اقبال شناسی (تدریسِ فارسی بحوالہ کلامِ اقبال) چوتھی سہ ماہی مرتبین: محمدسہیل عمر احمد جاوید ڈاکٹر محمد ناصر اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allamaiqbal.com طبع اوّل : ۔۔۔۔ تعداد : ۔۔۔ قیمت : ۔۔۔۔۔ مطبع : ۔۔۔۔۔۔۔ محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست پیش لفظ i تعارف iii معرفی آثار منظوم فارسی علامہ محمد اقبال ۱۔ اسرار خودی ۷ ۲۔ رموز بیخودی ۱۰ ۳۔ پیام مشرق ۱۵ ۴۔ زبور عجم ۲۰ ۵۔ جاوید نامہ ۲۳ ۶۔ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق مع مسافر ۲۸ ۷۔ ارمغان حجاز ۳۱ مطالعۂ موضوعاتی آثار منظوم فارسی اقبال ۱۔ انسان ۱:۱ ۔ خودی: فردی و اجتماعی ۱۔ دربیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است ۳۷ ۲۔دربیان اینکہ حیات خودی از تخلیق و تولید مقاصد است ۳۹ ۳ ۔دربیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد ۴۲ ۴۔ دربیان اینکہ ترتیب خودی راسہ مراحل است ۴۷ ۵۔ دعا ۵۴ ۶۔ پیشکش ۵۷ ۷ ۔ تسخیر فطرت ۵۷ ۸۔ محاورہ علم و عشق ۵۸ ۹۔ تہذیب ۵۹ ۱۰۔ پیام ۶۳ ۱۱۔ آزادی بحر ۶۳ ۱۲۔ غزل (عقل ھم عشق است و از ذوق نگہ بیگانہ نیست) ۶۳ ۱۳۔ غزل (عشق را نازم کہ بودش را غم نابود نی) ۶۴ ۱۴۔سوال چہارم ، گلشن راز جدید ۶۵ ۱۵۔ سوال پنجم ، گلشن راز جدید ۶۷ ۱۶۔ بندگی نامہ ۷۰ ۱۷۔ دربیان فنون لطیفہ غلامان ۷۳ ۱۸۔ مذھب غلامان ۷۶ ۱۹۔ مناجات ۸۰ ۲۰۔ تمہید آسمانی ۸۱ ۲۱۔ نغمۂ ملائک ۸۴ ۲۲۔ تمہید زمینی ۸۴ ۲۳۔ زمزمہ انجم ۸۸ ۲۴۔ ندای جمال ۸۹ ۲۵۔ خطاب بہ مہر عالمتاب ۹۰ ۲۶۔ حکمت کلیمی ۹۲ ۲۷۔مرد حر ۹۵ ۲۸۔ رباعی (مسلمان بندہ مولا صفات است) ۹۸ ۲:۱ بیخودی ۱۔ پیشکش بحضور ملت اسلامیہ ۱۰۱ ۳:۱ عورت ۱۔ خطاب بہ مخدرات اسلام ۱۰۹ ۲۔ محکمات عالم قرآنی ۱۱۰ ۳۔ دختران ملت ۱۱۲ ۴:۱ سیاست ۱۔ جمہوریت ۱۱۷ ۲۔ نوای مزدور ۱۱۷ ۳۔ غزل (خاور کہ آسمان بہ کمند خیال اوست) ۱۱۸ ۴۔ از خواب گراں خیز ۱۱۹ ۵۔ سوال ہفتم ۱۲۱ ۶۔ دین و وطن ۱۲۴ ۷۔ اشتراک و ملوکیت ۱۲۶ ۸۔ حرکت بہ کاخِ سلاطین مشرق ۱۲۷ ۹۔ سیاسیات حاضرہ ۱۲۹ ۱۰۔ اشکی چند برا فتراق ھندیان ۱۳۰ ۵:۱ تعلیم و تربیت ۱۔ خطاب پادشاہ اسلام اعلی حضرت ظاھر شاہ ۱۳۷ ۲۔ خطاب بہ جاوید ۱۳۸ ۳۔ حکمت فرعونی ۱۴۱ ۴۔ در اسرار شریعت ۱۴۳ ۵۔ پس چہ باید کرد ای اقوام شرق ۱۴۵ ۶۔ عصر حاضر ۱۴۷ ۲۔ کائنات ۱۔ سوال سوم بند اوّل ۱۵۱ ۲۔ مناجات بند دوم ، بند سوم ، جاوید نامہ ۱۵۳ ۳۔ فلک قمر ۱۵۵ ۳۔ خدا ۱۔ ارکان اساسی ملیۂ اسلامیہ رکن اوّل توحید ۱۵۹ ۲۔ محاورہ مابین خدا و انسان ۱۶۲ ۳۔ تمہید زمینی ۱۶۳ ۴۔ لا اِلا اِلہ اللّٰہ ۱۶۶ ۴۔ رسالت ۱۔ ارکان اساسی ملیۂ اسلامیہ۔۔۔ رکن دوم رسالت ۱۷۱ ۲۔ در حضور رسالت مآبؐ ۱۷۴ ۳۔ حضور رسالتؐ ۱۸۰ ۵۔ ملت ۱۔ در معنی اینکہ چون ملت محمدیہ موسس بر توحید و رسالت است پس نہایت مکانی ندارد ۱۸۳ ۲۔ در معنی اینکہ ملت محمدیہ نہایت زمانی ھم ندارد ۱۸۶ پیش لفظ اقبال شناسی ہماری قومی ضرورت ہے ۔ اس کو نظر انداز کر کے ہم اپنی ترقی اور بقا کے اسباب سے دور ہو جائیں گے ۔ قومیں اپنے وجود کی بنیادی اقدار اور معیارات افراد سے اخذ کرتی ہیں ۔ شاعر مشرق ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا شمار ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جو اپنی قوم کے ضمیر میں نقش تصور انسان کو نہ صرف زندہ اور محفوظ رکھتے ہیں بلکہ زمانے کی گردش سے رونما ہونے والی نئی سے نئی صورت حال میں اس کو غالب رکھنے کی قوت بھی فراہم کرتے ہیں ۔ ہماری قومی زندگی جس دینی و حدت اور تہذیبی تسلسل پر اُستوار ہے، اقبال نے اُس میں ایک تخلیقی زور اور گہرائی پیدا کر دی ہے ۔ ہمیں اپنی اصل اور مرکز سے وابستہ رہنے کے لیے شعور ، احساس اور جذبے کی جو سطح لازماً درکار ہے ، علامہ اُس کی نشان دہی بھی کرتے ہیں اور وہاں تک پہنچانے کی قابلِ اعتبار ضمانت بھی دیتے ہیں۔ اقبال اکادمی نے اقبال شناسی کا ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے۔ اقبال کی شاعری کی تفہیم اس کا ایک نہایت اہم اور بنیادی حصہ ہے ۔ چونکہ اُن کی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے لہٰذا اس زبان پر ضروری گرفت حاصل کیے بغیر ہم اقبال سے اپنے تعلق کا ابتدائی تقاضا بھی پورا نہیں کر سکتے ۔ فارسی کا چلن اُٹھ جانے سے ہماری روحانی اور تہذیبی اساس ہل کر رہ گئی ہے ۔ ہم نے اپنا تخلیقی اور فکری شعور اسی زبان سے تشکیل دیا تھا ۔ اس کے فراموش ہو جانے سے ہماری باطنی ساخت متغیر ہو گئی ہے۔ خود کو اپنی حقیقی بنیادوں پر نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے ہمیں فارسی دانی کی روایت کا احیا کرنا ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم انسانیت کی زندہ اور بامعنی سطح پر موجود نہیں رہنا چاہتے ۔ اس ضمن میں یہ مسئلہ تواتر سے مورد غور چلا آ رہا ہے کہ شعر اقبال کے فہم کو عام اورگہرا کرنے کے لیے فارسی زبان کا علم ناگزیر تو ہے لیکن اس کی تعلیمی سطح اور انداز کیا ہونا چاہیے؟ظاہر ہے کہ اقبال ایسے شاعر کی تفہیم ، محض زبان کے مکتبی شعور پر انحصار کرکے ممکن نہیں ہے۔ اس کے لیے معنی کی علامتی ، عقلی اور تخلیقی جہتوں سے مانوس اور خبردار ہونا ضروری ہے تاکہ اس ذوق کی تشکیل اور پر داخت ہو سکے جو بڑی شاعری کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ اقبال کے معاملے میں ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ مطالبہ ادنیٰ درجے پر بھی پورا نہیں ہوا ۔ اب ہم سب کا فرض ہے کہ اس افسوناک صورت حال سے نکلنے کی کوئی راہ ڈھونڈیں۔ یہ اتنا اہم کام ہے کہ اسے نظر انداز کرکے نہ صرف یہ کہ ہم اپنے روحانی ، ذہنی اور نفسیاتی ادھورے پن پر راضی ہو کر رہ جائیں گے بلکہ خود اقبالیات کا پودا بھی جسے سر نکالے ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیںگزرا، مرجھاتا چلا جائے گا ۔ فارسی زبان کی عمومی تحصیل میں جو استعدادمطلوب ہے، اس پر تکیہ کر کے ہم شعر اقبال کی گہرائیوں او ر بلندیوں کے ادراک میں بہت دور تک نہیں جا سکتے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس زبان کو خود اقبال کے شعری متن کی تحلیل و تجزیہ کر کے سیکھا جائے تاکہ متعلم اس معنوی جوہر تک رسائی حاصل کر سکے جو اور کہیں نہیں ملتا۔ فارسی سے ناواقفیت اور اقبال سے بے خبری کے لازمی نتائج سے بچنے کے لیے اکادمی نے تدریسِ فارسی بحوالۂ اقبال کا ڈول ڈالا ہے،اس کو تین درجوں یا مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱ ۔ فارسی زبان کے اصول و مبادی ، اردو کے حوالے سے ۔ یہ گویا تدریس کا ابتدائی درجہ ہو گا جو عام طور سے مروج بھی ہے ۔ مگر اسے بھی ایک امتیازی حیثیت حاصل ہونا چاہیے کہ مرکز توجہ انتخاب کلام اقبال رہے گا ۔ ۲ ۔ فارسی زبان کی اعلیٰ سطحوں یعنی ادبی ، فکری اور تخلیقی اسالیب کی تعلیم کلام اقبال کی روشنی میں۔ ۳ ۔ اقبال کی فارسی شاعری کا تفصیلی مطالعہ و تحلیل متون۔ ہم چاہتے ہیں کہ فارسی زبان کی تعلیم کا یہ طریقہ سارے ملک میں رواج پا جائے۔ ایک تو اس میں وقت اور محنت کم درکار ہے اور دوسرے اس کی مدد سے ہم اپنے فوری مقاصد کی طرف زیادہ یکسوئی کے ساتھ پیش قدمی کر سکتے ہیں ۔ عملی طور پر اس منصوبے کی تفصیل کیا ہے؟ اس کا بیان اس نصاب کے فاضل مرتبین کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ اقبال اکادمی پاکستان تعارف فارسی تقریباًساڑھے آٹھ سو سال تک برصغیر کی علمی، ادبی، ثقافتی ، تدریسی اور سرکاری زبان رہی ہے۔ اس عرصے میں یہاں کے اہل علم و ادب نے بڑی کامیابی سے فارسی نظم و نثر کو ذریعۂ اظہار بنایا اور تمام رائج علوم و فنون پر ہزاروں اہم کتابیں لکھیں ۔ خاص طور پر اس سر زمین کی ایک ہزار سالہ اسلامی تاریخ فارسی ہی میں لکھی گئی ۔ ہماری قومی زبان اردو کی نشو و نما بھی فارسی ہی کے زیر سایہ ہوئی اور اردو ادب نے فارسی کی درخشاں ادبی روایت سے بھی گہرے اثرات قبول کیے۔ فارسی ہمارا تہذیبی ورثہ ہے اور زندہ قومیں اپنی ثقافتی میراث کو نظر انداز نہیں کیا کرتیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم فارسی سے آشنائی کے بغیر اپنی گذشتہ صدیوں کی تاریخ ، ثقافت اور ادب سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکتے ۔ اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے عظیم ماضی سے کٹ کر رہ جائیںتو ہمیں بہ ہر طور فارسی کی شمع جلائے رکھنا ہوگی ۔ ہمارے حال اور مستقبل کے لیے بھی فارسی کی اہمیت مسلّم ہے کیوںکہ ایران ، افغانستان اور وسطی ایشیا کی مسلم ریاستوں کے ساتھ ہمارے رابطے کی زبان یہی ہے۔ اس کے باوجود ، بدقسمتی سے پاکستان میں فارسی تدریس اور فارسی جاننے والے کم سے کمتر ہوتے جا رہے ہیں۔ علامہ محمد اقبال ہماری تہذیب اور ادبی تاریخ کی توانا ترین شخصیت ہیں ۔ دنیا بھر کے دانشوروں نے فکر اقبال کی عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور اسلامی ممالک کے فکری حلقوں میں اقبال کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اقبال کے افکار کا بہترین اظہار ان کی شاعری میں ہوا ہے اور اس کا بیشتر حصہ فارسی میں ہے ۔ اقبال کے زندہ پیغام کو مکمل اور بہتر طور پر سمجھنے کے لیے فارسی سے آگاہی ضروری ہے اور اس کے بغیر اقبال شناسی کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔ ان حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اقبال اکادمی پاکستان نے اقبال کے فارسی کلام کے حوالے سے تدریسِ فارسی کے ایک منفرد خصوصی کورس کا آغاز و اہتمام کیاہے۔ اس کا بنیادی مقصد ’’اقبال بحوالہ فارسی‘‘ یا ’’فارسی بحوالہ اقبال ‘‘ ہے۔ اس کی نمایاں ترین خوبی یہ ہے کہ تدریسی ضرورت کے تحت پڑھایا جانے والا الفاظ ، تراکیب اور مثالوں کا بیشتر ذخیرہ، اقبال کے فارسی کلام سے لیا گیا ہے تاکہ کلام اقبال کی روشنی میں فارسی زبان سیکھی جا سکے اور ایک ہی وقت میں فارسی زبان اور فکرِ اقبال سے ضروری آشنائی ہو سکے ۔ اس ایک سالہ ڈپلوما کورس میں تین تین ماہ کی چار کلاسیں ہیں ، زیرِ نظر کتاب ’’اقبال شناسی :تدریسِ فارسی بحوالہ کلام اقبال ‘‘ چوتھی سہ ماہی کا نصاب ہے۔ اس میںاقبال کے فارسی کلام کا انتخاب شامل کیا گیا ۔ اس نصاب کے ذریعے طلبہ میں پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران حاصل کردہ استعداد کو استعمال کر کے اقبال کے شعری متن کی تحلیل و تجزیہ سکھایا جائے گا تاکہ طلبہ میں فارسی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ کلام اقبال کے تفہیم کی استعداد بھی پیدا ہو سکے ۔ اس کے ساتھ طلبہ و طالبات کے علاوہ فارسی اور اردو ادب اور اقبال سے دلچسپی رکھنے والے عام شائقین بھی اس کورس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی تکمیل پر قدیم و جدید فارسی اور اقبال شناسی میں یقینا اچھی خاصی استعداد پیدا ہو سکتی ہے ۔ ہم اس امید کے ساتھ یہ کورس پیش کر رہے ہیں کہ ہمارے فاضل اساتذہ کی راہنمائی میں پڑھایا جانے والا یہ نصاب فارسی فہمی اور اقبال شناسی میں بہت معاون ثابت ہوگا اور اس سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔ مرتبین ہمیں امید واثق ہے کہ یہ کتاب ، جو کہ کلاس کے دوران ، ہمارے فاضل اساتذہ کی راہنمائی میں پڑھی جائے گی ، اقبال شناسی یا اقبال فہمی میں انتہائی ممدو معاون اور انقلاب آفریں ثابت ہو گی ۔ مطالعہ موضوعاتی آثار منظوم فارسی اقبال انسان خودی : فردی و اجتماعی در بیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسل حیات تعینات وجود بر استحکام خودی انحصاردارد پیکر ھستی ز آثار خودی است ھر چہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چون خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہان پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیداست از اثبات او در جہان تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است سازد از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را می کشد از قوّت بازوی خویش تا شود آگاہ از نیروی خویش خود فریبی ھای او عین حیات ھمچو گل از خون وضو عین حیات بہر یک گل خون صد گلشن کند از پی یک نغمہ صد شیون کند یک فلک را صد ھلال آوردہ است بہر حرفی صد مقال آوردہ است عذر این اسراف و این سنگین دلی خلق و تکمیل جمال معنوی حسن شیرین عذر درد کوھکن نافہ ئی عذر صد آھوی ختن سوز پیہم قسمت پروانہ ھا شمع عذر محنت پروانہ ھا خامہ ی او نقش صد امروز بست تا بیارد صبح فردائی بہ دست شعلہ ھای او صد ابراھیم سوخت تا چراغ یک محمدؐ بر فروخت می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل خیزد ، انگیزد ، پرد ، تابد ، رمد سوزد ، افروزد ، کشد ، میرد ، دمد وسعت ایاّم جولانگاہ او آسمان موجی ز گرد راہ او گل بہ جیب آفاق از گلکاریش شب ز خوابش ، روز از بیداریش شعلہ ی خود در شرر تقسیم کرد جز پرستی عقل را تعلیم کرد خود شکن گردید و اجزا آفرید اندکی آشفت و صحرا آفرید باز از آشفتگی بیزار شد وز بہم پیوستگی کہسار شد وانمودن خویش را خوی خودی است خفتہ در ھر ذرّہ نیروی خودی است قوّت خاموش و بیتاب عمل از عمل پابند اسباب عمل (اسرار خودی،کلیات اقبال فارسی، ص۳۲) دربیان اینکہ حیات خودی از تخلیق و تولیدمقاصداست زندگانی را بقا از مدّعا ست کاروانش را درا از مدّعا ست زندگی در جستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو را در دل خود زندہ دار تا نگردد مُشت خاک تو مزار آرزو جان جہان رنگ و بوست فطرت ھر شی امین آرزو ست از تمنّا رقص دل در سینہ ھا سینہ ھا از تاب او آئینہ ھا طاقت پرواز بخشد خاک را خضر باشد موسٰی ادراک را دل ز سوز آرزو گیرد حیات غیر حق میرد چو او گیرد حیات چون ز تخلیق تمّنا باز ماند شہپرش بشکست و از پرواز ماند آرزو ھنگامہ آرای خودی موج بیتابی ز دریای خودی آرزو صید مقاصد را کمند دفتر افعال را شیرازہ بند زندہ را نفی تمّنا مردہ کرد شعلہ را نقصان سوز افسردہ کرد چیست اصل دیدہ ی بیدار ما بست صورت لذت دیدار ما کبک پا از شوخی رفتار یافت بلبل از سعی نوا منقار یافت نی برون از نیستان آباد شد نغمہ از زندان او آزاد شد عقل ندرت کوش و گردون تاز چیست ھیچ می دانی کہ این اعجاز چیست زندگی سرمایہ دار از آرزوست عقل از زائیدگان بطن اوست چیست نظم قوم و آئین و رسوم چیست راز تازگیہای علوم آرزوئی کو بہ زور خود شکست سر ز دل بیرون زد و صورت ببست دست و دندان و دماغ و چشم و گوش فکر و تخییل و شعور و یاد و ھوش زندگی مرکب چو در جنگاہ باخت بہر حفظ خویش این آلات ساخت آگہی از علم و فن مقصود نیست غنچہ و گل از چمن مقصود نیست علم از سامان حفظ زندگی است علم از اسباب تقویم خودی است علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات ای از راز زندگی بیگانہ ، خیز از شراب مقصدی مستانہ خیز مقصدی مثل سحر تابندہ ئی ماسویٰ را آتش سوزندہ ئی مقصدی از آسمان بالاتری دلربائی ، دلستانی ، دلبری باطل دیرینہ را غارتگری فتنہ در جیبی سراپا محشری ما ز تخلیق مقاصد زندہ ایم از شعاع آرزو تابندہ ایم (اسرار خودی،کلیات اقبال فارسی، ص۳۵) در بیان اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد نقطہ ی نوری کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است از محبت می شود پایندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر از محبت اشتعال جوھرش ارتقای ممکنات مضمرش فطرت او آتش اندوزد ز عشق عالم افروزی بیاموزد ز عشق عشق را از تیغ و خنجر باک نیست اصل عشق از آب و باد و خاک نیست در جہان ھم صلح و ھم پیکار عشق آب حیوان تیغ جوھر دار عشق از نگاہ عشق خارا شق شود عشق حق آخر سراپا حق شود عاشقی آموز و محبوبی طلب چشم نوحی قلب ایّوبی طلب کیمیا پیدا کن از مشت گلی بوسہ زن بر آستان کاملی شمع خود را ھمچو رومی برفروز روم را در آتش تبریز سوز ھست معشوقی نہان اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمایمت عاشقان او ز خوبان خوبتر خوشتر و زیباتر و محبوبتر دل ز عشق او توانا میشود خاک ھمدوش ثرّیا میشود خاک نجد از فیض او چالاک شد آمد اندر وجد و بر افلاک شد در دل مسلم مقام مصطفٰیؐ است آبروی ما ز نام مصطفٰیؐ است طور موجی از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش کمتر از آنی ز اوقاتش ابد کاسب افزایش از ذاتش ابد بوریا ممنون خواب راحتش تاج کِسریٰ زیر پای امتش در شبستان حرا خلوت گُزید قوم و آئین و حکومت آفرید ماند شبہا چشم او محروم نوم تا بہ تخت خسروی خوابیدہ قوم وقت ھیجا تیغ او آھن گداز دیدہ ی او اشکبار اندر نماز در دعای نصرت آمین تیغ او قاطع نسل سلاطین تیغ او در جھان آئین نو آغاز کرد مسند اقوام پیشین درنورد از کلید دین در دنیا گشاد ھمچو او بطن اُم گیتی نزاد در نگاہ او یکی بالا و پست با غلام خویش بر یک خوان نشست در مصافی پیش آن گردون سریر دختر سردار طی آمد اسیر پای در زنجیر و ھم بے پردہ بود گردن از شرم و حیا خم کردہ بود دخترک را چون نبیؐ بی پردہ دید چادر خود پیش روی او کشید ما از آن خاتون طی عریانتریم پیش اقوام جہان بی چادریم روز محشر اعتبار ماست او در جہان ھم پردہ دار ماست او لطف و قہر او سراپا رحمتی آن بہ یاران این بہ اعدا رحمتی آن کہ بر اعدا در رحمت گشاد مکّہ را پیغام لاتثریب داد ما کہ از قید وطن بیگانہ ایم چون نگہ نور دو چشمیم و یکیم از حجاز و چین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندانیم ما مست چشم ساقی بطحاستیم در جہان مثل می و میناستیم امتیازات نسب را پاک سوخت آتش او این خس و خاشاک سوخت چون گل صد برگ ما را بو یکیست اوست جان این نظام و او یکیست سرّ مکنون دل او ما بُدیم نعرہ بی باکانہ زد افشا شدیم شور عشقش در نی خاموش من می تپد صد نغمہ در آغوش من من چہ گویم از تولاّیش کہ چیست خشک چوبی در فراق او گریست ھستی مسلم تجلّی گاہ او طور ھا بٰالد ز گرد راہ او پیکرم را آفرید آئینہ اش صبح من از آفتاب سینہ اش درتپید دمبدم آرام من گرمتر از صبح محشر شام من ابر آذار است و من بستان او تاک من نمناک از باران او چشم در کشت محبّت کاشتم از تماشا حاصلی برداشتم خاک یثرب از دو عالم خوشتر است ای خنک شہری کہ آنجا دلبر است کشتہ ی انداز ملّا جامی ام نظم و نثر او علاج خامی ام شعر لبریز معاٰنی گفتہ است در ثنای خواجہ گوھر سفتہ است ’’نسخۂ کونین را دیباچہ اوست جملہ عالم بندگان و خواجہ اوست‘‘ (اسرار خودی ،کلیات اقبال فارسی، ص ۳۷) در بیان اینکہ تربیت خودی را سہ مراحل است مرحلۂ اوّل را اطاعت و مرحلۂ دوم را ضبط نفس و مرحلہ سوم را نیابت الٰھی نامیدہ اند مرحلۂ اوّل اطاعت خدمت و محنت شعار اشتر است صبر و استقلال کار اشتر است گام او در راہ کم غوغا ستی کاروان را زورق صحرا ستی نقش پایش قسمت ھر بیشہ ئی کم خور و کم خواب و محنت پیشہ ئی مست زیر بار محمل می رود پای کوبان سوی منزل می رود سر خوش از کیفیّت رفتار خویش در سفر صابر تر از اسوار خویش تو ھم از بار فرائض سر متاب بر خوری از ’’عندہ حسن المآب‘‘ در اطاعت کوش ای غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار ناکس از فرمان پذیری کس شود آتش ار باشد ز طغیان خس شود ھر کہ تسخیر مہ و پروین کند خویش را زنجیری آئین کند باد را زندان گل خوشبو کند قید بو را نافہ ی آھو کند می زند اختر سوی منزل قدم پیش آئینی سر تسلیم خم سبزہ بر دین نمو روئیدہ است پایمال از ترک آن گردیدہ است لالہ پیھم سوختن قانون او بر جہد اندر رگ او خون او قطرہ ھا دریاست از آئین وصل ذرّہ ھا صحراست از آئین وصل باطن ھر شی ز آئینی قوی تو چرا غافل ازین سامان روی باز ای آزاد دستور قدیم زینت پا کن ھمان زنجیر سیم شکوہ سنج سختی آئین مشو از حدود مصطفیٰؐ بیرون مرو (اسرار خودی،کلیات اقبال فارسی، ص۵۶) مرحلہ دوم: ضبط نفس نفس تو مثل شتر خود پرور است خود پرست و خود سوار و خود سر است مرد شو آور زمام او بہ کف تا شوی گوھر اگر باشی خزف ھر کہ بر خود نیست فرمانش روان می شود فرمان پذیر از دیگران طرح تعمیر تو از گل ریختند با محبت خوف را آمیختند خوف دنیا ، خوف عقبی ، خوف جان خوف آلام زمین و آسمان حبّ مال و دولت و حبّ وطن حبّ خویش و اقربا و حبّ زن امتزاج ماء و طین تن پرور است کشتہ ی فحشا ھلاک منکر است تا عصای لا الہ داری بہ دست ھر طلسم خوف را خواھی شکست ھر کہ حق باشد چو جان اندر تنش خم نگردد پیش باطل گردنش خوف را در سنیہ ی او راہ نیست خاطرش مرعوب غیر اللّٰہ نیست ھر کہ در اقلیم لا آباد شد فارغ از بند زن و اولاد شد می کند از ماسوی قطع نظر می نہد ساطور بر حلق پسر با یکی مثل ھجوم لشکر است جان بہ چشم او ز باد ارزانتر است لا الہ باشد صدف گوھر نماز قلب مسلم را حج اصغر نماز در کف مسلم مثال خنجر است قاتل فحشا و بغی و منکر است روزہ بر جوع و عطش شبخون زند خیبر تن پروری را بشکند مؤمنان را فطرت افروز است حج ھجرت آموز و وطن سوزست حج طاعتی سرمایہ ی جمعیّتی ربط اوراق کتاب ملّتی حبّ دولت را فنا سازد زکوٰۃ ھم مساوات آشنا سازد زکوٰۃ دل ز حتّی تنفقوا محکم کند زر فزاید الفت زر کم کند این ھمہ اسباب استحکام تست پختہ ی محکم اگر اسلام تست اھل قوّت شو ز وردِ یا قوی تا سوار اشتر خاکی شوی (اسرار خودی، کلیات اقبال فارسی، ص۵۸) مرحلہ سوم: نیابت الھٰی گر شتر بانی جہانبانی کنی زیب سر تاج سلیمانی کنی تا جہان باشد جہان آرا شوی تاجدار ملک لایبلٰی شوی نایب حق در جہان بودن خوش است بر عناصر حکمران بودن خوش است نایب حق ھمچو جان عالم است ھستی او ظلّ اسم اعظم است از رموز جزو و کل آگہ بود در جہان قائم بہ امراللّٰہ بود خیمہ چون در وسعت عالم زند این بساط کہنہ را برھم زند فطرتش معمور و می خواھد نمود عالمی دیگر بیارد در وجود صد جہان مثل جہان جزو و کل روید از کشت خیال او چو گل پختہ سازد فطرت ھر خام را از حرم بیرون کند اصنام را نغمہ زا تار دل از مضراب او بہر حق بیداری او خواب او شیب را آموزد آھنگ شباب می دھد ھر چیز را رنگ شباب نوع انسان را بشیر و ھم نذیر ھم سپاھی ھم سپہگر ھم امیر مدّعای علّم الاسما ستی سرّ سبحان الذّی اسرا ستی از عصاٰ دست سفیدش محکم است قدرت کامل بہ علمش توأم است چون عنان گیرد بہ دست آن شہسوار تیز تر گردد سمند روزگار خشک سازد ھیبت او نیل را می برد از مصر اسرائیل را از قم او خیزد اندر گور تن مردہ جانہا چون صنوبر در چمن ذات او توجیہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است ذّرہ خورشید آشنا از سایہ اش قیمت ھستی گران از مایہ اش زندگی بخشد ز اعجاز عمل می کند تجدید انداز عمل جلوہ ھا خیزد ز نقش پای او صد کلیم آوارہ ی سینای او زندگی را می کند تفسیر نو می دھد این خواب را تعبیر نو ھستئی مکنون او راز حیٰات نغمہ ی نشیندہ ی ساز حیات طبع مضمون بند فطرت خون شود تا دو بیت ذات او موزون شود مشت خاک ما سر گردون رسید زین غبار آن شہسوار آید پدید خفتہ در خاکستر امروز ما شعلہ ی فردای عالم سوز ما غنچہ ی ما گلستان در دامن است چشم ما از صبح فردا روشن است ای سوار اشہب دوران بیا ای فروغ دیدہ ی امکان بیا رونق ھنگامہ ی ایجاد شو در سواد دیدہ ھا آباد شو شورش اقوام را خاموش کن نغمہ ی خود را بہشت گوش کن خیز و قانون اخوّت ساز دہ جام صہبای محبت باز دہ باز در عالم بیار ایّام صلح جنگجویان را بدہ پیغام صلح نوع انسان مزرع و تو حاصلی کاروان زندگی را منزلی ریخت از جور خزان برگ شجر چون بھاران بر ریاض ما گذر سجدہ ھای طفلک و بُرنا و پیر از جبین شرمسار ما بگیر از وجود تو سرافرازیم ما پس بہ سوز این جہان سازیم ما (اسرار خودی،کلیات اقبال فارسی، ص۵۹) دُعا ای چو جان اندر وجود عاٰلمی جان ما باشی و از ما می رمی نغمہ از فیض تو در عود حیات موت در راہ تو محسود حیات باز تسکین دل ناشاد شو باز اندر سینہ ھا آباد شو باز از ما خواہ ننگ و نام را پُختہ تر کن عاشقان خام را از مقدر شکوہ ھا داریم ما نرخ تو بالا و ناداریم ما از تہیدستان رُخ زیبا مپوش عشق سلمان و بلال ارزان فروش چشم بیخواب و دل بیتاب دہ باز ما را فطرت سیماب دہ آیتی بنما ز آیات مبین تا شود اعناق اعدا خاضعین کوہ آتش خیز کن این کاہ را ز آتش ما سوز غیر اللّٰہ را رشتہ ی وحدت چو قوم از دست داد صد گرہ بر روی کار ما فتاد ما پریشان در جہان چون اختریم ھمدم و بیگانہ از یکدیگریم باز این اوراق را شیرازہ کن باز آئین محبت تازہ کن باز ما را بر ھمان خدمت گمار کار خود با عاشقان خود سپار رھروان را منزل تسلیم بخش قوت ایمان ابراھیم بخش عشق را از شغل لا آگاہ کن آشنای رمز الااللّٰہ کن (اسرار خودی،کلیات اقبال فارسی، ص۸۹) پیشکش زندگی جہد است و استحقاق نیست جز بہ علم انفس و آفاق نیست گفت حکمت را خدا خیر کثیر ھر کجا این خیر را بینی بگیر سید کل صاحب ام الکتاب پردگیہا بر ضمیرش بی حجاب گرچہ عین ذات را بی پردہ دید ’’ربّ زدنی‘‘ از زبان او چکید علم اشیا ’’علّم الاسماستی‘‘ ھم عصا و ھم ید بیضا ستی علم اشیا داد مغرب را فروغ حکمت او ماست می بندد ز دوغ جان ما را لذّت احساس نیست خاک رہ جز ریزہ ی الماس نیست علم و دولت نظم کار ملّت است علم و دولت اعتبار ملّت است آن یکی از سینہ ی احرار گیر وان دگر از سینہ ی کُہسار گیر دشنہ زن در پیکر این کائنات در شکم دارد گہر چون سومنات لعل ناب اندر بدخشان تو ھست برق سینا در قہستان تو ھست (پیام مشرق ،کلیات اقبال فارسی، ص۲۰۱) تسخیر فطرت میلاد آدم نعرہ زد عشق کہ خونین جگری پیدا شد حسن لرزید کہ صاحب نظری پیدا شد فطرت آشفت کہ از خاک جہان مجبور خود گری خود شکنی خود نگری پیدا شد خبری رفت ز گردون بہ شبستان ازل حذر ای پردگیان پردہ دری پیدا شد آرزو بیخبر از خویش بہ آغوش حیات چشم وا کرد و جھان دگری پیدا شد زندگی گفت کہ در خاک تپیدم ھمہ عمر تا ازین گنبد دیرینہ دری پیدا شد (پیام مشرق ، کلیات اقبال فارسی، ص۲۴۴) محاورہ علم و عشق علم: نگاھم راز