۔ (یعنی توبہ قبول کر لے گا) اور اللہ بڑا ہی بخشش والا ہے۔ 28۔ یایھا الذین امنوا انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ہذا وان خفتم عیلۃ فسوف یعنیکم اللہ من فضلہ ان شاء ان اللہ علیم حکیم (28-9) مسلمانو! حقیقت حال اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مشرک نجس ہیں (یعنی شرک نے ان کے دلوں کی پاکی سلب کر لی ہے) پس چاہیے کہ اس برس کے بعد سے (یعنی 9 ھ کے بعد سے) مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں اور اگر تم کو ان کی آمد و رفت کے بند ہو جانے سے فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو (کہ وہ ہر طرح کی ضروری چیزیں باہر سے لاتے اور تجارت کرتے ہیں) تو گھبراؤ نہیں اللہ چاہے تو عنقریب تمہیں تونگر کر دے گا۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔ 29۔ قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتیٰ یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صغرون (29-9) 29۔ اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں، نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں۔ تو مسلمانو! ان سے بھی جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ قبول کر لیں اور حالت ایسی ہو جائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔ 30۔ وقالت الیھود عزیز ابن اللہ وقالت النصریٰ المسیح ابن اللہ ذالک قولھم بافواھھم یضاھئون قول الذین کفروا من قبل قاتلھم اللہ انی یوفکون (30-9) 30۔ اور یہودیوں نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے ۔ یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبان سے نکالی ہوئی (ورنہ سمجھ بوجھ کر کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتا) ان لوگوں نے بھی انہی کی سی بات کہی جو ان سے پہلے کفر کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔ان پر اللہ کی لعنت! یہ کدھر کو بھٹکے جا رہے ہیں؟ 31-32 اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا اا لیعبدو الھا وجدا لا الہ الا ھو سبحنہ عما یشرکون یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواھم ویابی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون (31,32-9) 31-32۔ ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو پروردگار بنا لیا اور مریم کے بیٹے مسیح کو بھی ! حالانکہ انہیں جو کچھ حکم دیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ایک خدا کی بندگی کرو، کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی، اس کی پاکی ہو اس ساجھے سے جو یہ اس کی ذات میں لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی پھونکوں سے بجھا دیں، حالانکہ اللہ یہ روشنی پوری کیے بغیر رہنے والا نہیں اگرچہ کافروں کو یہ پسند نہ آئے۔ 33 ۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون (33-9) 33۔ (ہاں!) وہی ہے جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام (ٹھہرائے ہوئے) دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکوں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ 34۔ یایھا الذین امنوا ان کثیرا من الاخبار والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ویصدون عن سبیل اللہ والذین یکنزون الذھب والفضہ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم (34-9) 34۔ مسلمانو! یاد رکھو! (یہودیوں اور عیسائیوں کے) علماء و مشائخ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو لوگوں کا مال حق و ناروا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے انہیں روکتے ہیں اور جو لوگ چاندی اور سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے رہتے ہیں۔ او راللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذاب درد ناک کی خوش خبری سنا دو۔ 35۔ یوم یحمی علیھا فی نارجھنم فتکویٰ بھا جباھھم وجنوبھم وظھورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون (35-9) 35۔ عذاب درد ناک کا وہ دن (جب کہ ان کا جمع کیا ہوا) سونے چاندی کا ڈھیر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کے ماتھے، ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (او ر اس وقت کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے اپنے اپنے لئے ذخیرہ کیا تھا۔ سو جو کچھ ذخیرہ کر کے جمع کرتے رہے اس کا مزا آج چکھ لو۔ 36۔ ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً فی کتاب اللہ یوم خلق المسوات والارض منھا اربعۃ حرم ذالک الدین القیم فلا تظلموا فیھن انفسکم وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ واعلموا ان اللہ مع المتقین (36-9) 36۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی بارہ مہینے کی ہے۔ اللہ کی کتاب میں ایسا ہی لکھا گیا، جس دن آسمانوں کو اور زمین کو اس نے پیدا کیا (یعنی جب سے اجرام سماویہ بنے ہیں خدا کا ٹھہرایا ہوا حساب یہی ہے) ان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت کے مہینے ہوئے۔ (یعنی رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم) کہ امن کے مہینے سمجھنے جاتے تھے اور لڑائی ممنوع تھی۔ دین کی سیدھی راہ یہ ہے پس ان حرمت کے مہینوں میں (جنگ و خونریزی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور چاہیے کہ تمام مشرکوں سے بلا استثناء جنگ کرو جس طرح وہ تم سب سے بلا استثناء جنگ کرتے ہیں اور ساتھ ہی یاد رکھو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو (ہر حال میں) تقویٰ والے ہیں۔ سورہ توبہ کی یہ آیات جنہیں ہم نے نقل کر دیا ہے۔ جو مقام منیٰ پر علیؓ نے بآواز بلند سنائیں، ان کے ساتھ مندرجہ ذیل چار امور کا اعلان (مزید) بھی فرمایا: 1۔ انہ لایدخل الجنۃ کافر 1۔ جنت کافر کے لئے نہیں۔ 2۔ ولا یحج بعد العام مشرک 2 آج کے بعد مشرک بیت اللہ کا حج نہیں کر سکتا۔ 3۔ ولا یطوف بالبیت عریانا 3۔ کوئی شخص برہنہ ہو کر طواف کعبہ نہیں کر سکتا۔ 4۔ ومن کان لہ عند رسول اللہ 4۔ جس شخص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جس مدت کے لئے وعدۂ امان ہو اس کے لئے معاہدہ کی پابندی کی جائے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم عھد فھو الی مدتہ۔ علی بن ابی طالبؓ نے اس اعلام کے بعد فرمایا آج کے بعد چار مہینہ کی مہلت ہے۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ دور دراز سے حج کے لئے آئے ہیں وہ امن و سلامتی کے ساتھ اپنے اپنے گھروں میں پہنچ جائیں۔ دولت اسلامیہ کا یوم تاسیس: آج (یوم عرفہ 9ھ) دولت اسلامیہ کی تاسیس کا دن ہے، جس دن کے متعلق ہم نے سورۂ توبہ کی ابتدائی آیات نقل کر دیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد جناب علیؓ کے مدنظر یہی امر تھا جیسا کہ معتمد روایات میں منقول ہے کہ ابن ابی طالبؓنے مدینہ سے سفر کے بعد ان آیات کا مذکور منیٰ ہی پر منحصر نہ رہنے دیا بلکہ بیت اللہ سے مراجعت کے بعد ان آیتوں کو ہر منزل پر دوسروں کے سامنے دہرایا (بحسب روایات متعددہ) اگر سورۂ براۃ کی ابتدائی آیتوں کو بنظر امعان مطالعہ کیجئے تو بین طور پر واضح ہوگا کہ ان کے مفہوم میں جدید سلطنت کی تشکیل کا اشارہ ہے۔ اور معلوم ہے کہ سورۂ براۃ دشمنان دین کی پیدا کردہ جنگی ہنگاموں سے پوری طرح فارغ ہونے کے بعد نازل ہوئی حتیٰ کہ اہل طائف جیسے سرکش باشندے اسلام کے ساتھ وابستگی کو اپنے لئے فخر سمجھ کر اس میں منضم ہو گئے، جب کہ تمام حجاز نے اسلام قبول کر لیا اور تہامہ (عربستان) میں اسلام کا ڈنکا بجنے لگا، جب نجد میں اسلام کا جھنڈا لہرانا شروع ہوا اور عرب کے خانہ بدوش قبائل نے اپنے سرداروں کے ماتحت وفود مدینہ بھیج کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اسلام کو بحیثیت دین اختیار کر لیا۔ وقت آ گیا کہ دولت نوزائیدہ اسلام ان آیات کے پرتو میں متشکل ہو اور قوت و سطوت کا مصدر ہو، جس کے تمام پیرو پر ایک ہی عقیدہ میں منسلک ہوں اور اس عقیدہ کے سہارے دین اور دین کے پیروؤں پر ظلم کرنے والوں کا استیصال کر سکیں۔ ادنیٰ فکر سے واضح ہے کہ ایمان کے مقابلہ میں کوئی قوت ایسی نہیں جس کے سائے میں ظالموں کے جور و ستم کو روکا جا سکے اور ایسے ایمان سے بڑھ کر کون سا عقیدہ ہے جس میں خدائے وحدہ لا شریک پر یقین کامل ہو اور اس سے بہتر عقیدہ کیا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنی روح کوایک ایسی برتر از ہمہ ہستی کے ساتھ وابستہ سمجھے، جس کی ہمسری کے لئے ممکن نہیں اور اس عقیدہ کے نتائج میں اس کا یہ بھی یقین ہو کہ نہ تو اس پر خدائے واحد القہار کے سوا کوئی اور غالب آ سکتا ہے اور نہ اس کے ضمیر پر کسی کو قبضہ کرنے کی قدرت ہے۔ اور جو لوگ اس عقیدہ کے متوازی عقیدہ وضع کر لیں اور نہ صرف یہی بلکہ اس عقیدہ پر جدید حکومت کی بنیاد رکھنے کا قصد بھی رکھتے ہوں تو اولئک ھم الفاسقون1؎ (19:59)یہ لوگ عادی معصیت کوش ہیں جو بنی نوع انسان کے اندر فتنہ پردازی اور خوں ریزی کے داعی ہیں۔ ریاست کی طرف سے ایسے لوگوں کے لئے مراعات ایک طرف، ایسے لوگوں کے لئے فسیحوا فی الارض اربعۃ اشھر واعلموا انکم غیر معجزی اللہ وان اللہ مخزی لکافرین 2؎ (2:9) کی مہلت دے کر ان کے ساتھ مقاتلہ تک واجب ہے۔ پھر ایسے سرکش فاسق اگر کسی قوم کے اجتماعی عقیدہ کے خلاف ریشہ دوانی کریں تو انہیں باڑھ پر رکھ کر اطاعت کے لئے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ دوسری قسم ان لوگوں کو کی ہے جو کسی قوم کے اجتماعی عقیدہ کے دشمن تو ضرور ہوتے ہیں لیکن اس عقیدہ کے خلاف نہ وہ ریشہ دوانی کرتے ہیں اور نہ ایسے وسائل اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال مثلاً اہل کتاب ہیں۔ ان لوگوں سے مقاتلہ کی بجائے انہیں ادائے جزیہ پر مجبور کیا جائے گا۔ ان (ہر دو) قسموں کی مثال اس ایک ہی آیہ میں بیان فرما دی گئی: قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتیٰ یعطوا الجزیۃ عن یدوھم صغرون (29:9) اہل کتاب میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت کے دن پر، نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی کتاب میں) حرام ٹھہرا دیا ہے اور نہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو!) ان سے بھی جنگ کرو، یہاں تک کہ وہ اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کر لیں اور حالت ایسی ہو جائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔ تاریخی اور اجتماعی نقطہ نظر سے دیکھنے کے بعد سورۂ براۃ کی ان آیات کے مطابق ہم ایسے نتائج پر پہنچ سکتے ہیں جو انصاف پسند مصنف کی تحقیق کا ماحصل ہوں، لیکن ان کے دیدہ وروں کی کوتاہ نظری کا ماتم کہاں تک کیجئے جو بہرحال اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نکتہ چینی کرنا تحقیق و تدقیق کا لازمہ سمجھتے ہیں۔یہ لوگ ان آیات (برأۃ) کی روح میں ایسی عصبیت ثابت کرنا چاہتے ہیں جس کی تصدیق ان کا قابل صد فخر عہد حاضرہ کا تمدن تو نہیں کر سکتا۔ ان کی تحقیق کے مطابق سورۂ برأۃ مشرکوں کے بے رحمانہ قتل کی محرض ہے کہ مسلمان انہیں جہاں بھی دیکھ لیں کسی رافت یا نرمی کے بغیر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیں، یہ آیتیں ان مدعیان تنقید کے نقطہ نظر سے دعوت اسلام کو ہیبت و جبروت سے منوانے کی ترغیبت دیتی ہیں جیسا کہ مستشرقین میں سے اکثر اہل قلم کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے۔ مغربی مدرستہ تحقیق و تنقید کے یہ استاد السام کے خلاف اس طرح مقدمات اور نتائج مرتب کرتے ہیں کہ خود مسلمانوں میں جو لوگ فن نقد و بحث سے ناواقف ہیں ان کی تحریروں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، حالانکہ ان (مستشرقین) کا طرز استدلال فنی اور تنقید تاریخی و اجتماعی لحاظ سے مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ 1؎ یہی لوگ تو بڑے نافرمان ہیں۔ 2؎ اے مشرکو! امن کے چار مہینے (ذی قعدۃ، ذی الحج، محرم، رجب) ملک میں چلو پھرو! اور جانے رہو کہ تم اللہ کو کسی طرح بھی ہرا نہیں سکتے اور یہ (کہ آخر کار) اللہ کافروں کو) مسلمانوں کے ہاتھ سے) رسوا کرنے والا ہے۔ ان (مستشرقین) کی طرف سے سورۂ توبہ اور قرآن مجید کے دوسرے ایسے حصوں کی تفسیریں خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اس اسلوب زندگی کے منافی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوائل بعثت سے لے کر سفر آخرت تک ظہور میں آیا۔ موجودہ تمدن کے خدوخال: آئیے، سب سے پہلے عہد حاضر ہی کے تمدن کے حسن و زیبائی کی طرف دیکھیں اور اس (تمدن) کا موازنہ (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی دعوت کے ساتھ کریں۔ آج کے تمدن کی بنیاد حریت رائے پر بتائی جاتی ہے۔ جس حریت رائے کی کوئی نہ حد ہے نہ اس کی ایک یا دو بلکہ عدد آخرت تک کوئی معین تعریف، الا یہ کہ قانون وقت خود اس (حریت رائے) کی تعریف متعین کرے۔ کہنے کے لئے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ آزادی رائے ہی کے بل بوتے پر کمزور کو طاقت ور کے غلبے سے بچایا جا سکتا ہے، اس لئے تو اس عقیدہ (آزادی رائے) کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت ایثار و قربانی کی جاتی ہے، اس کے حدود و تعریفات کا تجزیہ اور تحقیق جاری رہتی ہے، اسے برقرار رکھنے کے لئے جنگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں جست لگائی جاتی ہے اور قوم کے جن اسلاف نے آزادی رائے کی حفاظت پر مصائب برداشت کرنے سے گریز نہیں کیا ان پر فخر کیا جاتا ہے۔ جن مستشرقین کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے اسی آزادی رائے کے غرور و تمکنت پر فرماتے ہیں اسلامی عقیدہ کے مطابق جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان نہ لائیں ان کے خلاف جنگ کرنا ایسا تعصب ہے جو عقیدہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ لیکن مستشرقین کا یہ مغالطہ سراسر بے بنیاد ہے کیوں کہ عقیدہ کی جس آزادی کے خلاف ارتکاب کو وہ (مستشرقین) مسلمانوں کے سر تھوپتے ہیں خود ان کے گھر میں اس آزادی رائے پر شمہ بھر بھی تو عمل نہیں ہوتا۔ دوسری طرف اسلام ہے جو ایسے مشرکین کے ساتھ کسی قسم کے تعرض کا روادار نہیں جو حکومت مسلمہ کی اطاعت کے بعد کسی شرک کی تبلیغ نہ کریں نہ خود کسی قسم کے علانیہ رسوم عبادت (م۔۔۔۔ مثلاً ولا یطوف بالبیب عریانا نہ کوئی شخص برہنہ ہو کر طواف کعبہ کر سکتا ہے۔) بجا لا سکتے ہیں۔ اس بارہ میں عہد حاضر کا تمدن ملاحظہ ہو جس میں ریاست کے خلاف عقیدہ رکھنے والوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ سختی کی جاتی ہے جو مسلمانوں نے مشرکین پر روا رکھی، مثلا اسلام نے رعایا کے اہل کتاب سے جزیہ ہی تو لیا (باضافہ آیتے از مترجم من الذین اوتوا الکتاب حتیٰ یعطوا الجزیہ عن یدوھم صغرون1؎ (29:9)) لیکن تمدن حاضرہ نے اپنے خلاف عقیدہ پر جذیہ سے ہزار ہا گنا زیادہ بار ڈال رکھا ہے۔ ہم یورپ کی ان جنگوں کو رفع الزام کے لئے پیش کرنا نہیں چاہتے جو انہوں نے بردہ فروشی کے خلاف لڑیں کہ غلاموں کی تجارت کو ان کے بعض یاران وطن ہی مذہبی حیثیت سے جائز قرار دیتے ہیں مبادا مسیحان یورپ اور ان کے 1؎ اہل کتاب سے بھی جنگ کرو یہاں تک کہ وہ خوشی سے جزیہ دینا قبول کر لیں اور حالت ایسی ہو جائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ چکی ہو۔ حاشیہ بردار اسلام پر اپنی طرف سے عائد کردہ تہمت کو دھرا دیں کہ اسلام نے بھی غلامی کو جائز رکھا ہے۔ بلکہ آج کا یورپ جو تہذیب و تمدن کا مرغزار بنا ہوا ہے اور جس کی پشت پناہی کے لئے امریکا جیسا حریت نوازملک کمر بستہ ہے اور جنوب میں پورا ایشیا اور مشرق اقصیٰ اس کی کمک کے لئے سربکف، جن سب نے مل کر بولشویک روس سے وہ جنگ لڑی جس کی ہلاکت آفرینی کے سامنے شاید اسرافیل بھی گرد ہو کر مہر بہ لب رہ جائے۔ اتنی بڑی لڑائی صرف روس کے اس عقیدہ کو کچلنے کے لئے نہ تھی کہ تقسیم اموال میں بالشویک کے نظریہ یورپ و امریکا کے ان مدعیان تہذیب کے عقیدۂ سرمایہ داری کے خلاف ہے یا اس کے سوا کوئی اور بنائے مخاصمت ہے۔ میں کہتا ہوں کیا اسلام کی مشرکین کے ساتھ جنگ یورپ و امریکا کی بولشویک کے ساتھ لڑائی سے زیادہ تعصب انگیز اور حریت رائے کے منافی تھی /کیا بولشویک کا خلاف ترکتاز کی یہ ہمہ ہمی ان کے اس برائے بیت اجتماعی نظام کے خلاف نہ ہونے کی وجہ سے نہ تھی جو تقسیم دولت میں ان (امریکا و یورپ) کے عقیدے کے خلاف ایسا نظام پیش کرتا ہے جس کی بار آوری کے بعد ان مدعیان حفظ حریت رائے کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ مغرب میں برہنہ رہنے کی منظم انجمنیں: یورپ کے کئی شہروں میں ایسی منظم جماعتیں ہیں جن کا ایمان یہ ہے کہ جس طرح عقیدہ کی آزادی پر کوئی پابندی نہیں اسی طرح جسم کی آزادی بھی ہر محاسبہ اور پابندی سے آزاد رہنے کی مستحق ہے۔ ان لوگوں کی تحقیق میں جنسیت کا اسراف معیوب ترین عادت ہے اور اس عادت کا محرک جسم انسانی پر لباس کا غلاف ہے۔ یہ غلاف جس قدر توبہ تو ہوتا جائے گا شہوانیت اسی قدر فراواں ہوتی جائے گی۔ اس لئے جنسیت کا بے جا استعمال صرف عریانی ہی سے رک سکتا ہے۔ ان جماعتوں نے بعض شہروں میں (اسی مقصد کے لئے) خاص قسم کے محل تعمیر کرائے جہاں اس گروہ کے زن و مرد پوری عریانی کے ساتھ ایک دوسرے کے سامنے آنے جانے لگے۔ ان محلوں کے نئے داخلے پر خاص طریقوں سے شرم و حیا کا دامن چاک کرنے کی تربیت ہوتی ہے۔ اب حریت رائے کے محافظین کا عمل ملاحظہ ہو۔ کچھ دنوں تک تو ان لوگوں کی اس رفتار پر اغماض کرتے رہے۔ لیکن جب دیکھا کہ یہ جماعتیں اپنے عقیدہ و عمل دونوں کا پرچار کرنے پر تل آئی ہیں تو تہذیب حاضرہ کے مدعیوں اور تحفظ عقیدہ کے سرغنوں نے اسے تہذیب و تمدن کے خلاف قرار دے کر ان کی تربیت گاہوں کا مقفل کر دیا اور ان طائفوں کو اس حد تک مغلوب کیا کہ اس عقیدہ کو قانون تمدن کے خلاف قرار دیا۔ مسلم ہے کہ اگر کسی قوم میں ایسا عقیدہ عملاً عام ہو جائے تو دوسری قومیں اس قوم کے خلاف جنگ کرنے کا حق رکھتی ہیں، اس لئے کہ فی نفسہ یہ عقیدہ کمالات انسانی کی توہین کا سبب ہے جیسا کہ مغرب میں سفید فام باشندوں کی خرید و فروخت اور گھر بار والی عورتوں کے بیوپار پر خون ریز جنگیں ہوئیں، اور یہ کیوں ہوتا رہا؟ اس لئے کہ عقیدہ کی آزادی اس وقت تک برداشت کی جا سکتی ہے جب تک اس کی مضرت سے معاشرہ کو ضرر نہ پہنچے یعنی کیسا عقیدہ بھی سہی مگر انفرادی طور پر قابل عمل ہو سکتا ہے۔ لیکن جب ایسا عقیدہ عام معاشرہ پر اثر انداز ہونے لگے (م۔۔۔۔ جیسے بردہ فروشی خصوصاً گھریلو عورتوں کی تجارت) تو ایسے عقیدہ کے کلاف جنگ کرنا لازم ہے، عام اس سے کہ وہ محض اخلاق پر اثراندا ہو سکتا ہے یا اس سے اجتماعی سیاست کے متاثر ہونے کا خطرہ ہو یا اس سے ملک کے اقتصادی حالات پر دخل اندازی کا ذریعہ ہونے کا اندیشہ ہو۔ عہد حاضر کا دستور اجتماعی اور قانون مدن بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ اگر گنجائش ہو تو ہم مختلف قوموں میں سے ایسے نظائر پیش کر سکتے ہیں مگر قطع نظر اس کے صرف اتنا عرض کر دینا کافی ہو گا کہ جو عقائد اجتماعیت، وطنی معاشیات اور ملکی سیاسیات کے منافی ہوں گے ملک کا قانون ایسے عقائد کے خلاف ہر قسم کی سختی اور پابندی کرنے پر حق بجانب ہو گا۔ پس اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے میں اسلام کا حکم برمحل ہے یا ناروا تو سب سے پہلے ہمیں بت پرستی اور اس کے نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ اس حیثیت سے گزشتہ تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ شرک کا عقیدہ مختلف زمانوں میں واقعی طور پر معاشرہ کے لئے ضرر کا موجب ثابت ہوا ہے تو تسلیم کر لینا چاہئے کہ مشرکین کے خلاف اسلام کی نبرد آزمائی جائز ہی نہیں بلکہ ضروری ہے۔ جس عہد میں خاتم المرسلینصلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کا آغاز فرمایا (تابہ نزول سورۂ توبہ ۔۔۔م) شرک محض بتوں کی پرستش ہی کی شکل میں جلوہ آرا نہ تھا اور اگر یہ معاملہ اس حد تک ہوتا تب بھی اس کے خلاف جہاد کرنا واجب ہو جاتا کہ آخر انسان پتھر کے حضور جبہہہ سائی کر کے فطرت انسانی کو متہم کرنے والا کون ہوتا ہے؟ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شرک اپنے جیب و داماں میں عقائد و اعمال کے گوناگوں عجائبات لئے ہوئے صنم کدوں میں براجمان تھا، ایسا عمل و عقیدہ کے ساتھ جو نہ صرف بردہ فروشی کے مقابلہ میں پست ترین ہیں اور بولشویک عقیدۂ تقسیم دولت کے سامنے حقیر و ذلیل نظر آتے ہیں، بلکہ موجودہ بیسویں صدی کے اس دور (اواخر) کے بعض دوسرے مجلسی نظام کے مقابلہ میں بدترین عقائد و اعمال سے زیادہ گھناؤنے دکھائی دیتے ہیں، جس شرک کا ایک شاخسانہ زندہ دختروں کو دفن کر دینا تھا، دوسری شاخ بیویوں کی کثرت تھی۔ کسی کے محل میں تیس حرم ہیں، بعض کے تصرف میں چالیس نازنینائیں ہیں، کسی کی حویلی میں یک صد اور ایسے دولت مند بھی موجود ہیں جن کی زندگی تین سو بیویوں کے بغیر بسر نہیں ہوتی بلکہ اس سے بھی زیادہ اسی شرک کا ثمرہ سود در سود کا دیو ہے جسے سرمایہ داروں نے غریب الحال لوگوں پر مسلط کر رکھا تھا اور اسی طرح کوچہ و بازار میں علانیہ ونائت وپستی اخلاق کی نمائش معاشرہ کا حسن سمجھا جاتا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب کے یہ باشندے ہر لحاظ سے دنیا کی پست ترین اقوام سے تھے۔ کیا فرماتے ہیں دور حاضرہ کے ارباب فکر و نظر کہ اگر آج کے معاشرہ کے کسی جز یا کل میں دختروں کا زندہ درگور کرنا ضروری بلکہ جائز قرار دیا جائے، تعدد ازدواج کی وسعت بیان کردہ حدود کے مطابق یا اس کے مقابلہ میں جزواً ہی سہی اجازت دے دی جائے، بردہ فروشی قحط یا کسی اور سبب پر مبنی سہی، سود خوری اسی بہیمانہ طریق پر رائج ہو اورریاست ان کے قلع قمع پر اتر آئے تو ریاست کا یہ اقدام اس کے تعصب اور دوسروں کے عقیدہ کی آزادی پر ضرب سمجھا جائے گا؟ بالفرض ایک قوم ایسے برے اخلاق کو معاشرہ کا جزو قرار دے چکی ہے اور اب ان کے یہ اخلاق دوسری قوموں پر اپنا دامن پھیلانے کے لئے بے تاب ہو رہے ہیں اگر ارباب اختیار ایسی قوم کے خلاف اعلان جنگ کر دیں تو کیا ان کا یہ اعلان ناجائز ہو گا؟ اور یہ جنگ اس عالم گیر لڑائی کے مقابلہ میں زیادہ مکروہ ہو گی جس میں کروڑوں انسان صرف ارباب سیاست کی ہوس استعمار پر نچھاور کر دئیے گئے ہیں؟ خاتمہ بحث دربارۂ اعلان جنگ در سورۂ توبہـ سورۂ برات کی ابتدائی آیات پر مستشرقین کی گرفت کس حد تک ناکارہ ہے اور اسلام جیسی مواحدانہ دعوت کا مقابلہ میں شرک اور مشرکین جو ایک فطری نظام کے اندر اس کے مخالف نظم و نسق کا تداخل کرنے کے مجرم ہوں، ان کے خلاف اعلان جنگ کس حد تک حق بجانب! زمانہ رسالت پناہصلی اللہ علیہ وسلم میں ملک عرب میں جو نظام شرک و بت پرستی کے پرتو میں قائم تھا تاریخ اس پر گواہ ہے اور اس نظام (شرکیہ) کے مقابلہ میں حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کے معمولات پر بھی تاریخ شاہد اس میں وہ مدت بھی شامل ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں بعثت کے ابتدائی تیرہ سال بلا انقطاع تبلیغ فرماتے رہے مگر اس عرصہ میں نہ تو براہین و دلائل کا دامن ہاتھ سے چھوڑا نہ گفتگو میں احسن طریق سے ہٹ کر کبھی کوئی لفظ زبان مبارک پر آنے پایا۔ یہی طرز عمل جنگون میں تھا جن میں کبھی جارحانہ اقدام کا موقعہ پیدا نہ ہونے دیا بلکہ جب کہیں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کیا گیا تو اس کی مدافعت کے لئے ناچار ادھر کا رخ کرنا پڑا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ مدافعت اپنے اس عقیدہ و دعوت کی مخافظت تھی جس پر وہ (مسلمان) ایمان لائے اور اس کے لئے قدم قدم پر قربانیاں دیں۔ پھر یہی دعوت (اسلام) پوری قوت سے مشرکین کے ساتھ ان کے عقیدہ شرک کی نجاست کی وجہ سے مبارزت میں بھی استعمال ہوئی اور اس تحدی کے ساتھ کہ اگر وہ شرک سے ہاتھ نہ روکیں تو ان کے لئے کسی قسم کے عہد و پیمان کی ذمہ داری نہیں: کیف وان یظھروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا زمۃ1؎ یعنی اس لئے کہ یہ رسم بھی انہی کی ایجاد ہے کہ جب کبھی انہیں مومنین پر قابو حاصل ہوا انہیں اس کے ساتھ کسی رواداری یا پناہ دہی پر میلان نہ ہو سکا (م۔۔۔ حتیٰ کہ وھموا یا خراج الرسول وھم بدء وکم اول مرۃ2؎) الغرض سورۂ براۃ تمام غزوات کے بعد (تابہ خاتمہ غزوہ تبوک) نازل ہوئی۔ اب مثلاً عرب ہی میں ایک ایسا شہر ہے جس کے کچھ لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور اسی شہر کے رہنے والوں میں ابھی تک بے شمار اشخاص شرک کی نجاست سے آلودہ ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں نے شہر میں اس اجتماعی و اقتصادی نظام کے جاری کرنے کا تہیہ کر لیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر اب تک عرب کے قدیم مشرکانہ نظام کو تہس نہس کرتا چلا آ رہا ہے۔ جب نو وارد مسلمانوں نے وہاں کے مشرکوں کے سامنے اسلام (کا جدید نظام) پیش کیا،ا ن میں خدا کی طرف سے حلال شدہ اور حرام کردہ دونوں قسم کے امور کی تبلیغ کی۔ 1؎ مشرکین کے عہد کیسے معتبر ہو سکتا ہے؟ ان کا حال یہ ہے کہ اگر یہ لوگ تم مسلمانوں پر غلبہ پا جائیں تو تمہارے بارے میں نہ قرابت کا پاس ملحوظ رکھیں اور نہ عہد و پیمان کا(8:9) 2؎ اور رسول کے نکال دینے کا ارادہ کیا اور تم سے چھیڑ خانی بھی اول انہوں نے شروع کی۔ (13:9) تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے استحقار سے ٹھکرا دیا کیا انصاف پسند طبائع کے نزدیک ایسے (منکرین) لوگوں کے خلاف طاقت کااستعمال ناروا ہے؟ اور اگر ایسے لوگ معمولی طاقت کی نمائش سے ریاست کے دستور اخلاق پر عمل پیرا ہونے کو تسلیم نہ کریں تو اس وقت تک ان کے خلاف جنگ کرنے میں تامل ہو سکتا ہے جب تک وہ کلمتہ الحق کی تعمیل سے گریز کریں تا آنکہ ویکون الدین کلہ اللہ 1؎ (39:8) یہی باعث ہوا حضرت علی کے اعلام بزائۃ من اللہ ورسولہ الی الذین عاھدتم من المشرکین فیسحوا فی الارض اربعۃ اشھر۔۔۔۔م کے بعد اس موقعہ پر مندریل ذیل قوانین ریاست بیان کرنے کا کہ: 1۔ لا یدخل الجنۃ کافر 1۔ کافر جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ 2۔ لا یحج بعد العام مشرک 2۔ شرک کرنے والا حج نہیں کر سکتا۔ 3۔ ولا یطوف بالبیت عریانا 3۔ برہنہ ہو کر طواف کعبہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کا نتیجہ ریاست میں یک جہتی کے لئے بے حد امید افزا ثابت ہوا ۔ قبائل میں جو لوگ ابھی تک اسلام قبول کرنے میں متردد تھے ان کے شکوک رفع ہو گئے اور اعلام کے بعد یمن، مہرہ، بحرین اور یمامہ کے وہ لوگ بھی اسلام میں داخل ہو گئے جو ابھی تک ایک طرف کھڑے ہوئے انجام کا انتظار کر رہے تھے۔ عامر بن طفیل کا حشر: ماسوا معدودے چند منکرین کے جنہیں ان کے غرور بے جا نے بہکا رکھا تھا اور اپنی جاہلی نخوت و تمکنت کے سہارے اپنی سیادت کے پرتو میں جی رہے تھے۔ ان میں ایک متکبر عامر بن طفیل ہے جو روسائے قبیلہ (اربند بن قیس و خالد بن جعفر اور حیان بن مسلم بن مالک۔م) کا چوتھا رئیس تھا، یہ لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے۔ لیکن جب عامر بن طفیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو بدنصیب مکابرہ پر اتر آیا۔ اور تو اور ریاست میں اپنے وقار پر وثیقہ طلب کرنے لگا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین میں کوئی کمی نہ رکھی۔ لیکن اس کے برے دن آ چکے تھے۔ یہ کہتا ہوا واپس لوٹا کہ دیکھنا اس شہر کو پیدل اور سوار فوج سے کس طرح کھنڈر کیے دیتا ہوں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے التجا کی خداوند! مجھے عامر کے شر سے محفوظ رکھیو! عامر مدینہ ہی میں سے گزرتا ہوا بیما رپڑ گیا۔ گردن پر طاعون کا پھوڑا نکل آیا۔ راستے میں بنو سلول کی ایک عورت کے گھر میں آ گرا اور اسی گھر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے چنگل میں الجھ گیا۔ مرتے وقت اس کی زبان پر یہ کلمہ تھا۔ اے برادران بنو عامر! یہ پھوڑا تو اونٹ کی گردن پر نکلا کرتا تھا۔ میرے مقدر میں بھی اسی سے مرنا لکھا ہے! 1؎ اور دھائی ساری خدا ہی کی ہو۔ قبیلہ بنو عامر کا دوسرا متکبر اربد بن قیس بجلی گرنے سے ہلاک: یہ بھی اسی وفد (بنو عامر) میں شریک تھا جو اسلام سے روگرداں ہو کر واپس لوٹا۔ ایک روزجب وہ اپنا اونٹ بیچنے کے لئے گھر سے نکلا تو بجلی گری اور اربد کو جلا کر بھسم کر گئی۔ لیکن عامر اور اربد ان دونوں قبیلوں کو اسلام لانے سے نہ روک سکے۔ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے متوازی وحی: عامر بن طفیل اور اربد بن قیس دونوں سے زیادہ بد انجام اور آفت رسیدہ مسیلمہ بن حبیب تھا جو یمامہ سے بنو حنیفہ کے وفد میں آیا لیکن خود شہر سے باہر اپنے ہمراہیوں کے سامان کی چوکیداری کے لئے رہ گیا۔ دوسرے افراد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور سب کے سب اسلام سے مشرف ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں انعامات سے سرفراز فرمایا۔ بنو حنفیہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے رفیق وفد مسلیمہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے اس کے لئے بھی ان کے برابر عطیہ بخشا اور فرمایا وہ بھی مرتبہ میں تم لوگوں کے مساوی ہیں اس لئے کہ قوم کے سامان کی چوکیداری مرتبہ میں کمی کا موجب نہیں ہو سکتی۔ لیکن جب مسلیمہ نے اپنے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول سنا تو اس نے متوازی نسبت اور وحی کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رسالت میں شراکت کا پیغام بھیج دیا اور اپنی وحی کے نمونہ میں یہ جملے زبان سے ادا کیے: لقد انعم اللہ علی الحبلی اخرج منھا نسمۃ نسعی من بین صفاق و حشائ۔ اللہ نے زن حاملہ کو کیا نعمت عطا فرمائی۔ اس کے بطن سے زندہ بچہ پیدا ہوا جو چلنے پھرنے لگا مسیلمہ کی شریعت: شراب اور زنا حلال مگر نماز حرام ہے جس کی طرف اس نے لوگوں کو آنے کی دعوت دی۔ وفود: رسالت مآب کے حضور ملک کے چاروں طرف سے وفود آنا شروع ہوئے جن کا امیر قبیلہ کا معزز سردار ہوتا ۔ مثلاً جناب عدی بن حاتم اور حضرت عمرو بن معدی کرب۔ البتہ حمیر کے نوابوں نے اپنی طرف سے قبول اسلام کی تحریر وثیقہ اپنے اپنے سفیر کے توسل سے پیش کیا جسے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم فرما کر ضروری ہدایات و احکام شریعت بھی تحریری بھجوا دیئے۔ یہ جنوب ملک (یمن) کے سفیر ہیں۔ جب پورے یمن میں اسلام پھیل گیا تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سابقین الاسلام میں سے ان لوگوں کو یمن بھیجا جو نواردان اسلام کو عقائد و مسائل کی تلقین سے آراستہ کرسکیں۔ صرف وفود عرب کے قبیلوں کے نام: وفود آتے رہے۔ ان میں سے ہر ایک کی حکایت طوالت کا باعث ہو گی جیسا کہ دوسرے سیر نویس حضرات نے کیا اور ابن سعد نے تو (طبقات نام کتاب) میں بڑی تقطیع کے پچاس صفات اسی تذکرہ میں مزین کر دئیے۔ لہٰذا ہم اس موقع پر صرف قبائل اور ان کی شاخوں کے ناموں پر اکتفا کرتے ہیں۔ مزینہ، اسد، تمیم ، عبس، فزارہ، مرہ، ثعلبہ، محارب، سعد بن بکر، کلاب، رواس بن کلاب، عقیل بن کعب، جعدہ، قشیر بن کعب، بنی البکا، کنانہ، اشجع، باہلہ، سلیم، ہلال بن عامر، عامر بن صعصعہ، ثقیف۔ از ربیعہ: عبدالقیس، بکر بن وائل، تغلب، حنیفہ، شیبان۔ از خطہ یمن طے، تجیب، خولان، جعفی، صدائ، مراد، زبید، کندہ، صدف، خشین، سعد ہذیم، بلیٰ، برائ، عذرہ، سلامان ، جہنیہ، کلب، جرم، ازد، غسان، حارث بن کعب، ہمدان، سعد العشیرہ، عنس، الداریین، الرھاویین۔ از بنو مذجح غامد ، نخع، بجیلہ، خثعم، اشعریین، حضر موت، ازو عمان، غافق، بارق، دوس، ثمالہ، حدان، اسلم، جذام، مہرہ، حمیر، نجران، جیشان۔ جزیرہ نمائے عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس نے بت پرستی کے بعد اسلام قبول نہ کر لیا ہو۔ عرب کے مشرکین بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوتے گئے تاآنکہ تمام ملک بتوں کی پرستش سے بے نیاز ہو کر خدائے یکتا کی عبادت پر کاربند ہو گیا۔ یہ اتفاق تبوک کے بعد ہوا۔ مدینہ میں جو وفد آیا کسی جبر و تحکم کے بغیر آیا اور از خود اطاعت گزارانہ حیثیت سے آیا۔ نہ کسی قبیلہ پر دباؤ ڈالا گیا اور نہ کسی کے معاملہ میں کشت و خون کی نوبت آنے پائی۔ مشرکین کے قبول اسلام کے بعد یہود و نصاریٰ کا معاملہ باقی رہ گیا کہ ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا سلوک کیا۔ اسے انتیسویں فصل میں ملاحظہ فرمائیے۔ ٭٭٭ باب29 عرب کے اہل کتاب سے لے کر خطبہ حجتہ الوداع تک حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانہ حج (۹ھ ) میں جناب علی بن ابی طالبؓ نیابتاً سورۃ براۃ کی جو آیتیں اعلاماً سنانے آئے تھے مدوح نے منیٰ میں یہ آیات سنانے کے بعداعلان فرمایا کہ نہ کافر کے لیے جنت میں جگہ(مقام) ہے نہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج ادا کرنے کے لیے بیت اللہ میں قد م رکھ سکتاہے۔ نہ کوئی زائر برہنگی کی حالت میں کعبہ کا طواف کرنے کا مجاز ہو گا۔ اور جس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا وثیقہ موجود ہو وہ آئندہ کی پابندیوں سے پوری طرح آزاد متصور ہو گا۔ اس اعلان پر مشرکین کو یقین ہو گیا کہ آج سے بتوں کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے کوئی سبیل نہیںَ اگر ان میں سے کسی نے ایسا کیا تو اس کے خللاف اللہ اور اس کے رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان جنگ سمجھا جائے گا۔ اس ساعت تک عرب کے جنوبی گوشہ ین و حضر موت میں ایسے لوگ باقی رہ گئے تھے جو بت پرستی پر قائم تھے۔ ان کے سو ا حجاز اور اس کے ملحقہ گردو نواح میں خصوصاً عرب کے شمالی حصہ میں بسنے والے مشرکین اسلام قبول کر چکے تھے۔ اور یہ کہ ان جنوبی(علاقہ یمن کے) باشندوں میں بت پرستوں کے ساتھ نصاریٰ بھی ہنوز قدیم مذہب پر جمے ہوئے تھے۔ عرب کے ان علاقوں سے مشرکین کے وفود مدینہ آتے جو بطبیب خاطر اسلام قبول کرتے اور دین و دولت سے مالا مال ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ۔ بیشتر وفود کے سرداروں کو ان کے مناصب دنیوی پر بحال رکھا جاتاجس سے انہیں اسلام کی رواداری اور زیادہ متاثر کرتی۔ اہل کتاب اوربت پرستوں میں امتیاز اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے متعلق سورۃ براۃ کی آیات جو حضرت علیؓ نے حج ابوبکرؓ کے زمانے میں سنائیں مندرجہ ذیل ہیں: قاتلوا الذین لا یومنون باللہ وبالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوا الجزیۃ عن یدوھ صغرون ( ۹:۲۹) ’’اہل کتاب جن میں سے جن لوگوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو خدا پر (سچا) ایمان رکھتے ہیں اور نہ آخرت کے دن پر نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی کتاب میں حرام ٹھہرادیا ہے۔ اورنہ سچے دین ہی پر عمل پیرا ہیں تو (مسلمانو!) ان سے بھی جنگ کرو‘ یہاں تک کہ وہ خوشی سے جزیہ دینا قبول کر لیں اور حالت ایسی ہو جائے کہ ان کی سرکشی ٹوٹ جائے۔‘‘ (تابہ آیہ) یا ایھا الذین آمنوا ان کثیرا من الاخبار الاھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل ویصدون عن سبیل اللہ والذین یکنزون الذھب والفضہ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب علیم یوم یحمی علیھا فی نار جھنم فتکوی بہا جباھھ وجنوبھم وظہورھم ھذا ما کنزتم لا انفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون (۹:۳۴:۳۵) ’’مسلمانو! یاد رکھو(یہودیوں اور عیسائیوں کے) علماء اور مشائخ یں ایک بڑی تعداد ہیجو لوگوں کا مال ناحق و ناروا کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے نہیں روکتے ہیں۔ اور جو لوگ چاندی سونا اپنے ذخیروں میں ڈھیر کرتے ہیں اور اللہ کی را ہ میں خرچ نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو عذاب دردناک کی خوش خبریسنا دو (عذاب درد ناک کا وہ دن) جب کہ (ان کاجمع کیا ہوا) سونے چاندی کا ڈھیر دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور ان سے ان کے ماتھے ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی (اور اس وقت کہا جائے گا) کہ یہ ہے جو تم نے اپنے لیے ذخیرہ کیا تھا سو جو کچھ ذخیرہ کر کے جمع کر تے رہے ا س کا مز آج چکھ لو۔‘‘ بیشتر مسیحی مورخین سورۃ براۃ کی آیت متذکرہ الصدر کے مطابق اعتراض کرتے ہیں۔ کہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب کے متعلق اب (آخر میں آ کر) ا س دستور کے خلاف حکم تو نہیں دیا جو سورہ برات نازل ہونے سے دو سال قبل آپ کا معمول تھا۔ بعض مستشرقین یہاں تک کھل کھیلے ہیں کہ آج سورہ براۃ کے نزول پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین اور عامل کتاب دونوں کو ایک صف میں لا کھڑاکیا ہے۔ یہی یہود و نصاریٰ ہیں جن کے بل بوتے پر جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین پر غلبہ حاصل کیا تھا۔ جیسا کہ اپنی رسالت کے دور اول میں مسلسل کئی سال تک فرمایا کیے کہ آپ دین عیسوی اور مسلک موسیٰ و مشرب ابراہیمی اور ان انبیاء علیہ السلام کے طریق و تجدید تبشیر کے لیے مبعوث ہوئے ہیں جو ان سے قبل دنیا میں تشریف لائے۔ اس سے کچھ عرصہ کے بعد جب یہودیوں کی طرف سے عداوت ظاہر ہونے پر ان کا قلع قمع کر متوجہ ہوئے تو نصاریٰ ؤسے امدا د حاصل کرنے کے لیے ان کے ایمان دوستی کی تعریف میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) یہ آیہ نازل ہوئی: لتجدن اشد الناس عدواۃللذین امنوا الیھود والذین اشرکو ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالو انا نصری ذالک بان منھم قسیسی ورھبانا وانھم لا یستکبرون (۵:۸۲) ’’(اے پیغمبرؐ) تم ایمان والوں کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہودیوں کو پائو گے نیز (عرب کے )مشرکوں کو اور ایمان والوں کی دوستی میں سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائو گے جو کہتیہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں اس لیے کہ ان یمں پادری اور رہبان ہیں (یعنی عالم اور تارک الدنیا فقیر ہیںجو زہد و عبادت میں مشغول رہتے ہیں) او راس لیے ان مین گھمنڈ اور خود پرستی نہیں‘‘۔ لیکن آج سے عیسائیوں کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جارہا ہے جو ک تک یہودیوں کے ساتھ ہوا۔ بلکہ یہاں تک کہ نصاریٰ کو ان لوگوں کے درجہ پر لایا جا رہاہے کہ جو نہ خدا کو مانتے ہیں نہ قیامت کو۔ یہی نصاریٰ ہیں کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسلمان پیرو مکہ سے ہجرت کر کے حبشہ پہنچے تو ان کی عیسائی بادشاہ (نجاشی) نے اپنی سلطنت میں انہیں پوری آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دی۔ انہی مسیحیوںکے نجرانی اور دوسرے دوسرے قبائل کو جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف ان کے ساتھ سابقہ دین بلکہ رسومات پر بھی پہلے کی طرح عمل کرنے میں تعرض نہ کیا حتیٰ کہ ان میں جو جس کا منصب یا اعزاز تھا اسے بھی بحال رہنے دیا‘‘۔ نتیجہ بحث دوبارہ نصاریٰ رسول خدا صلوات اللہ علیہ نصاریٰ کے اس حد تک احسانات کا شمار کرنے کے بعد ہم ان کے ہم مسلک مشتشرقین فرماتے ہیں کہ آج یہی نصاریٰ کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا برتائو اس قدر مختلف ہو رہا ہے کہ جس سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان دشمنی کی خلیج حائل ہو سکتی ہے جس کی بنا پر تابعین مسیح اور پیروان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باہم یک جہتی کے امکانات اگر محال نہیں تاہم مشکل ضرور ہیں۔ ازروئے قرآن مسیح ابن مریمؑ کی منزلت بظاہر مستشرقین کا یہ نقض ان لوگوں کے لیے سرمایہ تسکین ہو سکتاہیکہ جن کے سامنے مسئلہ کی دوسری حیثیت نہ ہو لیکن تاریخٰ تتبع کے ساتھ ان آیات قرآنی کی ترتیب اور ان کے اسباب نزول پر غور کیا جائے تو قطعیت سے کہا جا سکتاہے کہ آغاز بعثت سے لے کر رحلت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موقف اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) دونوں کے متعلق ایک ہی رہاہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ چنانچہ قرآن مجید کے مطابق مریم کا بیٹامسیحؑ اس کے کلمہ بشارت کا ظہور ہے جو مریم پر القا کیا گیا تھا اور مسیح ابن ریمؑ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیںجس نے انہیں سراپائے نبوت عطا فرمایا اور وہ جہاں کہیں رہیں انہیں کے سبب برکت ٹھہرایا گیا اور انہیںادائے ماز و زکوۃ کی تاکید فرمائی جب وہ دنیا میں رہیں اور اللہ ایک ہی ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا کہ نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ اول یوم سے لے کر دنیا میں جہاں کی بقا تک اسی بنیاد پر اسلام کی روح قائم ہے۔ اور یہ روح اسی طرح ایک لمحہ کے لیے بھی اس سیمنفک نہیںہو سکتی۔ جیسا کہ مسئلہ زیر بحث کے متعلق واضح ہے کہ مستشرقین کے مورد اعتراضات سورہ براۃ میں مشرکین کے ساتھ اہل کتاب کی تنبیہہ سے بہت پہلے کا واقعہ ہے جب کہ نجران کے عیسائی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورمناظرانہ طریق پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ خیر عیسیٰؑ کی ماں تو مریم تھیں مگر ان کے باپ اسی وقعہ پر مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں: ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (۳:۵۹) ’’اللہ کے نزدیک تو عیسیٰؑ ایسا ہ ہے جیسے آدم مٹی سے پیدا کیا پھر اس کی بناوٹ کے لیے حکم فرمایا کہ ہو جائو اور جیسا کہ کچھ خدا کا ارادہ تھا اسی کے مطابق ہو گیا۔‘‘۔ الحق من ربک فلا تکونن من الممترین (۲:۱۷۲) ’’(اے پیغبر ! مسیح کے انسان ہونے کی نسبت جو کچھ کہا گیا ہے ) تو یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے امر حق ہے (اور جو بات خدا کی طرف سے حق ہو وہ ثابت اور اٹل حقیقت ہے کبھی نہ مٹنے واالی نہیں) تو دیکھو! ایسا نہ ہو کہ شک و شبہ کرنے والوں میں سے ہو جائو‘‘۔ فمن حاجک فیہ من بعد ما جائک من العلم فقل قالوا ندع ابنائنا وانباء کم ونسائنا ونسا ء کم و انفسنا وانفسکم ثم نبتھل فنجعل لعنۃاللہ علی الکاذبین (۳:۶۱) ’’پھر جو کوئی تم سے اس بار ے میں جھگڑا کرے حالانکہ علم و یقین تمہارے سامنے آ چکا ہے تو تم اسسے کہو کہ میرے پاس مسیحؑ کے انسان ہونے کے لیے علم ویقین موجود ہے اگر تم بھی اس کی خڈائی پر وایسا ہی علم و یقین رکھتے ہو تو آئو (یوں فیصلہ کرلیں کہ) ہم دونوں فریق میدان میں نکلیں اورانے اپنے بیٹوں اور عوتوں کو بلائیں اور خود بھی شریک ہوں پھر عجز و نیاز کے ساتھ حضور خداوندی میں التجا کریں (ہم دونوں میں سے جس کا دعویٰ جھوٹا ہو) تو جھوٹوں پر خدا کی پھٹکار!‘‘۔ ان ھذا لھوا القصص الحق وما ممن الہ الا اللہ وان اللہ لھوا لعزیز الحکیم (۳:۶۲) ’’اے پیغمبرؐ! یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے بلاشبہ بیا ن حق ہے اورکوئی معبو د نہیں مگر صرف اللہ کی ذات یگانہ اور یقینا اسی کی ذات ہے جو سب پر غالب ہے (اوراپنے کاموں میں) حکمت رکھنے والی ہے‘‘۔ فان تولو ا فان اللہ علیم بالمفسدین (۳:۶۳) ’’پھر اگریہ لوگ (فیصلہ کا یہ طریقہ) قبول نہ کریں (اور مباحلہ سے گریز کرجائیں) تو اللہ مفسدوں کا حال خوب جانتا ہے‘‘۔ قل یا ھل الکتاب تعالوا الیٰ کلمۃ سواء بینا وبینکم الا نعبد الا اللہ والا نشرک بہ شیئا ولا یتخذبعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولوا اشھدوا بانا مسلمون (۳:۹۔۶۴) ’’اے پیغمبر!) تم (یہود اور نصاریٰ سے) کہہ دو کہ اے اہل کتاب! (اختلاف و نزاع کی ساری باتیں چھوڑ دو) ا س بات کی طرف آ جائو کہ جو ہمارے اور تمہارے دونوں کے لیے یکساں طورپر مسلم ہے یعنی اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں کسی کی ہستیکو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں ہم میں سے ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا برتائو نہ کرے گویا خدا کو چھوڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا ہے! پھر اگر یہ لوگ اس بات سے روگردانی کریں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ (انکار تمہاری طرف سے ہے) اور ہم خدا کے ماننے والے ہیں‘‘۔ یہ آیتیں سورہ آل عمران میں سے ہیں جس میں ذات خداوندی نے نصاریٰ(بشمول یہود) ہر دو پر عتاب فرمایا کہ تم دوسروں کو بھی خدا پر ایمان لانے سے منع کرنے میں خدا سے نہیں ڈرتے ۱؎… اور…’’خود بھی اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہو ۲؎۔ اور اسی طرح (سورہ ) آل عمران میں وہ احکامات بیان ہیں جو خدا کی طرف سے حضرت عیسیٰؑ و جناب موسیٰؑ اور ابراہیمؑ پر نازل ہوئے مگر یہود و نصاریٰ دونوں کے گٹھ جوڑ نے ان احکامات میں تحریف کر کے انہیں دنیوی اغراض کا آلہ بنا لیا اور جس طرح سورہ آل عمران ۳ ؎ میں یہ آیات ملتی ہیں اسی طرح قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں بھی یہ احکام بکثرت پائے جاتے ہیں ازاں جملہ سورہ مائدہ میں! لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ثالث ثلاثۃ وما من الہ الا الہ واحد وان لم ینتھوا عما یقولون لیمسن الذین کفروا منھم عذاب الیم (۵:۷۳) ’’یقینا وہ لوگ (حق سے) منکر ہوئے جنہوںنے کہا خدا تین میں ایک ہے۔ (یعنی باپ بیٹا اور روحاالقدس) حالانکہ کوئی معبود نہیںمگر وہی معبود یگانہ۔ اور (دیکھو) جوکچھ یہ کہتے ہیں اگر اس سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے انکار کیا ہے انہیں عذاب دردناک پیش آئے گا‘‘۔ افلا یتوبون الی اللہ ویستغرونہ واللہ غفور رحیم( ۵:۷۴) ’’انہیں کیا ہو گیاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں لوٹتے اور اس سے بخشش طلب نہیں کرتے حالانکہ وہ بخشنے والا رحمت رکھنے والا ہے‘‘۔ ماالمسیح ابن مریم الا رسول اللہ قد خلت من قبلہ الرسل وامہ صدیقہ کانا یاکلا ن الطعام انظر کیف نبین لھم الایت ثم انظر انی یوفکون (۵:۷۵) ’’مریم کا بیٹا مسیحؑ اس کے سو ا کچھ نہیں ہے کہ اللہ کا ایک رسول ہے۔ اس سے پہلے بھی کتنے رسول ( اپنے اپنے وقتوں میں گزر چکے ہیں) اورس کی ماں(بھی اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ )صدیقہ تھی (یعنی بڑی ہی راست باز انسان تھی) یہ دونوں تمام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے تھے۔ (یعنی غذا کی احتیاج رکھتے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ جسے زندہ رہنے کے لیے غذا کی احتیاج ہو اس میں ماورائے بشریت کوئی بات کیوں کر ہو سکتی ہے) دیکھو کس طرح ہم نے ان لوگوں کیلیے دلیلیں واضح کر دیتے ہیں اور پھردیکھوکہ کس طرف کو یہ لوگ پھرے ہوئے جا رہے ہیں۔ (کہ اتی موٹی سی بات بھی سمجھ نہیں سکتے)۔‘‘ سورہ مائدہ ہی میں یہ آیت بھی ہے: اورپھر جب ایسا ہو گا کہ اللہ کہے گا اے واذ قال اللہ یا عیسیٰ ابن مریم ء انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ قا سبحانک ما یکون لی ان اقول مالیس لی بحق (۵:۱۱۶) ’’مریم کے بیٹے عیسیٰؑ کیا تونے لوگوں سے یہ کہا ھتا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا بنا لو عیسیٰ جواب میںعرض کرے گا۔ تیرے لیے پاکی ہو۔ بھلا مجھ کو یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ ایسی بات کہوں جس کا مجھے کہنے کا حق نہیں‘‘۔ ۱؎ بمطابق مفہوم مولف: قل یا اھل الکتاب لم تصدون عن سبیل اللہ من امن (۳:۹۹…م) ۲؎ و ایضاً بمطابق مفہوم مولف: یعنی قل یا ھل الکتاب لم تکفرون بآیت اللہ (۳:۹۸…م) ۳؎ بمطابق مفہوم مولف: یعنی قل امنا باللہ وما انزل علینا وما انزل علی ابراہیم و اسمعیل و اسحق و یعقوب والاسباط وما اوتی موسی و عیسیٰ الخ(۳:۸۴) مسیحی مورخین سورہ مائدہ ہی کی آیات سے اپنے موافق یہ استدلال کرتے ہیں کہ اوائل میں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصاریٰ کے ساتھ حسن مراعات سے پیش آتے رہے جیساکہ سورہ مائدہ کی آیت سے ثابت ہے: لتجدن اشد الناس عدواۃ للذین امنوا والذین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالو انا نصریٰ ذالک بان منھم قسسن ورھبانا وانھم لا یکستبرون (۵:۸۲) ’’(اے پیغمبرؐ ! ) تم ایمان والو ں کی عداوت میںسب سے سخت یہودیوں کو پائو گے ۔ نیز (عرب) کے مشرکوں کو اور ایمان والوں کی دوستی میںسب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائو گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں اس لیے کہ ان میں پادری اور رہبان ہیں (یعنی عالم اور تارک دنیا فقیر ہیںجوذہد و عبادت میں مشغول رہتے ہیں) اور اس لیے کہ ان میں گھمنڈ و خود پرستی نہیں ہے‘‘۔ اب رہیں سورہ براۃ کی وہ آیتیں (م… جن میں نصاریٰ کو بشمول یہود جزیہ ادا کرنے کا پابند کر دیا یعنی: یعظوالجزیۃ عن یدوھم صغرون (۹:۲۹) تویہ عتاب ان کے حضرت عیسیٰؑ بن مریم پر ایمان لانے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے شرک اللہ ایک دوسرے کا مال دھوکے سے بٹورنے سرایہ داری کی کثرت سے شکم کو دولت کا تندور بنانے اور خدا کی طرف سے حرام کردہ امور کو حلال کر لینے کی وجہ سے ہے جسے اسلام عیسوی دین کے خلاف اعلان جنگ سمجھتا ہے اور یہ ان لوگوںکا وطیرہ ہوسکتا ہیکہ جن کا نہ تو خدا پر ایان ہو نہ آخرت پر۔ بایں تہذید انہی نصاریٰ کے حق میں اسلام کی رواداری اور حسن مراعات کا یہ عالم ہے کہ ان کی ایسی برائیوں کے باوجود اسلام نے انہیںنہ توکامل ایان کے زمرہ سے مطلقاً خارج کیا نہ ا ن کے ساتھ بت پرستوں کا سلوک روا رکھا (م…جن بت پرستوں کے خلاف اسلا م نے قاتلوا لذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر ؎۱ (۹:۲۹) سے اعلان جنگ فرما دیا) بلکہ اسلا م نے تو ان (نصاری) کے ان اللہ ثالث ثلثۃ (۵:۷۳) خدا تین میں ایک ہے پر عقیدہ رکھنے اور (م… انجیل کی تعلیم کے مطابق) خدا کی طرف سے حرا م کردہ امور کو حلال کر لینے کے باوجود اعلان جنگ کی بجائے صرف ادائے جزیہ تک کا مکلف رہنے دیا۔ وفد کندہ جیسا کہ اٹھائیسویں فصل سے نقل ہو چکاہیکہ حج ابوبکرؓ کے موقع پر حضرت علیؓ کے اعلان اثر سے جنوب کے عرب قبائل جوق در جوق اسلا م میں داخل ہو نے لگے اور مدینہ میں متواتر ان کے وفود آنا شروع ہوگئے۔ ان میں مشرکین اور اہل کتاب دونوں قسم کے لوگ شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بیش از بیش تکریم فرماتے اور ان کے سرداروں کو ان کے سابقہ مناصب پر فائز رکھنے میںکوئی تامل نہ فرماتے۔ جب بنو کندہ کا وفد جس میں اسی افراد شامل تھے حاضر ہوا تو اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے ارباب وفد بڑے طمطرا ق کے ساتھ مدینہ میں داخل ہوئے۔ کندھوں پر لٹیں بکھری ہوئیں آنکھوں میں سرمے کی تحریر ریشمیں استر سے منڈھے ہوئے یمنی جفر کے پٹکے گلوںمیں حمائل۔ انہیں دیکھتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ مسلمان نہیں؟ ۱؎ (مشرک…م) جو نہ خدا کو مانتے ہیں (جیسا کہ ماننے کا حق ہے) اور نہ آخرت کو ان لوگوں سے بھی لڑو۔ اشعت کندی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوںنہیں ہم مسلمان ہیں۔ فرمایا: مسلمان ہونے کے باوجود ریشمی استر کے پٹکے گلے میں حمائل کرنے کے کیا معنی ہیں؟ ارباب وفد نے سنتے ہ پٹکے چاک کر کے پھینک دیے۔ امیر وفد اشعث بن قیس نے مزاحاً عرض کیاا ہم لوگ بنی آکل المرا ر ہیں اور جناب ؐ بھی یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیے اور فرمایا بنی آکل المرار ہوں گے تو عباس اور ربیعہ بن حارث ہوںگے میں بنی آکل المرار کیوں ہونے لگا ۱؎ وائل بن حجر اور معاویہ بن ابوسفیان اس وفد میں کندہ ہی کے ایک نواب وائل بن حجر بھی شریک تھے۔ یہ حضرموت کے ساحلی شہر وںاور بستیوں کے سردار تھے مسلمان ہو گئے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس شرط کے ساتھ اس منصب پر فائز رکھا کہ اپنے زیر اثر علاقہ سے عشر(زکوۃ) وصو کر کے محصلین کو سونؤپ دیا کریں وائل نے منظور کر لیا۔ ان کے ہمراہ معاویہ بن ابوسفیان کو وہاں کے سلمانوں کی تربیت کے لیے بھجوا دیا۔ راستے میں معاویہ نے ان سیان کی ردیف میں بیٹھ جانے کی درخواست کی۔ وائل نے ردیف میں جگہ دینا تو درکنار فرمایا کہ اگر دھوپ سے بچائو کے لیے یرے جوتے کی پوائی بھی طلب کرو تو مجھے گوارا نہیں۔ البتہ تم میرے انوٹ کے سایے میں چل سکتے ہو۔ معاویہ نے یہ تصور کرتے ہوئے کہ اسلامی تعلیم نے مسلمانوں میں اس قسم کے مراتب کا کوئی امتیاز نہیںرہے دیا حتیٰ کہ انہیں ایک دوسرے کا بھائی بھائی بنا دیا۔ وائل کی اس بے مہری کو نظر انداز کر دیا تاکہ ان کے ذریعے وہ اس کی قوم اسلام سے بہرہ مند ہو سکے۔ ۱؎ اسلاف کندہ میں حرث بن عمرو تھے جن کی اہلیہ کا نام اناس بنت عوف سے لقب بنی آکل المرار منسوب ہے۔ مرار پیلو کا درخت ہے۔ بی بی ام اناس نے یہ کلمہ ایسے موقع پر استعمال کیا تھا کہ جس کی وجہ سیان کی عظمت میںچار چاند لگ گئے۔ ہوا یہ کہ قریش (مکہ) کے نانیہال میں کلاب بن مرہ کی ماں اسی خاندان حرث بن عمرو سے تھیںَ بنو کندہ کے خاندان میں کئی پشتوں سے بادشاہت تھی۔ عرب اپنے فخر کے لے ہرشے کا سہارا لیتے۔ حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب اور ربیعہ کے باپ حارث دونوں عبدالمطلب ہی کے فرزندتھے لیکن جدی نسب ماں کی جانب سے بنو کندہ سے ملتا تھا۔ عبا س اوران کے برادر زادہ ربیعہ بن حارث تجارت کے لیے نکلے اور کسی نے ان کا نسب دریافت یا تو انہوںنے اپنے فخر کی وجہ سیاپنی والدہ ام کلاب سے منسوب کرتے ہوئے نحن بنو آکل المرار بتا دیااور شدہ شدہ یہ بات تام ملک میں پھیل گئی۔ قریش مکہ کی عظمت کی وجہ سے بنو کندہ یمن کو بھی اپنے ساتھ ان ک ینسبت پر فخر رہا تھا۔ یہ ہے پس منظر اشعث بن قیس کے عرض کرنے کا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو کندہ اور قریش اکل المرار ہیں۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الخالق نسب کے معاملہ میں والدہ کی بجائے والد کے نسب کومناسب تصور فرماتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نحن نضر بن کنانتہلا نفقوا منا ولا ثقفی من ابینا (ہم قبیلہ بن ونضر کنانہ سے ہیں۔ ہمیں اپنا الحاق مائوں کے نسب سے منظور نہیں کہ اپنے باپ کی نسبت کو ترک کر دیں اور نضر کنانہ کے باپ ہیں ابن ہشام … م) اہل یمن کی دینی تعلیم کے لیے معاذؓ کا تقرر اور ہدایات یمن میں ہر طرف اسلام پھیل گیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں کے مسلمانوں کی تربیت سے عرض سے حضرت معاذؓ کی قیادت میں معلمین کا وفد روانہ فرماتے ہوئے امیر وفد کو تلقین فرمائی: یسر ولا تعسر و بشر ولا تنفر وانک ستقوم علی قوم من اہل الکتاب یسئلونک مامفتان الجنۃ فقل شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وحد لاشریک لہ ’’اے معاذ! سہولت مدنظر رہے کہ نہ سختی لوگوں کو اپنے ساتھ مانو س رکھنا مبادا انہیں خو د سے دور کر دو اور وہاں اہل کتاب سے تمہاری ملاقات ہو گی جو تم سے جنت کی کلید معلوم کرنا چاہیں گے تو انہیں جواب دینا کہ جنت کی چابی لا الہ الا اللہ ہے اور الہ وہ ہے جوس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذؓ کیہمراہ مسلمانوں کی ایک جماعت تعینات کر دی جو اہل یمن کی تربیت کے ساتھ ان کے مقدمات کا فیصلہ حکم خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کرے۔ جزیرہ عرب میں شمال سے لے کر جنوب اور مشرق سے لے کر مغرب تک اسلام پھیل چکا تھا۔ ملک کے تمام باشندے امہ واحدہ بن گئے جوایک علم کے سائے میں رہنے لگے اور یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تھا۔ سب کا ایک دین اور ایک ہی اسلام تھا۔ سب سے دل ایک ہی رخ پر مائل۔ اور یہ رخ خدائے وحدہ لا شریک کی عبادت تھی۔ یہی قبائل ہیں جو آج سے بیس سال پہلے ایک دوسرے سے متنفر اور ایک دوسرے کے مال و آبروکے دشمن تھے مگر اسلام کے جھنڈے تلے آتے ہی ان کے دل میں بت پرستی نجاست دور ہو گئی۔ خدائے دو جہاں کی پرستاری کا جذبہ ابھر آیا اور باہمی عناد اور گلے شکوے خت ہوگئے اور ایک دوسرے سے جنگ و جدل کی راہیںمسدود ہوگئیں۔ جس تلوار کی کا ٹ کاامتحان اہل وطن کے حلقوم پر ہوتا اب سے دشمنان وطن اور اعدائے دین کی شہ رگ پر ہونے لگا تھاا۔ مابقی مسیحان نجران کا قبول اسلام نجران کے عیسائیوں میں ایک ہی قبیلہ (بنو حارث) تھا جس کی اکثریت حلقہ بگوش اسلام ہو چکی تھی۔ مگر ایک حصہ ابھی تک اپنے قدیم مسلک پر قائم تھا‘ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو ان کی تلقین کے لیے مقرر فرمایا اور انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ حضرت خالدؓ نے ان کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور مدینہ بھیجا۔ جس کی تکریم و تواضح رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحسب عادت گرامی مروت و خندہ پیشانی کے ساتھ فرمائی۔ اور ابقی اہل یمن کا قبول اسلام یمن میں بھی قبیلہ نخع ابھی تک اسلام سے بھاگ رہا تھا۔ انہیں غرو ر تھا کہ اسلام کا ظہور اس ملک (حجاز) میں ہوا ہے جو کل تک ان کا باج گزا ر تھا۔ اہل حجاز کا مذہب قبول کر لینا اہل یمن کھے نزدیک خود کو حجاز کاباج گزار بنانے کے مترادف تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو ایک سومسلمانوں کادستہ ان کیہمراہ کر کے یمن بھیجا۔ یہ لوگ بھیمقالہ پر اتر آئے مگر علی ابن ابی طالبؓ نے اپنی کم سنی کے باوجود انہیں بھگا دیا۔ وہ دوسری مرتبہ پھرسمت کر پلٹ پڑے اور صف بندی کرکے سامنا کیا۔ اس مرتبہ حضر ت علیؓ نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ محصورین نے عاجز آ کر ہتھیار ڈالنے کے ساتھ اسلا م بھی قبول کر لیا اور اپنے حسن عمل و خلوس سے اسلا کا بول بالا کر دکھایا۔ وہ لوگ بھی حضرت معاذؓ اور ان کے رفقا کی تعلیم و تلقین سے مستفید ہوئے۔ یہ آخری وفد تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (اس وفد کا عنوان وفد نخع ہے زرارہ بن عمرو نخعی اس وفد میں شریک تھے)۔ حج اکبر کا اہتمام جس موقع پر علی بن ابی طالبؓ یمن سے مراجعت فرمائے مکہ ہوے کا اہتمام کر رہے تھے اسی وقفہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج اکبر کے انصرام میںمشغول تھے۔ اس سال کے اکثر مہینے نکل چکے تھے ذی قعد کا بھی دوسرا پند رواڑہ شروع ہو چکاتھا۔ اب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج اصغر یعنی عمرہ تودو مرتبہ ادا فرما لیاتھا لیکن حج اکبر ادا کرنے کا شرف ابھی تک اتفاق نہ ہوا تھا یہ بھی پیش نظر تھا کہ خود تشریف لے جا کر مسلمانوں کو اعمال حج سے آگاہ فرمایاجائے۔ (آپ کے) اس عزم کاافشا ہوتے ہی یہ خبرتمام عرب میں پھیل گئی۔ صحرا کے بادیہ نشین پہاڑوں کی گھاٹیوں پر بسنے والے دیہات اور شہروں کے باشندے نزدیک و دور ہر طرف سے امنڈ کرمدینہ میں سمٹ آئے دینہ سے باہر خیموں کا نیا شہر آباد ہو گیا۔ ایک لاکھ بلکہ اور زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہو گئے جنہوںنے سلمانوں کی دعوت پر لبیک کہا تھا۔ یہی لوگ ہیں جو چند سال پہلے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے گر آج مودت و اخوت کے صدقے میں باہم بھائیوں کا سا برتائو کررہے تھے ۔ ہزاروں نو وارد مسلمانو ں کا مدینہ کی گلیوں میں مٹر گشت ہر بشر خند رو چہرے سے مسرت و خوشی آشکار جن کی باہمی محبت حق کی داد رسی اور نور اسلام کا پھیلائو کا باعث ہوئی اور باہم اس قدر متحد گویا کانھم بنیان مرصوص (۶۱:۴) حج بیت اللہ کے لیے شدالرحال ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۵ ۲ماہ ذیقعدسنہ ۱۰ کے روز مدینہ سے حج بیت اللہ کے لیے شد الرحال فرمایا۔ تمام حرم مشایعت میں تھیں۔ سب سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری تھی امہات المومنین ؓ اپنے اپنے ہودج میں تشریف فرما زائرین آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امہات المومنین ؓ کے پیچھے پیچھے۔ ان کی تعداد ستر ہزار اور بروایت دیگر ایک الکھ دس ہزار منقول ہے۔ مسلمانو ں کے اس سفرکی محرک ان کی قوت ایمان تھی۔ خانہ خدا کی زیارت اور حج کی خوشی سے دل بلیوں اچھل رہے تھے ذوالحیلفہ (میقات اہل مدینہ… م) پر پہنچے اور شب بھر قیام فرمایا۔ دوسرے روز نبوت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے احرام حج باندھا۔ ایک تہ بند اور ایک چادر سب کی پوشاک یکساں اور یک رنگ۔ گویا مساوات کا ایک نادر روزگار نمونہ پیش کیا۔ ۱؎ وہ گویا ایک دیوار ہیںجس میںسیسہ پلا دیا گیا ہے۔ تلبیہ حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوص قلب سے رب العالمین کی طرف مائل تھے زبان سے تکبیرات حج ادا فرمائیں اورمسلمان بھی آپ کے ہم آواز ہوئے۔ لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ والشکر ک لبیک لبیک لا شریک شریک لک لبیک! ’’خداوند ہم تیرے حضور میں حاضر ہیں دل و جان سے تیرا کوئی شریک نہیں تو ہی حمد کا سزاوار ہے عطائے نعمت تیرے ہی کرم پر منحصر ہے۔ اورتیرے ہی حضور شکر واجب ! اے خدائے وحدہ لا شریک ہم تیرے حضور حاضر ہیں‘‘۔ اس آواز سے دشت و صحرا گونج اٹھے۔ موجودات کے ذرہ ذرہ نے مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی سے خدائے واحد کی ربوبیت کا اعتراف کیا۔ مدینۃ الرسول اور بیت اللہ (مکہ) کی درمیانی راہوں میں زائرین کوسوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں نماز کا وقت آ گیا سب مل کر حضور خداوندی میں سربسجود ہو گئے ۔ تکبیر کی دل کش آواز سے اللہ کی اطاعت اور تشکر کا اظہار کیا ۔ ہر شخص بے تابی کے ساتھ یو م حج کا منتظر کہ دیکھیں خانہ خدا کی زیارت کب نصیب ہوتی ہے ۔ عرب کے دشت و جبل وادیاں اور نخلستان بھی اتنے بڑے مجمع پر حیران کہ آج تک اس نبی امی عبدہ و رسولہ کی سی بابرکت و پر بہار شخصیت دیکھنے میں نہیںآئی۔ حج عمرہ اور حل احرام جب زائرین مقام سرف پرپہنچے جو مدینہ اور مکہ کے درمیانی راستہ پر واقع ہے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس زائر کے ہمراہ قربانی کا جانور نہ ہو اس کے لیے صرف عمرہ کی نیت کرنا چاہیے اور جن حضرات کے ساتھ ہدی (قربانی ) موجود ہے ان کے لیے حج کی نیت واجب ہے۔ مکہ معظمہ میں زائرین ذوالحجہ کی چوتھی تاریخ کو مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقاء نے زیارت کعبہ کے لیے سبقت فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام مسلمانوں نے حجر اسود کو مس فرمانے کے بعد بوسہ دیا۔ کعبہ کے سات طواف میں پہلے چار تیز قدمی اورمابقی تین طواف معمولی رفتار سے کیے۔ یہاں سے فراغ کے بعدکوہ صفا پر تشریف لائے اور صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے کے بعد اعلان فرمایا کہ جس زائر کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول دے۔ مگر بعض حضرات نے تامل کیا جس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خشمگیں ہو کر فر مایا: ما امر کم فافعلوہ جو حکم میں دیتا ہوں تم پر اس کی تعمیل واجب ہے۔ اور برہمی کی حالت میں اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزاج گرامی کس بات پر مکدر ہوا؟ فرمایا مالی لا اغضب وانا آمر امراً فلا یتبع ’’مجھے کیوں غصہ نہ آئے؟ انہیں جو حکم دیتا ہوں اس کی تعمیل نہیں کی جاتی‘‘۔ صحابہؓ میں سے ایک صاحب حاضر ہوئے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خشمگیں پا کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ناراض کرنے والے کو خدا تعالیٰ دوزخ میں جھونک دے گا ۔ فرمایا آپ نے محسوس نہیں کیا کہ جو نہیں حکم دیا گیا ہے (یہ لوگ) اس کی تعمیل میں متامل ہیںَ اگر مجھے حج قرآن کی مشکلات کا اندازہ ہوتا تو میں ھدی کے جانور خرید کر ہمراہ نہ لاتا اور احرام کھول دیتا جیسا کہ صحیح مسلم میں مروی ہے۔ جب مسلمانوں کو آ پ کی برہمی کا علم ہو ا تو ایسے زائرین ندامت کے ساتھ احرام کھول دیے جن کے ہمراہ ھدی نہ تھیں۔ ازواج مطہرات ؓ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ ؓ نے بھی احرام کھول دیا ما سوائے ان حضرات کے جن کے ہمراہ قربانی کے جانور موجود تھے۔ حضرت علی ؓ کی یمن سے مراجعت اسی دوران میں جناب علیؓ یمن سے تشریف لے آئے اور جب انہوں نے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام حج زیب تن فرما رکھا ہے تو خود بھی اقتدائے رسول میں احرام حج باندھ لیا مگر جب فاطمہؓ کو احرا م کے بغیر دیکھ کر (علی ؓ نے ) دریافت فرمایا تو سیدہؓ نے عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کی نیت کرنے کا حکم دے کر احرام اتار دینے کا ارشاد فرمایا ہے اس پر ہم نے احرام کھول دیے۔ جناب علیؓ حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں باریاب ہوئے اور یمن کے حاالت عرض کیے یہ گفتگو ختم ہوجانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علیؓ سے کعبہ کا طواف کرنے اور دوسرے مسلمانوں کی مانند احرام اتار دینے کا ارشاد فرمایا علی بن ابی طالبؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احرام باندھنے کے مواقع پر میں ان الفاظ میں نیت کر چکا ہوں۔ الھم انی اھل بما اھل بہ نبیک و عبدک ورسولک محمد ’’یا اللہ میرا تلبیہ ۲؎ انہی لفظوں میں ہے کہ جن سے تیرے نبی عبد اور رسول (جناب) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‘‘۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علیؓ کے ساتھ ان کی ھدی نہیں تو ان کے الفاظ کی وجہ سے علیؓ کو اپنی قربانیوں میں شریک فرما لیا ار جناب علی ؓ بدستور محرم ہی رہے تا آں کہ مناسک حج کی تکمیل ہوئی۔ مناسک حج کی ابتدا نویں ذوالحجہ (ترویہ ۱؎) کے روز منیٰ میں اپنے خیمے کے اندر تشریف لے آئے۔ اس دن کے معمولات عبادت ادا ؤفرمانے کے بعد شب کو خیمہ ہی میں قیام فرمایا۔ صبح ہوئی۔ نماز فکر ادا کی اور اافتاب نکل آنے کے بعد اپنی ناقہ(قصوائ) پر سوار ہو کر میدان عرفات کا قصد فرمایا یہ ۹ ذوالحجہ ہی کا دن تھا۔ ایک لاکھ زائرین مشایعت میں ہیںَ عرفات نامی پہاڑی پر تشریف لائے تو سب مسلمان گردوپیش بکھرے ہوئے ہیںَ ان میں بعض تلبیہ پکار رہے ہیں بعض تکبیرات۔ ۱؎ تلبیہ بمعنی لبیک لبیک…م ۲؎ ترویہ بمعنی کلمہ اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر واللہ اکبر وللہ الحمد الحمد اوریہ کلمہ تین تین مرتبہ ایام حج میں آٹھویں ذوالحجہ کی نماز فجر سے لے کر ہر نماز کے بعد بآواز بلند بعد سلامم فرض پڑھنا۔ تابہ ماہ ذوالحجہ عصر تک۔ حاجی اورابلی دونوں کے لیے ہم اور اپ بھی اپنے اپنے ہاں اسی طرح ترویہ کہیں گے… م آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تلبیہ و تکبیر کہنے والوں میں سے کسی سے تعرض نہ فرمایا۔ عرفات کے شرقی سمت نمرہ نامی بستی میں آپ کی منشا کے مطابق خیمہ پہلے سے نصب تھا جس میں استراحت فرمائی۔ زوال شمس کے بعد ناقہ قصواء پر عرق گیر اور کاٹھی کسنے کا حک دیا۔ سوار ہو کر (میدان) عرفات کے وسط میں تشریف لائے اور سواری ہ پر بیٹھے ہوئے خطبہ بااواز بلند ارشاد فرمایا جس میں ہر جلہ کے بعد توقف فرماتے۔ اسی لمحے جناب ربیعہ بن امیہ(بن خلف) انہی الفاط کا اعادہ(بآواز بلند) فرماتے۔ حج اکبر کا خطبہ (حمد و ثنائے باری تعالیٰ کے بعد فرمایا) یا ایھا الناس اسمعوا قولی فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی ھذا بھذا الموقف ابدا! ’’اے لوگو! میں جو کچھ کہوں اسے غور سے سنو اور شاید آئندہ سال اور اس کے بعد پھر کبھی تم سے ملاقات نہ ہو سکے‘‘۔ انسانی جان کی حرمت یا ایھا الناس ان دمائک و امواکم علیکم حرام الی ان تلقوا ربکم کحرمۃ یومکم ہذا و کحرمۃ شھر کم ھذا ’’اے لوگو! تم پر ایک دوسرے کی جان و مال تا قیامت حرا م ہیں جس طرح آج کے دن اور اس مہینہ ذوالحجہ میں ایک دوسرے کی بے حرمتی نہیں کرتے‘‘۔ ادائے امانت فمن کانت عندہ امانۃ فلیئو دھا الی من ائتمنہ علیھا ’’جس کسی کے پاس دوسرے کی امانت جمع ہو اس کے مالک کو لوٹا دی جائے‘‘َ سود کی حرمت وان کل رباھو موضوع ولکن لکم روس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون قضی اللہ اللہ انہ لا ربا ’’آج سے ہر قسم کاسود ختم کیا جاتا ہے راس المال کے سوا نہ تم ایک دوسرے پر ظلم کرو نہ قیامت کے دن تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ ہی نے سود کو ممنوع فرما دیا ہے۔‘‘ وان ربا عباس بن مطلب موضوع کلہ ’’عباس کا جو دوسرو ں کے ذمہ واجب الادا ہے اسے موقوف کیا جاتاہے‘‘۔ جاہلیت کے قتل و جراحات پر خط تنسیخ وان کل دم کان فی الجاھلیۃ موضوع وان اول دمائکم اضع دم ابن ربیعہ الحارث بن عبدالمطلب ’’جاہلیت کے مقتولین کا قصاص و دیت دونوں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے میں بنو ہاشم کے (طفل) ابن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے فرزند کا بدلہ اور دیت معا ف کرتا ہوں‘‘۔ عمل صالح جزو ایمان ہیں اما بعد ایھا الناس کان الشیطان قد ئیس من ان یعبد بارضکم ھذا ولکنہ ان یطمع فیھا سوی ذلک فقد رضی بہ مما تحقرون من اعمالکم فاحذروہ علی دینکم ’’غورسے سنیے کہ اب عرب میں شیطان کی پرستش نہ کی جائے گی لیکن اس کی پرستاری کی بجائے اگر شیطان کی صرف اطاعت ہ کی گئی تب بھی وہ بہت خوش ہو گا۔ اسی لیے دینی امور میں شیطانی وساوس کو اپنے قریب نہ آنے دو‘‘۔ مذہب میں خارجی رسوم کا دخل منع ہے ایھا الناس ان النسی ذیادۃفی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیو اطئوا عدۃ ما حرم اللہ فیحلو ا ما حرم اللہ ویحرمو ا ما احل اللہ ’’اے لوگو ادب والے مہینوں کا غیر ادب واہلے دنوں سے ادل بدل کر دینا کفر ہے۔ جس میں مومن آلودہ نہیں ہوسکتا مگر کافر کا اس سے بچنا محال ہے۔ جو اس سال ان چار مہینوں یں ایک مہینہ آئندہ سال کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں اورآنے والے سال میں اسے بدستو ر اپنے محل پر رکھتے ہیں۔ یہ بھی خدا کی طرف سے حرام کردہ امور کو حلال کر لینا اور حلال شدہ امور کو حرا م کر لینا ہے۱؎‘‘۔ وان الزمان قد استدار کھیۃ یو م خلق السموات والارض وان عدۃ الشھور عندا للہ اثنا عشر شھرا منھا اربعہ حرم ثلاثہ متو الیۃ ورجب مفرد الذی بین جمادی و شعبان ’’(اور دیکھو!) جب خدا نے ابتدامیں آسمان و زمین کو پیدا کیاتھا زمانہ پھر پھرا کر آج پھر اسی نقطہ پر آ گیا ہے چار ادب والے مہینے ہیں یعنی تین متواتر ہیں(از ذی قعدہ تابہ محرم اور ایک مفرد یعنی رجب کہ جمادی اولیٰ و آخریٰ اور شعبان دونوں کا درمیانی مہینہ ہے) شوہر و زوجہ کے باہمی حقوق کا تحفظ اما بعد ایھا الناس فان لکم علی نسائکم حقا وان لھن علیکم حقا لکم علیکم الا یوطئن فرشکم احدا تکر ہونہ ’’اس کے بعد مجھے بتانا ہے کہ زن و شوہر دو نو ں ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ازاں جملہ یہ کہ کسی عورت کے لیے غیر مرد کو اپنے قریب کرنے کا حق نہیں ورنہ شوہر کے تن بدن میں آگ لگ جائے گی‘‘۔ ۱ٍ؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اشارہ سورہ توبہ ک آیت انماالنسی زیادۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیواطئو ا عدۃ اما حر اللہ فیحلو ما حرم اللہ (۹:۳۷) کی طرف ہے۔ اگر بیویاں فحش کا ارتکاب کر بیٹھیں وعلیھن الا یا تین بفاحشہ مبینہ فان فعلن فان اللہ قد اذن لکم ان تھجرو ھن فی المضاجع و تضربوھن ضربا غیر مبرح ’’اور یہ کہ عورتوں کو بے حیائی کے ارتکاب سے مطلقاً کنارہ کش رہنا چاہیے۔ اگر ان سے یہ قصور ہو جائے تو ان کے شوہر انہیں بدنی سز ا دے سکتے ہیں مگر وہ سزا ضرب شدید کی حد کے قریب نہ پہنچ جائے‘‘۔ فان انتھن فلھن رزقھن و کسوتھن بالمعروفاسترضوا بالنساء خیرا فانھم عندکم عوان لا یملکن لا نفسھن شیئا وانکم انما اخذ تمو ھن بامانہ اللہ واستحللتم فروجھن بکلمات اللہ ’’اگر عورتیں ایسا لا ابالی پن چھوڑ دیں تو عام دستور کے مطابق ان کے خورد و نوش اور ان کے لباس کا پورا لحاظ رکھو اور ان کے معاملہ میں حسن سلوک سے ہاتھ نہ کھینچو۔ وہ تمہارے نکاح میں آ جانے سے تمہاری پابند ہو جاتی ہیںَ اور (ان معنوں میں) اپنے نفس کی مالک نہیںرہتیں لیکن تم بھی خیال رکھو کہ آخر کلمہ ایجاب و قبول کے ساتھ ہی تو تم نے اللہ کی اس امانت کو اپنی تحویل میں لیا ہے اور انہی کلمات کے ساتھ انہیں خود پر حلال کیا ہے۔ فاعقلوا ایھا الناس قولی فانی قد بلغت وقد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فن تضلو ا ابدا امر بینا کتاب اللہ وسنۃ رسولۃ ’’(اے لوگو) غور سے سنو جو کچھمیں تم سے کہہ رہا ہوں اس کی تبین کے لیے جو چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے تو کبھی ٹھوکر نہ کھائو گے وہ چیز بجائے خود نہایت واضح ہے اور وہ خدا کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے‘‘۔ ایھاالناس اسمعوا قوی واقعلو ہ تعلمن ان کل مسلم اخ للمسلم وان المسلمین اخوۃ فلا یحل لا مری ن اخیہ الا ما اعطاء عن طیب نفس منہ فلا تظلمن انفسکم انفسکم ’’اے لوگو میری بات گوش ہوش سے سنو ہر مسلمان دورے مسلمان کا بھائی ہے او راس رشتہ کی وج سے کسی مسلمان کو دوسرے مسلمانبھائی پراس کی اجازت کے بغیر تصرف روا نہیں۔ ورنہ یہ ایک دوسرے پر ظلم ہوجائے گا‘‘۔ اللھم ھل بلغت ’’خداوندا تو سن رہا ہے کہ میں نے اپنا یہ فرض بھی ادا کر دیا‘‘۔ نیابت خطبہ (خطبہ میں) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر جملہ پر توقف فرماتے اور س وقفہ کی تکرار بآواز بلند ربیعہ کرتے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ربیعہ کو تاکید فرما دی کہ حاضرین کو ان کے طاب ذہن میں رکھنے کی تاکید فرما دیں۔ بعض جملوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ربیعہ سے فرماتے ہیں کہ وہ حاضرین سے اس کا جواب بھی طلب کریںمثلاً سوال: ھل تدرون ای یوم ھذا؟ تم لوگ جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہیـ؟ جواب: یوم الحج الاکبر یہ حج اکبر کا روز ہے۔ حاضرین کے ا س جواب پر فرمایا ان اللہ قد حرم علیکم دمائکم واموالکم الی ان تلقوا ربکم کحرمۃ یومکم ھذا ’’اے لوگو ت پر ایک دوسرے کی جان اور اسی طرح مال ہر ایک تابہ قیات حرام ہے جیسا کہ آج کے دن اور اس مہینہ میںتم کسی قسم کی بے حرمتی نہیں کر سکتے‘‘۔ اس جملہ کے بعد فرمایا ’’اللھم بلغت‘‘ (خداوند تو سن رہا ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کردیا) اور ہر طرف آوازیں بلند ہوئیں اللھم اشد (یا اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا فرض ادا فرما دیا) تکمیل دین کی بشارت ارشاد خطبہ کے بعد قصوا ناقہ سے اتر کر زمین پر فروکش ہوئے تھوڑی دور پا پیارہ چلنے کے بعد ظہر و عصر دونوںاوقات نماز در صورت جمع عرفہ میں ہی ادا فرمائی۔ پھر ناقہ پر سوار ہوئے اور مقام صخرات میں نزو ل اجلال فرمایا جہاںیہ آیت تکمیل دین نازل ہوئی۔ الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (۵:۳) ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اوراپنی نصیحت پر تم پر پوری کر دی اور تمہارے لے پسند کر لیا کہ دین اسلام ہو‘‘۔ آیہ تکمیل دین پر حضرت ابوبکر کا گریہ جناب صدیق ابوبکرؓ تکمیل دین و اتمام رسالت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے وفات یاب ہونے کا مترادف سمجھ کر گریہ فرمانے لگے۔ حج کے بقیہ اعمال کی تکمیل ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفات سے مراجعت فرمائے مکہ معظمہ سے ہوتے ہوء سر راہ مقام مزدلفہ میں منزل فرمائی۔ یہ شب بسر فرمانے کے بعد ادائے نماز فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان جہاں سے شد الرحال فرمایا اور ا س راہ میں جمرہ پر رمی فرماتے ہوئے منیٰ میں اپنے خیمہ میں فروکش ہوئے۔ ذبیحہ قربانی اور ذرا وقفہ کے بعد (دسویں تاریخ ہی کو) من جملہ ایک سو شتر کے جو مدینہ سے قربانی کے لیے ہمراہ لائے تھے تریسٹھ اونٹ اپنی طر ف سے اپنے سن مبارک کے ہر سال کے عوض میں ایک ایک کے حساب سے قربانی میں ذبح کے اورمابقی سینتیس شتر حضرت علیؓ نے ذبح کیے جس کے بعد مناسک حج کا آخری عمل موئے سر منڈانارہ گیا اس سے فارغ ہو کر احرام کھول دیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس حج وک تین مختلف عنوان سے موسوم کیا گیا : (الف ) حج الوداع: بمعنی مکہ معظمہ اوربیت اللہ کے آخری زیارت کی وجہ سے۔ (ب) حج البلاغ: بمعنی اللہ کی جانب سے اس کے احکام کے آخری ابلاغ کی بنا پر،۔ (ج) حج اسلام : بمعنی اس حج میں تکمیل دین کی بشارت بمطابق آیہ ۵:۳ کے باعث یعنی الیوم اکملت لکم دینکم الخ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدواند عالم کی جانب سے مبشر و منذر دونوں حیثیات سے مبعوث ہوئے تھے۔ ٭٭٭ باب ۳۰ از علالت تابہ ارتحال تکمیل مناسک کے بعد یہ لاکھوں زائرین اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹنا شروع ہوئے ۔ ساکنان حضرت موت و یمن نے اپنے وطن کی راہ لی۔ یاران نجد اپنے ملک کی طرف گامزن ہوئے ۔ تہامہ میں بسنے والے اپنے دیس کی ڈگرپر چل دیے اور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مدنی رفقا ء کی مشایعت میں مدینہ کی جانب مراجت فرما ہوئے۔ یہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ اب سے جزیرہ نمائے عرب میں مسلمانوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں تاہم عرب کے نواحی ممالک روم و ایران و شام و مصر و عراق کی طرف سے ریشہ دوانی کا خدشہ باقی ہے۔ اہل عرب کا یہ معاملہ طاہر ہے کہ ملک کے اطراف و اکناف میں بسنے والے فوج در فوج دینمیں شامل ہو چکے تھے۔ وفود پے بہ پے مدینہ حاضر ہوتے اور اپنے قبول اسلام کا وثیقہ پیش کر کے علم اسلا م کے سائے میں رہنے کی سعادتت حاصل کرتے یہ لوگ حجتہ الوداع میں بھی شریک تھے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفود کے سداروں کی ان کے قبائل کی سیادت میں ردوبدل نہ فرمایا۔ جیسا کہ بدھان ہے جو مملکت ایران کی طرف سے یمن کا گورنر تھا۔ جب اس نے اسلام قبول کر کے عرب کی وحدت کو قائم رکھا اور آتش کدہ پر پانی پھیر دیا تو رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدھان کو اس کے سابقہ نصب پر فائز رکھنے میں ادنیٰ سا تامل بھی نہ فرمایا۔ بلاشبہ ابھی تک خال خال ایسے بے مایہ اشرار کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ آپ کی سلطانی ملک بھر سے خراج وصول کر چکی تھی۔ عرب کے پشینی بت پرستوںنے اصنام کی بندگی کی طر ف سے منہ موڑ کے خدائے حی و قیوم کے حضور سر نیاز جھکا دیا تھا اور ان کے دلوںمیں اللہ الواحد القھار پر یقین وا دغان بس چکا تھا۔ مدعیان نبوت کا ذبہ یہی وجہ ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی مدعی نبوت کو در خود اعتنا نہ سمجھا ۔ایسے دعویداروں کی بودوباش بھی مدینہ منور سے بہت دور تھی۔ ان کے ادعا کہ وجہ یہ تھی کہ جونہی انہوںنے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا چرچا سنا تھا اپنی نبوب کا سوانگ رشچا کر نمودار ہوگئے ان مدعیان نبوت کی قبولیت کا دائرہ ان کے قبیلہ سے متجاوز نہ ہو سکا۔ ان کے دماغوں میںیہ سواد کھول رہا تھاکہ جس طرح قریش مکہ نے اپنے قبیلہ کے پیغمبر کی وجہ سے تمام عر ب میں نام پیدا کر لیا ہے وہ بھی اپنے نبی کے جلو میں لک کے اندر شہرت حاصل کر لیں ۔ نبوت کے ایسے مدعی اور ان کے قبیلہ دار اسلا کے مولد(مکہ)سے بعد مسافت کی بنا پر دین اور اس کی شہرت سے بے بہرہ تھے۔ انہیںیہ احساس نہ ہو سکا کہ اسلا جو تما ملک میں مقبول ہو چکا ہے اس کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس راہ میں جو صعوبتیں برداشت کیں ان کے چرچے ملک کے گھر گھر میں ہونے لگے اور ان مدعیان نبوت کاذبہ کے ذہن میں یہ بات نہ آ سکی کہ ایسے مصائب اور سختیوں کا تحل پسر عبداللہ ؐ کے سوا کسی کے بد کی بات نہیں خصوصاً وہ بدنصیب جن کے اس دعویٰ کی بنیاد افترا و بہتان محض پر ہو‘ انہیں کیوںکر فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔ طلیحہ (مدعی نبوت) قبیل بنو اس کا سردار عرب بھر میںمشہور جنگ آزمودہ دلاور اور اپنے صوبہ (نجد) میں صاحب اقتدار و سیاست۔ بدنصیب اپنے نبیہونے کے وہم میں مبتلا ہو گیا جس پر مندرجہ ذیل اتفاقی حادثہ نے طلیحۃ کو اور بھی بہوت کر دیا۔ ہوا یہ کہ ہو اپنی قوم کے ہمراہ سفر میں تھا کہ راستے میں پان نہ ملنے کی وجہ سے سب کی جان لبوں پر آ گئی طلیحہ نے کہا کہ ذرا ہی دور پانی مل ججائے گا اور اتفاق سے ایسا ہی ہوا جسے طلیحہ نے اپنی نبوت کا کرشمہ قرار دے کر اس پر تحدی سے قاء ہو گیا۔ طلیحہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میںمسلمانوںکیطرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات نہ تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد وہ ان کے منہ لگنے سے بازنہ رہ سکا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولیدؓ کو بھیجا طلیحہ کو شکست کھاجانے کے بعد اس پر اسلام کی عظمت واشگاف ہو گئی۔ طلیحہ د ل و جان سے اسلام کا مطیع و منقاد ہو گیا۔ او ر اس پر اسی کا خاتمہ ہوا۔ مسیلمہ اور اسود عنسی (مدعیان نبوت) یہ دونوں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد حیات میں اپنی اپنی نبوت کی بڑ ہانکتے رہے مسیلمہ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اپنا سفیر بھیجنے یں بھی کوتاہی نہ کی‘ جس کے ذریعے یہ خط بھیجا: من مسیلمہ رسول اللہ الی محمد رسول اللہ ما بعد فانی قد اشرکت فی الامر معک وان لنا نصف الامر والقریش نصف الامرولیس قریش قوما یعدلون ’’یہ خط اللہ کے رسول مسیلمہ کی جانب سے محمد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے مشتمل بر آنکہ میں اور آپ دونوں امر رسالت میں نصف نصف کے شریک ہیں اگرچہ قریش کی ذات سے عدل کی توقع نہیں کی جا سکتی‘‘۔ (خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے) بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ الکذاب والسلام علی من اتبع الھدیٰ اما بعد فان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبہ للمتقین ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ گرامی نامہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیںبنام مسیلمہ کذاب سلامتی کا مستحق وہ شخص ہے جو صداقت کا پیرو ہو اور مک سب اللہ کا ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ انجام بخیر پرہیزگاری پر ہے‘‘۔ مسیلمہ کے دو قاصد تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمیا کہ اگر سفیروں کا قتل روا ہوتا تو میں انہیں زندہ نہ چھوڑتا۔ اسود عنسی کا حشر صنعائے یمن کا جادوگر جو بدھان گورنر یمن کی وفات کے بعد اس صوبہ پر مسلط ہو گیا تھا اور جادوگری می ترقی کرتے کرتے اپنی نبوت کے وہم میں گرفتار ہو کر درپردہ اس کا پرچار شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ اسود عنسی نے اپنے ارد گرد ایسے سرپھروں کی کثیر تعداد جمع کر لی کہ جسے ہمراہ لے کر وہ جنوب کی سمت بڑھا اور یہاں کے مسلمان تحصیلداروں کو بھگا کر اس نے نجران کا رخ کر لیا۔ یمن کے مسلمان گورنر بازن کیی وفات کے بعد اس کے صاحبزادے(شہر: اصابہ) اپنے باپ کے منصب پر فائز تھے اور اس وقت وہ نجران میں موجو د تھے۔ اسود نے انہیں شہید کر دیا اور ان کی بیوی کو اپنے حرم میں داخل کر کے ہمراہ لے گیا۔ اسود یہ سب کچھ کرتا رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاملہ کو زیادہ اہمیت نہ دی کہ یمن کے عمال حکومت کی طرف سے اس کی گرفتاری یا قتل دونوں میں سے جو موقع آ جائے کا فرمان بھیج دیا لیکن ا س مہم سے قبل ہی باذان کے فرزند کی معصوبہ بیوی نے اسود کو قتل کر کے اس کا قصہ پاک کر دیا۔ ازروئے قصاص مسیحی سلطنت روم کا تختہ الٹنے کی فکر جب ختم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج الوداع سے مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تب جنوب کی طرف سے اسلام کے خلاف کسی قسم کی چیری دستی کا اندیشہ نہ تھا کہ اس کے آخری خط تک ہر شخص مسلمان ہو چکا تھا۔ لیکن عرب کا شمالی حصہ یعنی شام اور روم جن میں ابھی تک عیسائی سلطنت کا طبل انا ولا غیری بجتا تھا ان کی طرف سے ہر وقت دغدغہ تھا کہ مبادا سر اٹھا لیں اور موتہ کی طرح پھر مسلمانوں کو نرغے میں لے لیں۔ مسیحان رو م و شام کے ذمہ ان کے مسلمانوں کا قصاس بھی تھا۔ ان ے ہاتھ سے حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت جعفر طیارؓ قتل ہوئے۔ خدا خدا کر کے خالد بن ولیدؓ کی جنگی تدبیر سے مسلمان عیسائیوں کے نرغیسے نکل کر واپس لوٹ آئے۔ جنگ موتہ کے موقعہ رپ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان مسیحی دشمنان اسلام سے یہ خطرہ بھی نہ تھا کہ مبادا عرب کے جلاوطن نصاریٰ جو فلسطین میں جا کر آباد ہو گئے ہیں اپنے یاران طریقت کے ساتھ ساز باز کر کے دوبارہ اپے وطن لوٹنے کی حرص میں مبتلا ہوجائیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے قبل(تبوک کے موقعہ پر) جونہی رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا کہ روم کے عیسائی سمانوں پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں اپنے ہمراہ لشکر جرار لے کر تبوک کی طرف بڑھے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مسمانوںکی ہیبت سے گھبرا کر خود بخود واپس ہو گئے ہیںَ بایں ہمہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مستقبل سے غافل نہ تھے کہ رومی نصاریٰ مسلمانوں کے خلاف ہر وقت آمادہ پیکار ہو سکتے ہیں جن کے ہم مشربوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں بارہا مصیبتیں اٹھائیں ایک گروہ کو ان کی ہیبت سے مرعوب ہو کر تبوک سے اپنی فوجوں کو لوٹانا پڑا اور دوسرے طائفہ کو مسلمانوں ہی کی وجہ سے نجران چھوڑنا پڑا۔ اسی طرح عرب کے دوسرے حصوں سے عیسائیوں کے متعدد قبیلے جلاوطن ہوئے۔ جیش اسامہ بن زیدؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان پیش بندیوںکا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں کی حجتہ الوداع سے مراجعت کے بعد (قیا مدینہ کا) زیادہ عرصہ نہ گزراتھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شا م پر چڑھائی کر نے کے لیے زیادہ سے زیادہ فوج جمع ہونے کا حک جاری فرمایا جسمیں مہاجریناول تھے ان میں جناب ابوبکر و حضرت عمرؓ جیسے سر بر آوردہ روزگار بطور عسکری مگر لشکر کی سپہ سالاری اسامہ بن زیدؓ کو عطا ہوئی جن کا سن ابھی پچیس برس سے متجاوز نہ ہوا تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر مسلمانوں کا دل سے ایمان نہ ہوتا تو مہاجرین سابقین اور دوسرے ممتاز سحابہ کا اسامہؓ جیسے نوعمر کی سیادت کیوں کر گوارا ہو سکتی اسامہؓ کے تقررمیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک دو امر محرک تھے۔ (الف) اسامہ ؓ کو ان کے والد شہید زید بن حارثہؓ کا نائب بنانا تھا جو انہی نصاریٰ کے ہاتھوں اسی مقام میں قتل ہوئے تاکہ اسامہ کو ان کے والد کی شہادت کے صلہ میں نصرت کا فخر حاصل ہو سکے۔ (ب) ریاست کے مہمہات پر نوجوانوں کو متعین کر کے انہیں مصائب کے برداشت اور خطرات کا مقابلہ کرنے کا خوگر بنانا۔ نوجوان سپہ سالار کے لیے ہدایات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوجوان سپہ سالار اسامہؓ کو تاکید فرما دی کہ فوج و پپائے ارض فلسطین کے اس نقطہ پر لے جائیں جہاں بلقاء و روم کی حدیں ملتی ہیںَ وہاںمورچہ بندی کیجیے اور اس مقام کے قریب جہاں دشمنوںنے ان کے والد کو قتل کیا تھا وریہ کہ خدا کے ان دشمنوں اور اپنے اعدا کو صبح کی تاریکی میں گھیر لیا جائے۔ اگر ضرورت پڑے تو ان کو آگ میں جھونکنے میں بھی کوتاہی نہ کیجیے اوراس اندازہ سے حملہ کیجیے کہ جس سے دشمن کو کانوں کا ن تک خبر نہ ہو اور ی کہ فتح ہونے کے بعد وہاں پر پڑے رہنے کی بجائے نصرت اور غنیمت کی بشارت کے ساتھ مدینہ واپس لوٹنے میں سبقت ک جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اچانک علالت اور جیش اسامہ کا التواء حضرت اسامہؓ نے لشکر کی کمان سنبھالی۔ مدینہ سے باہر مقام جرف پر فوجوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید علالت کی اطلاع پہنچی جس سے روانگی میں تعویق پیدا ہو ئی سوال یہ ہے کہ جس لشکر کی روانگی کا حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شد ومد کے ساتھ فرمایا ہو اس میںآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیمار پڑ جاے کی وجہ سے تعویق یوں گوارا کر لی گئی۔ بات یہ تھی کہ شا م کا طویل سفر اور جس میں دشوار گزار صحرا کو عبور کرنا ناگریز تھا اور قد م قدم پر ہلاکت کا خطرہ درپیش ادھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید علالت اور ایسی گرانمایہ ہستی جو ہر مسلمان کے نزدیک اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو مسلمانوں کے لیے آسان نہ تھا کہ ایسی حالات میں مدینہ چھوڑ دیں جب کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی نازک حالت میں مبتلا ہوں جس کے الم ناک انجام کا پہلو نمایاں نظر آرہا تھا اور اس سے قبل اب تک رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف دو مرتبہ علیل ہوئے تھے ۔ (الف) سنہ ۶ ھ میں بھوک کی شدت سے گھبرا کر طبیعت ناساز ہو گئی تھی جسے بعض مسلمانوں نے یہود کی طرف سے جادو پر محمول کر دیا۔ (ب) خیبر میں یہودی عورت کی طر ف سے گوشت میں زہر ہی کی وجہ سے جس کے مدوار کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پچھنے لگوانے پڑے۔ مزید برآں یہ کہ آپ کے طرز معاشر ت اوردوسروں کی تربیت صحت سے اندازہ کیا جا سکتا ہیکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات گرامی اور اپنے پیروئوں کو امراض و علالت سے بچانے کے لیے کیا تعلیم فرماتے تقلیل غذا لبا س و طرز بودوباش میں سادگی معمولات زندگی کے ہر شعبہ میں بیش نظافت اور ستھرے پن کا اہتمام ہر نما ز کے وضو کی فرضیت ھتیٰ کہ اگر امت پر بار کا خطرہ نہ ہوتا تو شاید پنج وقتہ وضو کے لیے مسواک کا فرض ہوجانا جو منہ کی نظافت اور دانتوں کی صحت کے لیے صفائی کی پور ی طرح ضامن ہے کا امکان بھی تھا۔ یوں عبادت اور زدگی کے ہر تعم میں میانہ روی مقدم تصور فرماتے ہر شے کا لطف حاصل کرنے سے پہلے اس کی نظافت اور اس نعمت سے حاصل ہونے والی صحت کے نتیجہ میں خیال رکھتے۔ خواہشات نفس پاما ل کرتے ہوئے زندگی اور کائنات کے ساتھ یہ ارتباط جس شخص میں ایسی صفات موجود ہوں ایسے اجسا گرامی تندرست اورعلالت سے محفوظ کیوںنہ رہیں پھر اگرا ن جیسے حضرات کے اجسام طبعا تنومند اور ان کے اعضاء جو ارح پیدائشی طور پر قوی بھی ہوں تو بیماری ان سے ا ز خود بھاگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے سلیم الفطرت اور قوی الجچہ وجو د گرای کومرض نے اس طرح گھیر لیا کہ تشخیص مرض محال ہو گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوست داروں صحابہؓ کا اس حد تک متاثر ہونا محال نہ تھا۔ انہی صحابہؓ کے سامنے آپ نے مسلسل بیس سال تک کیسے کیسے جان کاہ مصائب کا مقابلہ فرمایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے یہی تو کہا تھا کہ جن بتوں کی پرستش کے لیے تمہارے پاس صرف یہ دلیل ہے کہ تمہارے آباء بھی ان کی پوجا کرتے تھے ان سے منہ مور کے خدائے وحدہ لا شریک کی پرستاری کرو۔ آہ اس سیدھی اور بدیہی بات پر اہل مکہ نے وہ ظلم برپا کے کہ جن سے گھبرا کر آپ نے اپنے دوستوں کو وطن سے کالے کوسوں دور حبشہ چلے جانے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ قریش مکہ کے دست تظلم نے آپ کو مسلسل تین برس تک شعب ابو طالب میں دھکیل دیا ستم بالائے ستم یہ کہ انہی قریش کے مظالم سے تنگ آ کر بیعت عقبہ کی تکمیل کی امید میں یثرب منتقل ہوجانے کے لیے مجبور ہو گئے جس کا سفر ایسے پر خطر اور اتنے ہولناک موسم میں ہوا کہ جب قدم قدم پر تپش سے ہلاکت کا خطرہ اور عقب سے قریش کی دوش کا خوف تھا۔ پھر یہ نہیں معلوم کہ یثرب جا کر کیا پیش آئے جہاں یہود جیسے ہزار شیوہ سرمایہ دار چھائے ہوئے ہیں۔ اور جب مدینہ میں اقامت گزیں ہونے کے بعد (نصرت الٰہی سے) قبائل عرب جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہوگئے تو جن نوواردان اسلا م میں ابھی چند ہی ایسے بہادر تھے کہ جن کی ہمت اور دلاوری پر بھروسا کیا جا سکتا لیکن مقابلہ جتھی بند قریش اور ان کے ازلی بھگت جنہوںںے ایک ایک سا ل میں کئی کئی مرتبہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے شعلے بھڑکائے۔ ان لڑائیوں میں بعض غزوات پر ایسے روح فرسا حوادث سے دوچار ہونا پڑاکہ اگر یہی صدمات کسی نوجوان پر وارد ہوں تو اسے بوڑھا کر دیں۔ غزوہ احد ہی کے تو بر تو صدمات پر نظر ڈایے جس میں ایک دفعہ پرمسلمانوں کے قدم ہی اکھڑ گئے تھے اور خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادی سے پہاڑ پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے مگر حملہ آور قریش نے یہاں بھی تعاقب نہ چھوڑا۔ آہ دشمنوں کے پتھرائو کے سامنے کے دو دانت اسی حادثہ میں شہید ہوئے۔ وہ غزوہ حنین کی ہولناکی الامان و الحفیط ہنوذ پوری طرح صبح نہ چھٹکی تھی کہ دشمن نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی جس کی تاب نہ لا کر مسلمان بھاگ نکلے۔ یہ منظر دیکھ کر ابوسفیان جیسے معرکہ آزمودہ مدبر نے کہا ان کے طور طریقوںسے معلوم ہوتاہے کہ یہ سمندر سے ادھر نہیں رک سکتے۔ ایسے نازک موقع پر بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثبات و استقلال کا یہ عالم کہ اپنے قدموں سیسرمو پیچھے نہ ہٹنے دیا اوراپنے پیروئوں کو بار بار پکارتے رہے کہ اے تم لوگ کہاں جا رہے ہو؟میں موجود ہوں۔ جس پر مسلمان میدان میں واپس لوٹ آئے اور بالآخر فتح یاب ہوئے! بار نبوت کے شدائد ان ظاہری مصائب کے ماسوا وحی و نبوت کا دشوار ترین سلسلہ جس کا ایک حلقہ کائنات اور اس کے اسرار سے منسلک اور (سلسلہ وحی نبوت کا) آخری حلقہ ملائے اعلیٰ سے پیوست اضداد کے نبھانے کی دشواریاں جس پر نبوت مآب ہی نے فرمایا: شیبنی ھود و اخواتھا ؎۱ ’’مجھے تو سورہ ہود اورا س کے نظائر نے قبل از وقت بوڑھاکر دیا‘‘۔ یہ حوادث ایک ایک کر کے مسلمانوں کی نظر سے بھی گزرتے رہے مگر کبھی کسی نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمت و ثبات میںلغزش نہ دیکھی نہ ان میں سے کسی حادثہ کی وجہ سے آپ پر کسی مرض کا اچانک حملہ ہوا۔ مگر جب تمام شدائد گزر جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب فراش ہوئے تو اس علالت پر آپ کے پیروئوں اور دوست داروں کا اس حد تک متاثر ہونا محال قرار دیا جائے کہ جس لشکر کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ارشاد پر شام کی طرف جانے کے لیے رخصت کیا جائے اور جب وہ لشکر مدینہ سے چند میل کی مسافت مقام جرف پر پہنچے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اچانک اور شدید ترین علالت کی خبر سن کر اس لے رانگی میں تعویق کر دے کہ اب ذات کبریا کی طرف سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ ۱؎ اس پوری حدیث یں سورہ ہود کے ساتھ سورہ الحاقہ و واقعہ و عم یستاعلون ار ھل اتاک حدیث الغاشیہ بھی ہیں اس حدیث میں لفظ شیب بڑھاپا کی شرح میں بعض حضرات فرماتے ہیں کہ سبب شبیۃ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من ھذا السورۃ المذکورہ فی الحدیث لما فیھا من ذکر القیامۃ والبعث والجنۃ والحساب والنار (تفسیر خازن در ضمن سورہ ہود) یہ کہ ان سورتوںمیں حشر و نشر اور حساب و بہشت اور دوزخ کا مذکور ہونے کی وجہ سے ایسا فرمایا …م۔ علالت کی شب اول میں گورستان جنت البقیع میں تشریف آوری علالت کی پہلی شب میں عجیب اتفاق پیش آیا۔ شدت مرض سے دماغ مائوف ہو گیا اور آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی ۔ گرمی کا موسم تھا۔ اس پر باد نسیم کے خوشگوار جھونکے شہر سے باہر کھلے یدان میں تشریف آوری کا رجحان بڑھ گیا۔ اپنے خدمت گار ابو مویہبہ کو شایعت میں لے کر دولت کدہ سے باہر تشریف لائے۔ معلوم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس جانب کا رخ فرمایا: گورستان بقیع میں تشریف لائے جو شہر (سے باہر) مسلمانوں کی آخری آرام گاہ ہے۔ جس کے وسط میں آ کر اہل قبور سے ان لفظوں میں خطاب فرمایا: السلام علیکم یا اھل المقابر لمھنی لکم ما اصبحتم فیہ ممااصبح الناس فیھا اقبلت الفتن کقطع اللیل امظلم یتبع آخڑھا اولھا ولآخرۃ شر من الاولی ’’اے اصحاب قبور تم پر سلامتیہو جو بھی تمہاری حالت ہے اس پر خوش رہنے سے جی نہ چرائو۔ یہ سب کے ساتھ یکساں ہے۔ ‘‘ ’’دیکھو فتنے اس طرح تو بہ تو چلے آ رہے ہیں جیسے اندھیری رات میں تاریکی کے پردے۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا جن میں ہر دوسرا پردہ اپنے پہلے سے زیادہ خوفناک ہے‘‘۔ اس روایت میں (جناب) ابو مویہبہ (غلام ) نے بھی فرمایا کہ جب وہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشایعت میں) بقیع کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: انی امرت ان استغفر لا ھل ھذا البقیع فانطلق معی ’’بقیع میں مدفون موتی کے لیے مجھے دعائے مغفرت پیش کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے اے ابویہبہ تم بھی میرے ہمراہ گورستان تک چلو‘‘۔ اور جب اس دعا کے فارغ ہوئے تب ابومویہبہ سے فرمایا: انی قد اوتیت مفاتیح خزائن الدنیا والخلد فیھا ثم الجنۃ فخیرت بین ذالک ولقاء ربی والجنۃ ’’اللہ نے مجھے دنیاکے خزانے اور زنگانی جاوید ہر وہ یا ان کے مقابلہ میں جنت! کسی ایک پہلو کے پسند کرنے کا اختیار فرمایا مگر میں نے اس دنیا کے خزانوں اور دائمی حکات کے مقابلہ میں انپے رب کی ملاقات اور جنت پر اکتفا کرلیا ہے‘‘۔ جس شب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گورستان بقیع میں موتی کے لیے دعاف رمائی اس شب کی صبح کومرض نے اور شدت اختیار کر لی۔ مسلمان گھبر ا اٹھے اور جیس اسامیہؓ بھی اس افراتفری میں جہاں (مقام جرف میں) تھا وہیں پڑا رہا۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض مورخین ابومویہبہ کی روایت کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ایسے حضرت کا اعتراض یہ ہے کہ جیش اسامہؓ کا سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت نہ تھی بلکہ اکابر مہاجرین و انصار اسامہ ؓ کی نو عمری کی وجہ سے ان کی قیادت پر خفا تھے۔ ایسے مورخٰن کے پیش نظر وہ واقعات ہیں جو فصل ھذا میں قارئین کے ملاحظہ سے گزر چکے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ اگر ہم ایسے مورخین کی (اس) رائے پر تنقید نہ کریں جس (رائے) کا مبنیٰ ابومویہبہ کی روایت ہے تب بھی جیش اسامہ کے اسباب کے توقف کو توجہ کا مرکز قرار دینا نامناسب ہے ماسوائے اس ایک وجہ تعویق کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شب کے وقت گورستان بقیع میں تشریف لا کر موتی کے لیے دعائے مغفرت کرنا محض اس بنا پر تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی وفات کے قریب تر ہونے کا احساس ہو چکا تھا جسے ایسے مورخ نظر انداز کر رہے ہیں۔ دور حاضرہ میں روحوںکے ساتھ مکالمہ کا جو دروازہ کھل گیا ہے اس علم کے موجد اور عامل ہر دو فریق روحوں کے ساتھ باتیں کرنے کے بعد دوسروں کو بتاتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ روھوں سے مکالمہ کا ادراک مکالمہ کرنے والوں کی روحانی قوت پر مبنی ہے۔ یہ عاملین یہاں تک دعویٰ خرتے ہیں کہ مردہ لوگوں کو روحوں کے ساتھ ایک دوسرے سوالات ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ مکالمات بھی ممکن ہیںَ ظاہر ہے کہ یہ مکالمات زندہ انسانوں کے ہیں مردہ لوگوں کی روحوں کے درمیان اور معمولی طریق پر نہیں بلکہ ان مکالمات جہاں ماضی ومستقبل دونوں ڈانڈے مل جات ہیں وہاں زمان و مکان بھی حائل نہیں رہتے۔ بایں ہمہ ابھی تک اس علم کے جاننے والے دوسروں کے سامنے علم الارواح کو ایسے واضح طریق پر بیان کرنے سے قاصر ہیں جسے ہر درج کا انسان سمجھ سکے۔ جب موجودہ دور تمدن کی دریافت کا یہ حال ہے کہ ہمارے سامنے اس علم کے مدعی موجود ہیں جن کی تحقیق کی تصدیق دوسرے ارباب علم و تنقید نے بھی کر دی ہو لیکن جس علم کی ہمہ گیری و پذیرائی کی یہ حالت ہو جو اوپر بیان کی گئی ہے تو پھر ہمارے اس انکار کی کیا وجہ ہے جو ابو مویہبہ روایت کرتے ہیں؟ اگر ان کی روایت کو تسلیم کر لیا جائے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معنوی اور روحانی ہر دو لحاظ سے دوسروں سے زیادہ اسرار کائنات سے آگاہ تھے اور یہ حقائق مقابلہ آپ سے کہیں زیادہ منکشف ہو سکتے تھے تو یہ اعتراف کرنا ہی پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے قبل از وقت اپنی وفات پر آگاہی حاصل کرنا مشکل نہ تھی۔ حالت مرض میں ام المومنین صدیقہؓ کے ساتھ مزاح شب مذکور کیدوسرے روز رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے المومنین عائشہؓ کی طرف دیکھا کہ سر پکڑے ہوئے درد سے کراہ رہی ہیںَ بار بار ہائے میرا سر ہائے میرا سر زبان پر آ رہاہے ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض کی شدت سے نڈھال ہوتے جا رہے تھے مگر حضرت عائشہ ؓ کو اس حال میں دیکھ کر فرمایا: بل انا واللہ یا عائشہ و اراساہ ’’بی بی میں بھی درد سے بے حال ہوا جا رہا ہوں‘‘۔ بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درد و کرب کا یہی عاال تھا لیکن ابھی تک بستر علالت پر گر جانے کی نوبت نہ آئی تھی‘ نہ مرض اس حد تک پہنچا تھا کہ اپنے اہل و ازدواج سے لطف و فکاہات کا دامن سمیٹ لیں یہی وجہ ہے کہ جب ام المومنین ؓ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کراہنے کی آواز سننے پر بھی اپنا واویلا نہ روک سکیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزاح کے طور پر فرمایا: وما ضرک لومت قبلی فقمت علیک و کفنتک وصلیت علیک ودفنتک ’’بی بی ! اگر ایسا ہی ہو جائے تو تمہیں کیا گھاٹا ہے؟ میں خود تمہاری تجہیز و تکفین کر کے تمہاری میت پر دعا پڑھ کر تمہیںدفن کروں گا‘‘۔ ام المومنینؓ جنہیں اپنی نوعمر ی کی وجہ سے ابھی اور زندہ رہنے کی تمنا تھی اور اپنی ضڑب المثل حاضرجوابی کی بدولت اپنے گرامی منزلت شوہر کے مزاح کا جواب مزاح میں عرض کرنے پر ماء عرض کیا: لکن ذالک حظا غیری واللہ لکانی بک لو قد فعلت ذالک لقد ذالک جعت الی بیتی فاعرست فیہ ببعض نسائک ’’آپ کی خواہش تو یہی ہو گی کہ جس طرح ہو سکے مجھے سپرد زمین کر دیں اور دولت خانہ پر تشریف لا کرمیری نوبت میری کسی سوت کوہبہ فرما دیں‘‘۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حرم کے جواب میں تبسم فرما کر خاموش ہو گئے۔ شدت مرض کی وجہ سے بھی کسی قسم کی گفتگو کو طول دینا مناسب نہ تھا۔ جملہ حرم پاک کی طلبی اور حضرت عائشہؓ کے ہاں قیام کی تحریک کچھ دیر بعد افاقہ محسوس ہوا تو سابقہ معمول کے مطابق تمام حرم کے ہاں قدم رنجہ فرمانے کا ارادہ ہو گیا لیکن رض ہے کہ لمحہ لمحہ شدت اختیار کر رہا تھا۔ ام المومنین میمونہؓ کے ہاں تشریف لائے ہ تھے کہ تکلیف سے گھبرا اٹھے اور اپنے یے تیماری داری کے بغیر مفر نہ دیکھا۔ تمام ازواج کو حضرت میمونہؓ کے ہاں بلا کر فرمایا مجھے عائشہ ؓ ہی کے ہاں رہنے کی اجازت دی جائے۔ حرم پاک نے بصدق قلب تسلیم کر لیا۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ اور اپنے عم زاد عباس ؓ دونوں کے کندھوں پر ٹیک لگائے ہوئے میمونہؓ کے ہاں سے عائشہ ؓ کے حجرہ میں تشریف لے آئے۔ بے چینی اور نقاہت کی شدت سے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اور قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ مسجد میں تشریف آوری علالت نے ابتدائی دنوں میں بلا کی شدت اختیار کر لی جیسے رواں رواں حرارت کا سوتا بن گیا ہو‘ لیکن تپ میں کمی واقع ہوتے ہی مسجد میں تشریف نماز پڑھائی اور اسی طرح ایک سے زیادہ دنوں تک نمازیں پڑھاتے رہے۔ مگر مسجد میں ہونے والی کسی گفتگو میں شرکت نہ فرمائی‘ نہ صحابہ سے کسی قسم کا خطاب فرمایا۔ دوسروں کی با ت چیت سمع عالی تک پہنچتی رہ جس میںیہاں تک سننے میں آیا کہ آخر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا مصلحت دیکھی جو شام کی مہم پر ایک کم سن نوجوان کو اکابر مہاجرین و صحابہ پر سپ سالار نامزد فرمادیا جوں جوں مرض ترقی کرتا گیا اسامہؓ کی تقرری کے بارے میں مسلمانوں کو تنبیہ کرے کا احساس بڑھتا گیا۔ حرم اورمتعلقین کو حکم دیا کہ سات کنوئوں سے علیحدہ علیحدہ پانی کے ساتھ برتن منگوا کر یہ پانی آپ کے بدن پر ڈالا جائے ۔ غسل کے دوران فرمایا کہ بس بس ۱ غسل سے فارغ ہو کر پوشاک زیب تن فرمائی اور سر سے پٹی باندھ کر (مسجد میں )نبر پر تشریف فرما ہوئے۔ خطبہ ارشادفرمایا جس میں حمد و ثناء اور شہدائے احد کے لیے دعائے مغفرت کے بعد فرمایا: جیش اسامہؓ کی روانگی پر تاکید یا ایھا الذین انفذوا بعث ااسامۃ فلعمری لئن قلتم فی امارتہ لقد قلتم فی امارۃ ابیہ من قبلہ وانہ لخلیق کلا مارۃ وان کان ابوہ لخلیقا لھا ’’دوستو! اسامہ کے منصب پر اعتراض نہ کرو! قسم بجان خویش آج جو تم اساہ کی امارت پر حرف گیری کر رہے ہو اسامہ کے والد کی امارت پر بھی تم اسی طرح نکتہ چینی کرتے رہے لیکن اسامہ اسی طرح امارت کے لیے خلق ہوا ہے جس طرح اس کے والد زید امارت کے لیے خلق ہوئے تھے‘‘۔ خطبہ میں اپنی وفات کا اشارہ اورابوبکرؓ کا گریہ و بکا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذرا دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا: ان عبدا من عباداللہ خیرہ اللہ بین الدنیا والاخرۃ وبین ما عند فاختار ما عندہ ’’اللہ نے اپنے بندے کو ااختیار دیا ہے کہ وہ دنیا و عقبیٰ اور خدا کی نعمت دونوں میںسے کسی چیز کو اپنے لیے منتخب کر لے مگر اللہ نے اس بندے نے خدا کی ملاقات کو ترجیح دی ہے‘‘۔ یہ فرمانے کے بعد (رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے کی طرح پھر خاموش ہو گئے اور حاضرین بھی۔ابوبکرؓ بات کی تہہ تک پہنچ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے ہی متعلق فرما رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا چھوڑنے کو ہیں۔ یہ نتیجہ تھا کہ حضرت ابوبکرؓ کے اس وجدان کا جو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے بارے میں ازل سے ودیعت تھا۔ ابوبکرؓ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور عرض کیا بل نحن نفدیک بانفسنا وابناء نا ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری جانیں اور اولاد نثار ہو جائیں آپ ہمیں یہ کیسی سناؤنی سنا رہے ہیں؟‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر ؓ کے اس تاثر سے محسوس فرمایا کہ مبادا یہی جذبہ دوروں کو بھی گرویہ و بکا میں مبتلا کر دے ۔ ابوبکرؓ کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد میں جن لوگوں کے گھروں کے دروازے ہیں ابوبکرؓ کے گھر کے سوا سب کے دروازے موند دیے جائیں۔ اور ا ییک بعد منبر سے اترتے ہوئے فرمایا۔ ابوبکرؓ کی منقبت انی لا اعلم احدا کان افضل فی الصحبۃ عندی یدا منہ وانی لوکنت متخذا من العباد خلیلا لا تخزت ابابکر خلیلا ولکن صحبۃ واخاء ایمان حتیٰ یجمع اللہ بینا عندہ ’’میرے دوستو ںمیں سے مجھ پر کسی کا احسان ابوبکرؓ کے برابر نہیں۔ اگر میں خدا کی طرف سے کسی کو اپنا خلیل بنانے کا مجاز ہوتا تو یہ منزلت ابوبکرؓ کے لیے ہوتی لیکن ازروئے اسلا باہمی رفاقت و اخوت ایمانی تک کا اختیار ہے کہ اور اسی حالت میں خدا کے سامنے میری حاضری ہے‘‘۔ انصار کے حق میں وصیت مسجد میں حجرہ عائشہ ؓ میں تشریف لانے کا قصد کرتے ہوئے فرمایا: یا معشر المھاجرین استوصوا بالانصار خیر فان الناس یزیدون والانصار علی ھیہتھا لا تزید و انھم کانو اعیبتی التی اویت الیھا فاحسنوا الی محسنھم وتجاوزوا عن سیئھم ’’اے یاران مہاجر! انصار کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ ان کے سوا دوسروں کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ انصارمیر ے ایسے محرم ہیں جن کے سامن میں مجھے پناہ ملی۔ ان کی خوبیوں کی قدر اور انکی لغزش سے چشم پوشی کرتے رہنا‘‘۔ مسجد میں لوٹ کر ام المومنین عائشہؓ ہی کے حجرے یں فروکش ہوئے۔ آج کی جدوجہد اور مسجد میں تشریف لے جانے سے مرض نے اور تھکا دیا۔ وہ مریض جن کے بدن مبارک پر سات مشکیزے پانی ڈالا جائے جسے ایسی شدید علالت میں بھی مشاغل سے یکسوئی نصیب نہ ہو۔ جیش اسامہؓ کے نتائج کا فکر ادھر انصار کا غم ‘ اس پر ملت جو ابھی ابھی اسلا م سے وابستہ ہوئی ہے اس کا فکر مآل۔ یہی تفکرات دوسرے روز پھر مسجد میں تشریف لانے کے محرک ہو ئے لیکن مرض نے اتنا کمزور کر دیا تھا کہ ارادہ پورا نہ فرما سکے اورنماز کا وقت سر پر آ گیا۔ دوستوں سے فرمایا۔ مروا ابابکر فلیصل الناس ’’ابوبکرؓ سے ہو کہ میری بجائے نماز کی امامت وہ کرائیں‘‘۔ لیکن ام المومنین عائشہؓ جو دنیا جہاں سے زیادہ آپ کو صحت مند دیکھنا چاہتی تھیں عرض کیا ابوبکرؓ رقیق القلب ہیں ان کی آوا ز بھی مدھم ہے اورقرات میں گرویہ بھی ضبط نہیں کر سکتے اس پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکرؓ ہی کے لیے امامت صلواۃ کا حکم قائم کیا۔ ادھر ام المومنینؓ نے اپے پہلے اندازے کے مطابق اپنے والد گرامی کی طرف سے معذرت کے ارادہ سے پھر اسی بات کو دہرایا مگر اس مرتبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض کی سختی کی وجہ سے گفتگو کا یارا نہ ہونے کے باوجود وہی حکم دہراتے ہوئے فرمایا: ان کن صواحب یوسف مروہ فلیصل الناس ’’تم گویا حضرت یوسفؑ کے ہم جلیس ہو۔ ابوبکر ؓ ہی سے کہو کہ وہ میری بجائے نماز کی امامت کرائیں‘‘۔ اور ایسا ہی ہوا جس کے بعد ایک موقعہ پر ب حضرت ابوبکرؓ ابھی مسجد میں تشریف نہ لائے کہ بلال نے ان کی بجائے سیدنا عمر ؓ سے امات کی درخواست کی۔ عمرؓ کی آواز اس قدر گرج دار تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عائشہ ؓ کے حجرہ میں سن لی تو فرمایا۔ این ابوبکر؟ یا بی اللہ ذالک والمسلمون! ’’ابوبکر کہاں رہ گئے؟ اللہ اور تمام مسلمان ناپسند کرتے ہیںکہ ابوبکرؓ کے سوا کوئی اور نماز پڑھائے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس تاکید پر بعض مسلمانوں نے سمجھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں اپنا خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ نیابت رسالت کا سب سے بڑا مظہر نماز کی امامت ہے جس کی تاکید سے اس شد و مد سے فرمائی جا رہی تھی کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتخاب پر ابوبکرؓ کی افضلیت کا یہی دلیل حضرت عمرؓ نے آپ کا نام پیش کرتے ہوئے بیان کی ۔ ساعت بساعت مزاج زیادہ ناساز ہوتا گیا تپ کی شدت بڑھتی گئی چہرہ مبارک ردا سے ڈھانک لیا۔ ازواج مطہرات یا دوسرے تیمار دار جبین مبارک پر ردا کے اوپر ہاتھ رکھتے توحرارت کی شدت محسوس کر کے حیران رہ جاتے۔ سیدہ فاطمہؓ سے اپنی وفات کا راز بضعۃ رسول فاطمہؓ دن میں کئی کئی مرتبہ عیادت کے لیے حاضر ہوتیں۔ اولاد میں تنہا سیدہ فاطمہؓ ہی باقی رہ گئی تھیں ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بے حد محبت فرماتے ۔ جب تشریف لاتیں تو استقبال کے ساتھ ان ے ماتھے پر بوسہ دیتے اور اپنی مسند پر نشست کا اعزاز بخشتے ۔ سیدہ ؓ شدت علالت میں حاضر ہوتیں تو تب بھی ان معمولات میں فرق نہ آنے پاتا۔ اسی دوران انہیں پاس بٹھا کر بی بی کے ان میں کوئی بات کہی جس سے وہ رو پڑیں دوسری مرتبہ ان کے کان میں کوئی بات کہی تو سیدہ ؓ ہنس پڑیں۔ ام المومنین عائشہؓ جو وہیں تشریف فرما تھیں سیدہؓ سے ان کے رونے اور ہنسنے کا سبب دریافت کیا فاطمہ نے فرمایا: ماکنت لا فشی سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو بات مجھے راز کے طورپر بتائی ہے اس کے افشا کایہ موقع نہیں‘‘۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد فاطمہؓ نے ازخود بتایا کہ اس روز میرے گریہ کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی وفات کی اطلاع تھی اور دوسری مرتبہ جب مجھے یہ بشارت فرمائی کہ خاندان نبو ت میں سب سے پہلے مجھے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کا شرف حاصل ہو گا تو میںفرط مسرت سے ہنس پڑی‘‘۔ شدت کرب سے بار بار چہرہ کو تر کرنا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) تپ کی شدت نے اس قدر نڈھا ل کر دیا تھا کہ آپ کے فرمانے پر پانی کی لگن بالیں کے قریب لگا دی گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانی میں ہاتھ ڈبوتے وار جبین و چہرہ تر کرتے۔ بار بارغشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے۔ ذرا افاقہ ہو تا تو شدت کرب سے کراہاٹھتے۔ فاطمہؓ کا ’’وااتباہ‘‘ سے اپنے غم کااظہار خاتون جنت اپنے شفیق باپ کی یہ حالت دیکھ کر اس قدر متاثرہوئیں کہ بے ساختہ واکرب ابتاہ آہ میرے باپ کی جان پر کیا بیت رہی ہے؟ نکل گیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لخت جگر کی آواز سنی تو فرمایا کہ اے بیٹی آج کے بعد تمہارے باپ پر کوئی بدنی سختی نہ ہو گی۔ اشارہ اس طرف تھا کہ آج کسی نہ کسی وقت اس عالم کرب و بلا کی آخری منزل سے آگے بڑھ جانا ہے! صحابہؓ نے آپ طصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غم غلط کرنے کے یے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ دوسرے بیماروں کو تو آپ صبر و تحمل کی تلقین فرماتے رہے؟ فرمایا یہ صحیح ہے کہ مگر میری تکلیف دو مریضوں کے برابر ہے۔‘‘ واقعہ قرطاس دولت کدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تیمارداروں کا ہجوم تھا فرمایا: ائتونی بدواۃ و صحیفۃ اکتب لکم کتابا بالا تضلوا ابدا ’’دوات و کاغذ لے آئو! تمہاری بہتری کے لیے میں ایسی تحریر کرا دوں جس سے تم کج رہی سے بچ سکو گے‘‘۔ حسبنا کتاب اللہ حاضرین میں سے ایک صاحب ے عرض کیا(جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ تھے: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلبہ الوجع وعندکم القران وحسبنا کتاب اللہ ’’اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکلیف سے دوچار ہیں۔ مسلمانو! تمہارے پاس قرآن موجود ہے وہی ہمارے لیے کافی ہے‘‘۔ بعد میں اس حادثہ پر دو رائیں قاء ہو گئیں بعض نے اسے ضروری سمجھ کر دوات اور کاغذ پیش کرنے کا مشورہ دیا اور بعضوں نے کتاب اللہ کے کال ہونے کی بنا پر اسے زیادہ اہمیت نہدی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ رنگ دیکھ کر فرمایا نبی کے سامنے اس قسم کا غوغا نامناسب ہے۔ آپ حضرات میرے قریب سے ہٹ جائیں۔ واقعہ قرطاس پر حضرت عباسؓ و جناب عمرؓ کی رائیں جناب ابن عباسؓ کی رائے (م… جن کا سن وفات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ککے موقع پر تیرہ سال تھا) ان لوگوںنے کیسی غفلت برتی جو بیش قیمت نصائح سے محروم رہ گئے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے املا کرانے میں سبقت کرتے۔ جناب عمر ابن الخطابؓ کی رائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بھی اپنی اس رائے کی تحسین فرماتے رہے اس لیے کہ قرآن اپنے متعلق ما فرطنا فی الکتاب من شئی ؎۱ (۶:۳۸) فرماتا ہے۔ علالت تشویشناک حد تک پہنچی اور دور دور تک خبر پہنچ گئی۔ جیش فلسطین (شام) کے سپہ سالار اسامہ بن زیدؓ اور ان کے ہمراہی جرف (مقام پڑائو) سے سیدہ عائشہؓ کے دولت کدہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیمار داری کے لیے حاضر ہوئے لیکن اب تاب مقال ختم ہو چکی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسامہ کو دیکھا تو آسمان کی طرف دست مبارک اٹھایا پھر وہی ہاتھ اسامہؓ کے سر پررکھ دیا گویا اسامہب کے لیے دعا کی علامت تھی۔ معالجہ یہ حالت دیکھکر اہل بیت کی توجہ معالجہ کی طرف متوجہ ہوئی۔ ام المومنین میمونہؓ کی قرابت دار جناب اسماء نے حبشہ کے زمانے میں ہجرت میں ایسے ہ ایک شربت بنانے کی ترکیب معلوم کر رکھی تھی۔ وہی شربت غشی کی حالت میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہن مبارک میں ٹپکایا گیا ذرا افاقہ ہوا تو شربت پلانے کا سبب دریافت فرایا۔ عباسؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات الجنب کے شبہ کی بناپر شربت کے چند قطرے دہن مبارک میں ٹپکائے ہیں فرمایا مجھے تو خدا تعالیٰ نے ذات الجنب میں مبتلا ہونے سے محفوظ فرمالیا ہے پھر فرمایا مناسب یہ ہے کہ عباسؓ کے سوا ہر اس شخص کے حلق میں یہ شربت ٹپکایا جائے جو یہاں موجود ہے۔ حتی کہ ام المومنین میمونہؓ جو اس روز روزہ دار تھیں ان کا استثنا بھی نہ فرمایا۔ ۱؎ یعنی کائنات کی ہر مخلوق کے لیے جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہ سب کچھ اس کے لیے لکھ دیا۔ کسی مخلوق کے لیے بھی فروگزاشت نہیں ہوئی۔ آخری پونجی کا صدقہ شدت علالت کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذاتی تحویل میں سات دینارتھے۔ شاید اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام آ جائے اور یہ رقم میرے قبضہ میں رہ جائے۔ اس خیال کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے صدقہ کر دینے کاحکم فرمای دیا تھا لیکن اہل بیت تیمارداری میں اس قدرمنہمک تھے کہ تعمیل کرن ذہن سے اتر گیا۔ زندگی کے آخری روز دو شنبہ کو غشی سے افاقہ ہوا اور آپ نے ان دیناروں کادریافت کیا تو ام المومنین عائشہؓنے معذرت پیش کرتے ہوئے عرض کیا یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے فرصت نہیں ملی دینار ابھی تک میری تحویل میں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے لے کر فرمایا: ماظن محمد بربہ لو لقی عندہ ھذہ؟ ’’اگر یہ دینار میری تحویل میںرہ جائیں تو میں اپنے رب کے متعلق کیا گمان لے کر اس کے سامنے حاضر ہوں گا؟‘‘ شب نہایت سکون و راحت کے ساتھ بسر فرمائی۔ تپ سے افاقہ نظر آنے لگا۔ سمجھا گیا کہ اسی دوا کا اثر ہے جو اہل بیت نے آپ کوپلائی تھی۔ صبح کے وقت سر سے پٹی باندھے ہوئے مسجد میں تشریف لائے ۔ علیؓ ابن ابی طالب اور فضل ؓ ابن عباسؓ دونوں کے کندھو ں پر ٹیک لگا رکھی تھی۔ ابوبکرؓ کے اقتدا میں ادائے صلواۃ فجر کی نماز شروع ہو چکی تھی۔ ابوبکرب امامت فرما رہے تھے۔ جب صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورود کا احساس ہوا تو ہر ایک کے دل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور آپ کے مصلیٰ پر تشریف لے جانے کے لیی راستہ بنا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے سمجھا دیا کہ نماز میں خلل نہ آنے پائے اور مسلمانوں کو اس خلوص سے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھ کر بہت مسرور ہوئے۔ ابوبکرؓ کومحسوس ہوا کہ مقتدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی وجہ سے آپ ے مصلیٰ تک پہنچنے کے لیے راستہ بنا رہے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مصلی خالی چھوڑ کر خود صف میں لوٹ آنے کا قصد کیا۔ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر ؓ کی پشت پر دست مبارک رکھ کر فرمایا صل بالناس (اے ابوبکرؓ آپ ہی امامت کرائیے) اور خود ابوبکرؓ کی اقتدا میں نماز کی نیت باندھ کر ان کی دائیں طرف بیٹھ کر نماز ادا کی۔ ادائے صلوۃ کے بعد تذکیر تکمیل(نماز) کے بعد رخ مبارک نمازیوں کی طرف پھیر لیا اور ایسی بلند آوا زسے جو مسجد کے باہر بھی سنی گئی فرمایا: سعرت النار و اقبلت الفتن کقطع اللیل المظلم وانی اللہ ماتمسکون علی بشئی انی والہ لم احل الاما احل القرآن ولعن قومنا اتخذوا قبور انبیا ء ھ مساجد ’’آگ دہک اٹھی ہے اندھیری رات کی مانند فتنے توامڈے چلے آ رہے ہیں خدا کی قسم میرے فرمان کے سوا تمہیں کسی اور دستاویز سے تمسک نہ کرنا چاہیے۔ میں اس پر بھی خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے قرآن ہی کی حلال کردہ اشیاء کو حلال کیا اورقرآن ہی کی حرام کردہ چیزوں کو حرا م قرار دیا۔ ارور خدا ا س قوم پر لعنت کرے جس نے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا‘‘۔ مسلمانوںنے یہ سجھاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحت یاب ہو گئے ہیں۔ وہ اس جذبہ سے بے حد محظوظ ہوئے ۔ حتیٰ کہ اسامہ بن زیدؓ نے اپنے ماتحت لشکر کو شام لے جانے کی اجازت طلب کی۔ ابوبکرؓ نے عرض کیا یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے فضل و کرم سے آ پ کی صحت عود کر آئی ہے آج کا دن ام المومنین زینب بن خارجہؓ کی نوبت ہے۔ اجازت ہو تو ان سے اپ کی صحت کی بشارت عرض کر دوں؟ فرمایا اجازت ہے حضرت ابوبکرؓ (مقا م)سخ (بحوالی مدینہ) ام المومنین ؓ کے دولت خانہ پر حاضر ہو کر یہ مژدہ پہنچانے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت عمرؓ اور علیؓ اپے کام کاج کے لیے روانہ ہوئے۔ اسی طرح دوسرے مسلمان شاداں و فرحاں ادھر ادھر چلے گئے۔ لیکن رات ابھی پورے طور پر نہ پڑی تھی کہ مزاج کی ناسازی تپ کی سختی اور غشی کے دوروں کی خبر اڑنا شروع ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں فروکش ہونے پر مجبور ہو گئے۔ مسجد میں جمع شدہ مسلمانوں نے آپ کے صحت عود کر آنے سے جس خوشی کا اظہار فرمایا تھا س کے تصور سے آپ کا قلب معمور تھا۔ مگر بیماری کی شدت اور نقاہت حد سے گزر چکی تھی۔ سیدہ عائشہؓ کا حزن وملال سیدہ عائشہؓ جن کا قلب ایسے عظیم المنزلت وجود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احترام و جلالت سے لبریز تھا آپ کی اس ناتوانی اور ضعف پر چاہتی تھیں کہ اگر ہو سکے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی برقرار رکھنے کے عوض میں اپنی جان تک قربان کر دیں۔ آہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ہمت کے ساتھ مسجد میں تشریف انا اوراس سنبھالنے کی حالت تھی جو مریض کے لیے افاقہ الموت کا مترادف ہو۔ کیوںکہ مسجد میں واپس تشریف لے آنے کے بعد نقاہت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی کوئی گھری جا رہی تھی کہ جان حزیں قالب کو چھوڑکر اپنی راہ لے۔ اس وقفہ میں ذہن مبارک زندگی کے ان لمحات کا تصور کر درہا تھا کہ جن میںخدا نے اپنے نبی و ہادی کا مرتبہ بخش کر مبعوث فرمایا؟ یا اس منزل میں جن صعوبتوں سے واسطہ پڑتا رہا ان کی یاد تازہ ہو رہی تھی؟ یا اللہ ان کی نعمتوںمیں سرور حاصل ہو رہا تھا جن سے تبلیغ نبوت کے صدقے میں متمتع ہوئے؟ یا دین حقہ کی قبولیت سے اہل عرب کے دلوں کو جس طرح مسخر فرمایا اس کی خوشی سے مستعمند ہو رہے تھے۔ یا زندگی کے ان آخری لمحوں میں حضور خداوندی میں توبہ و انابت کی طرف رجوع فرما تھے جیسا کہ زندگی بھر معمول رہا؟ یا جان کنی کی دشواریوں سے گھبرا کر پوری زندگی کے حوادث کو فراموش کر دیا گیا ؟ ہر ایک واقعہ پر روایات کا اختلاف نمایاں ہے۔ ارباب تاریخ کا غالب رجحان یہ ہے کہ ۸ جنوری ۶۳۲ کا دن تھا۔ عرب کی گرمی غضب ڈھا رہی تھی۔ ٹھنڈے پانی کی لگن بالیں کے قریب لگی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دست ناتواں تر کر کے چہرہ مبارک سے مس فرماتے رہے۔ دنیا کا آخری عمل دہن مبارک کی صفائی اسی اثناء میں ابوبکرؓ کے خاندان کے ایک صاحب مسواک لے کر حضرت عائشہ ؓ کے دولت خانہ میں باریاب ہوئے۔ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف ایسے دیکھا جیسے مسواک کی طلب ہو۔ ام المومنینؓ نے ان کے ہاتھ سے مسواک لے کر اپنے دہن مبارک میں چبائی۔ جب اس کے ریشے نرم ہوگئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میںپیش کر دی۔ جس سے خوددہن مبارک صاف فرمایا۔ جان کنی کی اس کش مکش میں آخری مرحلہ پر پہنچ گئی ھتی۔ خدا کی طرف متوجہ ہو کر الحاح کیا۔ سکرات الموت اللھم اعنی علی سکرات الموت ’’اس جان کنی میں میری اعانت فرمائیو! آغوش عائشہؓ میں دنیا سے رحلت فرق مبارک ام المومنینؓ کی آغوش میںتھا۔اس حالت کے تذکرہ میںفرماتی ہیں دفعتہ محسوس ہوا کہ میری آغوش بوجھ سے دبی جا رہی ہے۔ میں نے چہرہ مبارک پر نظر ڈالی تو آنکھیں پتھرائی جارہی تھیں اور زبان پر الرفیق الاعلیٰ اپے رب کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر میری زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ خدا کی قسم جس نے آپ کو رسول صادق کا منصب عطا فرمایا جب اس نے آپ کو دنیا و عقبیٰ دونوں میں سے ایک کا اختیاردیا تو آپ نے عقبیٰ کو ترجیح دی۔ روح مبارک اسی حالت اور میری ہی گود میں ٹیک لگائے ہوئے رفیق الاعلیٰ کی جانب سدھاری۔ ایک وجہ سے یہ میرے لیے بھی اعزاز ہے کہ اور اس اظہار میں مجھے کسی کی توہین مقصود نہیں۔ ایسے ہی ہوا۔ میرا یہ سن اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میری گود میںجاں بحق ہونا خداوند میری یہ منزلت! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی داستان ختم ہوجانے کے بعد آپ کے فرق مبارک کے نیچے تکیہ لگا کر ان عورتوں کے مجمع میںشامل ہو گئیں جو پریشان گریہ و بکامیں مشغول تھیں۔ مگر میں دوسرے دوسرے خیالات میں سر جھکائے کھڑی رہی۔ اس لمحہ مسلمانوں میں عجیب اضطراب پیدا ہو گیا ۔ بعض حضرات کو آپ کے وفات پانے کا تذکرہ سننا بھی گوارا نہ تھا ایسے لوگوں کا خیال تھا کہ آپ نے وفات نہیں پائی۔ یہ مسئلہ حد نزاع کو پہنچنے کو تھا لیکن خداوند عالم نے جو مسلمانوں کے لیے حسن سلوک کا خواہاں ہے اس فتنہ کا انسداد فرما دیا۔ ٭٭٭ باب ۳۱ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین نبی علیہ السلام ام المومنینؓ کے حجرے میں اور اس حالت میں رفیق الاعلیٰ سے ملاقی ہوں کہ فرق مبارک کی ٹیک ام المومنینؓ کی گود میں ؒگی ہوئی تھی۔ سیدہ آپ کے فرق مبارک کے نیچے تکیہ لگا کر ان عورتوں کے مجمع میں شامل ہو گئیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کی خبر سنتے ہی پہنچ گئیں اورفرط حزن سے گریہ و بکا میں مشغول ہو گئیں۔ ام المومنین ؓ پریشان حال کھوئی کھوئی سی رہیںَ جو لوگ مسجد میں جمع تھجے یہ خبر سن کر حیرت میں ڈوب گئے کہ ابھی ابھی وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حالت میں دیکھ چکے تھے جییس کہ صحت دوبارہ لوٹ آئی ہو۔ اسی تسکین کی وجہ سے حضرت ابوبکرؓ ام المومنینؓ زینب بن خارجہؓ کو بلانے کی غرض سے مقامم سخ تشریف لے گئے اسی اطمینان کی بنا پر حضرت عمرؓ دوڑے دوڑے ہوئے ا س حجرے میں آئے جہاں جسدمبارک ابدی خواب میں محو استراحت تھا۔ اسی وجہ سے عمرؓ کو آپ کی وفات کا یقین نہ ہو سکا۔ رخ انور سے ردائے مبارک ہٹائی تو سانس کی رمق تک نہ ہونے کے باوجود حضرت عمرؓ نے غشی پر محمول کیا۔ یہ سجھ کر کہ ذرا دیر بعد ہوش میں آ جائیں گے۔ حضرت مغیرہؓ نے ہر چند سمجھایا کہ آپ کس خیا ل میں ہیں لیکن حضرت عمرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کا یقین نہ آیا بلکہ مغیرہؓ کے اصرار پر انہیں یہ کہہ کر جھڑک دیا کہ آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے۔ وفات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حضرت عمرؓ کی بے اختیار ی اور اس حالت کی تقریر حضرت عمرؓ کو یہی جذبہ مسجد میں لے آیا مغیرہؓ بھی ان کے ہمرا ہ تھے اور انہوںںے بآواز بلند اعلان کیا کہ: ان رجالا من المنافقین بزعمون ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قد تو فی وانہ واللہ مامات ولکنہ ذہب الی ربہ کما ذھب موسیٰ بن عمران فقد غاب عن قومہ اربعین لیلۃ ثم رجع الیھم بعد ان قیل قدمات وواللہ لیرجعن رسول اللہ کما رجع موسیٰ فلیقطعن ایدی رجال وارجلھم زعموا انہ مات ’’منافق افواہ اڑا رہے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے بلکہ موسیٰ بن عمران کی طرح خدا کے حضور تشریف لے گئے ہیں جس طرح موسیٰؑ بنی اسرائیل سے چالیس روز تک غائب رہنے کے بعد دوبارہ تشریف لائے ان کی غیبوبت کے دوران میں اسی طرح بنی اسرائیل نے کہاکہ موسیٰؑ کی وفات ہوگئی! اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی رجعت فرما ہوں گے اور جس جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر پھیلاء ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپسی پر اس کے ہاتھ پیر قلم کرا دیں گے۔‘‘ حضرت عمرؓ کی تقریر پر سامعین کی حیرت مسلمان حضرت عمرؓ کی تقریر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے متعلق گومگو میں پڑ گئے۔ کبھی خیال گزرتا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت فرما چکے ہیں توہمار ے لیے کس قدر افسوس و الم کا حادثہ رونما ہو گیا۔ یہی لوگ ہیںجنہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی زندگی میں دیکھا آپ کے حسن تکلم س بہرہ مندہ ہوئے۔ آپ کی تعلیم کے اثر سے خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا موقع حاصل ہوا۔ جس نے آپ کو سچادین عطا فرما کر انسان کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا آج ان مسلمانوں کے ذہن میں رسول صادق الامین کی رحلت کا تصور گردش کر رہا تھا اوراس تصور کا مقابلہ ار حضرت عمرؓ کی تقریر تھی لیکن حضرت موسیٰ کی مانند آپ کی رجعت کا انتظار تو اور بھی حیرت انگیز ہے! یہی وجہ ہے کہ جو لوگ حضرت عمرؓ کے اردگردجمع ہو گئے اس امر کی تصدیق پر مائل تھے کہ رسلو خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعی انتقال نہیں ہوا۔ ان کے دماغ میں ٰہ تصور بھی گردش کر رہاتھا کہ ذرا ہی دیر پہلے انہوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صحیح سالم دیکھا آپ کی گفتگو سنی اور آپ کی زبان مبارک سے دعا و استغفار کے کلمات گوش گزار ہوئے۔ مسلان یہ سوچ رہے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خلیل اللہ ہیں ذات خدا نے اپنی رسالت کے لیے آپ کو منتخب فرمالیا تمام عرب آپ کے سامنے سرنگوں ہو گیاایسی ذات کی موت واقع ہو سکتی ہے ان کے ذہن مین یہ امر بھی آپ کی وفات کے بار ے میں مانع تھا کہ ابھی تک آپ کے مقابلہ میں قیصر و کسریٰ کو تو شکست ہی نہیں ہوئی۔ ان کیک زہن میں یہ خیال بھی چٹکیاں لے رہا تھا کہ جس قوت نے بیس سال کی مدت میں ایک عالم کو اپنے سامنے مطیع ومنقا د کر لیا تاریخ عال جس کی نظیر کرنے سے قاصر ہے ایسے وجود گرامی پر موت کا وارد ہونا سمجھ میں آنے کی بات ہی نہیں۔ عورتیں فرط غم سے پریشان حال سر جھائے ہوئے مصروف گریہ تھیں جس کی وجہ سے آپ کی وفات کا یقین ہو گیا۔ اسی موقع پر حضرت عمرؓ مسجد میں بار بار دھرا رہے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حضرت موسیٰؑ کی مانند اپنے رب کے پاس تشریف لے گئے ہیں اور جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی افواہ اڑا رہے ہیں وہ منافق ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لا کر ایسے وگوں کے ہاتھ اور گردنیں کٹوائے بغیر انہیں معاف نہ فرمائیں گے۔ مسلمان دو متضاد خبروں میں سے کس امر کی تصدیق کریں؟ ذرا دیر پہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارتحال کی خبر سے گھبرا رہے تھے اب حضرت عمرؓ آپ کے ارتحال کو افواہ سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہیں اور حضرت موسیٰ کی مانند رجعت فرمائیں گے۔ مسلمان ابھی تک اس خبر کے تسلیم کرنے پر مائل اور خود کو بہلا رہے تھے۔ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رجعت سے شادماں ہو کر رہیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ کی سخ سے واپسی اسی افراتفری میں ابوبکرؓ سخ سے واپس تشریف لائے اور رحلت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پر آشوب سنائونی سے کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گئے انہوںنے دیکھا کہ حضرت عمرؓ تقریر فرما رہے ہیں اور مسلمان پوری تجوہ سے اور یقین کے ساتھ سن رہے ہیں۔ یہ کوائف دیکھنے کے ساتھ ہی حضرت عائشہ کے حجرہ کا رخ کیا اجازت طلبی پر جواب آیا کہ آج کوئی شخص طلب اذن کا مکلف نہیں دالان میں ایک طرف پلنگ پر جسد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا یمن کی حظ دار چادر سے چہرہ مبارک ڈھکا ہوا ہے ابوبکرؓ نے دامن ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا اور زبان سے یہ کلمہ کہا: ما اطیبک حیا! وما اطیبک میتا! ’’آپ کا جسم اطہر زندگی میں بھی کسی درجہ عطر بیز رہا اور مرنے کے بعدبھی اس کی شمیم آرائیوں میں کمی نہیں آئی‘‘۔ اپنے دونوں ہاتھ رخ انو رکا ہالہ بنائے اور فرق مبارک تکیہ سے ذرا ٹھا کر غور سے دیکھا تو چہرہ کی تنویر جوں کی توں ضیاپاش تھی ابوبکرؓ نے کہا: بابی انت وامی ! اما الموتۃ التی کتب اللہ علیک فقد ذقتھاثم لن تصبیک بعدھا موتتہ ابدا ’’میرے ماں باپ نثار خدا کی طرف سے جو موت آپ کے لیے مقرر تھی واقع ہو چکی ہے۔ اب آپ کے لیے دوبارہ وففات پانے کا کوئی امکان نہیں‘‘۔ اس کے بعد سر مبارک جس طرح تکیہ سے لگا ہوا تھا اسی طرح رکھ کر چہرہ انور پر ردا کا دامن اوڑھا دیا۔ اب مسجد میں تشریف لائے جہاں حضرت عمرؓ کی تقریر ابھی جاری تھی۔ وہ مسلمانوں کویقین دلا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر موت وارد نہیں ہوئی۔ مجمع نے ابوبکرؓ کے لیے راستہ کھول دیا انہوںنے حضرت عمرؓ کے قریب پہنچ کر انہیں خاموش رہنے اور اپنی تقریر سننے کی ہدایت کی لیکن عمرؓ نے بدستور اپنی تقریر جاری رکھی۔ حضرت ابوبکر ؓ کی تقریر حضرت ابوبکر ؓ نے مجمع کو اشارہ کیا میں جو کچھ کہتا ہوں اسے غور سے سنا جائے اس مقام پر ابوبکرؓ کا ہم پلہ کون ہو سکتا تھا جو رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے مصدق تھے۔ کہ اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلیل بنانے کے مجازہوتے تو ابوبکرؓ کے سوا کوئی دوسرا اس عزت کا مستحق نہ ہوتا۔ اس لیے ان کی آواز کان میں پڑتے کے ساتھ ہی عمرؓ کی طرف سے مجمع کا رخ پھر گیا اور تما م لوگ حضرت ابوبکرؓ کی طرف مائل ہو گئے۔ ممدوح نے تقریر شروع کی اور حمد و ثناء کے بعد فرمایا: ایھا الناس ان من کان یعبد محمد ا فان محمد اقدمات و من کان یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت ’’لوگو! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عبادت گزار ہے اسے معلوم ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات پا چکے ہیں اور جو کوئی اللہ کا عبادت گزار ہے اس پر واضح کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس پر موت وارد نہیں ہو سکتی‘‘۔ جس کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائی: وما محمد الا رسول قد حلت من قبلہ الرسل افا ء ن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا وسیجزی اللہ الشاکرین (۳:۱۴۴) ’’اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے سوووا کیا ہیں کہ اللہ کے رسول ہیں اوران سے پہلے بھی اللہ کے رسول گزر چکے ہیں (جو اپنے اپنے وقتوںمیں ظاہر ہوئے اور راہ حق کی دعوت د کر دنیا سے چلے گئے) پھر اگر ایسا ہوا کہ وہ وفات پائیں (اور بہرحال انہیں ایک دن وفات پانا ہی ہے) یا (فرض کرو) ایسا ہوا کہ لڑائی میں قتل ہوجائیں تو کیاتم الٹے پائوں راہ حق سے پھر جائو گے (او ر ان کے مرنے کے ساتھ ہی تمہاری حق پرستی بھی ختم ہوجائے گی) اور جو کوئی راہ حق سے الٹے پائوں پھر جائے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا خدا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جو لوگ شکر گزر ہیں(یعنی نعمت کی قدر سمجھنے والے ہیں) وہ وقت دور نہیں کہ خدا انہیں ان کااجر عطا فرمائے گا‘‘۔ حضرت ابوبکر ؓ کی تقریر کا اثر مجمع کارخ ابوبکرؓ کی طرف دیکھ کر حضرت عمرؓ خاموشی سے ابوبکرؓ کی تقریر سنتے رہے۔ جب انہوںنے آیہ مذکورہ پڑھی عمرؓ کے پائوں لڑکھڑا اٹھے زمین پر گر پڑے اور انہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا یقین ہو گیا۔ جو مجمع ذرادیر پہلے تک حضرت عمرؓ کا ہم نوا تھا ابوبکر ؓ کی زبان سے یہ آیت سننے کے بعد ان کی کیفیت بھی متبدل ہو گئی جیسے یہ آیت انہوں نے آج ہی سنی ہو۔ ان کے ذہن میں آنحضرت ؓ کی وفات کا نقش قائم ہو گیا۔ ہر شخص کو یقین ہو گیا کہ رسول خداؓ نے اپنے لیے رفیق اعلیٰ کی معیت کو ترجیح دی اور خدا تعالیٰ (رفیق اعلیٰ) نے بھی آپ پر اپنی رحمت کا دامن پھیلا دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کے فہم پر تبصرہ حضرت عمرؓ جس شد و مد کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات سے انکار کر رہے تھے اور دوسروں کو بھی اپنا ہم خیال بنانے میں مصروف تھے کیا اس بارے میں وہ عمداً مبالغہ کر رہے تھے؟ ان کے انکار میں کہا جا سکتا ہے کہ جیسے موجودہ دور کے ارباب علم کی تحقیق کے مطابق آفتاب اپنی روشنی آفتاب اپنی روشنی اور حرارت دونوں بتدریج کھوتا آ رہا ہے جس کے ہاتھوں ایسا دن آ کر رہے گاکہ جب آج کا مہر عالم تاب کرہ سیاہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن سورج کے یوں پتھرا جانے کو شک کے بغیر تسلیم کرنا بے حد مشکل ہے۔ ایسے سرچشمہ نور کے متعلق جس کی روشنی اور حرارت دنیا کے ذروں تک کی بقا کے لیے ضامن ہو اس کے لیے اس قدر بے چارگی کا یقین کہ آفتاب فنا ہو جائے یا اس کا نور تاریکی سے متبدل ہو جائے ! ا س پر اہل تحقیق کا یہ طرفہ کہ سورج کے ساتھ اس حادثہ کے بعدبھی دنیا ایک دن اور قائم رہے گی! میں کہتا ہوں (جناب ) محمد نور ہدایت و ایمان اور قوت کے سہ گونہ اوصاف کے ہوتے ہوئے آفتاب عالم تاب سے کم نہ تھے۔ جس طرح سورج کا پرتو تو تمام عالم پر ہے۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیاء سے تمام دنیا منور ہے اور جس طرح آفتاب استقرا ر کائنات کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنی تعلیم کی خوبیوں کا باعث) ربع مسکون کے لے سبب برکت و یمن ہیں۔ جن کے تذکرہ کے صدقہ میں عالم کون و مکاں کی رونق قائم ہے۔ پس حضرت عمرؓ کا یہ یقین تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت ممکن نہیں ان معنوں میں قابل تسلیم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی صفات کی وجہ سے اس وقت بھی زندہ تھ اور جب تک یہ عالم قائم ہے آپ پرموت وارد نہ ہو سکے گی۔ جیش اسامہؓ کی جرف میں واپسی اس دن کی صبح کے وقت جب حضرت اسامہؓ نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجد میں دیکھا تو انہیں بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح آپ کی صحت عود کر آنے کا یقین ہو گیا اوروہ اپنے ہمرہان غزوہ کو ساتھ لے کر(مدینہ سے) جرف(کی سمت) روانہ ہو گئے (جہاں پر لشکر کا پڑائوتھا) اور فوج کو کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ اتنے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کی سنائونی آ پہنچی جس کے سنتے ہی اپنے ساتھیوں سمیت مدینہ لوٹ آئے اورفوج کا علم سیدہ عائشہؓ کے دروازہ کے قریب نصب کر کے مسلمانوں کے فیصلہ کے انتظار میں سفر ملتوی کر دیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ اور تاسیس خلافت مسلمان گونہ پریشان تھے۔ بہرحال حضرت ابوبکرؓ کی تقریر نے انہیں رسو ل خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا یقین دلا دیا اور اپنے اپنے گھر لوٹ گئے مگر ایک گروہ محلہ سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت سعد بن عبادہ (انصاری) کے ہاں جمع ہوا۔ مہاجرین میں سے چند حضرات اسید بن حضیر کی معیت میں جناب ابوبکر ؓ کے ہاں (محلہ) بنی اشہل کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت علیؓ زبیر بن عوامؓ اور طلحہ بن عبید اللہ ؓ جناب فاطمہؓ کے دولت خانہ میں آ کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ سقیفہ سے آمدہ اطلاع اتنے میں ایک شخص ابوبکرؓ اور عمرؓ کے پاس یہ خبرلایا کہ سعد بن عبادہؓ نے سقیفہ میں انصارکامجمع لگا رکھا ہے اسنے یہ بھی کہا ہے کہ آپ دونوں کو امت کے مصالح سے تعلق ہے تو انصار کے فیصلہ سے قبل سفیقہ بنو ساعدہ میںپہنچ جائیے ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد گرامی تجہیز کے بغیر پلنگ پر رکھا ہوا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ سے عمرؓ کا سقیفہ پہنچنے کا مشورہ جناب عمر نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ ہمیں اپنے انصار بھائیوں کے ہاں جا کر دیکھنا چاہیے کہ آخر ہو لوگ کیا کر رہے ہیں اور وہ دونون حضرات سقیفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ادھر سے دو نیک طینت انصار تشریف لا رہے تھے۔ جنہوںںے مہاجرین کا ذکر اذکار کرنے کے بعد سقیفہ میں جمع شدہ لوگوں کی حقیقت بیان کی۔ پھر ان دونوں کا ارادہ دریافت کیاتو ان کے بتانے پر ہا کہ آپ کو سقیفہ میں جانے کے بجائے خود اپنی جگہ مہاجرین کے مستقبل کا خیال کرنا چاہیے۔ ان ہر دو انصار نے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کا ارادہ معلوم کرنے کے بعدپھر عرض کیا کہ آپ مہاجر ہیں اور آ پ کو مہاجرین سے مل کر اپنا فیصلہ طے کرنا چاہیے۔ لیکن عمرب نے اصرار کیا کہ واللہ اب ہم سقیفہ ضرور جائیں گے۔ سقیفہ اور سعدبن عبادہ سقیفہ پہنچ کر دیکھا کہ ایک صاحب چادر میں لپٹے ہوئے ہیں زمین پر پڑے ہیں۔ حضرت عمرؓ کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ یہ سعد بن عبادہ ہیں ان کا مزاج کچھ ناساز ہے۔ سقیفہ میں ایک انصاری کی تقریر اتنے میں انصار کے ایک خطیب نے تقریر شروع کر دی اور حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ اے صاحبو سب کو علم ہے کہ ہم انصار اللہ ہیں اور مسلمانوں میں جنگ آزمودہ بہادر۔ اے یاران مہاجر ااپ لوگوں کو ہم انصار کے فوج کا دستہ ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ افسوس ہے کہ آپ لوگوںکی مختصر سی جماعت نے مدینہ میں ہماری جڑیں کاٹ کر ہمیں اپنے ماتحت رکھنے کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا۔ ابوبکرؓ کی تقریر مسالمت انصار آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بھی اسی طرح سوچ رہے تھے۔ یہ تقریر سننے کے بعد حضر ت عمرؓ نے فتنہ کے سدباب کا تہیہ کر لیا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے ان کی سخت کلامی کی وجہ سے انہیں تقریر کرنے سے روک دیا اور خود انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ایھا الناس نحن المھاجرون اول الناس اسلاما واکرمھم احسابا و اوسطھم دار واحسنھم وجوھاواکثرھم ولا دۃ فی العرب و امسھم رحما برسول اللہ ’’اے دوستو ہم مہاجر ہیں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے ملک کے تمام باشندوں میں حسب و نسب کے لحاظ سے مقتدر مولد مکہ معظمہ ہے عرب کے ہر قریہ وشہر میں ممتاز دوسروں کے مقابلہ میں وہ عمدہ ترین خوبیوں کا مجموعہ ہیں تعداد میں عرب کے تمام قبائل سے زیادہ قرابت میںملک کے ہر خاندان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب تر‘‘۔ اسلمنا قبلکم وقدمنا فی القران علیکم فقال تبارک و تعالیٰ والسابقون الاولون من المہاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان (۹:۱۰۰) فمن المہاھرون و انتم الانصار اخواننا فی الدین وشرکائونا فی الفی وانصارنا علی العد د اماما ذکر تم فیکم من خیر فانتم لہ اھل وانتم اجدرنا بالثناء من اہل الارض جمعیا فاما العرب فلن تعرف ھذا الامر الا بھذا الحی من قریش فما الامراء ومنکم الوزرائ۔ ’’اے یاران انصار! ہم نے آپ لوگوں سے پہلے اسلام قبول کیا۔ قرآن نے بھی ہمیں آپ کے مقابلہ میں حق تقدم مرحمت فرمایا۔ واضح ہو کہ ہم مہاجر ہیں اور انصار ہمار ے دینی بھائی جو غنیمتوں میں ہمارے ساتھ حصہ دار ہیں اور جنگوں میں ہمارے معین و انصار ہیں اور جو لوگ آپ نے اپنے محاسن کا اظہار فرمایا تو ہمیں بھی اس سے انکار نہیںبلکہ ہم یہاں تک تسلیم کرتے ہیں خہ دنیامیں آپ لوگ افضل ہیں۔ لیکن عرب کا کوئی قبیلہ قریش کے ماسوا کسی کی امارت پر صاد نہیں کر سکتا۔ اس لیے امیر قریش میں سے ہو گا اور وزیر انصارمیں سے !‘‘ انصار کی جوابی تقریر حضرت ابوبکرؓ کی تقریر ختم ہونے کے بعد ایک انصاری نوجوان (حباب بن منذر اصابہ جلد ۱ نمبر ۱۵۲۷۔ مم ) نے جوش کے ساتھ فرمایا۔ ان جذیلھا المحک و عذیقھا المرجب منا امیر و منکم امیر یا معشر قریش ’’میں لکڑی کا وہ کندا ہوں جو اونٹوں کے باڑے میں ان کے بدن گھسانے کے لیے گاڑ دیا جاتاہے اور ایساد رخت ہوں جس کی حفاظت کے لیے اس کے اردگرد اوتھاولا بنا دیا جاتا ہے(م۔ یعنی آج کے دن صرف میں ہی خلافت کی پیشتیبانی کے لیے موزوں ہوں)‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں امیر مہاجرین میں سے منتخب کیا جائے جس کے وزیر انصار ہوںاور اس اصول کے مطابق د ومہاجر حضرات کے نام تجویز کرتا ہوںَ (اس موقعہ پرحضرت ابوعبیدہ الجراحؓ ) بھی وہیں تشریف رکھتے تھے۔ ابوبکر ؓ نے دونوں (حضرت عمرؓ اور ابوعبیدہ الجراحؓ )پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ان میں سے جسے سب مسلمان پسند فرمائیں اسے منتخب کر لیا جائے۔ اس مرحلہ پر ہر طرف سے شور بلند ہوا اورباہم اختلاف کا شبہ بڑھ گیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عمرؓ نے بآواز بلند ابوبکرؓ سے درخواست کی کہ آپ اپنان ہاتھ بڑھائیے۔ اورحضرت ابوبکرب کی بیعت کرتے ہوئے کہا: الم یامرک النبی بان صلی انت یا ابابکر بالمسلمین! فانت خلیفۃ ونحن نبایعک فنبایع خیر من احب رسول اللہ مناجمیعا! ’’کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہ فرمایاتھا کہ ا ے ابوبکرؓ مسمانوں کونمازپڑھائو۔ جس فرمان کے مطابق حضرت ابوبکرؓ آپ رسول کے خلیفہ ہیں اور ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ یقین ہے کہ جس شخص کی بیعت کی جارہی ہے وہہم سب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں زیادہ پسندیدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا محبوب ہے‘‘۔ مسجد نبوی میں تجدید بیعت اس سے دوسرے روز مسجد نبوی میں اجتماع ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور جناب عمرؓ نے سبقت فرماتے ہوئے (حمد و ثناء کے بعد) مندرجہ ذیل تقریر کی۔ انی قد قلت لکم بالامس مقالۃ ما کانت ہما وجدتھا فی کتاب اللہ ولا کانت عھداً عھدہ الی رسول اللہ ولکنی قد کنت اریٰ ان رسول اللہ سیدبر امرنا و یبقی فیکون اخرنا وان اللہ قد ابقیٰ فیکم کتابہ الذی بہ ھدی اللہ رسولہ فان اعتصمتم بہ ھذا کم اللہ لما کان ہداہ اللہ وان اللہ قد جمع امر کم علی خیر کم صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وثانی اثنین اذھما فی الغار فقوموا وبایعوہ ’’ صاحبو! کل جو کچھ عرض کیا ہو نہ کتاب اللہ میں مذکور ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لفظوں میں میرے سامنے بیان فرمایا۔ میرا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا س امر میں ایک خاص تدبیر فرما سکیں گے اور آپ کی رحلت ہمارے سامنے ہو گی۔ دوستو! اللہ نے ہمارے سپرد وہ کتاب فرمائی ہے جس کے ذریعے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی کی ۔ تم نے اس کتاب کے ساتھ تمسک کیا ۔ تمہارے لیے بھی بڑی کامیابی کی راہ کھلی ہوئی ہے۔ تم میں سے بہتر شخص (ابوبکرؓ ) کو اللہ نے تمہارا امر تفویض فرمایا۔ ابوبکرؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ندیم خاص ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ قرآن ہی میں ارشاد ہے وثانی اثنین اذھما فی الغار پس اے مسلمانو اٹھو اور ابوبکرؓ کی بیعت میںمسابقت کرو‘‘۔ تقریر ختم ہونے کے ساتھ ہی ہر مسلمان نے ایک دوسرے سے سبقت کر کے بیعت شروع کی اور گزشتہ ک کے بعد آج کی بیعت عامہ تھی اور اول الذکر بیعت خاصہ تھی۔ خلیفہ اول کی پہلی تقریر اتمام بیعت کے بعد خلیفہ بلا فصل حضرت ابوبکرؓ نے منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تشریف لا کر تقریر ارشاد فرمائی جسے آیت حکمت و فصل خطاب کا درجہ حاسل ہے۔ اما بعد! ایھا الناس! فانی قد ولیت علیکم ولست بخیرکم ! فان احسنت فاعینونی وان اسات فقومونی! الصدق امانۃ والکذب خیانۃ! الضعیف فیک قوی عندی حتی اریح علیہ حقہ ان شاء اللہ والقو فیکم ضعیف عندی حتی اخذ الحق منہ ان شاء اللہ والا یدع قوم الجھاد فی سبیل اللہ الا ضربھم اللہ بالذل۔ ’’دوستو! مجھے آپ لوگوں کا امیر بنا دیا گیا ہے حالانکہ آپ حضرات سے زیادہ لائق نہیں (یہ آ پ کی خوشی ) بھلائی میں میری اعانت کرتے رہیے اور برائی کے موقع پر مجھے زجر فرما دیجییے۔ خیال رہے کہ راست گوئی امانت داری میں داخل ہے اور کذب بیانی خیانت ہے۔ جو تم میںکمزور ہے میرے نزدیک قوی ہے۔ جس نے بے کس شخص کا حق تلف کیا ان شاء اللہ اس کا حق دلوادیا جائے گا اور جابر میرے نزدیک کمزور ہے۔ میں ایسے شخص سے مظلوم کا حق دلوا کر رہوں گا ان شاء اللہ !‘‘ فان عصیت اللہ ورسولہ فلا طاعہ لی علیکم ’’ہاں جو قوم دینی اور قومی جہاد چھوڑ دیتی ہے اللہ تعالیٰ ایسی قوم کو ذلیل کرنے میں کمی نہیں رکھتا۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر میں خدا اور اس کے رسول کی بے فرمای کروں تو اس حالت میں تم پر میری اطاعت کرنا واجب نہیں‘‘۔ قوموا! الی صلاتکم برحمکم اللہ ’’اے دوستو! اب نماز ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائو اللہ تم پر رحم کرے! تدفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں میں خلافت کے متعلق جو کشمکش جاری تھی حضرت ابوبکرؓ ک ہاتھ پر سقیفہ بنی ساعدہ اور اس کے بعد مسجد نبویؐ میں مجمع عام میں (بیعت) ہو جانے پر ختم ہو گئی جس کے بعد جسد مبارک کی تجہیز و تدفین کا اہتمام شروع ہو گیا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پلنگ پر ابدی نیندمیں محو تھے وہ پلنگ بدستور اسی جگہ پر تھا۔ غم زدہ اقربا اردگرد پریشان حال بیٹھے ہوئے تھے پہلے مدفن کی تعیین پر گفتگو ہوئی جس میں تین مختلف رائیں تھیں: (الف) مکہ معظمہ میں تدفین ہو جسے آپ کا مولد اور آپ کے اجداد کا وطن ہونے کافخر حاصل ہے۔ (ب) بیت المقدس انبیائے کرام علیہم السلام کی آخری آرام گاہ ہونے کی وجہ سے ۔ لیکن مسلمان(ب) پر متفرق نہ ہوسکتے تھے کیونکہ ابھی تک بیت المقدس پر نصرانی رومی حکومت کا قبضہ تھا جن کی پشینتنی دشمنی نے مسمانوں کو کبھی چین نہ لینے دیا۔ مسلمانوں کے دل سے جنگ موتہ اور غزوہ تبوک دونوں کاداغ ابھی تک مندمل نہ ہو سکا تھا حتیٰ کہ ابھی ابھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مقتولوں کا قصاص لینے کے لیے جیش اسامہ کو اسی فلسطین پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا جس میں شہربیت المقدس واقع ہے۔ اور مسلمان مکہ معظمہ کو بھی آپ کا مدفن بنانے پر رضامند نہ ہو سکے۔ (ج) مدینہ منورہ جس بستی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے رفقا کے لیی اپنے دروازے کھول دیے تھے جہاں کے باشندوںنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کی سعادت کی‘ جس شہر نے سب سے پہلے اسلا کا علم بلند کرنے کے لے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور اس رائے پر تمام مسلمان متفق ہو گئے۔ اب مرقد کی جگہ کے تعیین کے لیے گفتگو ہوئی اور اس میں بھی مختلف رائیں پیش ہوئیں۔ (الف) مسجد نبوی میں منبر کی جگہ پر جہاں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہو کر خطبہ سناتے۔ (ب) مصلیٰ کی جگہ جہاں پر امامت الصلوۃ کے قیام فرماتے۔ مرقد کے متعلق یہ دونوں رائیں ام المومنین عائشہؓ کی اس روایت کی وجہ سے مسترد ک گئی کہ علالت کے آخری مرحلہ میں جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاہ رنگ کی ردا اوڑھ رکھی تھی دفعتاً تکلیف بڑھ گئی جس کے اثر سے ردا کا دامن چہرہ مبارک پر پھیلا دیتے اور کبھی دامن کو رخ انور سے سرکا کر دوسری طرف پھینک دیتے۔ اسی اضطراب میں زبان مبارک سے یہ الفاظ صادر ہوئے! قاتل اللہ قوما اتحذو ا قبور انبیاء مساجدا! ’’خدا تعالیٰ نے ایسی قوم کو ہلاک کیے بغیر نہیں رہتا جو نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لے!‘‘ ام المومنینؓ کی ا س روایت سے مسجد نبوی کے اندر تدفین کا ارادہ ختم ہو گیا لیکن مرقد کی تعیین کا مرحلہ ابھی باقی تھا کہ خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکرؓ تشیرف لائے اور انہوںنے سن کر فرمایا: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ما قبض نبی الادفن حیث یقبض ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ سنا کہ نبی کی روح جس مقام پر قفس عنصری سے پرواز کر تی ہے اس قطعہ زمین کو ان کے مرقد بننے کا شرف حاصل ہوتا ہے‘‘۔ جس کا شرف ام المومنین ؓ سیدہ صدیقہؓ کے مقدر میں تھا۔ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ی آخری آرام گاہ بھی آپ کا حجرہ قرار پائے۔ (مرقد کی تعیین) پلنگ جس مقام پر لگا ہوا تھا وہیں قبر کھود لی گئی۔ غسل میں صرف قرابت دار شریک تھے۔ جناب علی جسد اطہر کو مل رہے تھے۔ حضرت عباسؓ اور آپ کے ہر دو صاحبزادے( افضل و قشم بشمول شقران) پردہ کیے ہوئے تھے۔ اسامہ ابن زیدؓ پانی ڈالنے پر (شقران رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت گار غلام ہیں) بعض حضرات نے بدن سے قمیض علیحدہ کرنے کا مشورہ دیا مگر حضرت علیؓ اور ان ے دوسرے رفقا نے اسے مناسب نہ سمجھا۔ غسل کے دوران میں جسد گرامی پر مالش سے خوشبو کی لپٹوں کی وجہ سے درودیوار مہک اٹھے۔ جس پر علی ابن طالبؓ نے کہا: بابی انت وامی! ما اطبیک حیا و میتا! ’’میرے ماں باپ نثار! زندگی میں بھی اس جسد مبارک سے خوشبو کی مہک آتی رہی اور اس حالت میں بھی‘‘۔ خوشبو کے بارے میں مستشرقین کی توجیہ بعض مستشرقین نے اس کی توجیہ میں لکھا ہے کہ زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن چیزوں کا اشتیا ق تھا ان میں خوشبو کا استعمال غالب تھا جس سے خوشبو بدن کا جزو ہی بن گئی۔ تکفین و تدفین کفن تین چادروں سے دیا گیا جن یں دو چادریں قریہ صحار(یمن) کی بنی ہوئی تھیں اورایک چادر دھاری دار تھی تکفین سے فارغ ہونے کے بعد فی الحال جسد مبارک کو اپنے حال میں چھوڑ کر زیارت کے لیے پردہ ہٹادیا گیا۔ زائرین مسجد سے گزر کر آخری دیدار کے لیے آنے لگے اور درود و سلام پرھ کربادیدہ حسرت واپس لوٹتے گئے۔ نماز جنازہ میں ابوبکرؓ و عمرؓ کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کی شرکت ابوبکرؓ و عمرؓ حجرہ میں داخل ہوئے تو زائرین کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ دونوں حضرات نے مسلمانوں کی معیت میں نماز جنازہ (بہ نیت فرادی… م) ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر ہر شخص اپنی جگہ پر خاموش کھڑا ہو گیا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: السلام علیک یا رسول اللہ ورحمت اللہ و برکاتہنشھد ان نبی ورسولہ قد بلغ رسالۃ ربہ وجاھد فی سبیلہ حتی اتم اللہ النصر لدینہ وانہ فی بوعدہ و امر الا نعبد الا اللہ وحدہ لا شریک لہ۔ ’’السلام علیک یا رسول اللہ ورحمتہ و برکاتہ! ہم سب گواہ ہیں کہ اللہ کے نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پروردگار کی رسالت پہنچا دی۔ اس کی راہ میں ا س وقت تک جہاد جاری رکھا کہ جب تک اللہ نے اپنے دین کی نصرت نہ فرما دی۔ ہم اس پر بھی گواہ ہیں کہ خدا کے رسول نے اللہ کے ساتھ جو میثاق کیا تھا۔ اسے حرف بحر ف پورا کر دیا اور لوگوں نے فرمادیا کہ ہم خدائے وحدہ لا شریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔‘‘ جناب ابوبکرؓ کے ہر جملہ پر حاضرین نے صدق زبان سے تائید کرتے ہوئے اور موقعہ بموقعہ آمین پکارتے۔ مردوں کے حجرہ سے باہر آ جانے کے بعد عورتیں آئیں ان کے بعد بچے آئے جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق کی حسرت میں چہرہ مبارک پر نظر کرتے۔ آ پ کی وفات کی وجہ سے ہر زن و بچہ دین کے انجام پر خائف تھا۔ تاریخ کی پرشکوہ گھڑیاں یہ واقعہ جسے تیرہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جو تاریخ کا پر شکوہ منظر ہے کہ جب اس کا تصور کرتا ہوں تو دل پر اس زور کی ہیبت اوردبدبہ سے لرزہ طاری ہو جاتاہے کہ کفن میں لپٹا ہوا پیکر حجرہ کے ایک طرف ابدی نیند میں سویا پڑاہے یہ جسد گرامی کل سپرد لحدہوجائے گا۔ گزشتہ کل تک یہی جسم بارک زندگی نور اور رحمت کا سرچشمہ تھا۔ یہ ایسے بزرگ کا پیکر ہے جو بنی نوع بشر کو ہدایت و حق کی تبلیغ کرتا رہا۔ نیکی کا مصدر رحمت عالم احسان کا منبع‘ رفاہ عام کے ہرامر میں سبقت کا خوگر ہدایت اور رشد کا سرچشمہ سرکشوں سے مظلوم کا حق دلانے میں پیش پیش۔ آج اس مجموعہ صفات کے آخری دیدار کی تمنا دل میں لیے ہوئے انسانوں کے دل کے دل چلے آ رہے ہیںَ مردوں عورتوں اور بچوں کی زبان مدح سرائی میں مصروف ہے اور فر ط غم سے نڈھال ہیں کہ ایسا بزرگ ان سے بچھڑ رہا ہے جو ان کے لیے شفیق باپ کا قائم مقام مہربانی بھائی کا بدل مونس و غم خوار دوست محبت و وفا کا پیکر اور خدا کا نبی و رسول ہے جو آج اپنے رب کے پا س جا رہا ہے۔ ایسے لوگوں کا احساس کس قدر قابل تعریف ہے جن کے دل ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔ سب خائف ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پردہ غیب سے کیا ظہور پذیر ہو گا! جب میں آج سے تیرہ سو سال قبل کے اس منظر کا تصورکرتا ہوں تو حیرت میںکھو جاتا ہوں روح ایسے پر شکوہ نظارہ کی ہبیت سے متاثر ہو جاتی ہے ‘ جسے ذہن میں سے محو کرنے کی کوشش کرنے کے باوجود اس پر قادر نہیں ہوا جا سکتا۔ مسلمانوں کا یہ ہراس بے سبب نہ تھا کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی خبر سے اطراف مدینہ کے یہود و نصاریٰ دونوں گروہ سرکشی پر آمادہ ہو گئے۔ قبائل میں جو لوگ ضعیف الایمان تھے منافقت پر اتر آئے۔ اور تو اور مکہ معظمہ کے مسلان بھ اسلام سے برگشتہ ہونے پر تل گئے۔ عال حضرت عتاب بن اسید جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے مقرر فرمای اتھا یہ رنگ دیکھ کر چپ ہو گئے۔ اس نازک موقع پر حضرت سہیل بن عمرو کی فراست آڑے آئی‘ جنہوںنے مجمع عام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کاتذکرہ کرنے کے بعد فرمایا اسے سے ہماری قوت میں ضعف نہیں آ سکتا۔ سن لو! جس نے اسلام کے خلاف زبان کھولی اس کی گردن اڑا دی جائے گی ذرا تو سوچو کہ تم تمام لوگوں کے بعد اسلا م میں داخل ہوئے مگر سلام سے برگشتہ ہونے میں سب سے پہلے پیش قدمی کر رہے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دنیا میں قریش کی برتری قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ان ہی کے ہاتھ سے ان کی نصرت کرائے گا۔ صورت تدفین عرب میں لحد کے دو طریقے رائج تھے (۱) بغلی اور (۲) ہودہ۔ مدینہ میں بغلی کا رواج تھا اہل مکہ ہودہ بناتے ۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ سرد آبہ تیار کرنے کے بعد مکی طریق کے مطابق لحد بناتے اور جناب ابوطلحہ (زید بن سہیلؓ) جو اہ مدینہ کے گویا قبر کن تھے بغلی لحد تیار کرتے۔ سیدنا عباسؓ نے دونوں حضرات کو طلب فرمایا مگر تنہا ابو طلحہ تشریف لائے اور ابوعبیدہ جو دولت کدہ پر موجود نہ تھے نہ آ سکے۔ مرقد مبرک اہ مدینہ کی رسم کے مطابق تیار کیا گیا۔ نصف شب تک جب مسلمان آخری دیدار سے فارغ ہو گئے تو اہل بیت نے تدفین پر توجہ فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوڑھنے کی سرخ رنگ کی ردا کافرش بچھایا۔ جو حضرات غسل میں شریک تھے انہیںکے ہاتھ سے جسد مبارک لحد میں رکھا۔ اسے کچھی اینٹوں سیڈھانک دیا گیا اور سرد آبہ میں مٹی ڈال کر قبر بنادی۔ ام المومنین عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نصف شب کے قریب پھائوڑوں سے مٹی کاٹنے کی اواز سن کر اندازہ کیا گیا کہ جسد مبارک دفن ہو رہا ہے۔ (اسی طرح حضرت فاطمہؓ سے روایت کی جاتی ہے)۔ تاریخ و یوم تدفین ۱۴ ربیع الاول بروز چہار شنبہ یوم رحلت سے دو رو ز بعد ام المومنین صدیقہ طاہرہؓ اور حجرہ مزار مقدس ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اسی حجرہ میں اقامت گزیں رہیںجس کے ایک حصے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرقد مبارک تھا اور رساتل مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ہمسائیگی کو اپنا فخر سمجھتی رہیںَ اسی حضرہ میں حضرت ابوبکرؓ (رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں سمت) مدفون ہوئے ان کے بعدجناب عمرؓ بن الخطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بائیں طرف ام المومنین ؓ عائشہؓ ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ حضرت عمرؓ کے مدفون ہونے سے قبل میں چہرہ پر نقاب اوڑھے بغیر مزارمبارک کی زیارت کے لیے حاضر ہوتی رہی اورابوبکر کے دفن ہونے پر نقاب کی ضرورت نہ سمجھی لیکن حضرت عمرؓ کے دفن ہونے کے بعد پورا نقاب اور پورا پردہ کیے بغیر زیارت کے لیے حاضر نہ ہوتی۔ ‘‘ جیش اسامہ کی روانگی جسد مبارک کی تدفین کے بعد خلیفہ المسلمین ابوبکرؓ نے سب سے پہلے اس پر توجہ فرمائی کہ جیش اسامہ کو شام کی طرف روانہ کیا جائے کیوںکہ جس طرح مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوران میں جیش کے معاملہ پر اعتراض کیا تھا مبادا کہ وہی نکتہ چینی پھر ابھر آئے۔ اس وقت حضرت عمرؓ بھی ان لوگوں کے ہم نوا تھے لیکن آج عمر ؓ کی رائے مختلف تھی وہ مصر تھے کہ فی الحال لشکر کی روانگی میں التوا کیاجائے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی وجہ سے مسلمانوں میں افتراق پیدا ہو جانے کا خطرہ تھا۔ انہیں اس حادث سے یہ خطرہ بھی تھا کہ جو لوگ بھی تک اسلا کے اصولوں سے پوری طرح واقف نہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دین سے پھر جائیں او رلشکر کے موجود ہونے سے فتنہ کا انسداد کیاجاسکتا ہے۔ لیکن حضرت ابوبکرؓ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ میں ایک لمحہ کی تاخیر کے روادار نہ تھے۔ نہ مسلمانوں کے اس مشورہ پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کہ سپہ کی کمان نو عمر اسامہؓ کے بجائے کسی مسن اور تجربہ کار کے ہاتھ میں دی جائے۔ اور لشکر اپنی پہلی فرودگاہ( مقام) جرف میں یک جا ہو گیا۔ حضرت ابوبکرؓ رخصت کرنے کے لیے خود تشریف لائے اور جناب اسامہؓ سے درخواست کی کہ مجھے ہر وقت حضرت عمرؓ کے مشورے کی ضرورت ہے۔ ہو سکے تو آپ انہیں مدینہ ہی میں رہنے دیجیے۔ اور سپہ سالار نے خلیفہ المسلمین کا مشورہ قبول کیا۔ جیش اسامہ ؓ کی کامیابی مدینہ سے روانگی کے بعد بیس یوم نہ گزرے تھے کہ بلقائے روم پر مسلمانوں کا حملہ ہو گیا جس میں اسامہ ؓ نے عیسائیوں سے غزوہ موتہ کے مقتول اور مسلمانوں اور اپنے والد کا قصاص لیا۔ مسلمان اس لڑائی میں مغلوب دشمنوں پر وار کرتے ہوئے للکار کر کہتیکہ اے مفتوحین تم مر کرہی نجات حاصل کر سکو گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ابوبکرؓ اور جناب اسامہؓ دونوں حضرات نے کس خلوص ویگانگت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی۔ جب اسامہؓ بلقا فتح کر کے مدینہ واپس تشریف لائے تو سواری میں اس دشمن کا گھوڑاتھا جس کے ہاتھ سے آپ کا والد گرامی(حضرت زیدؓ) شہید ہوئے تھے۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو علم اپنے دست مبارک سے گوندھ کر اسامہ کو عنایت فرمایاتھا وہ علم گھوڑے کی زین سے بندھا ہوا تھا۔ انبیائے کرام ؑ کی توریث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ خلیفہ المسلمین (جناب حضرت ابوبکرؓ ) کے حضور تشریف لائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے حصہ خمس کی جو اراضی فدک و خیبر میں تھی بربنائے حصہ اس اراضی کا مطالبہ پیش فرمایا لیکن خلیفہ المسلمین ؓ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہ کے اس فرمان پر سیدہ کے ارشاد کی تعمیل سے مجبور ی کا اظہار کر دیا۔ نحن معاشر الانبیاء لا تورث ماترکناہ صدقۃ ’’ہم انبیاء کی جماعت میںسے ہیں جو اپنے کسی عزیز وقرابت دار کو اپنے متروکہ کا وارث نہیں بناتے۔ ہمارا ترکہ امت کے لیے صدقہ ہے‘‘۔ لیکن خلیفۃ المسلمین ؓ نے احتراما و کراما سیدہ سے فرمایا کہ اے بی بی اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اراضی آپ کے لیے ہبہ فرما دی ہو تو ااپ ہی کے فرمانے سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں۔ سیدہ نے فرمایا یہ تذکرہ ام ایمن نے مجھ سے کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ کے لیے فدک و خیبر کی اراضی ہبہ کرنے کا ارادہ تھا۔ لیکن میرے والد گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براہ راست اس معاملہ میں مجھ سے کبھی کوئی اشارہ نہیں فرمایا سیدہ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سننے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے فدک و خیبر کی ایسی اراضی بیت المال میں داخل فرما دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خمس میں سے تھی۔ انبیاء کرام کی میراث معنوی ہے ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رخصٹ ہوئے تو مال و زر سے کوئی چیز اپنے وارثوں کے لیے نہ چھوڑی ۔ جس طرح دنیا میں تشریف لائے تھے اسی طرح خویش و اقارب کی پابندی اور زر و مال کی حبت کا داغ دل میں لیے بغیر دنیا سے واپس تشریف لے گئے۔ البتہ ورثا بلکہ تمام بنی نوع بشر کے لیے اسلا اور اسلام کے ساتھ ایک ایسا تمدن چھوڑا جس کے سایے میںیہ جہاں صدیوں سے خوشی و خرمی کی زندگی بسر کررہا تھا اور رہتی دنیا تک (اہل جہان) ان دونوںسے فیض یاب رہیں گے۔ ا س کے ساتھ ہی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) توحید کی بنیادکو استوار فرمایا کلمۃ اللہ کو سربلند اور کلمہ کفر کو سرنگوں کیا بت پرستی اور شرک کی جڑیں پاتال سے کھود کر پھینک دیں۔ انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور محبت سے پیش آنے کی تلقین اور نافرت و کینہ سے باز رہنے کی ہدایت فرمائی اور اپنے بعد قرآن کو ہدایت و رحمت کے سرمایہ کی حیثیت سے چھوڑا۔ یہ وجود مقدس کہ مظہر کامل و پیشوائے بزرگ ہیں اپنے کردار کا آخری مرقع کس حیرت انگیز طریق پر ظاہر کیا فرمایا: ایھا الناس من کنت جلدتہ لہ ظہراًفھذا ظھری ’’دوستو! تم میں سے جسے میرے ہاتھ سے کوئی بدنی ایذا پہنچی ہو قصاص کے لیے میری پشت حاضر ہے‘‘۔ ومن کنت شتمت لہ عرضا فھذا عرضی فلیستقدمنہ ومن اخذت لہ مالا فھذا مالی فلیستا خذمنہ ولا یخش الشحناء فھولیست من شانی ’’جس کسی کے حق میں میری زبان سے کوئی ناروا بات نک گئی ہو وہ شخص اسی طرح مجھ سے انتقام لے سکتا ہے جس کسی کا قرض میرے ذمہ ہو میں ادا کرنے کے لیے تیار ہوں اور ایسے حضرات کے خلاف میرے دل میں کوئی پرخاش نہ ہو گی کیوں کہ ایسی چیزوں سے میری طینت مبرا ہے‘‘۔ اس پر ایک صاحب نے اپنے تین درہم قرض کا اشارہ کیا جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت ادا کر دیا اور اس کے بعد آپ نے اپنا وہ روحانی ترکہ چھوڑ کر دنیا سے منہ موڑ لیا جسے اللہ تعالیٰ ہمیشہ باقی رکھے گا اور اپنے اس دین کو دنیا کے ہر نئے اور پرانے دین کے مقابلہ می سچا ثابت فرمائے گا ولوکرہ الکافرون (۹:۳۲) ٭٭٭ خاتمہ ۱ اسلامی تمدن… قرآنی نقطہ نظر سے ٭٭٭ اسلامی تمدن … قرآنی نقطہ نظر سے ختم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد ایسا عظیم تمدن چھوڑا جس نے صدیوں سے عالم کو منور کر رکھا ہے جس کی صلاحیت اس قدر ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا متروکہ تمدن اس کے آخری لمحے تک ضیا پاشی کر رہے گا۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ قرون ماضیہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس میراث کا حقیقی ثمرہ اور ا س کے نتائج سے درجہ بہرہ یاب ہوئے۔ یہ بجاائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ اس میں مستقب کو فیض یاب کرنے کی صلاحٰت اور بھی زیادہ ہے اس لیے کہ ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے دین قیم کی بنیاد رکھی جو کائنات کی تمام خوبیوں کا حامل اور ضامن ہے۔ اسلامی تمدن اور مغرب تہذیب کا امتزاج اس کے مزاج میں ایک خوبی یہ ہے کہ اگر اسے علم صحیح اور عقل سلیم کی آمیزش ؤاور استقامت کے ساتھ مربوط کیا جائے جس کے ساتھ تہذیب و تمدن کی ان اشیاء سے کا بھی لیاجائے جو اس تمدن (مغربی) کے جزو لا ینفک کی حیثیت اختیار کرچکی ہیں اور اپنی افادیت میں بنی نوع انسان کے لیے ضروری ہیں تو قرآن کی تعلیم کے مطابق اسلامی تمدن اور مغربی تہذیب کا یہ امتزاج خود اسلام کی تقویت کا سبب ہو گا۔ اسلام کی فطرت اور اس قسم کے غور و فکر اور ایسے قوانین دانش و عقل کے دریان ایسا رابطہ پیدا کر دیتی ہے جس سے مسلمانوں کی ان دونوں (اسلامی اور مغربی تمدن) کے درمیان مناسب رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے لیکن یہ رابطہ کس طرح پیدا کیا جائے؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک خاص وضع کے مطابق تمدن کی تعریف اور شرح کرتا ہے اور اسی تمدن کی تعریف و تشریح مغرب دوسرے انداز سے کرتا ہے اس لیے دونوں کے تمدن کا اصل جوہر مختلف ہے۔ مغربی تمدن کا خطرناک پہلو انسانی فکر اور حقیقت صحیحہ کے درمیان تفریق ہے مغربی تمدن کے نتائج میں سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس سے انساانی فکر اور حقیقت صحیحہ کے درمیان تفریق ایسی خلیج حائل ہو گئی ہے جس کا پر کرنا بظاہر ممکن نظر آتا ہے اور اس غلطی کا سبب اقتصادی نظام کو اساس قرار دینا ہے جو اہل مغرب کے ہر سیاسی کاروبار میں اولیت اور اولویت کا درجہ رکھتا ہے ۔ ان دونوں کا یہ اختلاف ان کے تاریخی اسباب کا نتیجہ ہے جیسا کہ ہم اس کتاب کے قدمہ طبع اول و قدمہ ثانی (در طبع ثانی) ؤمیں قدرے بسط کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ہو ا یہ کہ جب مغرب میں ریاست اور کینسہ دونوں کے درمیان فرق رونما ہوا تو یہ اختلاف اس آخری نقطہ پر جا کر رکا جہاں حکومت اور کینہ دومختلف گدیاں قرار پائیں یونکہ مغرب کی فکر اور نتائج کی سمتیں بھی متضاد اور مختلف ہی تھیں۔ ادھر کلیسا کی یہ تمکنت کہ وہ سلطنت پر حاوی ہے اور ادھر ریاست کو یہ اصرار کہ پوپ اور حکومت دونوں کے درمیان کوئی مذہبی رابطہ نہیں۔ دونوں کی یہ کشمکش مغرب کی سیاست کے ہر جزو و کل میں پائی جاتی ہے۔ مغرب کے ان مفکرین کے نتائج کا یک مقدمہ بھی ہے کہ عقل محض عقل مجرد اور عقل عملی( مادیات) دونوں کے درمیان بعد بعید واقع ہے اور اہل مغرب کے نزدیک ان کا موجودہ تمدن عقل عملی مادیات ہی کے صدقے میں اس بام عروج تک پہنچ سکا ہے۔ مغرب میں اسی مغالطہ کی بنا پر متعدد مفکرین نے تسلیم کر لیا ہے کہ نظام عالم بھی اقتصادیات ہی کے کھونٹے سے بندھا ہوا ہے حتیٰ کہ مغرب کے ان مفکرین میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو مذہب صنعت و حرفت اور فلسفہ و منطق میں سے ایک ایک شعبہ کو اقتصادی نظا م سیمربوط کرنے کے درپے ہیں۔ تاریخ عالم کے گزرے ہوئیء وااقعات اور قوموں کے موجودہ تصادم کے نتائج فتح و شکست کو بھی اس دور کے اقتصادی حالات کا کرشمہ تصور کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک نہ صرف تاریخی حوادث معاشی نظام کی برتری و نکبت کا ثمرہ ہیں بلکہ قوموں کے اخلاق کا انحصار بھی ان کے معاشی نظام کے خوبی و بدنمائی پر ہے۔ ان فلاسفہ مغرب نے معاشیات کی اس حد تک ہمہ گیری کو تخیقی تحقیق کا تدرجہ دے رکھا ہے۔ اہل مغرب کے نزدیک روحانیت صرف انفرادی درجہ تک قابل قبول ہے مغربی فلاسفہ کے نزدیک روحانی علو(جسے دل کی پاکیزگی اور صفات کی برتری سے تعبیر کیجیے) کو اجتماعیت سے کوئی واسطہ نہیں۔ وہ اسے محض انفرادی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس کے انفرادی ہونے کی وجہ سے ریاست کو افراد کے اس پہلو سے کوئی واسطہ نہیں ۔ مغرب نے اس معالہ میں یہاں تک آزادی اختیار کر رکھی ہے کہ اوردوسروں کی اس آس آزادی میں ان کی پاسداری اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ اپنے اصول کو بھی عقیدہ کی آزادی دینے پر محمول کرتے ہیں اور افراد کو ان کے اختیار پر چھوڑے رکھنا ریاست کے فرائض میں سمجھتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ فلاسفہ اس انفرادی مختاریت کو بھی قوم کی اقتصادی برتری ہی کا جز شمار کرتے ہیں۔ جو تمدن دوسروں کا حق چھیننے کا حریص ہو ااس کا انجام معلوم لیکن میرے (مولف علام کے) عقیدہ کے مطابق جس تمدن کی بنیاد صرف معاشی اصلاح و بہبود اور ترقی پر قائم ہو اس طرح کہ وہ اخلاقیات کو اجتماعیت معاشی سود و منافع ہی کا ثمرہ سمجھے اس کے ساتھ ہی اخلاقیات کو اجتماعتی کا جزو لازم قرار دینے کی بجائے اسے انفرادی درجہ سے علیحدہ متصور کرنے کا دعوے دار ہواناممکن ہے کہ ایسا تمدن انسان کو سعادت اورکامیابی کی حقیقی راہ دکھا سکے۔ بلکہ ایسے تمدن کا حصول بالآخر قوم کو مصیبت اور تباہی میں متلا کردے گا جیسا کہ اہل یورپ کی روز مرہ زندگی میںنظر آ رہا ہے۔ جب تک ان کا یہ شعار رہے گا ان کی جنگوں سے دست برداری اور باہمی صلح و صفائی کا وعظ کوئی ثمرہ نہیں لا سکتا‘ کیونکہ ان میں اصل مسئلہ روٹی کا ہے اور وہ بھی ان میں ہر ایک قوم کی اپنی منشا کے مطابق حل ہونے کامقتضی ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی اقوام میںسے ہر ایک ملک نے جنگی قوت بھی روٹی ہی کے نام سے بڑھا رکھی ہے لیکن اصل غرض اپنے لیے روٹی نہیں بلکہ دوسروں کے ہاتھ کا لقمہ جھپٹ لینا ہے۔ ان میں سے ہر ایک طاقت اپنے مقابل کی حکومت کو دشمنی کے سوا کسی اور نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتی جیسے باہم انسانیت کا کوئی رشتہ ہی نہیں ہم گویا انسان بننے کے باوجود حیوانوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کہہ میں سے ہر ایک قوت کو صرف ذاتی منافع کا احسا س باقی رہ گیا ہے اور وہ اخلاقی مبادیات جن پر ایک دوسرے کی مودت ومحبت کا انحصار ہے مفقود ہے۔ اشتراکیت اور آمریت دونوں ایک چہرہ کے مختلف روپ ہیں یورپ میں جو حوادث رونما ہو رہے ہیں وہ ہماری اس توجیہ اور دعویٰ کا ثبوت ہیں۔ اقوام مغرب کی موجودہ رقابت اور مبارزت اسی اقتصادی نظام کی غلط روی کا نتیجہ ہیںَ حتیٰ کہ ان کے تمدن کا ماحصل ایک دوسرے سے جنگ اور دشمنی کے سوااور ہے ہی نہیں ۔ یہ وبا یورپ کے اس طبقہ میں اسی طح پائی جاتی ہے جو خود کو جدید اشتراکی نظریہ کا حامل بتاتے ہیں اور اس گرو ہ میں بھی جو اشتراکیت کے دشمن ہیں یعنی اجارہ داری ان آمریت جیسا کہ یورپ کی یہ دونوں قسمیں (اشتراکیت اور ان کے مخالف گروہ) ایک دوسرے کے ساتھ کی روٹی کی تاک میں اس طرح لگے ہوئے ہیں جیسے گدھ مردار کی تاک میں ہو‘ کہ تمدن کے یہ دعویدار ایک دوسرے کی دولت چھیننے کے لیے ہمہ وقت فکر مند لطف یہ ہے کہ دونوں گروہ انسانی حقوق کا محافظ اور اپنے کردار کو ان حقوق کے تحفظ کا پاسبان بتانے میں نہیں شرماتے۔ کاش ان قوموں کا یہ رشک و رقابت زندگی کی حفاظت کے لیے ہوتا تو ہم ان کے زر مبارزہ میں رقابت کو بھی طبعی کہتے۔ اسی طرح مختلف اقوام و ملل کا باہمی اختلاف تب اس دلیل کے لیے طبعی اور قابل قبول ہو سکتا ہے جب وہ اپنے مال کی حفاظت کے لیے ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو آمریت و اشتراکیت دونوں عقیدوں کے مطابق جنگ کرنا بھی طبعی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب یہ سوال حل طلب ہے کہ قوموں کی باہمی صلح قائم رکھنے اور ان کا جنگوں سے اجتناب دونوں حالتیں کیونکر دائمی اور مستحکم ہو سکتی ہیں۔ موجودہ صدی(بیسویں) کے ثلث اول (از ۱۹۰۱ تا ۱۹۳۹) میں یورپ کی باہمی جنگوں میں جو حوادث رونما ہوئے واضح طور پر ثابت ہے کہ جن کی زندگی کا منبیٰ محض قومیت ہی رہ گیا ہو ان قوموں میں دائمی صلح اور پائیدار دوستی کا استحکام خیالی اور ایسی آرزو ہے جس کا تصور بغایت شیریں مگرنتیجہ نہایت تلخ ہویامحض سراب جو دور سے ٹھاٹھیںمارتا ہوا سمندر دکھائی دے رہا ہو لیکن حقیقت میں چمک دار ریتلے ذروں کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ اسلامی تمدن کی بنیاد مغربی تمدن کے خلاف اسلامی تمدن میں معنوی حسن زیبائی بدرجہ اتم موجود ہے جو انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ادراک پر آمادہ کرت ہے اور اس پر توجہ متوجہ رکھتی ہے کہ وہ خود کو بھی اپنی نظر سے اوجھل نہ ہونے دے۔ اس کا یہی ادراک جب ایمان باللہ کی حدود تک جاپہنچتا ہے تب وہ انسان اپنی روحانیت کو شائستہ اور قلب کو مزکی کرنے کا سبب صرف اس جذبہ کو بنا لیتاہے یہی ادراک اس کے لیے عقل و شعور کی ابتدائی غذا مہیا کرتاہے جس میں فرد خود اخلاقی طور پر سربند ہوکر اپنے آپ کو انسانی برادری کے ساتھ منسلک اور محبت و احسان و پرہیز گاری کا منبع سمجھنے لگتاہے جس کے بعد اپنی زندگی کے اقتصادی معاملات کو اسی محبت و احسان اور پرہیز گاری کے مطابق درجہ کمال تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسلام میں اس امر کی اجازت نہیں کہ اخلاقی اقدار کو راہ سے ہٹا کر نظام اقتصادی کے لیے راستہ ہموار کیا جائے۔ اسلامی تمدن کا تصور اسلام تمدن کا یہ تصور اس قدر جاذب و مفید ہے کہ تمام انسانی کمالات و اوصاف کا کفیل ہو سکتاہے۔ اگر اسلام کا تمدن دلوں میںبس جائے اور ا س کی تنفیذ و اجراء کے لیے بھی وہی ذرائع کام میں لائے جائیں جو مغربی نظام تمدن کی ترویج و اشاعت میں استعمال کیے جا رہے ہیں تو انسانیت کے خدوخال کا نکھار کچھاور ہی ہو۔ تمدن کی بنیاد اس انداز سے مستحکم ہو جائے کہ جس سے تمام عالم موجود بحران سے نجات حاصل کر سکتا ہے جو اسے ہر سمت سے گھیرے ہوئے ہے (موجودہ حالات میں) مشرق و مغرب اس بحران کے استیصال پرہمہ تن متوجہ ہیں لیکن طریق کار سے بے خبر اورنہ صرف غیر مسلم ہی بلکہ خود مسلمان بھی ان کے نقش قد پر گام زن اور ان کے جوش اتباع میں منزل کے صحیح رخ سے بے خبر ہیں۔ میں برملا کہتا ہوں کہ دنیا کے اس بحران کا حل صرف اسلام کے پاس ہے۔ جس کے لیے اہل مغرب اور مشرق کے رہنے وااے ہر طرف نظردوڑا رہے ہیں لیکن انہیں اتنا قریب دیکھنے کا موقعہ نہیںملتا کہ ان کا یہ بحران جو باہمی قتال کا موجب بن رہاہے نتیجہ ان کی عبادۃ المال کا اس پر طرف یہ کہ جب وہ اس بحران کو اپنے موجودہ مذہب عیسویت کا نتیجہ سمجھ کر کسی دوسرے دین کی تلاش میں نظر دوڑاتے ہیں تو ان کی نگاہ ہندومت سے ادھر کہیںنہیں رکتی۔ اسلام کہ جغرافیائی حیثیت سے ہندو مت کے گہوارہ (ہندوستان) سے ا ن (اہل مغرب) کے قریب تر مشرق اقصیٰ میںپھیلا ہوا ہے۔ اہل یورپ اس دین پر توجہ ہ نہیں کرتے جس کے پاس ان کے موجودہ سیاسی ومعاشی بحران کا پورا حل بصورت قرآن موجود ہے مع اس شرح کے جو حامل قرآن ہے رسول عربی کی زندگی کے ہر ہر صفحہ سے ان کی مشکلات میں ان کی رہبر ہو سکتی ہے( یعنی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم …م) دوستو! اس مقام پر اسلامی تہذیب و تمدن کی وضاحت مطلوب نہیں۔ یہ مضمون بجائے خود اس طویل بحث کا متقاضی ہے کہ اگر اس پر قلم اٹھایا جائے تو زیر تسوید کتاب (حیات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برابر بلکہ اس سے بھی ضخیم دفتر اس کے لیے درکار ہے یہاں اس نظام اسلامی کے مجمل سی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں دعوت محمدیہ کا وہ انداز بھی معرض ذکر میں آ جائے جس میں ایسے مباحث کا آنا ممکن ہے۔ اگر ایسا ہو سکا تو اس سے مزید استفادہ کا مقصد حاصل ہونا ممکن ہے۔ اسلامی نظام تمدن کی مختصر توضیح اسلامی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں مسیحی مغرب کی طرح کینسہ اور سلطنت دو مختلف و متضاد طاقتیں تسلیم کی گئی ہوں۔ جانشیان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خلیفہ ابوبکرؓ سے لے کر آخری خلیفہ راشد تک) نے بھی دینی حیثیت سے کوئی ایسا ضابطہ نافذ نہیں کیا جس سے خود کو مستثنیٰ قرار دیا ہو۔ منصب کی وجہ سے خدا کے نزدیک کسی مسلمان کو دوسرے سلمان پر ترجیح نہیں۔ یہاں تقویٰ و پرہیز گاری قربت کا ذریعہ ہے اور نہ کسی ایسی ولی کی اطاعت ایسے امور میں کسی مسلمان پر واجب جس امر سے خداوند عالم کی معصیت کا کوئی پہلو نکلتا ہو‘ جیسا کہ مسلمانوں کے خلیفہ اول ابوبکرؓ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے( اپنے پہلے خطبہ میں )فرمایا۔ اطیعونی ما اطعت اللہ و رسولہ فان عصیت اللہ و رسولہ فلا طاعۃ لی علیکم ’’(اے مسلمانو!) جس امر میں اللہ اور ا س کے رسول کی اطاعت کا حکم دوں اس میں تم پر میری اطاعت واجب ہے جس امر میں خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی دعوت دوں اس امر میں تم لوگوں پر میری اطاعت واجب نہیں‘‘۔ مگر جب خلافت کی باگ جابر حکمرانوں کے ہاتھ میں آ گئی تو گوناگوں فتنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ لیکن مسلمانوں کی قوت و فکر و عمل پر اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا‘ کیونکہ وہ مسلمان آزادی فکر اور قوت عقل کو ہر چیز حتیٰ کہ دین و ایمان میں بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتے‘ جس کا واضح ثبوت مامون الرشید (عباسی) دور سے ملتا ہے‘ جب ایسے حکمرانوںنے خلیفۃ الرسول کی بجائے خود کو خدا کا نائب ظاہر کرتے ہوئے مسلمانوں کی گردنوںکامالک بنایا۔ مامون الرشید کے دور میں عقیدہ خلق قرآن کی مہم کا تصور کیجیے جس کے خاف اس نے ہر قسم کے جبر و تشدد کو فرض سمجھ لیا۔ مگر مسلمانوں نے پورے استقلال و جرات کے ساتھ مامون کے ااس بدعی اور جبری قانون کی مخالفت کی اور اس راہ میں گونا گوں سختیاں برداشت کرنے سے نہ گھبرائے۔ اسلام نے عقل کو ہر معاملہ میں حاکم قرار دیا ہے خدا تعالیٰ نے دین وایمان دونوں میں عقل و شعور کو حاکمیت کے مقام پر رکھا ہے قرآن مجید فرماتا ہے۔ ومثل الذین کفروا کمثل الذی ینعق بما لا یسمع الا دعاء ونداء صم بکم عمی فھم لا یعقلون ’’اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوںنے کفر کی راہ اختیار کی ہے ان کی مثال ایسی ہے(یعنی انہیں کورانہ تقلید کی جگہ عقل کی ہدایت کی دعوت دینا ایسا ہے) جیسے ایک چرواہا چارپائیوں کے آگے چیختا چلاتا ہے کہ چارپائے کچھ سنتے ہی نہیں مگر صرف بلانے اور پکارنے کی صدائیں وہ بہرے اور گونگے اندھے ہو کر رہ گئے ہیں پس کبھی سوچنے سمجھنے والے نہیں‘‘۔ عقل کی حاکمیت کے بارے میں شیخ محمد عبدہ کی رائے آیت متذکرہ بالا کی تفسیر میں شیخ محمد عبدہ فرماتے ہیں کہ قرآن جید کی اس آیت کے مطابق سمجھ بوجھ کے بغیر دوسروں کی پیروی کرنا کافروں کا شیوہ ہے۔ اس لیے جو شخص حقیقت اور صحت دونوں امور کو نہیں سمجھ سکتا ایسا شخص مومن نہیں ہو سکتا۔ ایمان سے یہ مقصود نہیں کہ انسان بھی حیوانوں کی مانند نیکی کی متابعت پر مائل ہو جائے انسانیت کا نتیجہ تو یہ ہے کہ عقل و شعور دونوں کی یک جہتی کے ساتھ علم کی راہ سے ترقی حاصل کر لے اور اس تصور کے ساتھ کہ جس کام کو بہتر سمجھ کر کیا جا رہا ہے وہ کام خدا کی رضا کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح اسے ہر اس کام سے نفرت اور اجتناب ہو جس کے بد انجا ہونے کا اسے یقین ہے۔ شیخ نے اس آیت کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے قرآن مجید نے اسے بے شمار آیتوں میں واضح طورپر ارشاد فرمایا ہے۔ قرآن میں مظاہر قدرت پر غور کرنے کی ہدایت (۱) ان فی خلق السموات والارض واختلاف الیل والنھار والفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس وما انزل اللہ من السماء من ماء فاحیا بہ الارض بعد موتھا و بث فیھا من کل دابۃ و تصریف الریاح و السحاب المسخرین اسلماء والارض لا یت لقو م یعقلون (۲:۱۶۴) ’’بلا شبہ آسمان اور زمین پیداکرنے ومیں اور دن اور رات کے بعد ایک آتے رہنے میں وار جہاز میں جو انسان کی کاربرآریوں کے لیے سمندر میں چلتا ہے اوربرسات میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی آب پاشی سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اورا س بات پر کہ ہر قسم کے جانو رزمین کے پھیلائو میں پھلیلے ہوئے ہیں اور ہوائوں کے مختلف رخ پھرنے میں اور بادلوں می جو آسمان اور زمین کے درمیان (اپنی مقرر ہ جگہ کے اندر) بندھے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں خے لیے جو عقل رکھنے والے ہیں اللہ کی ہستی اور اس کے قوانین رحمت کی بڑی نشانیاں ہیں‘‘۔ (۲) وایۃ لھم الارض المیتہ احینھا واخرجنا نھا حبا فملہ یاکلون وجعلنا فیھا جنت من لخیل وا عناب وفجرنا فیھا من العیون لیاکلوا من ثمرہ وما عملتہ ایدیھم افلا یشکرون سبحان الذی خلق الازواج کلھا مما تنبت الارض ومن انفسھم ومما لا یعلمون (۳۶:۳۳تاا۳۶) ’’اور ان (لوگوں کے) سمجھنے کے لیے ہماری (قدرت کی) ایک نشانی مری ہوئی (یعنی پڑی ہوئی) زمین ہے کہ ہم نے اس کو پانی برسا کر جلا اٹھایا اور ا س سے اناج نکالا کہ اسی میں سے (یہ لوگ اپنی قسمت کا) کھاتے ہیںاور زمین میں ہم نے کھجوروں او ر انگوروں کے باغ لگائے اورا ن میں پانی کے چشمے بہائے تاکہ باغ کے پھلوں میں سے یہ لوگ (اپنی اپنی قسمت کا) کھائیں اور یہ معلوم ہے کہ یہ ھپل ان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے نہیں توکیا(یہ لوگ اس نعمت کا) شکر نہیںکرتے؟ پاک ہے وہ ذات جس نے زمین کی روئیدگی کی قسم میں سے اور ان (مخلوقات) کی قسم میں سے جن کویہ نہیںجانتے ہر قسم کی چیزیں پیدا کی ہیں‘‘۔ (۳)( وایٹہپ لھم الل نسلخ منہ النھار فاذا ھم مظلمون (۳۶:۳۷) ’’اور ان کے (سمجھنے ) کے لیے ہماری قدرت کی ایک نشانی رات ہے کہ ہم اس میں سے دن کو کھینچ کر نکالتے ہیں تو بس یہ لوگ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں‘‘۔ (۴) والشمس تجری لمستقرھا ذلاک تقدیر العزیز العلیم( ۳۶:۳۸) ’’اور آفتاب (ہے)کہ اپنی ایک ٹھکانے کی طرف کو چلا جا رہا ہے یہ اندازہ خدا کا باندھا ہوا ہے جو زبردست اور ہر چیز سے آگاہ ہے) (۵) والقمر قدرنہ منازل حتیٰ عاد کالعرجون القدیم(۳۶:۳۹) ’’اور چاند ہے کہ اس کے لیے ہم نے منزلیں ٹھہرا دیں یہاں تک کہ آخرہ ماہ میں گھٹتے گھٹتے پھر (ایسا ٹیرھا اور پتلا) رہ جاتاہے جیسے (کھجور کی ) پرانی ٹہنی) ‘‘ (۶) لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحون (۳۶:۴۰) ’’نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاندکو جا لے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے (اور کیا چاند اور کیا سورج سب (اپنے ) اپنے مدار(یعنی گھیرے) میں تیر رہے ہیں‘‘۔ (۷) وایۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون وان لشانعرقھم فلا صریح لھم ولا ہم ینقذون الا رحمہ منا و متاعا الی حین( ۳۶:۴۱تا ۴۴) ’’اور ان (لوگوں سے) سمجھنے کے لیے ہمارے قد رت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم ان (آدمیوں) کی نسل کو بھری ہوئی کشتیوںمیں اٹھائے پھرتے ہیں اور کشتی کی طرح ہم نے اان کے لیے اور چیزیں از قسم ڈونگی وغیرہ بھی پیدا کی ہیں جن پر وہ سوار ہتیہیں اور ہم چاہیں تو ان کو ڈبو دیں۔ پھر نہ تو کوئی ان کا فریاد رس ہو اورنہ یہ کسی طرح ڈوبنے کی مصیبت سے چھڑائے جاسکیں گے مگر (یہ) ہماری مہربانی ہے کہ اورایک وقت (خاص) تک (ان کو دنیاوی )فائدے پہنچانے منظور ہیں‘‘۔ قرآن مجید نے یہ مفہوم کئی سورتوں میں ارشاد فرمایا ہے جو انسان کو مظاہر قدرت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے‘ جن کے مطالعہ سے اس پر گونا گوں حقائق منکشف ہو سکتے ہیں اور جو (حقائق) بالآخر خالق کائنات پر ایمان لانے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔ خداوند عالم اس (انسان) کی قوت عاقلہ کی فکر و تدبیر کے لیے پکار رہا ہے تاکہ (وہ ) عقل و دلیل کو اپنا رہبر تسلیم کرے نہ کہ اپنے باپ دادا کی رسومات پارینہ کو پیشوا بنائے رکھے۔ قوت ایمان کا ثمرہ ایمان کی یہ قسم ان اسلامی تعبیرات کا ماحصل ہے جو پیر زال کے ایمان سے بالکل مختلف ہے۔ ایسا ایمان (اول الذکر) اس مرد عاقل کا سا ایمان ہے جو رو ز روشن میں رکھا گیا ہے ۔ جس کے جانچنے والے نے اس کا ایک ایک پہلو غور سے دیکھ کر اس کے کھرے ہونے کا یقین کر لیا ہو ناممکن ہے کہ جو شخص اسیے غور و تعمق کے بعد ایمان کو تسلیم کرے وہ اس کے اپنانے می لمحہ بھر کی تاخیر بھی گوارا نہ کر سکے! حقائق کائنات پر غور کرنے کا نتیجہ خدا پر ایمان لانا ہے جوں جوں انسان زمان و مکان کے اس لامتناہی سلسلہ پر غور کرتا ہے اس کا تصور اس بے تابی کے ساتھ بیدار ہوتا ہے کہ اسے خود بھی سلسلہ کائنات کا ایک جزو تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ جس کی وجہ سے اس پر ایک مربوط ترتیب کے ساتھ منکشف ہو جاتا ہے کہ اگر وہ کائنات کے ان حقائق کے باوجود ایک ایسی ہستی پر جو حس وعقل سے مافوق الفوق ہے یقین نہ کرے اور ان حقائق کے ساتھ اپنا رشتہ منسلک کرنے سے دور پڑا رہے تو وہ اصل مقصد سے ہٹ کر سراسر نقصان میں گھر جائے گا اور یہی ادراک وہ قوت ہے جسے ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اور سرور ایمان کا درجہ ایمان ایسا وجدان ہے کہ انسان اپنی ذات کو کائنات کے ساتھ اس طرح مربوط سمجھ سکے کہ عالم کے لامتناہی دائرہ میں خود کو نہ صرف محصور بلکہ کائنات کے اپنی ذات میں منعکس ہونے کا شعور پیدا کر لے جس کی رسم معین کے مطابق وہ اس کائنات کے ساتھ خود کو بھی مصروف گردش محسوس کرنے لگے۔ پھر اگر وہ اپنے اور کائنات دونوں کے کرد گار کی عملی مدح و ثنا کو وظیفہ زندگی بھی بنا لے تو ایمان کا یہ درجہ اس کے دل کو سرور و انبساط کا خزینہ بنا لیتا ہے۔ کنہ واجب الوجود کی تفتیش رہا یہ سوال کہ خداوند متعال دنیا میں جلوہ فرما ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو موجودات میں جاری و ساری ہے یا ان سے مننفصل؟ اس مسئلہ پر بحث و تمحیص ایسا جدل ہے جس کا نقصان بیش از بیش اور منفعت کا شائبہ تک نہیں اور نتیجہ گمراہی! ایسا مبحث جس پر جتنی گفتگو کی جائے جہالت میں اور اضافہ ہو۔ اس تفتیش می اہل علم اور فلاسفہ نے بے حد کوششیں کیں آخر تھک کر بیٹھ گئے کہ الوہیت کامقام ان کے ادراک سے بالا تر ہے ۔ اور اس راہ میں ناکامی میں ان کی عقل کی کوتاہی حائل ہے۔ لیکن عقل و فرہنگ کی یہی کوتاہی خدائے متعال پر ایمان اور زیادہ استوار کر دیتی ہے۔ جب قلب میں یہ تقین پوری طرح جاگزیں ہو جائے کہ ذات صمدیت جلوہ فرما ہیے اور اس کا علم ہر شے پر حاوی ہے اور تخلیق کائنات اسی کی نگہ میں کرم کا صدقہ ہے۔ کائنات کی ہر شے کو بالآخر اسی کی طرف لوٹنا ہے ۔ یعنی پہلی حضالت میں اور پہلی حالت ہے لم یکن شیئا مذکور ا(۷۶:۱۔۔م) تب ازدیاد ایمان کے ساتھ تسلیم کرنا پڑتاہے کہ ہم اس کی کنہ ذات سے محض نابلد ہیں کیونکہ آج کے دور مین ذات باری کے ادراک سے ماورا کوئی ایسی چیزی ہمارے سامنے موجودہیں جن کا احاطہ کرنے سے ہم محض قاصر ہیں مثلا کہربا (Electricity)اور ایثر(Ether)جن دونوں کا وجود ظاہر میں دیکھ رہے ہیں اور یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ آواز اور روشنی دونوں اس کہربا (Electricity)اور ایثر ک موجووں کے دو ش بدوش پر ادھر سے ادھر منتقل ہو رہے ہیں جو ثبوت ان دونوں کہربا و ایثر کے وجود اور ان کی قوت کا لیکن جب ہم ان کی ماہیت دریافت کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں تو ہماری بے مائیگی ہمیں پیچھے دھکیل دیتی ہے اسی طرح ہر لمحہ ہم خدا کی صنعت کے گونا گوں شواہد دیکھتے ہیں لیکن اگر انہی صنعتوں کو ان کی کنہ ذات کی تحقیق میں آلہ کے طور پر استعمال کرنے کا تہیہ کر لیں تو ظاہر ہے کہ یہ کاوش خود ہماری بے فہمی پر منتج ہو گی۔ اس لیے کہ ذات واجب الوجود ہماری حد ادراک و تعیین سے بالا تر ہے اور اس کی کنہ ذات میں منہمک وہی لوگ ہیں جو انسانیت کے حدود و فرائض متعین کرنے سے اپنا دامن سمیٹ کر واجب الوجود کی تحقیق ماہیت ان آلات و ادویات سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں جو ذرائع (آلات و ادوات) ہماری ہی عقل محدود نے تجویز فرمائے ہیںَ دوسرا گروہ واجب الوجود کی کنہ حقیقت کا متلاشی دوسرا گروہ وہ ہے جس کی تجسس و ادراک کے ذریع پہلے گروہ کے آلات و ادوات تحقیق سے مختلف ہیں۔ جب یہ طبقہ اس مسئلہ پر متوجہ ہوتا ہے تو قرآن کی آیت۔ ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا (۱۷:۸۵) ’’(اے پیغمبر ؐ) لوگ تم سے روح کی حقیقت دریافت کرتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ روح (بھی ) میرے پروردگار کا حکم ہے! اور تم لوگوں کو (اسرار الٰہی میںسے) بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے‘‘۔ پر پہنچ کر مطمئن ہو جاتاہے اور خالق روح پر ایمان رکھنے کی بدولت ان کے دل سرور و انبساط سیمعمور ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بے جا قیل و قال سے اپنا دامن بچا کر ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ مسلمان اور مومن کا فرق قرآن مجید مسلمان اور مومن دونوں مں ایک قسم کی تفریق کا مبین ہے۔ قالت الاعراب امنا قل لم تومنا ا ولکن قولوا اسلمنا ولما یدخل الایمان فی قلوبکم (۴۹:۱۴) ’’عر ب کے دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ (اے پیغمبران سے) کہہ دو کہ کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے اورایمان کا تو ہنوز تہمارے لیے گزر تک نہیں ہوا‘‘۔ اس (آیت) سے ثابت ہوا کہ اس قسم کا اسلام یا تو خوف و امید کا کرشمہ ہے یا مسلمان کے گھر میں جنم لینے کی وجہ سے ا س شخص نے اسلام کو خود پر لاز رکھا یا محض اس کی تقدیس کے خیال سے اسے قبول کر لیا گیا ہے ‘ گر نہ تو اس کے دل میں اسے جگہ لی نہ ایسے شخص نے اس کی حقیقت کو سمجھا نہ اس کے معاملہ میں یقین کے درجہ تک پہنچ سکا۔ قرآن مجید ایسے مسلمانوں کے معلق فرماتا ہے: یخدعون اللہ والذین امنوا وما یخدعون الا انفسھم وما یشعرون فی قلوبھم مرض فزادھم اللہ مرضا (۲:۹‘۱۰) ’’وہ ایمان کا دعویٰ کر کے اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں حالانکہ وہ خود ہی دھوکے میں پڑے ہیں اگرچہ جہل و سرکشی سے اس کا شعور نہیں رکھتے ان کے دلوں میں انکار کا روگ ہے پس اللہ نے (دعوت حق کامیاب کر کے) انہیں اور زیادہ روگی کر دیا‘‘۔ ایسے لوگ مسلمان تو ہیں مومن نہیں انکی روح سد اضعیف عقیدہ ہمیشہ متزلزل اور قلوب ہر لمحہ غیروں کی اطاعت فرماں برداری پر مائل رہتے ہیں۔ مگر جو لوگ سمجھ کر ایمان لائے ان کے دل انہیں ایمان صادق پر قائم رکھتے ہیں اور خدا کے سوا کسی کے حکم پر نہیں جھکتے نہ کسی پر اپنے مسلمان ہونے کا احسان ظاہر کرتے ہیں۔ بل اللہ یمن علیکم ان ھدکم للایمان ان کنتم صادقین (۴۹:۱۷) ’’بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تم کو احسان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم (دعویٰ اسلام میں) سچے ہو‘‘۔ ایسے شخص کا اسلام قابل قدر ہے جو صرف اللہ کی رضا طلبی کی خاطر اسے اختیار کرے۔ وہی شخص مومن ہے جسے عاقبت کے روز حزن و ملال سے سابقہ نہ ہو گا اور یہی لوگ ہیں جنہیں دنیا میں محتاجی اور ذلت سے سابقہ نہیں پڑتا کیونکہ ایمان باللہ کا صلہ عزت نفس اور استغنا ہر دو صورت میں حاصل ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ اور اس پر ایمان انے والوں کے لیے سدا عزت ہے اور سعید روحی ایسے ہی ایان کی کوشش کرتی ہیں تاکہ خود کواسرار کائنات کے قریب لے جا کر تقرب خداوندی سے بہرہ مند ہوں۔ اسرار کائنات پر آگہی کا ذریعہ مخلوق خداوندی کا مطالعہ ایسی وقت نظر سے کیجیے جس کی دعوت علمی طور پر قرآن نے پیش فمرائی ہے صدر اول کے مسلمانوں کی مانند جن کے طریق تحقیق سے مقصد وہ نہ تھا جو موجودہ یورپ کے پیش نظر ہے۔ اسلام چاہتا ہیکہ خود کو اس نظم کے تابع کر کے زندگی کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو۔ چہ جائیکہ یورپ کا مقصد قد رت کے انہی حقائق کے انکشاف سے محض دنیوی مفاد کی پرورش ہے۔ مگر اسلام ہر وسیلہ و ذریعہ کو صرف خدا شناسی کے لیے استعمال کرتا ہے اس لیے کہ انسان کو معرفت میں جس قدر وسعت حاصل ہو گی اس کے ایمان و اذعان میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔ بالآخر اسی عرفان کی بدولت اسے جماعت کے سود وبہبود کا احساس ہو گا کہ یورپ کی مانند صرف منفعت کا سودا۔ خیال رہے کہ روحانی کمالات کے وسعت انفرادی مصالح کو اپنے دامن میں جگہ نہیں دے سکتی۔ وہ تو مشرق و مغرب حتیٰ خہ چاروں سمتوں کو اپنے احاطہ میں ؒیے ہوئے ہے۔ ا س لیے مادی کو روحانی کمالات پر نثار کر دینا از بس نفع رساں اور ایسے کمالات کے حصو ل میں ہر جدوجہد مفید ہے۔ مگر ایسی کراں بہا متاع حاصل کرنے کے لیے محض زبانی قیل و قال کافی نہیں بلکہ علم کے ستھ قلب اذھان کو اس عالی مقصد کے حصول پر متوجہ رکھنا ضروری ہے۔ اور یہ نعمت حضور خداوندی میں استمداد اور قلب و روح دونوں کو پروردگار عالم کے لطف و عنایات کا دست نگر کیے بغیر حاصل ہونا ممکن نہیں کیونکہ صرف وہی ذات عبادت کی سزاوار ہے اور اسی کی توجہ سے کائنات کے سربستہ راز منکشف ہونے اور زندگی کے طریقے معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہی (ذریعہ ہے تقرب خداوندی کا جسؤے ہم اس کی نعمتوں پر اظہار تشکر کے ساتھ حاصل کرنے کے خواہش مند اور اس کے لطف و کرم کے امیدوار ہیں کہ وہ اس منزل پر فائز المرا ہونے میں ہماری دست گیری فرمائے جس منزل سے ہم دور پڑے ہوئے ہیں۔ بحکم قرآن۔ دعا و استعانت واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان فلیستجیبوا لی ولیو منوا بی لعلھم یرشدون (۲:۱۸۶) ’’اور (اے پیغمبر ؐ) جب میرا کوئی بندہ میری نسبت تم سے دریافت کرے (کہ کیونکر مجھ تک پہنچ سکتاہے) تو تم اسے بتلا دو کہ میں تو اس کے پاس ہوں۔ وہ جب پکارتا ہے تو اس می اس کی پکار سنتا ہے اور اسے قبول کرتا ہوں پس (اگر وہ واقعی میری طلب رکھتے ہیں تو) چاہیے کہ میری پکار کاجواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ حصول مقصد میں کامیاب ہوں‘‘۔ وایضاً واستعینوا بالصبر والصلوۃ وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین الذین یظنون انھم ملقوا ربھم وانھم الیہ راجعون( ۲:۴۵‘۴۶) ’’اور (دیکھو) صبر اور نماز (کی قوتوں) سے (اپنی اصلاح کر لو) مددلو لیکن نماز ایک ایسا فعل ہے (جو انسان کی راحت طلب طبیعت پر) بہت ہی کٹھن گزرتاہے البتہ جن لوگوں کے دل اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار سے ملنا اور بالآخر اس کے حضور لوٹنا ہے تو اس پر یہ عمل کٹھن نہیں‘‘۔ نماز نما ز جو تعلق باللہ کا دوسرا نام ہے اور مدد ونصرت کی طلب و جستجو سے تعبیر ہے خالی رکوع و سجود اور تلاوت و تکبیر کو نہیں کہتے۔ بلکہ اس کیفیت کو کہتے ہیں خہ جس سے دل میں ایمان ابھرے تقدیس و احترام کے جذبات پیدا ہوں اور عقل و خرد کو اس کی طرف پرواز کے مواقع میسر ہوں۔ لیس البر ن تولو وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر والملئکۃ والکتاب والنبین واتی المال علی حبہ ذوی القربی والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل والسائلین وفی الرقاب واقام الصلوۃ واتی الذکوۃ والموفون بعھدھم اذ ا عاھدوا والصابرین فی الباساء والضراء وحین الباس اولئک الذین صدقوا و اولئک ھم المتقون (۲:۱۷۷) ’’نیکی اور بھلائی کی یہ را ہ نہیں کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کر لیا یا سی طرح کی کوئی دوسری بات رسم ریت کر لی۔ نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر آخر ت کے دن پر فرشتوں پر آسمانی کتا ب پر اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ خدا کی محبت کی راہ میں اپنا مال رشتہ داروں یتیموں ‘ مسکینوں مسافروں اور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں جب قول و اقرار کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے رہتے ہیں تنگی و مصیبت کی گھڑ ی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے (اوراپنی) راہ میںثابت قدم ہوتے ہیں تو بلاشبہ ایسے ہی لوگ ہیں جو نیکی کی راہ میں سچے ہوتے ہیں اور یہی ہیں جو برائیوں سے بچنے والے مسلمان ہیں‘‘۔ صادق الایمان مومن وہ ہے جو حضور قلب کے ساتھ نماز ادا کرے اور خدا کو اپنے تقویٰ پر گواہ سمجھتے ہوئے وظائف زندگی ادا کرنے کے لیے اس کی اعانت کا طلب گار ہو۔ اسی ذات سے ہدایت کی استعمداد اور خود کے اسرار کائنات پر مطلع ہونے کی التجا کرے اور خدائے برتر پر اس کا ایمان اس درجہ ہو کہ ادائے صلوۃ کے دوران میں خود کو خدائے برتر و اعلیٰ کے سامنے حقیر محض سمجھے۔ جب مومن کا قلب اس درجہ تک پاک ہو جائے تو نہ صرف نماز بلکہ زندگی کے ہر وظیفہ میں خود کو ذات ذوالجلال کے سامنے حقیر و لا شے سمجھے۔ مثلاً ہم طیارہ میںپرواز کرتے کرتے فضا میں بلند ترین منطقہ میں جا پہنچے اور جب نیچے کی طر ف نگاہ دوڑائی تو سربلند پہاڑوں سینکڑوں میل میں پھیلے ہوئے دریائوں اور بڑے بڑے شہروں پر سے گزرے نقشہ پر چھوٹے چھوٹے نشان اور مدھم سے خط کھنچے ہوئے ہیں۔ سربفلک پہاڑوں کی بلندی ایک نقطہ کی طرف بڑھتی ہوئی نہریں اور دو خط کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ کرہ ارض کا نشیب و فراز ایک ہو کر رہ گئے نقطہ نظر آتاہے یا ذرا سی لکیر پھر جوں جوں طیارہ بلندی کی طرف بڑھتا جاتا ہے وہ نقطہ اوریہ خط اور بھی چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں۔ زمین جو ہزاروں لاکھوں افلاک اور ستاروں کی گودمیں پڑی ہے وہ بھی ایک موہوم نقطہ کی صورت دکھائی دینے لگی۔ ان مثالوں کے بعد حضرت انسان کو خود اپنی طر ف دیکھنا چاہیے جو ان پر شکوہ کروں‘ دریائوں اور پہاڑوں کے مقابلہ میں ذرہ برابر سے بھی کم درے پر ہے۔ خالق کائنات و مدبر ہستی جس کی عظمت و برتری اس (انسان) کے حدود خرد سے بالا تر ہے ایسی ذات گرامی کے سامنے یہ (انسان) کس قدر کم درجہ پر ہے۔ پس حضرت انسان جیسی بے مایہ شے کے لیے سزاوار ہے کہ جب وہ خدا کے حضور وظیفہ نماز کے لیے حاضر ہو تو اپنی قوت و ہدایت کے لیے اس بالا و برتر ذات سے امداد کا طلب گار رہے۔ انسان کو یہ نکتہ کبھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ وہ خدائے عز و ج کے سامنے حقیر محض ہے اور اس تصغیر کی تلافی نہ تو مال و ذر سے ہو سکتی ہے اور نہ اس کا منصب و جاہ یہ کمی پوری کر سکتے ہیں۔ البتہ ایمان خالص اور خضوع الی اللہ جن کے یمین ویسار میں نیکی وتقویٰ دونوں ہوں۔ ایسا ایمان انسان کی طبعی بے چارگی اور بے مائیگی کامداوا کر سکتا ہے۔ یورپ کا قانون جو گزشتہ آخری صدیوں میں منضبط ہو مساوات اسلامی کے مقابلہ میں کس درجہ گھٹیا قانون ہے حتیٰ کہ آج کا یورپ بھی انسانوں میں اصل مساوات ماننے سے انکار پر مائل ہے اور وہاں بعض اشخاص کو ابھی تک خاص مراعات دی جاتی ہیں۔ ازروئے اسلام نماز کی حالت میں جو مساوات ظاہر طور پر نظر آتی ہے اسلام میں عقیدہ کی آزادی کا مگر یورپ میں انسانی مساوات کا یہ قحط ایک دوسرے کا مال فریب اور منافقت کے ساتھ پوری دیدہ دلیری سے ہتھیا لیا جاتا ہے اور قانون ہی کی رعایت سے ایسے ذلیل انسان کو بچا لینا روا سمجھاجاتا ہے۔ اسلامی اورمغربی قانون مساوات میں یہی فرق ہے۔ نماز میں مساوات کا سبق خدا کے حضور میں یہ مساوات انسانوں کو برادری کی دعوت دے کر انہیں یہ نکتہ سمجھاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بھائی اور خالق کی عبادت میں شریک ہیں۔ جانتے ہیں کہ پرستش صرف خدائے واحد کے لیے ہے۔ یہ برادری کی ایک قسم ہے جسے قراان نے یہ دستور تلقین فرمایا ہے اور قرآن کی بدولت انہیں فکر و تدبر کی لازوال نعمت عطا ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ فکر و عمل میں اسلام سے بہتر آزادی باہمی اخوت ومساوات کوئی اور قو م پیش کر سکتی ہے۔ جس کے ماننے والے ایک ہی صف میں بارگاہ ایزدی میں صف بستہ کھڑے ہوں۔ بیک وقت خشوع و خضوع میں سرشار تکبیر ورکوع اور سجدہ میں اس طرح متوجہ کہ ایک کو دوسرے پر نہ کسی قسم کی ترجیح حاصل ہے نہ کوئی امتیاز بلکہ ان میں سے ہر ایک توبہ و استغفار سے طلب اعانت کا خواستگار خداا کے سامنے نیکی اور تقویٰ کے ماسوا جن کا کوئی وسیلہ نہیں ! ظاہر ہے کہ جب کوئی برادری اس مرحلہ پر گامزن ہوجاتی ہے تو اس کی عبادت اس کی روح و قلب کو مادی آلائشوں سے پاک کر کے ایسے لوگوں کی قسمت میں چار چادن لگا دیتی ہے۔ جس کی روشنی میں ان پر کائنات کے سربستہ را ز منکشف ہو جاتے ہیں۔ روزہ کا فلسفہ تقویٰ کے اعتبار سے تمام انسان احکام خداوندی بجا لانے میں یکساں نہیں ہو سکتے کہ ہمارے جسم مادیت کی وجہ سے ہماری روحوں پر بھاری رہے آتے ہیں۔ اگر ہم نماز میں رکوع و سجدہ اور قرات پر اکتفا کر کے دلوں کو خدا کی طرف متوجہ نہ کریں تو یہ مادی اجسام روح کر پژمردہ رکھتے ہیں اور بہیمیت انسان پر غالب آ جاتی ہے جس کے لیے ایسے اعمال ضروری ہی جو روح کو جسم پر غالب اور انسانیت کو بہیمیت پر مستولی کر سکیں۔ اسلام نے یہ صفت بیدار کرنے کے لیے ہمیں روزہ کی تلقین فرما کر اسے ہمارے مدارج میں ترقی و تقویٰ میں قوت کا سبب قرار دیا۔ یا ایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون (۲:۱۸۳) ’’مسلمانو! جس طرح ان لوگوں پر جو تم سے پہلے گزر چکے ہی روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کر دیا گیا ہے تاکہ تم میں پرہیزگاری پیداہو‘‘۔ نیکی اور تقویٰ توا م ہیں اور نیک وہی شخص ہے جو تقویٰ کی نعمت سے بہرہ مند ہے اور خدا پر روز قیامت پر فرشتوں پر آسمانی کتابوں پر اور پیغمبروںپر جس کا ایمان ہے جو آیہ سابق الذکر کے مطابق حرف بحرف گام زن ہے۔ روزہ شب میں پر خوری سے روکتا ہے اگر روزہ سے یہ مقصود ہے کہ جسمم روح پر بدستور مسلط رہ کر اس کی بہیمیت کر اور مہمیز دیتا رہے جیسا کہ طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک حوائج نفسانی سے دست کش رہنا مگر آغاز شب کے ساتھ ہی شکم سیری اور دوسری لذتوں کی بے تحاشا پرورش میں انہماک! حاشا اللہ وزہ کا یہ مقصد نہیں۔ چہ جائے کہ روزہ کے بغیر بھی ان لذتوں کی افراد فساد بد ن کا موجب ہے۔ الٰہی! یہ کیسا روزہ ہے جو انسان دن بھر کھانے پینے سے ہاتھ کھینچے ہوئے تھا جونہی آفتاب غروب ہوا ایک دن ان چیزوں پر جھپٹ پڑا جو دن میں اس نے خو دپر حرام کر دکھی تھیں۔ یہ تو اپنے خلاف خدا کو گواہ بنانے کے مترادف ہے کہ اس نے تزکیہ نفس اور انسانیت کو سربلند کرنے کے لیے خود پر کھانا پینا حرام نہیں کیا اور ایمان کو مدنظر رکھ کر روزہ دار رہنے کی بجائے ایسا فریضۃ ادا کیا کہ عقل جس کی اجازت دینے سے انکار کرتی ہے۔ اس نے دن بھر ناحق خودپر پابندی رکھی کہ دن کا نور زائل ہوتے ہی اپنی آزادی کا استعمال اس بے جگری سے شروع کر دیا کہ غروب آفتاب تک جن نعمتوں سے محروم تھا رات کا وقت آتے ہی ان چیزوں کا مسرقانہ استعمال ہونے لگا۔ ایسے شخص کی مثال اس چور کی سی ہے جو سرقہ کرنے سے اس لیے خود کو دور رکھتا ہے کہ یہ (فعل) انسانیت کے منافی ہے بلکہ قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے چور ی کا ارتکاب نہیں کرتا! روزہ کی حقیقت روزہ کی حقیقت پر اس جہت سے نظر کرنا کہ یہ صرف چند قسم کی لذتوں سے محرومی کا نام ہے سراسر غلط ہے اور بالکل بے معنی ہے۔ ایساروزہ جو محض بے سود ہے۔ بلکہ وہ تزکیہ نفس کا ایسا ذریعہ ہے کہ جسے عقل واجب سمجھتی ہے۔ روزہ دار اپنے اختیار سے خود پر لازم کر لیتا ہے کہ نفس کو ان مادی لذتوں سے دور رکھے جو اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اس وسیلہ سے خود کو بلند ترین منزلت پر پہنچا سکے۔ فرضیت روزہ سے یہی باری تعالیٰ کے مدنظر ہے جیسا کہ مذکورہ الصدر آیت (۲:۱۸۳) کے ساتھ ہی (دوسری آیت)میں فرمایا: ایا ما معدودات فمن کان منکم ریضا او علیٰ سفر فعدۃ من ایام اخر وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین فمن تطوع خیر ا فھوا خیرلہ وان تصومواخیر لکم ان کنتم تعلمون (۲:۱۸۴) ’’(یہ روزے کے ) چند گنے ہوئے دن ہیں(کوئی بڑی مدت نہیں) پھر جو کوء تم میں بیمار ہو یا سفر میں ہے تو اس کے لیے اجازت ہے کہ دوسرے دنوں میں روزے رکھ کر روزے کی گنتی پوری کر لے اور جو لوگ ایسے ہوں کہ ان کے لیے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو جیسے نہایت بوڑھا آدمی کہ نہ تو وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتاہے اور ہ یہ توقع رکھتا ہے کہ آگے چل کر قضا کر سکے گا) تو اس کے لیے روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دینا ہے۔ پھر اگر کوئی اپنی خوشی سے کچھ زیادہ کر لے (یعنی زیادہ مسکینوں کو کھلائے) تو یہ اس کے لیے مزید اجر کاموجب ہو گا لیکن اگر تم سمجھ بوجھ رکھتے ہو تو سجھ لو کہ روزہ رکھنا تمہارے لیے (ہر حال) میں بہتر ہے‘‘۔ روزہ کے اخلاقی فوائد ہم روزہ کی قوت سے آخری عزم اور حریت فکر بیش از بیش حاصل کر کے اپنی روحانی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں مگر ہمارا یہ قول غیروں کے سامنے اس لیے عجیب سا معلو م ہوتاہے کہ انہوںنے اپنے ہاںسے روحانیت کی بنیادیں کھو دکر ایک طرف پھینک دی ہیں اور مادیت قصر کے کنگرے اپنی فوجی قوت کی امداد سے آسما ن پر پہنچا رکھے ہیں۔ انسان فکر نو کے مطابق دوسروں کے مال اور نفس پر تصرف کا مستحق ہے۔ صرف اپنی ذات پر اسے اختیار ہے اگرچہ اس کا اختیار عقل اور قانون کے خلاف کیوں نہ استعما ل ہو لیکن حقیقت ایسے قانون کے خلاف رہبری کرتی ہے۔ عادت غیر متبدل شے ہے مثلاً انسان جو عادت کا بندہ بھی ہے جس (عادت) کے مطابق وہ صبح چاشت اورشام تین وقتوں میں تناول کا خوگر ہے اب اگر اس سے یہ تقاضاکیا جائے کہ صبح کاناشتا تر ک کر کے صرف چاشت اور شام پر اکتفاکر لے تو اتنا اختصار بھی وہ اپنی عادت پر پابندی عائد کرنا سمجھ بیٹھے گا۔ اسی طرح جن لوگوں کی عادت میں تمباکو نوشی اس طرح مزمن ہو چکی ہے کہ اس کے بغیر وہ ایک لمحہ بھی ضبط نہیں کر سکتے ‘ اب اگر ایسے لوگوں کو صرف دن میں تمباکو نوشی سے روکا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اپنی آزادی پر بے محل محاسبہ تصور کر یں گے۔ اسی طرح جو لوگ مقررہ اوقات میں قہوہ اور چائے یا کسی خاص قسم کے مشروب کے عادی ہو چکے ہیں اگر ایسے حضرات سے محض اوقات میں تبدیلی کاتقاضا کیا جائے تو وہ اسے اپنی آزادی پر ضرب سمجھ کر چلا اٹھیں گے۔ چہ جائے کہ محض وقتوں کی تبدیلی ان کی آزادی پر ضرب نہیں ہو سکتی‘ مگر وہ اسے بھی سلب حقوق کے بغیر کسی اور چیز سے تعبیر نہیں کر سکتے۔ ظاہر ہے کہ ہرمزمن کی عادت فکر کی سلامتی کے لیے خطرہ سے مبرا نہیں ہو سکتی اسی لیے ایسے حضرات بھی ہفتہ یا مہینہ میںایک نہایک روز اپنی ایسی عادت میں اعتدال پیدا کرنے کی کوشش جاری رکھتے ہیں۔ ان کی یہ احتیاط بھی تو ایک قسم کی روزہ داری ہی ہے مگر ا س کے مقابلہ میںاسلام کا روزہ؟ معین اوقات میں روزہ کی مصلحت خداوند عالم نے مسلمانوں پر آسانی رکھنے کی غرض سے سال بھر میں مقررہ دنوں کے روزے عائد فرما دیے ہیں جن کی پابندی غریب و امیر دونں پر لازم ہے اور ان پر قضا کے عوض ناتواں پر فدیہ مگر مسافر اور مریض کے ذمے قیا م و صحت کی حالت میں قضا واجب ہے۔ صرف متعین دنوں میں روزہ کی پابندی بدنی ریاضت سے قطع نظر باہمی اخوت کا بھی ذریعہ ہے۔ جس میں ہرادنیٰ و اعلیٰ مساویانہ حیثیت سے روحانی ریاضت کے ساتھ خداوند عالم کے حضور پیش ہوتاہے اس صورت میں ان کے اندر باہمی مساوات میں اسی قسم کا اکمال پیداہوجائے گا جیسا کہ روزہ داری سے قبل ایک دوسرے کے فرق مراتب میں تفاوت نظر آتاتھا مگر اب وہ تفریق کالعدم ہوجائے گی نمازجماعت کی مانند۔ روزہ زندگی کی مشکلات میں دلیل راہ ہے اسی طرح جب ہم اپنے اختیار سے روزہ رکھتے ہیں تو یہ امر منکشف ہو جاتاہے کہ عقل اگر اسرار زندگی کے صحیح معنی سمجھ لے تو خدا کے حکم سے روزہ رکھنا بعید از فہم نہیں اور نہ ایسا روزہ عادت یہ پر ضرب ہے۔ بلکہ وہ عادت کی پابندی سے آزادی دل اکرنہ صرف ہمارے اندر عزم واستقلال اورآزادی کی قوت عطافرماتاہے بلکہ اعتراف کرنا پڑتاہے کہ اگر انسان روحانی کمالات حاصل کرنے کی غرض سے اپنے اختیار کو اپنی کسی عادت کے خلاف استعمال کرے تو اس سے اس کی قوت فکر میں ایسی استقامت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس سے ایمان کی طویل منزلیں آسانی سے طے کر سکتاہے۔ تقلیدی روزہ بے معنی ہے اور جیسا کہ محض تقلیدی ایمان کافی نہیں ہے ایسے ایمان سے بہرہ مندی اس شخص کے مسلمان ہونے کے لیے تو کافی ہے مگر یہ شخص مومن کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی صورت ہے تقلیدی روزہ کی ہے جس کا رکھنے والا یہ گرہ لگائے بیٹھا ہے کہ روزہ اس کے اکل و شرب کی آزادی پر پہرہ ہے ۔ ایسا روزہ دار اس کیف و سرور سے محروم ہے کہ روزہ تو انسان کو عادت کی قید سے آزاد کر کے اس کی روح کو قوی اور طاقت وربنا دیتاہے۔ اور زکوۃ و صدقہ جب انسان روحانی قوت کی وجہ سے اسرار کائنات کے قریب پہنچ جاتا ہے تو اس پر بنی نوع انسان کی منزلت واضح ہو جاتی ہے۔ کہ ہم سب ایک ہی وجود کے مختلف مظاہرات ہیں۔ تب وہ دوسرے انسان کے ساتھ محبت کرنے کے لیے بے تاب ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں احساس ابھر آتا ہے کہ ہم میںسے ہر شخص کو اپنے بھائی کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ طاقتور کو ناتواں پر رحم اور تونگر کو نادار کی مالی اعانت کرنا چاہیے۔ پس یہ امداداگر مقررہ حد (نصاب) تک ہے تو زکوۃ اور اگر اس حد سے زیاد ہ ہے تو صدقہ ہے۔ نماز کی طرح زکوۃ بھی عبادت میں داخل ہے قرآن مجید میں کئی مقامات پر یکجا زکوۃ و نماز کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ قارئین آیہ ذی کا مطالعہ فرما چکے ہیں: لیس البر ان تولواوجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من امن باللہ والیوم الاخر والملئکتہ والکتاب والنبین واتی المال علی جبہ ذوی القربی والیتامی والمسکین وابن السبیل والسائلین وفی الرکاب واقام الصلوۃ واتی الذکوۃ (۲:۱۷۷) ’’نیکی اور بھلائی (کی راہ ) یہ نہیں کہ تم نے (عبادت کے وقت) اپنا منہ پورب کی طرف پھیر لیا یا پچھم کی طرف کر لیا (یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات رسم ریت کر لی ) نیکی کی راہ تو ان لوگوں کی راہ ہے جو اللہ پر آخرت کے دن پر ‘فرشتوں پر‘ آسمانی کتابوں پر‘ اور خدا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں خدا کی محبت کی راہ میں اپنامال رشتہ داروں یتیموں‘ مسکینوں‘ مسافروںاور سائلوں کو دیتے ہیں اور غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں‘‘۔ ایضاً واقیمو الصلوۃ واتواالزکوۃ وارکعوا مع الرکعین (۴۳۲) ’’اور نماز ادا کرو(جس کی حقیقت تم نے کھو دی) زکوۃ ادا کرو(جس کاتم میں اخلاص باقی نہ رہا) اور جب اللہ کے حضور جھکنے والے جھکیں تو ان کیساتھ تم بھی سر نیاز جھکا دو‘‘۔ وایضاً قد افلح المومنون الذین ھم فی صلاتھم خاشعون والذین ھم عن اللغو معرضون والذین ھم للزکوۃ فاعلون (۲۳:۱تا۴) ’’ایمان والے (اپنی) مراد کو پہنچ گئے اور وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز میں عاجزی کرتے اور وہ نکمی باتوں کی طرف رخ نہیں کرتے اور جو زکوۃ دیا کرتے ہیں‘‘۔ صدقہ ایمان کا ہم پلہ ہے قرآن مجید ان دونوں (زکوۃ و صدقہ) کا حکم بار بار ارشادفرماتاہے جس میں کہیں صدقہ کو نیک اور مفید امور میں ثواب کامل کاوسیلہ قرار دیا ہے اور کہیں اسے ایما ن کا ہم پلہ ٹھہرایا ہے مثلاًَ: خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوۃ ثم فی سلسلۃ ذرعھا سبعون ذراعا فاسلکوہ انہ کان لا یومن باللہ العظیم ولا یحض علی طعام المسکین (۶۹:۳۰…۳۴) ’’پھرہم اس کی نسبت حکم دیں گے کہ اس کو پکڑو اوراس کے گلے میں طوق ڈالو پھر (کشاں کشاں لے جا کر) اس کو جہنم میں دھکیل دو۔ پھرزنجیر سے جس کی ناپ گزوں میں ستر گز ہو گی اس کو خوب جکڑو(کیونکہ) یہ خدائے بزرگ پر ایمان نہیںلایا تھا اور (آپ کھانا تو درکنار اوروں کوبھی) مسکینوں کے کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا‘‘۔ ایک اور مقام میں: وبشر المخبتین الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم والصابرین علی ما اصابھم والمقیمی الصلوۃ و مما رزقنا ھم ینفقون (۲۲:۳۴۔۔۳۵) ’’اے پیغمبر! عاجزی کرنے والے بندوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو( جوایسے نیک ہیں) کہ جب خدا کانام لیا جاتا ہے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں اور جو مصیبت ان پر آ پڑے اس پر صبر کرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں۔ اور جو ہم نے ان کو دے رکھا ہے ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرتے ہیں‘‘۔ اور تیسری جگہ: صدقہ ہر عقیدہ و عمل سے برتر ہے الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھار سرا و علانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون( ۲:۲۷۴) ’’جو لوگ دن اور رات چھپے اور ظاہر اپنے مال( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں تو ان کو دیے کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں سے ملے گا اور (قیامت میں) ان پر نہ (تو کسی قسم کا) خوف (طاری) ہو ا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے‘‘۔ اور قرآن مجید نے صدقہ کا تذکرہ محض ایمان باللہ یا صرف نماز کے اجر و ثواب کا ہم پلہ ہی قرار نہیں دیا بکلہ اس صدقہ کی مدح میں ایسا عجیب پیرای اختیار فرمایا کہ گویا صدقہ اور عمل سے برتر و اعلیٰ ہے۔ ان تبدوا الصدقات فنعما ھی وان تخفوھا وتوتوھا الفقراء فھوا خیر لکم (۲:۲۷۱) ’’ اگر خیرات ظاہر میں دو تو وہ بھی اچھا ہے کہ ا س سے خیرات کے علاوہ دوسروں کو بھی ترغیب ہوتی ہے اوراگر اس کو چھپائو اور حاجت مندوں کو دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے (کہ اس میں نام و نمود کا دخل نہیں ہونے پاتا)‘‘۔ اور یہ کہ قول معروف ومغفرۃ خیر من صدقۃ یتبعھا اذی واللہ غنی حلیم (۲:۲۶۳) ’’نرمی سے جواب دے دینا اور (سائل کے اصرار سے) درگزر کرنا اس خیرت سے بہت بہتر ہے جس کے دیے پیچھے سائل کو کسی طرح کی ایذا ہو اور اللہ بے نیاز اور بردبار ہے‘‘۔ یا ایھا الذین آمنوا لا تبطلو ا صدقاتکم بالمن والاذی کالذی ینفق مالہ رئاہ الناس (۲:۲۶۴) ’’مسلمانو! اپنی خیرات کا احسان جتانے اور (سائل کو) ایذا دینے سے اس شخص کی طرح اکارت مت کرو جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے پر خرچ کرتا ہے‘‘۔ مستحقین صدقہ انما الصدقات للفقراء والمساکین والعلمین علیھا والمو لفۃ قلوبھم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللہ وابن السبیل فریضۃ من اللہ واللہ علیم حکیم (۹:۶۰) ’’خیرات (کا مال) تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا اور ان کارکنوں کا جو مال خیرات (کے وصول کرنے) پر تعینات ہیں اور ان لوگوں کا جن کے دلو ں کا پرچانا منظورہے۔ ان مصارف میں مال خیرت یعنی زکوۃ کو خر چ کیا جائے اور نیز قید غلامی سے غلاموں کی گردنوںکے چھڑانے میں اور قرض داروں کے قرضے میں! نیز خدا کی راہ یعنی مجاہدین کے ساز و سامان میں اور مسافروں کے زاد راہ میں ۔ یہ حقوق اللہ کے ٹھہرائے ہوئے ہیں اوراللہ جاننے والا اور صاحب تدبیر ہے‘‘۔ زکوۃ اور صدقہ فرائض اسلا م میں سے ایک فریضہ اور دین کا رکن ہے یہ سوال کہ وہ اجزائے عبادت میں سے ہے یا محض اخلاق و تہذیب کا مظاہرہ حاشاء اللہ زکوۃ و صدقہ بھی عبادات ہیں اور اس لیے عبادت ہیں کہ تما م مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور مومن کا ایمان اس وقت کامل ہوتاہے کہ جب اسے دوسرے بھائی کے لیے بھی وہی گوارا ہو جسے اپنے لیے پسند کرتا ہے کیونکہ مون اللہ کے نور کی روشنی میں انپے بھائی کے ساتھ محبت کا دیوانہ ے اور فریضہ صدقہ و زکوۃ اس اخوت کو اور قریب کرن کا وہ ذریعہ ہے جو صرف اخلاق اور معاملہ بندی سے مربوط نہیں رہ سکتا اور ایان کا اس عمل سے کامل ہو سکتا ہے جو باہمی اخوت کو مستحکم کرے اور جو ایمان باللہ کی تکمیل کا باعث ہو وہ عبادت ہے۔یہی عمل ہے جس کی بنا پر زکوۃ کو اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا گیا ہے۔ خلیفہ رسول حضرت ابوبکر ؓ نے زکوۃ کو ایمان کا جزو قرار دیا اور یہی سبب ہے کہ خلیفہ رسول جناب ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں سے زکوۃ کا مطالبہ فرمایا تو بعض لوگوں نے انکار پر خلیفہ محمد ؐ نے اس انکار کو ان کے ضعف ایمان پر محمول کرتے ہوئے سمجھ اکہ یہ جو لوگ مال کو ایمان پر ترجیح دے کر اس بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں جو قرآن کے روحانی نظام سے ارتداد ہے ۔ اور حضرت ابوبکرؓ نے ایسے لوگوں کو مرتد قرار دے کر ان کے ساتھ جنگیں کیں جو حروب الردہ کے نام سے مشہور ہیں اور خلیفہ رسول ؐ اپنے اس کردار کی بدولت اسلام کی وحدت کو از سر نو مربوط کرنے میںکامیاب ہو گئے۔ صدقہ کی اہمیت اسلام نے سدقہ اور زکوۃ کو جس جلی عنوان کے ساتھ ایمان کا جزو قرار دیا ہے وہ اپنی ذات میں یہ صلاحیت لیے ہوئے ہے کہ اگر متمدن اقوام اس پر عمل یپرا ہوں تو بنی نوع بشر کے بہبود کا ایک فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کرسکتی ہیں۔ بخلاف اس کے مال و زر کو خزانوں میں جمع رکھنے اور دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے کی تگ و دو می لگے رہنے کاثمرہ نہ صرف عوام کی مذلت بلکہ خونریز لڑائیوں کا منبع ہے۔ جو مادہ پرستی کی نحوست کے سوا اورکوئی نتیجہ نہیں رکھتا۔ اسی کی بدولت اخوت جیسی نعمت بیکراں سے منہ موڑ کر دوسرے بھائی کی دشمنی پر کمر باندھ لی جاتی ہے۔ اگر مادہ پرست اغور کریں تو انہٰں اخوت انسای کے سامنے مادیت سے دستبردار ہونے کے بغیر چارہ نہیں رہ سکتا۔ وہ اس مقام پر فائز ہو کر محتاجوں کی دست گیری سے خالق و مخلو ق دونوں کی نظر میں ایسے محبوب بن سکتے ہیں جن کے سامے دولت کے انبار حقیر معلوم ہوں گے کاش! اہل دول خدا پر ایمان لا کر انسانی برادری کا طبعی حق ادا کرسکیں جس کا اولین مظاہرہ محتاجوں کوافلاس سے بچاکر اور مظلوم کی چیرہ دستیوں کی زد سے ہٹا کر اس کی حرمت بحال کرنا ہے جیسا کہ دور حاضر ہ میں خیراتی شفا خانے اور امدادی ادارے کام کر رہے ہیں جن سے انسانی زندگی کا تحفظ اور مفلوک الحال طبقہ کی اعانت مقصود ہے۔ یہی کام اگر برادری اورتشکر نعمت کی صورت میں کیے جائیں تو انسان کو گونہ سکون حاصل ہو وار اس کا یہ فعل کہیں بلند اور اونچا سمجھا جائے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے۔ وابتغ فیما اتاک اللہ الدار الاخرۃ والا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کما احسن اللہ الیک ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللہ لا یحب المفسدین (۲۸:۷۷) ’’اور یہ جو( ساز و سامان دینا) تجھ کو خدا نے دے رکھا ہے اس میں (سے کچھ آخرت) کے گھر کا بھی فکر کرتا رہ اور دنیا سے جو تیرا حصہ ہے اسے فراموش نہ کر اور جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو(کیونکہ اللہ مفسدوںکو پسند نہیں کرتا)‘‘۔ حج اسی قسم کی برادری بنی آدم میں محبت کا رشتہ مربوط کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ اسلام نے برادری کو مستحکم اور برقرار رکھنے کے لیے نہ تو وطنیت کو درخود اعتنا سمجھا اور نہ محبت و اخوت کے تقاضوں کو کسی ملک یا کسی قطعہ زمین میں منحصر جانا۔ اسلام میں محبت حدود نا آشنا ہے۔ چنانچہ اسلامی تعلیم کے مطابق محبت کا دائرہ تما م ربع مسکوں کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے تاکہ خدا کی رضا جوئی کے جذبہ میں ہر شخص دوسرے کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائے ۔ ایسی محبت ایمان باللہ میں ازدیاد کا ذریعہ ہے اوریہی محبت انسانوں کو دور دراز سے کھینچ کر ایک ایسے میدان میں جمع کرنے پر قادر ہے جو اجتماع کے لیے بے مثل مقام ہے اور جس میں محبت باہمی کا فوارہ ابل رہا ہے۔ یہ بیت اللہ ہے مکہ معظمہ میں اور مومنوں کا یہ اجتماع حج سے موسوم ہے جس حج کے لیے ہر مومن کی زندگی میں ایک مرتبہ شدر الرحال واجب ہے۔ اس یلے کہ شعائر حج ادا کرنے سے ایمان باللہ میں مزید استقامت پیدا ہوکر انسانی برادری کی قدر ومنزلت میں ترقی ہوتی ہے۔ الحج اشھر معلومات فمن عرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج وما تفعلوا من خیر یعلمہ اللہ و تزودو افان خیر الزاد التقویٰ وتقون یا ولی الالباب (۲:۱۹۷) ’’حج (کی تیاری) ک مہینے میں عام طور پر معلوم ہیں۔ پس جس کسی نے ان مہینوں میں حج ادا کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا تو وہ حج کی حالت میں ہو گیا اور حج کی حالت میں نہ تو عورتوں کی طرف رغبت کرنا ہے نہ گناہ کی کوئی بات کرنا ہے اورنہ لڑائی جھگڑا اور (یاد رکھو) تم نیک عملی کی باتوں میں سے جو کچھ بھی کرتے ہو اللہ کے علم سے پوشیدہ نہیں رہتا۔ پس(حج کرو تو اس کے )سروسامان کی تیاری بھی کرو اور سب سے بہتر سروسامان (دل کا سروساما ن ہے اور وہ) تقویٰ ہے‘‘۔ حج سے برادری کا رشتہ استوار ہوتا ہے یہاں مومنین حج کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے تعارف سے برادری اور مواخات کا رشتہ اور استوار ہوتاہے۔ ایمان میں مزید استقامت حاصل ہو کر فرق مراتب ختم ہو جاتا ہے (اور یوں بھی مومنین میںیہ فرق نہیں) اس سرزمین میں پہنچ کر حان میں یہ احساس اور شدت سے بیدا رہو جاتا ہے کہ خدا کے سامنے ہر ایک مومن کا درجہ یکساں ہے اوریہ کہ انہیں خدا کی دعوت کو صدق دل سے قبول کرنا چاہیے اوریہ ایمان! کہ اس کی وحدانیت پر اور زیادہ متوجہ رہیں اور یہ کہ اس کی نعمتوں پر شکر مزید ادا کریں ‘ جن میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے جو تمام نیکیوں اور نعمتوںکا مصدر ہے جس کی روشنی میں تمام اوہام شکست خوردہ ہو کر چھٹ جاتے ہیں جس ایمان کے سامنے مال اولاد اور جاہ و منصب زوال پذیر تصورات کی مانند نظر آتے ہیںکیونکہ ایمان ہی کی روشنی میں حقیقت ‘ نیکی اور جمال کا صحیح ادراک ہو سکتا ہے اور کائنات کے غیر متبدل اسرار کے پرتو سے مجلی نظر آنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرزمین مکہ میں حج کے موقعہ پر مومنین کے دل میں اخوت کا وقار اور زیادہ ہوجاتاہے۔ اسلام کے یہ اصول و فرائض حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل ہوئے۔ یہی اصول ایمان کے ارکان ہیںجن کا تذکرہ مذکورہ الصدر آیتوں میں گزر چکا ہے۔ اور یہی اصول اسلامی زندگی کی اساس ہیں جن کے بعد ان اخلاقی قوانین کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن کی بنیاد ایمان ہی ہے جو (اخلاق) ایمان کے شجر میں پھل اور پھول کی شکل میں نمودار ہوئے اور جن کا رنگ و بو دنیا کے کسی متمدن قوم کے ہاں دیکھنے میں نہیں آیا۔ قرآن نے اخلاقی رواداری کا جو خاکہ پیش کیا ہے ااس پر عمل پیرا ہونے سے انسانیت کا اعلیٰ ترین درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔ یہ اصول قرآن کی ایک ہی سورۃ میں نہیں بلکہ متعد د حصوں میں ہیں۔ آپ دنیا کی متمدن سے متمدن قوم کے ہاں اس کا بدل نہ پا سکیں گے۔ بشرطیکہ آپ کے مدنظر یہ ہو کہ جو کردار ایمان باللہ اور تزکیہ نفس و تعقل کی بدولت حاصل ہو اورجس (اخلاق) سے مادی منفعت مقصود نہ ہو وہ اخلاق انسان کو کس بلندی پر پہنچا سکتا ہے۔ قرآنی اخلاق اہل قلم نے مختلف زمانوں میں انسانی اخلاق کا نمونہ تحریر کیا یہ اور شعراء و فلاسفہ نے عہد قدیم کے انسان کامل کی تصویر کھینچی ہے۔ ان کی یہ مشق صفحہ قرطاس پر مسلسل جاری ہے مگر ایسی غیر منقطع مشق کے باوجود کسی قوم کا ایسانمونہ پیش نہیںکیا گیا جو اپنے خدوخال کی رعنائی میں اس قدر جاذب ہو جیسا کہ قرآن کی سورۃ اسراء (بنی اسرائیل) میں مذکور ہے یہ نمونہ اس حکمت بالغہ کا کرشمہ ہے جو خدا نے وحی کے ذریعے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتاری اور جو کسی گزرے ہوئے دور میں انسان کامل کی حکایت نہیںبلکہ بنی آدم کو اس کے وظیفہ سے آگاہ کرنا مقصود ہے ۔ (فرمایا) (۱) وقضی ربک الا تعبدو ا الا ایاہ (۱۷:۲۳) ’’اور تمہارے پروردگار نے قطعی حکم دے دیاہے کہ (لوگو!) اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا‘‘۔ (۲) وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدھما اوکلھما فلا تقل لھما اف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ وقل رب ارحمھما کما ربنی صغیرا ربکم اعلم بما فی نفوسکم ان تکونوا صالحین فانہ کان للاوابین غفورا (۱۷:۲۳۔۲۵) ’’اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ (اے مخاطب) اگر والدین میں کا ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچیں تو ان کے سامنے انگلی (بہ تصرف مترجم) نہ اٹھانا اورنہ ان کو جھڑکنا اور ان سے (کچھ) کہنا(سننا) ہو تو ادب کے ساتھ کہنا (سننا) اور محبت سے خاکساری کا پہلو ان کے آگے جھکائے رکھنا اور (ان کے حق میں )دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ! جس طرح انہوںنے مجھے چھوٹے سے کو پالا ہے (اور میرے حال پر رح کرتے رہے ہیں)اسی طرح تو بھی ان پر (اپنا ) رحم کیجیو (لوگو!) تمہارے دل کی بات کو تمہار ا پروردگار خوب جانتاہے۔ اگر تم (حقیقت میں)سعادت مند ہو (اور تم سے ماں باپ کے حق میں بھولے سے بھی کوئی فروگزاشت ہو گئی ہو ) تو وہ تم کو معاف کر دے گا چونکہ وہ توبہ کرنے والوں کی خطائوں کو بخشنے والا ہے‘‘۔ (۳) وات ذالقربی حقہ واالمسکین وابن السبیل (۱۷:۲۶) ’’اور رشتہ دار اور غریب اور مسافر (ہر ایک ) کو اس کا حق پہنچاتے رہو‘‘۔ (۴) ولا تبذر تبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربہ کفورا واما تعرضن عنھم ابتغاء رحمتہ من ربک ترجوھا فقل لھم قولا میسورا( ۱۷:۲۶تا ۲۸) ’’اور(دولت کو ) بے جا مت اڑائو(کیونکہ) دولت کے بے جا اڑانے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی ناشکرا ہے اور اگر تم کو اپنے پروردگار کے فضل کے انتظار میں جس کی تم کوتوقع ہو (بہ مجبوری) ان (غربا) سے منہ پھیرنا پڑے تو نرمی سے ا ن کو سمجھا دو‘‘۔ ())۵) ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما محسورا ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر انہ کان بعبادہ خبیرا بصیرا (۱۷: ۲۹۔۳۰) ’’ اور اپنا ہاتھ نہ تو اتنا سکیڑو کہ (گویا) گردن میں بندھا ہے اور نہ اس کو بالکل ہی پھیلا دو (ایسا کرو گے ) تو تم ایسے ہی بیٹھے رہ جائو گے اورلوگ تم کو ملامت کریں گے (اور ) تم تہی دست ہو گے۔ (اے پیغمبرؐ) تمہارا پروردگار جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کر دیتاہے اور جس کی روزی چاہتا ہے نپی تلی کر دیتا ہے (اور) وہ اپنے بندوں (کے حال) سے باخبر (اور ان کی ضرورتو ں کا ) دیکھنے والا ہے‘‘۔ (۶) ولا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقھم و ایاکم ان قتلھم کان خطا کبیرا (۱۷:۳۱) ’’اور (لوگو!) افلاس کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ان کو اور تم کو ہم ہی روزی دیتے ہیں۔ اولادکا جان سے مارنا بڑا بھاری گناہ ہے‘‘۔ (۷) ولا تقربوا الزنیٰ انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا (۱۷:۳۲) ’’اور زنا کے پاس ( ہو کر بھی ) نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا چلن ہے‘‘۔ (۸) ولا تقتلو النفس التی حرم اللہ الا بالحق ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ کان منصورا (۱۷:۳۳) ’’اور کسی کی جان کو جس کا مارنا اللہ نے حرام کر دیا ہے ناحق قتل نہ کرنا ور جو شخص ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے والی (وارث) کو(قاتل سے) قصاص لینے کا اختیار دیا ہے تواس کاچاہیے کہ خون (کا بدلہ لینے میں زیادتی نہ کرے) کیونکہ (واجبی بدلہ لینے میں بھی) اس کی جیت ہے‘‘۔ (۹) ولاتقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن حتی یبلغ اشدہ (۱۷:۳۴) ’’اور جب تک یتیم اپنی جوانی کو نہ پہنچ لے اس کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسی طرح پر کہ (یتیم کے حق میں بہتر ہو) ‘‘۔ (۱۰) واوفو ا بالعھد ان العھد کان مسئولا (۱۷:۳۴) ’’اور عہد پورا کیا کرو کیونکہ قیامت میں عہد کی باز پرس ہو گی‘‘۔ (۱۱) واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالاسطاس المستقیم ذالک خیر وا حسن تاویلا (۱۷:۳۵) ’’ اور جب ناپ کر د و تو پیمانے کو پورا بھر دیا کرو اور (تول سے دینا ہو تو) ڈنڈی سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ (معاملے کا ) یہ بہتر (طریق ) ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے‘‘۔ (۱۲) ولا ققف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر و الفواد کل اولائک کان عنہ مسئولا (۱۷:۳۵) ’’اور (اے مخاطب) جس بات کا تجھے علم (یقینی) نہیں (اٹکل پچو) اس کے پیچھے نہ ہو لیا کر کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہو تی ہے‘‘۔ (۱۳) ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا کل ذالک کان سیئہ عند بک مکروھا (۱۷:۳۷۔۳۸) ’’اور زمین پر اکڑ کر نہ چلا کر کیوںکہ اس دھماکے کے ساتھ چلنے سے تو زمین کو پھاڑ نہیں سکے گا۔ اور نہ (تن کر چلنے سے )پہاڑوں کی لمبائی کو پہنچ سکے گا۔ ان سب باتوں میں جو بری ہیں سب ہی تو تمہارے پروردگار کے نزدیک ناپسند ہیں‘‘۔ حسنات کی تلقین و فصاحت بیان کیا انسان کے لیے اس سے بہتر ارتقاء و کمال اور تزکیہ نفس کا درس ممکن ہے؟ ان آیتوں میں شوکت الفاظ و فصاحت بیان و غوامض معانی اور اعجاز تعبیر سب کے سب کس قدر مربوط ہیں کہ پڑھنے والے ان کی تقدیس و تعظیم کے لیے بے اختیار لبیک پکار اٹھیں! بلکہ قرآ ن نے روحانی اور اخلاقی تربیت کے لے جو اشارہ فرمایا ہے اگر اسکے ایک کرشمہ کی توضیح بھی کی جائے تو حکایت طویل ہوجائے گی اور کتاب (زیر تسوید) کا خاتمہ جس نہج پر لکھا جا رہا ہے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اسی قدر کافی ہے کہ قرآن کے سوا کوئی اور کتاب انسان کو ایسی نیکی اور شرافت کی ترغیب دیتی ہے اورنہ کوئی دوسرا صحیفہ انسان کے لیے دوسروں کے ساتھ ساتھ حسن سلوک رحم و کرم مواخات و مودت باہمی تعاون و رفاقت صدقہ و خیرات وفا کیشی و ادائے امانت خلوص دل اور صدق لہجہ عدل و عفو‘ صبو و استقامت‘ تواضع و انکسار‘ ہمدردی اور شفقت باہم‘ امر معروف و نہی عن المنکر کی تلقین اس پیرایہ و اعجاز کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ سیئات سے تنبیہ اور اسی طرح نہ کوئی اور صحیفہ اسے (انسان کو) جبن و نامردی‘ خوف و حسد‘ بغض و ظلم‘ ایک دوسرے پر ظل م و ستم‘ کذب و چغلی‘ اسراف و بخل‘ بہتان و غیبت‘ بدامنی و فساد‘ بے وفائی و خیانت‘ الغرض ہر قسم کے اخلاق ذمیمہ و منکرات سے قرآن کی مانند ہی کرتااہے پھر انداز بیان کی یہ ندرت! یہ اس وحی الٰہی کا صدقہ ہے جو نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ قرآن میں سے کسی سورۃ کامطالعہ کیجیے نیکی اور امر بالمعروف کی تلقین اور نہی منکرات پر مختلف پیرایوں میں تنبیہ اور کمالات کی جانب ترغیب دیکھنے میں آئے گی جن سے روح از خود کمال و رفعت کی طرف پرواز کرے گی مثلاً آیہ ذیل میں برائی کے عوض بھلائی ادفع بالتی ھی احسن السیئۃ نحن اعلم بما یصفون (۲۳:۹۶) ’’اے پیغمبر ؐ (اگر کوئی تمہارے ساتھ بدی کرے تو) بدی کا دفعیہ ایسے برتائو سے کرو کہ وہ دیکھنے میں بہت ہی اچھا ہو‘‘۔ ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذالذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی خمیم (۴۱:۳۴) ’’اورا (اے پیغمبرؐ) نیکی اور بدی کے برابر نہیں ہو سکتی۔ برائی کا دفیعہ ایسے برتائو سے کرو کہ وہ دیکھنے والوں کی نظر میں بہت ہی اچھا ہو اگر ایسا کرو گے تو (تم دیکھ لو گے کہ) تم میں اور جس شخص میں عداوت تھی تو اب ایک دم سے وہ تمہارا گویا دل سوز دوست ہے‘‘۔ یہ بھی فراموش نہ کیجیے کہ قرآن کی طرف سے جس عفو کی تلقین ہو رہی ہے وہ (عفو) کسی ضعف وکمزوری کا نتیجہ نہیں بلکہ احسان و مروت کی وجہ سے انسان کو دنائت سے بچانے کے لیے ہدایت فرمائی جا رہی ہے۔ (۱) واذا حییتم بتحیۃ باحسن منھا اوردوھا (۴:۸۶) ’’اور (مسلمانو! ) جب تم کو کسی طرح پر سلا م کیا جائے تو (اس کے جواب میں ) اس سے بہتر (طور پر ) سلام دیا کرو یا (کم سے کم) ویساہی جواب دو‘‘۔ (۲) وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صربتم لھو خیر للصابرین (۱۶:۱۲۶) ’’اور مسلمانو ! دین کی بحث میں مخالفین کے ساتھ سختی بھی کرو تو ویسی ہی کرو کہ جیسی تمہارے ساتھ کی گئی ہو اور اگر (لوگوں کو ایذائوں پر) صبر کرو تو بہرحال صبر کے حق میں صبر بہتر ہے‘‘۔ ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ایک دوسرے کے مظالم و چیرہ دستی سے چشم پوشی کر لینا جبن یا نارسائی کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان کو اس کے اس علو کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے جس فطرت نے اس کے خمیر میں سودیا تھا۔ قرآن نے جس شرف و بزرگی کی تلقین فرمائی اس کی اصل اسلام کے اس پیش کردہ تمدن سے مربوط ہے جو مسلمانوں کو ایک برادری کے رشتہ میںمنسلک کرنا چاہتی ہے۔ اور جس رشتہ نے مشرق اور مغرب دونوں کو مربوط کر رکھا ہے۔ اخوت و برادری میں جو عدل و رحمت پر مبنی ہے جہاں ضعف و ناتوانی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس برادری سے مقصد صداقت و بھلائی اور تفضیل میں مساوات کے سوا کوئی اور پہلو نظر نہیں آتا۔ اس اخوت کے سامنے مستعجل منافع ناقابل قبول ہیں۔ اس معاشرہ کے تمام منسلکین ممدوح ہیں۔ دوسروں کو خود پر ترجیح آیہ یوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ (۵۹:۹) صرف خدا کا خوف آیہ ویخشونہ ولا یخشون احدا الا اللہ (۳۳:۳۹) ایفائے عہد آیہ والموفون بعھدھم اذا عھدوا ؎۳ (۲:۱۷۷) تکالیف میں ضبط آیہ والصابرین فی الباساء والضراء و حین الباس ؎۴ آیہ الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالو انا للہ وانا الیہ راجعون ؎۵ (۲:۱۵۶) ۱؎ اپنے اوپر تنگی ہی کیوں نہ ہو (مہاجرین ) بھائیوں کو اپنے سے مقدم رکھتے ہیں۔ ۲؎ اور خوف خدا رکھتے تھے اور خدا کے سوا سے نہیں ڈرتے تھے۔ ۳؎ اپنی بات کے پکے ہوتے ہیں۔ جب قول و اقرار کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے رہتے ہیں۔ ۴؎ تنگی و مصیبت کی گھڑی ہو یا خوف و ہراس کا وقت ہر حال میں صبر کرنے والے اور اپنی راہ میں ثابت قدم ہوتے ہیں۔ ۵؎ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی کوئی مصیبت ان پر آن پڑتی ہے تو ان کی زبان پر یہ صدا ہوتی ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون (ہماری زندگی اورموت رنج و غم جو کچھ بھی ہے سب اللہ ہی کے لیے اور ہم سب کو بالآخر مرنا اور اسی کی طرف لوٹناہے) گفتگو میں لہجہ کا انداز جو آیہ ولا تصعر خدک للناس ؎۱ کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں۔ بخل سے اجتناب آیہ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون ؎۲ (۵۹:۹) انہی کے حق میں وارد ہے۔ فحش باتوں سے پرہیز جو یہ آیہ ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین امنوا لھم عذاب الیم فی الدنیا والاخرۃ (؎۳ الخ (۲۴:۱۹) کے مطابق ایسے مومن ہیں کہ اس فاحش سے اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ کبائر سے اجتناب اور آیہ والذین یجتنبون کبرالاثم والفوا حش واذا ما غضبوا ھم یغفرون ؎۴(۴۲:۳۷) کے مطابق نہ صرف فحش باتوں سے بلکہ دوسرے دوسرے کبائر سے بھی اپنا دامن بچائے رکھتے ہیں۔ عفو و ترحم اور آیہ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس (۳:۱۳۴) نے انہیں اپنے سایہ عفو و رحمت میں لے رکھا ہے۔ ناحق بدظنی اورجو آیہ اجتنبوا کثیرا من اظن ان بعض الظن اثم ولا تجسسوا ولا یغتب بعضکم بفصا ایحب احدکم ان یاکل لحم اخیہ میتا فکر ھتموہ ؎۵ (۴۹:۱۲) کے مطابق نہ تو ایک دوسرے پر ناحق بدگمان ہوتے ہیں اورنہ ایک دوسرے مسلمان کے اندرون خانہ کی جستجو ان کا شیوہ ہے۔ ۱؎ اور لوگوں سے بے رخی نہ کرو۔ ۲؎ اور بخل تو سب ہی کی طبیعتوں میں ہوتا ہے مگرجو شخص اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا جائے تو ایسے ہی لوگ فلاح یاب ہوں گے۔ ۳؎ جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں فحش باتوں کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور آخرت مں بھی اور ایسے لوگوں کو اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ۴؎ اور جو بڑے بڑے گناہوں سے بے حیائی کی باتوں سے کنارہ کش رہتے ہیں اور جب ان کو غصہ آتاہے تو (لوگوں کی )خطائوں سے درگزر کرتے ہیں۔ (۵) (لوگوں کی نسبت) بہت شک کرنے سے بچتے رہو کیونکہ بعض شک(داخل) گناہ ہیں اور ایک دوسرے کی ٹٹول میں نہ رہا کرو اور نہ تم میں ایک ایک کو ایک پیٹھ پیچھے برا کہے۔ بھلا تم میں سے کوئی (اس بات کو) گوارا کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے۔ یہ تو یقینا تم کو گوارا نہیں تو غیبت کیوں گوارا ہو کہ یہ بھی ایک قسم کا مردار کھانا ہے۔ منع رشوت اور جو آیہ ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل وتدلو ابھا الی الحکام لتاکلوا فریقا من اموال الناس بالاثم ؎۱ (۲:۱۸۸) کی ہدایت سے متاثر ہو کر مقدمہ بازی میں رشوت دہی سے اپنا حق حاصل کرنے کی سعی نہیں کرتے۔ ترک حسد اور جو آیہ ولا یغتب بعضکم بعضا ؎۲(۴۹:۱۲) کی انہی سے متاثر ہو کر ایک دوسرے کا حسدکرنے سے یک طرف ہیں۔ ترک فریب اور جو آیہ ویل للمطففین الذین اذ کتالوا علی الناس یستوفون واذا کالو ھم اووز نوھم یخسرون ؎۳(۸۳:۱تا ۳) کے ایسے پابند جو کسی کے ساتھ مکروفریب سے پیش نہیں آتے۔ یاوہ گوئی کی مذمت اور جو آیہ عن اللغو معرضون ؎۴(۲۳:۳) کے منطوق! اور خود کو ہر قسم کی بے ہودہ گفتگو سے دور رکھتے ہیں۔ ہجو کرنے سے نہی اور آیہ یا ایھا الذین آمنوا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم ولا نساء من نساء عسی ان یکن خیرا منھن ولا تلمذو انفسکم ولاتنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولئک ھم الظالمون ؎۵ (۴۹:۱۱) کی ہدایت فرمائی سے متاثر ہو کر کبھی مومن کی منفضت نہیں کرتے۔ ۱؎ اوردیکھو! ایسا نہ کرو کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھائو اورنہ ایسا کرو کہ مال و دولت کو حاکموں کے دلوں تک پہنچان کا (یعنی اپنی طرف مائل کرکے دوسروں کے مال کا کوئی حصہ ناحق حاصل کر لو) ۲؎ ایک دوسرے کی عیب جوئی نہ کرو۔ ۳؎ کم دینے والے کی بڑی ہی تباہی ہے کہ لوگوں سے ما پ کر لیں تو پورا پورا لیں اور جب ان کو ماپ کر یا انکو تول کر دیں تو کم کر دیں۔ ۴؎ اور جو لوگ نکمی باتوں کی طرف رخ نہیں کرتے۔ ۵؎ مرد مردوں پر نہ ہنسیں ۔ عجب نہیں کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے نہ دو۔ نہ ایک دوسرے کو نام دھرو ایمان لائے پیچھے بد تہذیبی کا نام ہی برا ہے اور جو(ان حرکات) سے باز اآئیں تو وہی خدا کے نزدیک ظالم ہیں۔ اسلامی اور تاجرانہ اخلاق میں تفریق جیسا کہ ابھی ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ برگزیدہ صفات جن کا تعلق تہذیب نفس اور حسن کردار کے ساتھ ہے قرآن کے اخلاقی نظام نے ان میں سے ایک ایک صفت کو اپنے دامن میں لے رکھا ہے۔ اس نظام میں ایمان باللہ اساس ہے۔ کیونکہ اخلاق کی نمو و بقا ایمان باللہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اسی ایمان باللہ کے پرتو میں روح (انسانی) آلائشوں سے منزہ ہو کر از خود نیکی کی طرف متوجہ ہوتی ہے بخلاف ازیں اگر انسان کے سامنے محض مادی منافع اورتبادلہ ہو تو ایسا شخص اخلاق کو بھی حسن معاملت کے ساتھ سودا بازی کے طور پر استعمال کرے گا اورجہاں اپنی منفعت میں خسارہ پائے گا دوسرے کے سات بھلائی کرنے سے اس کا ہاتھ خود بخود رک جائے گا۔ کیونکہ تاجرانہ اخلاق کی تہ میں جلب منفعت کے سوا کوئی اور مقصود نہیں ہوتا۔ یہی سبب ہے کہ ایسے افراد کے دل اور زبان ایک دوسرے سے متفق نہیں رہ سکتے۔ زبان پر حفظ امانت اور ادائے حقوق کے قصائد مگر دل میں مقابل کی جیب کتر لینے کے مسودے ! ہاتھ میں ایسی ترازو جس کی تول خریدار کے حق میں سراسر خسارہ مگر اپنا نفع ازل سے مد نظر! اخلاق کایہ انداز دور حاضرہ کے تمدن میں پور ی طرح گھل مل گیا ہے ۔ بارہا سنا جا تاہے کہ فلاں شہر میں خلفشار پیدا ہو رہاہے۔ جب اسباب تلاش کیے جاتے ہیں تو تہ میں صرف مال و دولت اور جاہ و منصب کی کشمکش ہوتی ہے۔ ان فسادات کی ذمہ داری جن افراد کے سر پر ڈالی جاتی ہے بظاہر وہی لوگ معاشرہ میں ممتاز اور حسن اخلاق میں سند یافتہ سمجھے جات ہیں لیکن ان کایہ رکھ رکھائو حقیقت میں محض نمائشی ہوتاہے کہ جہاں سود و زیاں میں کشمکش دیکھی اخلا ق کادامن جھٹک کر منافع کے انبار پر ڈھیر ہوگئے۔ ان میں بعض افراد ایسے چھپے رستم ہیں جو اعلانیہ خود کو رسوائی سے بچائے رکھتے ہیں مگر درپردہ برائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور بعض ایسے زود پشیمان کہ اپنی رسوائی کا چرچا عام ہوجانے کے خوف سے خود کشی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ موجودہ دور تہذیب میں یہ کردار ہر متمدن قوم پر حاوی ہے۔ جس اخلاق کا پس منظر صرف حصول منفعت ہو جہاں نفع میں زوال دیکھا دولت اخلاق جواب دے گئی۔ اخلاق بربنائے ایمان مگر جو اخلاق قرآنی ہدایت کے مطابق ایمان باللہ اور عقیدہ یعنی اخلاق برائے اخلاق پر مبنی ہو اس پر کسی قسم کے خسارے کا خوف موثر نہیں ہو سکتا۔ ایسے افرادکا پس منظر نیت ہے جو نفع و نقصان میں یکساں سمجھاجاتا ہے۔ اس لیے جو شخص لاٹری کا ٹکٹ اس نیت سے حاصل کرتاہے کہ اس رقم میں سے ایک چیز خیراتی شفاخانہ کی نذر بھی کر دے گا تو ظاہر ہے کہ اس سودے میں خیرات واحسان پیش نظر نہیں بلکہ اپنی منفعت مقدم ہے۔ ضمناً اس کاایک جزو شفاخانے کے لیے بھی سہی! ایسے شخص کے مقابلہ میں ایک کریم النفس ہے ان لوگوں کی جستجو میں سرگرداں جنہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں شرم دامن گیر ہے ۔ مگر حالات کا تقاضا ان کے حال تباہ کی غماز ی کر رہاہے یہ شخص ان کی دست گیری کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیتاہے۔ ایسے فرد کی خیرات کس قدر حسن نیت پر مبنی ہے! اسی طرح وہ شخص جو قانو ن کی زد سے بچنے کے لیے عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے سے گریز کرتا ہے مگر دوسرا فرد مصدق مقال کی عصمت قائم رکھنے کی خاطر سچی گواہی دیتاہے ان دونوں کا فرق ظاہر ہے۔ اس لیے جس اخلاق کی نمائش سود وزیاں کے انداز میں ہونہ کہ شرف انسانیت کی بقا قائم رکھنے کی غرض پر مبنی ہو تو ظاہر ہے کہ دوسری قسم ایمان باللہ کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتی۔ شراب اور جوئے کی مذمت قرآن عقل کے صحیح استعمال کا محرک ہونے کی بنا پر ایسے امور سے بہ شدت منع کرتاہے کہ جو عقل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور قرآن ایسے امور سے از راہ ایمان و اعتقاد منع فرماتا ہے۔ ان کاموں میں شراب اور جوا دونوں ایسے موثرات ہیں جنہیں قرآن نے ناپاک اور شیطانی عمل سے تعبیر فرمایا ہے ۔ بظاہر ان دونوں میں منفعت کی جھلک بھی پائی جاتی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے دونوں سے کلیۃ دور رہنے کا حکم دیا گیاہے۔ جواری کا دھندا ملاحظہ ہو ۔ ضیاع اوقات اور اخلاقی قدروں سے تجاوز اس کا نتیجہ ہیں۔ اور شرابی کا؟ ادھر نشہ سر پر سوار ہواا ادھرحواس الوداع۔ ہوش میں جن امور کو رذیل سمجھ کران کے قریب نہ پھٹکتا تھا وہی کام نشے میں مرغوب خاطر ہیں۔ شراب اورجوا مسلمان کے امۃ و سطا بننے میںمانع ہیں قرآن نے جو اخلاقی نظام پیش فرمایا ہے اس میں انسان کے لیے دنیا کی نعمتوں سے کنارہ کشی نہیں۔ قرآن کا یہ مقصود نہیں کہ مسلمانوں کو رہبانیت کے چکر میں ڈال کر اسے اسرار کائنات پر ور و فکر کی نعمت سے محروم کر دے۔ مگر شراب اورجوا انسان کو خواہشوں کا ایساپرستار بنا دیتے ہیں کہ جس سے ایسے تصورات ان کی لوح و فکر سے حر ف غلط کی طرح مٹ جاتے ہیں۔ قرآن اعتدال کے ساتھ اخلاقی نظام کی دعوت پیش کر رہاہے تاکہ انسان اپنا صحیح موقف حاصل کر سکے یعنی مسلمانکو امت وسطیٰ بننے کا جو موقع دیا گیا ہے اس کے لیے کوشش جاری رکھے جو شراب اور جوئے ایسے دھندوںؓ میں ڈوبے رہنے سے نہیں مل سکتا۔ قرآن ہمیں کائنات اور مخلوق خدا میں غور و فکر کرنے کی یا بار تاکید فرماتا ہے۔ کبھی ھلال نو پر کبھی شمس قمر پر ‘ کہیں دن اور رات پر گاہے زمین اور اس کی پیداوار پر ‘ افلاک اور ان کی آرائش ستارگا ں کی طرف‘ دریائوں اور ان یک سینے پر تیرنے والی کشتی اور جہازوںپر جو ہمارے سفر اور تجارت کا ذریعہ ہیں چوپایوں کی حکایت سے جن پر سواری اور ان میں ہماری شان و شوکت کا سامان ہے اور علوم و فنون میں۔ الغرض کائنات کی ان گنت نعمتوں کا بار بار اعادہ و تکرار تاکہ ان چیزوں پر غور کرکے ہم مادی منافع بھی حاصل کر سکیں۔ شراب اور جوا اور اقتصادی نظام اور ان نعمتوں پر خالق ہر دوسرا کا شکریہ بھی ادا کر سکیںجن پر عقل کی رہنمائی کے بغیر دست رس ناممکن ہے اور بالآخر یہی غور وفکر اور تعقل ہمارے اقتصادی سود و بہبود پر منتج ہو سکتے ہیں۔ سود کی حرمت اگر اقتصادی نظام کی اساس اخلاق و شرف پر قائم ہو تو وہ بنی نو ع بشر کی آسائش کا صحیح مبنی ہو گی اور انسان کی نحوست کا ستارہ خود بخود ماند پڑ جائے گا۔ قرآن کا یہ نظریہ انسان کو عقیدہ اور ایمان کی قوت سے فضائل اخلاق کی طرف ممائل کرتا یہ تاکہ دنیا بدبختی اور شقاوت سے پاک ہو جائے۔ جو شخص اس نظریہ پر عمل پیرا ہو گا وہ سود جیسی بے برکت تجارت کو جس کے ہاتھ میں موجودہ اقتصادی نظام کی باگ ڈور ہے ایک لمحہ کے لیے گوارا نہ کرے گا۔ اسی وجہ سے قرآن نے رہا (جس نے ہر طرف شقاوت پھیلا رکھی ہے) کو قطعا حرا م قرار دیا ہے۔ سود خوری کا انجام الذین یاکلون الربوا الا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس (۲:۲۷۵) ’’جو لوگ حاجت مندوں کی مدد کرنے کی جگہ(الٹاان سے) سود لیتے اوراس سے اپنا پیٹ پالتے ہیں (یاد رکھیں کہ ان کے ظلم و ستم کانتیجہ ان کے آگے آنے والاہے) وہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر اس آدمی کا سا کھڑا ہونا جسے شیطان کی چھوت نے باولا کر دیا ہو (یعنی مرگی کاروگی ہو)‘‘۔ ایک اور آیت میں سود اورزکوۃ وما اتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلا یربو ا عند اللہ وما اتیتم من زکوۃ تریدون وجہ اللہ فاولئک ھم المضعفون (۳۰:۳۹) ’’اور (یہ ) جو تم لوگ سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں بڑھوتری ہو تو وہ (سود) خدا کے ہاں(پھولتا) پھلتا نہیں (یعنی اس میں برکت نہیں ہوتی) اور (وہ ) جو (محض) خدا کی رضاجوئی کے ارادے سے زکوۃ دیتے ہو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہی اپنے دیے کو خدا کے ہاں بڑھا رہے ہیں‘‘۔ سود کی حرمت تمدن کا ایسا رکن ہے جس پر تمام عالم کی آسائش منحصر ہے مثلا ربو کی ادنیٰ ترین صورت یہ ہے کہ صاحب مال خود کوئی مشقت کیے بغیر اپنے مدیون کی کمائی سے ایک معین رقم وصول کر لیتا ہے۔ اس لیے کہ اس نے غریب کو چند روپے قرض عنایت فرما دے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ دائن خود کاروبار کرنے کی صلاحیت سے معرانہ ہوتا تو دوسرے کو اپنی رقم کیوں دیتا(وہ خود کام کر ہی نہیں سکتا) اور کام کی صلاحیت سے محروم ہونے کی وجہ سے اگر اپنا راس المال دوسرے کو سود پر نہ دیتا تو ایسے نکھٹو کی دولت رفتہ رفتہ تلف ہی تو ہو جاتی ۔ بہتر صورت یہ تھی کہ سرمایہ دار متعین منافع مقرر کرنے کے بجائے ایسے محنت کش کے ساتھ سود و زیاں دونوں میں حصہ دار ہوتا۔ سود مدیون کے لیے ایس مصیبت ہے کہ کاروبار میں خسارہ کی صورت میں غریب کو اصل کے ساتھ سود خوار کی مقررہ شرح بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور سود کے اس نقص کی وجہ سے شریعت نے اسے کلیتہ قرار دیا ہے۔ ’’اجارہ ‘‘ اور سود میں تفریق اگر معترض یہ کہے کہ روپیہ بھی زمین یا سواری کی طرح اجارہ پر دیا جا سکتا ہے اور مال دار اس پر جو منافع مقرر کر دے وہ اجارہ ہی ہے تو یہ اعتراض عقل کے خلاف ہے کہ روپیہ مال مثمر (یعنی اس کی محض ذات منفعت رساں نہیں اسے یا تو خرچ کیا جا سکتا ہے یا اندوختہ نہ کہ اراضی اور سواری کے جانور وغیرہ کی مانند اس کی ذات نفع رساں ہے روپیہ کی نسبت اس قسم کا حسن ظن بے وقوف یا مجنوں ہی رکھ سکتے ہیں جو اس کے استعمال سے ناواقف ہیں البتہ اسے مضاربت پر دیا جا سکتا ہے۔ جس میں نفع اور نقصان دونوں کا امکان ہے مگر روپیہ کے سوا دوسری چیزوں میں خسارہ بہت کم احتمال ہے اوریہ احتمال عام دستور کے مطابق مضاربت کا مانع نہیں اور جہاں اس قسم کی صورت رونما ہو ارباب قانون اس پر فریقین کے درمیان مناسب تصفیہ کر دیتے ہیں جس میں صاحب مال اور ستاجر دونوں کو زیر بار کیا جاتا ہے نہ صرف مستاجر کو۔ لیکن سود؟ مثلاً سات یا نو فی صدی یا ا س سے کم و بیش پر لین دین ہوا جس کے نتیجہ میں قرضدار ہی گھاٹے میں رہے گا جس میں یہ صورت اور بھی ہولناک ہے کہ خسارہ اصل رقم کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبا۔ مگر مقروض پر واجب ہے کہ مالدار کے حضور اصل رقم اور سود دونوں پیش کرے۔ اخلاقی طورپر یہ صورت کس قدر افسوس ناک ہے جس کا نتیجہ برادری اور باہمی حبت کی بجائے دشمنی اور کینہ جوئی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور اسی کی بدولت موجودہ دور نہایت مہلک بحرا ن میں گرفتار ہے۔ جب سود کی معمولی نقصان دہ قسم کا یہ ہولناک نتیجہ ہو تو اس کی دوسری اقسام کا اثر کیا ہو گا؟ مثلاً ضرورت مند نے تجارت کے سوادوسرے اخراجات یا اہل و عیال کے نان و نقفہ کے لیے سودی قرضہ لیا تو اس کی ادائیگی کہاں تک کر سکے گا ماسوائے ازیں کہ غیب سے کشائش کا امیدوار ہے کہ اگر کچھ ہاتھ لگ جائے تو ادا کر دے۔ قرآن نے قرض کی ادائیگی کو بھی فرض قرار دیا ہے۔ لیکن ایسے مقروض کو کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اس قسم کایہ سود وحشیانہ تو نہیں؟ سود مردم کشی کا مترادف تو نہیں؟ اس قدر معیوب طریقہ کے مالدار سود کے نام سے لوگوں کے مال ہتھیا لینے کا جرم کرتے ہیں خداونداً ایسا قبیح سرقہ قانون پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کو چوری کی سزا دے بلکہ اس سے بھی زیادہ سزا۔ سود اور استعمار موجودہ دور کی ہمہ گیر اور مشہور ترین گرفت استعمار سود ہی کا ثمرہ ہے۔ ہوتایہ ہے کہ سرمایہ دار ملک کسی غریب خطہ کو تاک لیتا ہے اور اپنے لگے بندھوں میں سے دو دو چار چار دولت مندوں کو اس خطہ میں چپ چاپ بھیج دیتا ہے جو وہیں کے نادار باشندوں کو سودی قرضہ دینا شروع کردیتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی آمدنی کے ذرائع پر قابض ہو جاتے ہیں جب مقروض طبقہ کروٹ لیتا ہے تو اپنی یہ حالت دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ جونہی لوگ ان پیران تسمہ پا سے نجات کے لیے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر تے ہیں ان کے بھیجنے والی حکومت اپنی رعایا کے تحفظ حقوق کا نعرہ لگا کر الٹا اس خطہ پر دوڑ پڑتی ہے اور بالآخر ان کا تسلط قائم ہو جاتا ہے ۔ اب ا س سے خطہ کے باشندے اور قدیم حکمران ان بیاجیو ں کو بھیجنے والوں کی رعایا اور وہ ان کے بادشاہ ہو جاتے ہیں‘ جس کے بعد ملک کے اصلی باشندوں کی غیرت بے حیائی سے بدل جاتی ہے اور ایمان غفلت کی نذر ہو کر برسوں کے لیے منہ ڈھانکے پڑا رہتاہے ۔ لیکن جو قومیں زوال و نکبت کے مآل کو سمجھتی ہیں وہ سودی قرضہ کا لین دین کرنے سے دور رہ کر اپنے ایمان اور مآل دونو ں پر خود ہی قابض اور مسلط رہتی ہیں۔ استعمار جنگوں کا مصدر اور شقاوت کا ایسا بوجھ طومار ہے جس کے بوجھ تلے آج انسانیت سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے یہ سود کا پروردہ ہے۔ سود اوری ہ دونوں جور و ظلم کی تیغ براں۔ جب تک دونوں میں سے ایک کا ہیولیٰ موجود ہے انسان محبت اور اخوت کا منہ نہیں دیکھ سکتا اوراس کا استیصال اس وقت تک ناممکن ہے جب تک معاشرہ قرآنی بنیادوں پر قائم نہ ہو۔ وہ قرآن جو وحی کی صورت میں نازل ہوا۔ اسلامی اشتراکیت قرآن بجائے خود اشتراکیت کا حامی ہے مگر ا س کی اشتراکیت کے سائے میں نہ تو جنگوں کی ہماہمی ہے نہ ایٹم بم اور آکسیجن بموں کی غارت گری‘ نہ اس کے ہاں اجارہ داری(استعمار) میں جکڑنے کے دائو پیچ ہیں جو مغربی اشتراکیت کا جزو لاینفک ہیں۔ قرآنی اشتراکیت ایسی اخلاقی سربلندی ہے جس کے سائے میں مختلف ملکوں کے رہنے والے ایک دوسرے کی اخوت و برادری سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ایک خطہ کے باشندے دوسرے وطن میں رہنے والے مسلمانوں کی کفالت کا اور دونوں باہم تعاون میں کس قدرپیش پیش رہتے ہیں اورکبھی ایک دوسرے کے ساتھ اس کی سرکشی اور معصیت میں اعانت کا ہاتھ نہیں بڑھا سکتے تعاونوا علی البر والتقویٰ والا تعاونوا علی الاثم والعدوان (۵:۲) قرآنی اشتراکیت کا ایک ایک حرف نظا م صدقہ و زکوۃ کی شکل میں یہے جس زکوۃ کی ادائیگی اس قرآن کے ماننے والوں پر فرض ہے اور جس زکوۃ کا نتیجہ وہ اشتراکیت نہیں جس کے نام پر ایک جماعت ماتحت طبقہ کو اپنی قوت سے بے بس کر دے۔ قرآنی تمدن میں قوم یا فرد دونوں میں سے کسی جز کو دوسرے جز پر تفوق نہیں۔ یہاں باہم دگر ایسی برادرانہ مساوات کا درجہ حاصل ہے کہ تمدن حاضرہ کے دربار میں جس کی پذیرائی ناممکن ہے اس لیے کہ وہاں مغرب مین وقتی مصالح پر ایمان ہے جن کی پابندی کے بغیر ان مصالح کا استحکام محال ہے مگر یہاں ایمان کی متابعت ہے جس کا ثمرہ اخوت و برادری ہے الٰہی! دونوں کا پس منظر کس قدر مختلف ہے! اور ایسا ایمان جس کی متابعت سے مومن اس قدر جریہ ہو جاتا ہے کہ اگر بس ہو تو ضرورت مند سائل اور سوال کرنے سے اپنا دامن سمیٹے رکھنے والے دونوں قسم کے محتاج کی ضروریات خوراک (م۔ جسے اشتراکیت کی بولی میں روٹی کہا جاتا ہے) لباس‘ رہائش معالجہ‘ تعلیم اور رکھ رکھائو یعنی تہذیب ہر ایک میں ان کی اعانت لازم اور بغیر تاخیر لاز ہے اور اپنے دل یا زبان سے کسی قسم کا احسان و کرم جتائے بغیر اس کی پابندی کرتا رہے کہ ایسی سبقت خدا کی دین پر اظہار تشکر ہے اور حقیقی عطا کنندہ کا شکریہ اخلاقاً واجب۔ یہ بھی قرآن کی ہی تعلیم ہے۔ بایں مقصد کہ جماعت کے پس ماندہ طبقہ کو اس سطح کے قریب تر لایا جا سکے جس پر زکوۃ عطا کرنے والا فائز ہے۔ قرآنی اشتراکیت میں حق تملیک قرآنی اشتراکیت میں حق تملیک پر اس طرح کا قبضہ نہیں کرتی جو کچھ عرصہ تک مغربی اشتراکیت کا مایہ فخر رہا ہے۔ حتیٰ کہ روسی بالشویک کے اکابر کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ حق تملیک پر کلی تصرف غیر ممکن ہے البتہ املاک کے منافع و پیدوار میں عوام کا اشتراک ضروری ہے مگر ریاست اس امر کی مجاز نہیں کہ عوام کے منافع کی غرض سے ایسا قانون جاری کرے جس کی رو سے حق تملیک کا کلیۃ سلب ہو جائے۔ اصحاب نبی ؐ میں اشتراکیت کا تصور ان حضرات میں اس نقطہ خیال کے مطابق دو مختلف تصورات تھے۔ (الف) وہ عالی حضرات جو تملیک کے قطعا ً خلاف اورنہ صرف پیداوار بلکہ پیداوار کے مصادر و منابع پر بھی عوام کے تصرف و دخل درآمد کے موید تھے۔ (ب) اراضی پر بھی دوسرے (عروض) (خرید و فروخت دونوں کے قابل) کی طرح حق تملیک حاصل ہے۔ مگر یہ دونوں فریق اختلاف رائے کے باوجود یورپ کے موجودہ اشتراکی تقسیم اموال کے طریق پر اس انداز سے متفق تھے کہ: (الف) مشترکہ مفاد کے لیے اموال کا جمع کرنا ہر فرد کا ذمہ ہے۔ (ب) مشترکہ خزائن میں سے معاشرہ کے ہر ضرورت مند کی کفالت نگر ان بیت المال کے ذمے ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو حق حاصل تھا کہ جب تک اپنا خو د تکفل نہیں کر سکتا اس کی ضروریات بیت المال سے پوری کرنا چاہئیں اور جو حضرات بیت المال کے منتطم تھے ان پر یہ ذمہ داری کہ ایسے خستہ حال افراد کی کفات نظر انداز نہ ہونے دیںَ قرآن کے جس دستور معاشرہ کا ہم نے تذکرہ کیا ہے عقل مند اس کی تکذیب نہیں کر سکتا۔ نہ یہ دعویٰ صحیح ہے کہ ایسا دستور مسلمانوں کے صدر اول میںتو واقعی مقبول و محمود ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں س کی افادیت موثر نہیں ہو سکتی اور نہ ایسا ادعا تسلیم قابل ہے کہ کہ یہ دستور پورے معاشرہ کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ایسے معترض ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ صدر اول میں مسلمانوں کے امیران کے حالات سے کس حد تک باخبر رہتے نہ کوئی ضرورت مند ان کی نظر سے اوجھل ہوتاہے کہ وہ روسی اشتراکیت کی مانند تقسیم اموال کی سرحد پر پہنچ کر دم نہیں توڑ دیتی۔ اس (اسلامی) کی اشتراکیت کے ڈانڈے جو اخوت اور روحانی زندگی کی حدوں کو چھو رہے ہیں ان کی برکت و پذیرائی سے انسان اخلاقی اور اقتصادی بہبودی دونوں قدروں پر فائز ہو جاتا ہے مثلاً اسلامی دستور اشتراکیت کی یہ شق کہ حدیث یحب لاخیہ میں اشتراکیت کی تعلیم لا یومن احد کم حتی یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ (الحدیث) ’’شرط ایمان یہ ہے کہ مومن وہی کچھ دوسرے مومن کے لیے پسند کرے جو اسے اپنے لیے پسند ہے‘‘۔ اس کے وہی معنی ہیں کہ اگر مومن اپنا شکم بھرے اور دوسرے بھائی کی روٹی کا خیال اسے نہ رہے تو ایسا شخص مومن نہیں رہا۔ اسلامی دستور اشتراکیت کے مطابق یہ شخص جو دوسروں کی روٹی کی فکر سے بے نیاز ہے قرآنی دستور اشتراکیت کے مطابق اس کے لیے یہ تہدید فرمائی گئی۔ آیہ ارایت الذی میں ار ء یت الذی یکذب بالدین فذالک الذی یدع الیتیم ولا یحض علی طعام المسکین (۱۰۷:۱تا۳) ’’(اے پیغمبرؐ) بھلا تم نے ایسے شخص کے حال پر کبھی نظر کی جو (روز) جزا کو جھوٹ سمجھتاہے اور (اسی سبب سے) یہ شخص ایسا سنگ دل ہو گیا ہے کہ یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو آ پ کھانا کھانا تو درکنار لوگوں کوبھی اس کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا‘‘۔ اور قرآن نہ صڑف تقسیم و عطائے ظاہری بلکہ در پردہ و علانیہ بحسب مصالح ہر دو صورت میں غریبوں کی روٹی کا خیال رکھت اہے بہ مقصد آیاتے ان تبدوا الصدقات فنعما ھی وان تخفوھا و توتو ھا الفقراء فھو خیر لکم (۲:۲۷۱) ’’اگر خیرات ظاہر میں دو تو وہ بھی اچھا ہے(ا س سے خیرات سے علاوہ دوسروں کو بھی ترغیب ہوتی ہے) اور اگر اس کو چھپا کر دو اور حاجت مندوں کو دو تو یہ تو تمہارے حق میں زیادہ بہترہے‘‘۔ الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھر سرا و علانیہ فلھم اجرھم عند ربھم (۲:۲۷۴) ’’جو لوگ رات اور دن چھپے اورظاہر میں اپنے مال ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتے ہیں تو ان کے دیے کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں سے ان کو ملے گا‘‘۔ اس قسم کی اشتراکیت میں ایثار کی بدولت انسان کا ایمان اور زیادہ ہو جاتاہے‘ جس کا ثمرہ اسے تقرب و رضائے پروردگار کی صورت میں حاصل ہوتاہے اور قلب کے سکون و طمانیت سے اسے خود پر رشک آنے لگتا ہے۔ خداوند عالم نے انسان کی کسی حالت اور نعمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم مثل نہیں بنایا۔ کسی امر میں ایک کو دوسرے پرفوقیت ہے اور اس دوسرے کو کسی وجہ سے پہلے پر تفوق۔ اللہ یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر(۱۳:۲۶) ’’اللہ جس کی روزی چاہتا ہے فراخ کر دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے نپی تلی کر دیتا ہے‘‘۔ بایں سبب درجات میں برابری قائم رکھنے کی غرض سے اسلام نے پابندی عائد فرما دی کہ چھوٹے بڑے دونوں ایک دوسرے کی توقیر نظر انداز نہ ہونے دیں۔ بزرگ چھوٹوں پر شفقت فرمائیں اور توانگر مفلسوں کی دست گیری کے لیے ہاتھ پھیلائے رکھیں جو خدا کی عطا کردہ نعمتوں پر اظہار تشکر ہے نہ کہ ایک دوسرے پر احسان و کرم۔ قرآن میں ترکہ و وصیت و معاملات و تجارت کے فوائد قرآن نے اقتصادی نظام کے مختلف پہلوئوں از قسم ترکہ و وصیت و معاملات اور تجارت پر جس انداز سے رہنمائی کی ہے اگر ان کے فقہی اور اقتصادی فوائد پر قلم اٹھایا جائے ئتو ایک مستقل کتاب ہوجائے گی۔ اتنا کافی ہے کہ ان معنوں میں دنیا کا کوئی قانون اس کے مقابلہ میں پورا نہیں اتر سکتا بلکہ اسلا م کے تجارتی اصولوں سے قطع نظر اگر لین دین (قرضہ محض) کے انداز تحریر و تمسک و شہادت پر نظر کی جائے یا زوجہ و شوہر کے باہم اختلاف پیدا ہوجانے پر دونوں کے تجدید تعلقات کے لیے فریقین کے ایک ایک صاحب فراست کامل کا انہیں سجھانا تاکہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے ان میں دائمی تفرقہ پیدا نہ ہوجائے ‘ یا مسلمانوں کے ایسے دو گروہوں کے درمیان جو ایک دوسرے پر تلواریں سونت کر امنڈ پڑنے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور مصالحت کی بجائے قتال پر کمر بستہ ہو گئے ہیں صلح و آشتی کی سعی کرنا امن قاء کرنے کے لیے مظلوم فریق کی نصرت قرآن کے یہ اصول پڑھنے سے حیرت ہوتی ہے کہ اس آسمانی صحیفہ نے معاشرہ کے لیے کیسے کیسے مفید قوانین پیش فرمائے ہیں۔ پس اگر ہم اس کتاب سے سود خواری کی مذمت اور اسلامی اشتراکیت کی برتری پیش کرتے ہیں تو کون سا طرفہ ہے جس سے انکار کیا جا سکے۔ جب کہ قرآن میں ایسے قوانین مشرح اورمفصل طیرق سے موجود ہی ہوں جن کی قوت و پذیرائی کی صلاحیت کی وجہ سے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن میں انسانیت کے سود ومنفعت کا کماحقہ احترام ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ قرآنی نظام تمدن اور مستشرقین جیسا کہ ہم نے قرآنی نظام تمدن اور اس کی اساس کی وضاحت کی ہے مستشرقین میں سے بھی بعض اہل قلم اس کی افادیت کے معترف ہیں۔ اگرچہ بعض افراد اس پر اعتراض کرنے پر بھی پیش پیش مثلاً قرآنی نظام تمدن اس قدر بہتر ہے کہ انسان اپنی فطری پستی کی وجہ سے اس کی پیروی کرنے سے قاصر ہے‘ اس لیے کہ اسے قبول کر لینے کے بعد اس کی زندگی دشوار ہو جائے گی کیونکہ وہ انسان امید و بیم اور حرص و ہوا دو گونہ عذاب میںمبتا ہے ۔ آخر وہ حیوان ہی تو ہے۔ اس لیے اسلامی نظام حیات اس کی حیوانیت سے سراسر بار ہے۔ اگر اس میں شبہ کیا جائے تویہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ انسان کو ہوس اور بے جا طمع سے دور رکھنا مقصود ہے تاکہ وہ انسان امید و بیم و حرص سے یک سو رہ کر اپنے لیے اقتصادی منافع حاصل کر سکے۔ جن کے عدم حصول کے نتیجہ کی وجہ سے ایسانظام قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اس کی ان حضرات کے سامنے یہ دلیل ہو کہ اسلامی نظام (ہماری پیش کردہ وضاحت کے مطابق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ اور صدر اول کے بعد خود مسلمانوں کے ہاں جاری نہ رہ سکا۔ اگر اس میں کماحقہ گہرائی اور پذیرائی ہوتی تو بعد کے ان مسلمانوں می بھی جاری رہتا جن کی حکومت دنیا کے تمام گوشوں میں قائم ہو گئی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ بلکہ ان مسلمانوں نے اپنے اپنے ہاں جو نظام قائم کیے وہ قرآنی نظام اجتماعیت کے بالکل متضاد تھے۔ اس لیے کہ مسلمانوں کا یہ ادعا کہ قرآنی نظام حیات انسانیت کے لیے کماحقہ نفع رساں ہے خود ان کی تاریخ اس کی تغلیط کر رہی ہے۔ معترض کو تسلیم ہے کہ یہ نظام عہد رسالت اور زمانہ خلفاء میں کامیاب ثابت ہوا جو اس کے رفع اعتراض پر کافی ہے گویا اس (معترض) کے نزدیک جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذات میں انسانیت کی رہبری کا کامل نمونہ تھے اور خلفائے راشدین بھی آپ کی پیروی کی بدولت اس درجہ کمال تک پہنچے کہ عوام بھی ان سے مستفیض ہوئے۔ کہنا یہ کہ خلفائے راشدین کے بعد چاروں کی طرف سے حسد و کینہ اور عناد و دشمنی کے چشمے ابل پڑے۔ کہیں یہود کی ریشہ دوانیاں ابھر آئیں کہیں قبائلی عصبیت پھوٹ نکلی جس کی بدولت اس نظام کے اجراء میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ رفتہ رفتہ مسلمانوں پر بھی مادیت نے اپنا تسلط قائم کر لیا اور مسلمان خود اسی حیوانی تغلب کے بوجھ سے دب کر اپناپ وقار کھو بیٹھے۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی صفات کی وجہ سے جیسا کہ قرآن مجید میں فرماتا ہے تمدن و ارتقاء کے لیے بہترین رہنما تھے جیسا کہ اس کتاب میں مذکور ہو ا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی اخوت کی بناپر قائم کر کے انہیں اس راہ پر ڈال دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی کے مصائب پر نظر ڈالیے جہاں آپ کے ساتھ تمام مسلمان مصائب میں مبتلا تھے اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سب رفقاء سے زیادہ خوف و ہراس کا ملجا حتی کہ مدینہ میں ہجرت فرمائی جہاںمہاجرین او ر انصار کے درمیان اس انداز سے بھائی بندی کا رشتہ قئم فرمایا جس کی بدولت دونوں آپس میں یک جان د و قالب ہو گئے اور اس تمدن کی بنیاد مستحکم ہونے کا وہ مفید ذریعہ جو قرآن نے اجتماعیت کے طریق پر پیش کیا تھا مسلمانوں میں جاری ہوا۔ مہاجرین و انصار کی مواخات میں ایمان کی قوت نے اور مہمیز دیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو ایمانہ کلہ کا مظہر تا م تھے غزوہ بدر میں پروردگار عالم کے حضور جو یہ استدعا پیش کی۔ یا اللہ! تو نے مومنین کی نصرت کا جو وعدہ فرمایا تھا اس کے پورا کرنے کا یہی دن ہے۔ اے پروردگار عالم! اگر آج وہ شکست کھا بیٹھے تو ان کے بعدتیرا نام کس کی زبان پر آئے گا! ’’بدر‘‘ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ کردار تھا کہ خدا کی ذات کے ساتھ دائمی تعلق کر رہاہے حتیٰ کہ آپ نے یہ تعلق کسی اور غزوہ میں بھی نظر انداز نہ ہونے دیا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے وقفے میں ذات خداوندی سے جس قدر قرب تھا‘ دوسرے دوسرے اوقات حتی کہ میدان کارزار میں بھی اس کیف و سرور سے محروم نہ رہتے۔ جس دل میں ایمان کا فراوانی ہو اس وجود گرامی پر موت تک ہیبت طاری نہیں ہو سکتی۔ ایسے مومنین ے لیے زندگی اورموت دونوں حالتیں یکساں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اک نہ اک روزدنیا چھوڑنا ہی ہے۔ ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہی ہے وار اگرچہ خود کو بچانے کے لیے کسی چونے گچ کے گنبد میں کیوںنہ بند ہو جائے۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ایمان کا صلہ ہی تو ہے کہ مسلمان حنین (غزوہ ) میں دشمن کی یلغار پر ادھر ادھر سہارا ڈھونڈ رہے تھے ۔ جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہ ہیکل کی مانند اپنی جگہ پر نہ صرف ثابت قدم تھے بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی پکار رہے تھے ارے ! اس موت کے ڈر سے بھاگ رہے ہو جس سے ایک نہ ایک دن دوچار ہونا ہی ہے اور جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند ساتھی بھی ان کی مانند آپ کے ساتھ قدم جمائے کھڑے رہے جن کی کمک میں ان کی قوت ایمان کارفرما تھی۔ استدلال یہ ہے کہ معرکہ قتال کی وحشت ناکی میں یہ رسوخ قدم اسی نیروئے ایمان کا کرشمہ ہے کہ جس کی یاوری سے مرد مومن اپنی تنگ دستی کے عواقب نظر انداز کر کے مفلوک الحال انسان کی کفالت اپنا فریضہ سمجھ لیتا ہ۔ م… ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ (۵۹:۹) کی طرف اشارہ ہے۔ یہی ایمان لاوارث یتیم کے ساتھ حسن سلوک پر مال کرتاہے۔ م…اشارہ آیت واتی المال علی حبہ… والیتمی (۲:۱۷۷) کی طرف یہی ایمان مرد مومن کو ایسے مسافوں کی آمد آمد پر چشم براہ بنائے رکھتا ہے جن کا زاد راہ انہیں جواب دے گیا ہو آیہ: واتی المال علی حبہ… وابن السبیل (۲:۱۷۷) کی طرف اشارہ ہے۔ یہی ایمان اسے ضرورت مند سائل اور سوال میں حسن طلب کے پابند ناداروں کی کفالت پر آمادہ کرتاہے۔ وفی اموالھم حق للسائل والمحروم( ۵۱:۱۹) کی طرف اشارہ۔ جن اعمال کی بدولت مومن کو کتاب اللہ کی بشارت کے مطابق ترقی کا اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوتاہے م … آیہ ولا تنھو ا ولا تحزنو ا وانتم الا علون ان کنتم مومنین (۳:۱۳۹) کی طرف اشارہ۔ جن میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک امر پر بے مثل عمل تھا اور جس ی متابعتمیں صدر اول کے مومنین نے حرف بہ حرف سبقت فرمائی۔ جس کی بدولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے کئی سال بعد تک اسلام کا پھریرا ان دور دراز ملکوں پر بھی لہراتا رہا جہاں کے باشندے صدیوں ؤسے ترک اخوت کی سزا پر ایک دوسرے سے نفاق و عداوت کا شکار ہو کر ضعف نامرادی کا ملجا بنے ہوئے تھے مگر جوں ہی انہوںنے قبول اسلام کے ساتھ ایمان کی روشنی میں اپنی قوت عمل اور مواخات کا رشتہ استوار کر لیا دنیا کی طاقتور قوموں میں شمار ہوئے کیونکہ اسلام کی رہنمائی انسان کو اسرار کائنات کے قریب لے آتی ہے۔ گزشتہ صڈیوں کے ان مسلمانوں کا تمدن عہد حاضر کی ان قوموں کو شرما رہا ہے جو آج اپنے رفقاء کے غرور میںدوسری قوموں کو خاطر میں لانے کے روادار نہیں۔ حالانکہ انہوںنے یہ ارتقاء ایمان بیچ کر مادیت حاصل کرنے کے لیے حاصل کیا ہے جس کی بدولت انہیں بمشکل یہ عارضی فروغ بھی حاصل ہو سکا جس فروغ سے انسانیت ایسے بحران میں مبتلا ہے کہ مغرب کی یہ متمدن قومیں ہر وقت اپنے آپ کو خطرے میں گھر ا ہوا پاتی ہیں۔ علمائے سود کا تسلط مصیبت یہ آن پڑی کہ تمدن اسلام پر ایک طرف سے خود داخلی عصبیت قبائلی اثر انداز ہوئی۔ باہر سے اسرائیلیات نے ہلہ بول دیا اور سب سے زیادہ بدنصیبی یہ کہ علمائے اسلام جو انبیاء علیہم السلام کے وارث تھ ذاتی وجاہت و مناصب کے شوق میں حق گوئی سے کنارہ کش ہو گئے جس میں دوسروں کو گمراہ کرنے کے بغیر (غلط مسائلل بتانے) کامیابی حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ موجودہ دورمیں اسی قسم کے مدعیان علم و ہوس پر علمائے اسلام کی وہ یادگاریں ہیں جن کی بدولت پورا معاشرہ ذلت و نکبت میں گھرا ہو ا ہے۔ ایسے علماء شیطان کے حواری ہیں جن سے روز قیامت دوسرے تمام عاصیوں سے زیادہ پرسش ہو گی ۔ اس لیے ہر وہ شخص جو علوم دین پر حاوی ہے اسے سب سے پہلے انہی سے بغاوت کرنا چاہیے تاکہ اسلام ان کی ریشہ دوانیوں سے پاک ہو کر اپنے صحیح اصل پر آ جائے۔ اس قسم کے علماء سر زمین مغرب ہی کے لیے مبارک ہیں جہاںمذہب اور علم دونوں ایک دوسرے کے دست بگریباں ہیں نہ کہ اسلامی ممالک میں جہاں تمدن علوم‘ او ر مذہب سب کے سب ایک دوسرے سے غیرمنفک رہنے چاہئیں کیونکہ علم مذہب کے بغیر اور مذہب علم سے دامن جھٹک کر کفران نعمت شمار ہوتاہے۔ اسلامی تمدن جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا کہ ان بادشاہوں کے اثر سے بھی محفوظ نہ ر ہ سکا جو نام کے تو مسلمان تھے لیکن نہ انہیں اسلامی تمدن سے اگہی تھی نہ وہ اسے خود پر ہی لاز م کر سکے۔ اگر ایسے مسلمان بادشاہ عوام کو ان قوانین کا پابند نہ کرتے جو اخوت اسلامی کے خلاف تھے اور رعایا کو اسلام کے بجائے اپنی سلطانی میںنہ جکڑ لیتے تو آج تک دنیا کا نقشہ کسی اور صورت پر ہوتا اور بے بس انسان جس کرب و ابتلا میں پڑا سسک رہا ہے اس سے دوچار نہ ہوتا۔ یقین ہے کہ موجودہ اہل قلم (مغربی) اگر تعصب سے یک طرف ہو جائیں اور دنیا کے سامنے اسلامی تمدن کو اس کے صحیح نقوش کے مطابق پیش کریں تو ساری دنیا ہمارے آپ کے سامنے تمدن اسلام کو خود پر لازم کر لے جس کے اندر ذہن و قلب میں نفوذ پذیرہ کی پوری استعداد موجود ہے مگر اس مصیبت کو کیا کیجیے کہ جہاں کسی قوم نے اسلام پر توجہ کی یا ران طریقت مغربی اہل قلم نے انہیں ورغلانا شروع کر دیا تاہم جو اہل علم اسلامی تمدن کے دعوے دار ہیں۔ اگر ایمان کامل اور تزکیہ قلب سے منور ہو کر دوسروں کے سامنے خدا پرستی اور اپنے ایمان کی دعوت پیش کریںتو یقین کامل کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا عہد نبوت ہی کی طرح اسلام کی دعوت پر سرآنکھوں پر رکھنے کے لیے لبیک پکاراٹھے اور ہر شخص اسلامی اخوت کی نعمت سے مستفید ہو کر فائز المرام ہو۔ اورجیسا کہ مقدمہ کتاب میں لکھا گیا ہے کہ عہد نبوت اور صدر اول میں مسلمانوں کو جو عروج حاصل ہوا تھا بجائے خود اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں نے خود کو جن اخلاقی قدروں سے مزین کر لیا اسی انداز کے مطابق اگر آ ج بھی ان کی تجدید کی جائے تو دنیا کا موجودہ اقتصادی بحران بلا شبہ اپنی اصلی حالت پر آ سکتا ہے۔ مغربی اہل قلم کی نیش زنی دربارہ مسئلہ تقدیر جب بھی مستشرقین اسلامی تمدن کے مدوجذر پر خامہ فرسائی کرتے ہیں تو مبحث سے ہٹ کر کوئی نہ کویء ایسا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ جس سے خلط مبحث ہو کر موضوع کا رخ پلٹ جائے کہ یحسبہ الظمان ماء (۲۴:۳۹۔م) اور پیاسا سراب کو پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑ اٹھے مثلا یہ لوگ اسلامی تمدن کی ناہمواری کے لیے مسئلہ تقدیر کو لے بیٹھتے ہیں۔ جس سے ان کا مقصد یہ ہ کہ تمدن اسلا کی غیرمقبولیت کو تقدیر کے سر منڈھ دیا جائے۔ مسلمان جس تقدری پر قانع رہ کر ترقی کے ذرائع سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم دنیام میں یوں ذلیل و خوار نظر آتی ہے (مسلہ تقدیر رپ ہم دوسری فصل میںبحث کریں گے۔) ٭٭٭ خاتمہ ۲ اسلامی تمدن اور مستشرقین ٭٭٭ اسلامی تمدن اور مستشرقین واشنگٹن ارونگ Washington Irving انیسویں صدی (ع) کے مشہور امریکی مستشرق واشنگٹن ارونگ ہیں جن کی ذت پر نہ صرف امریکہ بلکہ مسیحی اقوام کو بجا طور پر فخر ہے۔ موصوف نے سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو کتاب لکھی ہے اس کا ایک رخ اگر ایسے انصاف کا پہلو لیے ہوئے ہے جس سے قلوب متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتے تو اس کا دوسرا رخ ایسے مکروہ انداز کو پیش کرنے والا ہے کہ جس سے پہلی کیفیت سے بھی نفرت سیبدل جائے ۔ کتمان حقیقت اور دروغ بافی کا کوئی پہلو قلم انداز نہیں ہونے دیا۔ مستشرقین کا اسلامی نظریہ تقدیر پر خود ساختہ تصور مصنف مذکور نے اس کتاب کے خاتمہ میں جن مسائل کو بحث کا معمل بنایا ہے ان میں دین کے عقائد خمسہ ایمان باللہ اقرار ملائکہ تصدیق کتب سماویہ تسیم انبیائے مرسلین علیہ السلام اور یوم آخرت پر یقین کے ساتھ اسی نوع میں چھٹا عنصر ایمان بالقدر کو بھی رکھ دیا ہے واشنگٹن کہتا ہے: مسلمانوں کے عقائد(اسلام) میں چھٹا عقیدہ تقدیر ہے جس پر جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ا س حد تک اعتماد تھا کہ آپ کی جنگوں میں شرکت اور دلاوری کا محور یہی تقدیر تھی۔ انہیںپورا یقین تھا ک انسانی زندگی میں ہہر پیش آنے والا حادثہ پہلے سے خدا کے علم میں ۃے اور آفرینش عالم سے قبل لوح محفوظ پر کندہ۔ انسان کے لیے جس ساعت میں مرنا مقدر ہے اس میں ایک لمحہ کا تقدم و تاخر ناممکن ہے۔ اس لیے انسان کو انپی جان بچانے کے لیے سعی کرنا ہی نہ چاہیے۔ مسلمان اس عقیدہ کے فریب میں آ کر شعلہ بار جنگوں کی آگ میں کود پڑتے کہ اگر شہادت نصیب ہو گئی تو جنت کا لطف اٹھائیں گے اور ازندگی مقدر میں ہے تو فتح و نصرت کے نقارے بجاتے ہوئے دنیا پر حکمرانی کریںگے۔ بعد میں یہ عقیدہ ایک نئی شکل میں منضبط ہوا او ر اس کے عمل پیرا ’’جبریہ‘‘ کہلائے ۔ وہ کہتے (اور ا س پر عمل بھی کرتے ہیں) کہ انسان اپنے اعمال میں مختار نہیں بلکہ مجبورہے۔ ا س سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں اس کی ذات ان کی ذمہ دار نہیں کیونکہ خدا ہر شے پر قادر ہے اور وہی سب کچھ کراتا کرتا ہے۔ اس عقیدہ کو بعض مسلمانو ں نے خدا کیھ عدل اور اس کی رحمت کے منافی سمجھ کر اس کی تردید میں پوری قوت صرف کر دی مگر اہل سنت کے فرقوں میں ا ن کا شمارنہیں کیا جاتا۔ تقدیر پر قانع رہنے کی آیات جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بدو رسالت ہی سے نازل ہو رہی تھیں جن کی تجدید ہر اہم موقع پر وحی کے ذریعہ بار بار ہوتی جیسا کہ غزوہ احد میں جب مسلمانوں کی ہولناک تباہی رونما ہوئی جس میں بے شمار مسلمان لشکریوںکے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم بزرگوار حمزہؓ کے شہید ہونے سے بقیتہ السیف مسلمانوں پر خوف و ہراس کے بادل چھا گئے تب جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خدائی قانون کے انداز میں فرمایا کہ موت کے لیے معرکہ کارزار اور بستر راحت دونوں برابر ہیں۔ ظاہر ہے کہ عواقب و نتائج سے بے خبر سپاہیوں کے لیے اس سے بہتر تلقین اور کیا ہو سکتی ہے کہ اگر جنگ کی لپیٹ میں آگئے تو مر کر جنت کا لطف اٹھائیں گے اور اگر زندگی مقدر میں ہے تو اموال غنیمت سے بہرہ اندوز ہو کرمزے لوٹیں گے۔ مسلمانوں کے اس عقیدے نے انہیں یہاں تک جری کر دیا کہ ان کا قوی ہیکل دشمن بھی ان پر غلبہ حاصل نہ کر سکتا۔ دوسرا دور آیا۔ یہی تقدیر ی تصور کچھ عرصہ تک ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا اور ان کی سطوت کا جنازہ نکل گیا۔ جب ان کے خلفاء نے اپنی تلوار میان میں کر لی اور مسلمان جنگ جوئی و جہاں بانی کا شیوہ ترک کر کے پائوں توڑ کر بیٹھ گئے تو یہ عقیدہ تقدیر ہی کا کرشمہ تھا۔ بے کار بیٹھے رہنے کی وجہ سے استراحت کی طرف میلان ہوا۔ وہ جن نعمتوں سے لپٹ گئے قرآن نے بھی ان کی اباہت کی اجازت دے رکھی تھی جس (اباحت) میں مسیحیت کے قوانین قرٓٓن سے مختلف ہیں جن کے مطابق دنیا کی نعمتوں سے اجتجاب کمال ایمان کا ذریعہ ہے۔ مسلمانوں نے خود کو تقدیر کے حوالے کر کے اس حد تک مصیبت میں ڈال لیا کہ ان کے نزدیک ذاتی جدوجہد تقدیر کے مقابلہ میں محض بے مایہ ہو گئی اگرمسلمان مشہور کلیہ اعن نفسک یعنک اللہ (اگر تم خود اپنی مدد کرو گے تو خدا بھی تمہاری مدد کرے گا) پر عمل رکھتے تو ان کی یہ درگت نہ بنتی کہ صلیب ہلال پر غالب آ سکتی بجز اس کے کہ اگر مسیحی یورپ بھی ابھی تک ہلال کا وجود نظر آ رہا ہے تو وہ بھی اس لیے کہ: (الف) یہ مسیحی دو ل یورپ کی مہربانی ہے۔ (ب) یا مغرب کی باہمی پھوٹ کا نتیجہ ہے۔ (ج) یا اس مشہور قاعدہ کی تصدیق کے طور پر کہ جو شخص زور شمشیر سے حاصل کر لے ششیر ہی کی قوت سے واپس لی جا سکتی ہے۔ جواب: حیرت ہے کہ اگر واشنگٹن ارونگ جیسا مرددانا یہ بات کہے کہ گویا وہ ایسا شخص ہے جسے اسلام کی روح اور اس کے تمدن سے کوئی آگہ نہیں! مسئلہ تقدیر میں خلط مبحث مذکور الصدر مستشرق نے قضا و قدر اور موت کے آخری لمحے میں تعیین کو زیر بحث لا کرایسا نتیجہ اخذ کیا جس پر دانش سر پیٹ اٹھے یا ان کامطالعہ ایسے دفاتر میں ہے جن میں تقدیر کی تعبیر یہی دی گئی ہو۔ لیکن قرآنی ہدایات کے مطابق خود اعتمادی اور اپنی جدوجہد کا وہ نتیجہ جس کی تہہ میں حسن نیت بھی ہو ایسے انداز میں ارشاد ہے جس کے سامنے معرض اعن نفسک یعنک اللہ سے قیاس کرنا کوئی وقعت نہیں رکھتا جو (قرآن فرماتاہے کہ): (۱) یا ایھا الناس قد جائکم الحق من ربکم فمن اھتدی فانما یھدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا (۱۰:۱۸) ’’(اے پیغمبر ؐ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ لوگوں جو حق بات )تھی وہ توتمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آ چکی ہے۔ پھر جس نے راہ راست اختیار کی وہ اپنے ہی فائدے کے لیے اس کو اختیار کرتا ہے اورجو بھٹکا تو وہ بھٹک کر کچھ اپنا ہی کھوتا ہے‘‘۔ (۲) ولا تزروازرۃ وزرا اخری وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا(۱۷:۱۵) ’’اور کوئی (متنفس کسی) دوسرے متفنس کے بار(گناہ) کو اپنے اوپر نہیں لے گا اور جب تک ہم رسول بھیج کر تمام حجت نہ کر لیں (کسی کو اس کے گناہ کی)سزا نہیں دیا کرتے‘‘۔ (۳) من کان یرید حرث الاخرۃ نزدلہ فی حرثہ ومن کان یرید حرث الدنیا نوتہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب (۴۲:۲۰) ’’جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہو ہم اس کی کھیتی میں اس لیے برکت دیں گے کہ اور جو کوئی دنیا کی کھیتی کا طالب ہو تو ہم بقدر مناسب اس کو دنیا دیں گے (مگر) پھر آخر ت میں اس کا کچھ حصہ نہیں‘‘۔ اور یہ کہ: (۴) ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (۱۳:۱۱) ’’جو نعمت کسی قوم کو (خدا کی طرف سے) حاصل ہو جب تک وہ (قوم) اپنی ذاتی صلاحیت کو نہ بدلے خدا اس (نعمت) میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کرتا‘‘۔ قرآن میں ارادہ و عمل کی ترغیب ایسی بے شمار آیات ہیں جن میں قرآن نے بصراحت اپنے پیروئوں کو ارادہ و عم کے ساتھ فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسی طرح خدا نے متعد آیتوں میں انسان کو جہاد فی سبیل اللہ کی تاکید بھی فرمائی ہے جیسا کہ قارئین انہی اوراق میں جابجا مطالعہ فرما چکے ہیں کہ جن سے واشنگٹن ارونگ اور ان کے دوسرے یاران سرپل کے الزام کی تردید ہوتی ہے کہ اسلام پانے ماننے والوں کو ایسے توکل کی تلقین پر زور دیتا ہے کہ جس کے اثر سے ا نسان پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فو ز وکامیابی کا انتظار کیا کرے اور اپنی سعی کو نفع و ضرر میں موثر نہ سمجھے کہ ارادہ و سعی کا تعلق بھی تو خدا کی مشیت ہی سے ہے جو مشیت مقدر میں نہیںتو ارادہ اور سعی بھی بار آور نہیں ہو سکتے ۔ ہم کوشش کریں یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں تمقدر میں ناکامی ہے تو ہماری کوشش بے سود وار اگر تقدیر میں کامیاب ہونا ہے تو سعی کے بغیر بھی سب کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔ لیکن قرآن ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے جیسا کہ مذکور ہو چکا ہے۔ شاید جو مسلمان اپنی کاہلی کی وجہ سے آخری صدی میں ناکامی اورنامرادی کی زندگی بسر کر رہے تھے یہ معترض انہیں مندرجہ ذیل آیتوں کا موردنہ سجھتے ہوئے ان آیتوں کو اپنے استدلال کا مبنی قرار دیتے ہوں: تقدیر پر پیش کردہ آیات (۱) و ما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتابا موجلا( ۳:۱۴۵) ’’اور یاد رکھو کہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی جان نہیںمر سکتی ہر جان کے یے ایک خاص وقت ٹھہرا دیا گیا ہے( پھر موت کے ڈر سے کیوں تمہارے قدم پیچھے ہٹیں)۔‘‘ (۲) ولکل امتہ اجل فاذاجاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (۷:۳۴) ’’اور ہر ایک قوم کے مٹنے کا ایک وقت مقرر ہے پھر جب ان کا وقت آن پہنچتا ہے (تو اس سے) نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اورنہ (ایک گھڑی) آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔ (۳) ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتاب من قبل ان نبراھا ان ذالک علی اللہ یسیر (۵۷:۲۲) ’’لوگوں جتنی مصیبتیں روئے زمی پر نازل ہوتی ہیں اور جو خود تم پر نازل ہوتی ہیں(وہ سب) ان کے پیدا کرنے سے پہلے ہم نے کتاب میں لکھ رکھی ہیں‘‘۔ (۴) قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا ہومولنا والی اللہ فلیتوکل المومنون (۹:۵۱) ’’(اے پیغمبرؐ) تم ان لوگوں سے کہہ دو کہ جو کچھ خدا نے ہمارے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا کوئی اور مصیبت تو ہم کو پہنچ سکتی نہیں۔ وہی ہمارا کارساز ہے اور مسلمانوں کو چاہیے کہ بس اللہ ہی پر بھروسا رکھیں‘‘۔ قرآن اپنے پیروئوں کو جدوجہد کی تلقین کرتاہے اگر مستشرقن نے انہی آیات کو اپنے اعتراضات کا معمل بنا رکھا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ان کے مفہوم تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ آیتیں خدا اور بندے کے درمیان کامل رابطہ کی شرح فرما رہی ہیں لیکن معترض یہ سمجھتا ہے کہ اسلام اپنے پیروئوں کو کاہلی کی تلقین فرما تا ہے چہ جائے کہ وہ اپنے تمدن کے لیے باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے حال پر لطف و کرم کی ہدایت فرماتا ہے۔ اسی طرح اپنے پیروئوں کو جدوجہد جان نثاری اور شرف و مجد سے زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتاہے۔ یہ واقعہ ہے کہ قرآن کی جن آیات یمں تقدیر کا ذکر ہے ان میں اس مسئلہ کے اس پہلو کی پوری پوری عکاسی کی گئی ہے جس پر تمام فلاسفہ مغرب کا اتفاق ہے اور جس کو کہ وہ اپنی اصطلاح میں جبریت سے تعبیر کرتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ قرآن نے تو کائنات کے نظم و نسق کی استواریوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے طرف منسوب کیا ہے اور یہ لوگ اسے قانون فطرت یا زندگی کے تقاضوں کے سر منڈہتے ہیں۔ اور یہ ایسا تصور ہے کہ جو اسلامی تصور جبریت سے کہیں زیادہ تنگ نظری اور سختی لیے ہوئے ہے۔ یہ علمی جبریت اس بات کی قائل ہے کہ انسان کو جو اختیار کیا جاتا ہے تو محض اضافی حیثیت سے ورنہ اس کی حدود اختیار بے حد سمٹی ہوئی ہیں۔ اتنا اختیار بھی یہ لوگ اس بنا پر تسلیم کرتے ہیں کہ اجتماعی ضرورتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں اس بنا پر نہیں کہ یہ علمی و فلسفیانہ جبریت اس کی اجازت دیتی ہے۔ اوریہ حقیتت ہے کہ اگراختیار کی اس مقدار کو بھی انسان میں تسلیم نہ کیا جائے تو معاشرہ کے لیے قانون و تشریع کے نقشوں اور ضابطوں کو قائم رکھنا دشوار ہوجائے گا کسی شخص کو بھی اس کے اعمال پر باز پرس نہ کی جائے۔ یہ صحیح ہے کہ علماء و فقہاء میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جنہوںنے جزا و سزا کی بنیاد انسانی اختیار میں نہیں رکھی بلکہ اس پر رکھی ہے کہ کسی شخص کی وفات پر معاشرہ پر کیا اثر پڑتا ہے مگر اکثریت نے اختیار کی اہمیتوں کو مانا ہے ان کی یہ دلیل ہے کہ جو لوگ مسلوب الاختیار ہیں قانون ان سے بالکل مواخذہ نہیں کرتا۔ مثلا چھوٹا بچہ مجنون یا سفیہ اپنے اعمال کے لیے کسی بھی قانون کی رو سے جواب دہ نہیں۔ لیکن جب ہم ان عملی تقاضوں کا خیا ل نہ کریں اور صرف مسئلہ علمی پہلوسے جائزہ لیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ علمی اور فلسفیانہ جبر ہمیں ہرطر ف سیگھیرے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو فرد جس زمانے میں پیدا ہوا ہے مجبوری کی وجہ سے پیدا ہوا کہ نہ تو مولود کو کسی اور وقت میں پیدا ہونے کا اختیار تھا نہ اسے اپنے جننے والی کے اس فعل تولید پر یہ قدرت کہ وہ اس زمانہ میں تقدیم و تاخیر کرا سکے۔ اسی طرح نہ کسی مولود کو اپن والدین کی حالت فقر و استغناء اور ان کے شرف و مذلت پر اختیار کہ وہ اپنی مرضی سے ان حالتوں میں تغیر و تبدل پر قادر ہو۔ مولود لڑکی ہے تو واہ واہ اور لڑکا ہے ت سبحا ن اللہ اور نہ اسے اپنے گرد و پیش (ماحول) میں درخل اندازی کی قدت جو ہوا او ہو رہا ہے یا بعد میں جو ہو گا وہ اس میں ذرہ برابر تبدیلی کا مختار نہیں۔ اسی حقیقت کو فرانسیسی فلسفی ہیولیث ن یوں بیان کیا ہے کہ انسان اپنے ماحول کی پیداوار ہے۔ مزید برآں دوسرے فلاسفر بھی یہ مانتے ہیں کہ اگر ہم کوشش کریں تو فرد اور اقوام کے مستقبل پر اس حد تک حکم لگا سکتے ہیں جس حد تک اجرام فلکی کی آئندہ نقل و حرکت اور شمس و قمر میں گرہن کے اوقات قبل از وقت کی تعین پر ہمیں قدرت حاصل ہے۔ کہنا یہ ہے کہ اس کے باوجود مشرق اور مغرب دونوں سمتوںکے علماء میں سے کسی نے ان مسلمات کے باوجود یہ دعویٰ نہیں یا کہ جب فطرت ہی نے موجودات کے ہر فرد کو اپنے اثر میں جکڑ رکھا ہے تو پھر انسان پر یہ ذمہ داری کیوں عائد کی جاتی ہے کہ وہ اپنی فلاح و بہبود کے لیے سعی جاری رکھے نہ ان فلاسفہ میں سے کسی نے یہ کہا کہ جبر فطرت کے سامنے کسی قوم کو اپنا مستقل درخشندہ کرنے کے لیے جدوجہد کرنا مفید نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی مستشرقین ہیں جو مسلمانوں کی تقدیر پر ایمان رکھنے کی وجہ سے ان کی زندگی میں جدوجہد کو ایک دوسرے (تقدیر و سعی) کے متضاد قرار دیتے ہیں۔ تقدیر بشرط سعی ایک طرف علمائے مغرب کا یہ محبوب و مسلمہ اجباری قانون فطرت ہے اور دوسری طرف قرآن کا مسئلہ تقدیر بشرط سعی۔ خدا کی مشیت کچھ سہی لیکن تمہاری جدوجہد کا ثمرہ مترتب ہو کر رہے گا۔ وان لیس للانسان الا ما سعی وان سعیہ سوف یری (۵۳:۳۹۔۴۰) ’’انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی اوریہ کہ اس کی کوشش آگے چل کر (قیامت کے دن بھی ) دیکھی جائے گی‘‘۔ دیکھنا یہ ہے کہ قرآن کا فلسفہ تقدیر پر ان آیات کے پیش نظر زندگی کے لیے کارآمد ہے یا مستشرقین کا تسلیم کردہ اجباری قاانون فطرت جس کی سطوت کی قہرمانی کے مقابلہ میں تقدیر کی وجاہت و مشفقانہ کرم گستری کا یہ عالم ہے کہ وہ انسان کو ہر ممکن جدوجہد سے بھلائی و وجاہت و شرف حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ بے شک فریقین (اہل مغرب اور مسلمان) اس حد تک متفق ہیں کہ کائنات پر ایک ایسا اٹل قانون مسلط ہے کہ جس کی سرتابی کی گنجائش نہیں اور انان بھی اسی قانون کی جکڑ میں کسا ہوا ہے لیکن دونوں اہل مغرب اورمسلمانوں میں بین فرق بھی ہے اہل مغرب کے تصورات کے مطابق انسان کا اپنے سود وبہبود کے لے ہاتھ پائوں مارنا یا گم صم بیٹھے رہنا دونوں کے نتائج مساوی ہیں۔ لیکن قرآنی تصور تقدیر کے مطابق فرد کو عقل کی یاوری کے ساتھ ساتھ نیک ارادوں کی تکمیل پر توجہ دلانا ہواا ان سے کہتا ہے کہ محنت کا ثمرہ قطعی ہے۔ اگر تم محنت کرنے سے ہاتھ کھینچ لو گے تو تم دنیا میں بھی فائز المرامم نہیں ہو سکتے۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم (۱۳:۱۱) ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (۱۳:۱۱) ’’جو نعمت کسی قوم کو (خدا کی طرف سے )حاصل ہو جب تک وہ قوم اپنی ذاتی صلاحیت کو نہ بدلے خدا اس کی نعمت میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کرتا‘‘۔ یہ کہ خدا نے انسان پر فکر و تدبر واجب کر دیا جیسا کہ آسامانی کتابوں اور مرسلین نے ہدایت فرمائی ہے کہ جس کے مطابق انہیں سنت اللہ اور اس کی مشیت پر دونوں پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ا س لیے جو خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد اس کے قوانین پر متوجہ ہو گا ا سے اس کی سعی کا ثمرہ حاصل ہو کر رہے گا۔ اگر اس کے لیے نیکی کی راہ میں جان دنیا لکھا ہے تو اس میں خوف و ہراس کی کون سی باتہے؟ یہ شخص اور اس کی راہ میں دوسرے سرفروش سب کے سب احیاء عند ربھم یرزقون ؎۱ (۳:۱۲۹) کے مصداق ہیں۔ اگر اسلام نے ایسی شہادت کو برتر زندگی قرار دیا ہے جو اللہ کی راہ میں حاصل ہو اور یہ دعوت پیش فرمائی ہے کہ تو سبقت اورتکمیل ارادہ کی اس سے بہتر کون سی راہ ہو سکتی ہے؟ آخرمیں اس کاہلی اور نامرادی کی کون سی بات ہے ؟ جیساکہ واشنگٹن ارونگ اور ان کے ہم نوائوں کا بھی یہ مقولہ کہ خدا پر توکل کا نام کاہلی نہں توکل کے یہ معنی نہیں کہ خود کو اس کے حکموں کجی تعمیل سے ہٹا کر گھر میں دبکا بیٹھا رہے بلکہ توکل ہے اس کے اشارہ پر سرفروشانہ جدوجہد! جیسا کہ آیہ: عزم وارادہ توکل کے منافی نہیں فاذا عذمت فتوکل علی اللہ( ۳:۱۵۹) ’’پھر جب ایسا ہو کہ تم نے کسی بات کا عزم کر لیا تو چاہیے کہ خدا پر بھروسا کرو اور جو کچھ ٹھان لیا ہے اس پر کار بند ہو جائو‘‘۔ ۱؎ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے حضور اپنی روزی پا رہے ہیں۔ کے مطابق اپنے کام کی تکمیل کر لیں اور نتیجہ میں خدا پر بھروسہ رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا وند تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے صدقے میں کامیابی سے محرو م رکھے۔ جس معاملہ میں خدا جوئی کے سوا کوئی اور مقصد نہ ہو اور اس کام میں ادھر ادھر کے خوف و ہراس کوبھی جگہ نہ دی جائے تو باقتضائے سنت اللہ جو ازل سے تا بہ ابد غیر متغیر ہے ایسے جفاکوش نسان کی دستگیری کے سامان خود بخود پیدا ہو جائتے ہیں۔ جس کے ساتھ ہ اس کا اپنی کوشش کے نتیجہ میں فائز المرام ہونا یا اس تگاپو میں جان سے ہاتھ دھوبیٹھنا ہر دو حالتوںمیں مقصد ہی کا حصول تو ہے کہ اگرنتیجہ اس کی منشا کے مطابق ہے تواس خدا کی مہربانی سمجھے اور اگر اس کی خواہش سے متغایر ہے تو اسے اپنی کسی لغزش کا مآل سجھے۔ اور اگر کسی شخص نے خدا کا آسرا چھوڑ کر دوسری قوتوں کو کامیابی کا ذریعہ متصور کر لیا تو اس راہ میں یہ سب سے بڑی لغزش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نیکی کی نسبت ذات کبریا کے ساتھ اورہر برائی کا انتساب ابلیسی وسوسہ اور کارشیطانی سے کیا جاتاہے۔ اور یہ جو کہا جاتاہے کہ ہرحادثہ کے وقوع سے قبل اس کا علم خدا کو ہے۔ لا یغرب عنہ مثقال ذرہ فی السموت ولا فی الارض ولا اصغر من ذالک اکبر ا الا فی کتاب مبین( ۳۴:۳) ’’(جو عالم الغیب ہے اور ) ذرہ بھر(چیز) بھی آسمانوں اور زمینوں میں اس سے پوشیدہ نہیں اور ذرے سے چھوٹی اور ذرے سے بڑی جتنی چیزی ہیں سب اس کے ہاں کتاب واضح (یعنی لوح محفوظ ) میں صاف صاف لکھی ہوئی موجود ہیں‘‘۔ تو اس میں کیا اشکال ہے؟ بے شک ایسا ہی ہے لیکن وہ قادر مطلق کسی کے ارادہ و اختیار کو تو انسان سے منفک نہیںکر لیتا جو اس پر طعن کیا جائے۔ علماء منافق الرائے ہیں کہ اگر علم کی وسعت میں ہو تاکہ وہ اسرار حیا ت اور اس کے طریقے بیا کر سکے تو وہ اس معاملہ میں کبھی سکونت اختیار نہ کرتا۔ وہ تمام افراد اور قوموں کی فرد عمل کا ایک ایک حرف دہرا دیتا جس طرح ماہر انجم اپنے علم کے زور سے چاند اور سورج میںآنے والے گرہن کی گرہیں کھول کر بتا یتاہے۔ ایمان باللہ کے معنی یہی ہیں کہ ذات علام الغیوب پر ہم اس جہت سے بھی ایمان رکھتے ہیں کہ وہ دنیا جہاں کے ہر آنے والے حادثہ کو اس کے وقوع سے قبل اسی اندا ز سے جانتا ہے جس طرح وہ ظہور میں آنے کو ہے۔ جس طرح ایک کامل مہندس کسی عمارت کا نقشہ متیعن کرتاہے تو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ یہ محل کتنی مدت تک سلامت رہنے کے بعد خود بخو د ڈھے جائے گا اور جس طرح اقتصادایت کا ماہر آنے والے اقتصادی مدوجزر پر قبل از وقت اپنی رائے قائم کر دیتا ہے۔ خالق کائنات کے علم کو اپنی ہر چھوٹی بڑی مخلوق کے متعلق قاصر سمجھنا ایسی ہی بے انصافی ہے جس سے علم و فرہنگ دونوں بیزار ہیں۔ خدا کے علم میں یہ امر تقدیر کے منافی نہیں کہ انسان اپنے معاملات پر خود بھی غور و خوض کرتا رہے اور جہاں تک اس کی وسعت ہے اس راہ میں اپنی کوشش جاری رکھے اپنی وسعت کے مطابق صحیح راہ پر گام زن ہو اگرچہ خدا نے اپنی ذات کو کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ ؎۱ (۶:۵۴) رحمت کا مصدر بنا رکھا ہے۔ ۱؎ اس نے (از خود لوگوں پر) مہربانی کرنے کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ جو شخص اپنے گناہوں پر ندامت کااظہار کرتا ہے ہو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ ؎۱ (۴۲:۲۵) اس کو توبہ قبو ل کر لیتا ہے اور اپنے بندوں کے بہت سے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ ویعفوا عن کثیر ؎۲(۴۲:۳۰) انسان کا یہ فرض ہے کہ کائنات پر غور و تدبر نے غفلت نہ برتے اور اپنی نیک کے معاوضۃ سے مایو س نہ ہو۔ افسوس ہے کہ ایسے شخص پر جو اپنی منزلت سے بے خبر رہ کر حقیقت کی تلاش میں اور ہدایات کے حصول سے کنارہ کش ہو رہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمت کو درخود اعتنا نہ سمجھ کراس کی ذات سے دشمنی کرتے ہیں۔ پھر اگر خدا نے ان کے دلوں پر ضلالت کی مہر ختم اللہ علی قلوبھم ؎۳ (۲:۶) لگا کر انہیں جہنم کاایندھن بنا دیا ہے ولھم عذاب عظیم ؎۴ (۲:۷) تو اس میں کون سی بے انصافی ہو گئی! الہی! یہ (مستشرقین) قرآن کے نطریہ وسعت و ہمہ گیری پر کیوں انصاف نہیں کرتے؟ قرآنی نظریہ تقدیر نہ تو کاہلی کامحرک ہے نہ انسان کو جدوجہد سے منع کرتا ہے اورنہ اسے خدا کی رحمت سے مایوس ہو کرگھر میں پائو ں توڑ کر بیٹھ رہنے ی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بلکہ جو لوگ اپنی کسی لغزش سے نادم ہو کر خدا کی رحمت اور لطف کے خواستگار ہوں تقدیر ان کی یوں دست گیری کرتی ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے خدا کی رحمت کا دروازہ بند ہوجاتاہے لیکن مستشرقین ا یہ انصاف ہے کہ تقدیر کے اثر سے مسلمان نیک و بد کی فکرسے خالی الذہن ہو کر خود کو اس کے حوالے کر دیتاہے جس کی وجہ سے وہ صدیوں سے ذلت سے دوچار ہے! مگریہ افترا حقیقت سے دور ہے۔ قرآنی تقدیر انسان کو مسلسل کوشش اور خداکی رضا طلبی دونوں پر متوجہ رہنے کی دعوت دیتی ہے کہ انسان خدا پر توک رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات کی انجام دہی میں اس انداز سے جدوجہد کرے کہ جس مہم میں اسے آج ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ک اس کے لیے از سر نوسعی جاری کر دے۔ اگر اپنی کوشش سے ہاتھ نہ روکے گا تو خداوند عالم اس کی دست گیری فرما کر اس کے کا م کی سر انجام دہی میں مددفرمائے گا۔ جب اسلامی تقدیر کایہ تصور ہو تو سعی و جدوجہد کے ساتھ اس کی رضا و عفو کی امید رکھنا تقدیر کا وہ استعمال ہے کہ جو اسلام کے یہ مہربان متعین کرنا چاہتے ہیں؟ آخر ہم اسی ذات کبریا کی عبادت اور اسی سے استعانت کرتے ہیں(م) اشارہ آیہ: ایاک نعبد وایاک نستعین (۱:۴) کی طرف اور ہر شے کا وہی ماوی و ملجا ہے۔ اس کے ماسوا اور کون سی قوت ہو سکتی ہے کہ جو انسان کو ایسی برتری کی تعلیم دے! امید کا اس سے زیادہ روشن افق کون سا ہے کہ جو انسان کے سامنے اس طرح ہویدا ہو کہ اگر تم خدا کی رضا جوئی کے پیش نظر نیکی میں سبقت کرو گے تو اپنی محنت کا حسب خواہش ثمرہ پائوگے؟ اور اگر شیطان کے گھرائو میں آ کر تمہاری سوجھ بوجھ پر حرص و آز کے پردے پڑ جائیں تو پھر صراط مستقیم پر آ جائو تو خداوند عالم تمہاری توبہ قبول فرما لے گا۔ ۱؎ اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فر ماتا ہے۔ ۲؎ اور خدا (تمہارے ) دست سے بے قصوروں سے درگزر کرتا ہے۔ ۳؎ خدا نے ان کے دلو ں پر اپنی دشمنی کی مہر لگا دی ۔ ۴ ؎ ان کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے۔ اور صراط مستقیم خدا کا وہ قانون ہے جو کائنا ت پر جاری و ساری ہے مگر عقل و فرزانگی کے ساتھ اس پر دسترس ناممکن ہے۔ جو شخص ان حقائق کو نظر انداز کر کے کسی اور طاقت کو خداکا شریک سمجھ لے تو یہ بھی شرک ہے ۔ کہ انسان فنہ پردازی کو اپنی کامیابی تصور کر کے طغیان و سرکشی میں منہمک ہوجائے اور دوسروں سے برادری اور اخوت کا رشتہ پارہ پارہ کر کے صرف ذاتی بھلائی کی تکمیل میں لگ جائے۔ ایسا شخص خدا کا عدل اور رحمت دونوں پر مشتمل ہے کہ بد کرداروں کے لیے اس کی تعزیر کا تازیانہ ہر وقت حرکت میں ہے اور برے اعمال کی سزا ملنا ہی چاہیے ولیکن۔ ۱۔ موت جو اس کی گھات میں لگ ی ہوئی ہے جوں ہی وہ گھڑی آجائے ایک لمحہ کا تقدم و تاخر نہ ہونے پائے گا پھرزندگی کے لیے تک و دو کی کیا مجال ہے؟ ۲۔ اور اسی طرح جب بدختی اور سعادت ازل سے انسان پر مسلط ہو کہ سعید اور شقی دونوں کا نصیبا لوح محفوظ میں مسطور ہے تو اس صورت میں بھی زندگی کے لیے جدوجہد بے سود؟ اس کاجواب! اسلامی نظریہ تقدیر پر اعتراض مسئلہ تقدیر پر مستشرقین کے یہ دو اعتراضات اور ہیں جن کا جواب پہلے بھی دیا جا چکا ہے جس کے بعد عمداً تکرار مدنظر ہے تاکہ موت کے اسلامی نقطہ نظر سے مقدر ہون کا تذکرہ بھی آ ہی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ غیر متبدل صرف ایک شے ہے اور یہ نظام کائنات کا وہ قانون ہے جو تخلیق عالم سے بھی پہلے مقرر تھا۔ کتب ربکم علی نفسہ الرحمۃ (۶:۵۴) ’’تمہارے پروردگار نے بندوں پر مہربانی کرنا(از خود) اپنے اوپر لازم کرلیا ہے‘‘۔ اور رحمت ذات باری تعالیٰ کی ایسی صفت ہے جو ایک حیثیت کے مطابق اس کے قانون ہی کی ایک شق ہے نہ یہ کہ خدا نے اسے (رحمت کو) واجب قرار دے دیا ہے ذات کبریا پر کسی امر کاوجوب لازم نہیں! وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا(۱۷:۱۵) ’’اور جب تک ہم رسول بھیج کر تمام حجت نہ کر لیں (کسی کو اس کے) گناہ کی سزا نہیں دیا کرتے‘‘۔ اس (آیت) کے یہ معنی ہیں خہ جس قوم کی طرف رسول نہ آئے وہ قو ضلالت ہی میں ڈوبی رہے۔ گو خدا کا قانون ہے کہ ایسی قوم کو ا س کی ضلاالت کے عوض میں عذاب سے دوچار نہ ہونے دے۔ لیکن جو شخص خدائے ہر دو سرا کو مانتا او ر اسے ایک خالق ارض و سما تسلیم کرتا ہے کہ اسے یہ بھی اعتراف ہے کہ اس نے اپنی مخلوق پر اپنے قوانین عائد فرمائے ہیں اوروہ شخص ان (قوانین ) کے نتائج و عواقب سے بھی باخبر ہے۔ پس اس حیثیت کے مطابق خداوند عالم جب کسی قوم کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے تو اس کا قانون تخلیق اور مشیت تقاضا کرتے ہیں کہ جاب بھی جو شخص ضلالت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے وہ اپنے نفس پر خود ظلم کرتاہے۔ تب وہ (خدا) ایسے شخص کو دوسروں کی عبرت کے لیے تماشا بنا دیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلامی عقیدہ کے مطابق جو شخص جرم (گناہ) کرتاہے اس نے اپنے اوپر خود ظلم کیا ہے اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن دوسری طرف یہ قصور اس کی تقدیر میں بھی ہے۔ ایسا عقیدہ محض سادہ لوحی ہے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ہماری سادہ لوحی نہیںبلکہ صرف معترض کا ایسا تصور کر لینا ہے حقیقت سے چشم پوشی اور خدا کی نعمت پر نشکری ہے۔ اس لے کہ ادنیٰ ترین انصاف یہ ہے کہ مجرم خود ارتکاب میں قصور وار ہے اورخدا اس کی سزا دہی پر ظلم نہیں کرتا۔ اس کی مثال میںیہ کافی ہو گا کہ مثلاً باپ بچے کو آگ کے قریب لے جاتا ہے گر جونہی بچہ آگ کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ اسے پیچھے کھینچ لیتاہے۔ مبادا س کا ہاتھ جل جائے باپ کا مقصد بچے کے ذہن میں آگ کی مضرت پیدا کرنا ہے جس کے لیے وہ بار بار اسے آگ کے قریب ے جاتاہے۔ اب اگربچہ لپک کر انگارے پر ہاتھ ڈال بیٹھے تو یا باپ کی گود میں ہمک کر آگ میں کودپڑے تو باپ کو قصور وارنہیں گردانا جا سکتا۔ کہ اس نے اپنے لخت جگر کو آگ میںجھونک دیا یہ تو بیچ کا اپنا قصورہے۔ یہی مثال ایسے باپ پر بھی دی جا سکتی ہے جو اپنے فرزند کو شراب و جوئے کے نقصانات سے متنبہ کرتا ہے۔ لیکن صاحبزادہ بالغ ہوتے ہی شراب نوشی اور جوئے میں لگ جائے تو باپ ملامت کاسزاوار نہیں۔ کیونک وہ تو اس فرزند کو جوئے اور شراب کے مضمرات سے ہمیشہ متنبہ کرتا رہا۔ ا ب اگر صاحبزادے اپنے کیفر کردار کر پہنچ رہے ہیں اور باپ ان کی مخلصی کے لیے کوشش نہیں خرتا تو اسے ظالم نہیں سمجھا جا سکتا۔ باوجودیکہ (وہ باپ) اسے (فرزند کو) نجات دلا سکتاہے۔ خصوصاً جب کہ ایسے بد اطوار جواری و شرابی کی درگت اس کے دوسرے بھائیوں اور دیکھنے والوں کی عبرت کا سبب بن سکے بلکہ ایسے مجر کی تعزیر کے وقت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کیا جائے تاکہ ایسے اشخاص کو عبرت حاسل ہو جو بد بخت جواری کی طرح جوئے سیاپنا ہاتھ نہیں روکتے۔ اگر ہو سکے تو یہ وہ نیکی ہو گی جس کاتصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح تعزیر کے اس سادہ و عام طریقے سے دنیا و جہاں کے ان گنت افراد کی اصلاح میں کس قدر مددحاصل ہو سکے گی البتہ وہ باپ جو اپنی اولد کو یوںنظر انداز کر دے کہ ماراچہ ازیں قصہ جو ان کے مقدر میں ۃے کریں۔ اگر برائی کریں گے تو خود اپنی سزا بھگت لیں گے۔ ایسا باپ اپنی اولاد کے حق میں ظالم ہے اس لیے مثلاً ہم پسو کو اس کو اس کے کاٹنے سے قبل ختم کر دیتے ہیں یا کسی متعدی مرض کے پھیلائو سے پہلے اس کا انسداد ضروری سمجھے ہوئے ہیں مبادا یہ بنی آدم کی ہلاکت کا ذریعہ بن جائے یا ایسا پتھر جو شاہ راہ پر یا گھر کے آنگن میںپڑا ہوا ہے۔ ٹھوکر سے بچنے کے لیے اسے وہاں سے ہٹا دیتے ہیں یا ہمارے جسم کاایک عضو اس حد تک مائوف ہو چکاہے کہ جس کی وجہ سے دوسرے اعضاء کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ تو اسے قطع کرکے پھنکوا ادیتے ہیںَ ان چیزوں کو اگر ہم ا ن کے حال پر چھوڑ دیں کہ ہمیں کیا ہماری تقدیر میں جو کچھ لکھا ہے وہ تو پیش آ کر ہی رہے گا۔ مگران کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت ہمیں تکلیف گھیر سکتی ہے تویہ ہماری بے سمجھی کا نتیجہ ہے کیونکہ ہمیں خدا ن ان چیزوں کے ضرر سے محفوظ رکھنے کے طریقے بتارکھے ہیں۔ جس طرح اس نے گناہ گار کے لیی توبہ کا طریقہ واضح کر رکھاہے۔ اگر بے مایہ شخص یہ گرہ لگائے بیٹھا رہے کہ تقدیر اس پر غالب ہے پھر وہ ان کے ضرر سے دوچار ہو جائے تو اس بے فہم منش کی حماقت مسلم ہے۔ وہ تقدیر کا استعمال غلط انداز سے سوچ رہا ہے۔ اس لیے کہ ہم پسو مارنے پتھر کو ایک طرف ہٹانے اور عضو فاسد کا القط کرنے کا عین عدل سمجھتے ہیں۔ قانون خداوندی ہمارا رہنما ہے کہ پسوکاٹنے سے باز نہیں رہ سکتے اور یہ کہ متعدی امراض انسان کی ہلاکت کا ذریعہ اور عضو فاسد تمام بدن کو متاثر کر کے رہتا ہے۔ لیکن اس کی کوئی وجہ نہیںکہ ہم تقدیر کے بھروسے پر خود کو مصیبت میں محصور کرلیں اوران مضرات کے خلاف اپنی قوت مدافعت کو معطل رکھ کر نہ صرف گرد و پیش بلکہ دوسروں کی زحمت کا ذریعہ قرار پائیں۔ کیا یہ عقیدہ اور عمل ہماری سادہ لوحی اور تن پروری یا کوتاہ اندیشی پر مبنی ہے؟ کائنات کے مقابلہ میں پسو سنگ گراں حتیٰ کہ انسان کی بساط ہی کیا ہے بلکہ نفس انسانیت بھی اس (کائنات) کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتا جس کائنات کی پہنائی کی ابتدا اورانتہا دونوں کا پتا نہیں چلتا۔ ہمارا تصور جس میں ہم اسے محصور کرنا چاہتے ہیں اور اس کی دوڑ زمان سے لے کر مکان تک اور ازل سے لے کر ابد تک آ کر ختم ہو تی ہے کائنات کی تعریف میں ہمارے الفاظ گنگ اور تشبیہات بے مایہ ہو کر اپنا منہ چھپا لیتی ہیں۔ ہماری اس بے بسی کی دلیل ہمارے اس علم کی قلت ہے تاہم اس تقلیل علم کے باوجود ہماری عقل رہبری کرتی ہے کہ خدا کا وہ قانون جو کائنات پر جاریو ساری ہے۔ عین عدل ہے اس میں تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں۔ اگرہم خود کو اس قانون کے تابع رکھیں گے تو خدا نے ہماری چشم و گوش اور دل میں دیکھنے سننے او رسمجھنے کی جوجو خوبی ودیعت فرمائی ہے اس کے واسطے سے ہم کائنات کی صنعت اور اس کے اسرار کا احاطہ کر کے ذات صانع کو پہچان سکتے ہیں اور ا س کے حکموں کی تعمیل میں نیک کاموں کے لیے خو د کو آمادہ کر سکتے ہیں اور جب عمل نیک ایمان کی بنیادوں پر مبنی ہو تو (عمل) خرد مند کے نزدیک خدا کی عبادت کا بہترین مظہر ہے۔ موت جو نام ہے زندگی کے ایک مرحلہ کے اختتام اور اسی کی دوسری منزل کے آغاز کا جس کے نام سے ا ن لوگوں کے بدن پر تھرتھری ابھر آتی ہے جن کے جیب و داماں حسن عمل سے خالی ہیں۔ یہ لوگ اپنی بداعمالیوں کے نتائج سے گھبرا کر موت سے ڈرتے ہیں۔ مومنین جنہوں نے سن کردارسے دنیا کی زینت میں چار چاند لگا دیے ہیں موت کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں خداوند عالم فرماتا ہے : (۱) الذی خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم کم ایکم احسن عملا وھو العزیز الغفور (۶۷:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیداکیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے اوروہ زبردست اور بخشنے والا ہے‘‘۔ اور اپنے نبی سے مخاطب ہو کر فرمایا: (۲) وما جعلنا لبشرمن قبلک الخلد ا افائن مت فھم الخالدون کل نفس ذائقہ الموت ونبلوکم بالشر و الخیر فتنہ والینا ترجعون (۲۱:۳۴:۳۵) ’’اور (اے پیغمبرؐ) ہم نے تم سے پہلے کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی پس اگر تم مر جائو گے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ ہر ایک جاندار (ایک نہ دن) موت (کا مزہ)چکھنے والا ہے اور (لوگو!) ہم تم کو بری اور بھلی حالتوں میں (رکھ کر )آزماتے ہیں اور(آخر کار) تم (سب) کو ہماری طرف لوٹ کر آناہے‘‘۔ (۳) مثل الذین حملوا التوراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا بئس مثل القوم الذین کذبوا بایت اللہ واللہ لا یھدی القوم الظالمین (۶۲:۵) ’’ جن لوگوںکے (سر) پر تورات (حکماً) لادی گئی ۔ پھر انہوں نے اس کو انگیز نہ کیا (یعنی اس پر کاربند نہ ہوئے) ان کی مثال گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہیں۔ جو لوگ خدا کی آیتوں کو جھٹلایا کرتے ہیں ان کی (بھی کیاہی) بری کہاوت ہے اور اللہ بے انصاف لوگووں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔ (۴) قل یا یھا الذین ھادوا ان زعمتم انکم اولیاء للہ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین ولا یتمنونہ ابدا بما قدمت ایدیھم واللہ علیم بالظالمین (۶۲:۶ تا ۷) ’’(اے پیغمبرؐ ان یہودیوں سے ) کہو کہ اے یہود! اگر تم کو اس بات کا گھمنڈ ہے کہ اور تما م آدمیوں کو چھوڑ کر تم ہی خدا کے چہیتے ہو (اور اپنے اس دعویٰ میں ) سچے (بھی) ہو تو موت کی تمنا کرو۔ مگریہ لوگ ان (اعمال بد) کے ڈر سے جن کے مرتکب ہو چکے ہیں کبھی موت کی تمنا کرنے والے نہیں اور اللہ بے انصاف لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘۔ اور (۵) وھو الذی یتوفاکم بالیل ویعلم ما جرحتم بالنھار ثم یبعثکم فیہ لیقضی اجل مسمی ثم الیہ مرجعکم ثم ینبئکم بما کنتم تعملون (۶:۶۰) ’’اور (لوگو) وہی (قادر مطلق )ٌ ہے جو رات کے وقت (نیند میں ایک طرح پر تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے اور کچھ تم نے دن میں کیا تھا (وہ اس کو بھی )جانتا ہے۔ پھر دن کے وقت تم کو اکٹھا کھڑا کرتاہے تاکہ (رات دن کی آمد و شد سے وہ ) معیاد جو (حیات جو اس کے علم میں ) مقرر ہے (ایک دن ) پوری ہو۔ پھر (آخر کار) اسی کی طرف (سب) کو لوٹ کر جانا ہے پھر (اس وقت) جو کچھ ت (دنیا میں ) کرتے رہے ہو وہ تم کو (اس کا برا بھلا) بتادے گا‘‘۔ متذکرہ الصدر آیات کس شدت کیساتھ تقدیر محض پر قانع رہ کر بے عمل زندگی سے روک رہی ہیں ان ہر پانچ آیات میں سے پہلی آیت سے یہ مفہوم متبادر ہوتا ہے کہ موت و زیست دونوں کا خالق خدائے برتر ہے‘ جو زندگی کے اعمال پر بھی نگراں ہے‘ کہ دنیا میں رہ کے کس شخص نے نیکی کی راہ یں کیا قد م اٹھایا یعنی زندگی محبت و عمل ہے اور آخرت ان اعمال کے لیے یوم جزا ہے کہ اگر انسان نے زندگی میں کوئی بھلا کام کیا ہے تو جس میں بحکم آیہ ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی منا کبھا وکلو من رزقہ والیہ النشور ؎۱ (۶۷:۱۵) اس رزق میں جو خدا نے اس کے لیے چاروں طرف پھیلا رکھا ہے جس سے وہ مستفید ہہے کیا اس نے دوسروں کی ضروریات کو بھی پوار کیا ہے بمصداق ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ ؎۲ (۵۹:۹) ۱؎ لوگو! وہی (خدا تو ہے) جس نے زمین کو تمہارے لیے نرم (ہموار ) کر دیا ہے تاکہ اس کے اطراف و جوانب میں جدھر چاہو چلو پھرو اور (نیز) خدا کی دی ہوئی روزی جو زمین سے پیدا ہوتی ہے مزے سے کھائو پیو اور (آخر کار) قیامت کے دن دوبارہ جی (اٹھ ) کر دوبارہ اسی کی طرف پھر چلنا ہے۔ ۲؎ اور اپنے اوپر تنگی کیوںنہ ہو( مہاجری بھائیو ںکو) اپنے سے مقدم رکھتے ہیں۔ اگرا س میں غفلت سے کام لیا ہے تو وہ خدا ک نزدیک مجرم ہے ‘ لیکن دوسرا شخص جس نے ہر نیک کام کے لیے سبقت لی اس کا یہ حسن عمل خدا کے نزدیک مقبول اور آخرت میں اس کی بہتر جزا اس کے لیے یقینی ہے خداوند عالم دنیا میں اپنے بندوں کے اعمال خیر و شر کی نگرانی کرتا ہے اس نے ہمیں نیکی اور بدی میں امتیاز کی قوت کے لیے عقل و دانش عنایت فرما دی ہے۔ فمن یعمل مثقال ذرۃ خیر ا یرہ ومن یعمل مثقال ذرہ شرایرہ ؎۱ (۹۹:۷::۸) بے شک ہمارے مقدر سے زیادہ ہمیں کچھ نہیں مل سکتا۔ لیکن اس میں بجائے خود ہمارے لیے حسنات کی ترغیب ہے کہ اگر خدا ہمیں زندگی کی جدوجہد کے دورا ن میں دنیا سے اٹھا لے ارو یہ حادثہ ہماری جوانی کے عالم میں رونما ہویا ہمیں ا س ارذل عمر تک زندہ رہنے دے جس میں سوجھ بوجھ اور قوت عمل اک ایک جواب دے کر یک طرف ہو جاتے ہیں ۔ ہارے لیے دونوں حالتیں برابر ہیں۔ زندگی سال اور مہینوں سے تعبیر نہیں بلکہ زندگی عام ہے اعمال نیک اورباقیات صالحات کا! جو لوگ نیک اعمال کرتے ہوئے دنیا سے گزر جاتے ہیں جو خعدا کے ہاں زندہ ہیں اور یہ اعمال دنیا میں بھی ان کے لیے حیات و جاوید کا وسیلہ بنے رہتیہیں اور ان لوگوں کے نام جریدہ عالم پر ہمیشہ ثبت رہتے ہیں۔ انہیں دنیا سے منہ موڑے صدیاں گزر گئیں۔ ان کے کارناموں کی وجہ سے ابھی تک انہ کی یاد زندہ ہے۔ تفسیر آیہ فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون ؎۲(۷:۳۴) بے شک موت کی گھڑی لمحہ بھر کے لیے آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتی جس کی موافقت میں نظام عالم بھی کہہ رہا ہے کہ دنیا میں ہر انسان کی اجل کا وقت مقرر ہے اور اس کے تسلیم کر لینے میں کوئی دشواری بھی نہیں آخر کسوف شمس و خسف ماہتاب کے لمحے بھی تو انسانی موت ہی کی مانند موقت سمجھے جاتے ہیں جن میں لمحہ بھر کا تقد و تاخر ناممکن ہے۔ انسان کی اجل کے موقت ہوے اور اس سے ووہ ساعت پوشیدہ رھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان دنیا میں نیجکی کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرسکے۔ کیونکہ اس گھڑی سے بے خبر جب موت کا فرشتہ اچانک آ کر اس کی روح پر قابض ہو جائے گا جس کے بعد اس کے لیے نیک اعمال کے سوا کوئی اور توشہ نہ ہو گا۔ ہم شب و روز موت کی ستم ظریفی دیکھ رہے ہیں ۔ کسی کو وہ ایک لمحہ علالت کے بغیر دفعتہ جھپٹ لیتی ہے دوسرا دائم المرض ہے جو بیمری ؤسے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر وقت ہاتھ پیر مار رہا ہے اور بستر علالت ہی پر بڑھاپے کی منزل میں جا پہنچتا ہے اور موت اسے نچوڑ نچوڑ کر اپنا آخری رنگ دکھاتی ہے۔۔ موت کا جرثومہ جسم انسانی میں مضمر ہے طبی تحقیقات سے انکشاف کیا ہے کہ انسان کی ولادت کے ساتھ ہی اس کے وجود میں موت کا جرثومہ بھی مادر رحم ہی سے توام پذیر ہوتاہے جو ایک معین مدت پر پہنچ کر انسان کی زندگی ختم کرنے کا ذریعہ بن جاتاہے(اگر کوشش کی جائے تو دوسرے جراثیم کی طرح ا س کی مزید دریافت بھی ممکن ہے اگرچہ آسان نہیں)۔ ۱؎ جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس (نیکی) کو بچشم خود دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہو گی وہ اس (برائی ) جو بچشم خود دیکھ لے گا۔ ۲؎ اور پھر جب ان کا وقت آ پہنچتا ہے تو اس نے ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اورنہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ موت کا یہ جرثومہ یا تو مادی شکل میں انسان کے اعضائے رئیسہ یا بدن کے کسی اورعضو میں چھپا پڑا ہے۔ یا غیر مادی حالت میں دماغ کے کسی کونے میں لگا ہوا ہے اور جو دماغ کو انسان کی معینہ موت کے وقت سے پہلے اسے دوسروں پر حملہ یا خود پر حملہ کی مدافعت کے لیے مشتعل کر کے اس کی مو ت کا محرک بن جاتاہے۔ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ خداوند خدا جس کا علم ذرے ذرے کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے اور جس کے مقرر کردہ نظام عالم میں کسی تغیر و تبدل کا امکان نہیں وہ ذات کبریا ہر انسان کی مو ت کے لمحوں سے بھی آگاہ ہے۔ پروردگار عالم کا کتنا احسان ہے کہ جب تک وہ کسی قوم کی طرف رسول نہ بھیجے جو انہیںنیکی اور ہدایت کی تلقین کرے اس وقت تک کسی قوم کو اس کے گناہوں پر عذاب سے دوچار نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو نسان ہی کیا دنیا میں ہر ذی روح موتوجب سزا قرار پاتا۔ ولویوا خذ اللہ الناس بظلمھم ما ترک علیھا من دابۃ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی فاذا جاء اجلھم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون (۱۶:۶۱) ’’اور اگر خدا بندوں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے پکڑتا ہے تو روئے زمین پر کسی متنفس کو باقی نہ چھوڑتا مگر وہ ایک مقرر(یعنی موت) تک ان کو مہلت دیتا ہے پھر جب ان کا (وہ ) وقت آن پہنچتا ہے تو (اس سے) نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں اورنہ آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔ اور اس نے رسولوں سے بار بار تاکید فرمائی کہ اپنی امت کو سمجھا دیں۔ وذر الذین اتخذوا دینھم لعبا ولھوا و غرتھم الحیوۃ الدنیا وذکربہ (۶:۷۰) ’’اور جنہوںنے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکا میں ڈال رکھا ہے تو ایسے لوگوں کا (انہی کے حال پر) چھوڑ دو اور (موقع پاکر) قرآن کے ذریعے سے (ان کو) سمجھاتے رہو‘‘۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا برودول کے خاندان میں پیدا نہیں ہوتے نہ تو خدانے کسی پیغمبر کو بادشاہ کے خاندان میں پیدا کیا نہ کسی دولت مند یا صاحب جاہ و منصب اور خانوادہ علم و فضل سے معبوث فرمایا ۔ ہر نبی طبقہ جمہور میں ظہور فرما ہوا۔ جناب ابراہیمؑ اور ان کے والد دونوں نجار تھے۔ حضرت عیسیٰؑ اپنے مولد ناصرہ کے نجار خاندان سے ظہور فرما ہوئے۔ کئی انبیاء بکریاں پالتے تھے۔ خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھی یہی معمول رہا۔ نبی کے جمہور میں سے مبعوث ہونے میں یہ مصلحت ہے کہ جمہور دوسرے اوصاف کی طرح حقیقت کو اس خوش نصیب کی ملکیت سمجھیں جو خود اسے خدا کی رضا طلبی کے لیے استعمال کرے اور دوسروں کے لیے بھی اسے یوں عام کر دے کہ انسان جو کچھ اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے پسند کرے۔ (حدیث نبوی) یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ اور سمجھ لیا جائے کہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ حقیقت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ انسان کا شرف و احترام اس کے حسب و نسب کی بجائے اعمال صالحہ کی بدولت ہے ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (۴۹:۱۳) کے مطابق۔ وقل اعملو افسیری اللہ عملکم (۹:۱۰۵) ’’اور اے پیغمبر (ا ن کو ) سمجھا دو کہ تم اپنی جگہ عمل کرتے رہو۔ سو ابھی تو اللہ تمہارے عملوں کو دیکھے گا‘‘۔ اور قل تجزون الا بما کنتم تکسبون (۱۰:۵۲) یہ جو تمہیں سزا دی جا رہی ہے تمہارے اپنے ہی کرتوت کا بدلہ ہے (اور بس)۔ خیال رہے کہ توحید باری تعالیٰ حقیقت کبریٰ کا ہی نام ہے۔ موت کا نام ہے زندگی کے ایک مرحلہ کے اختتام اور دوسرے کے آغاز کا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ’’موت نام ہے زندگی کے ایک مرحلہ کے اختتام اور اس کی دوسری منزل کے آغاز کا‘‘ بے شک ہم زندگی کے ایک دور سے گزر ے ہیں بایں ہمہ اس (زندگی) کے کاروبار سے اسی حد تک واقفیت ہے جہاں تک ہماری حس و عقل اور شعورہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔ لیکن آخرت کی زندگی کا معاملہ اس (زندگی) سے کہیںمختلف ہے۔ اس کے متعلق خدا نے ہمیں جس قدر بتایا اس سے زیادہ نہیں جان سکتے کیونکہ اس جہاں کی کیفیت ہم سے نہاں اور خدائے برتر پر آشکار ہے ۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے جو اس نے اپنی کتاب میں فرمایا اور ہم اس کے مکلف کہ اس دنیا کے اعمال کی جزا وہاں ملے گی۔ ہمیں خدائے جل و علا پر توکل رکھتے ہوئے اس سے اپنے اعمال کی عادلانہ جزا کی امید پر نیکی میں سبقت کرنا چاہیے اور اس کے سوا دوسرے معاملات ذات کبریا پر چھوڑ دینا چاہئیں۔ مستشرقین اور کلیسا کے لیے باعث ندامت امریکی مستشرق واشنگٹن اور اس کے دوسرے یاران طریقت عام اس سے کہ مسند استشراق کے مہرے ہوں یا محض کلیسائی مجاور دونوں گروہوں کو اپنی اس غلطی پر نادم ہونا چاہیے کہ انہوںنے اسلامی نظریہ تقدیر کے سر پر کیا کیا منڈھ دیا ہے۔ ہم نے مسئلہ کے سلسلہ میں صرف قرآن ہی پیش کیا ہے س لیے کہ ہمارا مقصد نہ علمائے اسلا م اور صوفیا کی توجیہات معرض بحث میںلانا منظور ہے نہ فلاسفہ اسلام کی تنقییحات پیش کرنا۔ واشنگٹن نے تقدیر کی آیات کو غذوہ احد اور حضرت حمزہؓ کی شہادت کو شان نذول بتانے میں کلیسائی مجاوروں کی تحقیق سے بھی زیادہ لغزش کا ارتکاب کیا ہے اس موضوع پر ہم نے جو آیات پیش کی ہیں ان میں سے بعض ہجرت سے قبل مکہ میں نازل ہوئیں جب کہ غزوات کا ذکر اذکار تک وجود میں نہ آیا تھا۔ واشنگٹن ارونگ اور ان کے ہمنوا مسیحی اہل قلم کی اس غلطی کا پس منظر یہ ہے کہ انہوںنے اسلامی نظریہ تقدیر پر تحقیق کی بجائے اسے مسیحی تصورات ککے سانچے میں ڈھال لیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو بلا تکلف اپنا ہمنوا کر لیں۔ کاش یہ حضرات اسلامی نظریہ تحقیق کو قرآنی نقطہ نظر سے پرکھنے کی زحمت فرماتے۔ انہیں اندازہ ہو سکتا کہ وہ عقل و شعور کے ساتھ کس حد تک مطابقت رکھتے ہیں اور جس میں ہر زمانہ کے فلاسفہ نے اسی (اسلامی نظریہ تقدیر) کے مطابق اپنے اپنے دور کے لیے اسے قبول کیا ہے۔ اگر مستشرقین منصفانہ طریق پر اسلامی مسئلہ تقدیر کا تجزیہ کر لیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ تقدیر اسلامی کا تصور اس قدر ارفع و اعلیٰ ہے کہ زندگی کے ان تمام تصورات کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے جو مختلف دوروں کے فلاسفہ نے تقدیر کے متعلق قائم کیے اوران میں ابتدا سے لے کر اب تک کے تمام تصورات کا بتدریج ارتقا ہوتا رہا۔ اسلامی نظریہ تقدیر اور اس کے علمی تجزیہ میں تطبیق اگر مستشرقین اسلامی جبریت کے راز کو پا لیتے ہیں توانہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ مصدر کتنا اونچا ہے کتنا گہرا ہے اور کس درجہ زندگی کے ان تقاضوں کے عین مطابق ہے تقدیر کے اس تصور کو ان تمام فلسفی و عقلی کوششوں کا نچوڑ قرار دینا چاہے جو اس سلسلہ میں بروئے کار آتی ہیں۔ یہ تصور اپنی ہیئت و ترتیب کے اعتبار سے بالکل انوکھا ہی نہیں بلکہ دراصل اسے ایک طرح کا امتزاج کہنا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نہ تو ایجابیت پسندوں کی علمی جبریت سے متصادم ہے اورنہ شوپنہار کے اس نظریہ سے بر سر پیکار ہے کہ یہ عالم محض ارادوں کی کارفرمائیوں کا کرشمہ ہے اور نہ برگسان کے ارتقائے پیہم ہی سے اس کا تعلق مخاصمانہ ہے۔ اس کے برعکس ان تمام سچائیوں کو یہ اپنی وسعتوں میں لیے ہوئے ہے۔ اختصاراً چند امور بامید غور و توجہ پیش کرتا ہوں نہ اس لیے کہ مسیحانہ نظریہ تقدیرپر معارضہ مدنظر ہے۔ بارھا اعادہ کیا جا چکا ہے کہ اسلام حضرت مسیحؑ کے مبادی تعلیم کو بھی اسی طرح تسلیم کرتاہے جس طرح دوسرے انبیائے سابقین علیہم السلام یعنی جناب ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰ وغیرہ کی تعلیم کو جیسا کہ خود جناب مسیح ؑ نے انجیل میں فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ اسلام کا مقصد انبیائے سابقین علیہم السلام کی تعلیم کو مکمل کرنا ہے اسلام کا مقصد انبیائے سابقین کی تعلیم کو مکمل کرنا ہے مگر ان کے شارحین کی تحریف میں صحیح کے ساتھ اس یے میں اس نظریہ کی جو تعبیر قرآن کی روشنی میں کرنے کو ہوں اس بارے میںپہلے اہل علم بھی میرے شریک ہیں۔ البتہ اسلوب بیان میں فرق ہو گا۔ پس اگر توفیق نے یاوری کی اور میں اس مقصد میں کامیاب ہو گیا تو یہ خداوند عالم کے لطف و کرم سے ہو گا۔ جن ارباب فکر و دانش کو علم کی نعمت عطاہوئی ہے ان سے متوقع ہوں کہ لغزش پر میری دست گیری فرما کر اس کے عطا کردہ علم و فضل کا شکریہ ادا کریں گے۔ اس ضمن میں قرآن کے سامنے سب سے پہلے یہ نظریہ مسلم ہے کہ جہاں ایسا مربوط و منظم سلسلہ ہے۔ جس میں کسی تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں اور جہاں صرف ا س زمین و آسمان یا ستاروں اور سیاروں ہی میں منحصر نہیں ہے جنہیں ہم نے اپنے گرد وپیش میں دیکھ رہے ہیںَ ان کے سوا بے شمار محسوسات اور بھی ہیں اور ان کے اسوا بے حساب ایسے غیر محسوس عوالم بھی ہیں جو ہماری حس ادراک سے بالاتر ہیں اور یہ سب کے سب ارض و فلک اور ستاروں کے ساتھ مل کر جہان کی تشکیل کا ذریعہ قرار پائے۔ اگریہ صحیح ہے تو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ جہان کے متعلق ہماری معلومات بے حد محدود ہیں مثلا ایتھر اور کہربائیہ کے بارے میں ۔ اول الذکر ہمارے اور ستاروں کے درمیان حاء ہے اور کہربائیہ جس نے ایتھر اور زمین دونوں کے درمیان تلاطم پیدا کر رکھا ہے ان دونوں ایتھر اور کہربائیہ کی وجہ سے آفتاب اور دوسرے ستاروں سے ہمیں جس قدر بعد ہے اس کے باہمی فاصلہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ذات خداوندی کے سوا سی کو اس پر احاطہ ممکن نہیں۔ لیکن ان (اجرام) کے درمیان اس قدر فاصلہ ہونے کے باوجود ہم اس جہان کی نیرنگیوں سے بہت کم آگاہ ہو پاتے ہیں۔ حتیٰ کہ جوں جوں ہماری ان معلومات میں ترقی ہوتی جائے گی ہم اصل حقیقت سے اور دور ہوتے جائیں گے البتہ ہماری معلومات میں ترقی ہوتی جائے گی۔ جس کے مقابلہ مں حقیقت ہمیں نہایت کم زور معلوم ہو گی۔ بایں ہمہ حقیقت کو ہم دوسری چیزوں سے غیر منفک تسلیم کرتے اور اسی کو اپنی ترقی کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اسی حقیقت کے پرتو میں ہم زندگی کے قوانین اورجہان کو بھی محسوب کیے ہوئے ہے۔ اگر ہم اس طرح تسلیم کرتے ہوئے اپنے تصور کو دور تک لے جائیں پھر اس پر گفتگو کرنا چاہیں توہمارے یہ میدان اور بھی محدود ہو جائے گا پس ایک مثال پر اکتفا کیا جاتاہے۔ مریخ میں آبادی کی مثال سے سبق فرض کیا مریخ میں انسان آباد ہے اور اس کے قبضہ میں لاسلکی(تار برقی) بھی ہے جو اپنی آواز ایک سو ملین میل تک پھینک سکتی ہے جس کے ذریعے مریح کے باشندے کرہ زمین پر رہنے والوں کو اپنے ہاں کے حوادث ٹیلی وژن کے ذریعے سناتے رہتے ہیں۔ کیا یہ بات ہمارے فہم میں آ سکتی ہے کہ حالانکہ مریخ ان ستاروں سے قریب تک ہے جو زمین سے لاکھوں میل اور دور واقع ہے۔ مجھے عرض کرنا ہے کہ جہان جس کے متعلق ہماری قلت علم کا یہ حال ہے کہ ا س کی مختصر سے مختصر اطلاعات پر بھی ہمیں احاطہ نہ ہو سکے۔ دوسری طرف اس (جہان) کی پنہائی وپذیرائی کا یہ عالم کہ اسی کے تاثرات ہماری زمین اور اس پر بسنے والی مخوقات میو یوں جاری و ساری ہوں۔ پھراگر اس جہان کا کوئی اور ایک کرہ ذرا سا پہلو بدل لے تو دنیا کا انجام کیا ہو! انسانی زندگی جو دوسرے دوسرے موجودات کے مقابہ میں ذرہ بے مقدار کے درجے پر ہے اپنی موجودہ صورت سے تحلیل ہو کر کس حالت میں متبدل ہو کر رہ جائے۔ چہ جائے کہ اگر اس زندگی پر کوئی بڑا حادثہ وارد ہو! انسانی اطوار پر خارجی عوامل کے اثرات ہماری زندگی اپنی اس بے مائیگی کے ساتھ ان خارجی اثرات سے کبھی نیکی کی طرف مائل ہو جاتی ہے اور گاہے نیکی سے دامن سمیٹ کر ایک طرف ہو جاتی ہے۔ ان دونوں حالتوں میں خارجی عوامل ہی موثر نہیں ہوتے بلکہ جس نفس پر یہ عوارض عوامل ہوتے ہیں اس (نفس) کی ذاتی استعداد اور ان تاثرات کا انداز وقوع بھی نیکی کی طرف سبقت یا اس سے دامن سمیٹ لینے دونوں می سے کسی ایک کا ذریعہ بن ہوجاتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ ایک حادثہ مختلف لوگوں پر مختلف اثرات ظہور پذیر ہونے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایک فرد اس(حادثہ) کے اثر سے نیکی اور بدی دونوں کے درمیان آہنی فصیل کی شکل میں کھڑا ہو گیا مگر دوسرے اشخاص نے اس کی بجائے اور اثرات قبو کیے یہی وجہ ہے کہ خیر یا شر دونوں میں سے جو بھی رونما ہو نتیجہ ہے عوامل خارجی اور انسانی روح دونوں کی باہمی کیفیت کا امتزاج کے تاثرات کا ارو اسی طرح نیکی اور بدی دونوں نتیجہ ہیں قوانین خلقت اور وجود کائنات کے خواص کاجیسا کہ مثبت اورمنفی دنوں کہربائیہ کی ایک ہی گرہ میں اکٹھے بندھے پڑے ہیں جس طرح جسد انسانی کی بقاکے لیے جراثیم بھی اس کے بدن میں پل رہے ہیں۔ فی زمانہ کوئی شے نہ مضر ہے نہ مفید۔ اشیا کا نفع و ضرر ان کے استعمال سے مربوط ہے۔ جو چیز ایک موقع پر مہلک ہے وہی دوسرے وقت میں جاں بخش ہے جیسے برق پاش آلات حرب جو لڑائی میںلاکھوں انسانوں کا خون چاٹ کر ہنوز سرگرم ہلاکت ہے جن کی شعلہ آشامی سر بہ فلک محلوں کو چشم زددن میں پیوند خاک کر دیتی ہے۔ دیدہ زیب مناظر ایک جھپٹ سے بھیانک نظر آنے لگتے ہیں مگریہ آلات حرب جنگ کے بغیر اپنی افادیت کا دامن یوں پھیلائے رکھتے ہیں کہ جن سے انسان دائمی راحت محسوس کرنے لگے۔ بارود اور اسی قسم کی دوسری آتش بار چیزیں نہ ہوتیں تو پہاڑوں کے جگر میں ریل کی پٹڑی کے لیے شگاف ممکن تھا؟ اسی (بارود) کی قوت زمین کے قلب میں سے سونے چاندی ے ذرے اگلوا لیتی ہے اسی کی بدولت کوہ پیکر چٹانیں ایک طرف ہٹا کر وہ گیسیں نکالی جاتی ہیں جو لڑائی کیدوران انسان پر انسانی خون کی پچکاریاں پھینک کر اسے بھسم کر دیتی ہے اور صلح و آشتی کے دور میں یہی گیسیں مفید امور میں معاون کوئی انسانی جان بچانے کے لیے اکثیر اور کوئی بعضاستعمالی پانی کو مہلک جراثیم سے پاک کرنے میں مددگار جہازوں کے مہلک جراثیم کی ہلاکت میں ہماری ممد‘ جن میںایسے خطرناک چوہے بس جاتے ہیں کہ اگر گیس نہ ہوتی تو یہ چوہے جہازوںمیں شگاف ڈال کر انہیں سمندر کی تہہ میں پہنچا دیتے۔ اسی طرح ان گیسوں کی بدولت ایک کئی قسم کے جراثیم تباہ کیے جاتے ہیں۔ حشرات الارض میں منافع کا پہلو آج سے پہلے حشرات الارض اور چرند پرند کا وجودمحض بے مصرف سمجھا جاتا تھا مگر جدید انکشافات نے جو ں ہی پردہ ہٹایا جن جانوروں کو ہم بے قصور کیے ہوئے تھے ان پر ہماری زندگی کی بقا دیکھنے میں آئی۔ ان جانوروں کے مسئلہ نے بعض ملکوں میں یہاں تک اہمیت حاصل کر لی ہے کہ ایسے جانوروں کی بقا کے لیے چڑی مار اور شکاریوں کو قانوناً پابند کر دیا ہے اور ماہرین حیوانات نے تسلیم کر لیا ہے کہ جب تک ایسے ذی روح انسان کے لیے خطرہکا سبب نہ ہوں ان کی بقا و حفاظت کا انتظام ضروری ہے۔ ورنہ ایسے جانوروں کی ہلاکت اور بربادی خود انسان کی تباہی کا ذریعہ بن جائے گی۔ فعل کا موقع کی اہمیت سے علاقہ کہنا یہ ہے کہ اس قسم کے ذی روح حیوانات ک مانند انسانی اعمال بھی فی ذاتہ نہ مفید ہیں نہ مضر بلکہ ان کی منفعت و مضرت کا حکم ان کے نتیجہ کے مطابق لگایا جاتا ہے مثلا ً ازروئے قرآن قتل انسان معصیت بھی ہے اور فعل حڑام بھی لیکن یہی قتل ہے جسے فی ذاتہ حق سے تعبیر کیا گیا فرمایا: ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق (۶:۱۵۱) ’’اور کسی جان کو قتل نہ کرو جسے خدا نے حرام ٹھہرا دیا ہے ہاں یہ کہ کسی حق کی بناپر قتل کرنا پڑے جیسے قصاص میں‘‘۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب کوئی شخص اپنے کسی فعل کی وجہ سے مباح الدم ہوجائے تب اس کا قتل کر دینا حق ہے اسی طرح: ولم فی القصاص حیوۃ یا ولی الالباب ( ۲:۱۷۹) ’’اور اے ارباب! دانش قصاص کے حکم میں (اگرچہ) بظاہر ایک جان کی ہلاکت کے بعد دوسری جان کی ہلاکت گوارا کر لی گئی ہے لیکن فی الحقیقت یہ ہلاکت نہیں ہے تمہارے لیے زندگی ہے‘‘۔ ہر قسم کا قاتل موقع کی اہمیت سے حق بجانب بھی ہو سکتا ہے مثلاً جلاد ان ہر دو آیات سے ثابت ہوا کہ: ۱۔ وہ جلاد جو مجرم کو قتل کرتا ہے۔ ۲۔ اور وہ شخص جو خود پر حملہ آور کی مدافعت میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ ۳۔ اور وہ سپاہی جو اپنے وطن کی حفاظت میں مقابل کی گردن بھٹے کی طرح اڑا کر پھینک دیتا ہے۔ ۴۔ اور وہ مومن جو اپنے دین کی حفاظت کے لیے کفر کو فی النار کر کے خود بچ نکلتاہے۔ کسی معصیت یا امر محرم نے مرتکب نہیں ہوئے بلکہ انہوںنے خدا کی طرف سے خود پر عائد کردہ حق ادا کیا ہے اور وہ گناہ کی بجائے محسن نیک کردار کے برابر اجر و ثواب کے مستحق قرار پائے ہیں۔ اسی طرح مثلاً ایک شخص اپنے وطن کو وبا سے بچانے کے لے مہلک جراثیم کی ہلاکت کا جوہر دریافت کرتا ہے جو اس وبا کا باعث ہون کو تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شخص کا مقصد نیک ہے اسی طرح وہ تمام ارباب صنعت و حرفت جو ربع مسکون پر آباد ہیں اگر ان کی ایجاد و سعی مفید کاموں میں صرف ہو تو یہ ان کے اجر و ثواب کاذریعہ ہو گا اور اگر بنی نوع بشر کی بلاوجہ تباہی کے لیے استعمال ہو تو نتیجہ کچھ اور ہو گا۔ قدرتی تقسیم کار خداوند عالم کا ارادہ اور دنیا میں اس کا قانون(دونوں) کارفرما ہیں۔ اس کی وجہ سے اس نے بنی نوع انسان پر مختلف قسم کی ذمہ داری تقسیم فرما رکھی ہے۔ جس میں ہر شخص کو اس کے سلیقہ کے مطابق کام کرنے کی استطاعت حاصل ہے ایک طبقہ تعمیرات سے دنیا کو آباد کر رہا ہے دوسرا کھیتی باڑی سے ان کی قوت کا سامان فراہم کرنے میںمشغول ہے۔ کچھ لوگ صنعت و حرفت کے ذریعے ربع مسکون کی رونق بڑھا رہے ہیں بعض حضرات علم و ہنر سے جمہور کی ذہنی تربیت میں مصروف ہیں لیکن جملہ علوم و فنون کے باوجود ان میں سے کوئی طبقہ قانون خداوندی کی تبیین نہیں کر سکتا۔ جس کے لیے اللہ ایک اور طبقہ کو خلعت نبو ت سے ممتاز فرما کر انہیں ابلاغ رسالت پر مامور فرما دیتا ہے۔ اسی طرح ایک گروہ کو علم و حکمت کی دولت حاصل ہونے سے انبیاء علیھم السلام کا ورثہ نصیب ہوتاہے جو ہمیں کردنی و ناکردنی امور سے آگاہ کرتے ہیں پھر بشر کو فی ذاتہ عقل و تمیز عطا فرمائی گئی ہے۔ جس سے وہ انبیاء کرا م اور وارثین علوم نبوت کی تعلیم کے مطابق خود کو ناکامی کی ڈگر سے بچا کر کامیابی کی راہ پر لے جا سکیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دیں اور اس کے بعد جو شخص غیر مناسب امور کا مرتکب ہو کر گناہ سے باز نہ رہ سکا ریاست کا فرض ہے کہ اپنے مروجہ دستور کے مطابق اس پر تعزیر عائد کرنے میں غفلت سے کام نہ لے تاکہ جرائم کی رفتار میں اضافہ نہ ہو لیکن خدا کے حضور گناہ گاروں کے لیے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ جو شخص غلطی سے برائی کرنیکے بعد کدا کے سامنے ندامت کا اظہار کرے اور اس کے بعد اپنے آپ کو گناہ سے پاک کرنے کا ارادہ کر لے اس کے لیے یہ گنجائش باقی ہے کہ خداوند عالم اس کا یہ گناہ معاف فرما دے۔ اسلامی نظریہ کے مطابق خدا کی یہ رحمت ہر اس شخص کے لیے ہے کہ جو سچے دل سے گناہ سے سرکشی کا تہیہ کر کے خدا کے سامنے توبہ کر لے تب وہ اس کا گناہ معاف فرما دے گا۔ انہ ہو التواب الرحیم (۲:۳۷) قرآن کا یہ فلسفہ جسے اس کے بعض مخالف مسائل سے مختلف بتاتے ہیں درحقیقت زندگی کے عین مطابق ہے۔ وہ (فلسفہ قرآنی) ثابت کرتا ہے کہ اشیا کا وجود خداوند عالم کے ارادہ محض کا نتیجہ ہے۔ انما قولنا لشی اذا اردنہ ان نقول لہ کن فیکون (۱۶:۴۰) ’’جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو بس ہمارا کہنا اس کے بار ے میں اتنا ہی ہوتا کہ ہم اس کو فرما دیتے ہیں اور کہ ہو اور وہ ہوجاتی ہے‘‘۔ ہمارے لیے یہ جہان محسوسات و غیر محسوسات دونوں کا سرچشمہ ہے۔ مگر ان کے قوانین غیر متغیر ہیں جن سے ادراک کے لیے ہم اپنی عقل کے مطابق خود مکلف ہیںاور اس کے اس ادراک و تعقل کی راہ میں پیش آمدہ مسائل کو عقل و فہم ہی کی قوت سے حل کرنے کے ذمہ دارہیں جس سے بنفسہ ہمارے ادراک و تعقل میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ (اس) جہان کا قوام خوبی (نیکی) ہے جس سے بدی ہمہ وقت برسر پیکار ہے۔ کبھی وہ نیکی غالب بھی ہو جاتی ہے اور لیکن جب نیکی بدی پر غالب ہو جاتی ہے تو انسان چشم زدن میں ترقی کئی منزلیں طے آگے نکل جاتا ہے جیسا کہ موجودہ زمانہ میں انسان کو بعض امور میں کمال حاصل ہو چکا ہے۔ عالم کون و مکاں کو چھ روز میںپیدا کرنا ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام کا فلسفیانہ مسلک دوسرے مسالک کے مقابلہ میں حصول مراتب کے لیے کہیں بہتر اور اکمل ہے جو اپنی شرح اس اندا ز سے کر رہا ہے کہ جس کی تائید قرآن مجید ہی کے فلسفہ تخلیق ارض و فلک سے ہو رہی ہے جس کے مطابق کردگار ہر دوسرا نے زمین و آسمان کو چھ ؎۱ روزمیں رخلیق فرمایا او ر اس کے بعد عرش بریں پر مستوی ہو گیا امگر ان دونوںکی مقدار ہماری دنیا کے دنوں سے کوئی نسبت نہیں رکھتی۔ ۱؎ بمصداق آیہ ان ربکم اللہ الذی خلق السموات والارض فی ستتہ ایام ثم استوی علی العرش (۷:۵۴) (لوگو) بے شک تمہارا پروردگار وہی تو ہے جس نے چھ دن میں زمین وا ٓسمان کوپیدا کیا پھر عرش پر جا براجا‘‘۔ وان یوما عند ربک کالف سنتہ مما تعدون (۲۲:۴۷) ’’اور کچھ شک نہیں کہ تمہارے پروردگار کے ہاں تم لوگوں کی گنتی کے مطابق ہزار برس کے برابر (اخیر فیصلے کا) ایک دن ٹھہرا ہوا ہے‘‘۔ مگر یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے لیکن نظریہ ارتقاء قرآن مجید کے اسی تخلیق عالم کے مطابق قرار پایا جاتا ہے اور اسی کے مطابق حامیان ارتقاء کو وسعت بھی ملتی ہے۔ آدم و حوا کی تخلیق آخر اس کردگار حقیقی نے آدمؑ و حواؑ کو خلق فرمایا اور ملائکہ کو ان کی تعظیم کا حکم دیا جس کی تعمیل ابلیس کے سوا ہر ایک فرشتہ نے کی اگرچہ وہ (ابلیس) بھی آدمؑ کی فضیلت علمی اور تبحڑ کا انکار نہ کر سکا۔ ویادم اسکن انت و زوجک الجنۃ فکلا من حیث شعتما ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظلمین فوسوس لھما الشیطن لیبدی ھما ماوری عنھما من سواتھما وقال مانھا کما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین اوتکونا من الخالدین وقامسھما انی لکما من الناصحین قد لھما بغرور فلما ذاقا الشجرۃ بدت لھما سواتھما وطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ ونادھما ربھما الم انھکما عن تلکما الشجڑہ واقل لما ان الشیطان لکما عدو مبین قالاربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین قال اھبطوا بعضکم لبعض عدو و لکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین قال فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنھا تخرجون (۷:۱۹۔۲۵) یا بنی ادم قد انزلنا عیکم لباسا یواری سواتکم وریشا ولباس التقویٰ ذالک خیر ذالک من آیت اللہ لعلھم یذکرون یا بنی ادم لا یفتننکم الشیطان کما اخرج ابویکم من الجنۃ ینزع عنھما لباسھما لیریھما سواتھما انہ یرکم ہووقبیلہ من حیث لا تروؤنھم انا جعلنا الشیاطین اولیاء للذین لا یومنون (۷:۲۶۔۲۷) ’’اور ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدمؑ تم اور تمہاری بی بی حوا ؑ بہشت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھائو پیو مگر اس درخت کے پاس بھی نہ پھٹکنا۔ ایسا کرو گے تو تم آپ اپنا نقصان کرو گے پھر شیطان نے دونوں میاں بیوی کو بہکایا تا کہ ان کے پردہ کرنے کی چیزیں جو ان کی نظر سے مخفی تھیں(یعنی ان کا آگا پیچھا) انہیںکھول دکھائے اور ان دونوں سے لگا کہے کہ تمہارے پروردگار نے جو اس درخت سے پھل کانے کی تم کومناہی کر دیہے تو ہو نہ ہو کہ اس کا سبب یہی ہے کہ کہیں ایسا نہہو کہ تم دونوں فرشتے بن جائو یا دونون ہمیشہ ہمیشہ و جیتے رہو اوران سے قسمیں کھا کھا کر بیان کیا کہ بلا شبہ میںتمہار ا خیر خواہ ہوں۔ غرض دھوکے سے ا کو درخت ممنوع کے پھل کھانے کی طر ف مائل کر لیا۔ تو جونہی انہوںنے درخت کے پھل کو کھاکر چکھا تو دونوں کو پردہ کرنے کی چیزیں دکھائی دینے لگیں اور لگے بہشت کے پتوں کو اپنے اوپر چپکانے اور ان کے پروردگار نے انہیں ڈانٹا کہ کیا ہم نے تم کو اس درخت کے کھانے سے مع ہی نہیں کی تھی اور کیا تم سے نہیں کہہ دیا ھتا کہ شیطنا تمہارا کھلا دشمن ہے یہ دونوں کہنے لگے کہ اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنے تئیں اپنے آپ کو تباہ کیا اور گر تو ہم کو معاف نہیں فرمائے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گاتو ہم بالکل برباد ہوجائیں گے۔ اس پر خدا نے فرمایا کہ تم میاں بیوی اور شیطان تینوں بہشت سے نیچے جائو۔ تم میں ایک کا دشمن ایک ہے اور تم بنی آدم کو ایک وقت خاص یعنی مرتے دم تک زمین پر رہنا (ہو گا) اور (تمہارا) سامان (زیست) بھی وہیں مہیا ہے۔ خدا نے یہ بھی فرمایا کہ زمین ہی میں زندگی بسر کرو گے تو اور اسی میں مرو گے اور اسی میں سے قیامت کے دن دوبارہ نکل کھڑے کیے جائو گے۔ اے بنی آدم ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس اتارا ہے جو تمہارے پردے کی چیزوں کو چھپائے اور موجب زینت بھی ہو اور پیرہیز گاری کا باس یہ سب لباسوں سے بہترہے یہ یعنی لباس کاہونا خدا کی قدرت کی نشانیوں میںسے ہے تاکہ لوگ اس بات پر غور کریں کہ اے بنی آدم کہٰں شیطان تم کو (راہ خدا سے) بہکا نہ دے جس طرح کہ اس نے تمہارے والدین(آدم و حوا) کو بہشت سے نکلوایا کہ لگا ان کا بہشتی لباس ان سے اتروانے تاکہ ان کے پردہ کرنے کی چیزیںان پر ظاہر کر دے۔ غرض اغوائے شیطان سے بچتے رہو۔ (کیونکہ وہ اور اس کی ذریات تم کو ادھر سے) دیکھتے رہتے ہیں جدھر سے تم انہیں نہیں دیکھتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لوگوں کا یار (ہمدم) بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ ہابل و قابیل آدم و حوا بہشت سے نکل آئے اور باہر ا ٓکر ان اکی اولاد ایک دوسرے کی دشمن ہو گئی۔ البتہ وہاں سے نکل کر انہوںنے اپنی زندگی بہتر کرنے کے لیے کوئی کوشش اٹھا نہ رکھی۔ اسی طرح آدم کے اخلاف الاخلاف نے خداوند اعالم نے ان کے متعلق بعضکم لبعض عدو (۷:۲۴) میں جو انداز بتایا تھا پورا ہو کر رہا۔ ان کے دنیا میں آ جانے پر سب سے پہلے ان کا قساوت و تعصب ہی رونما ہوا۔ واتل علیھم نبا انبی ادم بالحق اذا قربا قربانا فتقبل من احدھما ولم یتقبل من الاخر قال لا قتلنک قال انما یقتبل اللہ من المتقین لئن بسطت الی یدک لتقتلنی ما انا بباسط یدی الیک لا قتلک انی اخاف اللہ رب العلمین انی اریدان تبو باثمی و اثمک فتکون من اصحاب انار و ذالک جزواا الظالمین فطوعت لہ نفسہ قتل اخیہ فقتلہ فاصبح من الخاسرین فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یواری سوء ۃ اخیہ قال یویلتی اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب فاواری سوء ۃ اخی فاصبح من النادمین من اجل ذلک کتبنا علی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیر نفس اوفسادفی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانما احیا الناس جمیعا ولقد جاء تھم رسلنا بالبینات ثم ان کثیرا مھم بعد ذالک فی الارض لمسرفون (۵:۲۷تا ۳۲) ’’اور (پیغمبر) ان لوگوںکو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے واقعی حالات پڑھ کر سنائو کہ جب دونوں نے خدا کی جناب میں نیازیں چڑھائیں تو ان میں سے ایک یعنی ہابیل کی قبول ہوئی اوردوسرے یعنی قابیل کی قبول نہ ہوء تو قابیل مارے حسد کے بھائی سے لگا کہنے کہ میں تجھجے ضرو ر قتل کر کے رہوں گا۔ اس نے جواب دیا کہ اللہ تو صرف پرہیز گاروں کی نیازیں قبول کرتا ہے۔ اگر میرے قتل کرنے کے ارادے سے تو مجھ پر اپنا ہاتھ چلائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے تجھ پر اپنا ہاتھ چلانے والا نہیں کیونکہ میں اللہ رب العلمین سے ڈرتا ہوں۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ زیادتی تو تیری ہ طرف سے ہو وار تو میرا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹے اور دوزخیوں میں جا شامل ہو اور ظالموں کے یہی سزا ہے۔ اس پر بھی اس کے یعنی قابیل کے نفس نے اس کو اپنے بھائی کے مار ڈالنے پر آمادہ کر لیا۔ چنانچہ آخر کار اس کو مار ڈاا اور آپ ہی گھاٹے میں آ گیا۔ اس کے بعد اللہ نے ایک کوا بھیجا۔ وہ زمین کریدنے لگا تاکہ اس کو (یعنی قابیل کو) دکھائے کہ اپنے بھائی کی فضیحت (یعنی اس کی لاش کو) کیونکر چھپانا چاہیے۔ چنانچہ وہ کوے کو زمین کریدتے دیکھ کر بول اٹھا ہائے میری شامت! کیا میں ایسا گیا گزرا ہوں کہ با سے اس کوے ہی جیسا(ہوشیار) ہوتا تو اپنے بھا ئی کی فضیحت (یعنی لاش) کو چھپا دیتا۔ الغرض وہ (اپنے کیے پر بہت ہی پشیمان ہوا ) اسی واقعے کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو تحریری حک مدیا کہ جو کوئی جان کے بدلے ملک میں فساد پھیلانے کے طورپر نہیں (بلکہ ناحق) کسی کو مار ڈالے گا تو (اس کی نسبت ایسا سمجھا جائے گا کہ) گویا اس نے تمام آدمیوں کی جان لی اور جس نے اس کی جان بچا لی اس نے گویا سب کو بچا لیا بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول کھلے کھلے معجزے لے کر بھی آ چکے ہیں ۔ پھر اس کے بعد ( بھی ) ان میں سے بہتیرے (لوگ) ملک میں زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں‘‘۔ ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو مار ہی ڈالا ۔ یہ (قاتل) اپنے حقیقی بھائی کا حاسد شقی القلب اور کینہ توز تھا۔ دوسرا بھائی جس کا قلب خوف خداوندی سے معمورتھا جب حملہ آور بھئای ے اسے لا قتلنک (۵:۲۷) کہہ کر دھمکایا تو قتل ہونے والے نے متقی ہونے کے باوجود اپنے حملہ آوربھائی کے لیے مغفرت و عفو کی دعا کی اور اس کے گناہ کے ساتھ اپنے گناہ کا بوجھ بھی اسی کے سر ڈالنے کی طلب ظاہر کی۔ انی ارید ان تبو باثمی واثمک فتکون من اصحاب النار ؎۱ (۵:۲۹) غور فرمائیے کہ انسانی کردار میں انتقام اور خشونت کا جذبہ عفو و بخشش پر کس قدر حاوی ہے۔ حضرت آدمؑ کے بعد انبیاء علیھم السلام کاسلسلہ جاری ہوا حضرت آدم و حوا کی تخلیق کے بعد ان کی نسل بڑھتی گئی اور خدا نے انہیں راہ راست پر قائم رکھنے کے لیے انبیاء کا سللسہ جاری فرمایا جواولاد آدمؑ کو ان کے کاموں پر فلاح و نجات کی بشارت اور بے کاموں پر بد انجامی سے ڈراتے لیکن وہ بنی آدم نیکی سے دور ہوتے گئے۔ ان کی روحانی زندگی میں خلا بڑھتا گیا ان کے دلوں پر حق کے خلاف پردے پڑگئے حتیٰ کہ خدانے حضرت نوح ؑ کو مبعوث فرمایا جنہوںنے اپنی قوم کو ان لفظوںمیں ہدایت فرمائی۔ ان لا تعبدوا الا اللہ ان اخاف علیکم عذاب یوم الیم (۱۱:۲۶) ’’اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہ پوجو کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ تم کو تکلیف کے دن (قیامت) کا عذاب نہ ہو‘‘۔ ۱؎ او ر تو میرا اور اپنا (دونوں کا) گناہ سمیٹے اور دوزخیوں میں جا شامل ہو۔ حضرت نوحؑ کی دعوت لیکن حضرت نوحؑ کی دعوت معدودے چند مومنین نے قبول کی۔ ان (حضرت نوحؑ) کے بعدپے در پے یہ ظہور قائم رہا خدا کے رسول تشریف لائے اور ایک ایک خدا کی طرف رجوع کرنے کی دعوت فرماتا۔ مگر عوام پر جو جمود مسلط ہو چکا تھا اس کی وجہ سے ان کی عقلیں ادراک حقیقت سے بے بہرہ ہو چکیت ھیں وہ خدائے وحدہ لا شرک کی بجائے محسوس بتوں کو خدا کے مرتبے پر گھسیٹ لاتے اور افکلما جائکم رسول بما لا تھوی انفسکم استکبرتم ففریقا کذبتم و فریقا تقتلون (۲:۸۷) جب کبھی کوئی رسول ا کے پاس ایسے احکام لے کر آیا جن کو ان کے دل نہیں چاہتے تھے تو کتنوں کو جھٹلایا اور کتنوں کو لگے قتل کرنے۔ رسولوں کی سعی رائیگاں نہیں جاتی تاہم رسولوں کے پے بہ پے آتے رہنے سے آخر اس جمود میں قدرے کمی ہونے کو آئی۔ انبیائے کرام ؑ کا بویا ہو تخم دیر ہی سے پھل لاتا ہے لیکن رائیگاں نہیںجاتا۔ تاخیر سہی کلمۃ الحق کا بے اثر رہنا ناممکن ہے بے شک بعض اشخاص کا غرور اورخود پسندی انہیں قبول حق سے روکتی ہے اور وہ (لوگ) اصحاب دعوت پر تمسخر اڑانے سے باز نہیں رہتے لیکن یہی لوگ جب تنہائی میں اپنے دلون کو ٹٹولتے ہیں تو حقیقت کو اپنی شہ رگ کے قریب پاتے ہیں۔ اس پر بھی بہت تھوڑے لوگ حقیقت کا تتبع کرتے اور بیشتر اشخاص بدستور عجیب و نخوب میں ڈوبے رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کا فرعون سے مطالبہ مصر کے یہ کاہن تو خود تو وحدانیت کے مقر تھے لیکن عوام کو دوسرے دوسرے خدائوں پر ایمان لانے کی تلقین کرتے۔ ان کامقصد یہ تھاکہ لوگوں کے دلوں میں کاہنوں کی جو عظمت راسخ ہو چکی ہے اس میں زوال نہ آنے پائے یہ دور اسی طرح کارفرما تھا کہ حضرت موسیٰؑ و ہارون ؑ کا ظہور ہوا۔ جنہوںنے فرعون کو توحید کی دعوت دی اور اس کے انکار پر اپنی قوم(بنی اسرائیل) کی حوالگی کا مطالبہ فرمایا جسے فرعون اور اس کے اسلاف نے صدیوں سے غلا حلقہ بگوش بنا رکھا تھا۔ فرعون اس مطالبہ پر الٹا حضرت موسیٰؑ کے خلاف فوج لے کر ان پر پل پڑا۔ قرآن مجید میں بیشتر ایسے انبیاء کا تذکرہ موجود ہے جو یکے بعد دیگرے بنی آدم کو ان کا مقام سمجھانے کے لیے مبعوث ہوئے۔ یہ سلسلہ صدیوں تک قائم رہا لیک کسی دور میں بھی معدودے چندمومنین کے سوا عوام ان کے ہم نوا نہ بن سکے انبیاء ؑ کی یہ مہم اہل نظر کے لیے بے حد جاذب توجہ ہے ۔ ان حضرات میں اس موقعہ پر صرف حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ اور ختم الرسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہدوں پر نظر کافی ہے۔ انبیائے کرام ؑ اور معجزات ان حضرات کی نبوت کا انکار و قبول دعوت میں صرف ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ جسے عقل صحیح اور معجزات و خوارق کے درمیان حد فاصل کا درجہ حاصل ہے۔ کردگار حقیقی نے ہر نبی کو گونا گوں معجزات عطافرمائے تاکہ ان خوارق کی تائید عوام کے لیے ان کی دعوت پر میلان کا ذریعہ بن سکے۔ لیکن پھر بھی بہت ہی کم لوگ ان کی طر ف متوجہ ہوئے۔ یہ لوگ تو خدائے برتر و بالا کی بجائے مجسم و محسوس بتوں کی خداوندی کے عادی ہو چکے تھے۔ ان کا یہ شعور اور عقل خدائے وحدہ لا شریک کی وحدانیت پر ایمان لانے میں کیوں کر رہبری کر سکتی تھی؟ حضرت موسیٰؑ کا پہلی مرتبہ مصر سے نکلنا اور مدین سے لوٹ کر پھر مصر حضرت موسیٰؑ ہی کا واقعہ ہے خدا نے چاہا کہ سرزمین مصر میں انہیں دعوت توحید کے لیے مبعوث فرمائے جس کے اہتمام کی غرض سے پہلے جناب موسیٰؑ کو مصر سے نکلنا پڑا۔ سفر در سفر کرتے ہوئے قریہ مدین کے چشمہ پر تشریف لائے۔ آخر اسی مدین میں انہیں تزویج کا شرف حاصل ہوا۔ جس کے بعد پروردگار عالم نے حضرت موسیٰ ؑ کو ان کے وطن(مصر) واپس تشریف لے جانے کا ارشاد فرمایا۔ فلما اتھا نودی من شاطی ء الوواد الایمن فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ ان یموسیٰ انی انا اللہ رب العالمین وان الق عصاک فلما راھا تھتزکانھا جان ولی مدبر اولم یعقب یاموسی اقبل ولا تخف انک من الامنین اسلک یدک فی جبیبک تخرج بیضا من غیر سوء واضمم الیک جناحک من الرھب فذانک برہانان من ربک الی فرعون وملانہ انھم کانوا قوما فاسقین (۲۸:۳۰۔۳۲) ’’پھر جب موسیٰؑ آگ کے پاس پہنچے تو اس مبارک جگہ میں میدان کے داہنے کنارے ایک درخت تھا۔ س میں سے ا ن کو آوازآئی کہ موسیٰ ؑ یہ تو ہم اللہ ہیں۔ سارے جہاں کے پروردگار۔ اور ساتھ ہی یہ آواز بھی آئی کہ تم اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو۔ تو جب موسیٰ نے لاٹھی کو ڈلااور اس طرح چلتے دیکھا کہ گویا وہ زندہ سانپ ہے توپیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ ہم نے فرمایا موسیٰؑ آگے آئو اور کسی بات کا خوف نہ کرو۔ تم ہر طرح سے امن میں ہو۔ اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر رکھو اورپھر نکالو۔ تووہ بغیر کسی روگ کے بھلا چنگا سفید نکلے گا اور رفع خوف کے لیے اپنے بازو اپنی طرف سکیڑ لو۔ غرض عصا اور ید بیضا یہ دونوں معجزے عطیہ ربانی ہیں جو تمہاری معرفت فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰؑ فرعون مصر اور اس کے مداری اور حضرت موسیٰؑ حصول نبوت کے بعد مصر تشریف لے آئے۔ جب تبلیغ فرمائی تو فرعون نے اپے مداریوں کو ان کے معجزات کا مقابلہ کر نے پر آمادہ کر لیا۔ جلسہ منعقد ہوا جس میں فرعونی مداری اپنی تمام عیاریاں سمیٹ کر حضرت موسیٰؑ کو ناکام ثابت کرنے کے لیے مقابلہ پر آئے ۔ انہیں علم تھا کہ نبی اللہ کا عصا اژدھا بن کر شعلے برسانا شروع کر دیتا ہے۔ اس لیے مداری لاتعداد ٹوٹکے بنا لائے جن میں سانپ کی طرح رینگنے کی قوت بھر دی گئی تھی وار بیک لمحہ انہیں زمین پر بکھیر دیا گیا ۔ جونہی حضرت موسیٰؑ نے اپنا معجزانہ عصا زمین پر رکھا تو وہ ہیبت ناک اژدھا بن کر مداریوں کے ان سنپولیوں کو نگل گیا جنہوںنے حضرت موسیٰؑ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا جادوگر یہ منظر دیکھ کر حقیقت کو پا گئے اور امنا برب ہارون و موسی (۲۰:۷۰) ’’ہم ایمان لائے ہارون او رموسیٰؑ کے رب پر ‘‘ کہتے ہوئے خدائے یکتا کے حضور سجدے میں گر پڑے ۔ سب کچھ ہوا لیکن بنی اسرائیل جو خدا کی ذات کے لیے بھی پیکر محسوس کے خوگر تھے کچھ عرصہ بعد ان کے شرک کے ناسور پھر پھوٹ نکلے اور انہوںنے خدا کے رسول سے برملا تقاضا کیا: یاموسیٰ لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ (۲:۵۵) ’’اے موسیٰ جب تک ہم خدا کو ظاہر میں نہ دیکھ لیں گے ہم تو کسی طرح تمہارا یقین کرنے والے نہیں‘‘۔ حضرت موسیٰؑ کی وفات کے بعد جب حضرت موسیٰؑ نے وفات پائی تو یہی بنی اسرائیل اپنے سابق تصور کے مطابق بچھڑے کی پوجا پر ٹوٹ پڑے اور جب حضرت موسیٰؑ کے بعد دوسرے ابنیاء علیہم السلام ظہور فرماہوئے تو انہوںنے کسی کو جھوٹا کہا اور کسی کو قتل کر دیا۔ ایک طویل عرصہ کے بعد ان بنی اسرائیل کی آنکھ کھلی تو ایک ایسے نبی کا انتظارکرنے بیٹھ گئے جس کی معیت میں اپنے دشمنوں سے لڑ کر ان سے ارض موعود واپس لیں۱؎۔ حضرت مسیحؑ کا ظہور تاریخ کے صفحات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام و بنی اسرائیل اور ان کے کوائف و سوانح کا زمانہ اس قدر پرانا نہیں کہ امتداد مدت نے انہیں دھندلا دیا ہو۔ ابھی تک پچیس صدیاں ہی گزری ہیں۔ تاریخ میں اتنا وقفہ ایک لمحہ سے بھی کم شمار ہوتاہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں عقل پر جس نے غلبہ حاصل کر رکھا تھا جس کی بدولت روحانیت اور معنوی تصورات پر مادی محسوسات و تصورات کو ترجیح حاصل تھی جیسا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پانچ چھ سو سال قبل حضرت عیسیٰؑ ظہور فرمائے عالم ہوئے اور انہوںنے اپنی قوم کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی جس میں روح القدس ان کے دست و بازو تھے مگر ان کی قوم نے نہ سنا۔ جناب مسیحؑ نے معجزانہ طورسے پینے پانے کے لیے پانی سے شراب بنا کر دکھائی جناب مسیح ؑ نسلاً یہودی نژاد تھے ۔ یہود ان کی دعوت سے آگاہ ہوئے تو انہوںنے نبی اللہ کو وہ رسول منتظر سمجھا جو انہیں مسیحان روم کی غلامی سے بچا کر پھر ارض موعود (فلسطین) پر غالب ہونے میں رہنمائی کرے گا۔ یہود نے یہ بھی محسوس کر لیا کہ نبی اللہ ؑ صرف عقل ہی سے اپنی رسالت و دعوت اللہ کی ن؟ص پیش نہیں کرتے ان کے ساتھ کئی ایسے معجزات و خوارق بھی ہیںجو ان کے دعویٰ نبوت کا ثبوت ہیں مثلا مسیحی روایات کے مطابق پہلا معجزہ مسیح کی برکت سے قانا ۲؎ ۱؎ قرآن مجید میں یہ مضمون سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۴۶ لفظ الم تر اال الملا من بنی اسرائیل سے لے کر آیت نمبر ۲۵۲ لفظ لمن المرسلین ت منقول ہے (م) ۲؎ گلیل قری کا نام ہے۔ پھر تیسرے دن قانائے گلیل میں ایک شادی ہوئی اور یسوع ؑ کی ماں وہاں تھی اور یسوعؑ اور ان کے شاگردوں کی بھی اس شادی میں دعوت تھی۔ اور جب مے ہو چکی تو یسوع کی ماں نے کہا کہ ان کے پاس مے نہیں رہی۔ یسوعؑ نے اس سے کہا اے عورت مجھے تجھ سیکیا کام ہے؟ ابھی میرا وقت نہیں آیا۔ اس کی ماں ؤنے خادموں سے کہا کہ جو کچھ یہ تم سے کہے وہ کرو۔ وہاں یہودیوںکی طہارت کے دستور کے مطابق پتھر کے چھ مٹکے رھکے ہوئے تھے اوران میں دو دو تین تین من کی گنجائش تھی۔ یسوعؑ نے ان سے کہا کہ مٹکوں میں پانی بھر دو۔ پس انہوںنے ان کو لبالب بھر دیا۔ پھر اس نے ان سے یہ کہا اب نکال کر میرمجلس کے پاس لے جائو۔ پس وہ لے گئے۔ جب میر مجلس نے وہ پانی چکھا تو وہ مے بن گیاتھا۔ اور جانتا نہ تھا کہ یہ کہاں سے آء ہے مگر کادم جنہوںنے پانی بھر اتھا جانتے تھے تو میر مجلس نے دولھا کو بلا کر ا س سے کہا کہ ہر شخص پہلے اچھی مے پیش کرتا ہے اور ناقص اس وقت جب پی کر بہک جائیں مگر تو نے اچھی مے اب تک رکھ چھوڑی ہے۔ یہ پہلامعجزہ یسوعؑ نے قانائے گلیل میں دکھا کر اپنا جلال ظاہرکیا اور اس کے شاگرد اس پر ایمان لائے (یوجنا ب ۲ ۱ تا ۱۱ م) گلیل کی ایک شادی میں پانی شراب میں متبدل ہو گیا جس کے بعد نان و ماہی کامعجزہ دکھایا لب گور کو حیات نو بخشی مردوں کو زندہ کر دکھایا۔ (حضرت مسیحؑ نے ) اسی طرح تعلیم و منق کی بجائے تو بہ تو معجزوں سے دلوں کو مسخر کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ اگرچہ سابقہ انبیائے کے مقابلہ میں جناب مسیحؑ کی تبلیغ جاذب تھی۔ وہ ایک دوسرے پر عفو و عطوفت اورمحبت کی تلقین کرتے خدا کے ساتھ رغبت کی ہدایت فرماتے مگر اس تبلیغ کے ساتھ دلیل و منطق کی یاور ی نہ تھی۔چنانچہ ایک مرتبہ جب لوگوں نے ان کی بات دعوت سننے سے انکار کر دیا تو ان کے معجزات کی بوقلمونی بڑھ گئی۔ وہ کوڑھ اور جنون کھونے لگے۔ ردوں کوزندہ کر دکھایا۔ خداوند عالم نے مسیح ؑ کو یہ معجزے لوگوں کے ان کی طرف میلان کی غرض سے عنایت فرمائے تھے کہ اور ایسا ہی ہوا مگر ایک طبقہ نے انہیں خدا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ ابن مریمؑ کو عین ذات تسلیم کر لیا گیا جو انسانی قالب میں خود پر مصائب برداشت کرکے نبی آدم کے گناہو کاکفارہ ہونے کے لیے دنیا میں آ پہنچا ہے۔ جو ا س امر کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ مسیح کے عہد عک منطق و عقل اس حد کمال تک نہ پہنچے تھے کہ حقائق کا واسطہ سے خالق ہر دو سرا کی وحدانیت کو تسیلم کیا جا سکے جو ابویت سے بیگانہ ابنیت سے بے نیاز اور اس کی برابری کا کسی کو یارانہیں۔ اللہ الصمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد (۱۱۲:۲تا۴) فراعنہ مصر کے علوم وفنون سے یونان و روم میں تبدیلی جن عہدوں میں حضرت موسیٰؑ اور حضرت مسیحؑ مبعوث ہوئے فراعنہ مصر کا فلسفہ اور دوسرے علوم و فنون وہاں سے یونان اور روم منتقل ہو چکے تھے۔ جنہوںنے ان کو پوری طرح اپنا لیا۔ بعد میں یونان نے فلسفہ و ادب کے دریا بہا دیے جن سے منطق و حجیت کی آبپاشی مصر و فلسطین اور شام میں سب ملکوں سے زیادہ ہوئی۔ جغرافیائی طور پر مسیحیت کامنبع ان ملکوں سے بہت زیادہ قریب تھا ان تینوں ملکوں نے تصدیق نبوت کے لیے خوارق و معجزات کی بجائے دلیل و برہان کو مقدم سمجھا جیساکہ ہم اس کتاب کے شروع میں اشارہ کر چکے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ازروئے منطق بلاشبہ خداوند عالم نے دلیل و منطق کو انسان کے لیے تاج سروری کے طور پرممتاز کر رکھا ہے لطیف و پرکیف منطق جو عقل و حجت اورروح تینوں کے امتزاج سے مرکب اور انسان کو ادراک حقائق کا ملکہ عطا فرما سکے۔ خداوند متعال نے بدو عالم یہ منطق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدر میں ودیعت کر رکھی تھی کہ جب وہ نبی ظہور فرمائے گا تو عقل ومحبت اور روح کے موالید ثلاثہ جو اس نبی کی پشتیبان ہیں لوگوں کو قبول دعوت پر بیش از بیش مائل کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ جس پر نازل زدہ دین کو خدائے برتر اپنے نوشتوں کے ذریعے لوگوں کے لیے کامل کر دے گا۔ اور تکمیل دین کی وجہ سے اس کی امت کے لیے تمام نعمت ہو گا اور رسالتوں کا (تشریعی و غیر تشریعی یعنی دونوں قسم کا) سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ اسلام حقیقت توحید اور ایمان باللہ کو اساس قرار دے گا اور جس کسی کو اس پر یقین ہو جائے گا اسے دوسرے وظائف دن پر عمل کی ہدایت کرے گا۔ ۱؎ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اورنہ کوئی اس کے برابر کا ہے۔ ’’خاتمہ ‘‘ کے فصل اول میں اشارہ کیا جاچکاہے کہ تکمیل ایمان منحصرہے کشف و ادراک عالم پر جو لوگ نعمت کشف حقائق کی سعی کرتے ہیں انہیں دنیا میں ایمان نصیب ہوتاہے۔ خدا کی یہی سنت ہے جو یوم حساب تک جاری رہے گی جب کہ خداوند عالم جملہ نبی نوع بشر کو دوباہ زندہ کر کے یک جا کرے گا۔ صدر اول کے مسلمانوں کایہی ایمان اور اسی پر عمل تھا۔ ان کے بعد ایک عرصہ تک مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ حوادث نے انہیں ایسے اہم ترین عمل و سعی سے دور ہٹایا۔ اسلام تقدیر پر قانع رکھنے کی بجائے سعی عمل کی دعوت فرماتا ہے گزشتہ اوراق میں ہم نے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ واضح طور پر نشان دیتے ہیں کہ مستشرقین نے تقدیر اسلامی پر قرآن مجید کی جن آیات کو قضا و قدرو نوشتہ لوح اور تعین ازلی و ابدی کے مفروضہ دلائل کے ثبوت میں پیش کیا ہے یہ ان (اہل قلم) کی جبلی و نسلی و فطری اور سماجی عادت ہے( کہ اسلام کے خلاف مفتریات وضع کرنے میں ان کے خلاف براہین کو سامنے نہیں آنے دیتے م)حالانکہ اسلا م ہر شخص کو سعی و عمل کی ترغیب دیتا ہے۔ اور اسے اپنے اعمال کی سزا و جزا ل کر رہے گی خداوند عالم کسی پر ظلم کا روادار نہیں اور نہ جر کے بغیر سزا دینے پر مائل۔ جو اشخاص سعی اورجدوجہد چھوڑ کر کاہلی و نامرادی کو توکل سمجھ کر ایسے توکل سے رحمت کردگا ر کے متمنی ہیں خود پر ظلم کرتے ہیں۔ مال و اولاد اور نیکی میں امتیاز گزشتہ اوراق میں ہم نے اپنامقصود وضاحت سے ثابت کر دیا ہے ۔ تاہم ایک ایسی دلیل سے مفر نہیں جو ان معنوں میں قطعیت کے درجہ پر ہے۔ المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا و خیر املا (۱۸:۴۶) ’’مال اوربیٹے آرائش ہیں زندگانی دنیا کی اور باقی رہے والی نیکیاں بہتر ہیں پروردگار عالم کے نزدیک کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں‘‘۔ انسان کے لیے مال کی طلب اور کسب معاش سے محبوب کوئی مشغلہ نہیں جس میں اکثر و بیشتر اشخاص ہمہ وقت مصروف ہیں اوراپنی ہمت و بساط سے کہیں زیادہ محنت کرتے ہیں۔ سرسری نظر سے بھی دیکھاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس محنت میں کیسی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ کس عجلت کے ساتھ وہ اپنا عیش و آرام قربان کر بیٹھتاہے اور اپنا سکھ تج کر کے دکھ کے پہاڑ سر پر رکھ لیتا ہے۔ ایک اور شخص ہے جو مال و دولت کی بجائے یہی قربانی اولاد کی خاطر گوارا کر لیتاہے اور اس راہ میں جاں نثار کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتا۔ دونوں کی جدوجہد یعنی جمع مال و زر اور اولاد پر جاں نثاری دنیا ہی کی زینت تو ہے جہاں نیکی کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں نہ کوئی مال اندیش اسے نیکی کے مقابلے میں ترجیح دے سکتاہے۔ یوں نادان اور کم فہم سے کیا کہیے جو نیکی سے بے بہرہ ہیں یا وہ عورتیں جو چند روزہ جوانی پر آپے سے بااہر ہو اور اپنے حسن و جمال کی نمائش بڑھانے کے لیے مال و دولت کو ہر برائی کے عوض حاصل کرنے میں تامل نہیں کرتیں یا وہ سرمستان عہد شباب جو عقل و شرافت کوٹھکرا کر اپنے اردگرد خوشامدی مصاحبوں کو جمع کر لیتے ہیں کہ انہیں کھلا پلا کر اپنے اثر و نفوذ میں ان مصاحبوں سے آڑے وقت میں کا م لیا جا سکے حالانکہ ان موسمی پروانوں کے دلوں میں ایسے آقائوں کی عظمت پرکاہ کے برابر نہیں ہوتی۔ یہ سب قسمیں ایسے ہوش باختہ دیوانوں پر مشتمل ہیں جو نیکی سے بے خبر ہو کر متاع عقل و خرد کو ظاہر کے پلے باندھے بیٹھے ہیں فکرامروز میں فردا کے مال سے بے خبر!جو لوگ دنیاوی آسائشیں اور ایسے طریقو ں سے حاصل کرنے میںمنہمک ہوں انہیں دیوانہ کہے تو پھر دنیا میں اور کون ہے جو دیوانہ ہے۔ مال و زر اور اولاد سے دنیا میں آسائش حاصل ہونے میں شبہ نہیںلیکن یہ حقیقت تو نہیں کہ انہیںاپنی کوششوںکا محسور بنائے رکھیے۔ حقیقت نام ہے نیکی اور حسن عمل کا جنہیں کبھی فنانہیں۔ اس لیے حقیقت تک رسائی کے لیے مال و زور اور اولاد کی ترقی سے زیادہ جدوجہد کرنا چاہیے۔ اصل منفعت نیکی ہے آیہ المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا و خیر املا (۱۸:۴۶) مسلمانوں کے سامنے کس قدر مفید تعلیم کا نقشہ پیش فرما رہی ہے کہ جس طرح وہ دنیوی آسائش و استراحت و زینت و جمال کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں اس کے مقابلہ میں انہیںروح اور قلب کو حقیقت و نیکی کی راہ میں اس سے بھی زیاد ہ متوجہ رہنا چاہیے۔ دنیوی آسائش اگرچہ نیکی کا ذریعہ ہو سکتی ہے تاہ زندگی نیکی ہی کے لیے صرف کی جائے۔ مال و دولت ہے تو اس کا مصرف بھی اسی راہ میں ہو خدا نے اولاد عطا فرمائی ہے تو اس کی تربیت بھی اسی انداز سے کیجیے جس سیوہ اپنے لیے وادین اور عوام کی خاطر نیکی کی راہ میں نثار ہونے پرکمر بستہ ہیں ۔ اسی لیے خدا کے سامنے نیکی کا اجر اور سرور دنیا میں مال و دولت اور اولاد زندگی کے لطف سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن مسلمانوں کی فکر کس حد تک ناکارہ ہو چکی ہے جو بدیہات اور اسے خوش آئند منافع سے منہ پھیر کر صرف زینۃ الحیوۃ الدنیا یعنی المال والبنون کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز سمجھ رکھا ہے اور نیکی جیسی نعمت دوام سے یوں پیٹھ پھیر رکھی ہے جیسے دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی سروکار ہی نہیں ۔ زوال المسلمین پر شیخ محمد عبدہ مصری کی رائے آخر مسلمانوں کی قوت ایسی واضح منطق سے ہٹ کر ان چیزوں کی طرف مائل ہو گئی جنہیںان کے عقائد سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ ہم نے فصل اول میں اس پر اشارہ کیا ہے کہ اس تغیر عقیدہ کا موجب وہ فاتحین ہیں جنہوںنے دور عباسیہ کے آخری ایام میں مسلمانوں کی بستیو ں کو تاخت و تاراج کیا اوریہ کہ صدر اول کے بعد نظام حکومت کے لیے شوری کی جگہ جابر بادشاہ نے لے لی جس میں نمایاں کردار اموی بادشاہوں کا ہے۔ اس کی قدر ے وضاحت شیخ الاسلام محمد عبدہ کی مصنفہ کتاب الاسلام والنصرانیہ سے نقل کی جاتی ہے۔ اسلام عرب سے نکلا اور یونانی علوم سے ملوث ہو کر دین عربی کی بجائے علم عربی سے موسوم ہونے لگا حتیٰ کہ عباسی خلیفہ سے سیاسی غلطی کا ارتکاب ہوا اور اس نے اسلامی ریاست کو اپنی خاندانی مملکت میں محصور رکھنے کی غرض سے یہ منصوبہ بنایا کہ مبادا عربی نژاد مسلمان سپاہی کسی وقت علوی خلفاء کی حمایت پر کود پڑیں۔ ان کی بجائے ترک و دیلم اور دوسرے ملکوں کے نوجوان فوج میں کیوں نہ بھرتی کیے جائیں جن میں علوی خاندان سے عقیدت کا وہم تک نہیںکیا جا سکتا۔ عجمی لشکری میرا کلمہ ہی پڑھیں گے اور میری سطوت سے لرزہ بر اندام رہیں گے‘ میں انہیںاپنے انعامات سے یوں بھی بس میں خر لوں گا اور یہ بادشاہت تابہ حشر میرے خاندان کا پانی بھرے گی۔ اسلامی احکام کے مطابق غیر ملکیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کی اجازت پہلے سے موجود تھی۔ ایسا ہی ہوا۔ خلیفہ نے عجمی لشکر بنا لیا جس سے رفتہ رفتہ عربی دین میں عجمی بو باس سرایت کر گئی۔ عباسی خلیفہ نے اپنی سطوت اور اپنے خلاف کے لیے ملک لا یبلی (۲۰:۱۲۰) (ایسی سلطنت جو کبھی پرانی نہ ہو) کی بنیاد ڈالی جس سے امت محمدیہ میں خلفشار اور دین اسلام میں شگاف پڑ گیا۔ عجمی سپاہی اپنے محبوب خلیفہ کی امیدوں کا پامال کرتے ہوئے اس کی سلطنت پر اس طرح سے قابض ہو گئے کہ خلیفہ کو برائے بیت بادشاہت رہنے دیا مگر اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ ان سپاہیوں اور عجم نژاد عناصر کے عماغ اسلامی تصورات سے بیگانہ قلوب اسلام کی محبت سے خای اور اپنے وطن سے خشونت و ظلم کا جو ترکہ وہ اپنے ہمراہ لائے تھے یہاں تک کہ پہیچ کر اس ترکہ میں انہوںنے اور اضافہ کر لیا اور ان (عجمیوں) میں بے شمار ایسے سپاہی اور افسر تھے جو اپنے پیکری خدائوں کو گریبانوں میںڈال کر سینے سے چپکائے ہوئے تھے۔ جونہی تخلیہ ملتا ان کے آرتی بجا لاتے۔ ان عجمی نژاد عناصر کے دخل درآمد کے بعد فتنہ تاتا ر سربلند ہوا۔ جس نے عباسیوں کو عدم آباد میں دھکیل دیا۔ شروع میں عباسی عہدیداروںمیں سے جو اشخاص کلیدی آسامیوں پر قابض ہوئے ان لوگوں کو علم و دین دونوں سے خدا واسطے کی دشمنی تھی۔ یہ امیر ابتداہی سے علمائے حق کے خلاف تھے۔ کلیدی آسامیاں ملنے پراور بھی کھل کھیلے۔ علمائے حق کی تائید و نصرت سے ہاتھ روک لیے اورن ان کی بجائے ایسے مدعیان علم و افتاد کو مسند علم پر جانشین مقرر کیا جن کے لبادے علمائے حق ہی کے سے تھے۔ ان ہی کی سی بول چال اوروہی لب و لہجہ لیکن اسلام کی بیخ کنی کا فریضہ ادا کرنے میں ہر لمحہ مصروف عمل ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح بن سکے مسلمانوں کو صحیح اسلامی تصورات سے بے گانہ کر دیا جائے اور اس میں کامیاب ہوتے گئے۔ انہوںنے مسلمانوں کو طرح طرح کے فریب میں مبتلا کردیا۔ کبھی دین کو ناقص ثابت کرکے خود کو کامیاب ہوتے گئے۔ انہوںنے مسلمانوں کو طرح طرح کے فریب میں مبتلا کر دیا۔ کبھی دین کو ناقص ثابت کرکے خود کو اس کا مکمل کرنے والا بتایا کبھی دین کی مریض بتا کر خود کو اس کا مسیحا ثابت کیا کبھی کہا کہ قصر اسلام کی بنیادیں کھوکھلی ہو ئگی ہیں۔ ہم انہیں از سر نو مرسوص کر رہے ہیں۔ یہ افراد اسی طرح کے بہانوں سے دی میںدر پردہ نقب زنی کرتے رہے۔ عوام پہلے سے اس قسم کی تلقینات قبول کرنے کے لیے منفعل تھے۔ نصاریٰ ان کے قرب وجوار میں آباد تھے۔ جن کے مذہبی چلن سے یہ (مسلمان) بھی متاثر تھے۔ انہوںنے نصرانی عقائدکو اسلامی عقائد میں محلول کرنا شروع کر دیا از بس مفید سمجھ لیا۔ انہیں یہ خیال نہ آ سکا کہ غیر مذہبی عقیدہ کی تحلیل اسلام کے پاکیزہ تصورات میں مسیحیت کے ان ملوثات کو نہ سمو دے‘ جن کا بنی اصل دین مسیحی کے بجائے ا ن کے علماء و رہبان کی دعات ہیں نہ ان کو یہ خیال آیا کہ اس طرح مسلمانوں کے پہلے میں کیا رہ جائے گا نہ انہیں یہ سجھائی دے گا کہ نصرانیت کے ایسے تداخل سے مسلمان اپنے ولیوں اور عالموں کی پوجا کرے سے اپنی وحدت کو پارہ پارہ تو نہ کردیں گے‘ نہ و ہ یہ سوچ سکے کہ ایک مرتبہ ایسی ضلالت میںگھر جانے کے بعد جب انہیں منع کیا گیا تو وہ برملا کہیں گے کہ بعد والوں کو پہلوں کے مسلمات میں ردوبدل کا کیا مجاز ہے آخر یہ بات ان کے عقیدہ میںداخل ہو گء اوران کی فرزاندگی پر جہالت کے پردے پڑ ہی گئے۔ یہاں تک اثر و نفوذ حاصل کرلینے کے عد ان متشبہین بالاسلام (برائے بیت مسلمان) نے انپے یارام ہمدم کو اسلامی ملکوں میں پھیلا دیا جن کی زبانوں سے مسلمانوں نے نئے نئے عقائد اور عجیب عجیب تصورات کے ذکراذکار سن کر خود میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی حتی کہ عجمی تصورات کے ان داعیوں نے مسلمانوں کو متعدد ایسے عقائد پر مستحکم کر دیا مثلاً (۱) کہ ازروئے شرع شریف مسلمانوں پر امور سلطنت کے بارے میں کوئی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ بار صرف عمال حکومت کے سر ہے۔ (۲) انسان کی خستہ حالی کا مداوا نہ اس کے اختیار میں ہے نہ ریاست اسکی زمہ دار۔ اس لیے کسی تباہ حال مسلمان کا اپنی فلاح و بہبود کی سعی کرنا اور نہ کرنا دونوں یکساں ہیں۔ ان کے چالاک داعی مسلمانوں کواس تباہ حالی پر قناعت کرنے کے لیے بھی انہیں قرب قیامت کی ا ن روایات سے متاثر کرتے ہیں جن کا نتیجہ ان کے الفاظ میں بجز خستہ حالی کے اور کچھ نہیں ہو سکتا یا ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں تشابہ کا امکان تھا۔ ان کی من مانی تاویلات سے مسلمانوں میں کاہلی اور سستی برقرار رکھنے کی تجویزیں کرتے رہتے۔ اس معاملہ میں وضعی روایات کی باگ ڈور ان ہی داعیوں کے ہاتھ میں تھی۔ جہاں جیسا موقعہ دیکھا ایسی ہی روایت کا جوڑ لگا کر انہیں ٹھنڈا کر دیا۔ ان داعیان علم و تبلیغ کی جعل سازی میں سب سے نمایاں عنوان مسئلہ قضا و قدر کو حاصل تھا۔ گویا یہ مسئلہ ان کی مٹھی میں تھا۔ جس کی تفصیل سن کر مسلمان یک قلم بے حس ہو کر رہ گئے جو مقدر میں ہے۔ مسلمانوں میںایسے عقائد ان کی سادگی اور دینی حقائق سے بے خبری کی وجہ سے مقبو ل ہوتے گئے۔ ایسے نفوذ میں مسلم و غیر مسلم میں تمیز ہی کیا ہے؟ جو قوم حقائق سے تہی دامن ہو کر مضروضات سے جیب بھر لے اسی طرح ناکامی و نامرادی میں گھر جائے گی جیسا کہ مسلمانوں سے حقیقت نے منہ موڑ کر انہیں دور دھکیل دیا۔ ان پر دین ہی کے نام سے ایسے عقائد مسلط ہو گئے ہیں جو اسلامی تصورات سے متضاد ہونے کی بنا پر مسلمانوں کی بربادی کا زریعہ بن گئے ہیں۔ ان نام نہاد مشتبہی بالاسلام کی یہ سیاست ان کی جہالت اور خود پرستی دوگونہ خصائل پر مبنی تھی جس (سیاست) نے اسلا م میں ان عقائد کا الحاق کر دیا جن کے ساتھ دین کو دور کا واسطہ بھی نہ تھا۔ اور پیروان اسلام سے ایسی خوبیاں سلب کر لیں جن کے سہارے وہ افلاک تمدن کی سیر کر سکتے تھے۔ اب ان کی ہمتوں کو یاس و حرمان نے بے دست و پر کر دیا۔ اسلام ہی کے نام پر یہ رسمیں ان میں داخل ہو گئیں چہ جائیکہ ان پر اسلام کی مہر نہ تھی البتہ مسلمانوں کی نماز روزہ اور حج ان کی دستبرد سے بچ گئے یا چند اور اقوال جن میں صرف تحریف موثر نہ ہو سکی۔ کہاں تک بیان کیجیے اور کب تک سنییے گا۔ اس غلبہ نے مسلمانوں میں بدعات و خرافات کھڑے کر دیے اور اس عیاری کے ساتھ کہ اسلام کے ماننے والے ان بدعات کو اصل دینسمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو تے گئے نعوذ باللہ منھم وما یفترون علی اللہ ودینہ انتہا یہ ہے کہ آج تک جو کچھ اسلام کے نام سے موسوم ہے وہ ابھی ان ہی افترا کنندوں کا ہے۱؎۔ متذکرہ الصدر سطور میں شیخ محمد عبدہ نے جو کچھ فرمایا ہے ظاہر ہے کہ دشمنان دین نے اسلام میں ایسے خرافات شامل کر دیے جنہیں بادی النظر میں خدا اور اس کے رسول کا حکم سمجھا گیا ہے سب سے بڑا افترا تقدیر کا تصور ہے جس (تصور) کے خلاف قرآن مجید میں بے شمار آیات موجود ہیں۔ اسلام کے ان مہربانوں نے تقدیر کی تاویلوں کی وجہ سے مسلمانوں کے اندر کاہلی و نامرادی کی تخم ریزی اس طرح کی کہ سعی و تدبیر کو کامیابی سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسے سے واضح صداقت اورکہاں ملے گی؟ کامرانی و فوز کی نبض تقدیر کے ہاتھ میں ہے جس میں انسانی جدوجہد کو ذرہ بھر دخل نہیں۔ میں پھراعادہ کرتا ہوں کہ اسلا م میںتقدیر کا یہ تصور نہیں میں یہ بھی کہتا ہوں کہ مستشرقین نے ازراہ حسد و بغض اسے اسلا م کے سر منڈھ دیا ہے۔ اسلام پر مادیات سے اجتناب کا افترا مسیحی مہربانوں کے ہاتھوں تقدیر ہی کا گلہ نہیں۔ وہ تو یہ بھی کہتے ہیںکہ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق مادیات سے انتفاع بھی رو ا نہیں جیسا کہ یونان کے رواقی فرقہ کا مسلک ہے جو عہد عباسیہ میں مشرق وسطیٰ پہنچا اور مسلمانوں کے ایک فرقہ نے اسے اپنا لیا۔ کچھ سہی لیکن قرآن مایدات سے انتفاع کی برملا ترغیب فرماتاہے۔ قرآن مادیات سے انتفاع کی ترغیب دیتا ہے ولا تنس نصیبک من الدنیا (۲۸:۷۷) ’’اور دنیاسے جو تیرا حصہ ہے اسے فراموش نہ کر‘‘۔ قرآن مسلمانوں کو ایسے اعتدال و میانہ روی کی تعلیم فر ماتاہے جس میں نہ رواقیت کا سا ترک دنیا ہے اورنہ رندانہ حظ نفس میں استغراق و انہماک! لیکن ارونگ مستشرق یہ دونوں برائیں تقدیر کے کندھوں پررکھ کر مسلمانوںکے گلے ڈال رہا ہے کہ مسلمانوں کوتقدیر اور ادھر عیش طلبی نے سعی و جدوجہد سے روک کر سدا کے لیے تلپٹ کر دیا جس سے وہ ابھی تک نہیں سنبھل سکے۔ اس مصنف پر جو اپنی مسیحیت کے دامن میں پاکیزگی و ایثار کے نقش دکھا کر اسلام کے جیب و گریبان کو ان دونوں صفتوں سے معرا ثابت کرنا چاہتا ہے کیا کیا جائے۔ ہمیں ہی گوارہ نہیں کہ علمی نصرانیت اور اسلام کا تقابل س حیثٰت سے کیا جائے کہ اس لیے کہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ اگر ہم اس باب میں عملی مسیحیت کا رخ پیش کریں تو ایک حیثیت میں مشاجرہ کا دروازہ کھولنا ہے اور ہمیں یہ منظور نہیں ۔ اس میں اسلام یا عیسویت دونوں میں سے کسی کے لیے منفعت نہیں۔ لیکن انجیل مقدس کی اس آیت کو کیا کیجیے گا جو حضرت مسیحؑ کو رواتی ثابت کرنے کی بجائے انہیں چہ جائے کہ جناب مسیحؑ کو فی الجملہ رواقی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے انجیل کی اس آیت کا مفاد یہ ہے کہ: ۱؎ الاسلام و النصرانیۃ از شیخ محمد عبدہ ص ۱۲۲ تا ۱۲۵ حضرت مسیح ؑ کا سب سے پہلا معجزہ یہ ہے کہ قانائے گلیل کی ایک شادی میں شراب نہ تھی مگر مسیحؑ نے اپنے اعجاز سے پانی کو شراب میں تبدیل کر دیا طرفہ یہ ہے کہ جب یہ شراب ختم ہو گئی تو ان کے جو ساتھی اس نعمت سے پوری طرح شاد کام نہ ہوئے تھے انہیں فریسیوں کے دستر خوان پر لے پہنچے جہاں دوسری دوسری نعمتوں کے ساتھ شراب بھی موجود تھی۔ ثابت ہوا کہ نہ تو حضرت مسیحؑ دنیاوی نعمتوںسے اپنا دامن سمیٹا نہ اپنے دوستداروں کو یہ تلقین فرمائی البتہ انہوںنے دولت مندوں کو یہ تلقین ضرور فرمائی کہ وہ محتاجوں کی دست گیری کریں ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں اور انہیں اپنا احسان نہ جتائیں۔ جناب مسیحؑ کے خلاف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار میں ان معاملات کی رو سے کس قدر اعتدال نظر آتاہے اس کی مدحت قرآن مجید نے بھی جا بجا فرمائی ہے جیسا کہ ہم گزشتہ اوراق می زکوۃ و صدقہ کے احکام پر چند آیات نقل کر چکے ہیں جن کا تکرار تحصیل حاصل ہے مسیحی مفتری ارونگ(مستشرق) نے اسلام پر رواقیت کا جو افتراباندھا ہے۔ اس کی تردید کے لیے قرآنی تعلیم میں توسط و اعتدال کی تلقین کافی ہے۔ جو شخص تلوار کے زور سے کوئی چیز حاصل کرے وہ شے اس سے تلوارہی کی قوت سے واپس لی جا سکتی ہے ارونگ نے اسلام کے جسد میںجو تیز و نشتر پیوست کیے ہیںان میں سے ایک نشتر مسلمان ترکوں کی یورپ میں حکومت بھی ہے۔ اس میں ارونگ کہتا ہے کہ اگر مسیحی یورپ میں ابھی تک ہلال ترکوں کا وجود نظر آ رہا ہے تو اس یے کہ الف یہ مسیحٰ دول یورپ کی مہربانی ہے (ب) یا مسیحی دول یورپ کی باہمی پھوٹ کا نتیجہ ہے(ج) یا ترکوں ہی کی ہمت کا نتیجہ ہے اس کلیہ کے مطابق کہ جو شخص زورشمشیر سے حاصل کرے شمشیرہی کی قوت سے وہ چیز اس سے واپس لی جا سکتی ہے۔ مگر شمشیر اور واپسی (بمطابق ج) انجیل مقدس کا کلیہ ہے جسے ارونگ نے اسلام کے سر پر ڈال دیا ہے۔ بے چارہ ارونگ معذور بھی تو ہے کہ اس نے یہ کتاب انیسویں صدی میں لکھی جب تک یورپ کا استعمار یا بقو ل ارونگ …استعمار مسیحی موجودہ صدی کے مطابق حریص اور شمشیر پر بھروساکرنے والے نہ ہوں گے لیک انیسویں صدی منقضی ہوت ہی بیسویں صدی کے آغاز (۱۹۱۸) میں مسیحی یورپ کی شمشیر کی کاٹ دیکھیے کہ لارڈ ایلن بی اتحادی فوجوں کا ٹڈ ی دل ے کر بیت المقدس پر حملہ آورہیں جہاں یورپ ہی کے ترک حکمران ہیں۔ جب ایلن بی اس منصوبے میں کامیاب ہو گئے تو سلیمانی ہیکل ؤکے حضور کھڑے ہو کر فرمایا کہ صلیبی جنگیں آج ختم ہوئی ہیں بیت المقدس کے اس یسقوط پر پترسین ایم سمتھ نے اپنی تصنیف سیرت المسیحؑ میں لکھا ہے کہ سنہ …۱۹۱۸ ء میں اتحادیوں کا بیت المقدس پر قبضہ آٹھویں صلیبی جنگ تھی جسے مسیحیت اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکی ۔ اگرچہ بیت المقدس کا یہ سقوط تنہا مسیحی یورپ کی کوششوں کا ثمرہ نہیں۔ اتحادیوں نے اس مقصد کے لیے ان یہودیو ں کو آلہ کار بنایا جو صدیوں سے ارض موعود (بیت المقدس) میں قدم جمانے کے لیے کوششوں میں لگے ہوئے تھے جن کی آڑ میں مسیحی یور پ نے مسلمان ترکوں سے بیت المقدس چھین کر مظلوم مسیحؑ کے قاتلوں کی نذر کر دیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر آگ بھڑکانے آئے ۱؎ اس لیے انجیل کا کلیہ میں زمین پر آگ بھڑکانے آیا ہوں اور اگر آگ لگ چکی ہوتی تو کیاہی خوش ہوتا لیکن مجھے بپتسمہ لینا ہے اور جب تک وہ نہ ہو لے میں بہت ہی تنگ رہوں گا کیاتم گمان کرتے ہو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں ! بلکہ جدائی کرانے! اسلا م پر صادق نہیںآتا کہ اس نے کوئی ملک تلوار کے زور سے حاصل ہی نہیںکیا بلکہ یہ وصف ملت مسیحؑ کا خاصہ ہے جس نے گزشتہ صدیوں سے جہاں گیری و جہاں بانی کا اپنا شہوہ بنا لیا مگر آج اسے پیروان مسیحؑ اسلا م کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں جب کہ آج کا یورپ ہوس استعمار میں سرشار ہو کر ان تاتاریوں کی پیروی کر رہا ہے جنہوںنے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ملک فتح کیے اور لیکن اسلامی تعلیم کا ان تاتاریوں پر شمہ بھر اثر نہ تھا۔ ان کے اس جرم کی سزا میں دوسرے مسلمان بھی خدائی گرفت میں جکڑے گئے۔ مسیحی یورپ نے بھی اپنے نبی کا اقتدا کیا پھر دیکھیے یورپ نے جہاں استمعار کی طرح ڈالی ان ملکوں کے باشندے ان کی نیتوں سے جلدی آگاہ ہو گئے۔ بخلاف ان کے جو ملک مسلمانوں کے زیر نگیں ہوئے ان ملکوں کے غیر مسلم باشندے جوں جوں اسلام کی عظمت اور سادگی و خلوص سے آگاہ ہوئے از خود اسلام قبول کرتے چلے گئے۔ دونوں(یورپ اور مسلمان حکمرانوں) میں مابہ الامتیاز پہلے کی ہوس استعمار اور ثانی الذکر کی اس ذو ق سے محرومی ہے یورپ کے پیچھے دینی قت کا شائبہ تک نہیں جس کی بدولت مغرب کی عیسائیت ایسا بے ثمر پودا ہے جس کی قیمت یورپ میں بھی نہیںرہی۔ اسی بے عملی کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کی تبلیغ بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے مگر بخلاف عیسویت اور مغربی استعمار پسندوں کے اسلام کی عظمت اور سادگی عقل و ادراک میں وسعت پیدا کرتی ہے جس کی بناپر اس کے مقابلہ میں دوسرے مذاہب کی پذیرائی نہیں ہو سکتی۔ من اخذ بالسیف فبالسیف یوخذ بلا شبہ مسلمہ ہے لیکن یہ کلیہ مندرجہ ذیل دو طبقوں پر صادق اتاہے ۔ (الف) ان مسلمان حکمرانوں پر جنہوںنے مدافعت یا اپنے عقیدہ کی حفاظت سے قطع نظر جہاں بانی کی ہوس میں ملک فتح کیے۔ (ب) مسیحی مستعمرین یورپ پر جو پس ماندہ اقوام کو اپناغلام بنائے رکھنے کے لیے ان میں گھس جاتے ہیں۔ ۱؎ لوقا ۱۲ آیت ۴۹ تا ۵۱ صدر اول کے مسلمانوںکی فتوحات کا نتیجہ استعمار نہ تھا مگر صدر اول کے مسلمان کیا بزمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کیا بعہد خلفائے راشدینؓ اوران سے کچھ مدت بعد کے امرائے اسلا می سے کسینے کسی غیر قوم پر محض غلبہ یا ہوس استعمار کی غرض سے حملہ نہیں کیا۔ ان کی جنگوں کا مقصد دشمنوں سے مدافعت کرنا یا اپنے عقیدہ کا تحفظ تھا جیسا کہ جب قریش نے بعہد نبوت پناہ مسلمانوں کو ان کے عقید ہ سے لوٹانے کی کوشش کی اور ا س معاملہ میں پورا عرب قریش کے ساتھ ہو کر مسمانوں پر دوڑ پڑا تب مسلمانوں نے انہیں خود پر سے ہٹانے کے لیے جوابی جنگ ضرور کی۔ اسی طرح رو م کے مسیحٰ دشمنان اسلام اور ایران کے مجوسی حاسدان دین حنیفی کا ماجرا ہے جب ان کی طرفسے مسلمانوں کے عقائد کی وجہ سیمداخلت و حملہ پر مسلمانوں نے انہیں سرکوبی کے لیے باڑھ پر رکھ لیا قریش و عرب اور روم و ایران کی جنگوں میں صداقت مسلمانوں کی طرف تھی اور جدھر صداقت ہو فتح ان کے لیے مقدر ہوتی ہے یہی ہوا کہنا یہ ہے کہ ان جنگوں میں مسلمانوں نے فاتح ہونے کے باوجود اپنے کسی مقابل کے عقیدہ میں مداخلت گوارانہ کی کہ اسلامی تصورات میں کسی کے دی میںمداخلت اکراہ ہے لا اکراہ فی الدین ؎۱…البقرہ…م ان فاتحین نے یورپ کے مستعمرین کی طرح اپنے مفتوحہ ممالک کو اپنے لیے استعمار کی منڈیاں نہیںبنایا۔ جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندا ز سے ثابت ہے کہ ہر مفتوح قبیلہ میں سے اس کے سابق امیر کو اس کے منصب پر جوں کا توں برقرار رہنے دیا۔ مسلمانوں خو کسی مذہب و ملت کے عقیدہ میں مداخلت کا تحمل ہ نہیں لیکن ہی ان کے اختیار میں نہ تھا کہ ان کے عقیدہ کی استواری اور اہل عرب کی اہالیان عجم پر عدم ترجیح دیکھ کرمفتوحہ ممالک کے باشندے خود بخود اسلام قبول نہ کر لیں اورایسے مساواتی عقیدہ اور اس پر عمل سے آنکھیں بند کر کے کون گزر سکتا ہے؟ مسلمان فاتحین کا چلن اسلام کی تبلیغ تھی جس عقیدہ میں خدائے مطلق کے سوا کسی انسان کو کسی انسان پر برتری نہیں۔ جب عرب سے باہر کے رہنے والوں نے ان فاتحین اسلام کے یہ چلن دیکھے تو قبول اسلام کے لیے سبقت کے بغیر چارہ نہ رہا۔ لیکن گزشتہ آخری صدیوں میں یہاں بھی ملوکیت نے ڈیرے ڈال لیے۔ مسلمان بادشاہوں نے جہاں گیری و جہاں بانی کے لیے جنگیں شروع کر دیں اور اس نوک شمشیر سے ملک فتح کیے کہ جس سے دوبارہ واپس لیے جاتے ہیں لیکن نہ تو اسلام زور شمشیر سے فتح کرنے کا حامی ہے نہ کسی کو اس کے مفتوحات میں بزور شمشیر ملک کا کوئی حصہ واپس لینے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے اسلام ملکوں پر حکمرانی کی بجائے اذہان و قلوب پر قبضہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر غیر مسلم حکومت ان پر غالب آ گئی تو سہی لیکن انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے میں غلبہ حاصل نہ کر سکی۔ آج جن مسلم ممالک پر عیسائیوں نے تلوار کے زور سے غلبہ حاصل کیا ہے ان پر انجیل کا مقولہ جو شخص زور شمشیر سے حاصل کرے وہ چیز شمشیر ہی کے زور سے واپس لی جاتی ہے (انجیل لوقا ب ۱۲ ۴۹ تا ۵۱) ۱؎ دین میں زبردستی (کا کچھ) نام نہیں۔ مذکورہ الصدر تحریر کے مطاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مفتوحہ قبائل کے سابق امرا و نوابین کو ان کے مناصب پر بدستور بحال رکھا۔ مسلمانوں کی طرف سے اپنے منصب میں عدم اکراہ دیکھ کر اہل عرب از خود وحدت اسلامی میں منسلک ہو گئے۔ اب تمام ملک میں کوئی راجا ہ تھا پرجا حتیٰ کہ قبائل عرب مکہ یا مدینہ میں بھی کسی کی ماتحتی کے بار سے سرنگوں نہ تھے۔ ان میں ایمان و عمل کی حیثیت مابہ الامتیاز تھی لیکن اس پر بھی سب مسلمان خدا کے سامنے مساوی درجہ پر تھے۔ ایک دوسرے پر برتری اور کمتری کا سوال ہی نہ تھا البتہ جب غیروں میںکوئی ان کی جمعیت کو پراگندہ کرے یا ان کے عقیدہ و ایمان کی وجہ سے ان پر حمل یا حملہ کی تیار ی کر رہا ہوتا تو سب کے سب مل کرمدافعت کرتے کیونکہ ہرفرد مسلم ملت کا جزو ہے اور ان کا مرکز انکے خلیفہ کا دارالخلافت لیکن خلیفہ اور دارالخلافت دونوں میںسے کسی کو اقتدار و منزلت یا معنوی برتری میں جمہوری پر کوئی تفوق نہ تھا۔ اسلا م میں یہ برتری صرف احکا م الٰہی کو حاصل ہے۔ اسی مساوات کے صدقہ میں مسلمانوں کا ہر بڑا شہر علم و فن اور صنعت و حرفت کا مرکز بنا ہوا تھا جہاں امن و آشتی کا دور دورہ ہوتا چاروں طرف سے ہن برستا اور صدیوں تک یہی عالم رہا۔ مسلمان اصول اسلا م میں خود ہی تحریف کر کے تباہی میں مبتلا ہو گئے اب ان کے برے دن ا ٓ گئے مسلمانوں نے اصول اسلام میں تحریف شروع کر دی جس کے وہ خود ہی شکار ہو ئے باہمی اخوت میں بے اعتنائی اور تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر گئے۔ ایک دوسرے مسلمان کی ضرورتوں پر اپنے اپنے کاموں کو ترؤجیح دی اور غیروں کے محتاج بن گئے۔ ہر فرد پر خود پرستی غالب آ گئی۔ جس سے وقت نے اپنا رخ بدل لیا۔ دشمن کی تلوار میان سے نکل آئی۔ شمشیر کے قانون کا جز و اول نافذ ہو گیا اور مسیحی تلوار نے ان کی حکومت کے پرخچے اڑا دیے اب اس شمشیری قانون کے آخری جملہ کے پورے ہونے کا انتظار ہے کہ مسلمانوں کو مسیحی فاتحین سے شمشیر ہی کا قانون ان کا ملک واپس دلائے گا۔ فاتح ممالک میں مسیحی یورپ کا قانون تلوار ہے ہوا یہ کہ پندرھویں صدی ع کے آغاز میں مسیحیت نے ایسی کروٹ بدلی کہ اگرآپس میں انکی پھوٹ نہ پڑتی تو ان کا وجود نیا کیلیے بھی مضر ثابت ہوتا۔ مسیحی یورپ کی شمشیر نے ان مسلمانوں کو اپنے نرغے میں لے لیا جو اصول اسلام ترک کرچکے تھے۔ لیکن عیسائیوں ے مسلمانوں پر کس طرح حکومت کی؟ فاتح و مفتوح کے درمیان تلوار رکھ دی گئی۔ اب یہ کہنا تحصیل حاصل ہے کہ جہاں شمشیر کے زور سے حکومت کی جائے تو ایسے فاتحین سے عقل و علم اور شرافت و محبت بلکہ ایمان اور انسانیت تک رخصت ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں میں باہم جنگ و جدال پر اسلامی قانون دنیا کا موجودہ اخلاقی بحران زور شمشیر ہی کا تو نتیجہ ہے ۔ یور پ کی جو بادشاہیاں زور شمشیر سے پس ماندہ ممالک پر حکمران ہیں آج سے بیس سال قبل یہی قومیں دنیا میں امن و آشتی پیدا کرنے کا احساس کر رہی تھیں لیکن ایسی صلح و محبت کا سبق صر ف اسلام کے پاس ہے کہ: وان طاء فتن من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفی ء الی امر اللہ فا ء ت فاصلحو بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین انما المومنون اخوۃ فاصلحوا اخویکم واتقو اللہ لعلکم ترحمون(۴۹:۹۔۱۰) ’’اور اگر (تم ) مسلمانوں کے دو فرقے آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔ پھر اگر ان میں کا ایک (فرقہ) دوسرے پر زیادتی کرے تو جو فرقہ زیادتی کرتاہے (تم بھی ) اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم خدا کی طرف رجوع لائے۔ پھر جب رجوع لے آئے تو فریقین میں برابری کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کو ملحوظ رکھو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتاہے۔ مسلمان تو بس (آپس میں ) بھائی بھائی ہیں۔ تو اپنے دو بھائیوں میں میل جول کرا لیا کرو اور خدا (کے غضب) سے ڈرتے رہو تاکہ (خدا کی طرف سے) تم پر رحم کیا جائے‘‘۔ مغربی تمدن استعمار پر مبنی ہے بخلاف اس آیت کے مغربی حکمرانوں کی ایسی کوششیں ابھی تک ناکام ہیں جن کی نحوست کے اثر سے صلح و آشتی کا وجود دنیا کے کسی حصہ میں نہیں پایا جاتا اورکیسے پایا جا سکتا ہے جب کہ مغرب کے تمدن کی بنیاد ہی استعمار پر ہو اور استعمار زیر دستوں کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھنے سے تعبیر ہو۔ پھر استعمار میں جکڑے ہوئے پس ماندہ اپنی نجات کے لیے ہاتھ پیر نہ بھی ہلائیں‘ لیکن جب وہ حرکت کریں گے تو دنیا جنگ کے شعلوں سے کرہ نار بن کر فنا ہوجائے گی۔ آخرپس ماندہ اقوام ان ابلیسان سیاست کو اپنی گرفت میں لا کر دم لیں گے۔ ظاہر ہے کہ جب تک دنیا میں ایسا ایک ابلیس باقی رہے گا جسے ہوس استعمار نے پاگل کر رکھا ہو صلح و آشتی کا برقرار رہنا ناممکن ہے اگرچہ آئے دن معاہدے کیوں نہ ہوتے رہیں۔ باوجود اس کے نہ تو ان(معاہدین) میں سے کوئی خود کو دوسرے کے حملے سے محفوظ سمجھتا ہے اورنہ موقع ملنے پر خود دوسرے پر حملہ آور ہونے میں غافل ہے۔ غریب دنیا والے ان احوال و سوانح میں امن و راحت سے زندگی کیسے بسر کر سکتے ہیں؟ صلح و آشتی کا دور دورہ صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہر قوم اپنی برتری کا سودا سر سے نکال کر باہمی محبت و مساوا ت کی فکر میں گم ہو جائے۔ ہر قوم کا اساسی عقیدہ اسی پر مبنی ہو گا کہ جب کوئی ملک دوسرے پر حملہ آور ہو تو سب مل کر حملہ آور پر ٹوٹ پڑیں۔ لیکن یہ صورت اس وقت ممکن ہے جب کہ تمدن کی بنیاد استعمار پر نہ ہو اور دنیا پر واضح ہو جائے کہ اب سے طاقتور ملک پس ماندہ قوموں کی کمک پر کمربستہ ہوجائیں گے۔ حکمران اپنے ماتحتوں کے ساتھ شفقت و محبت کا برتائو کریں گے۔ علم دوست بے پڑھوں کی تربیت اپنا فرض سمجھیں گے۔ عقل و دانش کا علم سرفراز ہو گا۔ علم سے بے بہرہ قوموں کو سائنس و فنون کی جھلک سے رام نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ہر حال میں انسانیت کی منزلت کو مقدم رکھاجائے گا۔ اگر تمدن کی بنیاد استعمار کی بجائے اسلامی نظریہ تہذیب پر قاء کی جائے تو امن و آشتی خود بخود پھیل جائے گی انسان دنیا کے ہر کونے کو اپنا وطن تصور کرے گا‘ ایک دوسرے کو بھائی سمجھ کر اپنی ضروریات اس کی احتیاج پر قربان کرنے لگیں گے‘ دلوں میں انسانی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے پرآ جائے گا۔ جب برسراقتدار جماعتیں اپنے لب و لہجہ میں تبدیلی کر لیں گی ہر قوم دوسرے فریق کی حرمت خود پر واجب سمجھ لے گی۔ باہم دوستانہ مبادلات زندگی کا وظیفہ قرار پائیں گے اور یہ تمام اطوار و کردار صرف خدائے برتر کی خوشنودی کے لیے کیے جائیں گے پھر کوئی وجہ نہیں کہ صداقت کو فروغ حاصل نہ ہو سکون و امن کی حکومت قائم نہ ہونے پائے۔ خداوند عالم ایسے ہ دورمیں اپنے بندوں پر خوش ہو سکتا ہے اور اس کے بندے اسی طرح اپنے خالق کو خوش رکھ سکتے ہیں۔ اسلام کی اساس عفوو مساوات پر ہے ان الذین امنوا والذین ھادواوالنصری واصبئین من امن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحا فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون (۲:۶۲) ’’بیشک مسلمان اور یہودی اور عیسائی اور صابی ان میں سے جو لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائے اور اچھے کام کرتے رہے تو ان (کے کیے) کا اجر ان کے پروردگار کے ہاں ملے گا اور ان پر نہ کسی قسم کا خوف طاری ہو گا اور نہ وہ کسی طرح آزردہ خاطر ہوں گے‘‘۔ اسلا م کے سوا مساوات و باہمی عفو و کرم کی اس سے بہتر اور وسیع افق کون سے آسمان پر تلاش کیجیے گا۔ جس میں خدائے یکتا پر ایمان اور یوم الحساب پر یقین کے ساتھ ساتھ نیک کرداری پر اجر مقدر ہے‘ عام اس سے کہ یہ شخص مسلمان ہے یا اسلام کی دعوت نہ پہنچنے کی وجہ سے مرنے تک یہودیت پر قائم رہا‘ نصرانیت پر ا س کا خاتمہ ہوا یا صابیت کی گود میں بیٹھا ہوا قبر میں جا سویا۔ وان اھل الکتاب لمن یومن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم خاشعین للہ لا یشترون بایت اللہ ثمنا قلیلا اولئک لھم اجرھم عند ربھم ان اللہ سریع الحساب (۳:۱۹۹) ’’اور یقینا اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ تم پر نازل ہوا ہے اور جو کچھ ان پر نازل ہو چکا ہے سب کے لیے ان کے دل میں یقین ہے۔ نیز ان کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں۔ وہ ایسا نہیںکرتے کہ خدا کی آیتیں تھوڑے داموں پر فروخت کر ڈالیں۔ تو بلاشبہ ایسے لوگوں کے لیے کوئی کھٹکا نہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے پروردگار کے حضور ان کا اجر ہے۔ یقینا اللہ (کا قانون مکافات) اعمال کے حساب میں سست رفتار نہیں‘‘۔ کیا قرآن مجید کی اس عفو و لطف عام کے مقابلہ میں مغرب کا وہ تمدن پیش کیا جا سکتا ہے جس کی بنا عصبیت پر اس کا اکمال دوسرے سے حسد و باہی جنگوں پر ہو؟ عفو و صلح کی جو تعلیم قرآن کی اس آیت (۳:۱۹۹) میں ہے اس کا پرچار دنیا کے کونے کونے میں کرنا ہمارافرض ہے۔ تاکہ ہر انسان اپنا مرتبہ معلوم کر سکے اور یہی روح ہے کہ جو ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی الٰہی کے ذریعے نازل ہوئی۔ انسانی زدنگی کے لیے جو لائحہ عمل مرتب کیجیے اس آیت کے پیش نظر کیجیے جس سے روحانی و اخلاقی مسائل کے حل ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔ جن کا تعلق ہماری روز مرہ زندگی سے ہے اور جس حل کے لیے اہل علم لوگوں سے سرگرداں ہیں۔ حیات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اس کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے جو نقوش دکھائے گئے ہیں انہیںایک ایسے انسان کی زندگی کا خاکہ کہیے جو مقام علو و برتری کے تمام درجات طے کر چکا ہو۔ اورجو لوگ زندگی کے لیے نمونہ و مثل کی جستجو میں ہیں ان کے لیے جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ایک ایسا جامع و مانع درس ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی اور جگہ درس کا تلاش کرنا لا حاصل ہے۔ ایسے جاذب نقوش اور کہاں ملیں گے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعثت سے قبل بھی تو صداقت و شرافت میں ضرب المثل ہیںاور نبوت کے بعد آپ میں یہ کمالات پائے جاتے ہیں کہ زندگی کا ہر لمحہ قربانی کے لیے وقف ہے۔ جس کی بدولت بارہا وت کے ریب قریب پہنچ گئے۔ اس پر یہ امتیاز کہ اگر کس نے جاہ و مال کی جھلک دکھا کر آپ کو زندگی(کے ان کمالات) سے ہٹانا چاہا تو آپ نے اس کی طر ف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی کے جس بلند و بالا مرتبہ پر فائز ہیں کسی اور انسان کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں اوریہ کمالات زندگی کے کسی ایک شعبہ مں نہیں بلکہ حیات کے ہر زاویہ میں یہی تکمیل دیکھیے گا۔ بشر کے لیے اس سے زیادہ برتری کی گنجائش کیسے پیدا کیجیے گا۔ کہ ایک طرف یہ کمالات حاصل ہوں اور دوسری طرف خداوند برترسے بھی پورا واسطہ جس کا یہ اچر ہے کہ چودھویں صدی ختم ہونے کو آئی مگر ہنوز آن بر رحمت درفشان ست جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت و نبوت کا سکہ ابھی تک جاری ہے چہ جائے کہ اس طویل عرصہ میں کئی ایسی بلند مرتبہ ہستیاں دنیا میں آئیں جو زندگی کے مناسب مقام پر فائز ہوئیں مگر ان میں کسی کو نبوت و رسالت من اللہ نصیب نہیں ہوئی۔ پھریہی نبوت جناب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے اس قدر عام تھی کہ ہر قو م میں نبی مبعوث ہوتاجو اپنی قوم کو ہدایت کی تلقین کرتا۔ مگر ان بے شمار نبیوں میں سے نہ تو کسی نے خود کو تمام دنیا کے لیے پیش کیا نہ کوئی اپنی ختم المرسلینی کا حرف زبان پر لایا ماسوائے جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جنہوںنے اپنی رسالت کا دعویٰ تمام عالم میں اور رہتی دنیا تک کے لیے پیش کیا اور سنن والوں نے اس دعویٰ کی تصدیق کی۔ کیوںنہ ہوتاکہ نہ رسالت بدعی امر تھا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب نیا معاملہ۔ ماکان حدیثا یفتری ولکن تصدیق الذی بین یدیہ و تفصیل کل شئی و ھدی و رحمۃ لقوم یومنون (۱۲:۱۱۱) ’’یہ قرآن کوئی بنائی ہوئی بات تو ہے نہیں بلکہ جو (آسمانی کتابیں) اس کے نزول سے پہلے (موجود ) ہیں ان کی تصدیق کرتاہے اور اس میں ان لوگوں کے لیے جو ایمان والے ہیں ہر چیز کا تفصیلی بیان اور ہدایت اور رحمت ہے‘‘۔ ٭٭٭ حرف آخر ٭٭٭ حرف آخر خدا کے لطف و رحمت سے امید ہے کہ میں نے جس مقصد کے لیے قلم اٹھایا ہے جہاںتک میری وسعت تھی اس نے مجھے پوری کامیابی عنایت فرمائی اور لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا لھا ماکسبت وعلیھا ما اکتسبت ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا ’’اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ ہر جان کے لیے وہی ہے جیسی کچھ اس کی کمائی ہے جو کچھ اسے پانا ہے وہ بھی اس کی کمائی سے ہے اور جس کے لیے اسے جواب دہ ہوناہے وہ بھی اس کی کمائی ۔ (پس ایمان والوں کے صدائے حال یہ ہوتی ہے کہ) خدایا! اگر ہم سے (سعی و عمل میں) بھول چوک ہوجائے تو اس کے لیے نہ پکڑیو اور ہمیں بخش دیجیو‘‘۔ ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنا بہ ’’خدایا ! ہم پر بندھنوں اور گرفتاریوں کا بوجھ نہ ڈالیو جیسا کہ ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے گز ر چکے ہیں ۔ خدایا! ایسا بوجھ ہم سے نہ اٹھوائیو جس کے اٹھانے کی ہم (ناتوانوں) میں سکت نہ ہو‘‘۔ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولنا فانصرنا علی القوم الکفرین (۲:۲۸۶) ’’خدایا ! ہم سے درگزر کر !خدایا ہم پر رحم کر خدایا! تو ہی ہمارا مالک و آقاہے۔ پس ان (ظالموں) کے گروہ کے مقابلے میں ہماری مدد فرما‘‘۔ وتمت کلمات ربک صدقا وعدلا ٭٭٭ مآخذ (جن کا تذکرہ مصنف نے متن میں کیا) (الف) الابطال… کارلیل اسباب النزول… الواحدی الاسلام … اب لامنس الاسلام الصحیح… استاد محمد اسعاف انشاشیبی الاسلام والنصرانیۃ… امام محمد عبدہ (ب) البحر الرئق… ابن نجیم البدایۃ والنہایۃ… ابن کثیر (ت) تاریخ ابن کثیر … البدایۃ والنھایۃ تاریخ ابی الفدائ… البدایۃ والنھایۃ تاریخ الرسل والملوک… طبری تفسیر الطبری (جامع البیان) تفصیل آیات القرآن الحکیم (ح) حیات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم … امیل در منجم حیات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم … ولیم مویر (د) دائرۃ المعارف البریطانیہ دلائل النبوۃ… ابی نعیم اصبھانی (ر) رسالتہ فی تاریخ العرب کوسان دیر سفال روح الاسلام … سید امیر علی روح المعانی… آلوسی (س) سیرۃ ابن ہشام (ش) شرح مسلم … نووی الشفاء … قاضی عیاض (ص) صحیح مسلم (ط) الطبری… تاریخ الرسل و الملوک طبقات ابن سعد… ابن سعد (ف) فتح العرب لمعصر… دکتور بتلر فجر الاسلام … استاد احمد امین فی الادب الجاھلی …دکتور طہ حسین (ق) قصص الانبیائ… استاد عبدالوھاب النجار (ک) کتاب البخاری (الجامع الصحیح) کتاب واشنطن از فنج کلیات ابی البقاء (م) مجلۃ المستشرقین الالمانیہ مجلۃ المنار مغازی الواقدی مفتاح کنوز السنۃ موسوعۃ … اروس الفرنیسۃ (ن) الناسخ والمنسوخ… ابن سلامۃ النھایۃ … ابن اثیر (و) الوحی المحمدی… رشید رضا (ی) الیھود فی بلاد العرب …اسرائیل و لفنسن ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ The End