بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم پیا مِ اقبال بنام نوجوانانِ ملّت مؤلف: سید قاسم محمود فہرستِ مضامین باب نمبر۱ پیامبر اقبال علامہ اقبال کے مختصر سوانح ، از ولادت ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء تا وفات ۲۱ ؍اپریل ۱۹۳۸ء ۱ باب نمبر۲ پیامِ منظوم اردو کے چار اور فارسی کے آٹھ مجموعہ ہائے ٍٍکلام کا تعارف ۳۹ باب نمبر۳ پیامِ اقبال کا ارتقا تینوں تخلیقی ادوار میں اقبال کا مخاطب صرف نوجوان ہے۔ ۵۱ باب نمبر۴ خُودی خودی کا سرِّ نہاں، لا الٰہ الاّ اللہ خودی ہے تیغ فساں، لا الٰہ الاّ اللہ ۷۱ باب نمبر۵ فَقر اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم،سکندری سے نہیں ۱۰۷ باب نمبر۶ عشق جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق ، میری نظر بخش دے ۱۱۷ باب نمبر۷ عشقِ قرآن قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار ۱۲۹ باب نمبر۸ عشقِ رسول ؐ قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اُجالا کر دے ۱۳۷ باب نمبر۹ مومن یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن ۱۶۵ باب نمبر۱۰ شاہین تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں ۱۷۵ باب نمبر۱۱ علم و عقل یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدّبر ، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات ۱۸۵ باب نمبر۱۲ مغربی تعلیم تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تُو کتاب خواںہے،مگرصاحبِ کتاب نہیں ۱۹۳ باب نمبر۱۳ مغربی تہذیب دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا ۲۰۳ باب نمبر۱۴ اسلام کی نشاتِ ثانیہ اقبال کا ترانہ بانگِ در اہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما، پھرکارواں ہمارا ۲۱۵ باب نمبر۱۵ بنام دخترانِ ملّت وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ اسی کے سازسے ہے زندگی کا سوزِ دروں ۲۴۱ باب نمبر۱۶ بنا م نونہالانِ ملّت لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خُدا یا میری ۲۴۹ باب نمبر۱۷ پیام بذریعہ جاوید دیار ِعشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر ۲۵۷ باب نمبر۱۸ پیامِ منثور اقبال کی تقاریر، بیانات ، اعلانات اور خطوط سے شاہکار نثر پاروں کا انتخاب ۳۲۵ کتابیات ۳۴۵ باب نمبر۱ پیامبر اقبال ؔ یہ عجب حسنِ اتفاق ہے کہ انیسویں صدی کا آٹھواں عشرہ بڑا ہی مردم خیز تھا ۔ لینن (۱۸۷۰ئ)، فلسفی برٹنڈ ررسل (۱۸۷۳ئ) ، چرچل اور ناول نگار سمرسٹ ماہم (۱۸۷۴ئ) ، امریکی ناول نویس تھامس مان (۱۸۷۵ئ) ، رضا شاہ اوّل (۱۸۷۶ئ) ، جرمنی کا چانسلر ایڈی نار (۱۸۷۷ئ) ، علامہ محمد اقبال ؒ(۱۸۷۷ئ) ، مولانا محمد علی جوہر، کمال اتاترک اور قائد اعظم ؒ (۱۸۷۶ئ) ، روسی سیاست دان ٹراٹسکی ، اسٹالن اور سائنس داں آئن سٹائن (۱۸۷۹ئ) سب اسی عشرے کے پیداوار ہیں۔ گویا قدرت دنیا کے مختلف گوشوں اور شعبوں میں جو انقلاب لانا چاہتی تھی ، اُس کی داغ بیل اِسی عشرے میں ڈالی گئی۔ خاندانی پس منظر علامہ اقبال ؒکے اجداد ہندو برہمن تھے۔ مغلوں کے دورِ حکومت میں کشمیر میں بے شمار صوفیائے کرام باہر سے تشریف لائے، جنھوں نے اپنے اعلیٰ کردار اور حسنِ سلوک سے مقامی ہندو آبادی کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ جوق در جوق اسلام قبول کر کے اُن کے حلقۂ ارادت میں شامل ہونے لگے تھے۔ ۱۶۵۰ء کے لگ بھگ سری نگر میں ایک سید درویش وارد ہوئے۔ علامہ اقبال ؒکے جدّ امجد بھی اُن کی زیارت کے لیے سری نگر آئے۔ اس مردِ قلندر کی نگاہ کام کر گئی اور انھوں نے اِس درویش کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اُن کا نام صالح رکھا گیا اور وہ بعدازاں ’’بابا صالح‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ سیّد درویش نے اُن کے تقویٰ سے متاثر ہو کر اپنی دُختر نیک اختر کا نکاح بھی اُن سے کر دیا ۔ علامہ اقبال ؒنے اپنے خاندانی پس منظرکو یوں بیان کیا ہے: میں اصل کا خاص سومناتی آبا میرے لاتی و مناتی علامہ اقبال کے جدشیخ محمد رفیق کی پہلی شادی سیال کوٹ کے ایک کشمیری خاندان میںہوئی ۔ اس بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری شادی جلال پور جٹاں کے ایک کشمیری خاندان میں ہوئی۔ اس بیوی سے دس لڑکے پیدا ہوئے، لیکن سب ایک ایک کرکے داغِ مفارقت دے گئے ۔ شیخ نور محمد (علامہ اقبال کے والد) گیارہویں اولاد تھے۔ شیخ نور محمد کو اپنے خاندان میں ’’میاں جی‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ پہلے انھوں نے گزر اوقات کے لیے، بچوں کے کُرتے بنانے شروع کیے۔ پھر جب سیال کوٹ میں ایک ڈپٹی وزیر علی بلگرامی قیام پذیر ہوئے تو شیخ نور محمد نے اُن کے ہاں کپڑے سینے کی ملازمت اختیارکر لی۔ بلگرامی نے شیخ صاحب کو ’’سنگر‘‘ مشین خرید کر دی جو اُس زمانے میں ایک نادر چیز سمجھی جاتی تھی۔ بلگرامی کی ملازمت میں خاصی بچت ہو جاتی تھی ، لیکن اقبال ؒکی والدہ امام بی بی گھر میں اُن کی تنخواہ کا ایک پیسا بھی خرچ نہ کرتی تھیں ۔ اُن کے خیال میں بلگرامی کے آمدنی حلال نہیں تھی ۔ اپنی تنخواہ کی پذیرائی کا حال دیکھا تو انہوں نے ملازمت چھوڑ نے ہی میں عافیت سمجھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ اُن کا نیا کاروبار ٹوپیاں سینے کا تھا۔ اس کاروبار نے اتنی ترقی کی کہ انھیں گاہکوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے کئی ملازم رکھنے پڑے ۔ بعد میں جب اُن کی عمر زیادہ ہو گئی تو انھوں نے یہ کام اپنے داماد غلام محمد کے حوالے کیا، جس کی لاپروائی سے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی خاندان میں ’’بے جی ‘‘ کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ وہ لکھنا پڑھنا نہ جاتی تھیں، لیکن صوم و صلوٰۃ کی بڑی پابند تھیں۔ حسنِ سلوک کے باعث سارا محلہ اُن کا گرویدہ تھا۔ اُن کی دیانت داری کا یہ حال تھا کہ محلے کی اکثر عورتیں آپ کے پاس زیورات ، نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء بطور امانت رکھتی تھیں۔ محلے یا برادری میں خواتین کی آپس میں کبھی توتکار ہو جاتی تو ’’بے جی‘‘ کو ثالث مقرر کیا جاتا ۔ وہ غریب عورتوں کی خفیہ امداد بھی کرتی رہتی تھیں ۔ ایسا بھی ہوا کہ وہ اپنے گھر غریب والدین کی ، بچیاں لے آئیں اور انہیں بڑے ناز اور چائو سے پالا پوسا اور جب وہ وجوان ہو گئیں تو اُن کی شادی کرا دی۔ شیخ نور محمد کو تصوف کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ اس پر بچپن ہی سے اہل دین کی صحبتوں نے اس ذوق کو شوق کی حد تک بڑھا دیا تھا ۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ تصو ّف کے معاملات و مسائل سے بہ خوبی آگاہ تھے۔ اسی بناء پر انھیں ’’ان پڑھ فلسفی‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔ اُن کی عادات و اطوار اور مشاغل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اوّل و آخر صوفی تھے اور خوفِ خدا اُنھیں ہر وقت دامن گیر رہتا تھا۔ ’’رموزِ بے خودی ‘‘میں اقبال نے اپنے والد محترم کی خدا ترسی کا حال منظوم انداز میں بیان کیا ہے۔ ایک بار کسی فقیر نے بھیک مانگنے کے لیے اُن کے دروازے پر صدا لگائی اور کچھ لیے بغیر وہاں سے کسی طرح نہ ٹلا ۔ نوجوان اقبال ؒکو اس بات پر سخت غصہ آیا اور انھوں نے اسے دو چار طمانچے رسید کر دیے ۔ اس سے فقیر کی جھولی میں کچھ تھا ، وہ سب زمین پرگر پڑا ۔ اُن کے والد نے یہ منظر دیکھا تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے گلوگیر لہجے میں اپنے بیٹے اقبال سے کہا: ’’قیامت کے دن جب رسولِ کریم ؐ کے اردگرد ساری اُمّت ِمسلمہ جمع ہو گی ، غازی ، شہید، عالم ، حافظ ، عابد سب موجود ہوں گے اور یہ مظلوم فقیر آقائے نامدارؐ کے سامنے تمہارے اس ظلم کی فریاد کرے گا اور آنحضرت ؐمجھ سے پوچھیں گے کہ ہم نے ایک بندئہ مُسلم کو تیری فرزندی اور نگہداشت میں دیا، توُاسے بھی آدمی نہ بنا سکا۔تو میں کیا جواب دوں گا۔ اے نور نظر ! تو اُمّتِ محمدیؐ کا ایک فرد ہے۔ تجھے اخلاقِ محمدیؐ سے بہرہ ور ہونا چاہیے اور سراپا شفقت ِ و رحمت بننا چاہیے نہ کہ ظلم و فرعونیت کا نمونہ ۔‘‘ اقبال کے دل پر اپنے والد محترم کی یہ نصیحت اثر کر گئی ، بلکہ اُن کے دل و دماغ پر ایک دائمی نقش چھوڑ گئی ۔ شیخ نور محمد کے ہاں دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئیں۔ بڑے لڑکے کا نام شیخ عطا محمد اور چھوٹے لڑکے کا نام محمد اقبال تھا۔ شیخ عطا محمد نے ابھی میٹرک بھی پاس نہیں کیا تھا کہ اُن کی شادی برٹش انڈین آرمی کے ایک ریٹائرڈ پنشنر سپاہی کی لڑکی سے ہو گئی ۔ اُن کے خسر کے اثر و رسوخ کی وجہ سے شیخ عطا محمد کو پہلے فوج میں ’’رسالہ ‘‘ میں ملازمت مل گئی ۔ پھر بعد میں انہیں اُڑکی کے انجینئرنگ اسکول میں داخلہ مل گیا۔ کورس کی تکمیل کے بعد وہ فوج میں اوور سیئر بن گئے اور ترقی کرتے کرتے ایس ڈی او بن گئے ۔ وہ اپنی ملازمت کے دوران مختلف مقامات پر متعین رہے اور کچھ عرصہ ایم ای ایس ، ایبٹ آبادمیں بھی گزارا ۔ اس ملازمت میں انھوں نے کافی روپیا بچایا ۔ اقبال ؒکی اعلیٰ تعلیم کا خرچہ بھی انھوں نے ہی برداشت کیا۔ اُن کا میلان قادیانیت کی طرف ہو گیا۔ شیخ عطا محمد کے دو فرزند تھے۔شیخ اعجاز احمد اور شیخ مختار احمد ، شیخ عطا محمد کا انتقال ۱۹۴۰ء میں ہوا۔ اقبال ؒکے والد محترم شیخ نور محمد کا انتقال ۱۷؍اگست ۱۹۳۰ء کو ہوا ۔ والدہ محترمہ امام بی بی ۹؍نومبر ۱۹۱۴ء کو ۷۸ سال کی عمر میں رحلت فرما گئیں۔وہ اقبالؒ ؒسے بہت پیار کرتی تھیں ۔ اقبال بھی اُن کی بڑی عزت کرتے تھے۔ گرمیوں میں عدالتیں بند ہو تیں تو وہ انھیں ملنے کے لیے سیال کوٹ تشریف لے جاتے ۔ وہ بھی اُن کے خط کا بڑی بے تابی سے انتظارکیا کرتیں ۔ جب اقبال ؒاعلیٰ تعلیم کی غرض سے یورپ تشریف لے گئے تو وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اُن کی بہ خیریت وطن واپسی کے لیے دُعا مانگا کرتیں ۔ اقبال نے اپنی شخصیت پر والدہ کے اثرات کو بڑی شدت سے محسوس کیا ہے، اس کا اندازہ اُن کے اُس مرثیے سے ہوتا ہے جو انھوں نے والدہ کی وفات پر لکھا اور بعد میں ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ کے عنوان سے ’’بانگِ درا‘‘ کے اوراق میں شامل ہوا۔ کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار کو ن میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یا د آئوں گا ؟ تربیت سے تیری میں انجم کا ہم قسمت ہوا گھر میرے اجداد کا سرمایۂ عزت ہوا عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی میں تیری خدمت کے قابل جب ہوا، تو چل بسی آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے مولانا عبدالمجید سالک جب تعزیت کے لیے علامہ اقبال کے پاس گئے تو وہ دیر تک اپنی والدہ کی خوبیاں بیان کرتے رہے اور ساتھ ساتھ روتے بھی جاتے تھے۔ فرمانے لگے :’’جب میں سیال کوٹ جاتا تھا تو والدہ شگفتہ دلی سے فرماتیں :’’میرا بالی آگیا‘‘، تو میں اُن کے سامنے خود کو ایک ننھا مُنّا بچہ محسوس کرنے لگتا ۔‘‘ پیدائش اور بچپن اقبال ۹ ؍نومبر ۱۸۷۷ء بہ مطابق ۳ ذی قعدہ ۱۲۹۴ھ کو سیال کوٹ کے محلے چودھری وہاب میں،جسے آج کل اقبال اسٹریٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے، پیدا ہوئے۔ نومولود کا نام اُس کی والدہ نے ’’محمد اقبال‘‘ رکھا ۔ اقبال ابھی دو سال کے تھے کہ کسی بیماری میں جونکیں لگانے کی ’’دوا‘‘ تجویز کی گئی۔کنپٹی پر جونکیں لگانے سے دا ہنی آنکھ سے کافی مقدار میں خون خارج ہو گیا، جس کی وجہ سے دا ہنی آنکھ کی بصارت ہمیشہ کے لیے جاتی رہی۔ لیکن بائیں آنکھ کی بینائی اس قدر تیز تھی کہ انھیں آخری عمر تک کبھی دائیں آنکھ کی بصارت چلے جانے کا احساس نہ ہوا ۔ آخری بیماری میں جب صحت مند بائیں آنکھ میں موتیا اُتر آیا تو انھیں اُس وقت محسوس ہوا کہ اُن کی ایک آنکھ پہلے ہی سے ناکارہ ہے۔ ابتدائی تعلیم قدیم اور روایتی طرز کے مکتب میںحاصل کی۔ پہلے انھیں مولانا غلام حسن کے مکتب میں بٹھایا گیا۔ بعدازاں مولوی میر حسن کے مکتب میں درس لینے کے بعد اُنہی کے مشورے پر انھیں سیال کوٹ کے سکاچ مشن اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہاں سے پانچویں جماعت کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کرنے پر وظیفہ ملا۔ ۱۸۹۱ء میں مڈل اور ۱۸۹۳ء میں میٹرک پاس کیا ۔ آپ کی ذہانت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ اسکول میں دیر سے آنے پر ماسٹر صاحب نے باز پُرس کی تو اقبال بے ساختہ جواب دیا: ’’اقبال دیر ہی میں آتا ہے ‘‘۔ ایک دفعہ اقبال ؒاپنے استاد محترم مولوی میر حسن کے گھر کے لیے بازار سے سودا سلف خرید کر واپس آئے تو راستے میں میر حسن صاحب سے ملاقات ہوگئی ۔ انھوں نے اقبال کو دیکھتے ہی کہا :’’تمھیںکتنی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ بازار سے ہمارے لیے سودا سلف نہ لایا کرو۔ تم میرے شاگرد ہو، نوکر نہیں۔‘‘ اس پراقبال نے مسکرا کر جواب دیا: ’’جناب ، میں آپ کا شاگرد نوکر ہوں۔‘‘ اقبال نے سکاچ مشن کالج (مرے کالج)سیال کوٹ میں داخلہ لیا۔ یہیں سے ایف اے کیا۔ انھوں نے جس ماحول میں تعلیمی مراحل طے کیے ، اُس کی ایک جھلک اقبال کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے: ’’جب میں سیال کوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا۔ والد صاحب اپنے اوراد و وظائف سے فرصت پا کر آتے اور مجھے دیکھ کر گزر جاتے ۔ ایک صبح وہ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا :’’کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتائوں گا ۔‘‘ بالآخر انھوں نے ایک مدت کے بعد یہ بات بتائی۔ ایک دن صبح جب میں حسبِ دستور قرآن کی تلاوت کر رہا تھا تو وہ میرے پاس آئے اور فرمایا :’’ بیٹا ! کہنا یہ تھا۔ کہ جب تم قرآن پڑھو تو یہ سمجھ کر پڑھو کہ یہ قرآن تم پر ہی اُترا ہے، یعنی جیسے اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہے۔‘‘ لاہور میں آمد اُن دنوں سکاچ مشن کالج ، سیال کوٹ میں بی اے کی کلاسوں کا اجراء نہیں ہوا تھا(اُس وقت تک وہ مَرے کالج کے نام سے منسوب نہیں ہوا تھا) ۔ چناںچہ اقبالؒ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لے لیا ۔۱۸۹۷ء میں بی اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا اور عربی میں اوّل آنے پر وظیفے کے علاوہ سونے کے دو تمغے بھی حاصل کیے ۔ ۱۸۹۷ء میں انھوں نے ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لیا، جہاں انھیں سر ٹامس آرنلڈ کی شاگردی کا فخر حاصل ہوا۔ آرنلڈ لاہور آنے سے پہلے علی گڑھ میں دس سال تک فلسفہ پڑھا چکے تھے، اور اس دوران میں انھوں نے مولانا شبلی سے عربی کی تعلیم حاصل کر لی تھی ۔ جب آرنلڈ ہندوستان چھوڑ کر لندن روانہ ہوئے تو اقبال نے ایک نظم ’’نالۂ فراق‘‘ بہ طور یاد گار لکھی ،جس کے چند اشعار یہ ہیں۔ جا بسا مغرب میں آخر، اے مکاں تیرا مکیں! آہ! مشرق کی پسندآئی نہ اس کو سرزمیں کشتۂ عزلت ہوں ، آبادی میں گھبراتا ہوں میں شہر سے سودا کی شدت میں نکل جاتا ہوں میں ذرّہ میرے دل کا ، خورشید آشنا ہونے کو تھا آئینہ ٹوٹا ہوا، عالم نما ہونے کو تھا نخل میری آرزوئوں کا ، ہرا ہونے کا تھا آہ! کیا جانے کوئی، میں کیا سے کیا ہونے کو تھا اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم تیرے دَم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم کھول دے گا دستِ وحشت عقدۂ تقدیر کو توڑ کر پہنچوں گا ، میں پنجاب کی زنجیر کو دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریرکو! ’’تابِ گویائی نہیں رکھتا دہن تصویر کا خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویرکا ۱۸۹۹ء میں ،یعنی سرسید کے انتقال سے ایک برس بعد، اقبال نے ایم اے پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اوّل آنے پر نواب علی بخش گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اب وہ اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے ریڈر مقرر ہوئے۔ تنخواہ ۷۳ روپے ماہ وار تھی۔ آپ بھاٹی گیٹ کے قریب رہتے تھے۔ انہی ایام میں علی بخش جیسا جان نثار ملازم ملا، جس نے خدمت کا حق ادا کر دیا۔ بعدازاں آپ کو گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ کی اسسٹنٹ پروفیسری مل گئی، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ انگریزی بھی پڑھانے لگے ۔ یہ ملازمت ۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء تک رہی۔ اس کے بعد آپ نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کالج سے چھٹی لے لی اور یوں پڑھانے کا یہ سلسلہ عارضی طور پر منقطع ہو گیا۔ شاعری کا آغاز اقبال نے سیال کوٹ کے سکاچ مشن کالج کی طالب علمی کے زمانے میں شعرکہنا شروع کر دیا تھا۔ پہلے پنجابی میں شعر کہتے رہے ۔ پھر مولوی میر حسن کے مشورے پر اردو میں کہنے لگے ۔ سیال کوٹ میں ہونے والے اردو مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ شاعری کی طرف اقبال کے رجحان کے پس منظر میں میر حسن کی ذات نظر آتی ہے۔ جو خود بھی اردو اور فارسی شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ مولانا میر حسن نے اقبال کو گلستان ، بوستان ، سکندر نامہ ، انوار سہیلی اور سہ نثر ظہوری کا درس دیا تھا، چناںچہ لڑکپن میں اقبال ؒکے ذہن سے کلام موزوں نکلے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جب اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اُن کا یہ شوق پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کر گیا ۔ اب وہ بہ ذریعہ خط وکتابت داغ کے شاگرد بن گئے اور انھیں اپنی غزلیں بہ غرضِ اصلاح بھیجنے لگے ۔ اُن دنوں داغ دہلوی حیدر آباد دکن کے دربار سے منسلک تھے۔ چند غزلوں میں معمولی سی اصلاح کے بعد داغِ نے انھیں صاف صاف کہہ دیا کہ اُن کا کلام اصلاح سے بے نیاز ہے۔ داغ دہلوی کے علاوہ اقبال ؒنے لاہور کے ایک ممتاز شاعر ارشد گورگانی سے بھی اصلاح لی۔ علاوہ ازیں اقبال لاہور کے مشاعروں میں باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے۔ یہ مشاعرے بازار حکیماں (اندرون بھاٹی گیٹ) میں ’’انجمن مشاعرہ اتحاد‘‘ کے زیرِ اہتمام منعقد ہوتے تھے ۔ اُن کے اس شعر نے پہلی مرتبہ مشاعرے کے سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ؎ موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے ایک اور مشاعرے میں اقبال کا کلام سُن کر مولانا شبلی نعمانی نے کہا: ’’جب آزاد ؔاور حالیؔ کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال ؔکو ڈھونڈیں گے۔‘‘ اقبال کے پیام کو عوام تک پہنچانے میں ’’انجمن حما یتِ اسلام ‘‘ کا بھی بڑا حصہ ہے۔ انجمن ہی کے پلیٹ فارم سے اقبال نے اپنی پہلی نظم ’’نالۂ یتیم ‘‘ سنائی تھی جس سے حاضرین ششدر رہ گئے تھے۔ یورپ کا سفر یورپ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خیال علامہ اقبال ؒکے ذہن میں کس طرح آیا؟ اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی ۔ دراصل کئی عوامل مل کر فیصلہ کُن ثابت ہوئے۔ ایک واقعہ تو اُن کا ’’ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر‘‘ کے لیے مقابلے کے امتحان میںبیٹھنا تھا۔ یہ امتحان ۱۹۰۱ء میں ہوا تھا ۔ اُمید تھی کہ اقبال اس میں امتیازی حیثیت سے کامیاب ہو جائیں گے ، لیکن میڈیکل بورڈ نے دائیں آنکھ کے پیدائشی نقص کی بنیاد پر ’’غیر موزوں ‘‘ قرار دے دیا۔ اس کھلی دھاندلی پر خوب شور مچا ۔ منشی محمد دین فوق اور منشی محبو ب عالم (مدیر ’’پیسہ اخبار‘‘) نے بہت احتجاج کیا، لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ شاید اسی واقعے سے دل برداشتہ ہو کر اقبال نے یورپ جانے کا فیصلہ کیا ۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے سے خاصی دل چسپی تھی۔ لاہور کے ’’لاء سکول‘‘ سے آپ نے وکالت کا امتحان پاس کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن قانونی پیچیدگیاں حائل ہوگئیں۔ جب آپ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد پر حکومت کے بعض افسروں نے جھوٹا مقدمہ چلایا ، تو آپ کا یہ احساس اور بھی شدت اختیار کر گیا ہوگا کہ انھیں قانون کی تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ یورپ جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش اپنے محبوب استاد سر ٹامس آرنلڈ کے لندن واپس چلے جانے سے اور بھی زیادہ شدید ہو گئی تھی ۔ غالباً انھوں نے بھی اپنے لائق شاگرد کو انگلستان آنے کی دعوت دی ہوگی ۔ اُس وقت تک آپ نے اپنی ملازمت سے کچھ رقم پس انداز کر لی تھی ، لیکن بیش تر اخراجات آپ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے برداشت کیے۔ اقبال نے ملازمت سے ’’بغیر تنخواہ ‘‘طویل چھٹی لی۔ اُس وقت شیخ عطا محمد ایم ای ایس ایبٹ آباد میں ملازم تھے۔ چناںچہ جب یورپ جانے کے لیے تمام تیاریاں مکمل ہوگئیں تو اقبال اپنے بھائی سے ملنے کے لیے ایبٹ آباد گئے ۔ا یبٹ آباد میں شام کے وقت آپ باغ کی سیر کو نکلے ، جہاں اب میونسپل کمیٹی کا دفتر ہے۔ اُس کے سامنے کھڑے ہو کر کوہ سربن سے اٹھنے والی گھٹا اور پل بھر میں بارش برسنے کا دل فریب منظر دیکھا اور اس سے متاثر ہو کر نظم ’’ابر‘‘ لکھی جو ’’بانگِ درا‘‘ میں شامل ہے ؎ اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ سربن کا گرج کا شور نہیں ہے ، خموش ہے یہ گھٹا عجیب میکدۂ بے خروش ہے یہ گھٹا جو پھول مہر کی گرمی سے سوچلے تھے ، اٹھے زمیں کی گود میں جو پڑ کے سورہے تھے ، اٹھے ہوا کے زور سے ابھرا، بڑھا ، اڑا بادل اٹھی، وہ اور گھٹا، لو! برس پڑا بادل ایک دو دن ایبٹ آباد میں قیام کے بعد واپس لاہور آ گئے۔ پھر دہلی گئے ۔ وہاں خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار پر گئے اور ’’التجائے مسافر‘‘ کے عنوان سے اپنا الوداعی سلام پیش کیا ۔ امیر خسرو اور غالب کے مزار پر بھی حاضری دی۔ ’’التجائے مسافر‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎ چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے کسی سے شکوہ نہ ہو، زیرِ آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو پھر آ رکھوں قدمِ مادر و پدر پر جبیں کیا جنھوں نے محبت کا رازداں مجھ کو وہ میرا یوسفِ ثانی ، وہ شمعِ محفلِ عشق ہوئی ہے جس کی اخوت ، قرارِ جاں مجھ کو شگفتہ ہوکے کلی دل کی پھول ہوجائے یہ التجائے مسافر قبول ہوجائے اس دُعا میں اقبال کے آئندہ ذہنی سفرکی منزلوں کے نشان صاف طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ ’’یوسف ثانی‘‘ اپنے بھائی شیخ عطا محمد کی طرف اشارہ ہے، جنھوں نے چھوٹے بھائی کا مستقبل بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اقبال یور پ میں انگلستان پہنچنے کے بعد اقبال نے اپنے استاد آرنلڈ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اُن کا قیام کسی ایسے گھر میں کر دیا جائے، جہاں ذبیحہ کا خاص انتظام ہو۔ یورپ میں یہودیوں کے ہاں ہی اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ چناں چہ انہوں نے ایک یہودی عورت کے ہاں جس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ تھی، قیام کیا۔ اس عورت کے ہاں قیام کے دوران اُن کی یہ عادت تھی کہ وہ رفع حاجت کے لیے لوٹا ساتھ لے جاتے تھے۔ مالکہ مکان نے ایک دن پوچھا کہ تم غسل خانے میں لوٹا کیوں ساتھ لے جاتے ہو۔ آپ نے فرمایا:’’ اسلامی طہارت کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ قضائے حاجت کے بعد صرف کاغذ یا مٹی کے ڈھیلے کا استعمال کافی نہیں ، بلکہ پانی سے استنجا کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘ اس سلسلے میں مزید گفتگو کے دوران انہوں نے طہارت کے اسلامی اُصول بیان کیے ۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ غسل جنابت مسلمان مرد اور عورت پر اس طرح فرض ہے جس طرح عورت پر طہر کا غسل ۔ پھر آپ نے اُس عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’بڑی بی ، آپ کو اس طرح کے کسی غسل کی حاجت نہ ہو گی ، البتہ طہارت کے لیے پانی ضرور استعمال کیجیے ۔‘‘ یہ باتیں سُن کر بڑی بی بہت خوش ہوئیں اور اسلامی قاعدے سے طہارت کرنے کا وعدہ کر لیا۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینٹی کالج میں داخلہ لے لیا ۔ اسی کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد لندن کے لاء کالج ’’لنکن اِن‘‘ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ اسی دوران میں آپ نے میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے ’’فلسفۂ عجم ‘‘ پر مقالہ لکھنے کا آغاز کر دیا۔ آپ نے اپنا مقالہ انگریزی میں لکھا ۔ ۲۸؍اگست ۱۹۰۷ء کو میونخ پہنچے۔ وہاں پروفیسر ران کی حَسین اور طرح دار بیٹی اُن کی معلّم اوراتالیق رہی ۔ ۳۰ ؍ اگست کو آپ ہائیڈرل برگ میں مقیم ہو گئے۔ (چناںچہ اب وہاں ایک تختی نصب کی گئی ہے جس میں اقبال کا نام اور اُن کے قیام کی تاریخیں درج ہے) ۴ نومبر ۱۹۰۷ء کو میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد دو بارہ لندن واپس آئے اور ’’لنکن ان‘‘ سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ اس کے علاوہ معاشیات اور سیاسیات کے مطالعے کے لیے ’’لندن سکول آف اکنامکس ‘‘ میں داخلہ لیا اور کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفۂ اخلاق کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈگری بھی حاصل کی۔ قیام یورپ کا زمانہ اقبال کی ذہنی نشو ونما میں ایک نہایت اہم دور قرار دیا جاسکتا ہے، کیوںکہ اس دور میں اقبال کے تخیلات میںبڑی اہم تبدیلیاں واقع ہوئیں اور انہوں نے اپنے لیے ایک منزل کا تعین کیا۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ انگلستان کی مادی خوش حالی سے پیدا ہونے والی لا دینی اور بے راہ روی نے اقبال پر اُلٹا اثر کیا اور یوں اسلامی تعلیمات و معاملات اور شعائر میں اُن کا شغف پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ۔ قیامِ یورپ کے زمانے کی جو معلومات ہم تک پہنچی ہیں، اُس کے لیے ہم اقبال کی ایک خاتون ، دانش ور دوست بیگم عطیہ فیضی کے مرہون منت ہیں ، جن کے ساتھ علامہ کی انگلستان اور جرمنی میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ اقبال کی دعوت پر وہ کچھ عرصہ جرمنی میں بھی رہیں اور پھر واپس ہندوستان لوٹ آئیں۔ مئی ۱۹۰۸ء میں لندن کے کیکسٹن ہال میں جسٹس سید امیر علی کے زیرِصدارت مسلمانانِ لندن کا اجلاس ہوا، جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی لندن کی شاخ کا افتتاح ہوا۔ سید امیر علی صدر اور اقبال مجلسِ عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔ اقبال نے کیمبرج یونیورسٹی میں اسلام اور اسلامی فلسفے پر نصف درجن مقالات لکھے ۔ ’’پان اسلامک سوسائٹی‘‘ کی تنظیم میں حصہ لیا ۔ انگلستان ، اسکاٹ لینڈ اور جرمنی کے مختلف علاقوں کے دورے کیے ۔ لندن میں اسلام پر کئی لیکچر دیے ۔ پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ لکھنے کے دوران عجمی تصوّف کا تحقیقی مطالعہ کیا، جس سے نظریۂ وحدت الوجود کا طلسم پاش پاش ہو گیا ۔ وطنیت کا جو تصور یورپی اقوام میں رائج تھا، اقبال نے اُس کا بھی بہ غور مشاہدہ کیا اور بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ وطنیت خود ایک بُت ہے اور اسے توڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ قیامِ یورپ کے دوران میں عملی جدوجہد کی برکتیں کچھ اس طرح روشن ہوئیں کہ اقبال نے شاعری کو ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن شیخ عبدالقادر اور سر آرنلڈ کے اصرار پر یہ ارادہ ترک کرنا پڑا ۔ اس سلسلے میں جو دوسری اہم تبدیلی واقع ہوئی وہ فارسی کو اپنے اظہار کے لیے برتنا تھا۔ اب اقبال نے زیادہ تر فارسی ہی کو اپنے خیالات کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ قیامِ یورپ کے آخری ایّام میں پروفیسر آرنلڈ کی رخصت کے دوران چھ ماہ تک لندن میں عربی کے پروفیسر رہے اور تین برس کے قیام کے بعد متعدد ڈگریوں کے ساتھ واپس وطن لوٹے۔ یورپ سے واپسی یورپ سے واپسی کے بعد اقبال پہلے بمبئی میں اپنے دوستوں سے ملے ۔ اس کے بعد انہوں نے دہلی میں خواجہ نظام الدین اولیائ، امیر خسرواور غالب کے مزار پر دوبارہ حاضری دی اور انبالہ میں احباب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد ۲۷؍جولائی ۱۹۰۸ء بروز دوشنبہ ، دوپہر کی ریل گاڑی سے لاہور پہنچے ۔ دوست اور عقیدت مند اپنی معیت میں بھاٹی دروازے لے گئے ، جہاں باغ میں شامیانے نصب کر کے چائے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب سے فارغ ہو کر آپ اُسی دن سیال کوٹ اپنے والدین سے ملنے چلے گئے ۔ تین چار روز کے بعد اقبال ؒکے بڑے بھائی شیخ عطا محمد لاہور آئے اور مرزا جلال الدین بیرسٹر کے ذمے ایک دفتر کرایے پر لینے کا کام سونپ گئے۔ چناں چہ مرزا صاحب نے موہن لال روڈ (اردو بازار) پر منشی گلاب سنگھ کے مطبع مفید عام کے سامنے ایک مکان کرایے پر لیا۔ بڑے بھائی اور بعض احباب کا اصرار یہ تھا کہ اقبال ضلع کچہری میں وکالت کریں، لیکن خود اقبال نے چیف کورٹ میں پریکٹس کرنے کو ترجیح دی ۔ چناں چہ دو تین ماہ کے بعد انہوں نے یہ مکان چھوڑ کر انارکلی بازار کا وہ بالا خانہ کرایے پر حاصل کر لیا ، جس میں اس سے پہلے سر محمد شفیع بھی کافی عرصے تک قیام کر چکے تھے ۔ اسی مکان میں دفتر بھی تھا اور سکونت بھی۔ وکالت کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں ڈیڑھ سال تک ایم اے کی کلاسوں کو فلسفہ اور بی اے کی کلاسوں کو انگریزی پڑھاتے رہے ۔ وکالت کے زمانے میں علامہ اقبال کے منشی ’’منشی طاہر الدین ‘‘ تھے (یہ وہی صاحب ہیں جن کی ایجاد کردہ دوا ’’دل روز‘‘ کافی مقبول ہوئی۔) بہ حیثیتِ وکیل اقبال نے ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۳۴ء تک کام کیا۔ اُن کی دوسری دل چسپیاں کچھ ایسی تھیں کہ وہ اپنی پوری توجہ قانون کے پیشے کو نہ دے سکے۔ چناں چہ اس میں کوئی خاص شہرت حاصل نہ کر سکے۔ ۱۹۱۷ء میں سر اکبر حیدری نے قانون کی پروفیسری کے لیے حیدر آباد آنے کی دعوت دی اور لکھا کہ آپ کو پرائیویٹ پریکٹس کی اجازت ہوگی ، لیکن آپ نے یہ ملازمت قبول نہ کی ۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے بھی آپ کو پروفیسری کی پیش کش کی۔گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی تاریخ کی پروفیسری کی پیشکش ہوئی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد میں بحیثیت پرنسپل تقرری کی تجویز پیش ہوئی۔ لیکن آپ نے یہ تمام ملازمتیں قبول نہیں کیں۔ وجہ یہ تھی کہ اقبال اظہارِ رائے کی آزادی کو کسی بھی قیمت پر قربان کرنا نہیں چاہتے تھے۔ زندگی کو اپنے نصب العین کی روشنی میں ایک خاص ڈھب سے گزارنے کے لیے انہوں نے چند اُصول بنائے ہوئے تھے ، جن پر عمل کرنے کو وہ ہر چیز پر مقدم سمجھتے تھے۔ دوسری گول میز کانفرنس حکومتِ برطانیہ نے ہندوستان کے آئینی مسائل کے حل کے لیے دوسری گول میز کانفرنس کا اعلان کیا جو دسمبر ۱۹۳۱ء میں لندن میں منعقد ہونے والی تھی۔ اس میں شرکت کے لیے مولانا شوکت علی، مولانا شفیع دائودی ، سر آغا خان ، محمد علی جناح اور علامہ اقبال کو بھی مدعو کیا گیا۔ انہی ایام میں علامہ اقبال کو مزید دو دعوتیں موصول ہوئیں۔ پہلی دعوت روم اکیڈمی کی طرف سے تھی۔ مفتیِ اعظم فلسطین سید امین الحسینی نے عالم اسلام کے اتحاد کا ایک جامع منصوبہ بنایا اور تمام اسلامی ممالک کے نمائندوں کو بیت المقدس آ کر تبادلۂ خیال کی دعوت دی ۔ علامہ اقبال کو بھی شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ علامہ اقبال ۸؍اگست ۱۹۳۱ء کو لاہور سے روانہ ہوئے اور دوسرے دن دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے جہاں کوئی تین ہزار افراد آپ کے انتظار میں جمع تھے ۔ جوں ہی گاڑی رُکی اور آپ اپنے ڈبے سے باہر نکلے ، ہجوم نے نعرئہ تکبیر بلند کیا اور پھولوں کی بارش شروع کر دی ۔ آپ نے مختصر سا خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’میرے ساتھ نہ تو کوئی پرائیویٹ سیکرٹری ہے اور نہ سیاسی لٹریچر کا پلندہ جس پر اپنے دلائل کی اساس قائم کروں ۔ میرے ساتھ حق و صداقت کی ایک جامع کتاب ’’قرآن مجید ‘‘ ہے ، جس کی روشنی میں مسلمانانِ ہند کے حقوق کی ترجمانی کرنے کی کوشش کروںگا ۔‘‘ ۲۰ ؍ اگست کو پورٹ سعید پہنچے ۔ عدن کی بندرگاہ پر ساحلِ عرب کو دیکھ کر آپ پر عجیب و غریب جذباتی کیفیت طاری ہو گئی اور سر زمین عرب کو مخاطب کرتے ہوئے وہ یوںگویا ہوئے : ’’اے عرب کی مقدس سرزمین ، تجھ کو مبارک ہو۔ تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے ردکر دیا تھا ، مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا جادو کیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی… تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقشِ قدم دیکھے ہیں۔ کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذرّوں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اُڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحرائوں میں لُٹ جائوں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہوکر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اُس پاک سر زمین میں جا سکوں ، جس کی گلیوں میں اذانِ بلالؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ ‘‘ ۲۷؍اگست ۱۹۳۱ء کو اقبال انگلستان پہنچے اور اپنے سات سالہ فرزند جاوید اقبال کوبہ ذریعہ تارخیریت سے لندن پہنچنے کی اطلاع بھیجی ۔ اس اثنا میں مولانا غلام رسول مہر یورپ ہوتے ہوئے انگلستان پہنچ گئے ۔ ۱۸؍نومبر کو لندن کی ’’اقبال لٹریری ایسوسی ایشن ‘‘نے علامہ اقبال کے اعزاز میں ایک شاندار پارٹی کا اہتمام کیا، جس میں ہندوستان اور انگلستان کی منتخب علمی و سیاسی شخصیتوں نے شرکت کی۔ لفظ پاکستان کے خالق چودھری رحمت علی بھی شریکِ محفل تھے۔ اقبال کی تصنیف’’اسرارِ خودی‘‘ کے انگریز مترجم اور علامہ اقبال کو یورپ کے ادبی حلقوں میں متعارف کرانے والے پروفیسر نکلسن بھی موجود تھے۔ سروجنی نائیڈو بھی حاضر تھیں ۔ صدارت کے فرائض سر شیخ عبدالقادر نے انجام دیے ۔ گول میز کانفرنس کے دوران لندن میں اقبال کو اپنے فرزند جاوید اقبال کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط موصول ہوا، جس میں انہوں نے اپنے والد سے گراموفون لانے کی فرمائش کی تھی۔ گراموفون تو خیر وہ نہ لائے ، البتہ خط کے جواب میں ایک غزل لکھ کر بھیج دی: دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر مِرے ثمر سے مئے لالہ و فام پیدا کر میرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر۱ ؎ انگلستان سے واپسی میں اٹلی کی حکومت کی دعوت پر روم گئے ۔ مولانا غلام رسول مہر علامہ صاحب کے ساتھ تھے۔ معلوم ہوا کہ افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان غازی بھی روم میں مقیم ہیں۔ چناں چہ کوئی تین گھنٹے تک ملاقات ہوئی۔ جس میں انگلستان اور عالمِ اسلام کا مستقبل خاص طور پر زیرِ بحث رہا۔ ۲۷؍ نومبر کو مسولینی کی خواہش پر علامہ صاحب نے اُس سے ملاقات کی۔ رسمی مزاج پُرسی کے بعد مسولینی نے علامہ صاحب سے پوچھا :’’ میری فاشسٹ تحریک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ علامہ اقبال نے جواب دیا :’’ آپ نے ڈسپلن کے اصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے جسے اسلام اسلامی نظامِ حیات کے لیے بہت ضروری سمجھتا ہے، لیکن اگر آپ اسلام کا نظریۂ حیات پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہو سکتا ہے۔‘‘ مسولینی نے علامہ صاحب سے اٹلی کے قیام کے بار ے میں اُن کے تاثرات پوچھے ۔ آپ نے فرمایا :’’میں اطالویوں کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ ایرانیوں سے کافی مشابہت رکھتے ہیں اور بڑے ذہین و فطین ، خوبصورت اور فن پرست ہیں۔ ان کے پیچھے تمدن کی کتنی ہی صدیاں ہیں،مگر اِن میں خون نہیں۔‘‘ مسولینی نے اس پر حیرت کا اظہارکیا تو آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ’’ایرانیوںکو ایک فائدہ میسر رہا ہے جو اطالویوں کو میسر نہیں ، اور وہ یہ کہ ان کے اردگرد مضبوط اور توانا قومیں افغان ، کُرد اور ترک آباد ہیں جن سے وہ تازہ خون حاصل کر سکتے ہیں ۔ آپ اطالوی ایسا نہیں کر سکتے۔ ‘‘ اس پر مسولینی نے پوچھا : ’’اچھا ہم اہل اٹلی کو کیا کرنا چاہیے ؟‘‘ علامہ صاحب نے جواب دیا :’’یورپ کی تقلید سے منہ موڑ کر مشرق کا رُخ کرو۔ اس لیے کہ یورپ کا اخلاق ٹھیک نہیں۔ مشرق کی ہوا تازہ ہے ، اس میں سانس لو۔ ‘‘ مسولینی نے علامہ اقبال سے کوئی اچھوتا مشورہ طلب کیا جو خاص اٹلی کے حالات کے لیے موزوں ہو۔ انہوں نے فرمایا: ’’ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اُسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہ دو ۔ اس سے زیادہ آبادی کے لیے نئی بستیاں مہیا کی جائیں۔ ‘‘ مسولینی نے اس کی وجہ پوچھی تو علامہ صاحب نے فرمایا :’’شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے، اُس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی بھی کم ہوتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرّکاتِ شر لے لیتے ہیں۔‘‘ علامہ اقبال نے مزید کہا : ’’یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ میرے رسول ؐ نے تیرہ سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔‘‘ یہ حدیث سنتے ہی مسولینی کُرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مارتے ہوئے کہنے لگا : ’’کتنا خوب صورت خیال ہے ؟‘‘ علامہ صاحب نے ’’مسولینی ‘‘کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی تھی، جس کے چند اشعار یہ ہیں ؎ ندرتِ فکر و عمل کیا شے ہے ؟ ذوقِ انقلاب ندرتِ فکر وعمل کیا شے ہے ؟ ملت کا شباب چشمِ پیرانِ کہن میں زندگانی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوزِ آرزو سے سینہ تاب یہ محبت کی حرارت ! یہ تمنّا ، یہ نمود ! فصلِ گل میں پھول رہ سکتے نہیں زیرِ حجاب نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب فیض یہ کس کی نظر کا ہے ؟کرامت کس کی ہے ؟ وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب ۱؎ اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد جب مسولینی نے حبشہ پر چڑھائی کر دی تو آپ نے مسولینی کی جوع الارض کی حرص کی سخت مذمت کی ۔ ۱۸؍اگست ۱۹۳۵ء کو ایک نظم ’’ابی سینیا ‘‘ کے عنوان سے لکھی ۔ یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش تہذیب کا کمال ،شرافت کا ہے زوال غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش ہر گُرگ کو ہے بزۂ معصوم کی تلاش اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ روما نے کردیا سرِ بازار پاش پاش پیرِ کلیسیا! یہ حقیقت ہے دل خراش ۱؎ ایک دفعہ کسی نے علامہ اقبال کو لکھا کہ آپ نے مسولینی کے متعلق دو نظمیں لکھی ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس پر آپ نے مختصر سا جواب دیا :’’اگر اُس بندئہ خدا میں رحمانی اور شیطانی دونوں صفات موجود ہیں تو اس کا میرے پاس کیا علاج ہے؟‘‘ ایک روز علامہ اقبال اٹلی کے دورانِ قیام میں مولانا غلام رسول مہر کی معیت میں کولوسیم کے آثارِ قدیمہ دیکھنے لے لیے گئے ۔ ایک ماہر نے بتایا کہ روم کے اِن اکھاڑوں میں پچاس ہزار آدمی بہ یک وقت تماشا دیکھ سکتے تھے ۔ واپس اپنی قیام گاہ پر پہنچنے کے بعد مہر صاحب سے کہنے لگے : ’’ایک طرف قدیم رومی شہنشاہ تھے جنھوں نے ایک عظیم الشان عمارت اِس غرض کے لیے بنائی کہ پچاس ہزار انسان بیٹھ کر انسانوں اور درندوں کی لڑائی کا تماشا دیکھ سکیں۔دوسری طرف لاہور کی بادشاہی مسجد ہے جو اِس غرض سے تعمیر کی گئی ہے کہ ایک لاکھ بندگانِ خدا جمع ہو کر مساوات ، اخوت اور محبت کے سچے اور مخلصانہ جذبات کا مظاہرہ کر سکیں۔ اِس ایک مثال کو سامنے رکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام کتنی برکات کا سرچشمہ ہے۔‘‘ ۲۸؍نومبرکو آپ نے نیپلز کے کھنڈروں کی سیر کی اور عجائب گھر دیکھا ۔ ۲۰؍نومبر کو مصر کے لیے روانہ ہو گئے ۔ اقبال مصر میں قاہرہ میں آپ کی رہائش کا انتظام میٹرو پولیٹن ہوٹل میںکیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالحمید سعید بے نے رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ اس موقع پر مصری اخبار نویسوں نے آپ کو مجبور کر دیا کہ وہ مصری نوجوانوں کی تنظیم ’’شبانِ مصر‘‘ کے نام کوئی مختصر پیغام ضرور جاری کریں ۔چناں چہ آپ نے ایک کاغذ پر اپنا یہ پیغام لکھ دیا : ’’مصر کے نوجوانوں سے میری درخواست ہے کہ وہ رسولِ کریم ؐ کے وفادار رہیں ۔‘‘ ایک روز مصر کی بزرگ شخصیت سید محمد قاضی ابوالعزائم اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ علامہ سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ علامہ نے اُنہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا : ’’آپ نے کیوں تکلیف کی۔ میں خود آپ کی زیارت کے لیے آپ کے پاس چل کر آتا۔ ‘‘ فرمانے لگے : ’’خواجۂ دو جہاں آنحضور ؐ کا ارشاد ہے ، کہ جس نے دین سے تمسک حاصل کیا ہو، اُس کی زیارت کو جائو گے تو مجھے خوشی ہو گی۔‘‘ یہ بات سُن کر علامہ بے تاب ہو گئے اور اُن کے رخصت ہونے کے بعد روتے ہوئے فرمانے لگے :’’کیا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ مجھ جیسے گناہ گارکو متمسک بالدین سمجھ کر آنحضورؐ کے ارشاد کے اتباع میں بہ غرضِ خوشنودیِ رسولؐ ملنے آئے ہیں۔‘‘ مصر میں آپ کی ملاقات مشہور صحافی اور تاریخ داں ڈاکٹر محمد حسین ہیکل سے بھی ہوئی ۔۴دسمبر کی شام کو آپ نے ’’شبان المسلمین‘‘ سے انگریزی میں خطاب کیا۔ اگلے روز مسجد عمرو بن العاصؓ پہنچے۔ امام شافعی ؒکے مزار پر آپ دیر تک قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے۔ جامعۂ ازہر پہنچے اور کچھ دیر منطق ، تفسیر اور حدیث کے درس میں شریک رہے۔ اقبال فلسطین میں ۶دسمبر کو یہ حضرات بیت المقدس پہنچے ۔ استقبال کے لیے خود مفتیِ اعظم امین الحسینی تشریف لائے ۔ مؤتمر عالم الاسلامی کے افتتاحی اجلاس میںدنیا کے ہر اسلامی ملک سے نمائندے شریک تھے ۔ اجلاس کے بعد تمام شرکاء مسجد اقصٰی کی جانب روانہ ہوئے ۔ راستے میں آپ نے رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کی قبر پر فاتحہ پڑھی ۔ پھر مسجد اقصیٰ پہنچ کر نمازِ مغرب ادا کی گئی ۔ نمازِ عشا کے بعد مفتی اعظم نے اپنا خطبہ پڑھا ۔ اُن کے بعد اقبال نے تقریر کی۔ دوسرے اجلاس میں عہدہ داروں کا انتخاب ہوا۔ مفتی اعظم اتفاق رائے سے صدر منتخب ہوئے۔ چار نائب صدر منتخب کیے گئے جن میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ اقبال نے بعد میں ’’فلسطینی عرب سے‘‘ خطاب کرتے ہوئے ایک مختصر نظم بھی لکھی ؎ زمانہ اب بھی نہیں ، جس کے سوز سے فارغ میں جانتا ہوں ، وہ آتش ترے وجود میں ہے تری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لند ن میں فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے ! تیسری گول میز کانفرنس جب دوسری گول میز کانفرنس بھی ہندوستان کے آئینی مسائل حل نہ کر سکی تو حکومت انگلستان نے تیسری گول میز کانفرنس کا اہتمام کیا۔ یہ کانفرنس ۱۷؍نومبر ۱۹۳۲ء کو شروع ہوئی اور ۲۴ ؍ دسمبر کو ختم ہوئی۔ علامہ اقبال نے اِس کانفرنس میں شرکت کے علاوہ نپولین کے مزار پر حاضری دی، مشہور محقق میگ نون سے ملاقات کی ، جس نے دلائل سے ثابت کیا تھا کہ دانتے کی تصنیف ’’طربیۂ خداوندی‘‘ Divine Comedy اسلامی روایات و حکایات سے ماخوذ ہے ۔ پھر مشہور فلسفی برگساں سے بھی طویل ملاقات کی اور اُس کے نظریۂ زمان پر بحث کی ، جسے علامہ صاحب اسلامی تصوّر کے بہت قریب سمجھتے تھے۔ علامہ اقبال نے نپولین پر یہ نظم لکھی ، اس کے اشعار یہ ہیں ؎ راز ہے راز ہے تقدیر جہانِ تگ و تاز جو شِ کردارسے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز جوشِ کردار سے شمشیرِ سکندر کا طلوع کوہِ الوند ہواجس کی حرارت سے گداز جوشِ کردار سے تیمور کا سیلِ ہمہ گیر سیل کے سامنے کیا شے ہے نشیب اورفراز صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز ہے مگر فرصتِ کردار نفس یا دو نفس عوضِ یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز ۱؎ پروفیسر برگساں سے ملاقات کے دوران جب علامہ اقبال نے برگساں کو اسلامی تصورِ زماں کے سلسلے میں آنحضورؐ کی یہ حدیث سنائی : ’’زمانہ کو برُا مت کہو کہ زمانہ خود خدا ہے‘‘تو یہ حدیث سنتے ہی برگساں ششدر رہ گیا اور کُرسی سے اچھل کر آگے بڑھا اور اقبال سے پوچھنے لگا ’’کیا یہ واقعی حدیث ہے؟ ‘‘ مسجدِ قرطبہ اسپین کے سفر کے دوران جو چیز علامہ اقبال کے لیے سب سے زیادہ دل چسپی کا باعث بنی، وہ مسجد قرطبہ تھی جو مسلمانوں کے اسپین میں سات سو سالہ دورِ حکومت کی گواہ کے طور پر موجود تھی اور بڑی شان سے ایستادہ تھی ۔ اس مسجد کو گر جاگھر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اقبال نہ صرف اس مسجد کو دیکھناچاہتے تھے بلکہ یہاں نماز بھی پڑھنا چاہتے تھے ، لیکن رکاوٹ یہ تھی کہ اسپین کے قانون کے مطابق اس مسجد میں اذان دینا اور نماز پڑھنا ممنوع تھا۔ پروفیسر آرنلڈ کی کوشش سے اقبال کو اِس شرط کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دے دی گئی کہ وہ مسجد کے اندر داخل ہوتے ہی اند رسے دروازہ مقفّل کر دیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی اقبال نے اپنی آواز کی پوری قوت کے ساتھ اذان دی ’’اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ ‘‘ سات سو سال کے طویل عرصے میں یہ پہلی اذان تھی جو مسجد کے در و دیوار سے بلند ہوئی۔ اذان کے فارغ ہونے کے بعد اقبال نے مصلّٰی بچھایا اور دو رکعت نماز ادا کی ۔ نماز میں آپ پر اس قدر رقّت طاری ہوگئی کہ گریہ وزاری برداشت نہ کر سکے اور سجدے کی حالت میں بے ہوش ہو گئے۔ جب آپ ہوش میں آئے تو آنکھوں سے آنسو نکل کہ رُخساروں پر سے بہہ رہے تھے اور سکونِ قلب حاصل ہو چکا تھا ۔ جب آپ نے دُعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو یکایک اشعار کا نزول ہونے لگا ، حتیٰ کہ پوری دُعا اشعار کی صورت میں مانگی۔ اس دُعا کے چند اشعار یہاں نقل کئے جاتے ہیں : ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نوائوں میں ہے میرے جگر کا لہو راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی، ایک مری آرزو تجھ سے گریباں مرا مطلع صبحِ نشور تجھ سے مرے سینے میں آتشِ اللہ ہُو تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ تو ہی میری آرزو، تو ہی میری جستجو پھر وہ شرابِ کہن مجھ کو عطا کر ، کہ میں ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سُبو! تری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو ! فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا ؟ حرفِ تمنا جسے کہہ نہ سکیں روبرو ! ۱؎ علامہ اقبال مسجد قرطبہ کی شان و شوکت سے بڑے متاثر ہوئے۔ چناں چہ اُنھوں نے مسلمانِ ہسپانیہ کے شان دار ماضی کے پس منظر میں ’’مسجد قرطبہ ‘‘کے عنوان سے ایک طویل نظم لکھی ، جو علامہ کے نظریۂ حیات اور فنِ شعر کا شاہ کار ہے ؎ سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات اسپین کے مشہور دریا و ادالکبیر کے کنارے بیٹھ کر اقبال نے مسلمانوں کی نشاتِ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہوئے لکھا ؎ آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی ! دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب ! عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں ! میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھادوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روح امم کی حیات، کشمکشِ انقلاب صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر ۱؎ اسپین کے سفر کے بعد علامہ ۲۲ فروری ۱۹۳۳ء کو واپس وطن پہنچ گئے۔ اکتوبر میں سر راس مسعود اور سیّد سلیمان ندوی کی معیت میں تدوین نصاب کے سلسلے میں حکومتِ افغانستان کی دعوت پر بہ راہِ خیبر کابل گئے اوربہ براہِ غزنی و قندھار واپس آئے۔ اسی سال دسمبر ۱۹۳۳ء میں پنجاب یونیورسٹی نے اور اس سے اگلے سال علی گڑھ یونیورسٹی نے آپ کو ڈی لٹ (ڈاکٹر آف لٹریچر) کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ نادر شاہ والیِ افغانستان کو قرآن مجید کا ایک نسخہ پیش کرتے ہوئے ، اقبال نے شاہ کو مخاطب ہو کر فرمایا: ’’اہلِ حق کی یہی دولت ہے۔ اسی کے باطن میں حیاتِ مطلق کے چشمے بہتے ہیں۔ یہ ہر ابتدا کی انتہا اور ہر آغاز کی تکمیل ہے۔ اسی کی بدولت مومن خیبر شکن بنتا ہے۔ میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوز و گداز سب اسی کا فیضان ہے۔‘‘ سفرِ افغانستان کے علاوہ اندرونِ ملک بھی کئی شہروں کے دورے کئے ۔ متعدد بار بھوپال گئے ۔ حیدر آباد دکن گئے ۔ علی گڑھ ،کشمیر اور پانی پت گئے۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں ’’مدراس مسلم ایسو سی ایشن ‘‘ کی دعوت پرمدراس گئے جہاں آپ کا قیام تین یوم تک رہا ۔ مدراس میں آپ نے تین لیکچر دئیے ۔ باقی تین لیکچر حیدر آباد میں دیے ۔ یہ چھ لیکچر انگریزی میں تھے ۔ بعد میں ’’تشکیلِ جدید الٰہیات‘‘ کے عنوان کی کتابی صورت میں چھپے اور اردو میں ترجمہ ہوئے۔ ۱۹۳۴ء میں سر ہند کا سفر کیا اور حضرت مجدد الف ثانی ؒکے مزار پر حاضری دی۔ اس سفر میں آپ کے ہم راہ آپ کے فرزند جاوید اقبال بھی تھے ، جن کی عمر اُس وقت تقریباً دس سال تھی۔ سرہند جانے کے متعلق سیّد نذیر نیازی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ آج شام کی گاڑی میں سرہند جا رہا ہوں ۔ چند روز ہوئے، صبح کی نماز کے بعد میری آنکھ لگ گئی ۔ خواب میںکسی نے مندرجہ ذیل پیغام دیا: ’’ہم نے جو خواب تمہارے اور شکیب ارسلان (جو اتحادِ اسلامی کے زبردست داعی تھے) متعلق دیکھا ہے، وہ سرہند بھیج دیا ہے۔ ہمیںیقین ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔ پیغام دینے والا معلوم نہیں ہو سکا کہ کون ہے ۔ اسی خواب کی بناء پر وہاں کی حاضری ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جب جاوید پیدا ہوا تھا تو میں نے عہد کیا تھا کہ جب وہ ذرا بڑا ہو گا اسے حضرت مجدّد ؒکے مزار پر لے جائوں گا ۔ وہ بھی ساتھ جائے گا، تاکہ یہ عہد بھی پورا ہو جائے۔‘‘ آخری ایّام عُمر کے آخری حصے میں علامہ اقبال کو مختلف بیماریوں نے آ لیا۔ اُدھر اُن کی بیگم (والدۂ جاوید ) کی علالت کی وجہ سے اُن کی پریشانیاں بہت بڑھ گئی تھیں ۔ چناںچہ آپ وکالت کا کام جاری نہ رکھ سکے۔یوں آپ کی آمدنی گھٹ گئی اور گزر اوقات مشکل سے ہونے لگی۔ علامہ اقبال کے دوست سر راس مسعود آپ کی مالی پریشانیوں سے بہ خوبی آگاہ تھے ۔ چنانچہ اُنہی کی کوششوں سے نواب بھوپال کی طرف سے پانچ سو روپے وظیفہ مقرر کیا گیا۔ شکریے کے طور پر ، سر راس مسعود کو خط لکھا: ’’خدا تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے۔ انہوں نے میرے ساتھ عین وقت پر سلوک کیا۔ اب اگر صحت اچھی رہی تو بقیہ ایّام اُن کی خواہش کے مطابق قرآن شریف پر نوٹ لکھنے میں صرف کروں گا۔‘‘ دولتِ آصفیہ (حیدر آباد دکن) کے مدار المہام سر اکبر حیدری نے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا ۔ اس چیک کے ساتھ ایک خط بھی تھا جس میں سر اکبر حیدری کی طرف سے لکھا تھا :’’یہ رقم شاہی توشے خانے سے ہے جس کا انتظام میرے ذمے ہے۔ بطور تواضع بھیجی جا رہی ہے۔‘‘ ’’جس کا انتظام میرے ذمے ہے‘‘ خط کے یہ الفاظ علامہ اقبال کی خود دار طبیعت پر گراں گزرے چنانچہ آپ نے کہہ کر کہ شاید آپ لوگوں نے مجھے نہیں سمجھا چیک واپس کر دیا، اور اس واقعے سے متاثر ہو کر آپ نے ایک مختصر سی نظم بھی لکھی ، جس کے چند اشعار یہ ہیں: تھا یہ اللہ کا فرمان کہ شکوہِ پرویز دو قلندر کو ، کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر حسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات میں تو اس بارِ امانت کو اٹھاتا سرِدوش کام درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات صحت کی طرف سے جب مایوسی ہو گئی تو انہوں نے بچوں (جاوید اور منیرہ) کی توّلیت بعض عزیزوں اور دوستوں کو سونپ دی۔ رشید احمد صدیقی کی مساعی سے ایک جرمن خاتون نے اُن کا گائیڈ بننا قبول کر لیا۔ ۱۹۳۷ء کے موسم گرما میں مس ڈورالینڈ نے ، جسے عام طور پر بیگم حسین کے نام سے پکارا جاتا تھا، ’’جاوید منزل‘‘ کا چارج خود سنبھال لیا اور یوں علامہ اقبال کو ایک بڑی فکر سے نجات حاصل ہوئی۔ حج کی خواہش ناتمام آخری عمر میں علامہ اقبال کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح حج کر لیں اورمدینہ منورہ میں روضۂ نبوی ؐ پر حاضری دے سکیں ۔ ایک دفعہ عبدالرحمن طارق صاحب آپ سے ملنے کے لیے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی پر گئے ۔ سردیوں کے دن تھے اور آپ برآمدے میںبیٹھے دھوپ سینک رہے تھے۔ طبیعت پر ایک کیف اور وجد کا عالم طاری تھا۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔ آسمان کی طرف بار بار انگشتِ شہادت اٹھاتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں یہ شعر پڑھ رہے تھے ۔ ؎ ادب گاہیست ، زیرِ آسمان از عرش، نازک تر نفس گم کردہ می آید جنیدو بایزید ایں جا (ترجمہ: ’’آسمان کے نیچے ایک ایسی ادب گاہ ہے جو عرش سے بھی نازک تر ہے۔ یہاں تو جنید و بایزید جیسی بزرگ ہستیاں بھی ادب و احترام سے دم بہ خود حاضر ہوتی ہیں۔) تقریباً دس پندرہ منٹ تک یہی عالم رہا۔ جب طبیعت قدرے بحال ہوئی تو طارق صاحب نے عرض کیا ۔ ’’ آپ ادبِ گاہِ مدینہ کی زیارت کے لیے مدّت بے چین ہیں ۔ اِس آرزو کو کب عملی جامہ پہنائیں گے ؟‘‘ ایک آہِ سرد بھر کر فرمایا: ’’اللہ اور اُس کے رسولؐ نے حج کے لیے بھی کچھ شرائط عائد کر رکھی ہیں اور اُن میں سے اہم ترین شرائط یہ ہیں کہ انسان کسی کا مقروض نہ ہو۔ والدین اور بیوی بچوں کے لیے خرچ چھوڑ جائے اور حج کے لیے اس قدر زادِ راہ لے کر جائے کہ کسی کا محتاج نہ ہو ۔ میرے پاس نہ اتنی گنجائش ہے اور نہ میں یہ آرزو پوری کر سکتا ہوں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ فراق رسول ؐ میں مرغ بِسمل کی مانند تڑپ رہا ہوں اور اسی سوز و درد کا شب و روز لطف لیتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے علامہ کی آنکھوں سے دوبارہ آنسو ٹپکنے لگے اور اپنی یہ رباعی دو تین مرتبہ پڑھی ؎ غمِ راہی نشاط آمیزتر کن فغانش را جنوں آمیزتر کن بگیر اے سارباں راہ درازے مرا سوزِ جدائی تیز تر کن ترجمہ :’’ اے ساربان راہِ مجاز، اس راہی کے غم میں نشاط و خوشی کا مزید اضافہ کر، اور اس کے آہ و فغاں میں کچھ اور جنونِ عشق شامل کر۔ اے ساربان ! منزلِ محبوب کی جانب کوئی راہِ دراز اختیارکر اور یوں میرے سوزِ جدائی کو اور بھی تیز کر دے۔‘‘ وفات سے کچھ عرصہ پہلے بہاول پور کے ایک پیر صاحب کو حج کی تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر آپ کا شوق اور بھی تیز ہو گیا ۔ آپ نے سفرِ حج کے لیے باقاعدہ تیاریاں شروع کر دیں۔کسی نے کہا، صحت کی خرابی کے علاوہ آپ کی آنکھوں سے بھی پانی اُتر رہا ہے۔ اس حالت میں آپ حج کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں۔ اس پر آپ نے پُر جوش لہجے میں فرمایا : ’’ آنکھوں کا کیا ہے ؟ آخر اندھے بھی تو حج کر آتے ہیں۔‘‘ آخری بیماری آخری عُمر میںجبکہ علامہ کی بائیں آنکھ بھی جواب دے چکی تھی ، اُن کا حافظہ بہت تیز ہو گیا تھا اور انہیں اس بات پر کوئی افسوس نہ تھا کہ وہ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کر سکتے ۔ بیماری میں بھی خطوں کاجواب باقاعدگی سے لکھواتے تھے۔ کبھی جاوید سے ، کبھی نذیر نیازی صاحب سے اور کبھی کسی اور دوست سے خط لکھواتے۔ اب اُن کی دل چسپی کے دو محور تھے ۔ اوّل یہ کہ مسلمانوں کی بہتری کے لیے کہاں ، کیا کچھ ہو رہا ہے یا کچھ کرنا چاہیے ۔ دوم یورپ کے سیاسی حالات کیا کروٹ بدل رہے ہیں۔ چوں کہ انہیں جنگِ عظیم دوم کے برپا ہونے کا یقین تھا ، اس لیے یورپ کے حالات خاص طور پر پڑھوا کر سنتے تھے ۔ جب کوئی شخص اُن کی مزاج پُرسی اور عیادت کے لیے آتا تو اقبال اُس سے یہ ضرور پوچھتے : ’’ آج کیا خبر ہے ؟‘‘ بیماری کی حالت میں ایک رات کافی دیر تک گریہ زاری کرتے رہے ۔ کسی نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا :’’خدا جانے مسلمان قوم کا کیا حشر ہو گا۔ مجھے اس کا خیال رہ رہ کر ستاتا ہے۔‘‘ جب سے بیماری میں شدت آئی تھی ،صبح کی تلاوت چھوٹ گئی تھی ۔ آپ کسی سے قرآن پڑھوا کر سن لیتے ۔ اس دوران میں آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرتے رہے ۔ تلاوت کے چھوٹ جانے کا ذکر اِس شعر میں کس حسرت سے کیا ہے ؎ در نفس سوزِ جگر باقی نماند لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند ایک دفعہ علی بخش سے کہا کہ نماز پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ نماز کے لیے وہ خود تو وضو نہیں کر سکتے تھے ۔ علی بخش نے لیٹے لیٹے اُنھیں وضو کرا دیا ۔ چناں چہ آپ نے چارپائی پر بیٹھ کر نماز پڑھی ۔ ۳؍مارچ ۱۹۳۸ء کو ضعفِ قلب اس قدر بڑھ گیا کہ غشی طاری ہو گئی۔ چنانچہ حکیم قرشی کا علاج شروع کیا گیا، جس سے حالت ذرا سنبھل گئی، لیکن یہ کیفیت دیر تک قائم نہ رہی اور تکلیف دوبارہ عود کر آئی ۔ اُن کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے تسکین کے چند کلمات کہے تو علامہ نے فوراً جواب دیا : ’’میں مسلمان ہوں اور موت سے نہیں ڈرتا ۔‘‘ اس کے بعد اپنا یہ شعر پڑھا ؎ نشانِ مردِ مومن باتو گویم چو مرگ آید تبسم برلبِ او ست ایک دفعہ ممتاز حسن انھیں ملنے کے لیے آئے ۔ اپنی بیماری کے بارے میں عجیب و غریب توجیہ کرتے ہوئے آپ نے قدرے مسکرا کر کہا :’’یہ جو میں زندگی اورکائنات کے بڑے بڑے راز آپ لوگوں کو بتاتا ہوں ، یہ بیماری اُس کی سزا ہے۔‘‘ ۱۹؍مارچ کو پائوں پر ورم آگیا اورجگر نے اپنا فعل سر انجام دینا کم کر دیا۔ ۲۵؍مارچ کو بیماری نے نہایت نازک صورت اختیار کر لی۔ ۲۰؍اپریل کو آقا مرتضیٰ احمد خاں عیادت کے لیے آئے ۔ عین اُسی وقت جاوید اقبال کو جو اُس وقت تیرہ سال کے تھے ، کمرے میں وارد ہوئے ۔ علامہ نے بیٹے کو مخاطب کر تے ہوئے کہا: ’’بیٹے !تم میرے پاس آ کر بیٹھا کرو۔ میں شاید چند روز کا مہمان ہوں۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ ابھی کم عُمر ہے، (اُس وقت جاوید چودہ سال کے تھے ۔) اس لیے آپ کی بیماری سے گھبرایا گھبرایا رہتا ہے ۔ علامہ نے فرمایا: ’’اسے ہر اُفتاد کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرنی چاہیے۔ ‘‘ ۲۰ ؍ اپریل کی رات علامہ اقبال کے پاس م ش (میاں محمد شفیع) ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجہ حسن اختر موجود تھے ۔ آخری رات کے متعلق جاوید اقبال اپنی تصنیف ’’مئے لالہ فام ‘‘ میں لکھتے ہیں : آخری رات عقیدت مندوں کا جم گھٹا تھا۔ میں کوئی دو بجے اُن کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ مجھے پہچان نہ سکے ۔ پوچھا : ’’کون ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا : ’’جاوید ہوں ‘‘۔ ہنس پڑے اور بولے : ’’جاوید بن کر دکھائو تو جانیں۔ ‘‘ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہو کر فرمایا : اسے جاوید نامہ کے آخر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید ‘‘ ضرور پڑھوا دیجیے ۔ ‘‘ شانوں میں درد ہونے لگا تو علامہ نے علی بخش کو شانے دبانے کے لیے کہا ۔ پھر اچانک لیٹے لیٹے اپنے پائوں پھیلا دیے ۔ اوپر کی طرف آنکھیں اٹھائیں اور بایاں ہاتھ دل پر رکھا اور دائیں ہاتھ سے سر کو تھامتے ہوئے کہا : ’’یا اللہ۔ ‘‘ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف ڈھلک گیا ، اور قبلہ رو ہو کر اپنی آنکھیں بند کر لیں اور پانچ بج کر چودہ منٹ پر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ۔ وفات سے دس منٹ پہلے اقبال نے اپنے بارے میں یہ رباعی کہی تھی جو وصال کے وقت آپ کے ہونٹوں پر جاری تھی ؎ سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سر آمد روزگارے ایں فقیرے دگر دانائے راز، آید کہ ناید باب نمبر ۲ پیامِ منظُوم علامہ اقبال کی فلسفیانہ شاعری کے بارہ مجموعے فارسی اور اردو میں شائع ہوئے ، چار اردو میں اور آٹھ فارسی میں ۔ یہاں ان بارہ مجموعہ ہائے کلام کا تعارف اُن کی ترتیب ِ طباعت و اشاعت کے لحاظ سے کرایا جا رہا ہے ۔ اِن مجموعوں میں شامل ہر شعر اور ہر مصرع نوجوانوں ہی کو مخاطب کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ (۱) اَسرارِ خودی فارسی زبان میں یہ مثنوی سب سے پہلے ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی ۔ اس مثنوی کا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ علامہ صاحب کے والد محترم نے ایک دفعہ اُن سے فرمائش کی تھی کہ وہ بوعلی قلندر کی مثنوی کے نمونے پر فارسی زبان میں ایک مثنوی لکھیں ۔ چناں چہ اقبال نے پہلے ۱۵۰ اشعار لکھے، لیکن پھر یہ خیال کر کے ان اشعار میں ان کا مافی الضمیر صحیح طریقے سے ادا نہیں ہو پایا ، اسے تلف کر دیا۔ چند سال بعد اسے دوبارہ لکھنا شروع کیا اور یہ کام ۱۹۱۴ء میں ختم ہوا ۔ اس مثنوی میں افلاطون اور خاص طور پر حافظ شیرازی کی شاعری پر تنقید کی گئی تھی ۔ اس پر حافظ کے معتقدین نے سخت طوفان برپا کر دیا ۔ جب یہ سلسلہ طول پکڑ گیا اور علامہ کے والد نے اُن سے حقیقتِ حال سے متعلق استفسار کیا تو اُنھوں نے جواب دیا :’’میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا ۔ میں نے صرف ایک اصول کی تشریح کی ہے ۔ اس کا افسوس ہے کہ مسلمانانِ وطن پر عجمی اثرات اس قدر غالب آ چکے ہیں کہ وہ زہر کو آبِ حیات سمجھتے ہیں۔ ‘‘ علامہ کے والد صاحب نے فرمایا کہ حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے بغیر اس اصول کی وضاحت کر دی جاتی تو اچھا ہوتا ۔ اقبا ل نے جواب دیا کہ یہ حافظ پرستی بھی تو بُت پرستی سے کم نہیں ۔ اس پر علامہ کے والد نے کہا کہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ نے تو غیر مسلموں کے خدائوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے ، اس لیے حافظ سے متعلق جن اشعار پر لوگوں کو اعتراض ہے، اُنہیں حذف کر دینا مناسب رہے گا ۔ علامہ نے مسکراکر اپنے والد کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا اور دوسرے ایڈیشن میں متعلقہ اشعار حذف کر کے اُن کی جگہ نئے اشعار لکھ دیے ۔ بہ حیثیتِ مجموعی ’’اسرارِ خودی ‘‘کو بہت سراہا گیا ۔ ایک صحبت میں ایران کے پروفیسر محمد کاظم شیرازی بھی موجود تھے ۔ جب یہ مثنوی پڑھی جا رہی تھی تو پروفیسر موصوف اشعار سُن کر جھوم رہے تھے اور ایک ایک شعر پر داد دے رہے تھے اور بار بار کہتے تھے : ’’کاش یہ شاعر ایران میں پیدا ہوا ہوتا ۔‘‘ ’’مثنوی اسرارِ خودی ‘‘ کو انگلستان میں بھی خوش آمدید کہا گیا ۔ پروفیسر نکلسن نے جب ’’اسرار خودی ‘‘ پڑھی تو وہ بہت متاثر ہوئے ۔ چناں چہ انھوں نے علامہ اقبال کو لکھا کہ وہ اس مثنوی کا انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہتے ہیں اور باقاعدہ اجازت کے خواہاں ہیں۔ جب یہ خط علامہ اقبال کو لاہور میں موصول ہوا تو وہ بے اختیار رو پڑے ۔ فقیر وحید الدین نے استفسار کیا تو آپ نے فرمایا : ’’میرے عوام جن کے لیے میں نے یہ کتاب لکھی ، نہ تو اس کی قدر و قیمت پہچانتے ہیں اور نہ اسے کوئی بڑا کام سمجھتے ہیں، لیکن یورپ جس کے لیے میں نے یہ کتاب نہیں لکھی ، میرا پیغام سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘ ۱۹۲۰ء میں ’’اسرارِ خودی ‘‘ کے انگریزی ترجمے کے ساتھ ہی علامہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ کئی نقادوں نے اس کتاب پر بیش قیمت تبصرے لکھے۔ امریکا کے دانش ور ڈاکٹر ہربرٹ ریڈ نے ۲۵ ؍ اگست ۱۹۲۱ء کو لکھا : ’’ میرے ذہن میں اگرکسی زندہ شاعر کا خیال آ سکتا ہے تو وہ ایک ہی ہے، اور وہ بھی لازمی طور پر ہمارا ہم قوم ہے نہ ہمارا ہم مذہب ۔ میری مراد اقبال سے ہے، جس کی مثنوی ’’اسرارِ خودی ‘‘ ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا، ڈاکٹر رینا لڈ نکلسن کے قلم سے اصل زبان فارسی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر میسرز میکملن پبلشرز کے اہتمام سے شائع ہوئی ہے۔ اس زمانے میں جبکہ ہمارے ہم وطن شاعر بلیوں اور بٹیروں پر تُک بندی سے اپنے یاروں کی ضیافتِ طبع کا سامان پیدا کر رہے تھے اور کیٹس کے انداز میں پیش پا افتادہ مضامین پر طبع آزمائی میں مشغول تھے، عین اس وقت لاہور میں یہ نظم تصنیف ہوئی،جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان نوجوانوں کے خیالات میں ایک محشر بپا کر دیا ہے………‘‘ (۲) رموزِ بے خودی ۱۹۱۸ء میں ’’اسرارِ خودی‘‘ کا دوسرا حصہ فارسی زبان میں ’’رموزِ بے خودی ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ۔ ’’اسرارِ خودی‘‘کے برعکس اس میں افراد کو خودی مٹانے کا درس نہیں دیا گیا ، بلکہ کہا گیا ہے کہ افراد اپنی خودی کی تکمیل کے بعد وسیع تر ملّت کے استحکام کے لیے اپنی خودی کو ملّت کی خودی میں ضم کر دیں۔ بعدازاں یہ جدّت پیدا کی گئی کہ ’’اسرارِ خودی‘‘ اور ’’رموزِ بے خودی‘‘ کو ’’اسرار و رموز ‘‘ کے نام سے یک جا کر کے ۱۹۴۰ء میں شائع کیا گیا ۔ ’’رموزِ بے خودی ‘‘ کا انگریزی ترجمہ پروفیسر آربری نے اور عربی ترجمہ عبدالوہاب نے کیا جو ۱۹۵۵ء میں قاہرہ سے شائع ہوا ۔ ترکی زبان میں دونوں مثنویوں کا ترجمہ ۱۹۵۰ء میں چھپا ۔ جسٹس ایس اے رحمن مرحوم نے اردو میں صرف پہلے حصے یعنی ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ترجمہ ’’ترجمانِ اسرار ‘‘ کے نام سے کیا ۔ (۳) پیامِ مشرق یہ بھی فارسی زبان میں ہے ۔ ۱۹۲۲ء کے اواخر میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب جرمن شاعر گوئٹے کی تصنیف ’’پیامِ مغرب ‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ۔ گوئٹے نے مشرقی ادبیات کا مطالعہ کیا تھا ، بالخصوص مولانا روم کی مثنوی سے کافی استفادہ کیا ، لیکن اُن کے فلسفے کے بہت سے حصوں سے اتفاق نہیں کیا اور اپنی ساری کوشش یہ ثابت کرنے میں صرف کر دی کہ مغرب ہی دنیائے انسانیت کے مسائل حل کرنے کی طرف رہنمائی کر سکتا ہے ۔ اس سے علامہ اقبال کے جذبۂ ملّی کو ٹھیس پہنچی اور انہوں نے گوئٹے کی تردید کرتے ہوئے ثابت کیا کہ جس علم سے آج مغرب فیض اٹھا رہا ہے ، وہ مشرق کا اور خصوصاً مسلمانوں کا ورثہ ہے۔ ’’پیامِ مشرق‘‘ کا انتساب افغانستان کے ایک سابق فرماں روا امیر امان اللہ خان نیازی سے کیا گیا ہے جس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کتاب کے دیباچے میںلکھا : ’’اس وقت دنیا میں اور بالخصوص مشرقی ممالک میں ہر ایسی کوشش ، جس کا مقصد افراد و قوم کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قومی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔ اسی بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرماں روائے افغانستان کے نام ِ نامی سے منسوب کیا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اِس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں ، اور افغانوں کی تربیت خاص طور پر ان کے مدّ نظر ہے۔ اس عظیم الشان کام میں خدا تعالیٰ اُن کا حامی و ناصر ہو۔‘‘ ’’پیامِ مشرق‘‘کے پہلے ایڈیشن پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ اس میں اہل عجم ہی کو کیوں مخاطب کیا گیا ہے اور عجم ہی کی بہتری کیوں چاہی گئی ہے ۔ چناں چہ دوسرے ایڈیشن میں اس اعتراض کے پیش نظر علامہ اقبال نے صفحہ اوّل پر یہ آیت لکھوا دی : ’’وَ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ‘‘ اس کتاب میں وہ معارف بیان کیے گئے ہیں جو افراد اور اقوام کی باطنی تربیت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ قوموں کا زوال ، اجتماعی افسردگی ، سیاستِ حاضرہ کی فریب کاریوں اور یورپ میں انسانیت کی مٹی پلید کیے جانے کے ذکر کے ساتھ ساتھ تسخیر کائنات ، میلادِ آدم ، افکارِ ابلیس ، ہبوطِ آدم اور قیامت کا قصّہ فلسفیانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ۱۹۵۶ء میں ’’پیامِ مشرق‘‘ کا فرانسیسی ترجمہ ’’میرو وچ ایرا‘‘ نے کیا۔ (۴) بانگِ درا یہ علامہ اقبال کا پہلا اردو شعری مجموعہ ہے جو پہلی مرتبہ ستمبر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا ۔ یورپ سے واپس آنے کے بعد علامہ کا ذوقِ سخن اس قدر بلند ہو گیا تھا کہ انہیں اپنے اولین اشعار دیکھ کر ندامت سی محسوس ہوتی تھی اور وہ اپنے اس سارے دفتر کو تلف کرنا چاہتے تھے۔ اس دوران میںہر طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ اردو کلام شائع کیا جائے۔ ۱۰ دسمبر ۱۹۲۳ء کو مولانا ظفر علی خان نے اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ کے اداریے میں علامہ پر زور دیا کہ وہ اپنا اردو کلام اشاعت کے لیے پریس میں دے دیں۔ چناں چہ انھیں اپنے عقیدت مندوں کی مرضی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا ۔ ابھی وہ ابتدائی تیاریاں کر رہے تھے کہ حیدر آباد دکن کے مولوی عبدالرزاق نے علامہ سے اجازت لیے بغیر حیدر آباد سے ’’کلیات اقبال ‘‘ شائع کر دی ۔ اقبال نے اس غیر قانونی بے قاعدگی کا فوری نوٹس لیا، لیکن سر اکبر حیدری کے توسط سے ایک ہزار روپے رائلٹی طے ہو جانے کے بعد علامہ نے انہیں اس شرط پر ’’کلیات اقبال ‘‘ فروخت کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ اس کی فروخت کو حیدر آباد تک ہی محدود رکھیں گے ۔ ’’بانگِ درا‘‘ علامہ صاحب کی تمام تخلیقات میں سب سے مقبول اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والا مجموعۂ کلام ہے۔ (۵) زبورِ عجم اس کا پہلا ایڈیشن جون ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا ۔ علامہ صاحب نے پہلے اس کتاب کے لیے ’’زبورِ جدید ‘‘ کا نام تجویز کیا تھا، لیکن بعد میں ’’زبورِ عجم ‘‘ رکھا گیا۔ اس مجموعے میں فارسی کی ۶۶ غزلیں ہیں، جن میں عشق ، عاشق ، معشوق ، شراب ، جام ، صراحی اور رُخسار کی پُرانی عجمی اصطلاحات کو بالکل نئے معنی اور پیرائے میں استعمال کیا گیا ہے۔ اب عشق کا تعلق عاشق اور معشوق سے نہیں رہا ۔ بلکہ انسان ، خدا اور اقبال کی مثلث کے اندرہی گھومتا ہے۔ اب عشق سے مایوسی اور قنوطیت پیدا نہیں ہوتی ، بلکہ رجائیت اور اُمنگ پیدا ہوتی ہے۔ ’’زبورِ عجم‘‘ کا دوسرا حصہ ’’گلشنِ راز جدید ‘‘کے نام سے شامل ہے، جو مثنوی کی طرز پر، تصوّف کے موضوع پر شیخ محمود شبستری کی مشہور تصنیف ’’گلشنِ راز ‘‘ کے جواب میں لکھی تھی۔ تیسرا حصہ ’’بندگی نامہ‘‘ہے، جس میںانھوں نے غلامی کے بُرے اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے اور آزادی کے لیے ایک نیا ولولہ اور جوش پید اکیا ہے، اور اسی حوالے سے آزاد اور غلام قوموں کے فنِ تعمیر اور دیگر فنون لطیفہ پر تبصرہ کیا ہے ۔ بہ حیثیت مجموعی ’’زبورِ عجم ‘‘ بدحال اور بے آسرا افراد کی اخلاقی پستیوں کا تذکرہ ہے، جن کو مایوسی سے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ (۶) جاوید نامہ علامہ اقبال نے اٹلی کے شاعر دانتے کی شاعرانہ تصنیف ’’المیۂ خداوندی‘‘ (ڈیوائن کامیڈی) کے جواب میں، تین سال کی شبانہ روز محنت شاقہ کے بعد ’’جاوید نامہ‘‘ لکھ کر ۱۹۳۲ء میں شائع کیا۔ یہ دراصل ’’معراج نامہ ‘‘ ہے، جس میں علامہ تخیل کے پر لگا کر افلاک کی سیر کرتے ہیں ۔ اس ذہنی و روحانی معراج کے دوران اُن کی ملاقاتیں کئی مسلم اور غیر مسلم مشاہیر سے ہوتی ہیں ۔ مسلم مشاہیر کے ساتھ ساتھ غیر مسلم مشاہیر کا ذکر کرنا علامہ اقبال کی وسیع المشربی اور وسعتِ قلبی کی دلالت کرتا ہے۔ ’’جاوید نامہ ‘‘ میں علم ، عقل اور عشق کا موازنہ پیش کیا گیا ہے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑنے والوں کا بھی ذکر ہے ۔ کشمیر جنت نظیر کی زبوں حالی اور کسمپرسی کا بیان بھی ہے۔ کتاب کے آخر میں ’’خطاب بہ جاوید‘‘ (سخنے بہ نثرادِ نو) شامل ہے جو نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے خاص چیز ہے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ علامہ اقبال کی نہایت اہم تصنیف ہے۔ اس کا ترکی زبان میں ترجمہ ڈاکٹر این میری شمل نے ۱۹۵۸ء میں انقرہ سے شائع کیا۔ اٹلی میں بوسانی نے اسے جرمن زبان میں منتقل کیا ۔ (۷) بالِ جبریل یہ اردو کا دوسرا مجموعۂ کلام ہے جو ’’بانگِ درا ‘‘کی اشاعت کے گیارہ سال بعد ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ پہلے اس مجموعے کا نام ’’نشانِ منزل‘‘ تجویز ہوا تھا ۔ ’’بالِ جبریل ‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کی فکر اُس آخری نقطے تک پہنچ چکی ہے جو وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا مقام اتصال ہے۔ یہ نوری نقطہ انسان کی خودی ہے ۔ اقبال نے اس موضوع کے مختلف پہلوئوں کو طرح طرح سے اپنی جولان گاہِ فکر بنایا ہے اور شاعرانہ لطافت بیان سے اس خشک اور سنجیدہ ترین عُقدے کی گرہ کشائی میں طبع رسا اور توجۂ کامل کی تمام توانائیاں اور رعنائیاں صرف کر دی ہیں۔ (۸) مثنوی مسافر یہ مثنوی ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی ۔ یہ فارسی میں ہے ۔ والیِ افغانستان نادر شاہ نے افغانستان میں تعلیمی اصلاحات کی غرض سے ہندوستان کی تین مقتدر شخصیتوں کو افغانستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی ۔ علامہ اقبال کے علاوہ سر راس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندوی بھی شریکِ سفر تھے ۔ علامہ صاحب نے افغانستان کا سفر کرنے کے بعد اپنے تاثرات اس ’’مثنوی ‘‘ کی صورت میں ظاہر کیے تھے ۔ (۹) ضربِ کلیم ’’بانگِ درا‘‘ کے بعد علامہ کی شاعری کا ارتقائی زینہ ’’بالِ جبریل‘‘ اور ’’ضربِ کلیم‘‘ہیں جو ’’بانگِ درا‘‘ ہی کے بطن سے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ اِن دونوں مجموعوں کا دائرۂ فکر زیادہ وسیع اور آفاق گیر ہے ۔’’بالِ جبریل‘‘ کی اشاعت سے اگلے برس ۱۹۳۶ء میں ’’ضرب کلیم ‘‘ شائع ہوا ۔ ’’ضربِ کلیم‘‘ میں اقبال کے دل و دماغ پر فلسفہ اپنی بھرپور طاقت سے غالب نظر آتا ہے ، اور امرِ واقعہ یہ ہے کہ اس مقام پر وہ ایک بے نظیر متکلم کی طرح دکھائی دیتے ہیں ۔ فلسفہ تشکیک کی گرد سے آلودہ ہے، لیکن اعلیٰ علم کلامِ دلیل و بُرہان کی رُو سے مسائل سلوک و عرفان کا حل پیش کرتا ہے ۔ پہلے اس مجموعے کے لیے ’’صورِ اسرافیل ‘‘ کا نام تجویز ہوا تھا ، لیکن بعد میں یہ نام ’’ضربِ کلیم ‘‘ سے بدل دیا گیا ۔ یہ کتاب نواب سر حمید اللہ خان ، نواب بھوپال کے نا م سے منسوب ہے ۔ اس کا فارسی ترجمہ خواجہ عبدالحمید عرفان نے ۱۹۵۷ء میں کیا۔ انگریزی ترجمے کی سعادت ۱۹۴۷ء میں وی ایس کرنان کو حاصل ہوئی ، جنہوں نے اسے نہایت اہتمام سے بمبئی سے شائع کیا ۔ (۱۰) پس چہ بایدکرد ، اے اقوامِ مشرق یہ فارسی مثنوی ۱۹۳۶ء میں ’’ضربِ کلیم ‘‘ کی اشاعت کے فوراً بعد شائع ہوئی ۔ اس مثنوی کی تخلیق کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ۱۳ ؍ اپریل ۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال بھوپال کے شیش محل میں سوئے ہوئے تھے کہ رات کے تین بجے سر سید نے اُن سے خواب میں پوچھا : ’’اقبال، تم کب سے بیمار ہو؟ ‘‘ علامہ نے جوب دیا : ’’دو سال سے ‘‘ ۔ سر سید نے فرمایا : ’’حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کیوں التجا نہیں کرتے۔ ‘‘ اس پر اُن کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے عرض داشت کے طور پر چند اشعار کہے جو بعد میں مثنوی کی شکل اختیار کر گئے ۔ باب نمبر ۳ پیامِ اقبال کا ارتقا نوجوان یا نئی نسل یا اقبال کی اصطلاح میں نژادِ نو سے کیا مراد ہے ؟ نئی اور پرانی نسل میں کیا فرق ہے ؟عموماً ایک نسل کا زمانہ تیس سال کے قریب بتایا گیا ہے۔ جب بچے جوان ہو جاتے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں خود سنبھال لیتے ہیں تو وہ پرانی نسل کا حصہ بننے لگتے ہیں، یعنی تیس پینتیس سال کی عمر تک تو انسان نئی نسل کا نمائندہ ہوتا ہے ، اور اس کے بعد پرانی نسل کا فرد بن جاتا ہے ، مگر نئی اور پرانی نسل میں امتیاز کرنا اور ان کے درمیان کوئی واضح لکیر کھینچنا ممکن نہیں ، کیونکہ ہر لمحہ نئی نسل پرانی نسل میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارا مستقبل حال میں اور حال ماضی میں تبدیل ہو رہا ہے، اس لیے اگر کسی ایک وقت میں ایک نسل نئی ہوتی ہے تو ذرا آگے چل کر وہی نسل پرانی ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی اور پرانی نسل (بچے، جوان ، بوڑھے) بیک وقت موجود ہوتی ہیں،مگر جو بات یہاں خاص طور پر ذہن نشین ہونی چاہیے ، وہ یہ ہے کہ نئی نسل، پرانی نسل سے اپنے جذباتی اور فکری رویوں میں مختلف ہوتی ہے۔ نئی نسل کے افراد میں فکر کی کمی اور جذبے کی فراوانی ہوتی ہے، جب کہ پرانی نسل میں جذبے کی کمی اور فکر کی زیادتی ہوتی ہے۔ وہ سوچتے زیادہ،مگر عمل کم کرتے ہیں ۔ اس اصول میں استثنا کی گنجائش موجود رہتی ہے، مگر عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ نئی نسل کے افراد نوجوان ہوتے ہیں اور ان کے جسم میں زیادہ توانائی ہوتی ہے ، اس لیے وہ اپنے مستقبل سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔ ایک نوجوان کو مادّی دولت کی اتنی پروا نہیں ہوتی ، جتنی ایک بوڑھے شخص کو ہوتی ہے۔ نئی نسل عموماً مالی و اقتصادی ذمہ داریوں سے آزاد ہوتی ہے اور اسے اپنے آپ پر اعتماد ہوتا ہے کہ وہ دولت کے بغیر بھی زندگی بسرکرسکتی ہے، جبکہ پرانی نسل دولت کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ دراصل عملی زندگی نے( اورخصوصاً پرانی نسل نے) نوجوانوں کو یہی سبق پڑھایا ہوتا ہے کہ دولت زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے اور اس سے سارے کام بنائے یا بگاڑے جا سکتے ہیں ، مگر نوجوان مادی دولت کے اس طلسماتی اثر سے آزاد ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوتِ بازو سے دولت پیدا کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ جہاں پرانی نسل جہیزوغیرہ کا مطالبہ کرتی ہے ، وہاں نئی نسل پیسے کی بجائے محبت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ان کے نزدیک انسان دولت سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے ۔ بوڑھے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں، جبکہ نوجوان بے خطر آتش نمرود میںکود پڑتے ہیں ۔ پرانی نسل عقل کے سہارے چلتی ہے تو نئی نسل جذبے (بہ قول اقبال عشق) کی قوت سے انقلاب برپا کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی تمام امیدیں نئی نسل سے وابستہ کر دی ہیں۔ چنانچہ وہ نوجوانوں کے لیے دعا مانگتے ہیں : اے خدا ع جوانوں کو پیروں کا استادکر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نئی نسل کے کچھ افراد ذہنی طور پر پرانی نسل سے، اور اسی طرح پرانی نسل کے کچھ افراد ذہنی طور پر نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لہٰذا نئی اور پرانی نسل کا ذکر کرتے ہوئے عمر سے زیادہ ’’روّیے‘‘ کو اہمیت حاصل ہے ۔ عمر کا وہ حصہ جہاں نئی اور پرانی نسل کا سنگم ہوتا ہے، بڑا اہم اور پر اثر ہوتا ہے۔ زمانہ ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے ، مگر بعض افراد زمانے کا ساتھ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اور بعض افراد میں یہ اہلیت نہیں ہوتی ۔ جب نوجوان نئی ذمہ داریوں سے آشنا ہوتے ہیں تو ان پر بڑا نازک وقت ہوتا ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’بزمِ انجم‘‘ میں اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔ آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں اگر پرانی نسل کے افراد نئے زمانے (نئی نسل) کے تقاضوںکو نہ سمجھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُن کا ذہنی ارتقا رُک گیا ہے ۔ ایسی صورت میںنئی اور پرانی نسل میں بُعد (Generation gap) پیدا ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نئی نسل کے تمام افکار و اعمال درست ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نئی نسل زمانے کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے اور اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل میں الجھا لے۔ علامہ اقبال کے وقت کی نئی نسل آج پرانی ہو چکی ہے، بلکہ اب تو دوسری، تیسری نئی نسل وجود میں آ چکی ہے۔ اقبال کے مخاطب نوجوان دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں یا پیرانہ سالی میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے کہ علامہ اقبال کے مخاطب صرف اُن کے عہد کے خاص نوجوان تھے ۔ انھوں نے شاہین نئی نسل ،نژادِ نو یا اپنے فرزند جاوید اقبال کے تلازمات کے ذریعے دراصل ہر دور اور ہر عہد کے مسلم نوجوانوںکو خطاب کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مستقبل میں آنے والے تمام ادوار کے نوجوان بھی اقبال کے پیغام سے مستفید ہوں گے ۔ پیامِ اقبال سے صرف وہی نوجوان منحرف ہو سکتے ہیں جو اپنے ماضی سے تعلق توڑ لے ، حال سے تغافل برتے اور مستقبل سے بے اعتنائی اختیار کرے۔ اقبال کی شاعری تین واضح ادوار میں منقسم ہے۔ اُن کی جوانی کی شاعری ، اُن کی پختہ سالی کی شاعری اور آخر میں اُن کے بڑھاپے کی شاعری ۔ لیکن یہ ایک عجیب و غریب اور حیرت انگیز بات ہے کہ اِن تینوں ادوار میں اُن کا مخاطب صرف نوجوان ہے، اور موضوعِ سخن بیش تر وہ جذباتی کیفیات رہی ہیں جو جوانی سے خاص ہیں۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اقبال اگرچہ اپنی جوانی ہی میں بلوغِ فکر کے اعتبار سے پختہ سال اور پختہ سالی میں پیر دانا ہو چکے تھے ، لیکن ان عناصر کے اعتبار سے اُن کی شاعری ، اُن کے فلسفے ، اُن کے جذبات ، اُن کے محسوسات ، اُن کے پیغام کے جو بنیادی عناصر ہیں، وہ ہمیشہ جوان رہے اور اُن کے سخن کی حرارت اور اُن کے پیغام کا خروش نوجوانوں کے خون کی روانی تیز کرتا اور اُنھیں تسخیرِ ذات اور تسخیرِ کائنات دونوں پر آمادہ کرتا رہا ۔ اقبال کی شاعری کا پہلا دور فطری طور پر مطالعے اور تیاری کا دور ہے ۔ اُن کی جوانی کی شاعری کے بارے میں شیخ عبدالقادر ’’بانگِ درا‘‘ کے دیباچے میں رقم طراز ہیں : ’’طبیعت زوروں پر تھی ۔ شعرکہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی ۔ ایک ایک نشست میں بے شمار شعر ہو جاتے تھے۔ اُن کے دوست اور بعض طالب علم جو پاس ہوتے، پینسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے اور وہ اپنی دُھن میں کہتے جاتے۔ میں نے اُس ابتدائی زمانے میں انھیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکرِ سخن کرتے نہیں دیکھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ اُبلتا معلوم ہوتا تھا ۔ ایک خاص کیفیت رقّت کی عموماً اُن پر طاری ہو جاتی تھی ۔ اپنے اشعار سُریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے۔ خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ یہ عجیب خصوصیت ہے کہ حافظہ ایسا پایا ہے کہ جتنے اشعار اس طرح زبان سے نکلیں، اگر وہ ایک مسلسل نظم کے ہوں تو سب کے سب دوسرے وقت اور دوسرے دن اسی ترتیب سے حافظے میں محفوظ ہوتے ہیں، جس ترتیب سے وہ کہے گئے تھے اور درمیان میں وہ خود انہیں قلم بند بھی نہیں کرتے ۔ مجھے بہت سے شعرا ء کی ہم نشینی کا موقع ملا ہے اور بعض کو میں نے شعر کہتے بھی دیکھا اور سُنا ہے، مگر یہ رنگ کسی اور میں نہیں دیکھا ۔ اقبال کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بہ ایں ہمہ موزونیِ طبع، وہ حسبِ فرمائش شعر کہنے سے قاصر ہے ۔ جب طبیعت خود مائلِ نظم ہو تو جتنے شعر چاہے ، کہہ دے ، مگر یہ کہ ہر وقت اور ہر موقع پر حسبِ فرمائش وہ کچھ لکھ سکے ، یہ قریب قریب ناممکن ہے۔ ‘‘ اقبال کی شاعری کے پہلے دور میں وہ سوز اور وہ سیمابی کیفیت موجود ضرور ہے، جسے اُن کے نظامِ سخن کی اوّلین خصوصیت کہنا چاہیے اور جو آگے چل کر اُن کی فکری اور الہامی شاعری پر سر بہ سر چھا گئی ، لیکن ابھی اُس نے وہ تلاطم انگیز اور آفاق گیر رنگ اختیار نہیں کیا تھا جو شعرِ اقبال کے دوسرے اور تیسرے دور سے نسبت رکھتا ہے۔ اقبال کے عہدِ شباب کا شعرخود نگری اور خود شناسی کی ایک لطیف و جمیل کیفیت سے سر شار ہے اور جب شاعر اِس کیفیت سے ذرا چونکتا ہے تو وہ اپنے گردو پیش پر بھی ایک نظر ڈال لیتا ہے ، لیکن اُس کے پاس اپنے مطالعۂ نفسی کے اظہار اور ایک دلِ درد مند کی پکار کے سوا اور کوئی پیغام نہیں ہے۔ نوجوان شاعر اپنے نوجوان ہم عصروں کو کوئی پیغام دینے سے فطری طور پر ہچکچاتا ہے اور یہ اُس کی حقیقت پسندی اور عظمت کا ایک قطعی ثبوت ہے۔ ابھی تو نوجوان شاعر اپنی ذات کے تشخص میں مصروف ہے۔ ابھی وہ تو اپنی ذات سے مخاطب ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب نوجوان اقبال خود اپنی ذات کی شناخت میں منہمک تھا تو اُس کی اپنی زندگی کی کیا کیفیت تھی؟ اُس کی شخصیت اور فکر کی تعمیر کس طور ہو رہی تھی ؟ وہ اپنے بارے میں کیا سوچتا تھا؟ اِن سوالوں کا جواب ہم خود اقبال کے اشعار میں ڈھونڈتے ہیں ؎ حُسن ہو کیا خود نما ، جب کوئی مائل ہی نہ ہو شمع کو جلنے سے کیا مطلب ، جو محفل ہی نہ ہو ذوقِ گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں (صدائے درد ، ص ۲۹) منزل کا اشتیاق ہے ، گُم کردہ راہ ہوں اے شمع ! میں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں میں حسن ہوں کہ سراپا گداز ہوں کھلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں (شمع ۔ ص ۳۱) دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا، جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں،دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری دامن میں کوہ کے اِک چھوٹاسا جھونپڑا ہو آزاد فکر سے ہوں ، عزلت میں دن گزاروں دنیا کے غم کا دل سے، کانٹا نکل گیا ہو پھولوں کو آئے جس دم ، شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رُلا دے بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انہیں جگا دے (ایک آرزو ۔ ص ۲۹) جوانی کی شاعری میں اقبال حالات ِحاضرہ ، اہلِ ہند کی غلامی اور فرنگیوں کے سامراجی حربوں پر بھی کڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں ؎ رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستان مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں سُن اے غافل صدا میری ! یہ ایسی چیز ہے جس کو وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں وطن کی فکر کر ناداں ! مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ذرا دیکھ اُس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے، اے ہندوستاں والو! تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ہویدا آج اپنے زخم، پنہاں کر کے چھوڑوں گا لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کر کے چھوڑوں گا جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا مگر غنچوں کی صورت میں دلِ درد آشنا پیدا چمن میں مُشتِ خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا مجھے اے ہم نشیں ! رہنے دے شغلِ سینہ کاوی میں کہ میں داغِ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا دکھا دوں گا جہاں کو جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا (تصویر درد ۔ ص ۵۲) ’’ترانۂ ہندی ‘‘ بھی عہد شباب کی شاعری کی تخلیق ہے ۔ یہ ترانہ حصولِ آزادی کے بعد بھارت کی حکومت نے سرکاری ترانے کے طور پر منظور کر لیا ہے ؎ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا ، آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا اقبالؔ کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا ترانہ ہندی(ص ۶۱) جیسا کہ اُوپر بیان ہوا ، اقبال کی عہد شباب کی شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت خود نگری اور خود شناسی ہے ۔ البتہ اُس طوفان کے ابتدائی خروش اور اوّلین بے تابیوں کا ایک ہلکا سا اظہار ہے جو شروع دن سے اُس کے قلب و جگر میں پرورش پا رہا تھا ۔ نوجوان اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کی رہنمائی کی کوشش نہیں کرتا ، لیکن لاشعوری طور پر اُس کا مخاطب نوجوان ہی ہے ۔ تاہم اقبال کھلم کھلا نوجوان سے گفتگو کرتا ، بلکہ اپنے پردئہ دل کا ایک کونا اٹھا کر دعوتِ نظارہ دے دیتا ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی بے حد دلچسپ ہے کہ زندگی کی اس منزل پر خود اُس کے اپنے نفس کی کیا کیفیت تھی؟ اور اُس کی شخصیت اور فکر کی تعمیر کس انداز سے جاری تھی ؟ اِس کا جواب اقبال نے اپنی بہت ہی سادہ نظم ’’زہد اور رِندی‘‘ میں نہایت لطیف پیرایے میں بیان کیا ہے اس نظم میں در حقیقت اقبال نے اپنا تجزیۂ نفس کیا ہے، جیسے وہ خود آئینے کے رُوبہ رُو ہوں ۔ پوری نظم ملاحظہ ہو ؎ اک مولوی صاحب کی سناتا ہوں کہانی تیزی نہیںمنظور، طبیعت کی دکھانی شہرہ تھا بہت آپ کی صوفی منشی کا کرتے تھے ادب ان کا اعالی و ادانی کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوف میں شریعت جس طرح کہ الفاظ میں مضمر ہوں معانی لبریز مئے زہد سے تھی دل کی صراحی تھی تہ میںکہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی کرتے تھے بیان آپ کرامات کا اپنی منظور تھی تعداد مریدوں کی بڑھانی مدت سے رہا کرتے تھے ہمسایے میں میرے تھی رند سے زاہد کی ملاقات پرانی حضرت نے میرے ایک شناسا سے یہ پوچھا اقبال کہ ہے قمریِ شمشادِ معانی پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟ گو شعر میں ہے رشکِ کلیم ہمدانی سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی ہے اس کی طبیعت میں تشیّع بھی ذرا سا تفضیلِ علیؓ ہم نے سنی اس کی زبانی سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی کچھ عار اسے حسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شعراء کی ہے پرانی گانا جو ہے شب کو، تو سحر کو ہے تلاوت اس رمز کے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میں نے بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی مجموعۂ اضداد ہے، اقبال نہیں ہے دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفقانی رندی سے بھی آگاہ ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیںکھلتی ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی القصہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے تادیر رہی آپ کی یہ نغز بیانی اس شعر میں جو بات ہو ، اُڑ جاتی ہے سب میں میں نے سنی، اپنے احبّا کی زبانی اک دن جو سرِراہ ملے حضرتِ زاہد پھر چھڑ گئی باتوں میں وہی بات پرانی فرمایا ، شکایت وہ محبت کے سبب تھی تھا فرض مرا، راہ شریعت کی دکھانی میں نے یہ کہا، کوئی گلہ مجھ کو نہیں ہے یہ آپ کا حق تھا زرہِ قربِ مکانی خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے پیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے میرے بحرِ خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبالؔ بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے ’’زہد اور رِندی‘‘۔ ص ۴۲ بہ ظاہر یہ ایک لطیف اور شگفتہ مکالمہ ہے ، لیکن غور کیجیے تو اِس کے ذریعے سے نوجوان شاعر نے اپنے ہم عصر نوجوانوں کو نہ صرف اپنی شخصیت و سیرت کی تعمیر کا ایک ہلکا سا منظر دکھایا ہے، بلکہ اُس آزاد خیالی ، روشن خیالی اور کشادہ دلی کا ایک واضح تصور بھی اُن کے سامنے رکھ دیا ہے ، جو اعلیٰ انسانی اقدار کے خلاصے اور جوہر کا دوسرا نام ہے۔ نوجوان اقبال جب اِس جوہرِ طبیعت اور اِس انداز تربیت سے آراستہ ہو کر ۱۹۰۵ء میں تکمیل تعلیم کے لیے یورپ گیا تو اُسے مغرب میں اپنی فکر کوجِلا دینے اور اپنے ذہنی افق کو وسیع تر کرنے کے بے شمار مواقع میسر آئے ۔ اِن کا ایک حیرت انگیز اثر اُس کی طبیعت پر یہ ہوا کہ وہ یورپی ممالک کی جارحانہ وطن پرستی سے بے زار ہو گیا اور عالمِ اسلام کی وحدت کا تصور اپنی پوری شدت سے اُس کے ذہن پر چھا گیا اور اُسے یقین کامل ہو گیا کہ ہندی مسلمان بلکہ مسلمانانِ عالم کی آزادی و ترقی کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ وہ پھر سے خالص اسلامی شعائر و اقدار کو زندہ کریں اور مذہب کے رسوم و ظواہر سے نہیں بلکہ روحِ اسلام سے زندگی کی انفرادی فلاح اور اجتماعی کامیابی کے وہ اُصول کشید کریں، جن کی صداقت پر خود گردشِ زمانہ نے بار بار اپنی مہر ثبت کی ہے۔ چنانچہ یورپ کے دورانِ قیام اقبال کے جن افکار و خیالات نے شاعری کا جامہ پہنا ، وہ اکثر و بیش تر اسی تاثر کے حامل ہیں۔ پنجاب کے بابائے اردو یعنی شیخ عبدالقادر بھی ان ہی دنوں انگلستان میں بیرسٹری کی تعلیم کے لیے مقیم تھے، مگر وہ اقبال سے ایک سال پہلے ہندوستان واپس چلے گئے تھے ۔ اُن کی واپسی کے کچھ عرصہ بعد اقبال نے انہیں ایک منظوم مراسلہ لکھا جو اُن کے مجموعۂ کلام ’’بانگِ درا‘‘ (صفحہ ۹۷) میں شامل ہے ۔ بظاہر یہ مراسلہ ایک دوست کا خط ہے،مگر درحقیقت اُس دردِ پنہاں کا طوفان ہے، جو اُن دنوں شاعر کے دلِ درد مند میں کروٹیں لے رہا تھا ۔ اقبال فرماتے ہیں ؎ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ وبالا کردیں اہلِ محفل کو دکھا دیں اثر صیقل عشق سنگِ امروز کو آئینہ فردا کردیں جلوۂ یوسفِ گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خونِ زُلیخا کردیں اس چمن کو سبق آئینِ نمو کا دے کر قطرۂ شبنمِ بے مایہ کو دریا کردیں رختِ جاں بت کدۂ چیں سے اٹھا لیں اپنا سب کو محوِ رُ خ سعدیٰ و سلیمیٰ کردیں دیکھ! یثرب میں ہوا ناقۂ لیلیٰ بیکار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کردیں بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز جگرِ شیشہ و پیمانہ و مینا کردیں گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِ مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ، اسے وقف تماشا کردیں شمع کی طرح جئیں، بزم گہِ عالم میں خود جلیں، دیدۂ اغیار کو بینا کردیں (اشعار بانگِ درا ص ۹۷) ہندوستان سے بڑھ کر ، اب ملّتِ اسلامیہ کے ایک حساس ، نوجوان شاعر کے سینے میں جس قسم کے جذبات تلاطم برپا کر رہے تھے ، یہ نظمِ لطیف اُن کی ہلکی سی آئینہ داری کرتی ہے ، لیکن یہاں بھی اقبال نے خود نگری اور خود شناسی سے صرف ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور اپنی بے تابیوں میں محض ایک رفیقِ دور افتادہ کو شریک کیا ہے۔ اپنے ہم عصر نوجوانوں کو اُس نے اب بھی براہِ راست کوئی پیغام نہیں دیا، اگرچہ اپنا سینہ چیر کر دکھانے سے ایک خاموش دعوتِ ہم نفسی ضرور نمایاں ہے۔ ایک طرف اقبال اپنے رفیقِ دور افتادہ کو اٹھنے اور بزم میں شعلہ نوائی سے اُجالا کرنے کی دعوت دے رہے ہیں تو دوسری طرف اہلِ مغرب کو اُن کی تہذیب کی خامیوں کے باعث براہ ِراست چیلنج بھی دے رہے ہیں ؎ دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھے رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہوگا میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا (مارچ ۱۹۰۷ء ص ۱۱۰) پھر اقبالؒ کی شاعری کا دوسرا دور آیا، جب اقبال نے پختہ سالی کی منزل میں قدم رکھا اور وہ روایتی حق حاصل کیا، جس کی رُو سے شاعر یا فلسفی اپنے خیالات و جذبات براہِ راست اپنے مخاطبین تک پہنچا سکتا ہے۔ اقبال اس بارے میں بہت وضع دار تھے ۔ انہوں نے اِس حق کا استعمال اُس وقت تک نہیں کیا ، جب تک وہ نوجوانی کے دائرے سے نکل کر سچ مُچ پختہ سالی کی منزل میں داخل نہیں ہو گئے ۔ یہاں بھی اُن کے مخاطبین محض نوجوان تھے ۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے ہر جگہ براہِ راست نوجوان کا نام لے کر اُس سے خطاب نہیں کیا، لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ، اُن کے موضوعات میں سے کوئی موضوع ایسا نہیں، جس کا تعلق نوجوان ، جواں مرد ، مردِ جواںہمت اوراُس کے عمل وکردار سے نہ ہو۔ اپنی معروف نظم ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام ‘‘ میں اقبال نے ایک منفیانہ رنگ اختیار کیا ہے۔ وہ یہاں جوانانِ اسلام کی موجودہ زبوں حالی کا تلخ جائزہ لے کر خاموش ہو گئے ہیں۔ ابھی اقبال نے مسلم نوجوان کوصرف نادم و شرم سار کیا ہے۔ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے گلے سے نہیں لگایا۔ ابھی اُس گم کردہ منزل کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے از سرِ نو حاصل کرنا اُس کے لیے مقدر ہو چکا تھا ، مگر ہمیں اِس بات کا شدید احساس ہے کہ شاید یہ احساسِ ندامت اقبال کے مخاطب نوجوان کے لیے ایسا ہی ضروری تھا، جیسا اُس کے بعد پیدا ہونے والا جذبۂ یقیں ۔ فرماتے ہیں ؎ کبھی اے نوجواں مسلم ! تدبر بھی کیا ہے تونے ؟ وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِ دارا تمدن آفریں، خلّاقِ آئینِ جہاں داری وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا سماں الفقر فخری کا رہا شانِ امارت میں ’’بآب ورنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا ‘‘ گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یار ا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کے الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تصور سے فزوں تر ہے وہ نظّارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیّارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ ایک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا اقبال کی شاعری کا تیسرا دور الہامی شاعری کا دور ہے۔ اس دور میں اقبال پر یہ منکشف ہو چکا تھا کہ اُس کے وطن کے نوجوانوں پر عنقریب نیابتِ الٰہی کی ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں۔ اپنے کلام میں وہ بار بار اِس آنے والی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ خصوصاً اُن کی لازوال نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ جس کا نام ہی پیغمبرانہ بشارت رکھتا ہے ،اس ضمن میں بہترین مثال ہے۔ یہ نظم اُن نظموں کی تمہید کہی جا سکتی ہے جن میں نوجوانوں کو براہِ راست مخاطب کیا گیا ہے۔ اس نظم کے چند اشعار بہ طور نمونہ ملاحظہ ہوں ؎ ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے مسلماں سے حدیثِ سوز و ساز زندگی کہہ دے خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو ، زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گردِ راہ ہوں ، وہ کارواں تو ہے مکاں فانی ، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا تری نسبت براہیمی ؑہے، معمارِ جہاں تو ہے تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا ، امتحاں تو ہے جہانِ آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر نبوت ساتھ جس کو لے گئی ، وہ ارمغاں تو ہے یہ نکتہ سر گذشتِ ملتِ بیضا سے ہے پیدا کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ،شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام، دنیا کی امامت کا اقبال نے اپنے تینوں تخلیقی ادوار میں، پوری شاعری میں تین بنیادی نظریات دیے ہیں، یعنی خودی ، فقر اور عشق ۔ یہ تین باطنی اوصاف ہیں۔ جس شخص میں یہ تینوں اوصاف بہ درجہ ٔ اتم موجود ہوں، وہ اقبال کی زبان میں ’’مومن‘‘ ہے، اور اِس کی تشبیہ شاہین یا شاہباز ۔ اِن تین اعلیٰ ، تعمیری اور مثبت اخلاقی اوصاف کے حصول میں عصرِ حاضر میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں، جن کا ذکر اقبال بڑی دردمندی سے کرتے ہیں، یعنی سچے مذہب سے دوری ، اور کفر والحاد اور لادینیت اختیارکرنا، دوم سچے علم سے دوری اور جدید تعلیم کے مُضر اثرات کا پھیلائو ۔ سوم سچی تہذیب سے دوری ۔ مغربی تہذیب اختیار کرنے کے مضراثرات ۔ اِن شعبوں میں نوجوانوں کو عمل و کردار کی تلقین کے ساتھ ساتھ اقبال نے دُخترانِ ملّت ،ا ور پھر نونہالان کو بھی اُن کے ذہن و مزاج کے مطابق اپنے پیامِ خوش کلام سے نوازا ہے۔ نوجوانوں کو اسلامی نشاتِ ثانیہ اور اس سے منسلک ’’اتحادِ عالمِ اسلامی ‘‘کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں بھی خطاب کیا ہے۔ اپنے فرزند جاوید اقبال کو مخاطب کر کے گویا پوری ملّتِ اسلامیہ کی فرزندوں سے خطاب کیا گیا ہے۔ آئندہ ابواب میں اِن ہی موضوعات و عنوانات کے تحت کلام اقبال سے ایسے اشعار کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے جو نوجوانوں کے نام پیام کی حیثیت بھی رکھتے ہوں اور اُن سے براہ راست مخاطبت کا پہلو بھی رکھتے ہوں۔ گویا اِن موضوعات کی نسبت سے آئندہ ابواب کے عنوان یہ ہوں گے :۔ نوجوان کے مثبت باطنی اوصاف (۱) خودی ، ایمان ، یقین (۲) فقر، غیرت (۳) عشق ، عشقِ قرآن ، عشقِ رسول ؐ (۴) مومن (۵) شاہین نوجوان کے منفی ظاہری اوصاف جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے (۶) سچے مذہب سے دوری ۔ کفر و الحاد اور لادینیت کا فروغ (۷)سچے علم سے دوری ۔ جدید تعلیم کے مُضر اثرات (۸) سچی تہذیب سے دوری ۔ مغربی تہذیب کے مُضر اثرات (۹) دخترانِ ملّت کے نام (۱۰)نونہالانِ ملّت سے خطاب (۱۱) اسلامی نشاتِ ثانیہ ۔ عالمِ اسلام کا اتحاد (۱۲) پیغام بہ ذریعہ جاوید اقبال (۱۳) پیامِ منثور باب نمبر ۴ خودی اقبالیات کے ایک بڑے مفسر اور شارح ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اپنی تصنیف ’’حکمتِ اقبال ‘‘ میں کلامِ اقبال کی روشنی میں، اقبال کے فلسفہ ٔ خودی کی مفصل اور منظم تشریح کی ہے۔ خودی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :’’اقبال کی حکمت میں خودی سے مراد وہ شعور ہے، جو خود شناس اور خود آگاہ ہو اور اپنی ذات اور اپنے مقاصد کا احساس یا شعور رکھتا ہو، لیکن یہاں شعور کا مطلب ہوش یا تمیز نہیں، بلکہ وہ چیز ہے جس کا خاصہ ہوش یا تمیز رکھنا ہے یا جس کی وجہ سے ایک انسان تمیز یا ہوش رکھتا ہے۔ انسان میں یہی چیز ہے جو خود شناس یا خود آگاہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہتی ہے، اس لیے اقبال اس کو ’’انا‘‘ یا ’’ایغو (Ego)‘‘ یا ’’من‘‘ بھی کہتا ہے اور پھر یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان زندہ ہے،اور جب مرتا ہے تو یہی وہ چیز ہے, جو اُس کے جسم سے رخصت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اقبال اس کے لیے ’’روح‘‘ اور ’’جان‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کرتا ہے اور اس کو ’’زندگی‘‘ اور ’’حیات‘‘ کے ناموں سے بھی تعبیر کرتا ہے ؎ عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں الجھی ہوئی روح کس جوہر سے؟ خاک ِتیرہ کس جوہر سے ہے؟ زندگی بغیرشعور کے نہیں ہوتی، لہٰذا اِن معنوں میں کہ شعور زندگی ہے، ایک خاص سطح کا شعور حیوان میں بھی موجود ہے، لیکن حیوان کا شعور آزاد نہیں، بلکہ قدرت کی پیدا کی ہوئی ناقابل تغیر جبلّتوں کے ماتحت کام کرتا ہے ۔ اس کے برعکس انسان کا شعور جبلّتوں سے آزاد ہو کر اور اُن کی مخالفت میں بھی عمل کرتا ہے، اس لیے کہ وہ خود شناس اور خود آگاہ ہے اورا پنے مقاصد کو جانتا ہے ۔ حیوان اپنے شعور کی وجہ سے فقط سوچتا، جانتا اور محسوس کرتا ہے، لیکن انسان اپنے شعور کی وجہ سے نہ صرف جانتا، سوچتا اور محسوس کرتا ہے، بلکہ جب وہ ایسا کرتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ جانتا، سوچتا اور محسوس کرتا ہے۔ اس لیے ہم انسان کے شعور کو خود شناس اور خود آگاہ کہتے ہیں۔ اسے شعور نہیں بلکہ خود شناسی، خود شعوری یا خود آگاہی کہنا چاہیے۔ اقبال اسی کو ’’خودی‘‘ کہتاہے ۔ خود آگاہی ’’خود آگاہی‘‘ خودی کی ایک حیرت انگیز خصوصیت ہے ۔ اسی خصوصیت کی وجہ سے کائنات برپا ہے اور انسان کی ساری تگ و دو اور جدوجہد اسی خاصیت کی وجہ سے ہے۔ اسی کی وجہ سے خودی اپنے آپ کو آنکھوں کے بغیر دیکھتی ہے، کانوں کے بغیر سنتی ہے، بلکہ اپنے آپ کو کسی حس کی مدد کے بغیر براہ ِراست پوری طرح سے جانتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں ہوں، کیونکہ میں سوچ رہا ہوں، جان رہا ہوں، اور خوشی یا غم محسوس کر رہا ہوں ۔ لیکن میری کوئی حس مجھے اپنے آپ کو جاننے میں مدد نہیں دے رہی ۔ اگرچہ میں اپنی خودی کو ان آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا، لیکن اس کے باوجود اِن آنکھوں کے بغیر اس طرح سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے لیے اپنے آپ کا علم ان چیزوں کے علم سے بہ درجہا زیادہ یقینی ہے، جن کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں ۔ بلکہ میں جن چیزوںکو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتا ہوں، اُن کا جاننا میرے لیے اِسی وجہ سے ممکن ہے کہ میں اپنی خودی کو جانتا ہوں، کیونکہ اِن کا علم وہی ہے جس کو میری خودی جانتی ہے اور میری خودی سے باہراِن کا کوئی علم نہیں، لہٰذا اگر میں اپنی خودی کو نہ جانوں تو دنیا کی کسی چیز کو دیکھنے کے باوجود نہیں جان سکتا ۔ اگر دنیا بھر میں کسی چیز کا یقینی علم ہمیں حاصل ہے تو وہ فقط اپنی خودی کا علم ہے ۔ ہم اپنی خودی کے علم سے ہی اپنے دوسرے غیر خودی کے علم کو پرکھتے ہیں۔‘‘ خودی کا وجود فریب یا وہم نہیں ’’خارج کی دنیا کے متعلق ہمارا علم قیاسی ہے اور ہمارا قیاس حواس پر مبنی ہوتا ہے۔ حواس کے تاثرات کے بدلنے سے خواہ اُس کا کوئی سبب خارج میں ہو یا نہ ہو، ہمارا علم بدل جاتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص کائنات کے متعلق تو کہہ سکتا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور زمین و آسمان درحقیقت موجود نہیں ہیں یا اُن کی حیثیت ایک ایسے خواب یا وہم سے زیادہ نہیں جو خالقِ کائنات کی ہستی کے لیے ایک پردے کا کام دے رہا ہے، لیکن کوئی شخص خودی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ ایک وہم ہے۔ خودی کا وجود محسوس دنیا، خارجی دنیا یا مادّی دنیا کی چیز نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے حواس اور ہمارے قیاسات اُس کو جاننے کا وسیلہ نہیں بنتے ۔‘‘ زمان و مکاں سے بے نیازی ’’اس کے باوجود کہ خودی انسان کے جسدِ عنصری میں جاگزیں ہے جو سلسلۂ لیل و نہار کی پابندیوں سے گھرا ہوا ہے، وہ خود زمان و مکاں کی حدود و قیود سے آزاد ہے، کیونکہ وہ اپنے خیال کے ذریعے سے ادھر ماضی اور مستقبل کی انتہائوں تک اور اُدھر کائنات کے دور دراز گوشوں تک جہاں روشنی بھی کروڑوں برس میں آتی ہے، آنِ واحد میں جا پہنچتی ہے۔ چونکہ ہم خودی کو کسی حالت میں بھی نہ آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ اِن آنکھوں سے چھو سکتے ہیں اور غیر کی خودی اپنی خودی نہیں ہوتی کہ ہم حواس کی مدد کے بغیر براہ راست اسے دیکھ سکیں ۔ ہم غیر کی خودی کا علم خواہ وہ خودی خدا کی ہو یا انسان کی، فقط اس کے مظاہر اور اثرات اور اعمال اور افعال کے مطالعے ہی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ ‘‘ خودی ایک نورانی طاقت ہے ’’خودی ایک نُورہے، لیکن مادّی روشنیوں میں سے کوئی روشنی ایسی نہیں جو اُس کی مماثل ہو اور پھر خودی ایک قوت ہے، لیکن مادی قوتوں میں سے کوئی قوت ایسی نہیں جس کے ساتھ اُس کو مشابہت دی جا سکے ۔ یہی وہ نورانی طاقت ہے، جس کا انسان میں اور دنیا کی ہر چیز میں ظہور ہے۔ یہی زندگی ہے۔‘‘ مشکلات پر غالب آنے کی خواہش ’’لفظ خودی کی اِس تشریح سے ظاہر ہے کہ اقبال نے اس لفظ کو استعمال کر کے انگریزی لفظ Self کا فارسی یا اردو ترجمہ کیا ہے، جو مدت سے فلسفہ کی ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، لیکن افسوس ہے کہ خودی کی اس سادہ اور معروف فلسفیانہ اصطلاح کو سمجھنے میں بالعموم اقبال کے ایسے معتقدین کو بھی دقّت پیش آتی ہے، جو اس کے بہت قریب رہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ خودی کا لفظ اب تک فارسی اور اردو میں ایک اور معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے، یعنی خود پرستی، خود مختاری، خود سری، خود رائی، خود پسندی، خود غرضی، غرور، نخوت اور تکبّر کے معنوں میں۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ خود اقبال نے بھی اپنی قوم کی موجودہ حالت کے پیشِ نظر خودی کی گونا گوں فطری صفات میں سے اِس صفت پر خاص زور دیا ہے، جس کا ایک پہلو خود نمائی ہے یا ذوقِ تفوّق ہے۔ اس صفت کی رُو سے خودی ایک مقصد کا تصور کرتی ہے۔ پھر اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری قوتِ سعی و عمل صرف کرتی ہے۔ اِس عمل سے اُسے اپنے مقصد میں حائل ہونے والی مخالف قوتوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو یعنی اپنی قوتوں کا اظہار کرتی ہے اور اِس خود اظہاری سے اُسے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اس بنا پربعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ خودی کی فلسفیانہ اصطلاح روزمرہ کی زبان میں استعمال ہونے والے لفظ خودی کے ساتھ معنی کا اشتراک رکھتی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ اقبال کے نزدیک جذبۂ خود نمائی یا ذوقِ استیلا کے جائز اور ناجائز استعمال میں کوئی خاص خوبی ہے اور اقبال کی تعلیم یہی ہے کہ جس طرح سے ممکن ہو، اس جذبے کا اظہار کیا جائے۔ یہ بات قطعاً غلط ہے۔ یہاں اِس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے دو گزارشات ضروری ہیں ۔ ایک تو یہ کہ خودی کے مقاصد اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ۔ صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی۔ جدوجہد یا عمل سے خودی کو مستقل اور مکمل اطمینان اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے، جب اُس کا مقصد اس کی فطرت کے مطابق ہو، غلط مقصد کی پیروی سے خودی کو عارضی تسلی ہو تو ہو، لیکن آخر کار اسے بے اطمینانی اور ناکامی کا احساس ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں اس کی جدوجہد آخر کار خود اُس کے اندرونی فطری مقصد کو شکست دے دیتی ہے۔ اور دوسری گزارش یہ ہے کہ عمل یا جدوجہد احساسِ مُدّعا کا لازمی نتیجہ ہے، اور خودی ہر آن کوئی نہ کوئی مُدّعا (اچھا یا بُرا، صحیح یا غلط) رکھنے پر مجبور ہے، اور لہٰذا ہر وقت عمل یا جدو جہد کرنے پر بھی مجبور ہے ۔ غلط مُدّعا غلط عمل پیدا کرتا ہے اور صحیح مُدّعا صحیح عمل پیدا کرتا ہے۔اقبال صرف اُسی عمل کی تلقین کرتا ہے جو خودی کی فطرت سے مطابقت رکھتا ہو اور صحیح ہو۔ اُس کے نزدیک صحیح مُدّعا اور لہٰذا صحیح عمل فقط ’’مردِ مومن‘‘ کا امتیاز ہے۔ گویا اقبال نے جو عملی جدو جہد اور خود نمائی پر زور دیا ہے، اُس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد یا مُدّعا کو درست کریں۔ اسی کو وہ یقینِ محکم یا ایمان کہتا ہے ۔ اگر مُدّعا نقائص سے پاک اور شکوک و شبہات سے آزاد ہو کر درست ہو جائے تو وہ ایک طاقت ور عزم یا ارادئہ عمل بن جاتا ہے۔‘‘ اقبال کی وضاحت اقبال نے خود اس امر کی وضاحت کر دی ہے کہ خودی سے اُس کی مراد تکبّر یا غرور نہیں ۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کے دیباچے میں اُس نے لکھا ہے : ’’ہاں لفظ خودی کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اِس نظم میں بمعنی مغرور استعمال نہیںکیا گیا، جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساسِ نفس یا یقینِ ذات ہے۔‘‘ قاضی نذیر احمد کے نام اپنے مکتوب میں اقبال نے لکھا ہے: ’’اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی دونوں کا موضوع یہی مسئلہ ٔ خودی ہے۔ ان کتابوں کے پڑھنے سے آپ کو اطمینان ہو جائے گا۔ اگر اِن دونوں میں یا میری کسی اور کتاب میں آپ کو کوئی ایسا شعر ملے، جس میں خودی کا مفہوم تکبّر یا غرور یا نخوت لیا گیا ہو تو اس سے مجھے آگاہ کیجیے‘‘۔ نیٹشے پر اقبال کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نوٹ ’’اقبال اکادمی‘‘ کے پاس محفوظ ہے۔ ا س نوٹ میں لفظ خودی کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے لکھا ہے:’’لفظ خودی کو بڑی مشکل سے اور بادلِ نخواستہ چُنا گیا ہے۔ ادبی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس کے اندر بہت سی خامیاں ہیں ۔ اور اخلاقی نقطۂ نظر سے اسے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہمیشہ برے معنوں میں ہی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ دوسرے الفاظ بھی، جو ’’میں‘‘ کی مابعد الطبیعاتی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں، اتنے ہی ناموزوں ہیں مثلاً انا، شخص، نفس، انانیت۔ ضرورت درا صل اِس بات کی ہے کہ ’’میں‘‘ یا ’’ایغو‘‘ کے لیے ایک ایسا لفظ مل جائے جو بے رنگ ہو اور کسی اخلاقی مفہوم کے بغیر ہو۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، فارسی یا اردو میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں ۔ فارسی لفظ ’’من ‘‘ بھی اتنا ہی ناموزوں ہے۔ تاہم شعر کی ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے میں نے سمجھا کہ لفظ ’’خودی‘‘ سب سے زیادہ موزوں ہے ۔ فارسی زبان میں کسی قدر اس بات کی شہادت بھی موجود ہے کہ لفظ خودی ایغو کے سادہ مفہوم یعنی ’’من‘‘ کے بے رنگ معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ گویا مابعد الطبیعاتی نقطۂ نظر سے خودی کا لفظ ’’من‘‘ کے اس نا قابل بیان احساس کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جو ہر فردِ انسانی کی بے مثل انفرادیت کی بنیاد ہوتا ہے ۔ مابعد الطبیعاتی طور پر اِس لفظ کا کوئی مفہوم ایسے لوگوں کے لیے نہیں جو اُس کے اخلاقی مفہوم سے نجات نہیں پا سکتے ۔ میں ’’زبورِ عجم ‘‘ میں پہلے کہہ چکا ہوں ؎ گرفتم ایں کہ شرابِ خودی بسے تلخ است بدر و خویش نگر، زہر ما بدرمان کش (ترجمہ:خودی کی شراب بے شک تلخ ہے، لیکن اپنے مرض پر نگاہ رکھو اور اپنی صحت کی خاطر میرے زہر کو پی لو) جب میں نفیِ خودی کی مذمت کرتا ہوں تو مطلب اِس سے اخلاقی معنوں میں ایثار یا نفس کشی کی مذمت نہیں ہوتا ۔ نفیِ خودی کی مذمت سے میں ایسے افعال کی مذمت کرتا ہوں، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ’’میں‘‘ کو ایک مابعد الطبیعاتی قوت کی حیثیت سے مٹا دیا جائے، کیونکہ اُسے مٹانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اجزا بکھر جائیں۔ وہ حیات بعد ممات کے قابل نہ رہے ۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، اسلامی تصوف کا نصب العین خودی کو مٹانا نہیں ۔ اسلامی تصوف میں فنا سے مراد انسانی ایغو کا مٹانا نہیں بلکہ اس کا مکمل طور پر خدا کی ذات کے سپرد کر دینا ہے ۔ اسلامی تصوف کا نصب العین ایک ایسا مقام ہے، جو فنا کے مقام سے بھی آگے ہے یعنی مقامِ بقا، جو میرے نقطۂ نظر سے اثباتِ خودی کا بلند ترین مقام ہے۔ جب میں کہتا ہوں ’’لعل کی طرح سخت ہو جائو‘‘ تو میری مراد نیٹشے کی طرح یہ نہیں ہوتی کہ بے رحم اور بے درد ہو جائو، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ خودی کے عناصر کو مجتمع کرو، تاکہ وہ بعد از مرگ زندہ رہنے کے لیے فنا کا مقابلہ کر سکے۔ اخلاقی نقطۂ نظر سے لفظ خودی (جیسا کہ اسے میں نے استعمال کیا ہے) کا مطلب ہے خود اعتمادی، خود داری، اپنی ذات پر بھروسا، حفاظتِ ذات، بلکہ اپنے آپ کو غالب کرنے کی کوشش، جیسا کہ ایسا کرنا زندگی کے مقاصد کے لیے اور صداقت، انصاف اور فرض کے تقاضوں کو پورا کرنے کی قوت کے لیے ضروری ہو۔ اس قسم کا کردار میرے خیال میں اخلاقی ہے، کیونکہ وہ خودی کو اپنے قویٰ کے مجتمع کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس طرح تحلیل اور انتشار کی قوتوں کے خلاف خودی کو سخت کر دتیا ہے۔ عملی طور پر مابعد الطبیعاتی ایغو دو بڑے حقوق کا علم بردار ہے ۔ اوّل زندہ رہنے کا حق اور دوم آزاد رہنے کا حق، جیسا کہ خداوندی قانون نے مقرر کیا ہو۔ ‘‘ خودی کی تعریف و تشریح کے بعد اب یہاںکلامِ اقبال سے خودی کے موضوع پر ایسے اشعار کا انتخاب پیش کیا جاتا ہے، جن کا تعلق نوجوانوں اور اُن کی بہبود و ترقی سے ہے۔ پہلے اُردو کلام سے، پھر فارسی کلام سے انتخاب پیش کیا جائے گا۔ تو رازِ کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا خودی کا راز داں ہوجا، خدا کا ترجماں ہو جا ہو س نے کردیا ہے،ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساںکو اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہوجا یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی تو اے شرمندۂ ساحل، اچھل کر بیکراں ہو جا غبارِ آلودۂ رنگ و نسب ہیں، بال و پر تیرے تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاںہوجا خودی میں ڈوب جا غافل، یہ سرِّ زندگانی ہے نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہوجا مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہوجا گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا ۱؎ ……………………………… سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میںمرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا خودی سے اس طلسم رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تو سمجھا، نہ میں سمجھا نگہ پیدا کر اے غافل، تجلّی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلّاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں، غلامی میں زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ ۱؎ ……………………………… وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں خدا مجھے نفسِ جبرئیل دے تو کہوں ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں عجب مزا ہے، مجھے لذتِ خودی دے کر وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں ضمیرِ پاک و نگاہ بلند و مستیِ شوق نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’’کن فیکوں‘‘ علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے تِرا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں ۱؎ ……………………………… خودی کی شوخی و تندی میں کبر وناز نہیں جو ناز ہو بھی، تو بے لذتِ نیاز نہیں نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے شکارِ مُردہ سزاوارِ شاہباز نہیں ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومتِ عشق سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں اک اضطرابِ مسلسل غیاب ہو، کہ حضور! میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم فغانِ نیم شبی بے نوائے راز نہیں۲؎ ……………………………… خودی ہے وہ بحر جس کا کوئی کنارہ نہیں تو آبجو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں خودی میں ڈوبتے ہیں، پھر ابھر بھی آتے ہیں مگر یہ حوصلۂ مردِ ہیچ کارہ نہیں ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاکِ زندہ ہے تو تابعِ ستارہ نہیں یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے تری نگہ میں ابھی شوخیِ نظارہ نہیں ۱؎ ……………………………… یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی تری زندگی اِسی سے، تری آبرو اِسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رو سیاہی ؎۲ ……………………………… تری نگاہ فرو مایہ، ہاتھ ہے کوتاہ ترا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا کہاں سے آئے صدا لا الٰہ الا اللہ خودی میں گم ہے، خدائی تلاش کر غافل یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کارکی راہ حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ! برہنہ سر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر یہاں فقط سرِ شاہین کے واسطے ہے کُلاہ نہ ہے ستارے کی گردش نہ بازیِ افلاک خودی کی موت ہے تیرا زوال نعمت و جاہ ! اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک نہ زندگی، نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ ۱؎ ……………………………… خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوقِ سفر کے سوا، کچھ اور نہیں گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ورنہ گہر میں آبِ گہر کے سوا، کچھ اور نہیں۲؎ ……………………………… یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی! یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ اے لا الٰہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے کھویا گیا ہے تیرا جذبِ قلندرانہ رازِ حرم سے شاید اقبال با خبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ۱؎ ……………………………… خودی کو کر بلند اتنا کہ ہرتقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے، وہ چشم سُرما ساکیا ہے۲؎ ……………………………… فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیرِ مقام رنگ و بو کر تو اپنی خودی کو کھوچکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اُس سے نہ ہوسکا، وہ تو کر۱؎ ……………………………… خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین ؓ، ابتدا ہے اسماعیل ؑ ۲؎ ……………………………… خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا برنگِ بحر، ساحل آشنا رہ کفِ ساحل سے دامن کھینچتا جا ۱؎ ……………………………… حکیمی نا مسلمانی خودی کی کلیمی رمزِ پنہانی خودی کی تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں غریبی میں نگہبانی خودی کی۲؎ ……………………………… یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے خودی کیا ہے؟ تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات خودی کیا ہے؟ بیداریِ کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند سمندر ہے اِک بوند پانی میں بند اندھیرے اجالے میں ہے تابناک من و تو میں پیدا، من و تو سے پاک ازل اس کے پیچھے، ابد سامنے نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی تجسّس کی راہیں بدلتی ہوئی دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی سُبک اس کے ہاتھوں میں سنگِ گراں پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہی اس کی تقویم کا راز ہے کرن چاند میں ہے، شرر سنگ میں یہ بے رنگ ہے، ڈوب کر رنگ میں اسے واسطہ کیا کم و بیش سے نشیب و فراز و پس و پیش سے ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر خودی کا نشیمن تِرے دل میں ہے فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے ۱؎ ……………………………… زمانے میں جھوٹا ہے اس کا نگیں جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں بتانِ شعوب و قبائل کو توڑ رسومِ کہن کے سلاسل کو توڑ یہی دینِ محکم، یہی فتحِ یاب کہ دنیا میں توحید ہو بے حجاب۱؎ ……………………………… جرأت ہے تو افکار کی دنیا سے گزر جا ہیں بحرِ خودی میں ابھی پوشیدہ جزیرے کھلتے نہیں اس قلزمِ خاموش کے اسرار جب تک تو اسے ضربِ کلیمی سے نہ چیرے ۲؎ ……………………………… خودی کا سرِّ نہاں، لا الہٰ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں، لا الہٰ الا اللہ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الا اللہ کیا ہے تونے متاعِ غرور کا سودا فریبِ سود و زیاں، لا الٰہ الا اللہ یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند بُتان وہم وگماں، لا الٰہٰ الا اللہ خِرد ہوئی ہے زمانِ و مکاں کی زنّاری نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہٰ الا اللہ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لا الٰہ الا اللہ اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوںمیں مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللہ۱؎ ……………………………… تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تِرا وجود کیا ہے؟ فقط جوہرِ خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا ۲؎ ……………………………… اے پیرِ حرم، رسم و رہِ خانقہی چھوڑ مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت دے ان کو سبق خود شکنی، خود نگری کا تو ان کو سکھا خارہ شگافی کے طریقے مغرب نے سکھایا انھیں فن شیشہ گری کا دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا کہہ جاتا ہوں زورِ جنوں میں ترے اسرار مجھ کو بھی صلہ دے میری آشفتہ سری کا ۱؎ ……………………………… اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورتِ فولاد ناچیز جہانِ مہ و پرویں ترے آگے وہ عالمِ مجبور ہے، تو عالمِ آزاد موجوں کی تپش کیا ہے؟ فقط ذوقِ طلب ہے پنہاں جو صدف میں ہے، وہ دولت ہے خدا داد ۲؎ ……………………………… نہ میں اعجمی، نہ ہندی، نہ عراقی و حجازی کہ خودی سے میں نے سیکھی دوجہاں سے بے نیازی تو مری نظر میں کافر، میں تری نظر میں کافر ترا دیں نفس شماری، مِرا دِیں نفس گدازی! ۱؎ ……………………………… جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے اس آبجو سے کیے، بحرِ بیکراں پیدا وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے جو ہر نفس سے کرے عمرِ جاوداں پیدا خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا ۲؎ ……………………………… تری خودی سے ہے روشن ترا حریمِ وجود حیات کیا ہے؟ اسی کا سرورِ سوز و ثبات بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات حریم تیرا خودی غیر کی! معاذ اللہ! دوبارہ زندہ نہ کر کاروبارِ لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے رہا نہ تو، تو نہ سوزِ خودی، نہ سازِحیات ۱؎ ……………………………… زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ میںجانتا ہوں، وہ آتش ترے وجود میں ہے تری دوا نہ جنیوا میں ہے، نہ لندن میں فرنگ کی رگِ جاں، پنجۂ یہود میں ہے سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے ۲؎ ……………………………… تری دعا سے قضا تو بدل نہیں سکتی مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا عجب نہیں ہے کہ یہ چار سُو بدل جائے وہی شراب، وہی ہائے و ہو رہے باقی طریقِ ساقی و رسم کدو بدل جائے تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری مری دعا ہے، تری آرزو بدل جائے ۱؎ ……………………………… رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان تو بھی اے فرزندِ کہستاں، اپنی خودی پہچان اپنی خودی پہچان او غافل افغان موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا، وہ کیسا دہقان اپنی خودی پہچان او غافل افغان اونچی جس کی لہر نہیں ہے وہ کیسا دریا جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں، وہ کیسا طوفاں اپنی خودی پہچان او غافل افغان ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان اپنی خودی پہچان او غافل افغان تیری بے علمی نے رکھ لی، بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے ہیں، اپنا دین ایمان اپنی خودی پہچان او غافل افغان۱؎ ……………………………… مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگر گوں معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا ہر سینے میں اک صبحِ قیامت ہے نمودار افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا کرسکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی! اے پیرِ حرم، تیری مناجاتِ سحر کیا؟ ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا ۲؎ ……………………………… خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات خودی ہے زندہ تو دریا ہے بیکرانہ ترا ترے فراق میں مضطر ہے موجِ نیل و فرات خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہ پیش نسیم خودی ہے زندہ تو سلطانِ جملہ موجودات ۱؎ ……………………………… ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے؟ خودی تری مسلماں کیوں نہیں ہے؟ عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ ۲؎ ……………………………… کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر کبھی دریا کے سینے میں اتر کر کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر مقام اپنی خودی کا فاش تر کر ۳؎ نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں کمالِ صدق و مروّت ہے زندگی ان کی معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں ۱؎ ……………………………… اقبال کا فارسی کلام اُن کے فلسفۂ خودی سے بھرا پڑا ہے۔ خاص طور پر مثنوی ’’اسرار و رموز ‘‘ تو فلسفۂ خودی ہی کی تشریح ہے،اور اس فلسفے کا خلاصہ انہوں نے اپنی نظم ’’بابائے صحرائی کی نصیحت‘‘ میں کر دیا ہے ۔ یہ نصیحت نوجوانوں کے نام ہے ۔ بابائے صحرائی کے پردے میں خود علامہ اقبال جلوہ گر ہیں ۔ ’’اسرار و رموز ‘‘ کا منظوم ترجمہ ’’ترجمانِ اسرار ‘‘ کے نام سے جسٹس ایس اے رحمن (مرحوم) نے کیا ہے اور انتہائی درد مندی اور مہارت سے کیا ہے ۔ یہاں ’’بابائے صحرائی کی نصیحت ‘‘ جسٹس صاحب کے ترجمے کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے : تو اے جو پھُول کی مانند مٹی سے پھلا پھُولا ہوا بطنِ خودی سے تو ریاضِ دہر میں پیدا نہ کر ترکِ خودی ہر گز، بقا انجام ہو کر رہ جو قطرہ ہو کے رہنا ہے تو بحر آشام ہو کر رہ خودی کے نور سے ہوتی ہے ہستی تیری تابندہ خودی محکم اگر کر لے تو ہو جائے تو پائندہ یہ سودا فائدے کا ہے، نہ اس سودے سے ہو غافل یہ وہ دولت ہے جس سے تجھ کو ہوگی خواجگی حاصل اگر زندہ ہے تو، کیوں نیستی سے ڈرتا رہتا ہے ترے قرباں غلط سمجھا ہے تو جو کچھ بھی سمجھا ہے ……………………………… حقیقت مجھ پر روشن ہے کہ سازِ زندگی کیا ہے؟ ادھر آ میں بتائوں تجھ کو رازِ زندگی کیا ہے؟ خود اپنے آپ ہی میں غوطہ زن مثلِ گہر ہونا اُبھر کر اپنی خلوت گاہ سے آتش نظر ہونا دبی چنگاریوں کو راکھ کی ڈھیری میں بھڑکانا جو نظروں کو جلا دے ایسا شعلہ زار بن جانا چہل سالہ مصیبت کا گھروندا پھُونک کر رکھ دے تو بن کہ شعلۂ جوالہ اپنے گرد چکّر لے ……………………………… جو طوفِ غیر ہی کو موت گردانے، وہ زندہ ہے وجود اپنے کو جو بیت الحرم جانے، وہ زندہ ہے پروں کو پھڑ پھڑا کر تو نکل مٹی کے پھندے سے پرندوں کی طرح محفوظ ہو گرنے کے خدشے سے اگر طائر نہیں ہے تو، نہ کر پھر امتحاں اپنا دہانِ غار پر ہرگز بنا مت آشیاں اپنا تری خواہش ہے باغِ علم کے سب پھول تو چُن لے پیامِ پیرِ رومی گوشِ دل سے تُو مگر سُن لے نہیں افعی سے کم وہ علم جو بس تن کے کام آئے ترا ہمدم بنے گا علم اگر وہ دل کو گرمائے تجھے معلوم ہے یہ داستاں اُستادِ رومی کی کہ جس کی درس گہ شہرِ حلب میں علم پرور تھی پڑی عقلی دلیلوں کی تھی بیڑی اُس کے پائوں پر پھنسی تھی اس کی کشتی عقل کے گرداب میں آکر وہ موسیٰ ؑ تھا مگر بیگا نہ سینا ئے محبت سے نہ اس کو عشق سے مس تھا نہ سودائے محبت سے تشکک پر کبھی اِشراق پر اصرار ہوتا تھا ہر اک موضوع پر حکمت کے موتی وہ پروتا تھا وہ سلجھاتا تھا اکثر قولِ مشائین کے عقدے اُجاگر اُس کے نورِ فکر سے اَسرار تھے سارے ……………………………… کتابوں کے ذخیروں میں سدا محصور رہتا تھا نشے میں شرحِ اسرارِ کتب کے چُور رہتا تھا اشارہ ہو گیا جب پیرِ تبریزی کو مرشد کا جلال الدین کے مکتب کا اُس نے رُخ کیا سیدھا کہا یہ شور و غوغا اور یہ قیل و قال کیسے ہیں؟ خدا را یہ قیاس و وہم و استدلال کیسے ہیں؟ کہا یوں مولوی نے ڈانٹ کر : خاموش اے ناداں خردمندوں کی باتوں پر ہنسی تجھ کو نہیں شایاں پرے ہٹ، دور ہو جا میرے مکتب سے او دیوانے ترا کیا کام ہے اس سے، تو قیل و قال کیا جانے؟ ہماری گفتگو تیری سمجھ کی حد سے باہر ہے اسی کے نُور سے ادراک کا شیشہ منوّر ہے بڑھایا سوزِ شمس ان بے طرح باتوں نے ملاّ کی بھڑک اُٹھی غضب کی آگ سے تب روحِ تبریزی زمیں پر اس کی نظروں نے گرائے برق کے پارے نمایاں اس کے سوزِ دم سے مٹی میں ہوئے شعلے جلایا خرمنِ ادراک یکسر دل کی آتش نے کیا سب فلسفے کا پاک دفتر دل کی آتش نے وہ ملَّا عشق کے اعجاز سے واقف نہ تھا اب تک وہ سازِ عشق کے نغموں سے تھا نا آشنا اب تک ……………………………… پکار اُٹھا : ’’یہ شعلہ کس طرح بھڑکا دیا تُونے کہ جس سے دفترِ حکمت کو خاکستر کیا تُونے‘‘ کہا یوں شیخ نے : ہے مسلم زنّارِ بستہ تُو یہ ذوق و حال ہے، خاموش رہ، لے اپنا رستہ تُو ترے فکر و تخیل سے ہمارا حال بالا ہے جو مس کو زر کرے وہ کیمیا شعلہ ہمارا ہے ترے سرمایہ کو ہے برفِ حکمت سے ملا کَس بل فقط اولے ہی برساتا ہے تیرے فکر کا بادل اُٹھ اپنے ہی خس و خاشاک سے آتش فروزاں کر تو اپنی خاک کے ہر ذرہ کو شعلہ بداماں کر نہ ہو گر سوزِ دل، مسلم نہیں ہے علم میں کامل یہی ہے معنیِ اسلام، تو ہو تارکِ آفل جو ابراہیمؑ نے پائی رہائی بندِ آفل سے نہ اس کا بال بیکا کر سکے نمرود کے شعلے لگن باطل کی ہے تجھ کو، تو علمِ حق کو بھولا ہے فقط روٹی کی خاطر نقدِ دیں کو تُو نے بیچا ہے تو سرگردان و آوارہ ہوا ہے دُھن میں سرمے کی نہاں ہے تیری نظروں سے مگر چشمِ سیہ تیری تمنا کر کہ تجھ کو آبِ حیواں دے دمِ خنجر تو خواہاں ہو کہ تجھ کو سانپ کے مُنہ سے ملے کوثر طلب کر سنگِ اسود تو درِ بت خانہ سے جا کر طلب کر مشک کا نافہ سگِ دیوانہ سے جا کر نہ لیکن ڈھونڈھ سوزِ عشق ہرگز علمِ حاضر سے ملے گا کیفِ حق کا جام کیا اس پختہ کافر سے مجھے آوارہ رکھا ایک مدت علم کی لَو نے بنایا محرمِ راز اپنا مجھ کو دانشِ نَو نے چمن والوں نے میرا امتحاں کر کے مجھے پرکھا کیا ہمراز مجھ کو تب اُنھوں نے اس گلستاں کا نہیں گلشن، حقیقت میں یہ لالہ زار عبرت ہے گلِ کاغذ کی صورت یہ سرابِ رنگ و نکہت ہے ہوا ہوں قید سے اس گلستاں کی میں رہا جب سے بنا ہے آشیانہ شاخِ طوبیٰ پر مراتب سے نظر کے واسطے ہے علمِ نو سب سے بڑا پردہ ہے اس کا بُت پرستی، بُت فروشی، بت گری شیوہ پڑی ہے پائوں میں اس کے مظاہر کی کڑی بیڑی حدودِ حس سے یہ نکلے، نہیں تدبیر کچھ اس کی گرا یوں راہِ ہستی میں، اسے جینا ہوا دُو بھر خود اپنے ہی گلے پر اس نے آخر رکھ دیا خنجر نہیں ہے اس کی آتش میں حرارت لالہ کی صورت بظاہر شعلہ رکھتا ہے، خنک ہے ژالہ کی صورت ……………………………… رہی آزاد فطرت اس کی سوزِ عشق سے یکسر جہانِ جستجو میں ہے یہ ناکامی کا نوحہ گر خرد کے عارضوں کا عشق افلاطون ہوتا ہے اُترتا ہے جنوں اس کا، یہ جب نشتر چبھوتا ہے وہیں سجدے کرے عالم جہاں پر عشق فرمائے یہ وہ محمود ہے جو سومناتِ عقل کو ڈھائے رہی خالی صراحی علمِ نو کی عشق کی مئے سے نہ راتیں آشنا اُس کی ہوئیں فریاد کی لَے سے ……………………………… رہی کم تیری نظروں میں ترے شمشاد کی قیمت عطا کی دوسروں کے سرو کو تونے مگر رفعت مثالِ نَے خود اپنے آپ کو توُ نے کیا خالی بنایا تُو نے دل اپنا نوائے غیر کا حالی تُو خوانِ غیر سے ہے ایک ریزہ مانگتا پھرتا تُو غیروں کی دکاں سے جنس اپنی کا ہوا جویا جل اُٹھی بزم مُسلم کی چراغِ غیر سے آخر لگی آگ اس کی مسجد کو شرارِ دیر سے آخر حرم کی سرزمین سے جب نکل کر آگیا آہو ہوا صیاد کے تیروں سے چھلنی اُس کا پھر پہلو پریشاں مثلِ بو ہیں پتّیاں گل کی، چمن اُجڑا خودی سے بھاگنے والے پھر اپنی سمت واپس آ امانت دی گئی تجھ کو کتابِ پاک کی حکمت کہیں سے ڈھونڈ لا اپنی وہی کھوئی ہوئی وحدت حصارِ عافیت ملّت ہے، ہم ملّت کے ہیں درباں ہوئے ترکِ شعارِ قوم سے ہم تارکِ ایماں ہوا ہے ٹکڑیٹکڑے ساقیِ دیرینہ کا ساغر پریشاں بزمِ رندانِ حجازی ہو گئی یکسر بتوں سے کعبہ کو آباد رکھنا کام ہے اپنا ہنسی جس کی اڑائے کفر وہ اسلام ہے اپنا محبت میں بتوں کی شیخ نے اسلام ہارا ہے جو سلک سبحہ لازم ہو، اُسے زنّار پیارا ہے سفیدی نے سروں کی ہے بنایا پیر پیروں کو ملا موقع ہنسی کا ہر گلی کوچہ کے بچوں کو ہوئے ہیں لا الٰہ کے نقش سے دل اُن کے بیگانے ہوس کی مورتوں سے ہو گئے آباد بت خانے ……………………………… ہوا ہرمُو دراز اب طاق طرزِ خرقہ پوشی میں کیا ہے نام ان سوداگروں نے دیں فروشی میں سفر میں رات دن رہتے ہیں ساتھ اپنے مریدوں کے وہ ہیں نا آشنا ملّت کی ہر ادنیٰ ضرورت سے نہیں ہے نور کوئی مثلِ نرگس اُن کی آنکھوں میں دلِ زندہ کی دولت کی کمی ہے اُن کے سینوں میں ……………………………… مگن منصب پرستی میں ہوئے سب واعظ و صوفی نہیں ہے اعتبار اب ملّتِ بیضا کا کچھ باقی لگی ہے آنکھ واعظ کی صنم خانے کے منظر پر بنا ہے مفتی دینِ مبیں، فتووں کا سوداگر کیا ہے رُخ ہمارے پیر نے مے خانے کا سیدھا بتائو ہمدمو تم ہی کہ ہو تدبیر اپنی کیا؟ ……………………………… باب نمبر ۵ فقر فقر درحقیقت خودی کا ایک ذیلی اخلاقی وصف ہے ۔ اقبال کے ہاں یہ اصطلاح مفلسی، فقیری یا گداگری کے مفہوم میں استعمال نہیں ہوئی، بلکہ مشہور حدیث نبوی ﷺ ’’اَلفَقْرُ فَخْرِی‘‘ (فقر میرا فخر ہے)کے مفہوم میں استعمال ہوئی ہے۔ فقر کے معنی یہ ہیں کہ دل کو دنیا سے الگ رکھنا، باہمہ و بے ہمہ رہنا، دنیا کی کسی شے سے محبت نہ رکھنا، دنیا میں کسی چیز کی طلب نہ رکھنا سوائے سوزِ دل کے ۔ نعمتیں، آسائشیں اور اسباب کی فراوانی انسان کو اندھا بنا دیتی ہیں۔ اُس کے دل میں سوزِ قلب نہیں رہتا ۔ وہ دنیوی علائق میں اس قدر پھنس جاتا ہے کہ پھر اُسے اپنی روح کی پرورش کی فکر نہیں رہتی ۔ اسی لیے اقبال نوجوانوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ وہ خواہ کتنے ہی اعلیٰ مناصب و مراتب پر کیوں نہ پہنچ جائیں، لیکن دل درویش رہنا چاہیے۔ تمنا دردِ دل کی ہو تو خدمت کر فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنے آستینوں میں ۱؎ ………………… سماں اَلفَقْرُ فَخْرِی کا رہا شانِ امارت میں باب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را گدائی میں بھی وہ اللہ کے والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا ۱؎ ………………… نہیں فقر و سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ سپہ کی تیغ بازی، وہ نگہ کی تیغ بازی ۲؎ ………………… نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ ۳؎ ………………… گو فقر بھی رکھتا ہے اندازِ ملوکانہ ناپختہ ہے پرویزی، بے سلطنتِ پرویز اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی خونِ دلِ شیراں ہو، جس فقر کی دستاویز ۴؎ ………………… میں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیا تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری نہ فقر کے لیے موزوں، نہ سلطنت کے لیے وہ قوم جس نے گنوایا متاع تیموری ۱؎ ………………… دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسدؓ اللّہی آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ۲؎ ………………… یا شرعِ مسلمانی، یا دیر کی دربانی یا نعرۂ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ مِیری میں، فقیری میں، شاہی میں، غلامی میں کچھ کام نہیں بنتا، بے جرأتِ رندانہ ۳؎ ………………… فقر کے ہیں معجزات، تاج و سریر و سپاہ فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ علم کو مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد فقر کا مقصود ہے، عفتِ قلب و نگاہ علم فقیہ و حکیم، فقر مسیحؑ و کلیمؑ علم ہے جو یائے راہ، فقر ہے دانائے راہ فقر مقامِ نظر، علم مقامِ خبر! فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ علم کا ’موجود‘ اور، فقر کا ’موجود‘ اور اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہ، اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو تیری نگہ توڑ دے، آئینۂ مہر و ماہ ۱؎ ………………… مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے یہ آدم گری ہے، وہ آئینہ سازی ۲؎ ………………… کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو آنکھیں میری بینا ہیں، ولیکن نہیں بیدار آئی یہ صدا سلسلۂ فقر ہوا بند ہیں اہل نظر کشورِ پنجاب سے بیزار عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں پیدا کلہ فقر سے ہو طرّہ و دستار باقی کلہِ فقر سے تھا ولولۂ حق! طرّوں نے چڑھایا نشۂ خدمتِ سرکار ۱؎ ………………… اک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میںمسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیّتِ اکسیری اک فقر ہے شبّیری، اس فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبّیری ۲؎ ………………… اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات جو فقر سے ہے میسر، تونگری سے نہیں اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور قلندری مری کچھ کم، سکندری سے نہیں سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے زوال بندۂ مومن کا، بے زری سے نہیں اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا قلندری سے ہوا ہے، تونگری سے نہیں ۱؎ ………………… سوچا بھی ہے اے مردِ مسلماں کبھی تو نے کیا چیز ہے فولاد کی شمشیرِ جگر دار اس بیت کا یہ مصرعِ اوّل ہے کہ جس میں پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار ہے فکر مجھے مصرعِ ثانی کی زیادہ اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدرِ کرارؓ! ۲؎ ………………… کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں ہے بے پردہ روحِ قرآنی خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی ۱؎ ………………… کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی یہ فقر مردِ مسلماں نے کھودیا جب سے رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی ۲؎ ………………… خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم عشق ہو جس کا جسور، فقر ہو جس کا غیور ۳؎ ………………… آدم کا ضمیر اس کی حقیقت پہ ہے شاید مشکل نہیں اے سالکِ رہ علمِ فقیری فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق پیدا ہو اگر اُس کی طبیعت میں حریری خود دار نہ ہو فقر تو ہے قہرِ الہٰی ہو صاحبِ غیرت تو ہے تمہیدِ امیری ۱؎ ………………… جو فقر ہوا تلخیِ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی ۲؎ ………………… غریبی میں ہوں محسودِ امیری کہ غیرت مند ہے میری فقیری حذر اس فقر و درویشی سے جس نے مسلماں کو سکھادی سربزیری ۳؎ ………………… باب نمبر ۶ عشق خودی اور ایمان و یقین کی پختگی اگر منزل ہے، تو اس منزل تک پہنچنے کا واحد مستقیم راستہ عشق ہے ۔ قاضی عبدالغفار مرحوم نے کیا خوب لکھا ہے: ’’اقبال کے سینے میں دو رُوحوں کا آشیانہ تھا ۔ ایک شاعر کی حُسن پرست اور عشق پرور رُوح، اور ایک مسلمان کی ہنگامہ خیز اور شورش انگیز رُوح ۔ آخری دور میں حُسن پرست روح ساکن اور مسلمان کی رُوح اس طرح ہنگامہ آرا ہو گئی کہ شاعر اپنا پیام بن کر ہر طرف چھا گیا ۔ اب سننے والے یہ نہیں دیکھتے کہ زبان اردو ہے یا فارسی ۔ اقبال کی شاعری نے زبان اور طرزِ ادا کے امتیازات سے قطع نظر کر لی۔ بس،کہے جاتا ہے،کہے جاتا ہے،جو اُس کو کہنا ہے ۔ ’’ہر ڈر‘‘نے کہا تھا : ’’شاعری نوعِ انسانی کی مادری زبان ہے۔‘‘ اقبال کی شاعری اس قول کی تشریح ہے۔ اُس کے لیے اردو اور فارسی کا امتیاز ایک قصۂ پارینہ ہے۔‘‘ یوں تو انہوں نے ابتدائی زمانے میں لفظ ’’عشق‘‘ کو اردو اور فارسی کی عام شاعری کے معنوں میں استعمال کیا ہے جو لفظ ’’حسن‘‘ کے مقابل آتا ہے ۔ اس مفہوم میں انہوں نے کئی نظمیں لکھیں ۔ بعض تلف کر دیں ۔ بعض نظمیں جو ’’بانگ ِدرا‘‘ میں شامل ہیں، اُن میں ’وصال،حسن و عشق، سلیمٰی، محبت، … کی گود میں بلّی دیکھ کر‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بعد کی شاعری میں لفظ عشق ایک اصطلاح بن گیا اور حُسن کی بجائے ’’عقل‘‘ کے مقابل آ کر خودی کا حصہ دار بن گیا ۔ اِس عشق نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، پروان چڑھایا اور اُس کی شاعری کو نِت نئے معانی، افکار کی جولانی اور قوتِ تاثیر عطا کی ۔ اپنی شخصیت کو عشق کی سان پر چڑھانے کے لیے اُن کا طریقہ ’’آہ ِسحر گاہی‘‘ تھا۔ جب سارا عالم خوابِ غفلت میں پڑا سوتا رہتا، اُس اخیر شب میں اقبال کا اٹھنا اورا پنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا، پھر گڑ گڑانا اور رونا ۔ اقبال علی الصباح اٹھنے کا بہت ہی اہتمام رکھتے تھے ۔ سفر و حضر، ہر مقام اور ہر کہیں اُن کے لیے سحر خیزی ضروری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ جوانوں میں اپنی اِس آہ و سوز اور درد و تپش کو دیکھنے کی تمنا کرتے تھے اور دعائیں کرتے کہ خداوند ا ! یہ میرا سوزِ جگر اور میرا عشق آج کل کے مسلم نوجوانوں کو بخش دے ۔ جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مِرا عشق، میری نظر بخش دے …………………… شیشۂ دہر میں مانند مئے ناب ہے عشق روحِ خورشید ہے، خونِ رگِ مہتاب ہے عشق دلِ ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی کہیں سامانِ مسرت، کہیں سازِ غم ہے کہیں گوہر ہے کہیں اشک، کہیں شبنم ہے ۱؎ …………………… ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید عشق عقلِ انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید عشق عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے عشق سوزِ زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مرجاتا نہیں روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی ۱؎ …………………… پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی عشق فرمودۂ قاصد سے سبک گامِ عمل عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی ۲؎ …………………… گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے قلب کو لیکن ذرا آزاد رکھ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ ۳؎ …………………… عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام اس زمیں و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں ۱؎ …………………… عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیرو بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نم ۲؎ …………………… اگر ہو عشق، تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو، تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق ۳؎ …………………… عشقِ بُتاں سے ہاتھ اٹھا، اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگارِ دیر میں خونِ جگر نہ کر تلف کھول کے کیا بیاں کروں سرِ مقامِ مرگ و عشق عشق ہے مرگِ باشرف، مرگ حیاتِ بے شرف ۴؎ خرد نے مجھ کو عطا کی نظرِ حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ نہ بادہ ہے، نہ صراحی، نہ دورِ پیمانہ فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزم جانانہ مقامِ عقل سے آساں گزر گیا اقبالؔ مقامِ شوقِ میں کھویا گیا وہ فرزانہ ۱؎ …………………… جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی عطار ہو، رومی ہو، ہو رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہِ سحر گاہی ۲؎ …………………… عشق تری انتہا، عشق مری انتہا تو بھی ابھی نا تمام، میں بھی ابھی نا تمام آہ! کہ کھویا گیا تجھ سے فقیری کا راز ورنہ ہے مالِ فقیر، سلطنت روم و شام ۳؎ …………………… جمالِ عشق و مستی نے نوازی جلالِ عشق و مستی بے نیازی کمالِ عشق و مستی ظرفِ حیدرؓ زوالِ عشق و مستی حرفِ رازی ۱؎ …………………… کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق کبھی سوز و سرور و انجمن عشق کبھی سرمایۂ محراب و منبر کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق ۲؎ …………………… کبھی آوارہ و بے خانماں عشق کبھی شاہِ شہاں نوشیرواں عشق کبھی میداں میں آتا ہے زرہ پوش کبھی عریان و بے تیغ و سناں عشق ۳؎ …………………… ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رَو عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفی عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام عشق کی مستی سے ہے، پیکرِ گل تاب ناک عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جنود عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات ۱؎ …………………… عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گرِ ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی دانش و دین و علم و فن، بندگیِ ہوس تمام عشق گرہ کشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی جوہرِ زندگی ہے عشق، جوہرِ عشق ہے خودی آہ کہ ہے یہ تیغ تیز، پردگیِ نیام ابھی ۱؎ …………………… عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں، بت کدۂ تصورات صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق ۲؎ …………………… تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب ۳؎ …………………… علم نے مجھ سے کہا، عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا، علم ہے تخمین و ظن بندۂ تخمین و ظن، کرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات علم مقامِ صفات، عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب عشق کے ہیں معجزات، سلطنت و فقر و دیں عشق کے ادنیٰ غلام، صاحبِ تاج و نگیں عشق مکان و مکیں، عشق زمان و زمیں عشق سراپا یقیں، اور یقیں فتح یاب شرعِ محبت میں ہے عشرتِ منزل حرام شورشِ طوفاں حلال، لذتِ ساحل حرام عشق پہ بجلی حلال، عشق پہ حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب، عشق ہے اُمّ الکتاب ۱؎ باب نمبر ۷ عشقِ قرآن اقبال کی زندگی پر کلامِ الٰہی جس قدر اثر انداز ہوا ہے، اُتنا وہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں اور نہ کسی کتاب نے اُن پر ایسا اثر ڈالا ہے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ’’ اقبال کا ایمان چونکہ ’’نو مسلم ‘‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر نہیں ملا ہے، اس لیے اُن کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف ، تعلق اور شعور و احساس کے ساتھ مطالعے اور تلاوت کا ذوق بہت زیادہ ہے۔‘‘ قرآن کا پڑھنا عام کتابوں کے پڑھنے سے بہت ہی مختلف رہا ہے، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ اُن کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نمازِ فجر قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اقبال کے والد جب اُنہیں دیکھتے تو فرماتے،کیا کر رہے ہو؟ اقبال جواب دیتے ’’قرآن پڑھ رہا ہوں۔‘‘ کچھ دنوں تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ آخر ایک دن اقبال نے پوچھا : ’’ابّا جان، آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں، اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں۔ ‘‘ تو انھوں نے جواب دیا ’’میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے۔‘‘ اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی اُن پر نازل ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گزاری ، قران مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے، قرآن بولتے ۔ نوجوانانِ ملّت کے لیے وہ ایک پیغام چھوڑ گئے ہیں : ’’میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں، جس گھر میں علی الصبح تلاوتِ قرآن مجید کی آواز آئے۔‘‘ یعنی تلاوت ہو اور آواز کے ساتھ ہو ۔ زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے غضب ہے سطرِ قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل! بنایا ہے بتِ پندار کو اپنا خدا تو نے ۱؎ ……………………… صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!۲؎ ……………………… صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟ تھے تو آبا وہ تمھارے ہی‘ مگر تم کیا ہو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو!۳؎ ……………………… ہر کوئی مست میٔ ذوقِ تن آسانی ہے تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟ حیدریؓ فقر ہے، نے دولتِ عثمانیؓ ہے تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر۱؎ ……………………… اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا ، وہ راز داں تیرا ہے یا میرا؟ محمدؐ بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں، ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ ۲؎ ……………………… حاضر ہیں کلیسا میں کباب و میٔ گلگوں مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند احکام ترے حق ہیں، مگر اپنے مفسر تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پازند ۳؎ ……………………… وہ دانائے سُبل ، ختم الرّسل ، مولائے کلؐ جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل ، وہی آخر وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طاہا ۱؎ ……………………… اسی قرآں میں ہے اب ترکِ جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر ’تن بہ تقدیر‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر تھا جو ’ناخوب، بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۲؎ ……………………… ہند میں حکمتِ دِیں کوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذّتِ کردار، نہ افکارِ عمیق حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں آہ! محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق! خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق! ۳؎ ……………………… یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!۱؎ ……………………… قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں اﷲ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار۲؎ ……………………… جانتا ہوں میں یہ امت حاملِ قرآں نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں ۳؎ ……………………… باب نمبر ۸ عشقِ رسولؐ عشق اقبال کی باطنی زندگی میں ارتقا پا کر عشقِ رسولؐ بن گیا ہے۔ جب وہ رسولِ کریمؐ کا تذکرہ کرتے ہیں تو اُن کا شعری وجدان جو ش مارنے لگتا ہے اور اشعار خود بہ خود نعت کی صورت اختیار کرنے لگتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہیں ؎ در دلِ مُسلم مقام مصطفی ؐ است آبروئے ما ز نام مصطفی ؐ است شور عشقش در نئے خاموشِ من می تپد صد نغمہ در آغوشِ من جوں جوں زندگی کے دن گزرتے گئے آنحضورؐ کے ساتھ اقبال کا عشق جنون کی صورت اختیار کرتا گیا، یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی اُن کی مجلس میںنبیِ کریمؐ کا ذکر آتا یا مدینۂ منورہ کا ذکر ہوتا تو اقبال بے قرار ہو جاتے، آنکھیں بھر آتیں،یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے، بعض اوقات ہچکیاں بندھ جاتیں ۔ مدینہ کا نام آتے ہی پیمانۂ عشق لبریز ہو جاتا اور اشکِ محبت کی جھڑیاں لگ جاتیں ۔ وہ حج یا عمرے کے لیے بڑے بے تاب رہتے لیکن اُنہیں یہ سعادت جسماناً نصیب نہ ہو سکی، لیکن انہوں نے ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے ایک باب بہ عنوان ’’ بہ حضور رسالت ؐ ‘‘میں آنحضورؐ کو مخاطب کر کے اپنے ذاتی وارداتِ قلب اور اُمتِ مسلّمہ کی دل گداز تصویر کھینچ کر رکھ دی۔ اقبال کے اکثر و بیش تر اشعار میں عشقِ رسولؐ کی تب و تاب نمایاں ہے۔ یہاں چند اردو اشعار کے انتخاب کے علاوہ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے اُس حصے کا انتخاب (مع ترجمہ) شامل ہے، جس میں اقبال ’’بہ حضور رسالت ؐ ‘‘ روحانی طور پر پیش ہوتے ہیں۔ سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا ۱؎ ………………… قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے۲؎ ………………… کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں ۳؎ ………………… پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس ۴؎ ………………… اے باد صبا! کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا قبضے سے امت بیچاری کے دیں بھی گیا، دنیا بھی گئی ۵؎ ………………… اسے صبحِ ازل انکار کی جرأت ہوئی کیونکر مجھے معلوم کیا! وہ راز داں تیرا ہے یا میرا؟ محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ ۱؎ ………………… وہ دانائے سُبل، ختم الرّسل، مولائے کلؐ جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینا نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل، وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی طاہا۲؎ ………………… تو اے مولائے یثربؐ! آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زنّاری۳؎ ………………… شیرازہ ہوا ملّتِ مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے! وہ لذّتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے اس راز کو اب فاش کر اے روحِ مُحمدؐ آیاتِ الہٰی کا نگہبان کدھر جائے!۴؎ ………………… وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو ۱؎ ………………… سرود بر سرِ منبر کہ ملّت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی است بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نر سیدی، تمام بولہبی است ۲؎ حضورِ رسالتؐ آگے جو اشعار پیش کیے جا رہے ہیں، علامہ اقبال کی لازوال تخلیق ’’ارمغان حجاز‘‘ کے اُس باب سے ماخوذ ہیں، جس کا عنوان ہے ’’حضورِ رسالتؐ ‘‘۔ اس باب کا آغاز وہ فارسی شاعرعزت بخاری کے اس مشہور شعر سے کرتے ہیں ؎ ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا ترجمہ: رسول کریم ؐ کا شہر مدینہ یا روضۂ مبارک ایک ایسی ادب گاہ ہے، جہاں حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی جیسے عظیم اولیا بھی سانس گُم کیے ہوئے آتے ہیں کہ کہیں سانس لینا بھی بے ادبی میں شامل نہ ہو جائے۔ شہرِ نبوی کو عزت بخاری کی زبان میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے بعد اقبال عالمِ خیال میں مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا سفر شروع کرتے ہیں، اور اس تصوّر کے ساتھ وہ قافلۂ شوق کے ہمراہ نرم ریگستانی زمین پر رواں دواں ہیں۔ ذوقِ حضوری اور شوق و محبت میں یہ ریت اُن کو ریشم سے بھی زیادہ نرم محسوس ہو رہی ہے، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کا ہر ذرّہ دل بن کر دھڑک رہا ہے۔ اقبال ساربان سے کہتے ہیں کہ ان دھڑکتے ہوئے دلوں کا خیال کرے اور نرم روی اختیار کرے ؎ چہ خوش صحرا کہ شامش صبح خند است شبش کوتاہ و روزِ او بلند است قدم اے راہرو آہستہ تر نہ چو ما ہر ذرّئہ او درد مند است ترجمہ: مدینے کے راستے کا صحرا کتنا اچھا ہے کہ اس کی شام صبح کی مانند مسکراتی ہوئی ہے، جس میں ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہیں ۔ یہاں کی رات لمبی اور دن چھوٹا ہے ۔ اے راہی ! اس صحرا کی ریت پربڑی نرمی سے قدم رکھ، کیوں کہ اس کا ہر ذرّہ میری طرح درد مند ہے۔ پھر اقبال اسی عالمِ خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ ٔ مبارک پر حاضر ہوتے ہیں ۔ درود و سلام پڑھتے ہیں۔ محبت و شوق کی زبان ان کے دل کی ترجمان بن جاتی ہے اور وہ اس مبارک وقت اور سنہری موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنا حالِ دل بیان کرتے ہیں۔ امت اورعالمِ اسلا م کی حالتِ زار، ان کے مسائل اورمشکلات، آزمائش اور امتحانات، نیز مغربی تہذیب و تعلیم اور مادی فلسفوں اورتحریکوں کے سامنے مسلمانوںکی بے بسی، اپنے اپنے وطن میں ان کی غریب الوطنی اور خود اپنے مسلمانانِ ہند میں اپنے پیغام کی ناقدری کاشکوہ کرتے ہیں۔ کبھی ان کی آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں اور کبھی دل کی بات زبان پر آجاتی ہے ۔ اقبال کا یہ روحانی سفر اس زمانے میں ہوا، جب ان کی عمر ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی تھی ۔ حج اورزیارتِ مقدسہ کی حسرت و تمنا ان کے دل میں جاگزیں تھی، لیکن ذوقِ سفر سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ جسمانی طور پر درِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پیادہ گئے ہیں۔ بایں پیری رہِ یثرب گرفتم نواخواں از سرورِ عاشقانہ چوآں مرغ کہ درصحرا سرِشام کشاید پر بہ فکرِ آشیانہ ترجمہ:میں نے اس بڑھاپے میں یثرب کی راہ اختیار کی ہے۔ عاشقانہ نوا خوانی کی مستی اور سرور میں چلا جارہا ہوں اس پرندے کی طرح جو صحرا میں شام کے وقت اپنے گھونسلے کی فکر میں پر کھولتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اس وقت جبکہ میری زندگی کا آفتاب لب ِبام ہے، اگر میں نے مدینہ منورہ کا قصد کیا تو اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ جس طرح شام کے وقت پرندے اپنے اپنے آشیانے (حقیقی مسکن) کی طرف جاتے ہیں، اسی طرح میری روح بھی اب اپنے حقیقی آشیانے کی طرف واپس جانا چاہتی ہے ۔ مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان جب اقبال کی اونٹنی اپنی رفتار تیز کردیتی ہے تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ سوار بہت خستہ و بیمار ہے، لیکن اونٹنی ان کا مشورہ نہیں مانتی ۔ وہ مستانہ وار قدم تیز تر کرتی جاتی ہے،گویا یہ صحرا نہیں، بلکہ ریشم کانرم فرش بچھا ہوا ہے۔ سحر با ناقہ گفتم نرم تر رَو کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی بپایش ریگِ ایں صحرا حریر است ترجمہ : صبح کے وقت میں نے اونٹنی سے کہاکہ ذرا نرمی اور آہستگی سے چل ۔ تجھ پر جو شخص سوار ہے، وہ کم زور، بیمار اوربوڑھا ہے ۔ میں نے جتنا زیادہ اصرار کیا، اس نے اتنا ہی قدم تیز تر کردیے۔ کیوں کہ وہ بھی جلوۂ رسول ؐ کا شوق رکھتی تھی ۔ جب وہ چلتی تھی تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ صحرا کی ریت پر نہیں چل رہی،بلکہ ریشمی کپڑے پر چل رہی ہے ۔ اب یہ کاروانِ مدینہ درود و سلام کی سوغات لیے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔ اس پر کیف فضا میں اقبال تمنا کرتے ہیں کہ کاش ان کو اس گرم ریت پر ایک ایسا سجدہ میّسر ہو جوان کی پیشانی کے لیے نقشِ دوام بن جائے۔ وہ اہل قافلہ کو بھی اسی سجدہ ٔ شوق کا مشورہ دیتے ہیں۔ چہ خوش صحرا کہ دروے کارواں ہا دُرودے خواند و محمل براند بہ ریگِ گرم او آور سجودے جبیں را سوز تا داغے بماند ترجمہ :کتنا اچھا ہے یہ صحرا، جس میں قافلے والے درود پڑھتے جاتے ہیں اور محمل والے اونٹوں کو ہانکتے جاتے ہیں۔ اس صحرا کی گرم ریت پر سجدے کر۔ پیشانی کو اس کے سوزسے جلا،تا کہ اس پر ایک داغ ہمیشہ کے لیے رہ جائے ۔ ذوق وشوق کازیادہ غلبہ ہوتا ہے توعراقی اور جامی کے اشعار بے ساختہ ان کی زبان پر جاری ہوجاتے ہیں۔ گہے شعرِ عراقی را بخوانم گہے جامی زند آتش بجانم ندانم گرچہ آہنگِ عرب را شریکِ نغمہ ہائے سار بانم ترجمہ :کبھی میں فخر الدین عراقی کے شعر پڑھنے لگتا ہوں اور کبھی مولانا عبدالرحمن جامی کے شعر میری جان میں آگ لگاتے ہیں ۔ اگر چہ عربوںکا آہنگ نہیں جانتا، لیکن میں ساربان کے نغمے میں، آواز سے آواز ملا کر شریک ہوں ۔ لوگ حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں کہ یہ عجمی آخر کس زبان میں اشعار پڑھ رہا ہے جو سمجھ میں نہیں آتے لیکن دل کو درد و محبت سے اس طرح بھر دیتے ہیں کہ آدمی کو کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا اور پانی کے بغیر بھی اس کی تشنگی دور ہوجاتی ہے ؎ امیر کارواں ! آں اعجمی کیست؟ سرودِ او بآہنگِ عرب نیست زند آں نغمہ کز سیرابیٔ او خنک دل در بیابانے تواں زیست ترجمہ:اے امیر کارواں! یہ تیرے قافلے میںکون عجمی ہے،جس کا سرود، جس کی لَے عرب کے آہنگ سے جدا ہے ۔ یہ ایسانغمہ الاپ رہا ہے جس سے اس کادل اس بیاباں میں گرمی کے باوجود سیرابی اور ٹھنڈک محسوس کررہا ہے ۔ راستے کی دشواریوں اور مشقتوں میں ان کو لطف آنے لگتا ہے ۔ شب بیداری،کم خوابی اور بے آرامی سے سرور حاصل ہوتا ہے۔وہ اس راستے کو طویل نہیں سمجھتے اور جلد پہنچنے کی آرزو نہیں کرتے، بلکہ اپنے ساربان سے اس کی خواہش کرتے ہیں کہ وہ اس سے بھی زیادہ طویل اور دراز تر راستے سے لے چلے، تاکہ اس بہانے سے ذوق و شوق کی مدت بھی کچھ دراز ہوسکے اور انتظار کا لطف دوبالا ہوسکے ۔ غم راہی نشاط آمیز تر کن فغانش راجنوں انگیز تر کن بگیر اے سارباں راہِ درازے مرا سوزِ جدائی تیز تر کن ترجمہ : اے ساربان : مجھ راہی کے غم کو زیادہ نشاط آمیز اور لذت خیز بنا ۔ میری آہ و فغاں میں زیادہ جنون پیدا کر۔ اے ساربان ! کوئی لمبا راستہ اختیار کر ۔ میرے سوزِ جدائی اور تیز کر۔ اسی سرور و شوق اور کیف و مستی کے ساتھ وہ سارا راستہ طے کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچتے ہیں اور اپنے رفیقِ سفر سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں ایک ہی زلف کے اسیر ہیں۔ آج ہم کو اپنے دل کی مراد برلانے اور اپنے آقا اورمحبوب کے قدموں پر اپنی پلکیں بچھانے کا موقع ملا ہے، اس لیے آج ہمیں اپنی آنکھوں پر سے پابندی ہٹالینی چاہیے، اور اس سیلابِ اشک کو جو عرصے سے امنڈ نے کے لیے بے چین ہے، تھوڑی دیر کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔ بیا اے ہم نفس باہم نالیم من و تو کشتہ شانِ جمالیم دو حرفے بر مُرادِ دل بگویم بپائے خواجہؐ چشماں را بمالیم ترجمہ : آ، اے میرے ہم نفس، ہم مل کر روئیں، کیوںکہ میں اور تو، ہم دونوں اس کی شانِ جمال،جلوۂ محبوب کے مارے ہوئے ہیں۔ ہم دونوں اپنے دل کی مراد کے بارے میں کچھ کہیں، اور روضہ ٔ رسول ؐ پر جا کر اپنے خواجہ ؐ کے پائوں پر اپنی آنکھیںملیں۔ اقبال اپنے اوپر رشک کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ کیسی خوش نصیبی اورکیسا مقامِ مسرت ہے کہ یہ سعادت اورنعمت ان کے نصیب میںآئی اور اس درویش کو نااہلی کے باوجود اس دربارِ شاہی میں نوازا گیا،جہاں بڑے بڑے دانش وروں اور اورنگ نشینوں کو باریابی کی توفیق حاصل نہ ہوسکی۔ حکیماں را بہا کمتر نہادند بنا داں جلوۂ مستانہ دادند چہ خوش بختے چہ خرم روزگارے درِسلطاں بہ درویشے کشادند ترجمہ: یہاں( مدینہ منورہ میں) اہل عقل و حکمت کی بہت کم قیمت پڑی ہے ۔ یہاں توان نادانوں کو جلوۂ مستانہ سے نوازا جاتا ہے جو عشقِ رسول ؐ میں گم ہیں ۔ میں کیسا خوش نصیب ہوں اور میری زندگی کیسی خوش و خرم ہے کہ مجھ جیسے درویش پر سلطان کے دروازے کھول دیے گئے۔ لیکن اس خوش نصیبی، سرور ومستی اور جذب و شوق میں بھی وہ امتِ مسلمہ اور عالمِ اسلام کو فراموش نہیں کرتے اور پوری صدق دلی، صدق بیانی اور قادرالکلامی کے ساتھ ان کی حالت ِ زار اور دردِ دل،کتاب کی طرح کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مسلماں آں فقیری کج کلا ہے رمید از سینۂ او سوزِ آہے دلش نالد، چرانالد؟ نداند نگاہے یا رسول اللہ نگاہے ترجمہ: مسلمان جس کی شان یہ ہے کہ و ہ فقیری میںبھی بادشاہ ہوتا ہے، بے سروسامانی میں بھی سوائے باری تعالیٰ کے ہر ایک سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ وہ آج اپنی مسلمانی شان کھو چکا ہے ۔ اس کے سینے میں اسلام کی حرارت ختم ہوچکی ہے ۔ آج اس کا دل رورہا ہے ۔ کیوں رو رہا ہے ؟ یہ اسے معلوم نہیں ۔ یا رسول اللہ ایک نگاہ کرم، کہ اس کی تقدیر بدل جائے ۔ تب و تاب دل از سوزِ غم تست نوائے من زتاثیرِ دم تست بنالم زانکہ اندر کشورِ ہند ندیدم بندۂ کو محرم تست ترجمہ : میرے دل کی تب و تاب یار سول اللہ ؐ، تیرے سوز عشق کی وجہ سے ہے ۔ میری شاعری میں اگر کوئی تاثیر ہے تو وہ تیرے دم سے ہے ۔ میں روتا اس لیے ہوں کہ ہندوستان میں میں نے کوئی ایسا شخص نہیںدیکھا جو تیرا محرم ہو، تجھے جاننے اور پہچاننے والا ہوں ۔ شبِ ہندی غلاماں را سحر نیست بایں خاک آفتابے را گزر نیست بما کن گوشۂ چشمے کہ درشرق مسلمانے زما بیچارہ تر نیست ترجمہ :ہندوستان کے غلاموں کی شب کی سحر نہیں ہے ۔ اس مٹی میں سورج کا گزر نہیں ۔ ہماری طرف نگاہِ کرم کر،کیوں کہ مشرق میں،ہندوستان کے غلام مسلمانوںسے زیادہ کوئی مسلمان بے چارہ، بے کس اورتنہا نہیں۔ چہ گویم زاں فقیرے درد مندے مسلمانے بہ گوہر ارجمندے خدا ایں سخت جاں را یار بادا کہ افتاد است از بامِ بلندے ترجمہ : میں اس درد مند فقیر(مسلمان) کے بارے میں کیا عرض کروں ۔ کبھی یہ قیمتی گوہر ارجمند تھا۔ خدا اس سخت جان کا یارومددگار ہو، یہ بہت اونچی چھت سے گرا ہے۔ اس امت کی بڑی آزمائش یہ ہے کہ یہ بامِ بلند سے گری ہے اور جو جتنا اوپر سے گرتا ہے، اتنی ہی زیادہ سخت چوٹ اسے آتی ہے ۔ علامہ اقبال کہتے ہیںکہ اس امت کی پریشانی، بدحالی اوربے نظمی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جماعت ہے اور امام نہیں ۔ افرا د ہیں مگر نظام نہیں۔ ہنوز ایں چرخ نیلی کج خرام است ہنوز ایں کارواں، دور از مقام است زکارِ بے نظامِ اُو چہ گویم تومی دانی کہ ملت بے امام است ترجمہ : مسلمانوں کے لیے یہ نیلا آسمان ابھی تک ٹیڑھی چال چل رہا ہے ۔ مسلمانوں کاقافلہ ابھی تک اپنی منزل سے دور ہے ۔ ان کی بے نظمی کے متعلق کیا عرض کروں۔ توجانتا ہے کہ یہ ملت بے امام ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے خون میں اب وہ تب وتاب اور اس کے اندر مردم خیزی کی وہ صلاحیت باقی نہیں رہی، جو اس کا طرۂ امتیاز تھا۔ اب عرصے سے اس کی نیام بے شمشیر اور اس کی ’’کشت ِ ویراں‘‘ لالہ وگل سے محروم ہے ۔ نماند آں تاب وتب در خون نابش نروید لالہ از کشتِ خرابش نیامِ اُو تہی چوں کیسۂ او بطاقِ خانۂ ویراں کتابش ترجمہ: آج کے مسلمان میں وہ پہلی سی تب و تاب نہیں رہی ۔ یہ سبب ہے کہ اس کے ویران کھیت میں لالہ و گل نہیں اگتے ۔ اس کی نیام اس کی جیب کی طرح خالی ہے ۔ اس نے اپنی کتاب (قرآن )کسی ویراں گھر کے طاق میں رکھ دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ امت اپنے سرمایۂ آرزو اور ذوقِ جستجو سے محروم ہوکر رنگ و بو میں گرفتار ہو گئی ہے ۔ اس کے کان نرم و نازک نغموں کے خوگر ہوگئے ہیں اور مردانِ حر کی آواز اس کے لیے نامانوس ہوچکی ہے ۔ دلِ خود را اسیرِ رنگ و بو کرد تہی از ذوق و شوق و آرزو کرد صفیر شاہبازاں کم شناسد کہ گوشش باطنین پشہ خو کرد ترجمہ :آج کے مسلمان نے اپنے دل کو رنگ و بو کا اسیر کرلیاہے ۔ خو د کو ذوق و شوق اور آرزو سے خالی کرلیا ہے ۔ وہ شاہبازوں کی آواز نہیں پہچانتا،کیونکہ اس نے اپنے کانوں کو مچھر کی بھنبھناہٹ سننے کا عادی بنالیا ہے ۔ اب نہ اس کی آنکھ میںیقین کا نور اور عشق کا سرور ہے، نہ اس کا دل کسی کی محبت میں مخمور، نہ اس کا سینہ کسی کی یاد سے معمور ہے ۔ وہ حضوری سے بہت دور اورمنزلِ مقصود سے ناآشنااور مہجورہے ۔ بچشم او نہ نور و نے سرور است نہ دل درسینۂ او ناصبور است خدا آن امّتے را یار بادا کہ مرگِ او زجانِ بے حضور است ترجمہ :اس کی آنکھ میں نہ نور ہے اور نہ سرور ہے ۔ نہ اس کا سینے میں ناصبور (بے قرار) دل ہے۔ اس امت کا خدا ہی یار مددگار ہے کہ جس کی موت بے حضور جان سے ہے، یعنی اس کی زندگی ایسی ہے جس میںاس کا خدا پر یقین نہیں ہے ۔ پھر اقبال اس کے شان دار ماضی کا موازنہ اس کے داغ دار حال سے کرتے ہیں ۔ وہ بڑی بلاغت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کہتے ہیںکہ جس کو آپ نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا اور نازو نعم میں رکھا تھا، وہ آج ان صحرائوں میں اپنا رزق تلاش کرنے اور دربہ در بھٹکنے پر مجبور ہے ۔ مپُرس از من کہ احوالش چناں است زمینش بدگہر چوں آسماں است برآںمرغے کہ پروردی بانجِیر تلاش دانہ در صحرا گراں است ترجمہ: مجھ سے مت پوچھیے کہ مسلمان کا کیا احوال ہے ۔ اس کی زمین بھی آسمان کی طرح بد گہر اور بدحال ہے، یعنی آسمان بھی اس کا موافق نہیں اورزمین بھی ۔ اس پرندے پر، جس کی پرورش آپ نے اِنجیریں کھلا کر کی ہے، صحرا میںدانہ تلاش کرنا بھاری ہوگیا ہے۔) پھر اقبال رسول کریم ؐ کے حضور لادینیت کے اس طوفانِ بلاخیز کا ذکر کرتے ہیں، جو عالم اسلام کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ اقبال اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اسلامی ممالک میں لادینیت کا سب سے بڑا راستہ خالص مادہ پرستانہ نقطۂ نظر، روحانی خلا اورقلب کی برودت ہے ۔ مسرفانہ زندگی سے اس میں اور مدد مل رہی ہے ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ لادینیت کے اس سیلاب اور مادہ پرستانہ معاشی فلسفے کا مقابلہ اگر کسی چیز سے ہوسکتا ہے تو وہ زہد و محبت ہے ۔ اس پر اگر کوئی چیز غالب آسکتی ہے تو وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی زاہدانہ اور عاشقانہ زندگی ہے ۔ وہ مسلمانوں کے لیے اس مثالی زندگی کی آرزو کرتے ہیں، جو زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہو۔ وہ سمجھتے ہیںکہ اگر ایسی زندگی وجود میں آجائے تو ساری دنیا اس کے سامنے سرجھکا نے اور اس کا احترام کرنے پر مجبور ہوگی ۔ دگرگوں کرد لادینی جہاں را زآثارِ بدن گفتند جاں را ازاں فقرے کہ باصدیقؓ دادی بشورے آور ایں آسودہ جاں را ترجمہ : عصر حاضر میں لادینیت نے جہان کوتہ وبالا کردیا ۔ مادّیت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ آج روح کو بھی جسم کے نشانات میں سے یعنی جسم کی طرح مادّی کہا جارہا ہے۔ اس فقیری سے جو آپ ؐ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو عطا کی تھی، مسلمانوں کی آسودہ اور آرام پسند زندگی میں ایک ولولہ اور شور پیدا کریں۔ اقبالؒ مسلمانوں کے زوال کا سبب غربت و افلاس اور مادی وسائل کی کمی کو نہیں سمجھتے، بلکہ اس کی توجیہ اســ’’ شعلہ ٔ زندگی‘‘ کی افسردگی سے کرتے ہیں جو کسی زمانے میں ان کے سینے کے اندر فروزاں تھا۔ جب یہ درویش اور فقیر ایک اللہ کے لیے سجدہ ریز تھے اور کسی اور کا اقتدار اوراختیار تسلیم نہیںکرتے تھے، اس وقت شہنشاہوں کا گریبان ان کے ہاتھوں میں تھا، لیکن جب یہ شعلہ سر د ہوگیا تو ان کو درگاہوں اور خانقاہوں میں پناہ لینا پڑی۔ فقیراں تا بہ مسجد صف کشیدند گریبانِ شہنشاہاں دریدند چو آں آتش درونِ سینہ افسرد مسلماناں بدرگاہاں خزیدند ترجمہ:جب تک مسلمان،جن میں فقیری کی شان تھی مسجد میں صف آرا رہے، وہ شہنشاہوں کے گریبان پھاڑتے رہے۔جب فقر کی وہ آگ مسلمانوں کے سینوں میں بجھ گئی،تو وہ خانقاہوں اور درگاہوں تک محدود ہوکر رہ گئے۔ مسلماناں بخویشاں در ستیزند بجز نقش دوئی بر دل نہ ریزند بنالندار کسے خشتے بگیرند ازاں مسجد کہ خود ازوے گریزند ترجمہ:مسلمان آپس میںلڑتے رہتے ہیں۔ اپنے دل پر نقشِ دوئی کے سوا کوئی نقش نہیں بنارہے۔ ان کی حالت یہ ہے کہ اگر کوئی (غیر مسلم) شخص اس مسجد کی، جس کے وہ کبھی نزدیک تک نہیںگئے، ایک اینٹ بھی اکھاڑ لیتا ہے تو ہ چیخ اٹھتے ہیں۔ اقبال ؒ مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کا ایک ایک ورق الٹ کردیکھتے ہیں۔ اس میں ان کو جگہ جگہ ایسی مثالیںملتی ہیں، جن سے ایک مسلمان کا سرشرم و ندامت سے جھک جائے۔ بہت سی ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں، جن کو نبوتِ محمدیؐ، اس کی تعلیمات، اس کی اعلیٰ قدروں اوراصولوں سے کوئی مناسبت نہیں۔ ان کو بہت سی مشرکانہ باتیں، غیر اللہ کی پرستش، جابر وظالم بادشاہوں اور حکمرانوں کی خوشامد اور ان کی مدح سرائی کے ایسے نمونے نظر آتے ہیں، جن سے ایک غیور اور خود دار انسان کی پیشانی عرق آلود ہونے لگتی ہے ۔ اقبال خاموشی کے ساتھ ایک ایک چیز دیکھتے جاتے ہیں اور آخر میں بڑی صراحت، بلاغت اور اختصار کے ساتھ کہتے ہیں کہ سچی بات تو یہ ہے کہ ان پستیوں کے ساتھ ہم ہر گز آپؐ کے شایانِ شان نہ تھے۔ ہمارا آپؐ کی ذات سے منسوب ہونا آپؐ کی شان میں بے ادبی ہے ۔ جبیں را پیش غیراللہ سودیم چوگیراں درحضور او سرودیم ننالم از کسے، می نالم از خویش کہ ماشایانِ شانِ تو بنودیم ترجمہ:ہم نے اپنی پیشانی کو غیرا للہ کی چوکھٹ پرگھسایا ۔ اس کے حضور بت پرستوں (اور آتش پرستوں ) کی طرح اس کی عظمت کے گیت گائے۔ میں کسی سے نالاں نہیں ہوں۔ اپنے آپ سے نالاں ہوں کہ ہم آپ ؐ کے شایانِ شان نہ تھے۔ وہ عالمِ اسلام پر، اسلامی ممالک پر احتیاطاً دوبارہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔اور اپنے جائزے کا حاصل یہ بتاتے ہیںکہ ایک طرف خانقاہوںکا سبوخالی ہے ۔ دوسری طرف دانش گاہیں، جدت و جرأت سے عاری ہیں۔ ان کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ طے کیے ہوئے سفر کو بار بار طے کرتی رہیں ۔ ادب و شعر مردہ وبے روح اوردلی جذبات سے محروم ہیں۔ سبوئے خانقاہاں خالی ازمے کُند مکتب رہِ طے کردہ راطے زبزم شاعراں افسردہ رفتم نواہا مردہ بیروں اُفتد ازنے ترجمہ:خانقاہوں کے پیالے معرفت کی شراب سے خالی ہیں۔ دینی مدرسے اس راہ کوطے کر رہے ہیں جو پہلے ہی طے ہوچکی ہے ۔ میں آج کے شاعروں کی مجلس میںگیا اور بجھے ہوئے دل سے نکلا،کیوں کہ ان کی نوا مردہ ہے۔) وہ کہتے ہیںکہ میں نے دنیائے اسلام کا کونہ کونہ چھان مارا، لیکن وہ مسلمان مجھے نہ ملا جو موت سے لرزہ براندام ہونے کی بجائے موت اس سے لرزہ براندام ہو او رجو خود موت کے لیے پیام موت ہو ۔ بآں بالے کہ بخشیدی پریدم بسوزِ نغمہ ہائے خود تپیدم مسلمانے کہ مرگ ازوے بلرزد جہاں گردیدم و اُو را ندیدم ترجمہ:میں ان بال وپر سے اڑا جو تونے عطا کیے ہیں ۔ میں اپنے نغموں کے سوز میں تڑپا۔ میں سارا جہاں گھو ما ہوں، لیکن مجھے وہ مسلمان کہیں نظر نہ آیا جس سے موت کانپتی ہے۔ علامہ اقبال ؒ مسلمانوں کی پریشاں خاطری، آشفتہ سری اور تنزلی کا راز فاش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر وہ فرد یا جماعت جو دل تو رکھتی ہے لیکن دلبر نہیں رکھتی۔ محبت رکھتی ہے لیکن محبوب سے نا آشنا ہے ۔ وہ اطمینان اور دل جمعی سے ہمیشہ محروم رہتی ہے ۔ اس کی تمام قوتیں ضائع ہوتی ہیں اور اس کی جدوجہد کبھی ایک منزل اور ایک مرکز پر قائم نہیں رہتی ۔ شبے پیشِ خدا بگریستم زار مسلماناں چرا زارند و خوارند ندا آمد نمیدانی کہ ایں قوم دِلے دارند و محبوبے ندارند ترجمہ: میںایک شب خدا کے سامنے بہت رویا کہ مسلمان کیوں زار وخوار ہیں۔ آواز آئی کہ کیا تونہیں جانتا کہ یہ قوم دل تو رکھتی ہے لیکن محبوب نہیں رکھتی ۔ یعنی اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل منقطع ہوگئی ہے ۔ لیکن ان تمام حوصلہ شکن حالات و مشکلات کے باوجود وہ مسلمانوں سے بددل اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں، بلکہ اس مایوسی، افسردگی، دوسروں پر اعتماد کرنے اورہرچیز کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے کی تلقین کرنے والوں پر سخت نکتہ چینی کرتے ہیں اور بڑے درد سے کہتے ہیں کہ حرم کے نگہبان بت خانے کے پاسبان بن بیٹھے ہیں۔ ان کا یقین مردہ و مضمحل اور ان کی نگاہ مستعار اوراغیار کی رہین منت ہے ۔ نگہبانِ حرم معمارِ دیر است یقینش مردہ و چشمش بغیر است ز اندازِ نگاہِ اُو تواں دید کہ نومید از ہمہ اسبابِ خیر است ترجمہ : وہ مسلمان جسے حرم کا محافظ ہونا چاہیے تھا، بت کدے کی تعمیر میں لگا ہوا ہے۔ اس کا یقین و ایمان مردہ ہوچکا ہے اور اس کی نگاہ غیراللہ پر لگی ہوئی ہے۔ اس کی نگاہ کے انداز سے دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ خیر و خوبی کے تمام اسباب سے نا امید ہو چکا ہے ۔ اقبال اپنا اور اپنے زمانے کا ذکر کرتے ہیں جس سے وہ برسرپیکار ہیں اور جو قدم قدم پر ان کے لیے ایک مستقل آزمائش اور امتحان ہے ۔ گہے افتم گہے مستانہ خیزم خیزم چہ خوں بے تیغ و شمشیرے بریزم نگاہِ التفاتے بر سرِ بام کہ من باعصرِ خویش اندر ستیزم ترجمہ: کبھی میںگرتا ہوں اور کبھی مستانہ انداز میں کھڑا ہوجاتا ہوں ۔یہ کیا خون ہے جو میں بغیرتیغ و تلوار کے بہار ہا ہوں (مراد یہ ہے کہ میرے پاس قوت اور وسائل تو نہیں، لیکن پھر بھی میں اپنے بے دین زمانے کے خلاف لڑرہا ہوں۔اے محبوب !چھت پر سے ایک نگاہ التفات مجھ پر ڈال کہ میں اپنے زمانے سے جنگ کررہا ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کی پوری زندگی عصرِ حاضر سے کشمکش میں گزری ۔ انھوںنے مغربی تہذیب اور مادی فلسفے کا نہ صرف انکار کیا بلکہ آگے بڑھ کر اس پر سخت تنقید کی ۔ اس کو چیلنج کیا اور بڑی جرأت، روشن ضمیری اور گہرائی کے ساتھ اس کو کھوٹا ثابت کیااور اس پر دۂ فریب کو چاک کیا، جس نے اس کی اصلی اور مکروہ شکل کو نگاہوں سے چھپا رکھا تھا۔ وہ حقیقت میں نئی نسل کے مربی، یقین و خود اعتمادی اور اسلامی شخصیت کے مکمل شعور کے حامل اورمادی بنیادوں اور مادی طرز فکر کے زبردست منکرتھے، اور ان کو یہ کہنے کایہ حق حاصل تھا ؎ چو رومی در حرم دادم اذاںمن ازو آموختم اسرارِجاں من بدورِ فتنۂ عصرِ کہن او بہ دورِ فتنۂ عصرِ رواں من ترجمہ: میں نے جلال الدین رومی کی طرح حرم میں اذان دی ۔میں نے اس سے زندگی کے اسرار و رموز سیکھے۔ پرانے زمانے کے فتنے کے وقت وہ موجود تھے اور عصرِ حاضر کے فتنے کے وقت میں موجود ہوں ۔ مسلماں تا بساحل آرمید است خجل از بحر واز خود نا امید است جز ایں مردِ فقیرے دردمندے جراحت ہائے پنہانش کہ دیداست ترجمہ: مسلمان جب سے (عملی زندگی کے سمندر سے ہٹ کر )ساحل پر آرام کرنے لگا ہے، سمندر سے شرمندہ اور اپنی ذات سے ناامید ہے ۔ سوائے اس درد مند، مردِ فقیر کے اس کے خفیہ زخموں کی جراحت کا طریقہ کسے معلوم ہے ۔ (یعنی مسلمانوں کے دکھ درد کو جس طرح میں نے سمجھاہے، اور اس کے زخموں کا علاج جس طرح میں نے کیا ہے، کوئی اور کیا کرے گا۔ اقبال مغربی تہذیب وعلوم سے اپنی بغاوت، ان کے جال سے بچ نکلنے اور اپنے عقیدہ و ایمان اور اپنی روایات و اقدار کی حفاظت کاذکر کرتے ہوئے بڑا قلندرانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے مغربی فلسفہ و تہذیب کے آتش نمرود میں شانِ ابراہیمی کا مظاہرہ کیا۔ وہ فخر و مسرّت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ انھوں نے ان علوم کا مغز حاصل کرلیا اور پوست پھینک دیا ۔ یہی نہیں بلکہ کامیابی کے ساتھ اس کے جال سے باہر بھی آگئے اور اس کا طلسمِ ہوش رُبا پاش پاش کردیا، جس نے مشرق و مغرب دونوں کی نظر بندی کررکھی ہے ؎ طلسمِ علم حاضر را شکستم ربو دم دانۂ و دامش گسستم خدا داند کہ مانندِ براہیم بہ نار اوچہ بے پروا نشستم ترجمہ ـ:میں نے عصرِ حاضر کے علوم کا طلسم توڑا ۔ میں نے اس کے جال سے دانہ تو چن لیا اور اس کا جال توڑ دیا ۔ خدا جانتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی طرح میں بھی موجود ہ زمانے کی آگ میں بے پرواہوکر بیٹھا۔ وہ اپنی اس زندگی کا ذکر کرتے ہیں جو یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں گزری تھی اور جہاں خشک و افسردہ کتابوں، دقیق فلسفیانہ مباحث، فتنہ انگیز حسن وجمال اور دل آویز خوش نما مناظر کے سوا انھیں اور کچھ نہ مل سکا ۔ اگر کوئی چیز ملی تو وہ خود فراموشی تھی، جس نے ان کو ان کے وجود سے بھی محروم کر دینا چاہا ؎ بہ افرنگی بتاں دل باختم من زتاب دیریاں بگداختم من چناں از خویشتان بیگانہ بودم چو دیدم خویش رانشناختم من ترجمہ : میں نے فرنگی بتوں کے پاس دل ہار دیا۔ میں بت پرستوں کی حرارت سے پگھل گیا ۔ میں اپنے آپ سے اس قدر بیگانہ ہوگیا کہ جب میں نے خود کو دیکھا تو نہ پہچان سکا۔ اب بھی جب ان کو یورپ کے قیام کے دن، اور ان دنوں کی ویرانی و بے نوری یاد آتی ہے توان کی طبیعت پر وحشت طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ بڑے جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ مے خانہ ٔ مغرب میں بیٹھ کر مجھے سوائے دردِ سر کے اور کچھ نہ ملا ۔ اس سے زیادہ بے سوز، بے نور اور بے کیف شب و روز مجھے اپنی پوری عمر میں یاد نہیں، جو ان دانش مند انِ فرنگ کے ساتھ گزرے۔ مے از میخانۂ مغرب چشیدم بجانِ من کہ دردِ سرخریدم نشستم با نکو یا نِ فرنگی فرنگی ازاں بے سود تر روزے ندیدم! ترجمہ: میں نے مغرب کے میخانے سے شراب پی۔ مجھے اپنی جان کی قسم، میں نے دردِ سر مول لیا ۔ میں یورپ کے فلسفیوں اور مدبروں کے ساتھ بیٹھا ۔ میں نے اس سے بڑھ کر بے سوز وبے کیف دن نہیں دیکھے۔ پھر بڑے درد کے ساتھ کہتے ہیں، میں تو آپ ؐ کے ایک فیضِ نگاہ کا پروردہ ہوں ۔ اہل خرد اور اہل دانش کی یہ ساری نکتہ آفرینیاں اور لن ترانیاں میرے لیے دردِ سر کا سامان اور وبال جان ہیں۔ میں تو صرف آپؐ کے در کا فقیر ہوں ۔ آپ ؐ کی گلی کا سائل ہوں ۔ مجھے کسی کے سنگِ آستاں پر سر پھوڑنے اور قسمت آزمانے کی کیا ضرورت ہے ۔ فقیرم از خواہم ہر چہ خواہم دل کوہے خراش از برگِ کاہم مرا درسِ حکیماں دردِ سر داد کہ من پروردۂ فیضِ نگاہم! ترجمہ: میں فقیر ہوں۔ میں جو کچھ چاہتا ہوں ۔ آپؐ سے چاہتا ہوں ۔ میں گھاس کا تنکا ہوں ۔ اس سے پہاڑ کے دل میں خراش پیدا کر۔ مجھے اہل خرد و حکمت کے درس نے دردِ سر دیا، کیوں کہ میں آپ ؐ کے فیضِ نگاہ کا پروردہ ہوں ۔ پھر اقبال اس طبقے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو دین اور علم دین کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اس کی خشکی، جمود، محبت اور سوزِ دروں سے محرومی، معلومات کی گرم بازاری اور اصطلاحات کی گراں باری کا شکوہ کرتے ہوئے بڑے شاعرانہ اور بلیغ انداز میں کہتے ہیں کہ اس کا صحرائے حجاز زم زم سے خالی اور بیت اللہ سے محروم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حجاز کے ریگستان کی قیمت تو بیت اللہ اورآبِ زم زم سے ہے ۔ اگر یہ نہ ہوں تو ان تپتے ہوئے بیابانوں اور خاموش پہاڑوں سے کیا فائدہ؟ اسی طرح وہ عالم دین کتنا مفلس و نادار ہے جوعلم وافر، زبانِ گہر افشاں اور ذہن رسا کا مالک ہے، لیکن اس کی آنکھ محبت کے ایک آنسو اور دل کی ایک تڑپ سے بھی نا آشنا ہے ۔ جس کے حصے میں اس سرزمین ِ مقدس کی صرف سختی اور گرمی آئی ہے، خنکی اورنمی نہیں آئی ؎ دلِ ملّا گرفتارِ غمے نیست نگاہے ہست درچشمش، نمے نیست ازاں بگریختم از مکتب او کہ در ریگِ حجازش زمزمے نیست ترجمہ: ملّا غمِ عشق میں گرفتار نہیں ہے ۔ اس کے پاس نگاہ تو ہے لیکن آنکھ میں آنسو نہیں ہیں۔ میں اس کے مکتب سے اس لیے بھاگا، اس کے حجازی ریگ میں آب ِ زم زم نہیں ہے۔ یعنی وہ دین کی باتیں تو ضرور کرتاہے، لیکن اس میںخلوص اورسوز نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے غیرا للہ پر بھروسا کیا اور اس کی سزامیں دوسو مرتبہ اپنے مقام سے نیچے گرایا گیا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زورِ شمشیر کام آتا ہے نہ حسنِ تدبیر۔ یہ تقدیر الہٰی اور مشیت ِ ایزدی کا مقام ہے اور یہاں قدم کی ایک لغزش آدمی کو بہت نیچے گرا سکتی ہے۔ دلِ خودرا بدستِ کس ندادم گرہ از روئے کارِ خود کشادم بہ غیراللہ کردم تکیہ یک بار دو صد بار از مقامِ خود فتادم ترجمہ: میں نے اپنا دل کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا ۔ میں نے اپنے چہرے پر پڑی ہوئی گرہ کو خود کھولا ) میں نے ایک بار غیر اللہ پر بھروسا کیا تھا، اس کی پاداش میں اپنے مقام سے دوسو مرتبہ گرایا گیا ہوں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ اس بے سوز اور بے اخلاص عہد میں، جو منفعت و مصلحت کے سوا کسی اور چیز سے آشنا نہیں، اور جس کا مصنوعی یا حیوانی دل ہر قسم کے لطیف احساسات اور مخلصانہ جذبات سے عاری ہے، میرے لیے سوز ِ دروں کی آگ میںجلنے اورخونِ جگر پینے کے سوا اورکیا ہے ۔ نگاہم ز رانچہ بینم بے نیاز است دل از سوزِ درونم درگدازست من و ایں عصر بے اخلاص و بے سوز بگو بامن کہ آخر ایں چہ راز است؟ ترجمہ : میری نگاہیںجو کچھ ظاہر میں دیکھتی ہے، میں ا س سے بے پروا ہوں ۔ میرا دل میرے سوزِ دروں سے پگھلاہوا ہے ۔ میں ہوں اور یہ بے اخلاص اور بے سوز زمانہ ۔ مجھے بتا آخر یہ کیا راز ہے ؟ وہ کہتے ہیں،مشرق و مغرب کسی بھی جگہ میرا کوئی ہم دَم وہم راز نہیں ۔ میں اپنا غم ِدل اپنے ہی دل سے کہتا ہوں اور اپنے آپ کو بہلاتا ہوں ۔ من اندر مشرق و مغرب غریبم کہ از یارانِ محرم بے نصیبم غمِ خود را بگویم بادلِ خویش چہ معصومانہ غربت را فریبم ترجمہ: میں مشرق اورمغرب ہرجگہ اجنبی ہوں ۔ میں اپنے ہم دم و ہم ساز دوستوں سے بے نصیب ہوں ۔ اپنا غم اپنے دل ہی سے کہتا ہوں ۔ میں کس معصومیت سے اپنی اجنبیت کو فریب دے رہا ہوں ۔ اقبال کو شکایت یہ ہے کہ ان کی مخلصانہ نصیحتوں اورمشوروں پرکسی نے عمل نہیں کیا اوران کے نخلِ علم کا کسی نے پھل نہ کھایا ۔ انھوں نے شاعری میں جس سروشِ غیب کی ترجمانی کی اس پر کسی نے کان نہ دھرا۔ سب ان کو ترجمانِ حقیقت کے بجائے محض غزل گو اورغزل خواں سمجھتے رہے ۔ بآں رازے کہ گفتم، پے نہ بردند زشاخِ نخلِ من خرما نخوردند من اے میرِ اممؐ داد از تو خواہم مرا یارانِ غزل خوانے شمردند ترجمہ: وہ راز جو میں نے مسلمانوں سے برملا کہہ دیا، اس پر وہ چلے نہیں ۔ انھوں نے میرے کھجور کے درخت کاپھل نہیں کھایا ۔ اے امیرِ امم حضرت محمدؐمیں اپنے کلام وپیام کی تحسین حضورؐ سے چاہتا ہوں ۔ میرے احباب نے مجھے محض غزل گو شاعر سمجھ رکھا ہے ۔ اقبال ؒرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرتے ہیں کہ حضور آپؐ کا حکم اورفرمان تویہ ہے کہ میںلوگوں کو زندگی اوربقائے دوام کا پیغام پہنچائوں، لیکن یہ ناحق شناس مجھ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ عام شاعروں کی طرح میںبھی لوگوں کی تاریخ وفات نکالتا اور قطعہ ٔ تاریخ کہتا رہوں ۔ توگفتی از حیاتِ جاوداں گوئے بگوش مردۂ پیغام جاں گوئے ولے گویند ایں ناحق شناساں کہ تاریخِ وفات ایں و آں گوئے حضور ؐ! آپ کا فرمان ہے کہ حیاتِ جاوداں کی بات کروں ۔ مردہ دل لوگوں کے کان میں زندگی کا پیغام ڈال دوں، لیکن ناحق شناس لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ اقبال لوگوں کے مرنے پر تاریخ وفات کہا کرو، قطعہ ٔ تاریخ لکھا کرو۔ اقبالؒ بڑے درد وسوز اور بڑی حسرت و تلخی کے ساتھ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ وہ علم اور پیغام جو ان کے اشعار کی روح اور اصل قیمت ہے، اس سے لوگوں کو دلچسپی نہیں۔ اس سلسلے میں لوگوں نے بڑی قناعت اور زہد کا ثبوت دیا ہے ۔ اقبالؒ کہتے ہیں کہ اپنی ساری متاع کھول کر میں نے بازار میںرکھ دی، لیکن کوئی اس جنس نایاب کا خریدار نہ ملا ۔ میں نے ارمغانِ دل پیش کرنا چاہا، لیکن اس کا بھی کوئی قدرداں نظر نہ آیا ۔ مجھ سے زیادہ غریب الوطن، بیگانہ اور تنہا اس دنیا میں اور کون ہوسکتا ہے ۔ دِلے برکف نہادم، دلبرے نیست متاعے داشتم، غارت گرے نیست درون سینۂ من، منزلے گیر مسلمانے زمن تنہا ترے نیست ترجمہ :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم ! میں نے اپنا دل اپنی ہتھیلی پررکھا کہ ہے کوئی لے جانے والا، لیکن اس کو لے جانے والا کوئی نہیں ۔ میرے پاس دولت تھی، لیکن میری دولت کو لوٹنے والا کوئی نہ تھا۔ یا رسول اللہ ؐ ! آپ میرے سینے میں قیام فرمائیے۔ مسلمان ہوں، مجھ سے زیادہ تنہا اور کوئی نہیںہے۔ باب نمبر ۹ مومن خودی، فقر اور عشق جس شخص میں جمع ہوں گے، وہ اقبالیات کی اصطلاح میں ’’مومن‘‘کہلائے گا۔ اپنی ایک فارسی غزل میں’’مومن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’تجھ پر مجھے کمال حیرت ہے کہ آفاق تو تجھ سے روشن ہیں، لیکن تیری ذات ہی درمیان سے غائب ہے ۔ تم کب تک غفلت، گمنامی و جہالت کی زندگی گزارتے رہوگے ۔ تمہاری روشنی نے دنیائے قدیم کو روشن کیا اورتمھارا وجود ماضی کی تاریک رات کے لیے منارۂ نور بن کر رہا ۔ تمھاری آستین میںہمیشہ ’’یدِبیضا‘‘ موجود رہا ۔ تم آج گھروندوںمیں گھوم رہے ہو لیکن تمھیں معلوم نہیں کہ تم انھیں پھلانگ بھی سکتے ہو ۔ تم تو اس وقت بھی تھے جب یہ کائنات نہ تھی اور اس وقت بھی رہو گے، جب یہ نہ ہوگی ۔ اے مردِ مومن! تو موت سے ڈرتا ہے، حالاںکہ موت کو تجھ سے ڈرنا چاہیے ۔ تمھیں جاننا چاہیے کہ آدمی کی روح کی جدائی سے نہیں ہوتی بلکہ ایمان کی کمی اوریقین سے محرومی سے ہوتی ہے ۔‘‘ اے مردِمومن ! تو ناموسِ ازل کا امین و پاسباں اور خدائے لم یزل کا رازداں ہے۔ تیرا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے ۔ تیری اٹھان مٹی سے ہے، لیکن تجھی سے اس عالم کا وجود و بقا متعلق ہے ۔ مے خانہ ٔیقین سے پی اورظن و تخمین کی پستیوں سے نکل کر بلند ہوجا ۔فرنگ کی دل آویزی کی نہ داد ہے نہ فریا د ہے، جس نے عقل و دل دونوں کو مسحور و مخمور اور ناکارہ بنادیا ہے۔ فریا د اُن بازی گروں سے جو کبھی ناز و ادا سے پکڑتے ہیں اورکبھی بیڑیوں میں جکڑتے ہیں، کبھی شیریں کا پارٹ ادا کرتے ہیںاور کبھی پرویز کا روپ بھرتے ہیں۔ دنیا ان کی تباہ کاریوں سے ویراں ہوگئی ہے ۔ اے مردِ مومن ! اے بانیِ حرم ! اے معمارِ کعبہ ! اور اے فرزندِ ابراہیم، ایک بار پھر دنیا کی تعمیر کے لیے اٹھ اوراپنی گہری نیند سے بیدار ہو ۔ اے غنچۂ خوابدیدہ چو نرگس نگراں خیز کاشانۂ مارفت بتاراجِ عماں خیز از نالۂ مرغ چمن، از بانگِ اذاں خیز از گرمی ہنگامۂ آتش نفساں خیز! از خوابِ گراں، خواب گراں، خوابِ گراں خیز! ’’مومن‘‘ سے متعلق اردو اشعار کا انتخاب ملاحظہ ہو ۔ بندۂ مومن کادل بیم و ریا سے پاک ہے قوتِ فرماں روا کے سامنے بے باک ہے ۱؎ ………………… غلامی میںنہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں، یہ مردوں کی شمشیریں ۲؎ ………………… عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے۳؎ ………………… کافر ہے مسلماں، تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے توبے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی! کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں مومن ہے تووہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی۱؎ ………………… یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا؟ دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بے باک تو بے بصر ہو تو یہ مانع نگاہ بھی ہے وگرنہ نہ آگ ہے مومن، جہاں خس و خاشاک زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ کسے خبر کہ جنوںبھی ہے صاحب ادراک جہاں تمام ہے میراث، مردِ مومن کی مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک۲؎ ………………… نہ مومن ہے نہ مومن کی امیری رہا صوفی، گئی روشن ضمیری خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ نہیں ممکن امیری بے فقیری۱؎ ………………… تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز اس کے دنوں کی تپش، اس کے شبوں کا گداز اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم اس کا سرور، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا ناز ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاںسے غنی، اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز نقطۂ پر کارِ حق، مردِ خدا کا یقیں اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ ۲؎ ………………… یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی دونیم، ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذتِ آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کردے وہ بجلی کہ تھی نعرۂ لَاتَذَر میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے۱؎ ………………… عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوںمیں نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے امید مردِ مومن ہے، خدا کے راز دانوں میں ۲؎ ………………… یہ سحر جو کبھی فردا ہے، کبھی ہے امروز نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا ۱؎ ………………… ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن ۲؎ ………………… ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدّوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی ہے اس کا نشیمن، نہ بخارا نہ بدخشان یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قرآن قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمن بنتے ہیں مری کارگہِ فکر میں انجم لے اپنے مقدر کے ستارے کو تو پہچان ۱؎ ………………… پابندیِ تقدیر کہ پابندیِ احکام یہ مسئلہ مشکل نہیں، اے مردِ خرد مند اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر ہے اس کا مقلّد ابھی ناخوش ابھی خورسند تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِ الہٰی کا ہے پابند ۲؎ ………………… پرورش دل کی اگر مدِّنظر ہے تجھ کو مردِ مومن کی نگاہِ غلط انداز ہے بس ۳؎ ………………… اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوںکاسہارا تقدیرِ امم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو توکافی ہے اشارہ ۱؎ ………………… مقام بندۂ مومن کا ہے ورائے سپہر زمیں سے تابہ ثریّا تمام لات و منات حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی نہ تیرہ خاکِ لحد ہے، نہ جلوہ گاہِ صفات ۲؎ ………………… حدیثِ بندۂ مومن دل آویز! جگر پرخون، نفس روشن، نگہ تیز میسر ہو کسے دیدار اس کا کہ ہے وہ رونقِ محفل کم آمیز ۳؎ ………………… گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب ۴؎ ………………… باب نمبر ۱۰ شاہین اقبال کے ہاں مردِ مومن، نوجوان، فرزند ِ کوہستانی، نئی نسل یانژاد نو کا ایک اور نام بھی ہے اور وہ ہے ’’شاہین‘‘، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبال نے اپنے کلام میں اپنے ’’مثالی نوجوان ‘‘ کو عموماً شاہین کہہ کر پکارا ہے۔ اس لیے کہ ایک مثالی نوجوان میں اقبال جس قسم کے اوصاف دیکھنے کے آرزو مند ہیں وہ انھیں شاہین میں نظر آتے ہیں۔ اقبال نے خود ایک جگہ بیان کیا ہے کہ ’’شاہین‘‘ کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے ۔ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار وغیرت مند ہے، کسی اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیںبناتا ۔ بلند پروازہے،خلوت پسند ہے اور تیز نگاہ ہے ۔ چنانچہ اقبال نے جگہ جگہ شاہین ( جرۂ شاہین، شاہین کافوری، باز، جرۂ باز اور عقاب وغیرہ) کی صفات کا ذکر کیا ہے، لیکن اس ذکر سے ان کی مراد نوجوانوں ہی کی سیرت و کردار ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔ نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا تیرے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے مسلمان سے حدیثِ سوز وسازِ زندگی کہہ دے ۱؎ ……………… گزر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ بیاباں میں کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی ۲؎ ……………… وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی ۱؎ ……………… شکایت ہے مجھے یارب ! خداوندانِ مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا بہت مدت کے نخچیروں کا اندازِ نگہ بدلا کہ میں نے فاش کر ڈالا، طریقہ شاہبازی کا ۲؎ ……………… برہنہ سر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر یہاں فقط سرِ شاہین کے واسطے ہے کلاہ ۳؎ ……………… دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیرِدام آیا ۴؎ ……………… قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر چمن اور بھی، آشیاں اور بھی ہیں اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں ۱؎ ……………… ترا جوہر ہے نوری، پاک ہے تو فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو ترے صیدِ زبوں افرشتہ و حور کہ شاہیں شہ لولاکؐ ہے تو۲؎ ……………… جوانوں کو مِری آہِ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری ہے یہی ہے مرا نورِ بصیرت عام کردے۳؎ گرمائو غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشکِ فر و مایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو ۱؎ ……………… نہیں ہے تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر توشاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ۲؎ ……………… بچہ ٔ شاہین سے کہتا تھا عقابِ سال خورد اے ترے شہپر پہ آساں رفعتِ چرخِ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میںجینے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانیٔ انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں ۳؎ ……………… پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور ۴؎ افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو دیکھے نہ تِری آنکھ نے فطر ت کے اشارات ۱؎ ……………… کیا میں نے اس خاکداں سے کنارہ جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ نہ بادِ بہاری، نہ گلچیں، نہ بلبل نہ بیماریِ نغمۂ عاشقانہ خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربتِ غازیانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب، یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ ۱؎ ……………… شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پُر دم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرۂ افتاد ۲؎ ……………… بہتر ہے کہ بے چارے ممولوں کی نظر سے پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات آزاد کی اک آن ہے محکوم کااک سال کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات ۳؎ ……………… میں کارِ جہاں سے نہیں آگاہ ولیکن اربابِ نظر سے نہیں پوشیدہ کوئی راز کر تو بھی حکومت کے وزیروں کی خوشامد دستور نیا اور نئے دور کا آغاز معلوم نہیں، ہے یہ خوشامد کہ حقیقت کہہ دے کوئی اُلّو کو اگر ’’رات کا شہباز ‘‘ ۴؎ زاغ کہتا ہے نہایت بدنما ہیں تیرے پر شپرک کہتی ہے تجھ کو کور چشم و بے ہنر لیکن اے شہباز، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت ہیں فضائے نیلگو ں کے پیچ و خم سے خبر ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام روح ہے جس کی دمِ پرواز، سرتاپا نظر ۱؎ ……………… زاغِ دشتی ہورہا ہے ہم سرِ شاہین و چرخ کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاجِ روزگار ۲؎ ……………… باب نمبر ۱۱ علم و عقل علم اور چیز ہے، تعلیم اور چیز ہے۔ اقبال علم اور عقل اور حکمت کے مدِّ مقابل یا ان سے بھی بالا تر عشق کو خیال کرتے ہیں۔ یا یوں سمجھیے کہ علم کو عشق کے تابع خیال کرتے ہیں۔ وہ معرفت اورعرفان کے قائل ہیں اور حصولِ علم کا مقصد بھی یہی خیال کرتے ہیںکہ عالم کو عرفانِ ذات حاصل ہوجائے ۔ علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے تو خدا جُو، خدا نما ہوں میں علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں ۱؎ …………… علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن، گوہر بدست وائے محرومی! خزف چینِ لبِ ساحل ہوں میں ۲؎ …………… ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا اس کے آئینۂ ہستی میں عملِ جوہر تھا جو بھروسا تھا، اسے قوتِ بازو پر تھا ہے تمھیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیوں کر ہو ۳؎ ولایت، پادشاہی، علمِ اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں براہیمی نظر پیدا، مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں ۱؎ …………… عشق کی تیغِ جگر دار اُڑا لی کس نے؟ علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات ہو نہ روشن ، تو سخن مرگِ دوام اے ساقی ۲؎ …………… دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں ۳؎ …………… خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل ۴؎ یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبّر ، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات ۱؎ …………… چشمِ بینا سے ہے جاری جوئے خوں علمِ حاضر سے ہے دیں، زار و زبوں علم را بر تن زنی مارے بود علم را بر دل زنی یارے بود ۲؎ …………… علم و حکمت کا ملے کیوں کر سراغ؟ کس طرح ہاتھ آئے سوز و درد و داغ؟ علم و حکمت زاید از نانِ حلال عشق و رقت آید از نانِ حلال ۳؎ …………… شہیدِ محبت نہ کافر، نہ غازی محبت کی رسمیں نہ ترکی ، نہ تازی وہ کچھ اور شے ہے، محبت نہیں ہے سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی یہ جوہر اگر کار فرما نہیں ہے تو ہیں علم و حکمت فقط شیشہ بازی ۴؎ …………… علم نے مجھ سے کہا ، عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا ، علم ہے تخمین و ظن بندۂ تخمین و ظن ، کرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور ، علم سراپا حجاب ۱؎ …………… چمن میں تربیتِ غنچہ ہو نہیں سکتی نہیں ہے قطرۂ شبنم اگر شریکِ نسیم! وہ علم ، کم بصری جس میں ہمکنار نہیں تجلیاتِ کلیم و مشاہداتِ حکیم ۲؎ …………… زندگی کچھ اورشے ہے ، علم ہے کچھ اور شے زندگی سوزِ جگر ہے ، علم ہے سوزِ دماغ علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ ۳؎ …………… وہ علم نہیں، زہر ہے احرار کے حق میں جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جو ناداں! ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے اسبابِ ہنر کے لیے لازم ہے تگ و دو فطرت کے نوامیس پہ غالب ہے ہنر مند شام اس کی ہے مانندِ سحر صاحبِ پرتو ۱؎ …………… یہ علم ، یہ حکمت ، یہ سیاست ، یہ تجارت جو کچھ ہے وہ ہے فکرِ ملوکانہ کی ایجاد اللہ! ترا شکر کہ یہ خطۂ پُر سوز سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد ۲؎ …………… غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے ، فضائے گردوں ہے بے کرانہ خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی ؟ عمل سے فارغ ہوا مسلماں بناکے تقدیرکا بہانہ ۳؎ …………… باب نمبر ۱۲ مغربی تعلیم اقبال جدید مغربی تعلیم کے سخت خلاف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تعلیم ہمارے نوجوانوں میں تعطّل ، جمود ، آرام طلبی اور لذت کوشی پیدا کرتی ہے اور زندگی کو بحرِ منجمد بنادیتی ہے ۔ جدید مغربی تعلیم مغربی استعمار کا ہتھکنڈا بن کر مشرق میں اس کی تہذیب،اس کے افکار اور اس کے مستقبل کے لیے نو آباد یات کی زمین ہموار کرتی ہے اور نوجوانوں کو مغرب زدہ بناتی ہے اور بلند معیارِ زندگی اور اقتصادی ترقی کی ہوس پیدا کرکے نئے نئے مسائل سامنے لاتی ہے ۔ مغربی تعلیم کفر و الحاد پھیلاتی ہے ۔ ذہنی انتشار اور فکری الجھائو پھیلاتی ہے ۔ اقبال ؒکہتے ہیں کہ ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل کا وجود اس کا ذاتی وجود نہیں ، بلکہ وہ یورپ (اور اب امریکا) کی پرچھائیں ہے اور اس کی مصنوعی زندگی بھی مستعار ہے ۔ نئی نسل جسم و مادّے کا وہ ڈھانچاہے جسے مغربی معماروں نے تعمیر کیا ہے ، لیکن اس میں روح نہیںہے ۔ نئی نسل کی نگاہ میں خدا کا وجود معدوم ہے ، اور یہ اسلامی طرزِ فکر و تعلّم کی نفی ہے ۔ اسلام کا جوہر ذاتِ باری تعالیٰ بلکہ اس کی توحید میں ہے ۔ اگر ہمارے نو جوانوں کی تعلیم سے یہ نکتہ ٔ توحید ہی خارج کردیا جائے تو انسان محض مٹی کا پیکر رہ جاتا ہے ۔ مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا، ہنگامہ ٔ محشر یہاں ۱؎ ……………… خوش تو ہیںہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر لب ِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ ۱؎ ……………… مرشد کی یہ تعلیم تھی، اے مسلمِ شوریدہ سر لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر رہبر کے ایماسے ہوا، تعلیم کا سودا مجھے واجب ہے صحرا گرد پر ، تعمیلِ فرمانِ خضر لیکن نگاہِ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دورشد۲؎ ……………… تعلیمِ پیرِ فلسفۂ مغربی ہے یہ ناداں ہیں جن کو ہستیِ غائب کی ہے تلاش پیکر اگر نظر سے نہ ہو آشنا تو کیا ہے شیخ بھی مثالِ برہمن صنم تراش محسوس پر بنأ ہے علومِ جدید کی اس دور میں ہے شیشہ عقائد کاپاش پاش مذہب ہے جس کا نام وہ ہے اک جنونِ خام ہے جس سے آدمی کی تخیل کو انتعاش باہر کمال اند کے آشفتگی خوش است ہر چند عقلِ کل شدۂ، بے جنوں مباش ۱؎ ……………… فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیانہیں؟ مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر تیغ و تفنگ دستِ مسلماںمیں ہے کہاں ہو بھی تو دل ہیںموت کی لذت سے بے خبر کافر کی موت سے بھی لرزتا ہوجس کادل کہتا ہے کون اسے کہ مسلماںکی موت مر تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے یورپ زرہ میں ڈوب گیا ، دوش تاکمر ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگذر ۲؎ ……………… عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکرِمعاش دل لرزتا ہے حریفانہ کشاکش سے ترا زندگی موت ہے، کھودیتی ہے جب ذوقِ خراش اس جنوں سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش فیضِ فطرت نے تجھے دیدۂ شاہیں بخشا جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفّا ش مدرسے نے تری آنکھوں سے چھپایا جن کو خلوتِ کوہ بیاباں میںوہ اسرار ہیں فاش ۱؎ ……………… پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر چھوڑجاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام مردہ لادینیِ افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطیِ افکار سے مشرق میںغلام ۲؎ ……………… خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوںمیں اضطراب نہیں تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے، مگرصاحبِ کتاب نہیں ۱؎ ……………… دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو کرسکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیںپیرو ۲؎ ……………… ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیںہے بندۂ حر کے لیے جہاںمیں فراغ کیا ہے تجھ کوکتابوں نے کور ذوق اتنا صبا سے بھی نہ ملا تجھ کوبوئے گل کاسراغ ۳؎ ……………… مجھ کو معلوم ہیںپیرانِ حرم کے انداز ہو نہ اخلاص تودعویِٰ نظر لاف و گزاف اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم ایک سازش ہے فقط دینِ مروّت کے خلاف اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کومعاف ۱؎ ……………… جوہر میں ہو لا اِلٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ ۲؎ ……………… تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو ہو جائے ملائم توجدھر چاہے اسے پھیر تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب سونے کاہمالہ ہو تو مٹی کاہے اک ڈھیر ۳؎ ……………… زجاج گر کی دکاں شاعری و مُلّائی ستم ہے خوار پھرے ،دشت و در میں دیوانہ کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ ہجوم مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ ۱؎ ……………… اے شیخ بہت اچھی مکتب کی فضا لیکن بنتی ہے بیاباں میں فاروقی ؓ و سلمانی ؓ صدیوں میں کہیں پیدا ہوتاہے حریف اس کا تلوار ہے تیزی میں صہبائے مسلمانی ۲؎ ……………… باب نمبر ۱۳ مغربی تہذیب مغرب کی مادّی تہذیب اور اس کی پیدا کردہ مشکلات اورمسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے اقبال اپنی تصنیف ’’تشکیل جدیدالہٰیاتِ اسلامیہ‘‘ میںلکھتے ہیں ۔’’حاصلِ کلام یہ کہ عصر حاضرکی ذہنی سرگرمیوںسے جو نتائج مرتب ہوئے ہیں، ان کے زیر اثر انسان کی روح مردہ ہوچکی ہے،یعنی وہ اپنے ضمیر اورباطن سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔خیالات اورتصورات کی جہت سے دیکھیے تو اس کا وجود خود اپنی ذات سے متصادم ہے ۔سیاسی اعتبار سے نظر ڈالیے تو افراد افراد سے دست و گریباں ہیں۔ اس میں اتنی سکت ہی نہیں کہ اپنی بے رحم انانیت اور ناقابلِ تسکین ہوسِ زر پر قابو حاصل کرسکے ۔ یہ باتیں ہیںجن کے زیر اثر زندگی کے اعلیٰ مراتب و اقدار کے لیے مغربی تہذیب کی جدوجہد بہ تدریج ختم ہورہی ہے ۔‘‘ بہر حال یہ وطنیت ہو یا لادینی اشتراکیت، دونوں مجبور ہیںکہ ہر کسی کو نفرت،بد گمانی اور غم وغصے پر اکسائیں ۔ حالاںکہ اس طرح انسان کا باطن اور ضمیر مردہ ہو جاتا ہے اوروہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی روحانی طاقت اورقوت کے مخفی سرچشمے تک پہنچ سکے ۔ جب تک انسان کو اپنے آغاز و انجام کی کوئی نئی جھلک نظر نہیں آتی،وہ کبھی اس معاشرے پر غالب نہیں آسکتا،جس میںباہمی مقابلے اور مسابقت نے ایک بڑی مہیب اورغیر انسانی شکل اختیار کر رکھی ہے، نہ اس تہذیب و تمدن پر جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہوچکی ہے۔‘‘ دیارِ مغرب کے رہنے والو!خدا کی بستی دکاں نہیںہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِکم عیار ہوگا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا ۱؎ …………… حرارت ہے بلا کی، بادۂ تہذیبِ حاضر میں بھڑک اٹھا بھبو کا، بن کے مسلم کا تنِ خاکی کیا ذرّہ کو جگنو، دے کے تابِ مستعار اس نے کوئی دیکھے توشوخی آفتابِ جلوہ فرما کی نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بے باکی تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی کیا گم تازہ پروانوں نے اپنا آشیاں لیکن مناظر دل کشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوس ناکی فروغِ شمعِ نو سے بزمِ مسلم جگمگا اٹھی مگر کہتی ہے پروانوں سے، میری کہنہ ادراکی تو اے پروانہ! ایں گرمی زشمعِ محفلے داری چومن در آتشِ خود سوز، اگر سوزِ دِلے داری‘‘ ۱؎ …………… نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ ’’خواجگی‘‘ نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات کٹ مرا ناداں، خیالی دیوتائوں کے لیے سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقدِ حیات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں، تیرے دور کا آغازہے ۱؎ …………… ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوعِ انسانی کا شکاری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندانِ مغرب کو ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ۲؎ …………… کچھ غم نہیں جو حضرت واعظ ہیں تنگ دست تہذیبِ نو کے سامنے سر اپنا خم کریں ردِّ جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا تردیدِ حج میں کوئی رسالہ رقم کریں ۱؎ …………… تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ دفع مرض کے واسطے پل پیش کیجیے تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض دل چاہتا تھا ہدیۂ دل پیش کیجیے بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق کہتا ہے ماسٹر سے کہ ’’بل پیش کیجیے‘‘ ۲؎ …………… اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے الکشن، ممبری، کونسل، صدارت بنائے خوب آزادی نے پھندے میاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے ۳؎ …………… لبالب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے میٔ لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ اِلّا دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے بہت نیچے سُروں میںہے، ابھی یورپ کا واویلا فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہوگئے پانی مری اکسیر نے شیشے کوبخشی سختیِ خارا ۱؎ …………… خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیّاری ہے سلطانی بھی عیّاری مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری تو اے مولائے یثربؐ، آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی، میرا ایماں ہے زنّاری ۲؎ …………… کھو نہ جا اس سحر و شام میں اے صاحبِ ہوش اک جہاں اور بھی ہے جس میںنہ فردا نہ دوش کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدّت سے خموش میں نے پایا ہے اسے اشکِ سحر گاہی میں! جس دُرِ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں چہرہ روشن ہو تو کیا حاجتِ گلگونہ فروش صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش ۱؎ …………… عرب کے سوز میں سازِ عجم ہے حرم کا راز توحیدِ اُمم ہے تہی وحدت سے ہے اندیشۂ غرب کہ تہذیبِ فرنگی بے حرم ہے ۲؎ …………… میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنادو تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھادو ۳؎ …………… کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصوصیت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سربلندی ہے یہ سربزیری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دَم جدائی ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشمِ تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرانشیں کا بشیری ہے آئینہ دارِ نذیری اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنیدّی و اردشیری ۱؎ …………… زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے ہوا اِس طرح فاش رازِ فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ بازِ فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا گراں خواب چینی سنبھلنے لگے ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے مسلماںہے توحید میں گرم جوش مگر دل ابھی تک ہے، زنّار پوش تمدن، تصوّف، شریعت، کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امّت روایات میں کھو گئی ۱؎ …………… فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف رہے نہ روح میں پاکیزگی توہے ناپید ضمیر پاک و خیالِ بلند و ذوقِ لطیف ۲؎ …………… یہ عیش فراواں، یہ حکومت، یہ تجارت دل سینۂ بے نور میں محرومِ تسلی تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے یہ وادیِ ایمن نہیں شایانِ تجلّی ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیبِ جواں مرگ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولّی ۳؎ …………… یورپ کے کرگسوں کو نہیں ہے ابھی خبر ہے کتنی زہر ناک ابی سینیا کی لاش ہونے کو ہے یہ مردۂ دیرینہ قاش قاش تہذیب کا کمال، شرافت کا ہے زوال غارت گری جہاں میںہے اقوام کی معاش ہر گُرگ کو ہے بزۂ معصوم کی تلاش اے وائے آبروئے کلیسا کا آئینہ روما نے کردیا سرِ بازار پاش پاش پیرِ کلیسیا! یہ حقیقت ہے دل خراش ۱؎ …………… کہاں فرشتۂ تہذیب کی ضرورت ہے نہیں زمانۂ حاضر کو اس میں دشواری جہاں قمار نہیں، زن تنک لباس نہیں جہاں حرام بتاتے ہیں شغلِ مے خواری ۲؎ …………… جوبات حق ہو، وہ مجھ سے چھپی نہیں رہتی خدا نے مجھ کو دیا ہے دلِ خبیر و بصیر مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادیں کنیزِ اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیوِ بے زنجیر متاعِ غیر پہ ہوتی ہے جب نظر اس کی توہیں ہراول لشکر کلیسیا کے سفیر ۳؎ اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے بجلی کے چراغوں سے منوّر کیے افکار جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل تدبیر سے کھلتا نہیں، یہ عقدۂ دشوار ترکانِ ’’جفاپیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار ۱؎ …………… دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب گرما دیا اقوامِ یورپ کا لہو کیا امامانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو ۲؎ …………… دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کاسہارا ۳؎ …………… باب نمبر ۱۴ اسلام کی نشات ِ ثانیہ نشات کا مطلب ہے اُگنا، ظاہر ہونا ،پیدا ہونا نشات ِثانیہ کامطلب ہے دوبارہ ظاہر ہونا ،دوبارہ جی اٹھنا ،دوبارہ عروج اسلامی نشاتِ ثانیہ کا مطلب ہے اسلام کا دوبارہ عروج موجودہ زوال اورپستی سے نکل کر دوبارہ وہی عروج حاصل کرنا جو ظہورِ اسلام کے بعد ابتدائی چند صدیوں میں اسلام کو پوری دنیا میںحاصل تھا۔ ’’تنظیم اِسلامی ‘‘ کے بانی مبانی محترم ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنے ایک مضمون ’’اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل ‘‘ میںلکھا ہے :’’قرآن حکیم سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے اور رسول کریم ؐ کی احادیث میں تو صراحت کے ساتھ اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ قیامت سے قبل ایک بار پھر اللہ کا دین زمین پر اسی شان کے ساتھ غالب ہوگا، جس شان سے اب سے چودہ سو سال قبل ہوا تھا، اور اس بار دینِ اسلام کا غلبہ پورے کرۂ ارض کو محیط ہوگااورپورا عالمِ انسانی توحید کے نور سے منور ہوجائے گا۔ علامہ اقبال نے اس نور کی جھلک دکھاتے ہوئے فرمایا تھا۔ آسماںہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش اورظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی پھردلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی آنکھ جوکچھ دیکھ سکتی ہے لب پہ آسکتا نہیں محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے قرآن مجید میںتین بار یعنی سورۂ توبہ کی آیت۳۳ ، سورہ ٔالفتح کی آیت ۲۸ اور سورۂ الصف کی آیت ۹ میںیہ فرمایا گیا : ھُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِینِ الْحَقَّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّینِ کُلّہٖo ترجمہ :وہی ہے اللہ ، جس نے بھیجا اپنے رسول(محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دینِ حق کے ساتھ تاکہ غالب کرے اسے کل دین یا تمام ادیان(مذاہب) پر ۔ گویا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و بعثت کا مقصد ’’دین حق کا غلبہ‘‘ ہے اوردوسری طرف مختلف اسلوبوں سے تین ہی بار یہ فرمایاکہ آنحضور ؐ کی بعثت تمام بنی نوع انسانی کے لیے ہے، جیسے مثلاً سورۂ سبا کی آیت ۲۸ میں فرمایا: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاّ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیرًا وَّ نَذِیْراًo ترجمہ : ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو ، مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر۔ گویا دینِ اسلام اورپیغمبرِ اسلام ؐ کی خلافت عالمی ، آفاقی اورپورے عالم انسانی اور کرۂ ارض کو محیط ہے ۔ اس کی صریح پیشںگوئیاں بھی صحیح احادیث میں موجود ہیں۔ چنانچہ مسند احمد بن حنبلؒ میں حضرت مقداد بن اسودؓ سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ترجمہ) روئے ارضی پر کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں بچے گا،خواہ وہ اینٹ گارے کابنا ہوا ہو، خواہ کمبلوں کے خیمے کی صورت میںہو،جس میں اللہ کلمہ ٔ اسلام کو داخل نہ کردے ،خواہ کسی عزت والے کو اعزاز کے ساتھ، خواہ کسی پست ہمت کے ضعف کے ذریعے (یعنی یا تو گھر والا خود ایمان لے آئے گا یا اسے اسلام کی بالا دستی قبول کرنی ہوگی)اس پر حضرت مقداد ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میںکہا : ’’تب تو وہی بات پوری ہوجائے گی کہ کل دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے ۔ ( اشارہ ہے سورۃ انفال کی آیت ۳۹ کی جانب) محترم ڈاکٹر اسرار احمد قرآن و حدیث کے ان حوالوں کے ساتھ جب ’’برعظیم پاک وہند میں اسلام کے انقلابی فکرکی تجدید و تعمیل ‘‘ پر اظہار رائے کرتے ہیں تو اس برعظیم میں نتیجہ علامہ اقبال ؒ کے حق میں نکالتے ہیں ۔ ’’اب حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیے تو صاف نظر آئے گا کہ بیسویں صدی عیسوی ’’احیائے اسلام‘‘کی جدوجہد کی صدی ہے ۔ چنانچہ اس کے آغاز کے ساتھ ہی وہ عمل بھی شروع ہوگیا تھا جسے اسلام اور امتِ مسلمہ کے ’’ہمہ جہتی احیائے عمل‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور جو اس صدی کے ربع اول کے خاتمے کے بعد تو پوری شدت اختیار کر گیا تھا … تقریباً پون صدی پر پھیلی ہوئی اس تاریخ میں اہم ترین اور جامع ترین شخصیت علامہ اقبال ؒ کی ہے۔ ان کے بارے میں جس قدر غور کیا جائے ، حیرت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ان کی یہ ’’جامعیت ‘‘ حیرت انگیز ہے کہ وہ واحد رہنما ہیں جو بہ یک وقت قومی اور احیائی دونوں محاذوں پر اس درجہ سرگرم عمل رہے کہ اگرایک جانب وہ فکرِ اسلامی کے مجدّدہیں (’’الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیل جدید‘‘ ان کے خطبات کاعنوان ہے) تودوسری جانب تصورِ پاکستان کے خالق اورنظریہ ٔپاکستان کے موجد بھی ہیں۔ اس طرح وہ داعی الی القرآن بھی ہیں اور حکیم الامت بھی ہیں ۔ جہاں تک قرآن کے فلسفہ و حکمت کے بحر عمیق میں غواصی کا تعلق ہے تو اس میدان میں تو وہ بالکل تنہا ہیں اور ان کاکوئی دوسرا شریک یا مثل ہے ہی نہیں۔‘‘ جس طرح ڈیڑھ دوصدی قبل شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی دور رس نگاہ نے بقول اقبال ؒ ’’ہند میں سرمایہ ٔ ملت کی نگہبانی ‘‘ کے لیے احمد شاہ ابدالی کا انتخاب کیا تھا اور اسے ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی ، صرف اسی طرح نہیں، بلکہ اس سے بھی کہیں آگے بڑھ کر حضرت علامہ اقبال ؒ کی عقابی نگاہ نے ایک جانب لندن میں جابسنے والے محمد علی جناح کو ’’قومی ناخدا‘‘ کی حیثیت سے معین کیا اورخود انھیں اس پہلو سے ’’خود شناسی ‘‘ کا جوہر عطا کیا ۔ اور دوسری جانب حیدر آباد دکن میںمقیم ابو الاعلیٰ مودودی ؒکو ’’متکلمِ اسلام ‘‘ ہونے کا اہل سمجھا اور انھیں اس خطے میں منتقل ہونے کی دعوت دی ،جس کے بارے میں ان کی چشمِ باطن اور نگاہِ دوربین دیکھ چکی تھی کہ وہاں ایک آزاد مسلمان ریاست کا قیام تقدیر الہٰی ہے (علامہ اقبالؒ کا خطبہ الہٰ آباد ،۱۹۳۰ء ) آج جب کہ پندرہویںصدی ہجری کاسورج طلوع ہوئے۲۴ برس ہوچکے ہیں۔ ہمیں چاروں طرف تمام اسلامی ممالک میں ایک اضطراب اور زوال کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے ۔ کہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر ہے ،کہیں مسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان بیت المقدس کا مسئلہ ہے ، کہیں چیچنیا کے مسلمان، کہیں یورپ کے قلب میںبوسنیا کے مسلمان اپنے دین کی سرفرازی کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکا کے ’’ٹریڈ سینٹر‘‘ کے انہدام کے بعد تو امریکی صدر بش نے صاف ہی کہہ دیا ہے ’’صلیبی جنگ کاآغاز ہوچکا ہے ۔ ‘‘ یہ دوسری بات کہ اس نے سیاسی مصلحتوں کے تحت مسلمانانِ عالم سے معذرت کا اظہار کیا۔ امریکا کے ایک بڑے عیسائی پادری نے حال ہی میںبیان دیاہے کہ ’’پیغمبر اسلام دہشت گرد تھے ‘‘(نعوذ با اللہ)۔ مسلمانانِ عالم کے زوال کی نشانی اس سے بڑی کیا ہوسکتی ہے کہ ایسے شرم ناک بیانات پر بھی عالم اسلام اور ان کی اجتماعی تنظیم ’’ اسلامی سربراہ کانفرنس ‘‘(او آئی سی )ایک معمولی قرارداد بھی منظور نہ کر سکی ۔ یہ کوئی علاقائی اور اقتصادی جنگ نہیں ، بلکہ ایک نظریاتی ،مذہبی جنگ ہے ۔ افغانستان میں روس کی جارحیت اور اس کے بعد امریکا کی شدید جارحیت ، عراق پر امریکی جارحیت اور اس کے بعد پورے عالم اسلام کے لیے مغرب کا جارحانہ چیلنج ، اور مسلمان ملکوں کی بے بسی اور بے چارگی علامہ اقبال ایسے مجدّد کو آواز دے رہی ہے ۔ عصرِ حاضر میں ملت ِاسلامیہ کے درمیان اضطراب و اجتہاد کی تحریک کے محرک مفکر اسلام علامہ اقبالؒ ہیں جن کی دوررس نگاہ نے آنے والے دور یعنی عصرِرواں کی عکاسی ، ایک پیش گوئی کی صورت میں ’’جواب شکوہ‘‘ میںپہلے ہی سے کردی تھی ۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک روز عالم اسلام کا چمن خونِ شہدا کی لالی سے گل زار بن جائے گا اور جب بہار آئے گی تو گلستانِ اسلام ہر قسم کے خس وخاشاک سے خالی ہوجائے گااور یہ پیش گوئی اس وقت صحیح ثابت ہوگی جبکہ عالم اسلام کے آسمان کا رنگ عنابی ہوگا۔اسلامی ممالک کی موجودہ زبوںحالی کا نقشہ علامہ نے اپنی نظم ’’بلادِ اسلامیہ ‘‘ میںیوں پیش کیا ہے : سرزمیں دِلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے ذرّے ذرّے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے پاک اس اجڑے گلستاں کی نہ ہو کیوں کر زمیں خانقاہِ عظمتِ اسلام ہے یہ سرزمیں سوتے ہیں اس خاک میںخیر الامم کے تاجدار نظمِ عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد ہے زیارت گاہِ مسلم گوجہاں آباد بھی اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز خاک اس بستی کی ہو کیوںکر نہ ہمدوشِ ارم جس نے دیکھے جانشینانِ پیمبرؐ کے قدم جس کے غنچے تھے چمن ساماں وہ گلشن ہے یہی کانپتا تھا جن سے روما ، ان کا مدفن ہے یہی ہے زمینِ قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور ظلمتِ مغرب میںجو روشن تھی مثلِ شمعِ طور بجھ کے بزمِ ملتِ بیضا پریشاں کرگئی اور دیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سرزمین پاک ہے جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نمناک ہے خطۂ قسطنطنیہ، یعنی قیصر کا دیار مہدیِ امّت کی سطوت کا نشانِ پایدار صورتِ خاکِ حرم یہ سرزمیںبھی پاک ہے آستانِ مسند آرائے شہِ لولاک ہے نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا تربتِ ایوب انصاری ؓ سے آتی ہے صدا اے مسلماںملتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر سیکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر وہ زمیں ہے تو، مگر اے خواب گاہِ مصطفیؐ دید ہے کعبے کو تیری حجِ اکبر سے سوا خاتمِ ہستی میں توتاباں ہے مانندِ نگیں اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں تجھ میں راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے جانشینِ قیصر کے، وارث مسندِ جم کے ہوئے ہے اگر قومیتِ اسلام پابندِ مقام ہند ہی بنیاد ہے اس کہ نہ فارس ہے نہ شام آہ! یثرب !دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو نقطۂ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو جب تلک باقی ہے تو دنیا میں باقی ہم بھی ہیں صبح ہے تو اس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں علامہ اقبالؒ نے جون ۱۹۱۲ء میں ایک نظم ’’مسلم ‘‘ کے عنوان سے تخلیق کی تھی ، جس میںانھوںنے مسلمانانِ عالم کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ہم نشیں! مسلم ہوںمیں، توحید کا حامل ہوں میں اس صداقت پر ازل سے شاہِد عادل ہوں میں نبضِ موجودات میںپیدا حرارت اس سے ہے اور مسلم کے تخیل میںجسارت اس سے ہے حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا دہر میں غارت گرِ باطل پرستی ، میں ہوا حق تو یہ ہے ، حافظِ ناموس ہستی، میںہوا میری ہستی پیرہن ، عریانیِ عالم کی ہے میرے مٹ جانے سے رسوائی ،بنی آدم کی ہے قسمتِ عالم کا مسلم، کوکبِ تابندہ ہے جس کی تابانی سے افسونِ سحر شرمندہ ہے آشکارا ہیں مری آنکھوں پہ اسرارِ حیات کہہ نہیں سکتے مجھے نومیدِپیکارِ حیات کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار فتحِ کامل کی خبر دیتا ہے جوشِ کارزار ہاںیہ سچ ہے، چشم بر عہدِ کہن رہتا ہوں میں اہلِ محفل سے پرانی داستاں کہتاہوں میں یادِ عہدِ رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں اپنی ایک نظم جس کا عنوان ’’حضورِ رسالت مآب ؐ میں‘‘ ہے، میںاقبال سرورِ کائنات، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںاپنی حاضری کویوں بیان کرتے ہیں : گراں جو مجھ پہ یہ ہنگامۂ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رختِ سفر روانہ ہوا قیودِ شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظامِ کہنۂ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجکو حضور آیۂ رحمتؐ میںلے گئے مجکو کہا حضورؐ نے اے عندلیبِ باغِ حجاز! کلی کلی ہے تری گرمیِ نوا سے گداز ہمیشہ سرخوشِ جامِ ولا ہے دل تیرا فتادگی ہے تری غیرتِ سجودِ نیاز اڑا جو پستیِ دنیا سے توسوئے گردوں سکھائی تجھ کو ملائک نے رفعتِ پرواز نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا ؟ ’’حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کاہے لہو اس میں‘‘ اقبال حضور ِرسالتؐ مآب کی خدمت اقدس میں نذرانے کے طور پر ایک آبگینہ پیش کرتے ہیں، جس میںایک ایسی چیزہے جوجنت میںبھی نہیں ملتی اورجس سے امتِ مسلمہ کی آبرو جھلکتی ہے،یعنی طرابلس کے شہیدوں کالہو۔ طرابلس توایک علامت ہے ،ورنہ اقبال ؒ کہنایہ چاہتے ہیںکہ دنیا بھر میںجہاں کہیں اللہ کی راہ میں مسلمان شہادت گاہِ الفت میں اپنا لہو بہاتے ہیں ، وہ آنحضور ؐ کی خدمت میںنذرانہ عقیدت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے (اقبال ہی کی زبان سے سہی)’’جوابِ شکوہ‘‘والی نظم میں مسلمانوں کو بیدار ہونے کی تلقین کی ہے اور اقوامِ عالم میں مسلمانوں کو جو فضیلت حاصل ہے ، اس کی یاد دلائی ہے ۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ ایک طویل نظم ہے ، اس کے چند آخری بند یہ ہیں۔ان اشعار میں عصرِ حاضر کی آفتوں اور سختیوں کے باوجود دیگر اقوامِ عالم پر مسلمانوں کی برتری کا اظہار کرتے ہیں: عہدِ نو برق ہے ، آتش زنِ ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے ملتِ ختمِ رُسلؐ شعلہ بہ پیراہن ہے آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں سیکڑوں نخل ہیں،کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں سیکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کا چمن بندی کا پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا غیریک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا نخلِ شمع استی و درشعلہ دودریشۂ تو عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے نشّۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے عصرِ نورات ہے ، دھند لا سا ستارا تو ہے ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا تو سمجھتا ہے ، یہ ساماں ہے دل آزاری کا امتحاں ہے ترے ایثار کا ، خودداری کا کیوں ہراساں ہے صَہِیلِ فرسِ اعدا سے نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے مثلِ بو قید ہے غنچے میں،پریشاں ہوجا رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا ہے تنک مایہ، تو ذرّے سے بیاباں ہوجا نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہوجا قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کردے ہو نہ یہ پھول ، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو ، خم بھی نہ ہو بزمِ توحید بھی دنیا میںنہ ہو ، تم بھی نہ ہو خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے بحرمیں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے رفعتِ شانِ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ دیکھے مردَمِ چشمِ زمیں ، یعنی وہ کالی دنیا وہ تمھارے شہدا پالنے والی دنیا گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری مرے درویش خلافت ہے جہاںگیر تری ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں پھر اقبالؒ تمام نوجوانانِ ملت کے عالم گیر ترانے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ کا ش اس ترانے کامنظوم ترجمہ دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اوربالخصوص اسلامی ملکوں کی قومی زبانوں میں ہوجائے۔ چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارا آساں نہیں مٹانا، نام و نشاں ہمارا دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا تیغوں کے سائے میں ہم ،پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے، قومی نشاںہمارا مغرب کی وادیوںمیں گونجی اذاں ہماری تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا اے گلستانِ اندلس! وہ دن ہیں یاد تجکو تھا تیری ڈالیوں میںجب آشیاں ہمارا اے موجِ دجلہ! توبھی پہچانتی ہے ہم کو اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواںہمارا اے ارضِ پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم ہے خوں تیری رگوں میں اب تک رواںہمارا سالارِ کارواں ہے میرِحجازؐ اپنا اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا اقبالؔ کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما، پھر کارواں ہمارا جب ملت ِ اسلامیہ کا کارواں پھر سے جادہ پیما ہونے لگتا ہے ، تو دنیا کے تمام نوجوانانِ اسلام ہاتھ اٹھا کر ، اللہ تعالیٰ کے حضور مجسم دعا بن جاتے ہیں: یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپادے پھر وادیِ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے پھر شوقِ تماشا دے پھر ذوقِ تقاضا دے محرومِ تماشا کو پھر دیدۂ بینا دے دیکھا ہے جو کچھ میں نے، اوروں کو بھی دکھلا دے بھٹکے ہوئے آہو کو، پھر سوئے حرم لے چل اس شہر کے خوگر کو، پھر وسعتِ صحرا دے پیدا دلِ ویراں میں، پھر شورشِ محشر کر اس محمل خالی کو ، پھر شاہدِ لیلا دے اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو وہ داغِ محبت دے، جو چاند کو شرما دے رفعت میں مقاصد کو ہم دوشِ ثریّا کر خود داریِ ساحل دے، آزادیِ دریا دے بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو سینوںمیں اجالا کر، دل صورتِ مینا دے احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے میں بلبلِ نالاں ہوں اِک اجڑے گلستاںکا تاثیرکاساحل ہوں، محتاج کو داتا دے نوجوانوں کا قافلہ ہمّت و جرأت سے جب قدم بڑھاتا ہے تواقبال ؒان سے یوں مخاطب ہوتے ہیں؛ جہاں اگر چہ دگرگوں ہے، قم باذن اللہ وہی زمیں، وہی گردوں ہے، قم باذن اللہ کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے تری رگوں میں وہی خوں ہے، قم باذن اللہ فرنگیوںکا یہ افسوں ہے، قم باذن اللہ ……………… اس دور میںمے اور ہے، جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا، اپنا حرم اور تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے یہ بت کہ ترا شیدۂ تہذیبِ نوی ہے غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے اے مصطفوی، خاک میںاس بت کوملادے ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی رہ بحر میں آزادِ وطن، صورتِ ماہی ہے ترکِ وطن ، سنتِ محبوبِ الہٰی دے تو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشادِ نبّوت میں وطن اورہی کچھ ہے ۱؎ ……………… کیا سناتا ہے مجھ کو ترک و عرب کی داستاں مجھ سے کچھ پنہاں نہیں، اسلامیوں کا سوزوساز لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ خشتِ بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز ہوگئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبورِ نیاز لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس وہ میٔ سرکش، حرارت جس کی ہے مینا گداز حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز ہوگیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں، دانائے راز ربط و ضبطِ ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میںہو ملک و دولت ہے فقط حفظِ حرم کا اک ثمر ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر جو کرے گا امتیازِ رنگ و بو مٹ جائے گا ترکِ خرگاہی ہو یا اعرابیِ والا گہر! نسل اگر مسلم کی، مذہب پر مقدّم ہوگئی اڑگیا دنیا میں تو دنیا میں مانند خاکِ رہ گزر تاخلافت کی بنا، دنیا میں ہو پھر استوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر، اسلام کاقلب وجگر ۱؎ ……………… دلیلِ صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی افق سے آفتاب ابھرا، گیا دورِ گراں خوابی عروقِ مردۂ مشرق میںخونِ زندگی دوڑا سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی مسلماں کو مسلماںکردیا طوفانِ مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے شکوہِ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی اثر کچھ خواب کاغنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل ’’نوا را تلخ ترمی زن چوذوقِ نغمہ کم یابی‘‘ سرشکِ چشم مسلم میں ہے نیساں کااثر پیدا خلیل ؑاللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگِ و بر پیدا اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا توکیا غم ہے کہ خونِ صدہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاںبینی جگرخوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے مسلماں سے حدیثِ سوزوساز زندگی کہہ دے ۱؎ ……………… روح اسلام کی ہے نورِخودی، نارِخودی زندگانی کے لیے نارِ خودی نور و حضور یہی ہر چیز کی تقویم ، یہی اصلِ نمود گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور لفظِ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اسی دین کا ہے ’’فقرِ غیور‘‘ ۲؎ ……………… ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملت وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد وحدت کی حفاظت نہیں ،بے قوتِ بازو آتی نہیں کچھ کام یہاں عقل خدا داد اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد ملاّ کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد ۱؎ ……………… بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمالِ جنوں طلوع ہے صفتِ آفتاب اس کا غروب یگانہ اور مثالِ زمانہ گوناگوں نہ اس میں عصرِرواں کی حیا سے بے زاری نہ اس میںعہد کہن کے فسانہ و افسوں حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے، نہیںہے طلسمِ افلاطوں عناصر اس کے ہیں، روح القدس کاذوقِ جمال عجم کا حسنِ طبیعت ، عرب کا سوزِ دروں ۲؎ ……………… میں نہ عارف، نہ مجدّد، نہ محدّث ، نہ فقیہ مجھ کو معلوم نہیں، کیا ہے نبوت کامقام ہاں مگر عالمِ اسلام پہ رکھتا ہوں نظر فاش ہے مجھ پر ضمیرِ فلکِ نیلی فام عصرِ حاضر کی شبِ تار میں دیکھی میں نے یہ حقیقت کہ ہے روشن صفتِ ماہِ تمام ’’وہ نبوتہے مسلماں کے لیے برگِ حشیش جس نبوت میں نہیں، قوت و شوکت کا پیام‘‘ ۱؎ ……………… اس دَور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی، وحدتِ آدم تفریق ملل، حکمتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود، فقط ملتِ آدم مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیّتِ اقوام کہ جمعیّتِ آدم؟ ۲؎ ……………… ضمیر اس مدنیت کا دیں سے ہے خالی فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں قبولِ دینِ مسیحی سے برہمن کا مقام اگر قبول کرے دینِ مصطفی انگریز! سیاہ روز مسلماں رہے گا پھر بھی غلام ۱؎ ……………… پانی بھی مسخر ہے ، ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے ۲؎ ……………… عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکارا، شرعِ پیغمبر کہیں الحذر آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں موت کاپیغام ہر نوعِ غلامی کے لیے نے کوئی فغفُور و خاقاں،نے فقیرِ رہ نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں توخوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں ہے یہی بہتر، الہٰیّات میں الجھا رہے یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے ۱؎ ……………… باب نمبر ۱۵ دخترانِ ملّت کے نام دخترانِ ملت کے لیے اقبال وہی طرزِ حیات پسند کرتے ہیں،جو قرونِ اولیٰ میںمسلمان خواتین میںپایا جاتا تھا۔ جب عورتیں مروّجہ برقع کے نہ ہوتے ہوئے بھی شرم و حیا اوراحساسِ عفت وعصمت میںمثالی نمونہ تھیں اور شرعی پردے کے اہتمام کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔ اقبال ؒ کوان شاعروں اور فن کاروں سے شکایت تھی جو عورت کے نام کا غلط استعمال کرکے ادب کی پاکیزگی ، بلندی اورمقصدیت کو صدمہ پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنی ایک نظم میںکہتے ہیں۔ چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقاماتِ بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ ، بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بے چاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار اقبال ؒ دنیا کی سرگرمیوں کی اصل ’’مائوں‘‘ کی ذات کو قرار دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ان کی ذات امین ممکنات ہے اورانقلاب انگیز مضمرات کی حامل اورجوقومیں مائوں کی قدر نہیں کرتیں ،ان کا نظامِ زندگی سنبھل نہیں سکتا ۔ وہ آزادیِ نسواں کی تحریک کے اس لیے حامی نہیں کہ اس کا نتیجہ دوسرے انداز میں عورتوں کی غلامی ہے ۔ اس سے خواتین کی مشکلات آسان نہیں ، مزید پیچیدہ ہوجائیں گی اور انسانیت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ جذبۂ امومت ختم ہوجائے گا ، ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑجائے گی۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جس علم سے عورت اپنی فطری خصوصیت کھو دیتی ہے ، وہ علم نہیں ، بلکہ موت ہے اور مغربی تہذیب اقوامِ عالم کو اسی موت کی دعوت دے رہی ہے ۔ علامہ اقبالؒ حضرت فاطمہ زہرا ؓ کوملت ِ اسلامیہ کی خواتین کے لیے ’’مثالی خاتون‘‘ سمجھتے ہیں اورجگہ جگہ ان کے اتباع کی تاکید کرتے ہیں، کہ وہ کس طرح چکی پیستے ہوئے بھی قرآن مجید پڑھتی تھیں اور گھریلو کاموں میں مشکیزہ تک اٹھانے پر صبر فرماتی تھیں ۔ اقبالؒ کے خیال میں سیرت کی اسی پختگی سے حضراتِ حسنین ؓان کی آغوش سے نکلے ۔ مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ مادراں را اسوۂ کامل بتولؓ آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گرداں و لب قرآں سرا فطرتِ تو جذبہ ہا دارد بلند چشمِ ہوش از اسوۂ زہراؓ بلند تا حسینےؓ شاخ تو بار آورد موسمِ پیشیں بہ گلزار آورد اگر پندے زدرویشے پذیری ہزار امت بمیری تو نہ میری بتولےؓ باش و پنہاں شو ازیں عصر کہ درِ آغوشِ شبیرےؓ بگیری! ……………… لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ روشِ مغربی ہے مدّ نظر وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ۱؎ ……………… ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا مگر یہ مسئلۂ زن رہا ، وہیں کے وہیں قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور کہ مردِ سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں ۲؎ ……………… کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش! کیا یہی ہے معاشرت کا کمال مرد بیکار و زن تہی آغوش ۳؎ ……………… بہت رنگ بدلے سپہرِ بریں نے خدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے وہ خلوت نشیں ہے، یہ خلوت نشیں ہے ابھی تک ہے پردے میں اولادِ آدم کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے! ۱؎ ……………… رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے روشن ہے نگہِ آئینۂ دل ہے مکدّر بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر آغوشِ صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ، ولیکن خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر ۲؎ ……………… وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں شرف میںبڑھ کے ثریّا سے مشتِ خاک اس کی کہ ہر شرف ہے اسی دُرج کا دُرِ مکنوں مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں ۱؎ ……………… اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں، تہذیب کے فرزند اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ؟ آزادیِ نسواں کہ زمرّد کا گلوبند؟ ۲؎ ……………… اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا اس قوم کا خورشید، بہت جلد ہوا زرد ۳؎ تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت ۱؎ ……………… جوہرِ مرد عیاں ہوتا ہے ، بے منتِ غیر غیر کے ہاتھ میںہے، جوہرِ عورت کی نمود راز ہے اس کے تپِ غم کا یہی نکتۂ شوق آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرارِ حیات گرم اسی آگ سے ہے ، معرکۂ بود و نبود میں بھی مظلومیِ نسواں سے ہوں غم ناک بہت نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود ۲؎ ……………… باب نمبر ۱۶ نونہالانِ ملّت کے نام نئی نسل یا نژاد ِ نو سے اقبال ؒ کے گہرے تعلق کا اندازہ ان نظموں سے بھی کیا جاسکتا ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے کہی ہیں ۔ یہ نظمیں گویا اس عظیم پیغام کی تمہید ہیں جو اقبال ؒ نئی نسل کو دینا چاہتے تھے ، اس لیے کہ ان میں نئی نسل کی سیرت و کردار سازی کے لیے قریب قریب وہی روش اختیار کی گئی ہے جس پر چل کرکوئی شخص اپنی خودی کو استوار و مستحکم بنا سکتا ہے ۔ ’’ایک مکڑا اور مکھی ‘‘ کے عنوان کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ خوشامد میں آنا گویا جان سے ہاتھ دھونا ہے ۔ ’’پہاڑ اور گلہری‘‘ میں یہ بات بچوں کے ذہن نشین کرائی گئی ہے کہ حقیقی بڑائی کا تعلق قدو قامت سے نہیں ، بلکہ حرکت و عمل سے ہے ۔ ’’ایک گائے اور بکری ‘‘والی نظم میں اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کا وجود ساری مخلوق کے لیے باعثِ رحمت ہے ۔ ’’بچے کی دعا‘‘تعمیر سیرت کے سلسلے میں ایک لاثانی دعا ہے ۔ چھوٹے بڑے ، عورت مرد، بوڑھے جوان سب کو زبانی یاد ہے اور اس کا اثر سب کے دلوں پر نقش ہے۔ ہمدردی والی نظم صرف یہی نہیں کہ ہمدردی کا درس دیتی ہے بلکہ ظلمت کو روشنی اوربدی کو نیکی میں بدل دینے کا عزم و حوصلہ بخشتی ہے۔ اقبالؒ نے ان نظموں میں بڑا سادہ اورسلیس طرزِ تخاطب اختیار کیا ہے ۔ بچوں کی نصیحت آموزی کے لیے چھوٹی چھوٹی دل چسپ کہانیوں کوآسان اور خوب صورت نظموں میں پیش کیاگیا۔ بچوں کو اخلاقی تعلیم دینے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بچوں کے لیے اقبال ؒ کی یہ چند نظمیں بہت مقبول ہوئی ہیں:۔ ایک مکڑا اور مکھی اِک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا اِس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھار ا لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت بھولے سے کبھی تم نے یہاں پائوں نہ رکھا غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیںہے اپنوں سے مگر چاہیے یوںکھنچ کے نہ رہنا آئو جو مرے گھر تو عزّت ہے یہ میری وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا مکھّی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی حضرت ! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا اِس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اترا مکڑے نے کہا: واہ! فریبی مجھے سمجھے تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا منظور تمھاری مجھے خاطر تھی ،وگرنہ کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے ٹھیرو جومرے گھر میں تو ہے اس میں برُا کیا ؟ اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کُٹیا لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا مہمانوں کے آرام کو حاضرہیں بچھونے ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا مکّھی نے کہا:خیر! یہ سب ٹھیک ہے لیکن میں آپ کے گھر آئوں ، یہ امید نہ رکھنا اِن نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے سوجائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا مکڑے نے کہا دل میں ، سنی بات جو اس کی پھانسوں اسے کس طرح یہ کمبخت ہے دانا سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا یہ سوچ کے مکّھی سے کہا اس نے بڑی بی اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبا ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا یہ حسن ، یہ پوشاک ، یہ خوبی ، یہ صفائی! پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی بولی کہ نہیں آپ سے مجکوکوئی کھٹکا انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے پاس آئی تو مکڑے نے اُچھل کر اسے پکڑا بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا ایک پہاڑ اور گلہری (ماخوذ از ایمرسن) بچوں کے لیے کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے تجھے ہوشرم، تو پانی میں جاکے ڈوب مرے ذرا سی چیز ہے ،اس پر غرور! کیا کہنا یہ عقل اور یہ سمجھ ،یہ شعور ! کیا کہنا! خدا کی شان ہے ناچیز، چیز بن بیٹھیں جو بے شعور ہوں یوں با تمیز بن بیٹھیں تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے زمیں پست ہے مری آن بان کے آگے جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں بھلا پہاڑ کہاں! جانور غریب کہاں کہا یہ سُن کے گلہری نے،منہ سنبھال ذرا یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے کوئی بڑا ، کوئی چھوٹا ، یہ اس کی حکمت ہے بڑا جہان میں تجکو بنا دیا اس نے مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے قدم اٹھا نے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں نِری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں؟ جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو نہیں ہے چیز نکمّی کوئی زمانے میں کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں ایک گائے اور بکری (ماخوذ) اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رواں تھے اناروںکے بے شمار درخت اور پیپل کے سایہ دار درخت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں طائروں کی صدائیں آتی تھیں کسی ندّی کے پاس اک بکری چرتے چرتے کہیں سے آنکلی جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا پاس اک گائے کو کھڑے پایا پہلے جھک کر اسے سلام کیا پھر سلیقے سے یوں کلام کیا کیوں بڑی بی! مزاج کیسے ہیں! گائے بولی کہ خیر اچھے ہیں کٹ رہی ہے بُری بھلی اپنی ہے مصیبت میں زندگی اپنی جان پر آبنی ہے ، کیا کہیے اپنی قسمت بُری ہے ، کیا کہیے دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں رو رہی ہوں برُوں کی جان کو میں زور چلتا نہیں غریبوں کا پیش آیا لکھا نصیبوں کا آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے اس سے پالا پڑے ، خدا نہ کرے دودھ کم دوں تو بُڑبُڑاتا ہے ہوں جو دُبلی تو بیچ کھاتا ہے ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے کن فریبوں سے رام کرتاہے اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں بدلے نیکی کے یہ برائی ہے میرے اللہ ! تری دہائی ہے سن کے بکری یہ ماجرا سارا بولی، ایسا گلہ نہیں اچھا بات سچی ہے بے مزا لگتی میں کہوں گی مگر خدا لگتی یہ چراگہ،یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا یہ ہری گھاس اور یہ سایا ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں یہ کہاں ،بے زباں غریب کہاں یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں لطف سارے اسی کے دم سے ہیں اس کے دم سے ہے اپنی آبادی قید ہم کو بھلی ،کہ آزادی؟ سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا واںکی گزران سے بچائے خدا ہم پہ احسان ہے بڑا اس کا ہم کو زیبا نہیں گلہ اس کا قدر آرام کی اگر سمجھو آدمی کا کبھی گلہ نہ کرو گائے سن کر یہ بات شرمائی آدمی کے گِلے سے پچھتائی دل میں پر کھا بھَلا بُرا اس نے اور کچھ سوچ کر کہا اس نے یُوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی بانگ درا بچے کی دعا (ماخوذ) لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہوجائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہوجائے ہو مرے دم سے یوں ہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجکو محبت یا رب ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مِرے اللہ بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو ہمدردی (ماخوذ از ولیم کوپر) ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اڑنے چگنے میں دِن گزارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری میں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے بانگِ درا باب نمبر ۱۷ پیام بذریعہ جاویداقبال وہ بے شمارباتیں جو اقبال ؔ اپنے عہدِ نو کے متعلق خود اس سے یا دوسروں سے کہنا چاہتے ہیں، ان کی شاعری کے مختلف ادوار میں، مختلف مجموعہ ہائے کلام میںبکھری اور پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں، ان باتوں میں نہ باہم کوئی منطقی ربط ہے اور نہ تقدم و تاخر کا کوئی تعلق۔ اس کے باوجود کہ یہ سب خیالا ت داخلی طور پر ایک مضبوط منطقی اور فکری رشتے میں منسلک ہیں، وہ جب شعر کی صورت اختیار کرتے ہیںتو ربط اور تعلق کے یہ رشتے قائم نہیں رہتے ۔ ہر خیال خیالوں کی اس زنجیر سے الگ ہوکر، جس میں فکر اور جذبے کی داخلی سطح پر وہ حلقہ بند ہے، ایک کڑی کی صورت اختیار کر لیتا ہے اورشعر میں اپنے واضح وجود کا الگ اعلان کرتا ہے ۔ اقبال کے جن شعروں اور نظموں کا اب تک تجزیہ کیا گیا، ان میں بات تو کوئی بھی ایسی نہیں جو اقبال کے منظم فلسفۂ حیات کا جزو، عنصر یا حصہ نہ ہو، لیکن یہ سب باتیں اس منظم فلسفے کے منفرد اور منتشر اجزا اور عناصر ہی کی حیثیت سے ہمارے سامنے آتی ہیں۔ ان میں تقدم و تاخر اور سبب اور نتیجے کا منطقی تعلق خود ہمارا ذہن پیدا کرتا ہے ۔ لیکن اقبال کی چار نظمیں ایسی ہیں جن میں اقبال نے براہِ راست اپنے فرزند جاوید کا نام لے کراسے مخاطب کیا ہے، اور ظاہر ہے کہ یہاں جاوید سے مراد جاوید اقبال نہیں، بلکہ جاوید کے پردے میں ہر مسلم نوجوان ہے ۔ ان چاروں نظموں میں نوجوانانِ اسلام کے نام اقبال کا پیغام ایک منطقی ربط بھی رکھتا ہے اور راست گفتگو کا اندازِ تخاطب بھی۔ صرف دو مقام ایسے ہیں جہاں جاوید کا نام اقبال کے فرزند کی حیثیت سے آیا ہے اور عام نوجوانانِ اسلام کی حیثیت سے نہیں آیا۔ یہ دو مقامات ’’ارمغانِ حجاز ‘‘(فارسی) کی دو رباعیات ہیں ملاحظہ ہوں ۔ سحر جاوید را در سجدہ دیدم بہ صبحش چہرۂ شامم بیارائے یعنی میں نے صبح کے وقت اپنے بیٹے جاوید کو سجدہ ریز دیکھا ۔ اس کی صبح سے میری شام کے چہرے کو زینت دے ۔ یعنی میں تو آخری عمر کو پہنچ گیا ہوں۔ جب کہ جاوید کی زندگی کا آغاز ہے۔ خدا کرے، وہ میرے سرمایۂ فکر و عمل کا وارث بن جائے ۔ ایک اور رباعی میں اقبال رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاوید کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ ہمیں یک آرزو دارم کہ جاوید زعشقِ تو بگیرد رنگ و بوئے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال ؒ جس طرح اپنے پیارے فرزند کو عشقِ رسول ؐ میں سرشار دیکھنا چاہتے تھے، اسی طرح ہر مسلم نوجوان کو بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ و بو میں بسا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ پہلی نظم کا عنوان ہے ’’جاوید کے نام ‘‘جو بالِ جبریل کے صفحہ نمبر ۳۵۹ میں شامل ہے۔ اس کے بارے میں جناب جاوید اقبال اپنی مشہور تصنیف’’ مئے لالہ فام ‘‘میں لکھتے ہیں۔ ’’ ۱۹۳۱ء میں جب گو ل میز کانفرنس میں شرکت کے لیے ابا جان انگلستان گئے تو اس وقت میری عمر کوئی سات سال کے لگ بھگ تھی۔ میںنے انھیں ایک اوٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تو میرے لیے ایک گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تو وہ لے کر نہ آئے، لیکن میرا خط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شانِ نزول کا باعث ضرور بنا:۔ دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر میں شاخِ تاک ہوں،میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے میٔ لالہ فام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر پانچ اشعار پر مشتمل یہ نظم بہ ظاہر اقبال نے اپنے بیٹے جاوید ہی کے نام لکھی ہے، لیکن بہ غور دیکھا جائے تو وہ اس میںملت اسلامیہ کے تمام نوجوانوں سے مخاطب نظر آتے ہیں ۔ فرماتے ہیں: ۱۔ اے بیٹے! تیرے لیے لازم ہے کہ علم و عمل کے ذریعے معاشرے میں اپنی شناخت کرائے اوروہ مرتبہ حاصل کرے جو عزت و احترام کا حامل ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ قدیم روایات کر ترک کرکے خود کونئی اورمثبت جہتوں سے ہم آہنگ کرے۔ ۲۔ خدا کرے، تجھے وہ فطر ت شناس دل عطا ہو کہ تو ان اشیاء کے رموز بھی جان سکے جو قوتِ گویائی سے محروم ہیں، اور لالہ وگلاب جیسے پھولوں کی خامشی بھی تیرے لیے کلام بن جائے۔ ۳۔ اے فرزند! یورپ کے علوم و فنون اوروہاں کی تہذیب و ثقافت کوحرفِ آخر تصور نہ کر۔ تجھے عروج حاصل کرنا ہے تو اپنی ہی تہذیب اور اپنے ہی وطن کی مٹی، اور اپنے ہی علوم و فنون سے وابستگی پیدا کر۔ مغربی تہذیب مصنوعی اور ناپائدار ہے، اورمشرق کے علم و فن اور تہذیب میں وطن کی مٹی کی خوشبو رچی ہوئی ہے ۔ ۴۔ میری شاعری کو یوں سمجھو، جیسے میں انگور کی بیل ہوں، اور میری غزل اس کا ثمر ہے یعنی انگور۔ اب تیرا کام ہے کہ میری ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کراور اس سے استفادہ کر۔ سادہ لفظوں میں یوںکہیے کہ میں نے اپنی شاعری میں جو اسرارورموز بیان کیے ہیں، ان کی معرفت حاصل کرکے پوری طرح ذہن نشین کرلے اور اُنھی پر کاربند ہوجا ۔ ۵۔ میں امیر آدمی نہیں ہوں۔ میرا طریقہ امیری نہیں،غریبی ہے ۔ بیٹے خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر۔ جاوید کے نام نوجوانوں کے نام ایسا ہی پیغام ’’جاوید کے نام ‘‘ سے دوسری نظم میں دیا گیا ہے ۔ یہ نظم بھی بال جبریل(صفحہ ۳۳۰) میں شامل ہے۔ ہر چند یہ نظم علامہ اقبال نے اپنے فرزندِ ارجمند جاوید کے لیے تخلیق کی ۔ اس میں کچھ نصیحتیں بھی ہیں، مشورے بھی ہیں،دعائیں بھی ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ نظم محض جاوید کی ذات تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کے مخاطب پوری ملتِ اسلامیہ کے نوجوان ہیں۔ پہلے یہ پانچ اشعار پر مشتمل نظم ملاحظہ ہو، پھر اس کا ترجمہ و تشریح ۔ خودی کے ساز میں ہے عمرِجاوداں کاسراغ خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود ہزار گونہ فروغ و ہزار گونہ فراغ! ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبتِ زاغ! حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے کہ جوانی تری، رہے بے داغ ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ! ۱۔ پہلے شعر میں اقبالؒ فرماتے ہیں کہ اے فرزندِ عزیز ! یہ حقیقت پوری طرح ذہن نشین کرلے کہ خودی ہی ایسا جذبہ ہے جس کو اپنانے سے فرد کو حیاتِ جاودانی نصیب ہو سکتی ہے اوروہ اپنے عمل سے ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ یہ خودی ہی ہے جو افراد کو عمر جاوداں اور قوموں کے عروج کے لیے روشنی فراہم کرتی ہے ۔ ۲۔خواہ انسان کتنی ہی غربت، مفلسی یا گم نامی کی حالت میں زندگی بسر کرے، نہ اس کے پاس کوٹھی ہو نہ کار ہو نہ ٹیلیفون ہو نہ عہدہ ہو نہ خطاب ہو نہ جاگیرہو ۔ لیکن اگر وہ اس حقیقت کو مدِ نظر رکھے کہ میں ’’صاحبِ مقصود ‘‘ ہوںیعنی مجھے اللہ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ میں اپنی خودی کی تربیت کرکے خلافت ِا لہیہ کا مستحق بن جائوں تو یہ تصور اسے فروغ (ترقی) بھی عطا کرسکتا ہے اورفراغ (سکونِ قلب )بھی۔ اصل مسئلہ بامقصد زندگی کا ہے ۔ ۳۔ اب ذرا ایک پرندے کوّے کی جانب دیکھو کہ وہ ادھر ادھر منہ مار کر بڑی چالاکی اور عیاری سے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں کا مال تو ہڑپ کر جاتا ہے، لیکن خود اپنی ذاتی جدوجہد کے ذریعے کبھی اپنی روزی حاصل کرنے کے قابل نہ ہوسکا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میںبلند پروازی نہیں ہے ۔ یہ بھی جان لو کہ اگر کسی بلند پرواز شاہین کا بچہ کوّے کی صحبت میں رہے گا تو وہ اپنی فطری صلاحیتوں سے محروم ہو کر کوّے کی سی عادتیں اختیار کر لے گا۔ مراد یہ ہے کہ بری صحبت میں رہے گا تووہ اپنی فطری صلاحیتوں سے محروم ہو کر کوے کی سی عادتیں اختیار کرے گا ۔ مراد یہ ہے کہ بری صحبت سے گریز کرو کہ یہ انسان کے اپنے کردار کوگھن کی طرح چاٹ جاتی ہے ۔ ۴۔پورے معاشرے پر نظر ڈالو،تواس امر کاشدت سے احساس ہوتا ہے کہ انسانوںمیں غیرت وحیا کاجذبہ مفقود ہوچکا ہے ۔ کسی بھی برائی کوقبول کرتے ہوئے ان کو کسی طرح پشیمانی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ سو اے بیٹے ! اس صورتِ حال کے پیشِ نظر میں اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتا ہوں کہ تجھ میں غیرت و حیا کا جذبہ برقرار رہے اور تیری جوانی ہمیشہ داغ دار ہونے سے بچی رہے ۔ ۴۔ آخری شعر میں اقبال فرماتے ہیں کہ جہاں تک میری زندگی اور کردار کا تعلق ہے، اس امر سے واضح ہوجائے گا کہ میں ایک خوش طبع، خوش مزاج، خوش اخلاق اورخوش وضع ہونے کے باعث ان خانقاہوں کے قریب تک نہ پھٹک سکا جو تنگ ظرف، خشک طبع اور فساد خیز ملّائوں کی کمین گاہوں میں بنی ہوئی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نوجوانوں کو جہاں رند مشرب لوگوںکی صحبت سے گریز کرنا چاہیے، وہاں ایسی خانقاہوں سے بھی بچنا چاہیے، کہ ہر دو مقامات کاماحول غیرت و حیا سے عاری ہوچکا ہے اور نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جاوید سے اس عنوان کے تحت یکے بعد دیگرے تین نظمیں’’ضربِ کلیم ‘‘ میں شامل ہیں۔ ان تین نظموں کا مخاطب بظاہر ’’جاوید‘‘ ہے مگردرحقیقت مراد تمام مسلم نوجوان ہیں، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں آباد ہوں۔ ان تینوں نظموں کا پورا متن اور مطلب ملاحظہ ہو۔ (۱) غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کافرانہ دربارِ شہنشہی سے خوشتر خوشتر مردانِ خدا کا آستانہ لیکن یہ دورِ ساحری ہے انداز ہیں سب کے جادُوانہ سرچشمۂ زندگی ہوا خشک باقی ہے کہاں میٔ شبانہ خالی ان سے ہوا دبستان تھی جن کی نگاہ تازیانہ جس گھر کا مگر چراغ ہے تو ہے اس کا مذاق عارفانہ جوہر میں ہو لاالٰہ تو کیا خوف تعلیم ہو گو فرنگیانہ شاخِ گل پر چہک ولیکن کر اپنی خودی میں آشیانہ وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ دہقان اگر نہ ہو تن آساں ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ ’’غافل منشیں نہ وقتِ بازی ست وقتِ ہنر است و کارسازی ست‘‘ مطلب (۱) پہلے شعر میںاقبال نوجوانانِ اسلام سے کہہ رہے ہیںکہ عصر حاضر کی چمک دمک اور فریب میں نہ آجانا ۔ بہ ظاہر یہ دور بڑا ترقی یافتہ اور تہذیب و تمدن کا دور نظر آتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اہل مغرب کی سازشی فطرت اور غلط روش کی وجہ سے موجودہ دور دینِ اسلام کو برباد کرنے والا دور ہے اور اس کی سرشت و جبلت میںکفر اور لاد ینی کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اس لیے عصرِ حاضر کے برے اثرات سے بچنا ضروری ہے ۔ (۲) بادشاہوں کے درباروں اور ان کے سرکار میںحاضری سے یہ بہتر ہے کہ اللہ کے برگزیدہ بندوں (فقیروں اور درویشوں ) کی چوکھٹ پر حاضری دی جائے ۔ (۳) لیکن یہ موجودہ دور جادوگری کا دور ہے اور اس کے سارے طور طریقے جادو جیسے ہیں ۔ جس طرح جادو گر ہمارے خیالات اور نظروں کو باند ھ کر نقلی چیزوں کو اصل بنا کر پیش کرتا ہے اور ان چیزون کو جن کا کوئی وجود نہیں ہوتا، ان کو وجود دے کر ہمارے سامنے لاتا ہے، اسی طرح عہد حاضر بھی غلط چیزوںکو صحیح بنا کر پیش کر رہا ہے، اور اس کی یہ ساحری اور جادوگرانہ فریب دہی ہمیں نقل کو اصل سمجھنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ (۴) دورِ حاضر میں اہل مغرب کی جادوگری کی وجہ سے ایسی ہوا چلی ہے یا ایسے اسباب پیدا ہوئے ہیں، کہ جن کی وجہ سے دریائے زندگی کے سوتے خشک ہوگئے ہیں اور رات کی وہ شراب، جو ہمارے آبأو اجداد اور ہمارے بزرگ ہمیں پلاتے تھے، یعنی شرابِ ِمعرفت، اب باقی نہیں رہی ہے ۔ (۵)دورِ حاضر کے مدرسے ان استادوں اور بزرگوں سے خالی ہوچکے ہیں جن کی نگاہ اپنے طالب علموں کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے تازیانے کا کام دیتی تھی اوروہ اپنی نظر اور صحبت سے ان کی صحیح تربیت کرتے تھے ۔ (۶) اس شعر میں جاوید کو خاص طور پر خطاب کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ تو جس گھر کا چراغ ہے، اس خاندان کا ذوق اور مزاج ہمیشہ سے صوفیانہ اور عارفانہ رہا ہے ۔ تمھیں بھی چاہیے کہ اس ذوقِ عارفانہ کو اپنے اندر پیدا کرواور زندہ و قائم رکھو۔ (۷) علامہ نے یہاں ایک اصولی اور بنیادی بات کہی ہے اور وہ یہ کہ اگر مسلمان کلمۂ توحید پڑھ کر دل سے مسلمان بن چکا ہے اور اس کی سرشت میں اس کا اثر پختہ ہوچکاہے تو پھر اہل مغرب کی تعلیم حاصل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں، کیونکہ وہ ایمان جو اس کی اصلیت میں ہوگا، وہ اسے کھرے اور کھوٹے کی شناخت کرادے گا اور فرنگی تعلیم سے وہی چیز حاصل کرے گا جوبہ حیثیتِ مسلمان اس کے فائدے کی ہوگی اور باقی سب کچھ ردّ کردے گا۔ (۸) اس شعر میں ایک پرندے کی مثال دے کر راز کی بات بتائی ہے، کہ جس طرح پرندہ پھولوں کی شاخ پر چہکتا ہے، لیکن نظر اپنے گھونسلے پر رکھتا ہے اور اِدھر اُدھر گھوم کر، پھر اپنے آشیانے میں آجاتا ہے، اسی طرح تو بھی، اے مسلم نوجوان! جہاں چاہے جا، جو چاہے پڑھ، لیکن اپنی خود نگری اور خود شناسی کے گھر کو نہ بھول، اور اپنے دینی شعائر اور اپنی روایات کو ہر وقت پیشِ نظر رکھ ۔ (۹) آدمی کوئی معمولی اور سرسری چیز نہیں ہے ۔ خاص طور پر مردِ مومن جو خدا کا نائب ہے، دیکھنے میں تو وہ پانی کے ایک قطرے کی مانند ہے، یعنی محض ایک فرد نظر آتا ہے، لیکن وہ ایسا قطرہ ہے کہ و ہ بے کنار سمندر سے بھی زیادہ وسیع ہے ۔ سو اے مسلم نوجوان ! تو اپنی اس اصلیت کو مت بھول ۔ (۱۰) اس شعر میں علامہ نے مسلم نوجوان کو محنت کی قدرو قیمت اور فضیلت سے آگاہ کیا ہے اور ایک کسان کی مثال دے کر سمجھایا ہے کہ اگر کسان آرام طلب اور تن آسان نہ ہو، اور رات دن خون پسینا ایک کرکے محنت کرنے کا عادی ہو تو وہ اس ایک دانے سے جو وہ زمین میں بوتا ہے، سو ہزار دانے لیتا ہے ۔ اس لیے اے جوان! تو بھی محنت کر تا کہ کامیابی او ر خوش حالی تیرے ہاتھ آئے ۔ (۱۱) اے مسلم نوجوان! اے میرے بیٹے! یہ کھیل کود اور تفریح کا وقت نہیںہے، بلکہ کچھ سیکھنے کا وقت ہے ۔ غافل ہوکر مت بیٹھ کوئی نہ کوئی ہنر سیکھ اور کوئی نہ کوئی کام کرکے دکھا۔ (۲) سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم رہ جاتی ہے زندگی میں خامی نخچیر اگر ہو زیرک و چست آتی نہیں کام، کہنہ دامی ہے آبِ حیات اسی جہاں میں شرط اس کے لیے ہے تشنہ کامی غیرت ہے طریقتِ حقیقی غیرت سے ہے فقر کی غلامی اے جانِ پدر، نہیں ہے ممکن شاہیں سے تدرو کی غلامی نایاب نہیں متاعِ گفتار صد انوری و ہزار جامی ہے میری بساط کیا جہاں میں بس ایک فغانِ زیر بامی اک صدقِ مقال ہے کہ جس سے میں چشمِ جہاں میں ہوں گرامی اللہ کی دین ہے، جسے دے میراث نہیں، بلند نامی اپنے نورِ نظر سے کیا خوب فرماتے ہیں حضرتِ نظامی جائے کہ بزرگ بایدت بود فرزندیِ من ندارت سود مطلب : (۱) اگر آدمی کے سینے میں عشق کی حرارت رکھنے والا دل نہ ہو تو سمجھیے کہ اس کی زندگی خام ہے ۔ یعنی اس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی رہ گئی ہے ۔ اس لیے زندگی کو پختہ بنانے کے لیے عشق ضروری ہے ۔ (۲)اگر شکار(چاہے پرندہ ہو یاجانور )دانا اور چالاک ہو تو کہنہ مشق شکاری بھی اسے اپنے جال میں پھانسنے میں ناکام رہے گا ۔ مرادیہ ہے کہ اگر میری قوم کے نوجوان دانا ہوشیار اور بیدار ہوں تو کوئی ان کو اپنا سیاسی غلام نہیں بناسکتا ۔ (۳) آب حیات کا چشمہ ضرور موجود ہے جس کا پانی پینے سے ہمیشہ کی زندگی مل جاتی ہے، اس چشمے کو ڈھونڈنے کی شرط یہ ہے کہ آدمی کو اس کی پیاس ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ کسی بھی منزل کے حصول کے لیے اس تک پہنچنے کی آرزو کا ہونا ضروری ہے ۔ (۴) درویش دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک غیرت مند اور خوددار، دوسرے بے غیرت اور بے حیا۔ اقبال نے یہاں سچی درویشی اور فقر کا ذکر کیا ہے کہ اس میں غیرت، خودداری اور حیا ہوتی ہیں۔ صحیح فقر(درویشی)کی غلامی غیرت(خودداری) سے ہاتھ آتی ہے ۔ (۵)اے بیٹے! شاہین بن، تیتر نہ بن، کیونکہ شاہین کبھی تیتر کا غلام یا شکار نہیں بن سکتا ۔ ہمیشہ تیتر ہی شاہین کا شکار بنتا ہے ۔ مقصود اس نصیحت سے یہ ہے کہ شاہین جیسی خوددار اور آزاد زندگی گزارو۔ تیتر جیسی بے ہمت اور غلام زندگی نہ گزارو۔ (۶) متاعِ گفتار یعنی شاعری کوئی ایسی دولت نہیں ہے جو کہیں نہ ملے ۔ اس دنیا میں انوری اور جامی جیسے سینکڑوں ہزاروں شاعر موجود ہیں۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کس شاعر کی شاعری افراد یا قوم کو بیدار کرتی ہے ۔ اور کس کی شاعری انھیں سلاتی ہے ۔ اس لیے اگر شاعری کا ذوق ہو تو ایسا شعر کہہ کہ جس سے سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھے۔ (۷) پچھلے شعر میں علامہ نے شاعر اور شاعری کی بات کی ہے ۔ علامہ چونکہ خود بھی شاعر ہیں، اس لیے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں بطورِ شاعر میری حیثیت ہی کیا ہے ۔میری شاعری تو اس آہ و فغاں کی طرح ہے جو کوئی شخص چھت کے نیچے کھڑے ہو کر کرے۔ مراد یہ ہے کہ میں توغلام قوم میں پیدا ہوا ہوں ۔ اگر آزاد قوم میں پیدا ہوا ہوتا تو میری آہ و فغاں اس شخص کی طرح ہو تی جو چھت کے اورپر کھڑے ہوکر بلند کرتا ۔ وہ فریاد سنی بھی جاتی ہے،میری فریاد کون سنتا ہے ۔ (۸) اس شعر میں بھی علامہ نے شاعری ہی کی بات کو آگے بڑھایا ہے اور کہا ہے کہ میری شاعری سچی شاعری ہے ۔ میں اپنے کلام میں وہی کچھ کہتا ہوں جو ایک سچے شاعر کو کہنا چاہیے، اس لیے میں لوگوں کی نظروں میں بلند نام، عزت دار اور قدر ومنزلت والاجانا اور سمجھا جاتا ہوں۔ (۹) اپنے نام کی شہرت اور بلند نامی کوئی خاندانی وراثت نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جسے چاہے عطا کردے اور اس کے لیے اعلیٰ کردارو عمل ضروری ہے ۔ یہ بھی اللہ ہی کی توفیق ہے ۔ (۱۰) اور(۱۱) ان دوشعروں میں علامہ نے براہ راست اپنے بیٹے جاوید کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دیکھو، مشہور فارسی شاعر نظامی گنجوی نے اپنے بیٹے سے کیا اچھی بات کہی ہے کہ جس جگہ تجھے بزرگی و احترام کا مرتبہ حاصل ہونا چاہیے، وہاں تجھے میرا بیٹا ہونا کوئی فائدہ نہ دے گا، بلکہ تیرے ذاتی جوہر اور اوصاف کام آئیں گے، کیونکہ بزرگی و عزت اپنے کردار و عمل سے ملتی ہے، وراثت سے نہیں۔ مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز دین و دولت قمار بازی ناپید ہے بندۂ عمل مست باقی ہے فقط نفس درازی ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر جس فقر کی اصل ہے حجازی اس فقر سے آدمی میں پیدا اللہ کی شانِ بے نیازی کنجشک و حمام کے لیے موت ہے اس کا مقام شاہبازی روشن اس سے خرد کی آنکھیں بے سرمۂ بوعلی و رازی حاصل اس کا شُکوہِ محمود فطرت میں اگر نہ ہو ایازی تیری دنیا کا یہ سرافیل رکھتا نہیں ذوقِ نے نوازی ہے اس کی نگاہِ عالم آشوب درپردہ تمام کار سازی یہ فقرِ غیور جس نے پایا بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی مومن کی اسی میں ہے امیری اللہ سے مانگ یہ فقیری مطلب :( ۱) اس نظم میں علامہ اقبال اپنے بیٹے جاوید کو اور اس کے ذریعے سے تمام مسلم نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں، مسلمانوں کے لیے اس دور کے شب و روز بڑے کٹھن اور مشکل ہیں، کیونکہ موجودہ زمانہ مغربی تہذیب و تمدن کی خرابیوں کی وجہ سے اتنا خراب ہوچکا ہے کہ دین اور حکومت دونوں جواری بن گئے ہیں۔ دونوں اپنے اغراض ومفادات کے لیے عوام کو دائو پر لگائے ہوئے ہیں ۔ (۲) اس زمانے میں صاحبِ کردار اور عمل مست لوگ ناپید ہوگئے ہیں، البتہ سانسوں کو طول دینے والے یعنی بے کار زندگی گزارنے والے لوگ عام ہیں۔ (۳) اگر تجھ میں درویشی کی خواہش ہو اور اس کے حصول کی ہمت ہو تو ایسا فقر (درویشی) تلاش کر، جس کی جڑ حجاز میں ہو، یعنی وہ فقر جو اسلامی فقر ہے، وہ فقر جس پر رسول کریم ؐ کو بھی فخر تھا اور آپ ؐ نے جس پر ’’ الفقر فخری ‘‘ کہا تھا ۔ اس کے سوا جو درویشی ہے وہ غیر اسلامی بھی ہے اور محض ڈھونگ بھی ۔ (۴) اے بیٹے، میںجس اسلامی اور حجازی فقر کی بات کررہا ہوں، اس فقر سے آدمی کے اندر اللہ کی شانِ بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے ۔ مرادیہ ہے کہ وہ فقر کسی کا یا کسی شے کا محتا ج نہیں ہوتا۔ وہ فقر جس میں احتیاج ہو یا خود محتاج ہو، وہ حجازی نہیں ہے ۔ (۵) اے بیٹے، میں جس فقر کی بات کررہا ہوں، وہ شاہبازوں جیسے بڑے مرتبے والے فقر کی بات ہے ۔ شاہباز فضائوں میں آزادانہ اڑتا ہے،پہاڑوں پر اپنا ڈیرا بناتا ہے، اپنا شکار خود کرتاہے ۔ اس کے مقابلے میں وہ فقر جس سے نبی کریم ؐ نے بھی پناہ مانگی ہے، وہ محتاجی کا فقر ہے جس میں فقیر چڑیوں (کنجشک ) اور کبوتروں (حمام) کی طرح دانہ دنکا کا محتاج ہوتا ہے اور دوسروں کے بھروسے پر زندگی بسر کرتا ہے ۔ یہ اس کی زندگی نہیں، موت ہے۔ (۶) اس شعرمیں بھی اسلامی فقر کی بات کی گئی ہے، اور کہا ہے کہ ایک عقل تو وہ ہے جو اپنی آنکھوں میں بو علی سینا اور فخرالدین رازی کے فلسفے کا سرمہ ڈالے تو روشن ہوتی ہے، لیکن یہ عقل طالب کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتی اورحقیقت کا مشاہدہ نہیں کراتی ۔ دوسری عقل وہ ہے جسے فقر کا سرمہ روشن کرتا ہے ۔ یہ عقل منزلِ مقصود پر بھی پہنچاتی ہے اورحقیقت کا مشاہدہ بھی کراتی ہے ۔ اس لیے اے بیٹے ! فقر والی عقل کی تمنا کر ۔ (۷) اسلامی فقر محمود غزنوی کا سادبدبہ اور شکوہ لیے ہوئے ہوتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس کی سرشت میں ایازی (غلامی) نہ ہو۔ محمود غزنوی اپنے ایک غلام ایاز کو بہت چاہتا تھا اور اس کی ہر خواہش اور مرضی کو فوقیت دیتا تھا، جس کے نتیجے میں اس کے ذاتی شکوہ اور دبدبے میں فرق آتا تھا۔ فقر بھی اگر کسی کا محتاج ہو اور اپنی شانِ بے نیازی اور شکوہ برقرار نہ رکھتا ہو تو وہ بھی درست نہیں۔ اسلامی فقر کا جلال اور دبدبہ اس میں ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو، دوسرے اس کے محتاج ہوں ۔ (۸) دورِ جدید، جس نے اپنی مادّی ترقی کے باوجود، شرفِ انسانیت کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، اپنے اندر ایسی صلاحیت و طاقت نہیں رکھتا کہ مردہ دلوں کوزندہ کردے ۔ جس طرح قیامت کے روز اسرافیل ؑ صور پھونکے گا تو سب مردے قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے، دورِ جدید کی بانسری میں اس قسم کی تاثیر نہیں ہے ۔ ہاں فقر کی بانسری بجانے کا اگر ذوق نصیب ہو تو وہ اسرافیل کی طرح آدمی کے مردہ دل کو زندہ کر سکتی ہے اور زمانۂ جدید کے آدمی کو پھر سے حیوان سے انسان اور مردہ دل سے زندہ دل بنا سکتی ہے ۔ (۹) مردِ فقیر کی نگاہ اسرافیل کی طرح مردہ دلوں کو زندہ کرنے والی ہوتی ہے ۔ اس کی نگاہ دنیائے دل میں تلاطم پیدا کرکے اس کو صحیح دل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایسی نگاہ جو دنیا میں انقلاب پیدا کردے، لوگوں کی تقدیر یں بدل دے، وہ پوشیدہ طور پر کارساز (دوسروں کے کام بنانے والی ) ہوتی ہے ۔ آج کے پیشہ ور فقیر خود گدا گر ہیں۔وہ اپنی محتاجی دور نہیں کرسکتے، دوسروں کے بگڑے ہوئے کام کیسے بنائیں گے ۔ یہ کام اصل فقر اور اسلامی فقیر کا ہے کہ وہ لوگوں کی کارسازی کرتا ہے ۔ (۱۰) جس شخص کو خودداری اور غیرت والا فقر حاصل ہوجاتا ہے، اسے میدانِ جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے تلوار اور نیز ے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ وہ ان آلات ِ حرب کے بغیر ہی فریقِ مقابل کے سامنے آجاتا ہے اور اپنی نگاہ سے تلوار اورنیزے کا کام لیتا ہے ۔ مردِ فقیر کی نگاہ تقدیر یں بدل دیتی ہے ۔ وہ تلوار کا نہیں، نگاہ کی ضرب لگانے والا مردِ میدان ہوتا ہے، اور ہمیشہ فتح یاب ہوکر غازی بنتا ہے (۱۱)جو اہل ایمان واقعی مردِ مومن ہوتا ہے،اس کی امیری دولت کی امیری نہیں ہوتی بلکہ دولتِ فقر کی امیری ہوتی ہے ۔ دھن دولت تو چھائوں ہے، آج ہے،کل نہیں ہے ۔ فقر کی دولت وہ دولت ہے جس کو نہ زوال ہے اور نہ کوئی اسے چھین سکتا ہے ۔ مردِ فقیر کسی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ سب اس کے محتاج ہوتے ہیں اور وہ محتاجوں کی احتیاج دور کرتا ہے۔ اس کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ وہ خود کسی کا محتاج ہو ۔ اے بیٹے !اللہ سے دعا کر کہ وہ تمھیں فقر کی یہ دولت عطا کردے ۔دنیا کی دولت تو آنی جانی شے ہے، اس پر فقر کی دولت کو قربان نہ کردینا۔ (۴) خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژادِ نو ) اقبال کی ایک ایسی نظم ہے جس میں انھوں نے خود نوجوان نسل (نژاد ِنو) کے متعلق اپنے خیالات اور پیغام کوایک واضح ربط اور تسلسل کے ساتھ پیش کیا ہے اور یوں یہ نظم نوجوانوں کے متعلق اقبال کے جملہ تصورات کا ایسا مرقع بن گئی ہے جس میں فکر اور شعر دونوں کے رنگ پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہیں اور آپس میںمل جل کر مرقع کو ایسی صورت دیتے ہیں کہ ان سے قلب و نظر دونوں کو زندگی ملتی ہے ۔ اس نظم کا عنوان ہے ’’ خطاب بہ جاوید‘‘ ۔ دوسرا ذیلی عنوان ہے ’’ سخنے بہ نژاد ِ نو‘‘۔ گویااقبال ؒ کو خودبھی خیال تھا کہ کہیں ’’خطاب بہ جاوید ‘‘ کا مطلب جاوید بیٹے سے خطاب سے نہ لیا جائے، اس لیے انھوں نے دوسرے عنوان سے وضاحت کر دی کہ یہ گفتگو دراصل نئی نسل سے ہورہی ہے ۔ یہ نظم ’’جاوید نامہ ‘‘ کے آخر میں درج ہے، جس کے مطالب مولانا اسلم جے راج پوری مرحوم کی تجویز کے مطابق پورے عالم اسلام کے نصابِ تعلیم کا جز بننے کے لائق ہیں۔ اس فارسی نظم کے مطالعے سے پڑھنے والا جن گوناگوں کیفیتوں سے دوچار ہوتا ہے، ان کا ظہور صرف اس وقت ہوتا ہے جب فلسفہ و شعر کی سطح ایک ہوجائے اور دونوں اپنا سفر پوری طرح ہم آہنگ ہوکر طے کریں۔ یہاں اس نظم کا پورا فارسی متن، ترجمے اور کسی قدر تشریح کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے ۔ امید ہے کہ نوجوانانِ پاکستان یہ نظم حفظ کرلیں گے ۔ پہلا بند ایں سخن آراستن بے حاصل است بر نیاید آنچہ در قعرِ دل است گرچہ من صد نکتہ گفتم بے حجاب نکتۂ دارم کہ ناید در کتاب گربگویم می شود پیچیدہ تر! حرف و صوت اورا کند پوشیدہ تر سوزِ او را از نگاہ من بگیر یا زآہِ صبح گاہِ من بگیر! (۱) یہ جو میں نے گفتگو کی انجمن سجائی ہے، اس سے کچھ حاصل نہ ہوگا، کیونکہ جو کچھ میرے قلب کی گہرائی میں ہے، اسے لفظوں کی زبان میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ مراد یہ ہے کہ دل کی بات زبان ادا نہیں کرسکتی ۔ (۲) اگرچہ میں نے (اپنی شاعری میں)سیکڑوں رمز کی باتیں کھول کر بیان کی ہیں، لیکن میں ایک ایسا نکتہ (رمز) رکھتا ہوں جو تحریر میں نہیں آسکتا۔ (۳) اگر میں یہ نکتہ بیان کرتا ہوں تو بیان کرنے سے یہ مزید الجھ جائے گا۔ میرے الفاظ اور میری آواز اس نکتے کو پہلے سے بھی زیادہ پوشیدہ کردے گی ۔ (۴) اس نکتے کا سوز یا تو میری نگاہ سے یا میری آہِ سحر گاہی سے حاصل کر ۔