دار ھفت و چار است گرفتار کمندم روزگار است جہان بینم بہ این سو باز کردند مرا با آنسوی گردون چہ کار است چکد صد نغمہ از سازی کہ دارم بہ بازار افکنم رازی کہ دارم عشق: ز افسون تو دریا شعلہ زار است ھوا آتش گذار و زھر دار است چو با من یار بودی نور بودی بریدے از من و نور تو نار است بہ خلوت خانہ ی لاھوت زادی ولیکن در نخ شیطان فتادی بیا این خاکدان را گلستان ساز جہان پیر را دیگر جوان ساز بیا یک ذرّہ از درد دلم گیر تہ گردون بہشت جاودان ساز ز روز آفرینش ھمدم استیم ھمان یک نغمہ را زیر و بم استیم (پیام مشرق ، کلیات اقبال فارسی، ص۲۵۴) تہذیب انسان کہ رُخ ز غازہ ی تہذیب بر فروخت خاک سیاہ خویش چو آئینہ وانمود پوشید پنجہ را تہ دستانہ ی حریر افسونی قلم شد و تیغ از کمر گشود این بوالہوس صنم کدہ ی صلح عام ساخت رقصید گرد او بہ نواھای چنگ و عود دیدم چو جنگ پردہ ی ناموس او درید جز یَسفِکُ الدِّما و ’’خَصیمُٗ مُبین‘‘ نبود (پیام مشرق،کلیات اقبال فارسی، ص۲۸۸) پیام از من ای باد صبا گوی بہ دانای فرنگ عقل تا بال گشود است گرفتار تر است برق را این بہ جگر می زند آن رام کند عشق از عقل فسون پیشہ جگردار تر است چشم جز رنگ گل و لالہ نبیند ورنہ آنچہ در پردہ ی رنگ است پدیدار تر است عجب آن نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب این است کہ بیمار تو بیمار تر است دانش اندوختہ ئی دل ز کف انداختہ ئی آہ زان نقد گرانمایہ کہ در باختہ ئی حکمت و فلسفہ کاریست کہ پایانش نیست سیلی عشق و محبت بہ دبستانش نیست بیشتر راہ دل مردم بیدار زند فتنہ ئی نیست کہ در چشم سخندانش نیست دل ز ناز خنک او بہ تپیدن نرسد لذتی در خلش غمزہ ی پنھانش نیست دشت و کہسار نوردید و غزالی نگرفت طوف گلشن ز دو یک گل بہ گریبانش نیست چارہ این است کہ از عشق گشادی طلبیم پیش او سجدہ گذاریم و مُرادی طلبیم ٭ عقل چون پای درین راہ خم اندر خم زد شعلہ در آب دوانید و جہان برھم زد کیمیا سازی او ریگ روان را زر کرد بر دل سوختہ اکسیر محبت کم زد وای بر سادگی ما کہ فسونش خوردیم رھزنی بود کمین کرد و رہ آدم زد ھنرش خاک بر آورد ز تہذیب فرنگ باز آن خاک بہ چشم پسر مریم زد شرری کاشتن و شعلہ درودن تا کی؟ عقدہ بر دل زدن و باز گشودن تا کی؟ ٭ عقل خود بین دگر و عقل جہان بین دگر است بال بلبل دگر و بازوی شاھین دگر است دگر است آنکہ برد دانہ ی افتادہ ز خاک آنکہ گیرد خورش از دانہ ی پروین دگر است دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم آنکہ در شد بہ ضمیر گل و نسرین دگر است دگر است آنسوی نُہ پردہ گشادن نظری این سوی پردہ گمان و ظن و تخمین دگر است ای خوش آن عقل کہ پہنای دو عالم با اوست نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست ما ز خلوت کدہ ی عشق برون تاختہ ایم خاک پا را صفت آینہ پرداختہ ایم در نگر ھمت ما را کہ بہ داوی فکنیم دو جہان را کہ نہان بردہ عیان باختہ ایم پیش ما می گذرد سلسلہ ی شام و سحر بر لب جوی روان خیمہ بر افراختہ ایم در دل ما کہ برین دیر کہن شبخون ریخت آتشی بود کہ در خشک و تر انداختہ ایم شعلہ بودیم ، شکستیم و شرر گردیدیم صاحب ذوق و تمنّا و نظر گردیدیم ٭ عشق گردید ھوس پیشہ و ھر بند گسست آدم از فتنہ ی او صورت ماھی در شست رزم بر بزم پسندید و سپاھی آراست تیغ او جز بہ سر و سینہ ی یاران ننشست رھزنی را کہ بنا کرد جہانبانی گفت ستم خواجگی او کمر بندہ شکست بی حجابانہ بہ بانگ دف و نی میرقصد جامی از خون عزیزان تُنک مایہ بہ دست وقت آن است کہ آئین دگر تازہ کنیم لوح دل پاک بشوئیم و ز سر تازہ کنیم ٭ افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت نی اسکندری و نغمہ ی دارائی رفت کوھکن تیشہ بہ دست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت یوسفی را ز اسیری بہ عزیزی بردند ھمہ افسانہ و افسون زلیخائی رفت راز ھائی کہ نہان بود بہ بازار افتاد آن سخن سازی و آن انجمن آرائی رفت چشم بگشای اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پی تعمیر جھان دگر است ٭ من درین خاک کہن گوھر جان می بینم چشم ھر ذرہ چو انجم نگران می بینم دانہ ئی را کہ بہ آغوش زمین است ھنوز شاخ در شاخ و بُرومند و جوان می بینم کوہ را مثل پر کاہ سبک می یابم پر کاھی صفت کوہ گران می بینم انقلابی کہ نگنجد بہ ضمیر افلاک بینم و ھیچ ندانم کہ چسان می بینم خرّم آنکس کہ درین گرد سواری بیند جوھر نغمہ ز لرزیدن تاری بیند ٭ زندگی جوی روان است و روان خواھد بود این می کہنہ جوان است و جوان خواھد بود آنچہ بود است و نباید ز میان خواھد رفت آنچہ بایست و نبود است ھمان خواھد بود عشق از لذّت دیدار سراپا نظر است حسن مشتاق نمود است و عیان خواھد بود آن زمینی کہ برو گریۂ خونین زدہ ام اشک من در جگرش لعل گران خواھد بود (پیام مشرق،کلیات اقبال فارسی، ص۳۲۱) آزادی بحر بطی می گفت بحر آزاد گردید چنین فرمان ز دیوان خضر رفت نہنگی گفت رو ہر جا کہ خواہی ولی از ما نباید بے خبر رفت (پیام مشرق،کلیات اقبال فارسی، ص۳۳۸) غزل عقل ھم عشق است و از ذوق نگہ بیگانہ نیست لیکن این بیچارہ را آن جرأت رندانہ نیست گرچہ می دانم خیال منزل ایجاد من است در سفر از پا نشستن ھمّت مردانہ نیست ھر زمان یک تازہ جولانگاہ می خواھم ازو تا جنون فرمای من گوید دگر ویرانہ نیست با چنین زور جنون پاس گریبان داشتم در جنون از خود نرفتن کار ھر دیوانہ نیست (زبور عجم ،کلیات اقبال فارسی، ص۳۶۸) غزل عشق را نازم کہ بودش را غم نابود نی کفر او زنار دار حاضر و موجود نی عشق اگر فرمان دھد از جان شیرین ھم گذر عشق محبوب است و مقصود است و جان مقصود نی کافری را پختہ تر سازد شکست سومنات گرمی بتخانہ بی ھنگامہ ی محمود نی مسجد و میخانہ و دیر و کلیسا و کنشت صد فسون از بہر دل بستند و دل خوشنود نی نغمہ پردازی ز جوی کوھسار آموختم در گلستان بودہ ام یک نالہ درد آلود نی پیش من آئی دم سردی دل گرمی بیار جنبش اندر توست اندر نغمہ ی داوود نی عیب من کم جوی و از جامم عیار خویش گیر لذت تلخاب من بی جان غم فرسود نی (زبور عجم ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۰۹) سئوال چہارم قدیم و محدث از ھم چون جدا شد کہ این عالم شد آن دیگر خدا شد اگر معروف و عارف ذات پاکست چہ سودا در سر این مشت خاکست جواب خودی را زندگی ایجاد غیر است فراق عارف و معروف خیر است قدیم و محدث ما از شمار است شمار ما طلسم روزگار است دمادم دوش و فردا می شماریم بہ ھست و بود و باشد کار داریم ازو خود را بُریدن فطرت ماست تپیدن نارسیدن فطرت ماست نہ ما را در فراق او عیاری نہ او را بی وصال ما قراری نہ او بی ما ، نہ ما بی او ، چہ حال است فراق ما فراق اندر وصال است جدائی خاک را بخشد نگاھی دھد سرمایہ ی کوھی بکاھی جدائی عشق را آئینہ دار است جدائی عاشقان را سازگار است اگر ما زندہ ایم از دردمندی است وگر پایندہ ایم از دردمندی است من و او چیست اسرار الہی است من و او بر دوام ما گواھی است بہ خلوت ھم بہ جلوت نور ذات است میان انجمن بودن حیات است محبت دیدہ ور بی انجمن نیست محبّت خود نگر بی انجمن نیست بہ بزم ما تجلی ھا ست بنگر جہان ناپید و او پیداست بنگر در و دیوار و شہر و کاخ و کو نیست کہ اینجا ھیچکس جز ما و او نیست گہی خود را ز ما بیگانہ سازد گہی ما را چو سازی می نوازد گہی از سنگ تصویرش تراشیم گہی نادیدہ بر وی سجدہ پاشیم گہی ھر پردہ ی فطرت دریدیم جمال یار بیباکانہ دیدیم چہ سودا در سر این مشت خاکست ازین سودا درونش تابناکست چہ خوش سودا کہ نالد از فراقش و لیکن ھم ببالد از فراقش فراق او چنان صاحب نظر کرد کہ شام خویش را بر خود سحر کرد خودی را دردمند امتحان ساخت غم دیرینہ را عیش جوان ساخت گہر ھا سلک سلک از چشم تر برد ز نخل ماتمی شیرین ثمر برد خودی را تنگ در آغوش کردن فنا را با بقا ھم دوش کردن (زبور عجم، کلیات اقبال فارسی، ص۴۴۰) سئوال پنجم کہ من باشم؟ مرا از من خبر کن چہ معنی دارد ’’اندر خود سفر کن‘‘ جواب خودی تعویذ حفظ کائنات است نخستین پرتو ذاتش حیات است حیات از خواب خوش بیدار گردد درونش چون یکی بسیار گردد نہ او را بی نمود ما گشودی نہ ما را بی گشود او نمودی ضمیرش بحر ناپیدا کناری دل ھر قطرہ موج بیقراری سر و برگ شکیبائی ندارد بجز افراد پیدائی ندارد حیات آتش خودی ھا چون شررھا چو انجم ثابت و اندر سفر ھا ز خود نا رفتہ بیرون غیر بین است میان انجمن خلوت نشین است یکی بنگر بہ خود پیچیدن او ز خاک پی سپر بالیدن او نہان از دیدہ ھا در ھای و ھوئی دمادم جستجوی رنگ و بوئی ز سوز اندرون در جست و خیز است بہ آئینی کہ با خود در ستیز است جہان را از ستیز او نظامی کف خاک از ستیز آئینہ فامی نریزد جز خودی از پرتو او نخیزد جز گہر اندر زَوِ او خودی را پیکر خاکی حجاب است طلوع او مثال آفتاب است درون سینہ ی ما خاور او فروغ خاک ما از جوھر او تو می گوئی مرا از ’’من‘‘ خبر کن چہ معنی دارد ’’اندر خود سفرکن‘‘؟ تو را گفتم کہ ربط جان و تن چیست سفر در خود کن و بنگر کہ ’’من ‘‘چیست سفر در خویش ، زادن بی اب و مام ثریا را گرفتن از لب بام ابد بردن بہ یک دم اضطرابی تماشا بی شعاع آفتابی ستردن نقش ھر امید و بیمی زدن چاکی بہ دریا چون کلیمی شکستن این طلسم بحر و بر را ز انگشتی شکافیدن قمر را چنان باز آمدن از لامکانش درون سینہ او در کف جہانش ولی این راز را گفتن محال است کہ دیدن شیشہ و گفتن سفال است چہ گویم از ’’من‘‘ و از توش و تابش کند’’ اِنّا عَرَضنا‘‘ بی نقابش فلک را لرزہ بر تن از فر او زمان و ھم مکان اندر بر او نشیمن را دل آدم نہاد است نصیب مشت خاکی او فتاد است جدا از غیر و ھم وابستہ ی غیر گم اندر خویش و ھم پیوستہ ی غیر خیال اندر کف خاکی چسان است کہ سیرش بی مکان و بی زمان است بہ زندان است و آزاد است این چیست؟ کمند و صید و صیّاد است این چیست؟ چراغی در میان سینہ ی توست چہ نور است این کہ در آئینہ ی توست مشو غافل کہ تو او را امینی چہ نادانی کہ سوی خود نبینی (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۴۴۳) بندگی نامہ گفت با یزدان مہ گیتی فروز تاب من شب را کند مانند روز یاد ایّامی کہ بی لیل و نہار خفتہ بودم در ضمیر روزگار کوکبی اندر سواد من نبود گردشی اندر نہاد من نبود نی ز نورم دشت و در آئینہ پوش نی بہ دریا از جمال من خروش آہ زین نیرنگ و افسون وجود وای زین تابانی و ذوق نمود تافتن از آفتاب آموختم خاکدانی مردہ ئی افروختم خاکدانی با فروغ و بی فراغ چہرہ ی او از غلامی داغ داغ آدم او صورت ماھی بہ شست آدم یزدان کش آدم پرست تا اسیر آب و گل کردی مرا از طواف او خجل کردی مرا این جہان از نور جان آگاہ نیست این جہان شایان مہر و ماہ نیست در فضای نیلگون او را بہل رشتہ ی ما نوریان از وی گسل یا مرا از خدمت او واگذار یا ز خاکش آدم دیگر بیار چشم بیدارم کبود و کور بہ ای خدا این خاکدان بی نور بہ از غلامی دل بمیرد در بدن از غلامی روح گردد بار تن از غلامی ضعف پیری در شباب از غلامی شیر غاب افکندہ ناب از غلامی بزم ملّت فرد فرد این و آن با این و آن اندر نبرد آن یکی اندر سجود این در قیام کاروبارش چون صلٰوۃ بی امام در فتد ھر فرد با فردی دگر ھر زمان ھر فرد را دردی دگر از غلامی مرد حق زنّار بند از غلامی گوھرش ناارجمند شاخ او بی مہرگان عریان ز برگ نیست اندر جان او جز بیم مرگ کور ذوق و نیش را دانستہ نوش مردہ ئی بی مرگ و نعش خود بہ دوش آبروی زندگی در باختہ چون خران با کاہ و جو در ساختہ ممکنش بنگر محال او نگر رفت و بود ماہ و سال او نگر روزھا در ماتم یکدیگرند در خرام از ریگ ساعت کمترند شورہ بوم از نیش کژدم خار خار مور او اژدر گز و عقرب شکار صرصر او آتش دوزخ نژاد زورق ابلیس را باد مراد آتشی اندر ھوا غلطیدہ ئی شعلہ ئی در شعلہ ئی پیچیدہ ئی آتشی از دود پیچان تلخ پوش آتشی تندر غو و دریا خروش در کنارش مارھا اندر ستیز مارھا با کفچہ ھای زھر ریز شعلہ اش گیرندہ چون کلب عقور ھولناک و زندہ سوز و مردہ نور در چنین دشت بلا صد روزگار خوشتر از محکومی یک دم شمار (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۴۵۹) در بیان فنون لطیفۂ غلامان موسیقی مرگہا اندر فنون بندگی من چہ گویم از فسون بندگی نغمہ ی او خالی از نار حیات ھمچو سیل افتد بہ دیوار حیات چون دل او تیرہ سیمای غلام پست چون طبعش نواھای غلام از دل افسردہ ی او سوز رفت ذوق فردا لذّت امروز رفت از نی او آشکارا راز او مرگ یک شہر است اندر ساز او ناتوان و زار می سازد تو را از جہان بیزار می سازد تو را چشم او را اشک پیہم سرمہ ایست تا توانی بر نوای او مایست الحذر این نغمہ ی موت است و بس نیستی در کسوت صوت است و بس تشنہ کامی ، این حرم بی زمزم است در بم و زیرش ھلاک آدم است سوز دل از دل برد غم می دھد زھر اندر ساغر جم می دھد غم دو قسم است ای برادر گوش کن شعلہ ی ما را چراغ ھوش کن یک غم است آن غم کہ آدم را خورد آن غم دیگر کہ ھر غم را خورد آن غم دیگر کہ ما را ھمدم است جان ما از صحبت او بی غم است اندرو ھنگامہ ھای غرب و شرق بحر و در وی جملہ موجودات غرق چون نشیمن می کند اندر دلی دل ازو گردد یم بی ساحلی بندگی از سرّ جان نا آگہی است زان غم دیگر سرود او تہی است من نمی گویم کہ آھنگش خطاست بیوہ زن را اینچنین شیون رواست نغمہ باید تند رو مانند سیل تا برد از دل غمان را خیل خیل نغمہ می باید جنون پروردہ ئی آتشی در خون و دل حل کردہ ئی از نم او شعلہ پروردن توان خامشی را جزو او کردن توان می شناسی در سرود است آن مقام ’’کاندرو بی حرف می روید کلام‘‘ نغمہ ی روشن چراغ فطرت است معنی او نقشبند صورت است اصل معنی را ندانم از کجاست صورتش پیدا و با ما آشناست نغمہ گر معنی ندارد مردہ ایست سوز او از آتش افسردہ ایست راز معنی مرشد رومی گشود فکر من بر آستانش در سجود ’’معنی آن باشد کہ بستاند تو را بی نیاز از نقش گرداند تو را معنی آن نبود کہ کور و کر کند مرد را بر نقش عاشقتر کند‘‘ مطرب ما جلوہ ی معنی ندید دل بصورت بست و از معنی رمید (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۴۶۱) مذھب غلامان در غلامی عشق و مذھب را فراق انگبین زندگانی بد مذاق عاشقی ؟ توحید را بر دل زدن وانگھی خود را بہ ھر مشکل زدن در غلامی عشق جز گفتار نیست کار ما گفتار ما را یار نیست کاروان شوق بی ذوق رحیل بی یقین و بی سبیل و بی دلیل دین و دانش را غلام ارزان دھد تا بدن را زندہ دارد جان دھد گرچہ بر لبہای او نام خداست قبلہ ی او طاقت فرمانرواست طاقتی نامش دروغ با فروغ از بطون او نزاید جز دروغ این صنم تا سجدہ اش کردی خداست چون یکی اندر قیام آئی فناست آن خدا نانی دھد جانی دھد این خدا جانی برد نانی دھد آن خدا یکتا ست این صد پارہ ایست آن ھمہ را چارہ این بیچارہ ایست آن خدا درمان آزار فراق این خدا اندر کلام او نفاق بندہ را با خویشتن خوگر کند چشم و گوش و ھوش را کافر کند چون بہ جان عبد خود راکب شود جان بہ تن لیکن ز تن غایب شود زندہ و بیجان چہ رازست این نگر با تو گویم معنی رنگین نگر مردن و ھم زیستن ای نکتہ رس این ھمہ از اعتبارات است و بس ماھیان را کوہ و صحرا بی وجود بہر مرغان قعر دریا بی وجود مرد کر سوز نوا را مردہ ئے لذّت صوت و صدا را مردہ ئی پیش چنگی مست و مسرور است کور پیش رنگی زندہ در گور است کور روح با حق زندہ و پایندہ ایست ورنہ این را مردہ آن را زندہ ایست آنکہ حیّ لایموت آمد حق است زیستن باحق حیات مطلق است ھر کہ بی حق زیست جز مردار نیست گرچہ کس در ماتم او زار نیست از نگاھش دیدنی ھا در حجاب قلب او بی ذوق و شوق انقلاب سوز مشتاقی بہ کردارش کجا نور آفاقی بہ گفتارش کجا مذھب او تنگ چون آفاق او از عشا تاریکتر اشراق او زندگی بار گران بر دوش او مرگ او پروردہ ی آغوش او عشق را از صحبتش آزار ھا از دمش افسردہ گردد نار ھا نزد آن کرمی کہ از گل بر نخاست مہر و ماہ و گنبد گردان کجاست از غلامی ذوق دیداری مجوی از غلامی جان بیداری مجوی دیدہ ی او محنت دیدن نبرد در جہان خورد و گران خوابید و مرد حکمران بگشایدش بندی اگر می نہد بر جان او بندی دگر سازد آئینی گرہ اندر گرہ گویدش می پوش ازین آئین زرہ ریز پیز قہر و کین بنمایدش بیم مرگ ناگہان افزایدش تا غلام از خویش گردد ناامید آرزو از سینہ گردد ناپدید گاہ او را خلعت زیبا دھد ھم زمام کار در دستش نہد مہرہ را شاطر ز کف بیرون جہاند بیدق خود را بہ فرزینی رساند نعمت امروز را شیداش کرد تا بہ معنی منکر فرداش کرد تن ستبر از مستی مہر ملوک جان پاک از لاغری مانند دوک گردد ار زار و زبون یک جان پاک بہ کہ گردد قریہ ی تن ھا ھلاک بند بر پا نیست بر جان و دل است مشکل اندر مشکل اندر مشکل است (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۴۶۷) مناجات بند اوّل آدمی اندر جہان ھفت رنگ ھر زمان گرم فغان مانند چنگ آرزوی ھم نفس می سوزدش نالہ ھای دل نواز آموزدش لیکن این عالم کہ از آب و گل است کی توان گفتن کہ دارای دل است بحر و دشت و کوہ و کہ خاموش و کر آسمان و مہر و مہ خاموش و کر گرچہ بر گردون ھجوم اختر است ھر یکی از دیگری تنھا تر است ھر یکی مانند ما بیچارہ ایست در فضای نیلگون آوارہ ایست کاروان، برگ سفر ناکردہ ساز بیکران افلاک و شب ھا دیر یاز این جہان صید است و صیادیم ما یا اسیر رفتہ از یادیم ما زار نالیدم صدائی برنخاست ھم نفس فرزند آدم را کجاست؟ (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۸۱) تمہید آسمانی نخستین روز آفرینش نکوھش می کند آسمان زمین را زندگی از لذت غیب و حضور بست نقش این جہان نزد و دور آنچنان تار نفس از ھم گسیخت رنگ حیرت خانۂ ایّام ریخت ھر کجا از ذوق و شوق خود گری نعرہ ی ’’من دیگرم ، تو دیگری‘‘ ماہ و اختر را خرام آموختند صد چراغ اندر فضا افروختند بر سپہر نیلگون زد آفتاب خیمہ ی زر بفت با سیمین طناب از افق صبح نخستین سر کشید عالم نو زادہ را در بر کشید ملک آدم خاکدانی بود و بس دشت او بی کاروانی بود و بس نی بہ کوھی آب جوئی در ستیز نی بہ صحرائی سحابی ریزریز نی سرود طایران در شاخسار نی رم آھو میان مرغزار بی تجلّی ھای جان بحر و برش دود پیچان طیلسان پیکرش سبزہ باد فرودین نادیدہ ئی اندر اعماق زمین خوابیدہ ئی طعنہ ئی زد چرخ نیلی بر زمین روزگار کس ندیدم این چنین چون تو در پہنای من کوری کجا جز بہ قندیلم تو را نوری کجا خاک اگر الوند شد جز خاک نیست روشن و پایندہ چون افلاک نیست یا بزی با ساز و برگ دلبری یا بمیر از ننگ و عار کمتری شد زمین از طعنہ ی گردون خجل نا امید و دل گران و مضمحل پیش حق از درد بی نوری تپید تا ندانی ز آنسوی گردون رسید ای امینی از امانت بیخبر غم مخور اندر ضمیر خود نگر روز ھا روشن ز غوغای حیات نی از آن نوری کہ بینی در جہات نور صبح از آفتاب داغ دار نور جان پاک از غبار روزگار نور جان بی جادہ ھا اندر سفر از شعاع مہر و مہ سیّار تر شستہ ئی از لوح جان نقش امید نور جان از خاک تو آید پدید عقل آدم بر جہان شبخون زند عشق او بر لامکان شبخون زند راہ دان اندیشہ ی او بی دلیل چشم او بیدار تر از جبرئیل خاک و در پرواز مانند ملک یک رباط کہنہ در راھش فلک می خلد اندر وجود آسمان مثل نوک سوزن اندر پرنیان داغہا شوید ز دامان وجود بی نگاہ او جھان کور و کبود گرچہ کم تسبیح و خونریز است او روزگاران را چو مہمیز است او چشم او روشن شود از کائنات تا ببیند ذات را اندر صفات ’’ھر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را‘‘ (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۸۷) نغمۂ ملائک فروغ مشت خاک از نوریان افزون شود روزی زمین ازکوکب تقدیر او گردون شود روزی خیال او کہ از سیل حوادث پرورش گیرد ز گرداب سپہر نیلگون بیرون شود روزی یکی در معنی آدم نگر از ما چہ می پرسی ھنوز اندر طبیعت می خلد موزون شود روزی چنان موزون شود این پیش پا افتادہ مضمونی کہ یزدان را دل از تأثیر او پُر خون شود روزی (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۸۹) تمہید زمینی گفتم ’’این زادن نمی دانم کہ چیست؟‘‘ گفت ’’شأنی از شئون زندگی است شیوہ ھای زندگی غیب و حضور آن یکی اندر ثبات آن در مُرور گہ بہ جلوت می گدازد خویش را گہ بہ خلوت جمع سازد خویش را جلوت او روشن از نور صفات خلوت او مستنیر از نور ذات عقل او را سوی جلوت می کشد عشق او را سوی خلوت می کشد عقل ھم خود را بدین عالم زند تا طلسم آب و گل را بشکند می شود ھر سنگ رہ او را ادیب می شود برق و سحاب او را خطیب چشمش از ذوق نگہ بیگانہ نیست لیکن او را جرأت رندانہ نیست پس ز ترس راہ چون کوری رود نرم نرمک صورت موری رود تا خرد پیچیدہ تر بر رنگ و بوست می رود آھستہ اندر راہ دوست کارش از تدریج می یابد نظام من ندانم کی شود کارش تمام می نداند عشق سال و ماہ را دیر و زود و نزد و دور راہ را عقل در کوھی شکافی می کند یا بہ گرد او طوافی می کند کوہ پیش عشق چون کاھی بود دل سریع السیّر چون ماھی بود عشق ، شبخونی زدن بر لامکان گور را نادیدہ رفتن از جھان زور عشق از باد و خاک و آب نیست قوتش از سختی اعصاب نیست عشق با نان جوین خیبر گشاد عشق در اندام مہ چاکی نہاد کلّہ ی نمرود بی ضربی شکست لشکر فرعون بی حربی شکست عشق در جان چون بہ چشم اندر نظر ھم درون خانہ ھم بیرون در عشق ھم خاکستر و ھم اخگر است کار او از دین و دانش برتر است عشق سلطان است و برھان مبین ھر دو عالم عشق را زیر نگین لا زمان و دوش فردائی ازو لامکان و زیر و بالائی ازو چون خودی را از خدا طالب شود جملہ عالم مرکب او راکب شود آشکاراتر مقام دل ازو جذب این دیر کہن باطل ازو عاشقان خود را بہ یزدان می دھند عقل تأویلی بہ قربان می دھند عاشقی؟ از سو بہ بی سوئی خرام مرگ را بر خویشتن گردان حرام ای مثال مردہ در صندوق گور می توان برخاستن بی بانگ صور در گلو داری نواھا خوب و نغز چند اندر گل بنالی مثل چغز بر مکان و بر زمان اسوار شو فارغ از پیچاک این زنّار شو تیز تر کن این دو چشم و این دو گوش ھر چہ می بینی نیوش از راہ ھوش آن کسی کو بانگ موران بشنود ھم ز دوران سرّ دوران بشنود آن نگاھ پردھ سوز از من بگیر کو بہ چشم اندر نمی گردد اسیر ’’آدمی دید است باقی پوست است دید آن باشد کہ دید دوست است (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۹۴) زمزمۂ انجم عقل تو حاصل حیات، عشق تو سرّ کائنات پیکر خاک خوش بیا، این سوی عالم جہات زھرہ و ماہ و مشتری از تو رقیب یکدگر از پی یک نگاہ تو کشمکش تجلیات در رہ دوست جلوہ ھاست تازہ بہ تازہ نو بہ نو صاحب شوق و آرزو دل ندھد بہ کلیات صدق و صفاست زندگی نشوونماست زندگی ’’تا ابد از ازل بتاز ملک خداست زندگی‘‘ شوق غزل سرای را رخصت ھای و ھو بدہ باز بہ رند و محتسب بادہ سبو سبو بدہ شام و عراق و ھند و پارس خو بہ نبات کردہ اند خو بہ نبات کردہ را تلخیِ آرزو بدہ تا بہ یم بلند موج معرکہ ئی بنا کند لذّت سیل تند رو با دل آب جو بدہ مرد فقیر آتش است میری و قیصری خس است فال و فر ملوک را حرف برھنہ ئی بس است دبدبہ ی قلندری، طنطنہ ی سکندری آن ھمہ جذبہ ی کلیم این ھمہ سحر و سامری آن بہ نگاہ می کشد این بہ سپاہ می کشد آن ھمہ صلح و آشتی این ھمہ جنگ و داوری ھر دو جہان گشاستند ھر دو دوام خواستند این بہ دلیل قاھری، آن بہ دلیل دلبری ضرب قلندری بیار سدّ سکندری شکن رسم کلیم تازہ کن رونق ساحری شکن (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۵۰۰) ندای جمال کلک حق از نقشہای خوب و زشت ھر چہ ما را سازگار آمد نوشت چیست بودن دانی ای مرد نجیب؟ از جمال ذات حق بُردن نصیب آفریدن جستجوی دلبری وانمودن خویش را بر دیگری این ھمہ ھنگامہ ھای ھست و بود بی جمال ما نیاید در وجود زندگی ھم فانی و ھم باقی است این ھمہ خلّاقی و مشتاقی است زندہ ئی؟ مشتاق شو خلاّق شو ھمچو ما گیرندہ ی آفاق شو در شکن آن را کہ ناید سازگار از ضمیر خود دگر عالم بیار بندہ ی آزاد را آید گران زیستن اندر جھان دیگران ھر کہ او را قوت تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست از جمال ما نصیب خود نبرد از نخیل زندگانی بر نخورد مرد حق برّندہ چون شمشیر باش خود جہان خویش را تقدیر باش (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۶۶۰) خطاب بہ مہر عالمتاب ای امیر خاور ای مہر منیر می کنی ھر ذرّہ را روشن ضمیر از تو این سوز و سُرور اندر وجود از تو ھر پوشیدہ را ذوق نمود می رود روشنتر از دست کلیم زورق زرّین تو در جوی سیم پرتو تو ماہ را مہتاب داد لعل را اندر دل سنگ آب داد لالہ را سوز درون از فیض توست در رگ او موج خون از فیض توست نرگسان صد پردہ را بر می درد تا نصیبی از شعاع تو برد خوش بیا صبح مراد آوردہ ئی ھر شجر را نخل سینا کردہ ئی تو فروغ صبح و من پایان روز در ضمیر من چراغی برفروز تیرہ خاکم را سراپا نور کن در تجلّی ھای خود مستور کن تا بہ روز آرم شب افکار شرق برفروزم سینہ ی احرار شرق از نوائی پختہ سازم خام را گردش دیگر دھم ایّام را فکر شرق آزاد گردد از فرنگ از سرود من بگیرد آب و رنگ زندگی از گرمی ذکر است و بس حریت از عفت فکر است و بس چون شود اندیشہ ی قومی خراب ناسرہ گردد بہ دستش سیم ناب میرد اندر سینہ اش قلب سلیم در نگاہ او کج آید مستقیم بر کران از حرب و ضرب کائنات چشم او اندر سکون بیند حیات موج از دریاش کم گردد بلند گوھر او چون خزف نا ارجمند پس نخستین بایدش تطہیر فکر بعد از آن آسان شود تعمیر فکر (پس چہ باید کرد ،کلیات اقبال فارسی، ص۶۸۴) حکمت کلیمی تا نبوت حکم حق جاری کند پشت پا بر حکم سلطان می زند در نگاھش قصر سلطان کہنہ دیر غیرت او بر نتابد حکم غیر پختہ سازد صحبتش ھر خام را تازہ غوغائی دھد ایّام را درس او اﷲ بس باقی ھوس تا نیفتد مرد حق در بند کس از نم او آتش اندر شاخ تاک در کف خاک از دم او جان پاک معنی جبریل و قرآن است او فطرۃ اﷲ را نگہبان است او حکمتش برتر ز عقل ذوفنون از ضمیرش امتی آید برون