حیاتِ اقبال (اردو) شعبۂ ادبیات اقبال اکادمی پاکستان بروشر سیریز ۔۔۔۔۔۲۵ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allmaiqbal.com ISBN 969 - 416 - 344 - 7 طبع اوّل : ۲۰۰۴ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۱۰۰ روپے مطبع : طیب اقبال پرنٹرز، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ لق و دق میدان ہے ۔ ایک سفید براق کبوتر فضا میں چکّر لگا رہا ہے۔ کبھی اتنا نیچے اُترآتا ہے کہ بس اب زمین کی قسمت جاگی اور کبھی ایسی اُونچائی پکڑتا ہے کہ تارا بن کر آسمان سے جڑ گیا۔ ادھر بہت سے لوگ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر اُسے پکڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سب کے سب دیوانے ہو رہے ہیں مگر وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتا ۔ کچھ وقت گزر گیا تو اچانک اُس نے غوطہ لگایا اور میری جھولی میں آن گرا۔ آسمان سے زمین تک ایک قوس بن گئی۔ شیخ نور محمد یہ خواب دیکھ کر اُٹھے تو اپنے دل کو اس یقین سے بھرا ہوا پایا کہ خُدا انھیں ایک بیٹا عطا کرے گا جو دین اِسلام کی خدمت میں بڑا نام پیدا کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ۳ ذِیقعدہ ۱۲۹۴ھ کو جو عیسوی حساب سے ۹ نومبر ۱۸۷۷ء بنتا ہے، جمعے کے دن ابھی فجر کی اذانیں گُونج رہی تھیں کہ شیخ نور محمد کے خانۂ درویشی کے ایک حُجرے میں وہ غیبی بشارت مجسّم ہو کر ظاہر ہو گئی۔ بچے کی پہلی آواز آفاق میں پھیلے ہوئے اذانوں کے آہنگ سے خارج نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ شیخ نور محمد اِطلاع پا کر پہنچے تو اُس فلک پرواز کو پہچان لیا اور محمد اقبال نام رکھا۔ شیخ نور محمد کشمیر کے سپرو برہمنوں کی نسل سے تھے ۔ غازی اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جدّ نے اِسلام قبول کیا۔ ہر پُشت میں ایک نہ ایک ایسا ضرور ہوا جس نے فقط دل سے راہ رکھی ۔ یہ بھی انھی صاحب دلوں میں سے تھے۔ بزرگوں نے کشمیر چھوڑ ا توسیالکوٹ میں آبسے ۔ ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا ۔ کشمیری لوئیوں اور دُھسّوں کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ۔ لگتا ہے کہ یہ اور ان کے چھوٹے بھائی شیخ غلام محمد یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور گھر والے ہُوئے ۔ بعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑی گراں میں اُٹھ آئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے۔ ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے، مَرتے دم تک یہیں رہے۔ ان کی وفات کے بعد شیخ نور محمد نے اس سے مُلحق ایک دو منزلہ مکان اور دو دکانیں خرید کر مکانیت کو بڑھا لیا۔ اقبال کی ولادت اِسی گھر میں ہُوئی۔ اُونچی چھتوں والے چھوٹے چھوٹے کمرے ، مشرق کے رُخ پر کھُلنے والے روشندان ، کچے صحن اور ایک مبہم سے نشیب میں واقع ڈیوڑھیوں کے بیچ زندگی کرنے کا عمل اِنسانی اور فطری ہوجاتا ہے۔ اِس طرح کے گھروں کی بناوٹ میں تعلق کی ایسی شدّت کار فرما ہوتی ہے جو انھیں کبھی پُرانا نہیں ہونے دیتی ۔ مکان اور مکین ہمجولی ہوتے ہیں۔ ساتھ ساتھ بڑھتے ہیں ۔ محبت کا ہر لمحہ ایک نیا تجربہ ہوتا ہے۔ اِس طرح آدمی میں مختلف تجربات اور احساسات کی سمائی اور انھیں باہم مربوط کرنے کی سکت پیدا ہو جاتی ہے۔ یوں اس طرزِ زیست کی بِنا پڑتی ہے جس میں اِردگرد کی کائنات اِنسان کے دِل کی پہنائی میں سماتی چلی جاتی ہے، جہاں بینی جاں بینی بن جاتی ہے۔ اقبال ایسے ہی ایک گھر میں پروان چڑھے ، جو آج کل کے مکانوں کی طرح بس کنکریٹ کا ڈھیر نہ تھا بلکہ مٹی کے گہرائو سے پھُوٹنے والی ایک صُورت ، جس میں ایک خُدا آباد باطن کا پھیلائو بھی شامل تھا۔ ہمارے زمانے کی بے معنی سہولتوں سے پاک اِس گھر کے غیر مصنُوعی ماحول میں اقبال نے آنکھ کھولی، اس میں اُونچی چھت اور ناہموار اینٹوں سے بنے فرش کے درمیان اٹل طریقے سے چھائی ہوئی گہری اور جھٹپٹی سی فضا میں بولنا اور چلنا سیکھا جو باپ کی آواز میں تحکم کی گُونج پیدا کردیتی ہے اور ماں کی گود کی گرمی اور بڑھا دیتی ہے، اور چراغ کی روشنی میں پڑھنا شروع کیا جو چیزوں کے باطن پر چمکتی ہے، ان کا باطن کھولتی ہے مگر ان کے ضُروری ابہام کو برقرار رکھتی ہے۔ چراغ کی روشنی میں پڑھنے والے بڑے دروں بیں اور معنی شناس ہوتے ہیں۔ شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم کو کافی سمجھتے تھے۔ سیالکوٹ کے اکثر مقامی عُلما کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔ اقبال بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے ۔ مولانا ابو عبداللہ غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے ۔ شیخ نور محمد کا وہاں آنا جانا تھا۔ یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ حسبِ دستور قُرآن شریف سے اِبتدا ہوئی ۔ تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ ایک دن شہر کے نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ۔ ایک بچے کو بیٹھے دیکھا تو صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آ رہی تھی۔ پوچھا: کس کا بچہ ہے؟ معلوم ہوا تو وہاں سے اُٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے ۔ دونوں آپس میں قریبی واقف تھے۔ مولانا نے زور دے کر سمجھا یا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو، اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے۔ اُنھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو اُن کی تربیت میں دے دیا جائے۔ کچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا، مگر جب دُوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپُرد کر دیا۔ ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا۔ یہاں اقبال نے اُردو ، فارسی اور عربی پڑھنی شروع کی۔ تین سال گزر گئے ۔ اس دوران میں سید میر حَسن نے اسکاچ مشن اسکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا۔ اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پُرانے معمولات اپنی جگہ رہے۔ اسکول سے آتے تو اُستاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حسن اُن عظیم اُستادوں کی یاد گار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا۔ لیکن یہ پڑھنا اور پڑھانا نِری کتاب خوانی کا نام نہیں۔ اچھے زمانے میں اُستاد مُرشد ہوا کرتا تھا۔میر حسن بھی یہی کیا کرتے تھے۔ تمام اِسلامی علوم سے آگاہ تھے، جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی۔ اِس کے علاوہ ادبیات ، معقولات ، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیار کرتے تھے تاکہ علم فقط حافظے میںبند ہو کر نہ رہ جائے بلکہ طرزِ اِحساس بن جائے ۔ عربی ، فارسی، اردو اور پنجابی کے ہزاروں شعر از بر تھے۔ ایک شعر کو کھولنا ہوتا تو بیسیوں مترادف اشعار سُنا ڈالتے۔ مولانا کی تدریسی مصُروفیات بہُت زیادہ تھیں مگر مطالعے کا معمول قضا نہیں کرتے تھے۔ قرآن کے حافظ بھی تھے اور عاشق بھی۔۔ شاگردوں میں شاہ صاحب کہلاتے تھے۔ اِنسانی تعلق کا بہت پاس تھا۔ حد درجہ شفیق ، سادہ ، قانع ، متین ، منکسرالمزاج اور خُوش طبع بزرگ تھے ۔ روزانہ کا معمول تھا کہ فجر کی نماز پڑھ کر قبرستان جاتے، عزیزوں اور دوستوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ۔ فارغ ہوتے تو شاگردوں کو منتظر پاتے۔ واپسی کا راستہ سبق سُننے اور دینے میں کَٹ جاتا۔ یہ سلسلہ گھر پہنچ کر بھی جاری رہتا، یہاں تک کہ اسکول کا وقت قریب آ جاتا ۔ جلدی جلدی ناشتا کرتے اور اسکول کو چل پڑتے ۔ شاگرد ساتھ لگے رہتے ۔ دن بھر اسکول میں پڑھاتے ۔ شام کو شاگردوں کو لیے ہوئے گھر آتے، پھر رات تک درس چلتا رہتا۔ اقبال کو بہت عزیز رکھتے تھے۔ خود وہ بھی اُستاد پر فدا تھے۔ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کار فرما نظر آتے ہیں، ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صُحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں۔ سیّد میر حسن ، سرسیّد کے بڑے قائل تھے۔ علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔ ان کے زیرِ اثر اقبال کے دل میں بھی سرسیّد کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی سے اُن کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتاہے۔ مگر وہ کتاب کے کیڑے نہیں تھے۔ اس طرح تو آدمی محض ایک دماغی وجود بن کر رہ جاتا ہے۔ زندگی کے حقائق اور تجربات بس دماغ میں منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں، خونِ گرم کا حصہ نہیں بنتے ۔ انھیں کھیل کود کا بھی شوق تھا۔ بچوں کی طرح شوخیاں بھی کرتے تھے۔ حاضر جواب بھی بہت تھے۔ شیخ نور محمد یہ سب دیکھتے مگر منع نہ کرتے۔ جانتے تھے کہ اس طرح چیزوں کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی پیدا ہو جاتی ہے جو بے حد ضروری اور مفید ہے۔غرض اقبال کا بچپن ایک فطری کشادگی اوربے ساختگی کے ساتھ گُزرا۔ قُدرت نے انھیں صُوفی باپ اور عالم اُستاد عطا کیا جس سے ان کا دِل اور عقل یکسو ہو گئے، دونوں کا ہدف ایک ہو گیا۔ یہ جو اقبال کے یہاں حس اور فکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے اس کے پیچھے یہی چیز کارفرما ہے ۔ باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجمالاً محسوس کروایا تھا،اُستاد کی تعلیم سے تفصیلاً معلوم بھی ہو گئے۔ سولہ برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا۔ تمغا اور وظیفہ ملا۔ اسکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہو چکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا، وہیں رہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یوں توشعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کرلیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ، نہ کسی کو سُناتے نہ محفوظ رکھتے ۔ لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔ لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ رُوح کا تقاضا بن چکی تھی۔ اس وقت پورا برعظیم داغ کے نام سے گونج رہا تھا۔ خصوصاً اردو زبان پر ان کی معجزانہ گرفت کا ہر کسی کو اعتراف تھا۔ اقبال کو یہی گرفت درکار تھی۔ شاگردی کی درخواست لکھ بھیجی جو قبول کر لی گئی۔ مگر اصلاح کا یہ سلسلہ زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا ۔ داغ جگت اُستاد تھے۔ متحدہ ہندوستان میں اُردو شاعری کے جتنے بھی رُوپ تھے، ان کی تراش خراش میں داغ کا قلم سب سے آگے تھا۔۔ لیکن یہ رنگ ان کے لیے بھی نیا تھا۔ گو اس وقت تک اقبال کے کلام کی امتیازی خصُوصیت ظاہر نہیں ہوئی تھی مگر داغ اپنی بے مثال بصیرت سے بھانپ گئے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جا سکتا۔ یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ اصلاح کی گنجایش نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر اقبال اِس مختصر سی شاگردی پر بھی ہمیشہ نازاں رہے۔ کچھ یہی حال داغ کا بھی رہا ۔ اقبال کی شادی بھی اسی زمانے میں ہوئی۔ ۶؍مئی ۱۸۹۳ء کو میٹرک کے نتیجے کی خبر پہنچی تو اقبال سہرا باندھے بیٹھے تھے۔ بارات سیالکوٹ سے گجرات روانہ ہونے والی تھی۔ ۱۸۹۵ء میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کے لیے لاہور آگئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے۔ اپنے لیے انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے۔ انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے کے لیے اورینٹل کالج کی کلاس میں شریک ہوتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال اُستاد تشریف رکھتے تھے ۔ اس وقت تک اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میںباہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔ ۱۸۹۸ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔ یہاں پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ کا تعلق میسّر آیاجنھوں نے آگے چل کر اقبال کی علمی اور فکری زندگی کا ایک حتمی رُخ متعین کر دیا۔ مارچ ۱۸۹۹ء میں ایم اے (فلسفہ) کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ نومبر ۱۸۹۹ء کی ایک شام کچھ بے تکلف ہم جماعت انھیں حکیم امین الدین کے مکان پر ایک محفل مشاعرہ میں کھینچ لے گئے۔ بڑے بڑے سِکّہ بند اساتذہ شاگردوں کی ایک کثیر تعداد سمیت شریک تھے۔ سُننے والوں کا بھی ایک ہجوم تھا۔ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے ، اس لیے ان کا نام مبتدیوں کے دور میں پُکارا گیا۔۔ غزل پڑھنی شروع کی، جب اس شعر پر پہنچے کہ: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے مرزا ارشد گورگانی اُچھل پڑے۔ بے اختیار ہو کر داد دینے لگے۔ یہاں سے اقبال کی بحیثیت شاعرشہرت کا آغاز ہوا۔ مشاعروں میں باصرار بُلائے جانے لگے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا۔ اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سُناتے اور جلسے میں ایک سماں باندھ دیتے۔ اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔ کم از کم پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی وحدت کا شعور پیدا ہونا شروع ہو گیا جس میں اقبال کی شاعری نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد ۱۳؍مئی ۱۸۹۹ء کو اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال کا تقرر ہو گیا۔ اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے تھے۔ اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے مگر آرنلڈ کے مشورے پر اس مقصد کے لیے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔ ۱۹۰۴ء کو آرنلڈ جب انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ان کی دُوری کو بے حد محسوس کیا۔ دِل کہتا تھا کہ اُڑ کر انگلستان پہنچ جائیں۔ اورینٹل کالج میں اپنے چار سالہ دورِ تدریس میں اقبال نے اسٹبس کی ارلی پلائی جانٹس اور واکر کی پولیٹیکل اکانومی کا اُردو میں تلخیص و ترجمہ کیا ، شیخ عبدالکریم الجیلی کے نظریۂ توحیدِ مطلق پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا اورعلم الاقتصاد کے نام سے اُردو زبان میں ایک مختصر سی کتاب تصنیف کی جو ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اُردو میں اپنے موضوع پر یہ اوّلین کتابوں میں سے ہے۔ اورینٹل کالج میں بطور میکلوڈ عربک ریڈر مُدتِ مُلازمت ختم ہوگئی تو جون ۱۹۰۳ء میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اقبال کا گورنمنٹ کالج میں تقرر ہو گیا۔ پہلے وہ انگریزی پڑھاتے رہے پھر فلسفہ پڑھانے پر مامور ہوئے۔ سلسلہ تدریس ۱۹۰۵ء کی تعطیلات گرما تک جاری رہا یہاں تک کہ یورپ جانے کے لیے تین سال کی رخصت لی اور یکم ستمبر ۱۹۰۵ء کو لاہور سے روانہ ہوگئے۔ اسی زمانے میں اقبال کی شاعری میں کُچھ ایسی چیزوں کا ظہور شروع ہوا، جو اردو کی شعری روایت میں ایک قابلِ قدر اضافہ معلوم ہوتی تھیں۔ : مثلاً فِطرت نگاری۔ گو کہ خُود اقبال کے زمانے میںمناظرِ فِطرت پر شاعری کی ایک تحریک سی چلی ہوئی تھی مگر ان شُعرا کی مار بس فِطرت کے بصری پَہلُو تک تھی جب کہ اقبال کے اِبتدائی کلام میں بھی صاف نظر آتا ہے کہ فطرت فقط آنکھ تک محدُدو نہیں بلکہ دل اور عقل کا بھی موضُوع ہے۔ اِس کے علاوہ ان کی اس وقت کی غزلوں اور نظموں میں سیاسی ، فلسفیانہ اور متحدہ ہندوستان میں مروّج متصّوفانہ تصوّرات کے اظہار کی بِنا پڑی۔ مزید براںبچوں کے لیے نظمیں لکھیں اور مغربی شاعری کے کچھ منظُوم تراجم کیے۔ اقبال دِلّی اور بمبئی سے ہوتے ہوئے ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۰۵ء کو کیمبرج پُہنچے آرنلڈ کی وجہ سے فوراً ہی ٹرنٹی کالج میں داخلہ مل گیا ۔ چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے، اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی چنانچہ وہ ۱۷ پرتگال پلیس میں مقیم ہو گئے۔ بیرسٹری کے لیے ۶ ؍نومبر کو لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ سر عبدالقادر بھی یہیں تھے۔ اسی زمانے میں کیمبرج کے اُستادوں میں وائٹ ہیڈ، میک ٹیگرٹ، وارڈ ، برائون اور نکلسن ایسی نادرئہ روزگار اور شہرئہ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں۔ میک ٹیگرٹ اور نکلسن کے ساتھ اقبال کا قریبی ربط ضبط تھا بلکہ نکلسن کے ساتھ تو برابر کی دوستی اور بے تکلفی پیدا ہو گئی۔ البتہ میگ ٹیگرٹ کے ساتھ تعلق ہمیشہ شاگردانہ ہی رہا۔ اس کا سبب میک ٹیگرٹ کی جلالتِ علمی کے ساتھ ان کی عمر بھی تھی، وہ اقبال سے خاصے بڑے تھے جب کہ نکلسن کے ساتھ سن کا کوئی ایسا تفاوت نہ تھا۔ میک ٹیگرٹ ٹرنٹی کالج میں کانٹ اور ہیگل کا فلسفہ پڑھاتے تھے۔ خُود بھی انگلستان کے بڑے فلسفیوں میں گِنے جاتے تھے۔ برائون اور نکلسن عربی اور فارسی زبانوں کے ماہر تھے۔ آگے چل کر نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیں آیا مگر اس کی وجہ سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی سا تعارف ضرور ہو گیا۔ انگلستان سے آنے کے بعد بھی میگ ٹیگرٹ اور نکلسن سے اقبال کی خط و کتابت جاری رہی۔ آرنلڈ لندن یونی ورسٹی میں عربی پڑھاتے تھے ، ان سے ملنے کے لیے اقبال باقاعدگی کے ساتھ کیمبرج سے لندن جایا کرتے تھے۔ ہر معاملے میں ان کا مشورہ لے کر ہی کوئی قدم اُٹھاتے۔ انھی کی ہدایت پر میُونخ یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن کروائی۔ کیمبرج سے بی اے کرنے کے بعد جولائی ۱۹۰۷ء کو ہائیڈل برگ چلے گئے تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میُونخ یونی ورسٹی میں اپنے تحقیقی مقالے کے بارے میں اس زبانی امتحان کی تیاری ہو جائے جو اسی زبان میں ہوتا تھا۔ یہاں چار ماہ گزارے۔ The Development of Metaphysics in Persia (ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا) کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ پہلے ہی داخل کر چکے تھے، ایک زبانی امتحان کا مرحلہ ابھی باقی تھا، اس سے بھی سرخروئی کے ساتھ گزر گئے۔ ۴؍نومبر ۱۹۰۷ء کو میُونخ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ دے دی ۔ ۱۹۰۸ء میں یہ مقالہ پہلی بار لندن سے شائع ہُوا۔ انتساب آرنلڈ کے نام تھا۔ ڈاکٹریٹ ملتے ہی جرمنی سے واپس لندن واپس چلے آئے اور بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کر دی۔ کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہو گئے۔ جولائی ۱۹۰۸ء کو نتیجہ نکلا۔ کامیاب قرار دیے گئے۔ اس کے بعد انگلستان میں مزید نہیں رُکے ، وطن واپس آ گئے۔ لندن میں قیام کے دوران میں اقبال نے مختلف موضوعات پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا، مثلاً اسلامی تصوّف ، مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر ، اسلامی جمہوریت ، اسلام اور عقل انسانی وغیرہ۔ بدقسمتی سے ان میں سے ایک کا بھی کوئی ریکارڈ نہیں ملتا۔ ایک مرتبہ آرنلڈ لمبی رخصت پر گئے تو اقبال ان کی جگہ پر لندن یونی ورسٹی میں چند ماہ کے لیے عربی کے پروفیسر ہو ئے۔ مئی ۱۹۰۸ء میںجب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چُنے گئے اور اقبال کو مجلس عاملہ کا رُکن نامزد کیا گیا۔ قیامِ انگلستان کے زمانے میں ایک بار انھوں نے شاعری ترک کر دینے کی ٹھان لی تھی، مگر آرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبدالقادر کی فہمایش پر یہ ارادہ ترک کر دیا ۔اسی زمانے میں وہ فارسی میں شعر گوئی کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوئے۔ قیامِ یورپ کے دوران میں اقبال کے دو بُنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے۔ اقبال وطنی قومیّت اور وحدت الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے۔ اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا ۔ خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو وہ اس قدر خلاف ہو گئے کہ اسے ملّتِ اسلامیہ کے لیے تباہ کن سمجھنے لگے۔ یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی رُوح میں کار فرما مختلف تصورات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا۔ مغرب سے مرعُوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد ۔ بلکہ مغرب کے فکری ، معاشی ، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چُرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں اُمّتِ مسلمہ کے گذشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھُپا ہوا بوداپن منکشف ہوگیا۔ قیامِ کیمبرج کے آخری ایّام میں ایک غزل کہی جس میں یہ ساری باتیں الہامی آہنگ میں بیان ہوگئیں: سُنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو اُلٹ دیا تھا سُنا ہے یہ قُدسیوں سے مَیں نے ، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا دیارِ مغرب کے رہنے والو ! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تُم سمجھ رہے ہو ، وہ اب زرِکم عیار ہوگا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خُودکشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا خُدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا میں ظُلمتِ شب میں لے کے نِکلُوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری ، نفس مرا شُعلہ بار ہوگا قومیت پرستی کے مسئلے پر اقبال کو اب شرح صدر ہو چُکا تھا کہ اس قسم کی کوئی بھی تحریک مسلمانوں کے ملّی تشخص اور دینی وجود کے لیے انتہائی مُہلک ہوگی۔ اُنھوں نے اچھی طرح بھانپ لیا تھا کہ اگر قومیت پرستی کی رو اسلامی ممالک یا دُنیا کے دوسرے خطّوں میں مصروفِ عمل مسلمانوں میں چل نکلی تو اشتراکِ ایمان کی بنیاد ڈھے جائے گی اور مسلمان ، مسلمان کا گلا کاٹنے لگے گا۔ اسی زمانے کی ایک اور غزل کے دو اشعار میں یہی بات کہی گئی ہے: نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بِنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتّحادِ وطن نہیں ہے کہاں کا آنا کہاں کا جانا ، فریب ہے امتیازِ عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری ، کہیں ہمارا وطن نہیں ہے ۱۹۰۹ء تک آتے آتے اقبال نے برعظیم میں ملکی قومیت کی بنیاد پر ہندو مسلم اتحاد کے خیال سے مکمل طور پر کنارا کشی اختیار کر لی۔ یورپ میں اپنے قیام کے زمانے میں اقبال کے دِل و دماغ میں برپا ہونے والی یہ تبدیلی محض ایک مجرد خیال کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ اس میں ایک تقدیری شان پوشیدہ تھی۔ جو لوگ ہر چیز کو صرف علمی اور کتابی جہت سے دیکھنے کے عادی ہیں، وہ اقبال کی رُوح میں پیدا ہونے والے اس اِنقلاب کی معنویت تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ نہیں ہے کہ برعظیم میں علیٰحدہ مُسلم قومیّت کا تصوّر سب سے پہلے کِس کے دماغ میں آیا، دیکھنا یہ ہے کہ اس تصوّر کا عملی اطلاق کِس نے فراہم کیا۔ ظاہر ہے کہ تحریک پاکستان کے فوری پس منظر کو پیش نظر رکھتے ہُوئے اِس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ مُتحدہ ہندوستان کے مُسلمانوں میں اپنے قطعی جداگانہ تشخص کا شعُور اور اس کے حصُول کی شدید اُمنگ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اقبال ہی نے پیدا کی۔ پھر قائد اعظم تشریف لائے اور باقی ، بلکہ اصل کام آپ کے ہاتھوں انجام پایا۔ ٹھیک اسی دور میں فارسی کی طرف ان کی طبیعت کا میلان بھی خاصا معنی خیز ہے۔ یہ تو سامنے کی بات ہے کہ فارسی زبان میں اُردو کے مقابلے میں تخیّل ، عقل اور جذبے کی سمائی کہیں زیادہ ہے اور اقبال کی شاعری بلکہ ان کی شخصیت میں یہ تینوں چیزیں مثالی یکجائی رکھتی تھیں، لہٰذا فارسی زبان و ادب پر ان کی قدرت کا لازمی تقاضا تھا کہ وہ اسے بھی اپنے اظہار کا ایک بڑا ذریعہ بنائیں، لیکن یہ معاملہ اقبال کی شعری شخصیت کے اظہار تک ہی محدود نہیں۔ اس کے پیچھے مسلمانوں کے لیے ان کی وہ تڑپ کار فرما تھی جس کا نتیجہ اوّلاً قیامِ پاکستان پھر انقلابِ ایران اور جہادِ افغانستان کی شکل میں سامنے آیا۔ آج ہم اعتماد اور یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ کی فارسی شاعری کم از کم ایشیا کی حد تک مسلمانوں کے تاریخی و تہذیبی شعور اور ان کے ملّی طرزِ احساس کی تشکیل میں ایک بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس دوران میں تعلیم کے ساتھ ساتھ اقبال کی شاعری بھی اپنے مدارجِ کمال طے کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جولائی ۱۹۰۸ ء میں وطن کے لیے روانہ ہوئے۔ بمبئی سے ہوتے ہوئے ۲۵؍جولائی ۱۹۰۸ء کی رات دہلی پہنچے۔ دوست احباب استقبال کو آئے ہوئے تھے۔ اگلے روز کچھ دوستوں کو لے کر حضرت نظامُ الدّین اولیا محبوب الٰہی کی درگاہ پر حاضر ہوئے۔ دن وہیں گزارا ۔ شام ہوئی تو غالب کی قبر پر گئے اور فاتحہ پڑھی۔ ۲۷؍جولائی ۱۹۰۸ء کو دوپہر کی گاڑی سے لاہور پہنچے۔ اسٹیشن پر خُوب گرم جوشی سے استقبال ہوا۔ یاروں نے ان کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کررکھا تھا ، اس میں شریک ہوئے اور اسی دن شام کی گاڑی سے سیالکوٹ روانہ ہوگئے۔ چاہنے والوں کا ایک ہجوم پلیٹ فارم پر چشم براہ ملا۔ والد ، بڑے بھائی اور دوسرے دوست رشتے دار بھی موجود تھے۔ ہاروں سے لدے پھندے اسٹیشن سے باہر نکلے اور گھر کی طرف رواں ہو گئے جہاں ان کی عزیز ترین ہستی منتظر تھی، والد ئہ محترمہ۔ اگست ۱۹۰۸ء میں اقبال لاہور آگئے ۔ ایک آدھ مہینے بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کر دی۔ اِس پیشے میںکچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایم اے او کالج علی گڑھ میں فلسفے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں تاریخ کی پروفیسر ی پیش کی گئی مگر اقبال نے اپنے لیے وکالت کو مناسب جانا اور دونوں اداروں سے معذرت کر لی۔ البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر ۱۰؍مئی ۱۹۱۰ء سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا، لیکن ساتھ ساتھ وکالت بھی جاری رکھی۔ ہوتے ہوتے مصروفیات بڑھتی چلی گئیں ۔ کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہوگیا۔ ۱۸؍مارچ ۱۹۱۰ء کو حیدر آباد دکن کا سفر پیش آیا۔ وہاں اقبال کے قدیمی دوست مولانا گرامی پہلے سے موجود تھے۔ اس دورے میں سر اکبر حیدری اور مہاراجا کشن پرشاد کے ساتھ دوستانہ مراسم کی بِنا پڑی۔ حیدر آباد سے واپس آتے ہوئے، اورنگ زیب عالمگیر کے مقبرے کی زیارت کے لیے، راستے میں اورنگ آباد اُترگئے۔دو دن وہاں ٹھہرے ۔ ۲۸؍مارچ ۱۹۱۰ء کو لاہور پہنچے اور پھر سے اپنے معمولات میں مشغول ہو گئے۔ ۱۹۱۰ء میں علی گڑھ کاسفر کیا اور سٹریچی ہال میں The Muslim Community : A Sociological Study کے عنوان سے ایک خطبہ پیش کیا۔ بعد ازاں مولانا ظفر علی خاں نے ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر کے نام سے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا۔ یہ خطبہ مسلمانانِ ہند کے مستقبل کے نقطۂ نظر سے اہمیت رکھتا ہے۔ مُعلّمی اور وکالت کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ آخر ۱۳؍دسمبر ۱۹۱۰ء کو گورنمنٹ کالج سے مستعفی ہو گئے، مگر کسی نہ کسی حیثیت سے کالج کے ساتھ تعلق برقرار رکھا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برعظیم کی کئی دُوسری جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ پنجاب ، علی گڑھ ، الہ آباد ، ناگ پُور اور دہلی یونی ورسٹی کے ممتحن رہے۔ اِن کے علاوہ بیت العلوم حیدر آباد دکن کے لیے بھی تاریخ اسلام کے پرچے مرتب کرتے رہے۔ بعض اوقات زبانی امتحان لینے کے لیے علی گڑھ ، الٰہ آباد اور ناگ پور وغیرہ بھی جانا ہوتا۔ ممتحن کی حیثیت سے ایک اٹل اصول اپنا رکھا تھا۔ عزیز سے عزیز دوست پر بھی سفارش کا دروازہ بند تھا۔ ۲؍مارچ ۱۹۱۰ء کو پنجاب یونی ورسٹی کے فیلو نامزد کیے گئے۔ آگے چل کر مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی ، سینیٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ ۱۹۱۹ء میں اورینٹل فیکلٹی کے ڈین بنائے گئے۔ ۱۹۲۳ء میں یونی ورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رُکنیت ملی، اسی سال پروفیسر شپ کمیٹی میں بھی لیے گئے ۔ اپنی بے پناہ مصروفیات سے مجبور ہوکر تعلیمی کونسل سے استعفا دے دیا تھا مگر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر سر جان مینارڈ نے استعفا منظور نہیں کیااور ان کی طرف سے اتنا اِصرار ہوا کہ اقبال نے مروتاً استعفا واپس لے لیا۔ اس دوران میں پنجاب ٹیکسٹ بُک کمیٹی کے بھی رُکن رہے۔ میٹرک کے طلبہ کے لیے فارسی کی ایک نصابی کتاب آئینۂ عجم مرتب کی جو ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی۔ قبل ازیں وہ پانچویں ، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے لیے حکیم احمد شجاع کے اشتراک سے اردو کورس کے نام سے نصابی کتابیں مرتب کر چکے تھے۔ غرض پنجاب یونی ورسٹی سے اقبال عملاً ۱۹۳۲ء تک متعلق رہے۔ بیسویں صدی کے عشرئہ اوّل میں پنجاب کی مُسلم آبادی میں ایک ٹھہرائو آ گیا تھا۔ کہنے کو مسلمانوں کے اندر دو سیاسی دھڑے موجود تھے مگر دونوں مسلمانوں کے حقیقی تہذیبی ، سیاسی اور معاشی مسائل سے بیگانہ تھے۔ ان میں سے ایک کی قیادت سر محمد شفیع کے ہاتھ میں تھی اور دُوسرا، سر فضل حسین کے پیچھے تھا۔ دسمبر ۱۹۰۷ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے کراچی میں ایک اجلاس بُلایا ۔ سر محمد شفیع اور سر فضل حسین بھی اپنے اپنے حمایتیوں کو لے کر پہنچے۔ طے پایا کہ پنجاب میں صوبائی مسلم لیگ قائم کی جائے۔ اس فیصلے پر فوری عمل ہوا۔ میاں شاہ دین صدر بنائے گئے اور سر محمد شفیع سیکرٹری جنرل ۔ سر فضل حسین عملاً الگ تھلگ رہے۔ اقبال ان سب قائدین کے ساتھ دوستانہ مراسم تو رکھتے تھے مگر عملی سیاست سے انھوں نے خود کو غیر وابستہ ہی رکھا۔ ۱۹۱۱ء تک متحدہ ہندوستان کے اکثر مسلمان قائدین ، سر سید کے حسب فرمان، انگریزی حکومت کی وفاداری کا دَم بھرتے رہے، لیکن ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۲ء میں حالات جو ایک ڈھرے پر چلے جارہے تھے، اچانک پلٹا کھا گئے۔ مسلمان سیاست دان بنگال کی تقسیم کے حق میں تھے، انگریز بھی ایسا ہی چاہتے تھے ، مگر ہندو اس منصوبے کے سخت مخالف تھے۔ ان کی جانب سے تشدّد کی راہ اختیار کی گئی تو انگریزی حکومت نے سپر ڈال دی ۔ تقسیم بنگال کو منسوخ کر دیا گیا۔ اس جھٹکے نے مسلمان قائدین کی آنکھیں کھول دیں اور ان کے گذشتہ اندازِ فکر کی غلطی ان پر واضح ہو گئی ۔ انھیں اب آ کر اِحساس ہوا کہ اپنی قومی اور سیاسی زندگی کے تحفظ کے لیے صرف سرکار کی وفاداری پر کمر بستہ رہنا یا انگریزوں کے بنائے ہوئے آئینی ذرائع اختیار کیے رکھنا ناکافی اور بے معنی ہے۔ بقول مولانا شبلی، تقسیمِ بنگال کی تنسیخ مسلمانوں کے چہرے پر ایک ایسا تھپڑ مارنے کے مترادف تھی، جس نے ان کے مُنہ کا رُخ پھیر کر رکھ دیا۔ تقسیمِ بنگال کی منسوخی کا اعلان ہوا تو یکم فروری ۱۹۱۲ء کو موچی دروازہ لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا، جس میں اقبال بھی شریک ہوئے۔ مقررین نے بڑی جذباتی اور جوشیلی تقریریں کیں۔ اقبال کی باری آئی تو وہ تقریر کے لیے اٹھے ۔ سامعین کو محسوس ہو رہا تھا،مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا مینار ان سے مخاطب ہے: مسلمانوں کو اپنی ترقی کے لیے خود ہاتھ پائوں مارنے چاہییں۔ ہندئووں کو اب تک جو کچھ ملا ہے، محض اپنی کوششوں سے مِلا ہے۔ اِسلام کی تاریخ کو دیکھو ، وہ کیا کہتی ہے۔ عرب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بیکار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہو سکتی۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا تو یہی پتھر دُنیا کے ایوانِ تمدّن کی محراب کی کلید بن گیا، اور خُدا کی قسم ! روما جیسی باجبرُوت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی، یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی------ اس تقریر سے مجمع میں رواں دواں لمحاتی اور بے جہت جوش و خروش اپنی قوم کے زندہ تشخص کے لیے درکار ایک بامعنی قوت میں بدل گیا جو ابھی محدود تھی مگر آگے چل کر اسے وسعت پکڑنی تھی۔ یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کے چند حلقوں میں بیداری کے آثار پیدا ہو چلے تھے، مگر اس بیداری کے مراکز ایک دوسرے سے لاتعلق چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح بٹے ہوئے تھے۔ متفقہ ملّی قیادت میسر نہیں تھی۔ نتیجتاً مسلمانوں کے اندر مُتحدہ ہندی قومیت کا رُجحان پیدا ہو چلا تھا۔ مسلم لیگ اور ہندو کانگرس کے اجلاس ساتھ ساتھ ہونے لگے تھے۔ ابھی اقبال عملی سیاست سے الگ تھے مگر مسلم قومیت کے اس اصول پر پوری طاقت کے ساتھ قائم تھے جو ان پر قیام انگلستان کے زمانے میں منکشف ہوا تھا۔ یورپ سے واپسی کے بعد ۱۹۱۴ء تک کا زمانہ اقبال کی بنیادی فکر کی تشکیل و تکمیل کا زمانہ ہے۔ ۹؍نومبر ۱۹۱۴ء کو اقبال کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اقبال کی ذاتی زندگی میں یہ غم سب سے بڑا تھا۔ ماں کی رخصت کے ساتھ ان کا ایک طرزِ زندگی ختم ہو گیا۔ اکبر الہ آبادی نے قطعۂ تاریخ ارسال کیا جو لوحِ مزار پر لکھوا دیا گیا: مادرِ مرحومۂ اقبال رفت سوئے جنت زیں جہانِ بے ثبات گفت اکبر بادلِ پُر درد و غم ’’رحلتِ مخدومہ ‘‘ تاریخِ وفات ۱۳۳۳ ہجری اس موقعے پر اقبال نے وہ عظیم مرثیہ تحریر کیا ، جس کا عنوان ہے : ’’والدہ مرحُومہ کی یاد میں‘‘ ۱۹۱۵ء کے وسط میں اسرار خودی شائع ہوئی جبکہ رموز بے خودی ۱۹۱۷ء کے اواخر میں مکمل ہوئی۔ اقبال کا تصورِ خودی ان مثنویوں میں نہایت وضاحت اور جامعیت کے ساتھ سامنے آیا ۔ بعض حلقوں میں کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئیں مگر تاریخ نے ان کا ازالہ کر دیا۔ ان دونوں مثنویوں نے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے طرزِ احساس کو بدل کر رکھ دیا۔ مشہور مستشرق ڈاکٹر نکلسن نے اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ کیا جو ۱۹۲۰ء میں لندن سے شائع ہوا۔ اِس ترجمے کی اشاعت کے بعد کئی مغربی ادیبوں نے مثنوی پر تبصرے کیے ۔ مشہور امریکی ادیب اور نقاد ہربرٹ ریڈ کا تبصرہ نیوایج میں چھپا۔ انھوں نے اقبال کا موازنہ امریکی فلسفی شاعر والٹ و ٹمین سے کرتے ہوئے لکھا کہ اِس مثنوی نے ہندوستان کے مُسلم نوجوانوں کے خیالات میں ایک قیامت برپا کردی ہے۔ ایک ہندی مُسلمان نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اقبال ہم میں مسیحا بن کر نمودار ہوا ہے جس نے مُردہ اجسام میںحیاتِ تازہ کی لہر دوڑا دی ہے۔ اقبال کی نکتہ آفرینی اور علم نے افکار کی گونا گونی سے وحدتِ ایمانی پیدا کی ہے اور ایک ایسی منطق کو جو محض مکتبوں اور مدرسوں کے طلبہ تک محدود تھی، ایک عالم گیر پیغام کی صُورت دے کر دُنیا کے سامنے رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے انسانِ کامل کے خیال کی صداقت کا ادراک نطشے اور وٹمین کے مقابلے میں زیادہ وثوق سے کیا ہے۔ یورپ میں جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی۔اس کے اثرات ہندوستان میں بھی نمایاں ہوئے۔ انگریزی حکومت کا روّیہ سخت سے سخت تر ہوتا گیا جو جنگ کے خاتمے کے بعد بھی برقرار رہا۔ انگریزی حکومت کے خلاف تحریکوں نے زور پکڑ لیا تھا۔ ۱۳؍اپریل ۱۹۱۹ء کو امرتسر شہر کے جلیا نوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا گیا۔ رُسوائے زمانہ جنرل ڈائر نے لوگوں کو گھیرے میں لے کر اندھا دُھند فائرنگ کروائی اور سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ گو کہ اقبال نے اس زمانے میں خانہ نشینی اختیار کر رکھی تھی لیکن اس حادثے کی دھمک ان کے دل تک بھی پہنچی ۔ اُنھوں نے مَرنے والوں کی یاد میں یہ اشعار کہے: ؎ ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ پاک غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے سینچا گیا ہے خُونِ شہیداں سے اس کا تخم تو آنسُوئوں کا بُخل نہ کر اس نہال سے عبدالمجید سالک اپنی کتاب ذکر اقبال میں تحریر کرتے ہیں: اب پورا مُلک بلا امتیازِ مذہب و ملت احتجاج اورتنفّر کا ہنگامہ زار بن رہا تھا۔ مسلمانوں کے دلوں پر جلّیاں والا باغ اور پنجاب کے مظالم سے بھی زیادہ گہرا چرکا تُرکی کی شکست سے لگ چُکا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ ترکان آلِ عثمان کی آزادی و خُود مختاری خاک میں ملا دی جائے گی، خلافتِ اسلامیہ کی مسند کے گرد فرنگی گدِھ منڈلا رہے تھے۔ اسی سال ستمبر کے مہینے میں مولانا محمد علی جوہر چار سالہ نظر بندی کاٹ کر آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اس مشہور احتجاجی جلسے میں شرکت کے لیے لکھنؤ پہنچے جس میں خلافت کانفرنس کا قیام عمل میں آیا۔ خلافت کانفرنس کی تشکیل سے مُسلمانوںنے بڑی اُمیدیں باندھ رکھی تھیں مگر بدقسمتی سے آگے چل کر اس نے کانگرس سے اِتحاد کر لیا اور اس کے لیڈروں نے گاندھی کو اپنا قائد مان لیا۔ اقبال صُوبائی خلافت کمیٹی کے رُکن تھے لیکن حالات کی اس تبدیلی کی سبب، قائدینِ خلافت سے ان کے شدید اختلاف پیدا ہو گئے ۔ وجہ اِختلاف دو باتیں تھیں: اوّل یہ کہ اقبال اس حق میں نہ تھے کہ خلافت وفد مذاکرات کے لیے انگلستان جائے ، وہ اسے انگریز کی چال سمجھتے تھے۔ دوم یہ کہ وہ ہندوئوں کے ساتھ مل کر عدمِ تعاون کی تحریک چلانے کو مُسلمانوں کے لیے مُضرِ خیال کرتے تھے کیونکہ کسی قابلِ قبول ہندو مُسلم مُعاہدے کے بغیر محض انگریز دشمنی کی مشترکہ بنیاد پر متحدہ قومیّت کا ناقص تصوّر مسلمانوں کی جداگانہ ملّی حیثیت کو ختم کر دے گا۔ یہ اختلافات حل نہ ہوئے تو اقبال صُوبائی خلافت کمیٹی سے الگ ہو گئے۔ اقبال کی بصیرت نے بھانپ لیا تھا کہ خود خلافتِ عثمانیہ کا مُستقبل مخدوش ہے لہٰذا مسلمان اقوام کے ملّی اتحاد کی بنیاد اس کی بجائے کسی اور اصُول پر رکھنی چاہیے۔ ۱۶؍اپریل ۱۹۲۲ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ جلسے میں اقبال نے اپنی طویل نظم ’’خضر راہ‘‘ سنائی ۔ عبدالمجید سالک وہاں موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ایک تو اس نظم میں اقبال کے شاعرانہ تخیل اور بدیع اسلُوب کا جمال پوری تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر تھا اور ایک ایک شعر پر اربابِ ذوقِ سلیم وجد کررہے تھے، دُوسرے اس میں علامہ نے جنگِ عظیم کے سلسلے میں فاتح اقوام کی دھاندلی ، ان کے ابلیسانہ سیاست ، سرمایہ دار کی عیّاری ، مزدور کی بیداری عالمِ اسلام خصوصاً تر کانِ آل عثمان کی بے دست و پائی پر مؤثر اور بلیغ تبصرہ کیا ہے اور اسی سلسلے میں نسلی قومیت اور امتیاز رنگ و خون کے خیالات پر بھرپور چوٹ کی ہے۔ اقبال کی پوری شاعری پر ایک نعتیہ فضا چھائی ہوئی ہے۔ ان کا اپنا بھی یہی حال تھا۔ ان کی پوری شخصیت کی سمائی اگر کسی ایک لقب میں ہو سکتی ہے تو وہ ہے ’’عاشق رسول ﷺ ‘‘۔ ایک واقعے سے پتا چلتا ہے کہ انھیں رسول اکرم ﷺ کی جناب اقدس سے ایک نسبت خاص عطا ہوئی تھی۔ جنوری ۱۹۲۰ء کا کوئی دن تھا۔ انھیں ایک خط ملا جس میں لکھنے والے کا نام پتا ندارد تھا۔ لکھا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے دربار میں تمھاری ایک خاص جگہ ہے جس کی تمھیں کُچھ خبر نہیں ۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھا کرو تو تمھیں اس کا علم ہو جائے گا۔ وہ وظیفہ بھی خط میں درج تھا۔ چونکہ خط بھیجنے والے نے اپنا نام تک نہیں لکھا تھا لہٰذا اقبال نے اسے کسی کی دل لگی جانا اور اس بشارت پر کان نہ دھرا ۔ کچھ دن تک وہ خط پڑا رہا، بعد میں اِدھر اُدھر ہو گیا۔ ابھی چار ماہ گزرے تھے کہ ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جسے اقبال نے اپنے صاحبِ اسرار والد کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ پرسوں کا ذکر ہے کہ کشمیر سے ایک پیرزادہ مجھ سے ملنے کے لیے آیا۔ اس کی عمر قریباً تیس پینتیس سال کی ہو گی۔ شکل سے شرافت کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ گفتگو سے ہوشیار ، سمجھ دار اور پڑھا لکھا آدمی معلوم ہوتا تھا ۔ مگر پیشتر اس کے کہ وہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے، مجھ کو دیکھ کر بے اختیار زار و قطار رونے لگا۔ مَیں نے سمجھا کہ شاید مصیبت زدہ ہے اور مجھ سے کوئی مدد مانگتا ہے۔ استفسارِ حال کیا تو کہنے لگا کہ کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھ پر خدا کا بڑا فضل ہے، میرے بزرگوں نے خُدا کی مُلازمت کی اور مَیں ان کی پنشن کھا رہا ہوں۔ رونے کی وجہ خوشی ہے نہ غم۔ مفصّل کیفیت پُوچھنے پر اس نے کہا کہ نوگام میں جو میرا گائوں سری نگر کے قریب ہے ، مَیں نے عالمِ کشف میں نبی کریم ؐ کا دربار دیکھا ۔ صف نماز کے لیے کھڑی ہوئی تو حضور سرور کائناتؐ نے پوچھا کہ محمد اقبال آیا ہے یا نہیں ؟ معلوم ہوا کہ محفل میں نہیں تھا۔ اس پر ایک بزرگ کو اقبال کے بُلانے کے واسطے بھیجا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے دیکھا کہ ایک جوان آدمی جس کی داڑھی مُنڈی ہوئی تھی اور رنگ گورا تھا ، مع ان بزرگ کے صفِ نماز میں داخل ہو کر حضور سرور کائناتؐ کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ پیرزادہ صاحب کہتے ہیں کہ اس سے پہلے مَیں آپ کی شکل سے واقف نہ تھا، نہ نام معلوم تھا۔ کشمیر میں ایک بزرگ نجم الدین صاحب ہیں جن کے پاس جا کر میں نے یہ سارا قصہ بیان کیا تو انھوں نے آپ کی بہُت تعریف کی ۔ وہ آپ کو آپ کی تحریروں کے ذریعے جانتے ہیں۔ گو انھوں نے آپ کو کبھی دیکھا نہیں۔ اس دن سے میں نے ارادہ کیا کہ لاہور جا کر آپ کو ملوں گا۔ سو محض آپ کی مُلاقات کی خاطر میں نے کشمیر سے سفر کیا ہے اور آپ کو دیکھ کر مجھے بے اختیار رونا اس واسطے آیا کہ مجھ پر میرے کشف کی تصدیق ہو گئی کیونکہ جو شکل آپ کی میں نے حالتِ کشف میں دیکھی اس سے سرِ مُو فرق نہ تھا۔ اس ماجرے کو سُن کر مجھ کو معاً وہ گم نام خط یاد آیا جس کا ذکر میں نے اس خط کی اِبتدا میں کیا ہے۔ مجھے سخت ندامت ہو رہی ہے اور رُوح نہایت کرب و اضطراب کی حالت میں ہے کہ میں نے کیوں وہ خط ضائع کر دیا۔ اب مجھ کو وہ وظیفہ یاد نہیں جو اس خط میں لکھا تھا۔ آپ مہربانی کر کے اِس مُشکل کا کوئی علاج بتائیں کیونکہ پیرزادہ صاحب کہتے تھے کہ آپ کے متعلق میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کے والدین کی دُعائوں کا نتیجہ ہے۔ یکم جنوری ۱۹۲۳ء کو اقبال کو سر کا خطاب ملا۔ ان کے پُرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادیِ اظہار سے کام نہ لے سکیںتو اقبال نے جواب میں تحریر کیا: مَیں آپ کو اس اعزاز کی اِطلاع خُود دیتا مگر جس دُنیا کے مَیں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دُنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فروتر ہیں۔ سیکڑوں خطوط اور تار آئے اور آرہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہاہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے، سو قسم ہے خُدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبُرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جس کی وجہ سے مجھے خُدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں ، دُنیا کی کوئی قُوّت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی، ان شاء اللہ۔ ۳۰؍مارچ ۱۹۲۳ء کو انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں اقبال نے اپنی معروف نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پڑھی ۔ یہ نظم یونانیوں پر تُرکوں کی فتح کے موقعے پر لکھی گئی تھی۔ نظم کیا ہے مسلمانوں کے روشن مستقبل کا پیغام ہے : دلیلِ صُبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا ، گیا دورِگراں خوابی مئی ۱۹۲۳ء میں پیام مشرق شائع ہوئی۔ اس کی غایت خُود اقبال یوں بیان کرتے ہیں: پیام مشرق کی تصنیف کا محرّک جرمن حکیمِ حیا ت گوئٹے کا مغربی دیوان ہے … اس کا مُدّعا زیادہ تر ان اخلاقی ، مذہبی اور ملّی حقائق کو پیشِ نظر لانا ہے جن کا تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے۔ اس سے سو سال پیشتر کی جرمنی اور مشرق کی موجودہ حالت میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوامِ عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم محض اس لیے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں۔ ایک بہت بڑے رُوحانی اور تمدنی اِنقلاب کا پیش خیمہ ہے ۔ یورپ کی جنگِ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پُرانی دُنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دُنیا تعمیر کر رہی ہے، جس کا ایک دُھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن سٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے … مشرق اور بالخصوص اِسلامی مشرق نے صدیوں کی مُسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے مگر اقوامِ مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا اِنقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرُونی گہرائیوں میں اِنقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دُنیا خارجی و جُود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ اقبال کے فارسی مجموعوں میں فکری اعتبار سے جاوید نامہ اور جمالیاتی لحاظ سے زبور عجم ایک امتیازی شان رکھتے ہیں ، تاہم پیام مشرق کو یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں فلسفیانہ فکر اور شعری جمالیات اپنی اپنی انتہا کو پہنچ کر ایک ہو گئے ہیں۔ اس کتاب میں اقبال کی بہترین فارسی نظمیں شامل ہیں، مثلاً : تسخیرِ فطرت ، نوائے وقت، حیاتِ جاوید، فصل بہار، افکار انجم ، سُرودِ انجم ، محاورہ مابین خُدا و اِنسان ، تنہائی ، شبنم ، جوئے آب ، نوائے مزدُور وغیرہ ۔ رُباعیاںاور غزلیں اِن کے علاوہ ہیں۔ فارسی شاعری کے کچھ مجموعے آگئے تو احباب کا تقاضا ہوا کہ اردو کلام کا مجموعہ بھی آنا چاہیے لیکن اس اصرار کی پذیرائی خاصی دیر سے ہوئی کیونکہ اقبال اپنی اُردو نظموں پر نظر ثانی کرنا چاہتے تھے جس کا انھیں وقت نہیں ملتا تھا۔ آخر ۱۹۲۴ء میں پہلے اُردو مجموعے بانگ درا کی اشاعت کی نوبت آئی۔اقبال کے فکری و فنّی ارتقا کی تفہیم کے لیے بانگ درا کی ایک امتیازی شان ہے۔ اس کے دیباچے میں سر شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں: … خُدا کا شُکر ہے کہ آخر اب شائقینِ کلام اُردو کی یہ دیرینہ خواہش بر آئی اور اقبال کی اُردو نظموں کا مجموعہ شائع ہوتا ہے جو دو سو بانوے صفحوں پر مُشتمل ہے اور تین حصوں پر منقسم ہے۔ حصہ اوّل میں ۱۹۰۵ء تک کی نظمیں ہیں۔ حصہ دوم میں ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک کی اور حصہ سوم میں ۱۹۰۸ء سے لے کر آج تک کا اُردو کلام ہے۔ یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اُردو میں آج تک کوئی ایسی کتاب اشعار کی موجود نہیں ہے جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یک جا ہوں اور کیوں نہ ہو ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔ غزلوں کے علاوہ بانگِ درا میں خفتگانِ خاک سے استفسار ، تصویرِ درد ، گورستانِ شاہی، شکوہ ، جواب شکوہ ، بزم انجم ، شمع اور شاعر، حضور رسالت مآب ؐ میں ، دُعا، والدہ مرحُومہ کی یاد میں، خضرِ راہ اور طلُوعِ اسلام ایسی مشہور نظمیں بھی شامل ہیں۔ اقبال نے بچوں کے لیے بھی کچھ نظمیں لکھی تھیں، وہ سب کی سب اس مجموعے میں آ گئی ہیں۔ خلافت کانفرنس نے برعظیم کے مُسلمانوں کے جذبات اُبھار کر انھیں اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا تھا کہ مُسلم لیگ کا وجود آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ ۱۹۲۴ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی لگاتار کوششوں سے اس کا احیا ہوا۔ ادھر پنجاب میں بھی مُسلم سیاست بُحران کا شکار تھی۔ مُسلمانوں کے اندر شہری اور دیہاتی کا جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا، جس نے یونینسٹ پارٹی کو جنم دیا ۔ ۱۹۲۳ء کے صُوبائی انتخابات کے موقعے پر اقبال سے اصرار کیا گیا کہمجلس قانون ساز کا الیکشن لڑیں مگر انھوں نے اِنکار کر دیا کیونکہ ان کے قریبی دوست میاں عبدالعزیز بیرسٹر اسی حلقے سے اپنی اُمیدواری کا اعلان کر چکے تھے جو اقبال کے لیے تجویز کیا جا رہا تھا۔اقبال حسب معمول وکالت میں مصروف تھے کہ ۱۹۲۶ء آ گیا۔ اس سال مجلس قانون ساز پنجاب کے دوبارہ انتخابات ہونے تھے۔ دوستوں نے پھر زور ڈالا ۔ اس مرتبہ میاں عبدالعزیز نے بھی کہہ دیا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے۔اس بار اقبال مان گئے۔ اُمیدواری کا باقاعدہ اِعلان چھاپ دیا گیا ۔ الیکشن ہوئے ، ظاہر ہے کہ اقبال ہی کو کامیاب ہونا تھا۔ کونسل کے اندر یونینسٹ پارٹی اکثریت میں تھی۔ اس کی قُوّت کو مُسلمانوں کے قومی مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اقبال یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے مگر جب اس جماعت کی ناقابلِ اصلاح خرابیاں مشاہدے میں آئیں تو اقبال نے علیٰحدگی اختیار کر لی۔ باقی مُدّت ایک تنہا رُکن کی حیثیت سے گزار دی۔ اسی سال پنجاب کے صُوبائی مُسلم لیگ کے سیکرٹری بنائے گئے جس سے برعظیم کی مُسلم سیاست کا دروازہ ان پر کُھل گیا۔ اب اقبال عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔ ہندوئوں کی طرف سے شُدھی اور سنگھٹن کی رُسوائے زمانہ تحریکوں کا زور تھا جس کی وجہ سے قدم قدم پر ہندو مُسلم فسادات ہو رہے تھے۔ اِن فتنوں کا تدارک کرنے کے لیے مُسلمانوں میں بھی مختلف تبلیغی مشن بنائے جا رہے تھے ۔ غلام بھیک نیرنگ نے ایسی ہی ایک جماعت کی مدد کے لیے لکھا تو علامہ نے اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے تحریر کیا : میرے نزدیک تبلیغِ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدّم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظتِ اسلام اِس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویّے سے معلوم ہوتا ہے، تو مُسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ دیکھنے میں تو یہ سیدھے سادے دو جملے ہیں مگر علامہ کے اِس ارشاد میں تحریکِ پاکستان کا جوہر سمایا ہوا ہے۔ جون ۱۹۲۷ء میں زبور عجم شائع ہوئی۔ مولانا گرامی سے کتاب کا ذِکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میری کتاب زبور عجم ختم ہو گئی ہے ۔ ایک دو روز تک کاتب کے ہاتھ میں جائے گی اور پندرہ دن کے اندر اندر شائع ہو جائے گی۔ اس کے چار حصے ہیں پہلے حصے میں اِنسان کا رازو نیاز خُدا کے ساتھ ، دوسرے حصے میں آدم کے خیالات آدم کے متعلق ، طرز دونوں کی غزلیات کے موافق یعنی الگ الگ غزل نما ٹکڑے ہیں، تیسرے حصے میں مثنوی گلشنِ راز (محمود شبستری) کے سوالوں کے جواب ہیں۔ اس کا نام مَیں نے مثنوی گلشنِ راز جدید تجویز کیا ہے۔ چوتھے حصے میں ایک مثنوی ہے جس کا نام مَیں نے بندگی نامہ تجویز کیا ہے۔ مثنوی کا مضمون یہ ہے کہ غلامی کا اثر فنونِ لطیفہ مثلاً موسیقی و مصوری وغیرہ پر کیا ہوتا ہے۔ ۲؍جنوری ۱۹۲۹ء کو اقبال دہلی سے جنوبی ہند کے دورے پر روانہ ہو گئے۔ وہاں الٰہیات اسلامیہ کی نئی تشکیل کے موضوع پر مدراس اور پھر میسُور ، بنگلور اور حیدر آباد دکن میں خُطبات دیے۔ جنوری کے آخر میں لاہور واپس پہنچ گئے۔یہ خطبات بعدازاں تین مزید خطبوں کے اضافے کے ساتھ مئی ۱۹۳۰ء میں Six Lectures on the Reconstruction of Religious Thought in Islam. کے نام سے شائع ہوئے۔ ۱۹۲۹ء ہی میں افغانستان کے ساتھ اقبال کے عملی تعلق کی ابتدا ہوئی ۔ ۱۷؍جنوری ۱۹۲۹ء کو بچّہ سقّہ نے امیر امان اللہ خان، والیِ افغانستان کو مُلک بدر کر کے کابل پر قبضہ کر لیا ۔ پورا مُلک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا۔ آخر جنرل نادر خان بچّہ سقّہ کی سرکوبی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اقبال انھیں جانتے تھے۔ علامہ نے مختلف ذرائع سے ان کی مدد کی۔ جنرل نادر خان کو مالی امداد فراہم کرنے کے لیے اقبال نے برعظیم کے مسلمانوں کے نام ایک اپیل شائع کی جسے دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج ہم بھی اس کے مخاطب ہیں: اس وقت اِسلام کی ہزارہا مُربّع میل سرزمین اور لاکھوں فرزندانِ اسلام کی زندگی اور ہستی خطرے میں ہے اور ایک درد مند اور غیور ہمسایہ ہونے کی حیثیت سے مُسلمانانِ ہند پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کو بادِ فنا کے آخری طمانچے سے بچانے کے لیے جس قدر دلیرانہ کوشش بھی ممکن ہو، کر گزریں۔ فلسطین میں یہودیوں کے بڑھتے ہوئے پُر تشدّد غلبے اور خاص طور پر مسجدِ اقصیٰ کے ایک حصے پر ان کے ناپاک قبضے کے خلاف ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے اِحتجاجی جلسے ہو رہے تھے، ۷؍ستمبر ۱۹۲۹ء کو اقبال کی صدارت میں ایسا ہی ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا: یہ بات قطعاً غلط ہے کہ مُسلمانوں کا ضمیر حبِّ وطن سے خالی ہے۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حبِّ وطن کے علاوہ مُسلمانوں کے دل میں محبت اسلام کا جذبہ بھی برابر موجود رہتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے جو ملّت کے پریشان اور منتشر افراد کو اکٹھا کر دیتا ہے اور کر کے چھوڑ ے گا اور ہمیشہ کرتا رہے گا ۔۔۔۔ ۱۹۱۴ء میں انگریز مدبّروں نے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے یہودیوں کو آلۂ کار بنایا ، صہیُونی تحریک کو فروغ دیا اور اپنی غرض کی تکمیل کے لیے جو ذرائع استعمال کیے، ان میں ایک کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ یہودی مسجد اقصیٰ کے ایک حصے کے مالکانہ تصرف کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ انھوں نے آتشِ فساد مشتعل کر رکھی ہے۔ مسلمان ، ان کی عورتیں اور بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیے جا رہے ہیں۔۔۔۔ اب حکومت برطانیہ نے فلسطین میں تحقیقاتِ حالات کے لیے ایک کمیشن بھیجنا منظور کیا ہے مگر مَیں اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتماد نہیں۔ نومبر ۱۹۲۹ء کے آخری ہفتے میں اقبال علی گڑھ گئے اور مُسلم یونی ورسٹی میں الٰہیاتِ اسلامیہ کے سلسلے کے مزید تین خُطبات دیے۔ ۱۷؍اگست ۱۹۳۰ء کو اقبال کے والد شیخ نور محمد سیالکوٹ میں انتقال کر گئے۔ والدہ کی تاریخ رحلت اکبر الہٰ آبادی نے نکالی تھی مگر والد کا قطعۂ تاریخ خود اقبال نے کہا اور لوحِ مزار پر کندہ کروایا: پدر مُرشدِ اقبال ازیں عالم رفت ماہمہ راہرواں منزلِ ما ملکِ ابد ہاتف از حضرتِ حق خواست دو تاریخِ رحیل آمد آواز ’’اثرِ رحمت‘‘ و ’’آغوشِ لحد‘‘ ۱۳۴۹ ہجری ۱۳۴۹ ہجری مئی ۱۹۳۰ء میں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے سلسلے کے چھ انگریزی خُطبات کا مجموعہ لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اب یہ کتاب سات خُطبات پر مشتمل ہے۔ ساتواں خطبہ ’’کیا مذہب ممکن ہے؟‘‘ انگلستان کی ارسٹاٹیلین سوسائٹی کی درخواست پر بعد میں لکھا گیا تھا اور ۱۹۳۲ء میں انگلستان ہی میں پڑھا گیا تھا۔ عارفو ں نے حقیقت کو بیان کرنے کے دو طریق بتائے ہیں: عشقی اور عقلی۔ جن حضرات کے لیے ایمان بالغیب یعنی دِین کے ابدی حقائق محسوسات کی طرح یقینی ہو جاتے ہیں وہ صاحبانِ عشق ہیں۔ چونکہ حسّی اور تجربی اُمور میں منطقی اور عقلی استدلال کی ضرورت نہیں پڑتی لہٰذا اہلِ عشق کے واردات کے اظہار میں دلیل و بُرہان کی بجائے ماجرا اور حکایت کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ دوسری طرف انسانوں کا ایک بڑا طبقہ عصری تقاضوں کے تحت جینے اور سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ لوگ بدیہیات کو بھی مروّج علمی اور سائنسی طریقۂ نفی واثبات کی مدد بلکہ سند کے بغیر سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انھیں دین کے دائرہ تخاطب میں داخل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے نفسیاتی اور ذہنی سانچوں میں کسی بڑی تبدیلی کی لا حاصل کوشش کرنے کی بجائے حقائق کو انھی کی سطح پر لا کر بیان کیا جائے۔ یہ کام ان عرفا کا ہے جو دین کی حقیقت اور غایت کے ساتھ اشیا کی حقیقت اور غایت کا بھی تفصیلی عرفان رکھتے ہیں اور وہ صاحبانِ عقل ہوتے ہیں۔ اب چونکہ الفاظ اپنے حقیقی معانی سے دور ہوتے جا رہے ہیں ، لہٰذا عقل کو محض ایک ذہنی قُوّت سمجھ لیا گیا ہے جو بس عالمِ محسوسات کی چیزوں کا تجزیہ کرنے تک محدود ہے۔ حالانکہ عقل اپنے درست مفہوم میں حقائق کی تفصیلی معرفت اور ان کے باہمی ربط کے انکشاف کا ایک بڑا وسیلہ ہے۔ اقبال کے ہاں یہ دونوں طریق کار فرما ہیں۔ ان کی شاعری طریقِ عشقی کی نمائندگی کرتی ہے اور خطبات طریقِ عقلی کی۔ خُطبات کا بنیادی موضوع دین کے حقائق کو انسانی فکر اور تجربے کی زمانی خصُوصیات اور اجتماعی نفسیات کے متغیّر عوامل کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ اقبال کے خیال میں اس ضرورت کو ابتدائے اِسلام میںبھی ملحوظ رکھا گیا تھا۔ ۱۹۳۰ء کا سال پاکستان اور اقبال دونوں حوالوں سے ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دسمبر کی انتیسویں تاریخ کو الہٰ آباد کے شہر میں آل انڈیا مُسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ قائد اعظم پہلی گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے ہوئے تھے۔ آپ کے ارشاد کے مُطابق اس اجلاس کی صدارت اقبال کو کرنی تھی۔ یہیں انھوں نے وہ تاریخ ساز خُطبہ صدارت دیا جو خطبہ الہٰ آباد کے نام سے مشہور ہوا۔ اس خُطبے میں پہلی مرتبہ ہندوستان کے اندر ایک آزاد مُسلم ریاست کا ایک خاکہ پیش کیا گیا۔ برطانوی حکومت نے دوسری گول میز کانفرنس میں اقبال کو بھی مدعو کیا۔ لندن جانے کے لیے وہ ۸؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے۔ اگلی صبح دہلی پہنچے ۔ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہزاروں کا مجمع استقبال کو موجود تھا۔ ۱۰؍ستمبر ۱۹۳۱ء کو بمبئی پہنچے ۔ اگلے روز وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے انگلستان کے لیے روانہ ہوگئے اور ۲۷؍ستمبر کو لندن پہنچ گئے۔ ویسے تو اقبال دُوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہونے گئے مگر انگلستان میں ان کی علمی اور ادبی شہرت نے جو سیاسی شہرت سے کہیں بڑھی ہوئی تھی، ان کی مصُروفیات کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ کانفرنس کی ابتدا ہی سے کچھ ایسے آثار رُونما ہونے شروع ہوئے کہ اقبال بد دل ہو گئے۔ کچھ اجلاسوں میں ایک اندازِ لاتعلقی کے ساتھ شریک رہے مگر جب کسی بھی مثبت نتیجے سے بالکل مایوسی ہو گئی تو بالآخر ۱۹؍نومبر ۱۹۳۱ء کو مسلمان وفد سے الگ ہو کر اس کانفرنس سے علانیہ کنارہ کش ہو گئے۔ اب لندن میں ٹھہرنا بیکار تھا۔ مولانا غلام رُسول مہر کو ساتھ لے کر ۲۲؍نومبر کی رات روم پہنچے۔ تین دن مُلاقاتوں اور تاریخی مقامات کی سیر میں گزرے۔ اقبال نے اٹلی کے حکمران مسولینی سے بھی ملاقات کی۔ ۲۹؍نومبر کو اقبال اسکندریہ روانہ ہو گئے، یکم دسمبر کی صبح وہاں پہنچے ۔ بندرگاہ پر کئی اصحاب استقبال کے لیے موجود تھے۔ اسی دن سہ پہر کو قاہرہ کے لیے ٹرین پر سوار ہوئے اور شام ہوتے ہوتے قاہرہ پہنچ گئے۔ مصر کے چند روزہ قیام میں اقبال نے تاریخی مقامات اور آثار کی سیر کی ، متعدد دعوتوں شریک ہوئے، جامعہ ازہر کا دورہ کیا ۔ ۵؍دسمبر کی شام کی ریل سے بیت المقدس روانہ ہو گئے۔ ۶؍دسمبر کی صبح بیت المقدس پہنچے ۔ دیگر زعما کے ساتھ مفتیٔ اعظم فلسطین سیّد امین الحسینی بھی استقبال کو تشریف لائے ہوئے تھے۔ اگلے دن سے موتمر عالم اسلامی کے باقاعدہ اجلاس شروع ہوئے ۔ اقبال مندُوب کی حیثیت سے مدعو تھے انھیں نائب صدر مقرر کیا گیا۔ ۱۴؍دسمبر تک اقبال تمام کارروائی میں شریک رہے۔ اب رخصت ہونا تھا لہٰذا اسی تاریخ کو ایک اجلاس میں الوداعی خطاب فرمایا ۔ ۲۸؍دسمبر ۱۹۳۱ء کی صبح بمبئی واپس پہنچ گئے۔ وہاں زیادہ نہیں رُکے۔ اسی شام بذریعہ ریل لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔ فروری ۱۹۳۲ء میں جاوید نامہ کی اشاعت ہوئی۔ اسے فارسی کی ڈیوائن کامیڈیکہنا چاہیے۔ ۶؍مارچ ۱۹۳۲ء کو اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے وائی ایم سی اے ہال میں پہلا یوم اقبال منایا۔ کئی اصحاب نے اقبال کی شخصیت اور ان کے فکر وفن پر مقالے پڑھے اور تقریریں کیں۔ ۲۱؍مارچ کو لاہور میں اقبال کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم کانفرنس کا اجلاس ہوا۔ اقبال نے خطبۂ صدارت پڑھا ، جس میں اُنھوں نے دُوسری گول میز کانفرنس کا ماجرا سنایا ، اس زمانے کے اہم سیاسی مسائل کا گہرا جائزہ لیا اور مستقبل کی تعمیر کے امکانات پر نظر ڈالی۔ یہ خُطبہ ہر لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ اسے نظر انداز کر کے برعظیم کی مُسلم تاریخ کے جوہر کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ۱۹۳۲ء کے آخر میں برطانوی حکومت کی طرف سے لندن میں تیسری گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ اقبال اِس مرتبہ بھی بُلائے گئے ۔ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۳۲ء کو انگلستان روانہ ہوئے۔ ۳۰؍دسمبر تک وہیں رہے۔ اقبال نے پھر کانفرنس میں کوئی دلچسپی نہ لی، کیوں کہ اس میں اُٹھائے گئے بیشتر مباحث وفاق سے متعلق تھے، جس سے اقبال کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔ وہ تو ہندوستان کے اندر صُوبوں کی ایسی خود مختاری کے قائل تھے جس میں مرکزی حکومت نام کی کوئی شے موجود نہ ہو۔ صوبوں کا براہ راست تعلق لندن میں بیٹھے ہوئے وزیرِ ہند سے ہو۔ انگلستان سے اقبال فرانس آئے۔ پیرس میں لوئی ماسینون اور ہنری برگساں سے ملاقات کی۔ جنوری ۱۹۳۳ء کے پہلے ہفتے میں ہسپانیہ روانہ ہوئی۔ وہاں اقبال مشہور مستشرق آسین پالاکیوس کے مہمان رہے۔ ۲۴؍جنوری کو اقبال نے میڈرڈ یونی ورسٹی میں ’’اسپین اور فلسفۂ اسلام ‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔ قیامِ ہسپانیہ کے دوران میں اُنھوں نے قرطبہ ، غرناطہ ، اشبیلیہ اور طلیطلہ کی سیر کی۔ مسجد قرطبہ تو ہمیشہ کے لیے اُن کے دل میں گھر کر گئی۔ اِس مسجد نے اقبال کے باطن کی عمیق ترین سطح کو چھو لیا ، جس کے نتیجے میں نہ صرف اقبال کی بلکہ اُردو کی بہترین نظم ’’مسجد قرطبہ‘‘وجود میں آئی ۔ سات سو سال سے یہ مسجد اذان اور نماز سے محروم تھی ۔ اتنی لمبی مُدّت کے بعد اقبال پہلے آدمی تھے جنھوں نے یہاں اذان دی اور نماز پڑھی ۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کی گونج مسجد کی رُوح ہوتی ہے۔ کیسی سعادت ہے کہ اللہ کا ایک بندہ آیا اور پوری سات صدیوں کے سناٹے کو توڑ کر اس مسجد کو پھر سے زندہ کر گیا: اے حرمِ قرطبہ ! عشق سے تیرا وجود عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزئہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود قطرئہ خُونِ جگر سِل کو بناتا ہے دِل خُونِ جگر سے صدا سوز و سُرور و سرود تیری فضا دِل فروز ، میرا نوا سینہ سوز تجھ سے دِلوں کا حضور ، مجھ سے دلوں کی کشود عرشِ معلی سے کم سینۂ آدم نہیں گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہرِ کبود پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میّسر تو کیا اس کو میّسر نہیں سوز و گدازِ سجود کافرِ ہندی ہُوں مَیں ، دیکھ مرا ذوق و شوق دل میںصلوٰۃ و درود ، لب پہ صلوٰۃ و درود شوق مری لے میں ہے ، شوق مری نے میں ہے نغمۂ اللہ ہُو ، میرے رگ و پے میں ہے ۲۵؍فروری ۱۹۳۳ء کو اقبال لاہور واپس پہنچ گئے۔ اکتوبر کے آخری عشرے میں اقبال افغانستان گئے۔ نادر شاہ اپنے ملک میں تعلیم کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک اصُولی خاکہ تیار کرنے کے لیے اُنھوں نے اقبال ، راس مسعود اور سیّد سُلیمان ندوی کو مشاورت کے لیے بُلایا ۔ نادر شاہ سے مُلاقاتیں رہیں ۔ مختلف شخصیتوں اور انجمنوں کی طرف سے استقبالیے دیے گئے۔ غزنیں ، قلات، غلزئی، قندھار اور کچھ دُوسرے مقامات دیکھے۔ مغل فرماں روا ظہیر الدین بابر ، حکیم سنائی ، سلطان محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کے مزاروں پر فاتحہ پڑھی ۔۶؍نومبر کو قندھار سے واپس روانہ ہوئے، ۴؍نومبر کی رات لاہور پہنچ گئے۔ افغانستان کا یہ دورہ گو کہ مختصر رہا لیکن اقبال کو اس سرزمین اور اس کے باشندوں کے ساتھ ایسا شدید تعلق تھا کہ ان کے لیے یہ چند روزہ سیاحت بھی ایک تخلیقی تجربہ بن گئی جو ان کی فارسی مثنوی مسافرمیں تشکیل پایا۔ یہ مثنوی بقول سیّد سلیمان ندوی خیبر و سرحد و کابل و غزنیں و قندھار کے عبرت انگیز مناظر و مقابر پر شاعر اقبال کے آنسُو ہیں اور بابر ، سُلطان محمود ، حکیم سنائی اور احمد شاہ ابدالی کی خاموش تُربتوں کی زبانِ حال سے سوال و جواب ہیں۔ اس کا آغاز نادر شاہ شہید کے مناقب سے اور اختتام محمد ظاہر شاہ سے اظہارِ توقعات پر ہے۔ ۴؍دسمبر ۱۹۳۳ء کو پنجاب یونی ورسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری نذر کی۔ برعظیم میں مُسلم سیاسی جماعتیں سخت انتشار اور افتراق میں مبتلا تھیں۔ اپنا اپنا راگ الاپا جارہا تھا۔ مُسلمانوں کے قومی مستقبل کا مسئلہ عملاً فراموش کیا جا چُکا تھا۔ قائد اعظم مایوس ہو کر لندن جا چکے تھے، یہ سب دیکھنے اور کُڑھنے کو ایک اقبال رہ گئے تھے، لیکن قدرت کو مُسلمانوں کی بہتری منظور تھی، اقبال اور دوسرے مخلصوں کے اصرار پر قائد اعظم ہندوستان واپس آ گئے اور ۴؍مارچ ۱۹۳۴ء کو مسلم لیک کے صدر منتخب ہوئے۔ لیگ کے تنِ مُردہ میں جان پڑ گئی اور برعظیم کے مُسلمانوں کے دن پھرنے کا آغاز ہو گیا۔ جنوری ۱۹۳۵ء میں دُوسرا اردو مجموعہ بال جبریل شائع ہوا۔ ۶؍مئی ۱۹۳۶ء کو حضرت قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ اقبال سے ملنے ’’جاوید منزل‘‘ تشریف لائے۔ آپ نے اقبال کو مُسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا ممبر بننے کی دعوت دی جسے اقبال نے اپنی شدید علالت کے باوجود بخوشی قبول کر لیا۔ ۱۲؍ مئی کو اقبال دوبارہ پنجاب مُسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ جولائی ۱۹۳۶ء میں ضرب کلیم شائع ہوئی، جسے اقبال نے ’’دورِ حاضر کے خلاف اعلان جنگ‘‘ کا نام دیا تھا۔اِس کتاب کے چھ حصے ہیں: اِسلام اور مُسلمان ، تعلیم و تربیت ، عورت،ادبیاتِ، فنونِ لطیفہ ، سیاسیاتِ مشرق و مغرب اور محراب گل افغان کے افکار۔ اختصار سے کہا جائے تو بال جبریل اقبال کے شعری تفکر کی معراج ہے اور ضرب کلیم ان کی فکری شاعری کا منتہاے کمال۔ نومبر ۱۹۳۶ء میں فارسی مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق مع مسافر کتابی شکل میں شائع ہوئی۔ اقبال کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ علاج معالجے میں ہر جتن کر کے دیکھ لیا، مگر ذرا بھی افاقہ نہ ہوا۔ لکھنا پڑھنا بند کر وا دیا گیا تھا ۔ بس ایک ہی دُھن لگی رہتی تھی کہ کسی طرح حج کر لوں اور روضۂ رسول ﷺ پر حاضری دے آئوں۔ سیّد راس مسعود کے نام اپنے ایک خط مرقُومہ ۱۵۔ جنوری ۱۹۳۷ء میں فرماتے ہیں: ان شاء اللہ اُمید ۔۔۔ کہ سال (آیندہ) حج بھی کروں گااور دربارِ رسالت ؐ میں حاضری بھی دوں گا اور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لائوں گا کہ مسلمانانِ ہند یاد کریں گے۔ یہ تحفہ کیا ہوتا ؟ ارمغانِ حجاز جو اقبال کے انتقال کے بعد نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوئی۔ اقبال کی صحت بِگڑتی جا رہی تھی ، طرح طرح کی بیماریوں نے ہجوم کر رکھا تھا۔ افاقے کی امید کم ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود روزمرّہ کے معمولات جاری تھے۔ ہمیشہ کی طرح شام کی مجلس ویسے ہی جمتی ، لوگ آتے، ان کے ساتھ دُنیا بھر کے موضوعات پر پوری حاضر دماغی کے ساتھ بات چیت رہتی، خطوط کے جواب بھی لکھوائے جاتے اور خلوت و جلوت میں شعر کی آمد کا بھی وہی عالم تھا ۔ کسی نے پریشانی دکھائی تو اس سے فرمایا: نشانِ مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسّم برلبِ اُوست ۲۰۔ اپریل کی رات سے حالت میں تغیّر آنا شروع ہوا۔ چودھری محمد حسین نے شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کو جمع کیا۔ تفصیلی معائنے کے بعد سب کی یہی رائے تھی کہ رات خیریت سے گزر گئی تو صُبح سے نیا علاج شروع کیا جائے گا۔ ذرا دیر کو سوئے ہوں گے کہ شانوں میں سخت درد اُٹھا اور نیند اُڑ گئی۔ خواب آور دوا دینے کی کوشش کی گئی مگر انکار کر دیا کہ میں بے ہوشی کے عالم میں نہیں مرنا چاہتا۔ کچھ رات رہتی تھی کہ حالت غیر ہو گئی ۔ فجر کی اذانیں سُنائی دیں تو خبر گیری کے لیے بیٹھے ہوئے دوستوں نے خیال کیا کہ فکر کی رات کٹ گئی ۔ سب قریب کی مسجد میں نماز کے لیے چلے گئے ، بس ایک قدیمی جاں نثار اور خدمت گزار علی بخش دیکھ بھال کو رُک گیا۔ اچانک دِل پکڑکے فرمایا کہ یہاں شدید درد ہے ۔ ابھی علی بخش انھیں بازوئوں میں لیے یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیا کرے، اقبال نے اللّٰہ کہا اور اُن کا سر ایک طرف کو ڈھلک گیا۔ ٹھیک پانچ بج کر چودہ منٹ پر صُبح کی اذانوں کے سائے میں اس شخص نے موت کا پُل پار کر لیا جو خوفِ خدا کا مجسمہ اور عشقِ رسول ؐ کا نمونہ تھا۔ اِنّا لِلّٰہِ و اِنّا الَیہِ رٰجِعُون۔ اقبال کے وصال کی خبر آناً فاناً سارے شہر میں پھیل گئی۔ اخباروں نے ضمیمے نکالے ، دفاتر ، عدالتیں ، بازار اور مسلمانوں کے تمام ادارے بند ہوگئے۔شہر میں زندگی کا ہر عمل رُک گیا ۔ لگتا تھا کہ لاہور کی ساری آبادی نے ’’جاوید منزل‘‘ کا رُخ کررکھا ہے۔ اپنے محسن و مربی کے آخری دیدار کے لیے شام تک اشک بار لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ شام پانچ بجے کلمۂ شہادت کی گونج میں جنازہ اُٹھا ۔ پچاس ساٹھ ہزار کاندھا دینے والوں میں کون تھا جو نہیں تھا۔ سوگواروں کے اس جمِ غفیر میں دین دار، دُنیا دار ، امیر ، غریب ، عالم ، ان پڑھ ، بوڑھے ، جوان سبھی شامل تھے اور ایک مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب و ملّت کا آدمی موجود تھا۔ رات آٹھ بجے بادشاہی مسجد کے صحن میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پونے دس بجے کے قریب اس فخر روزگار کو سپُرد خاک کر دیا گیا۔ قبر کے ایک طرف تقریباً متّصل شاہی مسجد اور دُوسری جانب ذرا فاصلے پر شاہی قلعہ ۔ ایک دینی شکوے کی علامت اور دُوسرا دُنیاوی عظمت کا نشان ۔ خُدا کی شان کہ اقبال جب تک جیے، دونوں کو ان کے حسبِ مراتب جوڑ کر جیے اور مرے تو مدفن بھی ایسا پایا جسے دیکھ کر دین و دُنیا کا مثالی توازن آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ کتابیات آزاد جگن ناتھ،محمد اقبال ۔ ایک ادبی سوانح حیات ۔ نئی دہلی : ماڈرن پبلشنگ ہائوس، ۱۹۸۳ء ۔ احمد دین ،اقبال : مرتب مشفق خواجہ۔ کراچی : انجمن ترقی اردو پاکستان ، ۱۹۷۹ء ۔ اختر، قاضی احمد میاں،اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ۔ کراچی : اقبال اکادمی ، ۱۹۶۵ء اقبال ، سر علامہ محمد،اقبال بنام شاد : مرتب: محمد عبداللہ قریشی۔ لاہور: بزم اقبال،۱۹۹۲ء اقبال نامہ (جلد اوّل) مرتب :شیخ عطاء اللہ ۔ لاہور : شیخ محمد اشرف ، ۱۹۴۴ء اقبال نامہ (جلد دوم) مرتب: شیخ عطاء اللہ ۔ لاہور : شیخ محمد اشرف ، ۱۹۵۱ء انوار اقبال، مرتب: بشیر احمد ڈار۔ لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۷۷ء باقیات اقبال،مرتبین: سید عبدالواحد+محمد عبداللہ قریشی ۔ لاہور : آئینہ ادب، ۱۹۶۶ء علم الاقتصاد ۔ لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۷۷ء کلیات اقبال ، فارسی ۔ لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۹۰ء کلیات مکاتیب اقبال (جلد اوّل ، دوم ، سوم)مرتب: سید مظفر حسین برنی۔ دہلی : اردو اکادمی ۔ ۱۹۸۹ء گفتار اقبال،مرتب : محمد رفیق افضل۔ لاہور: ادارہ تحقیقات پاکستان، ۱۹۷۷ء مقالاتِ اقبال، مرتب: سید عبدالواحد معینی ۔ لاہور، آئینہ ادب۔ ۱۹۸۸ء جاوید اقبال ،زندہ رود ۔ لاہور : شیخ غلام علی ، ۱۹۹۸ء دُرّانی ، سعید اختر،اقبال یورپ میں ۔ لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۸۵ء صدیقی ، افتخار احمد ،عروجِ اقبال ۔لاہور : بزم اقبال ، ۱۹۸۷ء صلاح الدین احمد ، مولانا ،تصوراتِ اقبال ۔ مرتب: معزالدین احمد۔ علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہائوس ، ۱۹۷۴ء صوفی ، خالد نظیر ،اقبال درونِ خانہ ۔ لاہور : بزم اقبال ، ۱۹۷۱ء عبدالحکیم ، خلیفہ،فکرِ اقبال ۔ لاہور : بزم اقبال ، ۱۹۸۸ء عزیز احمد ،اقبال : نئی تشکیل ۔ لاہور : گلوب پبلشرز، ۱۹۶۸ء فاروقی ، محمد حمزہ،حیاتِ اقبال کے چند مخفی گوشے ۔ لاہور : ادارہ تحقیقات پاکستان ، ۱۹۸۸ء فروغ احمد ،تفہیم اقبال۔ کراچی : اردو اکیڈمی سندھ ، ۱۹۸۵ء فقیر،سید وحید الدین،روزگار فقیر (جلد دوم ) ۔ کراچی : لائن آرٹ پریس ، ۱۹۶۶ء گیان چند، ڈاکٹر،ابتدائی کلامِ اقبال بہ ترتیب مہ و سال۔ حیدر آباد دکن : اردو ریسرچ سنٹر ، ۱۹۸۸ء محمد علی ، شیخ ،نظریات و افکارِ اقبال ۔ اسلام آباد :نیشنل بک فائونڈیشن ، ۱۹۸۳ء محمد منور،ایقانِ اقبال : لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۸۸ء برہانِ اقبال: لاہور،اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۸۲ء میزان اقبال : لاہور،اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۸۲ء میکش اکبر آبادی، نقد اقبال: لاہور، آئینہ اقبال ، ۱۹۷۰ء ندوی ، ابوالحسن علی ،نقوشِ اقبال : مترجم ؛ شمس تبریز خان ۔ کراچی : مجلس نشریاتِ اسلام ، ۱۹۷۳ء ندوی ، عبدالسلام ،اقبال کامل ۔ راولپنڈی : کامران پبلی کیشنز ، ۱۹۸۸ء نذیر نیازی ، سیّد ،اقبال کے حضور ۔ کراچی : اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۷۱ء دانائے راز ۔ لاہور: اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۸۸ء ہاشمی، ڈاکٹر رفیع الدین ،تصانیفِ اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ۔ لاہور : اقبال اکادمی پاکستان ، ۱۹۸۴ء یوسف حسین خاں ، ڈاکٹر،رُوحِ اقبال ۔ لاہور : آئینہ ادب ، ۱۹۶۵ء Dar, B.A. Study of Iqbal's Philosophy, Lahore: Sh.Ghulam Ali, 1971 Letters of Iqbal, Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 1978 Letters and Writings of Iqbal, Lahore: Iqbal Academy Pakistan, 1981 Hafeez Malik (comp.) Iqbal: Poet Philosopher of Pakistan, New York: Columbia University Press,1971 Iqbal, Sir Muhammad Development of Metaphysics in Persia, Lahore: Bazm-e-Iqbal,1964 The Reconstruction of Religious Thought in Islam,Lahore: Iqbal Academy Pakistan,1989. Masud ul Hasan Life of Iqbal, Lahore: Ferozsons Ltd.1978 Munawwar,Muhammad Iqbal and Quranic Wisdom, Lahore: Iqbal Academy Pakistan,1985 Schimmel, Annemarie Gabriel's Wing, Lahore: Iqbal Academy Pakistan.1989. Shahin, Rahim Bukhsh (comp.) Mementos of Iqbal, Lahore: All Pakistan Education Congress, 1975 Sharif Al Mujahid The Poet of the East : The Story of Muhammad Iqbal, Karachi:Oxford University Press, 1961 ضمیمے آیندہ صفحات میں علامہ اقبال کی زندگی کے بعض اہم واقعات کے ذکر کے ساتھ ، ان کی جملہ تصانیف کی فہرست دی جا رہی ہے۔ علامہ اقبال کے عمومی مطالعے میں یہ بنیادی معلومات مفید اور معاون ثابت ہوں گی۔ ضمیمہ : ۱ حیات نامۂ اقبال ۱۸۷۷ء ۹ ؍نومبر ٭ ولادتِ اقبال ، سیالکوٹ ۱۸۹۱ء ٭ سکاچ مشن ہائی سکول،سیالکوٹ سے مڈل سکول امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۲ء ٭ باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ ۱۸۹۳ء ٭ سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا۔ ۴ ؍مئی ٭ کریم بی بی (م : ۲۰ نومبر ۱۹۴۶ء ) سے شادی ہو گئی۔ ۱۸۹۵ء ٭ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا۔ ۱۸۹۸ء ٭ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کا امتحان درجہ دوم میں پاس کیا ۱۸۹۹ء ٭ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے فلسفہ کا امتحان درجہ سوم میں پاس کیا۔ ۱۳؍مئی ٭ یونی ورسٹی اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۰ء ۱۴؍فروری ٭ انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں پہلی بار نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ سنائی۔ ۱۹۰۱ء یکم جنوری ٭ اسلامیہ کالج لاہور میں چھے ماہ کے لیے انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۲ء ۱۳ ؍اکتوبر ٭ گورنمنٹ کالج لاہور میں چھے ماہ کے لیے انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۳ء ۳ ؍جون ٭ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۵ء یکم ستمبر ٭ اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ روانہ ہوئے۔ ۱۹۰۷ء ٭ کیمبرج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ میونخ یونی ورسٹی (جرمنی) نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۰۸ء ۲۲ ؍جنوری٭ ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کے نام خط میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ملازمت سے تحریری استعفا بھیج دیا۔ یکم جولائی ٭ لِنکنز اِن، لندن سے بیرسٹری کی سند حاصل کی۔ ۲۷ ؍جولائی ٭ یورپ سے واپس لاہور پہنچے۔ ۱۹۱۰ء ٭ سردار بیگم (والدہ جاوید اقبال) سے شادی ہوئی، مگر رخصتی ۱۹۱۳ء میںعمل میں آئی۔ ۱۹۱۱ء اپریل ٭ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم ’’شکوہ‘‘ پڑھی۔ ٭ علی گڑھ یونی ورسٹی میں انگریزی خطبہ: The Muslim Community المعروف بہ : ’’ملت بیضا پرایک عمرانی نظر‘‘ پیش کیا۔ ۱۹۱۲ء ۱۶؍ اپریل ٭ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ پڑھی ۳۰ ؍نومبر ٭ جلسۂ عام منعقدہ بیرون موچی دروازے میں نظم ’’جواب شکوہ‘‘ پڑھی۔ ۱۹۱۳ء ٭ مختار بیگم (لدھیانہ) سے شادی ہوئی۔ ۹ ؍نومبر ٭ والدہ امام بی بی سیالکوٹ میں فوت ہو گئیں۔ ۱۹۲۲ء ۱۶ ؍اپریل ٭ انجمن حمایتِ اسلام کے جلسے میں نظم ’’خضرراہ ‘‘ پیش کی۔ ۱۹۲۳ء یکم جنوری ٭ حکومت کی طرف سے ’’سر ‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ۳۰ ؍مارچ ٭ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں نظم ’’طلوع اسلام‘‘ پیش کی۔ ۱۹۲۶ء ۲۳؍ نومبر ٭ مجلس قانون ساز پنجاب کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۲۸ء جنوری ٭ مدراس ، بنگلور ، میسور اور حیدر آباد دکن میں منعقدہ جلسوں میں انگریزی میں خطبات پیش کیے۔ ۱۹۳۰ء ۲۹؍ دسمبر ٭ کل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہٰ آباد میں ایک علاحدہ مسلم مملکت کا تصور پیش کیا۔ ۱۹۳۱ء نومبر ٭ لندن میں منعقدہ دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ ۲۸؍نومبر ٭ روم میں اٹلی کے حکمران مسولینی سے ملاقات کی۔ ۷؍دسمبر ٭ بیت المقدس میںمنعقدہ موتمر عالمِ اسلامی میں شریک ہوئے۔ ۱۹۳۲ء نومبر ٭ لندن میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت۔ ۱۹۳۳ء جنوری ٭ پیرس میں معروف فلسفی برگساں سے ملاقات کی۔ ٭ ہسپانیہ کا سفر اور مسجد قرطبہ کی زیارت۔ اکتوبر ، نومبر ٭ شاہِ افغانستان کی دعوت پر افغانستان کا سفر۔ ۴ ؍دسمبر ٭ پنجاب یونی ورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ ۱۹۳۴ء ۱۰؍جنوری ٭ عیدالفطر کے موقع پر سویاں دہی ملا کر کھائیں، گلا بیٹھ گیا۔ طویل علالت کا آغاز ہوا۔ ۱۹۳۵ء ٭ برقی علاج کے لیے کئی بار بھوپال کا سفر کیا۔ ٭ اپنے ذاتی نو تعمیر شدہ مکان ’’جاوید منزل‘‘ میں منتقل ہو گئے۔ ۲۳ ؍مئی ٭ اہلیہ ( والدئہ جاوید اقبال) کا انتقال۔ ۲۹ ؍جون ٭ سرہند شریف کا سفر ، جاوید اقبال بھی ہمراہ تھے۔ ۱۹۳۶ء ٭ پنجاب مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۸ء ۲۱ ؍اپریل ٭ صبح پانچ بج کر چودہ منٹ پر جاوید منزل میں مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ ضمیمہ: ۲ تصانیف اقبال (صرف اوّلین اشاعتوں کے سنین دیے جا رہے ہیں) شاعری فارسی : ٭اسرار خودی ۱۹۱۵ء ٭ رموز بے خودی ۱۹۱۸ء ٭ پیام مشرق ۱۹۲۳ء ٭ زبور عجم ۱۹۲۷ء ٭ جاوید نامہ ۱۹۳۲ء ٭ مسافر ۱۹۳۴ء ٭ مثنوی پس چہ باید کرد، اے اقوام شرق ۱۹۳۶ء اردو: ٭ بانگِ درا ۱۹۲۴ء ٭ بالِ جبریل ۱۹۳۴ء ٭ ضرب کلیم ۱۹۳۶ء فارسی+ اردو: ٭ارمغانِ حجاز ۱۹۳۸ء نثر اردو: ٭ علم الاقتصاد لاہور ، نومبر ۱۹۰۴ء ٭ مقالاتِ اقبال مرتب : سید عبدالواحد معینی لاہور، ۱۹۶۳ء تصدق حسین تاج کے مرتبہ مجموعے ’’مضامینِ اقبال‘‘ (حیدر آباد دکن ، ۱۹۴۳ئ) کے تمام اردو مقالات و مضامین اس مجموعے میں شامل ہیں۔ ٭ گفتارِ اقبال مرتب : محمد رفیق افضل لاہور ، ۱۹۶۹ء ٭ شاد اقبال مرتب: محی الدین قادری زور حیدر آباد دکن ۱۹۴۲ء ٭ اقبال نامہ ، اوّل مرتب : عطاء اللہ لاہور ،[۱۹۴۴ئ] ٭ اقبال نامہ ، دوم مرتب : عطاء اللہ لاہور، ۱۹۵۱ء ٭مکاتیب اقبال بنام محمد نیاز الدین خاں مرحوم لاہور، ۱۹۵۴ء ٭مکتوباتِ اقبال مرتب: نذیر نیازی کراچی، ۱۹۵۷ء ٭ انوارِ اقبال مرتب: بشیر احمد ڈار کراچی، ۱۹۶۷ء ٭ مکاتیب اقبال بنام گرامی مرتب: محمد عبداللہ قریشی کراچی ، ۱۹۶۹ء ٭ خطوطِ اقبال مرتب : رفیع الدین ہاشمی لاہور، ۱۹۷۶ء ٭ مکاتیب اقبال بنام بیگم گرامی مرتب: حمید اللہ ہاشمی فیصل آباد، ۱۹۷۸ء ٭ اقبال، جہانِ دیگر مرتب: محمد فرید الحق ایڈووکیٹ کراچی ، ۱۹۸۳ء ٭ نگارشاتِ اقبال مرتب: زیب النساء لاہور، ۱۹۹۳ء انگریزی : * The Development of Metaphysics in Persia لندن ، ۱۹۰۸ء * The Reconstruction of Religious Thought in Islam, لندن ، ۱۹۳۴ء (چھے خطبات پر مشتمل پہلا ایڈیشن لاہور سے ۱۹۳۰ء میں چھپا تھا۔ ) * Thoughts and Reflections of Iqbalمرتب: ایس اے واحد۔لاہور ، ۱۹۶۴ء Stray Reflections * مرتب: جاوید اقبال ۔لاہور ، ۱۹۶۱ئ * Speeches, Writings and Statements of Iqbalمرتب : لطیف احمد شروانی، لاہور ، ۱۹۷۷ئ(اقبال کی وہ تمام انگریزی تحریریں اور تقاریر، جو قبل ازیں مختلف مجموعوں کی صورت میں اشاعت پذیر ہوتی رہی ہیں، اس مجموعے میں یکجا کر دی گئی ہیں۔) * Letters of Iqbal مرتب: بشیر احمد ڈار ۔لاہور، ۱۹۷۸ئ