مراد یہ ہے کہ اس نکتے نے میری نگاہ میں جو سوز اور میری آہِ سحر گاہی میں جو درد پیدا کیا ہے، اگر تو اس کو میرے دل کی باریک بات کا نشان سمجھے توشاید اس سے اصل بات کی طرف رجوع کرسکے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکے گا جب تو خود صاحبِ سوز ہوگا۔ اقبال نے اپنی ساری زندگی اپنی شاعری کے ذریعے نوجوانوں کی جو فکری رہنمائی کی ہے، ان اشعار میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ جس ایک نکتے کی طرف اقبال اپنے نوجوانوں کی توجہ مبذول کرارہے رہے ہیں، اس کے متعلق اقبال کا خیال ہے کہ وہ اگر ’’حرف وصوت‘‘ کی مدد سے بیان کیا جائے تو اس کا مفہوم واضح ہونے کے بجائے پوشیدہ ہوجائے گا۔ اس لیے اقبال کہتے ہیں کہ اس نکتے کا راز اگرتمھیں کہیں ملے گا تو میری نگاہ میں یا میری آہ ِ سحر گاہی میں ملے گا۔ دوسرا بند مادرت درسِ نخستیں باتو داد غنچۂ تو از نسیمِ او کشاد از نسیم او ترا ایں رنگ و بوست اے متاعِ ما بہائے تو ازوست دولتِ جاوید ازو اندوختی از لبِ او لا الٰہ آموختی اے پسر!ذوقِ نگہ از من بگیر سوختن در لا الٰہ از من بگیر لا الٰہ گوئی ؟ بگو از رُوئے جاں تا زاندامِ تو آید بوئے جاں مہر و مہ گردد زسوزِ لا الٰہ دیدہ ام ایں سوز را در کوہ و کہ ! ایں دو حرفِ لا الٰہ گفتار نیست لا الٰہ جز تیغ بے زنہار نیست زیستن باسوزِ او قہّاری است ’’لا‘‘ ضرب است و ضربِ کاری است مطلب:(۱)بیٹے! پہلا سبق تجھے تیری ماں نے دیا اورتیرا غنچہ اس کی نسیم سے کھلا۔ مراد یہ ہے کہ پہلی تربیت گاہ تیری ماں کی گود تھی، جس نے لوریاں دے دے کر تیرے کانوں میں ’’لا الٰہ ‘‘ کا رس گھولا۔ (۲) یہ تیرے اندر جو رنگ و بو ہے، یہ سب ماں کی نسیم سے ہے ۔ اے میری متاعِ عزیز! تیری قیمت ماں کی تربیت سے ہے کہ اسی کی تربیت نے وہ کچھ بنایا ہے، جو تو اب ہے ۔ (۳) تونے (ایمان اور اسلام) کی ہمیشہ رہنے والی دولت اسی سے حاصل کی ہے ۔ تو نے یہ لا الٰہ ماں کے ہونٹوں ہی سے سن کر سیکھا ہے ۔ (۴) اس کا جو کام تھا، وہ اس نے کردیا ۔ اے بیٹے ! اب نگاہ کا ذوق مجھ سے حاصل کر۔ لاالٰہ (کلمۂ توحید ) تو تونے ماں سے سیکھ لیا ہے، اب لا الٰہ کی آگ میں جلنا مجھ سے سیکھ ۔ مراد یہ ہے کہ لا الٰہ کو قال (محض گفتگو) سے گزار کر حال (قلبی کیفیت) بنانے کا گر مجھ سے سیکھ۔ (۵) اگر تو لا الٰہ کہتا ہے تو پوری روحانی قوت سے کہہ، تاکہ تیرے جسم سے روح کی خوشبو آئے ۔ زبان سے کلمۂ توحید ضرور پڑھ، مگر دل سے اس کا اقرار بھی کر ۔ کلمۂ توحید کی روح کو اپنے اندر بسا کر اس کے مطابق زندگی بسر کر ۔ تیرا ہر رنگ اور تیرا ہر بال توحید کی گواہی دے، یہ ہے کلمۂ توحید کے پڑھنے اور اس کے اقرار کا مقصد۔ (۶) چاند اورسورج لا الٰہ کے سوز سے گردش کرتے ہیں۔ میں نے اس سوز کو پہاڑ اور تنکے میں، یعنی کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں دیکھا ہے ۔ یہ ہے وہ نکتۂ توحید، جس کے گرد ہر چیز دائرے کی طرح گھومتی ہے ۔ (۷) یہ دو حرف ’’لا الٰہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں،اللہ کے سوا ) محض گفتگو نہیں ہیں ۔ بیٹے یاد رکھ، یہ لا الٰہ بے زنہار تلوار کے سوا کچھ نہیں(بے زنہار تلوار کو شمشیرِ جوہر دار بھی کہتے ہیں۔ یہ ایسی تلوار ہوتی ہے جس سے کسی کو پناہ نہ مل سکے، جس کے وار کو روکا نہ جاسکے۔ ) (۸) اس لا الٰہ کے سوز میں جانِ قہاری ہے ۔ لا الٰہ ایک ضرب ہے اور کاری ضرب ہے یعنی زبان سے لا الٰہ کہہ کر یہ سمجھ لینا کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں، درست نہیں ہے ۔ مسلمان اس وقت ہوتا ہے جب وہ توحید کا دل سے اقرار کرتاہے اور اقرارکرنے کے بعد پہلے خود پر اسے نافذ کرتاہے اور پھر دوسروں پر اس کا رنگ جماتاہے۔ اس بند میں یہ بتانے کے بعد کہ ــ’’لا الٰہ ‘‘ کی دولت تونے اپنی مشفق ماں کی آغوش میں رہ کر حاصل کی، اقبال کہتے ہیں کہ ’’لا الٰہ ‘‘ کی آگ میں جلنے کا سبق تو مجھ سے سیکھ، لیکن یہ سبق تیری سمجھ میں اس وقت آئے گا جب تو ذوقِ نگاہ کی دولت ِ بیدار مجھ سے حاصل کرے ۔ اقبال بڑے لطیف انداز میں اپنے بیٹے کو یہ بتاتے ہیں کہ ’’ لا الٰہ‘‘ کے سوز سے سورج اور چاند گردش کرتے ہیں اور کوہ و ماہ میں اسی کے سوز کا عکس نظر آتا ہے ۔ اے بیٹے! لا الٰہ کے ان دو حرفوں کو محض گفتار مت سمجھ ۔ ان دوحرفوں میں شمشیرِ جوہر دار کی قوت ہے ۔ ’’لا الٰہ ‘‘ نہ صرف ضرب ہے بلکہ ضربِ کاری ہے ۔ تیسرا بند مومن و پیشِ کساں بستن نطاق مومن و غداری و فقر و نفاق با پشیزے دین و ملت را فروخت ہم متاعِ خانہ و ہم خانہ سوخت لاالٰہ اندر نمازش بوُد و نیست نازہا اندر نیازش بوُد و نیست نور در صوم و صلوٰت او نماند جلوۂ در کائناتِ او نماند! آنکہ بود اللہ اُورا ساز و برگ فتنہ اُو حبِ مال و ترسِ مرگ رفت ازو آں مستی و ذوق و سرور دین اُو اندر کتاب و او بگور صحبتش باعصرِ حاضر در گرفت حرفِ دیں را از دو پیغمبر، گرفت آں ز ایراں بود و ایں ہندی نژاد آں زحج بیگانہ و ایں از جہاد تا جہاد و حج نماند از واجبات رفت جاں از پیکرِ صوم و صلوٰت روح چوں رفت از صلوٰت و ازصیام فرد ناہموار و ملت بے نظام! سینہ ہا از گرمیِٔ قراں تہی از چنیں مرداں چہ امید بہی از خودی مردِ مسلماں درگذشت اے خضر دستے کہ آب از سرگذشت مطلب: (۱) مومن ہوکر غلامی کاکپڑا کمر پر باندھنا، مومن ہو کر غداری، مفلسی اور نفاق کی زندگی بسر کرنا، یہ متضاد باتیں ہیں۔ (۲) اب اسی مومن نے ایک کوڑی کے عوض دین اور قوم کو فروخت کر دیا ۔ اس نے گھر اور گھر کا اثاثہ جلا دیا ۔ (۳) کبھی اس کی نمازوں میں لا الٰہ (توحید کا رنگ ) تھا ۔ اب نہیں ہے ۔ اس کے نیاز میں کبھی ناز تھا ۔ اب نہیں ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور جس نیاز سے وہ سر بہ سجود ہوتا تھا، اس میں ایک مومنانہ شان تھی جو اَب نہیں ہے ۔ (۴) اس کے روزوں اور اس کی نمازوں میں نور نہیں رہا ۔ اس کی کائنات میں جلوہ ٔ حق نہیں رہا ۔ یعنی آج اس کی نمازیں اور روزے بے تجلّی ہیں۔ (۵) وہ جس کی زندگی کا سازو سامان اللہ تھا، اس کا فتنہ حبّ مال اور اس کا خوف موت ہے ۔اب وہ مال کی محبت میں گرفتار ہے اور اللہ کی راہ میں جان دینے سے ڈرتا ہے ۔ کبھی وہ اپنے مال اور اپنی جان کو اللہ کی ملکیت سمجھتا تھا۔ اس لیے ان کو بے دریغ اس کی راہ میں خرچ کردیتا تھا، لیکن اب اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے ان کو خرچ نہیں کرتا۔ (۶) اب اس سے ذوق و سرور کی مستی چلی گئی ہے ۔ اس کا دین کتاب میں اور وہ خود قبر میں ہے، یعنی اس نے قرآن پر عمل چھوڑ دیا ہے اورقبر کے مُردوں کی سی زندگی بسر کررہا ہے ۔ (۷) اس نے عصرِ حاضر کی صحبت اختیار کر لی ہے اور اس نے اپنے پیغمبر حضر ت محمد صلَّی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر زمانۂ حال کے دوجھوٹے پیغمبر وں کا دین قبول کر لیاہے ۔ (۸) ان دو پیغمبروں میں سے ایک ایران کا تھا، اور دوسرا ہندی نسل کا تھا ۔ ایرانی حج سے بیگانہ تھا اور ہندی جہاد سے بیگانہ تھا۔ (ایرانی جھوٹے نبی کانام مرزا حسین علی بہأ اللہ ہے۔ یہ ۱۸۱۷ء میں ایران کے مقام نور میں پیدا ہوا۔ اس نے صرف حج ہی نہیں، بلکہ پوری شریعتِ محمد ی ؐ کو منسوخ کردیا ۔ اس کے پیروکار بہائی کہلاتے ہیں ۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والے جھوٹے نبی کا نام مرزا غلام احمد تھا جو ۱۸۳۸ء میں قادیان میں پیدا ہوا ۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کرتے وقت جہاد کی نفی کردی ۔) (۹) جب حج اور جہاد مسلمانوں کے لیے واجب نہ رہے تو پھر نماز اور روزے سے بھی جان نکل گئی یعنی وہ بھی بے اثر ہوگئے ۔ (۱۰) جب نماز اور روزے سے روح نکل گئی تو فرد بے لگام اور ملت بے نظام ہوگئی ۔ (۱۱) مسلمان کے سینے قرآن کی حرارت سے خالی ہوگئے تو ایسے مردوں سے اچھائی کی کیا امید ہوسکتی ہے ۔ (۱۲) مردِ مسلمان نے خودی کو چھوڑ دیا ۔ اے خضر! مدد کر کہ پانی سرسے گزر گیا ہے ۔ اس بند میں جو بارہ اشعار پر مشتمل ہے، موجودہ دور کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی نماز یں ’’لا الٰہ‘‘ کے سوز سے خالی ہیں اور اس کے نیاز میں نازمفقود ہے ۔ اس کے صوم و صلوٰۃ میں نور کا اور اس کی کائنات میں جلوے کا ظہورنہیں۔ وہ مسلمان کہ جس کے لیے صرف اللہ کا نام سرمایہ ٔ حیات تھا، اب حبِّ دولت اور خوفِ مرگ کے دام میں اسیر ہے ۔ عصرِ حاضر کی صحبت اور دو جھوٹے نبیوں کی جھوٹی تربیت نے اسے دین سے بیگانہ کردیا ۔ اس کے حج اور جہاد کی حیثیت واجبات ِدین کی نہ رہی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے صوم وصلوٰۃ کے پیکر بے روح ہوکر رہ گئے اور جب روزے نماز سے روح رخصت ہوئی تو فرد کی زندگی میں ہمواری اور ملت کی زندگی میں نظم و ضبط باقی نہ رہا ۔ چوتھا بند سجدۂ کزوے زمیں لرزیدہ است بر مرادش مہر مہ گرویدہ است سنگ اگر گیرد نشانِ آں سجود در ہوا آشفتہ گردد ہم چو دُود ایں زماں جز سربریزی ہیچ نیست اندرو جز ضعفِ پیری، ہیچ نیست آں شُکوہِ ربی الاعلیٰ کجاست ایں گناہِ اوست یا تقصیرِ ماست ہر کسے بر جادۂ خود تند رَو ناقۂ ما بے زمام و ہرزہ دو صاحبِ قرآن و بے ذوقِ طلب العجب، ثم العجب، ثم العجب! مطلب: (۱) وہ سجدہ کہ جس سے زمین لرز اٹھتی تھی، جس کے مدار پر سورج اور چاند گردش کرتے تھے ۔ (۲) اس سجدہ کا نشان اگر پتھر خود پر ثبت کرلیتا تھا تو وہ پتھر دھویں کی طرح ہوا میں تحلیل ہوجاتا تھا۔ (۳) وہ سجدہ موجودہ زمانے میں سوائے سرجھکانے کے اورکچھ نہیں ہے ۔ اس میں سوائے بڑھاپے کی کمزوری کے اورکچھ نہیں ہے ۔ یعنی نماز مجبوراً،بڑی مصیبت سمجھ کر سجدہ ادا کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی ذوق و شوق نہیں ہوتا۔ (۴) وہ ربی الاعلیٰ کا دبدبہ کہاں ہے ؟ یہ اس کاگناہ ہے یا ہماری تقصیر ہے ؟ جب مسلمان سجدے میں ’’ربی الاعلیٰ ‘‘ کہتا ہے تو اب بھی وہ یہ الفاظ زبان سے ضرور ادا کرتا ہے، لیکن وہ ’’اعلیٰ‘‘ رب کے سوا غیر رب کو سمجھتا ہے ۔ (۵) ہرکوئی اپنے راستے پر سر پٹ دوڑ ا جارہا ہے ۔ ہماری اونٹنی بغیر نکیل کے ہے اور بے مقصد دوڑی جارہی ہے ۔ یعنی آج مسلمان اللہ کی راہ چھوڑ کر، اپنے بنائے ہوئے راستوں پر، جن کی کوئی منزل نہیں ہے، دوڑے جارہے ہیں۔ (۶) کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمان قرآن رکھتا ہے، لیکن طلب کا ذوق نہیں رکھتا ۔ عجب ہے، عجب ہے ۔ اس بند میں اقبال ؒ عہدِ حاضر کے مسلمانوں کے سجدے کی بے کیفی کا ذکر کرتے ہوئے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے’’ربی الاعلیٰ ‘‘ کا شکوہ آخر کہاں گیا اور صاحبِ قرآن ہوتے ہوئے مسلمان ذوق و شوق سے خالی کیوں رہ گیا ؟ پانچواں بند گر خدا سازد تُرا صاحب نظر روزگارے را کہ می آید نگر عقل ہا بے باک و دل ہا بے گداز چشم ہا بے شرم و غرق اندر مجاز علم و فن، دین و سیاست، عقل و دل زوج زوج اندر طواف آب و گل آسیا آں مرز و بومِ آفتاب غیربیں، از خویشتن اندر حجاب قلب اُو بے وارداتِ نو بنو حاصلش راکس نگیرد باد و جو روزگارش اندریں دیرینہ دیر ساکن و یخ بستہ و بے ذوقِ سیر صیدُ مُلّایان و نخچیر ملوک آہوئے اندیشۂ اولنگ و لوک عقل و دین و دانش و ناموس و ننگ بستۂ فتراکِ لُردانِ فرنگ تاختم بر عالمِ افکارِ او بردریدم پردۂ اسرارِ او درمیانِ سینہ دل خوں کردہ ام تا جہانش را دگر گوں کردہ ام مطلب:(۱) اگر خدا تجھے صاحبِ نظر بنائے تو جو زمانہ آنے والا ہے، اسے غور سے دیکھنا۔ (۲) یہ آنے ولا زمانہ ایسا ہوگا کہ جس میں لوگوں کی عقلیں بے باک اور دل بے گداز ہوں گے، آنکھیں بے شرم و حیا ہوں گی اور مجاز (ہوس) میں غرق ہوں گی ۔ (۳) علم وفن، دین و سیاست، عقل ودل، سب کے سب گروہ درگروہ آب وگل کے طواف میں لگے ہوئے ہیں، یعنی ان سب میں مادّہ پرستی کا دور دورہ ہے ۔ ان کا روح سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔ یہ سب تن کے دل دادہ ہیں۔ (۴) ایشیا جو آفتاب کی جنم بھومی ہے، یہاں کے رہنے والے خود سے تو حجاب میں ہیں اور غیروں کا نظارہ کررہے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے ۔ کبھی علوم و فنون بھی مشرق سے نکلتے تھے ۔ آج مشرق جہالت کی تاریکی میں ہے، اپنے علوم و فنون سے ناواقف اوریورپ کے علوم و فنون کا شیدائی ۔ (۵) ایشیا کا قلب نئی نئی واردات سے خالی ہے ۔ اس کے فکر و خیال کو کوئی جَو کے دانوں کے عوض بھی خرید نے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ (۶) اس پرانی، گھسی پٹی دنیا میں اس کی زندگی ساکن، یخ بستہ، جامد اور سیر وحرکت کے ذوق کے بغیر ہے ۔ (۷) وہ جاہل اور غلط کار ملّائوں اوربادشاہوں (نوابوں، جاگیرداروں اور وڈیروں ) کا شکار ہوچکا ہے۔اس کے فکر کا ہرن لنگڑا اور گھٹنوں کے بل ہاتھ ٹیک کر چلنے والا ہے ۔ (۸) اس کی عقل، دین، دانش،ناموس و ننگ، فرنگیوں کے لارڈوں کی فتراک میں (شکار کی طرح ) بندھے ہوئے ہیں، یعنی یہ سب کچھ فرنگیوں کے تابع ہیں۔ (۹) میں نے مشرق کے افکار پر چڑھائی کی اور اس کے پردوں کو چاک کردیا، یعنی میں نے اہلِ مشرق کی کمزروی کا راز کھول کر بیان کردیاہے ۔ (۱۰) اہل مشرق کی حالت زار دیکھ کر میں نے اپنے سینے میںدل خون کر لیا ہے، تب جاکر میں نے ان کی دنیا بدلی ہے ۔ اس بند میں اقبال ؒ ایک بار پھر نوجوان سے مخاطب ہوتے اور اس سے کہتے ہیں کہ اللہ تجھے صاحب ِ نظر کرے تو اس دنیا کی ایک جھلک دیکھ جو اس وقت تیرے سامنے ہے ۔ ان دنیا والوں کی عقلیں بے باک ہیں، ان کے دل گداز سے خالی ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں شرم باقی نہیں رہی اور وہ سرتاپا ’’مجاز‘‘ میں غرق ہیں۔ اس عہد میں علم و فن، دین و سیاست اور عقل و دل سب آب و گل کے طواف میںمصروف ہیں۔ چھٹا بند من بطبع عصرِ خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف حرفِ پیچا پیچ و حرفِ نیش دار تاکنم عقل و دلِ مرداں شکار حرفِ تہ دارے باندازِ فرنگ نالۂ مستانۂ از تارِچنگ اصلِ ایں از ذکر و اصلِ آں زفکر اے تو بادا وارثِ ایں فکر و ذکر آبجویم از دو بحر اصلِ من است فصلِ من فصل است وہم وصلِ من است تا مزاجِ عصرِ من دیگر فتاد طبعِ من ہنگامۂ دیگر نہاد مطلب :(۱) میں نے اپنے زمانے کی طبیعت کے بارے میں دو باتیں کی ہیں ۔ یوں سمجھو کہ یہ دوباتیں نہیں ہیں، بلکہ دو سمندروں کو دو برتنوں میں بند کردیا ہے ۔ (۲) یہ دو باتیں پیچ دار اور چبھتی ہوئی ہیں، تاکہ میں مردوں کی عقل اوردل کو شکار کروں ۔ اقبال ؒ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ میں نے اپنے کلام میں دو قسم کی باتیں کی ہیں۔ ایک وہ ہیں جن کا تعلق عقل اورذہن سے ہے، اور دوسری وہ ہیں جن کا تعلق دل اور عشق سے ہے۔ ایک قسم میری باتوں کی فکر کے تحت آتی ہے اور دوسری قسم ذکر کے تحت ۔مثلاً میں نے اپنی کتب’’فلسفۂ عجم‘‘ اور ’’تشکیلِ جدید الٰہیات‘‘ میں جو باتیں کی ہیں، وہ عقل و ادراک اورفلسفہ و حکمت و دانش کا پہلو رکھتی ہیں، اور جو باتیں میں نے اپنے اردو اور فارسی منظوم کلام میں کی ہیں، ان پر عشق و مستی غالب ہے، وہاں عقل و حکمت بھی دل کے تابع ہے ۔ اے بیٹے! تو دونوں سے استفادہ کر ۔ میں مانتا ہوں،میری ساری کتابوں کا انداز پیچ دار، تہ دار اور نیش دار ہے، لیکن میری اور میرے مخاطبین کی ضرورت یہی تھی کہ میں یہ اندازِ بیان اختیار کروں ۔ بات عشق کی ہو یا عقل کی، عام شاعروں کی طرح سادہ انداز میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے لیے مشکل اندازِ بیان مجبوراً اختیار کرنا پڑتا ہے۔ (۳) میں نے فرنگیوں کی طرح فلسفہ و حکمت کی تہ دار باتیں کی ہیں اور اپنے رباب کے تاروں سے مستانہ نالے بھی پیدا کیے ہیں، یعنی مومنانہ اور عاشقانہ انداز بھی اختیار کیاہے۔ تقاضائے وقت کے مطابق میں نے عشق و عقل کے دونوں اسلوب اختیار کیے ہیں۔ (۴) اس کی یعنی عشق کی اصل ذکر ہے، اور اس کی یعنی عقل کی اصل فکر ہے ۔اے کاش، تُو ان دونوں کا وارث و امین بن جائے۔ (۵) میں ایک ندی ہوں ۔ میری اصل (عشق و عقل ) کے دو سمندروں سے ہے۔ میری جدائی میری جدائی بھی ہے اور میرا وصل بھی ہے۔ مراد یہ ہے کہ میں نے عشق اور عقل کو ان کے جداگانہ اور منفرد اوصاف کے ساتھ بھی بیان کردیا ہے اور ان کے باہمی تعلق کی بناء پر بھی۔ (۶) چوں کہ میرے زمانے کا مزاج اور طرح کا ہے، اس لیے میری طبع نے بھی ایک اور طرح کا ہنگامہ کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ پہلے ادوار کے شاعروں نے ان ادوار کے تقاضوں کے مطابق شاعری کی ہے اور میں نے اپنے زمانے کے تقاضو ں کے مطابق۔ اس وقت ضرورت تھی کہ عقل کی بے راہ روی دکھا کر عشق کی راہِ مستقیم دکھائی جاتی، اور محض اس عقل کو اختیار کرنے کے لیے کہا جاتا جو عشق کے تابع ہے ۔ جہاں فکر کی بات کی جاتی، وہاں ذکر کی اہمیت بھی بتائی جاتی، اس لیے کہ ذکر بغیر فکر اور فکر بغیر ذکر کے بیکار ہے۔ یہ بند ان تصورات کی تمہید ہے جو اگلے ساتویں بند میں اقبال پیش کرنے والے ہیں۔ یہ ساتواں بند ایک لحاظ سے پوری نظم کا قلب اور روح ہے ۔ اس بند میں اقبال نے عہدِ حاضر کے نوجوان کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے اور علم کے صحیح مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ ساتواں بند: نوجواں تشنہ لب، خالی ایاغ شستہ رُو، تاریک جاں، روشن دماغ کم نگاہ و بے یقین و نا اُمید چشمِ شاں اندر جہاں چیزے ندید ناکساں منکر زخود مومن بغیر خشت بند از خاکِ شاں معمارِ دیر مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست تا بجذب اندرونش راہ نیست نورِ فطرت راز جان ہا پاک شست یک گلِ رعنا زشاخِ اُو نرست خشت را معمارِ ما کج می نہد خوئے بط با بچۂ شاہیں دہد علم تا سوزے نگیرد از حیات دل نگیرد لذتے از واردات علم جز شرحِ مقاماتِ تو نیست علم جز تفسیرِ آیات تو نیست سوختن می باید اندر نارِ حس تابدانی نقرئہ خود را زمس علم حق اول حواس، آخر حضور آخر او می نگنجد در شعور مطلب: (۱) عصرِ حاضر کے نوجوان تشنہ لب ہیں اور ان کے پیالے خالی ہیں، یعنی ان کو نہ ذکر کا خیال ہے نہ فکر کی اہمیت کا اندازہ، اس لیے ان کے چہرے تو چمک دار، لیکن جانیں تاریک اور دماغ روشن ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ وہ جسم کی آرائش و تزئین کے تو قائل ہیں، روح کی تجلی کے قائل نہیں۔ (۲) وہ کم نگاہ، بے یقین اور نا اُمید بھی ہیں ۔ ان کی آنکھوں نے جہاں میں کوئی چیز نہیں دیکھی، یعنی وہ دنیا کی حقیقت سے آ شنا نہ ہو سکے اور ہوتے بھی کیسے، اُن کے پاس وہ نگاہ ہی نہیں ہے ۔ اُن کو حقیقتِ کائنات کا یقین ہی نہیں ہے، وہ زندگی کے مقاصد سے بے خبر ہونے کی بنا پر مایوسانہ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ (۳) یہ نوجوان ناکس ہیں ۔ کسی شمار میں نہیں، کیونکہ وہ اپنی ہستی کا انکار کرتے ہیں اور دوسروں کی ہستی پر ایمان لاتے ہیں ۔ یعنی وہ اپنی روایات اور اقدار کو ہیچ سمجھتے ہیں اور دوسروں کی روایات اور اقدار کو عزیز جانتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بُت خانے کا معمار ان کی مٹی سے اینٹیں بناتا ہے اور اپنے بُت خانے پر لگاتاہے ۔ (۴) آ ج کا وہ مکتب، جس میں یہ نوجوان تعلیم پاتے ہیں، اپنے مقصود سے آگاہ نہیں ہے، کیوں کہ اس میں آدمی کے اندر جذب ہونے کی راہ نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آج کا مدرسہ اور آج کا اُستاد ذہن اوربدن کی عمارتیں تو تعمیر کرتا ہے، لیکن روح اور دل کی عمارتیں مسمار کرتا ہے ۔ ان مدرسوں کا علم تن کی پرورش کے لیے ہے، من کی پرورش کے لیے نہیں ہے، اور مولانا روم کے الفاظ میں جو علم تن کے لیے پڑھا جاتا ہے، وہ آدمی کو سانپ بن کر ڈس لیتا ہے اور جو علم دل کے لیے پڑھا جاتا ہے، وہ آ دمی کا یار بن جاتا ہے ۔ (۵) ہمارے ان مدرسوں اور استادوں نے نوجوانوں کی جانوں سے فطرت کے نُور کو دھو ڈالا۔ مدرسے کی شاخ سے ایک شاداب پھول بھی نہیں کھلا، یعنی مردِ حق ایک بھی پیدا نہیں ہوا۔ (۶) ہمارا معمار یعنی مدرسے کا اُستاد پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے ۔ وہ شاہین بچوں کو بطخ کی عادت ڈالتا ہے ۔ (۷) علم جب تک زندگی سے سوز نہیں لیتا، اُس وقت تک دل واردات کی لذّت سے آشنا نہیں ہوتا، یعنی علم بے عشق دل کی موت ہے۔ (۸) علم سوائے تیرے(یعنی آدمی کے ) مقامات کی شرح کے سوا کچھ نہیں ہے۔ علم سوائے تیری آیات کی تفسیر کے اور کچھ نہیں ۔ یہ علم جو عصر ِ حاضر نے تجھے دیا ہے، یہ آدمی کو اُس کے مقامات سے نا آشنا کرتا ہے ۔ اُسے اُس کے مقصد ِ تخلیق سے دور لے جاتا ہے، اس لیے یہ علم درحقیقت جہالت ہے۔ علم تو وہ ہوتا ہے جو تجھے تیری معرفت عطا کرے ۔ محض رزق اور تن پروری کے لیے علم حاصل کرنا یہ تو خود کو حیوا ن بنانا ہے ۔ کھانا پینا اور ختم ہوجانا تو حیوانوں کی زندگی ہوتی ہے ۔ بیٹے ! علم وہ حاصل کر جو تجھے تجھ سے آشنا کردے ۔ تیری مخفی انسانی صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور جو تجھے انسان بنائے، بلکہ اس سے بھی آگے کے مقامات سے تجھے آشنا کرے ۔ (۹) حِس کی آگ میں جلنا چاہیے، تاکہ تُو اپنی چاندی کو تانبے سے الگ پہچان سکے۔ یعنی آدمی کو پہلے وہ علوم حاصل کرنے چاہئیں جو ظاہری حواسِ خمسہ سے حاصل ہوتے ہیں، یعنی علم الاسما کے تحت آفاق کے علم سے آشنا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد وہ علوم حاصل کرنے چاہئیں جو باطنی حواسِ خمسہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ تب جاکر کھرے کھوٹے اور انسان حیوان کی شناخت ہوگی ۔ (۱۰) حق کا علم پہلے حواس سے حاصل کیا جاتا ہے اور آخر میں مشاہدات سے ۔ یہ علم جو آخر میں آتا ہے، حضوری پیدا کرتا ہے ۔ حضوری ایسی چیز ہے جو عقل کی گرفت میں نہیں آسکتی ۔ مراد یہ ہے کہ علم حق کی ابتدا بے شک شعور سے ہوتی ہے، لیکن اس کی انتہا کا شعور کسی کے علم میں نہیں۔ اسے صرف کوئی مردِ حق ہی جان سکتا ہے۔ اس بند کے پہلے دو شعروں میں اقبال نے عہد حاضر کے نوجوان کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ تشنہ لب، خالی ایاغ، شستہ رُو، تاریک جان، روشن دماغ، کم نگاہ، بے یقین اور نااُمید۔ان خامیوں کا ذمہ دار تعلیم کو ٹھیراتے ہوئے اپنی بات تمثیل اور کنایے کے پیرائے میں بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آج کل کی تعلیم اپنے مقصود سے آگاہ نہیں اور اس کی لے َنے طالب علم کے جذبِ اندروں تک رسائی حاصل نہیںکی۔اس کی شاخوں میں گلِ رعنا اگانے کی صلاحیت نہیں اور اس نے شاہین بچوں میں بطخوں کی عادت پیدا کردی ہے ۔ علم جب تک زندگی سے سوز حاصل نہ کرے، دل کو واردات (قلبی ) میں کوئی لذت حاصل نہیں ہوتی ۔ آج کا علم سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ وہ تیرے مقام و مرتبے کی تشریح اور تیری آیاتِ ذات کی تفسیر کرے ۔ انسان کو پہلے احساس کی آگ میں جلنا ہوتا ہے، جب وہ اس قابل بنتا ہے کہ اپنی ذات کے کھوٹے کھرے میں امتیاز کرسکے ؎ علم حق اوّل حواس آخر حضور آخرِ او می نگنجد در شعور! آٹھواں بند صد کتاب آموزی از اہلِ ہنر خوشتر آں در سے کہ گیری از نظر ہر کسے زاں می کہ ریزد از نظر مست می گردد باندازِ دگر از دمِ بادِ سحر میرد چراغ لالہ زاں بادِ سحر مے در ایاغ کم خور و کم خواب و کم گفتار باش گردِ خود گردندہ چوں پُر کار باش منکرِ حق نزدِ مُلاّ کافر است منکرِ خود نزدِ من کافر تر است آن بانکارِ وجود آمد، عجول ایں عجول و ہم ظلوم و ہم جہول شیوئہ اخلاص را محکم بگیر پاک شو از خوفِ سلطان و امیر عدل در قہر و رضا از کفِ مدہ قصد در فقر و غنا از کفِ مدہ حکم دشوار است؟ تاویلے مجو جز بقلبِ خویش قندیلے مجو حفظِ جاں ہا ذکر و فکر بے حساب حفظِ تن ہا ضبطِ نفس اندر شباب حاکمی در عالمِ بالا و پست جز بحفظِ جان و تن ناید بدست لذتِ سیر است مقصودِ سفر گر نگہ بر آشیاں داری مپر ماہ گردد تا شود صاحب مقام سیرِ آدم را مقام آمد حرام زندگی جز لذتِ پرواز نیست ٖٖٖٖٖآشیاں با فطرتِ اُو ساز نیست رزقِ زاغ و کرگس اندر خاکِ گور رزقِ بازاں در سوادِ ماہ و ہور مطلب (۱)اگر تُو اہل ِ ہُنر سے سو کتابیں بھی پڑھے، تو اس سے وہ ایک درس بہتر ہے جو تو کسی مردِ کامل سے حاصل کرے ۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اولیا کی صحبت کا ایک لمحہ صد سالہ بے رِیا طاعت سے بہتر ہوتا ہے۔ (۲) ہر شخص اُس شراب سے، جو نظر سے ٹپکتی ہے، اپنے اپنے انداز سے مست ہوتا ہے، یعنی ہر شخص اپنی طلب اور ظرف کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتا ہے۔ (۳) (پچھلے شعر کے مفہوم کو آگے بڑھاتے ہوئے ) اقبال کہتے ہیں کہ صبح کی ہوا کے جھونکے سے چراغ بجھ جاتا ہے ۔ اسی جھونکے سے لالے کے پھول کے پیالے میں شراب آجاتی ہے، یعنی وہ سرخ وشاداب ہو جاتا ہے ۔ چراغ کو موت اور لالے کو زندگی نصیب ہوتی ہے، حالاں کہ جھونکا ایک ہی ہے۔ (۴) اے بیٹے! کم کھائو، کم بولو اور کم سوئو اور اپنے گرد پرکار کی طرح گھومو ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کا طواف کر، غیروں کا دست نگر نہ ہو۔ اپنی معرفت حاصل کرنے میں کوشاں رہ، کھانا، سونا اور باتیں کرنے ہی کو زندگی نہ بنالے۔ ان تین چیزوں سے بے تعلقی تجھے تیری خودی کی معرفت اور اس کے استحکام میں مددگار ثابت ہوگی۔ (۵) اللہ کا منکر ملّا کے نزدیک کافر ہے، لیکن میرے نزدیک اپنی ذات کا منکر بڑا کافر ہے ۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو پوشیدہ ہے لیکن تُو خود تو ظاہر ہے ۔ ظاہر کا انکار کرنا اور غیب کی جستجو کرنا یہ کہاں کی دانش مندی ہے ۔ پہلے خود کو تلاش کر، جب تُو اپنی تلاش کر لے گا تو اللہ مل جائے گا۔ ملّا اللہ کو اپنے سے باہر ڈھونڈتا ہے، جبکہ اللہ اس کے اند ر ہے ۔ اس کی شہ رگ سے قریب ہے، اس کے دل میں ہے ۔ جس نے خود کو تلاش کرلیا، گویا اس نے اپنے رب کو پالیا۔ علامہ اقبال نے اسے لیے باربار کہا ہے کہ خدا کو تلاش کرتے ہو ۔ اپنے قریب جائو۔ یہ بات ٖحضرت علیؓ کے اس مشہور مقولے پر مبنی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ (۶) وہ یعنی مُنکر ِ حق اللہ کے وجود کے انکار کی وجہ سے عجول (جلد باز) ہے کہ اس نے بلا سوچے سمجھے، تحقیق و تفتیش کے بغیر، محض جلد بازی سے اس کے وجود سے انکا ر کردیا۔ منکر عجول کے علاوہ ظلوم اور جہول بھی ہے ۔ ظلوم اس لیے کہ اس نے اپنا انکار کرکے خود پر ظلم کیا اور اپنی مخفی صلاحیتوں سے بے خبر رہ کر خود سے جاہل رہا ۔ (۷) اخلاص کا شیوہ سختی سے اختیار کر، اور اس طرح سلطان اور امیر کے خوف سے آزاد ہوجا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کا دامن خلوص سے تھام لے ۔ اس طرح تُو غیر اللہ سے بے نیاز ہو جائے گا۔ (۸) تُو طیش میں ہو یا خوشنودی کی حالت میں ہو، دونوں حالتوں میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ مفلسی ہو یا امیری، میانہ روی کو نہ چھوڑ۔ (۹) اگر اللہ کا کوئی حکم دشوار ہے تو اس کی تاویل نہ ڈھونڈ۔ کسی مشکل کشا سے اس کا حل ڈھونڈ۔ اپنے معنی پیدا نہ کر ۔ اپنے قلب کے سوا کہیں اور سے چراغ نہ ڈھونڈ۔ (۱۰) روح کی حفاظت اللہ کے بے حد و حساب ذکر کرنے میں ہے، اور جسم کی حفاظت جوانی میں ضبطِ نفس سے ہے۔ (۱۱) عالم بالا وپست (دنیا اور آخرت میں ) سرفرازی ہاتھ نہیں آتی، سوائے جان وتن کی حفاظت کے ۔ (۱۲) سفر کا مقصد سیر کی لذت ہے ۔ اگر تُو آشیاں ہی رکھے ہوئے ہے تو پھر نہ اُڑ۔ مقصد یہ ہے کہ ترقی کے حصول کے لیے بہت سی آسائشوں کو چھوڑنا پڑتا ہے ۔مثال کے طور پر اگر تُو روحانی ترقی چاہتا ہے تو تجھے دنیا کے علائق سے الگ ہونا پڑے گا۔ یاد رکھ، اس سفرمیں جو لذت تجھے نصیب ہوگی، وہ دنیا کی لذتوں سے بڑھ کر ہوگی ۔ پرواز کی لذت آشیانے کے سکون کی لذت سے کہیں اعلیٰ وارفع ہوتی ہے ۔ سکون چھوڑ،حرکت اختیار کر ۔ تن کا آرام چھوڑ اور روح کی بالیدگی کے اسباب پیدا کر ۔ (۱۳) چاند اس لیے گردش کرتا ہے کہ وہ صاحبِ مقام ہو جائے یعنی چودھویں کی رات تک مکمل ہو جائے ۔اس کے بعد اس کا سفرِ ارتقا ختم ہو جاتا ہے، لیکن آدمی کے لیے مقام کرنا حرام ہے، وہ تو ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔ اس کے ارتقا کی کوئی حد نہیں ۔ (۱۴) زندگی پرواز کی لذت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ آشیانہ اس کی فطرت کو راس نہیں آتا۔ (۱۵) کوے اور گدھ کا رزق قبر کی مٹی میں ہے ۔ وہ مردہ لاشوں کا گوشت کھاتے ہیں۔ بازوں (شاہینوں ) کا رزق چاند اور سورج کے نواح میں ہے ۔ وہ بلند پرواز کرتے ہوئے فضا میں زندوں کا شکار کرتے ہیں ۔ یہ بند پچھلے بند کے افکار وخیالات کا تکملہ ہے ۔ اس کا ایک ایک شعر مفہوم اور مزاج کے اعتبار سے ایسا ہے کہ ضرب المثل بن کر زبان و قلب کا وظیفہ بنے۔ چوتھا شعر ـــــ’’کم کھائو، کم سوئو، کم بولو ‘‘ علامہ اقبال کو ایک خاص موقع پر یاد آیا ۔ وہ ۶؍نومبر ۱۹۳۱ء کو لندن میں ’’اقبال لٹریری ایسوسی ایشن ‘‘ کی ایک تقریب میں تقریر کر رہے تھے ۔ انھوں نے فرمایا کہ ’’۱۹۰۵ء میں، جب میں انگلستان آیا تھا تو میں محسوس کرچکاتھا کہ مغربی ادبیات اپنی ظاہری دل فریبی اور دلکشی کے باوجود اس روح سے خالی ہیں جو انسانوں کے لیے اُمید، ہمت اور جرات ِ عمل کا پیغام ہوتی ہے اور جسے زندگی کے جوش اور ولولے سے تعبیر کرنا چاہیے۔ ‘‘ آگے چل کر اقبال کہتے ہیں : ’’ اگرچہ میرے ساتھ کوئی فوج نہیں ہے، تاہم رفقا ء کی ایک کثیر جماعت میرے سامنے ہے ۔ آپ اپنی تعداد کو بڑھائیے۔ میں آپ کو وہی نصیحت کرتا ہوں جو میں نے اپنے فرزند کو کی ہے، یعنی ؎ کم خور و کم خواب و کم گفتار باش گردِ خود گردندہ چوُں پُر کا ر باش ’’ کم کھائو، کم سوئو، کم بولو ‘‘ یہ دراصل خواجہ نظام الدین اولیا کا قول ہے، اور یہ مصرع ہو بہو اس قول کا فارسی ترجمہ ہے ۔ اس بند کے چھٹے شعر میں دونوں مصرعوں میں قرآنی آیات کے حوالے ہیں ۔ پہلا مصرع سورۂ بنی اسرائیل کی آیات ۱۱ کی طرف اشارہ ہے: وَ یَدْعُ الْاِ نْسَانُ بِالشَّرِّ دُ عَآ ئَ ہٗ بِا لْخَیْرِط وَ کَا نَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا (انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے ) دوسرا مصرع سورئہ احزاب کی آیت ۷۲کی طرف اشارہ ہے : اِنَّا عَرَضْنَاالْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَ بَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا (ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھالیا ۔ بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے) نواں بند سرّ ِدیں، صدقِ مقال، اکلِ حلال خلوت و جلوت تماشائے جمال در رہِ دیں سخت چوں الماس زی دل بحق بر بند و بے وسواس زی سرِّے از اسرارِ دیں بر گویمت داستانے از مظفر گویمت اندر اخلاصِ عمل فردِ فرید پادشاہے بامقامِ بایزید پیش او اسبے چو فرزنداں عزیز سخت کوش چوں صاحبِ خود درستیز سبزہ رنگے از نجیبانِ عرب باوفا، بے عیب، پاک اندر نسب مردِ مومن را عزیز اے نکتہ رس چیست جُز قرآن شمشیر و فرس؟ من چہ گویم وصفِ آں خیر الجیاد کوہ و روئے آبہا رفتے چوباد روزِ ہیجا از نظر آمادہ تر تند بادے طائفِ کوہ و کمر! در تگِ او فتنہ ہائے رستخیز سنگ از ضربِ سُمِ اُو ریز ریز روزے آں حیواں چو انساں ارجمند گشت از دردِ شکم زار و نژند کرد بیطارے علاجش از شراب اسب شہ را وارہاند از پیچ و تاب شاہِ حق بیں دیگر آں یکراں نخواست شرع تقویٰ از طریقِ ما جُداست اے ترا بخشد خدا قلب و جگر طاعتِ مردِ مسلمانے نگر! مطلب (۱) دین کا راز سچ بولنے اور حلال کھانے میں ہے۔خلوت ہو یا جلوت، دونوں جگہ جمالِ خداوندی کا تماشا کرنے میں ہے۔ظاہر ہے، جب خدا کا جلوہ ہر جگہ نظر آئے گا تو کج فکری اور کج عملی اختیار ہی نہیں کی جاسکتی۔ کوئی دیکھ رہا ہو تو چوری کون کرتا ہے۔ (۲) دین کی راہ میں الماس کی طرح سختی کے ساتھ جی ۔حق کے ساتھ دل لگا اور شک و وسواس کے بغیر جی ۔مراد یہ ہے کہ دین کی راہ پر اس طرح ثابت قدمی سے چل کہ کو ئی چیز بھی تیری راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے اور تیرے پائو ں کو لغزش نہ دلا سکے ۔ (۳) بیٹے ! میں تجھے اسرارِ دین میں سے ایک سِرّ(بھید ) بتاتا ہوں ۔ اس کی وضاحت کے لیے میں تمھیں مظفر بادشاہ کی ایک حکایت بیان کرتاہوں (سلطان مظفر پندرھویں صدی عیسوی میں گجرات، مشرقی ہند،کے علاقے کا ایک طاقتور، بہادر اور دین دار بادشاہ تھا) (۴) وہ عمل کے اخلاص میں ایک بے مثل شخص تھا ۔ وہ بایزید بسطامی جیسے مردِ فقیر کا سا مرتبہ رکھنے والا شخص تھا ۔ (۵) اس کے پاس ایک گھوڑا تھا جو اسے بیٹوں کی طرح عزیز تھا ۔ وہ جنگ کے موقع پر اپنے مالک کی طرح سخت کوش تھا ۔ (۶) وہ گھوڑا نسل کا سبزہ رنگ، اور عرب کے اصیل گھوڑوں میں سے تھا۔ وہ باوفا، بے عیب اور نسب میں پاک تھا۔ (۷) اے نکتہ رس بیٹے ! مردِ مومن کے لیے قرآن،تلوار اور گھوڑے سے بڑھ کر اور کیا چیز عزیز ہو سکتی ہے ۔ (۸) میں اس شریف و اصیل اور بہترین گھوڑے کے اوصاف کے متعلق کیا کہوں ۔ وہ پہاڑوں اور دریائوں سے ہوا کی طرح گزر جاتا تھا ۔ (۹) وہ جنگ کے دن نظر سے بھی زیادہ تیز تھا، اور تیز ہوا کی طرح پہاڑوں اور گھاٹیوں کو عبور کرلیتا تھا ۔ (۱۰) اُس کی دوڑ میں قیامت کے فتنے تھے ۔ اُ س کے سُم کی ضرب سے پتھر ریزہ ریزہ ہو جاتے تھے۔ (۱۱) ایک روز وہ گھوڑا، جو انسا ن کی طرح ارجمند تھا، پیٹ کے درد کی وجہ سے کمزور اور نڈھال ہو گیا ۔ (۱۲) ایک جانوروں کے معالج نے اُس کا علاج شراب سے کیا، اور اس طرح اُس نے بادشاہ کے عزیز گھوڑے کو درد کے پیچ وتاب سے نجات دلائی ۔ (۱۳) خدا شناس بادشاہ نے پھر کبھی اس گھوڑے کو سواری کے لیے طلب نہ کیا۔ بے شک تقویٰ کا راستہ ہمارے راستے سے جدا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ چوں کہ گھوڑے نے شراب پی لی تھی، اس لیے بادشاہ نے اس پر سوار ہونے کو بھی حق پرستی کے خلاف سمجھا۔ (۱۴) خدا تجھے قلب و نظر عطا کرے ۔ ایک مسلمان کی اطاعت کا یہ رنگ دیکھ،کہ اُس نے اُ س گھوڑے پر بھی سوار ہونا گوارا نہ کیا، جس نے شراب پی لی تھی۔ دسواں بند دیں سراپا سوختن اندر طلب انتہایش عشق و آغازش ادب آبروئے گل زرنگ وبوئے اوست بے ادب بے رنگ و بُو، بے آبروست نوجوانے را چوبینم بے ادب روزِ من تاریک می گردد چو شب تاب و تب در سینہ افزاید مرا یادِ عہدِ مصطفی آید مرا از زمانِ خود پشیماں می شوم در قرونِ رفتہ پنہاں می شوم سترِ زن یا زوج یا خاکِ لحد سترِ مرداں حفظِ خویش از یارِ بد حرفِ بد را بر لب آوردن خطا ست کافر و مومن ہمہ خلقِ خدا ست آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی آدمی از ربط و ضبطِ تن بہ تن بر طریقِ دوستی گامے بزن بندئہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق کفر و دیں را گیر در پہنائے دل دل اگر بگریزد از دل، وائے دل گرچہ دل زندانیِ آب و گل است ایں ہمہ آفاق، آفاقِ دل است مطلب (۱) بیٹے، بتائوں، دین کیا ہے ۔ دین اللہ کی طلب میں خود کو جلانا ہے ۔ اس کی انتہا عشق ہے اور اس کا آغاز ادب ہے ۔ (۲) دیکھو، پھول کی آبرو اس کے رنگ اور خوش بو سے ہے ۔ بے ادب بے رنگ وبو اور بے آبرو ہو تا ہے ۔ (۳) میں جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میرا دن میری رات کی طرح تاریک ہوجاتا ہے ۔ (۴) میرے سینے کا اضطراب بڑھ جاتا ہے اور نبیِ کریم ؐ کا دَور یاد آجاتا ہے۔ (۵) میں اپنے زمانے پر پچھتاتا ہوں کہ ایسے زمانے میں پیدا ہوا جو بے ادب لوگوں کا زمانہ ہے ۔ میں خود کو پرانی صدیوں میں چھپالیتا ہوں، یعنی پرانے باادب زمانے کی یاد میں کھوجاتاہوں ۔ (۶) عورت کا ستر اس کا خاوند ہے یا اس کی قبر ۔ مرد کا ستر خود کو برے دوستوں کی صحبت سے بچانا ہے ۔ (۷) بری بات کو ہونٹوں پر لانا خطا ہے۔ کافر اور مومن سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ سب سے محبت کا برتائو کرنا چاہیے۔ (۸) آدمیت آدمی کے احترام کا نام ہے ۔ تجھے آدمی کے مقام سے باخبر ہونا چاہیے ۔ (۹) آدمی تن بہ تن کے ربط سے ہے، یعنی ایک آدمی کے دوسرے آدمی کے ساتھ جو تعلقات ہوتے ہیں، آدمیت اس کا نام ہے ۔ (۱۰) بندئہ عشق خدا سے مسلک (زندگی ) لیتا ہے، یعنی جس طرح خدا سب پر مہربان ہے، اسی طرح بندئہ عشق بھی کافر اور مومن دونوں پر مہربان ہوتا ہے ۔ (۱۱) کفر اور دین کو دل کی وسعت میں رکھ۔ ایک دل اگر دوسرے دل سے بھاگے تو ایسے دل پر افسوس ہے ۔ یعنی قلب میں اتنی وسعت پیدا کر کہ وہ سب سے محبت کرے۔ (۱۲) اگرچہ دل آب وگِل (جسم ) کے قید خانے میں ہے، مگر یہ ساری کائنات دل ہی کی کائنات ہے یعنی دل بہت وسیع ہے ۔ اس کو دوسروں سے نفرت کرکے تنگ نہ بنا ۔ اس بند میں آدمی اور آدمی کے ربط وضبط اور دوستی و شفقت کے متعلق جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ اس قابل ہیں کہ انھیں حرزِ جاں بنا کر قدم قدم پر ان سے راہ نمائی حاصل کی جائے۔ اقبال کہتے ہیں کہ تو انسان ہے، اس لیے ربط وضبط اور باہمی تعلق کا آئین اختیار کرکے دوستی کے راستے پر چل۔ عشق کے بندے اللہ کے راستے پر چلتے اور اپنی شفقت و محبت میں کافر و مومن کو یکساں حصہ دار بناتے ہیں ۔ اس لیے اے فرزند! کفر اور دین، دونوں کو اپنے قلبِ کشادہ میں جگہ دے، اس لیے کہ اے جانِ پدر! دل اگر دل سے بھاگے تو وہ ہر گز دل نہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ دل آب وگل کا زندانی ہے، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ یہ سار ا جہان دل کاجہان ہے ۔ گیارھواں بند گر چہ باشی از خداوندانِ دہ فقر را ا ز کف مدہ، از کف مدہ سوزِ او خوابیدہ در جانِ تو ہست ایں کہن مے از نیاگانِ تو ہست در جہاں جز دردِ دل ساماں مخواہ نعمت از حق خواہ و از سلطان مخواہ اے بسا مردِ حق اندیش و بصیر می شود از کثرتِ نعمت ضریر کثرتِ نعمت گداز از دل برد ناز می آرد نیاز از دل برد سالہا اندر جہاں گردیدہ ام نم بچشمِ منعماں کم دیدہ ام من فدائے آنکہ درویشانہ زیست وائے آں کو از خدا بیگانہ زیست مطلب(۱) اگرچہ تو گائو ں کا مالک کیوں نہ ہو ۔ فقر کو ہاتھ سے نہ دے، ہاتھ سے نہ دے۔ (۲) اس کا یعنی فقر کا سوز تیری جان میں سویا ہوا ہے، یعنی تیرے اندر موجود ہے ۔ یہ وہ پرانی شراب ہے جو تجھے تیرے بزرگوں نے عطا کی ہے ۔ تیرے بڑے بھی سوزِ فقر رکھتے تھے ۔ وہ سوزِ فقر تجھ میں بھی ہے ۔ (۳) جہاں میں دردِ دل کے سوا کسی اور سامان کی خواہش نہ کر۔ تو جو بھی نعمت چاہتاہے خدا سے مانگ، سلطان سے نہ مانگ ۔ دردِ دل سے مراد ہے، مخلوق کے دکھوں میں شریک ہونے والا دل۔ (۴) بسا اوقات حق اندیش اور حق شناس لوگ نعمتوں کی کثرت کی وجہ سے اندھے ہو جاتے ہیں اور حق و ناحق میں تمیز نہیں کرتے ۔ (۵) نعمتوں کی کثرت دل سے گداز لے جاتی ہے ۔ وہ ناز لے آتی ہے اور نیاز لے جاتی ہے ۔ (۶) میں برسوں دنیا میں گھوما پھرا ہوں ۔ میں نے دولت مندوں کی آنکھ میں نم نہیں دیکھا ۔ (۷) میں اس شخص کے قربان جس نے درویشانہ زندگی بسر کی ۔ افسوس ہے اس شخص پر جو زندگی میں خدا سے غافل رہا۔ بارہواں بند در مسلماناں مجو آں ذوق و شوق آں یقیں،آں رنگ وبو، آں ذوق و شوق عالماں از علمِ قرآں بے نیاز صوفیاں درّندہ گرگ و مُو دراز گرچہ اندر خانقاہاں ہائے و ہُوست کو جواں مَردے کہ صہبا درکدوست ہم مسلمانانِ افرنگی مآب چشمۂ کوثر بجویند از سراب بے خبر از سرِدین اند ایں ہمہ اہلِ کیں اند اہلِ کیں اند ایں ہمہ خیر و خوبی بر خواصِ آمد حرام دیدہ ام صدق و صفا را در عوام اہلِ دیں را باز داں از اہلِ کیں ہم نشینِ حق بجو با او نشیں کر گساں را رسم و آئیں دیگر است سطوتِ پرواز شاہیں دیگر است مطلب(۱) آج کے دور میں مسلمانوں میں وہ ذوق و شوق تلاش نہ کر۔ وہ یقین، وہ رنگ وبو، اور وہ ذوق و شوق ان میں تلاش نہ کر، جو کبھی ان کے آبائو اجداد میں تھا ۔ (۲) آج کے علمائے دین قرآن کے علم سے بے نیاز ہیں اور صوفی بھیڑیے اور لمبے لمبے بالوں والے ہیں ۔ نہ علما میں علمِ دین کی روح ہے اور نہ صوفیوں میں تصوف باقی ہے۔ (۳) آج اگرچہ درویشیوں کی خانقاہوں میں ہائے وہو کا شور ہے، لیکن ایسا جواں مرد صوفی کہاں ہے کہ جس کے مٹکے میں تصوف کی شراب ہو ۔ سب خالی خولی نعرے لگاتے ہیں۔ (۴) مسلمان افرنگیوں سے متاثر ہیں ۔ سراب میں سے چشمۂ کوثر ڈھونڈتے ہیں۔ یعنی تقلید تو کافروں کی کررہے ہیں اور توقع اسلامی فوائد کی کر رہے ہیں ۔ (۵) یہ سب دین کے بھید سے بے خبر ہیں ۔ یہ سب باہمی عداوت رکھنے والے یعنی اہلِ کینہ ہیں ۔ (۶) مسلمانوں کے جو خواص ہیں، سو ان میں کوئی خیر و خوبی نظر نہیں آتی ۔ البتہ میں نے ان کے عوام میں ابھی تک صدق و صفا کو ضرور دیکھا ہے۔ (۷) اہلِ دین کو اہلِ کین سے الگ رکھ۔ دونوں میں فرق کر ۔ کسی حق کے ہم نشین کی تلاش کر اور اس کے ساتھ بیٹھ ۔ اس کی صحبت اختیار کر ۔ (۸) گِدھوں کی رسم ودستور ہے ۔ شاہینوں کی پرواز کی ہیبت اور ہے ۔ دنیا کے طالب گدھ ہیں اور خدا کے طالب شاہین ہیں ۔ گِدھوں کو چھوڑ کر شاہینوں کی صحبت اختیار کر۔ تیرھواں بند مردِ حق از آسماں اُفتد چو برق ہیزمِ اُو شہر و دشت، غرب و شرق ما ہنوز اندر ظلامِ کائنات اُو شریکِ اہتمامِ کائنات اُو کلیم ؑ و اُو مسیح ؑ و اُو خلیلؑ اُو محمدؐ، او کتاب، او جبریلؑ آفتابِ کائنات اہلِ دل از شعاعِ اُو، حیاتِ اہلِ دل اوّل اندر، نارِ خود سوزد ترا بازِ سلطانی بیا موزد ترا ما ہمہ با سوزِ اُو صاحب دلیم ورنہ نقشِ باطلِ آب و گلیم ترسم ایں عصرے کہ تو زادی دراں در بدن عُرق است و کم واند زجاں چوں بدن از قحطِ جاں ارزاں شود مردِ حق در خویشتن پنہاں شود در نیابد جستجو آں مرد را گرچہ بیند رُو برو آں مرد را تو مگر ذوقِ طلب از کف مدہ گرچہ در کارِ تو اُفتد صد گرہ گر نیابی صحبتِ مردِ خبیر از ابّ و جد آنچہ من دارم بگیر پیرِ رومی را رفیقِ راہ ساز تا خدا بخشد ترا سوز و گداز زانکہ رومی مغز را داند زپوست پائے او محکم فتد در کوئے دوست شرحِ او کردندو اُو را کس ندید معنیِ او چوں غزال از مارمید رقصِ تن از حرف او آموختند چشم را از رقصِ جاں بردوختند رقص تن در گردش آرد خاک را رقصِ جاں برہم زند افلاک را علم و حکم از رقصِ جاں آید بدست ہم زمیں ہم آسماں آید بدست فرد ازوئے صاحبِ جذبِ کلیم ملّت ازوئے وارثِ ملکِ عظیم رقصِ جاں آموختن کارے بود غیر حق را سوختن کارے بود تا زنارِ حرص و غم سوزد جگر جاں برقص اندر نیاید اے پسر ضعفِ ایمان است و دلگیری است غم نوجوانا! نیمئہ پیری است غم می شناسی؟ حرص فقرِ حاضر، است من غلامِ آنکہ، بر خود قاہر است اے مرا تسکینِ جانِ ناشکیب تو اگر از رقصِ جاں گیری نصیب سرِّ دینِ مصطفی گویم ترا ہم بہ قبر اندر دُعا گویم ترا مطلب (۱) اگر کوئی مردِ حق ہو تو اُس کی شان یہ ہے کہ وہ آسماں سے بجلی کی طرح گرتا ہے ۔ اس کا ایندھن شہر، بیابان اور مشرق و مغرب کی ہر چیز ہوتی ہے (مردِ حق جب اللہ کی طرف سے دنیا پر مبعوث ہو تا ہے تو وہ باطل کے ایندھن کو اسی طرح جلادیتا ہے جس طرح بجلی خرمن کو جلادیتی ہے۔) (۲) ہم ابھی تک کائنات کے اندھیروں میں ہیں، اور وہ یعنی مردِ حق کائنات کے انتظام میں شامل ومشغول ہے ۔ (۳) وہ مردِ حق ہی خلیل ہے، مسیح ہے، کلیم ہے ۔ وہ محمدؐ ہیں ۔ وہ کتاب ہے ۔ وہ جبریل ہے۔ (۴) وہ اہلِ دل کی کائنات کا آفتاب ہے ۔ اُس کی شعاعوں سے اہلِ دل کی حیات ہے۔ (۵) وہ یعنی مردِ حق پہلے تجھے اپنی آگ میں جلاتا ہے ۔ پھر تجھے سلطانی سکھاتا ہے۔ (۶) ہم سب اُسی کے سوز سے صاحب دل ہیں، ورنہ ہم آب وگل (مادہ ) کے باطل نقش ہیں ۔(مردِ حق کی صحبت سے آدمی دل والا یعنی صحیح آدمی بنتا ہے، ورنہ وہ محض مٹی کا ایک مجسمہ ہے جو چل پھر رہا ہے۔) (۷) میں اُس زمانے سے ڈرتا ہو ں کہ تو جس میں پیدا ہوا ہے، کیونکہ یہ زمانہ بدن میں غرق ہے اور نہیں جانتا کہ جان کیا ہے ۔ تن پرستی کا زمانہ ہے ۔ لوگ روح کو بھولے ہوئے ہیں۔ شکم پیش نظر ہے، دل پر دھیان نہیں ۔ (۸) جب روح کے قحط سے بدن سستا ہو جاتا ہے تو مرد حق خود میں چھپ جاتا ہے، یعنی وہ موجود تو ہوتا ہے لیکن لوگوں کی مادہ پرستانہ نگاہیں اسے دیکھ نہیں سکتیں ۔ اسے تلاش کرنا پڑتا ہے ۔ (۹) ایسے زمانے میں تلاش وجستجو بھی اس مردِ حق کو نہیں پاسکتی، اگر چہ وہ اسے رُوبہ رُو کیوں نہ دیکھ رہی ہو (یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی پہچان نہیں ہوتی ۔) (۱۰) لیکن اے فرزند! تو ذوق ِ طلب کو ہاتھ سے نہ دے، خواہ تیری راہ میں سو مشکلات کیوں نہ آئیں ۔ (۱۱) اگر تو کسی مردِ خبیر (خبر رکھنے والے) کی صحبت نہیں پاتا، تو جو کچھ میں نے اپنے آبأو اجداد سے لیا ہے، تووہ لے لے، وہ بھی تیرے لیے مردِ خبیر کی صحبت کا کام دے گا۔ (۱۲) پیر رومی کو راستے کا رفیق بنالے، تاکہ خدا تجھے عشق کا سوز و گداز عطا کرے ۔ (۱۳) کیوں کہ رومی وہ مرد حق ہے جو مغز کو چھلکے سے الگ کرتا ہے ۔ اس کا پائوں دوست کی گلی میں مضبوطی سے پڑتا ہے ۔ وہ محرمِ اسرارِ دوست ہے۔ وہ حق وباطل کی تمیز جانتا ہے ۔ (۱۴) لوگوں نے مولانا رومی کی مثنوی کی شرح لکھی، لیکن رومی کو نہ دیکھا، یعنی اس کا راز نہ پایا، اس کا فقر کیا تھا اور اس سے فیض کس طرح حاصل کرنا چاہیے ۔ اس کے معنی ہم سے یوں بھاگے ہیں جیسے کہ ہم سے ہرن بھاگتا ہے ۔ (۱۵) ہم نے اس کے کلام سے تن کا رقص سیکھ لیا اور آنکھوں کو جان کے رقص سے سی لیا، یعنی بند رکھا ۔ (۱۶) تن کا رقص مٹی (جسم) کو گردش میں لاتا ہے ۔ جان کا رقص افلاک کو تہ وبالا کردیتا ہے ۔ (۱۷) روح کے رقص سے علم اور حکمت ہاتھ آتی ہے ۔ زمین اور آسمان بھی ہاتھ آتے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ روح کے رقص سے صاحب رقص زمان و مکاں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ (۱۸) روح کے رقص سے صاحب رقص حضرت مو سیٰ کلیم اللہ کا جذب حاصل کرلیتا ہے ۔ ملت اس سے ایک عظیم ملک کی وارث بن جاتی ہے، کیوں کہ اس رقص سے اس میں نبوّت کے فیوض آجاتے ہیں ۔ (۱۹) روح کا رقص سیکھنا آسان نہیں ہے، غیر حق کو جلانا آسان نہیں ہے ۔ (۲۰) جب تک آدمی کا جگر حرص اور غم کی آگ میں جلتا رہے گا، اے فرزند!روح رقص میں نہیں آئے گی ۔ (۲۱) غم دل گیری ہے، ایمان کی کمزوری ہے ۔ اے فرزندِ جوان!غم آدھا بڑھاپا ہے۔ (۲۲) کیا تو جانتا ہے کہ حرص عہدِ حاضر کا فقر ہے ۔ میں تو اس کا غلام ہوں جو خود پر قاہر ہے، یعنی جو اپنے حرص پر قابو پالیتا ہے ۔ (۲۳) اے میری بے قرار جان کی تسکین، اے میرے بیٹے ! تو اگر روح کے رقص سے نصیب حاصل کر لے ۔ (۲۴) تو پھر میں تجھے دینِ مصطفیٰ کا راز بتائو ں گا۔ میں قبر کے اند ر بھی تیرے لیے دعاگو رہوںگا۔ اس بند کے آخری چند اشعار پیرِ رومی کو رفیق راہ بنانے کی تلقین کرتے ہیں کہ سو ز وگداز کی دولتِ بیدار صرف اسی طرح حاصل ہونی ممکن ہے ۔ اقبال کوخداوندان مکتب اور اہلِ خانقاہ سے یہ شکایت ہے کہ انھوں نے حرف رومی کی تشریح تو کی، لیکن اس کی روح تک نہیں پہنچے، اور اس لیے حقیقی معنی ہم سے یو ں دور بھاگ گئے جیسے تیز رو غزال،صوفیوں اور ملائوں نے پیر رومی کے کلام سے رقص تن کا سبق تو اخذ کیا، لیکن رقص جاں کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں، حالاں کہ رقصِ تن اور رقصِ جاں میں زمیں و آسمان کا فرق ہے ۔ ایک زمین کی گردش کا سبب بنتا ہے اور دوسرا افلاک کو برہم کرتا ہے ۔ رقص جاں کی بدولت علم وحکمت اور زمین اور آسمان پر تصرف حاصل ہوتا ہے، لیکن رقص جاں کا سیکھنا کوئی آسان کام نہیں ۔ آدمی جب تک اپنے جگر کو حرص وغم کی آگ سے خاکستر نہ کردے، جان رقص میں نہیں آتی ۔ رقصِ جاں طبیعت کا وہ اضطراب ہے جس کی طرف اقبال اپنے کلام نثر و نظم میں بار بار اشارے کرتے رہے ہیں ۔ موجودہ نسل کے نوجوانوں کو مستقبل کی زندگی کا امین اور پاسبان سمجھ کر وہ ساری زندگی یہ آرزو کرتے رہے ہیں کہ نو جوان کو اس مثالی انسان کا نمونہ بنائیں جو زمانے کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کا رخ اس بہتر زندگی کی طرف پھیر سکے، جو خالق ازلی کا مقصود ہے ۔ اقبال کے پاس بقول ان کے ـــــ’’صرف ایک بے چین اور مضطرب جان ہے۔ ‘‘ ان کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ وہ اپنا اضطراب کسی ایسے نوجوان کے دل میں منتقل کر دیں جو اس کا اہل ہو ۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام ایک خط میں اقبال نے اس اضطراب کو کسی نوجوان کے دل میں منتقل کرنے کی آرزو ان لفظوں میں ظاہر کی ہے ۔’’ صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں ۔ قوت عمل مفقود ہے ۔ ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان، جو ذوق خداداد کے ساتھ قوت عمل بھی رکھتا ہو، مل جائے، جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کردوں۔ ‘‘ (خط محررہ ۲۵؍اکتوبر ۱۹۱۵؁ء ) اسی اضطراب کا نام ’’جاوید نامہ‘‘ کی مذکورہ بالا نظم میں ’’رقصِ جاں ‘‘ ہے اور اسی کو ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ میں ’’تب وتاب‘‘ کہا گیا ہے ۔ یہی رقصِ جاں، یہی تب وتاب اور اضطرابِ جاں ہے کہ اگر کسی نوجوان کے دل میں منتقل ہو جائے تو اقبال کے دل سے قبر میں بھی اس کے لیے دعائیں نکلیں گی۔ خود اقبال نے اپنی زندگی میں اس آرزو کو مناجات اور دعا کی صورت دی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ جہاں یہ دعا زباں پر آئی ہے، اس میں آرزو کی دردمندی نے بڑا سوز و گداز اور بڑی تاثیر پیدا کی ہے یہ آرزو ان کی نظم ’’ساقی نامہ ‘‘ میں بڑی دل سوزی کے ساتھ دعا کا پیکر اختیار کرتی ہے ؎ جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے مرا عشق، میری نظر بخش دے مرے دیدئہ تر کی بے خوابیاں مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں مرے نالۂ نیم شب کا نیاز مری خلوت و انجمن کا گداز امنگیں مری، آرزوئیں مری امیدیں مری، جستجوئیں مری مری فطرت آئینۂ روزگار غزالانِ افکار کے مرغزار مرا دل مری رزم گاہِ حیات گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر مرے قافلے میں لٹا دے اسے لٹادے، ٹھکانے لگا دے اسے علامہ اقبال نے ’’جاوید نامہ ‘‘ میں جو طویل نظم خطاب بہ جاوید (سخنے بہ نژادِ نو) کے عنوان سے تخلیق کی ہے، اس کے فارسی متن کے ساتھ ہم نثر میں اردو ترجمہ اوپر پیش کرچکے ہیں ۔ اس کا اردو میں منظوم ترجمہ جناب نظیر لدھیانوی نے کیا تھا۔ طلبہ کے مزید استفادے کے لیے یہ منظوم ترجمہ بھی یہاں پیش کیا جارہاہے۔ شاعری بے فائدہ ہے بالیقیں دل میں جو ہے وہ اگر لب پر نہیں گرچہ سو نکتے کیے میں نے بیاں ایک نکتہ ہے کہ ہے اب تک نہاں گر کہوں تو اور بھی پیچیدہ ہو صورت اور الفاظ سے پوشیدہ ہو یا تو تو میری نظر میں دیکھ اسے یا مری آہِ سحر میں دیکھ اسے ماں نے ہے پہلا سبق تجھ کو دیا تیرا غنچہ اس کے دامن میں کھلا لطف سے اس کے ہے تیرا رنگ وبو ہے اسی سے بے بہا اے لعل تو تجھ کو مالِ جاوداں اس سے ملا تو نے حرفِ لا الٰہ اس سے سنا اے پسر ذوقِ نگہ اب مجھ سے لے ساز و سوز لا الٰہ اب مجھ سے لے لا الٰہ کہ روئے جاں سے اے جواں تاکہ آئے تن سے تیرے بوئے جاں مہر و مہ ہیں لا الٰہ سے دل فروز میں نے دیکھا کوہ و کہ میں بھی یہ سوز ؁ٗلا الٰہ کس نے کہا گفتار ہے یہ تو اک شمشیر جو ہر دار ہے جو جیے اس آگ میں قہّار ہے لا الٰہ کی ضرب بے زنہار ہے مومن اور پیشِ بشر باندھے نطاق مومن اور ہو بندئہ غدر و نفاق! دین و ملت بیچے کوڑی کے عوض اس کو عزّ و آبرو سے کیا غرض! لا الٰہ سے بے تہی اس کی نماز ناز سے محروم ہے اس کا نیاز! نور سے بے بہرہ ہیں صوم و صلوٰت جلووں سے خالی ہے اس کی کائنات ہائے تھا اللہ جس کا ساز و برگ ہے اسے اب حبِّ مال اور خوفِ مرگ اب کہاں وہ مستی و ذوق اور وہ صبر دیں کتابوں میں ہے اور وہ زیرِ قبر رنگ لائی صحبتِ عصرِ جدید دیں میں ’’دو پیغمبروں ‘‘ کا ہے مرید ایک ایرانی ہے اک ہندی نژاد اس کو حج سے کد یہ بیزارِ جہاد جب جہاد و حج سے ہو منکر حیات کیوں نہ ہو بے جاں تنِ صوم صلوٰت جب کہ بے جاں ہوں نمازیں اور صیام فرد کج رو ہو گا ملت بے نظام قلب ہوں جب سوزِ قرآں سے تہی کیا بھلا ایسوں سے امّید بہی خود سے مسلم ہو گیا دور اے خضر المدد، پانی گیا سر سے گزر سجدہ وہ ہے ہو زمیں جس سے تپاں مہر و مہ ہوں جس کی مرضی پر رواں سنگ اگرلے ایسے سجدے کا نشاں باد پر اڑنے لگے بن کر دھواں عصرِ نو کیا ہے اسیری کے سوا کیا ہے اس میں ضعفِ پیری کے سوا گر شکوہِ ربی الاعلیٰ گیا یہ گنہ اس کا ہے یا ہے قوم کا؟ ہر کوئی ہے اپنی رہ پر تند رَو اپنا ناقہ بے لگام اور ہرزہ رو صاحبِ قرآں ہو بے ذوقِ طلب العجب ثم العجب ثم العجب! گر خدا تجھ کو کرے صاحب نظر آنے والے دور کو دیکھ اے پسر! عقل ہے اس میں نڈر، دل بے گداز آنکھ ہے بے شرم اور غرقِ مجاز علم و فن، دین وسیاست، عقل و دل ہو رہے ہیں سب فدائے آب و گل وہ وطن خورشید کا وہ ایشیا غیربیں ہے خود سے ہے نا آشنا قلب ہے بے وارداتِ نو بنو اس کے حاصل کی ہے قیمت ایک جَو اس پرانے گھر میں اس کا روزگار سرد ہے اور پرسکوں مثلِ مزار صیدِ ملاّ اور نخچیر ملوک ہے غزالِ فکر اس کا لنگ و لوک عقل و دین و دانش و ناموس وننگ ہو رہے ہیں صید عیّارِ فرنگ فکر پر کی اس کے یورش بار بار کردیا ہر راز اس کا آشکار! دل کو اپنے سینے میں خوں کردیا اس کے عالم کو دگرگوں کردیا ہے بیانِ عصرِ نو دو حرف میں گم کیا بحرین کو دو ظرف میں حرف پیچیدہ ہے اور نیش دار تا کروں عقل و دل مرداں شکار حرفِ پیچاں میں ہے اندازِ فرنگ نالۂ مستانہ ہے اور تارِ چنگ اصل اِس کی ذکر اُس کی اصل فکر اے کہ تو ہو مایہ دارِ فکر و ذکر آبِ جو ہوں دو سمندر میری اصل فصل میری فصل ہے اور طرح وصل اک نیا انداز رکھتا تھا یہ دور ڈالا میری طبع نے ہنگامہ اور نوجواں پیاسے ہیں اورخالی ایاغ شستہ رو، تاریک جاں،روشن دماغ! کم نگاہ و بے یقین اور نا امید ان کی آنکھیں دہر میں محرومِ دید! نو جواں ہیں منکرِ خود محوِ غیر ان کی مٹی سے بنی بنیادِ دیر! اپنے مقصد سے ہے مکتب بے خبر جذبِ دل کی راہ سے ہے دور تر! جاں سے اس نے نورِ فطرت دھو دیا اک گلِ رعنا نہ گلشن میں کھلا خشتِ کج رکھتا ہے یہ معمارِ حال شیر کو دیتا ہے یہ خوئے غزال علم جب رکھتا نہیں سوزِ حیات دل کو کیا حاصل ہو لطفِ واردات علم ہے شرح مقاماتِ خودی علم ہے تفسیرِ آیات خودی چاہیے دل میں ہو پیدا نارِ حس تا تُو جانے کہ تُو زر ہے کہ مس علمِ حق اول حواس آخر حضور اس کے آخر پر نہیں حاوی شعور سو کتابوں کا سبق تو نے پڑھا وہ سبق اچھا نظر سے جو ملا لوگ اس ملنے سے جو رکھتی ہے نظر مست ہوتے ہیں باندازِ دگر جس ہوائے صبح سے گل ہو چراغ لالہ اس بادِ سحر سے پُر ایاغ تھوڑا کھا کم بول کم سو بالعموم گرد اپنے صورتِ پرکار گھوم حق سے ہے انکار کرنا کافری ہے مگر انکارِ خود کافر تری ذات کے انکار سے وہ ہے عجول یہ عجول و ظالم و کور و جہول شیوئہ اخلاص کو کر اختیار دل سے گم کر خوفِ شاہ و شہر یار عدل سے قہر و رضا میں کام لے قصد سے فقر و غنا میں کام لے حکم مشکل ہو تو تاویلیں نہ ڈھونڈ اپنا ہی دل دیکھ قندیلیں نہ ڈھونڈ حفظِ جاں ہے ذکر و فکر بے حساب حفظِ تن ہے ضبطِ دل وقتِ شباب تو جہاں کا حکمراں ہے میرے شیر! حفظِ جان و تن سے یہ ہوتا ہے زیر سیر کی لذّت ہے مقصودِ سفر تو نہ اُڑ، گر آشیاں پر ہے نظر ماہ گردش میں ہے تا پائے مقام جادئہ انساں میں ہے منزل حرام زندگی کو مائلِ پرواز رکھ اس کی فطرت سے ہمیشہ ساز رکھ رزق ہے زاغ و زغن کا گور میں رزق شاہیں کاہے ماہ و ہور میں سر دیں ہے صدقِ قول اکل حلال خلوت و جلوت میں دیدارِ جمال راہِ دیں میں سخت ہو الماس بن دل لگا تو حق سے بے وسواس بن سرِّ دیں ہو جائے گا تجھ پر عیاں سن مظفر کی حکایت اے جواں تھا عمل کے حسن میں فردِ فرید حکمراں تھا با مقامِ بایزید اسپ اپنا تھا بہت اس کو عزیز اپنے راکب کی طرح بے مثل چیز اس کے آبا میں نجیبانِ عرب با وفا بے عیب پاکیزہ نسب مردِ مومن کو عزیز اے نکتہ رس کیا ہے بس قرآن و شمشیر و فرس کیا کہوں وصف اس کا وہ خیر الجیاد کوہ اور دریا پہ چلتا مثل باد روز ہیجا تھا نظر سے تیز تر اک بگولا طائفِ کوہ و کمر اس کی رَو میں فتنۂ یوم النشور پتھر اس کی ضربِ سُم سے چور چور ہوگیا اک دن وہ اسپ باد پا ناگہاں دردِ شکم میں مبتلا دی دوا میں مے اسے بیطار نے زندگی پائی نئی رہوار نے پر سوار اس پر نہ پھر سلطاں ہوا اے جواں یہ ہے کمالِ اتّقا دیں ہے کیا جلنا طلب میں روز و شب انتہا اس کی ہے عشق، آغاز ادب آبرو گل کی ہے اس کا رنگ و بو بے ادب بے رنگ و بو، بے آبرو دیکھتا ہوں جب جوانِ بے ادب دن مرا ہوتا ہے تیرہ مثلِ شب دل میں ہوتا ہے فزوں جوش و داد مجھ کو عہدِ مصطفیٰؐ آتا ہے یاد عہد سے اپنے بہت نالاں ہوں میں کاشِ عہدِ رفتہ میں پنہاں ہوں میں سترِ زن ہے زوج یا خاک لحد سترِ مرداں کیا ہے ترک یارِ بد حرفِ بد کو لب پہ لانا ہے خطا کافر و مومن ہیں سب خلق خدا ہے شرافت احترامِ آدمی تو سمجھ کیا ہے مقامِ آدمی آدمی کو ہے ضروری میل جول مہرباں ہو دوستی کی راہ کھول مردِ حق ہے اور یزداں کا طریق کافر و مومن پہ ہے یکساں شفیق! کفر و دیں کو لے سرِ پہنائے دل دل ہو گر دل سے گریزاں وائے دل دل اگرچہ ہے اسیر آب و گِل یہ تمام آفاق ہے آفاقِ دل ہو اگر قسمت سے شاہِ بحر و بر تو کسی صورت نہ ترکِ فقر کر سوز اس کا خفتہ تیری جاں میں ہے تیرے آبا سے ہے یہ دیرینہ مے کچھ سوائے دردِ دوراں سے نہ مانگ حق سے نعمت مانگ سلطاں سے نہ مانگ! ہیں بہت مردِ حق اندیش و بصیر ہو گئے جو فرطِ نعمت سے ضریر! سالہا کی سیر مثلِ آفتاب منعموں کی آنکھ میں دیکھا نہ آب اس پہ قرباں جو ہے درویشی اساس وائے وہ دل جو ہے یزداں ناشناس ڈھونڈ مسلم میں نہ تو وہ سوز و شوق وہ یقیں وہ رنگ وبو وہ درد و ذوق علم قرآں سے ہیں عالم بے نیاز اور صوفی گرگِ خونی، مُو دراز خانقاہوں میں ہے گرچہ ہا وہو ہے میٔ حق سے مگر خالی سبو یہ مسلمانانِ افرنگی مآب سمجھے ہیں کوثر اسے جو ہے سراب ناشناسِ سرِّ دیں ہیں سب کے سب اہل کیں ہیں اہل کیں ہیں سب کے سب خواص میں ہیں خیر اور خوبی حرام بہرہ ور صدق و صفا سے ہیں عوام کر تمیزِ اہل دین و اہل کیں ہم نشینِ حق کا ہو تو ہم نشیں کرگسوں کا رسم و آئیں اور ہے سطوتِ پروازِ شاہیں اور ہے مردِ حق کا وار ہے مانندِ برق اس کا ایندھن شہر و دشتِ غرب و شرق ہم ہیں محصورِ ظلامِ کائنات وہ شریکِ اہتمامِ کائنات وہ کلیم اور وہ مسیحا وہ خلیل وہ محمدؐ وہ کتاب اور جبرئیل وہ ہے مہرِ کائنات اہلِ دل اس کی ضو سے ہے حیاتِ اہلِ دل اپنی آتش میں جلائے گی تجھے پھر شہی کے گر سکھائے گی تجھے سوز سے اس کے ہی صاحب دل ہیں ہم ورنہ یکسر نقشِ آب و گِل ہیں ہم یہ زمانہ جس میں تو پیدا ہوا غرقِ تن ہے، جاں سے ہے ناآشنا جب بدن ارزاں ہوں اور ہو قحطِ جاں رہتے ہیں مردانِ حق خود میں نہاں کارگر ہوتی نہیں ہے جستجو گرچہ مردِ حق کھڑا ہو رُو برو تو مگر ہر آن رکھ ذوقِ طلب گر چہ ہوں درپیش صد رنج و تعب گر نہ تجھ کو قربِ مردِ حق ملے جو ملا ہے مجھ کو آباء سے وہ لے پیرِ رومی کو رفیقِ رہ بنا تا گداز و سوز دے تجھ کو خدا ہے اسے معلوم فرقِ مغز و پوست نقشِ پا اس کا ہے شمعِ کوئے دوست ہوں معانی اس کے کیوں کر دل نشیں ترجماں اس کے اسے سمجھے نہیں مثنوی سے رقصِ تن حاصل کیا رقصِ جاں سے ہیں مگر ناآشنا رقصِ تن گردش میں لائے خاک کو رقصِ جاں برہم کرے افلاک کو علم و حکم آتے ہیں رقصِ جاں سے ہاتھ اور زمین و آسماں بھی ان کے ساتھ فرد اس سے صاحبِ جذبِ کلیم ملت اس سے وارثِ ملکِ عظیم رقصِ جاں کا سیکھنا اک کام ہے ماسوا سے جنگ عین اسلام ہے حرص اور غم کا اگر ہے دل میں گھر رقص میں آتی نہیں جاں اے پسر ضعفِ ایمانی ہے دل گیری ہے غم جانِ بابا! نیمئہ پیری ہے غم حرص غافل فقرِ حاضر کا ہے نام خود پہ قاہر ہو جو ہوں اس کا غلام ہو سکونِ جاوداں سے بہرہ ور تو اگر ہو رقصِ جاں سے بہرہ ور جان لے اسرارِ دینِ مصطفی قبر میں بھی میں تجھے دوں گا دعا باب نمبر۱۸ پیامِ مَنثور اقبال نرے شاعر یانرے فلسفی نہ تھے۔ وہ مصلح بھی تھے، سیاسی رہنما بھی تھے۔ پنجاب مسلم لیگ کے سر کردہ لیڈر تھے۔ پنجاب صوبائی اسمبلی کے منتخب رکن بھی رہے۔ قائد اعظم کو اپنا قائد سمجھتے تھے۔ گول میز کانفرنس میں شریک ہوتے تھے۔ سیاسی بیانات و اعلانات جاری کرتے تھے۔ پریس کانفرنس کرتے تھے۔ مشاہیر سے خط وکتابت کرتے تھے ۔ سیاسی، ادبی وثقافتوں انجمنوں کی صدارت کرتے تھے، جہاں تقریریں کرتے تھے ، صدارتی خطبات ارشاد فرماتے تھے۔ مدارس میں الٰہیاتِ اسلامیہ پر لیکچر دیے جو کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ ان کی تقریروں ،تحریروں ، بیانات ، اعلانات اور خطوط میں ان کے عقائد و افکار نثر کی صورت میں بکھرے پڑے ہیں ۔ نو جوان نسل کے تعلق سے ان کے شاہکار نثر پاروں کا انتخاب یہاں شامل کیا جارہا ہے۔  اگلے مسلمانوں کانصب العین اسلام کی تاریخ دیکھو ۔ وہ کیا کہتی ہے؟ عرب کے خطے کو یورپین معماروں نے ردّی اور بے کار پتھر کا خطاب دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ اس پتھر پر کوئی بنیاد کھڑی نہیں ہو سکتی ۔ ایشیا اور یورپ کی قومیں عرب سے نفرت کرتی تھیں، مگر عربوں نے جب ہوش سنبھالا اور اپنے کس بل سے کام لیا، تو یہی پتھر دنیا کے ایوانِ تمدن کی محراب کی کلید بن گیا اور خدا کی قسم ،روما جیسی باجبروت سلطنت عربوں کے سیلاب کے آگے نہ ٹھہر سکی۔ یہ اس قوم کی حالت ہے جو اپنے بل پر کھڑی ہوئی۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے خدا ، اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دین اور اپنی قوت بازو پر بھروسا رکھ کر حاکموں سے مؤدبانہ حاجات طلب کریں اور بنی نوع انسان میں امن وامان قائم رکھیں ، کیونکہ اسلام شروفساد کی ممانعت کرتا ہے ۔ ان اصولوں کو مدّ نظر رکھ کر باقی اقوام سے ربط و اتحاد بڑھائیں اور جو کچھ سیکھ سکتے ہیں ، انھیں سکھائیں ۔ جو سکھا سکتے ہیں ، ان سے سیکھیں ، اور حتی الوسع ہمارا وہ نصب العین ہو جو اگلے مسلمانوں کا تھا۔ ‘‘ جلسئہ عام ،بیرون موچی دروازہ ، لاہور۔یکم فروری ۱۹۱۲؁ء اسلام میں جبری تعلیم اس جلسے میں مسٹر گوکھلے کے تعلیمی بل کے جبریہ پہلو پر غور ہوگا۔ لفظ جبر سے کسی کو کھٹکا نہ ہونا چاہیے۔جس طرح چیچک کا ٹیکا لازمی اور جبری قرار دیا گیا ہے اور یہ لزوم وجبر اس شخص کے حق میں کسی طرح مضر نہیں ہو سکتا جس کے ٹیکا لگایا جاتا ہے اسی طرح جبریہ تعلیم بھی قابل ِ اعتراض متصور نہیں ہوسکتی ۔ جبریہ تعلیم بھی گویا روحانی چیچک کا ٹیکا ہے ۔ اسلام میں جبر کی تعلیم موجود ہے ۔ مسلمانوں کو حکم ہے کہ اپنے بچوں کو زبردستی نماز پڑھائیں ۔ جلسہ، اسلامیہ کالج،لاہو ر۔ ۱۸؍فروری ۱۹۱۲؁ء اسلام اور اشتراکیت میںمسلمان ہوں ۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل وبراہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد ِ اعتدال سے تجاوز کرجائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے ۔ لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے،جیسا کہ بولشویک تجویز کرتے ہیں ۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے ۔ روسی بالشوزم یورپ کی ناعاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردّ ِعمل ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کرکے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائے گی جس کے اصولِ سیاسی یا تو خالص اسلامی ہوںگے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ مکتوب بہ نام روزنامہ ’’زمیندار‘‘ لاہور ۔ ۲۴؍جون ۱۹۲۳؁ء قلب کی فطرت مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے ۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا۔ راتیں غور وفکر میں گزار دیں ، تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہو کر عرب حضور سرورِ کائناتؐ کی صحبت میں تیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے۔ وہ حقیقت اتحاد واتفاق میں ہے جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے ، کاش ہر مسلمان کے دل میں بیٹھ جائے ۔نسلی اور اعتقادی اختلافات میں تنگ نظری اور تعصّب نے مسلمانوں کو تباہ کردیا ۔ اختلاف رائے ایک طبعی امر ہے ، اس لیے کہ طبائع مختلف ہو تی ہیں ۔ ہر شخص کی نظر مختلف ہے ۔ اسلوبِ فکر مختلف ہوتی ہے ۔ لیکن اس اختلاف کو اس طریقے پر رکھنا چاہیے ، جس طرح کہ ہمارے آبائو اجداد نے اسے رکھا ۔ اس صورت میں اختلاف رحمت ہے ۔ جب لوگو ں میں تنگ نظری آجاتی ہے تو یہ زحمت بن جاتا ہے ۔ مسلمانو!میں تمھیں کہتا ہوں کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہوجائو ۔ اختلاف بھی کرو تو اپنے آباء کی طرح ۔ تنگ نظری چھوڑ دو ۔ میں کہتا ہوں کہ تنگ نظری چھوڑنے سے سب اختلافات مٹ سکتے ہیں ۔ میں کہتا ہو ں کہ مخالف کو بھی نرمی سے سمجھائو ۔ قلب کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ محبت سے رام ہو سکتا ہے ۔ مخالفت اور عداوت سے رام نہیں ہو سکتا ۔ انتخابات کے سلسلے میں ایک تقریر ، لاہور۔۱۹؍نومبر۱۹۲۶؁ء مذہب اور سائنس کا تعلق مذہب ، فلسفہ ، طبیعیات اور دیگر علوم وفنون سب کے سب مختلف راستے ہیں جو ایک ہی منزلِ مقصود پر جاکر ختم ہوتے ہیں ۔ مذہب اور سائنس کے تصادم کا خیال اسلامی نہیں کیوں کہ سائنس یعنی علوم جدیدہ اور فنونِ حاضرہ کے باب کھولنے والے تو مسلمان ہی ہیں اور اسلام ہی نے انسان کو منطق کا استقرائی طریق سکھایا اور علوم کی بنیاد نظریات اور قیاسات پر پر کھنے کے طریق کو مسترد کرنے کی تعلیم دی اور یہی بات علوم جدیدہ کی پیدائش کا موجب ہوئی۔ قرآن کریم کے ہر صفحے پر انسان کو مشاہدے اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور منتہائے نظر، یہ بتایا گیا ہے کہ قوائے فطرت کو مسخر کیا جائے ۔ چناں چہ قرآن پاک تو صاف الفاظ میں انسان کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر وہ قوائے فطرت پر غلبہ حاصل کرلیں گے تو ستاروں سے بھی پرے پہنچنے کے قابل ہو جائیں گے۔ مسلمانوں میں فرقہ معتزلہ اور دیگر فرقوں کے درمیان جو تنازع پیدا ہو اتھا ، وہ اس قسم کا نہ تھا جو یورپ کے روشن دماغ علماء اور تاریک خیال پادریوں کے درمیان پیدا ہو ا ، بلکہ وہ تو ایک علمی بحث تھی، جس کا موضوع محض یہ تھا کہ آیا ہمیں الہامی کلامِ ربانی کو عقل انسانی کے معیار پر پرکھنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ‘‘ جلسہ اسلامیہ کالج ، لاہور۔ ۴؍مارچ۱۹۲۷؁ء فنافی اللہ بھی نہیں حقیقت کا مشاہدہ دو طرح سے ہوتا ہے ۔ سورۂ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں آیا ہے: وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَ الْفُؤَا دَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولاً ’’اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں کیونکہ بے شک تمہارے کا ن، آنکھ اور دل سب کے متعلق سوال ہوگا۔‘‘ اس آیت میں حصول ِ علم کے ذریعوں کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک ذریعہ تو سمع و بصر ہے اور دوسرا ذریعہ انسان کا قلب ہے ۔ یعنی یہ نہ ہوکہ سمع وبصر کو چھوڑ کر کلی طور پر قلب کی طرف متوجہ ہو جائو اور ایسا بھی نہ ہوکہ قلب سے غافل ہو کر یورپ والو ں کی طرح بالکل سمع وبصر کے ہو رہو۔ مسلمانوں نے اپنی توجہات قلب پر مرتکز کردیں اور سمع و بصر کے پورا کام نہ لیا۔ نظام ِ عالم کی آفرینش یو ں ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی نمو کے لیے یا اپنے آپ کو ظاہر ونمایاں کرنے کے لیے دنیا کو پیدا کیا۔ اس خطِ سفر کا آخری نقطہ عالم ظاہر ہے ۔ اب حقیقت تک پہنچنے کی راہ یہ ہے کہ اس آخری نقطے سے الٹا سفر کیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مظاہر کو چھوڑ کر حقیقت کی طرف متوجہ ہوں ۔ اس کا مقصد یہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان مشاہدئہ حقیقت کے ساتھ اپنے آپ کو فنا کردے ۔ اسلام کا عندیہ یہ ہے کہ حقیقت کا مشاہدہ مردانہ وار کیا جائے۔ اسلامی نقطئہ خیال میں یہی معراج ہے کہ مشاہدئہ ذات کے بعد بھی عبودیت قائم ہے ، لیکن تمرّد و سرکشی کے لیے نہیں ، بلکہ خدمت وعبدیت کے لیے۔ مسلم کو کسی چیز میں فنا نہ ہو نا چایئے، گو یہ فنافی اللہ کیوں نہ ہو۔ انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس سے خطاب۔ ۲۰؍اپریل ۱۹۲۷؁ء  ہندوئوں کی ذہنیت میں حیران ہوں کہ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کی ذہنیت اختیار کرنے کی ہندوئوں کو کیوں ضرورت پڑی ۔ مسلمان تعداد میں کم ہیں ۔ اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں ۔ تعلیم میں پس ماندہ ہیں ۔ ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں ۔ حکومت انھیں آسانی سے چکنی چپڑی باتیں کرکے پھسلا لیتی ہے، ہندو انھیں پھسلالیتے ہیں ۔ میں حیران ہوں کہ ہندوئو ں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوئوں کی ذہنیت ہے۔ جداگانہ طریق انتخاب کے حق میں صوبائی مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک تقریر ۔ یکم مئی۱۹۲۷؁ء تحریر کی آزادی ذاتی طور پر میں اخبارات کی آزادی کا بہت بڑی حد تک قائل ہوں ، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں آزادی کا حامی ہوں ، لیکن میں دلائل سے متاثر نہیں ہو سکتا اور آزادی اور لائسنس کو یکساں نہیں سمجھ سکتا ۔ حقیقی آزادی اخلاقی ضبطِ نفس کا نتیجہ ہو اکرتی ہے ۔۔۔۔۔ اگر دیسی اخبارات سنسنی پھیلانے والے عنوان لکھنا چھوڑ دیں ، تقریروں وغیرہ کی رپورٹ کرنے کے لیے بہترآدمی رکھیں۔ ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات کو ، جو کسی اور طریقے کی معاشرت میں جاذبِ توجہ نہیں ہو سکتے ، فرقہ وارانہ رنگ دینے سے احتراز کرنے لگیں تو دیسی زبانوں کے اخبارات کی تعلیمی قدر وقیمت بہت بڑھ سکتی ہے۔ ایسے ملک میں، جہاں عام اشخاص نقاد نہیں اور سطحی عقل رکھنے والے ہیں ، ایسی احتیاط نہایت ضروری ہے ۔ بہرحال اس اعلان کا مقصد اخبارات کے لب ولہجے کی اصلاح کے سوا اور کچھ نہیں ۔ یہ ان کی آزادی کو سلب کرنا نہیں۔‘‘ ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ کے نمائندے سے انٹر ویو۔۲۳؍ مئی ۱۹۲۷؁ء امتِ مسلمہ کا اجتماع میں اس حقیقت کا اعتراف کرتاہوں کہ آج سے نصف صدی قبل سرسید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کے لیے جو راہِ عمل قائم کی تھی ، وہ صحیح تھی اور تلخ تجربوں کے بعد ہمیں اس راہِ عمل کی اہمیت محسوس ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔ آج میں نہایت صاف لفظوں میں کہنا چاہتاہوں کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں بہ حیثیت مسلمان ہونے کے زندہ رہنا ہے تو ان کو جلداز جلد اپنی اصلاح وترقی کے لیے سعی وکو شش کرنی چاہیے اور جلد ازجلد ایک علیحدہ پولیٹکل پروگرام بنانا چاہیے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بعض حصّے ایسے ہیں ، جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بعض حصّے ایسے ہیں ، جن میں وہ قلیل تعداد میں ہیں ۔ ان حالات میں ہم کو علیحدہ طور پر ایک پولیٹیکل پروگرام بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔ آج اس کانفرنس میں متفقہ طور پر جو ریزولیوشن پیش ہوا ہے ، وہ نہایت صحیح ہے اور اس کی صحت کے لیے میرے پاس ایک مذہبی دلیل ہے اور وہ یہ کہ ہمارے آقائے نامدار حضور سرور عالم ؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میری امت کا اجتماع کبھی گمراہی پر نہ ہو گا۔ آل پارٹیز مسلم کانفرنس ،دہلی ۔یکم جنوری ۱۹۲۹ء ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ فقہ کی طرف متوجہ ہوں ۔ جو حقوق ملتِ اسلامیہ نے عورتوں کو دیے ہیں، وہ ان کے حصول پر اصرار کریں ۔ شوہر، باپ، بھائی کون سیاہ دل مرد ہوگا جو آپ کو آپ کے حقوق دینے سے انکار کرے گا۔ ہمیں تو ملک میںمسلمانوں کے اندر اس قسم کی رائے عامہ پیدا کرنی چاہیے کہ جب تک یہ طے نہ پاچکے کہ آئندہ (شادہ شدہ) زندگی میں عورتوں کے کون کون سے حقوق ہوں گے ، اس وقت تک نکاح نہ پڑھایا جائے ۔ یہ تحریک بہت زور سے شروع ہونی چاہیے ۔ مسلمان عورتیں مسلمان قوم کی بہترین روایات کی حفاظت کرسکتی ہیں ۔ بشرطیکہ وہ اصلاح کا صحیح اور عقل مندانہ رستہ اختیار کریں اور ترکی یادیگر یورپین ممالک کی عورتوں کی اندھا دھند تقلید کے درپے نہ ہوجائیں۔ خطاب: انجمن خواتینِ اسلام ، مدراس ۷ جنوری ۱۹۲۹ء قدامت پسند اور ترقی پسند اس امر کے یقینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ عالم اسلام میں قدامت پسند جذبات اور لبرل خیالات میں جنگ شروع ہوگئی ہے ۔ اغلب ہے کہ قدامت پرست اسلام جدوجہد کے بغیر سر تسلیم خم نہیں کرے گا ۔ اس لیے ہر ایک ملک کے مسلم مصلحین کو چاہیے کہ نہ صرف اسلام کی حقیقی روایات کو غور کی نگاہ سے دیکھیں ،بلکہ جدید تہذیب کی صحیح اندر ونی تصویر کا بھی احتیاط سے مطالعہ کریں، جو بے شمار حالتوں میں اسلامی تہذیب کی مزید ترقی کا درجہ رکھتی ہے ۔ جو چیزیں غیر ضروری ہیں ان کو ملتوی کردینا چاہیے ، کیوںکہ صرف ضروری چیزیں فی الوقت قابل لحاظ ہیں۔ یہ امر صحیح نہیں ہے کہ مجلسی معاملات میں قدامت پسندانہ طاقتوں کو بالکل نظر انداز کردیا جائے کیوں کہ انسانی زندگی اپنی اصلی روایات کا بوجھ کندھوں پر اٹھا کر منزل ارتقأ طے کرتی ہے ۔ انسان نے اپنی معاشرتی تہذیب کو تشکیل دینے کا سبق حال ہی میں سیکھا ہے ، اس لیے جائز حدود سے تجاوز نہیں کر نا چاہئیے ۔ افغانستان پر بچہ سقہ کے قبضے کے خلاف انٹرویو ۔۲۶ فروری ۱۹۲۹ء دیوارِ گریہ کی حقیقت فلسطین میں مسلمان اور ان کے بیوی بچے شہید کیے جارہے ہیں۔ اس ہولناک سفاکی کا مرکز یروشلم ہے جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے ۔ اس مسجد کا تعلق حضرت خواجۂ دو جہاں ؐ کے معراج مبارک سے ہے اور معراج ایک دینی حقیقت ہے ، جس کا تعلق مسلمانوں کے گہرے جذبات کے ساتھ ہے ۔ صدیاں گزر گئیں کہ ایک معبد تیار ہوا تھا، جسے ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ معبد مسلمانوں کے یروشلم فتح کرنے سے بہت پہلے برباد ہوگیا ۔ آنحضرت ؐ نے معراج کا ذکر حضر ت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تو انھیں ہیکل یا مسجد اقصیٰ کے صحیح موقع و محل سے بھی مطلع کردیا ۔ فتح یروشلم کے بعد حضرت عمر ؓ بہ نفسِ نفیس یروشلم تشریف لے گئے تو انھوں نے مسمار شدہ’’ ہیکل سلیمانی‘‘ کا محلِ وقوع دریافت فرمایا اور وہ جگہ ڈھونڈ لی۔ اس وقت اس جگہ گھوڑوں کی لید جمع تھی ، جسے انھوں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ۔ مسلمانوں نے جب اپنے خلیفہ کو ایسا کرتے دیکھا تو انھوں نے بھی جگہ صاف کرنی شروع کردی اور یہ میدان پاک ہوگیا۔ عین اسی جگہ مسلمانوں نے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی ، جس کانام مسجد اقصیٰ ہے ۔ یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں تویہ کہیں مذکور نہیںہے کہ موجودہ مسجد اقصیٰ اسی جگہ پر واقع ہے جہاں ہیکل سلیمانی واقع تھا۔ اس تشخیص کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے ۔ یہود و نصاریٰ نے اس کی زیارت کے لیے اس وقت آنا شروع کیا جبکہ یہ مشخّص ہوچکی تھی ۔ ترک یہودیوں کے ساتھ غیر معمولی رواداری کا سلوک کرتے رہے ۔ یہودیوں کی خواہش پر انھیں مخصوص اوقات میں دیوارِ براق کے ساتھ کھڑے ہو کر گریہ وبکا کرنے کی اجازت عطا کی ۔ اس وجہ سے اس دیوار کا نام ان کی اصطلاح میں ’’دیوارِ گریہ ‘‘ مشہور ہوگیا ۔ شریعتِ اسلامیہ کی رو سے مسجد اقصیٰ کا سارا احاطہ وقف ہے ۔ جس قبضے اور تصرف کا یہود اب دعویٰ کرتے ہیں ، قانونی اور تاریخی اعتبار سے اس کا حق انھیں ہر گز نہیں پہنچتا ، سوائے اس کے کہ ترکوں نے انھیں گریہ کرنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ یومِ فلسطین ،لاہور ۔ صدارتی خطبہ۔۷ ستمبر ۱۹۲۹ء مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب عزیز طلبہ ! ممکن ہے کہ آپ کو یہ اندیشہ ہوکہ میں آپ کے سپاس نامے کے جواب میں ایک ناصح مشفق کی طرح آپ کو کوئی نصیحت کرنے یا بعض نکاتِ حکمت پیش کرنے لگوں گا، لیکن آپ سے فوراً اور صاف کہہ دیتا ہوں کہ میرے پاس اس قسم کی پند و نصیحت کچھ نہیں اور نہ میرے پاس کوئی نکتۂ حکمت ایسا ہے جو دوسروں کے لیے بطورِ دستور العمل پیش کر سکوں ، مگر پھر بھی میں ایک دو باتیں ایسی کہوں گا جو کتابوں پر نہیں ، میرے ذاتی تجربے پر مبنی ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ جب سے ہمارے تعلقات یورپ اور خصوصاً انگلستان سے قائم ہوئے ہیں ، اس وقت سے بہت سی چیزیں ہم تک وہاں سے پہنچی ہیں۔ سب سے اول چیز انگریزی لٹریچر ہے جو ہمارے بہت سے نوجوان مصنفین کے لیے تخلیق مضامین کا ذریعہ ہوا ہے ، وہ مضامین جنھوں نے موجودہ نسل کی ذہنیت کی تشکیل و توضیح میں بہت کچھ حصہ لیا ہے ۔ دوسری بات جو ہم کو انگلستان سے ملی ہے ، وہ افکار کی عادت ہے ۔ میرے نزدیک یہ عادت اس ملک کے لیے بہترین نعمت ہے جس نے واقعات کے خلاف آنکھیں بند کرلی ہیں اور مسلسل طور پر محض خیال آرائیوں سے کام لیتا رہا ہے ۔ الغرض فکر ِ ثقیل کی عادت ہم کوانگلستان سے ملی ہے اوردرحقیقت یہی وہ چیز ہے جس کی اس وقت تمام مشرق کو ضرورت ہے ۔ تیسری چیز جو انگلستان نے ہم کو دی ہے ، وہ ایک مشتبہ قدرو قیمت کی چیز ہے اور وہ ’’ڈیمو کریسی‘‘ ہے ۔ جس صورت میں یہ ’’ڈیموکریسی‘‘ آچکی ہے اور جو بہ مقدارکثیر آئندہ آنے والی ہے ، وہ افسوس ہے کہ میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ ذاتی طور پر میں اس ’’ ڈیموکریسی ‘‘ کا معتقد نہیں ہوں اور محض اس لیے اس کو گوارا کر لیتا ہوں کہ اس کا فی الحال کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ مگر خیر اب چوں کہ یہ ’’ڈیمو کریسی‘‘ انگلستان سے آچکی ہے ، اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ موجودہ نسلِ نوجواناں کے لیے کس قدر مفید ہے واضح ہوکہ ’’ڈیمو کریسی ‘‘ کے معنی صاف، علیٰ رؤس الاشہاد اور آزادیِ بحث و تمحیص ہیں۔ ایک دوسری بات جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ ہمارا انکشافِ ماضی ہے ۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اپنے ماضی سے محبت کرتے ہیں۔ میں تو مستقبل کا معتقد ہوں ، مگر ماضی کی ضرورت مجھے اس لیے کہ میں حال کو سمجھوں ۔اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سرچشمۂ تہذیب و شائستگی کو سمجھا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آج دنیائے اسلام میں کیا ہورہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ ماضی کو سمجھیں ۔ چوں کہ ہم جدید تہذیب و شائستگی کے اصولوں سے ناواقف ہیں، اس لیے ہم علوم جدیدہ کو حاصل کرنے میں دیگر اقوام سے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظر ڈالیں جن کے ذریعے سے ہم ماضی و مستقبل سے وابستہ ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ علوم جدیدہ پر اصولِ استقرائی عائد کیا گیا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو قرآن شریف نے دنیا بھر کوعطا فرمائی ہے۔ اس طریقہ استقرائی کے نتائج و ثمرات ہم کو آج نظر آرہے ہیں ۔ میں گزشتہ بیس برس سے قرآن شریف کا بغور مطالعہ کررہا ہوں ، ہر روز تلاوت کرتا ہوں ۔ مگر ابھی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے کچھ حصوں کو سمجھ گیا ہوں ۔ اگر خدانے توفیق دی اور فرصت ہوئی تو میں ایک دن کامل تاریخ اس بات کی قلم بند کروں گا کہ دنیائے جدیدہ اس مطمحِ حیات سے کس طرح ترقی کرتی ہوئی بنی ہے جو قرآن شریف نے ظاہر کیا ہے ۔ میںامید کرتاہوں کہ یہ یونیورسٹی ایسے لوگوں کی ایک تعداد پیدا کردے گی جو مطالعۂ قرآن میں اپنی زندگیاں صرف کردیں گے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ میرے ساتھ مل کر کام کریں ۔ گزشتہ چند سال سے میں صرف اپنے جسدِ خاکی کا مالک ہوں ۔ میری روح ہمیشہ آپ کی خدمات کے لیے حاضر رہی ہے اور جب تک میں زندہ ہوں ، وہ آپ کی خدمت کرتی رہے گی ۔ ‘‘ اجلاس مسلم یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین ۔۲۹ نومبر ۱۹۲۹ء قوم پرستی کا مفہوم پہلے معلوم کرنا چاہیے کہ قوم پرستی کا مفہوم کیا ہے ۔ نیشنلزم کا جو تجربہ یورپ میں ہوا،اس کانتیجہ بے دینی اورلامذہبی کے سوا کچھ نہیں نکلا ۔ وہی ہندوستان میں ہورہا ہے ۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ حکم موجود ہے جس میں فرمایا گیا تھا کہ آج میں نسل، ذات پات اور برادری کے تمام امتیازات کو پائوں کے نیچے کچلتاہوں ۔ تم سب مسلمان ہو اور یہی تمھارا صحیح نام ہے ۔ ہندوستان میں جس قدر اقوام ہیں سب چاہتی ہیں کہ ان کی خصوصیات باقی رہیں ، اس لیے مسلمان بھی یہی چاہتے ہیں ۔ مسلمان دوسروں پر حکومت نہیں چاہتے ، اور نہ یہ چاہتے ہیں ، دوسرے ان پر حکمران ہوں اور وہ ان کے غلام بنے رہیں ۔ مسلمان نوجوانوں کو چاہیے کہ سب سے زیادہ قربانی کرنے کو تیار رہیں۔ مسلم نوجوانوں کو چاہیے کہ منظم ہوجائیں اور یہ کوشش اس لیے ہیں کہ آپ گونڈ اور بھیل نہ بن جائیں ۔ ابھی آپ کو ایک شدید جنگ میں قربانیاں کرنی ہیں اور وہ سرمایہ داری کی لعنت کے خلاف جنگ ہے ۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اس کے لیے بھی ہر قسم کی قربانی کرنے کو تیار رہیں۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ کوئی دوسری قوم یا انگریز اس کی دست گیری کرے گا تو وہ بد بخت ہے ۔ اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائو، ورنہ تمھیں کوئی حق نہیں کہ زندہ رہو۔ جلسہ عام، بیرونِ موچی دروازہ ،لاہور ۔۲ مئی ۱۹۳۱ء یومِ کشمیر پر اپیل مسلمانو!پے درپے حملے کرکے تمہارے دشمن کو اب یہ گمان ہوگیا ہے کہ مسلمان ایک مردہ قوم ہے ۔ اس گمان کو غلط ثابت کرنے کے لیے آپ کا یہ فرض ہے کہ ’’ یوم کشمیر‘‘ کو کامیاب بنائیں۔ اور دشمن پر عملاً ثابت کردیں کہ آپ ظلم و تعدی کی برداشت کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ مسلمانانِ کشمیر پر مظالم کے خلاف۱۴ اگست ۱۹۳۱ء نوجوانوں کو نصیحت گزشتہ دس سال سے ہم اپنے اقتصادی و سیاسی فوائد کو پس پشت ڈال کر کانگریس اور ہندوئوں کے ساتھ اتحاد کی کوشش کرتے رہے ،لیکن اس میں ہم کو برابر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔لہٰذا اب اگر لندن میں (گول کانفرنس)بھی فرقہ وار اتحاد کی کوئی قابل اطمینان صورت نہ نکلی اور مکمل ’’پروانشل اٹانومی‘‘ نہ دی گئی اور مرکزی حکومت میں ان کا کافی خیال نہ کیا گیا تو مسلمانان ہند کو اجتماعی زندگی پر انفرادی زندگی کو قربان کرنا پڑے گا ، اور مجھے یقین ہے کہ اگر بنگال اور پنجاب کی اکثریت اور مسلمانوں کے دیگر مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو جو دستورِ اساسی بھی ہندوستان کو دیا جائے گا، مسلمان ہند اس کے پرخچے اڑا دیں گے ۔ سن رسیدہ نسل نے نوجوانوں کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کرنے کا کام جیسا چاہیے تھا، ہرگز نہیں کیا۔ لہٰذا میں نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ قرآن پاک کی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھیں ، اور اگر اُ ن کو زندہ رہنا ہے تو وہ اُن قربانیوں کے لیے تیار رہیں ، جو ہمیشہ سے زیادہ ان کو آئندہ دینی ہوگی ۔ دہلی صوبہ مسلم کانفرنس ۹ ستمبر ۱۹۳۱ء اسلام کے اندرونی دشمن اسلام کے سوا دنیا کی کوئی طاقت اس الحاد اورمادّیت کا مقابلہ کامیابی سے نہیں کرسکتی جو یورپ سے نشرو اشاعت حاصل کررہا ہے ۔ مجھے اسلام کے خارجی دشمنوں سے کوئی خطرہ نہیں ۔ میرے خیال میں اگر کوئی خطرہ ہے تو اندرونی دشمنوں سے ہے ۔ مؤتمر عالم اسلامی ، یروشلم ۔ ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ء جاوید اقبال کے نام مکتوب میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ میں اس مسجد کے دیکھنے کے لیے زندہ رہا ۔ یہ مسجد تمام دنیا کی مساجد سے بہتر ہے ۔ خدا کرے، تم جوان ہو کر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو۔ ۹ فروری ۱۹۳۲ء رات کے تارے جو اپنی چمک دمک کے لیے تاریکی کے محتاج ہیں اور جو محض روشنی کی چنگاریاں ہیں، ان کی عمر اس قدرلمبی ہے کہ انسانی عقل اس کا اندازہ کرنے سے قاصر ہے ۔ پھر انسان جو قدرت کا روشن ترین ستارہ ہے ، کیا ایک عارضی زندگی رکھتا ہے اور روشنی کی آسمانی چنگاری سے بھی گیا گزرا ہے ؟ نہیں اس کی عمر ستاروں کی عمر سے بدرجہا زیادہ ہے ۔ یہ ایک نہ بجھنے والا چراغ ہے ۔ (روزگار فقیر۔ ۱۴۱) آدمی اگر کچھ وقت کے بعد اپنے مصائب اور غم کو بھول جاتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ وقت میں کوئی پوشیدہ قوت ہے جس سے وہ انسانی غموں کو پرانا کرکے فنا کر دیتا ہے ۔ ہم جو مرنے والوں کو فراموش کردیتے ہیں تو یہ فراموشی وقت کے گزر جانے کا اثر نہیں بلکہ ہماری فطرت میں ایک احساس مخفی ہے ،اور وہ یہ ہے کہ انسان مر کر فنا نہیں ہوتا ۔ لطیف احساس کی وجہ سے ہمارا غم دور ہوجاتا ہے ۔ بس گزرے ہوئے عزیزوں کی طرف سے بے پروائی اور گونہ غفلت روح کے اس احساس کی وجہ سے ہے کہ ہمارے عزیز زندہ موجود ہیں اگر وہ حقیقت میں فنا ہوچکے ہوتے تو یقینا ہمارا غم کبھی ختم نہ ہوتا ۔ (روزگارِ فقیر ۱۴۲) زندگی میں کامیابی کا انحصار عزم پر ہے نہ کہ عقل پر (شذرات ۱۴۲) پندار کی تسکین میں ہمارے لیے ایک معاشی پہلو بھی ہے آپ مجھے’’ہسپتال اسسٹنٹ ‘‘ کے بجائے ’’سب اسسٹنٹ سرجن ‘‘ کہیں تو میں بالکل مطمئن ہوجائوں گا ، خواہ آپ میری تنخواہ میں کوئی اضافہ نہ کریں ۔(شذرات۔ ۶۹) بلند حوصلگی ، عالی ظرفی ، سخاوت ، اور اپنی روایات اور قوت پر جائز فخر ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔ (شذرات ۔ ۷۷) کسی معاشرے میں مذہب کا سب سے بڑا امین و محافظ کون ہوتا ہے ؟ عورت ہوتی ہے ۔ (شذرات ۔۸۵) اپنی حدود کو پہچانیے اپنی صلاحیتوں کو پرکھیے۔ پھر زندگی میں آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ (شذرات ۔۱۴۲) قومیں شعراء کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اورسیاست دانوں کے ہاتھوں میں پلتی ہیں اور مرجاتی ہیں ۔ (شذرات ۔ ۱۴۸) ضبط نفس افراد میں ہوتو خاندانوں کی تعمیر ہوتی ہے ۔ قوموں میں ہو تو سلطنتیں قائم ہوتی ہیں ۔ (شذرات ۔ ۱۳۶) محبت اکسیر سے بڑھ کر ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اکسیر ادنیٰ دھاتوں کو سونا بادیتی ہے، لیکن محبت تمام سفلی جذبات کو خود اپنے پاکیزہ وجود میں تبدیل کردیتی ہے ۔ (شذرات ۔ ۱۱۵) اسلام ذاتی رائے کا معاملہ نہیں ہے ۔ (حرف ِاقبال ۔۶۱) درخت جڑ سے نہیں، پھل سے پہچانا جاتا ہے ۔ (حرفِ اقبال ۔۱۳۲) ایک زندہ اورسوچنے والے انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے بدل سکے ۔ (حرف اقبال ۔۱۳۲) اسلام میں نماز باجماعت حصول ِ معرفت ہی کا سرچشمہ نہیں ، اس کی قدرقیمت کچھ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر ہے ۔ (خطبات ۔۱۴۱) اگر ہم چاہتے ہیں کہ عبادت کا مقصد زیادہ کامیابی سے حاصل ہوسکے تو اس کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اسے اجتماعی شکل دیں ۔ (خطبات ۱۳۸) قرآن مجید کے نزدیک تو انسان ہونا ، نام ہی اس بات کا ہے کہ ہر قسم کی سختیاں اور مصائب برداشت کیے جائیں ۔ (خطبات ۱۳۵) علم کی جستجو جس رنگ میں بھی کی جائے ، عبادت ہی کی ایک شکل ہے ۔ (خطبات ۔۱۳۷) قرآن مجید کی روح سے کائنات میں اضافہ ممکن ہے ۔(خطبات ۔۸۵) زندگی کا راستہ موت در موت سے گزرتا ہے ۔ (خطبا ت ۔۸۴) اگر انسان پہل نہیں کرتا ۔ اپنی ذات کی وسعتوں اور گونا گوں صلاحیتوں کو ترقی نہیں دیتا ، زندگی کی بڑھتی ہوئی رَو کا کوئی تقاضا اپنی اندرونی ذات میں محسوس نہیں کرتا تو اس کی روح پتھر کی طرح سخت ہوجاتی اور وہ گر کر بے جان مادہ کی سطح پر جا پہنچتاہے ۔ (خطبات ۔ ۱۹) انسانی سیرت کا تقاضا ہے کہ جوں جوں زمانہ گزرے ، اس میں سختی اور پختگی پیدا ہوتی جائے ۔ (خطبات ۔۱۸۶) تغیر و تبدل وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے ۔( خطبا ت۔۲۲۷) یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے ، وہ معض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے ۔ قومیت کے اصول صرف اسلام ہی نے بتائے ہیں، جن کی پختگی اور پائیداری مرورِایام سے متاثر نہیں ہوسکتی (مکاتیب اقبال ۔ ۹) آزردگی اور پریشاں خاطری مسلمان کا شیوہ نہیں ۔ اسلام کی حقیقت فقر ہے۔(مکتوباتِ اقبال ۔۳۰۳) اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کے شوروغوغا میں آپ کی آواز سنی جائے توا ٓپ کی روح پر محض ایک ہی خیال کا غلبہ ہونا چاہیے۔ مقصدِ واحد کی لگن والا شخص ہی سیاسی اور معاشرتی انقلابات پیدا کرتا ہے ، سلطنتیں قائم کرتا ہے اوردنیا کو آئین عطا کرتا ہے ۔ (شذرات ۔۱۶۹) خدا اور شیطان دونوں انسان کو مواقع فراہم کرتے ہیں اور یہ اسی پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان مواقع سے جیسا مناسب سمجھے فائدہ اٹھائے ۔ (شذرات ۔ ۱۵۲) راوی کے کنارے غروب آفتاب کے ایک پر اجلال منظر کے مقابلے میں آپ کے کتب خانے کا سارا حیرت انگیز کتابی علم و دانش ہیچ ہے ۔ (شذرات ۔ ۱۵۱) اگر آپ ایک بڑے کتب خانے کے مالک ہیں اور اس کی ساری کتابیں آپ کے علم میں ہیں تو اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ امیر ہیں ، لیکن ضروری نہیں کہ آپ مفکر بھی ہوں ۔ آپ کے بڑے کتب خانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ بہت سے آدمیوں کی فکری خدمات حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔(شذرات ۔۱۴۴) ریاضی کے ایک خط میں اتنی رسائی ممکن نہیں ۔لیکن شاعر کا ایک خط ِ مصرع لا محدودیت سے ہم کنار ہوسکتا ہے ۔ (شذرات ۔۱۳۹) اسلام اور عیسائیت دونوں کو ایک مشترک حریف یعنی بت برستی سے نبٹنا پڑا ، لیکن فرق یہ ہے کہ عیسائیت نے اپنے حریف سے سمجھوتا کرلیا ، اسلام نے اسے بالکل نیست و نابود کردیا۔ (شذرات ۔ ۱۳۶) جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہوجائے توپھر اس قوم کا نقطۂ نگاہ بدل جایا کرتا ہے ۔ ان کے نزدیک توانائی ایک حسین و جمیل شے ہوجاتی ہے اورترکِ دنیا اور رہبانیت موجب ِ تسکین۔ (اقبال نامہ ۴۵) سیاست مسلمانوں میں کوئی علیحدہ شے نہیں بلکہ خالص مذہبی نکتۂ خیال سے کچھ شے بھی نہیں اور اگر کچھ ہے تو مذہب کی لونڈی ہے ۔ (مکاتیب اقبال ۔۱۰) میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھر میں علی الصبح تلاوتِ قرآن مجید کی آواز آئے ۔ (گفتارِ اقبال ۔۲۱۳) کوئی قوم ،قوم نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ ابتلائوں میں گرفتار نہ ہو۔ (گفتارِ اقبال۔۴۲) اگر میری روح کے عمیق ترین خیالات کبھی پبلک پر ظاہر ہوجائیں ، اگر وہ باتیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں ، کبھی سامنے آجائیں تو مجھے یقین ہے کہ دنیا میرے انتقال کے بعد ایک نہ ایک دن بالضرور میری پرستش کرے گی ۔ وہ میری کوتاہیوں کو بھلا دے گی اور آنسوئوں کی شکل میں خراجِ تحسین ادا کرے گی ۔ (اقبال از عطیہ بیگم ۔۸۲) کتابیات اس کتاب کی تسوید وتالیف کے لیے علامہ اقبال کے تمام شعری مجموعوں کے علاوہ ان کے خطبات ، تقاریر و مکتوبات (انگریزی و اردو) سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔ علامہ صاحب کے کلام وپیام پر شائع ہونے والی خاص خاص کتابوں کے علاوہ نوجوانوں سے اقبال کے تعلق کے حوالے سے مندرجہ ذیل مقالات سے بھی فائدہ اٹھایاگیا ہے ۔ جن کی عکسی نقول ہمیں جناب محمد سہیل عمر، ڈائریکٹر’’اقبال اکادمی، پاکستان ‘‘ نے فراہم کی ہیں (مؤلف) آغا یمین، ڈاکٹر اقبال اور پاکستانی نوجوان آفتاب حسین ،سید اقبال اور نوجوان احمد مکرّم اقبال اور نوجوان مسلم اختر اخلاق اقبال اور مسلم نوجوانوںکامثالی کردار اسرار احمد خان سہاروی نونہالان و نوجوانان اسرار احمد ، ڈاکٹر اقبال اور ہم(کتاب) اسلم انصاری ، پروفیسر اقبال اور نسلِ نو انعام الحق کوثر ،ڈاکٹر نسلِ نو اور اقبال کا شاہین بشیر ہاشمی پیامِ اقبال اور نژادِ نو کی ذمہ داری پرویز ،غلام احمد اقبال کا پیغام :نوجوانانِ ملّت کے نام تبسّم ، صوفی غلام مصطفٰی اقبال اور بچے توقیر احمد خان ، ڈاکٹر نوجوان :اقبال کی شاعری میں جاوید اختر ، ایم اقبال اور نوجوان جاوید اقبال ،ڈاکٹر اقبال اور نژادِ نو کی ذمہ داری جیلانی کامران،پروفیسر اقبال کا نئی نسلوں کے ساتھ تعارف حسن اختر،ڈاکٹر اقبال اور نئی نسل دوست محمد فیضی اقبال اور مسلم نوجوان رازی ، پروفیسر اقبال کا پیغام :نژادِ نو کے نام رازی ، پروفیسر اقبال کی شاعری میں مثالی نوجوان کا تصوّر روبینہ کوثر لودھی اقبال اور جوانانِ ملّت ریاست علی چودھری اقبال اور نوجوان ساجد حسین علامہ اقبال اور مسلم نوجوانوں کا مثالی کردار سالک حسین،سیّد اقبال اور نوجوان سمیع اللہ قریشی اقبال اور نوجوان نسل سلیم، عبدالقیوم اقبال کا پیغام ، نوجوان کے نام شاہد حسین ، سید اقبال کا پیغام ، نوجوان نسل کے نام صابر کلوروی، ڈاکٹر داستانِ اقبال(کتاب) صلاح الدین احمد ، مولانا اقبال کا نوجوان طارق محمود قیصر اقبال اور مسلم نوجوان ظہیرالدین احمد اقبال اور نئی پود عقیل احمد شیخ اقبال کے شاہین غلام حسین، شیخ علامہ اقبال کاپیغام ، نوجوانانِ ملّت کے نام غلام علی انجم اقبال اور نوجوان فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر اقبال اور نئی نسل فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر اقبال اور نژادِنو قمر دین اقبال کا نوجوانوں سے خطاب محمد احمد سبزواری اقبال اور نژادِ نو محمد جاوید بھٹی اقبال اور نوجوان محمد حسین خان نوجوانوں سے خطاب محمد روز ، علامہ علامہ اقبال اور مسلمان نوجوانوں کے کردار کی تعمیر محمد ریاض،ڈاکٹر اقبال اور نژادِ نو محمد شریف بقا اقبا ل اور نئی پود محمد طارق ،قاضی اقبال اور نوجوان مسعود گوہر اقبال اور جدید نسل معراج نیّر، سید اقبال:نوجوانوںکا شاعر مظفرالحسن اقبال اور نوجوان منوّر رئوف اقبال اور نسلِ نو ناظر حسین زیدی ، ڈاکٹر اقبال کا پیغام، نئی نسل کے نام نبی احمد اظہر، ڈاکٹر اقبال کا پیغام، نوجوانوں کے نام نصیر اختر اقبال اور نوجوان نورالحسن ہاشمی اقبال کا نوجوان نورالحسن ہاشمی اقبال کا نوجوان اور اس کی تعلیم یوسف حسین خان ،ڈاکٹر روحِ اقبال(کتاب)