حکمرانی بی نیاز از تخت و تاج بی کلاہ و بی سپاہ و بی خراج از نگاھش فرودین خیزد ز دی دُردِ ھر خم تلختر گردد ز می اندر آہ صبحگاہ او حیات تازہ از صبح نمودش کائنات بحر و بر از زور طوفانش خراب در نگاہ او پیام انقلاب درس ’’لا خوف علیہم‘‘ می دھد تا دلی در سینہ ی آدم نہد عزم و تسلیم و رضا آموزدش در جہان مثل چراغ افروزدش من نمی دانم چہ افسون می کند روح را در تن دگرگون می کند صحبت او ھر خزف را دُر کند حکمت او ھر تہی را پُر کند بندہ ی درماندہ را گوید کہ خیز ھر کہن معبود را کن ریز ریز مرد حق افسون این دیر کہن از دو حرف ’’ربّی الاعلٰی‘‘ شکن فقر خواھی از تہی دستی منال عافیت در حال و نی در جاہ و مال صدق و اخلاص و نیاز و سوز و درد نی زر و سیم و قماش سرخ و زرد بگذر از کاووس و کی ای زندہ مرد طوف خود کن گِردِ ایوانی مگرد از مقام خویش دور افتادہ ئی کرگسی کم کن کہ شاھین زادہ ئی مرغک اندر شاخسار بوستان بر مراد خویش بندد آشیان تو کہ داری فکرت گردون مسیر خویش را از مرغکی کمتر مگیر دیگر این نُہ آسمان تعمیر کن بر مراد خود جہان تعمیر کن چون فنا اندر رضای حق شود بندہ ی مؤمن قضای حق شود چار سوی با فضای نیلگون از ضمیر پاک او آید برون در رضای حق فنا شو چون سلف گوھر خود را برون آر از صدف در ظلام این جہان سنگ و خشت چشم خود روشن کن از نور سرشت تا نگیری از جلال حق نصیب ھم نیابی از جمال حق نصیب ابتدای عشق و مستی قاھری است انتہای عشق و مستی دلبری است مرد مؤمن از کمالات وجود او وجود و غیر او ھر شی نمود گر بگیرد سوز و تاب از لاالہ جز بہ کام او نگردد مھر و مہ (پس چہ باید کرد،کلیات اقبال فارسی، ص۶۸۵) مرد حُر مرد حُر محکم ز ورد لاتخف ما بہ میدان سر بہ جیب او سر بہ کف مرد حُر از لاالہ روشن ضمیر می نگردد بندہ ی سلطان و میر مرد حر چون اشتران باری برد مرد حر باری برد خاری خورد پای خود را آنچنان محکم نہد نبض رہ از سوز او بر می جہد جان او پایندہ تر گردد ز موت بانگ تکبیرش برون از حرف و صوت ھر کہ سنگ راہ را داند زجاج گیرد آن درویش از سلطان خراج گرمی طبع تو از صہبای اوست جوی تو پروردہ ی دریای اوست پادشاھان در قباھای حریر زرد رو از سھم آن عریان فقیر سرّ دین ما را خبر، او را نظر او درون خانہ ما بیرون در ما کلیسا دوست، ما مسجد فروش او ز دست مصطفٰی پیمانہ نوش نی مغان را بندہ، نی ساغر بہ دست ما تہی پیمانہ او مست الست چہرہ ی گل از نم او احمر است ز آتش ما دود او روشنتر است دارد اندر سینہ تکبیر امم در جبین اوست تقدیر امم قبلہ ی ما گہ کلیسا، گاہ دیر او نخواھد رزق خویش از دست غیر ما ھمہ عبد فرنگ او عبدہ او نگنجد در جہان رنگ و بو صبح و شام ما بہ فکر ساز و برگ آخر ما چیست؟ تلخیہای مرگ در جہان بی ثبات او را ثبات مرگ او را از مقامات حیات اھل دل از صحبت ما مضمحل گِل ز فیض صحبتش دارای دل کار ما وابستہ ی تخمین و ظن او ھمہ کردار و کم گوید سخن ما گدایان کوچہ گرد و فاقہ مست فقر او از لاالہ تیغی بہ دست ما پر کاھی اسیر گرد باد ضربش از کوہ گران جوئی گشاد محرم او شو ز ما بیگانہ شو خانہ ویران باش و صاحب خانہ شو شکوہ کم کن از سپہر گرد گرد زندہ شو از صحبت آن زندہ مرد صحبت از علم کتابی خوشتر است صحبت مردان حر آدم گر است مرد حر دریای ژرف و بیکران آب گیر از بحر و نی از ناودان سینہ ی این مردمی جوشد چو دیگ پیش او کوہ گران یک تودہ ریگ روز صلح آن برگ و ساز انجمن ھم چو باد فرودین اندر چمن روز کین آن محرم تقدیر خویش گور خود می کَند از شمشیر خویش (پس چہ باید کرد،کلیات اقبال فارسی، ص۶۹۸) رباعی مسلمان بندہ مولا صفات است دل او سرّی از اسرار ذات است جمالش جز بہ نور حق نبینی کہ اصلش در ضمیر کائنات است (ارمغان حجاز،کلیات اقبال فارسی، ص۸۲۲) ۲:۱ بیخودی پیشکش بہ حضور ملّت اسلامیہ منکر نتوان گشت اگر دم زنم از عشق این نشہ بہ من نیست اگر با دگری ھست (عرفی) ای تو را حق خاتم اقوام کرد بر تو ھر آغاز را انجام کرد ای مثال انبیا پاکان تو ھمگر دلھاٰ جگر چاکان تو ای نظر بر حسن ترساٰزادہ ئی ای ز راہ کعبہ دور افتادہ ئی ای فلک مشت غبار کوی تو ’’ای تماشا گاہ عالم روی تو‘‘ ھمچو موج، آتش تہ پا می روی ’’تو کجا بہر تماشا می روی‘‘ رمز سوز آموز از پروانہ ئی در شرر تعمیر کن کاشانہ ئی طرح عشق انداز اندر جان خویش تازہ کن با مصطفیٰؐ پیمان خویش خاطرم از صحبت ترسا گرفت تا نقاب روی تو بالا گرفت ھم نوا از جلوہ ی اغیار گفت داستان گیسو و رخسار گفت بر در ساقی جبین فرسود او قصّہ ی مغ زادگان پیمود او من شہید تیغ ابروی تو ام خاکم و آسودہ ی کوی تو ام از ستایش گستری بالاترم پیش ھر دیوان فرو ناید سرم از سخن آئینہ سازم کردہ اند وز سکندر بی نیازم کردہ اند بار احسان بر نتابد گردنم در گلستان غنچہ گردد دامنم سخت کوشم مثل خنجر در جہان آب خود می گیرم از سنگ گران گرچہ بحرم موج من بیتاب نیست بر کف من کاسہ ی گرداب نیست پردہ ی رنگم شمیمی نیستم صید ھر موج نسیمی نیستم در شرار آباد ھستی اخگرم خلعتی بخشد مرا خاکسترم بر درت جانم نیاز آوردہ است ھدیہ ی سوز و گداز آوردہ است ز آسمان آبگون یم میچکد بر دل گرمم دمادم میچکد من ز جو باریکتر میسازمش تا بہ صحن گلشنت اندازمش زانکہ تو محبوب یار ماستی ھمچو دل اندر کنار ماستی عشق تا طرح فغان در سینہ ریخت آتش او از دلم آئینہ ریخت مثل گل از ھم شکافم سینہ را پیش تو آویزم این آئینہ را تا نگاھی افکنی بر روی خویش می شوی زنجیری گیسوی خویش باز خوانم قصّہ ی پارینہ ات تازہ ساٰزم داغہای سینہ ات از پی قوم ز خود نامحرمی خواستم از حق حیات محکمی در سکوت نیم شب نالان بُدم عالم اندر خواب و من گریان بدم جانم از صبر و سکون محروم بود ورد من یاحیّ و یاقیوم بود آرزوئی داشتم خون کردمش تا ز راہ دیدہ بیرون کردمش سوختن چون لالہ پیہم تا کجا از سحر دریوز شبنم تا کجا اشک خود بر خویش می ریزم چو شمع با شب یلدا در آویزم چو شمع جلوہ را افزودم و خود کاستم دیگران را محفلی آراستم یک نفس فرصت ز سوز سینہ نیست ھفتہ ام شرمندہ ی آدینہ نیست جانم اندر پیکر فرسودہ ئی جلوہ ی آھی است گرد آلودہ ئی چون مرا صبح ازل حق آفرید نالہ در ابریشم عودم تپید نالہ ئی افشا گر اسرار عشق خونبہای حسرت گفتار عشق فطرت آتش دھد خاشاک را شوخی پروانہ بخشد خاک را عشق را داغی مثال لالہ بس در گریبانش گل یک نالہ بس من ھمین یک گل بہ دستارت زنم محشری بر خواب سرشارت زنم تا ز خاکت لالہ زار آید پدید از دمت باد بھاٰر آید پدید (رموز بے خودی،کلیات اقبال فارسی، ص۹۵) ۳:۱ عورت خطاب بہ مخدّرات اسلام ای ردایت پردہ ی ناموس ما تاب تو سرمایہ ی فانوس ما طینت پاک تو ما را رحمت است قوت دین و اساس ملت است کودک ما چون لب از شیر تو شست لاالہ آموختی او را نخست میتراشد مہر تو اطوار ما فکر ما گفتار ما کردار ما برق ما کو در سحابت آرمید بر جبل رخشید و در صحرا تپید ای امین نعمت آئین حق در نفسہای تو سوز دین حق دور حاضر تر فروش و پر فن است کاروانش نقد دین را رھزن است کور و یزدان ناشناس ادراک او ناکسان زنجیری پیچاک او چشم او بیباک و ناپرواستی پنجہ ی مژگان او گیراستی صید او آزاد خواند خویش را کشتہ ی او زندہ داند خویش را آب بند نخل جمعیت توئی حافظ سرمایہ ی ملت توئی از سر سود و زیان سودا مزن گام جز بر جادہ ی آبا مزن ھوشیار از دستبرد روزگار گیر فرزندان خود را در کنار این چمن زادان کہ پر نگشادہ اند ز آشیان خویش دور افتادہ اند فطرت تو جذبہ ھا دارد بلند چشم ھوش از اسوہ ی زھرا مبند تا حسینی شاخ تو بار آورد موسم پیشین بہ گلزار آورد (رموز بیخودی،کلیات اقبال فارسی، ص۱۶۱) محکمات عالم قرآنی زندگی ای زندہ دل دانی کہ چیست عشق یک بین در تماشای دوئی است مرد و زن وابستہ ی یکدیگرند کائنات شوق را صورتگرند زن نگہدارندہ ی نار حیات فطرت او لوح اسرار حیات آتش ما را بہ جان خود زند جوھر او خاک را آدم کند در ضمیرش ممکنات زندگی از تب و تابش ثبات زندگی شعلہ ئی کز وی شرر ھا در گسست جان و تن بی سوز او صورت نبست ارج ما از ارجمندیھای او ما ھمہ از نقشبندیھای او حق تو را داد است اگر تاب نظر پاک شو قدسیّت او را نگر ای ز دینت عصر حاضر بردہ تاب فاش گویم با تو اسرار حجاب ذوق تخلیق آتشی اندر بدن از فروغ او فروغ انجمن ھر کہ بردارد ازین آتش نصیب سوز و ساز خویش را گردد رقیب ھر زمان بر نقش خود بندد نظر تا نگیرد لوح او نقش دگر مصطفٰی اندر حرا خلوت گزید مدّتی جز خویشتن کس را ندید نقش ما را در دل او ریختند ملّتی از خلوتش انگیختند می توانی منکر یزدان شدن منکر از شأن نبی نتوان شدن گرچہ داری جان روشن چون کلیم ھست افکار تو بی خلوت عقیم از کم آمیزی تخیل زندہ تر زندہ تر جویندہ تر یابندہ تر (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۵۸۸) دختران ملّت بھل ای دخترک این دلبری ھا مسلمان را نزیبد کافری ھا منہ دل بر جمال غازہ ہرو بیا موز از نگہ غارتگری ہا ٭ ضمیر عصر حاضر بی نقاب است گشادش در نمود رنگ و آب است جہانتابی ز نور حق بیاموز کہ او با صد تجلّی در حجاب است ٭ جہان را محکمی از امہات است نہادشان امین ممکنات است اگر این نکتہ را قومی نداند نظام کار و بارش بی ثبات است ٭ مرا داد این خرد پرور جنونی نگاہ مادر پاک اندرونی ز مکتب چشم و دل نتوان گرفتن کہ مکتب نیست جز سحر و فسونی (ارمغان حجاز،کلیات اقبال فارسی، ص۵۶۸) ۴:۱ سیاست جمہوریت متاع معنی بیگانہ از دون فطرتان جوئی ز موران شوخی طبع سلیمانی نمی آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کاری شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید (پیام مشرق،کلیات اقبال فارسی، ص۲۸۵) نوای مزدور ز مزد بندہ ی کرپاس پوش محنت کش نصیب خواجہ ی ناکردہ کار رخت حریر ز خوی فشانی من لعل خاتم والی ز اشک کودک من گوھر ستام امیر ز خون من چو زلو فربہی کلیسا را بزور بازوی من دست سلطنت ھمہ گیر خرابہ رشک گلستان ز گریہ ی سحرم شباب لالہ و گل از طراوت جگرم ٭ بیا کہ تازہ نوا می تراود از رگ ساز مئی کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم مغان و دیر مغان را نظام تازہ دھیم بنای میکدہ ھای کہن براندازیم ز رھزنان چمن انتقام لالہ کشیم بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم بہ طوف شمع چو پروانہ زیستن تا کی؟ ز خویش اینہمہ بیگانہ زیستن تا کی؟ (پیام مشرق،کلیات اقبال فارسی، ص۳۳۷) غزل خاور کہ آسمان بہ کمند خیال اوست از خویشتن گسستہ و بی سوز آرزوست در تیرہ خاک او تب و تاب حیات نیست جولان موج را نگران از کنار جوست بتخانہ و حرم ھمہ افسردہ آتشی پیر مغان شراب ھوا خوردہ در سبوست فکر فرنگ پیش مجاز آورد سجود بینای کور و مست تماشای رنگ و بوست گردندہ تر ز چرخ و ربایندہ تر ز مرگ از دست او بہ دامن ما چاک بی رفوست خاکی نھاد و خو ز سپہر کہن گرفت عیّار و بی مدار و کلان کار و تو بہ توست مشرق خراب و مغرب از آن بیشتر خراب عالم تمام مُردہ و بی ذوق جستجوست ساقی بیار بادہ و بزم شبانہ ساز ما را خراب یک نگہ محرمانہ ساز (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۳۷۶) از خواب گراں خیز ای غنچہ ی خوابیدہ چو نرگس نگران خیز کاشانہ ی ما رفت بہ تاراج غمان خیز از نالہ ی مرغ چمن از بانگ اذان خیز از گرمی ھنگامہ ی آتش نفسان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز خورشید کہ پیرایہ بہ سیمای سحر بست آویزہ بہ گوش سحر از خون جگر بست از دشت و جبل قافلہ ھا رخت سفر بست ای چشم جہان بین بہ تماشای جہان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز خاور ھمہ مانند غبار سر راھی است یک نالہ ی خاموش و اثر باختہ آھی است ھر ذرہ این خاک گرہ خوردہ نگاھی است از ھند و سمرقند و عراق و ھمدان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز دریای تو دریاست کہ آسودہ چو صحراست دریای تو دریاست کہ افزون نشد و کاست بیگانہ ی آشوب و نہنگ است چہ دریاست از سینہ ی چاکش صفت موج روان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز این نکتہ گشایندہ ی اسرار نہان است ملک است تن خاکی و دین روح و روان است تن زندہ و جان زندہ ز ربط تن و جان است با خرقہ و سجادہ و شمشیر و سنان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز ناموس ازل را تو امینی تو امینی دارای جہان را تو یساری تو یمینی ای بندہ ی خاکی تو زمانی تو زمینی صہبای یقین در کش و از دیر گمان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز فریاد ز افرنگ و دلآویزی افرنگ فریاد ز شیرینی و پرویزی افرنگ عالم ھمہ ویرانہ ز چنگیزی افرنگ معمار حرم باز بہ تعمیر جہان خیز از خواب گران خواب گران خواب گران خیز از خواب گران خیز (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۳۹۴) سئوال ھفتم مسافر چون بود رھرو کدام است کرا گویم کہ او مرد تمام است جواب اگرچہ چشمی گشائی بر دل خویش درون سینہ بینی منزل خویش سفر اندر حضر کردن چنین است سفر از خود بہ خود کردن ھمین است کسی اینجا نداند ما کجائیم کہ در چشم مہ و اختر نیائیم مجو پایان کہ پایانی نداری بہ پایان تا رسی جانی نداری نہ ما را پختہ پنداری کہ خامیم بہ ھر منزل تمام و ناتمامیم بہ پایان نارسیدن زندگانی است سفر ما را حیات جاودانی است ز ماھی تا بہ مہ جولانگہ ما مکان و ھم زمان گرد رہ ما بہ خود پیچیم و بیتاب نمودیم کہ ما موجیم و از قعر وجودیم دمادم خویش را اندر کمین باش گریزان از گمان سوی یقین باش تب و تاب محبت را فنا نیست یقین و دید را نیز انتہا نیست کمال زندگی دیدار ذات است طریقش رستن از بند جہات است چنان با ذات حق خلوت گزینی تو را او بیند و او را تو بینی منور شو ز نور ’’من یرانی‘‘ مژہ برھم مزن تو خود نمانی بہ خود محکم گذر اندر حضورش مشو ناپید اندر بحر نورش نصیب ذرّہ کن آن اضطرابی کہ تابد در حریم آفتابی چنان در جلوہ گاہ یار می سوز عیان خود را نہان او را برافروز کسی کو دید عالم را امام است من و تو ناتمامیم او تمام است اگر او را نیابی در طلب خیز اگر یابی بہ دامانش در آویز فقیہ و شیخ و ملاّ را مدہ دست مرو مانند ماھی غافل از شست بہ کار ملک و دین او مرد راھی است کہ ما کوریم و او صاحب نگاھی است مثال آفتاب صبحگاھی دمد از ھر بن مویش نگاھی فرنگ آئین جمہوری نہاد ست رسن از گردن دیوی گشادست نوا بی زخمہ و سازی ندارد ابی طیّارہ پروازی ندارد ز باغش کشت ویرانی نکوتر ز شہر او بیابانی نکوتر چو رھزن کاروانی در تک و تاز شکمہا بہر نانی در تک و تاز روان خوابید و تن بیدار گردید ھنر با دین و دانش خوار گردید خرد جز کافری کافر گری نیست فن افرنگ جز مردم دری نیست گروھی را گروھی در کمین است خدایش یار اگر کارش چنین است ز من دہ اھل مغرب را پیامی کہ جمہور است تیغ بی نیامی چہ شمشیری کہ جانہا می ستاند تمیز مسلم و کافر نداند نماند در غلاف خود زمانی برد جان خود و جان جہانی (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۴۴۸) افغانی دین و وطن لُرد مغرب آن سراپا مکر و فن اھل دین را داد تعلیم وطن او بہ فکر مرکز و تو در نفاق بگذر از شام و فلسطین و عراق تو اگر داری تمیز خوب و زشت دل نبندی با کلوخ و سنگ و خشت چیست دین برخاستن از روی خاک تا ز خود آگاہ گردد جان پاک می نگنجد آنکہ گفت اﷲ ھو در حدود این نظام چار سو پرّ کہ از خاک و برخیزد ز خاک حیف اگر در خاک میرد جان پاک گرچہ آدم بردمید از آب و گل رنگ و نم چون گل کشید از آب و گل حیف اگر در آب و گل غلتد مدام حیف اگر برتر نپرّد زین مقام گفت تن در شو بہ خاک رھگذر گفت جان پہنای عالم را نگر جان نگنجد در جہات ای ھوشمند مرد حُر بیگانہ از ھر قید و بند حُر ز خاک تیرہ آید در خروش زانکہ از بازان نیاید کار موش آن کف خاکی کہ نامیدی وطن اینکہ گوئی مصر و ایران و یمن با وطن اھل وطن را نسبتی است زانکہ از خاکش طلوع ملّتی است اندرین نسبت اگر داری نظر نکتہ ئی بینی ز مو باریک تر گرچہ از مشرق برآید آفتاب با تجلّی ھای شوخ و بی حجاب در تب و تاب است از سوز درون تا ز قید شرق و غرب آید برون بر دمد از مشرق خود جلوہ مست تا ھمہ آفاق را آرد بدست فطرتش از مشرق و مغرب بری است گرچہ او از روی نسبت خاوری است (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۵۳۴) اشتراک و ملوکیت صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آن پیغمبری بی جبرئیل زانکہ حق در باطل او مضمر است قلب او مؤمن دماغش کافر است غربیان گم کردہ اند افلاک را در شکم جویند جان پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جز بہ تن کاری ندارد اشتراک دین آن پیغمبری حق ناشناس بر مساوات شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است ھم ملوکیت بدن را فربہی است سینہ ی بی نور او از دل تہی است مثل زنبوری کہ بر گل می چرد برگ را بگذارد و شہدش برد شاخ و برگ و رنگ و بوی گل ھمان بر جمالش نالہ ی بلبل ھمان از طلسم رنگ و بوی او گذر ترک صورت گوی و در معنی نگر مرگ باطن گرچہ دیدن مشکل است گل مخوان او را کہ در معنی گل است ھر دو را جان ناصبور و ناشکیب ھر دو یزدان ناشناس آدم فریب زندگی این را خروج آن را خراج در میان این دو سنگ آدم زجاج این بہ علم و دین و فن آرد شکست آن برد جان را ز تن نان را ز دست غرق دیدم ھر دو را در آب و گل ھر دو را تن روشن و تاریک دل زندگانی سوختن با ساختن در گلی تخم دلی انداختن (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۵۳۶) حرکت بہ کاخِ سلاطین مشرق زندہ رود می شناسی چیست تہذیب فرنگ در جہان او دو صد فردوس رنگ جلوہ ھایش خانمانہا سوختہ شاخ و برگ و آشیانہا سوختہ ظاھرش تابندہ و گیرندہ ایست دل ضعیف است و نگہ را بندہ ایست چشم بیند دل بلغزد اندرون پیش این بتخانہ افتد سرنگون کس نداند شرق را تقدیر چیست دل بہ ظاھر بستہ را تدبیر چیست ابدالی آنچہ بر تقدیر مشرق قادر است حزم و حزم پھلوی و نادر است پہلوی آن وارث تخت قباد ناخن او عقدہ ی ایران گشاد نادر آن سرمایہ ی دُرّانیان آن نظام ملّت افغانیان از غم دین و وطن زار و زبون لشکرش از کوھسار آمد برون ھم سپاھی ، ھم سپہ گر ، ھم امیر با عدو فولاد و با یاران حریر من فدای آنکہ خود را دیدہ است عصر حاضر را نکو سنجیدہ است غربیان را شیوہ ھای ساحری است تکیہ جز بر خویش کردن کافری است (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۶۴۹) سیاسیات حاضرہ ای تہی از ذوق و شوق و سوز و درد می شناسی عصر ما با ما چہ کرد؟ عصر ما ما را ز ما بیگانہ کرد از جمال مصطفٰی بیگانہ کرد سوز او تا از میان سینہ رفت جوھر آئینہ از آئینہ رفت باطن این عصر را نشناختی داو اوّل خویش را در باختی تا دماغ تو بہ پیچاکش فتاد آرزوی زندہ ئی در دل نزاد احتساب خویش کن از خود مرو یک دو دم از غیر خود بیگانہ شو تا کجا این خوف و وسواس و ھراس اندر این کشور مقام خود شناس این چمن دارد بسی شاخ بلند بر نگون شاخ آشیان خود مبند نغمہ داری در گلو ای بیخبر جنس خود بشناس و با زاغان مپر خویشتن را تیزی شمشیر دہ باز خود را در کف تقدیر دہ اندرون توست سیل بی پناہ پیش او کوہ گران مانند کاہ سیل را تمکین ز نا آسودن است یک نفس آسودنش نابودن است من نہ ملاّ ، نی فقیہ نکتہ ور نی مرا از فقر و درویشی خبر در رہ دین تیز بین و سست گام پختہ ی من خام و کارم ناتمام تا دل پر اضطرابم دادہ اند یک گرہ از صد گرہ بگشادہ اند ’’از تب و تابم نصیب خود بگیر بعد ازین ناید چو من مرد فقیر‘‘ (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۶۹۶) اشکی چند بر افتراق ھندیان ای ھمالہ ! ای اطک ! ای رود گنگ! زیستن تا کی چنان بی آب و رنگ پیر مردان از فراست بی نصیب نوجوانان از محبت بی نصیب شرق و غرب آزاد و ما نخچیر غیر خشت ما سرمایہ ی تعمیر غیر زندگانی بر مراد دیگران جاودان مرگست، نی خواب گران نیست این مرگی کہ آید ز آسمان تخم او می بالد ز اعماق جان صید او نی مردہ شو خواھد نہ گور نی ھجوم دوستان از نزد و دور جامہ ی کس در غم او چاک نیست دوزخ او آنسوی افلاک نیست در ھجوم روز حشر او را مجو ھست در امروز او فردای او ھر کہ اینجا دانہ کشت اینجا درود پیش حق آن بندہ را بردن چہ سود اُمّتی کز آرزو نیشی نخورد نقش او را فطرت از گیتی سترد اعتبار تخت و تاج از ساحری است سخت چون سنگ این زجاج از ساحریست در گذشت از حکم این سحر مبین کافری از کفر، دینداری ز دین ھندیان با یکدگر آویختند فتنہ ھای کہنہ باز انگیختند تا فرنگی قومی از مغرب زمین ثالث آمد در نزاع کفر و دین کس نداند جلوہ ی آب از سراب انقلاب ای انقلاب ای انقلاب ای تو را ھر لحظہ فکر آب و گل از حضور حق طلب یک زندہ دل آشیانش گرچہ در آب و گل است نُہ فلک سر گشتہ ی این یک دل است تا نپنداری کہ از خاک است او از بلندی ھای افلاک است او این جہان او را حریم کوی دوست از قبای لالہ گیرد بوی دوست ھر نفس با روزگار اندر ستیز سنگ رہ از ضربت او ریز ریز آشنای منبر و دار است او آتش خود را نگہدار است او آب جوی و بحر ھا دارد بہ بر می دھد موجش ز طوفانی خبر زندہ و پایندہ بی نان تنور میرد آن ساعت کہ گردد بی حضور چون چراغ اندر شبستان بدن روشن از وی خلوت و ھم انجمن اینچنین دل، خود نگر، اﷲ مست جز بہ درویشی نمی آید بہ دست ای جوان دامان او محکم بگیر در غلامی زادہ ئی آزاد میر (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۷۰۴) ۵:۱ تعلیم و تربیت خطاب بہ پادشاہ اسلام اعلحضرت ظاھر شاہ برگ و ساز ما کتاب و حکمت است این دو قوت اعتبار ملّت است آن فتوحات جہان ذوق و شوق این فتوحات جہان تحت و فوق ھر دو انعام خدای لایزال مؤمنان را آن جمال است این جلال حکمت اشیا فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلمان زادہ است این گہر از دست ما افتادہ است چون عرب اندر اروپا پر گشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آن صحرا نشینان کاشتند حاصلش افرنگیان برداشتند این پری از شیشہ ی اسلاف ماست باز صیدش کن کہ او از قاف ماست لیکن از تہذیب لا دینی گریز زانکہ او با اھل حق دارد ستیز فتنہ ھا این فتنہ پرداز آورد لات و عزّی در حرم باز آورد از فسونش دیدہ ی دل نا بصیر روح از بی آبی او تشنہ میر لذت بیتابی از دل می برد بلکہ دل زین پیکر گل می برد کہنہ دزدی غارت او برملا ست لالہ می نالد کہ داغ من کجاست (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۷۴۸) خطاب بہ جاوید (سخنی بہ نژاد نو) گر خدا سازد تو را صاحب نظر روزگاری را کہ می آید نگر عقلہا بیباک و دلھا بی گداز چشمہا بی شرم و غرق اندر مجاز علم و فن دین و سیاست، عقل و دل زوج زوج اندر طواف آب و گل آسیا آن مرز و بوم آفتاب غیر بین از خویشتن اندر حجاب قلب او بی واردات نو بہ نو حاصلش را کس نگیرد با دو جو نوجوانان تشنہ لب خالی ایاغ شستہ رو تاریک جان روشن دماغ کم نگاہ و بی یقین و نا امید چشم شان اندر جہان چیزی ندید ناکسان منکر ز خود مؤمن بہ غیر خشت بند از خاکشان معمار دیر مکتب از مقصود خویش آگاہ نیست تا بہ جذب اندرونش راہ نیست نور فطرت راز جانہا پاک شست یک گل رعنا ز شاخ او نرست خشت را معمار ما کج می نہد خوی بط با بچّہ ی شاھین دھد علم تا سوزی نگیرد از حیات دل نگیرد لذّتی از واردات علم جز شرح مقامات تو نیست علم جز تفسیر آیات تو نیست سوختن می باید اندر نار حس تا بدانی نقرہ ی خود را ز مس علم حق اوّل حواس آخر حضور آخر او می نگنجد در شعور سرّ دین صدق مقال اکل حلال خلوت و جلوت تماشای جمال در رہ دین سخت چون الماس زی دل بہ حق بر بند و بی وسواس زی سرّی از اسرار دین بر گویمت داستانی از مظفر گویمت اندر اخلاص عمل فرد فرید پادشاھی با مقام بایزید پیش او اسبی چو فرزندان عزیز سخت کوش چون صاحب خود در ستیز سبزہ رنگی از نجیبان عرب باوفا، بی عیب، پاک اندر نسب مرد مؤمن را عزیز ای نکتہ رس چیست جز قرآن و شمشیر و فرس؟ من چہ گویم وصف آن خیر الجیاد کوہ و روی آبہا رفتی چو باد روز ھیجا از نظر آمادہ تر تند بادی طایف کوہ و کمر در تک او فتنہ ھای رستخیز سنگ از ضرب سُم او ریز ریز روزی آن حیوان چو انسان ارجمند گشت از درد شکم زار و نژند کرد بیطاری علاجش از شراب اسب شہ را وارھاند از پیچ و تاب شاہ حق بین دیگر آن یکران نخواست شرع تقوی از طریق ما جداست ای تو را بخشد خدا قلب و جگر طاعت مرد مسلمانی نگر (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۶۶۸) حکمت فرعونی حکمت ارباب دین کردم عیان حکمت ارباب کین را ھم بدان حکمت ارباب کین مکر است و فن مکر و فن تخریب جان، تعمیر تن حکمتی از بند دین آزادہ ئی از مقام شوق دور دافتادہ ئی مکتب از تدبیر او گیرد نظام تا بہ کام خواجہ اندیشد غلام شیخ ملت با حدیث دلنشین بر مراد او کند تجدید دین از دم او وحدت قومی دو نیم کس حریفش نیست جز چوب کلیم وای قومی کشتہ ی تدبیر غیر کار او تخریب خود تعمیر غیر می شود در علم و فن صاحب نظر از وجود خود نگردد با خبر نقش حق را از نگین خود سترد در ضمیرش آرزوھا زاد و مُرد بی نصیب آمد ز اولاد غیور جان بہ تن چون مردہ ئی در خاک گور از حیا بیگانہ پیران کہن نوجوانان چون زنان مشغول تن در دل شان آرزوھا بی ثبات مُردہ زایند از بطون امہات دختران او بہ زلف خود اسیر شوخ چشم و خود نما و خُردہ گیر ساختہ پرداختہ دل باختہ ابروان مثل دو تیغ آختہ ساعد سیمین شان عیش نظر سینہ ی ماھی بہ موج اندر نگر ملتی خاکستر او بی شرر صبح او از شام او تاریکتر ھر زمان اندر تلاش ساز و برگ کار او فکر معاش و ترس مرگ منعمان او بخیل و عیش دوست غافل از مغزاند و اندر بند پوست قوت فرمانروا معبود او در زیان دین و ایمان سود او از حد امروز خود بیرون نجست روزگارش نقش یک فردا نبست از نیاکان دفتری اندر بغل الامان از گفتہ ھای بی عمل دین او عہد وفا بستن بہ غیر یعنی از خشت حرم تعمیر دیر آہ قومی دل ز حق پرداختہ مُرد و مرگ خویش را نشناختہ (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۶۸۷) در اسرار شریعت آدمی اندر جہان خیر و شر کم شناسد نفع خود را از ضرر کس نداند زشت و خوب کار چیست جادہ ی ھموار و ناھموار چیست شرع بر خیزد ز اعماق حیات روشن از نورش ظلام کائنات (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۷۰۱) گر جہان داند حرامش را حرام تا قیامت پختہ ماند این نظام نیست این کار فقیہان ای پسر با نگاھی دیگری او را نگر حکمش از عدل است و تسلیم و رضاست بیخ او اندر ضمیر مصطفٰی است از فراق است آرزوھا سینہ تاب تو نمانی چون شود او بی حجاب از جدائی گرچہ جان آید بلب وصل او کم جو رضای او طلب مصطفٰی داد از رضای او خبر نیست در احکام دین چیزی دگر تخت جم پوشیدہ زیر بوریاست فقر و شاھی از مقامات رضاست حکم سلطان گیر و از حکمش منال روز میدان نیست روز قیل و قال تا توانی گردن از حکمش ھیچ تا نپیچد گردن از حکم تو ھیچ از شریعت احسن التقویم شو وارث ایمان ابراھیم شو (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۷۰۲) پس چہ باید کرد ای اقوام شرق آدمیّت زار نالید از فرنگ زندگی ھنگامہ بر چید از فرنگ پس چہ باید کرد ای اقوام شرق باز روشن می شود ایّام شرق در ضمیرش انقلاب آمد پدید شب گذشت و آفتاب آمد پدید یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد زیر گردون رسم لادینی نہاد گرگی اندر پوستین برہ ئی ھر زمان اندر کمین برہ ئی مشکلات حضرت انسان ازوست آدمیّت را غم پنہان ازوست در نگاھش آدمی آب و گل است کاروان زندگی بی منزل است ھر چہ می بینی ز انوار حق است حکمت اشیا ز اسرار حق است ھر کہ آیات خدا بیند، حُر است اصل این حکمت ز حُکمِ اُنظر است بندہ ی مؤمن ازو بھروز تر ھم بہ حال دیگران دلسوز تر علم چون روشن کند آب و گلش از خدا ترسندہ تر گردد دلش علم اشیا خاک ما را کیمیاست آہ در افرنگ تأثیرش جداست عقل و فکرش بی عیار خوب و زشت چشم او بی نم، دل او سنگ و خشت علم ازو رسواست اندر شہر و دشت جبرئیل از صحبتش ابلیس گشت دانش افرنگیان تیغی بہ دوش در ھلاک نوع انسان سخت کوش با خسان اندر جھان خیر و شر در نسازد مستی علم و ھنر آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشہ ی لا دین او علم حق را ساحری آموختند ساحری نی کافری آموختند ھر طرف صد فتنہ می آرد نفیر تیغ را از پنجہ ی رھزن بگیر ای کہ جان را باز می دانی ز تن سحر این تہذیب لادینی شکن روح شرق اندر تنش باید دمید تا بگردد قفل معنی را کلید عقل اندر حکم دل یزدانی است چون ز دل آزاد شد شیطانی است (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۷۱۳) عصر حاضر چہ عصر است این کہ دین فریادی اوست ھزاران بند در آزادی اوست ز روی آدمیّت رنگ و نم برد غلط نقشی کہ از بھزادی اوست ق نگاھش نقشبند کافری ھا کمال صنعت او آزری ھا حذر از حلقہ ی بازارگانش قمار است این ھمہ سوداگری ھا جوانان را بد آموز است این عصر شب ابلیس را روز است این عصر بہ دامانش مثال شعلہ پیچم کہ بی نور است و بی سوز است این عصر مسلمان فقر و سلطانی بہم کرد ضمیرش باقی و فانی بہم کرد ولیکن الامان از عصر حاضر کہ سلطانی بہ شیطانی بہم کرد چہ گویم رقص تو چون است و چون نیست حشیش است این نشاط اندرون نیست بہ تقلید فرنگی پای کوبی بہ رگہای تو آن طغیان خون نیست (ارمغان حجاز،کلیات اقبال فارسی، ص۸۳۰) ۲۔کائنات سئوال سوم وصال ممکن و واجب بہ ھم چیست؟ حدیث قرب و بُعد و بیش و کم چیست؟ جواب سہ پہلو این جہان چون و چند است خرد کیف و کم او را کمند است جہان طوسی و اقلیدس است این پی عقل زمین فرسا بس است این زمانش ھم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است کمان را زہ کن و آماج دریاب ز حرفم نکتہ ی معراج دریاب مجو مطلق درین دیر مکافات کہ مطلق نیست جز نورالسّموات حقیقت لازوال و لامکان است مگو دیگر کہ عالم بیکران است کران او درون است و برون نیست درونش پست، بالا، کم فزون نیست درونش خالی از بالا و زیر است ولی بیرون او وسعت پذیر است ابد را عقل ما ناسازگار است ’’یکی‘‘ از گیر و دار او ھزار است چو لنگ است او سکون را دوست دارد نبیند مغز و دل بر پوست دارد حقیقت را چو ما صد پارہ کردیم تمیز ثابت و سیّارہ کردیم خرد در لامکان طرح مکان بست چو زنّاری زمان را بر میان بست زمان را در ضمیر خود ندیدم مہ و سال و شب و روز آٖفریدم مہ و سالت نمی ارزد بہ یک جو بحرف ’’کم لبثتم‘‘ غوطہ زن شو بہ خود رس از سر ھنگامہ بر خیز تو خود را در ضمیر خود فرو ریز تن و جان را دو تا گفتن کلام است تن و جان را دو تا دیدن حرام است بہ جان پوشیدہ رمز کائنات است بدن خالی ز احوال حیات است عروس معنی از صورت حنا بست نمود خویش را پیرایہ ھا بست حقیقت روی خود را پردہ باف است کہ او را لذّتی در انکشاف است بدن را تا فرنگ از جان جدا دید نگاھش ملک و دین را ھم دو تا دید کلیسا سبحہ ی پطرس شمارد کہ او با حاکمی کاری ندارد بکار حاکمی مکر و فنی بین تن بیجان و جان بی تنی بین خرد را با دل خود ھمسفر کن یکی بر ملّت ترکان نظر کن بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند میان ملک و دین ربطی ندیدند (زبور عجم،کلیات اقبال فارسی، ص۴۳۷) مناجات بند دوم دیدہ ام روز جہان چار سوی آنکہ نورش بر فروزد کاخ و کوی از رم سیّارہ ئی او را وجود نیست الاّ اینکہ گوئی رفت و بود ای خوش آن روزی کہ از ایّام نیست صبح او را نیمروز و شام نیست روشن از نورش اگر گردد روان صوت را چون رنگ دیدن می توان غیب ھا از تاب او گردد حضور نوبت او لایزال و بی مرور ای خدا روزی کن آن روزی مرا وارھان زین روز بی سوزی مرا بند سوم آیہ ی تسخیر اندر شأن کیست؟ این سپہر نیلگون حیران کیست؟ رازدان علم الاسما کہ بود مست آن ساقی و آن صہبا کہ بود برگزیدی از ھمہ عالم کرا؟ کردی از راز درون محرم کرا؟ ای تو را تیری کہ ما را سینہ سفت حرف ’’ادعونی‘‘ کہ گفت و با کہ گفت؟ روی تو ایمان من قرآن من جلوہ ئی داری دریغ از جان من از زیان صد شعاع آفتاب کم نمی گردد متاع آفتاب (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۸۱) فلک قمر جہان دوست عالم از رنگست و بی رنگی است حق چیست عالم؟ چیست آدم؟ چیست حق؟ رومی آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم این شمشیر را سنگ فسن شرق حق را دید و عالم را ندید غرب در عالم خزید از حق رمید چشم بر حق باز کردن بندگی است خویش را بی پردہ دیدن زندگی است بندہ چون از زندگی گیرد برات ھم خدا آن بندہ را گوید صلوٰت ھر کہ از تقدیر خویش آگاہ نیست خاک او با سوز جان ھمراہ نیست جہان دوست بر وجود و بر عدم پیچیدہ است مشرق این اسرار را کم دیدہ است کار ما افلاکیان جز دید نیست جانم از فردای او نومید نیست دوش دیدم بر فراز قشمرود ز آسمان افرشتہ ئی آمد فرود از نگاھش ذوق دیداری چکید جز بہ سوی خاکدان ما ندید گفتمش از محرمان رازی مپوش تو چہ بینی اندر آن خاک خموش از جمال زھرہ ئی بگداختی دل بہ چاہ بابلی انداختی گفت ’’ھنگام طلوع خاور است آفتاب تازہ او را در بر است لعل ھا از سنگ رہ آید برون یوسفان او ز چہ آید برون رستخیزی در کنارش دیدہ ام لرزہ اندر کوھسارش دیدہ ام رخت بندد از مقام آزری تا شود خوگر ز ترک بتگری ای خوش آن قومی کہ جان او تپید از گل خود خویش را باز آفرید عرشیان را صبح عید آن ساعتی چون شود بیدار چشم ملّتی‘‘ (جاوید نامہ، کلیات اقبال فارسی، ص ۵۱) ۳۔ خدا ارکان اساسی ملیۂ اسلامیہ رُکن اوّل توحید در جہان کیف و کم گردید عقل پی بہ منزل بُرد از توحید عقل ورنہ این بیچارہ را منزل کجاست کشتی ادراک را ساحل کجاست اھل حق را رمز توحید ازبر است در ’’اتی الرّحمنِ عبداً‘‘ٔ مضمر است تا ز اسرار تو بنماید تو را امتحانش از عمل باید تو را دین ازو حکمت ازو آئین ازو زور ازو قوّت ازو تمکین ازو عالمان را جلوہ اش حیرت دھد عاشقان را بر عمل قدرت دھد پست اندر سایہ اش گردد بلند خاک چون اکسیر گردد ارجمند قدرت او برگزیند بندہ را نوع دیگر آفریند بندہ را در رہ حق تیز تر گردد تکش گرمتر از برق خون اندر رگش بیم و شک میرد عمل گیرد حیات چشم می بیند ضمیر کائنات چون مقام عبدہ محکم شود کاسہ ی دریوزہ جام جم شود ملّت بیضا تن و جان لاالہ ساز ما را پردہ گردان لاالہ لاالہ سرمایہ ی اسرار ما رشتہ اش شیرازہ ی افکار ما حرفش از لب چون بہ دل آید ھمی زندگی را قوّت افزاید ھمی نقش او گر سنگ گیرد دل شود دل گر از یادش نسوزد گل شود چون دل از سوز غمش افروختیم خرمن امکان ز آھی سوختیم آب دلہا در میان سینہ ھا سوز او بگداخت این آئینہ ھا شعلہ اش چون لالہ در رگہای ما نیست غیر از داغ او کالای ما اسود از توحید احمر می شود خویش فاروق و ابوذر می شود دل مقام خویشی و بیگانگی است شوق را مستی ز ھم پیمانگی است ملّت از یک رنگی دلہاستی روشن از یک جلوہ این سیناستی قوم را اندیشہ ھا باید یکی در ضمیرش مدعا باید یکی جذبہ باید در سرشت او یکی ھم عیار خوب و زشت او یکی گر نباشد سوز حق در ساز فکر نیست ممکن این چنین انداز فکر ما مسلمانیم و اولاد خلیل از ’’ابیکم‘‘ گیر اگر خواھی دلیل با وطن وابستہ تقدیر امم بر نسب بنیاد تعمیر امم اصل ملّت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب و گل پرستیدن کہ چہ بر نسب نازان شدن نادانی است حکم او اندر تن و تن فانی است ملّت ما را اساس دیگر است این اساس اندر دل ما مضمر است حاضریم و دل بہ غایب بستہ ایم پس ز بند این و آن وارستہ ایم رشتہ ی این قوم مثل انجم است چون نگہ ھم از نگاہ ما گم است تیر خوش پیکان یک کیشیم ما یک نما یک بین یک اندیشیم ما مدّعای ما مآل ما یکیست طرز و انداز خیال ما یکیست ما ز نعمتہای او اخوان شدیم یک زبان و یکدل و یکجان شدیم (رموز بیخودی،کلیات اقبال فارسی، ص۱۰۴) محاورۂ ما بین خدا و انسان خدا: جہان را ز یک آب و گل آفریدم تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی من از خاک پولاد ناب آفریدم تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی تبر آفریدی نھال چمن را قفس ساختی طایر نغمہ زن را انسان تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زھر نوشینہ سازم (پیام مشرق،کلیات اقبال فارسی، ص۲۶۹) تمہید زمینی موج مضطر خفت بر سنجاب آب شد افق تار از زیان آفتاب از متاعش پارہ ئی دزدید شام کوکبی چون شاھدی بالای بام روح رومی پردہ ھا را بر درید از پس کہ پارہ ئی آمد پدید طلعتش رخشندہ مثل آفتاب شیب او فرخندہ چون عہد شباب پیکری روشن ز نور سرمدی در سراپایش سرور سرمدی بر لب او سرّ پنھان وجود بند ھای حرف و صوت از خود گشود حرف او آئینہ ئی آویختہ علم با سوز درون آمیختہ گفتمش موجود و ناموجود چیست معنی محمود و نامحمود چیست گفت موجود آنکہ می خواھد نمود آشکارائی تقاضای وجود زندگی خود را بہ خویش آراستن بر وجود خود شہادت خواستن انجمن روز الست آراستند بر وجود خود شہادت خواستند زندہ ئی یا مردہ ئی یا جان بہ لب از سہ شاھد کن شہادت را طلب شاھد اول شعور خویشتن خویش را دیدن بہ نور خویشتن شاھد ثانی شعور دیگری خویش را دیدن بہ نور دیگری شاھد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بہ نور ذات حق پیش این نور ار بمانی استوار حیّ و قائم چون خدا خود را شمار بر مقام خود رسیدن زندگی است ذات را بی پردہ دیدن زندگی است مرد مؤمن در نسازد با صفات مصطفی راضی نشد الّا بہ ذات چیست معراج آرزوی شاھدی امتحانی رو بہ روی شاھدی شاھد عادل کہ بی تصدیق او زندگی ما را چو گل را رنگ و بو در حضورش کس نماند استوار ور بماند ھست او کامل عیار ذرّہ ئی از کف مدہ تابی کہ ھست پختہ گیر اندر گرہ تابی کہ ھست تاب خود را بر فزودن خوشتر است پیش خورشید آزمودن خوشتر است پیکر فرسودہ را دیگر تراش امتحان خویش کن موجود باش این چنین موجود محمود است و بس ورنہ نار زندگی دود است و بس باز گفتم ’’پیش حق رفتن چسان؟ کوہ خاک و آب را گفتن چسان؟ آمر و خالق برون از امر و خلق ما ز شست روزگاران خستہ حلق‘‘ گفت ’’اگر سلطان تو را آید بہ دست می توان افلاک را از ھم شکست باش تا عریان شود این کائنات شوید از دامان خود گرد جہات در وجود او نہ کم بینی نہ بیش خویش را بینی ازو، او را ز خویش نکتہ ی ’’الاّ بسلطان‘‘ یاد گیر ورنہ چون مور و ملخ در گل بمیر از طریق زادن ای مرد نکو آمدی اندر جھان چار سو ھم برون جستن بہ زادن می توان بندھا از خود گشادن می توان (جاوید نامہ،کلیات اقبال فارسی، ص۴۹۱) لا الہ الاّ اﷲ بند اول نکتہ ئی می گویم از مردان حال امتان را لا جلال الا جمال لا و الاّ احتساب کائنات لا و الاّ فتح باب کائنات ھر دو تقدیر جہان کاف و نون حرکت از لا زاید از الاّ سکون تا نہ رمز لاالہ آید بہ دست بند غیر اﷲ را نتوان شکست در جہان آغاز کار از حرف لاست این نخستین منزل مرد خداست ملّتی کز سوز او یک دم تپید از گِلِ خود خویش را باز آفرید پیش غیر اﷲ لا گفتن حیات تازہ از ھنگامہ ی او کائنات از جنونش ھر گریبان چاک نیست در خور این شعلہ ھر خاشاک نیست جذبہ ی او در دل یک زندہ مرد میکند صد رہ نشین را رھنورد بندہ را با خواجہ خواھی در ستیز تخم لا در مشت خاک او بریز ھر کرا این سوز باشد در جگر ھولش از ھول قیامت بیشتر لا مقام ضربہای پی بہ پی این غَوِ رَعد است نی آواز نی ضرب او ھر بود را سازد نبود تا برون آئی ز گرداب وجود (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۶۸۹) ۴۔ رسالت ارکان اساسی ملیۂ اسلامیہ رُکن دوم: رساٰلت تارک آفل براھیم خلیل انبیا را نقش پای او دلیل آن خدای لم یزل را آیتی داشت در دل آرزوی ملّتی جوی اشک از چشم بیخوابش چکید تا پیام ’’طہرابیتی‘‘ شنید بہر ما ویرانہ ئی آباد کرد طائفان را خانہ ئی بنیاد کرد تا نہال ’’تب علینا‘‘ غنچہ بست صورت کار بہار ما نشست حق تعالی پیکر ما آفرید وز رسالت در تن ما جان دمید حرف بی صوت اندرین عالم بدیم از رسالت مصرع موزون شدیم از رسالت در جہان تکوین ما از رسالت دین ما آئین ما از رسالت صد ھزار ما یک است جزو ما از جزو ’’مالاینفک‘‘ است آن کہ شان اوست ’’یہدی مَن یُرید‘‘ از رسالت حلقہ گرد ما کشید حلقہ ی ملّت محیط افزاستی مرکز او وادی بطحا ستی ما ز حکم نسبت او ملّتیم اھل عالم را پیام رحمتیم از میان بحر او خیزیم ما مثل موج از ھم نم یریزیم ما امتش در حرز دیوار حرم نعرہ زن مانند شیران در اجم معنی حرفم کنی تحقیق اگر بنگری با دیدہ ی صدّیق اگر قوّت قلب و جگر گردد نبی از خدا محبوب تر گردد نبی قلب مؤمن را کتابش قوّت است حکمتش حبل الورید ملّت است دامنش از دست دادن مردن است چون گل از باد خزان افسردن است زندگی قوم از دم او یافت است این سحر از آفتابش تافت است فرد از حق، ملّت از وی زندہ است از شعاع مہر او تابندہ است از رسالت ھم نوا گشتیم ما ھم نفس ھم مدّعا گشتیم ما کثرت ھم مدّعا وحدت شود پختہ چون وحدت شود ملّت شود زندہ ھر کثرت ز بند وحدت است وحدت مسلم ز دین فطرت است دین فطرت از نبی آموختیم در رہ حق مشعلی افروختیم این گہر از بحر بی پایان اوست ما کہ یک جانیم از احسان اوست تا نہ این وحدت ز دست ما رود ھستی ما با ابد ھمدم شود پس خدا بر ما شریعت ختم کرد بر رسول ما رساٰلت ختم کرد رونق از ما محفل ایّام را او رسل را ختم و ما اقوام را خدمت ساقی گری با ما گذاشت داد ما را آخرین جامی کہ داشت ’’لا نبی بعدی‘‘ ز احسان خداست پردہ ی ناموس دین مصطفیٰ است قوم را سرمایہ ی قوّت ازو حفظ سرّ وحدت ملّت ازو حق تعالی نقش ھر دعوی شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست دل ز غیر اللّٰہ مسلمان بر کند نعرہ ی لا قوم بعدی می زند (رموز بیخودی،کلیات اقبال فارسی، ص۱۱۲) در حضور رسالت مآبؐ شب سہ اپریل۱۹۳۶ م کہ در دارالاقبال بھوپال بودم سید احمد خان ؒ را در خواب دیدم ، فرمودند کہ از علالت خویش در حضور رسالت مآبؐ عرض کن ای تو ما بیچارگان را ساز و برگ وا رھان این قوم را از ترس مرگ سوختی لات و منات کہنہ را تازہ کردی کائنات کہنہ را در جہان ذکر و فکر انس و جان تو صلوٰت صبح تو بانگ اذان لذّت سوز و سرور از لا الہ در شب اندیشہ نور از لا الہ نی خدا ھا ساختیم از گاو و خر نی حضور کاھنان افکندہ سر نی سجودی پیش معبودان پیر نی طواف کوشک سلطان و میر این ھمہ از لطف بی پایان توست فکر ما پروردہ ی احسان توست ذکر تو سرمایہ ی ذوق و سرور قوم را دارد بہ فقر اندر غیور ای مقام و منزل ھر راھرو جذب تو اندر دل ھر راھرو ساز ما بی صوت گردید آنچنان زخمہ بر رگھای او آید گران در عجم گردیدم و ھم در عرب مصطفٰی نایاب و ارزان بولہب این مسلمان زادہ ی روشن دماغ ظلمت آباد ضمیرش بی چراغ در جوانی نرم و نازک چون حریر آرزو در سینہ ی او زود میر این غلام ابن غلام ابن غلام حریت اندیشہ ی او را حرام مکتب از وی جذبہ ی دین در ربود از وجودش این قدر دانم کہ بود این ز خود بیگانہ این مست فرنگ نان جو می خواھد از دست فرنگ نان خرید این فاقہ کش با جان پاک داد ما را نالہ ھای سوز ناک دانہ چین مانند مرغان سرا ست از فضای نیلگون ناآشناست آتش افرنگیان بگداختش یعنی این دوزخ دگرگون ساختش شیخ مکتب کم سواد و کم نظر از مقام او نداد او را خبر مؤمن و از رمز مرگ آگاہ نیست در دلش لا غالب الاّ اﷲ نیست تا دل او در میان سینہ مرد می نیندیشد مگر از خواب و خورد بہر یک نان نشتر لا و نعم منّت صد کس برای یک شکم از فرنگی می خرد لات و منات مؤمن و اندیشہ ی او سومنات قم باذنی گوی و او را زندہ کن در دلش اﷲ ھو را زندہ کن ما ھمہ افسونی تہذیب غرب کشتہ ی افرنگیان بی حرب و ضرب تو از آن قومی کہ جام او شکست وا نما یک بندہ اﷲ مست تا مسلمان باز بیند خویش را از جہانی برگزیند خویش را شہسوارا یک نفس در کش عنان حرف من آسان نیاید بر زبان آرزو آید کہ ناید تا بہ لب مینگردد شوق محکوم ادب آن بگوید لب گشا ای دردمند این بگوید چشم بگشا لب ببند گرد تو گردد حریم کائنات از تو خواھم یک نگاہ التفات ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی آھوی زار و زبون و ناتوان کس بہ فتراکم نبست اندر جہان ای پناہ من حریم کوی تو من بہ امیدی رمیدم سوی تو آن نوا در سینہ پروردن کجا وز دمی صد غنچہ وا کردن کجا نغمہ ی من در گلوی من شکست شعلہ ئی از سینہ ام بیرون نجست در نفس سوز جگر باقی نماند لطف قرآن سحر باقی نماند نالہ ئی کو می نگنجد در ضمیر تا کجا در سینہ ام ماند اسیر یک فضای بیکران می بایدش وسعت نُہ آسمان می بایدش آہ زان دردی کہ در جان و تن است گوشہ ی چشم تو داروی من است در نسازد با دواھا جان زار تلخ و بویش بر مشامم ناگوار کار این بیمار نتوان بُرد پیش من چو طفلان نالم از داروی خویش تلخی او را فریبم از شکر خندہ ھا در لب بدوزد چارہ گر چون بصیری از تو می خواھم گشود تا بہ من باز آید آن روزی کہ بود مہر تو بر عاصیان افزونتر است در خطا بخشی چو مہر مادر است با پرستاران شب دارم ستیز باز روغن در چراغ من بریز ای وجود تو جہان را نو بھار پرتو خود را دریغ از من مدار ’’خود بدانی قدر تن از جان بود قدر جان از پرتو جانان بود‘‘ (رومی) تا ز غیر اﷲ ندارم ھیچ امید یا مرا شمشیر گردان یا کلید فکر من در فہم دین چالاک و چست تخم کرداری ز خاک من نرست تیشہ ام را تیز تر گردان کہ من محنتی دارم فزون از کوھکن مؤمنم ، از خویشتن کافر نیم بر فسانم زن کہ بد گوھر نیم گرچہ کشت عمر من بیحاصل است چیزکی دارم کہ نام او دل است دارمش پوشیدہ از چشم جہان کز سم شبدیز تو دارد نشان بندہ ئی را کو نخواھد ساز و برگ زندگانی بی حضور خواجہ مرگ ای کہ دادی کُرد را سوز عرب بندہ ی خود را حضور خود طلب بندہ ئی چون لالہ داغی در جگر دوستانش از غم او بیخبر بندہ ئی اندر جھان نالان چو نی تفتہ جان از نغمہ ھای پی بہ پی در بیابان مثل چوب نیم سوز کاروان بگذشت و من سوزم ھنوز اندرین دشت و دری پہناوری بو کہ آید کاروانی دیگری جان ز مہجوری بنالد در بدن نالہ ی من و ای من ای و ای من (پس چہ باید کرد مع مسافر،کلیات اقبال فارسی، ص۷۱۸) حضور رسالت بہ این پیری رہ یثرب گرفتم نوا خوان از سرور عاشقانہ چو آن مرغی کہ در صحرا سر شام گشاید پر بہ فکر آشیانہ ٭ (ارمغان حجاز،کلیات اقبال فارسی، ص۷۸۴) ۵۔ ملت در معنی اینکہ چون ملت محمدیہ مؤسس بر توحید و رسالت است پس نہایت مکانی ندارد جوھر ما با مقامی بستہ نیست بادہ ی تندش بہ جامی بستہ نیست ھندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گِل اندام ماست قلب ما از ھند و روم و شام نیست مرز و بوم او بہ جز اسلام نیست پیش پیغمبر چو کعب پاکزاد ھدیہ یی آورد از بانت سُعاد در ثنایش گوھر شب تاب سفت سیف مسلول از سیوف الہند گفت آن مقامش برتر از چرخ بلند نامدش نسبت بہ اقلیمی پسند گفت سیف من سیوف اللّٰہ گو حق پرستی جز بہ راہ حق مپو ھمچنان آن رازدان جزو و کل گرد پایش سرمہ ی چشم رسل گفت با امّت ’’ز دنیای شما دوست دارم طاعت و طیب و نسا‘‘ گر تو را ذوق معانی رھنماست نکتہ ئی پوشیدہ در حرف ’’شما‘‘ست یعنی آن شمع شبستان وجود بود در دنیا و از دنیا نبود جلوہ ی او قدسیان را سینہ سوز بود اندر آب و گل آدم ھنوز من ندانم مرز و بوم او کجاست این قدر دانم کہ با ما آشناست این عناصر را جہان ما شمرد خویشتن را میہمان ما شمرد زانکہ ما از سینہ جان گم کردہ ایم خویش را در خاکدان گم کردہ ایم مسلم استی دل بہ اقلیمی مبند گم مشو اندر جہان چون و چند می نگنجد مسلم اندر مرز و بوم در دل او یاوہ گردد شام و روم دل بہ دست آور کہ در پہنای دل می شود گم این سرای آب و گل عقدہ ی قومیت مسلم گشود از وطن آقای ما ھجرت نمود حکمتش یک ملت گیتی نورد بر اساس کلمہ ئی تعمیر کرد تا ز بخششہای آن سلطان دین مسجد ما شد ھمہ روی زمین آنکہ در قرآن خدا او را ستود آن کہ حفظ جان او موعود بود دشمنان بی دست و پا از ھیبتش لرزہ بر تن از شکوہ فطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت تو گمان داری کہ از اعدا گریخت قصہ گویان حق ز ما پوشیدہ اند معنی ھجرت غلط فہمیدہ اند ھجرت آئین حیات مسلم است این ز اسباب ثبات مسلم است معنی او از تنک آبی رم است ترک شبنم بہر تسخیر یم است بگذر از گل گلستان مقصود تست این زیان پیرایہ بند سود تست مہر را آزادہ رفتن آبروست عرصہ ی آفاق زیر پای اوست ھمچو جو سرمایہ از باران مخواہ بیکران شو در جہاٰن پایان مخواہ بود بحر تلخ رو یک ساٰدہ دشت ساحلی ورزید و از شرم آب گشت بایدت آھنگ تسخیر ھمہ تا تو می باشی فراگیر ھمہ صورت ماھی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو ھر کہ از قید جہات آزاد شد چون فلک در شش جہت آباد شد بوی گل از ترک گل جولانگر است در فراخای چمن خود گسترست ای کہ یک جا در چمن انداختی مثل بلبل با گلی در ساختی چون صبا بار قبول از دوش گیر گلشن اندر حلقہ ی آغوش گیر از فریب عصر نو ھشیار باش رہ فتد ای رھرو ھشیار باش (رموز بیخودی،کلیات اقبال فارسی، ص۱۲۳) در معنی اینکہ ملّت محمّدیہ نہایت زمانی ھم نداردکہ دوام این ملّت شریفہ موعود است در بہاران جوش بلبل دیدہ ئی رستخیز غنچہ و گل دیدہ ئی چون عروسان غنچہ ھا آراستہ از زمین یک شہر انجم خاستہ سبزہ از اشک سحر شوئیدہ ئی از سرود آب جو خوابیدہ ئی غنچہ ئی بر می دمد از شاخسار گیردش باد نسیم اندر کنار غنچہ ئی از دست گلچین خون شود از چمن مانند بو بیرون رود بست قمری آشیان بلبل پرید قطرہ ی شبنم رسید و بو رمید رخصت صد لالہ ی ناپایدار کم نسازد رونق فصل بہار از زیان گنج فراوانش ھمان محفل گلہای خندانش ھمان فصل گل از نسترن باقیتر است از گل و سرو و سمن باقیتر است کان گوھر پروری گوھر گری کم نگردد از شکست گوھری صبح از مشرق ز مغرب شام رفت جام صد روز از خم ایّام رفت بادہ ھا خوردند و صہبا باقی است دوشہا خون گشت و فردا باقی است ھمچنان از فردھای پی سپر ھست تقویم امم پایندہ تر در سفر یار است و صحبت قائم است فرد رہ گیر است و ملت قائم است ذات او دیگر صفاتش دیگر است سنت مرگ و حیاتش دیگر است فرد بر می خیزد از مشت گلی قوم زاید از دل صاحب دلی فرد پور شصت و ھفتاد است و بس قوم را صد سال مثل یک نفس زندہ فرد از ارتباط جان و تن زندہ قوم از حفظ ناموس کہن مرگ فرد از خشکی رود حیات مرگ قوم از ترک مقصود حیات گرچہ ملت ھم بمیرد مثل فرد از اجل فرمان پذیرد مثل فرد امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ھنگامہ ی ’’قالوا بلی‘‘ ست از اجل این قوم بی پرواستی استوار از ’’نحن نزّلنا‘‘ستی ذکر قائم از قیام ذاکر است از دوام او دوام ذاکر است تا خدا ’’ان یُطفئوا‘‘ فرمودہ است از فسردن این چراغ آسودہ است امّتی در حق پرستی کاملی امّتی محبوب ھر صاحبدلی حق برون آورد این تیغ اصیل از نیام آرزوھای خلیل تا صداقت زندہ گردد از دمش غیر حق سوزد ز برق پیہمش ما کہ توحید خدارا حجتیم حافظ رمز کتاب و حکمتیم آسمان با ما سر پیکار داشت در بغل یک فتنہ ی تاتار داشت بندھا از پا گشود آن فتنہ را بر سر ما آزمود آن فتنہ را فتنہ ئی پامال راھش محشری کشتہ ی تیغ نگاھش محشری خفتہ صد آشوب در آغوش او صبح امروزی نزاید دوش او سطوت مسلم بہ خاک و خون تپید دید بغداد آنچہ روما ھم ندید تو مگر از چرخ کج رفتار پرس زان نو آئین کہن پندار پرس آتش تاتاریان گلزار کیست؟ شعلہ ھای او گل دستار کیست؟ زانکہ ما را فطرت، ابراھیمی است ھم بہ مولا نسبت ابراھیمی است از تہ آتش بر اندازیم گل نار ھر نمرود را سازیم گل شعلہ ھای انقلاب روزگار چون بہ باغ ما رسد گردد بہار رومیان را گرم بازاری نماند آن جہانگیری، جہانداری نماند شیشہ ی ساسانیان در خون نشست رونق خمخانہ ی یونان شکست مصر ھم در امتحان ناکام ماند استخوان او تہ اھرام ماند در جہان بانگ اذان بودست و ھست ملت اسلامیان بودست و ھست عشق آئین حیات عالم است امتزاج سالمات عالم است عشق از سوزِ دل ما زندہ است از شرار لاالہ تابندہ است گرچہ مثل غنچہ دلگیریم ما گلستان میرد اگر میریم ما (رموز بیخودی،کلیات اقبال فارسی، ص۱۲۷)