اقبالیات کے سو سال علامہ اقبال کے فکر و فن پر منتخب مقالات (۱۹۰۱ء ۔ ۲۰۰۰ئ) مرتبین : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی محمد سہیل عمر ڈاکٹر وحید عشرت اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-472-153-9 طبع اوّل : ۲۰۰۲ء (اکادمی ادبیات پاکستان) طبع دوم : ۲۰۰۷ء تعداد : ۱۰۰۰ قیمت : ۵۰۰ روپے مطبع : دارالفکر، اردو بازار، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ پیش نامہ حکیم الامت، شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کی اُن عظیم المرتبت شخصیتوں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کے افکارونظریات نے اقوام عالم کو نہ صرف اپنے عہد میں متاثرکیا بلکہ آج بھی وہ سرچشمۂ فیض کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بنی نوعِ انسان اور بالخصوص ملتِ اسلامیہ اور مسلمانانِ برصغیر پر اُن کی فکر نے انقلابی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہ پاکستان کے بنیاد گزاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ تصورِ پاکستان اُن کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے حضرت علامہ اقبال کی تاریخ ساز خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا: Every great movement has a philosopher and Iqbal was the philosopher of the National Renaisance of Muslim India. He, in his works, has left an exhaustive and most valuable legacy behind him and a message not only for the Musalmans but for all other nations of the world. حکومتِ پاکستان نے ۲۰۰۲ء کو سالِ اقبال کے طور پر منائے جانے کا اعلان کیا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے اس موقع کی مناسبت سے دیگر پروگراموں کے ساتھ ساتھ اقبالیات کے حوالے سے دو جلدوں پر مشتمل ایک اشاعتی منصوبے پر کام شروع کیا تھا۔ بیسویں صدی میں اُردو اور انگریزی میں حضرت حکیم الامت کی شخصیت کی مختلف جہتوں پر بہت کچھ لکھا گیا۔ ان منتشر تحریروں کو منتخب کرکے یکجا پیش کرنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ اس سے وسیع تر استفادے کی صورتیں نکلیں گی۔ اقبالیات کے سوسال میں اقبال کے معاصرین سے لے کر آج کے تمام اقبال شناس مصنّفین کی اہم تحریروں کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ ہم اس علمی سرمائے کا جائزہ لے سکیں جو اہلِ علم و دانش نے اقبالیات کے فروغ کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ ان میں ایک طرف جہاں اقبال کے ہم۔عصر اور رفقا میں مولانا غلام رسول مہر، سید نذیر نیازی، یوسف سلیم چشتی، چودھری محمد حسین، عبدالماجد دریابادی، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ممتاز حسن، ینڈاکٹر رضی الدین صدیقی، پروفیسر رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرور جیسے نامور لوگ شامل ہیں تو دوسری طرف مولانا سید سلیمان ندوی، سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسے جید۔ّ۔ اور عالمگیر شہرت رکھنے والے علما بھی موجود ہیں۔ اس مجموعے میں برصغیر کے اہم نقادوں، ادیبوں، دانشوروں اور شاعروں کی تحریریں بھی ہیں جن میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، گوپی چندنارنگ، مجنوں گورکھ۔پوری، ڈاکٹر جاوید اقبال، شمس الرحمن فاروقی، اسلوب احمد انصاری، عزیز احمد اور میرولی الدین نمایاں ہیں۔ اس مجموعے کے انتخاب میں محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، سابق صدر شعبہ اُردو جامعہ پنجاب، لاہور، برادرم محمد سہیل عمر، ناظم اقبال اکادمی پاکستان، لاہور اور ممتاز اقبال شناس ڈاکٹر وحید عشرت نے جس محنت اور کاوش سے کام کیا ہے میں اس کے لیے ان کا تہ ۔َ۔دل سے شکرگزار ہوں۔ اقبال اکادمی پاکستان کے علمی تعاون نے اس مجموعۂ مقالات کو منصہ شہود پر لانے میں فراخ دلانہ کردار ادا کیا ہے۔ آخر میں ایک گزارش: علمی و ادبی اور فکری کاموں میں کوئی بھی پیشکش حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ اس میں ہمیشہ بہتری کی گنجایش رہتی ہے۔ سوبرسوں کو محیط اقبالیات کے حوالے سے لکھی جانے والی تحریروں میں یقینا بعض تحریریں ہوں گی جو رہ گئی ہوں گی، مگر اسے ہماری مجبوری سمجھ کر معاف کر دیجیے گا۔ محدود وسائل اور کتاب کی ضخامت کے پیش نظر بہت سا مواد انتخاب کے باوجود علیحدہ کردیا گیا۔ ان۔شائ۔اللہ کسی اور منزل میں اس سے بھی استفادے کی صورت نکلے گی۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی اس کوشش کے پیچھے بنیادی جذبہ یہ کارفرما تھا کہ اقبالیات کے حوالے سے مختلف مقامات پر شائع ہونے والے مواد کو نئی نسل کے لیے خاص طور پر یکجا کردیا جائے۔ یہ مجموعہ اگر فکرِاقبال کو نوجوان نسل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگیا تو ہم سمجھیں گے کہ ہم نے ایک اچھا کام سرانجام دیا۔ ز…ز…ز کتاب کی اشاعتِ مکرر اقبال اکادمی کی جانب سے کی جارہی ہے۔ مجموعے کا انتخاب اور تدوین اکادمی کی کاوشوں کا ثمر تھا۔ نشرمکرر کے لیے بھی اکادمی کا تعاون ہمیں حاصل رہا ہے۔ اکادمی ادبیات اس کے لیے ان کی شکرگزار ہے۔ افتخار عارف فہرست مضامین پیش نامہ افتخار عارف ا دیباچہ مرتبین ج ۱ ۱ ۔ اقبال کے بعض حالات غلام بھیک نیرنگ ۳ ۲ ۔ اقبال شیخ عبدالقادر ۲۷ ۳ ۔ علامہ سے تعارف غلام رسول مہر ۳۵ ۴ ۔ اقبال کی لفظی تصویر پروفیسر حمید احمد خاں ۵۱ ۵ ۔ علامہ اقبال :زندگی کا ایک دن علی بخش ۵۷ ۶ ۔ حیات اقبال کا سبق سید ابوالاعلیٰ مودودی ۶۱ ۷ ۔ اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر سید ابوالحسن علی ندوی ۶۷ ۸ ۔ ملفوظات اقبال یوسف سلیم چشتی ۷۹ ۹ ۔ اقبال: ایک باپ کی حیثیت سے ڈاکٹر جاوید اقبال ۱۰۱ ۱۰ ۔ اقبال کی آخری علالت سید نذیر نیازی ۱۱۷ ۲ ۱۱۔ اردو شاعری اور شعراے حال دیانرائن نگم ۱۳۷ ۱۲ ۔ اقبال: ایک آفاقی شاعر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر ۱۵۵ ۱۳ ۔ اقبال مجنوں گو رکھپوری ۱۶۳ ۱۴ ۔ اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے ممتاز حسن ۱۷۳ ۱۵ ۔ توازن : اقبال کی شاعری کا ایک پہلو پروفیسر محمد منور ۱۸۷ ۱۶ ۔ اقبال کا نظریۂ شعر احمدندیم قاسمی ۲۰۳ ۱۷۔ کلام اقبال میں خون جگر علامتی حیثیت ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ۲۱۱ ۱۸ ۔ اقبال کا معجزئہ فن سلیم احمد ۲۲۱ ۱۹۔ اقبال : آفاقی شاعر ڈاکٹر شوکت سبزواری ۲۲۹ ۲۰ ۔ اقبال کا لفظیاتی نظام شمس الرحمن فاروقی ۲۳۵ ۲۱ ۔ اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام گوپی چند نارنگ ۲۵۵ ۲۲ ۔ اقبال کی اردو شاعری میں ہئیت کے تجربے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ۲۷۱ ۲۳ ۔ کلام اقبال پر عربی ادب کے اثرات پروفیسر محمد منور ۲۸۱ ۲۴ ۔ فارسی شاعری اور اقبال کا اسلوب بیان ڈاکٹر محمد ریاض ۲۹۵ ۲۵ ۔ نوجوان شاعر ، اقبال پروفیسر محمد عثمان ۳۱۳ ۲۶ ۔ اقبال عہد آفریں ڈاکٹر اسلم انصاری ۳۳۱ ۳ ۲۷۔ ڈاکٹر اقبال کا علمِ کلام سید سلیمان ندوی ۳۴۵ ۲۸ ۔ حکمتِ اقبال میں تصورِ خودی کا مقام ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۳۶۱ ۲۹ ۔ اقبال کے مابعد الطبیعیاتی نظریات پروفیسر سعید احمد رفیق ۳۹۷ ۳۰ ۔ اقبال کا قرآنی اندازِ فکر و نظر پروفیسر غلام رسول ملک ۴۱۷ ۳۱ ۔ علامہ اقبال اور وحدت الوجود حافظ عباد اللہ فاروقی ۴۲۷ ۳۲۔ اقبال کا تصورِ ختم نبوت پروفیسر عبدالقیوم ۴۵۳ ۳۳۔ اقبال اور سیکولرازم بشیر احمد ڈار ۴۷۱ ۳۴ ۔ اقبال کا تصور جہاد ڈاکٹر وحید قریشی ۴۷۹ ۳۵۔ اقبال کے جمالیاتی افکار ڈاکٹر نصیر احمد ناصر ۵۰۷ ۳۶ ۔ اقبال اور اسلاْمی فکر کی تشکیلِ نو ڈاکٹر وحید اختر ۵۲۹ ۳۷ ۔ فلسفۂ اقبال کے مآخذ اور مصادر ڈاکٹر وحید عشرت ۵۴۵ ۴ ۳۸ ۔ عقل اور عشق ڈاکٹر میر ولی الدین ۵۷۷ ۳۹ ۔ اقبال کی معنویت پروفیسر آل احمد سرور ۵۹۵ ۴۰ ۔ اقبال اور پاکستانی ادب عزیز احمد ۶۰۵ ۴۱ ۔ اقبال کی معنویت ہمارے عہد میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری۶۱۱ ۴۲ ۔ عالمی ادب میں اقبال کا مقام ڈاکٹر عبدالمغنی ۶۱۹ ۴۳ ۔ اقبال کے سیاسی افکار اور تحریک پاکستان ڈاکٹر فرمان فتح پوری ۶۳۳ ۴۴۔ اقبال کا تصور حیات و مرگ ڈاکٹر انور سدید ۶۵۵ ۴۵ ۔ مطالعہ اقبال کے چند اساسی پہلو ڈاکٹر عبدالحق ۶۶۵ ۵ ۴۶ ۔ اقبال اور قوموں کا عروج و زوال ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ۶۷۷ ۴۷ ۔ اقبال : سوشلزم اور اسلام پروفیسر کرار حسین ۶۸۹ ۴۸ ۔ اقبال ، جمہوریت اور ملوکیت محمد حسن عسکری ۶۹۹ ۴۹ ۔ اقبال کا سیاسی تفکر ڈاکٹر سید عبداللہ ۷۰۵ ۵۰ ۔ اقبال اور سوز غمِ مِلّت پروفیسر وقار عظیم ۷۳۳ ۵۱ ۔ ہماری قومی زندگی اور ذہن پر اقبال کے اثرات فیض احمد فیض ۷۴۷ ۵۲ ۔ اقبال کا عمرانیاتی مطالعہ ڈاکٹر ابنِ فرید ۷۵۳ ۵۳ ۔ اقبال اور ہماری ثقافتی تشکیلِ نو پروفیسر فتح محمد ملک ۷۷۳ ۵۴ ۔ اجتہاداتِ اقبال ڈاکٹر خالد مسعود ۷۸۱ ۵۵ ۔ جمہوریت اقبال کی نگاہ میں ڈاکٹر تحسین فراقی ۸۰۹ ۶ ۵۶۔ اقبال کی وابستگی رسول اکرم ؐ سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۸۳۳ ۵۷۔ نیٹشے ، رومی اور اقبال عبدالماجد دریا بادی ۸۵۹ ۵۸ ۔ رومی اور اقبال ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم ۸۶۵ ۵۹ ۔ حافظ اور اقبال ڈاکٹر یوسف حسین خان ۸۷۳ ۶۰ ۔ اقبال اور سید جمال الدین افغانی ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ۹۰۳ ۶۱ ۔ دانتے کا’طربیۂ خداوندی‘ اور ’جاوید نامہ‘ اقبال پروفیسر اشرف حسینی ۹۲۵ ۶۲ ۔ اقبال اور گوئٹے ڈاکٹر صدیق خان شبلی ۹۳۹ ۶۳ ۔ اقبال اور نیطشے محمد شمس الدین صدیقی ۹۴۹ ۶۴ ۔ اقبال اور برگساں ڈاکٹر عشرت حسن انور ۹۵۵ ۶۵ ۔ اقبال اور کارل مارکس پروفیسر جگن ناتھ آزاد ۹۶۷ ۶۶ ۔ اقبال اور شپنگلر ڈاکٹر وزیر آغا ۱۰۱۵ ۶۷ اقبال اور بعض شخصیات ڈاکٹر معین الدین عقیل ۱۰۲۳ ۷ ۶۸۔ جاوید نامہ چوہدری محمد حسین ۱۰۳۵ ۶۹ ۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ سید نذیر نیازی ۱۰۷۱ ۷۰ ۔ فلسفۂ بے خودی پروفیسر رشید احمد صدیقی ۱۰۸۳ ۷۱ ۔ اقبال کی نثر کا مزاج ڈاکٹر سلیم اختر ۱۱۰۹ ۷۲ ۔ علم الاقتصاد اور تشکیل خودی کے عمرانی مقدمات ڈاکٹر صدیق جاوید ۱۱۲۳ ۱ بسم اللہ الرَّ حمن الرَّ حیم دیباچہ بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو اگرچہ ’’شیخ محمد اقبال صاحب اقبال‘‘ بعض مقامی مشاعروں میں شرکت کے سبب اور انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے (۲۴ فروری ۱۹۰۰ئ) میں پیش کردہ نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ کے ذریعے، ایک محدود حلقے میں تو متعارف ہو چکے تھے، مگر اردو شعر و ادب کے بیشتر قارئین، ان سے واقف نہیں تھے، چنانچہ مخزن کے مدیر شیخ سر عبدا لقادر نے، ان کی نظم ’’ہمالہ‘‘ شائع کرتے ہوئے تمہیداً، اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ: ’’شیخ محمد اقبال صاحب اقبال، ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور، علوم مشرقی و مغربی دونوں میں صاحبِ کمال ہیں‘‘ (مخزن اپریل ۱۹۰۱ئ) ایک اور معروف ادبی جریدے خدنگِ نظر کے مدیر بھی چاہتے تھے کہ وہ اپنے قارئین کو اس ہونہار نوجوان سے متعارف کرائیں۔ انھوں نے شیخ عبدالقادر کو ’’بار بار مجبور کیا کہ وہ اپنے قابلِ فخر دوست …… مسٹر محمد اقبال ایم اے کی شاعرانہ لائف ……قلم بند فرمائیں‘‘ چنانچہ شیخ صاحب نے ایک مضمون لکھا جس میں اقبال کے حالات اور مختصر سوانح کے ساتھ، ان کی شاعری کے بارے میں بتایا کہ ان کا کلام ’’قوت بیان اور جوش سخن کے ساتھ اعلیٰ درجے کی علمی معلومات کا ثبوت دے رہا ہے‘‘ اور یہ کہ ’’جو کچھ اقبال نے اب تک لکھا ہے، وہ اس اعتبار سے،[کہ] ایک نوجوان انگریزی خواں کا کلام ہے جس نے اپنی عمر کا بیشتر حصہّ علوم انگریزی کی تحصیل میں صرف کیا ہے اور جسے اہل زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، نہایت بے بہا ہے اور [اہل وطن کے لیے] مایۂ فخر و ناز ہے۔‘‘ (خدنگِ نظرمئی ۱۹۰۲ئ، بہ حوالہ: اقبال، جادوگرِ ہندی نژاد از عتیق صدیقی، علی گڑھ ، اگست ۱۹۸۰ئ، ص ۱۳۷، ۱۴۴) …… شیخ عبدا لقادر کا یہی مضمون اقبال پر قدیم ترین دستیاب مضمون ہے۔ شیخ صاحب مرحوم نے، بعد ازاں اقبال پر متعدد سوانحی اور تنقیدی مضامین لکھے۔ انھیں بانگِ درا کا دیباچہ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اقبال کے ایک اور قریبی دوست اور رفیق منشی محمد الدین فوق نے بھی ۱۹۰۱ء میں اقبال کا چند سطری تعارف شائع کیا تھا۔ پھر اپریل ۱۹۰۹ء کے کشمیری میگزین میں، انھوں نے اقبال کے مفصّل حالات لکھے جس کے متن میں متعدد بار اضافے کیے گئے۔ یہ مضمون نیرنگِ خیال کے اقبال نمبر ۱۹۳۲ء میں چھپا اور فوق کی مشاہیر ِکشمیر (۱۹۳۲ئ) میں بھی شامل ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر اور محمد الدین فوق سوانح و تنقید اقبال کے سلسلے میں ’’بارش کے پہلے قطرے‘‘ تھے۔ ان کے بعد اسرار خودی کی اشاعت (۱۹۱۷ئ) پر علامہ اقبال کی حمایت اور مخالفت میں کئی اصحاب نے قلم اٹھایا۔ پھر ۱۹۲۲ء میں علامہ کے عزیز دوست نواب سر ذوالفقار علی خاں نے ایک مختصر کتاب A Voice from the East کے نام سے شائع کی، جو علامہ پر پہلی انگریزی کتاب ہے۔ چند سال بعد علامہ کے ایک اور ہم نشین مولوی احمد دین وکیل نے، ان پر پہلی اردو کتاب اقبال (۱۹۲۴ئ) شائع کی۔ اس زمانے میں مضامین و مقالات کی صورت میں بھی تنقیداتِ اقبال کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، خصوصاً جب علامہ کا کوئی شعری مجموعہ منظرِ عام پر آتا تو دو چار قریبی احباب اور اقبال شناس تو ضرور ہی قلم اٹھا کر اس تصنیف کا تعارف و تجزیہ لکھ ڈالتے۔ ایسے جائزہ نگاروں میں سیّد سلیمان ندوی، محمد اسلم جیراج پوری اورچودھری محمد حسین کے نام نمایاں ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور رفتہ رفتہ اقبال پر لکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ اور جب بیسویں صدی اختتام کو پہنچ رہی تھی تو وہی ’’مسٹر محمد اقبال ایم اے‘‘ جو صدی کے آغاز میں، ادبی حلقوں میں محتاجِ تعارف سمجھے گئے، اب انھیں اس صدی کا سب سے بڑا اردو شاعرتسلیم کیا جا چکا تھا اور ان کی شہرت و مقبولیت نصف النّہار تک پہنچ چکی تھی۔ یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ اقبال پر اتنی کثرت اور اتنے تواتر کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ کسی اور شاعر یا ادیب پر، معیار و مقدار، دونوں لحاظ سے اتنا کچھ نہیں لکھا گیا۔ اس کے نتیجے میں، ان سو برسوں میں، اقبالیاتی ادب کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجود میں آچکا ہے۔ اب ’’اقبالیاتی ادب‘‘ یا ’’اقبالیات‘‘ بہ ظاہر تو ایک صنفِ ادب یا شعبۂ علم ہے، مگر اس علمی و ادبی شعبے میں اس قدر تنوع آچکا ہے اور کی حدود اتنی وسعت اختیار کر گئی ہیں(اور وقت کے ساتھ یہ حدود وسیع تر ہو رہی ہیں) کہ اب اقبالیات کو ایک ہمہ جہت تحریک کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ’’ہر وہ مضمون یا مقالہ، جو اس عظیم فلسفی و مفکر کی زندگی، شاعری یا فکر و فلسفے کے کسی پہلو سے متعلق ہو، ہر وہ کتاب (نظم ہو یا نثر، طبع زاد ہو یا ترجمہ) جس کا موضوع شعر و فکر اقبال ہو، اقبال کی یاد میں کسی اخبار یا رسالے کی خصوصی اشاعت، ریڈیو یا ٹی وی کا کوئی پروگرام، کسی ادبی حلقے یا علمی مجلس کی کوئی خصوصی نشست، طلبہ کے لیے کسی اقبالی موضوع پر تحریری یا تقریری انعامی مقابلہ …… غرض ہر وہ کاوش، جس کا کسی نہ کسی حیثیت سے اقبال سے تعلق ہو، اقبالیات کے زُمرے میں شمار ہوگی۔‘‘ اگر صرف اقبالیاتی کتابوںپر ہی نگاہ ڈالیں تو اس میں بھی خاصی رنگا رنگی اور تنوع نظر آئے گا، مثلاً: ٭ کلام اقبال کے متداول/ انتخاب کلام کے/ اور باقیاتِ کلام کے مجموعے۔ ٭ اقبال کی نظم و نثر کے تراجم ٭ سوانح اور مطالعہ شخصیت پر کتابیں، ملفوظاتِ اقبال کے مجموعے ٭ حوالہ جاتی کتابیں (فرہنگیں، اشاریے، کتابیات) ٭ کلام اقبال کی شرحیں ٭ اقبال کے افکار و تصورات اور فن پر تحقیقی و توضیحی اور تنقیدی کتابیں۔ ٭ اقبال پر منظوم کتابیں ٭ متفرق کتابیں (بچوں کے لیے، نصابی، کوئز، سووینیر وغیرہ) ٭ ادبی و علمی مجلات کے اقبال نمبر ٭ یونی ورسٹیوں کے امتحانی تحقیقی مقالے(Dissertations) گویا اقبالیات کا تحریری ذخیرہ بھی کم و بیش دس شاخوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ان سو برسوں میں اقبالیات کی دیگر شاخوں میں بھی بہت اچھے کام ہوئے ہیں۔ کہنا چاہیے کہ یہ سب شاخیں بھی خوب برگ و بار لائی ہیں، لیکن سب سے زیادہ خامہ فرسائی ان کے فکر و فلسفے پر کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے فکر و فلسفے کے اساسی تصورات اور ان کی ہفت رنگ شاعری کے تجزیے اور اس پر نقد و انتقاد پر مبنی کتابوں اور مضامین و مقالات کا ایک عظیم الشان ذخیرہ وجود میں آ چکا ہے۔ زیر نظر مجموعے میں اقبالیات کی صرف ایک دو شاخوں یعنی سوانح و شخصیت اور فکر و فن پر بیسوی صدی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین و مقالات کا ایک انتخاب پیش کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ یہ مجموعہ پیش کرتے ہوئے،ہمیں ’’بہترین‘‘ مقالوں کے انتخاب کے انتخاب یا ’’جامع ترین‘‘ مجموعے کی پیش کش کا دعویٰ نہیں، یہ ضرور ہے کہ یہ ایک ایسا متوازن انتخاب ہے جس سے اقبال کی شاعری اور فکر کی طرح، سوسالہ تنقید اقبال کی ہمہ جہتی، اس کی وسعت و جامعیّت اور تنوع کا اندازہ ہو سکے گا۔ زیر نظر انتخاب میں اقبال کے فکر و فن کے اہم تر موضوعات کا احاطہ کرنے کوشش کی گئی ہے۔ بیشتر صدی کے نمایاں اقبال شناسوں اور نقادوں کی تحریریں ہیں۔ چوں کہ یہ مضامین کسی سکیم یا باقاعدہ منصوبے کے تحت نہیں لکھے یا لکھوائے گئے، اس لیے ان میں کہیںکہیںتکرار کا احساس ہوگا، لیکن اس تکرار میں بھی ایک تنوع موجود ہے۔ بسا اوقات مختلف لکھنے والے، ایک ہی نکتے کی تعبیر و توضیح اپنے اپنے زاویۂ نظر کے مطابق اوراپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں، (فکری مباحث میں اس کی گنجائش ہوتی ہے، اور جواز بھی) اسی سے تکرار کا جواز نکلتا ہے۔ زیر نظر مقالات کا متن حتی الامکان صحت کے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں آیات قرآنی، احادیث نبویؐ، عربی و فارسی اقوال و ضرب الامثال ،اردو اورفارسی اشعار ممکنہ حد تک درست کر دیے گئے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ نامور نقّادوں اور اقبال شناسوں میں سے شاذ ہی کسی کا مقالہ ایسا ہوگا جس میں اشعار اقبال پوری صحت کے ساتھ نقل کیے گئے ہوں۔ اس مجموعے سے اندازہ ہو سکے گا کہ ادب اور اقبالیات کے عالموں اور نقادوں نے ہمارے قومی اور ملّی شاعر کو کن کن زاویوں سے دیکھا، سمجھا، پرکھا اور پھر کس کس نقد و انتقاد کے کن پیمانوں سے اس کی تعبیر و تفسیر کرنے کی کوشش کی۔ امید ہے قارئین کو ان مضامین کے ذریعے علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر و فن کا ایک واضح نقش قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ مرتّبین ۱ اقبا ل کے بعض حالات غلام بھیک نیرنگ آغاز تعلقات اللہ اکبر! وقت کی رفتار کس قدر سست اور بہ ایں ہمہ کس قدر تیز ہے۔ اقبال کی اور میری پہلی ملاقات بظاہر کل کی بات ہے، مگر حساب لگا کر دیکھیے تو یہ پورے پچاس سال کا واقعہ ہے، آدھی صدی گزر گئی اور کل کی بات ہے۔ میں نے ۱۸۹۵ء میں پنجاب یونی ورسٹی کا انٹرنس پاس کیا اور اسی سال گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا۔ چونکہ میں تمام یونی ورسٹی میں اول رہا تھا، اس لیے کالج میں داخل ہوتے ہی بہت سے قابل طلبہ میرے دوست بن گئے۔ انھی میں میرے مرحوم دوست چودھری جلال الدین(۱) بھی تھے جو ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور سیالکوٹ سے انٹرنس پاس کر کے لاہور آکر گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تھے۔ وہ اور میں بورڈنگ ہائوس میں رہتے تھے۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ چودھری صاحب کو شعر سے خاص ذوق ہے اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے اس ذوق کی پرورش مولانا سید میر حسن کی صحبت میں ہوئی۔ انھوں نے اقبال کا ذکر بھی کیا، کہ وہ مولوی صاحب موصوف کے خاص تربیت یافتہ بھی ہیں اور شاعر بھی ہیں، ابھی ابھی سیالکوٹ سے آکر گور نمنٹ کالج کی بی۔ اے کلاس میں داخل ہوئے ہیں۔ ایک روز شام کے قریب میں اور چودھری جلال الدین مرحوم بورڈنگ ہائوس سے شہر کو گئے۔ بھاٹی دروازہ کے قریب پہنچے تو سامنے سے ایک سادہ وضع گورے چٹے، کشیدہ قامت، جوان رعنا آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ شیخ محمد اقبال شاعر جن کا میں ذکر کیا تھا آرہے ہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کے قریب پہنچ گئے تو سب ٹھہر گئے۔ چودھری صاحب سے اور شیخ محمد اقبال سے متعارفانہ ملاقات ہوئی اور چودھری صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ اس کے بعدہم اپنے اپنے راستے چلے گئے۔ معلوم ہوا کہ اقبال اس وقت بھاٹی دروازہ کے اندر شیخ گلاب دین مرحوم کے مکان پر رہتے تھے۔ شیخ صاحب موصوف بھی سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ عدالت ہاے لاہور میں عرصہ دراز سے مختار کی حیثیت سے پریکٹس کرتے تھے اورلاہور میں جائیداد حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد اقبال سے تعلق کی وجہ سے شیخ گلاب دین سے ہم لوگوں کا بھی تعارف اورتعلق ہوا اور کئی مرتبہ ان کے بالا خانے میں بیٹھ کر ہم نے محرم کا جلوس دیکھا۔ بھاٹی دروازے کے باہر جو اقبال سے سرراہ سرسری ملاقات ہوئی، تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ ان کا کلام سننا یا دیکھنا چاہیے، دیکھیں تو یہ کیسا شعر کہتے ہیں۔ میں نے چودھری جلال الدین سے کہا کہ ان سے ان کے کچھ اشعار لائیے، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ دو ایک روز کے بعد چودھری صاحب ایک پرچہ لائے۔ اس پر اقبال کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک غزل تھی جس کے یہ دو شعر اس وقت تک یا د ہیں: بر سر زینت جو شمع محفل جانانہ ہے شانہ اس کی زلف پیچاں کا پر پروانہ ہے پاے ساقی پر گرایا جب گرایا ہے تجھے چال سے خالی کہاں یہ لغرش مستانہ ہے ٍْمیں دیکھتا ہوں کہ بانگ درا میں یہ غزل نہیں ہے۔ یہ بھی میرے علم میں ہے کہ اقبال یورپ سے واپس آنے کے بعد اپنی ابتداے کار کے کلام سے بہت بیزار ہوگئے۔ ان کا معیار سخن بڑی بلندی پر پہنچ گیا تھا۔ انھوں نے مجھ سے یہ کہا تھاکہ اس زمانے کے اپنے اشعار مجھے دیکھ کر اب شرم آتی ہے، میں اس تمام کلام کو تلف کر دینا چاہتا ہوں۔ علاوہ بریں بانگ درا میں جو غزلیں درج کی گئیں، انکے بھی بعض اشعار حذف کئے گئے۔ مثلاً اس غزل میں: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدئہ دل وا کرے کوئی دو شعر تو ضرور کاٹے گئے ہیں، ایک کا دوسرا مصرع تھا (پہلا مصرع یاد نہیں،بادہ نوشی اور حالت نشہ کا مضمون تھا): اور میں گروں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی ؁ اور یہ قطع: اقبال عشق نے مرے سب بل دیے نکال مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی ان حالات میں کوئی تعجب نہیں، وہ غزل ’جانانہ ہے، پروانہ ہے، اب اقبال کے شائع شدہ مجموعہ کلام میں نہیں، مگر جب میں نے یہ غزل دیکھی تو میری آنکھیں کھل گئیں۔ میں نے اس وقت تک اہل پنجاب کی اردو شاعری کے جو نمونے دیکھے تھے، ان کو دیکھ کر میں اہل پنچاب کی اردو گوئی کا معنقد نہ تھا، مگر اقبال کی اس غزل کو دیکھ کر میں نے اپنی رائے بدل لی اور مجھ کو معلوم ہو گیا کہ ذوق سخن کا اجارہ کسی خطہ ٔ زمین کو نہیں دیا گیا۔ جب بندشوں کی ایسی چستی، کلام کی ایسی روانی اور مضامین کی یہ شوخی ایک طالب العلم کے کلام میں ہے،تو خدا جانے اسی پنجاب میں کتنے چھپے رستم پڑے ہوں گے جن کا حال ہم کو معلوم نہیں۔ خیر اوروں کو چھوڑیے، اقبال کا تو میں قائل ہوہی گیا۔ چودھری جلال الدین نے اقبال کا پرچہ مجھ کو دیا کہ اقبال بھی آپ کے کلام کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ان کوکچھ اشعار بھیجے۔ اب یاد نہیں کہ وہ کون سے اشعار تھے مگر یہ یادہے کہ ان میں ایک شعر یہ بھی تھا: حرم کو جانا جناب زاہد یہ ساری ظاہر پرستیاں ہیں میں اس کی رندی کو مانتا ہوں جو کام لے دیر سے حرم کا یہ تو لکھ چکا کہ کلام کا نمونہ دیکھ کر میں نے اقبال کو کیا سمجھا، یہ معلوم نہیں کہ میرے اشعار دیکھ کر انھوں نے کیا رائے قائم کی، مگر بہر حال اس مبادلۂ اشعار سے میرے اوران کے تعلق میں ایک خصوصیت ضرور پیدا ہوئی۔ بورڈنگ ہائوس کی صحبتیں اس ایک سرسری ملاقات کے بعد اقبال سے زیادہ صحبت کا موقع اس وقت ملا جب وہ بھی بورڈ نگ ہائوس میں داخل ہوگئے۔ میں اس وقت ایف اے میں پڑھتا تھا، اس لئے جونیئر طلبہ کے زمرے میں ایک ڈارمیٹری میں رہتا تھا۔ ڈارمیٹری ایک بڑا کمرہ ہوتا تھا جس میں چھ چھ طلبہ رہا کرتے تھے، اقبال چونکہ بی۔ اے کلاس میں سینیئرطلبہ کے زمرے میں تھے، وہ کیوبکل میں رہتے تھے۔ [کیوبکل چھوٹا کمرہ ہوتا تھا جس میں صرف ایک طالب علم رہتا تھا۔] بی۔ اے اور ایم۔ اے کے تمام طلبہ کو کیوبکل ملے ہوئے تھے، کھانے کا انتظام سینیئر اور جونیئر طلبہ کا ایک ہی مطبخ میںتھا،صرف اس قدر تفریق تھی کہ مسلمانوں کا مطبخ الگ تھا اور ہندوئوں اور سکھوں کا مطبخ الگ۔ اب تو گورنمٹ کالج کے بورڈنگ ہائوس کی بڑی کایا پلٹ ہوگئی ہے۔خود کالج کی عمارت میں بھی بہت سے اضافے ہوگئے ہیں۔ ہمارے زمانے میں بورڈنگ ہائوس میں کمروں کی تین قطاریں تھیں کے جنوبی قطار میں تمام کیوبکل ہی کیوبکل تھے۔ اس جنوبی قطار کے ساتھ زاویہ قائمہ بناتی ہوئی ایک قطار مشرق میں تھی، ایک مغرب میں۔ اس مشرقی و مغربی قطار کے دونوں سروں پر دو دو کیوبکل تھے۔ باقی تمام حصے میں ڈارمیٹری کی وضع کے کمرے تھے۔ جنوبی قطار کے وسط میں بورڈنگ ہائوس کا پھاٹک تھا، اسی اوسطی حصے کے اوپر سپرنٹنڈنٹ کے لئے کمرے بنے ہوئے تھے اور جنوب مشرقی و جنوب مغربی گوشوں کے اوپر بھی ایک ایک کیوبکل بنا ہوا تھا، باقی تمام عمارت یک منزلہ تھی اور تینوں قطاورں کے آگے برآمدہ تھا۔ اقبال کو نیچے کی منزل میں مغربی قطار کے جنوبی سرے پر کیوبکل ملا۔ میں مشرقی قطار کی ایک ڈارمیٹری میں رہتا تھا۔ گویا بلحاظ سکونت ہم دونوں میں بعد المشرقین تھا۔ لیکن کالج کے اوقات درس کے سوا ہم دونوں کا وقت زیادہ تر ایک دوسرے کے ساتھ ہی گذرتا تھا اور اوقات مطالعہ کے بعد اور گرمی کے موسم میں رات کے وقت ان کا پلنگ ہماری ڈارمیٹری کے آگے ہمارے ہی پاس بچھتا تھا۔ اقبال کی طبیعت میں اسی وقت سے ایک گونہ قطبیت تھی اور وہ ’’قطب از جا نمی جنبد‘‘کا مصداق تھا، میں اور کالج کے بورڈنگ ہائوس میں جو جو اُن کے دوست تھے، سب انھی کے کمرے میں ان کے پاس جا بیٹھتے تھے، وہ وہیں میر فرش بنے بیٹھے رہتے تھے۔ حقہ جبھی سے ان کا ہمدم و ہم نفس تھا۔ برہنہ سر، بنیان دربر، ٹخنوں تک کا تہ بند باندھے ہوئے اور اگر سردی کا موسم ہے تو کمبل اوڑھے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور ہر قسم کی گپ اڑاتے رہتے تھے۔ طبیعت میں ظرافت بہت تھی، پھبتی زبردست کہتے تھے۔ ادبی مباحثے بھی ہوتے تھے۔ شعر کہے بھی جاتے تھے اورپڑھے بھی جاتے تھے۔ میں اس بورڈنگ ہائوس میں چار سال رہا۔ ان میں سے تین سال ایسے تھے کہ اقبال بھی اسی بورڈنگ ہائوس میں مقیم تھے۔ اس عرصہ میں میں نے بی اے پاس کر لیا اورقانون کا امتحان فرسٹ سرٹیفیکیٹ بھی پاس کر لیا۔ اس کے بعد مجھ کو قانون کا امتحان لائسنشیٹ (Licentiate in Law)پاس کرنا باقی تھا۔ مثل امتحانات سابقہ بی۔اے پاس کرنے پر بھی مجھ کو ایم۔ اے کے لئے وظیفہ ملا۔ میرے خانگی حالات میں اور خصوصاً دو چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کی ضرورت نے مزید تحصیل علم کی تمنائوں کو دفن کر کے مجھ کو مجبور کیا کہ قانون کا یہ آخری امتحان پاس کر لوں اور وکالت شروع کر دوں۔ انھی حالات کی وجہ سے بی۔ اے کے ساتھ ساتھ میں نے قانون کے دو امتحان پاس کئے تھے اور بی۔ اے کی تعلیم پر بہت کم توجہ کر سکا تھا۔ اس لئے میں صرف اس مقصد سے کہ وظیفہ ملتا رہے، ایم۔ اے کلاس میں داخل تو ہوگیا، مگر مضمون وہ اختیار کیا جس میں اساتذہ کو میری بے توجہی محسوس نہ ہویعنی عربی اور صرف قانون کی تیاری میں مصروف ہو گیا۔ انھی حالات کے ماتحت تحفیف مصارف کی غرض سے میں نے گورنمنٹ کالج کا بورڈنگ ہائوس چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ ایک دوست کا شریک مکان و طعام ہو کر موری دروازہ میں ایک بالا خانہ میں رہتا رہا اوراِ س کے بعد اوریئنٹل کالج کے بورڈنگ ہائوس واقع حضورری باغ (متصل شاہی مسجد و قلعہ )میں چلا گیا اور وہیں سے قانون کا یہ آخری امتحان دیا۔ میں اقبال کے حالات لکھتے لکھتے اپنا قصہ لکھنے بیٹھ گیا۔ مگر دکھانا یہ تھی کہ جب میں بی۔اے پاس کرچکا اور ادھر اقبال ایم ۔ اے پاس کر چکے تو ہم دونوں نے گورنمنٹ کالج کا بورڈنگ ہائوس چھوڑ دیا اور جو صحبتیں وہاں تین سال تک رہیں وہ ختم ہو گئیں۔ ان سہ سالہ صحبتوں میں خاص بات کیاتھی؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم کو اس وقت اتنا شعور ہی نہ تھا کہ اس زمانے کے اقبال میں زمانہ ما بعدکے اقبال کو دیکھ لیتے۔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ایک ذہین طالب العلم جس نے شاعرانہ طبیعت پائی ہے، اس کو مرزا غالب کی شاعری سے خاص ذوق بھی ہے اور غالب کے اسلوب بیان کی تقلید کا شوق بھی،وہ اگر شعر کا شغل کرتا رہا تو غالب کا سا لکھنے لگے گا اور بہر حال اسی قسم اوراسی معیار کاایک شاعر بن جائے گا جیسے ہمارے یہاں کے شاعر ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس وقت یہ سمجھ سکتے کہ یہ شخص تو آگے چل کر اسرار خودی اور رموز بے خودیلکھے گا، اس کے قلم سے ضرب کلیم ارمغان حجاز اورجاوید نامہ نکلیں گے، یہ گوئٹے کے نام عالم ارواح میں پیام مشرق بھیجے گا، تو ہم اسی وقت سے اس کے حالات و ملفوظات کی یاد داشتیں رکھنے لگتے۔ اس کے ایک ایک لفظ کو اس کے مستقبل کا آئینہ دار سمجھتے ہوئے محفوظ رکھتے اور آج جب اس کے کمالات کے دفتر دنیا میں موجود ہیں، اس کا سوانح نگار دکھا سکتا کہ دیکھئے اس کے فلاں نظریہ کی اساس فلاں وقت کے فلاں واقعہ میں موجود ہے۔ مگر اس ابتدائی زمانہ میں کسی کو بھی اقبال میں ایک اچھے شاعر مگر عام معیار کے شاعر کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ یا اگر آپ اجازت دیں تو یہ کہوں کہ دیکھنے والوں کی کوتاہ نظری نہ تھی بلکہ اس وقت وہ چیز موجود ہی نہ تھی جو بعد میں بن گئی۔ شمس العلما سید میر حسن مرحوم و مغفور کی تربیت سراسر ادبی تھی، پروفیسر آرنلڈ (بعدہ سرطامس آرنلڈ) کا فیض تعلیم مطالعہ فلسفہ و تحقیق علمی کا رہنما ہوا، اس سے زائد کچھ نہیں۔ تصوف کی بنیاد گھر میں پڑ چکی تھی کہ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ تھے۔ اصل سر چشمہ جہاں سے اقبال کے تلاش حق کی، کبھی نہ بجھنے والی پیاس کو بار بار تسکین دی، قرآن کریم ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ہے۔ ہاں ایک بات ضرور لکھنے کے قابل ہے۔ ہماری ان سہ سالہ صحبتوں میں اقبال اپنی ایک سکیم بار بار پیش کیا کرتے تھے۔ ملٹن کی مشہور نظم Paradise Lost اور Paradise Regained کا ذکر کر کے کہا کرتے تھے کہ واقعات کربلا کو ایسے رنگ میں نظم کروں گا کہ ملٹن Paradise Regainedکا جواب ہوجائے، مگر اس تجویز کی تکمیل کبھی نہیں ہوسکی۔ میں اتنا اور کہہ دوں کہ اردو شاعری کی اصلاح و ترقی کا اور اس میں مغربی شاعری کا رنگ پیدا کرنے کا ذکر بار بار آیا کرتا تھا۔ بہر حال میں نے آخر ۱۸۹۹ء میں قانون کا آخری امتحان پاس کیا اور ابتداے ۱۹۰۰ء میں انبالہ میں وکالت شروع کر دی۔ اقبال بدستور لاہور میں رہے اور گورنمنٹ کالج میں استاد فلسفہ مقرر ہوگئے۔ اب ہماری صحبتوں کا مسلسل دور ختم ہو گیا اور صرف کبھی کبھی کا ملنا رہ گیا۔ سیالکوٹ میں ملاقات میں پیٹ کے دھندے میں لگا ہوا تھا اور اقبال اپنی ملازمت میں مبتلا تھے۔ دل چاہتا تھا کہ ان سے ملوں۔ آخر ستمبر کا مہینہ آیا اور دیوانی عدالتیں ایک ماہ کے لئے بند ہوئیں۔ اس وقت کالج میں تعطیل تھی اور اقبال گھر پر سیالکوٹ میں تھے۔ اس لئے ان سے ملنے کے لئے میں سیالکوٹ گیا اور ان کا مہمان ہوا۔ غالباً یہ ذکر ۱۹۰۱ء کا ہے۔ صبح کے وقت دو بچے میرے سامنے آئے۔ کالج کے زمانے میں اقبال سے بارہا سنا تھا کہ سیالکوٹ میں بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو اہل بیت رسول سے جلتے ہیں۔ ان کو جلانے کے لئے اقبال نے اپنے لڑکے کا نام آفتاب حسین رکھا ہے اور اپنے بھتیجے کا نام اعجاز حسین۔ [حالت یہ تھی کہ اقبال بارہا ایسے افسانے بھی گھڑ کر سنا دیا کرتے تھے، جن کی اصلیت کچھ نہ ہوتی تھی۔ اس لئے آفتاب حسین اور اعجازحسین کے قصے کو بھی میں باور نہ کرتا تھا۔یہ بچے جو آئے تو اقبال نے ایک کا تعارف کرانے کے لئے پنجابی میں کہا کہ ’ایہہ آفتاب وانگوں سحر خیز اے‘ (یہ سورج کی طرح علی الصباح جاگ اٹھنے والا ہے)۔ میں نے سمجھ لیا کہ یہ ان کا بچہ آفتاب ہے اور بچے سے کہا کہ بھئی یہ تمھارا باپ ایسا ہی گپی ہے کہ اس نے تمھارا ذکر بارہا کیا مگر مجھ کو یقین نہیں آیا کہ تم کوئی واقعی ہستی ہو۔ آج تم کو دیکھ کر یقین آیا۔ اعجاز کا تعارف معمولی الفاظ میں تھا اور میں نے بھی اس سے اس قسم کی کوئی بات نہ کہی۔بعد میں آفتاب تعلیم کے لئے انگلستان گئے۔ وہاں سے ایم اے اور بیرسٹر ہوکر آئے اور اب وہ آفتاب اقبال ہیں۔ افسوس ہے کہ ان میں اوراقبال میں بعض وجوہ سے ان بن اورمغائرت رہی۔ اس خورد سالی کی ملاقات کے بعدوہ مجھے کلکتہ میں ملے۔ معلوم ہوا کہ وہاں کے اسلامیہ کالج میں پروفیسر ہیں۔ میں نے ان کو سیالکوٹ کی یہ ملاقات انھیں الفاظ میں یاددلائی۔اعجاز اب اعجاز احمد اور پنجاب کی جوڈیشیل سروس میں سینیٔر جج ہیں۔ مگر ان سے اس روز کے بعد پھر کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ آفتاب کلکتہ کے بعدبھی کئی مرتبہ مل چکے ہیں۔ میں سیالکوٹ کے اسی چکر میں اقبال کے ساتھ جاکر حضرت علامہ میر حسن رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت سے بھی مشرف ہوا۔ عجب نورانی بزرگ تھے، بے حد شفقت سے پیش آئے۔ اقبال کے والد ماجد مرحوم کی زیارت ہوئی۔ بڑے بابرکت لوگ تھے، اقبال کے ایک خاص دوست جھنڈے خاں بھی ملے جن کے تذکرے بارہا سننے میں آئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے قدیم طلبہ میں سے میرے دوست اوراقبال کے ہم جماعت،بی۔اے کلاس کے فلسفہ میں ہم سبق اور دوست میاں سر فضل حسین بھی (جو اس وقت صرف میاں اور بیرسٹر تھے) سیالکوٹ میں پریکٹس کرتے تھے، ان سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں کو ایک شرارت سوجھی۔ ایک سرخ رنگ کا ایریئیٹڈ پانی گلاسوں میں ڈال کر کچھ ایسے انداز سے پینا شروع کیا اورمجھ کو پینے کو دیا کہ میں نے اس کو شراب سمجھا اور پینے سے انکار کیا۔ وہ دیر تک کہتے رہے کہ ایسی بھی کیاپارسائی ہے، پی لو،میں برابر انکار کرتا رہا۔ آخر مجھ کو خوب بنا چکے، تب بتایا کہ یہ کیا ہے اورتب میں نے پیا۔ مخزن، عبدالقادر اور اقبال مخزن مرحوم کو محبت اور حسرت سے یاد کرنے والے تمام ہندوستان میں جابجا موجود ہیں۔ اس رسالے کو جاری کر کے شیخ عبدالقادر نے اردو زبان و ادب کی نہایت گرا ں بہا خدمت کی، جس کی داد ملک کے تمام صاحب ذوق دیتے آئے ہیں۔ اجراے رسالہ مخزن کے بعد شیخ عبدالقادر کو کار کنان قضا و قدر نے اپنی نا معلوم حکمتوں کے ماتحت جبراً اور یکایک انگلستان بھیج دیا۔ وہاں سے وہ بیرسٹر ہوکر آئے، پھر بیرسٹری کے کام میں منہمک ہو کر سرکاری وکیل ہوئے، خان بہادر ہوئے، ہائی کورٹ کے جج اورسر ہوئے۔ وزیر تعلیم پنجاب رہے اوربہت سے مناصب جلیلہ پر سرفراز رہنے کے بعد ریاست بہاولپور کے چیف جسٹس ہوئے۔ ان حالات میں مخزن ان کے فیض سے محروم ہوگیا اور ان کے انگلستان سے واپس آنے کے بعد چند سال تک دوسرے ہاتھوں میں رہ کر آخر بند ہی ہوگیا۔ لیکن جو کام مخزن نے کیا وہ اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔ اسی رسالے کے ذریعہ سے شیخ عبدالقادر بڑے بڑے قابل لوگوں کو منظر عام پر لے آئے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔فشی دیا نرائن نگم آنجہانی (بعدش راے بہادر) اول اول مخزن میں مضامین لکھنے لگے۔ پھر انھوں نے کانپور سے اپنا ماہانہ رسالہ زمانہ جاری کیا اور مدیر زمانہ کے فرائض بڑی قابلیت سے اداکئے۔ حسرت موہانی نے مخزن میں مضامین لکھے، اس کے بعد اردوے معلی جاری کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی طفلانہ مشق اول اول مخزن ہی میں شائع ہوئی۔میں نے اپنی ماہانہ تنقید میں اس مضمون پر اعتراض کیا، مگر شیخ جوہر شناس نے لکھا کہ آپ ان کودیکھیں گے تو ان کی حوصلہ افزائی ہی مناسب سمجھیں گے۔چنانچہ وہ آخر الہلال کے سحر طراز مدیر بنے اور ان کی جادو بیانی کو دنیا نے تسلیم کیا۔ شیخ عبدالقادر ہی کی جوہر شناسی اول اول اقبال کوبھی کشاں کشاں منظر عام پر لائی۔ شیخ صاحب اقبال سے کہہ سکتے تھے: اول آں کس کہ خریدار شدت، من بودم باعث گرمی بازار شدت، من بودم شیح صاحب نے بانگ درا کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اقبال سے ان کا تعارف ۱۹۰۱ء سے دو تین سال پیشتر ہوا یعنی ۱۸۹۸ء یا ۱۸۹۹ء میں۔ شیخ صاحب سے میرا تعارف اس سے بہت پیشتر ہوچکا تھا۔ اجراے مخزن کے بارے میں جو مشورے ہوئے، ان میں مرزا اعجاز حسین اعجازدہلوی مرحوم اور میں بھی شریک تھے۔ میں مخزن کا پرچہ پہنچنے پر ہر ماہ شیخ صاحب کو مفصل تنقید لکھا کرتا تھا اور جب شیخ صاحب نے یکایک قصد انگلستان کیا تو مجھے لاہور بلا کر مخزن میرے سپردکیا۔ میں ان کی غیر حاضری میں بلا اظہار نام اس کا مدیر رہا۔ شیخ محمد اکرم مرحوم اسٹنٹ ایڈیٹر اورمینیجر رہے۔ وہ تما م مضامین ڈاک سے میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے اورمیں فیصلہ کیا کرتا تھا کہ کون سا مضمون یا نظم قابل اشاعت ہے، مگر یہ کرامت شیخ عبدالقادر ہی کی تھی کہ وہ انگلستان میں بیٹھے تھے اوررسالہ اس حسن و خوبی سے چل رہا تھا کہ گویا وہ لاہور میں موجود ہیں۔ لوگ شیخ عبدالقادر کو وسیع الا خلاق کہا کرتے ہیں، مگر میں ان کو ہمیشہ وسیع المحبت سمجھتا رہا ہوں۔ اگر وہ وسیع الاخلاق ہوتے ہوئے وسیع المحبت بھی نہ ہوتے تو ان کا دائرہ احباب اس قدر وسیع نہ ہوتا۔ اخلاق ایک حد تک دوسروں کو گرویدہ کر لیتے ہیں۔ محبت اس گرویدگی میں گہرائی اور پائداری پیدا کرتی ہے۔ شیخ صاحب نے جس کسی میں ذرا بھی کچھ قابلیت دیکھی، اس کو اپنابنا لیا اور ایسے راستے پر لگایا کہ اس کی قابلیت ترقی کرے۔ اقبال کے بارے میں بھی شیخ صاحب نے یہی کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال کی وجہ سے مخزن کوچار چاند لگے اورمخزن کی وجہ سے اقبال کا جوہر روز بروز زیادہ ہی چمکتا گیا۔ اقبال شیخ صاحب کو شیخ عالم گنڈھ کہا کرتے تھے، یعنی دنیا بھر کو گانٹھ لینے والے، گرہ میں باندھ لینے والے، اپنا بنا لینے والے۔ اقبال نے عربی لفظ عالم کوپنجابی لفظ گنڈھ سے ملا کرباقاعدہ فارسی میں ایک اسم فاعل ترکیبی بنایا اور اس طرح اس لقب میں ایک رنگ ظرافت پیدا کر دیا۔ مگر ظرافت کے باوجود یہ لقب پھبتی یا تمسخر نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ تمسخر کا تو خیال بھی نہیں ہو سکتا۔ اقبال تو عبدالقادر کو وہ سمجھتے تھے جو بانگ درامیں ان کی نظم ’عبدالقادرکے نام‘ سے ظاہر ہے۔ سفر یورپ ۱۹۰۵ء کے موسم گرما میں اقبال نے مزید تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا ارادہ کیا۔ انھوں نے اپنی روانگی کی تاریخ مجھ کو لکھ دی تھی اور یہ طے ہوگیا تھا کہ میں ان کو خدا حافظ کہنے کے لئے دہلی میں ان سے ملوں گا۔ اتفاق کی بات کہ دہلی میں ان سے ملنے کی جو تاریخ تھی، اس سے پہلے روز شملہ میں میرا ایک مقدمہ براے سماعت مقرر تھا۔ اس وقت تک شملہ اور کالکا کے درمیان ریل نہ تھی۔ محکمہ ڈاک کے انتظام سے دو اسپہ تانگے چلتے تھے، مسافر انھی تانگوں میں آتے جاتے تھے، لیکن مسافروں کے تانگے صرف دن میں چلتے تھے، ڈاک کا تانگہ شام کے چھ بجے شملہ سے روانہ ہو کر کالکا تک کا دوتہائی یا نصف راستہ بعد غروب آفتاب طے کرتا تھا اور پہاڑ کی سڑک پر رات کا یہ سفر جس میں گھوڑے ڈاک کو بر وقت پہنچانے کے لئے فروٹ جاتے تھے، خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے اگر کوئی مسافر ڈاک کے تانگے میں سفر کرنا چاہتا تھا تو اس سے مطبوعہ اقرار نامے پر دستخط کرائے جاتے تھے، جس کا مضمون یہ تھا کہ اگر کوئی حادثہ ہو جائے گا تو گورنمنٹ کسی ضررجسمانی یا نقصان جان کا ہرجانہ ادا کرنے کی ذمہ دار نہ ہوگی۔ میں اس روز عدالت کے کام کی وجہ سے دن کے تانگے میں سفر نہیں کر سکتا تھا، مگر اقبال سے ملنے کے لئے دہلی اسی شام کو جانا ضروری تھا، اس لئے میں نے اس اقرار نامہ پر دستخط کر دیے اور عدالت میں اپنا کام ختم کرنے کے بعد ڈاک کے تانگے میں کالکا کو روانہ ہوگیا۔ شاید آدھا ہی راستہ طے ہوا تھا کہ سورج چھپ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں بالکل اندھیرا ہوگیا۔ جب کالکا تین چار میل رہ گیا تو ایک جگہ کھیت میں آگ جلتی دیکھ کر گھوڑے چمکے اور بے قابو ہو کر تانگے کو سڑک کے دائیں جانب کو لے چلے۔ آگے ایک چھوٹا سا پُل تھا۔ ایک پہیہ اس کی سینڈ پر چڑھ گیا اور تانگہ الٹ گیا، بم ٹوٹ گیا، گھوڑوں کی راسیں ڈرائیور کے ہاتھ سے چھوٹ گئیں اور تانگے کو وہیں چھوڑ کر ٹوٹے ہوئے بم کے ساتھ جتے ہوئے گھوڑے ہوا ہو گئے۔ ڈاک کے تھیلے سڑک پر پھیل گئے، ڈرائیور کو چوٹ آئی اور سواریوں کو بھی چوٹ آئی۔ چنانچہ میرا بھی گھٹنا چھل گیا اور خون جاری ہو گیا۔ یہ سب کچھ ہوا، مگر اس وقت سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اب دہلی جانے کے لیے ریل کیوں کر ملے گی۔آدھ گھنٹہ کے بعد کالکا کی طرف سے بگل سنائی دیا اور اس سے چند منٹ بعد ایک خالی تانگہ آ پہنچا۔ ڈاک کے تھیلوں اور سواریوں کو لے کر اس دوسرے تانگے والے نے ڈاک گاڑی کے چلنے سے پیشتر کالکا کے اسٹیشن پر پہنچا دیا اور سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔ چنانچہ اپنا زخمی گھٹنا لیے ہوئے میں حسب وعدہ دہلی پہنچ گیا اور حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی (قدس سرہ) کے آستانہ پر حاضر ہو گیا۔ وہاں اقبال مل گئے، ان کے ساتھ شیخ نذر محمد بی اے اسسٹنٹ انسپیکٹر مدارس تھے جو اقبال سے بے حد محبت کرتے تھے۔ اقبال اور شیخ صاحب موصوف خواجہ حسن نظامی کے مہمان تھے۔ دہلی میں اقبال کے ٹھہرنے کا مقصد یہ تھا کہ حصول برکت کے لیے حضرت محبوب الٰہی کے مزار شریف پر حاضری دی جائے اور التماس دعاکی جائے۔ چانچہ اقبال حاضر ہوئے، ہم لوگ ہمراہ تھے۔ اقبال نے حضرت محبوب الٰہی کو مخاطب کرتے ہوئے ایک نظم پڑھی جو بانگ درا میں ’التجاے مسافر‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ ایک اور نظم بھی اس وقت پڑھی تھی جس کا صرف یہ آخری مصرعہ یاد ہے: لاج رکھ لینا کہ میں اقبال کا ہم نام ہوں اس مصرع میں خواجہ اقبال کی طرف اشارہ تھا جو حضرت محبوب الٰہی کے خادم تھے اور اس وقت اس تلمیح کا خاص لطف اٹھایا گیا تھا، مگر اب وہ دوبسری نظم بانگ دار سے غائب ہے۔ شاید بعد میں غور کرنے پراقبال نے اس کواپنے معیار سے فروتر قرار دیا ہو اورشائع کرنا مناسب نہ سمجھا ہو۔ یورپ سے واپسی پر پہلی ملاقات اقبال نے دوران قیام یورپ میں کیمبرج سے بی۔اے کی سند فضلیت حاصل کرنے کے علاوہ بیرسٹری کی سند بھی حاصل کی اور جرمنی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لی۔ جب وہ یورپ سے واپس آئے تو انھوں نے لاہور میں بیرسٹری کی پریکٹس شروع کی۔ یورپ سے ان کی واپسی کے بعد ان سے میری پہلی ملاقات لاہور میں ہوئی۔ محرم کی تعطیل تھی۔ میں انھیں سے ملنے کی غرض سے لاہور گیا تھا، انھوں نے اپنے قیام کے لیے چنگڑ محلہ میں مکان لیا تھا۔ میں دن کے وقت لاہور پہنچا اور سیدھا ان کے وہاں گیا۔ ملازموں نے میری پذیرائی کی، مگر معلوم ہوا کہ اقبال کہیں گھومنے گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ خدا کا شکر ہے، اقبال نے بھی گھر سے نکلنا سیکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ آئے تو میں نے دیکھا کہ نہایت نستعلیق سوٹ پہنے ہوئے ہیں۔ میں نے دوسرا شکر ادا کیا کہ اقبال نے لباس پہننا سیکھا۔ (اس سے پیشتر وہ لباس کے بارے میں صرف سادہ ہی نہیں، بلکہ لا پروا تھے)خیر گلے ملے، مزاج پرسی ہوئی، اس کے بعد وہ سوٹ اتر گیا، وہی ہمیشہ کا تہبند بندھ گیا، وہی بنیان بدن پر رہ گیا، وہی کمبل شانوں پر سوار ہو گیا، ہم نفس (حقہ) حاضر ہو گیا۔ میں اور اقبال پہلے کی طرح فرش پر بیٹھ گئے، دنیا بھر کی باتیں چھڑ گئیں اور ہوتی رہیں۔ میرے قیام کے تین دن اسی ہیئت کذائی سے گزر گئے، کہاں اقبال اور کہاں گھر سے نکلنا اور کس کا سوٹ، یورپ ہو آئے،دماغ کو گونا گوں فضائل علمی سے آراستہ کر لائے،سینے کو طرح طرح کی امنگوں اور عزائم سے بھر لائے، مگر رندی اور قلندری میں فرق نہ آیا۔ تین دن کی شبانہ روز صحبت کے بعد میں رخصت ہو کر انبالے چلا آیا۔ فلسفہء خودی اقبال نے ۱۹۱۵ء میں مثنوی اسرار خودی شائع کی تو مجھ کو بھی اس کا ایک نسخہ بھیجا۔ اس سے پہلے میں آگاہ نہ تھا کہ اس قسم کی کوئی کتاب لکھی جا رہی ہے۔ اس میں تصوف اورخواجہ حافظ پر جو سخت گیری کی گئی ہے، وہ مجھ کو نا گوار گزری اور میں نے اقبال کو ایک طومار اختلاف لکھ کر بھیجا اور اس خط میں یہ بھی لکھا کہ میں اس بارے میں مفصل مضمون لکھ کر شائع کروں گا۔ اقبال نے جواب میں لکھا کہ ابھی آپ اشاعت کے لیے کچھ نہ لکھیں، پہلے مجھے آپ سے بالمشافہ مبادلہ خیالات ہو جائے، پھر اگر آپ ضروری سمجھیں تو اپنے خیالات کولکھ کر شائع کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے یہ بھی لکھا کہ میں نے اس مرتبہ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ خیالات قائم کئے ہیں۔ اس سے میں متنبہ ہوا اورمیں نے اپنی تنقید کولکھ کر شائع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ البتہ وقتاً فوقتاً خطوط میں اور زبانی اقبال سے مذاکرہ ہوتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب انھوں نے رموز بے خودی لکھنے کا ارادہ کیا توپہلے سے اس کا ایک خاکہ لکھ کر چند احباب میں بغرض مشورہ بھیجا۔ ان میں راقم، مرزا اعجازحسین مرحوم اعجاز دہلوی اورلسان العصر خان بہادر سید اکبر حسین الہ آبادی مرحوم۔ تین نام تو مجھے یاد ہیں، شاید کسی اور کو بھی بھیجا ہو۔ ہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی راے لکھ کربھیج دی اوراس کے بعد مثنوی رموز بے خودی لکھی گئی۔ اس کے دیباچہ میں اقبال نے اس مشاورت کا ذکر اس پیرایہ میں کیا ہے کہ مجھ کو فلاں فلاں سے امداد ملی۔ اقبال کے مطالعہ قرآن کی کیفیت میرے مشاہدہ میں نہیں آئی، مگر ان کی تلاوت میں جو جذبہ ہوتا تھا، اس کا ایک نمونہ میں نے دیکھا ہے۔ چنگڑ محلے والے مکان کے باہر وہ بازار انار کلی میں ان بالا خانوں میں جا کر رہے، جن میں ہمارے ایام طالب علمی میں میاں محمد شفیع مرحوم رہتے تھے اوران کی بیرسٹری کا دفتر تھا، اس کے بعد میاں صاحب موصوف ترقی کرتے کرتے لاہوربار کے لیڈر ہوگئے، سر کاخطاب پایا اور انھوں نے ہائی کورٹ کے عقب میں اقبال منزل کے نام سے (اقبال ان کے چھوٹے صاحبزادے کا نام ہے) ایک بڑی وسیع اور عالیشان کوٹھی بنوائی اوراس میں رہنے لگے۔ پھر اس کے بعد وائسراے کی ایگزیکیوٹو کونسل کے ممبر ہو گئے۔ میاں صاحب جیسے مشہور و ممتاز بیرسٹر کا پرانا مسکن ایک عالمی شہرت حاصل کر چکا تھا، اس لیے قانون پیشہ لوگ اس میں رہنا اور اپنا دفتر قائم کرنا اپنے لیے موجب ترقی سمجھتے تھے، غالباً اسی خیال کے تحت کسی نے اقبال کو مشورہ دیا ہوگا کہ اپنی سکونت اور دفتر کے لیے یہ بالا خانہ لے لیں۔ اچھا تو جب وہ ان بالا خانوں میں رہتے تھے تو ایک مرتبہ میں لاہور گیا ٹرین ایسے وقت لاہور پہنچی کہ اقبال کے مکان پر پہنچنے کے بعد صبح کی نماز کا وقت باقی تھا۔ میں اوپر پہنچا تو ایک کمرے سے تلاوت کلام اللہ کی بلند مگر نہایت شیریں اور درد انگیز آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ میں نے فوراً جلدی جلدی وضو کیا اورنماز پڑھنے کے لیے اس کمرے میں گیا۔ دیکھا کہ اقبال مصلے پر بیٹھے قرآن حکیم پڑھ رہے ہیں۔ مجھ کو دیکھ کر انھوں نے مصلیٰ خالی کر دیا اور خود پاس کے کمرے میں چلے گئے۔ میں نے اس مصلیٰ پر نماز پڑھی تو نماز میں خاص کیفیت محسوس کی اور میں نے اپنے دل میں اس وقت یہ کہا کہ یہ کیفیت وہ شخص یہاں چھوڑ گیا ہے، جو ابھی ابھی یہاں بیٹھا ہوا کلام اللہ پڑھ رہا تھا۔ یہ بات میرے علم میں تھی کہ اقبال صبح کی نماز بہت سویرے پڑھ کر تلاوت کیا کرتے ہیں مگر نمونہ اس روزدیکھا۔ اس روز سے میں اقبال کی روحانیت کا قائل ہو گیا اور دوسروں سے یہ کہنے لگا کہ اقبال بڑے بزرگ آدمی ہیں۔ اعزاز نائٹ ہڈ جنوری ۱۹۲۲ء میں اقبال کو نائٹ ہڈ ملی اور وہ سر محمد اقبال ہوئے۔ میں اس اللہ کے قلندر کو خوب سمجھتا تھا، مگر یہ بھی معلوم تھا کہ شیطان اپنے دائو پیچ سب پر چلاتا ہے اس لیے ضروری سمجھا کہ مبارکباد کے ساتھ ان کو یہ بھی یاد دلا دوں کہ اسلامی دنیا ان سے کیا کیا توقعات رکھتی ہے۔ میں نے خط لکھا۔ اس کا جواب جو انھوں نے دیا مکاتیب اقبال صفحہ ۲۰۶/۲۰۷ پر درج ہے۔ اس کے ساتھ ان کی اصل تحریر کافوٹو بھی ہے۔ اس خط میں وہ لکھتے ہیں: ’’میں آپ کو اس اعزاز کی خود اطلاع دیتا، مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساسات سے فرو تر ہیں، سینکڑوں خطوط اور تار آئے اور آرہے ہیں اور مجھے تعجب ہورہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گرا نقدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے، سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضہ میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ان شأ اللہ! اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے۔‘‘ مسلمانان الور کی امداد ریاست الور کی حکومت عرصہ دراز سے وہاں کے مسلمانوں کو مٹانے کی فکر میں تھی۔ کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کے مکاتب تعلیم قرآن و اردو بند ہو جائیں۔ مسلمان بچے اگر پڑھیں بھی تو ریاست کے مدارس میں جن میں ذریعہ تعلیم ہندی تھی اور وہ بھی ایسی سنسکرت آمیختہ ہندی کہ مسلمان بچے اس کو پڑھنے کے بعد بھی عملاً اس سے کورے ہی رہیں اور ریاست کی کسی ملازمت کے قابل کبھی نہ بن سکیں۔ اس کے علاوہ مساجد کو منہدم کیا جاتا تھا، مسجدوں کو مندر بنایا جاتا تھا، قبرستانوں میں سڑکیں نکالی جاتی تھیں اورطرح طرح سے مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو نا ممکن بنایا جا رہا تھا۔ اگر مسلمان اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی جدو جہد کرتے تھے تو ان کو باغی اور مخالف ریاست اور ان کی قائم کردہ انجمنوں کو خلاف قانون قرار دیا جاتا تھا۔ یہ قصہ طویل ہے مگر اس سلسلہ میں ۲۹ مئی ۱۹۳۲ء کو ریاست کی فوج نے بلا وجہ اور بالکل ناجائز طور پر مسلمانوں کے پر امن مجمع پر گولی چلائی۔ کئی مسلمان شہید ہوئے، کئی زخمی ہوئے اور اس کے بعد مسلمانوں پر گونا گوں تشدد کیا گیا۔ آخر تنگ آ کر ہزار ہا مسلمانوں نے الور سے ہجرت کی۔ اس زمانے میں آل انڈیا مسلم کانفرنس قائم تھی اور اس وقت اس کے صدر اقبال تھے۔ جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کے معتمد عمومی کی حیثیت سے میں نے معاملات الور کو اپنے ہاتھ میں لے کھا تھا اور میں نے مسلم کانفرنس مذکورہ سے معاونت کی درخواست کی۔ چنانچہ قرارپایا کہ مسلم کانفرنس کا ایک وفد وائسرائے کی خدمت میں پیش ہو کر مسلمانان الور کی داد رسی کے لیے وائسرائے کو توجہ دلائے۔ اس وفد کے ارکان کی تعداد تو زیادہ تھی مگر وائسرائے نے تاریخ اس قدر نزدیک مقرر کی کہ ہندوستان کے مختلف مقامات سے اکثر لوگ اس تاریخ پر شملہ نہ پہنچ سکتے تھے اور وائسرائے کا خیال یہ تھا کہ دو چار چیدہ آدمی آ جائیں، زیادہ مجمع کرنا غیر ضروری ہے۔ چنانچہ اقبال بحیثیت صدر آل انڈیا مسلم کانفرنس اس وفد کی قیادت کے لیے لاہور سے شملہ تک کے سفر کی صعوبت گواراکرتے ہوئے شملہ پہنچے۔ کالکاسے میں ان کے ہمراہ ہوا اور ہم دونوں نے کالکا سے شملہ تک کا سفر ایک ہی موٹر میں کیا۔ شملہ میں ان کا قیام لوئر بازار کے ایک بالا خانہ میں رہا۔ کیونکہ اس مرد خدا کی مزاج میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ ہم بڑے آدمی ہیں، وائسرائے سے ملنے کے لیے آئے ہیں، ہمارے قیام کے لیے کسی بڑے ہوٹل یا کوٹھی میں پر تکلف انتظام ہو۔ اس کے بعد ۶ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو وفد وائسرائے کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حاضری وفد کے بعد کیا کیا ہوا، اسکو یہاں بیان کرنا مقصود نہیں۔ صرف دو یا تین باتیں دکھانے کے لیے مندرجہ بالاسلسلہ واقعات لکھا گیا۔ پہلی بات یہ کہ قومی ضرورتوں کے موقع پر اقبال جو عموماً غیر متحرک رہتے تھے، ایسے ہی متحرک بن جاتے تھے جیسے کوئی اور جوشیلا کارکن۔ دوسری بات یہ کہ جب میں اور وہ موٹر میں کالکا کوجا رہے تھے تو حسب معمول اسلامی موضوعات پر گفتگو چھڑ گئی۔ میں نے کہا کہ آپ نے قرآن کریم کا بہت مطالعہ کیا ہے اور اس زمانے کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے خیالات سے بھی آپ واقف ہیں، یہ دیکھتے ہوئے کہ ابناے زمانہ کوقرآن کی تعلیم سے بیگانگی اور بعد کیوں ہے، آپ ان کیلیے قرآن کی تفسیر یا قرآن پر حواشی لکھئے۔ انھوں نے اس کام سے اپنی معذوری ظاہر کی۔ اس اظہار معذروی کے سلسلہ میں جو انھوں نے ایک تقریر کی تو اس میں بعض نازک مسائل آگئے، ان کو بیان کرتے کرتے ان پر ایک حالت جوش و جذبہ طاری ہو گئی اورایسا معلوم ہوا کہ ان کا دل سینے سے نکل پڑے گا۔ مگر دو چار ہی سیکنڈ میں انھوں نے خاموش رہ کر پھر سلسلہ گفتگو کو جاری کر دیا اوردیر تک جاری کھا، اس حالت پر ضبط پا لیا اورذرا کی ذرا اسی قسم کا جوش وجذبہ میں نے ایک اور موقع پر بھی دیکھا۔ اس ملاقات کی بھی کچھ تفصیل لکھ دوں۔ ۱۹۳۴ء میں منٹگمری میں تعلیمی کانفرنس صوبہ پنجاب کا اجلاس ہوا۔ راقم بھی اس کانفرنس میں شریک ہوا۔ علی گڑھ سے سر راس مسعود مرحوم اور نواب صدر یار جنگ بہادر مولوی حبیب الرحمن خان شروانی بھی تشریف لا کر شریک اجلاس ہوئے۔ جب یہ اجلاس ختم ہو گیا تو واپسی میں نواب صدر یار جنگ اور راقم ایک دو روز کے لیے لاہور ٹھہر گئے اور شیخ سر عبدالقادر کے مہمان ہوئے۔ایک روز اقبال سے ملنے گئے۔ وہ اس وقت میکلوڈ روڈ پر اس بنگلے میں رہتے تھے جس کے عقب میں حضرت شاہ ابوالمعالی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ بازار انار کلی کے بالا خانہ سے اٹھ کر وہ اسی بنگلہ میں آگئے تھے اور جب تک ان کی کوٹھی جاوید منزل تعمیر نہ ہو گئی، اسی میں رہتے رہے۔ ہم جو گئے تو ان کوسامنے کے بڑے کمرے میں جس کے آگے برآمدہ تھا، بیٹھے ہوئے پایا کمرے میں نیچے چٹائی اور اس کے اوپردری کا فرش تھا اور سامنے کی دیوار کی طرف کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ اقبال اپنے معمولی قلندرانہ لباس (بنیان، تہبند، کمبل) میں ملبوس بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ وہ ہم لوگوں سے مل کربہت خوش ہوئے اور باتیں شروع ہوگئیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کمرے میں ایک طرف دیوار کے قریب کئی قالین لپٹے ہوئے رکھے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ قالین کیوںرکھے ہوئے ہیں، کہنے لگے کہ میں افغانستان گیا تھا، نادر شاہ نے یہ قالین بطور تحفہ دیے تھے، ان کو بچھانے کی کوئی جگہ نہیں، یہ رکھے ہیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ قلندر کو جو کوئی تحفہ دے، خواہ دینے والا بادشاہ ہی ہو، اس تحفہ کا یہی حشر ہوتا ہے۔ (لیکن ان قالینوں کی دعا آخر قبول ہوئی۔ جب جاوید منزل تعمیر ہوگئی تو یہ اس میں بچھائے گئے)۔ اس زمانے میں اقبال جاوید نامہ لکھ رہے تھے، مجھ کو اور شروانی صاحب کو اس کے کچھ حصے پڑھ کر سنائے۔ پڑھتے پڑھتے ان پر دو چارسیکنڈ کے لیے وہی جوش و جذبہ طاری ہوگیا، جو میں نے شملہ کے سفر میں دیکھا تھا اور اسی طرح انھوں نے اس جوش پر فوراً قابو پا لیا۔ میں اس بنگلہ میں کئی مرتبہ اقبال کا مہمان ہوا۔ جس کمرے میں میرا قیام ہوتا تھا، وہ پھاٹک میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ کو تھا، وہ اس کمرہ میں میری ضروری آسائش کا انتظام کرا دیا کرتے تھے، ویسے شاید وہ کمرہ ان کے منشی کی نشست کے لیے تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ وہ سامنے کے بڑے کمرہ کے برآمدے میں ایک پلنگ بچھوا کر اس پر بیٹھ جایا کرتے تھے، پلنگ کے ایک جانب اور سامنے کرسیاں ہوتی تھیں۔ جو لوگ ان سے ملنے کے لیے آتے تھے، وہ ان کرسیوں پر بیٹھتے تھے، وہ خود پلنگ پر بیٹھے حقہ پیتے رہتے تھے۔ ملاقات کے لیے آنے والوں میں ہردرجے کے لوگ ہوتے تھے۔طلبہ آتے تھے، عام معزز لوگ اور معمولی درجہ کے لوگ آتے تھے، ہائی کورٹ کے جج اور حکومت پنجاب کے منسٹر بھی آتے تھے۔ وہ اللہ کا قلندر سب کے ساتھ یکساں اخلاق کا برتائو کرتا تھا، مگر ایک شان استغنا برابر قائم رکھتا تھا، نہ بڑے آدمی کے سامنے جھکتا تھا، نہ چھوٹے سے بے اعتنائی کرتا تھا، بے تکلف، بے تصنع گفتگو کرتا تھا، اسی میں ہنسی مذاق بھی ہوتا رہتا تھا، پھبتیاں بھی اڑتی رہتی تھیں۔ تقدس کا جامہ کبھی پہنا ہی نہیں۔ میں ان کو رندِ بے ریا کہا کرتا تھا۔ مجدد صاحب کے مزار پر حاضری اقبال نے جا بجا خانقاہوں اور خانقاہ نشینوں پر اعتراضات کئے ہیں۔ اسرار خودی کے شائع ہونے پر ان کو تصوف اور سلاسل تصوف کا مخالف سمجھا گیا تھا، مگر ان کے کلام کے وسیع مطالعہ سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ ان کا اعتراض ریا کار، دوکاندار، دنیا طلب صوفیوں پر ہے اور وہ تصوف سے ان دور از کار عقائد ومسائل کو خارج کرنا چاہتے ہیں جوعجمیت کے زیر اثر اسلامی تصوف میں داخل ہو گئے ہیں۔ میں لکھ چکا ہوں کہ ان کے تصوف کی بنیاد گھر میں پڑ چکی تھی۔ ان کے والد ماجد ایک صوفی منش بزرگ تھے، خود اقبال سلسلۂ قادریہ میں بیعت کئے ہوئے تھے۔ اکابرطریقت سے ان کی عقیدت کا حال اسی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ وہ مولانا جلال الدین رومی کی نظم سے بے حد متاثر تھے۔ پیر رومی کا ذکر ہر جگہ بڑی تعظیم سے کرتے ہیں اور خود کو ان کا مرید ہندی کہتے ہیں۔ بزرگوں کے مزارات پر بالقصد بغرض زیارت و طلب برکت حاضر ہوتے تھے۔ بانگ درا میں ان کی نظم ’التجاے مسافر، کو دیکھیے۔ اس سے حضرت محبوب الٰہی سے انتہائی عقیدت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ اقبال کی جوانی اور انگلستان جانے سے پیشتر کا واقعہ ہے۔ لیکن اگر بالفرض یہ جوانی کی خام کاری تھی تو بعد کی پختہ کاری بھی قابل غور ہے۔بال جبریل ملا حظہ ہو۔ اس کے صفحہ ۳۸ پر ایک نظم درج ہے، جس کا پہلا شعر ہے۔ سما سکتا نہیں پہناے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شاید ترا اندازۂ صحرا اس نظم کے شروع میں جو تمہیدی عبارت ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’نومبر ۱۹۳۳ء میں مصنف کو حکیم سنائی غزنوی کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی۔ یہ چند افکار پریشان جن میں کلیم ہی کے ایک مشہور قصیدہ کی پیروی کی گئی ہے، اس روز سعید کی یاد گار میں سپرد قلم کئے گئے۔‘‘ الفاظ’مزارمقدس‘ اور ’روزسعید‘ اپنی کہانی خود کہہ رہے ہیں۔ اس پختہ کاری ہی کے زمانے میں غالباً ۱۹۳۴ میں حضرت امام ربانی شیح احمد سہر ندی(۲) مجدد الف ثانی کے مزار پاک کی زیارت کے لیے اقبال لاہور سے چل کر سرہند آئے۔ مجھ کو لکھا کہ میں بھی پہنچوں۔ چنانچہ میں انبالے سے گیا اور وہ لاہور سے آئے، ہم دونوں سرہند جنکشن پر مل گئے اور پھر روضہ شریف پہنچے۔ مزار پر اقبال کی حاضری میرے ہمراہ ہوئی اور فاتحہ خوانی کے بعد وہ دیر تک مراقبے میں رہے۔ زیارت کے بعد کچھ عرصہ روضہ شریف میں ٹھہرے۔ سجادہ نشین صاحب سے ملے اور پھر وہ لاہور کو روانہ ہوگئے اور میں انبالے چلا آیا۔ حالت مراقبہ میں اقبال نے کیا دیکھا اور کیا محسوس کیا؟ یہ ایک روحا نی سر گزشت ہے جس کو نہ میں پوچھ سکتا تھا، نہ شاید اقبال بیان کر سکتے، لیکن ان کا لاہور سے اتنی دور چل کر آنا ہی ثابت کرتا ہے کہ ان کو حضرت مجدد رحمتہ اللہ علیہ سے کس قدر عقیدت تھی۔ بال جبریل میں ایک نظم کا عنوان ہے ’پنجاب کے پیر زادوں سے‘ ۔ اس کے یہ شعر ظاہر کرتے ہیں کہ وہ مجدد صاحب کو کیا سمجھتے تھے۔ حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار تحریک تبلیغ اور اقبال ہندوستان میں ہندوئوں کی جانب سے کم از کم ستر سال سے کبھی خفیہ، کبھی اعلانیہ، کبھی انفرادی، کبھی منظم اورجماعتی سازشیں اور کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں کو مرتد کیا جائے۔ اس اجمال کی تفصیل طویل ہے۔ ۱۹۲۳ء کے آغاز میں اسی سلسلہ کی ایک منظم اور اعلانیہ تحریک شد ھی آگرہ، متھرا، بھرت پور، ایٹا وغیرہ اضلاع میں جاری ہوئی اور مسلمانوں نے اس حملہ کی مدافعت کے لیے ان شد ھی زدہ علاقوں میں اپنے واعظ اور مبلغ بھیجے۔ اس زمانے میں جو تجربات و مشاہدات ہوئے، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے راقم نے یکم جولائی ۱۹۲۳ء کو بہ مشورہ و امداد بعض اکابر ملت مثل حاجی مولوی سر رحیم بخش مرحوم، مولانا عبدالماجد بدایونی، نواب عبدالوہاب خاں مرحوم ایک مرکزی جمعیت تبلیغ الاسلام قائم کی جو بفضلِ تعالیٰ اب تک قائم ہے اور راقم اب تک اس کا معتمد عمومی ہے چونکہ اقبال کو تبلیغ و اشاعت اسلام کا خاص شوق تھا، وہ ماہ اکتوبر ۱۹۲۳ء میں ہماری اس جمعیت کے ممبر ہو گئے۔ یورپین مسلم کانفرنس جمعیت مرکزیہ تبلیغ الاسلام کے رجسٹر ہاے مراسلت میں یہ اندراج ہے کہ ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ء کو اقبال کا ایک خط میرے نام آیا، جس کا مضمون یہ تھا کہ چند احباب کی تجویز ہے کہ آئندہ سال لاہورمیں یورپین مسلمانوں کی ایک کانفرنس کی جائے جس کا خرچ قریباً تیس ہزار روپیہ ہو گا۔ انھوں نے دریافت کیا کہ آیا ہماری جمعیت اس میں کچھ مدد کر سکے گی۔ میرے جواب مورخہ ۲۳ جنوری ۱۹۲۷ء کا خلاصہ یہ لکھا ہے کہ یورپین کانفرنس کا ارادہ بہت اچھا ہے لیکن روپے کا انتظام ضروری ہے۔ مناسب ہو کہ کسی بڑے آدمی کو صدر بنایا جائے اور اس سے رقم وصول کی جائے۔ پراپیگنڈہ آپ کے نام سے میں کر لوں گا۔ میرے خط کے جواب میں ۲۴ جنوری کو اقبا ل نے وہ خط لکھا جو مکاتیب اقبال کے صفحہ ۲۰۷/۲۰۸ پر درج ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’آٹھ ہزار روپے جمع کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ باقی روپیہ بھی اس غرض کے لیے عام مسلمان دینے کو تیا رہو جائیں گے اور میں کہتا ہوں کہ رقم مطلوبہ کا بہت بڑا حصہ غالباً لاہور ہی سے جمع کر لوں گا۔ بلکہ میرا اردہ یہ ہے کہ جب تک رقم مطلوبہ کے وعدے پرائیویٹ طور پر نہ ہوجائیں، اس کانفرنس کے متعلق کوئی اعلان نہ کیا جائے۔ یورپ اور امریکہ سے کم از کم آٹھ دس آدمیوں کو دعوت دی جائے گی۔ باقی جوپورپین مسلمان ہندوستان میں موجود ہیں، ان کی فہرست تیار کی جائے گی۔ آپ فی الحال اس فہرست کی تیاری میں مدد دیں اور اپنے احباب کو خط لکھ کر ان کے مفصل پتے دریافت کریں۔ کم از کم سو یورپین مسلمان اس کانفرنس میں جمع ہو جائیں تو خوب ہو۔ کانفرنس کے اجلاسوں کے لیے ٹکٹ لگانے کا قصد ہے۔ آپ اپنے دوستوں سے کہیں کہ فی الحال یہ خیال کانفیڈنشل ہے۔ مسٹر پکٹ ہال کومیں نے حیدر آباد خط لکھا تھا۔ ان کو اس خیال سے نامعلوم کیوں ہمدردی نہیں! میں انگلستان سے خط وکتابت کر رہا ہوں۔‘‘ میرے ایجنٹ اقبال اپنے مشہور لیکچر دینے کے لیے مدراس جانے والے تھے۔ میں نے ان کو لکھا کہ دوران قیام مدراس میں وہاں کے مسلمانوں کو تبلیغ کی اہمیت کی طرف توجہ دلائیں اور جمعیت مرکزیہ تبلیغ الا سلام کی مالی امداد کے لیے آمادہ کریں۔ میرے خط کے جواب میں انھوں نے مجھ کو ایک خط مورخہ ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء کو لکھا جو مکاتیب اقبال کے صفحہ ۲۰۹/۲۱۱ پر درج ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام تمام کاموں پر مقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے یہ بات میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربہ کے بعد ہندوستان کے سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے اور میرے خیال میں شد ھی کا خطرہ اس خطرے کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا، یا کم از کم یہ بھی شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے۔ بہر حال جس جانفشانی سے آپ نے تبلیغ کا کام کیا ہے اس کا اجر حضور سرور کائنات ہی دے سکتے ہیں۔ میں ان شا ٔاللہ جہاں جہاں موقع ملے گا، آپ کے ایجنٹ کے طور پر کہنے سننے کو حاضر ہوں، مگر آپ اور مولوی عبدالماجد بدایونی جنوبی ہند کے دورہ کے لیے تیار رہیں۔‘‘ مصری وفد ۱۹۳۶ء میں اچھوتوں میں اشاعت اسلام کا ایک خاص موقع پیدا ہوا۔ اچھوتوں کی ایک کانفرنس نے جس کے حاضرین کی تعداد دس ہزار نفوس بیان کی گئی تھی، ایک ریزولیشن پاس کیا کہ اچھوتوں کو ہندو دھرم چھوڑ کر کوئی اور مذہب اختیار کرنا چاہیے۔ اس کانفرنس اور اس ریزولیشن کا غلغلہ تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔ ایک جانب تو ہندئوں نے خاص کوشش کی کہ اچھوتوں کو کسی طرح اس ارادے سے باز رکھا جائے، دوسری جانب مسلمان، عیسائی، سکھ اور بدھ دھرم والے اس کوشش میں مصروف ہو گئے کہ اچھوتوں کو اپنے مذہب کی دعوت دیں۔ اس سلسلہ میں ہماری جمعیت نے بھی ڈھائی سال تک بہت کچھ جدو جہد کی، مگر اس کی تفصیل یہاں بیان کرنا مقصود نہیں۔ یہاں صرف یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ اچھوتوں کے ریزولیشن دربارہ تبدیل مذہب کی اطلاع مصر میں بھی پہنچی۔ جامعہ الازہر قاہرہ نے فیصلہ کیا کہ اچھوتوں میں تبلیغ الا سلام کا کام کرنے کے لیے الازہر کے علما کا ایک وفد ہندوستان بھیجا جائے۔ چونکہ اقبال کے علم وفضل کا شہرہ تمام ممالک اسلامی میں عرصہ دراز سے پہنچا ہوا تھا، اس لیے الازہر کے شیخ الجامعہ شیخ مصطفی مراغی نے اقبال کو خط لکھ کر ان کووفد بھیجنے کے ارادہ سے مطلع بھی کیا اور ان کی رائے بھی دویافت کی کہ آیا ایسے وفد کا بھیجنا مناسب اور مفید ہو گا اوراگر اقبال کا جواب اثبات میں ہو تو ارکان وفد کن کن صفات کے آدمی ہوں۔ یہ بھی دریافت کیا کہ آیاعلمائے ازہر کی تقریروں کی ترجمانی کیلیے ہندوستان میں آدمی مل جائیں گے، یا وفد اپنے ترجمان ہمراہ لائے۔ اقبال نے شیخ مصطفی مراغی کے اس خط کو اخبار احسانلاہور میں شائع کردیا اور مجھ کو اپنے خط مورخہ یکم جولائی ۱۹۳۶ء میں لکھا: ’’مجھ سے شیخ صاحب نے مشورہ طلب کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس وفد کے متعلق آپ ضروری ہدایات دیں۔ مہربانی کر کے آپ لکھیں کہ ان کو کیا مشورہ دیا جائے۔ بعض باتیں میرے خیال میں ہیں، مگر میں آپ کی رائے بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس وفد کے ہمراہ ملک کا دورہ بطور پروپیگنڈا سیکریٹری کے کریں۔ اس سے بہت اچھے نتائج نکلیں گے اور وفد کو آپ کے معلومات اورمشوروں کے امیال و عواطف سے بے حد فائدہ پہنچے گا۔‘‘ لیکن اس خط کا جواب نہ لکھنے پایا تھا کہ اقبال نے ۴ جولائی کو اسی موضوع پر مجھ کو دوسرا خط لکھا اور اس میں مجھ سے چند باتیں کرنے کے بعد لکھا۔ ’’مصری وفد کی ہر طرح حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ اس کے نتائج نہایت دور رس ہوں گے، آپ ضرور ان کے ساتھ دورہ کریں۔ یہ واقعہ ہندوستان بلکہ اسلام کی تاریخ میںیاد گار ہوگا۔ آپ کا جواب آنے پر میں شیخ جامعہ ازہر کا اصل خط ارسال کروں گا، تاکہ آپ بھی ان کوایک علیحدٰہ خط لکھ سکیں۔ میں اپنے خط میں ان کو لکھ دوں گا کہ وہ آپ کے خط کا انتظار کریں۔‘‘ ان کو تبلیغ اسلام سے اور مسلمانوں کے بین الممالک اشتراک عمل سے اس قدر گہری دلچسپی تھی کہ جب میرا جواب ان کوپہنچ گیا تو انھوں نے ۹ جولائی کوپھر ایک خط لکھا، ان کا اقتباس درج کرتا ہوں: ’’آپ کا خط عین انتظار میں ملا۔ یہ تمام مشکلات میرے ذہن میں تھیں جو آپ نے خط میں لکھی ہیں۔ باوجود ان کے میرا خیال تھا کہ ان کا ہندوستان آنا عام طور پر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں پر اور نیز خود مسلمانوں پر اچھا اثر ڈالے گا۔ ان کے آنے سے مسلمانوں کے تبلیغی جوش میں اضافہ ہونا بہت ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ ذات کے ہندوئوں پر عام اسلامی اخوت کا اثر پڑے گا۔ اس واسطے میرا خیال ہے کہ ان کو تمام مشکلات سے آگاہ کر دیا جائے اورجو فوائد ان کے وفد سے ممکن ہیں، ان کا بھی ذکرکر دیا جائے اورفیصلہ ان پر چھوڑ دیا جائے۔‘‘ اس کے بعد مجھ کواقبال کا کوئی اورخط اس سلسلے میں نہیں آیا، مگر یہ قرار پا چکا تھا کہ اقبال شیخ جامعہ الازہر کومیرے بارے میں لکھ دیں گے۔ انھوں نے ضرورلکھا ہوگا۔ میں نے اقبال کو اطمینان دلا دیا کہ میں وفد کو ہر امکانی امداد دوں گا۔میں نے شیخ جامعہ الازہر کو تار دے کردریافت کیا کہ وفد کب ہندوستان پہنچے گا۔ ابھی مجھ کواس تار کا کوئی جواب نہ ملا تھا کہ اخبار ایسٹرن ٹائمز لاہور مورخہ ۱۰ نومبر ۱۹۳۶ء میں قاہرہ کا ایک پیغام جس کی نسبت لکھا تھا کہ ہوائی ڈاک سے آیا ہے، شائع ہوا۔ اس میں درج تھا کہ علماے ازہر کا وفد اطالوی جہاز کانٹی راس میں روانہ ہوکر ۱۲نومبر کو بمبئی پہنچے گا۔ بمبئی میں جو ہمارے تبلیغی دوست تھے، ان سے دربارہ وفد مذکور میری مراسلت ہو چکی تھی۔ اخبار میں یہ خبر پڑھتے ہی میں نے بمبئی تار دیا اور خود بمبئی پہنچ گیا۔ جہاز کانٹی راس ۱۷ نومبر ہی کو آیا۔ ہم نے تمام سواریوں کو اترتے ہوئے دیکھا اوربندر گاہ پر دریافت بھی کیا۔ مصری وفد اس میں نہ تھا۔ آخر کار یہ وفد ۱۱ دسمبر۱۹۳۶ء کو بمبئی میں جہاز سے اترا۔ احباب بمبئی نے ۹ دسمبر کو مجھ کو تار دیا تھا، وہ ۱۰ دسمبر کو ملا تھا، میں نے بذریعہ تار احباب بمبئی کو مطلع کر دیا تھاکہ میرا پہنچنا ممکن نہیں، آپ وفد کا استقبال کریں۔ ان کا پروگرام معلوم کر کے بذریعہ تار اطلاع دیں۔ ۱۲ دسمبر کو رئیس وفد نے مجھ کوخط لکھا۔ ۱۲ نومبر کو وفد کے نہ پہنچنے کے وجوہ لکھتے ہوئے میری تکلیف کا شکریہ لکھا اور یہ لکھا کہ وفد مجھے انبالے میں ملنا چاہتا ہے۔ شیخ ازہرکے نام جو تار میں نے بھیجا تھا،اس کا جواب نہ دے سکنے کے لیے معذرت بھی لکھی میں نے جواب میں وفد کا خیر مقدم کیا اور لکھا کہ انبالے کی بجائے دہلی میں ملنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آخر کار وفد نے بذریعہ تار اطلاع دی کہ وہ ۳۰ دسمبر کو دہلی پہنچ گئے ہیں اور سیسل ہوٹل میں مقیم ہیں۔ میں ۳۱ دسمبر کی شام کو دہلی پہنچا اور یکم جنوری ۱۹۲۸ء کو سیسل ہوٹل میں وفد سے ملا۔ اخباروں سے معلوم ہوچکا تھا کہ اس وفد نے اپنا مقصد ہندوستان کے مسلم ادارات تعلیم کا معائنہ اور مطالعہ اور مسلمانان ہند سے ثقافتی (cultural)تعلقات قائم کرنا بیان کیا ہے۔ دہلی میں ملاقات ہونے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے اپنے تبلیغی مقصد کو سب سے راز میں رکھا ہے اوراس بارے میں صرف مجھ سے اوراقبال سے بصیغۂ راز مبادلہ خیالات اور اخذ معلومات کریں گے۔ میں سیسل ہوٹل میں چار روزتک ارکان وفد سے گفتگو کرتا رہا۔ وفد کے سیکریٹری شیخ محمد حبیب احمد آفندی اور اسسٹنٹ سیکریٹری شیخ صلاح الدین التجار انگریزی دان تھے، رئیس وفد اور باقی دو ارکان وفد عربی میں سوالات کرتے تھے اور جو معلومات ان کوحاصل ہوچکی تھیں، ان کو بیان کرتے تھے۔ شیخ حبیب ان کی اورمیرے جوابات کی ترجمانی کرتے تھے۔ چار روز کے مسلسل مکالمات کے بعد رئیس وفد نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں وہ تمام واقعات و خیالات جو میں بیان اورظاہر کر چکا ہوں، انگریزی میں لکھ کر دے دوں۔ چنانچہ میں نے بائیس صفحہ کی ایک ٹائپ شدہ یاداشت مرتب کر کے وفد کو دے دی۔ اندریں اثنا ایک صاحب نے ناگپور سے وفد کو ایک چٹھی لکھی تھی۔ وفد نے چاہا کہ میں اس چٹھی پر بھی ایک تبصرہ لکھ دوں۔ چنانچہ پانچ صفحہ کا ٹائپ شدہ تبصرہ لکھ کر ان کے حوالے کیا گیا۔ دہلی میں مجھے ملنے سے پیشتر یہ وفد بمبئی، بھوپال اور آگرہ کادورہ کر چکا تھا، اس کے بعد علی گڑھ، رام پور،دیوبند اورپشاور کا دورہ کیا۔ میں علی گڑھ میں ان کے ہمراہ تھا۔ پشاور کے بعد وہ لاہور گئے اور میں بھی وہاں پہنچا۔ اقبال نے ۲۷ جنوری ۱۹۳۷ء کو وفدکے اعزاز میں ایک لنچ دیا۔ اس وقت اقبال کی صحت کچھ عرصہ سے خراب تھی، لنچ ایک ہوٹل میں دیا گیا تھا، میزبان کی حیثیت سے اقبال کا موجود ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ وہ شریک ہوئے۔ اس وقت انھوں نے کہا کہ میں چھ مہینے کے بعدگھر سے نکلا ہوں، جاوید بھی موجود تھے، لنچ کے بعد ایک گروپ فوٹو لیا گیا۔ جاوید اس فوٹو میں بھی ہیں۔ یہ گروپ ایک نہایت خاص یاد گار ہے۔ وفد کے مقصد سے متعلق وفد کی اقبال سے باتیں ہوئیں۔ میں جو کچھ کر چکا تھا، وہ میں نے بیان کیا۔ اقبال نے میرے خیالات سے اتفاق کیا۔ اقبال سے جو خاص مشورہ ہوا، اس کی ایک ٹائپ شدہ یاداشت مرتب کر کے میں نے وفد کو دے دی۔ وفد کے نقل وحرکت اور واپسی سے متعلق ابھی بہت سے واقعات باقی ہیں اورمیرے فائل میں ان سے متعلق بہت سا مواد ہے۔ مگر یہاں اسی حد تک ان واقعات کا بیان کرنا مقصود تھا، جہاں تک اقبال کا تعلق تھا، وہ واقعات آچکے اوراقبال نے علالت کے باوجود اس اہم اسلامی کام میں جودلچسپی لی، وہ ظاہر ہوچکی۔ یہ وفد وسط مارچ ۱۹۳۷ء میں ہندوستان سے واپس ہوا۔ عرصہ دراز کے بعد جب میں نے ایک شکایتی خط لکھ کر دریافت کیا، تو جون ۱۹۳۸ء میں شیخ محمد حبیب احمد آفندی نے وفد کی عربی رپورٹ کی ایک کاپی مجھ کو بھیجی۔ اس میں میری تجاویز سے وفد نے اتفاق رائے کیا تھا، مگر اس وقت ازہر کی انتظامی کونسل نے اندریں باب کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد کوئی خبر نہیں آئی۔ تمنائے مدینہ دنیا میں کون مسلمان ایسا ہوگا جس کو حج بیت اللہ کی آرزو نہ ہو اور جس کے دل کو مدینہ منورہ کی حاضری کی تمنا بے تاب نہ رکھتی ہو! اورپھر اقبال کے لیے تو یہ بات تصورمیں بھی نہیں آسکتی کہ اس کا دل حضور رسالت مآب کے دربار میں حاضر ہونے کے لیے دن رات نہ تڑپتا ہو۔ ان کے کلام میں جا بجا اس کے شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر صرف دو شعر دیکھ لیجیے۔ حضور رسالت مآب کو وہ کیا سمجھتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے: بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است مدینہ منورہ ان کے نزدیک کیا تھا، ملاحظہ ہو: خاک یثرب از دو عالم خوشتر است اے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است (اسرار خودی) چنانچہ اپنی زندگی کے آخری تین چار سال میں وہ حج بیت اللہ اورزیارت رسول اللہ کی تجویزیں سوچتے رہے۔ سو اتفاق سے یہی زمانہ ان کی صحت کی خرابی اورجسمانی کمزوری کا تھا۔ اسی عرصہ میں ان کی اہلیہ محترمہ کا بھی انتقال ہو گیا اور بچوں کی نگہداشت اورتربیت کی ذمہ داری تمام تر انھی پہ آپڑی۔ تا ہم وہ اس فکر میں رہے کہ عراق سے ہوتے ہوئے براہ بیت المقدس مدنیۂ منورہ پہنچیں اور وہاں سے حج کے لیے مکہ معظمہ جائیں۔ وہ عراق کی زیارات کوبھی بہت اہمیت دیتے تھے، نجف اشرف میں ان کے لیے بڑی کشش تھی۔ اس کا اندازہ اسرار خودی کے ان اشعار سے ہو سکتا ہے جو انھوں نے ’در شرح اسماے علی مرتضیٰؓ کے عنوان سے لکھے ہیں۔ ان کا یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ جناب شیر خدا سے ان کو خاص طور پر کس قدر عقیدت تھی: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂِ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف انھوں نے مجھے لکھا کہ عراق کے راستہ سے سفر مدنیہ منورہ کے بارے میں معلومات فراہم کروں۔ چنانچہ میں نے بغداد خطوط لکھے اور مولانا سید حسن دین خاموش کو جو اسی زمانہ میں عرب سے براہ عراق واپس آئے تھے، خط لکھا اورجو اطلاعات حاصل ہوسکیں، اقبال کو بھیجیں۔ بڑی مشکل یہ تھی کہ سب لوگ لاری کے سفر کو دشوار بیان کرتے تھے اوراقبال بہت کمزور تھے۔ ۱۹۳۷ء کے موسم سرما میں ایک روز جاوید منزل میں ان سے ملاقات ہوئی۔ دیر تک صحبت رہی۔ اور اس وقت بہت کمزورتھے۔ سفرمدینہ کا ذکر بھی رہا۔ کہنے لگے کہ جس قدر تھوڑی سی طاقت مجھ میں باقی رہ گئی ہے، میں اس کومدنیہ کے سفر کے لیے بچا بچا کر رکھ رہا ہوں۔ افسوس کہ ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوئی اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اقبال کا قلبی تعلق حضور سرور کائنات کی ذات قدسی صفات سے اس قدر نازک تھا کہ حضور کا ذکر آتے ہی ان کی حالت دگر گوں ہوجاتی تھی، اگرچہ وہ فوراً ضبط کر لیتے تھے۔ چونکہ میں بارہا ان کی یہ کیفیت دیکھ چکا تھا، اس لیے میں نے ان کے سامنے تو نہیں کہا، مگر خاص خاص لوگوں سے بطور راز ضرور کہا کہ یہ اگر حضور کے مرقد پاک پر حاضر ہوں گے، تو زندہ واپس نہیں آئیں گے، وہیں جان بحق ہوجائیں گے۔ میرا اندازہ یہی تھا۔ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مجلہ اقبال لاہور اکتوبر ۱۹۵۷ء حواشی ۱۔ چودھری جلال الدین میرے مخلص ترین دوستوں میںسے تھے۔ وہ چار سال تک گورنمنٹ کالج، لاہور میں میرے ساتھ پڑھتے رہے۔ میرے ساتھ بی۔ اے پاس کیا اور محکمہ ڈاک خانہ میں انسپیکٹر ہوگئے، پھر ترقی پا کر سپرنٹنڈنٹ ہوئے۔ خطاب ’خان صاحب‘ پایا۔ بے حد شریف انسان تھے، عمر نے دیر تک وفا نہ کی۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ ان کا ایک فرزند سیالکوٹ میں وکیل ہے۔ اس سے مل کر چودھری صاحب کی محبت اور شرافت یاد آگئی۔ ۲۔ سرہند کا نام استعمال میں بگڑ گیا ہے۔ صحیح نام سہرند تھا۔ عوام اس سرھند کہنے لگے، حرف ر کا تلفظ اس طرح کرتے تھے کہ ھ کو اس سے پہلے بولنے کے بجائے اس کے بعد اور اس سے مخلوط کر کے بولتے تھے۔ بالکل اس طرح جس طرح بھی اور تھی میں ھ ب اور ت سے مخلوط ہے۔ بعد کے زمانہ میں اس نام کو لفظ سر اور لفظ ہند سے مرکب سمجھ لیا گیا اور اسی طرح لکھا جانے لگا عوام اب بھی اسی طرح سرہند بولتے ہیں، مگر پرانی نمرلی تحریروں میں سہرند صاف لکھا ہوا ہے۔ اقبال شیخ عبدالقادر چند سال پہلے لاہور میں ایک بزم مشاعرہ قائم تھی، اور پنجاب کے اکثر نامور شعرا اس میں غزلیں کہہ کر لاتے تھے اور دادِ سنحن پاتے تھے۔ کچھ کہنہ مشق حضرات تھے جو دہلی یا لکھنؤ سے تعلق رکھتے تھے۔ یا اساتذہ دہلی و لکھنؤ کی صحبت سے مستفید ہو چکے تھے۔ کچھ نو آموز تھے جو ان حضرات میں سے کسی نہ کسی کے معّرف تھے۔ مشاعرہ کیا تھا سخن وروں کا ایک خاصہ دنگل تھا پہلے تلامذہ غزلیں پڑھتے تھے اور ایک دوسرے کے استادوں پر کوئی چوٹ کر جاتے تھے اوراپنے اپنے استاد کو بڑھا جاتے تھے۔ پھر استادوں کی نوبت آتی تھی۔ وہ بھی حریفوں کو پہچانتے تھے اورباہمی اشارے کنایہ سے رک نہ سکتے تھے۔ یہ دل لگی شاعری کو تو ڈبو رہی تھی، مگر مشاعرہ کے لیے باعثِ فروغ تھی۔ تماشائی جوق در جوق آتے تھے اورگھنٹوں یہ تماشا دیکھتے رہتے تھے۔ اس گروہ میں کبھی کبھی ایک کثیر تعداد سرکاری کالجوں کے طلبہ کی آجاتی تھی۔ ان میں سے اکثر انگریزی تعلیم کی وجہ سے ایشیائی شاعری کے مذاق سے نا آشنا ہوتے تھے۔ مگر تقاضائے سِن تھا کہ ایسے مشغلے کو دلچسپ سمجھیں۔ آتے تھے اوراپنے اپنے دوستوں کو بلا لاتے تھے۔ ایک دن مقابلہ سخن گستری حدِّ جدال پر پہنچنے کو تھا کہ اچانک طلبہ کے گروہ میں سے ایک نوجوان اٹھا۔ عمر بیس سے کچھ متجاوزہوگی۔ رواج وقت کے مطابق داڑھی چٹ۔ موچھیں بڑھائی ہوئی۔ لباس نئے اورپرانے فیشن کے بین بین۔سیدھا اس کرسی کی طرف بڑھا جس پربیٹھ کر شعرا غزل خوانی کرتے تھے۔ اور بیٹھتے ہی یہ مطلع پڑھا۔ تم آزمائو ہاں کو زبان سے نکال کے یہ صدقے ہوگی میرے سوالِ وصال کے مطلع کا پڑھنا تھا کہ کئی سخن آشنا کان متکلم کی طرف لگ گئے۔ اور کئی آنکھیں اس کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ مشاعرہ میں یہ رسم تھی کہ دبیر مجلس ہر سخن ور کی تعریف کر کے اس سے حاضرین کی شناسائی کرا دیتا تھا۔ مگر اس نوجوان منچلے شاعر سے خود دبیر مجلس نا واقف تھا۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ پہلے حضرت کی تعریف تو فرمائیے۔ نوجوان شاعر نے کہا ’’لیجیے میں خود عرض کیے دیتا ہوں کہ میں کون ہوں، خاکسار کو اقبال کہتے ہیں، اوریہی میرا تخلص ہے۔ سیالکوٹ کا رہنے والا ہوں اوریہاں کے سرکاری کالج میں بی۔ اے کی جماعت میں پڑھتا ہوں۔ حضرت داغؔ سے تلمذ کا فخر حاصل ہے۔ یہاں کے کسی بزرگ سے نہ خصوصیت ہے نہ خصومت۔ چند شعر لکھ کر لایا ہوں اگر اجازت ہوتو پڑھ سنائوں‘‘۔ مختلف آوازیں آئیں کہ فرمائیے۔ اور ہمارے نوجوان شاعر نے غزل کے باقی شعر پڑھنے شروع کیے۔ قریب قریب ہر شعر پر بیساختہ داد ملی۔ یہاں تک کہ اس شعر تک پہنچا: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے مرزا ارشد گور گانی دہلوی تشریف رکھتے تھے بے اختیار واہ واہ کہہ اٹھے اوربولے ’’میاں اقبال اس عمر میں۔ اوریہ شعر! ‘‘ اورواقعی اس رنگ کی کہنے والے کی عمر اور وضع سے توقع نہیں ہو سکتی تھی۔ غرض اس طرح غزل ختم ہوئی اور مقطع میں شاعر نے دہلوی اور لکھنوی پارٹی کے جھگڑے پر اپنے خیال کا اظہار نہایت خوبی سے کر دیا۔ اور اس میں شک نہیں کہ اس جھگڑے کے متعلق اہل پنجاب کا جو دونوں مقامات کے اصحاب فن کے خرمن کے خوشہ چیں ہیں، یہی مسلک ہونا چاہیے۔ مقطع یہ تھا ؎ اقبال لکھنؤ سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلف کمال کے یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے سخن دانوں کو اس ابھرتے ہوئے شاعر سے شناسائی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد کبھی کبھی مشاعرہ ہوتا رہا۔ اور سخن فہم حضرات اقبال کی غزلوں پر پسندیدگی کا اظہار کرتے رہے لیکن کچھ تو رفتہ رفتہ مشاعرے کی گرم بازاری نہ رہی، کچھ امتحانات وغیرہ نے کالجوں کے طلبہ کو مصروف کر دیا، اورکچھ عرصے کے لیے اقبال کی طباعی کا چرچا گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ اوران کے ملنے والوں تک محدود ہوگیا۔ پہلا عام جلسہ جس میں دوستوں کے اصرار نے اقبال کو پبلک کے روبروکھینچ بلایا انجمن حمایت اسلام کا عظیم الشان جلسہ بابت ۱۸۹۹ء تھا جہاں اس نے ’’نالہ یتیم‘‘ کے عنوان سے ایک دل گداز نظم پڑھی۔یہ نظم ایسی مقبول ہوئی کہ جلسے میں بار بار اس کے پڑھنے کی فرمائش ہوئی تھی اوراس پر یتیم خانے کے لیے چندے کی بارش ہورہی تھی۔ اس نظم نے اس شہرت کی بنیاد رکھی جو اب اطراف ہندکوگھیرتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل خود کارکنان انجمن کو ان کے نام اورجوہر سے یہاں تک ناواقفیت تھی کہ انھوں نے یہ دیکھ کر کہ شیخ محمد اقبال صاحب اقبال ایم۔ اے پاس کر چکے ہیں یہ قیاس کر لیا کہ وہ نظم انگریزی فرمائیں گے اور پروگرام میں ان کے نام کے مقابل نظم انگریزی چھاپ دیا۔ان کے احباب کویہ کیفیت دیکھ کر ہنسی آئی۔ مگر انھوں نے کہا کہ خیر لوگ خود ہی دیکھ لیں گے کہ کم از کم اس شخص کی حالت میں انگریزی خوانی مذاق زبان اور علوم مشرقیہ کے پڑھنے میںصدِّ راہ نہیں بنی۔ اور ایسا ہوتا بھی کیوں۔ کیونکہ اس کی انگریزی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی علوم مشرقیہ کی تعلیم میں بھی پوری کوشش کی گئی تھی۔ اور وہ ان چند آدمیوں میں ہیں جو اعلا درجے کی انگریزی دانی کے ساتھ فارسی اور عربی سے بھی اچھی واقفیت رکھتے ہیں اور مزید لطف یہ ہے کہ سنسکرت سے بھی نا آشنا نہیں۔ ’’نالہ یتیم‘‘ کے پڑھے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ حاضرین جلسہ جس میں پنجاب اور ہندوستان کے اکثر اضلاع سے لوگ آئے ہوئے جمع تھے۔ اپنے اپنے ہاں اس نظم کے اثر کو لے گئے اور اس دن سے آج تک نہ صرف انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے کے پروگرام میں نظم اقبال ایک جزو ضروری بن گئی ہے، بلکہ لاہور میں کوئی اوربھی عظیم الشان جلسہ بغیر نظم اقبال کے مکمل نہیں ہوتا۔ اپریل ۱۹۰۱ء سے رسالہ مخزن کے اجرانے اقبال سے اخبار بیں دنیا کوشناسا کر دیا ہے۔ اور جو کلام ان کا اس رسالے میں شائع ہوا ہے وہ قوت بیان اور جوش سخن کے ساتھ اعلیٰ درجے کی علمی معلومات کا ثبوت دے رہا ہے۔اور صاف بتا رہا ہے کہ کہنے والا انگریزی عربی اورفارسی علم ادب پر اچھا عبوررکھنے کے علاوہ سنسکرت اور بھاشا کے علم ادب کے بھی قدردانوں میں ہے۔ اور اپنے کلام کو ایسا گلدستہ بنا دیتا ہے جس میں مختلف گلشنوں کے پھول تربیت سے جمع کیے ہوتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کہ ایسا پختہ اور وسیع مذاق پچیس چھبیس سال کی عمر میں کیونکر پیدا ہوگیا۔ ضرورت ہے کہ شیخ محمد اقبال کی ابتدائی عمر اورتعلیم اور تربیت پر مختصراً نظر ڈالی جائی۔ ہمارے خیال میں اس میں وراثت کو بھی دخل ہے اورتربیت کوبھی۔ شیخ صاحب کاشمیری الاصل ہیں اورانھیں کشمیری پنڈتوں کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے۔ جس کی ایک شاخ اب تک وطن اصلی میں موجود ہے۔ خاندان کی وہ شاخ جس میں شیخ صاحب ہیں دوسو سال ہوئے مسلمان ہوگئی۔ گوت ان کی ’’سیفرو‘‘ ہے اور ان کے بزرگوں کا اسلام پر ایمان لانا ایک ولی کے ساتھ عقیدت کی وجہ سے ہوا، جو بزرگ اول میں مسلمان ہوئے ان کے پوتے پنجاب میں آکر آباد ہوئے اور اس نقل مکان کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ خاندان سادات کے ایک بزرگ کے بیٹے کو پنجاب کی سیر کرانے کی تقریب سے یہاں آئے اورآخر یہیں کے ہورہے ؎ غربت کے مشغلوں نے وطن کو بھلا دیا خانہ خراب خاطر الفت شعار کا اس حکایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اہل اللہ سے ارادت اور مشائخ اور اولیا کی نسبت حسن عقیدت اس خاندان کی طبیعتوں کا جزو ہوچکے ہیں اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ شیخ محمد اقبال کے والد اگرچہ امّی ہیں تصوف کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور صوفیا کے اکثر حالات پر حاوی ہیں اور ان کے اقوال انھیں یاد ہیں۔ یہ موروثی مذاق ہمارے نوجوان شاعرمیں بھی موجود ہے اوراس کی شاعری کا ضروری جزو بن گیا ہے۔ شیخ محمد اقبال کے زمانہ تعلیم میں کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں جو خصوصیت سے قابل ذکر ہو۔ اکثر مسلمان بچوں کی طرح کچھ دنوں مکتب کی ہوا کھائی۔ پھر مدرسے میں داخل ہوئے انگریزی شروع کی پھر کالج کے مدارج میں پہنچے اورزینہ بزینہ چڑھتے گئے۔ ہاں مدرسے میں پڑھنے اور سیالکوٹ کالج میں ایف، اے کے درجے میں تعلیم پانے کے متعلق یہ جتانا ضروری ہے کہ وہاں ایک استاد مشفق کی توجہ خاص نے ان کی طبیعت اور مذاق کے بنانے میں معتد بہ حصہ لیا۔ سیالکوٹ کے اسکاچ مشن کالج کو حسن اتفاق سے زبان عربی اورفارسی کی تدریس کے لیے ایک ایسے بزرگ دستیاب ہوگئے ہیں جن کی ذات نہ صرف اس تعلیم گاہ اور شہر سیالکوٹ کے لیے بلکہ پنجاب بھر کے لیے مغتنمات سے ہے۔ نام نامی ان کا مولیٰنا سید میر حسن صاحب ہے اور اعلا درجے کے با مذ اق اصحاب میں ہیں۔ علم اور اہل علم کے شیدائی، ذوق کلام کے فدائی اورجویا۔ مولوی سید میر حسن اب تک ایسے طالب علم ہیں کہ جو ملے، جہاں ملے، جس سے ملے اور جب ملے، حاصل کرتے جاتے ہیں اور چھوڑتے نہیں۔ اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ جس شخص کوان کی صحبت سے فیض پہنچا ہے وہ کچھ بن کے نکلا ہے۔ متعدد ہندو نوجوان ان کے شاگردوں میں ایسے ہیں جو اردو فارسی تو خیر معمولی بات ہے، عربی زبان میں اعلا درجے کا مذاق لے کرنکلے ہیں اور یونیورسٹی کے امتحانوں میں مسلمانوں سے بڑھ کر نمبر پاگئے ہیں۔ مولوی صاحب کی یہ عادت ہے کہ اگرکسی شاگرد کو ہونہار دیکھیں تو اسے معمولی درس تعلیم تک محدود نہیں رہنے دیتے۔ بلکہ خارج ازوقت مدرسہ اسے بعض دلچسپ اورمفید کتابوں پر عبور کرا دیتے ہیں۔ پس جب سید میر حسن جیسے استاد کو اقبال سا شاگرد مل گیا تو انھوں نے کوئی دقیقہ ان جوہروں کو جِلا دینے میں جو قدرت نے طبیعت میں امانت رکھے تھے اٹھا نہیں رکھا۔ سید صاحب کا خاصہ تھا کہ باوجود خود ذوق شعر میں سرشار ہونے کے اکثر طلبہ کو شاعری سے روکتے تھے۔ مگر اقبال کی طبیعت کا اندازہ انھوں نے شروع سے ہی کر لیا تھا۔ اور اس کے ذوق شعر کی قدرتی ترقی کو چپکے چپکے دیکھتے گئے۔ اورکبھی اس کے گھٹانے کی کوشش نہیں کی۔ شعر کا شوق تو اقبال نے بچپن سے پایا تھا۔ اس کے والد کی زبانی ایک دوست کومعلوم ہوا ہے کہ بچپن میں جو پیسے جیب خرچ کے لیے گھر سے ملتے تھے ان کے منظوم قصے خرید لاتا تھا اور زبانی یاد کر لیتا تھا۔ مگر سید میر حسن صاحب کے فیضان صحبت کے زمانے میں اس شوق کو بے حد ترقی ہوئی۔ سید صاحب کو بے شمار اچھے اچھے شعراساتذہ کے زبانی یاد ہیں۔ جو شعر وہ پڑھتے۔ اقبال اسے لکھ لیتا اور یاد کرلیتا۔ دیوان غالب سبقاً ان سے پڑھا اور ’’ناصر علی ہندی‘‘ کے دلآویز فارسی شعر بھی اسی زمانے میں نظر سے گزرے۔ امتحان انٹرنس پاس کرنے کے بعد اقبال نے جناب نواب فصیح الملک نواب مرزا خاں صاحب داغؔ دہلوی استاد حضور نظام دکن خلد اللہ ملکہ سے بذریہ خط و کتا بت تلمذ کی ٹھہرائی۔ اور کچھ عرصے تک غزل میں ان سے اصلاح لیتے رہے۔ جب سے نئے رنگ میں مخمس اور مسدس اورترجیع بند لکھنے شروع کیے ہیں اس وقت سے خود اپنی اصلاح کرنے لگے ہیں۔ گوطبیعت کی روانی بسا اوقات نہایت عجلت میں شعر زبان سے نکلواتی ہے اور کبھی اپنے شوق اورکبھی احباب کی فرمائش سے وہ قلم بند بھی ہوجاتے ہیں۔ مگر اکثر یہ ہوتا ہے کہ وہ مہینوں کھٹائی میں پڑے رہتے ہیں۔ جب ذرا فرصت ملی انھیں پڑھا۔ اور جہاں کوئی لفظ کھٹکا تھوڑی اصلاح کر دی۔ پھر پڑھا اور پھر کہیں کچھ کر دیا۔ کبھی بہت ضرورت محسوس ہوئی تو کسی با مذاق دوست کے سامنے پڑھ کر اس کی تنقید سن لی اور اگر کچھ کام کی بات تنقید میں مل گئی تو اس سے فائدہ اٹھا لیا۔ جس سال حضرت داغؔ سے اصلاح لینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی سال اقبال کی زندگی میں ایک اورواقعہ پیش آیا جسے ہمارے اہل ملک عموماً معمولی سمجھتے ہیں مگر جس کا ہر شخص کی زندگی پر عظیم الشان اثر پڑتا ہے۔ یعنی ان کی شادی ہوگئی۔ پنجاب کے ایک معزز خاندان میں انھیں نسبت فرزندی حاصل ہوئی۔ گو بظاہر یہ تعلق بہمہ وجوہ جانبین کے لیے مفید اور مناسب تھا مگر چونکہ یہاں رشتہ داریاں نو عمر لڑکوں کی استرضا کے بغیر ہی کر دی جاتی ہیں۔ اس لیے شیخ محمد اقبال باعتبار شادی بہت خوش قسمت ثابت نہ ہوئے۔اور اس واقعے نے طبیعت کی بشاشی اور شگفتگی کو اداسی سے بدل دیا۔ انھیں ایام میں ایک پیارے دوست کے انتقال نے غم کی آگ پر اورتیل ڈال دیا۔ اور طبیعت کا رنج اشعار سے ٹپکنے لگا اور اس درد نے شاعری کا وہ حصہ عطا کر کے جسے گداز کہتے ہیں اقبال کو پورا شاعرا بنا دیا۔ ہندوستان میں شاعری کی ستّۂ ضروریہ میں لاگ یا لگائو کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ حالی جیسے متین شاعر نے اسے ’’چیز وہ مضمون سمجھانے والی‘‘ لکھا ہے۔ اور دیگر اساتدہ نے بھی کسی نہ کسی رنگ میں کسی نہ کسی کے ساتھ لگائو پیدا کیا ہے اوراس سے کلام میں واقفیت اورجوش کی چاشنی پیدا کی ہے جس کے بغیر کلام پھیکا رہ جاتا ہے۔ ہمارے اقبال بھی اس سے خالی نہ رہے کسی کی شوخی کے قائل ہوئے اورکلام میں رندانہ رنگ کی جھلیکیاں نظر آنے لگیں۔ اور بہت سے معاملے کے اشعار نکلنے لگے۔ یہ رنگ اب تک باقی ہے مگر فلسفہ کا رنگ اس پر غالب آجاتا ہے۔ طبیعت فلسفیانہ پائی تھی ۔ اس لیے بی اے کے امتحان میں فلسفہ کا مضمون لے کر پاس ہوئے۔ بعدمیں ایم اے میں بھی فلسفہ پڑھنے کا شوق ہوا۔ اوراس شوق کا زیادہ تر باعث یہ تھا کہ اس زمانے میں مسٹرٹی، ڈبلیو، آرنلڈ صاحب جو علی گڑھ کالج کے مشہور پروفیسر تھے گررنمنٹ کالج لاہورمیں چلے آئے۔ فلسفہ دانی میں ان کی شہرت عالمگیر ہے۔محتاج بیان نہیں۔ اوراس شہرت نے اقبال کو بے اختیار اپنی طرف کھینچا۔ مگر قابل ذکر یہ امر ہے کہ شاگرد کی طبیعت یہاں بھی شفقت استاد کے لیے اچھا خاصہ مقناطیس ثابت ہوئی۔ جادو عجب نگاہ خریدار دل میں تھا بکتا ہے ساتھ بیچنے والا بھی مال کے خود آرنلڈ صاحب بھی اقبال کی تیز فہمی اوراس کے فلسفیانہ دماغ کے معترف ہوگئے انھوں نے اسے شاگردی کے مرتبت سے رفتہ رفتہ دوستی کے اعزاز تک پہنچا دیا ہے اور اقبال کے بہترین دوستوں اور عنایت فرمائوں میں ہیں۔ وہ ایک دفعہ فرماتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق بنا دیتا ہے اور محقق کو محقق تر۔ کئی مسئلے دوران تعلیم میں ایسے آئے جن کی تحقیقات مزید کی غرض سے آرنلڈ صاحب بہادرکو یورپ کے نامور فلسفہ دانوں سے خط و کتابت کرنی پڑی۔ اوریہ خط وکتابت استاد شاگرد دونوں کے لیے مفید ثابت ہوئی۔ فلسفہ کے شوق کا یہ بھی نتیجہ ہوا کہ اقبال کچھ دنوں ہند و فلسفے کے مطالعے میں مستغرق رہا۔ اوراس نے ایک دوست کو بتایا کہ اس فلسفے کے مطالعے سے طبیعت میں ایک قسم کا سکون محسوس ہونے لگا اورشانتی کے معنیٰ سمجھ میں آگئے۔ اوراسی سبب سے اب مذہب میں تعصب کی گنجائش نہیں رہی اورسب مذاہب کی دل سے تعظیم کرتے ہیں اوران کوبھلا جانتے ہیں۔ مگر یہ بھلا جاننا اپنے مذہب کے عشق کے منافی نہیں گومیدان عمل میں ابھی صفِ عشاقِ مذہب میں نہیں آسکتے۔ ایم اے پاس ہونے کے بعد شیخ محمد اقبال اوریئنٹل کالج لاہور میں تاریخ و فلسفہ و سیاست مدن کے مضامین پر لکچر دینے کے لیے مقرر کر دیے گئے۔ اس عہدے کی میعاددو سال ہوتی ہے۔ اب وہ دوسال ختم ہو چکے ہیں۔ مگر افسران کالج ان کی خدمات کو ایسا قیمتی سمجھتے ہیں کہ انھوں نے توسیع میعادکے لیے سفارش کی ہے اورانھیں غالباً اور دو سال کے لیے وہاں رہنا ہوگا۔ اس کے بعد یا اسی اثنا میں اغلب ہے کہ انھیں صیغۂ تعلیم میں کوئی معقول ملازمت مل جائے۔ کیونکہ اکثر عہدہ داران تعلیم کی رائے ان کی نسبت اچھی ہے۔ اوروہ ان سے تعلیمی خدمت لینے کے خواہشمند ہیں۔ آج کل علمی مشاغل میں انہماک ہے۔ نثر میں مضمون سیاست مدن پر ایک بیش بہا اور جامع کتاب زیر تصنیف ہے۔ اور نظم میں عموماً انگریزی شعرا کی طرز پر معنی خیز نظمیں لکھتے ہیں جن میں سے اکثر بذریعہ مخزن اشاعت پا چکی ہیں۔ فرمائشی کلام سے بہت گھبراتے ہیں۔ اور کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ محض فرمائش سے شعر کہہ دیں اور حقیقت یہی ہے کہ شعر وہ چیز نہیں کہ کسی کے اصرار سے ہوجائے۔ یہ تو طبیعت کا ایک بے اختیار جوش ہے اور دل کا ابال ہے۔ اورپورا لطف اسی میں ہے کہ بی ساختہ زبان پرجاری ہو۔ اقبال کے حالات زندگی کے اس مختصر خاکے کو ختم کرنے سے پہلے شاید بے جانہ ہوگا کہ اس کے کلام پر نگاہ ڈالی جائے۔ اقبال کا کلام ابھی کمیت میں اکثر مشہور شعرا کے برابر نہیں پہنچا۔ مگر کیفیت میں انداز خاص رکھتا ہے۔ اول تو بھرتی کے اشعار اس کے کلام میں کم پائے جائیں گے۔ بقول داغؔ ۔ع اس کے ہرشعر میں ترکیب نئی بات نئی، نظر آتی ہے۔ غزل کے اکثر اشعار واقفیت کا رنگ لیے ہوتے ہیں اورتصنع ان میں بہت کم نظر آتا ہے۔ مگر طبیعت اپنے جوہر اصلی مسلسل نظموں میں دکھاتی ہے۔ گو ان میں بعض بند مشکل پسندی کے نمونے ہیں۔ کئی سخن فہم حضرات نے اس مشکل پسندی پر اعتراض کیا ہے۔ اورایک حد تک یہ اعتراض بجا بھی تھا مگر اس کا اثراقبال کی طبیعت پر ابتدا میں اچھا نہیں پڑا۔ بجائے اس کی اصلاح کی فکر کے اس کا قصد ہوا کہ شعر گوئی ترک کر دے۔ چنانچہ ایک دو بے تکلف دوستوں کے روبرو اس خیال کا اظہار بھی کر دیا۔ مگر انھوں نے سمجھایا کہ اگر کہیں ایک شعرا ایسا نکلتا ہے جس پر کوئی درست اعتراض وارد ہو سکے تو دس ایسے نکلتے ہیں جن کی خوبی کو سب مانتے ہیں اورترک شعر گوئی ملک کی شاعری کونقصان رساں ہوگا اور اسی زمانے میں دور دور سے دادیں آنے لگیں۔ منجملہ دیگر اصحاب کے مولیٰنا شبلی نعمانی جیسے نکتہ رس مشہور عالم نے بدین الفاظ داو دی کہ ’’جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ آپ کو ڈھونڈھیں گے‘‘۔ ان باتوں نے اقبال کی ہمت پھر بندھادی۔ اعتراض کا ایک حصہ جو اختیاری تھا رفع ہوجاتا ہے۔ اوراب پہلے سے زیادہ ایسے اشعار اقبال کے قلم سے نکلتے ہیں جو زورکے ساتھ سادگی اور سلاست کی خوبیوں سے بھی آراستہ ہوتے ہیں ۔ مگر اعتراض کا ایک حصہ غیر اختیاری تھا اور وہ رفع نہیں ہوا اور نہیں ہوسکتا۔ اردو زبان بھی بمقابلہ انگریزی کے ابتدائی حالت میں ہے انگریزی شاعری میں اورخصوصاً فلسفہ میں اکثر خیالات ایسے ہیں جو موجودہ اردو الفاظ اور سیدھی سادھی ترکیبوں کی ضرورت ہے یا ذرا پیچیدہ ترکیبوں کی۔ اس لیے ع اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے، ایک طرف تو شاعر اپنے سامعین کی طرف جھکے اوران کی سطح پر اترنے کی کوشش کرے، اوراس سے زیادہ سامعین اپنے مذاق کو بڑھاتیں اور معلومات کو وسیع کریں اس کی بلند پردازی کا تتبع کریں۔ اصل اندازہ تو کسی کے کلام کا اس کے بعد کی نسلیں لگاتی ہیں اوراس لیے اس کے معاصرین کے لیے موقع صحیح اندازے کا نہیں ہوسکتا۔ مگر اتنا کہنے میں ہمیں تامل نہیں کہ جو کچھ اقبال نے اب تک لکھا ہے وہ اس اعتبار سے کہ ایک نوجوان انگریزی خوان کا کلام ہے جس نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ علوم انگریزی کی تحصیل میں صرف کیا ہے اورجسے اہل زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، نہایت بے بہا ہے اور اس حصہ ملک کے لیے جسے اب وہ اپنا وطن کہتا ہے مایہ فخر و ناز ہے خدنگِ نظر، مئی ۱۹۰۲ بہ حوالہ : اقبال جادوگر ہندی نثراد مکتبہ جامعہ ، نئی دہلی ۔۱۹۸۰ء علامہ سے تعارف غلام رسول مہر میںحضرت علامہ اقبال کے اسمِ گرامی سے پہلے پہل ۱۹۰۷ء میں متعارف ہوا۔ اس زمانے میں حضرت مرحُوم کو لوگ عموماً شیخ مُحمدّ اقبال کہتے تھے اور کسی کو اندازہ نہ تھا کہ کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اقبال ان مراتب عالیہ پر پہنچنے والے ہیں جو صرف ممتاز علمی شخصیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ اس وقت میں اپنی عُمر کے تیرھویں مرحلے میں تھا۔ میں مشن ہائی سکول جالندھر میں تعلیم پا رہا تھا۔ جالندھر اگرچہ بہت پرانا شہر تھا لیکن وہاں دوسرے شہروں کی سرگرمیوں کے متعلق اطلاعات کمترہی پہنچتی تھیں۔ البتہ غلام پہلوان اور کیکر سنگھ پہلوان کی کشتیوں کے متعلق بہت سی کہانیاں سنی جاتی تھیں۔ یہ عرض کرنا مشکل ہے کہ وہ سب کی سب سچی تھیں یا ان میں رنگ آمیزی بھی راہ پاگئی تھی۔ حضرت علامہ مرحوم سے رسمی تعارف یوں ہوا کہ مسلمانانِ جالندھر نے اپنی تعلیمی مساعی کا آغاز ایک اسلامیہ بورڈنگ ہائوس کے قیام سے کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ مختلف مقامی سکولوں میں تعلیم پانے والے مسلمان نونہالوں کی تربیت اسلامی اُصول پر کی جائے۔ کسی سکول کے بورڈنگ ہاوس میںایسا کوئی انتظام مُہیا نہ تھا، اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ میں مشن ہائی سکول کے بورڈنگ ہائوس میں رہتا تھا۔ پھر اسلامیہ بورڈنگ ہاوس میں منتقل ہوگیا۔ اس لیے کہ اس کا فاصلہ ہمارے سکول سے صرف ایک فرلانگ تھا۔ اور اتنا ہی فاصلہ اس زمانے کے گورنمنٹ ہائی سکول کی عمارت سے تھا۔ غالباً انھی دو بڑے سکولوں کے مسلم طلبہ کے لیے اسلامیہ بورڈنگ ہائوس قائم کیا گیا تھا اس کی عمارت دونوں سے قریب رکھنے کا راز بھی غالباً یہی تھا۔ وہاں منتقل ہونے کا ایک زائد محرک یہ ہوا کہ اس کے پہلے سپرنٹنڈنٹ میرے ایک رشتہ دار تھے۔ (۲) میں بورڈنگ ہائوس میں پہنچا تو طلبہ کے علاوہ وہاں ایک ویکسی نیٹر بھی مقیم تھا، جس نے بورڈنگ ہائوس میں قیام کی خاص اجازت لے لی تھی۔ اس کا وطن لاہور تھا۔ موسم سرما کا بڑا حصّہ وہ اپنے رفیقوں کے ساتھ دیہات میں پھر پھر کر چیچک کے ٹیکے لگاتا۔ گرمیوں میں عموماً دفتری کام کرتا، نام یاد تو نہیں لیکن ہم انھیں شاہ صاحب یا شاہ جی کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کے پاس کچھ کتابیں اور کچھ رسالے تھے۔ ان میں انجمنِ حمایت اسلام لاہور کے سالانہ اجلاسوں کی کارروائیاں بھی تھیں، جن میں وہ تمام خطبے لکچر اور نظمیں چھاپی جاتی تھیںجو سالانہ اجلاس کی مختلف مجلسوں میں دیے جاتے تھے۔میں نیز دوسرے طلبہ یہ کارروائیاں اور رسالے شاہ جی سے لے کر پڑھا کرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی بعض اجلاس کی کیفیت بھی سنایا کرتے تھے ’’اور شیخ مُحمدّ اقبال ‘‘ کی بہت ستائیش فرمایا کرتے تھے۔ کہتے تھے وہ بہت بڑے شاعر ہیں اور آج کل ولایت گئے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کارروائیوں میں اقبال کی نظمیں خصوصیت سے پڑھیں لیکن تیرہ سال کے بچے کو جس کا علم فارسی اور اُردو کی محض ابتدائی کتابوں تک محدود تھا ان نظموں کی بلند حیثیت کا کیا اندازہ ہو سکتا تھا ؟ تاہم اقبال سے سمعی تعارف کی ابتدااب تک لوح ذہن پر بالکل تازہ ہے۔ اسی زمانے میںایک موقع پر شیخ عبدالقادر مرحُوم، جو ولایت سے بیرسڑی کی سند لیکر تازہ تازہ آئے تھے، جالندھر تشریف لائے اور انھوں نے اسلامیہ بورڈنگ ہاوس کو بھی اپنے قدوم سے مشرف فرمایا۔ طلبہ نے شاہ جی کی انھی کارروائیوں سے چودھری خوشی مُحمدّ مرحُوم کی نظم کے چند اشعار لیے اور ایک آدھ شعر میں ترمیم کر کے اسے شیخ عبدالقادر مرحُوم کے استقبال کے لیے موزوں بنالیا۔ حالانکہ وہ موزوں نہ تھی بایں ہمہ اسے اس شان سے پڑھا، گویا وہ چودھری خوشی مُحمدّ مرحُوم نے اسی تقریب کے لیے کہی تھی جس کا انتظام ہم نے شیخ عبدالقادر مرحُوم کے لیے کیا تھا ۔عہدِ طفلی کی نیرنگیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ (۳) مٹیرک پاس کر کے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آیا تو اقبال کی ذات ِ گرامی کے متعلق نسبتاً زیادہ معلومات حاصل ہوئیں۔یہاں بعض مجلسوں میں ان کی زیارت سے بھی قلب ونظر نے بقدرِاستطاعت کسب فیض کیا۔ اقبال کا کلام خود اقبال کی زبان سے پہلی مرتبہ انجمنِ حمایت اسلام کے اس سالانہ اجلاس میں سُناجو ریوازہوسٹل کے صحن میں منعقد ہوا تھا۔۱۹۱۱ء میںریوازہوسٹل کے صحن میں ایک پختہ راستہ شرقاً غرباً اور دوسرا شمالاً جنوباً بنا ہوا تھا جس سے صحن چار مربعوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ داخلے کے پھاٹک کے دائیں جانب جو آخری مربع ہے اس میں سٹیج کا انتظام کیا گیا تھا۔ باقی صحن اور چاروں طرف کے برآمدوں نیز داخلے کی جانب کی دوسری منزل کے برآمدے اور چھتوں پر بھی حاضرین موجود تھے۔ اقبال نے اس اجلاس میں شکوہ پڑھا تھا۔اس نظم کے کچھ حالات ہم اپنے استاد مکرم خواجہ دل مُحمدّ مرحُوم سے سُن چکے تھے۔جو وقتاً فوقتاً حضرت علامہ اقبال ؒ سے ملتے رہتے تھے۔بلکہ انھوںنے اس نظم کے کچھ شعربھی سنائے تھے۔جن میں سے ایک یہ تھا۔ ؎ آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں زندگی مثلِ بلالِؓ حبشی رکھتے ہیں اقبال ؒ نے پہلے ایک قطعہ سُنایا ، پھر شکوہ پڑھا۔ جن کا غذوں پر وہ اپنے قلم سے نظم لکھ کر لائے تھے وہ نواب ذوالفقار علی خاں مرحُوم رئیس مالیر کوٹلہ نے ایک سو روپے میں خرید کر انجمن کی نذر کر دیے تھے اور ۱۹۱۱ء میں ایک سوروپے آج کل کے ۱۰ دس ہزار کے برابر سمجھنے چاہییں۔ اقبال ۱۹۰۵ء میں ولایت گئے تھے اور اس کے بعد پہلی مرتبہ انجمن کے اجلاس میں نظم سُنانے کے لیے آئے تھے۔ اس لیے مختلف سمتوں سے صدائیںبلند ہوئیں کہ معمول کے مطابق نظم گا کر پڑھی جائے۔ اقبال نے کہا کہ یہ نظم گا کر نہیں پڑھی جاسکتی۔ میں جس طرح پڑھتا ہوں آپ مہربانی فرماکر اسی طرح سُن لیں ۔علمی و ادبی صلاحیت کا پیمانہ اس زمانے میں بھی چنداں قابلِ ذکر نہ تھا۔لیکن پورا شکوہ اقبال کی زبان سے سُنا تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔ اور یہ احساس بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ اقبال نے جس طرح نظم پڑھی اس کے پڑھنے کا احسن طریقہ وہی تھابلکہ اگر اسے تحت اللفظ نہ پڑھا جاتا اور آواز کے نشیب و فراز سے اس کے مختلف نکتے واضح نہ کیے جاتے تو نظم کی حقیقی حیثیت نمایاں نہ ہوسکتی۔ (۴) لاہور پہنچ کر سخن شناسی اور سخن فہمی کا ذوق خاصا فروغ پذیر معلوم ہوتا تھالیکن اقبال کے ساتھ براہِ راست شناسائی پیدا کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ سنتا رہتا تھا کہ وہ بے حدشفیق ہیں۔ جو بھی ان کی خدمت میں پہنچ جائے، اس سے بے تکلف باتیں کرتے ہیں، لیکن ان کی عظمت کا تصور دل ودماغ پر اس طرح چھایا ہوا تھا کہ ان کے قریب پہنچتے ہی ہمت جواب دے دیتی تھی۔ بعض اوقات اتفاقیہ ان سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی مگر اس طرح کہ چار چھ بزرگ اور چند طالب علم بلاقصدوارادہ ایک مجلس میں جمع ہوگئے اور دوسرے سے رسمی تعارف کے بغیر باتیں کرتے رہے۔ مثلاً ایک مرتبہ ہم چار پانچ طالب علم مولانا ظفر علی خاںمرحُوم سے ملنے کے لیے نکلے وہ اس زمانے میں شاہ مُحمدّ غوثؒ کے پاس ایک نو تعمیر عمارت میں رہتے تھے جس کی دوسری اور تیسری منزل انھوں نے کرایے پر لے رکھی تھی۔ ہم دوسری منزل میں پہنچے تو مکان کے صحن میں مولانا ظفر علی خاں بیٹھے تھے مغرب کی نماز ہوچکی تھی۔ عشا کی اذان ابھی نہیں ہوئی تھی۔ مولانا سے تھوڑے فاصلے پر اقبال ؒ بھی تشریف فرما تھے۔ گرمی کا موسم تھا۔ اقبال نے شلوار پہن رکھی تھی۔ سفید قمیص اُوپر چھوٹا کوٹ ، سَر پر لنگی بندھی۔ ہاتھ میں چھڑی تھی اس زمانے میں وہ انار کلی لاہور میں رہتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ شام کے وقت ٹہلتے ٹہلتے مولانا ظفر علی خاں سے ملنے کے لیے آگئے تھے۔ ہمارے سامنے انھوں نے جو کچھ فرمایا اس کا مفاد یہ تھا کہ ظفر علی خاں آپ کے اخبار میں کان پور کے فلاں صاحب (ایک شاعر کا نام لیا جسے میں حذف کر رہا ہوں) کی جو لمبی لمبی نظمیں چھپتی ہیں بعض اوقات خیال آتا ہے کہ تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لوں اور کان پور پہنچ کر ان کے پیٹ میں چھُرا گھونپ دُوں۔ پھر سوچتا ہوں کہ اس شخص کو ختم کرنے کے لیے کان پور تک تھرڈ کلاس کا کرایہ خرچ کرنا بھی روپے کا ضیاع ہوگا۔ قطعاً شبہہ نہیں کہ اس شاعر کی نظمیں بہت معمولی ہوتی تھیں اور عموماً زمنیدارکا پورا پہلا صفحہ گھیر لیتی تھیں۔ حضرت علامہ کے ارشاد کا مقصد یہ تھا کہ اس قسم کی نظمیں اخبار میں نہ چھپنی چاہییں۔ لیکن اس زمانے میں خبریں اور مضمون زیادہ نہیں ہوتے تھے اور اخبار نویس کا اوّلین مقصد یہ ہوتا تھا کہ اخبار کے صفحات جلدسے جلد پُر ہو جائیں۔ (۵) دوسرے سال (۱۹۱۲ء میں) انجمنِ حمایت اسلام کا سالانہ جلسہ اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں ہوا۔ اس زمانے میں برانڈرتھ روڈ کے ساتھ کوئی عمارت نہ تھی۔ احمد یہ بلڈنگس سامنے نظر آتی تھی اور وہاں کے نوجوان بھی کھیلنے کے لیے اسلامیہ کالج کی گرائونڈ میں آجاتے تھے۔عام جلسے بھی عموماً اسی گرائونڈ میں ہوتے تھے۔دوچارسو آدمی گھاس پر آکر بیٹھ جاتے تھے۔ اور تقریریں کرنے والوں کو جو کچھ سُنانا ہوتا تھا سنا دیتے تھے۔ جس طرف مبارک مسجد ہے اس طرف دو عمارتیں تھیں۔ ایک کالج لائبریری اور دوسری کالج کے جمنیزیم کی عمارت، گرائونڈ خاصی کھلی تھی حبیبیہ ہال کے ساتھ سٹیج کا انتظام کیا گیا تھا۔ آگے خاصی دُور تک قناتیں اور شامیانے لگے تھے۔ مختلف اطراف میں دُکانیں بھی تھیں اور لوگ حسبِ ضرورت ٹہل بھی لیتے تھے۔برانڈرتھ روڈ کی طرف سے جلسہ گاہ کے اندر آنے کا دروازہ اس گوشے میں تھا جہاں برانڈرتھ روڈ سے اُترتے تھے اور اس طرف اب انجمن کے دفاتر ہیں اس گوشے سے سٹیج تک راستہ بنا دیا تھا۔ حضرت علامہ اقبال نظم پڑھنے کے لیے اسی راستے سے آئے تھے۔ سفید شلوار قمیص، سیاہی مائل گرم کوٹ اور سرپرہارڈ تُرکی ٹوپی تھی۔اس کے بعد بھی انجمن نے دوتین سالانہ اجلاس اسی مقام پر منعقد کیے مگر جیسا عالی شان اجلاس ۱۹۱۲ء کا تھا ویسے بہت کم اجلاس ہوئے ہوں گے۔ اس سال حضرت علامہ نے شمع اور شاعر پڑھی تھی اس میں بعض واضح پیش گوئیاں ہیں جو خدا کے فضل سے پوری ہو چکی ہیں۔ لیکن ۱۹۱۲ء میں میرے علم کی حد تک کسی کو احساس بھی نہ تھا یہ نظم پیش گوئیوں پر مشتمل ہے۔خود میری حالت بھی عام اصحاب سے مختلف نہ تھی حضرت علامہ کی نظم کے سلسلے میں ایک جھگڑا رُونما ہوا۔ انجمن کے اجلاسوں کی صدارت کے لیے وہ اصحاب تجویز کیے جاتے تھے جن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ رقم فراہم ہو سکے۔ اتفاقیہ اس سال دو ایسے اصحاب تھے جن کے ذریعے بڑی رقم وصول ہونے کا امکان تھا اور وہ دونوں اصرار کر رہے تھے کہ اقبال کی نظم ان کی صدارت میں ہو۔ آخر اس مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ ان دونوں کی صدارتیں یکے بعد دیگرے ہوں شمع اور شاعر کے پہلے چھ بند ایک صدر کے اجلاس میں پڑھے جائیں۔ پھر علامہ کو کچھ وقت سستانے کے لیے مل جائے اور باقی چھ بند دوسرے کی صدارت میں پڑھے جائیں۔ اسی لیے اقبالؒ نے ابتدا میں یہ قطعہ پڑھا تھا۔ ہم نشین بے ریایم ازرہِ اخلاص گفت کاے کلام تو فروغ دیدئہ بر ناوپیر درمیان انجمن معشوق ہر جائی مباش گاہ باسُلطان باشی گاہ باشی بافقیر گفتمش اے ہم نشیں، معذورمے دارمِ ترا درطلسم امتیاز ظاہری ہستی اسیر من کہ شمع عشق در بزم جاں افروختم سو ختم خود را وسامان دوئی ہم سوختم اس میں سُلطان سے مُراد مرزا سُلطان احمد تھے جو پہلے اجلاس کے صدر تھے۔ اور فقیر سے مُراد فقیر افتخارالدین تھے جو لاہور کے ایک ممتاز خاندان کے رُکن اور اس دور کے ممتاز عہدیدار تھے۔ (۶) شمع اور شاعر مولانا ظفر علی خاں مرحُوم نے اپنے پریس میں چھپوادی تھی ۔دس ہزار کاپیاں چھاپی گئی تھیں اور ہر کاپی کی قیمت خلاف معمول آٹھ آنے رکھی گئی تھی۔مولانا ظفر علی خاں نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اس طرح نظم کی کاپیاں بک جانے سے پانچ ہزار روپے وصول ہوں گے اور یہ رقم ڈاکٹر اقبال کے حوالے کر کے ان سے کہہ دیا جائے گا کہ تبلیغ اسلام کے لیے جاپان چلے جائیں۔ یہ نظم بھی پوری کی پوری میں نے اقبال کی زبان مُبارک سے سُنی۔ اس کے بعد میری طالب علمی کے زمانے میں دو اجلاس اور ہوئے۔ ایک میں متفرق قطعات کے علاوہ وہ مزاحی قطعے پڑھے گئے جن کا نام خود حضرت علامہ نے رگڑا تجویز کیا تھا۔لیکن بعد میں وہ اکبری اقبال کے نام سے معروف ہوئے کیونکہ ان میں مزاح کا رنگ غالب تھا۔ دوسرے اجلاس میں پہلے تقریر فرمائی، پھر وہ نظم سُنائی جس کا مطلع ہے۔ کبھی اے حقیقتِ منتظر، نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں مجھے اب تک یاد ہے کہ حضرت علامہ مرحُوم نے منتظر کے ظ کے مفتوح ہونے پر خاص زور دیا ہے اور فرمایا تھا اسے منتظرِ نہیں منتظَر پڑھا جائے یعنی وہ حقیقت جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ آخر میں مثنوی اسرارِ خودی کے تمہیدی مطالب میں سے پندرہ بیس اشعار پڑھے۔ اس وقت تک یہ مثنوی غالباً مکمل نہیں ہوئی تھی۔ (۷) میں مئی ۱۹۱۵ء میں بی۔اے کا امتحان دے کر لاہورسے چلا گیا اور ساڑھے چھ سال بعد نومبر ۱۹۲۱ء میں اخبارنویسی کے لیے آیا۔ اس وقت ملک کے حالات میں بنیادی تبدیلی آچکی تھی۔ ترکِ موالات کی تحریک زوروں پر تھی میں زمیندارسے وابستہ ہوگیا تھا،لیکن والدہ نے اجازت نہ دی اورمیں نے دفتر زمیندار میں معذرت لکھ بھیجی۔ اتفاق سے اخبار ضبطی ضمانت کے باعث کچھ عرصے کے لیے بند ہو گیا۔ جب اس کے ازسرِنو اجرا کا انتظام ہوا تو شفاعت اللہ خاں مرحُوم جو اس زمانے میںزمیندار کے مہتمم عمومی تھے،مولانا مُرتضیٰ احمد خاں میکش مرحُوم کے ساتھ میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے پانچ میل جانب جنوب تھا۔ میری والدہ کو یقین دلایا کہ مہر کو رسمی طور پر اخبار سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اسے بالکل الگ رکھا جائے گا۔ یوں میرے لیے اوائل فروری ۱۹۲۲ء میں مستقل طور پر لاہور آنے اور اخبار سے وابستہ ہوجانے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں حضرت علامہ مرحُوم انار کلی بازار کی ایک وسیع عمارت کے بالائی حصّے میں رہتے تھے۔ (۸) یہاں یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ چودھری مُحمدّ حسین مرحُوم کالج کے زمانے میں میرے نہایت عزیز دوستوں میں سے تھے۔ وہ تعلیم مکمل کر چکے تو نواب سرذوالفقار علی خاں مرحُوم نے چودھری صاحب کو اپنا سیکرٹری بنا لیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں چودھری صاحب نے اپنی غیر معمولی دُور اندیشی ، اصابتِ رائے اورخلوص ودیانت کی برکت سے ایسی حیثیت حاصل کر لی تھی کہ نواب صاحب مرحُوم کے ہاں ایک معزز رکنِ خاندان کے درجے پر فائز ہوگئے اور نواب صاحب، کوئی کام چودھری صاحب سے مشورہ کیے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اس زمانے میں حضرت علامہ مرحُوم قریباً روزانہ نواب صاحب کے ہاں جاتے تھے۔ اس طرح حضرت علامہ اور چودھری صاحب کے درمیان بھی گہرے روابط پیدا ہوگئے۔ میں دوسرے اصحاب کے علاوہ چودھری صاحب مرحُوم سے بھی وقتاً فوقتاً ملتا رہتا تھا۔ ایک روز شام کے وقت میں شفاعت اللہ خاں موحُوم اور مولانا مرتضیٰ احمد خاں میکش مرحُوم گول باغ میں سیر کر رہے تھے۔ لوہاری دروازے اور شاہ عالمی دروازے کے درمیان اتفاقیہ چودھری مُحمدّ حسین مل گئے۔ شفاعت اللہ خاں مرحُوم نے اچانک چودھری مُحمدّحسین مرحُوم سے فرمائش کر دی کہ حضرت علامہ کی کوئی ایسی نظم سنائیے جواب تک کہیں چھپی نہ ہو۔چودھری صاحب نے مندرجہ ذیل چار شعر سُنائے: یوں موج پریشاں خاطر نے پیغام لب ساحل کو دیا ہے دُور وصالِ بحر ابھی تو دریا میں گھبرا بھی گئی عزت ہے محبت کی قائم اے قیس حجابِ محمل سے محمل جو گیا عزت بھی گئی، غیرت بھی گئی لیلیٰ بھی گئی کی ترک تگ و دو قطرے نے تو آبروئے گوہر بھی گئی آوارگیِ فطرت بھی گئی اور کشمکشِ دریا بھی گئی نکلی تو لبِ اقبالؔ سے تھی، کیا جانیے کس کی تھی یہ صدا پیغامِ سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپابھی گئی اس کا شعر یعنی: اے بادِصبا کملی والے سے جاکہیو پیغام مرا قبضے سے اُمت بیچاری کے، دیں بھی گیا دنیا بھی گئی یا تو اس وقت چودھری صاحب کو یاد نہ آیا یا انھوں نے سُنانا ضروری نہ سمجھا۔موچی دروازے سے آگے بڑھے تو چودھری صاحب چلے گئے۔ ہم دفتر زمیندار میں پہنچ گئے جو دہلی دروازے کے باہر اس وسیع عمارت کے بالائی حصّے میں تھا جسے’’جہازی بلڈنگ‘‘ کہتے تھے۔ ہم یعنی میں اور میکش مرحُوم دفتر ہی میں رہتے تھے۔ راستے میں بھی چودھری صاحب کے سنائے ہوئے شعر ہماری گفتگو کا موضوع بنے رہے اور میں گفتگو کے دوران میں بعض شعر پڑھتا بھی رہا۔ (۹) دفتر میں پہنچ کر شفاعت اللہ خاں مرحُوم نے کہا کہ جو شعر سُن کر آئے، ہو ایک کاغذ پر لکھ دو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔کہ اچھے شعر ایک مرتبہ بھی دل جمعی سے سُن لیتا تو ذہن میں بدستور تازہ رہتے تھے۔ میں نے حافظے پر زور ڈال کر چاروں شعر اسی ترتیب سے لکھ دیے جس ترتیب سے سنے تھے اور اگلے روز وہ زمیندار میں چھپ گئے ۔مجھے معلوم نہ تھا کہ بلا اجازت شعر چھاپنا نامناسب ہے۔ دوسرے روز دوپہر کے وقت چودھری مُحمدّ حسین مرحُوم دفتر زمیندار میں آئے اور مجھ سے پوچھا تم نے یہ شعر کہاں سے لیے ؟ میں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کل شام کو سنائے تھے۔ شفاعت اللہ خاں کے اصرار پر میں نے لکھ دیئے۔چودھری صاحب نے فرمایا :چلو میرے ساتھ۔ میں ان کے ساتھ ہولیا۔اور ہم حضرت علامہ مرحُوم کے دولت کدے پر پہنچ گئے۔ وہ اس وقت انار کلی میں رہتے تھے۔جہاں وہ ۲۳جولائی ۱۹۰۸ء سے مقیم تھے۔ میں اس مکان میںپہلی مرتبہ گیا تھا۔ میں خاصا گھبرایا ہوا تھا۔اس لیے کہ آشکار ہو گیا تھا۔ اس حاضری کی حیثیت ایک لحاظ سے پیشی کی ہے، سیڑھیاں چڑھ کر ہم جس کمرے میں پہنچے تھے،حضرت علامہ وہاں ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ سیڑھیوں کے قریب جو کرسی تھی، اس پر مجھے بٹھا دیا گیا۔ چودھری صاحب میرے بائیں جانب ایک کرسی پر بیٹھ گئے ۔ پھر حضرت علامہ مرحُوم سے مخاطب ہو کر کہا:مُجرم کو پکڑ لایا ہوں۔ یہ سُن کر حضرت علامہ نے مجھ سے پوچھا: آپ نے یہ شعر کہاں سے لیے؟میں نے پورا واقعہ من وعن بیان کر دیا۔یعنی کل شام کے وقت اتفاقیہ چودھری صاحب گول باغ میں مل گئے تھے۔ شفاعت اللہ خاں نے ایسے شعر سُننے کی فرمائش کی جو کہیں چھپے نہ ہوں۔ چودھری صاحب نے چار شعر سُنا دیے۔ ہم دفتر میں پہنچے تو شفاعت اللہ خاں نے کہا کہ جو شعرا بھی سنے ہیں، انھیں کاغذ پر لکھ دو۔ میں نے لکھ دیے۔ اس کے سوا میرا کوئی قصور نہیں۔ یہ سُن کر حضرت علامہ مرحُوم نے فرمایا! آپ سچ کہتے ہیں؟ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ غالباً حضرت علامہ کو میری گزارش کا یقین نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا کہ واقعہ تو یہی ہے۔ میں اچھا شعر سُن لیتا ہوں تو مجھے عموماً نہیں بھُولتا، میں اور تو کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتا، آپ چاہیں تو اور شعر سُنا کر میرا امتحان لے لیں۔ یہ جواب سُن کر حضرت علامہ کے چہرئہ مُبارک پر تبسم کی ہلکی ہلکی لہریں نمودار ہوگئیں اور صرف یہ فرمایا: یہ حافظہ تو بڑا خطرناک ہے۔ یہ حضرت علامہ مرحُوم سے پہلا براہِ راست تعارف تھا۔ اس مکان میں پھر ایک مرتبہ سالک مرحُوم کے ساتھ گیا تھا۔ اس وقت حضرت علامہ مرحُوم نے ایک بڑا رجسٹر لے کر پیام مشرق کی نظمیں سنائی تھیں لیکن ان میں سے مجھے اب کچھ یاد نہیں۔ صرف یہ یاد ہے کہ رجسٹر حضرت علامہ کے ہاتھ میں تھا اورنظمیں سُناتے وقت انھوں نے عینک لگالی تھی۔ (۱۰) جلد ہی وہ انار کلی والے مکان سے میکلوڈروڈ والی کوٹھی میں منتقل ہوگئے۔ ۱۹۲۳ء میں فلیمنگ روڈ اور بیڈن روڈ (جسے دل مُحمدّ روڈ بھی کہتے تھے۔) کے چوک سے قریب ایک مکان میں رہتا تھا۔ چوک کے پاس ہی ایک بلڈنگ تھی جس کے نیچے دکانیں اور اُوپر ایک ہی وضع کے پانچ فلیٹ تھے۔ یہ میرے قیام کے زمانے میں دل مُحمدّبلڈنگ کہلاتی تھی۔شایداس لیے کہ ایک مرتبہ خواجہ دل مُحمدّمرحُوم نے خریدلی تھی۔ پھر فروخت کر ڈالی تھی۔ میں چوک کی طرف سے دوسرے اور میوہ منڈی کی طرف سے چوتھے فلیٹ میں رہتا تھا۔ یہ مکان حضرت علامہ مرحُوم کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے بہت قریب تھا۔ شاہ ابوالمعالیؒ کے پاس جو بلند عمارتیں بن گئی ہیں، ناپید تھیں اور ایک نیا بازار دل مُحمدّ روڈ سے میکلوڈروڈ تک نکل آیا ہے، مفقود تھا۔ شاہ ابوالمعالیؒ کے پاس میکلوڈ روڈ پر ایک میدان سا تھاجس میں دھوبی دن کے وقت کپڑے سکھایا کرتے تھے۔ شام کے وقت میدان خالی ہوجاتا تھا۔ میں اپنے مکان سے نکلتا تو شاہ ابوالمعالیؒ کے پاس کے میدان سے گزرتا ہوا پانچ سات منٹ میں حضرت علامہ مرحُوم کی کوٹھی پہنچ جاتا تھا۔ چودھری مُحمدّ حسین مرحُوم نے قلعہ گوجر سنگھ میں مکان کرایے پر لے لیا تھا جو بعد میں انھوں نے خرید کر از سرنو بنوالیا تھا۔ وہ بھی آجاتے تھے۔اس طرح روزانہ قریباً دو دو تین تین گھنٹے کی نشست ہوجاتی تھی۔ حضرت علامہ مرحُوم گفتگو فرماتے۔چودھری صاحب اس میں کبھی کبھی دخل دیتے۔ میں چپ چاپ یہ گفتگو سنتا رہتا۔ مجھ سے کچھ پوچھا جاتا تو جواب دیتا۔ پھر میں بیڈن روڈ (دل مُحمدّ روڈ)پر رمضان بلڈنگ کے ایک مکان میں منتقل ہوگیا، جس کے نیچے بعد میں شفاء الملک حکیم مُحمدّ حسن قرشی نے قومی دواخانہ قائم کیا۔ گویا حضرت علامہ کی قیام گاہ سے اور بھی قریب ہوگیا۔ حضرت علامہ ازراہِ شفقت کبھی کبھی چودھری علی بخش مرحُوم کو بھیج کر خودبلا لیتے تھے۔ (۱۱) یہ قرب مسلسل کئی سال تک جاری رہا اور حضرت علامہ کی بابرکت صحبت سے استفادے کا موسم بہار یہی تھا۔ میں نے اس دور میں دو تین مرتبہ التزام کیا کہ روزانہ گفتگوئوں کا خلاصہ روزنامچے کے طور پر لکھتا رہوں۔ اسی زمانے میں زبورِ عجم کا آغاز ہوا تھا اور حضرت علامہ مرحُوم عموماً زبور کے تازہ اشعار تنہائی میں مجھے اور چودھری صاحب کو سُنایا کرتے تھے۔ میں گھر پہنچتا تو حافظے پر زور دے کر سُنے ہوئے اشعار لکھ لیتا۔ جو یاد نہ رہتے ان کی جگہ نقطے لگا لیتا۔ یہ کاپی بھی اب تک میرے پاس محفوظ ہے۔ اس میں ایک فائدہ یہ ہے کہ ہر کلام پر تاریخ درج ہے وہ لازماً اسی روز یا دو ایک روز پیشتر لکھا گیا۔ نیز بعض اشعار کے متعلق حضرت جو کچھ فرماتے، وہ بھی نوٹ کر لیتا۔ اب دیکھتا ہوں تو ان ارشادات سے بعض نظموں کا مفہوم متعین کرنے میں آسانی محسوس ہوئی اور اس طرح اشعار کے مطالب زیادہ واضح ہوگئے۔ یہ سب کچھ اس روز نامچے میں درج کر دیا گیا ہے، جس کی تمہید کے طور پر یہ داستان مرتب کر رہا ہوں۔(۱) مغرب کے بعد سے دس گیارہ بجے تک یہ صحبت برابر قائم رہتی لیکن کلام سُنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا جب دوسرے لوگ رخصت ہو جاتے۔ میں نماز مغرب سے کچھ عرصے بعد اجازت مانگتا تو فرماتے کہ ٹھہرو، کچھ کام ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا کہ کلام سُنائیں گے۔ ایک دو مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت پلنگ پر تکیے کے سہارے بیٹھے ہوئے تھے کہ اشعار سُناتے سُناتے بجلی بند ہوگئی۔حضرت بھی خاموش ہوگئے اور ہم بھی خاموش بیٹھے رہے۔ پانچ دس منٹ بعد بجلی ازسرِنوروشن ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہیں۔ میرے لیے یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ جو شعر سنا رہے تھے ان میں خطاب رسُولِ پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا۔ ایک مرتبہ بجلی کی روشنی ذرا کم تھی اور ہم میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے برآمدے میں بیٹھے تھے۔ حضرت اشعار کا رجسٹر لے کر بجلی کے عین نیچے جا کھڑے ہوئے اور اسی عالم میں کلام سے مشرف فرماتے رہے۔ ایک مرتبہ مجھے فراغت تھی اور صبح ہی خدمت والا میں پہنچ گیا۔ پھر میں اور حضرت علامہ مسلسل گیارہ گھنٹے تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ جن اصحاب نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی دیکھی ہے۔ انھیں اندازہ ہوگا کہ اس کا برآمدہ خاصا وسیع تھا۔ اس برآمدے میں کرسیاں تو ادِھر اُدھر ضرور کھسکاتے رہے لیکن اُٹھے نہیں۔ کھانا بھی وہیں کھایا، اور اتفاق یہ کہ اور کوئی شخص آیا ہی نہیں جس سے صحبت اور گفتگو میں خلل پڑتا۔ حالانکہ ان کے ہاں لوگ بکثرت آتے رہتے تھے۔ میں اس زمانے میں حُقہ بہت پیتا تھا۔حُقہ نہ ملتا تو سگرٹ شروع کر دیتا۔ علامہ مرحُوم کے حُقے میں شریک ہوجانے کو خلاف ادب سمجھتا تھا۔ اس وجہ سے میرے حاضر ہوتے ہی علی بخش کو دوسرا حُقہ لے آنے کا حکم دے دیتے۔پھر علوم وحکم اور حقائق و معارف کا بحرِز خارجوش میں آجاتا۔ عُرفی نے جہانگیر کے قصیدے میں کہا تھا۔ لبش جو نوبت خویش از نگا باز گرفت فتاد سامعہ در موج کوثر و تسنیم مجھے کم از کم سولہ سال تک اس شعر کا عملی تجربہ وسیع پیمانے پر ہوتا رہا۔ دس سال تک روزانہ اس طرح کئی کئی گھنٹے آب حیات کے جام پے درپے سامعہ کے ذریعے چڑھاتا رہا۔ جب میں مسلم ٹائون میں منتقل ہوگیا (۱۴دسمبر ۱۹۳۲ئ)تو بُعدِمکانی کے باعث استفادے کی پہلی حالت یقینا قائم نہ رہی۔تاہم دوسرے تیسرے روز وقت نکال کر ضرور حاضرہوجاتا۔ یہاں تک کہ حاضری کا یہ سلسلہ اس وقت بھی بدستور جاری رہاجب وہ جاویدمنزل میں منتقل ہوگئے اور میکلوڈ روڈ والی کوٹھی سے میرے لیے جاوید منزل اور بھی دور ہوگئی تھی۔ (۱۲) میں حضرت علّامہ مرحُوم کے متعلق جو کچھ مختلف اصحاب سے سُنتا رہتا تھا وہ بظاہر خصوصی عقیدت پیدا کرنے کے لیے چنداں ساز گار معلوم نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مجھ عاجز وہیچ مدان کو بساط قُرب کے تازہ واردوں میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو اس وقت مذہبی نقطۂ نگاہ سے میری عام حالت وہی تھی جو مرزا غالب کے قرب میں پہنچنے کے وقت خواجہ حالی مغفور کی تھی۔خواجہ حالی یادگارغالب میں لکھتے ہیں: ’’یہ وہ زمانہ تھا کہ مذہبی خود پسندی کے نشے میں سرشار تھے۔ خدا کی تمام مخلوق میں سے صرف مسلمانوں کو اور مسلمانوں کے بہتر فرقوں میں سے اہل سُنت کو.........اوران میں سے بھی صرف ان لوگوں کو کہ صوم وصلوٰۃ اور دیگر احکام ظاہری کے نہایت تقید کے ساتھ پابند ہوں،نجات ومغفرت کے لائق جانتے تھے‘‘۔ چند روز حضرت کی خدمت میں گزار کر اندازہ ہوا کہ دین حق کیا ہے اور اس کا مقصود کیا ہے۔ اب احوال ماضی پر نظرِ بازگشت ڈالتے ہوئے زندگی کے اس حصّے پر پہنچتا ہوں تو اپنی نادانی، نافہمی اور ناکسی پر تعجب ہوتا ہے۔ علِم محدود، نظر کوتاہ،دماغ ناپختہ، جس متاع کو سرمایۂ افتخار وامتیاز سمجھ رہا تھا، وہ اس درجہ کاسہ ثابت ہوئی کہ اس کا وجود عدم برابر معلوم ہونے لگا۔ اگر میں کہوں کہ ازسرِنو حلقہ اسلام میں داخل ہوا تو اس پر حیرت نہ ہونی چاہیے۔ پہلا اسلام حقیقتاً رسمی تھا۔ حقیقی اسلام یا رُوح اسلام کی چاشنی سے اب ابتدائی لذت اندوزی کی نوبت آئی۔ سچ ہے منازل ارتقا میں انسان پر ہر قسم کے دور آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایسا انتظام فرمادیا کہ وہی متاعِ کا سد اور مس خام اکسیر کے قریب پہنچی تو فطری صلاحیت کے مطابق کسبِ فیض کر کے ایسی ضرور بن گئی کہ کم از کم اپنے تصور کے مطابق باعث ننگ نہ رہی۔اسی وقت یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ اب تک ان کی ذاتِ گرامی کے ساتھ جو عقیدت تھی وہ ان کے شاعرانہ کمالات کے لیے محض دماغی اور ذہنی خراج تھی۔ اور اس کی حیثیت ایسی شراب کی تھی جو کیف سے یکسرتہی دامن ہو۔ اب قلب و رُوح کی شہادت نے اس عقیدت میں ایک کیفیت پیدا کر دی،جسے الفاظ کا لباس پہنانا میرے لیے ممکن نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے پہلے علمِ دین کے اثرات صرف ذہن و دماغ تک محدود تھے ،اب ان کا سرجوش قلب و روح پر طاری ہوگیا۔ اسی دور میں اندازہ ہواکہ محض کتابیں دیکھ لینا کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ کسی صاحبِ کمال کی صحبت میں اس علم کو جاندار بنایا جائے۔ حضرت کا سرچشمۂِ فیضان ہر لحظہ جو شاں رہتا تھا اور ان کے لبوں پر جو بات آتی تھی، جواہر پاروں سے زیادہ بیش بہا تھی۔ تاہم استفادے کا معاملہ اپنی صلاحیت پر موقوف تھا: ہر رشحہ بہ اندازہ ہر حوصلہ دارند مے خانہء توفیق خم و جام نہ دارد اپنی ہمت کی کوتاہی، صلاحیت کی فرومایگی اور قوتِ جذب و ہضم کی سطحیت پر کتنی ہی حسرت اور کتنا ہی افسوس ہو۔ تاہم اس ابرِگوہر بار کی بے نہایت بخششوں سے تنک بخشی کے شکوے کی نوبت کبھی نہ آئی۔ حضرت علامہ کی ذاتِ گرامی ہر فرد کے لیے مرزا غالب کے اس شعر کا ایک بدیع عملی پیکر تھی: وسعت سعی کرم دیکھ کر سرَتا بسر خاک گزرے ہے آبلہ پا ابرِگہر بار ہنوز اگر پیمانہ طلب بہ قدرِشوق و آرزوسرشار نہ ہوسکا تو اس کے لیے صرف اپنی وداما ندگیوں اور نا رسائیوں کو ذمّہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ساقی کا لطف و کرم تو اولیں لمحے سے آخر تک یکساں دل نواز اور رُوح پر ور رہا۔ ہرچہ ہست از قامتِ نا ساز و بے اندام ماست ورنہ تشریف تو بر بالاے کس کوتاہ نیست معاملے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جب تک دولتِ مطلوب ہاتھ نہیں آتی، اس کی طلب چند لمحوں کے لیے بھی چین نہیں لینے دیتی اور جی چاہتا ہے کہ جو لمحہ بھی نصیب ہو اس دولت سے بے تامّل جیب و دامن بھر لینے چاہییں۔ جب دولت دسترس میں آجائے تو اک گونہ غفلت کا پردہ دل پرچھا جاتا ہے۔ یاسمجھ لیجیے کہ آسودگی سی پیدا ہوجاتی ہے کہ جب چاہیں گے، اس سے خواہش کے مطابق استفادہ کر لیں گے۔ اس کے چھن جانے کا اندیشہ دل سے حرفِ غلط کی طرح محو ہوجاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتاہے؟ تو یہ انسانی نفسیات کا ایک خاصہ ہے کہ جب کوئی چیز ہاتھ آجاتی ہے، تو اسے ہمیشہ کے لیے اپنی سمجھ لیتا ہے اور حادثات روزگارکا بھی اسے کوئی اندیشہ نہیں رہتا۔ اسی غفلت کی بجلیوں نے مجھ سیاہ بخت کا خرمن آرزو بھی پھونک ڈالا۔ جب تک بساطِ قرب میں نہیں پہنچاتھا، آرزو تھی کہ یہ پوچھیں گے وہ پوچھیں گے……۔ تو سب کچھ بھول گئے اور محض حضرت کے لطف وکرم کو مجلسِ قُرب کی غرض وغایت سمجھ لیا۔ یعنی بقولِ نظیری: محروم فقر و توکل دراز دستی در افتد نیست نشستہ ایم کہ خرما و رافتد زنخیل؟ یعنی ہم خود خرما حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پائوں نہ ہلائیں گے۔ جو کچھ نخل سے گرتا جائے گا، اسی پر قناعت کیے بیٹھے رہیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جن آرزئووں سے بساطِ قُرب میں پہنچا، وہ بقدر ایک فی صد بھی پوری نہ ہوئیں۔ یہاں تک کہ جو کچھ ہونے والا تھا۔ اس طرح ہوگیا۔ گویا جو کچھ ہم دیکھ رہے تھے وہ حقیقت نہ تھی محض ایک خواب تھا۔ حضرت کے آخری دنوں میں بھی بارہا حاضر ہوا اور گھنٹوں بیٹھا رہا۔ اس زمانے میں کچھ پوچھنے کی ہمّت ہی نہیں پڑتی تھی۔ بار باریہ خیال دامن گیر ہوجاتا کہ مبادا حضرت سمجھیں، یہ خلاف عادت سوالات اس لیے کیے جا رہے ہیں کہ میرا آخری وقت آپہنچا ہے نیز انھیں دوسروں سے باتیں کرتے ہوئے دیکھتے تو وسوسہ بھی نہ ہوتا کہ ہم جلد اس نورانی چہرے سے محروم ہوجائیں گے۔ انتقال سے صرف دو روز پیشترمیں اور سالک مرحُوم حاضر ہوئے۔ حضرت ایک جرمن عالم(۲)سے باتیں کر رہے تھے۔ ہم معمول کے مطابق چپ چاپ ایک طرف بیٹھ گئے۔ ان کی اور جرمن عالم کی باتیں سنتے رہے۔ جرمن عالم کبھی کبھار دو چارلفظ بولتا اور حضرت بے تکلفی سے قریباً مسلسل باتیں کر رہے تھے۔ اس وقت کی گفتگو اور تندرستی کے زمانے کی گفتگو میں قطعاً کوئی فرق نہ تھا۔ ممکن ہے شفاء الملک حکیم حبیب الرحمن مرحُوم جیسا حاذق کوئی فرق بہتر طریق پر محسوس کر لیتا جنھوں نے کراچی کے ریڈیو سے مولانا سید سلیمان کی تقریر ڈھاکے میں سن کر لکھا تھا کہ آپ کی آواز ضعفِ قلب کا اعلان کر رہی ہے، اس کا کوئی تدارک کر لیجیے۔ جرمن عالم رُخصت ہوگیا تو حضرت کے ارشادات کا جواب ہم زیادہ مختصر الفاظ میں دیتے رہے اس لیے کہ احساس یہ تھا حضرت کسی قدر تھک گئے ہیں۔چنانچہ ہمارے بیٹھے بیٹھے علی بخش پیغام لایا ’’ماسٹر صاحب ‘‘ (ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی کو ان کی ابتدائی مشغولیت کی بنا پر حضرت علامہ ماسٹر جی ہی کہتے تھے)اپنے چند دوستوں کے ساتھ سلام کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ علی بخش کے ہاتھ میں لپٹے ہوئے کاغذ بھی تھے، جو ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے اسے دیے تھے۔ دراصل ڈاکٹر عبد اللہ ولایت میں رہ کر تاج محل پر اپنی کتاب مرتب کر کے لائے تھے اور نقشے بھی اسی کتاب کے تھے۔ تھکاوٹ ہی کے باعث حضرت نے فرمایا کہ انھیں سلام پہنچائیے۔ بڑی خوشی ہوئی کہ وہ آگئے، پھر کسی وقت ان سے باتیں ہوں گی۔ یہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ وہ اس وقت کسی مزید ملاقات کی زحمت برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم نے بھی اجازت چاہی یہ سب کچھ دیکھ چکے تھے لیکن دل اس حالت میں یہ یقین کر لینے پر آمادہ نہ تھا کہ مفارقت کی ساعت اتنی قریب آگئی ہے۔ مغرب کا وقت ہورہا تھا۔ وہ رات گزری، دن گزرا۔ دوسری رات کا بیشتر حصہ انتہائی تکلیف میں گزار کر ہماری امیدوں،آرزوئوں اور مسرتوں کا آفتاب جہانتاب طلوع آفتاب کے قریب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ کل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربکّ ذوالجلال والاکرام شفاء الملک حکیم مُحمدّ حسن قرشی آخری دور میں ان کے معالج اور طبیّ مشیر رہے۔ وہ فرماتے تھے کہ قلب ضعیف ہوگیا ہے، نبض دقیق وضعیف ہے، دل کسی قدر پھیل گیا ہے اور جگر بھی بڑھ گیا ہے۔ پائوں پر ورم آگیا تھا۔ بائیں شانے پر درد ہوتا تھا۔ آخری روز ان کے تھوک میں خون آنے لگا تھا جو اس امر کی علامت تھا کہ دل کی طرف جانے والی رگ میں جو رسولی ہے،وہ پھٹ گئی ہے۔یہ علامت بھی خاصی خطرناک تھی۔ وفات سے خاصی دیر پہلے انھوں نے خود بھی دل کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں سے کہا تھا کہ آپ اس کی خوب دیکھ بھال کریں۔ اور رضی دانش کا یہ شعر بہ تصرف قلیل پڑھا تھا: تہنیت گوئید مستاں راکہ سنگ محتسب بر ’’دِل ‘‘ما آ مد و ایں آفت از مینا گذشت رضی دانش نے غالباً دوسرے مصرعے میں دل کی جگہ ’’سر‘‘ لکھا ہے لیکن حضرت نے شعر یونہی پڑھا اور میرے نزدیک اس تصرف سے شعر کا رُتبہ بدر جہا بلند تر ہوگیا۔ آخری بیماری کے ابتدائی آثار۱۹۳۳ء ہی میںشروع ہوگئے تھے۔ اگرچہ اس وقت کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ رفتہ رفتہ پریشان کن صورت اختیار کر لے گی۔ چودھری مُحمدّ حسین مرحُوم کے ساتھ اس موضوع پر کئی مرتبہ باتیں ہوئیں وہ کہا کرتے تھے کہ ان کے کنبے کے افرادکی عمریں خاصی لمبی ہوتی ہیں حضرت کے والد ماجد نے۹۵ سال کی عمر پائی ان کی والدہ ماجدہ کی وفات۷۸ سال کی عمر میں ہوئی۔ برادر اکبر ان سے پندرہ سال بڑے ہیں اور بفضل اللہ ان کی صحت اچھی ہے لیکن وہ بھائی سے بھی دو سال پیشتر رخصت ہو گئے اور خاندان کی یہ رسم قائم رکھی کہ چھوٹا بھائی بڑے سے پیشتر وفات پاتا ہے۔ شیخ عطا مُحمدّ مرحُوم (حضرت کے بڑے بھائی ) وفات کی خبر پاکر سیالکوٹ سے آئے تھے تو آہ بھر کر کہا تھا کہ مجھے یقین سا تھا، اس مرتبہ خاندان کی یہ رسم بدل جائے گی، افسوس کہ نہ بدلی۔ میں ۲۱کی صبح کو معمول کے مطابق بہت سویرے سیر کو نکل گیا تھا۔ واپس آکر نہا رہا تھا کہ چودھری مُحمدّ حسین پھاٹک میں داخل ہوئے۔ میں نے سمجھ لیا کہ کوئی بہت ہی ضروری کام معلوم ہوتا ہے۔ ذرا قریب آئے تو فرمایا: دیکھو بھئی، جو کچھ ہونا تھا ہوگیا۔ اب جلد تیار ہو جائو۔ یہ الفاظ کان میں پہنچے اور جسم سَر سے پائوں تک سن ہوگیا۔ دو چار منٹ میں کپڑے پہنے۔ دل و دماغ کی عجیب کیفیت تھی۔ بات منہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اسی حالت میں سالک مرحُوم، چودھری اور میں جاوید منزل پہنچے۔ دن کا بیشتر حصہ حضرت کے عزیزوں اور دوستوں میں گزر گیا جو جمع تھے۔ ایک مرتبہ جسد مبارک کو ذرا سہارا دینے کی ضرورت پڑی۔ میں نے اٹھایا۔ بے جان جسم کا بوجھ تو بہت زیادہ تھا لیکن پورا جسم ریشم کی طرح ملائم تھا۔ شاہی مسجد کے بیرونی احاطے میں مرقد کے لیے جگہ تجویز ہوئی۔ عصر کے وقت میت وہاں پہنچی۔ ہم تو بہت پہلے مرقد پر پہنچ گئے تھے۔ میت کے ساتھ قدم قدم چل کر بازاروں سے گزرتے ہوئے پہنچنا ممکن نہ تھا۔مغرب کے قریب میت پہنچی، اسے قبر میں اتارا، دفن کیا اور واپس ہوئے۔ بعد میں سُنا کہ اہل شہر نے نیز ان بے شمار افراد نے جو آس پاس کے شہروں مثلاً امرتسر، سیالکوٹ، وزیر آباد، گوجرانوالہ وغیرہ سے آگئے تھے، اصرار کیا کہ انھیں بھی میت کو کندھا دینے کا موقع ملنا چاہیے۔ اس غرض سے جنازے کو بانس لگائے گئے تاکہ بہت سے لوگ کم از کم ایک بار ضرور کندھا دینے کی سعادت حاصل کر سکیں۔ یہ اس محبوب وجود کی ہمہ گیر محبوبیت کا ایک کرشمہ تھا، جس نے پوری زندگی خاموشی اور گوشہ نشینی میں گزاری۔ لیکن اس بیش بہا زندگی کا کوئی بھی لمحہ ایسا نہ تھا جس میں اس نے اسلام مسلمانوں اور انسانیت کی بہبود و فلاح کے سوا کبھی کچھ سوچا ہویا اس کے سوا زبان مبارک پر آیا ہو۔ اقبالیات، مرتبہ:امجد سیلم علوی، لاہور۱۹۸۸ء حواشی ۱۔ اس نوٹ کے اندراجات مصنف کے مجموعہ مضامین اقبالیات (مرتّبہ:امجد سلیم علوی)میںشامل ہیں۔(مرتبین) ۲۔بیرن فان فلیٹ ۔ جرمنی میں حضرت علامہ مرحوم کے ہم جماعت۔ اقبال کی لفظی تصویر پروفیسر حمید احمد خاں ہر بڑے آدمی کا نام ایک طلسم ہے جسے زبان پر لاتے ہی نظر کے سامنے ایک نیا جہان اُبھر آتا ہے۔ محمد اقبال !یہ نام پچھلی صدی تک کسی خاص مفہوم سے آشنا نہ تھا۔ ہزاروں دوسرے ناموں کی طرح یہ بھی ایک نام تھا، غیر متحرک اور منجمد ، جیسے زید اور بکر اور عمرو!آخر کار صدیوں کی بے سروسامانی کے بعد خود ہمارے عہد میں اِس نام نے حیاتِ جاویدکا خلعت پہنا۔ اِس کو زندہ کرنے کے لیے ایک مسیح آیااور یہ نام علامت قرار پایا فلسفہ زندگی کی ایک ہمہ گیر حرکت اور وسعت اور اضطراب کی۔ آنے والی نسلیں اِس نام کے پیچھے صرف اِسی حرکت اور وسعت اور اضطراب کی جھپٹ دیکھیں گی۔ لیکن موجودہ نسل یہ نام سُنتی ہے تو زندگی کے اِس طوفان انگیز تخیل کے پیچھے اُسے ایک پر سکون اور عزلت پسند انسانی پیکر کی تصویر نظر آتی ہے۔ محمد اقبال ! پیغمبرِاُمید، پیغمبرِ حیات! بے شک ! مگر اِس سے پہلے ہماری طرح ہنسنے بولنے والا، کھانے پینے والا ایک انسان ! جب تک موجودہ نسل زندہ ہے یہ متحرک شبیہ اس کے تصور میں زندہ رہے گی۔ لیکن اس نسل کے گزر جانے کے ساتھ عالمِ خیال کی یہ تصویر بھی گزر جائے گی۔ اقبال کے سراپا کی لفظی تصویر کھینچنا آسان نہیں۔ اگر انھیں کشیدہ قامت کہا جائے تو یہ کچھ مبالغہ سا معلوم ہوتا ہے، مگر اِس کے ساتھ ہی انھیں محض میانہ قد کہنا صریحاً کوتاہی ہوگی۔ یہی حال اُن کے ڈیل ڈول کا تھا۔ اُن کا جسم بھرا بھرا تھا مگر فربہی کے شبہے سے پاک۔ چنانچہ جب گرمی کے موسم میں باتیں کرتے کرتے پنڈلی پر سے کپڑا ہٹا دیتے تھے تو اہلِ مجلس کو تعجب سا ہوتا تھا کہ اُن کی پنڈلیوں پر کچھ زائد گوشت کیوں نظر نہیں آتا۔یہ اس لیے کہ اُن کے بھرے ہوئے پُر رُعب چہرے کا لحاظ کر کے دیکھنے والا قدرتی طور پر زیادہ پُر گوشت اور بھری ہوئی پنڈلیوںکی توقع رکھتا تھا۔ اُن کا رنگ گورا تھا جس میں سرخی کی جھلک آخری دنوں تک قائم رہی۔ مرض کی حالت سے قطع نظر، اُن کے چہرے کی سرخی، روشنی اور دھوپ میں خاص طور پر نمایاں ہو جاتی تھی۔ یہ گویا اُن کے اُس کشمیری خون کا اثر تھا جو اُن کے شفاف خدو خال سے چھپائے نہیں چھپتا تھا۔ اقبال اپنے سر کے بال سنوارنے میں صرف یہ کرتے تھے کہ انھیں کنگھی سے سلجھا کر پیچھے ہٹا دیتے تھے (کم از کم میں نے اُن کے بالوں میں کبھی مانگ نہیںدیکھی)۔ باتیں کرتے ہوئے کبھی کبھی اپنا ہاتھ اسی انداز سے پیچھے کی طرف بالوں پر پھیر لیتے تھے۔ پیشانی اگرچہ کشادہ تھی مگر جہاں سر کے بال شروع ہوتے تھے وہاں کچھ تنگ تنگ بلکہ ایک گوشہ سا بناتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ابرو بہت گھنے تھے اور شاید اس لیے کچھ زیادہ گھنے معلوم ہوتے تھے کہ اُن کے نیچے آنکھیں گہری بلکہ ذرا اندر کو دبی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ اُن کی آنکھیں بڑی نہ تھیں مگر گہری اور ذہین آنکھیں ضرور تھیں جن کے اوپر گھنے ابروئوں کے چھجے جھکے ہوئے تھے۔ گفتگو کرتے وقت اُن کی صرف دائیں آنکھ پوری کھلی رہتی تھی۔ دوسری آنکھ نا دانستہ طور پر ذرا بند کرتے تھے۔ دراصل اُن کی یہ آنکھ بینائی سے محروم تھی۔ اقبال ڈاڑھی عمر بھر منڈاتے رہے لیکن مونچھیں رکھتے تھے۔ مونچھیں رکھنے کے بھی کئی فیشن ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں بعض حضرات صرف اپنی ’’زور دار‘‘ مونچھوں کے دم خم سے پہچانے جاتے ہیں۔ اقبال کا تعلق اِس گروہ سے نہیں تھا۔ اُن کی مونچھیں ذرا چھدری تھیں اور خاموش، مگر اس خاموشی کے باوجود جان دار معلوم ہوتی تھیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کی مونچھوں میں اگر قیصرولیم کی مونچھوں کی اکڑنہیں تھی تو مسٹر چیمبر لین کی مونچھوں کا عجز و انکسار بھی نہ تھا۔ یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ جو لوگ اقبال کے پاس بیٹھتے تھے، اُن پر اقبال کی شخصیت کا مجموعی طور پر کیا اثر ہوتا تھا۔ ہم اپنی جان پہچان کے لوگوں میں سے ہر شخص کے ساتھ بالعموم ایک نہ ایک خصوصیت منسوب کر دیتے ہیں جو ہمارے نزدیک اس کی شخصیت کی امتیازی نشانی بن جاتی ہے۔ اگر ایک شخص بالطبع خاموش ہے تو دوسرا بہت باتونی ہے، ایک کا کام دن رات ہنسی دل لگی ہے، دوسرا ذرا سی بات پر مشتمل ہو کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ غرض کوئی نہ کوئی نمایاں صفت ایسی ہوتی ہے جسے ہم اُس کی شخصیت کا جوہر قرار دیتے ہیں۔ اقبال کو میں نے بار ہا ہنستے دیکھا ہے اور کبھی کبھی غصے کی حالت میں بھی۔ لیکن اُن کی شخصیت کا محور نہ ہنسی تھی اور نہ غصہ۔ اصل میں انسان پر مختلف اوقات میں بہت سی ذہنی اور جسمانی کیفیتیں طاری ہوتی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی زندگی میں غور و فکر کو جو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ کسی اور شخصیت کو کبھی حاصل نہ ہوئی۔ خاموشی اور گفتگو، سکون اور اشتعال، ہر رنگ میںاُن کی اصل حیثیت ایک مفکر کی تھی۔ یہ نا ممکن تھا کہ کوئی شخص تھوڑی دیر اُن کے پاس بیٹھے اور یہ محسوس نہ کرے کہ اقبال کی پوری ہستی کی بنیاد غور و فکر پر قائم ہے۔ گفتگو میں ذرا وقفہ آیا اور اقبال کا ذہن ایک جست میں کائنات کی حدود کو عبور کر کے وہاں جا پہنچا جہاں ہمارا تمام شور و شغب قدرت کے سرمدی سکوت میں گم ہوجاتا ہے۔ اُس وقت دیکھنے والے کو صرف ایک نظر بتا دیتی کہ یہ اپنے آپ میں سمٹا ہوا انسان سیاسی پلیٹ فارم کی تقریرِ شرر بار اور منبر کے وعظِ ستم اندوز کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ اُس وقت اُس کا پیکرِ خاک اِسی عالمِ رنگ و بو میں موجود ہوتا لیکن اُس کی روح ستاروں کے نور سے الجھتی ہوئی، پاتال کے اندھیرے سے ٹکراتی ہوئی، کسی نئی دنیا میں جانکلتی۔ مگر اقبال کی اِس حیاتِ فکری کا ایک پہلو اور بھی تھا ؛اپنے ذہن کی اِسی کیفیت کی وجہ سے اقبال عام انسانی تعلقات سے بے نیاز تھے۔اپنے ملنے والوں سے اُن کا تعلق معاشرتی تعلق نہیں تھا، فلسفیانہ تھا۔میں برسوں اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا لیکن مجھے پورے عجز کے ساتھ اعتراف ہے کہ انھیں مجھ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں تھا،میں تو خیر ایک عقیدت مند کی حیثیت سے اُن کے پاس جاتا تھا، مگر اُن کے مقربین بھی اُن کے دلی تعلق سے غالباً محروم تھے۔ جب اقبال خلوص اور گرم جوشی سے بات کرتے تھے تو اِس لیے نہیں کہ اُن کا مخاطب اُن کے اِس اخلاص کا مستحق ہوتا، بلکہ اِس لیے کہ وہ تمام جوش اور خلوص انھیں اپنے اُس خیال کے متعلق محسوس ہوتا تھا جس کے اظہار سے انھیں اُس وقت غرض ہوتی۔ جن لوگوں سے اقبال بے تکلف تھے وہ لوگ بھی، روحانی طور پر، اُن کے لیے اشخاص نہیں تھے بلکہ محض چند ’’کھونٹیاں‘‘ جن پر مختلف قسم کے خیالات بالکل مناسب طور پر لٹکائے جا سکتے تھے۔ اقبال اِس معاملے میں ہمیشہ تنہا اور آزاد رہے۔ روح کی اِس تنہائی کے باوجود اقبال کو ایک مختصر حلقے کی گفتگو اور وہاں اپنے خیالات کے اظہار میں خاص لطف آتاتھا۔ وہ خود بھی خاموش رہ کر دوسروں کی بات سن سکتے تھے، اور انھیں باتونی کہنا تو کسی طرح بھی درست نہیں ہوگا لیکن مختلف سولات کے جواب میں اپنی تشریحات پیش کرتے ہوئے جو لذت انھیں ملتی تھی وہ ہر شخص پر ظاہر تھی۔ دراصل اُن کی فطرت مشرقی وضع کے پرانے اُستاد کی فطرت تھی جس کا محبوب تریں مشغلہ اپنے شاگردوں کے درمیان بیٹھ کر بات بات میں نکتے پیدا کرنا تھا۔ آج وہ شمع خاموش ہے اور وہ محفل بھی باقی نہیں رہی، لیکن ہمارا تخیل اِس مٹتی ہوئی تصویر کو ایک بار پھر زندہ کر سکتا ہے۔ آئیے پھر ایک مرتبہ ڈاکٹر اقبال سے ملنے چلیں۔ میکلوڈ روڈ سے مڑتے ہی ڈاکٹر صاحب اپنی کوٹھی کے برآمدے میں آرام کرسی پر بے تکلفی سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ اگر سردی کا موسم ہے تو ڈاکٹر صاحب قمیص اور شلوار میں ملبوس ایک بادامی دُھسا اوڑھے ہوئے ہیں۔ اگر گرمی ہے تو قمیص کے ساتھ ایک تہبند ہے اور قمیص کے بجائے بھی کئی مرتبہ صرف بنیان ہی ہے۔ آرام کرسی پر ٹانگیں سمیٹ کر بیٹھے ہیں اور کبھی کبھی اپنے پائوں کے بے حد سفید تلوے کو ہاتھ سے سہلالیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی آرام کرسی کے برابر حقہ پڑا ہے۔ چلم بجھ جاتی ہے تو ایک ایسے انداز میں، جو کبھی نہیں بدلا، آواز دیتے ہیں:’’علی بخش ! ‘‘ اتنے میں ہم برآمدے کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہیں اور انھیں سلام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب تھوڑی دیر کے لیے اِدھر توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں :’’آئو جی ...صاحب ‘‘ ۔ جس شخص کو اچھی طرح پہچانتے ہیں اُس کا خیر مقدم اِسی مختصر جملے سے کرتے ہیں، جس کو نہیں پہچانتے اُس کے متعلق کبھی نہیں پوچھتے کہ یہ کون ہے۔ ناواقفوں کے لیے یہی کافی ہے کہ سلام کریں اور بیٹھ جائیں۔ اِس کے بعد تکلف برطرف، وہ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو میں پوری آزادی سے شامل ہوجاتے ہیں۔ اب باتیں شروع ہوتی ہیں اور علم وحکمت کا چشمہ اُبلنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دماغ سے ہر رنگ کی موج اُٹھتی ہے اوراجنبی چہروں کا سامنا بھی ان کی گفتگوکی بے باک روانی کو تکلّف کی کسی زنجیر کاپابند نہیں کر سکتا۔ اُن کی تشریحات اُستادانہ ہیں۔ وہ سوالات کا جواب دینے سے تھکتے نہیں بلکہ ایک ایک نکتہ کھول کھول کر بیان کرتے ہیں۔ کچھ سمجھاتے ہیں تو ہاتھ کی صرف ایک انگلی ہی نہیں اُٹھاتے بلکہ داہنے ہاتھ کا پورا پنجہ حرکت میں آتا ہے۔ گفتگو ھمیشہ پنجابی میں ہوتی ہے۔ کبھی کسی علمی نکتے کے بیان میںانگریزی کے دو ایک جملے بھی بے تکلف استعمال کر جاتے ہیں۔ اُردو میں صرف اُس وقت بات کرتے ہیں جب بیرونِ پنجاب سے کوئی صاحب شریکِ مجلس ہوں۔ مذہب اور سیاست دو ایسے مضمون ہیں جن سے بحث کرتے ہوئے کبھی کبھی اُن کا لہجہ پر جوش ہوجاتا ہے۔ جوں ہی کوئی ایسا موقع آتا ہے، ڈاکٹر صاحب کرسی پرذرا سیدھے ہو بیٹھتے ہیں۔ یہ میکلوڈ روڈ کے دنوں کی کیفیت ہے۔ میو روڈ کی کوٹھی کے زمانے میں امراض نے آگھیرا ہے۔ بستر پر لیٹے رہتے ہیں اور ملاقاتیوں کو خواب گاہ ہی میں بلالیتے ہیں۔ اِسی حالت میں گھنٹوں تک پر لطف باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن جوں ہی گفتگو میں ذرا گرمی پیدا ہوئی، ڈاکٹر صاحب ایک دم اٹھ کر بستر پر بیٹھ گئے اور پھر اُس وقت تک نہیں لیٹے جب تک وہ بات ختم نہیں ہوگئی۔ اب ہمیں اُن کے پاس گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہوگیا ہے۔ ہمارے سوالات ختم ہو چکے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کا ذہن بھی ایک اور پرواز کے لیے ذرا دم لیتا ہے ۔ دونوں طرف خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب ایک اورہی عالم میں ہیں؛ وہ کمرے میں موجود ہیں مگر پھر بھی موجود نہیں ہیں۔ اُن کی ظاہر کی آنکھیں کچھ بند کچھ کھلی ہیں لیکن باطن کی آنکھ کسی اور سمت میں سراپا نگاہ ہو رہی ہے۔ اِسی کیفیت میں کچھ وقت گزر جاتا ہے۔ اُن کے خیالات کی موجیں انھیں بہاتی ہوئی کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ آخر کار حواسِ ظاہری کا دیدبان دفعۃً واپسی کا اشارہ کرتا ہے اور اُن کا سفینۂ خیال گہرے سمندروں کے سفر کے بعد پھر زندگی کے پرانے ساحلوں کی طرف رخ پھیرتا ہے۔ اُس وقت وہ اپنا سر ذرا اوپر کو اٹھاتے ہیں اور اُن کے منہ سے کبھی ’’یا اللہ ! ‘‘اور کبھی فقط ’’ہوں!‘‘کی ہلکی سی آواز نکلتی ہے۔ یہ آواز اٍس بات کی علامت ہے کہ جہاز ساحل پر آپہنچا اور اُس کے لنگر کا قلابہ پھر ایک بار عالمِ اسباب کی مضبوط زمین میں پیوست ہوگیا۔ اِس قسم کے وقفوں کے بعد بالعموم اُن کی یہی لمبی اور پر سکون ’’ہوں!‘‘ ان کے ذہن کی دور و دراز اُڑان سے اُن کی بازگشت کی نقیب ہوتی ہے پھر اُسی پہلے انہماک سے باتیں شروع ہوجاتی ہیں تا آنکہ سہ پہر کے سائے ڈھل کر شام میں غائب ہونے لگتے ہیں اور سورج غروب ہوجاتا ہے۔ آخر ہم اپنی کرسیوں پر ایک بے معنی سی جنبش کرتے ہیں اور پھر اُٹھ کر اجازت چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ’’اچھا چلتے ہیں آپ !‘‘ اور پھر ہمارے سلام کا جواب ہاتھ اُٹھا کر دیتے ہیں۔ یہ اُن کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے جب رحلت کی تو اہلِ لاہور کو ایک ایسا ’’شخصی ‘‘ نقصان پہنچا جس کی تلافی خود ڈاکٹر صاحب کا کلام بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اُن کے انتقال کے موقع پر میں اتفاق سے لاہور میں موجود نہیں تھا۔ میرے ایک دوست نے، جن کے ساتھ مل کر میں بار ہا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، مجھے ایک خط لکھا جس میں لاہور کی زبان بن کر انھوں نے وہ جذبات قلم بند کر دیے جو بہت سے دلوں کو بے تاب کر رہے تھے مگر لب تک نہیں آسکے تھے۔ انھوں نے لکھا: ڈاکٹر اقبال چل بسے۔ افسوس کہ ہمیں آخری دنوں میں اُن کا نیاز حاصل نہ ہو سکا۔ یہ حسرت ہمیشہ میرے دل میں رہے گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال مرا نہیں کیونکہ اُس کا کلام اُسے زندئہ جاوید بنانے کے لیے کافی ہے۔ لیکن میں اِس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے کلام میں اُس کی مکمل شخصیت دکھائی نہیں دیتی۔ اُس کی نظم تو انسانی زندگی کی اعلیٰ ترین اقدار سے موزوں (یعنی پر معنی اور متین) زبان میں بحث کرتی ہے لیکن خود اقبال کی شخصیت کا ایک اور نہایت دل چسپ پہلو بھی تھا؛ یعنی اس کی خوش کلامی جو بعض دفعہ بذلہ سنجی سے جا ملتی تھی۔ اُس کی نظم میں تو اُس کا تخیل عرش بریں کو اپنی بلند پروازی کی پہلی سیڑھی سمجھتا ہے لیکن کیا ہم نے اس کو اپنی زندگی میں بے علموں اور وہم پرستوں سے انھی کی سطح پر نہایت انہماک سے بحثیں کرتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ اُس کے کلام سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ’’دانائے راز‘‘ سے ہم سخن ہونا مجھ جیسے ہیچ مداں کے بس کی بات نہ تھی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں نے گھنٹوں اُس کی صحبت میں بصیرت افروز باتیں سنتے ہوئے گذار دیے مگر اُس اللہ کے بندے نے کبھی ایک دفعہ بھی اشارے یا کنائے سے یہ جتانے کی کوشش نہ کی کہ بھئی تمھاری تنگ نظری وبال جان ہو رہی ہے، اب ختم بھی کرو۔ الغرض وہ اقبال جو لوگوں سے گویا پکار پکار کر کہتا تھا کہ آئو میرے علم و فضل کے خزانے کھلے پڑے ہیں، جھولیاں بھر بھر کے لے جائو، مرگیا ہے۔ اقبال کا کلام برحق، لیکن ہم اپنے بظاہر لاینحل مسئلوں کو اب کس کے پاس لے جائیں گے کہ وہ ایک جنبش لب سے مشکل سے مشکل گتھی کو سلجھا دے۔ یہ اقبال مر گیا ہے۔ افسوس! اقبال کی شخصیت اور شاعری۔ مجلس ترقی ادب، لاہور۱۹۷۳ء علامہ اقبال :زندگی کا ایک دن (علی بخش سے انٹرویو ــــــگفتگو:ممتاز حسن ) ترجمہ :محمد سہیل عمر جناب ممتاز حسن نے ۲۲ ستمبر ۱۹۵۷ء کو علامہ اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش سے ایک انٹرویو کیا تھا، جسے انھوں نے مرتب کر کے انگریزی میں شائع کیا، ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ دیا جارہا ہے۔ س) اقبال صبح کو عموماً کب بیدار ہوتے تھے؟ ج) بہت سویرے۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ بہت کم خواب تھے ۔ نماز فجرکی بہت پابندی کرتے اور نماز کے بعدقرآن کی تلاوت کرتے تھے۔ س) وہ قرآن کس انداز میں پڑھتے تھے ؟ ج) جب تک ان کی آواز بیماری سے متاثر نہیں ہوئی تھی وہ قرآن کی تلاوت بلند آہنگ میں خوش الحانی سے کرتے تھے۔ آواز بیٹھ گئی تو بھی قرآن پڑھتے ضرور تھے مگر بلند آواز سے نہیں س) نماز اور تلاوت سے فارغ ہو کر کیا کرتے تھے؟ ج) آرام کرسی پر دراز ہوجاتے۔ میں حقہ تیار کر کے لے آتا ۔ حقے سے شغل کرتے ہوئے اس روز کے عدالتی کیسوں کے خلاصوں پر بھی نظر ڈالتے رہتے۔اس دوران میں گاہ گاہ شعر کی آمد بھی ہونے لگتی۔ س) آپ کیسے پہچانتے تھے کہ علامہ پر شعرگوئی کی کیفیت طاری ہو رہی ہے؟ ج) وہ مجھے پکارتے یا تالی بجاتے اور کہتے ’’میری بیاض اور قلمدان لائو‘‘ میں یہ چیزیں لے آتا تو وہ اشعار لکھ لیتے۔ اطمینان نہ ہوتا تو بہت بے چین ہو جاتے ۔ شعر گوئی کے دوران میں اکثر قرآن مجید لانے کو کہتے۔شعر گوئی کے علاوہ بھی دن میں کئی بار مجھے بلا کر قرآن مجیدلانے کی ہدایت کرتے رہتے۔ س) عدالت جانے کا وقت عموماً کیا ہوتا تھا؟ ج) عدالتی اوقات سے دس پندرہ منٹ قبل روانہ ہوتے تھے پہلے بگھی میں، اور آخری زمانے میں گاڑی خریدلی تھی۔ س) وکالت کا کیا عالم تھا، بہت کام کرتے یا تھوڑا؟ ج) وکالت میں ایک حد سے زیادہ اپنے آپ کو مصروف نہیں ہونے دیتے تھے۔ عام طور پر یوں تھا کہ ۵۰۰روپے کے برابر فیس کے کیس آجاتے تو مزید کیس نہیں لیتے تھے۔ دیگر سائلین کو اگلے ماہ آنے کا کہہ دیتے ۔ اگرمہینے کے پہلے تین چار دنوں میں چار پانچ سو روپے کا کام مل جاتا تو باقی سارا مہینہ مزید کوئی کیس نہیں لیتے تھے۔ س) یہ پانچ سو روپے کی حد کیوں لگائی گئی تھی؟ ج) ان کا تخمینہ تھاکہ انہیں ماہانہ اخراجات کے لیے اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس زمانے میں اس رقم میں گھر کا کرایہ، نوکروں کی تنخواہیں منشی کی تنخواہ اور گھر کے عمومی اخراجات سب شامل تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب علامہ صاحب انار کلی اور میکلوڈ روڈ پر رہا کرتے تھے۔ س) علامہ صاحب نے کتنے عرصے تک وکالت کی؟ ج) جب تک انہیں گلے کی بیماری لاحق نہیں ہوئی تھی ،وکالت کرتے رہے۔ یہ اندازاً ۳۳۔۱۹۳۲ء کا زمانہ تھا۔ س) گلے کی بیماری کیسے شروع ہوئی تھی؟ ج) وہ عید کی نماز پڑھنے گئے۔ سردی کا موسم تھا گھر واپس آکر سویوں پر دہی ڈال کر کھایا جو انہیں بہت مرغوب تھا۔ اگلے ہی روز گلے کی تکلیف شروع ہوگئی۔ اس رات کے دواڑھائی بجے تک کھانستے رہے۔ اگلے دن ان کی آواز بیٹھ گئی اور وفات تک آواز کی یہی کیفیت رہی۔ س) اب ذرا ان کے روز مرہ کے معمول پر دوبارہ بات ہوجائے۔ عدالت سے لوٹ کر آتے توکیا کیا کرتے تھے؟ ج) سب سے پہلے تو مجھے کہتے کہ میرا لباس تبدیل کروائو، رسمی دفتری لباس انہیں کبھی پسند نہ تھا۔ عدالت جانے کے لیے مجبوراً پہن لیتے اور گھر آتے ہی سب سے پہلے اس سے چھٹکاراحاصل کرتے۔ س) لباس بدل کر کے کیا کیا کرتے تھے؟ ج) اگر شعر کہنا ہوتے تو اس کے لیے حسب معمول بیاض، قلمدان اور قرآن مجید لانے کو کہتے ؟ س) کیا وہ اپنی وکالت پر سنجیدگی سے توجہ دیتے تھے؟ ج) اگر اگلے دن عدالت میں کوئی مقدمہ ہوتا تو اس مقدمے کی مسل دیکھ لیتے تھے۔ورنہ مقدمے کے کام میں اپنے آپ کو نہ الجھاتے۔ س) کیا وہ گھر پر عدالت کا کام کیا کرتے تھے؟ ج) اگلے روز کے مقدمات سے متعلق کاغذات پر نظر ڈالنے کے سوا اور کچھ نہیں۔ س) سہ پہر میں سونے کی عادت تھی۔ ج) معمول تو نہیں تھا، کبھی سو بھی جاتے۔ س) ان کی نیند کیسی تھی؟ ج) نیند کچی تھی، ذرا سی آواز سے چونک جاتے تھے۔ س) جسمانی تکلیف اور بے آرامی برداشت کرنے میں کیسے تھے؟ ج) بہت نرم دل تھے۔ تکلیف کی برداشت بہت کم تھی۔ کسی اور کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔خون بہتا دیکھنے کی بالکل تاب نہ تھی۔ ایک مرتبہ پائوں پر بھٹرنے کاٹ لیا، اس سے وہ ایسے لاچار ہوئے کہ حرکت کرنے کے لیے بھی میرے سہارے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ ایک مرتبہ جاوید کو بچپن میں ابرو کے قریب چوٹ لگ گئی جس سے تھوڑا سا خون بہ نکلا خون دیکھ کر علامہ کو غش آگیا۔ س) کھانا کس وقت کھاتے تھے؟ ج) بارہ ایک بجے کے درمیان ایک ہی مرتبہ کھانا کھاتے۔ رات کے کھانے کا معمول نہ تھا۔ س) کھانے میں کیا پسند تھا؟ ج) پلائو، ماش کی دال، قیمہ بھرے کریلے، اور خشکہ س) کھانے پر کئی طرح کی غذائیں ہوتی تھیں کیا؟ ج) جی نہیں ایک وقت میں زیادہ کھاتے نہ تھے، خوراک خاصی کم تھی۔ س) کسی خاص کھانے کو ناپسند کرتے تھے؟ ج) جی ہاں۔ سری پائے اور ٹنڈے گوشت۔ س) ورزش کیا کرتے تھے؟ ج) ابتدا میں تو ورزش کرتے تھے۔ مگدر گھماتے اور ڈنٹر پیلتے تھے۔ انار کلی کے قیام تک یہ معمول رہا۔اِس کے بعد ورزش چھوٹ گئی۔ س) کھیلوں سے دلچسپی تھی؟ ج) کشتیوں کے دنگل شوق سے دیکھتے تھے۔ س) دیگر دلچسپیاں کیا تھیں؟ ج) شروع کے دنوں میں کبوتر پالنے کا شوق رہا، کبھی کبھار تاش بھی کھیل لیتے۔ س) شام کو کبھی کہیں باہر جایا کرتے تھے؟ ج) شام کو کہیں باہر نکلنا ان کے لیے تقریباً نا ممکن تھا۔ جس زمانے میں قیام بھاٹی دروازے کے اندرتھا تو بسا اوقات حکیم شہباز الدین کے گھر کے باہر کے چبوترے تک ٹہل لیتے تھے۔ کبھی کبھار سر ذوالفقار علی اپنی موٹر لیکر آجاتے اور انہیں باہرگھمانے لے جاتے۔ س) رات کو سوتے کس وقت تھے؟ ج) شام کو احباب کی محفل جمتی تھی۔ چودھری محمد حسین ہمیشہ سب سے آخر میں رخصت ہوتے تھے۔ مجلس عموماً دس بجے برخاست ہو جاتی اور اس کے بعد علامہ چودھری محمد حسین کے ساتھ بیٹھ کر انھیں اس روز کے تازہ اشعار سنایا کرتے تھے۔ س) چودھری صاحب عموماً کتنی دیر ٹھہرتے تھے؟ ج) رات کے بارہ ایک بجے تک، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سونے کے لیے لیٹ جاتے۔ لیکن بمشکل دو تین گھنٹے سو کر تہجد کے لیے بیدار ہوجاتے۔ س) طیش میں آتے تھے یا نہیں؟ ج) بہت نرم دل اور طبیعت کے مہربان تھے شاذ و نادر ہی غصے میں آتے۔ لیکن اگر اشتعال میںآجاتے تو اپنے اوپر قابو پانا مشکل ہوجاتا۔ مجھے ان کی نرم دلی کا ایک واقعہ یاد ہے۔ ایک مرتبہ گھر میں ایک چور گھس آیا۔ہم میں سے کسی نے پکڑ کر اس کی پٹائی کر دی۔ علامہ اقبال نے اس کا ہاتھ روک دیا اور کہا کہ چور کو مت پیٹو۔ یہی نہیں بلکہ اسے کھانا کھلایا اور آزاد کر دیا۔ س) تہجد پابندی سے پڑھتے تھے کیا؟ ج) جی ہاں پابندی سے پڑھتے تھے۔ س) تہجد کے بعد کیا معمول تھا؟ ج) اس کے بعد ذار دیر کو لیٹ رہتے،تاوقتیکہ فجر کا وقت آن لیتا اور وہ نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ س) کیا شعر کی آمد رات کو بھی ہوتی تھی؟ ج) جی ہاں۔ راتوں کو بھی شعر گوئی کرتے۔عموماً یہ کیفیت ان پر رات کے دو اور اڑھائی کے درمیان طاری ہوتی تھی۔جب بھی ایسا ہوتا مجھے آواز دے کر بیاض اور قلمدان طلب کرتے۔ اقبالیات ،لاہور، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۰ حیاتِ اقبال کا سبق سید ابوالاعلیٰ مودودی دنیا کا میلان ابتدا سے جدید ترین دور تک اکابر پرستی(Heroworship) کی جانب رہا ہے۔ ہر بڑی چیز کو دیکھ کر ہٰذا ربّی ہٰذاربّی اکبر کہنے کی عادت جس کا ظہور قدیم ترین انسان سے ہوا تھا آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے۔ جس طرح دو ہزار برس پہلے بدھ کی عظمت کا اعتراف اس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے نہ ہو سکتا تھا کہ اس کا مجسمہ بنا کر اس کی عبادت کی جائے۔ اسی طرح آج بیسویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ سخت منکرِ عبدیت قوم (روس) کا ذہن لینن کی بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت کے آگے مراسم عبودیت بجا لائیں۔ لیکن مسلمانوں کا نقطۂ نظر اس باب میں عام انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابرپرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتائو کرنے کی صرف ایک ہی صورت سوچ سکتا ہے یعنی اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَیٰ اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمْ اقْتَدِہْ (اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچے لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو)۔ اسی نقطہ نظر سے میں اس مختصر مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے، اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفر تک کر چکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں یہ مرحوم اس کے سمندر پیئے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیںدیکھا تھا جس طرح ہمارے ۹۹فیصدی نوجوان دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر تہہ تک اتر چکا تھا، اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان ، اپنے اصول ، تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔ لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہو گیا تھا کہ اس کے دور کے علماء دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا سے لگا کھاتا ہو۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ وہ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے، اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے، کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے، مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھنے بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسولؐ عربی کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ تلاثہ کے ساتھ کوہ احد پر تشریف رکھتے تھے، اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضورؐ نے فرمایا کہ ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں، اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آ کر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں، مجازی طور پر نہیں واقعی لرز اٹھتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیال کی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔ اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برملا ان کی حمایت کرتا تھا۔ اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ ان کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومت ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا، مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے، سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور خود لارڈ لنگڈن کو کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں، احکامِ اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں، مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کر سکتا کہ محض آپ کا عہدہ حاصل کر نے کے لیے شریعت کے حکم کو توڑ دوں۔ اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے، عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبیعت کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ان میں کچھ فرقۂ ملامتیہ کے سے میلانات تھے، جن کی بناء پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزا آتا تھا ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھااور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ گونراگفتار کا غازی ہوں۔ ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئے۔ ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور ’’سرصاحبان‘‘ ہوتے ہیں، ویسے ہی وہ بھی ہوں گے، اور اسی بناء پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلاتحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجئے جس سے اس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کر سکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مندرئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لیے اقبال اور سرفضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسولؐ پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانہ میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چار پائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانہ ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا کہ جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں، اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کادم بھرتے ہیں، مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔ اقبال کے نائٹ ہڈ اور سرشفیع مرحوم جیسے حضرات کے ساتھ ان کے سیاسی رشتہ کو دیکھ کر عام خیال یہ تھا اور اب بھی ہے، کہ وہ محض شاعری ہی میں آزاد تھے عملی زندگی میں آزاد خیالی ان کو چھو کر بھی نہ گزری تھی، بلکہ وہ نرے انگریز کے غلام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے قریب جو لوگ رہے ہیں اور جن کو گہرے ربط و ضبط کی بناء پر ان کی اندرونی زندگی اور ان کے اندرونی خیالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سرکار اور اس کے پرستار دونوں ان سے سخت بدگمان تھے۔ اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں حارج سمجھتے تھے۔ سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا بلکہ وہ آزاد ہندوستان میں ’’دارالاسلام‘‘ کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ اس لیے کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے۔ جو ایک دارالکفر کو دوسرے دارالکفر میں تبدیل کرنے والی ہو۔ صرف یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبوراً نہ تعاون کیا، جو برٹش گورنمنٹ کے زیر سایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے، گو مقاصد کے اعتبار سے ان میں اور ان میں اور اس طبقہ میں کوئی ربط نہ تھا مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا کہ جب تک مسلمان نوجوانوں میں ’’دارالاسلام‘‘ کا نصب العین ایک آتشِ فروزاں کی طرح پھڑک نہ اٹھے اور وہ اس کے لیے سرفروشانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہو، اس وقت تک کم از کم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے نوجوانانِ اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں، اور جس کے بعض ظاہری پہلوئوں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترفین تک کے طعنے سنتے رہے۔ رسالہ جوہر… اقبال نمبر۱۹۳۸، بہ حوالہ : اقبال اور مودودی مرتبہ: ابوراشد فاروقی مکتبہ تعمیرانسا نیت لاہور ۱۹۸۰ء اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر سیّدابوالحسن علی ندوی اقبال کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جس نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گونا گونی رنگا رنگی پیدا کی ،اور جنھوں نے اقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا چند ایسے عناصر ہیں جن کا تعلق اقبال کی علمی و ادبی اور تعلیمی کوششوں سے بہت ہی کم ہے ،اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت ، بلندی فکر و خیال ‘سوز،دردکشش اور جاذبیت نظر آتی ہے، ان کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے ، جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔ دراصل اقبال کی شخصیت کے بنانے ، سنوارنے اور پروان چڑھانے میں عصر حاضر کے صرف ان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا ہاتھ نہیں ہے، جن میں اقبال نے داخل ہوکر علومِ عصر یہ اور مغربی تعلیم حاصل کی اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال علومِ جدیدہ اور مغربی تعلیم کا حصول ہندوستان ، انگلستان اور جرمنی میں ماہر اساتذہ سے کرتے رہے، اور وہاں کے علم و فن کے چشموں سے سیراب ہوتے رہے، یہاں تک کہ وہ عالمِ اسلامی میں مغربی علوم و افکار اور تہذیب و تمدن کے ماہرین میں منفرد شخصیت کے مالک ہوگئے، مغربی فلسفہ واجتماع ، اخلاق اور سیاست و معیشت میں یورپ کے ایک متنحصص کی حیثیت حاصل کی ، اور علوم ِجدید و قدیم میں بڑی گہری نگاہ حاصل کی ، لیکن اگر اقبال اس مقام پر پہنچ کرٹھہرجاتے اور موجودہ تعلیمی اداروں کے پھلوں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو کر صرف اس حلاوت و مزہ سے لطف اندوز ہوتے رہتے تو پھر آج وہ ہمارا موضوعِ گفتگو نہیںبن سکتے تھے، اور نہ ادبِ اسلامی اور تاریخ ادب اسلامی ان کے شعر و ادب کے نغموں سے گونجتی رہتیں ، اور نہ علمی صدارت فکری زعامت اور اسلامی ذہن ان کے لیے اپنا دامن وسیع کرتا، اور نہ انھیں اس بلند مقام پر بٹھا کر فخر محسوس کرتا، اس کے لیے بڑی باریک اور بلند شرطیں ہیں، کوئی شخص محض درس و تدریس علوم میں تنّوع اور کثرت تالیف وتصنیف کی وجہ سے اس مقام بلند تک نہیں پہنچ سکتا ، بلکہ اقبال اگر ان تعلیمی اداروں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہوجاتے اور انھیں علوم وفنون کی علمی موشگافیوں میں اپنی دلچسپیوں کو محدود رکھتے تو زیادہ سے زیادہ فلسفہ ، معاشیات ، ادب اور تاریخ میں ایک ماہر استاد اور پروفیسر کی جگہ پاتے یا ایک بڑے پایہ کے مصنف علومِ عصریہ کے ماہر فن، صاحب اسلوب ادیب یا ایک اچھے شاعر ہوتے ، اور بس !یا پھر ایک کامیاب بیرسٹر، ایک اچھے جج یا حکومت کے ایک اچھے وزیر بنائے جاتے، لیکن آپ یقین کیجئے اگر اقبال ان میںسے کچھ بھی ہوتے تو زمانہ انھیں ویسے ہی بھلا دیتا جس طرح دنیا کے بڑے بڑے علما ، ادبا شعرا مصنفین، اور حکومتوں کے وزرا کو آج زمانے نے گوشہ عزلت و گمنامی میں ڈال رکھا ہے، اور آج کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے’ اور کیا تھے لیکن اقبال کی ذہانت و عبقریت ،ان کا زندہ جاوید پیغام اور ان کی ذہنوں اور دلوں کی تسخیر کرنے کی طاقت و کشش……ان تمام فضائل اور بلندیوں کا سبب ان دنیاوی تعلیمی اداروں سے جدا ، ایک دوسرا تعلیمی ادارہ ہے جس میں کہ اقبال نے تعلیم و تربیت حاصل کی بڑھے اور پروان چڑھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ میں سے اکثر کا ذہن اس مخصوص ’’ادارہ‘‘ کی تلاش و جستجو میں پریشان ہوگا، اور آپ اس کے جاننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ آخر وہ کون سا ادارہ ہے، جس نے اس ’’عظیم شاعر ‘‘کو پیدا کیا؟ اور وہ کون سے علوم ہیں جو اس میں پڑھائے جاتے ہیں؟ کس زبان میں وہاں تعلیم ہوتی ہے ؟اور کیسے معلم وہاں تعلیم دیتے ہیں’ بلاشبہ اس میں اعلیٰ درجے کے نگراں اور مربی ہونگے، جو ایسی ہی عظیم شخصیتیں پیدا کرتے ہیں، (جیسے کہ اقبال تھے)مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس کے وجود اور محل و مقام سے واقف ہوجائیں تو پھر ضروراس میں داخلہ کی کوشش کریں گے، اور اپنی تعلیم وتربیت کے لیے اپنے آپ کو اس بے نظیر و بے مثال ادارہ کے سپرد کر دیں گے۔ وہ ایک ایسا ’’ادارہ‘‘ہے کہ جس نے اس میں تعلیم و تربیت حاصل کی ، اس کی ناکامی کا کوئی سوال نہیں، جو وہاں سے نکلا وہ ضائع نہیں ہوسکتا ،وہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں سے صرف ائمئہ فن، مجتہدین فکر، واضعین علوم، قائدین فکرو اصلاح،اورمجددین امت ہی پیدا ہوتے ہیں، وہ جوکچھ لکھتے ہیں، اس کے سمجھنے میں عام مدارس ویونیورسٹیوںکے طلبا و اساتذہ مشغول رہتے ہیں، ان کی لکھی ہوئی چیزیں درس کے طورپر پڑھی پڑھائی جاتی ہیں، ان کی تصنیفوں کی شرحیں لکھی جاتی ہیں، ان کے اجمال کی تفصیل کی جاتی ہے، ان کے ثابت شدہ نظریات کی تائید و تشریح ہوتی ہے ان کے ایک ایک لفظ پر کتابیں لکھی جاتی ہیں:اور ان کی ایک ایک کتاب سے پورا پورا کتاب خانہ تیار ہوجاتا ہے، وہ ایک ایسا ادارہ ہے جہا ںتاریخ پڑھائی نہیںجاتی بلکہ تاریخ بنائی جاتی ہے ، وہاں افکار نظریات کی تشریح و توضیح نہیں ہوتی ، بلکہ افکار ونظریات و ضع کئے جاتے ہیں، آثار و نشانات کے کھوج نہیںلگائے جاتے بلکہ وہاں سے آثار و نشانات پیدا ہوتے ہیں، یہ ادارہ اورمدرسہ ہر جگہ اور ہرزمانے میں پایا جاتا ہے، یہ دراصل ایک داخلی مدرسہ ہے ، جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ہر انسان اسے اٹھائے ہر مقام پر لیے پھرتا ہے وہ دل کا مدرسہ اور ضمیر و وجدان کا دبستان ہے، وہ ایک ایسا مدرسہ ہے جہاں روحانی پر داخت اور آلہی تربیت ہوتی ہے۔ اقبال نے اس ادارہ سے اسی طرح تکمیل کی جس طرح دوسرے بہت سے وہبی انسان اس عظیم ادارہ سے تعلیم وتربیت کے بعد نکلے، اقبال کی سیرت وشخصیت اس کا علم و فضل اوراخلاق ، یہ سب کا سب مرہونِ منت ہے، اِس قلبی دبستان کا جس میں کہ اقبال نے برسوں زانوے تلمذتہ کیا ہے، اقبال کے کلام کا مطالعہ اس حقیقت کی اچھی نشاندہی کرتا ہے کہ خارجی مدرسہ کی بہ نسبت داخلی مدرسہ نے اس کی زندگی میں ایک دردو سوز، تب و تاب اورایک نئی قوت و توانائی بخشی ، اگر وہ اپنے داخلی مدرسے میں تعلیم وتربیت حاصل نہ کرتا تو پھر نہ اُس کی یہ جاذب نظر شخصیت ہی ظاہر ہوتی ، اور نہ اس کا شعور ووجدان اس قدر شعلہ جانسوز نظر آتا، اور نہ اس کا آتشیں پیام قلب و نظر کے لیے سوزِ جاوداں ثابت ہوتا اقبال کے کلام میں اس ادارہ کے اساتذہ و معلمین اور مربین کا ذکر و اعتراف بہت ہی کثرت سے ملتا ہے وہ تخلیقی عناصر جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، بڑھایا اور پروان چڑھایا وہ دراصل اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں حاصل ہوئے، یہ پانچ تخلیقی عناصرہیں جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو ’’زندۂ جاوید‘‘ بنا دیا۔ ان میں سے پہلا عنصر جو اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں داخلہ کے بعد اول ہی دن حاصل ہوا وہ اس کا ’’ایمان و یقین ‘‘ ہے ،یہی یقین اقبال کا سب سے پہلا مربی اورمرشد ہے ، اور یہی اس کی طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا منبع اور سرچشمہ ہے، لیکن اقبال کا وہ یقین و ایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں، جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا’’ یقین‘‘عقیدہ و محبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ و تصرف اُس کی دوستی و دشمنی غرضکہ اس کی ساری زندگی پرچھایا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت راسخ الایمان تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کااخلاص انتہا درجہ کا تھا، اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رشد و ہدایت کے آخری مینار ،نبوت ورسالت کے خاتم اور مولائے کل ہیں:۔ وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ،مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا اس دورِ مادیت اور مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک و دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہوسکیں ، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گذارے اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقبال کی وہی والہانہ محبت ، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی، اور بلاشبہ ایک حْبِّ صادق اور عشقِ حقیقی ہی قلب و نظر کے لیے ایک اچھا محافظ اور پاسبان بن سکتا ہے:۔ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیلؐ رہے ہیں،اورہیں،فرعون میری گھات میںاب تک مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدمن بیضا عجب کیاگرمہ و پر ویں مرے نخچیرہوجائیں کہ برفتر اک صاحب دولتے بستم سرِ خودرا علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرار خودیمیں ملتِ اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلہ میں جس پر حیات ملتِ اسلامیہ موقوف ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی وابستگی اور اپنی فداکارانہ مُحبّت کا بھی ذکر کیا ہے ، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے، اور نعتیہ اشعار ابلنے لگتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پُھوٹ پڑے ہیں، اس سلسلہ میں چندا شعار پیشِ خدمت ہیں۔ جِن سے اقبال کے مُحبّت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہوگا:۔ درِ دل مسلم مقام مصطفیٰ است آبروئے ما ز نام مصطفیٰ است بوریا ممنون خوابِ راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امّتش درشبستانِ حرِا خلوت گزید قوم و آئین وحکومت آفرید ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم تابہ تخت خسروی خوابید قوم وقت ہیجاتیغ اور آہن گداز دیدۂ او اشکبار اندر نماز در دعائے نصرت آمیں تیغ اُو قاطع نسلِ سلاطیں تیغ او در جہاں آئین نو آغاز کرد مسندِ اقوام پیشییں درنورد از کلید دیں درِ دنیا کشاد ہمچو او بطن اُمِ گیتی نزاد درنگاہِ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خوا نشست در مصافے پیش آں گردوں سریر دختر سر دار طے آمد اسیر پائے در زنجیر و ہم بے پردہ بود گردن ازشرم و حیا خم کردہ بود دخترک راچوں نبیؐ بے پردہ دید چادر خود پیش روے او کشید آں کہ براعدا درِ رحمت کشاد مکہ راپیغام لا تثریب داد ماکہ از قیدِ وطن بیگانہ ایم چوں نگہ نوردوچشیم ویکیم از حجاز وچین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندا نیم ما مست چشم ساقی بطحا ستیم در جہاں مثل مے ومینا ستیم امتیازاتِ نسب را پاک سو خت آتش اوایں خس وخاشاک سوخت شورِ عشقش درنیٔ خاموش من می تپد صد نغمہ در آغوشِ من من چہ گوئم ازتولائش کہ چسیت خشک چوبے در فراقِ او گریست ہستیِ مسلم تجلی گاہِ او طور ہا بالدفاصلہ زگرد راہِ اُو جوں جوں زندگی کے دن گذرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت والفت بڑھتی ہی گئے ، یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہوجاتے ،آنکھیں پرُآب ہوجاتیں یہاں تک کہ آنسورواں ہوجاتے ، یہی وہ گہری محبت تھی ، جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ مکن رسوا حضور خواجہؐ مارا حساب من زچشم اونہاں گیر یہ شعر محبت وعقید ت کا کتنا اچھامظہرہے۔ دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمانِ کامل اورحبِّ صادق تھی، جس نے اقبال کے کلام میں یہ جوش، یہ ولولہ ، یہ سوزوگدازپیدا کردیا، اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تویہ حقیقت عیاں ہوجائے گی، کہ دراصل رقت انگیز شعر، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت، نادر شخصیت اور عبقریت Geniusکا حقیقی منبع و سر چشمہ محبت و یقین ہی ہے، اور تاریخ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار و نشانات نظر آتے ہیں، وہ سب کے سب اسی محبت و یقین کے مرہونِ منت ہیں، اگر کوئی شخصیت یقین کے جذبہ سے خالی ہو تو پھروہ صرف گوشت و پوست کی صورت ہے اور اگر پوری امت اس سے خالی ہے ، تو پھراس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں ، اور اس طرح اگرکسی کلام میں یقین و محبت کی روح کار فرمانہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفیٰ اور موزوں کلام تو ہو سکتا ہے، لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا اورجب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہوگی اوراسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت و یقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر وہ ایک بے روح ڈھانچہ ہے، غرضکہ پوری زندگی اگر محبت و یقین کے جذبہ سے خالی ہے تو پھروہ زندگی زندگی نہیں، بلکہ موت ہے ،اورپھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبعتیں مردہ و افسردہ ہوں ، نظم و نثر کے سر چشمے خشک ہوں، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں ، ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبِّ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلاپیدا کرتی ہے، اور انسانی زندگی نور و رنگ سے معمور ہوجاتی ہے، پھر شکستہ،پُرسوز و پُر درد روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں، خارقِ شجاعت و قوت دیکھنے میں آتی ہے، اور علم و ادب کے نقوش بھی زندہ جاوید بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندہ جاوید بنا دیتی ہے، ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد قرطبہ، قصرِزہرا اور تاج محل ہیں، سچ تویہ ہے کہ محبت و یقین کے بغیر ادب و فن مردہ و افسردہ ونا تمام ہیں:۔ نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم،کثرتِ معلومات اور ذکاوت و ذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لیجاتے ہیں یا ایک دوسرے پر فضلیت رکھتے ہیں، اور اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوت شاعری،لفظوں کا حسن انتخاب ، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے اورمصلحین وقت اورقائدین ملت کی بلندی وپستی موقوف ہے ان کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی پر !حالانکہ ایسا نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی فضلیت و بلندی کا دارومدار محبت و اخلاص پر ہے،ان کی سچی محبت اور مقصد سے اخلاص کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے، کہ اس کا مقصد و موضوع اورغرض و غایت اس کی روح میں سرایت کر جاتی ہے قلب میں جاگزیںہوجاتی ہے،اور فکر وعمل پرچھا جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت تحلیل ہوجاتی ہے ، اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تومقصد کی زبان سے کرتا ہے،جب کچھ لکھتا ہے، تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے، غرضکہ اس کے فکرو خیال ،دل و دماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔ ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی اور پھر اس سے نفع پسندی ، جنسی محبت اورنفسانی خواہش!جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے، جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے، اورآج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب ، ایمان کی حرارت ، حُبِّ صادق کی تپش اور یقین کے سوزسے خالی ہیں ، اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، اور نہ کوئی روح نہ شعور و وجدان ہے، نہ مسرت و غم کا احساس !اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے، جو کسی جابر وقاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔ جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے توآپ کو اندازہ ہوگا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعراسے بہت کچھ مختلف ہے ، اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس قلب و وجدان اور اعصاب میں حرکت و حرارت ، سوزوگداز، درد و تپش پیدا کرتا ہے، اور پھر ایک ایسا شعلۂِ جوالہ بن کربھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں، فاسد معاشرہ اورباطل قدروں کے ڈھیر ،جل کر فنا ہوجاتے ہیں ، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرکس قدر طاقت ور ایمان، پرُدردوپرُ سوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ، قابل صد ستائش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اورایسی قابل قدرشخصیت تیار کی۔ اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسراعنصروہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے،مگرافسوس کہ آج خودمسلمان اس کی روشنی سے محروم،اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں ،میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر .....اثر انداز ہوئی ہے ،اقبال کا ایمان چونکہ ’’نو مسلم‘‘کا ساہے، خاندانی وارثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف،اور شعورو احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت ہی مختلف رہا ہے ، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نمازصبح قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے کیا کررہے ہو؟ اقبال جواب دیتے ابا جان !آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں ، اورمیں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہورہا ہے، اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کرپڑھنا شروع کیا اوراس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پرنازل ہورہا ہے، اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں:۔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور وفکر اور تدبر و تفکر کرتے گذاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے ، قرآن بولتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ، اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت وتوانائی حاصل ہوتی ، جوںجوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا ، ان کے فکر میں بلندی اورایمان میں زیادتی ہوتی گئی ، اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لَدُنی علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبہ پر بھی اسے لگائیے ، فوراً کھل جائے گا، وہ زندگی کا ایک واضح دستور اورظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔ تیسرا عنصر جس کا اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا دخل ہے، وہ عرفان نفساور خودی ہے ، علامہ اقبال نے عرفانِ ذات پر بہت زور دیا ہے، انسانی شخصیت کی حقیقی تعمیر ان کے نزدیک منت کشِخودیہے جب تک عرفانِ ذات نہ حاصل ہو ،اس وقت تک زندگی میں سوز ومستی ہے ،اور نہ جذب و شوق !اس سلسلہ میں اقبال کے یہ شعران کے فکر کی پوری ترجمانی کرتے ہیں :۔ اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن ، اپنا توبن من کی دنیا؟ من کی دنیا ، سوزومستی جذب و شوق تن کی دنیا ؟ تن کی دنیا ، سود و سودا،مکرو فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھائوں ہے ،آتا ہے دھن جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ وبرہمن پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا ، نہ تن ان کے کلام میں معنوی بلندی کے ساتھ ساتھ ، لفظوں کی بندش ہم آہنگی ، اتار چڑھائو روانی وتسلسل ، اور موسیقیت اس قدر زیادہ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ علامہ اقبال کو خودی کی تربیت اور عرفانِ نفس پر بڑا اعتماد تھا ، انکے نزدیک خود شناسی و خود آگاہی انسان کو اسرار شہنشہی سکھلاتے ہیں، عطا رہوں یا رومی رازی ہوںیا غزالی ، بغیر عرفانِ نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اسی عرفانِ نفس کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اس رزق پر موت کو ترجیح دی جس رزق سے پروازمیں کوتا ہی آتی ہو اور دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اقبال کے خیال میں زیادہ بہتر ہے جس کی فقیری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، کی خُو بُو اوران کا اسوہ ہو اور حق تو یہ ہے کہ عرفانِ نفس اور عرفانِ ذات ہی کے حصول کے بعد انسان جرات سے اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ:۔ آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اقبال کا تصور خودی خود اقبال میں اس قدر رچ بس گیاکہ ان کی زندگی عرفانِ نفس کازندہ نمونہ تھی ، ان کی زندگی کے اوراق میں ان کی خودی ،خودداری ،خود اعتمادی کے نقوش بہت ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں، عرفانِ نفس ہی کے لیے دوسروں کومخاطب کر کے وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ اپنے رازق کو نہ پہچانے تومحتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم بلاشبہ اقبال نے شکم کے مقابلے میں دل کو ترجیح دی ، اور دل ہی کو اختیارکیا۔ یہ عرفانِ نفس ہی کا کرشمہ تھا جس نے اقبال کو ہر قسم کی فکری اور ادبی بے راہ روی سے محفوظ رکھا، حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے عام ادبا وشعرا اور مصنفین کو ہر چراگاہ میں منھ مار لینے ،ہر وادی میں بھٹکنے اور ہرموضوع پر لکھنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں ، خواہ وہ ان کے عقیدہ و خیال کے موافق ہو یا نہ ہو جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک نہ اپنی شخصیت کو پہچانتے ہیں ، اور نہ اپنے پیغام سے واقف ہوتے ہیں ،لیکن اقبال نے اول ہی دن سے اپنی ذات اور شخصیت کو اچھی طرح پہچانا ،اپنی وہبی صلاحیتوں کا صحیح صحیح اندازہ کیا، اورپھر صلاحیتوں،شعری قوتوں کو مسلمانوں کی زندگی کے ابھارنے ان میں روح و زندگی پیدا کرنے ،اور یقین و ایمان کی دبی ہوئی چنگاریوں کو بھڑکانے میں صرف کیا ، اوران میں قوت وحریت اور سیادت و قیادت کا احساس دلایا ،اقبال ایک فطری اوروہبی شاعر تھے، اگر وہ شاعر نہ بننے کی کوشش کرتے تو کامیاب نہ ہوتے، شعر کہنے پر وہ مجبور تھے، اُن کی شاعری رستے ہوئے قلب،پرجوش وپرسوز دل، معانی کی معنویت اور الفاظ کی شوکت کی آئینہ دار تھی، وہ ایک قادر الکلام ماہر فن شاعر تھے ، ان کے ہمعصر شعرأنہ صرف یہ کہ ان کی امامت اور کلام میں اعجاز کے قائل تھے ، بلکہ زبان تراکیب معانی افکار جدتِ تشبیہ ہر چیز سے متاثر تھے ، ان کی شاعری کو عظیم بنانے میں انگریزی اور جرمن شعرو ادب اور فارسی شاعری کا بھی بڑا دخل ہے لیکن ان سب باتوں کے عرض کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقبال کے ہمعصروں میں کوئی اچھا اور اونچا شاعر ہی نہ تھا، بلکہ اچھے سے اچھے اوراونچے اونچے ادیب و شاعر موجود تھے جو اپنے الفاظ کی فصاحت معنی کی بلاغت ، استعارہ و تشبیہ کی جدت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے لیکن جو چیز کہ اقبال کو اپنے ہمعصروں سے ممتاز کر دیتی ہے وہ ہے ان کی شاعرانہ عظمت ،ادبی قوت ، فنی ذہانت جبلی عبقریت اور ان سب کے ساتھ ساتھ اسلام کا پیغام !اقبال نہ قومی شاعرتھے،اور نہ وطنی اور نہ عام رومانی شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی شراب و شاہد کی مرہون منت تھی، اور نہ ان کی شاعری نری حکمت و فلسفہ کی شاعری تھی، ان کے پاس اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام تھا، جس طرح ہوا کے جھونکے پھولوں کی خوشبوپھیلاتے ہیں ،اور جس طرح اس زمانے میں برقی لہروں سے پیغامات کے پہچانے کاکام لیا جاتا ہے اسی طرح اقبال بھی اپنے اس پیغام کو شعر کی زبان میں کہتے تھے تاکہ ان کے پیغام کے لیے شعر ،برقی لہروں کا کام دے ،بلاشبہ اقبال کی شاعری نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کو بیدار کردیا اوران کے دلوں میں ایمان و یقین کی چنگاری پیدا کر دی ، تو یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ اقبال نے اپنے آپ کو پہچانااپنی وہبی شخصیت و قوت کا صحیح اندازہ کیا، اور ان کو اصل مقام پر استعمال کیا۔ وہ چوتھا عنصر جس نے اقبال کی شخصیت کو بنایا ، پروان چڑھایا ،اور اس کی شاعری کونت نئے معانی ،افکار کی جولانی اور قوت تاثیر عطا کی ، ان میں کتابوں کی درس و تدریس اور مطالعہ کے شوق وانہماک کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اقبال کی آہِ سحرگاہی اس کا اصل سرچشمہ ہے جب سارا عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا رہتا اس اخیر شب میں اقبال کا اٹھنا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ، پھر گڑ گڑانا اور رونا، یہی چیزتھی جواس کی روح کو ایک نئی نشاط اس کے قلب کو ایک نئی روشنی اوراس کو ایک نئی فکری غذا عطا کرتی پھر وہ ہر دن اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں کے سامنے ایک نیا شعر پیش کرتا، جو انسانوں کو ایک نئی قوت ، ایک نئی روشنی اور ایک نئی زندگی عطا کرتا۔ اقبال کے نزدیک آہ سحرگاہی زندگی کا بہت ہی عزیز سرمایہ ہے بڑے سے بڑے عالم و زاہد اور حکیم و مفکر اس سے مستغنی نہیں ،چنانچہ فرماتے ہیں:۔ عطار ہو ررمی ہو رازی ہوغزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی اقبال علی الصباح اٹھنے کا بہت ہی اہتمام رکھتے تھے، سفرو حضر ہر مقام اور ہر کہیں ان کے لیے سحر خیزی ضروری تھی:۔ زمستانی ہوامیں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحرخیزی اور صرف یہیں تک نہیں بلکہ اس کی تمنا بھی کرتے ہیں کہ خدا وند مجھ سے تو جو چاہے چھین لے لیکن لذت آہِ سحرگاہی سے مجھے محروم نہ کر:۔ نہ چھین لذت آہِ سحرگہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز یہی وجہ تھی کہ وہ جوانوں میں اپنی اس آہ و سوز،اور درد و تپش کو دیکھنے کی تمنا کرتے تھے، اور دعائیں کرتے کہ خدا وندا یہ میرا سوزِ جگر اور میرا عشق و نظر آج کل کے مسلم نوجوانوں کو بخش دے:۔ جوانوں کو سوز جگر بخش دے مرا عشق ، میری نظر بخش دے اسی بات کو ایک دوسری نظم میں اس طرح فرماتے ہیں:۔ جوانوں کو مری آہِ سحر دے تو ان شاہیں بچوں کو بال وپر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نورِ بصیرت عام کر دے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے دل سے نکلی ہوئی یہ دعائیں بے اثر نہیں گئیں اور آج سارے عالم اسلام میں خالص اسلامی فکر و نظرلیے نوجوانوں کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے۔ دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا آخری موثر عنصر جس نے اقبال کی شخصیت کی تخلیق میں اہم حصہ لیا ہے، وہ مولانا جلال الدین رومی کی’’ مثنوی معنوی‘‘ ہے یہ کتاب مولانا رومی کی مشہور مثنوی ہے، جو فارسی زبان میں وجدانی تاثر اور اندورنی شدت کی بنا پر لکھی گئی ہے، دراصل یونانی فلسفہ عقلیات مولانا رومی کے دور میں جس طرح چھا چکا تھا اور کلامی مباحث خشک فلسفیانہ موشگافیاں مسلمانوں کی ذہنوں ، دینی مدرسوں اور علمی اداروں میں جس طرح سرایت کر چکی تھیں، اس سے ہٹ کر کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اس صورت حال سے متاثر ہو کر مولانا روم نے مثنوی لکھنی شروع کی جو اپنے اندر قوت حیات کے ساتھ ادبی بلندی، معانی کی جدت ، حکیمانہ مثالوں اور نکتوں کے بیش بہا خزنیے سمٹیے ہوئے ہے، اس کتاب نے اس دور سے لے کرآج تک ہزاروں انسانوں کو متاثر کیا ہے ان کے قلب و نظر میں تبدیلی کی ہے اسلامی کتب خانے میں اپنے انداز پر یہ ایک بے نظیرو بے مثال کتاب ہے، اس دور جدید میں ، جبکہ اقبال کو یورپ کے مادی و عقلی، بے روح و بے خدا افکار و خیالات سے سابقہ پڑا،اورمادہ و روح کی کشمکش اپنے پورے عروج کے ساتھ سامنے آئی تو اس قلبی اضطراب اور فکری انتشار کے موقع پر اقبال نے مولانا روم کی مثنوی سے مدد لی، اس کشمکش میں مولانا روم نے ان کو بہت کچھ سہارا دیا، یہاں تک کہ اقبال نے پیر روم کو اپنا کامل رہنما تسلیم کر لیا، اور صاف صاف اعلان کر دیا کہ عقل و خرد کی ساری گتھیاں جسے یورپ کی مادیت نے اور الجھا دیا ہے، ان کا حل صرف آتشِ رومی کے سوز میں پنہاں ہے، اور میری نگاہِ فکر اسی فیض سے روشن ہے، اور آج یہ اسی کا احسان ہے کہ میرے چھوٹے سے سبو میں فکر و نظر کا ایک بحر ذخار پوشیدہ ہے:۔ علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کافسوں اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں مولانا روم سے اپنی اس محبت و عقیدت کا اظہار اقبال نے بار بارکیا ہے اورانھیں ہمیشہ ’’پیر روم‘‘(۱) کے نام سے یاد کرتے ہیں:۔ صحبت(۲) پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سربکف اقبال اس بیسویں صدی کے خالص صنعتی و مادی دور میں پھر کسی ’’رومی ‘‘کے منتظر ہیں، ان کے نزدیک مادیت کا رنگ عشق کی بھٹی ہی میں صاف ہوسکتا ہے، اور اس کے لیے آتشِ رومی کی ضرورت ہے:۔ نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی لیکن اقبال مایوس نہیں ہیں بلکہ اپنے کشتِ ویراں سے بہت ہی پرامید ہیں۔ نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو، تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی یہی وہ پانچ عناصر ہیں جنھوں نے اقبال کی شخصیت کی تخلیق کی، اور یہ عناصر دراصل اسی دوسرے مدرسہ کے فیض و تربیت کے نتائج ہیں جس نے اقبال کو مضبوط عقیدہ، قوی ایمان، سلیم فکر اور بلند پیغام عطا کیا، اور جس نے اقبال کو ’’اقبال‘‘ بنایا۔ نقوش اقبال، ادارہ نشریات اسلام کراچی، ۱۹۷۲ء لاہور حواشی ۱۔ پیر رومی مرشد روشن ضمیر ۔ کا روانِ عشق ومستی را امیر ۔ اقبال ۲۔ یعنی مطالعہ مثنوی ملفوظات اقبال یوسف سلیم چشتی علامہ اقبال مرحوم سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ ۱۹۲۵ء سے۱۹۳۸ء تک جاری رہا۔ ان سے ملاقات کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ اس زمانے میں مجھے فلسفہ، الہٰیات اور علم کلام کے مسائل سے بڑی دلچسپی تھی۔ ان تینوں علوم میں ہستی باری کا مسئلہ بنیادی اور سرفہرست ہے لیکن کانٹ نے اپنی ’’تنقید عقل خالص ‘‘میں اثبات واجب الوجود پر جس قدر اَدِلہّ حکما اور متکلمین نے قائم کی ہیں، سب کا ابطال کر دیا ہے۔ اس لیے میں حضرت علامہ سے ملنے گیا اور ان سے عرض کی کہ کیا آپ کے ذہن میں اثبات واجب پر کوئی ایسی دلیل ہے جو ناقابل رد ہو؟انہوں نے کہا کہ عقل انسانی اس معاملے میں عاجزہے۔ خدا کی ہستی کا یقین دلائل عقلیہ سے پیدا نہیں ہو سکتا،اس کے لیے مشاہدہ باطنی درکار ہے۔ عقل یہ تو بتا سکتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی ،خالق یاصانع ہونا چاہیے لیکن اس کا اثبات نہیں کر سکتی کہ یہ بات اس کے حیطۂ اقتدار سے باہر ہے۔ اس کے حکما کی تقلید کے بجائے ارباب کشف و شہود یعنی صوفیائے کرام کی پیروی کرو۔ بالفاظ دیگر رازی کو چھوڑ کر رومی کو اپنا راہنما بنائو۔ اس ملاقات کے بعد ان سے رسم و راہ کا سلسلہ قائم ہوگیا اورکچھ عرصے کے بعد میں نے ان کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس مطالعے کی بدولت مجھے ان کی شخصیت سے بڑا لگائو پیدا ہوگیا۔ اور جہاں تک ممکن ہو سکا میںنے ان سے استفادہ کیا ۔چونکہ وہ یہ بات پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے ارشادات ان کے سامنے بیٹھ کر، قلمبند کروں اس لیے گھر آکر جو کچھ ذہن میں محفوظ رہتا تھا اسے ایک ضخیم نوٹ بک میں لکھ لیا کرتا تھا۔ ۱۹۵۵ء میں دریائے راوی کے سیلاب کا پانی میرے گھر میں بلائے بے درماں کی طرح داخل ہوا اور صد ہا کتابوں کے ساتھ وہ نوٹ بک بھی برباد ہوگئی۔یہ ملفوظات جو میں ذیل میں درج کر رہا ہوں ان متفرق کاغذات اور پاکٹ بکس میں مندرج تھے جو ایک ٹرنک میں محفوظ تھیں۔ ۱۔ ۱۹ مارچ ۱۹۳۰ء ۶ بجے شام، میکلوڈ روڈ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی کہ یاجوج اور ماجوج سے کون اشخاص مراد ہیں؟ فرمایا کہ یہ عربی زبان کے الفاظ نہیں ہیں، بلکہ بابلی زبان کے الفاظ گاگ اور میٹ گاگ کا معرب ہیں۔ بابل (عراق)میں دو طبقے آباد تھے ایک وہ جس کے پاس زمین تھی دوسرا وہ جو اس سے محروم تھا۔ جدید اصطلاح میں جاگیر دار اور مزدور طبقہ کہہ سکتے ہیں۔ پھر میں نے حکیم اسپنوزا کا تذکرہ چھیڑا تو علامہ نے فرمایا کہ میری رائے میں اس کی اخلاقی تعلیمات، جناب مسیحؑ کی تعلیمات سے برتر ہیں۔ یہودی قوم میں صرف دو آدمی پیدا ہوئے جن کا نام قیامت تک زندہ رہے گا، یعنی جناب مسیحؑ اور حکیم اسپنوزا۔پھر فرمایا کہ حکیم اسپنوزا ایک اونچی قسم کی وحدت الوجود کا قائل تھا۔ جناب مسیحؑ کی ولادت بھی عام انسانوں کی طرح ہوئی تھی۔ میرا یہی خیال ہے، مذہب کی بنیاد عقل پر نہیں بلکہ باطنی تجربے پر ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اپنے تجربے کو دوسروں کو سمجھانا چاہتا ہے تو وہ عقل سے کام لے سکتا ہے۔ یعنی ہم عقل کی مدد سے اپنے تجربے کو دوسروں کے لیے قریب الفہم بنا سکتے ہیں۔ مذہب کی غایت ’’حضور ‘‘ ہے اور یہ کیفیت شعور کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ انسان اس کیفیت کوبذریعہ الفاظ بیان نہیںکر سکتا۔ خدا کا کامل طور سے ادراک کر لینا، عقل کے بس کی بات نہیں ہے۔ انسانی ذہن خدا کا کامل تصور نہیں کر سکتا۔ وہ صرف اس کے مظاہر کا تصور کر سکتا ہے۔ یعنی خدا کا ظہور جس طرح فطرت میں ہوتا ہے بس اس کا ادراک کر سکتا ہے۔ ۲۔ ۳۰ ستمبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔بقائے روح کے مسئلہ پر گفتگو میں فرمایا: ’’انسان کو اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی لازم ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو مفت نہیں ملتی۔ صرف وہ لوگ اس نعمت کو حاصل کر سکیں گے جو اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں گے۔ سکرات الموت میں بھی کوئی مصلحت ضرور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی بدولت خودی میں یہ طاقت پیدا ہو جائے کہ وہ انتشار سے محفوظ رہ سکے۔‘‘ پھر فرمایا:’’شوپن ہاور کا نظریہ یہ ہے کہ آرزو منبع شر ہے،لیکن میری رائے میں یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔ خواہشات کو فنا مت کرو بلکہ ان کو احکام شرع کے تابع کردو‘‘۔ ۳۔ یکم اکتوبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہُوا۔ وحدت الوجود کے مسئلے پر گفتگو میں فرمایا :’’ایک صوفی جب اپنی باطنی واردات کا بیان کرتا ہے تو اسے وحدت وجود سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ ذات واحد، کائنات کی اصل ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب تصوف کے عنصر سے خالی نہیں ہے حتیٰ کہ سائنس میں تصوف کا رنگ جھلکتا ہے۔‘‘ ’’اسپنوزا، فلسفی تھا، صوفی نہیں تھا کیونکہ صوفی وہ ہے جو وراء العقل ذرائع سے علم حاصل کرتا ہے۔ اسپنوزاعقلی اعتبار سے حلول (Pantheism)کا قائل تھا۔ لیکن شیخ اکبر ابن عربی حلول کے قائل نہیں تھے کیونکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔‘‘ ختم نبوت کے عقیدے پر گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ ’’ختم نبوت کے عقیدے کی ثقافتی قدر و قیمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ کے لیے اعلان فرما دیا کہ آئندہ کسی انسان کے ذہن پر کسی انسان کی حکومت نہیں ہوگی۔ میرے بعد کوئی شخص دوسروں سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو بلاچوں و چرا تسلیم کر لو۔ ختم نبوت ایسا عقیدہ ہے جس کی بدولت انسانی علم کے دائرے کو وسعت نصیب ہوگئی۔ ’’علی محمد باب کی دریافت یہ ہے کہ جہاد منسوخ ہوگیا۔ صاحب الہام کے لیے کسی گرامر (صرف و نحو)کی پابندی لازمی نہیں ہے۔ یعنی الہام ایسی عبارت میں بھی ہو سکتا ہے جو گرامر کے لحاظ سے غلط ہو۔‘‘ پھر فرمایا ’’حقیقت کا علم انسان کوکئی طریقوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ مثلاً مشاہدات حسی یا مشاہدہ باطنی (واردات قلبی ) ’’میں نے کبھی ایسا کوئی شعر نہیں کہا جسے اپنے قلب میں محسوس نہ کیا ہو، اور محض عقل کے زور سے کہہ دیا ہو۔ یعنی میرے اشعار میںفکر اور جذبہ دونوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔‘‘ ۴۔۳ اکتوبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی کہ مذہب کا دارومدار عقل پر ہے یا جذبات پر؟ ’’یہ سوال ہی غلط ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ جب ایغو (خودی)اپنے گردوپیش کی دنیا کا جائزہ لیتی ہے تو اس میں جذبہ،شعور اور ارادہ، تینوں کار فرما ہوتے ہیں۔مذہب کا تعلق انسان کے ان تینوں پہلووں سے ہے۔ کوئی جذبہ ایسا نہیں ہے جس میں خودی کے دوسرے پہلو (شعور اور ارادہ)شامل نہ ہوں۔انسان خالص جذبات یا خالص شعور یا خالص ارادے سے ناآشنا ہے۔ مثلاً علم الدین شہید کا جذبہ اس کی مکمل شخصیت کی گہرائی سے ابھرا تھا۔ اس میں شعور اور ارادہ بھی شامل تھا۔ ’’ایمان دراصل عمل کی استعداد کا نام ہے۔ اسلام ایسے ایمان کو پسند نہیں کرتاجو انسان کو عمل پر آمادہ نہ کر سکے۔’’ ’’وحی میں بھی شعور اور ارادے کے عناصر شامل ہوتے ہیں‘‘۔ جو لوگ مجھ سے ملنے آتے ہیں ان میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا دل سوز دروں سے بیگانہ ہوتا ہے یعنی وہ متکلم نعش‘‘ہوتے ہیں۔’’جو آدمی دوسروں کے لیے اسوہ (نمونہ)ہوتا ہے اس کی کوئی ’’پرائیوٹ زندگی نہیں ہوتی‘‘۔ یعنی وہ خلوت اور جلوت دونوں میں یکساں زندگی بسر کرتا ہے بالفاظ دیگر اس کے ظاہر اور باطن میں مطابقت ہوتی ہے۔ ۵۔ اکتوبر ۱۹۳۰ء ۶ بجے شام میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی کہ مذہب اور نظریہ حلول (Pantheism)میں بنیادی فرق کیا ہے؟ فرمایا کہ نظریہ حلول کی رو سے خداے مشخص کا وجود نہیں ہے۔ جبکہ مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ خدا ایک شخص (Person)ہے جو سنتا ہے، جواب دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہب میں خدا کا تصور انسانی خودی کے رنگ میں کیا جاتا ہے، اور ہم تصور کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارا تصور طاقت (Force)ہمارے تصور ارادہ سے ماخوذ ہے ’’آخر الامر اس بات کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ صرف باطنی تجربہ ہی کسی مذہب کی صداقت کا معیار ہے۔ ہاں جب تم اپنے باطنی تجربے کو دوسروں کو سمجھائو گے تو عقل سے کام لے سکتے ہو۔ الہٰیات دراصل اپنے باطنی تجارب کو دوسروں کو بذریعہ عقل سمجھانے کادوسرا نام ہے۔ میں نے اسی زمانے میں خطباتِ مدراس کا پہلی مرتبہ مطالعہ کیا تھا۔ ان خطبات کی خوبیاں بیان کیں تو فرمایا ’’اگر یہ کتاب المامون کے عہد میں لکھی گئی ہوتی تو تمام دنیائے اسلام میں ایک غلغلہ برپا ہو جاتا’’۔ پھرفرمایا ’’دراصل میری یہ کتاب آیندہ فلسفہ اسلام پر قلم اٹھانے والوں کے لیے ایک مقدمے کا کام دے گی۔ ۶۔۲۱ اکتوبر ۱۹۳۰ئ۱۔۵ بجے شام میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملوکیت کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ میں نے یہ دریافت کیا کہ اسلام ملوکیت کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟فرمایا’’اسلام کو ملوکیت سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ وہ ملوکیت کی ہر صورت کو مذموم قرار دیتا ہے۔ اسلام میں ملوکیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر فرمایا ملوکیت کی بنیاد انسان کا یہ جذبہ ہے، کہ وہ طاقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ دوسروں پر حکومت کر سکے اور اس طاقت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرا اس میں شریک ہو۔ِ ملوکیت کا طریق کار یہ ہے کہ بادشاہ،قوم میں تقسیم اور تفریق کا رنگ پیدا کرتا ہے تاکہ وہ ثالث کا فرض انجام دے سکے اور اس طرح متخاصم جماعتوں کو یقین دلاتا ہے کہ تمہاری عافیت کے لیے میرا وجود ضروری ہے۔ ملوکیت کا ثمرہ یہ ہے کہ محکوم قوم میں (الف) فسق وفجور پیدا ہوتا جاتا ہے۔ (ب) اعلیٰ ادنیٰ اورادنیٰ اعلیٰ ہو جاتے ہیں (ج) محکوم قوم رفتہ رقتہ اخلاق حسنہ سے عاری ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ملکہء سبا کا قول لائق مطالعہ ہے: قالت ان الملوک اذا دخلواقریۃ افسلوھا وجعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ (النمل۔ ۳۳) (ترجمہ) ’’ملکہ نے کہا کہ بلاشک جب بادشاہ کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس میں فساد برپا کرتے ہیں (تباہ کر دیتے ہیں) اور اس شہر کے معزز افراد کو ذلیل کر دیتے ہیں (تاکہ وہ سر نہ اٹھا سکیں)۔ ۷۔۱۳دسمبر ۱۹۳۰ء میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خدا اور انسان کے باہمی رشتے پر گفتگو چلی تو علامہ نے فرمایا: ’’حقیقی معنی میں صرف خدا ہی موجود ہے۔ انسان موجود ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ چو موج می تپد آدم بجستجوئے وجود ہنوز تا بہ کمر درمیانہ عدم است پھر فرمایا:''God is in effort as seen through man" پھر فرمایا:’’خدا کے سوا اور کوئی شے حقیقی معنی میں موجود نہیں ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اس بات کی تائید نہ فلسفے سے ہو سکتی ہے نہ الہٰیات سے کہ خدا وہاں ہے اور انسان یہاں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا اور انسان مدمقابل ہستیاں نہیں ہیں: اگر خواہی خدا را فاش بنیی خودی را فاش تر دیدن بیاموز اگر زیری ز خود گیری زبر شو خدا خواہی؟ بخود نزدیک تر شو ہیگل کا نظریہ یہ ہے کہ ’’میرا وجود خدا کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اس کا وجود میرے لیے‘‘۔ پھر فرمایا ’’موت بھی زندگی ہی کا ایک رخ (Aspect) ہے۔ اس لیے اس سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ’’کوئی شخص ہمہ اوست کا مفہوم لفظوں کے ذریعے سے دوسرے کو نہیں سمجھا سکتا۔ اس کا تعلق وجدان سے ہے نہ کہ ادراک سے۔‘‘ ’’اگر ہم خدا، خودی یا کسی اور شے کو جوہر قرار دیں تو ان میں سے کسی کی ہستی کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ صفات، جوہر میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی وہ قائم بذات غیر ہیں، اس لیے کوئی غیر یعنی جوہر ضرور موجود ہے۔ حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اس لبے ہم خدا یا خودی کو جوہر نہیں کہہ سکتے‘‘۔ ۸۔ ۴ستمبر ۱۹۳۱ء یوم جمعہ۔۵بجے شام ۔میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ موصوف یکم ستمبر کو لاہور سے روانگی کا قصد کر چکے تھے مگر فوری علالت کی وجہ سے التوا واقع ہو گیا۔ میںنے عرض کی کہ آپکے الٰہ آبادکے خطبہ ء صدارت کو میں اپنے اشاعت اسلام کالج کے طلبہ کو سبقاً سبقاً پڑھا رہا ہوں۔ فرمایا تم نے اچھا کیا، مگر اس میں دوامی قدروقیمت(Permanent Value) کی چیز تو صرف شروع کا حصہ ہی ہے، یعنی اسلام اور قومیت۔ اسے خاص توجہ سے پڑھنا چاہیے اور اگر ہو سکے تواس کی شرح لکھنی چاہیے۔ پھر فرمایا ’’شاید مسلمانوں نے کسی سیاسی خطبہ کو اس ذوق وشوق سے نہیں پڑھا ہو گا جیسے اس خطبے کو پڑھا ہے، اور نہ اس قدر زیادہ افراد نے کسی خطبے کو اس قدر لائق اعتنا سمجھا ہو گا‘‘۔ میں نے عرض کی کہ ایمان اور عقل میں کیا رشتہ ہے؟ فرمایا ’’دونوں جداگانہ چیزیں ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ بعض کی رائے میں عقل بمنزلہ خادم ہے اور ایمان مخدوم ہے، وغیرہ۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ ان کو مخلوط نہ کیا جائے، دونوں اپنی اپنی جگہ رہیں۔ حضور انور سے جبریل علیہ السلام نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اسلام یہ ہے کہ تو زبان سے کلمہ ء شہادت ادا کرے، نماز پڑھے، روزہ رکھے، زکوٰۃ دے، اور اگر استطاعت ہو تو حج کرے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر، ملائکہ پر، کتابوں پر، رسولوںپر، قدر خیرو شر من اللہ پر اور یوم آخرت پر۔ پھر انہوں نے پوچھا احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر یہ حالت ممکن نہ ہو تو پھر یہ محسوس کر گویا وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔ حدیث بیان کرنے کے بعد علامہ نے فرمایا کہ ’’یہ اسلام ہی کے تین مراتب ہیں اور ایمان اور احسان میں بہت تھوڑا سا فرق ہے۔ یہ احسان والی کیفیت ہی دراصل اسلام کی روح ہے اور کیفیت ایمان عمل صالح سے پیدا ہوتی ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’ایمان کے جس قدر ارکان ہیں وہ سب کے سب، عقل کے حیطہء اقتدار سے باہر ہیں۔ عقل زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہے کہ ان کے ممکن یا غیر ممکن ہونے کا فتویٰ دیدے مثلاً: (الف) Whether the concept of "God" is logically possible or not. یعنی تصور ذات باری عقلاً ممکن ہے یا نہیں؟ اب ظاہر ہے کہ قیامت، حشرونشر، وزن اعمال، جنت ونار وغیرہ کا ہمیں کوئی شخصی تجربہ نہیں ہے۔ اس لیے عقل ان امور سے متعلق نفیاً یا اثباتاً کچھ نہیں کہہ سکتی۔ وہ تو صرف مادیات میں چل سکتی ہے۔ یا ان باتوں میں جو ہمارے تجربے یا مشاہدے میںآچکی ہیں۔ مثلاً جزو اپنے کل سے چھوٹا ہوتا ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’جیسا کہ میں کئی دفعہ واضح کر چکا ہوں، ہم خدا کو مجرد عقل سے نہیں پا سکتے(عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی)اسے باطنی مشاہدے یا تجربے کی بدولت جان سکتے ہیں اور مذہب جیسا کہ ارباب علم جانتے ہیں تجارب کے ایک طویل سلسلے کا نام ہے۔چونکہ خدا لامتناہی(Infinite) ہے اور وہ ہر لمحہ نئی تجلی فرماتاہے کماقال:۔ کل یوم ھو فی شان (۲۷۔۲۹) ’’یعنی حق تعالیٰ ہر لمحہ اپنی ذات کی نئی تجلی کرتا رہتاہے۔ اس لیے اس کی ہستی سے متعلق ہمارے مشاہدات اور تجارب باطنی بھی لامتناہی ہیں۔ نیز، یہ ضروری تو نہیں کہ ہمارا آج کا تجربہ کافی یا آخری یا معیاری قرار پائے۔ عین ممکن ہے کل ہمیں بہتر اور برتر تجربہ حاصل ہو جائے۔ پس ثابت ہوا کہ ایمان ایک ترقی پذیر کیفیت ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ ایمان میں کمی، بیشی ہو سکتی ہے:۔ واذاتلیت علیھمٰ ایتہ زادتھم ایمانا (۱۱:۶۴)اور جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو زیادہ کر دیتی ہیں ان کے ایمان کو۔ پھر فرمایا’’ ہاں عقل کو اس حالت میں مذہبی عقائد یا مسلمات پر تنقید کا حق حاصل ہے جب وہ مسلمات، تحکمانہ (Dogmatic) رنگ میں پیش کئے جائیں مثلاً فلاں بات پر ایمان لے آئو ورنہ نجات نہیں ہو گی۔ الحمد اللہ اسلام میں کوئی Dogma نہیں ہے، یعنی اسلام کسی بات کو زبردستی نہیں منواتا۔ قرآن جس قدر عقائد تلقین کرتاہے، ان کی راستی پر دلائل عقلیہ مرتب کرتا ہے۔ پھر فرمایا’’ اگر ایک شخص کو اپنی ذات میں خدا کی ہستی کا تجربہ یا مشاہدہ ہو گیا ہے تو پھر عقل کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس میں دخل دے۔ اور سچ پوچھو تو عقل کو اس باطنی تجربے اور مشاہدے سے سروکار بھی کیا ہو سکتا ہے؟ یہ تجربہ تو عقل کی رسائی سے بالاتر ہے۔ جب کوئی شخص اچھا شعر کہتا ہے یا اچھی تصویر بناتا ہے تو اس پر تنقید کے لیے کسی مہندس یا منجم کے پاس نہیں جاتا بلکہ کسی شاعر یا مصور کے پاس جاتا ہے۔ لہٰذا ایک فلسفی یا منطقی،کسی باطنی مشاہدے پر کس طرح تنقید کر سکتا ہے۔ یاد رکھو! مذہبی تجارب(مشاہدات باطنی) عقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ آخر میں عودالی المقصود کے انداز میں فرمایا کہ ایمان اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو عمل پر آمادہ کر دے۔ یعنی مومن وہ ہے جس سے اعمال صالحہ خلوص قلب کے ساتھ سرزد ہوں، نہ اس لیے کہ وہ دوزخ سے خوفزدہ ہے یا جنت کا آرزو مند ہے۔ بلکہ اس لیے کہ اس کی ذہنیت ہی ایسی ہو گئی ہے کہ اگر وہ اعمال حسنہ ادا نہ کرے تو اسے راحت قلبی نصیب نہیں ہو سکتی۔ بالفاظ دیگر نکو کاری اس کی طبیعت ثانیہ بن جائے۔ کم از کم میں اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ ایک آدمی مومن بھی ہو اور بد کار بھی ہو۔ ہاں ایک مسلم گناہ کا ارتکا ب کر سکتا ہے۔ ۹۔ ۲۷ مئی ۱۹۳۲ئ،۸ بجے دن،میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ڈرائینگ روم میں تنہا بیٹھے ہوئے تھے۔ میں رسالہ ’’نگار‘‘ لکھنئو بابت ماہ مئی ساتھ لایا تھا۔ اس میںان کی شاعری پر فنی نقطہ نگاہ سے تنقید کی گئی تھی۔ اسے پڑھ کر فرمایا ’’ خدا جانے مسلمانوں کو یہ توفیق کب حاصل ہوگی کہ وہ وزن اور بحر سے بالاتر ہو کر معانی تک پہنچنے کی کوشش کریں گے‘‘۔ اس کے بعد دیر تک شاعری کے مقصد پر گفتگو کی ۔ پچھلی ملاقات میں‘ میں نے عرض کی تھی کہ اسرار خودی کے بعض اشعار آپ سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ چونکہ اس امر کی اجازت دے دی تھی، اس لیے آج اسرارخودی بھی ساتھ لایا تھا۔ اشارہ پا کر میں نے پہلا مصرع پڑھا: پیکر ہستی ز آثار خودی است فرمایا ’’ہر شے میں خودی موجود ہے۔ پتھر ہی کو لے لو۔ اگر تم کمزور ہو تو تم سے اٹھائے نہیں اٹھے گا۔ اس میں وزن ہے اور یہی اس کی خودی ہے۔ درخت کو کاٹو تو مشکل سے کٹے گا۔غرض ہر شے کسی نہ کسی رنگ میں قوت مزاحمت (Power of resistance)رکھتی ہے اور یہی اس کی خودی ہے۔ یہی اس کی ہستی کا ثبوت ہے، کہ وہ ہے۔ فرمایا کہ ایغو کے لیے غیر ایغو(Non ego)کا ہونا ضروری ہے، جب تک آپ غیر کو ثابت نہ کریں،ایغو کو ثابت نہیں کر سکتے۔ ایغو کو مشخص کرنے کے لیے اسے اغیار سے متمیّز کرنا ضروری ہے،اور اس امتیاز کے لیے دوسری اشیا کا وجود ضروری ہے جن کے مقابلے میں یا موجودگی میں ذہن کسی خاص شے کے وجود کا تصور کرسکتا ہے۔ الغرض انا کے لیے غیر کا وجود ضروری ہے: باطل از قوت پذیرد شان حق فرمایا کہ قوت ایسی شے ہے کہ اگر یہ حاصل ہوجائے تو باطل میں بھی حق کی ایک شان پیدا ہو جاتی ہے اور اس میں شک بھی کیا ہے۔ نصرانیت کو دیکھ لو۔ چونکہ اس وقت اس کے پیروئوں کو قوت حاصل ہے، اس لیے بہتوں کے حق میں باعث مزلت اقوام نبی ہوئی ہے: زندگانی محکم از تقنطوا است فرمایا ’’یاد رکھو غم اور خوف یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں کہ خودی کو تباہ کر دیتی ہیں۔ اور ایک مسلمان جب تک ان دو عیبوں سے پاک نہ ہوجائے حقیقی معنی میں مسلمان نہیں ہو سکتا اور ان کے ازالے کی صورت یہ ہے کہ انسان، توحید الٰہی کو اپنے دل میں پختہ کر لے، بایں طور کہ پھر شک دل میں راہ نہ پا سکے۔ یعنی اسے یہ یقین ہو جائے کہ جب تک خدا نہ چاہے، کوئی طاقت مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ پھر اس کے دل میں نہ حزن راہ پاسکتا ہے نہ خوف۔اگر غیر اللہ کا خوف کسی درجے میں بھی دل میں موجود ہے تو خودی کبھی ہرگز نہیںابھر سکتی: بیم غیر اللہ عمل را دشمن است فرمایا ’’ہم جملہ مظاہر فطرت سے ڈرتے ہیں، زلزلے سے آگ سے، امراض سے، سانپ سے، تاریکی سے، شیر سے، وغیرہ۔ محض اسی لیے کہ ہم موت سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں یہ یقین ہوجائے کہ موت ایک مرحلہ ہے جو روحانی ترقی کے سلسلے میں لازماً پیش آتا ہے تو ہم موت سے خوفزدہ نہیں ہو سکتے ‘‘۔ موت بھی زندگی ہی کی ایک شان (Aspect)ہے۔ موت زندگی کے خاتمے کا نام نہیں ہے بلکہ موت وہ دروازہ ہے جس میں سے ہو کر ہم نئی دنیا میں داخل ہوتے ہیں‘‘۔ ’’کائنات میں کوئی شے تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ دنیا کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کائنات سراب (Illusion)ہے۔ بلکہ یہاں جو کچھ ہے مومن کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا مطمح نظر بہت بلند ہوتا ہے۔ وہ مادی ساز وسامان سے مطلق مرعوب نہیں ہوتا، کیونکہ ہرشے فانی ہے‘‘۔ ’’اگر ہم یہ یقین کر لیں کہ کائنات میں یا میں ہوںیا خدا ہے‘ تیسری کوئی ہستی نہیں ہے، تو پھر خوف کیسا؟ یعنی ہم مومن اس وقت بن سکتے ہیں جب خدا کے سوا کسی کا وجود ہماری نگاہ میں نہ سمائے۔ رمز قرآں از حسینؓ آموختیم فرمایا کہ تعلیمات قرآنی کی روح یہ ہے کہ مومن وہ ہے جو باطل کا مقابلہ کرے اور مطلق ہراساں نہ ہو۔ یعنی ایسے موقع پر نفع یا نقصان کا خیال دل میں نہ لائے، شہید کو شہید اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے معتقدات کی سچائی پر اپنے خون سے گواہی دیتا ہے۔ ایک فرنچ مصنف نے لکھا ہے کہ اسلام ایک آسان مذہب ہے۔ والٹیر نے اس کے جواب میں یہ کہا کہ اسلام آسان مذہب نہیں ہے، دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنا، موسم گرما میں روزے رکھنا، زکوٰۃ دینا اور حج کرنا، یہ باتیں آسان نہیں ہیں۔ میں نے دل میں کہا اسلام کی حقیقت سے نہ معترض واقف ہے نہ مجیب بے شک اسلام نے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کا حکم دیا ہے مگر اسلام کا نصب العین ان ارکان سے بالاتر ہے۔ نماز پڑھنی آسان ہے مگر باطل کے مقابلے میں صف آرائی ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جان دے دے مگر فرعون کے سامنے سر نہ جھکائے: ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست ہمارے زمانے میں انور پاشاشہید نے اسی اصول پر عمل کیا۔ انہوں نے ترکستان میں آزاد اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ مشیت ایزدی کو منظور نہ تھا اس لیے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر انہوں نے روسیوں کے آگے سر تسلیم خم نہیں کیا۔ بلکہ مردانہ وار موت کو لبیک کہا اور ابدی زندگی حاصل کرلی۔ در جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ہمچو مرداں جاں سپردن زندگیست ۱۰۔ ۳جون ۱۹۳۲ئ، یومِ جمعہ، میکلوڈ روڈ‘۵ بجے شام علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ باہر بیٹھے تھے اور ایک صاحب سے اپنی کوٹھی کے لیے زمین کی خریداری کے مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے۔ میں خاموش بیٹھا رہا۔ جب وہ صاحب چلے گئے تو آپ نے حقے کے چند کش لیے اور میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا ’’مجھے مسلمانوں کی حالت پر رونا آتا ہے۔ ان میں غیرت کا مادہ بہت کم رہ گیا ہے۔ اسی لیے انہیں اب اتنی تمیز بھی نہیں ہے کہ جس کی وہ خوشامد کرتے ہیں اس سے انہیں کچھ فائدہ بھی حاصل ہوگا یا نہیں۔ جس شخص کو صاحب اقتدار دیکھتے ہیں اس کی خوشامد کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ مسئلہ کہ جسے وہ فائدہ سمجھتے ہیں دراصل اس کی قیمت (Value) کیا ہے، اس قدر اونچا کہ اس تک ان کے ذہنوں کی رسائی بھی نہیں ہو سکتی۔ اس کے بعد مجھے پڑھنے کے لیے اشارہ کیا۔ میں نے یہ شعر پڑھا:۔ شعلہ ہائے او صد ابراہیمؑ سوخت تا چراغِ یک محمدؐ برفروخت فرمایا ’’اس سے پہلے یہ شعر آچکا ہے: عذرِ ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خَلق و تکمیلِ جمالِ معنوی مطلب یہ ہے کہ فطرت بظاہر خو نریزی کرتی ہے لیکن جمال باطنی کی تکمیل اسی سے ہوتی ہے۔ جب ملائکہ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی‘ خلافت ارضی ہمیں عطا کی جائے۔ انسان تو بہت خصیم اور خونریز ہے اور ہم ہر وقت آپ کی تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں تو اللہ نے ان کی تردید تو نہیں کی مگر یہ فرمایا:اِنّیْ اَعْلَمُ مَا لَاْ تَعْلَمُوْن یعنی خدا نے کائنات کی تخلیق ایک خاص نہج پر کی ہے۔خصومت اور سفک دم، دونوںباتیں انسان کی فطرت میں ودیعت کی ہیں۔ اگر وہ چاہتا تو تکمیل جمال معنوی کے لیے کوئی اور صورت پیدا کر سکتا تھا، مگر اس نے یہی پسند کیا کہ جدوجہد اور جنگ و جدل سے جمال کی تکمیل ہو۔ اسی لیے اس نے فرشتوں کو ا س کام کے لیے منتخب نہیں کیا کیونکہ ان کے اندر خصومت اور خونریزی کا مادہ نہیں۔ جبکہ پیکار اور جدال انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ فطرت میں بظاہر خونریزی اور تباہ کاری نظر آتی ہے۔ بہت ضیاع ہوتا ہے اس کے بعد کوئی عمدہ شے تیار ہوتی ہے۔ مثلاً لاکھوں پھول آتے ہیں، اکثر ضائع ہوجاتے ہیں، چند پھولوں پر پھل لگتے ہیں۔ لاکھوں بچے پیدا ہوتے ہیں اکثر مر جاتے ہیں، کمتر پروان چڑھتے ہیں۔ اسی طرح خودی کے شعلے نے سیکڑوں ابراہیم پیدا کر کے فنا کر دیے۔ تب جا کر ایک انسان کامل پیدا ہوا۔ یہ صورت اس لیے مدنظر ہوئی کہ انسان جدوجہد کرنے کے بعد تکمیل جمال کر سکے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الّٰذی خَلَقَ فَسَوّٰی وَالّٰذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی یعنی پیدا کیا، پھر درست کیا (مناسب حال صورت بخشی)پھر اندازہ مقرر کیا کہ اس حد تک ترقی ممکن ہے۔ پھر اس حد تک پہنچنے کے لیے ہدایت عطا کی۔ اس کے بعد آزادی عطا کی کہ جدوجہد کرے۔ زندگی از اول تا آخرعمل سے عبارت ہے سکون موت ہے۔ شعلہ خود در شرر تقسم کرد جز پرستی عقل را تعلیم کرد فرمایا ’’عقل ‘کل کو نہیں دیکھ سکتی صرف جز کو دیکھ سکتی ہے کیونکہ وہ زنجیر ی زمان و مکان ہے۔ کل کو صرف وجدان پا سکتا ہے، کیونکہ وجدانی حالت میں نفس ناطقہ ،قید زمان و مکان سے آزاد ہو جاتا ہے: علم از سامان حفظ زندگی است فرمایا :’’علم و فن کا مقصد اصلی، محض آگاہی نہیں ہے بلکہ یہ کہ انسان علم کی بدولت اپنی زندگی اور خودی کی حفاظت کے طریقوں سے آگاہ ہوجائے۔ مذہب کا مقصد بھی یہی ہے۔ جو لوگ ’’فن برائے فن‘‘کے قائل ہیں، وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ فلسفہ، آرٹ اور مذہب، اگر خودی کی حفاظت میں معاون نہ ہوں تو بالکل بیکار ہیں: در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار فرمایا ’’خودی کی تربیت میں پہلا مرحلہ اطاعت ہے۔ اسی لیے اسلام کے معنی ہیں احکام شرع کی بلا چون و چرا اطاعت کرنی۔ جب انسان احکام شرع کی اطاعت کرتا ہے تو اس میں اختیار کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے یعنی وہ صاحب اقتدار ہو جاتا ہے۔ حقیقی آزادی (حریت)احکام الٰہی کی تعمیل ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ کائنات پر نظر ڈالو۔ جو شے قیمتی اور معزز ہے وہ اطاعت ہی کی وجہ سے ہے ۔ ہوا جب پھول میں مقید ہوتی ہے تو خوشبودار بن جاتی ہے۔ اسی طرح مرد مومن، اطاعت سے مراتب عالیہ حاصل کرتا ہے۔ اس لیے مسلمان کو سختی، آئین کی شکایت کرنی زیبا نہیں ہے۔ اور نہ آئین میں تاویل کرنی چاہیے۔ اطاعت سے ضبط نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ انسان دو عناصر سے مرکب ہے‘ خوف اور محبت۔ ان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دنیا کی طرف مائل رہتا ہے اور یہ دنیا طلبی اسے فحشاء اور منکرات پر ابھارتی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ اپنے دل میں راسخ کر لے کہ اللہ کے سوا اور کوئی ہستی مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ ’’لا الہ‘‘ کا عصا اس قدر طاقتور ہے کہ خوف اور محبت کے طلسم کو چشم زدن میں باطل کر دیتا ہے۔ دیکھ لو! حضرت ابراہیمؑ نے اپنے فرزند کے گلے پر چھری رکھ دی، کیوں؟ محض اس لیے کہ انہیں اللہ کے سوا اور کسی سے محبت نہیں تھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو قیامت تک مسلمانوں کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا کہ مومن وہ ہے جس کے دل میں خدا کے سوا اور کسی کی محبت نہ ہو۔ خالد جانباز کو ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب اسی چیز نے دلوایا کہ وہ خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ آخر میں فرمایا کہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ زبان سے مت کہو بلکہ دل سے کہو۔ یعنی اس بات پر کامل یقین رکھو کہ خدا کے علاوہ کوئی ہستی تم پر قاہر اور غالب نہیں ہے۔ جب ماسویٰ اللہ کا خوف اور اس سے امید، یہ دو باتیں دل سے نکل جاتی ہیں تو مسلمان، مومن بن جاتا ہے۔ ۱۱۔ ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۳ء ادارہ معارف اسلامیہ کے پہلے اجلاس منعقدہ لاہور میں علامہ اقبال مرحوم نے اپنا افتتاحی خطبہ پڑھا تھا۔ اس میں سے چند اقتباسات ذیل میں درج کرتا ہوں۔ ’’عصرِ حاضر کے مسلمان، علم کلام کی بحثوں کے مقابلے میں اسلام کی ثقافتی تاریخ سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور اسی لیے مسلمان ملکوں میں ثقافت جدیدہ کے تصورات کو اپنے اندر جذب کرنے کا میلان پیدا ہو گیا ہے‘‘۔ انسان نے ہمیشہ سے کائنات میں نظم وربط باہمی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور قرآنی تعلیمات کی رو سے نظم وضبط (Order) اس کائنات کی سرشت میں داخل ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ: ما تَرٰی فِی خَلَقِ الرَّحْمٰنِ مِن تَفٰوُت فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَریٰ مِنْ فُطُوْر(اے انسان)تو اللہ کی تخلیق میں کہیں تفاوت نہ پا سکے گا۔(اگر تجھے شک ہو تو)دوبارہ نگاہ (غور)کر کے دیکھ لے، کیا تو کہیں کوئی شگاف (فساد)دیکھتا ہے؟ ’’تمام سائنس اس یقین پر مبنی ہے کہ کائنات میں نظم و نسق پایا جاتا ہے۔ چانچہ جدید سائنس اسی مفروضے سے شروع ہوتا ہے۔ اور اگر یہ مفروضہ صحیح ہے تو پھر علم کا صحیح ذریعہ صرف تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ آیت مذکورہ بالا جدید سائنس اور اسلام میں استقرائی طریق کا سنگ بنیاد ہے۔ سب سے پہلے مسلمان ماہرین فلکیات نے بطلیموسی نظام کی صحت اور واقعیت میںشک کیا۔ اور اس طرح کا پر نیکی نظام کی بنیاد پڑی۔ ’’موجودہ عہد کے مسلمان علما اور حکما کا فرض منصبی یہ ہے کہ وہ اس مجوسی گردو غبار کو دور کریںجس نے اسلام کے محاسن کو ہماری نظروں سے پوشیدہ کر دیا ہے‘‘ ۱۲۔ یکم مئی ۱۹۳۳ء میکلوڈ روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں اپنے ساتھ مسلم ریوائیول کا دسمبر نمبر لے گیاتھا۔ اس میں علامہ کا وہ لیکچر شائع ہوا تھا جو انہوں نے مجلس ارسطو لندن میں دیا تھا۔ میں نے عرض کی کہ اس کا اردو ترجمہ کرنے کی اجازت دے دیجئے تو فرمایا کہ میں نے پروفیسر سید نذیر نیازی (جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی)سے ترجمہ کے لیے کہہ دیا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد جناب میکش (مرتضیٰ احمد مرحوم)ملنے آگئے۔ انہوں نے ایسڑن ٹائمز (اس زمانے میں لاہور سے شائع ہوتا تھا)کے ایک مضمون کو علامہ کے سامنے پیش کیا۔ پڑھ کر فرمایا بڑا افسوس ہے کہ روسی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے لیے تو مسلمانان عالم کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اس مضمون کو پڑھ کر کمیونزم اور بالشوزم پر تبصرہ فرمایا اور اس ضمن میں جاوید نامے سے چند اشعار جو ان تحریکوں سے متعلق ہیں، پڑھ کر سنائے۔ اس کے بعد مسٹرنور احمد چیف رپوٹر سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ملنے آگئے ان سے تھوڑی دیر تک بعض سیاسی مسائل پر گفتگو ہوئی۔ وہ چلے گئے تو علامہ نے میکش صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’چند روز ہوئے سردار عبدالرسول خاں اور ان کے ایک دوست میرے پاس آئے تھے، کہتے تھے کہ ’’ہم دونوں ابھی فریضہ حج سے فارغ ہو کر آئے ہیں۔ سلطان ابن سعود نے بہت برا کیا کہ زائرین کو روضہ اقدس کی جالیوں کو بوسہ دینے سے روک دیا۔ مجھے سلطان نے عصرا نے پر مدعوکیا تھا لیکن میں نے ان کی دعوت اس لیے رد کر دی کہ انہوں نے ہمارے جذبات کا احترام نہیں کیا۔‘‘ یہ سن کر میکش کہنے لگے کہ میری رائے میںسلطان نے بہت اچھا کیا۔ کیونکہ جالیوں کو بوسہ دینا ایک مشرکانہ فعل ہے۔ اس پر علامہ نے فرمایا کہ میں اس بات میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ اگر کوئی شخص فرط محبت سے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لے اور اس کی پیشانی چوم لے تو یہ شرک کیسے ہو گیا؟ یہ تو اظہار محبت ہے۔ اسی طرح حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس کی جالیوں کو چومنا، مشرکانہ فعل نہیں ہے بلکہ حضور انورؐ سے محبت کا اظہار ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص آنحضرت میں خدائی صفات تسلیم کرتا ہے یا آپ کو الوہیت میں شریک کرتا ہے تو وہ بلاشبہ مشرک ہے۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ جو مسلمان جالیوں کو چومتے ہیں وہ فرط محبت و عقیدت سے ایساکرتے ہیں اور یہ فعل مشرکانہ نہیں ہے۔ اس پر میکش کہنے لگے کہ محبت یہ نہیں ہے کہ جالیوں کو بوسہ دیا جائے، محبت یہ ہے کہ محبوب کے Cause(مقصد حیات)کی حمایت کی جائے یا اس کی اتباع کی جائے۔ یہ سن کر علامہ لیٹے سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آپ کو یہ غلطی، محبت کے مدارج میں امتیاز نہ کر سکنے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہے۔ محبت کے مختلف مدارج ہیں۔ اگر ایک شخص محبت میں اس قدربلند مرتبہ حاصل کر لے کہ محبوب کے رنگ میں رنگین ہوجائے یا اس کے لیے اپنی جان قربان کر دے تو یہ اس کی انتہائی خوش نصیبی ہے۔ مگر سب لوگ اس بلند مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے۔ جو شخص اپنے محبوب کے لیے جان نہیں دے سکتا ظاہر ہے کہ اس کی محبت ادنیٰ درجے کی ہے لیکن آپ اس کی محبت کی مطلق نفی نہیں کر سکتے ۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے سرے سے محبت ہی نہیں۔ آپ محبت کو منطق کے پیمانے سے ناپنا چاہتے ہیں۔حالانکہ یہ اصول ہی غلط ہے۔ محبت‘منطق سے بالاتر ہے۔ یہاں Higher logicکی حکومت ہے۔ ارسطو اور مل کی منطق بیکار ہے۔ محبت کیا شے ہے؟ لفظوں کے ذریعہ سے اس کا اظہار بہت مشکل ہے۔ اور محبت کا تجزیہ کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے:ع۔’’ ذوق این بادہ ندانی بخدا تا نچشی‘‘ والا معاملہ ہے اس کا تعلق دماغ سے نہیں ہے، دل سے ہے ۔اگرآپ کے وضع کردہ اصول کو صحیح تسلیم کرلیا جائے کہ جو شخص جس قدر زیادہ متبع رسول ہے اسی قدر زیادہ رسول سے محبت کرتا ہے یعنی اگر محبت کا معیار، اتباع رسول قرار دیا جائے تو آپ علم الدین شہید کے بارے میں کیا کہیں گے؟ وہ تو نماز کا بھی پابند نہ تھا اتباع رسول تو بڑی چیزہے؟ دراصل یہ سب کچھ‘انسان کے مزاج Temprament پر موقوف ہے۔ بعض لوگوں کی عقل ان کی محبت کے تابع ہوتی ہے اور بعض کی محبت ان کی عقل کے تابع ہوتی ہے، اور دونوں قسم کے آدمی دنیا میں پائے جاتے ہیں مثلاً: حضرت علیؓ اگرچہ علم و فضل کے اعتبار سے بہت بلند مرتبے پر فائز تھے لیکن حُبِّ رسولؐ کا جذبہ ان کی عقل پر غالب تھا۔ وہ بعض باتیں ایسی کرتے تھے جن پر منطقی اعتراض وارد ہوسکتا ہے۔ مثلاً وہ جب کبھی اس درخت کے نیچے سے گُزرتے تھے جس کے نیچے سے ایک مرتبہ حضور انور ﷺگزرے تھے ‘تو جھک کر گزرتے تھے حالانکہ، وہ قصیرالقامتہ تھے۔ اس لیے اس کی مطلق ضرورت نہ تھی، جب لوگوں نے سبب دریافت کیا تو کہا حضور انور جھک کر گزرے تھے۔ میں جھک کر ‘ اپنے محبوب کے فعل کی تقلید کرتا ہوں۔ دوسری مثال حضرت بایزید بسطامیؒ کی ہے جنہوں نے ساری عمرخربورہ نہیں کھایا کیونکہ انہیں کوئی حدیث ایسی نہیں ملی جس سے حضور کا خربوزہ کھانا ثابت ہو جاتا۔ اسی لیے میں نے لکھا ہے: کامل بسطام در تقلید فرد اجتناب از خوردنِ خربوزہ کرد ان کے برعکس، حضرت فاروق اعظمؓ کی عقل ان کی محبت پر غالب تھی، اسی بنا پر انہوں نے وہ درخت کٹوادیا جس کے تنے سے حضور انور نے پشت مبارک لگائی تھی۔ اگر ان کی محبت علیؓ کی محبت کی طرح ہوتی تو ہرگز وہ درخت نہ کٹواتے۔ قصہ مختصرعلیؓاور عمرؓ کو حضور سے محبت تھی لیکن طبائع کے اختلافات کی بنا پر ان کی محبتوں کی نوعیت اور کیفیت جداگانہ تھی۔ ہر شخص کو اختیار ہے کہ اپنی افتاد طبع کی روشنی میں جو رنگ مرغوب نظر آئے، اختیار کر لے ۔ اس میں کسی مباحثے کی ضرورت نہیں بلکہ گنجائش ہی نہیں ہے۔ چونکہ حضرت علی ؓ کی محبت Human type عام انسانی ٹائپ کی ہے اس لیے وہ عموماً لوگوں کو اپیل کرتی ہے۔ حضرت عمر ؓ کی محبت Superhuman type فوق البشر نوعیت کی ہے اس لیے کم لوگوں کو پسند آتی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے، کہ عموماً لوگوں پر جذبات کا رنگ غالب ہوتا ہے عقلی ٹائپ کے آدمی بہت کم ہوتے ہیں۔ دیکھ لو!آنحضرت بمقابلہ دیگر پیشوایان مذاہبِ عالم، مسلمانوں کو زیادہ اپیل کرتے ہیں۔ اس کی، وجہ یہ ہے کہ وہ ہم میں ہی سے ہیں قُلْ اِنَّما اَنَا بَشَرُ‘مِّثْلَکُمْ تصور ذات باری تعالیٰ کا ذکر آیا تو فرمایا قرآن مجید کا پیش کردہ تصور ہمیں زیادہ اپیل کرتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا ادُعْوُنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ گویا اس طرح بندے اور خدا (عابد اورمعبود)میں ایک روحانی رابطہ قائم ہو جاتا ہے اور یہ رابطہ ہی مذہب کی جان ہے۔ معتزلہ کا پیش کردہ تصور باری‘ عام مسلمانوں کو اپیل نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی رو سے خدا نہ سمیع ہے نہ بصیر نہ علیم ہے نہ مجیب۔ بلکہ میری تورائے یہ ہے کہ ایسے خدا کو ماننے کی بھی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے ۱۳۔ ۱۸ فروری ۱۹۳۴ء میکلوڈ روڈ ایک عرصے کے بعد حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ غزنی کے رہنے والے ایک احمدی بزرگ عبدالقادر نامی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت علامہ نے انہیں مجھ سے متعارف کرتے ہوئے بتایا کہ یہ صاحب ۱۹۱۸ء میں ہندوستان آئے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قادیانی مذہب اختیار کر لیا، اس لیے افغانستان واپس نہیں گئے۔آج کل احمدیہ بلڈ نگس میں مقیم ہیں اورگاہے گاہے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ اس تعارف کے بعد انہوں نے علامہ سے کہا کہ مسلمانان عالم کے ادبار سے میرا دل خون ہورہا ہے، مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدانے اس قوم سے اپنی توجہ بالکل ہٹالی ہے (ان کے الفاظ یہ تھے کہ مونہہ موڑ لیا ہے) علامہ نے فرمایا،میرا خیال ہے کہ خدا نے ان سے مونہہ نہیں موڑا بلکہ خود انہوں نے قرآن سے مونہہ موڑ لیا ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ میں یہ بات آج سے بیس سال پہلے کہہ چکا ہوں۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر تاہم جائے شکر ہے کہ ابھی ان کی حالت ہنود یا یہود کی سی نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ بریں مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو رہی ہے، اور مجھے یقین ہے کہ انہیں دوبارہ عروج حاصل ہوگا۔ خدا نے ۱۹۱۷ء میں ایک موقع دیا تھا مگر افسوس! اس کے بعد عبدالقادر صاحب نے مسیحؑ اور مہدی کا تذکوہ چھیٹر دیا۔ اس پر علامہ نے فرمایا کہ میری رائے میں مسیح اور مہدی کے نزول کا تخیل سراسر غیر اسلامی ہے۔ قرآن حکیم میں ان بزرگوں کی دوبارہ تشریف آوری کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ صحیح بخاری میں نزول مہدی کا مطلق ذکرنہیں ہے۔ ہاں‘ مسیح کی آمد ثانی سے متعلق دو حدیثیں ضرور موجود ہیں مگر جب قرآن میں اس کی آمد ثانی کا کوئی وعدہ نہیں ہے تو لامحالہ ان کو ناقابل اعتماد قرار دینا پڑے گا۔ مسیح اور مہدی کا انتظار کرتے رہنے کے بجائے خود مسلمانان عالم ہی وہ کام کیوں نہ کریں جو وہ مسیح اور مہدی سے متعلق سمجھتے ہیں۔ میں نے علامہ کی توجہ شری جواہر لعل نہرو کی خود نوشتہ سوانح حیات میں اس عبارت کی طرف مبذول کی جس میں انہوں نے Organised Religionسے نفرت اور اس کی ضرر رسانی کا ذکر کیا ہے فرمایا ’’ پنڈت جی نے مذہب سے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جو لوگ مذہب کی حقیقت سے ناواقف ہیں وہ عموماً یہی کہتے ہیں کہ وہ تعصب اور تنگدلی سکھاتا ہے۔ حالانکہ موجودہ نیشنلزم (وطنیت کا نظریہ)مذہب سے زیادہ تعصب اور تنگدلی سکھاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں جنگوں کا سبب یہی نیشنلزم ہے۔ مذہب کو ارباب سیاست نے ہمیشہ اپنے مقاصد مشومہ کے لیے استعمال کیا ہے۔ حروب صلیبی کی تہ میں بھی یہی جذبہ کار فرما تھا۔ ارباب سیاست مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑاتے ہیںاور مخالفین مذہب کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا ہے کہ مذہب خونریزی کراتاہے ارباب اقتدار کا شیوہ یہ ہے کہ وہ پہلے جنگ کو عوام کی نظروں میں مقدس بناتے ہیں، پھر انہیں اپنا سر کٹانے کے لیے میدان جنگ میں بھیجتے ہیں۔ یعنی مذہب کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گذشتہ زمانے کی تاریخ پر نظر ڈالو۔ برہمنوں نے بودھ دھرم کو اس بنا پر ہندوستان سے خارج نہیں کیا کہ وہ اصولاً اس کے مخالف تھے‘بلکہ محض اس لیے کہ اس کی وجہ سے ان کا اقتدار خطرے میں پڑ گیا تھا۔ ورنہ بودھ دھرم تو ویدانت کی تعلیم کا منطقی نتیجہ ہے۔ غور کرو!جب ہر شخص کی آتما یکساں ہے تو پھر ذات پات اور چھوت چھات کیسی؟ ویدانت کی تعلیم کا منطقی نتیجہ مساوات نسل انسانی ہے اور بودھ دھرم نے ویدانت کے اسی نتیجے کو ہندوئوں میں عام کرنے کی کوشش کی تھی جس کی پاداش میں اسے خارج البلد بلکہ خارج الوطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہندوستان کے سماجی حالات سے متعلق گفتگو رہی۔ بعد ازاں گفتگو مذہب کی طرف آگئی۔ فرمایا کہ نبی اور مجدد میں کئی پہلوئوں سے فرق ہوتا ہے، مگرسب سے بڑا فرق یہ ہوتا ہے کہ دونوں کی ذہنی کیفیات مختلف النوع ہوتی ہیں۔ اسی طرح مشاہدہ باطنی میں بھی کیفیت کا فرق ہوتا ہے، آخر میں فرمایا کہ اگرتم میرے مضمون ’’ اسلام اور احمدیت ‘‘ کا اردو ترجمہ شائع کرو تو اس پر حواشی بھی لکھنا اور خصوصاً بروز کے عقیدہ کی وضاحت کر دینا۔ ۱۴۔ ۷ ستمبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل میو روڈ ‘۶بجے شام علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مسلمانوں کی سیاسی پستی کا ذکر چلا تو فرمایا ’’ پنجاب کے مسلمان اب تک کوئی انگریزی روز نامہ نہیں جاری کر سکے۔ اس سے ان کی قومی زندگی کی پستی اور زبونی کا کچھ اندازہ ہوسکتا ہے۔ مسلمان امرا مشاغل لا طائل پرلاکھوں روپے خرچ کر سکتے ہیں لیکن قومی کاموں کے لیے ان کے پاس ایک پیسہ نہیں ہے۔ مجھے سالہا سال سے مسلمانوں کی اس ذہنیت کا تجربہ ہے‘‘ پھر فرمایا ’’انگلیڈ کی سوچی سمجھی ہوئی حکمت عملی یہ ہے کہ کوئی ایسی تحریک جو اسلامی ممالک کو متحد کر سکے، کامیاب نہ ہونے دی جائے۔ برطانیہ ہر گز نہیں چاہتا کہ اسلامی ممالک میں بیداری پیدا ہو، اسے ہر وقت پین اسلامزم کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔‘‘ اس کے بعد نیازی صاحب آگئے۔ انہوں نے لائٹ سے چند اقتباسات علامہ کو سنائے۔ ان پر علامہ نے تبصرہ فرمایا۔ اس ضمن میں یہ بھی فرمایا ’’ بروئے قرآن وحی و الہام کسی خاص قوم، ملک یا نسل سے مختص نہیں ہے، الہام تمام زندہ ہستیوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ شہد کی مکھی بھی اس نعمت سے سرفراز ہو سکتی ہے، اور سائنس دان بھی الہام کے محتاج ہیں۔ د نیا میں جس قدر عظیم ایجادات ہوئی ہیں وہ سب الہام کی بدولت ہوئی ہیں نہ کہ ریسرچ کی بدولت۔ نیز انسان اپنی زندگی کے اکثر معاملات Inspirationالہام ہی کے تحت طے کرتا ہے۔ میری رائے میں نزول مسیح کا عقیدہ مجوسیت کی راہ سے مسلمانوں میں آیا ہے۔ کسی زمانے میں ’’انتظار‘‘ عوام الناس کے لیے مفید تھا لیکن ختم نبوت کے بعد کسی کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔ ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخر زمانی ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل میو روڈ علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ادبی تنقید کا ذکر نکلا تو فرمایا ’’جہاں تک صحیح تنقید کا سوال ہے، ہندوستان ابھی مغرب سے سو سال پیچھے ہے۔ ہندوئوں میں تو کچھ حقیقت پسندی پیدا ہو چلی ہے لیکن مسلمانوں میں ابھی تک رومانیت کا اثر باقی ہے۔ گزشتہ پانچ سوسال میں مسلمانوں کے آرٹ، لڑیچر اور شاعری کا رجحان یہ رہا ہے کہ حقائق سے گریز کیا جائے اورخیالی دنیا میں زندگی بسر کی جائے۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ مسجد قرطبہ کو دیکھ کر آپ پر کیا اثر ہوا؟ میں نے کہا It is a commentry on the Quran written in stones یہ قرآن کی تفسیر ہے جو پتھروں کے ذریعے سے لکھی گئی ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’میری شاعری کو شعر کے معیار پر جانچنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اسرار خودی سے لے کر بال جبریل تک ہر کتاب میں میں نے یہی لکھا ہے کہ شاعری میرے لیے مقصود بالذات نہیں ہے۔ میں تو مسلمانوں کے سامنے حقائق حیات بیان کرتا ہوں اور انہیں مشکلات زندگی کا مقابلہ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں۔ لیکن مسلمانوں پر گزشتہ تین سو سال سے رومانیت کی وجہ سے ایسا رنگ چڑھ گیا ہے کہ اگر کوئی شخص انہیں بذریعہ شعر‘ حقائق حیات کی طرف دعوت دے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعری نہیں ہے۔ بالفاظ دیگر ان کی نظر میں شاعری وہ ہے جس میں خلاف عقل اور تخیلی باتیں ہوں جن کو حقیقت سے کوئی سروکار نہ ہو۔ ’’خدا مست‘‘ کی ترکیب پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ترکیب اساتذہ کے یہاں نہیں ملتی۔ وہ یہ غور نہیں کرتے کہ اقبال کا پیغام کیا ہے؟ اقوام کے عروج و زوال کے اسباب بہت مخفی ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے ہم کو جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ علامات ہیں نہ کہ اسباب۔ قومی عروج انتہائی نظم و ضبط کی صفت پر موقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون کی اطاعت بہت مشکل چیز ہے اور اس کے لیے بڑی ہمت درکار ہے۔ جو قومیں روبہ زوال ہیں وہ محنت اور پابندیوں سے گھبراتی ہیں جس طرح مریض طبیب کے احکام کی تعمیل سے گریزاں ہوتا ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ مرض بڑھتا جاتا ہے۔ ۱۶ ۔ ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جہاد پر گفتگو چلی۔ اس ضمن میں فرمایا ’’جہاد کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے، بلکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے ایمان، اپنے تمدن اور اپنے وطن کی حفاظت یا حمایت میں تلوار بلند نہیں کر سکتا تو میں نہیں سمجھتا کہ پھر تلوار کا اور مصرف کیا ہے؟ جب کبھی مسلمان کا دین خطرے میں ہو‘ اس پر تلوار اٹھانا فرض ہے۔ اگر وہ اس مقدس فرض کی انجام دہی کے لیے بھی تلوار نہیں اٹھاتا تو پھر اس کی تلوار اس کے کس دن کام آئے گی؟ جہاد‘اگر جوع الارض کے لیے ہو تو حرام ہے۔ لیکن اسلام کی حفاظت کے لیے جہاد کرنا پہلے بھی جائز تھا اور آج بھی جائز ہے ’’جو قیصر کا حق ہے وہ قیصر کو دو، یہ خالص رومن پروپاگنڈا تھا‘‘۔ ۱۷ ۔ ۶ نومبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل علامہ کی خدمت میں حاضری ہوئی۔ میں نے سوال کیا کہ آج کل ہندوستان میں بیکاری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ کی رائے میں اس کا حل کیا ہے؟ فرمایا: (ا)۔ جب تک ہم انگریزوں کی غلامی میں ہیں۔ (ب)۔ سرمایہ داری ہم پر مسلط رہے گی۔ (ج)۔ فوج پر ملکی محاصل کا کثیر حصہ خرچ ہوتا رہے گا۔ (د)۔ خود مسلمان رسوم لا یعنی پر اسراف بیجا کرتے رہیں گے۔ اس وقت تک کوئی صحیح حل دستیاب نہیں ہو سکتا۔ ۱۸۔۲۰ نومبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے سوال کیا کہ شفاعت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا ’’انسانی فطرت کی ایک کمزوری یہ ہے وہ سہارا تلاش کرتی ہے۔ سابقہ ادیان نے اس کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور’’ شفیع‘‘کا تصور پیش کیا اور کہا ہمارا مذہب قبول کر لو گے تو ہمارے مذہب کا بانی تمہاری شفاعت کر دے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قوت عمل کمزور ہوگئی اور عوام، مذہبی پیشوائوں کے غلام ہوگئے۔ اس لیے اسلام نے اگر شفاعت کا تذکرہ بھی کیا تو ’’اِلاّباذنہٖ‘‘ کی قید لگا دی یعنی قیامت کے دن ‘اللہ کے حکم کے بغیر کوئی شخص کسی کی شفاعت (سفارش)نہیں کر سکے گا۔ تاکہ قوت عمل مردہ نہ ہوجائے۔ اسلام میں سب سے بڑا شفیع خود انسان کا عمل صالح ہے۔ لَیْسَ لِْلِاْنَساِن اِلاّ مَاْسَعیٰ انسان کووہی ملے گا جس کے لیے اس نے جدوجہد کی ہے۔ شفاعت بمعنی کفارہ تو صریحاً خلاف اسلام ہے لیکن سفارش پر کوئی منطقی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ خدا کے حضور میں کسی نیک بندے کا کسی گناہ گار کے لیے سفارش کرنا نہ عقلاً معیوب ہے نہ نقلاً مذموم ہے۔ فرمایا ’’مجھے تو اب یہ خیال ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی دینی اصلاح ممکن بھی ہے یا نہیں؟ وہ تو غیر اسلامی عقائد اور رسوم کے اس طرح قدر خوگر ہو چکے ہیں کہ اب حقیقی اسلام سے انھیں تسلی نہیں ہو سکتی‘‘۔ فرمایا ’’ہندی مسلمان کی ذہنی پستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ جو کام میں کر رہا ہوں وہ کہیں میری یا قوم کی تضیع اوقات کا موجب تو نہیں ہو جائے گا۔ فرمایا ’’لوگوں میں اس بات کا احساس بھی باقی نہیں رہا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں اس سے ہمیں یا قوم کو فائدہ پہنچے گا یا نقصان؟ فرمایا ’’چند روز ہوئے ایک شاعر میرے پاس آئے اور کہا مجھے اپنے اشعار میں تصرف کی اجازت دے دیجیے۔ میں نے کہا ’’بندئہ خدا!مجھ پر کیوں ظلم کرتے ہو؟ خود ہی اپنے مطلب کے اشعار کیوں نہیں تصنیف کر لیتے؟ مجھے توایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل ہر شخص صاحب تصنیف بننا چاہتا ہے اور یہ معلوم کرنے کی زحمت گوارانہیں کرتا کہ مجھ میں تصنیف کی اہلیت بھی ہے یا نہیں؟ کس قدر تکلیف دہ ہے ایسے ماحول میں رہنا! ۱۹۔۱۷ دسمبر ۱۹۳۶ء جاوید منزل علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت باہر صحن میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ مسئلہ تجسیم پر گفتگو ہوئی۔فرمایا کہ دیگر مذاہب نے خداکو اتنا پست کیا کہ وہ انسان کی سطح پر آگیا۔ لیکن اسلام نے انسان کو اتنا بلند کیا کہ مظہر صفات بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اگر بشکل انسان جلوہ گر ہو تو وہ خدائی صفات سے معریٰ ہوجائے گا، اس لیے ہم اسے خدا نہیں کہہ سکتے ۔ اس کے بعد ماسٹر عبداللہ چغتائی علامہ سے ملنے آگئے۔ وہ فرانس جارہے ہیں۔ علامہ ان کو مفید مشورے دیتے رہے۔ چلتے وقت انہیں دعا دی اور کہا اگر اللہ نے مجھے صحت عطا فرمادی تو ۱۹۳۸ء میں حج کرنے جائوں گا۔ ۲۰۔۱۹۳۷ء (نوٹ بک میں تاریخ درج نہیں ہے۔ غالباً اکتوبر کا مہینہ تھا) علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سوال کیا کہ جمہوریت کے بارے میں اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ فرمایا ’’اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ امیر کے لیے مقدم شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کی حمایت کرے گا۔خواہ وہ عربی ہو یا عجمی ‘‘اسلام نے جمہوریت کی روح اختیار کی ہے اور وہ ’’شوریٰ‘‘ ہے اسلام نے دنیا کو جمہوریت کی روح سے روشناس کیا۔ اسی لیے اسلام نے وحی کا سلسلہ بند کر دیا تاکہ ہم آنحضرت ؐکے بعد کسی انسان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں۔ بنی آدم کو حُریّت کی نعمت سے مالا مال کرنے کے لیے، وحی کو ختم کرنا لازمی تھا۔ اسلام نے اسی لیے ملوکیت، احباریت اور نبوت کو ختم کر دیا تاکہ انسان آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہو سکے۔اس کے علاوہ انفرادی ذمہ داری کا قانون نافذ کیا لا تزروازر توزر اخری(۶:۱۶۴)کوئی شخص کسی شخص کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اسلام میں امارت بھی نکاح کی طرح ایک عمرانی معاہدہ ہے، امیر اور قوم کے درمیان ۔عوام نے ایک شخص سے کہا کہ اگر تم شریعت کی پابندی اور اس کے نفاذ کا وعدہ کرو تو ہم تمہیں اپنا امیر منتخب کرتے ہیں۔ اس شخص نے وعدہ کیا کہ میں ایسا ہی کروں گا۔بس وہ قوم کا امیر منتخب ہو گیا۔اگر وہ خلاف ورزی کرے تو قوم کو اس کے خلاف بغاوت کا حق حاصل ہے۔اسلامی جمہوریت میں رائے دہی کے لیے کلمہ شہادت ادا کرنا کافی ہے۔ مغربی جمہوریت میںبر سر اقتدار پارٹی عوام کو فریب دیتی ہے کہ تم حکمراں ہو۔ حالانکہ دراصل زمام کار چند افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو پرائم منسٹر کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔۱۹۱۴ء کی جنگ میں دراصل انگلستان کا وزیراعظم، اس ملک کا حکمراں تھا، نام عوام کا تھا۔مجھے برسوں علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ ۱۹۳۰ء اور ۱۹۳۶ء میں جبکہ وہ انجمن حمایت اسلام کے صدر تھے اورمیں انجمن کے قائم کردہ اشاعت اسلام کالج کا پرنسپل تھا۔ مجھے بہت زیادہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ کیونکہ انہیں اس کالج سے بہت دلچسپی تھی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یہ کالج ۱۹۲۹ء میں ان کی اور غلام بھیک نیرنگ مرحوم کی متفقہ کوشش ہی سے قائم ہُوا تھا۔ ان کی زندگی کے بہت سے واقعات آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں، اور ان کی یاد اس قدر روشن ہے کہ آج بائیس سال گذر جانے کے بعد بھی وہ مدھم نہیں پڑی، اگر مدیر محترم نے ارشاد فرمایا تو میں انہیں جداگانہ مضمون کی صورت میں قلمبند کردوں گا…ان شاء اللہ و بتوفیقہ… مقالات یوسف سلیم چشتی (بہ سلسلہ علامہ اقبال) مرتب: اختر النسا بزم اقبال لاہوری لاہور، ۱۹۹۹ء اقبال: ایک باپ کی حیثیت سے ڈاکٹر جاوید اقبال میں نے سن رکھا ہے کہ میری پیدایش سے چند سال قبل ابا جان شیخ احمدؒ سرہندی مجدد الف ثانی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ انھیں ایک بیٹا عطا کرے۔ آپ نے حضرت مجدد ؒسے یہ عہد بھی کیا کہ اگر خداوند تعالیٰ نے انھیں بیٹا دیا تو اسے ساتھ لے کر مزار پر حاضر ہوں گے۔ آپ کی دعا پوری ہوئی اور کچھ عرصے بعد جب میں نے ہوش سنبھالا تو مجھے اپنے ہمراہ لے کر دوبارہ سرہند شریف پہنچے۔اس سفر کے دھندلے سے تصورات میری نگاہوں کے سامنے ابھرتے ہیںکہ میں ان کے ساتھ ان کی انگلی پکڑے مزار میں داخل ہو رہا ہو ں۔ گنبد کے تیرہ و تار مگرپُروقار ماحول نے مجھ پر ایک ہیبت سی طاری کر رکھی ہے۔پھٹی پھٹی آنکھوں سے میں اپنے چاروں طرف گھور رہاہوں جیسے میں اس مقام کی خاموش فضا سے کچھ کچھ شناسا ہُوں۔ابا جان نے مجھے اپنے قریب بٹھا لیا۔ پھر انھوں نے قرآن مجید کا پارہ منگوایا اور دیر تک پڑھتے رہے۔ اس وقت صرف ہم دو ہی تربت کے قریب بیٹھے تھے۔ گنبد کی خاموش اور تاریک فضا میں ان کی آواز کی گونج ایک ہولناک ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو امڈ کر رخساروں پر ڈھلک آئے ہیں۔ ایک روز وہاں ٹھہرنے کے بعد ہم گھر واپس آگئے،لیکن مجھ پر اس راز کا انکشاف نہ ہُوا کہ آخر اس مزار پرجانے کا مقصد کیا تھا اور وہ آنسو کس لیے تھے۔مجھے یاد ہے، میں بچپن میں اکثر یہی سوچا کرتا۔ اپنی زندگی میں ابا جان نے مجھے شاذ ہی کوئی ایسا موقع دیا ہوگا جس سے میں ان کی شفقت یا اس الفت کا اندازہ لگا سکتا جو انھیں میری ذات سے تھی۔ والدین بچوں کو اکثر پیار سے بھینچاکرتے ہیں، انھیں گلے سے لگاتے ہیں، انھیںچومتے ہیں، مگر مجھے آپ کے خدوخال سے کبھی اس قسم کی شفقت پدری کا احساس نہ ہوا۔ بظاہر وہ کم گواور سرد مہر سے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے کبھی گھر میں منہ اٹھائے اِدھر اُدھر بھاگتے دیکھ کر مسکراتے تو مربیانہ انداز سے۔ گویا کوئی انھیں مجبوراً مسکرانے کو کہہ رہا ہو۔اور اکثر اوقات تو میں انھیں اپنی آرام کرسی یا چارپائی پر آنکھیں بند کئے اپنے خیالات میں مستغرق پاتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ انھیں مجھ سے محبت نہ تھی، سراسر غلط ہے۔ ان کی محبت کے اظہار میں ایک اپنی طرز کی خاموش تھی جس میں عنفوانِ شبا ب کے وقتی ہیجان کا فقدان تھا یا اس کی نوعیت فکری یا تخیلی تھی جس تک پہنچنے کی اہلیت میرا ذہن نارسا نہ رکھتا تھا۔ بہر حال، جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے۔ میں ان سے محبت تھوڑی کرتا تھا اور خوف زیادہ کھاتا تھا۔ ہر گھر کی باتیں چھوٹی موٹی ہوا کرتی ہیں، مگر ان سے گھر کے افراد کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات والدین میں اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں تنازع بھی ہوجایا کرتا ہے۔ اسی طرح ابا جان اور اماں جان میں میری وجہ سے کئی بار تکرار ہوجاتی۔ مثلاً اماں جان کو میرے متعلق ہر گھڑی یہی فکر دامن گیر رہتا کہ جب کبھی میں اکیلا کھانا کھائوں،پیٹ بھر کر نہیں کھاتا، اس لیے وہ ہمیشہ مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا کرتیں یہاں تک کہ میں آٹھ نو برس کا ہوگیا۔ لیکن پھر بھی مجھے اپنے ہاتھ سے کھانا کھانے کی عادت نہ پڑی ابا جان اس بات پر بار بار ناراض ہوئے کہ تم اسے بگاڑ رہی ہو، اگر یہ جوان ہو کر بھی خود کھانا نہ کھا سکا تو کیا ہوگا۔ ہم لوگ رات کو اکثر خشکہ کھایا کرتے تھے۔لہٰذا اب یوں ہوتا کہ بطور احتیاط چمچہ میری پلیٹ کے قریب رکھ دیا جاتا، مگر کھانا اماں جان ہی کھلاتیں۔ ابا جان کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ دبے پائوں زنانے میں آیا کرتے، اس طرح کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پاتی۔ بہرحال، جب بھی اماں جان مجھے کھلا رہی ہوتیں، ان کا دھیان باہر ہی رہتا اور جونہی وہ ابا جان کے قدموں کی ہلکی سی آہٹ سنتیں تو اپنا ہاتھ پھرتی سے علیحدہ کر کے چمچہ میرے آگے رکھ دیتیں اور میں خود کھانا کھانے میں مشغول ہوجاتا۔ مجھے یقین ہے کہ ابا جان کئی مرتبہ اس کا سراغ لگا چکے تھے، لیکن وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے بعد چلے جایا کرتے۔ میں بچپن میں بے حد شریر تھا، پڑھائی سے بھی کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، اس لیے اماں جان سے مار کھانا میرا معمول بن چکاتھا۔ اماں جان بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ایک ایسے اصول کی پابند تھیں جو نہایت سخت تھا۔ وہ اکثر کہا کرتیں کہ اولاد کو کھانے کو دو سونے کا نوالہ، لیکن دیکھو قہر کی نظر سے۔ اسی اصول کے پیش نظر، گو میں ان کے ہاں بارہ برس کے شدید انتظار کے پیدا ہوا، مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے مجھ پر کبھی ایسی شفقت یا محبت کا اظہار کیا ہو جس کی توقع بچے اپنی مائوں سے رکھتے ہیں۔ البتہ میں نے اتنا سن رکھا ہے کہ وہ جب کبھی بھی مجھے پیار کرتیں، میری نیند کے عالم میں کرتیں تاکہ مجھے علم نہ ہو سکے ۔شاید اسی لیے بچپن میں میرے ذہن میں یہ خیال بھی گزرا کرتا کہ میری ماں دراصل میری حقیقی ماںنہیں بلکہ سوتیلی ماں ہے۔ بہر حال، ابا جان سے میںنے بہت کم مار کھائی ہے۔میرے لیے ان کی جھٹرک ہی کافی ہوا کرتی گرمیوں میں دوپہر کے وقت دھوپ میں ننگے پائوں پھرنے پر مجھے کئی بار کوسا گیا۔ ابا جان جب کبھی بہت برہم ہوتے تو ان کے مُنہ سے ہمیشہ یہی الفاظ نکلتے ’’احمق آدمی! بیوقوف !!‘‘مجھے یہاں اباجان سے مار کھانے کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ بچپن میں مجھے روز ایک آنہ خرچ کرنے کو ملا کرتا اور اسے خرچ کر چکنے کے بعد خواہ میں اماں جان کی کتنی ہی منتیں کرتا، مجھے مزید کچھ نہ ملتا بلکہ ہر لمحہ ان کے ناراض ہونے کا احتمال رہتا۔ ایک دفعہ اتفاق یوں ہوا کہ کوئی مٹھائی بیچنے والا ہمارے گھر کے سامنے سے گزرا۔ مٹھائی دیکھ کر میں للچاگیا۔ لیکن جیب خالی تھی۔ اسے بٹھا تو لیا اور اماں جان کے پاس دوڑا آیا کہ شاید کچھ مل جائے۔مگر انھوں نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ طبیعت ضدی تھی۔ خیال آیا کہ اس خوانچہ فروش سے پوچھوں کہ پیتل لے کر مٹھائی دے سکتا ہے یا نہیں۔ بد قسمتی سے اس نے ہاں کہہ دی بس پھر کیا تھا۔ سائے کی طرح ابا جان کے کمرے میں گھسا اور بڑے ٹیبل فین کے پیچھے لگے پیتل کے پرزے کو اتار خوانچہ فروش کو دے آیا اور مٹھائی لے لی۔ لیکن شامت اعمال کہ ہمارا شوفر ادھر سے گزر رہا تھا۔ اس نے آکر اباجان سے شکایت کر دی۔ میں خوشی خوشی اچھلتے کودتے جو گھر کی حدود میں داخل ہوا تو مجھے اطلاع ملی کہ اباجان بلا رہے ہیں۔ ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں گیا۔ وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور تین چار تھپڑ میری گردن پر جما دیے۔ ابا جان مجھے جب کبھی مارتے، گدی پر مارتے۔ وہ زور سے تو نہ مارتے مگرگدی جسم کا ایسا حصہ ہے جہاں چوٹ زیادہ لگتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر مجھے ان سے مار کھانے کا اتفاق ہوا تو اس کی وجہ نوکروں کو برا بھلا کہنا یاجھوٹ بولنا تھی۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ اگر اباجان نے میری کسی شرارت پر مجھے مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اماں جان بیچ میںآکھڑی ہوئیں اورانھیں روک دیا یا اگر اماں جان نے مجھے ضرورت سے زیادہ پیٹاتو اباجان خفا ہوئے کہ بچے کو اس بے دردی سے نہیں مارنا چاہئے۔ایک دفعہ میں آنکھوں پر پٹی باندھے اماں جان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ ٹھوکرلگی اورمنہ کے بل گرپڑا جس کی وجہ سے ہونٹ کٹ گیا اورمنہ سے خون جاری ہوگیا۔ اتفاق سے اسی لحظہ اباجان زنانے میں داخل ہوئے اور اچانک میرے منہ سے یوں خون بہتا دیکھ کر بے ہوش ہوگئے۔ ہم گھر میں شور نہ مچاسکتے تھے۔ اگرمیں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ باہر دالان میں کبھی کرکٹ کھیل رہا ہوتا تو ہمیں حکم ملتا کہ یہاں مت کھیلو، اور ہم منہ لٹکائے وہاں سے چل دیتے۔ لیکن بعض اوقات وہ ہمارے کھیل میں خود بھی شریک ہو جایا کرتے۔ ہمارے ہاتھ ان کی طرف گیند پھینکتے پھینکتے تھک جاتے مگر وہ بلا تھامے’ٹھپ ٹھپ‘ کرتے رہتے۔ایک دفعہ وہ اندر بیٹھے تھے۔ میں نے ہٹ جو لگائی تو گیند دروازے کے ششیے کو توڑتی ان کے کمرے میں جاگری۔ اس دن سے ہمیں کرکٹ کھیلنے کی ممانعت کر دی گئی۔ کئی بار کھلی بہار میں جب میں کوٹھے پر پتنگ اڑا رہا ہوتا تو وہ دبے پائوں اوپر آجاتے اور میرے ہاتھ سے پتنگ لے کر خود اڑانے لگتے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ انھوں نے جب بھی کسی اور پتنگ سے پیچ لڑایا تو ہمیشہ ہماری پتنگ ہی کٹی۔ ہمارے گھر میں کھانا اماں جان پکایا کرتی تھیں۔ ان کی مدد کے لیے ایک اور خاتون بھی تھیں جنھیں میں بڑی اماں کہا کرتا۔ ان کے علاوہ ہماری کوٹھی کے پیچھے ایک نومسلموں کا محلہ تھا جس کی لڑکیاں اماں جان سے قرآن مجید کا سبق لینے آتیں، سینا پرونا سیکھتیں اور گھر کا کام کاج بھی کرتیں۔ مجھے خواب کی طرح یاد ہے کہ ہمارے یہاں ایک مرتبہ ایک مہمان آکر ٹھہرے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار انھیں ابا جان کو اقبال کہہ کر پکارتے سنا۔ یہ متناسب جسم،میانہ قد، باریش بزرگ نہایت خوش پوش، خوش باش اور خوش خور تھے۔ بمبئی سے آئے تھے اور مجھے چاکلیٹ کا ڈبہ تحفہ کے طورپر دیا تھا۔ آپ کے قہقہے سارے گھر میں گونجتے رہتے اور آپ کے لیے اماں جان روز طرح طرح کے کھانے پکاتیں۔ آپ کا نام مولانا محمد علی تھا۔ یہ وہی محمد علی تھے جن کے متعلق اس زمانے میں مجھے ایک شعر حفظ ہوگیا تھا ؎ بولی اماں محمد علی کی جان، بیٹا!خلافت پہ دے دو دو ایک مرتبہ میں ابا جان اور اماں جان کے ساتھ سیالکوٹ بھی گیا۔ تب دادا جان بقید حیات تھے، گو بہت ضعیف ہو چکے تھے اور اپنے کمرے میں ہمیشہ چار پائی پر بیٹھے رہتے۔ میں ان کے پاس جاتا تو آنکھوں کو اپنے ہاتھ کا سایہ دے کر مجھے دیکھتے اور پوچھتے کہ کون ہے۔؟جب میں اتنا بتاتا کہ میں جاوید ہوں تو ہنس پڑتے، طاق میں سے ایک ٹین کا ڈبہ اٹھاتے اور اس میں سے برفی نکال کر مجھے کھانے کو دیتے۔ سیالکوٹ کے مکان میں یا محلہ چوڑیگراں کی گلیوں میں جہاں میں بھاگتا پھرتا تھا، وہیں ابا جان کا بچپن بھی گزرا تھا۔ میرے بچپن میں رمضان کا مہینہ سردیوں میں آیا کرتا اور عید بھی سردیوں میں آتی تھی۔ رمضان کے دنوں میں اماں جان باقاعدہ روزے رکھتیں اور قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتیں۔ گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے۔ مجھے سحری کھانے کا بے حد شوق تھا اورایک آدھ بار ابا جان کے ساتھ سحری کھانا بھی یاد پڑتا ہے۔ وہ روزہ کبھی کبھار رکھتے تھے اور جب رکھتے، تو ہر نصف گھنٹے کے بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔(۱) جب عید کا چاند دکھائی دیتا تو گھر میں بڑی چہل پہل ہو جاتی۔ میں عموماً ابا جان کو عید کا چاند دکھایا کرتا تھا۔ گو مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی، لیکن اس شب گرم پانی سے اماں جان مجھے نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ نئے کپڑے یا جوتوں کا نیا جوڑا سرہانے رکھ کر سوتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے، عیدی ملتی، کمخواب کی ایک اچکن جس کے نقرئی بٹن تھے، مجھے ہر عید پر اماں جان پہنایا کرتیں سر پر تلے کی گول ٹوپی پہنتا اور مجھے کلائی پر باندھنے کے لیے ایک سونے کی گھڑی بھی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے میرے لیے تحفے کے طور پر بھیجی تھی۔ سج دھج کر میں ابا جان کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کے لیے جاتا۔ ان کی انگلی پکڑے شاہی مسجد میں داخل ہوتا اور ان کے ساتھ عید کی نماز ادا کرتا۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم گھر آتے۔ ابا جان کی عادت تھی کی وہ عید کے روز سویوں پردہی ڈال کر کھایا کرتے تھے۔ سارا دن انھیں ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا اور دن کھاتے پیتے، ہنستے کھیلتے گزر جاتا۔ رات آتی تو اماں جان سونے کی گھڑی اور اچکن اتروالیتیں اور پھر اگلی عید تک مجھے ان کا انتظار کرنا پڑتا۔ کبھی بیمار ہوتا تو اماں جان اور ابا جان بہت پریشان ہو جاتے۔ میرے سرہانے روپوں کے نوٹ رکھے جاتے اور کھیلنے کے لیے اماں جان مجھے نو اشرفیاں دیتیں جو میری پیدائش کے وقت ابا جان کے مختلف احباب سے بطور تحفہ ملی تھیں۔ اماں جان کا خیال تھا کہ اگر بچہ بیمار ہو اور اسے کھیلنے کے لیے روپے یا اشرفیاں دی جائیں تو وہ جلد صحت یاب ہوجاتا ہے۔ ابا جان مجھ سے بار بار پوچھتے کہیں درد تو نہیں ہو رہا، اور اگر میں انکار سے سر ہلاتا تو کہتے:’’منہ سے بولو بیٹا!سر مت ہلائو ۔‘‘میرا بچپن زیادہ تر تنہائی میں گزرا۔ ۱۹۳۰ء میں منیرہ پیدا ہوئی لیکن وہ مجھ سے چھ سال چھوٹی تھی اس لیے ہم اکٹھے کھیل بھی نہ سکتے تھے۔ مجھے وہ دن بھی خوب یاد ہے جب میں پہلی بار اسکول گیا۔ میری عمر کوئی پانچ ساڑھے پانچ سال کی ہوگی۔ اماں جان بہت فکر مند تھیں کہ میں سارا دن گھر سے دور کیسے رہ سکوں گا۔ اباجان انھیں دلاسا دیتے رہے،لیکن ساتھ خود بھی علی بخش سے پوچھتے کہ جاوید کو لینے کوئی نہیں گیا۔ چھٹی ہونے پر جب میں گھر آیا تو اماں جان برآمدے میں کھڑی میری راہ تک رہی تھیں۔ ابا جان بھی اپنے کمرے سے اٹھ کر آگئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہیں اداس تو نہیں ہوگئے تھے۔ بعد میں اسکول جانا ایک معمول بن گیا۔ مجھے موسیقی سے بھی خاصا لگائو تھا۔ لیکن ہمارے گھر میں نہ تو ریڈیو تھا اور نہ گراموفون بجانے کی اجازت تھی کیونکہ اباجان ایسی چیزوں کو پسند نہ کرتے تھے ۔البتہ گانا سننے کا انھیں شوق ضرور تھا، اور اچھا گانے والوں کو جب کبھی گھر بلوا کر ان سے اپنا یا اوروں کا کلام سنتے تو مجھے بھی پاس بٹھالیا کرتے۔ فقیر نجم الدین مرحوم ، اباجان کو اکثر ستار بجا کر سنایا کرتے تھے۔ خود ابا جان کو جوانی میں ستار بجانے کا شوق رہ چکا تھا۔ لیکن جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یورپ گئے تو اپنی ستار کسی دوست کو دے گئے۔ ۱۹۳۱ء میں جب گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لیے انگلستان گئے تو اس وقت میری عمر کوئی سات سال کے لگ بھگ تھی۔ میں نے انھیں ایک اوٹ پٹانگ سا خط لکھا اور خواہش ظاہر کی کہ جب وہ واپس تشریف لائیں تو میرے لیے گراموفون لیتے آئیں۔ گراموفون تو وہ لے کر نہ آئے لیکن میرا انھیں انگلستان میں لکھا ہوا خط ان کی مندرجہ ذیل نظم کی شان نزول کا باعث ضرور بنا ؎ دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر میں شاخِ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر مرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر مرا طریق امیری نہیں ،فقیری ہے خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر اماںجان کی بڑی آرزو تھی کہ اباجان تمام دن گھر پر پڑے رہنے کی بجائے کہیں ملازمت کر لیں۔ یہ سن کر اباجان عموماً مسکرا دیا کرتے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بچپن میں میں نے بھی اس معمے کو سلجھانے کی بارہا کوشش کی کہ میرے ابا جان کام کیا کرتے ہیں۔ اگر کوئی اجنبی مجھ سے یہ سوال پوچھ بیٹھتا تو میں خاموش ہو جاتا کیونکہ میں خود نہ جانتا تھا۔ اسی طرح اماںجان اس بات پر مصر رہتیں کہ کرائے کا گھر چھوڑ کر اپنا گھر بنوائیے ۔ ان ایام میں ہم میکلوڈ روڈ پر رہا کرتا تھے۔ چند سالوں بعد اماں جان کے ،گھر کے اخراجات سے بچائے ہوئے، روپوں سے زمین خریدی گئی اور ’جاوید منزل‘کی تعمیر شروع ہوئی۔ زمین اور مکان اماں جان کے نام تھے اور انہی کی ملکیت تھے۔ بہر حال،جب تعمیر مکمل ہوگئی تو ہم میوروڈ پر اٹھ آئے۔ لیکن اماں جان نئے گھر میں بیمار گاڑی پر ہی لائی گئیں کیونکہ ان دنوں وہ سخت علیل تھیں۔ انھیں چار پائی پر لٹائے اندر لایا گیا۔ دوسرے دن ابا جان جب انھیں دیکھنے کے لیے زنانے میں آئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ میں کچھ کاغذات اٹھا رکھے تھے۔ آپ نے اماں جان سے کہا کہ اس مکان کو جاوید کے نام ہبہ کر دو لیکن اماں جان نہ مانتی تھیں وہ کہتی تھیں کہ مجھے کیا معلوم یہ لڑکا بڑا ہو کر کیسا نکلے۔ میں انشاء اللہ جلد صحت یاب ہو جائوں گی۔ آپ کسی قسم کا فکر نہ کریں۔ لیکن ابا جان نے انھیں آگاہ کیا کہ زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ اس پر انھوں نے ہبہ نامہ پر دستخط کر دیئے ۔ یوں ’جاوید منزل‘ میرے نام منتقل ہوگئی۔ابا جان نے کرایہ نامہ بھی تحریر کیا جس کی رو سے آپ میرے کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگے۔ آپ سامنے کے تین کمروں میں رہائش کا کرایہ ہر ماہ کی ۲۱تاریخ کو ادا کرتے تھے۔ نئے گھر میں قدم رکھنے کے تیسرے یا چوتھے روز اماں جان پر اچانک غشی کا عالم طاری ہوگیا۔ کوئی پانچ بجے شام کے قریب جب مجھے ان کے پاس لے جایا گیا تو وہ بستر پر بیہوش پڑی تھیں۔ میں نے ان کے حلق میں شہد ٹپکایا اور روتے ہوئے کہا کہ اماں جان میری طرف دیکھئے۔ انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ لحظہ بھر کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر آنکھیںبند کر لیں۔ اسی شام انھوں نے غشی کے عالم میں داعی اجل کو لبیک کہا اور رات کو دفن کر دی گئیں۔ ان کی وفات کے وقت میری عمر دس برس تھی اور منیرہ کی چار برس۔ اماں جان کے انتقال کے بعد ہم دونوں بچے ابا جان کے زیادہ قریب آگئے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت اماں جان فوت ہوئیں تو ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے، روتے روتے ابا جان کے کمرے کی طرف گئے۔ وہ حسب معمول اپنی چار پائی پر نیم دراز تھے کیونکہ ان دنوں خود بھی بیمار رہتے تھے۔ گلا بیٹھ چکا تھا اور صاف بول نہ سکتے تھے۔ میں اور منیرہ ان کے دروازے تک پہنچ کر ٹھٹھک سے گئے۔ یوں روتے کھڑا دیکھ کر انھوں نے انگلی کے اشارے سے ہمیں قریب آنے کو کہا، اور جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ایک پہلو میں مجھے اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی میں مجھ سے گویا ہوئے:’’تمہیں یوں نہ رونا چاہیے!یاد رکھو‘ تم مرد ہو‘ اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے۔‘‘اس کے بعد اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ انھوں نے ہم دونوں بہن بھائیوں کی پیشانیوں کو باری باری چوما۔ اماں جان کی بے وقت موت نے ابا جان کو پژمردہ سا کر دیا۔ لیکن اب وہ ہم دونوں بچوں کا بے حد خیال رکھنے لگے۔ ہمیں حکم تھا کہ ان سے مل کر اسکول جایا کریں۔ جانے سے پہلے، اور آنے کے بعد وہ ہم دونوں کی پیشانیوں پر بوسہ دیا کرتے۔مگر مجھے اس بوسے میں شفقت کی بجائے ہمیشہ معمول کی جھلک دکھائی دیتی گویا وہ ہمیں اس لیے چومتے ہیں کہ کہیں ہم دونوں یہ تصور نہ کر لیں کہ ہمیں اباجان کی محبت میسر نہیں ہے۔ بہرحال، منیرہ کو ان کا قرب حاصل تھا اور رات کو عموماً انہی کے بستر میں سو جایا کرتی۔ اس کی ہر خواہش بغیر کسی حیل و حجت کے پوری کر دی جاتی، اور اگر میں کبھی اسے جھڑکتا یا مار بیٹھتا تو میری شامت آ جاتی۔ انھیں ہم دونوں بہن بھائیوں کے جھگڑے پر بہت رنج ہوتا تھا۔ وہ اپنے احباب سے اکثر مایوسانہ انداز میں کہا کرتے کہ یہ دونوں آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور مجھ سے دیکھا نہیںجاتا۔ اور احباب کے یہ کہنے کے باوجود کہ جس گھر میں بچے ہوں‘ وہاں لڑائی جھگڑا ہوا ہی کرتا ہے، ان کی تسلی نہ ہوتی۔ مجھ سے بار ہا جل کر کہا کرتے’’تمہارا دل پتھر کا ہے۔ تم بڑے سنگ دل ہو۔ اتنا نہیں جانتے کہ اس بہن کے سوا تمہارا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔‘‘ اماں جان کی وفات کے کچھ عرصے بعد وہ مجھے اس خیال سے اپنے ہمراہ بھوپال لے گئے کہ ان کی عدم موجودگی میں منیرہ سے لڑتا نہ رہوں۔ اس سفر کی دھندلی سی یاد اب تک میرے ذہن میں موجود ہے۔بہت لمبا سفر تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کئی دن اور کئی راتیں ریل گاڑی ہی میں گزریں۔ رات کو علی بخش مجھے اوپر کی برتھ پر سلادیتا اور ابا جان نیچے کی برتھ پر سوتے۔ ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا بھی وہیں منگوالیا جاتا۔ جب ہم بھوپال پہنچے تو اسٹیشن پر محمد شعیب استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہم موٹر کار میں شیش محل پہنچے جہاں ابا جان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ شیش محل ایک پرانی وضع کی نہایت وسیع وعریض عمارت تھی۔ اتنے بڑے بڑے کمرے تھے کہ مجھے رات کو ان میں سے گزرتے ڈر آیا کرتا۔ ہم بھوپال میں کوئی دو ایک ماہ ٹھہرے۔ وہاں ڈاکٹر باسط اباجان کے معالج تھے اوران کے گلے کا علاج برقی شعاعوں سے کرتے تھے۔ مجھے روز پڑھانے کے لیے ایک استاد بھی شیش محل آیا کرتے۔شیش محل کے قریب، ایک جھیل کے کنارے، میں ڈاکٹر باسط کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا۔ ڈاکٹر باسط کا گھر شیش محل کے مقابل تھا اور اس کے سامنے غالباً ایک وسیع میدان تھا۔ تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز میں اباجان کے ساتھ سیدراس مسعود کے ہاں’ریاض منزل ‘جایا کرتا۔ وہ میری زندگی میںدوسری ایسی شخضیت تھے جنھیں میں نے ابا جان کو اقبال کہہ کر پکارتے سنا۔سید راس مسعود قد میں اباجان سے بہت اونچے،قومی ہیکل اور گورے چٹے بزرگ تھے۔مجھ سے ہر وقت مذاق کرتے رہتے۔ میں اور ابا جان ہفتے میں دو ایک بار رات کا کھانا سید راس مسعود اور بیگم امت المسعود کے ساتھ’ریاض منزل‘میں کھایا کرتے بسااوقات ہم اور جگہوں پر بھی کھانے پر مدعو ہوتے۔ ایک مرتبہ ہم کسی دعوت سے واپس آ رہے تھے اور گاڑی میں اباجان کے ساتھ ادھیڑ عمر کی فربہ سی ہنس مکھ خاتون بیٹھی تھیں۔ وہ مجھ سے نہایت شفقت سے پیش آئیں۔ بعد میں ابا جان نے مجھے بتایا کہ وہ سروجنی نائیڈو تھیں۔ اسی طرح ایک شام بیگم صاحبہ بھوپال کے ہاں چائے پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے کیونکہ بیگم صاحبہ نے فرمائش کر رکھی تھی کہ جاوید کو ساتھ لائیے۔سید راس مسعود ہمارے ہمراہ تھے۔ جب ان دونوں بزرگوں نے بیگم صاحبہ بھوپال کو جھک کر فرشی سلام کیے تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔ بہرحال، بھوپال میں میرا بیشتر وقت ابا جان کی نگاہوں کے سامنے ہی گزرتا تھا۔ رات کو کھانے کی میز پر مجھے سکھایا کرتے کہ چمچہ اس طرح پکڑنا چاہیے اور کانٹا یوں۔ میں فطرتاً کچھ شرمیلا واقع ہوا تھا، اس لیے جب کبھی انھیں لوگ وہاں ملنے آتے یا وہ لوگوں کے ہاں جاتے تو مجھ سے ہمیشہ کہا کرتے کہ لوگوں کے سامنے خاموش بیٹھے رہنے کی بجائے ان سے بات چیت کرنی چاہیے۔ بھوپال سے واپسی پر ہم چند دنوں کے لیے دہلی ٹھہرے۔ وھاں ابا جان بذات خود مجھے تاریخی مقامات کی سیر کرانے کے لیے لے گئے۔ پہلے لال قلعہ دیکھا۔ پھر نظام الدین اولیا گئے۔ اور پھر نئی دہلی سے ہوتے ہوئے قطب پہنچے۔ میرا دل چاہا کہ قطب مینار کے اوپر چڑھ جائوں، اور میں نے ابا جان کو بھی ساتھ آنے کے لیے کہا مگر وہ بولے’’تم جائو‘میں اتنی بلندی پر نہیں چڑھ سکتا، اور جب اوپر پہنچو تو نیچے کی طرف مت دیکھنا، کہیں دہشت سے گر نہ پڑو۔‘‘ بالا خر ہم واپس لاہور آگئے گرمیوں میں اباجان باہر سوتے اور میری چارپائی ان کے قریب ہوا کرتی ۔ رات گئے تک وہ جاگتے رہتے کیونکہ انھیں عموماً رات کو تکلیف ہوتی تھی۔ اور جب شعر کی آ مد ہوتی تو ان کی طبیعت اور بھی زیادہ خراب ہو جایا کرتی۔ چہرے پر تغیر رونما ہو جاتا، بستر پر کروٹیں بدلتے، کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور کبھی گھٹنوں میں سر دے دیتے ۔ اکثر اوقات وہ رات کے دو یا تین بجے علی بخش کو تالی بجا کر بلاتے اور اس سے اپنی بیاض اور قلم دوات لانے کو کہتے۔ جب وہ لے آتا تو اشعار لکھ دیتے۔ اشعار لکھ چکنے کے بعد ان کے چہرے پر آہستہ آہستہ سکون کے آثار نمودار ہو جاتے اور وہ آرام سے لیٹ جاتے۔ بعض اوقات تو وہ علی بخش کو اس غرض کے لئے بلواتے کہ میری پائینتی پر پڑی ہوئی چادر کو میرے اوپر ڈال دو۔ اباجان کی عادت، سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر، بستر پر ایک طرف سونے کی تھی۔ اس حالت میں ان کا ایک پائوں اکثر ہلتا رہتا جس سے دیکھنے والا یہ اندازہ لگا سکتاکہ وہ ابھی سوئے نہیں بلکہ کچھ سوچ رہے ہیں۔لیکن جب وہ گہری نیند سو جاتے تو خراٹے لیا کرتے،اور نہایت بھیانک قسم کی آوازیں نکلتیں۔ کئی بار میں ان کے خراٹوں سے ڈر جایا کرتا۔ اباجان کو میں نے بیسیوں مرتبہ خودبخود مسکراتے یا روتے دیکھا ہے۔ جب کبھی تنہائی میں بیٹھے اپنا کوئی شعر گنگناتے تو ان کا بے جان سا ہاتھ عجیب تغافل کے عالم میں اٹھتا اور ہوا میں گھوم کر اپنی پہلی جگہ پر آگرتا۔ ساتھ ہی ان کے سر کو ہلکی سی جنبش ہوتی۔ صبح کو نماز بہت کم چھوڑتے تھے۔ گرمیوں میں باہر رکھے ہوئے تخت پر ہی نیت باندھ لیتے، دھوتی اور بنیان زیب تن ہوتی اور سرپر تولیہ رکھ لیتے۔ ان کے کمرے کی حالت پریشان سی رہتی تھی، دیواریں گردوغبار سے اٹی ہوتیں۔ بستر ان کی دھوتی اور بنیان کی طرح میلا ہو جاتا مگر انھیں بدلوانے کا خیال نہ آتا۔ منہ دھونے اور نہانے سے گھبراتے، اور اگر کبھی مجبوراً باہر جانا پڑتا تو کپڑے بدلتے وقت سرد آہیں بھرا کرتے۔ وہ فطرتاً سست تھے اس لئے اگر کہیں وقت کی پابندی ہوتی تو انھیں ہمیشہ دیر ہو جایا کرتی۔ ویسے چارپائی پر نیم دراز پڑے رہنے میں بہت خوش رہتے۔ کئی بار دوپہر کا کھانا کسی کتاب میں منہمک ہونے کی وجہ سے بھول جایا کرتے اور جب وہ کتاب ختم ہو جاتی تو علی بخش کو بلوا کر معصومانہ انداز میں پوچھتے ’’کیوں بھئی، میں نے کھانا کھا لیا ہے؟‘‘ شام کو گھر کے دالان ہی میں دو ایک چکر لگا لیا کرتے۔ اس کے سوا ان کی زندگی میں بظاہر کامل جمود تھا۔ اماں جان کی وفات کے بعد اباجان صرف ایک بار زنانے میں آئے، وہ بھی تب جب مجھے بخار آیا تھا۔ آپ کو پہلی بار تب معلوم ہوا کہ زنانہ حصے میں کمروں کی تعداد کتنی ہے۔ اسی طرح اماں جان کی وفات کے بعد اباجان نے خضاب لگانا بھی ترک کر دیا تھا۔ ایک دن میں نے ان سے ازسرنو خضاب شروع کرنے کو کہا تو مسکرا کر بولے’’میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں‘‘۔ میں نے پھر کہا’’لیکن، اباجان! ہم تو آپ کو جوان دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘چنانچہ شاید اس خیال سے کہ بچے میرے سفید بالوں کو دیکھ کر ضعیف سمجھنے لگے ہیں، انھوں نے پھر سے خضاب لگانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ مگر چند مہینوں بعد پھر چھوڑ دیا اور میری ہمت نہ پڑی کہ ان سے دوبارہ خضاب شروع کرنے کو کہوں۔ اماں جان کی وفات کے کوئی دو ایک سال بعد منیرہ کی دیکھ بھال کے لئے اباجان نے ایک جرمن خاتون کو علی گڑھ سے بلوایا، اور وہ ہمارے یہاں رہنے لگیں۔ ہم انھیں،آپا جان، کہا کرتے۔ ان دنوں ہماری گھریلوزندگی میں ایک ترتیب سی آگئی۔ ہم سب، اباجان سمیت، دوپہر اور رات کا کھانا کھانے والے کمرے میں کھایا کرتے۔ منیرہ اور آپاجان، ہر شام اباجان کے پاس بیٹھا کرتیں۔ اباجان جرمن زبان بخوبی جانتے تھے، اس لئے آپا جان، سے جرمن ہی میں گفتگو کیا کرتے، اور منیرہ سے بھی کہتے کہ جرمن زبان سیکھو، جرمن عورتیں بڑی دلیر ہوتی ہیں۔ منیرہ ان دنوں جرمن زبان کے چند فقرے سیکھ گئی تھی، اس لئے وہ بھی ان سے جرمن میں بات چیت کرتی اور خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ مجھے مصوری سے بھی دلچسپی تھی لیکن اباجان کو میرے اس شوق کا علم نہ تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک تصویر بنائی جو اتفاق سے خاصی اچھی بن گی۔ ان دنوں تایا جان سیالکوٹ سے لاہور آئے ہوئے تھے اور ہمارے ہاں مقیم تھے۔ تایاجان خود انجینئر تھے لیکن جب انھوں نے میری بنائی ہوئی تصویر دیکھی تو بے حد خوش ہوئے۔ فوراً تصویر ہاتھ میں لے کر اباجان کو دکھانے چلے گئے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے گیا۔ اباجان کو پہلے تو یقین نہ آیا کہ تصویر میں نے بنائی ہے، لیکن جب یقین آگیا تو میری حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے فرانس، اطالیہ اور انگلستان سے میرے لئے خاص طور پر آرٹ کی کتب منگوائیں۔ انھیں خیال تھا کہ دنیا کے بہترین مصوروں کے شاہکاروں کو دیکھ کر مصوری کے لئے میرا شوق بڑھے گا لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔ جب میری نظر سے مصوری کے شاہکار گزرے تو میں نے اس خیال سے ہمت ہار دی کہ اگر میں ساری عمر بھی کوشش کروں تو ایسی خوبصورت تصاویر نہیں بنا سکتا۔ ابا جان کی تمنا تھی کہ میں تقریر کرناسیکھوں۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ میں کشتی لڑا کروں۔ چنانچہ اس سلسلے میں میرے لیے گھرمیں ایک اکھاڑہ بھی کھدوایا گیا تھا۔وہ اکثر کہا کرتے کہ اکھاڑے کی مٹی میں ڈنڑپیلنا یا لنگوٹی باندھ کر لیٹ رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ پھر بڑی عید کے روز مجھے ہمیشہ تلقین کیا کرتے کہ بکرے کے ذبح ہوتے وقت میں وہاں موجود رہوں۔ لیکن ان کا اپنا یہ حال تھا کہ کسی قسم کا خون بہتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ ابا جان میں قوت برداشت کی انتہا تھی، مگر جب ایک مرتبہ کسی سے ناراض ہو جاتے تو پھر ساری عمر اس کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہ ہوتے۔ انھیں کبوتر بازی کا شوق بھی رہ چکا تھا۔ آخری عمر میں ان کی خواہش تھی کہ گھر کی چھت پر ایک وسیع پنجرہ بنوایا جائے جس میں لاتعداد کبوتر چھوڑ دیئے جائیں اور ان کی چار پائی ہر وقت کبوتروں کے درمیان رہا کرے۔ انھیںیقین تھا کہ کبوتروں کے پروں کی ہوا صحت کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ اباجان کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار انھیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے ۔ میں نے بھی ان سے قرآن مجید پڑھا ہے۔ ان کی آواز بڑی پیاری تھی۔ اباجان جب بھی ان سے قرآن مجید سنتے، مجھے بلا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے۔ ایک باز انھوں نے سورۃ مزمل پڑھی تو آپ اتنا روئے کہ تکیہ آنسوئوں سے تر ہو گیا۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ نے سراٹھا کر میری طرف دیکھا اور مرتعش لہجے میں بولے ’’تمہیں یوں قرآن پڑھنا چاہیے!‘‘اسی طرح مجھ سے ایک مرتبہ مسدس حالی پڑھنے کوکہا، اور خاص طور پر وہ بند .....جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا ؎ ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا!‘‘ تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہوگئے۔ میں نے اماں جان کی موت پر انھیں آنسو بہاتے نہ دیکھا تھا مگر قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت یا رسولؐاللہ کا اسم مبارک کسی کی نوک زبان پر آتے ہی ان کی آنکھیں بھر آیا کرتیں۔ اباجان کو انگریزی لباس سے سخت نفرت تھی۔ مجھے ہمیشہ شلوار اور اچکن پہننے کی تلقین کیا کرتے۔ منیرہ بھی اگر اپنے بالوں کو دو حصوں میں گوندھتی تو نا پسند کرتے اور کہتے :’’اپنے بال اس طرح مت گوندھا کرو، یہ یہودیوں کا اندازہے۔‘‘اور اگر میں کبھی غلطی سے اپنی قمیضوں یا شلواروں کا کپڑا بڑھیا قسم کا خرید لاتا تو بہت خفا ہوتے اور کہتے ’’تم اپنے آپ کو کسی رئیس کا بیٹا سمجھتے ہو؟تمہاری طبیعت میں امارت کی بو ہے۔ا ور اگر تم نے اپنے یہ اندازنہ چھوڑے تو میں تمہیں کھدر کے کپڑے پہنوا دوں گا۔’’میرے لیے بارہ آنے گزسے زائد قمیص کا کپڑا خریدنا یا آٹھ روپے سے زائدکا بوٹ خریدنا جرم تھا جس کی سزاخاصی کڑی تھی۔ لیکن اگر انھیں کبھی یہ معلوم ہو جاتا کہ میں آج پلنگ پر سونے کی بجائے زمین پر سویا تو بڑے خوش ہوا کرتے۔ اپنی زندگی میں صرف ایک بار انھوں نے مجھے سنیما دیکھنے کی اجازت دی ۔ وہ ایک انگریزی فلم تھی جس میں نپولین کا عشق دکھایا گیاتھا۔ مجھے یاد ہے کہ ابا جان کو یہ نہ بتایا گیا بلکہ کہا گیا کہ اس فلم میں نپولین کے حالات زندگی ہیں۔ابا جان دنیا بھر کے جری سپہ سالاروں سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ مجھے اکثر خالد بن ولید ؓاور فاروق اعظمؓکی باتیں سنایا کرتے۔ ایک دفعہ انھوں نے مجھے بتایا کہ نپولین کے اجداد عرب سے آئے تھے،اور واسکوڈی گاما کو عربوں ہی نے ہندوستان کا راستہ دکھایا۔ مجھے کہانیوںکی کتابیں پڑھنے کا بھی بے حد شوق تھا۔ باغ و بہار (قصہ چہار درویش)حاتم طائی،طلسم ہو شربا اور عبد الحکیم شرر کے سب ناول پڑھ ڈالے تھے۔ساتویں جماعت کے امتحان کے قریب میرے ہاتھ الف لیلہ لگ گئی،اور اس کتاب سے میں اس قدر مسحور ہوا کہ رات گئے تک اسے پڑھتا رہتا۔امتحان سر پر آگئے لیکن میں نے الف لیلہ کو نہ چھوڑا بلکہ رات کو امتحان کی تیاری کرنے کی بجائے الف لیلہ پڑھتا رہتا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ساتویں جماعت کے امتحان میں ناکام رہ گیا۔ جب اباجان کو علم ہوا کہ میں الف لیلہ میں منہمک ہونے کی وجہ سے امتحان میں ناکام رہا ہوں تو برہم نہ ہوئے، کہنے لگے ’’اگر تم امتحان میں کامیاب ہو جانے کے بعد الف لیلہ پڑھتے تو تمہیں اور بھی لطف آتا‘‘۔ ایک مرتبہ گرمیوں کے موسم میں ابا جان نے کشمیر جانے کا ارادہ بھی کیا کیونکہ ان کے احباب کا اصرار تھا کہ وہ تبدیلی آب وہوا کی خاطر لاہور سے تھوڑے عرصے کے لیے کہیں باہر چلے جائیں۔ انھوں نے منیرہ اور مجھ سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم بڑے خوش تھے کہ ابا جان کے ہمراہ کشمیر جا رہے ہیں۔ لیکن کشمیر میں اباجان کا داخلہ ممنوع تھا لہٰذا انھوں نے حکومت سے اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ عرصے تک خط و کتابت جاری رہی۔ مگرجب اجازت ملی توگرمیوں کا موسم نکل چکا تھا۔ یوں وہ اپنی زندگی میں آخری بار وادی کشمیرمیں کچھ دن گزارنے سے محروم رہ گئے۔ اسی طرح بیت اللہ کے حج پر جانے کا قصد بھی کیا، لیکن وہ بھی پورا نہ ہوسکا۔ ابا جان کو معلوم تھا کہ مجھے بڑی بڑی شخصیتوںکے آٹو گراف لینے کا شوق ہے۔گو وہ میری اس عادت کو نہ تو برا سمجھتے اور نہ سراہتے، لیکن ایک شام انھوں نے مجھے خاص طور پر بلوا کر کہا کہ ہمارے یہا ںایک مہمان آرہے ہیں، جب وہ آکر بیٹھ جائیں تھوڑی دیر بعدمیں کمرہ میں داخل ہوں اور ان سے آٹو گراف دینے کی استدعا کروں ۔چنانچہ جب مہمان تشریف لے آئے تو میں ان کے حکم کے مطابق کمرے میں داخل ہوا۔ اباجان کے پاس ایک دبلے پتلے مگر نہایت خوش پوش شخص بیٹھے تھے۔ان کی نگاہوں میں عقاب جیسی پھرتی تھی۔اور ان کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس ایک دبلی پتلی خاتون بھی تھیں۔ ابا جان نے ان سے میرا تعارف کرایا اور میں نے آٹو گراف کی کتاب آگے بڑھا دی۔ مہمان نے مجھ سے انگریزی میں پوچھا’’کیاتم بھی شعر کہتے ہو؟‘‘میںنے کہا ’’جی نہیں!‘‘اس پر انھوں نے سوال کیا ’’پھر تم بڑے ہو کر کیا کرو گے؟‘‘میں خاموش رہا۔ وہ ہنستے ہوئے، ابا جان سے مخاطب ہوئے ’’کوئی جواب نہیںدیتا! ‘‘’’یہ جواب نہیں دے گا۔ ‘‘ ابا جان بولے۔’’کیونکہ یہ اس دن کا منتظر ہے جب آپ اسے بتائیں گے کہ اسے کیا کرنا ہے۔‘‘ میری آٹو گراف کی کتاب پر دستخط کر دیے گئے۔ یہ میری خالق پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح سے پہلی ملاقات تھی تب قائد اعظم کو پنجاب میں زیادہ لوگ نہ جانتے تھے اور مسلم عوام پاکستان کے تصور سے ابھی روشناس نہ ہوئے تھے۔ بہرحال، میں نے اس مختصر سے عرصے میں یہ اندازہ لگا لیا کہ اباجان اُن کی کس قدر عزت کرتے ہیں۔ آخری ایام میں اباجان کی نظر بہت کمزور ہو گئی تھی اس لیے مجھے حکم تھا کہ انھیں ہر روز صبح اخبار پڑھ کر سنایا کروں۔ اگر کسی لفظ کا تلفظ غلط ادا کر جاتا تو بہت خفا ہوتے۔ اسی طرح رات کو میں انھی کی کوئی غزل گا کر بھی سنایا کرتا۔ ان دنوں مجھے ان کی صرف ایک غزل یاد تھی ع گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر! ابا جان کے سامنے وہ غزل پڑھنا میرے لیے ایک عذاب ہوا کرتا۔ اگر کوئی شعر غلط پڑھ جاتا تووہ ناراض ہوتے اور کہتے ’’شعر پڑھ رہے ہو یا نثر؟‘‘ ان کی وفات سے کوئی دو ایک ماہ پیشتر ایک شام پنڈت نہرو کو ان سے ملنے کے لیے آنا تھا۔ ابا جان نے مجھے بلا کر حکم دیا کہ پنڈت نہرو کے استقبال کے لیے ڈیوڑھی میں کھڑا رہوں۔ میں نے تعجب سے پوچھا پنڈت نہرو کون ہیں؟کہنے لگے ’’جس طرح محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد ہیں، اسی طرح پنڈت نہرو ہندوئوں کے سربراہ ہیں۔‘‘میں باہر کھڑا پنڈت جی کا انتظار کرتا رہا۔ جب وہ تشریف لائے تو میں نے انھیں ’’السلام علیکم‘‘ کہا اور انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کا جواب دیا، میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر نہایت شفقت سے میری کمر میں بازو ڈال کر ابا جان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ ابا جان ان سے بڑے تپاک سے ملے اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ لیکن پنڈت جی نے نیچے فرش پر بیٹھنے پر اصرار کیا۔ بالاخر وہ فرش پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئے، اور ابا جان بستر پر لیٹے ان سے باتیں کرنے لگے۔ ابا جان سے لوگ گھر پر ہی ملنے آتے۔ ہر شام احباب کی محفل جما کرتی۔ ان کی چارپائی کے گرد بہت سی کرسیاں رکھی ہوتیں اور لوگ ان پر آکر بیٹھ جایا کرتے۔ آپ چارپائی پر لیٹے، ان سے باتیں کرتے رہتے اور ساتھ ساتھ حقہ بھی پیتے جاتے۔ رات کا کھانا نہ کھاتے تھے، صرف کشمیری چائے پینے پر اکتفا کرتے۔ رات گئے تک علی بخش ان کے پائوں دباتا اور اگر میں کبھی دبانے بیٹھتا تو منع کر دیتے اور کہتے ’’تم ابھی چھوٹے ہو، تھک جائو گے۔‘‘ مجھے خاص طور پر حکم تھا کہ جب بھی ان کے پاس لوگ بیٹھے ہوں اور کوئی بحث مباحثہ ہو رہا ہو تو میں وہاں ضرور موجود رہوں۔ لیکن مجھے ان کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہ ہوا کرتی کیونکہ وہ میری سمجھ سے بالاتر ہوتیں۔ سو، میں عموماً موقع پا کر وہاں سے کھسک جایا کرتا جس پر انھیں بہت رنج ہوتا اور وہ اپنے احباب سے کہتے ’’یہ لڑکا نجانے کیوں میرے پاس بیٹھنے سے گریز کرتا ہے۔‘‘دراصل اب وہ تنہائی بھی محسوس کرنے لگے تھے اور اکثر اوقات افسردگی سے کہا کرتے ’’سارا دن یہاں مسافروں کی طرح پڑارہتا ہوں، میرے پاس آکر کوئی نہیں بیٹھتا!‘‘ آخری رات ان کی چارپائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا جمگھٹا تھا۔ میں کوئی نو بجے کے قریب اس کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا کون ہے؟‘‘میں نے جواب دیا’’میں جاوید ہوں۔‘‘ہنس پڑے اور بولے ’’جاوید بن کر دکھائو تو جانیں!‘‘پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چودھری محمد حسین سے مخاطب ہوئے ’’چودھری صاحب!اسے جاوید نامہ کے آخیر میں وہ دعا ’’خطاب بہ جاوید ‘‘ضرور پڑھوادیجیے گا۔‘‘ اس رات ہمارے ہاں بہت سے ڈاکٹر آئے ہوئے تھے۔ ہر کوئی ہراساں دکھائی دیتا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ آج کی رات مشکل سے کٹے گی۔ کوٹھی کے صحن میں کئی جگہوں پر، دودو تین تین کی ٹولیوں میں، لوگ کھڑے باہم سرگوشیاں کر رہے تھے۔ اباجان سے ڈاکٹروں کی یہ رائے مخفی رکھی گئی۔ مگر وہ بڑے تیز فہم تھے۔ انھیںاپنے احباب کا بکھرا ہوا شیرازہ دیکھ کر یقین ہوگیا تھا کہ بساط عنقریب الٹنے والی ہے۔ اس کے باوجود وہ اس رات معمول سے زیادہ ہشاش بشاش نظر آتے تھے۔ مجھے بھی حالات سے آگاہ نہ کیا گیا اس لیے میں معمول کے مطابق اپنے کمرے میں جاکر سو رہا۔ مگر صبح طلوع آفتاب سے پیشتر مجھے علی بخش نے آکر جھنجھوڑا اور چیختے ہوئے کہا:’’جائو دیکھو !تمہارے ابا جان کو کیا ہو گیا ہے۔‘‘ نیند اچانک میری آنکھوں سے کافور ہوگئی۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ گھر کے مختلف حصوں سے کراہنے اور سسکیاں بھرنے کی بھنچی ہوئی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ میں اپنے بستر سے اس خیال سے نکلا کہ جا کر دیکھوں تو سہی کہ انھیں کیا ہو گیا ہے۔ جب میں اپنے کمرے سے گزرتا ہوا ملحقہ کمرے میں پہنچا تو منیرہ تخت پر اکیلی بیٹھی، اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپائے رو رہی تھی۔ مجھے ابا جان کے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر وہ میری طرف لپکی اور میرے بازو سے چمٹ گئی۔ اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے لیکن اس کے باوجود وہ میرے ساتھ چل رہی تھی۔ ہم دونوں ان کے کمرے کے دروازے تک پہنچ کر رک سے گئے۔ میں نے دہلیز پر کھڑے کھڑے اندرجھانکا۔ ان کے کمرے میں کوئی بھی نہ تھا۔ کھڑکیاں کھلی تھیں اور وہ چارپائی پر سیدھے لیٹے تھے۔ انھیں گردن تک سفید چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا جو کبھی کبھار ہوا کے جھونکوں سے ہل جاتی۔ اباجان کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ قبلے کی طرف تھا، مونچھوں کے بال سفید ہو چکے تھے،اور سر کے بالوںکے کناروں پر میرے کہنے سے آخری بارلگائے ہوئے خضاب کی ہلکی سی سیاہی موجود تھی۔ منیرہ کی ٹانگیں دہشت سے کانپ رہی تھیں۔ اس نے میرے بازو کو بہت زور سے پکڑ رکھا تھا اور مجھے اس کی سسکیوںکی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مگر میں کوشش کے باوجود بھی نہ روسکتا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ اگر میں رودیا تو وہ ابھی اٹھ کھڑے ہوں گے، اپنی انگلی کے اشارے سے ہم سے قریب آنے کو کہیں گے۔ اور جب ہم ان کے قریب پہنچ جائیں گے تووہ اپنے ایک پہلو میںمجھے اور دوسرے میں منیرہ کو بٹھا لیں گے، پھر اپنے دونوں ہاتھ پیار سے ہمارے کندھوں پر رکھ کر قدرے کرختگی سے مجھ سے کہیں گے’’تمہیں یوں نہ رونا چاہیے۔ یاد رکھو تم مرد ہو، اور مرد کبھی نہیں رویا کرتے!‘‘ مئے لالہ فام، اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۹۲ئ۔ حاشیہ ۱۔جاوید اقبال صاحب کے بچپن کا یہ مشاہدہ علامہ کی زندگی کے ان آخری برسوں کا ہے،جب( ۱۹۳۴ء سے) علامہ کی طویل علالت کا آغاز ہو چکا تھا۔(مرتبین) اقبال کی آخری علالت سید نذیر نیازی ۱۹۳۶ء کی سردیاں آئیں تو حضرت علامہ کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوگئی اور ۱۹۳۷ء کے اختتام تک صحت کی یہ رفتار برابر قائم رہی۔ اس زمانے میں ایسا بھی ہوا کہ کبھی کبھی ان کی آوازنہایت صاف ہو جاتی علی ہذا تنفس اور بلغم میں بھی کمی تھی۔ البتہ کمزوری کا احساس باقی تھا۔ لیکن اس کے باوجود حضرت علامہ پلنگ پر لیٹے رہنے کی بجائے اکثر نشست کے کمرے میں آبیٹھتے مگر انہوں نے خود پڑھنالکھنا ترک کر دیا تھا کیونکہ مارچ یااپریل ۱۹۳۷ء میں موتیا بند کی علامتیں قطعی طور سے ظاہر ہوگئی تھیں۔ بہر کیف اب ان کی خواہش تھی کہ قرآن پاک کے حقائق و معارف کے متعلق اپنا دیرینہ ارادہ پورا کریں۔ لیکن سوال یہ تھا کہ کس رنگ میں؟تفسیر و تشریح یا ابتدائی مطالعہ کے لیے ایک مقدمہ؟ بالاخرموجودہ زمانے کی اجتماعی تحریکات کو دیکھتے ہوئے ان کے دل میں یہ خیال دن بدن مستحکم ہوتا چلا گیا کہ اس وقت ضرورت اسلام کے نظام عمرانی کی تصریح و تو ضیح کی ہے وہ چاہتے تھے کہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کی مانند تشکیل جدید فقہ اسلامی پر قلم اٹھائیں اور دیکھیں کہ قرآن پاک نے ان مسائل کی رہنمائی کس انداز میں کی ہے۔ لیکن اس کے لیے وقت کی ضرورت تھی اور ان حضرات کی بھی جو فقہ اسلامی پر نظر رکھتے ہوئے جدید عمرانی رجحانات کو سمجھتے ہوں۔ بایں ہمہ انہوں نے اس غرض سے یورپ اور مصر کی بعض نئی مطبوعات فراہم کرنا شروع کر دی تھیں لیکن افسوس ہے کہ اس تصنیف کا کام استفصائے مسائل، ترتیب مقدمات اور تقسیم مباحث سے آگے نہیں بڑھا اوروہ بھی صرف ان کے غور و فکر اور گفتگوئوں کی دنیا میں۔ آگے چل کر جب وہ اپنی صحت سے ناامید ہوگئے تو اس ارادے کی ناکامی سے اس قدر شکتہ خاطر تھے کہ دو ایک بار فرمایا۔ ’’میں یہ کتاب لکھ سکتا تو اطمینان سے جان دیتا۔‘‘ تشکیل جدید فقہ اسلامی کا ارادہ ملتوی ہوا تو ان کا ذہن جس کی تیزی اور سر گرمی جمود تعطل کی بجائے دن بدن بڑھتی جاتی تھی، ایک دوسری جانب منتقل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ میں صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتا اور گھنٹوں مباحث پر ان سے گفتگوکرتا۔ ایک مرتبہ حضرت علامہ نے فرمایا۔ ’’لوگوں سے بات چیت کرنے میں بہت سے عمدہ خیالات سوجھتے ہیں مگربعد میں کوئی یاد رہ جاتا ہے اور کوئی نہیں۔‘‘میں نے خلاف ارادہ عرض کیا کہ میں نے تو اپنی بساط کے مطابق آپ کے ارشادات کا ایک روزنامچہ تیار کر رکھا ہے۔ کہنے لگے ’’ایکرمان کی طرح ؟‘‘میں اپنی بے مایگی کے احساس سے خاموش ہوگیا۔ انہوں نے کہا ’’اگر تم اپنے ساتھ ایک یادداشت بھی رکھ لو تو کیا خوب ہوتا کہ جس بات کو کرنے کو کہا جائے فوراً قلم بند ہوجائے ۔‘‘ لیکن ابھی دو ایک باتیں ہی درج یادداشت ہوئی تھیں کہ یہ امر واضح طور سے محسوس ہونے لگا کہ حضرت علامہ کے افادات ایک کتاب کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے حکم دیا کہ میں ہر روز عہد نامہ عتیق یا اناجیل کا کوئی حصہ پڑھ کر سنایا کروں یہ مشغلہ کئی روز تک جاری رہا۔ عہد نامہ عتیق پر ان کی تنقید بڑے مزے کی ہوتی اور وہ اس کے انداز بیان اور مطالب کا مقابلہ باربار قرآن پاک سے کرتے۔ دراصل ان کا خیال تھا کہ نطشے کی کتاب Also Sprachh Zarathustraکی طرح ایک نئی تصنیف Whatan unknown Prophet said یا The book of an unknown Prophetکے نام سے مرتب کریں۔ اور اس کے لیے انہیں کسی مناسب ادبی اسلوب کی تلاش تھی۔ اس امر کا ہمیشہ افسوس رہے گاکہ تشکیل جدید فقہ اسلامی کی طرح اس کتاب کا تصور بھی کوئی عملی شکل اختیار نہ کر سکا۔ میں ابھی عرض کر چکا ہوں کہ ۱۹۳۷ء میں حضرت علامہ کی صحت سال گذشتہ سے کہیںزیادہ بہتر تھی۔ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے بدن میں ایک قسم کی تازگی اور قوت محسوس کرنا شروع کی۔اس سے انہیں پھر امید بندھ گئی کہ شاید کچھ مدت کے بعد سفر کے قابل ہوجائیں۔اس خیال کے آتے ہی حکیم صاحب قبلہ سے درخواستیں ہونے لگیں کہ تقویت بدن کے لیے کوئی زوداثر اکسیر ایجاد کریں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: ہے دو روحوں کا نشیمن یہ تن خاکی مرا ایک میں ہے سوز و مستی ایک میں ہے تاب وتب ایک جو اللہ نے بخشی مجھے صبح ازل دوسری وہ آپ کی بھیجی ہوئے روح الذہب جب سے حضرت علامہ گول میز کانفرنسوں کے سلسلے میں یورپ تشریف لے جا رہے تھے بالخصوص سیاحت اندلس اور افغانستان کے بعد ان کے دل میں برابر یہ شوق پیدا ہورہا تھا کہ اگر ممکن ہو تو بلادِ اسلامیہ کا سفر کریں تاکہ دنیائے اسلام کی موجودہ ذہنی کشاکش اور اجتماعی اضطراب کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ان کا خیال تھا جو لوگ ان ممالک کی سیر کرتے ہیں، ان کی قوتِ مشاہدہ نہایت محدود بلکہ اکثر معدوم ہوتی ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر ان کی ایک دیرینہ آرزو تھی اور وہ حرم پاک نبوی کی زیارت تھی۔ ۱۹۳۲ء میں انگلستان سے واپس ہوتے ہوئے جب وہ موتمراسلامیہ کی شرکت کے لیے بیت المقدس تشریف لے گئے ہیں تو اس وقت سفرحجاز کا سامان تقریباً مکمل ہو چکا تھا لیکن پھر جیسا کہ انہوں نے خود مجھ سے فرمایا۔ ’’اس بات سے شرم آتی تھی کہ میں گویا ’’ضمناً‘‘ دربار رسولؐ میں حاضر ہوں۔‘‘ خیر اس وقت تو یہ ارادہ پورا ہونے سے رہ گیا مگر ان کے تاثرات دب نہ سکے اور ان کا اظہار اس نظم میں ہوا جو ’’ذوق شوق‘‘ کے عنوان سے بالِ جبریلمیںموجود ہے۔ اب ۱۹۳۷ء میں ان کی حالت بہتر ہوئی تو انہوں نے مختلف جہاز راں کمپنیوں سے خط و کتابت شروع کر دی۔ خیال یہ تھا کہ ۱۹۳۸ء میں نہیں تو ۱۹۳۹ء میں وہ اس قابل ہوجائیں گے کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مدینہ منور کی زیارت سے فیض یاب ہوسکیں۔ رفتہ رفتہ انہوں نے عالم تصور میں اس مقدس سفر کی تمام منزلیں طے کرلیں۔ ادھر وفور شوق نے ان کے درد بھرے سازکو چھیڑا اور ادھر ان کی زبان جوش وخروش میں ترانہ ریز ہوئی ؎ بایں پیری رہ یثرب گرفتم نوا خواں از سرور عاشقانہ چوآں مرغے کہ در صحرا سر شام کشاید پر بہ فکر آشیانہ انہوں نے خیال ہی خیال میں احرام سفر باندھا اور ارض پاک کو روانہ ہوگئے ’’الا یا خیمگی خیم فروہل کہ پیش آہنگ بیروں شدز منزل‘‘ خرد از راندن محمل فروماند زمام خویش دادم در کف دل کبھی وہ عین حرم کعبہ میں اپنی بے تابی کا اظہار کرتے ؎ بدن داماند و جانم درتگ و پوست سوئے شہرے کہ بطحا در رہ اوست توباش ایں جا و با خاصاں بیامیز کہ من دارم ہوائے منزل دوست اور کبھی دیار حبیب صلعم میں پہنچ کر ان کی بے چین روح کو تسکین و قرار کی ایک دولت ہاتھ آجاتی ہے ؎ دریں وادی زمانی جاودانی ز خاکش بے صور روید معانی! حکیماں یا کلیماں دوش بر دوش کہ ایں جاکس نہ گوید ’لن ترانی‘! اب طبیعت میں آمد کا وہ زورتھا کہ رباعیوں پر رباعیاں موزوں ہوتی چلی گئیں۔ پچھلے سال کی برسات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک روز مجھ سے ارشاد فرمایا ’’نیازی صاحب !ارمغان حجازکا مسودہ صاف کرنا ہے۔‘‘عنوان کتاب اور رباعیات (یا قطعات اس لیے کہ اوزان کی روسے غالباً انہیں قطعات کہنا ہی زیادہ مناسب ہوگا اگرچہ حضرت علامہ نے خود ان کو رباعیوں ہی سے تعبیر کیا)کا ذکو تو روز مرہ کی صحبتوں میں اکثر آتا رہتا تھا لیکن یہ سن کر اور بھی مسرت ہوئی کہ مسودے کی تبیض کا وقت آ پہنچا۔ ۱۹۳۶ء سے اشعار کی ترتیب وتسوید کی خدمت حضرت علامہ نے میرے ہی ذمے کر رکھی تھی جس سے مجھے ان کی شاعری کے نفسیاتی پہلوئوں سے اور زیارہ گہرا اتصال پیدا کرنے کا موقعہ ملا۔ حضرت علامہ کی یہ آخری تصنیف جوایک طرح سے حجاز کا خیالی سفرنامہ ہے (فرمایا کرتے تھے’’اصل سفرنامہ تو وہ ہوگاجو حرمین پاک کی زیارت کے بعد لکھا جائے گا)ان کی وفات سے بمشکل ایک ہفتہ پہلے مکمل ہوئے۔ میرا مطلب اس رباعی سے ہے جو آنے والے ’’مرد مسلم‘‘ کے متعلق انہوںنے درج بیاض کرائی ورنہ صحیح معنوں میں اس تصنیف کو مکمل کہنا غلط ہے کیونکہ رباعیات کی آمد اور ان کی تصحیح ترمیم،انتخاب اور قطع و برید کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ایک دن جب میں اور چودھری صاحب حسب معمول ان کی خدمت میں حاضر تھے تو فرمایا ’’بیاض لے آئو اور فہرست مرتب کردو۔‘‘ قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ لمحے میرے اورچودھری صاحب کے لیے کس قدر تکلیف اوررنج کا باعث ہوں گے۔ میں نے فہرست کو ترتیب دے کر عرض کیا ’’اور اردو نظمیں؟‘‘ فرمایا ’’الگ عنوان دے کر ساتھ ہی شامل کر دو۔‘‘ اردو نظموں کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ حضرت علامہ کا مشغلہ سخن تو ہمیشہ جاری رہتا ۔ وہ اگر چاہتے بھی تو اسے بند نہ کر سکتے تھے۔اس سلسلے میں انہوں نے ایک دن خود مجھے سے ارشاد فرمایا کہ ’’آمد شعر کی مثال ایسی ہے جیسے تحریک جنسی کی ہم اسے چاہیں بھی تو روک نہیں سکتے۔ ‘‘کہنے لگے ’’میں بلا ارادہ بھی شعر کہہ سکتا ہوں‘‘ اور بعض دفعہ ایک ہی شب میں اشعار کی تعداد تین تین سو تک پہنچ گئی۔ ایک دفعہ سو کر اٹھے تو یہ شعر زبان پر تھا ؎ دوزخ کے کسی طاق میں افسردہ پڑی ہے خاکستر اسکندر و چنگیز و ہلاکو اور فرمایا ’’اس کا کچھ مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ بہر کیف ان مثالوں سے ان کے جوش طبیعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ کے عنوان سے ایک طویل نظم ۱۹۳۶ء میں ہو چکی تھی۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً یہ مشغلہ جاری رہا اور متعدد قطعات، نظمیں اور رباعیاں مرتب ہوتی چلی گئیں۔ بعض اشعار کشمیر اور اہل کشمیر کے متعلق تھے۔خیال تھا کہ یہ مجموعہ شاید حضور اسرفیل کے نام شائع ہوگا گھر قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا۔ آخری اُردو نظم جو انہوں نے کہی اس کی تاریخ، فروری ۱۹۳۷ء ہے چھ شعر کا ایک مختصر سا قطعہ جس کا موضوع تھا:’’حضرت انسان۔‘‘ یوں حضرت علامہ کی علالت کو کم و بیش چار سال گزر گئے۔ پانچویں برس یعنی ۱۹۳۸ء کا آغاز ہوا تو ان کی طبیعت نے یک بیک پلٹا کھایا۔ البتہ ۱۹۳۷ء میں دو ایک روز کے لیے دہلی ضرور تشریف لے گئے تاکہ حکیم صاحب کو نبض دکھا سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مرض کے ازالے کا کچھ بہت زیادہ موثر طریق نہ تھا۔ معلوم نہیں ان کے آخری عوارض کی ابتدا کب ہوئی لیکن جہاں تک میں اپنی قوت مشاہدہ پر اعتماد کر سکتا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان کی صحت آخر ۱۹۳۷ء ہی سے گرنا شروع ہوگئی تھی۔ میں اس زمانے میں حضرت علّامہ کو دیکھ کر اکثر گھبرا جاتا۔ بسا اوقات وہ اس قدر لاغر اور نحیف معلوم ہوتے جیسے ان کے بدن میں خون ہی نہیں۔ بایں ہمہ ان سے جو کوئی بھی خیریت مزاج دریافت کرتا،فرماتے ’’الحمدللہ، بہت اچھا ہوں۔‘‘ اس زمانے میں حکیم محمد حسن صاحب قرشی نے ان کے لیے چند مرکبات تجویز کر رکھے تھے جن سے فائدہ ہوا لیکن ۱۹۳۷ء کا آغاز اور ’’یوم اقبال ‘‘کی تقریب خیر و خوبی سے گزرگئی تو انہیں دفعتاًضیق النفس کے خفیف سے دورے ہونے لگے ایک روز انہوں نے شکایت کی کہ پچھلی رات کا اکثر حصہ بے خواب گزرتا ہے۔ پھر ایسا معلوم ہوا جیسے گردے کے مقام پر درد ہے۔ دو ایک دن نقرس کی تکلیف بھی رہی مگر اس کے بعد بتدریج افاقہ ہوتا گیا۔ رہی نیند کی کمی سو خیال تھا کہ شاید تبدیلی وقت کی وجہ سے ایسا ہو۔ کیونکہ حضرت علامہ دن کا اکثر حصہ سو لیا کرتے تھے اور بے خوابی کے باوجود تھکن یا بے چینی محسوس نہ کرتے۔ضیق النفس کے لیے قرشی صاحب نے ایک ہلکا سا جوشاندہ تجویز کر رکھا تھا جس کے استعمال سے فوراً سکون ہوجاتا۔ ان کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو دمہ قلبی (Cardiac Asthma)ہے ضعف قلب کے باعث اور ڈاکٹروں نے اس کی تائید کی۔ اس تکلیف میں حضرت علامہ اکثر بیٹھے بیٹھے سامنے کی طرف جُھک جاتے اور بسا اوقات پائنتی پر تکیہ رکھے اپنا سر اس پر ٹیک دیتے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ ان ایام میںانہوں نے دفعتاً مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ علی بخش سے اکثر کہا کرتے تھے:’’۱۹۳۸ء خیریت سے گزر جائے تو سمجھنا کہ اچھا ہوں۔ ’’۲۲ فروری کی شام کو مجھ سے شوپن ہاور کے متعلق گفتگوکرتے کرتے یک بیک کہنے لگے ’’نیازی صاحب اس فلسفہ میں کیا رکھا ہے،کچھ بھی نہیں۔‘‘میں سمجھا ان کااشارہ ہے عقل کی بے مایگی کی طرف۔ کہنے لگے۔ ’’علم کی مسرت ،کوئی مسرت نہیں مسرت یہ ہے کہ انسان کی صحت ہو تندرستی ہو۔‘‘ اس کے تین روز بعد یعنی ۲۵ فروری کی شام کوانہوں نے ضیق کو روکنے کے لیے حسب معمول جوشاندہ پیا مگر دورے کی شدت میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اگلے روزایلوپیتھک علاج شروع کیا گیا۔ اس میں کچھ دوائیں غالباً دورے کو روکنے اور کچھ نیند کے لیے تھیں۔ اس طرح چند روز آرام سے گزرگئے مگرپھر ۳ مارچ کو آخر شب میں ان پرضعف قلب کے باعث غشی طاری ہوگئی اور وہ اسی حالت میںپلنگ سے نیچے گرگئے۔ قرشی صاحب کا قاعدہ تھا کہ صبح کی نمازکے بعد حضرت علامہ کی خیریت معلوم کرنے اکثر جاوید منزل تشریف لے جاتے۔ اس روز بھی حسن اتفاق سے ایسا ہی ہوا۔ قرشی صاحب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت علامہ دم کشی کے باعث تکلیف میں ہیں انہوںنے جہاں تک ممکن تھا اس وقت مناسب تدابیر کیں اورپھر سیدھے میرے ہاں چلے آئے ان کی اس غیر متوقع تشریف آوری پر مجھے ایک گونہ تعجب ہُوا لیکن میں ابھی دریافتِ حالات نہ کرنے پایا تھا کہ اُنھوں نے خود ہی صبح کے پُرخطر واقعہ کا ذکر کر دیا۔کہنے لگے :دل نہایت ضعیف ہے۔ جگر اور گردے مائوف ہو رہے ہیں۔ مگر اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے، مناسب تدابیر اور احتیاط سے افاقہ ہوجائے گا۔‘‘ میں کچھ اور پوچھنا چاہتا تھا کہ انہوں نے کہا۔ ’’آپ فوراً جاوید منزل چلے جائیے اور حضرت علامہ کی حالت سے مجھے اطلاع دیجئے۔ میں دوائیں بھجواتا ہوں۔‘‘ یہ گویا آغاز تھا حضرت علامہ کے مرض الموت کا لیکن اس وقت بھی ان کے استقلال اور دل جمعی کی یہ کیفیت تھی کہ جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا توحسب معمول نہایت اطمینان سے باتیں کرنے لگے۔ ’’آج کیا خبر ہے ؟لڑائی ہوئی ہے یا نہیں؟ آسٹریا کا کیا حال ہے؟‘‘دو تین گھنٹے کی نشست کے بعد جب میں نے یہ دریافت کیا کہ قرشی صاحب سے کیا عرض کردیا جائے تو مسکراکر فرمایا۔ ’’میری طییعت اچھی ہے اس قدر اچھی کہ اگر کسی موضوع پر تقریر کرنا پڑے تو اس کا سلسلہ تین گھنٹے تک جاری رکھ سکتا ہوں۔‘‘ حضرت علامہ نے یہ الفاظ اس لیے فرمائے کہ انہیں زیادہ گفتگو سے منع کر دیا گیا تھا۔ طبی اصطلاح میں ان کی نبض اگرچہ ’’نملی ‘‘تھی یعنی چیونٹی کی طرح نہایت ضعیف لیکن ان کا ذہن برابر صفائی سے کام کرتا رہا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی قلب و دماغ عطا کیے تھے۔ان کے معالج اگرچہ ابتدا میں گھبرا جاتے۔ لیکن ان کی قوت دماغی سے چند ہی روز کے بعد امید بندھ جاتی کہ ابھی صحت کے امکانات باقی ہیں۔ یوں حضرت علامہ کے اس نظریے کی تائید ہوجاتی تھی کہ ہر شخص کی طب انفرادی ہے اور دوران علاج میںمزاج کا خیال رکھنا ازبسکہ ضروری۔ حضرت علامہ کے تیمارداروں کے لیے یہ دن بڑے اضطراب کا تھا۔ بالخصوص اس لیے کہ شام کو انہیں ذرا ذراسی دیر کے بعد ضعف قلب کا دورہ ہونے لگتا ظاہر ہے کہ اس تشویش انگیز حالت میں خطوں پر اکتفا کرنا ناممکن تھا اور اگرچہ حکیم صاحب کی خدمت میں مفصل اطلاع کر دی گئی مگر اب عملاً علاج قرشی صاحب ہی کا تھا۔ یوں بھی حضرت علامہ انہیں اکثر مشورے کے لیے طلب فرما لیا کرتے تھے اور پچھلے برس سے تو ان کا معمول ہو گیا تھا کہ ہر دوسرے تیسرے روز جاوید منزل تشریف لے جاتے حضرت علامہ کو ان کی ذات پر بے حد اعتماد تھا اور وہ ان کی لیاقت وخداقت سے متاثر ہو کر اکثر فرمایا کرتے تھے:’’شمالی ہند میں اب اُن کے سوا اور کون ہے؟ اگر ان کا وجود ایک چھوٹے سے ادارے کی شکل اختیار کر لے تو ہندوستان میں نہ سہی کم از کم پنجاب میں ہماری طب کو بہت کافی فروغ ہوسکتا ہے ‘‘ قرشی صاحب نے بھی جس خلوص اور دلسوزی سے حضرت علامہ کی خبر گیری کی ہے اس کے متعلق اتنا عرض کر دینا کافی ہوگا کہ ان کا تعلق محض طبیب اور مریض کا نہیں بلکہ ایک عقیدت مند اور خدمت گذار دوست کا تھا۔ وہ ان ایام میں حضرت علامہ کی بیماری کے سوا سب کچھ بھول گئے۔ کتنے مرکبات تھے جو انہوں نے محض حضرت علامہ کے لیے اپنی زیر نگرانی تیار کیے وہ صبح و شام ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور گھنٹوں ان کے پاس بیٹھ کر کبھی دوا کھلاتے کبھی مزے مزے کی باتوں سے ان کا جی بہلاتے اکثر وہ ان کی ہتھیلیاں سہلانے لگتے اور پھر چپکے چپکے ان کے چہرے اور پائوں کا معائنہ کر لیتے۔ یہ اس لیے کہ ان کو ابتدا ہی سے خیال ہو چلا تھا کہ حضرت علامہ کا رجحان استسقا کی طرف ہے۔ خود حضرت علامہ کی یہ کیفیت تھی کہ ادھر قرشی صاحب نے جاوید منزل میں قدم رکھااور ادھر ان کی تمام شکایات دور ہوگئیں۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے’’میرا سب سے بڑا علاج یہی ہے کہ حکیم صاحب پاس بیٹھے رہیں۔‘‘ لہٰذا قرشی صاحب کی محنت اور توجہ سے تھوڑے دنوں میں یہ حالت ہوگئی کہ حضرت علامہ کو لخطہ بہ لحظہ افاقہ ہونے لگا اور بعض دفعہ وہ اپنی خواب گاہ میں چل پھر بھی لیتے۔ اس اثنا میں حکیم نابیناصاحب کی دوائیں آگئی تھیں اور پھر کُچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر مظفر الدین صاحب بھی ان سے ضروری ہدایات لیتے آئے کیونکہ حکیم نابینا صاحب اس وقت حیدرآباد تشریف لے جا چکے تھے۔ اس طرح اطمینان کی ایک اور صورت پیدا ہوگئی مگر ان کے بعض نیاز مندوں کا خیال تھا کہ اگر قرشی کے علاج میں ڈاکٹری مشورہ بھی شامل کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ ممکن ہے ایسا کرنا مفید ہی ثابت ہو۔یہ سوچ کر ڈاکٹر محمد یوسف صاحب سے رجوع کیا گیا اور انہوں نے پورے خلوص اور توجہ سے اس امر کی کوشش کی کہ تخفیفِ مرض کی کوئی صورت نکل آئے کچھ دنوں کے بعد ڈاکٹر کپتان الٰہی بخش سے بھی مشورہ ہوا۔ مگر حضرت علامہ کی اپنی طبیعت کا یہ عالم تھا کہ ایلوپیتھک دوائوں سے بار بار گھبرا تے اور ایک خاص میعاد مقرر کرنے کے بعد ان کا استعمال چھوڑ دیتے۔ یہاں پہنچ کر قدرتاً یہ سوال پیدا ہوگا کہ حضرت علامہ کا مرض فی الحقیقت کیا تھا۔قرشی صاحب کہتے ہیں کہ انہیں عظم و اتساع قلب کی شکایت تھی یعنی دل کے مناسب عمل میں نقص واقع ہوگیا تھاجس سے ان کے عضلی ریشے بڑے ہو کر لٹک گئے تھے اس طرح ان کے دل میں سانس کی تکلیف دمہ قلبی کی وجہ سے تھی۔ بالفاظ دیگر چونکہ دل کا عمل پورا نہ ہوتا تھا اس لیے تکلیف رونما ہوجاتی۔ قرشی صاحب کی رائے تھی کہ ’’حضرت علامہ کی کھانسی، بول زلالی،نبض کا ضعیف، سریع اور غیر منظم ہونا یہ سب اتساع قلب کی علامات ہیں۔ مزید برآں ان کا جگر بھی بڑھا ہوا تھا مگر حضرت علامہ کا جگر پہلے سے مائوف تھا ۔ ’’اتنا تو مجھے بھی یاد ہے کہ حکیم نابینا صاحب حضرت علامہ کے جگر کی اصلاح کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے۔ قرشی صاحب کے نزدیک حضرت علامہ کے گردے بھی متاثر تھے اور ان کو شروع ہی سے خیال ہوگیا تھا کہ استسقا کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسری تشخیص یہ تھی کہ حضرت علامہ کو انور سما اور طی (انورزم)یعنی شہ رگ کی رسولی ہے۔ یہ اس لیے کہ جب ان کا دل کمزور ہوگیا تو خون کے مسلسل دبائو نے شہ رگ میں جو ربڑکے غبارے کی مانندپھیل گئی تھی۔ ایک گڑھا سا پیدا کر دیا جس نے رفتہ رفتہ ایک دموی رسولی کی شکل اختیار کر لی۔ یہی سبب وقت نفس کا تھا کیونکہ قصبتہ اریحہ (ہوا کی نالی)پراس رسولی کا دبائو پڑتا تھا۔ اس طرح حضرت علامہ کو مسلسل کھانسی ہوتی رہتی اور انور سما کے باعث چونکہ آواز کے ڈورے کھل گئے تھے لہٰذا ان کا گلا بیٹھ گیا۔ حضرت علامہ کے عوارض کی ان دو تشخیصوں کے متعلق جن کی تفصیل کے لیے میں قرشی صاحب کا ممنون احسان ہوں، اگرچہ راقم الحروف کا کچھ کہنا بے سود ہوگا لیکن اتنا ضرور عرض کرنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر اتفاق رائے غالباً پہلی تشخیص پر ہی تھا۔ ۲۱ مارچ کو جب محمد اسد صاحب مترجم بخاری حضرت علامہ کی عیادت کے لیے آئے ہیں اور ان کے ساتھ ڈاکٹر زیلتسر(Selzer)بھی تھے تو ان کا (ڈاکٹر زیلتسر کا)بھی یہی خیال تھا کہ حضرت علامہ کو اتساع قلب کا عارضہ ہے اور گلے کی تکلیف مقامی فالج کا نتیجہ۔بہر کیف قرشی صاحب کی رائے تھی کہ حضرت علامہ کو لطیف مقویات اور مغزیات کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور ان کے لیے مشک غبر اور مروارید بہت مفید ہیں گے۔ ان دوائوں کا فی الوقع یہ اثر بھی ہوا کہ حضرت علامہ اگر کبھی تبدیلی علاج بھی کرتے تو ان کا استعمال برابر جاری رکھتے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی خیالات اور تجربات کی بنا پر طب قدیم کی خوبیوں کے قائل ہو چکے تھے۔ جدید نظریوں پر انہیں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ان میں انسان کی حیثیت محض ایک شے کی رہ جاتی ہے اور اس کے نفسیاتی پہلوئوں کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ اول تو ان کی رائے یہ تھی کہ طب کا علم ممکن ہی نہیں اس لیے کہ اس کے یہ معنی ہو گے کہ ہم زندگی کی کنہ سے باخبر ہیں جو بداہتاً ایک غلط سی بات ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ایک حد تک طب ممکن بھی ہے تو ہر شخص کی طب دوسرے سے جداگانہ ہوگی کیونکہ پرانا (Ego)بجائے خود یکتا اور منفرد ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ انہوں نے اس امر کی طرف اشارہ بھی کیا کہ اس نقطئہ نظر کے ماتحت اٹلی میں ایک جدید طب کی تشکیل ہو رہی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے علم طب نے کیا ترقی کی ہے؟حالانکہ نوع انسانی کو اس کی ضرورت بدوشعور ہی سے محسوس ہو رہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ علم ہوتا یا پھر اس کی ابتدا اس وقت ہوگی جب تمام علوم ووفنون کا ارتقا مکمل ہوجائے۔ لیکن جہاں تک عملی مجبوریوں کا تعلق ہے ان کے لیے دوائوںکا استعمال ناگزیر تھا۔ مگر وہ ایلوپیتھک دوائوں سے بہت ناراض تھے اس لیے کہ ان میں نہ ذائقے کا خیال رکھا جاتا ہے نہ پسند کا اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خدمت خلق کی بجائے تجارت کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ان کے مقابلے میں طبی دوائیں ہیں۔ کس قدر لطیف اور خوش مزہ!ان سے مسلمانوں کے ذوق جمال اور نفاست مزاج کا پتہ چلتا ہے۔ جب وہ قرشی صاحب کے تیار کردہ خمیرہ گائو زبان عنبری یا دواء المسک کو مزے لے لے کر چاٹتے تو اس پر اظہار افسوس ظاہر کرتے کہ ان کی خوراک کس قدر کم ہے۔ نہ چھ نہ سات فقط تین ماشے پھر ان کا ذاتی تجربہ بھی یہ تھا کہ درد گردہ کی شکایت جو انہیں مدت سے تھی۔ حکیم نابینا صاحب ہی کے علاج سے دورہوئی اور ۱۹۳۴ء میں جب ڈاکٹروں نے بار بار ان کی صحت سے مایوسی کا اظہار کیا تو یہ حکیم صاحب ہی کی دوائیں تھیں جن سے امید کی ایک جھلک پیدا ہوئی اور وہ کم و بیش چار برس تک اپنے مشاغل کو جاری رکھ سکے۔ دوران علاج میں حضرت علامہ نے بارہا اس امر کا مشاہدہ کیا جدید آلات سے بالاخر انکشافات نبض ہی کی تصدیق ہوتی۔ لہٰذا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ ان کااعتماد قدیم دوائوں پر دن بدن بڑھتا گیا۔ وہ کہا کرتے تھے ہماری دوائوں کے اثرات صدیوں کے تجربے سے ثابت ہورہے ہیں۔ آج کل کی دوائوں کی کیا ہے، ادھر ایجاد ہوئیں ادھر متروک۔ ۱۷ مارچ کے بعد جب سے طبی علاج از سرنو شروع ہوا حضرت علامہ کی صحت میں خفیف سا مدوجزر پیدا ہوتا رہا۔اس خیال سے کہ اگر ان حالات کی اطلاع عام ہوگئی تو شاید لوگوں کی عقیدت مندی ان کے آرام میں حارج ہو حضرت علامہ کی خرابی صحت کی خبر مخفی رکھی گئی۔ ان دنوں معمول یہ تھا کہ حضرت علامہ کے متعدد احباب کے علاوہ ہم لوگ یعنی چودھری محمد حسین، راجا حسن اختر، قرشی صاحب اور راقم الحروف صبح و شام حضرت علامہ کی خیریت معلوم کر آتے اور پھر رات کو باقاعدہ ان کی خدمت میں جمع ہو جاتے یا پھر محمد شفیع صاحب جاوید منزل ہی میں اٹھ کر آئے تھے تاکہ حضرت علامہ کی دیکھ بھال اور دوائوں کا خیال رکھیں۔ خدمت گزاری کے لیے علی بخش اور دُوسرے نیاز مند موجود تھے۔ علی بخش بے چارا تو کئی راتیں سویا ہی نہیں۔ حضرت علامہ کو دن میں تو نسبتاً آرام رہتا تھا اور وہ کُچھ وقت سو بھی لیتے تھے لیکن رات کو ان کی تکلیف بڑھ جاتی۔ کبھی اختلاج ہوتا۔ کبھی ضعف، کبھی احتباس ریاح۔ ضیض کے دورے بالعموم پچھلے پہر میں ہوتے تھے اور شفیع صاحب کو اس کی روک تھام کے لیے خاص طور سے جاگ جاگ کر دوائیں کھلانا پڑتیں۔ علی بخش،رحما، دیوان علی (حضرت علامہ کے ملازمین)اور احباب ان کا بدن دباتے۔ جب رات زیادہ ہوجاتی توچودھری صاحب اور راجا صاحب ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیتے تاکہ حضرت علامہ سو جائیں۔ اس وقت قرشی صاحب اور بھی زیادہ قریب ہو بیٹھتے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ حضرت علامہ دیوان علی سے بلھے شاہ کی کافیاں یا پنجابی گیت سنتے اور مجھ سے فرماتے کہ ’’میں بغداد یا قرطبہ کا کوئی ایسا افسانہ بیان کروں جس سے ان کو نیند آجائے۔‘‘اس طرح کچھ دنوں کے بعد حضرت علامہ کی طبیعت یہاں تک سنبھل گئی کہ راجا صاحب سے (سرکاری مشاغل کی مجبوریوں کے باعث )ناغے ہونے لگے اور قرشی صاحب سے دوا اور غذا کے متعلق چھیڑ چھاڑ شروع ہوگئی۔ حضرت علامہ ان سے ہر دوسرے تیسرے روز اس امر کی خواہش کرتے کہ ان کی غذا کی فہرست میں اضافہ ہو تاکہ انتخاب میں سہولت رہے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے :’’پلائو کھانے کو بہت جی چاہتا ہے۔ ‘‘ قرشی صاحب نے کہاآپ کھچڑی کھا لیجئے۔ فرمایا:’’بھنی ہوئے؟کافی گھی کے ساتھ؟‘‘انہوں نے کہا’’نہیں، گھی کم ہونا چاہیے کیونکہ آپ کا جگر بڑھ گیا ہے۔‘‘ حضرت علامہ کہنے لگے:لو پھر اس میں کیا لذت ہوگی۔ اس میں دہی کیوں نہ ملا لیا جائے۔‘‘ قرشی صاحب بولے:’’مگر آپ کو کھانسی ہے ....دہی مضر ہے۔‘‘ فرمایا:تو پھر اس کھچڑی سے نہ کھانا اچھا ہے۔‘‘ بقول قرشی صاحب آخری ایام میں ان کی قُوّتِ تنقید بہت بڑھ گئی تھی اور مزاج میں بے حد ذکاوت اور نفاست پیدا ہو چکی تھی اس لیے ان کے سوالات کا جواب دینا کوئی آسان بات نہ تھی۔ بعض دفعہ وہ (قرشی صاحب)خود بھی پریشان ہوجاتے۔ اگر ان سے یہ کہا جاتا کہ ان کی بعض علامات دوسرے اسباب کا نتیجہ ہیں تو وہ اس شدت سے جرح کرتے کہ جواب نہ بن پڑتا۔ ان کا اصرار تھا کہ ہر بات ٹھیک ٹھیک بیان کی جائے۔ ۱۶ اپریل کی شام کو جب راجا صاحب اور سیّد عابد علی حسب معمول تشریف لائے ان سے مصلحتاً یہ کہا گیا کہ کوئی خطرے کی بات نہیں تو حضرت علامہ بہت خفا ہوئے۔ کہنے لگے:’’میں جانتا ہوں یہ باتیں تعلّقِ خاطر کی بنا پر کہی جاتی ہیں۔ مگر اس طرح سننے والے غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔‘‘دوائوں کے متعلق بھی ان کا کہنا یہ تھا کہ میں انہیں صحت کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس لیے کہ شدت مرض میں میری خودی (Ego)کو نقصان نہ پہنچے۔ بایں ہمہ ان کے اخلاق عالیہ اور کمال وضع کا یہ عالم تھا کہ ان کے معمول اور روز مرہ زندگی میں انتہائی تکلیف کے باجود کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اپنے ملنے والوں سے اسی خندہ پیشانی اور تپاک سے ملتے جس طرح تندرستی میں ان کا شیوہ تھا بلکہ اب انہوں نے اس بات کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا تھا کہ ان کی تواضع اور خاطرداری میں کوئی فروگذاشت تو نہیں ہوتی۔ صحت کی اس گئی گزری حالت میں بھی وہ اگر کسی کے کام آسکے تو اس سے انکار نہیں کیا اور اپنی قوم کے معاملات میں جہاں تک ممکن تھا حصہ لیا۔ انہیں اپنے احباب کے جذبہ خدمت گزاری کی بڑی قدر تھی اور انہوں نے اپنی خلوتوں میں اس کا اظہار بھی کیا۔ ایک شام جب وہ انتہائی کرب کی حالت میں تھے، علی بخش نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔ ہم نے اسے تسلی دی تو فرمایا۔’’رونے دیجئے تیس پینتیس برس کا ساتھ ہے جی ہلکا ہو جائے گا۔‘‘ حضرت علامہ ایک زندہ انسان تھے اور آخر وقت تک صحیح معنوں میں زندہ رہے۔ وہ اپنے اردگرد کی زندہ دنیا کو ایک لخطے کے لیے بھی فراموش نہیں کر سکے برعکس اس کے یورپ اور ایشیا کی ایک ایک تبدیلی کا حال پوچھتے اور اپنے مخصوص انداز میں اس پر رائے زنی کرتے۔ لوگوں نے صرف اتنا سنا کہ،آسٹریا کا الحاق جرمنی سے ہوگیا۔حضرت علامہ نے فرمایا:’’وسط ایشیا میں ۴ کروڑ ترک آباد ہیں۔ اتحاد اتراک پر اس کا اثر کیا رہے گا۔‘‘ اس زمانے میں اٹلی اور برطانیہ کے درمیان گفت و شنید ہو رہی تھی۔ حضرت علامہ اس کی ایک ایک تفصیل کو سنتے اور فرماتے:’’اگر اٹلی نے فی الواقع اتحادیوں سے مصالحت کر لی جیسا کہ قرائن سے ظاہر ہوتا ہے تو بلاد اسلامیہ کو مجبوراً روس کی طرف ہاتھ بڑھانا پڑے گا۔ اس طرح سیاسیات عالم پر ان کے سبق آموز تبصروں کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار و افکار اور ارشادات کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا۔ اپنی وفات سے دو روز پہلے وہ راجا صاحب کے بعض احباب سے شاعر کی ملی حیثیت اور اسلامی فن تعمیر پر فلسفیانہ بحث کر رہے تھے۔ ان کی گفتگوئیں لطف و حرارت سے کبھی خالی نہ ہوئیں اور اس کی جولانیاں مرتے دم تک قائم رہیں۔ علی بخش اور چودھری صاحب کی چھیڑ چھاڑ مدت سے چلی آتی تھی۔ ایک روز چودھری صاحب کہنے لگے:’’علی بخش کی مونچھوں کو دیکھتا ہوں تو سوچنے لگتا ہوں آخر ان کا رنگ کیا ہے؟ جس بال کو دیکھیے دوسرے سے مختلف ‘‘ حضرت علامہ نے برجستہ فرمایا’’مچھئی‘‘ ان کا یہ کہنا کہ دوائوں کا استعمال فائدے کے خیال سے نہیں بلکہ محض اس لیے کرتا ہوں کہ میری خودی (Ego)کو نقصان نہ پہنچے لفظ بلفظ صحیح تھا اور معلوم نہیں اس میں دوائوں کو فی الواقع کوئی دخل تھا بھی یا نہیں۔ بہر حال انہوں نے اپنی قوت ادراک اور ذہن کی بیداری کو جس طرح واضح طور پر قائم کررکھا اسے دیکھ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا۔ ایک رات جب ہم لوگ اس کوشش میں تھے کہ حضرت علامہ سو جائیں۔دیوان علی نے گانا شروع کیا اور گاتے گاتے سہ حرفی ہدایت اللہ کے چند اشعار پڑھ ڈالے۔ اس پر حضرت علامہ یک بارگی اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے۔’’چودھری صاحب اسے کہتے ہیںپحرفے امتے رامی تواں کش۔‘‘چودھری صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں سر پر ہاتھ پھیرا اور’’ہوں‘‘ کہہ کر خاموش ہوگئے۔ حضرت علامہ فرما رہے تھے:’’مشرق کیا ایک طرح سے ساری شاعری کا پس منظر یہی ہے۔‘‘ میں نے عرض کی کہ ہدایت اللہ نے موت و سکرات کا جو نقشہ پیش کیا ہے خلاف واقعہ تو نہیں۔ خود قرآن پاک میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ نے جواب میں فرمایا :’’مجھے حقائق سے انکار نہیں۔ انکار حقائق کی تعبیر سے ہے۔‘‘اور پھر اپنی وہ رباعی لکھوائی جس پر سول اینڈ ملٹری گزٹ کے کالم کے کالم سیاہ ہوتے رہے، بایں ہمہ اس کا مطلب بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آیا۔یعنی: بہشتے بہر پاکان حرم ہست بہشتے بہر ارباب ہمم ہست بگو ہندی مسلماں راکہ خوش باش بہشتے فی سبیل اللہ ہم ہست (آخری رباعی اس سے دو ایک دن بعد ہوئی) حضرت علامہ نے اپنی بیماری کا مقابلہ جس ہمت اور استقلال سے کیا اس کو دیکھ دیکھ کر ان کے تیماردار تو کیا معالجین کو بھی خیال ہونے لگتا تھا کہ شاید ان کا وقت اتنا قریب نہیں جتنا بظاہر معلوم ہوتا ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ حضرت علامہ نے ایک لخطے کے لیے بھی مریض بننا گوارا نہیں کیا۔وہ مریض ضرور تھے مگرانہیں مریض کی حیثیت میں زندہ رہنا منظور نہ تھا۔ ایک دفعہ جب ان کی غذا و دوا اور آرام میں خاص اہتما م ہونے لگا تو فرمایا:’’اس طرح کا جینا گویا جینے سے بغاوت کرنا ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ اب میں دنیا کے قابل نہیں رہا۔‘‘ تکلیف کی حالت میں انہیں بے شک تکلیف ہوتی مگر ادھر اس کا احساس کم ہوا اور ادھر ان کی ساری شگفتگی عود کرآئی ان کی باتوں میں وہ لطف اور دلچسپی پیدا ہو جاتی جیسے وہ کبھی بیمار ہی نہیں تھے۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ان کی طویل علامت نے ان کے ذہن پر کوئی اثر نہ کیا۔ ان کو کوئی اندیشہ تھا نہ پریشانی۔ ان کے یاس نا آشنا دل میں اضطراب اور خوف کی ہلکی سی جھلک بھی پیدا نہ ہوئی۔ گویا موت و حیات کے متعلق جو دلیرانہ اور جرات آموز رویہ انہوں نے عمر بھر اختیار کر رکھا تھا آخر تک قائم رہا۔ اس لحاظ سے وہ فی الواقع خودی کے پیغمبر تھے۔ موت سے ان کی بے خوفی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ جب ان کے معالجین کی بے بسی صاف صاف نظر آنے لگی اس وقت بھی ان کو مکروہات دنیوی کا مطلق خیال نہ آیا۔ چنانچہ آخری شب میں انہوں نے جو نصیحت جاوید سلمہ کو فرمائی اس کا ماحصل یہ تھا۔’’میرے بیٹے!میں چاہتا ہوں کہ تم میں نظر پیدا ہو۔‘‘ایک دن جب انہیں درد کی شدت نے بے تاب کر رکھا تھا مجھ سے کہنے لگے:’’اللہ ہی اللہ ہے۔‘‘ میرے پاس ان الفاظ کا کیا جواب تھا میں خاموش کھڑا رہا۔ انہوں نے پھر فرمایا۔’’یاد رکھو اللہ کے سوا اور کچھ نہیں۔‘‘ میں سمجھتا ہوں اس وقت ان کا ذہن وجود و عدم کے عقدوں سے الجھ گیا تھا اور ان کا اشارہ حضرت بایزیدبسطامی کے ارشاد کی طرف تھا جس کا ذکر اُنھوں نے تشکیلِ جدید میں بھی کیا ہے۔ وہ یہ کہ ایک دن حضرت کے حلقے میں تخلیق کا مسئلہ زیر بحث تھا۔ ان کے کسی مرید نے کہا ’’جب کچھ نہیں تھا توصرف خدا تھا۔‘‘حضرت بایزید فوراً بول اٹھے۔’’اور اب کیا ہے !اب بھی صرف خُدا ہے۔‘‘ رہی اسلام سے ان کی شیفتگی سو اس کے متعلق کیا عرض کیا جائے۔ یہ داستان بہت طویل ہے۔ وہ اس کے مستقبل یا خود ان کے اپنے الفاظ میں یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کی تقدیر(destiny)سے ایک لخطے کے لیے بھی مایوس نہیں ہوئے۔ عالم اسلامی کے جدید رجحانات ظاہراً کس قدر یاس انگیز ہیںلیکن ان کی رجائیت میں سرمو فرق نہ آیا۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص بصیرت عطا کی تھی۔ لوگ ان کے پاس آتے اور بے چین ہو کر مادیت و وطنیت کے اس سیلاب کی طرف اشارہ کرتے جو بلادِ سلامیہ میں ہر طرف پھیل رہا ہے۔ حضرت علامہ فرماتے تمہاری نگاہیں قشر پر ہیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو اور منتظررہو کہ انسان کے اندرون ضمیر سے آخرکس چیز کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب سیاست حاضرہ کی دسیسہ کاریوں سے عوام اورخواص تو کیا بڑے بڑے حجرہ نشین اور عبادت گزار بھی محفوظ نہ رہے۔ حضرت علامہ کے پائے استقامت کو جنبش تک نہ ہوئی۔ ایک سہ پہر کا ذکر ہے۔ حضرات سالک و مہر بھی موجود تھے اور زعیم ترکی کی غیر معمولی فراست کے متعلق باتیںکر رہے تھے۔ کسی نے کہا اتحاد شرق کا خیال نہایت مستحسن ہے لیکن یہ کہنا صحیح نہیں کہ انقرہ و کابل اور طہران کا میشاق اتحاد اسلامی کا نتیجہ ہے۔ حضرت علامہ نے فرمایا:’’بے شک، مگر آپ اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس کی تکمیل کا راستہ اسلام ہی نے صاف کیا۔‘‘البتہ ایک حقیقت آشنا مبصر کی طرح وہ اس بات کو خوب جانتے تھے کہ اس وقت عملاً مسلمانوں کی حالت کیاہے؟ان کے ذہنی اور اخلاقی انحطاط کا انہیں بڑا دکھ تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ ہم لوگ رات کو انہیں اچھی حالت میں چھوڑ کر آتے مگر صبح جب قرشی صاحب پھر ان کی نبض دیکھتے تو ضعف و نقاہت کی انتہا ہوتی۔ دریافت کرنے پر پتا چلتا کہ حضرت علامہ ملت کی زبوں حالی پر دیر تک روتے رہے۔ اُنھیں جدید زمانہ کے ان الحاد پرور نظریوں سے بے حد تکلیف ہوتی تھی جو اندر ہی اندر ہمارے جسد ملی کو کھائے جارہے ہیں مگراس پر انہوں نے، درویشانہ، خاموشی اختیار کی غیر اسلامی تفریق پر انہوں نے اپنا بیان اس وقت لکھوایا جب رہ رہ کر ضعف اور اختلاج کے دورے ہورہے تھے اور قرشی صاحب کو خطرہ تھا کہ اس کا کوئی ناگوار اثر ان کی طبیعت پرنہ پڑے۔ ان ایام میں وہ اکثر فرمایا کرتے تھے: حقیقت را بہ رندے فاش کردند کہ ملا کم شناسد رمز دیں را ایک رات انہوں نے یہ شعر پڑھا: تہنیت گوئید مستاں را کہ سنگ محتسب بر دل ما آمد و ایں آفت از مینا گزشت اور اتنی رقت طاری ہوئی کہ ان کے نیازمندوں کو اضطراب ہونے لگا۔وہ کہا کرتے تھے میں نے اسلام کے لیے کیا کیا؟ میری خدمت اسلامی تو بس اس قدر ہے جیسے کوئی شخص فرط مُحبّت میں سوتے ہوئے بچہ کو بوسہ دے۔ ایک دن مجھ سے رسول صلعم پر گفتگو فرما رہے تھے۔ جب حضرت ابوسعید خدری کی اس روایت کا ذکر آیا کہ حضور رسالت ماب صلعم اپنے بعض اصحاب کے ساتھ احد پر تشریف لے گئے اور احد کانپ اٹھا توحضرت علامہ نے فرمایا:’’یہ محض استعارہ نہیں۔‘‘ اور پھر درد کی تکلیف کے باوجود سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور جوش میں آکر کہنے لگےMind you this is no metaphor (یاد رکھو یہ محض استعارہ نہیں) انہیں حضور سرور کونین صعلم سے کچھ ایسا عشق تھا کہ آپؐ کاذکر مبارک آتے ہی ان کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اوربیماری کے آخری ایام میں تو فرط ادب سے یہ کیفیت ہوگئی تھی کہ حضور ضلعم کا اسم گرامی زبان پر لانے سے پہلے اس امر کا اطمینان کر لیتے کہ ان کے حواس اور بدنی حالت میں کوئی خرابی تو نہیں۔ اس رفتار میںمرض الموت کی رفتار کچھ عجب سی رہی۔ اول استستا کا حملہ ہوا جس سے چہرے اور پائوں پر ورم آگیا۔اب پیٹھ کے درد سے بھی خاصی تکلیف رہتی تھی اور حضرت علامہ فرمایا کرتے تھے:’’میری دوائوں کی آزمائیش اس میں ہے کہ پیٹھ کا درد جاتا ہے یا نہیں۔’’مگر پھر رفتہ رفتہ ان علامات میں تخفیف ہونا شروع ہو گئی حتیٰ کہ قرشی صاحب ایک خاص مجبوری کے باعث دو روز کے لیے راولپنڈی تشریف لے گئے۔ لیکن اگلے ہی روز بیماری نے کچھ ایسا زور پکڑا کہ حضرت علامہ کے بائیں جانب تمام جسم پر ورم پھیل گیا۔ اس حالت میں ڈاکٹر جمعیت سنگھ صاحب کو بلوایا گیا۔ انہوںنے معائینے کے بعد قطعاً مایوسی کا اظہار کیا اور دو ایک باتیں ان کی عادت کے متعلق صاف صاف کہہ دیں۔ بایں ہمہ حضرت علامہ مطلق پریشان نہ ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کو سن کر اس طرح سوالات کرنا شروع کر دیے جیسے کسی امر کی تنقیح مقصود ہو۔ ڈاکٹر صاحب گئے تو ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب نے کوشش کی کہ دوچار کلمات تسلی کے کہیں مگرحضرت علامہ الٹا ان کی تسکین خاطر فرماتے ہوئے کہنے لگے:’’میںمسلمان ہوں۔ موت سے نہیں ڈرتا۔‘‘اس کے بعد اپنا یہ شعر پڑھا: نشان مرد حق دیگر چہ گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست ڈاکٹر صاحب گئے توانہوں نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کاغذ قلم لے آئو خط لکھوانا ہے۔ یہ ان کا آخری خط تھا! تیسرے پہر ڈاکٹر جمعیت سنگھ پھر تشریف لائے۔ ڈاکٹر یار محمد خاں صاحب ساتھ تھے،شام کو کپتان الٰہی بخش صاحب بھی آگئے اور باہمی مشورے سے دوائوں اور انجکشنوں کی تجویز ہونے لگے۔ دوسرے روز قرشی صاحب بھی پہنچ گئے۔ اب ہر قسم کی تدابیر ہو رہی تھیں۔ قدیم و جدید سب۔ بالاخر وہ وقت آپہنچا۔ جس کا کھٹکا مدت سے لگا ہوا تھا۔ ۲۰ اپریل کی سہ پہر کو جب میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہہوا تو وہ بیرن فلٹ ہائم (Von Veltheim)اور ان کے ایک پارسی دوست سے گفتگو کر رہے تھے اور گوئٹے اور شلر اور معلوم نہیں کس کس کا ذکر تھا فلٹ ہائم گئے تو چند اور احباب آگئے جن سے دیر تک لیگ، کانگریس اور بیرونی سیاسیات پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ شام کے قریب جب ان کے معالجین ایک ایک کر کے جمع ہوئے توانہیں بتلایا گیا کہ حضرت علاّمہ کو بلغم میں کل شام سے خون آ رہا ہے۔ یہ علامت نہایت یاس انگیز تھی اس لیے کہ خون دل سے آیا تھا۔ اس حالت میں کسی نے یہ بھی کہہ دیا کہ شاید وہ آج کی رات جان برنہ ہو سکیں۔ مگر انسان اپنی عادت سے مجبور ہے۔ تدبیر کا دامن آخر وقت تک نہیں چھوڑتا۔ قرشی صاحب نے بعض دوائیں تلاش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو موٹر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتفاق سے اسی وقت راجا صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے پوچھا گاڑی ہے؟ کہنے لگے:’’نہیں مگر کیا مضائقہ ہے ابھی لیے آتا ہوں۔‘‘ چونکہ ان کی اپنی گاڑی خراب تھی لہٰذا اتنا کہہ کر راجا صاحب موٹر کی تلاش میں نکل گئے۔ ادھر ڈاکٹر صاحبان کی رائے ہوئی کہ کرنل امیر چند صاحب کو بھی مشورے میں شامل کر لیا جائے۔ اس اثنا میں ہم لوگ حضرت علامہ کا پلنگ صحن میں لے آئے تھے۔ کرنل صاحب تشریف لائے تو ان کی حالت کس قدر سنبھل چکی تھی۔ مطلب یہ کہ ان حواس ظاہری کی کیفیت یہ تھی کہ ایک دفعہ پھر امید بندھ گئی۔ لہٰذا طے ہوا کہ کچھ تدابیر اس وقت اختیار کی جائیں اورکچھ صبح۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحبان چلے گئے اور ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب کو رات کے لیے ضروری ہدایات دیتے گئے۔ اب ہوا میں ذراسی خنکی آچکی تھی اس لیے حضرت علامہ بڑے کمرے میں اٹھ آئے اورحسبِ معمول باتیں کرنے لگے۔ دفعتاً انہیں خیال آیا کہ قرشی صاحب غالباً شام سے بھوکے ہیں اور ہر چند کہ انہوں نے انکار کیا لیکن حضرت علامہ علی بخش سے کہنے لگے کہ ان کے لیے چائے تیار کرے اور نئے بسکٹ جو میم صاحبہ نے بنائے ہیں، کھلائے۔ اس وقت صرف ہم لوگ یعنی قرشی صاحب، چودھری صاحب،سید سلامت اللہ اور راقم الحروف ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو یاد فرمایا تو ان سے عرض کیا گیا کہ وہ کام سے گئے ہیں۔ ۱۱ بجے تو اس خیال سے کہ ہم لوگ شاید ان کی نیند میں حارج ہو رہے ہیں چودھری صاحب نے اجازت طلب کی لیکن حضرت علامہ نے فرمایا :’’میں دوا پی لوں، پھر چلے جائیے گا۔‘‘ اس طرح بیس پچیس منٹ اور گزر گئے حتیٰ کہ شفیع صاحب کیمسٹ کے ہاں سے دوا لے کرآگئے۔ حضرت علامہ کو ایک خوراک پلائی گئی مگر ا س کے پیتے ہی ان کا جی متلانے لگا اور انہوں نے خفا ہو کر کہا ’’یہ دوائیں غیر انسانی (Inhuman)ہیں۔‘‘ان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر قرشی صاحب نے خمیرہ گائو زبان عنبری کی ایک خوراک کھلائی جس سے فوراً سکون ہوگیا۔ اسکے بعد حضرت علامہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ ایلوپیتھک دوا استعمال نہیں کریں گے اورجب شفیع صاحب نے یہ کہا کہ انہیں اوروں کے لیے زندہ رہنا چاہیے تو فرمایا:’’ان دوائوں کے سہارے نہیں‘‘(Not on these medicines) ) اس طرح گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا۔ بالاخر یہ دیکھ کر کہ حضرت علامہ نیند کی طرف مائل ہیں ہم نے اجازت طلب کی۔ انہوں نے فرمایا :بہت اچھا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے ان کی خواہش تھی کہ ہو سکے تو قرشی صاحب ٹھہرے رہیں۔بایں ہمہ انہوں نے اس امر پر اصرار نہیں کیا۔ اس وقت بارہ بج کر تیس منٹ ہوئے تھے اورکسی کو یہ وہم بھی نہ تھا کہ یہ آخری صحبت ہوگی جاوید منزل کی! ہم لوگ حضرت علامہ کی خدمت سے اٹھ کر آئے ہی تھے کہ راجا صاحب تشریف لے آئے اور آخر شب تک وہیں حاضر رہے۔ شروع شروع میں تو حضرت علامہ کو سکون رہا اور وہ کچھ سو بھی گئے لیکن پچھلے پہر کے قریب بے چینی شروع ہو گئی۔ اس پر انہوں نے شفیع صاحب سے کہا:’’قرشی صاحب کو لے آئو۔‘‘ وہ ان کے ہاں آئے تو سہی لیکن غلطی سے اطلاع نہ کر سکے۔ شاید ۳ بجے کا وقت ہوگا کہ حضرت علامہ نے راجا صاحب کو طلب فرمایا۔ ان کا (راجا صاحب کا)اپنا بیان ہے کہ جب میں حاضر ہوا تو حضرت علامہ نے دیوان علی سے کہا:’’تم سو جائو البتہ علی بخش جاگتا رہے اب اس کے سونے کا وقت نہیں۔‘‘ اس کے بعد مجھ سے فرمایا:پیٹھ کی طرف کیوں بیٹھے ہو سامنے آجائو۔ میں ان کے متصل ہو بیٹھا کہنے لگے:قرآن مجید کا کوئی حصہ پڑھ کر سنائو۔کوئی حدیث یاد ہے؟ اس کے بعد ان پرغنودگی سی طاری ہوگئی میں نے دیا گل کر دیا اور باہر تخت پر آبیٹھا۔ راجا صاحب چلے آئے تو ایک دفعہ پھر کوشش کی گئی کہ حضرت علامہ رات کو دوا استعمال کریں مگر انہوں نے سختی سے انکار کر دیا۔ ایک مرتبہ فرمایا:’’جب ہم حیات کی ماہیئت ہی سے بے خبر ہیں تو اس کا علم (science)کیونکر ممکن ہے؟‘‘ تھوڑی دیر کے بعد راجا صاحب کو پھر ان سے قرشی صاحب کے لانے کے لیے کہا۔ راجا صاحب کہتے ہیں۔’’میں اس وقت کی حالت کا مطلق اندازہ نہ کرنے پایا تھا۔ میں نے عرض کیا حکیم صاحب رات دیر سے گئے ہیں۔شاید ان کو بیدارکرنا مناسب نہ ہو۔‘‘پھر اپنی یہ رباعی پڑھی جو گذشتہ دسمبر میں انہوں نے کہی تھی ؎ سرود رفتہ باز آید کہ ناید؟ نسیمے از حجازآید کہ ناید؟ سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید؟ راجا صاحب کہتے ہیں۔ میں نے ان اشعار کو سنتے ہی عرض کیا کہ ابھی حکیم صاحب کو لے آتا ہوں۔ یہ واقعہ۵ بج کر ۵منٹ کا ہے راجا صاحب گئے تو حضرت علامہ خواب گاہ میں تشریف لے آئے۔ڈاکٹر عبدالقیوم نے حسب ہدایات فروٹ سالٹ تیار کیا۔ حضرت علامہ بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ کر کہنے لگے:’’اتنا بڑا گلاس کس طرح پیوں گا؟‘‘اور پھر چپ چاپ سارا گلاس پی گئے۔ علی بخش نے چوکی پلنگ کے ساتھ لگا دی ۔ اب اس کے سوا کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ حضرت علامہ نے اول اسے شانوں کو دبانے کے لیے کہا پھر دفعتاً لیٹے لیٹے اپنے پائوں پھیلا لیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا:’’یا اللہ۔‘‘ میرے یہاں درد ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔ علی بخش نے آگے بڑھ کر سہارا دیا تو انہوں نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں۔ اس طرح وہ آواز جس نے گذشتہ ربع صدی سے ملت اسلامیہ کے سینے کوسوز آرزو سے گرمایا تھا۔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ علامہ مرحوم نے خود اپنے ارشادات کو کاروان اسلام کے لیے بانگ درا سے تعبیر کیا تھا اور آج جب ہماری سوگوار محفل ان کے وجود سے خالی ہے تو انہیں کا یہ شعر باربار زبان پر آتا ہے: جس کے آوازے سے لذت گیراب تک گوش ہے وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟ انا للہ وانالیہ راجعون۔ ۲۱ اپریل کی صبح کو میں سویرے ہی اٹھا اور حسب عادت جاوید منزل پہنچ گیا لیکن ابھی پھاٹک میں قدم رکھا تھا کہ راجا صاحب نظر آئے۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ میں سمجھا رات کی بے خوابی کا اثر ہے۔ میں ان کی طرف بڑھا اور کہنے لگا رات آپ کہاں تھے؟ آپ کا دیر تک انتظار رہا۔ وہ معلوم نہیں ہاتھ سے کیا اشارہ کرتے ہوئے ایک طرف چلے گئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو قرشی صاحب سر جھکائے ایک روش پر ٹہل رہے تھے۔میں نے حضرت علامہ کی خیریت دریافت کی تو انہوں نے کچھ تامل کیا۔ پھر ایک دھیمی اور بھرائی ہوئی آواز میں ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا ’’فوت ہو گئے۔‘‘ میں ایک لخطے کے لیے سناٹے میں تھا۔ پھر دفعتاً حضرت علامہ کی خواب گاہ کی طرف بڑھا۔ پردہ ہٹا کر دیکھا تو ان کے فکر آلود چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم اور سکون متانت کے آثار نمایاں تھے۔معلوم ہوتا تھا وہ بہت گہری نیند سو رہے ہیں۔ پلنگ سے ہٹ کر فرش پر بیٹھ گیا۔ شاید وہاں کچھ اور حضرات بھی بیٹھے تھے لیکن میں نے نہیں دیکھا۔ ہاں راجہ صاحب کو دیکھا وہ ان کی پائنتی کا سہارا لیے زار زار رورہے تھے۔ان کو دیکھ کر میں اپنے آنسوئوں کو ضبط نہ کر سکا اور بے قرار ہو کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ اس اثنا میں حضرت علامہ کے انتقال کی خبر بجلی کی طرخ شہر میں پھیل چکی تھا اب جاوید منزل میں ان کے عقیدت مندوں کا ہجوم تھا۔ یہ سانحہ کچھ اس قدر عجلت اوربے خبری میں پیش آیا تھا کہ جو شخص آتا معتوب ہو کرکہتا :’’کیا ڈاکٹر صاحب کیا علامہ اقبال فوت ہوگئے؟‘‘ گویا ان کے نزدیک یہ خبر ابھی غلط تھی۔ حالانکہ وہ گھڑی جو بر حق ہے اور جس کا ایک دن ہر کسی کو سامنا کرنا ہے آپہنچی تھی۔ کل من علیھا فان۔و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والا کرام۔ جنازہ سہ پہر میں ۵ بجے کے قریب اٹھا۔ جاوید منزل کے صحن اور کمروں میں خلقت کا اژوہام تھا۔ معلوم نہیں ان کے غم میں کس کس کی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور میو روڈ سے شاہی مسجد تک کتنے انسان جنازے میں شریک تھے۔ ہم لوگ لاہور کی مختلف سڑکوں سے گزر رہے تھے۔ شہر میں ایک کہرام سا مچا ہوا تھا جدھر دیکھیے حضرت علامہ ہی کا ذکر تھا۔ جنازہ ابھی راستے میں تھا کہ اخباروں کے ضمیمے، قطعات اور مرثیے تقسیم ہونے لگے۔دفعتاً خیال آیا کہ یہ اس شخص کی میت ہے جس کا دل و دماغ رفتہ رفتہ اسلام میں اس طرح کھویا گیا کہ اس کی نگاہوں میں اور کوئی چیز جچتی ہی نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی بے حسی اور اغیار کی چیرہ دستی کے باوجود یہ کہنے سے باز نہ رہ سکا: گرچہ رفت از دست ما تاج و نگیں ما گدایاں را بچشم کم مبیں معلوم نہیں ساحر افرنگ کی فریب کاریوں نے اسے کس کس راہ سے سمجھایا کہ ملت اسلامیہ کی نجات تہذیب نوی کی پرستش میں ہے مگر اس کے ایمان سے لبریز دل میں نبی اُمّی صلعم کی محبت بے اختیار کہہ ٹھی: در دل مسلم مقام مصطفی است آبروئے ما ز نام مصطفی است اس خیال کے آتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ جنازہ تو بے شک اقبال ہی کا ہے لیکن کیا اقبال کی موت ایک لحاظ سے ہندوستان کے آخری مسلمان کی موت نہیں؟ اس لیے کہ وہ اسلام کا نقیب تھا، رازدار تھا اور اب کون ہے جو علامہ مرحوم کی مخصوص حیثیت میں ان کی جگہ لے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مقامات عالیہ سے سرفراز فرمائے اور ان کو اپنی رحمت اور مغفرت کے سائے میں پناہ دے۔آمین، ثم آمین۔ اقبالیاتِ نذیر نیازی، مرتبہ : عبداللہ شاہ ہاشمی ۔ اقبال اکادمی لاہور ۱۹۹۶ء ۲ اُردو شاعری اور شعراے حال دیا نرائن نگم اُردو کی ہر دل عزیزی کا ایک بین ثبوت ہے کہ اس کے اہلِ کمال ملک کے اطراف و جوانب میں پھیلے ہوئے ہیں، چنانچہ آسمانِ شاعری کا دوسرا روشن ستارہ اس وقت پنجاب میں چمک رہا ہے۔ اقبال سیال کوٹ کے رہنے والے ہیں، بزرگوں کا وطن کشمیر تھا۔ آپ کے خاندان نے (جو سپرو تھے) دو سو سال ہوئے ایک بزرگ فقیر کی عقیدتمندی میں اسلام قبول کیا۔(۱) ڈاکٹر اقبال فلسفہ کے ایک زبردست عالم ہیں اور غیر ممالک میں بھی عرصہ تک رہ کر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔ آپ کو ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری ملی ہے۔ عربی، فارسی اور یورپین فلسفہ میں عبور ہونے کے علاوہ سنسکرت کے بھی آپ فاضل ہیں۔ آپ نے ایک دفعہ ایک دوست سے کہا کہ سنسکرت اور فلسفہ کے مطالعہ نے مجھے روحانی شانتی کے معنی سمجھا دیئے ہیں۔ اور اب مجھ میں تعصب اور تنگ نظری کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اقبال کو فطرت سے ایک دردمند دل ملا ہے۔ عرصہ ہوا مولانا شبلی نے فرمایا تھا کہ جب آزاد اور حالی کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے، یہ پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ہے۔ اقبال کو طالب علمی ہی کے زمانہ سے شعرگوئی کا شوق تھا، چنانچہ انٹرنس پاس کرنے کے بعد آپ نے بذریعہ خط و کتابت حضرت داغ سے اصلاحِ سخن لینا شروع کر دی۔ اسی سال ان کی شادی ہو گئی، لیکن یہ خوش قسمت ثابت نہ ہوئی جس سے طبیعت کی شگفتگی اداسی سے بدل گئی۔ اُنہیں دِنوں ایک دوست کا انتقال بھی ہو گیا۔ اس نے دلی رنج کو اور گہرا کر دیا اور یہ درد بن کر اشعار سے ٹپکنے لگا اور آپ کے کلام میں وہ گداز پیدا ہو گیا جو شاعری کی جان ہے۔ فلسفہ کی بدولت نظر میں غیرمعمولی وسعت پیدا ہو گئی۔ سب سے پہلی غزل(۲) جو آپ نے لاہور کے ایک مشاعرہ میں پڑھی، اس کا مطلع یہ تھا: تم آزمائو ہاں کو زباں سے نکال کے یہ صدقے ہو گی میرے سوالِ وصال کے مطلع کا پڑھنا تھا کہ سخن فہم اصحاب نوجوان شاعر کی طرف مخاطب(۳) ہو گئے اور اقبال نے پوری غزل سنا کر دادِ سخن لی۔ اس کے دو اشعار آپ بھی سن کر محظوظ ہوں: موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے اقبال لکھنؤ سے نہ دِلّی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خمِ زلفِ کمال کے(۴) اس کے بعد ۱۸۹۹ء میں آپ نے ’’نالۂ یتیم‘‘ کے نام سے انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسہ میں ایک دلگداز نظم پڑھی جو بہت پسند کی گئی۔ پھر آپ کی نظمیں ملک کے ادبی رسالوں میں چھپنے لگیں۔ خدنگِ نظر، مخزن، زمانہ وغیرہ میں آپ کا کلام قدر کے ساتھ شائع ہونے لگا۔ ابتدا میں اقبال کے کلام میں زبان کی اکثر غلطیاں رہ جاتی تھیں اور اُردوئے معلی کی اولین جلدیں اُن اعتراضات سے بھری پڑی ہیں۔ مگر اقبال نے نکتہ چینی سے فائدہ اُٹھایا اور آج اُردو کے بہترین قومی شاعر کی حیثیت سے ان کا سکہ دلوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ والا قومی گیت آپ ہی کے فکر رسا کا نتیجہ ہے۔ اکبر اگر اس زمانہ کے لسان العصر ہیں تو اقبال قوم کے صحیح ترجمان۔ قومی جذبات کو ادا کرنا اُنہیں کا حصہ ہے۔ خیالات میں گہرائی، بیاں میں گداز، نگاہ میں وسعت جو ان کے کلام میں پائی جاتی ہے اور کہیں نہیں ملتی۔ ان کے اشعار پڑھ کر شاعر اور ناظم کا فرق صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے انکی تشبیہات اور یجنل اور اُنکا تخیل اعلی اور شُستہ انکے استعارات نازک اور بلیغ ہوتے ہیں۔ اشعار پُرمعنی اور پُرمضمون ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا دِل مناظرِ قدرت اور حالات قوم کو دیکھ کر اُمنڈنے لگتا ہے، اور اس کے نالے اشعار کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اقبال حسن کا عاشق کامل ہے مگر اس کا عشق معصومانہ ہے۔ وہ ادنیٰ جذبات سے ملوث نہیں ہوتا۔ع بے لوث ہے جوں نکہتِ گل اس کی جوانی(۵) حالانکہ ہر وقت مستی اور خود فراموشی طاری رہتی ہے۔ معمولی مناظر سے اس کے اثر پذیر دل میں خیالات کا تلاطم پیدا ہونے لگتا ہے اور نالۂ دل موزوں ہو جاتا ہے۔ رات سے مخاطب ہو کر وہ خود کہتا ہے: میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں عزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے سنائوں کس کو تپش شوق کا نظارہ دِکھائوں کس کو برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے دیکھنے والی ہے جو آنکھ کہاں سوتی ہے صفت شمع لحد مردہ ہے محفل میری آہ اے رات بڑی دور ہے منزل میری عہد حاضر کی ہوا راس نہیں ہے مجکو اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے مجکو(۶) ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں(۷) اقبال کا کلام قوم کے سنجیدہ اور فلسفیانہ تخیلات کا عکس ہے۔ قوم کی موجودہ پستی ہر وقت بے چین اور بیقرار کیے رہتی ہے اور اُس کی حالت بالکل ایک اجڑے ہوئے گلستان کے بلبل نالاں کی سی ہے۔ اس کی آزردگی قوم کی روحانی پستی کے باعث ہے۔ اُسے قوم کی اخلاقی ترقی کی فکر دامنگیر رہتی ہے۔ حسنِ ازل کے عاشق کی حیثیت سے وہ زندگی میں ازلی حسن اور ابدی تکمیل کی جھلک دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ اخلاق کے Beauty and Perfection اعلیٰ ترین معیار پر عام عملدرآمد کا آرزومند ہے۔ وہ قوم میں خودداری کا احساس پیدا کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ خود اس کے دل میں خودداری کا سکہ بیٹھا ہوا ہے۔ اقبال دُنیا اور دُنیا والوں کی خامیوں سے اس درجہ متاثر ہے کہ ملک کا اور کوئی دوسرا شاعر نہیں ہے۔ اس کا کلام روح کی کشمکش کا ایک ثبوت ہے: روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے وہ مثلِ جرس(۸) اکبر اور اقبال کی شاعری کی دُنیا ایک دوسرے سے بالکل جدا اور نرالی ہے۔ اکبر قومی معاشرت کا مصلح اور اقبال روحانی شانتی کا منّاد ہے۔ اکبر مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کا مضحکہ اڑاتا ہے، وہ ہنسی ہنسی میں تنبیہ کرتا ہے تاکہ ہمارے طرزِ معاشرت اور تہذیب کا اصلی اور وطنی جوہر مفقود نہ ہونے پائے۔ وہ محبِ وطن ہے اور جب دیکھتا ہے کہ قومی معاشرت اصلیت اور مشرقیت سے خالی ہو رہی ہے تو کراہنے لگتا ہے۔ اکبر کی تمام عمر اسی کوشش میں گزری ہے کہ ہمارے جسدِ قومی پر مغربیت کا ملمع نہ چڑھنے پائے۔ وہ محکومیت کی ذلت کو محسوس کرتا ہے، اس لیے کہ اُن سے غلط معیارِ زندگی کو نمود حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ غیر ملکی اثرات ناقص کے خلاف جدوجہد میں مصروف پیکار رہتا ہے۔ اور گو مغرب کے بہترین اوصاف جذب کرنے کے لیے تیار ہے، تاہم دل پر مشرقی اوصاف اور قومی ڈھانچے میں ہندی وضع قطع کے سوا اور کسی کو دخل دلانا نہیںچاہتا۔ اقبال کا نقطۂ(۸) خیال اس سے بھی بلند ہے۔ اس کی دُنیائے شاعری بالکل نرالی ہے۔ وہ مجاز کی پروا ہی نہیں رکھتا صرف حقیقت کی طرف دیکھتا ہے۔ مجاز اور حقیقت کے امتیاز سے اس کی آنکھیں ہروقت پرنم رہتی ہیں: اشک کے دانے زمین شعر میں بوتا ہے وہ(۹) وہ روح کے لیے مجاز سے آزادی چاہتا ہے اور دُنیاوی جدوجہد سے قطع نظر صرف روح کی ترقی اور روح کی بالیدگی پر جان دیتا ہے، اُس کے لیے دُنیاوی زندگی و بال جان ہے۔ جسم کا پیرہن ایک بوجھ ہے۔ بقول شاعر: زندگانی در جگر خاراست و درپا سوزن است تا نفس باقیست در پیراہنِ ما سوزن است اقبال کے لیے دُنیا کی ظاہری ترقی ایک فنا ہونے والی شے ہے اور وہ کسی اور چیز کا متوالا ہے۔ اس کی تلاش و جستجو میں وہ سرگرداں رہتا ہے اور جب اسے نہیں پاتا تو رو دیتا ہے اور اس کی آہ و زاری اشعار بن جاتی ہے۔ اقبال اُس بلبل کی مثال ہے جسکو اپنے پر ہی قفس معلوم ہوتے ہیں اکبر طرزِ معاشرت میں قوم کو قیدِ فرنگ سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے۔ اقبال قیدِ حیات سے مکدّر رہتا ہے۔ وہ زندگی کو ایک منزل خیال کرتا ہے، آخرت کی موت کو زندگی جاوید کی ابتدا سمجھتا ہے۔ موت سے بھی اسے لڑنے میں عار نہیںاور اپنے خدا سے بھی حق پر حجت و تکرار کرنے میں اسے تامل نہیں۔ وہ روحانی نجات کو بخششِ ربانی کی طرح نہیں مانگتا۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی قوم کو اُس کا اہل اور اس کا حقدار بنانا چاہتا ہے۔ وہ کبھی کبھی خدا کے سامنے دستِ سوال پھیلاتا ہے، لیکن ہمیشہ بے نیازی اور خودداری کا پہلو لیے ہوئے۔ اُس کی مثال اس فقیر بے نوا کی سی ہے، جو ایثار نفس، خلوصِ نیت اور صدقِ عقیدت کی بضاعت رکھتا ہے اور اسی لیے وہ اپنی روح پر فتوح کی عظمت سے واقف ہے۔ اقبال ایک فلسفی نکتہ رس کی طرح موت کے معمہ کو بھی حل کرنا چاہتا ہے۔ وہ کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا نظارہ دیکھتا ہے، اس کو مادی دُنیا سے اتنی غرض نہیں جتنی کہ عالمِ روحانیت سے۔ اکبر مادی دُنیا میں مجاز اور حقیقت، سچ اور جھوٹ میں جو فرق اور تفاوت ہے، اُس کی ہنسی اُڑا اُڑا کر قوم کی ہدایت کرتا ہے۔ جب وہ سنجیدہ ہوتا ہے تو فلسفۂ حیات کی باتیں بھی کرتا ہے، قلب کی وارداتیں بھی بیان کر جاتا ہے، نہایت سلیس زبان اور مقبولِ عام پیرائے میں۔ اقبال بھی تارک الدنیا نہیں ہے اور نہ دُنیا کو مایا اور ’’یتھیا؟‘‘ جانتا ہے مگر اس سے صرف اُس حد تک واسطہ رکھتا ہے۔ جہاں تک کہ روح کے ایک عارضی قیام گاہ کی حیثیت سے اس کی ضرورت پڑتی ہے، ورنہ حیاتِ ابدی کے مسائل اور تغیراتِ روحانی کے مرحلے، زندگی اور موت کی کشمکش ہر وقت اس کے دماغ میں چکر لگایا کرتی ہے۔ اکبر انسانوں کی حماقت پر ہنس دیتا ہے اور اپنی قوم کی ظاہر پرستی کا مضحکہ اُڑاتے رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حقیقت سے ناآشنا۔ مادی تعلیم کے بندے اور اس کے ظاہر پرست ابنائے وطن اگر سنبھلیں گے تو مضحکہ سے ورنہ روحانیت ان میں مفقود ہو گئی ہے۔ خوفِ خدا ان کے دلوں سے جاتا رہا ہے۔ نہ مذہب ان میں باقی ہے اور ’’نہ لوک لاج‘‘ ہی کا کوئی اثر ہے۔ عوام الناس کو ان خاصانِ خدا نے احمق اور اجہل سمجھ رکھا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی چیز کام دے سکتی ہے تو وہ مضحکہ ہے اور یہی اکبر کا زبردست آلہ ہے۔ اقبال کا خاصہ اشک ریزی ہے۔ اس کا خون دل آنکھوں کی راہ سے ٹپکا کرتا ہے۔ جہاں اکبر قہقہہ لگاتا ہے، وہاں اقبال اپنا دل پگھلا پگھلا کر آنسوئوں کی جھڑی لگا دیتا ہے۔ بسا اوقات اقبال کی سوگواری تبسم کی بھی متحمل نہیں ہوتی اور شاید بھری محفل میں بھی وہ اداس رہتا ہے۔ غم اس کی روحانی غذا ہے۔ انسانوں کے ساتھ ہمدردی اس کے زخم دل کا مرہم ہے۔ باطل پرست انسانوں کے قہقہوں کو سن کر اور دُنیا کی عارضی شگفتگی دیکھ کر اس کی چشم حقیقت میں پرنم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا تخیل بلند۔ اس کی فکر رسا۔ اس کا بیان دلگداز ہے اور اس کا کلام قلب میں حرارت اور روح میں تڑپ پیدا کرتا ہے۔ اس کے الفاظ میں عجب دبدبہ اور شکوہ ہے، اس کا حرف حرف ایک روحانی پیغام ہے۔ موت اور زوال سے وہ دلکھتا نہیں کیونکہ جیسا اوپر کہا جا چکا ہے۔ زندگی اس کے لیے ایک منزل ہے اور حیاتِ انسانی آخرت کا پیش خیمہ ہے۔ حسنِ فانی کی نسبت اُس کا فلسفہ سمجھنے کی چیز ہے۔ وہ ایک جرمن فلاسفر کی تائید میں کہتا ہے: ’’خدا سے حسن نے ایک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا‘‘ ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دُنیا شبِ دراز عدم کا فسانہ ہے دُنیا ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی کہیں قریب تھا یہ گفتگو قمر نے سنی فلک پہ عام ہوئی اخترِ سحر نے سنی سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو بھر آئے پھول کے آنسو پیامِ شبنم سے کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار گیا شباب سیر کو آیا تھا، سوگوار گیا(۱۰) عشق اور موت کی تشریح سنیے: فرشتہ تھا اک عشق تھا نام جس کا کہ تھی رہبری اس کی سب کا سہارا فرشتہ کہ پتلا تھا بے تابیوں کا ملک کا ملک اور پارے کا پارا پئے سیر فردوس کو جا رہا تھا قضا سے ملا راہ میں وہ قضارا یہ پوچھا ترا نام کیا کام کیا ہے نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا ہوا سن کے گویا قضا کا فرشتہ اجل ہوں، مرا کام ہے آشکارا اُڑاتی ہوں میں رختِ ہستی کے پرزے بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے پیامِ فنا ہے اِسی کا اشارا مگر ایک ہستی ہے انساں کے دل میں وہ ہے نورِ مطلق کی آنکھوں کا تارا ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسو وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا سرِ کوہ چمکے جو وہ بَن کے بجلی تو ہو غیرتِ طور ہر سنگِ خارا(۱۱) سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا گری اس تبسم کی بجلی اجل پر اندھیرے کا ہر نور میں کیا گزارا بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ قضا تھی شکارِ قضا ہو گئی وہ(۱۲) وہ عشق و محبت کو لافانی سمجھتا ہے، چنانچہ ایک اور جگہ کہتا ہے: ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی زندئہ جاوید عشق عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے ظلمتِ ہستی میں یہ سورج سدا تابندہ ہے(۱۳) رخصتِ محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر جوشِ الفت بھی دلِ عاشق سے کر جاتا سفر عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہیں روح میں غم بن کے رہتا ہے مگر جاتا نہیں ہے بقائے عشق سے پیدا بقا محبوب کی زندگانی ہے عدم ناآشنا محبوب کی(۱۴) موت کے لیے اس کا خیال ہے: مرنیوالے مرتے ہیں، لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں(۱۵) پھر ایک جگہ لکھتا ہے: خاک میں مل کے حیاتِ ابدی پا جائوں عشق کا سوز زمانے کو دِکھاتا جائوں(۱۶) موت کے متعلق اس کے مزید خیالات سنیے۔ سوامی رام تیرتھ جی پر ایک نوحہ لکھتے ہوئے کہا ہے: ہم بغل دریا سے ہے اے قطرئہ بے تاب تو پہلے گوہر تھا بنا اب گوہرِ نایاب تو آہ کھولا کس ادا سے تو نے رازِ رنگ و بو میں ابھی تک ہوں اسیرِ امتیاز رنگ و بو مٹ کے غوغا زندگی کا شورشِ محشر بنا یہ شرارہ بجھ کے آتش خانۂ آزر بنا نفی ہستی اِک کرشمہ ہے دِل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا چشمِ نابینا سے مخفی معنی ٔ انجام ہے تھم گئی جسدم تڑپ سیماب سیمِ خام ہے توڑ دیتا ہے بتِ ہستی کو ابراہیمِ عشق ہوش کی دارو ہے گویا مستی ٔ تسنیمِ عشق(۱۷) کیا کہوں زندوں سے میں اس شاہدِ مستور کی دار کو سمجھے ہوئے ہیں جو سزا منصور کی(۱۸) اپنے استاد داغ کی موت پر ایک مختصر نوحہ کہا ہے، جس کے آخر میں فرمایا ہے: کھل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں ہے خزاں کا رنگ بھی وجۂ قیامِ گلستاں ایک ہی قانون عالمگیر کے ہیں سب اثر بوئے گل کا باغ سے دُنیا سے گلچیں کا سفر(۱۹) کسی اور موقع پر دریائے راوی پر ایک کشتی ٔ رواں دیکھ کر کہا ہے: جہازِ زندگی آدمی رواں ہے یوں ہی ابد کے بحر میں پیدا یوں ہی نہاں ہے یوں ہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا(۲۰) انسان کی حقیقت اقبال کی زبانی سنیے: مری ہستی نہیں، وحدت میں کثرت کا تماشہ ہے کہ خود عاشق ہوں خود معشوق ہوں خود دردِ فرقت ہوں نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں(۲۱) وضو کے واسطے آتا ہے کعبہ لے کے زم زم کو الٰہی کونسی وادی میں میں محوِ عبادت ہوں جو سمجھوں اور کچھ خاکِ عرب کے سونے والوں کو مجھے معذور رکھ میں مستِ صہبائے محبت ہوں یہی صہبا ہے جو رفعت بنا دیتی ہے پستی کو اسی صہبا میں آنکھیں دیکھتی ہیں رازِ ہستی کو(۲۲) ایک اور جگہ فرمایا ہے: اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو قطرہ ہے لیکن مثالِ بحرِ بے پایاں بھی ہے کیوں گرفتارِ طلسمِ ہیچ مقداری ہے تو دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکتِ طوفاں بھی ہے ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔ داماں بھی ہے پھونک ڈالا ہے مری آتشِ نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے راز اس آتش نوائی کا مرے سینہ میں دیکھ جلوئہ تقدیر میرے دل کے آئینہ میں دیکھ(۲۳) قومی ایثار اور ملکی وفاداری کی نسبت اپنا خیال کیسے لطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے۔ یہ قطعہ گذشتہ جنگِ بلقان کے موقع پر لکھا گیا تھا جب طرابلس کے جانثار محبانِ وطن کی شہادت بھی اسے اطالیہ کے پنجہ سے نہ بچا سکی تھی۔ آپ کہتے ہیں عالمِ خیال میں ایک شب: فرشتے بزمِ رسالت میں لے گئے مجکو حضور آیہ رحمت میں لے گئے مجکو کہا حضور نے اے عندلیبِ باغِ حجاز کلی کلی ہے تری گرمی ٔ نوا سے گداز! نکل کے باغِ جہاں سے برنگِ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا(۲۴) اس پر اقبال کا جواب ہے: حضور دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاضِ ہستی میں وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اِک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی جھلکتی ہے تری اُمت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں(۲۵) وہ خالقِ کون و مکان سے عجیب پُرلطف پیرایہ میں مسلمانوں کی پستی کا شکوہ کرتا ہے، وہ کہتا ہے: شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجکو(۲۶) طول طویل شکوہ شکایت کے بعد وہ کہتا ہے: مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کر دے(۲۷) جواب میںبھی ایک طولانی نظم ہے جس کا آخری بند یہ ہے: مثلِ بو قید ہے غنچہ میں، پریشاں ہو جا رخت بردوش ہواے چمنستاں ہو جا شوقِ وسعت ہے تو ذرے سے بیاباں ہو جا نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا(۲۸) بول اس نام کا ہر قوم میں بالا کر دے اور دُنیا کے اندھیرے میں اُجالا کر دے(۲۹) رنج و غم کے فلسفیانہ پہلو پر کہا ہے: موجِ غم پر رقص کرتا ہے، حبابِ زندگی ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی ایک بھی پتّی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں جو خزاں نادیدہ ہو بلبل وہ بلبل ہی نہیں غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطفِ خواب سے ساز یہ بیدار ہوتا ہے اسی مضراب سے طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے راز ہے انساں کا دل غم انکشافِ راز ہے غم نہیں غم، روح کا اِک نغمۂ خاموش ہے جو سرودِ بربط ہستی سے ہم آغوش ہے جس کا جامِ دل شکستِ غم سے ہے ناآشنا جو سدا مستِ شرابِ عیش و عشرت ہی رہا گو بظاہر تلخی ٔ دَوراں سے آرامیدہ ہے زندگی کا راز اس کی آنکھ سے پوشیدہ ہے(۳۰) استغنا دیکھنا ہو تو سنئیے ایک غزل میں واعظ سے فرمایا ہے: واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد دُنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظارِ مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے(۳۱) تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے جینا وہ کیا جو ہو نفسِ غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے(۳۲) ماہِ نو سے خطاب کر کے کہا ہے: گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں سراپا نور تو سیکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دور تو جو مری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے(۳۳) ملک اور قوم کی ترقی کی آرزو اس کے دل میں موجزن ہے۔ ماہِ نو سے مخاطب ہو کر آخر میں کہتا ہے: چاہیے میری نگاہوں کو انوکھی چاندنی لا کہیں سے ماہ کامل بن کے ایسی چاندنی ظلمت بیگانگی میرے وطن سے دور ہو خاکِ ہندوستاں کا ہر ذرہ سراپا نور ہو(۳۴) ہندوستان ہمارا کا نغمہ دلکش تو ملک بھر میں ہر جگہ مشہور ہو چکا ہے، مسلمانوں کی بیداری کے لیے بھی اس نے دُعا مانگی ہے، جس کا مشہور عنوان یہ ہے: یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے(۳۵) مادرِ ہند کی پوری عظمت اقبال کے دل میں بیٹھی ہوئی ہے، مادرِ وطن پر ایک طویل نظم کے صرف دو بند نذر ہیں: چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے(۳۶) گوتم کا جو وطن ہے جاپان کا حرم ہے عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے مدفون جس زمیں میں اسلام کا حشم ہے ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے ارم ہے میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے(۳۷) اقبال دُنیا میں ہر جگہ سچائی کا قدردان ہے۔ بودھ مذہب کی عظمت کے اعتراف میں اشعارِ ذیل ملاحظہ ہوں: وہ اصولِ حق نماے نفی ہستی کی صدا روح کو ملتی ہے جس سے لذتِ آبِ بقا جس سے پردہ روئے قانونِ محبت کا اُٹھا جس نے انساں کو دیا رازِ حقیقت کا پتا(۳۸) اقبال کی روحانی تڑپ جس کا جلوہ اس کے ہر شعر میں جھلکا کرتا ہے، اس غزل سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں حسبِ دستور اس کی تمام خصوصیات موجود ہیں: کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم ہای سیاہ کو ترے عفو بندہ نواز میں(۳۹) نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں مذاق ہے نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں(۴۰) تجھے کیا سنایئے ہم نشیں مجھے موت میں جو مزا ملا نہ ملا مسیح کو خضر کو وہ نشاط عمرِ دراز میں(۴۱) تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں(۴۲) زندگی کے مختلف مسائل اور مراحل پر اقبال کے خیالات سے تو آپ بخوبی واقف ہو چکے اب آپ اس کے کمالِ شاعرانہ کی داد دیجیے۔ جگنو کی تعریف میں ہزارہا شعر آپ کی نظر سے گزرے ہوں گے، مگر اقبال کی ندرتِ بیاں اور فکرِ رسا کا معجزہ دیکھنے اور سننے کے لائق ہے۔ ملاحظہ کیجئے کہ ہر شعر میں ایک نیا اور اچھوتا خیال باندھا ہے۔ کہتے ہیں: جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے، مہتاب کی کرن میں یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں حسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں پروانہ اِک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا وہ روشنی کا جویا یہ روشنی سراپا(۴۳) زمانہ، نومبر، ۱۹۱۸ء بہ حوالہ: نقدِ اقبال، حیات اقبال میں، مرتبہ تحسین فراقی۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۹۲ء حوالے اور حواشی ۱۔ اقبال کے جدِ اعلیٰ بابا لول حج یا لولی حاجی کے لقب سے معروف تھے۔ ۲۔ یہ غزل امین الدین مرحوم کے مکان (اندرون بھاٹی دروازہ) میں منعقدہ ایک مشاعرے میں پڑھی گئی اور بہارِ گلشن، جلد دوم میں شائع ہوئی۔ باقیاتِ اقبال، صفحہ ۳۸۸، ۹۱ ۳۔ یہاں متوجہ کا محل تھا۔ ۴۔ باقیاتِ اقبال، صفحہ ۳۹۰ ۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۵۹ پر یہ مصرع یوں ہے: ’’بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی‘‘ ۶۔ کلیاتِ اقبال میں یہ شعر ردیف کی تبدیلی کے ساتھ درج ہے: عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو صفحہ ۱۷۳ ۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۷۳ ۸۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۴ ۹۔ اقبال کے مصرعے: اشک کے دانے زمینِ شعر میں بوتا ہوں میں، میں ادنی تعبیر کیا گیا ہے، دیکھیے: کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۰ ۱۰۔کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۱۲ ۱۱۔ یہ شعر بعد میں اقبال نے حذف کر دیا، چنانچہکلیاتِ اقبال میں یہ شامل نہیں۔ ۱۲۔کلیاتِ اقبال، صفحہ ۵۷، ۵۸ ۱۳۔ بعد ازاں اقبال نے اس مصرعے کو اس طرح بدل کر زیادہ بامعنی بنا دیا: عشق سوزِ زندگی ہے تا ابد پائندہ ہے، کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۶ ۱۴۔کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۶ ۱۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۷ ۱۶۔کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۶ ۱۷۔کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۱۴ ۱۸۔ یہ شعرکلیاتِ اقبال میں شامل نہیں۔ ۱۹۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۰ ۲۰۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۹۵ ۲۱۔ اس بند کے سواے اس ایک شعر کے اور کوئی شعر کلیاتِ اقبال میں شامل نہیں، دیکھیے: صفحہ ۶۹ ۲۲۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۳۲۰، ۳۲۱ ۲۳۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۹۳، ۱۹۴ ۲۴۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۹۷ ۲۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۹۷ ۲۶۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۶۳ ۲۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۶۹ ۲۸۔ کلیاتِ اقبال، یہ مصرعہ اس شکل میں ہے: ’’ہے تُنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا‘‘۔ ۲۹۔ ٹیپ کا یہ شعر کلیاتِ اقبال میں اپنی اس متغیر صورت میں ملتا ہے: (دیکھیے: صفحہ ۲۰۷) ’’قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے --- دہر میں عشقِ محمدؐ سے اجالا کر دے‘‘ ۳۰۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۵۵، ۱۵۶۔ آخری شعر ترمیمی صورت میں یوں ہے: ’’کلفتِ غم گرچہ اس کے روز و شب سے دُور ہے--- زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے‘‘ ۳۱۔ یہ دوسرا شعر بانگِ درا میں شامل نہیں۔ یہ شعر بیدل کے ایک شعر: ’’باز آمدن مہدی و عیسیٰ اینجا--- از تجربۂ مزاج اعیاں دور است‘‘ کی یاد دِلاتا ہے۔ اقبال کے اس متروک شعر کے لیے دیکھیے: باقیاتِ اقبال، صفحہ ۴۵۱ ۳۲۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۱۰۸ ۳۳۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۰ ۳۴۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۳۱۲ ۳۵۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۲۱۲ ۳۶۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۷ ۳۷۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۳۳۸ ۳۸۔ یہ اشعار غالباً اب تک مدوّن نہیں ہوئے۔ ۳۹۔ بعد میں یہ مصرع یوں بدل دیا گیا: ’’مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں‘‘۔ ۴۰۔ بعد میں اس مصرع میں ترمیم کر دی گئی: ’’نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں‘‘۔ ۴۱۔ یہ شعر کلیاتِ اقبال میں شامل نہیں۔ ۴۲۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۲۸۱ ۴۳۔ کلیاتِ اقبال، صفحہ ۸۴ اقبال: ایک آفاقی شاعر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر ڈاکٹر اقبال فوت ہو چکے ہیں مگر اب ان کا چرچا پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ گویا مر کر وہ اور بھی زندہ ہوگئے ہیں اور جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، ان کے اثر اور ان کی شہرت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ شہرت تو کئی بڑی بڑی شخصیتوں والے لوگوں کی مرنے کے بعد زیادہ ہوجاتی ہے مگر اثر زیادہ محض مصنفوں اوردیگر تخلیقی کام کرنے والوں ہی کا ہو سکتا ہے۔ موت کے بعد زندگی نام کو تو بادشاہوں اور جرنیلوں کو حاصل ہوسکتی ہے مگر اصلی زندگی، مسلسل اثر ڈالنے والی زندگی، ادیبوں اور صناعوں کے لیے ممکن ہے۔ بقول اقبال: رہے نہ ایبک و غوری کے معرکے باقی ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسرو آئندہ کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ، محض رائے کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اپنی زندگی میں بڑی بڑی شہرتوں کے مالک آج ایسے بھلائے جاچکے ہیں کہ ان کے متعلق تحقیقات کرنے والے لوگوں پر کھودا پہاڑ اور نکلی چوہیا کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ ذوق جو شاید اپنے وقت میں غالب سے بہت بلند سمجھا جاتا تھا، آج غالب سے اس کا مقابلہ کرنا بھی بد ذوقی کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ اس سے ادبی تنقید کی بے بضاعتی واضح ہوتی ہے ۔ مگر کبھی کبھار صدیوں کے بعد کوئی ایسا شاعر بھی پیدا ہوجاتا ہے جس کے متعلق پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ صدیوں تک اس کا نام زندہ رہے گا اور اس کا کلام اثر انداز رہے گا۔ اقبال ان چند شاعروں میں سے ہے، اور یہی نہیں کہ اس کا اثر ہندوستان میں بڑھتا جائے گا بلکہ قیاس یہ ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں جب اس کا کلام ترجمہ ہو کر پہنچے گا تو اس کا انداز خیال بہت مقبول ہوگا۔ اردو میں اورکوئی شاعر ایسا نہیں جس کے اثر کے متعلق ایسے عالمگیر امکانات کی توقع کی جا سکے۔ لیکن اقبال تو محض اسلامی شاعر ہے۔ یہ سوال بار بار کیا جا چکا ہے۔ اقبال کی زندگی میں اور بعد بھی۔ تاسف سے، غصے سے، طعنے کے طور پر اور بڑے نا زو افتخار سے اس سوال کاجواب بھی کئی طرح سے دیا گیا ہے اور صداقت کے مختلف پہلوئوں کا مختلف طریقوں سے اظہار کیا گیا ہے۔لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ جو لوگ اقبال کی حمایت کرتے ہوئے معذرت کے انداز میں کہتے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں وہ صداقت سے بہت دور ہیں۔ اقبال کی شاعری صحیح معنوں میں اسلامی شاعری ہے اور اقبال صحیح معنوں میں مومن شاعر تھا۔ اور یہ بیان اس کے اپنے پیش کردہ معیار اسلام کے مطابق بالکل صحیح ہے۔ یہ اور بحث ہے کہ اس کا معیار مسلمہ عقائد سے مختلف تھا یا مطابق۔ لیکن اس کا آخری معیار قرآن اور اسلام ہے! ۔۔ تو پھر اقبال کی شاعری عالمگیر کیسے ہوئی؟ بالکل اسی طرح جس طرح ہومر اور دانتے، کالی داس اور ٹیگور کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ دنیا کے شاعر ہیں۔ ہومر کا کلام پڑھیے، بسم اللہ ہی دیوتائوں کے نام سے ہوتی ہے اور پھر قدم قدم پر یونان کے توہمات اور عقیدوں کا تذکرہ ہے۔ دانتے کٹر عیسائی ہی نہیں بلکہ اس قدر متعصّب اور تنگ نظر ہے کہ وہ اپنی کتاب میں دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو بد ترین گالیاں دیتا ہے۔ اگر آج کوئی مصنف ایسی کتاب ہندوستان میں لکھے تو اس کی کتاب ضبط ہوجائے اور نہ ہوتو جا بجا بلوے ہوجائیں، فرقہ وار فساد برپا کرا دیے جائیں۔ کالی داس ہندو مذہب کے دیوتائوں کا داس ہے اور ٹیگور بھی اپنی مذہبی روایات کا ترجمان ہے، دیوی دیوتائوں کا نام لیوا ہے۔ اقبال بھی ان سب کی طرح ان روایات کو استعمال کرتا ہے جن میں وہ پھولا پھلا۔ پروان چڑھا۔ مگر ایک بات میں اقبال ان سب سے ممتاز ہے اوروہ یہ کہ وہ پرانی روایات کو اس طرح برتتا ہے کہ ان کا مفہوم بدل جاتا ہے اور ان میں نئے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً جب کبھی اقبال ابراہیم خلیل اللہ کا ذکر کرتا ہے، تو وہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے ایک نبی نہیں ہوتے بلکہ شاعر کا تصور انھیں جنگ آزادی کا مجسمہ بنا دیتا ہے اور آزر کے بت غلامی اور توہمات کی تمثیل بن جاتے ہیں جنھیں توڑ کر انسان صحیح انسانیت کا دعویٰ دار ہوسکتا ہے!۔ ایسے ’’خلیل‘‘ کو فرقہ واری کا نشان سمجھنا بد ترین فرقہ وارانہ ذہنیت کی نشانی ہے۔ یہ تو وہ خلیل ہے جو عشق کا مجسمہ ہے، وطن کا، آزادی کا، عشق کا جس کے متعلق اقبال نے کہا ہے: بے خطرہ کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشاے لب بام ابھی میں نے ابھی ابھی وطن کے عشق کا ذکر کیا تھا۔ ایک دن پہلے بھی میں نے کچھ اس قسم کی بات کہی تھی تو ایک بڑے سمجھدار فارسی دان بزرگ نے مجھے ٹوکا تھا۔ کہنے لگے کہ اقبال تو وطنیت کا دشمن ہے اور تم کہتے ہو کہ وہ وطن کے عشق کی باتیں کرتا ہے۔ بحث کی خاطر تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میںنے کبھی نہیں کہا کہ اقبال وطن کے عشق کی باتیں کرتا ہے۔ میں نے تو فقط یہ کہا تھا کہ اقبال کی شاعری میں خلیل مجازی نشان ہے عشق کا اور عشق وطن کا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن میری نیت بحث کی نہیں، میں تومحض تبادلہ خیالات کر رہا ہوں اور جو کوئی مجھے میری غلطی پر ٹوک دے تو یہ اس کی نوازش ہے۔ اقبال واقعی وطنیت کے دشمن تھے لیکن وطن کے عاشق تھے۔ یہ محض فقرہ بازی نہیں۔ سچی پتے کی بات ہے۔ کئی بوجھ بجھکڑوں نے یہ اڑا رکھی ہے کہ اقبال ہندی ترانہ لکھ کر ہندوستان سے پھر گیا اور انگلستان کے مشہور ادیب فوسٹر نے تو اور ہی کمال کردیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اقبال نے پہلے اسلامی ترانہ لکھا اور جب اس کے ہندو دوستوں نے اسے مجبور کیا تو اس نے قومی ترانہ لکھ دیا۔ گویا یہ محض فرمائشی چیز تھی۔ حالانکہ قومی ترانہ برسوں پہلے لکھا گیااور یہ ہمالیہ اور نیا شوالہ کا دور ہے۔ وہ میٹھے میٹھے بول! ع دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے یہ اقبال کے آغاز شباب کا زمانہ ہے، بڑھتی جوانی کا دور ہے اور یہ ہندوستان کی قومی تحریک کا بھی ابتدائی عہد تھا۔ یہ وہ دن تھے جب بندے ماترم کا نعرہ لگانا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ اقبال نے ان دنوں پورے جوش سے قومی اشعار لکھے اور ان دنوں کا لکھا ہوا ترانہ آج بھی اپنی قسم کا ایک ہی ترانہ ہے۔ اس وقت تک ہندوستان کی کسی زبان میں اور کوئی گیت ایسا نہ لکھا گیا جو اس انداز سے بہتر ہو، گویا وطن پرستی میں بھی اقبال ہی اول نمبر رہتا ہے۔لیکن اقبال کو وطن کی محبت نے اندھا نہیں کیا بلکہ اسے اس محبت سے زیادہ وسعت قلب حاصل ہوئی اور ہندوستان کی محبت نے اسے سارے جہان کی محبت سکھائی۔ اسے یورپ میں جا کر معلوم ہوا کہ کس طرح وطن پرستی عالم دشمنی سکھا سکتی ہے اور وہ اس قسم کی وطنیت کا دشمن ہے جو انسان کو انسان کا بیری بناتی ہے۔ یہ وہ وطنیت ہے جسے دیکھ کر اقبال نے یورپ میں ایک خطرناک جنگ کی پیش گوئی کی تھی۔ بعینہ اسی طرح جس طرح کئی سال پہلے مشہور جرمن فلسفی شاعر نطشے نے کہا تھا کہ یورپ ایک مہلک جنگ کی طرف بھاگم بھاگ جا رہا ہے۔ اقبال کا وہ شعر مشہور ۔ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا ۱۹۱۶ء میں یہ ہو کر رہا اور اب پھر یہ ہو کررہے گا۔ میں نے نطشے کا نام لیا ہے… اور ایک معاملے میں دونوں کے خیالات کے یکساں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اقبال اور نطشے کئی باتوں میں ملتے جلتے ہیں اور پہلے پہل تو اقبال پر اس کے خیالات کا بڑا اثر تھا۔ اس قدر کہ کئی اوپری نظر سے دیکھنے والے لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ اقبال، نطشے اور برگساں وغیرہ مغربی فلسفیوں کے خیالات نظم میں بیان کردیتا ہے اور بس!… میں کہتا ہوں کہ اقبال اگر یہی کچھ کرتا تو بھی اس کا درجہ آج کل کے شعرا سے بہت بلند ہوتا کیونکہ فلسفے جیسی خشک خیالی کو نظم کی رنگینی بخشنا بے مثال کام ہے اور پھر فلسفہ بھی کسی اور کا یہ تو قریباً محال ہے۔ مگر اقبال فقط یہ نہیں کرتا اور اس کے کئی مداح اس جھوٹے دعوے سے جسے وہ الزام سمجھتے ہیں اور جو الزام سمجھ کر ہی اقبال پر لگایا جاتا ہے، اس قدر بگڑتے ہیں کہ وہ ضد میں آکر کہنا شروع کردیتے ہیں کہ اقبال نے کسی مغرب کے فلسفی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، اس پر یورپ کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ گویا اقبال جو انگریزی میں لکھتا، انگریزی بولتا، دن رات انگریزی کتابیں پڑھتا، انگریزی لباس پہنتا اور اپنے بچوں کی تربیت کے لیے مغربی معلم تجویز کرتا، وہ اقبال مغرب سے متاثر نہیں ہوا اور بالکل خلا میں رہ کر سوچتا لکھتا رہتا تھا۔ اس سے اقبال کی عظمت ثابت نہیں۔ اقبال کی عظمت تو یہ ہے کہ وہ یورپ کے بہترین خیالات کو لیتا ہے، جانچ تول کر لیتا ہے، ان میں کھرے کھوٹے کی تمیز کرتا ہے اور پھر اس دولت کو اپنا مال بنا لیتا ہے۔ وہ کھلے بندوں پکار کر کہتا ہے کہ آج کل علم و دانش یورپ میں ہے۔ آج سے ہزار سال پہلے علم و حکمت کا منبع ایشیائی تھے اور ان سے یورپ نے بے دریغ یہ دولت حاصل کی۔ اب یہ وقت ہے کہ استاد شاگرد بنا ہوا ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس اپنے پرانے ورثے کو پھر اپنا بنا لیں۔ اوچھے پن سے نہیں کہ علم اس طرح حاصل نہیں ہوتا، یہ لوٹ کھسوٹ کا کام نہیں، بلکہ غور و فکر سے، محنت سے، نیاز مندی سے، یورپ کا علم ہمارا علم ہے، ہمارا علم یورپ کا علم ہے۔ ہمیں اس میں وطنیت کی تفرقہ پردازی سے بچنا چاہیے۔ اقبال حکما یورپ کے خیالات سے اپنا دامن بھرتا ہے مگر اس کا دامن اس بوجھ سے پھٹ نہیں جاتا۔ میرے ایک جاٹ دوست کے بقول، اقبال کا شاعرانہ معدہ بہت مضبوط ہے، اسے بد ہضمی نہیں ہوتی۔ وہ ثقیل سے ثقیل خیالات کو ہضم کرلیتا ہے۔ اور وہ اپنے مشہور انگریزی لیکچروں میں ہم سب کو دعوت دیتا ہے کہ ہم بھی ایسا کریں اور پچھلے سات آٹھ سو سال سے جو ایشیا علم کی دوڑ میں پیچھے رہا جاتا ہے، اس کی تلافی کریں اور ہمیں اپنے سے آگے آگے چلنے والیے مغربی متلاشیان علم کی کوششوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ ہے اقبال کا پیغام علمی لوگوں کے لیے۔ یہ ہے صحیح عمل کا پیغام اور اقبال کا شاعرانہ نظام تمام تر دعوت عمل ہے۔ اس کے نزدیک صداقت کا معیار بھی عمل ہے۔ وہ بار بار پکار کر کہتا ہے کہ نیکی اور سچائی وہ ہے جس سے شخصیت کی تقویت ہو اور جس سے خودی کمزور ہو وہ بدی ہے، جھوٹ ہے، فریب کاری ہے۔ اس میں وہ کسی خاص مذہب کا نام نہیں لیتا۔ یہ ایک عالمگیر معیار ہے جس سے صداقت پرکھی جا سکتی ہے۔ یہ خودی کا نام کوئی نئی اختراع نہیں مگر اقبال کا بیشتر کمال اس میں ہے کہ اس نے اس نام سے جو بڑی حد تک محض فلسفیانہ اصطلاح بن کر رہ گیا تھا، ایک مکمل تصور وضع کیا۔ اس خالی خول میں جان ڈالی۔ اس بے رنگ انگارے میں صوت گری کی اور اس ایک خودی کی بنیاد پر اس نے اپنا سارا نظریۂ حیات استوار کیا۔ زندگی کیا ہے؟ خودی کا ثبات۔ نیکی کیا ہے؟ خودی کی پختگی۔ بدی کیا ہے؟ خودی کی خامی۔ موت کیا ہے؟ خودی کی بیماری۔ اس مسئلے میں اقبال کا خیال بہت نرالا ہے اور وہ لوگ جو ہر وقت نئے خیال کی تلاش میں رہتے ہیں، ان کے لیے بڑی دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اقبال کہتے ہیں کہ شخصیت کی بیماریاں بہت طرح کی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’متعدد شخصیتوں کی بیماری‘‘ کہ جس میں ایک شخص دو دو تین تین چار چار حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ اگر رات کے وقت وہ خونخوار ڈاکو ہے تو دن کو بڑا متقی، پارسا بزرگ ہے۔ رات کے وقت اسے دن کی حالت یاد نہیں ہوتی اور دن کے وقت، رات کی حالت بھول چکاہوتا ہے۔ ایک شخصیت کئی ٹکڑے ہو جاتی ہے۔ پاش پاش ہو جاتی ہے۔ اس طرح نیند بھی شخصیت کی بیماری ہے اور انسان آدھی عمر نیم مردہ سا رہتا ہے! لیکن یہ بیماریاں ہلکے ہلکے جھٹکے ہیں، مدھم مدھم زلزلے ہیں مگر خودی کی قیامت موت ہے۔ موت سے ٹکرا کر بہت کم شخصیتیں صحیح سالم رہتی ہیں اور اقبال کے نزدیک موت کے بعد زندگی ہر انسان کا حق نہیں بلکہ اس کی شخصیت کی پختگی کا ثمرہ ہے۔ اگر خودی محکم ہے تو موت پر غلبہ حاصل کرلے گی۔ نہیں تو موت اسے مٹا دے گی۔ یہی خیال جرمنی کے مشہور فلسفی شاعر گوئٹے کا بھی تھا مگر اس نے اقبال کی طرح اس کی وضاحت نہیں کی۔ مجھے یاد ہے میں نے علامہ اقبال سے پوچھا تھا کہ اگر فقط چند مستحق لوگ ہی مرنے کے بعد زندہ ہوں گے تو پھر جہنم اور جنت کی تفریق کیا ہوئی۔ انھوں نے فرمایا اول تو دوزخ اور جنت مقامات نہیں بلکہ ذہنی حالت کے دو نام ہیں اور پھر یہ کہ جہنم کا حق دار ہونا بھی خودی کی قوت کا نتیجہ ہے۔ ابو جہل دوزخ کا ایندھن بنے گا، خالد اورطارق وغیرہ جنت کی کیفیت میں ہوں گے اور عام انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح تلف ہوجائیں گے۔ یہ خیال جیسے میں ابھی عرض کر چکا ہوں بہت نرالا ہے مگر اقبال کے فلسفہ خودی کا لازمی نتیجہ ہے اور آپ چاہے میری طرح اسے صحیح نہ سمجھیں یا اس کے قائل ہوں، میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر ہمارے عہد میں کوئی شخصیت موت کے بعد زندہ رہنے کی حق دار ہے تو وہ اقبال کی شخصیت ہے۔ اسے زندگی سے اس قدر وابستگی تھی، زندگی کا اس قدر یقین تھا کہ موت نے اس کے بدن کو پے بہ پے حملوں سے چور چور تو ضرور کردیا مگر اس کے دماغ کو ہراساں نہ کر سکی اوریہی موت کی شکست تھی۔ کہتے ہیں بزدل مرنے سے پہلے سو بار مرچکا ہوتا ہے اور بہادر جیتا جاگتا جان دیتا ہے۔ اقبال مرتے دم تک زندہ رہے اور جہاں تک ہماری زندگی پر اثر ڈالنے کا تعلق ہے، وہ اب پہلے سے کہیں زیادہ زندہ ہیں اوروہ تعلیم جو انھوںنے ہمیں دی ہے وہ عارضی سیاسی ہنگامے کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس کی ضرورت ہمیں مدتوں رہے گی اور ہمیں ہی نہیں تمام دنیا کو اس کی ضرورت ہے اور دنیا میں ہر مذہب ہر خیال کے لوگ موجود ہیں۔ سادے الفاظ میں وہ تعلیم غیرت، خود اعتمادی، سربلندی کی تعلیم ہے۔ کس قدر سیدھے سادے الفاظ ہیں۔ من کی دنیا؟ من کی دنیا …صاحب یہ شعر کس طرح ہے، بھول گیا مجھے، بھئی ذرا خوش الحانی سے پڑھ دو!۔ سوزو مستی، جذب و شوق! ہاں اس طرح۔ من کی دنیا؟ من کی دنیا، سوز و مستی، جذب و شوق تن کی دنیا؟ تن کی دنیا، سود و سودا مکروفن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن یہ وہی تعلیم ہے جو لا الٰہ الااللہ میں موجود ہے کہ کوئی انسان خدا نہیں۔ کسی انسان کے سامنے کوئی انسان سر نہ جھکائے اور اقبال تو اس قدر سر بلند ہے کہ وہ انسان کو خدا سے بھڑا دیتا ہے۔ کہتے ہیں: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ یہ ہے اقبال کی تعلیم ---- اب اس میں بتائیے ہندو مسلمانوں کا جھگڑا کہاں ہے؟ یہ پیغام ہر انسان کے لیے ہے۔ اقبال نے اوّل اوّل کہا ہے: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا لیکن انہیں جلد ہی احساس ہوا کہ ایک ہی سر زمین میں جہاں کے لوگ مختلف ہو سکتے ہیں، جو ایک دوسرے کے اساسی طور پر مخالف ہوں، ایک کا فائدہ دوسرے کا لازمی نقصان ہو، اس لیے سرزمین نہیں بلکہ خیال کا ایک ہونا انسانوں کے اتحاد کے لیے ضروری ہے۔ تو انھوں نے کہا: مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا مگر انہیں اس میں بھی جماعتی اختلافات کی گنجائش نظر آئی تو انھوں نے اپنی آخری تصنیفوں میں ساری دنیا کو اپنا مخاطب بنایا اور خدا کی زبانی فرشتوں کا یہ پیغام سنایا کہ … اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو۔ سوچیے یہاں نہ ہندو ہیں نہ مسلمان، ساری دنیا کے غریبوں سے خطاب ہے ۔ یہ تھا اقبال کی وطنیت سے نفرت اور وطن بلکہ جہاں دوستی کا راز۔ مجھے یاد ہے پیام مشرق کے چھپنے کے بعد مسز سروجنی نائڈو نے اقبال کو ایک مفصل خط لکھا تھا جس میں اقبال کا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے بلبل ہند کو وطنیت کے قفس سے آزاد کرا کے سارے جہاں کا چمنستان بخش دیا۔ آج ہندوستان کے اور رہنما بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں… وہ آج وہی باتیں کر رہے ہیں جو اقبال کئی دن پہلے پکار پکار کر کہہ رہا تھا اور اقبال کی کہی ہوئی بہت سی باتیں آئندہ بھی دہرائی جائیں گی۔ جن صداقتوں کو اس نے آشکار کیا ہے، بے نقاب کیا ہے، وہ ہمیں بھی صاف صاف نظر آنے لگیں گی۔ یہی اقبال کی دعا تھی: جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے خدایا! آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کردے اقبال کا فکر و فن مرتبہ : افضل حق قرشی ، بزم اقبال لاہور ، ۱۹۹۴ء اقبال مجنوں گورکھپوری ہمارے ادب اور ہماری معاشرت کی تاریخ میں اقبال کا شمار اُن دانایانِ راز میں ہو گا جو مستقبل کی جھلک دِکھا کر فکر و عمل کا رُخ نئی سمتوں کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ اس سے تو کبھی بھی کسی کو انکار نہیں، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہی ان کی ساری شخصیت اور ساری حیثیت ہے۔ اگر ہم اُن کے فلسفے اور پیغام کو نظرانداز کر دیں یا کسی ایسے زمانے کا تصور کر سکیں جب کہ اُن کے افکار و میلانات کا کوئی عنصر بھی زندہ نہ رہے گا، تو اس حالت میں بھی ہم کو یہ ماننا پڑے گا کہ محض صنّاع اور شاعر کی حیثیت سے اقبال دُنیا کے بڑے بڑے شاعروں کے ساتھ جگہ پا سکتے ہیں۔ افکار و جذبات سے برطرف ہو کر اقبال نے اُردو شاعری میں جو نئے اسالیب و صور تراشے ہیں اور پرانے اسالیب کو نئے انداز سے استعمال کر کے جو نئے آہنگ پیدا کیے ہیں، وہ ہماری شاعری کی زبان میں یقینا اختراعات کا حکم رکھتے ہیں اور مستقل اضافے ہیںـ۔ شاعر کے لغوی معنی ایک ایسے صاحبِ شعور کے ہیں جو دوسروں میں بھی شعور پیدا کر سکتا ہوـ۔ اگر ہم شاعری کی صرف اسی قدر تعریف مان لیں تو اقبال کے متعلق کبھی دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔ جو کچھ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے، وہ اقبال کو صاحبِ شعور اور شعور آفریں ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اُنہوںنے دُنیا کو نئی آگاہیاں دیں، اُن میں زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کا احساس پیدا ہوا اور اُنہوں نے دوسروں میں بھی اس کا شدید احساس پیدا کیا۔ لیکن بعض نقادوں کے خیال میں شاعر کی تعریف صرف اس قدر نہیں ہے۔ اس جماعت کا خیال ہے کہ شاعری میں صرف یہ دیکھنا نہیں چاہیے کہ کیا کہا گیا ہے بلکہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کس عنوان اور کس انداز سے کہا گیا ہے۔ یعنی شاعری کے عناصر دو ہیں: معنی اور صورت--- دیکھنا چاہیے کہ صوری اعتبار سے اقبال کی شاعری کیا درجہ رکھتی ہے۔ اقبال کی اس حیثیت پر نظر ڈالتے وقت ہم کو یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی شاعری کی ابتدا، جیسا کہ عام طور سے ہوا کرتا ہے، غزل سے ہوئی اور اوّل اوّل داغ کو اُنہوں نے اپنا استاد منتخب کیا۔ بظاہر یہ کوئی بڑی اہم بات نہیں معلوم ہوتی اور اقبال کے اکثر تنقید نگار ان کی شاعرانہ زندگی کے اس واقعے کو اعتنا کے قابل نہ سمجھیں گے۔ لیکن ہماری رائے میں اقبال کی خالص فن کارانہ اہمیت کی بنیاد یہی واقعہ ہے۔ اگر ہم صحیح ذوق کے ساتھ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں تو کیا نظم میں اور کیا غزل میں، جو کیفیت سب سے زیادہ نمایاں اور مؤثر طور پر محسوس ہوتی ہے، وہ وہی ہے جس کو مبہم اور مجموعی طور پر تغزل کہا جا سکتا ہے۔ ہم کو تو کبھی کبھی ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اقبال فطرتاً غزل گو تھے اور اتنے بڑے نظم نگار ہونے کے بعد اور اس کے باوجود بھی وہ غزل گو ہی رہے۔ نظموں میں بھی اُنہوں نے ایک قسم کی غزل گوئی ہی کی ہے۔ اس کا ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ ان نظموں میں شاید گنتی کے اشعار ایسے نکلیں گے جو فرداً فرداً اپنی جگہ معنی اور اسلوب دونوں کے اعتبار سے مکمل نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اقبال کی نظموں کے بند کے بند بغیر ارادہ اور کوشش کے زبان پر چڑھ جاتے ہیں اور ہر شعر اپنے اندر ضرب المثل ہو جانے کی قوی صلاحیت رکھتا ہے۔ اچھی شاعری کی ایک زبردست اور لازمی علامت ترنم اور موسیقیت ہے۔ موسیقیت سے شاعری کا خمیر ہوا۔ ہر چھوٹے بڑے شاعر کے کلام میں کسی نہ کسی قسم کی موسیقیت ضرور پائی جاتی ہے۔ ورنہ شعر اور نثر کے اثرات برابر ہوں۔ میر سے لے کر داغ تک اور داغ سے لے کر اب تک ہر شاعر کے وہاں موسیقیت ملے گی اور ہر شاعر کی موسیقیت کا انداز جدا ہو گا۔ اقبال کی شاعری کا بھی ایک غالب عنصر اس کی انفرادی موسیقیت ہے، جس کی سب سے نمایاں خصوصیت ہمواری اور بلاغت ہے۔ اس اعتبار سے اُردو کا کوئی دوسرا شاعر ان کا پورا حریف نظر نہیں آتا۔ اگر داغ ہمواری میں ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں تو بلاغت اور معنوی قدر کا ان کے یہاں پتا نہیں ہے۔ اور اگر غالب بلاغت میں اقبال کے ہمسر کہے جا سکتے ہیں تو ان کے کلام کی موسیقیت میں ایسی ہمواری نہ ملے گی۔ اقبال کے اشعار ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، یا ان کے افکار و نظریات سے ہم کو اتفاق ہو یا نہ ہو، لیکن جس خصوصیت کا ان کے حامی اور مخالف دونوں کو قائل ہونا پڑے گا، وہ یہ ہے کہ ان کا ایک مصرع ایسا نہیں ہوتا جو نازک سے نازک ساز پر گایا نہ جا سکتا ہو۔ اور یہ خصوصیت محض غنائی نہیں ہے یعنی وہ محض خوش آہنگ الفاظ کے حسنِ ترتیب سے نہیں پیدا ہوئی ہے۔ اقبال کے اشعار میں جو موسیقیت ہوتی ہے، وہ ایک مرکب آہنگ ہے جس کو الفاظ و افکار دونوں سے بہ یک وقت ایک اصلی اور اندرونی تعلق ہوتا ہے اور ہم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الفاظ اور معنی باہم مل کر ایک ایسی دُھن پیدا کر رہے ہیں جس کا تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اقبال کا ترنم کبھی سطحی نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر تہ بہ تہ گہرائیاں ہوتی ہیں۔ جہاں تک الفاظ اور ترکیبوں کے حسنِ انتخاب کا تعلق ہے، اقبال ہم کو جدید شعرائے اُردو میں سب سے زیادہ ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کا اسلوب بحیثیتِ مجموعی وہی ہے، جس کو غزل کا روایتی اسلوب کہہ سکتے ہیں اور جس کا جوہر رومانیت ہے۔ اس نقطۂ نظر سے ہم اقبال کے اسلوب کو ’’کلاسیکی اسلوب‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اقبال کا اصل اجتہاد یہ ہے کہ اُنہوں نے پرانے الفاظ اور فقرات اورپرانے اسالیب و روایات کو بالکل نئے انداز سے استعمال کیا ہے اور ہماری زندگی کی نئی ضرورتوں کے لیے کام میں لائے ہیں۔ چنانچہ اگر ٹھہر کر غور کے ساتھ ان کے اسلوب پر نظر ڈالی جائے تو اقبال کا اسلوب ہمارے اندر ایک ہی وقت میں قدامت اور جدت، پختگی اور تازگی دونوں کا ایک مرکب احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ بڑا مشکل کام تھا اور اس کو اقبال کا معمولی اکتساب کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔ ایک گروہ ایسا ہے جو اقبال پر اعتراض کرتا ہے کہ ان کے وہاں فارسی الفاظ اور ترکیبوں اور ایران و عرب کی تواریخی زندگی سے متعلق روایات و تلمیحات اور انہی سے ماخوذ تشبیہات و استعارات کی بھرمار ہے۔ یہ شکایت ایک خاص نقطۂ نظر سے اور ایک حد تک بجا بھی ہے۔ اقبال کی بڑھی ہوئی فارسیت نے ان کو عوام کا شاعر ہونے نہیں دیا اور اس لحاظ سے وہ یقینا خسارے میں رہے۔ مگر پھر ایسا مفکر اور ایسا صاحبِ شعور شاعر عوام کی اور پھر ہندوستان کے عوام کی چیز نہیں ہو سکتا۔ اقبال کی فارسیت سے ان کو صرف اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ ان کے سمجھنے والوں اور ان کے پیغام سے موافق یا مخالف اثر قبول کرنے والوں کا دائرہ محدود ہو گیا۔ لیکن اس سے ان کی شاعری کو فائدہ بھی بہت پہنچا۔ ان کے کلام میں ایک حلاوت، ایک متنوع ترنم، ایک بلیغ خوش آہنگی بھی پیدا ہو گئی ہے جو داغ یا امیر کی سلیس اور عام فہم اور رواں اور سہل زبان کے استعمال سے نہیں پیدا ہو سکتی تھی۔ اقبال کی شاعری میں جو صوتی حسن ہے، اس کی ترکیب میں جہاں اور بہت سے عناصر داخل ہیں، وہاں ایک عنصر فارسی الفاظ کا صحیح اور کامیاب انتخاب اور ان کا قرینے کے ساتھ استعمال بھی ہے۔ اقبال کی فطرت کو موسیقی سے پیدائشی لگائو تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اشعار گنگنا کر نہیں بلکہ باقاعدہ گا کر کہا کرتے تھے۔ یہ ایک زبردست اشارہ ہے، جس سے ہم ان کے مزاجِ شعری کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اقبال جیسا مفکر اور پیغامبر نظم لکھنے والا ایسا کامیاب اور اثر انگیز غزل گو بھی رہ سکا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جیسا کہ پہلے اشارتاً کہا جا چکا ہے، ان کی اصلی فطرت تغزل اور ان کا اصلی فن غزل تھا۔ ان کا ایک شعر ہے جس سے ان کے اصلی اور ایک حد تک دبے ہوئے میلان کا پتا چلتا ہے: مری میناے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی اقبال کی غزلیات اور نظمیات کا شروع سے آخر تک سلسلے اور ترتیب کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو موسیقیت اور خوش آہنگی کی خصوصیت ان کے وہاں برابر ملے گی۔ البتہ مختلف ادوار میں اس موسیقیت کی گہرائی اور معنویت میں فرق ہو گا۔ ابتدائی دور میں اقبال کی شاعری میں جو صوتی حسن ہے وہ زیادہ تر بالائی ہے اور اس کا حجم کم ہے۔ رفتہ رفتہ اور درجہ بدرجہ اقبال کی موسیقیت میں گہرائی اور اندرونی کیفیت بڑھتی گئی اور وہ روز بروز ان کے افکار کی طرح زیادہ بلیغ اور زیادہ مستقل ہوتی گئی۔ اب آئیے اس نقطۂ نظر سے اقبال کے کچھ اشعار پر نظر ڈالی جائے، بلالحاظ اس کے کہ وہ غزل کے ہیں یا نظم کے، جو اشعار اس سے پہلے مختلف موقعوں پر منتخب کیے جا چکے ہیں، ہمارے دعوے کی تائید کے لیے کافی ہیں، مگر اب کچھ اور اشعار پیش کیے جاتے ہیں، جن سے ہم اپنے اس دعوے کو ثابت کر سکتے ہیں کہ اقبال ایک خالص فنکار کی حیثیت سے بھی اپنا ایک شخصی مقام رکھتے ہیں اور ان کی شاعری محض جمالیاتی محاسن کی بنا پر بھی گراں قدر اور بلند مرتبہ ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے: در جہاں مثلِ چراغِ لالۂ صحراستم نے نصیبِ محفلے، نے قسمتِ کاشانۂ ــــــــــــ تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہو گئے لے کے اب تو وعدئہ دیدارِ عام آیا تو کیا آخرِ شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبح دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا ــــــــــــ آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرور جہاں رقص میں لیلا رہی، لیلا کے دیوانے رہے ــــــــــــ خیر تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے؟ اب نہ وہ مے کش رہے باقی، نہ مے خانے رہے رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اُسے کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے ــــــــــــ نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاکِ جادوے سامری، تو قتیلِ شیوئہ آزری میں نواے سوختہ درگلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو میں حکایتِ غمِ آرزو، تو حدیثِ ماتمِ دلبری ــــــــــــ نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی ــــــــــــ اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر تو بہ اندازئہ رعنائی کر ــــــــــــ اُٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری اُڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرزِ فغاں میری ــــــــــــ انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی نشیمن سیکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں ــــــــــــ مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے کہ جن کو ڈوبنا ہو، ڈوب جاتے ہیں سفینوں میں محبت کے لیے دل ڈھونڈھ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں ــــــــــــ نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے، اے ہندوستاں والو تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں چھپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں ــــــــــــ کوئی دل ایسا نظر نہ آیا نہ جس میں خوابیدہ ہو تمنا الٰہی تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا ــــــــــــ دیارِ مغرب کے رہنے والو، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا ــــــــــــ تنک بخشی کو استغنا سے پیغامِ خجالت دے نہ رہ منّت کشِ شبنم، نگوں جام و سبو کر لے نہیں یہ شانِ خود داری چمن سے توڑ کر مُجھ کو کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کر لے ــــــــــــ ہنوز ہم نفسے در چمن نمی بینم بہار می رسد و من گلِ نخستینم ــــــــــــ کس کو معلوم ہے ہنگامۂ فردا کا مقام مسجد و مکتب و مے خانہ ہیں مدت سے خموش ــــــــــــ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی ؐ سے مجھے کہ عالمِ بشریّت کی زد میں ہے گردوں ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے زار و زبوں میرِ سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف ــــــــــــ رہ و رسمِ حرم نامحرمانہ کلیسا کی ادا سوداگرانہ تبّرک ہے مرا پیراہنِ چاک نہیں اہلِ جنوں کا یہ زمانہ ــــــــــــ پریشاں کاروبارِ آشنائی پریشاں تر مری رنگیں نوائی کبھی میں ڈھونڈتا ہوں لذتِ وصل خوش آتا ہے کبھی سوزِ جدائی ــــــــــــ چمن میں رختِ گل شبنم سے تر ہے سمن ہے، سبزہ ہے، بادِ سحر ہے مگر ہنگامہ ہو سکتا نہیں گرم یہاں کا لالہ بے سوزِ جگر ہے ــــــــــــ تو اے کودک منش خود را ادب کن مسلماں زادہ ای؟ ترکِ نسب کن برنگِ احمر و خون و رگ و پوست عرب نازد اگر، ترکِ عرب کن ــــــــــــ ربودی دل ز چاکِ سینۂ من بغارت بردہ ای گنجینۂ من متاعِ آرزویم با کہ دادی؟ چہ کردی باغمِ دیرینۂ من؟ ــــــــــــ یمِ عشق کشتیِ من، یمِ عشق ساحلِ من نہ غمِ سفینہ دارم، نہ سرِکرانہ دارم ــــــــــــ شرار از خاکِ من خیزد، کجا ریزم، کراسوزم غلط کردی کہ در جانم فگندی سوزِ مشتاقی ــــــــــــ گہے رسم و رہِ فرزانگی ذوقِ جنوں بخشد من از درسِ خردمنداں گریباں چاک می آیم گہے پیچد جہاں برمن، گہے من بر جہاں پیچم بگرداں بادہ تا بیروں ازیں پیچاک می آیم نہ ایں جا چشمکِ ساقی، نہ آنجا حرفِ مشتاقی ز بزمِ صوفی و ملا بسے غمناک می آیم ــــــــــــ مرا براہِ طلب بار در گل است ہنوز کہ دل بقافلہ و رخت و منزل است ہنوز کجا است برقِ نگاہے کہ خانماں سوزد مرا معاملہ باکشت و حاصل است ہنوز نگاہ شوق تسلی بہ جلوئہ نشود کجا برم خلشے را کہ در دل است ہنوز حضورِ یار حکایت دراز تر گردید چنانکہ ایں ہمہ ناگفتہ در دل است ہنوز ــــــــــــ تو عیارِ کم عیاراں، تو قرارِ بے قراراں تو دواے دل فگاراں مگر ایں کہ دیر یابی ـــــــــــــ من اے دریاے بے پایاں بہ موجِ تو درافتادم نہ گوہر آرزو دارم، نہ می جویم کرانے را ــــــــــــ چو پرویں فروناید اندیشۂ من بدریوزئہ پرتوِ مہر و ماہے ــــــــــــ درگزر از خاک و خود را پیکرِ خاکی مگیر چاک اگر در سینہ ریزی آفتاب آید بروں ــــــــــــ مثلِ شرر ذرہ را تن بہ تپیدن دہم تن بہ تپیدن دہم، بال پریدن دہم ــــــــــــ یوسفِ گم گشتہ را باز کشودم نقاب تا بہ تنک مایگاں ذوقِ خریدن دہم ــــــــــــ ہنگامۂ ایں محفل از گردشِ جامِ من ایں کوکبِ شامِ من، ایں ماہِ تمامِ من ــــــــــــ یہ اشعار یوں ہی اِدھر اُدھر سے چن لیے گئے ہیں اور ان میں کسی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے۔ طوالت کے خیال سے اتنے ہی اشعار پر اکتفا کیا جا رہا ہے، ورنہ حسنِ صوتی اور خوش آہنگی کے اعتبار سے اقبال کا کلام، کیا اُردو اور کیا فارسی، شروع سے آخر تک انتخاب کا حکم رکھتا ہے۔ اقبال از مجنوں گورکھپوری، بحوالہ: اقبال بحیثیت شاعر مرتبہ رفیع الدین ہاشمی، لاہور، ۱۹۷۶ء اقبال ایک پیغمبر کی حیثیت سے ممتاز حسن اقبال کا کلام مجموعی طور پر یکساں نہیں ہے۔ اپنے ابتدئی اور آخری دور میں عموماً اور درمیان کے زمانے میں کہیں کہیں، اقبال ایک شاعرِ محض یا ایک فلسفی محض کی حیثیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔اس کی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔ مثلاً یہ شعر: سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں جس کا مضمون ایک فلسفیانہ احساس ہے۔ یا یہ شعر: اگر کاوی درونم را خیالِ خویش را یابی پریشاں جلوۂِ چوں ماہتاب اندر بیابانے جو ایک شاعرانہ کیفیت کا اظہار ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اقبال کا سارا کلام ان معنوں میں’’ پیغمبری‘‘ہے جو ہم نے لیے ہیں۔ میں نے صرف یہی کہا ہے کہ اقبال کی اولین اور اہم ترین حیثیت ایک پیغمبر کی ہے، اور لوگ اس حیثیت کو سمجھنے سے عموماً قاصر رہتے ہیں۔اقبال نے خود کہا ہے: بہ خامۂِ کہ خط زندگی رقم زدہ است نوشتہ اند پیامے بہ برگِ رنگینم جو لوگ نکتہ رس نہیں ہیں وہ اس ’’برگِ رنگیں‘‘کی رنگینیوں میں محو ہوجاتے ہیں اور اس پیغام کو، جو خامہ قدرت نے اس پر لکھ رکھا ہے، نظر انداز کر دیتے ہیں؛ یعنی ’’الفاظ کی خوبصورتی‘‘ اور ’’ترکیبوں کی چستی‘‘ سے بحث کرتے ہیں اور اصل مقصد کو نہیں سمجھتے، ہندوستان ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے اور اقبال ان کے ہاتھوں نالاں ہے۔پیامِ مشرق کی افتتاحی مثنوی کے وہ شعر جو : آشنائے من زمن بیگانہ رفت از خمستانم تہی پیمانہ رفت سے شروع ہوتے ہیں، اسی درد ناک حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، اقبال کو اپنی تنہائی کا احساس زیادہ تر انھی نافہمیوں، کج فہمیوں اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے ’اسرارِ خودی‘کے خاتمے پر ایک ہمدم کے لیے دعا بھی کی ہے: خواہم از لطفِ تو یارے ہمدمے از رموزِ فطرتِ من محرمے تا بجانِ او سپارم ہوے خویش بازبینم درِ دل او روے خویش اقبال کی پیغمبرانہ حیثیت واضح کرنے کے بعد اس کے پیغام کی توضیح ضروری ہے۔ مگر اس سے پہلے یہ ذہن نشین کر لینا بہتر ہو گا کہ اقبال کن چیزوں کی حمایت اور کن چیزوں کی مخالفت کے لیے آیا ہے ؟ اقبال نے چند باتوں کے خلاف اپنی پوری قوت سے جہاد کیا ہے، اور میرے ذہن میں کوئی صورت حالات ایسی پیدا نہیں ہو سکتی جو اسے ان کے موافق بنا سکے۔ اقبال سب سے پہلے سکون و جمود کا مخالف ہے۔ سکون و جمود ہی ایک ایسی چیز ہے جوافراد اور قوم کے لیے خود کشی کے معنی رکھتی ہے۔ زندگی ایک میدانِ کارزار ہے، پھولوں کی کیاری نہیں۔ یہاں جو شخص جدوجہد سے گھبرایا، اس کی ہستی اور موت برابر ہے: درین رباط کہن چشم عافیت داری؟ ترا بہ کشمکشِ زندگی نگاہے نیست (پیام مشرق) ایشائی تہذیب کے دور حاضر کو مجموعی حیثیت سے دیکھا جائے تواس کی تاریخ ذہنی اور روحانی سکون و جمود کی ایک لمبی نیند نظر آئے گی جو جمال الدین افغانی کے وقت تک باقی تھی اور جس کے اثرات اب بھی مشرق پر غالب ہیں۔ اس کی وجہ آب و ہوا نہیں ہے، کیونکہ آخر اسی ایشیا سے تاتاری اور عرب اٹھے تھے۔ اس کی وجہ ایشیائی فلسفہ اور ایشیائی شاعری ہے جس نے ہر ایک ایشیائی فرد کے لیے سکون و جمود کو ایک نصب العین کی حیثیت سے قائم کر دیا ہے۔ صوفیوں نے غالباً و یدانت کے فلسفے سے متاثر ہو کر ’’فنا فی اللہ‘‘کا تصور باندھ رکھا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی انفرادی اور شخصی حیثیت کسی اور شخصیت میں جذب ہو جائے تاکہ وہ زندگی کی کاوشوں اور گوناگوں ذمّہ داریوں سے سبکدوش ہو سکے۔ سکون اور جمود کا نصب العین بہت عام ہے۔ حافظ، عمر خیام اور ٹیگور (اس شاعر نے اس تخیل کو پوری جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے)اسی کے دل دادہ ہیں۔ یہ سب تسکین کی تلاش میں ہیں اور دنیا چونکہ عرصۂ جدوجہد ہے اس لیے اس سے بیزار ہیں اور ایک نئی دنیا کے خواب دیکھتے ہیں، جہاں سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہو اور جہاں کی زندگی محض تن آسانی کی ایک داستان ہو۔ ایسی دنیا سب سے پہلے افلاطون نے (جو مشرقی تخیلات کا مورث اول ہے)تیار کی تھی۔ اس کے ’’نظریہ‘‘’’مثُل‘‘ کا ماحصل یہ ہے کہ یہ دنیا، جس میں ہم رہتے ہیں، ایک اور دنیا کا جواس سے بدرجہا زیادہ مکمل اور دلآویز ہے، دھندلا سا خاکہ ہے۔ حسن، حقیقت اور انصاف جو اس دنیا میں ایک ادھوری صورت میں پائے جاتے ہیں، وہاں اپنی اصلی حقیقت میں جلوہ گر ہیں۔ اور جو تکالیف روح کو جستجوئے حقیقت میں یہاں پیش آتی ہیں وہاں وہ ان سب سے آزاد ہے۔افلاطون نے اپنی تصانیف میں اس موہوم سی دنیا کا اپنی پوری شاعرانہ قوت سے نقشہ کھینچا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس زندگی کے ہنگامے سے مخلصی پا کر وہ ایک سکون کی دنیا میں جا پہنچے اور اس کی فضا میں جذب ہو جائے۔ اقبال کی تعلیم افلاطون کی تعلیم کے برعکس ہے۔ و ہ اس دُنیا کی زندگی کوحقیقت سمجھتا ہے اور اس کے مصائب اور شدائد کو انسان کی قوت اور سیرت کے اظہار کے لیے ضروری سمجھتا ہے: ز قید صیدِ نہنگاں حکایتے آور مگو کہ زورقِ ما روشناسِ دریا نیست (پیامِ مشرق) اقبال نے ٹیگور کی طرح اپنی تعلیم کو مبہم نہیں رکھا بلکہ واضح ترین انداز میں پیش کیا ہے۔ چنانچہ اسی سلسلے میں کہا ہے :ع اگر خواہی حیات اندر خطر زی یا بہ کیشِ زندہ دلاں زندگی جفاطلبی است سفر بہ کعبہ نکردم کہ راہِ بے خطر است اقبال سے پہلے غالب نے بھی سکون و جمود کے تباہ کن تصور کے خلاف احتجاج کیا ہے: ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہء غم ہی سہی، نغمہء شادی نہ سہی دوسری چیز جس سے اقبال کو قطعی دشمنی ہے، وہ گمان و شک ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ سرزمین مشرق مختلف مذاہب کا گہوارہ اور یقین وایمان کا سرچشمہ ہونے کے باوجود ہر قسم کے شکوک کا منبع رہی ہے۔ اور آج کل تو مغرب کی طرف سے شکوک کا جو سیلاب مشرق پر اُمنڈ آیا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ نئی نئی ایجادات، سائنس کی حیرت انگیز معلومات، جنگِ عظیم کی ہولناک واردات، سرمایہ و محنت کا جھگڑا اور روس کا سیاسی اور تمدّنی انقلاب ان شکوک کے اسباب میں سے ہیں۔ حالات کی رفتار اس قدر تیز ہو چکی ہے کہ ہمیں ان پر پوری طرح غور کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ البتہ ہمارے پچھلے خیالات ضرور تہ و بالا ہوجاتے ہیں۔ آج کل مغرب میں خدا، روح، مادہ، حکومت، دولت، ازدواج وغیرہ کسی چیز کے متعلق بھی کوئی عام عقیدہ قائم نہیں ہے۔ پچھلے عقائد فنا ہو چکے ہیں، یا ہو رہے ہیں، اور ان کی جگہ نئے عقائد قائم ہوتے نظر نہیں آتے ڈیکارٹ دور حاضر کا اولین فلسفی شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے فلسفے کی ابتدا یوں ہوئی کہ اسے اپنے وجود پر شک پیداہوا۔ مجھے ایسے لوگوں سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے جو اپنی ہستی کے منکر ہیں۔ میں اپنے ایک ہندو دوست کو جو اپنی بود و نبود میں شک رکھتے ہیں، آج تک ان کی ہستی کا یقین نہیں دلا سکا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تحصیل علم کے لیے شکوک کا ہونا لازم ہے۔ مگر یہ شکوک اگر مادی دنیا تک محدود رہیں تو مفید ہو سکتے ہیں، یعنی انسان ان کی وجہ سے مادی حقائق کی تحقیق کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر یہ شکوک اس غیر مادی دنیا تک پہنچ جائیں جس کا تعلق مذہب کے اصولوں سے ہے تو سوائے اس کے کہ ان سے اور شکوک پیدا ہوں، اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ شکوک صرف انھی چیزوں کے متعلق ہونے چاہئیں جن کے متعلق رفع بھی ہو سکیں، جیسے مادی حقائق۔ مثلاً اگر کسی شخص کو ستاروں کے متعلق کسی شک کو رفع کرنا ہو تو وہ دوربین کی مدد سے ایسا کر سکتا ہے۔مگر خدا کی ہستی کے متعلق جو شکوک بھی ہوں گے وہ دوربین یا کسی اور ذریعہ تحقیق کے احاطہ امداد سے باہر ہوں گے۔ مزید براں علمِ زندگی کی انتہا نہیں، عمل کادرجہ اس سے بالاتر ہے، یعنی انسانوں کی اجتماعی زندگی میں کسی واقعے کا پیدا کرنا بہتر ہے کسی واقعے کے متعلق تحقیق کرنے سے۔اقبال نے علم و عمل اور شک و یقین کے باہمی تعلق کو کیا خوب بیان کیا ہے: ہمائے علم تا اُفتد بدامست یقیں کم کن گرفتارِ شکے باش عمل خواہی؟ یقیں را پختہ ترکن یکے بین و یکے جوے و یکے باش اقبال ہر قسم کے شکوک سے (خصوصاً ان شکوک سے جو حصولِ علم کے لیے مفید ہیں)شناسا ہے۔ اس کی ابتدائی نظمیں بھی اس بات کی گواہ ہیں۔ مثلاً جلوۂِ حُسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب پالتا ہے جسے آغوشِ تخیل میں شباب آہ وہ حسن زمانے میں کہیں ہے کہ نہیں؟ خاتمِ دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں مگر دیکھو یہی اقبال عقل اوریقین کا مقابلہ کس طرح کرتا ہے: بہ پیچ و تاب خرد گرچہ لذتِ دگر است یقین سادہ دلاں بہ ز نکتہ ہائے دقیق پھر کہا ہے اور کس جوش وخروش سے کہا ہے: من آں علم و فراست با پرِ کاہے نمی گیرم کہ از تیغ و سپر بیگانہ سازد مردِ غازی را اقبال کا بار باریہی تقاضا ہے کہ ہم عقلی شکوک سے نجات حاصل کر کے یقیں پیدا کریں۔ انسان کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ وہ عناصر زندگی کی تسخیر کرے۔اور عقلی شکو ک ہمیں کچھ بھی کرنے نہیں دیتے۔ اگر ہم اقبال کو محض فلسفی کی حیثیت سے دیکھیں تو ہمیں برگساں کے فلسفے کی طرح اس کے فلسفے کی بنا بھی غیر عقلی نظر آئے گی۔خدا، روح، مادہ وغیرہ کی نسبت اقبال کا جواب بھی وہی ہے جو جرمنی کے سب سے بڑے فلسفی امانول کانٹ کا تھا۔ یعنی یہ کہ عقل ان کے متعلق کسی قسم کا قطعی فیصلہ دینے سے قاصر ہے۔ نہ ہم خدا کی ہستی کو عقلی وجوہ سے ثابت کر سکتے ہیں، نہ عقلی دلائل سے اس کا انکار کر سکتے ہیں مگر اس کی ہستی کے متعلق یقین رکھنا ہماری دنیاوی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے، اور یہی حال زندگی کے تمام اہم ترین مسائل کا ہے۔ قرآن شریف میں ایک آیت ہے کہ یسئلونک عن الروح کل الروح من امر ربی، یعنی لوگ تجھ سے روح کے متعلق دریافت کرتے ہیں، تو کہہ دے کہ روح میرے خدا کے حکم سے ہے اور فقط۔ رسولِ کریمؐ نے بھی ایسے ایسے دور از کار مسائل کے متعلق سوچتے رہنے سے منع کیا ہے۔ حقیقت میں کامیاب زندگی وہی ہے جس کی بُنیاد یقین اور ایمان پر ہو۔ جہادِ زندگانی میں مردوں کی شمشیریں یہی ہیں۔ صوفیا اکثر ’’عینِ حقیقت‘‘ کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہیں کہ حقیقت وہی ہے جس پر ہمارا ایمان ہو۔ حوّا کے کسی فرزند نے آج تک حقیقت کو بے نقاب نہیں دیکھا: کہ چوں بجلوہ در آئی حجاب من نظر است دنیا کا سب سے بڑا عارف خود کہہ گیا ہے کہ ’’ماعرفناک حق معرفتک‘‘ ہم نے تجھے ویسے نہیں پہچانا جیسے پہچاننا چاہیے تھا۔ اقبال غلامی کا دشمن ہے،خواہ وہ ذہنی غلامی ہو یا تمدنی غلامی یا سیاسی غلامی۔ اقبال لفظ ’’مسلم‘‘ کو ’’مردِ آزاد‘‘ کا ہم معنی سمجھتا ہے اور یہی اس لفظ کا صحیح مفہوم ہے۔ اسلام ہی دنیا کا ایک ایسا مذہب اورایک ایسی تحریک ہے جس نے دنیا کو غلامی سے آزادکرایا ہے۔ اس نے بت پرستی کی مخالفت کی اور بنی نوعِ انسان کی نگاہ کو محسوسات کے محدود حلقے سے بلند کر دیا۔ اس نے قیصر و کسریٰ کے جور و استبداد کا خاتمہ کر کے انسان کی سیاسی غلامی کو مٹایا۔ زکوٰۃدینے کا سبق سکھا کر سرمایہ داری (جو استعمار اور جوع الارض کی ماں ہے)کا مقابلہ کیا۔ خدا کے سامنے سب کو ایک کر دیا۔ عورتوں کے حقوق (جن کی اسلام سے پہلے کوئی ہستی نہ تھی)مقرر کیے، حتیٰ کہ ان کو جائداد کی ملکیت کا حق بھی دے دیا۔ جو لوگ جسمانی طور پر غلام تھے ان کے مالکوں کو ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کا حکم دیا اوراُن کو آزاد کرنے کی ترغیب دی۔ اسلام غلامی کاہر حیثیت سے دشمن ہے۔ مسلمان وہی ہے جس کا دل، دماغ، روح اور جسم آزاد ہو۔ایک خدا کی پرستش کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی ماسوا سے بے نیاز ہو جائے: ہرکہ پیماں باہو الموجود بست گردنش از بندِ ہر معبود رست (رموز بے خودی) اقبال یاس، حزن اورخوف کا دشمن ہے۔ یہ تینوں چیزیں آج کل ہوا اور پانی سے بھی زیادہ عام ہیں اور مشرق و مغرب کی تہذیب کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگر آپ کسی مسلمان سے ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق گفتگوکریں اور پوچھیں کہ ’’کیا ان کی حالت کبھی بہتر ہو گی؟‘‘ تونوے فیصدی جواب نفی میں ملیں گے۔ اور یہ اس لیے نہیں کہ ان لوگوں نے حالات کا مطالعہ کیا ہے یا خدانخواستہ انھیں زندگی کا کچھ تجربہ ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ طبعاً مایوس واقع ہوئے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو چھوڑیے، اگر آپ آج دنیا کے کسی گوشے میں یہ سوال کریں کہ زندگی اچھی ہے یا موت’ تو عام رائے موت کے حق میں ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ آج کل تمام دنیا میں خود کشی ایک عام چیز ہے۔ اقبال یاس کا دشمن ہے کیونکہ یاس زندگی کی مخالف ہے اورامید زندگی کا سہارا: ع چراغِ راہِ حیات است جلوہ امید یاس انسانی روح کا ایک مرض ہے۔ یہ مرض ہر ایک روح کو کبھی کبھی لا حق ہوا کرتا ہے، مگر وہ روحیں جو طبعاً تندرست ہوں، اس کے اثر میں دیر تک نہیں رہتیں۔ اگر یہی سوال کہ زندگی بہترہے یا موت گوئٹے یا سعدی یا سولھویں صدی کے مشہور بت تراش بن ونوٹوسلینی سے کیا جاتا تو گوئٹے خاموش رہتا، شیخ سعدی کھلکھلاکر ہنس دیتے اور سلینی تو یقینا سوال کرنے والے کا کچومرنکال دیتا۔ یاس کی طرح حزن اور خوف بھی افراد اور اقوام کے لیے بہت بڑی بیماریاں ہیں۔ یہ قوتِ عمل کو تباہ کرتی ہیں اور روح کو کمزور کر دیتی ہیں۔اقبال نے اِن میں سے ہر ایک کو اُم الخبائث کہا ہے اور ان کا علاج بھی بتایا ہے جو ان سب کا واحد علاج ہے ــــــ توحید پر ایمان۔ اقبال مادیت کا دشمن ہے۔ زندگی کی معلومات کو سطحی نظر سے دیکھنا، سائنس کے واقعات کے علاوہ اور سب حقائق کو نظرانداز کر دینا اور جسمانی آرام و آسائش پر قانع ہوجانا مادہ پرستی ہے۔ میں نے ایک دفعہ پوچھاکہ ابلیس کیا چیز ہے؟ تواقبال نے جواب دیا کہ ابلیس مادیت ہے اورانسان کے ساتھ اس کی ازلی جنگ ہے۔ مادیت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنی روح کے اعلیٰ مقاصد کو نظرانداز کر دے اور انسانی روح یہ چاہتی ہے کہ مادیت کو تسخیر کر کے اس سے بلند ہو جائے۔ اقبال مادہ پرستی کا دشمن ہے اور اسی لیے تہذیبِ مغرب کا بھی، کیونکہ تہذیب مغرب محض مادہ پرستی کا دوسرا نام ہے۔ اقبال نے مغرب میں جا کر اس تہذیب کا اپنی آنکھوں سے بغور معائنہ کیا اور اس خود غرضی،تنگ نظری سنگدلی اور لہو و لعب کو دیکھ کر، جو سرمایہ داری کے اصول اوراس تمدن کے بنیادی پتھر ہیں، یہ رائے قائم کی ہے کہ: تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے ؁ُّ؁ؑاقبال جرمنی کے مشہور محقق آسوالڈ سپنگلر کی طرح اس تہذیب کے خاتمے کا منتطر ہے۔ مگر دونوں کے نقطہ نظر میں فرق ہے۔ سپنگلر کا نظریہ ہے کہ ہر تہذیب اور تمدّن کی مثال ایک درخت کی سی ہے۔ جس طرح درخت کے لیے اُگنا، بڑھنا، پھولنا پھلنا اور آخر میں خشک ہو کر گر پڑنا لازم ہے، اسی طرح ہر ایک تہذیب اور تمدن کے لیے ابتدا، عروج، تنزل اور خاتمہ لابّدی ہے۔ سپنگلر کا خیال ہے کہ مغرب کی موجودہ تہذیب کے عروج کا زمانہ گزر چکا ہے اوراب اس کا دورِ تنزل اسے خاتمے کی طرف لیے جارہا ہے،اور یہ سب تقدیر کے اٹل اصولوں کے ماتحت ہو رہا ہے۔ برعکس اس کے اقبال کے کلام کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ سپنگلر کے خیال سے متفق نہیں۔ اقبال کا اعتقاد ہے کہ ایسی تہذیب جس کی بنیاد اسلام کے اُصول ہوں، کبھی فنا نہیں ہو سکتی۔ تہذیبِ مغرب کی بنیاد چونکہ صرف عقل اور عقل کی خام کاریوں پر ہے اوراس کی عظمت کی عمارت نوعِ انسان کے گوشت اور خون سے بنی ہوئی ہے، اس لیے اقبال کے نزدیک اسے بقا نہیں ہوسکتی اور وہ اُس کے خاتمے کا منتظر ہے۔ ایک اور چیز جو دورِ حاضر سے مخصوص ہے، ملت سے فرد کی بے پروائی اور علیٰحدگی ہے۔ آج کل ہر انسان علیٰحدگی چاہتا ہے۔ عورتیں اپنی اقتصادی آزادی سے متاثر ہو کر اور روحانی آزادی کا نام لے کر سب پابندیاں توڑنا چاہتی ہیں۔ مرد بظاہر کشت و خون سے بیزار ہو کر اور ایک بین الاقوامی صلح کانام لے کر اور باطن میں جد و جہد اور سعیِ پیہم سے تھک کر سوسائٹی سے علیٰحدہ ہونا چاہتے ہیں مشرق میں تو صوفیوں، درویشوں، رشیوں اور مہاتمائوں کی مہربانی سے، جو فرداً فرداً اپنی روح کی خیر مناتے دنیا سے چلے گئے، سوسائٹی کا صحیح تخیل، جو اسلام نے پیش کیا تھا، قائم نہیں رہ سکا۔ مغرب میں بھی اب یہ وبا زندگی کی اندرونی گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت تک حالات اس وبا پر قابوپاتے رہے ہیں۔ جنگِ عظیم میں مختلف قوموںکو اپنااندرونی نظم ونسق مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ جنگ کے بعد یہ نظم نسق بگڑگیا، مگرروس کے سیاسی اور تمدنی خطرے کی وجہ سے اب پھر سنبھل گیاہے۔ مگر مجھے اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ زمانہ موجودہ میں انسانی طبائع کا اصلی میلان علیٰحدگی کی طرف ہے۔اگر بولشوزم کے پروگرام پر ایک نظر ڈالی جائے تو ان کا بھی منتہاے نظرقریب قریب یہی نظر آئے گا۔ بولشویکوں کے اپنے قول کے مطابق ان کے مختارانِ مطلق، یعنی ڈکٹیٹروں کی حکومت صرف اس وقت تک ہے جب تک دنیا مجموعی حیثیت سے ان کے خیالات سے متاثر نہیں ہوتی۔ اس کے بعد ہر قسم کی حکومت اور ہر قسم کے آئین کا دور ختم ہوجائے گا، اور امید کی جاتی ہے کہ انسان اپنی فطرت پر اور دوسرے انسانوں کی فطرت پر اعتماد کر لیا کرے گا۔ ایسا زمانہ آئے یا نہ آئے، کم از کم اقبال اس کے آنے کے خلاف ضرور ہے۔اس کے خیال کے مطابق فرد کا ملت سے وابستہ رہنا لازم ہے۔ اقبال کسی فرد من حیث الفرد کی روحانی یا سیاسی نجات کا قائل نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ رُسولِ عربیؐ کو ہر زمانے کے اورہر قسم کے پیغمبروں پر اسی لیے فضلیت ہے کہ اور سب قیامت کے دن ’’نفسی نفسی‘‘ کہیں گے مگر آپؐ کی زبان پر ’’امتّی امتّی‘‘ ہوگا۔ اب میں اقبال کے پیغام کی طرف توجہ کرنا چاہتا ہوں، مگر قبل اس کے کہ ’اسرارِ خودی‘اور ’رموزِ بے خودی‘ کے مضمون پر غور کیا جائے، بہتر ہوگا کہ دو تین باتوں کو اچھی طرح مدّنظر رکھ لیا جائے، کیونکہ ان کے بغیر اقبال کا سمجھنا نا ممکن ہے: اول :اقبال کے لیے زندگی ایک اچھی چیز ہے۔ دوم : یہ دنیا اوراس کے رنج والم انسانی روح کی ترقی کے لیے بہت سودمند ہیں۔ سوم :زندگی عمل کا نام ہے۔ چہارم:زندگی کے لیے تین چیزیں لازم ہیں؛ آرزو ، کوشش اور امید، اور تینوں کی تینوں نہایت ضروری ہیں۔ اقبال کا پیغام، تما م و کمال،اسرارو رموز،میں محفوظ ہے۔ ان دونوں مثنویوں کی اشاعت کے بعد اقبال نے جو کچھ لکھا ہے، اسی پیغام کو دہرانے کے لیے لکھا ہے،اور اسے ہزاروں ہی طرح دہرایا ہے۔ اس پیغام کے دو حصے ہیں؛ ایک تو اس سوال کا جواب ہے کہ فرد کوخود کیا ہونا چاہیے؟ اور دوسرا اس سوال کا جواب کہ فرد کی ملت کی طرف کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اقبال فرد کے لیے استحکامِ خودی چاہتا ہے،یعنی یہ کہ انسان خود نگر،خودشناس اور خود گر ہو۔تمام کائنات اورکائنات کے تمام اجزا کا وجود خودی ہی کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ایک چیز کو دوسری چیزسے تمیز کرلیتے ہیں۔ ایک درخت ہمیں ایک پتھر سے مختلف نظر آتا ہے، بلکہ ہم ایک پتّھر کوکِسی دوسرے پتھر سے بھی متمیز کر لیتے ہیں۔ یہ خودی کی ادنیٰ صورت ہے۔ جب خودی زندگی کے مختلف طبقوں سے گذر کر انسان کی صورت میں نمودار ہوتی ہے تواس کا وجود مکمل ہوجاتاہے۔ انسان میں پہنچ کر خودی سمندر کی لہروں سے زیادہ بے قرار اور آگ کے شعلوں سے زیادہ بے تاب ہوجاتی ہے: خیزد، انگیزد،پرد، تابد، رمد سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد خودی ہی کے دم سے زندگی اور زندگی کی قوتِ تسخیر ہے۔ خودی کے معنی ہیں اپنی فطرت پر برقراررہنا اوراپنی ہستی کو محکم کرنا۔جس کسی نے خودی کے اس سبق پر عمل کیا اس نے گویااپنے آپ میں تسخیر کی قوت پیدا کر لی۔ اقبال نے اس حقیقت کو چاند، زمین اور سورج کی مثال سے واضح کیا ہے۔ زمین کی ہستی چاند سے زیادہ محکم ہے، سو چاند زمین کے تابع ہے اوراس کے گرد گھومتا ہے۔ سورج کی ہستی زمین سے زیادہ محکم ہے، سو زمین اس کے تابع ہے اور اس کے گرد گھومتی ہے: چوں زمیں برہستیِ خود محکم است ماہ پابندِ طوافِ پیہم است ہستیِ مہر از زمیں محکم تر است پس زمیں مسحورِ چشمِ خاور است خودی کے معنی سمجھنے کے بعد یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ ہم اس قیمتی چیز کو ضائع بھی کر سکتے ہیں اور برقراربھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا برقرار رکھناحقیقی زندگی ہے اور اس کا ضائع کر دینا موت کے مترادف۔ خودی کی برقراری کے لیے مقاصد کا ہونا ضروری ہے اور مقاصد پست نہیں ہونے چاہیں۔ اقبال نے ہر جگہ بلند نظری پر زوردیاہے۔ مثلاً ’طلوعِ اسلام‘ میں کہا ہے: پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کے گردِراہ ہوں وہ کارواں توہے یا’زبورِ عجم‘ میں مقاصد کے لاانتہا ہونے کا پیغام دیا: ز جوئے کہکشاں بگذر،زنیلِ آسماں بگذر ز منزل دل بمیرد گرچہ باشد منزلِ ماھے خودی عشق و محبت سے مضبوط ہوتی ہے اور سوال یا دوسروں کی دست نگری سے ضعیف ہوجاتی ہے۔ عشق و محبت کسی ایسی ہستی کے ساتھ ہونا چاہیے جو دنیا بھر کے انسانوں سے پاک تر اورمحبوب تر ہو۔ایسی ہستی رسول کریمؐکی ہستی ہے جو ہزاروں جہانوں کے لیے مایہ رحمت اور دوست و دشمن کے لیے مرجع وماویٰ ہے: آنکہ بر اعدا درِ رحمت کشاد مکہ را پیغامِ لا تثریب داد طورموجے از غبار خانہ اش کعبہ را بیت الحرم کاشانہ اش روز محشر اعتبارِ ماست او در جہاں ہم پردہ دارِ ماست او خودی جب عشق و محبت سے محکم ہوجائے تو دنیا کی ظاہری اورباطنی قوتیں اس کی تابع ہو جاتی ہیں۔ ایک فقیرِ بے مایہ کے سامنے بڑے بڑے دبدبے والے سلاطین کانپ جاتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی زندگی اس حقیقت کو بڑی اچھی طرح واضح کرتی ہے۔ اگر ان کے زمانے میں فارس اور روم اور شام اور مصر تسخیر ہوئے تو اس کی وجہ کیا تھی؟ محض ان کا عشقِ نبیؐ: ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ اوست بحر وبر در گوشہ دامانِ اوست خودی کو اپنے استقرار واستحکام میں حیات ملی کے ساتھ وابستہ رہنے سے بہت مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ حیاتِ ملی کے قیام اور تسلسل کا بھی یہی ذریعہ ہے کہ ملت اپنی مخصوص روایات کو محفوظ رکھے۔ اقبال نے ان روایات کی حفاطت پر اتنا زوردیا ہے کہ ایک شیخ کی زبان سے ایک برہمن کو کہلوا دیا ہے کہ بتوں سے بیزار نہ ہو اور اپنے بڑوںکے طریقوں کو ہاتھ سے نہ دے: من نگویم از بتاں بیزار شو کافری، شائستہ زنار شو اے امانت دارِ تہذیبِ کہن پشت پا بر مسلک آبا مزن گرز جمیعت حیاتِ مِلّت است کفر ہم سرمایہ جمعیت است خودی جب مضبوط اورمحکم ہوجائے تو اس کی تربیت ضروری ہے۔ اس کے تین درجے ہیں؟ پہلا درجہ اطاعت ہے، یعنی آئینِ الٰہی کی پابندی۔ آئینِ الٰہی کا مطلب اسلام کے قوانین سے ہے اوریہ قوانین سخت نہیںہیں۔ اقبال نے اس حالت کو اُونٹ سے تشبیہ دی ہے، کیونکہ اُونٹ ایک محنت شعار اوربوجھ اٹھانے والا جانور ہے۔ دوسرا درجہ ضبطِ نفس ہے، یعنی یہ کہ اسلامی قوانین کی پابندی کے ذریعے سے انسان اپنے آپ پر قابوپا لے اور ہر ایک قسم کے جسمانی اور روحانی مصائب کے امتحان میں پورا اترنے کے قابل ہو جائے۔ جب یہ ہوجائے تو اس سے آگے تربیتِ خودی کا تیسرا درجہ ہے، یعنی نیابتِ الٰہی۔ نیابت الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ انسان زمین پر صحیح معنوں میں خداوند تعالیٰ کا نائب اورخلیفہ بن کر رہے، اس حالت میں انسان ’’انسان کامل‘‘ کی حد پر پہنچ جاتا ہے، یا نطشا کی زبان میں ’’مافوق الانسان‘‘بن جاتا ہے۔ مگر جیسا کہ میں آگے چل کر ظاہر کروں گا، اقبال کے ’’انسانِ کامل ‘‘اور نطشا کے ’’مافوق الانسان‘‘میں بہت فرق ہے۔ اقبال کا ’’انسانِ کامل‘‘ یا دوسرے الفاظ میں مردِ مسلم گویا بنی نوع ِانسان کے وجود کی غرض وغایت ہے: نوعِ انساں مزرع و تو حاصلی کاروانِ زندگی را منزلی وقت ایک تلوار ہے اوریہ تلوار’’انسانِ کامل‘‘ یا مردِ مسلم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔مسلم کا فرض ہے کہ وہ آئینِ الٰہی یعنی اسلام کی اشاعت کرے۔ اشاعت ہر ایک ممکن طریق سے ہونی چاہیے۔ جہاد بھی اشاعت کا ایک طریقہ ہے مگر جہاد کی تہہ میں ملک گیری کی ہوس ہوتووہ جہاد جہاد نہیں ہے، خود غرضی کی جنگ ہے اور یہ حرام ہے۔ اقبال نے اس خود غرضی کی جنگ کو، جو ماکیافیلی فلسفہ کے بنیادی اصولوں میں سے ہے، بہت برا کہا ہے اور ضمناًماکیافیلی کی بھی خبر لی ہے،کیونکہ آج کل دنیا میں جتنی مصیبتیں ہیں، ان میں سے اسّی فیصدی کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار افراد یا غالب اقوام اِسی فلسفہ پر عامل ہیں۔ ایک اور شخص جو اقبال کی ملامت کا نشانہ بنا ہے، افلاطون ہے، جس کے خواب اور فلسفے کی طرف میں اشارہ کر چکا ہوں۔ میرے نزدیک افلاطون دنیا کے بہت بڑے مجرموں میں سے ہے کیونکہ اس کی تعلیم کا لُبِ لباب نفیِ خودی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ خودی کی تباہی کا سبق اقوم ِغالب،اقوامِ مغلوب کو دیا کرتی ہیں،جیسے مشنری لوگ، جو خود حکمران قوموں سے تعلق رکھتے ہیں، ہندوستان یا اور غلام ملکوں میں جا کر عیسائیت کے تباہ کن اصولوں کی اشاعت کرتے ہیں اور اپنے ملکوں میں نہیں کرتے۔ مگر اقبال کو اس خیال سے اختلاف ہے۔ وہ نطشا کے اس خیال سے متفق ہے کہ نفیِ خودی کا سبق مغلوب قومیں غالب قوموں کو کمزور کرنے کے لیے دیا کرتی ہیں۔ چونکہ مردانہ اوصاف مثلاً جوش عمل، غیرت، حمیت، قربانی ان میں خود موجود نہیں ہوتے اس لیے وہ ان اوصاف کو دوسری قوموں کے ہاں بھی دیکھنا نہیں چاہتیں۔ یہاں تک تو خودی کا سبق تھا، اب اقبال کے پیغام کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے؛ فرد کو لازم ہے کہ اپنی خودی کی تکمیل اور تربیت کرے لیکن فرد اگر خودی کی حدود کے اندر رہے تو اس کی زندگی کامیاب نہیں ہوتی۔ فرد کا رابطہ ملت کے ساتھ نہایت ضروری ہے۔ اس کا وقار، اس کی عظمت، اس کا احترام ملت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ملت کا تعلق فرد کو ہرقسم کی آلائشوں سے پاک رکھتا ہے، کیونکہ ملی روایات کا اثر بہت صحت بخش ہوتا ہے۔ چنانچہ رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے۔ یہاں ہم خودی کی منزل سے گزر کر بے خودی کی منزل میں آپہنچتے ہیں: درجماعت خود شکن گردد خودی تا ز گلبرگے چمن گردد خودی فرد می گیرد زملت احترام ملت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرئہ وسعت طلب قلزم شود افراد کے ایک سلسلے میں منسلک ہوجانے کا نام ملت ہے۔انسان طعباً مدنی یا مجلسی واقع ہوا ہے مگر اس مجلسیت سے ملت پیدانہیں ہوتی۔ ملت کا پیدا ہونا کسی عظیم الشان شخصیت کے اثر کا نتیجہ ہوا کرتاہے، جو ذروں کو اٹھا کر آفتاب کر دے اور خاک کو اکسیر بنادے ۔ یہ شخصیت نبیؐ کی شخصیت ہے۔ ایک صاحبِ دل چند لوگوں کو افراد سے قوم بنا دیتا ہے اور ان کی نظر کو ایک نصب العین پر قائم کر دیتا ہے تاکہ وہ آوارگی سے آزاد ہو کر اپنے مدعاے حقیقی کی طرف متوجہ ہو: بند ھا از پاکشاید بندہ را از خداوندانی رباید بندہ را گویدش تو بندئہ دیگر نہ ای زیں بتانِ بے زباں کمتر نہ ای تا سوے یک مدعایش می کشد حلقہ آئین بہایش می کشد ہر ایک ملت کے لیے اساسی اصولوں کا ہونا ضروری ہے۔ملتِ اسلامیہ دو اصولوں پر قائم ہے۔ توحید اور رسالت۔ توحید انسان کو ماسوا سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یاس، حزن اور خوف کا،جو سب روحانی امراض کی جڑہیں، قلع و قمع کر دیتی ہے۔ اور رسالت کا مقصد انسان کو حریت، مساوات اور اخوت کے راستے پر چلانا ہے۔ جب رسول عربیؐ کا ظہور ہواتودنیا بھر پر ذہنی، روحانی اور سیاسی غلامی چھائی ہوئی تھی۔ رسالت نے دنیاکو تو ہمات اورکفر و شرک سے آزاد کرایا، بندہ و آقا کا فرق مٹا دیا، انسان کو انسان کا بھائی بنادیا، بتوں کو توڑ ڈالا، گویا انسانی روح کو انسانی استبداد سے آزاد کراکے آئینِ الٰہیہ کا تابع بنا دیا۔ مساوات اسلامیہ کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت عمرؓ اپنے زمانۂِ خلافت میں شام کو تشریف لے گئے ہیں تو ان کے اُونٹ کی سواری میں دو اور آدمیوں کا بھی حصہ تھا جن میں سے ایک ان کا اپنا غلام تھا۔ باری باری سے ایک آدمی سوار ہوتا اور باقی دونوں پیادہ چلتے۔حریتِ اسلامیہ کی سب سے بڑی مثال حادثہ کربلا ہے۔ امام حسینؐ کی شہادت نے نہ صرف یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں کا انتخاب کردہ ہونا چاہیے، اور نام و نسب کو اس انتخاب میں کچھ دخل نہیں ہونا چاہیے، بلکہ دنیاکو اچھی طرح جتا دیا کہ ایک مسلمان فسق و فجور اور استبدادکی حکومت کو برادشت نہیں کر سکتا، اور یہ عینِ اسلام ہے۔ خواجہ معین الدین اجمیری نے کہا ہے: سر داد و نداد دست در دستِ یزید حقا کہ بناے لا الہٰ است حسین اقبال کہتا ہے: رمزقرآں از حسین آموختیم ز آتشِ او شعلہ ھا اندوختیم شوکتِ شام وفرِ بغداد رفت سطوتِ غرناطہ ہم از یادرفت تارِما از زخمہ اش لرزاں ھنوز تازہ از تکبیرِ او ایماں ھنوز حریت، اخوت، مساوات اورتوحید انسان کو ماسوا سے بیگانہ اوربلند کر دیتی ہیں اور چونکہ توحید ورسالت کا مقصد بنی نوع انسان کو ایک برادری میں منسلک کر دینا ہے اس لیے ملتِ اسلامیہ کے لیے ’’وطنیت‘‘ کا ماکیافیلی تصور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ملتِ اسلامیہ نہ وطن کی مکانی قید میں ہے، نہ عروج و زوال کی زمانی قید میں۔ حقیقت چونکہ ہمیشہ کے لیے حقیقت ہے اس لیے ملتِ اسلامیہ کو فنا نا ممکن ہے: از اجل ایں قوم بے پرواستے اُستوار ازنحن نزلناستے ذکر قائم از قیامِ ذاکِر است از دوامِ او دوامِ ذاکر است حیاتِ ملیہ کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد آئین پر ہو۔ ملتِ اسلامیہ کے نظام کے لیے قرآن شریف آئین کا سرچشمہ ہے۔ اس آئین پرمضبوطی سے قائم رہنے کے لے ہر ایک فرد کی سیرتِ ملی یا اس کا قوم سے رابطہ مضبوط ہوتا ہے اور اطوار وآدابِ محمدیہؐ کی پیروی کرنے سے ملت کے افراد کے درمیان حسن سلوک بڑھتا ہے۔ فرد کوقوم سے رابط مضبوط رکھنا چاہیے خصوصاً جب قوم پر انحطاط کا دور ہو تو اپنی مخصوص روایات کی پوری حفاظت کرنی چاہیے۔ کیونکہ اگر کوئی قوم اپنے انحطاط کے زمانے میں اپنی جمعیت قائم رکھ سکے تو اس کے دن بہت جلد پھرجاتے ہیں اور اگر اس کی جمعیت پریشان ہوجائے تو پھر قوم کا خدا حافظ۔ گویا اقبال نے مسلمانوں کو صاف طور پر یہ بتلا دیا ہے کہ آج کل جب تم پر تنزل کا زمانہ ہے اگر یہودیوں کی طرح اپنے آبا کی روایات کو برقراررکھوگے تو تمہاری ہستی برقرار رہے گی اور اگراپنی اپنی جگہ اجتہاد کی ٹھانو گے تو تباہ ہوجائو گے۔ حیاتِ ملیہ کے لیے ایک مرکز محسوس ضروری ہے،اور ملت ِاسلامیہ کے لیے یہ مرکز کعبہ ہے۔ کعبہ مسلمانوں کی پرستش کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ سب کے سب اس کے ذریعے سے جمع ہو سکیں اور ان میں یگانگت پیداہو۔ اقبال نے کعبے کو جسمِ انسانی سے تشبیہ دی ہے۔ جس طرح جسمِ انسانی زندگی کا ایک مرکزِ محسوس ہے، اسی طرح کعبہ ملّت اسلامی کی زندگی کا ایک محسوس نشان ہے۔ کعبے کا تعلق ملت کی ظاہری جمعیت سے ہے۔حقیقی جمعیت اسی طرح حاصل ہوتی ہے کہ ملی نصب العین کو، جو رسالت کا پیش کردہ ہے، ملت کے پیش نظر رکھا جائے اوراس نصب العین کے لیے ملت کی تمام قوتیں وقف کر دی جائیں۔ ملت اسلامیہ کا نصب العین توحید کی اشاعت ہے۔ توحید کی اشاعت ہر مسلمان کا فرض ہے کیونکہ اس سے حیات ملی محکم ہوتی ہے اور ملت ماسوا سے جنگ کرنے کے قابل بنتی ہے۔مسلمان صرف توحید کے سامنے جھکتا ہے۔ ماسوا اس کی تسخیر کے لیے ہیں۔مادے سے جنگ سب کچھ قربان کردے۔ ماسوا سے بے نیازہوجا اور ایک ان دیکھے خداکے ساتھ اپنا رشتہ الفت جوڑ لے: عاشقی؟ توحید را بر دل زدن وانگہے خود را بہ ہرمشکل زدن (زبورِ عجم) ہمایوں، اکتوبر۱۹۳۱ء بہ حوالہ :اقبال معاصرین کی نظر میں۔ مرتبہ: پروفیسروقارعظیم،مجلس ترقی ادب ،لاہور،۱۹۷۳ء ۔ توازن : اقبال کی شاعری کا ایک پہلو پروفیسر محمد منور ـاس بات کو عموماً ایک امرِ مسلم کی طرح قبول کر لیا گیا ہے کہ فلاسفہ کا وہ اوّلین مکتب جس سے تعلق رکھنے والوں نے عالم کو کائنات Cosmos قرار دیا تھا۔ فیثاغورثی مکتب تھا۔ فیثاغورثیوں کے نزدیک اس کلمے سے ایک ایسا کل اور ایک ایسی وحدت مراد تھی، جس کے جملہ اجزا منظم و مرتب ہوں۔ فیثاغورثیوں کا عقیدہ تھا کہ ہر فرد، بشر اپنی جگہ ایک ننھی منّی سی منظم و مرتب کائنات ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ افرادِ آدم، عالمِ اکبر Macrocosm کے جملہ اساسی اصولوں کی بخوبی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہی باعث ہے کہ وہ ہر انسانی وجود کو عالمِ اصغر Microcosm قرار دیتے تھے۔ چنانچہ وہ اس خیال کے بھی حامی تھے کہ کارخانۂ فطرت کے اساسی اصولوں کا مطالعہ کرنے اور اُنہیں سمجھ لینے سے آدمی اپنی زندگی کو باقاعدگی اور تنظیم کے زیور سے مزیّن کر سکتا ہے۔ کائنات کے ایک منظم و مرتب وحدت ہونے کے بارے میں قرآن کریم کا ارشاد بڑا واضح اور صریح ہے۔ بہت سی آیات اس امر پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ذیل میں چند آیات کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے: ’’خدائے رحمن کی تخلیق (دُنیا) میں تم کو کہیں بھی رخنہ نظر نہ آئے گا۔ پھر سے نظر دوڑا لو، کیا کہیں کوئی کوتاہی دِکھائی دی؟‘‘ (۴:۶۸) ’’بالتحقیق ہم نے ہر شے کو ایک قدر و معیار کے مطابق پیدا کیا ہے۔‘‘ (۴۹:۵۴) ’’اس (خدا) نے آسمان کو اونچا اُٹھایا ہے اور میزان مقرر کر دی ہے تاکہ تم میزان کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘ (۷:۵۵) مسطورۂ بالا آیات کے مطالعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خدا کی کائنات بے ربط اور بے جوڑ نہیں ہے۔ ہر شے آئینِ تناسب و توازن کی پابند ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم سوجھ بوجھ رکھنے والے ہر شخص کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ کائنات کے توازن و تناسب پر غور کرے تاکہ وہ خود اپنی زندگی کو بھی اس سانچے میں ڈھال سکے۔ توازن و تناسب فقط جسمانی ڈھانچے ہی کے لیے ضروری نہیں، یہ تخیل و تفکر کے لیے بھی ضروری ہے اور افعال و اعمال کے لیے بھی۔ لی مین برائی سن Lyman Bryson کا خیال یہ ہے کہ دینی جذبہ خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہو اور خواہ وہ اپنے اظہار میں کتنا ہی مبتدیا نہ ہو یا کتنا ہی پختہ و عمیق، ہمیشہ اس اعتقاد پر مبنی ہوتا ہے کہ فطرتِ کائنات اور انسان کے تصور انصاف، رحم اور راستبازی کے مابین ایک غایتی ہم آہنگی موجود ہے۔ (Patterns of Ethics in America Today, P.108) توازن ہی میں قوت کا راز پنہاں ہے۔ کائنات اس لیے باقی ہے کہ اس میں باقی رہنے کی قوت ہے اور وہ قوت توازن کا عطیہ ہے۔ جوں ہی توازن بگڑا، اثیرِ بسیط میں تیرنے والے جہان آپس میں ٹکڑا کر ختم ہو جائیں گے۔ یہی کیفیت اس عالمِ اصغر کی ہے جسے آدمی کہتے ہیں اور یہی تقدیر اس معاشرے کی ہے جسے آدمیوں کا مجموعہ استوار کرتا ہے۔ سپائی نوزا Spinoza کے بقول جسمانی بیماری کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے اعضائے ترکیبی کے توازن میں خلل واقع ہو گیا ہے۔ جب یہ عدم توازن ختم ہو جائے تو صحت لوٹ آتی ہے، عدم توازن بڑھتا چلا جائے تو جان پر بن جاتی ہے۔ اسی طرح جالینوس کا ایک قول منقول چلا آتا ہے کہ ’’شر‘‘ روحانی بیماری ہے۔ قرآن اہلِ شر کے بارے میں خواہ وہ کفر کے مرتکب ہوں خواہ شرک کے اور خواہ نفاق کے، یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ ’’فیِ قُلُوبِھِمْ مَّرَض‘‘ (ان کے دلوں میں بیماری جاگزین ہے۔) توازن کا احساس علامہ اقبال کے افکار و اشعار کا ایک اہم پہلو ہے۔ چنانچہ وہ ہر نظامِ فکر اور فلسفے کی اچھی چیزوں پر بھی نگاہ رکھتے تھے اور بری چیزوں پر بھی۔ مثلاً وہ جمہوریت کی اچھی باتوں کے قائل ہیں۔ مگر جب وہ استعماری روپ دھارتی ہے یا دو صد مغزِ خر کے شمار ہی کو معیارِ دانش قرار دے لیتی ہے تو وہ اسے معاف نہیں کرتے۔ وہ اشتراکیت کی اچھی باتوں کی تعریف کرتے ہیں مگر اس کی خدا ناشناسی اور احترامِ روحِ آدمیت سے ناآگاہی پر سخت نکتہ چینی کرتے ہیں۔ مسولینی کی شخصیت سے بہت متاثر تھے، مگر جب اس نے حبشہ کو پامال کیا تو علامہ اقبال نے مسولینی پر بھی اور اس سارے تمدن پر بھی لعن طعن کی، جس نے یورپ کی استعماری اور فسطائی روح کو جنم دیا تھا--- ان کی ’’خودی‘‘ کو ’’بے خودی‘‘ کا سہارا میسر ہے۔ ان کا ’’شکوہ‘‘ بھی تنہا نہیں رہا، اسے بھی ’’جوابِ شکوہ‘‘ نے تقویت دے دی۔ اُن کے یہاں آزادیٔ افکار کو تقلید اور تقلید کو آزادیٔ افکار کی احتیاج ہے۔ ان کے اکثر شعر پارے بالعموم خود اپنی ذات میں نظم و ترتیب اور تناسب و توازن کا خوبصورت نمونہ پیش کرتے ہیں۔ وہ جبلی شاعر تھے مگر وہ پیدائشی مفکر بھی تھے--- ’’جام و سندان باختن‘‘ ہر صاحبِ شوق کے بس کا روگ نہیں۔ علامہ اقبال کے یہاں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ان کا فلسفہ، شعر پر حاوی ہو جائے۔ شعر و فلسفہ کا وہ خوب صورت امتزاج ہوتا ہے کہ ’’ارتباط حرف و معنی اختلاطِ جان و تن‘‘ والی بات بن جاتی ہے۔ مثلاً ضربِ کلیم میں ’’عورت‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں! یا مثلاً از کلیمے سبق آموز کہ دانائے فرنگ جگرِ بحر شگافید و بہ سینا نہ رسید چوں سرمۂ رازی را از دیدہ فروشستم تقدیرِ امم دیدم پنہاں بکتاب اندر یہ توازن ان کی اکثر نظموں کی ہیئت و ترکیب اور ان کے موضوعات کے مابین جلوہ گر نظر آتا ہے۔ یہ فکری اور فنی توازن بے سبب نہ تھا۔ علامہ اقبال کا مطالعہ گوناگوں تھا اور وہ مطالعہ سطحی نہ تھا کہ دماغ کا سرمایہ تو بنا رہے، مگر دل و جان کی گہرائیوں تک نہ اُترے۔ حق تو یہ ہے کہ ان کے لیے ’’خبر‘‘ کا ’’اثر‘‘ جزوِ دل و جاں بن گیا تھا، اس لیے جو ان کی زبان سے نکلتا تھا، وہ گہرے احساس اور کامل اخلاص کا مظہر ہوتا تھا۔ وہ عربی، فارسی اور اُردو، انگریزی اور جرمن وغیرہ زبانوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ کسی حد تک سنسکرت بھی جانتے تھے۔ سنسکرت اُنہوں نے سوامی رام تیرتھ سے پڑھی تھی۔ فلسفے اور قانون کے عمر بھر طالب علم رہے۔ تاریخِ تمدن و سیاست سے بھی بھرپور دل چسپی تھی اور تاریخِ ادیان و مذاہب سے بھی۔ وہ تاریخ ادبِ مغرب سے بھی آشنا تھے اور تاریخِ ادبِ مشرق سے بھی، خواہ وہ ادب قدیم تھا یا جدید۔ یہی عالم معاشیات کا تھا۔ معاشیات کے موضوع پر اُنہوں نے ایک کتاب بھی لکھی تھی اور اس وقت جب ابھی اُن کا کوئی شعری مجموعہ منصہ شہود پر نہ آیا تھا۔ وہ سائنس کے طالب علم نہ تھے، لیکن اس کے باوصف قدیم و جدید سائنسی نظریات و اکتشافات پر نظر تھی۔ بالخصوص معاصر سائنسی نظریات سے آگاہی نے ان کو جدید مغربی تمدن اور پھر عالمِ انسانیت پر ثبت ہونے والے اس کے اثرات کو سمجھنے میں بیش بہا مدد بہم پہنچائی تھی--- اسی وسعتِ نظر کے باعث وہ ہر نظامِ فکر و عمل کے اچھے نکات کو منتخب کر لینے پر قادر تھے۔ خالی انتخاب سے بھی بات نہیں بنتی، علامہ اقبال اس منتخب مواد کو وہ حسنِ ترکیب عطا کرتے ہیں کہ ایک نئی چیز وجود میں آ جاتی ہے--- موسیقی سے لگائو تھا۔ کلاسیکل موسیقی کے خصوصاً رسیا تھے۔ اس ’’حسنِ سماعت‘‘نے ان کی شاعری کو خوش آہنگ بنانے میں بڑا حصہ لیا، چنانچہ کرخت آوازیں، ثقالتیں، تعقیدیں اور ناہمواریاں ان کے کلام میں کم ہیں۔ بقول ابوالاثر حفیظ جالندھری، اقبال پتھر کی بھاری چٹانیں اُٹھا لاتے ہیں، مگر موتیوں کی طرح جڑ دیتے ہیں۔ اُنہیں بخوبی علم تھا کہ ان کا دور عصرِمادہ پرستی ہے۔ وہ اس سے بھی آگاہ تھے کہ عصر معاصر کے معاشی مسائل ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کو کس انداز میںمتاثر کر رہے ہیں اور اس سے روحِ انسانیت کس عذاب میں مبتلا ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ مذہبی اقدار متزلزل ہو رہی ہیں۔ علم مابعدالطبیعات سمٹ رہا ہے۔ ’’منطقی اثباتیت‘‘ پھیل رہی ہے۔ روح سکڑ رہی ہے اور بدن انگڑائی لے رہا ہے۔ اخلاقی اقدار کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں اور آدمی وحشت و حیوانیت کی جانب مراجعت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ (آج کے ہپّی حضرات و خواتین اسی مراجعت کا جلوہ ہیں)۔ چنانچہ اُنہوں نے ٹھیک کہا تھا: عذابِ دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل ؑ ’’مثلِ خلیل ؑ‘‘ کی ترکیب تشبیہی ان کے احساس کی شدت کو بڑھا رہی ہے۔ گویا وہ محسوس کر رہے تھے کہ باطل کے مناظر بخوبی سمجھنے والے اور ان مناظر کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے والے اپنے دور میں وہ واحد فرد ہیں، باقی لوگ اگر از روئے باطن ان کی تائید کرتے بھی ہیں تو ان کا ظاہر ایک طرح سے تماشبین ہی کا سا ہے۔ ان کے خیال میں دورِ معاصر کا یہ عذاب اور افراتفری، عدم تناسب و توازن کی پیداوار تھے۔ اس لیے کہ معاصر افکار اور معاصر نظام کسی نہ کسی ایک پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دے رہے تھے اور باقی پہلو دب رہے تھے، اور وہ حاوی عنصر مادہ پرستی تھا--- نیز یہ کہ زندگی کو ایک منظم و مرتب وحدت کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر حیات و کائنات اندھوں کا ہاتھی بن کر رہ گئی تھی۔ جو اندھا ہاتھی کی دُم پکڑے ہوئے تھا، وہ کہہ رہا تھا ’’ہاتھی رسی ہے‘‘ جو سونڈ پکڑے ہوئے تھا اس کا بیان تھا کہ ہاتھی سانپ ہے اور جو ٹانگ سے لپٹا ہوا تھا، اس کا اعلان تھا کہ ’’ہاتھی ستون ہے‘‘۔ وہ دم کو دم یا سونڈ کو سونڈ یا ٹانگ کو ٹانگ کہہ ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے کہ دم یا سونڈ یا ٹانگ تو کسی اعضائی وحدت کا حصہ ہے اور وہ وحدت پیش ِنظر نہ ہو تو یہ اسمی تعین کس طرح عمل میں آئے؟ یہ مثال جو بچوں کے قاعدوں میں ایک ننھے سے سبق کی حیثیت رکھتی ہے، بڑوں سے بڑے دانائوں کے لیے چراغِ راہ ہے--- یہ سبق درس دیتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرّہ ایک نظام ہے اور وہ کسی اور نظام سے مربوط ہے اور وہ کسی اور سے، اور اسی طرح تا لاانتہا یہ سلسلہ چلا جاتا ہے: حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں اس شعر میں مضمون کے تفلسف نے بیان کی شعریت پر بار ڈالنے کے بجائے اُلٹا اسے نکھار دیا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ بیان کی شعریت نے مضمون کے تفلسف کو سنوار دیا ہے۔ اسی طرح ایک فارسی قطعہ جو ارمغانِ حجاز سے ماخوذ ہے، دیکھیے۔ یہ بھی فلسفیانہ مضمون اور شاعرانہ حسنِ بیان کے امتزاج کا دلنشین نمونہ ہے: دو صد دانا دریں محفل سخن گفت سخن نازک تر از برگِ سمن گفت ولے بامن بگو آں دیدہ ور کیست کہ خارے دید و احوالِ چمن گفت ’’بڑے بڑے اہلِ نظر نے اس باغِ عالم میں گفتگو فرمائی۔ گفتگو جو برگِ سمن سے بھی نازک تھی۔ لیکن مجھے بتائو وہ دیدہ ور کون ہے، جس نے ایک کانٹے کو دیکھا اور سارے باغ کے احوال بیان کر دیئے۔‘‘ ایسا خیال کہ ذرّے کا دل چیرنے سے خورشید کا لہو ٹپکے گا یا کانٹے کو دیکھ کر پورے باغ کے اسرار بیان کیے جا سکتے ہیں، وہی شخص ظاہر کر سکتا ہے، جو پوری کائنات کو ایک مربوط وحدت جانتا ہے۔ علامہ اقبال کا اصرار ہے کہ یہ ہمہ جہتی منظر اور یہ جہاں شناسی اُنہیں قرآن کی بدولت میسر آئی: گوہرِ دریائے قرآں سُفتہ ام شرحِ رمزِ صبغۃ اللہ گفتہ ام اسی طرح ایک موقع پر تلقین کرتے ہیں کہ اگر تم مسلمانوں کی سی نگاہ کے مالک ہو تو اپنے آپ کو اور قرآن کو سمجھو: چوں مسلماناں اگر داری جگر در ضمیرِ خویش و در قرآں نگر قرآن ہی سے رازِ خودی واضح ہو گا اور قرآن ہی سے سرِخدائی عیاں ہوگا۔ اس کی روشنی میں بات ذرّے سے چل کر آفتاب تک اور بندے سے چل کر خدا تک پہنچے گی۔ فلسفہ و فکر کے بہت سے طالب علم نقاد اس خیال کے حامی ہیں کہ اقبال نے افلاطون، ارسطو، نطشے اور برگساں وغیرہ سے بڑا اثر قبول کیا ہے، بالکل بجا ہے۔ اُنہوں نے سب کے افکار کا مطالعہ کیا تھا اور ان سب کی پسندیدہ باتوں کو، جو خود ان کے نظریات کی مؤید تھیں، سراہا اور قبول بھی کیا۔ لیکن ہر اِک سے اتفاق کسی زاویے پہلو یا جزو کے ضمن میں آیا ہے۔ آیا کامل افلاطون یا کامل نطشے یا کامل برگساں سے اقبال کو کامل اتفاق ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ ازروئے منطق ان مختلف نظریات کے علمبردار حضرات میں سے بیک وقت ایک ہی کے ساتھ کاملاً متفق ہو سکتے تھے، ایک سے زیادہ کے ساتھ نہیں، اور اگر ایک ہی سے یہ اتفاقِ کامل ممکن تھا تو پھر وہ کون ہے۔ کسی کا بھی نام نہیں لیا جا سکتا۔ اگر وہ کسی پیشرو کے ساتھ کاملاً متفق ہوتے تو وہ زیادہ سے زیادہ افلاطونِ ثانی یا نطشۂ ثانی یا برگسانِ ثانی کہلاتے۔ اگر ایسا نہیں اور یہ بھی عیاں ہے کہ اقبال حسنِ انتخاب پر قادر تھے، تو ماننا پڑے گا کہ ان کا نظریہ اور مقصد دوسروں سے جدا تھا۔ وہ کن چیزوں کو کس مقصد کے لیے منتخب کر رہے تھے، اور پھر وہ منتخب اُمورو وسائل اور تصورات و خیالات محض بے جوڑ اشیا کی ڈھیری ہیں یا وہ علامہ اقبال کے مقصد کے سانچے میں ڈھل کر کوئی نئی دِل کش اور دِل کشا شے بن گئے ہیں؟ علامہ اقبال کے بقول شہد کے ذرّے یہ نعرہ نہیں لگا سکتے کہ وہ نرگس ہیں یا گلاب--- وہ شہد ہیں اور اس کے عمومی ذائقے اور لذت کے حصہ دار: ایں نمی گوید کہ من از عبہرم آں نمی گوید من از نیلو فرم یہی عالم علامہ اقبال کے نظامِ فکر کا ہے۔ ان کا نظام اقبال کے سوا کسی دوسرے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا--- اہلِ نظر بقدر شعور و ادراک کائنات کا مطالعہ کرتے چلے آئے ہیںـ۔ جسے جس قدر بہتر نظر ملی، اس نے حقائق کو اسی قدر بہتر سمجھا۔ بعد میں آنے والے اہلِ نظر نے اپنے پیش روئوں کی تائید کر دی مگر تائید اور اندھی تقلید میں فرق ہے--- اقبال بھی موید تو ہیں مگر کوتاہ نظر مقلد نہیں۔ وسیع ارادت ہے تو مولانا رومؒ سے، اور وہ اس لیے کہ اُن کا سرچشمۂ ہدایت قرآن ہے۔ وہاں اتحاد و اتفاق کے لیے گنجائش بہت زیادہ تھی--- بہرحال، یورپ میں اقبال سے قبل اور معاصر دور میں ’’زریں اوسط‘‘ کا اصول ’’فوق البشر‘‘ ’’تخلیقی ارتقا‘‘ ’’آمریت، ’’اشتراکیت‘‘، ’’سرمایہ داری‘‘، ’’منطقی اثبات‘‘ اور ’’یہ وہ‘‘ کے ایسے نظریات موجودتھے، لیکن توازن و تناسب کا وہ قرآنی انداز جس کے اقبال علمبردار ہیں، کہاں تھا اور کہاں ہے! علامہ اقبال ان شعراء میں سے نہ تھے کہ جو خیال بھی کسی کے بیان سے یا کسی منظر سے یا کسی قافیے کے باعث سوجھ گیا، اس سے جس طرح کا شعر یا قطعہ یا نظم اختراع کی جا سکی، کر دی، خواہ وہ ان کے نظامِ فکر یا ان کے عام نظریات سے کوئی مطابقت رکھے یا نہ رکھے۔ یہ روّیہ ان شعراء کا ہے جن پر قرآن نے یہ تنقید کی ہے کہ انھم فی کل وادیھیمون (وہ خیال کی ہر وادی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔) علامہ اقبال جو اثر قبول کرتے ہیں، وہ ان کے وسیع نظامِ فکر و خیال سے متصادم نہیںہوتا، اُلٹا اس کی تعمیر کا حسین جزو بن جاتا ہے۔ جہاں بظاہر تصادم کا منظر جلوہ گر ہے، وہاں درحقیقت تدریج ہے یا پس منظر کی وسعتوں میں کوئی شے کسی دوسری سے فاصلے پر ہونے کی بدولت مربوط نظر نہیں آتی۔ پس منظر کی کلیت ذہن نشین ہے تو نہ بے ربطی ہے نہ تصادم--- کائنات کے تصادمِ بے نہایت میں تلخی و شیرینی، بلندی و پستی، شیری و روباہی، نور و ظلمت تصادم کا نام نہیں، وہ تو ایک سلسلے کے اجزاء ہیں جس سے خدا کی خلّاقی کے گوناگوں مظاہر وجود میں آتے ہیں: سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات ہر وادیٔ خیال میں ٹامک ٹوئیاں مارنے والے شعرا وہی ہو سکتے ہیں جن کے پیشِ نظر کوئی مقصد یا مقصود نہیں ہوتا۔ ورنہ تلاش کہیں تو کوئی مثبت رُخ اختیار کرتی، اور آوارگی ہی مایۂ حیات بن کر نہ رہ جاتی۔ ظاہر ہے کہ جو شخص حیات و کائنات کی کلیت اور وحدت کا تصور رکھتا ہو، وہ زندگی کے معاملے میں بھی نظم و ضبط کو نظرانداز نہ کرے گا۔ جسم میں بھوک کے احساس ہی کی کیفیت کا مسئلہ لے لیجیے۔ جب بھوک مٹانے کے بجائے محض کھانا پینا ہی مقصود بن جائے اور ہوس کا رنگ اختیار کر لے تو گویا توازن چھن گیا۔ قرآن حکیم کا حکم ہے: کلوا واشربوا ولاتسرفوا (کھائو پیو، مگر زیادتی نہ کرو۔) زیادتی مراد ہے بھوک اور پیاس کا حد سے بڑھ جانا۔ امام غزالی کہتے ہیں: ’’ضرورت سے زیادہ کھانا پینا، ذہن کو کند اور حافظے کو کمزور کر دیتا ہے۔ خوابیدگی بڑھ جاتی ہے جو وقت کا ضیاع بھی ہے اور جس سے قلب کی قوت بھی گھٹ جاتی ہے، نورِ دانش دھندلا جاتا ہے اور آدمی نیکی اور بدی میں تمیز کرنے کی اہلیت سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘ (بحوالہ: A History of Muslim Philosophy، از: ایم۔ایم شریف) یہ توازن اور اعتدال کی نہایت معمولی سی مثال تھی مگر اس کے اثرات کی جولانگاہ بھی کتنی وسیع ہے۔ معنی یہ کہ ہر وہ چیز جو اپنی حدود کی پابند ہے، وہ متناسب ہے، متوازن ہے، حسین ہے اور خیر ہے۔ یہاں ابن مسکویہ کا قولِ ذیل بے محل نہ ہوگا: ’’ہر وہ شے جو عمل میں آنی چاہیے، اگر اس طرح عمل میں آئے جس طرح آنی چاہیے، اس حد تک جس حد تک چاہیے، وہاں جہاں چاہیے، اور اس وقت جس وقت چاہیے، خیر کہلاتی ہے، اور ہر وہ شخص جو سوچ سمجھ کر اپنے شوق و اختیار سے اس طریق پر گامزن ہوتا ہے، اسے مردِ دانا کہتے ہیں۔‘‘(A History of Muslim Philosophy, p.306) اور یہ تو عیاں ہے کہ مثال فقط عمل کے ذریعے پیش کی جا سکتی ہے، لہٰذا اچھا وہ ہے جس سے اچھائی سرزد ہو۔ وہ جس کے ہاتھوں بھلے کام عمل میں آئیں، وہ بھلا اور جس سے برے کام عمل میں آئیں، وہ برا--- جو کچھ نہ کرے وہ ناکارہ، ہیچ اور بعض کے نزدیک بدتر بلکہ خود علامہ اقبال کے نزدیک بھی--- چنانچہ وہ نظریات و تصورات جو عمل کی تائید و تصدیق سے محروم رہتے ہیں، مثال اور نمونہ نہیں بن سکتے۔ ان کی حیثیت سرمایۂ دماغ اور موعود ذہنی سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔ یہی باعث ہے کہ علامہ اقبال ان لوگوں کو پسند نہیں کرتے جو اپنے کردار کو اپنی گفتار کے مقابل نہیں تولتے اور میزان بحال نہیں رکھتے: تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار، وہ کردار تو ثابت، وہ سیارا اس مقام پر پہنچ کر ہمیں متوازن کردار کے لیے علامہ اقبال کے ’’مردِ مومن‘‘ پر ایک نظر ڈالنی چاہیے، اقبال کا مردِ مومن ان کا نصب العینی انسان ہے۔ وہ کیسا ہونا چاہیے، جواب تو ایک ہی ہے کہ توازن و اعتدال کا نمونہ، اعمال و اقوال کا خوبصورت امتزاج؟ چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم کے چند اشعار درج کیے جاتے ہیں جو مردِ مومن کی توصیف میں ہیں: قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دُنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفتِ سورئہ رحمن! مسجدِ قرطبہ میں ’’مردانِ حق‘‘ کا جو نقشہ کھینچا ہے، وہ یوں ہے: نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز بانگِ درا میں کہا ہے: گزر جا بن کے سیلِ تُند رَو کوہ و بیاباں سے گلستان راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا اسی طرح ضربِ کلیم میں آتا ہے: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن گویا علامہ اقبال کا نصب العینی انسان ’’احسن تقویم‘‘ کی صحیح مثال ہے۔ سختی کی جگہ سختی، نرمی کے موقع پر نرمی، جگرِلالہ کے لیے ٹھنڈک، دریائوں کے لیے طوفان، کوہ و بیابان کے لیے سیلِ تُند رَو اور گلستان کے لیے جوئے نغمہ خواں، بزمِ اُنس میں ابریشم، رزمِ حق و باطل میں فولاد--- یہی اسلام کی اصل روح ہے، اسی کا نام صراطِ مستقیم ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لاتکن راطباً فتعسر ولا یابساً فتکسر۔ (نہ اتنے تر بنو کہ نچوڑ لیے جائو اور نہ اتنے خشک بنو کہ توڑ دیے جائو۔) قرآن حکیم میں آتا ہے: ’’نہ تو اپنے بازو کو اپنے گلے کا ہار بنا لو اور نہ بے تحاشا پھیلاتے چلے جائو۔ (دونوں صورتیں غیرمعتدل ہیں)۔ لہٰذا خطرہ ہے کہ پھٹکار اور دھتکار پا کر بیٹھ رہو گے۔‘‘ (۱۷:۲۹) توازن کا درس دینے والی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ مگر مزید مثالوں سے دانستہ گریز کیا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال قرآن کی اسی توازن آموزی کے پیشِ نظر لکھتے ہیں: زقرآں پیش خود آئینہ آویز دگرگوں گشتۂ از خویش بگریز ترازوئے بنہ کردارِ خود را قیامت ہائے پیشیں رابر انگیز ’’قرآن کو آئینے کی طرح پیشِ نظر رکھ۔ اس آئینے میں دیکھے گا، تو پتہ چلے گا کہ تو بالکل بدل کر رہ گیا ہے، لہٰذا اپنے اس مسخ شدہ وجود سے گریز اختیار کر لے، اپنے کردار کے لیے ترازو مقرر کر لے یعنی کردار کو اعتدال کا نمونہ بنا لے۔ جب تو ایسا کرے گا تو تجھ میں وہی قوت آ جائے گی، جو تیرے آبائو اجداد کو میسر تھی۔ لہٰذا تو بھی وہی قیامت دُنیا میں بپا کر دے گا، جو عہدِ ماضی میں تیرے آبائو اجداد بپا کرتے تھے۔‘‘--- گویا علامہ اقبال کے یہاں طاقت اور قوت کا راز تناسب اور توافق میں پنہاں ہے--- مگر یہ نظریۂ قوت ذرا آگے چل کر زیرِ بحث آئے گا۔ مشرق و مغرب کی آویزش کے معاملے میں علامہ اقبال کا میلان مشرق کی طرف اس لیے ہے کہ مشرق کے فکری نظام میں عموماً روح کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ اور مغرب میں عموماً مادہ کو۔ لیکن یہ محض ترجیحی درجہ بندی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ روح کافی ہے اور مادہ بے ضرورت شے ہے۔ وہ رہبانیت کے شدید مخالف تھے، اس لیے کہ لارھبانیۃ فی الاسلام--- رہبانیت خلافِ اعتدال ہے، لہٰذا اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں لیکن مغرب کی بے روح مادہ پرستی بھی ناگوار شے ہے۔ اس لیے کہ بے روح معاشرہ احترامِ انسانیت کے تصور ہی سے محروم رہ جاتا ہے اور نتیجتاً اخلاق کی ناقہ بے زمام ہو جاتی ہے۔ رحم اور ہمدردی کا جذبہ ناپید ہو جاتا ہے۔ ہوس سود کی کوئی حد نہیں رہتی۔ آدمی طبقات کی نذر ہو جاتا ہے۔ گویا عالمِ انسانیت وحشت کدہ بن کر رہ جاتا ہے۔ علامہ اقبال کو نہ رہبانیت پسند ہے اور نہ مادہ پرستی، چنانچہ وہ اپنے دَور کے مشرق و مغرب، دونوں سے خوش نہ تھے: بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا اسی طرح جاوید نامہ میں رقمطراز ہیں: غریباں را زیر کی سازِ حیات شرقیاں را عشق رازِ کائنات زیرکی از عشق گرد و حق شناس کارِ عشق از زیرکی محکم اساس خیز و نقشِ عالمِ دیگر نبہ عشق را بازیر کی آمیزدہ علامہ کہتے ہیں کہ اہلِ مغرب کے لیے عقل سب کچھ ہے اور اہلِ مشرق کے لیے عشق۔ حالانکہ عقل کو عشق کی مدد درکار ہے تاکہ وہ حق شناس ہو جائے اور عشق کو عقل کی ضرورت ہے تاکہ اس کا معاملہ پختہ بنیاد ہو جائے۔ لہٰذا اے مردِ مسلمان اُٹھ اور ایک نئی دُنیا کی طرح ڈال دے۔ وہ دُنیا ایسی ہو جس میں عشق اور عقل ایک دوسرے کے دمساز و قرین ہوں ــــــ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ شعر ذیل میں علامہ اقبال نے دل کو عقل کی قید سے رہا کر دینے کی تلقین کی ہے، وہ شعر ہے: اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے مگر اس شعر کی رو سے کوئی تضاد یا تصادم ثابت نہیں ہوتا۔ ترجیح اسی امر کو ہے کہ دل کو عقل کی رفاقت میسر رہے۔ ہاں کبھی کبھی اسے من مانی بھی کر لینے دی جائے جس کا مطلب ہے کہ آدمی کو گاہے گاہے کوئی ’’بے عقلی‘‘ بھی کر لینی چاہیے۔ اس سے زندگی کی لذت میں اضافہ ہو جائے گا۔ ’’کاش کردے و گزاشتے‘‘ کا مفہوم تقریباً یہی ہے۔ ویسے علامہ اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ مردِ مومن جس کا کردار ترازو رہا ہو، عالمِ سکروا استغراق میں بھی اعتدال و احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کا جنوں بھی سمیع و بصیر ہوتا ہے ــــــ اگرچہ اس امر کا اس بحث سے براہِ راست تعلق نہیں تاہم علامہ کا شعر ذیل ان کے جنونِ متوازن پر روشنی ڈال رہا ہے: باچنیں زورِ جنوں پاسِ گریباں داشتم درجنوں از خود نرفتن کارِ ہر دیوانہ نیست علامہ اقبال اس معاملے میں اتنے محتاط ہیں کہ انبیا علہیم السلام کی وحی کو چھوڑ کر باقی ہر الہام، کشف، وجدان وغیرہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مثلاً ان کا شعر: صاحبِ ساز کو لازم ہے کہ غافل نہ رہے گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش ہو سکتا ہے کہ وہ فرشتہ جو نغمے الہام کر رہا ہے، خود بے سُرا ہو رہا ہو۔ لہٰذا صاحبِ ساز کو ہر دم چوکنا رہنا چاہیے۔ مطلب یہ کہ اگر وجدان کو اکیلے چھوڑ دیا جائے تو کبھی کبھی غلطی کا اندیشہ ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ الہام صوفیا اور اولیا یا مجذوب حضرات کا الہام، وجدان اور کشف ہے، اور یہ انبیاء علیہم السلام کی وحی سے بالکل جدا ہے۔ انبیاء کی وحی کو غیر انبیاء کے الہامات کی صحت و عدم صحت کے لیے کسوٹی کی حیثیت حاصل ہے ــــ لہٰذا عقل کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ وحی پر استوار ہونے والی شرع کی میزان پر ان معاملات کشف وجدان کو تول سکے ــــ جو کچھ مخالف شریعت ہے، وہ غلط ہے۔ اتنی عقل ہر دم ایک رفیقِ بیدار کی طرح دِل کے ہم راہ رہنی چاہیے۔ شریعت کی خلاف ورزی کرنے والا الہام و وجدان خطائے آہنگ کا نتیجہ ہے۔ اس خطا کے امکان پر حضرت مجدد الف ثانی ؒ بالفاظِ ذیل روشنی ڈالتے ہیں: ’’در وحی قطع است و در الہام ظن۔ زیرا کہ وحی بتوسطِ ملک است و ملائکہ معصوم اند۔ احتمالِ خطا درایشاں نیست۔ والہام اگرچہ محلِ عالی داردو آں قلب است و قلب از عالم امراست، امّا قلب را با عقل و نفس نحوی از تعلق متحقق است و نفس ہر چند کہ تزکیہ مطمئنہ گشتہ است امّا: ھر چند کہ مطمئنہ گردد ہرگز زصفات خود نگردد پس خطارا درایں موطن، مجال پیدا شد۔‘‘ (مکتوباتِ امام ربانی، مطبع مجددی، امرتسر، دفتر اوّل، حصہ دوم، صفحہ نمبر ۴) ترجمہ اس عبارت کا یہ ہے: ’’وحی حتمی اور یقینی ہے، اور الہام گمان و احتمال۔ اس لیے کہ وحی فرشتے کے توسط سے آتی ہے اور فرشتے معصوم ہیں، ان سے غلطی اور خطا کا اندیشہ نہیں۔ رہا الہام تو اگرچہ وہ بھی محلِ عالی کا مالک ہے اور وہ محلِ قلب ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ قلب کا تعلق عالمِ امر سے ہے۔ (عالمِ خلق سے نہیں، قلب خاکی نہیں قلب افلاکی ہے)۔ تاہم قلب کو عقل اور نفس سے ایک طرح کا تعلق تو بالتحقیق ہو جاتا ہے اور نفس خواہ تزکیہ پا کر کتنا ہی مطمئن ہو جائے، پھر بھی وہ اپنی صفات سے کاملاً عاری نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا وہاں خطا کے لیے جولانی کی گنجائش موجود ہے۔‘‘ گویا علامہ اقبال الہام و وجدان کے ہر مدعی کو باخبر کر دینا چاہتے ہیں کہ اسے ہوشیار رہنا چاہیے۔ جس آواز کو وہ فرشتے کی آواز جان رہا ہے، ممکن ہے وہ اس کے نفس کی آواز ہو ــــ نفس کسی نخوت کا صیدِ زبوں ہو اور وہ نخوت نفس کی آواز بن کر الٹے سیدھے دعاوی کرا رہی ہو، کبھی غوث ہونے کا دعویٰ کبھی مہدی و قطب ہونے کا دعویٰ، کبھی پیغمبر ہونے کا دعویٰ، کبھی ذات منزّہ سے ہمکنار ہونے کا دعویٰ و علی ہذا القیاس ــــ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے اس عقل بیدار کی ضرورت ہے جو شریعت کے نور سے مستنیر ہو۔ اس بحث کے پیشِ نظر یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ان بزرگوں کی تعریض بے محل ہے جو کہتے ہیں کہ اقبال ’’لٹھ لے کر‘‘ عقل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی آرا غیرمعتدل ہیں اور اقبال کی تعلیمات و تصریحات کو تماماً پیشِ نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ہیں۔ اقبال دل کو یا عشق کو عقل پر ترجیح ضرور دیتے ہیں، مگر یہ ترجیح کی بات ہے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے نظامِ فکر میں عقل کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ بے نسبتِ عقل کوئی بھی نظام، نظام کیسے بن سکتا ہے۔ قرآن ان لوگوں کو ’’ظالم‘‘ اور ’’معتد‘‘ قرار دتیا ہے جو حدود کا احترام نہیں کرتے۔ حدودشکنی کا عمل وہیں ظہور میں آتا ہے، جہاں جبلتیں سرکش ہو جاتی ہیں۔ ہر جبلت انسان کے لیے جوہری قوت کی حیثیت رکھتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی جبلت کسی دوسری جبلت یا دوسری جبلتوں پر مسلط نہ ہوجائے۔ یہ ایک جبلت کا کسی دوسری ایک یا ایک سے زیادہ جبلتوں پر تسلط ’’حد شکنی‘‘ کا موجب بن جاتا ہے۔ ’’احترامِ حدود‘‘ کا دوسرا نام انصاف ہے۔ یہی شریعت ہے۔ یہی آئینِ دین ہے۔ اور پھر وہی بات کہ خودی مسولینی کی ہو یا ہٹلر کی، پابند شرع ہو جائے تو مسلمانی ہو جاتی ہے۔‘‘--- یہی باعث ہے کہ فقہِ اسلامی میں شریعت کی خلاف ورزی پر عمل میں آنے والی سزا کا نام ’’حد‘‘ ہے۔ علامہ اقبال کے فکر کا لب لباب خودی ہے--- بعض سہولت پسند نقاد خودی کا سلیس ترجمہ ’’قوت‘‘ کر لیتے ہیں۔ پھر اس ترجمہ کا مزید سلیس ترجمہ فاشیت قرار دے لیا جاتا ہے، اور چونکہ علامہ اقبال کی علامات میں شاہین، شیر، تیغ، جہاد، سنجر، تیمور، ابدالی، نادر اور مسولینی وغیرہ کلمات و اسما موجود ہیں، اس لیے ’’فاشیت‘‘ کے دعوے کو دلیل مل جاتی ہے ــــ مگر ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ علامہ اقبال جس قوت کے قائل ہیں، وہ اندھی اور بے مقصود نہیں۔ قوت برائے قوت ایک مہمل جوہر ہے۔ قوت ’’خیر‘‘ بھی ہے اور ’’شر‘‘ بھی۔ فیصلہ مقصود کے ہاتھ میں ہے۔ الاعمال بالنیات۔ قوت کا غلط استعمال شر ہے، قوت کا بجا استعمال خیر ہے۔ ایک قوت وہ ہے جو معاشرے کا تحفظ کرتی ہے، ظلم و جور کا قلع قمع کرتی ہے۔ اس کے برعکس ایک قوت وہ ہے جس کے مزاج میں ذوقِ تخریب و غارت ودیعت کیا گیا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ علامہ اقبال جس قوت کے حامی ہیں، وہ ’’پابندِحدود‘‘ ہے۔ وہ شرح کے تابع ہے۔ اس کی روح اعتدال ہے۔ یہی باعث کہ ان کے نزدیک ’’اختیار‘‘جبر پر استوار ہے اور وہ اختیار جو ’’غیرمجبور‘‘ ہے۔ وہ چنگیزی کے سوا کچھ نہیں، یہاں جبر سے مراد پابندیٔ آئین و شرع ہے ــــــ علامہ اقبال ’’می شود از جبر پیدا اختیار‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے، اسرارِ خودی میں لکھتے ہیں: ہستیِٔ مسلم ز آئین است و بس باطنِ دینِ نبیؐ این است و بس برگِ گل شد چوں ز آئیں بستہ شد گل ز آئیں بستہ شد گلدستہ شد نغمہ از ضبطِ صدا پیداستے ضبط چوں رفت از صدا غوغاستے دَر گلوئے ما نفس موجِ ہواست چوں ہوا پابندِ نے گردد نواست مسلمان کی ہستی آئین کی پابندی کے باعث ہے۔ دینِ رسولؐ کی روح یہی امر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پھول کی پتی پابندیٔ آئین کے باعث گل ہے اور گل پابندی کے باعث گلدستے کا روپ دھار لیتا ہے۔ آواز پابند ہوتی ہے تو نغمہ بن جاتی ہے اور پابندی ختم ہو جائے تو نغمہ رخصت ہو جاتا ہے اور شورو غل باقی رہ جاتا ہے۔ ہماری سانس محض موجِ ہوا ہے، جب وابستۂ نے ہو جائے تو نَوا بن جاتی ہے۔ گویا تناسب کا نام حسن ہے اور تناسب ہی میں قوت کا راز پنہاں ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں: ’’جمال خود اپنی ذات میں وہ جوہر ہے جو ہر کسی کو مرغوب ہے۔ جمال سے مفہوم ہے کسی کل کے اجزا کا باہمی حسنِ تناسب اور یہ چیز فقط مادی اشیا ہی میں جلوہ گر نہیں ہوتی۔ یہ آدمی کی حرکات و سکنات، طرزِ عمل رویے اور تصورات و نظریات میں بھی پائی جاتی ہے--- غرضیکہ وہ شے جو جمیل ہے، ہمارے لیے خود اپنی ذات میں مرغوب ہے۔‘‘ (A History of Muslim Philosophy, p. 636) بے نظم مسالا، اینٹ، پتھر، چونا، گچ، رنگ وغیرہ ڈھیر اور انبار کہلاتا ہے، وہی سب کچھ پابند تناسب ہو جائے تو تاج محل اور موتی مسجد وجود میں آ جاتی ہے۔ آدمیوں کی بے نظم جمعیت بھیڑ بھاڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ بھیڑ بھاڑ جب پابندِ نظم ہو جائے تو فوج کہلاتی ہے، جس کی حرکات میں آہنگ پایا جاتا ہے، اور وہی آہنگ اس کی قوت کا راز ہے۔ جب تک یہ آہنگ باقی ہے، فوج فوج ہے۔ وہ مدافعت بھی کرتی ہے، وہ شر کے خلاف جہاد بھی کرتی ہے اور جب بے نظم ہو جائے تو پھر ایک ہجوم میں تبدیل ہو کر اپنی قوت کھو بیٹھتی ہے۔ بات وہی کہ ع می شود از جبر پیدا اختیار اگر سطورِ بالا میں بیان کردہ اصول کی روشنی میں کائنات کے وسیع نظام کے اندر مختلف معاشروں اور معاشرتوں کا نظارہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال کے اسماء جو قوت پر دلالت کرتے ہیں، وہ محض علامات ہیں، ورنہ قوت کا اصل سرچشمہ ’’پابندی‘‘ خود اپنی ذات میں ایک قوت ہے اور روحاً اور معناً چنگیزیت اور فاشیت اور فسطائیت سے بالکل مختلف ہے۔ مزید برآں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ علامہ اقبال نے تربیتِ خودی کے لیے تین مراحل بتائے ہیں۔ پہلا اطاعت، دوسرا ضبطِ نفس اور تیسرا نیابت الٰہی۔ نیابتِ الٰہی ایک طرح سے پہلے دونوں مرحلوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ جو فرد اطاعت و ضبطِ نفس کے عمل میں کامل نہیں، وہ عناصر کائنات کا مسخر نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ اس میں روحِ اعتدال پیدا نہ ہوگی جو قوت کا سرچشمہ ہے--- نائب الٰہی وہی ہو گا جو احکامِ خداوندی کا سب سے زیادہ پابند ہو گا اور جسے احکامِ الٰہی کی پابندی: تخلقوا باخلاق اﷲ (اللہ کے اخلاق و اوصاف اپنا لو) کا نمونہ بنا دے گی۔ وہ اللہ جو خلاق ہے، رزّاق ہے، رحمن ہے، غفار ہے، ستار ہے، اور ساتھ ہی جبار ہے، قہار ہے، ذوالقّوت، ذوانتقام ہے۔ ہر صنعت اپنی جگہ جلوہ گر، گوناگوں جوہر کا توازن اور اسی توازن کا مالک ہے۔ علامہ اقبال کا نصب العینی انسان، ان کا مردِ مومن جو:۔ ع قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت کی ترکیبِ حسین کا مظہر ہونے کے باعث آہنگ میں یکتا صفتِ سورئہ رحمن بن جاتا ہے: میزانِ اقبال، اقبال اکادمی، لاہور، ۱۹۸۲ء اقبال کا نظریۂ شعر (بانگ دراکی چند نظموں کی روشنی میں) احمد ندیم قاسمی شاعر کے جملہ نظریاتِ حیات اور نظریۂ فن کا مستند ترین ماخذ اس کا کلام ہوتا ہے۔ بعض محققین نے تو شعرا کے کلام میں سے ان کے حالات زندگی بھی مرتب کر لیے ہیں اور بعد کی تحقیق شاہد ہے کہ یہ حالات بیشتر درست ثابت ہوئے۔ شاعر اپنے آپ سے جھوٹ بول ہی نہیں سکتا۔ جب وہ شعر کہتا ہے تو ایک ایسے عالم میں پہنچ جاتا ہے جہاں آفتاب حقیقت و صداقت کی شعاعیں کسی دور دراز کے کونے کھدرے کو بھی منور کیے بغیر نہیں رہتیں۔ یوں شاعر اپنے شعر میں ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ علامہ اقبال کے نظریۂ فن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، مگر کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سب سے پہلے ہم انہی کے کلام سے رجوع کریں اور ان کے اشعار ہی سے ان کے نظریۂ فن کا کھوج لگائیں۔ آج میں صرف بانگ درا کو پیش نظر رکھوں گا۔ علامہ کے اس اولین مجموعۂ کلام میں اردو، فارسی اور انگریزی کے چھ شعرا پر پانچ نظمیں شامل ہیں۔ ایک نظم ’شبلی و حالی‘ میں دونوں پر بیک وقت اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ان نظموں کی مدد سے اقبال کا نظریۂ شعر بڑی آسانی سے مرتب ہو سکتا ہے۔ یہ سب ان کے ابتدائی دورِ شاعری کی تخلیقات ہیں، مگر جس نظریے کا خاکہ ان سے مرتب ہوتا ہے، اس کا اطلاق، بعض معمولی تبدیلیوں کے ساتھ، ان کے آخری دورِ شاعری پر بھی ہو سکتا ہے۔ بانگ درا میں دو نظمیں ایسی بھی شامل ہیں جن میں شاعر کے منصب کی وضاحت کی گئی ہے۔ ان دونوں کا عنوان ’شاعر‘ ہے۔ پھر ’سید کی لوحِ تربت‘ اور ’عبدالقادر کے نام‘ میں بھی ان کے نظریۂ شعر کی چند جھلکیاں موجود ہیں۔ اس نظم میں، جس کا عنوان ’عبدالقادر کے نام‘ ہے، علامہ اقبال نے جیسے اپنی شاعری کا منشور مرتب کر دیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے بال جبریل، ضرب کلیم، ارمغان حجاز اور اپنے فارسی کلام میں اسی منشور کے مطابق شاعری کی ہے۔ جو حضرات شاعر کے حوالے سے ’منشور‘ کے لفظ سے بِدکتے ہیں انھیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص کا اپنا ایک منشور ہوتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ منفی منشور کے حامل حضرات منشور کے وجود ہی سے انکار کرنے میں عافیت دیکھتے ہیں۔ اقبال کا منشور زندگی کے اثبات کا منشور ہے۔ جس طرح مرزا غالب نے کہا تھا کہ: بیا کہ قاعدۂ آسماں بگردانیم اسی طرح اقبال نے شیخ عبدالقادر سے مخاطب ہو کر کہا تھا: بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اور: شمع کی طرح جئیں بزم گہِ عالم میں خود جلیں، دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں اقبال اس نظم میں کہتے ہیں کہ اپنی بساط فریاد ہی تو ہے، مگر یہ ایسی فریاد ہے جو محفل کو تہ و بالا کر سکتی ہے۔ آئو کہ ہم عشق کی قوت…لگن کی قوت…مقصد کی قوت سے سنگ امروز کو اتنا صیقل کریں کہ وہ فردا کا آئینہ بن جائے، قوم کو اس کی کھوئی اور لٹی ہوئی قوت و حشمت کا احساس دلائیں، چمن کو آئین نمو سکھائیں تا کہ شبنم کا ایک ایک قطرہ، ایک ایک دریا کی روانی اور بیکرانی اختیار کر لے۔ اقدار بدل رہی ہیں (ع قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں) ہم نے یورپ کے یخ ماحول میں بیٹھ کر جو کچھ سوچا تھا، اور اپنے ذہنوں کو ان سوچوں سے گرمایا تھا، انھیں یہاں مشرق میں عام کریں اور اس اعتماد کے ساتھ اپنی ان سوچوں کی آگ میں جلیں کہ ہمارے جلنے سے روشنی پھیلے گی اور لوگوں کی آنکھوں میں، جنھیں اندھیرے نے بظاہر اندھا کر دیا ہے، بینائی لوٹ آئے گی۔ اقبال کا کلام گواہ ہے کہ انھوں نے جو کچھ اپنے انتقال سے تیس بتیس برس پہلے کہا تھا، وہ محض جوانی کے جوش یا جذباتیت کی زد میں آ کر نہیں کہا تھا بلکہ پورے غور و فکر کے بعد انھوں نے شاعر کا منصب معین کیا تھا۔ پھر انھوں نے اس منصب کو اپنے دور کے سیاسی حالات اور تاریخ کے حوالے سے پرکھا تھا، اور محض اندھیرے میں تیر نہیں چلایا تھا بلکہ انھیں اپنے ہدف کا شعور کامل حاصل تھا، اور وہ بڑی خود اعتمادی کے ساتھ ایک ایسی راہ پر گامزن ہوئے تھے جس پر بعد میں پوری قوم نے چلنے کا فیصلہ کیا اور اپنی پہلی منزل پا لی۔ ’عبدالقادر کے نام‘ میں تو علامہ اقبال نے بہت کھل کر اپنے فنی عزائم کا اظہار کیا ہے مگر دیگر (متذکرہ صدر) نظموں میں بھی (بالواسطہ طور پر ہی سہی) وہ اپنے نظریۂ شعر کو غیر مبہم انداز میں بیان کرتے چلے گئے ہیں، اور کسی ایک مقام پر بھی ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ انھوں نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہو جس پر بعد میں وہ عمل نہ کر سکے ہوں۔ ممکن ہے اس وضاحت سے بعض لوگوں کو یہ گمان گزرے کہ اقبال نے اپنی بے ساختگی پر پہرے بٹھا لیے تھے اور اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا…مگر گزارش یہ ہے کہ بڑے شاعر، خود کو بعض نظریات کا (مثبت نظریات کا) پابند کر لینے کے باوجود، اپنی بے ساختگی کو مجروح نہیں کرتے، اور جو شاعر کسی فنی یا تہذیبی نقطۂ نظر کا پابند نہیں ہوتا، وہ اپنی بے ساختگی کو صرف اس حد تک کام میں لاتا ہے کہ آخری دم تک اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہتا رہا ہے۔ ’شاعر‘ کے عنوان سے دو نظمیں بانگ درا میں شامل ہیں۔ پہلی نظم حصہ اول میں ہے اور ۱۹۰۵ سے قبل کی تخلیق ہے۔ دوسری حصہ سوم میں ہے اور ۱۹۰۸ء کے بعد کی تخلیق ہے۔ مگر خوشگوار حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں جگہ شاعر کے مناصب مربوط ہیں۔ پہلی نظم میں اقبال نے قوم کو جسم قرار دیا ہے، افراد کو اس جسم کے اعضا کہا ہے (یہ اعضا ’منزل صنعت‘ کے رہ پیما ہیں)۔ ’محفل نظم حکومت‘ قوم کا ’چہرۂ زیبا‘ ہے اور شاعر قوم کا ’دیدۂ بینا‘ ہے۔ شاعر کو پیکر قوم کی آنکھ قرار دینے کے بعد اقبال نے نہایت فن کارانہ حسن کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ شاعر قوم کے کسی دکھ، کسی مصیبت، کسی آزمائش سے بے توجہ نہیں رہ سکتا۔ مبتلاے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ ’شاعر‘ کے عنوان کی دوسری نظم میں اسی نقطۂ نظر کو ذرا وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اور قوم سے ہمدردی اور اس کے مصائب میں شرکت کے علاوہ شاعر پر فرض کر دیا گیا ہے کہ وہ (ان مصائب کے خاتمے کے لیے) کھری بات کہے۔ وہ کھری بات کہے گا تو جبھی ویرانۂ حیات میں بہار آئے گی۔ جب قوم بت سازی اور بت گری پر اتر آئے تو شاعر کے کلام کو شانِ خلیل دکھانی چاہیے اور کار خلیل کرنا چاہیے۔ اقبال نے اس نظم میں یہ بھی کہا ہے کہ جو شاعری خون جگر سے پرورش پاتی ہے، وہ عالم انسانیت کے لیے زندگی دوام کا نسخہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر پہلی نظم میں شاعر کا منصب معین کیا گیا ہے تو دوسری نظم میں اس منصب کا حق ادا کرنے کے لیے شاعر کے لیے راہ عمل مقرر کی گئی ہے اور اسی شاعری کو (جس میں شاعر اپنی نوع اور اپنی قوم اور اپنے معاشرے کی بعض ذمہ داریاں قبول کرتا ہے) زندگی کی چہل پہل، اس کی شادابی اور بالیدگی کی بنیاد قرار دیا ہے۔ گلشن دہر میں اگر جوئے مئے سخن نہ ہو پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو ’سید کی لوح تربت، میں اقبال شاعر کو اپنے وقار اور ’آبرو‘ کا تحفظ کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہو نہ جائے، دیکھنا، تیری صدا بے آبرو یہ ’صدا‘ کی ’بے آبروئی‘ بہت ہی بڑا سانحہ ہے جو کسی شاعر پر گزر سکتا ہے۔ شاعر کی صدا کی آبرو صرف اس طرح محفوظ رہ سکتی ہے کہ بقول ایک شاعر: جو کچھ کہوں، یقیں سے کہوں، برملا کہوں وہ جو کچھ کہے، اپنے اعلیٰ اور پاکیزہ اور مثبت منصب کو پیش نظر رکھ کر کہے۔ پھر وہ جانتا ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اسے علم ہو کہ اس کی صدا صرف اس تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے دنیا میں پھیلنا ہے، اور دنیا کو رنگ و بو کی، شادابی و نمو کی ضرورت ہے۔ اقبال نے اس نظم میں شعرا کو یہ احساس بھی دلایا ہے کہ جو اقدار مر گئیں، وہ مر چکیں، اور نئی قدروں، نئے معیاروں سے بدکنا بیکار ہے۔ اس خیال کو اقبال نے ایک اور جگہ (بانگ درا ہی میں) بڑی خوبصورتی کے ساتھ نظم کیا ہے: آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے، قوموں کی زندگی میں ’سید کی لوح تربت‘ میں انھوں نے واشگاف اور براہ راست انداز میں کہہ دیا ہے کہ: محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جو اب نہ آئیں، ان فسانوں کو نہ چھیڑ انھوں نے شاعر سے کہا ہے کہ پرانی لکیروں کو پیٹنے کی بجائے : سونے والوں کو جگا دے شعلۂ آواز سے خرمنِ باطن جلا دے شعلۂ آواز سے یہ شعر و شاعری کی باتیں تھیں مگر جب علامہ اقبال شاعروں کا ذکر کرتے ہیں تو جب بھی اپنے فنی نقطۂ نظر پر پوری پامردی سے قائم رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ان نظموں میں ان کا نظریۂ فن شعر بھی پوری جزیات کے ساتھ نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ یہ نظمیں داغ، شبلی و حالی، غالب، عرفی اور شیکسپئر کے متعلق ہیں۔ داغ کے مرثیے میں انھوں نے داغ کے بانکپن اور شوخی بیان کا ذکر کیا ہے۔ یہ بتایا ہے کہ پیری میں بھی ان کے رنگ ڈھنگ جوانوں کے سے تھے، عشق کی ہو بہو تصویر کھینچتے تھے، ہر شخص کے دل کی بات کہتے تھے اور تخیل کی پرواز کے دوران میں بھی زمین سے اپنا رشتہ ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔ اس سے زیادہ اقبال نے داغ کے بارے میں کچھ نہیں کہا، اور انھیں کہنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ ان کا نظریۂ فن داغ کے نظریۂ فن سے سراسر مختلف تھا۔ بہر صورت داغ کے اس مرثیے سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ بیان کی شوخی، اظہار کا بانکپن اور معاملات عشق کی شاعری اقبال کے نزدیک کوئی گناہ نہیں تھی۔ بصورت دیگر ہم اقبال کے بعد کے کلام میں اس طرح کے سراپا جمال اشعار کہاں پاتے کہ: آج بھی اس دیس میں، عام ہے چشم غزال اور نگاہوں کے تیر، آج بھی ہیں دل نشیں شبلی و حالی کا مرثیہ دراصل اس شعر کی تضمین ہے: اکنوں کرا دماغ کہ پرسد ز باغبان بلیل چہ گفت و گل چہ شنید و صبا چہ کرد اس مرثیے میں اقبال مسلمان سے کہتے ہیں کہ تو منفرد ہے۔ نئے نئے علوم دراصل تیرا سرود رفتہ ہیں۔ تیرے پرانے قافلوں کی گرد کا نام تہذیب قرار پایا ہے۔ تو نے مردانہ وقار و آبرو کے معیار قائم کیے ہیں۔ پھر آج کل جو تیرے گلشن پر خزاں کی یلغار ہے تو اس کا راز گلشن کے پرانے رازداروں سے پوچھ کہ مردان کار مصائب پر محض روتے رلاتے نہیں ہیں بلکہ حادثات کے اسباب ڈھونڈ کر ان مصائب کا مداوا کرتے ہیں۔ اس پر مسلمان جواب دیتا ہے کہ کس سے پوچھوں، جب کہ گلشن کے وہ سبھی پرانے راز دار خاموش ہو گئے ہیں جن کی نوائے درد ملت اسلامیہ کے لیے سرمایۂ گداز تھی: شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں حالی بھی ہو گیا سوے فردوس رہ نورد یہ مرثیہ اقبال کے اس منشور شاعری (’عبدالقادر کے نام‘) کے عین مطابق ہے جس میں وہ کہتے ہیں: جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو تیش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں اقبال کا نظریۂ شعر ان نظموں میں بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے جن کے عنوان عرفی، شیکسپیئر اور مرزا غالب ہیں۔ عرفی کے بیان میں وہ کہتے ہیں کہ اس نے تخیل کا ایک ایسا ایوان تعمیر کیا جس کی عظمت و حشمت پر سینا و فارابی کے ’حیرت خانے، قربان کیے جا سکتے ہیں ۔ پھر: قضاے عشق پر تحریر کی تو نے نوا ایسی کہ جس سے آج بھی درد کے سوتے ابل رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ روحِ عرفی سے کہتے ہیں کہ اب لوگوں میں وہ اضطراب، وہ بے تابی، وہ بے قراری ڈھونڈے سے نہیں ملتی، اس سیمابی کیفیت کا کہیں نام نہیں ہے جو ارتقائے حیات کے لیے ضروری ہے اور تو جس کا ایک بلیغ نمائندہ تھا: کسی کا شعلۂ فریاد ہو ظلمت ربا کیونکر گراں ہے شب پرستوں پر سحر کی آسماں تابی اس پر روح عرفی شاعر سے کہتی ہے: نوا را تلخ ترمی زن، چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز ترمی خواں، چو محمل را گراں بینی اور کون انکار کر سکتا ہے کہ روحِ عرفی کا یہ مشورہ اقبال کے نظریۂ فن کا عنوان ہے! شیکسپیئر کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح دریا شفق صبح کا آئینہ ہے، اور حسن حق کا آئینہ ہے، اور دل حسن کا آئینہ ہے، اسی طرح تیرا حسن کلام دل انسان کا آئینہ ہے۔ تیری فکر فلک رس تھی۔ تیری آنکھ نے عالم کو عریاں دیکھا (حالانکہ چشم عالم تجھے نہ دیکھ سکی کیونکہ تو تو خورشید میں تاب ِ خورشید کی طرح پوشیدہ تھا) اور: حفظ اسرار کا، فطرت کو ہے سودا ایسا راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا یوں اقبال نے اس نظم میں اعلیٰ شاعری کو محسوسات و تصورات انسانی کا آئینہ، فکر کی بلندی کو اعلیٰ شاعری کا لازمہ اور اسرار فطرت کی راز دانی کو اعلیٰ شاعری کی پہچان قرار دیا ہے، اور یہی عناصر اقبال کے نظریۂ شعر کے لازمی اجزا ہیں۔ مرزا غالب کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے اقبال نے تخیل کی بلند پروازی، روح و بدن کے رشتوں کے ادراک اور حسن کی اس جستجو کی اہمیت واضح کی ہے جو زندگی کو جامد نہیں رہنے دیتی بلکہ ہمہ وقت بیدار و بے قرار رکھتی ہے، اور انسان کو نئی سے نئی دنیائوں سے متعارف کراتی ہے۔ تیری کشت فکر سے اگتے ہیں عالم سبزہ وار پھر اس نظم میں اقبال نے اس نکتے (اپنے منشور شاعری کی اس شق) پر بھی زور دیا ہے کہ غالب کی طرح سچا شاعر وہ ہے جس کی نوا زندگی سے کچھ چھینے نہیں بلکہ اس کے سرمائے میں اضافہ کرے۔ اس کا شعر زندگی کا عکاس ہو، شاعر کا حسن گویائی ایسا مسحور کن ہو کہ تصویریں بول اٹھیں اور جمود چٹخ کر ابلنے لگے۔ پھر اقبال نے متذکرہ نظم میں یہ نازک نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ محض تخیل کی بلند پروازی عظیم شاعری کی تخلیق پر قادر نہیں ہو سکتی۔ غالب کی سی عظیم شاعری تخلیق کرنے یا غالب کی پیروی کرنے کے لیے تخیل کی بلندی میں فکر کی بلندی کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اقبال نے ان نظموں میں شعر و شاعری کے بارے میں جو بھی نظریات پیش کیے ہیں، ان پر عمر بھر عمل بھی کیا اور یوں وہ دنیا کی عظیم شاعری کے علاوہ زندگی کے سرمائے میں بھی بے پناہ اضافے کر گئے؟ ان کا یہ نظریۂ شعر زندگی اور اس کے حسن، انسان اور اس کی توانائیوں، کائنات اور اس کی پہنائیوں اور انسانی فکر کی رسائیوں کا نظریہ ہے، اور یہی وہ نظریہ ہے جس سے ’منفیت‘ بے معنویت اور لایعنیت کے ان نظریوں کو شکست دی جا سکتی ہے جنھوں نے آج کے جدید انسان کو اپنی گرفت میں لینے اور اس سے اس کا انفرادی شرف چھیننے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ مجلّہ اقبال، لاہور، اپریل ۱۹۷۴ء کلام اقبال میں خون جگر کی علامتی حیثیت ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی اقبال کے نظریۂ فن کے سلسلے میں ’’خون جگر‘‘ کی اصطلاح اکثر زیر بحث آتی ہے، لیکن عموماً سر سری طور پر۔ بعض حضرات نے ’’خون جگر‘‘ کے زیرعنوان اقبال کے نظریۂ فن کے مختلف غیر متعلق پہلوئوں کا ذکر کیا ہے، اورکہیں کہیں عنوان کے پاس خاطر سے ادھر ادھر خون جگر کے چھینٹے ڈال دیے ہیں۔ اگر کسی نے بحث کی حدود کا خیال رکھا تو لفظی موشگافی میں پڑ کر، اس اصطلاح کی معنوی وسعت و اہمیت کو نظر انداز کر دیا ہے۔ مثلاًپروفیسر عزیز احمد نے ’’خون جگر‘‘ کے ضمن میں فارسی و اردو شعرا کے حوالے سے ’’جگر‘‘ اور’’ خون جگر‘‘ پر ایک طویل بحث چھیڑ دی ہے۔ میری رائے میں جس طرح غالب کا یہ شعر: دل سے تری نگاہ، جگر تک اتر گئی دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی خیالی مضمون آفرینی کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح ’’دل ‘‘ و ’’جگر ‘‘ کے مرتبہ و مقام کی تعین و تخصیص کی کوشش، اور جگرکو دل کے بعد ’’عشق کا دوسرا مورچہ ‘‘ قرار دینا بھی محض شاعرانہ نکتہ سنجی کے سوا اور کچھ نہیں۔ عزیز احمد نے اپنی تاویلات کی توثیق وتائید کے لیے، جاوید نامہ سے ’’زندہ رود‘‘ اور غالب کے اس مکالمے کا حوالہ دیا ہے، جس میں اقبال نے غالب سے ان کے اس شعر کی وضاحت طلب کی ہے: قمری کف خاکستر و بلبل قفسِ رنگ اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے!! اور غالب کی زبان سے یہ تشریح کی گئی ہے: نالہ کو خیزد از سوز جگر ہر کجا تاثیر او دیدم دگر قمری از تاثیر او واسوختہ بلبل از وے رنگ ہا اندوختہ لیکن اگر غالب کے شعر میں ’’جگر سوختہ ‘‘ کی جگہ ’’دل سوختہ‘‘ کی ترکیب ہوتی تو کیا غالب کا جواب اس سے مختلف ہوتا؟ اگرچہ جگر کو مجازاً حوصلہ و ہمت سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسد انسانی میں دل ہی باطنی احساسات و کیفیات کا مرکزمانا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی جہاں حواس ظاہر کے لیے ’’سمع و بصر‘‘ کا ذکر آیا ہے، وہاں حواس باطنی کے لیے ’’فواد‘‘ یا قلب کی تخصیص کی گئی ہے۔ صوفیا اور شعرا بھی بالعموم اسی روایت کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ فن اور کمالِ فن کے سلسلے میں کیا غالب اورکیا اقبال، سب نے دل کے سوز و گداز کو کمال فن کا منبع قرار دیا ہے۔ غالب کہتے ہیں: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی اوراقبال: آیا کہاں سے نالہء نے میں سرورِ مے اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے! اس میں شک نہیں کہ اقبال نے خون جگر، سوز جگر اور درد جگر کی تراکیب بکثرت استعمال کی ہیں،کہیں کہیں تو وزن و قافیہ کی مجبوری یا ضرورت شعری کا تقاضا ہوسکتا ہے، لیکن ہر جگہ یہ تاویل درست نہیں۔ اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ ’’دل‘‘ کے مقابلے میں ’’جگر ‘‘کی صوتی قدر و قیمت زیادہ ہے۔ لفظوں کے انتخاب وترتیب میں، اقبال صوت و آہنگ کا اس حد تک خیال رکھتے تھے کہ کوئی ’’متجسس الفاظ چرب و شیریں‘‘ اس معاملے میں ان کا مدمقابل نہیں ہوسکتا! اس بحث کے سلسلے میں قابل غور نکتہ صرف یہ ہے کہ ’’خون جگر‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کی کیا مراد ہے؟ اس ضمن میں عزیز احمد کی یہ رائے درست ہے کہ ’’جگر ‘‘ کا دردِ عشق سے خون ہو جانا، انسان کے عشق کی تکمیل ہے۔ خون جگر کی اصطلاح میں فنکار کے تخلیقی جذبے کی پوری کلیت ہے۔ اس کی اندرونی تپش، اس کا ’’سوز وگداز‘‘اس کی اعلیٰ ترین تصوریت اور سخت ترین محنت ۔۔۔ خون جگر ہی سے تمام فنون کی تخلیق ہوتی ہے۔ اقبال نے ’’دل‘‘ کو عشق اور وجدان کے معنی میں استعمال کیا ہے (مثلاً ملاحظہ ہو : نظم ’’عقل و دل‘‘) ان کے کلام میں عشق اور کیفیات عشق کے لیے جتنے الفاظ آئے ہیں، مثلاً ’’سوز و ساز‘‘ درد داغ، جذب و شوق، تڑپ، آرزو وغیرہ، سب کا تعلق خلوص کی گہرائی سے ہے، لہٰذا اگر ہم یہ کہیں تو بے جانہ ہوگا کہ ’’خون جگر‘‘ سے مراد فنکار کا خلوص ہے۔ کیونکہ خلوص کے مفہوم میں تجربے کی صداقت، نصب العین کی سچی لگن اور اندرونی تپش، اعلیٰ ترین تصوریت، اور سخت ترین محنت، یہ تمام باتیں شامل ہیں۔ اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اقبال کے تصور فن میں ’’خون جگر‘‘ کی کیا اہمیت ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے مختلف ادوار میں، کہیں اجمالاً اور اشارۃً اورکہیں صراحتہً اپنے نظریۂ فن کے مختلف پہلوئوں پر اظہارِ خیال کیا ہے، لیکن جس تکرار وتواتر کے ساتھ ’’خون جگر ‘‘کا ذکر آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصطلاح ان کے نظریۂ فن میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال کا شمار، فن کی مقصدیت، اور ’’فن برائے زندگی ‘‘کے پرجوش مبلغوں میں ہوتا ہے۔ مقصدیت فن کے حامیوں میں افلاطون سے لے کر رسکن اور ٹالسٹائی تک، سب نے فن کے اصلاحی و اخلاقی مقاصد اوراعلیٰ انسانی اقدار کے مقابلے میں، فن کے دیگر عوامل و عناصر، مثلاً فن کار کی شخصیت اورفنی آداب واقدار کوعموماً نظر انداز کردیا ہے۔ اسی طرح سماجی اور مارکسی دبستان کے نقاد بھی ’’روح عصر ‘‘اور اجتماعی و افادی قدروں پر اتنا زور دیتے ہیں کہ فن اورفنکار کی انفرادیت معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ گویا ’’فن برائے فن‘‘ کی طرح ’’فن برائے زندگی‘‘ کے علم بردار بھی انتہا پسندانہ یک رخے نظریات کے حامل ہیں۔ فن میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اگر چہ اخلاقیات کا ایک حصہ ایسا ہے جو مختلف زبانوں اورقوموں کے آداب ورسوم کے تابع ہے اورجسے اضافی، ہنگامی اورعلاقائی قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن بہت سے اخلاقی تصورات، فطرت انسانی کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ اور زبان و مکان کے اختلافات سے ماورا، ہیں۔ زندگی اور ادب و فن میں ایسی مستقل، آفاقی اور ابدی اقدار اخلاق کی اہمیت سے انکار کرنا بڑی ہٹ دھرمی ہوگی لیکن کسی ادبی تخلیق کو، فن پارہ بننے کے لیے، سب سے پہلے، فن کی جمالیاتی اقدار کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی شعر، اخلاق آموزی کے باوجود، فن کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا،تو وہ محض ایک منظوم وعظ ہے، شعر نہیں۔ مثلاً کوئی ایسا شعر لیجئے جو اخلاقی عنصر سے عاری، لیکن فنی حسن سے بھرپور ہو، مثلاً غالب ہی کا یہ شعر: ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے باد پیمائی! یہاں یقینا اس شعر کو اول الذ کرپر ترجیح دی جائے گی۔ زندگی کی عکاسی، رہنمائی تعمیر و تنقید کے لیے فن کار کا معاشرتی شعور سے بہرہ مند ہونا لازم ہے، لیکن اگر کوئی فنکار، محض خارجی تحریک کے زیراثر،کسی پنچ سالہ ترقیاتی منصوبے یا کسی سیاسی یا معاشی نظریے کا مبلغ بن جائے، تو اس کی تخلیق پروپیگنڈے کی ادنیٰ سطح سے بلند ہوکر فن کا درجہ نہیں حاصل کر سکتی۔ فن برائے زندگی کے حامیوں میں اقبال نے اس خطرے کو سب سے زیادہ محسوس کیا اور اسی لیے وہ بار بار فنکارکی شخصیت یا خودی کو فن کی تخلیق کا سر چشمہ قرار دیتے ہیں۔ فن، نمود ذات کے فطری جذبے اور خودی کی تخلیقی قوت کا اظہار ہے۔ لیکن جب تک اس قوت کی تحریک جذبۂ عشق سے نہ ہو، شخصیت کا اظہار بھی بھر پور نہیں ہوتا۔ عشق انسانی خودی کی تمام پوشیدہ قوتوں اور صلاحیتوں کو برا نگیختہ کر دیتا ہے: از محبت اشتعال جوہرش ارتقائے ممکنات مضمرش فن کی دنیا میں بھی جوہر خودی کا مکمل انکشاف عشق کی تحریکی قوت کا مرہون منت ہے۔ عشق صیقل می زند فرہنگ را جوہر آئینہ بخشد سنگ را اہل دل را سینۂ سینا دہد با ہنر منداں ’’ید بیضا‘‘ دہد افلاطون نے شاعر کے ’’ملہمانہ جنوں‘‘ (Inspired madness)کا ذکر کیا ہے۔ اس کے نزدیک شعرا، شعر و موسیقی کی دیویوں کے سحر زدہ ہوتے ہیں اور اسی جذب و جنوں کے عالم میں شعر کہتے ہیں۔ نظریۂ نقل کی طرح، اس کا یہ نظریۂ جنوں بھی فنکار کی شخصیت کی تخلیقی قوتوں کی نفی کر کے، اس فن کو کسی خارجی یا ماورائی طاقت کے تابع کر دیتا ہے۔ اقبال یہاں بھی افلاطون سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے جس جنوں کو فن کا محرک قرار دیا ہے، وہ عبارت ہے اس والہانہ کیفیت، اس جذبۂ بے اختیار سے جو دل پر عشق کے کامل تسلط سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا جب وہ ’’الہام ‘‘ یا ’’جنوں‘ کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد وہی ’’سوز دروں‘‘ ہے جس سے دل و جگر خون ہوکر کسی منظوم فن پارے یا شعر کو نغمگی اوررنگینی عطا کرتا ہے۔ برگ گل رنگیں ز مضمونِ من است مصرعِ من قطرۂ خونِ من است نغمہ می باید جنوں پروردہٖ آتشے در خونِ دل حل کردہٖ جب تک کوئی نظریہ یا فلسفہ دل کی گہرائیوں میں اتر کر جذبے کی آنچ سے پگھل نہ جائے، فن کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتا: فن اگر سوزے نہ دارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت یا مردہ ہے یا نزع کے عالم میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے! کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ایک فنکار محض شہرت یا نام و نمود کی آرزو میں ایسے بلند لیکن مستعار خیالات کا اظہار کرتا ہے جو ذہنی ادراک کی سطح سے اتر کر، اور اس کی باطنی شخصیت میں جذب ہو کر، اس کے دل کی آواز نہیں بن پاتے۔ ظاہر ہے کہ ایسی نمائشی شاعری، محض قادر الکلامی کے بل پر، ابدیت سے ہم کنار نہیں ہو سکتی۔ اقبال کے معاصرین میں حضرت سیماب اکبر آبادی، ایک ماہر فن استاد تھے۔ اپنی شاعری کے آخری دور میں انھوں نے ’’شاعرملت‘‘ کے مقابلے میں، ایک بین الاقوامی شاعربننے کا خواب دیکھا اور اس زعم میں بہت سے فلسفیانہ مقولے اوراخلاقی فارمولے نظم کیے لیکن اس منصوبہ بندی کا نتیجہ کیا نکلا؟ آج اقبال کے صدہا شعر، اہل ذوق کی زبان پر ہیں اور سیماب کا ایک آدھ شعر بھی شاید ہی کسی کو یاد ہو۔ سیماب کے کلام میں اُستادانہ ہنر مندی اور کاریگری کے تمام تیور موجود ہیں، کمی صرف ’’خون جگر‘‘ کی ہے، جس کے بغیر ’’معجزۂ فن کی نمود‘‘ ممکن نہیں۔ ہماری غزل گوئی، روایتی اور تقلیدی روش کی وجہ سے ہمیشہ بد نام رہی ہے۔ اقبال نے ابتدا ہی میں اس خرابی کو محسوس کیا اور رسمی و پنچائتی غزل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈھ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے لطف کلام کیا جو نہ ہو دل میں درد عشق بسمل نہیں ہے تو، تو تڑپنا بھی چھوڑ دے لیکن جدید نظم بھی مغرب کی اندھی تقلید کی علت میں گرفتار ہے۔ مغرب کی ذہنی غلامی کی بدولت وہاں کی ادبی تحریکیں اور مغربی شعرا کی فکری و فنی بدعتیں ہمارے یہاں فیشن کے طور پر رائج و مقبول ہوجاتی ہیں۔ تقلید کی یہ روش، فن کے تمام شعبوں میں عام ہے۔ اقبال اس اندھی تقلید کو ’’مرگِ تخیل‘‘ کی علامت سمجھتے ہوئے احتجاجاً کہتے ہیں: کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگِ تخیل ہندی بھی فرنگی کا مقلد، عجمی بھی مجھ کوتو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی اقبال کے نزدیک فن کی بنیاد حقائق زندگی کے شعور پر ہونی چاہئے۔ حقیقت شناسی کے لیے ضروری ہے کہ فنکار، مستعار نظریوں پر بھروسا نہ کرے بلکہ اپنی نظر سے، اپنے نور خودی کی روشنی میں زندگی کا مشاہدہ کرے: دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟ پھر نظر نظر میں بھی فرق ہوتا ہے۔ ظاہر بیں نگاہ حقیقت تک نہیں پہنچ سکتی: اے اہل نظر، ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟ جو فن کار چشم ظاہر کے ساتھ، نور بصیرت بھی رکھتا ہو، وہی حال کے آئینے میں مستقبل کی تصویر دیکھتا ہے۔ جب اس کی نگاہ سوز دل میں ڈوب کر ابھرتی ہے تو’’ عالم نو کی سحر‘‘ کو بھی بے نقاب دیکھ لیتی ہے۔ یہ جہاں بینی اور دیدہ وری، ایک درد آشنا دل کی تڑپ اور سوز و گدازکا حاصل ہوتی ہے: جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا اس بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’خون جگر‘‘ فنکار کی شخصیت کے توسط سے فن پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس میں تاثیر اور سوز کی کیفیت پیدا کرتا ہے، لیکن خون جگر کا فن سے براہ راست تعلق بھی ہے۔ یہاں ’’خونِ جگر‘‘ سے مراد، فن سے فنکار کی گہری لگن ہے اورگہری لگن، احترام فن اورکاوش فن دونوں پر مشتمل ہے۔ اقبال نے جابجا جذبے کو فن کی روح کہا ہے، لیکن اس روح کی نمود کے لیے الفاظ کا موزوں ترین قالب بھی درکار ہے اور اس قالب کی ساخت و پرداخت میں فنکار کے شعور و ادراک، تفکر و تخیل،مشق و مہارت، چابک دستی اور ہنر مندی، ان سب عوامل کا حصہ ہوتا ہے۔ اقبال ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’شاعری کی جان تو شاعر کے جذبات ہیں۔جذبات انسانی اور کیفیات قلبی، ’’اللہ کا دین ہے‘‘۔ مگر اس کے ساتھ یہ جملہ بھی موجودہے: ’’ہاں یہ ضرور ہے کہ طبع موزوں اس کے ادا کرنے کے لیے پر اثر الفاظ کی تلاش کرے‘‘۔ الفاظ تلاش اور تراش خراش کا عمل بڑی جاں کا ہی چاہتا ہے۔ بقول امیر: خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرعے تر کی صورت جو فنکار لفظوں کی مختلف دلالتوں، ان کے معانی کی مختلف تہوں کو پہچانتا ہو، جو یہ جانتا ہو کہ لہجے کے فرق سے لفظوں کے تیور کس طرح بدل جاتے ہیں، جو لفظوں کے آہنگ اور سر کے تال میل سے نغمہ گری کا گر جانتا ہو، اس کے کلام میں ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہوتا ہے کہ اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا: بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا! مختصر یہ کہ ہر فن کی ایک تکنیک اوراس کو برتنے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ یہ سلیقہ مسلسل مشق و مزاولت اورکسب و ریاض سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا فن پر پوری قدرت حاصل کرنے کے لیے بھی ’’خون جگر‘‘ صرف کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے کہا ہے: ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خداداد کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر مے خانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شررِ تیشہ سے ہے خانۂ بہزاد دراصل فنکار کی طبیعت کا فطری رجحان اوراندرونی تقاضا خود بخود اسے اکتساب فن کی ’’محنت پہیم‘‘ پر اکساتا ہے۔ فن اس کے لیے محض دل لگی نہیں، یہ اس کے دل کی لگی اور ’’لگن‘‘ ہے۔ اگر کوئی شخص اس سچی لگن اور جذب و شوق کے بغیر، محض اپنی علمیت اور موزونیت طبع کے بل پر شعرکا مشغلہ تفریحاً اختیار کر لے تو خواہ لاکھ سخن وری کا دم بھرے، وہ سچے فنکار کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ ہر دور میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ اچھے خاصے، عالم فاضل، ادیب و خطیب، جب شعر کے میدان میں طبع آزمائی کرنے چلے تو صرف متشاعر بن کر رہ گئے۔ قریبی زمانے کی ایک عبرتناک مثال ہمارے پیش نظر، حضرت علامہ مشرقی مرحوم کی شاعری ہے۔ موصوف کے کلام کے تین مجموعے، ’’حریم غیب‘‘، ’’دہ الباب‘‘ اور ’’ارمغان حکیم‘‘ جوساڑھے چار ہزار اشعار پر مشتمل ہیں، ۱۹۵۲ء میں مرتب ہو کر شائع ہوئے تھے۔ فروری ۱۹۵۱ء تک کے درمیان علامہ مرحوم کو پیہم چھ چھ ماہ کی قیدیں بھگتنا پڑیں۔ ایام اسیری میں نوشت و خواند کی سہولتیں میسر تھیں۔ ناچار شعر گوئی اختیار کی۔ آخر جب قید سے رہا ہو کر نکلے تو ملت کے لیے یہ تینوں مجموعے بطور ارمغان لائے، جیسا کہ پہلے مجموعے کی ابتدائی نظم میں فرماتے ہیں: امت شعر زدہ سن کہ یہ کیا لایا ہوں نہ نبی ہو کے میں پیغام خدا لایا ہوں شاعری اور وہ پیغام عیاذاً باللہ جبرائیل اس کے گواہ، طرفہ ہدیٰ لایا ہوں‘‘ یہ تینوں مجموعے ’’طرفہ ہدیٰ ‘‘ توضرور ہیں لیکن فن شعر کے لحاظ سے کلام موزوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں، کیونکہ خود مصنف کا رشتہ بھی فن شعر سے منفی قسم کا ہے۔ ان کی رائے میں شعر و شاعری نکمے اورناکارہ لوگوںکا مشغلہ ہے۔ انھوں نے اس متبذل فن کو اصلاح قوم کے لیے ’’علاج بالمثل‘‘کے طور پر گوارا کیا: امت شعر زدہ کا ہے یہ بالمثل علاج زندہ کر شعر سے، جس شعر سے مردار ہوئی تاہم وہ اپنی مصلحانہ شاعری کو بھی انپے لیے کسر شان سمجھتے ہیں: ہے مشرقی تو بلند اس قدر کہ اورہے کچھ وگرنہ قوم کی ہے موت شاعری کیا ہے ان کے تیسرے مجموعے کلام :’’ارمغان حکیم ‘‘ میں پچاس اشعار کی ایک غزل ہے، جس کے آخری چند قطعہ بند اشعار میں انھوں نے اس متبذل فن کو اختیار کرنے کی توجیہ کی ہے: میں حکم رب سے شاعر قید میں ہوں سمجھتا ہوں کہ کیا حکمت چھپی ہے مری توہین ہے بن جائوں شاعر کہ ناکاروں کا پیشہ شاعری ہے کہاں ہوگا کوئی مجھ سا بھی شاعر کہ جس کا شعر قہر کاہلی ہے کہے لمحوں میں یہ سب شعر میں نے ازل کی بارگاہ میں کیا کمی ہے کوئی لائو تو اس کے ہی برابر غزل یہ سادہ کار مشرقی ہے ایام اسیری کی مجبوریوں کے علاوہ علامہ مشرقی کی شعر گوئی کا ایک نفسیاتی محرک بھی تھا۔ انھیں اس امر کا شدید احساس تھا کہ قوم کی صحیح قیادت صرف انہی کا حصہ ہے۔ ان کی ذہانت و قابلیت کے آگے اقبال کی کوئی ہستی نہیں، لیکن کلام اقبال کا سحر دلوں پر ایسا چھایاہوا ہے کہ انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ اس ’’ناقدریٖ ابنائے زمان‘‘ کی شکایت پردے پردے میں جابجا کی ہے۔ ایک جگہ ذرا کھل کر فرماتے ہیں: مرا تھرڈ، اقبال کا فسٹ دیکھو دفاتر میں اس کے لگے ’’بسٹ‘‘ دیکھو کیا میں نے پل میں، لگی عمر اس کو نہ ڈالو مرے کام پر ’’ڈسٹ‘‘ دیکھو علامہ صاحب کا خیال ہے کہ اس ’’امت شعر زدہ‘‘ کو اقبال کی شاعری نے ڈبویا ہے لہٰذا جب تک کلام اقبال کو ذہنوں سے محو نہ کر دیا جائے بلکہ مزار اقبال کو بھی منظر عام سے نہ ہٹایا جائے، اس وقت تک قوم راہ راست پر نہیں آسکتی : یہ قبر اقبال کی بن کر رہے گی قبر پاکستان گماں شاید تمہیں ہو کہہ رہا ہوں بات میں کد سے میں اس تک ہوں ہٹا دو قبر کو سرحد سے مسجد کی سند لائو تو بدعت کی ہاں کوئی سی مسند سے بنائو قبر کو اور شاعری کو ذہن سے القط کہ شاید پھرتعلق ہو خدا کا ذہن مرتد سے اقبال کے فلسفہ و پیغام کی تردید و تضحیک تو علامہ مشرقی کے کلام کا خاص موضوع ہے، لیکن اقبال کی مفکرانہ حیثیت کے بارے میں ان کے اعتراضات پر سردست کوئی بحث مقصود نہیں، البتہ اقبال کے فن پر ان کے مندرجہ ذیل اعتراضات ہر صاحبِ ذوق کے لیے موجب حیرت ہیں: ’’بہت کم شعر ہیں اقبال کے برجستہ ہر رو سے ادب کے نقص یاں ہیں تو وہاں الجھن زباں میں ہے جو شوکت ہے کہیں الفاظ میں تو خبط ہے مطلب نپٹ پختیدگی نے قول ایں میں ہے نہ آں میں ہے بہت کچھ وہ ہے، معنی جس کے ہوں گے بطن شاعرمیں بہت کچھ قافیہ رانی جو شعر ناتواں میں ہے ہے اس کی فارسی اس درجے تک ناقص کہ ایرانی کہا کرتے ہیں، کہتا ہم نہ جانیں کس زباں میں ہے‘‘ اہل نظر جانتے ہیں کہ ان اعتراضات کا اقبال کے کلام سے تو کوئی واسطہ نہیں، البتہ یہ ساری باتیں خود معترض کے کلام پر حرف بہ حرف پوری اترتی ہیں۔ ان کے ’’شعر ناتواں‘‘میں ’’قافیہ رانی‘‘ تو بہت کچھ ہے لیکن ’’نپٹ پختیدگی‘‘ کا کہیں نشان نہیں ملتا، اور ملے کیسے کہ اس فن سے نہ تو انھیں کوئی لگائو ہے اور نہ اس کے لیے کاوش فکر کی انھوں نے ضرورت سمجھی۔ انھیں تو یہ زعم تھا کہ جب میری ذہانت نے مغربی علوم کے بڑے بڑے معر کے سر کر لیے تو شعر کیا چیز ہے۔ یہ بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔ شعر تو ادنیٰ اشارہ ہے تیری چٹکی کا مغربی علموں میں بھی جب نہ تجھے ہار ہوئی! اس سہل انگاری کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہونا تھا کہ ان کی شاعری (بقول خود)’’ قہر کاہلی‘‘بن کر رہ جائے۔ اگرچہ اقبال بھی از اول تا آخر ایک پیغام گو شاعر ہیں، لیکن مشق سخن کے ابتدائی دور سے لے کر لگ بھگ ۱۹۱۰ء تک (کم و بیش، بیس سال)انھوں نے اکتساب فن کے تمام مرحلے اس خلوص و انہماک سے طے کیے کہ بعدمیں جب انھیں اپنے مقصد و پیغام کا احساس شدید تر ہوتا گیا، تب بھی فن سے ان کا رشتہ منقطع نہ ہو سکا اور ’’فن پرستی‘‘ سے اظہار بے نیازی کے باوجود، انھیں ایک سچے فنکار کی طرح ہمیشہ اس بات کا احساس رہا کہ : نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر چنانچہ تزئین کلام کی مصنوعی کوشش کے بغیر، ان کا کلام تغزل و ترنم کی کیفیات اور فنی لطافتوں سے معمور ہے۔ اقبال کے اس دعوے پر خود ان کا کلام گواہ ہے: آنچہ من در بزم آوردہ ام، دانی کہ چیست؟ یک چمن گل، یک نیستاں نالہ، یک خمحانہ مے!! فروغِ اقبال۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۹۶ء اقبال کا معجزئہ فن سلیم احمد محمد حسن عسکری نے کسی جگہ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کو اُردو شاعری کا تاج محل کہا ہے۔ تاج محل سے میرا ذہن خود بخود دلی کی شاہی مسجد کی طرف جاتا ہے اور یاد آتا ہے کہ اقبال نے اسے مسجدوں کی دلہن کہا تھا۔ یہ مسجد واقعی ہے بھی دلہن کی طرح۔ نفیس، نازک، خوبصورت۔ لیکن اس میں وہ صلابت، سنگینی، اور پختگی نہیں جو مسجدِ قرطبہ میں پائی جاتی ہے۔ کیا یہ دو قوموں کے مزاج کا فرق ہے؟ میں نے دلی، آگرہ اور فتح پور سیکری میں شاہی تعمیرات دیکھی ہیں۔ مجھے عہدِ غلاماں کے بعض بچے کھچے آثار میں جو مردانہ قوت نظر آئی وہ عہدِ شاہ جہانی کی تعمیرات میں کم ہوتی چلی گئی ہے۔ یہاں تک کہ خود مغلیہ دور کی ابتدا کے آثار بعد کی تعمیرات سے مختلف معلوم ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمایوں کے مقبرے میں وہ نفاست نہیں ہے، جو عہدِ شاہ جہانی کی تعمیرات میں پیدا ہو گئی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جیسے جیسے ہندوستان کی مٹی میں ملتے گئے، کمزور ہوتے گئے؟ یا ہم یہ کہیں کہ ان میں قوت کے ساتھ حسن کا اضافہ ہو گیا؟ سلطنتِ دہلی کے دور تک مسلمان ہندوستان میں پوری طرح جمے نہیں ہیں۔ ابھی باہر سے آمد و رفت بھی لگی ہوئی ہے اور اندر سے جڑیں بھی مضبوط نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن بعد کے ادوار میں وہ یہاں زمین پکڑنے لگتے ہیں اور عہدِ مغلیہ سے وہ واضح طور پر ہندوستانی بن جاتے ہیں۔ عہدِ مغلیہ کا آغاز بابر سے ہوتا ہے۔ اب بابر کی شخصیت کو دیکھیے تو وہ قوت اور حسن کے توازن کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ ایک طرف وہ ایسا فاتح ہے، جس نے صرف بارہ ہزار سپاہیوں سے ابراہیم لودھی اور رانا سانگا کے ٹڈی دل لشکر کو شکست دی اور ایک عظیم الشان سلطنت کا بانی بنا۔ دوسری طرف وہ شاعر ہے اور ترکی عروض پر رسالہ لکھتا ہے۔ اس کی شخصیت کی قوت اور خوبصورتی کا داخلی اندازہ لگانا ہو تو اس کی ’تزک‘ کا مطالعہ کیجئے جس کے اسلوب میں ایک فاتح کا کردار ایک شاعر کے حسنِ طبیعت سے گلے ملتا نظر آتا ہے۔ جسمانی قوت میں اس کا یہ حال ہے کہ اس نے ہندوستان کے سارے دریا خود پیر کر پار کیے اور قلعے کی دیوار پر دو آدمیوں کو بغل میں دبا کردوڑ سکتا ہے۔ لیکن دل کی نزاکت کا یہ عالم ہے کہ بیٹے کی بیماری برداشت نہیں کر سکتا اور اس کو بچانے کے لیے اپنی جان صدقے کے طور پر دے دیتا ہے۔ بابر فاتح میں شاعر کی ایک کمزوری بھی ہے--- شراب نوشی۔ یہ کمزوری اس لیے ہے کہ بابر خود اسے کمزوری سمجھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رانا سانگا کے مقابلے پر اسے فتح اس وقت نصیب ہوئی جب اس نے اپنی فوج کے سامنے آخری تقریر کر کے جام توڑ دیا اور کبھی شراب نہ پینے کا عہد کیا۔ ذہن خود بخود بھٹکتا ہوا محمد شاہ رنگیلے سے سقوطِ ڈھاکہ تک جاتا ہے اور نہ جانے کیسے کیسے کردار یاد آنے لگتے ہیں۔ مغلیہ خاندان میں بابر کی یہ کمزوری عہد بہ عہد چلتی ہے۔ ہمایوں شراب نہیں پیتا، لیکن افیون کھاتا ہے۔ ویسے بھی وہ ایک کمزور شخصیت کا مالک ہے جس کی واحد خوبی یہ ہے کہ رحم اور حسنِ سلوک میں بابر کے حسنِ طبیعت کا نمونہ ہے۔ اکبر میں بابر کی ساری خوبیاں موجود ہیں۔ وہ فاتح ہے، شہنشاہ ہے، اکبرِ اعظم ہے، لیکن اس کے دل کو دیکھو تو شاعرانہ نزاکت سے دھڑک رہا ہے۔ وہ ہندوستان میں مغلیہ خون کا شاہکار ہے اور وہ پہلا ہندوستانی ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کے حقیقی مسائل کا سب سے زیادہ شعور رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس مسئلے کے حل کا جو طریقہ وہ اختیار کرتا ہے، اس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف ہے اور ان میں میں بھی شامل ہوں۔ پھر اس حقیقت کو بھولنا نہیں چاہیے کہ اکبر کی پالیسی کا سنگِ بنیاد ہمایوں نے رکھا تھا اور بسترِ مرگ پر اکبر کو نصیحت کی تھی کہ ترکوں کو آپس میں لڑنے دو اور سلطنت کی بنیاد مقامی لوگوں کی مدد سے استوار کرو۔ جہانگیر مغلیہ خاندان کے داخلی توازن میں ایک نمایاں عدم توازن کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس پر بابری شخصیت کی کمزوری کا غلبہ ہے۔ باپ سے بغاوت، شراب نوشی کی کثرت اور عشق و عاشقی کے وہ افسانے جو اس سے منسوب ہیں، اس کی شخصیت کو ایک افسانہ تو بناتے ہیں لیکن اس میں فاتحانہ قوت، مردانہ صلابت کی نمایاں کمی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اسے بابر اور اکبر کا وہ دل بھی نہیں ملا جو رحم اور حسنِ سلوک کے جذبات سے دھڑکتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر وہ ایک ایسی سخت دلی کا مظاہرہ کرتا ہے جو اس سے پہلے خاندانِ مغلیہ میں ظاہر نہیں ہوئی۔ وہ شیرافگن اور ابوالفضل کو قتل کراتا ہے۔ اپنے بیٹے کو اندھا کرا دیتا ہے اور اپنے دودھ شریک بھائی کو قلعے کی دیوار سے سر کے بل پھنکوا کر مروا ڈالتا ہے۔ لیکن اس سنگ دلی کے ساتھ ’’دل کی کمزوری‘‘ بھی اندر ہی اندر کہیں موجود ہے۔ کشمیر میں ایک مزدور پہاڑی سے گر گیا، لاش گوشت کا لوتھڑا بن گئی۔ لوگ اس لوتھڑے کو کپڑے میں باندھ کر جہانگیر کے سامنے لے آئے۔ جہانگیر نے اس لوتھڑے کو دیکھا تو مزاج مکدر ہو گیا۔ اتنا اثر لیا کہ بیمار ہو گیا اور اسی بیماری میں چل بسا۔ شاہ جہاں ایک بار پھر بابری توازن کا مظاہرہ کرتا ہے، لیکن اب کے اس فرق کے ساتھ کہ بابر کی شخصیت کا جزوِ غالب اس کی قوت ہے۔ شاہ جہاں کی شخصیت کا جزوِ غالب حسن ہے۔ اب مسلمان ہندوستان میں پورے طور پر جم چکے ہیں۔ اندرونی و بیرونی طاقتیں ایک دوسرے سے ہم آہنگی میں ایک ایسا توازن حاصل کر چکی ہیں جس میں مقامی اور غیرمقامی کی تفریق گویا ایک وحدت کا حصہ بن چکی ہے۔ ایرانی اور ترک عناصر، جن کی پیکار عہدِ جہانگیری میں سلطنتِ مغلیہ کے لیے ایک نمایاں خطرہ تھی، اب ایک ہم آہنگ مرکب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ دور خارجی فتوحات کا دور نہیں ہے، مگر اس کی داخلی فتوحات اتنی بڑی ہیںکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عظمت کی زندہ نشانیاں اسی دور کی دین ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر نمایاں طور پر پھر خارجی اور داخلی پیکار کا اظہار کرتا ہے۔ مقامی عناصر کی بغاوتیں دوبارہ شروع ہوجاتی ہیں اور اپنے اثر و نفوذ کی بنا پر خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایرانی اور ترکی افتراق پھر سر اُٹھاتا ہے اور خطرے پر خطرے کا اضافہ کرتا ہے۔ اورنگ زیب کی شخصیت داخلی طور پر بھی ایک پیکار کا شکار ہے۔ وہ شاعر ہے، ادیب ہے، شاعری کا ایک پرستار ہے کہ بیدل کا دیوان سفر میں بھی اپنے ساتھ رکھتا ہے، لیکن اس کی یہ خوبیاں ایک شہنشاہ کی حیثیت سے اس کی کمزوریاں بن سکتی ہیں۔ وہ خارجی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی شخصیت کے ان عناصر کو دباتا ہے اور اس شدت کے ساتھ کہ اس کی خارجی تصویر اس کی داخلی تصویر سے بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ مجھے اورنگ زیب کو دیکھ کر ایسے ہی سپاہی کا خیال آتا ہے جو اندر سے زخموں سے چور چور ہو، لیکن انہیں چھپانے کے لیے زرہ پوش ہو گیا ہو اور لوگ اس کی زرہ کو دیکھ کر اس کے زخموں کا اندازہ نہ لگا سکتے ہوں۔ اورنگ زیب میںبابر کا شاعر اور شہنشاہ مساوی قوت رکھتے ہیں۔ مگر اورنگ زیب کے حالات کا تقاضا ہے کہ شاعر کو قتل کیا جائے اور شہنشاہ کو آگے بڑھایا جائے۔ یہ اورنگ زیب کا المیہ بھی ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں کا بھی۔ اورنگ زیب ہندوستان میں سلطنتِ مغلیہ اور مسلمانوں کی قوت کے تحفظ کی اس پیکار کا آخری سپاہی ہے، جو اس کی وفات کے ساتھ ہی مسلمانوں کی شکست کو ظاہر کرنے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک شدید انتشار اندر اور باہر سے اُنہیں توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ سلطنتِ مغلیہ کو بھی اور مسلمانوں کے اقتدار کو بھی۔ اورنگ زیب اس انتشار کا المیہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہمارے دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہندی مسلمان ہندوستان میں کمزور کتنے ہی ہو گئے ہوں، مٹے بالکل نہیں۔ جب کہ عرب اندلس میں فنا ہو گئے۔ یہ فرق کیوں ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کی بقا کا کیا راز ہے؟ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے۔ معاف کیجیے گا، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر تھا شاہی مسجد اور مسجدِ قرطبہ کے فرق کا۔ مسجدِ قرطبہ عربوں کی تخلیق ہے، شاہی مسجد ہندی مسلمانوں کی۔ مسجدِ قرطبہ میں صلابت اور قوت کا وہ اظہار ہے جو اقبال کو حد درجہ پسند ہے، لیکن شاہی مسجد ہندی مسلمانوں کی اس سادہ مردانگی کا اظہار ہے جس میں قوت حسن سے گل مل رہی ہے۔ اقبال نہ شاہی مسجد سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، نہ میر کی شاعری سے اور شاید میر امن کی نثر بھی اُن کے دل کو نہیں چھوتی، کیونکہ اس میں انہیں وہ چیز نہیں ملتی یا اُس درجے میں نہیں ملتی جس کی طرف ان کا دل کھنچتا ہے، یعنی وہ قوت جو اپنے اندر نفاست کے بجائے صلابت کا انداز رکھتی ہو۔ بہرحال اقبال کی ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ایک ہندی کی طرف سے عرب مسلمانوں کے لیے عقیدت اور محبت کے ان جذبات کی تخلیق ہے جو ہندی مسلمانوں کے دل کو عربوں کے لیے ہمیشہ آغوشِ عاشق کی طرح کشادہ رکھتے ہیں۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا مرکزی موضوع کچھ لوگوں کے نزدیک زمانہ ہے، کچھ لوگوں کے نزدیک عشق اور کچھ لوگوں کے نزدیک موت۔ لیکن میرے نزدیک ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا موضوع وہ حیاتِ شاعرانہ ہے جو معجزہ ہائے ہنر میں اپنی نمود کرتی ہے۔ اس حیاتِ شاعرانہ کے دو مرکز ہیں۔ ایک داخلی دوسرا خارجی۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں اقبال داخلی مرکز کو ’’قلب‘‘ کہتے ہیںاور خارجی مرکز علامتی طور پر مسجدِ قرطبہ ہے۔ یعنی وہ معجزئہ فن جو قلب سے خارج میں نمود کے لیے رنگ و چنگ، خشت و سنگ اور حرف و صوت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ حیاتِ شاعرانہ انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ انفرادی حیاتِ شاعرانہ فن کے شخصی نمونوں میں اپنا اظہار کرتی ہے، جب کہ اجتماعی حیاتِ شاعرانہ سے اجتماعی فنی کارنامے ظہور میں آتے ہیں اور اس کا اظہار بیشتر قوموں کے فنِ تعمیر میں ہوتا ہے۔ اجتماعی حیاتِ شاعرانہ کا ایک اور مظہر قوموں کی تاریخ ہے جس میں وہ اقدار کی تخلیق کرتی ہیں اور انفرادی قلب کی طرح ان کا بھی ایک داخلی مرکز ہے۔ ذکر چونکہ مسلمانوں کا ہے اس لیے ہم کہیں گے کہ مسلمانوں کے اجتماعی قلب کی علامت حرمِ کعبہ ہے جو مسلمانوں کے نزدیک قلبِ عالم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کا موضوع اپنے داخلی تقاضوں سے ایک سہ ابعادی کائنات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کائنات کا ایک بُعد قلب ہے، دوسرا بُعد مسجدِ قرطبہ، تیسرا بُعد حرمِ کعبہ۔ اقبال کی نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ اسی کائنات کی لفظی صورت گری ہے۔ پہلے حیاتِ شاعرانہ کے داخلی مرکز کو دیکھے۔ یہ قلب ہے۔ حیاتِ شاعرانہ کا وجود قلب کے اعماق میں ہے، جہاں وہ خونِ جگر سے ہم آمیز ہو کر معجزئہ فن کی تخلیق کرتی ہے۔ یہ معجزہ جب حرف میں اپنا اظہار کرتا ہے تو شاعری بن جاتا ہے، صوت میں اپنا اظہار کرتا ہے تو موسیقی بن جاتا ہے، رنگ میں اپنا اظہار کرتا ہے تو مصوری بن جاتا ہے اور سنگ و خشت میں اپنا اظہار کرتا ہے تو فنِ تعمیر بن جاتا ہے۔ خونِ جگر عشق سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ معجزئہ فن کی نمود عشق کے ذریعے فن کار کے قلب سے ہوتی ہے۔ معجزے سچے بھی ہوتے ہیں اور جھوٹے بھی۔ اقبال کے نزدیک سچے معجزے کی ایک پہچان ہے۔ وہی جو اقبال کی شاعرانہ شخصیت کا مرکزی موضوع ہے، موت کے مقابلے پر دوام۔ زمانے کی حقیقت تغیر ہے، اس لیے وہ موت کا نمائندہ ہے۔ اس کا کام کائنات کی ہر چیز کو پرکھنا ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ اپنے وجود میں وہ سچی ہے یا جھوٹی، یعنی موت کا مقابلہ کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس لیے اقبال عشق کو زمانے کے مقابلے پر رکھتے ہیں اور دونوں کی قوتوں کا موازنہ کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت ہے جو زمانے کو شکست دے سکتی ہے۔ یعنی موت پر قابو پا سکتی ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کے دو ثبوت ہیں، ایک خود ان کی شاعری اور دوسرا مسجدِ قرطبہ۔ اقبال دونوں کا مقابلہ کرتے ہیں: تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز تجھ سے دلوں کا حضور، مُجھ سے دِلوں کی کشُود اور اس طرح شاید اقبال یہ کہتے ہیں کہ اگر عربوں نے مسجدِ قرطبہ کی تخلیق کر کے اپنی صداقتِ عشق یا صداقتِ حیات کو ظاہر کیا ہے تو ہندی مسلمان بھی ان سے کم نہیں ہیں۔ ہندی مسلمانوں نے اقبال کی شاعری پیدا کی ہے۔ نظم میں اچانک ’’کافرِ ہندی‘‘ کا لفظ اتفاقیہ نہیں آیا۔ یہ اتنا معنی خیز ہے کہ نظم کی پوری معنویت کو متاثر کرتا ہے۔ اقبال فن کار کے قلب کا تقابل عرشِ معلی سے کرتے ہیں۔ عرشِ معلی اس کائنات کا چوتھا بُعد ہے جو ماورائے کائنات ہے۔ عرشِ معلی لامحدود قوت اور دوامِ حیات کا مظہر ہے لیکن فن کار کا قلب بھی اس سے کم نہیں ہے۔ یہ بھی اس قوت و حیات کا مظہر ہے جو زمانے اور موت سے شکست نہیں کھاتی۔ اقبال اس قلب کو ذاتی تجربے سے جانتے ہیں اور میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ جیسی نظم، جو بظاہر اتنی معروضی معلوم ہوتی ہے، اس کی تخلیق اقبال کے داخلی تجربے سے ہوئی ہے۔ حیاتِ شاعرانہ کا خارجی مرکز علامتی طور پر مسجدِ قرطبہ ہے۔ اس لیے یہ مسلمانوں کی حیاتِ شاعرانہ کے داخلی مرکز یعنی قلب کا خارجی اظہار ہے۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میںجو چیز ظاہر ہوئی ہے، وہ مسلمانوں کی وہ داخلی زندگی ہے جس سے مسلمان تاریخ میں ابدیت حاصل کرتے ہیں: تجھ سے ہوا آشکار بندئہ مومن کا راز اس کے دِنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم اس کا سرور، اس کا شوق، اس کا نیاز، اس کا ناز مسلمانوں کی یہ داخلی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔ اس کے مقابلے پر خارجی کائنات ’’وہم و طلسم و مجاز‘‘ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ اب فن کار کے قلب اور مسجدِ قرطبہ کے مقابلے پر ایک تیسری علامات حرمِ کعبہ ہے جو مسلمانوں کے اجتماعی قلب کی علامت ہے۔ اقبال مسجدِ قرطبہ کا رشتہ حرمِ کعبہ سے جوڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی نظریں مسلمانوں کے اجتماعی تاریخی عمل کو دیکھنے لگتی ہیں۔ مسلمانوں کا اجتماعی تاریخی عمل ان کے اجتماعی قلب سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ حرمِ کعبہ کی دین ہے۔ مسلمانوں کی وہ اجتماعی زندگی، جو اقدار کی تخلیق کرتی ہے، اس قلب سے وابستہ ہے اور تاریخ میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اس زندگی کے پہلے علم بردار عرب ہیں: آہ وہ مردانِ حق، وہ عربی شہسوار حاملِ خلقِ عظیم، صاحبِ صدق و یقیں جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں جن کی نگاہوں نے کی تربیتِ شرق و غرب ظلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں مسلمانوں کا اجتماعی تاریخی عمل حرمِ کعبہ سے ان کی وابستگی کا ثمر ہے اور یہ عمل انسانیت کے لیے خیر ثابت ہوا ہے۔ اقبال اس کے ثبوت کے لیے خود اندلس کو پیش کرتے ہیں، جہاں مسلمانوں کے لہو کا فیض آج بھی جاری ہے، جب کہ خود مسلمان اندلس سے ختم ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقبال کو یہ تلخ حقیقت یاد آ جاتی ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی تاریخی عمل، جو انسانیت کے لیے خیر تھا، ہر جگہ جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہیں، زوال اور فنا سے دوچار ہیں۔ ان کی حکومتیں ختم ہو چکی ہیں۔ جو باقی ہیں وہ موت کے گھاٹ اُتر رہی ہیں۔ محکومی اور غلامی نے ان کی روحوں کو پیس کر رکھ دیا ہے۔ یہاں تک کہ خود مسجدِ قرطبہ، جو مسلمانوں کے اجتماعی تاریخی عمل کی ایک علامت ہے، صدیوں سے ویران اور غیرآباد ہے اور اس کی فضائیں بانگِ اذاں کو ترس رہی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ساتھ اقبال کو اپنی ذات بھی یاد آتی ہے یا نہیں، لیکن نظم کے آخر میں وہ عہدِ شباب کو ضرور یاد کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کی اجتماعی حالت کے پس منظر میں اپنی ذاتی حالت کو بھی دیکھا ہے؟ وہ بھی اب بوڑھے ہو رہے ہیں۔ بوڑھے، کمزور اور بیمار۔ اقبال کو یاد آتا ہے کہ زمانہ منقلب ہے اور حیات کو موت سے اور موت کو حیات سے بدل رہا ہے۔ زمانے کے انقلابات قوموں کو بدل رہے ہیں۔ جرمنی بدل گیا، فرانس بدل گیا، اٹلی بدل گیا۔ وہ قومیں جو زوال اور موت کا شکار تھیں، ازسرِنو جوان ہو رہی ہیں، زندہ ہو رہی ہیں۔ اقبال اس تبدیلی کو بڑی اُمید کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ زمانے کی یہ تبدیلیاں مسلمانوں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیں؟ قومیں کس چیز سے زندہ ہوتی ہیں؟ اپنے قلب و روح کے اضطراب سے۔ جس طرح قطرئہ خونِ جگر معجزئہ ہنر کی تخلیق کرتا ہے اسی طرح قومیں بھی قطرئہ خونِ جگر کی شورش سے بیدار ہوتی ہیں۔ اقبال اپنے دل میں دیکھتے ہیں۔ ان کے دل کے اضطراب نے ان کی شاعری کو پیدا کیا ہے۔ کیا یہی اضطراب اجتماعی طور پر روحِ مسلماں میں موجود نہیں ہے؟ نظم کے آخری بند میں اس خواب کا ذکر ہے جب عالمِ نو پردئہ تقدیر سے ظہور میں آئے گا اور مسلمان حیاتِ نو حاصل کر لیں گے۔ مسلمان اور ان کے ساتھ شاید اقبال بھی۔ نظم کا آغاز زمانے کے بارے میں چند خیالات سے ہوا تھا۔ ہم اسے پہلے ذہن کے ذریعے پڑھنا شروع کرتے ہیں، لیکن نظم جوں جوں آگے بڑھتی ہے اس میں جذبہ، ایک گہرا جذبہ، شامل ہوتا جاتا ہے۔ پہلا بند ختم ہوتے ہوتے ہم اس جذبے کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اب خیالات خیالات نہیں رہتے، اب وہ صرف ذہن کی چیز نہیں ہیں، اب ان میں اقبال کا دل بھی شامل ہو گیا ہے۔ ہمیں اس دل کی دھڑکن صاف سنائی دینے لگتی ہے۔ اور ہم اس کی دھڑکن کے نغمے سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ وہ مستی جو اقبال کے دل میں ہے اور نظم کی تخلیق کا باعث ہے، ہمارے دلوں میں بھی سرایت کرنے لگتی ہے۔ نظم کی نغمگی اور بحر کا آہنگ اس مستی کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے ذریعے ہم اقبال کے تجربے میں زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ طبلِ جنگ کی طرح ہے جس کی آواز سے مست ہو کر لوگ جان دینے پر تیار ہو جاتے ہیں، یا اُس حدی کی طرح جس کی لے پر جنگل میں بھٹکے ہوئے اونٹ بھی کارواں میں واپس آ جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اقبال کے تجربے میں ڈوب جاتے ہیں۔ ان کے محسوسات کی گہری زندگی ہمارے رگ و پے میں اُترنے لگتی ہے۔ اب ہم اقبال کے خیالات سے واقف نہیں ہوتے، اب ہم اقبال کے دل میں اتر جاتے ہیں اور اس کی گہرائیوں میں ہمیں ایک ایسی زندگی محسوس ہونے لگتی ہے جو اس سے پہلے ہم نے محسوس نہیں کی تھیـ۔ ہم اپنے وجود میں زیادہ حساس، زیادہ مضطرب، زیادہ زندہ ہو جاتے ہیں۔ اب نظم کا آہنگ ہمارے لہو کا آہنگ بن جاتا ہے۔ اور نظم ہمارے سر سے نیچے اُتر کر ہمارے پورے وجود کو پگھلاتی ہوئی ہمارے تلوئوں میں گونجنے لگتی ہے۔ ہم نظم کے سامنے برہنہ ہو جاتے ہیں، جس طرح بچہ اپنی ماں کے سامنے برہنہ ہو جاتا ہے اور روحِ شاعری ہمارے وجود کو نہلانے لگتی ہے۔ ہمارے وجود کی ساری کثافتیں دُھل جاتی ہیں اور ہم ایک دھڑکتے ہوئے دل کی طرح اقبال کے تجربے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ اور جب اقبال کی نظم ختم ہوتی ہے اور ہم ہوش میں آتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے--- ہم اسے بیان کر سکیںیا نہ کر سکیں، کہہ سکیں یا نہ کہہ سکیں--- کہ ابدیت کی تاریخ میں ایک معجزئہ فن کا اِضافہ ہو چکا ہے۔ اقبال: ایک شاعر، قوسین، لاہور، ۱۹۸۷ء اقبال : آفاقی شاعر ڈاکٹر سید شوکت سبزواری اقبال کا ہمارے یہاں گہرا، وسیع اورتفصیلی مطالعہ ہواہے۔ اس عظیم شاعر کی شاعری، حکمت، پیغام، سیرت و شخصیت کا کوئی گوشہ ایسانہیں جو بحث میں نہ آیا ہو اور جس کا ہر پہلو روشن نہ ہوگیا ہو۔ چنانچہ ایک عام ناظر جب اقبال کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہے، اور بقول شخصے پیسے کو پیسنا گوارا نہیں ہوتا تو اسے سخت حیرانی ہوتی ہے کہ اقبال کے متعلق کیا کہے اور اس کے کلام وپیام کے کس گوشے یا پہلو کو روشنی میں لائے۔ عرب کے اس شاعر کی طرح جسے اپنے شعری سرمایہ کو دیکھ کر احساس ہوا تھا۔ ھل غاورالشعرا من متر دم۔ (شاعروں نے ہمارے کہنے کے لیے چھوڑا ہی کیا ہے کہ ہم کہیں) اقبال پر اظہار خیال کرنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے کہنے کے لیے اب کچھ نہیں رہا۔ اس سلسلے میں افکار و خیالات کے لوگ اقبال کے کلام و پیام سے متعلق مختلف اثر لے رہے ہیںتو اس کا یہ احساس شدید سے شدید تر ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اقبال کا مطالعہ عموماً ہمارے یہاں ضروری اندازسے ہوا مختلف خانوں میں بانٹ کر اوربعض صورتوں میں ایک خانے کو دوسرے سے الگ رکھ کر۔ اقبال کو پڑھایا گیا۔ اس پر جامع تجزیاتی بحثیں ضرور ہوئیں لیکن مجموعی طور پر کل کی حیثیت سے اس طرح کی کوشش کہ اس کی فنی اور ادبی شخصیت آئینہ ہوجائے اور پیام والہام کی مکمل تصویر ایک نظر میں سامنے آجائے کم سے کم میری نظر سے نہیں گزری۔ کسی نے اقبال پر قومی شاعر کی حیثیت سے بحث کی کسی نے ملی شاعر کی حیثیت سے ،کسی نے اسے اسلامی شاعر قرار دیا کسی نے آفاقی شاعر، کسی نے اس کے تصور خودی پر زور دیا کسی نے فلسفہ بے خودی پر۔ اس بحث کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جس نے اقبال کو ملی شاعر قرار دیا تھا اس نے اس کے قومی شاعر ہونے سے انکار کیا اور جس نے اسے اسلامی شاعر بتایا تھا اس نے اس کی شاعری کے عالمی پہلو کی نفی کی۔ اسی طرح جِس نے تصورخودی پر زور دیاتھا۔ اس نے اقبال کو انفرادیت پسند کہا اورجس نے فلسفہ بے خودی پر زوردیا تھا اس نے اس کو اجتماعیت پسند ٹھہرایا۔ جزئیاتی بحث کا نتیجہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ ناظر کے سامنے پوری حقیقت نہیں آتی حقیقت کے چندپہلوئوں پر اس کی نظر جاتی ہے (مشہود حکیم شاعر سنائی نے حدیقۃ الحقیقۃ میں جزئیاتی انداز نظر کو ایک مثال سے سمجھایا ہے کہ چار نابینے ایک ہاتھی دیکھنے گئے کسی نے سونڈ کو چھوا، کسی نے پاؤں کو۔ ایک کے ہاتھ میں دُم آگئی۔ ایک ایسا بھی تھا جس نے پیٹ کو مس کر کے ڈیل ڈول کا اندازہ لگایا۔ ہاتھی کے اس جزوی مطالعے کے بعد جب یہ واپس ہوئے توان کے تاثرات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک کہتا تھا ہاتھی ستون کی طرح ہے، دوسرا کہتا تھا ہرگزنہیںہاتھی لٹھ کی طرح ہے۔ ہر ایک مثال بے تشبیہ نہیں۔ سنائی کا مطلب یہ ہے کہ مطالعہ کرنے والا اپنی نظر کو کسی ایک پہلو تک محدود رکھے گا تو حقیقت کے صرف اسی ایک پہلو تک اس کی رسائی ہوگی۔ کل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلو نظر میں رکھے جائیں)۔ اقبال کی شاعری کا موضوع بہت وسیع ہے۔ اس میں اتنی ہی وسعت ہے جتنی اس رنگا رنگ کائنات میں ہے۔ اقبال نے حیات و کائنات کے حقائق و مسائل کو فکر کی جنگاہ بنایا۔ اور ان میں پیچیدگی تھی اس لیے اس پیچیدگی کا پر تواقبال کے کلام پر پڑا لیکن وقت نظر سے کام لے کر بظاہر متضاد کیفیات واحوال میں جس انداز سے اس نے توازن قائم رکھا اس کی داد نہیں دی جا سکتی۔ اقبال نے ہر چیز کواس کی جگہ دی وہ صرف فلسفہ خودی کا مبلغ نہیں بے خودی کا مبلغ بھی ہے۔ دونوںکی حدود ہیں۔ دونوں کی قیود ہیں۔ خودی کی حدیں ختم ہوتے ہی بے خودی کی حدیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اقبال نے ان حدوں کی تعیین کی ہے یہ اوربات ہے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی ہم نہ کرسکیں، اور گریباں کے چاک کو داماں کے چاک سے ملادیں۔ یہ جزوی انداز نظرکا اثرہے کہ بعض حضرات اقبال کے بارے میںفرماتے ہیں کہ وہ اسلامی شاعر ہیں اور اسلامی شاعرکے وہ یہ معنی بتاتے ہیں کہ ان کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔ ان کا پیغام مسلمانوں کے لیے ہے۔ انھوں نے دنیا کو مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم کر کے مسلمان کی صلاح و فلاح کی کوشش کی۔اس میں شبہ نہیںکہ اقبال نے مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی صلاح و فلاح کی کوشش کی لیکن یہ صحیح نہیں کہ ان کے مخاطب صرف مسلمان ہیں یا ان کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے ہے یا مسلم و غیر مسلم کے امتیاز کی نوعیت اقبال کے یہاںکالے گورے، سامی غیر سامی،مشرقی و مغربی، ہندی و چینی کی طرح لازمی اورابدی ہے۔ فلسفہ اقبال کی روح توازن ہے۔یہ توازن حیات و کائنات کی متضاذ اورمتصادم کیفیات کا مزاج ہے جو ان میں اعتدال قائم رکھنے سے حاصل ہوا۔ اقبال نے مسائل حیات میں توازن رکھ کر گویا کائنات کا مزاج پیش کیا ہے۔ اس سلسلے میںسب سے پہلے اقبال کی نظم ’’شعاع امید‘‘ پر نظر جاتی ہے۔اس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ آفتاب نے اپنی شعاعوں سے کہا کہ جب تم ظلمت کدہ عالم کو جگمگا نہیں سکتیں توآوارہ گردی سے فائدہ؟ آئو میرے دل میںسما جائو۔ اس پر ایک شوخ کرن بولی۔مجھے تنویر کی اجازت مرحمت ہو میں اس ظلمت کدے کونور اور روشنی میں نہلائوں گی۔ اس نظم کا آخری شعر ہے:۔ مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحرکر اس شعر سے اقبال کے کلام و پیام کا رخ متعین ہوتاہے۔ شوخ کرن اقبال کا کلام ہے کرن کا کام ہے تاریکی کے پردوں کو چاک کرنااورشب کوپھاڑ کر سحر کرنا۔ اس میں مشرق ومغرب کی تمیزنہیں۔جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہو۔ کرن سے توقع کی جاتی ہے کہ وھاں چمکے اور اس اندھیارے کو دور کرے۔چنانچہ اول اول اقبال نے برصغیر پاک ہند کو جو آویزشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور یہ کہہ کر اہل وطن کے دل میں حب وطن کی شمع روشن کی: اجاڑاہے تمیز ملت و آئین نے قوموں کو مرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکر وطن بھی ہے اس کے بعد اسلامی دنیا کی زبوں حالت نے شاعر کو ملت مسلم کی طرف متوجہ کیا:۔ یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی ــــــــــــ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت و مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چھوڑا توجمعیت کہاں اور جمعیت ہُوئی رخصت تو ملّت بھی گئی اسلامی ممالک میں رنگ، نسل، خون، تہذیب اور قومیت کے محدود تصور کی بنا پر پھوٹ پڑی تھی اس لیے اقبال نے ان کی بڑھی ہوئی لے کو مُسکر قرار دے کر کہا:۔ نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ۔ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مُسکرات رنگ ونسل کا امتیازاپنی جگہ معیوب نہیں۔ واختلاف السنتکم والوانکم زبانوں کا اختلاف اور رنگوں کا اختلاف سے زبانوں اور رنگوں کے اختلاف کی مصلحت معلوم ہوتی ہے اور: وجعلنا کم شعوباً وقبائل لتعارفوا ہم نے تمہارے گروہ اورقبیلے بنائے تاکہ تمہاری شناخت ہو۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اقبال کے فلسفہ حیات کی روح توازن ہے۔ اقبال نے ہر شے کو خاص جگہ دے کر اور حددوقیود میں محصور رکھ کر اپنے پیش کردہ نظام حیات میں توازن قائم کیا ہے۔ وطن دوستی اپنی جگہ مستحسن جذبہ ہے اس صورت میں قابلِ قدر ہے جب اپنی مقرر کردہ حدود سے آگے بڑھ کر بالاتر اور برتر جذبہ ملت پرستی سے نہ ٹکرائے۔ ٹکرائو کائنات کے ہم آہنگ صد رنگ نظام کی روح کے منافی ہے۔ اس وسیع پہناور اور نامحدود فضا میں بے شمار سہارے اپنے اپنے محوروں پر گردش کر رہے ہیں۔ان میں سے کوئی دوسرے کی حدوں میں قدم نہیں رکھتا۔ لاالشمس ینبغی لھاان تدرک القمر ولااللیل سابق النھار سورج چاند کا راستہ نہیں روکتا اورنہ رات دن سے آگے جانے کی کوشش کرتی ہے قوم و ملت میں وہی نسبت ہونی چاہیے جو چاند اور سیارے میں ہے۔قوم اپنے مرکزپر رہے اورملت اپنے مرکزپر۔ دونوں اپنے اپنے دائروں میں رہیں۔ اپنے اپنے محوروں پر گردش کریں تو نظامِ حیات نظام شمسی کی طرح خطرے سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ قومیت نے اپنے دائرہ سے نکل کر ملت کی حدود میں قدم رکھا یا نسل نے مذہب سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تواس کا انجام تباہی ہے۔ نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی ! اڑگیادنیا سے تو ماند خاکِ رہ گزر اقبال کا نقطئہ نگاہ عالمی ہے۔ ملک پر بھی ان کی نظر ہے اور ملت پر بھی۔وہ نسل کو بھی دیکھتے ہیں اوراصل کو بھی۔ نظر کی یہ عا لمیت، عمومیت، بلندی، اوربے باکی اقبال نے جہاںرنگ، نسبت سے براء ت کی ہے: غبار آلودۂ رنگ ونسب ہیں بال و پرتیرے تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا وہاں مذہب کے اس تصور کو بھی مستحق نہیں سمجھا۔ جوانسان کو انسان سے جدا کرے۔ آنکھ میری اور غم میں سرشک آباد ہو امتیاز ملت وآئیں سے دل آزاد ہو اخوت اقبال کا مسلک ہے اور محبت اس کا ایمان۔ ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوعِ انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا اخوت اور محبت انسانی رشتوں کی بنیاد ہے۔ ایک ملک کے باشندے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہ فطری جذبہ ہے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے ملک کے باشندوں سے نفرت کی جائے۔ اسی طرح ایک عقیدہ رکھنے والوں میں بھائی چارہ ہوتاہے۔ یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اقبال کہتاہے کہ صحیح اور سچے مذہب کا ماننے والا ہرگز اس شخص سے نفرت نہیں کر سکتا جو خلوص کے ساتھ اس سے اختلاف کرے کیوں؟ اس لیے کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا انسانیت کا رشتہ ایک مُقدّس رِشتہ ہے جس کی عظمت کا اسلام بھی قائل ہے اور اقبال بھی۔ اقبال کی یہ دلی آرزو تھی. سر میں جز ہمدردیِٔ انساں کوئی سودا نہ ہو اقبال اس معنی میں آفاقی نہیں. گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمر قند اور نہ اس معنی میں آفاقی ہے کہ وہ مسلمانانِ عالم کو قید مقام سے آزاددیکھنا چاہتا ہے. نہ چینی و عربی وہ نہ رومی و شامی سما سکانہ دو عالم میں مردِ آفاقی وہ اپنے وسیع بالاتر اوربلند تر نقطئہ نگاہ کے اعتبار سے آفاقی ہے۔ ملک و ملت کے رنگارنگ استوار رشتوں کے باوجود اقبال نے وحدت انسانیت کاخواب دیکھا۔ اس نے اپنے ملک کو بھی چاہا۔ اپنی ملت سے بھی لو لگائی اور انسان سے بھی استوار رہا۔ اس کے ثبوت میں اقبال کے آخری مجموعہ کلام ’’ضرب کلیم‘‘ کی جو ۱۹۳۶ء میں شائع ہوا تھا۔ ایک چھوٹی سی نظم ’’مکہ اور جنیوا‘‘ پیش کی جا سکتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔ اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم تفریق ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم آخری شعر خاص طور سے غور کے قابل ہے: مکہ نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام جمعیت اقوام یاجمعیت آدم اقبال مخلوق خدا کی کسی ایسی تقسیم کے قائل نہیں جس سے وحدتِ انسانی کی جڑ کٹے اورانسان انسان سے بچھڑ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹے۔ وطنیت سے جو جذبہ اقبال کے نزدیک ایک فطری جذبہ ہے محض اس بنا پر اقبال نے براء ت کی تھی: اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے یہ امر ایک سیاسی بصیرت رکھنے والے کے لیے شاید دلچسپی کا باعث ہوکہ مخلوقِ خدا کی اس تفریق کا ذمہ دار اقبال کے نزدیک مغرب ہے۔ مغرب نے اوّل اوّل محدود قومیت کا سبق پڑھا کر ملت کو جو ایک اٹوٹ وحدت ہے، ٹکڑیوں میں بانٹا جس طرح قینچی سونے کے ٹکڑے کرتی ہے. حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کردیتا ہے گاز اورآخر آخرملتوں میں پھوٹ ڈلواکر وحدتِ انسانیت کو پارہ پارہ کیا. تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود اقبال کی خار اشگاف نظر گہری عمیق، عام اور جامع تھی۔ اس نے حیات و کائنات کا حکیمانہ مطالعہ کیا۔ ذرّے ذرّے کا دل چیر کر حقیقت تک رسائی حاصل کی اس لیے اقبال کی شاعری میں وسعت بھی ہے۔ اور گہرائی بھی۔ اس کا پیغام عام ہے۔ اس کا خطاب کسی خاص ملکیت و ملت سے نہیں۔ دنیا کے ہرگوشے میں بسنے والا انسان اس کا مخاطب ہے اس کی زبان بستہ رنگ خصوصیت نہیں۔ نوعِ انسان کی رہنما اور ترجمان ہے :۔ بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوعِ انساں قوم ہو میری وطن میراجہاں خیابان اقبال ،پشاور،مرتبہ:محمد طاہر فاروقی ، خاطر غزنوی، ۱۹۶۶ء اقبال کا لفظیا تی نظام شمس الرحمن فاروقی اقبال کے اُردو فارسی کلام میں اتنی طرح کے اور اتنی جگہ کے تصورات و نظریات ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ جلوہ افروز ہیں کہ ہر طرح کا قاری ان کے یہاں اپنے لیے قابلِ قبول مال ڈھونڈ نکالتا ہے۔ چنانچہ فاشزم کا نام لیوا ہو یا انسانی آزادی کا علم بردار، صوفی ہو یا انقلابی، مشرق کا پرستارہو یا مغربی فکر کا دلدادہ، سیدھا سادا مسلمان ہویا اصل کا خاص سومناتی، قرآن وحدیث میں تفکر وتدبر کرنے والا ہو یا مارکس و لینن کا مرید، ہر شخص کی جھولی بھرنے کے لیے ان کے یہاں جواہر ریزے موجود ہیں۔ موضوع اور فکر کے اسی تنوع کے باعث یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے اپنے تعصبات کو ترک کر کے شاعر اقبال کے اسرار میں غوطہ زن ہوں اور جس چیز کو ہم ظاہر و باہر سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی گہرائیوں میں اتریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب اقبال کی شاعری اتنی آسانی سے خود کو منوا لیتی ہے تو پھر اس کی چھان بین اور تجزیے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے افکارہی کے میدان میں گھوڑے کیوں نہ دوڑائے جائیں، خاص کر جب کہ اس عمل میں فکری موشگافیوں کے امکان زیادہ ہیں۔ اس کا پہلا جواب تو یہی ہے کہ اقبال کی اہمیت قائم ہی اسی وجہ سے ہوئی کہ وہ شاعر ہیں۔ لہٰذا ان کی شاعری کو ترک کر کے کسی بھی چیز کو اختیار کرنا، چاہے وہ جذباتی طور پر ہمارے لیے کتنی ہی خوشگوار کیوں نہ ہو، ادبی مطالعے کے ساتھ بے ادبی کے علاوہ خود اقبال کے ساتھ بے انصافی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے افکار جس شکل میں بھی ہمارے سامنے ہیں وہ اُن کی شاعری ہی کے مرہون منت ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ انھی افکار کو کسی اور پیرائے میں بیان کر دیا جائے اور پھر بھی وہ اقبال کے افکار وآثار رہ جائیں۔ وہ ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ ہو یا’’طلوع اسلام‘‘ یا’’ساقی نامہ‘‘ یا ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کسی بھی نظم میں کوئی ایسا خیال نہیں ہے جسے خالص اقبالؔ کی ملکیت کہا جا سکے یا جس کے بارے میں یہ دعویٰ ہو سکے کہ اگر یہ خیال اقبال اس نظم میں نہ رکھتے تو دنیا اس سے محروم رہ جاتی۔ ان خیالات میں جدت، لذت، حسن جو کچھ بھی ہے وہ محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اقبالؔ کی زبان میں بیان ہوتے ہیں، ورنہ ان کا کوئی Patent اقبال کے پاس نہیں تھا۔ وہ ہم آپ ہوں یا اقبال کا بڑے سے بڑا شارح، ان خیالات کو نظم سے الگ بیان کیا جائے تو اقبالؔ کی نظم نہیں، بلکہ ایک نسبتاً یا کلیتاً بے روح بیان وجود میں آئے گا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ’’جبرئیل و ابلیس‘‘ جیسی نسبتاً سادہ نظم کا بھی کوئی لفظی ترجمہ ایسا ممکن ہے کہ پوری نظم اس میں برقرار رہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ اقبال کی شاعری بہت جلد اپنی عظمت یا خوبی کو اپنے آپ منوا لیتی ہے لیکن تنقیدی طریق ِکار کا تقاضا یہ ہے کہ خود اس بات کی وجوہ تلاش کی جائیں کہ یہ شاعری اتنی تیزی سے متاثر کیوں کرتی ہے اور پھر یہ کہ اس کو دوسرے شعرا سے کس طرح ممتاز کیا جائے، یعنی وہ کیا اسلوبیاتی یا اظہاری خصوصیات ہیں جن کی بنا پر اقبال کی انفرادیت ثابت ہو سکتی ہے؟ آخری سوال اس لیے اہم ہے کہ اچھے اور بُرے شاعر کے درمیان حدّ فاصل اکثر یہی انفرادیت ہوتی ہے کیوں کہ شاعری کے مجرد خواص یعنی استعاراتی اور علامتی طرز اظہار، جدلیاتی الفاظ، ابہام وغیرہ تو ہر اچھے شاعر کے یہاں کم وبیش موجود ہی ہوتے ہیں۔ اگر اقبال کی فکری انفرادیت ان کی شاعرانہ انفرادیت کے تحت نہ رکھی جائے بلکہ اسے قائم بالذات مان لیا جائے تو پھر اقبال کے کلام کی مفصل شرح یا ان نظموں کی توضیح کافی ہے، اصل کلام کے مطالعے کی ضرورت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعری زبان کی وہ کیفیت ہے جس میں اُسے مخصوص شدت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ بقول جارج اسٹینر ممکن ہے ادب کے بغیر زبان قائم ہو سکے لیکن زبان کے بغیر ادب قائم نہیں ہو سکتا۔ زبان کی مخصوص شدت سے مراد یہ ہے کہ ادب میں استعمال ہونے والی زبان مکمل معنویت کی کوشش کرتی ہے۔ اس میں کوئی لفظ بلکہ کوئی حرف بے کار یا برائے بیت نہیں ہوتا اور یہ مکمل معنویت اس مخصوص فن پارے کی حد تک جس میں زبان برتی گئی ہے، فقیدالمثال اور یکتا ہوتی ہے۔ یعنی وہ معنویت پوری پوری کسی اور لسانی ترتیب، حتیّٰ کہ کسی اور فن پارے میں بھی نہیں سماسکتی۔ہمارے متقدمین اس نکتے سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اِسی وجہ سے انھوں نے شعر میںحشو اور تناسب اور لفظی ومعنوی ہم آہنگی کی بحثیں اٹھائیں۔ افسوس کہ انھوں نے ان مسائل کو فکری اساس نہ عطا کی اور بعد میں آنے والے نقادوں نے اُن کی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے جو منطقی دلائل استعمال کیے وہ متقدمین کے یہاں فکری اساس کی کمی کے باعث بہت کار گر ثابت ہوئے۔ ابن خلدون سے لے کر نکات الشعرامیں میرؔکے منتشر خیالات اس بات کی دلیل ہیں کہ زبان کو شعر بلکہ شاعری کا سرچشمہ اور بنیاد سمجھنا ہماری شعریات کا ایک حصّہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ زبان کے تفصیلی محامکے پر قدرت ہونا استاد بننے کی پہلی شرط رہا ہے۔آتش کا شاعری کو مرصع سازی کہنا زیادہ بنیادی حقیقت تھا اور اس حقیقت کے نظر انداز ہو جانے کی وجہ سے جگرؔ کو ’’کاری گران شعر‘‘ پر طنز کرنے کا موقع ملا۔ جگر صاحب کو یہ خیال نہیں رہا تھا(یا ان کے زمانے میںلوگ اس بات کو بھول چکے تھے) کہ اگر شعر میں اثر نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ شاعروں کی جگہ ’’کاری گرانِ شعر‘‘ نے لے لی ہے، بلکہ یہ ہے کہ کاری گری کا فن شاعروں نے بھلا دیا ہے۔ بقول جارج اسٹینر، ارسطو کا نظریہ اس افلاطونی حقیقت کو پس پشت ڈال دیتا ہے کہ زبان جب موسیقیاتی امکانات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو وہ ہم میں یہ صلاحیت پیدا کر دیتی ہے کہ ہم شاعرانہ صداقت اور تصدیق پذیر صداقت میں فرق کر سکیں۔ شعر میں اثر پیدا ہی اس کاری گری سے ہوتا ہے جو زبان اور موسیقی کے امتزاج کی سعی کرتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ان حقائق کی دوبارہ چھان بین ان نقادوں اور مفکروں کی مرہونِ منت ہے جنھوں نے شاعری کی زبان اور شاعرانہ زبان پر لسانیاتی طریقوں سے غوروخوض کیا ہے۔ ان میں ماسکو لسانیاتی مکتب (Moscow Linguistic Circle) کے اراکین، خاص کر رومان جیکبسن (Roman Jakobson) کا نام قابل ذکر ہے۔ جیکبسن کا کہنا ہے کہ وہ ماہر لسانیات جو زبان کے شاعرانہ تفاعل سے ناواقف ہے اتنا ہی مجہول الزمان ہے جتنا وہ نقاد جو لسانیاتی مسائل اور طریق کار سے بے خبر یا اُن سے لا پروا ہے۔ اسٹینر کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ اب ہم اس مفروضے کی روشنی میں عمل پیرا ہیں کہ استعاراتی زبان میں بہت سی ایسی تصدیقیں(Verification) اور بے جوڑ پن Inconsistencies) (ہوتے ہیں جو داخلی ہیں اور جن کی توجیہہ اپنی منطق، بلکہ علامتی منطق،آپ رکھتی ہے۔ آئی، اے رچرڈ نے معنی سے بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام تنقیدی مسائل کی شاہ کلیدان سوالوں میں ہے کہ معنی کیا ہے؟ جب ہم معنی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت کیا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ چیز ہے کیا، جس کو ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب میں اس نے چار طرح کے معنی کی نشان دہی کی تھی جنھیں اس نے مفہوم، محسوس، لہجہ اور ارادہ کا نام دیا تھا۔ ان کی تفصیل میں جائے بغیر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سوالوں کی اہمیت کے پیش نظر جواب، یعنی معنی کی چار اقسام اور یہ بیان کہ یہ سب یا ان میں سے بیش تر معنی شاعری میں بہ یک وقت موجود رہتے ہیں، بہت دور رس نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہم اتنی بھی دور پہنچ جائیں تو بہت ہے۔ بیدلؔ کا یہ کہنا کہ پس ہر نقشے کہ می بینی حرفے ست کہ می شنوی، چاسر کے اس مصرعے کی یاد دلاتا ہے کہ’’آواز کچھ نہیں ہے مگر ہوا ہے،شکستہ۔‘‘ان دونوں حقائق کے پیچھے شاعری کا وہی تصور کارفرما ہے کہ شاعری میں زبان اور موسیقی ہم آہنگ ہوجاتے ہیں، یعنی ایک عنصر دوسرے کا اظہار کرتا ہے۔ رچرڈز کی بیان کردہ معنی کی چار قسمیں بھی آہنگ کے ذریعہ ایک دوسری سے منسلک ہیں۔ والٹرآنگ (Walter Ong)اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے کہ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آواز کیا ہے، اسے وجود میں لانا یعنی اسے سننا چاہیے۔ آہنگ یا موسیقی کا اس قدر اہمیت کے ساتھ ذکر میں اس لیے نہیں کر رہا ہوں کہ شاعری خاموش بیٹھ کرپڑھنے کی چیزنہیں ہے بلکہ علی الخصوص اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ شاعری کا آہنگ وہ آہنگ نہیں ہے جو ساز یا ترنم یا بہ قول سردار جعفری ’’لحنِ دائودی ‘‘کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے۔ شاعری کا آہنگ دراصل وہ موسیقی ہے جو خاموش ہی پڑھنے میں نمایاں ہو جسے ساز یا ترنّم کی ضرورت نہ ہو بلکہ جسے آپ چپ چاپ پڑھیںتو الفاظ آپ کو از خود سنائی دیں۔ کبھی بلند، کبھی پست، کبھی تیز، کبھی مدہم، ان کی ہزار شکلیں آپ کے داخلی سامعے پر اثر اندازہوں گی۔ یہ آہنگ معنی کامرہون منّت یااُس کا تابع ہوتا ہے لیکن اس کے بغیر معنی کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ والڑآنگ کے کہنے کا اصل مفہوم یہی ہے۔ شعر کی ان جہتوں کا مطالعہ ہی دراصل شعر فہمی کا صحیح راستہ ہے۔ اس مفروضے کو قائم کرنے کے بعد اقبال کا شاعرانہ حُسن اُن کے افکار پر مقدم ہے اور شاعرانہ حسن کا مطالعہ دراصل شاعرانہ زبان کا مطالعہ ہے۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعرانہ زبان کے خواص کیا ہیں اور اُن کا لفظیاتی نظام کن عناصر سے مرکب ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے کچھ سوال اور قائم کرنا ہوں گے، اس لیے کہ ہر بڑا شاعر زبان کو اپنے طور پر برتتا ہے اور ایک شاعر کا طریق کار دوسرے کو سمجھنے کے لیے لازماًکار آمد نہیں ہو سکتا۔ عمومی مشابہتیں ضرور ہوتی ہیں لیکن بدلی ہوئی جزئیات اور تفصیلات کی بنا پر مشابہتیں مختلف بڑے شعرا کے یہاں متنوع صورت حال پیدا کرتی ہیں مثلاًاردو کے چار عظیم ترین شعرا میرؔ، غالبؔ، انیسؔ، اور اقبالؔ مناسبت لفظی کے ماہر ہیں۔ یعنی ان کے یہاں الفاظ گذشتہ سے پیوستہ آتے ہیں، الفاظ موضوع کی مناسبت سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور موضوع کے لحاظ سے مناسب تلازموں کے حامل اور مختلف طرح کی رعایتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اقبال کے یہاں مناسبت الفاظ تسلسل کا کام کرتی ہے کیوں کہ ان کے بہت سے الفاظ اگلے بلکہ بہت بعد میں آنے والے الفاظ کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اُن کی رعایتِ لفظی منتشر اور بہ ظاہر بے ربط اشعار یا بندوں کو مربوط کر دیتی ہے۔ میر انیس کے یہاں تسلسل واقعات سے قائم ہوتا ہے، غالب اور میرؔ کے یہاں تسلسل کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ میری مراد یہ ہے چاروں شاعر لفظی در و بست کے ماہر ہیں، اس مہارت کا اظہار انھوں نے بعض مشترک اور بعض انفرادی طریقوں سے کیا ہے۔ اسی طرح ان چاروں کے یہاں بعض کلیدی الفاظ ہیں، یہ ایک عمومی مشابہت ہے۔ لیکن جزئیات کا مطالعہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کلیدی الفاظ کا استعمال اقبال کے یہاں غالبؔ اور دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔ ان انفرادیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے میں دو سوال قائم کرتا ہوں اور دو مثالوں سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔ (۱) کیا اقبالؔ کے کلام میں موضوعاتی ارتقا کا کوئی رشتہ ان کے کلیدی الفاظ سے ہے؟ (۲) اقبالؔ کی طویل یا نسبتاً طویل نظموں میں موضوعاتی انتشار کے باوجود وحدت اور قوت کیونکر پیدا ہوئی ہے؟ پہلے سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلیدی الفاظ کو شاعر محض کسی تاثر یا خیال کو واضح کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے، یا محض اس لیے کہ کسی مقررہ نظم یا شعر کے سیاق و سباق میں ان الفاظ کا استعمال فطری طور پر کیا جا سکتا ہے۔ یہ کلیدی لفظ کی کم ترین صورت ہوئی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کلیدی لفظ کسی مخصوص تجربے یا ذہنی مشاہدے کے استعارے کے طور پر استعمال ہو اورآخری صورت یہ ہے کہ کلیدی لفظ علامتی پیرایہ اختیار کر لے۔ کلیدی لفظ کی پہچان یہ ہے کہ وہ کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ وہ جس قدر معنی خیز ہوتا جاتا ہے شاعرانہ اظہار کو اسی قدر قوت ملتی جاتی ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اقبال اپنے تمام موضوعات کو اشارتاً یا صراحتاً بانگ درا میں بیان کر چکے تھے۔ بال جبریل اگرچہ بانگِ درا سے بہت بہتر مجموعہ ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ اس میں انھوں نے کسی نئے موضوع یا خیال کو برتا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ بال جبریل کلیدی الفاظ سے پرُ ہے اور ان الفاظ میں علامتی یا استعاراتی رنگ آ گیا ہے یہ کلیدی الفاظ بیش تر وہی ہیں جو بانگ درا میں استعمال ہو چکے ہیں لیکن بانگ درا کی حدتک کلیدی الفاظ کے استعمال میں نہ تو تعدادی کثرت ہے اور نہ معنوی۔ شروع کی نظموں میں یہ الفاظ تقریباً رسمی استعمال کا حکم رکھتے ہیں اور صرف یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شاعر کو ان الفاظ سے ایک شغف ہے۔ بالِِ جبریل میں رسمی استعمال کم سے کم لیکن استعمال کا وقوع کثیر تر ہو جاتا ہے۔ ضرب کلیم میںیہی کلیدی الفاظ بہت کم ہو جاتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کا شاعرانہ مزاج جو شروع سے استعاراتی اور علامتی اظہار پر مائل تھا، اپنے معنوی ارتقا کی منزلیں لفظی ارتقا کی شکل میں طے کرتا رہا۔ بال جبریل اس کا نقطۂ عروج ہے۔ ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز میں شاعری کم ہوتی جاتی ہے اور اسی اعتبار سے کلیدی الفاظ کا وقوع اور ان کی معنویت بھی گھٹتی جاتی ہے۔ اقبال کی بہترین شاعری یعنی بال جبریل اس تناظر میں نہ دیکھی جائے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کہ ضرب کلیم میں ظاہری پختگی اور قوتِ بیان کی شان و شوکت کے باوجود شاعرانہ اظہار کی جگہ بیانیہ، حکیمانہ، عارفانہ جو بھی کہیے لیکن بانگ درا اور بال جبریل سے مختلف اور کم کام یاب اظہار کی فراوانی کیوں ہے۔ اقبالؔ کے بعض کلیدی الفاظ حسب ذیل ہیں: گل، بو، شمع، خون، تجلّی، لالہ، شاہین، شعلہ، حسن، عشق، دل، عقل ، خورشید، فی الحال میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ لالہ (مرکب یا مفرد شکل میں، یعنی محض لالہ یا لالہ و گل، لالۂ صحرا وغیرہ) کا وقوع اور معنویت اقبالؔ کے شاعرانہ ارتقا کے ساتھ کس طرح منسلک ہے۔ دوسرا سوال نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ اقبال ؔکے لفظی تناسبات، ان کے در و بست کا نظام، رعایتیں اور مناسبتیں اُن کی نظموں کو اردو کی اعلیٰ ترین شاعرانہ روایت (میرؔ، غالبؔ، انیسؔ) کا امین اور اس کو بلند تر منزلوں سے روشناس کرنے والا شاعر ٹھہراتی ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ سوال اکثر اٹھا ہے کہ ان کی طویل اور نسبتاً طویل نظموں کو نظمیں کہا ہی کیوں جائے جب ان میں کسی طرح کا واقعاتی، بیانیہ، حتیّٰ کہ جذباتی تسلسل بھی نہیں ہے۔ ’’خضر راہ‘‘ اور ’’شمع و شاعر‘‘ کی مثال سامنے ہے۔ نقادوں نے جذباتی تسلسل کا اگر فقدان نہیں تو کمی یقینا ’’مسجد قرطبہ‘‘ میں بھی محسوس کی ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوال سنجیدگی سے اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان کو نظمیں نہ کہہ کر محض پریشان خیالات یا بہت سے بہت اقوال زرّیں ٹائپ کی چیزوں کا مجموعہ کیوں نہ کہا جائے؟ اگر یہ صحیح ہے کہ انتشار کی کثرت کا الزام ان پر عائد ہوتا ہے تو اقبال بحیثیت نظم گو ناکام ٹھہرتے ہیں اور اُن کی شاعرانہ عظمت کا جو تاثر فوری طور پر قائم ہوا تھا، یا تو غلط ہے یا پھر ہمیں نظم کی تعریف دوبارہ متعین کرنا ہو گی۔ ظاہر ہے کہ نظم کی تعریف دوبارہ اس طرح متعین کرنا کہ اقبالؔ کی مبینہ غیر نظم نظمیں بھی اس تعریف کے تحت شامل ہو سکیں ایک مشکل کارروائی ہے۔ لیکن یہ غیر ضروری کارروائی بھی ہے کہ کیوں کہ اگر یہ ثابت ہو سکے کہ اقبال کی نظموں میں وحدت اور تسلسل موجود ہے تو نئی تعریف وضع کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اقبالؔ کی طویل اور نسبتاً طویل نظموں میں تسلسل اور وحدت کے ذریعہ قوت دراصل ان کے لفظی در و بست کی بنا پر وجود میں آئی ہے۔ اس کلیے کو ثابت کرنے کے لیے مَیں ’’ذوق و شوق‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اس نظم کی بڑائی اس کے موضوع میں نہیں دیکھتا، اس معنی میں کہ موضوع اگر مختصراً بیان کیا جائے تو وہ محض اتنا ہے کہ یہ نظم رسول مقبولؐ کی شان میں ہے جس میں عالم اسلام کا بھی کچھ ذکر آ گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس موضوع کو اقبالؔ کے علاوہ بھی بہت لوگوں نے برتا ہے۔ خوش عقیدگی کی بنا پر مجھے ہر نعتیہ نظم اچھی لگ سکتی ہے لیکن یہ اس کی خوبی کا تنقیدی جواز نہیں ہو سکتا۔ علاوہ بریں خود اقبالؔ نے بھی اس طرح کی درجنوں نظمیں کہی ہیں۔ پیام مشرق کا ایک پورا حصہ اسی موضوع کے لیے وقف ہے، پھر ’’ذوق و شوق‘‘ کی تخصیص کیا ہے؟ کلینتھ بروکس نے ورڈ زورتھ کے ایک مشہور سانیٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر اس موضوع کو مختصراً بیان کیا جائے تو اس میں کوئی ندرت نہیں، لٰہذا نظم کی خوبی کے وجوہ کہیں اور تلاش کرنا ہوں گے۔ بالکل یہی حال ’’ذوق و شوق‘‘ کا ہے۔ لالہ کے بارے میں یوسف سلیم چشتی نے بعض پتے کی باتیں کہی ہیں۔ وہ اگرچہ اس لفظ کی کلیدی اہمیت اور معنوی ارتقا کو نہیں سمجھ پائے ہیں لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کی اہمیت کو محسوس کرنے میں اولیت انھیں کو حاصل ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’جس طرح پرندوں میں شاہین اقبال کا محبوب ہے اسی طرح پھولوں میں گل لالہ انھیں بہت مرغوب ہے۔ یوں تو ہر تصنیف میں اس کا تذکرہ آیا ہے لیکن پیام مشرق میں انھوں نے اسے طرح طرح سے سجایا ہے۔۔۔۔۔۔ گل لالہ سے اقبال کی دل چسپی کا سبب یہ ہے کہ جس طرح انکو شاہین میں مردِ مومن کی صفات نظر آتی ہیں، اسی طرح وہ اس پھول میں عاشق کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں‘‘۔ یہ توجیہہ ہمیں بہت دور نہیں لے جاتی لیکن اس سے لالے کی معنویت کا ایک پہلو مختصراًضرور روشن ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں، کلیدی لفظ کی قوت اس کی تکرار میں ہے بشرطیکہ تکرار میں معنویت بھی وسیع تر ہوتی جائے یا بدلتی جائے۔ مجرد تکرار بھی شاعر کی دل چسپی اور اس کے ذہن کی جہت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یعنی یہ بات کہ کوئی کلیدی لفظ کتنی بار استعمال ہوا ہے، ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ شاعر کو اس لفظ کی معنویتوں سے کتنی دل چسپی ہے اور بالواسطہ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے علامتی یا استعاراتی اظہار میں شدّت اب کتنی ہے۔ چناں چہ پوری بانگ درا میں لفظ لالہ مرکب یا مفرد شکل میں بائیس بار استعمال ہوا ہے۔ بال جبریل جو بانگِ دراکی تقریباً ایک تہائی ہے، لیکن اس میں لالہ مرکب یا مفرد شکل میں اکیس بار اور ضرب کلیم میں (جو تقریباً بال جبریل کے ہی اتنی ہے) محض آٹھ بار استعمال ہوا ہے۔ ارمعان حجازکے اردو حصّے میں اس کا وقوع صرف تین بار ہے۔ اگر زیادہ دور نہ جا کر صرف یوسف سلیم چشتی کی بات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ بانگ درا میں لالے کا ذکر کثرت سے ہے لیکن بال جبریل میں یہ کثرت اتنی زیادہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس مجموعے میں اقبال کا ذہن لالہ اور اس کی معنویتوں کی طرف زیادہ مائل تھا۔ ضرب کلیم اور ارمغانمیں اس لفظ کی قلت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگرچہ اس کتاب میں اقبال اسلام اور اسلامیوں کے بارے میں باتیں اتنی ہی شدومد سے کر رہے ہیں جو بال جبریل میں تھی لیکن لالے کے ذکر کی قلت یقیناً کم سے کم اس معنویت کی قلت ہے جس کی طرف یوسف سلیم چشتی نے اشارہ کیا ہے اور اگر اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیے کہ بال جبریل میں لالے کا پھول صرف عاشق کی روایتی اور رسمی معنویت کا حامل نہیں، بلکہ اس میں کئی پہلو اور بھی ہیں تو اس بات کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ اقبالؔ کا شاعرانہ ارتقا بانگ درا سے بال جبریل تک رسمیاتی سے استعاراتی اور علامتی اظہار کی طرف ہے اور بال جبریل کے بعد سے بیانیہ، خطابیہ اور کم معنویت کے حامل اظہار کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ بانگ درا کے شروع میں گل لالہ کا وقوع اور اس کی معنویت دیکھنے کے لیے یہ مثالیں ملاحظہ ہوں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیے کہ شروع کی تینتیس۳۳ نظمیں لالے کے ذکر سے خالی ہیں اس کا اولین وقوع ’’تصویر درد‘‘ ہے اور یہاں رعایت لفظی کا کھیل نظر آتا ہے ؎ اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری رعایت لفظی صرف لالہ اور نرگس اور گل کی نہیں ہے،لطیف تر رعایت لفظ ورق کی ہے جس کا مفہوم پھول کی پنکھڑی بھی ہے اور داستان کا صفحہ بھی۔ دوسری بار لالہ تقریباً اس مفہوم میں استعمال ہوا ہے جس کی طرف یوسف سلیم چشتی نے اشارہ کیا ہے۔ اگرسیاہ دلم داغ لالہ زار تو ام وگر کشادہ جبینم گل بہار تو ام ’’تصویر ِدرد ‘‘کے شعر میں بھی لالے کا پھول شاعر کی داستان کا ورق بن کر ایک طرح کے سوزِدروں کا حامل نظر آتا ہے لیکن اس میں طنز کی بھی کیفیت ہے کہ لالہ اور گل اور نرگس شاعر کا مذاق اُڑارہے ہیں۔ حضرت سلطان جی کے دربار میں دل کی سیاہی لالے کے داغ کا بدل ٹھہرتی ہے اور سوزِ عشق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نظم ’’محبت ‘‘کا آخری شعر بھی لالے کے داغ سے عشق کے داغ کا تلازمہ قائم کرتا ہے۔ حصہ سوم کی پہلی نظم ’’بلاداسلامیہ‘‘ میں پہلی بارلالۂ صحرا کا ذکر اسلام اور اس کی تہذیب کے لیے بظاہر ایک سطحی اور کچھ نامناسب استعار ے کے طور پر ملتا ہے لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز لیکن پورے تناظرمیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو لالـۂ صحرا کے استعارے کے ذریعہ ظاہر کرنا دراصل علامتی ہے۔ کیوں کہ لالے کا سوزدروں اور داغ عشق پہلے حوالوں سے قائم ہو چکے ہیں۔ اب اس کی سرخی اور گل گونی اس پر مستزاد ہے۔ سُرخ جو کام یابی، عزت داری، شاہی، جلال اور خون کا رنگ ہے، لفظ صحرا لالے کے پھول کی مضبوطی اور اس کی قوت نمو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کو بھی کہ یہ پھول اگرچہ نامساعد اور بیابانی ماحول میں اُگا لیکن اس کی فطرت جیسی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایسے ہی حالات میں کھلے۔ لالۂ صحرا کی تنہائی اس کی یکتائی اور ورڈزورتھ کے گل بنفشہ کی طرح اس کی ناقدری کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اس طرح لالۂ صحرا اسلام اور اُس کے بہترین پھول یعنی مرد مومن اور اس کی خاک پیدائش یعنی حجاز، ان سب تصورات کو محیط ہو جاتا ہے۔ ’’شمع اور شاعر‘‘کے دوسرے شعر میں مرد مومن کی ناقدری اور تنہائی کا تصور لالۂ صحرا کو شاعر کا استعارہ بنا دیتا ہے ؎ در جہاں مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ستم نے نصیبِ محفلے نے قسمتِ کاشانۂ چراغ کا لفظ ممکن ہے یہاں غالبؔ کے لا جواب مصرعے نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا نے اقبال کے ذہن میں ڈالا ہو۔ لیکن لالے کی سُرخی اور سوز اور شاعر کے کلام کی روشنی، بصیرت اور اس کے دل کے سوز کے اعتبار سے کس قدر مناسب ہے۔ اس شعر میں لالۂ صحرا =مرد مومن= شاعر کا تصوّر قائم ہوتا ہے اور نظم’’مرد مسلمان‘‘ میں اس کی توثیق ہوتی ہے کہ اقبالؔ کا مرد مومن اور شاعر دونوں ایک ہیں۔ ایک طرف تو مرد مومن شبنم کی طرح جگر لالہ میں ٹھنڈک ڈالتا ہے اور دوسری طرف شاعر اپنے کلام کی شیرینی اور عارفانہ بصیرت کی وجہ سے اس کو سکون سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان میں جو صفات مومن کی ہیں وہی شاعر پر بھی منطبق ہو سکتی ہیں۔ شمع اور شاعر کے دوسرے بند میں یہی لالۂ صحرا یعنی شاعر پھر ظاہر ہوتا ہے لیکن شاعر محفل اور کاشانے کا نقیب نہ ہو کر سنسان صحرا میں تنہا کھڑا ہے تو وہ بھی اسی وجہ سے کہ وہ روایتی لالۂ صحرا بن کر رہ گیا ہے۔ اس میں عقل کی روشنی ہے لیکن عشق کا سوز نہیں ؎ یوں تو روشن ہے مگر سوزِدروں رکھتا نہیں شعلہ ہے مثلِ چراغِ لالۂ صحرا ترا ’’خضر راہ‘‘ میں لالے کا پھول جو ٹوپی کی شکل کا ہے، ترکی ٹوپی(جو اس زمانے میں اسلامی تہذیب کی علامت بن گئی تھی) سے ملحق ہو کر لالہ اور اسلام کے تلازمے کو مستحکم کرتا ہے ؎ ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ ’’طلوع اسلام‘‘ میں لالے کا ذکر تین بار آیا ہے اور تینوں بار اسلام اور اسلامیوں کی علامت کی شکل میں ہے ؎ ۱۔ ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کر دے ۲۔ حِنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا ۳۔ سرِ خاکِ شہیدے برگ ہائے لالہ می پاشم پہلے دونوں مصرعوں میں ’’شمع اور شاعر‘‘ کا چراغِ لالۂ صحرا جو بے سوز تھا پھر نمودار ہوتا ہے لیکن لالہ جو خود چراغ تھا اب اس میں چراغِ آرزو یعنی سوزِ دروں کی بات ہے اور وہ لالہ جو کبھی ذاتی لہو کے فروغ سے روشن تھا، اب قلب مسلم کے تازہ خون سے رنگین ہو گا۔اس طرح لالہ اسلام کے ماضی، حال اور مستقبل اور مردِ مومن کی قوتِ تخلیقِ نو اور شاعر کی روشن ضمیری کو بیک وقت ظاہر کرتا ہے۔ یہاں تک کہ شہیدوں کی خاک پر بھی شاعر یعنی مرد مومن کا جو لہو ٹپکا ہے جو برگِ لالہ کی شکل میں ٹپکاہے۔ اب یہ بات ظاہر ہو چکی ہو گی کہ بانگِ درا کے آخر تک آتے آتے لالہ اور علی الخصوص لالۂ صحرا روایتی عشق وسوز یا کام یابی اور فتح مندی کے ساتھ(بلکہ اس سے بڑھ کر) ایک علامتی رنگ اختیار کر گئے ہیں۔ بال جبریل میں لالے کی پہلی نمود نظم یا غزل نمبر۹ میں ہی ہوتی ہے جب کہ بانگِ درا کی تینتیس۳۳ نظمیں اس کے ذکر سے عاری ہیں۔ یہاں گل ولالہ انسان کی علامت بننے لگتے ہیں اور خاص کر اس انسان کی جو حساس اور صاحبِ شعور ہے ؎ نبیل تر ہیں گل ولالہ فیض سے اس کے نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو یعنی شاعر اور مرد مومن اور حساس انسان تینوں لالے کے توسط سے قریب تر آ جاتے ہیں۔ نمبر۱۶ میں بھی گل و لالہ حساس اور لطیف طبع انسان کا استعارہ ہے ؎ تو برگِ گیاہے نہ دہی اہلِ خرد را او کشتِ گل و لالہ بہ بخشد بہ خرے چند سنائی والی نظم کے بعد ساتویں غزل کا لا جواب مطلع دوبارہ شاعر اور چراغ لالہ کو متحد کرتا ہے ؎ پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مُرغِ چمن یوسف سلیم چشتی کی بیان کردہ مناسبت کے علاوہ تنہائی پسندی اور تصنع سے گریز کے اعتبار سے لالہ اور شاہین میں ایک اور مرکزِاتحاد اس سلسلے کی پچپن ویں غزل یا نظم میں نظر آتا ہے۔ اگر شاہین قصر سلطانی کے گنبد پر نشیمن نہیں بنا سکتا تو لالہ بھی خیاباں کی پُرتکلف فضا میں پھول پھل نہیں سکتا۔اس طرح لالہ شاہین سے ہوتا ہوا پھر مرد مومن اورشاعر تک پہنچتا ہے ؎ پنپ سکا نہ خیاباں میں لالۂ دل سوز کہ سازگار نہیں یہ جہانِ گندم وجو جس نظم میں یہ تمام علامتی جہتیں اور تاریخی شعور اور روایتی مفاہیم یک جا ہو گئے ہیں، وہ بالِ جبریل کی شہرۂ آفاق نظم ’’لالۂ صحرا‘‘ ہے۔ آٹھ شعروں کی یہ نظم ایک گہری جھیل کی طرح ہے جس میں تمام علامتوں اور استعاروں کے دریا ضم ہو جاتے ہیں۔ اس نظم کے اشعار میں بھی حسبِ معمول ظاہراربط کی کمی ہے جس کی وجہ سے نظم سے زیادہ غزل کا تاثر فوری طور پر پیدا ہوتا ہے، لیکن لالۂ صحرا کو شاعر اور عالمِ اسلام، مرد مومن، اس کی قوتِ نمو، انسان اور اس کا جذبۂ عمل، ان سب کی علامتوں کے طور پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ الگ الگ اشعار میں الگ الگ علامتیں ہیں جن کا نقطۂ ارتکاز خود شاعر کی ذات ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل اس وقت ضروری نہیں ہے لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ فلسفیانہ یا تبلیغی انداز میں اس نظم کی تشریح اس کا ربط زائل کر دیتی ہے۔ ضرب کلیم میں جو خال خال تذکرے گل لالہ کے ہیں وہ بال جبریل کے مقابلے میں روایتی انداز کے ہیں۔ لیکن ’’مرد مسلمان‘‘ میں جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں، جگر لالہ کی ٹھنڈک کا ذکر علامتی رنگ رکھتا ہے۔ باقی نظموں میں جہاں کچھ استعاراتی لہجہ ہے بھی تو وہاں مفہوم سمٹا ہوا اور تکراری ہے مثلاً: ۱۔ مری نواسے گریبانِ لالہ چاک ہوا ۲۔ اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز لالۂ صحرا میں ربط کی ظاہری کمی کا ذکر مجھے ذوق وشوق تک لاتا ہے جس میں لفظی دروبست اور رعایتِ لفظی کے ذریعہ ربط دکھانا میرا مقصود ہے۔ اقبالؔ کا کلام رعایت لفظی سے تقریباً اتنا ہی مملو ہے جتنا غالب کا کلام ہے۔ لیکن بوجوہ نقادوں کی نگاہ اس نکتے پر نہیں پڑی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کا کلام اپنی اِنفرادیت کے باوجود اجنبیت کا تاثّر اسی وجہ سے نہیں پیدا کرتا کہ وہ اُردو شاعری کی بہترین لفظیاتی روایت کا روشن نمونہ ہے۔ ذوق وشوق کی کامیابی کا راز رعایت اور مناسبت کا یہی التزام ہے جس پر مستزاد یہ کہ الفاظ بلکہ مصرعوںمیں گذشتہ کی بازگشت یا آئندہ کی پیش آمد بہت ہے۔ قلب ونظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں مندرجہ ذیل رعایتوں پر غور کیجیے۔ نظر، چشمہ، ندیاں، رواں، دشت، ندیاں۔ چشمہ، صبح، نور، نظر۔ رواں(رواں بہ صنم رائے مہملہ بہ معنی جان)۔ نظر، آفتاب۔ الفاظ کے اُلٹ پھیر سے متعدد تراکیب بنتی ہیں جو مناسب اور بامعنی ہیں مثلاً: نور نظر، قلب دشت، چشمۂ زندگی، آفتاب صبح، نور صبح وغیرہ۔ حسنِ ازل کی ہے نمود چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود ایک نگاہ کا زیاں نکات ورعایات: حسن، نمود۔ پردہ، وجود، نمود۔ چاک، صبح۔ ازل، نور، نگاہ کا زیاں اور چشمۂ آفتاب(یعنی سورج کو دیکھ کر آنکھ خیرہ ہو جاتی ہے) پردۂ وجود کا چاک ہونا اور روشنی کا پردے سے نکلنا یعنی آفتاب کا افق پر ظاہر ہونا۔ ہزار، ایک۔ حُسنِ ازل اور نور کی ندیاں۔ ازل سے ذہن زال کی طرف منتقل ہوتا ہے، بمعنی پُرانا، سفید۔ زندگی، وجود۔ داخلی قافیہ۔ سُرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں نکات ورعایات: ہزارسود، رنگ برنگ۔ نور کی ندیاں، سُرخ وکبود۔ طیلساں بمعنی رنگین ریشمی نرم چادر اور بمعنی لسان، بولنے میں ماہر۔ سحاب بہ معنی بادل جو گرجتا ہے، اس کے اعتبار سے طیلساں بمعنی لسان کا اشارہ نامناسب نہیں۔ داخلی قافیہ’چھوڑ گیا، دے گیا۔ سُرخ وکبود پچھلے شعر کے داخلی قافیوں سے ہم آہنگ ہے۔ گرد سے پاک ہے ہوا برگِ نخیل دُھل گئے ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پریناں رعایات: طیلساں اور پرنیاں بمعنی سیاہ ریشمی کپڑا۔ فرانسیسی میں بالو اور ریشمی کپڑے دونوں کو Sable کہتے ہیں۔ بو دلیر نے کہیں اس لفظ کو دونوں معنی میں بھی استعمال کیا ہے۔ ممکن ہے اقبالؔ کے ذہن میں فرانسیسی لفظ رہا ہو۔ دشت کے اعتبار سے ریگ اور ریگ کے اعتبار سے گرد۔ نرم، برگ۔ سحاب، پاک(یعنی بال سے پانی گرتا ہے جو ہر چیز کو پاک کرتا ہے) سحاب، دھل گئے۔ دُھل گئے، ندیاں، چشمہ۔ کاظمہ مدینہ منورہ کا نام ہے لیکن اس کے لغوی معنی ہیں ضبط کرنے والی، یعنی نرم مزاج۔ لہٰذا کاظم کے اعتبار سے نرم۔ کاظمہ بمعنی مدینہ منورہ کے اعتبار سے پاک۔ اور مدینہ کو منورہ کہتے ہیں، اس کے لحاظ سے چشمۂ آفتاب اور نور کی ندیاں۔ داخلی قافیہ(ہوا، کاظمہ) آگ بجھی ہوئی اُدھر ٹوٹی ہوئی طناب ادھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں نکات ورعایات: آگ کے اعتبار سے ٹوٹنا بمعنی ختم ہونا جو چاہ کنوںکی اصطلاح میں پانی رکنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مقام، گذرے۔ کارواں ، رواں۔ داخلی قافیہ(ادھر، ادھر) آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی نکات ورعایات: مقام، دوام (قائم ودائم) عیش بمعنی آرام اور عیش بمعنی رہنا، اس لحاظ سے عیش اور مقام میں بھی مناسبت ہے ۔ اس کے اوپر والے شعر میںمقام گذرنے کی صفت ہے اور اس شعر میں ٹھہرنے کی۔ آئی اور مقام کا ربط ظاہر ہے۔ صدائے جبرئیل، حسن ازل کی نمود ۔فراق اور عیش میں صنعتِ تضاد ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اس بندکا ہر مصرع ایک دوسرے سے پیوستہ ہے اور ایک شعرکے الفاظ دوسرے بلکہ بہت بعد کے شعروں میں جھلک اٹھتے ہیں۔ الگ الگ دیکھیے تو اشعار میں کوئی خاص ربط نہیں۔ عربی قصیدہ نگاروں کے انداز میں رسمی آغاز ہے جس میں شاعر اپنی معشوقہ کی قیام گاہ یا فرودگاہ پر جا کر اس کے حسن کو یاد کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مناظر فطرت کا بھی بیان کرتا ہے۔قصیدہ نگار بیانیہ تسلسل کا خیال رکھتا ہے لیکن اقبال لفظی دروبست اور گذشتہ الفاظ کی بازگشت کا ہنر استعمال کرتے ہیںاور معنوی ربط ہلکا ہونے کے باوجود بند کے تمام اشعار کو رشتۂ سیمیں میں باندھ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری شعر جو بالکل غیر متعلق ہے، پورے منظرنامے پر Commentary معلوم ہونے لگتا ہے۔ جوش صاحب تو دو مصرعوں میں مناسب الفاظ نہیں لا سکتے اور یہاں پورے بند کے تمام مصرعے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہیں۔ اسی طرح اس بند کے الفاظ اگلے بندوں میں بھی جھلکتے نظر آتے ہیں۔ یہ دوہرا دروبست ہے۔ ملاحظہ ہو: کس سے کہوں کہ زہرہے میرے لیے مئے حیات کہنہ ہے بزمِ کائنات تازہ ہیں میرے واردات نکات ورعایات: زہر کی تلخی اور شراب کی رعایت سے زہر اور مے ۔حیات اور کائنات ۔بزم کے لیے کہنہ اور واردات کے لیے تازہ کس قدر مناسب ہے، علی الخصوص جب واردات کے دوسرے معنی یعنی ’’آنے والے ‘‘بھی ذہن میں رکھے جایئں۔داخلی قافیہ۔ پچھلے شعر میں مقام ہے یہی کی مناسبت سے تازہ ہیں میرے واردات کتنا معنی خیز ہو گیا ہے۔ کیا نہیں اور غزنوی کار گہہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات نکات ورعایات:صرف ونحو کی وجہ سے اہل حرم کے سومنات ذومعنی ہے ۔ ایک نثریوں ہوگی: سومنات کب سے اہل حرم کے منتظر بیٹھے ہیں۔ دوسری نثریوں ہوگی: اہل حرم کے بنائے ہوئے سومنات کب سے منتظر بیٹھے ہیں (کہ وہ آکر انھیں منہدم کر دیں )پچھلے شعر میں کائنات کو بزم کہا تو اس کی رعایت سے حیات کو کارگہہ کہا۔ کارگاہ بھی ذومعنی ہے یعنی کارخانہ اور عمل کی جگہ۔ کارخانے کے معنی کی روشنی میں غرنوی کتنا مناسب ہوجاتا ہے کہ کارخانہ ٔحیات میں اصنام تعمیر ہورہے ہیں اور غزنوی بت شکن تھا۔ داخلی قافیہ (حیات اور سو منات ) جو پچھلے شعر کے داخلی قوافی سے مربوط ہے۔ ذکرِ عرب کے سوز میں فکرِ عجم کے ساز میں نے عربی مشاہدات نے عجمی تخیلات، نکات و رعایات: ذکر و فکر۔ مشاہدات و تخیلات۔ سوز و ساز۔ ذکر کے اعتبار سے مشاہدہ اور مشاہدے کے لحاظ سے سوز کتنا برمحل ہے۔ یعنی پہلے مشاہدہ کیا۔ پھر مشاہدہ کی ہوئی چیز کا ذکر کیا، اس سے سوز پیدا ہوا۔ فکر کے اعتبار سے تخیّلات بھی بہت برمحل ہے اورتخیلات کے اعتبار سے ساز کا حسن تو غیر معمولی ہے، کیوں کہ شاعری کا تعلق تخیل سے بھی ہے اور ساز سے بھی۔ ساز کے اعتبار سے نے بھی دیدنی ہے۔ داخلی قافیہ (مشاہدات) بھی گذشتہ اشعار کو پیوست کرتا ہے۔ قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات نکات و رعایات: دجلہ اور فرات کی لہروں کو گیسو کہا۔ ان کی سیاہی شہادت اور ماتم حسین کی یاد دلاتی ہے لیکن ان کی چمک پانی کی فراخی پر دال ہے جو کسی پیاسے کی تلاش میں ہے۔ قافلہ کا لفظ گذرے ہیں کتنے کارواں سے اور حجاز و حسین ؓذکر عرب کے سوز سے مربوط ہیں۔ عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات نکات و رعایات: شرع و دیں، فقہی معنی کے علاوہ لغوی معنی (دونوں راستے کے معنی میں مستعمل ہیں) میں بھی برمحل ہیں۔ لغوی معنی (راستہ) قافلۂ حجاز کے راستے کو اس شعر سے منسلک کرتے ہیں اور راستے کے دونوں طرف نصب بت (بت کدۂ تصورات) غزنوی اور سومنات کی یاد دلاتے ہیں۔ پہلا مصرع عشق پر ختم اور دوسرا عشق پر شروع ہوتا ہے (یہ ایک صفت بھی ہے) عشق کی تکرار اہل فراق اور بت کدۂ تصورات عجمی تخیلات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ داخلی قافیہ (اولیں، شرع و دیں) صدقِ خلیلؓ بھی ہے عشق صبر حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق نکات و رعایات: صدق خلیل اور صبر حسین دونوں قافلۂ حجاز کی یاد دلاتے ہیں۔ خلیل اللہ کا مختصر قافلہ جو ان کے اہل خانہ پر مشتمل تھا، حرم کی تعمیر کرتا ہے اور حسین کا قافلہ جو اُن کے اہل خانہ پر مشتمل تھا، حرم کا استحکام کرتا ہے۔ (نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسمٰعیل) پچھلے شعر میں دل اور نگاہ شروع میں مذکور دل کے سود اور نگاہ کے زیاں سے مربوط ہیں اور یہ تینوں (عقل و دل و نگاہ) صدق خلیل سے مربوط ہیں، کیوں کہ خلیل اللہ نے عقل کے مشاہدے اور نگاہ کی بصارت کودل کی گواہی سمجھا لیکن جب ان پر عشق آشکار ہوا تو انھیں معلوم ہوا کہ اصلیت تو کچھ اور ہے۔ جو کچھ اُن کی آنکھ دیکھتی گئی وہ جھوٹا ثابت ہو گیا، اس طرح نگاہ کا زیاں دل کا سود بنا۔ معرکۂ وجود کا تعلق صبر حسین سے بھی ہے کہ انھوں نے جان کھو کر زندہ وجود حاصل کیا ا ور حسنِ ازل کی نمود سے بھی، کہ جس کے ذریعہ پردۂ وجود چاک ہوتا ہے اور حقیقت نمودار ہوتی ہے۔ یعنی حسین نے پردۂ زندگی چاک کیا تو انھیں حسن ازل کی نمود کا دیدار ہوا آیۂ کائنات کا معنی دیریاب تو، نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو نکات و رعایات: آیۂ کائنات کا دیریاب معنی (یعنی رسول مقبولؐ) اس معنی میں دیریاب ہے کہ بزمِ کائنات تو کہنہ تھی لیکن آپ کا ورود مسعود نسبتاً حال میں ہوا۔ اس طرح تازہ ہیں میرے واردات کا ایک مَفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ شاعر نے آیۂ کائنات کے معنی دیریاب کو اب جا کر حاصل کیا ہے۔ آیہ بمعنی نشانی بھی درست ہے اور بمعنی قرآن کی آیت بھی۔ کائنات کا لفظ پچھلے بند کے قافیے کی یاد دلاتا ہے۔ وہ قافلہ ہائے رنگ و بو جو معنی ِدیریاب کی تلاش میں نکلے ہیں قافلۂ حسین اور قافلۂ خلیل ہیں تو قافلۂ کلیم اللہ بھی ہیں جو خلیل اللہ کی طرح ملک مصر سے مملکت موعود کی تلاش میں نکلے تھے۔ دیریاب کی مناسبت سے قافلوں کا نکلنا کسقدر خوب ہے۔ کاش جوش و فراق کے صدہا صفحات میں ایک شعر بھی ایسی لفظی اور معنوی مناسبتوں کا حامل نکلتا۔ جلوتیانِ مدرسۂ کور نگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ مے کدہ کم طلب و تہی کدو نکات و رعایات: جلوتیان مدرسہ اور خلوتیان مے کدہ میں ترصیع ہے۔ مدرسہ کی رعایت سے جلوت اور مے کدہ کی رعایت سے خلوت، کیوں کہ مے خوار صرف اپنے ہی میں گم ہوتا ہے، اُسے دنیا و مافیا کی خبر نہیں ہوتی۔ جلوت اور خلوت۔ مدرسہ اور نگاہ (کیوں کہ مدرسے میںپڑھنے کا کام ہوتا ہے) مے کدہ اور طلب اور کدو۔ پچھلے شعر کا رنگ و بو اس شعرکے نگاہ اور طلب سے مربوط ہے کیوں کہ نگاہ کا تعلق رنگ (یعنی دیکھنے) اور بو کا تعلق طلب مے (یعنی بوئے مے کے ذریعے مے کی یاد آنے) سے ہے۔ کور نگاہ کا ربط کم طلب اور مردہ ذوق کا ربط تہی کدو سے ہے۔ کیونکہ جب آنکھ اندھی ہے تو وہ طلب کیا کرے گی اور کدو کو سکھا کر (یعنی اسے مار کر) اس میں شراب بھرتے ہیں۔ کدو نہ صرف یہ کہ مردہ ہے بلکہ مردہ ذوق بھی ہے کیونکہ اس پر شباب کا اثر نہیں ہوتا۔ میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سُراغ میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو نکات و رعایات: یہ پورا شعر آگ بجھی ہوئی ادھر .... والے شعر کی یاد دلاتا ہے۔ آتش رفتہ آگ بجھی ہوئی ادھر سراغ، کیا خبر، گزرے ہیں کارواں، کھوئے ہوؤں کی جستجو۔ اور دیکھیے: رفتہ اور سرگذشت (یعنی رفت و گذشت) رفتہ، کھوئے ہوئے۔ سراغ جستجو۔ میرے واردات کا ربط، آتش رفتہ اور کھوئے ہوؤں سے بھی ہے۔ کیوں کہ شاعر پر یہ اسراراب واضح رہے ہیں یعنی یہ واردات اس پر اب نازل ہو رہے ہیں کہ میری تمام سزگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو ہے اور اس طرح میری، غزل میں ہی آتش رفتہ کا سُراغ مل سکتا ہے۔ خونِ دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو نکات ورعایات: موج، پانی، نشو ونما، پرورش۔ موج، خون، رگ، رواں، لہو۔ پرورش، رواں، لہو۔ نوابہ معنی سامان اور سازبہ معنی سامان کا بھی اشارہ موجود ہے۔ ساز، نور۔ ان الفاظ کا غزل اور سر گذشت سے رشتہ ظاہر ہے۔ نوارگ ساز ہے اور دل و جگر ساز۔ اس کے علاوہ رگ ساز میں صاحب ساز کا لہو رواں ہونا اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کبھی کبھی مضراب کے بغیر ساز پر انگلیاں پھیرنے میں انگلیاں لہو لہان بھی ہو جاتی ہیں اور مجاز حقیقت بن جاتا ہے۔ فرصتِ کش مکش مدہ ایں دلِ بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوے تاب دار را نکات و رعایات: رویف و قافیہ (بے قرار را، تاب دار را) میں ساز کے تاروں کی تھرتھراہٹ صاف سنائی دیتی ہے۔ خون دل و جگر کا رشتہ کش مکش سے ظاہر ہے۔ گیسوئے تاب دار کا فقرہ گیسوئے تاب دارِ دجلہ و فرات کی یاد دلاتا ہے جہاں حسینؓ پیاسے شہید ہوئے تھے۔ یہاں بھی گیسوے تاب دار تسلیم جاں کا بہانا بن رہے ہیں اور شکن گیسو کی افزائش اس لیے ہے کہ دل و جگر جو کش مکش اظہار غم میں خون ہو رہے ہیں انھیں شکنوں میں گرفتار ہو کر ہمیشہ کے لیے قرار پا جائیں۔ اس طرح یہ اہل فراق کے لیے دوام ہے یہی سے جا ملتا ہے۔ لوح بھی تو، قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب نکات و رعایات: لوح اور قلم کی رعایت سے کتاب کہنا سامنے کی بات تھی لیکن الکتاب اور اس کے ساتھ وجود کا لفظ ہمیں پھر نظم کے آغاز کی طرف لے جاتا ہے جہاں حسنِ ازل کی نمود ہے اور معرکۂ وجود گرم ہے۔ آبگینہ کے ساتھ محیط اور حباب تو ٹھیک ہی ہے لیکن آسمان کو وسیع ظاہر نہ کر کے صرف آبگینۂ رنگ کہنا دومعنی رکھتا ہے۔ یعنی رنگ بمعنی رنگ بھی ہے اور بمعنی شکل بھی ہے۔ اس طرح آسمان کی شکل آبگینے جیسی اور اس کا رنگ آبگینے جیسا ہلکا ہو جاتا ہے۔ گنبد کے ساتھ آب کا لفظ از خود وسعت کا تاثر پیدا کرتا ہے لیکن ایک مفہوم اور بھی ہے۔ ایک نثر تو یہ ہو گی کہ گنبد آبگینہ رنگ (یعنی آسمان) تیرے محیط میں حباب کی طرح ہے۔ دوسری نثر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تیرے محیط میں جو حباب ہے وہ گنبد آبگینہ رنگ ہے۔ یعنی تیرے سمندر کا ہر بلبلہ آسمان کے برابر ہے۔ دوسرے مفہوم کی روشنی میں محیط اور آسمان دونوں کی وسعت خود بخود قائم ہو جاتی ہے۔ وسعت کا یہ تاثر اس وقت اور مستحکم ہوتا ہے جب یہ مصرع آیۂ کائنات کا معنیِ دیریاب تو کی طرف راجع کیا جائے کہ خود کائنات محض ایک آیت یا نشانی ہے اور تو اس کا مخفی و دیر یاب معنی ہے، یعنی تو وہ چیز ہے جس کی محض ایک نشانی کائنات جیسی اتھاہ چیز ہے۔ ایسی صورت میں تیرے محیط میں تیرتے ہوئے حباب آسمان کے برابر ہیں تو حیرت کیا ہے۔ پانی اور نشوو نما کے جو استعارے اور پیکر پچھلے شعر میں قائم ہوئے تھے ان کی توسیع آبگینہ، محیط اور حباب سے ہوتی ہے۔ اگلے شعر میں پانی بمعنی زندگی اور نشو و نما کے ساتھ نور (یعنی چشمۂ نور جو پانی بھی ہے اور روشنی بھی ہے)، ہمیں پھر اول بند کی طرف لے جاتا ہے۔ عالمِ آب و خاک کو تیرے ظہور سے فروغ ذرۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب نکات و رعایات: عالم، آب، خاک، ذرہ، ریگ۔ ظہور، فروغ، طلوع ، آفتاب۔ فروغ بمعنی روشن ہونا، آب و خاک کا روشن ہونا براہ راست دشت میں صبح چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں سے مربوط ہے۔ وہ ذرۂ ریگ جو نرم مثل پرنیاں تھا اب پر تو آفتاب سے مستفید ہو کر خود آفتاب بن گیا ہے۔ لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں ؎ شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود فقرِ جنید و با یزید تیرا جمالِ بے نقاب نکات و رعایات: جلال، جمال، ظہور،طلوع، نمود، فروغ، بے نقاب۔ عالم آب و خاک کے ا عتبار سے شوکت سنجر و سلیم اور ذرۂ ریگ کے اعتبار سے فقر جنید و بایزید۔ شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب نکات و رعایات: مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہونے کے علاوہ بے نقاب اور حجاب میں رعایت ہے۔ ایسی ہی رعایت شوق اور حجاب میں ہے۔ نماز، قیام، سجود میں رعایت بھی ہے اور تدریج بھی۔ اندرونی قافیہ (امام، قیام) تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے عقل غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب نکات و رعایات: نگاہ کے اعتبار سے جستجو اور حضور، ناز کے اعتبار سے غیاب و اضطراب۔ یعنی نگاہ کا وصف جستجو اور پھر حضوری ہے جب کہ ناز غیاب (بمعنی پردہ) اور پردہ اضطراب پیدا کرتا ہے۔ تیرہ و تار ہے جہاں گردشِ آفتاب سے طبعِ زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے نکات و رعایات: تیرہ و تار، گردش۔ تازہ کے اعتبار سے جلوۂ بے حجاب۔ اس لیے کہ صبح کہ صفت تازگی ہے اور تیرگی کے بعد صبح ہوتی ہے۔ آفتاب گردش میں ہے یا دنیا کو گردش دے رہا ہے۔ جلوۂ بے حجاب پردۂ وجود کی چاکی سے مربوط ہے۔ آفتاب کی گردش میں گردش سیّارہ کی کیفیت ہے یعنی ایسا ستارہ جو روشن نہیں رہ گیا۔ یہ احساس ہمیں عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصورات کی یاد دلاتا ہے کیونکہ عالم کا اصول کارگر عشق ہی ہے۔ وہ نہیں تو آفتاب بھی روشنی گنوا دے گا۔ میری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم، نخیلِ بے رطب نکات و ر عایات: تمام گزشتہ روز و شب کا فقرہ تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو کی یاد دلاتا ہے۔علم نخیل بے رطب اس نخیل سے مربوط ہے جس سے برگ بند اول میں دھل گئے تھے، کیوں کہ نواح کاظمہ میں برگ نخیل کے دھلنے (اب گرد یعنی Confusion سے پاک ہے ہوا کی معنویت اور بڑھ گئی) پر ہی یہ محسوس ہوا کہ میں جس درخت سے برگ دبار کا تمنائی تھا وہ تو بانجھ ہے۔ تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب نکات و رعایات: معرکۂ کہن جو ضمیر میں تازہ ہو رہا ہے زمیں کے دوبارہ زندہ ہونے کا مترادف ہے اور ساتھ ساتھ ان واردات کا بھی حوالہ ہے جن کی تازگی کا ذکر دوسرے بند میں ہوا۔ پچھلے بند میں بھی طبع زمانہ کے تازہ کرنے کی درخواست وجود محمدیؐ سے کی گئی ہے۔ ضمیر سے مراد Conscience کے علاوہ اندرونِ ذات بھی ہے (ضمیر بمعنی چھپنے والا، چھپا ہوا)، طبع زمانہ کی تازگی جو جلوۂ بے نقاب کے ذریعہ عمل میں آئے گی، دراصل اس معرکۂ کہن کا دوبارہ وجود میں آنا ہے جو حق اور باطل کے درمیان محض عجمی تخیلات میں نہیں بلکہ عربی مشاہدات میں کھیلا گیا تھا۔ ہوا جو گرد سے پاک ہے اور برگ نخیل جو دھلے ہوئے ہیں وہ بھی اسی نئی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بو لہب کا لغوی مفہوم صاحب شعلہ ہے۔ ابو لہب حسین ہوتے ہوئے بھی داخلی جمال کے مشاہدے سے محروم تھا۔ اسی طرح جس طرح گردش آفتاب بے روح کی بنا پر تیرہ و تار ہے۔ داخلی قافیہ (ہوا، مصطفیٰ) گاہ بہ حیلہ می برد گاہ بزور می کشد عشق کی ابتدا عجب عشق کی انتہا عجب نکات و رعایات: ابتدا و حیلہ اور انتہا زور۔ عشق انسان کو مغلوب کر لیتا ہے اور اسے اہل فراق بنا دیتا ہے۔ نظم کا آخری شعر اس خیال سے مربوط ہے۔ پہلے مصرعے میں اندرونی قافیہ اور دوسرے میں تر صیع۔ عالمِ سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق وصل میں مرگِ آرزو ہجر میں لذتِ طلب نکات و رعایات: نفس کی موج سے نشو و نمائے آرزو اور وصل میں اس کی موت۔ اصل نفس کی موج وہی ہے جو وصل سے دور اور فراق سے نزدیک رکھے۔ عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا گرچہ بہانہ جُو رہی میری نگاہِ بے ادب نکات و رعایات: نگاہ بے ادب اپنا زیاں کرتی ہے لیکن دل کے لیے ہزار سود اسی میں ہے۔ عین، نظر، نگاہ۔ گرمیِٔ آرزو فراق شورشِ ہاے ہو فراق موج کی جستجو فراق قطرے کی آبرو فراق نکات و رعایات: گرمی، شورش، جستجو۔ موج، قطرہ، آبرو۔ موج سے آرزو کا نشو و نما اور آرزو فراق ہے اس لیے قطرے جو مل کر موج بناتے ہیںاُن کی آبرو (دونوں معنی میں) فراق ہی سے ہے۔ موج کی شورش میں گرمی ہے۔ وہ دریا بھی ہے آتش بھی، جس طرح دشت میں صبح کا سماں۔ مندرجہ بالا تجزیے سے ظاہر ہو گیا کہ پوری نظم در و بست کا شاہ کار ہے۔ خیالات کا انتشار اس قدر ہے کہ ایک ہی بند میں خیال جگہ جگہ بدلتا ہے۔ اس ظاہری بے ربطی کو ہئیتی وحدت دینے کے لیے اقبال نے بند میں اشعار کی تعداد یکساں رکھی ہے اور پوری نظم ترکیب بند میں ہے۔ لیکن یہ کارگذاری بذات خود محض ایک مصنوعی وحدت پیدا کرتی ہے۔ انتشار کے باوجود نظم متحد اور مکمل اسی لیے بنی ہے کہ ہر مصرع ایک دوسرے سے لفظی اور اس طرح داخلی معنوی ربط رکھتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ لفظی در و بست اور رعایات اس نظم میں اتنی ہی ہیں جتنی میں نے اوپر بیان کی ہیں، یقین ہے کہ اور بھی ہوں گی لیکن ان کے مختصر بیان سے بھی میرے نظریے کی تصدیق ہوتی ہے کہ نظم اور خاص طویل یا نسبتاً طویل نظم میں اقبالؔ کی فن کاری ایک طرح کی یکتائی رکھتی ہے جس کا بدل ممکن نہیں۔ نظم کی قوت دراصل اسی یکتائی میں ہے۔ اس طرح اقبالؔ فلسفی یا مجذوب جو کچھ بھی ہیں اپنی صناعی اور مخصوص نظم سازی کے حوالے ہی سے اپنی شاعرانہ شخصیت کو قائم کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی شاعرانہ شخصیت ان کے مجذوب یا فلسفی ہونے سے قائم ہوتی ہے۔ اقبال کا فن، مرتبہ: گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، ۱۹۸۳ء اقبال کی شاعری کا صوتیاتی نظام گوپی چند نارنگ اقبال کی شاعری اسلوبیاتی مطالعے کے لیے خاصا دلچسپ مواد فراہم کرتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اسلوبیات لسانیات کی وہ شاخ ہے جس کا ایک سرا لسانیات سے اور دوسرا سرا ادب سے جڑا ہوا ہے۔ ادب کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ موضوعی اور جمالیاتی چیز ہے جبکہ لسانیات سماجی سائنس ہے، اور ہر سائنس معروضی اور تجرباتی ہوتی ہے ادبی تنقید کا معاملہ دوسرا ہے۔ ادبی تنقید موضوعی بھی ہوتی ہے اور معروضی بھی، اس لیے کہ تنقید کا منصب ادب شناسی ہے، اور ادب شناسی کا عمل خواہ وہ ذوقی اور جمالیاتی ہو یا معنیاتی، حقیقتاً تمام مباحث اس لسانی اور ملفوظی پیکر کے حوالے سے پیدا ہوتے ہیں جس سے کسی بھی فن پارے کا بحیثیت فن پارے کے وجود قائم ہوتا ہے۔اسلوبیات اس موضوع کا معروض ہے، گویا یہ ادبی تنقید کا عملی حربہ ہے۔ اسلوبیات طریقۂ کار ہے، کل تنقید نہیں۔ کوئی بھی طریقہ کار کل تنقید نہیں ہو سکتا۔ اسلوبیات اس کا دعویٰ بھی نہیں کرتی۔ یہ دوسرے طریقوں کی نفی بھی نہیں کرتی، چنانچہ اس کو اپنے طور پر بھی برتا جا سکتا ہے اور دوسرے طریقوں سے ملا کر بھی۔ لیکن اسلوبیات کوئی بات بغیر ثبوت کے نہیں کہتی۔ یہ تنقیدی آرا کی صحت یا عدم صحت کے لیے ٹھوس تجرباتی بنیادیں فراہم کرتی ہے، اور اس طرح ادب کے سربستہ اظہاری رازوں کی گرہیں کھول سکتی ہے، یا تخلیقی عمل کے بعض پر اسرار گوشوں پر روشنی ڈال سکتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس بارے میں ایسے ثبوت بھی پیش کر سکتی ہے جنھیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسلوبیات کے بارے میں یہ بات خاطر نشان رہنی چاہیے کہ اسلوبیاتی مطالعے میں رہنما نظر (Guiding Insight) ادبی اور جمالیاتی ذوق یعنی تنقید ہی سے ملتی ہے لیکن اکثر و بیشتر ایسا بھی ہوتا ہے کہ تجرباتی ذہنی رویے کے دوران ایسے ایسے امور پر نظر پڑتی ہے یا ایسے ایسے نکتے سوجھ جاتے ہیں جن کی مدد سے تنقید کی نئی راہیں سامنے آتی ہیں۔ تنقید اور اسلوبیات میں ادبی ذوق اور سائنسی رویے کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے سے باہمی لین دین جاری رہتا ہے، اور اس طرح اسلوبیات تنقید سے جو کچھ لیتی ہے اس سے کئی گنا کر کے تنقید کو لوٹا دیتی ہے۔ ادب کا رشتہ یوں تو تمام انسانی علوم سے ہے۔ ادب انسانیت کی روح اسی لیے ہے کہ اس میں انسان کی تمام ذہنی کاوشوں کی پرچھائیاں دیکھی جا سکتی ہیں اور ہر طرح کے اثرات کا عمل دخل جاری رہتا ہے۔ چنانچہ ادبی تنقید میں جمالیاتی اور ادبی معیاروں کی بنیادی اہمیت کے باوصف مختلف علوم سے مدد لی جا تی رہی ہے، مثلاً فلسفہ ، مذہبیات ، نفسیات ، سیاسیات، عمرانیات وغیرہ سے ادبی تنقید کے مختلف دبستانوں میں مدد لی جاتی ہے، اس بارے میں کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ لیکن ان علوم اور اسلوبیات میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ان میں سے کسی کا موضوع براہ راست ادب یا ادب کا وسیلۂ اظہار یعنی زبان نہیں ہے، جبکہ اسلوبیات کا موضوع ہی زبان اور اس کا تخلیقی استعمال ہے، یعنی وہ لسانی اظہاری پیکر جس کے ذریعے ادب بطور ادب کے مشکل ہوتا ہے۔ اسی لیے ادبی تنقید میں جو مدد اسلوبیات سے مل سکتی ہے، کسی دوسرے ضابطۂ علم سے نہیں مل سکتی، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسلوبیات ادبی تنقید کا سب سے کارگر حربہ ہے یا یہ کہ اسلوبیات ادبی تنقید کی عملی بنیاد ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ زیر نظر مضمون میں اقبال کی اردو شاعر کے اسلوبیاتی مطالعے کے صرف ایک پہلو یعنی صوتیاتی نظام کو لیا جائے گا۔ اسلوبیاتی مطالعے کی کئی سطحیں اور کئی پہلو ہو سکتے ہیں، مثلاً کوئی بھی فن پارہ اظہاری اکائی کے طور پر وجو دمیں آتا ہے۔ یہ اکائی کلموں سے مل کر بنتی ہے جسے اظہار کی نحوی سطح کہہ سکتے ہیں۔ کلمے، لفظوں یا لفظوں کے قلیل ترین حصوں یعنی صرفیوں (Morphemes) سے مل کر بنتے ہیں، جنھیں اظہار کی لفظیاتی یا صرفیاتی سطح کہہ سکتے ہیں اور یہ صرفیے بجائے خود اصوات کا مجموعہ ہوتے ہیں جنھیں اظہار کی صوتیاتی سطح کہہ سکتے ہیں۔ اس مضمون میں اظہار کی سب سے بنیادی سطح یعنی صوتیاتی سطح ہی کے بارے میں غور و خوض کیا جائے گا۔ صوت کے ضمن میں یہ بدیہی بات ہے کہ صوت کے معنی نہیں ہوتے۔ معنی کا عمل اس سے اوپری سطح یعنی صرفیاتی سطح سے شروع ہو جاتا ہے اور کلمے کی نحوی سطح سے گزر کر فن پارے کی معنیاتی اکائی کے درجے تک پہنچ کر مکمل ہوتا ہے۔ صوت کی سطح خالص آہنگ کی سطح ہے۔ لیکن اگر اس سے فرض کر لیا جائے کہ آہنگ سے مراد معنی کی کلی نفی ہے، تو یہ بھی غلط ہو گا، کیونکہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آہنگ سے ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے فضا سازی یا سماں بندی میں مدد ملتی ہے اور یہ فضا سازی کسی بھی معنیاتی تاثر کو ہلکا، گہرا یا تیکھا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ’’ایک شام،، (دریائے نیکر ہائیڈل برگ کے کنارے پر) ملاحظہ ہو: خاموش ہے چاندنی قمر کی شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی وادی کے نوا فروش خاموش کہسار کے سبز پوش خاموش فطرت بے ہوش ہو گئی ہے آغوش میں شب کے سو گئی ہے کچھ ایسا سکوت کافسوں ہے نیکر کا خرام بھی سکوں ہے تاروں کا خموش کارواں ہے یہ قافلہ بے درا رواں ہے خاموش ہیں کوہ و دشت و دریا قدرت ہے مراقبے میں گویا اے دل! تو بھی خموش ہو جا آغوش میں غم کو لے کے سو جا اس نظم کو پڑھتے ہی احساس ہوتا ہے کہ اس میں سناٹے اور تنہائی کی کیفیت بعض خاص خاص آوازوں کی تکرار سے بھی ابھاری گئی ہے۔ بادی النظر ہی میں معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ آوازیں س، ش، خ اور ف کی ہیں جو سات شعروں کی اس مختصر سی نظم میں ۳۵ بار آئی ہیں کسی فن پارے میں خاص خاص آوازوں کا بغیر کسی شعور اہتمام کے درآماً اتفاقی بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر میر تقی میر کی غزل: دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یا غالب کی غزل: دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے میں صوتیاتی سطح پر آخر ایسی کون سی بات ہے کہ یہ غزلیں گلوکاروں میں ہمیشہ بے حد مقبول رہی ہیں، اور بعض نے تو ان کے ذریعے اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا ہے کہ باید و شاید وجہ ظاہر ہے کہ ان غزلوں میں طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں کے در وبست سے موسیقی کا ایسا امکان ہاتھ آ گیا ہے جو عام طور پر میسر نہیں آتا۔ ایسی مثالیں تقریباً ہر بڑے شاعر کے یہاں مل جائیں گی، لیکن ان کی بنا پر کسی شاعر کے پورے صوتیاتی نظام کے بارے میں حکم نہیں لگایا جا سکتا، صوتیاتی آہنگ کا تعلق بہت کچھ شاعر کی افتادِ طبع اور اس کے شعری مزاج سے ہے جس کی تشکیل بڑی حد تک غیر شعوری طور پر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میر کی درد و سوز میں ڈوبی ہوئی نرم لے، درد مندی اور گھلتے رہنے کی کیفیت ان آوازوں سے متعلق نہیں ہو سکتی جن کے ذریعے غالب اپنی معنی آفرینی۔ فکری، تہ داری یا نفسیاتی ژرف بینی یا اسرار ازل کی گرہ کشائی کا جادو جگاتے ہیں۔ اسی طرح اقبال کا فردیت پر اصرار، عمل کی گرم جوشی، جرأت مندی، آفاق کی وسعتوں میں پرواز کا حوصلہ اور بے پایاں تحرک بھی ایک ایسے صوتیاتی نظام کا تقاضا کرتا ہے جو اس کی معنیاتی فضا سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ اس نظام کی اہمیت اس میں ہے کہ اگر اس میں باطنی ارتباط نہ ہو تو شاعری کی ساری معنیاتی فضا درہم برہم ہو جائے، اور وہ رنگ نہ بن سکے جسے شاعر کی آواز یا اس کے شعری مزاج سے تعبیر کرتے ہیں۔ اقبال کے بارے میں یہ بات عام طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ ان کی آواز میں ایک ایسا جادو، ایسی کشش اور نغمگی ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے لہجے میں ایسا شکوہ، توانائی، بے پایانی اور گونج کی ایسی کیفیت ہے جیسے کوئی چیز گنبد افلاک میں ابھرتی اور پھیلتی ہوئی چلی جائے۔ اس میں دل نشینی اور دلآدیزی کے ساتھ ساتھ ایک ایسی برش، روانی ، تندی اور چستی ہے جیسے سرود کے کسے ہوئے تاروں سے کوئی نغمہ پھوٹ بہا ہو یا کوئی پہاڑی چشمہ ابل رہا ہو۔ آخر اس فطری نغمگی کا صوتیاتی راز کیا ہے یا اس کا تعلق کن خاص آوازوں سے ہے۔ یہ راز اگر ہاتھ آ جائے تو اس سے اقبال کے پورے صوتیاتی نظام کی گرہ کھل سکتی ہے، لیکن اس کوشش میں: شکتی بھی شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے یا اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے یا ’’پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن‘‘ کے آخری اشعار میں من کی دنیا، تن کی دنیا اور دھن دولت کی دھوپ چھائوں والے اسلوب کو نظر انداز کرنا ہو گا کیونکہ یہ اقبال کے شعری اسلوب کا ایک رخ یا ایک پہلو تو ہے، کل اسلوب نہیں۔ چنانچہ پوری شاعری کے صوتیاتی مزاج کے تجزیے کے لیے اقبال کے اس کلام کو سامنے رکھنا چاہیے جس سے اقبال کے شعری مزاج کی پہچان ہوتی ہے یا پھر پورے کلام کا تجزیہ مختلف جگہوں سے یوں کرنا چاہیے کہ اس کی صوتیاتی روح تک ہماری رسائی ہو سکے۔ نامناسب نہ ہو گا اگر سب سے پہلے اقبال کی بعض شاہکار نظموں مثلاً مسجد قرطبہ، ذوق و شوق اور خضر راہ کو لیا جائے، اور دیکھا جائے کہ کیا صوتیاتی سطح پر ان میں کوئی چیز قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے: سلسلۂ روز و شب، نقش گر حادثات سلسلۂ روز وشب، اصل حیات و ممات سلسلۂ روز وشب، تار حریر دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفا ت سلسلۂ روز و شب، ساز ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر وبم ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلۂ روز و شب، صیرنی کائنات تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات تیرے شب و روز کی اور حقیقت کیا ہے ایک زمانے کی رو، جس میں نہ دن ہے نہ رات! آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات! اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا اس بند کی وہ یک نوعی آوازیں جو ذہن میں ایک چمک سی پیدا کرتی ہیں اور دیرپا اثر چھوڑتی ہیں درج ذیل ہیں: س ل س ل ر ز ش ش ح ث س ل س ل ر ز ش ص ل ح س ل س ل ر ز ش ر ح ر ر س س ہ ذ ز ص ف س ل س ل ر ز ش س ر ز ف غ س س ہ ذ ز ر ر ہ ر ہ س ل س ل ر ز ش ص ر ف ہ ر ر ہ ر ر ہ ر ر ہ ر ر ر ش ر ز ر ح ہ ز ر س ہ ر ف ز ہ ہ ر ہ ث ر ہ ث خ ر ف ظ ر ف ش ہ ہ ز ل خ ر ف = کل ۱۱۸ بار اوپر کے گوشوارے سے ظاہر ہے کہ ان میں زیادہ ترصفیری آوازیں ہیں یعنی ف س ش ز خ غ ہ۔ (ث ص ذ ض ظ یا ح کی آوازیں وہی ہیں جو س، ز،یاہ کی ہیں جو سب صفیری ہیں) ان کے علاوہ دونوں مصوتی مصمتوں یعنی ل اور ر کو بھی اس میں لے لیا گیا ہے کیونکہ یہ سب کے سب(Vocalic) یعنی مصوتی مصمتے یا مسلسل مصمتے کہلاتے ہیں، اس لیے کہ ان میں مصوتوں کی طرح تسلسل کی اور جاری رہنے اور پھیلنے کی کیفیت ہے۔ اس بند میں اگرچہ بندشی آوازوں میں سے ت کی تکرار قافیے کی وجہ سے ہوئی ہے اور ب اور ک کا نیزم اور ن کا بھی استعمال ملتا ہے، لیکن ان آوازوں کی تکرار اس پیمانے پر نہیں جس پیمانے پر صفیری یا مسلسل آوازوں کی تکرار ملتی ہے۔ بندشی آوازیں ہوا کی بندش سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے مقابلے پر صفیری اور مسلسل آوازوں میں فراوانی اور بے کرانی کا تاثر پیدا کرنے کی کہیں زیادہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ اردو مصمتوں میں بندشی آوازوں کی تعداد نصف سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں سے آدھے مصمتے سادہ ہیںا ور آدھے ہکار۔ سادہ آوازیں اکثر زبانوں میں ملتی ہیں اور بڑی حد تک مشترک ہیں۔ لیکن اردو کا امتیاز ہکار اور معکوسی آوازوں سے پیدا ہوتا ہے جو تعداد میں چودہ ہیں اور ان کے مقابلے میں صفیری اور مسلسل آوازیں تعداد میں صرف نو ہیں۔ اب اس روشنی میں اقبال کے یہاں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اوپر کے سولہ مصرعوں میں ہکار آوازیں صرف پانچ بار آئی ہیں جبکہ صفیری اور مسلسل آوازیں ایک سو اٹھارہ بار استعمال ہوئی ہیں! گویا ہکار آوازوں کا چلن نہ ہونے کے برابر ہے، اور وہ بھی صرف دو شعروں میں: ع جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات ع تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ یعنی ہکار آوازیں وہیں آئی ہیں جہاں ان کا استعمال ناگریز تھا یعنی ضمیر یا فعل میں اور یہ بات معلوم ہے کہ اردو کے افعال و ضمائر کا ڈھانچا سرتاسر زمینی ہے۔ اس بند کے نتائج پر یہ سوال بہر حال قائم کیا جا سکتا ہے کہ کہیں اس بند میں ان آوازوں کا وقوع کسی خاص وجہ سے تو نہیں، یا یہ محض اتفاقی تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں دھوکا ہو رہا ہو اور اقبال کے کلی صوتیاتی آہنگ سے ان نتائج کا کوئی بڑا تعلق نہ ہو۔ اس کا جواب دینے سے پہلے نظم کے دوسرے بندوں کے نتائج معلوم کر لینے چاہئیں۔ بند صفیری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوسی آوازیں پہلا بند ۱۱۸ ۵ دوسرا بند ۱۰۹ ۲ تیسرا بند ۱۱۸ ۳ چوتھا بند ۱۲۳ ۴ پانچواں بند ۱۱۲ ۳ چھٹا بند ۱۲۳ ۷ ساتواں بند ۱۱۶ ۹ صفیری آوازوں کے استعمال کی یہ صوتیاتی لے آخری بند تک میں ملتی ہے۔ یہاں ان اشعاروں کے پیش کرنے سے مراد یہی ہے کہ مصرعوں کو پڑھتے ہوئے ان آوازوں پر نظر رکھی جائے جو اس نظم کے صوتیاتی آہنگ میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور جن کے درو بست نے اس نظم کو معنیاتی اور صوتیاتی ہم آہنگی کا عجیب و غریب مرقع بنا دیا ہے۔ ذیل کے بند میں صفیری آوازیں ۱۱۳ بار اور ہکار صرف ۶ بار آئی ہیں: وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب! سادہ و پر سوز ہے دختر دہقاں کا گیت کشتیٔ دل کے لیے سیل ہے عہد شباب! آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب پردہ اٹھادوں اگر چہرہ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی روحِ امم کی حیات کشمکش انقلاب! صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام، خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام، خونِ جگر کے بغیر! (۱۱۳:۶) اس پوری نظم کا صوتیاتی تناسب حسب ذیل ہے: تعداد اشعار صفیری و مسلسل آوازیں ہکار و معکوس آوازیں ۶۴ ۹۳۱ ۳۹ گویا صفیری اور مسلسل آوازیں جو اردو میں ہکار و معکوس آوازوں سے تعداد میں خاصی کم ہیں (۹:۱۴) اقبال کے یہاں بیس گنا سے بھی زیادہ استعمال ہوئی ہیں۔ اس تجزیے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ صفیری اور مسلسل آوازوں کی کثرت اور ہکار و معکوسی آوازوں کا انتہائی قلیل استعمال ہی شاید وہ کلید ہے جس سے اقبال کے نہاں خانۂ آہنگ تک رسائی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اب اقبال کی بعض دوسری شاہکار نظموں پر بھی نظر ڈالنی ضروری ہے۔ ذوق و شوق کے ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں: قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندِّیاں رواں! حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں! سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب! کوہِ ضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں! گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھل گئے ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں! آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں! آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی ان اشعار سے بھی اسی بات کی توثیق ہوتی ہے جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ ہکار آوازیں صرف وہیں آئی ہیں جہاں فعل کی مجبوری ہے یا ایسے حروف میں جو اردو کی بنیادی لفظیات کا حصہ ہیں اور جن سے مفر نہیں۔ اس نظم کے باقی حصوں سے بھی اس مفروضے کی تصدیق ہو جاتی ہے جس کا ذکر ہم پہلے سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ذوق و شوق تعداد اشعار صفیری و مسلسل ہکار ومعکوسی ۳۰ ۴۵۱ ۲۳ یہ دونوں نظمیں بال جبریل سے تھیں۔ نامناسب نہ ہو گا اگر پہلے مجموعے بانگ درا سے خضر راہ کو بھی دیکھ لیا جائے جو ان نظموں سے بارہ تیرہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس کا آغاز شاعر اور خضر کے مکالمے سے ہوتا ہے جس کے بعد مختلف عنوانات قائم کر دیئے گئے ہیں۔ پہلے ایک بند پر نظر ڈال لی جائے۔ اس کے بعد پورا تجزیہ پیش کیا جائے گا۔ ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر گوشۂ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب! جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب! رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر انجم کم ضو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب! دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیکِ جہاں پیما خضر جس کی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرارِ ازل چشم دل وا ہو تو ہے تقدیرِ عالم بے حجاب! دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا خضر راہ تعداد اشعار صفیری و مسلسل ہکار و معکوسی ۸۵ ۱۲۱۵ ۸۷ اقبال کی دوسری مشہور نظموں میں ’’طلوع اسلام‘‘ ، ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ ، ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ اور ’’شعاع امید‘‘ میں بھی یہی کیفیت ملتی ہے۔ خضر راہ، مسجد قرطبہ اور ذوق و شوق کی طرح طلوع اسلام بھی ترکیب بند ہے۔ لینن خدا کے حضور میں مسلسل اور شعاع امید اور ابلیس کی مجلس شوریٰ بندوں میں منقسم نظمیں ہیں۔ ’’ساقی نامہ‘‘ البتہ مثنوی ہے جس میں مصرعوں کے ہم قافیہ ہونے کی وجہ سے افعال کا استعمال بڑھ گیا ہے، جس سے ہکار و معکوسی آوازوں کی تعداد پر بھی اثر پڑا ہے۔ اگرچہ یہ پوری مثنوی کی کیفیت نہیں ہے، تاہم ہکار و معکوسی آوازیں کہیں قافیہ ردیف کی مجبوری کی وجہ سے تو کہیں بیان کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے در آئی ہیں۔ یوں بھی ’’پھر‘‘ ، ’’بھی‘‘ ، ’’مجھ‘‘، ’’کچھ‘‘ ، ’’تھا‘‘ ، ’’تھی‘‘ بنیادی شعروں میں بھی کہیں کہیں ناگریز طور پر وارد ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کے مصرعے ملاحظ ہوں: ع گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمّات میں ع نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ع برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے ع تو آبجو اسے سمجھا اگرتو چارہ نہیں ع خودی میں ڈوبتے ہیں پھر ابھر بھی آتے ہیں ع خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ع اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک ع تری نگاہ فرو مایہ ہاتھ ہے کوتاہ ع گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا ع خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے ع جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی ع مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد ع آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خدا وندی ع مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب اقبال کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کے قلیل استعمال کی خصوصیت کو ذہن نشین کرنے کے لیے اقبال کا تقابل کسی ایسے شاعر سے کرنا ضروری ہے جس کا پیرایۂ بیان بول چال کی زبان سے قریب ہو اور جس کے یہاں ہکار اور معکوسی آوازوں کا استعمال فطری طور پر ہوا ہو۔ اس سے یہ اندازہ بھی کیا جا سکے گا کہ اردو میں ان آوازوں کے فطری استعمال کا اوسط کیا ہے اور کیا اقبال کے یہاں اس سے واقعی کوئی انحراف ملتا ہے۔ اس سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ ہمارے بڑے شاعروں میں بول چال کی زبان سے قریب ہونے کا شرف میر تقی میر کو حاصل ہے۔ ان کے یہاں سینکڑوں غزلیں ایسی ہیں جن کے ردیف و قوانی میں بھی ہکار و معکوسی آوازیں آزادانہ استعمال ہوئی ہیں: ہم تو اک آدھ گھڑی اٹھ کے جدا بیٹھیں گے… کھا بیٹھیں گے، چھپا بیٹھیں گے میر جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ…سمجھا کچھ، ٹھہرا کچھ بودنقش و نگار سا ہے کچھ…اعتبار سا ہے کچھ، پیار سا ہے کچھ موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا… دفتر نکلا خوش وہ کہ اٹھ گئے ہیں داماں جھٹک جھٹک کر…کھٹک کھٹک کر، مٹک مٹک کر دل جو تھا اک آبلہ پھوٹا گیا…کوٹا گیا، چھوٹا گیا بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا…توڑا، تھوڑا میر کے یہاں ایسی غزلیں بھی ہیں جوڑ پر یاٹ پر ختم ہوتی ہیں: آشوب دیکھ چشم تری سر رہے ہیں جوڑ…موڑ موڑ ، پھوڑ پھوڑ ہوا ہے خواب سونا آہ اس کروٹ سے اس کروٹ…لٹ لٹ، کھٹ کھٹ دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ…نٹ کھٹ، جمگھٹ لیکن اگر صرف ایسی غزلوں کو سامنے رکھا جائے تو نتائج مبالغہ آمیز نکلیں گے۔ کیونکہ اول تو قافیے اور ردیف میں آوازوں کے استعمال کے شعوری ہونے کا امکان ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ ایک بار جب ایسی آوازیں مطلع کے قافیے ردیف میں آ پڑیں تو باقی اشعار میں ان کا التزام واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اگر صرف ایسی غزلوں کا تجزیہ کیا جائے تو میر کے کلام میں ان آوازوں کے تناسب کی نہایت مبالغہ آمیز تصویر سامنے آئے گی۔ بہتر یہ ہے کہ بعض دوسری غزلوں کو لیا جائے اور ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کو ردیف و قوافی سے ہٹ کر دیکھا جائے: تعداد اشعار ہکار معکوسی آوازیں الٹی ہو گئیں سب تدبریں کچھ نہ دوانے کا کام کیا ۱۵ ۲۴ کچھ کرو فکر مجھ دِوانے کی ۹ ۱۴ چپکے چپکے میر جی تم اٹھ کر پھرکیدھر چلے ۹ ۲۷ ۳۳ ۶۵ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ میر کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا تناسب تقریباً دو آوازفی شعر ہے۔ پورے کلیات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ تناسب کچھ زیادہ ہی نکلے گا، اس سے کم ہرگز نہیں۔ اس سلسلے میں کلام غالب کو دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، اختصار کی خاطر ہم نے غالب کی غزلوں کے اتفاقی تجزیے پر اکتفا کیا جس کی تفصیل حاشیے میں درج ہے (۱) اس تجزیے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ غالب کے اکیانوے اشعار میں معکوسیٔ اور ہکار آوازیں نواسی بار آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کے یہاں بھی جنھیں اپنے گفتہ فارسی اور مستعار ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ پر ناز تھا، ان آوازوں کے استعمال کا تناسب تقریباً ایک آواز فی شعر ہے۔ میر اور غالب کے اس تناظر میں دیکھیے تو ان آوازوں کے استعمال کے سلسلے میں اقبال کی صوتی انفرادیت کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے: میر: ہکار و معکوسی آوازیں فی شعر ۳ غالب : ہکار و معکوسی آوازیں فی شعر ۱ اقبال: ہکار و معکوسی آوازیں فی شعر ایک سے کم ان نتائج سے ظاہر ہے کہ میر جن کے ہاں ہکار و معکوسی آوازوں کا استعمال تقریباً فطری ہے، ان کی بہ نسبت غالب کے یہاں ان آوازوں کا استعمال آدھا اور اقبال کے یہاں سب سے کم ہے۔ ان نتائج کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شاید اقبال کے یہاں ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کا تناسب اردو شاعری میں سب سے قلیل ہے۔ اب اس کو صفیری و مسلسل آوازوں کے استعمال سے ملا کر دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ عربی فارسی لفظیات کا ذخیرہ جو اقبال کا سرمایۂ امتیاز ہے، وہی غالب کے لیے بھی وجہ افتخار تھا، لیکن مشترک سرچشمہ لفظیات کے باوصف دونوں کے یہاں اس کے پہلو بہ پہلو ہکار و معکوسی آوازوں کے استعمال کی کیفیت میں خاصا فرق ہے۔ غالب کے صوتی آہنگ کا تجزیہ کرتے ہوئے پروفیسر مسعود حسین نے ان کے یہاں صفیری آوازوں کے استعمال پر بجا طور پر ز ور دیا ہے۔ ان کا بیان ہے ’’ان (غالب) کی فارسی گوئی اور فارسی دانی کا اثر ان کے ریختے پر بھی نمایاں ہے۔ اردو شعر کی زبان کو انھوں نے ذوق کی محاورہ بندی سے نکال کر عجمی لالہ زاروں میں لاکھڑا کیا(۲)‘‘ غالب اور اقبال میں یہ خصوصیت مشترک ہے۔ اقبال کے رموز و علائم میں بڑی تعداد ایسے الفاظ کی ہے جن میں صفیری اور مسلسل آوازیں نمایاں طور پر استعمال ہوتی ہیں، یا پھر ایسی آوازیں آئی ہیں جو منہ کے اگلے حصوں میں ادا ہوتی ہیں: شاہین مشرق شمع وشاعر شعاع روشنی شفق شعلہ فقر فرشتے فرمان فقیہہ خودی و خدا قل و عشق ارض و سما ذوق و شوق زمان و مکاں سوز وسامان درد و داغ جستجو و آرزو شہید جستجو شکروشکایت تسلیم و رضا ابلیس و آدم نیسان وصدف زیست مسجد ملا مدرسہ صوفی خانقاہ کلیسا مرد مومن شمشیر وسناں طائوس و رباب نرگس نالۂ بلبل لالۂ صحرا چراغ لالہ اس خصوصیت کی توثیق ان لفظوں سے بھی ہوتی ہے جہاں اقبال کئی لفظوں کے معنوی سیٹ میں ایک کا انتخاب کرتے ہیں، مثلاَ وہ شہباز اور عقاب پر شاہین کو ترجیح دیتے ہیں یا جنت، بہشت اور فردوس میں سے فردوس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، یا شمس، خورشید اور آفتاب میں سے وہ زیادہ آفتاب کے حق میں ہیں۔ (اگرچہ اس انتخاب میں طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں کا بھی ہاتھ ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا) یہاں اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ صفیری و مسلسل آوازوں کا استعمال تو غالب کے یہاں بھی کثرت سے ہوا ہے، لیکن اقبال کی لے حرکی اور رجائی ہے جبکہ غالب کا تفکر حزنیہ ہے اور اس میں الم ناکی کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کے اظہار میں منہ کے اگلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں کے بجائے منہ کے پچھلے حصوں سے ادا ہونے والی آوازوں یا مسموع آوازوں سے مدد ملی ہے، مثلاً ذیل کے اجزائے کلام غالب کے پسندیدہ الفاظ ہیں اور ان میں گ، ج ، د، غ، ب، اور م کی جو نمایاں حیثیت ہے وہ ظاہر ہے: دل و جگر زخم جگر جگر داری کا دعویٰ دعوت مژگان نگاہ بے محابا بت بیداد گر ستم گرجاں غم گسار غارت گر جنس وفا دود چراغ محفل داغِ دل درد بے دوا مرگِ تمنا رگِ جاں رگِ سنگ سنگِ گراں بوئے گل گلِ نغمہ موجِ محیطِ بے خودی سیلاب گریہ سیلاب بلا حلقۂ گرداب بندغم ساغرِ مے خانہ نیرنگ رنجِ نومیدیٔ جاوید تغافل ہائے ساقی غم آوارگی ہائے صبا غالب اور اقبال کے صوتیاتی آہنگ کا بنیادی فرق مصمتوں سے زیادہ مصوتوں کے استعمال میں کھلتا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین نے صحیح اشارہ کیا ہے ’’غالب کا کمال لفظ اور ترکیب میں ظاہر ہوتا ہے صوتی آہنگ میں نہیں۔ وہ لفظ کی تہ داری اور ترکیب کی پہلوداری سے اکثر اوقات صوتی آہنگ کی کمی کو چھپا لے جاتے ہیں‘‘ (۳)اقبال کے یہاں یہ کیفیت نہیں۔ ان کے یہاں صوتی آہنگ کی کمی کا احساس قطعاً نہیں ہوتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی کہ ان کے اشعار کو کہیں سے پڑھیے، ان میں عجیب و غریب نغمگی کا احساس ہو گا، گویا لفظوں میں موسیقی سموئی ہوئی ہے۔ آخر غالب کے صوتی آہنگ کی وہ کون سی کمی ہے جو اقبال کی آواز تک پہنچ کر دور ہو گئی ہے۔ اتنی بات معلوم ہے کہ غالب کا فن معنی آفرینی کا رمزیہ فن ہے۔ ان کا فنی سانچا غزل کا شعر یعنی دو مصرعوں کی محض ذرا سی زمین ہے جس میں وہ جہاں معنی آباد کر دیتے ہیں۔ اگرچہ اقبال کی شاعری بھی رمزیہ امکانات رکھتی ہے لیکن ترغیب عمل کی پیغامی شاعری ہونے کی وجہ سے اس کے فنی سانچے وسیع ہیں۔ اقبال کی اکثر غزلوں میں بھی نظموں کے تسلسل کا لطف ہے۔ غالب کے یہاں رمزیہ فنی رویے کی وجہ سے نحوی ڈھانچے میں خاصی تخفیف ہو گئی ہے اور افعال تو خاصے نچڑ کر سامنے آتے ہیں۔ اس اختصار و تخفیف کا منفی اثر خاص طور پر طویل مصوتوں اور غنائی مصوتوں پر ہوا ہے۔ اقبال کے یہاںا ظہاری وسعت اور ربط بیان کی وجہ سے اکثر فعل اور کلمے کے دیگر لوازم بغیر تخفیف کے نظم ہوئے ہیں، اور ان کی وجہ سے طویل مصوتوں کی فراوانی پیدا ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پر کلیات اقبال سے ایک اتفاقی تجزیے کے بیس اشعار میں طویل یا غنائی مصوتے ۳۳۶ بار آئے ہیں۔ یعنی اقبال کے یہاں طویل غنائی مصوتوں کا اوسط فی شعر ۸ء ۱۶ ہوا (۴)۔ اس اوسط کی توثیق کے لیے اقبال کی کسی دو غزلوں پر بھی نظر ڈالی گئی: کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں: سات شعر :۱۱۷ طویل مصوتے: اوسط ۷ئ۱۶ اگر کج روہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا : پانچ شعر:۱۰۲ طویل مصوتے : اوسط ۴ئ۲۰ اس سے ثابت ہے کہ اقبال کے یہاں فی شعر کم از کم سولہ طویل مصوتوں کے استعمال کا امکان ہے۔ اس اعتبار سے غالب کا کلام دیکھیے تو مایوسی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دیوان غالب کے اتفاقی تجزیے ہے جو اوسط ہاتھ آتا ہے، وہ ۶ء طویل مصوتے فی شعر کا ہے(۵)۔ ذیل کی غزلوں کے اوسط سے اسے مزید جانچا گیا: نے گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز :اشعار ۹ : طویل مصوتے ۸۸ سادگی پر اس کے مرجانے کی حسرت دل میں ہے : اشعار ۷ : طویل مصوتے ۹۸ دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی : اشعار ۹ : طویل مصوتے ۹۹ ۲۵ ۲۸۵ اوسط فی شعر ۱۱ گویا غالب کے یہاں طویل مصوتوں کے وقوع کا امکان گیارہ سے بارہ طویل مصوتے فی شعر سے زیادہ کا نہیں۔ غالب کی جس کم آہنگی کا ذکر پروفیسر مسعود حسین نے کیا ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی ایک وجہ طویل مصوتوں کی کفایت ہو۔ لیکن ابھی اس بارے میں پوری تصویر سامنے نہیں آئی۔ غالب کے یہاں طویل مصوتوں کی کفایت اور اقبال کے یہاں ان کی فراوانی کا پورا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے۔ جب اس بارے میں میر کا اوسط بھی سامنے ہو: الٹی ہو گئیں سب تدبیریں …… : اشعار ۱۵ : طویل مصوتے ۲۸۲ کچھ کرو فکر …………… :اشعار ۹ : طویل مصوتے ۱۰۱ سختیاں کھنچیں سو کھینچیں………: اشعار ۹ : طویل مصوتے ۱۴۰ ۳۳ ۵۲۳ اب ان تینوں شاعروں کے یہاں طویل مصوتوں کے استعمال کی جو تصویر مرتب ہوتی ہے وہ یوں ہے: میر ۱۶ طویل مصوتے فی شعر غالب ۱۱ طویل مصوتے فی شعر اقبال ۱۶ طویل مصوتے فی شعر اس تقابلی تجزیے سے یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طویل مصوتوں کے معاملے میں اقبال غالب سے خاصے آگے ہیں اور میر کے ہم پلہ ہیں۔ اتنی بات واضح ہے کہ جہاں طویل مصوتوں کی فراوانی ہو گی، غنائی مصوتوں کی کثرت بھی وہیں ہو گی، کیونکہ اردو کا ایک عام رجحان ہے کہ غنیت صرف طویل مصوتوں ہی کے ساتھ وارد ہوتی ہے۔ نغمگی کے لیے طویل مصوتوں کے ساتھ ساتھ غنائی مصوتوں کی جواہمیت ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ اقبال کا کمال جس نے ان کے صوتیاتی آہنگ کو اردو شعریات کا عجوبہ بنا دیا ہے، دراصل یہ ہے کہ طویل و غنائی مصوتوں کی زمینی کیفیات اقبال کے یہاں زناٹے دار، صفیری و سلسلہ دار ’’مسلسل‘‘ آوازوں کی آسمانی کیفیات کے ساتھ مربوط و ممزوج ہو کر سامنے آتی ہیں۔ اقبال کے یہاں صفیری و مسلسل آوازوں اور طویل و غنائی مصوتوں کا یہ ربط و امتزاج ایک ایسی صوتیاتی سطح پیش کرتا ہے جس کی دوسری نظیر اردو میں نہیں ملتی۔ اصوات کی اس خوش امتزاجی نے اقبال کے صوتیاتی آہنگ کو ایسی دلآویزی ، توانائی ، شکوہ اور آفاق میں سلسلہ در سلسلہ پھیلنے والی ایسی گونج عطا کی ہے جو اپنے تحرک و تموج اور امنگ و ولولے کے اعتبار سے بجا طور پر یزداں گیر کہی جا سکتی ہے۔ اقبال کا فن، ایجوکیشنل پبلشرز دہلی،۱۹۸۳ء حواشی ۱۔ دیوان غالب طبع برلن ص ۳۱،۳۰ تعداد اشعار ۱۳ ہکار و معکوسی آوازیں ۲۱ ۵۳،۵۲ ۱۳ ۱۱ ۶۵،۶۴ ۱۳ ۵ ۱۰۱،۱۰۰ ۱۳ ۱۴ ۱۲۳،۱۲۲ ۱۳ ۱۷ ۱۶۱،۱۶۰ ۱۳ ۱۵ ۲۰۱،۲۰۰ ۱۳ ۶ ۸۹ ۲۔ مسعود حسین خاں ’’غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سیمنار ۱۹۶۹ء ص ۲۰۷۔ ۳۔ مسعود حسین خاں ’’غالب کے اردو کلام کا صوتی آہنگ‘‘ مشمولہ بین الاقوامی غالب سیمینار ۱۹۶۹ء ص ۲۰۵ء ۴۔ کلیات اقبال اردو، طبع غلام علی، لاہور، ص ۷۰ ، ۷۱، ۱۴۰، ۱۴۱، ۲۱۰، ۲۱۱، ۲۸۰، ۳۵۰، ۳۵۱، ۴۲۲، ۴۲۳، ۴۹۰، ۴۹۱، ۵۶۲، ۵۶۳، ۶۳۰، ۶۳۱، ۶۷۸، ۶۷۹ (طویل / غنائی مصوتے ۲۲ + ۱۹+ ۲۳+ ۱۸+ ۱۴ + ۱۳+ ۱۶+ ۲۰+ ۱۸+ ۱۹+ ۱۹+ ۱۷+ ۱۳+۱۳+ ۱۳+ ۱۷+ ۱۶+ ۱۶+ ۱۴+ ۱۶ کل ۳۳۶ بیس اشعار ہیں۔ اوسط فی شعر ۸ ٔ ۱۶ ۵۔ دیوان غالب طبع برلن ۱۱، ۱۰، ۱۱، ۱۴، ۱۰ ۱۲، ۹، ۱۲، ۱۴، ۱۳ کل تعداد ۱۱۶ اشعار ۱۰ اوسط ۶ ٔ ۱۱ فی شعر اقبال کی اُردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ہم نے جہاں اُردو تنقید میں انگریزی سے بہت استفادہ کیا ہے، وہیں اس استفادے میں کچھ ٹھوکریں بھی کھائی ہیں۔ انگریزی میں ہیئت اور صنف دونوں کے لیے ایک ہی لفظ مستعمل ہے، اور وہ ہے فارم (Form) مگر اُردو میں ہیئت اور صنف کے الفاظ الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ بہت سے زود نویس نقادوں نے اکثر ہیئت اور صنف کو متبادل الفاظ سمجھ کر استعمال کیا ہے، حالانکہ یہ درست نہیں، اور میں مضمون کے شروع میں ہی یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہیئت اور صنف دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ ہیئت کسی نظم کی ظاہری شکل و صورت کو کہتے ہیں؛ جیسے مثلث، مربع، مخمّس، مسّدس، مثمّن، معشّر، ترکیب بند، ترجیع بند وغیرہ۔ اور یہ ساری شکلیں، ترتیبِ قوافی سے پہچانی جاتی ہیں اور مواد یاموضوع کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس کے برخلاف ’’صنف‘‘ کا مطلب نوع اور قسم وغیرہ ہے؛جیسے غزل، قطعہ، قصیدہ اور رباعی وغیرہ۔ ہیئت کے مقابلے میں صنف ایک وسیع تر لفظ ہے۔ چنانچہ اصناف یعنی غزل، قصیدے، رباعی اور قطعے وغیرہ کو ظاہری شکل کے علاوہ بعض دوسری خصوصیات کی بنا پر بھی شناخت کیا جاتا ہے۔ حالانکہ غزل، قصیدہ اور قطعہ ظاہری شکل میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں مگر بعض داخلی خوبیوں کی وجہ سے اُنہیں الگ الگ اصناف کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہیئت ظاہری شکل ہے مگر صنف ظاہری شکل اور داخلی خصویات کا مجموعہ ہے۔ دوسری بات بھی، جسے میں شروع ہی میں واضح کر دینا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ کسی صنف میں تجربے سے مراد داخلی خصوصیات یا موضوع میں تبدیلی ہوتی ہے، ظاہری شکل میں تبدیلی نہیں۔ مثال کے طور پر غزل کی صنف میں موضوع اور اسلوب کے بہت سے تجربات ہوئے ہیں مگر اس کی ترتیبِ قوافی جوں کی توں قائم رہی ہے۔ اس کے برخلاف اگر ایک ہیئت میں تبدیلی کی جائے تو وہ فوراً کسی دوسری ہیئت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کے بارے میں ہم اکثر یہ سنتے آئے ہیں کہ ’’موضوع اور مواد میں وہ روایتی شاعری سے الگ ہٹے ہوئے ہیں مگر ہئیتوں میں اُنہوں نے روایت سے سرمو انحراف نہیں کیا۔‘‘ یہ بات درست نہیں ہے۔ ان کے ہاں متعدد نظمیں ایسی ملتی ہیں جن میں روایتی ہئیتوں کو ترک کر کے نئی ہیئتیں تراشی گئی ہیں، مگر ان نظموں کی طرف آج تک کسی نقاد نے توجہ نہیں کی۔ اس معاملے میں آدھا قصور تو سطحی نظر سے پڑھنے والے اور آنکھ بند کر کے لکھنے والے نقادوں کا ہے اور آدھا قصور خود اقبال کا۔ کوتاہ اندیش نقاد تو شاید معذور ہیں لیکن اقبال بے چارے کسرِ نفسی کا شکار ہوئے ہیں: نہ بینی خیر ازاں مردِ فرو دست کہ بر من تہمتِ شعر و سخن بست ’’شاعری بحیثیتِ فن کبھی میرا مطمعِ نظر نہیں رہا۔‘‘ اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات ــــــــــــ نغمۂ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست سوئے قطار مے کشم ناقۂ بے زمام را اس قسم کے بیانات سے اقبال کا مقصد یہ تھا کہ لوگ ان کے کلام میں شعری نفاستیں ہی تلاش کرتے نہ رہ جائیں کیونکہ اُنہیں احساس تھا کہ اُن کے ہاں فنی باریکیاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ اس خوف نے کہیں کہیں انکسار کی صورت بھی اختیار کر لی ہے اور اُنہوں نے اپنے کلام میں اپنے افکار کے مقابلے میں فنی اہمیت کو بہت گھٹا کر پیش کیا ہے، جس سے بے شمار لوگ گمراہ ہوئے ہیں۔ مگر میں یہ کہوں گا کہ اقبال اتنا ہی بڑا مفکر ہے جتنا بڑا فن کار اور فنکار اقبال اپنے افکار کو پیش کرنے کے لیے نئی نئی شعری شکلیں تراشتا رہا ہے۔ اقبال کے ہاں جن روایتی ہئیتوں کا استعمال زیادہ ہے، وہ مثنوی، مسدس اور ترکیب بند ہیں مگر ان روایتی ہئیتوں کے درمیان اقبال کی طبع زاد ہیئتیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ ان نئی ہئیتوں میں سے بعض تو بالکل نادر ہیں مگر بیشتر پرانی ہئیتوں کے باہمی امتزاج یا جزوی ترمیم سے تراشی گئی ہیں۔ ہیئت کے تجربے سب سے زیادہ بانگِ درا میںہیں۔ اس کی سترہ نظمیں روایتی ہئیتوں سے مختلف ہیں۔ بالِ جبریل میں ایسی نظموں کی تعداد سات ہے اور ضربِ کلیم میں آٹھ۔ ارمغانِ حجاز میں اُردو نظموں کا حصہ بہت کم ہے مگر اس میں بھی تین نظمیں ہیئت کے اعتبار سے تجربات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس طرح اقبال کے اُردو کلام میں بحیثیتِ مجموعی پینتیس نظمیں ہیئت کے تجربات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور یہ تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جن شاعروں کی کُل کائنات ہی ہیئت کے تجربات ہیں، ان کے ہاں بھی غیرروایتی ہیٔتیں اس بڑی تعداد تک نہیںپہنچتیں۔ اب اقبال کے کلام میں ہیئت کے بعض تجربات پر ایک نظر ڈالیے۔ بعض اوقات اقبال کسی ایک نظم میں دو یا تین مختلف ہیئتوں کو جمع کر دیتے ہیں۔ مثلاً کہیں ترکیب بند اور مثمّن کو ملا دیا ہے، کہیں مثنوی اور مسّدس کا امتزاج کر دیا ہے، کہیں ایک ہی نظم میں مثنوی، ترکیب بند اور قطعے کو جمع کر دیا ہے۔ اس طرح کی چند نظمیں ملاحظہ ہوں۔ سب سے پہلے بانگِ درا کی نظم ’’غرّئہ شوال یا ہلالِ عید‘‘ ملاحظہ فرمایے غُرّۂِ شوال اے نورِ نگاہِ روزہ دار آ، کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار تیری پیشانی پہ تحریرِ پیامِ عید ہے شام تیری کیا ہے، صبحِ عیش کی تمہید ہے سرگذشتِ ملتِ بیضا کا تُو آئینہ ہے اے مہِ نو! ہم کو تجھ سے اُلفتِ دیرینہ ہے اسی طرح مثنوی کی سی ترتیبِ قوافی میں سات اشعار رقم کیے گئے ہیں۔ ساتویں شعر میں چاند سے یوں خطاب کیا گیاہے: اوجِ گردوں سے ذرا دُنیا کی بستی دیکھ لے اپنی رفعت سے ہمارے گھر کی پستی دیکھ لے اس شعر کے بعد نظم کی ہیئت تبدیل ہو گئی ہے اور مثنوی کی بجائے ترکیب بند کا ایک بند تحریر کر دیا گیا ہے: قافلے دیکھ اور اُن کی برق رفتاری بھی دیکھ رہروِ درماندہ کی منزل سے بیزاری بھی دیکھ دیکھ کر تجھ کو اُفق پر ہم لٹاتے تھے گہر اے تہی ساغر! ہماری آج ناداری بھی دیکھ دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیحِ شیخ بت کدے میں برہمن کی پختہ زُنّاری بھی دیکھ بارشِ سنگِ حوادث کا تماشائی بھی ہو اُمّتِ مرحوم کی آئینہ دیواری بھی دیکھ اور آخری شعر ہے: صورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ، اور خاموش رہ شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ اس طرح نظم ’’بزمِ انجم‘‘ میں پہلے دو بند ’’ترکیب بند‘‘ کے انداز میں لکھے گئے ہیں اور آخری بند قطعے کی ہیئت میں ہے کیونکہ اس میں اختتامی بیت موجود نہیں ہے۔ اقبال کے ہاں ہیئت کو تبدیل کرنے کا ایک اور طریقہ بھی رائج ہے؛ وہ یہ کہ مثنوی کی ہیئت میں نظم لکھتے لکھتے جہاں خیال کی لہر میں تیزی آئی، وہاں ایک مسدس کا بند آ گیا۔ چونکہ مسدس کے بند کے پہلے چار مصرعوں میں چار قافیے یکے بعد دیگرے آتے ہیں، اس لیے تیزی کا تاثر قافیے کی ترتیب سے بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس کی عمدہ مثال ’’گورستانِ شاہی‘‘ میں ہے جو مثنوی کی ہیئت میں لکھی گئی ہے: آسماں بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے کچھ مکّدر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارئہ خاموش میں صبحِ صادق سو رہی ہے، رات کی آغوش میں اس ترتیبِ قوافی میں بائیس اشعار کے بعد اچانک مسدس کا یہ بند آ جاتا ہے: شورشِ بزمِ طرب کیا، عود کی تقدیر کیا درد مندانِ جہاں کا نالۂ شبگیر کیا عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا خون کو گرمانے والا نعرئہ تکبیر کیا اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں سینۂ ویراں میں جانِ رفتہ آ سکتی نہیں نظم ’’ستارہ‘‘ کا پہلا بند بالکل مثمّن کا بند معلوم ہوتا ہے مگر دوسرا بند ترکیب بند کا ہے: قمر کا خوف کہ ہے خطرئہ سحر تجھ کو مآلِ حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو؟ متاعِ نور کے لُٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو؟ ہے کیا ہراسِ فنا صورتِ شرر تجھ کو؟ زمیں سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو مثالِ ماہ اُڑھائی قبائے زر تجھ کو غضب ہے پھر تری ننھی سی جان ڈرتی ہے تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے! دوسرے بند میں قافیے کی ترتیب کا اختلاف دیکھیے۔ مگر ذہن میں رہے کہ پہلے بند کے ابتدائی چھ مصرعے ہم قافیہ ہیں جبکہ دوسرے بند میں یہ صورت باقی نہیں رہی: چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے جو اَوج ایک کا ہے، دوسرے کی پستی ہے اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اِک ولایتِ مہر فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے وِداعِ غنچہ میں ہے رازِ آفرینشِ گل عدم عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اب بانگِ درا ہی سے ایک اور نظم ملاحظہ فرمایئے۔ اس میں قافیوں کی ترتیب کا ایک نرالا تجربہ کیا گیا ہے۔ نظم کا عنوان ’’حسن و عشق‘‘ ہے۔ یہ نظم تین بندوں پر مشتمل ہے اور ہر بند سات مصرعوں پر۔ سات مصرعوں کا بند لکھنے کا رواج اُردو میں نہیں ہے۔ اور پھر ترتیبِ قوافی دیکھیے تو اور بھی نادر ہے۔ ہر بند میں چھ مصرعے (تین شعر) مثنوی کے انداز میں لکھے گئے ہیں اور ساتواں مصرع الگ۔ ہر بند کا ساتواں مصرع ہم قافیہ ہے: جس طرح ڈوبتی ہے کشتیٔ سیمینِ قمر نورِ خورشید کے طوفان میں ہنگامِ سحر جیسے ہو جاتا ہے گم، نور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہمرنگ کنول جلوئہ طور میں جیسے یدِ بیضائے کلیم موجۂ نکہت گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیلِ محبت میں یونہی دل میرا تو جو محفل ہے تو ہنگامۂ محفل ہوں میں حسن کی برق ہے تُو، عشق کا حاصل ہوں میں تو سحر ہے تو مرے اشک ہیں شبنم تیری شامِ غربت ہوں اگر میں، تو شفق تُو میری مرے دل میں تری زلفوں کی پریشانی ہے تری تصویر سے پیدا مری حیرانی ہے حسنِ کامل ہے ترا، عشق ہے کامل میرا ان کے علاوہ بانگِ درا کی بعض اَور نظمیں؛ مثلاً پرندے کی فریاد، گلِ پژمردہ، اخترِ صبح، نوائے غم، انسان، فلسفۂ غم، بزمِ انجم، ’’میں اور تُو‘‘ اور عرفی وغیرہ بھی ہیئت کے بعض تجربات کی وجہ سے قابلِ ذکر ہیں۔ بالِ جبریل میں ان تجربات نے ایک مختلف صورت اختیار کر لی ہے۔ اس میں اقبال نے بعض نظمیں کئی کئی حصوں میں لکھی ہیں اور ہر حصے کے ذیلی عنوان قائم کیے ہیں۔ مختلف حصوں میں نہ صرف ہیئت کا فرق نظر آتا ہے بلکہ ان کی بحر بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کا آغاز بانگِ درا کی ایک نظم ’’رات اور شاعر‘‘ سے ہوا تھا۔ اس نظم کے دو حصے ہیں۔ دونوں کے ذیلی عنوان ’’رات‘‘ اور ’’شاعر‘‘ ہیں۔ اگرچہ اس نظم میں ہیئت مثنوی کی اختیار کی گئی ہے مگر دونوں حصوں میں بحر مختلف ہے۔ رات یوں شاعر سے مخاطب ہوتی ہے: کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں خاموش صورتِ گل، مانندِ بُو پریشاں مگر شاعر دوسری بحر میں یوں گویا ہوتا ہے: میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں چھپ کے انسانوں سے مانندِ سحر روتا ہوں بالِ جبریل میں ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘، ’’فرشتوں کا گیت‘‘ اور ’’فرمانِ خدا‘‘ ایک ہی ڈرامائی نظم کے تین حصے ہیں۔ ان میں کہیں بحر مختلف ہے اور کہیں ہیئت۔ یہی کیفیت اُس نظم کی ہے، جس کے دو ذیلی عنوان ہیں: ’’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘‘ اور ’’روحِ ارضی آدم ؑ کا استقبال کرتی ہے‘‘۔ پہلا حصہ قطعے کی ہیئت میں ہے اور دوسرا مخمس کی ہیئت میں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال ’’یورپ سے ایک خط اور جواب‘‘ کی ہے۔ ایسی نظموں میں ہیئتوں اور بحروں کی تبدیلی سے اقبال مختلف کرداروں کے مزاج کا فرق واضح کرنا چاہتے ہیں۔ بالِ جبریل کی دو اور نظمیں ایسی ہیں، جن کا ذکر کیے بغیر موضوع تشنہ رہے گا۔ ایک نظم کا عنوان ہے ’’ایک نوجوان کے نام‘‘ بظاہر تو یہ نظم مسدس معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کے دو بند ہیں اور ہر بند چھ مصرعوں پر مشمل ہے، لیکن اس کے قافیوں کی ترتیب مسدس سے مختلف واقع ہوئی ہے: ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا، شکوہِ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل؟ نہ زورِ حیدری تجھ میں، نہ استغناے سلمانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیبِ حاضر کی تجلّی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراجِ مسلمانی لہٰذا ترتیبِ قوافی کے لحاظ سے اُسے قطعہ کہنا چاہیے۔ اب دوسرا بند ملاحظہ ہو: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے اُمیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر تُو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں یہ بند بھی ترتیبِ قوافی کے لحاظ سے قطعہ ہے۔ لیکن روایتی ہیئتوں میں کسی ایک نظم میں اوپر تلے ایک ہی بحر کے قطعات لکھنے کا رواج نہیں ہے۔ یہ طریقہ مسدس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے اس نظم کے بارے میں کہنا چاہیے کہ اس میں مسدس اور قطعے کی ہیئتوں کا امتزاج ہے۔ دوسری نظم کا نام ہے ’’فقر‘‘۔ اس نظم کے قافیوں کی ترتیب کا خیال اقبال کو شاید پنجابی شاعری کی بعض کتابوں سے ہوا ہے۔ مثلاً ’’ہیر وارث شاہ‘‘ میں ایک بند میں جتنے بھی مصرعے لکھے جائیں، وہ سب آپس میں ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ اقبال نے قافیوں کا یہی انداز اس نظم میں اختیار کر لیا ہے۔ اُردو نظم میں قافیوں کی یہ ترتیب بھی موجود نہیں ہے: اِک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اِک فقر سے مٹی میں خاصیّتِ اکسیری اِک فقر سے شبیری، اِک فقر میں ہے میری میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیری ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں بھی ہیئت کے یہ تجربے برابر ملتے ہیں لیکن ان کتابوں میں سے بالخصوص چند نظموں کا حوالہ کافی رہے گا۔ اقبال کے ہاں آہنگ اس قدر تند و تیز ہے کہ سارے اُردو ادب میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ترانوں وغیرہ کی قسم کی نظموں کا ضروری جز آہنگ ہے۔ ایسا پُرجوش آہنگ جو پڑھنے والے کو بیدار کریـ۔ اس انداز میں اقبال نے دو نظمیں لکھی ہیں۔ ضربِ کلیم کی نظم ہے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘: رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان تو بھی اے فرزندِ کہستاں! اپنی خودی پہچان اپنی خودی پہچان او غافل افغان اونچی جس کی لہر نہیں ہے، وہ کیسا دریا جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں، وہ کیسا طوفان اپنی خودی پہچان او غافل افغان تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج عالم فاضل بیچ رہے ہیں، اپنا دین ایمان اپنی خودی پہچان او غافل افغان اس نظم کے ہر بند کو چار مصرعوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر بند کے پہلے دونوں مصرعے سات سات ارکان کے ہیں اور بعد کے دو مصرعے تین تین ارکان کے۔ اس نظم کے پانچ بند ہیں۔ ان پانچوں بندوں کے تین تین ارکان والے مصرعے ترجیع کے مصرعے ہیں۔ یعنی بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ پانچوں بندوں کے پہلے دو دو مصرعے آپس میں قطعے کی ہیئت رکھتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ نظم مربع، قطعہ بند اور ترجیع بند کی ترکیب سے اختراع کی گئی ہے۔ ارمغانِ حجاز میں ’’مُلّا زادہ ضیغم لولائی کشمیری کا بیاض ‘‘ بھی قابلِ غور ہیں۔ پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغانِ سحر تیری فضائوں میں ہیں بے تاب اے وادیٔ لولاب گر صاحبِ ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندئہ مومن کے لیے موت ہے یا خواب اے وادیٔ لولاب مُلّا کی نظر نورِ فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانۂ صوفی کے مئے ناب اے وادیٔ لولاب اس نظم کے چھے بند ہیں۔ ہر بند تین مصرعوں کا ہے۔ تیسرا مصرعہ ترجیع کا ہے۔ ہر بند میں پہلے دونوں مصرعے چار رکنی ہیں اور تیسرا مصرع دو رُکنی ہے۔ یہ نظم ہیئت میں ’محراب گل‘ والی نظم سے ذرا آسان ہے مگر اسے بھی مثلث، قطعہ اور ترجیع بند کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ اقبال کے دَور کے متوازی رومانی تحریک کا آغاز، ارتقا اور زوال ہوا۔ رومانی شاعر باغی ہوتا ہے، ماحول کا، نظریات کا اور روایات کا۔ اس لیے رومانی شعرا مروجہ ہیئتوں سے بھی بغاوت کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی ہیئتیں تراشتے ہیں، مگر رومانی شعرا عموماً آہستہ آہستہ ہیئت پرستی کی طرف مائل ہوتے رہتے ہیں۔ اُردو ادب میں بھی حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی وغیرہ شعرا کی رومانیت قیوم نظر، مختار صدیقی اور مجید امجد(۱) تک پہنچ کر ہیئت پرستی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مگر اقبال کے لیے ’’رومانی‘‘ کی اصطلاح بہت چھوٹی ہے۔ ان میں بیک وقت کلاسیکی تنظیم اور رومانی بغاوت ہے۔ وہ افکار کے اعتبار سے رومانیت سے ہٹ جاتے ہیں، مگر ہیئت کے نئے پن میں رومانیوں سے ان کی سطحی مشابہت ضرور ہے اور یہ مشابہت واقعی سطحی ہے۔ اقبال ہیئت پر سوار ہیں اور رومانیوں پر ہیئت سوار ہے۔ اقبال اپنے افکار کے اظہار کے لیے ہیئت کو ظروف ساز کی مٹی کی طرح جدھر چاہتے ہیں، موڑ دیتے ہیں، جب کہ رومانی شعرا نئی نئی شکلیں بنا کر اُنہیں پوجنے لگتے ہیں۔ اقبال جیسے بُت شکن کا ہیئت پرستی سے کیا تعلق ہو سکتا ہے! اقبال کے ہاں ہیئت کے جس تجربے کو بھی دیکھیں، اس کا موضوع سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہو گا۔ اقبال کا نظریہ تھا: کبک پا از شوخی ٔ رفتار یافت بلبل از سعی ٔ نوا منقار یافت یعنی زندگی ماحول کے مطابق نہیں ڈھلتی بلکہ ماحول کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اقبال نے اس کا ثبوت اپنی شاعری کے ذریعے یوں دیا کہ اُنہوں نے ہیئتوں کو اپنے افکار کے مطابق ڈھال لیا۔ اقبال بحیثیت شاعر، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۶ء حواشی ۱۔ دوسری دفعہ پڑھنے پر محسوس کرتا ہوں کہ یہاں مجید امجد سے زیادتی ہو گئی ہے۔ ان کے ہاں ہیئت موضوع سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتی ہے۔ (م۔ز) کلامِ اقبال پر عربی ادب کے اثرات پروفیسر محمد منّور عزیز احمد ’’اقبال، نئی تشکیل‘‘ کے آخر میں لکھتے ہیں: ’’اقبال کا پورا کلام پڑھنے کے بعد اقبال کے اطراف میں بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے۔ رومی، نطشے، برگساں، الجیلی، یونانی فلسفہ، اسلامی فلسفہ، قدیم ہندو فلسفہ، جدید یورپی فلسفہ، جرمن، اطالوی، انگریزی شاعری، فارسی غزل، اُردو غزل اور سب کچھ پڑھنے کے بعد پھر اقبال کو پڑھیے تو ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ابھی اور بہت کچھ پڑھنا ہے۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس ’بہت کچھ ‘ میں عربی ادب بھی ایک بڑے اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عرب شعرا نے ایرانی شعرا پر جو اثر ڈالا، وہ محتاجِ بیاں نہیں، فارسی کے ذریعے وہ اثر اُردو میں منتقل ہوا، بلکہ ہسپانوی مستشرق غارسیاغومس کے بقول تو ساری اسلامی شاعری پر عرب شعرا کے مضامین و افکار کی چھاپ ہے۔ مستشرق مذکور لکھتے ہیں کہ عرب کی زندگی بیشتر سفری تھی، آج یہاں، کل وہاں، نت نئے چشموں اور نئی چراگاہوں کی تلاش۔ چنانچہ ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ چھوڑی ہوئی منزلوں، بچھڑے ہوئے دوستوں، دُور اُفتادہ محبوبائوں، گزر جانے والے قافلوں اور بے نشان مسافتوں کی روح اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ آگے چل کر اسی اثر کے باعث عربوں اور دیگر مسلمانوں کی شاعری میں کائنات ایک رواں دواں کارواں کا انداز اختیار کر گئی، یوں گویا داستانِ زیست کا حرفِ آخر ہو ’’اللہ باقی‘‘۔ غارسیاغومس کے بیان میں مبالغے کا وافر حصہ شامل سہی، تاہم اس امر سے انکار مشکل ہے کہ شعراے عرب کے محبوب مضامین نے اسلامی زبانوں میں شعر کہنے والے غیرعرب مسلم شعرا بلکہ اسلامی زبانوں میں شعر کہنے والے غیرمسلم شعرا کو بھی بہت متاثر کیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ غیر عرب شعرا بھی جو سرسبز و شاداب علاقوں سے تعلق رکھتے تھے اور جن کی زندگیوں کا کارواں اور قافلے سے کوئی رابطہ نہ تھا بلکہ جو بڑے شہروں کی بند گلیوں ہی میں فوت ہو گئے، وہ بھی اپنے کلام کے توسط سے عرب کے صحرا نشین نظر آتے ہیں۔ مثلاً مرزا غالب جو شہر آگرہ میں پیدا ہوئے اور شہر دہلی میں وفات پا گئے، اس قسم کے شعر بھی کہتے ہیں: کہاں تک روئوں اس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی؟ عربی زبان کے ہسپانوی شعرا کو لیجئے وہ سپین میں بیٹھے ہوئے ٹیلوں، خیموں اور قافلوں کا ذکر کرتے ہیں، حالانکہ سپین کا بیشتر حصہ سرسبز و شاداب سرزمین ہے۔ باغوں کی بہتات ہے۔ وہاں وہ قافلے اور شتربان اور ریت کے وسیع اور بلند ٹیلے کہاں جو عرب کی جان ہیں۔ ابنِ حزم اندلسی کہتا ہے: تذکرت ودالحبیب کانہ لخرلۃ اطلال ببرقۃ ثہمدٖ وعہدی بعہد کان لی منہ ثابت یلوح کباقی الوثم فی ظاھر الیدٖ (ترجمہ) میرے دل میں محبوب کی یاد یوں اُبھری گویا ثہمد کی سنگلاخ زمین میں خولہ (کی چھوڑی ہوئی منزل) کے کھنڈر ہوں۔ میرے اس کے مابین جو پیمان محکم تھا، اس کی یاد یوں تازہ ہوئی جیسے پشتِ دست پر گودنے کے نشان نمایاں ہوں۔ ان دو شعروںکے دونوں دوسرے مصرعے درحقیقت عہدِ جاہلیت کے مشہور شاعر طرفہ کے معلقے کا مطلع ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جغرافیائی ماحول کی طرح ذہنی ماحول بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ علم و فکر کے دھارے جس وطن سے پھوٹتے ہیں، وہ علمی اور فکری وطن ذہنوں میں بسنے لگتا ہے اور اس وطن کی فضا ذہن کی آب و ہوا بن جاتی ہے۔ اقبال کو عربی ادب سے لگائو تھا۔ عربی اُنہوں نے شمس العلماء مولانا سیّد میرحسنؒ سے پڑھی تھی۔ جن کے بارے میں سرعبدالقادر نے دیباچۂ بانگِ درا میں لکھا ہے کہ ’’ان کی تعلیم کا یہ خاصہ ہے کہ جو کوئی ان سے فارسی یا عربی سیکھے، اس کی طبیعت میں اس زبان کا صحیح مذاق پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘ علامہ اقبال نے فارسی اور عربی، دونوں زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ اُردو زبان کی تحصیل بھی مکمل کی۔ مگر حق یہ ہے کہ عربیت ان کی روح میں سرایت کر گئی تھی۔ عربیت کا تعلق عرب سے تھا اور عرب اس لیے عزیز تھا کہ ’’آنجا دلبر است‘‘۔ گویا وہ سرزمین وطنِ محبوب ہونے کے باعث اقبال کے دل و دماغ میں بس گئی اور اس طرح یہ عنصر ان کے ذہنی ماحول کا ایک اہم حصہ بن گیا۔ کون نہیںجانتا کہ وہاں کی زندگی مسلسل حرکت تھی اور مسلسل کاوش۔ ہر قبیلہ اور ہر قبیلے کا ہر فرد ہر دم چاق و چوبند تھا، ورنہ چراگاہ چھن گئی، چشمے پر دوسروں نے قبضہ کر لیا اور زندگی کے وسائل زائل ہو گئے--- اس طرح عقیدت و ارادت کا جغرافیائی پس منظر اقبال کے نظامِ فکر کی ایک ضروری بنیاد بن گیا--- یہیں سے اقبال اور ٹیگور کی راہیں جدا ہو جاتی ہیں --- دونوں کے اسلاف ہم کیش تھے، ان دونوں کے وطن کے طبعی جغرافیہ اور سیاسی تاریخ میں وہ فرق نہ تھا، جو دونوں کے افکار میں ہے۔ ایک میراثِ گوتم کا پاسبان اور دوسرا میراثِ خلیل ؑ کا ایک کا فلسفہ سکونی ہے، دوسرے کاحر کی۔ مگر اقبال کا یہ ذہنی ارتقا تدریجی تھا۔ بانگِ درا کے پہلے دو حصوں میں عربی اور اسلامی اثرات کم کم ہیں۔ یورپ سے لوٹے تو اندازِ فکر بدل چکا تھا۔ وہ قومیت سے ہٹے اور ملّت کی طرف راغب ہو گئے: سوے مادر آ کہ تیمارت کند یہ سلسلہبانگِ درا کے تیسرے حصے اور اسرارِ خودی سے شروع ہوا اور پھر ارمغانِ حجاز تک رنگ بدل بدل کر جلوہ گر ہوتا رہا۔ کلامِ اقبال پر عربی اثرات مختلف انداز میں ظہور پذیر ہوئے ہیں، کچھ باتیں صاف اور صریح ہیں، کچھ علامت بن گئی ہیں اور کچھ تصاویر خیالی ہیں۔ صریحاً تو وہ عرب کو ’’تمدن آفریں خلّاقِ آئینِ جہانداری‘‘ کہتے ہیں اور عرب صحرانشینوں کو ’’جہانگیر و جہاں بان و جہاندار و جہاں آرا‘‘ قرار دیتے ہیں --- ان کے نزدیک عصرِنو عربوں ہی کے خوں کی لالہ کاری ہے۔ عصرِ حاضر زادئہ ایّامِ تُست مستی ٔ اواز مئے گلفامِ تُست شارحِ اسرارِ اُو تو بودۂٖ اوّلیں معمارِ اُو تو بودۂٖ اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ مردِ صحرا پاسبانِ فطرت است لہٰذا وہ اس صحرا نشیںشیر کے دوبارہ ہوشیار ہونے کی اُمید رکھتے ہیں، جس نے پہلے کبھی صحرا سے نکل کر روما کے تخت کو اُلٹ دیا تھا مگر یہ صریح باتیں ہیں، لطف وہاں آتا ہے جہاں وہ عرب کی ادبی روح کو اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں، جہاں ان کی تشبیہیں، استعارے اورتلمیحیں اور خیالی تصویریں قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف منتقل کر دیتی ہیں۔ یہاں یہ بات صاف ہو جانی چاہیے کہ کلامِ اقبال پر براہِ راست قرآن و حدیث کا جو اثر ہے، میں اس سے بحث نہ کروں گا، وہ بذاتِ خود ایک کتاب کا موضوع ہے۔ میں یہاں صرف عربی ادب کے بعض عناصر تک محدود رہوں گا۔ جی چاہتا ہے کہ اس راہ میں بانگِ درا کی نظم خضرِراہ کے ایک بند کو راہبر بنائوں۔ شاعر نے خضرؑ سے پوچھا تھا: چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد زندگی تیری ہے، بے روز و شب و فردا و دوش خضر ؑ جواب دیتے ہیں: کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے یہ تگا پوئے دمادم زِندگی کی ہے دلیل اَے رہینِ خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگِ رحیل ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام وہ حضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل وہ نمود اخترِ سیماب پا ہنگامِ صبح یا نمایاں بامِ گردوں سے جبینِ جبرئیل ؑ وہ سکوتِ شامِ صحرا میں غروبِ آفتاب جس سے روشن تر ہوئی چشمِ جہاں بینِ خلیل ؑ اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں اہلِ ایماں جس طرح جنت میں گردِ سلسبیل تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش اور آبادی میں تو زنجیریٔ کِشت و نخیل پختہ تر ہے گردش پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اَے بے خبر رازِ دوامِ زندگی! تشریحی اشاروں کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ فضائے دشت میں بانگِ رحیل، ریت کے ٹیلے، آہو کا بے پروا خرام، بے برگ و ساماں حضر اور بے سنگِ میل سفر، پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں وہ مناظر ہیں کہ ذہن کو عربی قصائد نگاروں کی طرف لوٹا لے جاتے ہیں۔ پانی کے چشمے اور سلسبیل والا شعر عربی اور اسلامی روح کا دلآویز امتزاج ہے۔ زنجیریٔ کشت و نخیل والا شعر بھی توجہ طلب ہے، وہ اس لیے کہ اقبال نے جس آبادی کو پیشِ نظر رکھا ہے وہ صحرائی آبادی ہے، جہاں کی زنجیریں مختصر سی کھیتی باڑی اور نخلستان ہوتے ہیں، یہ تو واضح ہے کہ اقبال نے ان مناظر کو برای العین نہ دیکھا تھا۔ تیسری گول میز کانفرنس سے لوٹتے ہوئے وہ قاہرہ اور بیت المقدس میں ایک آدھ دن رُکے ضرور تھے اور بس۔ درحقیقت یہ وہ خیالی تصاویر ہیں جو شعرا کا عطیہ ہیں۔ کلمۂ نخیل اور بیت المقدس کے باعث ذہن، اقبال کی مشہور نعتیہ نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اس نظم کا آغاز اپنی معنوی خوبی کو جبھی واضح کرتا ہے کہ اُسے عربی ادب کے آئینے میں دیکھا جائے: قلب و نظر کی زندگی دشت میں صبح کا سماں چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب کوہِ اِضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دُھل گئے ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں! ان اشعار میں کوہِ اِضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کے اندر مدینہ منورہ کی یاد مضمر ہے۔ کوہِ اِضم وہ پہاڑی سلسلہ ہے جس کی وادی میں مدینہ منورہ آباد ہے۔ کاظمہ کو جو بصرہ کے قریب ایک بستی تھی، عہدِ جاہلیت و اسلام کے ایک سے زیادہ شعرا نے منزلِ محبوب کے طور پر قلمبند کیا تھا، مثلاً ایک شاعر کا شعر ہے: الم یبلغک ما فعلت ظباہٗ بکاظمۃ غذاتہ لقیت عمرا کیا تمہیں یہ خبر نہیں ملی کہ جس صبح میں عمر سے ملا تھا، اس صبح کاظمہ کے مقام پر اس کے ساتھ اس کے غزال بچے نے کیا سلوک کیا تھا؟ چنانچہ صاحبِ قصیدئہ بردہ امام بوصیریؒ نے مدینہ شریف کے کلمۂ کاظمہ ہی سے اشارہ کیا ہے۔ ان کے مشہور قصیدے کا شعر ہے: ام ھبت الریح من تلقاء کاظمۃٍ او اومض البرق فی الظماء من اضمٖ ایسا تو نہیں کہ کاظمہ کی جانب سے ہوا کا جھونکا آیا ہو یا یہ کہ کوہِ اِضم کی بجلی تاریکیوں میں چمک رہی ہو؟ کوہِ اِضم کے بارے میں ایک اور شاعر کہتا ہے: بانت سعاد و امسی حبلہا الصرما واحتلت الغور و الاجراع من اضما میری محبوبہ سعاد نے دوری اختیار کر لی اور اس کا رشتۂ محبت ٹوٹ کر رہ گیا۔ اس نے اب کوہِ اِضم کی وادی میں بمقام غور و اجراع ڈیرا ڈال لیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اقبال نے ’’ذوق و شوق‘‘ کے بیشتر اشعار فلسطین میں کہے تھے، مگر وہ عالمِ خیال میں نواحِ مدینہ کی سیر و زیارت کر رہے تھے۔ دردِ ہجراں مضطرب کر رہا تھا۔ دل میں دیارِ حبیبؐ کے دیدار کا ذوق، شوق انگیز تھا۔ ارمان مچل رہے تھے، روحانی کرب اور جسمانی بُعد--- عجیب بے سکون لذت اور بڑی لذیذبے سکونی کا عالم تھا، بہرحال پیشِ نظر تھا، سوادِ منزلِ محبوب، لہٰذا ماحول نور کی ندیوں، رنگ برنگ طیلسانوں اور مثلِ پرنیاں نرم ریگ کی وجہ سے روشن، رنگین اور ملائم ہو رہا تھا۔ ٹوٹی ہوئی طناب، بجھی ہوئی آگ اور گزر جانے والے قافلے عرب شعرا کے محبوب ترین مضمون ہیں۔ کلامِ اقبال کا مطالعہ کرنے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ عمر کے ساتھ ان کی دینی شیفتگی بڑھتی چلی گئی اور جوں جوں اس شیفتگی میں اضافہ ہو تا گیا، کاروان، قافلہ، زمام، ناقہ، مقام، سبیل، منزل، طناب، خیمہ، نخل، نخیل وغیرہ کلمات کا استعمال بھی تدریجاً بڑھتا گیا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: بہرجائے کہ خواہی خیمہ گستر طناب از دیگراں جستن خرام است اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب نظم ’’ذوق و شوق‘‘ کے یہ مصرعے دیکھیے: ع قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں ع نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو ع مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب نخیلِ بے رُطب ٹھیٹھ عربی پیرایۂ بیان ہے۔ رطب پختہ کھجور کو کہتے ہیں--- محاورہ ہے ارطب النخل یعنی کھجور کا پھل پکنے لگا--- چونکہ نظم کی فضا عربی ہے، لہٰذا ایسے ہی کلمات اس میں رنگ بھر سکتے ہیں، جو اسی فضا کی پیداوار ہوں۔ کلمۂ نخیل سے ’’خضرِراہ‘‘ کے درج کردہ بند میں بھی سابقہ پڑا تھا اور ’’ذوق و شوق‘‘ میں بھی--- وہی کلمہ اب ذہن کو مسجد قرطبہ کی طرف منتقل کر رہا ہے۔ ’’مسجد قرطبہ کے بند بھی ’’ذوق و شوق‘‘ کی طرح غزل کی صورت میں چلتے ہیں اور عربی شاعری ہی کے انداز میں قافیے بے ردیف ہیں۔ مسجد قرطبہ سے خطاب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: تیری بِنا پائدار تیرے ستوں بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل یہ نظم سپین میں کہی گئی تھی، مگر سپین کی جغرافیائی فضا کے بجائے عرب کا ذہنی ماحول اثرانداز تھا۔ لہٰذا نظم کا مزاج عربی بن گیا ہے۔ مسجد کے ستونوں کو ہجومِ نخیل سے تشبیہ دی ہے اور وہ بھی صحرائے شام کے ہجومِ نخیل سے۔ صحرائے شام کی شرط اس لیے مناسب تھی کہ مسجد کا بانی عبدالرحمن الداخل شام ہی سے آیا تھا۔ وہی عبدالرحمن جس نے سرزمینِ اندلس میں کھجور کا پہلا درخت لگایا تھا اور شام کے ہجومِ نخیل کی یاد میں رو رو کر شعر کہے تھے، اِن اشعار کا بھی آزاد ترجمہ بالِ جبریل میں موجود ہے۔ اقبال نے عربوں ہی کے انداز میں مسجد قرطبہ کی وسعت اور عظمت کے پیش نظر اسے حرمِ قرطبہ کہہ کر پکارا ہے۔ اقبال سے کئی سو سال قبل ابن المثنیٰ نے اس مسجد پر جو شعر کہے تھے، ان میں اسے باضابطہ حرمِ کعبہ سے تشبیہ دی تھی: بنیت للہ خیر بیتا نخرس عن وصفہ الانام حجّ الیہ من کل ادب کانہ المسجد الحرام کان محرابہٗ اذا ما حف بہٖ الرکن و المقام ’’اللہ کے لیے بہت اعلیٰ گھر تعمیر کیا گیاہے۔ لوگوں کی زبانیں اس کی توصیف بیان نہیں کر سکتیں۔ لوگ ہر نواح سے اس کا رُخ کرتے ہیں، یوں گویا وہ مسجدِ حرام (کعبہ) ہو۔ جب لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا منبر کعبے کے رکن و مقام کا کام دے رہا ہے۔‘‘ مسجد کی عبرتناک فضا نے اقبال کو گردشِ فلک کے اصولِ لازوال کی طرف منتقل کر دیا اور وہ عروج و زوالِ اقوام و ملل پر غور کرتے اور یاس کی تاریکیوں میں اُمید کی شمعوں کا نظارہ کرتے، دریائے کبیر سے خطاب کرتے ہیں: آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب اسی دریائے کبیر کے کنارے کبھی ابوبکر ابن اللبانہ الدانی (م :۵۰۷ھ) نے بنوعباد کو یاد کیا تھا ــــــ’’معتمد کی فریاد قید خانے میں‘‘ ایک نظم بالِ جبریل کی زینت ہے جو محمد معتمد بن معتفد عبادی کے اشعار کا آزاد ترجمہ ہے۔ معتمد کو یوسف بن تاشفین نے ۴۸۴ھ میں گرفتار کر کے بیڑیاں پہنائیں اور مراکش الغرب میں کوہِ اطلس کے دامن میں بمقام اغمات قید کر دیا۔ معتمد کی سخاوت، جواں مردی، مروّت، ادب نوازی اور خوش باشی کو اندلس کے معاصر اور مابعد کے شعرا نے بڑے کرب کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ابن اللبانہ، دریائے کبیر کے کنارے بیٹھا ہوا کہتا ہے، ’’اے دریا، میں چشم تصور کی مدد سے دیکھ رہا ہوں کہ بنو عباد کی کشتیاں سمندر کی طرف جا رہی ہیں۔ اور پھر وہ اصول عروج و زوال کے غم انگیز خیالات میں کھو کر بنوعباس اور بغداد کی اوائلی شان و شوکت کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اقبال نے ہسپانیہ کے مسلم حکمرانوں کو عمومی رنگ میں بڑی محبت سے یاد کیا ہے: ساقی ٔ اربابِ ذوق، فارسِ میدانِ شوق بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل! مگر ابن اللّبانہ نے مخصوصاً بنو عبّاد کی تعریف کی: تبکی السماء بمزن رائحٍ غادی علی البہالیل من ابناء عبادی علی الجبال التّی ھدت قواعدھا وکانت الارض منہم ذات اوتادی ’’ابرِ باراں صبح و شام سردارانِ بنی عبّاد پر اشک افشاں ہے۔ وہ ان پہاڑوں پر اشک افشاں ہے جن کی بنیادیں اکھاڑ دی گئیں، حالانکہ خود اُنہی کی وجہ سے زمین کو سہارے میسر تھے۔‘‘ اقبال کا یہ مصرعہ کہ ع بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اس کی اصیل کسی ایسے ہی شخص کے منہ سے نکل سکتا تھا، جس کو عربی زبان کی چاشنی وافر میسر ہو--- نخیل نے ہمیں قرطبہ پہنچا دیا تھا--- نخیل کہ کھجور ہے اور عربوں کی پھوپھی جان ہے، وہ اگر عربوں کی داستان سنائے تو حق پہنچتا ہے--- یہاں معاً جاوید نامہ میں مہدی سوڈانی کی زبان سے نکلوائے ہوئے کلمات یاد آ جاتے ہیں۔ مہدی، ساربان سے خطاب کرتے ہیں: ناقہ مستِ سبزئہ ومن مستِ دوست او بدستِ تست ومن در دستِ دوست آب را کردند بر صحرا سبیل برجبل ہاشستہ اوراقِ نخیل سارباں یاراں بہ یثرب ما بہ نجد آں حدی کُو ناقہ را آرد بہ وجد مہدی سوڈانی کا رُخ بھی مدینہ طیبہ کی طرف ہے۔ جلدی پہنچنا چاہتے ہیں۔ بارانِ رحمت ہو چکی ہے، ناقہ سبزے کے باعث رُک رُک جاتی ہے۔ پانی کی، صحرا کے لیے سبیل لگا دی گئی ہے اور پہاڑوں پر برگِ نخیل دُھل گئے ہیں۔ مہدی سوڈانی کی زبان سے یہ کہلوانے کے لیے دینی اور عربی پس منظر سے آگاہی ضروری تھی۔ عربِ جاہلیت کے ذہن کی جو ترجمانی علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں کی ہے، لائقِ داد ہے۔ جاوید نامہ میں طاسین محمدؐ کا آغاز ’’نوحہِ روحِ ابی جہل در حرم کعبہ‘‘ سے ہوتا ہے۔ عرب کو اپنے حسب نسب پر کس قدر فخر تھا اور دوسروں کی زبان کو کس قدر گھٹیا سمجھتے تھے، چند شعروں میں ان امور کا ملخّص پیش کر دیا گیا ہے۔ ابوجہل کو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو شکایت تھی، وہ یہ ہے: مذہبِ او قاطعِ ملک و نسب از قریش و منکر از فضلِ عرب قدرِ احرارِ عرب نشناختہ باکلفتانِ حبش در ساختہ ایں مساوات، ایں مواخات اعجمی است خوب می دانم کہ سلیمانؓ مزدکی است ابنِ عبداللہ فرمیش خوردہ است رستخیزے بر عرب آواردہ است اعجمی را اصلِ عدنانی کجاست گنگ را گفتارِ سحبانی کجاست چشمِ خاصانِ عرب گردیدہ کور برنیائی اَے زہیر از خاکِ گور؟ اے سُبل، اے بندہ راپوزش پذیر خانۂ خود راز بے کیشاں بگیر گلۂ شاں رابگرگاں کن سبیل تلخ کُن خرمائے شاں را برنخیل اے منات اے لات ازیں منزل مرو گزر منزل می روی از دلِ مرو اے ترا اندر دو چشمِ ماوثاق مہلتے اِن کنتِ ازمعتِ الفراق‘‘ سحبان وائل عرب کا آتش بیاں خطیب تھا، زہیر بن ابی سلمیٰ عرب جاہلیت کے تین چار چوٹی کے شاعروں میں سے ایک تھا۔ اِن کنت از معتِ الفراق‘‘ امرئو القیس کے معلقے کی طرف توجہ مبذول کر رہا ہے۔ یہ مصرعے تو خاص طور پر قدیم عرب ذہنیت کے آئینہ دار ہیں۔ ع از قریش و منکر از فضلِ عرب ع گنگ را گفتارِ سحبانی کجاست ع تلخ کن خرمائے شاں رابرنخیل یہ تو چند سطور کی فضا کا معاملہ تھا۔ ویسے اگر جاوید نامہ کے مواد اور پیرایۂ اظہار پر نظر ڈالی جائے تو احساس ہوگا کہ اس کتاب کے خاکے کا بھی حسب نسب عربی ہے۔ سیرافلاک اور مناظر بہشت پر اوّلیں کتاب شاید ابوالحسن علی بن منصور عرف ابن القارح کی ہے جس میں اُنہوں نے غیراہل ایمان اور بدعمل شعرا و خطبا حضرات کو جہنم میں مبتلائے عذاب دِکھایا تھا (یہ صاحب ابوالعلاالمعری کے ملنے والوں میں سے تھے)۔ ابو العلا المعری نے ان کے ردّ میں رسالۃ الغفران تحریر کیا۔ معری سیر کرتا ہوا جنت میں جا پہنچتا ہے۔ وہاں کئی ایسے شعرا کرام سے ملاقات ہوئی جو عہدِ جاہلیت میں چل بسے تھے۔ اُنہوںنے زمانہ اسلام دیکھا ہی نہ تھا۔ معری حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ تم اسلام کی روشنی پھیلنے سے قبل وفات پا گئے تھے۔ تمہیں جنت کیوں کر مل گئی۔ اس پر فرداً فرداً ہر ملاقاتی شاعر اپنے بخشے جانے کی توجیہہ کرتا ہے۔ زہیر کا اپنا موقف ہے۔ امرئو القیس کا اپنا جواب ہے۔ عبید بن الابرص اپنے دلائل پیش کرتا ہے--- معری ویسے بھی متشکک تھا۔ اہلِ دین کے تشدد سے اس کو شدید نفرت تھی۔ اس کے نزدیک خدا کا تصور اگر کچھ تھا تو وہ محض بے رحمی کا مظہر نہ تھا۔ معری کے بعد محی الدین ابنِ عربی ؒ کی کتاب فتوحاتِ مکیہ ایک طرح سے درمیانی کڑی کا کام دیتی ہے۔ فتوحاتِ مکیہ میں سیرِ افلاک کے ساتھ ساتھ تمثیلی انداز بھی موجود ہے--- دانتے، فتوحاتِ مکیہ سے متاثر ہوا۔ اس ضمن میں اقبال نے ایک سے زیادہ مقام پر اشارے کیے ہیں۔ لی بان گریونے بام نے بھی اپنی کتاب Medieval Islam میں دانتے کی ابن العربی سے اثرپذیری کو تسلیم کیا ہے--- جاوید نامہ میں چار طواسین ہیں۔ طاسینِ گوتم، طاسین زرتشت، طاسینِ مسیحؑ اور طاسینِ محمدﷺ--- صاف ظاہر ہے کہ یہ حلّاج کی کتاب الطواسین کا اثر ہے۔ بہرحال، جاوید نامہ میں بھی رسالۃ الغفران جیسی فراخدلی دِکھائی ہے، حالانکہ اقبال مزاجاً مذہبی آدمی تھے، معری کی طرح متشکک نہ تھے، مگر اُنہوں نے کسی قوم کو یا سردارِ قوم کو مذہبی تنگ نظری کی بنا پر نذرِ جہنم نہیں کیا۔ اقبال نے جہنم کی جگہ زحل کے دریائے خون کا منظر پیش کیا ہے اور میر جعفر اور میر صادق کو مبتلائے عذاب دِکھایا ہے۔ کسی غیرمسلم قوم کے کسی ہادی یا بزرگ یا فلاسفر کو ان کا شریکِ حال نہیں بنایا۔ جعفر اور صادق غدار تھے--- اُنہوں نے قوم و وطن کا اپنی خود غرضی کی بنا پر خون کر دیا تھا۔ کروڑوں انسان ان کی غداری کے باعث غلامی کے قعر مذلّت میں جا پڑے تھے، لہٰذا اقبال نے ازراہِ تنبیہہ کہا ہے: ایں جہاں بے ابتدا بے انتہاست بندئہ غدار را مولا کجاست جعفرانِ آں زماں ہوں یا صادقانِ ایں زماں، بہرحال بے مولا ہی رہے، بے مولا ہی رہیں گے۔ کلامِ اقبال کا مطالعہ کرتے ہوئے یوں تو متنبی، معری، عمرو بن کلثوم، بوصیری، کعب بن زہیر، زہیر بن ابی سلمیٰ، امرئو القیس، معتمد وغیرہ شعراے عرب کا ذکر یا نشان مل جاتا ہے۔ مثلاً ارمغانِ حجاز میں اقبال نے عمرو بن کلثوم کا یہ شعر اپنے قطعہ کا جزو بنا لیا ہے: صبنت الکاس عنّا امّ عمرو وکان الکاس مجراھا الیمینا اگر ایں است رسمِ دوست داری بدیوارِ حرم زن جام و مینا (اے امِ عمرو ہم دائیں جانب تھے اور دستور کے موافق گردشِ ساغر کو دائیں جانب ہی سے شروع ہونا چاہیے تھا، مگر تو نے اسے الٹا چلا دیا۔ اگر طریقِ دوستداری یہی ہے تو پھر جام و مینا کو دیوارِ حرم پہ دے مار!) مگر بعض جگہ عربی شعروں کا پرتو نظر آتا ہے، اور اس ضمن میں میرا خیال ہے کہ اگر متنبی، ابوتمام اور امرئو القیس وغیرہ کے کلام کا بالتدقیق مطالعہ کیا جائے تو ممکن ہے ’’زیادہ نشانات مل جائیں۔ اثر پذیری بالکل قدرتی بات ہے۔ مقالے کے آغاز میں اس امر پر زور دیا گیا تھا کہ مطالعہ جس بھی ادب کا کیا جائے، اس کا اثر ذہن پر کچھ نہ کچھ ضرور رہ جاتا ہے، مثال کے طور پر علامہ اقبال کا شعر ہے: گماں آبادِ ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی عرب جاہلیت میں تارک الدنیا راہبوں کی دور افتادہ جھونپڑیوں کے قریب رات کی تاریکیوں میں جھلملانے والے چراغ کی لو امرئو القیس کے اس شعر میں ملاحظہ کیجئے: تضیئ الظلام بالعشی کانھا منارۃ مُمسٰی راھب متبتّل (میری محبوبہ اپنے حسن کے باعث شام ڈھلے تک تاریکیوں کو منور کر دیتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا وہ کسی تارک الدنیا راہب کی قندیل ہے جو شام کے وقت روشن کر دی جاتی ہو۔) اسی مضمون سے متاثر ہو کر فارسی میں یہ قطعہ کہا گیا ہے: شبِ ایں کوہ و دشتِ سینہ تابے نہ دروے مرغکے نَے موجِ آبے نگردد روشن از قندیلِ رہباں تو میدانی کہ باید آفتابے پس چہ باید کرد اَے اقوامِ شرق میں عربوں کو فرنگیوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی تلقین ان الفاظ میں کی ہے: از فریب اُو اگر خواہی اماں اُشترانش راز حوضِ خود براں یہ مضمون زُہیر بن ابی سلمیٰ کا معلّقے کا مضمون ہے: ومن لم یذدعن حوضہ بلاحہٖ یھّدم، ومن لایظلم الناس یظلم جو شخص اپنے حوض کی مدافعت اپنے اسلحہ سے نہیں کرتا، اس کا حوض توڑ دیا جاتا ہے، جو دوسروں پر چڑھ نہ دوڑے، لوگ اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اسرارِ خودی میں ایک شعر ہے جس پر بوصیریؒ کا اثر ہے اور حاشیے میں خود اقبال نے اس امر کی طرف اشارہ کر دیا ہے: رونق از ما محفلِ ایّام را اورُسل را ختم وما اقوام را بوصیریؒ کا شعر ہے: لھّا دعا اللّٰہ داعینا لطاعتہٖ اکرم الرُّسل کُنّا اکرم الامم ’’جب خدا نے ہمارے داعی ٔ اسلامی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطاعت کے باعث ’’اکرم الرسل‘‘ قرار دیا ہے تو ہم ان کی امت ہونے کے باعث ’’اکرم الامم‘‘ بن گئے۔‘‘ علامہ اقبال نے مسجدِ قرطبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل اس شعر کو پڑھتے ہی مسجدِ قرطبہ کے ایک بانی عبدالرحمن الناصر کا ایک شعر یاد آ جاتا ہے: ان البناء اذا تعاظم قدرہٗ اضحٰی یدل علٰی عظیم الشان (کسی عمارت کاعالیشان ہونا اشارہ کرتا ہے،اس امر کی جانب کہ اس کا بنانے والا عالیشان ہے۔) اسی مضمون کو ابوفراس حمدانی نے ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے: صنائع فاق صانعہا ففاقت وغرس طاب غارسہا فطابا (جن صنائع کا صانع فائق ہو گا، وہ صنائع بھی فائق ہوتی ہے۔ جس پودے کا بیجنے والا پاک ہو، وہ پودا بھی پاک ہوتا ہے۔) اقبال نے والدہ مکرمہ کا جو مرثیہ کہا تھا، اس کا آخری شعر ہے: آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے سبزئہ نَورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے دوسرے ممالک میں بھی ’’لحد پر شبنم افشانی‘‘ کی خواہش پیرایۂ دُعا ہو گی، لیکن عرب کی سرزمین تو ازلی تشنہ سرزمین ہے، لہٰذا عربوں کے یہاں یہ دُعا انتہائی خلوص کی مظہر تھی کہ تیری قبر گیلی رہے---ابو تمام نے اسی تصور کے تحت محمد بن حمید الطائی حاکم موصل کے مرثیے میں یہ مضمون پیدا کیا تھا: وکیف احتمالی للغیوث صنیعۃ بائِسقا ئھا قبراً وفی لحدہ البحر (میں اس قبر کو سیراب کرنے والے بادلوں کا ممنون کیوں ہوں، جس قبر کی لحد میں خود سمندر سویا پڑا ہے۔) کوشش کی جائے تو ایسے کئی اور نشان مل جائیں گے، جن سے واضح ہو جائے گا کہ اقبال کے ذہن نے عربی فضا کو کس حد تک قبول کیا تھا۔ مضامین کے علاوہ اقبال کے کلام میں ایسے الفاظ بھی کثرت سے مل جائیں گے جنہیں وہ کبھی کبھی ٹھیٹھ عربی معنی میں استعمال کرتے ہیں، مثلاً دلیل کو راہبر کے معنی میں، ادیب کو مؤدب اور اتالیق کے معنوں میں، طلب کو تعاقب کے معنوں میں، غریب کو نادر کے معنوں میں، زحمت کو گھٹن کے معنوں میں، زحمت کا استعمال دیکھیے، موجِ دریا میں کہا ہے: زحمتِ تنگی ٔ دریا سے گریزاں ہوں میں وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں یہاں اگر زحمت کے عام معنی--- کلفت--- مراد لیے جائیں تو وہ مفہوم پیدا نہیں ہوتا جو گھٹن سے ہوتا ہے--- مصرع تو ’’کلفت تنگی ٔ دریا سے گریزاں ہوں میں‘‘ بھی ہو سکتا تھا، مگر زحمت میں جو بھرپور معنی نہاں ہیں وہ کلفت میں کہاں! بہرحال بات وہیں آ کر ختم ہوتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی، اور وہ عزیز احمد کے یہ کلمات تھے کہ اقبال کا پورا کلام پڑھنے کے بعد اقبال کے اطراف میں بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے: گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں ہزار بادئہ ناخوردہ در رگِ تاک است میزان اقبال، اقبال اکادمی لاہور، ۱۹۸۶ء فارسی شاعری، اور اقبال کا اسلوب بیان ڈاکٹر محمد ریاض دنیاکی دوسر ی زبانوں کے مانند، فارسی میں بھی شعر کے نمونے نثر سے پہلے ملتے ہیں۔ قدیم ترین نمونے اب تک تیسری صدی ہجری/نویں صدی عیسوی کے اوائل کے ملے ہیں۔ تصانیف اقبال میں جن ایرانی شعرا کا ذکر ملتا ہے، ان کا عصر حیات پانچویں سے تیرھویں صدی ہجری/گیارھویں سے انیسویں صدی عیسوی کو محیط ہے یعنی غزنویوں کے دور سے قاچاریو ں کے عہد تک۔ برصغیر کے شعرا جو ان کے ہاں مذکور ہیں، وہ بارہویں تا بیسویں صدی عیسوی کے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ اقبال نے قدماء متوسطین اورکسی قدر جدید شعرا کے اسالیب کو پیش نظر رکھا مگر جلد ہی انھوں نے اپنا خاص سبک یا اسلوب اختیار کر لیا۔ بعض حضرات اقبال کی فارسی شاعری کو کلاسیکی شاعری کا نمونہ قرار دیتے ہیں(۱)۔ یہ بات جزوی طور پر صحیح ہے مگر یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نئی ہیئت شاعری اورنیا انداز بیان اختیار کرنے کی بنا پر اقبال جدید ترین شعراے فارسی کی صف میں بھی شامل ہوگئے ہیں۔ ایک عرصے سے فارسی زبان و ادب کے محققین اورناقدین،فارسی شاعری کے اسالیب پر بحث جاری کیے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں فارسی نثر کے بارے میں بھی کتب و مقالات لکھے جاتے رہے ہیں۔ اِن سب بحثوں کا ماحصل یہ ہے کہ عصری تقاضوں اور ماحول کے مطابق، مصنفین اور شعرا خاص روش و نثر ونظم کو اپناتے رہے ہیں۔سبک(طرز) اگرچہ نام کے اعتبار سے مقامات و ممالک سے منسوب نظر آتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اعصاروازمنہ سے منسلک ہیں۔ فارسی شاعری کا آغاز، ایران قدیم کے ان مشرقی علاقوں سے ہوا جنھیں ہم ترکستان، خراسان اورماوراء النہر کے نام سے جانتے ہیں۔ پہلی صدی ہجری کے وسط میں عربوںنے ایران پر تسلط کیا مگر تیسری صدی ہجری کے اوائل تک ایرانیوں نے کافی حد تک آزادی اورداخلی خودمختاری حاصل کر لی تھی۔ ان حالات میں طاہریوں (۲۰۵۔۲۵۹ھ )، صفاریوں (۲۵۹۔۲۹۱ھ ) اورسامانیوں (۲۹۱۔۳۶۷ھ)کی حکومتیں جو مندرجہ بالا علاقوں میں قائم ہوئیں، فارسی ادب کے فروغ کے لیے نہایت درجہ کوشاں رہیں۔ان حکومتوں کے جانشین غزنوی اور سلجوقی سلاطین ہوئے اس سارے عرصے میں ترکستان اور خراسان کا وسیع علاقہ، فارسی ادب کا گہوارہ بنا رہا۔فارسی ادب ایران اورہمجوارممالک کے بعض حصوں میں پھیلتا گیا مگر شعر فارسی کے بیشترفصحا جیسے رود کی، دقیقی، فردوسی، فرخی، عنصری، منوچہری اور ناصر خسرو وغیرھم، ایران کے مشرقی علاقوں سے ہی اٹھے۔ ادبی اصطلاح میں ان شعرا کے اسلوب کو سبک ترکستانی بھی کہتے رہے ہیں مگرسبک خراسانی زیادہ متداول اصطلاح ہے۔ بعض محققین تبریز، آذربائجان اور اس کے نواح کے شعرا مثلاً خاقانی،نظامی ،فلکی اور قطران کے اندازِ شعر کو ’سبک آذربائجانی‘ کا نام دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ابتدا سے قرن ہفتم ہجری کے اوائل تک فارسی شاعری کا عام اسلوب، خراسانی ہی رہا ہے۔ البتہ آخری سو سال میں شعرا پرانی ڈگر سے کسی قدر ہٹ رہے تھے اس لیے انوری، ظہیر، خاقانی، نظامی اورعطار وغیرہ کے ہاں شعراے متقدم کے اسلوب سے کسی قدر اختلاف نظر آتا ہے۔ یہ لوگ سبک خراسانی کے نمائندے تھے مگر تغزل میں اس اسلوب پر چلتے نظر آتے ہیں جس نے نصف صدی بعد ایک نئے سبک یعنی سبک عراقی کو جنم دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ شعرا وغیرہ کا اسلوب نیم خراسانی اور نیم عراقی تھا۔ ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں چنگیز خان اوراس کے منگولی ٹولے نے ایران، خصوصاًخراسان کو تاخت و تاراج کیا۔ کئی علما، فضلا اور شعرا قتل ہوئے اور باقی نے عراق عجم (اصفہان، تہران ، رے، تبریز اورآذربائجان وغیرہ)کا رخ کیا۔ منگولوں، ایلخانیوں، خوارزمشاہیوں اور تیموریوں کے عہد میں شاعری بالعموم دربار سے نکل کر دور دور تک پھیلتی گئی۔ اب یہ توصیف، مدح اور پراپیگنڈا کا ذریعہ ہی نہ تھی، اس میں لطیف افکار، تصوف و عرفان، پندو اخلاق اور تفکر بھی سمونے لگا۔ اسے غزل کی زبان مل گئی تھی جسے اقبال ایرانی تفکر کا ایک نمایاں پہلو قرار دیتے ہیں(۲)۔ اصطلاحاً اس نئے اسلوب شعر کو جو کوئی تین سو سال تک متداول رہا ’سبک عراقی‘ کہتے ہیں۔ اس عرصے میں شعرا عراق عجم کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی تھے مثلاً شیراز میں سعدی اورحافظ تھے۔ بعض مصنف سعدی و حافظ کے اسلوب کو ’سبک فارسی‘ کہتے ہیں یعنی فارس (مشمولہ شیراز)کا اسلوب۔ یاد رہے کہ فارس اس وقت ایران کا ایک صوبہ ہے جس کا صدر مقام شیراز ہے مگر ۱۹۳۵ع تک پارس یا فارس کے نام کا پورے ’ایران‘ پر اطلاق ہوتا تھا۔ بہر حال ہمارے نزدیک ’سبک عراقی‘ ان تین صدیوں کی شاعری کا مناسب ترین نام ہے ورنہ شیراز کے شعرا کو ’سبک فارسی‘ کا نمائندہ کہیں تو قونیہ کے مولانائے روم، دہلی کے امیر خسرو اور ہرات کے مولانا جامی کے اسلوب کو کوئی اور نام دینا پڑے گا، اوران تکلّفات کا نتیجہ کچھ نہ ہوگا۔ سبک عراقی جس کی تفصیل بعد آئے گی، فارسی شاعری کا دلآویز ترین سبک ہے۔ برصغیر میں دسویں صدی ہجری سے عصر اقبال تک اس کا تتبع نہ رہا، مگر ایرانیوں نے انیسویں صدی عیسوی سے اس سبک (اور کسی حد خراسانی سبک کی طرف بھی)عود کر لیا تھا۔ جدید ایرانی محقق یہاں بھی ایک موشگافی دکھاتے اور دسویں صدی ہجری کے اکثر فارسی شعرا کو مکتب و قوع، کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک معاملہ بندی (وقوع)اور واسوخت لکھنا، سبک عراقی ہے نہ ہندی، بنابریں فغانی اور وحشی بافقی کے قیبل کے شعرا’شاعرانِ وقوع، ہیں(۳) اس اسلوب کی مثالیں بعد میں نقل ہوں گی۔ دسویں صدی ہجری کے اوائل سے ایران میں صفویوں کی حکومت قائم ہوئی جِس کا بانی شاہ اسماعیل اول (م ۹۳۰/۱۵۲۴ع ) تھا۔ صفوی، شیخ صفی الدین اردبیلی (م: ۱۳۳۴ع )سے منسوب تھے اور انھوں نے کوئی سوا دو سو سال تک حکومت کی ہے۔ ان کے دارالحکومت تبریز،قزوین اور اصفہان رہے۔ صفویوں کا دور، ترقی و پیشرفت کا دور ہے مگر عام شاعری کواس عہد میں سخت دھچکا لگا۔ مذہبی شعراکے علاوہ دوسروں کے بارے میں دربار حکومت عام طور پر بے التفات رہا۔ اس لیے اس عہد کے بیسیوں نامور شعرا و ادبا نے برصغیر پاک و ہند کی راہ لی اور مغل شاہنشاہوں اوران کے امرا کی فیاضیوں سے بہرہ مند ہونے لگے۔ اقبال نے اپنی ابتدائی دور کی ایک نظم ’ہندوستانی بچوں کا گیت‘ میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے برصغیر کی معارف پروری کی تعریف کی ہے: ٹوٹے تھے جو ستارے فارس(۴) کے آسماں سے پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے برصغیر میں وارد ہونے والے شعرا نے اپنی طبیعت کی یہاں خوب جولانیاں دکھائیں اور بعض مواقع پر شاعری کوریاضی اور دیگر علوم عقلی کا نمونہ بنا دیا۔ اقبال کے زیر اثر برصغیر اور افغانستان کے اکثر شعرا نے اب اس ڈگر کوترک کر دیا ہے۔ قرونِ مذکور کے شعرا کے سبک کو ’سبک اصفہانی‘ بھی کہتے ہیں مگر سبک ہندی کی اصطلاح زیادہ رائج ہے۔ اس کے خصوصیات بعدمیں ذکرہوں گے۔ ایران میں دسویں صدی ہجری کے اواسط سے بارہویں صدی ہجری کے اواخر تک سبک ہندی کا رواج رہا، اس کے بعد خراسانی اور عراقی اسالیب کی طرف رجوع کر لیا گیا۔ اصطلاح میں اسے ’احیائے ادبی، کا عہد کہتے ہیں۔ اس عہد کے چار شاعر آذر، نشاط،طاہرہ اورقاآنی اقبال کی تصانیف میں مذکور ہیں۔ سبک اقبال ناقدین فن نے اقبال کی مجموعی فارسی شاعری کو’سبک اقبال‘کا نام دیا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ برصغیر میں فارسی کے انحطاط کے دور میں ایک غیر فارسی زبان شاعر، ایک نیا ’سبک شعر وجود میں لے آئے۔ اس امر کا خود ایرانیوں کو اعتراف ہے کہ اقبال، رودکی، سعدی اور بابافعانی وغیرھم کے مانند، ایک نئے سبک شعر کے بانی ہیں جسے ان کے نام کے ساتھ منسوب کیا جانا چاہیے۔ ان کا یہ سبک اردو اور فارسی دونوں میں، اور ہر صنف سخن میں، نمایاں ہے۔ پروفیسر سعید نفیسی مرحوم نے لکھا ہے کہ اقبال کے فارسی شعر میںعرفی، فیضی، ظہوری،کلیم، صائب، بیدل اور غالب کے سبک کی بازگشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے ہاں سنائی، عطار، رومی، عراقی، اوحدی مراغی اور کمال خجندی کا رنگ ملتا ہے(۵)۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین خطیبی نے جو ملک الشعرا محمد تقی بہار مشہدی کے خاص شاگرد اور تہران یونیورسٹی میں سبک شناسی فارسی کے استاد ہیں، لکھا ہے: ’’اقبال کے سبک شاعری کو سبک اقبال کا نام دینا مناسب ہے۔ اقبال کے ہاں سبک ہندی کے عناصر تقریباً مفقود ہیں۔ انھوں نے منوچہری، ناصر خسرو، سنائی، عطار، رومی، سعدی، حافظ اور جامی ایسے اساتذہ شعرا کے سبک کا بغور مطالعہ کیا اور اپنے اشعار کو ان ہی قدیم سبک پر استوار کیا لیکن نئے مضامین و موضوعات کی بنا پر ان کا سبک، سبکِ اقبال بن گیا ہے ۔ ۔ ۔فارسی شاعری میں اقبال نے حیرت انگیز مہارت دکھائی اور اساتذہ کے رنگ میں انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ، دقیق و عمیق فلسفیانہ، صوفیانہ اخلاقی اور سائنسی مضامین بیان فرمائے ہیں۔ ان کی شاعری میں لغوی و معنوی دشواریوں یا الفاظ کے بے محل استعمال کی مثالیں بمشکل ملیں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معانی کی بلندی کے ساتھ اقبال کے الفاظ بھی بلند ہیں۔ اگرچہ اقبال کا مقصد محض شاعری نہ تھا، وہ حقائق بیان کرنے پر زیادہ متوجہ رہے مگر ان کے کلام کو پڑھیں تو فکر و فن ہم سطح و ہم ردیف نظر آتے ہیں‘‘۔(۶) کسی ایک سبک کی کوئی جامع و مانع تعریف پیش کرنا مشکل ہے۔ سبک اقبال کا بھی یہی حال ہے۔ علامہ کا اردو کلام ہو یا فارسی، اپنی انفرادیت کا ببانگ دہل اعلان کرتا ہے مگر اس اعلان کو صاحبان ذوق اور ان کے کلام کی مزاولت رکھنے والے ہی سن سکتے ہیں۔ دیگر اسالیب کی خصوصیات بعد میں بیان ہوں گی۔ اول یہاں سبک اقبال کے چند نمایاں خصوصیات بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ خصوصیات ’سبک عراقی ‘ کے بعد میں بیان ہونے والے خصوصیات کے سوا ہیں: سبک (طرز )اقبال کی پہلی خصوصیت فکر و فن کا حسین ترین امتزاج ہے۔ فارسی شاعری کے کسی مفکر شاعر کے ہاں الفاظ و معانی یوں ہم ردیف نظر نہیں آتے۔ مثال کی خاطر حضرت رومی کی تصانیف اور شیخ محمود کی گلشن راز پر ایک نظر ڈالیں۔ جہاں فکر و پیغام بڑھا، وہاں شاعری کا حسن ماند پڑ گیا۔ یہ حضرات شاعر محض تھے نہ اقبال۔ البتہ اقبال کی پیغام دوستی نے ان کی شاعری کا حسن کم نہیں کیا۔ اقبال کو لوگ فلسفی شاعر اور شاعر فلسفی کہتے رہے اور ان دونوں بیانات میں جزوی صداقت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں: ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت کہ درس فلسفہ می دارد و عاشقی ورزید بایں بہانہ دریں بزم محرمے جویم غزل سرایم و پیغام آشنا گویم پہلا شعر ان کے فلسفی شاعر ہونے کا غماز ہے اور دوسرا شاعر فلسفی ہونے کا موید۔ بہر حال ان کے کلام میں فکر و فن،نقطہ کمال پر نظر آتے ہیں۔ شعر اقبال کی دوسری خصوصیت، سادگی اور سادہ بیانی ہے۔ ذولسانین شاعر عام طور پر غیر مادری زبان میں گنجلک اور مشکل الفاظ استعمال کرتے اور زبان و بیان کی ہنر نمائی کی طرف توجہ دیتے رہے ہیں۔ اقبال کا مقصد ابلاغ عام تھا، اس لیے ان کے ہاں لفظی یا معنوی دشواریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے اردو کلام کی غیر معمولی اور غالب سے بھی بڑھی ہوئی ’فارسیت‘ کی بعض ناقدین کو شکایت(۷) ہو سکتی ہے، مگر فارسی کلام کے بارے میں ایسی بات کرنا انصاف کے خلاف اور کور ذوقی کی دلیل ہوگی۔ قرآن مجید کی مزاولت سے علامہ مرحوم نے آسانی و مشکل گوئی کے حدود سیکھے،یہی وجہ ہے کہ ان کی کئی اردو نظمیں دوسری جماعت کے بچے پڑھتے اور سمجھتے ہیں، اور علامہ کی اسی خصوصیت سے استفادہ کرتے ہوئے جناب پروفیسر سید محمد عبدالرشید فاضل صاحب نے ’درسیات اقبال‘ کے تین حصے مرتب کر کے چھپوائے ہیں(۸)۔ فارسی زبان والے ممالک میں اقبال کی فارسی تصانیف کے کئی حصے ابتدائی جماعتوں کے درس میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ اقبال ایسے مفکر شاعر کے لیے سادہ سے سادہ اشعار کہنا، ایک قابلِ فخر بات ہے مجھے ان کے کلام کے معتدبہ حصے میں فرخی سیستانی اور سعدی شیرازی کے کلام جیسی شان سہلِ ممتنع نظر آتی ہے۔ کیوں نہ ہو، آخر وہ شاعر تھے اور ماوراے شاعربھی۔ نہ پنداری کہ من بی بادہ مستم مثال شاعراں افسانہ بستم بہ جبریل امین ہم داستانم رقیب و قاصد و درباں ندانم دل سنگ از زجاج من بلرزد یم افکار من ساحل نورزد دمی در خویشتن خلوت گزیدم جہانی لازوالی آفریدم سبک اقبال کی تیسری خصوصیت، اس کا بے باک، زور دار اور انقلاب پرور لہجہ ہے۔ یہ لہجہ ان کی شاعری کی جان ہے اور اس نے لاکھوں دلوں کو مسخر کر لیا ہے۔ یہی لہجہ ہماری تحریک آزادی کا ایک نمایاں محرک رہا اور اس نے کتنے افراد کو جویا، پویا اور فعال بنایا ہے۔ غزل فارسی میں اقبال نے رومی کی غزلیات کا جوش بیان اپنایا۔ مگر رومی کا جوش بیان، بعض عارفانہ موضوعات کے لیے مختص رہا۔ اقبال کے ہاں عصری تقاضوں کے مطابق سب ہی کچھ ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: گرچہ متاع عشق را عقل بہاے کم نہد من ندھم بہ تخت جم آہِ جگر گداز را ــــــــــــ بہر نرخی کہ ایں کالا بگیری سودمند افتد بزور بازوی حیدرؓ بدہ ادراک رازی را ــــــــــــ اگر یک ذرہ کم گردد ز انگیز وجود من باین قیمت نمی گیرم حیات جاودانی را ــــــــــــ بہ کیش زندہ دلاں زندگی جفا طلبی است سفر بکعبہ نکردم کہ راہ بے خطر است ــــــــــــ ترا نادان امیدِ غم گساریھا ز افرنگ است؟ دل شاہین نسوزد بہر آن مرغے کہ در چنگ است ــــــــــــ تیر و سنان و خنجر و شمشیرم آرزوست بامن میا کہ مسلک شبیرم آرزوست ــــــــــــ ز قید و صید نہنگان حکایتے آور مگو کہ زورقِ ما روشناس دریا نیست ــــــــــــ مرید ہمت آن رہروم کہ پا نگذاشت بجادہ ای کہ درو کوہ و دشت و صحرا نیست ــــــــــــ لالۂ این چمن آلودہ رنگ است ہنوز سپر از دست مینداز کہ جنگ است ہنوز ــــــــــــ چو موج مست خودی باش و سر بطوفاں کش نرا کہ گفت کہ بنشیں و پابداماں کش؟ ــــــــــــ مثل شرر ذرہ را ذوق تپیدن دہم ذوق تپیدن دہم، بال پریدن دہم ــــــــــــ می توان جبریل را گنجشک دست آموز کرد شھپرش با موی آتش دیدہ بستن می توان ــــــــــــ گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟ گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن ــــــــــــ در دشت جنونِ من جبریل زبون صیدی بزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ ــــــــــــ بیروں قدم نہ از دور آفاق تو بیش ازینی، تو بیش ازینی از مرگ ترسی ای زندہ جاوید؟ مرگ است صیدے تو در کمینی جانے کہ بخشند دیگر نگیرند آدم بمیرد از بے یقینی اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو بالخصوص اور جہان اسلام کو بالعموم آزادی کے لے سینہ سپر کیا۔ یہی نہیں، انھوں نے دولت سے بے نیازی برتنے اور موت سے بے خوف رہنے کا موثر درس دیا۔ بیسوبں صدی کے اوائل میں ایرانی شعرا نے آزادی اور حقوق مشروط کے حصول کی خاطر بے باکانہ جدوجہد کی، اور ایمان پرور شعر کہے۔ اقبال نے بھی ان کے جس قدر اشعار دیکھے، ان کی تعریف کی ہے(۹)۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایرانی شعرا کو اقبال کا سا متین اور متنوع لہجہ میسر نہ آیا، اور بعض ایرانی از روئے تعصب اس امر کی تاویلات پیش کر رہے ہیں، مثلاً پروفیسر عباس مہرین شوشتری، جو سالہا سال ہندوستان اور پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے، لکھتے ہیں کہ ایران کے معاصر شعرا کو وہ ماحول نہ ملا جو اقبال کو میسر رہا ورنہ وہ بھی وطنیت سے بالاتر ہو کر بات کرتے اور جہان اسلام میں اپنی آواز پہنچا سکتے(۱۰)۔ کاش وہ یہ بتا سکتے کہ ان کا مدعااظہار تعصب کے علاوہ کیا ہے؟ بہر حال اقبال کا بے باک لہجہ ایک بے نظیر چیز ہے، اور اس کی غایت کو ان کے جذبہ انسان دوستی میں دیکھا جا سکتا ہے: حرکت اعصاب گردون دیدہ ام در رگ مہ حرکت خون دیدہ ام بہر انسان چشمِ من شبھا گریست تا دریدم پردہ اسرار زیست از درون کارگاہِ ممکنات بر کشیدم سر تقویم حیات اقبال کی شاعری کی چوتھی خصوصیت، اِن کی ابداعات ہیں۔ آپ نے پرانی اصطلاحات کو نئے معانی دیے، متداول الفاظ کے معانی میں توسیع پیدا کی، نئی تراکیب وضع کیں اور بعض نئی تعبیرات ازخود تخلیق کیں۔ ان کے ہاں خودی، بیخودی، عشق اور خرد وغیرہ معمولی معانی کے آئینہ دار نہیں ہیں۔ گرہ خوردہ نگاہ، جنگاہ، طائر پیش رس، تازہ کاری، گران رکابی، افرنگ زدہ، شعلہ درگیر، قدر انداز، زادہ باغ و راغ، فاختہ کہن صغیر، نغمہ پار، اثر باختہ آہ، حاضر آرائی، ایازی، محمودی، سمرقندی، تبریز، ہنگامۂ چنگیز، آشوب ہلاکو، کوفہ وشام اور گرمی سومنات نیز جذبہ، ہنگامہ، گرمی اورآشوب وغیرہ کی نئی نئی تعبیرات سے ان کا کلام مملو ہے۔ ایسے استعارات، کنایات نیز نئے اسامی و اماکن جیسے فرامرز، جہان درست، اور مرغدین وغیرہ اقبال کی زبان شناسی، قادر کلامی، جودت طبع اور خلاقی ذہن کے زندہ ثبوت ہیں۔ ان چار خصوصیات کے علاوہ بعض خصوصیات ان کی فارسی شاعری پر عمومی تبصرہ کے دوران بیان ہو جائیں گے۔ عمومی تبصرہ (کتب، اصناف سخن) اقبال کی اُردو شاعری کے قابل ذکر نمونے ۱۸۹۴ع کے سال سے، جب وہ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم تھے دست یاب ہیں(۱۱)۔ ایم۔اے فلسفہ (۱۸۹۹ع)کرنے، اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ، عربی اور انگریزی کی تدریس فرمانے (۱۸۹۹۔۱۹۰۵ع)اور علم الاقتصاد تصنیف کرنے (اشاعت اول ۱۹۰۴ع) کے بعد ۱۹۰۵ع میں جب وہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن روانہ ہوئے، اس وقت تک ان کی اردو شاعری کی دھوم سارے برصغیر میں مچ چکی تھی۔ مگر جیسا کہ پیشتر لکھا گیا، اس وقت تک فارسی میں ان کے کہے ہوئے اشعار میں سے صرف کوئی ایک سو دست یاب ہیں۔ یورپ کے سہ سالہ قیام کے دوران، اقبال نے فارسی گوئی کی طرف خصوصی توجہ دی، سر شیح عبدالقادر نے دیپاچہ بانگ درا میں اِس ’ مرحلہ انعطاف‘ کے بارے میں اقبال کے قیام لندن سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ نقل فرمایا ہے: ’’ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں؟ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ انھوں نے سوائے ایک آدھ شعر کبھی کہنے کے، فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمایش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آکر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انھوں نے زبانی مجھے سنائیں۔ ان غزلوں کے کہنے سے انھیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کاحال معلوم ہوا جس کا پہلے انھوں نے اس طرح امتحان نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اردو نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا‘‘(۱۲) اگرچہ علامہ مرحوم کی ’زبانی‘سنائی ہوئی غزلوں کی نشاندہی مُشکل ہے مگر واقعہ مذکور اقبال کی فارسی پسندی کے لیے ضرور محرک بنا ہوگا۔ علامہ کی فارسی گوئی کی دیگر وجوہ اس سے قبل بیان ہوچکیں۔ اقبال کی مثنوی اسرار خودی ۱۹۱۵ع میں چھپی۔ اس کے آغاز کا ماہ و سال ہمیں معلوم نہیں مگر قرائن بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے سے قبل اس کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس مثنوی، اور اس کے بعد لکھے جانے والی مثنوی (رموز بے خودی، اشاعت اول۱۹۱۸ع )میں خودی و بے خودی سے متعلق اقبال کی اساسی تعلیمات ملتی ہیں اور پہلی جنگ عظیم کے وقائع کا ان پر پرتو معمولی نوعیت کا ہے۔ اقبال کی دیگر تصانیف میں اس خوفناک جنگ کے بعض انعکاسات دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہر حال، اقبال نے زندگی کے آخری ۲۵ سالوں (اواخر ۱۹۱۳ع تااوائل ۱۹۳۸ع )میں فارسی گوئی کی طرف زیادہ توجہ مبذول رکھی اور اس زمانے کی ان کی اردو شاعری میں ’فارسیت‘ کا عنصر غالب نظر آتا ہے۔ بقول سر عبدالقادر کے (دیباچہ بانگ درا)اقبال، اپنے اشہب قلم کو کسی قدر تکلّف کے ساتھ میدان فارسی سے عرصہ اردو کی طرف موڑتے رہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب مرحوم کے اردو کلام میں ’فارسیت‘ کی فراوانی ہے، مگر فارسی شاعروں کے مصرعوں اورشعروں پر تضمینوں، تراجم اور دیگر تاثرات قبول کرنے کے لحاظ سے اقبال کا اردو کلام، اردو کے ہر دوسرے شاعری کے مقابلے میں فارسی سے زیادہ قریب ہے۔ بلکہ قرآنِ مجید کی آیات، احادیثِ رسول ؐ، بزرگانِ دین کے اقوال اور تاریخ اسلام کی تلمیحات سمونے کی وہ روایت جو اردو نثر نگاروں اور شاعروں کے ہاں موجود رہی، وہ بھی اقبال اوران کے ہم سن معاصرین پر تقریباً ختم ہوگئی مگر بعض ناقدین نئی روشِ شاعری سے خوش ہیں(۱۳)۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ اقبال نے اردو شعراکے کلام پر تضمین کمتر کی ہے۔ سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی کا ایک مصرع اور مرزا غالب کے چند مصرعے اور اشعار ان تضمینوں کی کل کائنات ہیں۔ کیفیت، ہمارے اِس کتابچہ کے ہر صفحے سے ہویدا ہے۔ اقبال کی فارسی مثنویاں اقبال کی بیشتر فارسی شاعری، صنف مثنوی میں ہے۔ ایک مثنوی گلشن راز جدید (مشمولہ زبورعجم)کے سوا جو شیخ محمود شبستری کی ’گلشن راز‘ کے جواب میں اور اسی بحر میں ہے(بحر ہزج مسدس محذوف یا مقصور یعنی مفاعیلن، مفاعیلن،مفاعیل یا فعولن)، ان کی دیگر تمام مثنویاں اسرارخودی، رموزبے خودی (موجودہ اسرار و رموز) جاوید نامہ، مسافر، پس چہ باید کرد اور بندگی نامہ (شامل زبور عجم)حضرت مولانا جلال الدین محمد رومی کی مثنوی شریف کی معروف بحر میں ہیں(بحر رمل مسدس محذوف یا مقصور جو زحافات میں فاعلاتن،فاعلاتن فاعلات یا فاعلن ہے)۔مثنوی اسرار خودی کے بارے میں اقبال نے تصریح کی ہے کہ اسے لکھتے وقت انھوں نے مثنوی معنوی اور مثنوی بوعلی قلندر پانی پتی کے اسلوب کو پیش نظر رکھا ہے۔ اسرار خودی کی تمہید لکھنے میں انھوں نے ظہوری ترشیزی کے معروف ساقی نامہ کی پیروی کا اعتراف کیا ہے (۱۴)۔ اس قسم کی پیروی کی توضیح اپنے مقام پر آئے گی مثنوی رموز بے خودی، پہلی مثنوی کا تکملہ ہے۔ان دونوں مثنویوں میں اقبال نے رومی کی مثنوی اور دیوان کبیر، نیز بوعلی قلندر کی مثنوی اور عرفی و نظیری کے بعض اشعار نقل و تضمین کیے ہیں۔ اقبال کی دیگر مثنویوں میں بھی نقل اور تضمینوں کی یہی حالت ہے۔بعض مثنویوں میں انھوں نے اپنی یا دیگر شعرا کی غزلیں بھی نقل فرمائی ہیں۔ یہ انداز امیر خسرو یا عراقی وغیرہ کی مثنویوں میں نظر آتا ہے، مگر اقبال کے ہاں یہ جدت قابل توجہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کی غزلیں تضمین فرمائی ہیں۔ رومی نے سنائی و عطار وغیرہ کے چند شعر ضرور تضمین کیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی جدتیں کئی اعتبار سے بے نظیر ہیں۔ دوبیتیاں (رباعیات) پیام مشرق کا ابتدائی حصہ (لالہ طور)اور ارمغان حجاز (حصہ فارسی )تماماً دو بیتیوں پر مشتمل ہے۔ اس وزن میں ارمغان حجاز (حصہ اردو) اور بال جبریل میں متعدد دوبیتیاں موجود ہیں۔ پیام مشرق میں انھوں نے ان دو بیتیوں کو ’رباعیات‘ لکھا ہے لفظی طور پر واقعی یہ ’رباعیات‘ ہیں مگر اصطلاحی طور پر ایسا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان کا وزن ’لاحول ولاقوۃ الاباللہ‘ نہیں جس کے ۳۴ زحافات رباعی کے لیے مخصوص رہے ہیں۔ اقبال کی یہ دو بیتیاں، دراصل ترانے ہیں جن کا وزن بابا طاہر عریاں ہمدانی (قرن پنجم ہجری کے شاعر)کی معروف پہلویات یا فہلویات کے وزن کا ہے۔ علامہ نے خود اشارہ کیا ہے کہ انھوں نے بابا طاہر کی دو بیتیوں کا اسلوب اپنایا ہے(۱۵)۔ ان سب دو بیتیوں کا وزن ہزج مسدس محذوف یا مقصور ہے جس کا ذکر ’گلشن راز‘ میں ہو چکا ہے۔ اقبال نے رباعی کے خاص وزن کی طرف توجہ نہیں دی مگر اپنے زور بیان سے دو بیتی کو رباعی بنا دیا ہے۔ رباعی کے چار اشعار میں کوئی خاص مضمون بیان کیا جاتا ہے۔ اقبال کی دو بیتیوں کا بھی یہی عالم ہے۔ شعرا نے بالعموم رباعی یا دو بیتی کی ظاہری ہیئت کی پابندی کی ہے۔ پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع مردف و مقفی ملتا ہے جبکہ تیسرا مصرع آزاد نظر آتا ہے یا بعض جگہ مقفی اور مردف اقبال نے متعدد دو بیتیوں میں پہلا اور تیسرا مصرع بے ردیف و قافیہ رکھا اور اس طرح اپنی آزادہ روی اور جدت پسندی کا ثبوت دیا مثلاً: سحر مے گفت بلبل باغبان را دریں گل جز نہال غم نگیرد بہ پیری می رسد خار بیاباں ولے گل چوں جو ان گردد بمیرد مسلمانے کہ در بند فرنگ است دلش در دست او آساں نیاید ز سیماے کہ سودم بر در غیر سجودے بوذرؓ و سلمانؓ نیاید بہر حال، جیسا کہ ہم نے ایک مقالے میں بھی لکھا تھا(۱۶) تسلسل بیان اوروسعت معانی کے لحاظ سے اقبال کی ہر دو بیتی اردو یا فارسی کے بڑے بڑے رباعی گو شعرا جیسے اکبر یا حالی، یا خیام، رومی، سعدی اور سحابی وغیرہ کی ہر رباعی کے مقابلے میں رکھی جا سکتی ہے۔ غزلیات اقبال کی فارسی غرلیات کے سدا بہار اور دلآویز نمونے پیام مشرق (حصہ مئے باقی) اور زبور عجم (حصہ اول و دوم) میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مثنوی گلشن راز جدید اور مثنوی مسافر میں ایک ایک اور جاوید نامہ میں چند غزلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ اقبال کے اردو مجموعہ ہائے کلام میں بھی فارسی غزل و تغرل کے نمونے ملتے ہیں۔ غرض، اقبال کی فارسی غزلیات بھی دیوان حافظ کی نصف ضخامت کی حامل ہیں۔ اقبال کی غزل اُن کی فارسی شاعری کا گل سرسبد ہے۔ غزلیات کا معتدبہ حصہ اساتذہ کے قالب ہائے شعر سے ہم آہنگ ہے البتہ لفظ و معنی کے اعتبار سے ان غزلوں کا دوسروں کی غزلوں کے ساتھ مقائسہ و موازنہ کرناتحصیل حاصل ہوگا: غزل آن گو کہ فطرت ساز خود را پردہ گرداند چہ آید زان غزل خوانے کہ با فطرت ہم آہنگ است در غزل اقبال احوالِ خودی را فاش گفت ز آنکہ ایں تو کافر از آئین دیر آگاہ نسیت یہاں روسی، عراقی، سعدی، خسرو، حافظ، جامی، فغانی اور نظیری وغیرہ کی غزلوں کے ہم طرح ضرور ہیں مگر روح شاعرِ مشرق کی اپنی ہے، نمونے بعد میں ملاحظہ فرمائیے گا۔ اقبال نے زبان غزل کو بے انتہا دسعت دی، ان کے تتبع میں غزل میں دنیا بھر کے مضامین سمونا، ہنرمندی ہے۔ ان کی غزلیں اس قابل ہیں کہ دوسرے شاعر ان کی تقلید کریں اور پیغام وتغزل کو ممزوج و مخلوط کرنے کی کوشش کو آگے بڑھائیں۔ اقبال کا یہ بڑا کمال ہے کہ غزل میں ہر قسم کے مضامین ادا کر دیے مگر زبان کے لوچ میں فرق نہ آنے دیا۔ شاعر مشرق کا مقصد ابلاغ تھا، نہ کہ ہُنر نمائی مگر ابلاغ پیغام نے غزل کے تقاضوں کو اتنا معمولی مجروح کیا کہ ہر کہ و مہ اس امر کی نشان دہی بھی نہیں کر سکتا۔ اقبال فرماتے ہیں: بایں بہانہ دریں بزم محرمے جویم غزل سرایم و پیغام آشنا گویم نعمہ کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست سوے قطار می کشم ناقہ بے زمام را وقت برہنہ گفتن است، من بہ کنایہ گفتہ ام خود بگو کجا برم ہم نفسانِ خام را اقبال کی بے بدل اور کم نظیر فارسی غزل کے بعض خصوصیات کے بارے میں ان کے ایک ارادت مند دوست چودھری محمد حسین مرحوم کی ایک عمدہ تحریر کا اقتباس ہماری اس بحث کا تتمہ ہے۔ ۱۹۲۷ع میں ’زبور عجم‘ کی اشاعت اول کی مناسبت سے انھوں نے لکھا تھا: ’’۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقبال نے انتہائی کوشش کر دکھائی ہے کہ غزل کو پیغام کے رتبے تک لے جائے۔ یہ کوشش قابل ستائش ہے اور مشرقی علم و ادب کی تاریخ میں اپنی قسم کی پہلی مثال ہے۔ آج عراقی، سعدی، حافظ، عرفی، نظیری، صائب اور غالب وغیرھم ہوتے تو جس فن کو انھوں نے شروع کیا تھا اور جس کے کمالات دکھانے میں زندگی صرف کر دی، اسے حد کمال کو پہنچا ہوا دیکھ لیتے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتے کہ اقبال، غزل کو پیغام کی منزل تک لے جانے میں اسے بعض ضروری لوازم سے محروم کر رہا ہے کہیں مطلع نہیں لکھتے(۱۷)، مقطع کی تو پروا ہی نہیں کرتا اور اشعار غزل کی تعداد، اس کے نزدیک بے معنی قید ہے تو شاید وہ اقبال کی غزل کو کوئی نیا نام دیتے جسے اختراع کرنے سے ہم قاصر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غرض، غزل کا یہ عروج، مشرقی شعر کے عروج(۱۸) کی حد ہے۔‘‘ مستزادات مستزادات کی مختلف صورتیں فارسی شاعری میں پانچویں صدی ہجری /گیارہویں صدی عیسوی سے تا امروز جاری رہی ہیں۔ مصرع اول اور مصرع ثانی معنوی طور پر کہیں مربوط ہیں اور کہیں غیر مربوط مگر صوری طور پر ہر بڑے مصرع پر ایک چھوٹا مصرع یا چند مصرعوں پر ایک ہم وزن یا مختلف الوزن مصرع اضافہ شدہ نظر آتا ہے۔ محققین کا خیال ہے(۱۹) کہ مسعود سعد سلمان لاہوری (م ۵۱۵ھ )غالباً پہلا فارسی شاعر ہے جس نے متسزادات لکھے ہیں۔ اس کے باوجود، پیام مشرق اور زبور عجم میں موجود اقبال کے مستزادات ایسے نمونے فارسی ادب میں بہت کم دیکھے جا سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل زبان نے ان منظومات پر اَش اَش کیا ہے(۲۰)۔ پیام مشرق کے مستزادات فصل بہار، سرود انجم، کرمک شب تاب، حدی اور شبنم کے زیر عنوان دیکھے جا سکتے ہیں۔ زبور عجم کے چار مستزاد آمیز منظومات کے افتتاحی بیت دیکھیں: ۱۔ یا مسلماں راحدہ فرماں کہ جاں بر کف بنہ یا دریں فرسودہ پیکر تازہ جانی آفریں یا چناں کن یا چنیں ۲۔ مانند صبا خیز و وزیدن دگر آموز دامان گل و لالہ کشیدن دگر آموز اندر دلک غنچہ خزیدن دگر آموز(۲۱) ۳۔ ای غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز کاشانہ ما رفت بتاراج غماں خیز از نالہ مرغ چمن از بانگ اذاں خیز از گرمی ہنگامہ آتش نفساں خیز از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز از خواب گراں خیز ۴۔ خواجہ از خون رگ مزدور سازد لعل ناب از جفای دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب انقلاب انقلاب ای انقلاب ایسے روح پرور نغمے ہمیں تلاش بسیار کے باوجود فارسی ادب میں نہ مِل سکے، اور آنجہانی پروفیسر آربری نے انھیں عربی ادب کے لیے بھی نادر اور بدیع بتایا ہے(۲۲)۔ اقبال کی متفرق اختراعات اور جدتیں اقبال کی مثنوی جاوید نامہ صوری اور معنوی ابداعات کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ کتاب مثنوی میں ہے، مگر اس میں اقبال کی اپنی، نیز رومی، غالب اور طاہرہ بابیہ وغیرہ کی غزلیں بھی مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ رومی اور غالب کی مثنویوں کے اشعار بھی تضمین شدہ نظر آتے ہیں۔ چند ترکیب بند اور مستزادیہ ترجیع بند بھی کتاب میں موجود ہیں۔ ان تنوعات نے کتاب کو بے حد دلچسپ بنا دیا ہے۔ معنوی اعتبار سے بھی یہ کتاب فی الحال فارسی ادب کی کتاب اول ہے۔ کتاب روایات معراج کے اتباع میں لکھی گئی ہے۔ یوں تو روایات معراج کا انعکاس اسلامی ادب میں کافی ہے(۲۳) ایک فارسی شاعر کا ارداویراف نامہ، بایزید بسطامی کے عربی ملفوظات، سنائی کی مثنوی سیرالعباد الی المعاد، عطار کی مثنوی منطق الطیر ابن عربی کی الفتوعات المکیہ اور رسائل، ابو العلا معری کا رسالتہ الغفران ابو عامر اندلسی کا رسالۃ التوابع و الزوابع اور دانتے کی ڈیوائن کامیڈی، وغیرہ سب ہی افلاکی سفر کے نمونے ہیں مگر اقبال کے جاوید نامہ کا رنگ منفرد ہے: آنچہ گفتم از جہانے دیگر است این کتاب از آسمانے دیگر است پیام مشرق اور ارمغان حجاز کے منظومات اور ان کے عنوانات کے تنوع پر نظر ڈالیں تو مسحور کن نظر آتے ہیں۔ شاعری میں ہیئت کے نئے تجربے (مستزادات نو )بیان ہو چکے۔ نیز شاعر مشرق کی تراکیب سازی اور اصطلاحات تراشی کی بے نظیر قوت کی طرف بھی اشارہ ہو چکا۔ غرض ہر چیز کمال کے انتہاے مقام پر نظر آتی ہے اور اسی وجہ سے ملک الشعرا بہار، اقبال کو عصر حاضر کا بے نظیر مفکر اور حجۃ الشعر و التفلسف قرار دیتے ہیں: عصر حاضر خاصۂِ اقبال گشت واحدی کزصد ہزاراں برگذشت عالم از حجت نمی ماند تہی فرق باشد از ورم تا فربھی ایک معاصر ایرانی شاعر جناب کاظم رجوی ایزد شعرا فارسی کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اب بالالتزام اقبال کی ہی پیروی کریں: مولوی وسعدی و حافظ تجلی کردہ اند در ہمہ افکار و در آمال و در امیال او شاعران را باید از اندیشہ او پیروی تابیار آید ز اقوال شان ہمہ افعال او اقبال اور فارسی شعرا ، اقبال اکادمی پاکستان ،لاہور ، ۱۹۷۷ء حواشی ۱۔ Poems from Iqbal(وکٹر کیرنن)دیباچہ۔ ۲۔ The Development of Metaphysics in Persia :تعارف ۳۔ مکتب وقوع در شعر فارسی ۴۔ اقبال نے یہاں فارس کے لفظ میں ’ر‘کو متحرک اور مفتوح باندھا ہے حالانکہ یہ ساکن ہے۔ ۴۔ رومی عصر، ص ۱۲۴ ۶۔ ایضاً، ض ۱۵۶ (اردو اقتباس ہمارا ترجمہ سمجھیے)۔ ۷۔ A History of Urdu Literatureمیں اقبال کا ذکر۔ ۸۔ شائع کردہ اقبال اکادمی پاکستان، ۹۔ اقبال نامہ ، دوم ص ۱۵۷۔ ۱۰۔ تاریخ زبان و ادبیات ایران در خارج از ایران ص ۱۵۴۔ موصوف یہاں اقبال کو فلسفے سے بھی تقریباً کورا قرار دیتے ہیں۔ آخر ہند کے پنشن خوار جو ہیں! ۱۱۔ باقیات اقبال، طبع ثانی۔ ۱۲ ۔ اقبال کے قیام یو رپ کے دوران کی ایک غزل ’اقبال‘ مولفہ عطیہ بیگم (ترجمہ ضیا الدین برنی ، ص ۷ ۔۸) میں دستیاب ہے ۔ یہ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی ہے اور مطلع یوں ہے: ای گل ز خار آرزو آزاد چون رسیدۂ تو ہم ز خاک این چمن مانند ما دمیدۂ ۱۳۔ Poems from Iqbal(وکٹر کیرنن) توضیح نمبر ۱۔ ۱۴۔ اقبال نامہ اوّل، ص ۸۶، اور دوم، ص ۱۴۹۔ ۱۵۔ گفتار اقبال (مرتبہ: محمد رفیق افضل) ص ۲۴۲۔ ۱۶۔ ماہنامہ ماہ نو کراچی، اپریل ۱۹۷۰ء نیز فاران کراچی مئی ۱۹۷۱ئ۔ ۱۷۔ اقبال کا اپنا بیان: مکاتیب بنام گرامی، ص ۱۶۴۔ ۱۸۔ ماہنامہ ادبی دنیا لاہور، اپریل و مئی ۱۹۷۰ء ص ۴۹۔ ۱۹۔ مباحث بر سبک خراسانی در فارسی۔ ۲۰۔ یک چمن گل، ص ۵۔ ۲۱۔ یہ مثال مسمطات کے تحت مثلت کی ہے۔ ۲۲۔ Aspects of Islamic Civilization میں اقبال کا ذکر۔ ۲۳۔ ’’جاوید نامہ پر ایک نظر‘‘ از چودھری محمد حسین (نیرنگ خیال،اقبال نمبر)۔ ماہنامہ ادبی دنیا لاہور اگست ۱۹۷۱ء میں راقم کا مقالہ نیز راقم کا مقالہJournal of Cultural Institute of R.C.D. Tehran, Spring 1975میں عنوان ہے: "Javid Nama : A Unique Persian Book" نوجوان شاعر، اقبال (ایک تجزیہ) پروفیسر محمد عثمان ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۵ء تک کا زمانہ اقبال کے شباب کا زمانہ تھا۔ شاعری کے اعتبار سے تو اسے عنفوان شباب بھی کہہ سکتے ہیں لیکن خود اقبال اپنی اس منزل سے گزر چکے تھے۔ ان کی پیدائش ۱۸۷۷ء میں ہوئی تھی۔ ۱۹۰۱ء میں ان کی عمر ۲۳برس کی ہوگی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے کرنے کے بعد پہلے اورئینٹل کالج میں اورپھرگورنمنٹ کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے تھے اوران کا زیادہ وقت پڑھنے اور پڑھانے میں گزرتا تھا۔ بانگِ درا کا پہلا حصہ اس کلام پر مشتمل ہے جو انھوں نے اس عہد میں یعنی ۲۳، ۲۴ برس سے ۳۲ برس کی عمر تک لکھا۔ اس کم و بیش پانچ سال کی شاعری کو بعض نقادوں نے’دورِ اول کی شاعری‘ کہا اور بعض نے اسے قومیت یا وطنیت کی شاعری سے تعبیر کیا ہے۔ بہر حال یہی وہ زمانہ ہے جس میں کہی ہوئی نظمیں اور غزلیں اور ان کا کہنے والا نوجوان اقبال اس مطالعہ کا موضوع ہے۔ ۱۔ فلسفیانہ تفکرّ فلسفہ کی طرف میلان اور کالج میں بطورِ مضمون کے اس کا انتخاب اس امر کا ثبوت ہے کہ طبعیت میں گہرے غور و فکرکا رنگ پایا جاتا تھا۔ یوں تو ہر تعلیم یافتہ اور علم و فن سے ذوق رکھنے والا شخص زندگی کے بعض پہلوؤں پر غور کرتا ہے مگر وہ لوگ جو فلسفہ کی طرف خاص طور پر بڑھتے ہیں، ان کا فکر دوسرے لوگوں سے خاصا ممتاز ہوتا ہے۔ عام لوگ زندگی کے ظواہر مثلاً سیاسیات، معاشیات، اجتماعیات وغیرہ کے مسائل کے متعلق سوچتے سمجھتے ہیں۔ فلسفہ کا رسیا زندگی اور کائنات کی بنیاد پر غور کرتا ہے۔ اس کا ذہن مادہ اور زندگی کی ظاہری سطح سے گزر کر وراء مادہ سے پھوٹنے والی الجھنوں کو حل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ وہ صرف یہ نہیں دیکھتا ہے کہ موجودہ زندگی کیسی ہے اور کیا ہونی چاہیے بلکہ اس بات کی کھوج لگاتا ہے کہ زندگی ہے کیا؟ یہ کیا تھی؟ کیا ہو گی؟ اور یہ کیوں ہے؟ دوسرے لفظوں میں یہ لوگ زندگی کی رفتار اور اس کی اصلاح پر ہی نظر رکھنا کافی نہیں سمجھتے بلکہ اس کی ماہیّت اور اس کی ابتدا اور انتہا کو سمجھنے کی جستجو بھی کرتے ہیں۔ بانگِ درا کے پہلے حصّے میں یہ رجحان اقبال کا سب سے نمایاں اور اہم رجحان ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں۔ اوّل یہ کہ روز مرہ کے واقعات کو وہ اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے عام لوگ انہیں دیکھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور انہیں قابلِ توجہ اور دَر خورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ پروانے ہر رات شمع پر آ آ کر گرتے ہیں اور جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ میرے اور شاید آپ کے لیے یہ واقعہ زندگی کے معمولات میں سے ہے، لیکن نوجوان اقبال کی نظر میں یہ، غیر معمولی، واقعہ ہے۔ جب اس کی نگاہ اس منظر پر پڑتی ہے تو وہ ٹھٹک جاتا ہے۔ اس کے دل میں بیسیوں سوال اٹھتے ہیں۔ اسے شمع کی روشنی پر پروانے کے جل مَرنے میں کوئی سربستہ راز، کوئی پر اسرار معنویّت دکھائی دیتی ہے اور اس کا استفسار ایک گہرے تحیّر میں ڈوب جاتا ہے: پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں؟ یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں؟ سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے آدابِ عشق تو نے سکھائے ہیں کیا اسے؟ کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا پھونکا ہوا ہے کیا تری برقِ نگاہ کا؟ آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟ شعلے میں تیرے زندگیِٔ جاوداں ہے کیا؟ پروانہ اور ذوقِ تماشائے روشنی! کیڑا ذرا سا اور تمنّائے روشنی! دوم یہ کہ چونکہ غور و فکر کی ابتدا ہے، جستجو کا آغاز ہے، اس لیے شاعر سراپا استفسار اور یکسر سوال بنا ہوا ہے اور اسے اپنی اس کیفیّت کا شدید احساس ہیـــــ گلِ رنگین، بانگِ درا کی دوسری نظم ہے۔ اس میں نوجوان شاعر اپنے آپ کو ’’سراپا سوز و سازِ آرزو‘‘ اور زخمی شمشیرِ ذوق جستجو، کہتا ہے ا ور اس کے بیان میں اتنا خلوص اور اتنا درد ہے کہ پڑھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا: تو شناسائے خراشِ عقدۂ مشکل نہیں اے گلِ رنگیں! ترے پہلو میں شاید دل نہیں زیبِ محفل ہے شریکِ شورشِ محفل نہیں یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں مَیں سراپا سوز و سازِ آرزو اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو سو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے میری صورت تو بھی اِک برگ ریاضِ طور ہے میں چمن سے دور ہوں تو بھی چمن سے دُور ہے مطمئن ہے تو پریشاں مثلِ بو رہتا ہوں میں زخمیٔ شمشیر ذوقِ جستجو رہتا ہوں میں سوم یہ کہ شاعر کی حیثیت سے اقبال زندگی یا فطرت کے جس مظہر کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اس کا دل اس مظہر کی حقیقت کو پا لینے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مچل جاتا ہے، بے قرار ہو جاتا ہے۔ اس جذبہ کے ماتحت وہ کبھی ماہ نو، آفتابِ صُبح اور گُلِ پژمردہ سے مصروف گفتگو ہوتا ہے اور کبھی ’چاند‘ ، ’گلِ رنگین‘ اور ’شمع‘ سے۔ شاعران سے طرح طرح کے سوال کرتا۔ ان سے اپنے دل کی کہتا اور ان کے دل کی سننے کی خواہش کرتا ہے۔ نظم ’گلِ رنگین‘سے جو ٹکڑے ابھی آپ کی نظر سے گزرے ہیں ان سے میرے اس خیال کی تصدیق ہو سکتی ہے لیکن اس پہلو کی سب سے بہتر نمائندگی وہ نظم کرتی ہے جس کا عنوان ’خفتگانِ خاک سے استفسار‘۔ زندگی کی اصل کیا ہے؟اس مسئلہ کا حل بہت کچھ ’موت کیا ہے؟‘کے حل پر منحصر ہے۔ مابعد الطبیعات کے جس قدر نظامِ انسانی ذہن نے تعمیر کیے ہیں اس کی اساس موت کے کسی نہ کسی تصّور پر قائم ہوتی ہے۔ اگر ہماری سمجھ میں یہ بات صاف ہو جائے کہ موت کیا ہے تو زندگی کی گتھی اس کی روشنی میں خودبخود سلجھنے لگتی ہے۔ اقبال نے متذکرہ بالا نظم میں اوپر تلے کم و بیش تیس بتیس سوال خفتگانِ خاک سے کیے ہیں۔ سوالات کی نوعیّت اور ہمہ گیری اور اندازِ بیان کے جوش سے بآسانی اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعر فطرت کے اس مظہر کو تمام و کمال جان لینے کے لیے کس قدر بے قرار ہے۔ چند اشعار ملاحضہ فرمائیے: اے مئے غفلت کے سرمستو! کہاں رہتے ہو تم؟ کچھ کہو اس دیس کی آخر جہاں رہتے ہو تم وہ بھی حیرت خانۂِ امروز و فردا ہے کوئی؟ اور پیکارِ عناصر کا تماشا ہے کوئی؟ آدمی واں بھی حصارِ غم میں ہے محصور کیا؟ اس ولایت میں بھی ہے اِنساں کا دل مجبور کیا؟ اس جہاں میں اک معیشت اور سو افتاد ہے رُوح کیا اس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟ کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے خرمن بھی ہے؟ قافلے والے بھی ہیں؟ اندیشۂ رہزن بھی ہے؟ واں بھی کیا فریادِ بلبل پر چمن روتا نہیں؟ اس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دلِ ہوتا نہیں؟ جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟ واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟ آہ! وہ کشور بھی تاریکی سے کیا معمور ہے؟ یا محبـت کی تجلّی سے سراپا نور ہے؟ تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے لیکن نوجوان اقبال ۲۴، ۲۵ برس کے اقبال، کے متعلق اس باب میں سب سے اہم بات بیان کے قابل یہ ہے کہ وہ اس غور و فکر، تلاش و جستجو اور سوز و ساز کی ابتدائی منزل میں بھی عجب طرح کا اعتماد اپنے اوپر اور انسان کی عظمت پر رکھتا ہے جس کی وجہ سے اس کا ذوقِ استفسار اور دردِ استفہام اسے تشکیک یا قنوطیت کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ وہ اپنے نوخیز وجدان کے سہارے امیّد و یقین کی طرف بڑھتا ہے۔ پڑھنے والے کو بے تاب جستجو اور پختہ اعتماد کا یہ امتزاج دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ ’آفتابِ صبح‘میں آفتاب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: آرزو نورِ حقیقت کی ہمارے دل میں ہے لیلیٔ ذوقِ طلب کا گھر اسی محمل میں ہے کس قدر لذت کشودِ عقدۂ مشکل میں ہے لطفِ صد حاصل ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے دردِ استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں جستجوئے رازِ قدرت کا شناسا تو نہیں گلِ رنگیں، ان اشعار پر ختم ہوتی ہے: یہ پریشانی مری سامانِ جمعیت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو رشک جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو یہ تلاشِ متصل شمعِ جہاں افروز ہے تو سنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے سورج کی طرح چاند بھی شاعر کی کئی ایک کیفیات میں شریک ہے۔ مگر اشتراکِ راہ میں جلد ایک موڑ آ جاتا ہے جس سے آگے صرف شاعر ہی جا سکتا ہے۔ چاند بے چارے کا وہاں گزر کہاں؟ یہ وہ مقام ہے جہاں سے انسان کائنات کی دوسری تمام مخلوقات کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھتا ہے۔ اس راہِ عظمت میں اس کا کوئی ہم سفر نہیں، کوئی شریک نہیں۔ یہ مرتبہ تنہا اسے حاصل ہے۔ کیوں؟ اس کا جواب انسان کا وہ وصف ہے جو نوجوان اقبال کی سب سے نمایاں خصوصیّت ہے: ذوقِ آگہی۔ چنانچہ چاند سے خطاب ہوتا ہے: پھر بھی اے ماہِ مبیں! میں اور ہوں، تو اور ہے درد جس پہلو میں اٹھتا ہے وہ پہلو اور ہے گرچہ میں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دُور تو جومری ہستی کا مقصد ہے مجھے معلوم ہے یہ چمک وہ ہے جبیں جس سے تری محروم ہے اس رُجحان کا آخری پہلو یہ ہے کہ اس دَور میں اقبال صرف استفسار اور استفہام پر ہی اکتفا نہیں کرتا جیسا کہ ’خفتگانِ خاک‘ کے اشعار سے گمان ہو سکتا ہے بلکہ اس کی مابعد الطبعیاتی نظام کی بنیادیں جن پر بعد میں اس کے فکر کی فلک بوس عمارت کھڑی ہوئی اسی زمانے میں استوار ہوتی ہیں۔ یہ کائنات کیا ہے؟ یہ مادّہ ہی مادّہ ہے یا اس طبعی اور مادّی نظام کے پیچھے کوئی شعور، کوئی ذہن، کوئی مقصد کارفرما ہے؟ نوجوان اقبال کائنات کی مادّی تعبیر کرنے والے کو، چشم غلط نگر ‘ کہتا ہے اور سلسلۂ کون و مکاں کی رومانی اور اخلاقی تعبیر پر زور دیتا ہے: چشمِ غلط نگر کا یہ سارا قصور ہے عالم ظہور جلوۂ ذوقِ شعور ہے یہ سلسلہ زمان و مکاں کا کمند ہے طوقِ گلوئے حسنِ تماشا پسند ہے اسے کائنات کی ہر چیز میں، ہر شے میں حسنِ مطلق کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اس کے نزدیک کائنات کی ’کثرت‘ وحدت ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ اس متصوفانہ تصورِ کائنات کا اظہار پہلے دَور میں کئی ایک مقام پر ہوا ہے۔ ’بچّہ اور شمع‘ اور ’جگنو‘میں نوجوان اقبال نے یہ خیال بڑی خوبی، وضاحت اور جوش کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ’جگنو‘ سے چار اشعار درج کیے جاتے ہیں: حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی چہک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو کی جو چمک ہے، وہ پھول کی مہک ہے پہلے دَور کی ایک غزل کا ایک شعر ہے: وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے آگے چل کر اگرچہ اقبال وحدت الوجود کے نظریہ کے قائل نہیں رہتے، مگر حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے، کی واقعّیت سے انہیں کبھی انکار ہوا اور نہ ہو سکتا تھا۔ کائنات کی روحانی تعبیر اور ’اکثریت‘ میں ’وحدت‘ کا راز پا لینے کے علاوہ اقبال نے انسانی جوہر کی ابدیّت کا خیال بھی پہلے دَور کے اواخر میں بڑے غیر مبہم الفاظ میں پیش کیا ہے۔ ’کنارِ راوی‘ پہلے حصے کی نہایت عمدہ نظموں میں شمار کیے جانے کے قابل ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت شاعر راوی کے کنارے کھڑا ڈُوبتے ہوئے سورج کا نظارہ کر رہا ہے اور منظر کی دلفریبی میں کھویا جا رہا ہے، گہرے سکوت اور تنہائی کا عالم ہے، دُور مقبرۂ جہانگیر کے مینارے عہدِ رفتہ کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ اتنے میں ایک کشتی شاعر کے قریب سے ہو کر گذرتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اقبال کے فلسفی ذہن کو زندگی کے لیے ایک نادر تشبیہ سوجھتی ہے: رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂِ تیز ہوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی نکلِ کے حلقۂ حدِ نظر سے دُور گئی جہاز زندگیِٔ آدمی رواں ہے یونہی ابد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھپتا ہے، لیکن فنا نہیں ہوتا انسانی جوہر کی ابدیّت کا یہ خیال بانگِ درا اور بعد کی کتابوں میں بیسیوں مرتبہ ادا ہوا مگر بیان کی وہ دل کشی جو اوپر کے اشعار کا حصّہ ہے غالباً کہیں اور پیدا نہ ہو سکی۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں: مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں (بانگِ درا، حصہّ سوم) موت تجدیدِ مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے (بانگِ درا، حصہّ سوم) جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں (بانگِ درا۔ حصہ سوم) فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا ترے وجود کے مرکز سے دُور رہتا ہے (ضربِ کلیم۔ صفحہ ۶۳) الغرض اقبال کا فلسفیانہ تفّکر جو ابتدا میں محض ایک بے تابی، ایک دردِ استفہام، ایک ذوقِ جستجو تھا۔ دورِ اوّل (۱۹۰۱۔ ۱۹۰۵ئ) کے ختم ہونے سے پہلے اپنے لیے بعض مثبت بنیادیں تلاش کر لیتا ہے اور اس کا مضطرب دل کائنات میں خدا کے وجود، ہر شے میں اس ظہور اور انسانی جوہر کی ابدّیت کے تصّورات سے قدرے تسکین پاتا ہے۔ ۲۔ وسیع انسانی ہمدردی: نوجوان شاعر کی شخصیت میں اس رجائی تفکر کے بعد جو جحان ہمیں ملتا ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک وسیع انسانی ہمدردی اور محبت جو پورے کرئہ ارض اور نسل آدم کو محیط ہے، دوسرے ہندوستانی قومیت اور جذبہ حب الوطنی۔ ہندوستانی قومیت کا جذبہ دراصل وسیع انسان دوستی ہی کی ایک شاخ تھی جس کا رنگ مقامی اثرات اور حالات نے اور گہرا کردیا بعض حضرات کا خیال ہے کہ اقبال کی شخصیت اور کلام کا یہ رجحان ولایت سے واپس آنے کے بعد رفتہ رفتہ اس قدر کم ہوتا گیا کہ آخر میں باقی ہی نہ رہا۔ یہ خیال صحیح نہیں اور اس بنیادی غلط فہمی سے پیدا ہوتا ہے کہ اقبال میں وسیع انسانی ہمدردی کا جذبہ حُبّ الوطنی سے پیدا ہو ا تھا۔ لہٰذا جب وہ ہندوستانی قومیت کے تصور سے دستبردار ہوئے تو یہ جذبہ بھی دب گیا۔ اگر اقبال کا از اول تا آخر بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کا مقصود ہمیشہ اورہر دور میں انسانیت اور انسانی فلاح و بہبود رہا۔ اسی کے پیش نظر انھوں نے پہلے قومیت کو اپنایا اوربڑے جوش و مستی سے اور اسی کی خاطر بعد میں قومیت کے خیال سے نہ صرف دستبردار ہوئے بلکہ اسے انتہائی خطرناک اور مہلک ٹھہرایا۔ جِن حضرات کواقبال سے یہ شکایت ہے کہ ان کے کلام میں ہر جگہ مسلمان اور اسلام کا ذکر ملتا ہے انہیں اس بات کو بھی دیکھنا چاہیے کہ ان کے یہاں انسان، انسانی وحدت اور انسانی عظمت کا ذکر کہاں کہاںاور کس کس طرح جاری و ساری ہے۔ میرا خیال ہے بانگِ درا سے ارمغان تک مسلمان کا جتنی بار ذکر ہوا ہے انسان اور انسانی محبت و عظمت کا ذکر اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ دورِ اول میں جو شعر نوجوان اقبال نے انسانی ہمدردی پر لکھے ہیں اردو شاعری کیا، دنیا کی کم ہی زبانوں میں اس کی نظیر ملے گی۔ یہ آواز اس کے دل کی گہرائیوں سے اٹھ رہی ہے کہ نوعِ انسانی اس کی قوم اور سارا جہاں اس کا وطن ہے اور زندگی کے تمام دکھ درد کا مداوا نوعِ انسان کی محبت میں ہے۔ ’’آفتابِ صبح‘‘میں کہتے ہیں: بستۂِ رنگِ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوعِ انساں قوم ہو میری، وطن میرا جہاں صدمہ آجائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر اشک بن کر میری آنکھوں سے ٹپک جائے اثر دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر نور سے جس کے ملے رازِ حقیقت کی خبر شاہد قدرت کا آئینہ ہو دل میرا نہ ہو سر میں جز ہمدردیٔ انساں کوئی سودا نہ ہو ’تصویرِ درد‘ میںایک جگہ بڑی خوبی سے توحید کو وحدتِ انسانی کی ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ خدا کے بندوں میں تفریق کرنا اس کی شان مطلقیت سے انکار کے مترادف ہے: زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا ارے غافل!جو مطلق تھا مقید کر دیا تو نے اس درد سے لبریز نظم میں نوع انسان کی محبت کو شراب روح پرور کہا اور بتایا کہ بیمار قوموں کے لیے’شفاء اور خفتہ بخت قوموں کے لیے بیدار بختی کے لیے کی راہ یہی محبت و اخوت ہے: شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی سکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام وسبو رہنا محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے بیابانِ محبت، دشتِ غربت بھی، وطن بھی ہے یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے محبت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے صحرا بھی جرس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے اس محبت نے ان کے دل کو فرقہ آرائی اور اس کے’ثمر‘ تعصب سے پاک کر دیا اور وہ امتیازِ ملت و مذہب سے بہت اوپر اٹھ کرہندوستان کی آزادی اور اس میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے اتحاد کے زبردست علمبردار اورنقیب بن گئے۔ان کی قومی شاعری اور جذبہ جب الوطنی پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اورتعلیم یافتہ طبقہ اس سے اس حد تک واقف ہے کہ یہاںکچھ کہنا ضروری نہیں۔ اس جگہ صرف یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ جب انھوں نے دیکھاکہ قومیت یا وطن بہ حیثیت ایک سیاسی تصور کے نوعِ انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتاہے اور ان کے دلوں میں نفرت اور رقابت کی آگ بھڑکاتا ہے۔تو وہ اس تصور کی اسی جوش وجذبہ سے مخالفت کرنے لگے جس جذبہ کے ساتھ انھوں نے اس سے پہلے اس کی حمایت کی تھی اور جب انھوں نے یہ دیکھا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نسل، رنگ، زبان اورجغرافیائی حدود کے تمام امتیازات مٹا کر انسانی وحدت و اخوت و مساوت کا ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جس میں ہر فرد کو ترقی کے برابر کے مواقع حاصل ہیںاور جو اپنے اندر مادی اور روحانی اقدار کا ایک متوازن امتزاج رکھتا ہے تو ان میں اس نظام سے وہی والہانہ شیفتگی پیدا ہوگئی جس والہانہ پن کے ساتھ وہ اس سے پہلے قومیت کی طرف بڑھتے تھے۔ اقبال کے چند سالہ مطالعہ کے بعد جس نتیجے پر میں پہنچا ہوں یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک قومیت یا اسلام کبھی مقصود بالذات نہ تھے۔ ان کی نظر ہمیشہ پوری نوعِ انسانی اور اس کی فلاح و بہبود پر رہی۔ اسلام سے ان کو بے اندازہ رغبت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ اس نظام سے ان کی نظروفکر کے زیادہ سے زیادہ انسانی تقاضے پورے ہوئے اور ان کی فطرت کی پیاس بُجھی۔ ۳۔عشق کی برتری ابھی تک ہم نے نوجوان شاعر اقبال کی شخصیت کے دو رخ دیکھے ہیں۔ ان کی فلسفیانہ جستجواور اس کی وسیع انسانی ہمدردی یا انسان دوستی جو نسل، رنگ اور ملت و مذہب کی حدود توڑ کر پوری نوعِ انسانی کی وحدت کا نظارہ کرتی ہے۔ تیسرا رجحان عقل پر عشق کی فضلیت اور برتری کا ہے۔ عقل بڑی قیمتی چیز ہے اور ضروری بھی مگر حیات انسانی کی صحیح رہنمائی اس کے بس کی بات نہیں۔ یہ خیال اقبال کے نظامِ فکر میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس پر انھوں نے زندگی کے ہر دور میں نت نئے اسلوب میں روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں جو کچھ انھوں نے پہلے دور میں کہا ہے وہ بھی کچھ کم وقیع نہیں اور اس نازک اور لطیف موضوع پر بعد میں کہے گئے سینکڑوں بلند پایہ اشعار کے ابتدائیہ کے طور پر ہماری توجہ کا حق دار ہے۔ فلسفہ کی دنیا میں یہ سوال بڑابنیادی ہے کہ صحیح علم کس ذریعہ سے حاصل ہوسکتا ہے۔ دوسرے مسائل کی طرح اس بارے میں بھی کافی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ایک گروہ کا خیال ہے کہ حصول علم صرف حواس کے ذریعے ممکن ہے۔ دوسرا گروہ جو اس کی صلاحیت کو ناقص ٹھہرا کر کہ صرف عقل Logical Reason or Intellectکو واحد ذریعہ علم مانتا ہے تیسرا گروہ متشککین اور لاادریوں Agnosticsکا ہے جنہیں سرے سے اس بات میں شبہ ہے کہ فکر انسانی کی رسائی اصل تک ہوسکتی ہے لیکن ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اس یقین کے ساتھ بڑھتا ہے کہ انسان حقیقت کو جان تو سکتا ہے مگر عقل محض کے ذریعہ سے نہیں بلکہ وجدان کے ذریعہ سے، دوسرے لفظوں میں اصل کو تجزیاتی صورت میں یعنی اجزاکو علیحدٰہ علیحدٰہ سمجھ کر کل کی طرف قدم اٹھانے سے اصل کو جاننا ممکن نہیں بلکہ قدرت کی طرف سے انسان کو ایک خصوصی احساس یا جذبہ ایسا بھی عطا ہوا ہے جو کل کو مجموعی طورپر پالینے یا اس کا ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس خصوصی حس کو وجدانIn tution کہتے ہیں اور اس پر مبنی نظامِ فکر کو وجدانیت Intiuitionismکہا جاتا ہے۔ فلاسفہ عالم میں غزالی اور برگساں اس گروہ کے ممتاز نمائندے تسلیم ہوتے ہیں۔ کانٹ بھی ایک حد تک اس زمرے میں شریک ہے۔ یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ اس خیال یا نتیجہ تک اقبال خود بخود پہنچے یاتاریخ فلسفہ کے اس باب کے بغور مطالعہ کے بعد انھوں نے اپنی افتاد طبع کو اس مدرسہ خیال سے ہم آہنگ اور متفق پایا۔ بہر حال یہ واقع ہے کہ ۲۴،۲۵برس کی عمر میں وہ اس خیال کے بہت بڑے حامی تھے اور اس کے بعد جب تک زندہ رہے ہزار رنگ میں نقطہ نظر کی تائید و حمایت کرتے رہے۔ یہ بات اس مضمون کے دائرہ سے خارج ہے کہ اقبال کے مقاصد فن میں اس خیال کو کیا اور کتنی اہمیت حاصل ہے اورا نھوں نے اس پر اتنی توجہ کیوں صرف کی؟یہاں تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ دور اول کی متعدد نظموں میں یہ خیال موجود ہے اور ایک نظم خاص طور پر اس خیال کو واضح کرنے کے لیے لکھی گئی۔ میری مراد اس نظم سے ہے جو ’’عقل و دل‘‘کے عنوان سے بانگِ درا کے صفحہ ۲۸ پر درج ہے اور بالکل ابتدائی نظموں میں سے ہے۔ یہ نظم خیال اور بیان کے اعتبار سے اس قدر مربوط اور حشو و زوائد سے اس حد تک پاک ہے کہ حوالہ دیتے وقت پوری نظم درج کیے بغیر چارۂِ کار نہیں: عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثلِ خضر خجستہ پاہوں میں ہوں مفسر کتاب ہستی کی مظہرِ شان کبریا ہوں میں بوند اک خون کی ہے تو لیکن غیرت لعل بے بہا ہوں میں دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے تو خدا جُو، خدا نما ہوں میں علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوںمیں شمع تو محفلِ صداقت کی حسن کی بزم کا دیا ہوں میں تو زمان و مکان سے رشتہ بپا طائرِ سدرہ آشنا ہوں میں کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش ربِ جلیل کا ہوں میں اس نظم کے اشعار : علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں اور علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے تو خدا جُو، خدا نما ہوں میں کا مقابلہ پچیس تیس برس بعد لکھے گئے مندرجہ ذیل اشعار سے کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں علم میں بھی سردر ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں (بالِ جبریل) خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اورنہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اورنہیں (بالِ جبریل) خرد سے راہر و روشن بصر ہے خرد کیا ہے؟ چراغِ رہ گذر ہے درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے (بالِ جبریل) اس سلسلہ میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اگرچہ ذریعہ علم کے طور پر اقبال بھی وجدان اوراس کی سب سے اعلیٰ صورت وحی کا قائل ہے مگر اس کے یہاں دل اور عشق کا تصور برگساںکے وجدان، کے مجموعی تصور سے مختلف ہے۔ البتہ عقل کو ناقص ذریعہ علم ٹھہرانے میں غزالی، رومی، کانٹ، برگساں اور اقبال سب متفق ہیں۔ ۴۔ پیغامبری پیامبری یا پیغامبری کی شان چوتھا رجحان ہے جو ہمیں نوجوان اقبال میں نظر آتا ہے۔ جس شاعر کو آگے چل کر: چہ باید مرد را؟ طبع بلندے، مشرب نابے دل گرمے، نگاہ پاک بینے ، جان بے تابے یا دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ ہیں بحر وجود میں گرداب! اور گذر جا بن کے سیل تندرو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا جیسے پیغام لیے ہوئے اشعار کہنا تھے وہ بھلا ابتدا میں اس میلان کو اظہار دیے بغیر کیوں کر رہ سکتا تھا۔ جب اس کی نظر نفسیاتِ انسانی اور زندگی کے حقائق پر بہت گہری ہوگئی تو اس کے پیام نے ان اشعار کی صورت اختیار کی جو آپ نے ابھی پڑھے ہیں۔ لیکن جب وہ ابھی اتنا پختہ نظر اور صاحب بصیرت نہ ہوا تھا تو اس نے کم و بیش اتنا ہی قیمتی پیغام نہایت پر خلوص مگر سیدھے سادے طریق سے دیا۔ جن لوگوں نے نظم سیّد کی لوح تربت، غور سے پڑھی ہے وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس نظم کا لکھنے والا ابتدا ہی سے ایسی شاعری کا آب و رنگ لیے ہوئے تھا جسے ’’جز ویست پیغمبری‘‘ کہا گیا ہے۔ یہ نظم بھی ابتدائی نظموں میں سے ہے اور بانگِ درا کے صفحہ ۴۲ پر درج ہے۔تاریخ مطالعہ کے اعتبار سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس نظم میں اقبال نے تکنیک بھی وہی استعمال کیا ہے جو انھوں نے بعد میں اکثر ایسی نظموں میں برتا جو خاص طور سے پیامی کہی جا سکتی ہیں۔مثلاً’شمع و شاعر‘ ’خضرِ راہ اور ’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘وغیرہ یعنی وہ اپنا پیغام کسی دوسرے کی زبان سے کہلواتے ہیںاور مکالمہ کا انداز اختیار کرتے ہیں۔ سیّد کی لوحِ تربت سے آواز اٹھتی ہے : مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں وانہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے محفلِ نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا ہے دلیری دستِ ارباب سیاست کا عصا عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے قوتِ فرماں رواکے سامنے بے باک ہے ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامہ معجز رقم شیشہ دل ہو اگر تیرا مثال جام جم ایک رکھ اپنی زباں تلمیذِ رحمانی ہے تو ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو والوں کو جگادے شعرا کے اعجاز سے خرمنِ باطل جلا دے شعلۂِ آواز سے نوجوان اقبال نے عالم دین، سیاسی رہنما اور شاعر کو جوپیغام ان اشعار میں دیا ہے نہ صرف اس کی صحت اور صداقت میں کوئی شبہ نہیں بلکہ اس ملک میں اس پیغام کوعام کرنے اوراس پر عمل پیرا ہونے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اس سے پہلے کبھی تھی۔ اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ پیغام اپنی سادگی کے باوجود فلسفی اقبال کے پیغام خودشناسی اور پیغام یزادں شناسی سے کم اہم نہیں۔ اس رجحان کے باب میں یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نری پند و موعظت کی شاعری سے بہت مختلف شاعری ہے اور اس میں اورمولانا حالی کی ’’کچھ کرلو نوجوانوں،اٹھتی جوانیاں ہیں‘‘میں بڑا فرق ہے۔ یہ ناصحانہ نہیں پیغامبرانہ شان کی حامل ہے۔ دور اوّل کی کئی اورنظمیں اورغزلیں اس رجحان کی نمائندگی کرتی ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے دیکھا جائے توبچوںکے لے لکھی ہوئی وہ تمام نظمیں جو بانگِ درا کے حصہ اول میںدرج ہیںدراصل اسی جذبے اوررجحان کا اظہار ہیں۔ اقبال جب جوان تھے توانھوں نے بچوں کے لیے لکھا، ان کی رہبری کرنا چاہی۔ جب پختہ سن ہوئے تو جوانوں کے لیے کہنے لگے، ان کے خضرِ راہ بنے۔ ۵۔ خودنگری پانچویں چیز اقبال کا یہ رجحان ہے کہ وہ جس قدر وقت،توجہ اور توانائی خارج کے مسائل کو سمجھنے پر صرف کرتے ہیں،اسی قدران کی نظر اپنی داخلی زندگی پر بھی رہتی ہے۔ ان کی شخصیت میں خارجیت اورداخلیت کا ایک ایسادل کش ملاپ ملتا ہے جو تاریخِ عالم میں بہت کم اشخاص کو نصیب ہوا ہوگا۔ برسوں بعد کے دو شعر ہیں۔ اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے بری ہے مستی اندیشہ ہائے افلاکی اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن یہ اشعار ایک ایسی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو تصویر کے دونوں رخ دیکھنے اور سمجھنے کی عادی ہو۔ اقبال انفس و آفاق دونوں کی اہمیت سے آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انھوں نے آفاق کے مسائل کو سمجھا اور بیان کیا وہاں وہ انفس کے اسرار بھی کھولتے رہے اور اسی کے ساتھ ہر دور میں اپنی ذات کی تصویر ایسے حسین رنگوں سے مصور کی کہ اس سے بہتر تصویر اچھے سے اچھے مصور کے بس کی بھی نہیں۔ میرا مطالعہ زیادہ نہیں لیکن میرا اندازہ ہے کہ جس اہتمام کے ساتھ اورجس دقتِ نظر، صحت بیان اور ندرت ادا کے ساتھ اقبال نے ہر دور میں اپنی ذات اور بدلتی ہوئی نفسی کیفیات کے متعلق لکھا ہے اس اہتمام اور دل کشی کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے شاعر نے اپنے متعلق لکھا ہو۔ پچاس برس کے بالغ نظر حکیم شخصیت کے خدوخال ہم میں سے اکثرکے ذہن میں ہوں گے۔ اگر نہیں تو تازہ کر لیجئے:۔ فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی خاکی ہوں مگرخاک سے رکھتا نہیںپیوند درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاںنہ سمر قند کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکاقند مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش میںبندہ مومن ہوں نہیں دانۂ اسپند پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم کیا چھینے گا غنچہ سے کوئی ذوق شکرخند یہ تصور کس قدر دل کو لبھانے والی اور دِل میں گھر کرنے والی ہے مگر پچیس برس کے اقبال کی تصویر اس سے کم دلآویز اور کم جاذب نظر نہیں۔ ایک مولوی صاحب کی زبانی سنیے: سنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا ہے ایسا عقیدہ اثرِ فلسفہ دانی سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اڑانی کچھ عار اُسے حسن فروشوں سے نہیں ہے عادت یہ ہمارے شعرا کی ہے پرانی گانا جو ہے شب کو تو سحر کو ہے تلاوت اس رمزکے اب تک نہ کھلے ہم پہ معانی لیکن یہ سنا اپنے مریدوں سے ہے میںنے بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی مجموعہ اضداد ہے اقبال نہیں ہے دل دفتر حکمت ہے، طبیعت خفقانی رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی تو منصور کا ثانی اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی ہوگا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی (زہد و رندی۔ بانگِ درا) نوجوان اقبال، مجموعہ اضداد اقبال کو سمجھنے میں ’مولوی‘ صاحب کو جو دقّت ہے خود اقبال بھی اس سے بالاتر نہیں۔ اقبال کا جواب ملاحظہ ہو: میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے یہ تھی چوبیس پچیس برس کے اقبال کی تصویر، تئیس برس کے شاعر کے دل کا مرقع اوراس کے ارادوں اورآرزئوں کا عکس وہ نظم ہے جو انھوں نے ۱۹۰۵ء میں ولایت جاتے ہوئے دہلی میں لکھی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر پڑھی: نظر ہے ابرِ کرم پر درخت صحراہوں کیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو فلک نشین صفت مہر ہوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو مقام، ہمسفروں سے ہو اس قدرآگے کہ سمجھے منزل مقصود کارواں مجھ کو مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثل شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی ملے فغاں مجھ کو یہ ہیں وہ پانچ رجحانات جوہمیں نوجوان شاعر میں واضح اور نمایاں طور پر ملتے ہیں اور یہی بنیادی رجحانات ہیں جو آخر تک ان کے فن اور ان کی شخصیت میں ممتاز رہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ پانچوں رجحانات پانچ سوتوں کی صورت میں خراماں خراماں بہتے، محبت اور اخوت کے نغمے دلنواز سروں میں گاتے، گنگناتے، شعر و سخن کی ایک رنگین وادی میں پہنچ کر باہم مل جاتے اور ایک جوئے نغمہ خواں کی تشکیل کیا کرتے۔ اس زمانے میں اس جوئے وادی کو لوگ شیخ محمد اقبال، نوجوان پروفیسر اقبال کے نام سے یاد کرتے تھے۔ آگے چل کر گردشِ ایام کے ساتھ یہ گاتے گنگناتے پانچ سوتے پانچ تند و تیز طوفانی دریائوں میں بدل گئے۔ اپنے تیز بہائومیں انھوں نے ہزار فراز کو نشیب اور ہزارنشیب کو فرازکردیا۔ اب گلستانوں اور وادیوں کی ندی میں ان کا سمٹنا، سمانا ناممکن تھا۔ ان کی امنگیں کسی سمندر، بے کراں سمندر کی تلاش میں نکلیں۔جس سمندر کی آغوش میں ان کو آسودگی نصیب ہوئی اسے بعد میں ہم حکیم مشرق کہنے لگے۔ حیات اقبال کا ایک جذباتی دور، مکتبہ جدید لاہور،اپریل ۱۹۵۵ء اقبالِ عہد آفریں ڈاکٹر اسلم انصاری فنونِ ادب میں شاعری کی ہمہ گیر تاثیر کو ہر عہد میں تسلیم کیا گیا ہے، شاعروں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی پر بعض حیرت انگیر اثرات مرتب کیے ہیں، اسی لیے شاعروں کو انسانی تمدن کے معماروں میں شامل کیا جاتا ہے، اثر انگیزی کے اعتبار سے شاعری کو بعض صورتوں میں موسیقی پر بھی فوقیت حاصل ہے، موسیقی کا اثر کیفییات تک محدود ہے، شاعری انسانی زندگی میں جس نوع کے تحولات پیدا کرنے پر قادر ہے، اس کی کوئی مثال موسیقی کی تاریخ میں شاذ ہی ملے گی، شاعری انسان کے فکر، جذبے اورتخّیل کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے، اور بعض اوقات ایک غیر معمولی محرک عمل کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، دنیا کے تمام بڑے شاعروں نے اپنے عہد کو کسی نہ کسی طرح ضرور متاثر کیا ہے، شاعری کی فوری اثر انگیزی کی جو مثالیں تاریخ میں محفوظ رہی ہیں، تاثیر شعر کے ثبوت میں بہت کافی ہیں، مثلاً امیر نصربن احمد سامانی، کارودکی کے اشعار سے متاثر ہوکر اپنے وطن بخارا کی محبت میں بے قرار ہوجانا اور عرب شاعر میمون بن قیس کے کلام کا لوگوں کے لیے شہرت یا رسوائی کا باعث ہونا وغیرہ، لیکن بلند پایہ شاعری کے اثرات اس سے کہیں زیادہ دیر پا اور دور رس ثابت ہوتے ہیں، فردوسی، سعدی، رومی اور حافظ کئی صدیوں سے اہل مشرق کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں، بقولِ کارلائل اطالوی شاعردانتے نے اپنے شعری شاہکار ’’طربئیہ ایزدی‘‘ کے ذریعے گیارہ گنگ اور بے زبان صدیوں کو زبان بخش دی۔ اکثر بڑے شعرانے اپنے فکرتخیل اور حسنِ کلام کی بدولت انسانوں کے ذوق وشوق کے ساتھ ساتھ فکر و فن کو بھی متاثر کیا، نظامی عروضی سمر قندی نے شاعری کی جو تعریف وضع کی ہے، اس کی رو سے شاعری ان مقدماتِ موہومہ (متخیلہ)سے عبارت ہے۔ جن کے ذریعے چھوٹی چیز کو بڑا، اوربڑی چیز کو چھوٹا، اور اسی طرح خوب کو زشت اور زشت کو خوب دکھایا جا سکتا ہے، اسی لیے شاعری دنیا میں بڑے بڑے امور کے وجود میں آنے کا سبب بن جاتی ہے [وامورِ عظام را در نظامِ عالم سبب شود(۱)] مشرق کے علمائے شاعری میں نظامی عروضی سمر قندی پہلا نقاد ہے جس نے ’’نظامِ عالم‘‘ میں’’ امورِ عظام‘‘ کے اسباب میں شاعری کو بھی شامل کیا ہے، لیکن اس کی نظر میں بھی شاعری کے فوری اثرات ہیں جو قصیدہ گو شعرا بادشاہوں کی طبائع پر اپنی بدیہہ گوئی اور لطفِ کلام سے پیدا کر دکھاتے تھے، البتہ بعض متقدمین نے عرب قبائل کی اجتماعی زندگی میں شاعر کی اہمیت اور تاثیر کو بھی تفصل کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۲) لیکن شاعری کی تاثیرات معنوی کو آج کے علوم و انتقاد کی روشنی میں زیادہ صراحت اور قطعیت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے، یہ عکس حیات و نقدحیات ہی نہیں تخلیق حیات بھی ہے، اسی لیے تاریخ انسانی کے بعض عظیم تحولات کے پس منظر میں دوسرے بڑے عوامل کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کار فرما نظر آتی ہے، بیشک شاعری نے انقلاب برپا کر دکھائے ہیں، لیکن دنیا میں بہت کم شعرا ایسے گذرے ہیں جنھیں ہم شاعرِ مشرق علامہ اقبال کی طرح صحیح معنوں میں’ عہد آفریں‘ شاعر کہہ سکیں۔ یوں تو دنیا کے اکثر بڑے شعرا اپنے عہد کی زندگی پر اثر انداز ہوئے ہیں، لیکن شعر اقبال نے بیسویں صدی میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر جو گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عصرِ حاضر کے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کی تشکیل میں جو اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس کی مثالیں نایاب نہیں تو کم یا ب ضرور ہیں، اقبال کے فکر و فن نے تاریخ، سیاست اور ادب پر یکساں طور پر اثرات چھوڑے ہیں، انھوںنے اُردو شاعری میں ایک ایسی روش اختیار کی جس کی کوئی مثال اس سے پہلے موجُود نہیں تھی، اُنھوں نے شاعری میں تاریخی شعور کو شامل کر کے زندگی اورشاعری دونوں کے آفاق کو حیرت انگیز طورپر وسیع کیا، انھوں نے اردو شاعری کو اس رفعت و شکوہ سے آشنا کیا جو دنیا کی بہت کم زبانوں کے حصے میں آسکے ہوں گے، انھوں نے اردو نظم و غزل پر فکر، خیال، جذبے اور اظہار کے یکسر نئے ابواب واکر دئیے، وہ اپنے ساتھ ایک نیا طرزفکر اور نیا طرز احساس لائے، اس فکر و احساس کی جڑیں تو ماضی کی علمی، ادبی اور تہذیبی روایات میں تھیں، لیکن اس کا دامن زندگی کے نئے سے نئے تجربے کے لیے واتھا، اقبال نے اُردو شاعری کی لفظیات میں ایک عظیم تغیر پیدا کر دیا، اور شعری معنویت کے رشتے عصری حقائق اورتاریخ و تہذیب کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ استوار کر دئیے، انھوں نے شاعری کو فلسفہ اور فلسفے کو زندگی عطا کی اور مغربی افکار کے مقابلے میں مشرقی فکر کے حیات بخش عناصر کو اس طرح نمایاں کیا کہ اس سے مشرق اور مغرب دونوں کونئی روش میّسر آسکے۔ انھوں نے شاعری کو استدلال دیا اور استدلال کو منطق کے بے جان کلیوں سے نکال کر زندگی کی حقیقتوں کے قریب لے آئے، شعری معنویت کے جن نئے امکانات کو انھوں نے اپنی شاعری میں منکشف کیا، وہ صرف اردو شاعری ہی نہیں، پوری دنیائے ادب میں کم نظیر ہیں، اقبال نے مشرقی ادب کی تاریخ میں شاید پہلی بار یہ تصّورِ شعر پیش کیا کہ شاعری مقصُود بالذات نہیں، بلکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مقاصدِ عالیہ کی تشریح و تکمیل کا ایک موثر ذریعہ ہے، لیکن شاعری کو ایک وسیلہ یا ذریعہ قرار دینے کے باوجود انھیں نے شاعری کو فکر و تخیل اور اسلوب بیان کی جن بلندیوں سے آشنا کیا، انھیں اُردو شاعری میں یکسر ایک نئے جہان معنی کے انکشاف کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری کی اشاعت کے ساتھ ہی اردو شاعر ی اور برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بنیادی اور اصولی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں، وہ ایک نئے جہان معنی کے پردہ کشا اور ایک نئے آہنگ شاعری کے علمبردار تھے،انھوں نے اردو شاعری کو فکر و خیال اور اسلوب و آہنگ کی اس بلندی سے مالا مال کیا جسے صدیو ں پہلے ایک رومی نقاد لان جائی نس (Longinus)نے ’’ارفعّیت‘‘ (Sublimity)سے تعبیر کیا تھا۔ اس ارفعیت نے شعر و ادب کونئی جہتیں عطا کیں، اور برصغیرکے مسلمانوں کو ایک نیا تاریخی، علمی، انسانیاتی تخلیقی اور سیاسی شعور عطا کیا۔ انھوں نے شاعری کو ایک ایسی علمی جہت عطا کی جو کلیتہً کم نظیر تھی، انھوں نے ثابت کر دیا کہ عصر حاضر میں ایک بہت وسیع اور رچے ہوئے علمی شعور کے بغیر بلند پایہ شاعری وجود میں نہیں آسکتی۔ انھوں نے شاعری کو علم کی وسعت کے ساتھ مشروط کر دیا اور عصر حاضر کی علمی صداقتوں کو اس فنی شعور کے ساتھ شاعری میں لے آئے کہ علم و فنون کے درمیان کوئی فاصلہ باقی نہ رہا۔ چھٹی صدی ہجری میں صاحب چہار مقالہٰ نے شاعری کو نظامِ عالم، میں جن امور عظام، کا سبب قرار دیا تھا وہ چودھویں صدی ہجری میں اقبال کی شاعری کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔ اقبال نے شاعر کی زبان کو بالخصوص اور علم وادب کی زبان کو بالعموم ایک نئی تبدیلی سے روشناس کیا۔ اُردو زبان کو علمی طور پر جو قو ت سرسید اور ان کے رفقا نے عطا کی تھی، شاعری میں اس کا اثر ابھی اتنا نمایاں نہیں تھا۔ اگرچہ مولانا حالی نے شاعری کی زبان کو بہت حد تک تبدیل کیا، لیکن حالی کی زبان مجموعی طور پر کس نئی لسانی تشکیل کے مترادف نہیں تھی۔ اقبال نے زبان میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس پیدا کیا۔ اور اپنی شاعری کے ذریعے ایک ایسی شعری زبان تخلیق کی جو مستقبل کی علمی اور ادبی ضرورتوں کے علاوہ معاشرتی اورعمرانی تبدیلیوں کا ساتھ بھی دے سکتی تھی۔ اقبال نے اپنی لسانی تشکیل کی بنیاد محاورے اور قدیم تلازمات کی بجائے زبان کے فطری علم پر رکھی۔اس نئی شاعرانہ زبان میں محسوسات اور خیالات (مجردات)کے ساتھ ساتھ خارجی حقائق کو بیان کرنے کی بھی پوری پوری صلاحیت تھی، اس کے باوجود یہ زبان علم و ادب کی قدیم روایات سے یکسر منقطع نہیں تھی۔ عصر حاضر کی تمام بڑی شعری تحریکات میں اقبا ل کے اثر کو کسی نہ کسی صورت میں ضرور کار فرما دیکھا جا سکتا ہے۔ اقبال سے پیشتر اردو میں بلند پایہ شاعری کے تمام تر اجزا غزل ہی میں ملتے ہیں۔ اقبال کے شاعرانہ نبوغ نے نظم کو غزل کے علاوہ دوسری تمام شعری اصناف کا ہم پلہ بنا دیا۔ اگرچہ اردو نظم اقبال سے پہلے وجود میں آچکی تھی لیکن Poemکے معنوں میں نظم کا جدید تصور اتنا واضح نہیں ہوا تھا۔ بلکہ نظم اپنی ہیئتوں سے پہچانی جاتی تھی، مثلاً قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، ترکیب بند، ترجیع بند، مسدس مخمس رباعی اور قطعہ وغیرہ، البتہ قدیم شاعروں میں نظیر اکبر آبادی ضرور ایک ایسے شاعر ہیں جو ان تمام ہیئتوں کو نظم یا Poem کے جدید تصورکے قریب لے آئے تھے، اسی لیے ان کی نظموں میں اصل اہمیت ہیئت کی نہیں بلکہ موضوع اور اس سے متعلق جذبات و احساسات کی ہے، یعنی نظیر کی نظم کے مختلف النوع اجزاء میں ایک ایسی تعمیر اتی وحدت ضرور پیدا ہوجاتی ہے جو نظم کا اصل فنی تقاضا ہے، یہی وجہ ہے کہ سودا کے قصائد یا میرحسن کی مثنویات کو ان معنوں میں نظم نہیں کیا جاسکتا جن معنوں میں نظیر کی نظمیں، نظمیں کہلاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اردو میں نظم کے جدید یا مغربی تصور کو رائج کرنے کا سہرا حالی اور آزاد کے سر ہے، جنہوں نے انجمن پنجاب کے زیر اہتمام جدید مشاعروں کی بنیاد ڈالی، ان مشاعروں نے جدید نظم گوئی کے رجحان کو جس پر جوش ادبی تحریک کی ضرورت دے دی، اس کے روح رواں خود حالی اور آزاد تھے، جنہیں ہر حال میں جدید نظم کے اولیں معمار تسلیم کیا جانا چاہیے۔ حالی اور آزاد نے جدید نظم کو اس کا ابتدائی فنی تصور دیا، اس ابتدائی فنی تصور میں نظم کے لیے موزوں ترین ہیئت مثنوی ہی کو خیال کیا گیا، لیکن اقبال کی شاعری نے اردو نظم کی دنیا میں ایک حقیقی انقلاب برپاکردیا۔ جس طرح مرزا غالب نے اردوغزل کو آفاقی شاعری کا لب و لہجہ عطاکیا تھا۔ اسی طرح اقبال نے بھی بیک جست اردو نظم کو دنیا کی بلند پایہ شاعری کا ہم عنان وہم زبان بنا دیا، اس کارنامے میںاردو کا کوئی اور شاعر ان کا شریک نہیں ہے،اردو نظم جو ابھی یک رخی، سادہ اور نقشِ معریّٰ تھی، اقبال کے ہاتھوں پہلودار پیچیدہ اور رنگین بن گئی۔ اقبال نے نظم کو بیان واقعہ کی سادہ اور مستقیم صورت حال سے نکال کر اسے جذبے اور تخیل کی پیچیدہ تر صورت حال سے آشنا کیا، اور نظم کے اجزا کو فنی تہ داری کے ساتھ سہ البادی بنا دیا۔ نظم جواقبال سے پیشتر ایک حرفِ سادہ تھی۔ اقبال کے جوہرِ تخلیق کی بدولت ایک ایسا نغمہ بن گئی جس میں حیات و کائنات کی کئی صداقتوں کو سمو دیا گیا تھا۔ اقبال نے نظم کو خط مستقیم کا مسافر ہونے کی بجائے نغماتی تحرک اور آہنگ کے خم و پیچ سے آشنا کیا۔ اور نظم کو ایک بیج کی طرح نقظہ آغاز سے بڑھنا اورپھلنا اورپھولناسکھایا، اردو نظم پہلی بار اقبال ہی کے ہاں نامیاتی وحدت کے طور پر رونما ہوئی جس میں تعمیراتی وحدت کا حسن بھی موجود ہے۔ اقبال سے پہلے کی نظم، وہ جو کچھ بھی تھی، صرف خارج کی ترجمان تھی، اور شاعری کی لطافت اور وسعت سے بہت حد تک عاری تھی اقبال نے اسے خارج کے ساتھ ساتھ داخل کی دنیا سے بھی آشنا کیا اور اسے ان شعری لطافتوں سے بھی مالامال کیا جن کے بغیر شاعری، شاعری کہلانے کی حق دار نہیں ہوسکتی، اسی طرح اقبال نے نظم کو ایک ایسا ڈکشن عطا کیا جو اگرچہ بہت حد تک روایت کے ذخیروں سے مستفاد تھا تاہم وہ بہ حیثیت مجموعی زندگی کی نئی حقیقتوں کی ترجمانی کی صلاحیت بھی رکھتا تھا اور ایک نئے طرز احساس کا حامل بھی تھا، یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال کے اولیں مبّصر سر عبدالقادر نے ان کی اولیں مقبول نظم، ہمالہ، پر تبصرہ کرتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں‘‘ انگریری خیالات سے مراد مغربی افکار نہیں بلکہ ایک نیا طرز احساس ہے جو وجود میں نہ آتا اگر اقبال مغربی افکار اور انگریزی شاعری کی اسالیب سے متعارف نہ ہوتے۔ اقبال کے زیر اثر اردو نظم نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہمہ گیر ادبی تحریک کی صورت اختیار کر لی، نظم گوئی اور نظم نگاری کی جو متنوع صورتیں جوش ملیح آبادی،سیماب اکبر آبادی، ساغر نظامی، اختر شیرانی، احسان دانش اور اسی عہد کے دوسرے شعرا کے ہاں نمودار ہوئیں ان سب کا رشتہ کسی نہ کسی شکل میں اقبال کے فنِ نظم سے جاملتا ہے۔ اگرچہ نظم کے لے مسدس کی ہیئت کا احیا مولانا حالی نے کیا، لیکن یہ اقبال کی نظمیں شکوہ اور جوابِ شکوہ تھیں جن کی حیران کن مقبولیت نے مسدس کو نظم کی ایک مصدقہ ہیئت بنا دیا تھا۔ اسی طرح اقبال نے نظم کو جو رفعت خیال اور لہجے کا شکوہ عطا کیا تھا۔ اس نے بھی نظم کے لیے ایک مروجہ اور معیاری لہجے کی حیثیت اختیار کر لی تھی، گویا اقبال نے اردر نظم میں ایک پورے عہد کو جنم دیا۔ اور اردو نظم کی تاریخ پر بہت گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے۔ لیکن نظم کے عناصر ترکیبی میں جلال و جمال اور فکر و غنائیت کا جو خوبصورت امتزاج اقبال نے پیدا کیا، اس کی تقلید ایسی آسان نہ تھی، لیکن اقبال کے اثرات اس کے باوجود ہمہ گیر تھے، اور ان اثرات کی یہی ہمہ گیری تھی جس نے اقبال کے طرز کو واضح طور ایک دبستان نہ بننے دیا، وگرنہ جدید شاعری پر اُن کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے تو بیسویں صدی کی اُردو شاعری کا ایک معتدبہ حِصّہ ’دبستانِ اقبال‘ کی شاعری کہلانے کا مستحق ہے۔ کچھ ایسی ہی قلبِ ماہیئت اقبال نے اردو غزل کی بھی کی، جس کی تاریخ نظم کی تاریخ سے کہیں طویل اور تہ دار تھی۔ غزل جس کی رمزیات کے رستے ہمارے تمدن کی تاریخ میں بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں، دنیا کی ایک انوکھی اور منفرد طرز شاعری ہے جس میں الفاظ لازمی طور پر تہ دار معنویت کے حامل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تلازمانی رشتوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ غزل کی اشاریت و رمزیت اور غنائیت و لطافت نے اسے ہر عہد کی مقبول ترین صنف سخن بنائے رکھا ہے، اس صنف شاعری میں، جس میں عمومیت کے امکانات ہر حال میں موجود رہتے ہیں، ایک انفردی لب و لہجہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا اسلوب پیدا کرنا غیر معمولی شاعرانہ صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اقبال نے غزل میں ابتدائی طور پر جس شاعر سے اثر قبول کیا، اس کے اسلوب کا طرہ امتیازہی زبان تھا، یعنی داغ جو لہجے کی کاٹ اور زبان کے معاشرتی اطلاقات کے اعتبار سے اپنے استاد ذوق سے بھی کچھ آگے ہی نظر آتے ہیں۔ اقبال نے آغاز میں اپنے استاد ہی کے لسانی دبستان کی پیروی کی، لیکن اُن کی ابتدائی غزلیں جن پر روائتی غزل اور داغ کی زبان کا رنگ نمایاں ہے، اس حقیقت کی طرف ضرور اشارہ کرتی ہیں کہ اقبال زبان کے روائتی سانچوں کو نئی اطلاقی صورتوں میں برتنے کے خواہاں ہیں داغ سے انھوں نے زبان پر ماہرانہ گرفت حاصل کرنے کا ہنر ضرور سیکھا، اور وہ ارتجال و بداہت (Spontaniety)جو داغ کی شاعری میں روانی پیدا کرتی ہے، اقبال کے ہاں اسلوب بیان پر کامل گرفت کی صورت اختیار کر گئی۔ لیکن اقبال کی یہ کامل گرفت صنا عانہ سے زیادہ خلاقانہ ہے جس کی بدولت انھوں نے اردو غزل کو ایک نیا انبساط، ایک نئی وسعت خیال اور فکر کی ایک نئی جہت عطاکی۔ اس نئے اسلوب غزل میں، جو اقبال کی اختراعی صلاحیتوں کا رہین منت ہے، اقبال نے غزل کے تمام اشارات اور رموز و علائم کی ماہیئت کو بدل کر رکھ دیا۔ غزل کا من وتو، جو صرف عاشق ومعشوق کی طرف اشارہ کرتا تھا، نئی سے نئی انسانی صداقتوں کا آئینہ دار بن گیا۔غزل کا’ میں‘ (من)جو صرف ایک ناکام عاشق تھا، اقبال کی غزل میں عشق جلیل کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کا انسان بن گیا جو کائنات کے حسن کا معترف بھی ہے، اور اس کی قوتوں کا حریف بے باک بھی ؛یہ دہ ہے جو آدم اور ابن آدم دونوں کی نمائندگی کا حق ادا کرتا ہے یہ ’میں‘ مشرق کی انا بھی ہے، اور اسلامی تمدن کا نفس ناطقہ بھی، اسی واحد متکلم میں مشرق و مغرب کے انسان کی درماندگیاں بھی سمٹ آئی ہیں اور نوعِ انسانی کے تخلیقی امکانات بھی؛ واحد متکلم کے مطالب کی یہی بوقلمونی اور وسعت ہے جواقبال کی غزل کو عصر حاضر کے انسان کا نغمہ تخلیق بنا دیتی ہے۔ اقبال نے غزل کو ایک نئی جغرافیائی دُنیا عطا کی، جس کی وسعتوں میں کوہِ الومذ و کوہِ دماوند سے لے کر ساحل نیل وخاک کا شغر سمٹے ہوئے ہیں۔ یہ دنیا بیک وقت اسلامی مشرق کی دنیا بھی ہے، اور عصر حاضر کے انسان کی رزم گاہ فکر وتخیل بھی۔ اقبال نے غزل کودائروں میں تکرار کرتی ہوئی زبان کی بجائے ایک ایسی زبان دی جو آگے کی طرف پھیلتی اور حرکت کرتی ہے، خیال کی اس پیش قدمی(Progression)نے غزل کی زبان کی قدیم گچھے دار صورتوں کوتوڑ کر شعری زبان کا ایک نیا سانچہ تیار کیا۔ اقبال نے غزل میں الفاظ کی مرتکزتہ داری (Concentrated Centrality)کی بجائے الفاظ کی نامیاتی پیش رفت (Progressive Organic Growth)کو اہمیت دی، اوریوں اردو غزل کو لسانی اور فکری پھیلائو کی نادرفنی صورتیں میسر آئیں۔ اقبال نے اردوغزل کو لہجے کی تازگی، فکر کی بلندی، جذبے کی سچائی اور خارجی کائنات سے ایک نئی نسبت عطا کی، اردو غزل جو اپنے تکراری پیمانوں کی بدولت ایک جوئے تنک آب بن کر رہ گئی تھی اور جس میں عشق و عاشقی کے فرسودہ کھیل اوربے مایہ صوفیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تھا، اقبال کی بدولت ایک دریائے تند و تیز بنی، جس نے عصر حاضر کی تمام صداقتوں کوسینے سے لگایا اور انھیں ایک نئے نظامِ علائم میں منتقل کر دیا۔ ایلیٹ نے کہا ہے کہ ہر بڑا شاعر ناگزیر طور پر اپنے لیے ایک نیا اسلوب شاعری تخلیق کرتا ہے جو اس کی تخلیقی وار دات کو بیان کر سکے، یوں شاعری میں ایک نئے معیار اور شاعری کی تعریف میں ایک نئے عنصر کا اضافہ ہوتا ہے اور ہمیں (یعنی نقادوں کو) شاعری کے مجموعی تصور میں تبدیلی اور شاعری کی تنقید کے معائیر میں ردّ و بدل کرنا پڑتا ہے۔ اردو شاعری میں غالب اور اقبال نے یقینا ایسا ہی کیا، انھوں نے اپنے لیے نئے اسالیب شاعری کی تخلیق کی، اردو شاعری کے مروجہ اسالیب و تصورات کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا، جب اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تو اردو میں حالی اور آزاد کی بدولت قومی اور فطرت پسندی کی شاعری وجود میں آچکی تھی۔ اس روایت کو آگے بڑھا کر عظیم آفاقی شاعری کی وسعتوں اور عظمتوں سے آشنا کرنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس کے لیے اقبال جیسے خلاق شاعر کا فکر و تخیل درکار تھا، جس میںگندگی کی بڑی سے بڑی صداقت بھی آسانی کے ساتھ طرز جلیل کی بلاغت اور شاعرانہ لطافت و نغمگی کے سانچے میں ڈھل جائے۔ اقبال نے اردو شاعری کو زبان وبیان اور فکر و تخیل کے اعتبار سے جو کچھ دیا، اس کی بدولت پوری اردو شاعری دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے، ایک وہ جو اقبال سے پہلے تھی اور ایک وہ جواقبال کے بعد صورت پذیر ہوئی۔ فکرِ مجرد کو شاعری سے ہمیشہ بعد رہا ہے، اس لیے فکر مجرد اپنی مصدقہ صورتوں کو منطق کے سانچوں میں ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ شاعری تخیل کی آزاد پرواز سے وجودمیں آتی ہے، اسی لیے شاعری کی ابتدائی تعریفوں میں فکر (Thought)کو شاعری کے عناصر ترکیبی میں شامل نہیں کیا گیا۔ اگر فکر و تخیل کی اس لفظی نزاع سے قطعِ نظر کر لیا جائے۔ اور ان میں بعد المشرقین تسلیم کرنے پر زور نہ دیا جائے تو اس حقیقت کو پہچاننے میں زیادہ دقت پیش نہیں آسکتی کہ شاعری بھی فکر کا ایک منفرد اسلوب یاسانچہ ہے، جو منطق سے مختلف ضرور ہے، لیکن منطق اور اس شاعرانہ تفکر میں ضدین کا رشتہ نہیں، بلکہ ایک ہی قوت کے اظہار کے دو مختلف پیرائے ہیں البتہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل نہیں ہو سکتا کہ منطق فکر کی تنظیم ہے اور شاعری فکر کی تخلیقی حرکت ہے۔ بہر حال فلسفہ (جو فکر کے منطقی لوازمات سے مشروط ہے)اور شاعری کو کبھی ایک نہیں سمجھا گیا یہ اور بات ہے کہ دنیا کی عظیم شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ فلسفیانہ فکر کی دولت سے مالامال ہے، اس کے باوجود اگر ہم دنیا کے بڑے شاعروں کو فلسفی یا مفکر کہیں تو یہ زیادہ مجازاً ہوگاحقیقیاً نہیں، جب کہ اقبال دنیا کے وہ منفرد شاعرہیں جو فی الحقیقت ایک مفکر بھی ہیں، اور انھوں نے فلسفے کے فکر بارد کو جس طرح شاعری کے تخیل رنگیں اور جذبہ گرم کے ساتھ پیوند کیا ہے، اس کی صورت عالمی ادب میں صرف جرمن شاعرگوئٹے یا اقبال کے عظیم پیش رو غالب کے ہاں نظر آتی ہے (اقبال نے غالب اور گوئٹے کی مشابہتوں پر خود بھی بہت زور دیا ہے)، البتہ غالب کے بر عکس اقبال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ(اقبال )فلسفیانہ افکار کو تمثیل اور استعارے کی بجائے راست انداز میں بھی بیان کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے ہاں تمثیل واستعارے کا پردہ موجود نہیں، بلکہ وہ جب چاہتے ہیں تمثیل و استعارہ کو چھوڑ کر راست اندازبیان اختیار کر لیتے ہیں، اوراس کے باوجود ان کے ہاں شعریت کی سطح برقرار رہتی ہے۔ اقبال کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے شاعری کے اجزائے ترکیبی میں سنجیدہ تفکرکا اضافہ کیا اور میتھیو آرنلڈکے الفاظ میں شاعری کو نقدِ حیات کا ذریعہ بنایا۔تنقیدِ حیات اور سنجیدہ تفکرکی اس خوبی نے اقبال کو بیک وقت ایک عظیم مفکر، تہذیب و تمدن کا ایک نقاد اور ایک معلّمِ حیات بنا دیا۔ اگر تاریخ فلسفہ کے مغربی مولفین اور مورخین کے معیار تدوین کو آخری اور قطعی نہ سمجھا جائے تو اقبال کو جدید فلسفے کی تاریخ میں بھی ایک اہم مقام ملنا چاہیے۔ یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے کہ تاریخ فلسفہ کے مغربی مولفین نے مسلمان مفکرین کے افکار کو انسانی فکر کی تاریخ کا حصہ کبھی نہیں سمجھا۔ وہ سٹوری آف فلاسفی، کے مولف ول ڈیورانٹ ہوں یا تاریخ فلسفہ کے مولف اسٹیس،مسلمان فلسفیوں کے خیالات یا فلسفیانہ نظاموں کو انسانی فکر کے رواں دھارے میں شامل نہیں سمجھتے اور اپنی تاریخ فلسفہ میں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ غزالی، ابن رشد، ابن عربی، ابن خلدون، بوعلی سینا اور فارابی جیسے عظیم الشان مفکرین اور معلمین کو بھی انسانی فکر کے ارتقا کی تاریخ میں چنداں اہمیت کا حامل نہیں سمجھا جاتا، اس لیے اگر اقبال کوعصرحاضر کے فلسفیوں میں شامل نہیں کیا جاتا تو اس میں حیرت کی بات نہیں، عام طور پر فلسفہ کے مغربی مورخین اپنی تالیفات کو مغربی فکر کی تاریخ تک محدود رکھتے ہیں، اور اپنے موضوع کی حدود کو اپنے اس رویے کا جواز بناتے ہیں،لیکن وہ تالیفات جو مغربی فکر کی تاریخ، تک محدود نہیں رکھی جاتیں ان میں بھی مسلمانوں کے افکار کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ بہر حال بیسویں صدی کے مفکرین میں اقبال اصولاً ایک امتیازی مقام کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ انھوں نے جدید فلسفے کے ارتقائی عمل کی آخری کڑی کو مکمل کیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی فلسفی کے تمام تر خیالات کلی طور پر طبع زادنہیں ہوتے۔ ہر فلسفی اپنے خیالات کا تانا بانا اپنے پیش روئوں کے خیالات اور فلسفے کے مسلمات سے تیار کرتا ہے۔ افلاطون یا ہیگل جیسے فلسفی دنیا میں چند ایک ہی ہیں جنہوں نے انسانی فکر کی کایا پلٹ دی ہو یا ایسا نظام فکر پیش کیا ہو جس میں متقدمین و معاصرین سے استفادہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ اسی لیے کسی بھی قابل ذکر یا بڑے فلسفی کی اصل اہمیت یہ ہوتی ہے کہ وہ انسانی فکر میں کسی نئے تصور کا اضافہ کر دے۔اس اعتبار سے اقبال کا شمار یقیناً عصر حاضر کے بڑے فلسفیوں میں ہونا چاہیے کہ انھوں نے فلسفے کو ایک نئی مابعد الطبعیاتی تعبیرکا مواد فراہم کیا اور انسانی فکر کی تاریخ میں’خودی ‘یا ’انا‘ کی تخلیقی فعلیت کو اس قدر شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا۔ یہ کہنا تو مبالغہ ہوگا کہ اقبال سے پہلے خودی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اقبال سے پیشتر کسی مفکر نے اپنے فلسفے کی اساس خودی یا انا کی تخلیقی فعلیت کے تصور پر نہیں رکھی، اگرچہ اس تصورکے آثار ہمیں مغربی فکر کی تاریخ میں کانٹ ہی سے ملنا شروع ہوجاتے ہیں، اسپینوزا کا تصور ارادہ بھی انا کی تخلیقی فعلیت ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے، برگسان کا عقلِ تجربی یا عقل منطقی کے مقابلے میں وجدان کو اہمیت دنیا بھی اسی رجحان کا آئینہ دار ہے، لیکن مغربی فلسفے کے اس میلان یا رجحان کی منطقی تکمیل اقبال کے تصور خودی ہی میں ہوتی ہے، اسی طرح اقبال نے اسلامی تصورات کے حوالے سے زندگی اور کائنات کی روحانی اوراخلاقی تعبیر کا جومنہاج استوار کیا ہے، وہ انھیں عصر حاضر میں ایک مابعد الطبعیاتی مفکر کے طور پر ضرورخصوصی اہمیت کا حامل بناتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے مذہب،فلسفہ اورسائنس کے درمیان مشترکہ اقداراور خصوصیات تلاش کرنے اورانھیں بہت حد تک ہم آہنگ کرنے کی جو سعی کی ہے، وہ بھی بذاتِ خود کم اہمیت کاکارنامہ نہیں ہے ان کی یہ سعی انھیں مذہبی مفکروں کی صف میں بھی ممتاز کرتی ہے۔ اوراسلامی فکر کی تاریخ میں اُنھیں غیر معمولی امتیاز بھی عطا کرتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں ان کے افکار و خیالات کی اصل اہمیت اورقدر و قیمت زیادہ تر اسلامی فکر کے حوالے سے ہے، اور یہ حوالہ ایسا ہے جو انھیں غالباً دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز تھا۔ اسلامی مشرق میں ان کا اصل کارنامہ قدیم افکار کی تنقیح اور انتخاب کے علاوہ عصر حاضر کے اسلامی تفکرکے لیے بعض اساسی خطوط فراہم کرنا ہے۔ ان کے تفکر نے مسلمانوں کے فکر کے لیے مہمیز کا کام دیا ہے، اس میں شک نہیں کہ ان کے بعد اسلامی مشرق کو ابھی تک ان سے بڑا یا ان جیسا کوئی مفکر نصیب نہیں ہوا لیکن تفکر کے جس عمل کو انھوں نے جاری کیا ہے اسے ایک عظیم فکری کارنامے سے کم قرارنہیںدیا جا سکتا جن عوامل نے جدید دنیا میں اسلامی تمدن کے احیا اور اسلامی تفکر کی پیش رفت کو ایک ہمہ گیر تحریک کی صورت دے دی ہے ان میں اقبال کے فکر اور شاعری کو اولین اور موثر ترین حیثیت حاصل ہے۔ مشرق اور اسلام سے محبت اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی آرزو کو اقبال نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک طرزاحساس اور نصب العین بنا دیا ہے ان کے عہد آفریں شاعراورمفکر ہونے کے لیے اس سے بڑی شہادت کیا ہوگی کہ ان کا فکر عصر حاضر کے مسلمانوں کے طرز فکر اور طرز احساس کی اساس بن گیا ہے۔ اقبال نے شاعری کو ایسے علوم وفنون کا حوالہ بنا دیا ہے، جن کے بغیر عصرِ رواںمیں انسانی زندگی کی کوئی تشریح یا تعبیر مکمل نہیں ہوسکتی، فلسفہ جوہمارے قدیم مکتبوں میں اشارات بوعلی سینا، شمس بازغہ یا سلم العلوم تک محدود تھا، اقبال اسے عملی زندگی کی بساط پر لے آئے اور ثمریت یا نتائجیت کا ایک ایسا منہاج پیدا کیا جو بیک وقت تصوریت یا عینیت (Idealsim)اور حقیقت پسندی (Realism)کا ایک متوازن امتزاج پیش کرتا تھا۔ انھوں نے برصغیر کی علمی دنیا میں فلسفے کے آفاق کو ایک طرف مولانا روم، بیدل، عراقی اور مجددِ الف ثانی تک اور دوسری طرف برگساں،وہائٹ ہیڈ، نطشے اورگوئٹے تک وسیع کیا اور مسلمانوں کے لیے نیزانسانی فکرکے ارتقا کے ہرسنجیدہ طالب علم کے لیے مسائل و معارف کا ایک ایسا تناظر (Perspective)ڼ فراہم کیا، جس کی روشنی میں حیات انسانی کے دقیق اور اہم مسائل کو زیادہ آسانی اور صراحت کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انھوں نفسیات میں میکڈ وگل اورولیم جمیز کے خیالات کو عام علمی دنیا میں متعارف کرایا، اور وجدانی فلسفے کی مقبولیت اور تشریح کے لیے نئے خطوط و اشارت مرتب کئے۔ انھوںنے مذہب سائنس اورفلسفے کی ممکنہ تطبیق تلاش کرتے ہوئے مذہب کے ان مسائل کو چھوا جن کا مسلمانوں کے لیے ایک ایسانظام حوالگی (Fram of References)ترتیب دیا، جس میں ماضی کے بعض ایسے فکری حوالوں کو زندہ کیا گیا تھا، جو عمومی فراموش گاری کا شکار ہوکر طاقِ نسیاں کی زینت بن چکے تھے۔بالخصوص مولانا روم کے افکار پر ان کا زور ایک ایسا عمل تھا جس نے مولانا روم ہی کو نہیں بلکہ اسلامی فکر کی پوری روایت کو ایک زندہ حوالے کے طور پر ذہنوں کے سامنے لاکھڑا کیا۔ اگرچہ مولانا روم کے کلام اور افکار سے دلچسپی اقبال کے افکار کی اشاعت سے پہلے بھی موجود تھی۔ اور مولانا شبلی نعمانی نے سوانح عمری مولاناروم لکھ کر اس عمومی دلچسپی کو تاریخی اور فکری اساس بھی فراہم کر دِی لیکن اقبال نے مولانا روم کوپورے اسلامی تمدن کے ایک عظیم اور مثالی شاعرکی حیثیت سے جدید اسلامی دنیا کے سامنے پیش کیا اور فکررومی سے استفادے کی عملی صورتیں بھی پیش کیں، غرض اقبال نے جدید اسلامی فکر کو ایک نئی تحریک بھی دی اور اسے حوالوں کا نظام بھی دیا تاکہ وہ خود مکتفی بھی رہے اوراس کے رشتے اپنے اصل سرچشموں کے ساتھ بھی برقرار ہیں۔ اقبال نے اپنی فارسی شاعری کے ذریعے برصغیر کے اسلامی تمدن کو اس کے قدیم تہذیبی اور علمی سرچشموں سے مربوط کیا اوراردو شعر وادب کو بھی، دہلی لکھنو اوراکبر آباد کی نفی کیے بغیر، شیراز وتبریز کی طویل شعری، ادبی اورفکری روایت کی یاد دلائی، انھوں نے ایشیا میں ایک عظیم تر اسلامی تمدن کے نشوو ارتقاکا خواب دیکھا اور اس خواب کو پیرایۂِ تعبیر دینے کے لیے ایک ایسا فکری سانچہ بھی دیا جسے ہم اس مثالی اسلامی تمدن کی فکری اور تہذیبی اساس کہہ سکتے ہیں۔ اکثر فلسفیوں کو معلمین بھی کہہ دیا جاتا ہے، اقبال کوبھی اگر ایک معلم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا بلکہ لفظ کا صحیح ترین اطلاق ہوگا، اگر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کے طویل عمل میں اقبال کے کردار کاتجزیہ کریں تو وہ صحیح معنوں میں ایک معلم قوم کی حیثیت میں اپنا تاریخی کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں، بلکہ اگر انھیں عصر حاضر کا ایک عظیم معلم قوم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انھوں نے ایک مثالی معلم قوم کی طرح اپنی قوم کی ذہنی، جذباتی، فکری اور اجتماعی ضرورتوں کو محسوس کیا، ان کے مسائل کا دقتِ نظر سے تجزیہ کیا، ان کے سرد و خنک سینوں میں مقصد حیات کا شعلہ بھڑکایا،ان کے دلوں میں زندہ رہنے کی مانگ بیدار کی، انھیں بتایا کہ جذبے کی حرارت، کردار کی صلابت اور ارادے کی قوت قوموںکی زندگی میں کیا معنی رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنی قوت تخلیق، تاثیر سخن اور اخلاص فکر سے ایک پوری قوم کی قلب ماہیت کر دی، انھوں نے قوم کو جو نصب العین دیا وہ بیک وقت مثالی بھی تھا اور حقیقت پسندانہ بھی۔جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کی تشکیل، ایشیا میں ایک نئے اسلامی تمدن کی صورت پذیری اور عالم اسلام کا اتحاد۔ اقبال کے نصب العین کے تین بنیادی زاویے ہیں۔ جنوب مغربی ایشیا میں ایک آزاد اسلامی مملکت کا قیام ان کی وفات کے صرف نو سال بعد عمل میں آگیا، اور عالم اسلام کے واقعات کی رفتار اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ اقبال کا مرتب کیا ہوا نصاب فکر و عمل شعوری اور لاشعوری، دونوں پر، ایک نئی اسلامی دنیا کی تشکیل میں نہایت گہرے اور دور رس اثرات کا حامل ثابت ہو رہا ہے: گماں مبر کہ بپایاں رسید کارِ مغاں ہزار بادۂِ نا خوردہ در رگِ تاک است! عصر حاضر میں تاریخ کے عمل کی جدلیت کو سمجھنے میں اقبال نے جس بصیرت کا اظہار کیا، وہ حیران کن بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ وہ صمیم قلب سے مشرق اور ایشیا کی مظلوم و محکوم اقوام کی بیداری اور آزادی کے خواہاں تھے۔ اگرچہ ان کا پیغام عالمگیر ہے، اور وہ ادبیات عالم میں پورے مشرق کی نمائندگی کرتے ہیں، تاہم ان کی نظریں خاص طور پر ایشیا کی بیدار ہوتی ہوئی اقوام کی صورت احوال پر مرکوزتھیں۔ ان کی شاعری میں بیسویں صدی کے اوائل کی ایشیا کی بہت سی اہم تحریکات کاپر تو ملتا ہے۔ وہ ایشیائی اقوام کے ہر نئے اقدام کو دلچسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔آزادی کی ہر تحریک میں انھیںایشیائی تہذیب کی برتری اور تاریخ عالم میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے امکانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان کا یہ کارنامہ کم اہمیت کا حامل نہیں کہ انھوں نے بیسویں صدی میں اردو شاعری کو پورے ایشیاکے احساسات اور امنگوںکا ترجمان بنا دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے اسلامی دنیا کوبالخصوص ایک نئی زندگی کاپیغام دینے کے علاوہ اسے ایک نیا فکری، انسانی اور تاریخی تناظر بھی عطا کیا۔ ان کی شاعری میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی آرزوکے ساتھ ساتھ مظلوموں اور محکوموں کی صورت حال کا تجزیہ بھی ملتا ہے۔ انھوں نے نہایت واضح انداز اور موثر ترین پیرائے میں مغرب کے استعماری نظاموں سے اپنی بیزاری کا اظہارکیا، انھوں نے مشرقی اور ایشیائی اقوام کو خود شناسی، خود گری اور خودنگری……اور انھیںقوت اور توانائی کے حصول کی راہ دکھائی، لیکن قوت اور توانائی کو عالمگیرانسانی اخوت اور انسانی فوذ و فلاح کے بلند مقاصد کے لیے صرف کرنے کا سبق بھی صراحت کے ساتھ دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس قُوّت پسندی کے باوجود انھوں نے ہر نوع کے استعمارو استبداد کو رد کر دیا اور صِرف انھیں مقاصد عالیہ کی نشان دہی کی جومجموعی طور پر پوری انسانیت کے لیے قابل آرزو ہو سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کا فکر و فن آج بھی حیات آفرین تصورات کا سر چشمہ ہے انھوں نے جس طرح مشرقی اورایشیائی اقوام کو ایک نئے فکری انقلاب سے دو چار کیا، اس کی پیش بینی خود ان کے ہاں بھی موجود تھی، پس از من شعیر ان خونند ومی رقصند ومی گویند جہانے را دگر گوں کر دیک مردِخود آگاہے! اقبال عہد آفرین، مکتبہ کاروان ادب، ملتان، ۱۹۸۷ء حواشی ۱۔’’شاعری صناعتی ست کہ شاعربداں اتساقِ مقدمات موہومہ کند و التیام قیاسات منتجہ را براں وجہ کہ معنی خردرا بزرگ گرواند و معنی بزرگ راخرد، نیکوراور خلعتِ بزرگ باز نکاید و زشت را در صورتِ نیکو جلوہ کند، بہام و قوت ہای عقباتی و حسیاتی رابر انگیزد تابداں ابہام طبائع را انقباضی وانبساطی بودو امور عظام را در نظام عالم سبب شود‘‘ ـــــــــــــــــــــ (چہار مقالہ:مقالہ دوم) ۲۔ مقدمۂِ شعر و شاعری اورشعرالعجم جلد پنجم ۳ ڈاکٹر اقبال کا علمِ کلام علامہ سید سلیمان ندوی (نوٹ: علمِ کلام اس علم کا نام ہے جس میں اسلامی عقائد کو دلائلِ عقلیہ سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایران میں جب شاعری نے بہت زیادہ ترقی کی تو وہ صرف اپنے ہی دائرے یعنی جذبات ہی میں محدود نہیں رہی بلکہ فلسفہ، اخلاق، تصوّف اور شریعت کے بہت سے مسائل بھی اُس میں داخل ہو گئے اور ایرانی شعرا نے ان مسائل کو عقلی دلائل کے بجائے خطابی اور شاعرانہ دلائل سے اس خوبی کے ساتھ ثابت کیا کہ ان کا طرزِ بیان ہمارے قدیم علمِ کلام کے عقلی دلائل سے زیادہ مؤثر اور دل نشیں ثابت ہوا۔ حکیم سنائی، سحابی(۱)، صائب(۲)، عرفی(۳) اور بہت سے صوفی شعرا کے کلام میں اس قسم کے حقائق و مسائل نہایت کثرت سے ملتے ہیں۔ بالخصوص مولانا روم(۴) نے اپنی مثنوی میں اخلاق و تصوّف کے ساتھ تقریباً علمِ کلام کے تمام اہم مسائل کو نہایت دلآویز طریقے پر بیان کیا ہے۔ اردو شاعری کی بنیاد اگرچہ فارسی کی سطح پر رکھی گئی لیکن افسوس ہے کہ ہمارے شعرا نے فارسی شاعری کی نقل نہایت نامکمل طور پر کی اور علمِ کلام اور فلسفے کے ان مسائل کو بہت کم ہاتھ لگایا جو ایران کے صوفی شعرا کے کلام میں بہ کثرت موجود تھے۔ اردو زبان کے شعرا میں اکبر(۵) کو چھوڑ کر صرف ڈاکٹر اقبال ایک ایسے شخص ہیں جنھوں نے غزل و قصائد کے تنگ و تاریک کوچے سے نکل کر حقائق کے میدان میں قدم رکھا اور تصوّف، اخلاق، فلسفہ اور اسرارِ شریعت کے بکثرت مسائل کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا۔ چنانچہ اس قسم کے مسائل میں سے اس وقت ہم علمِ کلام کے چند مسائل کو لے کر یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ انھوں نے موجودہ دور کے رجحان و مذاق کے مطابق ان مسائل کی تشریح کس خوبی کے ساتھ کی ہے۔ قدیم زمانے میں جس طرح فلسفہ و سائنس کے مسائل عقلی دلائل سے ثابت کیے جاتے تھے، بعینہ اسی طرح ہمارے متکلّمین نے اسلامی عقائد ـــمثلاً وجودِ باری، توحید، نبوت اور حشر و نشر وغیرہ ـــ کا اثبات عقلی دلائل سے کیا۔ لیکن ان دلائل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ توحید،نبوت اور رسالت وغیرہ کے عملی نتائج اس دنیا میں کیا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام غزالی اور امام رازی وغیرہ نے اس روش کو چھوڑ کر نظری و عملی نتائج سے نبوّت اور رسالت کا اثبات کیا۔ ہمارے صوفی شعرا بالخصوص حکیم سنائی اور مولانا رومی نے شاعرانہ و خطابی دلائل سے ان مسائل کے طریقۂ اثبات کو زیادہ مؤثر، دل نشیں اور قریب الفہم بنا دیا۔ اس لیے موجودہ دور میں یہ طریقۂ اثبات کافی نہیں ہو سکتا۔ یہ زمانہ ایک نئے تمدّن و تہذیب کی ترقی کا زمانہ ہے اور اس زمانے میں کسی مسئلے کی طرف نظری حیثیت پر نگاہ نہیں ڈالی جاتی بلکہ عملی حیثیت سے اُن کے نتائج و مظاہر پر نظر ڈالی جاتی ہے۔ اس زمانے میں سائنس کو جو مقبولیت حاصل ہے اُس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ نہایت آسانی سے ہوا کو پانی اور پانی کو ہوا بنا دیتی ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج دنیا کی تمام کل سائنس ہی کی بدولت چل رہی ہے۔ ڈاکٹر اقبال کی شاعری نے اسی تمدّن، اسی تہذیب اور اسی فضا میں بال و پر کھولے ہیں، اس لیے اُنھوں نے اسلامی عقائد کا اثبات زیادہ تر اُن کے عملی نتائج سے کیا ہے اور خودی کا جو فلسفہ اُن کا مخصوص فلسفہ ہے، اُس سے اُنھوں نے ان مسائل کی تشریح و اثبات میں بھی کام لیا ہے۔ اس لیے اُن کا طرزِ بیان قدیم علمائے کلام اور قدیم متکلّم صوفی شعرا کے اندازِ بیان سے زیادہ اس زمانے کے رجحان و مذاق کے مطابق ہے اور ہم اسی رجحان و مذاق کے مطابق اُن کے علمِ کلام پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔) توحیدِ باری: نظری حیثیت سے توحیدِ باری کا مفہوم اس سے زیادہ نہیں کہ صرف ایک خدا کے وجود پر اعتقاد رکھا جائے لیکن عملی حیثیت سے جب تک توحید کے ماننے والوں میں عملی اتحاد نہ ہو، محض یہ اعتقاد ناکافی ہے اس سے کوئی متحدہ تہذیب، متحدہ تمدّن، متحدہ معاشرت اور متحدہ نظامِ اخلاق نہیں پیدا ہو سکتا۔ اگر تمام مسلمانوں کا طریقۂ نماز متحد نہ ہو اور سب کے سب اپنا قبلہ الگ الگ بنا لیں تو مسلمانوں میں یہ وحدت ویک رنگی نہیں پیدا ہو سکتی۔ جن یونانی حکما نے وحدت الوجود کا مسئلہ ایجاد کیا تھا، اُن کا مقصد بھی یہی تھا کہ تمام دنیا متحد ہو جائے اور ہر قسم کے اختلافات مٹ جائیں۔ اسلامی توحید کا مقصد بھی اس قسم کی یک رنگی کا پیدا کرنا تھا۔ لیکن زمانۂ مابعد میں اگرچہ تمام اسلامی فرقے اجمالاً عقیدۂ توحید پر متفق رہے، تاہم فقہی اختلافات نے اُن کے اعمال میں ناہمواری پیدا کر دی۔ اس لیے مسلمانوں میں وہ اتحاد عمل باقی نہیں رہا جو دورِ صحابہ میں موجود تھا۔ اس لیے اگر محض اتحادِ عمل کو توحید کا حقیقی مظہر قرار دیا جائے تو صحابہ کی توحید موجودہ دور کے حنفیوں، شافعیوں، مالکیوں اور حنبلیوں سے زیادہ مکمّل و مستحکم ثابت ہوگی۔ ڈاکٹر اقبال نے توحیدِ باری کی بنیاد اسی عملی اتحاد پر رکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام نے توحید پر جو غیر معمولی زور دیا ہے، اُس کا مقصد مسلمانوں میں صرف اتحادِ عمل پیدا کرنا تھا۔ اگر آج مسلمانوں میں اتحادِ عمل نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہیں اُن میں توحید یا کم از کم کامل توحید کے ماننے والے نہیں ہیں اور اسی حیثیت سے اُنھوں نے توحید کے متعلق فقہا و متکلّمین دونوں پر اعتراض کیا ہے: زندہ قوّت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلۂ علمِ کلام روشن اس ضَو سے اگر ظلمتِ کردار نہ ہو خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام مَیں نے اے میرِ سپہ تیری سپہ دیکھی ہے قل ھو اللہ کی شمشیر سے خالی ہیں نیام آہ! اس راز سے واقف ہے نہ مُلّا نہ فقیہ وحدت افکار کی بے وحدتِ کردار ہے خام قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے؟ اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام ان اشعار سے معلوم ہوا کہ توحید، وحدتِ افکار اور وحدتِ کردار کے مجموعے کا نام ہے۔ مکّی زندگی میں رسول اللہ ﷺ نے توحید کی جو تعلیم دی، اُس کا تعلق صرف وحدتِ افکار سے تھا لیکن اس تعلیم نے جب ایک چھوٹی سی متحد الخیال جماعت پیدا کر دی تو آپ نے مدینے کی طرف ہجرت کی اور یہیں فرائض و احکام کے متعلق آیتیں نازل ہوئیں اور وحدت کردار کا دور شروع ہوا۔ اور اِسی وحدتِ کردار سے مسلمانوں کی عملی زندگی شروع ہوئی اور انھوں نے مشرکانِ عرب، نصاراے روم اور یہودیانِ خیبر کی طاقت کو پاش پاش کر کے اپنا ایک متحدہ نظامِ سلطنت قائم کر لیا اور ایک زندہ قوم بن گئے۔ اس لیے ڈاکٹر اقبال کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ: زندہ قوّت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہ علمِ کلام اسلام کی یہ توحید در حقیقت ایک جذباتی چیز تھی اور دنیا کی کل جذبات ہی سے چلتی ہے، لیکن متکلّمین و فقہا نے اس کو محض ایک عقلی چیز بنا دیا اس لیے اس سے قدرتی طور پر انحطاط کا دور شروع ہو گیا۔ اسی نکتے کو ڈاکٹر اقبال نے ’’پیام مشرق‘‘ میں اس طرح بیان کیا ہے: ہمائے علم تا افتد بدامت یقیں کم کن، گرفتارِ شکے باش عمل خواہی؟ یقیں را پختہ تر کن یکے جوے و یکے بین و یکے باش خدا کسی جہت میں نہیں: علمِ کلام کا یہ ایک متد اول مسئلہ ہے اور معتزلہ(۶) و اشاعرہ(۷) دونوں اس پر متفق ہیں کہ خداوند تعالیٰ چوں کہ مادی کثافتوں سے پاک ہے اس لیے ذوجہت اور ذو اشارہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا نہ کوئی حیّز ہے نہ مکان بلکہ وہ زمان و مکان کی قید سے بالکل آزاد ہے۔ لیکن علمِ کلام میں یہ مسئلہ بالکل خشک اور بے اثر طریقے پر بیان کیا گیا ہے جس سے انسان کی بلند ہمتی اور جوشِ عمل کا اظہار بالکل نہیں ہوتا۔ لیکن ڈاکٹر اقبال نے اس خشک مسئلے کو اپنے شاعرانہ زورِ بیان سے ایک نہایت پُر جوش عملی مسئلہ بنا دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں جو کچھ ہے وہ تو انسان کے زورِ بازو کا نتیجہ ہے اس لیے جس طاقت نے انسان جیسی پُر زور طاقت پیدا کی ہے اُس کا مرتبہ تو اُس سے کہیں بالاتر ہو گا: ایں جہاں چیست؟ صنم خانۂ پندارِ من است جلوۂ او گرودیدۂ بیدار من است ہمہ آفاق کہ گیرم بہ نگاہے او را حلقۂ ہست کہ از گردشِ پرکار من است ہستی و نیستی از دیدن و نادیدنِ من چہ زمان و چہ مکاں شوخیِ افکار من است از فسوں کاریِ دل، سیر و سکوں، غیب و حضور ایں کہ غمّاز و کشایندۂ اسرار من است آں جہانے کہ درو کاشتہ را مے دروند نور و نارش ہمہ از سبحہ و زنّارِ من است سازِ تقدیرم و صد نغمۂ پنہاں دارم ہر کجا زخمۂ اندیشہ رسد، تارِ من است اے من از فیضِ تو پایندہ، نشانِ تو کجا است؟ ایں دو گیتی اثرِ ماست، جہانِ تو کجا است عدمِ رؤیت باری: اشاعرہ رؤیت باری کے قائل اور معتزلہ اُس کے منکر ہیں لیکن دونوں کا طرزِ استدلال بالکل عقلی ہے جس سے جذبے اور قوّتِ عمل کو کوئی تحریک نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر اقبال نے اس مسئلے میں معتزلہ کا عقیدہ اختیار کیا ہے، لیکن یہاں بھی انھوں نے انسان کے شرف اور قوتِ عمل کے مظاہر کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے سپید و سیاہ، دریا و کوہ، دشت و در اور مہر و ماہ سب انسان نے پیدا کیے ہیں، یا یہ کہ وہ انسان کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، اس لیے وہ ان ہی چیزوں کا گرویدہ و شیدائی ہے۔ لیکن بلند ہمتی کا اقتضا یہ ہے کہ نگاہ کو اس سے بھی زیادہ بلند کیا جائے اور اُس ذات کی تلاش کی جائے جو نگاہ کی گرفت ہی میں نہیں آ سکتی: نورِ تو وا نمود سپید و سیاہ را دریا و کوہ و دشت و در و مہر و ماہ را تو در ہوائے آنکہ نگہ آشنائے اوست من در تلاشِ آں کہ نتابد نگاہ را نبوّت: علمِ کلام میں نبوّت کا اثبات عام طور پر معجزات کے ذریعے سے کیا گیا ہے لیکن چونکہ عقلی حیثیت سے یہ طریقہ شکوک و شبہات سے خالی نہ تھا اس لیے امام غزالی، امام رازی اور مولانا روم وغیرہ نے پیغمبروں کی تعلیمات اور اُن تعلیمات کے بہترین نتائج یعنی تزکیۂ نفس اور تہذیب اخلاق وغیرہ کے ذریعے سے اس کا اثبات کیا۔ لیکن ڈاکٹر اقبال نے نبوّت کے اثبات کا جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ ان سب سے الگ اور موجودہ دور کے ذوق و رجحان کے بالکل مطابق ہے۔ نبوّت کے اثبات کا جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے اُس کی بنیاد یہ ہے کہ نبوّت ایک غیر معمولی چیز ہے اس لیے اس کی وجہ ثبوت کو بھی غیر معمولی ہونا چاہیے، اور معجزہ چونکہ ایک مافوق الفطرت اور غیر معمولی چیز ہے اِس لیے اشاعرہ نے اسی کو نبوّت کی دلیل قرار دیا۔ لیکن اس دلیل پر جب بہت سے عقلی اعتراضات ہوئے تو امام غزالی وغیرہ نے پیغمبروں کی تعلیمات اور ان کے نتائج کو نبوّت کا معجزہ قرار دیا، کیونکہ جادوگروں اور شعبدہ بازوں سے بھی اگرچہ بہت سے غیر معمولی اور مافوق الفطرت واقعات سرزد ہو سکتے ہیں لیکن جہاں تک تجربے کا تعلق ہے وہ خود نہ پیغمبروں کی طرح پاکیزہ اخلاق ہو سکتے ہیں، نہ اعلیٰ درجے کی اخلاقی اور عملی تعلیم دے سکتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کے نزدیک ایک قوم کا پیدا کرنا نبوّت کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ بالخصوص اس زمانے کے قومی ہنگامۂ رستخیز میں نبوّت کے ثبوت میں اسی معجزے کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ساحروں اور شعبدہ بازوں سے اگرچہ بہت سے حیرت انگیز واقعات سرزد ہو سکتے ہیں لیکن آج تک کسی ساحر اور شعبدہ باز نے کسی زندہ قوم کو نہیں پیدا کیا۔ فرعون کے جادوگروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا مقابلہ تو ضرور کیا لیکن وہ یہودیوں جیسی قوم نہ پیدا کر سکے: گفتم از پیغمبری ہم باز گوے سّرِ او با مردِ محرم باز گوے گفت اقوام و ملل آیاتِ اوست عصر ھائے ما ز مخلوقاتِ اوست از دمِ او ناطق آمد سنگ و خشت ما ھمہ مانندِ حاصل، او چو کشت ھائے و ھوئے اندرونِ کائنات از لب او نجم و نور و نازعات صوفیوں نے خلوت گزینی، ترکِ دنیا اور زہد و قناعت اور اسی قسم کے دوسرے محاسنِ اخلاق پر قناعت کر لی لیکن پیغمبروں نے اس قسم کے محاسنِ اخلاق اختیار کر کے ایک زندہ قوم اور ایک نیا عالم پیدا کر دیا، اس لیے زہد و تقشّف اور رسالت و نبوّت میں زمین و آسمان کا فرق ہے: از وجودش اعتبارِ ممکنات اعتدالِ او عیارِ ممکنات من چہ گویم از یمِ بے ساحلش غرق اعصار و دھور اندر دلش آنچہ در آدم بگنجد عالم است آنچہ در عالم نگنجد آدم است آشکارا مہر و مہ از جلوتش نیست رہ جبریل را در خلوتش مصطفی اندر حرا خلوت گزید مدتے جز خویشتن کس را ندید نقشِ ما را در دلِ او ریختند ملّتے از خلوتش انگیختند مظاہرِ عالم مثلاً آفتاب و ماہتاب اور کوہ و دشت وغیرہ سے خدا کے وجود اور قدرت پر جو استدلال کیا جاتا ہے، ایک مادہ پرست اُس کا انکار کر سکتا ہے اور اُن کو قوانین فطرت کا نتیجہ قرار دے سکتا ہے لیکن قوموں کی تولید و نشو و نما بہرحال قوانین فطرت کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ انبیا کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے، اس لیے خدا کے وجود کا تو انکار کیا جا سکتا ہے لیکن نبوت کا انکار نہیں کیا جا سکتا: میتوانی منکرِ یزداں شدن منکر از شانِ نبی نتواں شدن ہجرت: اسی سلسلے میں ڈاکٹر اقبال نے اُس مشہور اعتراض کا جواب دیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہجرت پر کیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت دشمنوں سے ایک فرار کی صورت تھی اور اس قسم کی بزدلی ایک اولوالعزم پیغمبر کی شایانِ شان نہیں۔ علامہ ابنِ قیّّم(۸) نے لکھا ہے کہ یہ بزدلی نہیں بلکہ جرأت و ہمّت تھی اور ہجرت جہاد کا مقدمہ و اعلان تھی۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کا مقصد ایک ایسی عالمگیر ملّت کا پیدا کرنا تھا جو وطینت کی قید سے آزاد ہو اس لیے آپ نے مکّہ سے نکل کر مدینہ میں اسی قسم کی قوم پیدا کی اور وطینت کا خاتمہ کر دیا: جوھرِ ما با مقامے بستہ نیست بادۂ تندش بجامے بستہ نیست ھندی و چینی سفال جامِ ماست رومی و شامی گلِ اَندامِ ماست قلبِ ما از ھند و روم و شام نیست مرز و بومِ او بجز اسلام نیست عقدۂ قومیّتِ مسلم کشود از وطن آقائے ما ہجرت نمود حکمتش یک ملّتِ گیتی نورد بر اساسِ کلمۂ تعمیر کرد پس چرا از مسکنِ آبا گریخت؟ تو گماں داری کہ از اعدا گریخت؟ قصّہ گویاں حق زما پوشیدہ اند معنیِ ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئینِ حیاتِ مسلم است ایں ز اسبابِ ثباتِ مسلم است معنی او از تنک آبی رم است ترکِ شبنم بہرِ تسخیر یم است بگذر از گل گلستاں مقصود تست ایں زیاں پیرایہ بندِ سود تست معراج: معراج کے جسمانی اور روحانی ہونے کی بحث نہایت فرسودہ و پامال ہے اور ڈاکٹر اقبال اس فرسودہ و پامال بحث میں پڑنا نہیں چاہتے۔ تاہم اُن کے نزدیک دنیا کے تمام واقعات صرف مادی علل و اسباب کے پابند نہیں ہیں بلکہ روحانی طاقت بھی بہت سے واقعات کا سبب بن سکتی ہے۔ اور معراج خواہ جسمانی ہو یا روحانی لیکن وہ بہرحال ایک روحانی طاقت کا نتیجہ تھی اس لیے بذات خود وہ ایک روحانی چیز تھی اور جسمانی حالت میں بھی روحانی طاقت اُس محرّک کی تھی: دے ولولۂ شوق جسے لّذتِ پرواز کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج مشکل نہیں یارانِ چمن، معرکۂ باز پر سوز اگر ہو نَفَسِ سینۂ دراج ناوک ہے مسلماں، ہدف اُس کا ہے ثریّا ہے سّرِ سراپردۂ جاں نکتۂ معراج تو معنیِ والنجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج علم کلام میں یہ ایک خشک اور بے اثر مسئلہ تھا لیکن ڈاکٹر اقبال نے اس کے ذریعے سے مسلمانوں کو روحانی طاقت کی نشو و نما اور بلند ہمتی کا سبق دیا ہے۔ وحی و الہام: ڈاکٹر اقبال کے نزدیک برے بھلے کی تمیز صرف عقل سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لیے وحی و الہام کی ضرورت ہے۔ لیکن جس طرح انسان قوّتِ ذائقہ سے لذیذ کھانے کا اور قوّت لامسہ کے ذریعے سے نرم و سخت جسم کا احساس کر سکتا ہے بعینہ اسی طرح انسان کے اندر ایک قوّت ہے جو اچھے اور برے کاموں کی تمیز کر سکتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اور قوّتیں صرف مادیت سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ قوّت روحانیت سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن بہرحال زندگی کی نشو و نما کے لیے یہ قوّت خود زندگی ہی کے اندر موجود ہے: عقلِ بے مایہ امامت کی سزاوار نہیں راہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کارِ حیات فکر بے نور ترا، جذبِ عمل بے بنیاد سخت مشکل ہے کہ روشن ہو شبِ تارِ حیات خوب و ناخوب عمل کی ہو گرہ وا کیونکر گر حیات آپ نہ ہو شارحِ اسرارِ حیات جس طرح ذوقی چیزوں کی تمیز میں عقل بالکل بے کار ہو جاتی ہے __ صاف و شفاف پانی کو دیکھ کر صرف عقل یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ وہ شور ہے یا شیریں، اس کا فیصلہ صرف ذوق کر سکتا ہے __ اسی طرح بہت سے افعال کے حسن و قبح کا فیصلہ بھی عقل نہیں کر سکتی بلکہ خود زندگی ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ کون سے افعال زندگی کے لیے موزوں ہیں اور کون سے غیر موزوں؟ اسی ذوقی احساس کا نام وحی یا الہام ہے۔ باقی رہا وحی و الہام کی حالت میں آواز کا آنا، فرشتے کی شکل کا نظر آنا، ڈاکٹر اقبال اس کے نہ منکر ہیں نہ مُقر۔ ممکن ہے کہ جس طرح بھوک، پیاس اور دوسرے جسمانی احساسات میں انسان پر خاص خاص حالات طاری ہوتے ہیں اسی طرح روحانی احساسات میں بھی انسان پر مختلف کیفیتیں طاری ہوتی ہوں۔ مسئلہ خیر و شر: مذہب و اخلاق، وحی و الہام، امر و نہی اور عذاب و ثواب سب کی بنیاد اس پر قائم ہے کہ دنیا میں برائیاں اور بھلائیاں دونوں موجود ہیں۔ اگر یہ دونوں چیزیں موجود نہ ہوتیں تو مذہب و اخلاق کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔ خیر و شر کی یہ آمیزش سب سے زیادہ انسانی فطرت میں پائی جاتی ہے، اسی لیے وہ مذہب کا اصلی مخاطب اور مکلّف ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خدا نے انسان کی فطرت ہی ایسی کیوں بنائی جس سے برائی سرزد ہو۔ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ انسان فطرۃً ایسا بنایا جاتا جس سے برائی سرزد ہی نہ ہوتی؟ متکلمین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ انسان کی اصل فطرت میں اگرچہ برائی کا مادہ بھی موجود ہے، تاہم اُس میں نیکی کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے، اور انصاف و حکمت کا اقتضا یہی ہے۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کے نزدیک نیکی و بدی دونوں میں توازن پایا جاتا ہے اور انسان میں دونوں کی مقدار برابر برابر موجود ہے اور دنیا کی رونق، دنیا کا ہنگامہ اور دنیا کی شان و شوکت اسی توازن سے قائم ہیں۔ چنانچہ اُنھوں نے خدا اور انسان کے درمیان ایک مکالمہ لکھا ہے جس میں خدا نے انسان پر برائی کا الزام لگایا ہے: جہاں را ز یک آب و گل آفریدم تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی من از خاک پولادِ ناب آفریدم تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی تبر آفریدی نہالِ چمن را قفس ساختی طائرِ نغمہ زن را لیکن انسان نے اس کے جواب میں ان برائیوں کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ اُن کے مقابل میں اپنی بھلائیاں گنائی ہیں: تو شب آفریدی، چراغ آفریدم سفال آفریدی، ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زھر نوشینہ سازم اُنھوں نے زبورِ عجم میں اس توازن کو اور بھی زیادہ نمایاں کیا ہے: دل بے قید من با نورِ ایماں کافری کردہ حرم را سجدہ آوردہ، بتاں را چاکری کردہ متاعِ طاعتِ خود را ترازوے برافرازد ببازارِ قیامت با خدا سوداگری کردہ زمین و آسماں را بر مرادِ خویش میخواھد غبارِ راہ و باتقدیرِ یزداں داوری کردہ گہے باحق در آمیزد، گہے با حق درآویزد زمانے حیدری کردہ، زمانے خیبری کردہ لیکن اسی کے ساتھ اس سے انسان کے شرف کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتا: بایں بیرنگیِ جوھر ازو نیرنگ میریزد کلیمے بیں کہ ھم پیغمبری ھم ساحری کردہ کیونکہ باوجود خیر و شر کے اس مساویانہ امتزاج کے، خیر کے نتائج زیادہ واضح و نمایاں ہوتے ہیں۔ انسان میں پیغمبرانہ اور ساحرانہ قوّتیں اگرچہ مساوی مقدار میں ہیں لیکن پیغمبرانہ طاقت کے جو نتائج ہیںاُن کے سامنے ساحرانہ طاقت کے نتائج بالکل ہیچ ہیں یا کم از کم یہ کہ قوت شر سے جو نتائج بد پیدا ہوتے ہیں، انسان قوّت خیر سے اُن کی تلافی کر دیتا ہے: نگاھش عقل دور اندیش را ذوق جنوں دادہ ولیکن با جنونِ فتنہ ساماں نشتری کردہ ّّقرآن مجید سے بھی خیر و شر کا یہی توازن ثابت ہوتا ہے۔ فرشتوں نے حضرت آدم کی خلافت پر صرف قوّتِ شر کی وجہ سے اعتراض کیا تھا: ’’قالو اتجعل فیھا من یفسد فیھا و یسفک الدمائ‘‘ ترجمہ:۔ (تو فرشتے) بولے کیا تو زمین میں ایسے شخض (کو نائب) بناتا ہے جو اس میں فساد پھیلائے اور خون ریزیاں کرے؟ لیکن خدا نے نہ اس قوّت کا انکار کیا اور نہ یہ بتایا کہ انسان میں قوّتِ خیر قوّتِ شر پر غالب ہے بلکہ اس کے مقابل میں صرف اُس کی بھلائی کا پہلو رکھ دیا: ’’و علّم آدم الاسماء کلّھا ثم عرضھم علی الملائکۃ فقال أنبؤنی باسماء ھولاء ان کنتم صادقین‘‘۔ ترجمہ:۔ اور آدم کو سب (چیزوں کے) نام بتا دیے۔ پھر اُن چیزوں کو فرشتوں کے روبرو پیش کر کے فرمایا کہ اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو ہم کو (ان چیزوں کے) نام بتاؤ۔ مسئلۂ تقدیر: اسلام میں مسئلۂ تقدیر نے دو قسم کی عملی گمراہیاں پیدا کر دی تھیں۔ کچھ لوگ تو تمام اعمال و عبادات کو اس لیے چھوڑ بیٹھے تھے کہ دوزخ وجنت جو بھی تقدیر میں لکھی جا چکی ہے، وہ تو لازمی طور پر ملے گی، اس لیے اعمال و عبادات سے کیا فائدہ؟ لیکن ڈاکٹر اقبال نے بتایا کہ یہ خیال انسان کے عملی شرف کو کھو دیتا ہے اور اُس کو نباتات و جمادات کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے: پابندیٔ تقدیر کہ پابندیٔ احکام؟ یہ مسئلہ مشکل نہیں اے مردِ خردمند! اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر ہے اس کا مقّلد ابھی ناخوش ابھی خورسند تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِ الہٰی کا ہے پابند کچھ لوگ ہر قسم کے رندانہ اور اوباشانہ افعال کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ مشیّت ایزدی نے ہم کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خواجہ حافظ کے فلسفۂ لذت پرستی کی بنیاد اسی تخیل پر ہے: مرا روزِ ازل کارے بجز رندی نفرمودند ھر آں قسمت کہ آں جا رفت ازاں افزوں نخواھد شد(۹) ــــــــــــ برو اے ناصح و بر درد کشاں خردہ مگیر کارفرمائے قدر میکند ایں من چہ کنم(۱۰) لیکن ڈاکٹر اقبال نے ایک مکالمے میں، جو خدا اور ابلیس کے درمیان ہوا ہے، اس خیال کی غلطی ثابت کی ہے۔ ابلیس کہتا ہے: اے خدائے کن فکاں مجھ کو نہ تھا آدم سے بَیر آہ وہ زندانیٔ نزدیک و دور و دیر و زود حرفِ استکبار تیرے سامنے ممکن نہ تھا ہاں مگر تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود اس کے بعد خدا نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر اس خیال کی غلطی ثابت کی: پستیٔ فطرت نے سکھلائی ہے یہ حجّت اُسے کہتا ہے تیری مشیّت میں نہ تھا میرا سجود دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود غرض اس قسم کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر ڈاکٹر اقبال نے شاعرانہ انداز میں بحث کی ہے اور اگر اُن سب کو جمع کیا جائے تو ایک نیا علمِ کلام مرتّب ہو سکتا ہے؛ بالخصوص ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں اُنھوں نے خاص طور پر اسی قسم کے مسائل کی تشریح کی ہے؛ مثلاً سب سے پہلے اُنھوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب تک تمام افراد باہم منضم و مدغم ہو کر متحدہ قومیت کی شکل نہ اختیار کر لیں اُس وقت تک فرد و قوم دونوں کا نظام ابتر رہے گا: فرد می گیرد ز ملّت احترام ملّت از افراد می یابد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود ــــــــــــ لفظ چوں از بیت خود بیروں نشست گوھر مضموں بجیبِ خود شکست برگِ سبزے کز نہالِ خویش ریخت از بہاراں تارِ امیّدش گسیخت اور پیغمبروں کا کام اسی رشتۂ اتحاد کا مستحکم کرنا ہے۔ اگرچہ قدرتی اور تمدنی ضروریات کی بنا پر ایک نامکمل قومیت کا وجود ہمیشہ سے رہا ہے، تاہم جب تک کسی پیغمبر نے قومیت کے اس نظام کو مستحکم نہیں کیا اُس وقت تک قومیت کے اصلی جوہر ظاہر نہیں ہوئے۔ اس قسم کی قومیت کو ایک فاصلے سے تشبیہ دے سکتے ہیں جس کے افراد میں باہم اتحاد تو ہو جاتا ہے لیکن اس اتحاد کو مکمل نہیں کہہ سکتے: خیمہ گاہِ کارواں کوہ و جبل مرغزار و دامنِ صحرا و تل سست و بے جاں تار و پودِ کارِ او نا کشودہ غنچۂ پندارِ او ــــــــــــ نودمیدہ سبزۂ خاکش ھنوز سرد خوں اندر رگِ تاکش ھنوز پیغمبروں کی بعثت سے پہلے فرد و قوم میں اسی قسم کا ناقص ارتباط ہوتا ہے لیکن جب کوئی پیغمبر مبعوث ہو جاتا ہے، کو اس ناقص ارتباط کو مکمل کر دیتا ہے اور یہیں سے قومی ترقی کا دور شروع ہوتا ہے: تا خدا صاحبدلے پیدا کند کز فغانے نغمۂ انشا کند(۱۱) ــــــــــــ رشتہ اش کو بر فلک دارد سرے پارہ ھائے زندگی را ھمگرے تازہ اندازِ نظر پیدا کند گلستاں در دشت و در پیدا کند از تفِ او ملّتے مثلِ سپند بر جہد شور افگن و ھنگامہ بند یک شرر می افگند اندر دلش شعلۂ درگیر می گردد گلش لیکن پیغمبر جس قومیت کو پیدا کرتے ہیں اُس کے چند بنیادی اصول ہوتے ہیں جن میں سب سے مقدم چیز توحید ہے: بندھا از پا کشاید بندہ را از خداونداں رباید بندہ را گویدش تو بندۂ دیگر نہ ای زیں بتان بے زباں کمتر نہ ای تا سوے یک مّدعایش میکشد حلقۂ آئیں بپایش میکشد کیونکہ اس توحید سے اور تمام تفرقے مٹ جاتے ہیں اور قومیت کا پرکار صرف ایک نقطے پر گردش کرنے لگتا ہے: اسود از توحید احمر می شود خویش فاروق و ابوذر می شود دل مقامِ خویشی وبیگانگی است شوق را مستی ز ھم پیمانگی است ملّت از یک رنگیِ دلہاستے روشن از یک جلوہ ایں سیناستے ــــــــــــ با وطن وابستہ تقدیرِ اُمم بر نسب بنیادِ تعمیرِ اُمم اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب و گل پرستیدن کہ چہ اسی قسم کے اور بھی بہت سے مباحث اس مختصر سی مثنوی میں موجود ہیں جن پر متعدد مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ اقبال سید سلیمان ندوی کی نظر میں، مرتبہ: اختر راہی ، بزم اقبال، لاہور،۱۹۷۸ء (مضمون کی اولیّن اشاعت میں مصّنف کے نام کے ساتھ مولانا عبدالسلام ندوی کا نام بھی درج ہے۔) حواشی ۱۔ابو سعید سحابی نجفی (م ۱۴۰۱ع)۔ علامہ اقبال اُن کی رباعیات کو عمر خیام کی رباعیات سے کم خیال نہ کرتے تھے۔ ۲۔شاہ عباس صفوی ثانی کاملک الشعرا (م ۱۶۷۶ع)۔ ۳۔ جمال الدین عرفی شیرازی (م ۱۵۹۱ع)۔ ۴۔ صاحبِ مثنویِ معنوی (م ۱۲۷۳ع)۔ ۵۔ علامہ اقبال کے معاصر اور دوست اکبر حسین اکبر الہٰ آبادی (م ۱۹۲۱ع)۔ ۶۔ متکلّمین کا وہ مکتبِ فکر جو وحی اور عقل دونوں کو علم کا مأخذ و معیار خیال کرتا ہے۔ اُس کے نقطۂ نگاہ کے مطابق وحی اور عقل کو ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اگر ان میں کوئی تناقض و تضاد پایا جائے تو وحی کو عقل سے جانچا جانا چاہیے۔ اس مکتبِ فکر کے ممتاز فلاسفہ واصل بن عطا (م ۷۴۸ع)، نظام (م ۸۴۵ع)، جاحظ (م ۸۶۸ع) اور اخوان الصفاء (دسویں صدی کا درمیانی عرصہ) ہیں۔ ۷۔ متکلّمین کا وہ مکتبِ فکر جو الاشعری (م ۹۳۶ع) کی طرف منسوف ہے۔ یہ مکتبِ فکر وحی یا الہام ہی کو علم کا واحد مصدر سمجھتا ہے؛ یعنی عقل کو وحی کے آگے سرنگوں ہونا چاہیے۔ ابوبکر باقلانی (م ۱۰۳۵ع)، غزالی (م ۱۱۱۱ع)، شہرستانی (م ۱۱۹۰ع) اور رازی (م ۱۲۲۲ع) اس مکتبِ فکر کے نامور مفّکر ہیں۔ ۸۔ (م ۱۳۵۰ع)، علامہ ابنِ تیمیہؒ کے شاگردِ نامور۔ ۹۔ دیوانِ حافظ، ص ۱۳۹ ۔ ۱۰۔ دیوانِ حافظ، ص ۱۳۹۔ ۱۱۔موجودہ ایڈیشن میں یہ مصرع یوں ہے: ’’کو ز حرفے دفترے املا کند‘‘ حکمتِ اقبال میں تصورِ خودی کا مقام ڈاکٹر محمد رفیع الدین اقبال کے تمام حکیمانہ افکار کا سرچشمہ صرف ایک تصوّر ہے جسے اقبال نے خودی کا نام دیا ہے، اقبال کے اور تمام تصوّرات اسی ایک تصوّر سے ماخوذ ہیں اور اس سے علمی اور عقلی طور پر وابستہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے تمام تصوّرات خود ایک دوسرے کے ساتھ بھی ایک علمی اور عقلی رشتہ میں منسلک ہیں اور اقبال کا فکر ایک ایسے نظامِ حکمت کی صورت میں ہے جس کا ہر تصوّر دوسرے تمام تصوّرات سے علمی اور عقلی تائید اور توثیق حاصل کرتا ہے۔ جب تک ہم اس نظامِ حکمت کے مرکز یعنی تصوّر خودی کو ٹھیک طرح سے نہ سمجھیں ہم اقبال کے کسی تصوّر کو بھی ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتے اور اس کے برعکس جب تک ہم اقبال کے ہر تصوّر کو جو اس کے نزدیک تصوّر خودی کے حاصلات یا مضمرات میں سے ہے پوری طرح نہ سمجھ لیں ہم خودی کے تصوّر کو پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتے اِس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے افکار کو الگ الگ کرکے اپنے غوروفکر کا موضوع نہ بنائیں بلکہ اس کے پورے فکر کا مطالعہ ایک کُل یا وحدت کی حیثیت سے کریں۔ ظاہر ہے کہ جب اقبال کا ہر تصوّر ایک پورے نظامِ فکر کا جزو ہے اور یہ پورا نظامِ فکر اس کی تشریح اور تفہیم کرتا ہے تو ہمارے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم اسے اس نظام کے جزو کی حیثیت سے ہی زیرِغور لائیں۔ اگر ہم اس پورے نظامِ فکر سے الگ الگ کرکے یا اس کے کسی حصّہ یا پہلو کو نظر انداز کرکے یا حذف کرکے یا غیر ضروری قرار دے کر اس پر غور کریں گے تو اس کے صحیح مفہوم پر حاوی نہ ہوسکیں گے۔ جب تک ہم اقبال کے کسی تصوّر کی ماہیت کو اس کے پورے نظامِ فکر کی روشنی میں اور اس کے باقی ماندہ تمام تصوّرات کی مدد سے معین نہ کریں وہ ہمارا اپنا پسندیدہ تصوّر ہو تو ہو اقبال کا تصوّر نہیں ہوسکتا۔ اقبال کا تصوّر تو وہی ہوسکتا ہے جس کی ماہیت اس کے پورے نظامِ فکر نے معین کی ہو۔ جب ہم ایک نظامِ حکمت کے کسی جزو کو اس سے الگ کردیں تو وہ اسی طرح مردہ ہوجاتا ہے جس طرح کہ جسم حیوانی کا ایک عضو جب جسم سے کاٹ دیا جائے تو وہ مردہ ہوجاتا ہے۔ یہ اصول فہمِ اقبال کے لیے ایک کلید کا درجہ رکھتا ہے۔ اقبال کا مطالعہ کرنے والوں یا اقبال پر لکھنے والوں میں خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی آج اقبال کے نظریات کے بارے میں جس قدر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جس قدر مباحثے یا اختلافات موجود ہیں، جس قدر نظریات کو نادانستہ طور پر اپنے خیالات کی تائید میں استعمال کرنے کی غلط کوششیں کی جارہی ہیں اور ان کے مفہوم کے اندر تضادات کے شبہات پیدا کئے جارہے ہیں ان سب کا باعث یہی ہے کہ انہوں نے اس اصول کو مدنظر نہیں رکھا۔ ایک ایسے فلسفے کے اندر جس کے تمام تصوّرات صرف ایک ہی مرکزی یا بنیادی تصوّر سے ماخوذ ہوں، حقیقی تضادات کا ہونا ناممکن ہے۔ ایسی حالت میں تضاد پڑھنے والے کے ذہن میں ہو تو ہوسکتا ہے لیکن فلسفی کے ذہن میں نہیں ہوسکتا۔ روضہ ٔ تاج محل ایک خوبصورت کل یا وحدت ہے جس میں کہیں کوئی تضاد موجود نہیں، جس کی ہر اینٹ اس کی پوری وحدت کے ساتھ ہم آہنگ ہے لیکن فرض کیا کہ کسی حادثہ کی وجہ سے اس کے بیسیوں ٹکڑے ہوجاتے ہیں جو دور بکھر جاتے ہیں اگر وہاں سے کوئی ایسا شخص گزرے جس نے روضہ ٔ تاج محل کو ایک مربوط اور منظم کل کے طور پر کبھی نہ دیکھا ہو تو شائد وہ بعض ٹکڑوں کے باہمی ربط کو سمجھ جائے لیکن بہت سے ٹکڑے ایسے ہوں گے جن کو وہ بے معنی اور بے ربط سمجھنے پر مجبور ہوگا حالانکہ ان میں سے کوئی ٹکڑا بھی ایسا نہ ہوگا جو اس ٹوٹ پھوٹ جانے والی خوبصورت عمارت کے کسی نہ کسی کونہ میں اپنی جگہ نہ رکھتا ہو۔ اقبال کے فلسفے کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ اس کے تمام تصوّرات اس کے اندر اپنا عقلی ربط اور ضبط رکھتے ہیں لیکن موجودہ صورت میں بکھرے ہوئے پڑے ہیں۔ ہم اقبال کے فلسفے میں تضاد کا شبہ صرف اسی موقعہ پر کرسکتے ہیں جہاں ہم اس کے کسی تصوّر کو اس حد تک نہ سمجھ سکیں کہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ اس کے بنیادی یا مرکزی تصوّر خودی کے ساتھ اس کا عقلی اور علمی ربط کیا ہے اور لہٰذا اس کے پورے فلسفے میں اس کا مقام اور محل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اقبال کے اوسط درجہ کے مطالعہ کرنے والے کے پاس اقبال کا فلسفہ منظم صورت میں موجود نہ ہوگا تو دورانِ مطالعہ میں اس کے لیے بارہا اس قسم کے مواقع کا پیش آنا ضروری ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقبال کے فلسفے کو منظم اور مربوط شکل میں پیش کرنا اقبال کی تشریح اور تفہیم کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ حکمتِ اقبال کی تشریح کے لوازمات: کسی حکمت کی صحت کی علامت نہ تو یہ ہے کہ اس کے تمام تصوّرات بالفعل اور فی الفور ایک منطقی سلسلہ کی صورت میں ہوں اور نہ یہ کہ ان کے منطقی سلسلہ کے اندر ایسے خلاء موجود نہ ہوں جو ایک حد تک معلوم اور مسلّم علمی حقیقتوں سے پُر ہوسکتے ہوں بلکہ فقط یہ ہے کہ ایک تو حقیقتِ کائنات کے متعلق اس کا تصوّر درست ہو اور دوسرے یہ کہ اس کے سارے معلوم اور مذکور تصوّرات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصوّر سے مطابقت رکھتے ہوں۔ حکمتِ اقبال میں یہ اوصاف موجود ہیں۔ اس صورت میں اگرچہ یہ حکمت تصوّرات کا ایک مرتب سلسلہ نہیں بلکہ خلط ملط تصوّرات کا ایک مجموعہ ہوگی تاہم صحیح اور درست ہوگی اور ایک نظام کی صورت میں ہوگی۔ تمام صحیح اور سچی علمی حقیقتیں جو اس کے ظہور کے وقت تک دریافت ہوچکی ہوں پہلے ہی سے اس کے ساتھ مناسبت رکھیں گی بلکہ اس کے اندر بالقوہ موجود ہوں گی اگرچہ بالفعل اور آشکار طور پر اس کے ساتھ وابستہ نہ کی گئی ہوں۔ اگرچہ ان علمی حقیقتوں کی تعداد اس حکمت کو منظم کرنے کے لیے کفایت کرتی ہو اس کی معقولیت فلسفہ کے ایک معمولی طالب علم کو جو اس کے بنیادی تصوّرِ حقیقت کا پورا وجدان نہ رکھتا ہو آسانی سے سمجھ میں نہ آسکے گی۔ چونکہ اس کے اندر کے تصوّرات ایک منطقی یا عقلی سلسلہ کی صورت میں نہیں ہوں گے۔ اس کی پہلی غلط فہمی یہ ہوگی کہ یہ تصوّرات آپس میں اور حکمت کے بنیادی مرکزی تصوّرِ حقیقت کے ساتھ کوئی منطقی یا عقلی ربط نہیں رکھتے اور یہ غلط فہمی اسے اس حکمت کی معقولیت کا صحیح اندازہ قائم کرنے سے باز رکھے گی۔ اس کی دوسری غلط فہمی یہ ہوگی کہ یہ تصوّرات ان علمی حقیقتوں کے ساتھ بھی کوئی منطقی یا عقلی ربط نہیں رکھتے جو اس حکمت سے باہر ہیں اور وہ یہ سمجھتا رہے گا کہ یہ بیرونی علمی حقیقتیں دراصل دوسرے فلسفوں کے ساتھ (جو اتفاقاً منظم اور مسلسل بنادیے گئے ہوں اور جن کے اندر یہ حقیقتیں توڑ موڑ کر سمو دی گئی ہوں) زیادہ مطابقت رکھتی ہیں۔ اس طرح سے چونکہ وہ ان علمی حقیقتوں کو اس حکمت کی تائید کے لیے مہیّا نہ پائے گا، لہٰذا اس وجہ سے بھی اس کی معقولیت اس کی نگاہوں سے اوجھل رہے گی۔ لہٰذا اگر ہم فلسفے کے اس طالب علم کو اس حکمت کی معقولیت سے آشنا کرنا چاہیں تو ہمارے لیے اس کے سوائے کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ: اوّل: ہم اس حکمت کے تمام تصوّرات کو ان کی عقلی یا منطقی ترتیب سے آراستہ کریں جس سے معلوم ہوجائے کہ وہ فی الواقع ایک دوسرے کے ساتھ اور حکمت کے بنیادی تصوّرِ حقیقت کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ دوئم: ہم اس تسلسل اور ترتیب کے درمیان کے خلائوں کو بحدِ امکاں اور تصوّرات سے یعنی اور معلوم اور مسلّم علمی حقیقتوں سے جس قدر پُرکرسکتے ہیں پُر کریں اور اس طرح سے ان خلائوں کی تعداد اور طوالت کو جس قدر کم کرسکتے ہیں کم کریں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر ایک بھی سچی علمی حقیقت ایسی ہو جسے ہم اس حکمت کے نظام سے باہر چھوڑ دیں تو ہم اس ضرورت کا حق ادا نہیں کررہے ہوں گے اور اس نظامِ حکمت کو اتنا معقول اور مدلّل اور منظم نہیں بنارہے ہونگے جتنا کہ وہ اپنے وقت کی معلوم اور مسلّم علمی حقیقتوں کی تعداد کے پیش نظر بن سکتا ہے چونکہ یہ تصوّرات بھی جو اس حکمت کے خلائوں کو پُر کرنے کے لیے کام میں لائے جائیں گے ترتیب کو چاہیں گے اور پہلے اندرونی تصوّرات کی ترتیب کے بغیر اس پورے نظامِ حکمت میں ان کا صحیح مقام بھی معیّن نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا یہ دونوں کام الگ الگ نوعیت کے نہیں ہوں گے بلکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرے گا اور دوسرے کے بغیر نامکمل رہے گا۔ لہٰذا ہمیں ان دونوں کاموں کو ایک ساتھ ہی انجام دینا پڑے گا لیکن ان دونوں کو بیک وقت انجام دینے کے لیے دو شرطیں ضروری ہوں گی۔ اوّل: یہ کہ معلوم اور مسلّم سچی علمی حقیقتیں اپنی نوعیت اور تعداد کے لحاظ سے اس حد تک ترقی کرچکی ہوں کہ جب اس حکمت کے اندرونی تصوّرات کو عقلی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کی جائے اور اس سلسلہ میں ان علمی حقیقتوں کو اس ترتیب کے خلائوں کو پُر کرنے کے لیے کام میں لایا جائے تو خلائوں کی طوالت اور تعداد یہاں تک کم ہوجائے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل منطقی اور عقلی نظام کی شکل اختیار کرکے اور اپنی اس حیثیت کی وجہ سے بآسانی ہر شخص کی سمجھ میں آجائے۔ دوم: اس حکمت کے اندر پہلے ہی سے بعض ایسے معلوم اور مسلّم علمی حقائق سموئے ہوئے اور بالفعل اور آشکار طور پر موجود ہوں جن کی وجہ سے اس حکمت کے ساتھ بیرونی حقائق کی علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت واضح ہوسکتی ہو۔ اس قسم کے اندرونی علمی حقائق کی موجودگی کے بغیر اس حکمت کے اندرونی تصوّرات کو ایک عقلی ترتیب دینا اور بیرونی علمی حقائق کو کام میں لاکر اس کے خلائوں کو پُر کرنا مشکل ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک نقاش فنکار ایک دلکش قدرتی منظر کا ایک وجدانی تصوّر محسوس کرے اور پھر اس تصوّر کی انتہائی محبت کی وجہ سے اسے ایک خوبصورت رنگین تصویر کے طور پر صفحہ قرطاس پر لانا چاہے۔ وہ پہلے اس کا خاکہ بنانے کا فیصلہ کرے گا تاکہ بعد میں اس خاکہ کے اندر رنگ بھر کر تصویر کو مکمل کرسکے۔ فرض کیا کہ خاکہ مکمل کرنے سے پہلے وہ اسے ایک ایسی حالت میں چھوڑ دیتا ہے کہ یہ تو صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ وہ کسی وجدانی منظر کی تصویر کا خاکہ ہے لیکن اس میں بعض درختوں، پہاڑوں، عمارتوں، سڑکوں، میدانوں، دریائوں اور کھیتوں کے گوشے اور زاویے اس حد تک آشکار نہیں ہوتے کہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ تصویر کی کون سی چیز بنائیں گے۔ اس حالت میں ایک دوسرے ماہر فنکار کے لیے اپنی ساری مہارت کے باوجود مشکل ہوگا کہ وہ تصویر کو اس کے سارے رنگین مظاہر کے سمیت مکمل کرنا تو درکنار اس کے خاکہ ہی کی تکمیل کرسکے لیکن اگر پہلا فنکار خاکہ کو مکمل تو نہیں کرتا لیکن اس کے خطوط کو یہاں تک آگے بڑھا دیتا ہے کہ ایک دوسرا فنکار اسے دیکھ کر معلوم کرلے کہ یہ خطوط آگے چل کر کس کس طرف کو بڑھنے والے تھے اور کیا کیا شکلیں بنانے والے تھے اور خاکہ کی آخری شکل کیا ہونے والی تھی تو اس صورت میں وہ نہ صرف خاکہ کو مکمل ہی کرسکے گا بلکہ اس قابل بھی ہوگا کہ تصویر کے سارے رنگوں کو خاکہ کے اندر اپنی اپنی جگہ پر بھر کر تصویر کو اس کی پوری آب و تاب اور مکمل دلکشی اور زیبائی کے ساتھ جلوہ گر کرسکے۔ شارح اقبال کی ضروری صلاحیتیں: ان دو شرطوں کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت نوعِ بشر کے علمی ارتقاء کے ایک خاص مرحلہ پر پہنچ کر ہی ایک مسلسل اور مرتب علمی نظام کی صورت اختیار کرسکتی ہے اس سے پہلے نہیں۔ ان دو شرائط کو ذہن میں رکھنے سے یہ بات بھی آشکار ہوجاتی ہے کہ جو شخص بھی اس قسم کی صحیح اور سچی حکمت کو اپنے وقت پر ایک مسلسل اور مرتب علمی نظام کی شکل دینے کی کوشش کرے گا اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ معلوم اور مسلّم علمی حقائق سے پوری طرح واقف ہو۔ یعنی فلسفے اور سائنس کی پوری وسعتوں پر اس کی نگاہ ہو، اگر یہ استعداد اس میں نہ ہوگی تو اس کے پاس وہ تصوّرات ہی نہ ہوں گے جن سے وہ اس سچی حکمت کے خلائوں کو پُر کرکے اس کی ترتیب اور تنظیم کو مکمل کرسکے۔ اس استعداد میں حکیمانہ بصیرت اور اُپج اور منطقیانہ ذوق اور باریک بینی کی صلاحیتیں بھی شامل ہیں۔ ان صلاحیتوں کے بغیر وہ یہ نہیں دیکھ سکے گا کہ اس حکمت کے اندرونی تصوّرات کا آپس میں اور بیرونی علمی حقائق کے ساتھ اور حقیقتِ کائنات کے ساتھ کوئی عقلی اور علمی ربط ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا ہے؟ پھر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ وہ اس حکمت کے مرکزی تصوّر یعنی حقیقتِ کائنات کے صحیح تصوّر کے ایک ایسے وجدان سے بہرہ ور ہو جو مکمل طور پر تربیت یافتہ روشن اور طاقتور ہو۔ اس استعداد کے بغیر وہ سائنس اور فلسفے کی واقفیت کو غلط طور پر کام میں لائے گا، اس کا استدلال ٹھوکریں کھائے گا اور اس کی حکیمانہ اُپج یا بصیرت غلط راہ پر چل نکلے گی۔ اس کا منطقیانہ ذوق غلط نتائج پیدا کرے گا اور اس کی باریک بینی غلط راستہ اختیار کرے گی۔اس کے برعکس اگر اس میں یہ استعداد ہوگی تو اپنے وجدان کے زوردار نورِ تجسّس (Search Light) کی مدد سے وہ نہ صرف یہ دیکھ سکے گا کہ کہاں تک اس حکمت کے اندر کے تصوّرات جو علمی حقیقتوں کے طور پر پیش کئے گئے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ، حکمت کے مرکزی تصور کے ساتھ اور ان علمی حقیقتوں کے ساتھ جو اس حکمت کے باہر ہیں اور اس میں سموئی نہیں گئیں، عقلی ربط و ضبط رکھتے ہیں بلکہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ معلوم اور مسلّم علمی حقیقتوں میں سے کون سی ایسی ہیں جو حقیقتِ کائنات کے صحیح تصوّر کے ساتھ مطابقت رکھنے کی وجہ سے سچ مچ کی علمی حقیقتیں ہیں اور جو سچ مچ کی علمی حقیقتیں نہیں ہیں ان کی خامیاں کیا ہیں اور کس طرح سے ان خامیوں کو دور کرنے کے بعد ان کو سچ مچ کی علمی حقیقتیں بنایا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کی مثال میں دوسرا نقاش فنکار پہلے فنکار کے نامکمل خاکہ یا اس کی نامکمل تصویر کو صرف اسی صورت میں مکمل کرسکے گا کہ وہ پہلے فنکار کے وجدانی تصوّرِ حسن سے پوری طرح واقف ہوچکا ہو۔ حکمتِ اقبال کی خصوصیت: اگر کسی حکمت کے متعلق یہ معلوم ہوجائے کہ وہ اس قسم کی ہے کہ جب اسے منظم کیا جائے تو تمام سچی علمی حقیقتیں جو اس کے زمانہ تک دریافت ہوچکی ہیں۔ سارے معلوم اور مسلّم منطقی اور علمی اصولوں کے مطابق اس کے اندر سماجاتی ہیں اور جو آئندہ دریافت ہونے والی ہوں وہ بھی اس کے اندر جذب ہوسکتی ہیں تو اس سے بڑھ کر کوئی ثبوت اس بات کا نہیں ہوسکتا کہ یہ حکمت جس وجدانی تصوّرِ حقیقت پر مبنی ہے وہ صحیح ہے اور خود یہ حکمت سچی اور پائیدار ہے اور تمام دوسری حکمتیں مٹ کر اس کی عالمگیر قبولیت کے لیے راستہ ہموار کریں گی۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اس قسم کی حکمت کی بہترین تشریح کریں گے تو وہ اس کی عقلی اور علمی تنظیم اور ترتیب ہی کی صورت اختیار کرے گی اور اس کے برعکس جب ہم اس کو ایک عقلی اور علمی ترتیب اور تنظیم کے ساتھ دوبارہ لکھیں گے تو اس کی یہی ترتیب اور تنظیم اس کی بہترین تشریح قرار پائے گی۔ اقبال کی حکمت اسی نوعیت کی ہے۔ ایک سچی حکمت کے دو ضروری لوازمات جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ اس میں موجود ہیں وہ حقیقتِ کائنات کے ایک ایسے تصوّر پر مبنی ہے جو صحیح ہے اور اس کے سارے معلوم اور مذکور تصوّرات منطقی اور عقلی طور پر اس مرکزی تصوّر سے مطابقت رکھتے ہیں۔ حقیقتِ کائنات کا یہ صحیح تصوّر جو حکمتِ اقبال کا مرکز بھی ہے، خدا کا تصوّر ہے اور اس کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ خدا انسان کو چاہتا ہے اور تخلیق اور تکمیل کائنات کا عمل دراصل تخلیق و تکمیل انسان ہی کا عمل ہے اور دوسرا یہ کہ انسان خدا کو چاہتا ہے اور اس کی زندگی کی ساری تگ و دو، جو صحیح بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی، صرف یہ مقصد رکھتی ہے کہ انسان خدا کو پہنچے۔ حقیقت کائنات کی حیثیت سے یہ تصوّر نہ صرف واضح اور روشن ہے بلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتا ہے۔ اقبال نے اپنے تصوّرِ حقیقت کے تمام ضروری نتائج و مضمرات کو بالوضاحت اور بہ تکرار بیان کردیا ہے۔ اگرچہ یہ نتائج اور مضمرات ایک ہی تصوّر کے ساتھ عقلی اور علمی تعلق رکھنے کی وجہ سے ایک نظامِ حکمت کی صورت میں ہیں اور ایک عقلی اور منطقی تنظیم اور ترتیب پالینا ان کی فطرت میں ہے، تاہم چونکہ وہ زیادہ تر شعر کی زبان میں بیان کئے گئے ہیں وہ عقلی اور منطقی ترتیب اور تنظیم میں نہیں آسکے۔ ہو نہیں سکتا کہ ایک نظام تصوّرات شعر کی زبان میں بھی ہو اور پھر ایک منطقی اور عقلی ترتیب اور تنظیم بھی رکھتا ہو۔ ہو نہیں سکتا کہ وہ جذبات کی گرمی اور منطق کی ٹھنڈک دونوں سے بیک وقت بہرور ہو۔ اقبال کا فلسفہ اس غیر معمولی ذہانت اور وجدانی قوت رکھنے والے ماہر ریاضیات یا ماہر فلسفی کی طرح ہے جس کا تصوّرِ حقیقت صحیح ہے لیکن وہ اپنے تصوّرِ حقیقت کے نتائج کو، جو بے اختیار اس کے قلب پر وارد ہوتے چلے جاتے ہیں، ایک منطقی ترتیب اور تنظیم میں رکھنے کی فرصت یا ضرورت نہیں پاتا، تاہم اس کے نتائج اس قدر مفصل ہیں کہ ہر موزوں شخص، جو اس کے تصوّر حقیقت کا صحیح وجدان رکھتا ہو، بآسانی ان کے منطقی سلسلہ کے خلائوں کو پُر کرکے ان کو ایک مکمل منطقی ترتیب اور تنظیم کا جامہ پہنا سکتا ہے۔ اقبال نے اپنے فلسفے میں حقیقتِ انسان و کائنات کی اصل تصویر کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ اس قدر مکمل ہے کہ مناسب قابلیت کا ہر انسان جو اقبال کے ذوق سے آشنا ہو اس خاکہ میں صحیح رنگوں کو اپنی اپنی جگہ بھر کر تصویر کو اس کی پوری زیبائی اور دلکشی کے ساتھ جلوہ گر کرسکتا ہے۔ حکمتِ اقبال کی تشریح کا مطلب: اوپر کی بحث ہمیں جس اہم نتیجہ کی طرف راہ نمائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اقبال کے فلسفے کی ایک ایسی تشریح بہم پہنچائیں جو اس کے فلسفے کو خواص اور عوام کے لیے اور غیروں اور اپنوں کے لیے مؤثر اور قابلِ فہم بنا دے اور اس کی صحیح اور تسلی بخش تشریح قرار پائے تو ضروری ہے کہ ہم اقبال کے تصوّرِ حقیقت کے نتائج اور مضمرات کو جو اس نے بلا ترتیب شعر کی زبان میں بیان کئے ہیں، نہ صرف یہ کہ ایک منطقی اور عقلی ترتیب کے ساتھ بیان کریں بلکہ ان کے درمیانی خلائوں کو زیادہ سے زیادہ پُر کریں اور اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ اس عمل سے اس کے فلسفے کی تشریح کس قدر طویل ہوجائے گی کیونکہ یہ تشریح جس قدر طویل ہوگی اس قدر زیادہ اقبال کا فلسفہ قابلِ فہم اور اثر آفریں ہوگا اور لوگوں کے اعتقاد اور عمل کو بدلنے والی ایک قوت ہوگا۔ اقبال ایسا ایک عاشق ذات فلسفی اپنے عشق کی حکیمانہ توجیہہ اس لیے کرتا ہے کہ اس کا مطالعہ کرنے والا ان عقلی اور علمی قسم کی رکاوٹوں سے نجات پائے جو حقائق علمی کی غلط بینی، غلط فہمی اور غلط ترجمانی سے اس کے عشق کی راہ میں پیدا ہوگئی ہوں اور تاکہ وہ ان رکاوٹوں سے نجات پاکر اس کے عشق سے بہرہ اندوز ہو اور پھر جب اس کی محبت کا چراغ اس طرح سے روشن ہوجائے تو وہ بے اختیار عبادت اور ریاضت کی طرف متوجہ ہو اور پھر عبادت اور ریاضت کے راستہ سے ہی اپنے عشق کو یہاں تک ترقی دے کہ اسے کم از کم اس غرض کے لیے خود حکمت کی بھی حاجت نہ رہے، پہلے حکمت سے اس کا عشق پیدا ہو اور پھر اس کے عشق سے حکمت پھوٹتی اور بڑھتی اور پھولتی رہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر علمی حقیقت صرف ایک ہی تصوّر حقیقت کے ساتھ عقلی اور علمی طور پر وابستہ ہے اور وہ خدا کا تصوّر ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ خدا ہی کائنات کی سچی حقیقت ہے اس لیے قرآن حکیم نے کائنات کی ہر علمی حقیقت کو ایک آیت یا نشان کہا ہے: وفی الارض آیٰت للموقنین (اور زمین میں خدا پر یقین رکھنے والوں کے لیے بہت سے نشانات ہیں) یعنی چونکہ کائنات کی علمی حقیقتیں صرف خدا کے تصوّر کے ساتھ جو کائنات کی صحیح اور اصلی حقیقت ہے مطابقت رکھتی ہیں اور کسی باطل تصوّر حقیقت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں لہٰذا وہ خدا کی خدائی کے نشانات یا دلائل یا شہادتیں ہیں۔ سچا فلسفی یہی کرتا ہے کہ جس قدر حقائق تمام نوع بشر کے دائرہ علم میں داخل ہوچکے ہیں ان کو معروف اور مقبول علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق کائنات کی سچی حقیقت کے ساتھ وابستہ کرکے معلوم کائنات کے ذرّہ ذرّہ سے کہلواتا ہے کہ کائنات کی سچی حقیقت وہی ہے وفی کل شیٍٔ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد اور اس طریق سے باطل تصوّراتِ حقیقت کے حق میں تمام ممکن شہادتوں کو ملیامیٹ کردیتا ہے۔ اسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ابھی نوعِ بشر کے احاطۂ حکم میں بہت کم حقائقِ عالم داخل ہوئے ہیں اس لیے کہ وہ کم ہوں یا زیادہ سب اسی کے تصوّرِ حقیقت کی تائید کررہے ہوتے ہیں اور پھر جو لوگ غلط تصوّرات حقیقت کے حق میں جھوٹی شہادتیں پیش کررہے ہوتے ہیں ان کا دارومدار بھی تو ان ہی حقائق کی غلط ترجمانی پر ہوتا ہے۔ جب ہماری معلوم کائنات کا ہر ذرّہ بلند آواز سے اس بات کی شہادت دینے لگ جائے کہ کائنات کی سچی حقیقت خدا ہے تو وہ ساتھ ہی اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہوتا ہے کہ خدا کے سوائے تمام تصوّرات حقیقت باطل اور نامعقول ہیں۔ ومن یدع مع اﷲ الھاً اٰخرً لابرھان لہ بہ۔ (اور جو شخص خدا کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو پکارے اس کے پاس کوئی دلیل یا شہادت موجود نہیں ہوسکتی۔) اور جب پوری کائنات میں ایک بھی علمی شہادت کسی باطل تصوّرِ حقیقت کے حق میں باقی نہ رہے تو پھر باطل تصوّرات کا باقی رہنا ناممکن ہوجاتا ہے اور پھر حقیقتِ کائنات کے صحیح تصوّر پر قائم کیا ہوا نیا سچا فلسفہ دنیا بھر میں اشاعت پذیر ہوتا ہے اور کسی مزاحمت کے بغیر دنیا کے کناروں تک پھیل جاتا ہے۔ لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ تصوّراتِ حقیقت فقط علمی دلچسپی کے نظریات نہیں ہوتے بلکہ افراد اور اقوام کی علمی زندگی کی پوری عمارتیں ان کی بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہیں لہٰذا جب وہ علمی حیثیت سے ختم ہوجائیں تو ان تعمیرات کا ختم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے جو ان پر کھڑی ہوں اور جب ساری دنیا ہی باطل تصوّراتِ حقیقت پر تعمیر پائے ہوئے ہو تو ایسی حالت میں اس نئے سچے فلسفے کا ظہور پانا اور اشاعت پانا جو دونوں دنیائوں کی حقیقت کے مرغوب اور مروج تصوّرات کو باطل ثابت کرنے پر تُلا ہوا ہو ساری دنیا کے لیے ایک قیامت سے کم نہیں۔ باطل تصوّراتِ حقیقت کے پرستاروں میں سے کون ایسا ہوگا جو کسی فرد واحد کی ذات میں اس قیامت کو ابھرتا ہوا دیکھے اور اسے مٹانے کے درپے نہ ہوجائے۔ لہٰذا اس قسم کے زلزلہ خیز فلسفے کو پیش کرنا بڑی جرات کی بات ہے جس کی توقع ہر شخص سے نہیں کی جاسکتی، کیونکہ وہ اپنے فکر کی تلوار سے اپنے ہم عصر لوگوں کی دونوں دنیائوں کو فنا کے گھاٹ اتار دینا چاہتا ہے۔ حکمت و فلسفہ را ہمت مردے باید تیغ اندیشہ بروئے دو جہاں آختن است ــــــــــــ خوگر من نیست چشم ہست و بود لرزہ بر تن خیزم از بیم نمود تاہم یہ قیامت آکر رہتی ہے اور جب حقیقت کے باطل تصوّرات مٹ رہے ہوتے ہیں اور ان کے اوپر کی عمارتیں منہدم ہورہی ہوتی ہیں تو اس عمل کے ساتھ ساتھ اس نئے سچے نظامِ حکمت کی بنیادوں پر ایک نئی دنیا وجود میں آتی ہے جسے عاشقان جمال ذات مل کر اپنی مرضی کے مطابق تعمیر کرتے ہیں اور ان کی مرضی خدا ہی کی مرضی ہوتی ہے گویا اس سے پہلے ان کے اور خدا کے درمیان یہ مکالمہ ہوچکا ہوتا ہے: گفتند جہانِ ما آیا بتو مے سازد گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برھم زن اور پھر خدا ان عاشقوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہی ہوگا اور تمہاری مزاحمت کرنے والے مٹادیے جائیں گے۔ قدم بیباک تر نہ در رہ زیست بہ پہنائے جہاں غیر از تو کس نیست یہی وجہ ہے کہ اقبال مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ صحیح تصوّرِ حقیقت پر ایک نئی فلسفے کی تشکیل کریں: عشق چوں با زیرکی ہمسر بود نقشبندِ عالمِ دیگر شود ــــــــــــ خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیزدہ چونکہ اس وقت صحیح تصوّرِ حقیقت اپنی پوری صحت اور صفائی کے ساتھ صرف مسلمان قوم ہی کے پاس ہے جو خاتم الانبیاء کی دعوت و تعلیم کی حامل ہے، ضروری ہے کہ یہ قوم اپنے نظریہ کی وجہ سے کسی جنگ و جدال کے بغیر روئے زمین پر غالب آئے: ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے جب ایسا ہوگا تو یقینا یہ تاریخ کا ایک بہت بڑا حادثہ اور عظیم الشان انقلاب ہوگا لیکن یہ حادثہ اور یہ انقلاب ضمیر افلاک میں مخفی ہونے کے باوجود اقبال کی نگاہوں میں آشکار ہے۔ انقلابے کہ نگنجد بضمیر افلاک بینم و ہیچ ندانم کہ چسان مے بینم ــــــــــــ حادثہ وہ جو ابھی پردہ ٔ افلاک میں ہے عکس اس کا میرے آئینہ ٔ ادراک میں ہے اس حادثہ یا انقلاب کے بعد جو حیرت انگیز نئی دنیا وجود میں آئے گی اس وقت ہم میں سے کوئی اس کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا اور کسی کو اس کا خیال بھی نہیں، نہ مسجد میں، نہ مکتب میں اور نہ مے خانہ میں: کس کو معلوم ہے ہنگامہ ٔ فردا کا مقام مسجد و مکتب و مے خانے ہیں مدت سے خموش ــــــــــــ عالم نو ہے ابھی پردہ ٔ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب یہ بات حیرت میں ڈالنے والی ہے اور اگر زبان سے کہی جائے تو اسے کون مانے گا کہ کفر اور شرک اور فسق و فجور اور جنگ و جدال کے ایک ایسے طویل دور کے بعد ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں دنیا کے ایک کنارہ سے دوسرے کنارہ تک خداپرستی اور نیکی اور امن اور صلح اور سلامتی کا دور دورہ ہوگا۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی لیکن اہل فرنگ جو اس وقت دنیا میں غالب ہیں اس بات کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ آخر کار مسلمان قوم ہی دنیا میں غالب رہے گی۔ سمجھنا تو درکنار وہ تو اس بات کو سننا بھی گوارا نہیں کرسکیں گے۔ پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ ٔ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نوائوں کی تاب خود قرآن حکیم کے اندر عالمِ انسانی کے اس شاندار مستقبل کی پیشگوئی موجود ہے۔ قرآن حکیم میں بڑی تحدی سے اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ انبیاء کا نظریہ ٔ حیات ہی دنیا میں غالب رہے گا اور دوسرے تمام نظریات مٹ کر فنا ہوجائیں گے۔ کتب اﷲ لاْ غلبنّ انا ورسلی۔ (خدا نے لکھ دیا ہے کہ بے شک میں اور میرے رسول ہی دنیا میں غالب رہیں گے) انتم الاعلون ان کنتم مومنین (اگر تم سچے مومن بنو گے تو تم ہی دنیا میں غالب رہو گے) لقد سبقت کلمتنا بعبادنا المرسلین انھم لھم المنصورون وان جندنا لھم الغلبُون۔ (اور بے شک ہمارے پیغمبروں سے ہمارا وعدہ ہوچکا ہے کہ یقینا وہی مظفر و منصور ہوں گے اور ہمارا لشکر ہی لازماً غالب رہے گا) اور پھر جناب محمد مصطفیٰؐ کے دین کے متعلق بالخصوص فرمایا گیا ہے: ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کُلّہِ و کفی باللّہ شھیداً۔ منکرینِ نبوت فلسفیوں کو آج تک اپنی انتہائی کوششوں کے باوجود بھی کائنات کی سچی حقیقت کا پورا علم نہیں ہوا۔ حریف نکتہ ٔ توحید ہوسکا نہ حکیم نگاہ چاہیے اسرار لا الہ کے لیے اگرچہ اس حقیقت کے علم کی طرف انہوں نے کچھ نہ کچھ پیش قدمی ضرور کی ہے۔ دراصل فلسفہ اور نبوت دو مختلف راستوں سے ایک ہی منزل یعنی حقیقتِ عالم کی نقاب کشائی کی منزل کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ نبوت خاتم النبیین کے ظہور سے پہلے اپنی منزل پر نہ پہنچ سکی تاہم اس کی رفتار کا ہر قدم صحیح راستہ پر اٹھتا اور صحیح منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ اس کے برعکس اگرچہ فلسفہ جزوی اور محدود کامیابیاں حاصل کرتا رہا، لیکن حقیقتِ کائنات کے صحیح تصوّر سے محروم ہونے کی وجہ سے مجموعی طور پر منزل سے دور ٹھوکریں کھاتا رہا۔ نبوتِ کاملہ کی راہنمائی کے بغیر صحیح قسم کے وجدان سے آغاز کرنا اور لہٰذا صحیح عقلی استدلال پانا اس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہر دو امیر کارواں ہر دو بمنزلے رواں عقل بحیلہ می کشد عشق برد کشاں کشاں نبوت کی کوشش یہ تھی کہ انسان کو نظامِ عالم کی عقلی ترتیب کی تفصیلات میں لے جانے کی بجائے انسان کو اس کے ضروری حقائق کی واقفیت اس حد تک بہم پہنچا دی جائے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں ایسے عمل پر آمادہ ہوجائے جس سے نہ صرف اس کی عملی زندگی درست اور پرامن اور خوشگوار ہو بلکہ جس سے اس کے اندر وہ صحیح وجدانِ حقیقت بھی پیدا ہوجائے جو بیک وقت حقیقت کا عشق اور حقیقت کا بنیادی علم ہوتا ہے اور جس کے بغیر وہ نہ تو حقائق کو ٹھیک طرح سے سمجھ سکتا ہے اور نہ ان کی صحیح عقلی اور علمی ترتیب کو دریافت کرسکتا ہے۔ زندگی کو درست اور پرامن اور خوشگوار بنانا اور حقائقِ عالم کی عقلی ترتیب کا دریافت کرنا، انسان کی یہ دونوں ضرورتیں ایسی ہیں کہ نبوت کی روشنی کے بغیر ان کی تکمیل ممکن نہیں لیکن انسان کی یہ پہلی ضرورت فوری تکمیل کا تقاضا کرتی ہے اور دوسری ضرورت اس نوعیت کی ہے کہ اگرچہ اس کی تکمیل کے لیے انسان ہر روز ایک قدم آگے اٹھاتا ہے لیکن اس کی آخری اور پوری تکمیل نوعِ بشر کے علمی ارتقا کے ایک خاص مقام پر ہی ہوسکتی ہے اس سے پہلے نہیں ہوسکتی یہی سبب ہے کہ نبوت اپنے کمال کو پہنچ کر بھی ہمیں نظامِ عالم کی عقلی ترتیب کی واقفیت بہم پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ صرف اس اعلیٰ قسم کے وجدان کی تربیت کا اہتمام کرتی ہے جو آخرکار اس واقفیت کے حصول کے لیے ضروری ہے اور جس کے بغیر ہمارا عقلی استدلال کامل طور پر درست نہیں ہوسکتا۔ فلسفے نے ٹھیک سمجھا کہ نظامِ عالم ایک زنجیر کی طرح ہے جس کی ہر کڑی اگلی کڑی کے ساتھ ایک عقلی اور علمی تعلق رکھتی ہے، لہٰذا اسے یہی نظر آیا کہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ سلسلہ ٔ عالم کی ساری کڑیوں کو عقل کی مدد سے دریافت کرلے گا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ ہر بار اپنے غلط وجدان کو ہی ایک منطقی زنجیر کی شکل دیتا رہا اور لہٰذا ہمیشہ ناکام رہا۔ اگر فلسفہ ذرا جرأت سے قدم اٹھاتا اور نبوتِ کاملہ کے تصوّرِ حقیقت کو جب کہ وہ دنیا کے اندر ظہور پذیر ہوکر اس کی تعلیم دے چکی تھی اپنا لیتا تو اس کی پریشانیاں ختم ہوجاتیں اور وہ صحیح عقلی استدلال جو صدیوں سے اس کی جستجو کا مرکز رہا تھا اسے حاصل ہوجاتا لیکن جب تک فلسفہ اپنے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ چلتے چلتے نبوت کے تصوّرِ حقیقت کے قرب و جوار میں ایک خاص مقام پر نہ پہنچ جاتا یہ دلیرانہ قدم اٹھانا اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ خوش قسمتی سے اس بیسویں صدی میں طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے اکتشافات کی وجہ سے فلسفہ کو یہ مقام حاصل ہوگیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس نے اقبال کی حکمت میں تعلیم نبوت کی اصل یعنی توحید یا حقیقتِ کائنات کے صحیح تصوّر کے ساتھ پیوست ہونے کا دلیرانہ قدم بھی اٹھالیا ہے۔ اقبال کا فلسفۂ خودی نبوت کے عطا کئے ہوئے تصوّر حقیقت کی ایسی تشریح بہم پہنچاتا ہے جس میں آج تک کے دریافت کئے ہوئے تمام عملی حقائق سموئے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مستقبل کے عملی حقائق بھی اس کے اندر کیوں سموئے نہ جاسکیں گے۔ فلسفہ کے اس دلیرانہ قدم نے اب راہِ گم کردہ عقل کو اپنی منزلِ مقصود پر پہنچا دیا ہے اور اب اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہا کہ وہ اس کے بعد بھی بھٹکتی رہے گی۔ اگرچہ اسے عالمگیر انسانی سطح پر سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگے گا کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ چکی ہے اور اس کے آگے اب اس کی کوئی منزل نہیں: در جہانِ کیف و کم گردید عقل پے بہ منزل برد از توحید عقل ورنہ ایں بے چارہ را منزل کجاست کشتی ٔ ادراک را ساحل کجاست اقبال کا مقامِ عظیم: تعلیمِ نبوت اور فلسفے کا یہ اتصال انسان کے علمی ارتقا کا ایک بہت بڑا واقعہ ہے جو نوعِ انسانی کو ترقی کے لیے ایک نئے دَور میں داخل کرتا ہے اور اقبال اس دَور کا نقیب ہے، اس واقعہ سے اس عالمگیر ذہنی انقلاب کا آغاز ہوتا ہے، جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور جس کے نتیجے کے طور پر مسلمان قوم دُنیا میں غالب ہو گی اور عالمِ انسانی امن اور اتحاد کی دولت سے مالامال ہو گا۔ اس واقعے سے حقیقتِ انسان کا علم جس پر انسان کے دائمی امن اور اتحاد کا دارومدار ہے، پہلی دفعہ ایسی منظم صورت میں سامنے آیا ہے جو دَورِ حاضر کے انسان کو مطمئن کر سکتی ہے اور جو اس کی عالمگیر مقبولیت کی ضامن ہے۔ اقبال مسلمانوں کو نہایت زور دار الفاظ میں ’’عشق‘‘ اور ’’زیرکی‘‘ کی جس آمیزش کی دعوت دیتا ہے وہ خود ہی اس کا آغاز کرتا ہے اور اس طرح سے خود ہی ’’عالم دیگر‘‘ کی بنیاد رکھتا ہے۔ گویا اقبال آئندہ کے اس عالمگیر ذہنی انقلاب کا نقیب ہی نہیں بلکہ بانی بھی ہے، جس کے بعد اور کوئی ذہنی انقلاب نہیں آ سکے گا، لہٰذا آئندہ کی مستقل عالمگیر ریاست (World State) کا وہ ذہنی اور نظریاتی بادشاہ ہے جس کی بادشاہت کو زوال نہیں۔ ایک معمولی آدمی کے لیے جو رسول نہیں بلکہ رسولؐ کا ایک ادنیٰ غلام ہے، عظمت کا یہ مقام اس قدر بلند ہے کہ اس سے بلند تر مقام ذہن میں نہیں آ سکتا۔ اقبال اپنے اس مقام سے آگاہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ بار بار اپنے اشعار میں کہتا ہے کہ اسے زندگی کے راز سے آشنا کیا گیا ہے۔ آج تک کسی شخص نے کائنات کے وہ اسرار و رَموز بیان نہیں کیے جو اس نے بیان کیے ہیں۔ اس کی حکمت معانی اور حقائق کے بیش قیمت موتیوں کی ایک لڑی ہے جس کی کوئی نظیر آج تک پیش نہیں کی گئی۔ اگرچہ وہ ایک ذرہ ہے، لیکن سورج کی روشنی سے ہمکنار ہے۔ علم و حکمت کے نور کی سینکڑوں صبحیں اس کے گریبان میں روشن ہیں۔ اس کی خاک جامِ جم سے زیادہ منور ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ آنے والے دَور میں کیا ہونے والا ہے۔ اس کے فکر کی رسائی ان حقائق تک ہوئی ہے، جو ابھی دوسرے لوگوں پر آشکار نہیں ہوئے۔ چشمۂ حیواں براتم کردہ اند محرمِ رازِ حیاتم کردہ اند ہیچ کس را زے کہ من گوئم نگفت ہمچو فکرِ من دُرِ معنی نہ سفت ذرہ ام مہرِ منیر آنِ من است صد سحر اندر گریباں من است خاک من روشن تر از جامِ جم است محرم از نازادہائے عالم است فکرم آں آہو سر فتراک بست کو ہنوز از نیستی بیرون نجست ــــــــــــ سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید نہ آید ــــــــــــ عمرہا در کعبہ و بت خانہ مے نالد حیات تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں ــــــــــــ وہ جانتا ہے کہ اگرچہ آج کا انسان اپنی علمی بے مائیگی اور روحانی پس ماندگی کی وجہ سے پوری طرح اس کی قدر دانی نہ کر سکے گا تاہم مستقبل میں پوری نوع بشر اس کے افکار کو اپنائے گی اور اس کی فکری قیادت کو قبول کرے گی، وہ تنہا نہیں رہے گا بلکہ سینکڑوں کارواں اس کے ہمراہ ہوں گے، وہ صبح عنقریب نمودار ہونے والی ہے، جب لوگ جہالت کی نیند سے اُٹھیں گے اور محبت کی اس آگ کے ارد گرد جو اس نے روشن کی ہے، آگ کے پجاریوں کی طرح ذوق و شوق سے جمع ہو کر رہے گا۔ اس کا کلام ایک عالمگیر انقلاب اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے، جب یہ انقلاب آئے گا تو لوگ اس کے اشعار پڑھ پڑھ کر جھومیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہ مرد خود آگاہ ہے جس نے دُنیا کو بدل دیا ہے: عصر من دانندئہ اسرار نیست یوسفِ من بہرِ ایں بازار نیست نغمۂ من از جہانِ دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم بچشم کم مبیں تنہائیم را کہ من صد کارواں گل در کنارم قُلزم یاراں چو شبنم بے خروش شبنم من مثل یم طوفاں فروش انتظارِ صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زردشتیانِ آتشم ــــــــــــ پس از من شعر من خوانند ومے رقصند و می گویند جہانے را دگرگوں کرد یک مردِ خود آگاہے ــــــــــــ اقبال کی خودستائی ٹھوس علمی حقائق ہیں: اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کے اس قسم کے اشعار محض خود ستائی کے جذبات یا شاعرانہ تعلّیات پر مشتمل نہیں بلکہ ایسے ٹھوس حقائق کو بیان کرتے ہیں جو مضبوط علمی اور عقلی بنیادوں پر قائم ہیں جو اس کے فلسفے کا جزو لانیفک ہیں اور جن کا اظہار اس لیے خود اپنے فلسفہ کی تشریح کے لیے ضروری تھا، اگر اقبال ان کا اظہار نہ کرتا تو اس کا فلسفہ ناتمام رہ جاتا اور یہ ایک ایسی فرو گزاشت ہوتی جس کی وجہ سے اقبال کی قوم ایک حد تک اس کے فکر کی معقولیت اور اہمیت سے نا آشنا رہ جاتی۔ اقبال کا امتیاز: اس کے جواب میں شائد یہ کہا جائے گا کہ آج تک کوئی غیر مسلم فلسفی ایسا نہیں ہوا جو نبوت کاملہ کے تصور حقیقت پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھتا ہو تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے لیکن اگر اقبال سے پہلے کوئی ایک بھی مسلمان فلسفی گزرا ہے تو اس کے فلسفے کی بنیاد لازماً خدا کے اسلامی تصور پر ہوگی تو پھر اقبال کی خصوصیت کیا ہے؟ پھر کیوں نہ اس مسلمان کو نوعِ بشر کا آخری فلسفی اور آئندہ کے عالمگیر ذہنی انقلاب کا بانی قرار دیا جائے اور پھر اس سلسلہ میں شائد شاہ ولی اللہ اور محی الدین ایسے اکابرِ اسلام کا نام لیا جائے لیکن اس زمانے کے خاص ذہنی حالات اور خاص علمی ماحول اور مقام کی بنا پر اقبال کے فلسفے کو جو خصوصیات حاصل ہوئی ہیں وہ آج سے پہلے کسی مسلمان فلسفی کے فلسفے کو حاصل نہ ہو سکتی تھیں اور نہ حاصل ہو سکی ہیں۔ اقبال کے امتیازی مقام کی وجوہات: پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال کے اس زمانہ میں حکمائے مغرب کی تحقیق و تجسّس کی بدولت علم کے تینوں شعبوں یعنی طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات میں علمی حقائق نے اس سرعت سے ترقی کی ہے کہ اس سے پہلے اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ ترقی سائنس کے اس خاص اسلوبِ تحقیق کی وجہ سے ممکن ہوئی جو اشیأ کے خواص و اوصاف کے مشاہدہ کی بنا پر پوری احتیاط کے ساتھ صحیح صحیح علمی نتائج مرتب کرنے پر زور دیتا ہے۔ یہ اسلوبِ تحقیق سب سے پہلے خود مسلمانوں نے قرآن کی راہ نمائی میں ایجاد کیا تھا لیکن محققین یورپ نے اس سے متواتر کام لیا اور اس کو اس کا میٹھا پھل علمی حقائق کے ایک بیش بہا ذخیرہ کی صورت میں جسے ہم سائنس کہتے ہیں دستیاب ہوا ہے، پھر اس دور میں علمی تحقیق و تجسّس کی کامیاب تحریک انسان اور کائنات کو ایک کل یا وحدت کی حیثیت سے سمجھنے کی مختلف کوششوں میں نمودار ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے فلسفے وجود میں آئے ہیں جن میں سے ایک نے دریافت شدہ علمی حقیقتوں کو حقیقتِ عالم کے کسی تصور کے ساتھ ان کے مرکز یا محور کے طور پر وابستہ کرنے کی کوشش کی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے حقیقتِ عالم کا غلط تصور قائم کیا ہے اور اس کے اردگرد حقائقِ علمی کی تنظیم بھی غلط طور پر کی ہے۔ سائنس کے خاص اسلوبِ تحقیق کی وجہ سے فلسفے کی دُنیا میں بھی ایک نیا طرزِ استدلال وجود میں آیا ہے جس میں اس بات پر بالخصوص زور دیا جاتا ہے کہ کوئی حقائق نظرانداز نہ ہونے پائیں۔ حقائق کا معائنہ کامل احتیاط سے کیا جائے اور نتائج وہی اخذ کیے جائیں جو ناگزیر ہوں اور یہ طرزِ استدلال علمی دُنیا میں آئندہ کے لیے ایک مستقل حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اقبال نے ایک عرصہ تک یورپ میں رہ کر تعلیم پائی ہے اور اس دوران میں جیسا کہ وہ خود کہتا ہے، وہ یورپ کی علمی ترقیات اور حکمتِ مغرب کی خصوصیات سے پوری طرح متاثر ہوا ہے: خرد افزود مرا درسِ حکیمانِ فرنگ سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں علمی تحقیق و تجسّس کی اروپائی تحریک نے اقبال کو بھی آمادہ کیا ہے کہ وہ انسان اور کائنات کو ایک کل کے طو رپر سمجھے، لیکن اقبال کی یہ آمادگی اس کے مخصوص نفسیاتی ماحول کی وجہ سے مغرب کے باطل فلسفوں میں ایک اور غلط مشرقی فلسفے کے اضافہ کا موجب نہیں ہوئی بلکہ ان باطل فلسفوں کے خلاف اور ان فلسفوں کے زہر سے انسانیت کو بچانے کے لیے ایک مہربان قدرت کے مفید اور کامیاب ردِّعمل کی صورت اختیار کر گئی ہے، بالکل اسی طرح جیسے کہ ایک جسمِ حیوانی کے اندر ایک مہلک مرض کے جراثیم کے داخل ہونے، ترقی پانے اور زہر پیدا کرنے کے بعد جسمِ حیوانی کے نمو اور تحفظ کے لیے کارفرما ہونے والی قوتِ حیات ایک ردِّعمل کرتی ہے اور ضد سرایت (Anti-Toxin) مواد پیدا کر کے جراثیم کی ہلاکت اور جسمِ انسانی کی صحت کا اہتمام کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کے ذریعہ سے قدرت نے ایک ایسے فلسفے کو نمودار کیا ہے جس کی روشنی میں نہ صرف مغرب کے موجودہ غلط فلسفوں کی نامعقولیت آشکار ہوتی ہے، بلکہ جس کے اندر قیامت تک پیدا ہونے والے تمام غلط فلسفوں کا کافی اور شافی جواب اور ابطال بالقوہ موجود ہے۔ لہٰذا یہی فلسفہ ہے جو آگے چل کر پوری نوعِ انسانی کا فلسفہ بننے والا ہے۔ قدرت کی عادت ہے کہ جب انسانوں کی قدرتی، بدنی یا روحانی ضروریات کی تشفی میں کوئی شدید رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے تو وہ اپنی مہربانی سے اس رکاوٹ کو دُور کرنے اور ازسرِنو انسانوں کی بدنی اور روحانی پرورش کے لوازمات مہیا کرنے کے لیے ایک معجزانہ قدم اُٹھاتی ہے۔ اسی عادت کی وجہ سے جسمِ حیوانی مرض کے خلاف ردِّعمل کر کے صحت مند ہوتا ہے اور اسی کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ جب غلط نظریات اور تصورات اشاعت پذیر ہو کر عالمِ انسانی کو غلط راہوں پر لیے جا رہے ہوں تو اس میں ایسے دانائوں، مفکروں اور راہنمائوں کا ظہور ہوتا ہے جو ان غلط تصورات کا ابطال کر کے انسانیت کو زندگی کے صحیح راستوں پر واپس لاتے ہیں۔ اقبال کا مخصوص نفسیاتی ماحول: اقبال کے مخصوص نفسیاتی ماحول نے ممکن بنایا ہے کہ وہ اپنے فلسفے کی بنیاد حقیقتِ کائنات کے صحیح تصور پر رکھے، اس نفسیاتی ماحول میں مسلمان ہونا اور پھر مسلمانوں میں بھی تصوف، زہد اور ریاضت کا ذوق رکھنے والے ایک خاندان کا فرد ہونا، اربابِ نظر اور اہلِ دل بزرگوں کی صحبت سے شغف رکھنا اور اس کی جستجو کرنا، حتیٰ کہ اس کے حصول کے لیے کسی موقع کو نظرانداز نہ کرنا، اس سے متواتر مستفید ہوتے رہنا، عربی اور فارسی کے علوم اور اسلام کے علمائ، حکماء اور صوفیا کی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق رکھنا، ایسے عناصر شامل ہیں۔ اس ماحول نے اسے نبوت کے عطا کیے ہوئے صحیح تصورِ کائنات کے وجدان سے آشنا ہی نہیں کیا بلکہ اس تصور کے حسن و جمال کے ایک طاقت ور قلبی احساس یا عشق کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ خرد افزود مرا درسِ حکیمانِ فرنگ سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے: مے نہ روید غم دلِ از آب و گِل بے نگاہے از خداوندانِ دِل اقبال بنیادی طور پر ایک صوفی یا درویش ہے، شاعر یا فلسفی نہیں: افسوس ہے کہ اقبال کے غیرمبہم الفاظ میں بار بار کہنے کے باوجود ہم بالعموم اس بات کو نظرانداز کر جاتے ہیںکہ گو اقبال ایک شاعر بھی ہے اور ایک فلسفی بھی تاہم بنیادی طور پر وہ نہ فلسفی ہے اور نہ شاعر بلکہ ایک درویش یا صوفی ہے۔ اس کا شاعرانہ کمال اور اس کا حکیمانہ جوہر دونوں اس کے وجدانِ یا عشق کے خدمت گزار ہیں۔ اس کی ساری ذہنی کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ اس نے فلسفے کی معروف اور دورِ حاضر کے انسان کے لیے قابلِ فہم زبان میں اپنے روحانی تجربہ یا عشق کی ترجمانی کی ہے اور اس عمل کے دوران میں جو فلسفیانہ افکار و تصورات اس کے ہاتھ لگے ہیں، ان کو شعر کے زور دار اور پراثر طرزِ بیان کا جامہ پہنایا ہے۔ دوسرے شاعروں کی طرح محبتِ مجاز کی داستانوں اور غزلوںسے سننے والوں کا دِل لبھانا اس کا مدعا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر کے لقب کو جو بعض اوقات اس کے نادان دوست اس پر چسپاں کرتے ہیں، بڑے زور سے ردّ کرتا ہے: نہ پنداری کہ من بے بادہ مستم مثالِ شاعراں افسانہ بستم ــــــــــــ مدار امید زاں مردِ فرودست کہ برمن تہمتِ شعر و سخن بست ــــــــــــ نغمہ کجا و من کجا سازِ سخن بہانہ ایست سوئے قطارمے کشم ناقۂ بے زمام را ــــــــــــ او حدیثِ دلبری خواہد زمن رنگ و آبِ شاعری خواہد زمن کم نظر بے تابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم نہ دید اقبال مولانا سلیمان ندوی کو اپنے ایک خط مورخہ ۴؍اگست ۱۹۱۳ء میں لکھتے ہیں: ’’میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا۔ فنِ شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصدِ خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات اور روایات کی رُو سے مَیں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے: نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست‘‘ اِسی طرح اپنے ایک خط مورخہ ۲۷۔ ستمبر ۱۹۱۳ء میں خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کو شاعر تصور نہیں کرتا اور نہ کبھی بحیثیت فن کے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر میرا کیا حق ہے کہ میں صفِ شعرا میں بیٹھوں۔‘‘ اوپر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح سے اقبال اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ تمام ایسے فلسفے جو خدا کی محبت یا بالفاظِ دیگر حقیقتِ کائنات کے صحیح تصور سے عاری ہوں اور لہٰذا حقیقت کے غلط یا ناقص تصورات پر مبنی ہوں، بے ہودہ اور بیکار ہیں اگر اقبال خود خدا کی محبت سے بہرہ ور نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی اس قیمتی حکیمانہ نتیجہ پر پہنچ سکتا اور یہ ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ خود اقبال کا دعویٰ بھی ہے کہ اسے روحانیت کا ایک درجہ اور معرفتِ حق تعالیٰ کا ایک مقام عطا کیا گیا ہے۔ اس درجۂ معرفت اور مقامِ محبت کو وہ افروزش سینہ، سوز درون، ذوقِ نگاہ، بادئہ ناب وغیرہ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے اور اپنے لیے درویش، فقیر، قلندر ایسے القاب استعمال کرتا ہے، جو صوفیا کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ خرد افزود مرا درسِ حکیمانِ فرنگ سینہ افروخت مرا صحبتِ صاحب نظراں ــــــــــــ درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند ــــــــــــ سرآمد روزگارِ ایں فقیرے دگر دانائے راز آید نہ آید ــــــــــــ قلندر جزدو حرفِ لاالہٰ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا ــــــــــــ اے پسر ذوقِ نگاہ از من بگیر سوختن در لا اِلہٰ از من بگیر ــــــــــــ مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادئہ ناب نہ مدرسہ میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے ــــــــــــ از تب و تابم نصیبِ خود بگیر بعد من ناید چو من مردِ فقیر عصرِ حاضر را خرد زنجیرپا ست جانِ بیتابے کہ من دارم کجاست ــــــــــــ اعجمی مردے چہ خوش شعرے سردد سوزد از تاثیرِ او جاں در وجود ــــــــــــ جوہر انسانی کے اوصاف و خواص: جہاں اقبال کے نفسیاتی ماحول نے اُسے خدا کی محبت سے بہرہ ور کیا ہے، وہاں اس کے جدید علمی ماحول نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی افعال و اعمال کے متعلق اپنے ان نظریات اور معتقدات کی علمی اور عقلی بنیادوں کو معلوم کر سکے جو اسے قرآن سے دستیاب ہوئے ہیں۔ اس علمی ماحول کی وجہ سے اس پر یہ بات منکشف ہوئی ہے کہ یہ نظریات اور معتقدات جوہر انسانی کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہیں۔ وہ جوہر انسانی کو خودی کی حکیمانہ اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے اور ایک سائنس دان کی طرح روزمرہ کے مشاہدات کی روشنی میں اس کے عملی اثرات و نتائج کا جائزہ لیتا ہے اور ان کی روشنی میں اس کے قدرتی اور ازلی اور ابدی اوصاف و خواص کی تشریح کرتا ہے۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے اور یہ اتفاق علمی اور عقلی نقطۂ نظر سے قرآنِ حکیم کی صداقت کی دلیل ہے کہ یہ اوصاف و خواص قرآن کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں، یہی وجہ ہے کہ اقبال کا فلسفۂ خودی ایک طرف سے انسان کی سائنس ہے اور دوسری طرف سے قرآنِ حکیم کی تفسیر ہے۔ جس طرح سے ہم کارل مارکس کے فلسفے کو اس تصور سے الگ نہیں کر سکتے کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے، اسی طرح سے ہم اقبال کے فلسفے کو اس تصور سے الگ نہیں کر سکتے کہ کائنات کی حقیقت خدا ہے، خدا کی ان صفات کے ساتھ جو نبوتِ کاملہ کی تعلیمات میں بیان کی گئی ہیں۔ اقبال کی حکمت میں خدا کا اسلامی تصور جو اسے اس مخصوص نفسیاتی ماحول سے ملا تھا، محض ایک عقیدے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسی علمی حقیقت کے طور پر پیش ہوا ہے جو انسانی جوہر کے اوصاف و خواص سے ایک ناگزیر نتیجہ کے طور پر اخذ ہوتی ہے اور جس کے ڈانڈے تمام دوسرے علمی اور عقلی تصورات یعنی طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے حقائق سے جا ملتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اقبال کے ہاں حقیقت انسان کا مسئلہ فقط وحی کی روشنی میںہی نہیں بلکہ جدید علمی حقائق کی روشنی میں اور جدید طرزِ استدلال کی مدد سے حل ہوا ہے۔ اقبال کی حکمت میں یہ بات پہلی دفعہ آشکارا ہوئی ہے کہ خدا کا تصور تمام علمی حقائق کے ساتھ اور انسان کی زندگی کے تمام ضروری شعبوں کے ساتھ کیا علمی اور عقلی مناسبت رکھتا ہے اور اس تصور کی یہ مخفی استعداد کہ صرف وہی کائنات کے تمام موجودہ اور آئندہ حقائق کی معقول تشریح اور مکمل تنظیم کر سکتا ہے۔ علمی تحقیق و تجسّس کے دائرے میں آ گئی ہے اور یہ مذہب اور علم دونوں کی بہت بڑی ضرورت ہیـ۔ مذہب ایک سائنس کب بنتا ہے: مذہب انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات کو ضروری سمجھتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ معتقدات کون سے ہیں اور کیوں ضروری ہیں، اور کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں۔ مذہبی معتقدات کے لیے جس حد تک کہ وہ صرف مذہبی معتقدات ہیں، یہ ضروری نہیں کہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت بھی رکھیں یا علمی اور عقلی معیاروں کی رُو سے درست بھی ثابت ہو سکیں۔ سائنس بھی حقیقتِ انسان و کائنات کے متعلق کچھ معتقدات پیش کرتی ہے اور ہم جان لیتے ہیں کہ یہ معتقدات ہماری زندگی کے مقاصد کے پیشِ نظر کون سے اور کیسے اعمال کا تقاضا کرتے ہیں، لیکن سائنس کے معتقدات اشیا کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہوتے ہیں اور تجربات اور مشاہدات سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ علمی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور علمی اور عقلی معیاروں کے مطابق درست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اگر کسی وقت اشیا کے اوصاف اور خواص کے علم کی ترقی کی وجہ سے کسی مذہب پر ایک دَور ایسا آ جائے کہ اس کے معتقدات بھی اشیا کے قدرتی اوصاف اور خواص پر مبنی ہوجائیں تو پھر وہ مذہب سائنس بن جاتا ہے اور اس میں اور سائنس میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ اقبال پہلا مسلمان فلسفی ہے جس نے بتایا ہے کہ مذہب اسلام کے معتقدات ایک خاص چیز کے قدرتی اوصاف و خواص پر مبنی ہیں جن کے علم کی طرف انسانی زندگی کے وہ حقائق جو مشاہدات پر مبنی ہیں، راہنمائی کرتے ہیں اور وہ چیز انسانی انا یا خودی ہے، لہٰذا اقبال کے فلسفے میں مذہب اسلام ایک سائنس کی صورت اختیار کر گیا ہے اور یہی اقبال کی سب سے بڑی علمی خدمت ہے۔ اسلام کا یہ قدم جو آگے کو اُٹھ چکا ہے، اب واپس نہیں آ سکتا بلکہ اسی سمت میں اس سے بھی اگلے قدموں کی طرف رہنمائی کرے گا۔ اب آئندہ جو بھی حقائقِ علمی دریافت ہوتے جائیں گے، اسلام کی سائنس کے عناصر بنتے جائیں گے اب اس بات کی ضرورت نہیں رہی کہ اسلام کو ایک نظامِ افکار کی شکل دینے کے لیے تصوف کے ان مفروضات کا سہارا لیا جائے، جو قرونِ وسطیٰ کے صوفیوں نے ایجاد کیے تھے اور جنھیں اب تک حکمتِ اسلام کے عناصر خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اقبال خود لکھتے ہیں: ’’اب اسلام قرونِ وسطیٰ کے اس تصوف کی تجدید کو روانہ رکھے گا جس نے اس کے پیروئوں کے صحیح رجحانات کو کچل کر ایک مبہم تفکر کی طرف اس کا رُخ پھیر دیا تھا، اس تصوف نے گزشتہ چند صدیوں میں مسلمانوں کے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کر کے سلطنت کو معمولی آدمیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا۔ جدید اسلام اس تجربے کو دہرا نہیں سکتا۔ اسلام جدید تفکر اور تجربے کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی یا پیغمبر بھی اس کو قرونِ وسطیٰ کے تصوف کی تاریکیوں کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا۔‘‘ اصطلاحِ خودی کی برکتیں: جوہرِ انسانی کے لیے خودی کی حکیمانہ اصطلاح کو کام میں لانے سے فطرتِ انسانی کے صحیح اسلامی تصور کے ساتھ علمی حقائق کی مطابقت علمی تحقیق اور عقلی محاکمے کے دائرہ میں آ گئی ہے اور اقبال کے فلسفے میں یہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ حال اور مستقبل کے تمام صحیح علمی حقائق کو اپنے اندر جذب کر سکے، چونکہ خودی کا تصور صحیح ہے اور سائنسی حقائق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن حقائق کو سائنس دان تجربات اور مشاہدات کے ایک طویل عمل کے بعد دریافت کرتا ہے، اقبال ان کو بلادِقت اور نہایت آسانی کے ساتھ خودی کی فطرت سے اخذ کرتا ہے۔ اس قسم کے تصورات میں سے ایک ارتقا کا تصور ہے، جس کا سبب (Cause) اقبال کے ہاں خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے اور جس کا طریقہ بھی ہم نہایت آسانی کے ساتھ خودی کی فطرت سے اخذ کر سکتے ہیں۔ اس بیسویں صدی میں علم کے ہر شعبہ میں سچی علمی حقیقتوں کی تعداد یہاں تک ترقی کر گئی ہے کہ جب ہم حکمتِ اقبال کے اندرونی تصورات کو ایک عقلی یا منطقی ترتیب کے ساتھ آراستہ کرنے کی کوشش کریں اور اس سلسلہ میں ان حقیقتوں کو اس ترتیب کے خلائوں کو پُر کرنے کے لیے کام میں لانا چاہیں تو علمی حقیقتوں کی کوئی ایسی کمی محسوس نہیں کرتے جو ہماری کوششوں کو کامیابی سے باز رکھ سکے۔ بلکہ ہماری کوششیں یہاں تک کامیاب ہوتی ہیں اور خلائوں کی تعداد اور طوالت یہاں تک کم ہو جاتی ہے کہ ترتیب سچ مچ ایک مسلسل عقلی یا منطقی نظام کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور پھر یہ کام اس بنا پر اور آسان ہو جاتا ہے کہ سچی علمی حقیقتوں کے موجودہ ترقی یافتہ مواد ہی سے بعض ضروری علمی حقیقتیں اقبال کی حکمت کے اندر خود اقبال کے ہاتھوں سے پہلے ہی داخل کر دی گئی ہیں۔ ان اندرونی حقیقتوں کی وجہ سے اقبال کی حکمت کے ساتھ بیرونی علمی حقیقتوں کی علمی اور عقلی مناسبت اور مطابقت نہایت آسانی کے ساتھ واضح ہو گئی ہے، جس سے اس حکمت کے اندرونی حصوں کو بیرونی حصوں کے ساتھ جوڑنے کا کام آسان ہو گیا ہے۔ فلسفۂ خودی کائنات کا آخری فلسفہ ہے: حکمتِ اقبال کی یہی خصوصیات ہیں جو اسے کائنات کا وہ آخری فلسفہ بنا دیتی ہیں جو ہر دَور کے باطل فلسفوں کا مسکت اور تسلی بخش جواب ہو۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابنِ عربی کے زمانے میں اس قسم کے فلسفے کا وجود میں آنا ممکن نہیں تھا۔ آج اگر مسلمان یا کوئی اور قوم جدلی مادیات (Dialectical Materialism) کا معقول علمی جواب دینا چاہے، جسے دَورِ حاضر کا انسان بھی سمجھ سکے تو وہ صرف اقبال کے نظامِ حکمت سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ کسی اور فلسفے سے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ انسان اور کائنات کی سچی حقیقت کو سمجھنے کے لیے جس قسم کی ذہنی رکاوٹیں کسی زمانے میں پیدا ہوتی ہیں، قدرت ان رکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے علاج بھی ویسا ہی پیدا کرتی ہے۔ اقبال کا فلسفۂ خودی اپنے مزاج کے لحاظ سے اپنے دَور کے فلسفوں کی تمام ظاہری خصوصیات سے حصہ لیتا ہے تاکہ ان کا تسلی بخش جواب بن سکے۔ شاہ ولی اللہ اور محی الدین ابنِ عربی ایسے اکابر کے فلسفے اپنے زمانہ کے باطل فلسفوں کا جواب تھے۔ لیکن اس زمانے کے یا آنے والے زمانے کے باطل فلسفوں کا جواب نہیں اور نہ بتائے جا سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے اسلامی تصور پر مبنی ہونے کے باوجود وہ جدید علمی حقائق کی عقلی اور منطقی حدود کے کسی نقطے پر بھی نہ ان سے اتصال پیدا کر سکتے ہیں اور نہ ٹکراتے ہیں۔ لہٰذا ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایک ایسے جدید نظامِ مملکت کی صورت اختیار کر سکیں جو عقلی اور منطقی طور پر مسلسل ہو اور جس میں حال اور مستقبل کے تمام علمی حقائق سموئے جا سکیں۔ اقبال کے علاوہ، دوسرے تمام مسلمان فلسفیوں کے فلسفے، فلسفۂ اسلام کے ارتقا کے وہ مراحل ہیں جو گزر چکے ہیں، اقبال کا فلسفہ ان تمام مراحل سے آگے کا فلسفہ ہے جو گذشتہ مراحل کے تمام حاصلات کو بھی اپنے اندر جمع کرتا ہے لیکن اب گذشتہ مرحلوں میں سے کوئی مرحلہ اس کو ہٹا کر ا سکی جگہ نہیں لے سکتا، کیونکہ ان میں کوئی فلسفہ ایسا نہیں جو اپنے اندرونی استدلال کو وسعت دے کر ایک جدید انسانی اور اجتماعی فلسفہ بن سکے اور آئندہ عالمگیر ریاست کو اپنے سیاسی یا اقتصادی یا اخلاقی یا تعلیمی یا قانونی یا معاشرتی یا اطلاعاتی نظام کے لیے قابلِ فہم علمی تصورات بہم پہنچا سکے۔ یہ نکتہ نہایت ہی اہم ہے اور جس قدر جلد اس پر ہم حاوی ہو جائیں، ہمارے لیے اتنا ہی اچھا ہو گا۔ کیونکہ اتنا ہی ہم اپنی قوتوں کو اور فلسفوں کی جستجو یا نشر و اشاعت پر صرف کرنے کی بجائے اس فلسفے کی تفہیم اور نشرواشاعت کے لیے آزاد کر سکیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمیں قدیم اسلامی فلسفوں کا بھی مکمل مطالعہ کرنا چاہیے لیکن اس لیے کہ دیکھا جائے کہ ان کے اندر کون سے تصورات ایسے ہیں جن کے مضمرات یا نتائج جدید فلسفہ اسلام یعنی فلسفۂ خودی کی تنظیم اور ترتیب کے خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے عمدہ اور دل نشین طرزِ بیان مہیا کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ ہم ان قدیم فلسفوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مستقبل میں پوری نوعِ انسانی کو اپنے ذہن میں رکھنے والا اور زندگی کے نظری اور عملی پہلوئوں کے لیے پوری روشنی پہنچانے والا فلسفۂ اسلام صرف ایک ہی ہے اور وہ فلسفۂ خودی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر اقبال کو یہ کہنا زیب دیتا ہے: ہیچ کس رازے کہ می گوئم نہ گفت ہمچو فکرِ من دُرِ معنی نہ سفت اقبال کے افکار حکمتِ مغرب سے ماخوذ نہیں: بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ اقبال نے اپنے تصورات حکمائے مغرب سے مستعار لیے ہیں۔ لہٰذا ان لوگوں کی نگاہ میں اقبال پر لکھنے یا ریسرچ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے ماخذ کو حکمتِ مغرب میں تلاش کیا جائے اور اسے وہ ایک نہایت ہی ضروری اور بڑا عظیم الشان کام سمجھتے ہیں جو لوگوں کو اقبال پر کرنا چاہیے۔ دراصل یہ لوگ مادی علوم میں مغرب کے تفوق سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتے ہیں کہ ان انسانی علوم میں بھی جس کو اقبال نے اپنے غور و فکر کا موضوع بنایا ہے، کہاں کوئی مشرق کا آدمی مغرب سے الگ راہیں پیدا کر سکتا ہے۔ حالانکہ حکمائے مغرب کو خود اعتراف ہے کہ وہ انسانی علوم میں کوئی ترقی نہیں کر سکے۔ یہ لوگ اس بات کو نظرانداز کر جاتے ہیں کہ تمام حکیمانہ افکار کسی نہ کسی تصورِ حقیقت کے اجزا و عناصر ہوتے ہیں۔ اس کی تشریح اور تفسیر کرتے ہیں اور اس کے اردگرد ایک نظامِ حکمت بناتے ہیں۔ اقبال کا تصورِ حقیقت اسلام کا خدا ہے، جس کے لیے وہ خودیٔ عالم کی فلسفیانہ اصطلاح کام میں لاتا ہے اور مغرب میں ایک بھی فلسفی ایسا نہیں جس کا تصورِ حقیقت اسلام کا خدا ہو، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی مغربی حکیم کا کوئی تصور اپنی اصلی حالت میں اقبال کے کام آ سکے۔ اس میں شک نہیںکہ خودی (Self) کی فلسفیانہ اصطلاح بعض حکمائے مغرب نے بھی استعمال کی ہے، لیکن ان میں کسی کے ہاں اس اصطلاح کے معنی وہ نہیں لیے گئے جو اقبال نے لیے ہیں اور جس کے منطقی یا عقلی مضمرات یا نتائج اسلام کے خدا کی صفات کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں، اگر اقبال کے فلسفے کا مرکزی تصور یعنی تصورِ خودی اس کا اپنا تصور ہے جو کسی اور فلسفی کے ہاں موجود نہیں تو پھر ضروری ہے کہ اقبال کے اس مرکزی تصور کے مضمرات اور متضمنات بھی اس کے اپنے تصورات ہوں اگرچہ ان میں سے بعض ایسے ہوں جو کچھ مغرب فلسفیوں کے تصورات سے مشابہت رکھتے ہوں اور بظاہر ان سے مستعار نظر آتے ہوںـ۔ ظاہر ہے کہ ایک فلسفی جب اپنے تصورِ حقیقت کی تشریح یا ترجمانی کرے گا اور اس کے نتائج اور مضمرات پر بحث کرے گا تو اس غرض کے لیے اُن ہی حقائق کو کام میں لائے گا جو اس کی تعلیم و تربیت اور مطالعہ اور مشاہدہ نے اس کے دائرۂ علم میں داخل کر رکھے ہوں گے۔ لیکن یہ حقائق اس کے تصورِحقیقت کے رشتے میں منسلک ہوتے وقت اس تصور کے رنگ میں اس طرح رنگے جائیں گے کہ وہ عقلی اور منطقی طور پر اسی کے مضمرات بن جائیں گے۔ اقبال کے معلوم حقائق اسے اپنے تصورِ حقیقت کے نتائج کے استخراج اور استنباط میں اس کی مدد کرتے ہیں، اس کے لیے ایک اکساہٹ کا کام دیتے ہیں، اس کی توجہ کو ضروری سمتوں کی طرف مبذول کرتے ہیں، لیکن خو داپنی اصلی حالت میں اس کے تصورِحقیقت کے نتائج نہیں بن سکتے۔ بظاہر نظر آئے گا کہ وہ ان حقائق کو پوری طرح سے استعمال کر رہا ہے، لیکن درحقیقت وہ ان کو صرف اسی حد تک استعمال کرتا ہے جس حد تک کہ وہ اس کے تصورِ حقیقت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں اور اس کی تشریح اورتفسیر کا درجہ اختیار کر سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال کا تصورِ ارتقا برگساں سے، اس کا تصورِ خودی فشتے اور نیٹشے سے، اس کا تصورِ وجدان جمیز وارڈ سے اور اس کا تصورِ ریاست ہیگل سے ماخوذ ہے۔ لیکن درحقیقت ظاہری مشابہت کے باوجود اقبال کے یہ تصورات ان فلسفیوں کے متوازی تصورات سے یکسر مختلف ہیں اور اقبال اور مغرب پر لکھنے والوں کے لیے بڑا عظیم الشان کام دراصل یہی ہے کہ کس طرح سے اقبال کے تصورات ان فلسفیوں کے تصورات سے مختلف ہیں اور ان سے زیادہ معقول اور مدلل ہی نہیں بلکہ صحت اور درستی کے تمام معیاروں پر پورا اترتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے پورے غور و فکر کے ساتھ مغربی فلسفے کا مطالعہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ اقبال اس کی رگ رگ سے باخبر ہو گیا ہے اور وہ اس کے آب و گِل میں سرایت کر گیا ہے۔ ہے فلسفہ مرے آب و گِل میں پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دِل میں اقبال اگرچہ بے ہنر ہے اس کی رگ رگ سے باخبر ہے لیکن مغربی فلسفے نے اقبال پر کوئی اثر نہیں کیا، اس لیے کہ وہ حقیقت کے غلط تصورات پر قائم ہے۔ اسی فلسفے کے متعلق وہ کہتا ہے: انجامِ خرد ہے بے حضوری ہے فلسفۂ زندگی سے دوری تو اپنی خودی اگر نہ کھوتا! زناری برگساں نہ ہوتا! ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی حکمائے مغرب کے تصورات سے متاثر اور مرعوب ہونا تو درکنار اقبال ان تصورات کو اپنے وجدانِ حقیقت کی روشنی میں پرکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کہاں تک درست ہے اور کہاں تک غلط۔ جس حد تک کوئی درست ہوتا ہے، وہ اسے اپنے حکیمانہ موقف کی تشریح اور تفسیر کے لیے کام میں لاتا ہے اور جس حد تک وہ غلط ہوتا ہے، اسے نظرانداز کرتا ہے بلکہ اس کے خلاف تنبیہہ کرتا ہے۔ حکمتِ مغرب کا طلسم اس پر کام نہیں کرتا، وہ جانتا ہے کہ حکمت مغرب میں دانہ بھی ہے اور دام بھی اور وہ دانے کو لے لیتا ہے اور دام کو توڑ ڈالتا ہے، اس طرح سے حکمتِ مغرب کی آگ اس کے لیے گلزارِ ابراہیم بن جاتی ہے۔ طلسم عصر حاضر را شکستم ربودم دانہ و دامش گسستم خدا داند کہ مانندِ براھیم بنارِ او چہ بے پروا نشستم فلسفۂ خودی کی آسان اور مختصر تشریح کا مطالبہ دُرست نہیں: پھر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کے فلسفیٔ خودی کی تشریح کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے لیکن یہ مطالبہ جو دراصل فلسفۂ خودی کی نوعیت کو نظرانداز کرنے سے پیدا ہوتا ہے، درست نہیں۔ فلسفۂ خودی کوئی قصہ یا داستان نہیں کہ ہم چاہیں تو اسے مختصر بھی کر سکیں اور آسان بھی۔ یہ مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ علمِ طب کو، طبیعیات کو، یا حیاتیات کو یا نفسیات کو آسان اور مختصر ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ان علوم میں سے کوئی بھی اپنی قدرتی حدود سے زیادہ نہ آسان ہو سکتا ہے اور نہ مختصر، ان میں سے ہر ایک اشیاء کے اوصاف و خواص کا علم ہے اور اشیا کے اوصاف و خواص تو وہی ہو سکتے ہیں جو قدرت نے ان کو دیئے ہیں۔ ہم ان کو تعداد میں کم نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ان کے علم کو آسان یا مختصر کیسے بنا سکتے ہیں۔ فلسفۂ خودی بھی روحِ انسانی کے اوصاف و خواص کا علم ہے چونکہ روحِ انسانی کے اوصاف و خواص وہی ہیں جو قدرت نے اسے دیئے ہیں، لہٰذا ہم روحِ انسانی کے علم کو بھی اس کی قدرتی حدود سے زیادہ آسان یا مختصر نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم ریاضیات یا طبیعیات کے علم میں بی۔اے یا بی۔اے کے اوپر کے معیار کے مسائل یا حقائق کو حذف کر کے صرف انٹرمیڈیٹ کے معیار کی ایک کتاب لکھ دیں تو ہمارا یہ دعویٰ غلط ہو گا کہ ہم نے ریاضیات یا طبیعیات کو آسان اور مختصر کر دیا ہے۔ درآنحالیکہ دوسروں نے اسے خواہ مخواہ طویل اور مشکل بنا دیا تھا اور پھر علم کے متعلق انسان کا قدرتی اور صحیح مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ مختصر ہو بلکہ یہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وسیع اور مفصل ہو۔ انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ وہ علم کو برابر وسعت دیتا رہے اور اس غرض کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرے اور کسی خطرے کو زیادہ نہ سمجھے۔علمی ریسرچ جس پر کروڑوں روپیہ دُنیا بھر میں صرف ہو رہا ہے اور ہزاروں فضلا اور حکما کام کر رہے ہیں۔ انسان کی فطرت کے اسی پہلو کو مطمئن کرتا ہے اور پھر روحِ انسانی کے اوصاف و خواص کا علم تو تمام علوم سے زیادہ ضروری اور مفید ہے بلکہ یہ علم تو انسان کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اس کے بغیر اس وقت انسانیت ہلاکت کے دروازے پر کھڑی ہے۔ کیا ایسے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کے متعلق کم جانے اور زیادہ تر تاریکی میں رہے تاکہ اس کے اعمال میں راہ دانی کا عنصر کم ہو اور بے راہ روی کا عنصر زیادہ ہو۔ جس طرح سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جسمانی اعمال اور وظائف کو زیادہ سے زیادہ سمجھیں تاکہ خود کی بیماریوں کے عوامل اور معالجات کو زیادہ سے زیادہ جانیں اور اپنی ساری زندگی کو خوشگوار بنا سکیں۔ دورِ حاضر میں انسانی سوسائٹی کی تمام خرابیوں اور بدحالیوں کا (جن میں جنگ، مفلسی، بداخلاقی، بے اطمینانی، ظلم اور تشدد شامل ہیں) اور انسانی علوم کے اندرونی انتشار اور بے ربطی کا باعث خودی کے علم کی کمی ہے۔ ہر علم ترقی کرتا رہتا ہے۔ یہ علم کی ایک خصوصیت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف سے انسان علم کا پیاسا ہے، اور دوسری طرف سے اشیا کے خواص و اوصاف کے علم کی کوئی حد نہیں اور پھر علم جب وسیع ہو گا اور ترقی کرے گا تو اسی نسبت سے اس کو حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا جائے گا تو پھر کیا ایک علم ایسا ہونا چاہیے جسے ہم بہ تکلف آسان اور مختصر رکھیں اور وہ علم بھی جوہرِ انسانی کا علم ہو جو سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ہم اپنے کسی عزیز کو جو پھیپھڑے کی بیماری میں مبتلا ہو، کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا سکتے جس کا علم انسانی پھیپھڑوں کے متعلق آج سے پچاس سال پہلے کی تحقیقات تک محدود ہو یا جس کے متعلق ہمیں معلوم ہو کہ پھیپھڑوں کے متعلق جو علم انسان کو آج تک حاصل ہو سکا ہے، وہ اس کا نصف ہی جانتا ہے تو پھر جوہرِ انسانی کے متعلق محدود واقفیت کی خواہش کرنے میں کون سی حکمت ہے، ہاں یہ درست ہے کہ خودی کا علم تو زیادہ سے زیادہ مبسوط اور مفصل بنایا جائے لیکن مبتدیوں کے لیے آسان اور مختصر کتابیں بھی ہوں، پھر جو لوگ علم خودی کے ماہرین بننا چاہیں، وہ ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں، جو علمِ خودی کی ان انتہائی تفصیلات پر مشتمل ہوں جو آج تک انسان کے دائرہ علم میں آ چکی ہیں تاکہ وہ ان تفصیلات کی گہرائیوں میں اور جائیں اور ان میں اضافہ کریں اور اس طرح سے خودی کا علم ترقی کرتا رہے اور پھر اس بات پر بھی غور فرمایئے کہ مشکل اور آسان کے اوصاف محض اضافی ہیں، جو علم ایک شخص کے لیے مشکل ہے، وہ دوسرے کے لیے آسان ہو جاتا ہے، جو اسے محنت سے حاصل کرتا ہے۔ مشکل علوم میں سے کون سا علم ایسا ہے جس کے ماہرین ضروری تعداد میں موجود نہ ہوں۔ اگر علم حاصل کرنے کی خواہش نہ ہو تو کوئی علم آسان نہیں ہوتا۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ آسان ہے لیکن خود عربی دانوں میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہ ہو گی جن کے لیے بغیر کوشش اور محنت کے قرآن کا سمجھنا مشکل ہے۔ دراصل قرآن کے اس دعویٰ کی بنیاد یہ ہے کہ قرآن صداقت ہے اور صداقت چونکہ پہلے ہی انسان کے دل کے اندر موجود ہوتی ہے، لہٰذا جو شخص اپنے آپ کو یا اپنے دل کو جانتا ہو، اس کے لیے اس کا سمجھنا اور باور کرنا آسان ہوتا ہے: بل ھو اٰیتٌ بیناتٌ فی صدور الذین اوتو العلم (بلکہ وہ روشن یعنی واضح اور قابلِ فہم آیات ہیں جو پہلے ہی ان لوگوں کے دِلوں میں موجود ہیں، جن کو اپنے آپ کا علم دیا گیا ہے۔) فلسفۂ خودی بھی چونکہ سچا فلسفہ ہے اور انسان کا دل اس کے نکات کی صحت کی شہادت دیتا ہے، لہٰذا وہ آسان ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مطالعہ یا کوشش یا محنت کے بغیر سمجھ میں آ سکتا ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ انسان کوشش کے بغیر کوئی چھوٹی یا بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ (انسان وہی کچھ حاصل کرتا ہے، جس کے لیے کوشش کرے۔) کیا اقبال پر مزید لکھنے کا دَور ختم ہو چکا ہے: پھر بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے، کیونکہ اس پر جو کچھ لکھا جا سکتا تھا، لکھا جا چکا ہے، اقبال کی تحریروں کو اور نچوڑنے سے کیا نکلے گا۔ آخر اقبال پر کہاں تک کوئی لکھ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ بھی فلسفۂ خودی کی نوعیت پر اور اس کی توسیع اور تنظیم کی ممکنات پر اور ان تصورات کی کمیت اور کیفیت پر غور نہیں کرتے جو اس میں مضمر ہیں۔ اقبال نے خودی پر لکھا ہے۔ لہٰذا اقبال پر لکھنے کے معنی یہ ہیں کہ اقبال کے افکار کی روشنی میں خودی کے موضوع پر لکھا جائے اور خودی کے موضوع کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ خودی حقیقتِ کائنات ہے۔ ساری کائنات خودی کا کرشمہ ہے۔ اور کائنات کی ہر چیز کا باعث خودی ہے۔ پیکر ہستی ز آثارِ خودی است ہر چہ مے بینی ز اسرارِ خودی است لہٰذا جو کچھ آج تک مادی کائنات میں یا حیوانات کی دُنیا میں یا انسانوں کی دُنیا میں ہوتا رہا ہے، یا آئندہ ہوگا، وہ خودی کے اعمال و افعال اور تصرفات و اثرات کا ہی نتیجہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانینِ قدرت خودی کے اوصاف و خواص کے مظاہر ہیں، سارا علم خودی کا علم ہے، خودی کا تصور علم کی ابتدا اور انتہا ہے اور حال اور مستقبل کے تمام حقائقِ علمی تصورِ خودی کے مضمرات ہیں اور اس کے اندر بالقوہ موجود ہیں۔ لہٰذا جوں جوں علم اپنے تینوں شعبوں میں یعنی مادہ حیوان اور انسان کے شعبوں میں ترقی کرے گا، تصورِ خودی کی تشریح کا نت نیا سامان پیدا ہوتا رہے گا اور ظاہر ہے کہ یہ عمل تاقیامت جاری رہے گا۔ اقبال پر لکھنے کا پہلا اہم قدم یہ ہے کہ ہم اقبال کے افکار کو ایک منطقی یا عقلی سلسلے کی شکل دے کر یہ بتائیں کہ کس طرح سے طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے تمام سچے حقائق جو آج تک دریافت ہو سکے ہیں، تصورِ خودی کے اجزا و عناصر ہیں۔ یہ اقبال کے فلسفیٔ خودی کی پہلی تشریح اور تفسیر ہوگی جسے فلسفۂ خودی کے ماہرین ہی نہیں بلکہ تمام تعلیم یافتہ لوگ بھی آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ جب اقبال کی اس قسم کی تشریح وجود میں آئے گی تو اس وقت صاف طو رپر نظر آ جائے گا کہ اقبال کے کئی تصورات دورِ حاضر کے تمام انسانی اور نفسیاتی علوم یعنی عمومی فلسفۂ انسان و کائنات، فلسفۂ نفسیات، انفرادی و اجتماعی فلسفۂ علم وغیرہ کے ساتھ کئی نقطوں پر ٹکرا رہے ہیں۔ لہٰذا ان علوم میں سے کسی پر قلم اُٹھانے والا اقبال کے ان تصورات کی تردید یا توثیق کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکے گا ا ور اقبال کے تصورات کی بنیاد اس قدر مضبوط اور وہ تصورات اس قدر صحیح ہیں کہ رفتہ رفتہ یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کی معقول تردید ممکن نہیں اور ان کی توثیق کے بغیر چارہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال پر لکھنے کا دوسرا اہم قدم یہ ہو گا کہ تصورِ خودی کی بنیادوں پر ان تمام علوم کی تدوین اور تعمیر نئے سرے سے کی جائے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور ان علوم کی تعمیرنو کے سلسلے میں بتایا جائے کہ کس طرح سے ان علوم کی موجودہ تدوین عقلی اور عملی نقطۂ نظر سے غلط ہے اور اس طرح سے ان تمام علوم کو فلسفۂ خودی کی شاخوں کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ گویا اقبال پر لکھنا اس زمانے میں بھی اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم انسانی، حیاتیاتی اور طبیعیاتی علوم کو نئے سرے سے اس طرح مدون نہ کر لیں کہ تصورِ خودی ان علوم کی رُوح کے طور پر نظر آنے لگے۔ پھر اس ابتدائی کام کے بعد جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا، فلسفۂ خودی کی مزید تشریح اور توسیع ہوتی رہے گی۔ فلسفۂ خودی کی تشریح ہمیشہ ترقی کرتی رہے گی: شارحینِ اقبال کا کام لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ اقبال نے کیا کہا ہے لیکن جب تک وہ یہ نہ بتائیں کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے، وہ معلوم اور معلم عقلی اور علمی معیاروں کے مطابق صحیح اور درست ہے۔ وہ اس کام کو پوری طرح سے انجام نہیں دے سکتے۔ اگر ہمارے نزدیک اقبال کے افکار قابلِ قدر یا قابلِ قبول ہیں تو اس لیے ہیں کہ وہ علم اور عقل کے پیمانوں کے مطابق معیاری اور درست ثابت ہو کر رہیں گے۔ اقبال کسی الہام کا مدعی نہیں اس کا دعویٰ فقط یہ ہے کہ جو کچھ وہ کہتا ہے وہ علمی اور عقلی طور پر صحیح ہے اور کسی تصور کا عقلی طور پر درست ہونا اس کے سوائے اور کوئی معنی نہیں رکھتا کہ وہ ان تمام تصورات کے ساتھ مناسبت و مطابقت رکھتا ہے جو عقلی و عملی طور پر درست مانے جا سکتے ہیں۔ صحیح تصورات کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ عقلی و علمی نقطۂ نظر سے ایک دوسرے کے موید ہوتے ہیں، لہٰذا وہ تصورات کا ایک ایسا مجموعہ بناتے ہیں جس کے اندر کوئی غلط تصور داخل نہیں ہو سکتا۔ہم اس مجموعہ سے کوئی تصور نکال کر اس کی جگہ کسی غلط تصور کو نہیں رکھ سکتے۔ اگر ہم ایسا کریں تو وہ تصور اس مجموعہ سے غیرمتعلق اور الگ تھلگ نظر آئے گا اور اس کی وجہ سے مجموعہ کے منطقی تسلسل میں دراڑ پیدا ہو جائے گا جو آشکار طور پر نظر آئے گا، لہٰذا کسی تصور کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ ہم بتا سکیں کہ وہ فی الواقع دوسرے تمام درست تصورات کے ساتھ علمی اور عقلی مناسبت یا مطابقت رکھتا ہے اور اس کی جگہ لینے والا کوئی دوسرا تصور ان کے ساتھ اس قسم کی کوئی مطابقت یا مناسبت نہیں رکھتا۔ اقبال کے تصورات، صحت اور معقولیت کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسانی، حیاتیاتی اور طبیعیاتی علوم آخر کار اقبال کے تصورِ خودی پر مبنی ہو جائیں اور خودی کی تشریح اور تفسیر قرار پائیں، تصورِ خودی کی یہ تشریح اور تفسیر علم کی آج تک کی ٹھوکروں کا مداوا اور آج تک کی بے راہ روی کا علاج ہو گی جس کے لیے نوعِ انسانی ہمیشہ کے لیے اقبال کی شکرگزار ہو گی۔ بعد میں حقیقت انسان و کائنات کے متعلق ہمیں جو کچھ معلوم ہوتا جائے گا، وہ، خواہ اس کا تعلق علم کے کسی شعبہ سے ہو، خود بخود اس نظامِ افکار کا جزو بنتا چلا جائے گا، یہی مطلب اقبال کا ہے جب وہ لکھتا ہے: ’’تاہم یہ یاد رہے کہ تحقیق علم و حکمت کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی۔ جوں جوں علم ترقی کرتا جائے گا اور فکر کے نئے نئے راستے کھلتے جائیں گے۔ ان ہی مطالب کی تشریح کے لیے اور تصورات اور غالباً بہتر تصورات میسر آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم انسان کی علمی ترقیوں کا جائزہ لیتے رہیں اور اپنے نظریۂ حیات پر قائم رہتے ہوئے ان پر تنقیدی نگاہ ڈالتے رہیں۔‘‘ ان معروضات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نہ صرف اقبال پر لکھنا ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی تک پوری طرح سے اس پر لکھنے کا آغاز بھی نہیں ہوا اور جب اس پر لکھنے کا آغاز ہو گا تو پھر اس پر لکھنا صرف اس وقت ختم ہو گا جب ہم انسان اور کائنات کے متعلق کسی پہلو سے بھی اور کچھ جاننے سے مجبور ہو جائیں گے اور ظاہر ہے کہ جب تک انسان اس کرئہ ارض پر موجود ہے، یہ وقت کبھی نہیں آ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، اقبال کے فلسفۂ خودی کی معقولیت اور جاذبیت زیادہ سے زیادہ آشکار ہوتی جائے گی۔ لہٰذا مستقبل کا انسان جس قدر اقبال کی عظمت کا معترف ہو گا، آج کا انسان نہیں ہو سکتا۔ ایک سچے تصورِ حقیقت پر قائم ہونے والے نظامِ حکمت کی ہر ترقی اس کی اگلی ترقی کو آسان کرتی ہے اور اس طرح سے اس کی غیرمتناہی ترقیوں کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ جب اقبال کے فلسفۂ خودی کی ایک اور ترقی یافتہ صورت اس کی منظم تشریح کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گی تو پھر وہ اور ترقی کرے گا اور لوگ تا قیامت اس پر لکھتے رہیں گے اور اس کی ترقیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہو گا کیونکہ علم کے تینوں شعبوں میں دریافت ہونے والے تمام حقائق صرف اسی کے اجزا و عناصر شمارہوں گے۔ فلسفۂ خودی کے مقابل کے تمام فلسفے مٹ جائیں گے: فلسفۂ خودی کی پہلی منظم تشریح کے ظہور سے کچھ عرصہ کے بعد اس تشریح کی اور توسیع کی ضرورت پیش آئے گی اور پھر کچھ مدت کے بعد اس دوسری تشریح کی مزید توسیع کی ضرورت لاحق ہوگی۔ علیٰ ہذا القیاس۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے ایک سچا فلسفہ ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے اور اس کی ترقیاں کبھی ختم نہیں ہوتیں، اس کے برعکس چونکہ علمی حقائق ایک غلط فلسفہ کے ساتھ جو غلط تصورِ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے، مطابقت نہیں رکھتے۔ لہٰذا ان حقائق کی ترقی کی وجہ سے جلد یا بدیر ایک ایسا وقت خود بخود آ جاتا ہے جب غلط فلسفہ کی فرضی معقولیت کا پردہ چاک ہو جاتا ہے اور وہ اپنا دم توڑ دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فکر اقبال کی اس قسم کی منظم تشریح ایک ایسے دَور کو قریب لائے گی جب دُنیا میں صرف ایک ہی فلسفہ باقی رہے گا اور وہ اقبال کا فلسفۂ خودی ہو گا اور دوسرے تمام فلسفے یا تو کلیتہً مٹ جائیں گے یا پھر نوعِ انسانی کے ادوار جہالت کی یادگار کے طور پر باقی رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ اقبال دورِ حاضر کے انسان سے نہیں بلکہ مستقبل کے انسان سے اُمید رکھتا ہے کہ وہ پوری طرح سے اس کی عظمت کا اعتراف کرے گا اور اس کے فکر کو اپنی عملی زندگی کی بنیاد بنائے گا، یہی وجہ ہے کہ اس کے فکر نے وہ آہوئے تاتار فتراک میں باندھا ہے جو ابھی عدم سے وجود میں نہیں آیا۔ اس کے باغ کی زینت وہ سبزہ ہے جو ابھی اُگا نہیں اور اس کا دامن ان پھولوں سے بھرا ہوا ہے جو ابھی شاخ ہی میں پوشیدہ ہیں۔ فکرم آں آہو سر فتراک بست کو ہنوز از نیستی بیروں نجست سبزہ ناروئیدہ زیب گلشنم گل بشاخ اندر نہاں در دامنم اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شاعرِ فردا کہتا ہے اور اپنے آپ کو ایسا نغمہ سمجھتا ہے جسے زخمہ ور کی حاجت نہیں اور جو سازِ کائنات سے خود بخود بلند ہونے والا ہے، وہ کسی آنے والے زمانہ میں اپنی روشن کی ہوئی آگ (نارِ عشق) کے اُن پجاریوں کا منتظر ہے جو ابھی سو رہے ہیں اور نیند سے اس وقت اُٹھیں گے جب جہالت کی تاریکیوں کی رات کٹ جائے گی اور سچی حکمت کی صبح کا نور پھیلنے لگے گا چونکہ اقبال کو معلوم ہے کہ اس کا فلسفۂ خودی نوعِ بشر کی علمی ترقیوں کے ایک خاص دور میں ہی پوری طرح سمجھا جا سکتا ہے، پوری قبولیت حاصل کر سکتا ہے اور اپنی پوری شان و شوکت سے جلوہ گر ہو سکتا ہے، لہٰذا وہ اپنے ہم عصروں سے یہ اُمید نہیں رکھتا کہ وہ اس کی قدر کر سکیں گے چونکہ اس کی لے کی سر نرالی ہے۔ اس کا ہم عصر اس کے نغمہ کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس کے زمانہ کے لوگ رموزِ حیات سے ناواقف ہیں۔ لہٰذا دورِ حاضر وہ بازار ہی نہیں جہاں اس کے یوسف کے خریدار پائے جا سکیں۔ اس کا نغمہ کسی اور جہان سے تعلق رکھتا ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوا اور اس کی جرس کسی اور ہی کاروان کو حرکت میں لانے والی ہے: بسکہ عودِ فطرتم نادر نواست ہم نشیں از نغمہ ام ناآشنا است نغمہ ام از زخمہ بے پرواستم من نوائے شاعر فرداستم انتظارِ صبح خیزاں مے کشم اے خوشا زردشتیانِ آتشم عصر من دانندئہ اسرار نیست یوسف من بہر ایں بازار نیست نااُمیدستم ز یارانِ قدیم طور مے سوزد کہ مے آید کلیم نغمۂ من از جہانِ دیگر است ایں جرس را کاروانے دیگر است فلسفۂ خودی کی اہمیت اور عظمت کا دعویٰ صحیح ہے: اپنے فکر کی اہمیت اور عظمت کا یہ دعویٰ جو اقبال نے بار بار اپنے اس قسم کے اشعار میں کیا ہے، درحقیقت خودی یا جوہرِ انسانی کے اوصاف کا ایک علمی اور عقلی نتیجہ ہے، جس سے گریز ناممکن ہے۔ اقبال جوہرِ انسانی کے اوصاف کو معنی ٔ آدم کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح سے جب وہ ارتقا کی قوتوں کے نہ رُکنے والے عمل سے انسان کی عملی زندگی میں آشکار ہوںگے تو انسان کی زندگی جس کی موجودہ غیرمتوازن حالت دل میں کھٹکتی ہے، ہر لحاظ سے موزوں اور تسلی بخش ہو جائے گی، یہاں تک کہ نوعِ انسانی اپنے حسن و کمال کی اس انتہا تک پہنچ جائے گی، جس کا اس وقت ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم اقبال سے کیا پوچھیں خود فطرت اس کے اس دعویٰ کی صداقت پر گواہ ہے: یکے در معنی ٔ آدم نگر از ماچہ مے پرسی ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے لہٰذا اقبال کا یہ دعویٰ اس کے فلسفے کا جزوِ لاینفک ہے اگر اقبال اپنے فلسفے کے اس اہم جزو کے متعلق اس لیے خاموش رہتا کہ اس کے اظہار سے اس کی اپنی ستائش کا پہلو نکلتا ہے، تو وہ گویا اپنے تصورِ خودی کی حقیقت کو بہ تمام و کمال بیان کرنے سے قاصر رہ جاتا جو اسے کسی قیمت پر قابلِ قبول نہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذا جو لوگ اقبال کے اس دعویٰ کو بے کار اور بے معنی نہیں سمجھتے وہ حق بجانب ہیں، لیکن آج تک جو کچھ اقبال پر لکھا گیا ہے، اس سے اقبال کے اس دعویٰ کی عقلی اور علمی بنیادیں آشکار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ موجودہ اقبالی ادب کے حاصلات سے مطمئن نہیں۔ قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی اپنی کتاب اقبالیات کا تنقیدی جائزہ میں جو ۱۹۵۵ء میں چھپی تھی، لکھتے ہیں: ’’فلسفۂ خودی پر اب تک کوئی جامع اور مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی۔ اقبال کی وفات کو آج ۱۷ سال ہوئے مگر اب تک ان پر جو کام ہونا چاہیے تھا وہ نہیں ہوا۔‘‘ ڈاکٹر سیّد عبداللہ نے لکھا تھا: ’’گو کلامِ اقبال کے متعلق مضامین کی فہرست بظاہر طویل ہے لیکن اس کی عظمت اور بلندی کی نسبت سے اب بھی بہت تشنہ اور مختصر ہے۔‘‘ اس پر قاضی احمد میاں اختر لکھتے ہیں: ’’ہر وہ شخص جس نے اقبالیات کی تعداد کے ساتھ ہی ان کی نوعیت اور قدر و قیمت کا اندازہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کے ساتھ اتفاق کرے گا کہ اب تک اقبالیات کے نام سے جو ذخیرئہ ادب تیار ہو چکا ہے، وہ اس پایہ کا نہیں جیسا کہ ہونا چاہیے اور جس سے اقبال کے مطالعہ میں کافی مدد مل سکے۔ اکثر تحریرات ایک دوسرے کی نقل ہیں، یہی وجہ ہے کہ ناقدینِ اقبال کو ان پر اعتراض کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی مقتضی ہے کہ مطالعۂ اقبال کے سلسلہ میں کوئی عملی اور ٹھوس کام کیا جائے اور اس میں ایسے اصحابِ فکر و نظر حصہ لیں، جو اقبال شناسی میں امتیازی درجہ رکھتے ہوں۔‘‘ لیکن اگر اقبال کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو ان لوگوں کے اقوال اقبال نافہمی کے ایک مضحکہ خیز مظاہرہ سے کم نہیں جو کہتے ہیں کہ اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ اقبال کے افکار میں سے کون سے مر گئے ہیں اور کون سے زندہ ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال پر لکھنے کا زمانہ اب ختم ہو گیا ہے۔ فلسفۂ خودی کی منظم اور مکمل تشریح کی خصوصیات: ان حقائق کی روشنی میں ہم ان نتائج پر پہنچتے ہیںکہ ضروری ہے کہ فلسفۂ اقبال کی منظم اور مکمل تشریح خصوصیات ذیل کی حامل ہو: اول: ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے مسلسل اور مربوط نظامِ حکمت کی شکل میں ہو، جس میں اقبال کے تمام تصورات جو اس وقت اس کی نظم یا نثر کی کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں، خواہ وہ کسی موضوع یا مطالعہ سے تعلق رکھتے ہوں، ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اور اقبال کے مرکزی تصورِ خودی کے ساتھ عقلی اور عملی رشتہ میں منسلک ہوں۔ دوئم: ضروری ہے کہ اس کے اندر طبیعیات، حیاتیات اور نفسیات کے تمام ایسے حقائق جن کو آج تک سائنس دانوں اور فلسفیوں نے دریافت کیا ہے اور جو اقبال کے تصورات کے ساتھ مناسبت اور مطابقت رکھتے ہیں، اپنے مناسب نتائج اور مضمرات کے سمیت اقبال کے تصورات کی تائید اور توثیق اور تشریح اور توسیع کے لیے سموئے ہوئے موجود ہیں۔ سوئم: ضروری ہے کہ اس کا مرکزی اور بنیادی تصور اقبال کا تصورِ خودی ہو جس کی اصل خدا کا وہ تصور ہے، جو نبوتِ کاملہ کی تعلیمات نے پیش کیا ہے۔ اور اس کے دوسرے تمام تصوراتِ خدا کے اسلامی تصور کی تشریح اور تفسیر کے طور پر ہوں۔ لہٰذا اس میں جابجا قرآن کی آیات اور احادیث کو اقبال کے تصورات کی تائید اور توضیح کے لیے پیش کیا گیا ہو۔ چہارم: ضروری ہے کہ وہ تمام متداول اور رائج الوقت غلط قسم کے طبیعیاتی، حیاتیاتی اور نفسیاتی فلسفوں کی ایسی تردید پر مشتمل ہو جو صحیح حقائق کو غلط حقائق سے الگ کر کے اور غلط حقائق کو درست حقائق بنا کر اقبال کے فلسفیٔ خودی کے اندر سموتی ہو گویا وہ فلسفۂ طبیعیات، فلسفۂ حیاتیات اور فلسفۂ نفسیات کی تعمیر جدید کی شکل میں ہو۔ اِقبال کا فلسفۂ عالم انسانی کے عالمگیر نظریاتی مرض کا صحت بخش ردِّعمل ہے: جب ایک جسمِ حیوانی میں کسی مرض کے جراثیم داخل ہو کر بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس میں مرض کی حالت پیدا کر دیتے ہیں تو زندگی کی رو جو حیوان کے اندر بہہ رہی ہوتی ہے (جو درحقیقت اسے پیدا کرتی اور نشوونما کے سارے مرحلوں میں سے گزار کر جسمانی اور حیاتیاتی کمال تک پہنچاتی ہے) فوراً ان جراثیم کے خلاف ایک ردِّعمل کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیوان کے جسم کے اندر جراثیم کے زہر کا تریاق یا فاد زہر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے، جسے ماہرینِ علم الابدان اینٹی ٹاکسنز (Anti Toxins) یا اینٹی باڈیز (Anti Bodies) کہتے ہیں، یہ فاد زہر متواتر پیدا ہوتا ہے اور ترقی کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جراثیم ختم ہو جاتے ہیں، اور ان کا زہر بھی باقی نہیں رہتا اور ان کے بجائے یہ تریاق جسم میں باقی رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے مرض کا دوسرا فوری حملہ ممکن نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اب یہ بات عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ کسی مرض کے خلاف کوئی حفاظتی یا مدافعتی تدبیر اس سے زیادہ کارگر اور مؤثر نہیں ہو سکتی کہ بدن میں مرض کی حالت مصنوعی طور پر پیدا کر کے قدرت کو اس کے خلاف ردِّعمل کرنے اور اس کا تریاق پیدا کرنے کا موقع دیا جائیـ۔ بعض امراض کے حفاظتی ٹیکے اسی اصول پر ایجاد کیے گئے ہیں۔ پوری نوعِ انسانی کی صورت میں بھی یہی اصول کام کرتا ہے۔ زندگی کی رو جس نے حضرت انسان کو ایک جونک کی حالت سے ترقی دے کر جسمانی اور حیاتیاتی کمال تک پہنچایا ہے اور اس کی نسل کو لاتعداد خطرات سے سجا کر اور ترقی اور فروغ دے کر دُنیا کے کناروںتک پھیلا دیا ہے، وہی اس کو نفسیاتی اور نظریاتی کمال کے اس مقام تک پہنچانے کی ذمہ دار ہے جو درحقیقت اس کی ساری کاوشوں اور محنتوں کا مدعا اور مقصود ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے انبیاء کے ایک طویل سلسلہ کے ذریعے سے نوعِ بشر کی روحانی اور نظریاتی حفاظت و تربیت کا ایک نہایت ہی معقول اور تسلی بخش انتظام کیا تھا، جس کے اثرات چاروں طرف کرئہ ارض پر پھیل گئے تھے۔ لیکن اب جب کہ نبوت ختم ہوئے ایک زمانہ گزر گیا ہے، مغرب کے غلط حکیمانہ تصورات تعلیمِ نبوت کے اثر کو جو اب تک نوعِ انسانی کی نظریاتی اور روحانی صحت کا ضامن تھا، ختم کر رہے ہیں۔ ان غلط تصورات نے خطرناک نفسیاتی جراثیم کی طرح نوعِ انسانی کے شعور میں گھس کر ایک عالمگیر جسمانی وبائی مرض کی طرح ایک نفسیاتی یا نظریاتی وبائی مرض پیدا کر دیا ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب نوعِ انسانی اس مرض کی وجہ سے نظریاتی طور پر ہمیشہ کے لیے مردہ ہو جائے گی، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ زندگی کی رو جو درحقیقت خدا کے ارادہ کے عمل کا نام ہے، اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہے اور اُنہیں ضرور پا کر رہتی ہے۔ واللّٰہ غالب علی امرہ ولاکن اکثر الناس لایعلمون۔ (خدا اپنے مقصد پر غالب ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔) ارتقا کی پوری سرگزشت بتاتی ہے کہ بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی زندگی کے مقاصد میں حائل نہیں ہو سکتی۔ ذرا ان بے شمار خطرناک آسمانی حادثات اور ہولناک زمینی تباہیوں کو ذہن میںلایئے جن کا سامنا زندگی کو سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان سے لے کر آج تک کے مہذب انسان کے ظہور تک کرنا پڑا ہے، ہر آن یہ گمان ہوتا تھا کہ زندگی ہمیشہ کے لیے کرئہ ارض سے نیست و نابود ہو جائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا، خود غاروںکے اندر اور درختوں کے اوپر پناہ لینے والے کمزور، نہتے اور بے بس انسان کی نسل کا جنگلی درندوں کے لشکروںسے بچ نکلنا قدرت کا ایک معجزہ ہے جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ زندگی اپنے مقاصد کے حصول میں کسی سے شکست نہیں کھا سکتی۔ چونکہ نوعِ انسانی نے نہ صرف کرئہ ارض پر زندہ رہنا ہے بلکہ اپنے روحانی کمال کو بھی پہنچنا ہے۔ لہٰذا ممکن نہیں تھا کہ زندگی کی رَو عالمِ انسانی کے اس ہمہ گیر نظریاتی مرض کے خلاف کامیاب ردِّعمل نہ کرتی جو مغرب کے غلط تصورات نے پیدا کر دیا ہے۔ زندگی کا یہ ردِّعمل بھی برابر ترقی کرتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کرئہ ارض سے غلط تصورات کا زہر نیست و نابود ہو جائے اور نوعِ انسانی اپنی نظریاتی صحت کی طرف پوری طرح سے لوٹ آئے۔ زندگی کی رَو کا نہ ٹلنے والا تقاضا؟ یہ ہے کہ عالمِ انسانی نظریاتی موت سے بچ جائے اور صحت یاب ہو کر پھر ارتقا کی راہوں پر چل نکلے۔ اس وقت آدمِ خاکی حالتِ زوال میں ہے کیونکہ وہ غلط نظریات کے زیرِ اثر ارتقا کی راہوں سے ہٹ گیا ہے اور نہایت سرعت کے ساتھ پستی کی طرف لڑھکتا چلا جا رہا ہے، اسے فوری علاج کی ضرورت تھی، جو زندگی نے خود اپنے صحت بخش ردِّعمل کے ذریعہ سے اقبال کے فلسفیٔ خودی کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ ردِّعمل برابر بڑھتا اور ترقی کرتا چلا جائے اور اس سے پیدا ہونے والے صحت بخش مواد Bodies) (Anti جو اقبال کے سچے، معقول اور یقین افروز تصورات کی شکل میں ہیں، یہاں تک کہ ترقی کریں کہ انسانی سوسائٹی کے جہنم کے کونے کونے میں پھیل جائیں اور مضر اور مہلک تصورات کے اثر کو ناکام بنا دیں۔ لہٰذا نہ صرف یہ ضروری ہے کہ خود قدرت کے اپنے اہتمام کے ساتھ فلسفۂ اقبال کی پہلی مکمل اور منظم تشریح وجود میں آئے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تشریح متواتر ترقی اور توسیع پاتی رہے۔ یہاں تک کہ تمام نفسیاتی، حیاتیاتی اور طبیعیاتی حقائقِ علمی کو اپنے اندر جذب کر لے اور اپنی معقولیت کی کشش کی وجہ سے آخرکار پورے عالمِ انسانی کے شعور پر حاوی ہو جائے۔ اقبال کو بجا طور پر اس بات کا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ یہی سبب ہے کہ وہ کہتا ہے: پس از من شعر من خوانند و دریابند ومے گویند جہانے را دگرگوں کرد یک مردِ خود آگاہے حکمت اقبال، ادراہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، ۱۹۹۹ء اقبال کے مابعد الطبیعیاتی نظریات پروفیسر سعید احمد رفیق اخلاقیات، اخلاقی نصب العین کا علم اور اس کا مطالعہ ہے، لیکن اخلاقی نصب العین کی ماہیت معلوم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان کا اس کائنات اور اس کے خالق سے جو تعلق ہے اس کے متعلق ایک خاص نظریہ قائم کر لیا جائے۔ کیونکہ اس کے بغیر نہ انسان کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے اور نہ اس کے نصب العین کے متعلق ہم کسی خاص نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔ صداقت، قدر اور نصب العین ہمیں حقیقت کے مسئلہ سے دو چار کر دیتے ہیں۔ جب ہم اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں کہ انسان کی عملی زندگی کی قدر کا کیا معیار ہے اور اس زندگی کا کیا نصب العین ہونا چاہیے تو انسانی ہستی کی اصل حقیقت کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ تو خیر ممکن ہے کہ ما بعد الطبیعیات کے ان مسائل پر بحث کیے بغیر اخلاقیات کے مسائل پر کچھ بحث کی جا سکے لیکن آخر کار ان مسائل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ’’اخلاقیات کے ما بعد الطبیعیاتی مسائل پر بحث کرنا حقیقتاً خارجی سے باطنی، محور سے مرکز اور جزئیات سے کل کی طرف جانا ہے۔ اگر دنیا کے مسائل ایک خاص حد تک پہنچ کر ما بعد الطبیعیاتی مسائل بن جاتے ہیں تو بھلا اخلاقی مسائل مابعد الطبیعیات سے کیسے علیحدہ رہ سکتے ہیں۔ انسانی زندگی کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کی فطرت اور ماحول کو سمجھنا ضروری ہے۔ دوسرے انسانوں سے اس کے تعلقات، نظام قدرت میں اس کا مقام اور خدا سے اس کا تعلق معلوم ہونا چاہیے۔ انسان اور اس کی اخلاقی زندگی اس کائنات کا صرف ایک حصّہ ہے۔‘‘ اخلاقیات کا وسیع مطالعہ بغیر ما بعد الطبیعیات کی کم از کم ابتدائی معلومات کے، ممکن نہیں۔ اکثر اخلاقی مفکرین نظریہ کی بنیادیں اپنے ما بعد الطبیعیاتی نظریات پر استوار کرتے ہیں اور جب تک مفکرین کے ما بعد الطبیعیاتی نظریات پیش نظر نہ ہوں ان کے اخلاقی نظریات کو سمجھنا آسان نہیں۔ یہاں اقبال کے تمام ما بعد الطبیعیاتی نظریات سے بحث نہ ممکن ہے اور نہ احسن، بہرحال ان کے نظریات پر اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے جن پر اقبال نے اپنے اخلاقی نظریہ کی بنیادیں رکھی ہیں اور یہ نظریات متعلق ہیں توحید، رسالت، حیات بعد الممات اور آزادیِ ارادہ سے ۔ مشہور جرمن مفکر کانٹ نے اخلاقیات کے تین مفروضے لازمی قرار دیے ہیں۔۔۔۔۔ وجود باری تعالیٰ، حیات بعد الممات اور آزادیِ ارادہ۔ اس کے نزدیک ’عقل محض‘ کی بنا پر ان تینوں باتوں کو ثابت کرنا یا ان سے انکار کرنا ناممکن ہے۔ لیکن ’عملی عقل‘ انھیں ماننے پر مجبور ہے کیونکہ ان کے بغیر اخلاقیات کی بنیاد مستحکم ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ اپنے نظریۂ اخلاقیات میں ان تینوں چیزوں کے اس پہلو سے بحث ہی نہیں کرتا کہ یہ موجود ہیں یا نہیں، وہ انھیں مفروضات کے طور پر مان لیتا ہے تاکہ اخلاق کی بنیادیں مضبوط کی جا سکیں۔ ان تینوں میں کانٹ کے نزدیک سب سے ضروری مفروضہ آزادیٔ ارادہ ہے کہ اس کے بغیر اخلاق کا وجود ممکن ہی نہیں۔ انگریز مفکر سجوک ان تین مفروضات میں سے صرف دو کو مفروضہ کے طور پر مانتا ہے۔ اول وجود باری تعالیٰ اور دوم حیات بعد الممات۔ کانٹ کی پیروی میں وہ بھی ان دونوں مفروضوں کا کوئی عقلی ثبوت پیش نہیں کرتا بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ اس موجودہ دنیا میں، محبت نفس اور عام فلاح و بہبود میں اختلاف ممکن ہے۔ اس لیے کوئی ایسی دنیا ہونی چاہیے جہاں ان دونوں میں انصاف کیا جا سکے اور کوئی ایسا منصف بھی ہونا چاہیے جو ان میں انصاف کر سکے۔ ڈاکٹر اقبال کے نظریۂ اخلاق میں بھی یہ تینوں چیزیں موجود ہیں لیکن مفروضات کے طور پر نہیں بلکہ ان کے نظریہ میں ان کی حیثیت بنیادی ہے۔ وہ زندگی کے صرف ایک شعبہ یعنی اخلاق کے لیے ہی وجود باری تعالیٰ پر ایمان کو ضروری نہیں سمجھتے بلکہ تمام زندگی اور اس کے ہر پہلو کے لیے۔ ان کے لحاظ سے زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اس ایمان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ توحید: یہاں اقبال کے نظریۂ توحید پر مفصل بحث کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنی بحث کو صرف اس حد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جس کا تعلق براہ راست اخلاقیات اور انسان کی اخلاقی زندگی سے ہے۔ اسلام میں توحید کی بنیادی حیثیت ہے۔ یہ صرف ایک مابعد الطبیعیاتی مسئلہ نہیں بلکہ زندگی کا صحیح اور واحد رہنما ہے: زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے؟ فقط اک مسئلہِ علم کلام! ــــــــــــ قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاعِ کردار بحث میں آتا ہے جب فلسفۂ ذات و صفات توحید کا صرف زبان سے اقرار کر لینا کافی نہیں۔ تصدیق با لقلب کی بھی ضرورت ہے: تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لَا اِلٰہ اِلاّ لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی وہ دل کی گواہی کہ انسان کے رگ و پے میں یہ عقیدہ سرایت کر جائے۔ اس کی تمام زندگی اس رنگ میں رنگ جائے۔ سوتے جاگتے اس کا خیال رہے۔ ہر وقت اس کی رضا کا دھیان رہے۔ صرف اس کے احکامات پر عمل پیرا ہو۔ تصدیق بالقلب اس وقت تک مستحکم ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ انسان اس کے مطابق عمل پیرا نہ ہو: آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام ’’قرآن کی نظروں میں توحید محض ایک عقیدہ نہیں، محض ایک شعور عقلی نہیں جس میں جذبات اور احساسات شریک نہ ہوں، ایک ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہیں۔ آنکھ انھیں دیکھتی ہے اور عقل یہ بات قبول کر لیتی ہے۔ یہ ایک شعور عقلی ہے۔ احساس، جوش، جذبات سے مبرا۔ لیکن وہ توحید جس پر قرآن زور دیتا ہے، محض شعور عقلی نہیں، محض یہی اقرار نہیں کہ خدا ایک ہے اور دو تین یا کم و بیش نہیں۔ توحید ماننے کو اقرار یا اعتقاد نہیں کہا گیا بلکہ ایمان کے لفظ خاص سے واضح کیا ہے۔ جو شخص توحید پر قرآنی معنوں میں ایمان رکھتا ہے وہ صرف یہی نہیں مانتا کہ خدا ایک ہے بلکہ اس کا ایمان ہے یعنی اس کا دل مانتا ہے اور اس کی زندگی اس احساس کی تفسیر ہوتی ہے کہ اس ذاتِ واحد کے سوا کوئی چیز قابلِ پرستش نہیں۔ اس کے سوا کوئی طاقت نہیں، انسانی یا غیر انسانی جس کے آگے سر جھکایا جائے یا جس سے ڈرا جائے یا جس کی مدد مانگی جائے۔ اسی ذاتِ واحد سے رشتہ جوڑنا چاہیے، اسی کے احکام کی تعمیل کرنی چاہیے، اسی سے مدد مانگنی چاہیے، اسی کی مرضی پر شاکر رہنا چاہیے اور اسی کے احکام کے مطابق اپنی زندگی بنانی چاہیے۔ یہ ہے ’’اسلام‘‘ اور جس شخص کا ذاتِ واحد سے یہ رشتہ ہو، وہ ہے ’’مسلم‘‘(۱)۔ مسلم کے لیے ذاتِ باری تعالیٰ ہی اصل پناہ گاہ ہے۔ جب انسان دنیا کی مصیبتوں سے پریشان ہو جاتا ہے، ہر طرف سے نا امید ہو جاتا ہے، امان کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تو وہ ذات باری تعالیٰ کا سہارا لیتا ہے اور اپنا مطلوب و مقصود حاصل کر لیتا ہے: نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبح گاہی اماں شاید ملے اللہ ہو میں! توحید انسانی زندگی کا مرکز ہے اور اس کے بغیر انسانی انا کی توسیع اور استحکام ممکن نہیں۔ اصل حقیقت صرف وہ ہے اور باقی سب حلقۂ دام خیال ہے۔ ضربِ کلیم کی نظم لاالـہ الا اللہ میں اقبال نے اس خیال کو کس قدر پر جوش انداز میں پیش کیا ہے: خودی کا سّرِ نہاں لا الـہٰ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں لا الـہٰ الا اللہ یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الـہٰ الا اللہ کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا فریب سود و زیاں! لا الـہٰ الا اللہ یہ مال و دولت دنیا یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں! لا الـہٰ الا اللہ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری نہ ہے زماں نہ مکاں! لا الـہٰ الا اللہ یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کر خزاں لا الـہٰ الا اللہ اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکمِ اذاں لا الـہِٰ الا اللہ یہ توحید ہی ہے جو انسان کو ام الخبائث اور امراض خبیثہ، یاس و حزن و خوف سے نجات دلاتی ہے، جواسے عملی زندگی میں آگے بڑھاتی اور اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے۔ یہ ایمان ہے یقین محکم ہے جو عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کی راہیں ہموار کرتا ہے، جو انسان کو خودی کی اس اعلیٰ منزل تک لے جاتا ہے کہ آفاق اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ دنیا کی ہر قوت اس کے سامنے سرنگوں ہو جاتی ہے اور وہ کسی کے آگے سرنگوں نہیں ہو سکتا۔ یہ جذبۂ صادق شہنشاہ چین ہیون سانگ کے سامنے مسلم سفیر اور اس کے ساتھیوں کو سر جھکانے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ صرف زبان سے نہ کہتے تھے بلکہ دل سے اس پر یقین رکھتے تھے اور اسی اصول پر عمل پیرا تھے کہ ’’ہم خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘‘ پیش فرعونے سرش افگندہ نیست ماسوا اللہ را مسلماں بندہ نیست یہ ایمان ہے جو خوف باطل اور حب غیر اللہ سے انسان کو بے نیاز کر دیتا ہے۔ یہ جذبۂ توحید ہے جوانسان کو دنیا کی امامت سپرد کر دیتا ہے: خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زباں تو ہے یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے مکاں فانی مکیں آنی ازل تیرا ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے! حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا تری نسبت براہیمی ہے معمارِ جہاں تو ہے تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا رسالت: توحید کے ساتھ ساتھ اقبال رسالت پر بھی ایمان کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ اسلام کے ارکان اساسی دو ہیں۔ توحید اور رسالت۔ توحید تک ہم صرف رسالت کی وساطت سے پہنچے ہیں۔ اگر رسالت کا وسیلہ نہ ہو تو توحید تک پہنچنا نا ممکن ہے: در آں دریا کہ اورا ساحلے نیست دلیلِ عاشقاں غیر از دلے نیست تو فرمودی رہِ بطحا گرفیتم وگرنہ جز تو مارا منزلے نیست ــــــــــــ بچشمِ من نگہ آوردۂ تست فروغِ لا الـہٰ آوردۂ تست! دوچارم کن بہ صبحِ من ر آنی، شبم را تابِ مہ آوردۂ تست! اسلام ایک مکمل دین ہے، ایک نظام زندگی ہے، معاشرے کے قیام اور استحکام کے اصولوں کا مجموعی نام ہے۔ اس معاشرے کے وجود کا انحصار رسولِ اقدسؐ کی ذات مبارک پر ہے، اور یہی وہ ہستیِ کامل ہے جس نے منتشر افراد کے بے ربط گروہ کو ایک منظم ملت بنا دیا’’ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسولِ کریمؐ کی شخصیت کا مرہونِ منت ہے(۲)۔‘‘ رموز بیخودی میں اس کے متعلق ارشاد ہوتا ہے: حق تعالیٰ پیکرِ ما آفرید وز رسالت در تنِ ما جاں ومید حرفِ بے صوت اندریں عالم بدیم از رسالت مصرع موزوں شدیم از رسالت در جہاں تکوینِ ما از رسالت دینِ ما آئینِ ما آں کہ شانِ اوست یھدی مَن یُّرید از رسالت حلقہ گردِ ما کشید ــــــــــــ از رسالت ہم نوا گشیتمِ ما ہم نفس ہم مدعا گشیتم ما کثرت ہم مدعا وحدت شود پختہ چوں وحدت شود ملت شود زندہ ہر کثرت ز بندِ وحدت است وحدتِ مسلم ز دینِ فطرت است ــــــــــــ رسالت پر ایمان کا مطلب صرف یہ نہیں کہ رسول کریمؐ کو رسولؐ اللہ مان لیا جائے، بلکہ اس کا اصل مطلب رسول کریمؐ کو نبیِ آخر ماننا ہے، اس بات پر ایمان لانا ہے کہ رسول کریمؐ آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی کسی حیثیت سے کسی معنی میں اور کبھی بھی کہیں بھی ظہور نہیں ہو گا، نبوت ختم ہو چکی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی ہے، نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے، اس پر مہر لگ چکی ہے، اب کسی نبی کی ضرورت ہی نہیں، انسان کو جن بنیادی اور اساسی اصولوں کی ضرورت تھی وہ تمام کے تمام وحی کے طور پر رسول کریمؐ پر نازل فرما دیے گیے ہیں، انسان اور انسانیت کو وہ راہِ مستقیم دکھا دی گئی ہے جس کے بعد کسی اور راہ، کسی اور روشنی، کسی اور نبی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی’’ختم نبوت ۔۔۔ کے معنی بالکل سلیس ہیں۔ محمد صلعم کے بعد جنھوں نے انپے پیروئوں کو ایسا قانون عطا کر کے جو ضمیر انسان کی گہرائیوں سے ظہور پذیر ہوتا ہے، آزادی کا راستہ دکھا دیا ہے۔ کسی اور انسانی ہستی کے آگے روحانی حیثیت سے سر نیا زخم نہ کیا جائے۔ دینیاتی نقطۂ نظر سے اس نظریہ کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ اجتماعی اور سیاسی تنظیم جسے اسلام کہتے ہیں مکمل اور ابدی ہے۔ محمد صلعم کے بعد کسی ایسے الہام کا امکان ہی نہیں ہے جس کا انکار کفر کو مستلزم ہو۔ جو شخص ایسے الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ اسلام سے غداری کرتا ہے‘‘ رسول کریمؐ کو صرف نبی ماننا کافی نہیں۔ اصل چیز تو رسول کریمؐ کی ختم رسالت پر ایمان ہے۔ ملت اسلامیہ میں داخل ہونے کے لیے بنیادی طور پر دو چیزوں پر ایمان ضروری ہے۔ ان دو ارکان اساسی پر ایمان ایک شخص کو ملت اسلامیہ میں داخل کر دیتا ہے اور اسے کوئی شخص بھی دائرہ اسلام سے خارج نہیں کر سکتا ’’جب تک کوئی شخص اسلام کے دو بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتا ہے یعنی توحید اور ختم نبوت تو اس کو ایک راسخ العقیدہ ملا بھی اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں کر سکتا۔ خواہ فقہ اور آیات قرآنی کی تاویلات میں وہ کتنی ہی غلطیاں کرے۔‘‘ رسالت پر ایمان کا مطلب ہی ختم رسالت پر ایمان ہے۔ ’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے جس کے حدود مقرر ہیں یعنی وحدتِ الوہیت پر ایمان، انبیا پر ایمان اور رسولؐ کریم کی ختم رسالت پر ایمان۔دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیر مسلم کے درمیان وجہِ امتیاز ہے اور اس امر کے لیے فیصلہ کن ہے کہ فرد یا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریمؐ کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں لیکن انھیں ملتِ اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیا کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریمؐ کی ختم نبوت کو نہیں مانتے(۵)۔ ڈاکٹر اقبال پنڈت جواہر لال نہرو کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اسلام کا سیدھا سادہ مذہب دو قضایا پر مبنی ہے۔ خدا ایک ہے اور محمد صلعم اس سلسلۂ انبیاء کے آخری نبی ہیں جو وقتاً فوقتاً ہر ملک اور ہر زمانے میں اس غرض سے مبعوث ہوئے تھے کہ نوع انساں کی رہنمائی صحیح طرز زندگی کی طرف کریں(۶)۔ پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولِؐ ما رسالت ختم کرد رونق از ما محفلِ ایام را او رسل را ختم و ما اقوام را خدمتِ ساقی گری با ما گزاشت داد مارا آخریں جامے کہ داشت لَا نَبّیِ بَعدی ز احسانِ خداست پردہ ٔ ناموسِ دینِ مصطفیٰؐ است قوم را سرمایۂ قوت ازو حفظِ سّر وحدتِ ملت ازو حق تعالیٰ نقشِ ہر دعویٰ شکست تا ابد اسلام را شیرازہ بست دل ز غیر اللہ مسلماں بر کند نعرۂ لَا قومَ بَعدِی می زند ــــــــــــ اقبال کے خیال میں حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ وجدان اور عشق ہے نہ کہ صرف علم اور فکر۔ یہ وجدان ایک عام شخص کا بھی ہو سکتا ہے اور خاص افراد کا بھی۔ ہر فرد کے وجدان پر اخلاق جیسے ضروری شعبۂ زندگی کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی۔ اس کے لیے وہ صرف رسول اقدسؐ کے وجدان (وحی) کو صحیح رہنما تسلیم کرتے ہیں اور اس بنا پر رسالت پر ایمان کو ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر انسان صحیح راہ پر نہیں چل سکتا: کشودم پردۂ ازروئے تقدیر مشو نومید و راہِ مصطفیٰ گیر اگر باور نداری آنچہ گفتم زدیں بگریز و مرگِ کافرے میر ــــــــــــ مقامِ خویش اگر خواہی دریں دیر بحق دل بند و راہِ مصطفیٰ رو! ــــــــــــ مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ رسول اقدسؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ صرف یہی راہِ مستقیم ہے۔ منزل مقصود تک صرف یہ ایک راستہ لے جا سکتا ہے۔ مسلمان کو نہ کسی اور رہبر کی ضرورت ہے اور نہ کسی اور راہ کی۔ اخلاقی طور پر بلند ہونے کے لیے رسول اللہ کی پیروی لازمی اور ضروری ہے۔ اس کے سوا اور کوئی طریقہ ممکن ہی نہیں۔ جس نے یہ راستہ چھوڑا وہ راہِ زندگی میں گمراہ ہوا اور جو اس راہ پر سیدھا چلا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ گیا: بکوئے تو گدازِ یک نوا بس مرا ایں ابتدا، ایں انتہا بس خرابِ جرأت آں رندِ پاکم خدا را گفت مارا مصطفیٰ بس! ــــــــــــ معنی حرفم کنی تحقیق اگر بنگری بادیدۂ صدیق اگر قوتِ قلب و جگر گردد نبیؐ از خدا محبوب تر گردد نبیؐ صرف نظریات کسی شخص میں وہ ذوقِ عمل پیدا نہیں کر سکتے جو ایک ’مرد کامل‘ کی مثال کو سامنے رکھ کر اس کی تقلید کا جذبہ پیدا کر سکتا ہے۔ اقبال کے لحاظ سے رسول اقدسؐ کی ذات وہ جامع صفات ہے جو انسان کے لیے بہترین اور مثالی نمونہ بن سکتی ہے۔ اس مثالی نمونہ سے جذباتی لگاؤ پیدا کرنے کے لیے بھی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس ’ہستیٔ کامل‘ سے حقیقی محبت انسان کی خودی کو مستحکم کر سکتی ہے اور اس کی پیروی خودی کو اعلیٰ منازل تک لے جا سکتی ہے: کیمیا پیدا کن از مشتِ گلے بوسہ زن بر آستانِ کاملے ہست معشوقے نہاں اندر ولت چشم اگر واری بیا بنمائمت عاشقانِ او ز خوباں خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر دل ز عشقِ او توانا مے شود خاک ہمدوش ثریا مے شود خاکِ نجد از فیضِ او چالاک شد آمد اندر وجد و بر افلاک شد در دلِ مسلم مقامِ مصطفیٰؐ است آبروئے ما ز نامِ مصطفیٰؐ است ــــــــــــ ’’میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو، وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے، چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوۂ رسولؐ کو مد نظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے …… دنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیلِ اخلاق ہے۔ چنانچہ حضورؐنے فرمایا ’بعثت لا تتمم مکارم الاخلاق‘ یعنی میں نہایت اعلیٰ اخلاق کے اتمام کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اس لیے علما کا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ صلّعم کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کیا کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوۂ حسنہ کی تقلید سے خوشگوار ہو جائے اور اتباعِ سنّت زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری ہو جائے(۷)‘‘۔ آزادیٔ ارادہ: عرض کیا جا چکا ہے کہ کانٹ آزادیٔ ارادہ اور حیات بعد الممات کو اخلاقیات کے مفروضے قرار دیتا ہے لیکن زندگی کے اس قدر اہم، بلکہ سب سے اہم پہلو کی بنیادیں صرف مفروضات پر قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بنیادیں بالکل کمزور کر دی جائیں۔ یہ مفروضات ’عملی عقل‘ کی ضرورتیں ہیں کہ نہ حقیقت۔ اور جب تک ’عقل محض‘ ان کی حقیقت کو نہ مان لے، علمی طور پر ان کی کوئی وقعت نہیں۔ ڈاکٹر اقبال حیات بعد الممات اور آزادیٔ ارادہ کو اخلاقیات کے مفروضات قرار نہیں دیتے بلکہ انہیں اعلیٰ اخلاق کا انعام تصور کرتے ہیں۔ آزادیٔ ارادہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی بحث بہت قدیم ہے، لیکن روسو کے ان الفاظ نے کہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر وہ ہر کہیں پابہ زنجیر ہے۔‘‘ موجودہ دور میں ایک بار پھر اس بحث کو تازہ کر دیا ہے۔ رو سونے یہ بات محض سیاسی حالات کے پیش نظر کہی تھی لیکن مابعد الطبیعیاتی مفکرین نے انسان کو آزاد اور با اختیار ثابت کرنے کی دو خاص وجوہ کی بنا پر دوبارہ کوشش کی۔ ایک تو یہ کہ مابعد الطبیعیاتی مفہوم میں انسان کو بااختیار ثابت کیے بغیر اسے سیاسی اور اخلاقی طور پر آزاد ثابت کرنا نہ صرف لا حاصل بلکہ نا ممکن ہے۔ دوسرے یہ کہ سائنس کے ترقی کرنے، مسئلہ جبر) (Determinism کے اہمیت پکڑنے اور خاص کر علت و معلول (Law of Causation) اور یکسانیت فطرت (Uniformity of Nature) کے قوانین سے مفکرین کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی اور انھوں نے انسان کو بااختیار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ فلسفۂ جدید میں روسو سے پہلے سپنوزا اور لیبنیز نے تو انسان کو خود مختار قرار دیا مگر ہیوم نے اسے مجبورمحض بنایا۔ کانٹ اس دور کا پہلا مفکر ہے جس نے انسان کو بااختیار قرار دیا۔ وہ اختیاریّت کا بڑا زبردست حامی تھا لیکن منطقی طور پر اس کے نظریے میں یہ خامی ہے کہ وہ اسے بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی طرح بھی ثابت نہیں کرتا بلکہ اس کی بنیاد محض شہادت ضمیر وغیرہ پر رکھتا ہے اور اگر اس سلسلے میں کچھ کہتا بھی ہے تو یہ کہ اگر آزادیٔ ارادہ کو عقلی استدلال سے ثابت کر دیا جائے تو وہ اختیاریّت نہ رہے گی جبریّت ہو جائے گی، کیونکہ جن علل کی بنا پر اختیاریّت کو ثابت کیا جائے گا (حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں) تو اختیارات یعنی آزادیٔ ارادہ ان ہی کے ماتحت ہو جائے گی اور اس طرح جبریت بن جائے گی۔ فشٹے بھی اختیاریّت کا مسلک اختیار کرتا ہے اور کانٹ کی پیروی کرتے ہوئے اس کے ثبوت میں صرف شہادتِ ضمیر کو پیش کرتا ہے۔ شو پنہار اختیاریت اور جبریت کے اختلاف کو ’’فیصلہ اول‘‘ کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے خیال میں ہر شخص نے ازل میں آزادانہ طور پر اپنا مقصد متعین کر لیا تھا اور موجودہ زندگی میں اس کے افعال اسی کے ماتحت ہیں۔ شوپنہار کے ’’فیصلہ اول‘‘ کو قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ اس فیصلہ کے وقت (اگر اس فیصلہ کو حقیقت مان بھی لیا جائے) انسانی شعور کا وجود ثابت کرنا نا ممکن ہے اور شعور کے بغیر آزاد ارادہ بے معنی ہے۔ ہیگل کو زیادہ سے زیادہ مختاریت کا دعویدار قرار دیا جا سکتا ہے لیکن وہ عملی زندگی میں فرد کو اس طرح ریاست کے ماتحت کرتا ہے کہ فرد آزادیٔ رائے اور آزادیٔ ارادہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ نطشے اپنے نظریہ ’’جہد للقوۃ‘‘ کے باوجود جبریت کا قائل ہے۔ اس نے انسان کو ارادہ اور افعال کے معاملے میں مجبور قرار دیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان نہ اپنے افعال کا ذمہ دار ہے، نہ اپنے رویہّ کا۔ اس کے خیال میں انسانی افعال کا ماخذ تاریک ماضی (وراثت) اور پر اسرار حال (ماحول) میں مخفی ہے۔ مارکس بھی معاشی میدان میں، جو اس کا اصل میدان ہے، جبریت کا قائل ہے اور انسان کو ماحول (اور ماحول بھی معاشی) کا غلام سمجھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی کے قریب قریب پورے دور میں جبریت کا وہ زور تھا کہ کسی مفکر کو جبریت کا مسلک چھوڑ کر اختیاریت اختیار کرنے کی ہمت ہی نہ ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ہر مفکر علت و معلول اور یکسانیتِ فطرت کے قوانین پر ایمان بالغیب لے آتا جس کے بعد اسے جبریت کا قائل ہونا پڑتا۔ انیسویں صدی کے آخر میں جب جیمز اور برگساں نے جبریت کو ٹھکرا کر اختیارات کا عقیدہ پھیلانا شروع کیا تو علمی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ تمام طبعی علوم کی بنیادیں ان ہی دونوں قوانین پر ہیں، اگر ان بنیادوں کو کمزور کر دیا جائے تو ان علوم کا استحکام معلوم! جیمز قانونِ علت و معلول کو ’’نا معلوم خدا کے سامنے اظہارِ عبودیت‘‘ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے۔ اس کے نزدیک نظامِ عالم اس قدر سخت اور بے لچک نہیں کہ اس میں کبھی کوئی واقعہ بغیر علت کے وقوع پذیر نہ ہو سکے۔ جیمز کے خیال میں دنیا کے ہر واقعے کی تشریح اسی ایک قانون کے ذریعے نہیں کی جا سکتی۔ انسانی افعال پر ماحول، وراثت، تعلیم و تربیت، معاشی ضروریات، سیاسی مجبوریوں اور انسان کی انفرادی خصلتوں، عادتوں، کردار، نیت اور ارادے وغیرہ کا بھی اثر پڑتا ہے۔ نہ صرف اثر پڑتا ہے بلکہ انسانی افعال اکثر ان ہی کے معلول ہوتے ہیں، لیکن اگر انسان چاہے تو وہ ان کے اثرات سے محفوظ رہ کر آزادانہ طور پر بھی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن جیمز بھی کانٹ کی طرح اس اختیار اور آزادی کو ثابت نہیں کرتا بلکہ صرف انسانی شعور کو شہادت کے طور پر پیش کر دیتا ہے۔ اس کے نزدیک چونکہ ہمیں اس بات کا شعور ہے کہ ہم آزادانہ طور پر کسی کام کو انجام دے سکتے ہیں (گو ہم ہمیشہ ایسا نہیں کرتے) اس لیے ہم بااختیار اور آزاد ہیں۔ جیمز کے مطالعے کے بعد انسان اپنے آپ کو بااختیار اور آزاد سمجھنے لگتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ جیمز اپنے موقف کو دلائل سے ثابت نہیں کر سکتا۔ جیمز کے بر خلاف برگسان بڑے فلسفیانہ انداز سے اس مسئلے پر بحث کرتا ہے اور باقاعدہ دلائل دے کر اپنے مؤقف کوثابت بھی کرتا ہے۔ اس کے نزدیک آزادی کی حقیقت کا ایک لازمی اور ضروری جزو ہے اور اس عالم کی بنیادی حقیقت وہ نفسیاتی زندگی ہے جو خود کو مجاز کے پس پردہ ظاہر کر رہی ہے۔ یہ زندگی زمان سے مربوط ہے، اس لیے زمان ایک امر واقعہ ہے۔ نہ صرف امرِ واقعہ بلکہ تمام حقیقتوں کی اصل حقیقت۔ برگسان، دوران اور زمان کو ہم معنیٰ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک دوران کا مطلب ہے ’’اختراع، ایجاد اور کسی ایجاد کی تفصیلات کو اتمام تک پہنچانا‘‘ اور یہ اختیار اور آزادی کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس لیے نفسیاتی زندگی کا اصل جوہر اختیار ہے جس کے بغیر انسانی زندگی نفسیاتی زندگی کہلانے کی مستحق ہی نہیں۔ زندگی بہ ذاتِ خود آزادی، خود روی، رد و بدل، اور تخلیق ہے۔ اسی بنا پر اس کا میدانِ عمل واقعات کی تخلیق ہے نہ کہ صرف ظہور پذیری۔ اس لیے علت و معلول کا قانون اس پر عائد نہیں کیا جا سکتا۔ نفسیاتی زندگی میں کوئی واقعہ پیش نہیں آتا بلکہ ہر واقعہ تخلیق کیا جاتا ہے۔ یوں نفسیاتی زندگی قانونِ علت و معلول کے حلقۂ اثر سے کلیتاً آزاد ہے۔ یہ قانون اگر کہیں اثر انداز ہوتا ہے تو وہ طبعی زندگی ہے نہ کہ نفسیاتی۔ لیکن انسانی زندگی حقیقتاً نفسیاتی زندگی اور طبعی زندگی کا امتزاج ہے۔ انسانی ارادہ تخلیق کی سعی کرتا ہے۔ مادہ اس کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ اسی طرح زندگی نام ہے اختیار (ارادہ) اور جبر (مادہ) کی کش مکش کا۔ ارتقا اسی کش مکش کا نتیجہ ہے۔ ارتقا کی منازل طے کرنے کا مطلب ہے ارادے کا مادے کو زیادہ سے زیادہ اپنے ماتحت لانا اور خود کو مادے کے جبر سے آزاد کرنا۔ یوں تو یہ کش مکش نباتات اور حیوانات کی زندگی میں بھی جاری ہے لیکن نفسیاتی زندگی میں پوری طرح ظاہر ہے۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ نفسیاتی زندگی میں ارادہ مادے کو ہمیشہ زیر ہی کر لیتا ہے۔ بعض دفعہ وہ اس میں کامیاب ہوتا ہے اور بعض دفعہ ناکام۔ لیکن ناکامیابی کی صورت میں بھی ہم اس کی غیر موجودگی پر استدلال نہیں کر سکتے۔ اس کی موجودگی بہرحال مسلم ہے۔ غرض جیمز نے شعور کی شہادت پر انسان کو بااختیار ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس شہادت کو تحلیل نفسی کے نظریات لا شعور اور تحت الشعور کی بنا پر پوری طرح قبول کرنے میں پس و پیش ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس برگسان نے اس مسئلہ پر بالکل مختلف زاوئے سے نظر ڈالی اور اختیار اور آزادی کو زندگی کا جوہر قرار دے کر اس مسئلہ کی نوعیت ہی بدل ڈالی۔ اس کے نزدیک وہ زندگی حقیقی معنوں میں زندگی ہی نہیں جو بااختیار اور آزاد نہ ہو۔ بیسویں صدی میں خود سائنس ہی میں علت و معلول اور یکسانیتِ فطرت کے قوانین کو زیر بحث لانا شروع کر دیا گیا۔ ہائیز نبرگ نے ایک نیا اصول پیش کیا جسے وہ اصول غیر متعینیت (Principle of indeterminacy) کا نام دیتا ہے۔ ہائیز نبرگ کے نزدیک فطرت میں ہمیشہ یکسانیت نہیں ہوتی بلکہ بعض مرتبہ خودرویت (Spontaneity) بھی وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔ بعض دوسرے سائنسدان مثلاً پروفیسر برجمین بھی اسی اصول کو قبول کرتے ہیں۔ انھوں نے اسے اصول تذبذب (Principle of uncertainty) کا نام دیا ہے اور اپنے دعوے کو ایٹم کی آزادانہ حرکت سے ثابت کیا ہے۔ ایڈیگٹن اس اصول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’بنیادی طور پر یہ ایک زبردست اصول ہے جو بلحاظِ اہمیت نظریۂ اضافیت سے کسی طرح کم نہیں‘‘۔ برجمین کہتا ہے ’’یہ اصول ذہنی زندگی میں بہت سی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔‘‘ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ فلسفہ ہی نہیں سائنس میں بھی اختیارات کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کا نظریہ بھی فلسفہ اور سائنس کے اس ترقی کن اقدام سے بہت کچھ ملتا جلتا ہے۔ انھوں نے انسان کو بار بار اس امر کایقین دلایا ہے کہ وہ طبعی حالات کا محکوم نہیں ہے بلکہ طبعی حالات اس کے محکوم ہیں۔ محکوم ہی نہیں یہ اس کے تخلیق کردہ ہیں اور انسان نے آزادانہ طور پر ان کی تخلیق کی ہے: کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ــــــــــــ سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں ــــــــــــ کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق ــــــــــــ جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن ــــــــــــ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سّرِ آدم ہے ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی! ــــــــــــ ایں جہاں چیست صنم خانۂ پندارِ من است جلوۂ او گرو دیدۂ بیدارِ من است ہمہ آفاق کہ گیرم بہ نگاہے او را! حلقۂ ہست کہ از گردشِ پر کارِ من است ہستی و نیستی از دیدن و نا دیدنِ من چہ زمان و چہ مکاں، شوخیٔ افکارِ من است ــــــــــــ ڈاکٹر اقبال اپنے چوتھے لکچر ’انا‘ اس کی آزادی اور حیات بعد الموت، میں فرماتے ہیں ’’جب ہم دیکھتے ہیں کہ خودی کے اعمال و افعال میں ہدایت اور بامقصد ضبط و تصرف کے دو گونہ عناصر کارفرما ہیں تو یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں رہتا کہ وہ خود بھی ایک آزاد علیت ہے اور اس مطلق خودی کی آزادی و اختیار۔ علیٰ ہٰذا زندگی کی حصہ دار جس نے اگر ایک ایسی خودی کا صدور گوارا کیا جو اگرچہ متناہی ہے مگر ہدایت عمل کی اہل اور جس نے اس طرح خود اپنی آزادانہ مشیت پر ایک حد قائم کر لی تو اپنی مرضی سے۔ ہمارے شعوری کردار کی آزادی کی تائید قرآن مجید کے اس نظرییّ سے بھی ہو جاتی ہے جو اس نے خودی کے اعمال و افعال کے بارے میں قائم کیا۔ چنانچہ آیاتِ ذیل میں اس حقیقت کی طرف قطعی اشارہ موجود ہے: ترجمہ:۔ ’جو کوئی چاہے ایمان لائے اور جو کوئی چاہے کفر کرے‘ (۱۸:۲۹) ’اگر تم بھلائی کرو گے تو اپنی جانوں کے لیے اور اگر برائی کرو گے تو ان ہی کے واسطے‘ (۱۷:۷) اسی کے پیشِ نظر اقبال اسی لکچر میں فرماتے ہیں: ’’ایسی حالت میں جب میرے سامنے ایک سے زیادہ راہیں کھلی ہوئی ہوں خود خدا میرے لیے نہ محسوس کر سکتا ہے، نہ فیصلہ کر سکتا ہے، نہ انتخاب کر سکتا ہے‘‘ برگسان اور اس سے پہلے بعض دوسرے مفکرین نے انسان کو بااختیار ثابت تو کیا لیکن اسے عمل پر نہیں اکسایا۔ برگسان صرف اتنا کہتا ہے کہ کیونکہ آزادی نفسیاتی زندگی کا اصلی جوہر ہے جس کے بغیر زندگی نفسیاتی نہیں بن سکتی اس لیے انسان آزادی کے بغیر انسان ہی نہیں۔ وہ ہمارے دل میں آزادانہ طور پر عمل کی وہ لگن پیدا نہیں کرتا جس کی بنا پر ایک آدمی (Man)، ایک فرد (Person) بننے کی کوشش بھی کرے۔وہ نفسیاتی زندگی میں کچھ ایسی کشش پیدا نہیں کرتا کہ آدمی اس تک پہنچنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دے۔ اس کے بر خلاف علامہ اقبال اپنے شاعرانہ اعجاز سے اس زندگی کو کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ اس کے سامنے طبعی زندگی کچھ بے کیف معلوم ہوتی ہے اور وہ اس سے آزاد ہونے کی پوری جدوجہد کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک زندگی با اختیار اور آزاد نہیں ہے۔ اسے غیر خود بینی نا مناسب ماحول اور قدرت کے خلاف کش مکش کر کے آزادی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ فرماتے ہیں ’’زندگی کے ارتقا سے یہ بات صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ شروع میں ذہنی زندگی، طبعی زندگی کے ماتحت تھی لیکن جوں جوں ذہنی زندگی قوت حاصل کرتی گئی وہ طبعی زندگی پر حاوی آتی گئی اور کبھی نہ کبھی وہ مکمل اختیار اور آزادی کی منزل پر جا پہنچے گی۔‘‘یہ ذہنی زندگی اس وقت انسان میں ظہور پذیر ہے: ازل سے ہے یہ کش مکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر انسان میں اگرچہ اختیار اور آزادی موجود ہے لیکن بالقوۃ نہ کہ بالفعل۔ وہ اپنی اس قوت کو جستجو، عزم، ہمت، حوصلہ، جدوجہد اور عمل کے ذریعے حقیقت میں تبدیل کرتا ہے: آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی ’’انا کی زندگی حقیقتاً ایک قسم کی کشاکش ہے جو انا کے ماحول پر اور ماحول کے انا پر حملے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ انا اس میدانِ کارزار سے اپنے آپ کو باہر نہیں رکھتی، بلکہ وہ اس میں بحیثیت ایک انتظامی قوت موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات سے بنتی اور منظم ہوتی رہتی ہے۔‘‘ اسی طرح علامہ اقبال پانچویں لکچر میں فرماتے ہیں‘‘ فرد بنیادی طور پر جذبات اور جبلت کا محکوم ہوتا ہے۔ استخراجی استدلال جو فرد کو ماحول کا مالک بناتا ہے، بعد میں حاصل کیا جاتا ہے۔‘‘ علامہ اقبال نے ایک دفعہ فرمایا تھا ’’میں الحمرا کے ایوانوں میں جا بجا گھومتا پھرا، مگر جدھر نظر اٹھتی تھی دیوار پر ھُوْ الْغَالِبُ لکھا نظر آتا تھا۔ میں نے دل میں کہا یہاں تو ہر طرف خدا ہی خدا غالب ہے، کہیں انسان غالب نظر آئے تو بات بھی ہو۔‘‘ اقبال ہمیں انسان کے آزاد اور بااختیار ہونے کا کوئی بلا واسطہ ثبوت نہیں دیتے، تاہم یہ کہنا صحیح نہیں کہ وہ کسی قسم کا ثبوت دیے بغیر اس حقیقت کو ایک بدیہی اصول مان لیتے ہیں۔ وہ ہمیں اس بات کا بالواسطہ ثبوت دیتے ہیں کہ انسان آزاد اور بااختیار ہے۔ ڈیکارٹ نے انسان کے وجود کا ثبوت Cogito Ergo Sum کے ذریعے پیش کیا تھا کہ کیونکہ میں سوچتا ہوں اس لیے اس فعل کے فاعل کی موجودگی لازم ہے۔ پس میں ہوں۔ میگڈوگل اس میں یہ ترمیم کرتا ہے I Struggle So I Exist (کیونکہ میں جدوجہد کرتا ہوں۔ اس لیے میں موجود ہوں)۔ اقبال بھی آزاد اور بااختیار ہونے کا اسی قسم کا بالواسطہ ثبوت دیتے ہیں کہ چونکہ انسان جدوجہد اور کش مکش کر سکتا ہے، غیر خود کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنا سکتا ہے، ماحول کی گرفت سے آزاد ہو سکتا ہے، قانونِ عِلّت و معلول کے پھندے سے اپنے آپ کو آزاد کر سکتا ہے، اس لیے وہ بالقوۃ آزاد اور بااختیار ہے۔ اگر وہ چاہے تو با لفعل با اختیار اور آزاد ہو سکتا ہے ، ذہنی زندگی کا مالک بن سکتا ہے، وگرنہ اس کی زندگی صرف طبعی زندگی بن کر رہ جائے گی، وہ آفاق میں گم ہو کر رہ جائے گا، آفاق کو اپنے اندر گم نہیں کر سکتا: تری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود مری نگاہ میں ثابت نہیں وجود ترا وجود کیا ہے! فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا حیات بعد الممات: بقائے روح اور حیات بعد الموت کا مسئلہ آزادیٔ ارادہ کے مسئلہ سے نہ صرف زیادہ قدیم ہے بلکہ زیادہ اہم بھی۔ وہ ایک نظری بحث ہے جو اگرچہ ہماری عملی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن نسبتاً کم۔ اس کے برخلاف حیات بعد الموت کے مسئلہ کا اثر ہماری زندگی پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس مسئلہ کی بحث میں اور کئی مسائل ہمارے سامنے آ جاتے ہیں جن کا اس مسئلہ اور ہماری زندگی سے براہِ راست تعلق ہے۔ مثلاً روح کیا ہے؟ اس کا جسم سے کیا تعلق ہے اور خدا سے کیا؟ کیا وہ جسم کے بغیر قائم اور موجودہ رہ سکتی ہے؟ اگر نہیں تو جسمانی موت کے بعد اس کا وجود کس طرح ممکن ہے اور کس صورت میں؟ کیا روح مختلف اجسام میں منتقل ہوتی رہتی ہے؟ جسمانی موت کے بعد وہ کہاں جاتی ہے؟ اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں جو حیات بعد الممات کے مسئلہ سے متعلق ہیں۔ غرض یہ مسئلہ مشکل بھی ہے اور اہم بھی اور مفکرین نے اس پر کافی غور و خوض کیا ہے۔ حیات بعد الموت کا مسئلہ نظری بھی ہے اور عملی بھی۔ جہاں تک اس کے مؤخر الذکر پہلو کا تعلق ہے، تقریباً تمام مذاہب میں اس کے متعلق کچھ نہ کچھ کہا گیا ہے۔ نظری پہلو پر مفکرین نے بحث کی ہے۔ یہ بحث ما بعد الطبیعیاتی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے کی گئی ہے۔ قدیم مفکرین افلاطون اور فلاطونیس انفرادی روح کی بقا کے قائل تھے اور ارسطو روحِ کل کی بقا کا۔ مسلم مفکرین فارابی اور ابن رشد ارسطو کی پیروی میں صرف روحِ کل کی بقا کے قائل تھے نہ کہ انفرادی روح کے۔ جہاں تک فلسفۂ جدید کا تعلق ہے اس میں اکثر مفکرین نہ روح کے قائل ہیں اور نہ حیات بعد الموت کے۔ ہوبز، ہیوم، کومت، نطشے، ڈیوی، روح اور حیات بعد الموت دونوں کے منکر ہیں۔ بیکن، لاک، برکلے، لوٹزے، ولیم جیمز روح اور حیات بعد الموت کو صرف عقیدہ کے طور پر مانتے ہیں۔ اسپنوزا اور شوپنہار انفرادی روح کی بقا کے قائل نہیں بلکہ صرف’روح کل‘ کو ابدی مانتے ہیں۔ انفرادی روح اگرچہ باقی رہتی ہے لیکن روح کل کے جزو کے طور پر اور اس طرح اس کی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح برگسان حیات کو ازلی اور ابدی مانتا ہے لیکن انفرادی زندگی کو نہیں بلکہ حیاتِ مطلق کو۔ کانٹ اور اس کی پیروی میں فشٹے اور سجوک اخلاقی بنیاد پر روح کی ابدیت کے قائل ہیں۔ کانٹ کے لحاظ سے اصل فضیلت خیر اور مسرت کے امتزاج میں مضمر ہے لیکن اس اعلیٰ فضیلت کا حصول صرف اس چند سالہ زندگی میں ممکن نہیں ،اس لیے اخلاقیات اس چیز کی مقتضی ہے کہ اس جسمانی موت کے بعد روح باقی رہے تاکہ وہ فضیلت کے اعلیٰ معیار تک پہنچ سکے۔ لیکن کیا خیر اور مسرت کا امتزاج ممکن ہے؟ اور اگر ممکن ہے تو کیا اخلاقی طور پر ضروری بھی ہے؟ بہرحال اگر ان دونوں باتوں کو فرض کر بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ نکتہ باقی رہ جاتا ہے کہ خیر و مسرت کا ایہ امتزاج کبھی نہ کبھی حاصل ہو ہی جائے گا اور پھراس امتزاج کے بعد روح کے زندہ رہنے کی کوئی وجہ جو از باقی نہیں رہتی، تو پھر روح کی ابدیت کو لازماً کیوں مانا جائے اور بقائے روح کو اخلاقیات کا مفروضہ کیوں قرار دیا جائے! جہاں تک صرف روح کل کی بقا کا تعلق ہے اقبال اس نظریے کو بھی قابلِ قبول نہیں سمجھتے۔ وہ انفرادی روح کی ابدیت کے قائل ہیں۔ ابن رشد کے نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے خطبہ اول میں فرماتے ہیں ’’ابن رشد نے جس نے یونانی فلسفہ کی زبردست حمایت کی، ارسطو کے زیر اثر وہ نظریہ پیش کیا جسے عقلِ فعال کی لا فانیت کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ یہی وہ نظریہ ہے جو فرانس اور اطالیہ کے ذہن پر زبردست طریقہ سے اثر انداز ہوا، لیکن میرے خیال میں یہ نظریہ اس نقطۂ نگاہ کے بالکل خلاف ہے جو قرآن کریم انسانی انا کی وقعت و منزلت کے متعلق پیش کرتا ہے۔ اس طرح ابن رشد کی آنکھوں سے اسلام کا ایک زبردست اور نہایت اہم اصول اوجھل ہو گیا اور اس کی وجہ سے اس نے ایک ایسے غلط فلسفۂ حیات کو فروغ دینے کی کوشش کی جس کے زیر اثر انسان نہ خود کو پہچان سکتا ہے نہ خدا کو اور نہ کائنات کو۔‘‘ اپنے چوتھے خطبے میں اس نظریہ پر ان الفاظ میں تنقید کرتے ہیں ’’تاریخ فلسفۂ اسلام میں ابن رشد نے بقائے روح کے مسئلہ پر خالصتاً ما بعد الطبیعیاتی نقطۂ نظر سے بحث کی ہے اور میرے خیال میں بغیر کسی خاص فائدے کے۔ اس نے حس اور عقل میں حد فاصل قائم کی ہے اور اس کی بنیاد قرآن کریم میں غالباً، نفس، اور ’روح‘ کے الفاظ پر رکھی ہے۔ ان الفاظ نے مسلم مفکرین میں سے اکثر کو غلط فہمی میں مبتلا کیا ہے کیونکہ ظاہری طور پر ان الفاظ سے انسان میں دو مختلف اصولوں کا تضاد معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال اگر ابن رشد کا یہ نظریہ، اس کے خیال میں، قرآن کریم پر مبنی ہے تو غالباً وہ غلط ہے…… ابن رشد کے لحاظ سے عقل جسم کا حصہ نہیں ہے۔ اس کی نوعیت مختلف ہے اور یہ شخصیت میں نفوذ کرتی ہے۔ اس لیے یہ واحد، کل اور ابدی حقیقت ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ کیونکہ ’عقل کل‘ شخصیت میں نفوذ کرتی ہے، اس لیے نفوس انسانی میں اس کا وجود صرف فریبِ نظر ہے۔ عقل کی ابدی وحدت کا مطلب (جیسا کہ رینان کا خیال ہے) انسانیت اور تہذیب کی بقا تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب انفرادی بقا ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘ غرض ڈاکٹر اقبال کو ابن رشد کے اس نظریہ پر دو اعتراضات ہیں۔ اول یہ کہ ابن رشد کے لحاظ سے انسانی انا کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اگر انفرادی انا، انائے مطلق کا صرف ایک جزو ہے تو فی الحقیقت نہ اس کا کوئی وجود باقی رہتا ہے اور نہ اس کی کوئی قدر و منزلت ہے۔ دوم یہ کہ ابن رشد کے نظریے کی رو سے انفرادی بقا روحِ انسانی کے بقا کی نفی ہوتی ہے۔ روحِ کل کی بقا مسلم ہے لیکن روحِ کل کی بقا انفرادی بقا کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اقبال بقائے روحِ انسانی کے قائل ہیں، لیکن وہ اسے نہ اخلاقی مفروضہ قرار دیتے ہیں اور نہ صرف اعتقاداً تسلیم کرتے ہیں، بلکہ آزادیٔ ارادہ کی طرح اسے بھی اعلیٰ اخلاق کا انعام تصور کرتے ہیں: نقطۂ نورے کہ نامِ او خودی است زیرِ خاکِ ما شرارِ زندگی است از محبت مے شود پائندہ تر زندہ تر، سوزندہ تر، تابندہ تر ــــــــــــ پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی ہے یہی اے بیخبر رازِ دوامِ زندگی آشکارا ہے یہ اپنی قوتِ تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی حیات بعد الممات کو پہلے وہ طبعی طور پر ممکن ثابت کرتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون ’’حیات بعد موت کا اسلامی نظریہ اور سائنس‘‘ میں وہ The Emergence of Life میں سے ایک طویل اقتباس پیش کرتے ہیں: ’’انسان کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا تصور یا نظریۂ حیات بعد موت مذہب کی تعلیمات کا ایک ایسا عنصر ہے جو سب سے زیادہ حیرت انگیز بلکہ میں کہوں گا نا قابلِ یقین راز ہے۔ مذہب عیسوی کے جو بنیادی عقیدے سب سے زیادہ حیران کن ہیں، ان ہی میں سے ایک یہ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائنسی دماغ کو یہ تصور محض واہمہ معلوم ہوتا ہے اور سائنس کے کسی طالب علم کو اس بات کا یقین تو آ ہی نہیں سکتا کہ اس کا جواز سائنس سے پیش کیا جا سکتا ہے لیکن زیر بحث موضوع کی روشنی میں مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تصور کو ممکنات اور عقلی عقیدوں کی صف سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔یہ بات خلافِ عقل تو معلوم ہوتی ہے (اگر ہم اس تصور کی ایک انتہائی عملی شکل یہ فرض کر لیں کہ ایک انسان جو کسی خندق میں بم پھٹنے سے پاش پاش ہو کر مر چکا ہے اس کا جسم جن جوہری ذرات سے مرکب تھا، وہ دوبارہ اس طرح مجتمع ہو سکتے ہیں کہ مذکورہ انسان پھر زندہ ہو جائے) لیکن جو موضوع اس وقت زیر بحث ہے اس کی روشنی میں وجود انسانی کے واحدے یا اکائیاں ان تمام واحدوں یا اکائیوں سے جو ان کے مادی ماحول کی حیات گاہ کا کام دے چکے ہیں، اس طاقت کے زیر عمل ہیں جس نے انہیں پہلے مجتمع کیا تھا تو اس میں کوئی چیز مزاحم نہیں ہو سکتی۔‘‘ اس اقتباس کے بعد ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں ’’مندرجہ بالا اقتباس سے یہ ظاہر ہے کہ کس طرح جدید سائنس اور فلسفے میں جوں جوں قطعیت پیدا ہوتی جاتی ہے، یہ دونوں بعض ایسے مذہبی عقیدوں کے نئے عقلی جو از مہیا کرتے جاتے ہیں جن کو اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں سائنس نے خلافِ عقل اور ناقابلِ یقین قرار دے کر رد کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ قارئین میں سے جو حضرات مسلمان ہیں ان کو اس اقتباس کا مطالعہ کرنے میں یہ بات بھی ضرور محسوس ہوئی ہو گی کہ ایک فرنگی مفکر نے حیات بعد ممات کے تصور کی حمایت میں جو دلیل دی ہے یہ قریب قریب وہی ہے جو قرآن مجید میں اب سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دنیا کے سامنے رکھی جا چکی ہے۔ پھر یہ بھی قابل غور ہے کہ حیاتِ بعد الممات کا یہ نظریہ خاص اسلامی نظریہ ہے۔ عیسائیوں میں حیات بعد موت کا جو تصور مذہبی عقائد کا جزو ہے، اس کی بنیاد حضرت عیسیٰ کے دوبارہ زندہ ہونے کے ایک مفروضہ واقعہ پر ہے۔ یعنی ایک تاریخی وقوع پر، جس کے متعلق یقین کیا جاتا ہے کہ دو ہزار برس پہلے ہوا تھا۔ مگر قرآن حکیم میں حیات بعد الممات کو زندہ اجسام کا ایک کلی خواص قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں جو دلیل اس بارے میں دی گئی ہے اس کی تلخیص اس طرح کی گئی ہے‘‘۔ اس کے بعد ڈاکٹر اقبال سورۃ الواقعہ کی آیات ۶۰ ۔ ۶۱ ۔ ۶۲ ۔ سورہ العنکبوت کی آیات ۱۹ ۔ ۲۰۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات ۵۹ ۔ ۶۱۔ سورۃ مریم کی آیات ۶۶ ۔ ۶۷ اور سورۃ الواقعہ کی آیات ۴۷ ۔ ۴۸۔ پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں ’’جیسا کہ قرآن کریم کی آیتوں سے ظاہر ہے قرآن حکیم نے انسانی حیات بعد موت کے جواز میں جو دلیل دی ہے اس کی اساس تاریخ کے کسی وقوع پر نہیں بلکہ ہر انسان کے ذاتی تجربے پر ہے۔ بعینہ یہی دلیل سائنس کی جدید تحقیق و تدقیق نے پیش کی ہے ا ور وہ یہ ہے کہ جس طرح پہلی دفعہ انسانی وجود کے واحدے یا اکائیاں یکجا ہو گئیں اور انسان پیدا ہوا، اسی طرح اس کی موت کے بعد ایک بار پھر وہی واحدے یکجا ہو کر اس کی دوبارہ تخلیق کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ مگر یا د رہے کہ یہ حیات بعد ممات آوا گون نہیں ہے۔ قرآن سائنس کے اس نظریے کی حمایت کرتا ہے کہ تمام زندگی ایک اقدامی حرکت ہے جس میں قدم پیچھے ہٹانے کا کوئی امکان ہی نہیں۔ اور اس نقطہ کی وضاحت اور ثبوت کے لیے وہ سورۃ المومنون کی آیات ۹۹ ۔ ۱۰۰ پیش کرتے ہیں۔ اس طویل اقتباس سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اقبال طبعی طور پر حیات بعد الموت کو ممکن خیال کرتے ہیں۔ وہ اس ضمن میں مابعد الطبیعیاتی دلائل پیش نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں مابعد الطبیعیاتی طور پر اسے ثابت کیا ہی نہیں جا سکتا ’’حیات بعد الموت کی حمایت میں صرف مابعد الطبیعیاتی دلائل سے کام نہیں چل سکتا۔ ما بعد الطبیعیاتی دلائل سے دل کی تشفی نہیں ہوتی۔ نہ یہ کہ ان سے ہمارے دل میں اطمینان اور اعتماد کی کیفیت پیدا ہو(۸)۔‘‘ بعینہٖ یہ بھی ایک قدرتی امر تھا۔ علیٰ ہذا قرآن مجید کی روح کے عین مطابق کہ رومی بقائے دوام کے مسئلے کو ارتقائے حیات ہی کا ایک مسئلہ ٹھہراتا، کیونکہ ہم اس کا فیصلہ صرف مابعد الطبیعیاتی دلائل کی بنا پر نہیں کر سکتے جیسا کہ بعض فلاسفۂ اسلام کا خیال تھا(۹)۔‘‘ حیات بعد الموت ممکن الوقوع ہے نہ کہ لازمی اور ضروری۔ اس ممکن الوقوع شے کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے فرد کو جدوجہد کرتی پڑتی ہے۔ بغیر جدوجہد اور عمل کے نہ خودی کا استحکام ممکن ہے اور نہ حیات بعد الموت۔‘‘ قرآن پاک کی رو سے یہ عین ممکن ہے کہ ہم انسانی کائنات کے مقصود و مدعا میں حصہ لیتے ہوئے غیر فانی ہو جائیں (۷۵:۳۶ ۔ ۴۰) …… لیکن وہ کائنات کے مقصود و مدعا میں شریک ہو گی تو ایک روز افزوں خودی کی حیثیت سے (۹۱: ۷۔۱۰) مگر پھر روح میں افزونی پیدا ہو گی تو کس طرح اور یہ کیسے ہو گا کہ وہ فساد اور ہلاکت سے محفوظ رہے؟ اس کا جواب ہے عمل سے : ۶۷ : ۲۔ گویا زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں اور جس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تاکہ وہ دیکھ سکے اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ لـہذا یہ امر کہ خودی فنا ہو جائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے، عمل پر موقوف ہے اور اس لیے خودی کو برقرار رکھیں گے تو وہی اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیاز من و تو خودی کا احترام کریں۔ لـہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دارو مدار ہماری مسلسل جدو جہد پر ہے۔ بالفاظ دیگر ہم اس کے امیدوار ہیں …… اندریں صورت بھی یہ ممکن ہے کہ بعض بدقسمت انسان اپنی ہستی کھو بیٹھیں۔ خودی کو بہرحال اپنی جدو جہد جاری رکھنا ہے تاکہ اس میں حیات بعد الموت کے حصول کی صلاحیت پیدا ہو جائے(۱۰)۔‘‘ غرض ڈاکٹر اقبال کے خیال میں آزادیٔ ارادہ اور حیات بعد الممات نہ اخلاقیات کے لیے مفروضات ہیں، نہ ہمارے اخلاقی شعور کے بدیہیات اور عقل عملی کے مسلمات۔ یہ ہمارے اعمال صالحہ، جدوجہد اور کوشش کا نتیجہ ہیں، انعام ہیں۔ یہ عمل ہے اور صرف عمل جو ایک طرف انسان کو حیاتِ ابدی بخشتا ہے اور دوسری طرف حقیقی آزادی سے نوازتا ہے۔ اقبال کانظریۂ اخلاق ــــ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور، ۱۹۶۰ء حوالے ۱۔ شیخ محمد اکرام، موج کوثر، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ص ۳۶۱ ۲۔ حرف اقبال، ص ۱۳۷ ۳۔ حوالہ بالا، ص ۱۴۹۔ ۱۵۰ ۴۔ حوالہ بالا، ص ۱۶۵ ۵۔ حوالہ بالا، ص ۱۳۶ ۶۔ حوالہ بالا، ص ۱۴۷ ۷۔ آثار اقبال، ص ۳۰۶ ۔ ۳۰۸ ۸۔ اقبال، تشکیل جدید، الٰہیاتِ اسلامیہ، بزم اقبال لاہور ۹۔ ایضاً، ص ۱۸۳ ۱۰۔ ایضاً ۔ ص ۱۸۰ ۔ ۱۸۲ اقبال کا قرآنی اندازِ فکر و نظر پروفیسر غلام رسُول ملک یہ راز کسی کو نہیں معلُوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن کسی بڑے تخلیقی فن کار کا کسی کتاب یا مصنف سے متاثر ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ ورڈذ ورتھ پر ملٹن کا بہت اثر ہے۔ کیٹس شکیسپٔر کو اپنا نگران فرشتہ (Presiding genius) تصور کرتا ہے۔ ایلیٹ پردانتے کی طربیۂ ایزدی (Divine Comedy) کا سایہ آغاز سے لیکر انجام تک چھایا ہوا ہے اور ییٹس(Yeats) اپنے آپ کو ولیم کا نیا جنم تصور کرتا تھا۔ اسی طرح تمام عیسائی ادبا و شعرا پر بائبل کا اثر کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے جیسے کہ مسلم ادبا و شعرا پر قرآن اور نبی اکرم صلی اللہ وآلہٖ وسلم کی سیرت طیبہ کا اثر واضح شکل میں نظر آتا ہے۔ مگر کسی کتاب یا مصنف سے شعوری طور پر متاثر ہونا ایک بات ہے اور اسے تحت الشعور کے اندر جذب کرنا دوسری بات۔ تحت الشعور کی سطح پر کسی کتاب یا انسان کا اثر جب جزو شخصیت بن جاتا ہے تو یہ اثر قبول کرنے والے کے انداز فکر و نظر کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ سوچتا ہے تو اسی زاویہ نگاہ سے سوچتا ہے اور دیکھتا ہے تو اسی عینک سے دیکھتا ہے۔ اس کے سانچے اور پیمانے اور حسن و قبح اور خوب نا خوب کے معیار بھی اسی منبعِ فیضان سے برآمد ہوتے ہیں اور اگر وہ شاعر اور ادیب ہے تو اس کا نظریۂ شعر، اس کی لفظیات، اس کا اسلوب، اس کی علامتیں اور اس کے استعارے بھی اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ قرآن کے ساتھ اقبال کا تعلق اسی نوع کا ہے۔ قرآن اقبال کے لیے دنیا کی کتابوں میں سے ایک کتاب نہیں بلکہ ’’الکتاب‘‘ ہے۔ کائنات ہستی میں جو حکمت، ہم آہنگی، حسن و جمال اور ضابطہ بندی نظر آتی ہے اور جسے اقبال ’’فطرت کا سرودِ ازلی‘‘ کے دلکش الفاظ سے تعبیر کرتا ہے وہی سرود ازلی قرآن کے صفحات میں ایک دوسری شکل میں جلوہ گر ہے۔ کائنات قرآن تکوینی ہے اور کتاب اللہ قرآن تدوینی۔ آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم حکمت او لایزال است و قدیم نسخۂ تکوینِ اسرارِ حیات بے ثبات از قوتش گیرد ثبات اقبال نے قرآن تکو ینی پر تدبر کے ساتھ ساتھ قرآن تدوینی کو بھی اپنے خدا داد تفقہ کی مدد سے اپنے شعور و ادراک ہی میں نہیں بلکہ اپنے تحت الشعور کی گہرائیوں میں بھی اتار لیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کا فکر قرآنی فکر ہے اور ان کی نظر قرآنی نظر ہے اور جب وہ اپنے نتائجِ فکر و نظر کو الفاظ کا جامہ پہنا لیتے ہیں تو غیر ارادی طور پر قرآنی اسلوب و آہنگ کی شان نمودار ہوتی ہے۔ ان کے بیشتر اشعار ایسے ہیں جن میں بلا واسطہ طور پر کسی آیت قرآنی یا حدیث نبویؐ کی طرف اشارہ ہے اور شاید ہی کوئی شعر یا نظم ایسی ہے جس میں بالواسطہ طور پر قرآن، سنت یا تاریخ اسلام کا تذکرہ نہ ہو۔ یہ ہے قلب و ضمیر کو اللہ کے رنگ میں رنگنا صِبغَۃَ اللّٰہ و مَنْ اَحَسنُ مِنَ اللّٰہ صِبغَۃً۔ (رنگ اللہ کا چاہیے، اس سے زیادہ حسین و جمیل رنگ اور کیا ہو سکتا ہے)۔ اور یہ ہے اللہ کے نور سے دیکھنا کہ جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابن کثیر کی روایت کردہ ایک حدیث کے مطابق ارشاد فرمایا۔ اتَّقُو فَراسَۃَ المؤمِنِ فَاِنَّہُ یَنْظُرُ بنُورِ اﷲ۔ (مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے)۔ اقبال کی شاعری میں جو اذعانات کارفرما ہیں، ان سب کا چشمہ ان کا قرآنی فکر ہے۔ کائناتِ ہستی کے متعلق قرآن کا اساسی عقیدہ یہ ہے کہ یہ ایک بامقصد اور حکیمانہ نظام ہے جس کا ذرہ ذرہ اس کے خالق کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔ ہماری دنیا اسی حکیمانہ نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ یہ نہ تو ازلی و ابدی ہے اور نہ ہی ایک بے مصرف حادثہ، بلکہ انسان کے لیے ایک عارضی امتحان گاہ ہے، اس کی شخصیت کے ابھرنے اور اس کی روح کے ارتقاِ کے لیے اس دنیا کا برتنا لازمی ہے مگر اس طرح کہ یہ حصول مقصد کا ذریعہ بنے، بجائے خود مقصد نہ بن جائے۔ انسان کے لیے فلاح و سعادت اور مسلسل روحانی ارتقا کا راستہ وہی ہے جو پوری کائنات کے لیے اس کے خالق نے متعین فرمایا ہے یعنی خالقِ کائنات کے مقرر کردہ قوانین کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری جسے اصطلاحاً اسلام کہا جاتا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ پوری کائنات اسی راہ اطاعت پر گامزن ہے۔ وَلَہُ اَسْلَمَ مَن فی السَّموٰاتِ وَالاَرض طَوعاً وَّ کَرھاً وَالَیہُ یُرجَعُون۔ ترجمہ:۔ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے چار و ناچار اسی کی اطاعت کر رہا ہے اور بالآخر سب کو اسی کی طرف لوٹایا جائے گا۔ انسان اس راہ نجات کے علی الرغم کوئی راستہ اختیار کرے تو خسر ان سے دو چار ہوتا ہے۔ وَمَن یَّْبْتَعِ غَیْر الاسلاَمِ دْنیاً فَلَن یُقّبَلَ مِنْہُ وَ ھُو فیِ الاٰخرِۃ مِنَ الخَاسِرِیْن۔ ترجمہ:۔ اور جو کوئی اسلام کے بغیر کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخر کو وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ یہی توحید ہے ـــــ ایک خالقِ، ایک قانون اور اس سے پیدا ہونے والی ہم آہنگی۔ اقبال فرماتے ہیں۔ اہل حق را رمز توحید است و بس در اَتی الّرَحمٰنِ عَبداً مضمر است توحید کی اس رمز کو اسرار خودی کے درج ذیل اشعارمیں بہت خوبی کے ساتھ شعر کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ قطرہ ہا دریاست ازآئینِ وصل ذرہ ہا صحراست ازآئین وصل باطن ہر شے ز آئینے قوی تو چرا غافلِ ازیں سَاماں روی باز اے آزاد دستور قدیم زینتِ پَاکُن ھُماں زنجیر سیم شکوہ سنجِ سَختیِ آئیں مشو از حدودِ مصطفیٰ بیروں مشو شخصیت انسانی کا ارتقا تو ترکِ دنیا اور رہبانیت سے ممکن ہے اور نہ دنیا کا بندہ اور غلام بننے سے بلکہ قانون الٰہی کے مطابق دنیا کو مسخر کر کے اسے روحانی برتری اور اخروی فلاح کے لیے ایک وسیلہ کی حیثیت سے استعمال کرنے سے ممکن ہے۔ خلیفۃ اللہ فی الارض کی حیثیت سے یہی انسان کا فرض منصبی ہے۔ اقبال کی نظر میں مومن، مرد حر، قلندر، یا خلیفۃ اللہ فی الارض وہی ہے جو قرآن کے متعین کردہ اصول پر عمل پیرا ہو کر دنیا کو مسخر کرتا ہے: مہر و مہہ و انجم کا محاسب ہے قلندر ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر وہ دنیا یا مظاہر ہستی میں گم ہو کر نہیں رہ جاتا بلکہ اپنے خالق کی شناخت کے راستے سے اپنی شناخت حاصل کرتا ہے اور آفاق کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے: عبد گردد یاوہ در لیل و نہار در دلِ حُر یاوہ گردد روزگار اور کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومنِ کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق مظاہرِ کائنات اور شخصیت انسانی کے متعلق یہ مثبت اور حرکی نظریہ جو قرآنی روح کی ایک بہترین تعبیر ہے اقبال کے الفاظ میں اس طرح پیش ہوتا ہے۔ In the words of the Quran, the Universe that confronts us is not باطل.It has its uses, and the most important use of it is that the effort to overcome the obstruction offered by it sharpens our insight and prepares us for an insertion into what lies below the surface of phenomena. (جس کائنات ہستی سے ہم دو چار ہیں وہ قرآن کے الفاظ میں باطل نہیں بلکہ اس کی تخلیق کے پیچھے مصالح اور حکمتیں ہیں۔ ا س کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس پر غلبہ پانے کے لیے اور اسے رکاوٹ کی حیثیت سے سر کرنے کے لیے ہمیں جو جدوجہد کرنا پڑتی ہے وہ ہماری بصیرت اور درونِ بینی کو تیز تر کرتی ہے اور ظاہر کی تہہ میں موجود حقیقت تک رسائی کے لیے ہمیں تیار کرتی ہے۔) اقبال نے اشیا و تصورات کے سانچے اور حسن و قبح اور حق و ناحق کے معیار بھی نہ صرف یہ کہ قرآن اور اس کی واحد مستند تفسیر سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مستعار لیے ہیں بلکہ دوسرے اذہان میں ان پیمانوں کو اتارنے کے لیے وہی بلیغ اور حکیمانہ طریقہ اختیار کیا ہے جو حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلـہٖ سلم کا طریقۂ تعلیم تھا۔ اس طریقِ تعلیم و تربیت کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ حضورؐ مروّجہ معیاروں، اور تصورات کو لوگوں کے قلب و اذہان سے اکھاڑ پھینکتے تھے اور ان کی جگہ اسلامی معیارات و تصورات پیوست کر دیتے تھے۔ مثلاً جاہلی عرب میں افلاس، دانائی، اور بہادری کے جو تصورات تھے وہ قریب قریب ایسے ہی تھے جیسے کہ دور حاضر کی جاہلی تہذیب نے قائم کر رکھے ہیں یعنی یہ کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس دنیوی مال و دولت نہ ہو، دانا وہ ہے جو دنیوی خوشحالی، عزت اور شہرت حاصل کرنے میں کسی نہ کسی طرح سے کامیاب ہو جائے اور بہادر اور پہلوان وہ ہے جسے جسمانی قوت و طاقت حاصل ہو۔ اب دیکھئے کہ حضورؐ کس طرح ان تصورات کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق آپ نے ایک دفعہ اصحاب سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ مفلس وہ ہے جس کے پاس دنیوی مال و دولت نہ ہو۔ فرمایا نہیں، بلکہ مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز اس طرح حاضر ہو جائے کہ اس کے پاس نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی صورت میں کافی نیکیاں ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہو، کسی پر جھوٹا الزام لگایا ہو، کسی کا مال ہڑپ کیا ہو، کسی کا خون بہایا ہو اور کسی کو مارا ہو۔ پھر اس کی نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی۔ اس طرح اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں اور مظلوموں کا حساب برابر نہ ہو تو ان کے گناہ اس کے سر تھوپ دئے جائیں گے اور پھر اسے جہنم کے حوالے کیا جائے گا۔ ترمذی کی ایک اور حدیث کے مطابق آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’دانا وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور مرنے کے بعد کی زندگی کے لیے کام کرے اور احمق وہ ہے جو خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے اللہ سے رحمت و مغفرت کی تمنا کرے۔‘‘ اسی طرح مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق آپ نے صحابہؓ سے پوچھا کہ تم سب سے بڑا پہلوان کسے کہتے ہو۔ صحابہؓ نے عرض کیا اسے جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔ آپ نے فرمایا ’’نہیں پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھ سکے‘‘۔ اس طرح تصورات و اذعانات کی کایا پلٹ دینے سے، وہ نفسیاتی انقلاب برپا ہو جاتا ہے جس کی بنیادوں پر عظیم سیرت تعمیر ہوتی ہے اور جس کے بغیر انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی بھی دیرپا تبدیلی ممکن نہیں۔ اس قسم کی تبدیلی کا ایک نمونہ قرون اولیٰ کے نفوس قدسیہ کی ذاتی سیرت اور اس دور کی اجتماعی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک لفظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک مائل بہ آخرت اور مائل بہ روح معاشرہ تھا بالکل اس طرح جس طرح دور حاضر میں معاشرے مادہ پرست اور جسم پرست ہیں۔ تاریخ و سِیرَ کی کتابیں اٹھا کر دیکھیے کہ صحابہؓ کی مجالس میں آخرت کا ذکر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح ہم دنیوی معاملات پر گفتگو کرتے ہیں۔ بخاری کی ایک حدیث میں حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت عمر فاروقؓ کی ایک گفتگو نقل کی گئی ہے جس میں وہ بالکل اسی سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ اخروی امکانات پر بات کرتے ہیں جس سنجیدگی اورانہماک کے ساتھ دنیا پرست اپنے تجارتی امکانات، زراعت کی ترقی، مکانات کی تعمیر اور دوسرے دنیوی امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ نتیجہ تھا اس عظیم نفسیاتی انقلاب کا جو حضورؐ کے حکیمانہ طریقِ تربیت سے پیدا ہوا تھا۔ اقبال جانتے تھے کہ اس نوع کے نفسیاتی انقلاب کے بغیر حیات انسانی میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ پیام مشرق کے دیباچے میں لکھتے ہیں: اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے اِنَ اللّٰہ لَا یَغیّر بقومٍ حَتَّی یُغَیرُ وا مَا بِانفسِہِمِ کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے اور میں نے اپنی فارسی تصانیف میں اس صداقت کو مد نظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اسی طریقۂ نبوی کی پیروی کرتے ہوئے اقبال نے بہت سے تصورات کو نئے معانی و مفاہیم سے آشنا کیا۔ عقل، علم، عشق، فقر، خودی، مومن، تقدیر اور ہجرت ان میں نمایاں طور پر قابل ذکر ہیں۔ ہم اکثر اس حقیقت کا نوٹس لیے بغیر اقبال کے بہت سے اشعار سے سرسری طور گذر جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ فرمائیے: قہاری و غفاری و قدّوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان زمانۂ قدیم اور عہد وسطیٰ میں انسان اور کائنات دونوں کو عناصر اربعہ ـــــ آب و آتش و خاک و باد۔ کا مرکب تصور کیا جاتا تھا۔ اس شعر میں اقبال نے مسلمان کے عناصر اربعہ کس خوبی سے بیان کیے ہیں۔ اسی طرح فقر کے متعلق یہ اشعار: اک فقر سکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری یا پھر نمرود و خلیل کی یہ انوکھی تفسیر: ز رازی معنیٔ قرآں چہ پرسی ضمیر ما بآیاتش دلیل است خرد آتش فروز و دل بسوزد ہمیں تفسیر نمرود و خلیل است اقبال کے فن پر بھی نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، قرآن کی گہری چھاپ ہے۔ فن کے متعلق ان کا نظریہ کہ یہ ایک وہبی ملکہ ہے اور اس کا اصل منبع فیضان (Inspiration) ہے، یہ کہ اس فطری ملکہ کو کسب کے ذریعہ بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور پروان چڑھایا جا سکتا ہے مگر اس وسیلے سے اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا، قرآنی اشارات سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے فقیر وحید الدین کو ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا کہ ایک مجلس میں فارمن کرسچن کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے ان سے پوچھا کہ تم جیسا پڑھا لکھا آدمی بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ قرآن لفظ و معانی کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوتا تھا۔ آپ نے جواب دیا کہ یقین کی بات نہیں ہے بلکہ یہ میرا تجربہ ہے۔ مجھ پر پورا شعر اترتا ہے تو پیغمبر پر عبارت پوری کیوں نہیں اتری ہو گی۔ اس کے بعد فرمایا: ’’جب شعر کہنے کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے تو یہ سمجھ لو کہ ایک ماہی گیر نے مچھلی پکڑنے کے لیے جال ڈالا ہے۔ مچھلیاں اس کثرت کے ساتھ جال کی طرف کھنچی چلی آ رہی ہیں کہ ماہی گیر پریشان ہو گیا ہے۔ سوچتا ہے کہ اتنی مچھلیوں میں سے کسے پکڑوں اور کسے چھوڑوں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیفیت مجھ پر سال بھر میں زیادہ سے زیادہ دو بار طاری ہوتی ہے لیکن فیضان کا یہ عالم کئی کئی گھنٹے رہتا ہے اور میں بے تکلفی سے شعر کہتا جاتا ہوں۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ جب طویل عرصے کے بعد یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو پہلی کیفیت میں کہا گیا آخری شعر دوسری کیفیت کے پہلے شعر سے مربوط ہوتا ہے۔ گویا اس کیفیت میں ایک قسم کا تسلسل بھی ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ لمحے ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کی سورۂ شعرا میں شاعروں کے متعلق بلیغ ارشاد اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فیِ کُلِّ وَادٍ یَھِیْمُونََ (کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں) کے مضمرات سے انہوں نے اپنے نظریۂ شعر کا یہ بنیادی اصول اخذ کیا ہے کہ زندگی اور انسانی تہذیب کے تعلق سے فن کار اور شاعر پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جو فن ان ذمہ داریوں کے احساس سے عاری ہو وہ اپنی تمام تر جاذبیت کے باوجود اعلیٰ درجہ کا فن نہیں ہو سکتا۔ اور ایک مطلق العنان فن کار اگرچہ حافظ کے پایہ کا بھی ہو اقبال کی نظر میں نمونے کا فن کار (Ideal Artist) نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ اقبال کے اندر صلاحیت نفیِ ذات کی کمی کی بنا پر ان کو ہدف طعن و تشتیع بناتے ہیں، انہیں اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن نے عام شعرا کے بارے میں، یہ کہہ کر کہ ان کے پیچھے گمراہ لوگ چلتے ہیں اور یہ کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں استثنا بھی کیا ہے کہ جو لوگ ایمان، عمل صالح، ذکرِ الٰہی اور ظلم کے خلاف لڑنے کی صفات عالیہ سے متصف ہوں وہ ان میں شامل نہیں: وَ الشُّعَرَائُ یَتَّبِعُھُمُ الْغَاوُنَO اَلَمْ تَرَاَنَّھُمْ فیِ کُلِّ وَادٍ یَھِیْمُونَO وَاَنَّھُم ْ یَقُولُونَِ مَالَا یَفْعَلُوْنَO اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَ عَمِلُوالصّٰلِحٰتِ وَذَکَرُو اللَّہَ کَثیْراً وَ انتَصَرُوَ امِن م بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۔ (الشعرائ) اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے حضرت کعب بن مالک اور حضرت حسان بن ثابت جیسے شعراء صالحین سے فرمایا کہ تمہارے اشعار کفر و شرک کے مقابلے میں تیر و سنان سے زیادہ کارگر ہیں۔ ابن کثیر کی ایک روایت صحیحہ کے مطابق آپ نے حضرت حسان سے یہ بھی فرمایا کہ ’’کہہ اپنے شعر اور جبریل تمہارے ساتھ ہے، کہہ اور روح القدس تمہارے ساتھ ہے‘‘۔ ضرب کلیم میں اقبال کا یہ شعر اسی حکمت قرآنی کا لب لباب ہے۔ وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل قرآن کا اثر اقبال کے آہنگ اور اسلوب نگارش پر بھی چھایا ہواہے۔ کچھ کم نظر نقادوں نے جس لہجے کو خطابیہ اور بیانیہ کہہ کر کم قدر کرنے کی کوشش کی ہے وہ دراصل ایک بلند آہنگی ہے جس کا قرآنی آہنگ کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلمان کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا خدا کا آخری پیغام ہے تو جاوداں تو ہے یا جواب شکوہ کے یہ اشعار: عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری میرے درویش خِلافت ہے جہانگیر تری ماسِوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے، تدبیر تری کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں یا ناموس ازل را تو امینی، تو امینی دارائے جہاں را تو یسا ری تو یمینی اے بندئہ خاکی تو زمانی تو زمینی صہبائے یقیں در کش و از دیر گماں خیز از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز از خوابِ گراں خیز اسی طرح اقبال کا اسلوب نگارش، ان کی علامتیں اور پیکر بھی قرآن سے متاثر ہیں۔ یہ بات ان کی لفظیات پر ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ایمان، کفر، اسلام، الہٰ، بشیر، نذیر، مسجد، توحید، خلافت، شہادت، خبر، نظر، ذکر، فکر، عبد، حر، لا الہٰ، لاتخف، لاتحزن، قم باذن اللّـہ ایسے الفاظ ہیں جو قرآنی تلازمات کے ساتھ ان کی شاعری میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی شبیہ کاری اور پیکر تراشی کے تین اہم ماخذ ہیں ــــــ قرآن و سنت، تاریخ اور عالم فطرت ــــــ تاہم موخر الذکر دو منابع سے وہی کچھ اخذ کرتے ہیں یا اخذ کر کے اسے اسی رنگ میں رنگ دیتے ہیں جو اول الذکر ماخذ کی اسپرٹ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔ قرآن و سنت سے ماخوذ جو پیکر اور علامتیں وہ استعمال کرتے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں: تعمیر حرم، معمار حرم، دریائے خلیل اللہ، شاخ خلیل، آتش نمرود، ضرب کلیم، یدبیضائ، ملت بیضائ، درخت طُور، سینا، نغمہ جبریل، صور سرافیل وغیرہ۔ پیغمبروں اور تاریخ کی دوسری شخصیتوں کو اقبال نے تاریخی شخصیات کی حیثیت سے کم اور علامتوں کی حیثیت سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ یہ تاریخی علامتیت (Historical Symbolism) فارسی اور اردو شاعری کو اقبال کی ایک بہت بڑی دین ہے۔ خلیل و نمرود، موسیٰ و فرعون اور شبیر و یزید، خیر و شر کی قوتوں کی علامتوں کی حیثیت سے استعمال کئے گئے ہیں۔ اسی طرح صدیقؓ، فاروقؓ، ابو ترابؓ، ابوذرؓ، سلمانؓ، ابوجہل، ابولہب وغیرہ مختلف اوصاف کی نمائندہ علامتیں ہیں۔ عالم فطرت سے بھی اقبال نے عام طور پر ان ہی علامتوں اور پیکروں کو منتخب کیا ہے جو قرآن کی اسپرٹ کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ مثلاً شاہین مَردِ حُر اور مرد مومن کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا گلِ لالہ جو تحیر، درد و سوز اور پاکیزگی کی علامت بن کر نمودار ہوتا ہے۔ یہی حال ان کے دوسرے فطری علائم مثلاً بہتی ندی۔ تڑپتی موج۔ ستارہ اور آفتاب کا ہے۔ اس سب کے پیش نظر اگر اقبال یہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے اپنی شاعری میں اسرار قرآن کے موتی پروئے ہیں اور نور قرآن سے ایک صدی سے زیادہ مدت پر محیط شب تاریک کو سحر کے نور سے آشنا کیا ہے تو اس میں تعجب یا مبالغہ کی کیا بات ہے: بگو از من تو اخوان عرب را بہائے کم نہادم لعل لب را ازآں نورے کہ از قرآں گرفتم سحر کردم صدوسی سالہ شب را اقبال اور قرآن ــــــ مرتبہ: محمد امین اندرابی، اقبال انسٹیٹیوٹ، سری نگر کشمیر، ۱۹۹۴ء علامہ اقبال اور وحدت الوجود حافظ عباد اللہ فاروقی اس سے پیشتر کہ علامہ اقبال کے وجودی، یا غیر وجودی ہونے پر کوئی قطعی رائے قائم کی جائے مناسب ہو گا کہ نظریۂ وحدت الوجود جس کی عموماً قرآنی تعبیر پیش کی جاتی ہے، توضیح کر دی جائے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ علامہ نے اپنے ایک مکتوب محررہ ۹ مارچ ۱۹۱۶ء بنام شاہ سلیمان پھلواروی میں اس امر کی پوری وضاحت کر دی تھی کہ وہ حقیقی تصوف کے مخالف نہیں ہیں، لیکن جہاں تک نظریۂ وحدت الوجود کا تعلق ہے وہ اس مسئلے کو قرآنی مسئلہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ ان کے نزدیک اس مسئلے پر فلسفہ کے دائرے میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔ حاصل یہ کہ علامہ کے نزدیک مسئلہ وحدت الوجود نہ تو قرآنی مسئلہ ہے اور نہ اسلامی تصوف کا جزو ہے۔ شاہ سلیمان پھلواروی بھی یہ اخذ کرنے پر مجبور ہیں کہ وحدت الوجود نام ہے کشفی یا وجدانی کیفیت کا۔ قیام یورپ کے دوران میں (یعنی ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ئ) علامہ اس مسئلے کی تحقیق میں مصروف رہے۔ اس زمانے میں انھوں نے جو خط ٹرینٹی کالج کیمرج سے خواجہ حسن نظامی کو لکھا اور ان کی وساطت سے جو سوالات شاہ سلیمان پھلواروی سے دریافت فرمائے، ان سے صاف ظاہر ہے کہ علامہ اس زمانے میں بھی نظریۂ وحدت الوجود کو قرآنی نظریہ تصور نہیں کرتے تھے۔ خط کی چند سطور ملاحظہ ہوں۔ ’’اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہو کہ مسئلہ وحدت الوجود یعنی تصوف کا اصل مسئلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے تو وہ کون سی آیات پیش کر سکتے ہیں؟ اور ان کی کیا تفسیر کرتے ہیں؟ کیا وہ ثابت کر سکتے ہیں کہ تاریخی طور پر اسلام کو تصوف سے کیا تعلق ہے؟ کیا حضرت علی مرتضیٰؓ کو خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی؟ غرض کہ اس امر کا جواب معقولی اور منقولی اور تاریخی طور پر مفصل چاہتا ہوں۔ میرے پاس کچھ ذخیرہ اس کے متعلق موجود ہے۔ مگر آپ اور قاری صاحب سے استصواب ضروری ہے‘‘۔ جب علامہ واپس وطن میں آئے تو انھوں نے اس نظریے کو غیر اسلامی جان کر اس کی شدید مخالفت کی۔ ان کا مکتوب بنام شاہ سلیمان پھلواروی محررہ ۹ مارچ ۱۹۱۶ء شاہد ہے کہ وہ اس تصور کو غیر اسلامی سمجھ کر اس سے گریزاں ہیں۔ خط کی عبارت حسب ذیل ہے۔ ’’دیباچے کی بحث ایک علیحدہ بحث ہے اور وحدت الوجود کا مسئلہ اس میں ضمناً آ گیا ہے۔ اس مسئلے کے متعلق جو کچھ میرا خیال ہے وہ میں نے پہلے خط میں عرض کر دیا تھا۔ فارسی شعرانے جو تعبیر اس مسئلے کی ہے اور جو نتائج اس سے پیدا ہوئے ہیں ان پر مجھے سخت اعتراض ہے۔ یہ تعبیر مجھے نہ صرف عقائد اسلامیہ کے مخالف معلوم ہوتی ہے بلکہ عام اخلاقی اعتبار سے بھی اقوام اسلامیہ کے لیے مضر ہے۔ یہی تصوف عوام کا ہے اور شیخ علی حزین نے بھی اس کو مدنظر رکھ کر کہا تھا کہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘۔ ابتداًء میں علامہ نے بھی نظریۂ وحدت الوجود کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ لیکن بتدریج ان کے خیالات میں تبدیلی واقع ہوتی گئی اور انھوں نے بہت جلد یہ محسوس کر لیا کہ یہ موضوع فلسفہ یا شاعری کا موضوع تو ہو سکتا ہے لیکن حقائق قرآنیہ میں اس کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ اس نظریے کے خلاف جو رد عمل ہوا وہ اسرار خودی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ علامہ کے نزدیک صحیح تصوف وہی ہے جو انھوں نے ’اسرار و رموز‘ میں پیش کیا۔ اس کے برعکس حضرات صوفیا، مسئلۂ وحدت الوجود کو خالص قرآنی سمجھتے رہے۔ وحدت الوجود اورتصوف: اس مسئلے کی جو صوفیا نے تعبیر کی ہے وہ یہ ہے کو وجود حقیقی ایک ہے اور وہ اللہ ہے۔ ماسویٰ اللہ کا وجود اعتباری ہے۔ ذات حق اپنی صفت تفرد ذاتی سے ازل میں موصوف تھی اور ابد میں بھی اسی طرح موصوف رہے گی کیونکہ اس کی ذات میں تغیر و تبدل محال ہے فھو الان کما کان و کما کان الان۔ لـہذا وجود حقیقی اللہ ہی کو سزاوار ہے اور کوئی شے ماسویٰ اللہ موجود بہ وجود حقیقی نہیں ہے۔ مرتبۂ صفات میں اس ذات واجب الوجود کی تجلیات کا جو ظہور ہو رہا ہے۔ اس کے تفرد ذاتی کے ہر گز منافی نہیں۔ مولانا جامیؒ فرماتے ہیں: مجموعۂ کون را بقانون سبق کردیم تصفح ورقاً بعد ورق حقا کہ نہ دیدیم و نخواندیم درو جز ذات حق و شیون ذاتِ مطلق آیۂ کریمہ الا انہ بکل شیئی مُحیط وجودی تصورات کے قرآنی ثبوت کے لیے دی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ذات حق واجب الوجود اپنے ماسویٰ کو یعنی ہر چیز کو احاطہ کئے ہوئے ہے۔ بظاہر محیط اور محاط ہر دو الگ وجود ہیں لیکن فی الواقع محیط یعنی ذات حق ہی حقیقی وجود ہے اور محاط یعنی ماسویٰ اللہ وجود حقیقی سے محروم ہے، اس کا وجود اعتباری ہے۔ جیسا کہ آیۃ شریفہ میں بتایا گیا ہے کل شیئی ھالیک الا وجھہ۔ یعنی ذات حق کے سوا ہر شے فی حد ذاتہٖ معدوم ہے اور جو موجود نظر آتا ہے اس کا وجود وہمی اور اعتباری ہے اور ہر شے ذات واجب کا مظہر یا عکس ہے۔ چناں چہ آیۂ کریمہ ھو الاول والاخر والظاہر والباطن و ھو بکل شیئی علیم بھی وحدت الوجود کی مشبت ہے یعنی وہ ذات اللہ جل شانہ اول ہے اور وہی آخر ہے وہی ظاہر ہے وہی باطن ہے۔ یہ کائنات بہ اعتبار وجود واجب الوجود کے عکوس اور ظلال ہیں، ورنہ تمام عالم فی حد ذاتہ نفس الامر میں معدوم ہے۔ اشیا کا تعلق وجود حقیقی سے بھی ہے اور عدم سے بھی ہے۔ پہلی حیثیت سے وہ شر و ظلمت سے پاک ہیں کیونکہ وجود خیر محض ہے اور شر عدم محض ہے۔ دوسری حیثیت سے وہ صفات ذمیمہ سے متصف ہیں۔ مولانا جامی فرماتے ہیں۔ ھر جا کہ وجود سیر کردہ است ایدل میداں یقین کہ محض خیر است ایدل ھر شر زِعدم بود عدم غیر وجود پس شر مقتضائے غیر است ایدل صوفیأ کرام آیات ذیل سے حق تعالیٰ کا غیر مشخص ہونا ثابت کرتے ہیں جس سے لازماً وحدت الوجود کا اثبات ہوتا ہے ۱۔ و نحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں انسان کی شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں ۲۔ اﷲ نور السموات والارض۔ اللہ زمین و آسمان کا نور ہے لـہذا غیر مشحض ہے۔ صوفیا کے نزدیک خارجی مظاہر گویا شیشے ہیں، جن میں وجود حقیقی کا جلوہ نظر آ رہا ہے یا عکوس ہیں جن میں آفتاب وحدت چمک رہا ہے۔ آفتابے در ھزاراں آبگینہ تافتہ پس برنگ ھر یکے تاب عیاں انداختہ اختلافے نیست لیکن رنگہائے مختلف اختلافے درمیان این و آں انداختہ (جامی) اقبال اور تصوف: ان تصریحات کے بعد جب ہم علامہ کے تصوف(۱) کی طرف آتے ہیں۔تو وہ متذکرہ بالا نظریات کا رد کرتے اور آیات مذکورہ کی صحیح تعبیرات سے آشنا کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقت غیر مشخص نہیں بلکہ مشخص ہے۔ وجود حقیقی کے ساتھ وہ نہ صرف عظمت آدم بلکہ حقیقت آدم کے بھی قائل ہیں۔ ایک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے نمود سیمیائی اللہ کا شاہرگ سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خودی اور خدا میں بہ اعتبار وجود کوئی فرق نہیں۔ فرق ہے تو صرف ذات کے اعتبار سے ہے۔ خودی، نور اور وجود ایک ہی شے ہیں کیونکہ نور اور وجود کی تعریف ایک ہی ہے یعنی ظاہر بنفسہ اور مظہر لغیرہ۔ اس لیے ماہیت کے اعتبار سے انائے صغیر اور انائے کبیر میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں نور خودی یا نور وجود سے متصف ہیں۔ اس طرح نور علامہ کے نزدیک غیر مشحض نہیں بلکہ مشحض حقیقت ہے۔ نور سے مراد اس کی مطابقت یا تفرد ذاتی ہے۔ چونکہ وہ ہمہ گیر مشحض نور کی طرح کائنات میں سرایت نہیں کرتا اس لیے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ کائنات جو ظلمت کی وجہ سے معدوم تھی، نور حقیقی کی بدولت موجود ہو گئی ہے۔ شیخ الاشراق و دیگر صوفیا نے نور کی جو دو قسمیں بتائی ہیں یعنی (الف) نور مجرد جو وریٰ الوریٰ ہے، اور (ب) ظلمانی نور یعنی وہ نور جو ظلمت یا ماسویٰ سے ملا ہوا ہے۔ علامہ اس کو بھی قبول نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک کائنات کی ماہیت ظلمانی نہیں بلکہ نورانی ہے اور یہ نور خودی کا نور ہے۔ فرماتے ہیں۔ اے امینے از امانت بے خبر غم مخور اندر ضمیر خود نگر روزھا روشن ز غوغائے حیات نے ازاں نورے کہ بینی در جہات نور صبح از آفتاب داغدار نور جاں پاک از غبار روز گار نور جاں بے جادہ ھا اندر سفر از شعاع مہر و مہ سیار تر ان اشعار میں علامہ اس حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ کائنات نور خودی سے منور ہے۔ یہ نور خودی کی نمود سے ظاہر ہوتا ہے اور خودی کی نمود حرکت و عمل و تسخیر کائنات کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ حقیقت کا عرفان بھی اسی طریق سے حاصل ہو سکتا ہے۔ ’’مرد حق از خودی بیند خدا را‘‘ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ جب انسان اپنے ماحول سے نبرد آزما ہو کر اثبات نفس کرتا ہے تو اس کا نور وجود ترقی پذیر اور افزوں تر ہوتا جاتا ہے۔ اس لیے علامہ فرماتے ہیں۔ قال را بگزار و باب حال زن نور حق بر ظلمت اعمال زن نور خودی کے اس طرح بڑھنے اور ترقی کرنے کو محبت سے تعبیر کرتے ہیں۔ نقطۂ نورے کے نام اُو خودی است زیر خاک ما شرارِ زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر سوزندہ تر تابندہ تر حاصل یہ ہے کہ نور خودی نور حقیقی کا جزو نہیں جیسا کہ وجودی حضرات کا خیال ہے بلکہ یہ نور مخلوق ہے اور مسلسل جدوجہد اور کش مکش سے معرض وجود میں آیا ہے۔ اس طرح آیت کریمہ اﷲ نور السمـوات والارض علامہ کے نزدیک وحدت الوجود کی مثبت نہیں جیسا کہ خطبات میں فرماتے ہیں۔ ''No doubt the opening sentence of the verse gives the impression of an escape from individualistic to conception of God. But when we follow the metaphor of light in the rest of the verse it gives just the opposite impression. The development of metaphor is meant rather to include suggestion of a formless cosmic element by centralizing the light in a flame which is further individualized by encasement in a glass likened unto a well defind star.'' یہ تصورات قدیم صوفیا کے ہاں ملتے ہیں مگر علامہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے منظم اور مربوط صورت میں ان کو پیش کیا۔ مثلاً۔ مقصود ز جملہ آفرینش مائیم در جسم خرد جوھر بینش مائیم ایں دائرہ جہاں چو انگشتری است بے ہیچ شکے نقش نگینش مائیم شعخ سعدی حقیقت آدم کے یوں ترجمان ہیں۔ تگا پوئے حرم تا کے خیال از طبع بیروں کن کہ محرم گرشوی ذاتت حقائق را حرم گردد ان تصریحات کے بعد ذیل میں علامہ کے افکار کا تاریخ وار جائزہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے موقف کی صحیح ترجمانی ہو سکے۔ اقبال اور ان کے وجودی پیش رو: علامہ کے ۱۹۰۵ء تک کے کلام پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ان کے سامنے وحدت الوجود کا کوئی متعین اور مستند نظریہ اپنی تفصیلوں اور عقلی توجیہوں کے ساتھ نہ تھا۔ بلکہ اُن منتشر معلومات پر مبنی تھا جو مختلف ماخذوں اور مکاتیب سے ماخوذ تھا۔ اس میں نہ ناقدانہ انتخاب ہے نہ عالمانہ ترتیب۔ اس دور میں اقبال زیادہ تر شنکر اچاریہ، فلاطینوس اور کسی حد تک شیخ اکبر سے متاثر نظر آتے ہیں۔ شنکر اچاریہ کا زمانہ آٹھویں اور نویں صدی عیسوی کا ہے۔ ۷۸۸ء تا ۸۲۰ء بمطابق ۱۷۲ھ تا ۲۰۵ھ اور ابن عربی کا سن پیدائش ۵۶۰ھ بمطابق ۱۱۶۴ء اور سن وفات ۶۴۸ھ بمطابق ۱۲۵۰ء ہے۔ ابن عربی کے افکار کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ اس نے آیات قرآنی کو وحدت الوجود کے رنگ میں سمجھا۔ اس لیے اسے اس نظریے کا بانی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح شنکر اچاریہ کو ھندی ارباب فکر میں نظریۂ وحدت الوجود کا بانی کرنا تسلیم کرنا غلطیِ محض ہے، کیونکہ سوامی شنکر اچاریہ نے فلسفہ وحدت الوجود کو جواپنشدوں میں غیر مربوط صورت میں تھا، ایک مربوط اور منظم صورت میں پیش کیااور اہل ہند کو اس سے روشناس کیا۔ شنکر اچاریہ: اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ فلسفۂ و یدانت در حقیقت بدھ مذہب کا رد عمل ہے۔ جب بدھ نے خدا کا نہ اقرار کیا نہ انکار تو سوامی شنکر اچاریہ یہ دوسرا انتہا پسندانہ عقیدہ لے کر اٹھے اور یہ تعلیم دی کہ بس خدا کا وجود ہے باقی سب کچھ معدوم ہے۔ نہ تو روح کا وجود ہے نہ دنیا کا ذاتی یا خارجی وجود ہے۔ ہم جو کائنات کو موجود کہتے ہیں فریب کھائے ہوئے ہیں۔ اگر ہم حقیقی معرفت حاصل کر لیں تو اس دنیا کا معدوم ہونا واضح ہو جائے گا جب تک یہ معرفت حاصل نہ ہو اس وقت تک انسان اپنے آپ کو خدا کا غیر سمجھتا ہے لیکن جب قطرہ سمندر میں مل جاتا ہے تو دوئی کا جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔ انسانی آتما یعنی خودی کی غایت یہ ہے کہ وہ برہما یعنی خدا میں شامل ہو کر برہما بن جائے۔ غرض فلسفۂ ویدانت کی رو سے اساس صرف برہما ہے، اور صورتیں اوّدیا یعنی جہالت کی پیداوار ہیں۔ برہما خالص حقیقت اور فہم (شعور) ہے۔ آخری حقیقت اس کو اس معنیٰ میں کہتے ہیں کہ وہ غیر متغیر ہے۔ عالم فریبِ نظر یا دھوکا ہے۔ یہ برہما کی تخلیق تو ہے مگر ناپاک اور بے شعور ہے۔ برہما خالص حقیقت ہے۔ یہ فہم ہے اور غیر متغیر ہے۔ شنکر کائنات کو تو غیر حقیقی مانتا ہے لیکن اس کے نزدیک انسان کا وجود شخصی بمقابلہ دیگر موجودات زیادہ معتبر اور حقیقت نما ہے۔ شنکر کہتا ہے کہ اپنشدوں کے ارشادات کے مطابق انسان کا وجود شخصی (خودی یا آتما) اصلاً پر ماتما یعنی خدا ہے۔ ان کے نزدیک خودی عین وجود ہے۔ کثرت افراد کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی جہالت کی وجہ سے اپنے وجود شخصی کو اپنے جسم، حواس ظاہری اور باطنی کے ہم معنی خیال کرنے لگتا ہے۔ انسان کا وجود شخصی فی نفسہ شعور ہے۔ اس کے برعکس اس کا ظاہری وجود جو حواس ظاہر و باطن پر مشتمل ہے اس کا غیر ہے۔ علامہ کے ابتدائی کلام سے یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس زمانہ میں فلسفۂ ویدانت سے بے حد متاثر تھے۔ شاید اس لیے وہ اسے اسلامی نظریۂ وحدت الوجود کے مسائل سمجھتے تھے۔ اس دور کی مشہور نظم ’’شمع‘‘ ہے۔ اس نظم میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ حقیقت اور واقعیت صرف ایک ہے اور غیر مشخص ہے جس میں خالق اور مخلوق، علت و معلول، کائنات اور سکون کا امتیاز نہیں۔ کائنات حقیقت فریب نظر کے سوا کچھ نہیں۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں، وہ ہمارے اپنے شعور اور آگہی کا ساختہ ہے۔ حقیقت میں ’من‘، و ’تو‘ کا سوال ہی نہیں۔ یہ تفریق ہمیں اپنی جہالت کی وجہ سے نظر آتی ہے۔ جب انسان کو عرفان حقیقی حاصل ہو جاتا ہے تو یہ تفریق اور امتیاز بھی مٹ جاتا ہے۔ اگر شعور و آگہی فنا ہو جائیں تو تمام تعینات بھی مٹ جائیں۔ پھر وہی ازلی اور ابدی حقیقت ہو گی جس میں’من‘اور ’تو‘ کا امتیاز باقی نہ رہے گا۔یہ مجہول الکنہ حقیقت جو وحدت صرف ہے بے چندگی اور اطلاق محض ہے اور ظہور کائنات کی علت ہے۔ اس کے تقاضائے نمود کے باعث تعینات اور امتیازات نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جس طرح شنکر کائنات کو اپنی جزئیات اور تفاصیل کے ساتھ برہما کی مظہری صورت قرار دیتا ہے اقبال کے نزدیک بھی تعین و امتیاز کی اصل وجہ ہستی یا وجود ہی ہے۔ ہستی ہی صید شعور و آگہی ہے اور اس کے باعث متعین وحدتیں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ ذات کا مرتبہ چوں کہ اطلاق وجود سے برتر اور شعور و آگہی سے ماورا ہے۔ اس لیے وہ تکثر و تعداد سے منزہ ہے۔ یہ وجود کا پردہ ہی ہے جو سب کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اقبال سوامی شنکر اچاریہ کی عالم رنگ و بو کی کثرت کو محض فریب نظر خیال کرتے ہیں، جس کو شعور اور آگہی نے اپنے اظہار کے لیے گھڑ لیا ہے۔ ان کے نزدیک حقیقت ایک ہے جس کی ماہیت شعور یا فہم ہے۔اس دور میں سوامی شنکر اچاریہ کی طرح اقبال کا بھی خیال ہے کہ حقیقت جو جدا جدا تعینوں اور امتیازوں میں مقید ہو گئی ہے، اس کے بے تعین اطلاق کے لیے ہستی کا فنا ہو جانا از بس ضروری ہے۔ علاوہ شنکر اچاریہ کے اقبال اس دور میں فلاطینوس سے بھی بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ فلاطینوس کی طرح حسن کو حقیقت مطلقہ اور ایک لازوال شے تصور کرتے ہیں جو کائنات کے ذرہ ذرہ میں پنہاں ہے۔ مادہ حسین بالذات نہیں ہے۔ یہ اس وقت حسین ہوتا ہے جب حسن مطلق کے انوار سے منور ہو جائے۔ اس زمانہ میں اقبال خودی کی حقیقت سے نا آشنا معلوم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقت مطلقہ کو غیر شخص ہی قرار دیتے ہیں۔ خودی کا تصور جیسا کہ میکش اکبر آبادی فرماتے ہیں، بعد کی پیداوار ہے۔ ’’وحدت الوجود کا تصور امتیازات کا مخالف سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے ماننے والوں نے عام طور سے خدا یا حقیقت اعلیٰ کے مشخص ہونے سے انکار کیا ہے اور اس لیے اسے فلسفۂ خودی کا مخالف سمجھا گیا ہے۔ ابتدا میں علامہ اقبال اس خیال سے متاثر ہوئے لیکن آخر میں انھوں نے تصوف کے زیر اثر انفرادیت اور مطلق ہی کو جمع کیا اور صراحت سے یہ تسلیم کر لیا کہ انائے مقید انائے مطلق ہی کا ظہور ہے،(۲)۔ اقبال کے اس دور کے وجودی نظریات کا حاصل یہ ہے کہ تنہا ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت مطلق ہے مقید نہیں۔ یہ مظہری وجود یا کثرت حقیقت مطلقہ کی خواہش ظہور کا جواب ہے۔ وہ شعور خالص جو خود ذات ہے مظہری صورت میں وحدت کو کثرت میں دیکھنے لگتا ہے۔ لیکن جس طرح مظہری ہستی باطل ہے اسی طرح شعور کی یہ گرفت بھی حقیقت کی گرفت نہیں۔ جب مظہری صورت نظر انداز ہو جاتی ہے تو خود کے شعور کا یہ غیر واقعی انداز بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ’من‘ و ’تو‘ کا سوال اُٹھ جاتا ہے اور ’میں‘ ہی ’میں‘ رہ جاتا ہے۔ نہ صہبا ہوں نہ ساقی ہوں نہ مستی ہوں نہ پیمانہ میں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں غرض شنکر اور اقبال کے نزدیک حقیقت اپنی ذات سے ازلاً و ابداً یکساں ہے۔ وہ نہ صرف دوئی صور اور اشکال سے منزہ اور مادرا ہے بلکہ ہر قسم کی قیود اور تعینات سے برتر شعور محض ہے۔ اقبال کے ان تصورات میں اور مولانا روم کے نظریات میں ایک گونہ مماثلت و ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں کے نزدیک وجود حقیقی واجب ہے۔ واحد کے مختلف مظاہر اور گوناگوں اعیان ہیں جن کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں۔ وجود مستقل رکھتے ہوں تو تعدد وجود لازم آئے گا۔ یہ محال ہے۔ مولانا کے نزدیک موجودات وجود مطلق کے تعینات اور تشخصات ہیں جو ایک دوسرے سے مرتبۂ ظہور میں مخالف و ممتاز ہیں۔ موسیٰ و فرعون دونوں اپنی اپنی انفرادیتیں رکھتے ہیں مگر ان کی حقیقت یہ ہے کہ موسیٰ اور فرعوں کی متضاد انفرادی بقاء وجود مطلق کی متحدہ غیبت میں فنا ہے۔ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں۔ چوں کہ بے رنگی اسیر رنگ شد موسیے، با موسیے، در جنگ شد بے رنگی سے مراد وجود مطلق ہے اور رنگ سے وجود مطلق کے گونا گوں تعینات مراد ہیں۔ موسیٰ اور فرعون کی جنگ کو موسیٰ اورموسیٰ کی جنگ کہا گیا ہے جو انفرادی بقا کے تصور کو ساقط الاعتبار ظاہر کرتا ہے۔ بقائے انفرادیت بقا کے تصور کو ساقط الاعتبار ظاہر کرتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وجود مطلق کے تعینات اورتشخصات خارجی آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر یہ اختلاف جو مظاہر مختلفہ میں نمایاں ہے وہ دراصل وجود مطلق میں جمع ہے، اس لیے فرعون کو بھی موسیٰ کہا گیا ہے۔ مالک کا مقصود ان مظاہر مختلفہ سے نظر ہٹا کر جمع کا مشاہدہ کرنا ہے اور یہ مشاہدہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک سالک اس عالم رنگ و بو سے مقام بے رنگی یعنی مرتبہ اطلاق میں نہ پہنچے اور اس مرتبہ تک پہنچنا ممکن نہیں جب تک وہ اپنی انفرادیت کو کلیت حق میں فنا نہ کر دے۔ مولانا کے متذکرہ بالا شعر اور اقبال کا مندرجہ ذیل شعر ایک ہی حقیقت کے غماز ہیں۔ محمود اپنے آپ کو سمجھا ایاز ہے کیا غفلت آفریں یہ مئے خانہ ساز ہے علامہ کے وجودی تصورات کا پہلا دور ۱۹۱۰ء میں ختم ہوتا ہے۔ اس دور میں وہ حقیقت کو غیر مشخص اورکائنات کو فریب نظر سمجھتے رہے۔ ان کے یہ تصورات فلسفۂ ویدانت کے بہت قریب تھے لیکن اسلامی نظریۂ وحدت الوجود سے کوسوں دور رہے۔ اس دور میں علامہ نے جہاں وجود مطلق کا اقرار کیا وہاں وجود کائنات اور انسانی خودی کی نفی کی۔ اسلامی نظریۂ وحدت الوجود میں نہ تو کائنات کو باطل سمجھا جاتا ہے اور نہ انائے انسانی کو۔ اسلامی نظریۂ وحدت الوجود کے متعلق میکش اکبر آبادی لکھتے ہیں(۳)۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اسلامی وجودی وحدت الوجود کے ساتھ انسانی خودی اور خدا کی انفرادیت کے بھی قائل ہیں۔ اور انفرادیت کو کلیت کی ضد نہیں سمجھتے۔ بظاہر یہ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اسلامی مسلک کے تفصیلی مطالعہ سے اس بات کی تصدیق ہو جائے گی‘‘۔ خود اسلامی صوفیوں میں اس موضوع پر کئی رائیں ہیں چنانچہ مجدد صاحب عالم کو وہم اور معدوم مانتے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض اسلامی صوفی اور ہندی فسلفیوں میں ایک گروہ ایرانی اہل فکر کی طرح عالم کو خدا کا سایہ اور ظل تسلیم کرتا ہے۔ صوفیائے اسلام کا سب سے بڑا گروہ جس میں شیخ محی الدین ابن عربی بھی شامل ہیں، عالم کو فریب نظر یا معدوم نہیں مانتا بلکہ ان کے خیال میں عالم اور انسان عین حق یا مظہر حق ہیں اور یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن نے وضاحت سے کہا ہے کہ موجودات خارج اور ظاہر میں ہوں یا باطن میں، زمانی ہوں یا مکانی سب کی حقیقت اللہ ہے۔ ھو الاول والاخر و الظاہر و الباطن بعض احادیث نبوی اور آیات قرآنی اس بات کی شاہد ہیں کہ حقیقت صرف حق تعالیٰ کی ہے جو قائم بالذات ہے۔ بجز اس کے باقی تمام چیزیں باطل اور فانی ہیں، مثلاً حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید کے قول ’’الاکل شیی ما خلا اﷲ باطل‘‘پر مہر تصدیق ثبت کی اور فرمایا۔ سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے وہ لبید کی یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز باطل ہے(۴)۔ آیۂ کریمہ کل شیی ھا لک الاوجھہ کا مطلب بھی یہی ہے۔ اس نظریہ کے برعکس اسلامی صوفیاء بالخصوص شیخ اکبر اگرچہ کائنات کی کوئی الگ حقیقت یا وجود تسلیم نہیں کرتے تاہم وہ مطابق آیۂ کریمہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا اسے حقیقی قرار دیتے ہیں۔ نہ کوئی دھوکا ہے نہ کوئی التباس اور فریب۔ ذات باری سے بھی ممتاز اور اس کی کثرت باہم بھی ممتاز۔ ایک دوسرے سے الگ ہر شے خود ہی شے ہے۔ اس طرح وحدت الوجود کا نظریہ دو حصوں میں منقسم ہو کر رہ گیا(الف) پہلے نظرییٔ کے مطابق وجود صرف واجب تعالیٰ کا ہے۔ اس کے بغیر ہر چیز باطل اور معرض فنا میں ہے۔ (ب)دوسرے نظریے کے مطابق جسے شیخ اکبر نے پیش کیا اللہ تعالیٰ کی حقیقت کے ساتھ کائنات کی بھی حقیقت ہے اگرچہ اس کا کوئی الگ وجود نہیں اور نہ وہ عین حق ہے(۵)۔ غرض شیخ اکبر وجود ممکنات کو معدوم محض نہیں مانتے۔ رہا یہ سوال کہ شیخ موجودات کو عین حق مانتے ہیں یا نہیں، علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ جو لوگ اسے عینیت کا قائل سمجھتے ہیں ان میں اقبال بھی شامل ہیں۔ اس کے برعکس امام عبدالوہاب شعرانی ؒ کا خیال ہے کہ شیخ اکبر کی ایسی عبارت جس سے عینیت کی بو آتی ہو وہ شیخ کی نہیں بلکہ الحاقی ہے(۶)۔ وہ یواقیت میں لکھتے ہیں کہ شیخ اکبر کی تصانیف میں بہت کچھ افترا ہو چکا ہے۔ انہیں عینیت کا قائل سمجھنا محض افترا ہے در مختار میں بھی ہے کہ جو مسائل خلاف شرع فصوص الحکم میں درج ہیں وہ مسائل یہودیوں نے شیخ پر افترا کئے ہیں(۷)۔ حضرت پیر مہر علی گولڑوی فرماتے ہیں کہ اگر شیخ اکبر کو عینیت کا قائل بھی سمجھ لیا جائے تو ان کی عینیت کا مطلب یہ ہو گا کہ مطلق مقید کے وجود کا سبب ہے اور اس کے وجود سے اس کا قیام ہے(۸)۔ اقبال اس مخصوص نظرئے سے قطع نظر ابن عربی کو عینیت کا قائل قرار دیکر نظریہ وحدت الوجود کا مبلغ سمجھتے ہیں۔ علامہ کی ۱۹۰۸ء اور ۱۹۱۰ء کی نظمیں اسی تاثر کے تحت لکھی گئیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ نفیٔ ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاں موتی سے الااللہ کا کیا کہوں اندھوں سے میں اُس شاہد مستور کی دار کو سمجھے ہوئے ہیں جو سزا منصور کی (سوامی رام تیرتھ) اس دور میں اقبال کثرت کو محض آگہی کا زائیدہ نہیں خیال کرتے اور نہ اصل ہستی کو پردہ مان کر اس کو اُٹھا دینے کی فکر میں ہیں۔ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کثرت میں جو وحدت پنہاں ہے اس کو نظر انداز نہ کیا جائے اور حسن ازلی کا سب کو مظہر جان کر سب سے عملی دلچسپی لی جائے۔ اور چیزوں میں امتیاز اور غیریت کی ناقابل شکست دیواریں نہ حائل کرلی جائیں کیونکہ ایک ہی حقیقت کے سب مختلف مظاہر ہیں اور ہر مظہر اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ ان مظاہر کے عقب میں جو حقیقت ہے وہ ان مظاہر کا وجود ہے۔ وحدت وجود کا یہ تصور اب محض شاعرانہ یا ویدانت فلسفہ پر مبنی نہیں رہا، بلکہ ابن عربی عینیت کے قائل ہیں یعنی ان کے نزدیک مخلوقات کا وجود عین وجود خالق ہے، حقیقت کے اعتبار سے خالق اور مخلوق میں کوئی فرق نہیں۔ ابن عربی فرماتے ہیں کہ حقیقت انسان کی ذات کے اندر موجود ہے، وہ اپنے قول کی دلیل سبحان من خلق الاشیاء وھو عینھاسے لاتے ہیں، یہی وہ نکتہ ہے جس پر شیخ اکبر اور سوامی شنکر کے درمیان زبردست اختلاف ہے۔ سوامی شنکر عالم اور انسانی خودی کو شر، مایا اور برہما سے الگ تصور کرتے ہیں۔ ابن عربی اور ان کے متبعین عالم اور انسانی خودی کو عین حق اور ظہور حق سمجھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ سری شنکر کا نظریہ نفی خودی اور ترک عمل تک پہنچتا ہے۔ کیونکہ جب عالم دھوکا اور مجموعہ شر ہے تو اس دھوکے سے نجات حاصل کرنا اصلی نجات اور اس التباس وجود کا فنا ہو جانا ہی آخری منزل قرار دی گئی ہے(۹)۔ اسی تصور کے تحت بعض کے نزدیک ابن عربی فنائے ذات کے نہیں بلکہ وہم غیریت کی فنا کے قائل ہیں۔ میکش اس نکتہ کی صراحت مندرجہ ذیل سطور میں پیش کرتے ہیں(۱۰): ’’ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ وجودیوں کے مسلک میں بدھ ازم اور ویدانت کی طرح فنا مقصود اعلیٰ اور آخری منزل نہیں ہے بلکہ آخری منزل بقا ہے۔ اور اسے حاصل کرنے کے لیے فنا کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خاص بات یہ ہے کہ اس نقطۂ نظر میں فنا کے معنی نروان کی طرح حقیقی یا واقعی فنا کے نہیں بلکہ محض تبدیلی خیال یا تصحیح خیال کے ہیں۔ یعنی ایک شخص جہاں تک اپنے آپ کو غیرِ حق سمجھتا ہے اس کے علم و یقین کو فنا کر کے یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ وہ غیر حق نہیں ہے۔ بدھ مت اور ویدانت میں عالم اور احساس خودی کو خیال اور نظر کا دھوکہ سمجھا جاتا ہے اور دھوکے کو دور کرنے کے لیے فنائے محض ضروری سمجھی جاتی ہے لیکن وجودی مسلک میں صرف وہم غیریت کو فنا کیا جاتا ہے۔ نہ کہ ہستی کو، کیونکہ ہستی حق ہے اور ناقابل فنا ہے، ا س وہم غیریت کی فنا کو فنا فی اللہ اور احساس حقیقت کو بقا بااللہ کہتے ہیں‘‘۔ علم کا موجود اور فقر کا موجود اور اشہدان لا الہـ اشہد ان لا الہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ ابن عربی کے اس تصور نے اقبال کو خودی یا اثبات نفس کا تصور دیا۔ انہیں نظریۂ وحدت الوجود کو ترک کرنا پڑا۔ وحدت وجود کی مخالفت کا دور وحدت وجود کی مخالفت کے اسباب: اقبال جب یورپ سے واپس آئے تو انھیں مسلمانوں کی پستی کا شدید احساس تھا۔ انھوں نے قرآن حکیم پر غور و تدبر شروع کیا اور نتیجے کے طور پر عقیدہ وحدت وجود کو مسلمانوں کے زوال کا سبب قرار دیا۔ سلف نے دینی بنیادوں پر نظریۂ وحدت الوجود کی مخالفت کی تھی چنانچہ اما م ابن تیمیہ نے ایک مستقل رسالہ فی ابطال وحدت الوجود لکھ کر اس نظریے کے علمبرداروں کوکافر قرار دیا۔ ابن قیم، ذہبی اور محمد بن عبدالوھاب نے بھی انہیں کافر سمجھا۔حسین منصور کو پھانسی دی گئی۔ شیخ شہاب الدین سہروردی کو صلاح الدین ایوبی کے حکم سے قتل کیا گیا۔ البقائی نے ابن عربی کی تردید میں کتابیں لکھ کر انہیں کافر ثابت کیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ نظریہ قرآن کی بنیادی تعلیم کے خلاف تھا۔ قرآن میں انسان اور کائنات کی تخلیق کا بار بار ذکر آیا ہے۔ اگر مخلوق کے وجود سے انکار کر دیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے کسے پیدا کیا۔ اگر مغائرت کا انکار کر کے عینیت ثابت کی جائے تو عبادت کا مفہوم ہی ختم ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے جب اس نظریے کی مخالفت کی تو ان کے پیش نظر دینی اور دنیاوی فسادات تھے جو اس نظریے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ وحدت وجود کے اثرات انسانی طبیعت کو عمل کے بجائے سکون کی طرف راغب کرتے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو مجبور اور بے بس سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ جب وحدت الوجود کا عقیدہ عام ہو گیا تو پوری مسلم قوم جمود اور خانقاہیت اور تقدیر پرستی، ترک عمل، غلامی اور بالآخر تباہی کا شکار ہو گی۔ ابن عربی ۶۳۸ھ میں فوت ہوئے۔ ساتویں صدی کے مسلمان جمود کا شکار نہیں تھے۔ ساتویں اور آٹھویں صدی میں عقیدۂ وحدت الوجود کے پھیلنے کی وجہ سے عالم اسلام میں بے شمار خانقاہیں قائم ہوئیں۔ ایرانی شعراء نے وجودی تصوف کو شاعری کا موضوع بنایا۔ اس طرح یہ عقیدہ دل و دماغ پر اثر انداز ہوا۔ ۱۹۱۰ء سے ۱۹۲۲ء کے عرصے تک علامہ کے کلام میں وجودی تصوف کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی اسی دور کی مثنویاں ہیں۔ اول الذکر ۱۹۱۵ء میں اور آخر الذکر ۱۹۱۷ء میں شائع ہوئی۔ ۱۹۱۴ء میں امرتسر میں شیخ احمد سرہندی کے مکتوبات بھی شائع ہو چکے تھے۔ ان مکتوبات میں وحدت الشہود پر زور دیا گیا۔ ان نظریات کا اثر اقبال پر بہت گہرا ہوا۔ اسرار خودی کا دور گویا وحدت الوجود کی مخالفت کا دور ہے۔ اس دور میں اقبال نے نہ صرف نظریۂ وحدت الوجود کی مخالفت کی بلکہ بعض وجودی حضرات مثلاً مولانا روم اور منصور کے نظریات کی نئی توجیہ پیش کر کے انہیں دائرہ وجودیت سے باہر لانے کی کوشش کی۔ ذیل کے خطوط سے علامہ کے اس رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں۔ ’’حضرت۔ میں نے مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ آپ نے شاید اس کو سکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدت الوجود نظر آتا ہے۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانوی سے پوچھئے۔ وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں انہیں کا مقلد ہوں(۱۱)‘‘۔ ایک خط میں نظریۂ وحدت الوجود کے ترک کرنے کا صاف طور پر اعلان کرتے ہیں۔ ’’مجھے اس امر کا اعتراف کرنے میں شرم نہیں کہ میں ایک عرصہ تک ایسے عقائد و مسائل کا قائل رہا جو بعض صوفیا کے ساتھ خاص ہیں۔ اور جو بعد میں قرآن شریف پر تدبر کرنے سے قطعاً غیر اسلامی ثابت ہوئے۔ مثلاً شیخ محی الدین ابن عربی کا مسئلہ قدم ارواح، مسئلۂ وحدت الوجود، یا مسئلۂ تنزلات سۃ یا دیگر مسائل جن میں بعض کا ذکر عبدالکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل میں کیا ہے(۱۲)۔‘‘ اپنے ایک مکتوب بنام خواجہ حسن نظامی مرحوم میں اپنے عقائد کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’بلکہ مجھے ابھی سے یقین ہے کہ بالآخر آپ میرے ساتھ اتفاق کریں گے۔ میری نسبت بھی آپ کو معلوم ہے کہ مرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ کیونکہ یورپین فلسفہ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے مگر قرآن میں تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کر دیا۔ اور اس مقصد کے لیے مجھے اپنی فطری اور آبائی رجحانات کے ساتھ ایک خوفناک قلبی اور دماغی جہاد کرنا پڑا۔ میں شیخ محی الدین ابن عربی کی عظمت اور فضیلت دونوں کا قائل ہوں اور ان کو اسلام کے بڑے حکما میں سمجھتا ہوں۔ مجھے ان کے اسلام میں بھی کوئی شک نہیں ہے کیونکہ جو عقائد ان کے ہیں (مثلاً قدم ارواح اور وحدت الوجود) انہوں نے ان کو فلسفہ کی بنا پر نہیں جانا بلکہ نیک نیتی سے قرآن حکیم سے مستنبط کیا ہے۔ بس ان کے عقائد صحیح ہوں یا غلط قرآن کی تاویل پر مبنی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو تاویل انہوں نے پیش کی ہے وہ منطقی یا معقولی اعتبار سے صحیح ہے یا غلط۔ اس لیے گو میں ان کو ایک مخلص مسلمان سمجھتا ہوں مگر ان عقائد کا پیرو نہیں ہوں(۱۳)۔‘‘ ابتدائی دور میں جب اقبال پر وجودی رنگ غالب تھا۔ وہ منصور حلاج کو وجودی سمجھتے تھے۔ لیکن بعد میں جب انھوں نے نظریۂ وحدت الوجود کی مخالفت کی تو اسے بھی تقویم خودی کا علمبردار قرار دیا۔ ۱۷۔ مئی ۱۹۱۹ء اسلم جیرا جپوری کو ایک خط لکھتے ہیں۔ ’’منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی الفہرست میں ہے فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ مؤلف نے فرنچ زبان میں نہایت مفید حواشی اس پر لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ حسن کے اصلی معتقدات پر اس رسالے سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان منصور کی سزا دھی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے اس کی اس رسالے سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ غیر صوفیا قریباً سب کے سب سے بیزار تھے۔ معلوم نہیں متاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہو گئے(۱۴)۔‘‘ غرض منصور کو اپنے وجودی تصورات کی پاداش میں جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ اس کا یہ واقعہ شعر و ادب میں پیوست ہو کر رہ گیا ہے۔ اقبال اسی تاثر کے تحت فرماتے ہیں۔ منصور کو ہوا لبِ گویا پیام موت اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی ۱۹۲۳ء کے بعد علامہ اسے بقائے ذات کا قائل سمجھنے لگے۔ جاوید نامہ میں حلاج کی زبانی کہلواتے ہیں۔ عبدہ با ابتدا بے انتہا ست عبدہ را صبح و شام ما کجاست جاوید نامہ میں اقبال فلک مشتری میں حلاج سے سوال کرتا ہے کہ تجھے کس گناہ کی پاداش میں تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ حلاج جواب دیتا ہے کہ ’’میرے سینے میں آگ کا ایک سمندر موجزن تھا۔ میں نے اپنے اردگرد لوگوں کو چلتے پھرتے دیکھا مگر وہ اندر سے مردہ تھے لـہذا اسی نسبت سے میں نے نعرۂ انا الحق بلند کیا۔ اس توقع پر کہ شاید اسی بانگ صور سے ان کی مردہ روحوں میں زیست کے آثار پیدا ہو جائیں۔ یہ تھے تو مومن لیکن اپنے وجود کی قدر و قیمت سے منکر، ’لاالٰہ‘ کا کلمہ ان کی زبان سے ضرور ادا ہوتا تھا کیونکہ وہ مسلمان تھے لیکن اس نعرۂ لا میں جو اثبات خودی مضمر تھا اس سے وہ بالکل عاری تھے۔ اس طرح علامہ نے انا الحق کی نئی تفسیر پیش کی۔ روایتی مفہوم کے مطابق انا الحق کہنے والا اپنی ذات کی نفی اور ذات خداوندی کا اثبات کرتا ہے۔ جیسا مولانا روم اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں۔ ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ انا الحق کوئی بڑا دعویٰ ہے۔ حالانکہ بڑا دعویٰ انا العبد کہنا ہے۔ کیونکہ اس میں خدا کے ساتھ اپنی ہستی کا بھی دعویٰ ہے۔ اور انا الحق کے معنی یہ ہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں عدم محض ہوں۔ وجود صرف خدا ہی کا ہے۔ اس میں تواضع زیادہ ہے۔ بس یہ بات ہے کہ لوگ اس کو سمجھتے نہیں(۱۵)۔‘‘ یہ دعویٰ اقبال کی زبان سے ادا ہوا۔ ان کے نزدیک زندگی جہاں بھی ہے فرد کی صورت میں ہے۔ کلی زندگی یا زندگی بہ حیثیت کل کوئی شے نہیں ہے۔ خدا بھی ایک فرد ہے۔ یعنی وہ فرد جو بالکل بے مثل اور بے ہمتا ہے۔ کائنات کا نظام ان گنت افراد کا نظام ہے جس کا حاکم اعلیٰ اور منبع فیض وہ فرد بے ہمتا ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں۔ ہر فرد یا انا تجربے کا محدود مرکز ہے جو اپنے ماحول سے تعامل کر کے تجربے اور مشاہدے کے حاصلات کو اس طرح اپنے اندر جذب کرتا ہے کہ وہ خودی کا جزو بن جاتے ہیں۔ اور اس کی بالیدگی میں ممد ہوتے ہیں۔ انا کا ماحول سے یہ تعامل کوئی انفعالی حالت نہیں ہے۔ یہ تو ایک تفاعل ہے۔ انا کی تعمیر کوئی غیر نہیں کرتا۔ بلکہ انا خود اپنی تعمیر یا تخریب میں مصروف ہے اور اس کام میں فاعلانہ انداز سے ماحول کی تمام ایسی قوتوں سے اشتراک عمل کر رہا ہے جو اس کی تعمیر میں ممد و معاون ہو سکتی ہیں۔ جاوید نامہ میں علامہ فرماتے ہیں کہ نور و نار خودی کے اہم عناصر ہیں۔ نارھا پوشیدہ اندر نور اُوست جلوہ ھائے کائنات از طور اُوست من ز نور و نار اُو دادم خبر بندۂ محرم! گناہِ من نگر! یہاں نور سے مراد روحانی قوت اور نار سے مادی قوت ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ مستحکم خودی انسان کو لازوال بنا سکتی ہے۔ مندرجۂ ذیل شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر تو محکم و استوار ہے تو اس صورت میں اپنے آپ کو خدا ہی کی طرح ہمیشہ رہنے والا اور قائم رہنے والا سمجھ۔ پیش ایں نور ار بمانی اُستوار مئی و قائم چوں خدا خود را شمار پھر فرماتے ہیں کہ یہ کمال انسان کو عبدیت کے مقام ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ تا ز ما زاغ البصر گیرد نصیب بر مقام عبدہ، گردد رقیب اس طرح اقبال معرفت حق کی اساس پر اثبات خودی کا درس نہیں دیتے بلکہ اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ انسان خودی میں ڈوب کر تلاش حق کرے۔ خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کار کی راہ اقبال نظریۂ وحدت الوجود کی بساط اُلٹ دینے کے بعد اس کی تردید پوری قوت اور شاعرانہ محاکات کے ساتھ کرتے ہیں۔ چنانچہ جگن ناتھ آزاد رقمطراز ہیں کہ یہی خودی جب شنکر اچاریہ اور منصور کے یہاں آ کر خدا بنتی ہے تو اقبال اس نظریۂ وحدت الوجود سے کلی طور پر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ اس دور کی بات نہیں جب اقبال نے کہا تھا منصور کو ہوا لب گویا پیام موت اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی بلکہ اس دور کے افکار کا ذکر ہے۔ جب گلشن راز جدید لکھی جا رہی تھی(۱۶)۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، ۱۹۱۵ء میں جب امرتسر میں مکتوبات امام ربانی چھپ رہے تھے اقبال اسرار خودی لکھنے میں مصروف تھے۔ مکتوبات میں حضرت مجدد اپنے شہودی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں(۱۷)۔ ’’اور مسئلہ توحید وجودی جس کے بارے میں میں پہلے متردد تھا اور فعلوں اور صفتوں کو اصل سمجھتا رہا۔ جب حقیقت حال منکشف ہوئی تو تردد جاتا رہا اور ہمہ اوست کی نسبت ہمہ ازوست کا پلہ بھاری رہا۔‘‘ وحدت الوجود کا مطلب یہ ہے کہ سالک خدا کے سوا کسی کا وجود تسلیم نہیں کرتا۔ وحدت الشہود میں اس کا مشہود صرف ایک ذات ہوتی ہے اور کائنات اُسے نظر نہیں آتی۔ جس طرح سورج کی تابش کے سامنے ستارے دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن وہ دراصل موجود ہوتے ہیں۔ حضرت مجددؒ نے قرآنی استدلال سے بھی وحدت الوجود کو غلط ثابت کیا اور اپنے کشف اور مشاہدے کی رو سے بھی۔ مزید تفصیل حسب ذیل ہے۔ نظریۂ وحدت الوجود کے مطابق ذات اور وجود میں عینیت ہے۔ شیخ اکبر کا یہ قول چونکہ ذات صفات کا عین ہے اور اشیائے کائنات عین صفات ہیں لـہـذاوہ بھی عین ذات ٹھہریں۔ حضرت مجددؒ کو قبول نہیں۔ ان کے نزدیک صفات عین ذات نہیں بلکہ صفات زائد علی الذات ہیں۔ اللہ اپنی ذات میں اکمل ہے، اس لیے صفات کی حاجت سے بے نیاز ہے۔ حضرت مجددؒ کے نزدیک صفات اللہ تعالیٰ کے وجود کے تعینات یا ظلال ہیں۔ اللہ تعالیٰ موجود ہے کیونکہ وہ قائم بالذات ہے۔ وہ سمیع و بصیر ہے اپنی ذات سے۔ اس طرح صفات اللہ تعالیٰ کے ظلال ہیں عین نہیں۔ اگر ہم کائنات کو صفات حق تعالیٰ کا ظہور یا تجلی تسلیم کریں تو اس صورت میں اس کو عین بھی تسلیم کرنا پڑے گا لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ صفات کی حقیقت ذات کے اظلال سے زیادہ نہیں۔ حضرت مجددؒ کے اس نظریے کے مطابق کائنات معدوم نہیں بلکہ موجود ہے۔ یہ خدا کا عین نہیں اس کا وجود ظلی ہے اور ظل خارج میں موجود ہے۔ ظلی وجود حقیقی نہیں ہوا کرتا اس لیے وہ خدا کا عین نہیں ہو گا تاہم اس کے غیر حقیقی وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے اس نظریے کے مطابق حضرت مجددؒ ذات حق کو وراء الورا تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس شیخ اکبر کائنات ہی کو خدا کہتے ہیں۔ اقبال خودی اور خدا میں باعتبار وجود عینیت تسلیم کرتے ہیں۔ چونکہ کائنات کی بھی خودی ہے اس لیے خدا اور کائنات میں بھی عینیت ہے۔ حضرت مجدد کے نزدیک عالم موجود خارجی حقیقت ہے۔ چونکہ اس کا وجود ظلی ہے اس لیے وہ واجب کا عین نہیں۔ اقبال کے نزدیک خودی خدا اور خودی کائنات میں بہ اعتبار وجود عینیت ہے لیکن ذات کے اعتبار سے نہیں۔ ذات ورا الورا ہے۔ مجددؒ کے نزدیک حق تعالیٰ کے حقیقی وجود اور کائنات کے ظلی وجود میں عینیت محال ہے۔ شیخ اکبر اس عالم کو حق تعالیٰ سے الگ تصور نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک کائنات عین صفات ہے اور صفات عین ذات ہیں۔ لہـذا کائنات بھی خدا ہے۔ اقبال کائنات کو بہ اعتبار وجود تو خدا مانتے ہیں لیکن ذات کے اعتبار سے وہ اللہ تعالیٰ کی ماورائیت کے قائل ہیں۔ ممکن کا واجب ہونا محال ہے۔ کوئی شے خدا نہیں ہو سکتی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ذات کے اعتبار سے ہر شے غیر خدا ہے۔ مندرجہ ذیل آیاتِ قرآنی میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ ۱۔ ھل من خالق غیر اللّـہ ۲۔ افغیر اللّـہ تتقون ۳۔ افغیر اللّـہ تامرونی ایھا الجاھلون غرض کسی شے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہہ وہ شے خدا ہے تاہم کائنات کو اپنی خودی یا اجتماعی وحدت کے اعتبار سے حق تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس وجودی حضرات کائنات کے ذرہ ذرہ میں اللہ کا وجود تسلیم کرتے ہیں۔ اقبال حضرت مجددؒ کے نظریۂ ظلی وجود کے قائل نہیں کیونکہ ایسی صورت میں کائنات اور ذات حق یعنی دو وجودوں کو بیک وقت تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ حقیقی اور ظلی وجود میں عینیت محال ہے۔ اس لیے وحدت الوجود کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اتحاد الوجود سے مفر نہیں ہے۔ حضرت مجددؒ کا نظریۂ عبد و معبود سلوک کی تیسری منزل کی نشاندہی کرتا ہے(۱۸)۔ اقبال اس کو اپنے فلسفہ کا مرکزی تصور قرار دیتے ہیں اور نظریۂ عبدیت کا اثبات بھی کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک انائے انسانی و انائے ربانی کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے اور ایک کا وجود دوسرے کے لیے لازم۔ نہ اُو را بے نمود ما کشودے نہ ما را بے کشودِ اُو نمودے خودی کا مقام یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو اپنے اندرسمو کر تخلقوا با خلاق اللّـہ کے مصداق قائم بالذات بن جائے۔ اس مقام پر انائے انسانی ذات حق کا نتیجہ بن جاتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں۔ ذات ما آئینہ ذات حق است ہستیٔ مسلم ز آیات حق است اللہ تعالیٰ کی رضا اس کی رضا میں گم ہو جاتی ہے۔ در رضا لُش مرضیٔ حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود پنجۂ اُو پنجۂ حق مے شود ماہ از انگشت اُو شق مے شود توحید اور وحدت الوجود علامہ کے نزدیک توحید اور وحدت الوجود دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔ اول الذکر کا تعلق مذہب سے ہے، ثانی الذکر کا فلسفہ سے۔ نظریۂ توحید عبد و معبود اور خالق و مخلوق کا رشتہ پیش کرتا ہے۔ اس کے برعکس وحدت الوجود کے حامی ان سب کی نفی کر کے وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ علامہ ۱۹۱۶ء کے اخبار ’وکیل‘ امرتسر میں لکھتے ہیں ۔ ’’اصل بات یہ ہے کہ صوفیا کو توحید اور وحدت الوجود کا مفہوم سمجھنے میں سخت غلطی ہوئی ہے۔ یہ دونوں اصطلاحیں مترادف نہیں…بلکہ مقدم الذکر کا مفہوم خالص مذہبی ہے۔ اور موخر الذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ۔ توحید کے مقابلے میں یا اس کی ضد لفظ کثرت نہیں جیسا کہ صوفیا نے تصور کیا ہے، بلکہ اس کی ضد شرک ہے۔ اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن لوگوں نے وحدت الوجود یا زمانہ حال کے فلسفۂ یورپ کی اصطلاح میں توحید کو ثابت کیا ہے وہ موحد تصور کیے گیے۔ حالانکہ ان کے ثابت کردہ مسئلے کا تعلق مذہب سے نہ تھا بلکہ نظام عالم کی حقیقت سے تھا۔ اس کی تعلیم نہایت صاف اور روشن ہے۔ یعنی یہ کہ عبادت کے قابل صرف ایک ذات ہے۔ باقی جو کچھ کثرت نظام عالم میں نظر آتی ہے وہ سب کی سب مخلوق ہے۔ گو عملی اور فلسفیانہ اعتبار سے اس کی کنہ اور حقیقت ایک ہی ہے۔ چونکہ صوفیا نے فلسفہ اور مذہب کو دو مختلف مسائل یعنی توحید اور وحدت الوجود کو ایک ہی سمجھ لیا ہے اس لیے ان کو یہ فکر ہوئی کہ توحید ثابت کرنے کا کوئی اور طریقہ ہونا چاہیے جو عقل اور ادراک کے قوانین سے تعلق نہ رکھتا ہو۔ اس غرض کے لیے حالت سکر ممد و معاون ہوئی اور یہ اصل ہے مسئلۂ حال و مقامات کی۔ مجھے حالتِ سکر کی وقعت سے انکار نہیں صرف اس بات سے انکار ہے کہ جس غرض کے لیے یہ حالت پیدا کی جاتی ہے ہ غرض مطلق اس سے پوری نہیں ہوتی۔ اس سے زیادہ سے زیادہ صاحب حال کے ایک علمی مسئلے کی تصدیق ہوتی ہے نہ کہ مذہبی مسئلے کی۔ صوفیا نے وحدت الوجود کی کیفیت کو ایک مقام لکھا ہے۔ شیخ اکبر کے نزدیک یہ انتہائی مقام ہے اور اس کے آگے عدم محض ہے۔ لیکن یہ سوال کسی کے دل میں پیدا نہیں ہوا کہ آیا یہ مقام کسی حقیقت نفس الامری کو وضع کرتا ہے؟ اگر کثرت حقیقت نفس الامری ہے تو یہ حقیقت الوجود جو صاحب حال پر وارد ہوتی ہے محض دھوکا ہے۔ اور مذہبی اور فلسفیانہ اعتبار سے کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اور اگر کیفیت وحدت الوجود محض ایک مقام ہے اور کسی نفس الامری کا اس سے کوئی انکشاف نہیں ہوتا تو اس کو معقولی طور سے ثابت کرنا فضول ہے۔ جیسا کہ محی الدین ابن عربی اور دیگر صوفیا نے کیا ہے۔ نہ اس کے محض مقام ہونے سے روحانی زندگی کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ قرآن کی تعلیم کی رو سے وجود فی الخارج کو ذات باری سے نسبت اتحاد کی نہیں بلکہ مخلوقیت کی ہے۔ اگر قرآن کریم کی یہ تعلیم ہوتی کہ ذات باری تعالیٰ کثرت نظام عالم میں دائر و سائر ہے تو کیفیت وحدت الوجود کو قلب پر وارد کر سکتا اور یہ مذہبی زندگی کی آخری منزل ہوتی مگر میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قرآن کی تعلیم نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ میرے نزدیک یہ کیفیت قلبی مذہبی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں رکھتی اور علم الحیات کی رو سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس کا درود حیاتِ انسانی کے لیے فردی اور ملّی اعتبار سے مضر ہے۔ علمائے اسلام نے ابتدا ہی سے اس تصوف کی مخالفت کی اور مسئلہ وحدت الوجود کے متعلق علمائے اُمت کا اجماع ہے کہ یہ قطعاً غیر اسلامی چیز ہے(۱۹)۔‘‘ اقبال مذہبی نقطۂ نظر سے خالق و مخلوق میں رشتۂ عینیت کے نہیں بلکہ رشتۂ عبدیت کے قائل ہیں۔ عبادت کرنے والا جہاں ذات حق کا اقرار کرتا ہے وہاں وہ اپنی ہستی کا بھی اقرار کر کے اثبات نفس کرتا ہے۔ علامہ جاوید نامہ میں مقام عبدیت کی منزل معراج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جہاں عبد و معبود کے اختیار کی حدود باہمد گر مل جاتی ہیں۔ لا الہ تیغ و دم اُو عبدہ، فاش تر خواہی بگو ھو عبدہ، مدعا پیدا نکردد زیں دوبیت تا نہ بینی از مقام ما رمیت مطلب یہ کہ خدا کی توحید ایک تیغ ہے اور تیغ کی آب و تاب بندۂ حق کی اطاعت ہے۔ اگر اس مفہوم کو زیادہ صاف اور واضح طور پر کہنا چاہو تو کہہ سکتے ہیں کہ مقام اطاعت میں ہو (خدا) ہی عبدہ اپنا بندہ بن جاتا ہے۔ یعنی بندۂ مومن کے لباس میں کفر و شرک کے خلاف اللہ تعالیٰ خود جنگ آزما ہوتا ہے شعر مذکور میں اس آیہ کریمہ کی طرف اشارہ ہے وما رمیت……الخ یعنی اے پیغمبر صلعم تو نے وہ کنکریوں کی مٹھی نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔ مقام عبدیت پر پہنچ کر اقبال کے یہاں فنا و بقا کا تصور بھی بدل جاتا ہے۔ اکبر الہ آبادی کو ایک خط محررہ ۲ جولائی ۱۹۱۸ء میں اپنے خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں۔ ’’اسلامی بیخودی (فنا) میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات و رجحانات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہو جانا ہے۔ اس طرح پر کہ اس پابندی کے نتائج سے انسان بالکل لاپروا ہو جائے اور محض رضا و تسلیم کو اپنا شعار بنائے(۲۰)۔‘‘ گفتم آدم؟ گفت از اسرار اوست گفتم عالم؟ گفت اُو خود رو برو است لیکن جب اقبال مذہب کے دائرے میں آتے ہیں تو کائنات کو مخلوق اور فانی تصور کرتے ہیں۔ لیکن خودی کو حق سمجھتے ہیں۔ تواں گفتن جہان رنگ و بو نیست زمین و آسمان و کاخ و کو نیست تواں گفتن کہ خوابے یا فسونے است حجاب چہرۂ آں بے چگونے است تواں گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است فریب پردہ ہائے چشم و گوش است خودی از کائنات رنگ و بو نیست حواس ما میان ما و اُو نیست پھر فرماتے ہیں۔ خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است یکے اندیش و دریاب ایں چہ راز است فلسفہ کی رو سے نفس انسانی یا خودی اقبال کے ذات مطلق کے اظہار کی ایک کفیت ہے لہـذا واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں۔ تاہم ان کا رابطہ وجدانی و عرفانی بصریت کی بغیر قابل فہم نہیں۔ علامہ کے نزدیک خودی بہ اعتبار وجود عین خدا ہے لیکن بہ اعتبار ذات وہ غیر خدا ہے۔ وجود اگر مطلق ہے تو خدا ہے اور اگر وہی وجود متعین ہو جائے تو انسانی خودی۔ خدا کی ہستی ایک بے مقصد سیلان و میلان نہیں بلکہ ایک نفس مطلقہ ہے اور نفس کے لیے مقصد آفرینی اور مقصد کوشی لازم ہے لیکن اگر خالص مذہبی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو اقبال کے نزدیک خدا خالق ہے اور بندہ مخلوق۔ خدا کامل ترین فرد ہے اور بندہ اس کے مقابلہ میں ادنیٰ ترین فرد۔ دونوں کے درمیان نسبت عینیت کی ہے۔ جیسا کہ گزر چکا ہے علامہ اقبال نے ۱۹۱۰ء کے بعد نظریہ وحدت الوجود کی بھرپور مخالفت شروع کردی تھی لیکن ۱۹۲۲ء کے بعد وہ پھر اسی نظریۂ کے حامی نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ اظہار فلسفہ کی حدود کے اندر رہا۔ مذہبی اعتبار سے وہ توحید ہی کے علمبردار تھے۔ فلسفہ کی حدود کے اندر ان کے اور شیخ اکبر کے وجودی تصورات میں خاصی ہم آہنگی اور مماثلت نظر آتی ہے مثلاً شیخ اکبر کے نزدیک تو وجود فرد واحد ہی پر منحصر ہے۔ یعنی اس زمین سے آسمان تک بجز ذات حق کے کوئی شے موجود نہیں۔ یعنی کائنات معدوم ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تجلی صفات پڑنے سے موجود ہو گئی ہے۔ ذات باری تعالیٰ کی جملہ صفات عین ذات ہیں۔ اگر ذات و صفات میں عینیت نہ ہوتی تو دوئی لازم آتی جو محال ہے۔ ابن عربی کائنات کو تجلی صفات یا ظہور کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات ظہور میں عین ذات ہے۔ علامہ انہی نظریات کے ترجمان ہیں چنانچہ فرماتے ہیں۔ میں کہاں ہوں تو کہاں ہے یہ مکاں کہ لا مکاں ہے؟ یہ جہاں ترا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی؟ ۱۹۱۶ء میں جیسا کہ گزر چکا ہے علامہ نے واضح طور پر بتایا تھا کہ مسئلۂ وحدت الوجود ایک فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ اس کا مذہب کے ساتھ تعلق نہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ ۱۹۳۰ء میں وہ اپنے خطبۂ صدارت میں اس نظریہ کو مذہبی نقطۂ نظر سے بھی حق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’مذہب اسلام کی رو سے خدا، کائنات ، کلیسا، ریاست، مادہ اور روح ایک ہی کل کے مختلف اجزاء ہیں(۲۱)۔‘‘ اقبال ریویو،لاہور، جنوری ۱۹۷۴ء حوالے اور حواشی ۱۔ علامہ اپنے مکتوب بنام شاہ سلیمان پھلواروی، محررہ ۹ مارچ ۱۹۱۶ء رقمطراز ہیں: ’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیوں کر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلۂ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تصوف کا لٹریچر کرآت سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اسمیں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف۔ انہیں غیراسلامی عناصر کی وجہ سے ہی مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ اور یہ حملہ انھوں نے حققیت میں اسلام پر کیا ہے۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ تصوف اسلامیہ کی ایک تاریخ لکھی جائے جس سے معاملہ صاف ہو جائے اور غیر اسلامی عناصر سے تقطیع ہو جائے۔ سلاسل تصوف کی تاریخی تنقید بھی ضروری ہے اور زمانۂ حال کا علم النفس جو مسئلہ تصوف پر حملہ کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے، اس کا پیشتر ہی سے علاج ہونا ضروری ہے‘‘۔ ماہنامہ ریاض کراچی، جنوری ۱۹۵۶ء ص ۱۶۔ ۲۔ میکش اکبر آبادی، نقد اقبال، میوہ کٹرہ آگرہ، ص ۱۲۳۔ ۳۔ حوالہ بالا ۴۔ یہ حدیث امام بخاریؒ نے تین جگہ بیان کی ہے۔ باب ایام الجاہلیت میں ابو ھریرہؓ سے باب الادب میں ابن البشارؓ اور باب الرقاق میں محمد بن مثنیٰ سے۔ اسی طرح امام مسلم نے محمد بن الصباح اور دوسری جماعت سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے علی ابن حجر سے اور شمائل میں محمد بشار سے روایت کی ہے۔ ابن ماجہ نے باب الادب میں محمد بن الصباح سے اسے روایت کیا ہے۔ ۵۔ شیخ اکبر اپنی کتاب، شجرۃ الکون، میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوقات کے ساتھ ملامست اور مواصلت اور مفاصلت سے بالکل منزہ ہے۔ کیونکہ وہ اس وقت بھی موجود تھا جب کون کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وھو الان کما کان اور اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ نہ وہ عین کے ساتھ متصل ہے نہ اس سے جدا کیونکہ وصل اور فصل صفات حدوث سے ہے۔ اور اس کی ذات قدیم ہے۔ اتصال اور انفصال سے انتقال اور ارتحال لازم آتا ہے۔ اور انتقال اور ارتحال، سے تحول، زوال، اور استبدال لازم آئے گا اور یہ سب امور ناقص ہیں‘‘۔ دوسری جگہ شیخ فرماتے ہیں اگر حق تعالیٰ کی ندا ہمارے لیے اور ہماری ندا اس کے لیے نہ ہوتی تو نہ وہ ہم سے ممیز ہوتا اور نہ ہم اُس سے۔ جس طرح حق تعالیٰ نے اپنی ذات کو ہم سے جدا کیا ہے۔ اسی طرح ہم نے اپنی ذاتوں کو اُس سے جدا کیا ہے۔ جو دعویٰ وصل کرے وہ عین جدائی میں ہے، باب الاسرار۔فتوحات مکیہ، ص ۳۶۵۔ اسی باب میں شیخ فرماتے ہیں انت امنت و ھو ھو یعنی تو تو ہے اور وہ وہ ہے۔اس لیے ایسے الفاظ سے بچنا چاہیے جو کسی عاشق کے لیے مخصوص ہیں۔ انا من اھویٰ و من اَھویٰ انا ۔۔۔الخ۔یعنی ’’بچ اس سے کہ تو کہے کہ میں وہی ہوں یعنی اللہ کا عین ہوں‘‘۔ شیخ اکبر کے نزدیک ایسا کہنا لسان عشق سے تو ہو سکتا ہے لسان علم اور تحقیق سے نہیں۔ ۶۔ کتا ب الیواقیت والجواہر امام عبدالوھاب شعرانی مصنفہ، مطبوعہ مصر، ص۷۔ ۷۔در مختار باب المرتد صفحہ ۲۳۰ مطبوعہ بمبئی صفحہ۔ ۸۔ پیر مہر علی گولڑوی اوجدالاشیاء و ھو عینھاکی شرح ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔برائے لفظ ’’عین‘‘ در معنی است یکے آنکہ گفتہ میشود ایں چیز عین خود است چنانچہ الانسان انسان۔ دیگر مابہ القوام و قیام چیزے بہ چیز آخر باشد۔ در ینجا ہمیں معنی مراد است نہ اول پس معنی و ھو عینھا این است کہ اگر تعلق واجب از مخلوقات قطع نظر کردہ شود مخلوق را فی نفسہ وجودے نیست زیرا کہ ممکن است۔ وجود و عدمِ او مساوی است (ملفوظات) یعنی’’لفظ عین کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ چیز اپنے آپ کا عین ہے۔ جیسے الانسان انسان۔ دوسرے معنی عین کے مابہ القوام کے ہیں کہ ایک چیز کا قیام دوسری چیز کے ساتھ ہو۔ اس جگہ وہی مراد ہیں نہ کہ اول پس و ہو عینھا کا مطلب یہ ہے کہ گر واجب الوجود کا تعلق مخلوقات سے قطع نظر کیا جائے تو مخلوق کا فی نفسہٖ کوئی وجود نہیں اس لیے کہ یہ ممکن ہے اور ممکن کا وجود و عدم برابر ہے‘‘۔ ۹۔ نقد اقبال، محولہ ماقبل، ص ۷۴۔ ۱۰۔ ایضاً، ص ۱۰۳۔ ۱۱۔ علامہ اقبال، ’’سّر اسرار خودی‘‘ وکیل، امرتسر، مورخہ ۹ فروری، سنہ ۱۹۱۶ھ۔ ۱۲۔ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ اخبار وکیل امرتسر، ۱۵ جنوری، ۱۹۱۶ئ۔ ۱۳۔ جگن ناتھ آزاد،اقبال اور اُس کا عہد،الہ آباد19 ، ص ۶۱۔ ۱۴۔ شیخ عطا اللہ (مرتب)اقبال نامہ، حصہ اول، ص ۴۵، ۵۵۔ ۱۵۔ اصل عبارت یہ ہے ’’ آنکہ مے گویند کہ من عبد خدا یم دو ہستی اثبات مے کند۔یکے خود را ویکے خدا را۔ اما آنکہ انا الحق گوید خود را عدم کردد و بباد داد وے گوید انا الحق یعنی من نیستم ’’ہمہ اوست۔ جز خدا ہستی نیست۔ من بکل عدم‘‘محضم و ہیچم۔ تواضع دریں جا بیشتر است۔ این است کہ مردم فہم نمے کنند۔‘‘ فیہ ما فیہ۔ ملفوظات مولانا روم، ص ۱۱۷۔ ۱۶۔ جگن ناتھ آزاد، اقبال، اور اس کا ، عہدادارہ انیس اُردو، الہ آباد، ص ۸۲، ۸۳۰۔ ۱۷۔ محمد حسین، مترجم مکتوبات مجدد الف ثانی، لاہور، ص ۴۶۔ ۱۸۔ حضرت مجدد کے نزدیک سلوک کی تین منزلیں ہیں۔ (الف) وجودیت (ب) ظلمیت (ج)اور عبدیت۔ پہلی منزل میں وہ کائنات کے وجود کے قائل نہ تھے۔ دوسری منزل میں خود کو اور کائنات کو خدا کا ظل محسوس کیا۔ تیسری منزل عبدیت کی تھی۔ یہاں پہنچ کر انہیں یقین ہو گیا کہ خدا اور کائنات میں خالق اور مخلوق کا رشتہ ہے۔ ۱۹۔ ’’معرکۂ اسرار خودی‘‘، مجلہ اقبال، لاہور اکتوبر ۱۹۵۳ ۲۰۔ شیخ عطا اللہ، اقبال نامہ، اشرف بک ڈپو، لاہور، ص ۶۰۔ ۲۱۔ رضیہ بانو، خطبات اقبال، کراچی، ص ۲۵۔ اقبال کا تصورِ ختمِ نبوت پروفیسر عبدالقیوم اقبال کے نزدیک وحی ایک ایسا خاصۂ حیات ہے جو نہ صرف انسان سے مخصوص ہے بلکہ حیوانات اور نباتات میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ اس خاصے ہی کی کارفرمائی ہے کہ پودا زمین کی پنہائیوں میں سے آزادانہ سر نکالتا ہے، حیوان میں ایک نئے ماحول کے مطابق کوئی نیا عضو نشوونما پاتا ہے، اور انسان خود اپنی ذات اور وجود میں زندگی کی گہرائیوں سے نور اور روشنی حاصل کرتا ہے(۱)۔ اس نظریے کی جیسا کہ وہ خود بھی کہتے ہیں، قرآنِ حکیم سے بجاطور پر تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ سورۃ طہٰ میں ہے کہ ’’ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی فطرت بخشی اور اسے ہدایت دی‘‘۔(۲۰:۵) سورۃ النحل میں ہے کہ ’’تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کو وحی کر دی ہے کہ پہاڑوں اور درختوں میں اور چھتریوں میں، جو لوگ بناتے ہیں، گھر بنائو۔‘‘ (۱۶:۶۸) اس طرح وحی ایک ایسا شعورِ حیات ہے، جس کی روشنی میں ہر ذی حیات سرگرمِ عمل ہے۔ یہ شعور اس کی جبلت اور طینت میں خمیر کر دیا گیا ہے۔ اس کی بدولت اسے علم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا، وہ مقاصد کیا ہیں، جن کے حصول کے لیے اسے جدوجہد کرنا ہے اور وہ وسائل و ذرائع کیا ہیں، جن کے استعمال سے ان مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ حشرات الارض اور حیوانات کے افعال ان کی جبلتوں کے تابع ہوتے ہیں، جن کے بارے میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شعور سے خالی ہوتے ہیں، لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ ان افعال کے سائنسی مطالعے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جبلی افعال میں بھی شعور کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ کسی جبلی فعل کے تصور کے بعد یہ فعل بذاتِ خود اتنی جلدی واقع ہو جاتا ہے کہ تصور فعل اور فعل کے درمیان کوئی وقفہ نہیں رہتا۔ شعور کا انحصار اس وقفے پر ہے جو تصور اور فعل کے درمیان ہوتا ہے۔ جبلی کردار خواہ کتنا ہی لاشعوری کیوں نہ ہو، وقوفی عنصر کا حامل ہوتا ہے۔ جو وقوف جبلی افعال سے وابستہ ہوتا ہے، وہ شعور باطن میں منعکس ہونے کے بجائے خارجی حرکات میں ظاہر ہوتا ہے۔ جبلت سے وابستہ شعور مضمن ہوتا ہے نہ کہ واضح۔ اس لیے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حیوانات کے جبلی افعال کا ارتکاب جس صحت اور نظم سے ہوتا ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ حیوان اپنے جبلی افعال کا ارتکاب ایسے کرتا ہے، جیسے اس ارتکاب کے دوران تمام حرکات و سکنات اور ان کے نتائج کا شعور اس کو اس طرح ہو جیسا کہ انسان کو اپنے شعوری افعال کی منصوبہ بندی اور ان کے واقعی ارتکاب کے وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان کا وہ شعور جس کی بدولت وہ اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرتا ہے اور اس کے حصول کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل تجویز کرتا ہے، اگرچہ تعقل و استدلال سے یا تجربے سے حاصل ہو سکتا ہے، لیکن جب ایسے شعور کی کیفیت وجدانی ہو تو وہ حیوانات کے شعور سے، نوعیت کے لحاظ سے، مختلف نہیں ہوتا۔ یہ خفی شعور جو حیوانات میں ان کے افعال کے ساتھ غیرواضح شکل میں وابستہ ہوتا ہے، اور وہ شعور جو انسان کو وجدان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، اقبال کی نظر میں وحی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کے وجدانی شعور کے سرچشمے کی نوعیت کیا ہے۔ اس سوال کا ایک سیدھا سادہ جواب یہ ہو سکتا ہے کہ جس طرح حیوان میں اس کا شعور اس کی جبلت کا ایک حصہ ہے، اسی طرح انسان کا وجدانی شعور اس کی جبلت اور فطرت کا ایک حصہ ہے۔ لیکن یہ جواب اسی مسلمہ نظریے کا نقیض ہے کہ وحی انسان کو خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں علم بالوحی کا ماخذ خارجی ہے۔ یعنی نہ تو یہ اس کی جبلت میں ودیعت کیا گیا ہے اور نہ اس کا خود پیدا کردہ ہے۔ اس کا منبع کوئی مافوق الفطرت ذات ہے۔ اس تضاد کو اس امر سے بھی تقویت ملتی ہے کہ اقبال نبوت کی تعریف کرتے ہیں کہ ’’یہ شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں واردات اتحاد اپنے حدود سے تجاوز کر جاتی ہیں اور ان قوتوں کی پھر سے رہنمائی یا ازسرنو تشکیل کے وسائل ڈھونڈتی ہیں جو حیاتِ اجتماعیہ کی صورت گر ہیں۔ گویا انبیا کی ذات میں زندگی کا متناہی مرکز اپنے لامتناہی اعماق میں ڈوب جاتا ہے تو اس لیے کہ پھر ایک تازہ قوت اور زور سے ابھر سکے۔‘‘(۲) ظاہر ہے کہ یہاں اقبال علم بالوحی کا منبع انسان کی اپنی ذات کو سمجھتے ہیں نہ کہ کسی خارجی ذات کو۔ اس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وہ Infinite (لامتناہی) کے لفظ کو بڑی I سے نہیں لکھتے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ اس لامتناہی سے ان کی مراد کوئی خارجی قوت یا خدا تھی۔ اقبال اس تضاد کو یہ کہہ کر رفع کر سکتے ہیں کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کائنات فطرت کی ہر شے وحی سے متصف ہے اور انسانی اور حیوانی مخلوق اس فطرت کا ایک حصہ ہے جو خدا کی بنائی ہوئی ہے، تو حیوان کا جبلی شعور اور انسان کا وجدانی شعور دونوں خُدا کی بنائی ہوئی فطرت کا تقاضا ہونے کے باعث خدا کے عطا کردہ ہیں۔ اس طرح ہم جائز طور پر یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے ضمن میں علم بالوحی کا مبداء خدا ہے۔ اس پر معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ جس طرح ہم اس شعور کو جسے اقبال وحی کہتے ہیں، حیوانات کے ضمن میں، خدا کا نام بیچ میں لائے بغیر، فطرتی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں، اسی طرح کیا یہ زیادہ مناسب نہ ہو گا کہ علم بالوحی کو خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے اعتبار سے، خدا سے منسوب کرنے اور اسے خدا کی طرف سے نازل سمجھنے کے بجائے، ہم یہ کہیں کہ انسان کا علم بالوحی بھی اس کی فطرت کا حصہ ہے۔ البتہ جو کچھ اوپر کہا گیا ہے، وہ شاید وحی متلو، کے بارے میں نہ کہا جا سکے۔ اس کے علاوہ اگر ہم خدا کو عالمگیر وحی کا مبدا اس لیے گردانتے ہیں کہ حیوان کی جبلت اور انسان کا وجدان خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے تقاضے ہیں تو کیا ہم اس طرح یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہوں گے کہ انسان کی قوت تعقل اور استعداد مشاہدہ بھی خدا کے عطیے ہیں۔ اس لیے جس طرح وحی کا مبدأ خدا ہے، اسی طرح عقل و مشاہدہ سے حاصل کیا ہوا علم بھی خدا کا دیا ہوا ہے، اور دونوں، مصدر و منبع کے لحاظ سے ہم رتبہ ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ جوں جوں حیات مختلف ارتقائی مراحل طے کرتی ہے، وحی کی ماہیت و نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ اقبال نے جن معنوں میں لفظ وحی کو استعمال کیا ہے، اس کی رو سے یہ ایک خاصہ ہے جو نوع کے سب افراد میں پایا جاتا ہے، خواہ وہ نوع انسانی ہو یا حیوانی، جیسا کہ حیوانات میںجبلت (Instinct) نوعِ حیوانی کے ہر فرد میں ہے۔ جب انسانی زندگی جبلی حالت میں تھی تو یہ خاصہ بھی کم و بیش اسی طرح نوعِ انسانی کے ہر فرد میں موجود تھا۔ لیکن انسان نے جب ارتقائی منازل طے کیں اور اس کی زندگی جبلی حالت سے، جس میں بقول ہابز (Hobbes) یہ خود غرضانہ اور بہیمانہ خصوصیات سے متصف تھی، اس حالت میں آئی جہاں باہمی تعاون و اشتراک، خود ایثاری و ہمدردی جیسے جذبات نے نشوونما پائی اور ایک اجتماعی زندگی کا آغاز ہوا تو اس وقت وحی کی شکل مختلف ہو گئی۔ تب یہ وحی ہر فرد کو الگ الگ نہیںملتی تھی بلکہ نوعِ انسانی کے چیدہ چیدہ افراد کو دی گئی، اور یہ ان افراد کا فریضہ تھا کہ وہ اسے اپنی نوع کے دوسرے افراد تک پہنچائیں۔ وحی کی یہ شکل انسان کی معاشرتی اور تمدنی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تھی یا یوں کہیے کہ جہاں تک خالص طبعی زندگی کا تعلق تھا، جو انسان اور حیوان میں مشترک ہے اور جو جبلت کے تابع ہے، یعنی کھانا، پینا، سونا، جاگنا اور جنسی خواہش، اس زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جیسے شعور کی ضرورت تھی، وہ تو نوع کے ہر فرد کو ارزانی کیا گیا، لیکن وہ علم جس کی روشنی میں حیاتِ اجتماعیہ متشکل اور منظم ہونی تھی، وہ ہر فرد کے بس کی بات نہیں تھی، وہ صرف ان چند افراد کا مقدر تھا جو باقی افراد کی نسبت کہیں زیادہ ذہن رسا کے مالک، بلند بیں اور حساس ہونے اور کہیں زیادہ پختہ عزم اور اعلیٰ استعدادِ عمل رکھنے کے باعث نہ صرف ان قوانین و ہدایات اور ضوابط و قواعد سے باخبر تھے، جن پر عمل کر کے افراد نہ صرف اجتماعی بقائے دوام اور تحفظ و امن اور انفرادی فلاح و بہبود اور سربلندی و کامرانی حاصل کر سکتے تھے، بلکہ وہ خود ان پر عمل کرنے اور دوسرے افراد کو اپنے دائرئہ عمل میں داخل کرنے کی اہلیت رکھتے تھے، یہ تمام علم ان کو باطنی واردات پر مبنی وجدانات کی صورت میں ملتا تھا۔ اس باطنی مشاہدے میں اُنہیں یہ یقین محکم بھی ملتا تھا کہ ان کا یہ علم خود اکتسابی نہیں بلکہ یہ انہیں ذاتِ مطلق کے فیضان سے ملا ہے۔ یہ چیدہ چیدہ افراد انبیاء کہلائے، اور وحی جو خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے، انہیں اشخاص سے مخصوص ہے۔ اس وحی کی ضرورت، اقبال کہتے ہیں، بنی نوع انسان کے عالم صغر سنی میں تھی۔ ارتقائی منازل طے کرنے کے لیے ضروری تھا کہ نبی کا حکم ہو اور اس کی اطاعت ہو۔ افراد خود کسی چیز پر حکم نہیں لگاتے تھے، نہ ان کے سامنے یہ سوال تھا کہ ان کی پسند کیا ہے اور ناپسند کیا ہے۔ انہیں یہ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں تھی کہ وہ اپنے لیے کیا راہِ عمل اختیار کریں۔ یہ سب باتیں پہلے ہی سے طے شدہ تھیں، یہ نہیں کہ انہیں اس بارے میں اپنی فکر اور انتخاب سے کام لینا پڑیـ۔ دوسرے الفاظ میں اوامر و نواہی کا ایک طے شدہ ضابطہ سامنے تھا جس کو نافذ کرنے کے لیے نبی کا حکم اور اس نبی کو ماننے والوں کی اس حکم کی بلاچون و چرا اطاعت تھی۔ ان اوامر و نواہی کی حکمت و اہمیت اور ان کی صحت و عدم صحت کے بارے میں کوئی بحث و تمحیص نہ تھی۔ اسی بنا پر شعور نبوت کو اقبال کفایت فکر و انتخاب سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے ہر فرد کو اوامر و نواہی کے بارے میں نہ کچھ سوچنے کی ضرورت تھی اور نہ کچھ فیصلہ کرنے کی۔ یہ کام نبی کو کرنا تھا، افراد کا کام صرف اطاعت تھا۔ انسان جب ان ابتدائی مراحل سے گزر کر آگے بڑھا اور اس کی تنقیدی فکر نشوونما پانے لگی اور اس میں وہ شعور پیدا ہونے لگا جو اس کی عقل استقرائی کا مرہونِ منت ہے، اور جو صرف چند خاص افراد کو عنایت نہیں ہوا تھا بلکہ ہر شخص کی دسترس میں تھا اور انسانی زندگی ارتقا کی اس سطح پر پہنچ گئی، جہاں اب کفایت فکر و انتخاب کی اتنی ضرورت نہ تھی جتنی اوائل میں تھی، جبکہ افراد پر ایما اور اشارے کا غلبہ تھا، تو پھر زندگی کا مفاد اسی میں تھا کہ ارتقائے انسانی کے اوّلین مراحل میں نفسی توانائی کا اظہار جن ماورائے عقل طریقوں یعنی (وحی و الہام) سے ہوا، ان کا ظہور اور نشوونما رک جائے(۳) یعنی سلسلہ نبوت بند ہو جائے۔ چنانچہ اسلام میںیہ عقیدہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ چونکہ وہ وحی جو پیغمبرِ اسلامؐ پر نازل ہوئی، مکمل تھی۔ اس لیے مزید کسی وحی کی ضرورت نہیں۔ وہ خاتم الانبیاء اور نبی آخر الزماں تھے۔ اس عقیدے کی حکمت بیان کرتے ہوئے، اقبال کہتے ہیں کہ ’’آپؐ کی بدولت زندگی پر علم و حکمت کے وہ نئے سرچشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رُخ کے عین مطابق تھے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی نظر میں عقل استقرائی کا ظہور اسلام کے ظہور کے ساتھ ہوا۔ پھر اس مرکزی نقطے کو بیان کرتے ہیں کہ اسلام میں نبوت اپنے ہی خاتمے کی ضرورت کو جان لینے میں اپنے معراج کمال کو پہنچی ہے(۴) جس کا یہ مطلب ہوا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ ضروری ہے کہ انسان پوری خود شعوری کو حاصل کرنے کے لیے اپنے وسائل سے کام لے۔(۵) اقبال کے خیال میں اسلام کا دینی پیشوائی کا تسلیم نہ کرنا، قرآن حکیم کا عقل اور تجربے پر بار بار زور دینا، اور کائنات، فطرت اور عالمِ تاریخ کو علمِ انسانی کا سرچشمہ ٹھہرانا، یہ سب تصور خاتمیت کے مختلف پہلو ہیں۔(۶) آگے چل کر اقبال کہتے ہیں کہ ختمِ نبّوت کا مطلب باطنی واردات کا خاتمہ نہیں۔ تصورِ خاتمیت کی اہمیت یہ ہے کہ اس یقین کو فروغ دے کر کہ انسانی تاریخ میں ہر اس شخصی اختیار کا خاتمہ ہو گیا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا سرچشمہ مافوق الفطرت ہے، باطنی واردات کی طرف آزادانہ تنقیدی رویہ پیدا کرتا ہے۔(۷) اسلامی کلمے کے جزوِ اوّل نے قوائے فطرت کو الوہیت کا رنگ دینے سے باز رکھ کر انسان کے اندر مظاہر فطرت کا تنقیدی مشاہدہ کرنے کی روح کو نہ صرف جنم دیا بلکہ اس کو ترقی بھی دی۔(۸) اور کائنات فطرت کا مطالعہ خاص سائنسی انداز میں ہونے لگاـ۔ اقبال کی نظر میں عقیدۂ ختمِ نبوّت کا مطلب یہ ہے کہ ’’اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے۔‘‘(۹) اقبال نے ختمِ نبّوت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا ہے، ان سے یہ مطلب نکالا جا سکتا ہے کہ ختمِ نبوّت کے معنی یہ ہیں کہ اب، جبکہ انسانی زندگی ارتقا کی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں انسان اپنی عقل اور مشاہدے سے حاصل شدہ علم اور شعور کی روشنی میں اپنی زندگی کا نصب العین متعین کر سکتا ہے اور اس کے حصول کے لیے اپنی ہی عقل اور مشاہدے کو بروئے کار لا کر رہنما اصول بھی وضع کر سکتا ہے، اب اسے اپنے سے بیرون کسی مافوق الفطرت ہستی کا دست نگر نہیں ہونا پڑے گا۔ اب اسے ایسا علم قبول کرنے اور اس علم کے دیے ضابطوں اور قاعدوں پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں جس کا سرچشمہ مافوق الفطرت ہو۔ دوسرے الفاظ میں اب انسانی زندگی کی ہدایت کے لیے وحی کی جگہ انسانی عقل و مشاہدے نے لے لی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اقبال اور عام مسلمان کے اس عقیدے سے صرف نظر کر کے کہ مسلمان کی زندگی جز قرآن کچھ نہیں، خالی الذہن ہو کر اقبال کے تصور ختمِ نبوّت کا جیسا کہ اُنہوں نے اسے تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں بیان کیا ہے، مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اقبال کے خیال میں ختمِ نبوّت کے معنی یہ ہیں کہ عہد جدید میں انسان کی ہدایت کے لیے وحی کی جگہ اس کی عقل نے لے لی ہے تو وہ شخص ایسا کرنے کا مجاز ہو گا۔ جب اقبال یہ کہتے ہیں کہ زندگی کو یہ انکشاف کہ اس کے نئے رُخ کے لیے وحی سے مختلف دوسرے ذرائع علم موزوں ہیں، رسولِ اکرمؐ کی بدولت ہوا، اور یہ کہ اسلام کا ظہور عقل استقرائی کا ظہور ہے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ اب زندگی کے تقاضے نئے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں کہ ان کو پورا کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت ہے، وہ وحی کا علم نہیں، بلکہ انسان کی عقل استقرائی سے حاصل کیا ہوا علم ہے۔ اقبال کا نظریۂ حقیقت یہ ہے کہ ’’حقیقتِ مطلقہ ایک بابصر اور خلاق مشیت ہے۔(۱۰) حقیقت کا اظہار مسلسل خلاقی میں ہوتا ہے۔ اس کائنات میں حرکت اور روانی ہے۔ زندگی جوں جوں آگے بڑھـتی ہے، نئے روپ اور نئے رُخ اختیار کرتی جاتی ہے اور اس کی ضروریات اور تقاضے بھی نئے ہوتے جاتے ہیں، جن سے عہدہ برآ ہونے کے لیے وسائل و ذرائع بھی نئے ہوں گے۔ اور اگر جیسا کہ اقبال خود کہتے ہیں، ’’وحی کی ماہیت اور نوعیت بھی، جوں جوں زندگی ارتقا اور نشوونما حاصل کرتی ہے، بدلتی رہتی ہے۔‘‘ تو اگر زندگی کے ارتقا کے کسی مرحلے پر کفایت فکر اور انتخاب کی ضرورت تھی تو زندگی جب دورِ جدید میں داخل ہوتی ہے، یہ ایک ایسی ہیئت اختیار کرتی ہے کہ اس کو ارتقائی منازل کامیابی سے طے کرنے کے لیے علم بالوحی کے بجائے سائنسی علم درکار ہو گا۔ اگر انسان کے عالم صغرسنی میں اس کے لیے وحی کا علم موزوں تھا تو اس کے سنِ بلوغ میں اس کے لیے سائنسی علم مناسب ہوگا۔ اور پھر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی نہیں بسر کر سکتا اور اب حصولِ علم کے لیے اپنے ہی وسائل سے کام لینا ہوگا تو اس کے اور کیا معنی ہو سکتے ہیں کہ حصولِ علم کے لیے انسان کو اپنی ذات کے سوا کسی اور ذات کا محتاج نہیںہونا۔ یعنی اب وہ وحی کا محتاج نہیں رہا۔ پھر اگر وحی کی روشنی میں زندگی گزارنی ہے تو اسلام نے بقول ان کے دینی پیشوائی کو کیوں نہیں تسلیم کیا، وحی کے تحفظ اور اس کی ترویج کا کام تو دینی پیشوا ہی کرتے ہیں۔ آخر میں جب اقبال یہ کہتے ہیں کہ ’’اگر ہم نے ختمِ نبوّت کو مان لیا تو عقیدتاً بھی مان لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم ہے، تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب وحی جس کے علم کا تعلق بھی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے، مستحق اتباع نہیں رہی اور اس کی جگہ عقل نے لے لی ہے؟ ظاہر ہے کہ اقبال نے ختمِ نبوت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا ہے، ان کی مذکورہ بالا تعبیر جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ دورِ جدید میں انسان کی ہدایت کے لیے وحی کی جگہ عقل نے لے لی ہے، ان کے لیے بالکل قابلِ قبول نہیں ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے خطبات تیار کر رہے تھے تو انہیں اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں ہوگا کہ ان کے خیالات کی یہ تعبیر بھی ہوسکے گیـ۔ سات سال کے بعد ۱۹۳۵ء میں جب لاہور کے ایک ہفت روزہ ’’لائٹ‘‘ کے مدیر نے یہ لکھا کہ اقبال عقل کو نبوت پر ترجیح دیتے ہیں تو ان کا اس ضمن میں ایک وضاحتی بیان ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں شائع ہوا، جس میں اُنہوں نے واضح الفاظ میں اس تعبیر کی تردید کی، چنانچہ اس بیان میں وہ کہتے ہیں کہ ’’لیڈنگ سٹرنگس (Strings) سے مراد لیڈنگ سٹرنگس آف ریلیجین (Leading Strings of Religion) نہیں بلکہ لیڈنگ سٹرنگس آف فیوچر پرافٹس آف اسلام (Leading Strings of Future Prophets of Islam) ہے۔ یا یوں کہیے کہ ایک کامل الہام و وحی کی غلامی قبول کر لینے کے بعد کسی اور الہام اور وحی کی غلامی حرام ہے۔ بڑا اچھا سودا ہے کہ ایک کی غلامی سے باقی سب غلامیوں سے نجات ہو جائے۔ اور لطف یہ ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی، غلامی نہیں بلکہ آزادی ہے کیونکہ آپؐ کی نبوت کے احکام دینِ فطرت ہیں، یعنی فطرت صحیحہ ان کو خود بخود قبول کرتی ہے۔ فطرتِ صحیحہ کا اُنہیں خود بخود قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوئے ہیں، اس واسطے عین دینِ فطرت ہیں، ایسے احکام نہیں جن کو ایک مطلق العنان حکومت نے ہم پر عائد کر دیا ہے اور جن پر ہم محض خوف سے عمل کرنے پر مجبور ہیں۔(۱۱) آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ ’’میرے عقیدے کی رو سے بعد وحی محمدیؐ کے الہام کی حیثیت محض ثانوی ہے۔ سلسلہ تو الہام کا جاری ہے، مگر الہام کے بعد وحی محمدیؐ الہام ایک پرائیویٹ Fact ہے۔ اس کا کوئی سوشل مفہوم یا وقعت نہیں۔ میں نے پچھلے خط میں لکھا تھا کہ نبوت کی دوسری حیثیت ایک Socio-Political Institution کی ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ بعد وحی محمدیؐ کسی کا الہام یا وحی اسے Institution کی بنا قرار نہیں دے سکتا۔(۱۲) مناسب ہو گا کہ اس توضیحی بیان پر کچھ تبصرہ کر دیا جائے۔ Leading Strings کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ ان الفاظ سے ان کی مراد Leading Strings of Religionنہیں بلکہ Leading Strings of Future Prophets of Islam ہے۔ اس وضاحت کے بعد پورا جملہ یہ ہو گا: Life can not for ever be kept in leading strings, not of religion, but of the future prophets of Islam. میرے خیال میں اس جملے کے کوئی مربوط معنی نہیں نکلتے۔ ہم کسی ایسی چیز کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمیشہ بطور سہارا کام نہیں دے گی جو زمانہ حال میں بطور سہارا کام دے رہی ہے، لیکن کسی مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی شے کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیشہ بطور سہارا کام نہیں دے گی۔ علاوہ ازیں Future Prophets of Islam کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں میں تو کوئی شخص نبوت کا دعویٰ نہیں کر سکتا، دوسری غیرمسلم اقوام میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ اقبال کہتے ہیںکہ الہام کا سلسلہ جاری رہے گا، لیکن یہ الہام Socio-Political Institutions کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ لیکن ساتویں خطبے میں وہ مذہب کے تین ادوار، ایمان، فکر اور معرفت، کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تیسرے دور میں انسان کو یہ آرزو ہوتی ہے کہ حقیقتِ مطلقہ سے براہِ راست اتحاد و اتصال قائم کرے، اس کی یہ آرزو تب پوری ہوتی ہے جب وہ باطنی تجربے کے مختلف مراحل طے کر کے اس آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کا مقصد یہ نہیںہوتا کہ کچھ دیکھے، بلکہ یہ کہ وہ کچھ بن جائے۔ ’’اس کا آخری عمل فکر کا عمل نہیں، وہ ایک حیاتی عمل ہے جو اس میں گہرائی اور پختگی پیدا کرتا ہے اور اس کے ارادوں کو تقویت دیتے ہوئے ایک شانِ خلاقی کے ساتھ اس تیقن کا باعث ہوتا ہے کہ دُنیا محض دیکھنے یا افکار و تصورات کی شکل میں سمجھنے کی چیز نہیں بلکہ ایک ایسی چیز ہے جس کو مسلسل عمل سے بنایا جاتا ہے، اور بار بار بنایا جاتا ہے۔‘‘(۱۳) اس باطنی تجربے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے ایسا انسان ابھرتا ہے جو تعمیر و ترقی ٔ حیات کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اس باطنی تجربے کو Mysticism کہنے سے گریز کرتے ہیں جس سے مراد وہ ذہنی روش ہے جس سے زندگی کی نفی اور چشم پوشی ہوتی ہے، اور جو ہمارے دَور میں استخبااری رجحان کے خلاف ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کے ارادے کو پختہ کرنے اور اس میں استعدادِ عمل پیدا کرنے میں حقیقتِ مطلقہ یعنی خدا کو کوئی دخل ہے کہ نہیں جس کے ساتھ وہ اتحاد و اتصال قائم کرتا ہے۔ اور پھر دُنیا کو بنانے، اور بار بار بنانے کے لیے اسے ہدایت اور رہنما اصول کہاں سے ملتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کا مصدر و منبع بھی اس اتحاد و اتصال کے باعث خدا ہو گا۔ مزید برآں دُنیا کو بنانے، اور بار بار بنانے کی ٹھوس شکل یہ نہیں کہ Socio-Political Institution قائم کیا جائے اور اسے مسلسل جدوجہد سے ترقی و فروغ دیا جائے۔ یہ باطنی تجربہ اس طرح سوشل مفہوم اختیار کر جاتا ہے۔ جس الہام کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ جاری رہے گا، اس کی نوعیت کیا وہی نہیں جو ان صوفیانہ واردات کی ہے، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے بعد جاری رہیں گی، اور جن پر آزادنہ تنقید سے علم کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں۔ یہ علم معاشرتی علم بھی ہو سکتا ہے جو Social اہمیت کا حامل ہے۔ ایک طرف الہام کا کوئی سوشل مفہوم نہیں، اور دوسری طرف باطنی واردات ہیں جن کا سوشل مفہوم ہے، اور پھر تیسرے، باطنی تجربہ ہے۔ میرے خیال میں یہ تینوں صوفیانہ واردات ہیں، اور ان تینوں کی نوعیت ایک ہے۔ اور ساتویں خطبے میں جس باطنی تجربے کا ذکر کرتے ہیں اور جس کی تشریح اوپر کی گئی ہے، شعورِ نبوت سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ اس مماثلت کو اقبال کے اس نظریے سے تقویت ملتی ہے کہ واردات باطن باعتبار نوعیت انبیاء کے احوال و حوادث سے مختلف نہیں۔ اقبال نے جو توضیحات ختم نبوت کے اپنے تصور کے صحیح مفہوم کو متعارف کرانے کے لیے کی ہیں، اگر ہم ان کو سامنے رکھیں اور ساتھ ہی ان تصریحات پر نظر ڈالیں جو اُنہوں نے نظریہ ختمِ نبوت کی حکمت اور اس کی ثقافتی اہمیت ذہن نشین کرانے کے لیے پیش کی ہیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ وحی محمدیؐ کے بعد کسی اور وحی و الہام کی نفی تو وہ کمال فلسفیانہ استدلال سے کرتے ہیں، اور ایک کھلا ذہن اسے قبول کرنے پر مجبور ہو گا، لیکن جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ وحی محمدیؐ نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں انسانوں کے لیے حجت تھی، بلکہ بعد میں بھی، ہمیشہ کے لیے، حجت رہے گی خواہ انسانی عقل کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے، وہ اس دعوے کے حق میں کوئی ٹھوس اور منطقی دلائل پیش نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں محض اِدعا ہے۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ جو قانون رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے ملا، مکمل اور ابدی ہے، لیکن کیسے اور کیوں مکمل اور ابدی ہے، وہ اس پر قطعاً بحث نہیں کرتے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام دینِ فطرت ہیں، کیونکہ فطرت صحیحہ کا اُنہیں خود بخود قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے پیدا ہوئے ہیں، اس لیے عین دینِ فطرت ہیں، لیکن وہ ان سوالات کو زیرِبحث نہیں لاتے کہ یہ احکام زندگی کی گہرائیوں سے کیسے پیدا ہوئے ہیں، دینِ فطرت سے کیا مراد ہے، فطرتِ صحیحہ کا کیا مفہوم ہے، فطرتِ صحیحہ انہیں کیسے اور کیوں قبول کرتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کے ساتھ ہی عقل استقرائی کا ظہور، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت زندگی پر وحی کے علاوہ انسانی علم کے دوسرے سرچشموں کا انکشاف، اور پھر اس شخصی اختیار کا خاتمہ جس کا دعویٰ یہ ہو کہ اس کا سرچشمہ مافوق الفطرت ہے، ان سب کے ہوتے ہوئے وحی محمدیؐ کو ماننے اور اس سے حاصل کی ہوئی ہدایت پر عمل کرنے کا کیا جواز ہے۔ میرے خیال میں اگرچہ اقبال کے نظریۂ ختمِ نبوت کی مذکورہ بالا تعبیر جائز ہے، لیکن اگر اس کی کوئی دوسری ایسی تعبیر ہو سکے جو اقبال کے اور عام مسلمان کے اس عقیدے سے نہ ٹکرائے کہ ان کی زندگی کو وحی محمدیؐ سے ہدایت پانی ہے تو صرف مذکورہ بالا تعبیر پر زور دینا اور کسی دوسری تعبیر کے لیے سعی نہ کرنا نہ صرف اقبال کے ساتھ بڑی ناانصافی ہو گی بلکہ ایک بڑی ذہنی بددیانتی ہو گی۔ اب میں ایک دوسری تعبیر پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو مذکورہ بالا سوالات کے جواب دینے کی سعی پر مشتمل ہو گی۔ لیکن قبل اس کے کہ میں یہ سعی کروں، ایک اور وضاحت کا، جو اقبال نے ختمِ نبوت کے مسئلے کے ضمن میں کی ہے، ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔ـ اقبال کہتے ہیں کہ ’’نبوت کے دو اجزاء ہیں ۱۔ خاص حالات اور واردات، ۲۔ ایک معاشرتی سیاسی ادارہ (Socio-Political Institution) قائم کرنے کا عمل یا اس کا قیام۔ یہ دونوں اجزا ہوں تو نبوت ہے۔ ختمِ نبوت کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بعد اسلام اگر یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزائے نبوت موجود ہیں، یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے۔‘‘(۱۴) یہاں خاص حالات اور واردات سے مراد وہ باطنی واردات ہیں، جن کے ذریعے وہ علم حاصل ہوتا ہے جسے وحی کا علم کہتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کا جو علم ملا، وہ قرآن حکیم ہے۔ معاشرتی سیاسی ادارے کے قیام سے مراد وہ نظام ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کے جن اجزا کا اقبال نے ذکر کیا ہے، وہ یہ ہیں :۱۔ علمی جزو، ۲۔عملی جزو۔ علمی جزو کو جیسا کہ اقبال خود کہتے ہیں، ہم ولایت کا نام دے سکتے ہیں، اور عملی جزو کو قیامِ خلافت کہہ سکتے ہیں۔ یہ تو صحیح ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اسے وحی ہوتی ہے، اور یہ سعی کرے کہ لوگ اس کی وحی کو صادق مان کر اس کے حلقۂ اطاعت میں داخل ہو جائیں تو ایسا شخص کاذب ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس علم پر جو اسے قرآن سے ملا ہے، عمل کر کے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس پر عمل کرا کر ایک معاشرتی سیاسی ادارہ منظم کرتا ہے یا دوسرے الفاظ میں خلافت قائم کرتا ہے تو ایسا شخص کیونکر کاذب ہو سکتا ہے؟ اس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم الانبیا ہونے کے یہ معنی ہوں گے کہ جہاں تک ان کی ولایت کا تعلق ہے، یعنی وحی کے اس علم کا جو قرآن میں موجود ہے۔، وہ تو مکمل ہو گئی، اور اب ایسی ولایت کے ظہور کا کوئی امکان ہے نہ جواز، لیکن جہاں تک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ خلافت کا تعلق ہے، تو یہ قیامِ خلافت خود ایک ایسا مقصد ہے جو نہ صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ان کے اور ان کے پیروئوں کے پیشِ نظر تھا اور جس کے حصول کے لیے وہ کوشاں رہے، بلکہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ہمیشہ کے لیے ہر اس شخص کے پیشِ نظر رہے گا جس نے یہ مان لیا کہ یہ خلافت اس علم کو جو قرآن میں موجود ہے، قبول کرنے اور اس علم کو عمل میں متشکل کرنے سے قائم ہو سکتی ہے یا یوں کہیے کہ بابِ نبوت تو بند ہوگیا لیکن بابِ خلافت ہمیشہ کھلا رہے گا۔ میں اس بات کی ذرا مزید وضاحت کر دوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ضمن میں ان کی دوگونہ حیثیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ وہ ایک طرف تو پیغمبر خدا تھے، یعنی وہ خدا سے ایک قانون لائے جس پر چل کر ان کے پیروئوں نے ایک نظام، ایک جماعت، ایک خلافت قائم کی، تو دوسری طرف وہ ان لوگوں کے، جنہوں نے اس قانونِ خدا کو تسلیم کر لیا تھا اور اس پر سرگرمِ عمل تھے، زندہ امیر تھے اور ان سے قانونِ خدا پر عمل کراتے تھے۔ ان کی یہ زندہ امیر کی حیثیت ان کے سربراہِ حکومت الٰہیہ ہونے کے باعث تھی۔ اطاعتِ رسول کا مطلب نہ صرف خدائی احکام کی تعمیل تھا، بلکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سربراہِ حکومت اور سربراہِ مومنین ہونے کے باعث زندہ امیر کی حیثیت سے دیے ہوئے، وقتی، زبانی، مصلحتی اور ہنگامی احکام کی تعمیل بھی تھا۔ اب جبکہ نبوت پر مہر لگ چکی ہے اور رسولوں کا زمانہ ختم ہو گیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب رسولوں کے بعد، نوعِ انسانی میں قیامِ جماعت کس طرح ہو، حکومتِ الٰہیہ کیسے قائم ہو، خلافت کا قیام کیسے ہو، معاشرتی سیاسی ادارہ جس کو اقبال نے جزوِ نبوت ٹھہرایا ہے، کس طرح عملاً اور واقعی قائم ہو۔ یہ سوال نہایت اہم ہے۔ قرآنِ حکیم میں آیا ہے: ’’محمدؐ تو صرف ہمارا ایک پیغام لانے والے ہیں۔ ان سے پہلے کئی پیغام لانے والے گزر چکے۔ سو اگر آپؐ کا انتقال ہو جائے یا آپؐ شہید ہو جائیں تو کیا تم پھر الٹے پائوں اپنی پہلی بدنظمی کی حالت میں لوٹ جائو گے؟ (۳:۱۱۴) اس آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نظام دیا، جو جماعت منظم کی، اور جو خلافت قائم کی، اس کو قائم رکھنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اس سوال کا یہی جواب ہوگا کہ جس طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت میں اپنے پیروئوں کے زندہ امیر تھے، اسی طرح بعد میں بھی ایک زندہ امیر ہر وقت موجود ہو جس کی اطاعت اسی طرح ہو جس طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی، بحیثیت ایک زندہ امیر کے، ہوتی تھی۔ کیونکہ اس اطاعت کے بغیر نہ کوئی نظام واقعی پیدا ہو سکتا ہے، نہ کوئی جماعت منظم ہو سکتی ہے، نہ کوئی خلافت ہی قائم ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا امیر خلیفۃ النبی کہلاتا ہے۔ وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہوتا ہے۔ اسی طرح ختمِ نبوت کے معنی یہ ہوں گے کہ اب کوئی انسان خدا کی طرف سے وحی نہیں پا سکتا، اس لیے کہ انسان کو اپنی زندگی، انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح، گزارنے کے لیے جس علم کی ضرورت تھی، وہ قرآن میں محفوظ ہے۔ لیکن جہاں تک قیامِ خلافت یا اقبال کے الفاظ میں معاشرتی سیاسی ادارے کے قیام کا تعلق ہے، تو یہ کام ہمیشہ جاری رہے گا۔ اب میں اس تعبیر کی طرف آتا ہوں جس کا میں نے اوپر اشارہ کیا تھا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ بہ اعتبار سرچشمہ وحی کے آپؐ کا تعلق دُنیائے قدیم سے ہے، لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے آپ کا تعلق دُنیائے جدید سے ہے۔(۱۵) یہ جملہ میرے نزدیک بہت پر معنی ہے۔ یہ ایسے مضمرات کا حامل ہے کہ ان کو کھول کر بیان کر دینے سے ختمِ نبوت کا ایک ایسا تصور سامنے آئے گا جس کو شاید آپ اقبال سے آگے کچھ فکری پیش قدمی کہہ سکیں۔ وحی محمدیؐ کی روح کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ اس کی قدر و قیمت کا فیصلہ یہ دیکھ کر بھی کر سکتے ہیں کہ اس کے زیرِ اثر کس قسم کے انسان پیدا ہوئے اور تہذیب و تمدن کی وہ کیا دُنیا تھی جو اس روح کی بدولت ظہور میں آئی۔ اقبال کی نظر میں یہ اسی روح کا اثر تھا کہ مسلمانوں کو کائنات فطرت کا مشاہدہ کرنے اور اس پر غور و فکر کی ترغیب ہوئی۔ یہ قرآن کی تجزیّت پسندی تھی جس کے باعث مسلمانوں نے علومِ جدیدہ کی بنیاد ڈالی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم ایک لحاظ سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی روح ایسی تھی کہ اس کی بدولت مسلمانوں نے عقل استقرائی کو استعمال کر کے علم و حکمت کے نئے سرچشموں کو منکشف کیا، لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وحی کی روح کے لحاظ سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق زمانہ جدید سے ہے تو اس کا ایک اور مطلب بھی ہو سکتا ہے، وہ یہ کہ رسولِ اکرمؐ کا پیغام خود ایک سائنسی پیغام ہے۔ یہی نہیں کہ اس کی بدولت اس کے ماننے والوں میں علومِ طبیعی کے حصول کا شوق پیدا ہوا بلکہ یہ وحی خود بھی ایک ایسا علم ہے جیسے دوسرے علوم۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا سائنسی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ پیغام ان قوانین و احکام اور ان قواعد و ضوابط پر مشتمل ہے جن کی نوعیت و ماہیت بھی ویسی ہی ہے جیسی ان قوانین کی جو کائنات فطرت سے متعلق ہیں، یعنی قرآنِ حکیم کے دیے ہوئے قوانینِ خداوندی ایسے ہی سائنسی ہیں جیسے قوانینِ فطرت یا یوں کہیے کہ وحی محمدیؐ کے دیے ہوئے قوانین کا تعلق بھی عالم فطرت سے ہے، جس کا انسانی حیات بھی ایک حصہ ہے، اور یہ قوانین بھی عالمِ فطرت کے قوانین کی طرح عالمگیر، لازمی اور ابدی ہیں۔ اسلام ایک سائنسی ضابطۂ حیات ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی سائنسی ماہیت کو واضح کرنے کے لیے قرآن حکیم کی اس آیت کا ذکر کرنا نہایت اہم ہے جس میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے: ’’دین (حق) کی طرف رُخ رکھو، اللہ کی اس فطرت کا اتباع کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی ہے سیدھا دین۔ لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کا بھی) علم نہیں رکھتے۔‘‘ (۳۰:۳۰) اس آیت سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ۱۔ دینِ اسلام اللہ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جس میں کوئی ردّ و بدل نہیں۔ ۲۔ اللہ نے اسی فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے۔ـ دینِ اسلام کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی یہ فطرت بھی ویسی ہی ہے جیسی کہ خارجی کائناتِ فطرت، اور اس کو بھی اللہ ہی نے تخلیق کیا ہے۔ اس مماثلت کا مطلب یہ ہے کہ کائناتِ فطرت میں جاری و ساری قوانین کی اور اسلام کے قوانین کی ماہیت اور نوعیت ایک جیسی ہے۔ قوانینِ فطرت کے اہم خصائص کا تعلق ٹھوس اور محسوس اشیا سے ہے، ان واقعات اور حوادث سے ہے جو اس دُنیا میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ دوسرے، یہ قوانین فطرت عالمگیر، لازمی اور ابدی ہیں۔ اسی طرح دینی قوانین یا احکام کا تعلق بھی انسان کی اس زندگی سے ہے جو وہ اس ٹھوس اور محسوس دُنیا میں گزارتا ہے۔ دینِ اسلام کو دینِ فطرت کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ اس دین کا اتباع کرنے والوں کی زندگیوں کے نصب العین کا تعلق اس دُنیا سے ہے، اور اس نصب العین کا حصول بھی اسی دُنیا میں ممکن ہے۔ یہ نصب العین زمینی ہے، فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب قرآن میں کہا گیا ہے کہ اس دُنیا میں پھرو اور دیکھو کہ ان قوموں کا کیا حشر ہوا جنہوں نے خدائی احکام کی نافرمانی کی، تو ان کا حشر یا عاقبت اسی دُنیا میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں نافرمان قوموں کو اپنی نافرمانیوں کا نتیجہ اسی دُنیا میں بھگتنا پڑتا ہے، اور ان کی عاقبت بھی اسی دُنیا میں بنتی ہے۔ دوسرے، اسلامی قوانین بھی، قوانین فطرت کی طرح عالمگیر، لازمی اور ابدی ہیں۔ کائناتِ فطرت اور وہ خدا ساز فطرت جو دینِ اسلام ہے، ان دونوں میں مماثلت کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ کائنات فطرت جسے قرآنِ حکیم نے ایک حقیقت قرار دیا ہے، اس پر غور و فکر کرنے سے بھی انسانی زندگی کی رہنمائی کے لیے قوانین اور ہدایات مل سکتی ہیں۔ اگر اقبال کے اس نظریے کو سامنے رکھا جائے کہ کائنات فطرت، ذاتِ الٰہیہ کی سیرت و کردار ہے تو اس سیرت و کردار کے مطالعے سے ان اصولوں اور ضابطوں کا پتہ چلے گا، جن پر ذاتِ الٰہیہ سرگرمِ عمل ہے۔ اگر دینِ اسلام کا اتباع یہ ہے کہ انسان اللہ کے دیے ہوئے قواعد و ضوابط پر عمل کرے تو یہ قواعد و ضوابط ان قوانین سے کیسے مختلف ہو سکتے ہیں جن کے تحت خدائی سیرت و کردار کا اظہار عالمِ فطرت کی شکل میں ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ قوانین جن پر دینِ اسلام مشتمل ہے، اگر ایک طرف قرآنِ حکیم میں موجود ہیں تو دوسری طرف ان کا علم صحیفہ فطرت کے مطالعے سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس قرآنی آیت کی رو سے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ نے انسان میں اپنی روح پھونک دی، انسانی کردار کی روح وہی ہونی چاہیے جو اللہ کے کردار کی ہے۔ اب میں آیت کے اس حصے کی طرف آتا ہوں جس میں کہا گیا ہے کہ جس فطرت کا اتباع لازمی ہے، وہ اللہ کی بنائی ہوئی وہ فطرت ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ کسی شے کی فطرت سے مراد وہ سب کچھ ہوتا ہے جس پر اس شے کے وجود کا انحصار ہے۔ اس طرح وہ فطرت جس پر انسان کی تخلیق ہوئی ہے، ان قوانین یا قواعد و ضوابط پر مشتمل ہے جن کے تحت انسانی زندگی کا وجود قائم ہے۔ ایسی فطرت کا دین اسلام کے مترادف ہونے کے معنی یہ ہوں گے کہ دینِ اسلام ان قوانین پر مشتمل ہے جن کے تحت ہی انسانی زندگی کو بقائے دوام مل سکتی ہے، جن کو نظرانداز کر کے ہی یا جن سے ہٹ کر ہی انسانی زندگی کو فنا اور موت ہے۔ انسان اس طرح پیدا کیا گیا ہے یا اس کی فطرت اس نوع کی ہے کہ اسے اپنی زندگی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے اور ارتقائی منازل کو کامیابی سے طے کرنے کے لیے ان قوانین پر لازماً عمل کرنا پڑے گا، جو اسلام نے پیش کیے ہیں۔ اس کائنات فطرت میں ہر شے جس کا چلن اور ڈھنگ قوانینِ فطرت کے تحت متعین کیا گیا ہے، اس وقت تک باقی یا زندہ ہے جب تک وہ ان قوانین کے تابع ہے۔ اگر قوانینِ فطرت ختم ہو جائیں یا کارفرما نہ رہیں تو لازم ہے کہ کائنات کی تمام اشیا نیست و نابود ہو جائیں کیونکہ ان کی ہستی اور وجود کا انحصار ان قوانین کے تابع رہنے ہی پر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انسان کی اس فطرت کی، جس پر اسے تخلیق کیا گیا ہے، دو سطحیں ہیں، ایک ادنیٰ اور دوسری اعلیٰ۔ ادنی سطح وہ ہے جس پر انسان محض تحفظِ ذات اور افزائشِ نسل کی خاطر ان جبلی خواہشات کی تشفی کرتا ہے جو کھانے، پینے، سونے اور جنس سے متعلق ہیں۔ اس سطح کے افعال اس کی ادنیـ فطرت میں داخل ہیں۔ یہ اس کے فطری تقاضے ہیں جن کو پورا کر کے وہ محض زندہ رہتا ہے اور نسل بڑھاتا ہے۔ یہ سطح انسان اور حیوان میں مشترک ہے۔ لیکن انسانی زندگی جبلی خواہشات کی ادنیٰ فطرت تک ہی محدود نہیں۔ فطرت کی ادنیٰ سطح سے آگے بڑھ کر، لیکن اسی فطرت کی اساس پر انسانی فطرت کی اعلیٰ سطح وضع ہوتی ہے جس میں تحفظِ ذات اور افزائشِ نسل کے ساتھ ساتھ اس کی حیاتِ اجتماعیہ تشکیل پاتی ہے۔ ایسی حیات جو نہ صرف اجتماعی طور پر منظم و منضبط اور محفوظ و پرامن ہوتی ہے، بلکہ جو انفرادی طور پر فرد کی تکمیلِ ذات یا اقبال کے الفاظ میں اس کی خودی کے استحکام کی ضامن بھی ہوتی ہے۔ پس جس طرح انسانی فطرت کی ادنیٰ سطح اس کی جسمانی خواہشات کی تشفی پر مشتمل ہے، اسی طرح اس کی اعلیٰ سطح اس کی اجتماعی زندگی کو منظم و منضبط کرنے، اسے محفوظ اور پرامن بنانے اور اسے قائم و دائم رکھنے پر مشتمل ہے۔ تو ایسے قوانین جن کے تحت انسان اپنی اجتماعی زندگی کو نہ صرف ممکن بناتا ہے، بلکہ اسے ترقی و فروغ دیتا ہے، قوانینِ فطرت ہیں۔ انہی قوانین پر اس کی اجتماعی زندگی کا انحصار ہے اور یہی قوانین، قوانینِ اسلام ہیں۔ ان قوانین سے انسان کو کسی حالت میںبھی مفر نہیں، اسی طرح جیسے کھانے پینے وغیرہ سے، جن پر اس کی جسمانی زندگی کا انحصار ہے، اور جن کو نظرانداز کر کے وہ ہلاکت کا سامنا کرتا ہے، مفر نہیں۔ ان قوانین کے بغیر حیاتِ اجتماعیہ ممکن نہیں اور انہی قوانین کا اتباع اس کی اعلیٰ فطرت میں داخل ہیـ۔ انہی معنوں میں اسلام دینِ فطرت ہے اور اس کے قوانین کی نوعیت ویسی ہی سائنسی ہے جیسی خارجی کائنات فطرت کے قوانین کی۔ مذکورہ بالا تصریحات، جن سے میں نے اس امر کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم کن معنوں میں دینِ اسلام کو دینِ فطرت اور اس کے قوانین کو قوانینِ فطرت کہہ سکتے ہیں، کی روشنی میں مجھے وہ نظریہ پیش کرنے میں کوئی مشکل نہیں جس کی رو سے اسلام کے بعد نبوت ختم ہونے پر بھی وحی محمدیؐ کے اتباع کا جواز رہتا ہے۔ اگر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی روح سائنسی ہے جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے، یعنی ہر پیغام ان قوانین پر مشتمل ہے، جو اس طرح کے سائنسی قوانین ہیں جیسے کہ قوانین فطرت، تو اب اس پیغام کو اس لیے قبول کیا جائے گا، اور اس پر اس لیے عمل ہوگا کہ یہ پیغام ایک سائنسی نظام کا حامل ہے۔ یہ بھی دوسرے علوم کی طرح کا ایک علم ہے۔ اس پر اب عمل اس لیے نہیں ہو گا کہ اس پیغام کا مبدا کوئی فوق الفطرت ذات ہے۔ (اگرچہ کوئی شخص چاہے تو از روئے ایمان ایسا کر سکتا ہے۔) بلکہ اس لیے ہو گا کہ جن قوانین پر یہ مشتمل ہے، وہ قوانین ہیں جن پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے، جن پر اس کی فطرت وضع ہوئی ہے۔ دینِ اسلام کے احکام ایسے نہیں جن کو بقول اقبال ایک مطلق العنان حکومت نے نافذ کر دیا ہے اور جن پر ہم محض کسی خوف کے تحت عمل کرتے ہیں، بلکہ ان پر ہم اس لیے عمل کرنے پر مجبور ہیں کہ یہ ہماری اپنی ہی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ اس طرح اقبال کے اس خیال کا مفہوم بھی صاف ہو جاتا ہے کہ یہ قوانین انسانی زندگی کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں۔ استقرائی عقل کے ظہور سے جن نئے علوم کی تدوین و ترقی ہوئی ہے، ان میں سے ایک علم دینِ اسلام کا علم ہے۔ اسلام میں نبوت کے، معراجِ کمال کو پہنچنے پر، ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وحی اپنی ارتقائی منازل طے کر کے، اسلام میں، اس مرحلے پر پہنچ گئی ہے جہاں اب یہ محض وحی نہیں رہی، بلکہ ایک علم کا درجہ بھی حاصل کر گئی ہے۔ اب اس علم کے ہوتے ہوئے کسی اور وحی و الہام کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ جو شعورِ حیاتِ انسانی کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے درکار تھا، وہ اسے اس علم کی شکل میں مل گیا ہے؟ نہیں! وہ ان قوانین کی شکل میں ملا جو قوانینِ فطرت کے مانند عالمگیر، لازمی اور ابدی ہیں۔ میں نے جو یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ وحی محمدیؐ ایک علم ہے، اور ایک سائنسی نظام کی حامل ہے تو آپ اس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ کیا میرے پاس اس کی کوئی قابلِ قبول سند ہے یا یہ محض میرے اپنے ذہن کی اختراع ہے، تو میں یہ عرض کروں گا کہ میں نے کسی انوکھے خیال کا اظہار نہیں کیا، اس تصور کی تصدیق قرآنِ حکیم کی مندرجہ ذیل آیات سے ہوتی ہے: ۱۔ ’’اور تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ ان کے مذہب کی پیروی اختیار کر لو۔ (ان سے) کہہ دو کہ خدا کی ہدایت (یعنی دینِ اسلام) ہی ہدایت ہے، اور اے پیغمبرؐ! اگر تم اپنے پاس علم (یعنی وحی خدا) کے آ جانے پر بھی ان کی خواہشوں پر چلو گے تو تم کو (عذاب) خدا سے (بچانے والا) نہ کوئی دوست ہو گا نہ کوئی مددگار۔‘‘ (۳:۱۲) ۲۔ ’’اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو، عربی زبان کا فرمان، نازل کیا ہے۔ اور اگر تم علم (و دانش) آنے کے بعد ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو خدا کے سامنے نہ کوئی تمہارا مددگار ہو گا اور نہ کوئی بچانے والا۔‘‘ (۱۳:۳۷) ۳۔ ’’اور یہ بھی فرض ہے کہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے، وہ جان لیں کہ وہ (یعنی وحی) تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے، تو وہ اس پر ایمان لائیں اور ان کے دل خدا کے آگے عاجزی کریں۔‘‘ (عربی زبان میں علم کے معنی ہیں سائنسی علم، اور قرآنِ حکیم کی رو سے بھی علم وہ شے ہے جس کو آنکھ نے دیکھا ہو، کان نے سنا ہو اور فواد (قلب) نے اس کے دھوکا نہ ہونے کی گواہی دی ہو۔ ’’اور (اے بندے!) جس جس چیز کا تجھے علم نہیں، اس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل، ان سب سے ضرور باز پرس ہوگی۔‘‘ (۱۷:۳۶) ۴۔ اور لفظ قلب، قرآنِ حکیم میں ذہن کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: ’’ان کے دل ہیں، لیکن ان سے سمجھتے نہیں۔‘‘ (۷:۱۷۹) مجلہ اقبالیات، لاہور، ۱۹۹۲ء حوالے ۱۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۱۹۱ ۲۔ ایضاً، ص ۱۹۰ ۳۔ ایضاً، ص ۱۹۳ ۴۔ ایضاً، ص ۱۹۳ ۵۔ ایضاً، ص ۱۹۳ ۶۔ ایضاً، ص ۱۹۴ ۷۔ ایضاً، ص ۱۹۵ ۸۔ ایضاً، ص ۱۹۵ ۹۔ ایضاً، ص ۱۹۵ ۱۰۔ ایضاً، ص ۹۵ ۱۱۔ اقبال اور قادیانی، مرتبہ: نعیم آسی، ص ۸۵ ۱۲۔ ایضاً، ص ۸۶ ۱۳۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۳۰۶ ۱۴۔ اقبال اور قادیانی، مرتبہ: نعیم آسی، ص ۸۴ ۱۵۔ تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مترجمہ: سیّد نذیر نیازی، ص ۱۹۳ اقبال اور سیکولر ازم بشیر احمد ڈار لفظ سیکولر اپنے لغوی اور اصطلاحی مفہوم میں یورپ کے مذہبی ماحول کی پیداوار ہے۔ عیسائی مذہب کی جو تشریح اور تعبیر پولوس نے کی اس میں چند اخلاقی اصول تو موجود تھے لیکن شریعت کی ا س میں کوئی گنجائش نہ تھی۔ اس زمانے کے مروجہ باطنی مذاہب اور اسرار میں یہ تصور موجود تھا کہ انسانی روح ایک پاکیزہ شے ہے جو بدقسمتی سے اس مادی دنیا کی قید میں اسیر ہوگئی ہے اس لیے انسان کا نصب العین یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس دنیاوی زندگی کی آلائش سے اپنے آپ کو پاک رکھا جائے۔ انہی تصورات کے زیر اثر پولوس نے حضرت عیسیٰ کی تعلیم کو اس طرح پیش کیا کہ گویا وہ بھی اسی مقصد کی خاطر اس دنیا میں آئے تھے۔ چنانچہ پہلی دوتین صدیوں تک عیسائیوں کی کثیر تعداد اپنی انفرادی نجات کی کوششوں میں منہمک رہی۔ معاشرتی اور تمدنی ذمہ داریاں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ عیسائیت ایک نظام رہبانیت تھا جو اس ناپاک دنیا میں قائم کیا گیا اور جس کا مدنی امور میں کوئی دخل نہیں تھا۔ چنانچہ جہاں تک عملی زندگی کا تعلق ہے وہ ہر معاملے میں رومی حکومت کے زیر فرمان رہی۔ قسطنطین نے بادشاہ بننے کے بعد عیسائیت قبول کر لی۔ اس نے کوشش کی کہ اس نئے مذہب کی بنیاد پر رومی سلطنت میں اتحاد و یگانگت پیدا کر سکے لیکن حقیقت میں عیسائیت بطور نظام اجتماع نہ اس وقت کارآمد ہے اور نہ اس وقت کارآمد ثابت ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قسطنطین کے جانشین جولین نے پھر سے دیوتا پرستی کی طرف رجوع کیا اور اس کی فلسفیانہ تاویلات سے لوگوں میں وحدت افکار وکردار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھی قدیم باطنی اسرار اورعیسائیت کے تصورات کی آمیزش سے مانی نے اپنا فلسفۂ حیات پیش کیا۔ اس کی نمایاں خصوصیت جسم و روح، مادیت و روحانیت، یزدان و اہرمن کی مطلق ثنویت ہے جن میں کسی قسم کا نقطۂ اتصال موجود نہیں۔ اس مانوی تحریک نے عیسائیت کے ارتقا پر بڑا اثر ڈالا۔ اگستائن جس نے کلیسا کی ابتدائی تاریخ میں ایک موثر کردار ادا کیا ہے عیسائیت قبول کرنے سے پہلے مانوی مذہب ہی کا پیرو تھا۔ محققین کا خیال ہے کہ نور و ظلمت کی مانوی ثنویت کے افکار اس کے باعث عیسائیت میں رائج ہوئے۔ جیسا کہ اقبال نے خود ایک جگہ کہا ہے کہ ’’مغرب نے مادے اور روح کی ثنویت کا عقیدہ مانویت کے زیر اثر قبول کرلیا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کے نزدیک ذات انسانی بجائے خود ایک وحدت ہے وہ مادے اور روح کی کسی ناقابل اتحادثنویت کا قائل نہیں۔ اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ ایک ہی کل کے مختلف اجزا ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا باشندہ نہیں جس کو اسے ایک روحانی دنیا کی خاطر ترک کر دینا چاہئے۔ اسلا م کے نزدیک مادہ روح کی اس شکل کا نام ہے جس کا اظہار قید مکانی و زمانی میں ہوتا ہے۔‘‘ خطبات میں فرماتے ہیں کہ ’’اسلام نے روحانی اور مادے کی تفریق کبھی روا نہیں رکھی۔ کسی عمل کی ماہیت کا فیصلہ اس لحاظ سے نہیں کیا جاتا کہ اس کا تعلق کسی حد تک حیات دنیوی یا سیکولر سے ہے بلکہ اس کا انحصار صاحب عمل کے ذہنی رجحان پر ہے۔ اگر زندگی کی مقصدیت کو سامنے نہیں رکھا جاتا تو ہمارا عمل دنیوی ہے اور اگر یہ مقصدیت ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں تو ہمارا عمل روحانی ہے ـــ قرآن پاک کے نزدیک حقیقت مطلقہ محض روح ہے اور اس کی زندگی عبارت ہے اس فعالیت سے جس کو ہم زمانے میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ لہٰذا یہ طبیعی اور مادی اوردنیوی ہی تو ہے جس میں روح کو اپنے اظہار کا موقع ملتا ہے اور اس لیے ہر وہ شے جسے اصطلاحاً سیکولر کہا جاتا ہے اپنی اصل میں روحانی تسلیم کی جائیگی۔‘‘ (تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، ص ۲۳۷۔ ۲۳۹) تن و جاں را دوتا گفتن کلام است تن و جاں را دوتا دیدن حرام است یہ جاں پوشیدہ رمز کائنات است بدن جاے ز احوال حیات است زندگی کے اس غلط نقطۂ نظر کے باعث عیسائی مذہب میں شروع ہی سے کلیسا اور ریاست کے درمیان ایک قسم کا بُعد اور تفریق پیدا ہوگئی۔یہ صحیح ہے کہ کلیسائی اقتداراور حاکمیت نے کافی عرصے تک یورپ کے مختلف ملکوں میں خالص دینی بنیاد پر اتحاد و یگانگت قائم رکھی لیکن لوتھر کی بغاوت سے یہ حالات یکسر بدل گئے۔ ہزار برائیوں کے باوجود کلیسائی اقتدار نے مذہبی اور اخلاقی اقتدار کو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا نصب العین بنایا ہوا تھا۔ لوگ زندگی کے ہر پہلو کو مذہبی اور اخلاقی نقطہ نگاہ کے مطابق ڈھالتے تھے۔ ان کی معاشرتی طرز زندگی، ان کا اقتصادی اور معاشی نظام، سلطنتوں کے باہمی میل جول سبھی اخلاقی اصولوں کی روشنی میں طے پاتے تھے۔ لیکن لوتھر نے جب کلیسا کے خلاف آواز اٹھائی تو اس سے بہت سے دیگر نتائج کے علاوہ دو باتیں ہمیں خاص طور پر ظاہر ہوئیں۔ پروٹسٹنٹ راہنمائوں نے مروجہ مذہبی رسوم پر بڑی سخت تنقید کی۔ ان کا موقف یہ تھا کہ کلیسا کی حاکمیت کے زیر اثر افراد کی آزادی اور اختیار ختم ہوچکا ہے۔ وہ مذہبی اور اخلاقی معاملات کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں۔ آخری فیصلہ ہر معاملہ میں کلیسا کا ہوتا ہے۔ اس کے خلاف ان راہنمائوں کا موقف یہ تھا کہ اخلاق کا آخری معیار ہر انسان کا اپنا دل اور ضمیر ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی سماجی اہمیت ختم ہوگئی۔ ہر آدمی کو اجازت تھی کہ وہ انپی داخلی زندگی میں مذہب سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جس طرح چاہے عمل کرے۔ مذہب محض ایک شخص کا ذاتی معاملہ ہے اس کا کوئی تعلق اس کی باقی ماندہ زندگی سے کچھ نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس اصول کے تحت مذہب اور ریاست میں مکمل علیحدگی اورتفریق پیدا ہوگئی۔ یہ تفریق ایک معنی میں اسی فلسفیانہ ثنویت کا منطقی نتیجہ تھی جو مغربی حکماء نے بقول اقبال مانی کے زیر اثر اختیار کی تھی۔ بدن را تا فرنگ از جاں جدا دید نگاہش ملک و دیں راہم دوتا دید کلیسا سبحۂ پطرس شمارد کہ او با حاکمی کارے ندارد بہ کار حاکمی مکر و فنے بیں تن بے جان و جان بے تنے بیں ملک و دین ـ ریاست اور مذہب، مملکت اور اخلاق کی اس جدائی کا علمبردار میکیاولی تھا جس نے اپنی کتاب ’’شہزادہ‘‘ میں حکومت کے معاملات میں مذہب اور اخلاق کو برطرف کر کے خالص ابن الوقتی حکمت عملی کی تلقین کی۔ اس باطل پرست اطالوی مفکر کے نزدیک مملکت ہی ’’معبود‘‘ یعنی نصب العین ہے جس کی ضروریات کسی قانون اخلاق کے تابع نہیں۔ باطل از تعلیم او بالیدہ است حیلہ اندوزی فنے گردیدہ است شب بچشم اہل عالم چیرہ است مصلحت تزویر را نائیدہ است اس ’’حیلہ اندوز‘‘ اور پُراز تزویر سیاست کو اقبال ’’لا دین سیاست‘‘ یعنی سیکولر ازم کا نام دیتا ہے۔ مری نگاہ میں ہے یہ سیاست لا دین کنیز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترک کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر دین و اخلاق سے بے نیازی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جو اپنی انفرادی زندگی میں اخلاق کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور مذہب کے احکام کی پیروی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے لیکن جب وہی افراد ریاست و حکومت کے معاملات اور بین الاقوامی مسائل پر غور و خوض شروع کرتے ہیں تو ہر قسم کے اخلاقی تقاضوں سے بے نیاز ہو کر فیصلہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سیاست فساد فی الارض کا ایک بدترین سرچشمہ ہے۔ اگر اقتدار کسی ایک مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں ہو یا عوام کے ہاتھوں میں۔ جب بھی سیاست کو اخلاق سے علیحدہ رکھا جائیگا تو اس سے فتنہ و فساد ہی پیدا ہوگا۔ جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اس چنگیزی کے باعث انسان کی تمدنی زندگی تباہی سے دو چار ہے۔ ہر قسم کی ترقی کے باوجود انسان اپنی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ معاشی زندگی میں استحصال و لوٹ، سماجی زندگی میں بے چینی اور خود غرضی، بین الاقوامی سطح پر باہمی بد اعتمادی، جنگ کی خوفناک تیاریاںیہ سب پریشان کن حالات اقبال کے خیال میں صرف سیکولر نقطۂ نگاہ اختیار کرنے کا نتیجہ ہیں۔ یورپ از شمشیر خود بسمل فتاد زیر گردوں رسم لا دینی نہاد گرگے اندر پوستین برہٖ بر زماں اندر کمین برہٖ مشکلات حضرت انساں ازوست آدمیت را غم پنہاں ازوست یہاں تک کہ وہ علم و تحقیق جو اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔اس لادین نقطۂ نگاہ کے زیر اثر قومی خودی کی موت کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔تسخیر کائنات کا مقصد انسان کو اس دنیا میں صحیح معنوں میں نائب حق کے منصب کا اہل بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے اس سیکولر رجحان نے اس میں وہ زہر ملا دیا ہے جس کے باعث خود ’’مارھا درپیچ و تاب‘‘ علم اشیا خاکِ مارا کیمیا است آہ در افرنگ تاثیرش جدا است آہ از افرنگ و از آئین او آہ از اندیشۂ لا دین او اے کہ جاں ما باز می دانی زتن سحر ایں تہذیب لا دینی شکن یہی علم خیر کثیر ہے اگر اس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہو۔ اگر دین و اخلاق کے سر چشمہ سے رابطہ موجود ہو تو یہ علم پیغمبری کے ہم پایہ ہے لیکن جب یہ علم سوز دل سے عاری ہو جائے اور حق سے بیگانگی کا مظہر ہو تو یہ بجائے خیر کثیر کے شر اعظم بن جاتا ہے جس کے فساد کی لپیٹ میں اس وقت ساری دنیا پھنسی ہوئی ہے۔ اس کا واحد علاج اقبال کی نگاہ میں لادینیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔ انسانی زندگی میں سکون و اطمینان راحت و سعادت تبھی ممکن ہے کہ دین و دنیا کی دوئی ہمیشہ کے لیے ختم کر دی جائے۔اخلاق اورسیاست کی بے تعلقی کے باعث جو غیر متوازن حالات پیدا ہوئے ہیں اس کو اقبال نے بڑے عمدہ انداز میں یوں پیش کیا ہے۔ کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی سماتی کہاں اس فقیری میں میری خصومت تھی سلطانی و راہبی میں کہ وہ سر بلندی ہے یہ سربنریری سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی اسیری ہوس کی وزیری دوئی ملک و دیں کے لیے نامر ادی دوئی چشم تہذیب کی نابصیری یہ اعجاز ہے ایک صحرا نشین کا بشیری ہے آئینہ دار نذیری اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی کہ ہوں ایک جنید وارد شیری جب علم وقوت لادینی سے متاثر ہوں تو زہر ہلاہل سے زیادہ خوفناک ہیں لیکن جب یہی علم و قوت دین و اخلاق سے مربوط ہوں تو زہر کا تریاق اسی سے حاصل ہوتا ہے۔ ایوبی اور نگاہ بایزید ایک ذات میں موجود ہونا ہی انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔جب انسان اس نہ سپہر کے طلسم کو توڑ دیتا ہے لیکن اس کے نشیب و فراز، رنج و راحت سے متاثر نہیں ہوتا تبھی دنیا فساد و فتنہ سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ شکوہ خسروی این است این است ہمیں ملک است کوتوام بہ دین است لادینیت کا ایک دوسرا مظہر وطن کا غلط تصور ہے۔ بدقسمتی کہنا چاہیے کہ اس خطرناک نظریے کا آغاز بھی تحریک اصلاح کلیسا کے ہاتھوں ہوا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کلیسائی حاکمیت کے باعث تمام عیسائی ممالک ایک رشتۂ اخوت میں منسلک تھے اور اس اتحاد و اخوت کی بنیاد مذہبی اور اخلاقی یگانگت پر تھی۔ جب لوتھر نے کلیسا کے اس عالمگیر نظام کو ختم کر دیا تو ہر ملک کو اپنی انفرایت قائم رکھنے کے لیے کسی نفسیاتی بنیاد کی ضرورت تھی۔ یہ نفسیاتی بنیاد نظریہ وطن و نسل نے فراہم کی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ لوتھر کی یہ بغاوت درحقیقت جرمن قومیت کی سرفرازی کے لیے تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیح کے عالمگیر نظام اخلاق کی بجائے بے شمار اخلاقی نظام وجود میں آئے۔ چنانچہ اہل مغرب کی نگاہیں اس عالمگیر انسانی نصب العین سے ہٹ کر اقوام و ملل کی تنگ حدود میں الجھ کر رہ گئیں۔ اس کے لیے انھیں وطنیت کے تصور سے زیادہ اورکوئی بہتر اساس میسر نہ آئی۔ وطنیت کی یہ اساس انپے بنیادی مفہوم میں انسانی جماعت کی ہیئت کا ایک سیاسی اصول ہے، جس کے مطابق ایک خاص جغرافیائی حدود میں رہنے والے لوگ جو ایک ہی زبان اور نسل سے تعلق رکھتے ہیں اس وطن کو اپنا معبود اور نصب العین قرار دیتے ہیں۔ وطن ہی ان کی تمام وفاداریوں کا مرکز ہے اور وہی نیکی اور بدی، خیر و شر کا آخری معیار۔ اس لیے اقبال نے مختلف جگہ ’’وطن‘‘کودیوتا اورخدا کے نام سے پکارا ہے۔ ع ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ وطنیت کا یہ سیاسی نظریہ انسانیت کے لیے سم قاتل ہے کیونکہ اس کے باعث انسان آدمیت سے محروم ہو کر اسفل السافلین تک جا پہنچتا ہے۔ آں چناں قطع اخوت کردہ اند بر وطن تعمیر ملت کردہ اند تا وطن را شمع محفل ساختند نوع انسان و قبائل ساختند ایں شجر جنت ز عالم بردہ است تلخیٔ پیکار بار آوردہ است آدمی اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد اسلام کا مقصد محض انسانوں کی اخلاقی اصلاح نہیں بلکہ ان کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب پیدا کرنا ہے جو قومی اورنسلی نقطہ نگاہ کو بدل کر خالص انسانی شعور پیدا کرے۔ ’’اسلام نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے نہ نسلی۔ نہ انفرادی اورنہ پرائیویٹ بلکہ خالصۃً انسانی ہے اور اس کا مقصد تمام فطری امتیازات کے باوجود عالم بشریت کو متحد اور منظم کرنا ہے۔ ایسا نظام صرف عقائد کی بنا پر ہی قائم ہوسکتا ہے۔ صرف یہی وہ طریقہ ہے جس سے عالم انساں کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘ (حرف اقبال ص۲۵۱۔ ۲۵۲)۔ یہ اساسی عقیدہ اقبال کے خیال میں صرف توحید ہے جس کی بنا پر انسانی سوسائٹی کو ایک بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکتا ہے۔ توحید کا مفہوم یہ ہے کہ ہماری وفاداریاں ملوک و سلاطین اور دیگر سارے مفادات سے ہٹ کر صرف ذات الٰہی سے مخصوص ہوجائیں۔ چونکہ یہ ذات الہٰیہ فی الحقیقت زندگی کی روحانی اساس ہے اس لیے اللہ کی اطاعت دوسرے لفظوں میں انسان کی اپنی فطرت صحیحہ کی اطاعت ہوئی۔ جب اس اصل توحید کو سیاسی اصول عمل کی حیثیت دی جاتی ہے تو اس سے انسان کو بحیثیت انسان دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت ملک قوم رنگ نسل وغیرہ کے امتیاز بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ قرآن کے نزدیک قابل امتیاز اگر کوئی شے ہے تو وہ انسانی اعمال کا اچھا اور برا ہونا ہے نہ کہ اس کا رنگ و نسل وغیرہ، ’’وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے جو نسل و زبان و رنگ سے بالا ہو۔ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائیگا اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا۔‘‘(حرف اقبال ۲۴۷) برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است اقبال نے جب بین الاقوامی سطح پر جمعیت اقوام کی مخالفت کی تو اس کا باعث بھی اس نظریۂ وطنیت کی مخالفت تھی۔ اس کے خیال میں کوئی ایسا بین الاقوامی ادارہ جس کی بنیاد انسانوں کے اجتماع کی بجائے محض اقوام کا اجتماع ہو کبھی خیر و سعادت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس کے نزدیک صحیح نصب العین جمعیت اقوام کی بجائے جمعیت آدم ہونا چاہئے۔ تفریق ملل حکمت افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملت آدم اقبال نے اپنے کلام میں لادینی جمہوریت کی سخت مخالفت کی ہے جس کی بنا پر لوگوں نے اس پر فسطائیت کا الزام لگایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی مخالفت کا باعث جمہور دشمنی نہیں بلکہ جمہوریت دشمنی ہے۔ وہ عام لوگوں کی صلاحیت کا نہ منکر ہے اور نہ ان کو آزادی رائے اور صحیح اختیارات دینے کے خلاف ہے۔ اس کے خیال میں ہر بنی آدم تکریم و عظمت کا حامل ہے۔نیٹشے کے خیال میں عوام صحیح معنوں میں ’’انام ‘‘ ہیں اور اس لیے اس نے تمام اختیارات و حقوق ان سے لے کر فوق ابشر کے سپرد کردیے۔ ان کے لیے سوائے تقلید اورپیروی کے اور کوئی چارہ کار نہیں۔ لیکن اقبال کے ذہن میں عوام سے متعلق کوئی ایسا پست تخیل موجود نہیں۔ ’’اسلامی جمہوریت ایک روحانی اصول ہے جس کی بنیاد اس مفروضہ پر ہے کہ ہر انسان چند بالقوہ صفات کا حامل ہے جو ایک خاص قسم کی سیرت کی تشکیل سے بروئے کار آسکتی ہیں۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جن لوگوں نے بہترین کارنامے پیش کئے وہ بھی عوام ہی تھے۔‘‘(دیباچہ اسرار خودی۔ انگریزی ترجمہ صفحہ ۱۹، لاہور ۱۹۵۰)۔ اقبال نے جب جمہوریت پراعتراض کیا ہے تو اس سے اس کی مراد جمہوریت کی وہ شکل ہے جو مغرب میں موجود ہے جس کی اساس وطن و قوم کے غلط تصور پرقائم ہے اور جس نے لوگوں کو اخلاق اور انسانیت کا پیغام دینے کے بجائے فتنہ و فساد، خون ریزی اور ہلاکت، استحصال اور لوٹ مار کے بازار گرم کئے ہیں۔ یہ سرمایہ داروں کی جنگ زرگری ہے قیصریت اور استبداد کا ایک پردہ ہے۔ اس ’’شراب رنگ و بو‘‘ کو اختیار کرنے سے سوائے نامرادی کے اور کچھ حاصل نہیں۔ فرنگ آئین جمہوری نہاد است رسن از گراں دیوے کشاد است ز باغش کشت ویرانے نکوتر ز شہر او بیابانے نکوتر گروہے را گروہے در کمین است خدایش بار اگر کارش چنین است جمہوریت کی حقیقی غلطی اقبال کے نزدیک یہ ہے کہ لادینی نقطہ نگاہ کے زیراثر مغرب نے لوگوں کو ہر معاملے میں مطلق العنان بنا دیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی مقصد و مطلب ہے تو صرف مادی منفعت نہ کہ انسانی بھلائی۔ صحیح روحانی جمہوریت وہ ہے جس میں اقتدار کا مآخذ عوام کی بجائے ذات باری ہو۔ سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری جاوید نامہ میں اس سلسلے میں کہتا ہے: غیر حق چوں ناہی و آمر شود زور در بر ناتواں قاہر شود زیر گردوں آمری ازقاہری است آمری از ما سوا اللہ کافری است اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسانوں کو اجتماعی طور پر کسی نظام کی ضرورت نہیں بلکہ صرف وہی نظام مملکت عدل و انصاف قائم کر سکتا ہے جس کی بنیاد اخلاقی اورروحانی اصولوں پر ہو۔ الحکم اللہ اور الملک اللہ۔ جب تک انسانی تمدن کی بنیاد عالمگیرروحانی اصولوں پر نہ رکھی جائے تب تک امن و عافیت ممکن نہیں۔ مغرب کی لادینی مادیت نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ کبھی وہ جمہوری قبا میں ظاہر ہوتی ہے کبھی وہ اشتراکیت کی شکل میںجلوہ فگن ہوتی ہے لیکن در حقیقت یہ سب قدیم جاہلیت ہی کی تازہ شکلیں ہیں اور ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اسی روحانی ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے جس نے پہلے بھی اس جاہلیت کے طلسم کو توڑا تھا۔ تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم گزر اس دور میں ممکن نہیں بے چوب کلیم اقبال ریویو ، لاہور، جولائی ۱۹۶۲ء تا جنوری ۱۹۶۳ ء اقبال کا تصورِ جہاد ڈاکٹر وحید قریشی ادب کے طالب علم کے لیے یہ ایک نامانوس سا موضوع ہے۔ علامہ اقبال کا بنیادی خیال ہے کہ اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے۔ اس تناظر میں روحانی اور مادی اقدار ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں دین بھی شامل ہے اور دنیا بھی۔ اسلام کا یہ ایک مستقل امتیاز ہے کہ اس میں دنیا، دین کے تابع ہے اور ان اخلاقی اقدار سے جن کی تعلیم اسلام نے دی ہے، دنیا کی فی نفسہٖ کوئی الگ حیثیت نہیں ہے۔ دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام اس اعتبار سے مختلف اور منفرد ہے کہ خود عیسائیت بھی ایک مرحلے پر چرچ اور اسٹیٹ کے الگ الگ خانوں میں بٹ گئی اور نتیجہ یہ نکلا کے مذہب افراد کا ذاتی یا پرائیوٹ معاملہ ہو کر رہ گیا جس کا حیات اجتماعی کے اساسی محرکات سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اسلام، جیسا کہ اقبال زور دے کر کہتے ہیں، دین و دنیا کو ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھتا۔ ’’خطبات‘‘ میں تو علامہ یہاں تک کہتے ہیں کہ جسم اور روح ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں(۱)۔ اس لحاظ سے اقبال کی شاعری کے حوالے سے بھی ہم جو موضوع لیں گے، اس کا کوئی نہ کوئی بنیادی تعلق دین سے ضرور ہو گا۔ فی الوقت میں ان کے تصور جہاد اور نظریہ مرد مومن کے سلسلے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جہاد کا مادہ(ج ہ د) ہے، اس کے لغوی معنی ہیں: کسی متعینہ مقصد اور مقررہ ہدف کے لیے سخت کوشش کرنا۔ ’’مجاہدہ‘‘ اور ’’اجتہاد‘‘ کے کلمات بھی اسی مادے سے مشتق ہیں۔ اس بات کو ذرا پھیلا کر دیکھیں اور جہاد کے لغوی معنی سے اصطلاحی معنی کی طرف آئیں تو اس میں مجاہدے اور اجتہاد کے بعض پہلو بھی شامل ہو جاتے ہیں۔اصطلاحی معنوں میں جہاد، راہ خدا میں انتہائی محنت، کوشش اور تگ و دو سے عبارت ہے۔ امام راغب اصفہانی کے بقول الجھد والجھد کے معنی طاقت اور مشقت کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ الجھد (بفتح الجیم) بمعنی مشقت اور الجھد بمعنی وسعت کے ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ الاجتھاد (افتعال) کے معنی کسی کام کے لیے پوری طاقت صرف کرنے اور مشقت اٹھانے کے ہیں ــــ الجھاد و المجاھدۃ (مفاعلہ) کے معنی دشمن کے مقابلے میں پوری طاقت صرف کرنے کے ہیں۔ جہاد تین قسم پر ہے: ۱۔ کفار سے ، ۲۔ شیطان سے اور ۳۔نفس سے ــــــ اور آیت کریمہ وجاھدوا فی اﷲ حق جھادہ (اور خدا (کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے) [۲۲ ۔ ۷۸]تینوں قسم کے جہاد پر مشتمل ہے ــــــ اور حدیث میں ہے: ’’جاھدوا اھواء کم کما تجاھدون اعداء کم‘‘ کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اس طرح اپنی خواہشات سے بھی جہاد کیاکرو ــــ اور جہاد یا مجاہدہ زبان اور ہاتھ دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺنے فرمایا: ’’جاھدو الکفار بایدیکم والسنتکم‘‘ کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ جہاد کرو(۲)‘‘۔ زندگی کی طرح لفظ کے بھی دائرے ہو جاتے ہیں۔ جہاد کا لفظ خاص طور پر ان غزوات، سرایا اور جنگوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اسلام کے لیے لڑی گئیں۔ اس سلسلے میں کچھ مغالطے بھی موجود ہیں، خاص طور پر صلیبی جنگوں کے زمانے سے اور پھر برصغیر پاک و ہند پر برطانوی تسلط کے دور سے، جہاد کو کئی رنگ دیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ایک غلط فہمی یہ پھیلائی گئی کہ اسلام کی رو سے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں کے علاقے فتح کیے جائیں، انہیں ہر طرح سے مغلوب کرنے کی کوشش کی جائے اور اسلام پھیلانے کے لیے تلوار چلائی جائے۔ علامہ اقبال کے زمانے سے کچھ پہلے بعض مسلمان مورخین نے مستشرقین کے پھیلائے ہوئے ان مغالطوں کی تردید شروع کر دی تھی اور اس کے لیے انھوں نے قرآن و حدیث کو بنیادی ماخذ بنایا۔ برعظیم میں اس صورت حال نے ایک خاص مبحث پیدا کیا۔ یہاں کے مسلمانوں میں اس مسئلے نے بہت اہمیت اختیار کر لی کہ آیا ہندوستان، دارالاسلام ہے یا ’’دارالحرب‘‘؟ ہِند اسلامی تاریخ میں یہ سوال خاصا پرانا ہے۔ سب سے پرانا حوالہ سلطانی دور کا ہے۔ مشہور مورخ ضیاء الدین برنی نے اپنی کتاب ’’نعت محمدیؐ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ اس سرزمین میں ہندو، مسلمانوںکے لیے مسلسل عذاب بنے ہوئے ہیں۔ انھیں قتل کرنا واجب ہے(۳)۔ اس کے بعد یہ مسئلہ برطانوی دور اقتدار میں بھی چلتا رہا کہ یہ خطہ دارالحرب ہے یا دارالاسلام؟ ہندو ذمی ہے کہ نہیں؟ انگریزی حکومت کی اطاعت واجب ہے کہ نہیں؟ اس فضا میں اقبال نے آنکھ کھولی۔ خود ان کے زمانے میں سرسید احمد خان نے جہاد پر ایک رسالہ تصنیف کیا۔ بعد میں ابوالکلام آزاد نے بھی مقالے لکھے۔ اسی طرح ابو الاعلیٰ مودودی نے ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے ضخیم کتاب تحریر کی۔ اس پس منظر میں علامہ کے تصور جہاد تک پہنچنے کے لیے ہمیں تاریخ اسلام کے بارے میں ان کی اس بنیادی رائے کو سامنے رکھنا ہو گا کہ خلفائے راشدین کے بعد خلافت ختم ہو گئی اورملوکیت کا دور دورہ ہوا۔ اس سے جو دینی اور تہذیبی خرابیاں پیدا ہوئیں، اس کی طرف اقبال نے کئی جگہ اشارے کیے ہیں۔ نثر میں بھی اور نظم میں بھی۔ ارمغان حجاز جو ان کا آخری شعری مجموعہ ہے اور ان کے انتقال کے بعد شائع ہوا، اس میں ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے عنوان سے فرماتے ہیں: عرب خود را بنور مصطفیؐ سوخت چراغ مردۂ مشرق برافروخت و لیکن آں خلافت راہ گم کرد کہ اول مومناں را شاہی آموخت(۴) اس صورت حال کا مسلمانوں کو مجموعی طور پر جو نقصان ہوا، اس سے دو تین چیزیں نمایاں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ خلافت راشدہ کے فوراً بعد، بقول علامہ اقبال، مسلمانوں کو اسلام سے سماجی سطح پر ایک فعال قوت کے طور پر نمودار ہونے والی جو روشنی حاصل ہوئی تھی، وہ ماند پڑ گئی، اور ملوکیت نے اس بنیادی تصور حیات کو جھٹلا دیا، جو آگے چل کر مسلمانوں کی فلاح و بقا کا ضامن ہو سکتا تھا۔ دوسرا بڑا حملہ جو مسلمانوں کے خیالات پر ہوا وہ یونانی فلسفے کی یلغار تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی کی بقا اور قیام کے لیے جو چیزیں مفید ہو سکتی تھیں، انھیں نظر انداز کر دیا گیا، اور پھر رفتہ رفتہ یہ نوبت آگئی کہ مسلمانوں کے ہاں وہ رجحانات جنھیں ثانوی حیثیت حاصل تھی، بنیادی حیثیت اختیار کر گئے۔ اس طرح غیر متوازن قناعت اور بے عملی کے سوتے پھوٹ پڑے۔ اس کے بعد عالم اسلام کے خلاف ایک اور بڑا طوفان اٹھا۔ وہ منگولوں کا حملہ تھا جس کے آگے سپر انداز ہو کر مسلمانوں نے تصوف کا وہ راستہ اختیار کیا جسے اقبال عجمی اور غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ تاہم یہ کہنا غلط ہے کہ علامہ تصوف کے خلاف تھے۔ وہ خود یہ کہتے ہیں: ’’اسلام کو دین فطرت کے طور پر realize کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاص مند مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے(۵)۔‘‘ اس بنیاد پر جب علامہ اقبال برصغیر کی پوری مسلم روایت اور اس کے بڑے نمائندوں کو دیکھتے ہیں تو ان کے ہاں رد عمل کی کئی سطحیں نمودار ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ یہاں کے مسلمانوں نے برطانوی اقتدار کو کس طرح تسلیم کر لیا؟ اور جو کچھ آوازیں اس کے خلاف بلند بھی ہوئیں وہ اتنی کمزور تھیں کہ تقریباً بے اثر رہیں۔ دوسرے ایک بہت بڑا نقصان مسلمانوں کا یہ ہوا کہ فارسی اور اردو شاعری میں وہ خیالات و افکار زیادہ جگہ پا گئے جو مسلمانوں کو بے عملی اور انفعالیت کی طرف لے گئے۔ اس صورت حال نے برطانوی دور میں مسلمانوں کو اس درجے تک پہنچا دیا کہ اقبال کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ اس کے خلاف ایک پیکار کرنی پڑی۔ ایک طرف تو انھوں نے یہ کوشش کی کہ لفظ جہاد کے بارے میں مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور دوسری جانب انھوں نے اجتہاد کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا جو اسی مادے سے مشتق ہے۔ اس سلسلے میں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جب حالات بدلنے لگیں اور سماجی صورت حال میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں پیدا ہونے لگیں تو اسلام کے قانونی اصولوں کی نئی تعمیر و تعبیر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اجتہاد اسی ضرورت کی تکمیل کرتا ہے۔ اس میں فقہی دروازے بند نہیں رہتے بلکہ بعض شرائط کے ساتھ کھلے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہوا کہ قرون وسطیٰ میں شریعت کی جو تعبیر و تشریح کر دی گئی تھی، اسے آج کے حالات پر بھی جوں کا توں منطبق کرنے پر اصرار کیا گیا۔ علامہ اس رویے کے مخالف ہیں۔ اس مخالفت کے اسباب و حدود کا کچھ اظہار اس رسالے میں بھی ہوتا ہے جو انھوں نے جہاد کے موضوع پر لکھا تھا اور ایک زمانے میں اس کے کچھ اجزا شائع بھی ہوئے تھے۔ اس اشاعت پر جو عمومی ردعمل سامنے آیا وہ سخت مخالفانہ تھا لہٰذا رفع فساد کے لیے انھوں نے پورا رسالہ ہی ایک طرف ڈال دیا۔ سید سلیمان ندوی کے نام اپنے ایک خط میں علامہ اس مخالفت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہمارے ہاں لوگوں میں دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ نہیں ہے(۶)‘‘۔ اس کے علاوہ کم و بیش اسی موضوع پر ان کی ایک اور تحریر ملتی ہے: ''Political Thought in Islam.'' مشمولہ ("Speeches, Writings and Statements of Iqbal) اس میں انھوں نے مسلمانوں کے تصور ریاست پر گفتگو کی ہے اور بتایا ہے کہ خلافت کس طرح ملوکیت میں تبدیل ہو گئی اور خلفا کے چناؤ میں کون سے بنیادی اصول ملحوظ رکھے جاتے تھے اور ان میں کون کون سی صفات ہوتی تھیں جب تک مسلمان خلافت کے ادارے پر متفق رہے، ان میں دو طبقات موجود رہے: ایک وہ جو منتخب کیا جاتا ہے اور دوسرا وہ جو منتخب کرتا ہے۔ علامہ نے امیدوار خلافت کے لیے الماوردی کی بتائی ہوئی آٹھ شرائط نقل کی ہیں: ۱۔ سیرت، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو۔ عادات و خصائل غیر مشتبہ ہوں۔ ۲۔ صحت حواس ظاہری و باطنی قائم ہو۔ ۳۔ مذہب و شریعت کا ضروری علم حاصل ہو۔ ۴۔ امیدوار ایسی دوربینی و حق اندیشی کا مالک ہوجو ایک حکمران کے لیے ضروری ہے۔ ۵۔ ایسے حوصلے اور جرات کا مرد ہو کہ وقت ضرورت خلافت مقدسہ کی حفاظت کے لیے میدان میں نکل سکے۔ ۶۔ خاندان قریش سے قرابت رکھتا ہو۔ ۷۔ پوری عمر کا بالغ ہو (عندالغزالی)۔ یہی شرط تھی جس کی عدم موجودگی میں قاضی القضاۃ نے خلیفہ منتخب کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ۸۔ مرد ہو نہ کہ عورت (عند الیضاوی)۔ اس شرط کا خوارج نے انکار کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ عورت خلیفہ منتخب ہو سکتی ہے(۷)۔ علامہ کا یہ مقالہ خلافت و ملوکیت کے تصورات کا خاصی گہرائی سے تجزیہ کرتا ہے اور اس بنیادی فرق کی بخوبی نشاندہی کرتا ہے جو حکومت کے ان دو اداروں میں پایا جاتا ہے۔ اس مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ’’جہاد‘‘ کے لغوی معنی تو متعین ہیں جو ہم بیان بھی کر چکے ہیں، مگر کسی نظریے کی اساسی اصطلاحات محض لغوی معنی تک محدود نہیں ہوتیں۔ ان کے کچھ اصطلاحی معنی بھی ہوتے ہیں جو لغوی معنی سے ایک محکم نسبت اور تعلق رکھتے ہیں۔ ’’جہاد‘‘ کی اصطلاحی معنویت یہ ہے کہ اس میں دو چیزیں لازمی ہیں: مقصد اور جدوجہد۔ یعنی جہاد کی چند واضح اخلاقی حدود و قیود ہوتی ہیں، جنہیں متعدد آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں چند چیزیں خاص طور پر قابل غور ہیں۔ اپنے مذہب اور اقدار کے دفاع کے لیے یا محض کوئی علاقہ فتح کرنے کی خاطر کسی ملک یا قوم پر چڑھائی کرنا حرام ہے۔ البتہ کوئی آپ پر حملہ آور ہو جائے تو اس کا جواب دینا لازم ہے۔ جہاد کے جواز بلکہ وجوب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کے ہمسایہ ممالک آپ کا جینا حرام کر دیں اور ان کی وجہ سے آپ اسلام کی طرف عائد ہونے والے فرائض کی بجا آوری نہ کر سکیں۔ ایسی صورت حال میں اپنے دینی تشخص کی بقا کے لیے ہر طرح کی جدوجہد ضروری ہو جاتی ہے۔ جہاد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ علامہ جہاد کو علامتی مفہوم میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ جہاد انفرادی جہت بھی رکھتا ہے اور اجتماعی بھی۔ انسان کی ذات میں بھی ہوتا ہے اور خارج میں بھی۔ ایک میں رذائل نفس کا خاتمہ مقصد جہاد ہے اور دوسرے میں اخلاقی اصلاح۔ زندگی ان دونوں سے مل کر ہی ایک بامعنی کل بنتی ہے۔ علامہ کے نزدیک زندگی عبارت ہے حرکت و عمل سے، یہ نہ ہو تو زندگی، موت کے مترادف ہے۔ اسی لیے وہ ’’پیکار‘‘ کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔ اس تصور نے ان سے طرح طرح کی تراکیب وضع کرائی ہیں، مثلاً: ’’معرکۂ حیات‘‘ ، ’’جہاد زندگی‘‘ ، ’’مصاف حیات‘‘ ، ’’معرکۂ ہست و بود‘‘ ، ’’رزمگہِ کائنات‘‘ وغیرہ۔ اقبال نے اپنے کلام میں جابجا یہ ترکیبیں استعمال کی ہیں۔ یہاں ایک چیز کا تجزیہ ضروری ہے کہ اقبال نے اپنے تصور جہاد کی وضاحت کے لیے اردو کی بجائے فارسی کو کیوں منتخب کیا؟ اردو کلیات میں غالباً چھ یا سات مقامات ہیں جہاں جہاد کا ذکر صراحت سے ملتا ہے، حالانکہ یہ کلام ۱۹۰۵ء سے لے کر ان کی وفات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں فارسی میں جہاد کا تذکرہ اردو سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ بعض باتیں وہ صرف خواص تک پہنچانا چاہتے تھے، عام لوگوں تک نہیں۔ انگریزی کا وسیلہ بھی اسی لیے اختیار کیا، ورنہ "Reconstruction" کے خطبات اردو میں بھی لکھے جا سکتے تھے۔ بہرحال اردو میں جہاد کا جو پہلا حوالہ ملتا ہے وہ ’’طلوع اسلام‘‘ میں ہے: یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں(۸) یہ وہ اولین حوالہ ہے جہاں اقبال نے کھل کر زندگی کو جہاد قرار دیا ہے اور منفی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کی تلقین کی ہے۔ اس جہاد کا سرمایہ ہے یقین محکم، عمل پیہم اور انسانی دنیا سے محبت۔ اس کے بعد دوسرا حوالہ ’’فاطمہ بنت عبداللہؓ‘‘‘ میں ملتا ہے۔ ایک خاص غزوے کے حوالے سے کہتے ہیں: یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر(۹) سرسید کے زمانے میں بعض علمائے دین نے یہ فتویٰ دیا کہ انگریز اولی الامرہیں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں پر سے جہاد اب ساقط ہو گیا ہے یہ کوئی ایک آدھ فتوے کا ذکر نہیں، ان فتاویٰ کی مجموعی تعداد دس گیارہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کا پہلا ردعمل ان کے ظریفانہ کلام میں ملتا ہے: رد جہاد میں تو بہت کچھ لکھا گیا تردید حج میں کوئی رسالہ رقم کریں(۱۰) اس کے علاوہ انھوں نے جہاد کے موضوع پر ایک پوری نظم بھی لکھی: تعلیم اس کو چاہیے ترک جہاد کی دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر(۱۱) اسی طرح ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘میں پہلا مشیر جہاد کا بالواسطہ حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے: کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام (۱۲) اقبال جہاد اور جنگ کے بنیادی فرق کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔ جنگ کا مقصد محض تسخیر ممالک ہے جبکہ جہاد دینی اقدار، تہذیبی اوضاع اور قومی بقا کی حفاظت اور دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر، جنگ انسان کو انسان کا غلام بناتی ہے اور جہاد انسان کو خدا کا مطیع بناتا ہے۔ آج ہم ایک آزاد ملک میں بیٹھ کر اس وقت کا اندازہ نہیں کر سکتے جب انگریز ہم پر حاکم تھا اور مسلمانوں کے لیے اپنے دین کی ترویج اور حفاظت نہایت مشکل ہو چکی تھی۔ حتیّٰ کہ دین اور سیاست کو ملانے کی ہر کوشش شک کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ اقبال اگر جہاد کو اپنی اردو شاعری کا موضوع بناتے تو ممکن تھا کہ اسباب پیدا ہو جاتے کہ انہیں قبل از وقت پابندیوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا، اور پھر یہ بھی ہے کہ اقبال مسلمانوں کے ہر مسئلے کو مقامی کی بجائے ایک وسیع ملی تناظر میں رکھ کر دیکھتے تھے۔ فارسی چونکہ ملت اسلامیہ کے زیادہ فعال اور طاقتور عناصر کو متحرک کر سکتی تھی لہٰذا نھوں نے اس زبان کو اپنے تمام اساسی تصورات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کے اس فیصلے کی صحت آج تاریخ نے ثابت کر دی ہے۔ عالم اسلام کے ایک وسیع حصے میں علامہ کا فارسی کلام ان محرکات کی ذیل میں آتا ہے جو قومی زندگی کے مثبت تسلسل اور بقا میں لازمی طور پر درکار ہیں۔ اقبال کاتصور جہاد تفصیل اور ترتیب کے ساتھ پہلی مرتبہ اسرار خودی میں ظاہر ہوا ہے۔ یہاں انھوں نے اپنے خیالات کا باقاعدہ اظہار کیا ہے۔ ایک حصے کا عنوان ہے: ’’در بیان اینکہ مقصد حیات مسلم اعلاے کلمتہ الحق است و جہاد اگر محرک او جوع الارض باشد در مذہب اسلام حرام است‘‘۔ یعنی مسلمان کی زندگی کا مقصد اعلاے کلمتہ الحق ہے اور جہاد کا محرک اگر محض کشور کشائی ہے تو مذہب اسلام میں حرام ہے۔ اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: صلح شر گردد چو مقصود است غیر گر خدا باشد غرض جنگ است خیر گر نگردد حق ز تیغ ما بلند جنگ باشد قوم را نا ارجمند(۱۳) اس کے بعد حضرت میاں میرؒ کی ایک حکایت بیان کرتے ہیں: حضرت شیخ میاں میر ولی ہر خفی از نور جان او جلی بر در او جبہ فرسا آسماں از مریدانش شہ ہندوستاں شاہ تخم حرص در دل کاشتے قصد تسخیر ممالک داشتے از ہوس آتش بجاں افروختے تیغ را ہل من مزید آموختے در دکن ہنگامہ ہا بسیار بود لشکرش در عرصۂ پیکار بود رفت پیش شیخ گردوں پایۂ بیگرد از وعا سرمایہ ی شیخ از گفتارِ شہ خاموش ماند بزم درویشاں سراپا گوش ماند تا مریدے سکۂ سیمیں بدست لب کشود و مہر خاموشی شکست گفت ایں نذر حقیر از من پذیر اے زحق آوارگاں را دستگیر گفت شیخ ایں زر حقِ سلطانِ ماست آنکہ در پیراہنِ شاہی گداست حکمران مہر و ماہ و انجم است شاہِ ما مفلس ترین مردم است دیدہ بر خوان اجانب دوختست آتش جوعش جہانے سوختست قحط و طاعوں تابع شمشیر او عالمے ویرانہ از تعمیر او سطوتش اہلِ جہاں را دشمنست نوع انساں کارواں او رہزنست از خیال خود فریب و فکر خام می کند تاراج را تسخیر نام! آتش جان گدا جوع گداست جوع سلطاں ملک و ملت را فناست ہر کہ خنجر بہر غیر اللہ کشید تیغ او در سینۂ او آرمید(۱۴) اس کتاب میں دو ایک مقامات پر اقبال نے یہ بتایا ہے کہ جنگ کن اصولوں کے تحت جائز ہے۔ یہاں ان کا استدلال قرآن کی صریح نصوص پر استوارِ ہے۔ جنگ کی جائز صورتوں میں دفاعی جنگ کی اہمیت پر انھوں نے خاص طور پر زور دیا ہے: ایکہ باشی حکمت دیں را امیں با تو گویم نکتۂ شرع مبیں چوں کسے گردد مزاحم بے سبب با مسلماں در اداے مستحب مستحب را فرض گردانیدہ اند زندگی را عین قدرت دیدہ اند روز ہیجا لشکر اعدا اگر برگمان صلح گردد بے خطر گیرد آساں روزگار خویش را بشکند حصن و حصار خویش را تا نگیرد باز کار او نظام تاختن برکشورش آمد حرام سّرِ ایں فرمانِ حق دانی کہ چیست زیستن اندر خطر ہا زندگیست شرع میخواہد کہ چوں آئی بجنگ شعلہ گردی واشگافی کام سنگ آزماید قوت بازوے تو می نہد الوند پیش روے تو باز گوید سرمہ ساز الوند را از تف خنجر گداز الوند را(۱۵) اسی بند میں اقبال نے اسلام کے قوانین جنگ کا ایک پہلو بھی بیان کیا ہے کہ اگر دشمن صلح کے گمان پر ہتھیار رکھ دے اور پوری طرح سے مطیع بن جائے تو اس پر حملہ حرام ہو جاتا ہے: زیستن اندر خطر ہا زندگی است یہ جہاد کی علامتی جہت ہے جو اقبال کی شاعری میں جابجا ظاہر ہوئی ہے۔ در خطر زیستن، استعارہ ہے مجاہد کی زندگی کا جس کی کئی سطحیں ہیں۔ علامہ کے نزدیک مقاصد حیات، علم کا نہیں، عمل موضوع ہیں۔ انسان، عمل ہی کی بنیاد پر ان مقاصد کے حصول کی اہلیت بہم پہنچاتا ہے۔ اس راہ میں کئی طرح کی داخلی اور خارجی رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی ہر کوشش جہاد ہے۔ علامہ نے پیکار کو اصل زندگی اسی معنی میں کہا ہے کہ زندگی جس روبکمال حرکت سے عبارت ہے وہ مختلف مزاحمتوں کا سامنا کیے بغیر actualize تو کجا تصور بھی نہیں کی جا سکتی۔ عمل اسی حرکت کا دوسرا نام ہے جو آدمی کو اپنے اہداف سے لاتعلق نہیں ہونے دیتا: از عمل آہن عصب می سازدت جاے خوبے در جہاں اندازدت خستہ باشی استوارت میکند پختہ مثل کوہسارت میکند(۱۶) عمل چونکہ محض تصور نہیں ہے لہٰذا کوئی نمونہ کامل ہونا چائیے، جس کی روشنی میں اس کی سمت کمال کو حتمی اور دائمی طور پر متعین کیا جا سکے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہی وہ نمونہ ہے کہ اس کی مکمل پیروی کیے بغیر حصول مقصود کی کوئی راہ نہیں کھلتی۔ اقبال کی نظر میں زوال امت کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو فراموش کر دیا۔ اس طرح وہ مرکزی نقطہ گم ہو گیا جس کے گرد زندگی نے اپنی جامعیت، کمال اور وحدت کا دائرہ مکمل کیا تھا: تا شعار مصطفیؐ از دست رفت قوم را رمز بقا از دست رفت آنچناں کاہید از باد عجم ہمچو نے گردید از بادِ عجم قلب را زیں حرف حق گرداں قوی با عرب در ساز تا مسلم شوی(۱۷) اقبال کے نزدیک مسلمانوں، بلکہ سارے انسانوں کی بقا رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ کاملہ کی پیروی میں مضمر ہے۔ بقائے انسانیت کے تمام درجات ــــ خواہ نفسی، انفرادی اور دنیاوی ہوں یا روحانی، نوعی اور اخروی، کمال ہستی کے اسی نمونے سے تشکیل پاتے ہیں۔ انسان کوئی ’’چیز‘‘ نہیں ہے کہ محض ایک سادہ اور یک طرفہ اظہار کی سطح پر موجود رہنا قبول کر لے۔ اس کا موجود ہونا دراصل اس روح حیات کے ساتھ نسبت پیدا کرنے سے مشروط ہے جو ایک مستقل نصب العین کی حامل ہے۔ اس نصب العین کے حصول کی ہر راہ رسول اکرم ﷺ سے نکلتی ہے اور آپ ہی تک پہنچاتی ہے۔ آدمی ارادہ و عمل سے عبارت ہے لـہٰذاااس کی زندگی کا بنیادی اصول حرکت و پیکار ہے۔ اگر موانع نہ ہوں تو مقصود اور اس کا حصول محض ایک خیال ہے۔ زندگی پر مجموعی یا جزوی طور پر اثر انداز ہو سکنے والی کسی قوت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اسے مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔ دینی نصب العین کو بھی لامحالہ مزاحمتیں در پیش ہیں جن پر غالب آنے کی ہر کوشش جہاد ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی و تہذیبی مغلوبیت جب بہت بڑھنے لگی اور خود اسلام کی بقا کے اسباب گھٹنے لگے تو مسلمانوں نے اس کا علاج یہ کیا کہ رسول پاک ﷺ کی سیرت پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں اور علم حدیث کی باقاعدہ تدوین و ترویج پر زور دیا گیا۔ خاص طور پر اکبر کے زمانۂ الحاد میں جو ہندوستان میں حدیث و سیرت سے متعلق علوم کی اشاعت کا نقطۂ آغاز ہے۔ علامہ اپنی ایک تقریر میں جو عید میلاد النبیؐ کے حوالے سے ہے، فرماتے ہیں: ’’میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوۂ رسول ﷺ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے۔‘‘ مسلمان، عروج و زوال کی ہر جہت میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی نہ کوئی نسبت پیدا کر لیتے ہیں۔ عروج و زوال اسی زندگی کے احوال ہیں جس کا نمونۂ کمال آپ ﷺ کا ذات بابرکات کی صورت میں ہمیشہ کے لیے متعین ہو چکا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا نمونہ زندگی ہونا اتنا مطلق اور حقیقی ہے کہ حیات شخصی کی بقا کے لیے جو لوازم درکار ہیں وہ سب کے سب آپ ﷺ کو حاصل ہیں۔ علامہ اقبال شدت سے حیات النبیؐ کے قائل تھے۔ نیاز الدین خان کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ’’قرآن کثرت سے پڑھنا چاہیے تاکہ قلب محمدیؐ نسبت پیدا کرے۔ اس نسبت محمدیہؐ کی تولید کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معانی بھی آتے ہوں۔ خلوص و محبت کے ساتھ محض قرأت کافی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ ہوا کرتے تھے، لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہو گا۔ اس واسطے خاموش رہتا ہوں(۱۹)‘‘۔ یہاں تک پہنچ کر ایک روزن کھلتا ہے جس سے علامہ کے فلسفۂ حیات کے اندر جھانکا جا سکتا ہے۔ اس فلسفے میں دو چیزیں اہمیت کی حامل ہیں ــــ ایک تو حرکت و عمل جو لازمۂ حیات ہے اور دوسری، خودی۔ دونوں کا مقصود ایک ہے: دنیاے تغیرات میں حق کی شان ثبات کی تصدیق اور نگہداری۔ حرکت و عمل سے احکام حق کا اثبات ہوتا ہے اور خودی سے ذات حق کا۔ اثبات کی ایک سطح، خارجی موانع پر غلبہ پا کر قائم ہوتی ہے اور دوسری، داخلی رکاوٹوں کو دور کر کے ہاتھ آتی ہے۔ اقبال کی پوری فکر اسی بنیاد پر استوار ہے کہ انسان کو اپنا مظہر بنانے کے بعد زندگی نے ایک اختصاصی معنویت حاصل کر لی ہے۔ انسان کے لیے زندگی کسی اعلیٰ نصب العین سے ایک زندہ اور حرکی نسبت پیدا کرنے کا نام ہے۔ اس کے بغیر آدمی در حقیقت مردہ ہے۔ اسی نسبت کو پروان چڑھانے کا ہر عمل جہاد ہے۔ گویا جہاد اصول حیات کی حفاظت کرتا ہے اور زندگی کی مثالی ساخت میں بگاڑ نہیں پیدا ہونے دیتا۔ حرکت و عمل کا مصدر چونکہ خودی ہے لہٰذا اس کی تشکیل و تکمیل اقبال کا خاص موضوع ہے۔ مجرد خودی کی تعریف تو بس اتنی سی ہے کہ اس کی بنیاد پر ’’میں ہوں‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ علامہ ’’انا‘‘ اور ’’وجود‘‘ کی اس سادہ تعبیر کو رد نہیں کرتے لیکن اپنے تصور حیات کو اس میں محدود بھی نہیں رکھتے۔ وہ اسے خیال کی سطح سے اٹھا کر ایک معروضی حقیقت بنانا چاہتے ہیں جس میں ارادے اور عمل کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ اسی لیے وہ یہ کہتے ہیں کہ ایسی انا جو ہمیں اپنے نصب العین سے ہٹاتی ہے، شیطانی خودی ہے ــــ اور جو اس کے حصول میں معاونت کرتی ہے، رحمانی خودی ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے انھوں نے ایک راستے کی نشاندہی کی ہے جس میں تین مراحل آتے ہیں۔ اطاعت، ضبط نفس اور نیابت الہٰی۔ یہ مرحلے عشق کی قوت سے سر ہوتے ہیں جو زندگی کا اصل الاصول اور خودی کا بنیادی سانچا ہے۔ اس کے بغیر خودی ایک ناقابل اثبات تصور ہے یا محض ایک طبیعی تعین۔ ٹھیٹھ عملی نقطۂ نظر سے عشق سے مراد ہے نصب العین کے حصول کی تڑپ، اور یہ نصب العین اسلام ہے۔ ایسا عشق رسول اللہ ﷺ ہی سے عبارت ہو گا جو ایک جہت سے خود نصب العین ہے اور دوسرے پہلو سے اس کے حصول کی واحد راہ: نقطۂِ نورے کی نام او خودی است زیر خاکِ ما شرار زندگی است از محبت می شود پائندہ تر زندہ تر، سوزندہ تر، تابندہ تر از محبت اشتعال جوہرش ارتقاے ممکنات مضمرش۔۔۔۔۔ از نگاہ عشق خارا شق شود عشق حق آخر سراپا حق شود۔۔۔۔۔ ہست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمایمت عاشقان او ز خوباں خوب تر خوشتر و زیباتر و محبوب تر دل ز عشق او توانا میشود خاک ہمدوش ثریا میشود خاک نجد از فیض او چالاک شد آمد اندر وجد و بر افلاک شد در دل مسلم مقام مصطفیٰؐ است آبروی ما ز نام مصطفیؐ است۔۔۔۔۔ چوں گل صد برگ مارا بو یکسیت اوست جان و ایں نظام و او یکسیت (۲۱) اطاعت اور ضبط نفس کے مراحل کو کامیابی سے طے کر لینے کے بعد نیابت الہٰی کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ قوس ہے جو دائرہ عبدیت کو مکمل کرتی ہے۔ اس کا بہترین اور کامل ترین نمونہ خود رسول پاک ﷺ ہیں جنھیں اس نسبت سے انسان کامل بھی کہا جاتا ہے۔ اس مرتبے کے تین مدارج ہیں جن کے حاملین کو اقبال انسان کامل، مرد حر اور مرد مومن کا نام دیتے ہیں۔ انسان کامل اصل ہے اور باقی دو اس کے مظاہر۔ مرد مومن غیب کو شہود پر غالب کرتا ہے، مرد حرکائنات کو خالق کائنات کے امر کے تحت رکھتا ہے اور انسان کامل میں حق اپنی جامعیت کے ساتھ ظہور کرتا ہے۔ کمال انسانی جن دو جہتوں کی یکجائی سے عبارت ہے، ان میں ایک داخلی اور انفسی ہے اور دوسری خارجی اور آفاقی۔ ایمان، آدمی کی داخلی تکمیل ہے اور حریت، خارجی۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو اقبال کے مرد مومن اور مرد حرمیں ایک ظاہری تنوع اور باطنی وحدت پائی جاتی ہے کیونکہ منتہائے کمالات واحد ہی ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے عملی خصائص اور فضائل مشترک ہیں۔ علامہ، مرد مومن کو جن اوصاف کا حامل سمجھتے ہیں وہ مرد حرمیں بھی پائے جاتے ہیں۔تاہم ترکیبی تناسب مختلف ہو سکتا ہے۔ مثلاً: حب الہٰی، عشق رسول ﷺ، اسوۂ حسنہ کی پیروی، قرآن کی تعلیمات پر عمل، اطاعت، ضبط نفس، صبر، حق گوئی و بے باکی، امانت، خدمت خلق، کسب حلال، صرف خیر وغیرہ ــــ ایک مرد مومن اور مرد حر ہی نہیں، بلکہ کلام اقبال میں انسانی فضیلت کے جتنے عنوانات پائے جاتے ہیں وہ دراصل ان کے تصور انسان کامل کی جزئیات و تفصیلات ہیں جو تنوع کے باوجود اصولی وحدت رکھتے ہیں۔ مثلاً مرد مسلماں، مرد آفاقی، مرد بزرگ، مرد حق، مرد خدا، مرد خود آگاہ و خدا مست، مرد درویش، مرد راہ داں، مرد روشن دل، مرد غازی، مرد مجاہد ــــ کسی خاص جزو پر زور دے کر ایک ہی کل پر دلالت کرتے ہیں، مثلاً: شکوہ عید کا منکر نہیں ہوں میں لیکن قبول حق ہیں فقط مردِ حُر کی تکبریں (۲۱) ــــــــــــ وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا (۲۲) عملی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اقبال، مرد مومن کی صورت میں امت مسلمہ کے نئے راہنما کی تصویر کشی کرتے ہیں جو قومی زندگی کی تمام اقدار اور مقاصد کو حقیقی اسلامی تناظر میں متعین کر سکے۔ مرد حر یا مرد غازی، احیاے اسلام کی آرزو کی تجسیم ہے جو کفر پر غالب آنے سے عبارت ہے۔ مہدی، انسان کامل یعنی خودی کے نقطۂ کمال کا مظہر ہے جسے اقبال روایتی معنی میں نہیں لیتے بلکہ ایک عمرانی اور نفسیاتی تناظر میں دیکھتے ہیں: قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو مجذوب فرنگی نے بانداز فرنگی مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو اے وہ کہ تو مہدی کے تخیّل سے ہے بیزار نومید نہ کر آہوے مشکیں سے ختن کو (۲۳) دنیا کو ہے اس مہدیٔ برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلۂ عالم افکار (۲۴) علامہ کی فکر کا خاصہ ہے کہ وہ ایسے کسی تصور کو قبول نہیں کرتے جس کا عملی مصداق موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افکار میں تاریخی اور عمرانی جہت واضح طور پر کارفرما ہوتی ہے۔ انسانی فضائل کسی جامد لاتعلقی ملکوتیت سے نہیں بلکہ ہستی کی اس ہمہ گیر کشاکش سے پیدا ہوتے ہیں جس کا اظہار سب سے زیادہ دنیاوی زندگی میں ہوتا ہے: ہے گرمیٔ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی (۲۵) یہ بنیادی حقیقت اقبال کی شاعری میں پورے زور اور تنوع کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے۔ مرد مومن ایک مابعد الطبیعیاتی شکوہ رکھنے کے باوجود اس ارضی پس منظر سے خالی نہیں جو انسانی ادراک و احساس سے لازمی مناسبت رکھتا ہے: غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہ رمز آشکارا زمین اگر تنگ ہے تو کیا ہے فضاے گردوں ہے بے کرانہ (۲۶) ــــــــــــ کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی اے پیر حرم تیری مناجات سحر کیا؟ (۲۷) ــــــــــــ ہزار کام ہیں مردان حر کو دنیا میں انہی کے ذوق عمل سے ہیں امتوں کے نظام (۲۸) ــــــــــــ مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی ترے نصیب فلاطوں کی تیزیِ ادراک (۲۹) ــــــــــــ ازل سے فطرت احرار میں ہیں ووش بدوش قلندری و قبا پوشی و کلہ داری (۳۰) ــــــــــــ میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو نہیں ہے بندۂ حر کے لیے جہاں میں فراغ (۳۱) ــــــــــــ گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندۂ مومن کے لیے موت ہے یا خواب اے وادی لولاب (۳۲) ــــــــــــ صیاد ہے کافر کا، نخچیر ہے مومن کا یہ دیر کہن یعنی بت خانۂ رنگ و بو (۲۳) ــــــــــــ عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی صورت مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے(۳۴) ــــــــــــ بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن اس زمانے میں کوئی حیدر کرارؓ بھی ہے (۳۵) ــــــــــــ ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہاں گیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں (۳۶) کشمکش زندگی کا سامنا کرنے کے لیے جو قوت درکار ہے وہ تربیت یافتہ خودی ہی سے فراہم ہو سکتی ہے۔ خودی محض انفرادی تعین نہیں بلکہ اجتماعی پہلو بھی رکھتی ہے جو فرد کے حدود کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے ماورا بھی ہے۔ اقبال اسے بیخودی سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی مثبت انفرادیتوں کے باہمی ربط سے تشکیل پانے والا ایک کل ـــــــ یہ ملی خودی ہے۔ اس کے عناصر ترکیبی وہی ہیں جو انفرادی خودی کے ہیں۔ تاہم اس کا امتیاز یہ ہے کہ انفرادی خودی مقاصد کو realize کرتی ہے اور یہ actualize: فرد را ربط جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است۔۔۔۔۔ فرد و قوم آئینہ یک دیگر اند سلک و گوہر، کہکشان و اختر اند۔۔۔۔۔ فرد تا اندر جماعت گم شود قطرۂ وسعت طلب قلزم شود (۳۷) ایمان بالغیب انسان کو جن مقاصد کے حصول پر کمر بستہ کرتا ہے وہ مستقل ہوتے ہیں۔ غیب کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ عالم وجود جو کون و فساد سے ماورا ہو۔ ان مستقل اہداف سے نسبت استوار کرنے کے لیے فرد اور جماعت کی مکمل ہم آہنگی ضروری ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے جو ذریعہ اختیار کیا جائے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے جہاد ہے۔ مولانا عبدالرشید نعمانی اپنی کتاب ’’لغات القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’دشمن کے مقابلے میں جو کچھ بن سکے، کر گزرنے کا نام جہاد ہے۔ جہاد تین طرح کا ہوتا ہے: ۱۔ دشمنان دین سے ۲۔ شیطان سے ۳۔ اور نفس سے اور تین چیزوں سے کیا جاتا ہے: ۱۔ زبان سے ۲۔ ہاتھ سے ۳۔ اور دل سے۔ (۳۸) اقبال نے حربی جہاد کے سلسلے میں بھی جن شخصیات کو نمونہ بنایا ہے وہ دوسرے زاویوں سے بھی مجاہد تھے۔ مثلاً حضرت علیؓ، امام حسینؓ، حضرت خالد بن ولیدؓ، اور بعد کے طبقات میں صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی، اورنگ زیب عالمگیر، احمد شاہ ابدالی وغیرہ۔ اپنے قریبی زمانے کے لوگوں کا اس نظر سے جائزہ لیتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک مہدویت، مسیحیت اور مجددیت کے متعلق جو احادیث ہیں وہ ایرانی اور عجمی تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ عربی تخیلات اور قرآن کی صحیح اسپرٹ سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے بعض علما یا دیگر قائدین امت کو مجدد یا مہدی کے الفاظ سے یاد کیا ہے، مثلاً محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کو مورخین نے مہدی لکھا ہے۔ بعض علمائے امت کو امام اور مجدد کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ زمانۂ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر و ایران اور ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اوربعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہو گا تو موخر الذکر ہی اصل میں مؤسس ہے زمانہ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا ـــــاگر قوم نے ان کو عام طور پر مجدد نہیں کہا یا انھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا تو اس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا۔‘‘ (۳۹) علامہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کسی فرد واحد کی خودی بیدار ہونے سے ہو گی۔ فرد، جماعت کے مقابلے میں کم اہمیت رکھنے کے باوجود اس کی تشکیل و تکمیل کے عمل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ وہی فرد اپنے زمانے کا مجدد ہو گا جس کی خودی اسلام کے عملی ماڈل کو منعکس کرے گی۔ شعر اقبال میں یہ بات کئی طرح سے بیان ہوئی ہے، مثلاً: ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخر زمانی (۴۰) اقبال ہر دینی مرتبے میں مجاہدانہ معنویت ضرور دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک شرف و فضیلت، اسلام کو درپیش مزاحمتوں پر غالب آ کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ مومن دراصل غلبۂ حق کا مظہر ہوتا ہے ـــــــ جنگ میں بھی اور امن میں بھی۔ ایک پہلو سے وہ قہاری، جلال اور شاہی کا حامل ہوتا ہے اور دوسرے رخ سے غفاری، جمال اور فقر کا۔ دینی فطرت کے یہ دونوں لوازم جس شخص میں جمع ہوں گے وہی ایک پختہ خودی کا مالک ہو گا۔ یہی وہ تناظر ہے جس میں اقبال مختلف شخصیتوں کا مطالعہ کر کے پر امید یا مایوس ہوتے رہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی میں خلافت کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو اقبال نے اس سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کر لیں۔ انہیں اس میں ترکی کی بیداری اور اس کے قومی احیا کی نوید سنائی دے رہی تھی۔ چنانچہ بانگ درا میں ایک سے زیادہ مقامات پر مصطفی کمال پاشا کی پر زور تعریف و توصیف موجود ہے۔ لیکن آگے چل کر یہی مصطفی کمال پاشا اپنے بعض لادینی اقدام کی وجہ سے اقبال کی نظر سے اتر گیا۔ ایران کے رضا شاہ پہلوی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس نے بھی مایوس کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مسلم نشاۃ ثانیہ کے ظہور کے لیے افغانوں کو مرکز نگاہ بنایا مگر یہاں بھی ان توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ ایک وقت تھا کہ علامہ، مصطفی کمال پاشا میں وہ مجاہدانہ صفات دیکھ رہے تھے کہ جولائی ۱۹۲۲ء کے ایک واقعے کے بعد اسے نظیری کی زبان میں یہ مشورہ دیتے ہیں: ہر کجا راہ دہد اسپ براں تاز کہ ما بارہا مات دریں عرصہ بتدبیر شدیم لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انھیں یہ کہنا پڑا کہ نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی(۴۱) اس بدن کی تلاش اتنی شدید تھی کہ اس کی جھلکیاں بعض اوقات غیروں میں نظر آئیں۔ چنانچہ ایک جگہ مسولینی کی بہت تعریف کی لیکن جب اس نے ایتھوپیا پر حملہ کیا تو اقبال نے جتنی سختی سے اس کے خلاف لکھا، شاید ہی کسی کے خلاف لکھا ہو۔ آل احمد سرور نے اس رویے پر تناقض کی شکایت کی تو اقبال نے انھیں جواب دیا: ’’مسولینی کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس میں آپ کو تناقض نظر آتا ہے، آپ درست فرماتے ہیں لیکن اگر ا س بندۂ خدا میں Devilاور Saint دونوں کی خصوصیات جمع ہوں تو میں اس کا کیا علاج کروں(۴۲)۔‘‘ اپنے ایک اہم شعری مجموعے پیام مشرق کو امیر امان اللہ خان کے نام معنون کرتے ہوئے علامہ نے جو منظوم پیش کش لکھی ہے، اس کا ابتدائی بند ہی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقبال نے ان سے کیسی تاریخی بلکہ تقدیری سطح کی توقعات باندھ رکھی تھیں۔ ’’پیشکش بحضور اعلیٰ حضرت امیر امان اللہ خان فرمانرواے دولت مستقلہ افغانستان خلد اللہ ملک و اجلالہ اے امیر کامگار اے شہریار نوجوان و مثل پیراں پختہ کار چشم تو از پردگیہا محرم است دل میان سینہ ات جام جم است عزم تو پائندہ چوں کہسار تو حزم تو آساں کند دشوار تو ہمت تو چوں خیال من بلند ملت صد پارہ را شیرازہ بند ہدیہ از شاہنشہاں داری بسے لعل و یاقوت گراں داری بسے اے امیر ابن امیر ابن امیر ہدیۂ از بینواے ہم پذیر‘‘ (۴۳) نادر شاہ کے بارے میں کہتے ہیں: ’’پادشاہے خوش کلام و سادہ پوش سخت کوش و نرم خوی و گرم جوش صدق و اخلاص از نگاہش آشکار دین و دولت از وجودش استوار‘‘ (۴۴) آگے چل کر ظاہر شاہ کو خطاب کرتے ہیں: ’’اے قباے پادشاہی بر تو راست سایۂ تو خاک ما را کیمیاست سینہ ہا بے مہر تو ویرانۂ از دل و از آرزو بیگانہء (۴۵) عالم اسلام کی معاصر شخصیات سے مایوس ہو جانے کے بعد ان کی نگاہ جس ہستی پر ٹکی، اس نے تمام توقعات پوری کر دیں یعنی قائداعظم محمد علی جناح۔ اصول تاریخ کے بارے میں اقبال کے جو نظریات تھے ان کے صحیح اور قابل عمل ہونے کی سب سے بڑی دلیل قائد نے فراہم کی۔ دینی نصب العین کی طرف تہذیبی اور سیاسی پیشرفت کو اقبال قومی زندگی کی نبیاد سمجھتے تھے۔ اسی لیے احیائے اسلام کے بارے میں ان کے بیشتر تصورات فرد اور معاشرے کی جن مثالی صورتوں کو اجاگر کرتے ہیں وہ فکر کی بجائے کردار سے پھوٹتی ہیں۔ قائداعظم، علامہ کا سیاسی ماڈل تھے اور جمال الدین افغانی تہذیبی ـ مغرب کی بنا کردہ نئی انسانی صورت حال جو اقبال کی نظر میں دین و سیاست کی جدائی، استعمار، وطینت، نسل پرستی اور مادیت کا ملغوبہ تھی، سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے خطرناک تھی۔ اس سے بچاؤ کی تین سطحیں ہو سکتی تھیں: سیاسی، تہذیبی اور فکری۔ سیاسی و تہذیبی سطح پر تو اقبال کی تلاش کا عمل قائد اور افغانی پر پہنچ کر ختم ہو گیا، مگر یہ بات بظاہر کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ انھوں نے کسی ایسی معاصر شخصیت کی نشاندہی نہیں کی جو فکری سطح پر اسلامیہ کے محافظ کا کردار کا ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ــــــ احیائے اسلام کے بارے میں اقبال کی شدید دلچسپی دیکھ کر بعض انگریز صحافیوں نے اپنی ذہنی تحدیدات کی وجہ سے یہ کہا کہ وہ پان اسلامزم کے قائل ہیں۔ اقبال نے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کی اور صاف طور بتایا کہ اس اصطلاح کے پیچھے ایک سیاسی چال ہے: ,The term Pan Islamism has been used in two senses As far as I know, it was coined by a French Journalist and in the senses in which he used that term, Pan-Islamism existed nowhere except in his own imagination. I think the French Journalist meant to give shape to a danger which he faniced was existing in the world of Islam. The phrase was invented after the expression "Yellow Peril", in order to justify European aggression in Islamic countries. Later on, I think the expression Pan-Islamism was taken to mean a kind of intrigue, the centre of which was in Constantinople. The Muslims of the world were understood to be planning a kind of union of all the Muslim States against the European States. The late Professor Brown of the Cambridge University has, I think. conclusively proved that Pan-Islamism in that sense never existed in Constantinople or any where else. There is, however, a sesnse in which jamal-ul-Din Afghani used it. I do not Know if he used the same expression. but he actually advised Afghanistan, Persia and Turkey to unite against the aggreesion of Europe. This was purely a defensive measure. and I personally think that jamal-ul-Din was perfectly right in his view. But there is another sense in which the world should be used and it does contain the teaching of the Quran. In that sense it is not a political project but a social experiment. Islam does not recognise caste or race or colour. In fact Islam is the only outlook on life which has really solved the colour question . at least in the Muslim world. a question which modern Eurpean civilization with all its achievements in Science and Philosophy, has not been able to solve. اس کے بعد وہ یوروپین اسلام ازم کی اپنی تعریف پیش کرتے ہیں: Pan-Islamism, thus interpreted, was taught by the Prophet and will live for ever. In this sense pan-Islamism is only Pan Hummanism. In this sense every Muslim is a Pan-Islamist and ought to be so. Indeed the word Pan ought to be dropped from the phrase Pan-Islamism. for Islamism is an expression which completely covers the meaninig I have mentioned above.(۴۶) . اقبال کے تصور جہاد کے بیشتر اطلاقات کا جائزہ لینے کے بعد ایک چیز واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ ان کے نزدیک وہ تمام اعمال و تصورات جو اسلام کے متوازی نصب العین کی حیثیت اختیار کر جائیں اور زندگی کے عروج و زوال کا تعین انہی کے بنائے ہوئے معیارات پر ہونے لگے تو ان کی مخالفت کی ہر قسم جہاد ہے اور یہ جہاد آدمی کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور خارج میں بھی۔ یہ دراصل خودی کی تکمیل کا عمل ہے جس کا منہاج صوفیانہ نہیں بلکہ عمرانی اور نفسیاتی ہے۔ اس معاملے میں شاہ ولی اللہ کی حیثیت اقبال کے پیشرو کی ہے۔ فرد و اجتماع کے نقص و کمال کا جانچنے والے تہذیبی اور نفسی معیار کا استنباط، ان کا وہ کارنامہ ہے جس سے اقبال نے بھی استفادہ کیا۔ جس طرح شاہ صاحب شخصیت کے انفرادی حدود کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ اسے دینی اجتماعیت کا جز سمجھتے ہیں، اسی طرح اقبال بھی شخصی خودی اور ملی خودی میں کامل ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں جو فرد میں ایسی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ جماعت کا قائم مقام بن جاتا ہے اور کسی نوع کی علاقائی، نسلی اور تہذیبی تحدید کو قبول نہیں کرتا۔ فرد و جماعت دونوں ایک بنیاد پر قائم ہیں، اور وہ دین ہے: ’’امت مسلمہ جس دین فطرت کی حامل ہے اس کا نام ’’دین قیم‘‘ ہے۔ ’’دین قیم‘‘ کے الفاظ میں ایک عجیب و غریب لطیفہ قرآنی مخفی ہے اور وہ یہ کہ صرف دین ہی مقوم ہے اس گروہ کے امور معاشی و معاوی کا جو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس کے نظام کے سپرد کر دے۔ بالفاظ دگر یہ کہ قرآن کی رو سے حقیقی تمدنی یا سیاسی معنوں میں ’’قوم‘‘ دین اسلام ہی سے تقویم پاتی ہے(۴۷)‘‘۔ قوم پرستی اور وطینت، امت کی حقیقی تشکیل کے سانچوں کو توڑ دیتی ہے۔ ان سے آدمی کا وہ ارفع عنصر جو عقیدۂ توحید کی دین ہے اور اسے محض ایک زمینی مظہر بننے سے روکتا ہے، غائب ہو جاتا ہے۔ اقبال انھیں سیاسی سطح پر بھی قبول نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سیاسی تصور چیزوں میں ایک نظریاتی کشش پیدا کرتا ہے جو اگر عقیدے سے متصادم ہو تو ملی زندگی کے لیے خطرناک ہو جاتی ہے۔ خود افراد بھی بایں معنی اس کی زد میں آ جاتے ہیں کہ ان کا پورا نظام ترجیحات بدل جاتا ہے اور شخصیت کئی خانوں میں بٹ جاتی ہے۔ ملت میں افتراق پیدا ہو جائے تو فرد بھی اندرونی وحدت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کے مختلف عناصر میں کوئی ربط نہیں رہتا۔ انسانی حوالے سے خودی، زمان و مکاں کے دوران اور پھیلاؤ میں استقلال اور وسعت کے اصول کا مظہر ہے۔ زمانی دوران میں موجود اور مکانی پھیلاؤ میں مقیم ہونے کے باوجود یہ زمانے سے زیادہ مستقل اور مکان سے زیادہ توسیع ہے۔ تسخیر کائنات جو جہاد کا ایک بڑا مقصد ہے، خودی کی اسی حقیقت کا اقتضا ہے۔ نیابت الہٰی کا یہی مطلب ہے: از محبت چوں خودی محکم شود قوتش فرماں دہ عالم شود پیر گردوں کز کواکب نقش بست غنچہ ہا از شاخسار او شکست (۴۸) ــــــــــــ نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است نائب حق ھمچو جان عالم است ہستی او ظل اسم اعظم است (۴۵) ــــــــــــ جوہر ما با مقامے بستہ نیست بادۂ تندش بجامے بستہ نیست (۵۰) ــــــــــــ امت مسلم ز آیات خدا ست اصلش از ہنگامۂ قالوابلیٰـ ست ــــــــــــ از اجل ایں قوم بے پرواستے استوار از نحن نزلناستے (۵۱) یہاں ایک چیز کی وضاحت مناسب ہو گی۔ مرد مومن اور خاص طور پر جہاد کے حوالے سے اقبال پر قوت پرستی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور قوت بھی جو نطشے کے سپرمین میں دکھائی دیتی ہے۔ نطشے اور اقبال کا تقابل فی الوقت خارج از موضوع ہے تاہم اتنی سی بات ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ سپرمین کی قوت انکار محض میں صرف ہوتی ہے، جبکہ مرد مومن کی قوت اثبات کی ہر جہت کو مستحکم کرتی ہے اور حق کو در پیش مزاحمتوں کا خاتمہ کرتی ہے جس کا لازمی تقاضا غلبۂ مطلق ہے: دو جہاں نتواں اگر مردانہ زیست ھمچو مرداں جاں سپردن زندگیست زندگانی قوت پیداستے اصل او از ذوق استیلاستے زندگی کشت است و حاصل قوتست شرح رمز حق و باطل قوتست (۵۲) ــــــــــــ خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو سلطانی یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار اسی مقام سے آدم ہے ظلِّ سبحانی یہ جبر و قہر نہیں ہے یہ عشق و مستی ہے کہ جبر و قہر سے ممکن نہیں جہانبانی (۵۳) ــــــــــــ تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے صاحب نظراں نشۂ قدرت ہے خطرناک ــــــــــــ لا دیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک (۵۴) ــــــــــــ قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے (۵۵) ان اشعار سے کسی بے مہار طاقت کا نہیں بلکہ ایک ایسی قوت کا تصور ابھرتا ہے جو کسی اعلیٰ مقصد کے تابع ہے اور سپرمین کی طرح محض تخریب کی صلاحیت سے عبارت نہیں۔ یہ قوت سچی سرافگندگی اور اطاعت سے پیدا ہوتی ہے: ہر کہ تسخیر مہ و پرویں کند خویش را زنجیریِ آئیں کند اساسیاتِ اقبال ، اقبال اکادمی،لاہور،۱۹۹۶ء حواشی ۱۔ نذیر نیازی، سید (مترجم) تشکیل جدیدالٰہیات اسلامیہ۔ خودی، جبرو قدر ۔۔۔۔ بزم اقبال لاہور ۱۹۵۸ء ص ۱۵۷ تا ۱۵۹ ۲۔ اصفہانی، امام راغب، مفردات قرآن، اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور ۱۹۶۳ء طبع اول ص ۱۹۳ ۳۔ برنی، ضیاء الدین، نعت محمدی، صحیفہ محمدی ۴۔ اقبال، کلیات اقبال، ارمغان حجاز، خلافت و ملوکیت ص ۷۵/۸۲۷ اقبال اکادمی لاہور (طبع خاص) ۱۹۹۰ء ۵۔ ڈار، بشیر احمد (مرتب) انوار اقبال مکتوب بنام سید نذیر نیازی، ص ۴۷ ۶۔ عطاء اللہ، شیخ (مرتب) اقبال نامہ، (حصہ اول) شیخ محمد اشرف لاہور ۱۹۵۱ء مکتوب بنام سید سلیمان ندوی ۷۔ معینی، عبدالواحد (مرتب) مقالات اقبال، خلافت اسلامیہ آئینہ ادب لاہور ۱۹۸۸ء بار دوم ۸۔ کلیات اقبال، بانگ درا، طلوع اسلام ص ۳۸۶/۳۰۲ ۹۔ ایضاً۔ فاطمہ بنت عبداللہ ص ۲۲۷/۲۴۳ ۱۰۔ ایضاً۔ ظریفانہ ص ۳۰۰/۳۱۶ ۱۱۔ ایضاً۔ ضرب کلیم (جہاد) ص ۴۰/۵۴۰ ۱۲۔ ایضاً۔ ارمغان حجاز (ابلیس کی مجلس شوریٰ) ص ۱۱/۷۰۳ ۱۳۔ کلیات اقبال (فارسی) اسرار رموز، ص ۶۱/۷۷ ۱۴۔ ایضاً۔ اسرار و رموز ۶۲/۷۷۔۲۶/۷۸ ۱۵۔ ایضاً۔ ص ۱۲۰/۱۳۶ ۱۶۔ ایضاً۔ ص ۱۲۱/۱۳۷ ۱۷۔ ایضاً۔ ۱۲۱/۱۳۷ ۱۸۔ معینی، مقالات اقبال، محفل عید میلاد النبیؐ ص ۲۳۷ ۱۹۔ مکاتیب اقبال بنام خان نیاز الدین خان مرحوم ص ۶۰ ۲۰۔ کلیات فارسی، اسرار رموز ص ۲۱/۳۷۔۲۲/۳۸۔۲۴/۴۰ ۲۱۔ کلیات اردو، ارمغان حجاز (ضیغم لولابی ۱۳) ص ۵۷/۷۴۹ ۲۲۔ ایضاً۔ ضرب کلیم صبح ص ۴۶/۵۲۶ ۲۳۔ ایضاً۔ مہدی ص ۷۲/۵۷۴ ۲۴۔ ایضاً۔ مہدی برحق ص ۵۷/۵۵۷ ۲۵۔ ایضاً۔ بال جبریل، لالہ صحرا ص ۱۲۵/۴۴۹ ۲۶۔ ایضاً ۔ ارمغان حجاز، ضیغم لولابی (۱۵) ص ۵۷/۷۴۹ ۲۷۔ ایضاً ۔ ضرب کلیم (محراب دل کے افکار (۱۳)) ص ۱۸۶/۶۸۶ ۲۸۔ ایضاً ۔ غلام قوموں کی نماز ص ۱۷۰/۶۷۰ ۲۹۔ ایضاً ۔ جلال و جمال ص ۱۳۵/۶۳۵ ۳۰۔ کلیات اقبال اردو، ضرب کلیم، مردان خدا ص ۵۶/۵۵۶ ۳۱۔ ایضاً۔ غزل ص ۹۸/۵۹۸ ۳۲۔ ایضاً۔ ارمغان حجاز (ضیغم لولابی) ۴۵/۷۳۷ ۳۳۔ ایضاً۔ ضرب کلیم محراب گل افغان کے افکار (۱۲) ۱۸۵/۶۸۵ ۳۴۔ ایضاً ۔بال جبریل غزل ۶۹ ص ۶۹/۳۶۹ ۳۵۔ ایضاً ۔ غزل ۱۰ ص ۴۵/۳۶۹ ۳۶۔ ایضاً ۔ بانگ درا، طلوع اسلام ص ۲۸۶/۳۰۲ ۳۷۔ کلیات اقبال فارسی، اسرار و رموز، ص ۸۳/۹۹ ۳۸۔ نعمانی، عبدالرشید، لغات القرآن، ندوۃ المصنفین انڈیا ۱۹۴۹ء طبع دوم جلد دوم ص ۲۶۰ ۳۹۔ عطا اللہ، شیخ (مرتب) اقبال نامہ (حصہ دوم) مکتوب بنام چوہدری محمد احسن ص ۲۳۱، ۲۳۲ ۴۰۔ کلیات اقبال اردو بال جبریل (رباعیات) ص ۹۰/۴۱۴ ۴۱۔ ایضاً ۔ ضرب کلیم، مشرق، ص ۱۵۴/۶۵۴ ۴۲۔ اقبال نامہ حصہ دوم، مکتوب بنام آل احمد سرور ص ۳۱۵ ۴۳۔ کلیات اقبال فارسی پیام مشرق پیشکش بحضور اعلیٰ حضرت امان اللہ خاں ص ۲۱/۱۹۷ ۴۴۔ کلیات اقبال فارسی، مسافر کابل ص ۵۷/۷۳۳ ۴۵۔ ایضاً۔ خطاب بہ پادشاہ اسلام اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ ص ۷۰/۷۴۶ ۴۶۔ ڈار، بشیر احمد Letters and Writings of Iqbal اقبال اکادمی کراچی ۱۹۶۷ء ص ۵۵تا۵۷ ۴۷۔ خطاب اقبال، ص ۲۷۴ ۴۸۔ کلیات فارسی اسرار و رموز ص ۲۸/۴۴۔۴۳ ۴۹۔ ایضاً۔ ص ۴۴/۶۰ ۵۰۔ ایضاً ۔ ص ۱۰۷/۱۲۳ ۵۱۔ ایضاً ۔ ص ۱۱۳/۱۲۹ ۵۲۔ ایضاً۔ ص ۴۹/۔ ۵۰/۶۶ ۵۳۔ کلیات اقبال (اردو)، ص ۴۴/۵۴۴ ۵۴۔ ایضاً، ص ۴۱/۵۴۱ ۵۵۔ ایضاً ، ص ۲۲۰/۲۳۶ اقبال کے جمالیاتی افکار ڈاکٹر نصیر احمد ناصر ڈاکٹر سر شیح محمد اقبال (۱۸۷۷۔۱۹۳۸ )شاعر، فلسفی اور عالم جمالیات ہیں۔ وہ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اور انھوں نے لاہور میں ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو وفات پائی۔ اقبال کے جمالیاتی تصورات پر بحث کرنے سے پہلے اس امر کی صراحت ضروری ہے۔ کہ انھوں نے جمالیات پر جو کچھ کہا ہے۔ صرف شعر میں ہی کہا ہے۔ لہٰذا ان کے افکار میں اس منطقی نظم و ضبط اور ربط و تسلسل کی توقع نہیں کی جا سکتی جو نثری تحریرات میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مقصد بھی نہیں کہ ان کے نظام فکر میں سرے سے وحدت ہی کا فقدان ہے۔ ان کے فکر میں یقینا منطقی تسلسل اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جو بادی النظر میں محض اس لیے نظر نہیں آتی۔ کہ ان کے افکار مختلف شعری صور توں میں علیحدہ علیحدہ مقامات پر بکھرے پڑے ہیں۔ چنانچہ اگر ان کے متعلقہ اشعار کو ان کے ارتقائی فکری تسلسل کے ساتھ یکجا کر کے دیکھا جائے تو ان میں منطقی نظم و ضبط اور ربط و تسلسل صاف وحدت کی صورت میں نظر آنے لگتا ہے۔ لہٰذا ناقد ہو یا مورخ جمالیات، اُسے اقبال کے جمالیاتی نظریات کا جائزہ لینے اوران پر نقد و نظر کا دروازہ کھولنے سے پیشتر ان کے افکار کو مختلف مقامات سے اکھٹا کر کے ایک ارتقائی فکری تسلسل میں یکجا کر لینا از بس ضروری ہے۔ ورنہ اس کا جائزہ یا محاکمہ معتبر نہ ہوگا۔ ہر فلسفی اور مفکر کی طرح اقبال کے نظام فکر کا بھی ایک مرکزی نکتہ ہے، اور وہ ہے ’’خودی‘‘۔ خودی کیا ہے؟ اقبال نے اس کے صفات اوراہمیت پر بہت کچھ لکھا ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا ہے۔ لیکن جہاں تک خودی کی ماہیت کا تعلق ہے اس نے صرف اس قدر ہی کہا ہے۔ کہ وہ ایک ’’ نقطۂِ نور‘‘ہے۔ نقطہ نورے کہ نام او خودی است زیر خاک ما شرار زندگی است یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ’’ نور‘‘جو ہمارے جسم میں ہے، خود کیا ہے؟ اقبال نے براہ راست تو اس کا جواب نہیں دیا۔ البتہ نور کی ایک ایسی صفت بیان کر دی ہے جو اس کی ماہیئت کی طرف نشاندہی ضرور کرتی ہے۔ درون سینہ آدم چہ نور است چہ نور است اینکہ غیب او حضور است اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی عجیب شے ہے جو ہمارے سینے میں موجود ہونے کے باوجود ہم سے مخفی بھی ہے۔ اور ساتھ ہی ہم پر ظاہر بھی ہے یعنی وہ ہمارے حواس سے پوشیدہ تو ہے لیکن ہمارے وجدان و شعور سے پنہاں نہیںہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا اخفا ہی اس کی ہستی کے شعور کا ذمہ دار ہے۔ بنظر غائر دیکھیں۔ تو اس شعر میں اقبال نے قرآن حکیم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس میں حقیقت انسانی کے اس پہلو کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ کہ انسان میں حسیاتی، وجدانی، اور ذہنی تعقل و شعور اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنی روح اس میں پھونک دیتا ہے۔ و نفخت فیہ من روحی وجعل لکم سمع والبصر و الافئدۃ (اے انسان! تم میں جب میں نے اپنی روح پھونک دی، تب تمھارے لیے سامعہ وباصرہ (یعنی حواس)اور قلب (یعنی دل و دماغ)کی قوّتیں بنا دیں)۔ اقبال نے اس رعایت معنوی سے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (اللہ نور السـموات والارض )لہٰذا اس کی روح بھی نور ہوگئی، روح انسانی کو اس کی محدودیت کی بنا پر نقطہ نور اور خدا کی رعایت لفظی سے اس کو خودی کے نام سے موسوم کر دیا۔ اپنے اس ذہنی پس منظر کی بِنا پر اقبال خودی کو خدا کے اسم تصغیر کے طور پر ہی استعمال کرتا ہے۔ لیکن ہمہ اوست کے مسلک کے داعیوں کی طرح اسے خدا نہیں سمجھتا۔ بلکہ وہ خودی کو اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہی تصور کرتا ہے۔ مخلوق جو اس عالم صوری میں ’’معنی دیریاب‘‘ بھی ہے۔ اور خدائی صفات سے اضافی طور پر متصف ہونے کی بِنا پر خود ذات میں ایک لا محدود عالم ممکنات بھی ہے۔ اس امر کی مجملاً توضیح یہ ہے کہ خودی اگرچہ اس ذات مطلق کی جزو ہے۔ جومنفرد و یکتا اور علیم و خبیر ہے لیکن جب مطلقیت کی لا محدودیت لا فانیت اور لا مکانیت و لا زمانیت سے جدا ہو کر زمان و مکان کی محدودیت و فانیت کے اندر ایک بڑی ہی نا چیز تنگناء کے اندر جسے قفس عنصری یا جسم انسانی کہتے ہیں، مقید کر دی جاتی ہے۔ تو اپنے صفات سے کلیتاً محروم تو نہیں ہو جاتی، البتہ ان صفات میں محدودیت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ اگرچہ اس محدودیت میں لا محدودیت کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں جن کو بروئے کار لانا ہی فطرت کا منشا، حیات انسانی کا مقصود اور انسان کی عبادت ہے۔ اوریہی فلسفہ حیات کا خلاصہ یا جوہر ہے۔ بہر کیف خودی کو قفس عنصری میں بھی اپنا شعور رہتا ہے اور اس کا یہی شعور ذاتی ہے۔ جو ہر فرد کو انفرادی حیثیت بخشتا ہے۔ روح مطلق کا چونکہ یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر لحظہ مظاہر کائنات میں اپنی گوناگوں شان ارتقائی کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی رہے لہٰذا روح انسانی یا خودی بھی اپنی اصل کی طرح ہر دم اپنے عالم ممکنات میں ایک حرکت مسلسل اورنت نئی شان میں جلوہ گر ہوتی رہتی ہے۔ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اس کا مسلسل شان تغیر میں ظاہر ہونا روح مطلق کی طرح محض اضافی حیثیت میں ہوتا ہے۔ ورنہ اپنی مطلق حیثیت میں وہ روح مطلق کی طرح ہر رنگ تغیر سے ناآشنا ہے۔ من او را ثابت و سیار دیدم من او را نور دیدم ناردیدم یہ نور جس طرح اپنی موضوعی صورت میں زندگی وحرکت کا سر چشمہ ہے۔ اسی طرح اپنی معروضی صورت میں حسن و سُرور کا مبدا بھی ہے۔ لیکن اس خودی میں مادی عناصر میں مقید ہوجانے کے سبب اس نور کی ایک متضاد صفت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ جو نار ہے۔ اور یہ نار اپنی معروضی صورت میں جمود و تعطل اور موضوعی صورت میںقبح و حزن کا منبع ہے۔ چنانچہ اسی لیے اقبال نے خودی کو نور بھی کہا ہے اورناربھی۔ خُودی کا ظہور و خفا ہی فلسفے کی زبان میں معروضیت و موضوعیت کہلاتا ہے معروضیت موجودات کا ظہور اور موضوعیت زندگی کی حرکی قوتوں کا مخفی سر چشمہ ہے۔ خودی کیا ہے؟ راز درون حیات خودی کیا ہے؟ بیداریِٔ کائنات یہ تصور خودی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اقبال زندگی کے موضوعی یا تنزیہی پہلواور اس کے معروضی یا صوری پہلو دونوں کا قائل ہے۔ اپنے اس تصور کی بنا پر وہ حسن کی معروضی و موضوعی دونوں حیثیتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ اس شعرسے یہ بھی ترشح ہوتا ہے، کہ اقبال حسن کی پیدائی کے لیے ’’اظہار‘‘کو ضروری سمجھتا ہے۔ خودی جب تک معرضِ اظہار میں نہیں آتی وہ زندگی کا محض ایک موضوعی راز ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنا اظہار کر دیتی ہے۔ تو کائنات کی بیداری یا حسن بن جاتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال اس جمالیات مکتب فکرسے تعلق رکھتا ہے جو نظریہ اظہاریت کا داعی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس مکتب فکر کے نزدیک’’اظہار ‘‘ حسن کی ایک لازمی شرط ہے،اقبال کا یہ تصورحسن قرآنی ہے۔ جسے بعض جدید مغربی علمائے جمالیات نے بھی اپنانے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے کروچے اس نظریہ اظہاریت کا سب سے زیادہ متشدد نقیب ہے۔ بہر کیف اقبال نے اس تصور حسن کو بیان کرنے کے لیے کئی انداز اختیار کیے ہیں۔ آفریدن؟ جستجوئے دلبرے وا نمودن خویش را بر دیگرے اس شعر میں اس نے اس اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ کہ فنی تخلیق کا اصل محرک جذبہ محبت ہوتا ہے۔ یہ محبت فنکار کو اس شے سے ہوتی ہے۔ جو اس کے تصور میں حسین ترین ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اس کی محبوب و دلبر ہوتی ہے۔ اور اس پیکر حسن و محبت کی تلاش میں وہ عالم فن میں آنکلتا ہے۔ جہاں جذبہ محبت اسے اپنے محبوب کو عالم تصور سے عالم محسوس میں لانے پر مجبور کرتا ہے۔ اس اعتبار سے فنکار کا اپنے حسین ترین تصور کو محسوس صورت میں لانے اور ظاہر کردینے کا نام تخلیقی فعلیت ہوا، یہ تخلیقی فعلیت دراصل خودی کا اظہارذاتی ہوتا ہے۔ اور اس میں ہی اس کی بقا اور ترقی و استحکام کا راز مضمر ہے۔ بے ذوق نمود، زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی اک توہے کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے نمود سیمیائی کیا اقبال کے نزدیک واقعی کائنات محض نمود سیمیائی ہے؟ کیا وہ واقعی اسے نظر کا دھوکا سمجھتا ہے؟ اقبال جیسے وحی و تنزیل کی روشنی میں حیات و کائنات کا مطالعہ کرنے والے مفکر سے ہرگزیہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ کہ وہ ہندوئوں کی طرح اس کائنات کو مایا اور تصوریت پسندوں کی طرح اسے فریب نظر سمجھتا ہو۔ جبکہ قرآن حکیم صاف الفاظ میں اس نظریے کا بطلان کرتا ہے۔ اور علی الاعلان کہتا ہے۔ کہ یہ کائنات اس کی تخلیق ہے۔جو نہ تو کھیل تماشا ہے اور نہ باطل ہے۔ بلکہ یہ ’’تخلیق بالحق‘‘ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اقبال بھی کائنات کو تخلیق بالحق ہی مانتا ہے۔ اور اس نے محض مادیت پسندوں کے اس مسلک کا بطلان کرنے کے لیے کہ یہ مادہ ازلی، ابدی اورقائم بالذات ہے۔ اسے نمود سیمیائی کہہ دیا۔ چنانچہ اپنے اگلے ہی شعر میں وہ اپنے اس تصور کی وضاحت کر دیتا ہے۔ کہ کائنات اس بنا پر نمود سیمیائی ہے۔ کہ وہ قائم بالذات نہیں۔ لیکن وہ چونکہ قائم بخودی ہے۔ اورخودی حق ہے۔ اس لیے وہ تحلیق بالحق ہے۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است ہرچہ می بینی ز اسرار خودی است خویشتن را چوں خودی بیدار کرد آشکارا عالم پندار کرد صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر اوپیداست از اثبات او ان اشعارمیں اقبال نے انپے مسلک اظہاریت کو نہایت واضع الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں۔ تو اقبال نظریہ اظہاریت میں متقدمین سے صاف آگے نظر آتا ہے۔ کیونکہ وہ ’’اظہار‘‘ ہی کو عین حیات سمجھتا ہے۔ نہ کر ذکر فراق آشنائی کہ اصل زندگی ہے خود نمائی کروچے نے حسن آفرینی کے لیے اظہار کے ساتھ تکمیل وا تمام کی شرط بھی لگائی ہے۔ یعنی اظہار مکمل ہونا چاہیے۔ لیکن اقبال نے حسن آفرینی کے لیے اظہار کو خودی کی قوت کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ یعنی خودی کا اظہار جتنا پرزور ہو گا، معروض اسی نسبت سے حسین ہوگا۔ وا نمودن خویش را خوئے خودی است خفتہ در ہر ذرہ نیروئے خودی است چون حیات عالم از زور خودی است پس بقدر استواری زندگی است اقبال، قوت و رفعت کو اصل کے اعتبار سے ایک ہی شے خیال کرتا ہے۔ اس لیے اس کے نزدیک اس خودی کا اظہار حسین ہوتا ہے جس کا مقام بلند ہو۔ اس کے علی الرغم جس خودی کا مقام پست ہوگا اس کا اظہار بھی قبیح ہوگا۔ جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے ناخوب نمود جس کی فراز خودی سے ہو وہ جمیل جو ہو نشیب میں پیدا قبیح و نامحبوب اس سلسلہ تصور کا ایک متنازع فیہ مسئلہ یہ ہے کہ حسن، معروضات کی اپنی خلقی صفت اور ذاتی جوہر ہے یا نہیں؟ ’’وحدت حسن وجود‘‘ کے نظرئے کی رو سے حسن، معروضات کا ذاتی جوہر یا صفت نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کوئی حسین معروض بھی، حسن کے اعتبار سے قائم بالذات نہیں ہو سکتا، اس مقدمے کی بنا پر کہ تمام معروضات حسن مطلق کی بدولت ہی حسین نظر آتے ہیں، افلاطونس کے مکتب فکر میں حسن کو مستعار،اضافی اور فانی کہا گیا ہے۔ اقبال بھی اپنے ابتدائی کلام میں مجازی حسن کے فانی ہونے سے بہت متاثر نظر آتا ہے۔ خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہو جس کی کہیں قریب تھا یہ گفتگو قمر نے سنی فلک بہ عام ہوئی اخترِ سحر نے سنی سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو بھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے چمن سے روتا ہوا موسمِ بہار چلا شباب سیر کو آیا تھا سوگوار چلا قرآن حکیم کا جمالیاتی مسلک یہ ہے۔ کہ کائنات کی ہر شے حسین ہے۔ اور وہ اشیا بھی جو اپنی اضافی یا مطلق حیثیت یا کسی اورسبب سے بظاہر قبیح نظر آتی ہیں، حقیقت میں حسین ہیں، اس قرآنی جمالیاتی نظرئے کو آگستائین بھی حکیمانہ انداز میں پیش کر چکا ہے۔ اقبال بھی اس نظرئے کا حامل ہے اور اس نے اس نظرئے کو اشعار میں اس طرح بیان کیا ہے۔ محفل قدرت ہے اک دریائے بے پایان حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہرقطرے میں ہے طوفان حسن حسن کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مہر کی ضوگستری، شب کی سیہ پوشی میں ہے آسمان صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظلمت، شفق کی گل فروشی میں ہے یہ عظمت دیرینہ کے مٹتے ہوئے آثار میں طفلک نا آشنا کی کوشش گفتار میں ساکنان صحن گلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھے ننھے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے چشمہ کہسارمیں، دریا کی آزادی میں حسن شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں آبادی میں حسن روح کو لیکن کسی گم گشتہ شے کی ہے ہوس ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس حسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بیتاب ہے زندگی اس کی مثال ماہی بے آب ہے مندرجہ بالا اشعار کی روسے اقبال کے نظریہ حسن کا معروضی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حسن کے معروضی یا خارجی وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ اس نے متعدد مقامات پر اس امر کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً قلب ونظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں چشمۂِ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂِ وجود دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں اقبال جس طرح حسن کی معروضیت کا قائل ہے اسی طرح وہ حسن کی موضوعیت کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ یہ تضاد فکر نہیں، بلکہ ایک خاص انداز فکر ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ عام طور پر حقیقت کے مختلف پہلوئوں کو نہ توبیک وقت بیان کرتا ہے اور نہ ہی اس اعتبار سے اس کے بیان میں کوئی منطقی تسلسل ہوتا ہے۔ بلکہ وہ ان کو جستہ جستہ معرض اظہار میں لاتا ہے۔ جہاں تک حسن کی موضوعیت کا تعلق ہے اس سے بھی وہ بہت زیادہ متاثر اور اس کا قائل نظر آتا ہے۔ البتہ حسن کے موضوعی پہلو کے بیان میں شاید اس لیے کہ وہ اس سے نسبتاً زیادہ متاثر ہے بعض اوقات ایسا پیرایہ اختیار کرلیتا ہے۔ جس سے شبہ ہونے لگتا ہے۔کہ وہ حسن کی معروضیت کی نفی کر رہا ہے۔ حالانکہ جیسا کہ بعد میں ثابت کیا جائے گا وہ حسن کی معروضیت و موضوعیت دونوں ہی کا قائل ہے۔ اب چند ایسے اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔ جواس کے موضوعی نظریہ حسن پر روشنی ڈالتے ہیں۔ این جہاں چیست؟ صنم خانہ پندا رمن است جلوہ اوگرد دیدہ بیدار من است ہمہ آفاق کہ گیرم بنگاہے او را حلقۂ ھست کہ گردش پر کار من است ھستی و نیستی از دیدن و نا دیدن من چہ زمان وچہ مکاں شوخی ٔافکار من است ان اشعار کی روشنی میں ہم اقبال کے تصّورات موضوعیت کی تدوین کچھ اس طرح کر سکتے ہیں۔ اول، یہ جہاں انسان کے اپنے تصورت کی محبوب دنیاکے سوا کچھ نہیں۔ دوم، یہ کہ اس دنیا کی جلوہ افروزی نظر انسان ہی کی مرہونِ منّت ہے۔ بالفاظ دیگر اگر انسان میں نظر اور نظر میں میں صلاحیّت دید نہ ہو، تو یہ دنیا جلوہ نما ہی نہیں ہوسکتی۔ سوم، یہ کہ وجود و عدم یا ہست و نابود، اصل میں دید و نادید کا نام ہے۔ دیکھئے تو سب کچھ نہ دیکھیے تو کچھ بھی نہیں۔ اور وہ شے جسے زمان و مکان کہا جاتا ہے۔ محض ہماری شوخی افکار کی تخلیق ہے۔ الغرض اقبال کے نزدیک انسان کی ذہنی فعلیت کی بدولت ہی زمان و مکان کا یہ سلسلہ معرض شہود میں آتا ہے۔ کانٹ، ہیگل اور شیلنگ بھی قریب قریب اسی نظریہ کے حامل تھے بعض اوقات تو اقبال اپنے زور تخیل میں موضوعیت پسند حکمائے جمالیات سے بھی ایک قدم آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ سینہ شاعر تجلی زار حسن خیزد از مینائے او انوار حسن از نگاہش خوب گردد خوبتر فطرت از افسون او محبوب تر فرائڈ نے بھی اسی نظریہ موضوعیت پر اپنے مشہور نظریہ جنسیت کی بنیاد رکھی ہے ۔ جس کی رو سے جنسی جذبے یا خواہش ہی پر حسن و قبح کا انحصار ہوتا ہے لہٰذا اس دنیامیں کوئی شے نہ تو خوبصورت ہے اور نہ بدصورت۔ یہ جنسی جذبہ ہے جو معروض شہودہ میں حسن پیدا کر دیتا ہے۔ اس نے اس طرح سرے سے حسن کی ہستی ہی کا انکار کر دیا۔ اقبال اس منکر حسن کے نظریہ جنسیت کو اس بنا پر غلط سمجھتا ہے۔ کہ آرزو خلاق حسن نہیں، بلکہ حسن خلاق آرزو ہے۔ حسن خلاق بہار آرزوست جلوہ اش پروردگار آرزوست ہر چہ باشد خوب وزیبا و جمیل در بیابان طلب مارا دلیل نقش او محکم نشیند در دلت آرزو ہا آفریند در دلت یہ مباحث اس امر کو واضح کر دیتے ہیں کہ اقبال کی نظر حسن کے معروضی اورموضوعی دونوں پہلوئوں پر تھی،لیکن یہ اور بات ہے کہ اس نے حسن کے ان دونوں پہلوئوں کو علیحدہ علیحدہ تسلیم کیا ہے۔ لہٰذا یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے۔ کہ وہ قرآن حکیم کے نظریہ وحدت جمال کا حامل اور نقیب ہے۔ اور مزید دلیل کے طور پراس کے کلام سے چند ایک ایسے اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔ جو اس کے اس نظریے کے آئینہ دار ہیں۔ یعنی جن میں اس نے حسن کی معروضیت و موضوعیت دونوں کو بیک وقت تسلیم کر لیا ہے۔ محفل قدرت ہے اک دریاے بے پایان حسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفان حسن اس شعر سے صاف عیاں ہے کہ وہ معروضی حسن کے ساتھ موضوعی حسن کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ کیونکہ اس نے حسن معروضی کی ہستی یا شہود کو آنکھ کے دیکھنے کے عمل سے وابسطہ و مشروط کردیا ہے۔ اس نے اپنے اس تصور وحدت جمال کو جاوید نامہ میں ایک جگہ زیادہ واضح صورت میں پیش کیا ہے۔ کلک حق از نقشہاے خوب و زشت ہرچہ مارا ساز گار آمد نوشت چیست بودن دانی اے مرد نجیب؟ از جمال ذات حق بردن نصیب ایں ہمہ ہنگامہ ہائے ہست و بود بے جمال ما نیامد در وجود یہ ’’جمال ما‘‘ ہی تو ہے جو ظہورحسن کی شرط ہے۔ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ خالق حقیقی نے کائنات کو خوب و زشت کے نقوش سے مزین بھی کیا ہوا ہے۔ فطرت کا ہر وہ نقش جسے ہم بعض اوقات غلطی سے قبیح خیال کر لیتے ہیں،چونکہ مشیت ایزدی میں ہمارے لیے سود مند وموزوں ہے، اس لیے حقیقت میں وہ قبیح نہیں، بلکہ حسین ہے۔ چنانچہ اس معروضی حسن کو دیکھنے کے لیے جس طرح نظر یا حواس کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح قلب یا شعور کی بھی حاجت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں حواس و قلب کی ضرورت اور باہمی تعلق پر توبحث آئندہ کی جائے گی۔ فی الحال اس طرف اشارہ کر دینا کافی ہے۔ کہ قوتیں حواس کی ہوں یا قلب کی یہ ’’جمال ما‘‘یا ہمارے موضوعی نورہی کا اعجاز ہیں اورہم ان کے طیفل ہی معروضی حسن کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ حیات ہر نفس بحر روانے شعور و آگہی او را کرانے گذشت از بحرو صحرا را نمی داد نگہ را لذت کیف وکمے داد ہر آن چیزے کہ آیددر حضورش منور گردد از فیض شعورش بخلوت ست و صحبت نا پذیر است ولے ہرشے ز نورش مستنیراست شعورش با جہان نزدیک تر کرد جہان او را ز راز او خبر کرد اب اس کے اردو کلام سے بھی کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں، جو اس کے نظریہ وحدت جمال کے مظہر ہیں۔ بہار و قافلۂ لالہ ہائے صحرائی شباب ومستی و ذوق و سرور و رعنائی اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاورں کی یہ بحر !یہ فلک نیلگوں کی پہنائی سفر عروس قمر کا عماریِٔ شب میں طلوع مہر وسکون سپہر مینائی نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی آخر میں اقبال کا ایک ایسا شعر پیش کیا جاتا ہے۔ جو ان تمام مباحث میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شعر میں اس نے اس واقعیت کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ تن و جان یا دوسرے لفظوں میں معروضیت و موضوعیت میںوحدت پائی جاتی ہے۔ اس لیے ان کو بصورت وحدت ہی دیکھنا چاہیے۔ لہٰذا حقیقت کے ان دونوں رخوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ کر کے دیکھنا نا جائز ہے۔ تن و جاں را دو تا گفتن کلام است تن و جاں را دو تا دیدن حرام است ان تمام مباحث سے ثابت یہ ہواکہ اقبال کا نظریہ حسن معروضیت۔ موضوعیت کا ہے۔جسے ہم معنوی مناسبت کی بنا پر وحدت جمال کے نام سے موسوم کر چکے ہیں۔ اوریہی نظریہ اپنی جگہ پرصحیح بھی ہے۔ ہم پہلے معلوم کر چکے ہیں کہ قرآن حکیم ہی نے سب سے پہلے انسان کو واضح طورپر اس جمالیاتی واقعیت سے آشنا کیا ہے۔ کہ حسن جامد نہیں بلکہ حرکی ارتقائی ہے چنانچہ اقبال بھی اسی نظریے کا حامل اور مبلغ ہے۔ اوراس نے اسے مختلف دلچسپ اسالیب میں بیان کیا ہے۔ سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں ثبات ایک تغیر کوہے زمانے میں ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار ذوق جدت سے ہے ترکیب مزاج روزگار کائنات کے تغیر دوام میں سکون و ثبات کا نظر آنا تو فقط ایک فریب نظر ہے۔ اصل یہ ہے کہ موجودات کا ذرہ ذرہ ہر دم ایک نئی شان یا حسین حالت ارتقائی میں رہتا ہے۔ فریب نظر ہے سکون وثبات تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروان وجود کہ ہر لحظ ہے تازہ شان وجود جب صورت حال یہ ہے تو پھر زمان ومکان کا تعین بھی بے سود ہے اور قیام وثبات لایعنی۔ ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات، ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں حسن چونکہ ہر لحظ ایک نئی شان میں جلوہ افروز ہوتا رہتا ہے، اس لیے ذوق نظر کی تسکین بھی ہمیشہ تشنہ ہی رہتی ہے۔ اور یہی ہمارے مشاہدے اورزندگی دونوں کا حامل ہے۔ ہر لحظ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہوطے کائنات کے ہر لحظ متغیر وحسین نظاروں کو دیکھنے کے لیے انسان کے قلب و نظر میں بھی مساوی طور پر حسن (موضوعی )کی حرکت ارتقائی کا پایا جانا لا بدی ہے۔ ورنہ وہ حسن کے مسلسل حرکی و ارتقائی جلووں کا ساتھ کیونکر دے سکیں گے۔ لہٰذا مشاہدے کی تکمیل کے لیے موضوعی حسن اورمعروضی حسن دونوں کی ارتقائی حرکت میں مساوات و یکسانیت کا پایا جانا یقینا ضروری ہوا۔ دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج بندے کو عطا کرتے ہیں چشم نگراں اور احوال ومقامات پہ موقوف ہے سب کچھ ہر لحظ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور حسن چونکہ ہر لحظ ایک نئی ارتقائی صورت میں جلوہ فگن ہوتا رہتا ہے۔ اس لیے انسان کو بھی فطری طور پر ’’حسین سے حسین تر‘‘ کی طلب و جستجو لگی رہتی ہے۔ چو نظر قرار گیر د بہ نگارے خوب روئے تپدآں زمان دل من پئے خوب تر نگارے ز شرر ستارہ جوئم ز ستارہ آفتابے سر منزلے ندا رم کہ بمیرم از قرارے چو ز بادہ بہارے قدمے کشیدہ خیزم غزلے دگر سرائم بہ ہوائے نو بہارے طلبم نہاتیے من کہ نہاتیے ندارد بہ نگاہے نا شکیبے بہ دل امیدوارے ہر نگارے کہ مرا پیش نظرمی آید خوش نگارے است ولے خوشتر ازاں می باید نہ صرف انسان کو بلکہ خود فطرت کو بھی ’’خوب تر‘‘ کی آرزو وتمنا برنگ دوام رہتی ہے۔ فطرت ہستی شہید آرزو رہتی نہ ہو خوبتر پیکر کی اس کو جستجو رہتی نہ ہو جلال وجمال، حسن کی دو صفات ہیں۔ جلال، قوت و جبروت، قہاری و جباری کا، جمال رحمت و لطافت، معصومی ونزاکت کا مظہر ہے۔ یہ ایک اہم اورقابل لحاظ نکتہ ہے کہ اگرچہ جمال و جلال دونوں کے مجموعے کا نام حسن ہے، لیکن اس کے باوصف جمال و جلال میں سے ہر ایک اپنی اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی ایک شے صرف جمیل رہتے ہوئے بھی حسین ہو سکتی ہے۔ اور یہ لازم نہیں کہ وہ جلیل بھی ہو۔ مثلاً پھول، چڑیا، ہرن، چاند،ستارہ، صنف نازک وغیرہ۔ اب اس طرح ایک جلیل شے جمال کی صفت سے محروم ہونے کے باوجود حسین ہو سکتی ہے۔ مثلاً شیر، پہاڑ، سمندر، بڑی بڑی آبشاریں، سورج، وغیرہ۔ مغربی علمائے جمالیات جنھوں نے اس موضوع پر بحث کی ہے۔ جلال وجمال کا صحیح تصور قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان علما کی اس ناکامی کا بنیادی سبب ان کا یہ مفروضہ ہے کہ جلال، حسن کی صفت نہیں،بلکہ حسن سے علیحدہ کوئی مستقل شے ہے لیکن اقبال کی نظر چونکہ آخری الہامی کتاب پر تھی۔ اس لیے وہ حکمائے فرنگ کی اس اجتہادی غلطی کا شکار نہ ہو سکا۔ اُس نے قرآن حکیم کے تصور جمال و جلال کی صحت و جامعیت کی بنا پر اسے قبول کیا ہے۔ خودی سے مرد خود آگاہ کا جمال و جلال کہ یہ کتاب ہے باقی تمام تفسیریں ــــــــــــ علم ترسان از جلال کائنات عشق غرق اندر جمال کائنات حسن کی یہ دونوں صفات انسان کی سیرت و کردار میں بھی ظاہر ہوتی ہیں۔ ہو چکا ہے قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور بے تجلی نیست آدم را ثبات جلوہ ما فرد و ملت را حیات ہر دو از توحید میگیرد کمال زندگی ایں را جمال آں را جلال اقبا ل کے بعض شارحین اورتذکرہ نویسوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ وہ جمال کے مقابلے میں جلال کو ترجیع دیتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنی کمزور اور درماندہ قوم کو قُوّت کا پیام دیا ہے۔ اورمسلمانوں کو ’’شاہین‘‘ بننے اور فرعونیت کے مقابلے میں ’’عصائے کلیمی‘‘ سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔ لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ جلال کو جمال سے بہتر سمجھتا ہے۔ جمال و جلال دونوں چونکہ حسن ہی کے صفات ہیں، اس لیے وہ دونوں ہی کی اہمیت و افادیت پر زور دیتا ہے۔ او!لاالہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ لیکن جہاں تک جلال وجمال کی تقابلی قدروں کا تعلق ہے۔ اقبال کے نزدیک جمال واضح طور پر جلال سے بہتر ہے۔ وہ کہتا ہے۔ کہ کائنات کی اس جاذبیت و نظر افروزی کا راز یہی ہے کہ یہاں جمال ہر لحاظ سے جلا ل کی بہ نسبت کہیں بڑھ کو جلوہ نما ہے۔ یا بزور دلبری انداختند یا بزور قاہری انداختند زانکہ حق در دلبری پیدا تراست دلبری از قاہری اولیٰ تراست بیشتر حکمائے جمالیات کی طرح اقبال بھی جمالیاتی حس اور جمالیاتی ذوق میں امتیاز روا نہیں رکھتا۔ لہٰذا وہ بھی ذوق سے جمالیاتی حس ہی مراد لیتا ہے۔ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے یہ ذوق یا جدید اصطلاح میں جمالیاتی حس اس کے نزدیک قلب انسانی کو فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے۔ اور یہی مشاہدہ انسانی کی حقیقی قوت ہے۔ چنانچہ یہ قوت اگر نظر یا حواس کے ہمرکاب نہ ہو۔ تو مشاہدے کا غلط یا ناقص ہو جانا بعید نہیں۔ اس لیے اقبال مشاہدہ حسن کے لیے خصوصیت کے ساتھ حواس کی آنکھ کے بجائے دل کی آنکھ سے دیکھنے کو ضروری خیال کرتا ہے۔ ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی قلب، فعلی اورانفعالی قوتوں کاسر چشمہ ہے۔ وہ فطری طورپر معصوم، مصفا اور پاکیزہ ہوتا ہے اوریہ سب حسن کی صفات ہیں۔ جو انسان کے ذوق لطیف، پاکیزگی طبع اوررفعت خیال پر دلالت کرتے ہیں۔ قلب کی ان صفات میں جب کوئی نقص پڑ جاتا ہے۔ تو اس کا اثر جمالیاتی حس پر بھی پڑتا ہے۔ جس کا نتیجہ کور ذوقی اور پست خیالی کی صورت میں نکلتا ہے۔ فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید ضمیر پاک وخیال بلند و ذوق لطیف غبار راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے؟ لیکن اس کے علی الرغم اگر قلب اپنی اصلی حسین حالت پر قائم رہے، یا اس کی جمالیاتی قدروں میں اضافہ ہوتا جائے۔ تو اس کی جمالیات حس تیز اورقوت مشاہدہ بتریج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ان مباحث کی تنقیح کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہ بھی دیکھ لیں کہ آخر فن کیا ہے؟ اور اس سلسلہ میں اقبال کا نقطہ نظر کیا ہے؟ اگرچہ علمائے جمالیات اورناقدین نے اس سوال کا جواب دینے کی بڑی کوشش کی ہے۔ مگر کسی ایک کے جواب کو بھی آج تک مقبولیت عام کی سند نصیب نہیں ہوئی۔ کروچے جومتاخرین میں اپنے نظریہ اظہار کی وجہ سے ممتاز ترین مقام رکھتا ہے۔ وہ وجدان کے اظہار مکمل کو فن سے تعبیر کرتا ہے۔ فن کی ایک اور تعریف جو بعض جمالیاتی حلقوں میں مقبول ہورہی ہے، یہ ہے کہ فن، اظہار ذاتی اورابلاغ کی خاطر مشاہدے کی تخلیق مکرر،کا نام ہے۔ اس تعریف کی رو سے فن کے تین بنیادی عناصر ہوئے۔ اول، مشاہدے کی تخلیق مکرر، دوئم، اظہار ذاتی اور سوئم، ابلاغ۔ یہ تعریف بھی نہ تو حرف آخر کا حکم رکھتی ہے اور نہ ہی نقائص سے مبرا ہے۔ البتہ یہ ضرورہے کہ یہ نسبتاً ترقی یافتہ صورت میں پیش کی گئی ہے۔ اقبال نے بھی ابتدا میں قریب قریب ان ہی تین عناصر پر زوردیا ہے۔ شوق کِس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے اور چشموں کے کناروں پر سلاتا ہے مجھے؟ طعنہ زن ہے توکہ شیدا کنج عزلت کا ہوں میں دیکھ اے غافل! پیامی بزم قدرت کا ہوں میں ہموطن شمشاد کا، قمری کا میں ہم راز ہوں اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں کچھ جو سنتا ہوں تو اوروں کو سنانے کے لیے دیکھتا ہوں کچھ تو اوروں کو دکھانے کے لیے شاعر کا فطرت کے قرب میں رہنا، ا س کی آوازکو ہوش کے کانوں سے سننا، اور اسے شوق کی نظروں سے دیکھنا، اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے مشاہدے کودوسروں کے لیے معرض اظہار میں لائے۔ یہ مشاہدہ جب معروضی،موضوعی دونوں عناصر پرمشتمل ہوتا ہے توکروچے کی زبان میں وجدان اوراقبال کی اصطلاح میں فنکار کی ذات یا عین بن جاتا ہے اور اس کا اظہار ہی فن ہے۔ آفریدن؟ جستجوئے دلبرے وانمودن خویش را بر دیگرے اس امر کی تصریح پہلے ہو چکی ہے۔ کہ ’’جستجوئے دلبرے‘‘ سے اقبال کی مراد یہ ہے کہ فنکار کے تصور میں ایک مثالی پیکر حسن ہوتا ہے۔جو اس کا محبوب اور مقصود نظر ہوتا ہے۔ اورجسے وہ حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ اسے اپنے عالم تصور سے محسوس دنیا میں لے آتا ہے۔ اس تصریح سے یہ دلیل قائم کی جا سکتی ہے۔ کہ فنکار فقط اس تصور ہی کی تخلیق مکرر کرتا ہے۔ جسے وہ حسین ترین یا مثالی سمجھتا ہے۔ اس طرح اقبال فن کو حسن کے ساتھ مشروط کر کے کروچے اور دیگر علمائے جمالیات پر سبقت لیجاتا ہے۔ اس نے مندرجہ ذیل اشعار میں بھی جمالیاتی قدر کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ جہاں خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب یہاں بھی معرکہ آرا ہے خوب سے نا خوب نمود جس کی فراز خودی سے ہو وہ جمیل جو ہو نشیب میں پیدا، قبیح و نا خوب ان اشعار کی مدد سے فن کی تعریف کرنا چاہیں، تواس طرح کر سکتے ہیں۔ ’’خودی کا اپنی اوردوسروں کی خاطر اپنے حسن و کمال کے اظہار کا نام فن ہے‘‘۔اقبال نے فن میںجمالیاتی عنصر کا اضافہ کر کے فن کی تعریف کو مکمل بنانے کی ایک مستحسن کوشش کی ہے۔ بعض علمائے جمالیات جو فن میں جمالیاتی اقدار کے منکر ہیں، حسن کو فن کے لیے ضرورت خیال نہیں کرتے، لیکن اقبال اس مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ جو فن میں جمالیاتی قدروں کا ہونا ناگزیر سمجھتا ہے۔ اس نے ’’بانگ درا‘‘ میں شیکسپیر کے نام سے جو نظم لکھی ہے۔ اس میں حسن فن کے اس ناگزیر تعلق پر اس طرح روشنی ڈالی ہے۔ حسن، آئینہ حق اوردل آئینہ حسن دل انساں کو ترا حسنِ کلام آئینہ جمالیات میں ایک متنازع فیہ مسئلہ یہ بھی ہے۔ کہ تخلیقی فعلیت کے اعتبار سے فطرت بڑی ہے۔ یا فنکار؟ یا با الفاظ دیگر حسن و کمال کے لحاظ سے فطرت کی تخلیقات بہتر ہوتی ہیں یا فنکار کی؟ قدیم زمانے میں افلاطون اوردور جدید میں بیکن اس نظریے کے حامی ہیںکہ فطرت، فن سے بہتر ہے۔ اقبال اس مکتب فکر کو غلط اور فطرت کا غلام سمجھتا ہے، اور اس کی پرزورمذمت کرتا ہے۔ وہ فن کو فطرت کی غلامی سے آزاددیکھنا چاہتا ہے اور فطرت کی نقّالی یا تقلید کو دریوزہ گری سے تعبیر کرتا ہے۔ حسن را دریوزہ از فطرت کند راہزن راہ تہی دستے کند حسن جوفنکار کومطلوب ہوتا ہے۔ وہ فطرت کے پاس کہاں؟ اور اگر ہو بھی تو وہ انسان کو کب دیتی ہے؟ لہٰذا جو فنکار، فطرت سے حسن حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس اعتبار سے رہزن ہوا۔ اوررہزن بھی ایسا جو کنگال اورخالی ہاتھ رہگیروں پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ فنکار کا فطرت میں حسن کی تلاش کرنا، اس لحاظ سے بھی غلط ہے۔ کہ فنکار جس حسن کو خارج میں ڈھونڈنا چاہتا ہے۔ وہ تو خود اس کے اندر موجود ہوتا ہے۔ فطرت ایسے حسن کی حامل کہاں ہوتی ہے(۱)۔ حسن را از خود برون جستن خطاست آنچہ می بائست پیش ما کجاست اگر کوئی فنکار اپنے فن کو فطرت کی غلامی سے نہیں چھڑا سکتا۔ یا اپنے آپ کو اس کا حلقہ بگوش بنا لیتا ہے۔ تو اس کی فنی تخلیقات میںاس جوہر کا فقدان لازمی ہے۔ جیسے بداعت(۲)کہہ سکتے ہیں۔ یہ ایک معروف واقعیت ہے۔ کہ ہر اچھے فن پارے پر فنکار کی ذات یا بزبان اقبال خودی کی مہرثبت ہوتی ہے۔ جو اسے نہ صرف دوسروں کے فن پاروں سے ممیز کرتی ہے۔ بلکہ اسے ایک ممتازانفرادی حیثیت عطا کر دیتی ہے۔ مزید برآں ایسی تخلیقات میں اثر و نفوذ کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ نقشگر خود را چو با فطرت سپرد نقش او افگند و نقش خود سترد یک زمان او خویشتن رنگے نزد بر زجاج ما گہے سنگے نزد اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اس کے فن پارے میں فطرت ایک اپاہج کی طرح حرکت سے محروم اور مکروہ دکھائی دیتی ہے۔ فطرت اندر طیلسان ہفت رنگ منہ بر قرطاس اوبا پائے لنگ فطرت کی نقالی چونکہ فن کواس انفرادیت اوردیگر اوصاف سے محروم کردیتی ہے، اس لیے فن کو فطرت کی غلامی سے آزاد کر لینا ہی اولیٰ ہے،اور اس آزادی ہی میں اس کی عظمت و بقائے دوام کا راز بھی مضمر ہے۔ اس دشت جگر تاب کی خاموش فضامیں فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر اہرام کی عظمت سے نگونسارہیں افلاک کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنرکو صیادہیں مردانِ ہنر مند کہ نخچیر فنکار حقیقت میں نہ صرف فطرت کی غلامی سے آزادہے۔ بلکہ وہ سلطان ہے۔ اورفطرت خود اس کے حلقہ سلطانی کی اسیر ہے۔ لہٰذا اس کی فنی تخلیقات، حسن و کمال میں خود فطرت سے بڑھ کر ہونی چاہئیں۔ چنانچہ فطرت سے فوقیت لے جانے والا فنکار ہی اپنے مافی الضمیر کا مکمل اظہار کر سکتا ہے۔ آں ہنر مندے کہ بر فطرت فزود راز خود را بر نگاہ ما کشود ایسا آزاد فنکار اتنا وسیع القلب ہوتا ہے۔ کہ اسے کسی قسم کے صلہ و ستائش کی خواہش وحاجت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود دنیا اسے عقیدت وستائش کا ہدیہ پیش کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ گرچہ بحر او ندارد احتیاج می رسد از جوئے ما او را خراج اور اس کا فن حسن و کمال کا معیار بن جاتا ہے۔ چین رباید از بساط روز گار ہر نگاہ از است و گِرد عیار ایسے ہی با کمال و آزاد فنکار کی فنی تخلیقات فطرت کے بے مثال شاہکار ’’حور جنت‘‘ سے بھی زیادہ حسین و دلکش ہوتی ہیں۔ جن کا منکر مسلک جمالیات میں کافر کہلاتا ہے۔ حور او از حور جنت خوشتراست منکر لات و مناتش کافراست وہ نہ صرف ہمارے لیے ایک نئے جہان کی تخلیق کرتا ہے، بلکہ ہمارے قلب کو ایک نئی زندگی بھی عطا کرتا ہے۔ آفریند کائنات دیگرے قلب را بخشد حیات دیگرے اس کا ہرفن پارہ جانفزا بھی ہوتا ہے اور گوہر نایاب بھی۔ بحر و موج خویش را بر خود زند پیش ما موجش گہر می افگند ایسے عظیم فنکار میں زندگی کی اتنی بہتات ہوتی ہے۔ کہ وہ اس کی بدولت ہر تن مردہ کوقوت حیات سے معمور کردیتا ہے۔ زان فراوانی کہ اندر جان اوست ہر تہی را پر نمودن شان اوست ایسے فنکار کے متعلق پہلے کہا جا چکا ہے۔کہ وہ خوب و زشت کا معیار ہوتا ہے۔ اقبال اس امر کی مزید توضیح یہ کرتا ہے۔ کہ ایسے فنکار کی حسین فطرت، حسن و قبح کا موضوعی اوراس کا فن اس کا معروضی معیار ہوتا ہے۔ فطرت پاکش عیارخوب و زشت صنعتش آئینہ دار خوب و زشت اور یہی فنکار ہے جو فطرت پر اپنی عظمت و فضیلت کو ’’حقیقت برہنہ‘‘ کے طور پر اس طرح بیان کرتا ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم سفال آفریدی ایاغ آفریدم بیابان و کہسار و راغ آفریدی خیابان و گلزار و باغ آفریدم من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم اقبال اس لیے فنکار کویہ وصیت کرتا ہے۔ بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اس سے نہ ہوسکا وہ تو کر غلامی خواہ فطرت کی ہویا دنیا کی، اقبا ل کے نزدیک وہ فن کی انتہائی پستی اورذلت کی دلیل ہے۔کیونکہ غلامی روح کے لیے ایک مرگ مسلسل ہے۔ یہ جوانی کے جوش و خروش کو بڑھاپے کے جمود و تعطل سے بدل دیتی ہے۔یہ حرکت و ارتقا کی حریف ہے۔ یہ ہیئت اجتماعی میں برہمی و انتشار پیدا کر دیتی ہے۔ اورافرادکے جسموں کو بغض و عناد کے زہر سے اس قدر بھر دیتی ہے۔کہ اس کی اذیتوں میں مبتلا رہنا ان کی قسمت کا لکھا بن جاتا ہے۔ از غلامی دل بمیرد در بدن از غلامی روح گردد بارتن از غلامی ضعف پیری در شباب از غلامی شیر غاب افگندہ ناب از غلامی بزم ملت فرد فرد ایں و آں باایں و آں اندر نبرد غلامی کے بھیانک اور انسانیت سوز اثرات کے پیش نظر اقبال فن کی آزادی پر زور دیتا ہے، اور اس فن کو جو غلام ومحکوم ہو، نوع انسان کے لیے ہلاکت و نامرادی کی وجہ حقیقی خیال کرتا ہے۔ لہٰذا فن کو محکومی و غلامی سے بچانے کی خاطر اس کے ہولناک نتائج کا بار بار ذکر کرتا ہے۔ زبور عجم کے آخر میں ’’دربیان فنون لطیفہ غلامان‘‘ کے عنوان کے تحت، وہ موسیقی پر غلامی کے اثرات کی تصریح اس طرح کرتا ہے۔ مرگ ہا اندر فنون بندگی من چہ گوئم از فسون بندگی نغمہ او خالی از نار حیات ہم چو سیل افتد بدیوار حیات چون دل او تیرہ سیمائے غلام پست چون طبعش نواہائے غلام از دل افسردہ او سوز رفت ذوق فردا لذت امروز رفت از نئے او آشکار راز او مرگ یک شہراست اندر ساز او ناتوان و زار می سازد ترا از جہاں بیزار می سازد ترا لہٰذا ایسے فن سے پرہیز و گریز ہی میں سلامتی ہے۔ الحذر این نغمہ مرگ است و بس نیستی در کسوت صوت است و بس ایسے فن سے جمالیاتی حس کی تسکین نہیں ہوا کرتی، کیونکہ وہ اس جوہر سے تہی دامن ہوتا ہے۔ جو جمالیاتی حس کی تشفی کا حقیقی سامان ہے۔ تشنہ کامی! ایں حرم بے زمزم است در بم و زیرش ہلاک آدم است یہی نہیں بلکہ سوز دل از دل برد غم می دھد زہر اندر ساغر جم می دھد صورت کے اعتبار سے فن کتنا ہی بے عیب کیوںنہ ہو، لیکن مافیہ کے لحاظ سے اگر بے عیب نہیں ہے۔ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اقبال کے نزدیک غلامی کا اثر صورت سے زیاد مافیہ پر پڑتا ہے بہر حال جس طرح موسیقی غلامی میں روح کے لیے پیام موت ہے۔ اسی طرح مصوری بھی محکومی میں اپنے جانفزا اثرات سے محروم ہو کر انسان کے لیے ہلاکت وبربادی کی نقیب بن جاتی ہے۔ می چکد از خامہ ھا مضمون موت ہر کجا افسانہ و افسون موت نفسیاتی طور پر بھی دیکھا جائے تو غلامی ایک نہایت خطرناک چیز ہے۔ یہ روح کی چور ہے۔ جو قلب انسانی سے اس کی دولت ایقان کو چرا لیتی ہے۔ اور اس کی جگہ اس میں بے یقینی پیدا کر دیتی ہے۔ جو فن کے لیے از بس مضرت رساں ہے کیوں کہ اس سے یہی نہیں کہ قلب ذوقِ تحقیق اورقوت تخلیق سے محروم ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ہی وہ ندرت فکر، جدت تخیل اور جودت طبع سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے نتیجتاً وہ کوئی تازہ اورنئی تخلیق کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ بے یقیں را لذت تحقیق نیست بے یقیں را قوت تخلیق نیست بے یقیں را رعشہ ھا اندر دل است نقش نو آوردن او را مشکل است اس بے یقینی سے فنکار فقط اپنے آپ سے دور ہی نہیں ہوجاتا بلکہ اس سے خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ فنکار جو اصل میں ذوق جمال کے سلسلے میں عوام کا رہنما ہے۔ خود ان کے ذوق کا مقلد و محکوم بن جاتا ہے۔ اوراس طرح رنج و ملال میں مبتلا رہنا اس کا مقدر ہو جاتا ہے۔ از خودی دور است و رنجور است و بس رھبر او ذوق جمہور است و بس در غلامی تن ز جاں گردد تہی از تن بے جاں چہ امید بہی ذوق ایجاد و نمود از دل رود آدمی از خویشتن غافل رود عشق کو اقبال کے نظام فکر میں از بس اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ اس کے نزدیک عشق ہی تخلیقی فعلیت کا اصل محرک ہے۔ یہاں سب سے پہلے یہ سوال سامنے آتا ہے۔ کہ اقبال کا تصور عشق کیا ہے؟ جیسا کہ ہم پہلے معلوم کر چکے ہیں۔ اقبال، خودی کو حسن مطلق ہی کا ایک جزو تصور کرتا ہے۔ یہ جزوجو اپنی ذات کے شعور کے سبب انفرایت کا احساس رکھتا ہے اپنی اصل کے وصال کی ایک فطری طلب و جستجو بھی رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں عشق سے عبارت یہی طلب و جستجو ہے۔ اور اقبال کے تصورات عشق و فن کا خلاصہ یہ ہے۔ کہ سوز عشق، یا خون جگر، فن کے لیے ناگزیر ہے، کیوں کہ اس کے بغیر کوئی فنی تخلیق درجۂِ کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔ نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر اقبال کے فلسفہ میں حیات انسانی کا اپنے لا محدود ممکنات کو بروئے کار لاتے ہوئے عالم الوہیت کی طرف جو حسن و سرور کاعالم بیکراں ہے، مسلسل بڑھتے رہنا ہی اس کی اصل عبادت ہے۔ یہی اس کا حقیقی مُدّعا و مقصد، یہی اس کی تقدیر، اور یہی مشیت ایزدی بھی ہے۔ لہٰذا جو شے حیات انسانی کے اس وظیفہ کی ادائیگی میں ممدو معاون ہو، وہ اقبال کی قرآنی اصطلاح میں ’’حلال‘‘ اور جو حریف و مزاحم ہو وہ ’’حرام‘‘ ہے۔ یہی مسلک اس کا فن کے بارے میں بھی ہے۔ اور اس بنا پر وہ غائیت یا مقصدیت کو فن کا ایک ناگزیراساسی عنصر سمجھتا ہے۔ اور جمالیات میں مفتی فن کی حیثیت سے یہ فتویٰ دیتا ہے۔ کہ جو فن اپنے اساسی عنصر کا حامل ہے۔ وہ جمالیاتی شریعت میں ’’حلال‘‘ اور جونہ ہو وہ ’’حرام‘‘ ہے۔ کھل تو جاتا ہے مغنی کے بم وزیر سے دل نہ رہا زندہ و پائندہ تو کیا دل کی کشود ہے ابھی سینہ افلاک میں پنہاں وہ نوا جسکی گرمی سے پگھل جائے ستاروں کا وجود جسکی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک اورپیدا ہو ایازی سے مقام محمود مہ و انجم کا یہ حیرت کدہ باقی نہ رہے تو رہے اورتیرا زمزمۂ لا موجود جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود خودی، عشق کی گرمی یا سوز ہی کی بدولت عالم ممکنات کو منکشف و مسخر کرتی ہوئی مقام الوہیت کی طرح مسلسل بڑھتی ہے۔ لہٰذایہ سوز ابدی ہی جو حیات انسانی کے اس ارتقائے سرمدی کے لیے ناگزیر ہے، فن کا حقیقی مقصود ہے۔ مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا یہ شعر اس حقیقت کی طرف بھی نشاندہی کرتا ہے۔ کہ فن کا کمال اس کی ابدیت و آفاقیت میں، اور اس کا زوال اس کی عارضیت و محدودیت میں مضمر ہوتا ہے۔ فن چونکہ اقبال کے نزدیک حسن و کمال کا مجسمہ ہوتا ہے، اس لیے وہ اسے آفاقی طور اور لازمی طور پر سرور انگیز دیکھنا چاہتا ہے۔ اور اس لیے اس فن کوجو شادمانی کی بجائے افسردگی پیدا کرنے والا ہو، فن ہی نہیں سمجھتا۔ شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا؟ ہے شعر عجم گرچہ طربناک و دلاویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز سوز عشق، پیغمبری (یعنی معراج انسانیت ) کا اور شقاوت، فرعونیت (یعنی زوال انسانیت )کا خاصہ ہے۔ اور عالم انسانی کو فرعونیت سے پاک و صاف کرنے کے لیے جس شے کی ضرورت ہوتی ہے، اسے اقبال تلمیحاً ’’ضرب کلیمی‘‘ ’’صوراسرافیل‘‘ اور ’’بانگ درا‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے۔ اور اس کو فن کی فطری صلاحیت خیال کرتا ہے۔ جس کے بغیر فن اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا؟ حیاتِ انسانی کی ابدیت کی ضامن جس طرح ضرب کلیمی یا صور اسرافیل ہے۔ اسی طرح نغمہ جبریل بھی ہے۔ یہ ایک جلالی قوت ہے۔ دوسری جمالی، لیکن یہ دونوں ہی حسن کے صفات ہونے کی بنا پر قومی زندگی پر ایک جیسا جانفزا و حیات پرور اثر پیدا کرتی ہیں۔ میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل اقبال کے افکار و تصورات کا اصل سر چشمہ تصور خودی ہے۔ لہٰذا وہ بار بارخودی کی حفاظت و تعمیر کو نہ صرف فن کا بلکہ دین و سیاست اور علم و ادب سبھی کا مقصد حقیقی سمجھتا ہے۔ سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یکدانہ خمیر بندہ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ ــــــــــــ گر ہُنر میں نہیں تعمیر خُودی کا جوہر وائے صورت گری شاعری وناے و سرود تعمیر خودی یا آدم گری کوئی معمولی نوعیت کا کام نہیں۔ یہ تو مقصود فطرت اور پیغمبری کا اہم وظیفہ ہے ۔ لہٰذا جو فنکار تعمیر خودی کا کام کرتا ہے۔ وہ فطرت کے منشاء کو پُورا کرنے اور پیغمبری کے کام میں حصہ لینے کے باعث وارث پیغمبری ہوتا ہے۔ اقبال ریویو جنوری، لاہور،۱۹۶۱ء حواشی ۱۔اس تصور کو بیدل اور حافظ نے بھی نہایت دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ ستم است گر ھوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن درآ کہ ز غنچہ کم نہ دمیدہ ای در دل کشا بہ چمن در آ (بیدل) سالہا دل طلب جام جم از ما میکرد آنچہ خود داشت ز بیگانہ تمنا میکرد (حافظ) ۲۔ Originality اقبال اور اسلامی فکر کی تشکیل نو ڈاکٹر وحید اختر اقبال نے ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیل نو‘‘ کے عنوان سے نئے تقاضوں کی روشنی میں اجتہاد کا ایک لائحۂ عمل اور اس کے کچھ اساسی اصول پیش کیے۔ ہندوستان میں اسلام کی تفسیر نو کا سلسلہ شیخ احمد سرہندیؒ سے ہوتا ہوا شاہ ولی اللہ، شبلی اور سرسیّد تک پہنچتا ہے۔ اقبال اسی سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ اٹھارویں صدی کے آغاز سے عرب اور افریقی مسلم ممالک میں اسلام کی تشکیل نو کی تحریکیں اٹھنی شروع ہو گئی تھیں جن کا نقطۂ عروج پان اسلامیت ہے۔ اقبال کا اس تحریک سے بھی ذہنی رشتہ تھا۔ اقبال نہ صرف ان اسلامی تحریکوں کے موید تھے بلکہ انھوں نے مغرب میں سائنس و فلسفہ، صنعت اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا بھی گہرا جائزہ لیا تھا۔ وہ بیسویں صدی میں مغربی تہذیب کے زوال سے بھی آشنا تھے۔ انھوں نے مغرب کی فکری اور سیاسی تاریخ سے بھی استفادہ کیا۔ وہ مغرب کو کہیں رد کرتے ہیں اور کہیں قبول۔ ردّ و قبول کے اس عمل میں ان کے سامنے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا نصب العین ہی رہتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اسلامی تہذیب کی روح کو ہمیشہ مغرب کی روح سے مختلف سمجھا۔ اختلاف کے اس عرفان نے انھیں جدید مغربی علوم کی روشنی میں اسلام کی اصل روح کی بازیافت پر اکسایا۔ وہ مغرب کے یکسر منکر نہیں، اس سے وہ سائنسی علوم سیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ مسلمان کی اپنی گم شدہ میراث ہے لیکن وہ مغربی مادّی ترقی کو یک رخا ارتقا سمجھ کر اسلام کے ارتقا کو مستقبل کے لیے روحانی راستے پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقبال کے یہاں روحانیت یا مذہبیت روح و مادّے کا تناقض نہیں، بلکہ دونوں کی ہم آہنگی سے عبارت ہے اور یہی اُن کے نزدیک اسلام کی روح ہے۔ ’’اسلام میں مذہبی فکر کی تشکیلِ نو‘‘ کو انہی خطوط پر پیش کیا گیا۔ یہ ایک اجتہادی کارنامہ ہے جس کے احکامات کو پوری طرح اب تک نہ سمجھا گیا ہے اور نہ اُس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ہوئی ہے۔ اقبال کی یہ کتاب نثر میں اُن کی واحد مستقل، اور مربوط اور منظم کتاب ہے جس میں ان کے فلسفیانہ مسلک اور مذہبی اجتہاد کا یکجا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے: ۱۔ علم اور مذہبی تجربہ ۲۔ مذہبی تجربے کے الہامات کی فلسفیانہ جانچ ۳۔ خدا کا تصور اور عبادت کا مفہوم ۴۔ انسانی انا، اس کی آزادی اور لافانیت ۵۔ مسلم تہذیب کی روح ۶۔ اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول ۷۔ کیا مذہب ممکن ہے؟ پہلے باب میں انھوں نے مذہبی تجربے کے علمی پہلو سے سائنس کی روشنی میں بحث کی ہے اور سائنس سے اس کا تقابل کرتے ہوئے اس علم کی ہمہ گیری کو سائنس کے یک رخے پن سے ا فضل قرار دیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف نظری لحاظ سے بلکہ عملیتی (Pragmatic )یا نتائجی نقطہ نظر سے بھی مذہبی تجربے اور اس پر مبنی علم کو درست، ضروری اور مفید قرار دیا ہے۔ اسی باب میں انھوں نے کائنات کی ماہیت ، تغیر کی ہمہ گیری، زمان کے تصور اور فعالیّت سے بحث کی ہے۔ آخر میں مذہبی تجربے کی اہم خصوصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ دوسرے باب میں انھوں نے وجودِخدا کے روایتی ولائل سے آغاز کر کے کائنات کی ماہیت سے تفصیلی بحث کی ہے اور تفصیل سے نظریۂ زمان کی تفسیر و توجیہ کی ہے۔ تیسرے باب میں ،خالق و عبد کے رشتے کو اسلامی عبادت کی روشنی میں ایک فعّال شکل میں پیش کیا ہے۔ چوتھے باب میں خودی، انسانی آزادی اور بقا کے تصور سے فلسفیانہ بحث کی ہے۔ پانچویں باب میں اسلامی تہذیب کی قوتِ محرکہ یعنی عقلیت، استخراجی طریقۂ کار اور ہر طرح کی اذعانیت کے خلاف بغاوت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ چھٹے باب میں اجتہاد کے مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ساتواں باب مذہب کی ضرورت اور عہدِحاضر میں اس کی معنویت کا اثبات کرتا ہے۔ پوری کتاب میں جو مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے، وہ زماں کا مسئلہ ہے۔ زماں کی حقیقت اور فعالیّت پر اقبال سے قبل کسی مسلم مفکر نے اتنا زور نہیں دیا تھا۔ اس مسئلے کی طرف انھیں عہدِ جدید کی تغیر آفرینی اور تازہ کاری نے متوجہ کیا۔ تغیر کا یہ عمل تاریخ کے کسی بھی دور میں اتنا واضح اور انقلاب آفرین نہیں بن سکا تھا جتنا بیسویں صدی میں بنا۔ زماں کے ساتھ تغیر کا مسئلہ جڑا ہوا ہے۔ اقبال تغیر کو حقیقت ابدی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ تغیر کے عمل ہی میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی امید ہے۔ وہ اسلام کو تغیر کے عمل میں شریک فاعل دیکھنا چاہتے ہیں۔ نیز اسلام کی تشکیلِ جدید کی ضرورت بھی اسی لیے محسوس ہوئی ہے کہ وہ اُسے تغیر پذیر کائنات سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل انھوں نے کہا تھا: ’’حیرت کی بات نہیں کہ مسلمانوںکی نئی نسل، ایشیاء اور افریقہ میں، اپنے عقیدہ کی نئی توجیہ چاہتی ہے۔ اسلام کی بیداری کے ساتھ یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم آزادانہ طور پر یہ دیکھیں کہ یورپی فکر کیا ہے اور اس کے فکری نتائج اسلام کی دینیاتی فکر پہ نظر ثانی کرنے یا اس کی از سرِ نو تشکیل کرنے میں کہاں ہماری مدد کر سکتے ہیں(۱)۔ اقبال کو یقین ہے کہ مذہب کو سائنس سے خطرہ نہیں کیونکہ سائنس بھی حقیقت کو سمجھنے کا ایک طریقہ ہے جو مذہبی تجربے کی مدد کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ ہم اس کے یک رْخے پن پر غالب آ سکیں(۲)۔ سائنس، طریقۂ کار کے اختلاف کے باوجود مذہب کے ساتھ متحد المقصد ہے۔ دونوں اپنے اپنے طور پر حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود مذہب کو اثباتی سائنس مانتے ہیں(۳)۔ سائنس صرف نظری علم ہے جب کہ مذہب نظریے اور عمل کے ذریعے نتائج کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالتا ہے۔ وہ کائنات کی تفہیم بھی ہے اور تسخیر بھی اگر ہم مذہب کو محض علم یا محض عمل سمجھ لیں تو اس کی روح فوت ہو جاتی ہے۔ مذہب علم و عمل کی ہم آہنگی ہے اسی لیے اقبال اس پر زور دیتے ہیں کہ ہم مذہبی تجربے کی روشنی میں جدید علوم کو استعمال کر کے انھیں عمل کی وہ سمت اور مقصدیت عطا کریں جو تغیر پذیر کائنات کو انسانی مقصد کے تابع رکھے۔ اس مقصد کے لیے وہ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ کائنات، ثابت، جامد اور مستقل نہیں۔ اقبال ان یونانی تصورات کی تردید کرتے ہیں جو یا تو اعیان (تصورات) کو ثابت جان کر مادّے کی نفی کرتے ہیں یا مادے کو اصل حقیقت مان کر مقصد اور غایت کا انکار کرتے ہیں۔ اقبال نے اکثر مقامات پر افلاطون پر سخت تنقید کی ہے کیوں کہ وہ تغیر کو التباس مانتا ہے اور اثبات کو اصل حقیقت۔ اِس کے ساتھ انھوں نے ارسطا طالیسی منطق کو بھی رد کیا جو صدیوں تک اسلامی فکر پر مسلّط رہی۔ وہ اسلام کو تصوریت اور اثباتیت کی ہم آہنگی سے تعبیر کرتے ہیں(۴)۔ اقبال نے میکانکیت کو بھی رد کیا ہے اور میکانکی قانونِ علیّت کو بھی۔ وہ کائنات میں عِلّت و معلول کے قانون کو کارفرما دیکھتے ہیں مگر میکانکی انداز میں نہیں بلکہ آزادانہ اور مقصدی انداز میں۔ وہ کائنات کو وہایٹ ہیڈ کی طرح ایک عمل سمجھتے ہیں جو غیر حرکی خلا میں موجود نہیں بلکہ ایسے وقوعات کا نظام ہے جو مسلسل تحقیقی بہاؤ رکھتے ہیں۔ مجرد فکر انھیں کاٹ کر جامد بنا دیتی ہے یا اس طرح دیکھتی ہے(۵)۔ قدیم طبیعیات نے فطرت کو مادیت کی اصطلاح میں سمجھا اور مادّے کو جامد ساکن مان کر فطرت کی توجیہ میکانکی قوانین سے کی۔ جب کہ جدید طبیعیات کی جگہ اضافیت پر اور مادّی جواہر کے جمود کی بجائے اُن کی قوت و حرکت پر زور دیتی ہے۔ کائنات کی اس ماہیت کو زمان کے قدیم تصورات سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اقبال نے ا فلاطون، کانٹ، اشاعرہ، عراقی، رومی اور ابن خرم کے ساتھ برگساں، آسپنسکی اور آئن سٹائن کے نظریات زمان سے مفصل بحث کی ہے۔ وہ برگساں کے تصور ’’دوران خالص‘‘ کو حقیقی زمان کا صحیح نظریہ مانتے ہیں۔ ان کے خیال میں برگساں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ارادے اور فکر کی ثنویت کا شکار ہو گیا(۶)۔ آئن سٹائن کے نظریے کی خامی یہ ہے کہ وہ زماں کو مکاں کا چوتھا بُعد (Dimension) مان کر اُس کی آزاد تخلیقی قوت سًے انکار کرتا ہے اس کے بر خلاف اسپنسکی ) (Ouspensky زمان کو اپنے سے ماورا حرکت مانتا ہے اور بتاتا ہے کہ ہماری فکر اس قدر مکان بستہ رہی ہے کہ ہم زمان کو بھی مکان کی جنس سے ہی سمجھتے ہیں جو غلط ہے(۷)۔ اقبال کا خیال ہے کہ قرآن مجید میں سلسلہ وار (serial)زماں اور غیر سلسلہ وار زمان (Nonserial) دونوں کا ذکر ملتا ہے۔ الوہی زماں غیر سلسلہ وار ہے مگر خدا سلسلہ وار زمان سے متعلق ہو کر بھی ماورائے زماں رہتا ہے۔ زمان اور مکان اس کے دو اظہارات ہیں۔ اقبال زمان کو معروض مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اُسے انسانی آزادی اور تخلیقات کا جز بھی سمجھتے ہیں۔ انسان اور زمان ایک دوسرے کے حریف نہیں، حلیف ہیں۔ وہ زمان کی حرکت کو مقصد ہی مانتے ہیں۔ زمان کو یہ مقصدیت انسان کا عمل عطا کرتا ہے۔ اقبال نے نطشے کے نظریہ ’’تواترِ ابدی‘‘ (Eternal Recurrence) کو اس لیے ردّ کیا ہے کہ اس کے مطابق زماں کی مسلسل حرکت ایک دائرے اور متعین وقوعات کی پابند ہو جاتی ہے آزاد اور تخلیقی نہیں رہتی۔ یہ بھی برگساں کی طرح ایک قسم کا نظریۂ زماں ہے(۸)۔ اقبال نے زماں کو حقیقی اور فاعل مان کر ارتقا کے نظریے کو تسلیم کیا ہے۔ زمان کا انکار ارتقا کا انکار ہے۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن میں ارتقا کے نظریے کے شواہد ملتے ہیں۔ جاحظ، اخوان الصفا، ابن مسکویہ اور رومی نے اس نظریے کی تشکیل، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پہلے بھی کی ہے(۹)۔ اقبال ارتقا کے میکانکی تصور کر رد کر کے فجائی یا تخلیقی ارتقا (Creative Emergent) کو قبول کرتے ہیں۔ مگر اسے برگساں کی میکانیت سے متمائز کرنے کے لیے موقدیت اور روحانیت کی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ اقبال نے زمان کے ساتھ مکان اور مادّے کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ انھیں آئن سٹائن کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ اگر مادہّ نہ ہوتا تو تمام کائنات ایک نقطے پر سمٹ جاتی(۱۰)۔ انھوں نے عراقی کے حوالے سے مکان کی مختلف سطحوں کا ذکر کیا ہے اور اس طرح مکان کی اضافیت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اگر مکان کو علیحدہ سے دیکھا جائے تو وہ نقطوں میں قابل تقسیم ہے لیکن عمل کے بہاؤ میں وہ ناقابل نقسیم وحدت ہے(۱۱)۔ کائنات، زماں اور مکاں میں موجود ہے۔ ہم جسے فطرت کہتے ہیں، وہ خدا کے لیے ایک لمحۂ پرّاں ہے۔ اقبال خدا کی شخصیت کو مانتے ہیں جو لامحدود ہے اور زماں و مکاں سے ماورا۔ وہ نفسِ مطلق ہے مگر نفس کی محدودیت سے بالا ہے۔ وہ خدا کے علمِ بسیط اور ہر جگہ موجودگی کو بھی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ قرآن کی آیات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ ہر جگہ ہوتے ہوئے بھی مکان سے ماورا ہے اور تاریخ کے دھارے پرمتصرف ہوتے ہوئے بھی اپنی مطلق شخصیت رکھتا ہے۔ اقبال نے جزئی اور کلّی علم کی متکلمانہ بحث نہیں چھیڑی بلکہ محدود و لا محدود کے رشتے پر توجہ صَرف کی ہے۔ پوری کائنات میں صرف آدمی اپنے خالق کی تخلیقی زندگی میں شعوری طور پر شریک ہو سکتا ہے اور یہی شرکت نفسِ محدود کو لافانیت عطا کرتی ہے۔ انا کے دو رُخ ہیں۔ عرفانی) (Appreciative اور فاعلی (Sufficient)۔ عرفانی انا دورانِ خالص میں رہتی ہے اور فاعلی انا سلسلہ وار زمان میں۔ انا کی زندگی مسلسل حرکت ہے۔ عرفانیت (Appreciation) سے کارکردگی تک، اور وجدان سے عقل تک۔ اسی عمل سے جوہری زماں پیدا ہوتا ہے(۱۲)۔ انائے مطلق میں یہ تقسیم نہیں، نہ اس لیے کوئی غیر ہے۔ تاریخ اور کائنات کا علم خدا کو ایک ابدی’ حال‘ کی شکل میں ہوتا ہے۔ عبادت کے ذریعے انسان کا محدود نفس خدا کے نفسِ لامحدود سے تعلق پیدا کرتا ہے۔ عبادت مراقبہ ہے اور مراقبہ علم ہے۔ عبادت علم الیقین ہے، رویت باری ہے۔ یہ رویت یا علم انسان کو عمل کی قوت عطا کرتا ہے اور مقصد کے حصول تک رہنما ہوتا ہے۔ اجتماعی عبادت، اجتماعی حصولِ علم کا محرک بنتی ہے۔ عبادت انفرادی ہو یا مشترکہ، یہ اظہار ہے، انسان کی داخلی اُمنگ کا جو کائنات کے ہیبت ناک سکوت سے جواب چاہتی ہے۔ یہ دریافت کا ایسا عمل ہے جس کے ذریعے نفی ذات کے لمحے میں نفس اپنا اثبات کرتا ہے اور حیات کائنات میں اپنی قیمت کا تعین کرتا اور اپنے کو ایک حرکی عامل کی حیثیت سے جانتا ہے(۱۳)۔ اقبال کے نزدیک انسان خدا کی منتخب مخلوق ہے اس کا خلیفہ ہے اور آزاد شخصیت رکھتا ہے۔ اقبال کے فلسفے کا ایک تصور انسانی خودی ہے، ان کے نزدیک منصورحلاج کا دعویٰ اناالحق متکلمانہ عقلیت کے لیے چیلنج بن کر ابھرا۔ خودی انسان کی پوری شخصیت ہے، یہاں روح اور جسم کی دوئی نہیں۔ جسم و روح کے درمیان متوازیت اور باہمی تعامل کے نظریات ناکافی ہیں۔ عمل کے دوران یہ دونوں متحد رہتے ہیں اور یہی حقیقت ہے(۱۴)۔ نفس آزاد شخصی علیّت ہے(۱۵)۔ عبادت اسے میکانکی علیت سے آزاد کرتی ہے۔ اقبال نے جبریت کے نظریے کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے استبدادی مطلق العنان شاہی کا سیاسی حیلہ قرار دیا ہے جس پر سب سے بڑی ضرب کربلا نے لگائی(۱۶)۔ انسان خود اپنی تقدیر ہے۔ حضرت علی کا قول کہ ’’مَیں قرآنِ ناطق ہوں‘‘، بایزید کا کہنا کہ ’’اعظم ماشانی‘‘ اور حسین بن منصور حلاج کا نعرئہ اناالحق اسی کی نشاندہی کرتے ہیں(۱۷)۔ نفس انسانی کی محدودیت عبادت و شہادت کے وسیلے سے لافانیت حاصل کرتی ہے۔ کانٹ اور جدید فلسفے میں دوام نفس کا مسئلہ خالص اخلاقی ہے۔ قدیم فلسفے میں اس کی نوعیت مابعد الطبیعیاتی تھی۔ اقبال کے لیے یہ مسئلہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآنی نظریۂ تقدیر جزوی طور پر اخلاقی ہے اور جزوی طور پر حیاتیاتی۔ نفس کی ابتدا ہے۔ وہ موت کے بعد زمین پر واپس نہیں آتا اور محدودیت بدبختی نہیں۔ کیونکہ وہ محدودیت کے وسیلے سے ہی لا محدود نفس تک رسائی حاصل کرتا، اپنے اعمال گز شتہ کو پرکھتا اور امکاناتِ مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ قرآن محدودیت سے مکمل آزادی کا قائل نہیں۔ برزخ، جنت، دوزخ اور حشر مختلف کیفیات ہیں جن کا قرآن میں استعاراتی بیان ملتا ہے۔ برزخ، موت اور حشر کا درمیانی تعطل ہے۔ حشر ایک آفاقی مظہرِ حیات ہے جس کا اطلاق حیوانات اور طیور پر بھی ہوتا ہے۔ جنت اور دوزخ عارضی کیفیات ہیں۔ مستقل مقامات سزا نہیں، نہ عذاب جہنم ابدی ہے۔ نہ جنت مکمل تعطیل کا نام ہے۔ یہ سب وہ منزلیں ہیں جن سے انسان آزادانہ گزرتا اور مستقبل کے تخلیقی امکانات کو بروئے کار لاتا ہے(۱۸)۔ اقبال نے ہبوطِ آدم کو بھی زوال سے تعبیر نہیں کیا بلکہ اسے انسان کے ارادۂ زندگی و عمل کے نتیجے سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن میں آدم کے جنت سے اخراج کا قصہ انسان کی تشنگیٔ علم اور آزاد نفس پر شعوری اختیار کی خواہش کو بیان کرتا ہے۔ یہی نفس انسان کی ماہیت ہے جس نے اس طرح اپنا اثبات کیا(۱۹)۔ اسی طرح بقا کے حصول پر قادر ہو سکتا تھا۔ آزادی، تخلیقیت اور خواہشِ دوام انسانی انا کی بنیادی صفات ہیں۔ اور ان ہی کے ذریعے وہ لامحدود نفسِ ربانی کا شریک کار ہو سکتا ہے۔ تخلیقی عمل میں شرکت کی یہی خواہش اسے جنت کی بے عملی سے کارِ جہاں کی عمل گاہ میں لائی۔ زماں حصولِ مقصد کا طویل انتظار ہے، مگر یہ انتظار انفعالی کیفیت نہیں، جدوجہد عمل کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ مذہبی تجربہ ہمیں کائنات، زمان، مکاں، خدا اور خودی کا علم عطا کرتا ہے۔ اس تجربے کے ذریعے جو علم حاصل ہوتا ہے، اُسے وجدان اور عقل کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ مذہبی تجربے میں یہ دونوںعلیحدہ نہیں ہوتے۔ خود مذہبی تجربہ بلاواسطہ ، ناقابلِ تجزیہ اور متعلق باللہ ہوتا ہے۔ یہ ناقابلِ ترسیل ہوتا ہے لیکن اس کا وقوفی (Cognitive) عنصر خیال کی شکل اختیار کرتا ہے اور خیال الفاظ کا جامہ پہنتے ہیں۔ اس جگہ اقبال نے ضمنی طور پر قرآن کے الفاظ اور معانی کی قدامت کی بحث کے لاحاصل ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تجربہ، خیال اور اس کا لفظی اظہار ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں۔ اس لیے تقدم تاخّر کی بحث فضول ہے۔ مذہبی تجربہ سلسلۂ زمان و مکان سے بالکل غیر منقطع نہیں ہوتا اس لیے عارف یا صوفی عام تجربات کی سطح پر واپس آ جاتا ہے ا ور انھیں سمجھنے میں بھی مدد کرتا ہے(۲۰)۔ اقبال نے عام صوفی اور نبی میں بنیادی فرق یہی بتایا ہے اور صوفی عبدالقدوس گنگوہی کے خیال کے مطابق نبی کی طرح معراج سے واپس آنا پسند نہیں کرے گا۔ لیکن نبی پر یہ واپسی فرض ہے اور یہی اس کی عظمت کی دلیل ہے(۲۱)۔ نبی کا یہی منصب اسلامی تہذیب کی ایک اہم خصوصیت یعنی اجتماعی نجات و فلاح سے عبارت ہے۔ نبوت وہ مذہبی شعور ہے جس میں وجدانی تجربہ اپنی حدود سے باہر نکل کر حیاتِ اجتماعی کے دھاروں کو موڑنے اور بدلنے کے مواقع تلاش کرتا ہے(۲۲)۔ وحی قرآن کے مطابق ایک آفاقی وصف حیات ہے۔ اقبال کے خیال میں ختمِ نبوت کے معنی وحی کے سلسلے کے منقطع ہونے کے نہیں۔ وحی حیات کا تخلیقی عمل ہے۔ انھوں نے ختمِ نبوت کی توجیہ یہ کی ہے کہ یہ دراصل ہر حاصل کی اذعانیت کے خاتمے کا اعلان ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے جس کے ساتھ استخراجی طریقہ پیدا ہوا اور خالص تفکری طریقہ ختم ہوا۔ پردیت اور مشابہت کا اقتدار ختم ہوا۔ رسولؐ کی تاریخ بین اور تاریخ ساز نظر دیکھ رہی تھی کہ اس خاتمۂ اذعانیت کے بعد اب انسان کسی نبی کو تسلیم نہیں کرے گا۔ بلکہ عقل، مشاہدے اور تجربے سے وہ علم حاصل کرے گا جو اب تک اسے نبیوں کے وسیلے سے ملتا تھا۔ نبوت کے خاتمے کے معنی یہ بھی نہیں کہ اب جذبے کی جگہ پوری طرح عقل نے لے لی ہے۔ ختم نبوت کے تصور کی اہمیت اس بات میں ہے کہ نبوت کے سلسلے کے انقطاع نے ایک آزاد تنقیدی رویّے کو جنم دیا جو مذہبی تجربے کو بھی شخصی سندیا کسی مافوق الفطرت مبدا کی بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اسلام کے ظہور کے بعد تاریخ میں اب اس کی گنجائش نہیں رہی تھی(۲۳)۔ مسلمانوں نے یونانی فلسفے کو قبول کر کے اسلام کی روح سے انصاف نہیں کیا۔ یونانی تہذیب کی روح عقلیت ہے، اسلام اس کلاسیکی عقلیت کے خلاف بغاوت ہے۔ غزالی جنھوں نے اس راز کو سمجھا تھا، اس ارسطو کی منطق کی ہی پیروی کرتے رہے۔ اسلام میں عقل کے ساتھ وجدان، تفکر کے ساتھ عمل اور تصور کے ساتھ ٹھوس حقیقت پر زور ہے۔ اس کا طریقہ استقرائی نہیں، استخراجی ہے۔ قرآن میں جابجا تعقل، تفکّر اور مراقبے کے پہلو بہ پہلو مشاہدے پر زور ہے۔ مشاہدہ مرئی حقیقت کا ہوتا ہے۔ مشاہدے کے ذریعے مرئی حقیقت کا علم سائنس بنتا ہے۔ اس طرح اسلام نے سائنس کی ترقی کا راستہ دکھلایا۔ یونانی فلسفے میں ٹھوس مرئی حقیقت پر تصور غالب تھا۔ اسلام کا آدرش ’’لامحدود‘‘ ہے جبکہ یونانی ذہن کا آدرش تناسب تھا۔ اسی لامحدود کی تلاش میں اسلام نے منطق، ریاضیات، حیاتیات، نظریۂ ارتقا اور نفسیات کے مطالعے کو ترقی دی(۲۴)۔ اسلامی تہذیب کی، دوسری بنیادی خصوصیات اس کی تاریخی بصیرت ہے۔ قرآن میں انسانی تاریخ کی حوالے جابجا ملتے ہیں۔ ابن خلدون نے سب سے پہلے فلسفۂ تاریخ کی تدوین کی اور یہ قرآنی تصور تاریخ ہی کا اثر تھا۔ قرآن نے واقعات کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا سبق دیا ہے اسی لیے مسلمانوں نے علم رجال کی بنیاد ڈالی۔ روایت کو قبول کرنے کے لیے راوی کا معتبر ہونا ضروری ہے۔ قرآن میں تاریخ کے دو بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں ،۱۔ تمام انسانوں کی ابتدا ایک ہی اصل سے ہوئی ہے ،۲۔ زماں حقیقی ہے اور زندگی میں ایک مسلسل تخلیقی حرکت ہے(۲۵)۔ اسپنگلر نے اسلام پر تقدیر پرستی کا الزام لگایا ہے جو اسلام کی تاریخیت کی روشنی میں سراسر غلط ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مغربی تہذیب سراسر مخالف کلاسیکی ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ کلاسیکیت کے خلاف بغاوت کا راستہ تو سب کو اسلام ہی نے دکھایا(۲۶)۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ جب اسلام نے اپنی تہذیب کی حرکی روح کو بھلا دیا تو زوال کا شکار ہو گیا۔ عموماً زوال کا ذمہ دار ترکوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اقبال اس سے متفق نہیں، ان کے خیال میں اسلامی فکر کے زوال کے تین اسباب ہیں۔ ۱۔ متکلمین کی یونانی فلسفے کے زیر اثر عقلی موشگافیاں جو روحِ اسلامی کو بروئے کار لانے میں مانع رہیں۔ ۲۔ تصوف کے دائرے میں مرتاضیت کا فروغ جس نے بے عملی اور ترکِ دنیا کی تعلیم عام کی۔ ۳۔ زوالِ بغداد کے ساتھ اسلام کے سائنسی اور عقلی علوم کا خاتمہ ــــ جس نے مذہبی اذعانیت کو راسخ کیا۔ شکست خوردہ ذہن مذہب کو شیش محل سمجھ کر اس میں بند ہو گئے اور آزاد تفکر و اجتہاد کے تمام دروازے کھڑکیاں بند کر لیں(۲۷)۔ اسلام کی حرکی قوت کی کلید اجتہاد ہے جسے مسلمانوں نے ترک کر دیا اور اس کے نتیجے کے طور پر ملائیت اور ذہن بستگی کو فروغ ہوا۔ اس کے خلاف سب سے پہلے بغاوت ابنِ تیمیہ نے کی۔ انھوں نے اپنے زمانے کے عوام کی گری ہوئی اخلاقی اور علمی حالت کی بنا پر اجماع کے اصول سے انکار کیا۔ کیونکہ اس وقت اجماع کے معنی تھے ذہنی زوال و جمود، قدامت پسندی اور اندھی روایت پر اتفاق۔ سیوطی (۲۸) نے سولہویں صدی میں ابن تیمیہ کی تائید کی اور یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر صدی کے خاتمے پر ایک مجدد کا ظہور میں آنا ضروری ہے(۲۹)۔ آہستہ آہستہ یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ اسلام کی اصل روح تک رسائی کے لیے قرآن و سنت کی طرف مراجعت ضروری ہے۔ ابن تیمیہ کے اثر نے اٹھارویں صدی میں نجد سے اٹھنے والی وہابی تحریک کو جنم دیا۔ ابن تیمیہ نے تمام مکاتیب فقہ کی مطابقت اور حرفِ آخر ہونے سے انکار کر کے اپنے لیے اجتہاد کی آزادی کا اعلان کیا تھا جس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر تحریک، پان اسلامی تحریک اور وہابی تحریک میں دیکھا جا سکتا ہے(۳۰)۔ ترکی میں حلیم ثابت نے جدید عمرانی تصورات پر اسلامی قانون کی بنیاد رکھنے کی طرف توجہ دلائی۔ اقبال نے محسوس کیا کہ ہمیں بھی ترکوں کی طرح اپنے ورثے پر تنقیدی نظر ڈالنی چاہیے۔ اگر ہم اس پر سخت تنقید نہ کر سکیں تو کم از کم دوسرے مضر اثرات کے بڑھتے ہوئے نفوذ کو روکنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں(۳۱)۔ اقبال حلیم پاشا سے بھی متاثر ہیں جنھوں نے قومیت کے تصور کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے بین الاقوامیت پر زور دیا۔ ان کی نظر میں یہ ایسے اجتہادات ہیں جو مستقبل کے لیے اسلامی فکر کی نئی تشکیل کے لیے راستے اور طریقے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اجتہاد کے تین درجے ہیں۔ ۱۔ قانون سازی کا مکمل اختیار جو عملی طور پر بانیانِ مکاتیب کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ ۲۔ اضافی اختیار جو کسی مخصوص مکتبِ فقہ کے دائرے میں رہ کر ممکن ہے۔ ۳۔ خصوصی اختیار جو کسی ایسے خاص مسئلے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جسے ائمئہ فقہ نے حل نہیں کیا(۳۲)۔ اقبال کی دلچسپی دراصل پہلے درجے سے ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا اختیار صرف ائمئہ فقہ تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح قدیم فقہا نے اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر قانون بنائے،۔ نئے تقاضوں کی روشنی میں یہ اختیار علما اور امت کو حاصل ہونا چاہیے۔ اسلام میں اجتہاد کی اس لیے گنجائش ہے کہ ابتدا میں کوئی لکھا ہوا قانون موجود نہ تھا، رسولؐ کے بعد خلفا اور صحابہ کے بعد تابعین موقع کے لحاظ سے قرآن اور سنت کی روشنی میں فیصلے کرتے۔ خود ائمئہ مکاتبِ اربعہ نے اپنے وقت کی ضرورت کے مطابق فقہ کی تدوین کی۔ ان میں اختلاف کی موجودگی، تاویل و توجیہ میں آزادی کے ساتھ کٹر پن اور اندھی تقلید کی نفی کرتی ہے(۳۳)۔ اجتہاد کے بنیادی ماخذ چار ہیں۔ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس(۳۴)۔ قرآن ضابطۂ قوانین نہیں۔ اس کا بنیادی مقصد انسان میں خدا اور کائنات کی نسبت سے اعلیٰ شعور پیدا کرنا ہے۔ اس طرح یہ علم اخلاق و علم مدن و سیاست و معیشت کے کچھ عمومی اصول پیش کرتا ہے۔ کہیں کہیں کچھ ضوابط قانونی نوعیت کے بھی مل جاتے ہیں۔ مثلاً خاندان سے متعلق۔ اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ قرآن روحانیت کو انسانی زندگی سے الگ نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ اسلام نے مذہب کو سیاست و معاشرت سے بھی متحد رکھا۔ ان اصولوں کی روشنی میں قرآن کے علم کی مدد سے بدلتے ہوئے حالات کی توجیہ و تفسیر کی جا سکتی ہے۔ حدیث دوسرا اہم ماخذ ہے، لیکن احادیث کے کثیر ذخیرے میں ضعیف اور موضوع حدیثیں اس کثرت سے شامل ہیں کہ حدیث سے سند کے لیے بہت احتیاط اور دقتِ نگاہ کی ضرورت ہے۔ خود اقبال پر یہ اعترض وارد ہوتا ہے کہ انھوں نے ایک ضعیف یا موضوع حدیث قدسی لاتسبوالدھر پر اپنے تصور زماں کی پوری عمارت کھڑی کی ہے۔ تیسرا ماخذ اجماع ہے جو اقبال کے نزدیک اسلام کا اہم ترین قانونی تصور ہے لیکن انھیں یہ بھی احساس ہے کہ ایک تو یہ تمام فرقوں میں متفق علیہ نہیں، دوسرے اسے اسلام میں کبھی بھی مستقل ادارے کی صورت حاصل نہیں ہوئی کیونکہ ہر دور کے اہلِ اقتدار کو اجماع میں اپنے لیے خطرہ نظر آیا۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ موجودہ جمہوری دور میں اسمبلیاں اور پارلیمان اس کی جگہ لے سکتی ہیں، جیسا کہ ایران میں کبھی علما کی ایک مجلس تشکیل دی گئی تھی لیکن ساتھ ہی اقبال یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا وہ اسمبلیاں جہاں عموماً اراکین اسلام کے اصولوں سے ناواقف ہوتے ہیں، اجماع کا نعم البدل ہو سکتی ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اجماع قرآن سے انحراف بھی کر سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ دوسرے سوال کا جواب نفی میں ہو گا، البتہ پہلے پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابن تیمیہ نے اجماع پر جو تنقید کی تھی وہ آج بھی عامۃ المسلمین کی ذہنی پسماندگی، قدامت پسندی و تقلیدی رویّے کی وجہ سے بڑی حد تک صحیح ہے۔ البتہ تعلیم یافتہ طبقے کے مشورے اور باہمی مذاکرے سے اجتہاد کا کام کیا جا سکتا ہے مگر علمائے دین جدید تعلیم یافتہ طبقے کے مخالف ہیں اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بیزار ہے ــــــ قیاس قانون سازی میں تمثیلی دلالت (Analogical Reasoning) کی شکل ہے جس کا استعمال ابو حنیفہ نے کیا۔ یہ اصول آریائی ذہن کی تجریدیت پر ٹھوس حقائق کا بند باندھتا ہے۔ ابوحنیفہ کے اسکول نے اس اصول کی روشنی میں تخلیقی مطابقت پذیری کا ثبوت دیا ہے لیکن بعد میں چل کر اس اصول کو بھی محض جامد سمجھ لیا گیا۔ قیاس جس فکری جرأت کا متقاضی ہے، اس کی ہمارے دور کے مجتہدین میں افسوس ناک کمی ہے۔ اقبال قاضی شوکانی کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اجتہاد کی اجازت خود حیاتِ محمدیؐ میں بھی صحابہ کو حاصل تھی، جس کا ثبوت یہ واقعہ ہے کہ معاذ کو حاکمِ یمن مقرر کرتے وقت پیغمبرؐ نے دریافت کیا کہ تم معاملات کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟ انھوں نے کہا، کتابِ خدا کی روشنی میں، پھر دریافت فرمایا اگر کتابِ خدا سے کسی معاملے میں ہدایت نہ ملے تو؟ جواب دیا پیغمبر خدا کی نظروں کا اتباع کروں گا،۔ سوال ہوا ’’اگر وہاں بھی نہ ملے؟تو۔ جواب میں کہا، تب میں اپنے فیصلے پر عمل کروں گا‘‘(۳۵)۔ دور انحطاط میں یہ کہا جانے لگا کہ اب بابِ اجتہاد بند ہو گیا ہے۔ یہ عذر تقلید اور روایت پرستی کا زائیدہ تھا جس نے اسلامی روح کو ترک کر دیا تھا۔ سرخسی نے دسویں صدی میں اس پر تنقید کی تھی اگر بابِ اجتہاد کے بند ہونے کا اعلان کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ علمائے عہدِ گزشتہ کو آج کے علما سے زیادہ آسانیاں حاصل تھیں تو یہ محض افسانہ طرازی اور لغویت ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعد والوں کے لیے علمائے ماسبق کے مقابلے میں اجتہاد آسان تر ہے۔ کیونکہ احادیث اور تفاسیر کا ذخیرہ روز بروز بڑھتا چلا گیا ہے اور تحقیق کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہ رہی(۳۶)۔ اقبال دورِ حاضر کی تقلید پرستی پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ بنیادی اصولوں اور نظامہائے فقہ میں کوئی چیز اجتہاد کو مانع نہیں۔ عہدِ جدید کے علما نئے علم اور تجربے کے ساتھ جرات مندانہ طور پر اسلام کے افکار کی از سرِ نو تشکیل کر سکتے ہیں۔ مگر ان کی مصلحت پسندی اور روایت بستگی انھیں اس جرات کی توفیق نہیں دیتی۔ اقبال کے خیال میں آج انسانیت کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ ۱۔ کائنات کی روحانی توجیہ ۲۔ فرد کی روحانی آزادی، اور ۳۔ انسانی سماج کے روحانی ارتقا کے لیے آفاقی اہمیت رکھنے والے اصول اقبال کے خیال میں یہ دولت صرف اسلام کو حاصل ہے۔ یورپ نے عظیم الشان تصوّری نظامہائے فلسفہ تعمیر کیے مگر یہ تصوریت مغربی زندگی کا غالب عنصر کبھی نہ بن سکی۔ خالص تفکر کسی قوم کے مزاج کو بدل نہیں سکتا۔ اسلام کے پاس تصوریت کی قوتِ محرکہ پہلے سے موجود تھی اس لیے اُس نے اپنی فعالّیت اور حرکت پذیری سے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ناممکن نہیں، اگر اسلام تشکیلِ نو کے بعد پھر پہلی ایسی فعالیت کے ساتھ دنیا کی رہنمائی کر سکے کیونکہ مسلمانوں کے علاوہ اور کسی کے پاس ختم نبوت کی دی ہوئی وہ توانائی نہیں جو روحانی اتحاد پیدا کر سکے(۳۷)۔ اسلام ہی اقبال کے خیال میں ایک ایسا مذہب ہے جو نظری اور عملی دونوں پہلوؤں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ایک طرف وہ سائنسی مشاہدے اور تجربے کا مبلغ ہے، دوسری طرف عمل کی آزادی اور خلاقیت کا نقیب۔ سائنس کی ترقی نے فکر کی دنیا میں انسان کو اپنے آپ سے متصادم کر دیا اور سیاست و معاشرت میں دوسرے افراد سے اس تصادم پر غلبہ سائنس کے لیے اس واسطے ممکن نہیں کہ وہ مقاصد کا کوئی نظام نہیں دے سکتی۔ مذہب کی اقدار کے تابع ہو کر ہی ان دونوں پہلوؤں میں تطابق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اسلام میں، نہ تو نفس کائنات کے لیے غیر ہے نہ کائنات نفس کی حریف، اس لیے مذہب ہی خود اجنبیت اور کائناتی اجنبیت کو دور کر کے حقیقت کے تمام پہلوؤں کو دوبارہ متحد و ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم سائنس سے مدد لے سکتے ہیں کیونکہ سائنس کو مقاصدِ مذہب کے تابع کرنا پڑے گا، اسی صورت میں روحانی جمہوریت اور اسلامی اشتراکیت کا نظام دنیا میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلام مغرب کے تصور قومیت کا بھی مخالف ہے اور کسی قوم کی سامراجیت کا بھی۔ اسلام اگر حدودِ مکاں سے بالاتر ہے تو عرب سامراجیت کے تصور سے بھی ماورا ہے۔ مستقبل میں اسلام کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہر مسلم قوم اپنے ورثے اور موجودہ تقاضوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی نئی تشکیل کرے۔ اس ترقی کے بعد ہی عالمِ اسلام آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی مجلسِ اتحاد بن سکتا ہے۔ یہ ترقی مادّی بھی ہو گی اور روحانی بھی اور مادی اور روحانی آزادی ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں(۳۸)۔ اقبال نے اسلامی افکار کی تشکیل نو کے لیے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ عقلی اور سائنسی ہے لیکن اس کی بنیاد مذہبی عقیدے، خصوصاً توحید کے آزادی بخش اصول پر ہے۔ توحید اپنے روحانی مضمرات اور عملی امکانات کے ساتھ ایسا عقیدہ ہے جو نفسِ محدود کو نفسِ لامحدود کی حضوری عطا کرتا ہے۔ یہ حضوری خود احتسابی کی وہ صلاحیت دیتی ہے جو نفس کو اپنے ماضی پر تنقید اور مستقبل کی نئی تعمیر کا اہل بناتی ہے۔ اقبال نے فلسفیانہ تصوّرات کو عقیدے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سائنسی نظر اور رویّے سے مدد لی ہے۔ ان کے فلسفے کے ارکان چار ہیں۔ ۱۔ توحید، یعنی نفس لامحدود کی خلاقیت و فعالیت پر وہ ایمان جو نفسِ محدود کو بھی اِن اوصاف سے مزیّن کرتا ہے۔ ۲۔ کائنات کا حرکی تصور جس میں زمان و مکان خدا کے اظہارات ہیں اور تخلیقی فعلیت کا آزاد مظہر۔ وہ کائنات کو حقیقی مان کر انسان کی فعلیت اور تخلیقیت کی آماجگاہ بنا دیتے ہیں۔ ۳۔ خودی جو آزاد انسانی انا کی فعالیت کا جدید تصور ہے۔ یہ تصوّر بے عملی کے تمام میلانات کارّد ہے۔ ۴۔ اجتہاد کا حرکی اصول جو اسلامی نظام کو جامد اور زوال آمادہ ہونے سے بچاتا ہے۔ اقبال نے مختلف مغربی فلاسفہ پر جو تنقید کی ہے اس سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور اپنے پیشرو مسلم مفکرین کی جن خامیوں اور ناکامیوں کی طرف اشارے کیے ہیں ان سے بھی صد فیصد اتفاق ممکن نہیں۔ اس کی بھی گنجائش ہے کہ ہم ان کے مخصوص فلسفیانہ تصورات، مثلاً نظریۂ زمان سے اختلاف رکھتے ہوں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اقبال سائنس کی ترقی سے یہ غلط امید وابستہ کیے ہوئے تھے کہ اس کے انکشافات انسان کو کائنات کی روحانیت کے تصور کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اقبال کے زمانے میں جیمز جینز اور اڈنگٹن کے جدید طبیعیات کی تحقیقات پر مبنی فلسفیانہ تصورات کافی مقبول تھے اس لیے انھوں نے یقینا ان کا اثر قبول کیا ہو گا۔ ان طبعیین کا یہ ادّعا تھا کہ مادّہ اپنے آخری تجربے میں توانائی یا دوسرے لفظوں میں روحانی قوت ہے اور جوہر کے اجزائے ترکیبی کی آزادیٔ حرکت ان میں ایک آزاد نفس کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اقبال نے وحی کے عالمگیر ہونے کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی بنیاد بھی اس تصور پر ہے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ خودی اور آزادی کا سرمایہ دار ہے۔ طبیعیات دانوں کے ان محتاجِ دلیل فلسفیانہ تصّورات کو آئن سٹائن ہی نے ردّ کر دیا تھا جس کے تصورِ زمان و مکان سے اقبال نے بڑی حد تک استفادہ کیا ہے۔ مسلم اقوام کی بیداری کی بنا پر انھوں نے اسلامی اقوام کی برادری اور بین الاقوامیت کا جو تصور پیش کیا تھا وہ بھی بعد کے برسوں میں بڑھتی اور مضبوط ہوتی ہوئی قومیت کی تحریکوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ ان کے جمہوریت اور اشتراکی معاشرے کے تصورات کو بھی غیر جمہوری اور غیر اشتراکی قرار دے کر رد کیا جا سکتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود تشکیلِ جدید کے لیے انھوں نے جو تصورات پیش کیے ہیں ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اقبال نے پہلی بار اسلامی فکر کو تغیر کے انقلاب آفرین تصور اور ارتقا کی روحانی جہات سے روشناس کرایا۔ آج بھی مسلم علما میں ایسے عمائدین موجود ہیں جو تغیر کے منکر ہیں یا اسلامی نظامِ فکر و معاشرت کو تغیر پذیر حالات کے ساتھ بدلنے کے مخالف ہیں۔ اقبال نے اسی جامد ذہن پر ضرب لگائی تھی لیکن تقلید اور قدامت پرستی نے اس ضرب کو سہ کر جیسے اقبال کے تصورات خودی و عشق سے مسلح ہو کر خود ان کے بعض تصورات کو انہی کے خلاف استعمال کیا۔ ان کی مخالفت عقلیت تنقید کو تو اپنا لیا گیا لیکن ان کے نظامِ فکر کی عقلی بنیاد اور طریقہ کار کو رد کر دیا گیا۔ اقبال پرستوں کی اکثریت آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں اُن کے حرکی تصورات اور اجتہاد کی انقلابی ضرورت کی سب سے بڑی حریف ہے۔ اقبال کی شاعری کی جذباتی اپیل نے انھیں اللہ کی رحمت کا تو مسلمانوں کے نزدیک مستحق بنا دیا لیکن ان کی فکر کی اجتہادی عقلیت کے لیے برکت نہ مانا گیا۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ خود فکرِ اقبال کے تناقضات سے تفصیلی بحث کی جائے نہ ان کے مثبت اور منفی اثراتِ مابعد کے جائزے کی گنجائش ہے۔ مختصر طور پر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ چند فروعات میں اختلاف کے باوجود ان کے پیش کردہ لائحہ عمل کے بنیادی اصول آج ان کے وقت سے بھی زیادہ لائق توّجہ ہیں۔ سرسید اجتہاد کے دروازے سے اس لیے ٹکرا کر رہ گئے کہ ان کے پاس جدید مغربی فلسفے، تاریخ اور سائنس کے تازہ آلات نہ تھے۔ اقبال کو یہ آلات میّسر تھے جن سے انھوں نے دروازہ کھول دیا۔ لیکن یہ کشادہ دروازہ آج بھی آنے والوں کو چشمِ تہی سے تک رہا ہے۔ اقبال نے علمائے دین کے لیے جدید سائنسی اور معاشرتی علوم سے آگاہی کی جو شرط لگائی تھی وہ اب بھی تشنۂ تکمیل ہے۔ ہمارے علما جدید علوم سے بے بہرہ، تغیر کے عمل سے ہراساں اور اسلام کی تشکیلِ نو میں فرد کی فعال آزادی کے منکر ہیں۔ ہماری وہ نسلیں جو جدید تعلیم سے بہرہ ور ہیں، دین کی روح سے ناآشنا ہیں، علما سے خوفزدہ ہیں اور قدامت پسندی کے اندیشے سے کمزور ہیں۔ جب تک یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ اشتراکِ فکر و عمل نہ کریں گے، جدید علم مذہب سے اور مذہب جدید علم سے ہم آہنگ نہ ہو سکے گا۔ اِس لیے اسلامی افکار کی تشکیلِ نو ممکن نہ ہو سکے گی۔ اس تشکیلِ نو سے وہ جہانِ تازہ پیدا ہو سکتا ہے جس کی بشارت اقبال نے دی تھی۔ ہم ابھی تک پرانی تعمیر کے سنگ وخشت کو بتوں کی طرح پوج رہے ہیں۔ ہم اُس بت شِکن جرأتِ فکر کی کمی ہے جو پرانی تعمیر کو ڈھا کر نئی تعمیر کر سکے۔ اقبال میں خود بھی شاید پوری طرح بت شکنی کا حوصلہ نہ تھا اسی لیے وہ اجتہاد کے چند بنیادی اصولوں سے بحث کر کے تفصیلات سے دامن بچا گئے۔ ان کی تازہ کار فکر قدیم پرستی سے پوری طرح نبرد آزما نہ ہو سکی، وہ خود اپنے اجتہادی کارنامے کو مسلم عوام و علما کے سامنے لاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ ان کی اُمیدیں جدید تعلیم یافتہ نسل سے وابستہ تھیں لیکن آزادی کے بعد کے حالات نے تقسیم کے دونوں طرف عقلیت کے بجائے رجعت، سائنسی رویّے کے بجائے تنگ نظری، ارتقائیت کے بجائے احیا پرستی کے قدم اور بھی مضبوط کر دئیے۔ اگر اقبال کے اس کارنامے کی توجیہ و تفسیر بھی کی گئی تو مخالف عقلیت متعصبانہ تنگ نظری، علیحدگی پسندی اور محدود قومی تقاضوں کے تحت ہی کی گئی۔ اقبال کی تشکیلِ نو کا منصوبہ آزاد، فعال اور خلّاق اسلامی ذہن و عمل کا منتظر ہے۔ اس کام کے لیے خود اقبال کی تجویز کردہ تشکیلِ نو کے نظام کی از سرِ نو تنقید کی ضرورت ہے۔ مجلہ: اقبالیات، لاہور،جنوری، ۱۹۹۲ء حواشی ۔۱The Reconstruction of Religious Thought in Islam, DELHI, 1975, p. 8 ۔۲۱ Ibid. p. 124 ۔۲۲ Ibid. p. 125 ۔۲۳ Ibid. p. 122 ۔۲۴ Ibid. p. 121 ۔۲۵ Ibid. p. 143 ۔۲۶ Ibid. p. 140, 141 ۔۲۷ Ibid. p. 143 ۔۲۸ Ibid. p. 151 ۔۲۹ Ibid. p. 152 ۔۳۰ Ibid. p. 152 ۔۳۱ Ibid. p. 153 ۔۳۲ Ibid. p. 165 ۔۳۳ Ibid. p. 148, 149 ۔۳۴ Ibid. p. 165, 178 ۔۳۵ Ibid. p. 191 ۔۳۶ Ibid. p. 178 ۔۳۷ Ibid. p. 179 ۔۳۸ Ibid. p. 160 ۔۲ Ibid. p. 43 ۔۳ Ibid. p. 160 ۔۴ Ibid. p. 56 ۔۵ Ibid. p. 35 ۔۶ Ibid. p. 53 ۔۷ Ibid. p. 40 ۔۸ Ibid. p. 40, 41 ۔۹ Ibid. p. 121 ۔۱۰ Ibid. p. 40 ۔۱۱ Ibid. p. 38 ۔۱۲ Ibid. p. 77 ۔۱۳ Ibid. p. 93 ۔۱۴ Ibid. p. 105 ۔۱۵ Ibid. p. 108 ۔۱۶ Ibid. p. 110 ۔۱۷ Ibid. p. 109 ۔۱۸ Ibid. p. 116, 123 ۔۱۹ Ibid. p. 85 ۔۲۰ Ibid. p. 18, 28 فلسفۂ اقبال کے مآخذ و مصادر ڈاکٹر وحید عشرت علامہ اقبال جیسے ہمہ جہت بڑے فلسفی کے فکری ماخذات کی تلاش ایک مشکل ترین کام ہے۔ خصوصاً جب کہ ان کی فکر تخلیقی بھی ہے اور ارتباطی بھی۔ تخلیقی ان معنوں میں کہ انھوں نے اپنے عہد کو اپنے فلسفہ ٔ خودی اور نظریہ ٔ حیات سے ایک نئی سمت دی اور ارتباطی اس مفہوم میں کہ انھوں نے اپنی فکر میں مشرق و مغرب کے فلاسفہ کے نتائجِ فکر کو اپنے تخلیقی نظریے کے حوالے سے ایک انتقادی نظر سے دیکھتے ہوئے ان میں ارتباط پیدا کیا اور حکم لگایا۔ تاریخِ فکر میں یا تو ایسے فلاسفہ ہوئے ہیں جنھوں نے حیات و کائنات کے بارے میں اپنی تخلیقی فکر کو اور سوچ کے نتائج کو پیش کیا یا پھر ایسے جنھوں نے اپنے سے پہلے کے فلاسفہ کے نتائجِ فکر میں ارتباط اور ہم آہنگی پیدا کی اور مختلف فلاسفہ کے نظریات اور حاصلاتِ فکر میں تطبیق پیدا کی، تاہم علامہ اقبال تاریخِ فکر کے ان معدودے چند فلاسفہ میں سے ہیں جنھوں نے خود بھی اپنا ایک فکری اور تخلیقی سوچ کا دائرہ متعین کیا، اپنی فکریات کے چند اساسی تصورات قائم کیے اور پھر مختلف فلاسفہ اور حکیموں کے نتائجِ فکر کو اس کی اساس پر پرکھا اور ان پر انتقاد کرتے ہوئے حکم لگایا۔ فکرِ اقبال کی یہی تخلیقی اور ارتباطی جہتیں ہیں جن کو نظرانداز کرنے سے ماخذات فکر اقبال تک رسائی میں دشواریوں کا سامنا ہے اور بادی النظر میں فلسفۂ اقبال کا مطالعہ کرنے والے کبھی تو فلسفہ ٔ اقبال کی خلّاقی جہت کونظر انداز کرجاتے ہیں اور کبھی اس کی ارتباطی جہت کی تفہیم درست طور پر نہ کرسکنے کے باعث فلسفۂ اقبال کو مختلف فلاسفہ سے خوشہ چینیوں تک محدود کردیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں روئیے فکرِ اقبال کی تخلیقی اور ارتباطی جہتوں میں امتیاز نہ کرسکنے کے باعث ہیں۔ فلسفۂ اقبال کی تخلیقی جہت میں غالباً ابھی تک کسی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ اقبال کے ہاں ایک پورا فکری نظام موجود ہے یا اقبال نے اپنے فلسفیانہ خیالات کی نظام بندی کی۔ دراصل یورپی فلسفہ میں افلاطون فلسفیانہ نظام بندی میں اوّلین شخص ہے تو ہیگل فلسفے میں نظام بندی کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ ہیگل کے بعد خالصتاً فلسفیانہ نہج میں اپنے افکار کی نظام بندی کسی اور نے نہیں کی۔ مارکس کی نظام بندی فلسفیانہ نہ تھی اس لیے ہم اسے فلسفیانہ نظام بندی میں شمار نہیں کرتے۔ ہیگل کے بعد ہمیں سب سے زیادہ فلسفیانہ نظام بندی اقبال کے ہاں نظر آتی ہے گرچہ اقبال نے اس کا کبھی دعویٰ نہیں کیا بلکہ بعض بڑے فلاسفہ کی طرح انھوں نے خود فلسفی ہونے سے بھی انکار کیا۔ شاید اس لیے بادی النظر میں ہمارا یہ کہنا بے جا یا مبالغہ آرائی میں بھی شمار ہو۔ مگر اقبال کے تصوّرِ حقیقت، کائنات کے روحانی ہونے، اقبال کے مردِ مومن یا فردِ مصدّقہ کے تصورات، خودی اور خودی کی سیاسی تعبیر، روحانی جمہوریت اور اس کی عمرانی تعبیرات میں ایک غیر منضبط فلسفیانہ نظام کے جواہر موجود ہیں جنھیں اسی طرح متحقّق ہونا ہے جس طرح سقراط کے شذراتِ فکر افلاطون کے ہاتھوں ایک فلسفیانہ نظام میں متحقّق ہوئے۔ اقبال پر شاید ابھی اس جہت سے کسی نے نہیں سوچا کیونکہ اقبال پر ہونے والا زیادہ تر کام ابھی تک تدوین، ترجمے اور توضیحات کا ہے۔ ابھی پورا اقبال متحقّق اور منکشف ہوکر سامنے نہیں آیا اس لیے کہ اقبال کے بعد خود ایک ایسے خلّاق اور ہمہ گیر ذہن کی ضرورت تھی جس طرح کا ذہن سقراط کے بعد افلاطون کی صورت میں پیدا ہوا۔ فلسفۂ اقبال کے ماخذات پر گفتگو کرنے سے قبل میں ایک بنیادی بات کہنا چاہوں گا وہ یہ کہ کوئی فلسفہ خلا میں نہیں اگتا۔ ہر فلسفہ اپنی کاشت اور نمو کے لیے ایک سرزمین، فضا اور ماحول چاہتا ہے۔ آپ نے اس چیز کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یونانی فکر دو ہزار قبل مسیح کی ایک خاص تہذیبی، عمرانی اور ثقافتی فضا میں نمو پذیر ہوئی اور جب یہ فضا معدوم ہوگئی تو یونان میں فلسفے کی برداشت و پرداخت ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔ پھر آپ سقراط اور افلاطون کے خیالات اور افکار کو بھی دیکھیں تو وہ ان معنوں میں طبع زاد یا اورجنل نہیں تھے کہ ان سے قبل ان خیالات کو کسی اور نے ظاہر نہ کیا تھا۔ سقراط اور افلاطون کے خیالات کا بھی اگر بغور مشاہدہ اور تجزیہ کیا جائے تو آپ کو ایلیائی مفکّر زینو فینیز کے تصوّر خدا میں افلاطون کے تصوّر خدا کی بازگشت سنائی دے گی۔ اسی طرح پارمینڈیز کی نظم ’’سچائی کا راستہ‘‘ اور ’’قیاس کا راستہ‘‘ افلاطون کے مکالمات کے لیے سرزمین فراہم کرتی ہے اور زینو فینیز اور پارمینڈیز کے تصوّراتِ وحدت الوجود، جس میں ہستی ایک ہے اور موجود ہے اور نیستی غیر حقیقی ہے اور اس کا کوئی وجود نہیں، افلاطون کے تصور اعلیٰ کی اساس ہے۔اسی طرح دوسرے فلاسفہ مثلاً فلاطونس کندی، فارابی، ہیگل وغیرہم کے تصوّرات میں سے بھی ان کے پیش رو فلاسفہ کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی فلسفی کی فکریات میں اس کے ماقبل کے فلاسفہ کے افکار و نظریات کے اثرات موجود ہوں تو اس سے اس کی فکر کے طبع زاد ہونے پر حرف نہیں آتا۔ اس لیے کہ تاریخِ فلسفہ کا اگر فکری ارتقا آپ کے پیشِ نظر ہے تو آپ یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ رزم گاہِ فکر میں افکار کی روئیں ایک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں اور ایک فلسفی اپنے سے ماقبل کے فلاسفہ کے افکار سے ہی غذا پاتا اور ان کی فکر کو اپنی جدّتِ طبع سے نئی صورت دے کر اپنے زمانے کے معروضی حالات کے مطابق پیش کرتا ہے۔ اس لیے اگر اقبال کی فکر پر قدیم فلسفیوں کی کوئی چھاپ ہے تو وہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور اس سے ان کی فکر کی طبع زاد کیفیت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا اقبال نے اپنے سے ماقبل فلاسفہ کے افکار کو محض تقلیدی اور تاریخی مناظر میں پڑھا اور پیش کیا ہے یا ان پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر ان سے اپنے نتائجِ فکر مرتب کیے ہیں۔ اگر آپ خطباتِ اقبال اور کلامِ اقبال کا بغور مطالعہ کریں تو ماقبل کے فلاسفہ پر اقبال کے انتقادی روئیے کا آپ کو شدت سے احساس ہوگا اور آپ محسوس کریں گے کہ اقبال نے ماقبل کے فلاسفہ سے اخذوقبول میں ایک علمی اور انتقادی رویہ اختیار کیا۔ لہذا وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اقبال کی فکر طبع زاد نہیں اور انھوں نے فلاں فلسفی سے خوشہ چینی کی لہٰذا ان کا فلسفہ اورجنل نہیں، معلوم ہوتا ہے وہ تاریخِ فکرِ انسانی کے ارتقا سے آگاہی نہیں رکھتے، مجرد طبع زاد کسی فکر کا تصوّر تاریخِ فلسفہ میں موجود نہیں اور تصوّرات کی مشعل کئی ہاتھوں سے ہوتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ لہٰذا اقبال ایک طبع زاد فلسفی تھے اور انھوں نے اپنے سے ماقبل کے فلاسفہ پر ایک انتقادی روئیے سے اخذوقبول کیا۔ بنیادی طور پر اقبال کا فلسفہ اپنے ماخذمیں مسلم فکری روایت کی ہی توسیع (Extention) ہے۔ اقبال کا فکر اپنی مسلم روایت سے نامیاتی طور پر منسلک اور جڑا ہوا ہے۔ اقبال کا تصوّر حقیقت، تصوّر الہٰ، تصوّر کائنات، تصوّرِ خودی اور تصوّرِ مردِ مومن خود مسلم فکریات میں اپنی جڑیں رکھتے ہیں وہ اپنے ہر تصوّر کی اساس خود بھی اسلامی فکریات اور مسلم تاریخ فلسفہ میں بیان کرتے ہیں اور اپنے تصوّرات کی جب وہ توثیق و تصدیق مغربی علوم و فنون اور فلاسفہ میں پاتے ہیں تو وہ انہیں بطور سند کے لاتے ہیں یا جس فلسفی کے افکار ان کی فکر کی اساسیات سے ٹکرائو کا رخ اختیار کرتے ہیں اس پر تنقید کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ افلاطون، ارسطو، ہیگل، مارکس اور متعدد مغربی حتیٰ کہ ان کے حلقہ ٔ اثر کے مسلم متکلمین مثلاً ابن عربی اور شعرا حافظ شیرازی وغیرہ پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ اپنی تخلیقی جہتِ فکر میں تو وہ حقیقت اور حیات و کائنات کے بارے میں اپنے نظریات پیش کرتے ہیں اور پھر اپنے نظریات کی سند اور توضیح کے لیے مغربی علوم اور فلاسفہ کی تحقیقات سے ائتلاف پیدا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر این میری شمل نے اپنی معروف کتاب ’شہپر جبریل‘ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال کے اس رویئے کو ظاہر کیا ہے کہ: ’’اس قسم کے تقابلی مطالعات کے ذریعے اقبال اسلامی روایات اور جدید مغربی تحقیقات میں ائتلاف پیدا کرتے رہے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مسلمان مغربی علوم و دانش سے آگاہ ہوں کیونکہ علم و دانش کے سلسلے میں جہاں مغرب اسلامی مدنیت کا ممنون رہا اور اب اگر مسلمان مغرب کے سائنسی علوم و فنون سیکھیں تو اس سے ان کا کوئی نقصان نہ ہوگا۔‘‘(۱) اقبال ان فلاسفہ میں سے نہیں ہیں جو تصوّرات و نظریات کی تجریدات میں بریکٹ ہوجاتے ہیں اور مجرّد منطقی اور لسانی جملوں کی تراش خراش کرتے ہیں۔ اقبال ایک انقلاب پرور فلسفی ہیں اور جیسا کہ مارکس نے کہا تھا کہ فلسفے کا بنیادی وظیفہ کائنات کی موضوعی تشریح سے کہیں زیادہ اپنے گرد کی معروضی صورتِ حال کو تبدیل کرنا ہے تو اقبال نے بھی اپنی فکری اپج سے ایک ایسا فکری نظام مرتب کیا جس کے پیشِ نظر اپنے عہد کی معروضی صورتِ حال کی کایا پلٹ تھی، ان کے تمام نظامِ فکر کی جہت عملی انقلابی اور متحرّک تھی۔ انھوں نے ہر اس خیال، تصوّر اور نظریے کو تنقید کے ذریعے رد کردیا جو جمود کا سبق دیتا تھا اور جو اقبال کو اس کے عہد اور خود مسلمانوں کی معروضی صورتِ حال کو تبدیل اور متحرک کرنے میں روک تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے اپنے مقالے فلسفہ ٔ اقبال کے نفسیاتی منابع (۲)میں ایک مفصّل تجزیے کے ذریعے بتایا ہے کہ ملّتِ مسلمہ کی صدیوں سے ٹھہری ہوئی زندگی، زوال آمادگی، خلافت کی بربادی اور سمرقند و بخارا اور اندلس کا سقوط اور برصغیر میں ہندوئوں کی مسلمانوں کو ڈکار جانے کی پالیسی اور انہیں ایک سیاسی قوت کے طور پر منظم نہ ہونے دینے کے حالات، وہ محرّکات ہیں جنھوں نے اقبال کو مضطرب کیا اور ان کے اندر ایک ہلچل بپا کی اور انھوں نے حیات و کائنات کے بارے میں ان تمام نظریات پر نقد کی جو حیات و کائنات کے حرکی تصوّر کے خلاف تھے، کائنات و حیات کے بارے میں علامہ کا تصوّر روحانی اور حرکی تھا، حرکت ان کے فلسفے کا بنیادی جوہر ہے۔ حرکت یا دینامی یا دینامت ایک ایسا اصول ہے جو فکرِ اقبال کی تشکیل کرتا ہے۔ فکر کے حرکی ہونے کے بارے میں اقبال لکھتے ہیں کہ: ’’اپنی اصل ماہیت کے اعتبار سے فکر کوئی ساکن چیز نہیں، یہ دینامی ہے اور اس کے اندر لامتناہی ایک حاضر حقیقت کے طور پر اس طرح پوشیدہ ہے جس طرح بیج کے اندر پورا درختِ مکنون ہوتا ہے چنانچہ فکر اپنے دینامی اظہارِ ذات کے لیے ایک کلیّت رکھتا ہے جو زمانی آنکھ کو قطعی مخصوصات کے ایک سلسلے کی صورت میں بتدریج ظہور پذیر ہوتا نظر آتا ہے۔‘‘(۳) علامہ اقبال کے حیات و کائنات کے اس حرکی فلسفے کا سب سے بڑا مخالف عقیدہ وحدت الوجود تھا۔ یہ عقیدہ وحدت الوجود جس کی عقلی اساس افلاطون کے نظریہ ٔ کائنات یعنی اعیان پر تھی جو افلاطونیت میں متصوّفانہ رنگ میں ایک ترکِ دنیا کے ایک جامد روئیے کی صورت میں پروان چڑھا جس نے اسلام کی جہانبانی اور جہان گیری کی فکریات سے منہ موڑ کر ترکِ علائقِ دنیا کے انفعالی روئیے کی تشکیل کی جس کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں بے عملی اور بے حرکتی اور دنیا فراموشی کے متصوّفانہ رجحانات کی پرورش ہوئی اور پوری اسلامی دنیا ایک مفلوج متصوّفانہ کیفیت میں گرفتار ہوگئی اور کائنات کی تفہیم، کائنات کی تعمیر و تشکیل میں ایک عملی کردار اور جہان گیری و جہان داری سے بیگانہ ہوکر محکومی کے شکنجے میں پھنستی چلی گئی۔ عرب دنیا کے مصنّف نجلا عزالدین نے اس صورتِ حال کا تجزیہ یوں کیا ہے کہ: ’’جو عذاب یا وبال عربی معاشرے پر باہر سے نازل ہوئے ان سے بھی زیادہ تباہ کن مصیبت یہ تھی کہ اس معاشرے کی اندرونی قوتِ تخلیق اور جوش مہمّات سرد پڑگیا۔ پرجوش ذہنی شوقِ تجسّس جو عہد ماسبق کی خصوصیت بنا ہوا تھا اور اس کے ساتھ حوصلہ مندی کی مسرّت، مذہبی عقائد اور مرکزیت کے سخت دبائو سے گھٹ کر رہ گئی، آزاد خیالی کو دیس نکالا نصیب ہوا اور اس کی جگہ روایت پرستی حکومت کرنے لگی، صداقت کی بے روک ٹوک جستجو پر الحاد و بے دینی کی مہر لگ گئی۔ اس سے پہلے عہد کے زیادہ بے باک اور جرات مند اشخاص گوشۂ گُمنامی میں جلاوطن کردئیے گئے۔ لوگوں کے دماغ بجائے اس کے کہ اپنی صلاحیتوں کو علمیت کی نئی راہیں نکالنے کے کام میں لاتے انہی مسائل کی شرحیں اور خلاصے تیار کرنے میں منہمک ہوگئے جو پہلے سے سب کو معلوم تھے۔‘‘(۴) یہ صورتِ حال تھی جس میں اقبال برگشتہ ہوئے اور انھوں نے بغاوت (Revolt) کی اور اپنے حرکی تصوّرات کے خلاف موجود ہر نظریے کو رد کیا۔ اس کی زد میں افلاطون کے بعد سب سے زیادہ ارسطو آیا، کیونکہ ارسطو کائنات کے قِدم کا قائل تھا۔ ڈاکٹر شمل کے الفاظ میں: ’’ارسطو کا تصوّرِ قدمتِ کائنات، اسلام کے تصوّرِ خدا کی ضد ہے کیونکہ اس دین کی رو سے خدائے زندہ و فعال ہی ازلی و ابدی ہے نہ کہ کائنات۔ اقبال زندگی کو بھی رواں دواں بتاتے ہیں۔ زندگی صرف حسن و توازن ہی نہیں وہ عمل اور قوت بھی ہے۔‘‘(۵) یونانی فکریات کے خلاف ڈاکٹر شمل کے بقول اقبال کی فکری اور ذہنی بغاوت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ: ’’اقبال کی نظر میں یونانی فلسفہ بے حد تجریدی اور قیاسی ہے اور اس کے تابع انسان سے کوئی پر ثمر کام انجام پذیر نہیں ہوسکتا، یہ غیر عملی فلسفہ ہے اور اس محرومِ عشقِ تصوّر کے ذریعے انسان خدا کا وصل بھی حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘(۶) اس ساری تفصیل سے مقصود آپ کو فکرِ اقبال کے بنیادی تصوّر تک رسائی فراہم کرنا ہے جو ان کی تمام تر فلسفیانہ تشکیلات میں اصول کے طور پر کارفرما ہے۔ وہ خدا کا ایک زندہ و فعال تصوّر ہے جس کا عین یہ کائنات نہیں بلکہ وہ اپنی ہستی اور ذات میں منفرد، بے مثال اور یکتا ہے۔ کائنات اور زندگی اس کی خلّاقی کے مظہر ہیں جو متحرک اور رواں دواں ہیں۔ ڈاکٹر عشرت حسن انور نے اپنی کتاب ’’اقبال کی مابعد الطبیعیات‘‘ میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ اقبال کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی ماہیت میں حرکی اور حد درجے فعال ہے۔ ان کے الفاظ میں: ’’حقیقت ایک حیاتِ لامتناہی ہے وہ خود رہنما، خود شعور توانائی یا قوّت ہے جو ہمیشہ فعال ہے اس کا ہر فعل بجائے خود ایک حیات ہے جو اپنی جگہ پر ایک خود رہنما توانائی ہے۔ خارج سے دیکھا جائے تو یہ افعال امکانی اشیا اور واقعات ہیں۔ بعض افعال اپنے نمو کے دوران میں خود شعور ہوگئے ہیں۔‘‘ (۷) اقبال کے تصوّرِ کائنات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ساری کائنات میں ایغوئیت کا ایک صعودی انداز نظر آتا ہے۔ اس ایغوئیت کا شعور سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات میں ہوتا ہے پھر اس معروضی یعنی خارجی فطرت میں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اس کے بعد اس کا شعور ذاتِ باری تعالیٰ میں ہوتا ہے جو تمام حیات کے اصول نہائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کا فلسفہ اس طرح ایغوئیت یا خودی کا فلسفہ ہے ان کے لیے تمام حقیقت کا محور ایغوئیت (Egohood) ہے۔‘‘(۸) خودی جسے عرفانِ نفس یا عرفانِ ذات بھی کہہ سکتے ہیں سقراط کے ہاں خود کو پہچانو ـــــــــ (Know Thy Self) کی صورت میں ملتا ہے اور من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے معروف مقولے میں بھی جس کا اظہار ہوا ہے۔ خود اقبال اپنے چوتھے خطبے میں لکھتے ہیں کہ: ’’مادہ دراصل مختلف کم تر درجہ کی خودیوں کی آماجگاہ ہے۔ جس سے اعلیٰ درجہ کی خودیاں ابھرتی رہتی ہیں۔ تاہم اس ظہور کو میکانکی اصولوں کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ خودی کوئی جامد چیز نہیں، یہ زمانی طور پر ترتیب پاتی ہے اور اپنے ہی تجربات سے تشکیل یاب ہوتی ہے۔‘‘(۹) فلسفے کے معروف استاد ڈاکٹر ابصار احمد علامہ اقبال کے تصوّر خودی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’فکرِ اقبال میں خودی سے مراد شعور کی وہ وحدت ہے جو خود شناس اور خود آگاہ ہو اور اپنی ذات اور اپنے مقاصد کا احساس یا شعور رکھتی ہو۔ لیکن یہاں خودی کا مطلب ہوش یا تمیز نہیں بلکہ وہ چیز ہے جس کا خاصا ہوش یا تمیز رکھنا ہے یا جس کی وجہ سے ایک انسان ہوش و تمیز رکھتا ہے۔ انسان میں یہی چیز جو خود شناس یا خود آگاہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ’’میں‘‘ کہتی ہے اس لیے اقبال اس کو ’’انا‘‘ یا ’’ایغو‘‘ یا ’’من‘‘ بھی کہتے ہیں۔‘‘(۱۰) یہ خودی علامہ اقبال کے نزدیک اپنے ارتقا کی تین منازل سے گزرتی ہے جس کو انھوں نے جاوید نامہ میں یوں بیان کیا ہے: شاہدِ اوّل شعورِ خویشتن خویش را دیدن بنورِ خویشتن شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے خویش را دیدن بنورِ دیگرے شاہدِ ثالث شعورِ ذاتِ حق خویش را دیدن بنورِ ذاتِ حق(۱۱) یعنی خودی کی پہلی منزل پر انسان خود اپنی ذات کے شعور میں خود پر شہادت طلب کرتا ہے، اپنے مقاصد کے تعّینات پرکھتا ہے اور اپنی ذات کی تنظیم کرتا ہے اور اپنے آپ کو خود اپنی ذات کے نور میں دیکھتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں اور اہلیتوں کی صورت گری کرتا ہے۔ پھر جب وہ اس منزل سے گذر جاتا ہے تو وہ دوسرے مرحلے میں شعورِ دیگرے یا تاریخ کے تناظر میں خود کو پرکھتا ہے اور اپنے اعمال و کردار پر تاریخ کی گواہی طلب کرتا ہے اس طرح تاریخ کے اوراق میں وہ اپنا مقام متعین کرتا ہے۔ تیسرے مرحلے پر وہ ذاتِ حق کو اپنے وجود پر گواہ بناتا ہے اور خدا کے حضور خود کو پیش کرتا ہے اور وہ خدا کی بندگی اور عبودیت کے مقاصد کے تحت اپنی خودی یا اپنی ذات کی تنظیم کرتا ہے۔ خودی کی ان تمام منازل کا مقصد اقبال یہ بتاتے ہیں کہ ؎ برمقامِ خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است(۱۲) یعنی انسان ایسے مقام پر پہنچتا ہے جہاں اس پر ذات اپنے پورے اعماق کے ساتھ عیاں ہوجاتی ہے۔ وجودیت کے بانی سورین کرکیگارڈ نے بھی ایسے ہی تین ادوار کا ذکر اپنے فلسفے میں کیا ہے جو کہ جمالیاتی، اخلاقی اور مذہبی ہیں۔ تاہم جس مقام تک اقبال کی فکر گئی ہے کرکیگارڈ کی اس تک رسائی نہ ہوسکی گرچہ اس کے جمالیاتی، اخلاقی اور مذہبی ادوار (۱۳) بھی انسانی شخصیت کی تعمیر کے مختلف مدارج کو منعکس کرتے ہیں۔ علامہ اقبال کے فکر و فلسفہ کے ماخذات کی توضیح کرتے ہوئے ہمیں ایک تو ان باطنی ماخذات کی طرف اشارہ کرنا ہے جو موضوعی ہیں اور جو ان کے داخل کا حصّہ ہیں اور جن کے بغیر اقبال، اقبال نہیں بن سکتے تھے اور دوسری طرف ان معروضی ماخذات کا سراغ دینا ہے جو ان کی فکریات کی تشکیل میں اساس بنے۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتاب ’’نقوشِ اقبال‘‘ میں اقبال کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والے ان تخلیقی عناصر کا بڑا عمدگی سے حوالہ دیا ہے۔ قاہرہ کی مشہور دانشگاہ دارالعـلوم میں ۱۹۵۱ء کو ایک لیکچر دیتے ہوئے انھوں نے فرمایا: ’’وہ تخلیقی عناصر جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، بڑھایا اور پروان چڑھایا وہ دراصل اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں حاصل ہوئے۔ یہ پانچ تخلیقی عناصر ہیں جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو زندہ ٔ جاوید بنایا۔‘‘(۱۴) ان پانچ عناصر کو گنواتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان میں سے پہلا عنصر جو اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں داخلہ کے بعد اوّل دن سے ہی حاصل ہوا وہ اس کا ’’ایمان و یقین‘‘ ہے۔ یہی یقین اقبال کا سب سے پہلا مربّی اور مرشد ہے اور یہی ان کی طاقت و قوّت اور حکمت و فراست کا منبع اور سرچشمہ ہے۔‘‘ اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان کے گھر میں موجود ہے مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم، اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں۔ میری مراد اس سے قرآن مجید ہے۔ تیسرا عنصر جس کا اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا دخل ہے وہ عرفانِ نفس اور خودی ہے اور چوتھا عنصر جس نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، پروان چڑھایا وہ اقبال کی آہ سحر گاہی ہے۔ آخر شب اقبال کا اٹھنا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا، پھر گڑگڑانا اور رونا۔ یہی چیز تھی جو اس کی روح کو ایک نئی نشاط، اس کے قلب کو ایک نئی روشنی اور اس کو ایک نئی فکری غذا عطا کرتی رہی۔ خود اقبال نے متعدد مقامات پر اس آہ سحر گاہی کی اہمیت کو اجاگر کیا مثلاً عطّار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی(۱۵) زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی(۱۶) اور پانچواں عنصر جو فکرِ اقبال کی اساس بنا وہ مثنوی رومی کا مطالعہ ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی یا علی میاں کے بیان کردہ تین عناصر تو موضوعی ہیں جب کہ قرآن اور مثنوی رومی، فکرِ اقبال کے معروضی تشکیلی عناصر اور منابع ہیں۔ دراصل قرآن کا گہرا مطالعہ اور اس پر مسلسل غور اقبال کے پاس وہ کسوٹی تھی جس پر وہ قدیم و جدید کے تمام فلسفوں اور نظریات کو پرکھتے رہے، چنانچہ جو چیز انہیں قرآن کی تعلیمات کے قریب محسوس ہوئی وہ انھوں نے مومن کی حکمت گم شدہ سمجھ کر قبول کرلی اور جو انہیں اس فکری دھارے سے ہٹی ہوئی اور کٹی ہوئی محسوس ہوئی اس کو انھوں نے نقد و جرح کے بعد مسترد کردیا۔ اقبال نے قرآن کی غوّاصی کی اور اس کو اپنی تمام تر فکریات کی اساس اور معیار بنایا۔ مطالعۂ قرآن میں وہ واقعہ بہت اہم ہے جو خود اقبال نے بیان کیا اور جس کے مطابق اقبال کو ان کے والد نے نصیحت کی کہ قرآن کو اس طرح پڑھو جیسے کہ وہ خود تم پر نازل ہورہا ہے۔ (۱۷) اس نے کتاب اللہ کے بارے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا اور انہیں کہنا پڑا کہ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف(۱۸) قرآن حکیم نے ہی اقبال کے ضمیر کے بعد ان کے فکر کی گرہیں کھولیں، چنانچہ وہ اپنی ساری فکر و شاعری کو ایک نکتۂ ایمان کی تفسیر سے تعبیر کرتے ہیں۔(۱۹) یہاں تک کہ انھوں نے اپنے لیے اس مفہوم میں بددُعا کی کہ اگر میں نے قرآن حکیم کی تشریح و تعبیر کے سوا اپنے فکر و شاعری میں کچھ کہا ہو تو مجھے روزِ قیامت حضور کا بوسۂ پا نصیب نہ ہو۔ یہ ایک ایسی بددُعا ہے، جو کوئی مسلمان اپنے لیے نہیں مانگ سکتا اور صرف اس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اقبال بھی اپنے فکر و شعر کا ماخذ قرآن ہی قرار دیتے ہیں بلکہ اپنے فکر و شعور کو اس کی تفسیر سے تعبیر کرتے ہیں: گر دلم آئینۂ بے جوہر است ور بحرفم غیرِ قرآن مضمر است اے فروغت صبحِ اعصار و دہور چشمِ تو بینندئہ ما فی الصدور خشک گرداں بادہ در انگورِ من زہر ریز اندر مَے کافور من روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا(۲۰) سیّد نذیر نیازی جنھوں نے تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ کا اُردو میں ترجمہ کیا، خطبات کے مقدمہ میں فکرِ اقبال کا سرچشمہ قرآن کو قرار دیتے ہیں: ’’دراصل اس فکر کا حقیقی سرچشمہ جیسا کہ پہلے عرض کر دیا گیا ہے، قرآن مجید ہے اور قرآن مجید سے ہی ہمیں ان سب مسائل یا مشکلات میں جو اس کی تشریح و توضیح میں پیدا ہوں، رجوع کرنا پڑے گا۔ صاحبِ خطبات نے اگر عہدِ حاضر کے الفاظ و مصطلحات سے کام لیا تو ہم گرفتارِ فرنگ کی خاطر، اس لیے کہ ان کا خطاب دراصل ہم سے ہے، اور ہماری وساطت سے جدید علمی دُنیا سے۔‘‘(۲۱) اقبال کے ایک اور ثقہ محقق ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے ڈاکٹر یوسف حسین خان کی کتاب ’’روحِ اقبال‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے: ’’اقبال کا کلام شاعرانہ پیرایۂ بیان میں اور جدید علوم کی روشنی میں سراسر قرآنِ کریم کی تشریح ہے۔ اگر مثنوی مولانا روم کو آٹھ سو برس قبل ’’قرآن در زبانِ پہلوی‘‘ سمجھا گیا تو ہم کلامِ اقبال کو بھی الف ثانی میں وہی رتبہ دے سکتے ہیں۔‘‘(۲۲) مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے بھی ’’خطباتِ اقبال پر ایک نظر‘‘ میں یہی حرفِ تصدیق کہا کہ: ’’اس میں شبہ نہیں ہو سکتا کہ خطبات جس فکر کے حامل ہیں، اس کا اصل سرچشمہ قرآن مجید ہے۔‘‘(۲۳) مولانا ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اپنی کتاب ’’اقبال اور قرآن‘‘(۲۴) میں اقبال کے اشعار و فکریات کے حوالے سے تو پوری دستاویزی تفصیل مرتب کر دی ہے کہ قرآن کس طرح فکرِ اقبال کو محیط کیے ہوئے ہے اور اگر پروفیسر محمد منور کی کتاب ’’برہانِ اقبال‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن کے اس عمل دخل سے آگاہی ہوتی ہے جو فکرِ اقبال میں جاری و ساری ہے۔ یہاں تفصیل کا یارا نہیں تاہم خود اقبال کے اپنے متعدد اشعار، خطوط، تقاریر، بیانات اور خطبات کے اقتباس سے اقبال کا یہ پیغام ملتا ہے کہ: گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن(۲۵) ان کی فکر کا محیطی شعور ہے کیونکہ وہ قرآن کو انسان کے اندر ان گوناگوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے جو اس کے اور کائنات کے درمیان قائم ہیں۔ قرآنِ حکیم کی حکیمانہ تفہیم اور اس کی غایت کو جاننے میں اقبال کو سب سے زیادہ تحریک مثنویٔ رومی سے ملی، چنانچہ مولانا جلال الدین رومیؒ کی ’’مثنوی مولوی معنوی‘‘ جسے پہلوی زبان میں قرآن سے نسبت دی گئی، فکرِ اقبال کا ایک اساسی ماخذ ہے، قرآنی بصیرت کے داخل میں اترنے کا راستہ اقبال نے مولانا رومیؒ کی اس مثنوی کو جانا کہ چو رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرارِ جاں من بہ دورِ فتنۂ عصر کہن اُو بہ دورِ فتنۂ عصر رواں من(۲۶) ایک پرفتن دَور جس میں عقائد و نظریات کی شکست و ریخت ہو رہی تھی اور مسلمانوں پر بیچارگی طاری تھی، مولانا رومی نے انسانی یقین و اعتماد کو بحال کیا اور عقائد و نظریات میں محکمی پیدا کی۔ یہ تشتّت، شکستہ حالی اور درماندگی فکر و نظرِ اقبال کے دَور کا بھی خاصہ تھی۔ مولانا رومی اور اقبال کی یہ ہم آہنگی اور فکری بلوغت، قرآن سے رغبت اور نسبت ان دونوں عالی دماغ لوگوں کے لیے نقطۂ اتصال ہے۔ تصوف یا صوفی جنھوں نے علم کو حجابِ اکبر بنا دیا تھا، قرآن کے اس فرمان کو بھول گئے کہ علم و حکمت تو اس کے نزدیک خیرِ کثیر ہے۔ مولانا رومیؒ اقبال کے لیے کشافِ اسرار و حکمتِ قرآن ہیں۔ وہ احکامِ قرآن کے ظاہر کی طرف جانے سے زیادہ قرآن کے باطن میں اترتے ہیں، حکمتِ دین ان کا خاص موضوع ہے، رومی سے اقبال کی اشتراکات میں عقیدئہ تقدیر سب سے اہم ہے۔ اقبال کے تصورِ خودی میں اختیار کا نظریہ ان کو رومیؒ سے ملا، کہ خودی اپنی تکمیل میں خدا کی رضا سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ اقبال اور رومی دونوں کا خیال ہے کہ تقدیر کے غلط مفہوم نے انسان کی خودی اور اخلاقی زندگی کو سخت نقصان پہنچایا۔ اقبال نے رومی کے تتبع میں انسانی آزادی اور اختیار کو نیا مفہوم دیا۔ دونوں بقا پرست اور ارتقا پسند اور تسخیر کائنات کا ولولہ دینے والے مفکر ہیں۔ اقبال کی فکری تشکیل میں مولانا رومی کے اثرات کے بیان میں عام طور پر یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اقبال کے وحدت الوجودی افکار مولانا رومی سے آئے ہیں۔ مولانا رومی کو وحدت الوجودی قرار دینے والوں کی ایک طویل قطار ہے مگر کیا مولانا رومی حقیقتاً وحدت الوجودی تھے، یہ بات پوری طرح مستحق نہیں رہی۔ متعدد ایسے شواہد بھی موجود ہیں جو ان کے وحدت الوجودی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ پروفیسر نکلسن جو اسلامی علوم و فنون کے محقق ہیں، لکھتے ہیں: ’’مولانا رومی کے متعلق لوگوں کو بادی النظر میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ وحدت الوجودی تھے۔ میرا بھی پہلے پہل یہی عقیدہ تھا، جب کہ میں تاریخ تصوفِ اسلامی سے اتنا واقف نہ تھا جتنا کہ اب ہوں۔‘‘(۲۷) بلکہ وہ تو منصور حلّاج کے بھی وحدت الوجودی ہونے کا منکر ہے۔ جس طرح فلسفۂ اقبال کی غایات کا تعین مولانا رومی کے اثرات کا نتیجہ ہے، اسی طرح فکرِ اقبال کی ہیئت کی تشکیل حضرت مجدد الف ثانی نے کی۔ وحدت الوجودی تصورات جو افلاطون، فلاطونس اور ابنِ عربی کے راستے سے مسلم سماج میں سرایت کرنے لگے جس کے نتیجے میں سکر غالب آ گیا، جس نے پوری مسلم سوسائٹی کو مفلوج کر کے رکھ دیا تو اس نظریے کے خلاف شدید ردّعمل ہوا۔ شوپنہار کے نظریۂ وحدت الوجود پر تنقید کرتے ہوئے ایک فلسفی نے کہا تھا کہ یہ عقیدئہ مہذب الحاد ہے۔ مسلم سماج میں اس مہذب الحاد نے دُنیا سے بے رغبتی، ترکِ دُنیا اور ترکِ عمل کی کاشت کی۔ اس سیم و تھور نے اسلامی ذہنوں کی زمین بنجر اور ویران کر کے مسلمانوں کو زوال میں دھکیل دیا۔ فکرِ اقبال کا ایک اہم تشکیلی ماخذ حضرت مجدد الف ثانی کی تعلیمات ہیں: ’’جنید بغدادی نے فنا میں مسلکِ ’’سکر‘‘ کے برخلاف مسلکِ ’’صحو‘‘ اختیار کر کے، مولانا رومی نے وحدت الوجود کی طرف اپنا عام میلان رکھنے کے باوجود خودی کی تعلیم دے کر اور شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی نے شیخ محی الدین ابنِ عربی کے نظریۂ وحدت الوجود کی تنقید اور تردید کر کے اس کے ردّعمل کے طور پر ’’نظریۂ عبدیت‘‘ پیش کر کے اس کی پرزور حمایت کی۔‘‘(۲۸) حضرت مجدد الف ثانی سے ان کے ذہنی اور قلبی تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے نیٹشے کے بارے میں کہا کہ اگر وہ حضرت مجدد کے عہد میں ہوتا اور اسے ان سے صحبت اور نسبت ہوتی تو وہ سرورِ سرمدی سے بہرہ یاب ہوتا: کاش بودے در زمانِ احمدے تا رسیدے بر سرور سرمدے(۲۹) حضرت مجدد الف ثانی سے انہیں وحدت الوجود کے نظریے کے خلاف شہادت ملی۔ حضرت مجدد نے ابنِ عربی کے نظریۂ وحدت الوجود کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی وجود اور ذات میں فرق روا نہ رکھ سکے۔ وہ وجود سے اوپر اُٹھ کر ذاتِ خدا تک نہ پہنچ سکے۔ یہی انھوں نے افلاطون کے بارے میں کہا کہ افلاطون وجود تک ہی گھر کر رہ گیا۔ ذات تک اس کی رسائی نہ ہو سکی۔ کیونکہ ذات وجود سے برتر اور الگ ہے، وہ بے مثل، یکتا اور منفرد ہے۔ حضرت مجدد نے فرمایا: ’’شیخ اجل شیخ محی الدین ابنِ عربی نے ان کی شرارت اور نقص و فساد کی حقیقت پر نظر نہیں ڈالی اور ممکنات کے حقائق کو حق جل و علا کی علمیہ صورتیں مقرر کی ہیں کیونکہ ان کی صورتوں نے حضرت تعالیٰ و تقدس کے آئینہ میں کہ خارج میں اس کے سوا کچھ موجود نہیں جانتا، انعکاس پیدا کر کے خارجی نمود و ظہور حاصل کیا ہے اور ان علمیہ صورتوں کو واجب تعالیٰ کی صفات اور شیئوں کی صورتوں کو غیر نہیں سمجھا ہے۔ اس لیے وحدت الوجود کا حکم کیا ہے اور ممکنات کے وجود کو واجب تعالیٰ و تقدس کے وجود کا عین کہا ہے۔‘‘(۳۰) ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے ’حضرت مجدد کا نظریۂ توحید‘ میں ابنِ عربی کے تصورِ وحدت الوجود کو یوں بیان کیا ہے: ’’وجود ایک ہے، وہی وجود ہے اور یہ وجود اللہ ہے ہر دوسری چیز فقط اس کا مظہر ہے، لہٰذا عالم اور الہ عین یک گر ہیں۔‘‘(۳۱) یعنی یوں کہنا درست ہو گا کہ ابنِ عربی نے وجود اور اللہ یا کائنات اور خدا کو ایک دوسرے کا عین تصور کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ’’ابنِ عربی نے عالم اور اللہ کی عینیت کو ذات اور صفات کی عینیت کی بنا پر تصور کیا یعنی جوہر اعراض کی عینیت کی بنا پر، عالم اس کی صفات کی محض تجلی ہے، بالفاظ دیگر تخلیقِ عالم ایک صورت ہے بروز کی۔‘‘(۳۴) مولانا جامی نے اپنے شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربی کے اس وحدت الوجود کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ’’وجود، وجودِ مطلق ہے اور مراتب وحدت میں یہ مرتبۂ لاتعین ہے، وحدت اپنے تعینات یا تنزلات میں پانچ مراتب سے گزرتی ہے۔ پہلے دو تنزلات علمی ہیں اور بعد کے تین تنزلات عینی یا خارجی ہیں۔ پہلے تنزل میں ذات کو اپنا شعور بحیثیت وجودِ محض حاصل ہوتا ہے اور شعورِ صفات اجمالی رہتا ہے۔ دوسرے تنزل میں ذات کو اپنا شعور بحیثیتِ متصف برصفات ہوتا ہے، یہ صفات تفصیلی کا مرتبہ ہے یعنی صفات کے بالتفصیل واضح ہونے کا، یہ دونوں تنزلات بجائے واقعی ہونے کے ذہنی یا محض منطقی تنزلات کے طور پر تصور کیے گئے ہیں، کیونکہ وہ غیرزمانی ہیں اور خود ذات و صفات کا امتیاز بھی صرف ذہنی ہے۔ اس کے بعد تنزلات عینی و خارجی شروع ہوتے ہیں۔ لہٰذا تیسرا تنزل تعین روحی ہے یعنی وحدت بصورتِ روح یا ارواح نزول کرتی ہے، وہ اپنے تئیں بہت سی ارواح میں تقسیم کر دیتی ہے۔ مثلاً فرشتے اس کا چوتھا تنزل تعین مثالی ہے، جس سے عالمِ مثالی وجود میں آتا ہے۔ پانچواں تنزل تعیّن جسدی ہے، اس سے مظاہر یا اشیائے طبعی ظاہر ہوتی ہیں، یہ مراتب ان استعدادوں کا تدریجی تحقق ہے، جو صفات میں مضمر تھیں۔‘‘(۳۳) اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تنزلات کا یہ سلسلہ افلاطون، فلاطونس اور ابنِ سینا کے نظریۂ صدور(۳۴) سے ملتا جلتا ہے۔ ابنِ سینا بھی اپنے سلسلہ ہائے عقول کے ذریعے خدا سے اس کائنات اور عالمِ مادی کا صدور کرتے ہیں اور کائنات اور خدا کو ایک دوسرے کا سایۂ ظل یا عین قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ فلاسفہ مرتبۂ وجود سے اوپر کسی ذات کے تصور سے قاصر نظر آتے ہیں، اس لیے کہ وجود تو ذات کا شہود ہے اور وجود مکان میں ہے، جب کہ ذات لامکان ہے۔ مکان میں محصور وجود اور لامکان ذات کس طرح ایک ہو سکتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی نے ان فلاسفہ کے اس پہلو پر گرفت کی اور کہا: ’’صانع عالم جل شانہٗ کے لیے عالم کے ساتھ ان مذکورہ نسبتوں میں سے کوئی نسبت بھی ثابت نہیں۔ ذات حق سبحانہ و تعالیٰ کا احاطہ اور قرب ذاتی نہیں بلکہ علمی ہے، جیسا کہ اصل حق شکر اللہ کے ہاں قرار پایا جا چکا ہے اور وہ سبحانہ و تعالیٰ کسی چیز سے متحد نہیں اور خدا، خدا ہے اور عالم، عالم ہے۔ وہ سبحانہ و تعالیٰ بے مثل و بے کیف ذات کو ذی مثل و ذی کیف کا عین نہیں کہا جا سکتا۔ واجب تعالیٰ کو ممکن کا عین نہیں کہہ سکتے اور قدیم حادث کا عین ہرگز نہیں ہو سکتا، ممتنع العدم ذات جائز العدم کا عین نہیں ہو سکتی۔ انقلابِ حقائق عقلاً اور شرعاً محال ہے۔ ایک کا حمل دوسرے پر بالکل ممتنع ہے۔‘‘ صنائع اور مصنوع کے درمیان دالیّت اور مدلولیت والی نسبت ہے۔ حضرت مجدد فرماتے ہیں: ’’عالم گرچہ کمالاتِ صفاتی کے آئینے اور اسما کے ظہور کی جلوہ گاہ ہے لیکن مظہر عین ظاہر نہیں اور ظل عین اصل نہیں جس طرح توحید وجودی والوں کا مذہب ہے۔‘‘(۳۶) ’’صاحب مثل اشیاء کے آئینوں میں نہیں سما سکتا اور کیفیات ممکنہ رکھنے والی اشیاء میں جلوہ گر نہیں ہوسکتا۔ الامکانی ذات مکان میں نہیں سما سکتی (۳۷) حضرت مجدد بھی وحدت الوجودی منزل سے گزرے، اپنے اس احوال کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’فقیر نے وحدت وجود کو قبول کر لیا تھا، تو وہ کشف کی بنا پر تھا، تقلید کی بنا پر نہیں تھا، اب اگر اس کا انکار کر رہا ہوں تو وہ بھی الہام کے باعث اور الہام انکار کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اگرچہ دوسرے کے لیے حجت بھی نہیں ہے۔‘‘(۳۸) یہاں حضرت مجدد نے تین باتیں ایسی کہہ دی ہیں جو کہ غور طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کا وحدت الوجودی عقیدہ تقلید کی بنا پر نہیں، بلکہ کشف کی بنا پر تھا۔ یعنی بری چیز تقلید ہے اور کشف علم کی ایک ایسی منزل ہے جس پر تمام وحدت الوجودی کھڑے ہیں اور اس سے اوپر کی منزل الہام ہے جو غیرانبیاء کے لیے علم کا ایک معتبر ترین ذریعہ ہے۔ الہام سے اوپر وحی ہے، وحی خدا کی طرف سے ہونے کی بنا پر غیرانبیا کے لیے حجت ہے اور اس کا اتباع لازم ہے جب کہ الہام غیرانبیاء کے لیے ہے۔ یہ انکار کی گنجائش تو نہیں رکھتا مگر اس کا اتباع دوسروں کے لیے شرطِ حجیت نہیں رکھتا۔ بہرحال اس سے ایک بات تو واضح ہوئی کہ کشفی وحدت الوجود سے الہامی وحدت الشہود ایک مقامِ بالا رکھتا ہے اور حضرت مجدد کا خدا کی ذات کو بے مثل قرار دینا اور شیٔ مکانی کو ذاتِ لامکانی کا عین ماننے سے انکار ایک منطقی صداقت رکھتا ہے۔ وحدت الوجود میں وصل کی جو شاعرانہ رومانیت پائی جاتی ہے، اس نے شعری روایت میں اس تصور کو اتنا پختہ کر دیا ہے کہ ہمارا شعر وجود سے اوپر اُٹھ کر لامکانی ذات تک رسائی کی اہلیت کھو بیٹھا ہے اور شاعری کی معراج اور انتہا وحدت الوجودی وصل قرار پائی ہے۔ مشرق و مغرب کی شاعری وجودِ مکان میں اسیر ہے، وہ عبودیت کے اعلیٰ ترین مقام کو نہیں پہچانتی۔ حضرت مجدد نے اس مقامِ عبودیت کو واضح کیا کہ: ’’مقامِ عبودیت تمام مقامات سے بلند ہے، کیونکہ یہ معنی مقامِ عبدیت میں اتم و اکمل ہے، محبوبوں کو ہی اس مقام سے مشرف کرتے ہیں اور محب ذوقِ شہود سے لذت لیتے ہیں۔ بندگی میں لذت اور اس سے اُنس محبوبوں کے ساتھ خاص ہے، محبّوں کا اُنس محبوب کے مشاہدہ سے ہے مگر محبوبوں کو محبوب کی بندگی میں اُنس نصیب ہوتا ہے۔‘‘(۳۹) اقبال کے فلسفۂ خودی میں حضرت مجدد کے اسی مقامِ عبودیت کی بازگشت ہے جہاں اقبال خودی کی بقا اور استحکام چاہتے ہیں، اس کی انفرادیت کا تحفظ چاہتے ہیں، اسے خدا کی ذات میں ضم کرنے کے حق میں نہیں بلکہ اسے مقامِ بندگی پر سرفراز دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے جو اللہ نے اپنے بندے کو عطا کیا۔ حضرت مجدد کے نزدیک بندے اور رب تعالیٰ کے درمیان حجاب صرف نفس ہے، اس لیے کہ بندے کا مطلوب خود اس کا اپنا نفس ہے، لہٰذا فی الواقع وہی حجاب بھی ہے۔ مجدد الف ثانی کے ہاں جو چیز تجلّی ذاتی ہے وہی اقبال کے ہاں مقامِ خودی ہے۔ مولانا جلال الدین رومی اور حضرت مجدد الف ثانی کے علاوہ بھی متعدد شخصیات ہیں، جنھوں نے فکرِ اقبال کی آب یاری کی۔ مگر تین شخصیات ایسی ہیں، جنھیں خاص طور پر بیان کیا جانا چاہیے، جو کہ عبدالکریم الجیلی، دوّانی اور عراقی ہیں۔ جلال الدین محمد ابن اسعد دوّانی(۴۰) دوّاں ضلع گازروں میں پیدا ہوئے۔ والد قاضی تھے، شیراز میں تعلیم حاصل کی اور فارس کے قاضی بنے۔ عربی میں فلسفے اور تصوف پر رسائل اور شرحیں لکھیں۔ فارسی میں ’’لوامع الاشراق فی مکارم الاخلاق‘‘ جسے اخلاقی جلالی بھی کہتے ہیں، لکھیـ۔ بڑی معروف کتاب ہے۔ نظریۂ زمان میں اقبال نے ان کی کتاب ’’زوّرا‘‘ کا حوالہ دیا ہے، اور ان کے نظریے کا تقابل پروفیسر رائس کے نظریۂ زمان کی طرف منتقل کیا ہے، جس کے مطابق: ’’فرض کیجیے ہم زمانے کا قیاس ایک محدود سے فاصلۂ مکانی پر کرتے ہیں، جس میں گویا حوادث کا ظہور اس طرح ہوتا ہے جیسے کوئی جلوس حرکت کر رہا ہو۔ علیٰ ہذا اس محدود سے فاصلۂ مکانی کو ایک وحدت ٹھہراتے ہیں، تو پھر بجز اس کے چارئہ کار نہیں کہ ہم اسے ذاتِ الٰہیہ کی تخلیقی فعالیت کی ایک بنیادی حالت قرار دیں۔ وہ حالت جس نے اس فعالیت کی جملہ حالتوں کو، جو یکے بعد دیگرے علیٰ التواتر رونما ہو رہی ہیں، اپنے احاطے میں لے رکھا ہے مگر پھر اس کے ساتھ ہی ملّا نے یہ تنبیہہ بھی کر دی کہ زیادہ گہری نظر سے دیکھا جائے تو تواتر کا وجود سرتاسر اضافی ہے۔ لہٰذا ذاتِ الٰہیہ میں پہنچ کر اس کی یک قلم نفی ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ذاتِ الٰہیہ کے لیے جملہ حوادث کی حقیقت ادراک کے ایک عملِ واحد کی ہے۔‘‘(۴۱) اقبال نے اپنے تصورِ زمان کے تسلسل میں جلال الدین دوّانی کے ساتھ ہی مشہور صوفی شاعر فخر الدین بن ابراہیم عراقی کا بھی ذکر کیا ہے جو فارسی کا صوفی شاعر تھا۔ حافظِ قرآن تھا اور ہمدان میں اپنا بچپن گزاراـ۔ وہ شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے مرید تھے اور ملتان میں چلہّ کشی کی اور صاحبِ حال صوفی بن گئے۔ خواجہ بہاء الدین زکریا کی صاحب زادی سے ان کا نکاح ہوا۔ ۲۵ سال اپنے شیخ کی خدمت کی۔ ایشیائے کوچک (قونیہ)، مصر اور شام کی سیاحت کی اور دمشق میں قیام کیا۔ ’’سبکِ عراقی‘‘ نامی کتاب ان سے منسوب ہے اور ’’کلیاتِ لمعات‘‘ ان کی معروف کتاب ہے۔(۴۲) اقبال نے عراقی کو بھی اپنے تصورِ زمان میں بڑی اہمیت دی۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مشہور صوفی شاعر عراقی نے بھی اس مسئلے کو کچھ اسی رنگ میں دیکھا ہے۔ عراقی کے نزدیک زمانے کے مراتب لاانتہا ہیں چنانچہ جیسا کسی ہستی کا خالص مادیت اور خالص روحانیت کے درمیان کوئی درجہ ہے، ویسا ہی اس کے زمانے کا۔ مثلاً مادی اجسام کا زمانہ! یہ گردشِ افلاک سے پیدا ہوتا ہے اور ہم اسے ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کر سکتے ہیں، لیکن اس زمانے کی ماہیت ہی کچھ ایسی ہے کہ جب تک پہلا دن نہ گزر جائے، دوسرا نہیں آ سکتا۔ پھر غیرمادی اجسام کا زمانہ بھی اگرچہ سلسلہ در سلسلہ ہے۔ مگر ان کا ایک ایک دن مادی اجسام کے زمانے سے اگر بتدریج آگے بڑھا جائے تو بالآخر زمانِ الٰہیہ کی نوبت آئے گی۔ جس میں مرور کا مطلقاً دخل نہیں، لہٰذا اس کے تجزیے کا سوال پیداہوتا ہے نہ اس میں تواتر اور تغیر کا۔ یہ زمانہ دیموت سے بالاتر ہے کیونکہ اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ خدا کی آنکھ جملہ مرئیات کو دیکھتی اور اس کے کان جملہ مسموعات کو سنتے ہیں، مگر ایک واحد اور ناقابلِ تجزیہ عملِ ادراک کی صورت میں، لہٰذا ذاتِ الٰہیہ کی اوّلیت زمانے کی اوّلیت کا نتیجہ نہیں بلکہ زمانے کی اوّلیت ذاتِ الٰہیہ کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید نے فرمانِ الٰہیہ کو اُم الکتاب ٹھہرایا ہے جس میں سارا عالم تاریخِ علت و معلول کی قیدِ تواتر سے آزاد ہو کر ایک واحد اور فوق الدیمومت آن میں جمع ہو گیا ہے۔‘‘(۴۳) عراقی کے زمان کے سلسلے میں اندازِ تحقیق نے مسئلۂ زمان میں اقبال کے فکر کے ماخذ کے طور پر کام کیا۔ عبدالکریم الجیلی پر تو علامہ اقبال نے ایک پورا مقالہ لکھا جو ان کے "Absolute Unity" کے نظریے کی توضیح کرتا ہے۔ الجیلی کا تصورِ انسانِ کامل جس پر کہ انھوں نے پوری کتاب لکھی: اقبال کے تصورِ مردِ مومن یا مردِ کامل کی اساس ہے۔ خود اقبال نے اس کے بارے میں کہا کہ: He combined in himself poetical imagination and philosophical genius. عبدالکریم الجیلی کے اقبال پر اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تو خود ایک دفتر چاہیے۔ ہم نے مسلم فکری روایت سے صرف چند نمایاں اور نمائندہ افراد کا تعارف کروایا ہے، ورنہ اقبال کی وسعتِ مطالعہ میں تو بیسیوں مسلمان مفکرین کے نام آتے ہیں، جن سے اقبال نے اپنے ذہن کو سیراب کر کے اور اسے جدید علوم و فنون کے مطالعہ سے دو آتشہ بنا کر پیش کیا۔ فکرِ اقبال کے معروضی ماخذات میں ان کا مطالعۂ مغربی علوم و دانش ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اسلامی علوم کے مطالعہ اور مغربی علوم سے اس کے تقابل، تصدیق اور توثیق اقبال کے ہاں عام ہے۔ اقبال اسلامی تہذیب کو مغربی تہذیب کا پیش رَو تصور کرتے تھے یا مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیبوں کی ایک ارتقا یافتہ صورت قرار دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اسلامی تہذیب رُک نہ جاتی اور وہ اپنے طور پر بڑھتی رہتی تو مغربی تہذیب کی طرح ہی بار آور ہوتی تاہم اسلامی تہذیب اپنے روحانی عناصر رکھنے کی بنا پر ان برائیوں سے پاک ہوتی جو مذہب کو تیاگ دینے سے اور سیاست اور مذہب کو الگ الگ خانوں میں بانٹ دینے سے پیدا ہوئے ہیں۔ اقبال مغربی تہذیب کے علمی کمالات، فنی و تکنیکی حاصلات کی تحسین کرتے ہیں، مگر مادیت تک محدود ہو جانے، مذہب اور اخلاق کو غیرضروری قرار دینے اور ریاست سے انھیں الگ تھلگ کرنے کے روّیے کے شدید نقاد بھی ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کی چکاچوند سے خیرہ نہیں بلکہ اس کے بطون میں اتر کر اس نازک شاخ کا بھی پتہ دیتے ہیں جس پر یہ تہذیب کھڑی ہے اور خود اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اقبال نے مغربی علوم و فنون کے حاصلات کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ایک خاص معیار پرانھیں پرکھ کر اخذ و قبول کیا ہے اور اپنے فکری حاصلات کی تصدیق اور دلیل کے طور پر انھیں پیش کیا ہے اور مغربی علوم کے حاصلات و نتائج کے اسلامی علوم و فنون اور اسلامی الہین، متکلمین اور فلاسفہ کے ہاں ماخذات کا سراغ دیا ہے۔ پوری مشرقی دُنیا میں اقبال کا مغربی علوم کا اندازِ تفلسف منفرد اور جداگانہ ہے۔ اقبال کے ہاں مغربی علوم کی طرف شکست خوردگی، معذرت خواہی یا اندھی تقلید کا رویہ نہیں بلکہ تنقیدی اور تخلیقی روّیہ ہے۔ اقبال نے ایک ایسے دَور میں یہ روّیہ اختیار کیا جب مغربی تہذیب کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور چند ممالک کے سوا پورا مشرق فرنگ کا سیاسی طور پر غلام تھا۔ ایسے میں کسی شخص کا مغرب کی طرف علمی سطح پر تنقیدی روّیہ اور مغربی تہذیب کے ماخذات کا سراغ دینا اور اس کے حسن و قبح پر حکم لگانا، ایک غیرمعمولی بات تھی اور پورے عالمِ اسلام میں یہ سعادت فکری سطح پر اقبال کے حصے میں ہی آئی۔ تاہم ان تمام باتوں کے باوجود یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ فکرِ اقبال کی تشکیل میں ان کے مطالعۂ علوم مغرب نے اہم کردار ادا کیا، مغربی علوم سے استفادے کے بارے میں ڈاکٹر عشرت حسن انور علامہ اقبال کی فکر کی دو منزلوں ماقبل وجدانی اور وجدانی کے بیان کے ساتھ کہتے ہیں۔(۴۵) کہ پہلی منزل یعنی ماقبل وجدانی میں اقبال اس روایتی طرزِ فکر کا اتباع کرتے ہیں جو ہمہ اوستی یا وحدت الوجودی تصورات سے قریبی تعلق رکھتا ہے اور اس دَور کے شکستہ و متزلزل مسلم معاشرے کو بہت اپیل کرتا تھا۔ لیکن یورپ کے سفر نے ان کے حوصلے اور فکر کو نئی توانائی اور ان کے عزم کو نئی قوت بخشی، ان میں ایک سیاسی ردِّعمل پیدا ہوا۔ اب وہ انفعالیت، سکون و جمود اور نفی ٔ ذات کے بجائے فعالیت، عمل اور اظہارِ ذات پر زور دینے لگے۔ انھیں اپنے خیالات میں تقویت برگساں، نیطشے اور میگ نیگرٹ کے مطالعے سے حاصل ہوئی اور اس طرح وہ ذات یا خودی کی حقیقت و اِرادے کی قوت کو بنیادی اہمیت دینے لگے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا ناممکن نہیں کہ فکرِ اقبال پر مغربی علوم کے ایک حد تک اثرات ہیں۔ انھیں اپنے نتائجِ فکر تک پہنچنے میں مطالعۂ علومِ مغرب نے معاونت کی اور ان کی صورت گری میں مدد دی۔ خود اقبال کے ہاں مغربی علوم و فنون سے استفادے کے شواہد بڑی صراحت سے ملتے ہیں، مگر اقبال کا مغرب سے استفادہ جزو میں ہے، اصل میں نہیں، اصول میں وہ مشرقی بلکہ صحیح معنوں میں اسلامی فکریات کی روایت کی ہی توسیع ہیں۔ تاہم جزئیات کی ترکیب و تشکیل اور توضیح میں مغربی علوم سے ان کے ہاں استفادے کی روش موجود ہے، چنانچہ علامہ کہتے ہیں: ’’میری عمر زیادہ تر مغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے اور یہ نقطۂ خیال ایک حد تک طبیعتِ ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اس نقطۂ نگاہ سے حقائقِ اسلام کا مطالعہ کرتا ہوں۔‘‘(۴۶) مے از میخانۂ مغرب چشیدم بجانِ من کہ دردِ سر خریدم نشستم با نکویانِ فرنگی ازاں بے سوزِ تو روزے ندیدم(۴۷) یہاں اقبال نے اپنی فکر کی منہاجِ مغربی پر صاد کیا ہے کہ مطالعۂ علوم اور مطالعۂ اسلام میں وہ کس طرح سرایت کیے ہوئے ہے۔ ان کی طرزِ فکر یا طریقۂ تفلسف کس قدر مغربی ہے، اس خط کے مطالعہ سے عیاں ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ مغربی علوم و فنون سے اقبال متاثر نہیں ہوئے یا انھوں نے کچھ حاصل نہیں کیا، ایک خلافِ واقعہ اور خلافِ فطرت بات ہے، اقبال کہتے ہیں: ’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، مرزا غالب، عبدالقادر، بیدل اور ورڈزورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی، بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں اور ورڈزورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچا لیا۔‘‘(۴۸) متذکرہ صدر اقتباس میں جہاں یہ اعتراف کیا ہے کہ ورڈزورتھ نے اسے دہریت سے بچا لیا اور ہیگل اور گوئٹے نے انھیں اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں رہنمائی دی، وہاں انھوں نے مرزا غالب اور عبدالقادر بیدل کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ مغربی شاعری کی اقدار کو اپنے اندر سمولینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کو زندہ رکھنے کا حوصلہ اور داعیہ انھیں ان سے ملا۔ اقبال کی ساری فکر اور طرزِ منہاج کو یہ اقتباس سموتا ہے کہ اقبال نے مغربی شاعری اور فلسفے کی روح کو اپنے اندر سمویا اور اشیاء کی اصلیت اور حقیقت جاننے کے لیے مغربی فلسفے سے استفادہ کیاـ۔ مگر انھوں نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مشرقیت کو بھی مسلم فکری روایت کے ساتھ رابطے سے زندہ رکھا اور ان کے حقائق تک رسائی حاصل کی جو مشرقیت یعنی قرآن اور اسلام کا مطلوب تھیـ۔ مغربی فکر سے ان کے ہاں مرعوبیت اس وجہ سے نہیں تھی کہ وہ خود مغربی فکر کے اسلامی سوتوں اور ماخذات تک رسائی حاصل کر چکے تھے بلکہ اس لیے کہ وہ مغربی تہذیب کو اسلامی تہذیب کی ہی توسیع (Extension) تصور کرتے تھے۔ اپنے ایک مقالے ’’اسلام اور علومِ جدیدہ‘‘ میں وہ اس طرف اشارہ کرتے ہیں: ’’بیکن، ڈیکارٹ اور مل یورپ کے سب سے بڑے فلاسفہ مانے جاتے ہیں جن کے فلسفہ کی بنیاد تجربہ اور مشاہدہ پر ہے لیکن حالت یہ ہے کہ میکارڈ کا میتھڈ (اصول) امام غزالی کی احیاء العلوم میں موجود ہے، اور ان دونوں میں اس قدر تطابق ہے کہ ایک انگریزی مؤرخ نے لکھا ہے کہ اگر ڈیکارٹ عربی جانتا ہوتا تو ہم ضرور اعتراف کرتے کہ ڈیکارٹ سرقہ کا مرتکب ہوا ہے۔ راجر بیکن خود ایک اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا۔ جان اسٹوارٹ مِل نے منطق کی شکلِ اوّل پر جو اعتراض کیا ہے بعینہٖ وہی اعتراض امام فخر الدین رازی نے بھی کیا اور مِل کے فلسفہ کے تمام بنیادی اصول شیخ بو علی سینا کی مشہور کتاب ’’شِفا‘‘ میں موجود ہیں۔ غرض یہ کہ تمام وہ اصول جن پر علومِ جدیدہ کی بنیاد ہے، مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔ بلکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ نہ صرف علومِ جدیدہ کے لحاظ سے بلکہ انسان کی زندگی کا کوئی پہلو اور اچھا پہلو ایسا نہیں جن پر اسلام نے بے انتہا روح پرور اثر نہ ڈالا ہو۔‘‘(۴۹) اگر اقبال اسلامی تہذیب کی ہی یورپی تہذیب کو توسیع تصور کرتے تھے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے اسلامی تہذیب تک اکتفا کیوں نہ کیا اور مغربی علوم و فنون اور فلاسفہ سے تعرض کیوں کیا۔ اس کا ایک تو جواب یہ ہے کہ اقبال اسلامی تہذیب کی یورپی تہذیب کو توسیع تصور کرتے تھے، اس لیے یورپی فلاسفہ اور مفکرین کے نتائجِ فکر سے استفادے کو اپنی تہذیبی کڑیوں کی بازیافت کا عمل قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ مغربی علوم و فنون کے حاصلات کو ایک معیار کے ساتھ قبول کرنے سے صدیوں سے ٹھہری ہوئی، اسلامی تہذیب میں تحرکہ پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ حکمتِ مغربی، حکمتِ اسلامی سے غیر نہیں۔ اس لیے اس کو قبول کرنا، اس گیپ یا خلا کو پورا کر سکتا ہے جو مسلم تہذیب کے عروج اور اس کے موجودہ زوال کے درمیان پیدا ہو گیا ہے۔ دوسرے ان کے مخاطبین چونکہ مغرب کی علمی زبان کو سمجھنے والے تھے، لہٰذا ضرورت اس امر کی تھی کہ خود ان کی زبان میں بات کی جائے۔ تیسرے اقبال سمجھتے تھے کہ اگر اسلامی تہذیب بھی ارتقا کوش رہتی تو وہ لازمی طور پر علوم و فنون اور ٹیکنالوجی میں یہی نتائج پیدا کرتی، جو مغرب نے کییـ۔ پھر مختلف علوم و فنون کے بہت سے حاصلات نے قرآن کے تصورات کی تصدیق و تائید کی اور یوں جب جدید نظریات نے اسلام کی صداقت پر صاد کیا تو اقبال نے ان نتائج کے حوالے سے دُنیا کو بتایا کہ اس کا اصل منبع کہاں ہے۔ حال ہی میں اقبال اکادمی پاکستان نے ڈاکٹر محمد معروف کی ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے:"Iqbal and his Contemporary Western Religious Thought" جس میں انھوں نے بیسیویں صدی کے ان فلاسفہ اور ان کے مکاتبِ فکر کا مطالعہ پیش کیا ہے، جن کے اثرات کا سراغ اقبال کے فلسفے میں ملتا ہے۔ ڈاکٹر معروف کے مطابق اس کتاب سے بہت سے نہفتہ گوشے عیاں ہوں گے اور اقبال کی فکر کا مقامِ عالمی فکر میں متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کتاب میں انھوں نے جدید مغربی فلاسفہ سے اقبال کے تقابلی مطالعہ میں ایم ایس رشید (M. S. Roschid) جیسے لوگوں کے ان خیالات کی تردید کی ہے کہ اقبال کا تصورِ خدا ہیگل کے تصورِ مطلق سے مستعار تھا اور ایسے لوگوں کے خیالات کو بے معنی اور متعصبانہ قرار دیا ہے۔(۵۱) کیونکہ ہیگل کا تصورِ مطلق اقبال کے حیّ و قیوم خدا سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا۔ مطالعۂ اقبال میں یہ کتاب بڑی اہم ہے جس میں مغربی فکر کے ساتھ اقبال کی فکری ہم آہنگی کو فلسفیانہ اساس پر دیکھا گیا ہے۔ جن میں ہیگل، تصوریت پسندوں، کانٹ، فطریت، نتائجیت، حقیقت پسندی (Realism) اور بعض سماجی فلاسفہ کا تقابلی مطالعہ موجود ہے۔ میں مغربی فلاسفہ میں سے چار نمائندہ فلاسفہ کا ذکر کروں گا جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے اقبال پر زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں نٹشے، برگساں، گوئٹے اور نیوٹن میرے پیشِ نظر ہیں۔ گوہر فلسفی اپنے مرتبے اور مقام کے حوالے سے الگ الگ مقالے کا تقاضا کرتا ہے، گرچہ کانٹ اور دانتے بھی کسی حد تک قابلِ توجہ ہیں کیونکہ دانتے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی ڈیوائن کامیڈی کی طرز پر اقبال نے جاوید نامہ لکھا، ڈیوائن کامیڈی اقبال کے پیشِ نظر ضرور رہی، لیکن خود ڈیوائن کامیڈی بھی اسپین میں لکھے جانے والے معراج ناموں کی طرز پر لکھی گئی۔ دانتے سے ہٹ کر بھی اسلامی اَدب میں متعدد معراج نامے موجود تھے پھر حضورؐ کا معراج خود اقبال کے لیے ایک انسپائر کرنے والی چیز زیادہ تھی۔ دانتے سے اقبال نے نہ تو اسلوب لیا اور نہ ہی ذہنی سفر کے احوال، تاہم اگر اقبال اپنے ذہنی سفر کی داستان رقم کرتے وقت دانتے کو نظرانداز کرتے تو ایک کمی رہ جاتی۔ اقبال کا یہ کمال ہے کہ مشرق کے ساتھ ساتھ مغرب کے ادب پر بھی چونکہ نظر رکھتے تھے، لہٰذا انھوں نے دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ اس کے بعض ادبی اسالیب کی تحسین کی۔ اس طرح اقبال نے عمانویل کانٹ کے فکری حاصلات کو مذہب کے اثبات کے لیے استعمال کیا کیونکہ کانٹ نے تنقید عقلِ محض میں عقلِ انسانی کی حدود متعین کرکے اس کا حد سے بڑھا ہوا زور توڑنے کی سعی ٔ بلیغ کی تھی اور مذہب کو عقلِ محض کی گرفت سے آزاد کیا تھا۔ ایسی عقل جو جزی ٔ سطح پر اشیاء کا اثبات تو کرتی ہے مگر حقیقت کو اس کے کل میں دیکھنے سے قاصر ہے۔ اقبال اٹھارویں صدی کے جرمنی کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دور میں جرمنی میں بھی عقلیت کو مذہب کا چونکہ حلیف تصوّر کیا جاتا تھا لیکن پھر تھوڑے ہی دنوں میں جب یہ حقیقت آشکارا ہوگئی کہ عقائد کا اثبات ازروئے عقل ناممکن ہے تو اہلِ جرمنی کے لیے بجز اس کے چارہ ٔ کار نہ رہا کہ عقائد کے حصّے کو مذہب سے خارج کردیں مگر عقائد کے ترک سے اخلاق نے افادیت پسندی کا رنگ اختیار کیا اور اس طرح عقلیت ہی کے زیر اثر بے دینی کا دور دورہ عام ہوگیا۔ یہ حالت تھی مذہبی غوروفکر کی جب کانٹ کا ظہور جرمنی میں ہوا اور پھر جب اس تنقید عقلِ محض سے عقلِ انسانی کی حدود واضح ہوگئیں تو حامیانِ عقلیت کا وہ ساختہ پرداختہ طومار جو انھوں نے مذہب کے حق میں تیار کررکھا تھا ایک مجموعہ ٔ باطل ہوکر رہ گیا۔ لہٰذا ٹھیک کہا گیا کہ کانٹ ہی کی ذات وہ سب سے بڑا عطیہ ہے جو خدا نے جرمنی کو عنایت کیا۔ اقبال کانٹ کے تشکّک کا غزالی کے تشکّک سے موازنہ کرتے ہیں اور عقل اور مذہب کے جدل میں ان سے سند لاتے ہیں اقبال کے فکر میں غزالی اور کانٹ کے عقل کی ماہیت اور تحدیدات کے حاصلات کا سراغ موجود ہے۔ جہاں تک نیٹشے کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کے مردِ بزرگ سے اقبال کے مردِ مومن کو کوئی علاقہ ہے تو یہ اقبال اور نیٹشے دونوں سے عدم آگاہی کی چغلی کھاتا ہے۔ کیونکہ جب اقبال نیٹشے کو خود مجذوب فرنگی کہتے ہیں اور مقامِ کبریا سے اس کے آگاہ نہ ہونے کی بات کرتے ہیں تو وہ نیٹشے کی روحانی اور فکری و اماندگی کو آشکار کرتے ہیں۔ پھر اقبال جب یہ کہتے ہیں کہ کاش نیٹشے حضرت مجدّد کے عہد میں ہوتا، ان سے اسے تعلق ہوتا تو وہ سرور سرمدی کی حقیقت سے شادکام ہوتا۔ نیٹشے سے خیالات میں جزوی توارد اور ہم آہنگی اقبال کے اس سے اثرات کی غمازی نہیں کرتی۔ ڈاکٹر نکلسن کے نام خط میں ڈاکٹر اقبال نے خود اس صورتِ حال کو واشگاف کردیا: ’’وہ انسانِ کامل کے متعلق میرے تخیّل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خلطِ مبحث کرکے میرے انسانِ کامل اور جرمن مفکّر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کرلیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً ۲۰ سال قبل انسانِ کامل کے متصوّفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو نیٹشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ نیٹشے بقائے شخصی کا مفکّر ہے جو شخص حصولِ بقا کے آرزومند ہیں وہ ان سے کہتا ہے کیا تم ہمیشہ زمانے کی پشت کا بوجھ بنے رہنا چاہتے ہو۔ اس کے قلم سے یہ الفاظ اس لیے نکلے ہیں کہ زمانے کے متعلق اس کا تصوّر غلط تھا۔ اس نے کبھی مسئلہ زمان کے اخلاقی پہلو کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ بخلاف اس کے میرے نزدیک بقا انسان کی بلند ترین آرزو، ایک ایسی متاع گراں مایہ ہے جس کے حصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمل کی تمام صورو اشکالِ مختلفہ کو جن میں تصادم و پیکار بھی شامل ہے، ضروری سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ان سے انسان کو زیادہ استحکام و استقلال حاصل ہوتا ہے چنانچہ اسی خیال کے پیشِ نظر میں نے سکون وجود اور اس نوع کے تصوّف کو جس کا دائرہ محض قیاس آرائیوں تک محدود ہو، مردود قرار دیا ہے۔ میں تصادم کو سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں حالانکہ اس باب میں نیٹشے کے خیالات کا مدار غالباً سیاست ہے(۵۲)‘‘۔ غالباً اقبال کے اپنے اس تجزیے کے بعد یہ کہنا بدنیتی ہوگا کہ اقبال نے مرد مومن کا تصوّر نیٹشے سے لیا ہے اس لیے کہ فوق البشر اندھی میکانکی قوت کا نام ہے جب کہ مردِ مومن وحی سے مرصّع اور خداپرست انسان ہے، جس کی انتہا عبدیت ہے۔ اقبال کی نظر میں اطلاقی دنیا میں مردِ مومن کا تصوّر حضور کی ذات ہے جو وحی الٰہی سے مستنیر، اخلاقی رفعت کی مالک اور انقلاب پرور ہے اور جو اپنے عمل سے نئی اقدارِ حیات نشور کرتی ہے جب کہ نیٹشے کا فوق البشر عملی تعبیر میں ھٹلر تھا جو اقتدار اور قوت کا حریص ہے اور اس کے لیے سب کچھ کرگزرنے پر تیار ہے۔ اقبال کا مردِ کامل نوع انسانی کے لیے رحمت لاتا ہے جب کہ نیٹشے کا فوق البشر تباہ کن اندھی قوت ہے جو پوری دنیا کو اکھاڑ پچھاڑ کر تباہی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ عبدالرحمن طارق مرحوم نے اپنی کتاب ’’جہانِ اقبال‘‘ میں اقبال اور نیٹشے کی تحریروں کے تقابل سے دونوں کے ذہنی بُعد کو بڑی عمدگی سے واضح کیا ہے(۵۳)۔ ڈاکٹر این میری شمل نے اپنے جرمن ہونے کے ناطے سے اقبال اور گوئٹے کے بڑی مہارت سے فکری ڈانڈے ملائے ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’گبریل ونگ‘‘ جس کا اردومیں ڈاکٹر محمد ریاض نے ’’شہپر جبریل‘‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے(۵۴)، میں اقبال اور گوئٹے کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ وہ گوئٹے کے تصوّرِ خدا کہ ’’خدائے سرور سراپا حرکت، سعی اور ابدی عمل میں ہے‘‘ کو اقبال کے تصوّرِ خدا سے ہم آہنگ کرتی ہیں۔ دوسرے گوئٹے ارتقائے حیات کے لیے ابلیس اور شر کے وجود کو ضروری بتاتا ہے تو اقبال بھی شر اور ابلیس کی افادیت پر صاد کرتے ہیں۔ بلا شبہ اقبال نے گوئٹے کی ایک وہبی شاعر اور علومِ مشرقیہ کے طالب علم کی حیثیت سے تحسین کی ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ خود گوئٹے کی جب آرزوئوں اور فکری غایات کا مرکز و محور مشرقیات میں ہے تو پھر گوئٹے کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک تفہیمِ کار کی رہ جاتی ہے جو اقبال کو اس کی ہی اصل مشرق کی طرف لے جاتے ہیں تو پھر اقبال کی گوئٹے کی بجائے اپنی فکریات اور آرزوئوں کو مشرق سے وابستہ کیوں نہ تصوّر کیا جائے۔ اقبال تو گوئٹے کی توصیف ہی اس لیے کرتے ہیں کہ وہ مشرقیات کا دلدادہ ہے۔گوئٹے کی مغرب سے مایوسی اور مشرق کی طرف رجوع اقبال کے لیے اہم بات رہی ہے۔ خود گوئٹے کے اپنے دیوانِ مغرب کو المانوی ادبیات کی تاریخ میں ’’تحریکِ مشرقی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’خواجہ حافظ کے علاوہ گوئٹے اپنے تخیّلات میں شیخ عطّار، سعدی، فردوسی اور عام اسلامی لٹریچر کا بھی ممنون احسان ہے(۵۵)۔‘‘ اب اقبال کے الفاظ میں جب گوئٹے نے جرمن ادبیات میں عجمی روح پیدا کرنے کی کوشش کی تو ظاہر ہے کہ گوئٹے کی فکریات میں بھی عجمی فکریات کے سراغ سے بھی اقبال آگاہ تھے۔فکری اسالیب میں جرمن فلاسفہ اور اقبال میں توارد کی حد تک شمل کی بات درست ہے۔ اقبال کے فکری سوتوں سے گوئٹے کا کوئی علاقہ نہیں۔ گوئٹے کی ادبیات کی تحسین سے ڈاکٹر شمل گوئٹے کی فکر کے ماخذ اقبال ہونے کی سند نہیں لاسکتیں۔ اقبال کے فکری ماخذات میں برگساں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ یقینا برگساں کے نتائجِ علمی فکرِ اقبال کی تنقیح میں گہرے اثرات رکھتے ہیں۔ برگساں نے بیسویں صدی میں زندگی کی مادی تعبیر، عقل پر ضرورت سے زیادہ زور اور جسم و روح کی ثنویت کو رد کرکے اقبال کو تقویت دی۔ کیونکہ برگساں فکری طور پر ثبوتی اور تعمیری تھا۔ بقول بشیر احمد ڈار مرحوم: ’’اقبال کو برگساں کی جس بات نے فریفتہ کیا وہ یہ تھی کہ برگساں انسانی شعور کی زیادہ گہری سطحوں کا پرزور حامی تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہ حیاتِ انسانی کے روحانی پہلو اور وجدان کے اس کام کا بڑا قائل تھا جو حرکی تجربے کو معرضِ وجود میں لاتا ہے(۵۶)‘‘۔ ’’برگساں نے ٹھوس حقائق کی بنیادوں پر ارتقا کے اس نظریے کی وضاحت کی جس کے بارے میں مغرب کو امید تھی کہ یہ مذہب کے تابوت میں آخری کیل تھی(۵۷)۔‘‘ برگساں سے ملاقات کے دوران جب اقبال نے ’’زمانے کو برا مت کہو کیونکہ زمانہ تو میں خود ہوں‘‘ والی حدیث اسے سنائی تو وہ حیرت زدہ رہ گیا(۵۸)۔ برگساں نے سائنس اور مادیت کے خلاف جو مورچہ قائم کیا اس میں اقبال کے اپنے فکر کے لیے بڑی توانائی تھی۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اقبال اور برگساں کے ذہنی قرب و بعد میں بڑی عمدگی کے ساتھ ان تحریکات کا سراغ دیا ہے جو اقبال اور برگساں میں مشترک تھیں اور ان دونوں کے ذہنی فاصلے بھی عیاں کیے ہیں۔ مادیت پرستی سے فاصلہ زندگی کی میکانکیت میں تحدید اور زمان کے عدم استمرار سے اقبال برگساں سے قریب ہوئے کیونکہ برگساں سے یہ ان کا ذہنی قرب تھا اور برگساں سے ان کا ذہنی بُعد اقبال کے الفاظ میں یہ تھا کہ: ’’برگساں کے نزدیک شعوری تجربات محض ماضی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ماضی جو حال کے ساتھ ساتھ چل کے انجام کار حال ہی میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو نظر انداز کرجاتا ہے کہ شعور کی وحدت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ مستقبل کو رواں رکھتا ہے۔ زندگی خیال کے عملی صورت میں آنے کا نام ہے اور بغیر کسی مقصد کے خیال کا عملی صورت میں آنا، خواہ یہ عمل شعوری ہو یا غیر شعوری ناقابلِ توضیح ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے ادراک اور اساس کے عمل کا تعین بھی ہمارے فوری مقاصد کے تحت ہی ہوتا ہے(۵۹)‘‘۔ اسی طرح برگساں کے نزدیک امتداد یا استمرارِ زمان بے مقصد ہے جبکہ اقبال کے نزدیک زمان بامقصد ہے کیونکہ اگر ارتقاء کے سامنے کوئی منزل نہیں ہے تو وہ ارتقا قطعاً بے معنی ہے۔ آئن سٹائن سے اقبال کا تعلق نظریۂ اضافیت کے حوالے سے بنتا ہے کیونکہ نظریہ ٔ اضافیت کا سب سے اہم پہلو مکان و زمان کا انکشاف ہے اس لیے کہ ہماری زندگی کا امتداد اور جو فاصلہ ہم نے زمانے کے وسیع میدان میں طے کیا ہے بالکل غیر اہم ہوجاتا ہے۔ اقبال نے نظریہ ٔ اضافیت کی تعریف کی اور اس کی قدر و قیمت متعین کرتے ہوئے کہا: ’’فلسفیانہ نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس نظریے کی دو خوبیاں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نظریۂ اضافیت نے اس خیال کی نفی کی ہے، جس کی رو سے کلاسیکل طبیعیات کو مادیت کا قائل ہونا پڑتا تھا اور جس کے تحت جوہر کی حیثیت وقوع فی المکان سے زیادہ نہیں رہتی۔ آئن اسٹائن نے فطرت کے خارجی وجود سے انکار نہیں کیا، اسی وجہ سے جدید طبیعیات میں جوہر کی حیثیت یہ ہوئی کہ یہ باہم دگر مربوطِ حوادث کا ایک نظام ہے، شیٔ نہیں کہ انہی متغیر حالتوں کے ساتھ زمانے میں مرور کرے۔ اس نظریہ کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کی رو سے مکان کا انحصار مادے پر ہیـ۔ لہٰذا آئن اسٹائن کے نقطۂ نظر سے کائنات کا یہ تصور درست نہیں کہ اس کی مثال ایک ایسے جزیرے کی ہے جو لامتناہی مکان میں واقع ہے، اس لیے کہ مکان بجائے خود متناہی ہے۔ گو غیرمحدود بایں صورت اس کے ماوراء مکان محض کا کوئی وجود ہی نہیں، گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اگر مادہ نہ ہوتا تو کائنات بھی سمٹ کر ایک نقطہ پر آ جاتی۔‘‘(۶۰) اقبال کو آئن اسٹائن کے اس نظریۂ افادیت میں عینیت نظر آئی، جس سے مادہ پرستی کی نفی ہوتی تھی، تاہم بعض امور میں علامہ کو شدید اختلاف بھی تھا چونکہ اقبال برگساں کی مانند حقیقتِ زمان کے قائل ہیں، اس لیے آئن اسٹائن کے اس انکشاف سے جو بظاہر زمانے کا ابطال کرتا ہے، انھیں اتفاق نہیں۔ اس نظریے سے زمانے کا وجود بھی غیرحقیقی ہو جاتا ہے، بہرحال اقبال نے نظریۂ اضافیت کے مثبت پہلو کی ستائش کی اور اس کے منفی پہلوئوں پر نقد کی۔ ہمارے اس مضمون کے تفصیلی مطالعے سے جو حقیقت نظر آتی ہے، وہ یہ کہ اقبال کا ذہن مقلدانہ نہ تھا بلکہ تخلیقی اور ارتباطی تھا۔ انھوں نے اپنے نظریات قائم کیے اور اپنے نظریات کی توثیق و تشریح کے لیے قدیم و جدید مفکرین کے نتائج کو اپنے ماخذات کے طور پر استعمال کیاـ۔ تاہم وہ مذہب کا عہدِ جدید میں دفاع چاہتے تھے۔ اس کی جدید زبان میں توضیح و تعبیر اِن کے پیشِ نظر تھی۔ لہٰذا جدید ذہن کو جدید پیرایۂ اظہار میں بات سمجھانے کے لیے انھوں نے جدید مفکرین کے حاصلاتِ فکر سے کھلی آنکھوں سے استفادہ کیا اور اس سلسلے میں مشرق و مغرب میں سے کسی کے تعصّب کی پٹی اپنی آنکھوں پر نہ باندھی۔ ایک روشن ضمیر اور روشن دماغ مفکر کی طرح انھوں نے ہر اچھی بات کو قبول کیا اور ہر غلط بات پر تنقید کی اور یوں نوعِ انسانی کے فکر کی شمع فروزاں رکھنے کے لیے اپنی اعلیٰ ترین دماغی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔ تاہم اگر کسی واحد چیز کو ان کے نتائجِ فکری کا منبع قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ قرآن ہی ہے، کیونکہ اقبال کے باقی تمام حاصلاتِ ذہنی تو اسی ایک نکتۂ ایمان کی تفسیر تھے۔ (یہ مقالہ ہفتۂ اقبال کے سلسلے میں یکم نومبر ۱۹۸۷ء کو ایف۔سی کالج، لاہور میں پڑھا گیا۔) مجلہ: اقبالیات، اقبال اکادمی پاکستان لاہور۔ جنوری، ۱۹۹۳ء حواشی ۱۔ شمل، ڈاکٹر این میری / ڈاکٹر محمد ریاض مترجم ’’شہپر جبریل‘‘، گلوب پبلیکیشنز، لاہور ۱۹۸۷ئ، ص ۳۹۳۔ ۲۔ قریشی، ڈاکٹر اشتیاق حسین، ’’فلسفۂ اقبال کے نفسیاتی منابع‘‘، خطبۂ سالانہ، ۱۹۶۶ئ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، ملاحظہ ہو آخری حصہ۔ ۳۔ اقبال، علامہ، سر محمد/ سیّد نذیر نیازی مترجم، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۳ئ، ص ۹۔ ۴۔ نجلا عز الدین/محمود حسین مترجم، عرب دُنیا بحوالہ اقبال کا علمِ کلام، سیّد علی عباس جلالپوری، مکتبۂ فنون، لاہور ۵۔ شمل، ڈاکٹر این میری، شہپرجبریل، ص ۳۹۲۔ ۶۔ ایضاً، ص ۳۹۲۔ ۷۔ انور ڈاکٹر عشرت حسن/ڈاکٹر شمس الدین صدیقی مترجم، ’’اقبال کی مابعدالطبیعیات‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور ۱۹۷۷ئ، ص ۸-۹۔ ۸۔ ایضاً، ص ۹۔ ۹۔ اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۱۰۶۔ ۱۰۔ ابصار احمد، ڈاکٹر، ’’اسلامی تعلیم‘‘، جولائی-اگست، ۱۹۷۳ئ، ص ۱۴ ۱۱۔ اقبال، جاوید نامہ، ص ۱۴۔ ۱۲۔ ایضاً۔ ۱۳۔ جاوید، قاضی، وجودیت، نگارشات، لاہور، ص ۳۸۔ ۱۴۔ ندوی، مولانا ابوالحسن، نقوشِ اقبال، ادارئہ نشریاتِ اسلام، کراچی، ص ۵۵۔ ۱۵۔ اقبال، کلیاتِ اقبال، اُردو، ص ۳۴۸۔ ۱۶۔ ایضاً، ص ۳۳۲۔ ۱۷۔ نذیر نیازی، سیّد، ’’اقبال کے حضور‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۱ئ، ص ۶۰-۶۱۔ ۱۸۔ اقبال، کلیاتِ اقبال، اُردو، ص ۳۷۰۔ ۱۹۔ ایضاً، ص ۲۷۱۔ ولایت پادشاہی علم اشیاء کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں ۲۰۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘، فارسی، ص ۲۰۔ ۲۱۔ اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، مقدمہ۔ ۲۲۔ خان، ڈاکٹر یوسف حسن ’’روحِ اقبال‘‘، مقدمہ۔ ۲۳۔ سعید احمد اکبر آبادی، مولانا، ’’خطباتِ اقبال پر ایک نظر‘‘، اقبال اکادمی پاکستان، ص ۱۹۔ ۲۴۔ غلام مصطفیٰ خان، ڈاکٹر، ’’اقبال اور قرآن‘‘ اقبال اکادمی پاکستان لاہور (یہ کتاب اشعارِ اقبال اور آیاتِ قرآنی کے تقابل پر مبنی ہے۔) پروفیسر محمد منور ’’برہانِ اقبال‘‘، اقبال اکادمی پاکستان دیکھیے: اقبال بحضورِ قرآن اور دوسرے مقالات۔ ۲۵۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘، فارسی، ص ۱۲۳ ۲۶۔ ایضاً، ص ۹۳۸ (ارمغانِ حجاز) ۲۷۔ نکلسن، The Concept of Personality in Sufism ۲۸۔ عبدالباری، ندوی، ’’تجدید تصوف و سلوک‘‘، طبعٔ اوّل، ۱۹۴۹ئ، ص ۱۶۰ ۲۹۔ اقبال، ’’کلیاتِ اقبال‘‘، فارسی، ص ۷۴۱۔ ۳۰۔ مجدد الف ثانی، مکتوباتِ امام ربانی، ص ۵۸۔ ۳۱۔ فاروقی، ڈاکٹر برہان احمد، حضرت مجدد کا نظریۂ توحید، مقبول اکادمی، لاہور۔ ۳۲۔ ایضاً، ص ۷۴۔ ۳۳۔ ایضاً، ص ۷۴-۷۵۔ ۳۴۔ وحید عشرت، ڈاکٹر، ابنِ سینا کا تصورِ ہستی، (غیر مطبوعہ مقالہ)، شعبۂ فلسفہ، جامعہ پنجاب، لاہور میں مباحث صدور دیکھیے۔ ۳۵۔ مجدد الف ثانی، مکتوباتِ امام ربانی، ص ۱۱۱۔ ۳۶۔ ایضاً۔ ۳۷۔ ایضاً، ص ۱۱۳۔ ۳۸۔ ایضاً، ص ۱۱۴۔ ۳۹۔ ایضاً، ص ۵۸۔ ۴۰۔ عبداللہ، ڈاکٹر سیّد (مرتب) متعلقات خطباتِ اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۷۷ئ، ص ۹۴۔ ۴۱۔ اقبال، تشکیلِ جدید، ص ۱۱۴۔ ۴۲۔ عبداللہ، ڈاکٹر سیّد، متعلقات خطباتِ اقبال، ص ۱۱۴۔ ۴۳۔ اقبال، تشکیلِ جدید، ص ۱۱۴-۱۱۵۔ ۴۴۔ لطیف احمد شیروانی، ص ۷۰، Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Iqbal Academy Pakistan, 1977. ۴۵۔ انور، ڈاکٹر عشرت حسن، اقبال کی مابعد الطبیعیات۔ ۴۶۔ عطاء اللہ، شیخ، اقبال نامہ، شیخ محمد اشرف، ج ۱، ص ۴۔ ۴۷۔ اقبال، کلیاتِ اقبال، فارسی، ص ۹۲۹۔ ۴۸۔ صدیقی، ڈاکٹر افتخار احمد (مترجم)، شذراتِ اقبال، بزمِ اقبال، لاہور، ص ۱۰۵۔ ۴۹۔ معینی، عبدالواحد، متالاتِ اقبال، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۶۳ئ، ص ۲۳۹، ۲۴۰۔ ۵۰۔ ڈاکٹرمحمد معروف، Iqbal and his Contemporary Western Religious Thought, Iqbal Academy Pakistan, 1987. ۵۱۔ ایضاً، (Introduction) ۵۲۔ طارق، عبدالرحمن، جہانِ اقبال، ملک دین محمد دارالاشاعت، لاہور، ۱۹۴۹ئ، ص ۱۹-۲۰۔ ۵۳۔ ایضاً، دیکھیے، مقالہ: اقبال اور نٹشے۔ ۵۴۔ شمل، ڈاکٹر این میری، شہپر جبریل، گلوب پبلشرز، لاہور ۱۹۷۷ئ، ص ۴۰۶-۴۰۷۔ ۵۵۔ اقبال، پیامِ مشرق، دیباچہ، ص (ز)۔ ۵۶۔ بزمِ اقبال (مرتب)، مقالہ ’اقبال اور برگساں‘ از: بشیر احمد ڈار، ص ۱۰۳۔ ۵۷۔ ایضاً، ص ۱۰۴۔ ۵۸۔ جاوید اقبال (جسٹس ڈاکٹر)، زندہ رود، جلد سوم، شیخ غلام علی اینڈ سنز لمیٹڈ، لاہور، ۱۹۸۴ئ، ص ۴۹۶۔ ۵۹۔ بزمِ اقبال لاہور (مرتب)، صحیفۂ اقبال، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۸۷ئ، ص ۲۹۹-۳۰۰۔ ۶۰۔ اقبال، تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ، ص ۴۵-۴۶۔ ۴ عقل اور عشق ڈاکٹر میر ولی الدین علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن بندئہ تخمین و ظن! کرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکۂ کائنات علم مقام صفات عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات، عشق حیات و ممات علم ہے پیدا سوال، عشق ہے پنہاں جواب انسان کامل کے لئے مقصود زندگی حق تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں، ان کی عبادت، ان سے استعانت، ان کی یافت، ان کے شہود کے سوا کچھ نہیں، اِنَّ صَلـوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّـہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ خوا ہم کہ ہمیشہ در ہو اے تو زیم خاکے شوم و بزیر پائے تو زیم مقصود من خستہ ز کونین توئی ازبہر تو میرم و برائے تو زیم (سحابی استر آبادی) حق تعالیٰ کی ذات کا علم جیسے کہ وہ ہیں، کنہ و حقیقت کے لحاظ سے تو انسان کے محدود ذہن کے لئے قطعاً ناممکن ہے، یہ غیب مطلق ہے اور مقطوع الاشارات، اس کے علم و عرفان کی تمنا فضول ہے، چنانچہلاَیُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْماً اسی طرف اشارہ ہے اور اسی مقام کی نسبت حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ (۱) اور مفکرین کو تہدید فرمائی تھی کہ لاتفکروا فی اللّٰہ فتھلکوا(۲)نہ علم کے ذریعہ، نہ عشق کے ذریعہ اور نہ کسی اور ذریعہ ذات الٰہی کی ماہیت کا عرفان انسان کو ہو سکتا ہے۔ اور بقول شیخ اکبرؒ ’’کُلُّ النَّاسِ فِیْ ذَاتِ اللّٰـہِ حُمَقَائ‘‘ ذات حق کے علم میں ہم تمام کے تمام احمق اور جاہل ہیں۔ کنہ ذاتش رہ سوال بہ بست عقل حیران و نطق لال نشست جَلَّ مَنْ لَا ٓاِلـٰہ اِلَّا ھُو لَا تَقُلْ کَیْفَ ھُوَ وَلَا مَاھُو (رومی) ذات کا علم اس طرح ناممکن قرار پانے کے بعد جو چیز قابل حصول رہ جاتی ہے وہ وحدت ذاتیہ حق کا علم ہے۔ ان کے قرب و معیت و احاطت ذاتیہ کا علم ہے۔ ان کی ظاہریت و باطنیت کا علم ہے، ان کی اولیت و آخریت کا علم ہے، وہ علم ہے جو ہمیں حق تعالیٰ سے مانوس کرتا ہے، ان کا شوق سین یمیں پیدا کرتا ہے، ان کے احکام کا علم ہے، اس قول ، عمل حال یا اعتقاد کا علم ہے، جو حق تعالیٰ کو محبوب و پسندیدہ ہے۔ کیا یہ علم جس کو زبان سنت میں علم نافع سے تعبیر کیا گیا ہے، مجرو عقل انسانی عطاء کر سکتی ہے؟ اقبال بصیرت محمدیہ کا اتباع کرتے ہوئے پیر رومیؒ کی تلقین کے مطابق صاف صاف کہتے ہیں کہ مجرو عقل انسانی اس عرفان کے قابل نہیں۔ اس عقل کا عطاء کردہ علم ’’محض تخمین و ظن ہے‘‘ ’’سراپا حجاب ہے‘‘ ’’رہزن‘‘ ہے۔ کعبۂ حقیقت سے ناآشنا اور صنم خانۂ مجاز کا پرستار ہے۔ عرفان حقیقی حاصل ہوتا ہے ایمان سے، ’’عشق سے‘‘، یہ عشق ’’سراپا حضور‘‘ ہے، عشق ’’تماشائے ذات‘‘ ہے، عشق ’’ام الکتاب‘‘ ہے، عشق ’’سکون و ثبات ‘‘ ہے، اس کے عطاء کردہ علم میں جزم و یقین ہے، گرمی ہے، حیات ہے ، شرار لا الہٰ کی تابش ہے، لذت تخلیق ہے، سوز و ساز ہے، ذوق نظر ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عقل کی آنکھ حقائق ایمانی کی یافت سے اسی طرح قاصر ہے جس طرح مادر زاد اندھے کی، آنکھ والوں کے ادراک سے، تو پھر عقل کا معروض کیا ہے؟ اس کا زندگی میں مقصود کیا اور کام کیا؟ یہ آلہ کس غرض کے لئے وضع ہوا ہے اور اس کے فعل کی ماہیت کیا ہے؟ اس کی ہدایت کیا ہے اور غایت کیا؟ عشق جو ’’خود شناسی و خدا شناسی‘‘، کا ذریعہ ہے اصل میں ہے کیا؟ اس کی ماہیت اصلی کیا ہے، اور طریق عمل کیا؟ اس کا عطا کردہ علم و عرفان کیا ہے؟ اس کی پرواز کہاں تک ہے اور اس کے حدود کیا ہیں؟ یہ ہیں چند سوال جن کا جواب ’’پنہاں‘‘ نہیں آشکارا مقصود ہے! فلسفی اقبال سے نہیں عارف اقبال سے مطلوب ہے! اس ’’لذت شوق‘‘ و نعمت دیدار، کی خواہش ہے جو ’’علم کی حد سے پرے‘‘ ہے، ماورائے طور عقل ہے، ’’جو عشق سراپا حضور‘‘ کے معطیات سے ہے، علم کی حد سے پرے بندئہ مومن کے لئے لذت شوق بھی ہے نعمت دیدار بھی ہے اس نعمت و لذت کے حصول کے لئے ہمیں پہلے عقل کی ماہیت اور اس کی بدایت و غایت کے عرفان کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اس کی حقیقت و ماہیت، عمل و فعل کو بخوبی سمجھ لیناچاہئے۔ اس کے بعد عشق و ایمان کے دائرے میں قدم زن ہونا چاہئے۔ اقبال کی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے پیررومی کے ارشادات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ صحبت پیر روم ہی نے ان پر یہ راز فاش کئے ہیں، وہ ان کے پیر طریقت ہیں، ان ہی سے انہوں نے اسرار حقیقت سیکھے ہیں۔ پیر رومی خاک را اکسیر کرد از غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد موجم و در بحر او منزل کنم تا دُرِ تابندئہ حاصل کنم من کہ مستیہا ز صہبایش کنم زندگانی از نفسہایش کنم ۱۔ عقل : عارف رومی نے عقل کی دو قسمیں قرار دی ہیں، ایک کو وہ ’’عقل جزئی‘‘ کہتے ہیں اور دوسری کو ’’عقل کلی‘‘۔ عقل جزئی وہ عقل ہے جو اس اسباب و علل کی دنیا میں ہماری رہبری کرتی ہے، جہد للبقا میں ہماری مدد کرتی ہے، اس کی اعانت سے ہم تنازع حیات میں کامیاب ہوتے ہیں اور اپنی ذات کی حفاظت کر سکتے ہیں اور اس کے لئے غذا فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ نفس کے تابع ہوتی ہے، مغلوب ہوتی ہے، گویا اس کی ’’مادہ‘‘ ہوتی ہے۔ اس کی خواہشات کی تکمیل میں منہمک و مصروف رہتی ہے۔ حوائج خانہ داری یعنی ’’آب و نان و خوان و جاہ‘‘ کے حصول میں شب و روز لگی رہتی ہے۔ با لفاظ مختصر جسم یا عضویت کی مادی احتیاجات کی تکمیل اس کا کام ہے۔ نفس و عقل کے باہمی تعلق کی مثال اس طرح دیتے ہیں:۔ ماجرائے مرد و زن افتاد نقل آں مثال نفس خود میدان و عقل ایں زن و مردے کہ نفس است و خرد نیک پابستیت بہر نیک و بد ایں دو پابستہ دریں خاکی سرا روز و شب ور جنگ و اندر ماجرا زن ہمی خواہد حوائج خانگاہ یعنی آب رود و نان و خوان و جاہ نفس ہمچوں زنّ بے چارہ گری گاہ خاکی گاہ جوید سروری اس عقل کا مقصود بالذات دنیا ہے، اس کی آسائش و زیبائش ہے، لذت و آرام ہے، یہ لذت کی طالب ہے، اور لذت و نفع ہی اس کی اعلیٰ ترین غایت ہے۔جس شخص کی حاکم یہ عقل ہے وہ محروم ہے، بدنصیب ہے، دراصل عاقل نہیں جاہل ہے، حقیقی اقدار سے بے خبر ہے، اس کی عمر کوّے کی طرح ’’سرگیں خوری‘‘ میں بسر ہوتی ہیں، وائے آں کہ عقل او مادہ بود نفس زستش نرد آمادہ بود لا جرم مغلوب باشد عقل او جز سوئے خسراں نباشد نقل او اے خنک آنکس کہ عقلش نر بود نفس زشتش مادہ و مضطر بود یہ عقل پائوں کی زنجیر ہے، سانپ بچھو کے مانند ہے، کام بین ہے دام بین نہیں، بود و نمود میں فرق نہیں کرتی، حقیقی اقدار سے غافل محض امور دنیوی میں شاغل رہتی ہے، اس عقل کو عشق الٰہی پر قربان کر دینا چاہئے۔ اس کا بارگاہ الٰہی میں نہ کوئی مرتبہ ہے اور نہ وقعت! عقل را قرباں کن اندر عشق دوست عقل را یاری ازاں سویست کو ست اے ببردہ عقل ہدیہ تا الـہٰ عقل آنجا کمتر است از خاک راہ عقل چوں سایہ بود حق آفتاب سایہ را با آفتابِ او چہ تاب عقل چوں شحنہ است، چو سلطاں رسید شحنہء بے چارہ در کنجے خزید خلاصہ یہ کہ ۱۔ عقل جزئی عمل کا ایک آلہ ہے جس سے جسم کی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے۔ ۲۔ اس عقل کے ذریعے انتہائی حقیقت (حق تعالیٰ) کی یافت یا عرفان ممکن نہیں: ہست پنہانی شقاوت عقل را کے بیابد منزلے بے نقل را (رومی) اب اگر آپ یورپ کی تاریخ فلسفہ جدید پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا، مشہور جرمن فلسفی شوپنہاور جو قنوطیت کا امام گزرا ہے، عقل کے متعلق کچھ اسی قسم کے نظریے کا قائل تھا، وہ انتہائی حقیقت کو ارادئہ مطلق قرار دیتا ہے اور عقل کی تکوین و تخلیق کے متعلق اس کا خیال ہے کہ یہ عضویت کی عملی اور حیاتیاتی ضروریات کی تکمیل کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ لہٰذا محض عملی اغراض اس کی غایت ہیں یعنی ’’یہ ان اغراض کو سمجھنے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ جن کی تکمیل پر فرد کی زندگی اور اس کی توسیع کا انحصار ہے‘‘۔ فکر کے وجود کااصلی سبب ہی یہ ہے کہ وہ فرد کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ خارجی اثرات و ہیجانات کا مقابلہ کرے اور اپنی ذات کے تحفظ کے قابل ہو جائے۔ اس نقطہء نظر سے اعمال عقلیہ زندگی کے لئے حد درجہ ضروری ہیں۔ شو پنہاور کے الفاظ میں ’’عقل ایک نہایت مفید آلہ ہے‘‘ چونکہ یہ زندگی کی عملی ضروریات کے لئے عطاء کیا گیا ہے لہٰذا اس کا کام ان ہی ضروریات کی تکمیل اور تشفی ہے اور اسی مقصد سے ہمارے عمل اور عقل کا تعین ہوتا ہے۔ عقل کا کام انتہائی حقیقت کو سمجھنا اور اس کی ماہیت کے متعلق فکر کرنا نہیں، باالفاظ دیگر عقل کا کام تفلسف نہیں، حقیقت کا عرفان نہیں، جو شخص عقل سے حقیقت کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ایک ایسے آلۂ کار کا استعمال کر رہا ہے جو اس کام کے لئے وضع ہی نہیں ہوا، اور اس کا نتیجہ سوائے عجزو جہل کے کچھ نہیں! عقلے کہ بسے رہبر خود ساختمش در معرفت خدائے بگداختمش عمرم برسید تا، بدیں عقل ضعیف بشناختم، ایں قدر کہ نشناختمش (عطار) عقل کی بدایت و ماہیت کے متعلق شو پنہاور کا یہ نظریہ موجودہ زمانہ کی (Pragmatism) کا راستہ تیار کرتا ہے، نتائجیت کا قائل حیاتیات کا عالم اور ارتقاء کا حامی ہوتا ہے، وہ عقل اور اعمال عقلیہ کو حیاتیاتی آلات قرار دیتا ہے۔ وہ بتلاتا ہے کہ دوران ارتقاء میں علم کی ابتداء کیسے ہوئی اور عقل کا کیا کام ہے۔ عالم خارجی میں وہ ایک طرف تو زندہ عضویتوں کو پاتا ہے جو اپنی مرکزی ضروریات و احتیاجات کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہی ہیں، اور دوسری طرف وہ خارجی ماحول میں فطری قوتوں کو پاتا ہے، جو ان عضویتوں پر اپنا اثر ڈال رہی ہیں اور انہیں مصروف پیکار کر رکھا ہے، اب یہ ماحول جن میں عضویتیں اپنی زندگی گزار رہی ہیں، ہمیشہ موافق اور سازگار تو نہیں ہوتا۔ لہٰذا فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ماحول کو بدلے اور اس کو اپنے قابو میں لے آئے تاکہ اس کی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ اسی کشمکش اور پیکار میں حافظہ، تخیل اور فکر کا بروز ہوتا ہے تاکہ تنازع للبقا میں فرد کو سہولت ہو اور چونکہ ان کی معاونت نہایت مفید اور نافع ہوتی ہے، لہٰذا یہ ڈارون کے دریافت کردہ قوانین ارتقاء کے مطابق محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔ اس بیان سے صاف طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عضویت کی پیچیدہ اور مرکب حاجتیں اور ضرورتیں ہی فکر کو پیدا کرتی ہیں۔ ان کا ارتقاء ہی نہ ہوتا اگر انسان کی زندگی میں صرف سکون ہی سکون ہوتا، اگر وہ تنازع و تخائف سے آزاد ہوتی، کشمکش و پیکار سے منزہ ہوتی، اب فکر کا سارا کام ان تخالفات و تنازعات کا رفع کرنا ہے جو ہماری روزمرہ زندگی میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ نتائجیہ کے نزدیک منطق ان تغیر پذیر قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو زندگی کی ناگہانی ضرورتوں کے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ منطق کو ازلی غیر متغیر قوانین کامجموعہ نہیں سمجھنا چاہئے جس سے مطابقت ہر قضیہ کو پیدا کرنی ضرور ہو۔ فکر ہمارے تجربہ کے مواد کو ہماری خواہشات کی تکمیل و تشفی کے لئے بدلنے اور ترمیم کرنے کا عمل ہے۔ اس نقطہء نظر کو پروفیسر ولیم جیمس نے اپنی نفسیات میں اس طرح اختصار کے ساتھ ادا کیا ہے، ’’حیات ذہنی دراصل مقصدی ہوتی ہے‘‘ یعنی ہمارے احساس و فکر کے مختلف طریقے پیدا ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ ہمیں خارجی دنیا کے مطابق بننے میں مدد کریں…اصلی اور اساسی اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ ذہنی زندگی کا وجود ایک قسم کے حفاظتی عمل کی خاطر ہے۔ خلاصہ یہ کہ عقل، اعمال فکر یہ بدایت و تفاعل، (Function) کے لحاظ سے زندگی کی مرکزی ضروریات کی تکمیل کا آلہ ہیں۔ اسی غایت کے لئے عقل کا ارتقاء ہوا ہے اور اسی کام میں وہ ہمیشہ لگی رہتی ہے، حیوان اور انسان دونوں کی زندگی میں اس کا کام یہی ہے۔ فرانس کا شہرہ آفاق فلسفی برگسان جس کی تصانیف سے علامہ اقبال نے کافی استفادہ کیا ہے، عقل کی بدایت و ماہیت کے متعلق نتائجیت ہی کا مسلک اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اس کا یہ قول مشہور ہے کہ عقل عمل کے ملکہ کا ایک لاحقہ ہے، (Intellect is an appendage to the faculty of action) عقل کے وجود کا حقیقی مقصد ’’خارجی اشیاء کے باہمی علائق کا پیش کرنا ہے‘‘ زندگی کے افادی و عملی اغراض کی تکمیل ہے۔ ہمارے اجسام اور ماحول میں کامل تطابق کا پیدا کرنا ہے، ’’یہ مصنوعی آلات کے بنانے کا ایک ملکہ ہے‘‘ یہ ’’ہر حال میں ہمیں مشکل سے بچ نکلنے کا طریقہ سمجھاتی ہے‘‘ اور اس طرح تحفظ حیات میں مدد کرتی ہے۔ اس طرح یہ اپنی اصل ماہیت کے لحاظ سے ایک عملی آلہ ہے، جس کا رخ مادہ کی طرف عمل کی خاطر ہوتا ہے۔ اور جب یہ اشیاء کے حقائق و بطون سے بحث کرتی ہے تو ہر قدم پر ٹھوکرکھاتی ہے، کیونکہ اصلاً وہ اس کام کے لئے وضع ہی نہیں کی گئی اس لئے ان کی یافت سے قاصر ہے۔ ارباب نظر بسے بیندیشیدند ہریک بدرت راہ دگر بگزیدند حاصل بجز از عجز نیامد ہمہ را وآخر ہمہ از عجز طمع ببریدند (عطار) عقل کی بدایت و غایت کے متعلق ان خیالات سے واقف ہونے کے بعد اب ایک نظر علامہ اقبال کی تعلیمات پر ڈالئے تو آپ ان کو کچھ زیادہ مختلف نہیں پائیں گے۔ اسرار خودی میں اقبال صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، کہ عقل، ندرت کوش و گردوں تاز، حیات کے تحفظ اور توسیع کے لئے پیدا کی گئی ہے، بالکل اسی طرح کہ ہاتھ، پیر، دانت، آنکھ، کان وغیرہ تنازع للبقا میں مخالف عناصر واعداء کے مقابلہ کے لئے ارتقاء کے دوران میں پیدا ہوئے، اور محفوظ کر لئے گئے ہیں۔ اس طرح عقل اور آلات حواس زندگی کے خادم ہیں، خانہ زاد ہیں، علم زندگی کی حفاظت کا سامان فراہم کرتا ہے،اس کا مقصود حقیقت سے آگاہی حاصل کرنا اور راز دہر کا دریافت کرنا نہیں، حقائق ایمانیہ کا عرفان نہیں۔ چیست اصل دیدۂ بیدار ما؟ بست صورت لذت دیدار ما کبک پا از شوخیء رفتار یافت بلبل از سعیء نوا منقار یافت عقل ندرت کوش و گردوں تاز چیست ہیچ میدانی کہ ایں اعجاز چیست زندگی سرمایہ دار آرزو است عقل از زائیدگان بطن اوست دست و دندان و دماغ و چشم و گوش فکر و تخئیل و شعور و یاد و ہوش زندگی مرکب چو درجنگاہ یاخت بہر حفظ خویش ایں آلات ساخت آگہی از علم و فن مقصود نیست غنچہ و گل از چمن مقصود نیست علم از سامان حفظ زندگی است علم از اسباب تقویم خودی است علم و فن از پیش خیزانِ حیات علم و فن از خانہ زادانِ حیات اس طرح عقل حفظ حیات کا آلہ ہونے کی وجہ سے حواس ظاہری کی مدد سے مکان و زمان کے دائرہ کے اندر رہ کر مظاہر کا علم حاصل کرتی ہے، تاکہ زندگی کے افادی اور عملی اغراض کی تکمیل کر سکے ہمیں ماحول کے مطابق بنا سکے، ہمیں عملی مشکلات سے نجات دلا سکے، زندگی کی ضرورتوں اور احتیاجوں کو رفع کر کے اس کی حفاظت کر سکے اور اس کو عملی معنی میں کامیاب کر سکے، خرو زنجیری امروز دوش است پرستار بتان چشم گوش است صنم در آستیں پوشیدہ دارد برہمن زادئہ زنار پوش است عمل کی کامیابی کے لئے، ضروریات زندگی کے پورا کرنے کے لئے مظاہر قدرت کے قوانین کا جاننا، قوای فطرت کا مسخر کرنا ضروری ہے، عقل کی آنکھ اسی طرف لگی رہتی ہے، نگا ہم راز دار ہفت و چار است گرفتار کمندم روزگار است جہاں بینم بایں سوباز کردند مرا باآنسوئے گردوں چہ کار است چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم ببازار افگنم رازے کہ دارم عقل زندگی کی راہ کو روشن کرتی ہے، ’’یہ چراغ رہگذر ہے‘‘ رہروِ زندگی کی آنکھیں اس سے روشن ہوتی ہیں، لیکن منزل کی اس کو خبر نہیں، حقائق حیات سے یہ جاہل ہے، ’’درون خانہ‘‘ کے اسرار سے ناواقف: خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے؟ چراغ رہگذر ہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے ــــــــــــ گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے ــــــــــــ فلسفہ جس کا آلۂ کار عقل، کائنات کی بدایت و غایت، نوعیت و ماہیت کی تشریح کرنا چاہتا ہے، اسرار ازل کو جاننا چاہتا ہے، زندگی کی ماہیت کو دریافت کرنا چاہتا ہے اور اس کی توجیہ و تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے،لیکن عقل اپنی ہدایت و عمل کے لحاظ سے اس کام کے قطعاً قابل نہیں، اس کی تقدیر میں حضور حق نہیں! انجام خرد سے ہے بے حضوری ہے فلسفہ زندگی سے دوری ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا علم سب خیالی دل در سخن محمدیؐ بند اے پور علیؓ ز بوعلی چند فلسفی کی تشبیہ کرم کتابی، سے دے کر اقبال اس سے کہتے ہیں، کہ تجھ پر افسوس ہے کہ تو حقیقت کا علم، زندگی کی حکمت، کتابوں سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔اور بالآخر حیرت مذمومہ میں گرفتار ہو کر تجھے اپنی نارسائی کا اعتراف کرناپڑتا ہے کہ ’’معلومم شدکہ ہیچ معلوم نشد!‘‘ بات یہ ہے کہ جس آلہ کو تو اس کام کے لئے استعمال کر رہا ہے وہ اس کے لئے وضع ہی نہیں کیا گیا۔ شنیدم شبے در کتب خانہء من بہ پروانہ مے گفت کرم کتابی باوراق سینا نشیمن گرفتم بسے دیدم از نسخہء فاریابی نفہمیدہ ام حکمت زندگی را ہماں تیرہ روزم ز بے آفتابی نکو گفت پروانہء نیم سوزے کہ ایں نکتہ را در کتابے نیابی تپش می کند زندہ تر زندگی را تپش می دہد بال و پر زندگی را حکیم یا فلسفی میں تخیل کی بلند پروازی بھی ہے اور طاقت بھی لیکن حقیقت کی یافت کے لئے وہ جس ذریعہ یا آلہ کو استعمال کر رہا ہے وہ اس کو شکار کی لذت سے محروم رکھتا ہے۔ بلند بال تھا لیکن نہ تھا جسور غیور حکیم سّرِ محبت سے بے نصیب رہا پھر ا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا عقل چونکہ حفظ زندگی کا ایک آلہ ہے، افادی و عملی اغراض کی تشفی کے لئے ہے، اس لئے اس کا رخ مادے کی طرف عمل کی خاطر ہوتا ہے، اس کا معروض مادہ ہے جو بے جان ہے۔ زندگی کی لذت اس کے نصیب میں کہاں، عقل مادہ ہی پر عمل کرنے کیلئے بنی ہے اور اسی سے اس کو دلچسپی ہے اور اسی میں اس کو ذوق، روح انسانی کی تشفی محض مادہ سے کیسے ہو سکتی ہے۔ حکیماں مردہ را صورت نگار اند یدِ موسیؑ دم عیسیؑ ندارند! دریں حکمت دِلم چیزے ندید است برائے حکمت دیگر تپید است عقل مادہ میں مصروف ہو کر حقیقت کے چہرہ کو حجابات میں پوشیدہ کر دیتی ہے، زمان و مکان کا پردہ اس کو نظر سے چھپا دیتا ہے، روح انسانی کو لقائے حق کی تڑپ ہے! خرد بر چہرئہ تو پردہ ہا بافت نگاہ تشنۂ دیدار دارم عقل جب اپنے دائرہ سے قدم باہر نکالتی ہے اور راز حقیقت کو دریافت کرنا چاہتی ہے تو اگر ایک گرہ کھلتی نظر آتی ہے تو فوراً دوسری گرہ پڑ جاتی ہے، روح انسانی کو ایک ایسی نظر کی ضرورت ہے، جو تمام پردوں اور گروہوں سے گزرتی حقیقت کے رخ تاباں پر جا ٹھہرے، چہ کنم کہ عقل بہانہ جو گر ہے بروئے گرہ زند نظرے! کہ گردش چشم تو شکند طلسم مجاز من می ترا شد فکر ما ہر دم خدا وندے دگر رست از یک بند تا افتاد در بندے دگر اب اس عقل کوجو ’’زنجیریٔ امروز و دوش‘‘ ہے، ’’برہمن زادئہ زنار پوش‘‘ ہے، تابع نفس ہے، افادیت پسند ہے، مادہ پرست ہے، حقیقی اقدار سے غافل ہے، حقیقت سے جاہل ہے، محض امور دنیوی میں شاغل ہے، ’’عقل کلی‘‘ یا علم الٰہی، پرقربان کر دینا چاہئے یہی تلقین ہے پیر رومی کی اقبال کو، عقل قرباں کن بہ پیش مصطفی حسبی اللہ گو کہ اللہ ام کفیٰ زیں خرد جاہل ہمی باید شدن دست در دیوانگی باید زدن ادست دیوانہ کہ دیوانہ نشد ایں عسس را دید و درخانہ نشد اقبال نے بھی ان ہی کی اتباع میں اس عقل کو ترک کرنے کی تعلیم دی ہے اور تابع وحی ہونے کی ہدایت کی ہے کیونکہ ایمان و تقویٰ عشق ہی سے حقیقت کا حصول ممکن ہے! رہ عاقلی رہا کن کہ باو تواں رسیدن بدلِ نیازمندے بہ نگاہِ پاکبازے! نشان راہ ز عقل ہزار حیلہ مپرس بیاکہ عشق کمالے زیک فنی دارد بگذر از عقل و در آویز بموج یم عشق کہ دراں جوئے تنک مایہ گہر پیدا نیست بچشم عشق نگر تا سراغ او گیری جہاں بچشم خرد سیمیا و نیرنگ است زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل بیاکہ عشق مسلماں و عقل زناری است عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات عارف و عامی تمام بندئہ لات و منات عقل جزئی کو ’’عقل کلی‘‘ یا ’’علم اللہ‘‘ پر قربان کرنے کا نام شرع کی اصطلاح میں ’’ایمان‘‘ ہے، جب انسان اپنے علم و خرد کو تابع علم وحی کر دیتا ہے تو مومن کہلاتا ہے، ایمان لانے کے بعد انسان بے عقل یا فاترالعقل یا پاگل نہیں ہو جاتا بلکہ اس عقل کا حصہ دار ہو جاتا ہے جس کی شان میں مازاغ البصر کہا گیا ہے جو ’’خاصان حق کا ایک نور‘‘ ہے جو ظلمتوں کو روشن کر دیتا ہے اور تاریکیوں کو رفع۔ عقل جزئی کو علم الٰہی کے تابع کر دینے کے بعد انسان بقول عارف رومی ہمہ تن ’’سرو عقل‘‘ ہو جاتا ہے، زیں سر از حیرت گر ایں عقلت رود ہر سر مویت سر و عقلے بود (رومی) عقلوں کے اس تفاوت کو پیر روم نے خوب واضح کیا ہے، فرماتے ہیں: ایں تفاوت عقلہارا نیک داں در مراتب از زمیں تا آسماں ہست عقلے از ضیا چوں آفتاب ہست عقلے کمتر از زہرہ شہاب ہست عقلے چوں ستارہ آتشی ہست عقلے چوں چراغ سر خوشی عقلہائے خلق، عکس عقل او عقل او شک است و عقل خلق بو عقل کل و نفس کل مرد خداست عرش کرسی رامداں کزوے جداست مظہر حق است ذات پاک او رو بجو حق را و از دیگر مجو! علامہ اقبال نے بھی عقل جزئی و عقل کلی (یعنی عقل تابع وحی الٰہی) کا تقابل نہایت فصیح الفاظ میں اس طرح پیش کیا ہے، عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است بال بلبل دگر و بازوے شاہیں دگر است دگر است آنکہ برد دانہء افتادہ ز خاک آنکہ گیرد خورش از دانۂ پرویں دگر است دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم آنکہ درشد بہ ضمیر گل و نسریں دگر است دگر است آنسوئے زپردہ کشا دن نظرے ایں سوے پردہ گمان و ظن و تخمیں دگر است اے خوش آں عقل کہ پنہائے دو عالم با اوست نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست ایمان کا لازمی نتیجہ عشق ہے، حب الٰہی ہے، اَلّذِیْنَ آمَنُوْ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰـہ ہمارے اس دعویٰ پر گواہ ہے۔ ۲۔عشق:۔ اقبال کی اصطلاح میں عشق اس کے سوا کچھ نہیں کہ لَآاِلٰـہَ اِلَا اللّٰـہُ مُحمّد رَّسُوْلُ اللّـہ کو بے دلیل و برہان از روئے جان ایسا ماننا کہ جسم خاکی سے ’’بوئے جان‘‘ آنے لگے اور ایمان بھی سوائے اس کلمہ دعوتی کی تصدیق کے کچھ نہیں اور ایمان ہی سے عشق پیدا ہوتا ہے، یا عشق مترادف ہے ایمان کے۔ ایمان کا پہلا جز حق تعالیٰ کی ’’الوہیت‘‘ کا اقرار ہے، اور اس پر شدت سے یقین، یعنی اس امر پر یقین، بے مطالبہ دلیل و برہان، سادہ دلی، کے ساتھ یقین کہ حق تعالیٰ ہی ہمارے اِلہٰ ہیں، معبود و رب ہیں، مولیٰ ہیں، مالک ہیں، حاکم ہیں، خالق ہیں، اور ہم ان کے مالوہ ہیں، عبد ہیں، مربوب ہیں، مملوک ہیں، محکوم ہیں، اور مخلوق ہیں، وہ بعد ایمان ہم پر رحیم ہیں، سترماں سے زیادہ رحیم ہیں، اور رئوف اور مہربان اِنَّ اللّٰـہَ بِکْمْ لَرؤُفُٗ رَّحِیْمً، ہماری خطائوں اور لغزشوں کو معاف کرتے ہیں، اور ہم پر رحم کرتے ہیں، کَانَ اللّٰہُ غَفّوْراً رَّحِیْماً ہم پر ان کا فضل عظیم ہے۔ وَاللّٰہُ ذُوالفضل العَظِیْم، ہر دم ہماری پرورش کرتے ہیں اور ہمارے قیوم ہیں، ہم پر بڑے مہربان اور محبت والے ہیں، اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمً وَّدُوْدُٗ ہم پر رحیم اور ہمارے ساتھ نیک سلوک کرنے والے ہیں، اِنَّہٗ ھُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ، ہم جب حق تعالیٰ کے ان کمالات اور احسانات پر غور کرتے ہیں، اور اس کا یقین ہمارے قلب کی گہرائیوں میں سما جاتا ہے، رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے تو حق تعالیٰ سے لازمی طور پر حب پیدا ہوتا ہے اور یہی مراد ہے حق تعالیٰ کے اس قول سے کہ اَلَّذِیْنَ اـمَنُوْا اَشَدُّ حُبّاً لِلّٰہ، جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، ان کو اپنے اللہ سے شدت سے محبت ہوتی ہے، اسی شدتِ حُب کو صوفیہ کرام نے اپنی اصطلاح میں عشق سے تعبیر کیا ہے۔ عاشقی اقبال کے ہاں توحید کے ان اسرار کا قلب میں اتارنا ہے، عاشقی توحید را بر دل زدن وانگہے خود را بہر مشکل زدن کاروان شوق بے ذوقِ رحیل بے یقین و بے سبیل و بے دلیل حق تعالیٰ کے الـہٰ واحد ہونے پر ایمان عقل کے بتلانے سے نہیں لایا گیا، بلکہ عقل کو مصطفی کے سامنے قربان کر دینے اور محض ان کی بات کو مان لینے سے ، اور اسی کے نتیجہ کے طور پر عشق و مستی پیدا ہوتی ہے، چنانچہ اسی کی طرف اقبال اشارہ کرتے ہیں۔ می ندانی عشق و مستی از کجاست؟ ایں شعاعِ آفتابِ مصطفی است زندئہ تا سوزِ او در جان تست ایں نگہ دارندئہ ایمانِ تست عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلـہ وسلَم کی بات پر یقین لانے، ان کی اتباع اور ان کی تقلید کا نتیجہ ہے، قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تْحِبُّوْنَ اللّٰـہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰـہ اس آیت کریمہ کا اقبال یوں ترجمہ کرتے ہیں۔ عاشقی؟ محکم شو از تقلید یار تا کمندِ تو شود یزداں شکار ’’حضرت بایزید بسطامیؒ نے خربوزہ کھانے سے محض اس بنا پر اجتناب کیا کہ انہیں معلوم نہ تھا کہ نبی کریمؐ نے یہ پھل کس طرح کھایا ہے، اسی کامل تقلید کا نام‘‘ اقبال کہتے ہیں ’’عشق ہے‘‘ کیفیت ہا خیزد از صہبائے عشق ہست ہم تقلید از اسمائے عشق کامل بسطام در تقلید فرد اجتناب از خوردن خربوزہ کرد لشکرے پیدا کن از سلطان عشق جلوہ گر شو برسر فاران عشق تاخدائے کعبہ بنوازد ترا شرح انی جاعلُُٗٗ سازد ترا اتباع خود بغیر حبُِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ممکن نہیں، اتباع و تقلید کا محرک عشق ہی ہوتا ہے، اتباع رسولؐ دراصل اتباع حق ہے، اتباع حق و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کا نام اتباع شریعت ہے۔ یہ علم اللہ کا استعمال و اختیار ہے اور ’عقل جزئی‘ یا نفس کے علم کا ترک کرنا ہے جس کو قرآن کی اصطلاح میں ’’ھوی‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے، ہویٰ یا خواہشات نفسی کی پیروی کا ترک کرنا، ’’لات و عزائے ہوس‘‘ کی سرشکنی عشق ہی کے بعد ممکن ہے، مومن کے ہر فعل کا تعین عشق ہی سے ہوتا ہے، دین کامل بغیر شدتِ حُب یا عشق کے ممکن نہیں، طبع مسلم از محبت قاہر است مسلم ار عاشق نباشد کافر است تابع حق دیدنش نادیدنش خوردنش نوشیدنش خوابیدنش یعنی ایمان حق تعالیٰ کی شدت محبت یا عشق کا نام ہے، جس دل میں عشق الٰہی نہیں، اس دل میں ایمان نہیں، عشق کا لازمی نتیجہ محبوب کی رضا اور قرب کی طلب، اس کی رضا کس قول، عمل، حال یا اعتقاد سے متعلق ہے وہ رسول صلی اللہ وآلہٖ وسلم ہی کے بتلانے سے معلوم ہو سکتا ہے اور رسول صلی اللہ وآلہٖ وسلم بفحوائے وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَاِلَّا وَحْیُٗ یُوّحْیٰٰ اپنی نفسانی خواہش سے کوئی بات نہیں سناتے، آپ کا ارشاد نری وحی ہے، لہٰذا قابل اتباع ہے، اس طرح ایمان میں اللہ کی محبت اور رسول کا اتباع شامل ہے، اور عشق بھی اقبال کے نزدیک ’’توحید‘‘ و تقیل یار کے سوا کچھ نہیں، اس لئے دین و ایمان کو عشق کے مترادف قرار دیتے ہیں، زندگی را شرع و آئین است عشق اصل تہذیب است دیں، دین است عشق دیں نگردد پختہ بے آدابِ عشق دیں بگیر از صحبت اربابِ عشق ظاہر او سوزناک و آتشیں باطن او نور رب العالمیں عشق کے متعلق اقبال کے نظریہ کو مختصر طور پر سمجھ جانے کے بعد اب ہمیں ان کے ساتھ عشق کے بعض ثمرات پر غور کرنا چاہئے، دیکھنا چاہئے کہ عشق اختیار کر کے، عقل کو عشق کا تابع کر کے ، انسان کیا سے کیا ہو جاتا ہے، اس کے عمل میں کتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے، اس کے علم و ادراک میں کتنی وسعت و پہنائی پیدا ہو جاتی ہے سرور و ابتہاج، طمانیت و برد قلبی سے اس کو کتنا حصہ ملتا ہے۔ (الف) عشق و عمل:۔ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سجھاتی ہے، تخالفات و تضادات کو دور کرتی ہے، لیکن جوشیٔ عمل پر آمادہ کرتی ہے، عمل کا اصلی محرک ہے وہ جذبہ ہے اور عشق یا ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں ہوتا، اسی لئے مرد مومن یا عشق کی قوت بازو اور اس کی شوکت و جلال کااندازہ آسان نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بدل جاتی ہیں، اس کی ہیبت سے کائنات میں لرزہ پڑجاتا ہے، اس کی بے باکی سے شیروں کے دل کانپ جاتے ہیں:۔ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا! نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں فقر چوں عریاں شود زیر سپہر از نہیب او بلرزد ماہ و مہر فقر عریاں، گرمیٔ بدر و حنین فقر عریاں، بانگ تکبیر حسینؓ ــــــــــــ فقر مومن چیست؟ تسخیر جہات بندہ از تاثیر او مولا صفات عشق ہی سے اسرار شنہشاہی کھلتے ہیں، آداب خودآگاہی معلوم ہوتے ہیں، عشق کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کرتا، اس کے جلال سے سلاطین کانپ اٹھتے ہیں، جبر و قہر کا سکہ اٹھ جاتا ہے، حریت و آزادی کا تسلط قائم ہو جاتا ہے، استبدادیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے: با سلاطیں در فتد مرد فقیر از شکوہ بوریا لرزد سریر از جنوں می افگند ہوے بہ شہر وا رہاند خلق را از جبر و قہر می نگیرد جز بآں صحرا مقام کاندرو شاہیں گریزد از حمام قلب او را قوت از جذب و سلوک پیش سلطاں نعرئہ او لاملوک ــــــــــــ خود حریم خویش و ابراہیم خویش چو ذبیح اللہ در تسلیم خویش پیش او نَے آسماں نَے خیبر است ضربت او از مقام حیدر است ایں ستیز دمبدم پاکش کند محکم و سیار و چالاکش کند عشق اپنی بے سرو سامانی کے باوجود اپنے اندر وہ قوت رکھتا ہے کہ سینۂ کوہسار اس کے تیشہ کی ضرب سے شق ہو جاتا ہے، اس کو کسی تیغ و خنجر کا خوف نہیں ہوتا:۔ ندارد عشق سامانے و لیکن تیشۂ دارد خراشد سینۂ کہسار و پاک از خون پرویز است ــــــــــــ عشق را از تیغ و خنجر باک نیست اصل عشق از آب و باد و خاک نیست در جہاں ہم صلح و ہم پیکار عشق آب حیواں تیغِ جوہر دار عشق از نگاہ عشق خارا شق شود عشق حق آخر سراپا حق شود عشق میں قوت اعصاب کی سختی، عضلات کی درشتی سے نہیں پیدا ہوتی، اس کی قوت زمینی نہیں الٰہی ہے، عاشق کے رگ و پے میں حق تعالیٰ کی قوت کام کرتی ہے، اس کا مقابلہ حق تعالیٰ کا مقابلہ ہے، حق تعالیٰ کے خلاف اعلانِ حرب ہے:۔ عشق شبخونے زدن بر لا مکاں گور را نادیدہ رفتن از جہاں زور عشق از باد و خاک و آب نیست قوتش از سختیٔ اعصاب نیست عشق با نان جویں خیبر کشاد عشق در اندام مہ چاکے نہاد کلّۂ نمرود بے ضربے شکست لشکر فرعون بے حربے شکست عشق ہم خاکستر و ہم اخگر است کار او از دین و دانش برتر است عشق سلطاں است و برہان مبیں ہر دو عالم عشق را زیر نگیں لا زمان و دوش و فردائے ازو لا مکان و زیر و بالائے ازو عمل کی اس قوت کے ساتھ عشق ادراک میں لامتناہی وسعت پیدا کرتا ہے۔ علم میں اطلاقیت اس کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے، حقائق کا علم یہ عطاء کرتا ہے، بطون اشیاتک یہ پہنچاتا ہے۔ (ب) عشق اور وسعتِ ادراک:۔ عقل جزئی کو عقل کلی یا علم اللہ یا بالفاظ دیگر عشق و ایمان کے تابع کرنے سے ادراک میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ بقول عارف روم عقل جزئی قبر کے آگے نہیں دیکھ سکتی، اسباب و علل کے چکر میں پھنسی رہتی ہے، اس کا قدم اس عالم اسباب و علل کے آگے نہیں جاتا اس کو ’’چشم غیبی‘‘ حاصل نہیں، پیش بینیٔ خرد تا گور بود دانِ صاحب دل بہ نفخِ صور بود ایں خرد از خاک گورے نگزرد دیں قدم عرصہ عجائب نسپرد زیں قدم ویں عقل رو بیزار شو چشم غیبی جوے و برخوردار شو زیں نظر دیں عقل نامد جزو وار پس نظر بگزار و بگزیں انتظار از سخنگوئے مجوئید ارتفاع! منتظر را بہ زگفتن استماع (رومی) قبر سے آگے قدم عشق کا اٹھتا ہے، اس کو ’چشم غیبی‘ نصیب ہوتی ہے، عشق ایک ہی جست میں اس زمان و مکاں والی کائنات سے آگے نکل جاتا ہے:۔ عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں عقل کو مصطفی کے آگے قربان کر کے مومن عاشق ان تمام موجودات غیبی کا عارف ہو جاتا ہے، جو اس چشم غیب بین کے مشاہدات ہیں، جس کی صفت مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَا طَغیٰ ہے، ابتدائی حالت میں ان غیبی موجودات کا علم اس کو مخبر صادقؐ کی اطلاع سے ہوتا ہے اور عشق کے آخری زینہ پر پہنچ کر وہ اپنی آنکھوں سے ان کو دیکھ ہی لیتا ہے۔ دو عالم را تواں دیدن بمینائے کہ من دارم کجا چشمے کہ بیند آں تماشائے کہ من دارم اس اجمال کی کسی قدر تفصیل ضروری ہے:۔ عشق کی ایک خصوصیت خاصہ ’’تفرد‘‘ ہے، یعنی سوائے معشوق کے عاشق کے سارے علائق منقطع ہوجاتے ہیں، وہ ماسویٰ سے مجرد ہو جاتا ہے، اور دونوں جہاں سے فارغ، من فارغم از ہر دو جہاں مرا عشق تو بس است (رومی) عاشق کی اس تجرید و تخلیص کا لازمی نتیجہ محویت ہے، اپنے محبوب میں استغراق ہے مومن عاشق کے محبوب حقیقی حق تعالیٰ کے سوا کون ہو سکتے ہیں، محویت کی حالت میں اس کو استغراق فی الحق میسر ہوتا ہے، اور ہوا لباطن کے آثار نمودار ہوتے ہیں، صوفیائے کرام کی اصطلاح میں یہ ’’فناء الفنائ‘‘ کا مقام ہے، یہی اطلاقیت کا مقام ہے۔ لِیْ مَعَ اللّٰہ کا مقام ہے، جو اس کا اختیاری نہیں، حال ہے مقام نہیں۔ اس مقام کا یہ کلام ہے۔ نہ بامروز اسیرم نہ بہ فردا نہ بدوش نہ نشیبے نہ فرازے نہ مقامے دارم جاوید نامہ میں اقبال زرواں کی زبانی اس مقام کا ذکر کرتے ہیں، گفت زروانم جہاں را قاہرم ہم نہانم از نگہ ہم ظاہرم من حیاتم من مماتم من نشور! من حساب و دوزخ و فردوس و حور در طلسم من اسیر است ایں جہاں از دمم ہر لحظہ پیر است ایں جہاں لی مع اللہ ہر کرا در دل نشست آں جوانمردے طلسم من شکست گر تو خواہی من نہ باشم درمیاں لی مع اللہ باز خواں از عین جاں محویت فی الذات ہی کے عالم میں زمان و مکان کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے، تقید و تحدید بالکلیہ رفع ہو جاتی ہے، اطلاقیت طاری ہو جاتی ہے، اب عبد نہیں رہتا، اللہ ہی اللہ رہتا ہے۔ ماند آں اللہ باقی جملہ رفت اللہ لیس فی الوجود غیر اللہ (جامی) در دو عالم غیر یزداں نیست کس (رومی) اقبال کے کلام میں عموماً اس مقام کے متعلق گفتگو نہیں آتی، استتار کا پردہ ڈال دیا گیا ہے،عارفِ خودی سے یہ پوشیدہ نہیں، لیکن یہ حال ہے، قال میں کیسے ادا کیا جاسکتا ہے، مردِ حال ہی اس سے واقف ہو سکتا ہے۔ ’’فنا‘‘ کے مقام کا کسی قدر ذکر اقبال نے جاوید نامہ میں کیا ہے، بتلایا ہے، کہ زرواں کی نظر نے تعین و تحدید کے پردوں کو کیسے چاک کر دیا اور عالم مثال کس طرح منکشف ہو گیا، جسم و جاں میں ایک قسم کی لطافت اور سبکی پیدا ہو گئی اور چشم دل جاگ اٹھی، در نگاہ او نمی دانم چہ بود از نگاہم ایں کہن عالم ربود مردم اندر کائناتِ رنگ و بو زادم اندر عالم بے ہائے و ہو رشتہء من زاں کہن عالم گسست یک جہان تازۂ آمد بدست از زیان عالمے جانم تپید تادگر عالم ز خاکم بردمید تن سبک ترگشت و جاں ہشیار تر چشم دل بینندہ و بیدار تر شاید اسی اضافی اطلاقیت کی کیفیت میں اقبال کی زبان سے یہ دل آویز نغمے نکلے ہیں:۔ چو خورشید سحر پیدا نگا ہے مے تواں کردن ہمیں خاک سیاہ را جلوہ گا ہے مے تواں کردن نگاہ خویش را از نوک سوزاں تیز تر گرداں چو جوھر در دل آئینہ را ہے مے تواں کردن نہ ایں عالم حجاب اور انہ آں عالم نقاب اورا اگر تاب نظر داری نگا ہے مے تواں کردن ’’تو در زیر درختاں ہمچو طفلاں آشیاں بینی‘‘ بہ پرواز آکہ صید مہرو ما ہے مے تواں کردن محویت ہی کے عالم میں ارادے اور علم میں اطلاقیت پیدا ہوتی ہے، کشف کوفی، کشف الٰہی اور تصرفات کا ظہور ہوتا ہے جو عبد کا اختیاری فعل نہیں اور عرفاء و محققین کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت بھی نہیں۔ اہمیت قرب الٰہی، عشق، فقر، عبدیت کو حاصل ہے، ’’عبدیت‘‘ ہی قرب و وصال کا افضل ترین مقام ہے، اسی وجہ سے معراج کے بیان میں جو خدائے تعالیٰ کے تقرب کا کامل ترین مقام ہے، حضور انور صلعم’’عبد‘‘ ہی سے مخاطب کیا گیا، سُبْحَانَ الّٰذِیْ اَسْریٰ بِعَبْدِہٖ، فَاَوْحیٰ اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآاوَحْیٰ عشق و ایمان کامل کے حصول سے عبدیت کا مقام کامل ہو جاتا ہے اور اس سے جو سرور و بہجت، برد قلبی و طمانیت عبد کو حاصل ہوتی ہے اس کو مختلف مقامات پر اقبال نے بڑے ذوق سے ادا کیا ہے! ان کے اس بادئہ پرکیف سے آپ بھی بقدر استطاعت حظ اندوز ہو سکتے ہیں۔ ز سلطاں کنم آرزوے نگا ہے! مسلمانم از گل نہ سازم الہٰے دل بے نیازے کہ درسینہ دارم گدارا دہد شیوئہ پادشاہے! اگر آفتابے سوئے من خرامد بشوخی بگردانم اورا ز راہے ــــــــــــ من بندئہ آزادم عشق است امام من عشق است امام من عقل است غلام من ہنگامہء ایں محفل از گردش جام من ایں کوکب شام من ایں ماہ تمام من اے عالم رنگ و بو ایں صحبت ماتا چند مرگ است دوام تو عشق است دوام من پیدا بہ ضمیرم او پنہاں بہ ضمیرم او ایں است مقام او دریاب مقام من حاصل کلام یہ کہ عقل جزئی یا عقل استخراجی اپنی بدایت و غایت کے لحاظ سے دیگر آلات حواس کی طرح زندگی کی خادم ہے، خانہ زاد ہے، زندگی کی حفاظت کے سامان فراہم کرتی ہے، حقائق اشیاء کے علم سے قاصر ہے، یہ جب عقل کلی، وحی، یا علم الٰہی کے تابع ہو جاتی ہے تو ایمان پیدا ہوتا ہے، ایمان کے لازمی نتیجہ کے طور پر لفجوائے اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبّاً لِلّٰہ شدتِ حُب یا عشق پیدا ہوتا ہے، عشق سے عمل میں قوت، علم میں وسعت، قلب میں بہجت پیدا ہوتی ہے، انسان قرب الٰہی کے افضل ترین مقامات پر پہنچ جاتا ہے، فقیر اللہ، امین اللہ، خلیفتہ اللہ، ولی اللہ، عبداللہ ہو جاتا ہے، غایت تخلیق کی تکمیل ہو جاتی ہے! قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِٓیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ سْبْحَانَ اللّٰہِ وَمَآ انَا مِنَ الْمُشْرِکیْنO رموز اقبال کتاب منزل ،لاہور ۔۱۹۵۰ء حوالے ۱۔ خدا اندر قیاس مانہ گنجد شناس آں راکہ گوید ماعرفناک (اقبال) ۲۔ اللہ کی ذات میں تفکر سے کام نہ لو ورنہ ہلاک ہو جائو گے۔ (حدیث ابو ذرؓ) اقبال کی معنویت پروفیسر آل احمد سرور نکلسن نے کہا تھا کہ اقبالؔ اپنے زمانے کے آدمی ہیں، وہ اپنے زمانے سے آگے کے بھی آدمی ہیں اور اپنے زمانے سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ اقبالؔ کی معنویت کا راز اسی نکتے میں پوشیدہ ہے۔ ہر فنکار اور صاحبِ فکر اپنے زمانے کی پیداوار ہوتا ہے مگر وہ صرف اپنے زمانے میں اسیر نہیں ہوتا۔ اس کی نظر اپنے ماضی پر بھی ہوتی ہے اور اپنے مستقبل پر بھی۔ عصریت کبھی کبھار اس وقت کو، آج کو (Nowness) سبھی کچھ سمجھ لیتی ہے اور اپنے دور کی عقلیت، سائنسی نظر، اپنے مقبول نظریات اور میلانات کو حرفِ آخر۔ مگر زندگی کا ایک جامع تصور، ماضی، حال اور مستقبل تینوں کا احساس اور عرفان رکھتا ہے، حال میں ماضی چھپ چھپ کر اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور حال کی واردات میں مستقبل کی پرچھائیاں اور کرنیں ہوتی ہیں۔ اقبالؔ کی عظمت اور ہمارے لیے معنویت کا راز یہ ہے کہ وہ حال کا ایک کربناک احساس رکھتے ہیں۔ آتش رفتہ کا سراغ بھی لگاتے ہیں اور کسی اور زمانے کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔ ٹافلر نے کہا تھا کہ آج ہمیں بالقوۃ مستقبلوں کے خاکوں، یعنی خوابوں، پیش گوئیوں اور تصورات کی جتنی ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ نہ تو کوئی سیدھا سادا رجائی، عقلی، سائنسی، ترقی پسند تصور ہمارے مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے اور نہ صرف اس زخمی روح کی فریاد پر کان دھرنے سے ہمارا بھلا ہو سکتا ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ انسان لیمنگ کی طرح بالآخر خودکشی کی طرف جا رہا ہے۔ اس طرح مستقبلیت کا وہ نظریہ جو بالآخر مذہب، اخلاق روحانیت سے بے نیاز ہو کر تسخیرِ فطرت، طاقت، اقتدار اور تنظیم کے ذریعہ سے انسان کومشین بنانا چاہتا ہے اور ماضی کو یکسر حرف غلط سمجھ کر صرف مستقبل کی دوڑ کی طرف دیکھتا ہے اتنا ہی یک طرفہ ہے جتنا ماضی پرستوں کا یہ تصور کہ وہ ماضی کا نظام اس کے نظریات، اس کی فضا کو واپس لا سکتے ہیں۔ ماضی کے احساس، اس کے عرفان، اس پر نظر اور ماضی پرستی میں فرق ہے جس طرح آج کے عرفان اور آج کی پرستش میں فرق ہے۔ اقبالؔ جب مذہب کی بات کرتے ہیں، جب عظمتِ رفتہ کو یاد کرتے ہیں، جب مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہتے ہیں، جب مغرب کی تباہی کو پیشین گوئی کرتے ہیں، (حالانکہ اسپنگلر نے بھی مغرب کے زوال پر کتاب لکھی ہے اور مغرب کے بہت سے مفکرین مغرب اور مغربی تہذیب کے زوال کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں) جب عقلیت کی نارسائی پر زور دیتے ہیں، جب مشین کی حکومت کو دل کی موت کہتے ہیں، جب مغرب کے جمہوری نظام کی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جب طاقت کے حصول کو ضروری سمجھتے ہیں تو انھیں قدامت پرست، رجعت پرست، جمہوریت دشمن یا فرقہ پرست یا علیحدگی پسند کہہ کر، کچھ لوگ ممکن ہے نام نہاد روشن خیال حلقوں میں داد حاصل کر لیں لیکن وہ اقبالؔ کے وژن کی روح کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ ان کا زندگی کا تصورا کہرا ہے۔ وہ یہ یا وہ کے ناقص فلسفے کے قائل ہیں اور وہ تہذیب حاضر کے کچھ بتوں مثلاً سیکولرزم، جمہوریت، صنعت کاری کی اندھی پرستش کرتے ہیں، ان کے سارے مضمرات پر نظر نہیں رکھتے۔ میرے نزدیک اقبالؔ کی معنویت سب سے پہلے اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے اپنے فلسفے اور فن کے ذریعے سے ہمارے نو آبادیاتی دور کی مغرب پرستی، مذہب سے بیگانگی اور مغرب سے مرعوبیت کے خلاف جہاد کیا۔ مغرب نے انسانیت کے کارواں کو آگے بڑھانے میں جو عظیم الشان رول ادا کیا ہے اقبالؔ اس کے معترف تھے اور وہ ارتقا، تغیر اور تبدیلی پر اسی طرح ایمان رکھتے تھے جس طرح تسلسل پر۔ انھیں کی طرح قدامت پرست نہیں کہا جا سکتا۔ ان کی نگاہ کوفہ و بغداد کی طرف نہیں تھی ،وہ تازہ بستیاں آباد کرنا چاہتے تھے لیکن وہ جدید کاری کے معنی مغربیت نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اسی طرح Westernization اور Modernization میں فرق کرتے تھے جس طرح Wutful نے اپنے متوازی خطوط کے نظریے میں کیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی دوسرے علاقے کے ادارے بجنسہٖ ہمارے یہاں نہیں نافذ کیے جا سکتے۔ ان کے فروغ کے لیے ہماری دھرتی، ہمارے ماحول، ہماری فضا، ہمارے سماج، ہمارے مزاج کا لحاظ ضروری ہے۔ اس لیے وہ اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اُن کی شاعری کا مطالعہ تو بہت ہوا ہے اور اس میں سطح بینوں نے ہر شعر کو ایک بیان سمجھ لیا ہے اور شعر میں لفظ کے جدلیاتی استعمال، اس کے سخن میں ماورائے سخن، اس کے سطور میں بین السطور اور اس کے بادہ و ساغر میں مشاہدۂ حق کو نظر انداز کر دیا ہے، یا صرف اپنے مطلب کے اشعار پر نظر رکھی ہے مگر پوری شعری بساط، اور ا س کے جلووں کی کثرت میں وحدت پر غور نہیں کیا۔ پھر اُن کے فلسفے خصوصاً تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے گراں قدر خیالات سے سرسری گذر گئے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بقول اکرام ’’اقبالؔ کو اقبالؔ مغرب نے بنایا‘‘۔ وہ ایک نئی مشرقیت کے علمبردار ہیں۔ وہ مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد ہیں مگر مشرق میں بھی اسیر نہیں ورنہ وہ یہ نہ کہتے بگزر از خاور و افسونیٔ افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو آن نگینے کہ تو با اہرمناں باختہٖ ہم بجبریلِ امینے نتواں کرد گرو زندگی انجمن آرا و نگہدار خود است اے کہ در قافلۂٖ بے ہمہ شو با ہمہ رو تو فروزندہ تر از مہر منیر آمدۂٖ آنچناں زی کہ بہر ذرہ رسانی پر تو چوں پر کاہ کہ در رہگزرِ باد فتاد رفت اسکندر و دارا و قباد و خسرو از تنک جامیِ تو میکدہ رسوا گردید شیشۂ گیر و حکیمانہ بیاشام برو ــــــــــــ مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر ــــــــــــ اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن افرنگ مشینوں کے دھویں سے ہے سیہ پوش مشرق نہیں گو لذّتِ نظّارہ سے محروم لیکن صفتِ عالم لاہوت ہے خاموش ــــــــــــ مُردہ لا دینیٔ افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطیٔ افکار سے مشرق میں غلام اسرارِ خودی کے پہلے ایڈیشن کے دیباچہ میں اقبالؔ نے کہا ہے: ۱۔ ’’مغربی اقوام اپنی قوتِ عمل کی وجہ سے تمام اقوامِ عالم میں ممتاز ہیں اور اس وجہ سے اسرارِ زندگی کو سمجھنے کے لیے اُن کے ادبیات و تخیلات اہلِ مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں‘‘۔ ۲۔ ’’میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری قوت، طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشری نظام تلاش کیا جائے‘‘۔ (فلسفۂ سخت کوشی) ۳۔ ’’یہ مطالبہ کیا غلط ہے کہ مذہب کے متعلق ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اُسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے‘‘۔ (اردو میں خطبات)۔ ۴۔ ’’دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے کیونکہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی آیت قرار دیا ہے اس صورت میں تو ہم اس شے کو جس کی فطرت میں حرکت ہے، حرکت سے عاری کر دیں گے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال میں عالمِ اسلام پر جمود طاری ہے‘‘۔(خطبات) ۵۔ ’’اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالکِ مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کی جغرافی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو قابل احترام ہے (دیباچہ پیامِ مشرق) اس لیے میرے نزدیک اقبالؔ کے ان اشعار کو کلیدی اہمیت دینی چاہیے کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند ــــــــــــ زمانہ ایک، حیات ایک، کائنات بھی ایک دلیل کم نظری قصۂ جدید و قدیم ــــــــــــ اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے بُری ہے مستیٔ اندیشہ ہائے افلاکی اقبال کے نزدیک مغربیت جب علمیتِ ہے، عقلیت ہے، تسخیر فطرت ہے، انسان دوستی ہے، ارضیت ہے، خدمتِ خلق ہے، سماجی مساوات کے لیے جدوجہد کرتی ہے، تخلیقی صلاحتیوں کو بیدار کرتی ہے تو خیر ہے، مگر جب وہ مادیت میں اسیر ہو جاتی ہے اور روحانیت سے منکر، وہ جب سرمایہ داری اور مشین کی حکومت بن کر انسانوں کے استحصال پر اتر آتی ہے، جب اپنے تہذیبی اور معاشرتی ارادوں کو دوسروں پر لادنا چاہتی ہے، جب ہوسِ زر بن کر انسانی شخصیت کو یک رخا کر دیتی ہے، جب فرد کی آزادی کے نام پر تمام سماجی ذمہ داریوں سے انکار کر دیتی ہے، جب بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس کو مدنیت کے فتوحات سجھنے لگتی ہے تو وہ اس پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ اقبال کا ذہن انتخابی ہے۔ وہ اس نکتے سے واقف ہیں کہ ترقی خط مستقیم میں نہیں ہوتی اور بعض پہلوؤں میں انحطاط کا باعث بھی ہو سکتی ہے، دوسرے وہ یہ جانتے ہیں کہ ہرتہذیب اپنے مخصوص جغرافیائی اور تاریخی حالات میں وجود میں آتی ہے اور اس کاکوئی ماڈل دوسری تہذیبوں اور سماجوں پر بجنسہٰ لادا نہیں جا سکتا۔ ہر تہذیب اور سماج کو اپنا وجود دریافت کرنا ہوتا ہے (اور یہ دوسروں کے حوالے سے بھی ہو سکتا ہے) اپنے باطن میں جھانکنا ہوتا ہے، اپنی انفرادیت کو سمجھنا ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں Identity کو پانا ہوتا ہے کیونکہ اس بنیاد پر وہ عالمی میلانات کے مطابق تعمیرِ نو کر سکتی ہے۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو بہت سے سماجی مفکروں سے پہلے سمجھ لیا تھا کہ ترقی کی جدوجہد میں ہر پس ماندہ ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ بجنسہٖ دہرانے کی ضرورت نہیں، کسی مرحلے کو حذف کیا جا سکتا ہے اور کسی کو تیز۔ اس طرح آزادیٔ افکار اور جمہوریت کے تصورات قابل قدر ہیں مگر فکر پختہ نہ ہو تو آزادیٔ افکار خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ اور جمہوریت کے معنی صرف اکثریت کی آمریت اور سرمایہ داری کی جنگ زرگری کے نہیں، زیادہ سے زیادہ وسائل اور طاقت اور فیصلوں میں شرکت کے ہیں۔ وہائٹ ہیڈنے کہا ہے کہ ’’تہذیب، صداقت، حسن، ایڈونچر، آرٹ اور امن پانچ صفات رکھتی ہے۔ تعلیم کا مقصد انھیں بڑھاوا دینا ہے مگر کوئی شخص اس وقت تک تعلیم یافتہ اور مہذب نہیں کہا جا سکتا جب تک یہ مجرد تصورات کوشش،کمٹ منٹ اور سپردگی کے ساتھ شعوری طور پر اس کی زندگی کی حقیقت نہ بن جائیں۔ اسی لیے اقبالؔ کہتے تھے کہ مجھے سزا کے لیے بھی وہ لوگ قبول نہیں جن کا شعلہ سرکش و بے باک نہ ہواسی لیے وہ حیاتِ جاوداں کو ستیز میں پاتے تھے، اسی لیے کارِ نادر کو گناہ ہو تو بھی ثواب جانتے تھے، اسی لیے اس دل گرفتہ چینی کی تعریف کرتے تھے جو مرنے سے پہلے جلّاد کی شمشیر کی تابناکی دیکھنا چاہتا تھا، اسی لیے صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ پیدا کرنا چاہتے تھے اور اسی لیے محبت کی زبان اور اخوت کے بیان پر زور دیتے تھے۔ زمانے کی رو پر تنکے کی طرح بہنے کے بجائے وہ اس پرشخصیت کی مہر ثبت کرنا چاہتے تھے۔ وہ عظمتِ آدم کے علمبردار تھے۔ آدم کا جنت سے نکالا جانا ان کے نزدیک اس کا زوال نہیں بلکہ اس کا پہلا آزاد اقدام تھا، کیونکہ بخشی ہوئی جنت کے بجائے اپنے خونِ جگر سے جنت بنانے کا عمل زیادہ امکان پرور اور زیادہ حیات آفریں ہے۔ ہر عمومیت کو واضح کرنے کے لیے ایک خصوصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر آفاقیت اسی وقت معنی خیز ہوتی ہے جب اس کے تارو پود میں قدروں کے ایک مخصوص نظام کی کارفرمائی ہو۔ اقبال کا آفاقیت کا تصور اگر اسلام کے حقیقی، حرکی اور جان بخش اخلاقی تصور پر مبنی ہے تو اس سے اس کی آفاقی اپیل میں فرق نہیں آتا۔ اقبال کے افکار کا سر چشمہ قرآن ہے، عرب شہنشاہیت نہیں ہے بلکہ انھوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ عرب شہنشاہیت نے اسلام کے حقیقی جلوے کو پوری طرح آشکارا ہونے نہیں دیا لیکن اقبالؔ آج کل کی اصطلاح میں Fundamentalist نہیں ہیں۔ اوّل تو جیسا فضل الرحمن نے کہا ہے Fundamentalist کی اصطلاح مغرب کی تاریخ کے سلسلے میں جواز رکھتی ہے مگر اسلام میں احیا کی تحریکوں کے سلسلے میں نہیں۔ دوسرے اقبالؔ کو وہابی تحریک کی طرح احیا پرستی کے دائرے میں لانا بھی غلط ہو گا۔ وہ مصلحین کی فہرست میں آتے ہیں بلکہ میرے نزدیک تو انھیں جدید کاری کے لحاظ سے مجدد بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے خطبات میں تشکیل جدید کا لفظ اس بات کو واضح کرتا ہے، اور پھر سلیمان ندوی، عبدالماجد دریا بادی اور مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ان کے خطبات کے سلسلے میں بڑی حد تک سکوت بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ بہشت اور دوزخ اور بقائے دوام کے متعلق اقبالؔ کے خیالات اور اجتہاد کی اہمیت پر زور اور جدید دور میں اسلامی فقہ کی اصلاح پر اصرار بھی معنی خیز ہے۔ انھوں نے اسلام کے بنیادی تصورات___ توحید، مساوات، عدل اور عملِ صالح اور آب و گل سے مہجوری نہیں بلکہ تسخیر خاکی و نوری پر زور دے کر اسلام کی روح کے مطابق جدید دور میں زندگی کرنے کی تلقین کی ہے۔ اسی طرح انھوں نے اگرچہ جمہوریت کے مغربی نظام پر شدید نکتہ چینی کی ہے مگر خطبات میں خلافت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام پر تبصرہ کرتے ہوئے صاف کہا ہے کہ جمہوری طرزِ حکومت کسی طرح اسلام کی روح سے متصادم نہیں ہے۔ اقبالؔ قومیت کے جدید سیاسی تصور کو اسلام کی قومیت کے تصور سے ہم آہنگ نہ پاتے تھے، جس طرح مولانا آزادؔ پاتے تھے۔ لیکن اسلامی دنیا میں قوموں کا ایک طرح کی جمیعتہ الاقوام میں منسلک ہونا جس میں قوموں کی آزادی کے ساتھ ایک وسیع مقصد کے پیشِ نظر اشتراک اور تعاون شامل ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ قومیت کی مخالفت صرف اسی صورت میں کرتے تھے جب اس سے اسلام کو خطرہ ہو۔ مسلم ممالک میں اسلام اور قومیت کا اشتراکِ باہمی ان کے نزدیک ہر طرح درست تھا۔ یہاں میرے نزدیک ہندوستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے اقبالؔ نے ہندوستانی قومیت کو غیر مسلم اکثریت کے وجود کی وجہ سے مسلم اقلیت کے لیے ایک ایسا خطرہ سمجھ لیا تھا جو ان کے نزدیک ناگزیر تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں سیکولرازم کا فروغ ،گو ابھی اس کے استحکام میں بہت سے سنگِ گراں حائل ہیں، اقبالؔ نہ دیکھ سکتے تھے۔ مولانا آزاد کی اس پر نظر تھی مگر ہندوستانی تشخص، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اُسی وقت قابلِ قبول ہو سکتا ہے جب وہ اُن کے اسلامی تشخص کو زک نہ پہنچائے۔ ہندوستان کا دستور اس بات کی ضمانت دیتا ہے، اگرچہ عملی زندگی میں اس کے لیے اکثریت اور اقلیت دونوں میں نظر کی جس صحت اور دل کی جس وسعت کی ضرورت ہے، اس کی ابھی کمی ہے مگر اس کے امکانات میں کوئی کلام نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے اقبالؔ کے مذہبی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی افکار اپنے اندر ہمارے لیے بڑی معنویت رکھتے ہیں، مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ اقبالؔ کے موجودہ امراض کے تجزیے اور اُن کے تجویز کردہ علاج دونوں سے اتفاق ضروری ہے۔ مارکس کے متعلق بھی ایک مفکر نے کہا تھا کہ سماج کے امراض سے متعلق اس کے تجزیے سے اختلاف کی گنجائش بہت کم ہے، مگر اس کے مجوزہ علاج کے سلسلے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ اقبال کا عشق پر زور اور عقل کے حدود پر اصرار بھی غلط فہمی کا باعث ہوا ہے۔ اقبالؔ عقل کو ادب خوردہ دل بنانا چاہتے تھے۔ وہ خرد کو چراغِ رہ گذر کی حیثیت سے اہمیت دیتے ہیں، مگر انھیں درونِ خانہ ہنگاموں کی بھی فکر ہے۔ اس لیے ان کا خیال ہے ؎ زیر کی از عشق گردد حق شناس کارعشق از زیرکی محکم اساس اور اس لیے وہ کہتے ہیں کہ عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے۔ اور اقبال کے فن کی معنویت کیا ہے؟ اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ کہنا ہے کہ فن لفظ کے ذریعہ سے ذات کو کائنات بنانے کا نام ہے اور حسن کی طرح فن بھی ہزار شیوہ ہوتا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ فن کے حسن کو اس کے ہر رنگ میں پہچانیں۔ پطرس بخاری نے ۱۹۴۵ء میں ’’ہمارے دور کا اُردو شاعر‘‘ کے عنوان سے پی۔ ای۔ این کی جے پور کانفرنس میں ایک مقالہ پڑھا تھا جس کے شروع میں اس فرضی صحبت کا نقشہ کھینچا تھا جو اقبالؔ کے مرنے کے بعد جنت میں پہنچنے پر رومیؔ، میرؔ، غالبؔ اور دوسرے فارسی اور اُردو شعراء کے ساتھ برپا ہوئی، جس میں اقبالؔ کے اشعار اُن کے لیے نئے تھے مگر اُن کی زبان نامانوس نہ تھی اس لیے وہ اقبال کی بات سمجھ سکتے تھے۔ یعنی اقبالؔ کی شاعری روایت سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے اور پھر بھی اُن کی اپنی ایک آواز، اپنا ایک لہجہ اور اپنی ایک دنیا ہے۔ اقبالؔ کی مادری زبان نہ اُردو تھی نہ فارسی، یہ دونوں ان کی اکتسابی زبانیں تھیں جن میں اُن کی تہذیب اپنے صدیوں کے رچاؤ اور نکھار اپنے بھرپور جوبن اور اپنی تمام رعنائی کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ اقبالؔ حالیؔ کے راستے پر چلے مگر ان کے مرشدِ اوّل غالبؔ ہیں۔ اُردو غزل غالبؔ کے اثر سے حدیثِ دل سے آگے بڑھ کر زندگی کا ورق بن چکی تھی، مگر اقبال نے اسے صحیفۂ کائنات بنایا۔ بڑا شاعر صرف کلاسیکی یا رومانی نہیں ہوتا، وہ دونوں کا ایک عجیب سنگم ہوتا ہے۔ اقبالؔ کے نزدیک اچھی شاعری وہ ہے جو حیات بخش اور حیات آفریں ہو، جو حرکت اور عمل کی طرف مائل کرے۔ اُن کے نزدیک آرٹ زندگی کا مظہر ہی نہیں، زندگی کا آلۂ کار بھی ہے۔ اور سچّا آرٹسٹ وہ ہے جو اپنے کمال کو بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے وقف کر دے۔ انھوں نے بہت شروع میں کہا تھا کہ استعارے کا میدان وسیع ہے، شاعر اہلِ زبان کے محاوارات کا پابند ہوتا ہے اور یہ پابندی ضروری ہے لیکن اہلِ زبان کے تخیلات کی پابندی ضروری نہیں، یہ ضروری نہیں کہ متقدین نے گلشن طیور لکھا ہے تو ہم بھی گلشن طیور ہی لکھا کریں۔ اقبالؔ شاعری میں رمز و ایما کی اہمیت کو مانتے ہیں اور برہنہ حرف نگفتن کو کمال گویائی سمجھتے ہیں مگر اس پردۂ مینا کو پسند کرتے ہیں جس میں مے مستور بھی ہو اور عریاں بھی۔ اقبالؔ کے یہاں رومانی مزاج نے کلاسیکی قالب اختیار کیا گیا ہے۔ اقبالؔ کی شاعری مقصدی شاعری ہے۔ زندگی کو آئینہ دکھانے والی شاعری نہیں، زندگی کو ایک خاص نظام فکر سے دیکھنے والی شاعری ہے۔ مقصد سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر مقصد اگر شعر بن گیا تو وہ منطق سے بڑھ کر کام کرتا ہے، وہ قائل کرے یا نہ کرے ساتھ لے لیتا ہے۔ اقبالؔ کی شاعری میں بلندی پرواز کا Thrill، دھرتی اور آفاق کا نیا تناظر اور ماضی، حال اور مستقبل کا ایک نیا صحیفہ ملتا ہے اور انسان کی عظمت پر ایک نیا اعتماد پیدا ہوتا ہے، گو اس میں رجائیت پر جو اصرار ہے اور حزن یا افسردگی یا قنوطی لے سے جو یکسر بیزاری ہے، وہ مجھے ایک کمی کا احساس دلاتی ہے کیونکہ وہ غم جو مرد بنائے، اس رجائیت کے مقابلے میں بلند ہے جو ہر بونے کو سورما ہونے کے فریب میں مبتلا کر دے۔ مغرب کا اثر پہلے ہمارے یہاں نوکلاسیکی ادب کے نظریات کے ذریعے سے آیا مگر وہ نسل جس نے انگریزی ادب کا براہِ راست مطالعہ کیا، رومانی تحریک سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اقبالؔ کے یہاں یہ اثر نمایاں ہے۔ رومانیت کو بورا نے تخیل کی پرستش کہا ہے۔ اقبالؔ ماضی کی سنہری یادوں، فطرت کے حُسن کی باز آفرینی، مستقبل کے خواب، ایک مثالی دنیا کی تلاش، ان سب کے اعتبار سے رومانی ہیں، مگر یہ رومانی تخیل ایک کلاسیکی روایت، فن اور فارم کے مانوس تصور کی وجہ سے پرواز میں بھی نشیمن کا خیال رکھتی ہے۔ اقبالؔ کو چونکہ اپنا نورِ بصیرت عام کرنا تھا، کسی سینۂ پرسوز میں خلوت کی تلاش تھی اس لیے ان کے یہاں براہ راست شاعری بالواسطہ شاعری کے مقابلے میں زیادہ ہے اور آج بالواسطہ شاعری کا دور دورہ ہے۔ اس طرح شاعری کی ان تین آوازوں میں سے جن کی طرف ایلیٹ نے اشارہ کیا ہے، پہلی کے مقابلے میں دوسری پر زیادہ توجہ ہے مگر ان کے یہاں نیم ڈرامائی نظموں میں تیسری آواز بھی ملتی ہے اور جبریلؑ و ابلیس میں تو اس کی وہ بلندی نظر آتی ہے جو بقول خواجہ منظور حسین گوئٹے کی ہم پایہ ہو جاتی ہے۔ اقبالؔ نے اپنی اہم نظموں میں ایک طرف رومی کی تمثیلی حکایتوں کے ذریعے سے، دوسرے اپنے دور کے مسائل کو ایک وسیع تناظر میں رکھ کر، تیسرے انسانیت کے سفر اور اس کی منزل پر زور دے کر، بیان کو حسنِ بیان، واقعہ کو تجربہ اور تجربے کو کائنات بنانے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ غزل کا مزاج ہماری شاعری پر اتنا حاوی رہا ہے کہ نظم کی وہ تنظیم اور چُستی جو مغربی شاعری میں ملتی ہے، ابھی ہمارے بس کی بات نہیں لیکن اقبالؔ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ڈھیلی تنظیم سے ایک نسبتاً چست تنظیم کی طرف اشارہ کیا۔ تصویر درد کے مقابلے میں شکوہ اور جواب شکوہ اور شمع و شاعر اور ان کے مقابلے میں والدہ مرحومہ کی یاد میں اور خضرِ راہ میں زیادہ چستی ہے۔ طلوعِ اسلام کی تنظیم میں مجھے پھر ایک ڈھیلا پن محسوس ہوتا ہے۔ پیامِ مشرق کی فارسی نظمیں، جاوید نامہ اور بال جبریل کی نمائندہ نظمیں اقبال کے فن کی پختگی کو ظاہر کرتی ہیں، مگر مجموعی طور پر اقبالؔ کی نظموں کا ارتقا خط مستقیم کا پابند نہیں ہے۔ اس میں کچھ اِدھر اُدھر دیکھنے اور کچھ اتار چڑھاؤ کی کیفیت بھی ہے۔ بالِ جبریل کی طویل نظموں میں، ساقی نامہ تنظیم کے لحاظ سے زیادہ ترشی ہوئی ہے۔ مسجد قرطبہ میں اس طرح کی تنظیم نہیں ہے مگر مسجد قرطبہ اس کے باوجود اس لیے عظمت اختیار کر لیتی ہے کہ اقبالؔ یہاں فن، فکر اور مستیِ کردار کے سہارے ایک ایسا شاندار تناظر پیش کرتے ہیں کہ ذہن میں ایک پورا نگار خانہ آباد ہو جاتا ہے۔ بالِ جبریل کی اہم نظموں پر تو توجہ ہوئی ہے، مگر ضربِ کلیم کے فن کا مجموعی طور پر اعتراف نہیں ہوا ہے۔ ضربِ کلیم میں اقبالؔ جیسا کہ انھوں نے خود کہا ہے، ایپی گرام (Epigram) کے آرٹ کی تاثیر دکھاتے ہیں لیکن اس میں فن کے در و بست کا ایک اور کمال شعاعِ امید میں نظر آتا ہے۔ اقبالؔ کے یہاں فارسی اور اُردو دونوں میں کچھ ایسے تجربے ملتے ہیں جن کی وجہ سے بحروں کی قید میں آزادی کے دلکش نقش ہیں۔ فارسی میں تسخیرِ فطرت کے نام سے چار نظمیں اور بالِ جبریل میں لینن، فرشتوں کا گیت اور فرمانِ خدا فرشتوں کے نام تین نظمیں ایک مجموعی تاثر بھی رکھتی ہیں۔ اقبالؔ کی شاعری، ایک طرف پیمبرانہ شاعری کے راہنما اصول فراہم کرتی ہے تو دوسری طرف نغمہ و نالہ کے آداب بھی۔ ارمغانِ حجاز میں راس مسعور کے مرثیے اور حضرت انسان میں اور فارسی کی رباعیوں میں اقبالؔ کے یہاں وہی منزل نظر آتی ہے جو ٹیگور کی آخری نظموں میں ہے۔ ان اشعار میں اقبالؔ غالبؔ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں ؎ نہ پوچھ مجھ سے کہ عمر گریز پا کیا ہے کسے خبر کہ یہ نیرنگ سیمیا کیا ہے غبارِ راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال خرد بتا نہیں سکتی کہ مدّعا کیا ہے قصاص خونِ تمّنا کا مانگیے کس سے گناہ گار ہے کون اور خوں بہا کیا ہے اس دور کا ایک مسئلہ Alineationیا ناموافقت یا تنہائی کا بھی ہے۔ اقبالؔ اس سے پہلے بھی فنکار کی تنہائی کو لالۂ صحرا جیسی نظموں میں اور ارمغانِ حجاز کی رباعیوں میں بڑے بلیغ انداز میں پیش کرتے ہیں مگر مجموعی طور پر ان کے یہاں Alienationسے زیادہ Identity پر زور ہے۔ اقبالؔ کو شکوہ تھا کہ اُن کا حلقہ اُن سے حدیثِ دلبری مانگتا ہے جب کہ وہ اسے شکوہِ خسروی دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے شکوہ خسروی کی ہمارے نزدیک اس لیے اہمیت ہے کہ وہ حدیث دلبری بن کر آتا ہے۔ اس حدیث دلبری میں حسنِ تخیل، استعاراتی نظام، علامتی پیکر اور الفاظ میں گنجینۂ معانی کا طلسم اور اس کی تہ داری ایسی خصوصیات ہیں جو ہر دور میں معنی خیز رہیں گی اور شعورِ زیست حاصل کرنے اور آدابِ زیست برتنے میں ہماری رہبری کرتی رہیں گی۔ دانش ور اقبال ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ۱۹۹۴ء اقبال اور پاکستانی ادب عزیز احمد ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی بہت بڑے ادیب یا شاعر نے ادب میں اپنا کوئی مکتب چھوڑا ہو۔ ادبی عظمت کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ اس کی نقل بہت دشوار ہو۔ چنانچہ انگریزی ادب میں شیکسپیئر نے کوئی پیرو نہیں پیدا کئے لیکن ابسن اور برنارڈ شاسے ڈراما نگاروں کا ایک پورا گروہ منسوب ہے۔ کچھ یہی حال اردو ادب میں غالب کا ہوا۔ ان کو زندگی بھر گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل کے مسئلے کا مقابلہ کرنا پڑا۔ کوئی ان کی پیروی کیا کرتا۔ پھر انہوں نے جو سہل ممتنع لکھا وہ بھی کسی پیرو کے بس کا نہ تھا۔ یہی بات ہے کہ غالب کے کسی شاگرد، یہاں تک کہ حالی اور شیفتہ کے یہاں ان کا رنگ نہیں جھلکتا ۔ اسی طرح جس کسی نے اقبال کے اسلوب کی پیروی کی کوشش کی، کوئی خاص کامیابی نہیں حاصل کی۔ بات یہ ہے کہ اقبال کے پورے اردو اور فارسی کے کلام میں اسلوب کی حیثیت بڑی ثانوی ہے۔ سب سے پہلے اقبال کی پیروی کی کوشش چکبست نے کی۔ بعض لکھنئو والے انہیں بہت سراہتے ہیں، مگر مجھے آج تک سوائے چند اشعار کے چکبست کے کلام میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ چکبست نے ایک نہیں کئی شاعروں کی پیروی کی ہے اور یہی ان کے کلام کی مجموعی افراتفری کا راز ہے۔ ان کے یہاں انفرادیت نہیں۔ پھر جوش نے اقبال کی پیروی کی جا بجا کوشش کی۔ لیکن جوش کے راستے میں چند مشکلیں حائل ہیں۔ ایک تو یہ کہ تشبیہات پر انہیں ضرورت سے زیادہ قدرت حاصل ہے، دوسرے یہ کہ ان کا ذہنی سرمایہ بڑی شدت سے محددو ہے۔ ایک کی وجہ سے ان کے کلام میں اقبال کے مقابل کہیں زیادہ رنگینی آ گئی اور دوسری خصوصیت کی وجہ سے وہ عمر بھر کبھی کوئی گہری بات نہ کہہ سکے، وہ ہمیشہ دہراتے ہی رہے، خواہ خیالات انقلابی ہوں یا رندانہ۔ ایک طرح کا رنگین ولولہ، شوخی، اورگستاخی جوش کے کلام میں بھی ہے، اور اردو ادب کے لیے ایک خاص چیز ہے۔ لیکن اس کو اقبال کی شاعری کے بے پناہ تموج، اس کی وسعت، اس کی حرکت اور تلاطم سے کوئی نسبت نہیں۔ لیکن پھر بھی یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگر اقبال نہ ہوتے تو جوش کا ڈھنگ کچھ اور ہی ہوتا، وہ یہ جوش نہ ہوتے۔ اور بہت سے شاعروں نے اقبال کی کچھ کچھ پیروی کی۔ ان میں سے بعض بعض کے نام اب صرف اردو ادب کے طالب علموں کو یاد رہ گئے ہیں۔ ان میں وحیدالدین سلیم پانی پتی بھی تھے۔ لیکن ان کا رنگ بھی کچھ نقل ہی نقل رہا۔ ایک طرح کی ذہانت اور جودت انہیں بھی تھی مگر وہ عظمت میں تبدیل نہ ہونے پائی۔ نوجوان شعر انئی تحریکوں میں کچھ اس طرح بھٹک گئے کہ انہوں نے اقبال کی شاعری کے قالب اور روح دونوں کو فراموش کر دیا۔ ترقی پسند تحریک نے جہاں بہت سی کہنہ روایات کو توڑا وہاں ادب کو بعض بہت شدید صدمے بھی پہنچائے۔ ایک بڑا سخت صدمہ یہ پہنچا کہ اگر بعض بہت اچھے نظم اور غزل لکھنے والے شاعر زندہ نہ ہوتے تو طرح طرح کے تجربوں میں نظم اور غزل دونوں کا عظیم الشان روایتی سلسلہ اگر منقطع نہ ہوتا، تو اس کی نشوونما میں روک ضرور پیدا ہوتی۔ پاکستان کے نوجوان شعرا پر اقبال کے کلام کا مجموعی اثر اس قدر کم ہے کہ حیرت اور عبرت ہوتی ہے۔ فیض اور راشد کی نظموں کے ڈھانچے ایلیٹ، اوڈن اور اسپنڈر سے زیادہ قریب اور ماخوذ ہیں۔ اور چونکہ ایک اجنبی ادب سے تسلسل کا رشتہ زیادہ مضبوط نہیں تھا، اس لیے ان تجربوں میں بعض بعض خاص صورتوں کے علاوہ جان نہیں۔ اس کے بعد اقبال کی پیروی دوسرے درجے کے شاعروں کے حصے میں آئی اور انہوں نے بھی بدقسمتی سے اقبال کی شاعری کی روح حرکت کے بجائے، ان کے اسلوب اور انہیں کے خیالات کو دہرانے کو ہنر سمجھا۔ پاکستان کا تصور زیادہ تر اقبال ہی کے ذہن کا ایک نتیجہ ہے۔ انہوں نے جمہوری اور اشتراکی تصور و طنیت کے بجائے ایک نئی طرح کی قومیت کا تصور پیش کیا۔ اس تصور قومیت کی بنیاد رفنان کے بعض تفکرات پر مبنی ہے جن کا انہوں نے ۱۹۳۰ء والے مسلم لیگ کے خطبے میں حوالہ دیا ہے۔ ہندوستانی برصغیر کی مسلم قومیت کا تصور، ایک ایسی انسانی ثقافت کی وحدت کا تصور ہے جس سے ایسی انسانی قدریں وجود میں آئی ہیں جو دوسرے تمدنوں کو یا تونصیب نہیں ہوئیں یا انہوں نے اسی تمدن سے ان کو حاصل کیا، یا اس تمدن سے ا نہیں بڑی تقویت پہنچی۔ اس برصغیر کی اسلامی ثقافت بذات خود ایک انسانی اقدار پیدا کرنے والی وحدت ہے، اور اسی لیے اس کا تحفظ لازم آتا ہے۔ شروع شروع میں اقبال نے جغرافی وطنیت کی جو مخالفت کی، وہ اس وجہ سے تھی کہ اس وقت تک انہوں نے ’’ملی وطنیت،، کا تصور پوری طرح اپنے فلسفے سے اخذ نہیں کیا تھا۔ اور جب اپنی شاعری کے آخری زمانے میں، یعنی ۱۹۳۰ء اور اس کے بعد، انہوں نے ’’ملی وطنیت‘‘ کے تصور کو ملت کے استحکام اور بقا کے لیے ایک ضروری شرط کے طور پر قبول کر لیا تو پاکستانی تحریک کا آغاز ہوا۔ جس سے ہم سب سے پہلے اقبال ہی کی تحریروں ، تقریروں، ان کے کلام اور ان کے خطوط میں روشناس ہوتے ہیں۔ پاکستان اقبال کی ملی اور اسلامی شاعری کا جغرافیائی ظہور ہے اور اسی لیے وہ عینیت جو پاکستان کے حامی اور خادم آج اپنا مقصد قرار دیتے ہیں دراصل ان تمام اقدار پر مشتمل ہے جن پر اقبال کی اسلامی انقلابی شاعری میں زور دیا گیا ہے۔ اگر پاکستان کی تحریک میں ثقافتی عنصر خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے تو اس کی بھی ضرورت ہے کہ اس کا تحفط کیا جائے اور اس کی نشوونما کی جائے۔ اس ثقافتی عنصر کو زمانے کی ضروریات کے پیش نظر نئی سے نئی منزل کی طرف بڑھایا جائے کیونکہ اقبال کی فکر میں، اور خیال، عمل اور ارادے کی دنیا میں، ہرجگہ حرکت ہی عین حیات ہے لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہی ثقافتی قدریں، یعنی ماضی کا تحفظ ، اور مستقبل کی تعمیر کی قدریں اب تک پاکستانی ادب میں اپنا صحیح مقام پوری طرح حاصل نہیں کر سکیں۔ ماضی کو منہدم کرنے میں تقسیم سے قبل کے برصغیر کی ترقی پسند تحریک کا بڑا حصہ تھا۔ یہ انہدام روایت شکنی کے جوش میں مجنونانہ سرگرمی کی حد تک بڑھ گیا تھا۔ اس نے اچھے اور برے، خزف و گوہر، رطب ویابس میں کوئی امتیاز نہیں کیا۔ ہندوستانی ادیب تو پھر ایک ذرا سا چکر کاٹ کے دیومالا، بھگتی تحریک اور اہنسا کی طرف واپس لوٹ گئے لیکن ہندوستان کے ادیب مسلمان اور پاکستان کے ادیب اب تک تذبذب کے عالم میں ہیں کہ کس بنیاد پر اپنی تعمیر کریں۔ بہت سے جنتا کا نام جپنے لگے اور روس کے جدید ادب کی پیروی کرنے لگے جس کا معیار ہر سال گرتا ہی جا رہا ہے۔ بعض نے ہندوستان سے رشتہ جوڑا لیکن بعض ادیبوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بھی محسوس کیا کہ پاکستان اگر ایک مملکت ہے اور اگر اس مملکت کے رہنے والے ایک ملت ہیں، ایک ثقافت کے محافظ ہیں تو ان کا ایک مشترک ادب بھی ہونا چاہیے جس میں ماضی کی روایات جذب ہوں اور جو ایک مستقبل کی طرف قدم اٹھائے۔ پاکستانی ادب کی تحریک، اسی لیے اقبال سے وابستہ ہے، اس کا کام ایک ایسے تمدن کی قدروں کو زندہ رکھنا ہے جس نے ادب میں ابوالفضل اور خسرو اور غالب کو پیدا کیا۔ جس نے مختلف بولیوں سے ایک نئی زبان بنائی۔ ایسی زبان جس کا سرمایہ دنیا کی کسی زندہ زبان کے آگے شرما کے سر نہیں جھکا سکتا۔ جس نے مصوری اور موسیقی میں اپنی ایک خاص نہج اور خاص طرز کا آغاز کیا اور اسے تمام کو پہنچایا، جس نے تاج محل تعمیر کیا، اور لاہور اور کشمیر میں ایسے باغات لگائے جن کی نظیر شاید ہی کہیں اور ہو۔ اس قوم کا ایک خاص دستور اخلاق ہے ایک خاص زاویہ نظر ہے جس سے وہ دنیا اور طبیعیات اور زندگی کو دیکھتی ہے۔ اس میں ایک خاص طرح کی انسانیت ہے۔ ایک خاص طرح کی عالی ظرفی ہے جس سے وہ رنج و انبساط دونوں کو اسیر کر سکتی ہے۔ زندگی کی دوڑ میں اس قوم اور اس تمدن نے بھی بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں اور سب سے بڑی قربانیاں تو اقبال کے مرنے کے بعد تقسیم کے بعد کے قتل عام میں دی ہیں اور اس قوم، اس تمدن اور اس ثقافت نے جو کچھ تخلیق کیا وہ کوئی اتفاقی یا اضطراری عمل نہیں تھا، یہ ایک باشعور مسلسل باسلیقہ حرکیت تھی جو اپنی تخلیق کے محرکات اور اس کے نتائج میں دوسری قوموں اور دوسرے محرکات سے ممتاز ہے، خواہ دوسری قومیں اس کی ہمسایہ ہی کیوں نہ ہوں اور اس کے اپنے گھر ہی کیوں نہ رہتی ہوں۔ اس نے دوسروں سے اثرات قبول کئے ہیں اور دوسروں کو متاثر کیا ہے۔ لیکن صدیوں کے تاریخی میل جول یا مقابلے میں کبھی اس نے اپنی انفرادیت اپنی منفرد تخلیقی صلاحیت نہیں کھوئی۔ وہ کبھی کسی اور ثقافت ، کسی اور تمدنی تحریک میں جذب نہیں ہونے پائی، اور اسی لیے وہ آج تک زندہ ہے۔ یہی وجہ کہ ادب اور فنون لطیفہ کی پاکستانی تحریک کوئی نئی چیز نہیں۔ یہ وہی شے ہے جو کل کی ملی تحریک تھی۔ اب اسے وہ جغرافی ذرائع وہ معاشی وسائل حاصل ہو گئے ہیں جو پہلے نہ تھے اور اسی لیے اس کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہونی چاہیے۔ ادب اور آرٹ کی پاکستانی تحریک کے مقابلے میں سب سے زیادہ رکاوٹ دو محاذوں سے ڈالی جا رہی ہے۔ جو اصل میں ایک ہی ہیں اور ترقی پسند مصنفین کے جدید ترین نظام العمل سے وابستہ ہیں ۔ شروع شروع میں یہ انجمن ، ہندوستان کی اشتمالی جماعت کی طرح مسلم لیگ اور مطالبۂ پاکستان کی حامی رہی۔ مسلمان عوام کے اس مطالبے اور خود اقلیتی صوبوں کی مسلمان آبادی کی قربانی کو اس نے عوامی تحریک جانا، لیکن پھر بین الاقوامی سیاست کی شطرنج پر کچھ ایسی تبدیلیاں ہوئیں کہ پہلے تو شمالی جماعت اور پھر انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان اور مسلمان عوام کے اسی حق خود ارادیت کی مخالف ہو گئی جس کی اس نے کئی سال تک حمایت کی تھی۔ ادبی محاذ پر اس کا یہ اثر ہوا کہ ہندوستان کی بنیادی طور پر ہندو ثقافت اور پاکستان کی بنیادی طور پر اسلامی ثقافت کے فرق کو اس نے چھپانے کی کوشش کی۔ اس نے ہندوستانی قوم پرستوں کی طرح اس برصغیر کی نام نہاد جغرافی وحدت اور اسی لیے تمدنی وحدت پر زور دینا شروع کیا۔ یہ دہرا عمل تخریب ایک طرح سے اس ملک کے تمدن اور اس کی ثقافت کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی تجویز ہے۔ جن عوام کے نام پر یہ تحریک نعرے لگاتی ہے، یہ انہیں کو فنا کرنے اور انہیں پھر سے کشت و خون میں آلودہ کرنے کے سامان کر رہی ہے۔ اس کا کام نہ صرف ملک کے نظام میں بلکہ دماغوں میں افراتفری اور انتشار پیدا کرتا ہے۔ اگر پاکستان محض ایک سیاسی وحدت نہیں بلکہ ایک تمدنی ، مذہبی و ملی، اخلاقی و حدت ہے۔ اگر وہ انسانی اقدار کی ایک منفرد اکائی ہے تو اس قسم کی مخالف تحریکیں نہ زیادہ دن یہاں چل سکیں گی اور نہ اس ملک کے ادب اور اس کی ثقافت کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گی۔ بہت سے ادیب پرانی تحریکوں سے اپنے ناتے توڑتے جائیں گے اور نئے ادیب اور شاعر پیدا ہوں گے جو پاکستان کی ملی اور قومی وحدت کی تعمیر اور اس کی ترجمانی کر سکیں گے۔ یہ ترجمانی اب تک سب سے بہتر اقبال نے کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض شاعروں کا کلام بعض قوموں کی روح حیات کو بہت متاثر کرتا رہا ہے۔ مثلاً ہو مر کی شاعری یونانیوں کے لیے اور شلر کی شاعری جرمنوں کے لیے ایک بہت بڑا قومی ہتھیار تھی۔ لیکن شاید ہی دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر ہو کہ ایک شاعر نے ایک قوم کو اس کے وجود سے خبردار کیا، اسے بقا کے طریقے بتائے، بقا کی جدوجہد میں اس کا ہاتھ بٹایا، اور آزاد ہو کے دنیا کے نقشے پر اپنے لیے جگہ محفوظ کرنے کا راستہ دکھایا۔ یہ سارا کام اس شاعر نے اپنی فکر، حکمت ، شاعری سے کیا۔ ادب اور فنون لطیفہ کی یہ تحریک اقبال کا سب سے بڑا، اور زندہ تحفہ ہے۔ اس نے ایک ملک کی تعمیر کی بنیاد رکھی ہے، اور ایک قوم کو صدیوں کے بعد جِلایا ہے اور اب یہ نئی پود کے شاعروں کا کام ہے کہ وہ اقبال کی لفظی یا خیالی نقالی کے ذریعے نہیں، بلکہ اس قومی روح حیات میں جذب ہو کے نئے ادب، نئی فکر اور فنون لطیفہ کے نئے رحجانات کی تخلیق کریں۔ اقبال اور پاکستانی ادب، عزیز احمد، ترجمہ: ڈاکٹر جمیل جالبی مرتبہ: ڈاکٹر طاہر تونسوی،مکتبہ عالیہ، لاہور،۱۹۷۷ء اقبال کی معنویت ہمارے عہد میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری اردو شعرا کی عام روش کے برعکس، جو طے شدہ موضوعات و خیالات پر معمولی فرق کے ساتھ تماشۂ اظہار کرتے کبھی نہیں تھکتے، اقبالؔ کا سب سے بڑا وصف اُن کی نظر کی خلّاقی اور تازہ کاری میں پنہاں ہے۔ ان کی اوّلین توّجہ اس امر پر تھی کہ وہ تہذیب مغرب کی تنقید نیز حقیقت کے اپنے ذاتی نظریے کی نمود، ایک امتیازی صیغۂ اظہار میں کر سکیں۔ یہ ایک بد یہی حقیقت ہے جسے اکثر دوہرایا جاتا ہے کہ اقبالؔ کی عبقریت کو جسے اصلاً مشرقی مآخد سے تاب و توانائی ملی تھی، مغرب کی فلسفیانہ روایت میں اُن کے تجاذب نے، مزید جلا بخشی، یورپ کے زمانۂ قیام میں انہیں اہلِ مغرب کے ذہنی رویوں، نیز تاثرات پر غور کرنے اور افکار کی زیریںلہروں کو گرفت میں لانے کا موقع مِلا تھا۔ انھوں نے یہ ادراک بھی کیا تھا کہ یورپی تہذیب کس طرح لحظہ بہ لحظہ اپنے مقدر کے ناگزیر اور منطقی بحران کی جانب بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ کہنا حقیقت سے بعید نہ ہو گا کہ مغرب کے اندازِ فکر اور نظام اقدار سے اُن کی گہری شناسائی نے ان کے ذہن میں ایک شدید ردِ عمل کی بنا ڈالی، اور اس کے ساتھ ہی ساتھ، اس نے اقبالؔ کے ہاں ان مقدمات کو از سرِ نو تشکیل دینے کی آرزو بھی خلق کی جن پر ان کے اپنے تصورِ حقیقت کی اساس قائم ہے۔ از منۂ وسطیٰ کے عرب حکماء کو اقبالؔ اُس ’’وسیلے‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس نے یُونانیوں کا فکری ورثہ مغرب تک پہنچایا۔ وقت کی خلیج پر اس پُل کی تعمیر کے بغیر انسانی تاریخ کے تاریک ادوار نشاۃ الثانیہ کے جوہر کی نمود کے لیے راہ ہموار نہیں کر سکتے تھے۔ سولھویں صدی کے انگلستان میں ایک اہم شخصیت بیکن کی ہے جس کی اس خدمت کا کماحقہ، اعتراف کیا گیا ہے کہ اس نے استقرائی طریقے کو اپنانے اور طبعی دُنیا کی چھان بین میں ایک تجرباتی رویہ اختیار کرنے پر اصرار کے ذریعے، علم کے نئے آفاق تلاش کئے۔ لیکن اب یہ ایک غیر متنازعہ مفروضہ ہے کہ حقیقت موجود کی جو اصولی تعبیر بیکن نے کی ہے، اُس کے پیش بین عرب حکماء تھے۔ از منہ وسطیٰ کے مسلمان مفکرین یونانی کتابوں کے شارحِ محض یا علم کے بے حس و حرکت پیغامبر نہ تھے، بلکہ وہ اپنے طور پر فلسفیانہ تفکر کی استعداد بھی رکھتے تھے۔ انسانی فکر کوابی سینا، فارابی اور ابنِ خلدون کے حیرت انگیز طور پر منفرد عطیات سے قطع نظر، جن کی استواری کا اعتراف مغرب نے اب جا کر کیا ہے، جو بات زیادہ چونکانے والی اور بر محل نظر آتی ہے، یہ ہے کہ ان کارناموں نے انسانی ذہن کو بندشوں سے نجات کی راہ دکھائی اور اُسے دینوی نیز مابعد طبعی، دونوں حقیقتوں کے ایک معروضی اور نتیجہ خیز مطالعہ کی تحریک بخشی۔ اس واقعے نے مغربی یورپ کو ادعائی دینیات کی ان قیود کو توڑنے پر اکسایا، جنہوں نے از منہ وسطیٰ میں انسانی دانش کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ بعض یورپی فلاسفہ اور تخلیقی ادیبوں کی طرح اقبال بھی تہذیبِ مغرب کو ایک شدید اور جاں کاہ تنقید کی زد پر لاتے ہیں۔ اس تنقید کے دو پہلو ہماری توجہ کو فوری طور پر اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔ یورپ کے زمانۂ قیام میں اقبال نے قومیت کے نظریے کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور یہ بھی کہ ہر قسم کی سیاسی اور علاقائی ہوسناکی کو چھپانے کے لیے اس نظریے کو ایک طلسمی حجاب کی صورت میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ سیاسی انفرادیت کے تصور کو، جس کی حاسدانہ حفاظت کی جاتی تھی، دُوسری تمام وفاداریوں کی قیمت پر فروغ پانے کا موقع دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک وسیع المشربانہ یا عالمی اندازِ نظریا تو قطعاً فراموش کر دیا گیا یا اُسے مبہم بنا دیا گیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قومی شعور کی ایک جارحیت آمیز قسم، جس کے گرد تاریخی و جغرافیائی حد بندیوں کا حصار تھا، تیزی نے نمو پذیر ہوئی۔ فاشزم، نازی ازم اور بولشوازم جیسے طاقتور سیاسی اور اقتصادی نظام، جن سے ایک عالمی کردار منسوب کیا جاتا تھا اور علاقائیت سے ماورا وفاداریوں کا تقاضہ کرنے کے داعی تھے، بالآخر ایک نوع کی علاقائی گروہ بندی کی طرف مائل ہوتے ہوئے نظر آئے۔ قومی جذبات نے ہر قدم پر ان کا محاسبہ کیا۔ اقبال کے لیے ایسے نظریے کی پروردہ تنگ نظری نا مطبوع تھی اور وہ ایک پُراسرار بصیرت کے ساتھ اس امر کا ادراک کر سکتے تھے کہ اس قسم کی ایذا رساں قومیت کی ہوا خُود ہی ایک سچے انسانی تصور کی جڑوں پر لازماً ضرب لگائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ چنانچہ یہ نظریہ ایک نوع کی سیاسی مہم پسندی کا ایک تابع نیز مطلق العنانیت کے منصوبوں کا کارنامہ نظر آتا ہے اور ایک مخصوص قومی ریاست کے مفادات کی حفاظت کے لیے اسے ایک ذریعے کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ لیکن کسی مخصوص سیاست نظریے کی باضابطہ تنقید سے قطع نظر، اقبال بعض ایسی بنیادوں کو نشانہ بنانے پر زیادہ مائل تھے، جن پر مغربی اسلوب زیست کی اساس قائم تھی۔ بالفاظ دیگر وہ اس کی خالصتاً مادی اساس کو مسترد کرتے ہیں، کیوں کہ اُن کے نزدیک حقیقت کا مفہوم اپنے آخری تجزیے میں روحانی ہے۔ اُن کے نزدیک زندگی کا مولد اور مرجع وہ شعور ہے جو (ایک غیر تعریف پذیر) حقیقت (اولیٰ) کے مترادف ہے، اور اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مادہ ہے، جسے زندگی کا دھارا اپنے بہاؤ سے کنارے پر لگا دیتا ہے۔ زندگی کے ارتقا کی تعریف بالعموم آداب حیات میں مسلسل اضافے کی اُن اصطلاحوں میں کی جاتی ہے جنہیں مادہ اپنے سفرِ ارتقا کی مختلف منزلوں پر حاصل کرتا جاتا ہے لیکن اقبال نہ مادے کی اس فضیلت کا اعتراف کرتے ہیں نہ اس مفروضے کو تسلیم کرتے ہیں کہ خیال مادے ہی کے ارتقا کا حاصل ہے۔ اُن کے نزدیک یہ مادہ نہیں بلکہ شعور ہے جو زندگی کی صفت کا تعین کرتا ہے اور یہی وہ شعور ہے جو حیات کے کثیر الانواع پہلوؤں میں منعکس ہوتا ہے۔ مادہ اور اس کو گوناگوں شکلیں مجہول و منفعل ہوتی ہیں جب کہ اس کے برعکس، شعور مقصد کے انتخاب اور آزادی کے مترادف ہے۔ اقبال احتیاج، میکانیکت اور جبر کی تمام شکلوں کے مخالف ہیں۔ دوسری طرف وہ انسانی ارادے کی آزادی، انا کی تصدیق و اثبات اور انسانی شعور کے تئیں مادے کی مسلسل اطاعت کے زبردست موئید ہیں۔ انا کی تصدیق و اظہار کے اسی عمل میں زندگی نئے ابعاد سے ہم کنار ہوتی ہے۔ مادّے کی فضیلت اور تفوق پر ایمان، اُس کائنات کی نفی کا راستہ دکھاتا ہے جو خدا کی خلق کی ہوئی ہے اور جس میں شعور کو ایک مرکزی نقطے کے حیثیت حاصل ہے۔ اقبال اس طرزِ فکر کی پُر زور طریقے سے تکذیب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی کا سلسلہ غایاتی ہے اس مفہوم میں نہیں کہ یہ پہلے سے متعین ہو چکا ہے بلکہ یوں کہ بالآخر یہ کسی مقصد اور منزل ہی کے ارتقا کے عمل میں لازمی طور پر نمو پذیر ہوتا ہے۔ زندگی محض ایک بے شعور بہاؤ اورحرکت کے مماثل نہیں ہے۔ فی الاصل یہ ایک رواں دواں جوئے آب ہے جس کا تحرک مقصدی بھی ہے اور معنی سے معمور بھی۔ یہی وہ تحرک ہے جو اقدار و مقاصد کی تخلیق کرتا ہے۔ نصب العین اور تمناؤں کو جنم دیتا ہے اوراُن کی دریافت ہی کے عمل میں زندگی فی الواقع اپنا جواز پاتی ہے۔ ان تمام باتوں کو برگساں کی خوشہ چینی قرار دینا نا انصافی ہو گی کیونکہ برگساں پر اقبال کا خاص اعتراض، جس کی توثیق وہ اپنی تمام تر منطقی استعداد کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہی ہے کہ برگساں نے اپنی فکر میں بے ارادہ طور پر یاعقبی دروازے سے راسخیت (Rigidity) اورمیکانکیت کو راہ دی ہے۔ یہاں یہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ اگرچہ حقیقت کا اصل مفہوم قرآن حکیم کے نزدیک روحانی ہے اور اقبال اس کی مکمل طور پر حمایت کرتے ہیں، تاہم مادی، دنیوی اور غیر دینی حقیقتیں بھی اُس کے انکشاف کی خارجی صورتیں ہیں، روحانی اور دنیوی، جس کی جانب اقبال نے اپنے خطبات میں اشارہ کیا ہے۔ اسلام میں دو الگ الگ علاقوں کی حیثیت نہیں رکھتے، ان کے مابین ایک نازک رشتہ بھی ہے۔ اسلام میں دو الگ الگ علاقوں کی حیثیت نہیں رکھتے، ان کے مابین ایک نازک رشتہ بھی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم جسے غیر دینی یا مادی قرار دیتے ہیں اپنی سرشت میں وہ فی الحقیقت منزہ ہے۔ بشرطیکہ اس پر غور و فکر یا اسے برتنے کے دوران ذہن اشیا کی پیچیدگی کے تصور کا مکمل ادراک کر سکتا ہو۔ ہمارے تمام افکار اور اداروں کے لیے دنیائے مادی ایک تماشہ گاہ عمل کی حیثیت رکھتی ہے اور روح کی زندگی اس میں شامل ہے۔ بہر نوع، اصل حقیقت، جیسا کہ اقبال کہتے ہیں، یہ ہے کہ مادہ زمان مکانی کے استشارے میں روح ہی ہے۔ اقبال کا تصور حقیت، اپنے نقطہ اولیں پر، اس امر سے متصف ہے کہ زندگی ان کے نزدیک جامد نہیں، حرکی ہے۔ یہ تصور یونانیوں، علی الخصوص افلاطون کے نظریے کی اساس ہی کو منہدم کر دیتا ہے۔ اقبال اس معاملے میں نصفاً نصفاً برگساںؔ اور از منہ وسطی کے مسلمان حکماء دونوں سے مستفیض ہوئے ہیں۔ اس کا اصل بیج، بہرنوع، خود قرآن حکیم کی تعلیم میں ملتا ہے۔ ثانی الذکر کا اصرار اس اصول حرکت پر ہے جو اس کائنات کے (جس میں ہم زندہ ہیں) ڈھانچے کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ ایقان کے ایک لزوم کی حیثیت سے یہ خیال عمل کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ صرف غور و فکر یا ایقان محض جو مطابقت رکھنے والے عمل سے لاتعلق ہو، افراد کو ساری دنیا سے مستغنی، خود مکتفی اکائیوں میں منتقل کر سکتی ہے۔ اعلیٰ ترین خیر کے انتہائی حصول کے لیے فرد کو مملکت کا ایک موثر رکن اور اس معاشرے کا جس سے وہ منسوب ہے، ایک سرگرم شریک کار بنانے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے جزیرے نما وجود کی کینچلی کو منتشر کر سکے۔ اقبال جسے خودی کہتے ہیں فی الحقیقت جنین کی حالت میں انسانی قوتوں کے مرادف ہے۔ انا یا خودی اپنے آپ کو اسی وقت دریافت کرتی ہے، جب پوشیدہ نفسی قوتوں کا اخراج یا تعین ہوتا ہے اور ان کا تعین صرف عمل ہی کی اصطلاحوں میں ممکن ہے۔ ’’ہے‘‘ اور ’’چاہیے‘‘ کی تقطیت میں اقبال ثانی الذکر پر زور دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جو امر واقعی غور و فکر کے لائق ہے، ہماری موجودہ نہیں بلکہ ممکنہ حالت ہے۔ خودی کی توانائی کا واحد ذریعہ عمل ہے اور یہ اسی وقت توانائی سے ہم کنار ہوتی ہے جب غیر نفس سے برسر پیکار ہونے کی تدبیر کرتی ہے، اُسے خود سے ہم آہنگ کرتی ہے اور اُسے اپنے مناصب کا پابند بناتی ہے۔ اس امر کی جانب اقبال اشارہ کر چکے ہیں کہ غیر نفس، نفس کے لیے ایک ضروری وسیلۂ اتمام کے طور پر، خود نفس ہی کا وضع کردہ ہے۔ ایک ہمیشہ تغیر پذیر مظہر کی حیثیت سے حقیت کو، نیز کسی فرد کے اپنے نصب العین کے مطابق اس کی تشکیل نو کے لیے عمل پیہم کو، اقبال کے تصور حیات کی خشتِ اول سمجھنا چاہیے۔ بلا شبہ، اقبال وجدان کو شاید اس کی قوت کشف، یا حصول معرفت کا قریب ترین ذریعہ ہونے کی حیثیت سے، مجرد عقل کی بہ نسبت زیادہ وقیع سمجھتے ہیں۔ اس کا مفہوم، بہرحال کلیتہً عقل کی تحقیر نہیں ہے جیسا کہ پہلے ہی اشارہ کیا جا چکا ہے۔ اقبال اس حقیقت کو نمایاں طور پر پیش کرتے ہیں کہ عقل کے استقرائی انداز مغربی دنیا تک عرب حکما کے ذریعے پہنچے۔ ایک تجربی رویہ اختیار کیے بغیر طبعی مظاہرہ کو بھلا اور کس طرح سمجھا جا سکتا ہے؟ یہاں اس امر پر زور دینا مناسب ہو گا کہ اقبال یورپ کے اکثر مفکروں اور تخلیقی فن کاروں کی طرح عقل اور وجدان کی دو قسمیت میں یقین نہیں رکھتے۔ اقبالؔ جس امر کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں یہ ہے کہ ہم عقل کو حقیقت کے تصور ادراک کا واحد اور خود مکتفی ذریعہ سمجھتے ہیں۔ استخراجی ، چونکہ ایک محدود قیاسی ڈھانچے پر قائم ہے، اس لیے اپنی واضح حد بندیاں رکھتا ہے۔ اس کے برعکس استقرائی تعقّل اعداد و شمار کی درجہ بندی، اُس کی توثیق و تجزیے، نیز موجود سے ممکنہ یا تخمینی سے استنتاج کے عمل کی راہ صاف کرتا ہے۔ اقبالؔ جو بات غیر مبہم طریقے سے کہتے ہیں، یہ ہے کہ اس فکری مہم جوئی میں ہم ایک ایسی منزل تک پہنچ سکتے ہیں، جہاں ہمارے سامنے سوائے ایک اندھی گلی میں بھٹکتے رہنے کے اور کوئی راستہ نہ ہو۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ہمیں اس نور کی حاجت ہوتی ہے جو کبھی کبھی بے استمداد بھی سامنے آ جاتا ہے اور اچانک ہم خود کو روشنی کے ایک مہیب سیلاب میں ڈوبا ہوا پاتے ہیں۔ اس طرح وجدان تجربی تعقّل کی بصیرتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور اسی لیے اسے ورڈس روتھ کے مفہوم میں ’’ارفع تر عقل‘‘ کے ہم پلّہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا بہر نوع زیادہ صحیح ہو گا کہ عقل اور وجدان کی ثنویت پر ضرورت سے زیادہ زور دینے کی بجائے اقبال انسانی تجربے کی اس کلیّت میں ایک خاموش ایقان رکھتے ہیں جو ان دونوں کے زمروں سے ارتفاع کر جاتا ہے۔ انہی دو تصورات سے مربوط ایک اور تصور بھی ہے جسے کم معنی خیز یا نازک کہنا مشکل ہو گا۔ میرا اشارہ یہاں کائنات میں انسان کی محوری حیثیت نیز وہ وقار جس سے اقبال انسان کو متصف کرتے ہیں، ان دونوں پر ان کے اصرار کی جانب ہے۔ اسی کے پس پشت انتخاب کا وہ تصور اور وہ احساس ذمہ داری چھپا ہوا ہے جس کے ذریعے وہ اس انتخاب کا استعمال کرتا ہے اور جسے وہ اپنی قوتوں کو عمل میں منتقل کرنے کے لیے ظہور میں لاتا ہے۔ محدود انا، بسیط انا کا ہی ایک جزو یا اس کی شبیہ ہے اور اگر موخر الذکر کو ارادہ سے متصف کر دیا جائے تو محدود انسانی انا اس انوکھی نعمت سے کیونکر محروم رہ سکتی ہے؟ اتفاقات کی اس دنیا میں انجام پذیر ہونے والے انسانی اعمال خدا کے لیے فی الاصل ’’معلوم‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ادراک خداوندی کے فوری عمل میں ان (اعمال) کی شمولیت دنیائے زمانی میں انسان کو ایک طے شدہ اختیار کی زمام نہیں سونپ دیتی۔ یہ اعمال یہاں ایک پہلے جانے ہوئے لیکن ایک کھلے ہوئے امکان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذمہ داری کا وہ بوجھ جسے پہاڑوں نے بھی اُٹھانے سے انکار کر دیا تھا، جیسا کہ قرآن میں مثالیہ کے طور پر بتایا گیا ہے، اُسے قبول کر کے انسان نے اس خلق کی ہوئی دنیا کی اَنی (مرکزی نقطہ) کے طور پر اپنے تفوق کے دعوے کو مسلّم کر دیا ہے۔ اقبالؔ انسان کو اپنی تقدیر کا معمار قرار دیتے ہیں۔ ایسا معمار جو بعض اوقات الوہیت کے طور طریقوں کو للکارنے سے بھی نہیں ہچکچاتا اور تخلیق کے عمل میں خود کو اس کے شریک کار کی حیثیت سے تسلیم کیے جانے پراصرار کرتا ہے۔ انتخاب کی اس نعمت کی روشنی میں اس کے علاوہ دوسری کون سی صورت ہو سکتی تھی کہ انسان اس ادّعا کا بار اٹھانے کی استطاعت پیدا کرتا؟ ذمے داری کے ایک تربیت یافتہ مفہوم کے تطابق میں انسان کا یہ ترفع اقبال کو معاصر عہد کے وجودی مفکروں سے قریب کر دیتا ہے۔ اگرچہ اپنی تحریروں میں انھوں نے کہیں بھی ان کی جانب کوئی خصوصی اشارہ نہیں کیا۔ اسے اس امر کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انتخاب کی یہ آزادی ایک نوع کی اخلاقی مقصدیت میں محصور ہے اور چند مخصوص طور پر پرورش یافتہ دینی اقدار ہی کے چوکھٹے میں سرگرم کار ہوتی ہے۔ اس حصار میں ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی لامحدودیت کو اس حد تک قطع کر دیا گیا ہے کہ یہ ’’الوہی ارادے‘‘ نیز انسان کے سماجی مقصد کی ترقی سے ہم آہنگ ہو سکے۔ اقبال کے تصّور حیات کو بالعموم دو محاذوں پر تنقید کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ اولاً یہ کہ وہ خاطر خواہ طور پر ترقی پسند نہیں کیونکہ ان کا تصور تاریخی تسلسل کی مارکسی تعبیر سے موافقت نہیں رکھتا اور تہذیب کے ارتقأ میں معاشی قوتوں کو آخری اور واحد فیصلہ کن حقیقت نہیں مانتا۔ دوسرے یہ کہ آفاقیت، اثباتِ اَنا، انتخاب کی آزادی اور زندگی کے بنیادی اصول کی حیثیت سے حرکت کے تصور کی نسبت ان کی تمام باتیں اسلام کے اساسی قوانین کو ہی وسیلہ بناتی ہیں یا ان میں الجھی ہوئی ہیں۔ یہ ایک امر واقعہ ہے، جیسا کہ اسے ہونا چاہیے اور کسی بھی طرح سے (ان تصورات کی) تحدید کا سبب نہیں سمجھا جا سکتا۔ اصل دشواری یہ ہے کہ آفاقیت ایک انتہائی منزہ مگر مغاطہ خیز حقیقت ہے۔ زندگی کے متعلق کسی بھی فرد کے بنیادی بداہات کو کسی نہ کسی چوکھٹے میں سمٹنا پڑتا ہے، اور ایک شاعر کے لیے قریب ترین چوکھٹا وہ ہے جو اُسے اس کے عقیدے نیز اس کی اپنی تہذیب کی کوکھ نے مہیا کیا ہوا۔ اقبال نے مشرقی اور مغربی، مختلف مصادر سے اپنی فکر میں بہت سے عناصر جذب کئے ہیں لیکن ان کے نزدیک قبولیت یا انکار کا آخری معیار وہی تھا جو اسلامی اقدار حیات سے ماخوذ تھا۔ اسی لیے انہیں ایک مسلمان سوشلسٹ کہنا بھی اسی قدر نا مناسب ہے جتنا کہ برگساںؔ یا مخنتے کا مقلّد یا ایک وجودی مفکر سمجھنا۔ وہ اصلاً ایک شاعر اور مفکر ہیں، جس کے نظام اقدار کی ترتیب میں اسلام ایک معنی خیز اورموثر وسیلے کی خدمت انجام دیتا ہے۔ اس نظام اقدار کو ہم عقلی، قوت آفریں اور مذہبی کہہ کر متمائز کر سکتے ہیں۔ اس تصور کے بعض پہلوؤں پر اُن کا اصرار، جن پر پہلے گفتگو کی جا چکی ہے، اسے اعلیٰ طور پر بجا اور سنجیدہ غور و فکر کے لائق بناتا ہے۔ عظمت پر اقبال کا استحقاق صرف اس نظام اقدار کا، جو بجائے خود بہت اہم ہے، مرہون منت نہیں ہے، بلکہ اس حقیقت کا بھی کہ اقبالؔ نے اس نظامِ اقدار کو ایک فطری ربط، جذباتی عمق اور شاعرانہ قوت سے ہمکنار کیا۔ دوسرے لفظوں میں یہ نظام اقدار ان کی شاعری کے ڈھانچے میں پیوست ہے اور ان کی شاعری اس نظام اقدار سے توانائی پاتی ہے۔ اعلیٰ شاعری تقریباً ہمیشہ زندگی کے ایک عظیم تصور سے وجود میں آتی ہے۔ اقبال تہذیبِ دین کے موئید تھے اور دینی استغراق کے شعبے نیز فنِ شعر میں اشتراک کے بہت سے پہلو مل جائیں گے۔ وہ ہمارے چاروں طرف پھیلتی ہوئی طبعی کائنات کے تقاضوں، اس کے سائنسی اور عقلی مضمرات کا گہرا اور سریع تاثر قبول کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اُس میں لپٹی ہوئی جذبہ انگیز اور روحانی تشویقات سے متاثر ہونے کی بھی کمتر استعداد نہیں رکھتے تھے۔ یہاں ایک طرف دینی اذعانات اور رسوم نیز دوسری طرف اپنی عمیق ترین سطحوں پر وہ نفسی زندگی جس کی مہمات مذہب کے دائرے میں آتی ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک خظ فاصل، جو ہمیشہ جائز اور مفید مطلب ہوتا ہے، قائم کر لینا بہتر ہو گا۔ اقبالؔ اس حقیقت کی گہری اور غم انگیز آگہی رکھتے تھے کہ تاوقتیکہ سائنسی قوتوں نے توانائی کا جو مہیب ذخیرہ ہمارے حوالے کیا ہے، اس کی مناسب مدافعت نہ ہو اور ایک اخلاقی نظام اقدار کے ذریعے اُسے قابو میں نہ رکھا جائے، انسانیت تباہی کا شکار رہے گی۔ انھوں نے انسانی انا کی جو توانائی کے تمام مراکز کا مخزن ہے، ثنا خوانی اس زور و شور کے ساتھ اس لیے ہے کہ انسان ماحول سے متعلق قوتوں کو تسخیر کرتا ہوا آگے بڑھتا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس حقیقت پر بھی زور دیا ہے کہ ہمیں انسانی روح کی لطیف تر تشویقات پر میکانکیت کے دباؤ کی مزاحمت کرنی چاہیے تاکہ انہیں بے ڈول ہونے سے بچایا جا سکے۔ بعض اوقات اس دباؤ سے چھٹکارے کی راہ مذہبی اسالیبِ زیست میں، لاشعُور کی زندگی میں، اور ایک ترغیب آمیز گرچہ بے عصمت آر کی ٹائپ (ابتدائی اشارات) کی تعمیر میں تلاش کی جاتی ہے۔ دوسروں کے لیے اس معمے کا حل مذہب کی لازمانی اسطور کی دریافت میں مخفی ہے جو اُن کے نزدیک ایک ایسی آگہی کا پیکر ہے جو منطقی تعقل کے مقدمات سے ماورا ہے۔ اقبالؔ مفکروں اور تخلیقی ادیبوں کے اس دوسرے زمرے نسبت رکھتے ہیں۔ نظری اشتراکیت یا مارکسزم کے بدیہیات کی دہائی دے کر اقبالؔ جیسے ایک پیچیدہ عبقری کے پیچیدہ صیغۂ اظہار کے ابطال کی کوشش ایک طرح کی بے ادبی بھی ہے اور بے حسی بھی۔ اپنے عقیدے کی طرف اُن کی رضامندی کا روّیہ مجہول، بے رنگ اور سادہ لوحی کا نہیں ہے۔ بلکہ اچھی طرح دیکھی بھالی، چوکنّی اور توانا قبولیت کا پتا دیتا ہے۔ ایک ایسی عقیدے کی قبولیت کا جس نے صدیوں کی آزمائش کا جم کر سامنا کیا ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ فنی معیار کے ایک تخیّلی کُل میں اپنے مواد کی تقلیب بھی اُنھوں نے کامیابی سے کی ہے۔ چنانچہ اُن کی مدبرانہ نظر اور اُن کی شاعری، دونوں ہمارے عہد کے لیے معنی خیز ہیں۔ (انگر یزی سے ترجمہ) مطالعہ اقبال کے چند پہلو ، کاروانِ ادب، ملتان صدر، ۱۹۷۶ء عالمی ادب میں اقبال کا مقام ڈاکٹر عبدالمغنی ہر ادب اپنی ایک مخصوص فضا رکھتا ہے، جس کے پس منظر میں ہی اس کے تخلیقی نمونے روبہ عمل آتے ہیں اور پورے طور پر سمجھے اور سمجھائے جا سکتے ہیں۔ کوئی پارۂ ادب اپنے معاشرے سے الگ ہو کر وجود پذیر اور قابلِ فہم نہیں ہو سکتا، تمام ادبی تخلیقات ایک خاص ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ کسی بھی ادب کا جب ایک سانچہ معیّن ہو جاتا ہے تو اس میں کیے جانے والے ہر تجربے کی ایک روایت ہوتی ہے، جس کے نقوش واشارات ہی اس تجربے کی عمومی تشکیل کرتے ہیں۔ ادبیات لسانیات پر مبنی ہوتی ہیں، ایک زبان کے اپنے محورات اور استعارات ہوتے ہیں، جو اس کے ادب کے تاروپود تیار کرتے ہیں، انسان کی دوسری سرگرمیوں کی طرح ادب بھی وقت اور مقام کی حدود کا فطری طور پر پابند ہے۔ اس عملی حقیقت کے باوجود عالمی اور آفاقی ادب کی گفتگو موجودہ بین الاقوامی صدی میں عام ہو گئی ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اس گفتگو کی لَے بڑھتی جا رہی ہے۔ اس صورتِ حال کا سبب واضح ہے۔ انسانوں کے مختلف اقوام وادوار میں تقسیم ہونے کے باوجود، انسانیت کا بنیادی تصوّر تو ایک ہی ہے۔ قدیم زمانے میں یہ بات اولادِ آدم اور بندگان خدا کی حیثیت سے کی جاتی تھی۔ اس حیاتیات و نفسیات کی تحقیقات کے علاوہ سائنسی انکشافات، صنعتی ایجادات اور سیاسی و معاشی حالات و واقعات نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔ اس طرح یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ملک اور دور کے پس منظر کے باوجود ادب کا ایک پہلو عالمی و آفاقی بھی ہے۔ ایک ادبی تخلیق کی خصوصیت جو بھی ہو، اس کے اندر ایک عمومیت بھی ہے یا ہو سکتی ہے۔ کسی ادبی نمونے کا پہلا تعلق تو یقینا اس زبان کے مضمرات سے ہو گا جس میں وہ پیش کیا گیا ہے، لیکن دوسرے مرحلے پر اس کا رشتہ دوسری زبانوں سے بھی قائم ہو سکتا ہے۔ اگر یہ رشتہ نہیں ہوتا تو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ ممکن نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ ادب کے خصوصی و عمومی اور مقامی و عالمی پہلوؤں کے درمیان تناسب و توازن کی صورت کیا ہو گی؟ اس کا کون سا حصّہ محدود ہو گا اور کونسا آفاقی؟ یہ ادبی تنقید کا بہت ہی نازک اور پیچیدہ سوال ہے، اور اس میں بحث و نزاع کی کافی گنجائش ہے۔ اس سلسلے میں، میَں صرف اپنے مطالعے اور غوروفکر کے نتائج پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معلوم ہے کہ ہر ادبی تخلیق مرکب ہوتی ہے دو اجزا سے، ایک مواد اور دوسرے ہیئت، جہاں تک ہیئت اور مواد کو الگ الگ اکائیوں میں بانٹ کر دیکھنے کا تعلق ہے، ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ لسانی وسیلۂ اظہار کی تخصیص کے سبب ہیئت ایک بالکل مقامی اور محدود عنصر ہے، جب کہ مواد کے اندر عالمی و آفاقی ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ انسانی ذہن پورے عالمِ انسانیت کے لیے یکساں ہے۔ لیکن زبانیں مختلف اور متفرق ہوتی ہیں۔ فن کے تنوع میں فکر کی وحدت کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ جدا جدا اسالیب کے درمیان موضوع مشترک ہو سکتا ہے۔ الفاظ کی رنگا رنگی میں معانی کی یکتائی پائی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا مختلف ادبیات کے صرف مواد، موضوع، فکر اور معنی کا موازنہ کر کے ان کے باہمی اوصاف کا تعیّن کیا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ ادب جب موادو ہیئت دونوں ہی اجزا سے مرکب ہے تو صرف ایک جُز کو لے کر پورے مرکب پر کوئی قطعی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ ترجمے سے کسی تحریر کا صرف مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے، اس کی قدروقیمت کی ادبی تعیین نہیں ہو سکتی۔ تنقید ادب کے مسلّمہ اصول کے مطابق، ادب ایک ایسا تخلیقی مرکب ہے جس کے موضوع اور اسلوب کے درمیان ایک عضویاتی ارتباط ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کے عناصرِ ترکیبی کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے دیکھنے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کی پوری حقیقت گرفت میں نہ آئے اور اس کی نوعیت و اصلیت کا ایک ناقص تصور ہمارے سامنے آئے۔ اس ناقص تصور سے ایک ادب پارے کی سا لمیت ہی ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا اس صورت میں دوسرے ادب پاروں کے ساتھ اس کا موازنہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا سکتا۔ دوسری طرف، اگر کسی خاص ہیئت کو تنقید و تقابل کا معیار مان لیا جائے، تب بھی یہی خرابی لازم آئے گی۔ بلکہ یہ محض مواد کو معیار ماننے سے بھی زیادہ غلط اور ناقابلِ عمل صورت ہو گی۔ ہر ادب کی اپنی ایک ذہنیت ہوتی ہے جس کا ہی اظہار اس کے مختلف اصناف و اسالیب میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس ذہنیت کو نظر انداز کر کے اس ادب کا کوئی مطالعہ نتیجہ خیز اور درست نہیں ہو گا۔ ایک زبان ایک خاص سماج میں پروان چڑھتی ہے اور اس سماج کے مختلف اداروں اور مسلّمہ قدروں ہی کی مطابقت میں اس کے ادب کی ہیئتیں تشکیل پاتی ہیں۔ لہٰذا محض کسی ادب کی ہیئت کو الگ سے لے کر اس کا موازنہ دوسرے ادب کی ہیئت سے کرنا ایک فعل عبث ہے۔ تب ادبیات عالم کے تقابلی مطالعے کا صحیح نہج کیا ہے؟ میرے خیال میں اس نہج کے دو بنیادی عوامل ہیں۔ ۱۔ ہر ادبی تخلیق میں فکروفن کا جو مرکب ہو اس کی مجموعی قدروں کا تعین کیا جائے۔ پھر مختلف ادبیات کی قدروں کے مجموعوں کا تقابلی مطالعے کر کے ان کے باہمی اوصاف کی تشریح کی جائے۔ ایک زبان کا ادب پارہ اپنے عناصر ترکیبی کے جو نتائج پیش کرے، ان کا موازنہ دوسری زبان کے ادب پارے کے عناصر ترکیبی کے نتائج سے کر کے ایک تقابلی میزان کل نکالنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اس طرح مختلف ادبیات کا ایک کلّی تناسب اور اس کی روشنی میں مختلف ادبی نمونوں کے مراتب کی نسبت معلوم ہو سکتی ہے۔ ۲۔ لیکن عالمی ادبیات کے اس موازنے کا آخر معیار کیا ہو گا؟ جب تک ایک عمومی و اصولی معیار ایسا نہیں دریافت ہو جائے جس کا اطلاق آفاقی طور پر کیا جا سکے، کوئی موازنہ وہ تقابلی نتائج نہیں پیدا کر سکتا جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔ یہ معیار متقابل ادبی تخلیقات کی اندرونی ترکیب کا تنقیدی تجزیہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ادبی تخلیق کی قدروقیمت معیّن کرنے کے لیے ایک تنقیدی مطالعے کا بنیادی اصول کیا ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں بحثیں توبہت کی جا سکتی ہیں اور کی جاتی رہی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جدید ادبی تنقید میں مواد و ہیئت کی عضویت کے تسلیم کر لیے جانے کے بعد اب یہ حقیقت بالکل واضح ہو گئی ہے کہ ایک ادیب جس نسبت سے اپنے مواد کو ہیئت میں ڈھالتا ہے وہی اس کے نمونٔہ تخلیق کے وصف کے تعیّن کا معیار بن سکتی ہے۔ یعنی ہر ادیب کا ایک تخلیقی مسٔلہ ہوتا ہے، جو اس کے ادب کے دونوں عناصر ترکیبی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک ادبی تخلیق کو دیکھ کر جو ضروری سوال اٹھتے ہیں وہ یہ ہیں:۔ الف:۔ اس تخلیق کا موضوع کیا ہے؟ ب:۔ اس موضوع کو کس اسلوب سے ادا کیا گیا ہے؟ ان سوالوں کا تعاقب کرتے ہوئے، سب سے پہلے تخلیق کے مواد کی نوعیت آشکار کی جائے گی، اس کے تمام مضمرات کا تجسس کر کے اس کی اہمیت واضح کی جائے گی، اور ساتھ ہی ہیئت کے مقابلے میں اس کی پیچیدگی کا سراغ لگایا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھنا پڑے گا کہ یہ مواد اپنی مخصوص نوعیت و اہمیت اور پیچیدگی کے ساتھ ایک خاص ہیئت میں کس طرح بروئے اظہار آیا، جو ہیئت اظہار کے لیے اختیار کی گئی وہ کہاں تک موزوں تھی اور کتنی موثر ثابت ہوئی۔ یہ معیار ادبی تخلیقات کے مستقبل بالذّات مطالعے کے لیے بھی اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا ان کے تقابلی مطالعے کے لیے، خواہ یہ تقابل ایک ہی زبان کی ادبیات کے درمیان ہو یا مختلف زبانوں کی ادبیات کے مابین، اس معیار کی یہ عمومیت اور ہمہ گیری، عالمی ادبیات کے تقابلی مطالعے کے لیے اس کی موزونی اور نتیجہ خیزی کی ایک اور دلیل ہے۔ یہ تنقید ادب کا سب سے جامع معیار ہے، جس میں تجزیہ و تقابل کی تمام شرطیں بہ درجۂ کمال پوری ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا ادب کے آفاقی مطالعے کے لیے یہ ایک بہترین معیار ہے۔ اس اصولی موقف سے اقبالؔ کا مقام عالمی ادب میں متعین کرنے کے لیے چند اجتماعی حقائق پر ایک نظر ڈال لینا بھی مناسب ہو گا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اب تک ادب کے عالمی مطالعے کا انداز کیا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایک آفاقی معیار سے ادبیاتِ عالم کے مطالعے کی کوئی سنجیدہ اور باضابطہ کوشش اب تک نہیں ہوئی ہے۔ مشرقی ادبیات اور مغربی ادبیات کے درمیان کسی تنقیدی موازنے کی کوئی مثال میرے سامنے نہیں ہے۔ اس معاملے میں اہلِ مشرق بڑی مجبوریوں سے دوچار رہے اور نتیجتاً ان کی کوتاہیاں چند در چند ہیں۔ بین الاقوامی دورِ حاضر کی علمی اور عملی سہولتیں ان کے نصیب میں بہت ہی کم آئیں۔ اس کے علاوہ ان کے ذہن پر مغرب کی مرعوبیت ایسی طاری رہی کہ وہ مغربی ادبیات کے ساتھ اپنی ادبیات کا تقابل کرنے کی جرأت ہی نہیں کر سکے۔ تنقید کی بالیدگی بھی مشرق میں اتنی کم ہوئی کہ خود اس خطّے کی زبانوں کی ادبیات کا کوئی تقابلی مطالعہ نہیں کیا جا سکا۔ دوسری طرف اہلِ مغرب نے جدید علم و حکمت کے اثاثوں اور دعووں کے باوجود، اس سلسلے میں ایک یکسر غیر علمی اور غیر حکیمانہ روش اختیار کی۔ انھوں نے اپنے خطے کی زبانوںکی ادبیات کا تو ہر جہت سے مطالعہ کیا اور اپنی تنقیدوں کا انداز اکثر و بیشتربرّاعظمی رکھا۔ اس کے علاوہ، ان میں کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوئے جنھوں نے مختلف مشرقی زبانوں اور ان کے ادبوں کا بھی الگ الگ مطالعہ کیا۔ لیکن مشرقی ادبیات کے متعلق ان مغربی مستشرقوں کا رویّہ عام طور پر سرپرستا نہ رہا اور انھوں نے ان کے تقابلی مطالعے کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھی۔ اس صورتِ حال کی وجہ یہ ہے کہ سائنس اور صنعت کی طرح تہذیب اور ادب میں بھی اہل مغرب نے اہلِ مشرق کو اپنے سے بہت کم تر اور بالکل پس ماندہ تصور کیا اور مشرقی ادبیات کو اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ ان کا سنجیدہ تنقیدی مطالعہ کر کے ان کی عالمی قدروقیمت تہذیب حاضر کے پس منظر میں واضح کریں اور مغربی ادبیات کے ساتھ ان کا موازنہ کر کے ان کے آفاقی مقام کی تعیین کریں چنانچہ مغرب کی ادبی تنقیدوں میں مشرقی ادبیات کے حوالے گویا مفقود ہیں۔ میں اس صورت حال کو اہلِ مغرب کی ادبی نو آبادیت اور سامراجیت پر محمول کرتا ہوں۔ بہرحال، یہ ادب کا سیاسی اور سراسر غیر ادبی تصور ہے۔ لیکن لطیفہ یہ ہے کہ اس تصورکے فروغ میں اہلِ مشرق نے مغرب والوں کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے۔ جب سے میکائولے کی نسل ایشیا میں پروان چڑھی ہے اس نے یہ تبلیغی مہم اپنے سر لے لی ہے کہ ہر جہت سے مشرقی ادبیات کو ناقصِ محض قرار دیتے ہوئے اس کی تشکیلِ نو بالکل مغربی معیار ادب پر کر ڈالے۔ چنانچہ اس صدی کی دوسری چوتھائی سے جو ادبی تنقیدیں مشرقی ادبیات میں شروع ہوئی ہیں ان کا نصف صدی کا کارنامہ یہی ہے کہ وہ مغربی ادبیات کے حوالوں سے بھری ہوئی ہیں اور ان میں مشرقی ادیبوں کا جو کچھ موازنہ مغربی ادیبوں کے ساتھ ہے وہ صرف یہ دکھانے کے لیے کہ مشرقی ادب میں وہ کیا کیا نقائص ہیں جن کو مغربی ادب کے معیار سے دور کیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ادبی مطالعے کا یہ انداز کہ ایک قسم کے ادبی تصورات کو اصولِ موضوعہ تسلیم کر کے دوسری قسموں کے تمام ادبی تصورات پر حکم لگا دیا جائے اور پھر اسی اصولِ موضوعہ کے مطابق تمام ادبی نمونوں کی قدروقیمت معین کی جائے، کسی طرح عالمی ادب کا آفاقی معیار بننے کی اہلیت نہیںرکھتا۔ یہ تو بالکل مقامی، علاقائی اور محدود قسم کا تصور ہے، جو بجائے اوصاف و اقدار کے محض اغراض و مفادات پر مبنی ہے۔ لہٰذا ادب کے جس مرکب اور متناسب معیار کی نشان دہی میں نے ادبیات عالم کے تقابلی مطالعے کے صحیح نہج پر بحث کے دوران کی ہے اسی پر توجہ مرکوز کرنی پڑے گی۔ اس لیے کہ اس کے مضمرات و عوامل بالکل اصولی اور آفاقی ہیں اور اس میں کوئی نقطئہ نظرپہلے سے طے شدہ نہیں ہے جس کو خوامخواہ عائد کرنا مقصود ہو، بلکہ وہ ایک یکسر عملی و تجربی معیار ہے جس میں تنقیدی تجزئیے اور تقابل ہی کے معروف و مسلّم طریقوں سے موضوعاتی مطالعہ کی حقیقت واہمیت دریافت کرنی ہے۔ اگر انسانیت کی کوئی آفاقی قدریں ہیں تو ان کی تعیین عام انسانیت ہی کے معیار منہاج پر کی جا سکتی ہے۔ اس آفاقی معیار ادب پر جب ہم اقبالؔ کی شاعری پرکھتے ہیں تو ہمیں اس کے اندر حسب ذیل دو نکتے نمایاں طور پرنظر آتے ہیں۔ ۱۔اقبالؔ کا فنی مسئلہ ان کی صف کے دوسرے تمام عالمی شعرا کے مقابلے میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور دشوار تھا۔ اقبالؔ نے ایک ایسے دور میں شاعری کی جب سائنس اور صنعت کی ترقیات اور سیاست و معاشیات کی تحریکات نے پرانی دنیا کے پورے نظام کو تہ و بالا کر کے ایک نئی دنیا کے پیچ در پیچ اور رنگ برنگ مسائل کھڑے کر دئیے تھے، علوم و فنون کے سارے انداز بدل رہے تھے، اور انسانی ذہن نت نئی گتھیوں اور الجھنوں سے دو چار تھا، شعور کی گرہوں کے ساتھ ساتھ لاشعور کی تہیں بھی دریافت کی جا رہی تھیں۔ ان حالات و کیفیات سے اقبالؔ کو اپنی تعلیم و تربیت کے دوران براہِ راست سابقہ پڑا۔ انہی کے بقول وہ ’’اِس آگ میں مثل خلیلؑ‘‘ ڈالے گئے۔ اس کے علاوہ اقبالؔ نے عالم انسانیت کی ’’تشکیل جدید‘‘ کا ایک نہایت وسیع اور وزنی نصب العین بھی اختیار کر لیا، اور اپنی شاعری کو اس کی تعمیل کا ایک وسیلہ قرار دیا۔ پھر اپنے وقت کے دھاروں کے بر خلاف، انھوں نے اسلام جیسے انتہائی مرکب اور جامع نظریۂ حیات و کائنات کو اپنا نصب العین بنایا۔ اس طرح ایک طرف اسلامی نظامِ زندگی کا احیاء اور دوسری طرف اس احیاء کے ذریعے انسانیت کی ’’تشکیل جدید‘‘ ،تفکر کی دوہری مشقت اقبالؔ کے ذہن پر پڑی۔اس مشقت میں بہت زیادہ اضافہ دوخاص مواقعوں سے ہو گیا۔ ایک یہ کہ اقبالؔ اپنی تربیت کے لحاظ سے با ضابطہ ایک فلسفی تھے،جس کے سبب علم و فکر کا ایک بار گراں ان کے دماغ پر تھا۔ دوسرے ان کے ملک کی غلامی انہیں ایک سیاسی جدوجہد پر بھی ابھار رہی تھی، چنانچہ انہیں وکالت و قیادت کی عملی زحمتوں سے بھی گزرنا پڑا اور سیاست کے الجھیڑوں سے نمٹنے کی ضرورت بھی لاحق ہوئی۔ ۲۔اپنی شخصیت اور اپنے زمانے کی یہ ساری پیچیدگیاں ہی وہ مواد تھیں جنھیں اقبالؔ کو ہئیت شاعری میں ڈھالنا تھا۔ یہ امر واقعہ ہمارے سامنے ہے کہ اقبالؔ کے اشعار شعریت کے کسی بھی معیار کے مطابق اعلیٰ قسم کے اشعار ہیں۔ اس لیے یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اقبالؔ اپنی فکر کو فن بنانے میں پوری طرح کامیاب ہوئے۔ انھوں نے اپنے نصب العین کو ایک شعری وجود عطا کر دیا، ان کے تصورات استعارات میں ڈھل گئے، ان کی آواز نغمہ بن گئی۔ اس کارنامے سے اقبالؔ کا فنی خلوص اور فکری رسوخ دونوں واضح ہو جاتے ہیں ۔ اقبالؔ نے اپنے موضوع ذہنی کو ایک جمالیاتی معروضیت بخشی اور اپنی شخصیت کو اپنے فن میں گم کر دیا۔ ان کے شاعرانہ احساسات کی سا لمیت قابلِ رشک ہے۔ کلامِ اقبالؔ میں موادوہیئت کی عضویت کمال درجے پر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبالؔ کی تخئیل اپنے مختلف عناصر کے موزوں اسالیب اظہار خود تراشتی ہے، ان کے الفاظ ان کے معانی کے ساتھ بالکل پیوستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دقیق سے دقیق اور ثقیل سے ثقیل خیالات بھی شعری تمثیل و ترنم کی ایمائیت و لطافت کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں۔ اقبالؔ کے نظامِ فکر ہی کی طرح ان کا اپنا ایک نظام اساطیر بھی ہے، جس کے استعارے، تلمیحیںاور کنائے اپنا ایک مخصوص رنگ و آہنگ رکھتے ہیں، اور ان کے اشارات و علامات نے احساسات و جذبات کی ایک خاص الخاص دنیا بسائی ہے۔ اس دنیا کی امتیازی شان یہ ہے کہ یہاں شاعری کی صنعت نصب العین کی فطرت سے کامل طور پر ہم آہنگ ہے ؎ مری مشاطگی کی کیا ضرورت حُسن معنی کو کہ فطرت خود بہ خود کرتی ہے لالے کی حنابندی ان حقائق کے پیش نظر، عالمی ادب میں اقبالؔ کا مقام متعین کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ مشرقی ادبیات میں ان کی جگہ کیا ہے۔ مشرق میں جو زندہ زبانیں پائی جاتی ہیں، ان سب کے مشاہیر شعرا کی صف اوّلین میں سے ہم سب سے پہلے رومیؔ، حافظؔ، سعدیؔ اور خیامؔ کا موازنہ اقبالؔ کے ساتھ کرنا چاہیں گے۔ اس سلسلے میں یہ نکتہ تو بالکل واضح ہے کہ نہ صرف افکار کی گراں مائیگی اور وسعت کے اعتبار سے بلکہ اصناف و اسالیب کی کثرت اور تنوع کے لحاظ سے بھی اقبالؔ کی جامعیت کا مقابلہ ان میں کوئی ایک شاعر تنہا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا موازنے کی جہت یہی ہو سکے گی کہ اقبالؔ کے کسی ایک ہی پہلو کا تقابل ان میں سے ہر ایک کی پوری شاعری سے الگ الگ کیا جائے۔ موازنے کی یہ جہت ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مجموعی طور پر فارسی کا کوئی ایک شاعر پورے اقبالؔ کے برابر نہیں ٹھہرتا۔ اس کے بعد دیکھیے تو رومیؔ کی مثنویات کا حجم جو بھی ہو، اقبالؔ کی فارسی مثنویاں(اسرارورموز وغیرہ) اور اُردو مثنوی (ساقی نامہ) ملا کر، بہ اعتبار وصف رومیؔ کے شاعری پر ایک وقیع اضافہ ہیں۔ ’’صوفیت‘‘ میں ’’پیر رومی‘‘ اور ’’مرید ہندی‘‘ کا رشتہ جو بھی ہو، شاعری میں معاملہ مختلف ہے۔ ایک تو تنقید میں شعرا کے اپنے بیانات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا دوسرے شاعری کے بارے میں رومیؔ کے متعلق اقبالؔ کا کوئی بیان میرے علم میں نہیں۔ بہرحال، فکروفن کی مجموعی شعریت کا جو انداز کلامِ اقبالؔ میں ہے وہ کلامِ رومیؔ پر ایک قدرِ زائد ہے۔ اقبالؔ نے رومیؔ کے بہترین عناصر کو جذب کر کے ان کے محاسن میں توسیع کرنے کے علاوہ کچھ نئے اوصاف کا اضافہ بھی کیا ہے۔ حافظؔ کے دیوان کا موازنہ اگر صرف پیامِ مشرقکے باب غزلیات ’’مئے باقی‘‘ سے کر لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ خود حافظؔ کی زمین پر اقبالؔ کے تصرفات کیا کچھ ہیں۔ اس کے علاوہ زبورِعجم اور بالِ جبریل کی غزلیں حافظؔ کی حدودتغزل سے بلاشبہ آگے نکلی ہوئی ہیں۔ حافظؔ کے تغزل کی جتنی بھی خصوصیات بتائی جاتی ہیں وہ تو اقبالؔ کی غزلوں میں بدرجۂ اتم ہیں ہی، ان کے علاوہ شعریت کی جو نئی نئی تہیں، نئے نئے اِشارے، تازہ بہ تازہ استعار ے، لطیف سے لطیف کنائے اور خیال انگیز تلمیحیں ہیں وہ جدت طراز تخیلات و تصورات اور نہایت دبیز احساسات و جذبات کا پیرایۂ اظہار بن کر، غزلیات حافظؔ پر ایک اضافہ ہی تو ہیں۔ دیوان حافظ کی مئے باقی غزلیات اقبالؔ میں نہ صرف تازہ تر ہو گئی ہے، بلکہ اس کا نشہ دو آتشہ ہو گیا ہے۔ خیامؔ کی رباعیات پیام مشرق کے حصّہ رباعیات کے ساتھ ملا کر پڑھی جائیں تو یہ عجیب و غریب نکتہ دریافت ہو گا کہ اقبال کی فکر انگیزی میں خیام کی عیش کوشی سے زیادہ آب و تاب اور انبساط و نشاط ہے، رباعیات اقبالؔ کے مسرّتِ و بصیرت کے مرکب ہیں رباعیات خیام کے مسرتِ محض کے مُفرد سے زیادہ زور اور اثر ہے۔ اقبالؔ نے بصیرت کو مسرت بنایا ہے، جب کہ خیامؔ نے مسرت کو بصیرت بنانے کی کوشش کی ہے، نتیجہ آسانی سے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ سعدی کا موازنہ شعریت میں اقبالؔ کے ساتھ کرنا کوئی بہت موزوں کام نہیں ہے۔ اقبالؔ کا تفوق اس معاملے میں ظاہر ہے۔ جہاں تک دانش وری کا تعلق ہے، اقبالؔ کے اجتماعی تصورات سعدیؔ کی شخصی اخلاقیات سے بہت ممتاز ہیں اور ان کی آفاقی اہمیت واضح تر۔ اُردو شاعری میں میرؔ وغالب نے روایتِ ارتقا کو جہاں تک پہنچایا تھا، اقبالؔ نے اس سے بہت آگے بڑھا دیا۔ میرؔ کا فنّی تجربہ تو بہت ابتدائی اور سادہ قسم کا تھا اور اس کی جو کچھ دل ربائی ہے وہ اس کی اسی معصومیت پر مبنی ہے۔ غالبؔ کا تجربہ یقینا بلوغت کی پیچیدگی رکھتا ہے، لیکن اقبالؔ نے اسی بالغانہ پیچیدگی کو درجۂ کمال پر پہنچایا اور غالبؔ کے یہاں جو کچھ ناہمواریاں اور سلوٹیں رہ گئی تھیں اُن کو بالکل دور کر کے نفاستِ بیان کا ایک انتہائی معیار قائم کیا۔ معانی کے تنوع اور تخیّل کی وسعت میں تو اقبالؔ کا موازنہ میرؔ و غالبؔ کے ساتھ کرنا ہی فضول ہے۔ سنسکرت کے کالی داسؔ اور عربی کے امراء القیسؔ کا اقبالؔ کے ساتھ موازنہ ویسا ہی ہو گا جیسے کسی تجربے کے آغاز کا تقابل اس کی ہیئت عروج کے ساتھ کیا جائے۔ یہاں میں ایک تنقیدی نکتہ پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ یہ کہ اقبالؔ کی شاعری درحقیقت مشرقی ادبیات کی تمام شاعرانہ روایات کا نقطۂ عروج ہے۔ فارسی، سنسکرت اور عربی میں شاعری کے جتنے تجربات اقبالؔ سے قبل ہو چکے تھے، ان سب کے بہترین احساسات و نقوش کو اپنے اندر سمیٹ اور سمو کر اقبالؔ کے فن نے ارتقاء کا ایک نیا مرحلہ طے کیا، جو اس وقت مشرقی شاعری کی منزل آخریں نظر آ رہا ہے۔ اردو زبان مشرق کی مذکورہ تینو ں کلاسیکی زبانوں کی بہترین لسانی روایات کی اہم ترین نمائندہ ہے اور اقبالؔ کی اُردو شاعری نے بھی ان زبانوں کے تمام شعری وسائل کی ترکیب اور ارتکاز اپنے اندر کر لیا ہے۔ اقبالؔ کا فن مشرق میں اپنے پیش رووں کے کارناموں کی توسیع اور تجدید کرتا ہے۔ اقبالؔ کی شاعری ہی مشرقی ذہن کی بہترین نمائندہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی آفاقی اہمیت کا پس منظر یہی ہے۔ اس پس منظر میں اس شاعری نے وہ فکری و فنی قدریں ترتیب دی ہیں جو بین الاقوامی ادب کا ایک مثالی معیار پیش کرتی ہیں۔ ٹیگورؔ کی شاعری اقبالؔ کے مقابلے میں ٹھوس قدریں بہت کم رکھتی ہے، اتنی کم کہ اگر نوبل پرائز کی سیاسی سفارش نہیں ہوتی تو شاید اس مقابلے کا ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ ٹیگورؔ کا نغمہ تھکے ہوئے ذہن کے لیے وقتی فرحت کا ایک سامان مہیا کرتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ ایک متصوّفانہ جذب کا حامل ہے، جب کہ اقبالؔ کا نغمہ انسانی روح کے اندر وہ عرفان و انبساط پیدا کرتا ہے جس سے حیات کی تزئین و تنظیم کے ساتھ ساتھ کائنات کی تسخیروتشکیل کا حوصلہ اور شعور بیدار ہوتا ہے۔ ٹیگور ہمارے ذہن کو سُلاتے ہیں اور اقبالؔ جگاتے ہیں۔ ٹیگور کا کلام کائنات کی حرکت کو ایک نقطے پر جامد دیکھنا چاہتاہے اور زندگی کی الجھنوں سے گریزاں ہے، جب کہ اقبالؔ کی شاعری ترقی پذیر وجود کا ساتھ دیتی اور الجھنوں کے حل میں اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ اقبال جدید ذہن کی پیچیدگیوں کو آئینہ دکھاتے ہیں، اس ترکیب کے ساتھ کہ قدیم ارتعاشات بھی جھلک اُٹھتے ہیں، جب کہ ٹیگور صرف قدیم ذہن کا بہت ہی سادہ سا انعکاس کر پاتے ہیں اقبالؔ کے نقوش کلام میں جو دبازت ہے ٹیگور اس سے بہرہ ور نہیں۔ اب عالمی سطح پر صرف تین شعراء ایسے ہیں جن کے ساتھ اقبال کا موازنہ کرنے سے ادبیات عالم میں اقبالؔ کا مقام واضح ہو جائے گا۔ ایک اطالوی شاعر، دانتے (۱۳۲۱۔۱۲۶۵ئ) دوسرے انگریزی شاعر، شیکسپئیر(۱۶۱۶۔۱۵۶۴ئ) تیسرے جرمن شاعر گوئٹے(۱۸۳۲۔۱۷۴۹ئ) یہ تینوں شعراء وہ ہیں جو نہ صرف مغربی ادبیات کے سرخیل سمجھے جاتے ہیں، بلکہ اہلِ مغرب نے انھیں پوری دنیا کے بہترین و عظیم شعراء ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں تک ان تینوں کے درمیان ترتیب مدارج کا تعلق ہے اس میں اختلاف کیا جاتا ہے اور ٹھیک جس طرح عالمی سطح پر ان شعراء کی قدر افزائی میں یورپ والے بجائے اصولی و ادبی معیار کے ایک براعظمی و سیاسی تعصب سے کام لیتے ہیں، اسی طرح براعظمی سطح پر ان کے درمیان ترتیب مدارج میں یورپ کے متعلقہ ممالک اور خطّے قومی سیاست کی عصبیت اور علاقائی جانب داری سے کام لیتے ہیں۔ بہرحال ہمیں اہلِ مغرب کی قومی و علاقائی سیاست و عصبیت سے کوئی مطلب نہیں۔ ہمارے مقصد کے مناسب بات یہی ہے کہ ہم نے گذشتہ سطور میں عالمی ادب کے آفاقی و اصولی معیار کی جو تعیین کی ہے اس کی روشنی میں اقبال کا موازنہ دانتے، شیکسپئیر اور گیٹے کی شاعری سے کریں۔ تیرھویں، چودھویں صدی کی اطالوی میں دانتےؔ نے جو شاعری کی، کیا واقعی وہ شاعری کے اعتبار سے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ’’ڈواین کومیڈی‘‘ (طربیہ خداوندی) کے تخیّل و تفکر کے لحاظ سے؟ کیا اطالوی زبان اور اس کی شاعرانہ روایت دانتے کے مفروضہ عظیم تخیّل کی متحمل بھی تھی؟ میں سمجھتا ہوں کہ دانتےؔ کا فنی مسئلہ تو بہت معمولی تھا۔ اس لیے کہ اپنے وقت اور اپنی ادبی و فکری روایات میں اس شاعر کو کسی خاص اور قابلِ ذکر پیچیدگی سے سابقہ درپیش نہیں تھا۔ لیکن لسانی وسائل کا ایک دشوار مسئلہ ضرور اس کے لیے سدراہ تھا۔ چنانچہ دانتےؔ کے لیے شعری تجربے کی گنجائشیں بہت محدود تھیں اور وہ شاعرانہ مہم طے کرنے میں بہت دور تک نہیں جا سکتا تھا۔ لہٰذا دانتےؔ کی شاعری اپنی جگہ عظیم ہوتے ہوئے بھی لطافت و نفاست کے اس درجۂ کمال پر نہیں کہ آفاقی معیار سے اس کا موازنہ پورے طور پر اقبالؔ کی شاعری کے ساتھ کیا جا سکے۔ شاعری کے اعتبار سے ڈواین کومیڈی ہی کی سطح پر جاوید نامہ ایک فائق تر تخلیق ہے۔ سولھویں سترھویں صدی کے انگریزی شاعر شیکسپٔیر سے اپنے تاثر کا اظہار اقبالؔ نے اپنے ابتدئی دور کی ایک نظم’’شیکسپٔیر‘‘(بانگِ درا) میں کیا ہے اور اس کے حسنِ کلام کو ’’دلِ انسان‘‘ کا ’’آئینہ‘‘ بتایا ہے۔ لیکن پیام مشرق، زبورِ عجم، جاوید نامہ، بالِ جبریل اور ضربِ کلیم کے اقبالؔ کی شاعری شکسپئیر کی شاعری سے اسی طرح ایک درجہ آگے ہے جس طرح ’’پیررومی‘‘ کی شاعری سے۔ بلا شبہ شیکسپئیر کا خاص کارنامہ اس کے منظوم ڈرامے ہیں اور اس کے فن کا اصل جوہر انہی میں پوری طرح نمایاں ہوا ہے، جب کہ اقبالؔ کے کلام میں اس صنف سخن کی کوئی اہمیت، جاوید نامہ کی تمثیلی ہیئت اور بعض دوسری تمثیلی نظموں کے باوجود نہیں۔ لیکن ہم عالمی ادب کے آفاقی معیار کی تعیین کے سلسلے میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ محض ایک خاص ہیئت تقابلی مطالعے کا کوئی تنقیدی اصول نہیں بن سکتی۔ لہٰذا شیکسپئیر اور اقبال کے موازنے میں کسی مخصوص ہئیت پر انحصار کرنے کے بجائے توجہ اس نکتے پر مرکوز کرنی پڑے گی کہ اعلیٰ شعریت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کیا نسبت قائم ہوتی ہے۔ شیکسپئیرڈراما نگاری کا یقینا عظیم ترین ماہر ہے اور کردار نگاری میں اس کا جواب نہیں، لیکن جوہر شاعری میں اقبالؔ کا فن عظیم تر ہے اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے میں ایک کسوٹی اہلِ نظر کے سامنے رکھتا ہوں۔ شیکسپیئر کے ڈراموں سے شاعرانہ عناصر کو نکال کر یکجا کر دیا جائے، اس لیے کہ شاعری ڈرامے کا صرف ایک اسلوب ہے اور اس کی اصلیت ڈرامے کے ہیولے سے ماورا ہے، اس کے بعد شیکسپئیر کے سانیٹوں کو بھی ان شاعرانہ عناصر میں جوڑ کر، شیکسپئیر کی صرف شعریت کا ایک مجموعہ تیار کر لیا جائے ۔ اب اس مجموعے کا موازنہ اقبالؔ کے تمام شاعرانہ عناصر کے مجموعے سے کیا جائے۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس خالص شاعرانہ تقابل میں اقبالؔ کا فن شیکسپئیر سے عظیم تر ثابت ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شیکسپئیر کے شاعرانہ عناصر کا حجم اور وزن اقبالؔ کے عناصر شعری کے مقابلے میں بہت کم نکلے گا۔ ایک قدم آگے بڑھ کر اگر مشہور نقاد میتھیو آرنلڈ کے مقولے ’’اعلیٰ سنجیدگی‘‘ کو معیار تسلیم کر کے اقبال اور شیکسپئیر کا موازنہ کیا جائے تو شیکسپئیر کا سرمایۂ فن اقبالؔ کے مقابلے میں اتنا قلیل ہو گا کہ دونوں کے درمیان تقابلی مطالعے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی جا سکے گی۔ اٹھارھویں، انیسویں صدی کے جرمن شاعر، گوئٹے، کا ذکر اقبالؔ نے اپنے ابتدائی دور کی ایک نظم ’’مرزا غالب‘‘(بانگِ درا) میں بڑے احترام کے ساتھ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’پیام مشرق‘‘ گوئٹے کے سلام مغرب کا جواب ہی کہا جاتاہے۔ گوئٹے کا سرمایۂ شاعری بھی دانتےؔ اور شیکسپئیر سے کچھ زیادہ ہے۔ بہرحال اگر گوئٹے کی دوسری تخلیقات سے قطع نظر کر کے صرف اس کی شاعری پر توجہ مرکوز کی جائے تو اقبالؔ کے مقابلے میں یہاں بھی معاملہ مجموعی طور پر وہی نظر آتا ہے جو شیکسپئیرؔ اور اقبالؔ کے موازنے میں دیکھا جا چکاہے۔ اقبالؔ کے عناصرِ شاعری گوئٹے سے زیادہ ہیں اور گوئٹے کے جوہر شاعری میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اقبالؔ کے یہاں بلند تر پیمانے پر نہیں پائی جاتی ہو، جب کہ کلامِ اقبالؔ کی تمام اعلیٰ قدریں گوئٹے کے یہاں پائی ہی نہیں جاتیں۔ رہی بات کہ گوئٹے کی شخصیت بڑی مرکّب، ہمہ جہت اور قد آور تھی، تو بلاشبہ اس معاملے میں مغربی ادبیات کی کسی شخصیت کا پورے معنیٰ میں اقبالؔ کے ساتھ موازنہ اگر ہو سکتا ہے تو وہ گوئٹے ہی کی ایک شخصیت ہے۔ لیکن شخصیت کے لحاظ سے جو قدوقامت اقبالؔ کا ہے، کیا گوئٹے اس کے قریب بھی کہیں پھٹک سکتا ہے؟ اقبالؔ کی شخصیت نے ایک پورے دور کو پیامِ انقلاب دیا اور ان کے ذہن نے انسانی ارتقا کے ایک نہایت نازک مرحلے پر عمیق ترین بصیرت کا ثبوت دیا، اور ان کی فکر نے ایک وسیع الاثر تحریک کی رہنمائی کی، جب کہ گوئٹے کے ذہن و فکر یورپی نظام اجتماعی کی روایتی حدود سے باہر نہیں نکل سکے، بجزان شخصی ہنگاموں کے جواس رومان زدہ شاعر نے معاشرتی اخلاق کی ’’زنجیروں‘‘ کو توڑ کو وقتاً فوقتاً بپا کیے۔ گوئٹے کی شخصیت کا سفلہ پن اس کے مشہور ڈرامے ’’فائوسٹ‘‘ کے واقعات و احساسات سے معلوم ہو جاتا ہے، خواہ اس کو اعترافِ جرم کی ایک عبرت انگیز دستاویز ہی کیوں نہ سمجھا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ گوئٹے کی شخصیت سالم نہیں تھی، اس کے احساسات منتشر تھے اور اس کے یہاں فنیّ معروضیت کا بھی کوئی مستقل معیار نہیں، جب کہ اقبالؔ کی شخصیت کی سا لمیت، جمعیت اور شاعرانہ معروضیت بالکل واضح ہے۔ دانتے،شیکسپئیر اور گوئٹے پر اقبالؔ کے شاعرانہ تفّوق کے اسباب عالمی سطح سے مطالعہ کرنے کی صورت میں بہ آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں نمایاں ترین تنقیدی نکات حسبِ ذیل ہیں:۔ ۱۔ اقبالؔ کا انفرادی تجربہ ایک عظیم ترین فنّی روایت کی بنیاد پر روبہ عمل آیا۔ میں بتا چکا ہوں کہ اقبالؔ کی شاعری مشرقی ادبیات کے بہترین عناصر کی جامع ہے۔ اس شاعری کو عربی، سنسکرت اور فارسی شاعریوں کے صدیوں کے فنیّ تجربَات ورثے میں ملے۔ اقبالؔ سے پہلے مشرق کی ان کلاسیکی زبانوں میں چند اہم ترین شعراء پیدا ہو چکے تھے، یہاں تک کہ اردو میں بھی کم از کم دو عظیم فن کاروں کی تخلیقات سامنے آچکی تھیں۔ یہ بات دانتے، شیکسپئیر اور گوئٹے کواس پیمانے پر نصیب نہیں ہوئی تھی۔ دانتے تو گویا اطالوی میں پہلا اہم شاعر تھا۔ شیکسپئیر کے انگریزی متقدمین کے تجربات معمولی قسم کے تھے۔ یہی صورتِ حال جرمن میں گوئٹے کو درپیش تھی۔ ان تینوں زبانوں میں مذکورہ تینوں شعراء کے پیش رووں میں کسی ایسے شاعر کا نام نہیں لیا جا سکتا جو کسی خاص تخلیقی عظمت کا حامل ہو۔ اطالوی اور انگریزی میں تو قصّہ یہ ہے کہ دانتے اور شیکسپئیر تک ان زبانوں کی لسانی سلاست بھی مکمل نہیں ہوئی تھی اور ان کے اظہار وبیان کا ڈھانچہ زیر تشکیل تھا۔ ان فن کاروں کی استعمال کی ہوئی زبان میں متروکات کی کثرت اسی حقیقت کی دلیل ہے۔ جہاں تک ان مغربی زبانوں کے پس منظر میں یونانی اور لاطینی کی روایات کا تعلق ہے یہ بالکل واضح ہے کہ یورپ کی ان قدیم کلاسیکی زبانوں میں شعری روایت کا وہ سرمایہ موجود نہیں جو عربی، فارسی اور سنسکرت میں ہے، خواہ دوسری اصناف ادب کی جو بھی ثروت ان کے اندر پائی جاتی ہو۔ اقبالؔ سے پہلے عربی و فارسی شاعری کے وسائل بیان و اظہار کی بلاغت ان زبانوں کے صنائع و بدائع کے نہایت ترقی یافتہ نظام سے بھی عیاں ہے۔ مشرق کی کلاسیکی شاعری کی بالیدگی و پیچیدگی اور بلوغت و نفاست کا مقابلہ مغرب کی کلاسیکی شاعری قطعاً نہیں کر سکتی۔ ۲۔تیرھویں صدی کے دانتے، سولھویں صدی کے شیکسپئیر اور اٹھارھویں صدی کے گوئٹے کے مقابلے میں بیسویں صدی کے اقبالؔ کے مسائلِ فن جتنے زیادہ تھے اتنے ہی وسائل فن بھی مہیّا ہوئے۔ سائنس اور صنعت، سیاست اور معیشت کی ترقیات نے عصر حاضر کے ادب وشاعری کے سامنے جو مسائل کھڑے کر دئیے ہیں ان کا تصور بھی قبل کے ادوار میں نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ خود ادبیات کی جو ترقیاں اقبالؔ کے زمانے میں ہو چکی تھیں ان کا کوئی سراغ دانتے، شیکسپئیر اور گوئٹے کی زبانوں میں ظاہر ہے کہ نہیں ملتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بین الاقوامی ادب اور عالمی شاعری کا کوئی تخیّل گوئٹے، شیکسپئیر اور دانتے کے سامنے تھا ہی نہیں، یہ تو صرف اقبالؔ ہی کو نصیب ہوا۔ چنانچہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں اقبالؔ وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے شعوری طور پراعلان کر کے، آفاقی قدروں کو سامنے رکھ کر، ایک عالمی شاعری کا نمونۂ کمال تخلیق کیا۔ اس اعتبار سے فکر و فن، فلسفہ و شاعری دونوں میں، اقبال نے مشرقی و مغربی تمام ہی ادبیات کی بہترین روایات اور عظیم ترین تجربات کو اپنی منفرد تخلیقات میں ترکیب دے کر ایک بہتر اور عظیم تر فن کاری کا ثبوت دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے شعروادب کو پیش آنے والے مشکل ترین مسائل کو اپنی فنیّ ریاضت اور فکری بلوغت کے بل پر موثر ترین وسائل شعری میں تبدیل کر دیا۔ اور اس طرح ادبی و شعری اظہار و بیان کے امکانات بے حد وسیع کر دیے۔ جدید ترین احساسات اور دقیق ترین افکار کو نفیس ترین شاعری میں ڈھالنے کا جو کارنامہ اقبالؔ نے انجام دیا ہے اس کی عظمت کا اندازہ کرنے کے لیے انگریزی کے دو جدید شعراء کیٹس اور ایلیٹ کے ساتھ اقبالؔ کا تقابلی مطالعہ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ شعراء اقبالؔ کے مقابلے میں کتنے کچیّ اور چھوٹے ہیں۔ کیٹس تو دورِ جدید کے مسائل کی تاب ہی نہ لا سکا اور بالعموم اپنے وطن آئر لینڈ کے مرغ زاروں میں پناہ گیر رہا۔ چنانچہ اس کے فن پر حقیقی زندگی کی جو کچھ پرچھائیاںہیں وہ سطحی اور مقامی سیاست تک محدود ہیں اور ان کی شعری قدروقیمت بہت مشتبہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آفاقیت کی اس کی معدودے چند کوششیں بہت ہی مختصر اور ہلکی ہیں۔ دوسری طرف، ایلیٹ پر مسائلِ حیات بجلی بن کر گرے اور انہوں نے اس کے فن کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ چنانچہ اس کی شاعری، اس کی مشہور ترین نظم کے عنوان کے مطابق، ایک ’’خرابہ‘‘ ہے جس میں اس نے ’’تباہ شدہ ٹکڑوں کو فراہم‘‘ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں ایلیٹ کی فنیّ الجھنوں کی انتہا یہ ہے کہ اپنی مذکورہ نظم کے اشارات کی ایک شرح اس کو لکھنی پڑی، اس کے باوجود یہ تخلیق اور اس کی دوسری تمام اہم تخلیقات ادب کے اکثر قارئین کے لیے ’’مسائل تصوف‘‘ ہیں جن کے اسرارورموز سے لطف اہل ارادت ہی اپنی خوش عقیدگی کی بدولت لے سکتے ہیں۔ ان دونوں کے برخلاف، اقبالؔ نے نہ صرف یہ کہ عصر حاضر کے تمام اہل اور بنیادی مسائل کو اپنی شاعری میں بالکل جذب کر لیا ہے، بلکہ ان سے وسائلِ فن بھی پیدا کیے ہیں۔ انھوں نے واقعات کو استعارات میں بدل دیا ہے اور حقائق کو علامت کی لطافت عطا کی ہے۔ تاریخ اقبالؔ کی چابک دست فن کاری اور خلّاق تخیّل کے ہاتھوں تلمیح بن گئی ہے۔ انھوں نے زندگی کے ٹھوس عناصر کو اپنے فن کے رنگ و آہنگ میں ڈبو کر اساطیر بنا دیا ہے۔ اقبالؔ کے کلام میں کائنات کی ہر ادا شاعرانہ تمثیل و ترنم کے ساتھ نقش پذیر ہوئی ہے۔ دورِ حاضر کے ادب وشاعری میں قاموسیت کی کوشش ایلیٹ نے بھی کی، مگر اس کو شعریت کا روپ دینے میں کامیابی حاصل کی صرف اقبالؔ نے۔ اس کے علاوہ جس طرح اقبالؔ کی شعریت بلیغ و لطیف ترین ہے اسی طرح ان کی قاموسیت بھی، بخلاف ایلیٹ کے، ہمہ گیر اور وسیع ترین ہے۔ اقبالؔ کے پیشِ نظر شاعری کے ذریعے ایک نصب العین کی ترجمانی تھی۔ جب کہ دانتے، شیکسپئیر اور گوئٹے کے سامنے اتنا سنجیدہ اور پیچیدہ کوئی تصوّر نہیں تھا۔ اس طرح بہ خلاف اپنے ہم صف دوسرے شعراء کے، اقبال کے فن پر فکر کا دبائو انتہائی حد تک بڑھا ہوا تھا۔ اس صورتِ حال کے باوجود، اقبالؔ نے شاعرانہ ایمائیت کے جس کمال کا ثبوت دیا ہے وہ دنیائے ادب میں ایک نادر اور بے نظیر واقعہ ہے۔ بلا شبہ دانتے کے پاس بھی مسیحیت کا تصور تھا اور گوئٹے بھی کچھ افکار رکھتا تھا جن میں مسیحی قدریں بھی شامل تھیں، اور ان کے اقدارِ فکر کا سراغ شیکسپئیر کے تخیّل میں بھی ملتا ہے، مگر نصب العین کی وہ محیط با ضابطگی جو اقبالؔ نے اسلامی نظریۂ کائنات اور نظامِ حیات کی صورت میں اختیار کی کسی دوسرے شاعر کے یہاں قطعاً نہیں پائی جاتی۔ عظیم ترین عالمی شعراء کی سطح سے ذرا نیچے اُتر کر ہر باضابطہ فکری و نظریاتی شاعری کا تجسس کریں تو ملٹنؔ پر نگاہ پڑتی ہے۔ لیکن ملٹنؔ کی شاعری شعریت کے اعتبار سے ایسی نہیں کہ اس کا موازنہ اقبالؔ کے کلام کے ساتھ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ مسیحی نصب العین کے باد صف، ملٹنؔ کے تصوّر کی آفاقیت بہت ہی مشتبہ ہے، وہ عیسائیت کے اندرونی فرقہ وارانہ مناظروں میں اس درجہ محو تھا کہ عالمِ انسانیت کو کوئی پیغام دینے کے لیے اس کا ذہن فارغ نہیں تھا۔ چنانچہ ملٹنؔ کا مطمحِ نظر عالم مسیحیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس کے بر خلاف، مشرق اور ملّت اسلامیہ کے پس منظر کے باوجود، اقبالؔ نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ ان کا مقصود پوری انسانیت ہے اور اسلام کا اصولی تصور انھوں نے سراسر آفاقی سطح پر پیش کیاہے۔ اسی لیے اقبالؔ اسلام کو محض کسی ملّت کے نسلی یا جغرافیائی مذہب کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آفاقی فلسفے، ایک عالمی نظریے اور ایک انسانی دعوت کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ ؎ مومن کی یہ پہچان کہ گُم اس میں ہیں آفاق بہرحال، اقبالؔ نے زندگی کے ایک نصب العین کو شاعری کی ہیئت میں، اس کے تمام لوازم و عناصر کے ساتھ، نافذ کیا، اس طرح کہ نصب العین کی اصولی قطعیت شاعری کے تخلیقی عمل میں گرچہ برقرار رہی مگر اس نے ایک ایمائی پیرایہ اختیار کر لیا۔ یہ فکر اور فن کی مستقل بالذّات ہستیوں کے درمیان ایک ازدواج کامل کی مثال تھی۔ یہ خلوص فکروفن کا تخلیقی امتزاج تھا۔ اقبالؔ کے مفکّرانہ سوز اور شاعرانہ گدازنے مل کر ایک ایسی ہیئتِ اظہار اختیار کی، جس کی کوئی نظیر عالمی ادب کی پوری تاریخ میں نمودار نہیں ہوئی ہے۔ اقبال کی شاعری درحقیقت مشرقی اور مغربی ادبیات کا، ایک آفاقی پیمانے پر، نقطۂ اتصال بھی ہے اور نقطۂ عروج بھی۔ شاید یہ واقعہ بیسویں صدی ہی میں رونما ہو سکتا تھا۔ اور اگر جدید تہذیب میں آفاقی نقطۂ نظر عمومی طور سے بروئے عمل آ جائے تو اب یہ واقعہ ممکن ہے کہ پورے معنی میں عالمی ادب کی تخلیق ہو جس کی قدروقیمت صحیح معنی میں ایک بین الاقوامی معیارِ تنقید سے معیّن کی جائے۔ اس وقت اقبال کا نمونۂ کامل، عالمی ادب کا سب سے روشن مینار ہدایت ہو گا۔ مشرق سے ہو بے زار، نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر (اقبال) تنویر اقبال ،مکتبہ تعمیر انسانیت، لاہور، ۱۹۹۰ء اقبال کے سیاسی افکارا ور تحریکِ پاکستان ڈاکٹر فرمان فتح پوری دنیا میں عالمی شہرت کے شاعروں اور مفکروں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اقبال کی طرح سیاسیات، خصوصاً عملی سیاست سے گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہو اور اپنے خوابوں کی تعبیر میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہو۔ وجہ یہ ہے کہ فکر و فن کا معاملہ خارجی زندگی سے اتنا متعلق نہیں ہوتا جتنا کہ شاعر یا مفکر کے دروں خانۂ ذات سے، خارجی حالات، اس کی دروں بینی کے لیے مہیج کا کام کرتے ہیں لیکن ان کا ردِّ عمل اور اس کا اسلوب اتنا انفرادی شخصی اور جمالیاتی ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی سے متعلق ہو کر بھی، الگ ہی رہتا ہے اور صرف خاص خاص لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ خود اقبال کا مشہور شعر ہے کہ: فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرفِ تمنّا جسے کہہ نہ سکیں روبرو اپنے پرائے، سب کو اس کا اعتراف ہے کہ اقبال پیغمبرانہ صفات کے شاعر ہیں، ان کا فن اکتسابی نہیں یکسر وہبی ہے اور جیسا کہ خود انھوں نے کئی جگہ ظاہر کیا ہے وہ شعوری طورپر شعر کے لیے فکر نہیں کرتے بلکہ، شعر لفظ و معنی کی مکمل اکائی کی صورت میں ان پر نازل ہوتا ہے، اور جب تک الہام کی بارش تھم نہیں جاتی جسم و روح پر لرزہ سا طاری رہتا ہے۔ اس کے باوجود اقبال ان شاعروں میں نہیں جن کی ہیئت کذائی کا نقشہ آج کے ایک شاعر نے اس طور پر کھینچا ہے۔ کسی کی زلف پریشاں کسی کا دامن چاک جنوں کو لوگ تماشأ بنائے پھرتے ہیں (اقبال اجمیری) اقبال، ان شعرا میں بھی نہیں جو اس اندازِ خود فراموشی کو کہ ترا، جمال ہے، تیرا خیال ہے تو ہے مجھے یہ فرصتِ کاوش کہاں کہ کیا ہوں میں فکر و فن کی معراج خیال کرتے ہیں۔ جیسا کہ اقبال کے تصوّر عشق اور تصوّرِ فن میں اس کا ذکر تفصیل سے آ چکا ہے، اقبال کے یہاں اس قسم کی از خود رفتگی کا تصوّرِ نا پید ہے۔ وہ ’’حسن را از خود بروں جستن‘‘ کے نہیں ’’ذات را بے پردہ دیدن‘‘ کے قائل ہیں ان کے یہاں مستی و سرشاری ہے لیکن اس کا تعلق خود فراموشی و گمشدگی سے نہیں، خود آگہی و خود جوئی سے ہے۔ ان کا ذوق جنوں گریباں کا دشمن نہیں محافظ ہے اور ان کی دیوانگی ہوش ربائی نہیں، عین ہوشیاری ہے۔ با چنیں ذوقِ جنوں پاسِ گریباں داشتم درجنوں از خود نہ رفتن کا رہبر دیوانہ نیست اقبال کا یہی مسلکِ حیات یا فلسفۂ خودی و بیخودی ہے جس نے اقبال کو ذہنی طورپر اپنے گرِدو پیش کی زندگی سے، جس کے ہنگاموں کا بیشتر تعلق سیاست و سیاسی کشمکش سے تھا، شروع ہی سے وابستہ رکھا، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ اقبال کے فکر و فن کا اصل محرّک ہی وہ سیاسی ماحول ہے جو طاقتور و کمزور، غلام اور آزاد، اور ترقی یافتہ و پس ماندہ کے درمیان آویزش و کشمکش کا سبب بن رہا تھا اور جس میں ہر با شعور آدمی کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ خوفناک صورتِ حال انسانی معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔ چنانچہ جب اقبال اپنی ابتدائی شاعری میں اس طرح کا اظہار خیال کر رہے تھے کہ: دیارِ مغرب کے رہنے والوں، خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا تو وہ غزل کے پیرائے میں مغربی سیاست ہی کا پردۂ چاک کر رہے تھے۔ ۱۹۰۵ء اور ۱۹۰۸ء کے درمیان انھوں نے یورپ میں رہ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا اور ان کے وسیع مطالعے نے انھیں یقین دلایا تھا کہ مغرب میں جس نظامِ سیاست کا نام جمہوریت ہے وہ گندم نما جو فروشی کے مصداق ہے۔ کہنے کو تو یہ عوام پر عوام کے ذریعے عوام کی حکومت کہی جاتی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو اس میں سیاسی طاقت مخصوص افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تھوڑے سے لوگ، قوت اور معاش کے سارے وسائل و ذرائع پر چھائے رہتے ہیں اور عوام کو بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بظاہر اقتدار اعلیٰ، ایک آدمی کی بجائے بہت سے آدمیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن حقیقت میں حکمرانی، افراد کی ایک خاص جماعت کرتی ہے۔ اس حکمران جماعت کے اشاروں پر ملک اسی طرح ناچتا ہے جس طرح کسی آمر کے اشارے پر۔ افراد کی یہ حکمراں جماعت رائے کی صلابت یا صداقت کو اتنی اہمیت نہیں دیتی جتنی کہ آراء کی تعداد کو افراد کی اہلیت و قابلیت کا لحاظ نہیں رکھا جاتا بلکہ صرف یہ دیکھا جاتا کہ افراد کی اکثریت کس کی جانب ہے۔ اقبال کے لفظوں میں: جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے اقبال کی مشہور نظم ’’خضرِ راہ‘‘ دراصل اپنے عہد کے سیاسی نظاموں اور ان کے معمولات و نتائج پر ایک طرح کی تنقید ہے۔ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۲۱ء میں کہی گئی، جب کہ مغرب کے ہاتھوں، جمہوریت کے نام پر، انسانی معاشرے کی دھجیاں بکھر چکی تھیں، اسلامی ممالک خصوصیت سے انتشار و تباہی کا شکار ہو رہے تھے، ترکوں اور عربوں کی ریاستیں ٹکڑوں میں بٹ گئی تھیں اور خلافت کے نام سے مختلف مسلم ریاستوں کے درمیان جو برائے بیت، اتحاد باقی رہ گیا تھا وہ بھی تیزی سے پارہ پارہ ہو رہا تھا۔ یہ سیاسی افراتفری، جو کمزوروں کے حق میں عموماً اور مسلمانوں کے حق میں خصوصاً تباہ کن تھی، اقبال کے لیے سخت ذہنی اضطراب و کرب کا باعث تھی، چنانچہ جب خضر سے اقبال نے یہ سوال کیا کہ: زندگی کا راز کیا ہے سلطنت کیاچیز ہے اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش تو خضر نے جمہوری نظام کی ساری قلعی اس طور پر کھول کر رکھ دی کہ ’’سلطنت اقوام غالب کی ہے اِک جادوگری۔‘‘ اس جادوگری کی کیا نوعیت ہے اور یہ حکومت و سرمایہ و محنت کے سارے وسائل و امور کو کس طرح اپنے پنجوں میں جکڑے رہتی ہے، اس کاجواب اقبال ہی کی زبان سے سننے کے لائق ہے۔ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلسِ آئین و اِصلاح و رعایات و حقوق طبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر، خواب آوری گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا ہے، یہ پیامِ کائنات اے کہ مجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دستِ دولت آفریں کو مُزدیوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات نسل، قومیّت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات بعد کو اقبال نے اُردو فارسی میں جگہ جگہ اس جمہوری نظام کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا ہے اور آخر آخر، اس کی لعنتوں اور تباہیوں کے پیش نظر، واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ: گربزاز طرزِ جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید ’’خضرِ راہ‘‘ پر موقوف نہیں، اقبال کے فکر و فن کی تہہ میں جھانک کر دیکھیں تو ان کی ہر نظم اور ہر غزل کسی نہ کسی سیاسی صورت حال کی، خواہ اس کا تعلق جمہوریت سے ہو یا کسی اور طرزِ حکومت سے، ترجمان و مفسّر نظر آئے گی۔ اُردو فارسی کی بہترین نظموں میں بیشتر ایسی ہیں جو براہِ راست قومی یا بین الاقوامی سیاسی مسائل سے پیدا شدہ حالات و واقعات سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہیں۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ و رموزِ بے خودی‘‘ میں جہاں اقبال نے توحید و ملت کے حوالے سے فرد و ملّت کے ربط اور آئینِ زندگی کی پابندی پر زور دیا ہے گویا اسلامی نظام حیات کو بروئے کار لانے کا خواب دیکھا ہے۔ ’’شکوہ‘‘ و ’’جوابِ شکوہ‘‘ اور ’’شمع و شاعر‘‘ میں مغرب کی اس سیاسی چال کے اثرات صاف نظر آ رہے ہیں، جس کا منشا، ترکوں اور عربوں کو ان کے بعض علاقوں سے جبراً محروم کرنا اور ان کی صفوںمیں پھوٹ ڈال کر انھیں سیاسی و معاشی غلامی میں جکڑنا تھا۔ یہ نظمیں ۱۹۱۱ء اور ۱۹۱۳ء کے درمیان کی ہیں۔ اسی زمانے میں برصغیر کی برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوئوں کو خوش کرنے اور مسلمانوں کو ان کے جائز سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے تقسیم بنگال کی تنسیخ کا اچانک اعلان کردیا گیا۔ ایم۔ او۔ کالج علیگڑھ کو یونیورسٹی کا درجہ دینے میں غیر ضروری پس و پیش سے کام لیا گیا۔ کانپور کی ایک مسجد کے انہدام کا حکم دے کر عام مسلمانوں کو مجروح کیا گیا اور احتجاج کرنے پر سینکڑوں کو بے گناہ گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ ۱۹۱۶ء میں ’ لکھنؤ پیکٹ کے ذریعے‘ ایک اہم سیاسی واقعہ یہ ہوا کہ کانگریس مسلمانوں کے جدا گانہ انتخاب پر رضا مند ہوگئی، لیکن انتخاب کا معاملہ اس لیے کھٹائی میں پڑ گیا کہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے وقت حکومت نے جو وعدے کیے تھے وہ رفتہ رفتہ ان سے منحرف ہوتی گئی اور جنگ کے اختتام پر اس کا رویہ سخت سے سخت تر ہوگیا۔ نتیجتاً عدم تعاون، ترک موالات اور خلافت کی تحریکیں شروع ہوئیں، کچھ دنوں ہندو مسلمان شیر و شکر رہے لیکن جلد ہی گاندھی جی کی سیاسی چالوں نے ان میں پھوٹ ڈال دی۔ تحریک خلافت اور خلافت دونوں کاخاتمہ ہوگیا۔ اقبال کے لفظوں میں تحریکِ خلافت کیا تھی، اہل مغرب سے خلافت کی بھیک مانگی جا رہی تھی، ان کے نزدیک ایسی خلافت جو مسلمانوںکے زور بازو کا نتیجہ نہ ہو بے معنی و مہمل تھی۔ زخموں کا ہرا رہنا اس سے بہتر ہے کہ دوسروں سے مرہم کی گزارش کی جائے، چنانچہ انھوں نے صاف کہہ دیا کہ اگر ملک ہاتھوں سے جاتا ہے جائے تو احکامِ حق سے نہ کر بے وفائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشاہی مرا از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی اقبال نے صرف مغرب کے جمہوری نظام کو نہیں بلکہ دنیا کے ہر ایسے سیاسی نظام کو جس کی بنیاد لا دینی پر رکھی گئی ہے نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے کارل مارکس کے سیاسی نظام یعنی اشتمالیت کو اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں سراہا ہے لیکن تفصیلات میں جانے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کی لا دینی کے سبب اسے بھی کج نہاد، اور نا پائیدار خیال کرتے تھے۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں فلکِ عطارد پر جہاں ان کی ملاقات جمال الدین افغانی کی روح سے ہوتی ہے وہ پیغامِ افغانی کے عنوان سے روس کے موجودہ نظام کی تعریف میں اہل روس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ تم نے ایک نئے انداز جہانبانی کی طرح ڈالی ہے، پرانے دساتیرِ حکومت کو رد کر کے تازہ دستور مرتب کیا ہے، مسلمانوں کی طرح، قیصریت و شہنشاہیت پر ضرب لگائی ہے لیکن میری ایک نصیحت گرہ میں باندھ لو، اگر تمہیں واقعی دنیا میں ضمیر کی روشنی کو عام کرنا ہے تو پھر کار زارِ حیات میں خود کو زیادہ سے زیادہ محکم و طاقت ور بنانے کی کوشش کرو اور پرانے سیاسی نظاموں کی طرف لوٹ کر نہ دیکھو۔ دنیا کو ایک ایسی ملّت کی ضرورت ہے جو بشیر و نذیر ہو۔ تو کہ طرحِ دیگرے انداختی دل ز دستورِ کہن پرداختی ہم چنیں اسلامیان اندر جہاں قیصریت را شکستی استخواں تابر افروزی چراغِ در ضمیر غیرتے از سر گزشتِ مابگیر پائے خود محکم گزار اندر نبرد گردِ ایں لات وُہبل دیگر مگرد مِلّتے می خواہد ایں دنیائے پیر آنکہ باشد ہم بشیرد ہم نذیر تو بجاں افگندۂ سوزے دگر درِ ضمیر تو شب و روز دگر لیکن چونکہ اشتمالیت بھی دین کو اپنے نظام کار سے الگ رکھتی ہے، اس لیے جمہوریت سے بہتر ہونے کے با وصف، اقبال کی نظر میں پسندیدہ نہیں۔ چنانچہ ملّت روسیہ کی تعریف کرتے کرتے ایک ہی سانس میں انھوں نے اہل روس کو یہ صلاح بھی دے دی ہے کہ کردۂ کارِ خدا ونداں تمام بگزر از لا جانبِ الاّ خرام در گزر از لا اگر جوئندۂ تاز لا اثبات گیری زندۂ اے کہ می خواہی نظام عالمی جستہ اُو را اساس محکمی (جاوید نامہ، ص ۸۸) جاوید نامہ ہی میں اشتراکیت و ملوکیت کے عنوان سے ایک اور جگہ کارل مارکس کو’’صاحبِ سرمایہ‘‘ کا لقب دے کر اس طور پر تبصرہ کیا ہے۔ صاحبِ سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل زانکہ حق در باطل او مضمر است قلبِ او مومن د ما غش کا فراست غربیاں گم کردہ اند افلاک را در شکم جونید جان پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جُز بہ تن کارے ندارد اشتراک دینِ آں پیغمبر حقِ نا شناس بر مساواتِ شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخِ او، در دل، نہ درآب و گِل است (جاوید نامہ، ص ۷۰) اس طرح کی اور کئی نظمیں ہیں جن میں اشتمالیت کو ایک پہلو سے سراہا گیا ہے۔ ایسی نظموں میں ’’بالِ جبرئیل‘‘ کی ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ اور ’’فرمانِ خدا‘‘ (فرشتوں سے) جس کا پہلا شعر اس طور پر ہے کہ اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امرا کے درو دیوار ہلادو خصوصیت سے قابلِ مطالعہ ہیں۔ ضربِ کلیم کی نظموں میں ’’اشتراکیت‘‘ اور ’’کارل مارکس کی آواز‘‘ میں بھی اشتمالیت کی تحسین کا پہلو خاصا نمایاں ہے، لیکن یہ دادو تحسین ہرجگہ مشروط ہے۔ اقبال کے مسلکِ حیات میں زندگی، سیاست اور مذہب کو الگ الگ کر کے دیکھنے یا برتنے کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ سیاست کو دین و مذہب سے یا دین و مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کو انسانی معاشرے کے لیے تباہ کن جانتے ہیں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہوئی دین و دولت میں جس دم جُدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری ــــــــــــ نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی چنانچہ، لا دینی سیاسی نظاموں کے خلاف، ان کا احتجاجی لب و لہجہ شروع سے آخر تک ان کی شاعری میںباقی رہتا ہے ارمغان حجاز اقبال کا آخری مجموعہ کلام ہے اور ان کی وفات کے بعد ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا ہے۔ اس کی ایک نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ جس کا سال تصنیف ۱۹۳۶ء ہے اس سلسلے میں خصوصیت سے قابل توجہ ہے۔ یہ مجلس شوریٰ ایک طرح کی سیاسی انجمن ہے۔ اس میں عہد حاضر کے نظاموں کے ساتھ اسلامی سیاسی نظام بھی زیر بحث آتا ہے۔ پہلے ابلیس اپنے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مشیروں کو بتاتا ہے کہ اس نے فرنگی ملوکیت اور سرمایہ داری کا جال پھیلا کر کس طرح مشرق و مغرب دونوں کو تباہ کردیا ہے، مُشیر ابلیس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں لیکن کارل مارکس کے بِنا کردہ سیاسی نظام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اشتمالیت کو شکست دینا، ابلیسیت کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابلیس یہ سن کر مشتعل ہوجاتا ہے اور مشیروں کو بتاتا ہے کہ ابلیسیت کے لیے اصل خطرہ اشتمالیت نہیں اسلام ہے۔ اشتمالیت تو خود ابلیس کی زائیدہ ہے اور فرنگی ملوکیت ہی کا ایک روپ ہے۔ البتہ وہ اسلامی نظام جس کے بروئے کار آنے کے آثار بہت نمایاں ہیں، ہمارے لیے مستقل خطرہ ہے۔ ہر نفس ڈرتا ہوں اس امّت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات مشیر دریافت کرتے ہیں کہ اس خطرے کا توڑ کیا ہے؟ ابلیس جواب دیتا ہے کہ صرف یہ مسلمان کو سعی و عمل سے غافل کر کے مذہبی بحثوں میں اُلجھائے رکھا جائے۔ ہے یہی بہتر الٰہیات میں اُلجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں اُلجھا رہے مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے اس طرح کے اور نہ جانے کتنے اشعار اور کتنی نظمیں ہیں جو اقبال کے اس موقف کی تائید کرتی ہیں کہ اسلامی نظام کے سوا، دنیا کا کوئی سیاسی نظام، انسان کو ایک مستقل فلاحی ریاست کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ انھوں نے کارل مارکس اور لینن، حتیٰ کہ مسولینی و ہٹلر تک کے اندازِ جہاں بانی کے بعض پہلوئوں کی تعریف کی ہے، اور جزوی طور پر اشتراکیت اور اشتمالیت کو بھی سراہا ہے لیکن بہ حیثیت مجموعی وہ ان میں سے کسی ایک کے بھی مدّاح نہ تھے۔ چنانچہ انھوں نے ان میں سے ہر نظام کی خرابیوں اور بانیان نظام کی فکری خامیوں کی نشان دہی کی ہے ساتھ ہی، جگہ جگہ وضاحت سے بتایا ہے کہ دُنیا میں صرف اسلامی سیاسی نظام ایسا ہے جس میں انسان کے جسم و روح کی ساری ضرورتیں یکساں طورپر پوری ہو سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں اقبال کا ایک مضمون، مطبوعہ ۲۴ جون ۱۹۲۳ء ’’زمیندار‘‘ لاہور، خصوصیت سے قابل ذکر ہے۔ اس مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ ’’انقلاب‘‘ (لاہور) کے مدیر شمس الدین حسن نے، کامریڈ غلام حسین کی گرفتاری کے خلاف ۲۳ جون ۱۹۲۳ء کے زمیندار اخبار میں،ایک مضمون لکھا کہ ’’اگر بالشویک خیالات کا حامی ہونا جرم ہے توپھر ہمارے ملک کا سب سے بڑا شاعر ڈاکٹر محمد اقبال کیوں قانون کی زد سے بچ سکتا ہے کیونکہ بالشویک نظامِ حکومت، کارل مارکس کے فلسفۂ سیاسیات کا لب لباب ہے اور کارل مارکس کے فلسفہ کو عام فہم زبان میں سوشلزم اور کمیونزم کہا جاتا ہے، ان حالات میں اگر کوئی تھوڑی سی عقل کا مالک بھی، سر محمد اقبال کی خضر راہ اور پیام مشرق کو بغور دیکھے تو وہ فوراً اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ اقبال یقینا ایک اشتراکی ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کے مبلغ اعلیٰ ہیں۔‘‘(۲) صاحب مضمون نے اقبال کی ان نظموں کا خاص طور پر حوالہ دیا جن میں سرمایہ دار و محنت کے متعلق اظہار خیال کیا گیا تھا۔ اس حوالے کا منشا یہ تھا کہ کامریڈ غلام حسین کے اشتراکی عقائد کا جواز ثابت کیا جائے، لیکن علامہ اقبال کو شمس الدین حسن کا یہ حوالہ سخت نا گوار گزرا۔ انھوں نے بلا تاخیر دوسرے ہی دن اس کی تردید کی اور مُدیر زمیندار کو مفصل خط میں لکھا ’’میری طرف بالشویک خیالات منسوب کیے گئے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہوجانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔ میں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت، جب حدِّ اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لیے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کردیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لیے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور اس فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریقہ قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی نا عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردِّ عمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارتاً ذکر کیا ہے۔ شریعت کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بِنا پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کرسکے۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کرسکتی۔ مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے، کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوجائیگی جس کے اصول انسانی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو، ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل ایکانمی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہوجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر نظر غائر ڈالیں مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔‘‘ (۳) بالشوزم اور اسلام کے اقتصادی نظام پر تقابلی بحث اقبال نے اور کئی مقامات پر کی ہے۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’اسلامی معاشیات کی روح یہ ہے کہ سرمائے کی بڑی مقدار میں اضافہ کرنا ممکن بنا دیا جائے۔ مسولینی اور ہٹلر کا انداز فکر بھی یہی تھا۔ بالشوزم نے سرمایہ داری کا کلیتاً خاتمہ کر کے انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسلام زندگی کے تمام پہلوئوں میں ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ (۴) سیاسی نظام کے بارے میں، سیاست کی ہر سطح پر، خواہ اس کا تعلق برصغیر سے ہو یا مسلم ممالک سے یا اقوام عالم سے، اقبال یہی نقطۂ نظر رکھتے تھے یعنی دین اور سیاست کسی سطح پر بھی ان کے یہاں ایک دوسرے سے الگ نہ ہوسکتے تھے۔ شاعری اور نثر دونوں میں ان کے یہاں دین سے وابستہ سیاست کی تائید و تبلیغ کا واضح رحجان ملتا ہے۔ بر صغیر کی عملی سیاست میں اگرچہ وہ بہت بعد کو داخل ہوئے لیکن نظری اور فکری طورپر انھیں، سن شعور ہی سے، سیاسی مسائل سے گہری دلچسپی رہی۔ اس دلچسپی کا اصل محرک وہی ان کا فلسفۂ خودی تھا جس میں غیرت مندی اور احساسِ ذات کے ساتھ ساتھ توحید و رسالت کے آئین کی پابندی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے چنانچہ برصغیر کی ہندو مسلم سیاست میں انھوں نے مسلمانوں کے لیے جدا گانہ انتخاب کی حمایت اسی بنا پر کی تھی کہ اس طرح مسلم اقلیت ایک طاقتور اکائی بن سکتی ہے اور اسلامی آئین کے نفاذ کے ذریعے اسے اپنے تہذیبی تشخص اور ثقافتی امتیاز کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کا موقع مل سکتا ہے۔ انھوں نے بار بار نہایت واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار کیا کہ برصغیر میںمتحدہ قومیت کا نعرہ مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ میر غلام بھیک نیرنگ کو ایک خط مرقومہ ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء میں لکھتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک تبلیغِ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے، اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظتِ اسلام، اس مقصد کا عنصر نہیں ہے جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے یہ بات میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاستِ حاضرہ کے تھوڑے سے تجربے کے بعد، ہندوستان کی سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے۔ میرے خیال میں شدھی کا خطرہ، اس خطرے کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم یہ بھی شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے۔‘‘ (۵) اسی طرح صالح محمد کے نام اپنے مکتوبات میں، اقبال نے لکھا ہے کہ ’’اسلام پر بہت بڑا نازک وقت ہندوستان میں آ رہا ہے، سیاسی حقوق اور ملّی تمدن کا تحفظ تو ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرضِ خطر میں ہے۔‘‘ (۶) میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں کیا ہوجائے گا۔ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہوجائے اور رفتہ رفتہ ان کادین اور کلچر اس ملک میں فنا ہوجائے۔‘‘ (۷) چنانچہ، سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی فلاح اقبال کے نزدیک اس امر میں مضمر ہے کہ وہ جداگانہ انتخاب کے اصول کو مضبوطی سے پکڑے رہیں اور متحدہ قومیت کے چرکے میں نہ آئیں لکھنؤ کے پرچیہمدم کے ڈائریکٹر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’جدا گانہ انتخاب مسلمانوں کے تمام مطالبات کی اساس ہے‘‘ جداگانہ انتخاب کو غیر مشروط طور پر قائم رکھ کر حکومت نے، مسلمانوں کو موقع دیا ہے کہ وہ اپنا مستقبل آپ منتخب کرلیں۔ چاہیں تو اکثریت میں جذب ہوجائیں اورچاہیں تو کم از کم بعض حصص ملک میں اپنی جدا گانہ ملّی ہستی کو برقرار رکھ کر اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں۔ اگر آج مسلمانوں نے قبل از وقت جدا گانہ انتخاب سے دست برداری کرلی تو آئندہ مورخ ان کے ہندوستان میں سیاسی اعتبار سے مٹ جانے کے لیے حکومت برطانیہ کو ہرگز مطعون نہ کرے گا بلکہ خود مسلمانوں کو اس بات کا مجرم قرار دے گا کہ جمہوری نظام میں بہ حیثیت اقلیت انھوں نے اپنی بربادی اپنے ہاتھوں مول لی۔‘‘ (۸) جدا گانہ انتخاب سے اقبال کی گہری نظریاتی وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۱۹۲۷ء میں جب طریقہ انتخاب کے مسئلے پر، مسلم لیگ میں اختلاف پیدا ہوا تو اقبال نے پنجاب کے اس گروپ کا ساتھ دیا جس نے جداگانہ انتخاب کی حمایت کی تھی۔ اس کے برعکس جو لوگ متحدہ قومیت کے حامی تھے اور دین کے بجائے وطنیت کو قومیت کی اساس بتاتے تھے، اقبال ان سے سخت اختلاف رکھتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کے بارے میں ان کے مندرجہ ذیل قطعہ عجم ہنوز نہ داند رموزِ دین ورنہ ز دیو بند حسین احمد ایں چہ بوالعجبی است سرود برسر منبر کہ ملّت از وطن است چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی است بہ مصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است کی شانِ نزول بھی قومی نقطۂ نظر کا اختلاف اور جدا گانہ انتخاب کا مسئلہ تھا، چنانچہ بعض مسلمان رہنمائوں کے سیاسی موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’تاسف کا مقام ہے کہ ہمارے بعض لیڈر جن میں بعض علمائے دین بھی شامل ہیں، مسئلہ انتخاب کو محض نمائندگی کا طریقہ کار تصور کرتے ہیں اور بس۔ جہاں تک میں نے مسلمانان ہند کی گزشتہ تاریخ اور ایشیائی اقوام کے موجودہ امیال و عواطف اور مغربی اقوام کی ریشہ دوانیوں پر غور کیا ہے، مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ ابھی ایک عرصے تک، مسلمانان ہند کا مستقبل جداگانہ انتخاب سے وابستہ ہے۔ میرے ،خیال میں جداگانہ انتخاب، قومیت کے مغربی تصوّر سے بھی متناقص نہیں اور اس کے باوجود ہندی اقوام میں اتحاد اور یک جہتی پیدا ہوسکتی ہے۔‘‘ (۹) برصغیر کی ہندو مسلم سیاست سے اقبال کی دلچسپی کسی پیشہ وارانہ، یا تفریحی مشغلے کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ جیسا کہ ان کی شاعری اور ان کے خطبات و مقالات سے نمایاں ہے، ملّت اسلامیہ اور مسلمانوں سے اس محبت و درد مندی کے سبب تھی جو اللہ نے روزِ اوّل سے ان کے دل میں ڈال دی تھی اور جس نے انھیں سارے مسلمانانِ عالم کا نقیب و غمخوار بنا دیا تھا۔ سیّد سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالک اسلامیہ کے موجودہ حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہورہا ہے۔ ذاتی لحاظ سے خدا کے فضل و کرم سے میرا دل پورا مطمئن ہے، یہ بے چینی محض اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل گھبرا کر کوئی دوسری راہ نہ اختیار کرلے۔‘‘(۱۰) واقعہ یہ ہے کہ اقبال کو ہندوستان، افغانستان، ایران ، ترکی، عرب ریاستوں اور دوسرے ممالک سب کے مسائل سے یکساں دلچسپی تھی، وہ سب کے لیے درد مند دل رکھتے تھے اور سب کی آزادی و فلاح کے آرزو مند تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ احیاء مِلّت اسلامیہ کے سلسلے میں وہ بیسویں صدی کے جمال الدین افغانی تھے۔ جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ء تا ۱۸۹۷ئ) سے اقبال کی ملاقات کاکوئی ثبوت نہیں ملتا، لیکن چونکہ افغانی کے علم و فضل اور ان کی انقلابی تحریک کا غلغلہ سارے زمانے میں تھا اور اس وقت کے بیشتر علمائے مشرق و مغرب، ان کی تحریروں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، نیز وہ اقبال کی نوجوانی میں ہندوستان بھی آئے تھے اس لیے یقین ہے کہ علامہ اقبال نے، جن کا نقطۂ نظر، ملّت اسلامیہ کے باب میں جمال الدین افغانیؒ سے مشابہ ہے ضرور ان کا اثر قبول کیا ہوگا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کا بیان ہے کہ ہندوستان میں جمال الدین افغانی کی بین الملّی اتحادِ اسلامی کی تحریک کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا چنانچہ جب وہ واپس گئے تو معتقدین کی ایک جماعت اپنے پیچھے ہندوستان میں چھوڑ گئے۔ اقبال بھی مسلم نوجوانوں کی اس جماعت کے ایک رکن تھے۔ جو جمال الدین افغانی کے تصوّر اتحاد ملّی سے بغایت متاثر ہوئی۔‘‘ (۱۱)خود اقبال کے بیان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی افکار میں جمال الدین افغانی کے پیرو تھے اور انھیں، انیسویں صدی کا مجدّد مانتے تھے۔ چودھری محمد حسن کو ایک خط مرقومہ ۷ اپریل ۱۹۳۲ء میں لکھتے ہیں کہ ’’زمانہ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدّد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصرو ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب بخدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ موخر الذکر ہی اصل موسّس ہے زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا اگر قوم نے ان کو عام طور پر مجدد نہیں کہا یا انھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا تو اس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا۔‘‘(۱۲) جمال الدین افغانی کی سیاسی بصیرت کا فیصلہ یہ تھا کہ مسلم اقوام کی نشاۃ ثانیہ کا راز دو باتوں میں مضمر ہے، اولاً اغیار کی غلامی سے نجات، ثانیاً اتحادِ عالم اسلامی۔ چنانچہ اس کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی تمام زندگی اور صلاحیتوں کو وقف کردیا۔ اپنے عہد کی تہذیبی اور تمدنی زندگی میں دہریت اور لادینی کے غلبے سے انھیں سخت تشویش تھی وہ مذہب کو بنی نوعِ انسان کی بقا و ارتقا اور اس کی سعادت و مسرت کا سرچشمہ سمجھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ حقیقی تہذیب وہ ہے جس کی بنیاد علم، اخلاق اور مذہب پر ہو نہ کہ مادی ترقی پر۔ اس کے علاوہ اسلامی اجتماعیت کو جس کا مدار محبت، عقل اور آزادی پر ہے، مادی اشتراکیت اور اشتمالیت پر جس کی بنیاد نفرت، خود غرضی اور ظلم پر ہے، ترجیح دیتے تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے تمام فرقوں سے استدعا کی کہ عقلی اصول کو جو اسلام کی امتیازی خوبی ہے، اپنائیں اس لیے کہ تمام مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو برہان کی روشنی میں بھی اپنی حقانیت کو ثابت کر سکتا ہے۔ افغانی نے مسلمانوں کو یہ بھی بتایا کہ مغربی اقوام، مشرقی ثقافت کی نشو و نما کو روکنے اور تعلیم گاہوں میں نوجوانوں کے جذبۂ حب الوطنی کو دبانے کی کوششیں کر رہی ہیں، وہ اہل مشرق کو یہ باور کراتی ہیں کہ مغرب سارے کمالات علوم و فنون کا مرکز اور مشرق ان کمالات سے یکسر عاری ہے۔ عربی، فارسی، ترکی اور مشرقی زبانیں مُردہ و بے جان ہیں اور صرف انگریزی زبان ہی ان کو ساری مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے۔ افغانی نے اس قسم کے زہریلے پروپیگنڈے اور ان کے موثرات و محرکات کے خلاف قولاً اور عملاً جہاد کیا۔ اہلِ مشرق کو اپنی ثقافت اپنی زبان اور اپنی عظمتِ رفتہ کا صحیح احساس دلایا۔ انھوں نے سمجھایا کہ جن لوگوں کی اپنی زبان نہیں ان کی اپنی کوئی قومیت بھی نہیں اور جس قوم کا کوئی ادبی سرمایہ نہیں اس کی کوئی زبان نہیں، نیز جس قوم کی اپنی تاریخ نہیں، اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں اور جن لوگوں کی نظر میں اپنے ثقافتی ورثے اور اپنے بزرگوں کے کارناموں کی قدر نہیں ان کی تاریخ بھی نہیں۔ ‘‘ (۱۳) ظاہر ہے کہ یہ ہی وہ خیالات و افکار ہیں جن پر علامہ اقبال کے فکرو فن کی اساس ہے اور جس کی تبلیغ و تفسیر کے لیے ان کی زندگی وقف تھی، خاص طور پر تحریکِ اتحاد و عالم اسلامی کے سلسلے میں افغانی اور اقبال کا مطمح نظر بالکل ایک جیسا ہے۔ جمال الدین افغانی کے اتحادِ عالم اسلامی کا مقصد یہ تھا کہ تمام اسلامی حکومتوں کو اس طرح ہم خیال و ہم رشتہ کردیا جائے کہ وہ متحدہ قوت کے ذریعہ غیر ملکی اور لادینی تسلّط سے چھٹکارا حاصل کرسکیں، ان کا مقصود یہ ہرگز نہ تھا کہ سارے اسلامی ممالک کو ختم کر کے ایک بڑی اسلامی سلطنت قائم کردی جائے یا مختلف اسلامی ممالک کے مسلمانوں سے ان کا جذبہ حب الوطنی چھین کر، ان پر حبِّ دین کو بہ جبر مسلط کردیا جائے۔ حبِّ وطن، افغانی کے نزدیک ایک فطری جذبہ ہے اور اپنی تحریروں میں انھوں نے اس جذبے کی اہمیت پر کئی موقعوں پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ اسلامی ممالک خود مختارانہ اور آزادانہ طور پر اپنے مشترکہ مقصد یعنی آزادی کے حصول کے لیے کوشش کریں اور اس کوشش میں وہ اتحادیوں کی طرح ایک دوسرے کی مدد کریں اور افغانی کے نزدیک یہ اسی وقت ممکن تھا جبکہ ساری اسلامی ریاستیں اسلامی سیاسی نظام کو اپنا کر، ذہنی اور عملی طور پر لادینی اور غیر ملکی قوتوں کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنا لیں۔ اتحاد عالم اسلامی کے بارے میں علامہ اقبال کا موقف بھی یہی ہے۔ وہ دنیا پر جبراً اسلامی حکومت قائم کرنے کی تبلیغ نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصود، اسلام کے حوالے سے، مسلم ریاستوں کو ایک ایسے مضبوط رشتۂ اتحاد سے منسلک کرنا ہے جس کے ذریعے وہ دوسروں کی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں۔ اتحادِ عالم اسلامی کی تحریک کے سلسلے میں ایک اور بات کی وضاحت اس جگہ ضروری ہے۔ مغربی قوموں نے اس تحریک کی وقعت کو کم کرنے اور اسے تبلیغ اسلام کی ایک عالمگیر مشینری ثابت کرنے کے لیے اسے ’’پان اسلامزم‘‘ کا نام دیا ہے۔ ’’پان‘‘ کے معنی ہیں، ’’کُل‘‘ یا ’’سب‘‘ ظاہر ہے کہ ’’پان اسلامزم‘‘ کے معنی ہوئے’’ سب کچھ اسلام‘‘ یا ’’اسلام ہی اسلام‘‘ گویا، مغربی اقوام کی نظر میں اتحاد عالم اسلام کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے جو اسلام کے سوا، دنیا میں کسی اور مذہب یا سیاسی نظام کو دیکھنا پسند نہیں کرسکتی۔ اس طرح کا خیال رکھنا، جمال الدین افغانی اور اقبال دونوں پر ایک طرح کا اتہام ہے، چونکہ اقبال کے عہد میں، پان اسلامزم کی اصطلاح کو انگریز اور ہندو، دونوں نے غلط معنی پہنائے اور سیاسی حربے کے طور پر مسلمانوں کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ مسلمان ’’پان اسلامزم‘‘ کے داعی ہیں یعنی وہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ساری دنیا میں اسلام کو مسلط کردینا چاہتے ہیں، تو مجبوراً علامہ کو بھی اس اصطلاح کی طرف توجہ دینی پڑی، چنانچہ انھوں نے اردو انگریزی اخبارات میں اس کی وضاحت میں کئی بیانات شائع کرائے۔ ۲۸ ستمبر ۱۹۳۳ء کے ایک بیان مطبوعہ انقلاب لاہور میں انھوں نے کہا۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ پین اسلامزم کے متعلق میرے لیے ایک اور بیان دینا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ بعض اشخاص کے دلوں میں ابھی تک غلط فہمیاں موجود ہیں، پین اسلامزم کا لفظ، فرانسیسی صحافت کی ایجاد ہے اور یہ لفظ ایسی مفروضہ سازش کے لیے استعمال کیا گیا تھا جو اس کے وضع کرنے والوں کے خیال کے مطابق، اسلامی ممالک، غیر اسلامی اقوام خاص کر یورپ کے خلاف کر رہے تھے۔ بعد میں یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ کہانی بالکل غلط تھی پین اسلامزم کا ہوّا پیدا کرنے والو ں کا منشاء صرف یہ تھا کہ اس کی آڑ میں یورپ کی چیرہ دستیاں جو اسلامی ممالک میں کی جارہی تھیں، وہ جائز قرار دی جائیں۔‘‘ ’’ہندوستانی اخبارات میں اس لفظ کو کئی معنی پہنائے گئے ہیں اس لیے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ پین اسلامزم سے، اسلام عالمگیر سلطنت بہت مختلف ہے، اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے، جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہوگی اور جس میں شخصی اور مطلق العنان بادشاہتوں اور سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہوگی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کردے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہ میں شاید محض خواب ہو لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔‘‘ ’’ایک مقامی ہندو اخبار نے ہندوستان کے مسلمانوں کی باہمی اتحاد کی خواہش کا نام پین اسلامزم رکھا ہے۔ یہ ایک اصطلاح کا غلط استعمال ہے لیکن مسلمانوں کو اس بات کا اعلان کردینے میں ہرگز پس و پیش نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو منجملہ دیگر ہندوستانی اقوام کے ایک علٰیحدہ قوم خیال کرتے ہیں اور ایسا رہنے کے خواہش مند ہیں۔ وہ اپنے آپ کو ایک علیٰحدہ معاشرتی جماعت کی حیثیت سے قائم رکھنا چاہتے ہیں اور ایک علیٰحدہ اقلیت کی حیثیت سے اپنے حقوق کی حفاظت چاہتے ہیں جو مسلمان قوم پرست کہلاتے تھے، انھوں نے بھی کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کو اپنی علیٰحدہ تمدنی حیثیت چھوڑ دینی چاہیے اور اپنی قسمت کو ایسی طاقتوں کے رحم پر چھوڑ دینا چاہیے جو ان کی علیٰحدہ ہستی کو مٹادیں۔ اگر کوئی مسلمان سیاسی لیڈر اس کے برعکس خیال کرتا ہے تو اس نے اپنی قوم کے جذبات کا صحیح اندازہ نہیں کیا۔‘‘ (۱۴) ایک اور بیان میں انھوں نے پان اسلامزم کے بارے میں کہا کہ ’’سیاسی پین اسلامزم کوئی وجود ہی نہیں رکھتا اور اگر یہ کبھی موجود تھا تو صرف ان لوگوں کے تخیل میں جنہوں نے اس کو وضع کیا، غالباً عبدالحمید خان سلطان ترکی کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار دینے کے لیے جمال الدین افغانی کو جن کا نام اس تحریک پین اسلامزم سے وابستہ کیا جاتا ہے، مسلمانوں کو ایک سیاسی حکومت کی صورت میں متحد کرنے کا کبھی خواب میں بھی خیال نہیں ہوا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلامی زبان، عربی، فارسی یا ترکی، میں ایسا کوئی فقرہ نہیں ہے جو پین اسلامزم کے مترادف ہو۔ بہر الحال یہ صحیح ہے کہ اسلام ایک معاشرہ کی حیثیت سے نہ صرف تمام مسلمانوں اور قوموں، بلکہ تمام مذاہب کے اجتماع کے لیے نسل، قومیت یا جغرافیائی حدود کا قائل نہیں ہے اس انسانی نصب العین کے مفہوم میں اگر کوئی شخص سادہ لفظ اسلام پر پین اسلامزم جیسے غیر ضروری اور طویل فقرہ کو ترجیح دینا پسند کرتا ہے تو ایسا پین اسلامزم موجود ہے اور ہمیشہ رہے گا۔‘‘(۱۵) مندرجہ بالا مباحث کی روشنی میں علامہ اقبال کے سیاسی نظریات و تصوّرات کا لُبِّ لباب یہ بنتا ہے کہ انھوں نے شروع سے آخر تک، ملّت اسلامیہ کی ہیئت اجتماعی اور اس کے استحکام پر زور دیا۔ انھوں نے مسلمانوں کی قومیت کی اساس وطن یا علاقہ کو نہیں ان کے مذہب یعنی اسلام کو قرار دیا اور وطنیت کے عقیدے پر مبنی قومیت کے تصوّر کو، بنی نوع انسان کے لیے مہلک و مضرت رساں بتایا۔ ان ہی کے لفظوں میں ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے انھوں نے ایسی قومیت کے خلاف آواز بلند کی جس کی بنیاد مذہبی اقدار، اخلاقی ضوابط اور ثقافتی روایات کے تحفظ کے احساس کے بجائے ایسے جذبوں کی تسکین پر رکھی گئی ہو جو کسی خطۂ زمین میں رہنے کے سبب وہاں کے باشندوں میں عارضی طور پر پیدا ہوجاتے ہیں چنانچہ اقبال جب یہ کہتے ہیں کہ اسلامزم نہ تو نیشنل ازم ہے اور نہ امپیریل ازم بلکہ وہ ایک قسم کی دولت مشترکہ ہے تو دراصل وہ بین الاقوامی اسلام پیش کرتے ہیں۔ بین الاقوامی اسلام ان کے خیال میں نسلی امتیازات اور ہمیشہ تبدیل ہونے والی جغرافیائی حدود کو صرف اقوام کو پہچاننے یا زبان و مکان میںان کا تعین کرنے کے لیے قبول کرتا ہے اپنے ارکان کے معاشری دائرے کو محدود کرنے کے لیے قبول نہیں کرتا۔ (۱۶) لیکن اس سے نتیجہ نکالنا کہ اقبال حب الوطنی کے خلاف ہے یا وطن کے لیے ایثار و قربانی کی ممانعت کرتا ہے درست نہ ہوگا۔ انھوں نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ’’اگر قومیت کے معنی اہل وطن سے محبت کرنے اور ناموس وطن کے لیے جان تک قربان کرنے کے ہیں تو ایسی قومیت مسلمان کے لیے جزو ایمان ہے قومیت اسلام سے اس وقت متصادم ہوتی ہے جب وہ ایک سیاسی تصوّر بن جاتی ہے، اتحادِ انسانی کا بنیادی اصول ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسلام محض شخصی عقیدے کے پس منظر میں چلا جائے اور قومی زندگی میں ایک حیات بخش عنصر کی حیثیت سے باقی نہ رہے۔ ترکی، ایران اور دیگر مسلم ممالک میں قومیت کبھی ایک مسئلے کی صورت اختیار نہ کرے گی۔ قومیت کا مسئلہ مسلمانوںکو صرف ان ممالک میں درپیش ہے جہاں وہ اقلیت میں ہیں اور جہاں قومیت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہستی کو بالکل مٹادیں۔ مسلم اکثریت والے ملکوں میں اسلام قومیت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہستی کو بالکل مٹا دیں۔ مسلم اکثریت والے ملکوں میں اسلام قومیت سے ہم آہنگی پیدا کرلیتا ہے کیونکہ وہاں اسلام اور قومیت عملاً ایک ہی چیز ہے۔ جن ممالک میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کی یہ کوشش حق بجانب ہوگی کہ تہذیبی وحدت کی حیثیت سے انھیں حق خود اختیاری حاصل ہو۔ یہ دونوں صورتیں اسلام کے عین مطابق ہیں۔‘‘(۱۷) ان خیالات کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے یہاں قومیت کی کئی حیثیتیں ہیں ایک وہ جن کا تعلق ان ملکوں سے ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور تیسری وہ جہاں بین الاقوامی سطح پر سارے اسلامی ممالک کو لادینی قومیتوں کے خلاف، ایک رشتہ اتحاد میں منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ گویا اقبال کے یہاں ملّت کی آزادی اور قومیت کا جو تصوّر ہے وہ دراصل برصغیر کی سطح پر سر سیّد احمد خان اور مولانا شبلی اور بین الاقوامی سطح پر جمال الدین افغانی کے تصوّر قومیت کا مرکب ہے۔ سرسیّد احمد خان کی طرح علامہ اقبال بھی، ہندوئوں کی قومی تحریک یعنی کانگریس میں شرکت کے مخالف تھے اور نتیجتاً جداگانہ انتخاب کے حامی بھی۔ لیکن انھوں نے سرسیّد کی سرکار نوازی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ علامہ اقبال، مولانا شبلی کی طرح مسلمان زراعت کاروں کی اقتصادی حالت میں انقلاب کی ضرورت سے باخبر تھے مگر ان کی رائے میں یہ انقلاب ہندوئوں میں مد غم ہو کر نہیں (جیسا کہ مولانا شبلی کا خیال تھا) بلکہ ان سے علیٰحدہ رہ کر عمل میں لانا چاہیے۔ اپنے ان نظریوں کو علامہ اقبال نے جمال الدین افغانی کی تحریکِ اتحادِ عالم اِسلام سے منسلک کیا اور برصغیر میں ایک ایسے اسلامی نیشنل ازم کا نعرہ بلند کیا جو سرسیّد، مولانا شبلی اور جمال الدین افغانی، سب سے الگ ان کا اپنا ہوگیا۔‘‘ (۱۸) اب تک صرف اقبال کے سیاسی نظریات و تصورات زیر بحث آئے ہیں، عملاً انھوں نے سیاست میں کیا حصہّ لیا اور برصغیر کی ہندو مُسلم سیاست میں انھوں نے کس قسم کا کردار ادا کیا، اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں ان کے اس کردار کی کیا اہمیت ہے، ابھی اس کا تذکرہ باقی ہے۔ کہاجا چکا ہے کہ اقبال کی فکر اور شاعری، دونوں پر، ملکی و بین الاقوامی سیاسی حالات نے گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کی شاید ہی کوئی تحریر ہو جو ملّت اسلامیہ کے سیاسی مسائل سے یک گونہ تعلق نہ رکھتی ہو لیکن بہت دنوں تک وہ خارزارِ سیاست کے عملی میدان سے الگ تھلگ رہے۔ چنانچہ ان کی عملی سیاست کا دور دراصل ان کی زندگی کا آخری دور ہے۔ پہلی بار انھوں نے دسمبر ۱۹۲۶ء میں پنجاب کونسل کے انتخاب میں حصہّ لینے کا اعلان کیا، ملک محمد حسین اور میاں عبد العزیز تو ان کے حق میں دست بردارہوگئے، ملک محمد دین سے ان کا مقابلہ ہوا۔ اقبال کامیاب ہوئے اور ایک مہینے کے اندر ہی یعنی جنوری ۱۹۲۷ء کو پنجاب مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد عملی سیاست میں اقبال کی سرگرمیاں روز بروز تیز ہوتی گئیں۔ پنجاب کی مجلس قانون ساز میں ایک فعال دیانتدار اور بے باک رکن کی حیثیت سے انھوں نے ہر ایسے مسئلے میں گہری دلچسپی لی جس کا تعلق عوام اور مسلمانوں کے حقوق و مفادات سے تھا۔ ۲۳ فروری ۱۹۲۸ء کی تقریر میں انھوں نے مالیۂ آراضی کی وصولیابی کے طریقے کو فرسودہ بتایا اور یہ تجویز پیش کی کہ جس کسان کے پاس پانچ بیگھے سے زیادہ زمین نہ ہو اور پیداوار بھی معقول نہ ہو اس سے کوئی مالیہ نہ لیا جائے۔ پنجاب میں مذہبی پیشوائوں کے خلاف توہین آمیز لٹریچر شائع کرنے والی جماعت کے خلاف علاّمہ نے یہ تجویز پیش کی کہ ان کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے قانون بنایا جائے چنانچہ ۱۹۲۷ء میں یہ قانون نافذ ہوگیا۔ سرکاری ملازمتوں کے عہدوں کے لیے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ کھلے مقابلے کے بجائے، ہر فرقے کے لیے، آبادی کے تناسب کے لحاظ سے آسامیاں محفوظ کردی جائیں تاکہ کم ترقی یافتہ طبقوں کو بھی ملازمت میں مناسب حصّہ مل سکے۔ دیہات میں صفائی اور حفظان صحت کا انتظام بہتر بنانے، ابتدائی تعلیم کو لازمی قرار دینے اور انکم ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات مرکز سے صوبوں کو منتقل کرنے کی تجویزیں بھی کونسل میں ان کی طرف سے پیش کی گئیں۔ ۱۹۲۹ء کے بجٹ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے بھی انھوں نے کئی مالیاتی امور پر اپنی تجویزیں پیش کیں۔ تعلیم کی اشاعت شراب کے انسداد، غریب طبقے کی فلاح و بہبود، آیورویدک اور یونانی علاج کی حوصلہ افزائی، سرکاری افسروں کی تنخواہوں میں کمی، خرید و فروخت کے لیے سستی منڈیوں کی فراہمی کی تائید میں بھی انھوں نے مختلف اجلاسوں میں تقریریں کیں۔ (۱۹) پنجاب کی مجلس قانون ساز میں اقبال کی سرگرمیوں سے قطع نظر، عام سیاسی پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کے ایک رکن کی حیثیت سے بھی انھوں نے برصغیر کی سیاست میں بھر پور حصہّ لیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان اختلاف کی گہری خلیج واقع ہوچکی تھی اور پورے بر صغیر میں ہندو مسلمان ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے تھے۔ مسلم لیگ بھی دو حصّوں میںبٹ گئی تھی اور مستحکم قیادت کی عدم موجودگی کے سبب مسلمان بے دِلی و مایوسی کا شکار ہو رہے تھے۔ صوبہ پنجاب جس پر مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا انحصار تھا، عجیب قسم کے سیاسی ہیجان میں مبتلا تھا۔ مسلم لیگ، یونینسٹ پارٹی، اتحادِ ملّت، مجلسِ احرار تمام پارٹیاں بیک وقت ایک دوسرے کے خلاف اپنے وجود و بقا کے لیے سرگرم عمل تھیں لیکن مسٹر جناح کی سب سے زیادہ مخالف یونینسٹ پارٹی تھی جس کے کرتا دھرتا میاں فضل حسین تھے۔ مسٹر جناح اور میاں فضل حسین کے درمیان سب سے بڑا اختلاف یہ تھا کہ مسٹر جناح چاہتے تھے کہ مسلمان امیداواروں کولیگ کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہّ لینا چاہیے اور میاں فضل حسین کا کہنا تھا کہ پورے ایوان میں مسلمانوں کی تعداد اکاون فیصد ہے، اس لیے جب تک غیر مسلم فریق کا تعاون حاصل نہ ہو وہ وزرات نہیں بنا سکتے۔ اسی مصلحت کے پیشِ نظر انھوں نے صوبۂ پنجاب میں ایک مخلوط جماعت یونینسٹ کے نام سے بنالی۔ اب مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی میں رسہ کشی شروع ہوئی، حتیٰ کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے درمیان بھی بعض امور میں سخت اختلاف پیدا ہوگیا، لیکن جب لندن کی گول میز کانفرس میں قائد اعظم کو علاّمہ سے تبادلہ خیال کا موقع ملا تو وہ ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چنانچہ ۱۹۳۶ء میں لاہور میں چند سر برآوردہ افراد کے دستخط سے جو بیان قائد اعظم کی تائید میں شائع ہوا، اس پر علامہ اقبال کے بھی دستخط تھے۔ (۲۰) اس کے بعد جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کے مرکزی بورڈ کے ممبروں کی فہرست شائع کی تو پنجاب کے گیارہ ارکان میں ایک نام علامہ اقبال کا بھی تھا اس سلسلے میں علاّمہ کے مکان پر مسلم لیگ کا ایک جلسہ بھی ہوا جس میں ایک قرار داد یہ منظور کی گئی کہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے پنجاب میں ایک پارلیمنٹری بورڈ بنایا جائے اور دوسری قرار داد یہ تھی کہ اس بورڈ کے قواعد و ضوابط، علاّمہ ہی کے نام سے تقسیم کیے جائیں۔ ادھر، یونینسٹ پارٹی میاں فضل حسین کی وفات کے بعد سر سکندر حیات کی قیادت میں، مسلم لیگ کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی لیکن اقبال کے اثر سے، قائد اعظم کو پنجاب میں آخر کار مقبولیت حاصل ہوگئی اور مسلم لیگ کا پلّہ روز بروز بھاری ہوتا گیا۔ (۲۱) علامہ اقبال نے دس گیارہ سال، باقاعدگی سے عملی سیاست میں حصہّ لیا۔ اس مدّت میں مسلم لیگ کے ممتاز رکن، صوبہ پنجاب کے با اثر سیاسی قائد، اور ہندو مسلم سیاست میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کے زبردست حامی کی حیثیت سے، علامہ اقبال نے کیا کیا کام کیے اور کس نوع کی سیاسی خدمات انجام دیں، نیز ان کے سیاسی تصورات و نظریات کس نوعیت کے تھے، اس کی تفصیل میں جانے کے لیے اس کتاب میں گنجائش نہیں۔ اقبال کے اس پہلو سے خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کو مکتوبات خطبات اور مضامین اقبال کے علاوہ محمد احمد خان، (۲۲) ڈاکٹر سیّد عبداللہ، (۲۳) ڈاکٹر محمد عزیز احمد، (۲۴) بشیر احمد ڈار (۲۵)، رفیق افضل، (۲۶)اور عاشق حسین بٹالوی (۲۷) کی تصنیفات و مقالات کا مطالعہ کرناچاہیے۔ البتہ اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم واقعہ اور ان کے سیاسی کارناموں میں سب سے اہم کارنامہ وہ ہے جسے تصوّرِ پاکستان کا نام دیا جاتا ہے اس سے انکار نہیں کہ انفرادی سطح پر، اقبال سے پہلے بھی بعض مسلم رہنما و ادیب مثلاً سرسیّد احمد خان اور مولانا عبد الحلیم شرر وغیرہ اس بات کا اظہار کر چکے تھے کہ ہندو اور مسلمان، برصغیر میں بہت دنوں تک ایک ساتھ نہیں رہ سکتے اور انھیں اپنے لیے الگ مملکت کا حصول ضرور ہوجائے گا لیکن اجتماعی اور مقتدر سیاسی سطح پر مسلمانوں کی طرف سے برصغیر میں ایک نئی مسلم ریاست کی تجویز علاّمہ نے پیش کی۔ ۱۹۳۰ء میں آل پاکستان مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس آلٰہ آباد کی صدارت کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا۔ ’’اس ملک میں اسلام بہ حیثیت ایک تمدن کے اسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے کہ ایک مخصوص علاقہ میں مرکوز کردیا جائے۔ یہ مطالبہ مسلمانوں کی اس دلی خواہش پر مبنی ہے کہ انھیںبھی کہیں اپنے نشو و نما کا موقع ملے کیونکہ وحدت قومی کے نظام حکومت میں جس کا نقشہ ہندو ارباب سیاست اپنے ذہن میں لیے بیٹھے ہیں کہ جس کا مقصد وحید یہ ہے کہ تمام ملک میں ان کا تسلّط و غلبہ ہوجائے، اس قسم کے مواقع حاصل ہونا قریب قریب نا ممکن ہے یہ امر کسی طرح بھی نا مناسب نہیں کہ مختلف ملّتوں کے وجود کا خیال کیے بغیر ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ہندوستان قائم کریں، میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے، خواہ یہ ریاست، سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر مجھے، تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ (۲۸) اس بیان کی روشنی میں ظاہر ہے کہ قیام پاکستان کے محرّک اول علامہ اقبال ہیں۔ یہ ان کی سیاسی بصیرت اور روشن ضمیری کا واضح ثبوت ہے کہ تجویز مسلمانوں کی طرف سے ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو قرار دادِ لاہور کی صورت میں دس سال بعد منظر عام پر آئی اسے انھوں نے ۱۹۳۰ء میں پیش کردیا تھا، اور جو اسلامی مملکت پاکستان کے نام سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو معرضِ وجود میں آئی اس کا خاکہ ان کے ذہن میں سترہ سال پہلے موجود تھا۔ تبھی تو قائد اعظم نے علامہ اقبال کو صرف شاعر و مفکر نہیں بلکہ عظیم سیاسی رہنما ملّت اسلامیہ کا محافظ اور اپنا دستِ راست قرار دیا۔ علامہ کے بارے میں قائد اعظم کی رائے یہ تھی کہ ’’اقبال کے خیالات فی الحقیقت میرے اپنے خیالات سے بالکل متفق تھے جن کی بنا پر میں بھی انہی نتائج پر پہنچا ہوں جو ہندوستان کے آئینی مسائل کے غائر مطالعہ و تحقیق کا نتیجہ ہیں اور جو آگے چل کر مسلم ہند کے متحدہ ارادہ کی شکل میں لیگ کے اجلاس میں لاہور کی اس قرار داد میں ظاہر ہوئے جو عام طور پر قرار داد پاکستان کے نام مشہور ہے۔ میرے وہ ایک دانشمند دوست اور رہنما تھے، مسلم لیگ کے نازک ترین اوقات میں ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے اور لمحہ بھر کے لیے بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔‘‘ (۲۹) اقبال سب کے لیے ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی، ۱۹۷۷ء حواشی ۱۔ ذکر اقبال، ص ۲۴۵ ۲۔ گفتار اقبال، ص ۵۔ ۳۔ گفتار اقبال، ص ۶ ۴۔ خطوط اقبال، ص ۲۲۷ ۵۔ اقبال نامہ حصہّ اوّل ، ص ۲۰۹ ۶۔ اقبال نامہ حصہّ دوم، ص ۳۸۴ ۷۔ اقبال نامہ حصّہ دوم ص ۳۸۷ ۸۔ خطوط اقبال، ص ۲۲۰ ۹۔ گفتار اقبال ص ۱۶۴ اور خطوط اقبال، ص ۲۲۰ ۱۰۔ اقبال نامہ، حصّہ اوّل، ص ۱۵۵ ۱۱۔ شذرات فکر اقبال، ص ۵۰ ۱۲۔ اقبال نامہ، حصہ دوم، ص ۲۳۱ ۱۳۔ دائرہ معارف اسلامیہ جلد ہفتم، دانش گاہ پنجاب لاہور ۱۹۷۱ء ، ص ۳۷۸۔ ۳۷۹ ۱۴۔ گفتار اقبال، ص ۱۷۷ ۱۵۔ تقاریرو بیانات (انگریزی)، ص ۲۰۴، بحوالہ اقبالیات کاتنقیدی جائزہ، ص ۱۴۲ ۱۶۔ مئے لالہ فام ، ص ۶ ۱۷۔ شذرات فکر اقبال، ص ۵۵ ۱۸۔ مے لالۂ فام، ص ۵ ۱۹۔ ذکر اقبال، ص ۱۴۳ تا ص ۱۴۶ ۲۰۔ اقبال کے آخری دو سال، ص ۴۸۷ ۲۱۔ نگار( اقبال نمبر ۱۹۶۲ئ)، ص ۳۵، ۳۶ ۲۲۔ اقبال کا سیاسی کارنامہ کراچی ۱۹۵۲ئ۔ ۲۳۔ معارف (اعظم گڑھ)، مارچ ،اپریل ۱۹۴۶ء ۲۴۔ اقبال اینڈ دی ریسنٹ اکسپوزیشن آف اسلامک پولیٹیکل تھاٹ، لاہور ۱۹۵۰ء ۲۵۔ اسلامِک کلچر (حیدر آباد)، اکتوبر ۱۹۴۴ء ۲۶۔ گفتار اقبال، لاہور ۱۹۶۹ء ۲۷۔ اقبال کے آخری دو سال، لاہور ۱۹۴۹ء ۲۸۔ خطبات اقبال،ص ۲۶، مرتبہ رضیہ فرحت بانو، حالی پبلشنگ ہائوس دہلی ۱۹۴۶ء ۲۹۔ اقبالیات کا نتقیدی جائزہ، ص ۱۴۴ تا ۱۴۵ اقبال کا تصور حیات و مرگ ڈاکٹر انورسدید اقبال کی شاعری میں زندگی کا تصور ایک مثبت حقیقت کے طور پر اُبھرتا ہے اس نے حرکت اور حرارت کو اس ساحرانہ قوت سے تسخیر کیا ہے کہ زندگی جو دراصل انھیں دو قوتوں کا مصدر ہے خود انسان کے حیطۂ اختیار میں اسیر ہوجاتی ہے اور حیات محض سانس کی آمد و شد کا نام نہیں رہتا بلکہ یہ فرد کو اعتماد ذات مہیا کرکے ایک طرف اس میں تسلیم و رضا کی خو پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف مطلوب حقیقی سے وصال کے لیے عشق صادق کا تندو تیز جذبہ عطا کردیتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال انسان کو محض گوشت پوست کا ایک مجسمہ تصور نہیں کرتے بلکہ اسے ایک ایسے پیکر کے مترادف قرار دیتے ہیں جس کی فطرت ممکنات زندگی کی امین ہے۔ جو خدائے لم یزل کا دستِ قدرت ہے اور جس کی نگاہ خارا شگاف کے آگے سرِّ کلیم و خلیل کی تمام حقیقتیں واشگاف ہیں۔ ہرچند اقبال پر زندگی کی جملہ کثافتوں کی تمام حقیقتیں واضح ہیں۔ اور وہ فرد کو ان سے فرار کی تعلیم نہیں دیتے لیکن یہاں اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ وہ زندگی کے انبوہ میں فرد کو گم ہو جانے یا ایک معمول کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین بھی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک افضل ترین زندگی وہ ہے جو جہانِ آب و گِل کے ساتھ متعلق رہ کر بھی نہ صرف غیر معمولی ہو بلکہ اس جہانِ آب و گل کو تسخیر کرنے کی قوت بھی رکھتی ہو۔ چنانچہ تصوّراتِ اقبال میں اس بنیادی حقیقت کو بھی اہمیت حاصل ہے کہ : کمالِ ترک نہیں آب و گلِ سے مہجوری کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری ذرا گہری نظر سے دیکھئے تو انسان کی یہی قوّتِ تسخیر اقبال کے فلسفۂ زندگی کا ماخذ ہے۔ اسی قوت سے اقبال نے مردِ مومن کے تصور کو جنم دیا ہے اور اسی کے عملی اظہار کے لیے انھوں نے فلسفۂ خودی کو تشکیل دے کر مردِ حُر کو وہ مقام عطا کردیا ہے۔ جس سے اس کی دلیل خداے جلال و جمال کا پرتو بن جاتی ہے۔ اقبال کے نظریات میں خاک کی نا پائیداری تو مسلّم ہے لیکن ان کے ہاں زندگی کا جو تصوّر سب سے نمایاں ہے وہ دائمی زندگی کا تصوّر ہے۔ درآں حالیکہ موت ایک ایسا نقطہ ہے جہاں شیشۂ ساعت کی رفتار رُک جاتی ہے۔ اور ریگِ رواں کے سارے ذرّے نہاں خانۂ عدم میں گم ہوجاتے ہیں۔ موت زندگی کے حال اور مستقبل کے سنگم پر ایک ایسا خوف ہے جو ہر وقت انسان کے ذہن پر مسلّط رہتا ہے۔ اور اسے ہمیشہ کرب و بلا، ماتم اور نوحہ گری کے آلام میں مبتلا رکھتا ہے۔ تاہم یہ باور کرنا بھی مناسب ہے کہ زندگی موت کی اہم ترین ثنویت ہے اور موت کے بغیر زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں۔ پاسکل (Pascal) کا قول ہے انسان واحد ذی روح مخلوق ہے جسے یہ بھی معلوم ہے کہ موت اس کی زندگی کا لازمی انجام ہے۔ اقبال کے ہاں بھی موت کا ادراک واضح صورت میں موجود ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری میں یہ مسئلہ ایک سوال کی صورت میں اُبھرتا ہے اور وہ دل انسان کے اس چھپے ہوئے کانٹے کا اسرار معلوم کرنے کے لیے فکری کاوش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ چنانچہ بانگ درا میں انھوں نے خفتگان خاک سے جو بلا واسطہ استفسار کیا ہے اس میں موت کے مسئلہ کو ہی اساسی حیثیت حاصل ہے اور اقبال اپنے اضطراب استفسار آسا کو یوں ظاہر کرتے ہیں: تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے موت اک چھبتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے اقبال نے بظاہر یہ سوال ان لوگوں سے کیا ہے جو موت کی منزل سر کر چکے ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ نظم ان خیالات و افکار کا مرقع ہے جو زندگی اور موت کے مسائل پر غور کرنے والے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ نظم ’’مخزن‘‘ کے فروری ۱۹۰۲ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اور یہ وہ دَور ہے جب اقبال کا نکتہ جُو دماغ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں زندگی کے بیشتر اُلجھے ہوئے مسائل پر سوچ بچار کر رہا تھا۔ اقبال کی نظموں کی ترتیب تخلیق کو مدِّ نظر رکھیے تو احساس ہوتا ہے کہ اس ابتدائی زمانے میں بھی جب بقول شخصے اقبال خود اقبال سے آگاہ نہیں، موت کے مسئلہ نے ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ چنانچہ اس ضمن میں ان کی مشہور نظم ’’شمع و پروانہ‘‘ پیش کی جا سکتی ہے۔ جو ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ کی اشاعت کے صرف دو ماہ بعد اپریل ۱۹۰۶ء کے ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس نظم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اقبال کا فِکر موت کے مسئلہ پر ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے۔ ہر چند یہاں بھی اقبال نے پروانے کی جاں سپاری کو موضوع بنا کر یہ سوال اٹھایا ہے کہ: پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں یہ جانِ بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال اس وقت مادے کی بے ثباتی اور زندگی جاوداں کے اسرار کو اگر پوری طرح حل نہیں کر چکے تھے تو کم از کم اس سے واقف ضرور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں آزارِ موت سے اب کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا: آزارِ موت میں اسے آرام جاں ہے کیا؟ شعلے میں تیرے زندگی جاوداں ہے کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نے موت کو انسان کے ایک معمولی تجربے کے طور پر قبول کیا ہے۔ انھیں اس بات کا پورا شعور ہے کہ شاہ و گدا، امیر و غریب اور پیر و جواں ہر شخص ایک روز اس بادۂ تلخ کا ذائقہ ضرور چکھے گا۔ مادی جسم سے جو ہر حیات پرواز کرجائے گا اور گوشت پوست کا استخوانی مجسمہ بالآخر خاک میں مل جائے گا۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ ہوں جن میں اقبال نے فنا کو ہر چیز کی منزل قرار دیا ہے: اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا نقشِ کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا ہر شے مسافر، ہر چیز راہی کیا چاند تارے، کیا مرغ وماہی زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں دم ہوا کی موج ہے، رم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں روح کی طہارت اور فضیلت کو فوقیت دی ہے لیکن اس کے دنیاوی مسکن یعنی جسم کو روح کا بندی خانہ تصور کیا ہے۔ اور اس کے خلاف ردِّ عمل کا اظہار بھی کیا ہے۔ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ اس کے ہاں یہ رد عمل منفی نہیں۔ اس میں احتجاج یا زہر خند کا شائبہ بھی نہیں۔ بلکہ یہ ایک مثبت عمل ہے اور ان کے ہاں رشک کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے ہاں جو بلند و بالا پرواز کی خواہش نظر آتی ہے یہ دراصل اسی بندی خانہ سے نجات پانے کی خواہش ہے۔ اور وہ فطرت کی ہر اس شے کو ذہنی طور پر قبول کرتے ہیں جس پر قید و پابندی کی کوئی قدغن نہیں۔ وہ کہیں ابر کی آوارہ خرامی پر رشک کرتے ہیں کہ اس کے پائوں میں کوئی زنجیر نہیں: ہاے کیا فرطِ طرب سے جھومتا جاتا ہے ابر فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر کبھی ہمالہ کو فخر کی نظروں سے دیکھتے ہیں جو پابہ گل ہونے کے باوجود ہمدوشِ ثریّا ہے تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن وادیوں میں ہے تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرم سخن تو زمیں پر اور پہناے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیال ہے دامنِ موج ہوا جس کے لیے رومال ہے اور کبھی پرندے کے پیکر میں اس سہانے وقت کو یاد کرتے ہیں جس میں ’’شہر و ویرانہ مِرا، بحر مِرا، بن میرا‘‘تھا۔ اس قید خانہ سے نجات کی خواہش اگر اقبال کے ہاں مجرد صورت میں ظاہر ہوتی تو شاید اس کی اہمیت کچھ زیادہ نہ ہوتی کہ یہ بھی در حقیقت فرار کی ہی ایک صورت ہے اور بیشتر صوفی شعرا نے اس موضوع پر ان گنت اشعار تصنیف کیے ہیں جو سماع کی محفلوں میں اور مشاعروں میں پورے ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں اور حضوری کی بے خود کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اقبال نے موت کے اُلجھے ہوئے مسئلے کو زندگی کے حوالے سے سلجھانے کی کوشش کی ہے اور اسی لیے جسم کے قید خانے سے نجات پانے کی خواہش ان کی آخری تمنا نہیں ہے بلکہ وہ اس حقیقت کو جاننے کے لیے بے تاب ہیں جو اس نا پائیدار نقش کے مٹ جانے کے بعد آشکار ہوگی۔ ہیرا کلائیتس کا قول ہے کہ زندگی آگ کی لطیف ترین متحرک قسم ہے اور ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ اس کے خیال کے مطابق جوہرِ حیات آگ کے ایٹمی ذرّوں سے بنتا ہے۔ ایٹم کے یہ ذرّے تمام جسم میں بکھرے ہوئے ہیں اور اسے تمام حسِّی قوتیں عطا کرتے ہیں۔ جب جسم کا کاسہ ٹوٹ جاتا ہے تو یہ ذرّے بھی بکھر جاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ آدمی مرگیا ہے۔ اور اس کا جسم خاک ہوگیا ہے۔ اقبال نے بھی زندگی کی اس ایٹمی توانائی کی حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ اور اس کی دوامی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے موت کو انسان کا انجام قرار نہیں دیا چنانچہ اقبال کے نزدیک زندگی وہ شمع سوزاں ہے جو ہمیشہ فروزاں رہتی ہے۔ اور جسے بادِ حوادث کا کوئی شعلہ بجھا نہیں سکتا: زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں آہ! غافل! موت کا رازِ نہاں کچھ اور ہے نقش کی نا پایداری سے عیاں کچھ اور ہے موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات عام یوں اس کو نہ کردیتا نظامِ کائنات جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں یہ نکتہ میں نے سیکھا بو الحسن سے کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے چمک سورج میں کیا باقی رہے گی اگر بیزار ہو اپنی کرن سے یعنی زندگی کا پیکر تو نا پایدارہے لیکن خود زندگی جاوداں ہی نہیں پیہم جواں ہے اور اس کے ناپ تول کے مروّجہ پیمانے باطل ہیں۔ تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی، ہے یہ شام زندگی صبحِ دوامِ زندگی! موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے اقبال کے ان اشعار میں گوئٹے کے اس نظریے کی باز گشت بھی نظر آتی ہے کہ ’’موت ایک نئی تعمیر کا بلا واسطہ نتیجہ ہے‘‘ اقبال اس نئی تعمیر کے نہ صرف منتظر ہیں بلکہ وہ اسے انسانی زندگی کی ایک اعلیٰ ترین رفعت تصور کرتے ہیں۔ اس رفعت کی ایک انتہا تو یہ ہے کہ جزو بکھر کر کل میں مدغم ہو جائے لیکن جلد ہی ایک نئی شکل میں ظاہر ہو اور کل کی آئینہ نمائی کرنے لگے۔ اقبال کے قول کے مطابق: یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دما دم صداے کن فیکون اس لیے اس کے ہر ادغام Integration کے بعد ایک نئی تخلیق Creation، ظہور میں آتی ہے اور یہ اسی طرح ہے جیسے ایک بیج پہلے پودے کو جنم دیتا ہے۔ پھر اسے پروان چڑھا کر درخت بناتا ہے۔ یہ درخت برگ و بار اور ثمر لاتا ہے اور آخر کار سارا درخت ایک چھوٹے سے بیج میں سماکر بالآخر مُرجھا جاتا ہے اور ٹُنڈ مُنڈ ہوجاتا ہے۔ لیکن کیا درخت کی موت تخلیق کے اس مسلسل دائرے کو توڑ دیتی ہے؟ درخت کے بیج میں سما جانے اور پھر دوبارہ اپنی قوّتِ تسخیر سے ایک تروتازہ پودے کی شکل میں ظاہر ہونے کو اقبال کے فن میں ایک اہم موضوع کی حیثیت حاصل ہے اور انھوں نے اس موضوع کے فلسفیانہ پہلو کی طرف قاری کو اکثر متوجہ کیا ہے: تخم گل کی آنکھ زیر خاک بھی بے تاب ہے کس قدر نشو و نما کے واسطے بے تاب ہے پھول بن کر اپنی تربت سے نکل آتا ہے یہ موت سے گویا قبائے زندگی پاتا ہے یہ وداعِ غنچہ میں ہے رازِ آفرینش گل عدم عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں، یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں! میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز سے! مرقد کا شبستان بھی اسے راس نہ آیا آرام قلندر کو تہِ خاک نہ آیا تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مِل گیا پایا نہ خضر نے مئے عمرِ دراز سے گویا جسمانی سطح پر انسان کا ایک انجام ضرور ہے لیکن یہ انجام بقول ڈاکٹر وزیر آغا ایک نئی تعمیر کی نوید بھی ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ استخراج مناسب ہے کہ خالق کائنات نے مادہ اور روح کے ادغام سے جو انسانی مجسمہ تشکیل دیا ہے۔ اقبال نے اس کے مادی پہلو کو اہم نہیں جانا بلکہ اس روحِ حیات کو فوقیت دی ہے جس کی نگہبانی کا اسے یارا نہیں: اس پیکر خاکی میں اک شے ہے سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی ہارٹ مین Heartman کا قول ہے کہ زندگی سے مادے کی نفی موت ہے۔ اقبال نے اس خیال کی تائید نہیں کی بلکہ وہ سپائی نوزا کے اس خیال کو شدت سے قبول کرتا ہے کہ انسانی روح خدا کاعکس ہے اور کائنات کا روحانی زاویہ پیش کرتی ہے۔ اقبال کے ہاں جزو اور کُل کا رشتہ بندے اور خدا کا رشتہ ہے۔ جس طرح کُل یعنی خالق کائنات کو زوال نہیں اسی طرح جزو اپنی لا شخصی حیثیت میں دوامی ہے اور موت اس مقام اتصال کا نام ہے اور وہ کل کی ایک نئی شکل میں ظاہر ہونے کے لیے کُل میں ہی سما جاتا ہے۔ شاید اسی لیے اقبال نے انسان کو ایک حباب سے تعبیر کیا ہے جو موج دریا کا حصہ ہے۔ اسی سے جنم لیتا ہے اور پھر دوبارہ جنم لینے کے لیے اسی میں ضم ہوجاتا ہے: جنّتِ نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب موجِ مضطر توڑ کر تعمیر کرتی ہے حباب موج کے دامن میں پھر اس کو چھپا دیتی ہے یہ کتنی بے دردی سے نقش اپنا مٹا دیتی ہے یہ پھر نہ کر سکتی حباب اپنا اگر پیدا ہوا، توڑنے میں اس کو یوں ہوتی نہ بے پُرا ہوا قلزم ہستی سے تو اُبھرا ہے مانندِ حباب، اس نہاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی ایک عام آدمی چونکہ موت کی تخریب میں نئی تعمیر کا نقشہ دیکھنے سے قاصر ہے اس لیے اقبال اس کوتاہ نظری پر گہرے تاسف کا اظہار کرتے ہیں: جشم نابینا سے مخفی معنی انجام ہے تھم گئی جس دم تڑپ سیماب سیمِ خام ہے لیکن اسی لمحے وہ پورے تیقن کے ساتھ آدمی کو اس حقیقت کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں کہ: نفی ہستی ایک کرشمہ ہے دل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاں موتی ہے اِلاّ اللہ کا اب تک کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال اس جوہر حیات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو فرد کو تب و تاب جاودانہ عطا کرتا ہے اور زندگی کی رزم گاہ میں تگ و تازِ مسلسل پر آمادہ کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اقبال کے نزدیک زندگی درحقیقت حرکت کا نام ہے۔ اس حرکت کو ذوق طلب کی حرارت اور عشق کی موجِ بلا خیز قوت بخشتی ہے اور جب یہ حرکت تھم جاتی ہے تو انسان کے مادی جِسم پر موت وارد ہوجاتی ہے۔ آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکوں، کہتا تھا مورِ ناتواں لطفِ خرام اور ہے موت ہے عیش جاوداں، ذوق طلب اگر نہ ہو گردش آدمی ہے اور، گردش جام اور ہے پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی رُوحِ اُمم کی حیات، کشمکش انقلاب اقبال نے انفرادی سطح پر انسان کو اور اجتماعی سطح پر ملت کو مادی موت سے بلند ہو کر حیات جاوداں کا راز بتایا اور اس زندگی جاوداں کا وسیلہ خودی کو قرار دیا: زندگانی ہے صدف قطرۂ نہاں ہے خودی وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گُہر کر نہ سکے ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی! یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں چنانچہ یہ مقام وہی ہے جہاں فرشتے بھی انسان کے مرکزِ حیات کو چھو نہیں سکتے! فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا، تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے اسی مقام پر موت انسان کی بقائے دوام کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی اور انسان زندگی کی اعلٰی ترین رفعتوں سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اقبال کی ایک بڑی عطا یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کے دل سے موت کا خوف زائل کیا ہے اور اس کے دل میں حیات جاوید کی تڑپ پیدا کی ہے۔ اقبال کے کلاسیکی نقوش، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۸ء مطالعہ اقبال کے چند اساسی پہلو ڈاکٹر عبدالحق اقبال اردو کے عظیم فن کار ہیں اور یہ عظمت تہذیبی فکر کی بلندی و برنائی، وسعت و گہرائی اور شعری اسلوب اظہار کے دلاویز پیکر سے مربوط ہے۔ شعر اور فلسفہ کا یہی خوبصورت ارتباط ہے جو اقبال کو عظیم فن کار بناتا ہے۔ یہ ہم آہنگی یا حسن امتزاج اقبال کی فکری یا شعری کوتاہیوں کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ تنقید و تبصرہ کی سخت گیری بھی اقبال کی عظمت کو کم نہ کر سکی بلکہ ان کی عظمت کے اقرارو اعتراف کا دائرہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ فلسفہ و شعر کے اس حسن امتزاج کے پہلو بے حد متنوع ، دل کش ، ہمہ گیر اور قدرے پیچیدہ ہیں۔ فلسفیانہ طرز فکر کی معنویت اور شعری اسلوب اظہار نے اس پیچیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ اقبال کے یہاں افکار کے طلاطم اور ابلاغ کی کم مائیگی کا اکثر احساس ہوتاہے۔ سینے میں شمع نفس کا فروزاں ہونا اور تاب گفتار کا بس کہنا اسی دل کش حسن امتزاج کی عظمت کا اظہار ہے جہاں فلسفہ و شعر حرف تمنا بن جاتے ہیں جسے روبرو کہنے میں بے بسی محسوس ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہماری ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ بات بڑی جرأت کا تقاضہ کرتی ہے کہ ہم برصغیر کے دانا ئے راز کے تصورات کو حرف آخر مان کر نقد و انتقاد سے دست بردار ہو جائیں۔ اقبال کی نظر میں مطالعہ و مشاہدہ ادراک و وجدان میں وحدہ‘ لا شریک کے علاوہ حرف آخر یا مطلقیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہر ذرہ کائنات عدم تکمیل کے احساس سے مضطرب ہے۔ تشنگی کا یہی احساس تکمیل کی جستجو میں رواں دواں بڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ یہی تغیرِ مدام ہے جسے شب و روز کے پیکار میں نقش دوام حاصل ہے۔ یہی احساس صدائے کن فیکون کی بازگشت ہے۔ اسی وجہ سے کاروان وجود ہر لمحہ نئی نئی تخلیقات سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے۔ یہ تخلیق مادے کی نموپذیری اور فکری یافت دونوں میں یکساں ہے۔ فکراقبال میں یہ تصور شعری لطافتوں کے ساتھ سامنے آتا ہے جس سے ان کی فکری دل چسپی اور وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ وابستگی ان کے فکری عقیدے کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے عقیدے کو فکری اسلوب کا دل نشین پیکر بنا دیا ہے۔ اس سلسلۂ خیال کا سرچشمہ کل یومٍ ہو فی شان کی حکیمانہ آیت ہے جسے اقبال نے تواتر اور تسلسل کے ساتھ معراج فکر اور درجہ استناد تک پہنچایا ہے۔ اس اعتبار سے استناد کی روشنی میں اقبال نے ذہن اسلاف کے ساتھ ساتھ جدید فکرونظر کے اندیشہ ہائے افلاکی اور ان کے شکوک کا جواب بھی دے دیا ہے۔ یہ اقبال کے الہٰیاتی تصورات کا دلچسپ اور انوکھا موضوع ہے۔ فکر اقبال کی اساس کائنات کے ارتقائی نظام پر مبنی ہے۔ وہ اسی زاویہ نظر سے سلسلۂ فکر انسانی کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسی معیار پر ذات مطلق یا حقیقت کل کا ادراک کرتے ہیں۔ فلسفیانہ خطبات میں اس موضوع پر قابل ذکر روشنی ڈالی ہے۔ مسلم فلاسفہ نے الہٰیات کے پیچیدہ مسائل پر بڑی جگر کا وی کی ہے۔ نوفلاطونی خیالات کے زیر اثر بہت سے مباحث سامنے لائے گئے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی فکر فلسفہ یونان کی نوزائدہ بن گئی۔ باری تعالیٰ کی ذات و صفات پر کبھی مختلف النوع خیالات کا اظہار کیا گیا۔ ہر آن نئی شان میں جلوہ پذیر ہونا اور ہر طرح کے تغیر سے پاک ہونے میں تضاد و تخالف کا ذکر کیا گیا اور اس فاصلے کو ختم کرنے میں سنجیدہ اور علمی گفتگو بھی سامنے آئی۔ مگر تاویلات کے جلو میں: ابن مریم مر گیا یا زندۂ جاوید ہے ہیں صفات ذات حق حق سے جدا یا عین ذات اشعار کے علاوہ اقبال نے خطبات میں اس مسئلہ پر علمی اور فلسفیانہ گفتگو کی ہے۔ یوں بھی خطبات کی نوعیت فکری اور علمی ہے۔ حیات انسانی کے بنیادی مسائل اور انسانی تہذیب و تمدن کی فکری داستان پر گہری نظر اور پروقار سنجیدگی سے بحث کی گئی ہے۔ فکر اقبال کی اساس ارتقائی ہے۔ وہ ذات و صفات کے مسئلہ کو کبھی اسی زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ذات مطلق یا حقیقت کل اپنی مستقل حیثیت میں قائم بالذات ہے اس میں کسی طرح کا تغیر و تبدیلی لازم نہیں۔ ہر لمحہ نئی نئی شان میں ظاہر ہونا اضافی حیثیت سے ہے یعنی وہ اپنی موضوعیت میں ناقابل تغیر ہے۔ معروضی و اضافی حیثیت سے نئی شان میں جلوہ گر ہونا اس کی خصوصیت ہے۔ جسے آشکارائی تقاضائے وجود سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کا اجتہاد فکر ملاحظہ ہو۔ ’’ذات حقیقی نہ تو مکانی لامتناہیت کے معنوں میں لامتناہی ہے نہ ہم انسانوں کی طرح جو معاناً محدود اور جسماً دوسرے انسانوں سے جدا ہیں وہ لامتناہی ہے تو ان معنوں میں کہ اس کی تخلیقی فعالیت کے ممکنات جو اس کے اندر ون وجود میں مضمر ہیں، لامحدود ہیں اور یہ کائنات جیسا کہ ہمیں اس کا علم ہوتا ہے اس کا جزوی مظہر…حاصل کلام یہ کہ ذات الہٰیہ کی لامتناہیت اس کی افزونی اور توسیع میں ہے۔ امتداد اور پہنائی میں نہیں، وہ ایک سلسلہ لامتناہیہ پر تو ضرور مشتمل ہے، لیکن بجائے خود یہ سلسلہ نہیں۔‘‘ اس پس منظر کے بعد کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ ان کے افکار حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں اقبال شعر کو الہام کا درجہ دیتے ہیں مگر ہم ان کے اشعار و افکار کو الہام سمجھ کر نہیں بلکہ سلسلۂ فکر انسانی کی ایک کڑی مان کر انتقاد و اجتہاد کے میزان پر پرکھتے ہیں۔ خود اقبال بھی اپنے قاری سے اسی انداز نظر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کے فکر کی یہ صلابت اور ہمہ گیری ہے کہ وہ فکر انسانی پر قد غن نہیں لگاتے، ذکر و فکر، علم و عرفان کی راہوں کو کشادہ رکھنا چاہتے ہیں تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے دیباچے میں اسی نکتہ کی صراحت کی گئی ہے۔ فلسفہ ایک ارتقائی عمل، اور حقائق کو تصور کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ فلسفہ کے ساتھ بھی اقبال کا طریقہ کار ارتقائی ہے۔ اس پس منظر میں اقبال کے فلسفہ و شعر کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ فکر اقبال ارتقا پذیر ہے۔ انہیں اس عمل میں نشیب و فراز کے ساتھ استفہام و استفسار کی مختلف منزلوں سے بھی گذرنا پڑا۔ اقبال کے ذہنی پس منظر کی باز آفرینی میں ان کا تجسس، تدبرو تفکر، تنقید و تبصرہ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ استفہامی انداز نظر شاعری کے ابتدائی دور سے شروع ہوتاہے اور یہ سلسلہ پایان عمر تک باقی رہا۔ اسی سبب سے ان کا نظام فکر بہتر سے بہتر صورت گری میں مصروف رہا۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہیں کچھ اور مہلت ملی ہوتی تو ان کے فکری تصورات زیادہ مربوط اور منظم صورت میں سامنے آتے۔ اس ارتقائی اسلوب فکر کی ذہنی واردات پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہو گا کہ حب الوطنی سے آفاقیت، خودی سے بے خودی تک پہنچنے کے عمل میں یہی اسلوب فکر کار فرما ہے۔ اس عمل میں صبح کا صحیح شام کو غلط ہو جانا کوئی حیرت کی بات نہیں اور نہ اس سے استعجاب و انکار لازم آتا ہے۔ اگر اس بنیادی نکتہ پر پر نظر رکھیں تو ناقدین اقبال کے بہت سے اشکالات رفع ہو جاتے ہیں، جنھیں تناقض و تضاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس ارتقائی صورت حال کی وجہ سے خیالات میں تبدیلیاں ہوئیں کہیں دستبردار اور کہیں رجوع کرنا پڑا۔ اقبال کی فکری سرگزشت کا یہ پہلو قابل غور ہے اس پہلو کو اقبال نے بڑی شدت سے محسوس کیا ہے۔ خطوط میں اکثر و بیشتر اظہار کیا ہے۔ وہ اپنی فکری سرگزشت کی دل چسپ روداد قلم بند کرنا چاہتے تھے۔ سوانح اور مکاتیب کے مجموعوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مطالعۂ فکر میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ذی فکر اور اہل علم سے استفادہ بھی کرنے کے لیے تیار تھے۔ یہ دوسری بات ہے کہ معاصر علماء وفضلا میں کوئی ان کی رہنمائی نہ کر سکا وہ اپنے اور دیگر مفکرین کی آراء پر تنقیدی نظر ڈالتے رہے۔ کبھی کوئی بات پسند آئی قبول کر لیا مگر بعد میں حقیقت حال کے انکشاف سے اس خیال سے کنارہ کش ہو گئے۔ ان کا اسلوب فکر متحرک اور رواں ہے۔ کسی ایک منزل پر ٹھہر کر جمود و تعطل سے دوچار نہیں ہوتا۔ یہی انسانی سرچشمۂ فکر کی تقویم کا اصل الاصول بھی ہے۔ فکر انسانی کی یافت کو دیکھیے اس کے جلو میں کتنے اور کیسے کیسے نشیب و فراز، اثبات و انکار، انحطاط و ارتقا کی فکر انگیز کہانی ہے۔ ہر دور کا مفکر خواہ وہ کسی بھی خانوادہ کا نمائندہ ہو ماضی کے افکار اور ان کے جہان معنی سے سرسری نہیں گذرا۔ وہ ماضی کی یافت اور انتہا کا سہارا لے کر اپنے ذہنی سفر کا آغاز کرتا ہے۔ اس طرح نوع بشر کا ذہنی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ ہر مفکر اپنے وقت تک کی پیدا شدہ فکری روایات کی بنیاد پر اخذ و اختراع کی قوت سے ممکنات کا جائزہ لیتے ہوئے تصورات کی دنیا تخلیق کرتا ہے یا بصورت دیگر تضاد و تخالف اثبات و انکار میں ربط و آہنگ کو استوار کرتا ہے۔ افلاطون کی فلسفیانہ یافت کی گہرائی و گیرائی پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہو گا اس نے بھی ثبات و تغیر، وجود و حدوث، معقول و محسوس کے مروجہ یا پیدا شدہ تصورات کی بنیاد پر اپنے مخصوص نظام فکر کی تشکیل کی۔ فکر انسانی کے ارتباط و امتزاج سے اختراع و ایجاد کا عنصر فکر اقبال کی اساس کا دوسرا پہلو ہے۔ ان کا نظام فکر جدید و قدیم، مشرق و مغرب کے مکتب ہائے فکر کا ایک دل نشیں مرکب ہے اور یہ حسن امتزاج محض اتفاق کا نام نہیں، بلکہ برسوں کی ریاضت، جگر سوزی اور خون دل کی کشیدگی سے پیدا ہوا ہے اور امتزاج مطالعہ اقبال میں ایک محور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقبال کا اجتہاد خودی کا فلسفہ ہے۔ اسی اجتہادی نقطۂ نظر کی وجہ سے وہ فکر انسانی کی تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ ذرا اس کی ترکیب پر نظر ڈالیے۔ ناقدین اقبال نے اس کے منبع و مآخذ کی جونشان دہی کی ہے اس سے صرف نظر کیجیے اور خود اقبال کے بیانات پر توجہ دیجیے تو اندازہ ہو گا کہ اقبال بھی اصل مآخذ بتانے سے قاصر ہیں۔ ان کے تین بیانات ہیں۔ سب سے زیادہ زور قرآن کریم پر ہے کہ انسانی خودی کا حقیقی عرفان قرآن سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا۔ دوسرا سر چشمہ مسلمان صوفیا اور حکما کے افکار و مشاہدات کو بتایا گیا ہے۔تیسرا مآخذ جرمنی فکر کو قرار دیا گیا ہے۔ جہاں سب سے پہلے انسانی انا کی انفرادی حقیقت پر زور دیا گیا ہے۔ فلسفۂ خودی ذہن اقبال کے اس حسن امتزاج کا زائدہ ہے جس میں مشرق و مغرب، جدید و قدیم، تہذیب و ثقافت کی روح جلوہ گر ہے۔ اس فلسفے کے مآخذ کی نشاندہی میں ہمارے ناقدین نے مغربی افکار کے سرچشموں پر بڑی توجہ دی ہے۔ مشرق یا ہندوستان کے مخصوص حالات پر زیادہ سنجیدگی سے توجہ نہیں کی گئی جو ہنوز فکر طلب ہے۔ ابھی پچھلے دنوں شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے سیمینار میں پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن نے اقبال کے فکر و نظر کو سمجھنے کے لیے ایک نئی جہت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقبال کا دور انفرادیت پسندی کا دور تھا جس کی زیریں اور نمایاں لہریں کئی فن کاروں کے یہاں نظر آئی ہیں۔ انفرادیت پسندی پر زور اس دور کا خاصہ تھا۔ یہی رجحان سیاسی افرادو افکار میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ شکست و ریخت کے اس دور میں اس رجحان کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ میرے سامنے ایک اور پہلو بھی قابل ذکر ہے۔ ہم علی گڑھ تحریک کے طریقۂ کار اور نتائج سے باخبر ہیں۔ پورے سماج میں فکری توانائی ، فیضان نظر، احتساب کائنات اور اندرون بینی کی ایک لہر پیدا ہو چکی تھی۔ اقبال اپنے ایک شفیق استاد مولانا میر حسن کے واسطے سے براہ راست علی گڑھ تحریک سے وابستہ ہو چکے تھے۔ ان کے فکری آہنگ میں علی گڑھ تحریک اس طرح پیوست ہے کہ اسے نظر انداز کر کے اقبال کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس کی بدولت مشرق و مغرب، مذہب و سائنس اور جدید و قدیم میں ارتباط کا شعور پیدا ہوا۔ خودی جب مابعد الطبیعیاتی نظام میں داخل ہوتی ہے تو اس کی نوعیت پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ اس کی ابدیت اور اس کی نوعیت کے بارے میں اشکالات پیدا کئے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے اگر ذات و صفات کے بارے میں اقبال کے مذکورہ بالا خیال کو سامنے رکھیں تو اس مسئلہ کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ خودی کی افزونی اور فروغ میں بھی ایک ارتقائی عمل کار فرما ہے۔ خودی ایک بڑی حقیقت ہے،تغیر اس کی فطرت ثانیہ ہے۔ یہی تغیر اس کے بقا کی محافظ ہے۔ مابعد الطبیعیاتی نظام عالم میں تکمیل کی یہی خواہش اسے برقرار رکھے گی۔ انائے مطلق کے گرد انائے انسانی کا ہجوم ہو گا۔ انائے بشر طواف میں مصروف اور تکمیل کی آرزو میں دست بدعا ہو گے۔ربنا اتمم لنا نورنا یہ دعا مستجاب بھی ہو گی مگر تکمیل کی خواہش میں شدت احساس بڑھتا جائے گا۔ مستجاب و تشنگی کی یہ دل نشین کیفیت ہمیشہ باقی رہے گی۔ خودی کی منتہا منزل کبریا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے میں بے شمار پیچ و خم یا پر خطر راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ عشق رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے سوزوساز، درد و داغ سے خودی کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ ضدین کی آمیزش سے کائنات کا خمیر تیار ہوا ہے۔ عشق کا حریف عقل ہے جسے اقبال نے کئی نام دیئے ہیں۔ ضدین کی معرکہ آرائی میں اقبال کا نقطۂ نظر اتحاد و اتصال کا ہے، ہاں یہ ضروری ہے کہ عشق سے اپنی والہانہ دل بستگی کا اکثر و بیشتر اظہار کیا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ عقل و فکر کے مسلمات سے انکار کیا ہو۔ نوامستانہ در محفل زدم من شرار زندگی برگل زدم من دل از نور خرد کردم ضیا گیر خرد رابر عیار دل زدم من خطبات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہی خیال ہے جسے توضیح و تشریح کے ساتھ …پیش کیا گیا ہے۔ عقل و مذہب، فکر و وجدان، ایمان و عمل کو ہم آہنگ کر کے ان میں گہرا ربط قائم کیا گیا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے متضاد نہیں، بلکہ اعتدال کو ہر محاذ پر باقی رکھا گیا ہے۔ اس امتزاج کی ایک دوسری صورت بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ ان کے حریم فکر میں متضاد صفات کے حامل افراد و افکار سایہ نشین ہیں۔ کبھی کبھی غلط، فہمی بھی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نقاد اقبال کے تصورات کی اصل روح سمجھنے سے قاصر رہے۔ یہاں بھی امتزاج کے رشتے و روایت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اقبال ان متضاد افکار و افراد میں ایک قدر مشترک پیدا کرتے ہیں۔ یزداں وا بلیس، رومی و مارکس کے ساتھ یہی طریقۂ فکر اپنایا گیا ہے۔ ان متضاد عناصر سے اپنے پسندیدہ ارکان فکر کو اخذ کرتے ہیں جو ان کے فکر و نظر سے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں یا ان کے فکرو نظر کی حمایت، تائید یا تقویت پہنچاتے ہوں۔ ان افراد و عناصر سے ان کی والہانہ وابستگی کا اظہار کہیں کہیں درجۂ غلو تک پہنچ گیا ہے جو ایک مفکر کے شایان شان نہیں۔ پیر رومی سے عقیدت مندانہ اظہار کو اسی ذیل میں لایا جا سکتا ہے۔ افراد و افکار کے ساتھ شاہین ، ستارہ، لالہ صحرائی جیسے شعری و ثقافتی رموز و علائم بھی اس پر تو فکر کے ارتعاشات ہیں۔ اخذو استنباط کے پس منظر میں اقبال کا ذہنی رویہ یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی کل پر توجہ نہیں دیتے۔ جزئیات کے انتخاب میں کل کے مجموعی تاثر کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے پیچیدگی پیدا ہوتی ہے کیوں کہ قاری کے سامنے کل کا مجموعی تاثر ہوتا ہے۔ ان مندرجات سے گزرنے کے بعد تخمین وظن کا پیدا ہونا مزید پیچیدگی پیدا کرتا ہے۔ اگر اس فکری نکتہ کو پیش نظر رکھا جائے تو اس کا احتمال کم سے کم ہو گا۔ خطبات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال نے اپنے قارئین کے ذہن و فکر کے بارے میں پہلے سے چند مفروضات قائم کر لیے ہیں کہ ان کا قاری ان بنیادی نکات سے واقف ہے۔ لہٰذا ان بنیادی نکات کو نظر انداز کرکے گفتگو شروع کی ہے۔ عام قاری جوان مبادیات سے واقف نہیں ہے دقت محسوس کرتاہے کیونکہ بہت سے مباحث تشنہ اور دقت طلب ہیں۔ جو ار باب نظر کی بصیرت کے لیے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ مطالعۂ اقبال کے وقت اس سیاق و سباق کو سامنے رکھیں تاکہ اقبال شناسی کے ساتھ افہام و ابلاغ کا حق بھی ادا ہو جائے۔ اقبال نے حریت فکر کی بڑی حوصلہ افزائی کی ہے مگر چند شرائط کے ساتھ کیونکہ …آزادیٔ افکار کی پرواز بنی نوع انسان کی گمراہی کا سبب بھی بن سکتی ہے اس لیے صالح و صحت مند، افکار و اقدار سے ہی اچھے سماج کی تشکیل ممکن ہے۔ فکر کی خامی سے آزادیٔ افکار انسانوں کو حیوان بنا دیتی ہے اس وجہ سے آفاقی اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی ضروری ہے۔ مکروہ یا مغبوض تصورات نے بنی نوع انسان کو بارہا زندگی کی متاع عزیز اور احساس زیاں دونوں سے محروم کیا ہے۔ اس لیے مکروہ حریت فکر کے خلاف اقبال کا رویہ احتجاجی ہے۔ یہیں سے ان کا ابثاتی نقطۂ نظر پیدا ہوتا ہے۔ فلسفہ میں ان کا رویہ اثباتی ہے۔ ان کا فلسفہ امیدوں، آرزئووں اور حوصلہ مندی کا ہے۔ منفی طرز فکر انسانیت کے لیے قاطع حیات ہے۔ حقائق اشیا سے گریز یا انکار فلسفہ کی نارسائی ہے اور یہ نارسائی فکر انسانی کا سب سے زیادہ مہلک رجحان ہے۔ اسی وجہ سے وہ اس فلسفہ و فکر کو مردود قرار دیتے ہیں۔ جو انفس و آفاق کی حقیقت سے گریز کرے یا فرار اختیار کرے یا محض بے جان اور بے حقیقت تصورات میں گم ہو کر عمل و اقدار کے زندہ پیکر میں ڈھل جائے۔ حسن امتزاج کی ایک تیسری صورت بھی ہے یعنی وہ دو انتہائوں میں توازن و اعتدال کی صورت پیدا کرتے ہیں۔ یہ توازن انکار و احترام کے بین بین ہے۔ تقلید و اجتہاد کو لیجئے۔ بانگ درا حصہ اول کی غزل کا یہ پہلا مصرعہ ملاحظہ ہو: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رموز بے خودی کا یہ عنوان ’’در زمانہ انحطاط تقلید از اجتہاد اولیٰ تراست‘‘ کا یہ شعر بھی سنیئے۔ زاجتہاد عالمان کم نظر اقتدا بررفتگاں محفوظ تر خودی اور بے خودی کے مابین بھی یہی درمیانی نقطۂ نظر در کار ہے، ور نہ اس کا امکان ہے کہ انفرادیت آمریت کی خوفناک صورت اختیار کر لے یا بصورت دیگر بے خودی انفرادیت کو اجتماعیت کی قربان گاہ پر نذر کردے۔ دونوں کے اجتماع سے ہی اعتدال پیدا ہوتا ہے۔ قدیم و جدید کی بحث کبھی اقبال کے نزدیک دلیل کم نظری ہے۔ فرد و معاشرہ کو جان بخش اقدار زندگی کی ضرورت ہے خواہ یہ کہیں سے فراہم ہو۔ فکر اقبال میں حصول قوت ایک محرک جذبہ ہے۔ خودی اس سے لافانی اور لازمانی بنتی ہے۔ خودی محسوسات کا عالم ہے۔ یہ اپنی حقیقت کی رو سے مضمر اور اپنے عمل کی رو سے ظاہر ہے۔ یہ کیفیت احساس عمل سے ظاہری پیکر میں ڈھلتی ہے۔ اس پیکر کی تخلیق کے لیے بے پناہ قوت درکار ہے۔ قوت سے والہانہ شغف کی وجہ سے بعض نقادوں نے اقبال کی فکر و نظر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اسرار زندگی کی بڑی حقیقت کے ساتھ ساتھ اقبال کے صحیح نقطہ ہائے نظر کو بھی فراموش کر دیا۔ یہ خیر کثیر کا مجموعہ ہے جو ہر زمانہ میں ہر جماعت کا نصب العین رہا ہے۔ قوت ایک بلند ہمہ گیر احترام انسانیت پر مبنی ضابطۂ حیات کا پابند ہے ورنہ نشۂ قوت بنی نوع انسان کو تہہ تیغ کر سکتا ہے۔ نشۂ قوت اقبال کے یہاں مذموم فلسفہ ہے۔ لیکن اچھے قوانین بھی بغیر قوت کے پر فریب تخیلات ہیں۔ ان کی بقا یا نفاذ اور احترام کے لیے قوت امر لازم ہے۔ رای بے قوت ہمہ مکروفسوں قوت بے رائے جہل است و جنوں اقبال نے زمانے کی خانہ بندی نہیں کی ہے۔ ماضی و حال و مستقبل یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ روایت اور ترقی پسندی کی تقسیم کو فکر و نظر کی خامی سے تعبیر کیا ہے۔ مشرق و مغرب مدرسہ و خانقاہ، محراب، منبر کی تقسیم و تجدید بے معنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ا قبال قومیت کا ایک انفرادی نقطۂ نظر رکھتے ہیں جس کی غلط تعبیر سے ہماری نسلوں کو انسانی روحِ تہذیب کی افہام و تفہیم سے محروم کیا گیا۔ ارباب اقتدار کے ساتھ علم و دانش اور غیرت و ایمان کے محافظ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ میں ایک طالب علم کی حیثیت سے جانتا ہوں کہ ذہنی سفر کے کسی دور میں بھی اقبال حب الوطنی یا ارض ہند کی محبت سے بے گا نہ نہیں رہے۔ ان کے افکار میں وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے مگر جب وطنیت کا تصور سیاسی فکربن کر انسانی ہئیت اجتماعیہ کو پارہ پارہ کرتا ہے تو اقبال کی روح احتجاج کرتی ہے۔ ان کے نظریۂ قومیت اور آفاقیت میں کسی طرح کا بعد نہیں۔ ایک فارسی نظم میں اس خیال کو سورج سے تشبیہہ دی ہے جو کسی مقام، سمت یا جہت کا پابند نہیں، بلکہ وہ پورے عالم کو منور کرتاہے اگرچہ وہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ گرچہ از مشرق برآید آفتاب باتجلی ہائے شوخ و بے حجاب درتب و تاب است از سوز دروں تا زقیدِ شرق و غرب آید بروں بردمداز مشرق خود جلوہ مست تاہمہ آفاق را آرد بدست فطرتش از مشرق و مغرب بری است گرچہ او از رویٔ نسبت خاوری است ان سیاسی افکار میں بھی یہی اجتماع کار فرما ہے۔ مختلف سیاسی نظام عدل جیسے خلافت، جمہوریت، اشتراکیت کو بطور خاص اس اجتماع میں شامل کیا گیا ہے۔ مگر کسی نظام میں بھی وہ انسان اور اس کے استحصال کو برداشت نہیں کرتے۔ کسی بھی نظام میں جب ظالمانہ قوس انسان کی آبروریزی کرتی ہیں تو اقبال پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف صف آرا دکھائی دیتے ہیں: خواجہ نان بندۂ مزدور برد آبرویٔ دختر مزدور برد درحضورش بندہ می نالد چو نے برلب او نالہ ہائی پے بہ پے بے بجا مش بادہ و نے در سبوست کاخہا تعمیر کردہ خود بکوست اقبال اس کے خلاف انقلاب کی صدا بلند کرتے ہیں۔ مگر اقبال کے یہاں انقلاب ظاہر و باطن دونوں کا ہے۔ اندرون و بیرون دونوں جگہ صالح و صحت مند اقدار کو فروغ دینے کی یکساں ضرورت ہے۔ خودی اور اس کی جملہ صفات کا حامل اقبال کی اصطلاح میں مرد مومن ہے جس کے کردار و گفتار اور عناصر ترکیبی میں دو صفات بدرجہ غایت موجود ہیں۔ انہیں عناصر ترکیبی سے اقبال کا جمالیاتی تصور ابھرتا ہے۔ جسے انھوں نے فن اور فطرت کے پس منظر میں شعری بلاغت کے ساتھ ظاہر کیا ہے۔ وحدت جمال کے تصور تک پہنچنے میں ذہن اقبال نے ارتقا کی کئی منزلیں طے کی ہیں۔ ابتدائی دور میں کائنات کے بارے میں معروضی نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ بعد میں انھوں نے عرفان ذات و کائنات کے معروضی تصور جمال کو موضوعی نقطۂ نظر میں تبدیل کر دیا۔ فکر و نظر کے دوسرے ارکان کی طرح یہ موضوعی انداز نظر بھی خودی سے مربوط ہے۔ اقبال کی فکر کا ہر شعبہ ان کے اجتہادی فلسفہ سے متعلق ہے۔ ان کی فکری اساس میں یہ نقطہ بھی قابل ذکر ہے۔ یہاں بھی کائنات کی تمام رنگینی اس کا نظر افروز حسن خودی کے نقطۂ نور سے اکتساب فیض کا نتیجہ ہے۔ پیکر ہستی ز آثار خودی است اس کے بعد وحدت جمال یا جلال و جمال کے امتزاج پر یہ ذہنی سفر ختم ہوتا ہے۔ از جلا لے بے جمالے الامان از فراقے بے وصالے الامان جلال و جمال کے اتصال سے مرد مومن اور نظریہ فن بھی مربوط ہوتا ہے۔ ’’مسجد قرطبہ‘‘ کو پیش نظر رکھیے۔ اقبال فلسفہ کی نارسائیوں، بے نوری اور بے حضوری سے اچھی طرح باخبر تھے اس لیے انھوں نے اس طریق کار کو خیرباد کہہ کر دوسرا راستہ اختیار کیا جسے وجدانی طریق کار کہتے ہیں۔ اقبال نے اسے عشق یا قلب و نظر کہا ہے جس کا متضاد پہلو عقل و خرد ہے۔ اسی وجدانی نظر کی وجہ سے ان کے یہاں درویشی ، قلندری، عشق و مستی، سوزو ساز، جذب و شوق اہم نکات کی صورت اختیار کر چکے ہیں اور منطقی و متکلمانہ لب و لہجہ ماند پڑ گیا ہے۔ شعری پیرایۂ بیان نے اس وجدانی پہلو میں زیادہ دل کشی اور رعنائی پیدا کی۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ اقبال کے یہاں صرف مشرق و مغرب یا جدید و قدیم یا دوسرے عناصر کا ہی خوب صورت امتزاج نہیں بلکہ اقبال کے فکر و فن میں بنی نوع انسان کی پوری تہذیب جمع ہو گئی ہے۔ اس روحِ تہذیب کا نگہبان خود انسان ہے۔ اقبال کا فلسفۂ فضیلت انسانی کا فلسفہ ہے جو انسان کو عدیم المثال اور شرفِ کائنات بناتا ہے۔ سلسلۂ فکر انسانی میں ایسی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے سنا ہو گا۔ نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے اس عرفان میں بیرونی مزاحمتوں کا سامنا بھی ضروری ہے۔ جسے جذب و عشق، عقل و ادراک، اور عمل و انقلاب سے مسخر کیا جا سکتا ہے۔ فکر اقبال کے ان آفاتی پہلوئوں اور ان کی معنویت کو سامنے رکھیں تو معلوم ہو گا کہ قدریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ اچھے افراد اور اچھے سماج کی تشکیل کے لیے ان کا وجود اور ارتباط لازم ہے۔ حقائق کے اس پس منظر میں دانائے راز کو کسی خاص تہذیب، سماج یا سلسلۂ فکر کا زائیدہ سمجھ لینا فکر انسانی کی بوالعجبی ہے۔ ان کے تصورات کو سمجھنے کے لیے پیمانۂ قدر بھی بدلنا پڑے گا۔ اقبال کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے اقبال جیسا ذہن بھی درکار ہے اور کتنے اہل نظر ہیں جو اس ذہنی افق تک پہنچ سکے ہیں۔ اقبال کے فکر و فن کی از سر نو تشکیل کی ضرروت ہے۔ ہم اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اقبال نے اپنے خیالات کو یک جا اور مربوط پیش نہیں کیا ہے نظم و نثر کے مختلف اسالیب میں اظہار ہوا ہے۔ مکاتیب ، مضامین اور خطبات بھی اتنے ہی اہم ہیں صرف اشعار پر قناعت دانشمندی نہیں۔ یہ سمجھ لینا بھی مناسب نہیں کہ ان کے تمام تصورات منضبط ہو گئے ہیں۔ ہمیں یہ بار بار محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے جذبات کا پورے طور پر اظہار نہ کر کے ایک آتش فشاں کو چھپا لیا۔ مکاتیب میں اس امر کا اظہار کیا گیا ہے۔ دانائے راز کے ذہنی واردات کا مطالعہ اقبال شناسی کے لیے از بس ضروری ہے۔ فلسفۂ اقبال کے امتزاج و انتشار کی خامی پر قلم اٹھانا ان کے فکر و نظر کی کمزوری نہیں بلکہ اس تہذیب اور نسل کی کمزوری ہے جو اقبال کے یہاں صرف یہی تلاش کر کے مطمئن ہے۔ جلال و جبروت احتساب و ارتفاع کی اس طاقت کو نہیں دیکھتی جو تہذیبوں اور نسلوں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ تنقید اقبال اور دوسرے مضامین مسعود احمد، پہاڑپور، مچھلی شہر، جون پور، ۱۹۷۶ء ۵ اقبال اور قوموں کا عروج و زوال ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ہر وہ شخص جس نے تاریخِ عالم کا سرسری مطالعہ بھی کیا ہے ، واقف ہے کہ دنیا میں بہت سی قومیں آئیں۔ ایک عرصے تک بڑھتی اور پھلتی پھولتی رہیں اور پھر دوسری قوموں کو اپنی جگہ دے کرختم ہو گئیں۔ اقوام و ملل کے عروج و زوال کے اسباب کیا ہیں اور یہ کن قوانین کے ماتحت وقوع پذیر ہوئے ہیں؟ ان کو دریافت کرنے کے لئے ہمیں کلام الٰہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ خداوند کریم نے ارشاد فرمایا ہے : ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ و العاقبۃ للمتقین یعنی ’’ بے شک زمین اللہ کی ہے ۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کا وارث کر دے۔ اور عاقبت ان لوگوں کے لئے ہے جو متقی ہیں‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ زمین خدا کے رسول کے سوا کسی کی میراث نہیں۔ اقوام کو یہ میراث خدا کے حکم سے عطا کی جاتی ہے ۔ کن لوگوں کو یہ وراثت ملتی ہے اس کی تشریح اس آیت کے علاوہ دوسری آیتوں میں بھی کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوا ہے: وعد اللہ الذین آمنوا منکم و عملوا الٰصّٰلٰحت لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم یعنی ’’ اللہ نے ان لوگوں کو زمین پر خلیفہ بنانے کا وعدہ کر لیا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے عمل صالح کیا، جس طرح ان کے اگلوں کو اس نے خلیفہ بنایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں خلافت حاصل کرنے کے لئے دو اجزا ضروری ہیں۔ ۱۔ ایمان اور ۲۔ عمل صالح۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے : حق جہاں را قسمتِ نیکاں شمرد جلوہ اش با دیدۂ مومن سپرد جب کسی قوم کو اس کی اہلیت اور صلاحیت کی بنا پر مسند خلافت عطا ہوتی ہے تو پھر بلاوجہ اس کو اس مقام سے نہیں ہٹایا جاتا ۔ چنانچہ فرمایا ہے ۔ وما کان ربک لیھلک القری بظلم و اھلھا مصلحون یعنی ’’ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تیرا پروردگار قریوں کو بلاوجہ تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نکوکار ہوں۔‘‘ لیکن اگر کوئی قوم خلافت کی اہلیت اور صلاحیت کھو بیٹھے یعنی ایمان اور عمل صالح سے دور ہو جائے تو پھر چاہے وہ بظاہر کتنی ہی طاقت ور نظر آئے۔ کوئی قوت اس کو منصب خلافت پر بحال نہیں رکھ سکتی۔ او لم یسیروا فی الارض فینظر و اکیف کان عاقبۃ الذین من قبلہم و کانو أشد منھم قوۃ یعنی ’’ کیا لوگ زمین پر سیر نہیں کرتے تاکہ اپنے پیش روئوں کا انجام دیکھیںجو کبھی قوت میں ان سے زیادہ تھے ؟ پھر کہا گیا ہے کہ ہلاکت صرف ان ہی قوموں کے لئے مختص ہے جو فاسق اور بدکار ہوتی ہیں: فھل یھلک الا القوم الفاسقون یہ ہے وہ قانون جو قوموں کے عروج اور زوال کے اسباب کی نشاندہی کرتا ہے اور جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا رہے گا ۔ سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا ’’ یہی قانون تھا ان لوگوں کے لئے جو پہلے گزر چکے ہیں اور قانون الٰہی میں تم کبھی تبدیلی نہ پائو گے۔‘‘ انہی قوانین الٰہی کی اقبال نے مختلف مقامات پر تشریح کی ہے اور انہیں مقتضائے زمانہ کے مطابق جدید اور دلچسپ پیرایوںمیں بیان کیا ہے تاکہ وہ دلنشین ہو جائیں ۔ قومیں افراد سے بنتی ہیں اور قوموں کا عروج و زوال افراد کی صلاحیت اور نااہلی سے وابستہ ہوتا ہے۔ فرد کی زندگی اور ترقی کا اصل مّحرک اپنی انا یا خود ی کی حفاظت کا جذبہ ہے ۔ اس لئے جو قومیں ترقی کرنا چاہتی ہیں ان کے افراد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی شخصیت اور صلاحیتوں کی تربیت کریں تاکہ وہ مستحکم ہوں اور ارتقا کے زینے طے کریں۔ہر وہ چیز جو انسانی شخصیت کو اجاگر کرے خیر ہے ، اورجس چیز سے شخصیت کمزور ہو جائے وہ شر ہے ۔ خودی کی شخصیت کے تین پہلو ہوتے ہیں : جسمانی ، ذہنی اور روحانی۔ ان تینوں پہلوئوں کی متناسب طور پر نشوونما ہو اور ان میں ہم آہنگی پائی جائے تو پھرفرد کی ذات تکمیل کی طرف آگے بڑھتی ہے اور اس سے قوم اور جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ ہر پہلو کی نشوونما کے لئے کافی ریاضت اور محنت کی ضرورت ہے ۔ ترقی پذیر قوموں میں ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کے افراد ہر قسم کی شدید محنت و مشقت کے عادی ہوتے ہیں اورجب قوم کے زوال کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے تو ان افرادمیں تن آسانی اور راحت پسندی سرایت کر جاتی ہے۔ اس نکتے کی طرف اقبال نے نہایت بلیغ اشارہ کیا ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیرِ اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اول، طائوس و رباب آخر اس لیے اقبال ہمشیہ تن آسانی کے خلاف تنبیہ کرتے ہیں اور اپنی قوم خصوصاً نوجوان افراد کو اس میں مبتلا دیکھتے ہیں تو خون کے آنسو روتے ہیں: ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی کس قدر درد اور سوز سے بھرا ہوا یہ شعر ہے جس میں خود اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں: دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اک مرد تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا اسلام نے انفرادی ذمہ داری اور سعی و عمل کو زندگی کا اصل اصول قرار دیا ہے۔ اسی سعی و عمل کی بدولت انسان خود کو اشرف المخلوقات ثابت کر سکتا ہے۔ خدائے تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ کسی شخص کا عمل ضائع نہیں جاتا: انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی اقبال نے اپنے خطبات میں آیئہ کریمہ اناعرضنا الامانۃ علی السمٰوات والارض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھا و حملھا الانسان کی تشریح یوں کی ہے کہ جس امانت کا بوجھ آسمان، زمین اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا وہ شخصیت اور احساس خودی کی ذمہ داری تھی جسے انسان نے قبول کر لیا۔ اسی ذمہ داری کی بدولت اس کی تمام تر فضلیت اور عظمت پیدا ہوئی اور اسی سے اس میں اتنا اعتماد پیدا ہوا کہ نہ صرف حقائق اشیا کا علم حاصل کر سکے، بلکہ اپنی ضرورت کے مطابق فطرت میں تصرف کر سکے۔ اپنی اس استعداد کی بدولت وہ رفعت و کمال کے اعلیٰ ترین مرتبے تک پہنچ سکتا ہے اور اپنے علم و محبت کو اتنا وسیع کر سکتا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ انسانی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ اس کی فطرت کو فطرتِ الٰہی کے مطابق ٹھرایا گیا: فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیھاَ اور اس کو اختیار دیا گیا کہ اپنے فکر و عمل سے حالات و حقائق میں تغیر کرے۔ اس کے تصور اور ارادے کو آزاد چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ کائنات کو مسخر کرے۔ ایجاد اور تخلیق فطرتِ الٰہی کی خصوصیت ہے۔ چنانچہ انسان میں بھی یہ وصف ایک حد تک ودیعت کیا گیا کہ وہ ایجاد اور تخلیق کے ذریعے اپنے ماحول پر قابو پائے اور نئی نئی اشیا بناتا رہے۔ جاوید نامہ میں افلاک کی سیر کرتے ہوئے اور فردوس بریں سے گزر کر جب اقبال حضورِ باری میں پہنچتے ہیں تو اس کرئہ خاکی کی موجودہ حالت کی طرف جنابِ باری کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔ اس کے جواب میں ندائے جمال آتی ہے جس میں تخلیق عالم کی حقیقت بتلائی گئی ہے اور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے: زندگی ہم فانی و ہم باقی است ایں ہمہ خلاقی و مشتاقی است زندہ ای؟ مشتاق شو خلاق شو ہمچو ما گیرندئہ آفاق شو در شکن آں را کہ ناید سازگار از ضمیرِ خود دگر عالم بیار بندئہ آزاد را آید گراں زیستن اندر جہانِ دیگراں ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست پیشِ ما جز کافر و زندیق نیست مرد حق برندہ چوں شمشیر باش خود جہانِ خویش را تقدیر باش انفرادی ذمہ داری کا احساس، سعی و عمل کی توفیق اور ایجاد و تخلیق کی صلاحیت، افراد کی یہی تین بڑی صفتیں ہیں جن کی بنا پر وہ اپنی قوم کو بامِ ترقی کے انتہائی زینے تک لے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ اقبال اپنے خطبات میں لکھتے ہیں: ’’انسان کے لیے مقدر ہو چکا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی کائنات کی گہری آرزوئوں میں شریک ہو اور اس طرح خود اپنے مقدر اور کائنات کی تقدیر کی تشکیل کرے۔ کبھی وہ کائنات کی قوتوں سے اپنے تئیں مطابق بناتا ہے اور کبھی ان کو پوری قوت کے ساتھ اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالتا ہے۔ اس تدریجی تغیر کے عمل میں خدا خود اس کا شریکِ کار ہوتاہے بشرطیکہ انسان کی طرف سے اقدام کیا گیا ہو: ان اللہ لا یغّیر ما بقوم حتی یغّیر واما بانفسھم اگر انسان کی طرف سے اقدام نہیں ہوتا اور وہ اپنے وجود کے قویٰ کو ترقی نہیں دیتا، اگر وہ زندگی کے بڑھتے ہوئے دھارے کا زور محسوس نہیں کرتا، تو اس کی روح پتھر بن جاتی ہے اور وہ مثل مردہ مادے کے ہو جاتا ہے‘‘ (خطبات، ص ۱۲)۔ اب افراد سے گزر کر قوم کی طرف بڑھیے تو معلوم ہوگا کہ قوم کی ترقی کے لیے سب سے پہلے اس کے نصب العین (ldeology)کے تعین اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ جب کوئی قوم اپنی تہذیب اور اپنی عملی روایات پر یقین نہیں رکھتی، اپنی عقل کو دوسروں کی افکار کی زنجیر میں گرفتار کرتی اور اپنی تمنائوں کو دوسروں سے مستعار لینے میں تامل نہیں کرتی تو پھر وہ نیابتِ الٰہی کے حق سے دست بردار ہو جاتی ہے: عقلِ نو زنجیریِ افکار غیر در گلوے تو نفس از تارِ غیر بر زبانت گفتگو ھا مستعار در دل تو آرزوھا مستعار بادہ می گیری بجام از دیگراں جام ھم گیری بوام از دیگراں آفتاب استی یکے در خود نگر از نجومِ دیگراں تابے مخر تا کجا طوفِ چراغِ محفلے ز آتشِ خود سوز اگر داری دلے قوم اسی وقت زندہ رہ سکتی ہے جب کہ وہ اپنے ناموسِ کہن کی حفاظت کرے اور اپنے مقصودِ حیات کو فراموش نہ کر دے۔ جماعتیں اپنی سرگذشت کے ذریعے اپنے مقاصدکا تعین اور اپنے اجتماعی وجود کو مستحکم کرتی ہیں: زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن مرگِ فرد از خشکی رودِ حیات مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات جاوید نامہ کے سفر میں اقبال جب آں سوئے افلاک پہنچ کر ذاتِ باری سے مخاطب ہوتے ہیں تو ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ جو قوم ایک مرتبہ مردہ ہوچکی ہو وہ دوبارہ کیونکہ زندہ ہو سکتی ہے: چیست آئینِ جہان رنگ و بو جز کہ آب رفتہ می ناید بجو زندگانی را سرِ تکرار نیست فطرت او خوگرِ تکرار نیست زیر گردوں رجعتِ او نارو است چوں ز پا افتاد قومے، برنخو است ملتے چوں مرد کم خیزد ز قبر چارئہ او چیست غیر از قبر و صبر اس کے جواب میں ندائے جمال آتی ہے کہ قوموں کی زندگانی کا راز وحدتِ افکار و کردار میں پوشیدہ ہے: چیست ملت اے کہ گوئی لا الٰہ با ہزاراں چشم بودن یک نگاہ اھلِ حق را حجت و دعویٰ یکے ست خیمہ ھای ما جدا دل ھا یکے ست ذرہ ھا از یک نگاہی آفتاب یک نگہ شو تا شود حق بے حجاب ملتے چوں می شود توحید مست قوت و جبروت می آید بدست روحِ ملت را وجود از انجمن روحِ ملت نیست محتاجِ بدن مردہ ای؟ از یک نگاہی زندہ شو بگذر از بی مرکزی پائندہ شو سیاسی محکومیت سے زیادہ خطرناک ذہنی غلامی ہوتی ہے۔ جب کہ کوئی قوم اپنے نصب العین کو چھوڑ کر کسی دوسری جماعت کے خیالات اور افکار کو اختیارکرلیتی ہے ۔ اور انہی کے مطابق عمل کرناشروع کر تی ہے اسی لئے قوموں کے عروج و زوال میں Ideology کا بھی بڑا عنصر ہوتا ہے اور قوم کی ترقی کے لئے سب سے پہلے لازمی شرط بقول اقبال ’’ تطہیر فکر‘‘ یعنی افکار کو پاک و صاف کرنا ہے ۔ اس کے بعد ایک اہم سوال فرد اور جماعت کے باہمی تعلق کا ہے ۔ وہی معاشرہ ترقی پسند ہو گا جس میں اس مسئلے کو بحسن و خوبی حل کیا گیا ہو ۔ جس قوم میں فرد اور سوسائٹی کا رشتہ مناسب اور فطرت کے مطابق ہو گا اس کی ترقی کے امکانات وسیع ہوں گے ۔ اور جہاں افراد اور جماعت میں باہمی نزاع اور کشمکش پائی جائے وہاں ترقی مفقود ہو گی۔ فرد اور جماعت کے اغراض و مقاصد میں کوئی دائمی تضاد نہیں۔ وہی سوسائٹی فطرت کے مطابق ہو گی جس میں انفرادی خودی کو اپنی نگہبانی اور پرورش کاموقع حاصل ہو اور اس کے ساتھ اجتماعی مفاد کو بھی ٹھیس نہ لگے ۔ جس طرح وہ شخص جو قافلے میں سفرکرتا ہے سب کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور سب سے الگ اپنا وجود بھی برقرار رکھتا ہے ۔ یہی حال کاروان زندگی کا ہے جس میں ہر فرد سب کے ساتھ بھی ہے اور سب سے جدا بھی۔ اس حقیقت کو اقبال نے مختلف موقعوں پر نہایت بلیغ پیرائے میں پیش کیا ہے چنانچہ کہتے ہیں : زندگی انجمن آرا و نگہ دارِ خود است اے کہ در قافلہ ای بے ھمہ شو، باھمہ رو جو لوگ زندگی کے اس راز سے واقف ہوتے ہیں وہ اس طرح رہتے ہیں کہ : بروں ز انجمنے، درمیان انجمنے بخلوت اندو لے آں چناں کہ باھمہ اند فرد اور جماعت کے اس تعلق کو اقبال نے اپنے لیکچر ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔اس لیکچر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فردکو جماعتی زندگی کی اخلاقی اقدار کا تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ فرد کی شخصیت عمرانی ماحول کے بغیر روشن نہیں ہو سکتی۔ خودی کی تربیت، جو زندگی کا مقصد ہے ، تنظیم ملت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ فرد کے جسمانی اور روحانی قویٰ وقف ہوں اجتماعی زندگی کے مقاصد کے لیے جن کی خاطر وہ زندہ رہتا ہے ۔ افراد جلد جلد مٹنے والے ہیں لیکن قومیں اپنی آئندہ نسلوں کے ذریعے اپنی زندگی کو دائمی بنا لیتی ہیں ان کی زندگی غیر محدود ہوتی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر چمن کے پھول مرجھا جائیں تو فصل بہار پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جواہرات کے معدن میں سے اگر ایک دو جوہر ٹوٹ جائیں تو معدن میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ خم ایام میں سے روز و شب کے بے شمار جام پے بہ پے میخواران حیات کو ملتے ہیں لیکن وہ جیسا تھا ویسا ہی رہتا ہے ۔ اسی طرح ملت کی تقویم فرد کی تقویم سے جداگانہ ہے اوراس کے جینے مرنے کا قانون بھی مختلف ہے۔ فصلِ گل از نسترن باقی تراست از گل و سرو وسمن باقی تراست کانِ گوھر پرورے گوھر گرے کم نہ گردد از شکستِ گوھرے صبح از مشرق ز مغرب شام رفت جامِ صد روز از خمِ ایام رفت بادہ ھا خوردند و صہبا باقی است دوش ھا خوں گشت و فردا باقی است ھم چناں از فرد ھائے پے سیر ھست تقویمِ اُمم پائندہ تر در سفر یار است و صحبت قائم است فرد رہ گیر است وملت قائم است ذات او دیگر، صفاتش دیگر است سنت مرگ و حیاتش دیگر است افراد کے دل میں جماعت کی خاطرایثار اور خود فراموشی کا جو جذبہ پیدا ہوتا ہے اس کو اقبال ’’بے خودی‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ خودی اور بے خودی کے باہمی توازن اور ہم آہنگی کی بنا پر ہی قومیں ترقی اور کامرانی کی شاہراہ پر آگے بڑھتی ہیں ۔ فرد را ربطِ جماعت رحمت است جوھر او را کمال از ملت است تا توانی با جماعت یار باش رونقِ ہنگامۂِ احرار باش ــــــــــــ فرد می گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یابد نظام ــــــــــــ در جماعت فرد را بینیم ما از چمن او را چو گل چینیم ما فطرتش وارفتہ، یکتائی است حفظِ او از انجمن آرائی است فرد جب اپنے آپ کو ملت کا پابند بنا لیتا ہے اور معاشرے کی خدمت میں منہمک ہوتا ہے تو اس وقت وہ اپنے وجود کے بلند ترین مقام تک پہنچتا ہے ۔ فرد اور جماعت کا تعلق ایک قسم کا زندہ عضوی (Organic) تعلق ہے ۔ فرد اپنے آپ کو اگر چاہے بھی تو جماعت سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔ فرد کی تکمیل ذات سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو جماعت کے ساتھ استوار کرے ورنہ وہ اس درخت کے مثل ہوگا جس کی جڑیں اکھڑ گئی ہوں۔ انسانی ارتقا کا منتہا یہ ہے کہ فرد اور جماعت کے اقدار حیات میں ہم آہنگی پیدا کرے۔ جو تمدن اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے وہی زندگی کی گتھیوں کو اچھی طرح سلجھانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ اقبال کے نزدیک جس خوبی سے اسلامی تمدن میں فرد اور جماعت کے تضاد کو رفع کیا گیا ہے اور مادی اور روحانی زندگی میں جو امتزاج پیدا کیا گیا ہے وہ خود اس امر کا ضامن ہے کہ اسلامی تمدن ہر قسم کے جو کھوں میں پڑ کر اور جلا پائے گا اور بڑے بڑے انقلابوںکے باوجود اپنی ہستی کو برقرار رکھ سکے گا۔ انقلابوں کو جھیلنا جماعتوں کی قوتِ حیات پر دلالت کرتا ہے ۔اور تغیرات سے عہدہ برآ ہونا صرف اجتماعی اقدار ہی کی بدولت ممکن ہے ۔ نئے حالات سے مطابقت جماعتوں کو دوام بخشتی ہے۔ ہر انقلاب کے بعد اسلامی تہذیب نے اپنے آپ کو از سر نو زندہ کیا۔ تاتاری حملے کی مثال اسلامی تاریخ میں موجود ہے جس کی بدولت کعبہ کو نئے پاسبان مل گئے ۔ اسی مضمون کی طرف رموز بے خودی میں اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے بتایا ہے کہ اسلامی تہذیب اپنے اندرونی جوش حیات و بقا کی بدولت ہر نمرود کی آگ کو گلزار بنا سکتی ہے ۔انقلابِ زمانہ کے شعلے جب گلشن اسلام تک پہنچتے ہیں تو پھرانہی شعلوں سے بہار تازہ نمودار ہوتی ہے۔ یونانی علم و حکمت ، رومیوں کی جہانگیری مصری اور ساسانی شان و جبروت سب کے سب ایک ایک کر کے انقلاب زمانہ کے شکار ہو گئے لیکن ملت اسلامیہ کے عزمِ حیات میں آج بھی کمی نظر نہیں آتی ۔ آتشِ تاتاریاں گلزار کیست؟ شعلہ ھای او گلِ دستارِ کیست؟ از تہِ آتش بر اندازیم گل نارِ ھر نمرود را سازیم گل شعلہ ہائے انقلاب روزگار چوں بہ باغِ ما رسد گردد بہار رومیاں را گرم بازاری نماند آں جہانگیری جہاں داری نماند شیشۂ ساسانیاں درخوں نشست رونقِ خم خانہء یوناں شکست مصر ھم در امتحاں ناکام ماند استخوانِ او تہ اھرام ماند در جہاں بانگ اذاں بودست و ھست ملتِ اسلامیاں بودست و ھست میں نے ابتدا میں قرآنی آیات کے ذریعے تشریح کی ہے کہ نیابت الٰہی اور زمین پر حکمرانی کے لئے ایمان اور عمل صالح ناگزیر ہیں ایک اور موقع پر قرآن نے بتایا ہے کہ ارتقائے مدارج کے لیے ایمان کے ساتھ علم بھی ضروری ہے ۔ و یرفع اللّٰہ الذین آمنوا والذین اوتوا العلم درجات ’’ ایمان، عمل ِ صالح اور علم ، یہی اقالیم ثلاثہ ہیں جن کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں اور جن کی عدم موجودگی میں قوموں کا زوا ل لازمی ہے ایمان کے متعلق اقبال کہتے ہیں۔ ولایت، پادشاہی ، علمِ اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂِ، ایماں کی تفسیریں کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا؟ نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ایمان کے بعد دوسرا عنصر عمل صالح کا ہے ۔نیابت الٰہی انہی کو نصیب ہوتی ہے جو اپنے عمل اور کردار سے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کرتے ہیں۔ جس جماعت میں جوش عمل کی بنا پر جذب و تسخیر کی صلاحیت پیدا ہو جائے تو پھر اس کے غلبے اور تسلط کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔وہ اپنے جوش کرداراور اعمالِ صالحہ کی بناپر تقدیر کے راز بھی معلوم کر سکتی ہے۔ راز ہے راز ہے تقدیر جہان تگ و تاز جوشِ کردار سے کھل جاتے ہیں تقدیر کے راز صفِ جنگاہ میں مردانِ خدا کی تکبیر جوشِ کردار سے بنتی ہے خدا کی آواز اقبال نے اپنے کلام میں عمل کی ترغیب مختلف پیرایوں میں دی ہے ۔چنانچہ ایک مقام پرکہتے ہیں۔ جہاں اگرچہ دگرگوں ہے ، قُم باذن اللہ وہی زمیں وہی گردوں ہے، قم باذن اللہ کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے تری رگوں میں وہی خوں ہے، قم باذن اللہ زبور عجم کی وجد آفریں نظم کا ایک بند ہے ۔ تخت جم و دارا سر را ہے نفروشند ایں کوہ گران ست، بکا ہے نفروشند باخونِ دلِ خویش خریدن دگر آموز قوموں کے عروج و ترقی کے لئے ایمان اور عمل صالح کے بعد تیسری اور آخری شرط علم و حکمت کی ہے جس کو خداوند تعالیٰ نے خیر کثیر کہا ہے ۔ و من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر را بینی بگیر سیدِ کل صاحبِ اُمّ الکتاب پردگی ھا بر ضمیرش بے حجاب گرچہ عینِ ذات را بے پردہ دید ’’ ربِ زدنی‘‘ از زبانِ او چکید قرآن پاک میں انسانی شرف کی بنا حقائقِ اشیا کے علم کو ٹھہرایا گیا ہے ۔ چنانچہ وعلم آدم الاسماء کلھا کی آیت شریفہ میں اسی جانب اشارہ ہے ۔ انسان اپنے علم کی قوت سے آسمانوں کے سینے میں شگاف کرتا ہے اور عالم رنگ و بو کو اپنے تصرف میں لاتا ہے ۔ وہ فطرت کی کمی اور کوتاہی کو اپنے منشا کے مطابق دورکر سکتا ہے اور اس کی فزونی کو کم کر سکتا ہے ۔ انسانی آزادی اور اختیار اس کے علم ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ اس علم کی بدولت وہ ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے ۔جہاں ساری کائنات اس کے زیر نگیں آ جاتی ہے اور عناصر پراس کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ خنک روزی کہ گیری ایں جہاں را شگافی سینۂ نہ آسماں را بکف بردن جہانِ چار سو را مقامِ نورو صوت و رنگ و بو را فزونش کم، کمِ او بیش کردن دگر گوں بر مراد خویش کردن شکوہِ خسروی این است این است ہمیںملک است کو توام بدین است قانون طبعی کی رو سے عمل صالح کا مفہوم اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ موالید و عناصر کو مطیع کیا جائے اور انہیں زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے ۔جماعتیں اسی وقت آزادی اور عزت کی زندگی بسر کر سکتی ہیں جب کہ وہ خارجی دنیا اور اس کی پوشیدہ قوتوں پرتصرف حاصل کریں۔ تمدن کی ترقی عبارت ہے عالم خارجی پر تصرف حاصل کرنے کے طریقوں کی ترقی سے۔ قوائے عالم کی تسخیر استحکام خودی اور حیات ملّیہ کی توسیع کے لئے نہایت ضروری ہے ۔اقبال نے فطرت کو ارباب نظر کا تختۂ تعلیم قرار دیا ہے جس کے ذریعے انسان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ انسانی روح کے تقاضے جس قدر شدید ہوں گے۔ فطرت اُسی مناسبت سے اپنے راز ہائے سربستہ اس پر منکشف کرے گی۔ ما سوا از بہرِ تسخیر است وبس سینۂ او عرضہ تیر است وبس ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد عالمے از ذرۂ تعمیر کرد تاز تسخیرِ قوائے ایں نظام ذو فنونیہائے تو گردد تمام نائب حق در جہاں آدم شود برعناصر حکمِ او محکم شود اقبال نے اپنے خطبات میں قرآنی آیات کی تشریح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ صرف علم کے ذریعے انسانی ذہن عالم محسوس کے پرے جا سکتا ہے۔اور اس پر تصرف حاصل کر سکتا ہے یہ تصرف جو علم کے ذریعے ممکن ہے، حفظ حیات اور استحکام خودی کا ضامن ہوتا ہے ۔ علم از سامانِ حفظ زندگی است علم از اسباب تقویمِ خودی است دست رنگیں کن زخون کوھسار جوئے آب گوھر از دریا بر آر صد جہاں در یک فضا پوشیدہ اند مہرھا در ذرہ ھا پوشیدہ اند از شعاعش دیدہ کن نا دیدہ را وا نما اسرارِ نافہمیدہ را تابش از خورشید عالم تاب گیر برقِ طاق افروز از سیلاب گیر جستجو را محکم از تدبر کن انفس و آفاق را تسخیر کن قوموں کے عروج و زوال کے یہ وہ ابدی قوانین ہیں جن کو قرآن کریم سے اخذ کر کے اقبال نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور جو آج بھی اسی طرح تازہ زندگی بخش سکتے ہیں۔بشرطیکہ انہیں حرزِ جاں بنایا جائے اور پوی قوت اور استقامت کے ساتھ ان پر عمل کیا جائے۔ ملت بیضاکے لئے اقبال کا ایک انتہائی جاں افروز پیام اور سن لیجئے۔ عہد نو برق ہے آتش زن ہر خرمن ہے ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا اقبال کا تصور زمان ومکان اور دوسرے مضامین مجلس ترقی ادب ، لاہور، ۱۹۷۳ء اقبال: سوشلزم اور اسلام پروفیسر کرار حسین مجھ سے سوال کیا گیا ہے۔ ’’علامہ اقبال کی شاعری سوشلزم کا پرچار کرتی ہے، اور پاکستان میں ان کی شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتاً اسلامی نظریات کی مظہر ہے، کیا آپ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گے؟‘‘ ( ۱ ) آئو کچھ ادھر ادھر کی باتیں کریں، اس سوال سے متعلق بھی اور غیر متعلق بھی، شاید ہم ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں تو اس کا جواب نہ دے سکیں لیکن اس سوال کے حدود کچھ زیادہ واضح ضرور ہو جائیں گے۔ بجاے ’’سوشلزم‘‘ کی تعریف کرنے کے اور خالصتاً اسلامی نظریات، کی توضیح کرنے کے یہ طریق کار ہمارے لیے زیادہ مفید ہو گا کہ ہم اقبال کے فکری ارتقا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان کی فکری ارتقا کی پہلی منزل تو یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی ماحول میں ان کا شعور بیدار ہوا۔ اس زمانے میں اسلامی گھرانوں کی دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ مذہب کے اعتبار سے نماز اور تلاوت اور کلچر کے اعتبار سے فارسی کے کلاسیکی شعرا کا کلام جو ایک خاص مابعد الطبیعیاتی پس منظر میں زندگی کے دونوں پہلوئوں یعنی غم جاناں اور غم دوراں کی ترجمانی اور ادراک کے لیے ایک خاص طرز احساس کی تربیت کرتا ہے۔ مجھے اس بحث میں یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ انھوں نے کون سی کتابیں پڑھیں یا کن اساتذہ سے پڑھا۔ یہ بات کافی ہے کہ انھوں نے اسی ماحول میں پرورش پائی اور سنا ہے کہ ان کا گھرانا کسی سلسلہ میں بیعت بھی تھا۔ دوسری منزل مغربی ادب اور فلسفہ اور علم کی تحصیل کی تھی۔ یہ تنزل زمانہء حال کے مشرقی نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کی تاریخ میں بہت اہم ہے (زمانہء حال سے میری مراد تاریخ کے اس دور سے ہے جو مغربی سیاسی، معاشی اور ذہنی اثرات کے مشرقی اقوام پر تسلط اور چند بہت گہرے معنی میں استحصال سے شروع ہوتا ہے) اس دوراہے پر ہمارا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ایک راستہ وہ ہے جو قدیم ’’اسلامی‘‘ علوم کی تحصیل اور زندگی کے قدیم اخلاقی ماحول کی طرف جاتا ہے، اور دوسرا راستہ وہ ہے جو مغرب کے علوم اور ان کے ذہنی اور اخلاقی پس منظر کی طرف جاتا ہے۔ مزید دشواری یہ ہے کہ معاشرے کی یہ تقسیم دو ٹوک نہیں ہوتی۔ قدیم راستے پر چلنے والے اس دنیا میں جس میں مغرب کے اثرات اور جدید زمانے کی ضروریات غالب عنصر ہیں۔ پرانی روایات اور ماحول قائم نہیں رکھ سکتے اور جدید راستے پر چلنے والے اپنی اصل کا انکار نہیں کر سکتے۔ نہ ماضی کے بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتار کر پھینک سکتے ہیں۔ یہ معاشرے کی تقسیم داخلی بن کر ذہن کی تقسیم بن جاتی ہے۔ یہ مسئلہ ان جوانوں کے لیے اور بھی شدید ہو جاتا ہے جہاں سمجھدار لوگوں نے زندگی کا راستہ ہلکا کرنے کے لیے اپنے گھرانوں کو قدیم مذہبی یا ثقافتی اثرات سے پاک کر لیا ہے، کیونکہ ایک تو مردہ لاش زندہ جسم سے زیادہ وزنی ہوتی ہے اور دوسرے ان کے پائوں کے نیچے سے زمین بھی نکل جاتی ہے۔ بہرحال یہ تضاد اور تصادم جدید مشرقی فکر میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور اسی کے متعلق رویہ یا اس کا حل یا اس کی ترکیبی ہئیت ہر مشرقی مفکر کی انفرادیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اکثر لوگ تو مغربی زندگی کے ظواہر اور زندگی کے ساز و سامان اور طریقوں ہی سے متاثر ہوتے ہیں اور وہاں کے فکر و فن سے واجبی سی شناسائی رکھتے ہیں، اقبال نے نہ صرف مغربی ممالک میں قیام کے دوران ہی بلکہ اپنی ساری زندگی وہاں کے فلسفے اور ادب کا بہت گہرا مطالعہ اور وہاں کے حالات کا بہت گہرا مشاہدہ جاری رکھا۔ ہمیں یہ بات بری لگے یا بھلی لیکن آج کی دنیا میں باشعور زندگی گزارنے کے لیے یہ مشق ناگزیر ہے۔ ہیگل اور مارکس کا عینی اور مادی جدلیاتی ارتقا، نطشے کی لبرل، بورژوا سوسائٹی اور اس کی قدروں کی تحقیر اور مافوق البشر کا پیغام، برگساں کا تصور زمان اور اثبات وجدان، کانٹ کی انسانی عقل کی تنقید اور تجدید، غرض ان سب کا مطالعہ کیا اور ان طاقتوں کا مشاہدہ بھی کیا جو ایک طرف علم کے زور پر کائنات کو پے بہ پے تسخیر کر کے انسان کے سامنے لامتناہی مواقع فراہم کر رہی تھیں اور دوسری طرف تمام دنیا کو مادی اور روحانی استحصال کے جال میں گرفتار کر رہی تھیں اور خود زندگی کے روحانی سرچشموں کو خشک کر کے انسانوں کو مشینوں میں تبدیل کرتی جارہی تھیں۔ ایک طرف وہ اس عالم افگن اور عالم آرا تماشے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا اور دوسری طرف اس کا یہ احساس شدید تر ہوتا جارہا تھا کہ خود اس کا گھر جو کسی زمانے میں ساری دنیا کے لیے منارئہ نور تھا، اس سیلاب بلا کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ تیسری منزل اس فکری سفر کی (میری مراد یورپ سے وطن کی طرف مراجعت نہیں ہے) وہ ہے جب یہ مسافر بہت سے سوالات اور مسائل اور شبہات اور مشاہدات سے لدا پھندا اپنے گھر کی طرف لوٹا تاکہ اس سازو سامان کی تراش خراش کر کے اس کو اپنے گھر کی تعمیر میں صرف کرے۔ اس کی بنیادیں مضبوط کرے اور اس کے دریچوں کو جو بہت دن سے بند ہیں ہوا اور روشنی کے رخ پر کھولے تاکہ وہ نہ صرف وقت کے سیلاب کا مقابلہ کر سکے بلکہ اس سیلاب میں منارئہ ہدایت کا فرض انجام دے۔ مثنوی اسرار خودی اور مثنوی رموز بے خودی اقبال کے فکری سفر کے اسی اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہیں، ان مثنویوں کے خیالات اور مضامین کا اگرعلیٰحدہ علیٰحدہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بتانا دشوار نہیں ہو گا کہ اقبال نے اپنی عمارت کے لیے فلاں سامان یا مصالحہ استخراج یا تنقید کے ذریعہ کہاں سے حاصل کیا ہے۔ لیکن چونکہ اس سامان کو ترکیب دینے والا شعور اسلامی ہے اس لیے جو عمارت تعمیر ہوئی ہے وہ اقبال کی ہے اور اسلامی ہے جس کے متعلق ایک دعوے کے ساتھ اقبال بحضور رحمتہ اللعالمین عرض کرتا ہے۔ گر د لم آئینہ بے جو ہر است در بحر فم غیر قرآں مضمر ست پردئہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں ر از خارم پاک کن یورپ کی قدیم زبانوں کے علما ملٹن کی نظم پیراڈائز پوسٹ کے نہ صرف خیالات بلکہ تشبیہوں اور تمثیلوں تک کے ماخذ کا کھوج لگا لیتے ہیں لیکن کلی نظم ملٹن کی ہے۔ تخلیقی شعور سے ترکیب پا کر مختلف اجزا کا مزاج ایک نئے کل سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اسلامی روایت اور مغربی جدیدیت کے تضاد کے سلسلہ میں اقبال اور اس کے پیش رو مفکرین مثلاً سرسید احمد خاں میںفرق یہ ہے۔ کہ سرسید احمد خاں نے تو مغربی زندگی کوانسانی تہذیب کا اعلی ترین نمونہ (میں اسوئہ حسنہ کہنے والا تھا) سمجھ کر جہاں کہیں کسی اسلامی عقیدے اور رسم کومغربی عقلیت سے ٹکراتے ہوئے دیکھا تو نہایت دیانتداری سے وہیں اس کی کوئی توجیہ یا تاویل یا معذرت کر دی جس سے ذہن پر مرعوبیت کے نقوش گہرے ہونے کے علاوہ اسلام کی شکل ایک مسخرے کا لبادہ (Fool's Motley) ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اور اقبال نے اسلام کو ایک مربوط فکر کے لباس میں اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ خود زمانہ حاضرہ کے خیالات اور میلانات اور رجحانات کے لیے معیار تنقید ہے۔ میں نے اوپر اقبال کے مطالعے اور مشاہدے کا ذکر کیا۔ اقبال کی اولین حیثیت شاعر کی ہے اور فلسفی شاعر وہ ہوتا ہے جس کی مطالعے اور مشاہدے سے پرورش یافتہ فکر جذبات سے انگیز ہو کر تجربہ بن جاتی ہے۔ یہ تجربہ ذہن کا تخلیقی عمل ہے۔ ذہن کے تخلیقی عمل اور تنقیدی عمل میں ذرا فرق ہوتا ہے۔ ذہن کے تنقیدی عمل میں تجزیاتی فکر تخیلی ہمدردی کی مدد سے کسی صورت حالات یا کسی شخصیت یا کسی تحریک کوممکنہ معروضیت کے ساتھ ادراک کی گرفت میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں تنقیدی عنصر پر حسیاتی ردعمل اور تخلیق کی پیدا کی ہوئی ضرورت اور تقاضے غالب رہتے ہیں۔ شاعر اس ماحول سے جو مہیا ہوتا ہے اورجس کو ذہن خود بھی مہیا کرتا ہے وہ اثرات اخذ کر لیتا ہے…جو اس کی شخصیت کے مزاج کے مطابق ہوں، ان پہلوئوں کو بالکل نظر انداز کر دیتا ہے جو مزاج کے مطابق نہ ہوں۔ وہ اثرات جن کے خلاف شعوری طور پر شدید ردعمل کا اظہار کرتا ہے، ان میں اور اس کے مزاج میں کہیں نہ کہیں گہرائیوں میں ایک قدر مشترک ضرور ہوتی ہے۔ من و تو کسی بڑے من کے ہی دو حصے ہوتے ہیں جن میں باہم کلامی کے لیے محبت یا رقابت یا مخاصمت کا رشتہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ تخلیقی عمل بہت ظالم اورخود غرض ہوتا ہے، اس کو خواہ تاریخ ہو یا فطرت ہو، عقیدے ہوں یا مجرد خیالات ہوں، شخصیتیں ہوں یا کوئی واقعہ ہو، مطالعہ ہو یا مشاہدہ ہو ان تمام مختلف اجزا کو نئی ترکیب دے کر اور پگھلا کر ایک نقش فریادی و انفرادی تیار کرنا ہوتا ہے۔ ان منفی اور مثبت اثرات سے تو ایسے واسطہ ہوتا ہے جو ذہنی شخصیت میں جذب ہو کر تجربہ بن جاتے ہیں، باقی پہلوئوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اقبال کے فن و فکر کے ارتقا میں بہت سے مشرقی اور مغربی مفکرین اور شعرا کا حصہ ہے، اور بہت سے حالات اور تحریکات پر ان کا ردعمل بھی اس ارتقا میں شامل ہے لیکن یہ حصہ محض ان کی شخصیت کے مزاج اور تخلیقی ضرورت کی حد تک ہے۔ اگر مرید ہندی نے پیر رومی کو اپنے کسی سفر میں رہنما بنایا ہے تو یہ نہیں ہے کہ پیررومی جہاں چاہتا ہے وہاں مرید کو لے جاتا ہے بلکہ جس مقام پر مرید زندہ رود بن کر پیر کو لے جانا چاہتا ہے وہاں پہنچا دیتا ہے۔ اگر حافظ سے کبھی لے دے ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حافظ سے اقبال نے اپنا دامن چھڑا لیا بلکہ یہ لے دے اس شدت سے ہوتی ہی اس لیے ہے کہ حافظ بری طرح اس سے چمٹا ہوا ہے اور پیام مشرق اور زبور عجم کی غزلوں کے پردے میں کھڑا ہوا مسکرا رہا ہے اور اقبال زبان حال سے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ خطا نمودہ ام و چشم آفریں دارم ایسی لے دے تو اقبال اور اس کے اللہ کے مابین بھی ہوتی رہتی ہے، مگر نہ اقبال اللہ کا پیچھا چھوڑ سکتے ہیں نہ اللہ اقبال کا: بے تو بودن نتواں، باتو نبو دن نتواں افلاطون ساری عمر عشق کو عقل پر قربان کرتے رہے، اقبال پیہم کوشش عقل پر قربان کرنے کی کرتے رہے لیکن نہ یہ بات ممکن ہوئی، نہ وہ بات ممکن ہوئی۔ یہ بھی ایک عجیب منفی تجربہ ہے کہ اس شخص کے لیے جس پر حسن نسوانی برق بن کر گرنے والا حادثہ ہوا کرتا تھا عورت ایک مسئلہ بن کر رہ گئی۔ غرض ایسے تمام اور بہت سے دیگراثرات مثبت اور منفی تجربہ بن کر اس فلسفی شاعر کے فکر و فن کے ارتقاء کا حصہ بنتے گئے۔ سرمایہ داری یا سوشلزم یا فاشزم کا سا ئنٹیفِک مطالعہ اقبال کی جبلی دلچسپی سے خارج تھا۔ اور حقیقت بھی یہ ہے کہ کوئی مذہب ہو یا سیاسی اور معاشی تحریک ہو یا کوئی اصلاح یا انقلاب ہو غرض معاشرہ کی کوئی حرکت ہو اس کا اہم پہلو انسانی پہلو ہی ہوتا ہے، یہی اس کی جوہری قدر ہے، اسی سے شاعر کو واسطہ ہے ، اور انسان کے معنی ہیں فرد کیوں کہ فرد ہی ایک محسوس حقیقت Concrete Reality ہے باقی سب عقلی تنزیحہات اور اختراعات Abstraction ہیں۔ مسولینی سے وہ متاثر ہوئے کیونکہ اس کی شخصیت تمام موانعات پر قابو کر کے اور حالات کی تسخیر کر کے اکثر لحاظ سے خودی کی ایک بلند منزل پر پہنچ گئی تھی وہ اپنے ملک کو ایسی حالت میں لے آیا تھا جو بظاہر گزشتہ عظمت کے خواب کی تعبیر نظر آتی تھی۔ لیکن ابی سینیا پر مسولینی کی فوج کشی کو اقوام مغرب کی غارت گری، مغربی تہذیب کی شرافت کشی اور آبروئے کلیسیا کے طلسم کی شکست سے تعبیر کرتے ہیں۔ اشتراکیت کے متعلق علامہ اقبال کے جستہ جستہ اشعار سے جونتیجہ پیدا ہوتا ہے اس کو مختصراً اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ ۱۔ مغربی نظام معاشرت و معیشت کی مخالفت میں علامہ اشتراکیوں کے ہم نوا ہیں، سرمایہ داری، ملوکیت اورمغربی جمہوریت سب ان کی نگاہوں میں مذموم ہیں۔ لیکن اشتراکی جدلیاتی مادیت کے تناظر میں اور اس کے واسطہ سے اس فنا مقدر نظام کی برائیوں کو اور اس کے ’’کیوں‘‘ اور ’’کدھر‘‘ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس تمام معاشرے کے اس لیے خلاف ہیں کہ اہل مغرب خود مشرق کے خدا بن بیٹھے ہیں، اور خود ان کا خدا اقتدار اور دولت ہے،ان کا سارا علم اور دین اور دانش ہوس کی بندگی ہے۔ ان کی جمہوریت بھی ملوکیت کا ایک سوانگ ہے۔ مساوات کا سبق دیتے ہیں اور لہو پیتے ہیں، ان کی مدنیت بیکاری، مے خواری اور افلاس ہے۔ اور بندئہ مزدور کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ ۲۔ روس کے اشتراکی انقلاب نے مغربی تہذیب کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا، اور کلیسیا اور مدرسوں میں جو بظاہر عقل کی عیاریاں ہیںاور بباطن ہوس کی خونریزیاں ہیں ان کا تار و پود بکھیر دیا۔ یہ بظاہر تخریبی عمل بہت ضروری تھا جس طرح اللہ کے اثبات سے پہلے غیر اللہ کی نفی اور الاّ سے پہلے لا ضروری ہے۔ شاید سرمایہ داری کے ختم ہونے کے بعد ’’قل العفو‘‘ میں جو اسرار پنہاں ہیں وہ بتدریج ظاہر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو یہی حکم ہے یعنی مشیت ایزدی یہ ہے کہ جس کھیت سے دہقان کو روزی میسر نہ ہو اس کو جلا دیا جائے، کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دیئے جائیں اور اس حرم و دیر کے چراغ بجھا دیئے جائیں جہاں مسجدوں سے خدا کو اور طواف سے بتوں کو فریب دیا جاتا ہے۔ خالق اورمخلوق کے مابین پیر کلیسا جو ایک رکاوٹ بنا کھڑا ہے اس کو بیچ سے ہٹا دیا جائے اور ہر نقش کہن کو مٹا دیا جائے۔ ۳۔ لیکن مغربی تہذیب کے خدا اور انسان کے خلاف جرم اور گناہ کا علاج یا تدارک اشتراکیت نہیں ہے۔ اس تہذیب کے جام وسبو کو جس کو اشتراکیت اپنی نادانی سے کار گاہ شیشہ سمجھتی ہے(؟) اشتراکیت کا ہاتھ نہیں توڑ سکتا۔ کیوں کہ دونوں معاشروں کی روح مادیت اور ہوس محرک اولیٰ ہے۔ لینن جب دعویٰ کرتا ہے کہ جمہور کی آگ نے پیر کلیسا کی ردا اور سلطان کی قبا کو پھونک کر رکھ دیا تو قیصر جواب دیتا ہے کہ ہوس کی کارفرمائی تو بد ستور موجود ہے۔ شیریں کا خریدار اگر خسرونہیں رہا تو کوہکن ہو گیا۔ اشتراکیت کو صرف تن سے کام ہے حالانکہ اخوت کا مقام دل ہے۔ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں یزداں ناشناس اور آدم فریب ہیں۔ اگر ملوکیت تن سے جان اور ہاتھ سے روٹی چھینتی ہے تو اشتراکیت علم اور دین اور فن کوختم کرنے والی ہے، ملوکیت کیلیے زندگی خراج ہے، اشتراکیت کے لیے زندگی خروج ہے۔ انسان یا آدم ان دونوں پاٹوں کے بیچ میں شیشہ کی طرح پس رہا ہے۔ ۴۔ ان تمام ہنگاموں سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ خدا اس جہان کہنہ سے اور ان فرسودہ طریقوں سے بیزار ہے۔ مشرق اور مغرب میں لوگوں کے دلوں میں ایک انقلاب کا جذبہ بیدار ہو چکا ہے۔ یہ جہاں پیر جس نے انسان کو ظاہری اور باطنی موت سے ہمکنار کردیا ہے خود مرنے والا ہے، فرشتوں کے نزدیک اس صورت حالات کا تجزیہ یہ ہے کہ ابھی نقشِ گرازل کا نقش ناتمام ہے، عقل بے زمام ہے اور عشق بے مقام ہے۔ نئی دنیا پیدا کرنا اسلام کا مقدر ہے، اس تہذیب کی شیشہ گری کے طلسم کو توڑنے کے لیے شاعر مشرق کے ہو کی ضرورت ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی فرشتوں کو ہدایت ہے کہ شاعر مشرق کو آداب جنوں سکھا دیے جائیں۔ اور ابلیس بھی آشفتہ سر اور پریشان روزگار اشتراکی کوچہ گردسے نہیں ڈرتا بلکہ اس ظالم سے ڈرتا ہے جو اشک سحرگاہی سے وضو کرتا ہے۔ مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے۔ یہ ایک ایسے شاعرکا جو انسان کی لامتناہی ترقی کے امکانات پر اور زندگی کے لاتحصیٰ گونا گوں گوشوں پر یقین رکھتا ہے ۔ اور جو اپنی قوم کی ماضی کی عظمت ، حال کے استحکام، اور مستقبل کے جاں آفریں اور جہاںآفریں خواب سے کلی طور پر وابستہ ہے شدید ردعمل ہے ایک ایسے واقعہ کے متعلق جس کی اس نے سائنٹیفک اسٹڈی نہیں کی ہے لیکن تاریخ میں جس کی قیامت خیزی کو اس نے دیکھا ہے اور جس کے متعلق کوئی نہ کوئی رویہ اختیار کرنا آج کی دنیا کے ہرانسان کی شعوری ضرورت ہے۔ ( ۲ ) لیکن (اور یہ بہت اہم اور ضروری لیکن ہے) اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقبال سیاست یا طاقت کے زور پر کسی ’’اسلامی نظام‘‘ کو نافذ اور عائد کرنا چاہتے ہیں۔ دین کو نظام یا نظریہ کے طور پر پیش کرنا ہمارے زمانے کی جدت یا بدعت ہے۔ غلامی کے دور میں یہ درست ہے کہ ہماری نظر محدود تھی اور عمل سست پڑ گیا تھا، زندگی کے دونوں شعبوں اجتہاد اور جہاد میں تنگ ظرفی اور سست روی پیدا ہو گئی تھی، لیکن اسلام تھا دین ہی اور دین ’حق‘ یہ تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اسلام ایک نظام یا نظریہ بنا ہے، جس طرح ہمارے دیکھتے دیکھتے بہت سے نو دولتیے سید بن گئے۔ دین کو زندگی کی صراط اور شرع اور بیج اور نور کہا گیا ہے۔ نظام ایک ڈھانچہ ہوتا ہے جس کو کچھ سیاسی یا معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے یا مقاصد حاصل کرنے کے لیے وضع کر لیا جاتا ہے۔ تم کتنے ہی نظاموں کو، اسلام کا سیاسی نظام اور معاشی نظام اور اخلاقی نظام، سب کو جوڑ لو لیکن حاصل جمع اسلام نہیں ہو سکتا جس طرح انسان کے مختلف اعضاء کو جوڑنے سے انسان نہیں بنتا، نظریہ ہمیشہ کسی فرد یا جماعت سے منسوب ہوتا ہے اور اس کی حقیقت اضافی ہوتی ہے، دین کا عمل شعور کی بہت گہری سطح پر ہوتا ہے، جہاں نظر بنتی ہے، ضمیر ڈھلتے ہیں اور زندگی اپنا چولا بدلتی ہے، اس نور اور معیار کی روشنی میں سیاسی اور معاشی مسائل بھی حل کئے جاتے ہیں، یہ یک طرفہ راستہ ہے دو طرفہ نہیں۔ نظام اور نظریہ کو دین کی جگہ دینا بے یقینی کی موت ہے، شاید یہ اسلام پر مادیت کی آخری یورش ہے، ویسے بھی نظریوں کا زمانہ شاید جوہیکل سے شروع ہوا تھا ختم ہو رہا ہے۔ اور ’’نظاموں‘‘ سے دنیا بے زار ہے وہ چند نہیں جو اس کے اوپر چڑھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بلکہ وہ اللہ کے بندے ’افراد‘ جوان کے نیچے کچلے جاتے ہیں۔ دین یا کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت کی ہے جو ایمان کے بیج سے پیدا ہوتا ہے، زمین میں جڑیں مضبوط ہوتی ہیں شاخیں آسمان تک پھیل کر زندگی کے ہر شعبہ کو ڈھکتی ہیں اور ہر زمانے کے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق اس سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں ، اب آپ دیکھئے قرن اول کے بعد مختلف اثرات اور ضروریات کے تحت فقہ کا دور آیا، علم کلام کا دور آیا، حکمت اور فلسفہ کا دور آیا، تصوف کا دور آیا، فرقے بھی بنے، آپس میں تکفیر بازی بھی ہوتی رہی، خلافت بھی رہی، شہنشائیت بھی رہی، طوائف الملوکی بھی رہی، تاتاری فتنے بھی اٹھے، آج مغرب کے چیلنج اور تسلط کا سامنا ہے۔ اور عظیم مسلمان ایمان اور علم کے سرچشمے سے اپنے ظرف اور زمانے کے لحاظ سے شعور اور نظرحاصل کرتے رہے، ضمیر کی تربیت کرتے رہے اور اسی روشنی میں اپنے زمانے کو سمجھتے رہے اور مسائل کو حل کرتے رہے، حقیقت میں ایک قوم کی تاریخ اس کے اپنے خدا کے ساتھ تعلق اور ماحول کے خلاف ردعمل کے سوا کچھ نہیں۔ اقبال اس زمانے میں آئے جو ملوکیت کا دور تھا، جمہوریت کا دور تھا، سرمایہ داری کے تمام تباہ کن مضمرات ظاہر ہو چکے تھے، سوشلزم ابھر رہا تھا، مغرب میں نت نئی تبدیلیاں جس کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا رونما ہو رہی تھیں، انسان اپنے علم و حکمت کے زور پر معجزات دکھا رہا تھا۔ دوسری طرف انسان کا دل مردہ ہوتا جارہا تھا، زندگی کی کیفیت کم سے کم تر ہوتی جارہی تھی، اقبال کے الفاظ میں مغرب کا ضمیر مر چکا تھا، مشرق کی خودی دم توڑ چکی تھی۔ اقبال نے کوئی نظام یا نظریہ پیش نہیں کیا۔ عقل کی بجائے عشق پر زور دینے کا مطلب ہی یہ ہو سکتا ہے کہ اپنے اور اپنے خدا پر یقین کے زور سے زندگی کی خوابیدہ صلاحیتوں کو جگایا جائے اور ان کوحرکت میں لایا جائے، انھوں نے اسلام کی ایسی تفسیر پیش کی جس میں افسردگی یا سستی یا بے عملی یا بالفاظ دیگر یہ کہہ لیجئے کہ تقدیر پر شاکر رہنے کی، قناعت کی ، ذکر بو مراقبہ کی، توکل کی، فکر عاقبت کی جو صورتیں مسلم معاشرہ میں عام طور پر رائج تھیں کوئی گنجائش نہ تھی انسان کو تخلیق اقدار اور ندرت عمل کا ایک بلند مقام دیا اور خودی کو اپنی تکمیل کے لیے خدا کے سامنے لا کھڑا کیا۔ کائنات کو بجائے ایک واقعہ کے جو ہو چکا ہے تغیر پذیر دہر بتایا جو ہو رہا ہے، اور کار تخلیق میں خدا کو اور انسان کو ایک طرح شریک کار بنا دیا۔ خودی کی تربیت اور حصول دوام کو زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد اور زندگی کی اخلاقی قدروں کو پرکھنے کا معیار قرار دیا اور اسلامی اقدار کو زمانہ کے تمام مروجہ نظاموں کے احتساب کا پیمانہ بنایا۔ خودی کی تربیت کی منزلیں بتائیں ملت اسلامیہ کی اساس کو واضح کیا، گویا فرد کو ایک بھرپور اور تخلیقی اور اثباتی زندگی کا راز بتایا ملت کے استحکام کی بنیاد تلاش کی اور عالم انسانیت کے لیے حریت اور مفادات اور اخوت کا ایک مخصوص منفرد پیغام بھی اس ملت کے سپرد کیا کیونکہ جب کسی ملت کے پاس بنی نوع انسان کے لیے کوئی زندگی کا پیغام نہیں ہوتا تووہ ملت لا یعنی ہو کر مر جاتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے تمام مطالعات، مشاہدات، تجربات کو شاعرانہ صداقت اور حسن کے ساتھ صرف کیا۔ اب رہا سوال کا وہ حصہ جس میں دریافت کیا گیا ہے کہ کیا اقبال کا کلام خالصتا اسلامی نظریات کا مظہر ہے تو نظریات کے متعلق تو میں عرض کر چکا ہوں۔ ’’خالصتاً اسلامی‘‘ کے متعلق دو باتیں عرض ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ بات بدیہی ہے کہ اگر اقبال کسی اور زمانہ میں پیدا ہوتے یا ان کے تجربات کا دائرہ مختلف ہوتا تو اسلام کی تعبیر بھی اس سے مختلف ہوتی جواب ہے۔ علامہ اقبال کی اپنی خودی کی تلاش اور اسلام کی حقیقت شناسی ایک ہی عمل کے معروضی اور موضوعی دو پہلو تھے اور مغرب کا چیلنج اس عمل کا نہ صرف ایک زبردست محرک تھا بلکہ ایک موثر عامل بھی تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھ میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ ’’خالصتاً اسلامی‘‘ ہونے کے متعلق صحیح یا غلط کا فیصلہ کر سکوں۔ صحیح یا غلط کی کٹگری Category کے علاوہ ایک اور کٹگری Category اہم اور غیر اہم کی بھی ہے، اہمیت ہی میں کسی کلام کے معنی اور اس کی قدر مضمر ہے۔ اہمیت کے لیے صحت کا عنصر بھی ضروری ہے، اگر صحت کا عنصر مفقود ہو تو وہ کلام اہم بھی نہیں ہوتا، اور صحت یا حقیقت بس اسی حد تک زندہ ہے جس حد تک وہ اہمیت کا حصہ ہے۔ ورنہ حقیقتیں تو بہت سی ذہن کے بیمار خانے میں پڑی سسکتی رہتی ہیں اور فساد پھیلاتی رہتی ہیں، اس میرے اٹھائے ہوئے سوال کا جواب اہمیت اور عدم اہمیت کا شعور دے گا۔ اقبال کا سوشلسٹ فکر و فلسفے کے ارتقاء میں کوئی مقام نہیں، اسلامی فکر کے ارتقاء میں وہ ایک بہت اہم شخصیت ہے لیکن سوشلزم سے اس کا شدید جذباتی ردعمل اس حقیقت کی ضرور غمازی کرتا ہے کہ وہ سوشلزم میں ایک زبردست کشش بھی محسوس کرتا ہے، اس کی اہمیت کا بھی اسے اندازہ ہے اور اس سے مدافعت کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اقبال دور جدید کی آواز، مرتبہ: سلطانہ مہر، ابن حسن پریس، کراچی، ۱۹۷۷ء اقبال ، جمہوریت اور ملوکیت محمد حسن عسکری اقبال ہندوستانی مسلمانوں کے لیے زندگی کا پیغام لے کے آیا تھا، بلکہ وہ اس کے کلام سے زندگی حاصل کر بھی رہی تھے۔ مگر مسلمانوں کی بیداری اس برصغیر میں رہنے والی دوسری بڑی قوموں کو بڑی خطرناک معلوم ہو رہی تھی کیونکہ مسلمانوں کی بیداری کے معنی تھے دوسروں کی اجارہ داری اور تسلط کا خاتمہ۔ چنانچہ ہماری ہمسایہ قوم اقبال سے بہت جلد ہی کھٹک گئی اور ان میں جو ہوش مند لوگ تھے وہ اقبال کی شاعری کے اثرات کا توڑ کرنے کی فکر میں لگ گئے۔ ان کے بارے میں یہ مشہور کیا گیا کہ وہ رجعت پسند ہیں، فسطائی ہیں، دنیا میں عقل اور انصاف کی حکومت نہیں بلکہ جنگل کے قانون کا راج چاہتے ہیں، مسولینی اور ہٹلرکے دلدادہ ہیں، ان کی شاعری کا رخ چنگیز اور ہلاکو کی طرف ہے، انہیں عوام کی سیاسی اور معاشی ترقی سے کوئی ہمدردی نہیں بلکہ شہنشاہوں کی عظمت و جبروت پر جان دیتے ہیں۔ غرض اس قسم کی بہت سی غلط فہمیاں بڑی باقاعدگی سے پھیلائی گئیں اور ایک خاص سیاسی مقصد کے تحت ہمارے یہاں مسلمانوں میں جو کہ آزاد خیالی پر دنیا کی ہر صداقت اور حقیقت قربان کرنے کو تیار تھے، لہٰذا ہمارے نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد اقبال کو ٹھیٹ فسطائی اور تشدد پرست سمجھنے لگی تھی اور دو چار آدمی تو اب بھی اس قسم کے نکل ہی آئیں گے اور ایسے لوگ تو بہت تھے جو اقبال کے متعلق اس قسم کی بدگمانیاں تو نہیں رکھتے تھے مگر یہ سوچ کر ضرور شش و پنچ میں پڑ جاتے تھے کہ اسلام کی جمہوری روح پر بار بار زور دینے کے باوجود انہیں بادشاہوں سے کیوں اتنی دلچسپی ہے اور تو اور خود مولانا محمد علی جن کی وفات کے بعد اقبال نے ان کا یہ مرثیہ یوں لکھا ہے ؎ خاک قدس او را بہ آغوش تمنا در کشید سوے گردوں رفت زاں راہے کہ پیغمبر گزشت اور جو بعض دفعہ جوش عقیدت میں اقبال کو اپنا استاد تک کہہ دیا کرتے تھے اسی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ جب سے اقبال نے انگریزوں کا خطاب قبول کیا ہے وہ اسلامی جمہوریت کے ویسے پرستار نہیں رہے جیسے پہلے تھے۔ چنانچہ مولانا محمد علی نے کئی مضمونوں میں اقبال کو ڈانٹا ہے کہ تم نے مسلمان بادشاہوں کو اسلام کا نمائندہ کیسے بنا دیا۔ یہی شکایت اب پھر سننے میں آ رہی ہے کہ مسلمان بادشاہوں کے معاملے میں اقبال اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے اور اسی جذباتیت میں گرفتار ہو گئے جس میں عام مسلمان گرفتار ہے یعنی جس طرح ایک عام پڑھا لکھا مسلمان ایک طرف تو خلافت راشدہ کے زمانے کی مساوات اور جمہوریت کو نصب العین بناتا ہے، دوسری طرف مسلمان بادشاہوں کی فتوحات، ان کے جاہ و جلال اور ٹھاٹ باٹ پر بھی فخر کرتا ہے۔ اسی طرح اقبال کے اندر بھی یہی دونوں متضاد باتیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک زمانے میں تو اقبال نے امان اللہ خان کی شان میں قصیدہ لکھا تھا جب افغانستان پر نادر شاہ کا قبضہ ہو گیا تو ان کی شان میں قصیدہ لکھتے ہوئے بھی انہیں جھجک نہیں ہوئی۔ ان دونوں بادشاہوں کے معاملے میں عام ہندوستانی مسلمان کا رد عمل بھی ہو بہو یہی تھا۔ اس بات سے دو نتیجے نکالے جاتے ہیں ایک تو یہ کہ زبان سے اقبال خواہ جمہوریت کی طرف ڈھلک گئے کبھی بادشاہی کی طرف چنانچہ ان دونوں چیزوں کے بارے میں ان کا انداز مفکر انہ نہیں تھا بلکہ جذباتی۔ سطحی طور پر تو یہ اعتراض قابل قبول معلوم ہوتا ہے ورنہ کم سے کم مولانا محمد علی کو یہ تضادیوں نہ کھٹکتا مگر اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کا اعتراض بذات خود غیر مفکرانہ اور جذباتی ہے۔ اوروں کو تو چھوڑیئے اس موقع پر خود مولانا محمد علی جیسے حساس اور نکتہ سنج آدمی کی لیڈری ان کے تفکر پر غالب آ گی تھی۔ ورنہ سچ پوچھئے تو مولانا محمد علی کے تاثرات بھی اس بات میں اقبال سے مختلف نہیں تھے اور نہ کسی معقول مسلمان کے ہو سکتے ہیں، مانا کہ اسلامی اصول بہترین طریقے پر خلافت راشدہ کے زمانے میں ظاہر ہوئے ہیں اور بادشاہی قبول کر کے مسلمان کئی بڑے اور بنیادی اصولوں سے ہٹ گئے مگر اس کو کیا کیا جائے کہ یہ مسلمان بادشاہ کئی بنیادی باتوں کے لحاظ سے مسلمان تھے اور ان کے زمانے میں بھی کئی زبردست اسلامی اصولوں نے اپنا عمل جاری رکھا۔ ان لوگوں کے زمانے میں مسلمانوں کے علوم و فنون نے ترقی کی اور بادشاہوں کے علاوہ عام مسلمانوں نے بھی اس ترقی میں حصہ لیا اور اس ترقی سے فیض یاب ہوئے۔ یہ سب کچھ تیرہ سو سال تک ہوتا رہا ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی تیرہ سو سال کی تاریخ کو یک قلم باطل قرار دے دیں اور اگر ہم ایسا کر بھی دیں تو اپنے اجتماعی تجربے کے خزانے کو دور پھینک کر کیا ہم متوازن طور سے ترقی کرنے کی امید کر سکتے ہیں اور ہم ہی کیا، دنیا کی کوئی قوم اپنی تاریخ سے کٹ کر جی سکتی ہے؟ یہ تجربہ تو روس تک میں ناکامیاب ثابت ہوا ہے۔ انقلاب کے ابتدائی دنوں میں تو واقعی بعض روسی یہی سمجھتے تھے کہ ہم نے اپنی پرانی تاریخ کو سٹرے ہوئے گوشت کی طرح کاٹ کر پھینک دیا ہے۔ اب ہماری تاریخ نئے سرے سے شروع ہوتی ہے مگر چند ہی دن میں تاریخ نے انتقام لینا شروع کر دیا اور آخر آج وہ دن آ گیا ہے کہ روس کے بادشاہوں اور شاہی زمانے کے سپہ سالاروں کے متعلق فلمیں بنائی جا رہی ہیں۔ اب روسی لوگ کہتے ہیں کہ تاریخ تو ایک حقیقی واقعہ ہے اس سے نہ آنکھیں بند کی جا سکتی ہیں اور نہ اسے بھلایا جا سکتا ہے، پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض روسی بادشاہوں نے پوری قوم کی بھلائی کے لیے کام کیا ہے اور بعض سپہ سالاروں نے ملک کو بیرونی حملہ آوروں سے بچایا ہے اس لیے ہمیں ان کی عظمت کا اعتراف کرنا چاہیے اور ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ انقلاب کے بعد روس میں جو درسی کتابیں لکھی گئی تھیں ان میں غیر مشروط طورپر بادشاہوں کی برائی ہوتی تھی مگر اب اس نئے رویے کے مطابق نئی کتابیں لکھی گئیں ہیں جن میں روسی بادشاہوں کے اچھے اور برے دونوں پہلو پیش کئے جاتے ہیں اور روسی بچوں کو روسی بادشاہوں کے کارناموں پر فخر کرنا سکھایا جاتا ہے یعنی اب روسی قوم نے اپنی تاریخ کو قبول کر لیا ہے۔ کوئی زندہ قوم اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے؟ ایسے بھی تاریخ کے مادی نظریے کے مطابق ہر دور میں بادشاہی کو مردود قرار دینا غلط ہے۔ اگر روسی قوم کے لیے اپنی تاریخ کو قبول کر لینا جائز ہے تو ہمارے لیے کیوں نہیں ہے؟ اگر آئی منلائن کسی روسی بادشاہ کے متعلق فلم بنا سکتا ہے تو اقبال پرانے مسلمان بادشاہوں کے متعلق نظم کیوں نہیں لکھ سکتا؟ یا پھر روسی بادشاہ اس لیے مقدس ہے کہ وہ روسی ہے اور مسلمان بادشاہ اس لیے مردود ہے کہ وہ مسلمان ہے؟ اگر اقبال نے اسلام کی بنیادی جمہوریت کو نظر انداز کر کے محض بادشاہی یا محض شاہانہ فتوحات کو اسلام سمجھ لیا ہوتا تب واقعی شکایت کی گنجائش تھی اور ہم اقبال کو فسطائی یا رجعت پسند یا جو بھی ہمارا جی چاہتا ہے شوق سے کہہ سکتے تھے مگر اقبال کا رویہ تو اس معاملے میں بڑا متوازن اور غیر جذباتی رہا ہے نہ تو وہ بادشاہت پرستی کی رو میں بہہ کے جمہوریت کو بھولے ہیں اور نہ جمہوری جذباتیت کے زور میں انہوں نے تیرہ سو سال کی تاریخ کو قلمزد کیا ہے۔ اسلام نے انسانوں کے سامنے مساوات، اخوت اور جمہوریت کا جو نصب العین رکھا تھا اقبال نے اسے اپنی نظروں سے محو نہیں ہونے دیا بلکہ اس نصب العین کو نظر انداز کر کے مسلمانوں نے اجتماعی حیثیت سے جو زبردست نقصانات اٹھائے ہیں اس کا تو اقبال کو بڑا شدید احساس ہے۔ انہوں نے اس کے بارے میں بڑی درد مندی کے ساتھ نثر اور نظم دونوں میں بار بار لکھا ہے لیکن چونکہ انہیں اپنی قوم سے محبت تھی دل میں قوم کا احترام تھا، اس کا احساس تھا کہ زندگی اصولوں کو کس طرح توڑ مروڑ دیتی ہے اور انسان کو ایک طرف زندگی سے اور دوسری طرف اپنے اصولوں سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور اس کا بھی یقین تھا کہ اسلامی کی بنیادی جمہوریت شاہی زمانے میں بھی اپنی جھلک دکھائے بغیر نہیں رہی۔ اس لیے انہوں نے اپنی قوم کے بادشاہوں کا ذکر بھی عزت اور محبت کے ساتھ کیا ہے۔ جن تیرہ سو برس میں بادشاہوں نے جو کچھ کیا ہے اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی طرح پوری قوم شریک رہی ہے۔ بادشاہوں کی اچھی بری ہر قسم کی حرکتوں کا اثر ہماری اجتماعی زندگی پر پڑا ہے۔ ان میں سے بعض اثرات ہماری رگ و پے میں اس طرح بس گئے ہیں کہ اب ہم چاہیں بھی تو ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ آج ہماری اجتماعی زندگی جس قسم کی بھی ہے اس کی تشکیل میں بھی بادشاہوں اور بادشاہی کا خاص حصہ رہا ہے۔ خالی کہہ دینے سے بادشاہی کے اثرات ہماری زندگی سے خارج نہیں ہو جاتے۔ اپنی تاریخ سے بے تعلق ہو جانا ممکن نہیں اگر یہ بات ممکن بھی ہوتی تو اس کا شمار زندگی کی بہت بڑی محرومیوں میں ہوتا ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے کسی حصے میں اچھا یا برا تو کہہ سکتے ہیں کسی واقعے سے مرتب ہونے والے اثرات کو اپنے لیے فائدہ مند یا مضر سمجھ سکتے ہیں۔ مگر ان چیزوں کو مٹا نہیں سکتے کیونکہ بعض معنوں میں ماضی حال سے زیادہ واقعیت اور معنویت رکھتا ہے… اور طاقت بھی، جب اقبال نے یہ مصرعہ کہا تھا کہ ؎ اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں تو ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم اسلامی جمہوریت پر کار بند نہ ہوں اور پرانا شاہی نظام اختیار کر لیں بلکہ محض اتنی بات کہ مسلمان من حیث القوم اپنی تاریخ سے بے تعلق نہیں ہو سکتے۔ اسلامی جمہوریت کا پرستار ہونے کے بعد اقبال کے لیے صرف دو ہی راستے تھے ایک تو یہ کہ تیرہ سوسال کی غیر جمہوری زندگی کو سرتاپا ملعون قرار دے دیں۔ اس زندگی کی نہ عزت کریں نہ محبت لیکن یہ طریقہ انسانوں کا نہیں۔ جو آدمی اپنے ماضی سے محبت نہیں کر سکتا اپنے حال سے بھی اس کی محبت گہری نہیں ہو سکتی کیونکہ محبت تو نسبتوں کے ذریعے مستحکم ہوتی ہے اور اگر محبت نہیں تو احترام کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے تو اقبال شاعر اور انسان ہوتے ہوئے تو اس راستے پر چل ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ اپنی تاریخ کو اچھے اور برے دونوں پہلوئوں سمیت قبول کر لیا جائے اور پوری ذمہ داری اپنے سر لی جائے۔ جہاں تک ذمے داری کا سوال ہے وہ آدمی کے ذمے ضرور پڑتی ہے۔ اس میں تو ذمے داری ہی قبول کرنے نہ کرنے کا سوال ہی بے معنی ہے۔ اس لیے ہوش مند تو یہی کرے گاکہ اگر یہ بوجھ خوشی خوشی اٹھانے سے اسے کوئی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو وہ فائدہ ضرور حاصل کرے کیونکہ یہ تو کوئی کہہ ہی نہیں سکتا کہ تاریخ اجتماعی تجربے کا ذخیرہ نہیں ہے اور نہ اس بات سے انکار ممکن ہے کہ اجتماعی تجربے کے ذخیرہ سے فائدہ نہ اٹھانے سے کوئی قوم دو قدم آگے نہیں چل سکتی۔ اقبال نے یہی راستہ اختیار کیا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے امان اللہ خان اور نادر شاہ دونوں کی شان میں قصیدے لکھے ہیں تو اصل میں انھوں نے یہ دونوں قصیدے کسی بادشاہ کی شان میں نہیں بلکہ افغان قوم کی شان میں لکھے ہیں۔ البتہ ان افراد کو اپنی قوم کی مجموعی شخصیت کا نمائندہ ضرور مان لیا ہے۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ افغان قوم ایک خاص وقت میں ایک خاص آدمی کو اپنی اجتماعی شخصیت کا نمائندہ مانتی تھی۔ اس میں اقبال کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اگر ان سے رائے لی جاتی تو وہ افغانستان میں جمہوریت چھوڑ ٹھیٹ خلافت راشدہ کے نمونے کی حکومت قائم کراتے مگر خارجی حقیقت یہی تھی کہ افغان ایک خاص آدمی کو اپنا نمائندہ سمجھتے تھے خواہ وہ کسی دبائو سے سمجھتے ہوں یا خوشی خوشی اس لیے اقبال نے اسی نمائندے سے خطاب کیا۔ تو دراصل جمہوریت اور بادشاہی کے متعلق اقبال کے رویے میں کوئی بنیادی تضاد نہیں ہے۔ ظاہر میں جو تضاد معلوم ہوتا ہے وہ محض زندگی کے حقائق کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے اور اپنی قوم سے محبت کرنے کا۔ جن لوگوں کو اقبال کے رویے میں تضاد نظر آتا ہے وہ محض مروجہ جذباتیت کا شکار ہیں یا زندگی کے تقاضوں کے حامل ہیں یا وہ لوگ تخلیقی صلاحیت کے مظاہر کو اس وقت تک قابل قدر نہیں سمجھتے جب تک چند خارجی شرائط پوری نہ ہوئی ہوں ایسے لوگوں کو اقبال کا تجزیہ کرنے سے پہلے خود اپنا تجزیہ کرنا چاہیے۔ روز نامہ احسان، لاہور،۲۲ اپریل ۱۹۴۹ء بہ حوالہ: مقالات محمد حسن عسکری (جلد اوّل ) مرتبہ: شیما مجید سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، ۲۰۰۰ء اقبال کا سیاسی تفکر ڈاکٹر سید عبداللہ اقبال نے اگرچہ سیاسیات کے موضوع پر کوئی مستقل کتاب (۱) نہیں لکھی۔ لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کی اکثر تصنیفات علم سیاست کے بلند حقائق سے لبریز ہیں۔ اس لیے ان کی شاعری کو صرف جمالیاتی لذت کی خاطر نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ اس پر اس حیثیت سے بھی نظر ڈالنی چاہیے کہ شاعری کے علاوہ اس کا کوئی اور بلند تر اخلاقی اور سیاسی مفہوم بھی ہے۔ دراصل ان کی شاعری اور سیاسی فکر باہم اس طرح آمیختہ ہیں جس طرح دانتے کی شاعری اور فلا رینس کی سیاسیات، غرض سیاسیات سے براہ راست متعلق نہ ہونے پر بھی ان کی شاعری کا سیاسیات سے گہرا تعلق ہے۔ ؎ دردیدئہ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبریِ کرد و پیمبر نتواں گفت اقبال نے جب آنکھ کھولی تو مشرق و مغرب میں زندگی اور اس کے مختلف شعبوں میں عجیب و غریب انقلاب نمودار ہو رہا تھا۔ مشرق کی جہاں گیریاں، جہاں ستانیاںختم ہو چکی تھیں اور مغرب کی سیاسی فتح مندیاں اپنا نقش قائم کر رہی تھیں اور ان کے قدم بقدم مشرق پر مغربی ذہن و فکر کی فتوحات کا سِکّہ بھی بیٹھ چکا تھا۔ اہل مشرق علی الخصوص مسلمانوں کی آنکھیںمغربی افکار سے چندھیا سی گئی تھیں، ہر سمت زوال اور پستی کا احساس تھا اور ذہنی مرعوبیت کی حد یہ تھی کہ ہر شعبہ حیات میں مغرب کی تقلید ناگزیر سمجھی جارہی تھی۔ اقبال اگرچہ خود بھی استاد ان فرنگ سے فیضیاب ہو چکے تھے اور ان کے خمستان فکر سے مدتوں سیراب ہوتے رہے۔ مگر اسے اتفاق کہیے یا سعادت ازلی کی یاوری و مساعدت کہ انھیں جس قدر مغربی افکار و خیالات کے مطالعہ کا زیادہ موقع ملتا گیا، اسی قدر ان کے ذہن میں مغربی تہذیب کے خلاف ناقدانہ ردِّ عمل ترقی پذیر ہوتا گیا۔ اسی طرح کی صورت برگساں کو بھی پیش آئی تھی جس قدر وہ ہربرٹ سپنسر کے مادہ پرستانہ خیالات کا گہرا مطالعہ کرتاجاتا تھا اسی قدر اس کے دل میں مادیت کے خلاف نفرت کا جذبہ بڑھتا جاتا تھا۔ اقبال جس قدر بھی مغربی افکار کے قریب ہوئے، اسی قدر مغربی نظریات سے منحرف ہوتے گئے۔ ارمغان حجاز اقبال کے پختہ افکار کی نمائندہ کتاب ہے۔ اس میں مغرب کے خلاف ان کی نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ مے از میخانہ مغرب چشیدم بجان من کہ درد سر خریدم نشستم بانکویانِ فرنگی ازاں بے سوز تر روز ے ندیدم مشرق کی بے چارگی و در ماندگی کے احساس نے رفتہ رفتہ اقبال کو نئے سیاسی عقائد کی تشکیل پر آمادہ کیا اور یہ نتیجہ تھا در حقیقت مشرق و مغرب کے افکار کے آزادانہ مقابلہ و موازنہ اور امتزاج و اختلاط کا یہ ایک نیا فلسفہ سیاست تھا جو اقبال سے مخصوص تھا یہ افلاطون،ارسطو، مشیافلی، ہابز، کانٹ اور روسو وغیرہ کے تصورات پر مبنی نہ تھا بلکہ اس کی تعمیر و ترتیب میں قرآن و حدیث، غزالی و رازی ، ماوری و نظام الملک، ابن حزم اورا بن خلدون وغیرہ کے خیالات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور اس کی تشکیل و ترکیب میں ان سب باتوں نے مل کر حصہ لیا ہے۔ اقبال کے سیاسی فکر کا ان کی زندگی میں کچھ زیادہ خیر مقدم نہیں ہوا۔ ملک کی فضا اِن خیالات کے لیے آہستہ آہستہ ساز گار ہوئی۔ وہ گویا حکیم فردا تھے۔ اگرچہ شاعر کی حیثیت سے ان کا مقام تسلیم کیا جاچکا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ان کی تعلیمات کی صداقت کی کچھ علامتیں خود ان کی زندگی ہی میں نمودار ہو گئی تھیں اور کچھ آہستہ آہستہ اب منظر عام پر آرہی ہیں۔ خصوصاً قیام پاکستان انھیں کے فکر کی عملی صورت ہے لیکن یہ بات کسی حد تک افسوس ناک ہے کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک جماعت میں ان کی تعلیمات کے بارے میں اب بھی تشکیک پائی جاتی ہے اور یہ وہ رجحان ہے جس کو اقبال نے اپنی عمر کے آخری حصے میں بہت محسوس کیا۔ انھوں نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ وہ گروہ جسے وہ ایک عرصے سے مخاطب کر رہے ہیں سوزیقین سے خالی ہے۔ ارمغان حجاز، ضرب کلیم اور بال جبریل میں مسلمانوں کے سب طبقوں علی الخصوص تعلیم یافتہ گروہ کی طرف سے انھوں نے مایوسی اور بے دلی کا اظہار کیا ہے، وہ ذہنی طور پر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتے رہے۔ ماحول سے اجنبیت کا احساس ان پر غالب رہا۔ چنانچہ ارمغان حجاز میں لکھا ہے: شریک درد و سوز لالہ بودم ضمیر زندگی رادا نمودم ندانم باکہ گفتم نکتۂ شوق کہ تنہا بودم و تنہا سرودم ــــــــــــ غریبم درمیان محفل خویش تو خود گوبا کہ گویم مشکل خویش؟ ازاں ترسم کہ پنہانم شود فاش غم خود رانگویم بادلِ خویش ــــــــــــ چورخت خویش بربستم ازیں خاک ہمہ گفتند بامن آشنا بود! ولیکن کس ندانست ایں مسافر چہ گفت و با کہ گفت واز کجا بود اور نہیں کہا جاسکتا کہ اقبال کی غایتوں سے اس کی قوم کے دانشور اب بھی آگاہ ہوئے ہیں یا نہیں۔ اقبال کی غایتیں اسلامی ہیں مگر قوم کے اہل فکر اقبال کو مغربی غایتوں کی طرف کھینچ رہے ہیں جن کی اقبال نے سخت مخالفت کی ہے۔ اقبال کے سیاسی فکر کا نشوو ارتقا : عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال کا سیاسی نصب العین اکثر بدلتا رہااور ان کے افکار میں مختلف حالات کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ چنانچہ اسرار خودی پر تبصرہ کرتے ہوئے انگریزی رسالہ ’’اتھینیم‘‘ کے ایک مضمون نگار مسٹر فاسٹرنے یہی کہا تھا کہ اقبال کا قدم کسی ایک راستے پر نہ رہے گا۔ اس اعتراض کی تائید میں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال ایک زمانے میں ’’ہندوستانیت‘‘ کے جذبات سے سرشار تھے۔ جس سے متاثر ہو کر انھوںنے ’’تصویر درد‘‘ ’’ترانہ ہندی‘‘ ’’نیا شوالہ‘‘ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ جیسی قومیت اور وطنیت سے لبریز نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد ان کے خیالات میںتبدیلی آئی اور انھوں نے وطنی عقیدت سے بیزار ہوکر ’’بلاد اسلامیہ‘‘ ’’ترانہ ملی‘‘ خطاب بہ جوانانِ اسلام، ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ وغیرہ ملی اور خالص اسلامی نظمیں لکھیں۔ اس کے بعد سرمایہ و محنت کی کش مکش میں اشتراکی خیالات کا اظہار کیا۔ پھر جب اٹلی میں فاشزم سے متاثر ہوئے تو اس کی بھی تعریف کی۔ معترضوں کے خیال میں اقبال لحظہ بہ لحظہ بدلتے اور نئے نئے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ اس ضمن میں یہ لوگ اقبال کے خیالات میں کچھ تضاد بھی بتاتے ہیں۔ مثلاً فاشزم اور سوشلزم دونوں کی تعریف فقر اور مادی استیلائ، دونوں کی حمایت وغیرہ وغیرہ بظاہر اس اعتراض کی صداقت سے انکار نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس سے اتنا پتہ تو ضرور چلتا ہے کہ اقبال کے سیاسی تفکر کی پختگی میں ان تجربات کا حصہ کثیر بھی شامل ہے جو انھیںاوضاع و اطوار سیاستِ عالم کے عمیق مطالعے سے حاصل ہوئے۔ اس میں شبہ نہیں، کہ اقبال ایک زمانے میں بعض وطنی تحریکات کے موید اور حامی تھے۔ لیکن ان کے یہ خیالات زیادہ تر ملکی فضا اور اہل مغرب کی کتابوں کے مطالعہ پر موقوف تھے جو انھیں ایسے مصنفین سے حاصل ہوئے جو عموماً قومیت، جمہوریت اور وطنی عصبیّت کے معتقد تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ تہذیب فرنگ کی تابانی کے سامنے بڑے بڑے خودی آشنا اور خود آشنا بھی آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں۔ اقبال بھی قدرے اس سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ مگر علوم مشرق کے گہرے مطالعہ، اسلام اور مشرقی تمدن کی روح کے صحیح ادراک، یورپ کے ردعمل اور تمدن مغرب کے قریبی تجزیے نے اس سے جلد بدظن کر دیا۔ واے برسادگیِ ماکہ فسونش خوردیم رہزنے بود کمیں کرد و رہِ آدم زد اقبال کے سیاسی فکر کے مآخذ : اب سب سے پہلے اس سوال پر غور ہونا چاہیے کہ اقبال نے اپنے چمن فکر کی آبیاری کے لیے کن کن سرچشموں کی جانب توجہ کی اور ان کے تخیل کو موجودہ قالب میں ڈھالنے میں کون کون سے زبردست اثرات کار فرما ہوئے؟ عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال نے بڑی حد تک ولیم بلیک، نطشے اور برگسان سے استفادہ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے اقبال اور نطشے یا اقبال اور برگساں میں صرف جزوی اتحاد خیال پایا جاتا ہے ظاہر ہے کہ صرف معمولی سی وحدت خیالی اس امر کے لیے ایک محکم ثبوت نہیں بن سکتی کہ اقبال نے تمام تر خیالات ان فلسفیوں سے لیے ہیں۔ یہ تو مسّلم ہے کہ وہ مغربی دانش و حکمت سے مستفید ہوئے اور اس پر تنقیدی نگاہ بھی ڈالی جس کے تحت وہ مغربی دانش مندوں میں سے بعض کے ساتھ بعض معاملات میں متحد الخیال تھے، اور بعض سے اختلاف رکھتے تھے۔ خالص فلسفہ کے بارے میں نطشے، فشتے اور برگسان کے افکار اقبال کے لیے بہت کچھ باعث کشش رہے۔ چنانچہ فلسفہء خودی کی ترکیب میں احساس خودی کے متعلق خیالات فشتے سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔ جدوجہد اور استحکام خودی کا فلسفہ نطشے کا ہے، اسی طرح عشق (بطور سرچشمہ علم) اور زمان کے متعلق بہت کچھ برگساں کے زیر اثر لکھا گیا ہے۔ یہ تو رہا عام فکر، اقبال کے نظریہ سیاست کے بھی بہت سے اجزا ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جزو کے بارے میں وہ ہم عصر مغربی مصنفین کے کسی نہ کسی رنگ میں ضرورمتاثر ہوئے، جمہوریت کو پچھلی صدی کے اواخر میں بہترین نظام حکومت سمجھا جاتا تھا۔ مگر اس صدی کے اوائل میں یورپ کے بعض مفکرین نے اس طرز حکومت پر شدید حملے کئے۔ جمہوریت کے ان معترضوں میں نطشے (۲)، لی بان(۳)، فان ٹراٹسکی(۴)، سپنگلر(۵)، سٹوڈرڈ(۶)، میکڈوگل (۷)خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اقبال نے جمہوریت کی جو مخالفت کی اس کے اسباب وجوہ اگرچہ مختلف ہیں تاہم فلاسفہ یورپ سے ان کے مئوقف کو بڑی تقویت نصیب ہوئی ہے۔ مشرقی اور اسلامی علوم کے متعلق بھی علامہ اقبال کا رویہ ناقدانہ تھا۔ چنانچہ سوسائٹی کو مردہ کرنے والی ادبیات کے وہ دل سے مخالف تھے۔ لیکن ان تمام بزرگان دین سے انھیں عقیدت تھی جن کے افکار حیات بخش ہیں۔ ان سب میںمولاروم کو اولین اہمیت حاصل ہے جن کی مثنوی ایک صحیفۂ ہدایت (۸) ہے اقبال جاوید نامہ میں مولانا روم کو اسی طرح اپنارہنما تسلیم کرتے ہیں۔ جس طرح دانتے نے درجل کو اپنا رہنما تسلیم کیا تھا یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اقبال نے پیر روم کے فکر روشن سے جس قدر روشنی حاصل کی ہے۔ اتنی کسی شمع سے انھیں دستیاب نہیں ہوئی۔ بیاکہ من زخم پیر روم آوردم مے سخن کہ جواں تر زیادئہ عنبی است حقیقت یہ ہے کہ مشرق و مغرب کے علوم کے امتزاج نے اقبال کو اپنے لیے ایک نئی اور مستقل شاہراہ اختیارکرنے میں مدد دی، انھوں نے اسلامی فلسفہ و تصوف کو مغربی دانش و حکمت کے معیار پرپرکھا اور پھر باہم مقابلے سے ایک معتدل اور زندہ حکمت پیدا کی جس پر مغرب کے بجاے مشرق کا اثر زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ اقبال لکھتے ہیں: ’’مقام تاسف ہے کہ مغرب اسلامی فلسفہ سے اس قدر ناآشنا ہے کہ مجھے اگر اس بحث پر ایک ضخیم کتاب لکھنے کی فرصت ہوتی تو میں یورپ کے فلاسفہ کو بتا سکتا کہ ہمارے اور ان کے فلسفہ میں کس بڑی حد تک اشتراک ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں: ’’میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیاء و حکماء ہی کی تعلیمات کا تکملہ ہے بلکہ بالفاظ صحیح تریوں کہنا چاہیے کہ یہ جدید تجربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے‘‘۔(۹) اقبال کا پیغام سیاسی ہے یا اخلاقی : تمہیدی مباحث میں سے اب صرف ایک بحث باقی ہے جس کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اقبال کا پیغام محض سیاسی حیثیت رکھتا ہے یا اس کی بنیادیں روحانی و اخلاقی ہیں۔ بعض حضرات نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’اقبال کا کلام تمام تر جارحانہ سیاسی مفہوم رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے فلسفیانہ اشعار اور شاعرانہ غزلیات کا مفہوم بھی سیاسی ہے۔ بقول ڈکنسن ‘‘ یہ ایک شگون نحس ہے جو فساد، ہلاکت اور خوں ریزی کا پتہ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ استعمار پسند یورپ جب مشرقی اقوام میں زندگی اور احساس کی معمولی سی علامت بھی دیکھ پاتا ہے تو اس پر ایک ارتعاش طاری ہو جاتا ہے۔ اس کا ذہن مفلوج ہو جاتا ہے اورمشرق کی مظلومیوں کے ردعمل کا تخیل انتقام کا ایک کا بوس بن کر اس کے دماغ پر مسلط ہو جاتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی نے جب مشرق کو متحد ہونے کی دعوت دی تو یورپ نے اس جنبش اور اثر زندگی کو بھی ایک خوفناک تحریک کی شکل میں پیش کیا تھا اورموہوم خطرے کی خیالی تصویریں بنا بنا کر اس کو مہیب صورت دے دی تھی۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تھا کہ مغرب اپنی ان استعماری زنجیروں کو زیادہ سخت اور گراں کر دے جن سے اس نے مشرق کی جان ناتواں کو جکڑ رکھا ہے نکلسن اور فاسٹر یا ڈکنسن جو بھی ہوں انھیں اقبال کی تعلیم کی صورت میں مشرق سے ایک ایسی گونج سنائی دی جو فطرت انسانی کے عمیق اور پختہ ادراک پر مبنی تھی۔ جس کا اثر یقینی طور پر بجز اس کے اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ مشرق زندگی کے اس احساس سے بہرہ ور ہو گا جس سے شعور میں انقلاب پیدا ہونا یقینی ہے، اور جس کے اثرات دوررس اور جس کے نتائج ہمہ گیر ہوں گے اسی وجہ سے اقبال کے مغربی نقادوں کے نزدیک پیام اقبال کا مفہوم جارحانہ طور پر سیاسی ہے۔ لیکن اس بارے میں علامہ اقبال اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:۔ ’’میں اس کش مکش کا جو مفہوم لیتا ہوں وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی ۔ در آں حا لیکہ نطشے کے پیش نظر اس کا سیاسی نصب العین ہے‘‘۔ پھر پیام مشرق کے دیباچے میں اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’اقوام مشرق کو یہ محسوس کرلینا چاہیے کہ زندگی اپنے حوالی میں کسی قسم کا انقلاب نہیں پیدا کر سکتی۔ جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو۔ کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے اِنّ اللّٰہ لا یَغْبیْر مَابِقومٰ حتٰی یِغَیّرِ و امابِا نفْسٰھِمْ کے سادہ اور بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے زندگی کے جزوی اور اجتماعی دونوں پہلوئوں پر حاوی ہے، اور میں نے اپنی فارسی تصنیفات میںاسی صداقت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے ‘‘۔ اقبال نے جس اندرونی کش مکش کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس سے مراد وہ روحانی اور اخلاقی انقلاب ہے جو اقوام کے شعور کو بدل کر ان کے ضمیر کو ایک ایسے قالب میں ڈھال دیتا ہے جس سے ’’خودی‘‘ کے راگ نکلتے ہیں۔ ایسے انقلاب کو بروئے کار لانے کے لیے کش مکش ضروری ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے میں یہ عرض کروں گا کہ اقبال نے مغرب کے کلچر اور تمدن کی اس بنا پر پیہم مخالفت کی ہے اس میں عقلیت اور مادیت کے عناصر اصولی اور اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ بخلاف اس کے اقبال فقر و عشق کو زندگی کی اساس سمجھتے ہیں اور اسی ایک چیز کو کائنات کی ترّقی و صحت کا باعث خیال کرتے ہیں۔ مغربی کلچر کے خلاف اقبال کو یہی شکایت ہے کہ اس کے تمام شعبے اسی مرض مادیت و عقلیت سے متاثر ہیں جس کی وجہ سے تہذیب یورپ روز بروز کمزور ہو رہی ہے۔ مشرق خود فراموشی کے عالم میں جب انہی مہلک جراثیم سے متاثر ہوتا ہے تو اقبال کو رنج ہوتا ہے۔ ان کے دل میں بے قراری و اضطراب کے طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ طوفان اشکوں اور نالوں کی صورت، امڈ پڑتے ہیں۔ یہی نالے ہیں جو پیام مشرق ، بانگ درا، جاویدنامہ، زبور عجم اور ارمغان حجاز کا مخصوص جامہ پہن کر باہر آتے ہیں اور دنیا کو متاثر کرتے ہیں ان سب تصانیف میں ہم اقبال کو مغرب کی مادہ پرستی اور روحانیت سے بیگانگی پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اقبال کی نظر، مغرب کے سیاسی استیلا ء اور ملک گیری پر بھی رہتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ رنج انھیں مغرب کی روحانی علالتوں اور اس کی تہذیب میں اخلاقی عنصر کی کمی دیکھ کرکہ ہوتا ہے اور یہ دیکھ کر سادہ لوح مشرق بھی مغرب کے انہی روحانی امراض سے متاثر ہو رہا ہے اقبال اور بھی غم میں ڈوب جاتے ہیں۔ غرض اقبال کے پیغام کے مقاصد دوگانہ ہیں۔ اولاً یہ کہ وہ مشرق کو مغرب کی روحانی بیماریوں سے بچائے دوم یہ کہ یورپ کو بھی اس مرض مہلک سے آگاہ اور خبردار کر دے۔ یہاں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ پیام مشرق کے باب ’’نقش فرنگ‘‘ سے اچھی طرح واضح ہو سکے گا۔ جس کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں۔ ازمن اے بادِ صبا گوی بداناے فرنگ عقل تابال کشو دست گرفتار ترست برق را ایں بہ جگرمی زندآں رام کند عشق از عقل فسوں پیشہ جگر دارترست چشم جُز رنگ گل و لالہ نہ بیند درنہ آنچہ در پردۂ رنگ است پدیدار ترست عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری! عجب اینست کہ بیمارِ تو بیمار ترست دانش اندوختہٖ دل ز کف اندا ختۂٖ آہ ازاں نقد گراں مایہ کہ درباختۂٖ زبور عجم میں فرماتے ہیں:۔ بُرا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی خردکی معموری ضرب کلیم کے یہ اشعار بھی قابلِ توجہ ہیں:۔ صیاد معانی کو یورپ سے ہے نومیدی دل کش ہے فضا لیکن بے نافہ تمام آہُو ــــــــــــ مردہ لادینیٔ افکار سے افرنگ میں عشق عقل بے ربطیٔ افکار سے مشرق میں غلام یہ اور اس قسم کے بہت سے اشعار اسی ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اقبال کو یورپین کلچر کی روح سے سخت نفرت تھی ۔ یہ نفرت لینن ، ایچ جی ڈیلز، برنارڈ شا اور سپنگلر کی نفرت سے جداگانہ ہے کیونکہ یہ لوگ اس نسخہ شفا کو حاصل نہیں کر سکے، جو صرف اسلام کے پاس ہے ۔ اقبال کے پاس ایک ایسا نظام فکر موجود ہے جو ہرلحاظ سے مغرب کے امراض کا علاج ثابت ہو سکتا ہے ۔ کاش مغرب اقبال کی آواز سن سکے۔ لیکن اگر مزعومہ بلندی و تفا خرکا خیال باطل اہل مغرب کو ایک مشرقی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے مانع آئے تو پھر اپنے ہی ایک ہموطن برگسان سے ان امراض اور پریشانیوں کا علاج دریافت کر لیں جو اقبال کی زبان میں یہ کہتا ہوا سنائی دے گا ۔ نقشے کہ بستہ ای ہمہ اوہام باطل است عقلے بہم رساں کہ ادب خوردۂ دل است اقبال کے فلسفۂ سیاست کے اہم اجزا : اس تمہید کے بعد میں اقبال کے فلسفہ سیاست و تمدّن کے اہم اجزا کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ ایک کامل سوسائٹی : اقبال کا سب سے بڑا سیاسی تخیل یہ ہے کہ وہ ایک زندہ اور بہ ہمہ و جوہ کامل سوسائٹی(۱۰) کا خواب دیکھتا ہے جس کے سب افراد مافوق الانسان ہونگے جن میں خدائے لم یزل کی صفات زیادہ سے زیادہ موجود ہوں گی۔ یہ نئی سوسائٹی مساوات اخوت اور یک جہتی کا زندہ ہستی کا زندہ نمونہ ہو گی اور اس میں مادیت اور عقلیت سے پیدا شدہ خرابیاں بالکل مفقود ہوں گی۔ اقبال کے خیال میں ایسی زندہ اور باعمل جماعت کسی ایسے نظام کی بنیادوں پر اٹھے گی جو اپنے زاویہ نگاہ میں مغربی اقوام کی طرح تنگ نظر اورکوتاہ بین نہ ہو گی ۔بلکہ اس کا تصور انسان اور کائنات کے متعلق زیادہ انسانی زیادہ وسیع زیادہ سے زیادہ روحانی ہو گا۔ اس وقت دنیا میں جس قدر ترقی پذیر نظام معاشرت و سیاست موجود ہیں۔اقبال ان میں اسلامی نظام کو اپنے خاص نصب العین اور اپنے خاص تصور ملت کے قریب تر سمجھتا ہے اس میں شبہ نہیں کہ اقبال ایسے فلسفی اور مفکر کا کسی خاص جماعت اور قوم کو یوں سراہنا بادی النظر میں اکثر لوگوں کو عجیب معلوم ہوتا ہے بلکہ یورپ اور ہندوستان کے بعض معترضین کواقبال کی یہ بات سخت ناپسند تھی چنانچہ مسٹر ڈکنسن، فاسٹر اور نکلسن اس تصور پربہت چیں بجیں معلوم ہوتے ہیں لیکن جیسا کہ اقبال خود اپنے ایک مقالے میں وضاحت فرما چکے ہیں ان کا یہ تخیل کسی اندھی جامد تقلید اور خود اعتقادی کا نتیجہ نہیں بلکہ عملی سہولتوں اور نظام اسلامی کے ترقی پذیر ممکنات کی موجودگی نے انھیں اس یقین پر مجبورکردیا ہے کہ دنیا کے بے شما ر نظام ہائے زندگی میں سے اپنی زندہ اور کامل سوسائٹی کی تعمیر کے لیے صرف اسلام ہی کو بطور بنیاد عمل اپنے پیش نظر رکھیں۔اقبال نے اپنی ساری تصانیف میں ’’ ملت اسلام‘‘ کو صرف اپنے ہی خاص زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی اور جا بجا اس قوم کو مستقبل کی بہترین قوم قرار دیا ہے اور سب سے بڑی دلیل جو اس سلسلے میں پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں وسیع ترین انسانی برادری اور قوم کا جو خیال ’’ ملت اسلام‘‘ نے پیش کیا ہے وہ کسی اور نظام اور گروہ میں نہیں ملتا۔اسلام کی حدود بہت وسیع ہیں اس کی ماہیت غیر محدود اور لامتناہی ہے اس کا وجود زمان و مکان کی قیود سے آزاد ہے اور جیسا کہ اقبال خود فرماتے ہیں(۱۱) اسلام تمام قیود سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اس کی قومیت کا دارومدار ایک خاص تنزیہی تصور پر ہے جس کی تجسیمی شکل وہ جماعت اشخاص ہے جس میں بڑھنے اور پھیلتے رہنے کی قابلیت طبعاً موجود ہے اسلام کی قومیت کا تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے اس کا اصل اصول مظاہر کائنات کے متعلق ایک ایسا اتحاد خیال ہے جو سب انسانوں کو ایک رشتہ وحدت میں پرو سکتا ہے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس کے ماننے والے افریقہ کی کالی دنیا سے متعلق ہیں۔ یاریگستانِ بطحا کے شجاع عرب یا گنگا کی وادیوں میں بسنے والے آریہ ہیں یا پامیر کے بلند کوہساروں کے مکین کوئی زمینی قیدان میں تفرقہ نہیں ڈال سکتی کوئی مادی جُدائی ان کو جدا نہیں کر سکتی نسل یا زبان کا کوئی امتیاز ان میں افتراق پیدانھیں کر سکتا’’ یہی معاشرتی قانون ہے جس کی وسعت اور ہمہ گیری کا اقبال کویقین ہے اور یہی نکتہ ہے جسے اقبال سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ انہی خیالات کو اقبال نے رموز بے خودی(۱۲) میں اپنے خاص انداز میں پیش کیا ہے چنانچہ یہ موضوع کہ ملت اسلامیہ کا دارومدار توحید و رسالت ہے اس لیے مکان (Space) کے نقطہ نظر سے وہ لاانتہا ہے ان اشعار میں زیر بحث ہے ۔ جو ہر ما با مقامے بستہ نیست بادۂ تندش بجامے بستہ نیست ہندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گل اندام باست قلب ما ازہندو روم و شام نیست مرز و بوم اوبجز اسلام نیست عقدۂ قومیت مسلم کشود از وطن آقای ما ہجرت نمود حکمتش یک ملّت گیتی نورد بر اساس کلمۂ تعمیر کرد تاز بخششہاے آں سلطان دیں مسجد ما شد ہمہ روے زمین صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو اقبال کے اس خیال کا یورپ میں زیادہ خیر مقدم نہیں ہوا لیکن با ایں ہمہ تعصب یورپ میں ایسے اہل دل موجود ہیں جو اس تصور کے قائل ہیں مثلاً پروفیسر ہرخرونیہ نے ’’اسلام اور مسئلہ نسل‘‘ پر مضمون لکھتے ہوئے ان تمام امور کا اعتراف کیا ہے اور ان کے علاوہ بے شمار دوسرے اہل قلم نے اسلام کی اس برتری کا اقرار کیا ہے ۔ ملت اسلام جس طرح مکانی لحاظ سے لامحدود ہے اسی طرح زمانی معیار سے بھی اس کی کوئی حد مقرر نہیں چنانچہ رموز میں ہے ۔(۱۳) گرچہ ملّت ہم بمیرد مثلِ فرد از اجل فرماں پذیرد مثلِ فرد اُمّتِ مسلم ز آیاتِ خدا ست اصلش از ہنگامۂ قَالُو ابلٰی ست از اجل ایں قوم بے پروا ستے استوار از نُحْنُ نَزَّلْنَا ستے ذکر قائم از قیامِ ذاکر است از دوامِ او دوامِ ذاکر است تا خُدا اَنْ یُّطْفِئُوْا فر مودہ است از فسردن ایں چراغ آسودہ است اُمّتے در حق پرستی کاملے اُمّتے محبوبِ ہر صاحبدلے حق بروں آورد ایں تیغِ اصیل از نیامِ آرزو ہاے خلیلؑ تا صداقت زندہ گردد از دمش غیرِ حق سوزد ز برق پیہمش ماکہ توحید خدا را حجتیم حافظِ رمزِ کتاب و حکمتیم آسماں باماسرِ پیکار داشت در بغل یک فتنۂ تاتار داشت بند ہا از پاکشود آں فتنہ را برسرِ ما آزمود آں فتنہ را فتنۂ پامالِ راہش محشرے کشتۂ تیغِ نگاہش محشرے خفتہ صد آشوب در آغوش او صبحِ امروزے نزاید دوشِ او سطوتِ مُسلم بخاک و خوں تپید دید بغداد آنچہ روما ہم ندید تو مگر از چرخِ کج رفتار پرس زاں نو آئینِ کہن پندار پرس آتشِ تاتاریاں گلزارِ کیست؟ شعلہ ہائے او گلِ دستارِ کیست؟ زانکہ مارا فطرت ابراہیمی است ہم بہ مولیٰ نسبت ابراہیمی است از تہِ آتش بر اندازیم گُل نارِ ہر نمرود را سازیم گُل شعلہ ہاے انقلابِ روزگار چوں بباغ ما رسد گردد بہار رومیاں را گرم بازاری نماند آں جہانگیری جہانداری نماند شیشۂ ساسانیاں درخوں نشست رونقِ خمخانۂ یوناں شکست مصر ہم در امتحاں ناکام ماند استخوانِ او تہِ اہرام ماند درجہاں بانگِ اذاں بودست و ہست ملّتِ اسلامیاں بود ست و ہست عشق آئینِ حیاتِ عالم است امتزاجِ سالماتِ عالم است عشق از سوزِ دِل ما زندہ است از شرارِ لا اِلٰہ تابندہ است گرچہ مثلِ غنچہ دلگیریم ما گلستان میرد اگر میریم را یہی حکمت جو اشعار میں بیان ہوئی ہے اقبال کے خطبات مدراس میں بھی پیرایۂ نثر میں ادا ہوئی ہے ۔ یہ خیال کہ ملت اسلام کی زمانی نقطۂ نظر سے کوئی انتہا نہیں ، اس وقت تک صحیح شکل اور قالب نہیں اختیار کر سکتا جب تک اس کے قوانین کی۔ ہر زمانے میں نئی تعبیر و توجیہہ نہ کی جائے صرف یہی ایک اصول، اسلامی نظام کو فرسودہ ، پرانا اور ناقابل عمل ہونے سے بچا سکتا ہے اور اسی کی بدولت اسلام انسانی معاشرت کے ارتقا کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ چیز اسلام کا اصول ’’اجتہاد‘‘ ہے جو مفکرین کو نئے نئے مسائل کے حل اور مختلف معاملات میں اصول شریعت کی زبانی تعبیر کا اختیار دیتا ہے۔لیکن یہ یاد رہے کہ اقبال ’’ عالمان کم نظر‘‘ کے اجتہاد کے مخالف اور ہر کہ ومہ کے ’’ اجتہاد‘‘ کو ملت کے لیے بے حد مضر سمجھتے ہیں۔ غرض یہ وہ آئیڈیل ارتقا پذیر سوسائٹی ہے جس کی تعمیر اقبال کی زندگی کا مقصد ہے ۔ ڈاکٹر نکلسن جنہوں نے اسرار خودی کا ترجمہ انگریزی زبان میں کیا ہے شکایت کرتے ہیں کہ ان خیالات میں اقبال ایک پرجوش مذہبی مسلمان معلوم ہوتے ہیں،نہ کہ فلسفی۔ انھیں ان کا ہر قول اور ہر خیال ایک مسلمان کا قول اور خیال معلوم ہوتا ہے پروفیسر نکلسن کے اس قول کی تائید میرے لیے مشکل ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ ڈاکٹر نکلسن جب ان خیالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے سامنے موجودہ زمانے کی مسلمان سوسائٹی ہوتی ہے ۔ حالانکہ اقبال کی نگاہ مذہب اسلام کے ان ممکنات اور ترقی پذیر عناصر پر ہے جو اسلام کی فطرت میں موجود ہیں لیکن انھیں پھلنے پھولنے کا موقعہ نہیں ملا اور کوئی تعجب نہیں کہ خود بقول اقبال مسلمان کی فتوحات ہی اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہوں۔ حقیقت میں ’’ اسلام‘‘ کائنات کے ضمیر میں ہنوز ایک تخیّل کا درجہ رکھتا ہے اور فطرت کی قوتیں اپنے عمل اور رد عمل سے اس تخیل کو وجود کی شکل دے رہی ہیں۔ ہنوز اندر طبیعت می خلد، موزوں شو دروزے اقبال کے اس تصور ملت پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اصولی طور پر تو اقبال کا فلسفہ عام ہوتا ہے لیکن اس کو ایک خاص قوم سے وابستہ کر دینا تنگ نظری ہے اس کا جواب خود اقبال کی زبانی سننا چاہیے۔ ’’شاعری اور فلسفہ میں انسانی نصب العین ہمیشہ عالمگیر ہوتا ہے لیکن جب اس کی تحصیل عملی زندگی میں کی جائے گی تو لامحالہ اس کا آغاز کسی مخصوص جماعت سے کرنا ہو گا جو اپنا ایک مستقل اور مخصوص موضوع رکھتی ہو اور جس کے حدود میں تبلیغ عملی و لسانی سے وسعت پیدا ہو سکتی ہو یہ جماعت میرے عقیدے میں اسلام ہے۔‘‘ طوالت کے خوف سے اقبال کی مجوزہ سوسائٹی کے مختلف ترکیبی اجزا پر مفصل تبصرہ نہیں کیا جا سکتا تاہم اہم مباحث کی طرف مجمل اشارات نامناسب نہ ہوں گے۔ انسان کامل : اقبال کے نزدیک ایسی سوسائٹی کے لیے ایسے آئیڈیل (مثالی) افراد کی ضرورت ہوگی۔ جو اس نظام کو کامیاب بنا سکیں یہ آئیڈیل افراد ایسے ہوں گے۔جن میں خودی کی تکمیل ہو چکی ہو گی خودی اقبال کے نزدیک ایک’’ لغوی نقطہ‘‘ ہے جو محبت سے پیدا ہوتا ہے یہی محبت خودی کی تکمیل کا باعث ہو گی اور یہی خودی افراد میں بے خوفی اور مردانگی پیدا کرے گی۔ خودی نظام عالم کی بنیاد ہے جس کے بغیر عناصر ترکیب نہیں پا سکتے ۔ می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل خیزد انگیزد پرد تابد رمد سوزد افروزد و کشد میرد دمد ــــــــــــ وا نمودن خویش را خوے خودی ست خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی ست چونکہ زندگی خودی کی تکمیل کا نام ہے اس لیے سختی اور سخت کوشی استواری اور طاقت زندگی کی ضروریات میں سے ہے۔ افراد جس قدر کش مکش اور تحمل و برداشت کے عادی ہوں گے اسی قدر ان میں خودی کی تکمیل زیادہ ہو گی۔ لیکن خودی کے تسلسل اور بقا کے لیے مقاصد اور نصب العین کا ہونا ضروری ہے زندگی جستجوئے مسلسل میں پوشیدہ ہے اور آرزئوں اور کوششوں کا نام کامیاب زندگی ہے جب تک آرزو اور مقاصد کو حاصل کرنے کا جنون نہ ہو گا۔ زندگی پختہ تر نہ ہو گی ۔(۱۴) زندگی درجستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است دِل نہ سوزِ آرزو گیرو حیات غیر حق میرد چوادگیرد حیات چوں زتخلیق تمنا بازماند شہپرش بشکست و از پرواز ماند اقبال ان سب عناصر کے سخت مخالف ہیں جو خودی کو کمزور کرتے ہیں وہ افلاطون کے گوسفندانہ فلسفے کو اسی لیے ناپسند کرتے ہیں کہ اس نے موت کو زندگی کا انجام قرار دیا ہے اقبال کے نزدیک ایسی تعلیم خودی کو کمزور کرتی ہے اور خودی کو کمزور کرنے کا یہ حربہ ان اقوام نے ایجاد کیا ہے جو خود کمزور ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ طاقتور بھی کمزور ہو جائیں اقبال نے ایسی تعلیم کی قباحتوں کو ایک حکایت کے ضمن میں بیان کیا ہے جس میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ ایک شیر نے بکریوں کے اسی قسم کے خودی کش و عظ سے متاثر ہو کر گوشت کھانا ترک کر دیا تھا جس کے معنی شیر کی موت اور تباہی کے سوا کچھ نہ تھے۔ آنکہ کر دے گر سفنداں راشکار کرد دین گوسفندی اختیار با پلنگاں ساز گار آمد علف گشت آخر گوہر شیری خرف از علف آں تیزی دنداں نماند ہیبت چشم شرار افشاں نماند آں جنون کوشش کامل نماند آں تقاضائے عمل در دل نماند شیر بیدار از فسونِ میش خفت انحطاط خویش را تہذیب گفت نطشے کی طرح ا قبال بھی استیلا، قوت اور جہاد کو خودی کی تربیت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں نطشے کہتا ہے ’’ نیکی قوت اور ہمت مردانہ کا نام ہے بلکہ ہر اس شے کا نام ہے جو انسانوں میں استیلاء اور قوت کے جذبات کو ترقی دے اور بدی ہر وہ چیز ہے جو کمزوری سے پیدا ہو‘‘ اقبال قدم قدم پر قوم کو فلسفۂ شاہین سکھاتے ہیں ۔ ممولے اور کبوتر کی زندگی ان کے نزدیک ارذل الحیات ہے ضعیفی ایک ایسا جرم ہے جس کی سزا مرگ مفاجات کے سوا کچھ نہیں جھپٹنا پلٹنا، پھر جھپٹنا اسی میں لذت زندگی ہے محکمی اور استواری کشاد کا ر کا ذریعہ ہیں’’ خوئے حریری‘‘ قوموں کے درس کا پیش خیمہ ہے خطروں میں جینا اور عافیت گوشی سے اجتناب ترقی کے لیے عروۃالوثقیٰ ہے، غرض سختی اور سخت گوشی عین حیات ہے جس کے بغیر زندگی موت میں تبدیل ہو جاتی ہے اقبال کے نزدیک اسی کا نام جہاد ہے اور مسلمانوں کے اوصاف چہارگانہ یہ ہیں۔ قہاری و غفّاری و قدوسی و جبروت وہ اس جہاد کو زندگی کے لیے ضروری خیال کرتے ہیں لیکن کون سا جہاد؟ ساری دنیا کوغلام بنانے کے لیے نہیںبلکہ کلمۂ توحید کی تبلیغ کے لیے جوع الارض اور دنیا کی تسخیر کا جہاد اقبال کے نزدیک حرام ہے ؎ ہرکہ خنجر بہر غیر اللہ کشید تیغ اوادر سینۂ او آرمید اس جہاد کے سلسلے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ اقبال کا منتہا صرف مادی قوت نہیں بلکہ روحانی قوت بھی ہے جیسا کہ خود اقبال ایک مقام پرکہتے ہیں۔ ’’جدید سائنس سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ قوت مادی کا ہر سالمہ ہزاروں سال کے ارتقا کے بعد اپنی موجودہ ہیئت تک پہنچا ہے ۔ اس پر بھی اسے دوام نہیں اور وہ خود انحلال قبول کر لیتا ہے ۔ بالکل یہی حال روحانی قوت کا ہے ۔ یعنی فرد انسانی بے شمار قرنوں کے تنازع اور جدوجہد کے بعد اس مرتبے تک پہنچتا ہے ۔ اور پھر بھی آسانی کے ساتھ اختلال قبول کر لیتا ہے ۔ اس لیے اگر اپنے وجود کو برقرار رکھنا ہے تو لازم ہے کہ گزشتہ زندگی میں جو تجربات حاصل ہوئے ہیں اور ماضی میں جو قوتیں اس کے ثبات میں مددگار ہوئی ہیں ان سے مستقبل میں بھی کام لیتا رہے۔ اس سے معلوم ہوگا کہ میں نے تنازع اور جنگ کی ضرورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے اخلاقی ہی ہے۔‘‘ جہاد کے بعد خودی کی تربیت کے تین مرحلے ہیں اطاعت ، ضبط نفس اور نیابت الٰہی۔ قطرہ ہا دریاست از آئین وصل ذرہ ہاصحراست از آئین وصل باطن ہر شے ز آئین قوی تو چرا غافل ازیں ساماں ردی جب ایک فرد اطاعت اور ضبط نفس کے مراحل طے کر چکتا ہے تو پھر وہ نیابت الٰہی کی منزل میں آ پہنچتا ہے اقبال اس ’’ پختہ عنصر‘‘ فرد کامل کو نائب حق کا خطاب دیتے ہیں جس کی عقیدت سے ان کا دل سرشار ہے ۔ نائب حق ہمچو جان عالم است ہستیٔ او ظلِ اسم اعظم است از رموزِ جزو و کُل آگہ بود در جہاں قائم بامر اللہ بود نوعِ انساں رابشیر وہم نذیر ہم سپاہی ، ہم سپہ گر، ہم امیر ذات او توجیہہ ذات عالم است از جلال اونجاتِ عالم است زندگی رامی کند تفسیر نو می دہدایں خواب را تعمیر نو طبع مضمون بند فطرت خوں شوو تاد و بیت ذات او موزوں شود مشت خاک اُو سر گردوں رسید زیں غبار آں شہسوار آید پدید اقبال اس شہسوار کا شدت سے انتظار کرتے ہیں جس کا وجود اطاعت کامل اور ضبط نفس کی تمام قیود اور امتحانوں سے کامیاب ہو کر کامل ہوا ہے فرماتے ہیں۔ اے سوار اشہبِ دوراں بیا اے فروغِ دیدۂ امکاں بیا رونقِ ہنگامۂ ایجاد شو در سواد دیدہ ہا آباد شو شورشِ اقوام راخاموش کن نغمۂ خود را بہشت گوش کن خیز و قانون اخوت سا زدہ جام صہباے محبت بازدہ باز در عالم بیار ایام صلح جنگجویاں رابدہ پیغام صلح سجدہ ہاے طفلک و برناو پیر از جبین شرمسار مابگیر از وجود تو سر فرازیم ما پس بہ سوزِ ایں جہاں سوزیم ما مرد میدان مہدی برحق، میر کاروا ں اور شہسوار کا یہ تخیل آخری تصانیف میں بھی موجود ہے ارمغان حجاز میں ایک مقام پر اپنے آپ کو اس مرد کارواں کا غبار کارواں کہہ کر پکارتے ہیں۔ نائب حق کا یہ تخیل کوئی نیا تخیل نہیں بلکہ مشرق و مغرب کا پرانا تخیل ہے۔ نطشے کا ’’مافوق الانسان‘‘ کارلائل کا ہیرو اور گوئٹے کا Genius اسی قسم کے افراد ہیں نیطشے اوراقبال میں جو وحدت خیال پائی جاتی ہے اس سے مغربی نقادوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ اقبال نے انسان کامل کا خیال اسی جرمن فلسفی سے مستعار لیا ہے حالانکہ اقبال علانیہ کہتے ہیں۔(۱۵) ’’میں نے یہ خیال نطشے سے نہیں لیا بلکہ تصوف کا ’’ انسان کامل‘‘ آج سے بیس سال قبل میرے پیش نظر رہا ہے انگریزوں کو اپنے ایک ہم وطن فلسفی الیگزینڈر کے خیالات کا مطالعہ کرنا چاہیے لیکن ہم دونوں میں فرق یہ ہے کہ الیگزینڈر کے خیال میں حقیقت منظر ایک خدائے ممکن الوجود کی شکل میں جلوہ گر ہو گی لیکن میرا خیال ہے کہ شان الٰہی ایک برتر انسان کے قالب میں جلوہ گر ہوکر رہے گی۔‘‘ اقبال نے تصوف کے جس ’’ مرد کامل‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ محی الدین ابن عربی اور ابراہیم الجیلی کا ’’ انسان کامل‘‘ ہے یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ابراہیم الجیلی کا’’ انسان کامل‘‘ اقبال کے نائب حق سے بہت مختلف ہے۔ قارئین اس کا مفصل حال اقبال کی کتاب فلسفہ عجم اور نکلسن کی کتاب Studies in Islamic Mysticism میں مطالعہ فرمائیں۔ میں نے اجمالاً مگر وضاحت کے ساتھ اقبال کی کامل سوسائٹی اور کامل انسان کانقشہ پیش کر کے اس کی تفصیلات کو ترک کر دیا ہے ۔ بہرصورت اپنی جملہ تصنیفات میں اقبال اس کامل سوسائٹی کے بلند مقاصد کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں نہ صرف تخیل اور فلسفہ ہی میں بلکہ اپنی مختصر سی سیاسی زندگی میں بھی انھوں نے ایسے خیالات اور افکار کی پرجوش مخالفت کی جو انھیں ذرا بھی اس خاص نصب العین کے لیے مضرت رساں نظرآئے وہ شروع سے لے کر آخر تک اس زندہ سوسائٹی کی کامیابی پر ایمان و ایقان رکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ خاکی مگرخودی آشناافراد ایک دن فرشتوں سے بھی بڑھ جائیں گے ۔(۱۶) اقبال کا یہ نظریہ قوم بیک وقت معین اور مثالی بھی۔ یہ مثالیت Idealism جب دنیا کی کسی معین قوم کے ساتھ وابستہ کی جاتی ہے تو قدرتی طورپر الجھن پیدا ہو جاتی ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ مثالیت کی خوبی ہی یہ ہے کہ ذہن کو واقعیت سے دور لے جائے اور اس طرح ایک برترحقیقت کا تصور دلائے مثالیت ترقی کے لیے مہمیز ثابت ہوتی ہے اور اس سے آگے کی ایک منزل تعین ہوتی ہے لہذا مثالی تصور سے الجھن پیدا ہونی نہیں چاہیے۔ اقبال کی مثالیت کا انداز کیا ہے ۔ فروغِ خاکیاں ازنوریاں افزوں شود روزے زمین از کوکب تقدیر ماگر دوں شود دروزے یکی درمغئی آدم نگر از من چہ می پرسی ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے کہ یزداں رادل از تاثیر اوپر خوں شو دروزے اقبال کا نظریہ حکومت وخلافت حکومت اور خلافت(۱۷) کے متعلق اقبال نے زیادہ تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا تاہم انھوں نے اپنی نظموں میں خلافت انسانی کے اہم اصول بیان کردیئے ہیں مثلاً اقبال ایک عادل اور موثر حکومت کے لیے ایمان اور عشق کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ولایت، پادشاہی، علم اشیا کی جہانگیری یہ سب کیا ہے فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں حکومت اور سروری اقبال کے خیال میں خدمت گری کا دوسرا نام ہے لیکن انسان میں حقیقی اور بے لوث خدمت خلق کا مادہ پیدا نہیں ہو سکتا جب تک تمام کاموں کی بنیاد عشق پر نہ رکھی جائے اور تمام امور میں یقین اور ایمان کی مشعل سے روشنی نہ کی جائے دوسرے الفاظ میں سروری میں درویشی وسلطانی کا اجتماع ضروری ہے۔ اقبال حکمرانی کے لیے عشق مصطفے کو ایک ضروری شرط قرار دیتے ہیں کیونکہ یہی عشق افراد قوم کو ایک نقطے پر جمع کر سکتا ہے صرف اسی ذات مبارک کی وابستگی اس پریشان شیرازے میں نظم پیدا کرسکتی ہے ۔ سروری ور دین ما خدمت گری ست عدل فاروقی وفقر حیدری ست در ہجوم کار ہاے ملک و دیں بادل خودیک نفس خلوتِ گزیں آں مسلماناں کہ میری کردہ اند در شہنشاہی فقیری کردہ اند ہر کہ عشق مصطفے سامان ادست بحر و بردر گوشہ دامان ادست رُوح راجز عشق اُو آرام نیست عشق او رو زیست کو راشام نیست (پیام مشرق صفحہ۶۴) ارمغانِ حجاز میں ہے ؎ خلافت فقر باتاج و سریراست ز ہے دولت کہ پایاں ناپذیر است جواں بختا! مدہ ازدست ایں فقر کہ بے اوپادشاہی زود میراست(ص۱۱۰) اقبال شاہی اورملوکیت کو حرام قرار دیتے ہیں ؎ خلافت برمقام ماگواہی است حرام است آنچہ برما پاوشاہی است ملوکیت ہمہ مکراست و نیرنگ خلافت حفظ ناموس الٰہی است(ص ۱۲۶) یورپ نے شاہی اورسلطانی کا جو دستور قائم کیا ہے وہ سوداگری، آدم کشی ، خونخواری اور نفع اندازی کے سوا کچھ نہیں مغربی حکمت جس حکومت کی خدمت کے لیے وقف ہے اس کا انجام اقبال کے نزدیک ’’کشتن بے حرب و ضرب‘‘ ہے اور تہذیب فرنگ کا منتہاد مقصود بھی یہی ہے ۔ از ضعیفان ناں ربودن حکمت است از تن شاں جاں و بودن حکمت است شیوۂ تہذیب نو آدم دری است پردۂ آدم دری سوداگری است (پس چہ باید کرد ص۳۸) ارمغان حجاز کی ایک رباعی میں اسلامی اور مغربی تصور حکومت کا فرق واضح کیا ہے ۔ مسلمان فقرو سلطانی بہم کرد ضمیرش باقی و فانی بہم کرد ولیکن الامان از عصر حاضر کہ سلطانی بہ شیطانی بہم کرد اقبال جس طرح باقی امو ر میں عقلی بنیاد عمل کے مخالف ہیں اور عقلیت یعنی Intellectuality کوعالم انسانیت کے لیے مضر سمجھتے ہیں اسی طرح نظریہ سلطنت میں بھی انھیں عقلی بنیاد سے خاص پر خاش ہے کیونکہ جو قوانین عقل فرسودہ دماغوں سے وضح ہوں گے ان میں انسان کی خود غرضی اور خود پسندی ضرور ہو گی عقل پسند انسان اجتماعی امور میں اس لیے شامل نہیں ہوتا کہ اس سے اجتماع کو زیادہ مستحکم کرنا منظور ہوتا ہے بلکہ اس کے پیش نظر صرف یہ چیز ہوتی ہے کہ سوسائٹی کے تابع رہنے سے اس کے خاص ذاتی مفاد بہتر طریق سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئین سب لوگوں کو مطمئن نہیں کر سکتے اور جو اقلیت غیر مطمئن ہوتی ہے ان قوانین کے خلاف آواز بلند کرتی ہی رہتی ہے ۔ پس اقبال کے نزدیک یہ صورت حال چونکہ عقلیت اور اقلیت کی مرہون احسان ہے اس لیے اس سے بچنا چاہیے اور اس کے بجائے ’’ وحی‘‘ کے دیئے ہوئے قوانین کی اطاعت کرنی چاہیے(۱۹)۔ جاوید نامہ میں فرماتے ہیں ۔ بندۂ حق بی نیاز از ہرمقام نے غلام اُورانہ ُاوکس را غلام بندۂ حق مراد آزاد است وبس ملک و آئینش خدا دادست و بس عقل خود بیں غافل از بہبود غیر سود خود بیند نہ بنید سود غیر وحیٔ حق بینندۂِ سود ہمہ درنگاہش سود و بہبود ہمہ عادل اندر صلح وہم اندر مصاف وصل و فصلش لایراعی لایخاف حاصل آئین و دستور ملوک دہ خدایاں فربہ و دہقاں چو دوک دین اور سیاست : ’’دین اور سیاست‘‘ کی پرانی بحث میں اقبال لادین سیاست کی پر زور مخالفت کرتے ہیں ان کے نزدیک مارٹن لوتھر مسیحت کا سب سے بڑا دشمن تھا جس نے مذہب اور حکومت کو دو مختلف اور مستقل وجود قراردیا اس کے خیال میں مذہب اور حکومت کی مثال جسم اور روح کی ہے جس کا ربط باہمی زندگی کے لیے ضروری ہے اور جن کا ایک دوسرے سے قطع تعلق موت ہے ۔ اقبال کی نظر میں دین اور سیاست ایک ہی وحدت کے اجزائے لاینفک ہیں۔ چنانچہ گلشن راز جدید (۲۰)میں فرماتے ہیں۔ تن و جاں راد و تاگفتن کلام است تن و جاں راد وتادیدن حرام است بدن راتا فرنگ از جاں جدا دید نگاہش ملک و دیں راہم دو تادید کلیسا سبحۂ پطرس شمارد کہ او با حاکمی کارے ندارد خرد را بادل خود ہم سفرکن یکی برملت ترکاں نظرکن بہ تقلیدِ فرنگ از خود رمید ند میان ملک و دیں ربطے ندیدند رموز(۲۱)میں کہتے ہیں تا سیاست مسند مذہب گرفت ایں شجر در گلشن مغرب گرفت قصہ دین مسیحائی فسرد شعلہ شمع کلیسائی فسرد بال جبریل میں دین و سیاست کے عنوان سے جو قطعہ لِکھّا ہے اس میں دین و حکومت کے اس نازک اور ضروری تعلق کے متعلق نہایت ضروری اشارے کیے ہیں ۔ ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری اسی کتاب کا ایک شعر ہے: جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی ضرب کلیم کے یک قطعہ میں ’’ لادین سیاست‘‘ کو ’’کنیزا ہرمن ددوں نہاد و مردہ ضمیر‘‘ کہا ہے اور مغربی سیاست کے علمبرداروں کو ابلیسی نظام کا نمائندہ قراردیا ہے ۔دور جدید کے ترکوں نے یورپ کی دیکھا دیکھی دین اور حکومت کو الگ کر دیا۔اقبال نے اسے غلط کہا اورکہا کہ یہ تدبیر صحیح نہیں ۔ اس لیے کہ یہ اس نظریہ حکومت کے خلاف ہے جس کی بنیاد عشق مصطفے پر ہے۔ مصطفے کمال نے یورپ کی اس چیز کوجسے خود اہل یورپ اب پرانا سمجھتے ہیں نیا سمجھ کر اختیار کر لیاہے حالانکہ مرد مومن کو اپنی دنیا خود پیدا کرنی چاہیے۔ مگر یہ قوت عمل صرف عشق کی کار فرمائیوں سے ممکن ہو سکتی ہے ۔ جاوید نامہ میں لکھتے ہیں ۔ ترک را آہنگ نودر چنگ نیست تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست بال جبریل اور ضرب کلیم میں علامہ اقبال مشرق کی اسلامی اقوام سے اسی لیے مایوسی کا اظہارکرتے ہیں کہ ان کے رہنما مشرقی روح کا سراغ نہیں لگا سکے چنانچہ ضرب کلیم میں فرماتے ہیں۔(۲۲) مری نواسے گربیان لالہ چاک ہوا نسیم صبح چمن کی تلاش میں ہے ابھی نہ مصطفے نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق ،بدن کی تلاش میں ہے ابھی مردی خودی بھی سزا کی ہے مستحق لیکن زمانہ دارورسن کی تلاش میں ہے ابھی اس سلسلے میں یہ یاد رہے کہ اقبال نے اپنے خطبات میں مسئلہ خلافت کے متعلق ترکوں کے اجتہاد کو حق بجانب قرار دیا ہے اگرچہ اس بیان سے یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس کے اجتہاد کی متحرک روح اسلامی ہے یا قبائلی یا نسلی حس جو اسلام کی کمزوری کی وجہ سے ترکی میں بہت ترقی کر چکی ہے۔’’ ارمغان حجاز‘‘ میں ترکوں کے متعلق لکھتے ہیں۔ بملک خویش عثمانی امیر است دلش آکاہ وچشم او بصیر است پھر بھی عمومی خیال یہ ہے کہ ترکوں کا تجدد بھی تقلید غیر سے کسی طرح کم نہیں کیونکہ وہ دین و سیاست کی تفریق کا قائل ہے ۔ جمہوریت : اقبال یورپ کے جمہوری نظام کے متعلق حسن ظن نہیں رکھتے ان کا خیال ہے کہ یہ جمہوریت بھی استبداد تسلط اور غلبہ بے جاکی ایک نئی شکل ہے اصولی طور پر اقبال حکومت میں عوام کی مداخلت کے قائل معلوم نہیں ہوتے اس لیے کہ عوام میں سے ہر فرد کو قدرت نے مصالح حکومت کے سمجھنے کی توفیق نہیں دی۔ آپ نے خلافت اسلامیہ کے موضوع پر جو رسالہ لکھا ہے اس میں کسی حد تک انتخاب کے طریقے کی تعریف کی تھی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں آہستہ آہستہ اس مسئلہ کے متعلق ان کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوتی گئی وہ کسی عالمی نظام کی کامیابی کے لیے ایک کامل طور پر حساس اور خود سے سرشار فرما Personality کے قائل ہیں اور نطشے کی طرح باشعور اور طاقتور شخص یا فرد کی حکومت کو جمہوریت سے زیادہ کامیاب اور مناسب خیال کرتے ہیں لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ نطشے کا رہنما مادی طاقت کا مسجمہ ہے اوراقبال کا امام مادی قوتوں کے ساتھ روحانی قوتوں کا مجموعہ بھی ہے ۔ متاعِ معنیٔ بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی زموراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریزاز طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید رو سو ایسی جمہوریت کا قائل ہے جس میں حریت اخوت اور مساوات بطور اصل الا صول ہوں لیکن جمہوریت کے اصولی نقائص کا اسے بھی پورا احساس تھا چنانچہ اس کا قول ہے کہ’’ ایسی طرز حکومت تو فرشتوں کی دنیا کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہے ہم انسان تو اس کے قابل نظر نہیں آتے‘‘ اب یورپ میں بھی جمہوریت کے خلاف زبردست رائے پیدا ہو گئی ہے اور بیسیوں کتابیں اس کی خرابیوں کو ظاہر کرنے کے لیے لکھی جا رہی ہیں اور اس وقت دنیا کسی نہ کسی طور پر شخصی آمریت یا پارٹی کی آمریت کی طرف جا رہی ہے ۔ اقبال کو سب سے بڑی شکایت جمہوری طرز حکومت سے یہ ہے کہ اس میں ’’ قابلیت‘‘ نہیں مقبولیت معیار ہے حالانکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مقبول تو ہو مگر قابل نہ ہو اس پر اقبال کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ جمہوریت گروہ بندی اور پارٹیوں اور سیاسی فرقوں کو ترقی دیتی ہے ۔ ہیرلڈ لاسکی اگرچہ جمہوریت کی خوبیوں کا بے حد معترف ہے لیکن اسے بھی جمہوریت میں سب سے زیادہ اسی بات کا خطرہ نظر آتا ہے کہ حکومت میں عوام کی مداخلت اور حق رائے دہی Franchise کی وسعت پارٹیوں کی بے انتہا کثرت کا باعث ہو رہی ہے جمہور کی آزادی میں لاکھ برکتیں سہی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جمہور کا یہ عام غلبہ اور عوام کی مطلق العنانی کسی نظام کو بھی پائیدار اور مستحکم نہ ہونے دے گی اور آئے دن کے انقلابات اور سریع الوقوع تغیرات قومی تعمیر و ترقی میں رکاوٹ پیدا کریں گے ۔ گلشن رازجدید میں اقبال نے انھیں نکات کی جانب اشارا کیا ہے۔(۲۳) فرنگ آئین جمہوری نہا دست رسن از گردن دیوے کشادست چو رہزن کاروانے درتگ و تاز شکمہا بہر نانے در تگ و تاز گرد ہے راگرد ہے درکمین است خدائش یار اگر کارش چنین است زمن وہ اہل مغرب را پیامے کہ جمہور است تیغ بے نیامے نہ مانددر خلافت خود زمانی برد جان خود و جان جہانی ان اشعار کے ساتھ ’’ خضر راہ‘‘ کے یہ اشعار بھی زیر نظر رہیں۔ ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام(۲۴) جس کے پردے میں نہیںغیراز نواے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری گرمی گفتار اعضاے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری اس سراب رنگ و بُو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوری کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں مغرب کے جمہوری نظام کو ملوکیت اور استحصال کا ایک بہانہ قرار دیا ہے یہ وہ طرز حکومت ہے جن کا’’چہرہ روشن‘ ‘ اور باطن چنگیز سے تاریک تر ہے اور اقبال اپنی آخری کتابوں میں جمہوریت کی خرابیوں کے پہلے سے بھی زیادہ قائل نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک اس میں وہی پرانی ملوکیت سوداگری اور استبداد موجود ہے قیصرولیم اور لینن کے مکالمے میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ انسانی طبیعت صرف قاہر اور جابر شخصیتوں کے سامنے جھکنے پر مجبور ہے مطلق العنان حکومتوں میں جو خرابیاں ہیں وہی جمہوری اداروں میں بھی موجود ہیں۔ گناہ عشوہ و نازبتاں چیست طواف اندر سرشت برہمن ہست اگرتاج کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہادر انجمن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگرخسرد نبا شد کوہکن ہست(۲۵) قومیت کا تصور : قومیت یا نیشنلزم(۲۶) کے متعلق اقبال کے عقائد اس قدر واضح اور صاف ہیں کہ ان پر طویل تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اقبال نیشنلزم کے ہر اس تصور کے مخالف ہیں جن کا معیاروطن رنگ نسل اور زبان ہو اقبال کے نزدیک اسلام اور نسلی امتیاز باہم متناقض ہیں اقبال ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔ ’’جب میں نے یہ محسوس کیا کہ قومیت کا تخیل جو نسل ووطن کے امتیازات پر مبنی ہے۔ دنیائے اسلام پر بھی حاوی ہوتا جاتا ہے اور جب مجھے یہ نظر آیا کہ مسلمان اپنے وطن کی عمومیت اور عالم گیری کو چھوڑ کر وطینت اور قومیت کے پھندے میں پھنستے جاتے ہیں تو بحیثیت ایک مسلمان اور محب نوع کے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ میں ارتقائے انسانیت میں انھیں ان کے اصلی فرض کی طرف توجہ دلائوں اس سے انکار نہیں کہ اجتماعی زندگی کے ارتقا اور نشوونما میں قبیلے اور قومی نظامات کا وجود بھی ایک عارضی حیثیت رکھتا ہے اور اگر ان کی اتنی ہی کائنات تسلیم کی جائے تو میں ان کا مخالف نہیں لیکن جب انھیں انتہائی منزل قرار دیا جائے تو مجھے ان کے بدترین لعنت قرار دینے میں مطلق تامِل نہیں۔‘‘ اس بحث کو زیادہ طول دیئے بغیر میں چاہتا ہوں کہ اقبال کے ان سینکڑوں اشعار کی طرف توجہ دلائوں جن میں اقبال نے نیشنلزم کی مخالفت کی ہے اور مسلمانوں کو جغرافیائی اور دوسری غیر فطری قیود سے احتراز کرنے کی تلقین کی ہے ’’وطنیت‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں لکھتے ہیں ۔ اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھرہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اس قسم کے اشعار کو ریمزے میورکی کتاب The Political Consequences of the warکے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو اقبال کے خیالات کی صداقت کا مزید یقین ہو جائے گا۔ جو لوگ اقبال کے نقطہ نظر کے مطابق عالمگیر برداری اور وسیع انسانی اخوت کے تخیل کو سمجھتے ہیں وہ نیشنلزم کی شدید مخالفت کے بارے میں اقبال کو ضرور حق بجانب سمجھیں گے کیونکہ یہ وہ ناسور ہے جس سے خود یورپ بھی تنگ آ چکا ہے اور اس جماعت تراشی سے بھاگ کر جمعیتہ الاقوام اور اب یو این او یونیسکو وغیرہ کے تصّور میں پناہ ڈھونڈ ھ رہا ہے مگر اقبال جمعیت اقوام کے خلوص اور حسن نیت کے بارے میں بھی متشکک تھے وہ اس اجتماعی نظام کو کفن چوروں کی انجمن کا خطاب دیتے ہیں ان کے نزدیک اس ’’ داشتہ پیرک افرنگ‘‘ کا منتہا بھی جماعتی شوق استیلا ہے جمعیت اقوام غالب ہے کہ نہ کہ جمعیت آدم، جمعیت اقوام کے متعلق اقبال کے خدشات درست نکلے۔ یہ اپنی عارضی زندگی میں کمزوروں کی حفاظت نہ کر سکی Disarmament یعنی تحفیف اسلحہ کی کوشش بقول ریمزے میو Armament نئی اسلحہ اندوزی پر ختم آئیں جس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کی صورت میں نکلا آخر لیگ انہی امراض کی بدولت ختم ہو گئی جن کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھااور ضرب کلیم کی پیش گوئی آخر پوری ہو کر رہی۔ بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبرِبد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیران کلیسا کی دعا ہے کہ یہ ٹل جائے اب یو این او ۔کا وہی رنگ وہی انداز ہے ۔ یہ بھی جمعیت اقوام غالب ہی ہے اور شاید اس کا حشر بھی وہی ہو جو پرانی لیگ کا ہوا تھا ۔ اقبال نے نیشنلزم کی مخالفت کی ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ وہ آزادی وطن کے مخالف تھے۔ اقبال نیشنلزم کی مخالفت اس لیے نہیں کرتے کہ وہ آزادی وطن کے مخالف تھے یا وہ غلامی کو محبوب سمجھتے تھے بلکہ اس محرک کی بعض ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق اجمالی طورپر ’’آئیڈیل سوسائٹی‘‘ کے ضمن میں بحث ہو چکی ہے حیرت کا مقام ہے کہ جس نامور نے عمر بھر افراد اور ملتوں کو خود ی کا سبق پڑھایا جس نے بندگی نامہ لکھ کر یہ ثابت کیا کہ بندگی اور زندگی دو مختلف چیزیں ہیں جس نے انسانوں کو عام حُرّیت ، عام اخوت عام انصاف اور عام رواداری کا پیغام دیا۔ جس نے پس چہ باید کرد، ضرب کلیم اور بال جبریل میں ہندوستان کی غلامی اور ہندوستانیوں کے افتراق پر آنسو بہائے اس کے متعلق یہ خیال پھیل جائے کہ اسے غلامی سے لگائو تھا یہ اقبال کے ساتھ سخت نا انصافی ہے ۔(۲۷) حقیقت یہ ہے کہ اقبال ’’ یونیورسلسٹ‘‘ (آفاقیت دوست) ہیں ہر وہ چیز جو ان کے اس خاص اجتماعی نصب العین سے ٹکراتی ہے اس کی وہ مخالفت کرتے ہیں یہی اجتماعیت کی اس تبلیغ کو بعض معترض ’’پین اسلامزم‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں حالانکہ اقبال صرف مسلم اقوام کے نہیں بلکہ تمام اقوام مشرق کے اجتماع کے قائل ہیں چنانچہ پس چہ باید کرد میں تمام اہل مشرق کو تطہیر فکرکی دعوت دی ہے اور مہر عالم تاب کو خطاب کرتے ہوئے یہ خواہش ظاہر کی ہے ۔ فکر مشرق آزاد گردو از فرنگ از سرورِ من بگیر و آب و رنگ اقبال کے نزدیک مشرق میں جمعیت اقوام کی کامیابی ممکن نہیں ہے کیونکہ مشرق کا مزاج سوداگری اور نفع پرستی سے نفور ہے یہ درست ہے کہ اقبال جا بجا مسلمان اقوام کو اتحاد کی دعوت دیتے ہیں اور وطن و نسل کے امتیازات کو ہٹانے کی تلقین کرتے ہیں جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کے زیر اثر صرف مسلمان اقوام ہی اس خیال کو بہ آسانی سمجھ سکتی ہے باقی اقوام نیشنلزم سے اس قدر متاثر ہیں کہ وہ اس یونیورسل اپیل کو ’’ جنت الحمقا‘‘ Utopia سمجھیں گی یا اسے اپنے تسلط کے منافی سمجھ کرٹھکرا دیں گی۔ سوشلزم اور سرمایہ : اس موضوع پر اقبال نے بڑے واضح الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے اقبال مزدور کے حامی ہیں سرمائے کی مضرتوں اور ناانصافیوں پر کئی نظموں میں تبصرہ کیاہے۔ چنانچہ ’’ قسمت نامہِ سرمایہ دار و مزدور‘‘ اور ’’ خضر راہ‘‘ میں بڑے بلیغ پیرائے میں مزدور کی محکومی اور مجبوری کی تصویر کھینچی ہے اقبال جس طرح اپنے باقی نظریات میں ایک مستقل راہ اور رائے رکھتے ہیں اسی طرح وہ اس معاملہ میںبھی اپنے خاص نصب العین کو مدنظررکھتے ہیں اس کی واضح ترین صورت ہمیں جاوید نامہ میں ملتی ہے۔ جہاں جمال الدین افغانی کی زبانی یہ بتلایا گیا ہے کہ قیصریت کی شکست ، سود کی مذمت، الارض لِلّٰہ اور انسانی برادری کی مساوات وغیرہ میں مسلمان اور روسی متحد الخیال ہیں لیکن روسی اشتراکی نظام اور اسلامی نظام میں بڑا فرق یہ ہے کہ روس کے تصور کی بنیاد’’ شکم‘‘ پر ہے اورروح کی ترقی کے بجائے اس کا منہائے نظر جسم کی پرورش ہے روس کی تہذیب مدح کی مستحق اس لیے نہیں کہ اس میں ’’ذکرحق‘‘ کی کمی ہے اس لیے اس سے بھی احتراز لازم ہے چنانچہ کارل مارکس کے متعلق اظہار رائے کرتے ہوئے جاویدنامہمیں لکھا ہے۔ صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل زاں کہ حق و باطل او مضمراست قلب او مومن و ماغش کا فراست غریبان گم کردہ اند افلاک را درشکم جویند جان پاک را رنگ و بو از تن نگیر و جان پاک جزبہ تن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبر ناحق شناس برمساوات شکم دار و اساس تااخوت را مقام اندرول است بیخ او در دل نہ در آب و گل است اقبال سوشلزم کو وسیع تر انسانی برادری کی تعمیر اور ترکیب کے سلسلے میں ناکافی اور ناقص سمجھتے ہیں ابلیس کی مجلس شوری میں ثابت کیا ہے کہ یورپ سوشلزم پر غلبہ پانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔لیکن اسلام اس فتنے کا مقابلہ کر سکتا ہے اقبال کے خیالات لینن کے متعلق برے نہیں کیونکہ لینن کے تہذیب فرنگ کو چیلنج کیا ہے وہ اشتراکی نظام کو سرمایہ داری کا رد عمل سمجھتے ہیں لیکن انھیں اعتراض ہے کہ یہ ساری تحریک لا پر مبنی ہے‘‘ الّا کی منزل تک نہیں پہنچتی۔ اقبال نے اپنے سیاسی تصورات کا کوئی مربوط نظام قائم نہیں کیا اس لیے کہ ان کا اولین مقصد احیائے احساس تھا اس غرض کے لیے انھوں نے سیاسی نظامات پر تنقید کی ہے اور اس کے ضمن میں اپنے تصور کے سیاسی نظام کے خارجی خط کھینچے ہیں جزئیات کو اپنے دائرے سے خارج سمجھ کر عموما ً نظر انداز کر دیا ہے اس کے باوصف مجموعی نظر ڈالنے سے ان کے یہاں سیاست کا ایک قابل فہم نظام سامنے آ جاتا ہے ۔ اقبال نے ملک کی عملی سیاست میں دلچسپی تو لی ہے اور کبھی کبھی کھل کر بھی سامنے آئے ہیں لیکن اس میں خارجی طور پر زیادہ سر گرم نہیں رہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مفکر تھے اور ان کا عمل ان کی فکری کاوش تھی اور ان کی طبیعت عملی سیاست سے مانوس نہ تھی چنانچہ اس حقیقت کا یوں اعلان کیا ہے : ہزار شکر طبعیت ہے ریزہ کارمری ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش یہ عقد ہاے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش ہواے بزم سلاطیں دلیل مردہ دلی کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش ’’گرت ہواست کہ باخضر ہمنشیں باشی نہان زچشم سکندرچو آب حیوان باش‘‘ مگراس علیحدگی، تنہائی اور خلوت نشینی کے باوجود اقبال نے سیاسی تحریکوں کو بہت متاثر کیا ہے جس طرح رُوسو اور والٹیر فرانس میں ایک زبردست انقلاب کے پیش رو ثابت ہوئے اسی طرح اقبال بھی ایشیا میں ایک عظیم الشان ذہنی انقلاب کے پیامبر ثابت ہوں گے اور پاکستان …ایک اسلامی وطن کی تخلیق تو اب ایک حقیقت ثابتہ بن چکی ہے ۔آئندہ کے انقلاب کے بارے میں فرماتے ہیں۔ انقلابے کہ نگنجد بہ ضمیر افلاک! بینم وہیچ ندانم کہ چساں می بینم خرم آں کس کہ دریں گرد سوارے بیند جوہر نغمہ زلرزیدن تارے بیند مسائل اقبال مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،لاہور، ۱۹۸۷ء حوالے اور حواشی ۱۔ اقبال نے ایامِ جوانی میں ایک مضمون انگریزی میں بعنوان ’’انتخاب اور خلافت ِ اسلامیہ‘‘ لکھا تھا، جس کا اردو ترجمہ چودھری محمد حسین صاحب نے کیا۔ ’’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ بھی ایک انگریزی مقالہ کا ترجمہ ہے جو مولانا ظفر علی خاں کے قلم سے ہے اقبال کے خطبات مدراس میں سیاست کے متعلق متفرق اشارات ملتے ہیں۔ عملی سیاسیات کے متعلق الہٰ آباد مسلم لیگ میں جو خطبۂ صدارت اقبال نے پڑھا تھا وہ بھی نظریۂ سیاست کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کرتا ہے اور ایک قیمتی سیاسی دستاویز ہے۔ ۲۔ ان کی کتاب Beyond good and evil اِس غرض کے لیے ملاحظہ ہو۔ ۳۔ ان کی کتاب The crowd: A study of popular mind اس غرض کے لیے ملاحظہ ہو۔ ۴۔ ان کی کتاب Politics VOl.2 اس غرض کے لیے ملاحظہ ہو۔ ۵۔ ان کی کتاب The decline of the west اس غرض کے لیے ملاحظہ ہو۔ ۶۔ ان کی کتاب The revolt against civilization اس غرض کے لیے ملاحظہ ہو۔ ۷۔ ان کی کتاب America safe for Dempcracy اس غرض کے لیے ملاحظہ ہو۔ ۸۔ تفصیلات کے لیے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا مضمون ’’اقبال، رومی اور نطشے‘‘ ملاحظہ ہو۔(رسالہ اردو اقبال نمبر) ۹۔ معارف (اعظم گڑھ) اکتوبر ۱۹۲۱ئ، ص ۲۸۶ ۱۰۔ اس موضوع پر خواجہ غلام السیدین کی کتاب The educational philosophy of Iqbal ملاحظہ ہو۔ ۱۱۔ ملّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر ۹ ۱۲۔ رموز، ص ۴۵ ۱۳۔ رموز، ص ۵۳، مابعد ۱۴۔ اسرارِ خودی، ص ۲۱ ۱۵۔ معارف (محولہ بالا) ماخوذ از Quest ۱۶۔ زبور، ص ۱۵۹ ۱۷۔ اس موضوع پر اقبال نے ایک مختصر مضمون لکھا ہے۔ انتخاب اور خلافتِ اسلامیہ ’’نیز ان کا لیکچر The principle of movement in structure of Islam. ۱۸۔ The ethical basis of the state" by Wilde chapter III. IV ۱۹۔ جاوید نامہ، ص ۷۸ ۲۰۔ ایضاً ۲۱۷ ۲۱۔ رموز، ص ۲۹ ۲۲۔ ’’ضرب کلیم‘‘،ص ۱۴۴ ۲۳۔ گلشنِ رازِ جدید ۲۴۔ جہاں تک غلام اقوام پر جمہوری برکات کے نزول کا تعلق ہے وہ بقول اقبال قفس میں مرجھائے پھول‘‘رکھنے کے مترادف ہے (ضرب کلیم، ص ۶۴) ۲۵۔ پیام مشرق، ص ۲۵ ۲۶۔ قومیت اور عسکریت کے فروغ کے متعلق عام فہم بحث کے لیے دیکھیں Cockfrکی کتاب Recent political thought , Political consequences of the war ۲۷۔ وطن کی تعریف میں دیکھیں ’’شعاعِ امید‘‘ (ضرب کلیم، ص ۱۰۵) اقبال اور سوز غمِ ملت پروفیسر وقار عظیم اقبال نے اپنے ایک خط میں مولانا سلیمان ندوی کو یہ الفاظ لکھے تھے : ’’دنیائے اسلام اس وقت ایک روحانی پیکار میں مصروف ہے ۔ اس پیکار و انقلاب کا رخ متعین کرنے والے قلوب و اذہان پر شک و ناامیدی کی حالت کبھی کبھی پیداہو جاتی ہے‘‘ یہ خط ستمبر۱۹۲۴ء میں لکھا گیا تھا لیکن اس میں دنیائے اسلام کی جس پیکار کی طرف اشارہ ہے اس کا آغاز حقیقت میں انیسویں صدی کے آخر میں ہو چکا تھا اور انیسویں صدی کے آخر ہی سے ایسی شخصیتیں ظاہر ہونی شروع ہو گئیں تھیں جنہوں نے شک اور نا امیدی کے اندھیروں میں یقین اور امید کی شمعیں روشن کرنے کی خدمت اپنے ذمے لی۔ اقبال بھی دنیائے اسلام کے ان برگزیدہ افراد کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ جنہوں نے پیکار’’ اور انقلاب‘‘ کا رخ متعین کرنے کو اپنا وظیفہ حیات بنایا۔ دنیائے اسلام کا غم، جسے دوسرے لفظوں میں ملت کاغم کہنا چاہیے، اس وقت بھی اقبال کے فکر و احساس کا شریک تھا جب انہوں نے پہلے پہل مسلمانوں کی دنیا کو موضوع سخن بنایا تھا۔ بانگ درا کے حصہ سوم کی پہلی نظم ’’ بلاد ِاسلامیہ‘‘ کے پہلے ہی شعر سے غم کی یہ کرن پھوٹتی دکھائی دیتی ہے ۔ سرزمیں دلی کی مسجودِ دل غم دیدہ ہے ذرے ذرے میں لہو اسلاف کا خوابیدہ ہے اور دلی سے دور بغداد، حجاز، قرطبہ، قسطنطنیہ ، فارس اور شام کہ جو اب عظمت اسلام کی خانقاہیں ہیں ان کی آنکھوں میں بھر جاتے ہیں اور پھر اس نظم کے چند صفحوں بعد آنے والی نظم ’’ گورستان شاہی‘‘ اقوام کی زندگی کی بے اعتباری کے نقشے دکھا کردل کو غم ملت میں مبتلا کرتی ہے اور قلم دل گداختہ کے احساس کی ترجمانی یوں کرتا ہے : اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے ایک غم، یعنی غمِ ملت ہمیشہ تازہ ہے اس غم ملت نے اور آگے چل کر زیادہ واضح صورت اختیار کی اور اقبال نے یاد ماضی کے حرم سے باہر قدم رکھ کر حال کی زندگی کو اپنے فکرو تخیل کی جولانگاہ بنایا اور تدبیر کی عقدہ کشائی زخم دل کا مداوا بن کر سامنے آئی۔ ضرب کلیم کی ایک نظم ’’ دام تہذیب‘‘ میں اقبال نے غم ملت کی خلش کا حال یوں بیان کیا ہے ۔ جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار ترکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار غم کا یہ احساس حقیقت پسندانہ ہے اور اس غم سے مختلف جِس میں ایک خاص طرح کی رومانی سرشاری ہے۔ ماضی کی مدح سرائی یا مرثیہ خوانی میں جو لذت اور گداز ہے اقبال اس کا رشتہ حال کی صداقتوں سے جوڑنا چاہتے ہیں کہ صرف اسی طرح احساس کو پیکار اور پیکار کو انقلاب کی صورت دی جا سکتی ہے ۔ ان کی نظر صرف شام و فلسطین پر نہیں ، ان کی چشم نگراں نے دنیائے اسلام کے چپے چپے کا جائزہ لیا اور پردوں میں چھپی ہوئی حقیقت کو آشکارا کیا ہے پیام مشرق کی پہلی نظم ’’ پیش کش‘‘ میں اقبال امیر امان اللہ خان کے سامنے اسلامی دنیا کا نقشہ یوں پیش کرتے ہیں : دیدہ ای اے خسروِ کیوان جناب آفتاب ما توارت بالحجاب ابطحی در دشت خویش از راہ رفت از دم او سوزِ الا اللہ رفت مصریاں افتادہ در گرداب نیل سست رگ تورانیانِ ژندہ پیل آلِ عثمان در شکنجِ روزگار مشرق و مغرب ز خونش لالہ زار عشق را آئین سلمانی نماند خاکِ ایراں ماند و ایرانی نماند سوز و ساز زندگی رفت از گلِش آں کہن آتش فسرد اندر دلش مسلمِ ہندی شکم را بندۂِ خود فروشے، دل ز دین برکندۂ در مسلماں شانِ محبوبی نماند خالدؓ و فاروقؓ و ایوبیؓ نماند یہی خیال کبھی کبھی شاعری کے پیکر میں جلوہ گر ہوتا ہے تو اس کا یہ رنگ ہوتا ہے ۔ ساقیِ دیرینہ را ساغر شکست بزمِ رندانِ حجازی بر شکست (اسرار،۷۹) ہواے تند کی موجوں میں محصور سمرقند و بخارا کی کفِ خاک (تاتاری کا خواب، بال جبریل) در عجم گردیدم و ہم در عرب مصطفی نایاب و ارزاں بولہب (پس چہ باید کرد) اور پھر روح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ہو کر غم ملت سے پیدا ہونے والے درد کی کیفیت بیان کرنے کا یہ دل گداز انداز: شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر اب تو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے ہر چندہے بے قافلہ و راحلہ و زاد اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے! (ضرب کلیم) اور کبھی کبھی یہ درد آہ بن کر نکلتا ہے اور ہر طرف ایک دل دوز چیخ سنائی دیتی ہے ۔ ملت ختم رسل ؐ شعلہ بہ پیراہن ہے اقبال ؒ نے مصر و شام و عراق اور ہندو ایران و توران کے نام لے لے کر ان کی ابتری اور پریشاں روزگاری پر جو اشک افشانی کی ہے اس کی تحریک اس احساس کے تحت ہوئی ہے کہ ملت اسلامی کا شیرازہ ابتر ہے اور یہ ابتری اور پراگندگی فنا کا پیش خیمہ ہے اور اس لئے اقبال کی آرزوئوں کا مرکز و محور ملت کی شیرازہ بندی ہے یہی آرزو ہے جس نے ان کی زبان سے یہ بات نکلوائی ۔ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر لیکن اقبال کے دل کی آواز محض حرف آرزو بن کر مطمئن نہیں ہو جاتی۔ اقبال کی بصیرت نے اسے آگاہ کیا ہے کہ یہ حرف آرزو، یہ جذبہ اور یہ احساس جب تک کسی منطق کا پابند نہ ہو نتیجہ خیز نہیں اور منطق کا تقاضا ہے کہ آرزو کے حصول کی راہ متعین کرنے سے پہلے یہ فیصلہ کرے کہ غم آرزو کا سبب کیا ہے؟ کہ جب تک سبب کا سراغ لگا کر اس کی بیخ کنی نہ کی جائے سفر آرزو کی راہیں مسدود رہیں گی۔ اقبال ؒ نے یہ سفر آرزو جن مرحلوں سے گزر کر طے کیا ان کی نشان دہی ان کے کلام نثر و نظم سے ہوتی ہے ۔ اقبال نے اپنے ایک مضمون (جغرافیائی حدود اور مسلمان) میں مسلمانوں کی ملی ابتری اور انتشار کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ’’ مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے ابتداء ہی میں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریۂ وطنیت کی اشاعت کی جائے‘‘ (مقالات اقبال صفحہ۲۲۲) یہی بات شعروں میں اسی طرح کہی گئی ہے ۔ لُردِ مغرب آں سراپا فکر وفن اہل دیں را داد تعلیم وطن (فلک عطارد، جاوید نامہ) تفریق ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدمؑ (مکہ اور جنیوا، ضرب کلیم) دوسرے شعر میں جو چیز ’’ حکمت فرنگ‘‘ ہے پہلے شعر میں اس کا نام’’ فکر وفن‘‘ ہے اور اس حکمت نے اپنی فلاح اس میں دیکھی ہے کہ’’ اہل دین‘‘ کو اس روش سے برگشتہ کیا جائے جو ان کے درمیان وجہ اشتراک و اتحاد ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد مغربی سیاست کے پیروں کی کڑی زنجیر ہے کہ جب تک یہ زنجیر نہ کٹے سفر کی ہرمنزل کھوٹی ہے۔ مغربی سیاست نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لئے جو جال بچھایا ہے اس کا نام، ’’وطن‘‘ رکھا ہے ۔ اس جال کے روپہلے سنہرے حلقوں میں ایسی کشش ہے کہ جو ان حلقوں کو دیکھتا ہے ان کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے۔ یہی صورت مسلمان کے ساتھ پیش آئی۔ جال نے اسے اپنی طرف کھینچا ، صید اس کی طرف کھینچتا چلا گیا اور دام نے صید کو اپنی گرفت میں لے لیا مسلمان کی زندگی اس دام بلا میں پھنسنے سے پہلے جس کشمکش میں گزری اس کی طرف اقبال نے یوں اشارہ کیا ہے۔ در ضمیر ملت گیتی شکن دیدہ ام آویزشِ دین و وطن اور گرفتاری کی زندگی کے آغاز کے بعد اس کی جو کیفیت ہے اس کا نقشہ اس شعر میں کھینچا گیا ہے۔ مردِ حر افتاد در بند جہات با وطن پیوست و از یزدان گسست دین اور وطن کی اس آویزش میں’’ وطن‘‘ کے دو مفہوم ہیں : ایک مفہوم وہ جس کی سند ارشاد نبی کریم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور دوسرا مفہوم وہ جو ’’ گفتارسیاست‘‘ نے اس لفظ کو دیا ہے ۔ گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے اور’’ گفتار سیاست‘‘ کے دیئے ہوئے اس خاص مفہوم نے ’’وطن‘‘ کے لفظ کو ایک ایسے صنم کی علامت بنا دیا جس کی پرستش کرنے والے اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اور اس صنم کے پجاری اپنے آپ کو جس پیرہن میں ملبوس کرتے ہیں وہ مذہب کا کفن بن جاتا ہے ۔ ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے مغربی سیاست جس کا دوسرا روپ تہذیب نوی ہے۔ جب اپنا جلوہ عام کرتی ہے تو انتشار اور افتراق کی آندھیاں چلتی ہیں اور دین کی جڑیں کھوکھلی ہونے لگتی ہیں۔ اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اقبال نے مغرب کے نظریہ، وطنیت کے سیاسی مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے کلام میں ان نتائج کی نشاندہی بھی کی ہے جو اس نظریے کی مقبولیت اور رواج سے ظہور پذیر ہوں گے۔ اور اپنے خیال کا اظہارکرتے وقت بات پیشین گوئی کے انداز میں کہنے کے بجائے اس طرح کہی ہے کہ اُن کے الفاظ میں ایک محکم اور مستقل کلیے کا سازور پیدا ہو گیا ہے۔ ان کے لہجے میں نہ تذبذب ہے نہ جھجک ۔ وہ حکم لگاتے ہیں کہ : جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے اور : قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے اسی طرح کا یقین اور تحکم اس مصرعے میں ہے ۔ بنا ہمارے حصار مِلّت کی اتحاد وطن نہیں ہے لہجے کا تیقن و تحکم اس غور و فکر اور غور و فکر سے پیدا ہونے والی اس منطق کا نتیجہ ہے جو حقائق کی اصلیت کا تجزیہ کر کے ان کے درمیان اسباب و علل کا رشتہ جوڑتی اور نتائج اخذ کرتی ہے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اقبال کی فکری دور بینی اور ان کے منطقی استدلال نے بھی اخذ نتائج کے بعد جو حکم لگائے تھے عملی زندگی میں وہ اسی شکل و صورت میں رونما ہوئے جیسے کہ اقبال کے دور رس تخیل نے انہیں دیکھا تھا۔ اقبال کی شاعری کے ہر دور میں ہمیں اس طرح کے شعر ملتے ہیں جن میں انہوں نے مسلمانوں کی اس حالت کی نقشہ کشی کی ہے جس میں وطنیت کے مغربی تصور کو اپنا لینے کے بعد وہ مبتلا نظر آتے ہیں۔ اسرار خودی کے دو شعروں میں مسلمانوں کی عام حالت کا بیان یوں ہوا ہے ۔ آن چناں قطعِ اخوت کردہ اند بر وطن تعمیرِ ملت کردہ اند تا وطن را شمعِ محفل ساختند نوعِ انسان را قبائل ساختند پیش گوئی کرتے وقت اور حکم لگاتے وقت اقبال نے اپنی بات فعل حال میں کہی تھی اور اس پیش گوئی کے نتائج کے اعلان و اظہار کے لئے فعل ماضی استعمال کیا ہے اور یہاں تین باتیں کہی ہیں جن کا منطقی ربط یوں قائم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ملت کی تعمیر وطن کے تصور پر کی اور اس طرح انہوں نے دو نقصان اٹھائے ۔ ایک یہ کہ ان کا باہمی رشتہ اخوت منقطع ہوگیا اور دوسرے یہ کہ نوع انسانی قبیلوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں مسلمان کے حق میں اچھی نہیں ہیں اس صورت حال کے مضِر اور مہلک نتائج و عواقب پوری طرح اقبال کی نظرمیں ہیں اور ان کے شاعرانہ مسلک کی طلب اور تقاضا یہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر یہ صورت حال منکشف کر کے انہیں پھراسی راہ پر گامزن ہونے پر آمادہ کریں جو شریعت و طریقت نے ان کے لئے متعین کی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے بڑے حصے کی تخلیق اسی طلب اور تقاضے کے تحت ہوئی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کے شعر میں جو کیفیت اس طلب اور تقاضے کی تکمیل کی خواہش نے پیدا کی ہے اس میں دل آویزی اور دل نشینی بھی ہے اور درد مندی اور ولولہ انگیزی بھی۔ کلام کے جس حصے کی طرف میں اشارہ کر رہاہوں اس میں بھی اقبال کے فکر و تخیل نے ایک واضح منطق کی پیروی کی ہے ۔اِس فرق کے ساتھ کہ یہاں منطق پر جذبہ سایہ فگن ہے اور خیالات کے باہمی ربط میں اپنے مخاطب کی نفسیاتی کیفیت کو محلوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ مسلمان کو اول تو یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کی اساس جن چیزوں پر رکھی ہے وہ محض فریب اور محض سراب ہیں۔ اگلی منزل یہ بتانے کی ہے کہ ہماری ملت کی اساس اس بے بنیاد اساس سے کس لحاظ سے مختلف ہے جس پر ہم نے اس وقت تکیہ کر رکھا ہے۔ اس کے بعد کی منزل یہ بات دل نشین کرنے کی ہے کہ ہماری فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں کہ ہمارا اپنی اصل کی طرف لوٹنا صرف ہماری ذاتی فلاح کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں پوری نوع انسانی کی فلاح کے لئے ہے اور ہمیں فلاح انسانی کے سفر میں رہنما کی خدمت انجام دینی ہے ۔ اقبال نے یہ سب باتیں محل اور موقع کے نفسیاتی مطالبات کے تحت کبھی بالکل سیدھی سادی روزمرہ میں کبھی تشبیہوں اور استعاروں کے حسین پیرائے میں ، کبھی اعلانیہ اور کبھی سرگوشی اور راز داری کے انداز میں ہم تک پہنچائی ہیں اور سیاست، دین، تاریخ، فلسفے اور ادب و شعر کی تمام تر حکمت و دانش کو ایک قالب میں ڈھالا ہے۔ حکیمانہ اشعار کا یہ قالب جس مرتب اور منظم صورت میں ان کے کلام کے مجموعوں میں موجود ہے وہ امت مسلمہ کے لئے اخوت، محبت، یکجائی اوریک رنگی کی دستاویز ہے ۔ یہ حکیمانہ دستاویز جن اجزاء سے مرتب ہوئی ہے ان کا عکس اقبال کے یہ شعر ہیں سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ اقبال نے کن چیزوں کو اپنی ملت کی اساس بتایا ہے رموز بیخودی میں یہ بات استعجاب و استفہام کی اس ملی جلی کیفیت سے شروع ہوتی ہے ۔ اصل ملت در وطن دیدن کہ چہ باد و آب و گل پرستیدن کہ چہ اور اس کے بعد: مِلّت ما را اساس دیگر است ایں اساس اندر دلِ ما مضمر است حاضریم و دل بغائب بستہ ایم پس زبند این و آں وارستہ ایم رشتۂ ایں قوم مثل انجم است چوں نگہ ہم از نگاہِ ما گم است تیر خوش پیکان یک کیشیم ما یک نما، یک بیں، یک اندیشم ما مدعاے ما، مآل ما یکے ست طرز واندازِ خیال ما یکے ست ما زنعمت ہاے او اخوان شدیم یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم ان شعروں میں بظاہر دو نکتے ہیں۔ ۱۔ این اساس اندر دل ما مضمر است ۲۔ یک نما، یک بیں، یک اندیشیم ما، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری بات پہلی کی تشریح و تفسیر ہے، کہ ہمارا چیزوں کو ایک خاص انداز سے دیکھنا، ہمارا ایک طرح محسوس کرنا اور ایک طرح سوچنا اس لئے ہے کہ ہم سب میں ایک ابدی روحانی رشتہ ہے۔ ہمیں اس ابدی روحانی رشتے کا احساس ہو تو ہمارا انداز نظر، انداز احساس، انداز تخیل، اور انداز فکر ایک سا ہو جاتا ہے ۔ اور فکر و نظر کی یہی یک رنگی اور وحدت ہے جو ملت کے لئے قوت و استقامت کا باعث بنتی ہے ۔یہ بات اقبال نے کتنے مختلف پیرایوں میں کہی ہے اور ہر جگہ کتنے موثر پیرائے میں کہی ہے اس پر نظر ڈالنے سے پہلے شاعرانہ انداز کی ایک بات سن لیجئے۔ رموز بے خودی میں بوعبید اور جابان کی حکایت میں شاعری اور تاریخ کے ڈانڈے یوں ملائے گئے ہیں : گفت اے یاراں مسلمانیم ما تار چنگیم و یک آہنگیم ما نعرۂ حیدرؓ نواے بوذرؓ است گرچہ از حلق بلالؓ و قنبرؓ است اب ایک ایک کر کے ملت مسلمہ کی خصوصیات: اقبال نے ایک مرتبہ(۱۹۳۱ء میں) سر ڈینی سن راس سے گفتگو کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے’’ اسلام کا انتہائے مقصود یہ ہے کہ نوع انسانی ایک گھرانا اور ایک خاندان بن جائے … اسلام نے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک عملی اسکیم پیش کر دی۔ کم از کم دنیائے اسلام رنگ، نسل اور قوت کے امتیازات کو بالکل فنا کر چکی ہے ‘‘ (گفتار اقبال صفحہ۲۳۵) رنگ ، نسل اور قوم کے جن امتیازات کو اسلام نے ختم کیا ، اقبال نے اس کی وضاحت باربار اپنے شعروں میں کی ہے اور ہر جگہ وضاحت کا ایک جداگانہ پیرایہ اختیار کیا ہے ۔ جداگانہ بھی اور اس لحاظ سے منفرد بھی کہ ہر جگہ کہی ہوئی بات میں ایک نیا لطف اور نئی تاثیر ہے ۔ رموز بے خودی میں لم یلد ولم یولد کی تشریح کے دوران میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ: نیست از روم و عرب پیوند ما نیست پابند نسب پیوند ما دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم زیں جہت با یک دگر پیوستہ ایم جس طرح مسلمان اور اسلام رنگ و نسب کی دیواروں کو گراتے ہیں اسی طرح وہ اپنے آپ کو مقامات کی قید میں بھی محصور و محبوس نہیں کرتے۔ ہر ملک مسلمانوں کاملک ہے کہ وہ ان کے اللہ کا ملک ہے اور اسی لئے مقام کی وابستگی کے سلسلے میں اقبال نے مسلمان کا ترجمان بن کر اس کے عقیدے اور مسلک کا اعلان ان لفظوں میں کیا ہے جوہر ما بامقامے بستہ نیست بادۂ تندش بجامے بستہ نیست ہندی و چینی سفال ِ جام ماست رومی و شامی گلِ اندامِ ما ست قلبِ ما از ہندو روم و شام نیست مرز بومِ او بجز اسلام نیست (رموزِ بے خودی، ۱۲۹) اور یہی بات ایک جگہ یوں کہی گئی ہے پاک ہے گردِ وطن سے سرداماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا یہ صحیح ہے کہ مسلمان کا دامن گرد وطن سے پاک ہے اور ہر مصر کی حیثیت اس کے لئے ایک کنعان کی ہے ۔ لیکن اس ٹھوس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دنیائے اسلام مملکتوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر مملکت کے اپنے اپنے حدود اور ان حدود کے اپنے اپنے جغرافیائی ، معاشی اور سیاسی تقاضے ہیں اور حقائق پرنظر رکھنے والے ان تقاضوں کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیر سکتے۔ پھر مملکتوں کے اس وجود کی اس کثرت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی ہم وحدت کے رشتوں کو کس طرح استوارکریں۔ اقبال کے سامنے بھی یہ سوال ہے اور اقبال نے اس کا جواب دیا ہے لیکن وہ جواب دینے سے پہلے ایک مسلمہ حقیقت ہمارے سامنے رکھی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ : کثرتِ ہم مدعا وحدت شود پختہ چوں وحدت شود، ملت شود (رموز، ۱۱۷) اوراس کے بعد ایک اور حقیقت یہ ہے کہ : زندہ ہر کثرت زبند وحدت است وحدتِ مسلم ز دینِ فطرت است (رموز، ۱۱۷) اور یہ دین فطرت ہم تک قرآن کے وسیلے سے پہنچا ہے اور قرآن آئین ہے جس کی روح کو اپنے اندر جذب کر کے ملت کا پیکر قوت، زندگی اور دوام حاصل کرتا ہے ۔ از یک آئینی مسلماں زندہ است پیکرِ ملت ز قرآن زندہ است ملت از آئینِ حق گیرد نظام از نظامے محکمے خیزد دوام اوراستحکام و دوام کے یہی عناصر ہیں جو ملت کو معزز و معتبر بناتے ہیں۔ برگ و ساز ما کتاب و حکمت است ایں دو قوت اعتبارِ ملت است اقبال نے افراد اور اعتبار کی اساس کتاب و حکمت کو بتایا ہے اور کتاب و حکمت کو دو قوتوں سے تعبیر کیا ہے اس لئے استحکام و دوام قوت کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ قوت اقبال کی منطق کے نزدیک جمعیت سے وجود میں آئی ہے ۔ اہل حق را زندگی از قوت است قوت ہر ملت از جمعیت است اقبال کی ہمت بلند نے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کو اپنا فکری اور شعری نصب العین بنایا اور اس نصب العین کے حصول کے لئے جس کا ایک نام اقبال کی خود ساختہ اصطلاح میں تعمیر حرم بھی ہے ۔ بعض فکری مرحلے مقرر کئے۔ ان فکری مرحلوں کی تنظیم و ترتیب ایک واضح منطق کے تحت ہوئی اور یہ منطق اپنے قاری اور مخاطب کو ان سب مرحلوں سے لے کر گزری جن سے اقبال کا تاریخ ساز تفکر خود گزرا تھا۔ اس فکری سفر کاپہلا مرحلہ یہ احساس ہے کہ دنیائے اسلام میں ہر طرف انتشار، آشفتگی و برہمی ہے۔ ملی وحدت کا چمن آندھیوں کی زد میں ہے اور حرم کی دیواروں میں رخنے اور شگاف نظر آ رہے ہیں دوسرا مرحلہ ان اسباب کی تلاش اور دریافت کا ہے جو اس انتشار ، آشفتگی اور برہمی کا سبب بنے اور تیسرا مرحلہ ان قوتوں کی شناخت اور پردہ دری کا جنہوں نے پرویزی حیلوں سے سادہ دل مسلمانوں کو فریب میں مبتلا کیا۔ اور انہوں نے حق کی راہ ترک کر کے باطل کو سینے سے لگایا۔ اس سے اگلا مرحلہ ان قدروں کی نشان دہی کا جو ملت اسلامی کا امتیاز ہیں۔ اقبال نے فکر و خیال کے یہ سب منطقی مرحلے حسن بیان کے وسیلے سے طے کئے اور آہوئے بے زمام کو سوئے قطار لائے ۔ راز حرم سے واقف و باخبر ہو کر انداز محرمانہ میں گفتگو کی اور لاہور سے تابخاک بخارا اور سمرقند دلوں کو ایک ولولۂ تازہ دیا۔ دلوں کو اس ولولۂ تازہ کی لذت سے آشنا کرنے کے لئے اقبال نے کبھی بیان کا سیدھا سادہ انداز اختیار کیا۔ کبھی تشریح و توضیح کو اظہار مطالب کا ذریعہ بنایا اور کبھی حقائق کو رمز و کنائے کا پیرایہ دے کر تاثیر کی دولت بخشی۔ لیکن ان گوناگوں طریقوں میں وہ طریقہ خصوصیت سے دل آویز و پُرتاثیر ہے جس میں اقبال اپنے قاری کو تعمیر حرم کے کام کی طرف متوجہ اور مائل کرنے کے لئے اس سے مخاطب ہوکر اپنے دل کی بات کہتے ہیں۔ یہ بات کبھی خطیب کے براہ راست ناصحانہ انداز میں کہی جاتی ہے ۔ ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا یہ ہندی وہ خراسانی ، یہ افغانی وہ تورانی تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا غبار آلودۂ رنگ ونسب ہیں بال و پر تیرے تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا اور کبھی شاعر کے نیم ایمائی اور ایمائی انداز میں : شد پریشاں برگ گل چوں بوے خویش اے زخود رم کردہ بازآ سوے خویش اے امین حکمتِ اُمّ الکتاب وحدت گم گشتۂ خود بازیاب مسلمان کو پھر اپنی ذات کی طرف واپس آنے کی دعوت دینے اور اپنی وحدت گم گشتہ کو حاصل کرنے کی تلقین کرنے میں اقبال کی بصیرت آگیں منطق کا عمل کارفرما ہے اور یہ منطق ایک طرف تو ان سے یہ کہلواتی ہے کہ : ’’ ایک سبق جو میں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ صرف اسلام تھا، جس نے آڑے وقتوں میںمسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا۔ نہ کہ مسلمان، اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھراسلام پر جما دیں اور اس کے ’’حیات بخش‘‘ تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں از سر نو جمع ہو جائیں گی۔‘‘ اور دوسری طرف یہ کہ : ’’ مغربی اور وسطی ایشیا کی مسلمان قومیں اگر متحد ہو گئیں تو بچ جائیں گی اور اگر اس اختلاف کا تصفیہ نہ ہو سکا تو اللہ حافظ ہے ۔ مضامین اتحاد کی سخت ضرورت ہے ۔ میرا مذہبی عقیدہ یہی ہے کہ اتحاد ہو گا اوردنیا پھر ایک دفعہ جلال اسلامی کانظارہ دیکھے گی۔‘‘ (خط نمبر۵۹، اقبال نامہ، حصہ دوم) یہی نظارہ ہے جس کی بشارت اقبال نے اب سے ۶۲ برس پہلے دی تھی : آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جائے گی پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود! پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی اور: شب گریزاں ہو گی آخرجلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گانغمۂ توحید سے اور ہماری نظریں آج اقبال کی اس پیشین گوئی کو پورا ہوتا دیکھ رہی ہیں۔ امروز، لاہور، ۲۲ فروری۱۹۷۴ء صفحہ۳، ۶ اقبالیات کا مطالعہ، مرتبہ : ڈاکٹر سید معین الرحمن، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۱۹۷۷ء ہماری قومی زندگی اور ذہن پر اقبالؒ کے اثرات فیض احمد فیض ہمارے قومی ذہن اور ہماری ذہنی زندگی پر اقبال کے کلام سے کیا اثرات مرتب ہوئے اور انھوں نے کیا نقش ہمارے ذہن پر چھوڑا…اس میںکچھ باتیں تو ایسی ہیںجن میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مثلاً ان کا پہلا اثر تو یہی ہے کہ ہماری ذہنی زندگی میں جس قسم کا تہیج اور جس کا قسم تلاطم ان کے افکار کی وجہ سے پیدا ہوا ہے وہ غالباً ان سے پہلے یا ان کے بعد کسی واحد مصنف، کسی واحد ادیب یا کسی واحد مفکر نے، ہمارے اذہان میں پیدا نہیں کیا۔ یہ صحیح ہے کہ سرسید کی تحریک اس ملک میں موجود تھی اور اس زمانے میںبھی اسی قسم کا تلاطم لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوا تھا۔ لیکن اقبال کے افکار کی نسبت اس تحریک کا دائرہ محدود تھا۔ اس کا تعلق محض ہندوستان کے مسلمانوں سے تھا۔ لیکن اقبال کے افکار کا تعلق، تعلیم کے علاوہ، ہندوستان کے مسلمانوں، دنیا بھر کے مسلمانوں، عام انسانوں بلکہ جملہ موجودات اور غیر موجودات دونوں سے تھا۔ کلام اقبال کا دوسرا اثر یہ مرتب ہوا کہ اقبال نے ہمارے قومی کاروبار میں خواہ وہ سیاست ہو، خواہ وہ اخلاقیات ہو۔ خواہ مذہب ہو، خواہ کوئی اور قومی زندگی کا شعبہ ہو اس میں تفکر اور تدبر کا ایک ایسا عنصر شامل کیا جو کہ پہلے موجود نہیں تھا پہلے بہت سی باتیں جو کہ محض وہم و گمان کے بل پہ لوگ سلوگنز(Slogans) کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے، اقبال نے ان کے سوچنے کا ، غور کرنے کا، مشاہدہ کرنے کا، مطالعہ کرنے کا، تجزیہ کرنے کا، استنباط کرنے کا اور اس سارے ذہنی پروسیسز (Processes) سے گزر جانے کا ڈھب سکھایا۔ صرف خواص کو نہیں بلکہ عوام کو بھی ان باتوں سے آشنا کیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان کے بعد کے ہر سیاسی مفکر، معلم اور خطیب کے یہاں اقبال کے کلام کے توسط سے ایک قسم کا تفکر اور سوچنے کا عنصر خود بخود ذہن میں شامل ہو جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اقبال نے لوگوں کے ذہن کو ان اثرات سے ایک حد تک آزاد کرنے میں امداد دی جو غلامی کے سبب پیدا ہو گئے تھے۔ اس لیے کہ انھوں نے اپنے موضوع کو جیسے کہ شروع میں سبھی لوگ کرتے ہیں اپنے ہی ذاتی تجربات تک محدد رکھا۔ اس کے بعد انھوں نے پورے ہندوستان یعنی اپنی قوم کو متوجہ کیا۔ اس کے بعد ان کا وہ دور آتا ہے جب وہ اپنی قوم کے مختلف تجربات یا مختلف موضوعات کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد کا دور، ان کے پین اسلام ازم (Pan Islamism) کا دور تھا۔ جبکہ وہ دنیا بھرکے اہل اسلام کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ اور ان کا آخری دور جو ان کی پختگی کا دور ہے وہ ہے جبکہ وہ انسانیت اور جملہ کائنات کے بارے میں اپنے افکار کا اظہار کرتے ہیں اور یہ موضوع وہ ہے جو نہ صرف ان کے ملک سے وابستہ ہے بلکہ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ بھی اس میں شامل ہے اور یہ ایک ان کا اضافہ ہے سرسید کی تحریک میں۔ اس لیے کہ اس سے پہلے ہم نے کبھی آفاقی طریقہ سے اس موضوع پر نہیں سوچا۔ آفاقی طریقہ سے سوچنے کا ڈھب اور اس کو سوچنے کی ترغیب۔ ہمارے ہاں اقبال نے پیدا کی اور آخری چیز جو میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے تخلیق کی، وہ شعر اور ادب کے لیے ایک نئے مقام کا تعین تھا۔ یہ مقام اس سے پہلے ہمارے ہاں نہ شعر کو حاصل تھا، نہ ادب کو ۔ ہمارے ہاں اس سے پہلے شعر یا تو تفریحی چیز سمجھی جاتی تھی یا ایک غنائیہ سی چیز سمجھی جاتی تھی یا زیادہ سے زیادہ محض ایک اصلاحی چیز سمجھی جاتی تھی یہ بھی حالی کے بعد۔ شعر میں فکر اور شعر میں حکمت اور شعر میں وہ عظمتیں جن کو ہم شاعروں سے نہیں فلاسفروں سے متعلق کرتے ہیں۔ وہ محض اقبال کی وجہ سے ہمارے یہاںپیدا ہوئی ہیں۔ اقبال جس زمانے میں یہ لکھ رہے تھے یہی زمانہ مغرب میں آرٹ فار آرٹ سیک کے عروج کا تھا۔ چونکہ استھیٹس کا زمانہ تھا اس لیے آسکر وائلڈ اور فرانسس کے ساتھ ساتھ فرانس کے استھیٹس، انگلستان کے استھیٹس کے زیر اثر ہمارے یہاں بھی آرٹ فار آرٹ سیک کا بہت چرچا تھا اور ادب برائے ادب کو لوگ بہت بڑھیا چیز سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ ادھر سے یہ نظریہ آیا تھا۔ اور ادھر سے جو نظریہ آتا ہے وہ ہمارے ہاں بیس برس بعد پہنچتا ہے، جب تک وہاں پرانا ہو چکا ہوتا ہے۔ لیکن جب یہاں پہنچتا ہے تو کچھ دن اس کا بہت چرچا رہتا ہے۔ یہی اقبال کے کلام کے عروج کا زمانہ تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شعر ایک مقصد، ادب ایک بہت ہی سنجیدہ اور ایک بہت ہی سیریس چیز ہے اور یہ کوئی تفریح اور محض لوگوں کی دل لگی کا سامان نہیں ہے۔ ہماری ذہنی زندگی میں یہ تصور پہلی دفعہ اقبال نے پیدا کیا۔ اب یہ باتیں تو ایسی ہیںجن کے متعلق میںسمجھتا ہوں کہ اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اب رہے اقبال کے تعلیمی افکار یا اُن کے تصورات، ان میں سے قوم نے کیا چیز قبول کی اور کس طرح قبول کی اس کے بارے میں اختلافات ہیں۔ اور وہ اس وجہ سے ہیں کہ ہر بڑے ادیب کی عظمت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس کی تحریک یک معنی یا یک پہلو نہیں ہوتی بلکہ اس کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اس کے کئی گوشے ہوتے ہیں۔ اس کی کئی تہیں ہوتی ہیں اور ان میں سے کون آدمی کس حد تک استفادہ کرتا ہے وہ اس کی بصیرت اور یہ اس کے ظرف پر منحصر ہے ۔ چنانچہ اقبال کے کلام کے بارے میں بھی یہی ہے کہ قریب قریب ہر مکتب فکر ان کو سند کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جیسا کہ وہ خود کہہ گئے ہیں: زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں میں سمجھتا ہوں کہ اس میں وہ تھوڑی سی ترمیم کر دیتے تو زیادہ صحیح ہوتا۔ وہ یہ کہ زاہد تنگ نظر نے مجھے زاہد جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ کافر ہوں میں وجہ یہ ہے کہ بعض مسائل ایسے ہیںکہ جن کے بارے میں ہمارے معاشرے کے ذہن میں تضادات موجود ہیں ایک حد تک ان تضادات کی جھلک اقبال کے ذہن میں بھی نظر آتی ہے نتیجہ یہ ہے کہ وہ بادشاہ کا قصیدہ بھی کہتے ہیں اور بندئہ مزدور کو بغاوت پر بھی اکساتے ہیں۔ وہ جملہ انسانیت کی مساوات کے بھی قائل ہیں اور حقوق نسواں اور تعلیم کے بارے میں ان کے ذہن میں بعض شکوک بھی ہیں۔ اس لیے کہ اپنے نظام کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے ذہن میں خطرات تھے، اندیشے تھے۔ لیکن ان باتوں کو چھوڑ کر، جوان کی بنیادی باتیں ہیں۔ مثلاً خودی کی تکمیل، خودی کا ارتفاع، خودی کی تکمیل کے لیے عشق کے محرک کالزوم اور پھر اس عشق کے اظہار کے لیے عمل اور جدوجہد کی ضرورت۔ یہ تینوں باتیں ان کے فلسفے کی اور ان کے پیغام کی مرکزی چیزیں ہیں۔ لیکن ان کی تفسیر اور تشریح میں بھی اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ خودی کے ارتفاع یا خودی کے استحکام کی بات کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس کی خودی مکمل ہے وہ مرد کامل ہے کی پیروی کرنی چاہیے تو یہ دونوں باتیں متضاد معلوم ہوتی ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ محض جمہوریت سے کسی چیز کا مداوا نہیں ہو سکتا اس سے لوگ دو بالکل متضاد باتیں اخذ کرتے ہیں بعض یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال شاید آمریت یا فاشیت یا شخص پرستی کے قائل تھے اور جمہور کو ان کے حقوق سے محروم کر کے ایک ہی آدمی کو جملہ حقوق و اختیارات دینا چاہتے تھے۔ بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر خود کی تکمیل اور خودی کا ارتفاع اقبال کی تعلیم ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ صرف ایک آدمی کی خودی کے ارتفاع کے قابل ہوں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خودی کی تکمیل ہر شخص کا ایک جبلی حق ہے۔ اس پہ ڈاکہ ڈالنا خواہ وہ پیسے کے بل پہ ہو یا طاقت کے بل پہ ہو یا اپنے رنگ کے بل پہ ہو یا نسل کے بل پہ ہو کسی طرح مناسب نہیں وہ تو اقبال کی تعلیم کی نفی ہے۔ کیونکہ جب وہ خودی کے ارتفاع کی بات کرتے ہیں تو وہ تو جملہ انسانیت کی خودی کے ارتفاع کی بات کرتے ہیں۔ کسی ایک شخص کی نہیں۔ چنانچہ اگر کسی کی سروری سے دوسروں کی خودی پہ حرف آتا ہے تو وہ ایسی سروری کو قبول نہیں کرتے۔ چنانچہ اس سے بالکل الٹ تفسیریہ ہے کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مرد کامل کی پیروی کرنی چاہیے تو مرد کامل کی پیروی صرف اس لیے کرنی چاہیے کہ آپ مرد کامل بن جائیں۔ اس لیے نہیں کہ آپ اس کے غلام ہوں۔ بلکہ اس لیے کہ آپ کو وہی مقام حاصل ہو جو کہ اس کو حاصل ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک ایزدیت بھی ایک مقام ہے اور خودی کے ارتفاع کا آخری مقام ہے۔ پھر عشق اور عقل کا تضاد ہے۔ جس کے بارے میں اقبال اکثر گفتگو کرتے ہیں۔ وہاں بھی یہی الجھن پیدا ہوتی ہے…چنانچہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دیکھ لیجیے اقبال نہ سائنس کے قائل ہیں نہ منطق کے وہ تو چاہتے ہیں کہ یہ عقل کا جتنا کاروبار ہے اس سے گریز کر کے آدمی کو صرف اپنے وجدان پہ اور اپنے دل کی لگن پہ بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور جہاں وہ لے جائے لے جائے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کل جتنی سائنس ہے جتنے علوم ہیں اور جس قدر دوسرے فنون ہیں ان کو چھوڑ کے ’’اکو الف تینوں درکار‘‘ والی بات کرنی چاہیے۔ ایک مکتب فکر یہ کہتاہے، دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں۔ نہیں یہ تو غلط ہے کیونکہ وہ تو بار بار ملاّکی مذمت بھی کرتے ہیں۔ اس کو تو بار بار کہتے ہیں کہ یہ ملّا کا نقطہء نظر ہے۔ کیونکہ ملّا کو انساینت کی حرکت اور موجودات کے ارتقاء کا عمل نظرنہیں آتا۔ نہ وہ اس کو دیکھتا ہے۔ چنانچہ اقبال یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی جو تعلیم ہے اس میں تفکر و تدبر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اگر اس پہ آپ عمل نہیں کرتے تو پھرآپ جامد پتھر کی طرح ہو جائیں گے۔ جمادات اور نباتات اور ملاّ یہ تینوں ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح جب وہ عقل کی برائی کرتے ہیں تو مراد استدلال نہیں ہے، نہ عقل سے شعور مراد ہے۔ وہ تو اس وقت ایک خاص مسلک یا خاص رویے کی بات کرتے ہیںجو کہ بالکل ایک مجرّد چیز ہے، یعنی وہ عقل جس کا تعلق انسانیت کی بہتری یا انسانیت کی فلاح سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق محض اپنے نفس کی تسکین یا دنیا کے مال و متاع سمیٹنے کی یادنیا پہ مادی تسلط حاصل کرنے سے ہے۔ عقل کا یہ مسلک مغربی سرمایہ داری کا مسلک ہے، جس کا تعلق محض جلب زر سے ہے، محض اپنے نفس کی تسکین سے ہے، اگر اس میں عشق یعنی انسانیت کی لگن شامل نہیں ہے تو وہ مہلک اور مضر ہے۔ لیکن اگر اس میں عشق کی لگن شامل ہے تو پھر وہ ایک مفید چیز ہے۔ ایک مثبت چیز ہے۔ چنانچہ اقبال کا عشق عقلیت کا منافی نہیں ہے وہ تو صرف ان خود غرضانہ (Abstract) چیزوں کا تضاد ہے جن کا کہ انسانیت کی بہتری سے تعلق نہ ہو۔ اسی طرح عمل کے سلسلے میں بھی اسی قسم کے تضاد پیدا ہوتے ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے عمل اور جدوجہد کی کوئی حد نہیں ہے اور اس لیے ہر کسی کو اپنی زندگی کے لیے جہاں تک بھی اس کا ہاتھ پہنچتا ہے وہاں تک پہنچانا چاہیے۔ چنانچہ دیکھ لیجئے انھوں نے مسولیسنی کی بھی تعریف کی ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ اس میں وہی تضاد ہے جو کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، کہ اگر دو انسانوں کاتصادم ہوتا ہے یا دو قوموں کا آپس میں تصادم ہوتا ہے، تو پھر ظاہر ہے اس کافیصلہ جو ہے وہ توکسی نظریے کی بنا پر عقیدے کی بنا پر، کسی اصول کی بنا پر ہو گا۔ اور وہ اصول اقبال نے بیان کر دیئے ہیں وہ اصول یہ ہیں کہ آزادی اور عدل و انصاف اور انسانیت کی تکمیل کی کوشش جو چیزیں ان کے منافی ہیں وہ ان کی رائے میں غلط ہیں۔ جو چیزیں موید ہیں وہ ان کی رائے میں مفید ہیں۔لیکن اس کے باوجود چونکہ اس قسم کی مختلف تفسیریں اور تشریحیں ان کے بیان سے نکالی جاسکتی ہیں۔ اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ہمارے ہاں قریباً ہر مکتب فکر کو متاثر کیا ہے۔ اہل تعصب نے ان سے اپنا تعصب زیادہ مضبوط کیا۔ اہل نظر نے ان سے اپنی وسعت پیدا کی۔ تنگ نظروں نے ان میں اپنی تنگ نظری کی سند ڈھونڈی اور وسیع النظر لوگوں نے ان سے امداد حاصل کی۔ چنانچہ اہل ہوس نے ان کو اپنی ہوس کے لیے استعمال کیا۔ اہل جنوں نے اپنے جنوں کی تائید کے لیے استعمال کیا۔ غرض کہ ہماری قومی زندگی میں اور ہماری ذہنی زندگی میں ان کا اثر ہر ایک مکتب فکر پر پڑا۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ ان سب باتوں میں ایک بات ضرور مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ خواہ ان کے کلام کو لوگ تعصب کے لیے استعمال کریں ۔ خواہ وسیع القلبی کے لیے استعمال کریں، خواہ اس کو آفاقی نقطہء نظر سے استعمال کریں۔ خواہ خاص ذاتی نقطہء نظر سے استعمال کریں لیکن اس کے بارے میں سوچنے، اس کے بارے میں تفکر کرنے اس کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال کی مثال ہمارے ہاں ایک ندی یا ایک نہر کی سی نہیں ہے جو کہ ایک ہی سمت میں جارہی ہو بلکہ ان کی مثال تو ایک سمندر کی سی ہے جو کہ چاروں طرف محیط ہے۔ چنانچہ ان کو ہم ایک مکتب فکر نہیں کہہ سکتے ہاں ان کو ہم ایک جامعہ سے یا ایک یونیورسٹی سے تشبیہہ دے سکتے ہیں جس میں طرح طرح کے دبستاں موجود ہیں اور طرح طرح کے دبستانوں نے ان سے فیض اٹھایا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مقام یعنی اتنا مُؤثّریا اتنا اثر، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا ان سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ اور میں سمجھتا ہوں جب تک ان سے بڑا شاعر کوئی نہیں پیدا ہوتا اس وقت تک غالباً کسی اور کو بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو گا۔ اقبال، از مرتبہ: شیما مجید، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۸۷ء اقبالؔ کا عمرانیاتی مطالعہ ڈاکٹر ابنِ فرید میں ایک زمانہ سے یہ سوچتا ہوں کہ اقبال کے مختلف تصورات و اقدارِ فن میں ایک خاص نوعیت کا تسلسل ہے اور ان سے مجموعی طور پر ایک کُلّی نظامِ عمران تشکیل پاتا ہے، لیکن وہ چھوٹے چھوٹے عناصر، جو اُن کی شاعری میں پھیلے ہوئے ہیں، اور جن کی تشریح وہ اپنی فلسفیانہ تحریروں، مکاتیب اور گفتگوؤں میں گاہے بہ گاہے اس طرح کرتے رہے ہیں کہ کبھی کوئی بحث زیادہ نمایاں ہو گئی ہے اور کبھی کوئی، اُن میں ایک ربط و تطابق اس انداز سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مکمل تصویر ابھر کر سامنے آ جائے جو اقبال اپنے عینی معاشرہ کی پیش کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے جس دور میں اپنے استقبالی عمرانی نظریہ کو پیش کیا اور اس کے لیے شعر کو وسیلہ بنایا وہ مشرق کی تاریخ میں ایک عظیم موڑ کا دَور تھا۔ ملک نہ صرف غلامی کے سلاسل سے نجات پانے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ بلکہ مشرق کے زوال پذیر منفعل و مجہول زندگی کے بوجھل لبادے کو اتار کر اپنے عصر کی تازہ و کشادہ ہوا میں سانس لینا چاہتا تھا۔ یہ ایک دور سے گذر کر دوسرے دور میں داخل ہونے کا مرحلہ تھا۔ یہاں زنگ آلود معمولاتِ زندگی کو ترک کر کے نئے اطوار کو اختیار کرنا تھا۔ لاکھ شکستوں کے بعد بھی امیدوں کی شمع روشن رہتی ہے۔ اور جب یہ اُمید یقینِ محکم بن جاتی ہے تو استقبالیت کے امکانات زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ استقبالیت کی اساسی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ معاشرہ کو کسی مخصوص نصب العین کے حصول اور مطلوب معیارات و اقدار معاشری کی مقبولیت کے لئے ڈھالا جائے۔ لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ معاشرہ کی صورت گری شعوری طور پر کی جائے یا اُس کے مستقبل کی پیش بینی معتین صورت میں ہو سکے۔ یہ متضاد حقائق معاشرہ کے خمیر میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں لیکن پھر بھی معاشرہ کو ایک سمت دینے کی کوشش ہمیشہ ہی کی گئی ہے، کیونکہ ہر معاشرہ کے اعلیٰ ذہن اُن بندھے ٹکے اصولوں سے، یا گھسی پٹی روائتوں سے کبھی مُطمئن نہیں ہو سکتے ہیں جو معاشرہ کو کسی ایک مرحلہ پر روک لینے یا روکے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشرہ بہ ذاتِ خود پارہ کی طرح متحرک رہتا ہے، اس کے عوامل خارجی و داخلی عوامل کی اُفت و خیز سے مستقلاً اپنے ربط و تطابق میں ایک نئی ترتیب پیدا کرتے رہتے ہیں۔ اس نوعیت کی ترتیب جب بھی عالم وجود میں آنے لگتی ہے تو اُس معاشرہ کے اعلیٰ اذہان اپنے توانا اثرات کے ذریعہ معاشرہ کو مطلوب رُخ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کاوش میں کامیابی اُسی حد تک ہوتی ہے جس حد تک معاشرے کے چند یا تمام ذیلی نظاموں میں قبولیت و تطابق کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس توضیح سے اس امر کی تاویل بہرحال ہو جاتی ہے کہ معاشرہ کے ارتقائی عوامل میں استقبالیت ایک فطری عامل ہے۔ یہ ہمیشہ کارفرما رہا ہے اور ہمیشہ اثر انداز رہے گا۔ اقبال نے جس دور میں شعور و فکر کا بلوغ حاصل کیا وہ شکست، ناکامی، محرومی، اور انفعالیت کی بے معنویت کا دور تھا، اور اِس افتادہ زمین میں ایک اجنبی معاشرہ اپنی جڑیں پیوست کرنے کی شعوری کوشش کر رہا تھا، لیکن یہاں کا معاشرہ، فطری ردّ عمل کے طور پر، ان کے لئے گنجائش پیدا کرنے کے بجائے، اُن کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا۔ مگر اس مزاحمت کی بھی کوئی جہت نہیں تھی۔ علاوہ اس کے کہ اجنبی اقدار و نظام حیات کو اپنی سرزمین میں جڑیں جمانے نہیں دیتا ہے۔ اُس دور میں بہت سے نظریات و تصورات متعارف کرائے گئے، جن میں سے چند مقبول ہوئے۔ اقبال جس فکر سے متاثر ہوئے اور جسے انھوں نے راہنما بنایا وہ سرسید کی تحریک تھی جو ایک سربلند قوم کو زوال کی عبرتناک پستیوں سے نکال کر اعتماد اور احترام ذات کے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنا اور مایوسی میں امید کی بامعنیٰ تجّلی کو عام کرنا چاہتی تھی۔ اقبال ایسی معنویت کے لیے بے حد روشن دور میں فن کو وسیلے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے نمودار ہوئے۔ زندگی کے اور شعبوں کی طرح ادب بھی اُن دنوں پریشان خوابی کا شکار تھا اور اپنی مجرّد حیثیت میں صرف شکست، پسپائی، انفعال اور فراز کی اِس سے زیادہ اچھی عکاسی اور کیا ہو سکتی ہے جو اٹھارہویں اورانیسیویں صدی میں اُردو شعر و ادب نے کی۔ اگر سارے اُردو شعر و ادب کو سمیٹا جائے تو اُس کے پسندیدہ موضوعات انتشار، تضاد اور تردید میں سمٹ آئیں گے۔ یہ موضوعات حسبِ معمول سوچے سمجھے یا پہلے سے طے شدہ نہیں تھے، بلکہ عصری معاشری حالات نے انھیںاس طرح متعین کر دیا تھا کہ گھوم پھر کر ذہن انھیں پر ٹکتا تھا۔ یہ گویا اپنے وقت کی کھونٹیاں تھیں جن پر فکر کے لبادے لٹکے ہوئے تھے اور ارادی آوردی فن کی پوشش کا سہارا تھے۔ اِس انجماد میں حرکیت کے طوفان کو برپا کرنا وقت کی ناگزیر ضرورت تھی۔ اقبال نے جو عمرانی نظام شعرا کے توانا وسیلہ کے ذریعہ پیش کیا وہ عصری معاشرہ کے لیے بڑی حد تک معروف تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اقدار امتدادِ زمانہ سے دھندلا چکی تھیںاور ان کی صفات بہم و مہمل ہو چکی تھیں۔ اصطلاحات عام تھیں لیکن ان کی معنوی ترتیب میں تقلیب اور عملی ماہیت میں زندگی سے اغماض پیدا ہو چکا تھا۔ اچھی صفات وہ تھیں جو زندگی کو مجہولیت اور انفعالیت میں سکون و راحت اور ابدی نجات حاصل کرنے کی طرف مائل کریں اور پُرخطر اوصاف وہ تھے جو زندگی کے منجدھار میں ڈال کر مقاومت پر آمادہ کریں۔ اوّل الذکر روّیہ خفتگی اور بیزاری کا تھا اور ثانی الذکر رویہ جرأت مندانہ پیش قدمی کا تھا۔ اقبال نے دوسری روش اختیار کی اور اُردو شعر و ادب کو ایک توانا تجلّی کی سراسیمگی سے دو چار کر دیا یہ آہنگ اتنا بلند اور یہ لہجہ اتنا توانا تھا کہ اُردو کے روایت پرست شعرا اسے شاعری ماننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ یہ انکار ایک فطری عمل تھا کیونکہ زندگی کا اتنا وسیع تر اور جامع تصور اُردو شعر و ادب میں اتنے مربوط انداز میں پہلی بار پیش ہوا تھا۔ ہمارا معاشری ذہن ہر چند کہ اس ارتقاعِ ذہنی کے لیے تیار ہو چکا تھا لیکن ہمارے فنی ذہن کے لیے یہ لہجہ اجنبی تھا بلکہ غیر متوقع بھی! اقبال کا اساسی عمرانی تصور ’’اجتماعی یعنی قومی دماغ‘‘ یا ’’قومی ادراک‘‘ ہے۔ اس نوعیت کے تصورات (جیسا کہ میں اپنے ایک اور مضمون میں عرض کر چکا ہوں) ابن خلدون نے ’’عصبیہ‘‘ کونت نے آفاقی مطاوعت (Universalis Consensus) در خانم نے اجتماعی شعور (Collective Consciousness) اور گڈنگس نے شعورِ نوع (Consciousness of kind) کی صورت میں پیش کیے ہیں۔ اقبال کا ’’قومی ادراک‘‘ کا تصور اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ یہ ادراک، جیسا کہ اس کی متبادل اصطلاحات ’’اجتماعی یعنی قومی دماغ‘‘ سے واضح ہوتا ہے۔ ایک مسلسل عمل ہے جو معاشرہ میں نسلاً بعد نسل جاری رہتا ہے۔ اس کی صورت گری وہ عقائد، تصورات، روایات، طرزِ زندگی، معیارات واقدار کرتی ہیں جو ایک زمانہ سے اُس مخصوص معاشرہ کی خمیر میں شامل ہو چکی ہوتی ہیں فرد اِن کے سیاق میں اپنے انفرادی اور اجتماعی عمل کے لیے انتخاب و ترتیب کرتا رہتا ہے تاکہ داعیات و محرکات کی مناسبت سے جوابی عمل کر سکے ’’قومی ادراک‘‘ اُس اجتماعی تجربہ و تجسس کا ماحصل ہوتا ہے جو کسی تنہا فرد کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں ہو سکتا، بلکہ یہ ایک دھارا ہوتی ہے جس میں چھوٹے چھوٹے تجربے شامل ہو کر اجتماعی ہوشمندی بن جاتے ہیں۔ اِسے اقبال نے جاوید نامہ میں زندہ رود کے پرتجسس کردار کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ یہ کردار حقائق کی تلاش و جستجو میں اس حد تک سرگرداں رہتا ہے کہ وہ ہفت افلاک کی باد یہ پیمائی کرتا ہے اور ماضی کے تاریخ ساز اذہان سے اُن رموز کو اخذ کرتا ہے جو کسی زندہ قوم یا معاشرہ کی صحت مند روایات کے سنگ میل ہوتے ہیں، اور انھیں سے اجتماعی ہوشمندی صورت پذیر ہوتی ہے۔ پھر جب یہ اجتماعی ہوشمندی اپنے عقائد، عیون راہ و اقدار سے ہم آہنگ ہو کر فکر کا ثبات حاصل کر لیتی ہے تو اقبال اِسے ’’اجتماعی یا قومی فکر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اقبال مثنوی رموزِ بیخودی کی اشاعتِ اوّل (۱۹۱۸) کے دیباچہ میں اس امر کی تشریح مندرجہ ذیل انداز میں کرتے ہیں: جس طرح حیاتِ افراد میں جلبِ منفعت، دافع مضّرت، تعینِ عمل و ذوقِ حقائق عالیہ احساس نفس کے تدریجی نشو و نما، اس کے تسلسل، توسیع اور استحکام سے وابستہ ہے اسی طرح ملل و اقوام کی حیات کا راز بھی اسی احساس، یا بہ الفاظِ دیگر ’’قومی انا‘‘ کی حفاظت، تربیت اور استحکام میں مضمر ہے اور حیات ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ افراد قوم کسی آئین مسّلم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات کی حدود مقرر کریں تاکہ انفرادی اعمال کا تبائن و تناقص مٹ کر تمام قوم کے لیے ایک قلبِ مشترک پیدا ہو جائے۔ افراد کی صورت میں احساس نفس کا تسلسل قوتِ حافظہ سے ہے۔ اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل و استحکام قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے۔ گویا قومی تاریخ حیاتِ ملّیہ کے لیے بمنزلۂ قوّتِ حافظہ کے ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حِیسّات و اعمال کو مربوط کر کے ’’قومی انا‘‘ کا زمانی تسلسل محفوظ و قائم رکھتی ہے۔ اقبال کے اس تصور کو میں نے زبردستی کھینچ تان کر اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ یہ ایک نوعیت سے خاصی چونکا دینے والی بازیافت ہو گی اگر میں یہ عرض کروں کہ مثنوی ’’اسرارِ خودی‘‘ مثنوی ’’رموز بیخودی‘‘ اور ان کا تیسرا حصہ (جو لکھا نہ گیا) اسی عمرانی تصور کی ترجمان ہیں۔ ملاحظہ ہو اِس اقتباس کی آئندہ سطریں۔ علم الحیات و عمرانیات کے اِسی نقطہ کو مدّنظر رکھ کر میں نے مِلّتِ اسلامیہ کی ہیّت ترکیبی اور اس کے مختلف اجزا و عناصر پر نظر ڈالی ہے اور مجھے یقین ہے کہ امّتِ مسلمہ کی حیات کا صحیح ادراک اسی نقطہ نگاہ سے حاصل ہو سکتا ہے۔ البتہ اس ضمن میں ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایسی مختص الہیت جماعت کا انحطاط زائل کرنے اور اس کی زندگی مضبوط و محکم کرنے کے عملی اصول کیا ہیں؟ اس سوال کا مجمل جواب مثنوی کے دونوں حصوں میں آ چکا ہے، مگر مفصّل جواب کے لیے ناظرین کو انتظار کرنا چاہیے۔ اگر وقت نے مساعدت کی تو اِس مثنوی کا تیسرا حصہ اسی سوال کا تفصیلی جواب ہو گا۔ ہر معاشرہ کا اپنا مخصوص مدر کہ ہوتا کہ جس کے تناظر میں وہ اپنے معاون و معاند کوائف کا جائزہ لیتا ہے اور اپنے عمل و تعامل کی راہ متعین کرتا ہے کوئی بھی مادّی یا طبعی حقیقت معاشری احوال میں مجرّد حقیقت نہیں ہوتی، اُس کے ساتھ اگر اجتماعی عصبیت (ابن خلدون) کے ’’عصبہ‘‘ کا تصور ذہن میں رہے) وابستہ نہ ہو گی تو وہ ہمارے لیے سرے سے حقیقت ہی نہ رہے گی۔ اسی لیے معاشرہ حقیقت کو اپنے معیارات کے زاویہ سے دیکھتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کا اپنا عمرانی کردار (Social Character) بنتا ہے جو اپنا مخصوص ادراک بھی رکھتا ہے۔ اس ادراک کے ذریعہ پھر وہ اجتماعی شعور تشکیل پاتا ہے جو خوب و ناخوب، صواب و ناصواب، امر و نہی، اور خیر و شر وغیرہ کا تعین کرتا ہے یہ ایسا نظام ہے جو محض انفرادی پسند و ناپسند کے ذریعہ بنتا بگڑتا نہیں ہے۔ اس کے لیے معاشری روایت اور تبدیلی و تطابق کے غیر مختتم عمل (اقبال کے الفاظ میں ’’احساس نفس کے تسلسل‘‘) کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی چھوٹے چھوٹے عوامل نئی ترتیب پانے لگتے ہیں تو (اقبال کی اصطلاح میں) ’’قومی ادراک‘‘ ماضی کے ساتھ حال کی مطابقت اس طرح کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ معاشرہ کسی بے قابو بحران سے دوچار ہونے کے بجائے توازن و ہم آہنگی کو برقرار رکھ سکے، لیکن انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستانی معاشرہ اِس توازن و آہنگی کو برقرار نہ رکھ سکا اور ایک عظیم اضطراب و اضطرار سے ہم کنار ہوا۔ اس مرحلہ پر ہی اقبال نے ’’قومی ادراک‘‘ کو دوبارہ متعارف کرایا۔ ’’قومی ادراک‘‘ اقبال کے کلام میں ’’خودی‘‘ کے تصور کے ساتھ ابھرتا ہے۔ وہ ’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے چوتھے خطبہ میں ’’خودی‘‘ کے بارے میں بیان کرتے ہیں: جب ہم کسی شے کا ادراک کرتے، یا اُس پر حکم لگاتے، یا کوئی ارادہ کرتے ہیں تو ایسا کرنے میں خودی ہی سے آشنا ہوتے ہیں خودی کی زندگی اطناب کی ایک حالت ہے جس کو اُس نے اپنے ماحول پر اثر آفرینی یا اُس سے اثر پذیری کی خاطر پیدا کر رکھا ہے۔(۱) اقبال کے عینی معاشرہ میں یہ ایک ’’رہنما توانائی‘‘ ہے جو ہر فرد کو ’’اثر آفرینی‘‘ اور ’’اثر پذیری‘‘ کی کشمکش میں میسر آتی ہے۔ فرد جب مختلف ’’تجربات اور واردات‘‘ سے گزرتا ہے تو اُس کی خودی کی ’’تشکیل‘‘ ہوتی ہے اور اس کے نظم و ضبط کا راستہ دکھائی دیتا ہے‘‘۔ خودی ان کے نزدیک ’عرفانِ نفس‘ ہے جو اُس وقت تک نصیب نہیں ہو سکتا جب تک افرادِ معاشرہ اپنی شخصیت میں توازن پیدا نہ کریں۔ اُن میں خوددرای، محکمی، سربلندی، یقین اور استغنا ہونا چاہیے تو دوسری طرف عجز و تواضع اور ایسی فقیری ہونا چاہیے جو رشکِ شہنشاہی ہو۔ اُس کی صفات دراصل ایمانِ محکم اور اعمالِ صالحہ ہوں کیونکہ یہی ’’فطرتِ الہٰی‘‘ یعنی ’’خودی‘‘ ہے۔ اس طرح خودی ایک حرکی توانائی (Dynamic Force) ہے۔ اسی سے افراد کا عمل نمو پذیر ہوتا ہے جو عزم و استقلال اور قوت و عظمت پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس طرح ایک اجتماعی صفت (Social Characteristic) بھی ہے جو اپنی کلّی و مجّرد حیثیت رکھتی ہے: اقبال معاشرہ میں فرد کی اہمیت کے ہمیشہ معترف رہے ہیں، بلکہ انھوں نے اس کے واضح تصور کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ تنہا معاشرہ اس وقت تک اپنا وجود نہیں رکھ سکتا جب تک افراد اُس کے فعال عناصر کی حیثیت سے اپنا وجود نہ رکھتے ہوں۔ معاشرہ اپنے لیے جو بھی اقدار و معیار متعین کرتا ہے وہ ان کی ارتعاشی قدر (Functional Value) ہوتی ہے، لیکن ان کی حقیقی صورت گری فرد کا عمل ہی کرتا ہے۔ معاشرہ اور فرد کے اس لازم وملزوم رشتہ کو اقبال نے بڑے بلیغ انداز میں پیش کیا ہے: زندہ فرد از ارتباطِ جان وتن زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن مرگِ فرد از خشکی رودِ حیات مرگِ قوم از ترکِ مقصود حیات ہر معاشرہ اپنے لیے فرد کی ایک مثالی ہیت تعمیر کرتا ہے جو عام افراد کے لیے معیار بنتا ہے، اور اقبال کے استقبالی نظریہ کی روشنی میں نصب العین یا منزل کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ اقبال کے معاشرتی نظام میں یہ فرد ’’مردِ کامل‘‘ یا ’’مرد مومن‘‘ ہے، اور علامتی حیثیت میں شاہین، سپاہی، اور فقیر وغیرہ ہے۔ اس کی صفات کو انھوں نے جستہ جستہ بھی بیان کیا ہے اور اجمالی حیثیت سے بھی! ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں انھوں نے اِس کردار کو بڑے جامع انداز میں پیش کیا ہے: اس معیاری معاشری فرد کو اگر ہم قریب سے دیکھیں تو اس میں حرکت و عمل اور ’’یزداں بہ کمند آوری‘‘ کہ خصوصیات زیادہ نمایاں ہیں۔ اس میں اتنی توانائی اور جرأت ہے کہ وہ زندگی کی پیش قدمی سے مات کھانے پر آمادہ نہیں ہوتا، بلکہ اُس کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ زمانہ اُس کی گرفت میں رہے۔ یہ آرزو اور تمنّا ہی امید و امکان کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ اگر امید کی لو ٹمٹمانے لگتی ہے تو پورے معاشرے کی تقدیر ڈگمگانے لگتی ہے کیونکہ نومیدی سے صرف کامیابی کا راستہ مسدود نہیں ہوتا بلکہ یہ معاشرہ کی ارتقائی صلاحیت کو بھی سلب کر لیتی ہے۔ امید کے ٹوٹتے ہی ’’زوال علم و عرفان‘‘ شروع ہو جاتا ہے، یعنی ’’قومی دماغ‘‘ یا ’’قومی شعور‘‘ ماؤف ہو جاتا ہے اور معاشرہ انتشار و بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ معاشرہ جو معاشری آسودگیوں کے منتہائے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اُس کے لیے صرف ایک منزل رہ جاتی ہے کہ وہ ترقی کے آخری زینہ سے نیچے اترنا شروع کر دے۔ لیکن نیچے اُتر کر وہ جائے تو کہاں جائے؟ آگے کیا ہے؟ واپسی پر کیا ملے گا؟ یہ کشمکش کا وہ مرحلہ ہوتا کہ جہاں مذکورہ معاشرہ کا معیاری فرد انتشار و پراگندگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اُس کا گرد و پیش اُس کے لیے ایک خلا بن جاتا ہے اور اُس کے باطن میں بھی خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جاتا ہے۔ اقبال محدود مقاصد کے معاشروں کے اس عبرتناک انجام کا شعور رکھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے معاشری زندگی کے لیے جو منزل متعین کی وہ زندگی کی اپنی آخری منزل تھی۔ ان کے نزدیک معاشری پیش قدمی کی انتہا اس لیے نہیں ہوتی کہ خود زندگی ’’جاوداں، پیہم دواں ہر دم جوان‘‘ رہتی ہے۔ اور جب امکانات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں تو استقبالیت عین تقاضا بن جاتی ہے۔ ہر معاشرہ میں اپنی زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنے کی مخفی صلاحیت ہوتی ہے۔ اُس کے اندر وہ مثبت عناصر ہوتے ہیں جو ایک نیا نظم اختیار کر کے ڈوبتی ہوئی لو کو دوبارہ سنبھالا دے دیتے ہیں۔ اِس نکتہ کی اقبال ’’منتشرشذرات‘‘ (Stray Reflections) میں اور انداز سے تصریح کرتے ہیں: ایک مریض معاشرہ بعض اوقات اپنے اندر ایسی قوتوں کومجتمع کر لیتا ہے جو اُس کے جسمانی نظام کی صحت کی صلاحیت رکھتی ہیں ـــــــمثلاً، ایک عظیم شخصیت کا پیدا ہونا جو نئے نصب العین کی تنزیل کے ذریعہ مرتے ہوئے جسم میں دوبارہ زندگی کی توانائی پیدا کر سکتی ہے۔ (شذرہ ـــــ ۷۰) اس طرح اقبال کے زاویۂ نظر سے ہر معاشرہ اپنی زندگی کے دائرہ کے مکمل ہو جانے کے بعد ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ اگر اس میں حیات بخش مخفی عناصر زیادہ توانا ہوتے ہیں تو وہ اپنی زندگی کے امکانات ایک بار پھر پیدا کر لیتا ہے، اور یہ صرف وہی معاشرہ کر سکتا ہے جو مثبت قدروں کی اساس پر قائم ہو۔ یہ تصور اقبال کے ذہن پر اس قدر حاوی تھا کہ انھوں نے انبیاء کے بعد شخصیت کی عظمت کا مقام شاعر کو عطا کیا۔ اقبال نے اپنے کلام اور نثری تحریروں میں معاشرہ کے بنیادی اداروں یا ذیلی نظاموں کے بارے میں بھی اسی سیاق میں اظہار خیال کیا ہے۔ لیکن جب ہم ان کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں معاشرے کے ذیلی نظاموں کی حیثیت سے برتنے لگتے ہیں۔ اقبال کے ذہن میں عمران کا اپنا جامع تصور ہے۔ ان کے نقطۂ نظر کے مطابق معاشرہ ایک کلّی نظام ہے، جو اپنے ذیلی نظاموں کے ذریعہ اپنی بنیادی ضرورتیں خواہ وہ مادّی ہوں یا روحانی پوری کرتا ہے۔ اسی وجہ سے ہر ذیلی نظام دوسرے ذیلی نظاموں سے اس طرح منسلک ہوتا ہے کہ اگر ایک ذیلی نظام کے عناصر میں نئی ترتیب ہونے لگتی ہے تو دوسرے ذیلی نظام متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ اس طرح خاندان، تعلیم، مذہب، اقتصادیات، سیاسیات وغیرہ میں لاینفک رشتہ ہے جس کی وجہ سے ہر معاشرہ اپنے نظم و ضبط اور ہم آہنگی کو قائم و برقرار رکھتا ہے۔ اقبال کو اس حقیقت کا واضح شعور تھا چنانچہ ادارۂ معارف اسلامیہ (جس کے مؤسس وہ خود تھے) کے پہلے اجلاس (۱۵۔ اپریل ۱۹۳۳) کے خطبۂ صدارت میں انھوں نے فرمایا: وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہم فقہی جذبات کی چھان بین کے بجائے ان اہم شعبہ ہائے علم کی طرف متوجہ ہوں جو ہنوز محتاج تحقیق ہیں۔ ریاضیات، طب اور طبعیات میں مسلمانوں کے شاندار کارنامے ابھی تک دنیا کے مختلف کتب خانوں میں مستور و پنہاں ہیں جن کے احیا کی سخت ضرورت ہے۔ (گفتارِ اقبال۔ مرتبہ محمد رفیق افضل) اس کے علاوہ جب انھوں نے اس کا دستور العمل بنایا تو اُس کے توسیع کے منصوبے کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’ادارے کی وسعت کار حسبِ ذیل دائروں پر مشتمل ہو گی‘‘ اور اس کے چھٹے دائرہ کی حد بندی اس نوعیت سے کی: ’’۶۔ عمرانیات: (الف) سیاسیات (ب) اقتصادیات (ج) قانون‘‘ تو انھوں نے کسی قدر خام انداز میں معاشری ذیلی نظاموں کے رشتوں اور عمران کی جامعیت سے آگاہی کا ثبوت فراہم کیا۔ معاشرہ کی بنیادی اکائی خاندان ہے جہاں افراد کی معاشرتیت (Socialization) کا فریضہ انجام پاتا ہے اور جہاں دوسرے معاشرتی ذیلی نظاموں سے آگاہی اور ان کے لیے پاسداری (Conformity) کی داغ بیل پڑتی ہے۔ اقبال اسی وجہ سے خاندان کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں اور عائلی نظام کے استحکام و بقا کے لیے کوشاں رہتے ہیں‘‘اُنکے نزدیک خاندانی وحدت’’ بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو اعظم ہے‘‘۔ اگر یہ وحدت ٹوٹ جائے تو پورا معاشرہ سماجی بحران میں مبتلا ہو جاتا ہے (اس حقیقت کی تصدیق جدید ترین عمرانیاتی تحقیقات سے بھی ہوتی ہے) چنانچہ وہ اس امر پر زور دیتے رہے ہیں کہ خاندان کے عناصر ترکیبی (شوہر، بیوی اور بچّہ) نہ صرف اپنے فرائض منصبی کو پہچانیں بلکہ ان کی انجام دہی میں پائیداری کا بھی ثبوت دیں۔ شروع شروع میں اقبال کی نظر میں ’’الرجَال قوّا مُون علی النِساَئُُ‘‘ کے معنی یہی تھے کہ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے مساوی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: میں مرد اور عورت کی مساواتِ مطلق کا حامی نہیں ہو سکتا۔ یہ ظاہر ہے کہ قدرت نے ان دونوں کے تفویض جدا جدا خدمتیں کی ہیں اور ان فرائض جداگانہ کی صحیح اور باقاعدہ انجام دہی خانوادۂ انسانی کی صحت اور فلاح کے لیے لازمی ہے۔ (مِلّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر) اس تفاوت کو برقرار رکھنے کے لیے وہ عورت کی تعلیم کی بھی تجدید کرتے ہیں: چونکہ عورت کے دل و دماغ کو مذہبی تخیل کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے۔ لہذا قومی ہستی کی مسلسل بقا کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ابتداء میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں۔ جب وہ مذہبی تعلیم سے فارغ ہو چکیں تو اُن کو اسلامی تاریخ، علم تدبیر، خانہ داری اور علم اصولِ حفظِ صحت پڑھایا جائے، اس سے ان کی دماغی قابلیتیں اس حد تک نشو و نما پا جائیں گی کہ وہ اپنے شوہروں سے تبادلۂ خیالات کر سکیں گی اور اس وقت کے وہ فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گی جو میری رائے میں عورت کے فرائض اوّلین ہیں۔ (مِلّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر) اسِ زاویۂ نظر کے بارے میں اُنھیں کلّی اعتماد نہیں تھا کہ آیا اُن کا موقف اسلامی تھا بھی یا نہیں۔ چنانچہ انھوں نے قدرے محتاط روش اختیار کی اور عورتوں کے حقوق پر پابندی کو وقت و حالات کا تقاضا قرار دیا۔ ’’چونکہ اقوامِ ہندوستان نے اخلاقی لحاظ سے کچھ بہت ترقی نہیں کی، اس واسطے اس دستور کو یک قلم موقوف کر دینا میری رائے میں قوم کے لیے نہایت مضر ہو گا۔ ہاں اگر قوم کی اخلاقی حالت ایسی ہو جائے جیسی کہ ابتدائے زمانۂ اسلام میں تھی تو اس کے زور کو بہت کم کیا جا سکتا ہے، اور قوم کی عورتوں کو آزادی سے افراد کے ساتھ تبادلۂ خیالات کرنے کی عام اجازت ہو سکتی ہے‘‘۔ (’’قومی زندگی‘‘ مضامین اقبال مرتبہ : تصدق حسین تاج) اس پس منظر میں اگر ان کے مندرجہ ذیل نوعیت کے کلام کو دیکھا جائے: ایک زندہ حقیقت ہے مرے سینے میں مستور کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد تو صحیح اندازہ ہو گا کہ حیاتِ اجتماعی کے لحاظ سے ان کا مطلب کیا تھا رفتہ رفتہ اُن کے غور و تفحص نے انھیں بتایا کہ انھوں نے جو کچھ اب تک سمجھا تھا۔ وہ مشرقی پابندی روایت پر ستی کا غلبہ تھا۔ اصل نوعیت کچھ اور تھی، چنانچہ انجمن خواتین اسلام مدراس کے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے (۱۹۔ فروری ۱۹۲۹ئ) انھوں نے اپنے موقف پر نظر ثانی کی: ’’مجھے بتلانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام میں مرد و زن میں قطعی مساوات ہے۔ میں نے قرآن پاک کی آیت سے یہی سمجھا ہے۔ بعض علماء مرد کی فوقیت کے قائل ہیں۔ جس آیت سے شک کیا جاتا ہے وہ مشہور ہے: اَلْرِجَالُ قَوّا مُونَ علی النسائِ، عربی محاورہ کی رو سے اس کی یہ تفسیر صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔ عربی گرامر کی رو سے قائم کا صلہ جب علیٰ پر آئے تومعنی محافطت کے ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسری جگہ قرآنِ حکیم نے فرمایا۔ ھُنَّ لِبَاسُٗ لکُمْ و اَنْتُمْ لِبَاسُٗ لَھُنَّ ط لباس بھی محافظت کے لیے ہوتا ہے۔ مرد عورت کا محافظ ہے۔ دیگر کئی لحاظ سے بھی مرد و عورت میں کسی قسم کا فرق نہیں‘‘۔ (گفتارِ اقبال: مرتبہ محمد رفیق افضل) پھر اُس کے بعد انھوں نے اور بھی زیادہ آزادانہ انداز میں سوچنا شروع کر دیا: پردہ در حقیقت ایک مخصوص ذہنی رویہ کا نام ہے۔ ذہنی روّیہ کو مزید تقویت بخشنے کے لیے بعض صورتوں کی ضرورت پڑتی ہے، جس کا انحصار ہر قوم، زمانہ اور ملک کے حالات پر ہوتا ہے۔ (’’مشرق میں عورت کی حیثیت‘‘ تقاریر و بیانات اقبال (انگریزی) مرتبہ :لطیف احمد شیروانی) تعدادِ ازدواج کے بارے میں لکھتے ہیں: اسلامی قانون کے مطابق تعّددِ ازدواج کی یقیناً اجازت ہے۔ یہ ایک سماجی لعنت، یعنی کھلے عام عصمت فروشی سے مفر حاصل کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔ ایک زوجیت ہمارا بھی نصب العین ہے اور آپ کا بھی، لیکن یک زوجیت کی اصل خامی یہ ہے کہ اس کے پاس فاضل عورتوں سے عہدہ بر آ ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ (’’مشرق میں عورت کی حیثیت‘‘۔ ایضاً) اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ: بہرحال اسلام میں تعّددِ ازدواج کوئی دائمی ادارہ نہیں ہے۔ اسلامی قانون کے مطابق ریاست کے ذریعہ اُن تمام قانونی اجازتوں کو منسوخ بھی کیا جا سکتا ہے جن سے کسی سماجی بدعنوانی کے پھیلنے کا امکان پیدا ہو جائے۔ (’’مشرق میں عورت کی حیثیت‘‘ ایضاً) اسی طرح طلاق جیسے الجھے ہوئے مسئلے کی صراحت انھوں نے اس طرح کی۔ اسلام میں طلاق کے قوانین بھی خاصا متوجہ کرتے ہیں۔ مسلمان عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ طلاق کا مساوی حق حاصل ہے۔۔۔۔اسے اصطلاحاً ’’تفویض‘‘ کہتے ہیں: (’’مشرق میں عورت کی حیثیت‘‘ ایضاً) یہ تمام اقتباسات ایک خاص زاویۂ نظر کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ ہے معاشرہ کے لیے عائلی نظام کی بنیادی اہمیت۔ اقبال کو اِس امر پر شدّت کے ساتھ اصرار تھا کہ خاندان کے بغیر نہ کوئی معاشرہ مربوط و منظم رہ سکتا ہے اور نہ اس کی سماجی وحدت قائم و باقی رہ سکتی ہے۔ اُن کے زمانہ میں عورت کی حریتّ (Emancipation) کی تحریک غیر معمولی طور پر فعال ہو چکی تھی جو عائلی نظام کے لیے بالواسطہ خطرہ بن کر ابھر رہی تھی۔ اِس تحریک کے ذریعہ، اُس زمانہ سے ہی، عورت کو مرد کے مقابل جارحانہ بغاوت کے جذبہ کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ عورت خاندانی زندگی کو فطری تقاضا کے بجائے معاشرتی استحصال تصّور کرنے لگے۔ اس طرح خاندان کے دو اہم ستونوں میں رفاقت و مواسات کے بجائے افتراق و عناد پیدا ہو رہا ہے اور خاندان کی بنیادی اکائی تحلیل ہوتی جا رہی ہے (جیسا جکہ ہم عصر حاضر میں فینس ممالک اور امریکا میں مشاہدہ کر رہے ہیں) اقبال اِس عائلی بحران کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں تھے، چنانچہ انھوں نے ہمیشہ عائلی حقوق و فرائض پر اصرار کیا۔ ’’مسلمان عورت کو جماعتِ اسلامی میں بدستور اُسی حد کے اندر رہنا چاہیے جو اسلام نے اُس کے لیے مقرر کر دی ہے اور جو حد اُس کے لیے مقرر کی گئی ہے اسی کے لحاظ سے اس کی تعلیم ہونی چاہیے۔ (’’ملّت بیضہ پر ایک عمرانی نظر‘‘ مضامینِ اقبال ، مرتبہ: تصدّق حسین تاج) انسانوں کی زندگی مدنی ہے۔ یعنی انسان مل کر زندگی بسر کرتے ہیں اس لیے انسانوں کی مختلف جماعتوں سے مختلف فرائض متعلق ہیں ایک سلسلۂ فرائض انسانی زندگی میں مردوں کا ہے اور ایک عورتوں کا۔ یہ فرائض بعض تو خدائی احکام کی رو سے ہیں اور بعض خود وضع کردہ ہیں۔ بعض فطری طور پر ہیں۔ عورت کے بحیثیت عورت اور مرد کے بحیثیت مرد، بعض خاص علیٰحدہ علیٰحدہ فرائض ہیں۔ ان فرائض میں اختلاف ہے۔ مگر اس کا نتیجہ نہیں نکلتا کہ عورت ادنیٰ ہے اور مرد اعلیٰ۔ فرائض کا اختلاف وجوہ پر مبنی ہے کہ جہاں تک مساوات کا تعلق ہے۔ اسلام کے اندر مرد و زن میں کوئی فرق نہیں۔ تمدّنی ضروریات کی وجہ سے فرائض میں اختلاف ہے مدنی زندگی کے لیے جو احکام ہوں گے وہ فرائض کو مدنظر رکھ کر ہوں گے‘‘۔ (’’شر یعت اسلام میں مردا ور عورت کا رتبہ‘‘ گفتارِ اقبال) اقبال کے اس فکری ردِّ عمل کی اصل وجہ بھی ایک عمرانی حقیقت ہی ہے۔ ہر معاشرہ میں تبدیلی کا عمل فطری ہوتا ہے۔ وہ اپنے ماضی، روایات اور عصری تقاضوں کے سیاق میں ہی اپنے اندر سماجی تبدیلی کرتا ہے۔ کوئی بھی سماجی تبدیلی اگر کسی معاشرہ میں شعوری طور پر یا طاقت و قوّت کے ذریعہ لانے کی کوشش کی جائے تو معاشرہ اسے اچھال کر باہر پھینک دیتا ہے خواہ وہ تبدیلی کتنی ہی معقول کیوں نہ ہو۔ اس نکتے کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں: ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی قو م کے لیے بغرض تکمیلِ صحت اپنی تمدّنی آب و ہوا کی تبدیلی کے طور پر کسی غیر قوم کے تمدّن کے عناصر کا اخذ و جذب کرنا قرین مصلحت بلکہ لازمی ہی کیوں نہ ہو لیکن اغیار کی تقلید میں شتاب زدگی یا بے سلیقگی سے کام لیا گیا تو نظامِ قومی کے اعضاء رئیسہ میں اختلالِ عظیم کے پیدا ہونے کا خطرہ ہو گا اقوام کے تمدن میں ایک پہلو عمومیت کا ہوا کرتا ہے، لیکن ان کی معاشرت کی رسموں اور سیاسی دستوروں میں خصوصیتِ شخصی کی شان نظر آتی ہے۔ یہ رسوم اور یہ دستورات ان قوموں کی تاریخی زندگی اور ان کی خاص روایات سے اثر پذیر ہوتی ہیں۔ (’’مِلّتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ مضامینِ اقبال) یہ ایک بسیط عمرانی حقیقت ہے، اور اس کا احساس کر کے ہی اقبال اپنے رد عمل میں توازن پیدا کرتے ہیں جس کا اظہار اُن کے بعد کے کلام میں بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کی چند رُباعیاں اُن کے فکری اعتدال کی خاطر خواہ نمائندگی کرتی ہیں: زشامِ مابرون آور سحر را بہ قرآں باز خواں اہلِ نظر را تومی دانی کہ سوزِ قرأتِ تو دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را جہاں را محکمی از اُمہّات است نہاد شاں امین ممکنات است اگر ایں نکتہ را قومی نداند نظامِ کاروبارش بی ثبات است اِس آزادیِ فکر کے باوجود بعض روایتی اعمال (Traditional Practices) اُن کے ذہن میں اپنی جڑیں مضبوطی سے جمائے رہے اور وہ دونوں سمتوں کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے رہے، اس کے باوجود اُن پر یہ تصور واضح رہا کہ: ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ جس بنی نوع انسانی کے ایک بہت بڑے گروہ یعنی غلاموں کو حقوق کی رو سے آقائوں کے مساوی کر دیا۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہی بنی نوعِ انسانی کے ایک نہایت ضروری حصے کو جس کو اس نے اپنی تین محبوب ترین اشیا میں شاملِ کیا ہے، غلاموں کی صورت میں منتقل کر دیتا، مسلمانوں کا موجودہ طریق عمل زیادہ تر فقہائے قدیم کے ذاتی استدلالات پر مبنی ہے، اور اس میں کچھ شک نہیں کہ استدلالات ترمیم طلب ہیں، اور کون کہہ سکتا ہے کہ ان استدلالات میں موجودہ حالات کی رُو سے ترمیم کرنا گناہ ہے بشرطیکہ یہ ترمیم اصولِ مذہب کے مخالف نہ ہو۔ (’’قومی زندگی‘‘ مضامینِ اقبال) عائلی نظام کی طرح اقبال نے معاشرہ کے اقتصادی ذیلی نظام کے خطوط ابھارنے کی بھی کوشش کی۔ اپنے ہم عصر اہلِ نظر ادیبوں اور مفکرّوں میں انھوں نے جس سنجیدگی کے ساتھ اِسے موضوع فکر بنایا ہے وہ ہمیں دوسروں کے یہاں نظر نہیں آتی۔ (کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جدید علم الاقتصاد پر اُردو میں پہلی کتاب اقبال نے لکھی؟) اقتصاد کی اساس سرمایہ پر ہوتی ہے، اور سرمایہ کے بارے میں اقبال کا مؤقف یہ ہے کہ اس کی گردش اس کا فطری عمل ہے۔ ارتکاز کو اقتصادی نظام اس لیے کافی عرصہ تک برداشت نہیں کر سکتا کہ یہ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ اگر ایسا کبھی ہوتا ہے تو قدرت اس مصنوعی بند کو خود توڑ دیتی ہے: اسراف قدرت کی اپنی اولاد ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہتی کہ دولت کی بہت بڑی مقدار صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جائے۔ جب کسی خاندان کا طالع ساز فرد وافر سرمایہ جمع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تیسری نسل میں یا دوسری ہی نسل میں کوئی فضول خرچ پیدا ہو جاتا ہے اور ساری دولت بکھیر دیتا ہے۔ لیکن قدرت کے اس عامل کے لیے دولت کی گردش مسدود ہی رہے گی۔ جو کچھ افراد کے بارے میں صحیح ہے وہی اقوام کے متعلق بھی صحیح ہے۔ جب کوئی قوم محنت یا کسی اور طریقہ سے دولت سمیٹ کر اکٹھا کر لیتی ہے ـــــــ اور دنیائے محنت کے پہیے کو جس کے چلتے رہنے کا انحصار سرمایہ کی مسلسل گردش پر ہوتا ہے، پھنسا کر روک دیتی ہے ـــــــ تو قزاق قومیں منصہ شہود پر آ جاتی ہیں اور مقیّد دولت کو آزاد کر دیتی ہیں۔ (منتشر شذرات۔ شذرہ ۵۱) سرمایہ کی گردش اگر فطری طور پر ہوتی رہے تو افرادِ معاشرہ میں سے کوئی بھی اپنی بنیادی ضرورتوں کی آسودگی سے محروم نہ رہے گا، بلکہ خود سرمایہ کے از دیاد میں ممد و معاون ہو گا۔ ہر معاشرہ کی پائیدار خوش حالی کا انحصار اسی وجہ سے اس امر پر ہو تاکہ سرمایہ تیز رفتاری کے ساتھ گردش میں رہے، اس کے لیے معاشرہ کو ایسے وسائل اور طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں اور ایسے قوانین وضع کرنے پڑتے ہیں ـــــــ جو چند افراد کی ہوس کاری کو پنپنے نہ دیں۔ اقبال کارل مارکس ہی کی طرح سرمایہ کی مساوی تقسیم کے علم بردار رہے ہیں، لیکن اس مساوات کی بنیاد وہ طبقاتی کشمکش پر نہیں بلکہ توافق و مواسات پر رکھتے ہیں، کیوں کہ قرآنی تعلیم متوازن معاشی نظام کی ہمت افزائی کرتی ہے۔ قرآن اُن اعمال اور طریقوں کو ممنوع یا حرام قرار دیتا ہے جن سے سرمایہ کا اکتناز یا کمزوروں کا استحصال ہو، مثلاً قمار، رشوت وغیرہ اور اُن اعمال کو لازمی قرار دیتا ہے جن سے زیر دستوں تک سرمایہ کی گردش ہو اور اجتماعی معیشت میں توازن پیدا ہو، جیسے زکوٰۃ، صدقہ، عشر وغیرہ۔ اس پورے معاشی نظام سے بادی النظر میں ہی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کسی فرد یا طبقہ کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے افراد یا طبقوں کا استحصال کرے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ریاست پر بھی اس کی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ وہ ہر فرد کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اُسے، عوام کو معاشی اضطرار کے نتیجہ میں سرزد ہونے والے جرائم کی سزا دینے کا بھی حق نہیں ہے۔ اقبال کو اس تصوّر کے مماثل معاشی نظریہ مارکس کے یہاں نظر آیا۔ اور اپنی عینی ریاست کا عکس بھی اشتمالی ریاست میں نظر آیا اس لیے انھوں نے بڑی فراخ دلی کے ساتھ اس کا اعتراف کیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انھیں اپنے خواب کی تعبیر طبقۂ عوام کے ذریعہ نظر آتی تھی۔ متوسط طبقہ سے وہ کلیتہً مایوس تھے: میرا مدّت العمر کا مطالعہ اور مشاہدہ مجھے یقین دلا چکا ہے کہ یہ (متوسط طبقہ کے) لوگ بالکل بیکار ہو گئے ہیں، بالخصوص ہندوستان کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کام آ سکتے ہیں تو غریب مزدوری پیشہ یا دوکاندار لوگ جن کے لیے (میرے) دل میں محبت اور احترام ہے، اور جن سے مل کر (مجھے) حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جدید تعلیم یافتہ گروہ (میرے) نزدیک مستحق التفات نہیں۔ یہاں تک کہ اگر (میں) ’’ڈکٹیٹر) بن (جائوں) تو (میں) اس گروہ کو ختم کر دوں۔ (دبستانِ اقبال۔ مرتبہ ایم آئی ملک) مارکس نے نعرہ دیا تھا: (Workers of The World Unite) اقبال نے بھی اس سے ہم آواز ہو کر پکارا: دَورِ پرویزی گذشت، ای کشتۂ پرویز خیز! نعمتِ خود را ز خسرو بازگیر اس یکسانیِ فکر کے باوجود وہ مارکس کے نظریۂ اقتصاد پر شدید گرفت بھی کرتے ہیں کیوں کہ مارکس کا نظریہ لادینی ہے اور اقبال کی نظر میں: لَا وَ اِلاَّ ساز و برگ اُمتاں نفیِ بے اثبات مرگِ اُمتّاں بہرحال اقبال کے زاویۂ نظر سے طبقاتی توافق کے ذریعہ معاشرہ مثبت اقدار کو فروغ دے سکے گا، اور طبقاتی کشمکش کے ذریعہ افرادِ معاشرہ میں گروہی منافرت اور طبقہ واری کشیدگی کا کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو بالآخر کلّی عمرانی نظام کو متنرلزل کر دے گا۔ سیاسی نظام کو بھی اقبال کلّی عمرانی نظام سے آزاد تصور نہیں کرتے: میری نگاہ میں نظام حکومت چاہے کسی طرز کا ہو اُس کی اہمیّت اس اصول سے پرکھنی چاہیے کہ آیا وہ کسی قوم کے کِردار کی تعمیر کرتا ہے یا تخریب۔ سیاسی قوت کا زوال کسی قوم کی سیرت کی تشکیل کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ (منتشر شررہ ۔ شددہ ۱۳) اقبال نے یہ بڑی حقیقت افروز بات کہی ہے کہ سیاسی نظام آزاد بالذات نہیں ہوتا۔ اس کے اثرات بڑے دورس ہوتے ہیں۔ یہ صرف انتظامیہ ہی پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ افراد کی شخصیت کو بھی متاثر کرتا ہے، خواہ یہ تاثر مثبت ہو یا منفی۔ اس لیے اقبال سیاسی نظام کو نہیں بلکہ سیاسی نظام کی نوعیت کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ وہ فرد کو ایک جامع اکائی تصور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاشرہ یا ریاست کے لیے جو بھی سیاسی نظام اختیار کیا جائے۔ وہ فردِ معاشرہ کی تمام ضروریات، خواہ وہ مادّی ہوں یا غیر مادّی، سب کی آسودگی کو اپنا مطمح نظر قرار دے: انسان ایک فرد یکتا یا گوہر یکتا ہے جس کی ترکیب روح اور مادّے سے ہوئی ہے لہٰذا ہر وہ نظام حکومت جومحض انسان کی جسمی یا مادّی ضروریات کو پورا کر سکے انسان کی تشفی نہیں کر سکتا اور نوعِ اِنسانی ہی اُس نظام کے وضع کردہ راستے پر گامزن ہو کر ارتقائی سیادت سے بہرہ ور ہو سکتی ہے۔ (’’چند ملاقاتیں‘‘۔ ملفوظات۔ مرتبہ تصدق حسین تاج) اگر سیاسی نظام ان تقاضوں کی تکمیل نہیں کرتا، اور اس کا مقصود صرف سیاست ہی ہوتا ہے تو اقبال اِسے معاشرہ کے لیے نیک فال تصور نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’میں محض سیاست کو کسی قوم کے فوری زوال کا پیش خیمہ سمجھتا ہوں‘‘ (جہان اقبال۔ عبدالرحمن طارق) سیاسی نظاموں کی مختلف ہئیتوں میں وہ ملوکیت، آمریت اور دوسری استبدادی و استحصالی حکومتوں کے شدید مخالف تو ہیں ہی لیکن جمہوریت کے مغربی نمونہ کو بھی سندِ قبولیت عطا نہیں کرتے۔ وہ اسے ’’دیواستبداد‘‘ اور مغربی ملوکیت کی ساحری قرار دیتے ہیں اور انتہائی غیر عقلی تصور کرتے ہیں کیوں کہ اس میں بندوں کو گِنا کرتے ہیں تو لا نہیں کرتے‘‘۔ اور جہاں تک گننے کا معاملہ ہے، اس کے بارے میں اقبال کا خیال ہے کہ ’’مغزدو صدخر‘‘ سے عقل و دانش یا قومی صوابدید پیدا نہیں ہو سکتی۔ اگر معاشرہ اپنے نظم و نسق کے معاملے میں ہمیشہ اکثریت کی رائے کے آگے سرنگوں ہو رہے تو یہ یقینی امر ہے کہ اس کے تمام ذیلی نظاموں میں عدم توازن پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے کسی نہ کسی مرحلہ پر ہمیں اس طریق عمل کو اختیار کرنا ہی پڑے گا کہ معاشرہ کے معیارات اور اساسی اقدار کو اکثریت کی صوابدید پر فوقیت دی جائے تاکہ کلّی عمرانی نظام پھر ایک بار متوازن و جائز مقام حاصل کر لے اور اجتماعی ساخت و تعاملی (Structural-Functional) توازن برقرار رہے۔ اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے وہ ایمانی، اخلاقی، معاشی اور سیاسی نظاموں میں لاینفِک مطابقت کے طلبگار ہیں، کیوں کہ ان کی نظر میں: جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اس نوعیت کا کلام اُن کے افکار کے اُس پس منظر سے ابھرتا ہے جس کو وہ صراحت کے ساتھ نثر میں پیش کر چکے ہیں: ’’مذہب تو ضرور ایسے پاکیزہ سیاسی اصول کی تخلیق کر سکتا ہے جن میں رواداری، محبت ایثار اور خدمتِ خلق کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔ لیکن مذہب سے بیگانہ انسانی دماغوں کی وضع کردہ ’’سیاست‘‘ میں یہ صلاحیت ہرگز نہیں کہ وہ غریب اور نادار لوگوں کی ہمدرد ہو، یا اُس میں اخلاقِ عالیہ کی عملی اہمیت پر دبائو دیا گیا ہو۔ میں ایسی سیاست کو ’’استبداد‘‘ اور ’’سرمایہ داری‘‘ کا مرادف سمجھتا ہوں اور اسی لیے میں نے کہا ہے کہ۔ تدبّر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ داری ہے (جہانِ اقبال۔ عبدالرحمن طارق) مذہب سے اُن کی مراد ’’دین‘‘ ہے اور دین، اُن کے تصّور کے مطابق، زندگی کے دوسرے شعبوں یا معاشرے کے دوسرے ذیلی نظاموں سے ، خود کو ناوابستہ نہیں رکھنا چاہتا۔ اِن تقاضوں کی تکمیل حکومت کے ان نظاموں سے نہیں ہو سکتی جو لادینی سیاست میں رائج ہیں۔ البتہ اگر کوئی سیاسی نظام فریضہ انجام دے سکتا ہے تو وہ تمام سیاسی نظاموں کی مثبت صفات کا جامع ہو گا۔ اسلام دین و سیاست میں تفریق اسی لیے روا نہیں رکھتا کہ انسان کی ہئیتِ ترکیبی اِن ہر دو عناصر کے امتزاج کی متقاضی ہے۔ اسلامی نظامِ حکومت نہ جمہوریت ہے، نہ ملوکیت، نہ ارسٹوکریسی (Aristocray) ہے اور نہ تھیو کریسی (Theocracy)، بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام محاسن سے متصف ہے اور قبائح سے منزّہ ہے۔ (چند ملاقاتیں۔ ملفوظات) اس تصریح سے اقبال کا یہ تصّور واضح ہو جاتا ہے کہ سیاست کو معاشرہ کے تمام ذیلی نظاموں سے آزاد کر کے یا معاشرے میں برتری اور فوقیت کا مقام عطا کر کے ہم معاشرہ کی باطنی ہم آہنگی یا اس کے توازن کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ اس کے لیے سیاست کو معاشرہ کی کلّی ساخت سے متوازن و متناسب ربط و توافق پیدا کرنا ہو گا۔ میں اِس سے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ لاتعلق اکائیوں میں وہ ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ جو ایک کلی نظام اور اس کے ذیلی نظاموں کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ اس ہم آہنگی کی عدم موجودگی میں معاشرہ ہمیشہ انتشار اور عدم توازن کا شکار رہتا ہے۔ بلکہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ذیلی نظام زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے اور دوسرے ذیلی نظاموں کی اہمیت کو کم کر کے ان کو اپنے متوازن کار منصبی (Role) سے محروم کر دیتا ہے اور کبھی دوسرا ذیلی نظام یہی استحصالی فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس طرح ہمارے اجتماعی نظام میں اقبال کے نقطۂ نظر سے سیاست کے لیے کچھ رہنما اصول ہونے چاہیں جنھیں اقبال اسلام میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ رہنما اصول ہر قوم اپنے قومی کردار میں تلاش کرتی ہے اور یہی ہر سیاسی نظام کا دستور اساسی بنتے ہیں ان کا تعین پہلے ہوتا ہے اور عقلی تاویل بعد میں کی جاتی ہے۔ اس طرح ہم اِس عمرانی حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ایمان یا اعتقاد کے عنصر سے انتہائی استدلال پرست بھی عاری نہیں ہوتے اقبال نے مختلف قومی کرداروں میں ٹکرائو کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی نوعیت کے مثبت اساسی رہنما اصول اسلام کے اجتماعی نظام سے فراہم کرنے کی کوشش کی ان مثبت اساسی اصولوں سے اقبال کی نظر میں قوموں کی انفرادیت فنا نہیں ہو جاتی بلکہ ان میں رواداری، مطابقت اور ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے اقبال کا مطمح نظر ایسا ہی وسیع الطرف بین الملّی سیاسی نظام تھا۔ مذہب اقبال کی نظر میں کوئی جامع اصطلاح نہیں ہے یہ محدود مغربی تصّور کی حامل اصطلاح ہے۔ اِس کے برخلاف دین’’ایک عمرانی (سوشل) نظام ہے جو حریت اور مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے‘‘ (مکتوب بنام سیّد سعید الدین جعفری مورخہ ۲۴۔ نومبر ۱۹۲۳ء اوراق گم گشتہ۔ مرتبہ رحیم بخش شاہین۔ چنانچہ یہ بھی تغیرات کے اُن مراحل سے گذرتا ہے جن سے دوسرے ذیلی عمرانی نظام گذرتے ہیں اور انجام کار خود کلّی عمرانی نظام بھی گذرتا ہے۔ معاشرے یا عمران کے ان تقاضوں کو انھوں نے صرف فلسفی یا مفکر ہی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فنکار یا شاعرکی حیثیت سے بھی محسوس کیا۔ چنانچہ وہ فنکار کو معاشرہ کے کلّی نظام سے آزاد یا اُس سے ماورا تصّور نہیں کرتے اس کے علی الرغم انھوں نے اس امر کو بھی آشکار کیا کہ شاعر اپنے معاشرہ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ نہ صرف یہ کہ اُس کے تخلیقی عمل کی تخمیر اُس معاشرے کے حیطۂ حوالہ (Frame of Reference) سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس نکتے کو انھوں نے بڑے بصیرت افروز انداز میں بیان کیا ہے: ہر شاعر کم و بیش گردو پیش کی اشیا، عقائد، خیالات و مقاصد کو حسین و جمیل بنا کر دکھانے کی قابلیت رکھتا ہے اور شاعری نام ہی اس کا ہے کہ اشیا و مقاصد کو اصلیت سے حسین تر بنا کر دکھایا جائے تاکہ اوروں کو اِن اشیا و مقاصد کی طرف توجہ ہو اور قلوب اُن کی طرف کھینچ آئیں‘‘۔ (’’اسرار خودی اور تصوف‘‘۔ مقالات اقبال۔ مرتبہ سید عبدالواحد معینی) مقصد اور فن کے تنازع کو اقبال خوب اچھی طرح سمجھتے تھے۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ صرف فن اور صرف مقصد کس نوعیت کے ادب کی تخلیق کا سبب بن سکتے ہیں۔ سید محمد سعید الدین جعفری کو لکھتے ہیں (۱۴۔ نومبر ۱۹۳۳ئ) الفاظ کے انتخاب میں لکھنے والا (شاعر) اپنی حسین موسیقیت سے کام لیتا ہے اور مضامین کے انتخاب میں اپنے فطری جذبات کی پیروی پر مجبور ہوتا ہے۔ (اوراق گم گشتۂ۔ مرتبہ رحیم بخش شاہین) اقبال زندگی سے بہت قریب رہنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے موخرالذکر زاویہ فن چنا، کیا کہوں کہ یہ ان کے ہمہ جہت مربوط معاشرتی تارویو میں بڑی ہم آہنگی کے ساتھ مطابقت اختیار کر لیتا ہے، اور اُن کی اس فکری رو کو اور تیز رفتارکر دیتا ہے جو الفاظ کی آئینہ صفت جھیل میں پر سکون سطح کے نیچے سونا نہیں چاہتی۔ اسی وجہ سے انھوں نے ہمیشہ (شعر میں بھی اور نثر میں بھی) اس امر پراصرار کیا کہ انھیں شاعرتصور نہ کیا جائے وہ اس تقاضا کے لیے اپنے مِلّی (اورمیرے نزدیک عمرانی و تہذیبی) تصور کے تحت حق بجانب تھے۔ اقبال کا شعور عصری تناظر میں، مرتبہ : قمر رئیس، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی، ۱۹۷۹ء حاشیہ ۱۔ اقبال نے عصبیت کی تصریح ان الفاظ میں کی ہے: عصبیت اور چیز ہے اور تعصب اور چیز۔ عصبیت کی جڑ حیاتی ہے اور تعصب کی نفسیاتی۔ تعصب ایک بیماری ہے جس کا علاج اطباء روحانی اور تعلیم سے ہو سکتا ہے۔ عصبیت زندگی کا ایک خاصّہ ہے جس کی پرورش اور تربیت ضروری ہے۔ اسلام میں انفرادی اور اجتماعی عصبیت دونوں کے حدود مقرر ہیں۔ انھی کا نام شریعت ہے۔ میرے عقیدے کی رو سے بلکہ ہر مسلمان کے عقیدہ کی رو سے ان حدود کے اندر رہنا باعث فلاح ہے اور ان سے تجاوز کرنا بربادی۔ تصادم…… صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ ان حدود سے تجاوز کیا جائے یا اپنی عصبیت کو چھوڑ کر کوئی دوسری عصبیت اختیار کر لی جائے۔ (اقبال نامہ حصہ دوم۔ مرتبہ: شیخ عطا اللہ ۴۰۔۲۳۹) اقبال اور ہماری ثقافتی تشکیلِ نو پروفیسر فتح محمد ملک اقبال کا نظریہ ثقافت قرآن حکیم سے ماخوذ ہے مگر اقبال کے عہد کی دنیائے اسلام کی ثقافت ملوکیت کی پروردہ ہے: منزل و مقصود قرآں دیگر است رسم و آئین مسلماں دیگر است تصور اورحقیقت میں اس روح فرما تضاد نے اقبال کی تخلیقی شخصیت کو ہمیشہ ایک اضطراب مسلسل میں مبتلا رکھا۔ اقبال کی فکری اور فنی سرگرمی کے دورخ ہیں، ایک رخ اسلام کے مثالی تصورات کے تخلیقی انکشاف سے عبارت ہے، تو دوسرا رخ ان مثالی تصورات کو عملی زندگی کے متحرک قالب میں ڈھالنے کی جدوجہد کا آئینہ دار ہے۔ اقبال کے نظریہ ثقافت کے بھی دو رخ ہیں۔ اپنے فلسفہ و شعر میں اقبال نے اسلامی ثقافت کے مثالی تصورات کی بازیافت کا بھی حق ادا کیا ہے اور ان مثالی تصورات کے عملی ظہور کی تمنا کو بھی معجزئہ فن بنایا ہے۔ چنانچہ پہلے میں مثالی تصورات کی بات کروں گا اور بعد ازاں ان تصورات کے عملی ظہور کے باب میں لب کشائی کروں گا۔ نظریہ ثقافت کا خیال کرتا ہوں تو مجھے ضرب ِکلیم کی ایک چھوٹی سی نظم ’’مدنیت اسلام‘‘ یاد آتی ہے: بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے یہ ہے نہایتِ اندیشہ و کمال جنوں طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب یگانہ اور مثالِ زمانہ گونا گوں! نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری نہ اس میں عہد گہن کے فسانہ و افسوں حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال عجم کا حسن طبیعت، عرب کا سوز دروں اقبال نے یہاں مسلمان کی زندگی کا جو نقشہ پیش کیا ہے، وہ اقبال کے عہد کی دنیائے اسلام میں کہیں نظر نہیں آتا۔ ہاں اسلامی ریاست میں اس کا ظہور ممکن ہے جو ابھی تک کہیں قائم تو نہیں ہو سکی مگر ’’جاوید نامہ‘‘ میں جمال الدین افغانی نے جس کے محکمات کا بیاں یوں شروع کیا ہے: عالمے در سینۂ ما گم ہنوز عالمے در انتظارِ قم ہنوز عالمے بے امتیاز خون و رنگ شام او روشن تراز صبحِ فرنگ عالمے پاک از سلاطین و عبید چوں دل مومن کرانش ناپدید عالمے رعنا کہ فیض یک نظر تخم او افگند در جان عمرؓ لا یزال و وارداتش نو بہ نو برگ و بار محکماتش نو بہ نو باطن او از تغیر بے غمے ظاہر اور انقلاب ہر دمے اندرون تست آں عالم نگر می دہم از محکمات او خبر نہ ہم سے ایسی دنیا پیدا ہو سکی جس کے باطن کو تغیر کا غم نہ ہو مگر جس کا ظاہر ہر آن ایک تازہ تر انقلاب سے عبارت ہو، اور نہ اس دنیا میں رہنے والا وہ آدمؑ پیدا کر سکے جو عجم کے حسن طبیعت اور عرب کے سوز دروں کے ساتھ ساتھ روح القدس کا ذوق جمال بھی رکھتا ہو۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسی زندگی اور ایسی ثقافت کیوں تخلیق نہ کر پائے؟… اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلتا ہوں تو مجھے اقبال کا وہ خط یاد آتا ہے جو انہوں نے ۲۴ جنوری ۱۹۲۱ء کو اسرار خودی کے انگریز مترجم ڈاکٹر نکلسن کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں اقبال مسلمانوںکے ابتدا ہی میں برق رفتاری کے ساتھ اقصائے عالم میں پھیل جانے کو اسلامی ثقافت کی نشوونما میں ایک زبردست رکاوٹ قرار دیتے ہیں: ’’مجھے یقین کامل ہے کہ کشور کشائی اسلام کے حقیقی نصب العین کا حصہ نہ تھی۔ در حقیقت علاقائی فتوحات اور ملک گیری نے اسلام کو نقصان پہنچایا۔ کشور کشائی کی اس دھن کے باعث سوسائٹی کی اقتصادی اور جمہوری تنظیم کے وہ اصول بروئے کار نہ آسکے جو قرآن کریم اور احادیث نبویؐ میں یہاں وہاں روشن ہیں۔ بلاشبہ ملکی فتوحات کی بدولت مسلمان ایک عظیم سلطنت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے سیاسی نظریات بڑی حد تک دوبارہ جاہلیت کے سانچوں میں ڈھل گئے اور ان کی نگاہیں اسلام کے اہم ترین امکانات سے ہٹ گئیں‘‘۔(۱) اسلامی معاشرے کی اقتصادی اور جمہوری تنظیم اور اسلام کے سیاسی نظریات میں پوشیدہ امکانات پر اقبال نے ’’مسلم کلچر کی روح‘‘ کے عنوان سے اپنے مشہور خطبے میں فلسفیانہ انداز میں بحث کی ہے۔ اسلام کے سائنسی مزاج اور اسلام کی حرکی روح کے زیر اثر یونانی فلسفے کے خلاف مسلمانوں کی علمی بغاوت اور رد یونانیت کے فکری اور عملی میلان پر روشنی ڈالنے سے پہلے اقبال عقیدئہ ختم نبوت کی ثقافتی اہمیت پر یوں روشنی ڈالتے ہیں: ’’اسلام میں ملائیت اور خاندانی بادشاہت کا خاتمہ، قرآن کریم میں استدلال اور تجربے سے بصیرت اندوز ہونے کے مسلسل احکامات اور فطرت اور تاریخ انسانی کو علم کا سرچشمہ قرار دینے پر زور…یہ سب اسی عقیدئہ ختم نبوت کے مختلف پہلو ہیں‘‘۔ اقبال پیغمبر اسلامؐ کو قدیم اور جدید دنیا کے درمیان حئی و قائم دیکھتے ہیں۔ ان کے استدلال کی رو سے رسول کریمؐ کا سرچشمہ الہام دنیائے قدیم کی چیز ہے مگر روح الہام دنیائے جدید سے تعلق رکھتی ہے۔ اپنے آخری حج کے بعد محمد مصطفیٰؐ نے لوگوں کو گواہ بناکر جاہلیت کی جن رسموں کو پامال کر دینے کا اعلان فرمایا تھا، ان میں نمایاں ترین رسومات شہنشاہیت اور ملائیت کا شاخسانہ تھیں۔ اقبال بھی عقیدئہ ختم نبوت میں شہنشاہیت اور ملائیت کی نفی دیکھتے ہیں۔ مگر ہماری تاریخ کیا منظر پیش کرتی ہے؟ افغانی کی زبانی اقبال کا جواب سنیے: در دل او آتش سوزندہ نیست مصطفیؐ در سینۂ او زندہ نیست خود طلسم قیصر و کسریٰ شکست خود سر تخت ملوکیت نشست تا نہال سلطنت قوت گرفت دین او نقش از ملوکیت گرفت از ملوکیت نگہ گردو گردد عقل و ہوش و رسم و رہ گردو گردد اسلام کو دوبارہ جاہلیت بنادینے کا یہ عمل دنیائے اسلام میں کیونکر پنپ سکا؟ اس کا جواب اقبال، سعید حلیم پاشا کی زبانی یوں دیتے ہیں: دین حق از کافری رسوا تر است زانکہ ملا مومن کافر گر است! بے نصیب از حکمت دین نبیؐ آسمانش تیرہ از بے کوکبی! کم نگاہ و کور ذوق و ہرزہ گرد ملت از قال و اقولش فرد فرد! مکتب و ملا و اسرار کتاب کور مادر زاد و نور آفتاب! دین کافر فکر و تدبیر جہاد دین ملا فی سبیل اللہ فساد شہنشاہیت اور ملائیت (۲) کے اس گٹھ جوڑ سے ان لوگوں کے ہاں پھر سے قیصریت قائم ہو گئی جن کے آبا و اجداد نے لا قیصر و لا کسریٰ کا نعرہ لگا کر عالم انسانیت کو عہد قدیم کے دھندلکوں سے نکال کر عہد جدید کی روشنیوں میںلاکھڑا کیا تھا۔ دنیاے اسلام میں دور ملوکیت کو اقبال ’’عرب ملوکیت‘‘ ( Arabian Imperialism) کہتے ہیں تو مولانا مودودی جاہلیت خالصہ کا نام دیتے ہیں۔ گویا عہد حاضر کے اسلام میں دائیںاور بائیں بازو کے مفکر ملوکیت کو اسلام کی نفی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب اسلام کا نظام حیات ہی نہیںتو اسلامی ثقافت کہاں سے آئے گی؟ اسلامی ریاست ہی نہیں تو اسلامی نظام حیات کہاںقائم ہو گا؟ تو آیئے پھر ایک ایسی مثالی اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع کریں جس میںملوکیت کی بجائے محمد مصطفیؐ کا نظام سیاست رواج پاسکے۔ وہ نظام سیاست جس میںقاہری اور درویشی یکجا ہوں، جس میں بندہ و آقا اور نگ و نسب کی تمیز نہ ہو، جس میں الارض للہ اور قل العفو کا عملی ظہور ممکن ہو اور جس میں انسان کے غیر مختتم تخلیقی امکانات بروئے کار آسکیں۔ اب ہم ۱۹۳۰ء میں ہیں اور اقبال کو پاکستان کا تصور پیش کرنے کے بعد اپنے فلسفہ و شعر میں اس مثالی قرآنی ریاست کی صورت گری میں مصروف پاتے ہیں جو ہماری منزل مقصود ہے اور جس میں اقبال کا نظریہ ثقافت برگ و بار لا سکتا ہے۔ یہ کہنے کے بعد کہ پاکستان کا قیام مقدر ہو چکا ہے، اقبال جاوید نامہ سے لے کر ارمغان حجاز تک پاکستان کے نظام سیاست و معیشت اور نظام معاشرت و ثقافت کے خدوخال اجاگر کرنے میںکوشاں رہے ہیں۔ میں اپنی آسانی اور آپ کی نجات کی خاطر یہاں اقبال کی شاعری کے صرف دو گوشوںسے اعتنا کروں گا۔ پہلا گوشہ ’’جاوید کے نام‘‘ کے سلسلہ منظومات پر مشتمل ہے۔ یہ نظمیں اس اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں اقبال اپنے بعدآنے والی نسلوں یعنی ہم آپ سے ہم کلام ہیں: اے پسر! ذوق نگہ از من بگیر سوختن در لا الہ از من بگیر لا الہ گوئی بگو از روے جاں تاز اندام تو آید بوے جاں ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست لا الہ جز تیغ بے زنہار نیست ان نظموں میںاقبال درویشی کا ایک ایسا تصور پیش کرتے ہیں جو آب و گل سے مہجوری نہیں بلکہ تسخیر خاکی و نوری سے عبارت ہے، جس میں غیرت ہے طریقت حقیقی اور جس کی رو سے: خیر و خوبی بر خواص آمد حرام دیدہ ام صدق و صفا را در عوام اور: شاخِ گل پر چہک و لیکن کر اپنی خودی میں آشیانہ کا مسلک حیات اپنانا لازم ہے۔ درویشانہ زیست کا یہی مسلک اقبال کی ان نظموں میں جلوہ گر ہے جن میں اقبال براہ راست بات کرنے کی بجائے پاکستان کے مختلف علاقوں سے خیالی کردار پیدا کر کے خود نگری، خود گری اور خود شکنی کے تصورات پیش کرتے ہیں۔ ان نظموں میں اقبال کشتہ سلطانی و ملائی و پیری کو خواب گراں سے جگانے اور تسخیر ذات و کائنات کے صراط مستقیم پر گامزن کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ محراب گل افغان ہو، بڈھا بلوچ ہو، ملازادہ ضیغم لو لابی ہو یا جناب خضر، سب اپنے اپنے دائرئہ اثر میںدرویشی کا یہی تصور عام کرتے نظر آتے ہیں: قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ اے مرے فقر غیور، فیصلہ تیرا ہے کیا خلعت انگریز یا پیرہن چاک چاک (محراب گل) غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سر دارا ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا (بڈھا بلوچ) بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ (ضیغم لولابی) یہ درویشی، ملوکیت و استبداد کی نفی سے پیدا ہوتی ہے: اے کہ اندر حجرہ ھا سازی سخن نعرئہ لا پیش نمروداں بزن اور : صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سربجیب، ایک کلیم سربکف اقبال کے تخلیقی کرب کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ درویشی کا یہ مثالی تصور جن مسلمان معاشروں میںجاری وساری دیکھنا چاہتے ہیں وہاں کے عوام ’’صید ملایان و نخچیر ملوک‘‘ ہیں تو خواص ’’لردان فرنگی‘‘ کے مرید۔ چنانچہ تصور اور حقیقت کے درمیان اس تضاد کو ایک کربناک بے چینی کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے اقبال ’’مرقع چغتائی‘‘ کے دیباچہ میں اگر یہ قرار دیتے ہیں کہ کاملا اسلامی فنون لطیفہ ابھی وجودمیں نہیں آئے تو ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے خط میں اس تمنا کا اظہار کرتے ہیں کہ کاش مسلمان کشور کشائی کی دھن میںدنیا میں پھیلتے چلے جانے کی بجائے کسی ایک خطہ زمین میں مرتکز ہو کر اسلامی ثقافت کی تخلیق کر ڈالتے۔ پاکستان کا تصور پیش کرتے وقت بھی اقبال نے یہی کہا تھا کہ : ’’بحیثیت ایک کلچرل قوت کے ہندی مسلمانوں کی بقا کاانحصار ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرنے پر ہے‘‘۔ ہندی مسلمانوں نے اقبال کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت تو قائم کر لی، مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا اس پرمجھے حضرت عمرؓ فاروق یاد آتے ہیں جو مسجد نبویؐ کے صحن میں ایران سے لائے گئے مال غنیمت کے انبار دیکھ کر بے ساختہ رو پڑے تھے۔ شاید انہیں درویشانہ زیست کا مسلک معرض خطر میں دکھائی دیا تھا۔ اور ان ہی عمر فاروق نے دم واپسیں عامتہ المسلمین کو یہ پیغام دینا ضروری سمجھا تھا کہ میرے بعد میرے بیٹے کو ہر گز خلیفہ نہ بنانا۔ شاید انہیں اسلامی انقلاب کے خلاف ملوکیت کی صورت میں رد انقلاب کااندیشہ لاحق تھا۔ پہلے ہمیں عرب ملوکیت (Arabian Imperialism) یا جاہلیت خالصہ سے تائب ہو کر مسلمان بننا ہو گا۔ تب کہیں جا کر ہم اقبال کے نظریہ ثقافت کے عملی ظہور کا منظر دیکھ پائیں گے: بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردان حر کی آنکھ ہے بینا اقبال۔ فکر و عمل، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۵ء حوالے ۱۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۱۰۰، مرتبہ: ایس۔ اے واحد۔ ۲۔ فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے اجتہادات ِاقبال ڈاکٹر خالد مسعود گزشتہ ابواب میں علامہ اقبال ؒ کے تصور اجتہاد کے اہم پہلوئوں کا جائزہ پیش کیا گیا ان کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ کے نزدیک اجتہاد اسلامی معاشرت کی حرکت و ترقی کا اصول ہے ۔ یہ صرف ’’جواز‘‘ تلاش کرنے کی کوشش کا نا م نہیں بلکہ معاشرے کی رہنمائی کا اصول ہے ۔ عصر جدید میں اسلامی معاشرے کو جو مسائل پیش آئے ان کی نوعیت گزشتہ کئی صدیوں کے مسائل سے کہیں زیادہ مختلف تھی۔ یہ مسائل دراصل معاشرت میں بہت ہی بنیادی تبدیلیوں کا نتیجہ تھے ۔ یوں تو یہ مسائل زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے تھے لیکن دو شعبے ایسے تھے جن میں تبدیلیوں کا اثربہت واضح تھا ۔ ان میں سے ایک سیاسی ڈھانچہ تھا، دوسرے اجتماعی ۔ اقبالؒ کے دور میں ان دونوں شعبوں میں جو مسئلے اٹھے ان میں سیاسی شعبے میں خلافت کا مسئلہ تھا، اوراجتماعی زندگی میں عورتوں کے حقوق کا تھا۔ اس باب میں ہم ان دونوں مسئلوں کا مختصرجائزہ لیں گے کہ مسئلے کیا تھے۔ علامہ اقبالؒ نے انھیں کیسے دیکھا ،اجتہاد کے اصول سے کیسے کام لیا اور اسلامی معاشرت پر اس کے کیا اثرات پڑے۔ ۱۔عورت کے لیے تنسیخ نکاح کا حق:- برصغیر کی معاشرت میں عورتوں کے حقوق کا مسئلہ بے حد نازک رہا ہے ۔ اس مسئلے پر غور و فکر علامہ نے بہت پہلے شروع کردیا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا علامہ نے اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھانا بھی ضروری سمجھا ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں علامہ نے جہاں معاشرے میں اور مظلوم طبقوں کا ذکر کیا وہاں عورتوں کے حقوق کے بارے میں بھی لکھا کہ جوحقوق قرآن و سنت میں اسے دیئے گئے تھے برصغیر میں انھیں ان سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں انھوں نے لکھا ’’ اصلاح تمدن کے ضمن میں سب سے زیادہ نازک مسئلہ‘‘ حقوق نسواں‘‘ کا ہے۔ مغربی علما نے حقوق نسواں کے متعلق مذہبِ اسلام پر بعض بڑے بے جا اعتراض کئے ہیں لیکن یہ اعتراض حقیقت میں مذہب اسلام پر نہیں ہیں … بلکہ ان کی آماجگاہ وہ استدلالات ہیں جو فقہائے اسلام نے کلام الٰہی کے وسیع اصولوں سے لئے ہیں اور جن کی نسبت یہ کہا جا سکتا ہے کہ فردی اجتہادات مذہب کے ضروری اجزاء نہیں ہیں‘‘(۱) اس مضمون میں علامہ اقبال ؒ نے عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں جن مسائل پر بحث کی تھی وہ عورتوں کی تعلیم، پردہ، تعداد ازواج تھے ۔تعداد ازواج کے بارے میں لکھا۔ ’’ تعداد ازواج کا دستور بھی اصلاح طلب ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کا جائز قرار دیا جانا ایک دقیق روحانی وجہ پر مبنی ہے اورعلاوہ اس کے ابتدا اسلام میں اقتصادی اورسیاسی لحاظ سے اس کی ضرورت بھی تھی۔ مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں موجودہ مسلمانوں کو فی الحال اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ موجودہ حالت میں اس پر زور دینا قوم کے اقتصادی حالات سے غافل رہنا ہے اورامرائے قوم کے ہاتھ میں زنا کا ایک شرعی بہانہ دینا ہے‘‘ اس مضمون میں اگرچہ علامہ نے تفصیلی دلائل نہیں دیے تاہم ان کے استدلال کا رجحان یہ تھا کہ عورتوں کے حقوق کا تعین دراصل معاشرتی تصورات و اعمال کی بنیاد پر کیا گیا تھا اور یہ عمل ’’فقہائے قدیم کے ذاتی استدلالات پرمبنی ہے اوراس میں کچھ شک نہیں کہ یہ استدلالات ترمیم طلب ہیں اورکون کہہ سکتا ہے کہ ان استدلالات میں موجودہ حالات کی رو سے ترمیم کرنا گناہ ہے۔‘‘ تاہم علامہ اقبال حقوق نسواں کے ان مسائل کے ضمن میں نظری حد تک تبدیلیوں کے قائل رہے عملی زندگی میں انھوں نے معاشرتی رواج کو اپنائے رکھا۔ معلوم ہوتا ہے ان کے نزدیک معاشرتی رسوم و رواج میں انفرادی طور پر انتہا پسند تبدیلیاں اختیار کرنا معاشرے میں انتشار پھیلانے کے مترادف تھا۔ ان کا طریقہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے معاشرے کو نظری طور پران تبدیلیوں کے لئے تیار کیا جائے اور پھر بتدریج ا ن تبدیلیوں کو اختیار کیا جائے۔ بہر کیف جب علامہ اقبال ؒ عملی طورپر وکالت سے منسلک ہوئے تب انھیں بار بار ان مقدمات و واقعات کا سامنا کرنا پڑا جس میں عورت کوایک طرف معاشرے کے رسوم و رواج کے مظالم کا شکار دیکھا دوسری طرف مروجہ قانون کو دیکھاجو اسے حقوق سے محروم رکھے ہوئے تھا ۔ اگرچہ فقہ اسلامی میں نکاح کو معاہدے کی حیثیت حاصل ہے لیکن تاریخی اور معاشرتی حالات جن میں فقہ پروان چڑھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ نکاح کے معاہدے کے دونوں فریقوں یعنی خاوند اور بیوی کو برابر کے حقوق حاصل ہوں یہ بات خاص طور پر اس معاہدے کے خاتمے یعنی طلاق کی صورت میں واضح طور پر سامنے آتی تھی۔ فقہ اسلامی میں عورت کو طلاق کا حق حاصل نہیں اور اگر قاضی کے ذریعے اسے تنسیخ نکاح کی درخواست کی اجازت بھی دی گئی تو وہ بے حد محدود تھی۔ مرد کے لئے طلاق دینے کے لئے وجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن عورت کے لئے علیحدگی کا حق مشروط اور محدود تھا۔ اگر خاوند ظالم ہوا اور بیوی کے حقوق ادا نہ کرتا ہو تب بھی بیوی کے پاس قانونی چارہ جوئی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ برصغیر میں برطانوی تسلط قائم ہوا تو اگرچہ یہاں کے قانون میں اور بہت سی تبدیلیاں کی گئیں لیکن اپنے استعماری مقاصد کے پیش نظر انھوں نے شخصی قوانین میں کوئی ترمیم نہیں کی۔ خصوصاً نکاح و طلاق کے معاملے میں انھوں نے حنفی فقہ کی سختی سے پابندی کو لازمی قرار دیا۔ فقہ اسلامی میں البتہ ایک مسئلہ ایسا تھا جس سے قانون دانوں کو ایک حیلہ ہاتھ آگیا۔ حنفی فقہ میں نکاح و طلاق کے مسائل میں اس بات پر عموماً اتفاق تھا کہ اگر بیوی مرتد ہو جائے تو اس کا نکاح فوراً ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسی عورتیں جو خاوند کے ظلم و ستم سے تنگ آچکی تھیں ان کے لئے صرف یہی ایک راستہ تھا جس کے ذریعے وہ ان خاوندوں سے فوری علیحدگی اختیار کر سکتی تھیں۔ چنانچہ اکثر ایسے واقعات پیش آنے لگے کہ مسلمان عورتوں نے ترک مذہب کا اعلان کر کے عدالتوں سے تنسیخ نکاح کے لئے رجوع کیا۔ اس قسم کے مقدمات یوں تو انیسویں صدی کے وسط سے ہی عدالتوں کے سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ لیکن ۱۹۲۰ء کے بعد ان میں خاصا اضافہ ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب علامہ اقبالؒ نے وکالت کا آغاز کیا تھا اور اسی زمانے میں انھوں نے اجتہاد کے مسئلے پر سوچنا شروع کیا تھا۔ ہم یہاں ان تمام مقدمات کا ذکر نہیں کر سکتے جن میں مسلمان عورتوں نے ارتداد کا ارتکاب کر کے تنسیخ نکاح کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔ (۲) البتہ ایک بات قابل غور ہے کہ ان میں سے اکثر مقدمات کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ہم ان میں سے صرف ان مقدمات کا ذکر کریں گے جو علامہ اقبالؒ کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس دور کے مقدمات کے انتخاب کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ ان سے اس مسئلے پر علامہ اقبالؒ کے ردعمل کا اندازہ ہو گا لیکن اس سے زیادہ اہم یہ وجہ ہے کہ اس دور میں ایک قانونی نکتہ بہت شدومد سے زیر بحث آتا ہے کہ اسلامی فقہ کی رو سے ارتداد بجائے خود تنسیخ نکاح کا سبب ہے خواہ ارتداد میں اصل نیت ترک مذہب ہو یا نہ ہو۔ بالفاظ دیگر اگر ارتداد کی اصل وجہ تنسیخ نکاح کا قانونی جواز حاصل کرنا ہو تب بھی تنسیخ نکاح کا نفاذ ہو گا۔ چنانچہ ۱۹۲۴ء کے مقدمے میں عدالت نے فیصلہ دیا۔ ’’خاوند یا بیوی دونوں میں سے کسی ایک کے ارتداد سے محمدی نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ ایسے مقدمات میں اصل سوال یہ نہیں کہ عورت نے بپتسمہ لیا یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس نے مذہب محمدی ترک کر دیا ہو‘۔(۳) ۱۹۲۸ء کے ایک اسی قسم کے مقدمے مسماۃ رحمتے بنام نکا وغیرہ میں مزید تفصیل ملتی ہے جس کے آخر میں عدالت کا فیصلہ یوں درج ہے۔ ’’ازدواجی تعلقات کی بحالی کے مقدمے میں یہ بات کوئی وزن نہیں رکھتی کہ تبدیلِ مذہب کی نیت صحیح تھی یا یہ فسخ کا حیلہ تھا‘‘۔(۴) ۱۹۳۴ء کے ایک مقدمے میں بھی بعینہٖ انھی الفاظ میں عورت کو محض اس بنا پر تنسیخ نکاح کا حق دے دیا گیا کہ اس نے اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے کا دعوی کیا تھا۔ (۵) ان مقدمات کے تفصیلی تجزیے سے ایک اور بات معلوم ہوتی ہے کہ ابتدائی زیریں عدالتوں نے جہاں مقدمات شروع میں داخل ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ تبدیل مذہب کی نیت صحیح نہیں تھی اس لئے عورت کو تنسیخ نکاح کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ مسماۃ رحمتے بنام نکا وغیرہ کا مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج لائل پور کی عدالت نے۱۸ اگست ۱۹۲۷ء کو اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ ’’تبدیلی مذہب باقاعدہ نہیں تھی اور محض ایک حیلہ تھی‘‘۔ لیکن اعلیٰ عدالت نے زیریں عدالت کے اس مئوقف کی تردید کرتے ہوئے لکھا۔ ’’چونکہ مدعا علیہا نے رسمی طور پر مذہب اسلام ترک کر دیا ہے اور عیسائیت میں شامل ہونے کے لئے بتپسمہ کی رسم پوری کی ہے جو کہ عیسائی بننے کے لئے رسمی اعتراف کی صورت ہے قانون کے مطابق اس کا نکاح لازماً فسخ ہو جاتا ہے اور اس سلسلے میں یہ بات کوئی وزن نہیں رکھتی کہ تبدیلی مذہب کی نیت صحیح تھی یا فسخ نکاح کا حیلہ تھا‘‘۔(۶) ۱۹۳۷ء کے مقدمے مسماۃ سعیداں بنام شرف میں بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ ۹دسمبر ۱۹۳۵ء کو مسماۃ سعیداں نے سب آرڈی نیٹ جج چکوال کے ہاں دعویٰ کیا کہ اس نے اسلام ترک کر کے عیسائیت اختیار کرلی ہے اس لئے اس کا نکاح فسخ ہو گیا۔ وکیل صفائی نے موقف اختیار کیا کہ مسماۃ سعیداں نے مذہب ترک نہیں کیا اس نے جھوٹی کہانی گھڑی ہے وہ دراصل ایک دوسرے شخص صدرالدین کے ساتھ رہ رہی ہے۔ سب آرڈی نیٹ جج نے تاہم بیوی کے حق میں فیصلہ دیا۔ فریق ثانی نے ڈسٹرکٹ جج جہلم کے ہاں اپیل کر دی ڈسٹرکٹ جج نے تبدیلی مذہب کے بارے میں تفتیش کی۔ مسماۃ سعیداں نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں لائل پور کے عیسائی پادری جے ایم پال کا بپتسمہ کا سرٹیفکیٹ مورخہ ۲۲ اکتوبر۱۹۳۵ء پیش کیا۔ ڈسٹرکٹ جج کے نزدیک یہ سرٹیفکیٹ مشتبہ تھا اس لئے اس نے تنسیخ کا دعویٰ مسترد کر دیا۔ مسماۃ سعیداں نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی ۔ عدالت عالیہ نے ڈسٹرکٹ جج کے اس عمل پر شدید تنقید کی کہ ترک مذہب کی تفتیش کیوں کی۔ ترک مذہب سے نکاح لازمی طور پر فسخ ہو جاتا ہے۔ ترک مذہب کی وجہ کچھ بھی ہو۔(۷) ۱۹۳۸ء کے مقدمے مسماۃ ریشماں بی بی بنام خدا بخش میں اس تفتیش کے بارے میں نہایت ہی ناخوشگوار واقعات پیش آئے۔ خدا بخش نے ازدواجی حقوق کی بازیابی کے لئے عدالت میں دعویٰ کیا تو مسماۃ ریشماں نے کہا کہ وہ اسلام ترک کر چکی ہے اس لئے خدا بخش کا اس پر کوئی ازدواجی حق باقی نہیں۔ سب آرڈی نیٹ جج نے تنسیخ نکاح کے حق میں فیصلہ دے دیا ڈسٹرکٹ جج کے ہاں اپیل دائر کی گئی ڈسٹرکٹ جج نے ترک اسلام کی تفتیش شروع کر دی اور مسماۃ ریشماں کو عدالت میں سور کا گوشت دیا گیا کہ وہ اسے کھا کر اپنے عیسائی ہونے کا ثبوت دے اس نے سور کھانے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ اس انکار اور اس کے لباس اور رہن سہن کی مسلمانوں سے مماثلث کی بنا پر ڈسٹرکٹ جج نے فیصلہ دیا کہ عورت نے اسلام ترک نہیں کیا اس لئے نکاح قائم ہے۔ عدالت عالیہ میں اپیل کی گئی ۔ اس کے لئے جو بنچ قائم ہوا اس نے گزشتہ بہت سے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے وہی مؤقف اختیار کیا کہ ترک مذہب سے خواہ اس کا داعیہ کچھ بھی ہو نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور ترک مذہب کی تحقیق ضروری نہیںمحض اقرار کافی ہے۔ (۸) چنانچہ ان تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ زیریں عدالتوں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ جب تک ترک مذہب کی نیت صحیح ثابت نہیں ہوتی اس وقت تک ارتداد ثابت نہیں ہو سکتا لیکن اعلیٰ عدالتوں نے اس تفتیش کو غیر ضروری قرار دیا کیونکہ ان کے نزدیک اصل مقصد ترک مذہب نہ بھی ہو بلکہ محض خاوند سے علیحدگی مقصد ہوتب بھی عورت کو قانونی فائدہ دیا جائے۔ معلوم ہوتا ہے زیریں عدالتیں مقدمات کی سماجی اور مذہبی نوعیت کو سامنے رکھ رہی تھیں جب کہ اعلیٰ عدالتیں محض قانونی پہلو سے اور خصوصاً عورتوں کو خاوند سے علیحدگی کا حق دلانے سے دلچسپی رکھتی تھیں۔۱۹۳۶ء کے مقدمے سردار محمد بنام مسماۃ مریم بی بی میں سید امیر علی نے اپنے فیصلے میں صراحت سے لکھا کہ عدالت فقہا کے فیصلوں کے خلاف نہیں جاسکتی…مریم بی بی کے عیسائی ہونے کی کوئی بھی وجہ ہو…اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے خاوند سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہے…اگر عورت اسلام ترک کر دے تو اس کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔(۹) یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی(۱۰) کہ یہ سارے مقدمات بیویوں کی جانب سے درج نہیں ہوئے بلکہ ان میں سے بہت سے خاوندوں کی جانب سے دائر کئے گئے تھے جن میں انھوں نے ازدواجی حقوق کی بازیابی کے لئے عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ عورتوں نے حنفی فقہ سے پورا پورا فائدہ اٹھایا تھا۔ کیونکہ حنفی فقہ کی رو سے ارتداد کے وقوع سے ہی نکاح فسخ ہو جاتا ہے اس کے لئے عدالت سے رجوع لازمی نہیں۔ حنفی فقہ کی مشہور کتاب الھدایہ میں جو برطانوی عدالتوں میںبھی مستند شمار کی جاتی تھی، اس مسئلے کے بارے میں درج ہے کہ واذا ارتد احد الزوجین عن الاسلام وقعت الفرقۃ بغیر طلاق وھذا عندا بی حنیفہ و ابی یوسف۔(۱۱) جب زوجین (میاں بیوی) میں سے کوئی ایک اسلام سے مُرتِد ہو جائے تو امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک طلاق کے بغیر علیحدگی واقع ہو جائے گی۔ فتاویٰ عالمگیری میں یہی فتویٰ مزید وضاحت سے یوں موجود ہے۔ ’’اگر جورو مرد دونوں میں سے ایک دین اسلام سے مرتد ہو گیا تو دونوں میں بغیر طلاق کے فرقت فی الحال واقع ہو جائے گی‘‘۔(۱۲) فتاویٰ عالمگیری میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ اگر ارتداد کا مقصد خاوند سے گلو خلاصی ہوتب بھی نکاح فسخ ہو جائے گا۔ ’’اگر عورت نے اپنے شوہر کے جلانے کے واسطے یا بدیں غرض کہ اس مرد کے حبالہ نکاح سے باہر ہو جاوے یا بدیں غرض کہ تجدیدِ نکاح سے اس پر دوسرا مہر لازم آوے اپنی جان پر کلمئہ کفر جاری کیا تو اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی۔ پس وہ مسلمان ہونے کے واسطے مجبور کی جائے گی اور ہر قاضی کو اختیار ہے کہ اس کا جدید نکاح بہت کم مقدار پر اگرچہ ایک دینار ہو باندھ دے خواہ عورت اس سے خوش ہو یا ناراض ہو۔ اور اس عورت کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ اس شوہر کے سوائے دوسرے سے نکاح کرے‘‘۔ (۱۳) کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ میں حنفی فقہا کی آرا کا خلاصہ تفصیل سے دیا گیا ہے اس سے بھی مزید تصریح ملتی ہے کہ خاوند کے ارتداد کی صورت میں تنسیخ نکاح کے لئے عدالت سے رجوع کی ضرورت نہیں۔ اذا ارتد الزوج عن دینہ بانت منہ زوجۃ، فی الحال لانہ لایحل للکافر ان یستولی علی المسلمۃ بحال من الاحوال ویفرق بینھما عاجلا بدون قضائ۔ (۱۴) اگر خاوند اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو اس کی بیوی فوری طور پر اس سے علیحدہ ہو جائے گی کیونکہ کسی کافر کو کسی بھی صورت میں مسلمان عورت پر قبضے کی اجازت نہیںان دونوں میںفوری طور پر قاضی سے رجوع کئے بغیر علیحدگی کرا دی جائے گی۔ البتہ اگر ارتداد کی مرتکب بیوی ہو تو اس کے بارے میں حنفی فقہا میں تفصیلات میں اختلاف ہے۔ اما اذا ارتدت الزوجۃ وحدھا فاِن فی ذلک اقوالا ثلاثہ۔ اگر اکیلی بیوی اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس سلسلے میں تین اقوال ہیں۔ الاول: ان ردتھا تکون نسخا للنکاح وتعزر بالضرب کل ثلاثہ ایام یحسب حالھا…و تجبر علی الاسلام بالحبس الی ان تسلم اور تموت و ھی محبوسۃ و اذا اسلمت تمنع من التزوج بغیر زوجھا، بل تجبر علی تجدید النکاح بمھر یسیر۔ اول : عورت کے ارتداد سے نکاح فسخ ہو جائے گا اور حسب حال عورت کو تین روز تک مار پیٹ کی سزا دی جائے گی۔ اسے قید کر کے اسلام کے لئے مجبور کیا جائے گا اسے اس وقت تک قیدرکھا جائے جب تک وہ اسلام لے آئے یا قید ہی میں مر جائے اگر اسلام لے آئے تو اس کے سابقہ خاوند کے علاوہ کسی اور سے نکاح کی اجازت نہ دی جائے بلکہ اسے آسان مہر پر تجدیدِ نکاح کے لئے مجبور کیا جائے۔ الثانی : ان ردۃ المرأۃ لا تواحب فسخ النکاح مطلقا، خصوصاً اذا تعمدت الردۃالتخلص من زوجھا و علی ذلک فلافسخ و لا تجدید النکاح، وہذا ہوا لی افتی بہ علماء بلخ و ھویجب اندی العمل بہ فی زمانانہ فلا یصح للقاضی یحیدعنہ۔ دوم: عورت کے مطلق ارتداد سے فسخ نکاح واجب نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اگر عورت کا ارتداد سے مقصد اپنے خاوند سے گلو خلاصی ہو یا اسی قسم کا کوئی اور مقصد ہو تو نہ نکاح فسخ ہو گا نہ تجدید نکاح کی ضرورت ہے۔ یہ فتویٰ علمائے بلخ کا ہے اور آج کے دور میں اسی پر عمل واجب ہے چنانچہ قاضی کے لئے اس سے ہٹنا صحیح نہیں۔ الثالث: ان المرأۃ اذا ارتدت تصیر دفیقہ مملوکۃ للمسلمین فیشتریھا زوجھا من الحاکم وان کان مصرفا یستحقھا صرفھالہ بدون ثمن ولا تعود حرۃ الا بالعتق ، فلو اسلمت ثانیا لاتعود حرۃ ۔(۱۵) سوم : عورت جب مرتد ہو تو وہ باندی بن کر مسلمانوں کی ملکیت ہو جاتی ہے اس کا خاوند اسے حاکم سے خرید سکتا ہے۔ اگر وہ مصرف ہے تو اسے اس بات کا حق ہے کہ وہ اس عورت کو بغیر قیمت کے اپنے صرف میں لائے۔ وہ عورت عتق (مالک کی طرف سے آزادی کے اعلان) کے بغیر آزاد نہیں ہو گی۔ اور اگر دوبارہ اسلام لے بھی آئے تو دوبارہ آزاد نہیں ہو سکتی۔ مندرجہ بالا خلاصے سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ عورت کو اس معاملے میں کوئی حق حاصل نہیں۔ پہلے قول کے مطابق اگرچہ مرتد ہونے سے عورت کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے لیکن اسے نئے نکاح کی اجازت نہیںتھی بلکہ اس کے لئے دو ہی صورتیں تھیں دوبارہ اسلام یا موت، دوبارہ اسلام کی صورت میں پہلے خاوند کے ساتھ ہی تجدید نکاح کی اجازت تھی۔ باقی دونوں اقوال کی رو سے نکاح فسخ بھی لازم نہیںآتا۔ تیسرے قول کے اعتبار سے ارتداد کی صورت میں عورت اسی خاوند کی باندی بن جاتی ہے اور اس کے حقوق اب بالکل ختم ہو جاتے ہیں اور اگر دوبارہ اسلام لے بھی آئی تب بھی غلام رہے گی دوسرے قول کے مطابق ارتداد کا مقصود کچھ بھی ہو اس سے فسخ نکاح لازم نہیں آتا۔ اس قول میںدوسرے دو اقوال کی انتہا پسندی نہیںپائی جاتی تاہم ان میں سے کسی سے بھی عورت کے اس حق کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی کہ وہ مجبوری کی حالت میں خاوند سے علیحدگی حاصل کر سکے۔ برصغیر میں چونکہ الھدایہ اور فتاویٰ عالمگیری معتبر سمجھی جاتی تھیں۔ اس لئے مندرجہ بالا تین اقوال میں سے پہلے قول کو اختیار کیا گیا تھا البتہ برطانوی دور میں غیر مسلم حکومت ہونے کی وجہ سے عورت کو ارتداد کے بعد دوبارہ اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور کرنے کے بجائے اسے غیر مسلم کی حیثیت سے وہ تمام حقوق دیئے جانے لگے جو دوسرے غیر مسلموں کو حاصل تھے۔ اس طرح ایک فقہی حکم بالواسطہ طور پر عیسائیت کی تبلیغ کا بہت بڑا سبب بن گیا۔ علامہ اقبال ؒ نے جو عورتوں کے حقوق کے بہت پہلے حامی تھے غالباً سب سے پہلے حنفی فقہ کی اس کمزوری کو محسوس کیا اور اپنے اجتہاد کے خطبے میں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی علامہ اقبالؒ ضیاء گو کالپ کے حوالے سے ترکی میں عورتوں کے حقوق کی تحریک کا ذکر کرتے ہیں کہ ضیاء نے عائلی قوانین خصوصاً نکاح، طلاق اور وراثت میں عورت اور مرد کو برابر کے حقوق تجویز کئے ہیں۔ اقبال کے نزدیک چونکہ قانون میں تبدیلی معاشرے سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اس لیے وہ اپنے شک کا اظہار کرتے ہیں کہ ترکی کے مصلحین قانون جو کچھ کہہ رہے ہیں آیا ترکی کی معاشرت واقعی ان تبدیلیوں کی متقاضی بھی تھی تاہم برصغیر کے بارے میں معروضی حالات اسلامی قانون میں بتدیلی کا تقاضا کر رہے تھے۔ اقبالؒ نے لکھا۔ ’’جیسا کہ ہر شخص کو معلوم ہے پنجاب میں ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ مسلمان عورتیں اپنے ناپسندیدہ خاوند سے گلو خلاصی کے لیے ارتداد پر مجبور ہوئی ہیں۔ ایک تبلغی دین کے مقاصد سے اس سے زیادہ بعید اورکیا بات ہوسکتی ہے۔مشہور اندلسی فقیہ امام شاطبیؒ نے اپنی کتاب الموافقات میں لکھا ہے کہ اسلامی قانون کا مقصد پانچ چیزوں کی حفاظت ہے: دین، نفس، عقل، مال اور نسل۔(۱۶) اس معیار پر پرکھتے ہوئے میں یہ سوال کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ ارتداد کے بارے میں الھدایہ میں جو حکم بیان ہوا ہے کیا اس پر عمل سے اس ملک میں دین کے مفادات کی حفاظت ہوسکتی ہے؟ ہندوستان کے مسلمانوں کی شدید روایت پرستی کے پیش نظر ہندوستانی ججوں کے لیے بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ مستند کتابوں کی پابندی کریں۔ نتیجہ یہ ہے کہ جب کہ لوگ آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں قانون ایک ہی جگہ رکا کھڑا ہے۔(۱۷)‘‘ یہ قانون کو معاشرے کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کی دعوت تھی، یامسلمان عورتوں کو ناپسندیدہ خاوندوں سے علیحدٰگی کا حق دلانے کا مطالبہ تھا یا مسلمان عورتوں کو ارتداد سے بچانے کی اپیل تھی یا عیسائیت کی اشاعت کا خطرہ تھا، معلوم نہیں علامہ اقبالؒ کے اس بیان کا کونسا پہلو تھا جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس نئی صورت حال پر سوچنے پر مجبور کیا۔ علمائے کرام نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا۔ غور کیا جائے تو علامہ اقبالؒ نے ایک حقیقی مسٔلہ پر اپنا اجتہاد پیش کیا تھا۔ اس میں ان کا طریق کار ترکی کے مصلحین کے برعکس معروضی اور حقیقت پسندانہ تھا۔ انھوں نے ایک ایسے مسٔلے کی طرف توجہ دلائی تھی جو واقعی مسٔلہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے بے شمار واقعات کی طرف اشارہ کیا جس سے اس مسلہ کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ ہم نے گذشتہ صفحات میں ان مقدمات کا ذکر کیا ہے جو یقینا علامہ کی تشویش کا سبب تھے۔ علامہ اقبالؒ نے اس مسلے پر اجتہاد کے لیے الگ طریقہ اختیار کیا مروجہ طریقے کی بنیاد قیاس پر ہوتی تھی یعنی زیر غور مسلہ کے بارے میں حکم تلاش کرنے کے لیے مصادر میں کوئی ملتا جلتا حکم تلاش کیا جائے اور اس کی بنیاد پر زیر غور مسلے میں حکم دیا جائے علامہ نے اس کی بجائے امام شاطبی کے حوالے سے مقاصدِ شریعت کی بنیاد پر اجتہاد کی راہ دکھائی۔ اس طریقے میں کسی ایک جزئی پر بنیاد رکھنے کی بجائے مصادر قانون سے مجموعی طور پر حکم تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ مجموعی حکم مقاصد شریعت کے تعین سے ملتا ہے چنانچہ علامہ اقبالؒ نے استدلال پیش کیا کہ مقاصد شریعت میں پانچ چیزوں کی حفاظت شامل ہے۔ لیکن زیر غور مسلے میں فقہ کی کتب جو حکم پیش کرتی ہیں اس سے مقصد شریعت کی تکمیل کی بجائے اس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ اس سے دین کی عمارت ہی گرنے کا خطرہ ہے چنانچہ اس حکم کو ترک کر کے ایسا حکم تلاش کیا جائے جس سے عورت اپنے حقوق کے حصو ل کے لیے اتنی مجبور نہ ہوکہ اسے اسلام ترک کرنا پڑے۔ علمائے کرام میں سے غالباً سب سے پہلے مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس مسلے کی طرف توجہ دی۔ علامہ اقبالؒ کے خطبات ۱۹۳۰ء میں شائع ہو کر سامنے آئے اگرچہ مولانا تھانوی نے کہیں ذکر نہیں کیا کہ انھوں نے علامہ اقبال کے اعتراضات کی بنا پر اس مسئلے پر لکھا تاہم اس کے ایک ہی سال میں مولانا نے ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک رسالہ لکھا جس کا عنوان تھا۔ الحیلۃ الناجزہ للحلیلۃ العاجزہ۔ (۱۸) (مجبور بیوی کے لیے کامیاب حیلہ) موضوع کی مناسبت سے ضروری ہے کہ اس کے مباحث کا خلاصہ پیش کیا جائے۔ رسالہ کے شروع میں ان اعتراضات کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس تصنیف کا سبب بنے۔ اول تو ایسے اعتراضات تھے جن کا تعلق عورتوں کی دقتوں اور مسائل سے تھا مثلاً شوہر کا غائب ہوجانا، شوہر کا عورت کے قابل نہ ہونا یاوسعت کے باوجود بیوی کو خرچہ نہ دینا دوسرے اعترضات اس طرح کے تھے کہ ’’اسلام نے بلاواسطہ قاضی شرعی کے جو کہ ہندوستان میں نایاب یا کمیاب ہے براہ راست ان مصائب سے عورتوں کو نجات حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں بتلایا جس سے مجبور اور پریشان ہو کر بہت سی عورتیں اسلام سے مرتد ہورہی ہیں‘‘۔(۱۹) مولانا کے نزدیک فقہ اسلامی سے ارتداد کی حوصلہ افزائی ہرگز نہیں ہوتی تھی۔ یہ درحقیقت مسائل سے عدم واقفیت تھی کہ عورتوں نے اپنی مجبوریوں سے نجات کے لیے ارتداد کا راستہ اختیار کیا۔ فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگوں نے مسائل نہ جاننے کے سبب یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر کوئی عورت مرتد ہو جائے تب ہی نکاح فسخ ہوجائے گا اور اس بنا پر محض ناواقفیت سے تمام روایات فقہیہ کے خلاف یہ تفریع کر بیٹھے کہ اس نالائق کو تجدید اسلام کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ یہاں تک کہ بعض کم بخت عورتوں نے اس کو خاوند سے رہائی حاصل کرنے کا سہل علاج سمجھ لیا اور ارتداد کی بلائے عظیم میں مبتلا ہو کر اپنی عمر کے اعمال صالحہ برباد کردیئے حالانکہ شرعی طور پر پھر بھی ان کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (۲۰) درحقیقت فقہ اسلامی کی رُو سے ارتداد بھی عورت کے مصائب کا حل نہیں تھا مولانا تھانوی نے عورت کے ارتداد کے بارے میں حنفی مذہب کے تین اقوال کا خلاصہ بیان کیا جن کا ذکر اوپر ہوا۔ ان میں پہلا قول ظاہر الروایہ زیادہ مستند تھا کہ عورت کے مرتد ہونے سے نکاح تو فسخ ہو جائے گا لیکن اس کو قید کر کے تجدیدِ اسلام اور پھر تجدید نکاح پر مجبور کیا جائے گا۔ دوسرا قول مشائخ بلخ و سمر قند اور بعض مشائخ بخارا کے فتویٰ کی بِنا پر یہ تھا کہ ارتداد سے نکاح فسخ نہیں ہوتا بلکہ عورت بدستور سابق شوہر کے نکاح میں رہتی ہے۔ تیسرا قول نوادر میں سے ہے اور امام ابوحنیفہؒ سے منسوب ہے کہ ارتداد سے عورت دارالسلام میںکنیز بنا کررکھی جائے گی اور خاوند کا بدستور اس پرقبضہ رہے گا۔ ان تینوں اقوال کی تفصیل بیان کرنے کی بعد مولانا تھانوی اس سے نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ ’’ان تینوں اقوال میں اگرچہ کچھ اختلاف ہے لیکن اتنی بات پر تینوں متفق ہیںکہ عورت کو کسی طرح یہ حق نہ دیا جائے گا کہ وہ اپنے پہلے خاوند کے نکاح سے علیحدٰہ ہو کر دوسری جگہ نکاح کرے اس لیے یہ بات متفق علیہ ہوگئی کہ عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا ہرگز اختیار نہیں ہوگا‘‘۔ (۲۱) تاہم مولانا کے نزدیک برصغیر کی صورت حال کے پیش نظر اس فتویٰ پر عمل کرنے میں بہت سی قباحتیں تھیں اس لیے مولانا نے ان تینوں اقوال میں سے دوسرے قول پر عمل کرنا ضروری قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’اب ہندوستان میں بحالت موجودہ اس متفق علیہ حکم پر عمل کرنا پہلی روایت کو اختیار کرتے ہوئے غیر ممکن ہے کیونکہ فسخ نکاح کا حکم دے دینے کے بعد پھر تجدید نکاح پر مجبور کرنے والی کوئی قوت مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ۔۔۔۔۔ اس لیے ظاہر الروایہ پر عمل کرنا غیر ممکن ہے ۔۔۔۔۔ نوادر کی روایت پر ۔۔۔۔۔ظاہر الروایت سے بھی زیادہ مشکل بلکہ بحالت موجودہ غیر ممکن ہے اس لیے بجز اس کے کہ مشائح بلخ و سمر قند کے قول کو اختیار کر کے اسی پر فتویٰ دیا جائے کوئی چارہ نہ رہا‘‘۔ (۲۲ ) دوسرے الفاظ میں مولانا کے نزدیک ارتداد کے ذریعے بھی عورت اپنے خاوندسے گلو خلاصی حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ مولانا ویسے بھی عورت کو طلاق دینے کے قائل نہیں تھے کیونکہ ان کے نزدیک ’’عورت چونکہ ناقص العقل ہے اس لیے طلاق کو مطلقاً اس کے ہاتھ میں دے دینا خطرہ سے خالی نہیں‘‘۔ (۲۳) جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ عورت اپنے خاوند کے ساتھ زندگی گذرانا نہیں چاہتی بیوی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خلع (۲۴) حاصل کرنے کی کوشش کرے اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو وہ معاملہ قاضی کے پاس لے جاسکتی ہے لیکن اس وقت کے برصغیر میں ایک دقت یہ بھی تھی کہ ضروری نہیں تھا کہ متعلقہ قاضی مسلمان ہو فقہ اسلامی کی رُو سے غیر مسلم قاضی نکاح کی تنسیخ نہیں کر سکتا تھا۔ اس طرح مسئلہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔ اس کا حل مولانا تھانویؒ نے یہ تجویز کیا۔ ’’ہندوستان کی جن ریاستوں میں قاضی شرعی موجود ہیں وہاں تو معاملہ سہل ہے اور گورنمنٹی علاقوں میں جہاں قاضی شرعی نہیں ان میں وہ حکام جج مجسٹریٹ وغیرہ جو گورنمنٹ کی طرف سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں اگر وہ مسلمان ہوں اور شرعی قاعدہ کے موافق فیصلہ کریں تو ان کا حکم بھی قضائے قاضی کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’اگر کسی جگہ فیصلہ کنندہ حاکم غیر مسلم ہو تو اس کافیصلہ بالکل غیر معتبر ہے اور اس کے حکم سے فسخ وغیرہ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔ اور جس جگہ مسلمان حاکم موجود نہ ہو یا مسلمان حاکم کی عدالت میں مقدمہ لے جانے کا قانوناً اختیار نہ ہو یا مسلمان حاکم قواعد شرعیہ کے مطابق فیصلہ نہ کرتا ہو تو اس صورت میں فقہ حنفی کے مطابق تو عورت کی علیٰحدگی کے لیے بغیر خاوند کی طلاق وغیرہ کے کوئی صورت نہیں اور حتی الوسع لازم ہے کہ خلع وغیرہ کی کوشش کرے لیکن اگر خاوند کسی طرح نہ مانے ۔۔۔۔۔ اور عورت کو صبر کی ہمت نہ ہوتو مجبوراً مذہب مالکیہ کے مطابق دیندار مسلمانوں کی پنچایت میں معاملہ پیش کرنے کی گنجائش ہے‘‘ ’’محلہ کے دیندار مسلمانوں کی ایک جماعت جن کا عدد کم از کم تین ہو پنچایت کرے اور واقعہ کی تحقیق کر کے شریعت کے موافق حکم کر دے تو یہ بھی قضائے قاضی کے قائمقام ہوجاتا ہے‘‘۔ (۲۵) مولانا کے نزدیک زیر بحث مسئلہ میں عورت کی دقتوں کا حل عدالت کے ذریعے تنسیخ نکاح تھا۔ فقہ میں اس کی وضاحت موجود نہ تھی کہ عورت کن اسباب کی بنا پر تنسیخ نکاح کا دعویٰ کرسکتی ہے۔ ایلا، ظہار، لعان وغیرہ اگر تنسیخ نکاح کی صورتیں تھیں بھی تو ان میں اصل اختیار خاوند کو تھا۔ عورت کو اختیار یا تو خیار بلوغ کی صورت میں تھا یا خاوند کے ایسے ذہنی اور جسمانی عیوب کی بنا پر جن کا ازدواجی تعلقات پر اثر پڑتا ہو۔ ایک صورت خلع کی تھی لیکن وہ بھی ایک طرح سے خاوند سے طلاق کا حق خریدنے کی صورت تھی مفقود الخبر شوہر کے مسٔلے میںحنفی فقہ پر عمل بہت دشوار تھا اس کے مقابلے میں مالکی فقہ زیادہ قابل عمل تھا چنانچہ مولانا تھانویؒ نے مالکی فقہ پر عمل کی اجازت دی۔ تنسیخ نکاح کی صورت میں حنفی فقہ میں قاضی کا دائرہ اختیار بے حدمحدود تھا۔ جائز اسباب کی موجودگی کے باوجو قاضی شوہر کی اجازت کے بغیر زوجین میں علیحدٰگی کا حکم نہیں دے سکتا تھا جب کہ مالکی فقہ میں یہ پابندی نہیں تھی۔ مالکی فقیہ ابن رشد نے اس اختلاف کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ اگر خاوند اور بیوی میں جھگڑا ہوجائے تو دونوں جانب سے ثالث مقرر کئے جائیں اور ان کے فیصلے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل صورتیں ہوں گی۔ واجمعوا علی ان الحکمین اذا اختلفا لم ینفذ قولھما و اجمعوا علی ان قولھما فی الجمح بینھما نافذ بغیر توکیل من الزوجین واختلفوا فی تفریق الحکمین بینھما اذا اتفقا علی ذلک ھل یحتاج اذن من الزوح اولا یحتاج الی ذلک فقال مالک واصحابہ یجوز قولھما فی الفرقۃ والا جتماع بغیر توکیل الزوجین ولا اذن منھمافی ذلک وقال الشافعیؒ وابو حنیفتہؒ واصحا بھما لیس لھما ان یفرقا الا ان یجعل الزوج الیھما التفریق ۔۔۔۔ و حجۃ اشا فعی وابی حنیفتہ ان الا صل ان لطلاق لیس بید احد سوی الزوج او من یو کلہ الزوج۔(۲۶) فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر دونوں ثالثوں میں اختلاف ہو تو ان کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ دونوں ثالث زوجین کو نکاح میں اکٹھا رکھنے پر متفق ہوں تو ان کا فیصلہ زوجین کی طرف سے وکالت کے اختیارات حاصل نہ ہونے کی صورت میں بھی نافذ ہوگا۔ البتہ اگر دونوں ثالث زوجین میں علٰیحدگی کا فیصلہ دیں تو اس کے بارے میں فقہا میں اختلاف ہے کہ آیا شوہر سے اجازت کی ضرورت ہے یا نہیں امام مالکؒ اور ان کے اصحاب کے نزدیک ثالثوں کا فیصلہ علیحدٰگی ہو یا اجماع دونوں صورتوں میں زوجین کی جانب سے وکالت کے اختیارات حاصل نہ ہونے کی صورت میں بھی نافذ ہوگا اس کے لیے ان سے اجازت کی ضرورت نہیں۔ امام شافعیؒ، اور ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب کے نزدیک ثالثوں کوعلٰیحدگی کرانے کا اختیار نہیں جب کہ شوہران سے علیحدٰگی کا مطالبہ کرے۔ امام شافعیؒ اور امام ابو حنیفہؒ کی دلیل یہ ہے کہ اصل یہ بات ہے کہ شوہر یا اس کے مختار وکیل کے علاوہ طلاق کا حق کسی کو نہیں۔ مختصراً یہ کہ مولانا تھانویؒ نے ایسی صورتوں میں جہاں بیوی کا اپنے خاوند کے ساتھ رہنا دشوار تھا کہ اسے اوّل تو خلع کے طریقے سے علیٰحدگی حاصل کرنے کی ہدایت کی اور اگر خاوند اس صورت پر رضامند نہ ہو تو عدالت کے ذریعے تنسیخ نکاح کی ہدایت دی اس موقع پر حنفی فقہ نے خاوند کی اجازت کی جو پابندی عائد کی تھی اس کو دور کرنے کے لیے مولانا تھانویؒ نے مالکی فقہ پر عمل کرنے کی اجازت دے کر اس دشواری کو آسان بنا دیا۔ مولانا تھانویؒ کے اس رسالے کے بعد اس مسئلے پر بحث کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا برطانوی عدالتوں نے اس عرصے میں اور بھی سخت موقف اختیار کیا۔ ۱۹۳۵ء کے ایک مقدمے میں وہ دلائل پیش کئے گئے جو مولانا تھانویؒ نے اس رسالے میں دئیے تھے۔ (۲۷) لیکن جب تک قانون میں تبدیلی نہ ہوتی عدالتوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ حنفی فقہ میں کوئی تبدیلی قبول کرتیں۔ اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے جمعیت العلما ہند نے قانونی جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ جمعیت کی مجلس عاملہ کے ایک رکن قاضی محمد احمد کاظمی نے جو الہٰ آباد ہائی کورٹ میں وکیل بھی تھے ۱۷ اپریل ۱۹۳۶ء کو اس موضوع پر مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بل پیش کیا۔ (۲۸) یہ بل تقریباً تین سال اسمبلی کے ہاں زیر بحث رہا۔ اسمبلی نے اس مسئلے پر رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک مجلس اعلیٰ مقرر کی جس نے ۳ فروری ۱۹۳۹ء کو اسمبلی کے سامنے رپورٹ پیش کی اور اس کے بعد بھی بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ قاضی محمد احمد کاظمی نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے سب سے پہلے تو نکاح و طلاق کے سلسلے میں شرعی قاضی کے تقرر کا مطالبہ کیا اور زیر بحث بل کی اس کمی کی طرف توجہ دلائی کہ اس کی وجہ سے اسلامی شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے۔ اسمبلی نے اس مطالبے کو نامنظور کر دیا۔ بل کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے قاضی صاحب نے کہا۔ ’’اس بل کی حمایت کی دوسری وجہ وہ دقتیں اور مصائب ہیں جن میں آج کے ہندوستان کی عورتوں کو مبتلا پاتا ہوں۔ ان کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اس بات کا قطعاً کوئی جواز نہیں کہ عورتوں کو اس بل میں مہیا کردہ مراعات سے مزید محروم رکھا جائے اور مردوں کوتو ان کے حقوق دئیے جائیں لیکن عورتوں کو ان حقوق سے بھی محروم رکھا جائے جو مذہب نے انھیں عطا کئے ہیں‘‘۔(۲۹) اس بل کی غیر مسلموں خصوصاً ہندوئوں نے شدید مخالفت کی، اسمبلی کے اندر بھی ہند و ممبروں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیشہ سے مسلمانوں کے ہاں ارتداد تنسیخ نکاح کی بنیاد رہا ہے اور حنفی فقہ بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔ سندھ کے ایم ایل اے لال چند نائول رائے اور پنجاب کے بھائی پریم نند نے بحث میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ اسمبلی سے باہر بھی ہندو مہا سبھا، آریہ سماج اور سناتن سبھا نے پبلک جلسوں میں اس مسئلے کو اٹھایا اور اس بل کے خلاف قرار دادیں پاس کیں۔(۳۰) تاہم ان ساری مخالفتوں کے باوجود آخر کار بل منظور ہوگیا۔ اگرچہ اس میں مسلمانوں کے بعض مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تھے تاہم یہ بل قانون کی صورت میں منظور ہوا تو مسلمان عورتوں کو ان کا وہ حق مل گیا جس کا علامہ اقبالؒ نے بہت عرصہ پہلے مطالبہ کیا تھا۔ یہ قانون مسلمانوں کا نکاح کی تنسیخ کا ایکٹ نمبر ۸، ۱۹۳۹ء کہلاتا ہے اس کی رو سے ایک طرف تواب محض ارتداد فسخ کا سبب نہیں بن سکتا تھا۔ دوسری جانب مسلمان بیوی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ان بہت سی صورتوں میں جہاں اسے خاوند کے ہاتھوں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب عدالت سے رجوع کر کے اپنے حقوق حاصل کر سکتی تھی۔ حنفی فقہ کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے علامہ نے دوسرے تجدید پسندوں کی طرح محض نظری بحث نہیں کی تھی بلکہ مسئلہ کے حقائق معروضی طور پر پیش کئے تھے چنانچہ جب عورتوں کی مجبوریاں علما کے سامنے اس انداز سے پیش کی گئیں تو وہ بھی فقہ میں تبدیلی اور گنجائش کے لیے تیار ہوگئے اور اس طرح بتدریج علما کی حمایت بلکہ خود ان کی پہل سے عورتوں کو حقوق دلانے کے لیے کوششوں کا آغاز ہوا جس نے بالآخر قانون کی صورت اختیار کی۔ اگرچہ علامہ اقبالؒاپنی کوشش کے نتائج دیکھنے سے ایک سال پہلے وفات پاگئے تاہم اس کامیابی کا سہرا دراصل انہی کے سر ہے۔ ۲۔ خلافت، اجتہاد، اجماع ،قانون ساز اسمبلی علامہ اقبالؒ کے نزدیک اسلام کے سیاسی ڈھانچے میں خلافت اور اجتہاد اور اجماع اور قانون ساز اسمبلی کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ اجتہاد شعبہ قانون کا ہی نہیں بلکہ اسلامی معاشرت کے ہر شعبے کا اصول حرکت ہے۔ اجتہاد کو آئینی حیثیت دینے اورقوت نافذہ عطا کرنے کے لیے خلافت کی ضرورت ہے۔ اجتہاد اقبال کے نزدیک انفرادی عمل نہیں بلکہ اجتماعی ہے اور خلافت کے ذریعے اُسے اجتماعی شکل ملتی ہے۔ اجماع کا اصول دراصل اجتہاد کا اجتماعی اصول ہے اور یہی اصول خلافت کی بنیاد ہے کیونکہ ان دونوں اصولوں سے ’’امت‘‘ کا تصور تشکیل پاتا ہے دور جدید میں جس طرح انفرادی اجتہاد قریب ناممکن ہوگیا ہے اسی طرح خلافت بھی انفرادی نہیں رہ سکتی۔ اس کی اجتماعی روح کا احیا ضروری ہے جو خلافت راشدہ میں اسے حاصل تھی اور اس دور میں اجتہاد بھی اجتماعی تھا۔ آج کے دور میں ان تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قانون ساز اسمبلی یاپارلیمان کا ادارہ ہے جو اجتہاد اور اجماع کا امتزاج بھی ہے اور خلافت کی اجتماعی شکل بھی ہے۔ خلافت کا مسئلہ اسلامی دنیا میں کئی سالوں سے زیر بحث تھا۔ برصغیر میں اس پر زیادہ توجہ غالباً جمال الدین افغانیؒ اور ولفرڈبلنٹ کے زیر اثر شروع ہوئے۔ جیسا کہ پہلے باب میں ذکر ہوا بلنٹ نے ۱۸۸۶ء میں ’’اسلام کا مستقبل ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں مسئلہ خلافت کے بارے میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کی رائے دراصل مفتی محمدعبدہ کے افکار پر مبنی ہے۔(۳۱)مفتی محمد عبدہ کے سیاسی نظریات کی تشکیل تمام تر ان کے استاد جمال الدین افغانیؒ کی تربیت میں ہوئی تھی۔ اگرچہ بلنٹ کے دعویٰ کی تائید مفتی محمد شاہ کی تحریروں سے نہیں ہوتی تاہم اس طریقے سے بلنٹ نے اسلامی دنیا میں اپنی رائے کے لیے جگہ ضرور پیدا کر لی اس کا کہنا تھا کہ دور جدید میں مسلمانوں کی ترقی کے لیے اجتہاد کا دروازہ کھولنے کی ضرورت ہے اور اجتہاد کی افادیت اس وقت تک نہیں جب تک اسے خلافت کی توثیق حاصل نہ ہو لیکن اس دور کی خلافت یعنی عثمانی خلافت میں یہ اہلیت نہیں تھی کیونکہ اسے نہ مرکزیت حاصل تھی نہ عالمگیریت۔ پھر وہ مخصوص ترک ذہنیت کا شکار تھی جس کا خمیر قدامت پسندی اور تقلید سے اٹھا تھا۔ چنانچہ بلنٹ کے نزدیک جب تک خلافت ترکوں کی بجائے عربوں کے ہاتھ میں نہیں آتی خلافت کے ادارے میں وہ اہلیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اجتہاد کا احیا کرسکے اور اس کو آئینی حیثیت دے سکے۔ اس کی دوسری تجویز جو حقیقتاً جمال الدین افغانیؒ سے لی گئی تھی علما کی مرکزی مجلس کی تشکیل تھی جو مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں قائم کی جائے اس کا کام خلافت کے بارے میں متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ اجتہادی مسائل میں امت کی رہنمائی ہو۔ (۳۲) ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں بلنٹ کی یہ ساری تجاویز عیسائیت کی تاریخ کے پس منظر میں تھیں اس کے نزدیک خلیفہ پوپ کی طرح مذہبی رہنما تھا چنانچہ پاپائیت کی طرح خلافت کا قیام مذہبی رہنمائی کے لیے ضروری تھا اسی طرح جیسے عیسائی کو نسلیں وقتاً فوقتاً اجلاس بلا کر اجتہادی مسائل پر فیصلے دیتی تھیں جن کی پابندی تمام عیسائیوں کے لیے لازمی تھی بلنٹ کے نزدیک مسلمانوں کے لیے بھی علماء کی مرکزی مجلس کا قیام ضروری تھا۔ بلنٹ کی کتاب کا ترجمہ ۱۸۸۴ء میں اردو میں ہوا اور اس کے ساتھ ہی برصغیر میں مسئلہ خلافت پر اس نئے زاویے سے اظہار خیال شروع ہوا۔ مقبول احمد نامی ایک صاحب نے ’’خلافت اسلامیہ کا دور جدید اور اس کا آئندہ نظام عمل‘‘ کے عنوان سے اس مسئلے پر قلم اٹھایا۔ یہ سلسلہ مضامین معارف کے کئی شماروں میں شائع ہوا۔ اس سلسلے کا تعارف کراتے ہوئے مدیر معارف (سید سلیمان ندوی ) نے لکھا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دوست بلنٹ صاحب سے بہت عقیدت رکھتے ہیں اوروہی ان کے خیالات کے ذرائع معلومات ہیں حالانکہ موجودہ فتنہ کے بانی وہی ہیں اور اسلام میں عرب و ترک اور قومیت و جنسیت کی لعنت انھیں نے پیدا کی ہے۔ یہ عربوں کے دوست مشہور تھے اور اس موجودہ انقلاب کے سخت آرزو مند تھے بالآخراس انقلاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر وہ اس دنیا سے سدھارے‘‘۔ (۳۳) اس سے قبل مولانا سید سلیمان ندوی ’’خلافت اسلامیہ اور عثمانی سلطنت‘‘ کے عنوان سے مقالات کا سلسلہ معارف میں شائع کر چکے تھے جس میں انھوں نے بلنٹ اور ان کے حامیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ (۳۴) اسی طرح اور بھی بہت سے علماء نے مسئلہِ خلافت پر بہت کچھ لکھا تھا۔ لیکن ان سب کے ہاں بلنٹ کے براہ راست یا بالواسطہ حوالے سے مسئلہِ خلافت کی بحث قومیت و وطنیت کے تناظرمیں کی جارہی تھی۔ بعض کے نزدیک خلافت کا نظریہ قومیت و وطنیت کے خلاف تھا اور بعض کے نزدیک یہ قومیت کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اس مسئلے پر سب سے پہلے اپنے افکار ۱۹۰۸ء میں شائع کیے۔ انھوں نے انگریزی میں ایک مقالہ ’’اسلام اور خلافت‘‘ کے عنوان سے لکھا جو لندن کے مجلے سوشیالوجیکل ریویو میں چھپا(۳۵)۔ اس مقالے میں انھوں نے استدلال پیش کیا کہ خلافت اپنی روح اور اساس کے لحاظ سے جمہوری ہے۔ اس کی تشکیل انتخاب سے ہوتی ہے اسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد عرب کے قبائلی سیاسی نظام پرہے لیکن جوں جوں اسلامی فکر میں نظر و تدبر کے دائرے وسیع ہوتے گئے یہ ابتدائی سیاسی ڈھانچہ ایک سیاسی اصول کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔ یہ سیاسی اصول دو تھے۔ ۱۔ جمہوریہ اسلامیہ کی بنیاد شریعت کے مطابق مطلق و آزاد مساوات پر قائم ہے۔ کسی کو دوسرے پر قانونی یا دینی برتری حاصل نہیں۔ ۲۔ اسلامی شریعت میں مذہب و سیاست میں کوئی تفریق نہیں۔ مذہب و حکومت کو یکجا کرنے کا نام سیاست نہیں بلکہ سیاست وہ عنصر غالب و منفرد ہے جس سے مذہب کو جدا نہیں کیا جا سکتا چنانچہ خلیفہ کی حیثیت خدا کے نائب کی نہیں اور نہ ہی کوئی مذہبی پیشوا ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے کیونکہ’’مذہب اسلام میں اساسی قانون کی بنیاد اور شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر قوانین کے لیے اصول اتحادِ آرائے جمہورِ ملت ہے(۳۶)‘‘۔ ’’نئے مسائل پیش آنے کی صورت میں اجماع اُمت کو منبع قانون تصور کیا جائے گا(۳۷)‘‘۔ اسلامی سیاست کا بنیادی اصول انتخاب ہے جو خلافت کو جمہوری شکل دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اسی اصول کی صراحت کی گئی ہے اور باقی تفصیلات کا فیصلہ اُمت پر چھوڑ دیا ہے۔ ’’قرآن پاک نے جو اصول اساسی قائم کیا ہے وہ انتخاب ہی کا اصول ہے، رہا یہ کہ عملاً حکومت کے اس طرزِ عمل کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے اس اصول کی کیا کیا تشریح و تاویل کی جا سکتی ہے اور اس سے کون کون سی فروعات و تفصیلات مستنبط ہوتی ہیں اس بات کے فیصلہ کا دارومدار وقتی حالات و دیگر واقعات پر چھوڑ دیا گیا ہے جو مختلف زمانوں میں مختلف جگہوں میں پیدا ہو سکتے ہیں (۳۸)‘‘۔ علامہ اقبالؒ اسلام کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں نے انتخاب کے تصور پر کماحقہ توجہ نہیں دی اور اس کی بنیاد پر سیاسی نظام پیش نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خلافتِ راشدہ کے بعد بہت جلد حکومت پر ایسے لوگوں کا عمل دخل ہو گیا جوانتخاب کے مفہوم اور اہمیت سے واقف نہیں تھے خصوصاً ایرانی اور منگول جو بادشاہ کو خدا کا مظہر سمجھتے تھے۔ ان سے پہلے اموی دور میں بھی مسلمان خود تو جنگوں اور فتوحات میں مشغول رہے اور کاروبارِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں رہا جو مطلق العنانی کے نظریے کے قائل تھے چنانچہ اس طرح قرآنی تعلیمات، منہاجِ نبوت اور خلافتِ راشدہ کی روح کے برعکس انتخاب اور جمہوریت کے اصول کی اہمیت کم ہوتی گئی اور خلافت اجتماعی اصول کی بجائے انفرادی بنتی چلی گئی۔ حتیٰ کہ خلافت اور مطلق العنان بادشاہت میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ خلافت کے اجتماعی اور جمہوری تصور کا احیاء دورِ جدید میں ہوا ہے۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ آج جن اصلاحات کو ہم یورپی اور مغربی سمجھ رہے ہیں، دراصل اسلامی ہیں۔ ’’میں ان تمام سیاسی مصلحین کو یہ رائے دوں گا کہ ِان کے لیے اشد ضروری ہے کہ پیشتر اس کے کہ وہ اپنے آپ کو نئی تہذیب کے پیغمبر ظاہر کر کے اپنے لوگوں کی اس قدامت پسندی کو جو قدرتاً ان سے بدظن ہے صدمہ پہنچائیں وہ اسلامی آئینِ اساسی کے اصولوں کا بغور و خوض مطالعہ فرما لیں اور اگر اس طرح جمہوریہ پر یہ ثابت کر دیں اور ان کو یقین دلا دیں کہ سیاسی آزادی کے وہ اصول جو بظاہر غیر اسلامی نظر آتے ہیں فی الحقیقت عین اسلامی ہیں، اسلام ہی کا مقصود و منتہا ہیں اور آزاد اسلامی ضمیر کا مطالبہ اسلامی اصولوں ہی پر مبنی ہے اور انھی کا مقتضی ہے تو یقینا وہ جمہور اور عامۃ الناس کو زیادہ متاثر کر سکیں گے اور ان کو مطلوبہ سیاسی انقلاب کے لیے آمادۂ کار پائیں گے (۳۹)۔ علامہ اقبالؒ کا یہ مقالہ حقیقتاً اس دور کا ہے جب ابھی مسئلہ خلافت پر بحثیں نظری تھیں اور ترکی میں اصلاحی کام کا آغاز ہوا تھا لیکن ابھی خلافت میں تبدیلی کے مسئلہ نے شدت اختیار نہیں کی تھی۔ بعد کے دور میں جب خلافت کے ادارے میں تبدیلی کا مسئلہ زیرِ بحث آیا تو علامہ اقبال کے تجزیے کی توثیق ہوئی چنانچہ مقالۂ اجتہاد کے زمانے میں عملی طور پر خلافت کے خاتمے کا اعلان کر کے ترکی میں جمہوری حکومت کا آغاز ہوا۔ علامہ کے نزدیک یہ سارے واقعات دراصل اسلام کی جمہوری روح کے غماز تھے۔ بلکہ علامہ نے اس ساری پیش رفت کو دورِ جدید میں اصولِ اجتہاد کی کارفرمائی قرار دیا۔ مقالۂِ اجتہاد میں ترکی کے سیاسی حالات کا تجزیہ اقبالؒ ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں۔ ’’اب میں ترکی میں دینی، سیاسی فکر کا اجمالی تذکرہ کروں گا جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس ملک کے فکر و عمل میں اجتہاد کی قوت کا اظہار کس انداز سے ہوا ہے (۴۰)‘‘۔ اس کے بعد وہ دین اور ریاست کے باہمی رشتے کے بارے میں ترکی میں مختلف رُجحانات کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ قوم پرستوں کا گروہ ریاست کو دین سے الگ بلکہ دین کو ریاست کے تحت قرار دیتے ہوئے دونوں میں تفریق کا قائل تھا۔ اس کے برعکس اصلاح پسند گروہ دین اور ریاست کی دوئی کے خلاف تھا۔ ان کے نزدیک اسلام علاقائی نہیں عالمگیر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کو ان علاقائی رسوم و رواج سے آزادی ملے اور اسے اس کی اصلی روح دوبارہ ملے تاکہ دورِ جدید میں یہ پھر سے عالمگیر اصولوں پر آگے بڑھ سکے۔ ان رُجحانات کا تجزیہ کرنے کے بعد اقبالؒ کہتے ہیں کہ دونوں گروہ ایک نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’اجتہاد کی آزادی ہونی چاہیے تاکہ جدید فکر اور تجربہ کی روشنی میں قانونِ شریعت کی تشکیل کی جا سکے (۴۱)۔ اس کے بعد خلافت کے ادارے میں ترک جو تبدیلیاں لائے تھے اقبالؒ اس کا تجزیہ ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں۔ ’’آئیے اب دیکھتے ہیں کہ مجلس کبیر ملی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اپنے اجتہاد کے اختیار کو کس طرح استعمال کیا (۴۲)‘‘۔ خلافت کے بارے میں وہ کون سے سوالات تھے جو علامہ اقبالؒ کے نزدیک اجتہاد طلب تھے؟ اور ترکوں نے اس سلسلے میں کیا اجتہاد کیا؟ اقبال اس کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔ ’’اس سلسلے میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا خلافت ایک فردِ واحد کو دی جانی چاہیے؟ ترکی کا اجتہاد یہ ہے کہ اسلام کی روح کے مطابق خلافت یا امامت افراد کی ایک ہئیت یا منتخب اسمبلی کو دی جا سکتی ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے مصر اور ہندوستان کے علماء نے اس مسئلے پر اظہارِ خیال نہیں کیا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یقین ہے کہ ترکی موقف ہر لحاظ سے صحیح ہے۔ اس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں۔ حکومت کی جمہوری شکل نہ صرف اسلام کی روح کے عین مطابق ہے بلکہ عالمِ اسلام میں جو نئی قوتیں ابھر رہی ہیں ان کے پیشِ نظر یہ شکل اب ضرورت بن چکی ہے۔(۴۳)‘‘۔ خلافت کی اس جمہوری اور اجتماعی شکل کی وضاحت کے لیے ابن خلدون اور ابوبکر باقلانی کے حوالے سے علامہ اقبالؒ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگرچہ امامت یا خلافت اہلِ سنت کے نزدیک نظری طور پر یہ لازمی سمجھا گیا کہ وہ سارے عالمِ اسلام کے لیے ایک ہو یعنی عالمگیر ہو لیکن تاریخ کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ عملاً ایسا نہیں رہا۔ خلافت مختلف علاقوں میں تقسیم ہو گئی تھی اور فقہا نے نظری طور پر بھی اس کا جواز پیش کیا لیکن آج کے دور میں اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان حکومتیں اپنے اپنے علاقوں میں قوت پکڑیں اور بعد میں وفاقی قسم کے اتحاد میں وہ عالمگیر امامت یا خلافت کا قیام عمل میں لا سکتی ہیں۔ خلافت کے مسئلے میں حالات سے سمجھوتے کی مثال قریشیت کی شرط سے پیش کی جا سکتی ہے۔ بہت عرصے تک خلافت کا بنیادی اصول یہ رہا کہ خلافت قریش میں محدود رہے لیکن جب قریش کی قوت کمزور پڑی اور وہ حکمرانی کے قابل نہ رہے تو علما نے خلافت کے لیے قریشیت کی شرط پر نظر ثانی کی۔ چنانچہ ترکی کے عثمانی خلفا قریش نہ ہوتے ہوئے بھی مسندِ خلافت پر متمکن رہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اجتہاد اور خلافت دونوں کا ایک دوسرے سے گہرا رشتہ ہے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ جب تک خلافت اجتماعی اور جمہوری رہی اجتہاد بھی اجتماعی رہا لیکن خلفائے راشدہ کے بعد جونہی خلافت اقتدار اور ملوکیت میں تبدیل ہوئی اجتہاد کی اجتماعی حیثیت بھی ختم ہو گئی اور اس طرح اجتہاد کے ایک باقاعدہ قانون سازی کا ادارہ تعمیر کرنے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔ اقبال لکھتے ہیں۔ ’’میرا خیال ہے کہ یہ بات اموی اور عباسی خلفاء کے مفاد میں جاتی تھی کہ اجتہاد کا اختیار مجتہد افراد کو دیا جائے اور ایک مستقل اسمبلی کی تشکیل کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے کیونکہ ہو سکتا ہے ایسی اسمبلی ان کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور ہو جائے (۴۴)‘‘۔ علامہ اقبالؒ اجماع کو ایسا اصول سمجھتے تھے جس میں قانون ساز اسمبلی بننے کی ساری صلاحتیں موجود تھیں۔ لیکن اگرچہ قرونِ اولیٰ میں اس کے کردار کے بارے میں بحثیں ہوتی رہیں اور نظری طور پر آج بھی اس کی تعریف اسی انداز سے کی جاتی ہے لیکن یہ بات ایک خیال سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ اور اجماع عملی طور پر ایک باقاعدہ ادارہ نہ بن سکا۔ عین ممکن ہے کہ مطلق العنان بادشاہوں نے ایسے ادارے کے قیام کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھا ہوا اور اس کے ارتقا کو روک دیا ہو۔ تاہم دورِ جدید میں حالات بدل چکے ہیں۔ اقبالؒ ان تبدیلیوں پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’یہ دیکھ کر بے حد اطمینان ہوتا ہے کہ نئی عالمی قوتوں کے دباؤ کے تحت اور یورپی اقوام کے سیاسی تجربات کی روشنی میں جدید اسلام کے ذہن پر اجماع کے تصور کی اقدار اور امکانات روشن ہو رہے ہیں۔ جمہوری روح کی نشو و نما اور مسلمان علاقوں میں قانون ساز اسمبلیوں کی بتدریج تشکیل ترقی کی طرف بہت بڑے قدم ہیں۔ دورِ جدید میں متصادم فرقوں میں اضافے کو سامنے رکھتے ہوئے، اجماع کی صرف ایک ہی شکل نظر آتی ہے کہ اجتہاد کا اختیار مذاہب فقہ کے انفرادی نمائندوں سے لے کر مسلم قانون ساز اسمبلیوں کے حوالے کر دیا جائے۔ صرف اسی طرح ہی عام آدمی جو مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو قانونی مباحثے میں حصہ لے سکتا ہے (۴۵)‘‘۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اجماع جمہوری اصول تھا اور اس کی رو سے قانون سازی کا حق چند افراد میں محدود کرنے کی بجائے جمہورامت کی اس میں شرکت کی تائید ہوتی تھی۔ ویسے ہی جیسا کہ ہم گذشتہ ابواب میں وضاحت کر آئے ہیں مسائل کی نوعیت اب اتنی بدل گئی ہے اور علوم کی حدود اتنی وسیع ہو گئی ہیں کہ ان کے لیے اصول فقہ میں شرائط اجتہاد میں مذکور علوم اجتہاد کے لیے کافی نہیں رہے۔ آج اجتہاد کے لیے علومِ اقتصادیات، سیاسیات، نفسیات، طبیعیات غرض بہت سے علوم سے واقفیت اشد ضروری ہے اور اِن شرائط کا پورا کرنا انفرادی اجتہاد کے بس کی بات نہیں۔ آج کا اجتہاد محض روایتی مجتہد اور عالم کی طاقت سے باہر ہے لیکن اس طرح روایتی عالم کی مدد کے بغیر بھی اجتہاد ممکن نہیں۔ چنانچہ قانون سازی اسمبلی کی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے اور اسے اجماع کی جدید شکل قرار دیتے ہوئے اس کی ہئیت کا سوال باقی رہ جاتا تھا۔ سوال یہ تھا کہ مجالسِ قانون ساز کو اجتہاد اور اجماع کی ذمہ داری سونپنے کے لیے کیا اس میں ماہرینِ علم و فن کی شرکت لازمی نہیں ہو گی؟ اور انھیں شریک کیا جائے تو اس کی شکل کیا ہو گی؟ معلوم ہوتا ہے برصغیر میں ان مسائل پر بہت سوچا جا رہا تھا۔ بہت سے علماء کا خیال تھا کہ قانون ساز اسمبلیوں میں علماء کا ہونا ضروری ہے۔ وحید احمد مسعود صاحب اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’مجھے یاد ہے کہ مولانا محمد علی صاحب چند واڑہ جیل سے رہائی کے بعد جب ڈاکٹر انصاری کی کوٹھی میں مقیم تھے تو مولانا ابو الکلام آزاد صاحب نے میر محفوظ علی صاحب بی۔ اے بد ایوانی سے کہا تھا کہ ’’عزت گم شدہ حاصل کرنے کے لیے علماء کولیجِسلیچر کے انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے کیونکہ قوم کی صحیح نمائندگی وہی کر سکتے ہیں (۴۶)‘‘۔ اس اقتباس سے تو اندازہ یہی ہوتاہے کہ یہاں اسمبلیوں میں شرکت کی نوعیت سیاسی دباؤ کی تھی اور غالباً مقصود وہ بالکل نہیں تھا جو علامہ اقبال کا تھا۔ بہر کیف یہ رحجان ایرانی رحجانے کے برعکس تھا۔ جہاں علماء باقاعدہ مجلس قانون سازی کا حصہ بننے کی بجائے اپنی الگ مجلس کے قیام کے حق میں تھے۔ درحقیقت جمال الدین افغانیؒ اور بلنٹ بھی علماء کی ایسی مجالس کے قیام کے قائل تھے جو جمہوری قانون ساز اداروں سے الگ ہوں اور دینی امور میں رہنمائی علما کے ذمے ہو جب کہ باقی امور ان کے دائرہ اختیار میں نہ ہوں۔ علامہ اقبالؒ اس کے حق میں نہیں تھے۔ ’’ایران کے ۱۹۰۶ء کے آئین میں یہ دفعہ شامل تھی کہ علماء کی ایک الگ دینی اعلیٰ کمیٹی ہو جو دیناوی امور سے آگاہی رکھتی ہو۔ اس کمیٹی کو مجلس کی قانون سازی کی کارروائیوں پر نگرانی کا حق ہو گا۔ میری رائے میں یہ خطرناک انتظام غالباً ایران کے آئینی نظریے کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس نظریے کے مطابق بادشاہ اس علاقے کا محض امانت دار ہے جو حقیقتاً امام غائب کی ملکیت ہے۔ امام کے نمائندوں کی حیثیت سے علماء اپنے کو امت کی زندگی کے تمام شعبہ ہائے حیات کی نگرانی کا حقدار سمجھتے ہیں، اگرچہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب تک نبوت کی جانشینی ثابت نہ ہو وہ امام کی نمایندگی کا دعویٰ کس طرح ثابت کر سکتے ہیں۔ تاہم ایرانی نظریہ آئین کچھ بھی ہو یہ انتظام خطرے سے خالی نہیں اور سنی ممالک میں اسے محض عارضی طور پر آزمایا جائے (۴۷)‘‘۔ علامہ اقبالؒ یہ سمجھتے تھے کہ علماء کو اس طرح کا اختیار دینے سے ایک طرف تو پاپائیت یا مذہبی پیشوائی کی راہ کھلے گی دوسرے اس سے اسلامی سیاسی ڈھانچے کی جمہوری روح ختم ہو جائے گی اس کی بجائے وہ علماء کو جمہوری عمل کا حصہ بنانا چاہتے تھے چنانچہ علماء کی علیحدہ علیحدہ مجالس کے قیام کی بجائے ان کی تجویز تھی کہ ’’علما کو مسلم قانون ساز اسمبلیوں کا لازمی حصہ بنانا چاہیے تاکہ وہ قانون سے متعلقہ سوالات میں آزادانہ بحث میں مدد اور راہنمائی مہیا کر سکیں (۴۸)‘‘۔ اس مقالے کے بعد البتہ علامہ اقبالؒ کو غالباً اس سلسلے میں عملی دشواریوں کا تجربہ ہوا اور یہ مسئلہ سامنے آیا کہ برصغیر کی اس وقت کی قانون ساز اسمبلیوں میں ایک تو ویسے ہی مسلمان اقلیت میں تھے اور پھر ان میں علماء کی بہت ہی کم تعداد انتخابات کے ذریعے جا سکتی تھی۔ اس لیے اسلامی قانون کی پیش رفت کے لیے مجبوراً انھوں نے اسی پہلے طریقے کی حمایت کی جسے وہ اسلام کے لیے انتہائی خطرناک سمجھتے تھے اور جس کو محض عارضی طور پر آزمانے کے حق میں تھے لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس ۲۱۔ مارچ ۱۹۳۲ء کو صدارتی خطبہ میں انھوں نے فرمایا۔ ’’میں تجویز کرتا ہوں کہ علما کی ایک مجلس تشکیل دی جائے جس میں مسلم قانون دانوں کو بھی شامل کیا جائے جنھوں نے جدید اصولِ قانون کی تعلیم پائی ہو اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی قانون کی حفاظت اور توسیع اور اگر ضرورت ہو تو جدید حالات کی روشنی میں اس کی تعمیرِ نو کی جائے ۔ اس میں اس روح کے قریب رہا جائے جو اسلامی قانون کے بنیادی اصولوں میں کارفرما ہے۔ اس مجلس کو آئینی تحفظ حاصل ہونا ضروری ہے تاکہ مسلمانوں کے شخصی قوانین کے سلسلے میں کوئی بل اس وقت تک اسمبلی میں پیش نہ ہو سکے جب تک وہ مجلس کی نظروں سے گذر نہ جائے (۴۹)‘‘۔ اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تجویز اس وقت کی ہندوستان کی قانون ساز اسمبلیوں کی ہئیت کے پیش نظر دی گئی تھی اور غالباً یہ عارضی تجویز تھی۔ حقیقتاً علامہ اقبالؒ علماء کی قانون ساز اسمبلیوں میں باقاعدہ شرکت کے حامی تھے۔ کیونکہ اگر علما کو قانون ساز اسمبلیوں کا رکن نہ بنایا جائے تو قانون ساز اسمبلیوں کے اجماع اور اجتہاد کے ادارے بننے کی وہ بات پوری نہیں ہو سکتی جس کو علامہ اقبالؒ اتنی اہمیت دیتے تھے۔ اجماع اور اجتہاد کے بارے میں علامہ نے ایک طرح سے دو اجتہادات پیش کیے تھے۔ ایک تو اجتہاد کے انفرادی کی بجائے اجتماعی عمل کا تصور، دوسرے قانون ساز اسمبلیوں سے اجماع اور اجتہاد یا اجتماعی اجتہاد کے اداروں کا کام لینے کی تجویز۔ ان میں سے پہلی بات تو علماء میں خاصی مقبول ہوئی اور بہت سے علماء کے ہاں اس کی تائید ملتی ہے اگرچہ اس میں براہ راست اقبال کے حوالے سے بات نہیں کی گئی تاہم پاکستان میں مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم (۵۰) اور بھارت میں مولانا محمد تقی امینی(۵۱) نے بہت زور کے ساتھ انفرادی کی بجائے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا ہے۔ دوسرے اسلامی ممالک میں بھی اس خیال کو حمایت حاصل ہوئی ہے چنانچہ شیخ ابو زہرہ (۵۲) اور مصطفی احمد الزرقا(۵۳) اور دوسرے علماء نے اجتماعی اجتہاد پر زور دیا ہے۔ البتہ اس اجتماعی اجتہاد کی شکلیں کیا ہوں اس پر علامہ اقبالؒ کے خیال کو قبولِ عام حاصل نہیں ہو سکا اکثر علماء نے جن میں شیخ ابو زہرہ اور مصطفی زرقا بھی شامل ہیں علما کی خصوصی مجالس اور تحقیقاتی اداروں کی تشکیل کی تجاویز دی ہیں لیکن یہ اختیارات قانون ساز اسمبلیوں کو دینے کی تائید علماء کی جانب سے ابھی تک نہیں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد اگرچہ قانون ساز اسمبلی میں واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی اور اس لحاظ سے علامہ اقبالؒ کی اس تجویز کو عملی جامہ پہنانا ممکن تھا کہ اسمبلی کو اجماع و اجتہاد کا ادارہ بنا لیا جائے لیکن بوجوہ ایسا نہ ہو سکا اس کی بجائے پہلے پہل علماء کا خصوصی بورڈ قائم ہوا جو قانون ساز اسمبلی کی کارروائی کی نگرانی و رہنمائی کر سکے۔ تحقیقی ادارے مثلاً ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی وغیرہ بھی قائم ہوئے۔ علماء کی مجالس اسلامی مشاورتی کونسل اور اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے آئینی تحفظات کے ساتھ قائم ہوئیں لیکن یہ چونکہ قانون ساز اسمبلی کا باقاعدہ حصہ نہیں اس لیے علامہ اقبالؒ کی تجویزعمل میں نہیں لائی جا سکی اور وہ طریقہ جسے وہ سنی ملکوں کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اکثر اسلامی ممالک میں رائج چلا آ رہا ہے۔ اقبال کا تصور اجتہاد ، مطبوعات حرمت، راولپنڈی، ۱۹۸۵ء حواشی ۱۔ علامہ اقبالؒ، قومی زندگی، مقالاتِ اقبال، محولہ بالا ۵۵ ۲۔ ان کی تفصیل مندرجہ ذیل مقدمات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ۱۔ امین بیگ بنام سمن (۱۹۱۰ئ) ۳۳ الہٰ آباد ۹۰۔ ۲۔ مسماۃ ریشماں بنام ،خدا بخش (۱۹۳۷ئ) ۱۹، لاہور ۲۷۷ ۳۔ غوث بنام مسماۃ فیجی (۱۹۱۵ئ) لاہور، ۱۴ ۴۔ آل انڈیا لا رپورٹ میں مندرجہ ذیل رپورٹیں۔ (ا) ۱۹۱۳ء کلکتہ ۴۳۰ (ب) ۱۹۱۴ء سندھ ۱۴۵ (ج) ۱۹۲۴ء لاہور ۳۹۷ (د) ۱۹۲۸ء لاہور ۹۵۴ (ہ) ۱۹۳۴ء لاہور ۹۷۶ (و) ۱۹۳۶ء لاہور ۶۶۶ (ز) ۱۹۳۷ء لاہور ۷۵۹ (ح) ۱۹۳۸ء لاہور ۲۷۷ ۵۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مقدمات (ا) ۱۳۲ پی آر ۱۸۸۴ (ب) ۱۰۶ پی آر ۱۸۹۱ (ج) ۶۱ پی آر ۱۸۹۹ (د) ۷۵ پی آر ۱۹۰۶ (ہ) ۲۹ آئی سی ۸۵۷ (و) اے آئی سی ۸۳۰ (ز) ۱۱۴ پی ایل آر ۱۹۱۶۔ ۳۔ ملاحظہ ہو آل انڈیا لا رپورٹ ۱۹۲۴ء لاہور، ۳۹۷ ۴۔ آل انڈیا لا رپورٹ ۱۹۲۸ لاہور ۹۵۴ (۱) ۵۔ آل انڈیا لا رپورٹ ۱۹۳۴ لاہور ۹۷۶ ۶۔ آل انڈیا لا رپورٹ ۱۹۲۸ء لاہور ۹۵۴(۱) ۷۔ آل انڈیا لا رپورٹ ۱۹۳۷ء لاہور ۲۷۷۔ ۸۔ آل انڈیا لا رپورٹ ۱۹۳۸ء لاہور ۴۸۲۔۴۸۵ ۹۔ آل انڈیا رپورٹ ۱۹۳۶ء لاہور ۶۶۶ ۱۰۔ ان مقدمات میں ایک اور دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں بہت سے مقدمات میں عورتوں نے عیسائی ہونے کے لیے بپتسمہ کا سرٹیفیکیٹ لائل پور کے عیسائی پادری جے ایم پال سے حاصل کیا تھا۔ ہو سکتا ہے عیسائی مبلغین بھی حنفی فقہ کی ان پابندیوں سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہوں۔ ۱۱۔ المرغینانی، الھدایہ، ج ا (دہلی، مجتبائی ۱۳۸۰) ۳۲۸ ۱۲۔ ترجمہ فتاویٰ عالمگیری (ترجمہ سید امیر علی) جلد دوم (لکھنو، نول کشور ۱۹۳۲) ۲۵۹ ۱۳۔ ترجمہ فتاویٰ عالمگیری (ترجمہ سید امیر علی) جلد دوم (لکھنو، نول کشور ۱۹۳۲) ۲۵۹ ۱۴۔ عبدالرحمن الجزیری، کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ، ج ۴ (قاہرہ، ۱۳۵۵) ۲۲۳ ۱۵۔ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، محولہ بالا ۲۲۳۔۲۲۴ ۱۶۔ علامہ اقبالؒ کے اس حوالے سے یہ نتیجہ نہ نکالا جائے کہ یہ بات سب سے پہلے امام شاطبی نے کہی تھی۔ یہی بات امام شاطبی سے بہت پہلے امام غزالی اور دوسرے فقہا بھی کہتے آئے تھے بلکہ امام غزالی اور شاطبی نے وضاحت کی ہے کہ صرف اسلامی قانون ہی نہیں دنیا بھر کے قوانین کا مقصد انہی پانچ چیزوں کی حفاظت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب (انگریزی) امام شاطبی کا فلسفہ قانون،محولہ بالا۔ ۱۷۔ تشکیل نو ص ۱۶۹ ۱۸۔ یہ رسالہ دیوبند سے ۱۳۵۱ھ / ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا۔ ۱۹۔ ایضاً ص ۳ ۲۰۔ الحیلۃ الناجزہ ص ۹۹ ۲۱۔ الیضاً ۲۲۔ الحیلۃ الناجزہ، ص ۹۹ ۲۳۔ ایضاً ص ۱۳ ۲۴۔ خلع عورت کی طرف سے مرد سے طلاق حاصل کرنے کی ایک صورت ہے جس میں عورت طلاق کے عوض مالی معاوضہ پیش کر کے خاوند سے علیحدٰگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ صحیح تعریف اور احکام کے لیے فقہ کی کتابیں ملا حظہ کی جائیں۔ ۲۵۔ الحیلۃ الناجزہ ص ۲۳۔۲۴ ۲۶۔ ابن رشد، بدایۃ المجتھد، ج ۲ (قاہرہ ۱۳۲۹ھ )ص۸۱ ۲۷۔ سردار محمد بنام مسماۃ مریم بی بی جالندھر ۱۹۳۵، بحوالہ آل انڈیا رپورٹ ۱۹۳۶ء ص ۶۶۶ ۲۸۔ ملاحظہ ہو A. A. A. Fyzee, Outlines of Mohammadan Law (Oxford 1960) p. 144. ۲۹۔ Legislative Assembly Debates Vol. I, 1939 (Delhi, Govt. Press. 1939) P. 616. ۳۰۔ان تمام تفصیلات کے لیے دیکھئے: مباحث قانون ساز اسمبلی ۱۹۳۸ء صفحات ۳۱۸۔ ۳۲۳ ،۵۰۹۔ ۵۱۳ ۱۰۹۰۔ ۱۱۲۴، ۱۹۵۱ ۔ ۱۹۸۸ اور مباحث قانون ساز اسمبلی ۱۹۳۹، جلد اول صفحات ۶۱۵۔ ۶۵۴ اور ۸۶۳۔ ۸۹۴ ۳۱۔ A. Hourani, Arabic Thought in Liberal Age (Oxford, 1970) p. 155- 157. ۳۲۔ ایضاً ۳۳۔ معارف، جلد ۱۲ (اگست ۱۹۲۳ء )شمارہ ۲، ص ۱۱۴ ۳۴۔ یہ مضامین معارف کی جلد ۸، (۱۹۱۹ئ) اور جلد ۹ (۱۹۲۰ء )میں شائع ہوئے۔ ۳۵۔ اس مقالہ کا اُردو ترجمہ چودھری محمد حسین نے ’’خلافتِ اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کیا ترجمہ فکر اقبال، مرتبہ غلام دستگیر رشید (لاہور، اُردو مرکز، ۱۹۵۶ئ) میں شامل ہے۔ ۳۶۔ ایضاً ص۶۲ ۳۷۔ ایضاً ص۶۷ ۳۸۔ اس مقالہ کا اردو ترجمہ چودھری محمد حسین نے ’’اقبالِ خلافت اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے کیا یہ ترجمہ فکراقبال مرتبہ غلام و ستگیر رشید (لاہور، نے اردو مرکز، ۱۹۵۶ئ) میں شامل ہے۔ایضاً ص۸۷ ۳۹۔ اقبال، خلافتِ اسلامیہ، ص ۸۹ ۴۰۔ تشکیلِ نو، ص ۱۵۳ ۴۱۔ تشکیلِ نو، ص ۱۵ ۴۲۔ ایضاًص ۱۵۷ ۴۳۔ ایضاً ۴۴۔ تشکیلِ نو، ص ۱۷۳ ۴۵۔ تشکیلِ نو، ص ۱۷۴ ۴۶۔ وحید احمد مسعود، ’’تم کو بے مہری یاران وطن یاد نہیں ‘‘ بربان، دہلی اپریل ۱۹۶۲ء ص ۲۴۵ ۴۷۔ تشکیلِ نو، ص ۱۷۶ ۴۸۔ ایضاً ۴۹۔ A. R. Tariq, Speeches and Statements of Iqbal (Lahore, 1973) p. 14 ۵۰۔ مولانا بنوری، مقالہ اجتہاد محولہ بالا ۵۱۔ تقی امینی ’’اجتہاد‘‘ برہان جنوری ۱۹۷۷ء ۵۲۔ شیخ ابوزہرہ الا جتہاد فی الفقہ الاسلامی ۵۳۔ مصطفی احمد الزرقائ، الاجتہاد و مجال التشریح فی الاسلام جمہوریت، اقبال کی نگاہ میں ڈاکٹر تحسین فراقی دنیا کے متعدد تصوراتِ حکومت میں جمہوریت وہ واحد تصور ہے جس پر لاتعداد مقالات و کتب لکھی جا چکی ہیں اور بے شمار اہلِ قلم، اہل سیاست اور سماجی سائنسدان اس پر نرم گرم، موا فقانہ، مخالفانہ خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یوں بھی یونان کی یک شہری جمہورتیوں سے لے کر امریکہ کی ڈالر ڈیما کریسی تک یہ نظام حکومت اپنی متنوع اور بعض صورتوں میں کامل متغائر شکلوں میں دنیا کے مختلف خطوں اور منطقوں پر سکیڑوں سالوں سے جاری رہا ہے اور ہے۔ جارج بینکرافٹ کے نزدیک تو اس سے زیادہ مقدّس کوئی ادارہ نہیں اور ابراہام لنکن کے نزدیک جمہوریت کی تعریف و مذمت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود جمہوریت کی تاریخ۔ جہاں تک اقبالؒ کا تعلق ہے وہ اس کے جتنے مدّاح ہیں اس سے کہیں زیادہ اس کے نقّاد ہیں۔ دراصل معاملہ یہ ہے کہ جمہوریت کی تحسین کے پس منظر میں علّامہ کا وہ بیک وقت حرکی، آتش بجاں اور روایت دوست تصوّرِ حیات کار فرما ہے جو جہانِ تازہ اور امتحانِ تازہ سے عبارت ہے۔ فرد کی آزادی اور اس کی شخصیت کے لا تعداد امکانات کو بروئے کار لانے میں جو تصور حیات بھی ممدو معاون ہو سکتا ہے علامہ اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ علامہ کی نگاہ ان سلبی پہلوئوں سے بھی نہیں چوکتی، جن میں معیار کے بجائے مقدار اور قابلیت کے بجائے مقبولیت کو طرۂِ فضیلت قرار دیا جاتا ہے۔ علامہ نے اپنی بھر پور جوانی سے لے کر اپنے رنجور بڑھاپے تک کہیں نام لے کر اور کہیں بغیر نام لیے جمہوریت کے باب میں اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔ یہ تاثرات نثر کے پیرہن میں بھی ملتے ہیں اور شعر کے پیرائے میں بھی جلوہ گر ہوئے ہیں۔ ان میں ان کے نثرمی مضامین، شذ رات اور بعض مکاتیب بھی شامل ہیں اور پیام مشرق، بانگِ درا، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرد، بال جبریل، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں اس موضوع پر لکھی گئی بعض تیکھی، فکر انگیز اور عبرت خیز نظمیںبھی۔ اس پورے سرمائے کا، جو بعض صورتوں میں ایک دوسرے کی تائید کرتا اور بعض صورتوں میں ایک دوسرے کو قطع کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ مفصل اور بے لاگ تجزیہ کرنے کے لیے محض ایک مختصر مضمون یا مقالہ کفایت نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے بعض نمایاں پہلوئوں کا تذکرہ بہر حال ناگزیر ہے۔ اس موضوع کے ضمن میں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ علامہ کے اکثر نثری اظہارات کو ان کے شعری تاثرات پر تقدمِ زمانی حاصل ہے اور اس حوالے سے ان کے تین انگریزی مضامین اور چند شذرات یعنی Islam as a Moral & Political Ideal (1909) Muslim Democracy (1917), Political Thought in Islam (1910) Forms of Government, اور Modern Science & Democracy اس اعتبار سے لائق توجہ ہیںکہ ان کا دائرہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۷ء تک پھیلا نظر آتا ہے۔ اور یہ زمانہ علامہ کی فکر کی تشکیل کا اہم ترین زمانہ ہے۔ اس زمانے کی مذکورہ تحریروں سے جمہوریت کے باب میں علامہ کے پرجوش خیالات کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ ان کا ایک اہم مضمون Diving Right to Rule ۱۹۲۸ء میں لکھا گیا جس میں اقبالؒ نے ظلِّ الہٰی کے روائتی تصوّر کی نفی ہے۔ اوّل الذکر مضمون یعنی ’’اسلام ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین کی حیثیت سے۔‘‘ میں جو جولائی ۱۹۰۹ء میں شائع ہوا، اقبالؒ یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ’’ملّتِ اسلامیہ کے لیے بہترین طرزِ حکومت جمہوریت ہی ہو سکتا ہے۔‘‘ کیونکہ یہی نظام فرد کے تمام امکاناتِ ارتقاء کی ضمانت دیتا ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک خلیفۃ المسلمین منزہ عنِ الخطاء نہیں۔ اس لیے وہ بھی مقرّرہ قانون کا اِسی طرح پابند ہے جس طرح دیگر افراد معاشرہ۔ وہ عوام ہی کا منتخب کردہ ہوتا ہے اور اگر وہ قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں:۔ ’’موجودہ ترکی سلطان کے ایک بزرگ (اشارہ سلطان مراد کی جانب ہے) پر ایک معمار کی درخواست پر عام عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا اور شہر کے قاضی نے اسے جرمانہ کردیا تھا۔‘‘ (۱) اقبالؒ کے خیال میں اسلام میں کسی ’’اشرافیہ‘‘ کی گنجائش نہیں اور معاشرے کے تمام افراد مساوی ہیں۔ دراصل اقبال جمہوریت میں اسلام ہی کی روح کارفرما دیکھتے ہیں اور اسی لیے اس کی تعریف کرتے ہیں۔ ۱۹۱۰ء میں ’’ہندوستان رویویو‘‘ میں چھپنے والے مضمون Political Thought in Islam میں اس جمہوری روح کا کھوج قبل از اسلام کے اہل عرب میں لگاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کا دماغ موروثی بادشاہت کے تصوّر سے اِبا کرتا تھا، اقتباس ملاحظہ ہو: ’’جب کسی عرب قبیلے کا سردار یا شیخ مرجاتا تو قبیلے کے تمام اکابر ایک جگہ جمع ہوتے اور دائرے کی شکل میں مجلس منعقد کر کے جانشینی کے معاملے میں بحث و تمحیص کرتے۔ قبیلہ کا کوئی رکن، جس کو معتبر و مقتدر خاندانوں کے اکابر و رئوسا باتفاق رائے منتخب کرلیتے، قبیلے کا سردار بن سکتا تھا۔ بقول فان کریمر بادشاہت کا مفہوم عرب دل و دماغ سے ہرگز مانوس نہ تھا۔ ہاں کبرسنی اور بزرگی کا اصول جس کو موجودہ سلطنت ترکی کے نظام حکومت میں سلطان احمد اوّل کے زمانے میں قانوناً تسلیم کرلیا گیا تھا یقینا انتخاب کے وقت منتخب کرنے والوں کو ملحوظ رکھنا پڑتا تھا‘‘ (۲) اس مضمون میں آگے چل کر اقبال لکھتے ہیں: ’’روایت ہے کہ عامر بن الطفیل حضور اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اورکہا کہ: ’’اگر میں اسلام قبول کرلوں تومجھے کیا منصب و مرتبہ دیاجائے گا؟ کیا آپؐ اپنے بعد مجھے سرداری سونپ دیں گے؟ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’مجھے اس کا ہرگز اختیار نہیں۔‘‘ (۳) نبی اکرمؐ کے اس ارشاد کی روح آگے چل کر خلفائے راشدین کے یہاں بھی اپنا ظہور کرتی رہی۔ اقبالؒ لکھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی رحلت سے قبل اپنے جانشین کی نامزدگی کا کام سات انتخاب کنندگان کے سپرد کیا۔ ان سات میں آپ کا اپنا فرزند ارجمند بھی شامل تھا۔ ان سات حضرات کے ذمہ جب یہ اہم کام سپرد کیا گیا تو یہ شرط ساتھ ہی عائد کردی گئی انتخاب مکمل اتفاق رائے پر مبنی ہوگا اور تم سات میں سے کوئی خلافت کا امیدوار یا دعویدار نہیں ہوگا۔ حضرت عمرؓ کا خود اپنے فرزند کو خلافت کی امیداواری سے مستثنیٰ رکھنا کس قدر روشن اور جلی ثبوت ہے۔ اس الم نشرح حقیقت کا کہ اس زمانے تک عرب کے سیاسی دل و دماغ کو روایتی بادشاہت کے خیال سے قطعاً بُعد اور مغائرت تھی۔‘‘ (۴) اپنے فکری ارتقا کے اس دور میں اقبالؒ پر جمہوریت کے اثباتی پہلوئوں کا خاصا غلبہ رہا اور تعریف و توصیف کی، یہ لے اس قدر بڑھی کہ انھوں نے عہد جدید میں برطانیہ کی جمہوریت پسندی کو ان ممالک پر اس کے احسان عظیم سے تعبیر کیا ہے جو برطانوی غلبے سے قبل بد ترین آمریت کے چنگل میں گرفتار تھے۔ اقبال برطانیہ کو انسانیت کے سیاسی ارتقا کا تمدّن آموز عنصر قرار دے کر یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ ملک تو دراصل اسی فرض کی تکمیل میں مصروف ہے۔ جسے ہم مسلمان نا مساعد حالات کی وجہ سے بجا لانے سے قاصر ہوگئے تھے۔ بعد ازاں مغربی استعمار کے سخت ترین نقاد کی حیثیت سے اور مغربی جمہوریت کو بھی ملوکیت اور استعماریت ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل قرار دے کر اقبالؒ نے اپنے اس طرح کے خیالات کا کفارہ بخوبی ادا کردیا تھا۔ ’’شذرات اقبال‘‘ میں ایک جگہ تصورات کے باہمی اثرو تاثر اور عمل و تعامل کا ذکر کرتے ہوئے وہ جمہوریت کو نہیں بھو لتے۔ فرماتے ہیں: ’’تصوّرات کا ایک دوسرے پرعمل و ردِ عمل ہوتا ہے۔ سیاست میں انفرادیت پرستی کی بڑھی ہوئی رَو معاصر سائنسی فکر پر اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہی۔ فکر جدید کائنات کو زندہ جوہروں کی ایک جمہوریہ قرار دیتی ہے۔‘‘ (۵) بعض دانشور جمہوریت کو محض ایک طریق کار یا منہاج قرار دیتے ہیں اور اسے کوئی فلسفہ ماننے کے لیے تیار نہیں، لیکن جمہوریت کے سرتاپا عشاق اسے ایک ہمہ گیر نظام تک قرار دینے سے نہیں شرماتے۔ جمہوریت کے وکیلوں اور مداحوں نے اسے ایک ایسا نظام حیات ثابت کرنا چاہا ہے جو انسانیت کے تمام دکھوں کا علاج ہے اور اب تو گھریلو جمہوریت کی جگہ ’’آفاقی جمہوریت‘‘ کا صور بھی پھونکا جانے لگا ہے، کائنات کو A Democracy of Living Atoms قرار دینا بھی اسی قبیل کی طرز فکر کا شاخسانہ ہے۔ آخر غلیفہ عبدالحکیم بھی تو اقبال کے تصوّر جمہوریت کا جائزہ لیتے ہوئے جمہوریت اور اس کی علمبردار مملکت برطانیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ جمہوریت اب رفتہ رفتہ دین اسلام کی طرح ایک بڑے نصب العین کے قریب پہنچ گئی ہے اور برطانیہ عظمٰی قابل مبارک باد ہے کہ اس نے اپنی بلیغ حکمت عملی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کی بدولت ہندوستان جیسی وسیع سلطنت کو آزاد کردیا۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خلیفہ صاحب نے کس سہولت اور بے دردی کے ساتھ فرزندان برِّ عظیم کی غیر معمولی تحریک آزادی کی کاوشوں کی نفی کردی۔! واقعہ یہ ہے کہ دین کی کلیّت اور ہمہ گیری سے جمہوریت کی کسریت کو کوئی نسبت نہیں۔ فکرِ اقبال کا ایک دلچسپ، اہم اور منفرد پہلو یہ ہے کہ وہ مشرق و مغرب کے سابق و حاضر نظاموں اور فلسفوں میں دلچسپی ضرور لیتے ہیں۔ ان کے بارے میں کلمات خیر بھی کہتے ہیں مگر ان کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیںچل سکتے۔ ان کا یہی معاملہ جمہوریت یا صحیح تر لفظوں میں مغربی جمہوریت سے ہے۔ اقبال اپنے ایک شذرے ’’مسلم جمہوریت‘‘ میں یورپی اور مسلم جمہوریت کا تقابل کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں مغربی جمہوریت یورپی معاشروں کی معاشی نشاۃِ ثانیہ کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ (۶) مگر مسلم جمہوریت معاشی توسیع کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک اصول روحانی کے طور پر مدوّن ہوئی اور اس کا مقصد فرد کے مخفی امکانات کو ارتقا بخشنا تھا۔ ان کے خیال میں نطشے جس ادنیٰ طبقے کے فرد سے اظہارِ نفرت کر کے فوق البشر کی اشرافیت کی توسیع اور افزائش کا قائل ہے۔ اسی ادنیٰ طبقے سے اسلام نے اعلیٰ ترین حیات اور قوت کے حامل افراد پیدا کیے۔ یہاں نطشے کے جمہوریت کے سلسلے میں نفرت پر مبنی تصوّرات کا ملحض اقتباس خارج از دلچسپی نہ ہوگا… نطشے کہتا ہے: And as for the state, what could have been more ridiculous than this mob-led, passion-ridden democracy, this government by a debating- society, this precipitate selection and dismissal and execution of generals, this unchoice choice of simple farmers and tradesmen, in alphabetical rotation, as members of the supreme court of the land? How could a new and natural morality be developed in Athens, and how (۷)could the state be saved"? نطشے کی اس مغربی اور محدود جمہوریت کے مقابل اقبال نے جس مسلم جمہوریت کا ذکر کیا ہے اسی کو وہ اپنے چھٹے خطبے … "The Principle of Movement in the Structure of Islam" میں جو نومبر ۱۹۲۹ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پڑھا گیا تھا۔ ’’روحانی جمہوریت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’ہمیں چاہیے آج ہم اپنے اس موقف کو سمجھیں اور اپنی حیات اجتماعیہ کی از سر نو تشکیل اسلام کے بنیادی اصولوں کی رہنمائی میں کریں۔ تاآنکہ اس کی وہ غرض و غایت جو ابھی تک صرف جزواً ہمارے سامنے آئی ہے۔ یعنی اس روحانی جمہوریت کا نشو و نما جو اس کا مقصود ومنتہا ہے، تکمیل کو پہنچ سکے۔‘‘ (۸) بے محل نہ ہوگا اگر یہاں نہایت اختصار کے ساتھ مغربی جمہوریت کے فکری محرکات کا ذکر کردیا جائے۔ دراصل ہر طرزِ حکومت و سیاست کے پیچھے ایک مخصوص تصوّر حیات اورتصوّر انسان و الہٰ کار فرما ہوتا ہے۔ معروف معنوں میں جس طرزِ حکومت کو مغربی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ مغرب اور بالخصوص انگلستان میں صنعتی انقلاب کے بعد مدوّن ہونا شروع ہوئی۔ عناصر فطرت کی تسخیر نے مغرب کے انسان کو ایک قائم بالذات احساسِ برتری کا تحفہ دیا اور اس انقلاب کے نتیجے میں مادی اشیاء کی ریل پیل نے مادے کو ہمہ مقتدر ماضی الحاجات اور مرکزِ کائنات قرار دے ڈالا۔ علاوہ ازیں مذہبی سطح پر محرف عیسائیت کے نتیجے میں ہونے والے مذہبی مناقشات نے چرچ اور اسٹیٹ کی علٰیحدگی کا تصوّر دیا۔ اس صورت حال سے بحیثیت مجموعی درج ذیل نتائج مرتب ہوئے۔ ۱۔ مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے۔ ۲۔ دین اور سیاست الگ الگ تصوّرات ہیں۔ ۳۔ مادہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ۴۔ مذہب کی حیثیت بھی مادّی اور ارتقائی ہے اوریہ منزل مِنَ اللہ نہیں۔ ۵۔ منظور ہی موجود ہے اور دنیا ہی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان نتائج فکر پر مغرب کے معاشرے کی تشکیل جدید ہوئی۔ چنانچہ اس حقیقت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ جس نمونے کا معاشرہ ہوگا اسی نمونے کی عمرانیات مدوّن ہوگی۔ نتیجتاً جمہوریت کی بھی وہ عمرانی اور سیاسی صورت وجود میں آئی جس کے محض چند پہلوئوں سے اقبال کو اتفاق ہے۔ اٹھارہویںصدی کے انقلاب فرانس میں مساوات، آزادی اور اخوت کے تین خوشنما نعروںکو مغربی جمہوریت نے اصول کی حد تک اور ایک درجے میں عمل کی حد تک اپنایا اور آزادی اور مساوات کے یہی جمہوری اصول اقبال کے لیے کشش کا باعث ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا ہمہ گیر تصوّر حیات و کائنات کسی جزوی اور کسری چیز سے مطمئن نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کا نثری اور شعری سرمایہ دراصل دو عناصر یعنی Permanent اور Contingent سے تشکیل پاتا ہے۔ وہ باطن کے ساتھ ساتھ خارج میں برپا ہونے والے ہنگاموں اور انقلابوں کا بھی نہایت گہرا شعور رکھتے تھے۔ چنانچہ اخوت اور مساوات کے جمہوری اصولوں کے تمام تر احترام کے باوجود جب وہ ’’روحانی جمہوریت‘‘ پر اصرار کرتے ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمہوریت کی مختلف ممالک میں متعارف ہئیتوں سے خوش نہیں۔ دراصل مغرب نے نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب برآمد کرنے کے بھیس میں جس طرح بد ترین سامراجیت اور زمینی بھوک کا مظاہرہ کیا اور برّ عظیم کی مخصوص عدوی ہندو مسلم صورت حال نے اقبال ؒ کے یہاں جو بے چینی پیدا کی، اس کا اظہار ۱۹۱۷ء کے بعد کی تحریروں میں شدّت سے ہوا ہے اور اس باب میں ان کی نظم ’’خضرِراہ‘‘ کے بند ’’سلطنت‘‘ اور ’’سرمایہ و محنت‘‘ قابلِ توجہ ہیں۔ اقبال اوّل الذکر بند کا آغاز سورۂ النمل کی اس آیت کی جانب اشارے سے کرتے ہیں، جس کے مطابق جب بادشاہ کسی قریے کو فتح کرتے ہیں تو وہاں فساد برپا کرتے ہیں اور اہل عزت کو ذلیل کرتے ہیں اور پھر اقبالؒ کے بقول انہیں محکوم بنا کر مختلف چالوں سے ان کے ضمیر کو مردہ اور ان کی انفرادیت کو تہِ تیغ کردیتے ہیں۔ اگلے شعروں میں اقبال نے جمہوریت کے دو دعوں کی نفی کی ہے۔ اوّل یہ کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں۔ ان کے خیال میں (اور بجا طور پر) حاکمیت کا سرچشمہ ذاتِ حق تعالیٰ ہے۔ دوم جمہوریت کے علمبردار جمہوریت کے دعوے کے برعکس دراصل عوام کے مخدوم ہوتے ہیں۔ شعر ملاحظہ فرمائیں: سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نواے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری گرمیِ گفتار اعضاے مجالس الاماں، یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری (۹) درجِ بالا اشعار میں شامل پہلا شعر قرآن حکیم کی درج ذیل آیات ہی کی توضیح و تفسیر ہے:۔ اِنِ الحکم الاّ اللّٰہ (۶:۵۸) الا لہُ الحکمُ و ہوا سرعُ الحٰسبین (۶: ۶۲) لہ الحمد فی الاُولیٰ والاٰ خرۃِ ولہ الحکمُ و اِلَیہ ترجعون: (۷۰: ۲۸) لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیٍ قدیر : (۱: ۶۴) تبٰرَک الذی بیدِہِ الملکُ وھو عَلیٰ کُلِ شئیٍ قدیر:( ۱: ۶۷) جب کہ باقی اشعار میں اقبال عوام کے حقوق، ان کے لیے رعایات، ان کی اصلاح اور ان کے آئین سازی کے ان نام نہاد دعووں کی قلعی کھول رہے ہیں، جن کے ذریعے آرا سازی Manufactruing of Opinion کی جاتی ہے اور عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کا ذکر اقبال سے پہلے لیکی اور اشپنگلر نے کیا ہے اور ان کے بعد برٹرینڈرسل کرتا ہے۔یعنی ’’بے وقوف ساز خطابت‘‘ یہاں سوال الیکشن سے پہلے یا بعد کا نہیں ،الیکشن سے پہلے عوام کے جذبات سے کھیلنے والا مقرر کیا حربے استعمال کرتا ہے۔ آئیے لیکی کی زبان سے سنیں جس کی کتاب Democracy & Liberty پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکی کہتا ہے کہ الیکشن میں ایک جذباتی تقریریا یعنی Demagogue ووٹر کو اس بات کی ترغیب دینے کی کوشش کرے گا کہ کس طرح کوئی خاص پالیسی لائن اختیار کرنے سے اس کے طبقے کا ہرفرد فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پھر وہ مسلسل طبقاتی منافرتوں کو ہوا دے گا۔ حسد، ہوس، تعصّب اور سیاسی پروپیگنڈا بڑی قوتیں بن کر اُبھر آئیںگی۔ ہر حقیقی محرومی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے گا اور ہر خیالی محرومی کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ یہ صورت خطابت صرف جدید جمہوریتوں ہی میں متعارف نہیں، قدیم رومی جمہوریت میں بھی ایک مسلمہ اور تیر بہدف حربہ تھی۔ چنانچہ اشپنگلر اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب Decline of the West میں ’’فلاسفی آف پالیٹکس‘‘ کے زیر عنوان لکھتا ہے کہ رومی ’’لیڈرانِ کرام‘‘ عوام کو دھوکا دے کر متاثر کرنے کے لیے خطابت اور اس کے متعلقات کا سہارا لیتے تھے۔ اس کے خیال میں یہ لوگ ایسے حربے استعمال کرتے تھے جن میں اکثر قابل نفرین اور نا قابل برداشت ہیں، مثلاً دوران تقریر مصنوعی سسکیاں لینا اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالنا۔ اور تو اور قیصرِ روم تک پچاس سال کی عمر میں بھی اپنے سپاہیوں کے لیے یہ کھیل کھیلنے پر مجبور تھا۔ اپنے مخالفین کے بارے میں جھوٹ بولنا، فصاحت کے دریا بہانا، دھمکیاں دینا اور مکے دکھانا بھی اسی کھیل کے مقدّس اجزا تھے۔ رسل کا تو خیال ہے کہ خود عوام اسی گرمیِ گفتار کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ انگلستان کا ووٹر بد نیتی پرکھنے کے باب میں اندھا ہے …… وہ کسی ایسے شخص پر جولوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہتا ہے، کسی ایسے شخص کو ترجیح دیتا ہے جو جاہ طلب مگر شعلہ بیان مقرر ہو اور پھر جب یہ جاہ طلب شعلہ بیان مقرّر مؤثر حیثیت اختیار کرلیتا ہے تو وہ اپنے اثر کو حکومتی ٹولے کے ہاتھ بیچ ڈالتا ہے۔ رسل دراصل اس حقیقت کی طرف اِشارہ کر رہا ہے جسے اصطلاح میں اژدہام کی نفسیات کہتے ہیں اور جس سے کھیل کر طالع آزمالیڈر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ اقبال نے ’’خضرِ راہ‘‘ (۱۹۲۱ئ) میں مغرب کے جمہوری نظام کو قیصری کی جس شکل میں دیکھا اور دکھایا تھا۔ یہی خیال اپنی بعد کی چند شعری تصانیف میں بھی دہرایا ہے۔ مثلاً (پیامِ مشرق ۱۹۲۳ئ) پس چہ باید کرد (۱۹۳۳ئ) اور ارمغان حجاز (۱۹۳۸ئ) میں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمر کے اس پختہ دور میں مغربی جمہوریت کے سلسلے میں اقبال کے یہاں زیادہ خوش فہمی باقی نہ رہی تھی۔پیام مشرق میں قیصر ولیم کی زبان سے کہلواتے ہیں: اگر تاجِ کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست، ہوس اندر دل آدم نمیرد ہماں آتش میانِ مرز غن ہست عروس اقتدارِ سحر فن را ہماں پیچاکِ زلفِ پر شکن ہست نماند نازِ شیریں بے خریدار اگر خسرو نبا شد کوہ کن ہست(۱۰) اسی پیام مشرق میں ان کا ایک قطعہ ’’جمہوریت‘‘ کے زیر عنوان شامل ہے جس میں انھوں نے عوام کی عدم بصیرت، ان کی خاک افتادگی اور کم نظری کا ماتم کیا ہے۔ اس کے دوسرے شعر کا بالعموم بار بار حوالہ آتا ہے یعنی: گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید اس شعر کے پس منظر میں جہاں آدمی اور انسان کے گہرے روایتی تفاوت کی طرف اشارہ ہے وہیں اس حقیقت کا بھی واشگاف اعلان ہے کہ گھٹیا سے بڑھیا کا صدور نا ممکن ہے۔ مطلب نکالنے والوں نے تو اس شعر سے یہ مطلب بھی نکالا ہے کہ علامہ ’’غلام پختہ کارے شو‘‘ کا سبق دے کر آمریت سے اپنی وابستگی کا اعلان کر رہے ہیں، لیکن وہ اسے پہلے شعر کے دوسرے مصرعے سے ملا کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیںفرماتے جس میں چیونٹی کی رعایت سے ’’طبع سلیمان‘‘ کا ذکرکیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی حاکمیت کا دائرہ اتنا وسیع اور ان کے روحانی تصرفات کا تنوع اتنا حیرت انگیز ہے کہ ’’سلیمان‘‘ ایک فرد کا نہیں، ایک علامت کا نام بن گیا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ وسعتِ نظری جس میں مشورت کی حیثیت بنیادی تھی اور جسے ایک ایسا اعلیٰ جمہوری رویہ قرار دیا جا سکتا ہے، جس میں انسانوں ہی کا نہیں، حیوانوں اور پرندوں کا موقف بھی تحمل سے سننے کی روایت موجود ہے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا حضرت سلیمانؑ جیسے جلیل القدر، خدا ترس، وسیع النظر، بسیط العلم، صاحب بصیرت، علامتوں کی زبان کے فہّام اور صاحب اسم اعظم کو تنگ نظر، عیاش، خونخوار، مکار اور دوں فطرت آمروں اور شہنشاہوں پر قیاس کیا جائے۔ پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ مطلوبہ اور مناسب تعلیم و تربیت اور تہذیب نفس کے بغیر کم نظر عوام کی رائے کی حیثیت محض عددی اور مقداری ہوتی ہے، معیاری اور معروضی نہیں۔ آخر کار لائل جیسے بالغ نظر ادیب و مؤرخ کو بھی تو کہنا پڑا تھا: There are nine fools for every wise man. Democracy is the rule of the fools. اور پھر اسی عددی اور مقداری اکثریت کو بالزاک کے ہم پلّہ عظیم فرانسیسی ناول نگار ہنری بیل Beyle نے جو دنیائے ادب میں استاں وال کے نام سے معروف ہے، ہدف تنقید بنایا تھا اور جسے اقبال نے ضرب کلیم میں منظوم کردیا تھا۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ اسی عددی کثرت کے اصول نے انسان کو ایک ریاضیاتی اکائی کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے اور ایک ایسی متوسطیّت کو جنم دیا ہے جس پر بیسویں صدی کے متعدد ممتاز دانشوروں مثلاً لارنس، آرتیگا ای گیزے، زینے گینوں اور رسل نے اظہار افسوس کیا ہے۔ گینوں نے کس قدر درست لکھا تھا کہ تعدد و کثرت کو جب اپنے اصول سے الگ کردیا جائے اور وہ اس قابل نہ رہے کہ اسے وحدت میںتبدیل کیا جاسکے توسماج میں اس کی حیثیت ایک ایسے گروہ کی رہ جاتی ہے جو افراد کے محض ایک ریاضیاتی مجموعے سے زیادہ نہیںہوتی اور کسی گروہ کی یہ حیثیت محض اس وجہ سے ہوجاتی ہے کہ اس کا رشتہ اصول ارفع سے ٹوٹ جاتا ہے۔ نتیجتاً گروہوں کے تصادم،تعداد اور شدّت میں بڑھ جاتے ہیں۔ رسل نے اکثریت کے اسی جبر کو ایک حقیقی خطرہ قرار دیا تھا۔ وہ اپنی کتاب پولیٹکل آئیڈیلز میں لکھتا ہے کہ جمہوریت کا تصوّر اکثریت انسانیت کے لیے مہلک اور جان لیوا تصوّر ہے اور یہ سمجھنا غلطی ہے کہ اکثریت ہمیشہ درست کہتی ہے۔ ہر نئے مسئلے میں اکثریت ہمیشہ غلطی کرتی ہے۔ یہی بات مارٹن بیوبر نے کہی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ میں اکثریت میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کیونکر میرا خیال ہے کہ اکثریت شاید حق پر نہیں ہوتی۔ اقبال نے اس سے ملتا جلتا خیال ’’شذرات‘‘ میں پیش کیا تھا۔ ان کی رائے میں اکثریت میں صلابتِ کردار ممکن نہیں رہتی کیونکہ کردار ایک قوّت ہے اور جوں جوں یہ تقسیم ہوتی ہے، کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پس چہ باید کرد میں ’’سیاسیاتِ حاضرہ‘‘ کے زیر عنوان اقبال’’اقتدارِ سحر فن‘‘ کی ساحری حربۂ نظر بندی اور اس کی گرم گفتاری کو بے نقاب کرتے ہیں اور عوام کو ان کے ’’دامِ ہمرنگِ زمیں‘‘ سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک سیاست حاضرہ بندِ غلامی کو سخت تر کردیتی ہے اور بے بصر اس کو حریت کا نام دے کر فریب نفس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مزید فرماتے ہیں: گرمیِ ہنگامۂ جمہور دید پردہ بر روے ملوکیت کشید درفضا یش بال و پر نتواں کشود با کلیدش ہیچ در نتواں کشود گفت بامرغِ قفس اے درد مند آشیاں در خانۂ صیّاد بند ہر کہ سازو آشیاں در دشت و مرغ او نباشد ایمن از شاہین و چرغ از فسونش مرغِ زیرک دانہ مست نالہ ہا اندر گلوے خود شکست حریت خواہی بہ پیچاکش مُیفت، تشنہ میر و برنمِ تاکش مُیفت (۱۱) واہ کیسی جمہوریت ہے جو مرغ قفس کو آزادی کاجھانسہ دینے کے لیے اسے خانۂ صیّاد میں آشیاں سازی کا مشورہ دیتی ہے اور دشت و گلزار میں آشیاں بندی سے اس لیے روکتی ہے کہ وہاں شاہین و چرغ کے ہاتھوں جان کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہے! جمہوریت کا یہ مشورہ مرغِ قفس پر اس کا ایسا احسان ہے جو مجھے حالی کا ایک شعر یاد دلاتا ہے: صحرا میں کچھ بکریوں کو قصاب چراتا پھرتا تھا دیکھ کے اس کو سارے تمھارے آگئے یاد احسان ہمیں ’’ارمغان حجاز‘‘میں بھی جو اقبال کا آخری شعری کارنامہ ہے، اقبال نے جمہوریت کو ملوکیت ہی کا پردہ قرار دیا ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ کے دوسرے مشیر کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’سلطانیٔ جمہور‘‘ کے شورو غوغا کی حقیقت کیا ہے، پہلا مشیر کمال بصیرت سے اس تصوّر کی پردہ کشائی کرتا ہے: ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر کاروبار شہر یاری کی حقیقت اورہے یہ وجودِ میرو سلطاں پر نہیں ہے منحصر مجلس ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر (۱۲) اقبال نے مغربی جمہوریت پر بہت سے اعتراضات کیے ہیں مگر آخری شعر میں کیا گیا اعتراض اپنی شدت کے اعتبار سے بری طرح جھنجھوڑ دینے والا ہے اور اس آخری مصرعے میں جمہوریت کے نام پر کمزوروں اورزیر دستوں پر ظلم و ستم اور ان کے لرزہ خیز استحصال کی ایک بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔ یہاں اگر مجھے تھوڑے سے گریز کی اجازت دی جائے تو میں انیسویں صدی کے معروف امریکی شاعر والٹ وٹمین کی مشہور نظم For you O, Democracy کی کچھ سطریں آپ کو سنادوں جو دراصل امریکی جمہوریت کے حضور شاعر کا قصیدۂ مدحیہ ہے اور جس سے جمہوریت سے اس کی غیر معمولی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ شاعر کہتا ہے: اِدھر آ،میں اس خطّے کو نا قابل شکست بنادوں گا، میں زمین کو بہترین اور پُرکشش بنا دوں گا۔ میں دوست داری کے وہ پودے کاشت کروں گا جن سے امریکی دریائوں کے کنارے گھنے درخت اُگیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں شہروں کو یوں بہم کردوں گا کہ وہ اپنے بازو ایک دوسرے کی گردن حمائل میں کردیں گے۔ اے جمہوریت میری جانب سے یہ گیت تیری نذر ہیں۔ میںتیری یہی خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘ شاعر کی اس خدمت سے کسے انکار ہے۔ مگر خود جمہوریت نے مغرب و مشرق کی جو ’’خدمت‘‘ کی ہے۔ وہ اس افسوسناک تصادم کی شکل میں سامنے آئی ہے جس نے مغرب کی سرزمین کو دو بڑی جنگوں کے نتیجے میں خون انسانی سے لالہ زار بنا دیا اور جو اپنی نظری جہت میں بھی اس تصادم سے عبارت ہے جو حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں وہ صورت اختیار کر جاتا ہے کہ نفرتیں دلوں میں نا سُور ڈال دیتی ہیں اور ذہنوں میں حسد کی آگ کا الاو بھڑک اٹھتا ہے۔ اسلام کا طرزِ سیاست انائوں اور غرضوں کے اس تصادم کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ کیا ستم ہے کہ ملکی اور ملِّی مفادات کی قیمت پر شخصی اور ذاتی انائوں کے تصادم کا وہ طوفان اُٹھ کھڑا ہوتا ہے جو نسلاً بعد نسلٍ بھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ حقیقت ہے کہ وہ جمہوری نصب العین جو رنگ و نسل کی تفریق ختم کرنے، انسانی بھائی چارہ قائم کرنے اور دوستداری اور مساوات کے پودے کاشت کرنے کے لیے اٹھا تھا، اس نے تصادم، استحصال اور ظلم و تعدّی کے نئے ریکارڈ قائم کرنا شروع کردیے۔ دیکھیے اقبال اس باب میں مغربی جمہوریت کے خلاف کیسی سنگین فرد جرم عاید کرتے ہیں۔ ’’گلشن زارِ جدید‘‘ کے چند شعر دیکھیے فرنگ آئین جمہوری نہاد است رسن از گردنِ دیوے کشاد است زباغش کشتِ ویرانے نکوتر ز شہرِ اُو بیابانے نکوتر رواں خوابید و تن بیدار گردید ہنر با دین و دانش خوار گردید گرو ہے را گرو ہے در کمین است خدا یش یار اگر کارش چنین است زمن وہ اہل مغرب را پیامے کہ جمہور است تیغِ بے نیامے چہ شمشیرے کہ جانہا می ستاند تمیز مسلم و کافر نداند (۱۳) ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہوریت روح کو خوابیدہ اور بدن کو بیدار کرتی ہے، اور اس کی حیثیت اس شمشیر کی سی ہے جس کا کام مارنا کاٹنا ہے، خواہ سامنے مسلم ہو یا کافر۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا اسٹینڈرڈ وہ متوسط آدمی ہے جس کی ضروریات اس طرزِ حکومت کے نزدیک محض روٹی، کپڑا، مکان اور کھیلنے، کھانے اور کام کاج کے لیے مناسب سہولتوں کی فراہمی ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ جاننے والا اور نہ جاننے والا برابر نہیںہو سکتے، لیکن جمہوریت عالم اور عامی دونوں کے ووٹ کی مساوی قیمت لگاتی ہے۔ لارنس نے کس دل سوزی سے کہا تھا کہ انگلستان، فرانس اور جرمنی …… ان عظیم اقوام کے اب کوئی حقیقی معنی نہیں رہے سوائے اس کے کہ یہ وسیع ہجوم آبادی کی مادّی خواہشات کی تشفی کے لیے فوڈ اورہائوسنگ کمیٹیوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اقبال کے نزدیک عہد جدید کا المیہ یہ ہے کہ وہ خودی سے دور اور ذوق یقیں سے عاری ہوچکا ہے اورذوق جمہور اس کا رہبر ہے: از خودی دور است و رنجور است و بس رہبر او ذوقِ جمہور است و بس (۱۴) واقعہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مغربی جمہوریت کی مخالفت کے ضمن میں اقبال کے یہاں شدّت پیدا ہوتی گئی اور وہ اس سے مزید بد ظن ہوتے گئے۔ چنانچہ جاوید نامہ میں انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ: واے بر دستورِ جمہورِ فرنگ مردہ تر شُد مردہ از صورِ فرنگ (۱۵) اس بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کا سبب دراصل اس ’’خادمۂ کثرت‘‘ کے وہ جرائم تھے جن میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بتدریج اضافہ ہو رہا تھا جس کا اظہار انھوں نے اس دور میں متعدد مواقع پر کیا۔ صرف چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے۔ سیّد نذیر نیازی کے ساتھ مسجد شہید گنج کے مسئلے پر ایک موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہماری حالت تو جو ہے سو ہے لیکن اس انگریزی حکومت کو دیکھیے جسے ڈیما کریسی اور رائے عامہ کے احترام کا دعویٰ ہے! اگر ڈیما کریسی کی یہی شان ہے جس کا ثبوت حکومت دے رہی ہے تو ایسی ڈیما کریسی کسی شریف قوم میں پرورش نہیں پا سکتی۔‘‘ (۱۶) اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں الاجتھاد فیِ الاسلام میں نسبتاً ہلکے پیرائے میں اس صورت حال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یورپ کی تصوّریت ایک زندہ حقیقت نہ بن سکی اور مغرب کی غیر روا دار جمہوریتوں کی وجہ سے ایک ایسی گمراہ اَنا پیدا ہوئی جس کا مقصدِ وحید غریب کا استحصال کرنا تھا۔ فرماتے ہیں کہ میرا ایمان ہے کہ یورپ آج انسانیت کے اخلاقی ارتقا میںسب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انھوں نے اسی المیے کا ذکر پس چہ باید کرد میں بھی چند سال بعد ’استحصال‘ ہی کے زیرِ عنوان کیا اور اپنے موقف کو ایک بار پھر دُہرایا۔ لگتا ہے کہ جس شیوۂ تہذیبِ نو کی وہ مذمت کرتے ہیں، وہ دراصل شیوۂ جمہوریت ہی ہے کیونکہ ضربِ کلیم میں انھوں نے مغرب کے امراض کا سبب نظامِ جمہوری ہی کو قراردیا تھا۔ یہاں مرض کا سبب ہے غلامی وتقلید وہاں مرض کا سبب ہے نظامِ جمہوری نہ مشرق اس سے بری ہے، نہ مغرب اس سے بَری جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری (۱۷) دیکھیے کس سہولت سے مولانا روم کے ایک مصرعے: ’’فکر ہم بر فکرِ دیگر می چرد‘‘ میں تصرف کر کے اپنی معاصر صورتِ حال کا ذکر کرتے ہیں اور کس دل سوزی سے: اُمتّے بر اُمّتے دیگر چرد دانہ ایں می کارد، آں حاصل برد از ضیعفاں ناں ربو دن حکمت است از تنِ شاں جاں ربو دن حکمت است شیوۂ تہذیبِ نو آدم دری است پردۂ آدم دری سوداگری است (۱۸) اور کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں کہ مغرب کی اس سوداگری کا اندازہ اقبال کو اوائل عمر ہی میں ہوگیا تھا۔ وہ اس کے اظہار میں بے باک بھی تھے۔ چنانچہ بانگِ درا کے دوسرے دور کی آخری غزل (مارچ ۱۹۰۷ئ) کا یہ شعر کسے یاد نہ ہوگا: دیارِ مغرب کے رہنے والو! خداکی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے، ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا مغرب کی اسی عقلِ عیار، مادہ پرستی اور استحصالی نظام سیاست کو دیکھ کر ابلیس کو اپنا اعلان شکست کرتے ہوئے خداوند جہاں سے عرض کرنا پڑا تھا کہ: جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک (۱۹) اقبال نے اپنے آخری شعری کارنامے میں مغرب کے جمہوری نظام کے باطن کو چنگیز سے تاریک تر قرار دیا تھا۔ اس کی متعدّد وجوہات اُوپر بیان ہوئیں، لیکن اگر خود اقبال ہی کے الفاظ میں اس کا تجزیہ مقصود ہو تو وہ یہ ہے کہ: جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اس شعر کے پہلے مصرعے میں ’’جمہوری تماشا‘‘ کی ترکیب بے حد قابل غور ہے، اقبال جیسا قادر الکلام شاعر تماشا کی جگہ کوئی اور لفظ بڑی آسانی سے لا سکتا تھا، مصرع یوں بھی ہوسکتا تھا کہ ’’جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری حکومت ہو‘‘ لیکن ’’تماشا‘‘ کا لفظ استعمال کرکے اقبال جہاں ایک طرف یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ جمہوریت کے نام پر مغرب میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ محض بازی گری ہے اور اس کا جمہوریت کی روح سے دُور کا بھی تعلق نہیں، وہاں دوسرے مصرعے میں اپنے اس موقف کو بھی دُہرا رہے تے جسے ۱۹۲۹ء میں انھوں نے ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا نام دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی اُنگلیوں کی پوروں تک مجسم التہاب و انقلاب اقبال زمانے کے گہرے نبض شناس تھے۔ جس زمانے میں اقبال نے مندرجہ بالا شعر کہا عین اسی زمانے میں مغرب میں جمہوریت کی ناکامی اور بعض ممالک میں ڈکٹیٹر شپ کے قیام پر ان کا اضطراب خطوں میں ڈھل رہا تھا۔ ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء کو راغب احسن کے نام لکھتے ہیں: ’’دنیا اس وقت نئی تشکیل کی محتاج ہے۔ جمہوریت فنا ہو رہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف ایک جہاد عظیم ہو رہا ہے۔ تہذیب و تمدّن بھی ایک کش مکش میں مبتلا ہے۔ ان حالا ت میں آپ کے خیال میں دنیا کی جدید تشکیل میں اسلام کیا مدد کر سکتا ہے۔‘‘ (۲۰) بالکل اسی مضمون اور اسی تاریخ کا ایک خط سیّد سلیمان ندوی کو بھی ملتا ہے۔ وہی سیّد سلیمان ندوی جنہیں اقبال جدید ہندوستان میں اسلام کی جوئے شیر کا فرہاد کہتے تھے۔ لکھتے ہیں: ’’دنیا اس وقت عجیب کش مکش میں ہے۔ جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اُس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہادِ عظیم ہو رہا ہے۔ تہذیب و تمدّن (بالخصوص یورپ میں) بھی حالتِ نزع میں ہے۔ غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے۔‘‘ (۲۱) یوں کہنے کو اقبال خود یہ کہتے ہیں اور کم و بیش اسی زمانے میں کہ: تفریق ملل حکمتّ اضرنگ کا مقصود اسلام کا مقصود فقط ملّت آدم اور اس کے بعد یہ بھی کہ: مری نگاہ میں ہے یہ سیاستِ لادیں کنیزِ اہر من و دوں نہاد و مردہ ضمیر ہوئی ہے ترکِ کلیسا سے حاکمی آزاد فرنگیوں کی سیاست ہے دیو بے زنجیر لیکن اُوپر کے خطوط اور ان اشعار میں وہی فرق ہے جو تفصیلات طے کرنے کے اضطراب اور اجمالی بیان میں ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اقبال نہ تو سیاست دین کے قائل تھے اور نہ سیاست لا دین کے۔ وہ سیاست میں دین کے نظریئے کے مؤید تھے۔ ان کے خیال میں لادین دنیا نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔ راغب احسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر سیاست اسلام کی خادم نہ ہو تو میری نگاہوں میں محض الحاد ہے۔‘‘ (۲۲) اپنے شہرہ آفاق چھٹے خطبے میں کہتے ہیں:۔ "There is no such thing as a profane world. All this immensity of matter constitutes a scope for the realization of spirit. All is holy ground. As the Prophet so beautifully puts it: The whole of this earth is a mosque. The state according to Islam is only an effort to realize the spiritual in a human organization."(۲۳) اقبال کی متعدد نثری تحریریں اور شعری اظہارات اس کے گواہ ہیں کہ ان کے نظام فکر میں روحانیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے تمام معاشی اور عمرانی تصوّرات اسی کے تابع ہیں۔ نظری طور پر جمہوریت کے قائل ہوتے ہوئے بھی وہ اس کی متعارف مغربی تعبیرات کے شدید ترین نقّاد تھے۔ وہ اس کا رشتہ وحی الٰہی سے جوڑ دینا چاہتے تھے۔ اُس وحیٔ الٰہی سے جس کے بارے میں خود انھوں نے جاوید نامہ میں فرمایا تھا: وحیٔ حق بینندۂ سودِ ہمہ در نگاہش سود و بہبودِ ہمہ آخر میں جمہوریت کے باب میں دو اور باتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ اقبال مغربی جمہوریت کو نہ صرف اہل یورپ کے لیے اور ملّت اسلامیہ کے لیے تباہ کن سمجھتے تھے، بلکہ برِّ عظیم کے مسلمانوں کے لیے بھی ایک خطرہ تصوّر کرتے تھے۔ کیونکہ ہندو کی عددی کثرت کے نتیجے میں اس کا مطلب ہندوستان کی مسلم ملّت کی غلامی کے سوا کچھ نہ تھا، اسی لیے انھوں نے ہند کے مسلمانوں کی جُداگانہ سیاسی وحدت کا بطور نصب العین اعلان کیا تھا اور وہ مسلمانوں کے جدا گانہ وفاق میں اسلامی اصلاحات کے نفاذ کے متمنی تھے۔ وہ متحد ہندوستان میں، جو مختلف ملتّوں اور قوموں کا مجموع تھا، جدا گانہ طریق انتخاب کے حامی تھے۔ اس باب میں پنجاب لیجِسلیٹو کونسل میں مختلف مواقع پر کی گئی ان کی تقاریر گواہ ہیں، جن میں وہ بار بار جُدا گانہ انتخاب پر زور دیتے ہیں۔ مثلاً ۴ ستمبر ۱۹۲۸ء کو فری پریس کے نمائندے سے ملاقات کے دوران واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں: ’’میں جُدا گانہ حلقہ ہائے اِنتخاب کا حامی ہوں۔ اس کی وجہ کسی حد تک تو مسلمانانِ ہند اورخاص کر مسلمانانِ پنجاب کی موجودہ اقتصادی حالت ہے۔ لیکن بڑی وجہ فرقہ وارانہ امن و آشتی کے قیام کا احتمال ہے، جو میرے خیال میں صرف جُدا گانہ حلقہ ہائے انتخاب ہی سے متعین ہو سکتا ہے۔‘‘ (۲۴) یہی بات انھوں نے اپنے شہرۂ آفاق خطبہ اِلہٰ آباد میں ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو کہی تھی:۔ ’’غور سے دیکھا جائے تو ہندو بھی کوئی واحد الجنس قوم نہیں۔ پس یہ امر کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ مختلف ملّتوں کے وجودکا خیال کیے بغیر ہندوستان میں مغربی جمہوریت کا نفاذ کیا جائے۔‘‘ (۲۵) علامہ کے یہ ارشادات اپنی جگہ اہم ہیںمگر اس سے قبل پیش کردہ حقائق کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ محض برِّ عظیم کے پس منظر میں علاّمہ کے ارشادات ہی کو کَلّی حقیقت سمجھ کر اُن کے جمہوریت کے باب میں مخالفانہ خیالات کی تاویل مناسب نہیں۔ اقبال کی جمہوریت کے باب میں مخالفت کو محض برِّ عظیم کے ہندو مسلم کثیر و قلیل معاشرے کے تناظر سے جوڑنے والے دانشوران کی سیاسی فکر کو ابدی عنصر Permanent سے کاٹ کر ہنگامی عنصر Contingent سے جوڑنے کا یک رُخا کارنامہ انجام دے رہے ہیں جو علمی بد دیانتی یا ہلکے لفظوں میں جزوی صداقت کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اقبال نفاذ اسلام کے بدلتے ہوئے احوال و ظروف کے پیش نظر اجتہاد کی ضرورت کا شدّت سے احساس رکھتے تھے۔ چنانچہ اپنے محوّلہ بالا چھٹے خطبے میں انھوں لکھا ہے کہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے وسط سے چوتھی صدی ہجری تک اسلام میں انیس مکاتبِ فقہ وجود میں آچکے تھے اور فقہائے کرام بڑھتی اور پھیلتی ہوئی تمدنی ضروریات کی روشنی میں اسلام کی نئی تعبیرات کا اَن تھک فریضہ انجام دے رہے تھے۔ اس لیے اب یہ سمجھنا کہ جو کچھ ہمارے عظیم فقہا لکھ گئے ہیں، ان سے انحراف نہیں کیا جاسکتا، درست نہیں۔ اسی خطبے میں انھوں نے جمہوری طرزِ حکومت کو اسلام کی رُوح کے مطابق قرار دیا ہے۔ ایک طرف جمہوری طرزِ حکومت کی متعدد اشعار میں مذمت اور دوسری جانب اسے اسلام کی رُوح کے مطابق قرار دینا بظاہر اجتماعِ تقیضین کے مترادف ہے لیکن غور کیا جائے تو اس امر میں کوئی اشکال نہیں رہتا، کیونکہ اقبال جمہوریت کی رُوح یعنی حریتِ فکر و عمل (بحیثیت ایک اُصول کے) کے توقائل ہیں مگر اس کے عملی مغربی مظاہر کے نقاّد۔ ان کے نزدیک توحید کا جوہر مساوات، تمکین اور حریت ہے اور جمہوریت کے اصوُلی فکری نظام میں وہ انہی عناصر کو موجود پا کر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے نہایت اہم طریق کار یعنی انتخابات کے بارے میں اقبال کے تصوّرات کیا ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں یا تو اُن کے ارشادات سے کچھ روشنی ملتی ہے جو وقتاً فوقتاً پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں سامنے آئے یا پھر ان کے مضمون Political Thought in Islam سے رجوع کرنا مناسب رہے گا۔ مذکورہ مضمون میں اقبال نے الیکشن کے باب میں الماوردی کے خیالات کا خلاصہ پیش کردیا ہے اور چونکہ ان پر اپنی کوئی رائے نہیں دی، اس لیے انہیں جزواً علامہ ہی کے خیالات سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔ الماوردی مسلم معاشرے کو ’’منتخب کنندگان‘‘ اور ’’امیدواران انتخاب‘‘ میں تقسیم کرتا ہے اور اس کے لیے پہلی شرط بے داغ کردار کی لگاتا ہے اور پھر امیداوار کے لیے باقی ضروری شرائط گنواتا ہے جن میں چند ایک یہ ہیں: ۱۔ امیداوار ذہناً اور جسماً صحت مند ہو۔ ۲۔ ضروری قانونی اور فقہی علم رکھتا ہو۔ ۳۔ صاحبِ بصیرت ہو۔ ۴۔ صنفِ کرخت سے تعلق رکھتا ہو یعنی مردہو۔ اگر بقول ماوردی امید وار ان تمام شرائط کو پورا کردے تو پھر تمام صاحب اثر خاندانوں کے نمائندے، ریاست کے اہم عہدیدار اورفوج کے سپہ سالار باہم مل بیٹھیں اور امیدوار کو خلافت کے لیے چن لیں۔ دنیائے اسلام الماوردی کے ان خیالات سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ خود علامہ نے جب ۱۹۲۶ء میں پنجاب کونسل کے امیدوار کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تو امیدوار کا سب سے بڑا وصف یہ بیان کیا کہ اسے ذاتی اور قومی منفعت کی ٹکر کے وقت اپنے شخصی مفاد کو مقاصدِ قوم پر قربان کردینا چاہیے۔ جہاں تک اجتہاد کا تعلق ہے اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں اس کا اختیار قانون ساز اسمبلی کو سونپ دیا ہے۔میرے خیال میں اس فیصلے کا سبب دراصل ہمارے علمائے کرام کا وہ شدید باہمی اختلاف و نزاع ہے جس سے اقبال بڑے دل گرفتہ تھے۔ وہ راغب احسن کے نام خطوںمیںایک سے زیادہ دفعہ اس افسوسناک صورتِ حال کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک موقعے پر لکھتے ہیں: ’’افسوس علماے اسلام میں رجال سیاسی سے بھی زیادہ اختلاف ہے: میں جانتا ہوں انجام اس کا جس معرکے میں ملاّ ہوں غازی (۲۶)‘‘ لیکن انہیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ جدید مسلم اسمبلیوں میں ایسے افراد کثرت سے ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے سرے سے واقف نہ ہوں گے اور نتیجتاً شدید اور خوفناک منفی تعبیراتِ دین کا اندیشہ لاحق ہوگا۔ چنانچہ انھوں نے اس کا یہ حل تجویز کیا ہے کہ علما بھی مسلم قانون ساز اسمبلی کا جزوِ لازم ہوں، تاکہ قانون سازی میں ممد اور معاون ہوسکیں۔ لیکن وہ برتری بہر حال اسمبلی ہی کو عطا کرتے ہیں اور اسی کے فیصلوں کو ’’اجماع‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ صرف اسی صورت میں ہم اپنے فقہی اور قانونی جمود کو توڑ کر اپنی خفتہ توانائی کو متحرک کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ مسئلے کا محض جزوی حل ہے۔ جب تک ہمارے نظام تعلیم کی دوئی وحدت میں نہیں بدلتی، اس میں سچی اسلامی تعلیمات کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہو جاتی اور ایک بڑی کرداری اورروحانی تبدیلی افراد میں واقع نہیں ہوتی ہمارا تہذیبی اور سیاسی انتشار رفع نہیں ہو سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کے باب میں اقبال نے بعض معاملات اور مسائل پر بوجوہ روشنی نہیں ڈالی۔ مثلاً یہ کہ: ۱۔کیا اسلام میں سیاسی پارٹی بندی کی گنجائش ہے؟ ۲۔ کیا ایک حد درجہ نا خواندہ اور غیر مہذب معاشرے میں ہر شخص کو ووٹ کا حق حاصل ہوناچاہیے؟ ۳۔ کیا ایک طبقاتی معاشرے میں جواز سرتاپا جاگیر دار یا سرمایہ کار کی گرفت میں ہو۔ جمہوریت کے ذریعے صالح، خداترس، خدا جُو، انصاف پسند اور عادل قیادت بروئے کار لائی جا سکتی ہے؟ یہ اور اسی طرح کے متعدد سوالات ہیں، جن کے اقبال کے یہاں جواب فراہم نہیں ہوتے۔ اس کے باوجود جمہوریت کے باب میں ان کے بعض نہایت قابلِ قدر خیالات کی روشنی میں عہدِ جدید میں اسلامی نظامِ حکومت کی اصولی تدوین ابھی اُمّتِ مسلمہ پر قرض ہے۔ دیکھیے یہ قرض کب ادا ہوتا ہے؟ سرِ دست تو حالت یہ ہے کہ: میرِ سپاہ نا سزا، لشکریاں شکستہ صف آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف جہات اقبال، بزم اقبال لاہور، ۱۹۹۳ء حوالے اور حواشی ۱۔ Speeches, Writings & Statements of Iqbalض ۱۰۱ ۲۔ ایضاً، ص ۱۰۷ ۳۔ ایضاً، ص ۱۰۸ ۴۔ ایضاً، ص ۱۰۹ ۵۔ شذراتِ فکرِ اقبال ص ۱۱۰ ۶۔ اس معاشی عنصر کا ذکر برنگِ دیگر ممتاز ماہر نفسیات ایرخ فروم نے کیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ’’نئے اُھرنے والے جمہوری نظام کوتضاد کا ایک بڑا زبردست دھچکا لگا ہے۔ یہ نظام چونکہ ان ریاستوں میں آغاز ہوا، جہاں آمدنی اور ترقی کے مواقع کے باب میں شدید قسم کی نا ہمواریاں موجود تھیں اس لیے حقوق یافتہ اور مراعات یافتہ طبقے اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے۔ جو صرف صورت عَلیٰ حالھا Status Quo ہی کی وجہ سے انھیں حاصل تھیں اور جو اس صورت میں آسانی سے ان کے ہاتھ سے نکل سکتی تھیں: اگر بے جائیداد اکثریت کی آواز کو پوری قوت سے بلند ہونے کا موقع مل جاتا۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے بے جائیداد آبادی میں سے اکثر کو حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا اور اس اصول کو کہیںبعد میں جا کے مانا گیا۔ کہ ہر شہری کو بے قیدِ اہلیّت ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ ۷۔ بحوالہ: The Story of Philosophy ص ۷ ۸۔ خطبات (تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ) ص ۲۷۷ ۹۔ کلیاتِ اقبال ص ۲۶۱ ۱۰۔ کلیاتِ اقبال ص ۲۱۰؍ ۳۸۰ ۱۱۔ ئکلیاتِ اقبال فارسی ص ۳۵؍۸۳۱ ۱۲۔ کلیاتِ اقبال ص ۸؍ ۶۵۰ ۱۳۔کلیاتِ اقبال فارسی ص ۱۶۸؍ ۵۶۰ ۱۴۔کلیاتِ اقبال فارسی، ص ۱۸۷؍۵۷۹ ۱۵۔ایضاً، ص ۷۲؍۶۶۰ ۱۶۔اقبال کے حضور میں، ص ۱۷۵؛ ۱۷۔کلیاتِ اقبالص ۱۶۰؍۶۲۲؛ ۱۸۔پس چہ باید کرد مشمولہ کلیات اقبال فارسی ص ۳۰؍ ۸۲۶ ۱۹۔کلیاتِ اقبال ص ۱۶۲؍۴۵۴ ۲۰۔اقبال جہانِ دیگر ص ۶۷ ۲۱۔ قبال نامہ جلد اوّل، ص ۱۸۱ ۲۲۔اقبال جہانِ دیگر، ص ۳۵ ۲۳۔The Reconstruction of Religious Thought in Islam، ص ۱۵۵ ۲۴۔گفتارِ اقبال، ص۷۰ ۲۵۔Speeches Writings & Statements of Iqbal(شروانی ص ۹) ۲۶۔اقبال جہانِ دیگر، ص ۱۰۵ ۶ اقبال کی وابستگی رسول اکرمؐ سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی علامہ اقبال کا نام اگرچہ زمانی اعتبار سے مولانا حالی اور اردو کے دوسرے نعت گو شعرا کے بعد آتا ہے ‘ مگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلـہ وسلّم سے محبت وعقیدت اور آپؐ کی ذاتِ گرامی سے ذہنی و قلبی وابستگی اور اردو نعت گوئی میں معنویت و اثر انگیزی کے لحاظ سے وہ سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے، اور بظاہر حیرت انگیز بھی، کہ علامہ اقبال نے روایتی طرز کی نعت نہیں کہی۔ غالباً اس لیے کہ ان کا شعری ورثہ اپنے فکری مزاج اور باطنی تاثیر کے حوالے سے بذات خود ایک نعت ہے۔۔۔۔۔۔ ان کے کلام کا خاصہ بڑا حصہ نعتیہ مفاہیم کا حامل ہے‘ لیکن قبل اس کے، کہ یہاں حضرت علامہ کے نعتیہ اشعار کا حوالہ دیا جائے‘ان کی نثر کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں: ’’اب ساحل قریب آتا جاتا ہے‘ اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے‘ اس کی داستان کیا عرض کر دوں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں: اللہ رے خاکِ پاکِ مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا‘ تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی مقدس سر زمین! تجھ کو مبارک ہو۔ تم ایک پتھر تھی‘ جس کودنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا‘ مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا افسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔۔۔۔۔۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں‘ اور تیرے کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازت آفتاب سے محفوظ رکھا۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے‘ اور یہی آوارگی میرے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحرائوں میں لٹ جائوں‘ اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا‘ اور پاؤں کے آبلوں کی پروانہ کرتا ہوا‘ اس پاک سرزمین میں جا پہنچوں‘ جہاں کی گلیوں میں اذانِ بلال کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔‘‘ (۱) یہ اقتباس ہے‘ اقبال کے ایک خط سے‘ جو انھوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان جاتے ہوئے اثنائے سفر‘ مولوی انشاء اللہ خاں ایڈیٹر وطن کو لکھا تھا اور زمانہ ہے ۱۹۰۵ء کا۔ اقبال‘ ابھی علامہ نہیں بنے تھے‘ اور شعر و ادب کے روایتی رجحانات کی تقلید سے پوری طرح آزاد نہیں ہوئے تھے۔ حصولِ علم کا ذوق و شوق انھیں کشاں کشاں دیار فرنگ کی طرف لے جا رہا تھا: چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو رخ سوئے فرنگ ہے‘ مگر دل نواحِ کاظمہ کے تصور میں اٹکا ہوا ہے۔ درج بالا اقتباس کو ایک ’’نثری نعت‘‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس سے علامہ اقبال کے ذہن کی جس طرح عکاسی ہوتی ہے‘ رسولِ اقدس ؐ سے محبت و عقیدت کی جو کیفیت آشکار ہوتی ہے اور بے اختیاری‘ سپردگی‘ گداز اور والہانہ شیفتگی کی جو جھلک نظر آتی ہے‘ کم و بیش انھی کیفیات کا اظہار‘ ان کے اردو اور فارسی کلام اور خاص طور پر دور آخر میں ارمغانِ حجازکی رباعیات میں بھی ملتا ہے۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے۔ عام طور پریہ خیال کیا جاتا ہے کہ آنحضورؐ کا ذکر آتے ہی علامہ پر جو رقت طاری ہو جاتی تھی‘ اس کیفیت (تفصیل آیندہ صفحات میں) کا تعلق ان کے آخری زمانے سے ہے۔ فی الحقیقت آپؐ کی ذاتِ اقدس سے خصوصی تعلق خاطر کے نتیجے میں‘ طبیعت میں سوزوگداز اور ’’چھلک رہا ہے نگاہوں سے دل کا پیمانہ‘‘ کی کیفیت اقبال کے ہاں اوائلِ عمر ہی سے موجود تھی۔ مندرجہ بالا اقتباس کے علاوہ اس ضمن میں مزید کئی شواہد ملتے ہیں۔ علامہ کے قریبی دوست مرزا جلال الدین بتاتے ہیں کہ میرا ایک ملازم مسدّس حالی ستار پر ایک خاص طرز سے سنانے میںمہارت رکھتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب میرے ہاں آتے تو التزام کے ساتھ ہر دوسرے تیسرے روز اس سے مسدس سننے کی خواہش کرتے۔ حضور سرور کائناتؐ کی تعریف میں وہ بند: وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا انھیں بطور خاص مرغوب تھا۔ اس کو سنتے ہی ان کا دل بھر آتا اور اکثر بے اختیار ہو کر رو پڑتے۔ اسی طرح کوئی عمدہ نعت سنائی جاتی، تو ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔(۲) اقبال کا تعلق ایک ایسے دینی گھرانے سے تھا‘ جس کے سربراہ شیخ نور محمد جیسے درویش صفت اور صاحب دل بزرگ تھے۔ ان کے حکیمانہ خیالات اور عارفانہ کیفیات کی بنا پر‘ علامہ سید میر حسن نے انھیں’’ان پڑھ فلسفی‘‘ کا لقب دیا تھا۔ ان کے سوزوزگداز اور رقت قلب سے متعلق کئی واقعات مشہور ہیں۔ ان کے انداز تربیت کا یہ معروف واقعہ ہے کہ انھوں نے اقبال کے لڑکپن میں‘ انھیں تلاوت کرتے دیکھ کر کہا: بیٹا‘ قرآن مجید وہی شخص سمجھ سکتا ہے‘ جس پر اس کا نزول ہو۔ کیوں نہ تم اس کی تلاوت اس طرح کرو‘ جیسے یہ تم پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسا کرو گے تو یہ تمہاری رگ و پے میں سرایت کر جائے گا۔ اقبال کے مندرجہ ذیل شعر میں اسی واقعے کی باز گشت ملتی ہے: ترے ضمیر پہ‘ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی‘ نہ صاحبِ کشّاف علامہ اقبال کے ہاں آنحضورؐ سے دل بستگی اور غایت درجے کی عقیدت مندی‘ روایتی مسلم گھرانوں کی دینی روایات اور والدین‘ بطور خاص شیخ نور محمد کے حسنِ تربیت کا نتیجہ تھا۔ اس سلسلے میں یہاں صرف ایک واقعے کا تذکرہ ہو گا۔ رموزِ بے خودی میں علامہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے لڑکپن میں ایک بھکاری ان کے دروازے پر آیا اور پیہم صدا بلند کرنے لگا۔ کہتے ہیں میرا آغازِ شباب تھا۔ نیک و بد کی تمیز کیے بغیر‘ میں نے غصے میں اس کے سرپر لاٹھی دے ماری‘ اس نے بھیک مانگ کر جو کچھ جمع کیا تھا‘ وہ اس کی جھولی سے زمین پر گر گیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگر سوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میںتڑپ اٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گر گیا۔۔۔۔۔۔ یہ کیفیت دیکھ کر ڈرکے مارے میری جان لرز اٹھی۔ میں بے قرار ہو گیا۔ صبر کی تاب نہ رہی۔ والد نے فرمایا: (اقبال کے الفاظ میں): گفت فردا امّتِ خیرُ الرسل جمع گرددپیشِ آں مولاے کل غازیانِ ملتِ بیضاے او حافظانِ حکمتِ رعناے او ہم شہیدانے کہ دیں را حجت اند مثلِ انجم در فضائے ملّت اند زاہدان و عاشقانِ دل فگار عالمان و عاصیانِ شرمسار درمیانِ انجمن گردد بلند نالہ ہاے ایں گداے دردمند اے صراطت مشکل از بے مرکبی من چہ گویم چوں مرا پُرسد نبیؐ ’’حق جوانے مسلمے با تو سپرد کو نصیبے از دبستانم نبرد از تو ایں یک کار آساں ہم نہ شد یعنی آں انبارِ گل آدم نہ شد‘‘ در ملامت نرم گفتار آں کریم من رہینِ خجلت و امید و بیم اندکے اندیش و یاد آر اے پسر اجتماعِ امّتِ خیرُ البشرؐ باز ایں ریشِ سفیدِ من نگر لرزۂ بیم و امیدِ من نگر بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن غنچہ ای از شاخسارِ مصطفی گل شو از بادِ بہارِ مصطفی (والد نے فرمایا: کل رسولؐ اللہ کی امت آپؐ کے سامنے جمع ہو گی کہ آپؐ کو سب کی آقائی کا درجہ حاصل ہے۔ ان میں آپؐ کی ملت بیضا کے غازی بھی ہوں گے، وہ لوگ بھی جو آپؐ کی حکمت رعنا کے حافظ تھے، وہ شہید بھی ہوں گے‘ جو دین حق کے لیے حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملت کی فضا میں ستاروں کی مانند چمک رہے ہیں، زاہد بھی ہوں گے‘ عالم بھی ہوں گے‘ دل فگار عاشق بھی اور شرمسار گنہگار بھی۔ اس موقع پر انجمن میں اس درد مند فقیر کی گریہ و زاری کی آواز بلند ہو گی۔ (جسے تو نے آج دکھ پہنچایا ہے) بیٹا! تو کہ جس کے لیے سواری نہ ہونے کے باعث راہروی مشکل ہو رہی ہے یہ بتا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم مجھ سے پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا کہ: خدا نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ حضورؐ فرمائیں گے کہ تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی مٹی کا وہ انبار آدمی نہ بن سکا۔ آپؐ ملامت میں بھی نرم گفتار ہوں گے اورمیں شرمندگی اور امید و بیم میں گرفتار ہوں گا۔۔۔۔۔۔ سو‘ بیٹا! ذرا سوچ اور رسول اللہؐ کی امت کے جمع ہونے کا منظر تصور میں لا‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھ اور میرے امید و بیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھ۔ دیکھ! اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کر اور آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کر۔ تو شاخسارِ مصطفی کا ایک غنچہ ہے۔ حضورؐ ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہو کر پھول بن جا۔) بالیقین یہ واقعہ (اور عین ممکن ہے‘ اسی طرح کے بعض دیگر داقعات بھی رونما ہوئے ہوں) اقبال کی محبتِ رسولؐ میں ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوائل عمر کے بعض وقوعات‘ انسانی ذہن پر گہرے طریقے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ متذکرہ بالا واقعہ نوجوان اقبال کے قلب و دماغ پر مرتسم ہو کر رہ گیا اور پھر پایانِ عمر وقتاً فوقتاً اس کا نوع بہ نوع اظہار ہوتا رہا۔ اقبال کی نعتیہ شاعری اس کا شعری روپ ہے۔ ــــــــــــ فروری ۱۹۰۰ء میں انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں‘ شیخ محمد اقبال نے پہلی بار ’’نالۂ یتیم‘‘ کے عنوان سے جو نظم پیش کی‘ ایک لحاظ سے وہ ان کی قدیم ترین اور اولین قومی اور ملّی نظم بھی ہے۔ روے سخن آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف ہے۔ اس نظم میں جذبۂ عشق رسولؐ کا والہانہ اظہار ملتا ہے اور اس کے لیے شاعر نے مختلف پیراے اختیار کیے ہیں۔ ایک شعر میں اس دور کے اقبال کا یہ مخصوص رنگِ عقیدت بھی نمایاں ہے۔ اس نے پہچانا نہ تیری ذاتِ پُرانوار کو جو نہ سمجھا احمدؐ بے میم کے اسرار کو (۳) جذبۂ عشق کا یہ رسمی اور روایتی اظہار بقول ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی: ’’حضورؐ کی شان کمال و جمال کو بشریت کی حد سے بڑھ کر الوہیت کے درجے تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘ (۴) وہ اس عبوری دور سے آگے بڑھتے ہیں تو آنحضورؐ کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت اور آپؐ کی رحمت و شفقت کا پہلو اُن کے لیے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث بنتا ہے اور اکثر اسی پہلو سے متعلق احادیث و روایات‘ رقت آور ثابت ہوتی ہیں۔ رموز بے خودی(ص ۲۱۶) میں سنتِ رسولؐ کی روح ایک مصرعے میں سمو دی ہے: اصلِ سنت جز محبت ہیچ نیست ابتدائی نظموں میں سے ’’نالۂ یتیم‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو: درد ، انساں کا جو تھا وہ میرے پہلو سے اٹھا قلزمِ جوشِ محبت‘ تیرے آنسو سے اٹھا ’’فریاد امت‘‘ کے متعدد شعروں میں عشق و محبت سے اقبال کی مراد درد انسانیت ہے‘ اور یہ درد عشق رسولؐ ہی سے پیدا ہوتا ہے (۵) مثلاً یہ شعر ملاحظہ ہوں: تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘ یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا (۶) اوپر عرض کیا گیا کہ (ابتدائی دور مستثنیٰ سمجھتے ہوئے) علامہ اقبال کے ہاں نعت کا روایتی انداز نہیں ملتا‘ بلکہ روایت کے تتبع میں انھوں نے کبھی نعت گوئی نہیں کی‘ بہ ایں ہمہ ان کی اردو اور فارسی شاعری میں نعتیہ شاعری کے خوبصورت نمونے ملتے ہیں‘ مثلاً: رموزِ بے خودی (۱۹۱۸ئ) کا آخری باب ’’عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمتُ للّعالَمین‘‘ جس کا آغاز یوں ہوتا ہے: اے ظہورِ تو شبابِ زندگی جلوہ ات تعبیرِ خوابِ زندگی اے زمین از بارگاہت ارجمند آسماں از بوسۂ بامت بلند شش جہت روشن ز تاب روے تو ترک و تاجیک و عرب ہندوے تو از تو بالا پایۂ ایں کائنات فقرِ تو سرمایۂ ایں کائنات در جہاں شمعِ حیات افروختی بندگاں را خواجگی آموختی بے تو از نابود مندیہا خجل پیکرانِ ایں سراے آب و گل تا دمِ تو آتشے از گل کشود تودہ ہاے خاک را آدم نمود ذرہ دامن گیر مہر و ماہ شد یعنی از نیروے خویش آگاہ شد (حضورؐ والا! آپؐ کا ظہور زندگی کے لیے شباب کا باعث ہے۔ آپؐ کا جلوہ خواب زندگی کی تعمیر ہے۔ (آپؐ مقصود کائنات ہیں) آپؐ کی بارگاہ کے فیض سے ہماری زمین خوش نصیب ہے۔ آسمان نے آپؐ کے لب بام کو بوسہ دے کر‘ بلند رتبہ حاصل کیا۔ آپؐ کے روے مبارک کی چمک دمک سے (کائنات کے) شش جہت روشن ہیں۔ ترک‘ تاجیک اور عرب سب آپؐ کے غلام ہیں۔ آپؐ کی وجہ سے کائنات کا مرتبہ بلند ہوا اور آپؐ کا فقر اس کائنات کا سرمایہ ہے۔ حضورؐ والا! آپؐ نے دنیا میں زندگی کی شمع روشن کی اور غلاموں کو آقائی کا طریقہ سکھایا۔ آپؐ کے بغیر اس سرابِ آب و گل (دنیا) کے جملہ پیکر بے مایہ و بے حقیقت (تھے‘ اور اس سبب سے) شرمسار تھے۔ وہ مٹی کے ڈھیر معلوم ہوتے تھے‘ آپؐ کے نفس گرم سے مٹی کے پیکروں نے آگ پیدا کی اور خاک کے تودوں نے آدم کی صورت اختیار کر لی۔ بے حقیقت ذرے کو اپنے وجود کی قوت کا عرفان حاصل ہوگیا۔ گویا ذروں نے اڑ کر چاند اور سورج کے دامن تھام لیے۔) پھر علامہ کے ہاں بہت سارے متفرق نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔ (یہاں ’’متفرق اشعار‘‘ کہہ کر ان کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا رہا اور یہ کسی عنوان کم ہو بھی نہیں سکتی۔) یہ متفرق اشعار اپنی نوعیت میں لا جواب و یکتا ہیں: وہ داناے سبل‘ ختم الرسل‘ مولاے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا‘ فروغِ وادیِ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول‘ وہی آخر وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یاسیں‘ وہی طاہا علامہ کے نزدیک‘ بیسویں صدی کے مادہ پرستانہ ماحول میں‘ جب دانشِ افرنگ کی چکا چوند سے ہماری آنکھیں چندھیا رہی ہیں‘ اور ضلالت و گمراہی کی باد صر صر‘ ایمان و ایقان کا چراغ گل کرنے کے درپے ہے۔ رسول کریمؐ سے نسبت و تعلق ایک کارگر دفاعی حربہ ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف ــــــــــــ تو اے مولاے یثرب آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی‘ مرا ایمان زُنّاری ــــــــــــ اقبال‘ سرورِ عالمؐ کی چارہ سازی کے قائل تھے‘ بلکہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے روحانی فیض کے بھی معترف تھے۔ پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’آپ عاشقانِ رسولؐ میں سے ہیں۔ اس واسطے ایک اور بات آپ کے گوش گزار کرنے کے لائق ہے۔ ۳؍ اپریل کی رات‘ ۳ بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سرسیّدعلیہ الرّحمہ کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں کہ تم کب سے بیمار ہو؟ میں نے عرض کیا: دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا: حضورِ رسالت مآبؐ میں عرض کرو۔ میری آنکھ اس وقت کھل گئی‘ اور اس عرض داشت کے چند شعر‘ جو اب طویل مثنوی ہو گئی ہے۔ میری زبان پر جاری ہو گئے۔ ان شاء اللہ ایک مثنوی فارسی ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہو گی۔ ۴ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہو گئی ہے۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے‘ اور اس میں وہ رنگ(ring) عود کر رہا ہے‘ جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔‘‘ (۷) رسولِ اکرمؐ کی روحانیت اور فیض رسانی سے‘ وہ نہ صرف ذاتی طور پر متمتع ہونا چاہتے ہیں‘ بلکہ آرزو مند ہیں کہ ملتِ اسلامیہ بھی ان کے لطف و کرم سے مستفید و فیض یاب ہو: کرم اے شہِ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے‘ جنھیں دماغِ سکندری مندرجہ بالا اقتباس مکتوب میں جس عرضداشت کا ذکر آیا ہے، وہ مثنوی پس چہ باید کرد اے اقوام شرق میں’ ’درِ حضور رسالت مآبؐ ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ بھی ان کی نعتیہ شاعری کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اس میں ملّت اسلامیہ کی کس مپرسی، بے چارگی اور خواری وزبوں حالی کا حوالہ اہمیت رکھتا ہے۔ افراد اُمّت کی زاروزبوںحالت پر اقبال اس طرح نوحہ کناں ہیں:- اے تو مابیچارگاں را ساز و برگ وارہاں ایں قوم را از ترسِ مرگ سوختی لات ومناتِ کہنہ را تازہ کر دی کائناتِ کہنہ را درجہانِ ذکر و فکرِ انس و جاں تو صلٰوۃِ صبح، تو بانگِ اذاں لذتِ سوز و سرور از لا الٰہ در شبِ اندیشہ نور از لا الٰہ نے خداہا ساختیم از گاوخر نے حضورِ کاہناں افگندہ سر نے سجودے پیشِ معبودانِ پیر نے طواف کوشک سلطان و میر ایں ہمہ از لطفِ بے پایان تست فکر ما پروردۂ احسانِ تست ذکر تو سرمایۂ ذوق و سرور قوم را دارد بہ فقر اندر غیور اے مقام و منزلِ ہر راہرو جذبِ تو اندر دلِ ہر راہرو سازِ ما بے صوت گردیدم آں چناں زخمہ بر رگہاے او آید گراں درعجم گردید و ہم در عرب مصطفی نایاب و ارزاں بولہب ایں مسلماں زادۂ روشن دماغ ظلمت آبادِ ضمیرش بے چراغ درجوانی نرم و نازک چوں حریر آرزو در سینۂ او زود میر ایں غلام ابنِ غلام ابنِ غلام حریت اندیشۂ او را حرام مکتب از وے جذبۂ دیں در ربود از وجودش ایں قدر دانم کہ بود ایں زخود بیگانہ، ایں مستِ فرنگ نانِ جَو می خواہد از دستِ فرنگ ناں خرید ایں فاقہ کش با جانِ پاک داد ما را نالہ ہاے سوز ناک دانہ چیں مانندِ مرغانِ سرا ست از فضاے نیلگوں نا آشناست آتشِ افرنگیاں بگداختش یعنی ایں دوزخ دگرگوں ساختش شیخِ مکتب کم سواد و کم نظر از مقامِ او نداد او را خبر مومن و از رمزِ مرگ آگاہ نیست در دلش لا غالب الا اللہ نیست تا دلِ او درمیانِ سینہ مرد می نیندیشد مگر از خواب و خورد بہرِ یک ناں نشترِ لَاْونِعَمْ منّتِ صد کس براے یک شکم از فرنگی می خرد لات ومنات مومن و اندیشۂ او سومنات قُمْ بِاذ ْنِیْ گوے او را زندہ کن در دلش اللہ ھو را زندہ کن ما ہمہ افسونیِ تہذیبِ غرب کشتۂ افرنگیاں بے حرب وضرب تو ازاں قومے کہ جامِ او شکست وانما یک بندۂ اللہ مست ’’تا مسلماں باز بیند خویش را از جہانے برگزیند خویش را‘‘ شہسوارا! یک نفس در کش عناں حرفِ من آساں نیاید بر زباں آرزو آید کہ ناید تا بہ لب؟ می نہ گردد شوق محکومِ ادب آں بگوید لب کشا اے دردمند ایں بگوید چشم بکشا لب بہ بند گرد تو گردد حریمِ کائنات از تو خواہم یک نگاہِ التفات ذکر و فکر و علم، عرفانم توئی کشتی و دریا و طوفانم توئی آہوے زار و زبون و ناتواں کس بہ فتراکم نہ بست اندر جہاں اے پناہِ من حریم کوے تو من باَمُیدے رمیدم سوے تو آں نوا در سینہ پروردن کجا وز دمے صد غنچہ وا کردن کجا نغمۂ من در گلوے من شکست شعلۂ از سینہ ام بیروں نجست در نفس سوزِ جگر باقی نماند لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند (آپ ؐہم بے چارہ لوگوں کی متاع ہیں۔ اس قوم (مسلم) کو موت کے خوف سے رہائی دلائیے۔ آپؐ نے پرانے لات ومنات جلا دیے۔ آپؐ نے قدیم دنیا کو جدید رنگ عطا فرمایا۔ انسانوں اور جنّوں کے جہان ذکر وفکر میں آپؐ صبح کی نماز ہیں۔ آپؐ بانگ اذاں ہیں۔ سوز سرور کی لذت لاالہٰ سے ہے۔ اندیشوں کی (تاریک) رات کو لا الہٰ کا نور روشن کرتا ہے۔ نہ ہم نے چوپایوں کو معبود بنایا، نہ کاہنوں کے سامنے اپنا ماتھا ٹیکا۔ نہ پرانے خدائوں کو سجدہ کیا، نہ بادشاہوں اور امرا کے محلات کا طواف کیا۔ یہ سب آپؐ کے لطف بے پایاں کے طفیل ہے۔ ہمارے فکر نے آپؐ کے احسان سے پرورش پائی ہے۔ آپؐ کا ذکر ذوق وسرور (روحانیت) کا سرمایہ ہے۔ اس نے قوم کو فقر غیور بخشا ہے۔ آپؐ ہر سالک کے لیے مقام بھی ہیں اور منزل بھی۔ ہر راہرو کے دل میں آپؐ ہی کا جذب ہے (جو اسے کشاں کشاں لیے جا رہا ہے)۔ ہمارا ساز (حیات) اس طرح سے بے آواز ہو گیا ہے کہ اسے اپنے تاروں پر مضراب کا لگنا بھی گراں گزرتا ہے۔ میں عجم میں بھی پھرا ہوں اور عرب میں بھی۔ بولہب زیادہ ہیں اور آپؐ کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ نایاب ہیں۔ یہ روشن دماغ مسلمان زادہ، اس کے ضمیر کی اندھیر نگری چراغ کے بغیر ہے۔ یہ جوانی میں ریشم کی طرح نرم ونازک ہے۔ اس کے سینے میں آرزوئیں پیدا ہوتے ہی مر جاتی ہیں۔ اس غلام ابنِ غلام ابنِ غلام پر آزادی کی سوچ حرام ہے۔ جدید تعلیم نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے۔ اس کے وجود کے متعلق میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ کبھی تھا۔ یہ نوجوان اپنے آپ سے ناآشنا ہے اور افکار فرنگ میں مست ہے۔ یہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ فرنگیوں کے ہاتھ سے اسے جو کی روٹی مل جائے۔ اس فاقہ کش نے اپنی جان پاک دے کر روٹی خریدی۔ اس کے اس طرز عمل نے ہمیں دردناک نالوں پر مجبور کر دیا۔ یہ پالتو پرندوں کی طرح (دوسروں کے ہاتھ سے) دانہ چگتا ہے اور فضاے نیلگوں کی پہنائیوں سے ناآشنا ہے۔ فرنگیوں کی آگ نے اسے پگھلا دیا ہے۔ اس دوزخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ سکول کا استاد نالائق اور کم نظر ہے۔ اس نے اسے اس کے مقام سے آگاہ نہیں کیا۔ مومن ہے اور موت کی رمز سے آگاہ نہیں۔ اس کا دل لا غالب الا اللہ سے خالی ہے چونکہ اس کے سینے کے اندر دل مر چکا ہے۔ اس لیے اسے کھانے اور سونے کے علاوہ اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ ایک روٹی کی خاطر ’’ہاں‘‘ اور ’’نا‘‘ کے نشتر کے زخم کھاتا ہے۔ ایک پیٹ کے لیے سیکڑوں انسانوں کے احسان اٹھاتا ہے۔ یہ فرنگی سے لات و منات خریدتا ہے۔ ہے تو وہ مومن مگر اس کا دماغ سومنات بنا ہوا ہے۔ ’’اٹھ میرے حکم سے‘‘ فرما کر اسے زندہ کر دے۔ اس کے دل کو اللہ ھو سے زندگی عطا کر دے۔ ہم سب مغرب کی تہذیب کے سحرزدہ ہیں۔ ہمیں افرنگیوں نے بغیر جدال و قتال کے قتل کر دیا ہے۔ آپؐ کے زیر قیادت عربوں نے ان کا جام توڑا تھا۔ اس دور میں بھی ایک بندۂ اللہ مست ظاہر کیجئے۔ ’’تاکہ مسلمان پھر اپنے آپ کو پہچان لے اور سارے جہان سے برگزیدہ ہو جائے۔‘‘ اے شہسوارؐ! ایک لمحے کے لیے اپنے گھوڑے کو روکیے۔ الفاظ آسانی سے میری زبان پر نہیں آ رہے۔ (میں سوچتا ہوں کہ) کہ آرزو لب پر آئے‘ یا نہ آئے عشق کی سرمستی ادب کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آرزو کہتی ہے: اے درد مند لب کھول۔ شوق کہتا ہے: لب بند رکھ اور آنکھ کھول (اور آپؐ کے جمال کا نظارہ کر) کائنات آپؐکے حریم ناز کا طواف کرتی ہے، میں آپؐ کی نگاہ التفات کا بھکاری ہوں۔ میرا ذکر و فکر و علم و عرفان آپؐ ہیں، میری کشتی بھی آپؐ ہیں۔ دریا بھی اور طوفان بھی۔ میں ایک زار و زبوں اور ناتواں آہو ہوں‘ دنیا میں مجھے کسی نے اپنے شکار بند میں نہیں باندھا۔ آپؐ کے کوچے کا حریم‘ میری پناہ گاہ ہے اور ایک امید کے لیے میں آپؐ کی طرف دوڑ رہا ہوں۔ اپنے سینے کے اندر نوا کی پرورش کرنا اور اپنی ایک پھونک سے سیکڑوں غنچوں(قلوب) کو کھِلا دینا‘ یہ بات کہاں ہے؟ میرا نغمہ میرے گلے میں (ٹوٹ کر) اٹک گیا ہے۔ شعلہ میرے سینے سے باہر نہیں لپکا۔ میری آواز میں سوز جگر باقی نہیں رہا۔ صبح کی تلاوت کا مزا جاتا رہا۔) ــــــــــــ یہ عرضداشت پیش کرتے ہوئے انھیں خیال آتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے نہ تو اپنی نسبت رسولؐ کا خیال رکھا اور نہ محمدؐ کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا۔ ہم مسلمان ہیں تو اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسالت محمدیہؐ پرہمارا ایمان ہے تو اس کے تقاضے کیا ہیں؟۔۔۔۔۔۔ افراد امت‘ اس ضمن میں ایک عمومی غفلت کا شکار ہیں۔ اقبال کے لیے یہ چیز دلی اذیت کا باعث ہے۔ امید کی اس کیفیت کو‘ وہ ذاتی حوالے سے اس طرح بیان کرنے ہیں:- میں تو جب کبھی سوچتا ہوں‘ شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہم پر فخر کریں؟ ہاں جب ہم اس نور کو اپنے دلوں میں زندہ کر لیں گے‘ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ہم میں داخل کیا تھا‘ تو اس وقت اس قابل ہو سکیں گے کہ حضورؐ ہم پر فخر کریں۔‘‘(۸) وہ نور کیا تھا جو آپؐ نے ہمیں عطا کیا؟ اسلام کی نعمت‘ قرآن حکیم کی دولت‘ احکام الٰہی کا سرمایہ اور خدمتِ دین کا جذبہ۔۔۔۔۔۔ یہ سب عشق رسولؐ کا تقاضا اور اس کے ثمرات ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: اقبال کے تجربے میں تو عشق رسولؐ ہی ایسی نعمت ہے‘ جس کے ذریعے‘ وہ اپنے تمام فکری مسائل حل کر سکتے تھے۔(۹) اقبال کے نزدیک حُبّ ِرسولؐ کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کا حصول ممکن ہے‘ بلکہ زمین و آسمان کی ساری عزتیں اور ساری نعمتیں صرف اسی طریقے سے مل سکتی ہیں: ؎ کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں ہر کہ عشقِ مصطفی سامانِ اوست بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست (جس شخص کو بھی عشقِ مصطفی کی نعمت مل جاتی ہے‘ وہ دریا و صحرا دونوں پرمتصرف ہو جاتا ہے۔) مگر ہم نے غفلت شعاری کا رویہ اپنایا‘ ہمیں مکروہات زمانہ سے فرصت ہی نہیں ملی کہ اس طرف متوجہ ہوتے۔ ساری تگ و دو حصول دنیا کے لیے وقف رہی۔ دین کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ ہمارے گرد و پیش شاید ایک فیصد لوگ بھی ایسے نہ ہوں گے‘ جنھیں تفہیم دین‘ خدمتِ اسلام یا اتباعِ رسولؐ کی ضرورت کا حقیقی شعور یا ان فرائض کو ادا کرنے کا احسان ہو۔ اقبال اس صورت حال کو اپنی زندگی کے آئینے میں دیکھتے ہیں: ’’میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں‘ تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قواے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے‘ تو آج خدا کے رسولؐ کی‘ میں کوئی خدمت کر سکتا اور جب مجھے یاد آتا ہے کہ والد مکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے‘ تو مجھے اور بھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے‘ کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی‘ تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا’ ہوا‘ اور مجھ سے بھی جو کچھ ہو سکا‘ میں نے کیا‘ لیکن دل یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا‘ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا‘ اور زندگی تمام و کمال نبی کریمؐ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔‘‘(۱۰) اگرچہ علامہ اقبال نے آنحضورؐ پر بہ کثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے‘ مگر درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشق رسولؐ ان کے نزدیک محض درود شریف پڑھنے‘ اور محبت کے زبانی کلامی دعووں یا ان کی یاد میں آنسو بہانے تک محدود نہیں۔ عشق رسولؐ کا حقیقی تقاضا ’’نبی کریمؐ کی خدمت ‘‘ ہے۔ یہ خدمتِ رسولؐ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت کا احیا اور اس کا نفاذ۔۔۔۔۔۔ یعنی خدمتِ رسولؐ‘ خدمتِ اسلام کے مترادف ہے۔ سید غلام میراں شاہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’دعا کرتاہوں خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت‘ ہمت‘ اثر‘ رسوخ اور دولت وعظمت کو حقائقِ اسلام کی نشر واشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضورِرسالت مابؐ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔‘‘(۱۱) آنحضور صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا، آپؐ کی پوری زندگی باطل کے خلاف سراپا جہاد تھی۔ آپؐ شب وروز، اپنے دورکی گمراہیوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ عصرِ حاضر میں بھی گوناگوں باطل نظریات، اسلام کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خاتمے کے لیے کوشش وکاوش ایک طرح سے سنتِ نبویؐ ہے، خدمتِ رسولؐ بھی اور خدمتِ دین بھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک ایک مومن کی زندگی کا یہی مشن ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی میں انھیں ’’نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت ‘‘ کی فکر برابردامن گیر رہی اور وہ ’’اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اس کے مستقبل کو محفوظ ‘‘ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد کے نام لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں ہوا کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے‘ اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے‘ اور اگر وقت پر موجود حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل‘ اس ملک میں کیا ہو جائے گا‘ ہم تو اپنا زمانہ حقیقت میں ختم کر چکے ہیں۔ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہو جائے اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہو جائے۔ اگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے کام چھوڑنے پڑے تو ان شاء اللہ چھوڑوں گا اور اپنی زندگی کے باقی ایام اسی ایک مقصد جلیل کے لیے وقف کر دوں گا۔ ’’آپ خواجہ صاحب کے دل میں بھی یہی تڑپ پیدا کریں کہ وہ اپنے دیگر احباب میں بھی یہی تحریک کریں‘ ورنہ ہم سب لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ زیادہ کیا عرض کروں‘ سواے اس کے کہ اس کام میں ذرا سا توقف بھی نہ ہونا چاہیے(۱۲)‘‘۔ ۳۰ جولائی ۱۹۳۴ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت مسلمان کا فرض ہے کہ جو قوت‘ خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے‘ اسے اسلام کی خدمت اور اقوام و ملل اِسلامیہ کے احیا و بیداری میں صرف کر دے(۱۳)‘‘۔ یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلام کی نشا ۃِ ثانیہ کے بارے میں علامہ اقبال کا رجائی ذہن بہت واضح تھا۔ شاعری کے علاوہ خطوں میں بھی یہ رجائیت‘ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ ایک صاحب نے خواب میں رسول پاکؐ کی زیارت کی تعبیر دریافت کی ۔ اقبال انھیں جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ رسالت مابؐ کی زیارت خیروبرکت کا باعث ہے۔ گذشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے حضورِ رسالت مابؐ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیاے اسلام کی ہے(۱۴)‘‘۔ خود علامہ اقبال اپنے تئیں احیائے اسلام کے لیے کاوش و کوشش کا فریضہ ادا کرنے کی سعی کرتے رہے‘ اور انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدمتِ اسلام اور خدمتِ رسولؐ میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ خدمتِ رسولؐ کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ محبتِ رسولؐ کا دعویٰ کرنے والے افراد سب سے پہلے اپنی زندگیوں کو اسوئہ حسنہ کے مطابق ڈھالیں‘ اپنے ظاہر و باطن میں یکسانی پیدا کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم جس مقصد عظیم کے لیے دنیا میں مبعوث ہوئے‘ اس کے حصول کے لیے جسم و جاں کی پوری توانائی اور قلب و ذہن کی جملہ صلاحیتیں وقف کر دیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیں۔ اس اعتبار سے اقامت دین اور اسلامی نشاۃِ ثانیہ کے لیے کاوش پیہم ہی خدمت رسولؐ ہے۔ ایک مسلمان کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم سے تعلقِ خاطر کے کئی پہلو ہیں‘ اور کئی نسبتیں۔۔۔۔ علامہ اقبال کی ایک نسبت یہ بھی تھی کہ وہ ’’محمد اقبال‘‘ تھے۔ وہ اپنے دستخطوں میں نام کے جزو ’’محمد‘‘ پر بالا لتزام ؐکی علامت بناتے تھے۔ علامہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم سے ایک اور نسبت بھی بہت عزیز تھی‘ اس کا اظہار ایک شعر میں یوں کیا ہے: عجمی خم ہے تو کیا‘ مے تو حجازی ہے مری نغمہ ہندی ہے تو کیا‘ لے تو حجازی ہے مری نسبت حجازی پر انھیں فخر ہے اور بجا طور پر وہ آنحضورؐ کی زبان مبارک سے خود کو ’’اے عندلیب باغ حجاز‘‘ کہلوا کر روحانی لذت و سرشاری اور سرخوشی کی ایک عجیب کیفیت میں ڈوب جاتے ہیں۔ حجاز مقدس کے سفر‘ اور زیارت مدینہ کی تمنا ان کے ہاں ابتدا ہی سے موجود تھی اور روایتی انداز میں اس کا اظہار بھی ملتا ہے: سر کے بل راہ مدینہ میں جو میں چلنے لگا شوق پر صدقے تمناے جبیں سائی ہوئی(۱۵) ــــــــــــ اڑ کے اے اقبال! سوے بزمِ یثرب جائوں گا روح کا طائر عرب کی شمع کا پروانہ ہے(۱۶) ــــــــــــ ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرہ بے قرار سنتا ہے تو کسی سے جو افسانۂ حجاز ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’خدا آپ کو اور مجھ کو بھی زیارت روضۂ رسولؐ نصیب کرے۔ مدت سے آرزو دل میں پرورش پا رہی ہے۔ دیکھیے! کب جوان ہوتی ہے(۱۷)‘‘۔ آرزو پرورش پاتی رہی‘ جوان ہوتی رہی اور وہ سفر حجاز کے بارے میں مسلسل سوچتے رہے۔ فی الحقیقت حج بیت اللہ اور زیارت مدینہ النبیؐ کی تمنا‘ اقبال کے حُب رسولؐ کا ایک ایسا پہلو ہے‘ جس کا بیان کچھ جداگانہ لطف و لذت رکھتا ہے۔ جناب غلام رسول مہر۱۹۲۵ئ، ۱۹۲۶ئ،۱۹۲۷ء کے زمانے میں علامہ کی خدمت میں اکثر و بیشتر حاضر ہوتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ اس زمانے میں ہر ملاقات پر سفر حجاز کا ذکر چھڑ جاتا اور گھنٹوں اس موضوع پر گفتگو رہتی۔ اقبال نہ صرف سفر حجاز‘ بلکہ پورے عالم اسلام کی سیاحت کا عزم کیے ہوئے تھے۔ اپنے ہمراہ چودھری محمد حسین اور غلام رسول مہر کو لے جانا چاہتے تھے۔ منازل سفر میں کابل‘ غزنی‘ سمرقند‘ بخارا‘ مرو‘ شیراز‘ اصفہان‘ بغداد‘ کربلا‘ انگورہ‘ قسطنطنیہ‘ قاہرہ‘ فلسطین‘ مدینہ اور مکہ شامل تھے۔ ان گفتگوئوں میں سفر کے مصارف کا تخمینہ‘ حمل و نقل کے مسائل اور انتظامات کے متفرق امور زیر بحث آتے۔ ایک دو بار انھوں نے مہر صاحب سے کہا کہ وہ جملہ امور غور و فکر اور تحقیق کر کے بتائیں کہ سفر عملاً کیوں کر ممکن ہو گا(۱۸)۔ لیکن بعض وجوہ سے ارادئہ سفر ملتوی ہوتا رہا۔ ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن کا سفر درپیش ہوا۔ واپسی پر مؤتمر عالم اسلامی میں شرکت کے لیے بیت المقدس گئے۔ وہاں سے مصر گئے اور پھر براہ راست ہندوستان چلے آئے۔ اس حوالے سے بعض لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ علامہ نے عمرے اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کے اس موقع سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ اس ضمن میں فقیر سید وحید الدین کی ایک روایت قابل غور ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ علامہ یورپ سے واپس آئے تو والد موحوم اس موقع پر ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدت کے بعد‘ ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے بڑے تپاک سے ملے‘ اور ڈاکٹر صاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والد مرحوم نے اثناے گفتگو میں کہا: ’’اقبال‘ تم یورپ ہو آئے ہو‘ مصر اور فلسطین کی سیر بھی کی‘ کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کر لیتے۔‘‘ یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی حالت دگرگوں ہو گئی‘ یعنی چہرے پر زردی چھا گئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔ پھر کہنے لگے: ’’فقیر! میں کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا(۱۹)‘‘۔ انھی دنوں کسی شخص نے دریافت کیا کہ فلسطین سے زیارتِ حرمین کے لیے جانا مشکل نہ تھا‘ پھر کیا امر مانع ہوا کہ آپؐ نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا؟ جواباً علامہ نے انھیں لکھا: ’’مدینتہُ النبیؐ کی زیارت کا قصد تھا‘ مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو گیا کہ دینوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرمِ نبویؐ کی زیارت کی جرأت کرنا سُوے ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب حرمِ نبویؐ کی زیارت کے لیے جائوں گا‘ تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا‘ ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا(۲۰)‘‘۔ بہ الفاظ دیگر‘ انھیں ضمناً دربارِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہونا اچھا نہ لگا۔ دراصل آنحضور صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم کے ہر امتی کی طرح علامہ اقبال کو بھی لغزش و گناہ اور کوتاہیِ فکر و عمل کا شدید احساس تھا۔ احساس ندامت کے سبب‘ وہ روضۂ رسولؐ پر حاضری سے گریزاں تھے‘ اور غالباً اسی لیے وہ ایک جگہ بارگاہ خداوندی میں اس طرح التماس کرتے ہیں:۔ تو غنی از ہر دو عالم‘ من فقیر روزِ محشر عذر ہاے من پذیر ورحسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفی پنہاں بگیر(۲۱) (اے اللہ) تو سراپا غنی ہے(اور) میں تہی دست ہوں۔ روزِ حشر مجھے جواب دہی سے معاف رکھنا۔ لیکن اگر جواب دہی ناگزیر ہو تو پھر آنحضورؐ کی نظروں سے اوجھل ہو کر حساب لئجیو۔ (تاکہ آپؐ کے سامنے‘ میری رسوائی نہ ہو) بہرحال انھوں نے سفرِ حجاز کا ارادہ ترک نہیں کیا‘ مگر سوے اتفاق سے‘ یورپ سے واپسی کے چند ماہ بعد وہ شدید طور پر علیل ہو گئے۔ انھیں وکالت ترک کرنی پڑی‘ بہت سے معمولات متاثر ہو گئے‘ علاج معالجے کے لیے بار بار دہلی اور بھوپال جانا پڑا۔ بیماری کے نتیجے میں طرح طرح کے تفکرات اور غمہاے روزگار نے گھیر لیا‘ مگر اس عالم میں بھی سرزمین مقدس کے لیے ان کے عزم و ارادے میں فرق نہیں آیا۔ نہ صرف برقرار رہا‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفر حجاز کی آرزو تیز تر ہوتی گئی‘ اور اس کا ذکر جہاں تہاں ان کے خطوں میں ملتا ہے۔ ۱۳ جون۱۹۳۷ء کو عبداللہ چغتائی کے نام لکھتے ہیں: ’’اگر توفیقِ الٰہی شامل رہی تو زیادہ سے زیادہ مکہ ہوتا ہوا‘ممکن ہے‘ مدینہ تک پہنچ سکوں۔ اب مجھ ایسے گنہگاروں کے لیے آستان رسالتؐ کے سوا اور کہاںجاے پناہ ہے(۲۲)‘‘۔ سر اکبر حیدری کے نام ایک خط میں آستانۂ رسالتؐ پر حاضری کی والہانہ تمنا کا بھرپور اظہار ملتا ہے۔ لکھتے ہیں: تنہا خواہش‘ جو ہنوز میرے دل میں خلش پیدا کرتی ہے‘ یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو حج کے لیے مکہ جائوں اور وہاں سے اس ہستی کے مزار پر حاضری دوں‘ جس کا‘ ذات الٰہی سے بے پایاں شغف‘ میرے لیے وجہ تسکین اور سر چشمۂ الہام رہا ہے۔ میری جذباتی زندگی کا سانچا کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ انفرادی شعور کی ابدیت پر مضبوط یقین رکھے بغیر‘ ایک لمحہ بھی زندہ رہنا میرے لیے ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ یقین مجھے پیغمبر اسلامؐ کی ذات گرامی سے حاصل ہوا ہے۔ میرا ہر بن مو آپؐ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے اور میری روح ایک بھرپور اظہار کی طالب ہے‘ جو صرف آپؐ کے مزار مقدس پر ہی ممکن ہے۔ اگر خدا نے توفیق بخشی تو میرا حج اظہار تشکر کی ایک شکل ہو گی(۲۳)۔ اور جب مزید کچھ عرصے تک اس سفر کی نوبت نہ آسکی تو یہ آرزو ایک حسرت و ارمان کی شکل اختیار کر گئی۔ جب کبھی زیارت حرمین شریفین کا تذکرہ ہوتا تو وہ ایک عجیب لطف و کیف اور سرشاری و بے خودی کی کیفیت میں ڈوب جاتے۔ مناسب ہو گا یہاں علامہ اقبال کے اس ذوق و شوق کا تھوڑا سا ذکر ہو جائے‘ جس کی بنا پر آنحضورؐ کا ذکر آتے ہی وہ آبدیدہ ہو جاتے اور اکثر اوقات ان پر رقت طاری ہو جاتی۔غلام رسول مہر کا بیان ہے: ’’سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم کا اسمِ پاک تو زبان پر آتے ہی چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ حضورِ انورؐ کی ذاتِ با برکات کے ساتھ حضرتِ علامہ کا عشق‘ بیان کا متحمل نہیں۔ ان کی تصانیف میں جو اشعار حضورؐ کے متعلق ہیں‘ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان میں سے ایک شعر بھی ایسا نہیں‘ جسے انھوں نے سنایا ہو اور اس پر بے اختیار اشک بار نہ ہوئے ہوں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کو خود خوشی خوشی شعر سنانے لگتے لیکن کوئی نعتیہ شعر یا حضورِ انورؐ کی ذاتِ بابرکات کے متعلق کوئی اشارہ آجاتا تو رقت طاری ہو جاتی۔ پندرہ پندرہ بیس بیس منٹ تک یہ کیفیت باقی رہتی۔ یہاں تک کہ باقی شعر بھی ناشنید ہی رہ جاتے(۲۴)‘‘۔ آخری عمر میں انھیںیہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ ان کی عمر آنحضور صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم سے زیادہ نہ ہو جائے‘ وہ اسے ’’سوے ادب‘‘ سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں حکیم احمد شجاع لکھتے ہیں: ’’جب وہ ایک طویل بیماری کے باعث بہت ضعیف ہو گئے اور اس وقت ان کا یہ اندازہ تھا کہ ان کی عمر ساٹھ برس سے تجاویز کر چکی ہے‘ تو ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا اب میں زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری عمر ۶۳ برس سے زائد نہ ہوجائے‘ اس لیے کہ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم کی عمر‘ جہاں تک یقینی طور پر معلوم ہو سکا ہے‘ ۶۳ برس کی تھی۔ پھر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے بڑی دھیمی اور پُرسوز آواز میں اپنا یہ شعر پڑھا: ؑؑؑؑؑؑؑروزِ محشر اعتبارِ ماست او در جہاں ہم پردہ دارِ ماست او اس جہاں میں بھی وہی ہمارا پردہ دار ہے، اور قیامت کے دن بھی صرف اسی کی ذات پر ہمارا بھروسا ہو گا۔ پھر ان کی آواز بھرا گئی اور سسکیاں بھر کر رونے لگے(۲۵)‘‘۔ وفات سے کوئی آٹھ دس ماہ پہلے، علامہ کے ایک دوست مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے حج بیت اللہ کا عزم کیا اور غالباًساتھ چلنے کی دعوت دی۔ جواباً انھیں لکھتے ہیں: ’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گذشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے، تو یہ آرزو پوری ہو، اور اگر آپ رفیقِ راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ آپ ایسے باہمت جوان کے لیے تو یہ سفر قطعاً مشکل نہیں۔ ہمت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز وناتواں ہے۔ کیا عجب کہ خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور آپ کی معیّت اس سفر میں نصیب کرے(۲۶)‘‘۔ خیال رہے کہ علامہ کی اہلیہ دو سال پہلے فوت ہو گئی تھیں، اور اب دونوں بچوں (جاوید، منیرہ) کی نگہداشت انھی کے ذمے تھی۔ان کی اپنی صحت بھی روز بروز گرتی جارہی تھی اور ڈاکٹروں نے آنکھ کا آپریشن بھی تجویز کیا تھا۔ اس زمانے میں سفر کی دشواریاں بھی گوناگوں تھیں۔ بایں ہمہ وہ عزم سفر سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ انھوں نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہازران کمپنیوں سے خط کتابت شروع کر دی تھی(۲۷)‘‘۔ ایک بار گھر میں ان کے عزم حجاز کا ذکر چھڑا، تو علامہ کی ہمشیرہ نے کہا: آپ کی آنکھوں میں پانی بھی تو اُتر رہا ہے، ایسی حالت میں حج کا سفر کس طرح کر سکتے ہیں۔ اللہ خیر رکھے، اگلے سال آپریشن کے بعد چلے جائیے گا۔ اس پر بڑے درد انگیز، مگر پر شوق لہجے میں فرمایا: ’’آنکھوں کا کیا ہے، آخر اندھے بھی تو حج کر ہی آتے ہیں(۲۸)‘‘۔ چند ماہ بعد سید غلام میراں شاہ کا خط آیا۔ معلوم ہوا، وہ سفر حج کی تیاری میں مصروف ہیں۔ علامہ نے نہایت حسرت کے ساتھ انھیں لکھا: ’’خدا تعالیٰ آپ کو یہ سفر مبارک کرے، اور اس کے فرشتوں کی رحمتیں آپ کے شریک حال ہوں۔ کاش میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا۔ میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضورؐ کے روضۂ مبارک پر بھی یاد کیا جا سکوں، تاہم حضورؐ کے اس ارشاد سے جرات ہوتی ہے: ’’الطالح لی‘‘ یعنی گہنگار میرے لیے ہے(۲۹)‘‘۔ سفر حجاز کی آرزو برابر بڑھتی گئی اور بڑھتے بڑھتے ایک میٹھی خلش بن گئی، جس نے علامہ کو مستقلاـ ً بے چین اور مضطرب رکھا۔ تصور ہی میں وہ بار بار عزم سفر کرتے اور رخت سفرِ حجاز باندھتے۔ انھوں نے مقدس سفر کی مناسبت سے متعدد قطعات ورباعیات بھی قلم بند کر لی تھیں۔ اسلم جیراج پوری بتاتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۳۷ء میں، میں علامہ سے ملا، تو ان دنوں وہ اپنے اردو اور فارسی کلام کو ترتیب دے رہے تھے۔ میں نے پوچھا: موجودہ تصنیف کب مکمل ہو گی؟ (اشارہ تھا، ارمغانِ حجاز کی طرف) فرمایا: اگلے سال ان شاء اللہ مدینہ پہنچ کر …… دوبارہ جنوری ۱۹۳۸ء میں حاضر خدمت ہوا، سفرِ حجاز کا ذکر چھڑ گیا۔ فرمانے لگے کہ میں تو دو سال سے ارادتا ً سفر حج میں ہوں۔ عملا ً جب موقع اللہ دے، بلکہ وہ اشعار بھی لکھ لیے ہیں، جو اس سفر سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کہیں کہیں سے کچھ سنایا بھی۔ مکہ سے مدینہ کی روانگی کے وقت ایک غزل لکھی ہے، جس میں اللہ کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: تو باش ایں جا و باخاصاں بیآمیز کہ من دارم ہواے منزلِ دوست یہ شعر سناتے ہی گریہ ایسا گلوگیر ہوا کہ آواز بند ہو گئی اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے(۳۰)‘‘۔ آخری زمانے میں جناب غلام رسول مہر اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ۔ ان کا بیان ہے: ’’حضرت کی بڑی آرزو یہ تھی کہ حجاز جائیں اور حج وزیارت کا شرف حاصل کریں۔ کئی برس سے ہر سال تیاری کا خیال ہوتا تھا لیکن چند در چند موانع کے باعث اور آخر میں خرابیِ صحت کی وجہ سے آرزو پوری نہ ہو سکی۔ ارمغانِ حجاز کے متعلق ایک دو موقعوں پر ارشاد فرمایا کہ اس میں بعض خلا ہیں جو سفر حجاز میں پورے کیے جائیں گے، لیکن اس سفر کا موقع نہ آیا۔ وفات سے تین چارروز پیشتر فرماتے تھے کہ سہارن پور سے ایک صاحب نے خط لکھا ہے کہ میں حجاز گیا تھا اور طواف میں صدقِ دل سے دعا کی تھی کہ اللہ تعالٰی آپ کو بھی حجاز لائے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ دعا منظور ہو چکی ہے۔ یہ خط اطلاع کی غرض سے لکھا گیا ہے۔ پھر فرمانے لگے: اب بظاہر میرا حجاز جانا غیر ممکن ہے لیکن ان صاحب نے لکھا ہے کہ دعا منظور ہو چکی ہے۔ دیکھیں اس کی کیا صورت ہو(۳۱)‘‘۔ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں سوز و گداز کی کیفیت انتہا درجے پر نظر آتی ہے۔ دربار رسالتؐ میں حاضری کا تصور علامہ کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ بہ سبب علالت، جسمانی طور پر سفر ممکن نہیں، وہ عالم تصور ہی میں مدینہ طیبہ کی جانب رواں دواں ہیں۔ انھیں اب مدینتہ النبیؐ ہی ملجا و ماویٰ نظر آتا ہے: بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم نوا خواں از سرورِ عاشقانہ چوں آں مرغے کہ در صحرا سرِ شام کشاید پَر بہ فکرِ آشیانہ (اس بڑھاپے میں، میں مدینے کی طرف سرور عاشقی سے مست، گاتا چلا جا رہا ہوں اور میری مثال اس پرندے سے مختلف نہیں جو شام کے وقت صحرا میں آشیانہ بنانے کی فکر میں مستعد ہوتا ہے۔) سوز عشق سے بیمار عشق کی حالت خستہ و اماندہ ہے: سحر با ناقہ گفتم: نرم تر رو کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی بہ پایش ریگِ ایں صحرا حریر است (بوقت صبح میں نے اونٹنی سے کہا کہ ذرا آہستہ چل، کہ سوار خستہ، بیمار اور بوڑھا ہے۔ اس پر وہ اس طرح مستانہ انداز میں قدم زن ہوئی گویا اس کے پانو کے نیچے پھیلی ہوئی ریگِ صحرا، ریت نہیں ریشم ہے۔) مگر اثناے سفر کی لذت ایسی سرور انگیز اور وجد آفریں ہے کہ مسافر، سارباں کو راہِ دراز اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ سفرِ شوق میں مسرت کے لمحات دراز تر ہو سکیں: غمِ راہی نشاط آمیز تر کن فغانش را جنوں انگیز تر کن بگیر اے سارباں راہِ درازے مرا سوزِ جدائی تیز تر کن (اے سارباں! تو مسافر کے غم میں نشاط اور کیف کی آمیزش بڑھا دے اور اس کی آہ و زاری میں جنوں کا عنصر زیادہ کر دے۔ اے سارباں! لمبا راستہ اختیار کر اور یوں میرے سوز جدائی کو تیز تر کر دے۔) سید نذیر نیازی کو علامہ اقبال کے آخری زمانے میں بالالتزام ان کی خدمت میں حاضر رہنے کا موقع ملا۔ وہ اپنی ۱۰ جنوری ۱۹۳۸ء کی یاد داشت میں بتاتے ہیں کہ سفرِ حج کا ذکر آیا تو حضرت علامہ نے فرمایا: ’’ایک طرح سے تو میں حج کے راستے میں ہوں۔ چاہتا ہوں، یہ راستہ جلد طے ہو جائے‘‘۔ پھر ذرا دم لے کر، مگر بھرائی ہوئی آواز میں فرمایا: ’’یہ راستہ طے تو ہو جاتا ہے، لیکن مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔ میں تو اب جو کچھ کہتا ہوں، وہیں کے لیے کہتا ہوں اور یہ کہتے کہتے دفعتاً رک گئے، جیسے شدت جذبات، اظہار مدعا میں حارج ہو۔ بالآخر ارشاد فرمایا: ’’آشیانہ قدس پر پہنچ جاؤں، تو کچھ اور بھی عرض کروں۔‘‘ حضرت علامہ نے بات ختم کی تو احباب نے تبرک کی فرمائش کر دی۔ فرمایا: ’’میں تو معذور ہوں، انھیں کچھ یاد ہو تو، سن لیجیے‘‘۔ میں نے حافظے پر زور دیا، تو گفتگو کی رعایت سے ایک رباعی ذہن میں آگئی۔ مصرع اول پڑھا، دوسرا مصرع پڑھ رہا تھا کہ حضرت علامہ پر رقت طاری ہو گئی اور وہ بار بار اس کی تکرار کرنے لگے۔ میں خاموش ہو گیا۔ اس پر انھوں نے تیسرا مصرع خود ہی ارشاد فرمایا لیکن ابھی پورے طور پر ادا نہیں کر پائے تھے کہ آواز گلوگیر ہو گئی اور وہ یوں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ احباب پریشان ہو گئے۔ رباعی یہ تھی: تنم واماند و جانم در تگ و پوست سوے شہرے کہ بطحا در رہ اوست تو باش اینجا و باخاصاں بیآمیز کہ من دارم ہواے منزلِ دوست(۳۲) (میرا بدن تھکن سے چور ہو گیا ہے اور میری روح اس شہر کی جانب کھنچی چلی جا رہی ہے۔ جس کے راستے میں مکہ آتا ہے۔ (اے مخاطب) تو یہیں رہ اور خواص سے گھل مل، میں تو حضور اکرمؐ کے شہر پہنچ جانا چاہتا ہوں۔) مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں: ’’زندگی کے آخری ایام میں پیمانۂ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینہ کا نام آتے ہی اشکِ محبت بے ساختہ جاری ہو جاتے۔ وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ مدینتہ الرسولؐ میں حاضر نہ ہو سکے لیکن اپنے مشتاق اور بے تاب دل، نیز اپنی قوتِ تخیل اور زورِ کلام کے ساتھ انھوں نے حجاز کی وجد انگیز فضاؤں میں بار بار پرواز کی اور ان کا طائرِ فکر ہمیشہ اسی آشیانے یا آستانے پر منڈلاتا رہا(۳۳)‘‘۔ مدینتہ النبیؐ ان کے خوابوں کا شہر تھا۔ وہاں ان کی عزیز ترین ہستی محوِ استراحت تھی۔ ان کی دیرینہ آرزو تھی کہ انھیں حجاز جانے کا موقع ملے تو سرزمین یثرب ہی میں پیوندِ خاک ہو جائیں۔ درحقیقت یہ تمنا بھی آپؐ سے ایک تعلقِ خاطر کی دلیل، اور وابستگی کا ایک قلبی اظہار ہے: ہست شانِ رحمت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز حیف چوں او را سرآید روز گار پیکرش را دیر گیرد در کنار از درت خیزد اگر اجزاے من واے امروزم خوشا فرداے من(۳۴) (آپؐ کی شانِ رحمت ایک زمانے کو نوازتی ہے۔ میری آرزو یہ ہے کہ مجھے موت آئے تو سرزمین حجاز میں۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جب اس کا آخری وقت آئے تو اس کے بدن کو بت خانہ اپنے پہلو میں جگہ دے۔ اگر میری خاک کے اجزا آپؐ کے در مبارک سے اٹھیں تو افسوس ہے میرے آج پر اور سبحان اللہ میرا کل۔) سفرِ حجاز کا خواب تو شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا مگر ’’عرضِ حال مصنف بہ حضورِ رحمتُ لِلّعالَمین‘‘ (رموز بے خودی، ۱۹۱۸ئ) کے بیس سال بعد (۱۹۳۸ء میں) حضرت علامہ اس عالم فانی سے رخصت ہو کر عالمگیری مسجد لاہور کے سایہ دیوار میں سپردِ خاک ہوئے، تو ان کی اس آرزو کو، کہ: کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدے در سایۂ دیوار بخش تا بیاساید دلِ بے تابِ من بستگی پیدا کند سیمابِ من با فلک گویم کہ آرامم نگر دیدۂ آغازم انجامم نگر(۳۵) (میری قسمت کے ستارے کو بھی دیدۂ بیدار عطا فرمائیے اور اپنی دیوار کے سائے میں آسودۂ خاک ہونے کے لیے ذرا سی جگہ عطا فرمائیے تاکہ میرے دلِ بے تاب کو سکون نصیب ہو اور میری سیمابیت کو قرار آ جائے اور میں فلک سے کہہ سکوں کہ دیکھو مجھے کیسا آرام نصیب ہوا۔ تو میرا آغاز دیکھ چکا ہے، اب میرے انجام پر بھی نظر ڈال۔) ایک شکل میں شرف قبولیت نصیب ہوا۔ وہ ایک ایسے مقام پر آسودۂ خاک ہیں، جہاں دنیا کے دور دراز خطوں سے آنے والے ہزاروں لاکھوں مسلمان، ان کے لیے مستقلاً دست بدعا رہتے ہیں۔ یہ ’’رتبۂ بلند‘‘ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ’’عاشقِ پاک طینت‘‘ ہونا شرط ہے۔ عشقِ رسولؐ کا دعویٰ کرنے والے کم ہی لوگ، علامہ اقبال کی سی خوبی و وارفتگی کے ساتھ اس شرط پرپورے اترتے ہوں گے۔ علامہ اقبال اور میر حجاز، بزمِ اقبال، لاہور، ۱۹۹۴ء حوالے اور حواشی ۱۔ اخباروطن لاہور، ۶ اکتوبر ۱۹۰۵ء بحوالہ: خطوط اقبال (مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی) لاہور، مکتبہ خیابان ادب، ۱۹۷۶، ص ۹۱، ۹۲ ۲۔ روایات اقبال (مرتبہ: ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی) لاہور، مجلس ترقی ادب لاہور ۱۹۷۷ئ، ص ۱۱۰ ۳۔ باقیات اقبال (مرتبہ: عبدالواحد معینی۔ محمد عبداللہ قریشی) لاہور، آئینہ ادب، ۱۹۷۸ء ص ۴۳ ۴۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، عروجِ اقبال، لاہور، بزم اقبال، ۱۹۸۷ئ، ص ۲۴۰ ۵۔ ایضا، ص ۱۴۳ ۶۔ باقیات اقبال، ص ۱۴۸ ۷۔ اقبال نامہ، اول، لاہور، شیخ محمد اشرف ۱۹۴۵ء ص ۴۱۳، ۴۱۴ ۸۔ موتمر عالم اسلامی بیت المقدس میں تقریر، ۴ دسمبر ۱۹۳۱ء مشمولہ: سفر نامہ اقبال (مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی) کراچی، مکتبہ معیار ۱۹۷۳ئ، ص ۱۷۲، ۱۷۳ ۹۔ زندہ رود، اول ، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز،۱۹۷۹ئ، ص ۱۶ ۱۰۔ مکتوب بنام کریم بی بی مشمولہ: زندہ رود، دوم، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۱ء ص ۱۳۳ ۱۱۔ اقبال نامہ، اول،ص ۲۳۱ ۱۲۔ اقبال نامہ، اول، ص ۳۸۷۔ ۳۸۸ ۱۳۔ انوار اقبال (مرتبہ: بشیر احمد ڈار) لاہور، اقبال کادمی پاکستان، ۱۹۷۷ء ص ۱۹۲ ۱۴۔ ایضاً، ص ۲۱۶ ۱۵۔ روز گار فقیر دوم، کراچی، لائن آرٹ پریس، ۱۹۶۴، ص ۲۶۰ ۱۶۔ باقیات اقبال، ص ۵۷۰ ۱۷۔ اقبال نامہ، دوم، ص ۳۶ ۱۸۔ غلام رسول مہر، اقبالیات، لاہور، مہر سنز لمیٹڈ، ۱۹۸۸ئ، ص ۲۵۱ تا ۲۶۹، مختلف مقامات ۱۹۔ روز گار فقیر، اول (فقیر سید وحید الدین) کراچی، لائن آرٹ پریس، ۱۹۶۶ء ص ۳۷ ۲۰۔ اقبال نامہ، دوم، ص ۳۹۷۔ ۲۱۔ اقبال نامہ، اول، ص ۳۳۸۔ علامہ اقبال نے یہ رباعی محمد رمضان عطائی کو بخش دی تھی، اسی لیے یہ ارمغان حجاز میں شامل نہیں ہے، البتہ یہی مفہوم ارمغان حجاز (ص ۱۸) کی درج ذیل رباعی میں موجود ہے: بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہؐ مارا حساب من ز چشم او نہاں گیر ۲۲۔ اقبال نامہ، دوم، ص ۳۴۱ ۲۳۔ خطوط اقبال، مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، لاہور، مکتبہ خیابانِ ادب، ۱۹۷۶ء ص ۲۷۷، ۲۷۸ ۲۴۔ روز نامہ انقلاب لاہور ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ء بحوالہ: حیات اقبال کے مخفی گوشے (مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی) لاہور، ادارہ تحقیقات پاکستان، ۱۹۸۸ئ، ص ۵۶۷ ۲۵۔ اقبال کا قیام لاہور، اور نقوش لاہو ر، ستمبر ۱۹۶۷ئ، ص ۲۱ ۲۶۔ اقبال نامہ، اول، ص ۲۲۵۔ ۲۲۶ ۲۷۔ڈاکٹر جاوید اقبال، زندہ رود، سوم، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۸۴ء ص ۶۳۱ ۲۸۔ روایت شیخ اعجاز، روز گار فقیر، دوم، ص ۲۰۵۔ ۲۹۔ اقبال نامہ، اول، ص ۲۲۸ تا ۲۲۹ ۳۰۔ اقبال کے حضور، مرتبہ: نذیر نیازی، لاہور، اقبال اکادمی، ۱۹۷۱ء ص ۳۷، ۳۸ ۳۱۔ روز نامہ ’’انقلاب‘‘ لاہور ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ء بحوالہ حیات اقبال کے مخفی گوشے ، ص ۵۶۱، ۵۶۲ ۳۲۔ اقبال کے حضور، ص ۳۷، ۳۸، کلیات اقبال فارسی (ارمغان حجاز ۹۰۱/۱۹) میں رباعی کا پہلا مصرع اس طرح ہے: بدن وا ماند و جانم در تگ و پوست ۳۳۔ کاروان مدینہ: کراچی نشریات اسلام، ۱۹۷۵ء ص ۱۴۳ ۳۴۔کلیاتِ اقبال، فارسی (رموزِ بے خودی)، ص ۱۷۰ ۳۵۔ایضاً نیٹشے، رومی اور اقبال عبدالماجد دریا بادی نیٹشے کی ڈالی ہوئی گرہوں کے سلجھانے پر آیئے، تو بات شیطان کی آنت بن کر رہے۔ جتنی سلجھایئے، اتنی اور الجھتی جائے… خلاصہ در خلاصہ دو لفظ یہ سن لیجئے کہ جرمنی کے یہ فلسفی صاحب خالق اور مخلوق دونوں سے کچھ روٹھے ہوئے پہلے ہی سے تھے، شوپن ہائر کی پڑھائی نے اور مردم بیزار کر دیا اور ڈارون صاحب کے نظریۂ ارتقا نے اس کڑوے کریلے کو نیم چڑھا کر چھوڑا… مذہب کے جکڑ بند سے بیزاری اور خیال و عقیدہ کی آزادی پہلے ہی سے تھی، اب بالکل بے قید ہو کر دعوے یہ کر دیئے کہ مذہب خصوصاً مسیحی مذہب کی قائم کی ہوئی روحانی و اخلاقی قدریں نری ایک ڈھکوسلا۔ یہ انکسار،یہ فروتنی، یہ علم، یہ قناعت، یہ توکل، یہ صبر، یہ شکر، یہ سب بچوں کے بہلانے کے کھلونے ہیں۔ ان میں نہ حقیقت نہ مغز، انھیں اختیار کر کے جیتے جی مر رہنا ہے اور اب چاہے کوئی فرد و شخص ہو یا جماعت امت اگر اسے عزت و آبرو، لطف و آسائش کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنا ہیں تو عقیدہ و عمل کی ان خوش خیالیوں کو آگ، حشرونشر، جنت و دوزخ کے چکر میں نہ پڑیئے۔ گردن اٹھا کر سینہ تان کر چلیے، اپنے کو ’’ذرۂ بے مقدار‘‘ نہ کہیے، نہ سمجھیے۔ آپ حاکم خود مختار ہیں۔ اپنا نصب العین ، حکومت، حاکمیت، غلبہ، تسلط و اقتدار کو بنایئے۔ بالادستی کو اپنا شعار رکھیئے۔ جو کمزور راہ میں حائل نظر آئے، اسے کچل دیجئے۔ اوروں کو گرایئے، اپنے کو بڑھایئے۔ رحم و خدا ترسی کے نام پر اپنا دل نہ پگھلایئے۔ حالات کا مقابلہ کلہ برکلہ کیجیے۔ اسے روندیے ، اسے پیسیے، خدا وُدا کے وہم میںنہ پڑیئے۔ انسان خاک نژاد میں رکھا کیا ہے۔ جنّی آتش زاد بن کر کچھ دکھایئے۔ بشریت کا دور گزر گیا۔ اب زمانہ فوق البشر بن کر ٹھسے سے رہنے کا ہے۔ نیٹشے کی اس تعلیم کا اثر وقت کی سیاست پر جو پڑ کر رہا اور ملک پر جونشہ پندار تفوق کا اس سے سوار ہوا، اس کا دردناک، ہولناک، خون بارتماشا دوست دشمن سب نے جرمنی کی دونوں جنگوں میں دیکھ لیا۔ اقبال کا سال پیدائش ۱۸۷۸ء ہے۔ ان کی جب اعلیٰ تعلیم کا وقت آیا تو نیٹشے کی شہرت کا آفتاب چمکا ہوا تھا۔ لاہور، انگلستان، جرمنی سب کہیں کی تعلیم میں نیٹشے کی شخصیت اثر انداز رہی جہاں تک نیٹشے کے پر شکوہ الفاظ اور رعب افگن اصطلاحات کا تعلق ہے اقبال کا دامن نیٹشائی جاہ و جلال سے خاصا متاثر رہا۔ ’’شاہین‘‘ ’’شاہین زادہ‘‘ ’’عقاب‘‘ کی تلمیحیں کلام اقبال میں بار بار ملتی ہیں۔ یہ سب اسی سر پھرے فلسفی ہی کا فیض ہے اور مخالف طریقوں کو گو سفندی سے تعبیر کرنا، یہ بھی اس کی اپچ کی تقلید ہے۔ لیکن بس اقبال کی خوشہ چینی اس جرمن حکیم سے اسی حد پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے جن ناقدوں نے بعض ظاہری الفاظ اور سطحی مشابہت سے دھوکا کھا کر اقبال کو نیٹشے کا طفیلی کسی معنی میں بھی قرار دیا ہے، انھوں نے اقبال پر بھی ظلم کیا ہے اور خود اپنے ذوق سلیم پر بھی۔ اقبال کی نظر آفاقی تھی۔ ان کے اصول اخلاق میں کائنات کی گہرائی روحانیت کی ہم وسعتی تھی، وہ بھلا مادی حد بندیوں کے اندر کیسے محصور رہ سکتے تھے۔ ان کے ہاں بلا کا توازن تھا۔ نیٹشے کو جیسا انھوں نے پہچانا ہے، کم ہی کسی نے پہچانا ہو گا۔ وہ اس کی گرمیِ گفتار کے قائل ہیں، اسے مانتے ہیں کہ اس نے مغرب کی مصنوعی تہذیب و تمدن پر اپنی شمشیر قلم سے خوب خوب چر کے لگائے ہیں ؎ حرف اوبیباک و افکارش عظیم غربیاں از تیغِ گفتار ش دو نیم لیکن اس کے باوجود اس کا مرتبہ وہ ایک مجذوب اور وہ بھی مجذوب فرنگ سے آگے نہیں بڑھاتے۔ وائے مجذو بے کہ زاد اندر فرنگ! اپنے فارسی کلام میں ذکر اس کا بار بار لائے ہیں، لیکن یہ کہاں تک ذکر خیر ہے اس کا اندازہ بس اس ایک مصرع سے لگا لیجئے ؎ قلب اور مومن، دما غش کا فرست اسی کو کہتے ہیں دریا کو کوزہ میں بند کرنا اور نظم کا جوہر ایک مصرعہ میں سمود ینا ۔ متن کی شرح بھی خود ہی ایک حاشیہ میں یہ کر دی ہے کہ ’’اس کا دماغ اس واسطے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے گو بعض اخلاقی نتائج اسلام کے بہت قریب ہیں‘‘ اقبال مسلک گو سفندی سے بے شک بیزار ہیں اور اس کی ہجو کھل کر اپنی مثنوی… اسرارخودی میں کی ہے۔ لیکن اس سے مراد ان کی صرف بعض فرقوں اور مذہبوں کی اس تعلیم سے ہے جو انسان کو ناکارہ بنا دیتی ہے اور بجائے سخت کوشی، جدوجہد اور ہمتِ عمل کے اسے پیام مجہولیت کا دیتی رہتی ہے۔ اس ملک کو انھوں نے منسوب یونان کے حکیم افلاطون سے کیا ہے اور ان کی تشخیص ہے کہ مسلمان صوفیوں، شاعروں، و اعظوں کے ایک گروہ نے یہ سبق وہیں سے لیا ہے، اور اس کی مصوری انھوں نے یوں کی ہے کہ ایک جنگل میں بھیڑ بکریاں رہا کرتی تھیں اور مزے سے خوب اپنے گھاس چرا کرتیں کہ اتفاق سے شیروں کا بھی اس صحرا میں گزر ہو گیا اور قدرۃً انھوں نے اپنی شیری دکھائی اور بھیڑ بکریوں کی ہڈیاں چبانی شروع کر دیں۔ ان کا صفایا ہونے لگا اور ان کے سارے قبیلے میں کھلبلی مچ گئی۔ اتنا دم ان میں کہاں تھا کہ شیر سے مقابلہ کو کھلے بندوں سوچ بھی سکیں۔ آخر ان میں سے ایک بوڑھی بکری بڑی کائیاں نکلی، اس لیے بڑے سوچ بچار سے کام لے کر یہ بات دماغ سے اتاری کہ گو سفندی میں شیری پیدا کرنا تو دائرہ امکان سے باہر ہے، البتہ مسلسل وعظ و تلقین کے بعد شیر کو بھیڑ بنایا جا سکتا ہے اور جن کو شیشہ میں اتارا جا سکتا ہے۔ اپنے کو بگلا بھگت بنا، خوب پرچار اپنی درویشی اور بے آزاری کا کیا، یہاں تک کہ خود شیر بھی اس کے حلقۂ عقیدت میں آ آ کر بیٹھنے لگے۔ اب اس نے اپنے وعظ کی باگ یوں موڑی ؎ اے کہ می نازی بہ ذبحِ گوسفند ذبح کن خود را کہ باشی ارجمند دوسروں کو مارنے اور ان کی جان لینے میں کیا رکھا ہے، اپنے کو مار کر رکھو اور سعادت کے بام عروج پر پہنچو۔ شیر خود ہی اپنی سخت کوشی سے تھک چکا تھا اور ہر وقت کی دوڑ دھوپ سے عاجز آ چکا تھا۔ افسوں کا ر گر ہو گیا اور اس نے بھی گھاس کھانا شروع کر دی۔ از علف آں تیزیء دنداں نماند ہیبتِ چشمِ شرر افشاں نماند شیر بیدار از فسون میش خفت انحطاط خویش را تہذیب گفت شیر اس دام میں آ گیا، شیری چھوڑ بکری بن گیا۔ گھاس کھا کھا کر نہ دانتوں کی وہ کاٹ رہی، نہ چیر پھاڑ اور نہ پنجوں میں وہ کس بل۔ انسان اسی طرح دنیا کی آرائشوں اور آلائشوں میں مبتلا اور یہاں کی وقتی لذتوں پر فریفتہ ہوا۔ اپنا منصب انسانیت بھلا بیٹھا اور لذتی مشغلوں کو مقصود زندگی بنا اپنے لئے ایک نظام زندگی تکلف ، تصنع، تعیش سے بھرا ہوا گھڑ لیا اور اپنا دل سمجھانے یا اپنے نفس کو فریب دینے کو اس مجموعہ کا نام تہذیب و تمدن رکھ لیا۔ اقبال کی تلقین ہے کہ انسان تو دنیا میں اپنے خالق کا نائب بن کر آیا ہے۔ اس کا کام، تکوینی و تشریعی، ہر حیثیت سے اس کی نیابت کرنا ہے اور علم اور عشق دونوں کی راہ سے اس کی معرفت حاصل کرنا ہے اور اس کے قانون کو نافذ کرنا ہے۔ نیٹشے کے فوق البشر سے دور، اور بہت دور، اقبال کا مطمح نظر ایسا مرد کامل ہے جو جسمانی، دماغی، اخلاقی، روحانی اعلیٰ قوتوں سے مسلح ہو اور اپاہج ، کام چور، بدہمت نہ ہو۔ صاحب عزم و عزیمت ہو اور اپنے فرائض کی ادائی میں چاق و بیدار، مستعدو متحرک ہو۔ خود دکھ اٹھائے دوسروں کو سکھ پہنچائے۔ خود بھوکا رہے دوسروں کو کھلائے۔ خواہشوں کا غلام نہ ہو، ان پر حاکم ہو۔ اقبال اپنے بعض فلسفیانہ مقالوں میں جدھر بھی چلے گئے ہوں لیکن ان کے ضخیم دفتر شاعری میں ایسے مرد کامل کے لیے مذہب کی زبان میں اصطلاح مرد مومن کی ہے فارسی میں اس کو انھوں نے ؎ اے سوار اشہب دوراں بیا کہہ کر پکارا اور بلایا اور اردو میں تو بار بار جان و دل اس کے صدقے کئے ہیں۔ نمونہ کے طور پر صرف ایک مقام ملاحظ ہو ؎ ہر لحظ ہے مومن کی نئی آن نئی شان گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان فطرت کے سرودِ ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفت سورۂ رحمان اقبال نے طلب علم میں استفادہ اپنے انگلستان اور جرمنی کے استادوں سے نہیں، مشرق اور ہندوستان کے بھی خدا معلوم کن کن زندہ و مرحوم بزرگوں، عالموں، فاضلوں، شاعروں سے کیا (اور کون نہیں کرتا)، چنانچہ بہتوں کے نام صراحت کے ساتھ ان کی نظم و نثر دونوں میں مل جاتے ہیں، لیکن اصل اور پختہ عقیدت انھیں ان ساری باکمال ہستیوں میں صرف ایک شخصیت سے رہی ہے۔ اس کو وہ مرشد روشن ضمیر مانتے ہیں۔ انھیں کی روحانیت کا سہارا ہے کہ وہ فرش خاک سے اڑ کر عالم بالا تک پہنچتے ہیں اور انھیں کا دامن پکڑ کے آسمان کی سیر کر ڈالتے ہیں۔ ہر سوال کا جواب انھیں سے پاتے ہیں اور ہر گرہ انھیں کے ناخن حکمت و معرفت سے کھلواتے ہیں۔ ان کے مناقب جہاں کہیں لکھے ہیں منقبت نگاری کا حق ادا کر گئے ہیں اور نظر ایسا آتا ہے کہ محبت و عقیدت کے جذبات کے دھارے بے اختیار سینے سے ابلے پڑتے ہیں۔ ایک جگہ یہ انداز ہے ؎ پیر رومی مرشد روشن ضمیر کاروان عشق و مستی را امیر اور دوسری جگہ کا انداز اس سے زائد والہانہ ؎ طلعتش رخشندہ مثلِ آفتاب شیب او فرخندہ چو عہد شباب فکرِ او روشن ز نور سرمدی در سراپایش سرور سرمدی برلب او برپہنسانِ وجود بند ہائے حرف و صوت از خود کشود اس طرح جہاں جہاں بھی ذکر لاتے ہیں۔ اگر انھیںسب اکٹھا کر دیا جائے تو عجب نہیں کہ خود ایک مقالہ تیار ہو جائے اور لیجیے خود لاہوتی نے نواز، اس آسمانی بانسری والے کے نغمے اگر زیرو بم کے ساتھ چھڑ گئے تو رات تمام ہو جائے اور وہ لذیذ حکایت ختم ہونے ہی میں نہ آئے۔ اقبالیاتِ ماجد اقبال اکیڈیمی ، حیدر آباد، دکن۲۰۰۰ء رومی اور اقبال ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم چو رومی در حرم دادم اذاں من ازو آموختم اسرارِ جاں من بہ دور فتنہء عصر کہن او بہ دور فتنہء عصر رواں من اقبال نے ان اشعار میں جو دعویٰ کیا ہے وہ کوئی شاعرانہ تعلّی نہیں بلکہ اظہار حقیقت ہے۔ اقوام کو جس قسم کے فتنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں کوئی فتنہ سیاسی ہوتا ہے کوئی علمی یا عقلی اور کوئی فتنہ اخلاقی اور روحانی۔ کسی ملت کی اساسی حیثیت کی استواری کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ وہ کہاں تک ان مختلف اقسام کے زلزلوں سے متزلزل ہو کر پھر اپنا توازن قائم کر سکتی ہے۔ اسلام اپنی چودہ سو سال کی تاریخ میں ہر قسم کے فتنوں سے دو چار ہوتا رہا ہے۔ رسول کریم ؐ کی وفات کے بعد ہی تمام عرب میں عدمِ ادائیگیِ زکوٰۃ کا فتنہ بپا ہوا اور جھوٹی نبوّت کے مدعی پھر بڑے بڑے قبائل کو ساتھ ملا کر الحاد پر تل گئے۔ حضرت عمر فاروق ؓ جیسے قوی ارادے والا عظیم الشان انسان بھی کچھ عرصہ کے لئے متذبذب اور متزلزل ہوا، لیکن حضرت ابوبکرؓ کی بصیرت نے جلد ان کی ہمت بندھا دی۔ اس کے بعد رنگا رنگ کے سیاسی اور عقائدی فتنے بپا ہوتے رہے لیکن اسلامی تہذیب و تمدن و سیاست دنیا پر چھاتی گئی۔ اس کے بعد سب سے زیادہ ملت کو بیخ و بن سے اکھاڑ دینے والا فتنہ، فتنۂ تاتار تھا جس کے متعلق اسلام کے ضامن خدا نے یہ معجزہ دکھایا کہ بقول اقبال: پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے اقبال نے ان اشعار میںایک فتنۂ عصرِ کہن کا ذکر کیا ہے جس کو فرو کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے رومی کو خدا نے ایک خاص وجدان اور ایک خاص انداز بصیرت بخشا تھا۔ رومی کے زمانہ میںشدید قسم کے سیاسی فتنے بھی موجود تھے، لیکن اقبال جس فتنے کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ عقلی، اخلاقی اور روحانی فتنہ ہے۔ رومی کے عہد میںایک محدود قسم کی، یونانی حکما سے اخذ کردہ، عقلیت نے اسلامی عقائدکو منطق اور علم الکلام کی ایک چیستاں بنا دیا تھا اور سادہ روحانیت والے لوگ اس سے بیزار ہو کر پکار اٹھتے تھے: رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست برِ عاشقاں جز خدا ہیچ نیست اسلام بھی انسان کو تدبر اور تفکر اور مظاہر ارض وسمٰوات کا گہرا مطالعہ کرنے کی تلقین کرتا ہے اور عقل کو استعمال نہ کرنے والوں کو جانور بلکہ اس سے کمتر مخلوق گردانتا ہے، لیکن جس قسم کی عقل کو قرآن کریم استعمال کرنے کی تعلیم دیتا ہے وہ عقل ایسی ہونی چاہئے جو انفس و آفاق کے وسیع مطالعہ پر مبنی ہو اور غیر ملوث بصیرت سے اس سے صحیح نتائج اخذ ہو سکیں۔ اگر یہ بات نہ ہو تو عقل فقط ظنیات کے ساتھ کھیلتی رہتی ہے اور اس کھیل میںاس کو لذت ملنی شروع ہو جاتی ہے۔ مولانا روم کے زمانہ میں عقلیات کا ڈھانچہ کچھ اسی انداز کا تھا جو نہ مشاہدئہ فطرت میں معاون ہوتا تھا اور نہ توسیع و تزکیۂ نفس میں۔ اس قسم کی بحثیں کہ کلام الٰہی حادث ہے یا قدیم، ذات صفات سے الگ ہے یا اس سے غیر منفک طور پر وابستہ، تعددِ صفات سے توحید میںشرک پیدا ہوتا ہے یا نہیں، خدا ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے یا نہیں اور توحید تمام علائق اور اضافات سے منزہ ہو کر خالص ہوتی ہے یااضافات اس کا لازمی جزو ہیں۔ اس قسم کی منطقی بحثیں جزوِ دین بن گئی تھیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان بحثوں نے اصلی دین کو برطرف کر کے اس کی جگہ لے لی تھی۔ کچھ سیاسی دھڑے بندیوں نے اور کچھ اس قسم کے لاطائل مباحث نے فروعی اور غیر اصلی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں میں بے شمار فرقے پیدا کر دیئے تھے۔ معقولات والوں کا یہ حال تھا کہ وہ یونانی حکماء کے مرید ہو گئے تھے اور ان کے ظنیات کو وحیِ الٰہی کا درجہ دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم اہل عقل ہیں، لیکن تھے حقیقت میں وہ بھی اہل نقل۔ ان لوگوں نے ان ظنیات کی اسلام کے ساتھ ایسی آمیزش کی تھی کہ دودھ اور پانی کو الگ کرنا محال ہو گیا تھا۔ متکلمین مناظرہ پسند تھے اور متقشفین ظاہر پرست۔ متکلمین کے ہاں بس قیل و قال تھی اور راسخ العقیدہ کہلانے والے علماء کے ہاں فقط ظاہر پرستی اور لفظ پرستی۔ دین کی روح نہ اس طبقہ میںتھی اور نہ اس طبقہ میں۔ روحانیت کے دعویدار، رہبانیت اور ترک دنیا پر مائل تھے یا کم از کم اس کی تعلیم دیتے تھے۔ ان کے ہاں نہ آفاق کا مشاہدہ تھا، نہ تسخیر فطرت اور تقویت ملت کی خواہش۔ تصوف ایک حیات گریز چیز بن گئی تھی۔ دنیا کا کوئی شعبہ قابل اعتنا نہ تھا۔ قرآن کی تعلیم یہ تھی کہ ظاہر بھی حق ہے اور باطن بھی حق۔ اول بھی حق ہے اور آخر بھی حق۔ خدا کی خلقت اور کائنات میں نہ بطلان ہے اور نہ فتور، لیکن دنیا کو ہیچ سمجھنے والوں نے اس کو دیوانے کا خواب بنا دیا تھا: اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا علم و حکمت کو قرآن کریم خیر کثیر کہتا ہے۔ لیکن صوفیوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ علم حجاب اکبر ہے۔ خداوجود کو حقیقی کہتا ہے اور نعمت کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن صوفی کہتا تھا کہ تیرا وجود ہی سب سے بڑا گناہ ہے۔ صوفیائے کرام جو حقیقت آشنا تھے وہ بھی ان کلمات کو دہراتے تھے، لیکن ان کے ہاں ان کی لطیف تعبیریں تھیں۔ متصوفین کے ہاں ان تصورات نے فرارعن الحیات کا رنگ اختیار کر لیا تھا اور غلط تصوف نے وجود کی بجائے عدم کی توصیف کو اپنا مسلک بنا لیا تھا: صورت وہمی بہ ہستی مہتمم داریم ما چوں حباب آئینہ برطاقِ عدم داریم ما تمام کائنات خدا کا خواب و خیال بن گئی تھی: تا تو ہستی خدائے در خواب است تو نہ مانی چو او شود بیدار خدا جب تک خواب دیکھ رہا ہے یہ کیمیائی کائنات تب تک قائم معلوم ہوتی ہے۔ اگر کہیں وہ جاگ اٹھا تو بس: عدمی عدم عدمی عدم ز عدم چہ صرفہ بری عبث اسلام کا مقصد تھا کہ دنیا میںاس طرح رہا جائے کہ دنیا دین بن جائے لیکن ترک علائق کی تعلیم نے یہ زور پکڑا کہ : ترکِ دنیا، ترکِ عقبی، ترکِ مولیٰ، ترکِ ترک غرض کہ رومی کے زمانہ میں ملّا ظاہر پرست رہ گیا تھا اور فقیہ دفتر پرست۔ یہ گروہ دین کے مغز کو چھوڑ کر اس کی ہڈیاں چبا رہے تھے بلکہ ان ہڈیوں پر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ اسی صورت حال کے متعلق مولانا روم کا یہ مشہور شعر ہے: من ز قرآں برگزیدم مغز را استخواں پیش سگاں انداختم اب غور طلب بات یہ ہے کہ رومی اور اقبال کے زمانوں میںکس قسم کی مطابقت ہے اور ان دونوں نے اپنے اپنے زمانے کے احوال و افکار کی نسبت جو زاویہء نگاہ اختیار کیا، اس میں کیا مماثلت ہے؟ رومی کے زمانہ میں ایک خاص قسم کے عقلی علوم کا چرچا تھا اور ایک خاص انداز کا فلسفہ جزوِ تعلیم بن گیا تھا۔ رومی کی مثنوی پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے تمام عقلی علوم سے کماحقہ، واقف ہے اور ان سے واقف ہوتے ہوئے اور ان میں جس قدر حقیقت کا پہلو ہے، اس کو اپناتے ہوئے بھی کسی محدود اور ظنی عقلیت کا شکار نہ تھا بلکہ ہر مسئلہ پر رومی غیر معمولی بصیرت اور غیرمعمولی جرات سے تنقید کرتا ہے۔ وہ عقل کو خدا کی ایک عظیم نعمت سمجھتا ہے اور حکمت کا دلدادہ ہے، لیکن اس کے ہاں عقل و حکمت کے دائرے بڑے وسیع ہیں۔ اس کی عقل صرف مادیات اور حیات تک محدود نہیں، وہ عقل کو صفات اللہ کا ایک عالمگیر مظہر تصور کرتا ہے۔ چنانچہ کہتا ہے: آں چہ دریا ہاست در پہنائے عقل اس کے نظریہء حیات میں مادے سے لے کر خدا تک زندگی ہی زندگی ہے، لیکن انتہائی پستی سے انتہائی بلندی تک اس کے بہت سے مدارج ہیں۔ ہر درجۂ حیات زندگی ہی کا ایک درجہ ہے اور جہاں زندگی ہے وہاںکسی نہ کسی درجے کی عقل بھی ہے۔ چنانچہ عارف رومی عقلِ جمادی، عقل نباتی، عقل انسانی اور عقل نبوی کے مدارج کا ذکر کرتا ہے۔ خدائے حکیم کی خلقت اور مظاہر میں سے کوئی مظہر حکمت سے خالی نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جس درجے کا مظہر ہے، اسی درجے کی عقل ہے۔ اقبال اور رومی کے ہاںبہت سے نظریات مشترک اور مماثل ملتے ہیں۔ اقبال کا نظریۂ خودی جو اقبال کے کمال کی وجہ سے اس کا اپنا بن گیا ہے، اس کے بنیادی تصورات بھی رومی کے ہاں ملتے ہیں۔ عاصم صوفیا نے فنا اور ترک پر زور دینا عین دین بنا لیا تھا، رومی نے اس کو بقا کے نظریہ میں بدل دیا۔ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ہر ترقی کے لئے پہلی حالت کو فنا کرنا پڑتاہے لیکن مقصود بقا اور ارتقا ہے۔ رومی کے ہاںبھی خودی کا استحکام لازمی ہے اور اس کا طریقہ قوت تسخیر میں اضافہ کرتا ہے۔ عجمی تصوف نے ترک حاجات کو خدا رسی کا ذریعہ قرار دیا تھا۔ رومی کہتا ہے نہیں حاجت تو مصدر وجود اور منبع بہبود ہے۔ ہاں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ حاجات کہیںپست اور حیات کش نہ ہوں۔ زندگی کے تقاضے بلند ہونے چاہئیں۔ رومی کی تلقین اس بارے میں یہ ہے کہ : پس بیفزا حاجت اے محتاجِ زود مثنوی میں اس مصرع کی تشریح میں مولانا روم لکھتے ہیں کہ خدا نے زمین و آسمان بھی عبث نہیں پیدا کئے بلکہ کسی حاجت ہی سے پیدا کئے ہیں۔ اسی خیال کو اقبال طرح طرح سے اپنے فارسی اور اردو کلام میں ادا کرتا ہے: زندگانی را بقا از مدعا ست کاروانش را درا از مدعا ست زندگی درجستجو پوشیدہ است اصل او در آرزو پوشیدہ است آرزو جانِ جہانِ رنگ و بو ست فطرتِ ہر شے امینِ آرزو ست از تمنا رقص دل در سینہ ہا سینہ ہا از تاب او آئینہ ہا اس کے بعد عقل کی آفرینش کا نظریہ اقبال کے ہاں ملتا ہے کہ عقل ندرت کوش و گردوں تاز بھی آرزو ہی کا اعجاز ہے اور عقل آرزو ہی کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ اقبال اور رومی میں اور بھی کئی مشترک باتیں ہیں۔ دونوں بقا پرست ہیں اور دونوں ارتقا پسند۔ مولانا فرماتے ہیں کہ تمام زندگی خدا ہی کی ذات سے سرزد ہوتی ہے اور تمام زندگی کا میلان خدا کی طرف رجعت ہے، کیونکہ وجود کا اصل اصول یہ ہے کہ ہر چیز اپنے اصل کی طرف عودکرتی ہے۔ کل شیء یرجع الٰی اصلہٖ، ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش اس رجعت الی اللہ میں ہر چیز اوپر کی طرف اٹھ رہی ہے۔ ہر وجود کے اندر صرف اپنے آپ کو قائم رکھنے ہی کا میلان نہیں ہے بلکہ اپنے مخفی ممکنات کو ظہور میں لانے کی مضطر با نہ آرزو ہے۔ تمنائے رفتار سے پائوں پیدا ہوتے ہیں اور تمنائے نواسے منقار۔ چونکہ خدا کی ذات لامتناہی ہے اس لئے مرحلہ کبھی بھی طے نہیں ہو سکتا: ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلیّ اللہ کرے مرحلہء شوق نہ ہو طے قرآن کریم کہتا ہے کہ آفاق آدم کے لئے مسخر ہو سکتے ہیں اور اقبال اور رومی دونوں فقط آفاق کی تسخیر پر قناعت نہیں کرتے۔ عارف رومی کہتا ہے۔ بزیر کنگرئہ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر اور اقبال اس کا ہم نوا ہو کر پکارتا ہے: در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ اقبال اور رومی کے ہاں عقل اور عشق کا مضمون بھی مشترک ہے۔ عقل اور عشق کے مقامات بھی ان دونوں کے ہاں ایک ہی قسم کے ہیں۔ دونوں کے ہاں زندگی اور خودی کی اصل عشق ہے۔ عشق ہی بقا اور ارتقا کا ضامن ہے۔ عقل عشق کا اولین مظہر سہی لیکن بہرحال مظہر ہے۔ عقل عشق کا آلۂ کار ہے۔ عقل عشق کی مقصد برآر ی کی معاون ہے۔ زندگی کا حضور عشق کو حاصل ہے، اگرچہ اس کے ظہور میں عقل کارفرما ہے: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنّت ہے جس میں حور نہیں عقل سے اسرارِ آفاق فاش ہوتے ہیں، لیکن عشق سے اسرارِ ذات کا انکشاف ہوتا ہے: مذہبِ عشق از ہمہ دیں ہا جداست عشق اصطرلاب اسرار خداست دونوں کے ہاں عشق کا مفہوم عام مفہوم سے اس قدر الگ ہو گیا ہے کہ مولانا روم لوگوں کو خبردار کرتے ہیں کہ جس عشق کا میں ذکر کرتا ہوں اس کو کہیں اشیا اور اشخاص کی طلب کا جذبہ نہ سمجھ لینا: ایں نہ عشق است ایں کہ در مردم بود ایں فساد از خوردنِ گندم بود دونوں کا عشق خودی میں خدا کی صفات پیدا کرنے کی کوشش اور تخلقوا باخلاق اللّٰہ کی تفسیر ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: عشق آں زندہ گزیں کو باقی است وز شراب جانفزایت ساقی است اشیاء اور اشخاص کا عشق ایک آنی جانی چیز ہے۔ محبوب کے بدل جانے سے عشق بھی بدل جاتا ہے اور محبوب کے فنا ہو جانے سے اس کا عشق بھی زود و دیر فنا ہو جاتا ہے۔ دونوں کا عشق انفس و آفاق کی تمام کیفیتوں کو اپنانا اور جزوِ حیات بناناہے۔ یہ عشق عالم رنگ و بو اور عالم آب و گل تک محدود نہیں رہ سکتا : تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگیِ داماں بھی ہے آخر میں ایک اور مسئلے میں رومی اور اقبال کا اشتراکِ عقیدہ قابل بیان ہے۔ صوفی ہو یا ملا، متکلم ہو یا حکیم، سب نے جبر کا عقیدہ جزو دین اور جزو حکمت بنا رکھا تھا اور تقدیر کا ایک غلط مفہوم قائم کر رکھا تھا کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ازل سے متعین ہے۔ زاہد کا زہد اور رند کی رندی، محتسب کا احتساب اور چور کی چوری، سب مرضیِ الٰہی سے سرزد ہوتی ہیں۔ جبر کا یہ عقیدہ مسلمانوں کے عقائد اور ان کے ادبیات میںایسا عام ہو گیا کہ زندگی کی جدوجہد کی قوتیں اس سے بری طرح متاثر ہوئیں: حافظ بخود نہ پوشید ایں خرقہء مے آلود اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا در کویِ نیک نامی مارا گزر نہ دارند گر تو نمی پسندی، تغییر کن قضارا یا میر تقی میر کہتے ہیں: ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا ’قد جف القلم‘ کے یہ معنی لئے گئے ہیں کہ کاتب تقدیر کا قلم ابدالآباد تک سب کی تقدیر مفصل درج کرنے کے بعد سوکھ گیا۔ اب اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ حکما و صوفیا میں مولانا روم واحد شخص ہیں جنہوں نے تقدیر کی اس تعبیر کے خلاف بڑا مدلل اجماع کیا اور فرمایا کہ تقدیر خدا کے معین کردہ آئین کا نام ہے۔ تقدیر زاہد کو زہد پر یا چور کو چوری پر مجبور نہیں کرتی بلکہ یہ کہتی ہے کہ خدا کا یہ قانون اٹل ہے کہ تقویٰ سے ایک خاص قسم کے نتائج صادر ہوں گے، اور عصیان و طغیان سے دوسری قسم کے۔ اسی کا نام سنت اللہ ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اقبال بھی بڑی شدت سے انسان کی خودی میں اختیار کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کافر مجبور ہوتا ہے اور مومن مختار اور اپنی خودی کو بلند کر کے مومن ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی رضا خدا کی رضا سے ہم کنار ہو جاتی ہے: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے مولانا روم ایک لطیف استدلال کرتے ہیں کہ جبر و اختیار کا مسئلہ تو کتے کو بھی معلوم ہے۔ کتے کو جب کوئی پتھر مارتا ہے تو حالانکہ چوٹ پتھر سے لگتی ہے، لیکن وہ پتھر کو کاٹنے نہیں دوڑتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پتھر مجبور ہے، مارنے والا مختار ہے، اس سے بدلہ لینا چاہیے، چنانچہ وہ پتھر مارنے والے کو کاٹنے دوڑتا ہے۔ اقبال اور رومی دونوں کا خیال ہے کہ تقدیر کے غلط مفہوم نے انسان کی خودی اور اخلاقی زندگی کو سخت نقصان پہنچایا ہے، اسی لئے ان دونوں نے اس کی شدید مخالفت کی ہے اور تقدیر کا ایسا مفہوم پیش کیا ہے جو انسانی خودی اور جدوجہد کی قوتوں کو ابھارے اور زندگی کو سنوارے۔ ماہ نو، اپریل ۱۹۵۲ء مقالات حکیم،مرتبہ: شاہد حسین زراقی، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۶۹ء حافظ اور اقبال ڈاکٹریوسف حسین خاں اقبال نے اسرار خودی کے پہلے اڈیشن کے منظوم باب میں حافظ کی شاعری پر اعتراض کیا تھا کہ اس سے مسلمانوں میں بے عملی پیدا ہوگی۔ اس نے ادبیات اسلامیہ کی اصلاح کے لیے جو اصول پیش کیے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ فنی مقاصد سے زیادہ اخلاقی مقاصد کو عزیز رکھتا تھا۔ تصوف پر بھی اس کی یہ تنقید تھی کہ اس کے نزدیک وہ خواب آور ہے۔ چنانچہ اس نے خودی کا نیا تصور پیش کیا جواب تک خانقہی تصوف میں مذموم خیال کیا جاتا تھا۔ یہ تصور عمل اور آرزو مندی کا آئینہ دار اور اس کے انفرادی اور اجتماعی مقاصد سے ہم آہنگ تھا۔ اس نے متصوف شاعروں کو مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کا ذمہّ دار ٹھہرایا۔ میرے خیال میں اقبال کی یہ تنقید اسی طرح یک طرفہ تھی جس طرح اس کی افلاطوں پر تنقید تھی۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو خود اقبال کے بعض خیالات پر افلاطوں کا اثر ہے۔ مقصد پسندی کے ادب میں افلاطوں کے اصولِ فن کار فرما نظر آتے ہیں۔ افلاطوں کا کہنا تھا کہ فن (آرٹ) کو اخلاق کا تابع ہونا چاہیے۔ فن کی تخلیق مملکت کے مجموعی مفاد کے مطابق ہونی چاہیے۔ افلاطوں نے اپنے فلسفی بادشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ صرف ان شاعروں کو ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے جونکوکاری کی تلقین کرتے ہوں اور جن کی شاعری سے اجتماعی مقاصد کو فروغ حاصل ہوتا ہو۔ دراصل اقبال نے افلاطوں پر جو الزام لگایا اس کا اطلاق فلاطینوس اسکندری (پلاٹینس) پر ہوتا ہے جس کے نو افلاطونی تصوف کا اثر صوفیانے قبول کیا جن میں اقبال کے مرشد مولانا روم بھی شامل ہیں۔ لیکن مولانا کے عشق کے جوش اور ولولے نے ان کے تصوف کی قلب ماہیت کردی اقبال نے اسی چیز کی پیروی اور تقلید کی اور اپنا روحانی سفر ان کی رہبری میں طے کیا۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی شخصیت ادبی ذوق کے معاملے میں منقسم تھی۔ ایک طرف تو وہ حسنِ بیان اور ادبی لطف کو پسند کرتا تھا اور دوسری جانب کہتا تھا کہ مجھے رنگ و آبِ شاعری سے کوئی سروکار نہیں۔ مجھ پر شاعر ہونے کی تہمت کیوں لگاتے ہو؟ اس نے اُردو اور فارسی دونوں میں شاعری کی۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کی مادری زبان نہیں تھی۔ اس نے ان دونوں زبانوں کی تحصیل میں بڑی ریاضت کی۔ یہ اس کے وسیع مطالعے کا پھل تھا کہ اس نے دونوں زبانوں میں پوری قدرت حاصل کی۔ یہی نہیں بلکہ اپنا خاص اسلوب تخلیق کیا جو پہچانا جاتا ہے۔ شروع شروع میں لکھنئو کے ادیبوں اور شاعروں نے اس کی زبان کو غیر فصیح کہا لیکن تھوڑے دنوں بعد سب اُردو والوں نے اسے اپنا سب سے بڑا شاعر مانا۔ اہل ایران نے بھی اس کی فارسی کی ترکیبوں اور محاوروں پر اعتراض کیا تھا لیکن اب وہ بھی اس کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایران میں اس کی شاعری پر بعض اونچے درجے کے ادیبوں نے اپنی آراء شائع کیں اور اس کی شاعری کو سراہا (۱) اقبال نے فنی کمال حاصل کرنے کے لیے بڑی ریاضت کی اور اس بات کو ایک عالم گیر اصول کے طور پر پیش کیا کہ بغیر محنت کوئی فنی کمال کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتا۔ ایجاد معافی، میں اس نے حافظ اور بہزاد کی مثال پیش کی ہے اس انداز سے کہ گویا یہ دونوں دنیا کے سب سے بڑے فنکار ہیں: ہرچند کہ ایجاد معافی ہے خدا داد کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد خونِ رگِ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر میخانۂ حافظ ہو کہ بت خانۂ بہزاد بے محنت ِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شررِ تیشہ سے ہے خانہ فرہاد اقبال کی منقسم شخصیت کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ حافظ پر کڑی تنقید کرنے کے باوجود وہ اس کے حسنِ ادا اور لطافتِ بیان کا قائل تھا اور شعوری طور پر کوشش کرتا تھا کہ اپنی فارسی غزلوں میں اس کا رنگ و آہنگ پیدا کرے اور اس کے رموز علائم کو برتے۔ اس نے حافظ کے استعاروں اور کنایوں کو اپنے فکر و فن میں رنگینی پیدا کرنے کے لیے سمونے کی پوری کوشش کی اور میرا خیال ہے کہ وہ بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا۔ اقبال نے خلیفہ عبدالحکیم سے جو اس کے مقربوں اور معتقدوں میں تھے، ایک مرتبہ گفتگو کے دوران میں کہا تھا کہ: ’’بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔‘‘(۲) اس کے باوجود اقبال کا خیال تھا کہ حافظ کی دلبرانہ شاعری سخت کوشی اور زندگی کی جدوجہد کے منافی ہے اور اس کی خوش باشی اور تسلیم و رضا کی تعلیم سے مسلمانوں کی عملی صلاحیتیں مفلوج ہوجائیں گی۔ وہ حافظ کی رندانہ بے خودی، مے گساری اور زندگی کی بے ثباتی کی تلقین کو ان اخلاقی مقاصد کی ضد سمجھتا تھا جو اس کے پیش نظر تھے۔ اس سے قبل حالی نے بھی اسی قسم کے خیالات ظاہر کیے تھے اور اُردو کی عاشقانہ شاعری کو ’ناپاک دفتر‘ کہا تھا جس کی عفونت سے اجتماعی زندگی زہر آلود تھی۔ حالی نے بھی سرسید احمد خاں کی تحریک کے اثر میں افلاطونی اصول کا پرچار کیا تھا کہ ادب کو اخلاق کا تابع ہونا چاہیے۔ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے اپنی زندگی کا یہ مقصد ٹھہرایا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو عمل کے لیے متحرک کرے، اس لیے اس نے نوجوان مسلمانوں کو حافظ کی دلبرانہ شاعری کے مضر اثرات سے آگاہ کیا اور ان کی توجہ اجتماعی مقاصد کی طرف مبذول کی۔ چنانچہ اسرار خودی کے پہلے اڈیشن میں اس نے کہا: ہوشیار از حافظ صہبا گسار جامش از زہر اجل سرمایہ دار رہن ساقی خرقۂ پرہیز او می علاج ہول رستا خیز او نیست غیر از بادہ دربازار او از دو جام آشفتہ شد دستار او آں فقیہ ملّت می خوارگاں آں امام امت بی چارگاں نغمۂ چنگش دلیل انحطاط ہاتفِ او جبرئیل انحطاط مار گلزاری کہ دارد زہر ناب صید را اول ہمی آرد بخواب بی نیاز از محفل حافظ گذر الحذر از گوسفنداں الحذر لطف یہ ہے کہ اس کڑی تنقید میں بھی اقبال، حافظ کے پیرایۂ بیان کے جادو سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ اس کا یہ مصرعہ ’’از دو جام آشفتہ شد دستارِ او‘‘ حافظ کے اس شعر کی آوازِ باز گشت ہے جس میں اس نے صوفی کی کم ظرفی ظاہر کی ہے کہ تھوڑی سی پی کر اس نے اپنی ٹوپی ٹیڑھی کرلی۔ دو پیالے اور پی لیتا تو اس کی پگڑی کھل کر زمین پر گر جاتی: صوفی سرخوش ازیں دست کہ کج کرد کلاہ بدو جام دگر آشفتہ شود دستارش اقبال کا یہ مصرعہ ’’از دو جام آشفتہ شددستار او‘‘ حافظ کے مندرجہ بالا شعر کے زیر اثر لکھا گیا ہے۔ پھر اس تنقید میں اقبال نے حافظ اور عرفی کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ دونوں شیرازی ہیں۔ حافظ کو اس نے جادو بیانی اور عرفی کو آتش زبانی کے اوصاف سے متّصف کیا۔ لیکن اس کے ساتھ حافظ پر اس کا یہ اعتراض تھا کہ وہ رمزِ زندگی سے نا آشنا تھا اور اس میں ہمتِ مردانہ کی کمی تھی۔ عرفی کی توانائی اور بلند حوصلگی کو اس نے سراہا اور اسے حافظ پر ترجیح دی۔ اس کا خیال تھا کہ عرفی کے خیالات اس کے فلسفۂ خودی سے ہم آہنگ ہیں۔ اس نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ عرفی ہنگامہ خیز کے ساتھ بیٹھ کر شراب نوشی کرو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ اگر زندہ ہوتو حافظ سے احتراز کرو، اس لیے کہ وہ زندگی کو موت میں بدل دے گا۔ اس کا ساغر آزادوں اور متحرک انسانوں کے لیے نہیں: حافظ جادو بیاں شیرازی است عرفی آتش بیاں شیرازی است ایں سوی ملک خودی مرکب جہاند آں کنار آب رکنا باد ماند ایں قتیل ہمّت مردانۂ آں ز رمز زندگی بے گانۂ روز محشر رحم اگر گوید بگیر عرفیا! فردوس و حور او حریر غیرت او خندہ برحورا زند پشت پا بر جنّت الماویٰ زند بادہ زن با عرفی ہنگامہ خیز زندہ! از صحبت حافظ گریز اقبال نے عرفی کو حافظ پر اس واسطے ترجیح دی کہ اس کے کلام میں بعض ایسے اشعار ملتے ہیں جن سے قوت و توانائی اورحوصلہ مندی ظاہر ہوتی ہے۔ مولانا اسلم جیراجپوری کے نام اپنے خط میں اس نے لکھا: ’’خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح و توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا۔ لیکن عوام اس باریک امتیاز کو سمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن، حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں، خواہ مضر، تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں۔ بہر حال میں نے وہ اشعار حذف کردیے اور ان کی جگہ لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کے اشارے سے محض اس کے بعض اشعار کی طرف تلمیح مقصود تھی مثلاً: گرفتم آنکہ بہشتم و ہند بے طاعت قبول کردن صدقہ نہ شرطِ انصاف است لیکن اس مقابلے سے (حافظ اور عرفی کے درمیان‘)میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک مزید وجہ ان اشعار کو حذف کردینے کی تھی۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث تھا، جیسا کہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگرتحریروں سے معلوم ہوا جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تصوّف سے اگر اخلاص فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرونِ اولا میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیںہوسکتا۔ ہاں، جب تصوّف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظامِ عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔‘‘ (۳) اقبال نے اپنے خط بنام اکبر آلٰہ آبادی میں لکھا ہے: ’’میں نے خواجہ حافظ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے مے کشی بڑھ گئی ہے۔ میرا اعتراض حافظ پر اور نوعیت کا ہے۔ ’اسرار خودی‘ میں جو لکھا گیا ہے وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضرور فائدہ ہوا۔ اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر ہے۔ خواجہ حافظ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا، نہ ان کی شخصیت سے، نہ ان کے اشعار میں مے سے مراد وہ ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس سے وہ حالتِ سُکر مراد ہے جو حافظ کے کلام سے بہ حیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ (۴) اقبال نے عرفی کو حافظ پر اس واسطے ترجیح دی تھی کہ اس کے یہاں جوش اور توانائی کا اظہار ہے۔ یہ خصوصیت اکبری عہد کے اکثر شاعروں کے کلام میں ہے۔ وہ زمانہ مغلوں کی اقبال مندی، کامرانی اور اقتدار کا تھا جس کا اثر عام طبائع پر پڑنا لازمی تھا، عرفی اگر ایران میں ہوتا تو غالباً اس کے کلام میں وہ قوّت اور تمکنت نہ ہوتی جو اس عہد کے ہندوستان میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ فیضی کے یہاں بھی شان و تحکم کی کمی نہیں۔ پھر باوجود اندازِ بیان کی بلند آہنگی کے اکبری عہد کے سب شاعروں کا قوی رحجان تصوّف کی طرف ہے، اسی روایتی تصوّف کی طرف جو اقبال کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ عرفی نے تو تصوّف پر ایک رسالہ بھی لکھا تھا جس کا نام ’نفسیہ‘ رکھا تھا جس کی نسبت صاحبِ ’مآثر رحیمی‘ نے لکھا ہے: ’’و رسالۂ نیز موسوم بہ نفسیہ در نثر نوشتہ کہ صوفیان و درویشاں را سرلوحۂ دفتر تصوّف و تحقیق می تو اندشد۔‘‘ پھر اس کے دیوان میں بھی حافظ کے دیوان کی طرح شاہد و شراب پر ہزاروں اشعار موجود ہیں۔ معشوق پرستی میں باوجود اپنی خودداری اور نخوت کے ہر قسم کی ذلّت برداشت کرنے پر فخر کیا ہے۔ کفر عشق کا اسی طرح ذکر کرتا ہے جس طرح دوسرے شعرائے متصوّفین کرتے ہیں۔ عرفی کی خود پسندی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے سامنے کسی دوسرے شاعر کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ سعدی کے متعلق اس نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے شیرازی ہونے پر اس لیے فخر کیا تھا کہ اسے معلوم تھا کہ یہ میرا بھی وطن ہونے والا ہے۔لیکن حافظ کے آگے اس نے بھی گھٹنے ٹیک دیے اور اس کا سر عقیدت سے جھک گیا۔ چنانچہ کہتا ہے: بگرد مرقد حافظ کہ کعبۂ سخن است در آمدیم بعزم طواف در پرواز اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اقبال نے عرفی کوحافظ پر جو ترجیح دی وہ اس کے چند اشعار کی بنا پر تھی جن میں متحرک تصورات بیان کیے گئے تھے۔ اس قسم کے متحرک تصورات حافظ کے یہاں بھی ہیں جن کی نشاندہی ہم آئندہ صفحات میں کریں گے۔ بعد میں اقبال نے خود محسوس کیا کہ اس نے عرفی کی تعریف و توصیف اور حافظ کی تنقیص و تنقید میں علمی اعتدال سے تجاوز کیا تھا۔ اسی لیے ’اسرار خودی‘ کے دوسرے اڈیشن سے یہ حصّہ خارج کردیا۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں وہ اکبر آلٰہ آبادی کی رائے سے بھی متاثر ہوا۔ اقبال نے حافظ پر اور تصوّف کے متعلق جو اعتراض کیے تھے، ان سے صوفیوں میں بڑی برہمی پیدا ہوگئی تھی۔ خواجہ حسن نظامی نے اقبال کے خلاف مضامین لکھے جن کے جواب اس نے امرتسر کے اخبار ’وکیل‘ میں شائع کیے۔ اس بحثا بحثی نے کافی طول کھینچا۔ اکبر آلٰہ آبادی بھی اس معاملے میں خواجہ حسن نظامی کے ہم نوا تھے۔ لیکن وہ چونکہ ذاتی طور پر اقبال کو عزیز رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے خواجہ حسن نظامی پر روک کا کام کیا۔ اپنے ایک خط میں انھوں نے خواجہ صاحب کو مشورہ دیا کہ: ’’اقبال سے زیادہ نہ لڑیے۔ دُعائے ترقی و درستیِ اقبال کیجئے۔‘‘ بایں ہمہ اکبر آلٰہ آبادی نے اپنے مخصوص رنگ میں اس معاملے میں طبع آزمائی کی جس سے اقبال کے خیالات پر عام صوفیوں کے احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ تصوّف کی حمایت میں کہتے ہیں: زباں سے دل میں صوفی ہی خُدا کا نام لاتا ہے یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لاتا ہے سخن میں یوں تو بہت موقع تکلّف ہے خودی خُدا سے جھکے بس یہی تصوّف ہے اقبال کی تنقید سے یہ بھی نتیجہ نکالا گیا کہ اس کا خودی کا فلسفہ مذہبی کم اور سیاسی زیادہ ہے۔ وہ اجتماعی تنظیم کے بعد سیاسی قوت و اقتدار کا خواب دیکھ رہا تھا۔ جن لوگوں نے یہ رائے قائم کی تھی وہ میرے خیال میں غلطی پر نہیں تھے۔ چنانچہ اکبر آلٰہ آبادی نے بھی اپنے ان اشعار میں جو اقبال کے شعر پر تضمین ہیں، اسی خیال کو پیش کیا ہے: حضرت اقبال اور خواجہ حسن پہلوانی ان میں ان میں بانکپن جب نہیں ہے زور شاہی کے لیے آئو گُتھ جائیں خُدا ہی کے لیے ورزشوں میں کچھ تکلّف ہی سہی ہاتھا پائی کو تصوّف ہی سہی ہست در ہر گوشۂ ویرانہ رقص می کند دیوانہ با دیوانہ رقص (۵) اکبر آلٰہ آبادی نے جس سیاسی اقتدار کو موہوم خیال کیا تھا وہ بالآخر حقیقت بن گیا جسے وجود میں لانے میں اقبال کا بڑا حصہ ہے۔ اس نے اسرار خودی میں اپنے ہم مشربوں سے شکایت کی تھی کہ میں تو انہیں شکوہِ خسروی دینا چاہتا ہوں تاکہ تختِ کسریٰ ان کے پائوں کے تلے رکھ دوں اور وہ ہیں کہ مجھ سے عشق و عاشقی کی حکایت، آب و رنگ شاعری میں سموئی ہوئی سننا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انہیں میرے دل کی کیفیت کا پتا نہیں کہ اس کے اندر کتنی بے قراری اور تڑپ کروٹیں لے رہی ہیں: من شکوۂ خسروی او را دہم تخت کسریٰ پر پای او نہم او حدیث دلبری خواہد ز من رنگ و آب شاعری خواہد ز من بے خبر بے تابی جانم ندید آشکارم دید و پنہانم ندید اقبال کو اپنے پیغام کی صداقت پر پورا یقین تھا۔ وہ پورے اعتماد و وثوق سے کہتا ہے کہ مجھے غلاموں کی پیشانی پر سلطانی شان اور دبدبہ دکھائی دیتا ہے۔ اس پر کسی کو تعجب نہ کرنا چاہیے، اگر ایاز کی خاک سے شعلۂ محمود کی تابناکی نمایاں ہو۔ اس کا روے سخن نہ صرف مسلمانوں کی طرف بلکہ سب ایشیائی اقوام کی طرف تھا جو اس وقت مغرب کی استعماری قوتوں کی غلام تھیں: من بسیمای غلاماں فر سلطاں دیدہ ام شعلۂ محمود از خاک ایاز آید بروں حافظ کے متعلق اقبال کی تنقید کی تہ میں جو محرّک کا م کر رہا تھا اسے سمجھنا ضروری ہے۔ دراصل اقبال کو خوف تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حافظ کے دلبرانہ پیرایہ بیان کے سامنے اس کی افادیت اور مقصد پسندی کی شاعری روکھی پھیکی سمجھی جائے۔ اس لیے اس نے ایک طرف تو آب و رنگِ شاعری کو غیر ضروری بتایا اور دوسری جانب پوری کوشش کی کہ اس کے اشعار میں توانائی کے ساتھ دل کشی بھی پیدا ہو۔ اس بات کے لیے اس نے بلا تکلّف حافظ کے پیرایہ بیان کا تتبّع کیا، خاص کر اپنی غزلوں میں۔ اقبال کو اگرچہ احساس تھا کہ حافظ کی روح اس کے جسم میں حلول کیے ہوئے ہے لیکن زمانے کا تقاضا تھا کہ وہ اپنی ساری فنی صلاحیتوں کو اجتماعی مقاصد کے فروغ دینے میں صرف کردے۔ اقبال کی شاعرانہ فکر جب پروان چڑھی تو اس وقت تقریباً سارا عالم اسلامی اور ایشیا کے دوسرے ملک سامراجی شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا انحطاط حد کو پہنچ چکا تھا۔ غیر قوم کی غلامی، پستی اور بے چارگی، معاشرتی انتشار، علم و فن میں پس ماندگی، یہ تھی ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت۔ سید احمد خاں کی تحریک نے نیند کے ماتوں کو جھنجھوڑ کر اٹھایا تھا لیکن ابھی تک آنکھیںآدھی کھُلی اور آدھی بند تھیں۔ ابھی تک انہیں اپنے اوپر اعتماد نہیں تھا، خود شناسی کی منزل تو ابھی کالے کوسوں دور تھی۔ وہ دوسروں کے سہارے جی رہے تھے لیکن دوسروں کے سہارے کوئی جماعت زندگی کی دوڑ میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ حالی، قومی زندگی کی بڑے خلوص کے ساتھ نوحہ خوانی کر چکے تھے۔ اب ضرورت تھی کہ ادب میں اجتماعی معنویت پیدا کی جائے تاکہ اس کے ’’ہمرہان سُست عناصر‘‘ عمل اور حرکت کے لیے آمادہ ہوں اور ان کے دل میں ترقی کا حوصلہ پیدا ہو۔ اقبال کی شاعری کا مقصد اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے احوال بدلنے سے احساس و فکر کی صورتیں بھی بدلتی ہیں جن کا عکس اس زمانے کے فن میں نظر آتا ہے۔ حالی، سید احمد خاں کی مقرر کی ہوئی حدود سے باہر نہ جا سکے۔ اقبال کی پرواز محدود نہ تھی۔ وہ فضا کی وسعتوں سے آنکھ مچولی کھیلتی رہی۔ وہ طائرِ زیرِ دام نہیں بلکہ طائرِ بالاے بام تھا جس کی آزادی کی کوئی حد نہ تھی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے علاوہ عالمِ اسلامی اور ایشیا کی دوسری قوموں کی ابتری اور انحطاط کا گہرا اثر اقبال کے دل و دماغ نے قبول کیا۔ ہندوستان کے مسلمان مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد انتہائی پستی اور بے بسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ترکستان، شمال مغربی چین، انڈونیشیا، مالیشیا، شمالی افریقہ سب غلامی میں مبتلا تھے۔ ان حالات میں اگر اقبال جیسے حسّاس شاعر نے اجتماعی معنویت کے لیے اپنی شاعری کو وقف کردیا تو اس پر کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے، نہ اسے معمول کے خلاف کہا جا سکتا ہے۔ خودی کے استحکام کے ساتھ اس نے جدید علوم (سائنس) کی تحصیل پر زور دیا تاکہ اس کی پس ماندہ جماعت میں تسخیر فطرت کی صلاحیت پیدا ہو۔ وہ خانقاہی تصوّف کی سکونی دروں بینی کی بجائے متحرّک قسم کی بروں بینی کا احساس پیدا کرنا چاہتا تھا تاکہ انفس و آفاق دونوں کی بصیرت حاصل ہو۔ انفس کی حد تک خودی کا احساس اور آفاق کی حد تک سائنس کی تعلیم کو جماعتی امراض کا علاج تجویز کیا۔ اقبال کا خیال تھا کہ حافظ کی شاعری اور متصوّفانہ خیالات سے جماعت کی قوتِ عمل کمزور ہوگی۔ وہ ان خیالات کو عجمی لے سے تعبیر کرتا ہے جو خواب آور ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ کوئی جماعت بھی حرکت و عمل کے جوکھوں میں پڑے بغیر سر بلندی نہیں حاصل کر سکتی: تاثیرِ غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے ایسی کوئی دنیا نہیں افلاک کے نیچے بے معرکہ ہاتھ آئیں جہاں تختِ جم و کے دوسری جگہ اسی مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے: ہے شعرِ عجم گرچہ طربناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیرِ خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گُلستاں بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغِ سحر خیز مشرقی اقوام کی حالت دیکھتے ہوئے وہ پیرِ مغاں سے درخواست کرتا ہے کہ انہیں مقصدیت کی شراب پلا کہ وہی ان کے لیے حقیقت ہے۔ مجاز کی شراب پینے پلانے کا زمانہ گیا: تجھ کو خبر نہیں ہے کیا؟ بزمِ کُہن بدل گئی اب نہ خُدا کے واسطے ان کو مے مجاز دے اس کے خیال میں اہلِ مشرق کو بالکل نئی قسم کی نے اور مے کی ضرورت تھی، ایسی نے جس کی نوا سے سینوں میں رقص کرنے لگیں اور ایسی مے جو جان کے شیشے کو پگھلادے: نی کہ دل ز نوایش بسینہ می رقصد می کہ شیشۂ جاں را دہد گُداز آور دوسری جگہ اسی مطلب کو اس طرح بیان کیا ہے: بہر زمانہ اگر چشم تو نکو نگرد طریق میکدہ و شیوۂ مغاں دگراست من آں جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا یورپ کے قیام کے دوران اقبال نے دیکھا کہ وہاں عقلیت کے خلاف زبردست ردِّ عمل رونما ہوچکا ہے اور سائنٹفک جبریت کی جگہ ارادیت، اور عقلیت کی جگہ وجدانیت کا فلسفہ مقبول ہے۔ ارادیت (والینٹرازم) اور وجدان (ان ٹیوشن) دونوں میں انسانی نفس کی آزادی کے اصول کو تسلیم کیا گیا تھا۔ یہ دونوں فلسفے مادیت کی جبریت کے مقابلے میں مذہبی اور اخلاقی تعلیم سے ہم آہنگ تھے اور ان میں انسانیت کے لیے اصلاح و ترقی اور امید و آزادی کا پیغام پوشیدہ تھا۔ اقبال ان تصورات سے متاثر ہوا۔ چونکہ خود اس کا ذہن، فعّال اور تخلیقی تھا، اس نے مغربی علم و حکمت کے ان اثرات کو اسلامی رنگ میں رنگ دیا اور بڑی خوبی سے مغربی افکار پر مشرقی روحانیت کا غازہ مل دیا۔ مشرقی اور مغربی علم و فکر سے جو مرکب بنا وہ اس کا اپنا ہے۔ چونکہ اس کے بنانے میں اس کا ذوق اور خونِ جگر بھی سرایت کیے ہوئے ہے اس لیے ہم اسے اس کی روحانی تخلیق کہہ سکتے ہیں۔ اس کا ذہن انتخابی ذہن تھا لیکن وہ جو کچھ بھی دوسروں سے لیتا تھا اس پر اپنی شخصیت کی چھاپ لگا دیتا تھا۔ اس بات کو دراصل زیادہ اہمیت حاصل نہیں کہ اس کے فیضان کے سرچشموں کو دریافت کیا جائے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے مختلف ذہنی اور روحانی عناصر کو اپنے دل کی آنچ میں تپا کر کیا شکل و صورت عطا کی اور اپنے فنی وجدان سے انہیں کس طرح نئے انداز میں معنی خیز بنایا۔ اسلامی مفکّروں اور شاعروں میں اس نے سب سے زیادہ اثر مولانا روم کا قبول کیا۔ انہیں کی رہبری میں اس نے افلاک کی روحانی سیر کی جس کی تفصیل ’جاوید نامہ‘ میں ہے۔ اقبال کی طرح مولانا روم کا تصوف بھی متحرک ہے۔اگرچہ خودی کا ان کے یہاں وہ مفہوم نہیں جو اقبال نے اسے دیا ہے۔ پھر مولانا کے یہاں ماورائیت اور ہم دوستی فلسفہ دونوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ یہاں بھی اقبال نے انتخاب سے کام لیا اور ان کی مثنوی میں سے وہی چیزیں لی ہیں جو اس کے اپنے تصورات سے ہم آہنگ ہیں۔ اسلامی حکما میں ابن مسکویہ، ابن عربی اور عبد الکریم جیلی اور مغربی مفکّروں میں فشٹے، نطشے، برگسوں اور وارڈ اور شاعروں میں گوئٹے کا اثر اقبال کے فکرو فن میں نمایاں ہے۔ غرض کہ ان سبھوں کے توانا اور متحرک تصوّرات کو اقبال نے ایک نئے قالب میں ڈھال کر اپنی شاعری کی صورت گری کی۔ ان حکما کے خیالات کو اس نے اپنے جذبہ و تخیّل کا اس خوبی سے جز بنایا کہ وہ اسی کے ہوگئے۔ اقبال نے حافظ کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ وہ اس کے پیرایۂ بیان کا دلدادہ تھا لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ جس جماعت سے اس کا تعلق ہے اسے سکون و اطمینان سے زیادہ ہیجان اور جذباتی کیفیت کی ضرورت ہے جو اسے مقاصد کے حصول پر اُکسا سکے۔ وہ اپنے ارادے اور اختیار کو برتنا سیکھے جس کے بغیر ترقی اور اصلاح ممکن نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے جو زندگی کی حکمت پیش کی وہ اجتماعی معنویت کے فنی اثبات کا زبردست کارنامہ ہے جس کی مثال مشرقی ادب میں نہیں ملتی۔ خود مولانا روم جن کی مریدی پر اسے فخر تھا بڑی حد تک اجتماعی مقصد پسندی سے نا بلد تھے اور اگر واقف تھے تو کوئی واضح نقوش ان کے ذہن میں نہیں تھے۔ میں سمجھتا ہوں اسلامی ادب کی تاریخ میں کسی زمانے میں بھی تخلیقی ادب کو اس انداز میں نہیں پیش کیا گیا جس انداز میں اقبال نے اسے پیش کیا۔ اس نے مولانا روم کے خیالات کی نئی تعبیر و توجیہہ کی اور اس ضمن میں جو نکتہ آفرینیاں کیں ان کی مثال نہیں ملتی۔ اس سے خود اس کے قلب و نظر کی وسعت، گہرائی اور توانائی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس نے مولانا روم سے بہت کچھ لیا اور اپنی تعبیر و توجیہہ سے انہیںبہت کچھ دیا بھی۔ اس نے مولانا کے خیالات کے لیے حافظ کا پیرایۂ بیان اختیار کیا، خاص کر اپنی غزلوں میں۔ اس طرح اس کے یہاں مولانا اور حافظ پہلو بہ پہلو پائے جاتے ہیں۔ اقبال کو متصوّفانہ شاعری اور خاص طور پر حافظ پر یہ اعتراض تھا کہ اس کے رموز و علائم سے اسلامی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور ایران کے صوفیا نے فلاطینوس اسکندری (پلاٹینس) کے باطنی فلسفے کی پیروی کی۔ شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی نے اسے اپنی تصنیف، حکمت الاشراق، میں مرتب کرکے وحدتِ وجود کو نظامِ کائنات کی صورت میں پیش کیا۔ اس کے نزدیک ذات واجب نور محض ہے جس کا اشعاع یا اشراق تمام کائناتِ ہستی میں نظر آتا ہے۔ کائنات کے نظم میں تدریج پائی جاتی ہے جو روحِ کلّی سے لے کر مادّے تک مختلف شیون میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ عالم کا نظام باہمی کشش سے قائم ہے۔ یہ پوری بحث افلاطوں اور فلاطینوس اسکندری کے یہاں علمی تجرید کے انداز میں ہے۔ ان کے یہاں عشق و محبت کی گرمی اور سپردگی نہیں پائی جاتی۔ اس کے برعکس اسلامی تصوّف میں نو افلاطونی تصوّرات سے فیض اٹھانے کے بعد انہیں اپنے طور پر نئے رنگ میں ڈھال لیا گیا۔ قرون اولیٰ کے صوفیا میں بھی عشق و محبت کی شدّت ملتی ہے۔ ان کے یہاں عشق و محبت تزکیۂ باطن کے لیے لازمی قرار دیا گیا۔ موجودات میں فطری طور پر جو کشش پائی جاتی ہے وہی عشق ہے۔ حق تعالٰی نور الانوار اور کائنات میں سب سے زیادہ حسین ہے، اس لیے اس کی محبت سے انسان کو جو مسرّت حاصل ہوتی ہے وہ کسی دوسری شے کی محبت سے نہیں ہوتی حکمت اشراق کی بدولت وحدت وجود کے خیالات متصوفانہ شاعری کا جز بن گئے۔ خود اقبال کے مرشد مولانا روم کے یہاں فلسفۂ اشراق کا اثر موجود ہے۔ اقبال کی طرح مولانا کے یہاں بھی عشق ارتقا کا محرک ہے۔ مثنوی میں یہ تصور مختلف صورتوں میں پیش کیا گیا ہے کہ ہر انسانی روح خدا سے جدا ہو کر اس کی طرف لوٹ جانا چاہتی ہے: ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش غرض کہ شعرائے متصوفین نے وحدتِ وجود اور عشق و محبت کے بارے میں جن خیالات کی ترویج و اشاعت کی وہ اسلامی فکر کا جز بن گئے۔ اقبال کا خیال ہے کہ متصوّفانہ شاعری مسلمانوں کے سیاسی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی۔ جب کسی جماعت میں قوت و اقتدار اور توانائی مفقود ہوجاتی ہے، جیسا کہ تاتاریوں کی یورش کے بعد مسلمانوں میں ہوگئی، تو اس کے نزدیک ناتوانی حسین و جمیل شے بن جاتی ہے اور ترک دنیا کے ذریعے سے وہ اپنی شکست اور بے عملی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ چنانچہ اقبال نے اپنے خط بنام سراج الدین پال لکھا ہے: ’’حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معنی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کردینا ہے۔ یہ ایک نہایت سٹل طریق تنسیخ کا ہے۔ اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کرسکتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو۔ شعرایے عجم میںبیشتر وہ شعرا ہیں، جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان طبیعت موجود تھااور اگرچہ اسلام نے کچھ عرصے تک اس کا نشوونما نہ ہونے دیا، تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا، یا بالفاظ دیگر مسلمانوں میں ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعرا نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دل فریب طریقوں سے شعائرِ اسلامی کی تردید و تنسیخ کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے۔ اگر اسلام افلاس کو بُرا کہتا ہے توحکیم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجے کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصوّر کرتا ہے، تو شعرائے عجم اس شعارِ اسلام میںکوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں۔ مثلاً: غازی ز پے شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہید عشق فاضل ترا زوست در روز قیامت ایں باو کے ماند ایں کشتۂ دشمن است وآں کشتۂ دوست یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے نہایت عمدہ ہے اور قابل تعریف، مگر انصاف سے دیکھیے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اس سے زیادہ دل فریب اورخوب صورت طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ شاعر نے کمال یہ کیا ہے کہ جس کو اس نے زہر دیا ہے، اس کو احساس بھی اس امر کا نہیں ہوسکتا کہ مجھے کسی نے زہر دیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے آبِ حیات پلایا گیا ہے۔ آہ! مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں۔‘‘ (۶) اقبال کا بنیادی اعتراض حافظ پر یہ ہے کہ اس کی دنیا کی بے ثباتی کی تعلیم اور اس کا دلبرانہ پیرایۂ بیان سخت کوشی اور زندگی کی جدوجہد کے منافی ہے۔ اس کی خوش باشی اور عشق و محبت کی شاعری سے اندیشہ ہے کہ نوجوانوں کی عمل کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اس کی تسلیم و رضا کی تعلیم اور رندانہ بے خودی لوگوں کو غلط راستے پر ڈال دے گی اور اجتماعی مقاصد ان کی نظروں سے اوجھل ہوجائیں گے۔ اقبال سے پہلے حالی نے عشق و عاشقی کی شاعری کو مسلمانوں کے انحطاط کا سبب قرار دیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا حالی اور اقبال دونوں کے پیش نظر اصلاح تھی۔ اور دونوں کے دلوں میں اخلاص اور درد مندی تھی۔ لیکن کسی زبان کی فنی تخلیق کی آزادی فتوے کے ذریعے محدود نہیں کی جاسکتی۔ فنی آزادی ذوقی چیز ہے اور وہ اپنے حدود کا تعین خود اپنے اندرونی اقتضا سے کرتی ہے۔ ’اسرار خودی‘ کے دیباچے پر جب بہت اعتراض ہوئے تو یہ صحیح ہے کہ اقبال نے اسے دوسرے اڈیشن سے خارج کردیا لیکن اس نے اپنی رائے نہیں بدلی۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ حافظ اور اقبال ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو مانتا ہے تو لازمی طور پر وہ دوسرے کی عظمت کا منکر ہے۔ یہ نقطۂ نظر فقیہانہ ہے، فنی اور ادبی نہیں۔ فنی عظمت کے مختلف اسباب ہیں۔ اس کا امکان ہے کہ دو فن کاروں کے اختلاف کے باوجود دونوں کے تخلیقی کارناموں کو تسلیم کیا جائے اور ان سے مسرت و بصیرت حاصل کی جائے۔ فنی تخلیق کی تفہیم اور پرکھ یک طرفہ نہیں ہونی چاہیے۔ فن کاروں کی تخلیق الگ الگ روپ دھارتی ہے جس سے ان کا اصلی جوہر نمایاں ہوتا ہے۔ پھر اس کا بھی امکان ہے کہ دو فن کاروں کے بعض امور میں اختلاف کے باوجود ان کے بعض دوسرے خیالات میں اتحاد و اشتراک کے عناصر موجود ہوں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے اتنے زیادہ دور نہ ہوں جتنا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، مثلاً حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں عشق فنی محرک ہے۔ حافظ کا عشق مجاز و حقیقت کا ہے اور اقبال کا مقصدیت کا۔ اس فرق کے باوجود مشترک فنی محرک انہیں ایک دوسرے سے قریب لے آتا ہے۔ فنی تخلیق میں جس طرح کوئی تصور بے میل اور خالص حالت میں نہیں ہوتا، اسی طرح جذبہ و فکر پہلو بہ پہلو موجود رہتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی ترکیب و امتزاج سے ان کی قلب ماہیت ہوجاتی ہے۔ شاعری میں جب وہ لفظوں کا جامہ زیب تن کرتے ہیں تو لازمی ہے کہ ان پر فن کار کے فکرو اسلوب کا رنگ چڑھ جائے۔ کوئی شاعر بالکل نئی بات نہیں کہتا۔ وہ پرانی باتوں ہی کو اپنے اسلوب اور طرز ادا سے نیا بنا دیتا ہے۔ انسانی تجربہ فکر و فن میں اکثر و اوقات پیچیدہ ہوتا ہے۔ کبھی اس میں فکر غالب ہوتی ہے اور کبھی جذبہ و وجدان کبھی تخیل کا زور ہوتا ہے اور کبھی تعقل کا۔ عظیم فن کار ان سب نفسیاتی عناصر میں امتزاج وترکیب پیدا کرتا ہے۔ پھر بھی یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک عنصر زیادہ نمایاں ہوجاتاہے۔ ان کا انحصار اس پر ہے کہ فن کار کا تجربہ کس خاص لمحے میں وجود میں آیا اور اس کے خارجی اور اندرونی محرک کیا تھے۔ شاعرانہ ادب کا چاہے کچھ موضوع ہو، فنی لحاظ سے وہ اس وقت موثر اور مکمل اور معنی خیز ہوگا جب کہ اس کی تخیلی تفہیم ہوسکے۔ تخیل کی کارفرکائی کے بغیر فکر و جذبہ کی آمیزش ادھوری رہتی ہے اور اس کی تفہیم فنی تخلیق کی گہرائی میں نہیں اتر سکتی۔ اقبال کے فن میں تخیلی فکر اور اجتماعی آہنگ بڑی خوبی سے ہم آمیز ہیں۔ وہ عقل جزوی کا مولانا روم کی طرح زبردست نقاد تھا اور اس کے مقابلے میں اس نے جذبہ و وجدان یا عشق کی برتری کو طرح طرح سے بیان کیا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس کے باوجود وہ ہمارا سب سے بڑا تعقل پسند شاعر ہے۔ میں تو یہاں تک کہنے کو تیار ہوں کہ اردو تو اردو، فارسی میں بھی ایسا تعقل پسند (ان ٹلک چوئل) شاعر نہیں پیدا ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ اس کا تعقل، تحلیلی یا منطقی نہیں بلکہ تخیلی اور وجدانی ہے۔ اس کے کلام میں علمی حقائق کا پس منظر کسی نہ کسی شکل میں قائم رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی فارسی اور اردو غزلیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس کے برخلاف حافظ کے یہاں کوئی مستقل نظامِ تصورات نہیں جسے تعقل کی لڑی میں پرویا جاسکے۔ وہ خالص جذبے کا شاعر ہے۔ اس کے جذبے میں اگر کسی چیز کی آمیزش ہے تو وہ اس کے ذاتی اور شخصی تجربے ہیں جن میں کوئی اجتماعی آہنگ نہیں ملتا۔ اس کے یہاں عقل و وجدان کا تضاد نہیں جیسا کہ مولانا روم اور اقبال کے یہاں ہے۔ حافظ کے یہاں اس کے شاعرانہ تجربے کی وحدت مکمل ہے۔ عقل بھی وہی کہتی ہے جو وجدان کہتا ہے۔ اس کی آواز دل نواز، دھیمی اور سریلی ہے۔ اعتدال ایسا کہ نہ ہیجان ہے، نہ بلند آہنگی۔ حافظ کے یہاں جلال اور جمال دونوں نہایت ہی پر اسرار اور دل نشیں انداز میں جلوہ افروز ہیں۔ حکمت بھی نرم اور نازک اشاروں میں جمال کے سر میں اپنا سر ملاتی ہے۔ ایسی فنی وحدت فارسی اور اردو کے شاعر کے یہاں نہیں۔ اسی وجہ سے حافظ کے پراسرار تغزّل کے سامنے ہر ایک کو اپنا سرجھکانا پڑا۔ اس پر اعتراض کرنے والوں میں کسی نے بھی اس سے انکار نہیں کیا کہ شاعری صرف لطیف جذبات کا اظہار نہیں بلکہ ان کی غذا بھی ہے۔ اس سے انسانی روح کو جو سرور اور بالیدگی حاصل ہوتی ہے وہ ادب کی کسی صنف سے نہیں ہوتی۔ شاعری کا حسن طرز ادا یا ہیئت میں پوشیدہ ہے۔ اس میں پیچیدگی بھی ہوتی ہے اور وحدت بھی جسے کافی بالذات کہناچاہیے۔ احساسات کی توانائی سمٹ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ دراصل اسلوب اور ہیئت اس سے جدا نہیں۔ خالص ذہنی اور ذوقی چیز ہے۔ فطرت میں اس کا وجود نہیں۔ اگر کوئی فطرت کے ہیئت و اسلوب کی بات کرے تو یہ استعارے کے طور پر ممکن ہے لیکن اسے حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ فطرت چونکہ جدّت سے محروم ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو دہرا تو سکتی ہے لیکن انسانی ذہن کی تخلیق نہیں کرسکتی۔ چنانچہ کسی شاعر کے اسلوب و ہیئت کی نقل نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ کے بعد خود ایران میں اس کے اسلوب کا تتبع نہ ہوسکا۔ بابا فغانی شیرازی نے حافظ کے طرز کو چھوڑ کر تغزّل میں تفکّر کی آمیزش کی اور ایک نئے اسلوب کی بنا ڈالی۔ اکبری عہد کے ’’تازہ گویان ہند‘‘ نے ، جن میں ظہوری، نظیری، عرفی اور فیضی شامل ہیں، اسی نئے اسلوب کو اپنایا۔ یعد میں یہی سبک ہندی کہلایا۔ اس میں نہ سعدی کی روانی اور صفائی ہے اور نہ حافظ کی نزاکت، لطافت اور نغمگی۔ تفکر کے ساتھ لفظی پیچیدگی اور معنوی الجھائو لازمی ہے جو اکبری عہد کے سب شاعروں میں کم و بیش موجود ہے۔ خیالات کی پیچیدگی بیدل کے یہاں انتہائی شکل میں نظر آتی ہے۔ غالب اور اقبال نے بیدل کے بوجھل اسلوب کو چھوڑ کر اکبری عہد کے اساتذہ کی طرف رجوع کیا جو ان کے مخصوص طرز ادا میں نمایاں ہے۔ اقبال کے یہاں جو بلند آہنگی ہے وہ مقصدیت کی اندرونی معنوی لہر سے ہم آہنگ ہے۔ فن کار کی حسن آفرینی پر زمانے اور حالات کا اثر پڑنا لازمی ہے۔ حافظ کے زمانے اور اقبال کے زمانے میں بڑا فرق ہے۔ فن کا ماخذ وہ کش مکش ہے جو فن کار کو اپنی ذات کے علاوہ اپنے عہد کے معاشرتی اور سیاسی حالات سے کرنا پڑتی ہے۔ اقبال کی فنی تخلیق پر جن حالات کا اثر پڑا ان کا ہم اوپر جائزہ لے چکے ہیں۔ حافظ کے زمانے میں ایران میں سیاسی انتشار اور ابتری تھی شیراز میں آئے دن حکومتوں کا تختہ الٹتا رہتا تھا لیکن جس تہذیب کے سائے میں حافظ نے آنکھ کھولی، اس میں کوئی خلل نہیں پیدا ہوا تھا۔ اس وقت ایران میں اسلامی تہذیب کو اس قسم کے خطرے درپیش نہیں تھے جو سیاسی غلامی کا لازمی نتیجہ ہیں۔ تیمور نے اسلامی ملکوں کو اپنی ترکتازیوں سے ضرور درہم برہم کردیا تھا لیکن اسلامی تہذیب کے چوکھٹے میں کوئی رخنہ نہیں پیدا ہوا۔ قوت و اقتدار کے جھگڑے آپس کے تھے، غیروں کے نہ تھے۔ تیمور کی حکومت روس اور چین کی سرحدوں تک پہنچ چکی تھی۔ عثمانی ترکوں نے وسط یورپ میں وینیا تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ ہندوستان میں خلجی اور تغلق حکمرانوں نے تقریباً پورے ملک کو مرکزی حکومت کا باجگزار بنالیاتھا۔ غرض کہ مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کا بول بالا تھا اور اسلامی تہذیب کی بنیادیں مضبوط تھیں۔ اقبال کی تنقید کا نشانہ مغربی سامراج تھا، حافظ کی تنقید کا رخ ان کی طرف تھا جو دین و تمدن کی پیشوائی کے دعوے دار تھے اور اپنے اخلاقی عیوب کو ریاکاری کے لبادے میں چھپاتے تھے۔ اقبال سیاسی غلامی سے نجات دلانا چاہتا تھا اور حافظ کے پیش نظر معاشرتی زندگی کی طہارت تھی۔ اس نے علما، صوفیا، زاہد، واعظ شحنہ سب کو اپنے شیریں طنز کا نشانہ بنایا اور ان کی قلعی کھولی۔ شاہ شجاع کے زمانے میں خواجہ عماد ایک مشہور فقیر تھے اور بادشاہ کو ان سے بڑی عقیدت تھی۔ ان کی بلی ان کی نماز کی دیکھا دیکھی سرجھکاتی اور اٹھاتی تھی جیسے اپنے مالک کی طرح رکوع و سجود میں مشغول ہو۔ لوگوں میں عام طور پر مشہور تھا کہ خواجہ عماد کی بلی بھی عبادت گزار ہے۔ خواجہ عماد نے اور دوسروں کے ساتھ شاہ شجاع کو حافظ کی آزادہ دولی سے بدظن کردیا تھا۔ حافظ نے اپنی ایک غزل میں خواجہ عماد کی ریاکاری پر اس طرح طنز کیا: ای کبک خوش خرام کجا میروی بایست غرّہ مشوکہ گربۂ زاہد نماز کرد فنی اور جمالیاتی تخلیق کے محرک اور اسباب پیچیدہ ہیں۔ ان میں بعض اندرونی ہیں اور بعض خارجی۔ اندرونی اسباب کا تعلق فن کار کے جذبے سے ہے اور خارجی اسباب کا معاشرتی ماحول سے۔ پھر یہ دونوں قسم کے اسباب ایک دوسرے سے بالکل الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ گھتے ہوئے ہوتے ہیں۔ گتھے ہوئے بھی ایسے نہیں جیسے دو جامد چیزیں ہم آمیز ہوتی ہیں بلکہ متحرک اشیا کی طرح مربوط۔ دونوں کی حرکت ایک دوسرے کو توانائی اور قوت بخشتی ہے۔ دونوں کی وحدت فن کار کو تخلیق پر ابھارتی ہے۔ فن میں حقیقت حاضرہ کا پرتو کسی نہ کسی شکل میں ضرور دکھائی دیتا ہے۔ فن کار کے تجربے کا تعلق لازمی طور پر اپنے زمانے سے ہوتا ہے۔ وہ یا تو اپنے زمانے کو قبول کرتا ہے یا اسے رد کرتا ہے۔ غرض کہ دونوں حالتوں میں وہ اپنے زمانے سے وابستہ رہتا ہے۔ اس کا تجربہ جب اپنی بلندی پر پہنچتا ہے تو روحانی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ شاعر اپنے اس روحانی تجربے کو لفظوں کا جامہ پہناتا ہے جو اسے معاشرتی زندگی عطا کرتی ہے۔ شاعر اپنے جذبہ و تخیل کے اظہار کے لیے زبان، ماحول، تاریخی روایات اور تہذیبی نفسیات جو اسے ورثے میں ملی ہیں، ان سب سے صرف نظر نہیں کرسکتا۔ ان سب کے مجموعی اثر سے اس کے فن کا خمیر تیار ہوتا ہے۔ شعر کو سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان سب اثرات کا تجزیہ اس طرح ممکن نہیں جیسے کیمیاوی طور پر مادی اشیا کا کیا جاتا ہے۔ شاعری مکالمہ ہے شاعر اور اس کے زمانے کے درمیان۔ یہ خود کلامی مختلف شاعروں میں مختلف روپ اختیار کرتی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں عشق کی بات کرتے ہیں۔ اقبال عشق کی قوت محرکہ سے انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے۔ حافظ کے سامنے کوئی اجتماعی مقصد نہ تھا۔ وہ عشق کے ذریعے نشاط و مستی کا اظہار کرتا ہے جو کافی بالذات ہے۔ یہ مجاز اور حقیقت دونوں میں قدر مشترک ہے۔ اس کا اگر کوئی مقصد ہے تو سوائے انسانی روح کی آزادی کے اور کچھ نہیں۔ حافظ اور اقبال دونوں روح کی آزادی کے مقصد میں متحد ہیں لیکن دونوں کے حصول مقصد کے ذرائع مختلف ہیں۔ دونوں نے اپنی شاعری اور وجدانی بصیرت کے توسط سے مطلق حقیقت کا مشاہدہ کیا۔ یہ ذہنی تجزیہ نہیں بلکہ براہ راست دوبدو مشاہدہ ہے۔ دونوں کا جمالیاتی تجربہ جذبہ و وجدان سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔ ذہنی تجزیے میں حقیقت، سکون و جمود کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ اس کے بر عکس وجدانی امتزاج میں فن کار حقیقت کا متحرک حالت میں مشاہدہ کرتا ہے۔ اقبال کے مشاہدے میں وجدانی تجربہ تعقلی عمل سے خالی نہیں۔ حافظ کے یہاں تعقل بھی وجدانی ہے۔ وہ جب ’’فکرِ معقول‘‘ کی بات کرتا ہے تو بھی تعقل سے زیادہ جذبہ وجدان اس کے پیش نظر ہوتا ہے۔ وہ جذبے سے کبھی بھی اپنے آپ کو علٰیحدہ نہیں کرسکتا۔ وہ ’’خاطر مجموع‘‘ کا کتنا ہی خواہش مند کیوں نہ ہو، جذبہ اس کے علام میں جوش، گرمی اور حرارت پیدا کردیتا ہے۔ اپنی ذات میں پرسکون استغراق نہ حافظ کے لیے ممکن ہے اور نہ اقبال کے لیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جمالیاتی تجربے کی سکون آفرینی کو جذبہ پامال کردیتا ہو۔ حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں اور خاص کر حافظ کے یہاں ہیئت، موضوع اور جذبہ شیر و شکر ہیں۔ اس طرح فنی تخلیق عالم گیر اور ابدی بن جاتی ہے۔ اسی کو فن کی جمالیاتی قدر کہتے ہیں۔ جب ہم کسی فنی شہ پارے سے متاثر ہوتے ہیں تو ہیئت، موضوع اور جذبے کو علٰیحدہ علٰیحدہ نہیں محسوس کرتے کیونکہ ان کا ایک دوسرے سے جدا وجود باقی نہیں رہتا۔ دراصل ان کی لطیف آمیزش انہیں ایک آزادتخلیقی کُل بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات فنکار کسی خارجی واقعے یا حقیقت کا اثر لے کر اسے اپنے جذبے کا جُز بناتا ہے جو ہیئت اور طرزِ ادا کی خراد پر چڑھ کر جمالیاتی شکل میں جلوہ فگن ہوتا ہے۔ اس وقت یہ کہنا دشوار ہوجاتا ہے کہ فنی اصلیت جذبہ ہے یا اس کی خارجی ہیئت جو ہماری نظروں کے سامنے آتی ہے۔ اقبال نے خارجی احوال کی مقصد پسندی کو اپنی نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اپنے جذبے کا جز بنایا ہے۔ اس کی رمزیت اور حسنِ ادا ملاحظہ ہو۔ شمع شاعر کو اس طرح خطاب کرتی ہے: مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغام اجل لب اسی موجِ نفس سے ہے نوا پیرا ترا میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا گل بد امن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح ہے ترے امروز سے ناآشنا فردا ترا دوسرے بند میں استعارے اور کناے کو سمو کر اس طرح ہیئت آفرینی کی ہے: تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہوچکے لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے ساقیا محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا پھول بے پروا ہیں توُ گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو اقبال نے اپنے اندرونی تجربوں کو لحن و صوت کا لباس اس لیے پہنایا تاکہ اس کے دل میں جو آگ پڑی دہک رہی تھی اس میں سے ایک شرارہ باہر پھینک سکے۔ وہ اپنے جذبے کو دوسروں پر بھی طاری کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے اپنے کلام میں ہیئت، موضوع اور جذبہ و تخیل کی وحدت پیدا کی جس میں بے پناہ جذب و کشش ہے: تو بجلوہ در نقابی کہ نگاہ بر نتابی مہ من اگر ننالم تو بگو دگرچہ چارہ غزلے ز دم کہ شاید بنوا قرارم آید تپ شعلہ کم نگرد ز گسستن شرارہ اس مقصد پسندی میں جذبۂ غیر خود کو اپنے سامنے رکھتا اور اسے اپنا راز دار بنانا چاہتا ہے: اے کہ ز من فزودۂِ گرمی آہ و نالہ را زندہ کن از صداے من خاک ہزار سالہ را غنچۂ دل گرفتہ را از نفسم گرہ کشای تازہ کن از نسیم من داغ درون لالہ را اقبال کے نزدیک مقصد پسندی ہی میں حسن اور حقیقت پنہاں ہیں۔ مہ من اگر ننالم تو بگو دگرچہ چارہ۔ اس کے برخلاف حافظ خارجی حقیقت یعنی معشوق کو جب اپنے جذبے سے وابستہ کرتا ہے تو وہ دنیا جہان سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ یہ دروں بینی کا کمال ہے۔ محبوب کی زلف میں گرفتار ہونا اس کے نزدیک آزادی ہے۔ دراصل بندہ عشق دونوں جہان سے آزاد ہے: فاش می گویم و از گفتۂ خود دلشادم بندۂ عشقم و از ہر دو جہاں آزادم گدای کوی تو از ہشت خلد مستغنیست اسیر عشق تو از ہر دو عالم آزاد است جمالیاتی تجربہ خالص تجربہ ہے جس میں ہر اس عنصر کو الگ کردیا جاتا ہے جو وہ خود نہیں ہے۔ اس میں وہ تخلیقی لمحے بھی آتے ہیں جن میں ابدیت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ زمان و مکان سے ماورا اور خود اپنے تجربی کیف سے بھی ماورا ہوتے ہیں۔ جمالیاتی وحدت میں جذبہ، ہیئت اور موضوع کی تثلیث ایک دوسرے میں ضم ہوجاتی ہے۔ وہ سارے ذہنی عناصر جو اس وحدت میں نہیں سموئے گئے علٰیحدہ کردیے جاتے ہیں۔ فن کار اپنے آپ کو اس جمالیاتی وحدت میں کھو دیتا ہے۔ کھو جانے کے بعد پھر سے وہ اپنے آپ کو اس میں پاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی تخلیقی آزادی اور اس کی انفرادیت زمانے کے عمل اور رد عمل کا کھیل ہے۔ وہ زندگی کے ’’روشن و تار‘‘ کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تخلیقی آزادی شعور اور لاشعور کو ایک دوسرے میں سمودیتی ہے۔ نہ اس کی انا کے حدود ہیں اور نہ اس کے فن کے حدود ہیں: عالم آب و خاک را بر محک دلم بسای روشن و تار خویش راگیر عیار ایں چنیں فن کار اپنے وجود کے معروض کو جو بہتے ہوئے چشمے کے مثل ہے، اپنے جذب دل کے پشتے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اس میں ٹھہرائو کی حالت پیدا ہوجاتی ہے تو اسے اپنے شعور و وجدان کا جُز بنا لیتا ہے تاکہ اس کی مدد سے تخلیق جمال کرے۔ وہ داخلیت میں خارجی حقیقت کے پس منظر کو پیوست کرتا ہے جو انسانی وجود کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ اس طرح دروں و بروں کا امتیاز جمالیاتی تخلیق میں مٹ جاتا ہے اور تجربے کی مکمل وحدت ظہور میں آتی ہے۔ فن کار جمالیاتی احساس کی خاطر بعض اوقات خود اپنے وجود سے بالاتر ہوجاتا ہے۔ یہ وجود سے گریز نہیں بلکہ شعور اور وجدان کا اس میں ڈوب جانا ہے۔ یہ حسن کے تجربے کا عالم گیر اصول ہے۔ حافظ کے یہاں حسن کی طرح محبت بھی جمالیاتی کیف ہے۔ اقبال کے یہاں حسن اور محبت کے احساس میں تعقل و شعور کو دخل ہے جس کے ذریعے سے جذبہ خارجی حقیقت کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرتا ہے۔ دونوںکی فنی تخلیق میں ہیئت، موضوع اور جذبے کا ایسا لطیف امتزاج ہے کہ ان کا تجزیہ آسان نہیں۔ اس کی تفہیم کُل کی حیثیت سے ہوسکتی ہے۔ دراصل فنی تخلیق اعجاز ہے جسے صرف کُل کے طور سمجھنا ممکن ہے۔ تحلیل و تجزیہ اسے مسخ کرڈالتے ہیں۔ ہیئت، موضوع اور جذبے کی تخیلی تفہیم ایک ساتھ ہی ممکن ہے کہ بغیر اس کے تناسب اور موزونیت کی رمزی اور علامتی کیفیت کا احساس نہیں ہوسکتا ۔۔ شعر کے معنی لفظی نہیں بلکہ جمالیاتی ہوتے ہیں جس میں ہیئت اور حسن ادا کو بڑا دخل ہے۔ فن کا بنیادی اصول یہی ہے۔ چاہے شاعری ہو یا موسیقی، مصوّری ہو یا فن تعمیر، مجسمہ سازی ہو یا ناٹک، سب میں معنی خیز ہیئت کا اصول کار فرما ہے۔ یہی ان کے تناسب اور موزونیت کا ضامن ہے جس سے جذبے کے اظہار میں مدد ملتی ہے۔ بغیر ہیئت کے جذبہ خود اپنے اندر گھُٹ کر رہ جائے گا۔ اس کے اظہار میں روانی اور ترنم ہیئت ہی کی دین ہے۔ حافظ کے تغزّل میں حُسنِ ادا اور ہیئت اپنی معراج کو پہنچ گئی جس کی مثال فارسی اور اُردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ بلا شبہ مولانا روم کو طرزِ ادا اور ہیئت میں وہ بلند مقام نہیں ملا جو حافظ کو حاصل ہے۔ مولانا روم کے معانی اور موضوع نہایت بلند اور اخلاقی افادیت کے حامل ہیں لیکن ان کی مثنوی اور غزلیات جو شمس تبریز کے دیوان میں شامل ہیں، ڈھیلی ڈھالی اور نا ہموار زبان میں پیش کی گئی ہیں۔ ان کے کلام کی ہیئت حافظ کے مقابلے میں جاذب نظر نہیں کہی جا سکتی۔ اس کے برعکس اقبال کا پیرایۂ بیان مولانا روم کے مقابلے میں حسنِ ادا کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ اقبال نے پیرایۂ بیان کی حد تک حافظ کا تتّبع کیا اور شعوری طور پر رنگینی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ فارسی اس کی مادری زبان نہ تھی لیکن وہ بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا۔ بعض جگہ ممکن ہے اس کی زبان میں سُقم رہ گیا ہو لیکن فی الجملہ اس کی فصاحت کو اہل زبان نے تسلیم کیا ہے۔ اقبال نے فارسی زبان پر جو قدرت حاصل کی وہ قابل تعجب ہے اور ایک غیر اہل زبان کے لیے فخر کا موجب ہے۔ ہندوستان کے فارسی لکھنے والوں میں ایرانی لوگ امیر خسرو کی فصاحت کو مانتے ہیں حالانکہ ان کے یہاں بھی بعض جگہ محاورے کا سُقم اور نقص موجود ہے۔ ایک جگہ انہوں نے ہندی محاورے کا فارسی میں ترجمہ کردیا ہے۔ ہندی میں محاورہ ہے کہ ’’اس کی گانٹھ سے کیا جاتا ہے‘‘ یہ محاورہ ٹھیٹ ہندوستانی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہندوستان میں دہقانی لوگ اپنی دھوتی کے ایک جناب کمر پر لپیٹ دے کر اس میں روپے پیسے اڑس لیتے ہیں۔ یہ طریقہ سارے ملک میں اب بھی ہے اور امیر خسرو کے زمانے میں بھی تھا، ظاہر ہے کہ یہ طریقہ ایران کا نہیں ہے، وہاں دھوتی کی بجائے شلوار یا پاجامہ پہنا جاتا ہے۔ امیر خسرو نے اپنے ایک شعر میں اس ہندی محاورے کا ترجمہ کیا ہے: جاں می رود ز تن چوگرہ می زند بزلف مردن مراست از گرہ اوچہ می رود ایران میں گرہ کی بجائے کیسہ کہتے ہیں۔ امیر خسرو کے اس محاورے کا تتبع مرزا غالب نے بھی اپنی ایک غزل میں کیا ہے، حالانکہ انھیں اپنی فارسی دانی پر بڑا فخر تھا: گویٔ ’’مباد در شکن طرّہ خوں شود‘‘ دل زان تست از گرہ ماچہ می رود اقبال نے ایک جگہ ’’تیز خرام‘‘ لکھا ہے جس پر اہل زبان نے اعتراض کیا۔ اعتراض یہ ہے کہ خرا میدن کے معنی نازو انداز سے چلنے کے ہیں۔ ’’تیز خرام‘‘ میں اس لفظ کے اصلی معنی کی نفی ہوتی ہے۔ ہاں، خوش خرام اور آہستہ خرام درست ہے۔ اقبال نے خرا میدان کے مصدر کے معنی ’چلنا ‘ سمجھے ہیں اور اسی لیے ’’تیز خرام‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے جو فصیح نہیں۔ اگر ’خرا میدن‘ کے معنی ناز سے آہستہ چلنے کے ہیں تو سعدی نے ’’آہستہ خرام‘‘ کیوں لکھا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لفظ ’آہستہ‘ زائد ہے۔ جب زائد از ضرورت ہے تو غیر فصیح ہے۔ لیکن سعدی کو کون غیر فصیح کہہ سکتا ہے۔ اس کی فصاحت کا مقابلہ کوئی دوسرا فارسی زبان کا شاعر نہیں کرسکتا ۔ یہ اسی کا شعر ہے: آہستہ خرام بلکہ مخرام زیرِ قدمت ہزار جانست اسی طرح اگر خرا میدن میں خوش خرامیدن بھی شامل ہے تو خوش خرام کی ترکیب میں خوش کا لفظ زائد ہے: ایک کبک خوش خرام کجا میروی با یست غرّہ مشو کہ گربۂ زاہد نماز کرد (حافظ) جب آہستہ خرام اورخوش خرام فصیح ہیں تو تیز خرام بھی فصیح ہونا چاہیے۔ لیکن زبان کے معاملے میں منطق کام نہیں دیتی۔ فصیح اور غیر فصیح کا آخری فیصلہ اہل زبان ہی کر سکتے ہیں۔ جو وہ کہیں وہی درست ہے۔ ہمیں ان کے فیصلے کو ماننا چاہیے۔ اقبال نے ایک غزل میں ’’غلط خرامی‘‘ کی ترکیب بھی استعمال کی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اہلِ زبان کی اس کی نسبت کیا رائے ہے۔ ان کی رائے چاہے کچھ ہو، شعر میں جو خیال پیش کیا گیا ہے وہ نہایت بلند ہے: غلط خرامی ما نیز لذّتی دارد خوشم کہ منزل مادور و راہ خم نجم است اگر خسرو، غالب اور اقبال کے کلام میں فارسی محاورے کا کوئی سُقم ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ان کی فنی عظمت کو بٹّا لگ گیا۔ ان کے کلام کی جذباتی اور جمالیاتی حقیقت مسلّم ہے۔ کلام کی خوبی کا اظہار، کامیاب ابلاغ اور معنی خیزی سے ہوتا ہے جو ان کے یہاں موجود ہے۔ حافظ کی طرح اقبال کی غزل پڑھتے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی طلسمی فضا میں داخل ہوگئے۔ حافظ کا دیوان اس شعر سے شروع ہوتا ہے: الا یا ایہا السّاقی ادر کا ساً و ناولہا کہ عشق آساں نمود اوّل ولی اُفتاد مشکلہا اس سے بحث نہیں کہ یہ غزل حافظ کی شاعرانہ زندگی کے کس دور میں لکھی گئی۔ لیکن اس میں وہ معافی ہیں جن کی تفصیل و تشریح اس کے سارے دیوان میں ملتی ہے۔ عشق اور بے خودی کی طلسمی کیفیت اس کی ساری شاعری پر چھائی ہوئی ہے۔ دوسرے شعر میں پہلے شعر کی وضاحت ہے: ببوی نافۂ کا خر صبا زاں طرّہ بکشاید ز تاب جعد مشکینش چہ خوں افتاد در دلہا حافظ کے یہاں زُلف و گیسو عشق کی گرفتاری کا رمز ہے۔ زُلف و کاکل کے پیچ و خم سے منازل عشق کی دشواریاں مُراد ہیں۔ ان دونوں اشعار کی تشریح پورے دیوان میں طرح طرح سے کی گئی ہے۔ اقبال کی فارسی غزلوں کا پہلا مجموعہ پیام مشرق ہے جسے مے باقی کا عنوان دیا ہے۔ اس کی پہلی غزل ہی میں اقبال نے اپنی اجتماعی معنویت اور زندگی کے ممکنات کو صاف صاف بیان کردیا۔ اس کے سارے کلام میں یہی دونوں شعری محرّک طرح طرح سے پیش کیے گئے ہیں۔ عشق، خودی اور بے خودی انہیں کی خاطر ہے۔ انہیں ہم اقبال کی شاعری کالب لباب کہہ سکتے ہیں: گماں مبرکہ سر شتند در ازل گل ما کہ ما ہنوز خیالیم در ضمیر وجود بہ علم غرّہ مشوکار می کشی دگر است فقیہ شہر گریبان و آستیں آلود بہار برگ پراگندہ را بہم بر بست نگاہ ماست کہ بر لالہ رنگ و آب افزود پھر مقصد پسندی کے راز ہائے سر بستہ بھی انہیں پیر میکدہ بتاتا ہے۔ اس معاملے میں وہ حافظ کے رموز و علامات پر اپنا رنگ اس طرح چڑھا دیتے ہیں: شبی بمیکدہ خوش گفت پیر زندہ دلی بہ ہر زمانہ خلیل است و آتش نمرود پھر بت شکن محمود کے دل میں ایاز کی محبت کا بت کدہ بناتے ہیں اور اپنے ہم چشموں کو تاکید کرتے ہیں کہ اہل دیر سے نرم انداز میں بات کرو تاکہ محمود کے عشق کی لاج رہ جائے: بہ دیریاں سخن نرم گو کہ عشق غیور بنائے بت کدہ افگند در دل محمود حافظ اور اقبال دونوں اپنی شاعری میں اندرونی جذباتی زندگی کی داستاں بیان کرتے ہیں۔ دونوں کے یہاں زندہ خیالات اور پُر کیف جذبات لفظوں کا جامہ زیب تن کرتے ہیں، اس انداز میں کہ ہیئت اور معانی کی دوئی باقی نہیں رہتی۔ دونوں کی غزلوں میں ہم کلامی ہے۔ یہ ایک طرح کی غیر شخصی داخلیت ہے جو شاعر کے جذباتی تجربے کو طلسمی خاصیت عطا کرتی ہے۔ اقبال اپنی کردار نگاری میں فلسفہ و تاریخ میں مدد لیتا ہے۔ یہ اس کی مقصد پسندی کا خاص رمزی اور علامتی اظہار ہے۔ حافظ کی کردار نگاری خالص تخیلی ہے جیسے ساقی، پیر مغاں، مغبچہ، محتسب، صوفی، واعظ وغیرہ۔ حافظ اور اقبال دونوں کہانی کہتے ہیں۔ ان کی کہانیاں مسلسل نہیں ہوتیں بلکہ تخیلی ٹکڑوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں جوڑنا پڑتا ہے۔ تاکہ ان میں ربط و معنی پیدا ہوں۔ دونوں پیکر سازی کرتے ہیں جو ذہنی اور جذباتی تلازمات کی تخلیق ہے۔ اقبال کے یہاں چونکہ حافظ کے مقابلے میں تعقلی رنگ نمایاں ہے، اس لیے وہ اپنی پیکر سازی اور تلمیحات میں ماضی کی یادوں سے استفادہ کرتا ہے اور ان سے شعوری طور پر تجربے کی نئی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس نئے تجربے کی نوعیت اس تجربے سے مختلف ہے جو ماضی میں بیت چکا ہے۔ اقبال کے یہاں حافظ خاص قسم کا نفسیاتی تجربہ ہے جس میں وہ منتخب واقعات اور تاثرات کو مرتب کرکے انہیں تخلیقی وجدان کا جز بناتا ہے۔ یہ ترتیب شعوری ہے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ اپنی اصلی حالت میں سب یادیں خلط ملط اور گڈ مڈ ہوتی ہیں۔ ان میں مسرّت و غم، جذبات، توقعات، آرزوئیں، جدو جہد، کش مکش اور ان سب کے ردّ عمل اکثر اوقات ملے جلے ہوتے ہیں۔ اقبال تعقلی طور پر ان کا تجزیہ کر کے ان کی فنی صورت گری کرتا ہے اور ان پر اپنے جذبہ و تخیل کا رنگ چڑھا دیتا ہے۔ شاعری میں تاریخ کا تجربہ واقعاتی نہیں بلکہ جذباتی ہوتا ہے۔ جذبہ واقعات اور حوادث کو اس طرح پروتا ہے کہ حقیقت ایک مسلسل تخلیقی حرکت بن جاتی ہے۔ اقبال کے نزدیک انسانی وجود ایک سے زیادہ زمانوں کی مخلوق ہے جس میں ماضی کی سیکڑوں صدیاں سوئی ہوئی ہیں جن میں روحانی وحدت موجود ہے۔ جو تاریخی واقعات و تلمیحات وہ اپنی شاعری میں استعمال کرتا ہے ان کی حقیقت خام مواد کی ہے جسے وہ اپنے شاعرانہ طلسم کے چوکھٹے میں جس طرح چاہتا ہے ڈھال لیتا ہے۔ اسی میں اس کے فن کا کمال پوشیدہ ہے۔ وہ حقیقت کا جو پیکر تراشتا ہے وہ اپنے اندرونی جذبے اور پرکشش ہیئت کے باعث ہمارے لیے جاذب نظر اور معنی خیز ہوتا ہے۔ اس کے تصوّرات بھی جذبے کی طرح ہیئت کی تشکیل میں مدد دیتے اور اسے نکھارتے ہیں: میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو حافظ کے یہاں بھی ماضی اور حال ایک دوسرے میں ایسے پیوست ہیں کہ یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ ان کا روئے سخن کس طرف ہے۔ اس کے تغزّل کا یہ مخصوص پیرایۂ بیان ہے کہ وہ جو کچھ کہتا ہے پردے میں کہتا ہے۔ اس نے جو طلسمی دنیا بنائی اس کا اظہار رمزو ابہام ہی میں ممکن تھا جو اس کی غزل کی خاص خصوصیت ہے۔ اس کے بعد آنے والے غزل نگاروں نے اس باب میں اپنی اپنی بساط کے مطابق اس کاتتبع کیا۔ اس کاپتا لگانا بھی دشوار ہے کہ اس کا محبوب مجازی ہے یا حقیقی؟ یہاں بھی وہ شروع سے آخر تک ابہام و اشتباہ کے پردے میں بات کرتا ہے۔ حافظ اخلاقی معتقدات یا مقصد پسندی کے بغیر اپنے جذبہ و احساس کو لفظوں میں اس خوبی اور حسنِ ادا سے منتقل کرتا ہے کہ طلسمی کیفیت قاری یا سامع کے لیے مکمل ہوجاتی ہے۔ اسے خارجی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے بیان کی اندرونی توانائی اور رعنائی کافی بالذّات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تغزّل میں تصوّرات کی نہیں بلکہ جذبے اور ہیئت کی ضرورت ہے جسے پیرایۂ بیان کہتے ہیں۔ جو لفظ حافظ نے اپنی غزل میں برتے، دوسرے بھی انہیں برتتے ہیں لیکن وہ تاثر و تاثیر نہیں پیدا ہوتی جو حافظ کے کلام سے ہوتی ہے۔ لفظوں کی ترتیب میں بہت سے ذہنی اور جذباتی عناصر شامل ہوتے ہیں جن سے فنی حسن ادا پیدا ہوتا ہے۔ اس میں ذہنی تلازمات، اندازِ فکر، دقّت نظر، طرزِ ادا کی طرفگی اور رنگینی ان سب کا مجموعی اثر ہمیں مسحور کرتا ہے۔ حافظ کا دیوان کیا ہے طلسمات کا مخزن ہے۔ تعجب نہیں کہ خود اس کی زندگی ہی میں اس کے اشعار کو ’لسان الغیب‘ کہنے لگے تھے۔ کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں جن کیفیات کا علٰیحدہ علٰیحدہ زمان و مکاں کے فرق کے ساتھ کبھی کبھی تجربہ ہوتا ہے، وہ حافظ کے یہاں ہیئت و معانی کی وحدت میں یک جا موجود ہیں اور ان میں اتنی زبردست توانائی اور قوت پوشیدہ ہے کہ ہم انہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اس کا وجدانی اورروحانی تجربہ ہمارا تجربہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ذاتی تجربے میں جو واقعات بڑے پیچیدہ تھے وہ حافظ کے یہاں سادہ سلجھے ہوئے اور صاف محسوس ہوتے ہیں۔ اس کے تاثر کی وحدت ہمارے قلب و نظر کے لیے تاثیر کی وحدت میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اسے اس کی قدرتِ بیان کا اعجاز کہنا چاہیے۔ حافظ اور اقبال دونوں میں فن کی تخلیقی توانائی ہے۔ یہ توانائی نہ صرف یہ کہ روحانی مسرّت کا سرچشمہ ہے بلکہ بجائے خود حسین و جمیل ہے۔ حافظ کے یہاں اس سے باطنی آزادی کا اظہار ہوتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ توانائی عقیدت اور تخیل کے جوش سے عبارت ہے۔ اس کے بغیر حافظ اور اقبال دونوں کی شاعری میں گرمی اور حرارت نہیں پیدا ہوسکتی تھی۔ دراصل اگر کسی میں روحانی توانائی کی کمی ہے تو وہ نیک انسان تو بن سکتا ہے لیکن عظیم فن کار نہیںہوسکتا جس کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صرف پیتا ہی نہیں بلکہ چھلکا بھی دیتا ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے: زاں فراوانی کہ اندر جان او ست ہر تہی را پُر نمودن شان اوست حافظ اس توانائی کو شوق کہتا ہے جو موسیقی سے لہکتا اور بھڑکتا ہے: تا مطرباں ز شوق منت آگہی دہند قول و غزل بسازو نوا می فرستمت یہی شوق کبھی اسے مجبور کرتا ہے کہ محبوب کی زُلف سے جان کے عوض آشفتگی اور پریشانی خریدے۔ دل اس گھاٹے کی تجارت ہی میں اپنا نفع تلاش کرتا ہے: دلم ز حلقۂ زلفش بجاں خرید آشوب چہ سود دید ندانم کہ ایں تجارت کرد اس میں شک نہیں کہ کسی شاعر کے سوانحی حالات سے اس کے ذہن کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن اس پر حد سے زیادہ بھروسہ کرنا مناسب نہیں۔ ایسا کرنے میں اندیشہ ہے کہ شعر کی اصلیت کہیں نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے۔ زندگی کے تجربے جب فن کار کے جذبہ و تخیل میں گھُل مل جاتے ہیں تو وہ اس اندرونی کیمیاگری کے باعث ہمارے لیے جاذبِ قلب و نظر بنتے ہیں۔ شاعر کے جذباتی تجربے جب شعر میں تحلیل ہوجاتے ہیں تو ہمیں ان کی وحدت کو دیکھنا چاہیے، انہیں اس کے سوانحی حالات سے مربوط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ حافظ اور اقبال دونوں کا اپنے معاشرے میں نچلے درمیانی طبقے سے تعلق تھا۔ دونوں نے اپنی ذاتی جدوجہد اور قابلیت اور علم و فضل سے معاشرے میں اپنا مقام بنایا لیکن ان کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقام ایسا نہ تھا جس سے وہ مطمئن ہوں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کی یہ محرومی اور نا آسودگی کس حد تک ان کی فنی تخلیق کی محرک بنی۔ لیکن لسانی احوال کی طرح معاشری اور سوانحی احوال کو بھی ایک حد کے اندر کھنا ضروری ہے ورنہ یک طرفہ نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے۔ فنی تخلیق معاشرے کا ایک فرد انجام دیتا ہے لیکن اس کام میں اصلی محرّک خود اس کی اندرونی خلش اور اُپج ہوتی ہے جو بعض اوقات معاشری حالات کے باوجود اپنا اظہار چاہتی ہے۔ اقبال کی شاعری کے متعلق یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس پر خود اس کی زندگی اور خیالات کا گہرا اثر ہوا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس سے زیادہ اثر اس کی شاعرانہ تخلیق نے اس کی زندگی اور خیالات کی سمت متعین کرنے پر ڈالا۔ اسی طرح یہ دیکھا گیا ہے کہ فن کار اپنی آزادی کے دعوے کے باوجود خود اپنی تخلیق کا ذہنی طور پر پابند ہوجاتا ہے۔ فن کار کی زندگی اس کی اندرونی صلاحیت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور اس کی اندرونی صلاحیت اس کی زندگی سے اپنے خد و خال متعین کرتی ہے۔ بعض اوقات فن کار کے لاشعور میں جو خزانہ چھُپا ہوتا ہے وہ شعور کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ شعوری طور پر فن کار نے علم و حکمت کی جو معلومات حاصل کیں وہ لاشعور کی سطح کو گد گداتی ہیں اور اس کے باطن میں جو پوشیدہ ہے اس میں مل ملا کر سب کو اس سے اُگلوا دیتی ہیں۔ شعور اور لا شعور نہ صرف ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں بلکہ فنی تخلیق میں بالکل تحلیل ہوجاتے ہیں۔ شعور اور لا شعور کے اس عمل اور ردِّ عمل سے شاعر کی ذہنی اور جذباتی نشو و نما میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں جنہیں وہ خود محسوس نہیں کرتا۔ اقبال کے یہاں مجاز نے مقصدیت کا رنگ و آہنگ بعد میں اختیار کیا۔ لیکن حافظ کا کلام پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شروع ہی سے مجاز اور حقیقت ایک دوسرے میں پیوست ہیں اور جذبہ و تخیل کی نشوو نما کا عمل اس قدر خاموش اور غیر واضح ہے کہ اس کے خدو خال کبھی نمایاں نہیں ہوئے۔ میں اسے حافظ کی فنی تخلیق کا معجزہ سمجھتا ہوں کہ اس کے کلام میں اس بات کا قطعی طور پر پتا لگانا دشوار ہے کہ اس کا شروع کا کلام کون سا ہے، درمیانی عہد کا کون سا ہے اور آخر عمر کا کون سا ہے؟ اس کے اندرونی تخلیقی تجربے میں شروع ہی سے بھر پور پختگی نظر آتی ہے۔ اقبال کا ابتدائی کلام اور آخری زمانے کا کلام اگر سوانحی حالات کا پتا نہ ہو جب بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ یہی حال غالب کا بھی ہے۔ لیکن حافظ کے کلام میں حسن ادا اور بلاغت کا جو انداز شروع میں تھا وہی آخر تک رہا۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے۔ اس نے اپنی پہلی غزل بابا کو ہی میں اعتکاف کی حالت میں کہی۔ اس کا مطلع ہے: دوش وقت سحر از غصّہ نجاتم دادند وندراں ظلمت شب آب حیاتم دادند انداز بیان اور پختگی کے اعتبار سے حافظ کی یہ غزل اس کی اعلیٰ ترین تخلیقات میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ یہ روایت کہ یہ اس کی پہلی غزل تھی تاریخی لحاظ سے غلط سہی لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہم عصروں کے نزدیک اس کے کلام میں مُبتدیوں کی سی خام کاری کا اظہار کبھی نہیں ہوا۔ اس کی کسی غزل پر یہ حکم لگانا کہ یہ ابتدائی ہے اور یہ آخری زمانے کی ہے، ممکن نہیں۔ اس کے انداز بیان میں شروع سے آخر تک یکسانیت ہے۔ اس کا جذب و کیف جیسا جوانی میں تھا ویسا ہی بڑھاپے میں رہا۔ یہ بات اسلوب کی کوتاہی اور جمود کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ جیسا کامل شروع میں تھا ویسا ہی آخر تک رہا۔ یہ صرف دنیا کی الہامی کتابوں کی خصوصیت ہے کہ ان کے اسلوب میں شروع سے آخر تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ حافظ کا کلام بھی اسی نہج کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے اندرونی تجربے کو لفظوں کا جامہ پہناتا ہے تو اس کی روح کی شدّت اور پاکیزگی ان میںسما جاتی ہے۔ یہی چیز قاری یا سامع پر اثر انداز ہوتی ہے اور بعض اوقات اس پر بے خودی کی کیفت طاری کردیتی ہے۔ فنی تخلیق ادراک و تخیل کا کرشمہ ہے۔ یہ ذہن اور فطرت کی آویزش کا نتیجہ ہے۔ اس کی خاطر فن کار کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ شعور اور لا شعور کے منتشر اجزا کو سمیٹ کر اپنی شخصیت کا حصہ بنائے اور انہیں وجداتی طور پر اپنی روح کی وحدت عطا کرے۔ حقیقی فن کار اپنے فن کا عاشق ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک اس کا فن، حسن کی قدر بن جاتا ہے۔ جب اس کی اندرونی ریاضت پُر اسرار طور پر اس کے خیالی پیکر کو معنی خیز بناتی اور پیکری تعیّن عطا کرتی ہے تو شاعر لفظوں کے ذریعے تخلیق حسن کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے وجود کے دریا میں غوطہ زن ہوتا ہے تاکہ اس کی تہہ میں سے فن پارے کا موتی باہر نکال لائے۔ حافظ نے اپنے اس فنی عمل کے لیے سمندر اور قطرے کے استعارے بڑے ہی انوکھے انداز میں استعمال کیے ہیں۔ یہ صوفیانہ استعارے نہیں جو شعرائے متصوفین کے یہاں ملتے ہیں بلکہ خالص فنی عظمت کے استعارے ہیں۔ وہ اپنی فطرت عالیہ کو خطاب کرتا ہے کہ تو اظہار کے لیے پیاسی اور بے تاب تھی۔ اب تو پن گھٹ پر پہنچ گئی جو تیرا مقصود تھا۔ مجھ خاکسار کو بھی ایک قطرہ عطا کردے۔ مشرب و بحر کی رعایت اور قطرہ و خاک کے مقابلے سے بلاغت اور معنی آفرینی کا حق ادا کیا ہے: ای آنکہ رہ بمشرب مقصود بردۂ زیں بحر قطرۂ بمن خاکسار بخش اس سے ملتا جلتا مضمون اقبال کے یہاں بھی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں بے حد خود دار تھے۔ وہ اپنی فطرت عالیہ کے سوا کسی دوسرے کے سامنے فنی تخلیق کے روحانی عناصر کی بھیک نہیں مانگ سکتے تھے۔ حافظ کی طرح اقبال بھی اپنی فطرت عالیہ کے چمن سے شبنم کے ایک قطرے کی درخواست کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں تیرے چمن میں اُگا ہوں، شبنم کا ایک قطرہ مجھے عطا کردے تاکہ میرے فن کا غنچہ کھل جائے۔ تیری توجہ سے میری تخلیقی صلاحیت بروئے کار آجائے گی اسی طرح جیسے شبنم کے ایک قطرے سے غنچہ اپنی تکمیل کی منزل طے کرلیتا ہے۔ اگر تو ایک قطرہ بخش دے گا تو تیرے دریا میں اس سے کوئی کمی نہیں واقع ہوگی، ہاں میں اپنی مراد پا جائوں گا: از چمن تورٔستہ ام قطرۂ شبنمی ببخش خاطر غنچہ وا شود، کم نشود بجوی تو غرض کہ ایسا لگتا ہے کہ حافظ اور اقبال دونوں اپنے تخلیقی اظہار کے دیوانے ہیں، اس لیے کہ اُن کی فنی تخلیق حسن کی تخلیق ہے جس کی زیبائی سے پہلے وہ خود مسحور ہوتے ہیں اور پھر دوسروں کو مسحور کرتے ہیں۔ تخلیق کے لمحوں میں وہ اپنے کو فراموش کردیتے ہیں۔ فن کار جتنا اپنے کو بھول کر اپنی توجہ اپنے فن کی طرف کرتا ہے، اتنا ہی اس کی تخلیق تابناک ہوتی ہے۔ وہ اس کے وجود سے اسی طرح غذا حاصل کرتی ہے جیسے پودا زمین سے اپنی زندگی پاتا ہے۔ وہ زمین کے سب کیمیائی عناصر جذب کرلیتا ہے۔ اس طرح فن پارے میں فن کار کی شخصیت کے سارے عناصر تحلیل ہوجاتے ہیں۔ شعور، لا شعور، فکر، جذبہ سب اس کے تخیل میں گھُل مل جاتے اور مجموعی طور پر اپنی تاثیر دکھاتے ہیں۔ ان کے الگ الگ دھارے باقی نہیںرہتے بلکہ وہ تخلیقی وجدان کا ایک بہتا ہوا چشمہ بن جاتے ہیں جو اٹھلاتا، اٹھکھیلیاں کرتا، مستانہ وار اپنے مقرر راستے پر چلا جاتا ہے۔ حافظ اور اقبال کی فنی تخلیق میں انفرادیت اور آفاقیت دونوں پہلو بہ پہلو موجود ہیں۔ ان میں تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کا تکملہ کرتی ہیں۔ ہر عظیم فن کار کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے تخیل اور جذبے میں انفرادی اور آفاقی عناصر ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات کسی فن کار کے یہاں ایک عنصر نمایاں ہوجاتا ہے اور کسی کے یہاں دوسرا۔ علمی تحقیق کے نتائج پر وقتاً فوقتاً نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن فنی تخلیق کی صداقت ہمیشہ کے لیے ہے۔ چاہے کوئی اسے مانے یا نہ مانے، اس پر نظر ثانی کی گنجائش کبھی نہیں نکلتی۔ ہومر کی شاعری کے موضوعات فرسودہ ہیں لیکن ان پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی جس طرح کہ یونانی علوم و حکمت پر کی جا سکتی ہے۔ ان علوم کے بعض اصول کو قبول کیا جاتا ہے اوربعض کو رد۔ ہومر کی فنی تخلیق موجودہ زمانے کے لحاظ سے بر محل ہو یا نہ ہو لیکن اس کی متبادل صورت نہیں پیش کی جا سکتی ۔ یہی حال دانتے کی شاعری کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تخیل کی تخلیق اپنی آزاد اکائی رکھتی ہے اور اس کا دامن ہمیشگی سے ٹکا ہوتا ہے۔ وہ اپنی جگہ مکمل ہوتی ہے۔ آنے والا زمانہ یہ سوال نہیں اٹھا سکتا کہ وہ ایسی کیوں ہے، ویسی کیوں نہیں؟ فن پارے کا حسن اور ہم آہنگی ہمیشہ قائم رہتی ہے، چاہے لوگوں کے خیالات اور عقائد میں کتنا ہی انقلاب کیوں نہ پیدا ہوجائے۔ عظیم فن کار اپنے زمانے میں ہوتے ہوئے بھی اپنے زمانے سے ماورا ہوتا ہے۔ اکثر اوقات وہ اپنے ہم جنسوں میں تنہائی محسوس کرتا ہے، اس لیے فن کو اپنا رفیق و دمساز بناتا ہے۔ اس کی نا آسودگی فنی تخلیق کے لیے محرک ثابت ہوتی ہے۔ اکثر اوقات اپنے زمانے سے بلند ہونے کے باعث وہ حقیقت حاضرہ سے مفاہمت نہیں کر سکتا۔ اس کا لازمی نتیجہ ذہنی اور روحانی کش مکش ہے جس کی تلافی وہ اپنی فنی تخلیق میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی وہ خواب و خیال کی دنیا بساتا ہے۔ اور کبھی ’’فردوس گم شدہ‘‘ کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ حافظ اور اقبال ارضیت کے قدر دان ہونے کے باوجود ماورائی حقائق پر پورا یقین رکھتے تھے۔ وہ عالمِ غیب کو عالمِ شہادت میں اور عالمِ شہادت کو عالمِ غیب میں دیکھتے تھے۔ حقیقت اور مجاز اور مقصدیت کی تہہ میں ان کی اسی نفسی کیفیت کو تلاش کرنا چاہیے۔ ان کا یہ یقین و ایمان ہی ان کے بظاہر متضاد خیالات میں مشترک اور اتصالی کڑی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں کے یہاں فن کی آزادی کا احساس موجود ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ انھوں نے روایات کی پابندی کی بجائے ان کے وہ عناصر لے لیے جو ان کے فن میں کھیتے تھے۔ روایات کے اس ردِّ و قبول کے عمل سے فن کار کی اظہار ذات کی آفاقیت نمایاں ہوتی ہے۔ اسی آفاقیت کا تصور ہم فنی روایات کے بغیر نہیں کر سکتے۔ یہ ضرور ہے کہ عظیم فن کار ان روایات کے بعض اجزا کو اپنانے کے ساتھ ان میں ذاتی تصرّف بھی کرتا ہے یا نئی روایات کی داغ بیل ڈالتا ہے جنہیں مستقبل میں اپنایا جاتا ہے۔ روایات میں چاہے وہ نئی ہوں یا پرانی گہرائی پائی جاتی ہے۔ فن کار کا تخیل اس گہرائی کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ حافظ نے اپنے فن کے ذریعے جو جمالیاتی خزانے دنیا کو دیے وہ خود فراموشی کے عالم میں دیے۔ اسے کبھی اس کا احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنی تخلیق حسن سے دنیا کو کیا کچھ دے رہا ہے۔ اس کی محویت اور استغراق کا یہ عالم تھا کہ اس کے نزدیک کُروں کی گردش کا نغمہ اور اس کا جذبہ ایک ہوگئے تھے۔ اس کی بے خودی مکمل بے خودی تھی۔ اس کے برعکس اقبال کی بے خودی شعوری اور ارادی تھی۔ حافظ خاموشی سے گفتگو کرنے کا عادی تھا۔ خاموشی ہی اسے زندگی کے سارے راز ظاہر کردیتی تھی۔ اس کا تخیل اس کے جذب دروں کا دم ساز تھا۔ وہ اسے ان عالموں میں لے گیا جو ہمارے تجربے سے بالاتر ہیں۔ یہاں اسے خود اپنے وجود کا احساس باقی نہیں رہا۔ وہ اور جذبہ ایک ہوگئے: بمی پرستی ازاں نقش خود ز دم بر آب کہ تا خراب کنم نقش خود پرستیدن یہ عجب بات ہے کہ حافظ جو سرتاپا جذبہ ہے، شروع سے آخر تک جذبے کا اظہار اتنا نمایاں نہیں جتنا کہ اقبال کے یہاں ہے جس کے جذبے میں شعورو تعقل کی آمیزش ہے۔ حافظ کے فن میں جذبے کی زیریں لہریں ہمیشہ موجود رہیں لیکن یہ اس کے فنی ضبط و اعتدال کا کمال ہے کہ اس نے انہیں بس اتنا ابھرنے دیا جتنا وہ چاہتا تھا۔ کہیں ان کے سایے دکھائی دیتے ہیں، کہیں ان کی مبہم جنبش نظر آتی ہے اور کہیں صرف یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ نیچے نیچے رواں دواں ہیں۔ غرض کہ اپنے جذبے کی ان اندرونی لہروں پر اسے پورا قابو حاصل رہا جو اس کے فنی کمال پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کو اپنے جذبے پر قابو نہیں۔ شاید وہ دیدہ و دانستہ اس پر قابو حاصل کرنا نہیں چاہتا اس لیے کہ فنی کمال سے زیادہ اس کے پیش نظر مقاصد کی تابناکی تھی۔ اس کے یہاں جذبے کی موجوں کا ابھار اور جوش اور برانگیخنگی چھپائے نہیں چھپتی، چاہے وہ نظم میں ہو اور چاہے غزل میں۔ اس نے اپنی غزلوں میں حافظ کی رنگینی اور مستی مستعار لی ہے لیکن وہ بھی اس واسطے ہے کہ تاثیر پیدا ہو اور وہ اپنے فن سے لوگوں کے دلوں کو لبھا سکے۔ فکر و فلسفہ نے انسانی وجود پر شبہ ظاہر کیا۔ اقبال نے اس سارے مسئلے کو اپنے جوش عشق سے حل کردیا۔ جو اس کے وجود اور شعور کا معروض ہے۔ یہی اس کی فنی تخلیق کا سب سے زبردست محرک ہے: در بود و نبود من اندیشہ گماں ہا داشت از عشق ہویدا شدایں نکتہ کہ ہستم من حافظ کا بیشتر کلام خود رو ہے جس میں شعوری ارادے کو بہت کم دخل ہے۔ اس کے برخلاف اقبال کی فنی تخلیق میں شعوری ارادے کو خاصا دخل معلوم ہوتا ہے۔ جو فن پارہ از خود وجود میں آتا ہے اس کی ہیئت فن کار کے تخیل میں پہلے سے متعین ہوجاتی ہے اور جس تخلیق میں ارادے اور شعور کو دخل ہو اس کی ہیئت اور موضوع دونوں کے لیے فن کار کو کاوش کرنی پڑتی ہے۔ اول الزکر میں اندرونی ریاضت زیادہ اور خارجی کاوش کم اورثانی الذکر میں اندرونی ریاضت نسبتاً کم اور خارجی کاوش زیادہ ہونا لازمی ہے۔ ہر حالت میں فنی تخلیق آزاد وجود اختیار کرلیتی اور اپنے خالق سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔ حافظ اور اقبال دونوں نے استعاروں کے ذریعے اپنے خیالات کو ظاہر کیا۔ عظیم شاعری کی یہی زبان ہے۔ شاعر اسی عالم کے ذریعے اپنی فنی تکمیل اور آزادی کے اصول کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی میں مسرت اور بصیرت کا خزانہ پوشیدہ ہے جس کا سامع اور قاری متلاشی ہوتا ہے۔ بعض اوقات دونوں کے یہاں استعارے اور رموز و علائم ایک دوسرے میں اس طرح شیرو شکر ہیں کہ ان کی نشاندہی دشوار ہے۔ عظیم فن کاروں کے یہاں جس طرح ہیئت و موضوع، جذبہ و فکر اور علم و عرفان ایک دوسرے میں تحلیل ہو کر ایک وحدت بن جاتے ہیں، اسی طرح ان کی تخلیق توانائی کی بدولت استعارے اور رموز علائم بھی ہم آمیز ہو کر اپنے جدا گانہ خدوخال ایک دوسرے میں گم کردیتے ہیں۔ یہ علم معانی و بیان کی خلاف ورزی نہیں بلکہ تکمیل ہے۔ لیکن اس کا حق حافظ اور اقبال جیسے عظیم تخلیقی فن کاروں ہی کو پہنچتا ہے۔ حافظ اور اقبال، ڈاکٹر یوسف حسین خاں، غالب اکیڈمی، دہلی، ۱۹۷۶ء حوالے اور حواشی ۱۔ ایران کے عہد جدید کے جن بلند مقام شاعروں نے اقبال کی فنی اور فکری عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے اور اس کے فارسی کلام کی خوبی و زیبائی کو تسلیم کیا ہے، ان میں ملک الشعرا بہار، علامہ دہخدا، آقائی صادق سرمد شاعر ملّی ایران، آقای حبیب یغمانی، آقای رجای، آقای ادیب برومند، آقای دکتر قاسم رسا اور آقای علی فدای شامل ہیں۔ آخر الذکر نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ اقبال نے باوجود اس کے کہ فارسی اس کی مادری زبان نہیں، اس زبان کو پوری قدرت اور فصاحت کے ساتھ برتا اور اس طرح ایک محال بات کو ممکن کر دکھایا۔ (رُومی عصر، عبدالحمید عرفانی، چاپ تہران) ملک الشعرا بہار نے نہ صرف اقبال کے کلام کی ادبی خوبیوں کا اعتراف کیا بلکہ اس کی مفکّرانہ عظمت کو سراہا اور کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی تہذیب اورفکر و نظر کا ثمر ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے اسلامی علوم و حکمت کو اپنی فکر میں جذب کیا لیکن اس کے علاوہ اس نے مغربی تفکّر کے ان عناصر کو بھی اپنے جذبہ و تخیل سے ہم آمیز کیا جو اسلامی تہذیب کی روح سے موافقت رکھتے تھے۔ اس طرح اس کی شاعری میں مشرقی اور مغربی علم و ادب کا سنگم نظر آتا ہے جس کی مثال کسی دوسرے کے یہاں نہیں ملتی۔ ۲۔ فکرِ اقبال، ص ۳۷۴ ۳۔ اقبال نامہ، جلد اوّل ص ۵۔ ۵۴ ۴۔ ایضاً، جلد دوم ص ۴۔ ۵۳ ۵۔ خطوط اکبر بنام خواجہ حسن نظامی ۶۔ خطوطِ اقبال، جلد۱، ص ۶۔ ۳۵ اقبال اور سیدجمال الدین افغانی ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ( ۱ ) زمانے کے اتفاقات بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کہاں کی خاک، کہاں کاخمیر! کہاںاستنبول، کہاں لاہور اور پھر کہاں کابل! لیکن یہ فاصلے کبھی آن واحد میں دور بھی ہو جاتے ہیں اور دل ایک ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں۔ دسمبر۱۹۴۴ء کے آخری ایام کی ایک شام تھی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس عصر حاضر کی دو جلیل القدر ہستیوں کا موت کے بعدملاپ ہوا، اور یہ منظر لاہور اور بیرو نجات کے ہزاروں فرزندان توحید نے وفور شوق کے عالم میں دیکھا۔ بہت سے لوگوں پر رقت طاری ہوئی۔ جوش جذبات سے اکثر آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ دیر تک یہ سماںرہا اور پھر ایک ہستی کا جسد خاکی جو استنبول سے لایا گیا تھا، پشاور کے راستے کابل روانہ ہو گیا۔ دوسری ہستی اپنے مرقد میں، اہل عزم و ہمت کی زیارت کا مرکز بنی، محو آرام رہی۔ یہ دو ہستیاں تھیں سید جمال الدین افغانی ؒاور علامہ شیخ محمد اقبالؒ کی اور تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ افغانی ؒ کی رحلت کے تقریباً اڑتالیس سال بعد ترکی اور افغانستان نے جذبہ ء خیر سگالی کے تحت ان کا جسد خاکی استنبول سے کابل لا کر دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک اعلی افغان وفد افغانیؒ کے جسد خاکی کو تابوت میں رکھ کر بحری جہاز سے بمبئی پہنچا اور ہاں سے بذریعہ ٹرین براستہ دہلی لاہور اور پشاور کے راستے کابل پہنچا۔ لاہور میں افغانی کا تابوت یک شب و روز رہا۔ برکت علی اسلامیہ ہال (بیرون موچی دروازہ) میں رات بھر زائرین آتے، قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور افغانی کی روح کو ایصال ثواب پہنچاتے رہے۔ پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی ہزاروں مسلمان زیارت کے لیے لاہور آئے۔ اگلے روز بعد نماز ظہر لاکھوں انسانوں کے جلوس کے ساتھ افغانی کا تابوت شہر سے گزر کر بادشاہی مسجد میں لے جایا گیا۔ وہاں دعائے مغفرت پڑھی گئی اور اس کے بعد تابوت کو مسجد سے باہر لا کر تھوڑ ی دیر کے لیے علامہ اقبال کے مرقد کے پہلو بہ پہلو رکھ دیا گیا۔ یہ منظر جو ناقابل فراموش یادوں سے معمور ہے، راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور آج تک قلب اس روح پرور نظارے کے سرور سے لذت یاب ہے۔ ( ۲ ) سید جمال الدین افغانی نے ۹مارچ ۱۸۹۷ء کو استنبول میں رحلت فرمائی اور نشان تاش کے قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا۔ اقبال عین اسی زمانے میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کرتے ہیں۔ ایک بطل عظیم اپنی جدوجہد کو حیات فانی کی منتہا تک پہنچا کر رخصت ہوتا ہے، دوسرا بطل جلیل اپنی زندگی کی جدوجہد کا آغاز کرتا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ابتدائی مرحلے میں اقبال نے افغانی کے کوئی اثرات قبول کئے یا نہیں؟اقبال، سید جمال الدین افغانی کی شخصیت اور ان کی دینی، سیاسی، فکری تحریک سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، لیکن ان اثرات کا آغاز کب ہوا؟ اس امر کا فیصلہ آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مسئلہ ذرا غور طلب ہے۔ زیر نظر مضمون میں افغانی سے اقبال کے ذہنی رابطے، فکری اور ہم آہنگی اور دینی و سیاسی سر رشتوں کے آغاز و ارتقا کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افغانی کے احوال و آثار یا حیات اقبال کی تفصیلات پیش کرنا مدنظر نہیں۔ یہ امور ضمنی طور پر حسب موقع آسکتے ہیں۔ ( ۳ ) ابتدائی اثرات کا سراغ لگانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہو گا کہ انیسویں صدی کا ہندوستان کس حد تک افغانی کی شخصیت سے متعارف اور ان کی تحریک سے متاثر تھا، نیز اقبال کے ابتدائی دور کے خیالات کس حد تک اس تحریک سے ہم آہنگ تھے۔ قاضی عبدالغفار نے افغانی کے اسفارہند کی تعداد پانچ بتائی ہے۔(۱)پہلی بار۱۸۵۶ -۱۸۵۷ء میں جب وہ یہاں ایک سال قیام کر کے حج کے لیے روانہ ہوئے۔دوسری بار ۱۸۶۱ء میں جب حج اور بلاد اسلامی کی سیاحت کے بعد وہ براستہ ہند کابل واپس پہنچے۔ تیسری بار ۱۸۶۴ء یا ۱۸۶۵ء میں جب امیر دوست محمد کی وفات کے بعد امیر شیر علی اور شہزادہ محمد اعظم کے درمیان خانہ جنگی جاری تھی، افغانی اس آویزش کے دوران ہندوستان آگئے اور چند ماہ پنجاب میں رہے (جس کی تفصیلات دستیاب نہیں)۔ چوتھی بار ۱۸۶۹ء میں جب انھوں نے امیر شیر علی کے برسر اقتدار آنے کے بعد افغانستان کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا اور حج کے ارادے سے روانہ ہو کر تقریباً دو ماہ ہندوستان میںرہے اور پھر حج کے بعد ترکی اور مصر چلے گئے۔ پانچویں دفعہ افغانی ہندوستان اس وقت آئے جب مصر میں طویل اقامت (مارچ ۱۸۷۱ء تا ستمبر ۱۸۷۹ئ) کے بعد انھیں حکومت برطانیہ کے اصرار پر وہاں سے نکال دیا گیا اور وہ ہندوستان چلے آئے۔ یہاں دو سال ان کا قیام ریاست حیدرآباد میں حکومت برطانیہ کی کڑی نگرانی میں رہا اور جب ۱۸۸۱ء میںاعرابی پاشا نے خدیو مصر اور فوج میں غیر ملکی افسروں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو افغانی کو (مصلحت اور احتیاط کے طور پر) حیدر آباد سے کلکتہ منتقل کر دیا گیا۔ جب ۱۸۸۲ء میں برطانوی مداخلت سے اعرابی پاشا کی مسلح جدوجہد کچل دی گئی اور مصر پر برطانیہ کا قبضہ ہو گیا تو حالات معمول پر آنے کے بعد افغانی کو ہندوستان سے رخصت کی اجازت ملی اور وہ یہاں سے لندن اور وہاں سے پیرس پہنچے۔ اس آخری سفر و قیام کے بعد پھر انھیں زندگی میںکبھی ادھر آنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ افغانی کے ان اسفارہند میں صرف آخری سفر ایسا ہے جس میں ان کا قیام یہاں ڈھائی تین سال رہا اور اس دوران میں بہت محدود طور پر ان کے روابط یہاں کے بعض حلقوں سے قائم ہوئے۔ یہ روابط قاہرہ کی طرح نتیجہ خیز نہیں کہے جاسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہاں ایک نظر بند کی حیثیت سے مقیم تھے اور ان کی یہاں مسلسل نگرانی ہوتی تھی۔ پھر ہندوستان برطانیہ کی ایک محکوم نو آبادی تھا اور اگرچہ حیدر آباد کا والیٔ ریاست مسلمان تھا لیکن اس کی سیاسی حیثیت برائے نام تھی۔ اصل کار پرداز انگریز ریذیڈنٹ تھا، تاہم افغانی کی حیدرآباد کے بعض امراء اور علمی اداروں تک محدود رسائی تھی جن میں انھوں نے ملکی زبان، ادب اور قومی صحافت کی ترقی پر زور دیا۔ اسی قیام کے دوران انھوں نے رد دہریین کے عنوان سے فارسی میں ایک کتاب بھی لکھی۔ مذہب کے بارے میں سرسید احمد خاں کے بعض مصلحانہ خیالات پر انھوں نے نکتہ چینی بھی کی (ظاہر ہے کہ سرسید ایک محکوم ملک کے مصلح تھے اور ان کے مذہبی اور سیاسی خیالات پر وقتی مصلحتوں کا سایہ تھا، جبکہ افغانی حریت فکر کے داعی اور آزاد فضائوں کے پروردہ تھے، اس لیے یہ اختلافات قدرتی امر تھا) پیرس کے زمانہ قیام میں جمال الدین نے اپنے شاگرد محمد عبدہ، کی رفاقت میں ایک عربی ہفتہ وار جریدہ العروۃ الوثقٰی جاری کیا جو مارچ ۱۸۸۴ء سے اکتوبر۱۸۸۴ء تک نکلتا رہا اور اسی نام کی ایک خفیہ جماعت کو دنیا میں ارسال کیا جاتا تھا۔ اس جریدے میں بلادِ اسلامیہ میں برطانیہ کی استعماری حکمت عملی پر شدید نکتہ چینی کی جاتی تھی اور ان عقائد اور اصولوں پرزور دیا جاتا تھا جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمان دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی قوت و شوکت حاصل کر سکتے تھے۔ حکومت برطانیہ نے مصر اور ہندوستان میں عروۃ الوثقٰی کا داخلہ بند کر دیا اور جن لوگوں کے پاس یہ اخبار خفیہ طور پر جاتا تھا ان پر سختی و نگرانی شروع کر دی۔ ہندوستان میں چند ریاستوں کے بعض امرا اور شہروں کے چند علما تک یہ اخبار آتا تھا، اور اس پابندی اور سختی کے بعد یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ ہندوستان کے مخصوص حالات میں افغانی کے یہ تاثرات بہت محدود حلقوں تک رہے جبکہ مصر، ترکی، ایران اور دوسرے بلاد اسلامی میں یہ تاثرات بڑے گہرے اور ہمہ گیر تھے۔ اس کی وجوہ یہ ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میںناکامی کے بعد ہندوستان کے مسلمان جس احساس شکست میں مبتلا ہو کر سرسید احمد خاں کی رہنمائی میں انگریزوں سے مفاہمت کی نئی راہیں تلاش کر رہے تھے اور سرسید کی زیر ہدایت ملکی سیاست سے بالکل کنارا کش ہو چکے تھے، اس میں افغانی جیسے آزاد سیاسی رہنما اور دینی مفکر کے خیالات کی پذیرائی مشکل تھی اور پھر محکومی کی حالت میں ابلاغ کے ذرائع بھی مسدود تھے۔ اس صورت میں چند خاص لوگ یا حلقے ان سے متاثر ہوئے ہوں گے تو ان کا دائرہ از حد محدود تھا جس کا علم عام حلقوں کی دسترس سے باہر تھا۔ چنانچہ ایک عرصے تک افغانی، یہاں کے عام حلقے تو ایک طرف رہے، خاص حلقوں اور نامورادیبوں اور عالموں کے لیے بھی اجنبی تھے۔ شبلی نے ۱۸۹۳ء میں ترکی، شام اور مصر کا سفر کیا اور واپسی پر سفر نامہ بھی لکھا لیکن افغانی یا ان کی تحریک کا کوئی اثر اس سفر نامے میں نہیں جھلکتا حالانکہ افغانی ان دنوں استنبول میں تھے اور ان سے ملاقات پر کوئی پابندی بھی نہ تھی۔ شیخ عبدالقادر نے افغانی کی رحلت کے چند سال بعد اگست، ستمبر ۱۹۰۶ء میں استنبول کی سیاحت کی لیکن مقام خلافت میں ایسا کوئی تاثر بھی نہیں ملتا کہ اتحاد اسلام کے اس عظیم مفکر کے بارے میں انھوں نے کچھ سنا(حالانکہ ان کے ہم سفر مشیر حسین قدوائی لندن کی پان اسلامک سوسائٹی کے سرگرم رکن تھے۔) یہ عدم واقفیت بظاہر عجیب معلوم ہوتی ہے لیکن ایک محکوم ملک کے باشندوں کی بعض مجبوریوں کے پیش نظر خلافِ واقعہ نہیں کہی جاسکتی۔ ۹مارچ ۱۸۹۷ء کو جمال الدین افغانی نے رحلت فرمائی تو اگرچہ عالم اسلامی کا یہ ایک بڑا حادثہ تھا لیکن اس کا اثر ہندوستان پر برائے نام ہوا ہو گا۔ ایک تو افغانی کا انتقال نظر بندی کی حالت میں ہوا۔ معلوم نہیں مغربی ذرائع سے یہ خبر یہاں پہنچی بھی یا نہیں۔ اگر پہنچی تو اس پر کوئی تبصرہ یا تاثر بھی تھا یا نہیں۔ حقیقت میں انیسویں صدی میں ہندوستان میں رابطۂ عالم اسلامی کی کوئی معقول صورت موجود نہیں تھی۔ حج ایک رسمی عبادت بن کر رہ گیا تھا۔ اسلامی ممالک کے بارے میں جو اخباری اطلاعات یہاں پہنچتی تھیں مغربی ذرائع سے آتی تھیں (اور یہ سلسلہ تو موجودہ صدی تک برقرار ہے)۔ ان اطلاعات میں سلطان روم اور ترکوں، ایرانیوں وغیرہ کے بارے میں کبھی ہمدردانہ رویے کا اظہار ہوتا بھی تھا تو برطانیہ کی مصلحتوں کے تابع ہوتا تھا۔ مثلاً جنگ کریمیا اور روس وروم کی لڑائیوں میں انگریز سلطان روم کے حلیف تھے اور اس بنا پر ہندوستان کی ’’وفادار مسلمان رعایا‘‘ کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکتی تھیں۔ چنانچہ ایسے موقعوں پر ترکوں کی کامیابیوں یا ناکامیوں کی خبریں بھی یہاں آجاتی تھیں اور سرکاری سرپرستی میں چندے بھی جمع کر کے ارسال کر دیئے جاتے تھے۔ البتہ عالم اسلام میں ابھرنے والی تحریکوں سے اس دور کے ہندی مسلمان کو ذرائع ابلاغ کی حد تک منقطع کر دیا گیا تھا اور وہ اپنے احوال و ظروف میں محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ اس صورت حال میں اقبال کا زمانہ طالب علمی یا اورئینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج کے دور معلمی میں افغانی اور ان کی تحریک سے بے خبر رہنا تعجب انگیز بات نہیں ہے۔۱۹۰۵ء تک اقبال کی شاعری میں بھی اس کا کوئی اثر نہیں ملتا۔ سیاسی محکومی کا احساس، حب الوطنی کا تصور اور متحدہ قومیت کا نظریہ اس زمانے میں اقبال کی نظم و نثر کے اہم موضوعات ہیں اور یہ مقامی سیاست کا نتیجہ کہے جاسکتے ہیں جس پر مغربی افکار کا اثر ہوا۔ ( ۴ ) اقبال کے ذہن و فکر میں ایک تبدیلی کا آغاز ان کے قیام یورپ کے دوران (اواخر ۱۹۰۵ء تا ۱۹۰۸ء ) ہوا۔ اس تبدیلی کی تین جہتیں قابل ذکر ہیں: ۱۔ کیمبرج میں اپنے مقالے ایران میں مابعدالطبیعیات کی تحقیق کے دوران تصوف پر غیر اسلامی اثرات کے کچھ ایسے پہلوان کے سامنے آئے جو ان کے پہلے تصور ’’وحدت الوجود‘‘ کو متزلزل کرنے کے باعث ہوئے۔ تذبذب کا اظہار اس خط میں بھی جھلکتا ہے جو انھوں نے ۸ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو کیمبرج سے خواجہ حسن نظامی کو لکھا اور ان کے توسط سے قاری شاہ سلیمان پھلواری سے اس امر میں بعض استفسارات کئے (اقبالنامہ ، جلد ۲، صفحہ ۳۵۴)۔ آگے چل کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ نفیِ خودی کا رجحان تصوف میں غیر اسلامی اثرات کا نتیجہ ہے، جس نے شعر و ادب کے راستے داخل ہو کر ملت اسلامیہ کے زوال میں حصہ لیا۔ ۲۔ مغرب کے مادی فلسفوں اور علم الحیات کے نئے نظریوں نے الحاد کی جن راہوں کو کشادہ کیا، اور پھر کلیسائی نظام سیادت کے زوال اور اس کے نتیجے میں وطنی قومیت (Territorial Nationalism) کا جو تصور وہاں ابھرا، وہ نوع انسانی کی بربادی کا پیش خیمہ تھا۔ اقبال یورپ آنے سے پہلے مغرب کے اس تصور وطنیت سے متاثر تھے، اب وہ اس کے سخت خلاف ہو گئے۔ ۳۔ مغربی استعمار کے پھیلائو کا ردعمل بعض اسلامی ممالک میں احیائی تحریکوں کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا،خصوصاً عرب میں وہابی، افریقہ میں سنوسی تحریک احیائے دین کے جذبے سے سرشار تھیں۔ الجزائر میں امیر عبدالقادر، مصر میں اعرابی پاشا اور سوڈان میں مہدی سوڈانی انیسویں صدی میں جہاد حریت کے نمائندے تھے۔جہاد اور قربانی و سرفروشی کی یہ روایت خوش آئند مستقبل کی نشاندہی کر رہی تھی، اتحاد عالم اسلامی کا تخیل بھی ابھر رہاتھا اور اس کی علامت استنبول میں عثمانی خلافت کی صورت میں موجود تھی۔ اقبال کا ذہن ان تینوں جہتوں سے متاثر ہو رہا تھا۔ خصوصاً ان کا شاعرانہ تخیل آخری جہت ’عالم حرب میں روح اسلام کی بیداری‘ سے بہت متاثر تھا۔ مارچ ۱۹۰۷ء کی غزل کا یہ شعر: نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر بھی ہوشیار ہو گا قابل ذکر ہے۔ شیر کا استعارہ دراصل عرب کی اس ٹھیٹھ دینی روح سے ہے جو ساتویں صدی میں اعلائے کلمتہ الحق کی خاطر، صحرا سے نکل کر اپنے زمانے کی عظیم طاغوتی طاقتوں سے ٹکرا گئی تھی اور اس نے حق کا بول بالا کر دیا تھا۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ انیسویں صدی کی ان احیائی تحریکوں کی روح رواں اور اتحاد اسلامی کے مفکر سید جمال الدین افغانی (جن کا انتقال چند سال پہلے استنبول میں ہوا تھا) کی شخصیت سے بھی اقبال اس زمانے میں آگاہ و متاثر ہوئے یا نہیں ہوئے؟ متذکرہ بالا تاریخی کردار تو عام منظر پر تھے۔ اتحاد اسلامی کی تحریک کے سلسلے میں عبدالحمید ثانی (جنہیں ۱۹۰۹ء میں معزول کیا گیا) کی شخصیت بھی اجاگر تھی، لیکن ان تحریکات کے پیچھے فکری دعوت، ذہنی تربیت اور سیاسی تنظیم کا جو کارنامہ خاص انیسویں صدی کے آخری ربع میں افغانی نے انجام دیا، اس سے علم و آگاہی ان کے شاگردوں اور دوسرے جاننے والوں کے حلقے سے نکل کر عام حلقوں تک کب پہنچی؟ کیونکہ افغانی انیسویں صدی کے ایک عظیم دینی مفکر اور سیاسی رہنما ہوتے ہوئے بھی شہرت عام کے اعتبار سے ابھی پس منظر میں تھے (یعنی ان کی شخصیت اور کارناموں پر کوئی قابل ذکر تصنیف نہیں لکھی گئی تھی)۔ اقبال کار فرما تحریکوں سے تو آگاہ تھے اور اپنی علمی مصروفیات کے دائرے میں رہتے ہوئے وہ ان میں دلچسپی بھی لیتے رہے۔ لندن کی پان اسلامک سوسائٹی (جس کے کار پرداز، عبداللہ مامون سہروردی اور مشیر حسین قدوا ئی تھے۔) سے بھی ان کا رابطہ تھا اور سید امیر علی کی صدارت میں لندن میں مسلم لیگ کی شاخ قائم ہوئی تو وہ اس کے بھی رکن بنے۔ ۱۹۰۸ء میں اقبال نے لندن یونیورسٹی میں پروفیسر ٹامس آرنلڈ کی جگہ قائم مقام معلمِ عربی کے فرائض انجام دینے کے علاوہ اسلامی تہذیب و تمدن پر لیکچروں کا ایک سلسلہ بھی شروع کیا۔ اسلام اور خلافت کے مسئلے پر ایک علمی مضمون بھی لکھا جو سوشیالوجیکل ریویو لندن میں چھپا۔ اس طرح وطن آنے سے پہلے اقبال احیاء اسلامی کی تحریک سے وابستگی کا عملی ثبوت بھی پیش کر دیتے ہیں، لیکن سید جمال الدین افغانی کی شخصیت سے بلاواسطہ یا بالواسطہ وابستگی کا کوئی ثبوت یا قرینہ اس زمانے میں نہیں ملتا۔ ( ۵ ) یورپ سے واپسی کے بعد اقبال مذکورہ بالا جہتوں کی پیش رفت میں خاصے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ ایران اور ترکی میں رونما ہونے والے واقعات (خصوصاً طرابلس اور بلقان کی جنگوں) سے ہندوستانی مسلمانوں میں خاصا ہیجان پیدا ہوا اور اتحاد اسلامی کا جذبہ بڑی شدت سے ابھرا۔ اسلام کے سیاسی و عمرانی پہلوئوں پر مضمون نگاری (ہندوستانی ریویو) کے علاوہ شاعری میں بھی اقبال نے ان احساسات کی ترجمانی کی۔ اسی زمانے میں سید جمال الدین افغانی کے احوال و افکار کا نقش بھی واضح ہو کر سامنے آیا۔ لاہور میں اس زمانے میں ایک ایرانی رہنما سید علی بروی بھی آئے ہوئے تھے جو سید جمال الدین افغانی کے شاگرد تھے۔ اقبال کی بھی ان سے ملاقات تھی، لیکن قابل ذکر وہ لٹریچر ہے جو افغانی کے بارے میں مطبوعہ صورت میں سامنے آکر ان کی شخصیت کا عام تعارف کراتا ہے۔ سید جمال الدین افغانی کے احوال و افکار پر مشتمل مندرجہ ذیل تصنیفات جو اس زمانے میں طبع ہو کر سامنے آئیں قابل ذکر ہیں: 1-E.G. Browne: The Persian Revolution of 1905-1909 A.D; Cambridge, (1) 1909. 2-W.S Blunt: Gordon at Khartoum, London, 1911. 3-Ibid: Secret History of the English Occupation of Egypt, NewYork, 1992. ۴۔ رشید رضا: تاریخ الاستاذ الامام الشیخ محمد عبدہ، بار اول بیروت، ۱۹۰۱ء ۵۔ محمد المخزومی پاشا: خاطرات جمال الدین بیروت ۱۹۳۱ء 6- Adams, Charlesc: Islam and Modernism in Egypt, London, 1993. ان میں پہلی کتاب اور چوتھی کتاب قابل توجہ ہیں\ برائون کیمبرج میں اقبال کے استاد بھی تھے۔ ان کی اس تالیف کا ایک پورا باب سید جمال الدین کے احوال و افکار کے بارے میں ہے۔ اس مضمون کا اسی زمانے میں ظفرعلی خاں نے اردو ترجمہ کر کے اپنے اخبار کے علاوہ کتابچے کی صورت میں بھی چھاپا۔ اقبال اور ظفر علی خاں کے روابط ان دنوں خاصے تھے۔ (اقبال کے خطبہ علی گڑھ، ۱۹۰۱ء کا ترجمہ بھی ظفر علی خاں نے کیا تھا) یہ بات یقینی ہے کہ یہ مضمون اور برائون کی اصل تالیف کا اقبال نے مطالعہ کیا ہو گا۔ رشید رضاء الشیخ مفتی محمد عبدہٗ (وفات: ۱۹۰۵ئ) کے شاگرد خاص تھے اور مفتی صاحب سید جمال الدین افغانی کے خاص الخاص شاگرد تھے جو عروۃ الوثقٰی کی بندش کے بعد پیرس سے مصر آگئے تھے اور یہاں تعلیمی اور دینی اصلاح میں انھوں نے بقیہ زندگی گزاری۔ رشید رضا نے مفتی محمد عبدہٗ کی سوانح میں سید جمال الدین افغانی کے حالات و خیالات بھی تفصیل سے دیئے ہیں اور اس تالیف کے ساتھ افغانی اور مفتی کے عروۃ الوثقٰی کے مقالات اور دستاویزات بھی شامل کی ہیں (اس کے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں)۔ اس کتاب کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ اقبال کی نظر سے گزری تھی یا نہیں اور اگر انھوں نے دیکھی تھی تو کون سا ایڈیشن اور کب ؟ لیکن ایک بات قابل ذکر ہے کہ الشیخ رشید رضا (مدیر المنار) مولانا شبلی نعمانی کی دعوت پر ۱۹۱۲ء میں ندوۃ العلماء کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ الشیخ رشید رضا کی آمد پر بھی اتحاد عالم اسلامی اور جمال الدین افغانی کے افکار کا چرچا یہاں کے جرائد و اخبار میں ہوا تھا۔ الہلال کے شمارہ ۱۳ جولائی ۱۹۱۲ء میں ان کی شخصیت کا تعارف ذیل کے بلیغ الفاظ میں کرایا گیا۔ ’’سید جمال الدین افغانی کا اصلی کارنامۂ غیر فانی یہ تھا کہ زمانے نے خوداس کو کام کرنے کی مہلت بہت کم دی، لیکن وہ اپنے اندر ایک ایسی قوتِ تخلیق رکھتا تھا کہ جہاں جاتا تھا اپنی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے نئے ’جمال الدین‘ پیدا کر لیتا تھا!‘‘ یہ تحریریں بھی اقبال کی نظر سے گزری ہوں گی اور الشیخ رشید رضا کی آمد کے موقع پر ان کی شخصیت اور تحریک (جو دراصل افغانی ہی کے مشن کی پیش رفت تھی) کا چرچا بھی انھوں نے سنا ہو گا؟ کیونکہ اقبال کے روابط شبلی اور ان کے حلقے سے بھی تھے۔ ۱۹۱۱ء کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس (منعقدہ دہلی) کے موقع پر شبلی نے سجاد حیدر یلدرم کی تحریک پر اقبال کو پھولوں کے ہار پہنائے اور ان کی توصیف بھی کی۔ جواب میں اقبال نے تقریر کرتے ہوئے ’’پان اسلام ازم‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کئے: ’’میری نظموں کے متعلق بعض ناخدا ترس لوگوں نے غلط باتیں مشہور کر رکھی ہیںاور مجھ کو پین اسلامزم (۲) کی تحریک پھیلانے والا بتایا جاتا ہے۔ مجھ کو پان اسلامسٹ ہونے کا اقرار ہے اور میرا یہ اعتقاد ہے کہ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ شرک اور باطل پرستی دنیا سے ضرور مٹ کر رہے گی اور اسلامی روح آخرکار غالب آئے گی۔ اس مشن کے متعلق جو جوش اور خیال میرے دل میں ہے اپنی نظموں کے ذریعے قوم تک پہنچانا چاہتا ہوں، اور اس اسپرٹ کے پیدا کرنے کا خواہش مند ہوں جو ہمارے اسلاف میںتھی کہ دولت و امارات کو وہ اس دارفانی کی کوئی حقیقت نہ سمجھتے تھے۔ میں جب کبھی دہلی آتا ہوں تو میرا یہ دستور رہا ہے کہ ہمیشہ حضرت نظام الدینؒ محبوب الٰہی کے مزار پر جایا کرتا ہوںاور وہاں کے دیگر مزارات وغیرہ پر بھی ہمیشہ حاضر ہوا کرتا ہوں۔ میں نے ابھی ایک شاہی قبرستان میں ایک قبر پر ’’الملک اللہ‘‘ کا کتبہ دیکھا۔ اس سے اُس اسلامی جوش کا اظہار ہوتا ہے جو دولت اور حکومت کے زمانے میں مسلمانوں میں تھی۔ جس قوم اور جس مذہب کا یہ اصول ہو، اس کے مستقبل سے ناامیدی نہیں ہو سکتی اور یہی وہ پان اسلام ازم ہے جس کا شائع کرنا ہمارا فرض ہے اور اس قسم کے خیالات کو میں اپنی نظموں میں ظاہر کرتا رہتا ہوں‘‘ (مقالات اقبال، ص ۱۴۲، ص ۱۴۴) اس سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ یورپ سے واپس آنے کے بعد اقبال تحریک اتحاد اسلامی کے تصور سے وابستہ ہوکر اپنی شاعری میں ان جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کر رہے تھے۔ وہ سید جمال الدین افغانی کی شخصیت اور ان کے افکار سے بھی خاصی حد تک متعارف ہو چکے تھے۔ لیکن اس کا اعتراف و اظہار ان کی تحریر (نظم و نثر) میںکہیں نظر نہیں آتا۔ حتیٰ کہ پیام مشرق میں جہاں یورپ اور ایشیا کے مسائل و افکار زیر بحث آئے، وہاں ضمناً کہیں افغانی کا حوالہ بھی آسکتا تھا۔ خصوصاً جنگ عظیم کے اختتام اور جمعیت الاقوام کی تاسیس پر اقبال کا یہ تاثر افغانی کے انداز سے کچھ مختلف نہیں: بر فتد تا روشِ رزم دریں بزمِ کہن درد مندانِ جہاں طرح نو انداختہ اند من ازیں بیش نہ دانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیمِ قبور انجمنے ساختہ اند اقبال یہاں مشرق و مغرب کے بعض فلاسفروں کے علاوہ مصطفی کمال پاشا، قیصر ولیم، لینن وغیرہ کا تو ذکر کرتے ہیں، لیکن افغانی کہیںنظر نہیں آتے، شاید اس لیے کہ افغانی کی شخصیت سے متعارف ہونے اور اتحاد اسلامی کی ہمنوائی کے باوجود، عصر رواں کے سیاسی و دینی افکار کے ہمہ گیر اثرات کو ابھی پوری طرح انھوں نے محسوس نہیں کیا تھا۔ تعجب اس پر ہے کہ مقاصد میںاتنی ہم آہنگی اور قرب کہ ’’خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ افغانی کی صدائے بازگشت محسوس ہوتی ہیں لیکن خود شخصیتوں کے صحیح ادراک میں فاصلہ نظر آتا ہے۔ ( ۶ ) اب ہم اس مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جہاں نہ صرف جمال الدین افغانی کی شخصیت کا صحیح ادراک ہوا ہے بلکہ اس کا بھرپور اظہار بھی ہوا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اقبال نے اپنے خطبات تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ پر کام شروع کیا ۔ اپنا شعری پیغام اسرار و رموز میں پیش کرنے کے بعد اقبال دینی و سیاسی مسائل پر توجہ کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ عملی سیاسیات کی طرف بھی آنکلتے ہیں۔ ۱۹۲۲ء میںانھوں نے اجتہاد پر ایک مقالہ لکھا جو انجمن حمایت اسلام کے ایک اجلاس میں پڑھا گیا ۔ اس پر مخالفانہ ردعمل ہوا۔ بعض قدامت پسند علماء تکفیر تک بھی اتر آئے۔ اس مضمون کی اشاعت تو اقبال نے روک لی لیکن جدید زمانے کے احوال و ظروف میں اسلام کا مطالعہ اور اسلامی افکار کی تعبیر کا مسئلہ ان کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اس امر میں علما (خصوصاً سید سلیمان ندوی) سے بھی ان کی خط وکتابت ہوتی رہی۔ ہمارا قیاس ہے کہ اسی مطالعے کے دوران میں انھوں نے سید جمال الدین افغانی کی شخصیت اور ان کی دینی و سیاسی تحریروں اور مصر، ترکی اور ایران پر ان کے اثرات کا جائزہ بہ نظر غائر لیا۔ اس مطالعے و جائزے کے بعد اقبال افغانی کے تاریخ ساز کردار سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں اور سب سے پہلے اس کا اقرار واعتراف بھی خطبات ہی میں کرتے ہیں۔ خطبات کے بعد جاوید نامہ اور اپنی دوسری تحریروں (خطوط و مضامین) میں اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ جاوید نامہ کا جائزہ ہم بعد میں لیں گے۔ پہلے نثری تحریروں میں افغانی کی شخصیت کے بارے میں اقبال کے تاثرات ملاحظہ فرمایئے۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ کے چوتھے خطبے میں جس کا عنوان ہے ’’خودی، جبرو قدر، حیات بعدالموت‘‘ اقبال دور حاضر کے مسلمانوں کو ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کئے بغیر اسلام پر بہ حیثیت ایک نظام فکر از سر نو غور کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’یہ غالباً شاہ ولی اللہ دہلوی تھے جنھوں نے سب سے پہلے ایک نئی روح کی بیداری محسوس کی لیکن اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اوروسعت کا پورا پورا اندازہ تھا توسید جمال الدین افغانی کو، جو اسلام کی حیات ملی اور حیات ذہنی کی تاریخ میں بڑی گہری بصیرت کے ساتھ طرح طرح کے انسانوں اور انکی عادات و خصائل کا خوب خوب تجربہ رکھتے تھے، ان کا مطمح نظر بڑا وسیع تھا اور اس لیے یہ کوئی مشکل بات نہیں تھی کہ ان کی ذات گرامی ماضی اورمستقبل کے درمیان ایک جیتا جاگتا رشتہ بن جاتی۔ ان کی ان تھک کوششیں اگر صرف اسی امر پر مرکوز رہتیں کہ اسلام نے نوع انسانی کو جس طرح کے عمل اور ایمان کی تلقین کی ہے، اس کی نوعیت کیا ہے، تو آج ہم مسلمان اپنے پائوں پر کہیں زیادہ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوتے‘‘۔ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ) پھر ۷ اپریل ۱۹۳۲ ء کو چودھری محمد احسن کے نام خط میں مہدی اور مجدد کے تخیل پر اظہار خیال کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں: ’’زمانہ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر و ایران و ترکی وہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہو گا۔ موخر الذکر ہی اصل میں موسس ہے زمانہ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کا، اگر قوم نے ان کو عام طور پر مجدد نہیں کہا یا انھوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا تو اس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا‘‘ (اقبال نامہ حصہ دوم) ۱۹۲۵ء میں قادیانی تحریک کے سلسلے میں پنڈت جواہر لال نہرو کے مضمون (ماڈرن ریویو کلکتہ) میںاٹھائے گئے سوالات کے جواب میں اقبال نے ایک طویل مضمون لکھا۔ اس میں مسلمانوں کے زوال و انحطاط اور احیائی تحریکوں کے ضمن میں افغانی کی شخصیت و کردارپر طویل تبصرہ کیا گیا ہے۔ ’’میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ ۱۷۹۹ء میں اسلام کا سیاسی زوال اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ بہرحال اسلام کی اندرونی قوت کا اس واقعہ سے بڑھ کر کیا ثبوت مل سکتا ہے کہ اس نے فوراً ہی محسوس کرلیا کہ دنیا میں اس کا کیا مؤقف ہے۔ انیسویں صدی میں سرسید احمد خاں ہندوستان میں، سید جمال الدین افغانی افغانستان میں اور مفتی عالم جان روس میں پیدا ہوئے۔ یہ حضرات غالباً محمد بن عبدالوہاب سے متاثر ہوئے تھے جن کی ولادت ۱۷۰۰ء میں بمقام نجد ہوئی تھی اور جو اس نام نہاد وہابی تحریک کے بانی تھے جس کو صحیح طور پر جدید اسلام میں زندگی کی پہلی تڑپ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ سرسید احمد خاں کا اثر بہ حیثیت مجموعی ہندوستان ہی تک محدود رہا…مولانا سید جمال الدین افغانی کی شخصیت کچھ اور ہی تھی۔ قدرت کے طریقے بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ مذہبی فکر و عمل کے لحاظ سے ہمارے زمانے کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ مسلمان افغانستان میں پیدا ہوتا ہے۔ جمال الدین افغانی دنیاے اسلام کی تمام زبانوں سے واقف تھے۔ ان کی فصاحت و بلاغت میں سحر آفرینی ودیعت تھی۔ ان کی بے چین روح ایک اسلامی ملک سے دوسرے اسلامی ملک کا سفر کرتی رہی اور اس نے ایران، مصر اور ترکی کے ممتاز ترین افراد کو متاثر کیا۔ ہمارے زمانے کے بعض جلیل القدر علما جیسے مفتی محمد عبدہٗ اور نئی پود کے بعض افراد، جو آگے چل کر سیاسی قائدبن گئے جیسے مصر کے زاغلول پاشا وغیرہ، انھیں کے شاگردوں میں سے تھے۔ انھوں نے لکھا کم اور کہا بہت، اور اس طریقے سے ان تمام لوگوں کو جنھیں ان کا قرب حاصل ہوا، چھوٹے چھوٹے جمال الدین بنا دیا۔ انھوں نے کبھی نبی یا مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، پھر بھی ہمارے زمانے کے کسی شخص نے روح اسلام میں اس قدرتڑپ پیدانھیں کی جس قدر کہ انھوں نے کی تھی۔ ان کی روح اب بھی دنیاے اسلام میں سرگرم عمل ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کی انتہا کہاں ہو گی!‘‘ (بحوالہ حرف اقبال) اقبال کے یہ واضح بیانات محض رسمی نہیں ہیں کہ انھوں نے ایک شخصیت یا اس کی پیدا کردہ تحریک سے سرسری طور پر متعارف ہو کر تقلیداً دے دیے ہوں، بلکہ یہ خیالات ٹھوس مطالعے اور گہری سوچ بچار کے بعد ایسے زمانے میں ظاہر ہوئے ہیں جب اقبال خود جذبات کے ابتدائی ہیجان اور تخیلات و تاثرات کی فضا سے نکل کر اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے لیے درپیش مسائل سے دو چار تھے۔ پہلی جنگ عظیم نے دنیا کو ہلا دیا تھا۔ عالم انسانی ایک بہت بڑے آپریشن کے بعد دوسرے آپریشن کی طرف گامزن تھا۔ مغربی استعمار کے بعد روس میں کمیونزم، ایک ملحدانہ نظام کی شکل میں اسلام کے لیے ایک نیا چیلنج پیش کر رہا تھا۔ خود مسلمان اور اسلامی ممالک استعمار کی سیاسی یلغار ہی کا ہدف نہیں تھے بلکہ مغرب کی مادی تہذیب کے صیدزبوں بھی بنے ہوئے تھے۔ اس حالت میں مسلمانوں کو درس خود شناسی دینے کے علاوہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش کرنا از بس ضروری تھا۔ الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدیداسی صورت کو پورا کرنے کی ایک اہم کوشش تھی۔ اقبال کو اس سلسلے میں دوسرے مسلم ممالک کی موجودہ صورت حال کا جائزہ بھی لینا پڑا اور اس ضمن میں سید جمال الدین افغانی اور ان کے افکار کا (جن سے متعارف تو وہ پہلے بھی تھے) انھوں نے بہ نظر غائر مطالعہ کیا (اس وقت افغانی کی تحریروں کی اشاعت بھی خاصی ہو چکی تھی اور دنیائے اسلام میں افغانی کے شاگرد اور شاگردوں کے شاگرد بہت سا تصنیفی کام کر چکے تھے) اس مطالعے کے بعد ہی اقبال نے اپنی مذکورہ بالا تحریروں میں سید جمال الدین افغانی کی تاریخ ساز شخصیت کا بھرپور اعتراف کیا ہے۔ ( ۷ ) سید جمال الدین افغانی، عالم اسلامی میں مغربی استعمار کے خلاف جدید سیاسی فکر و عمل کے داعی ہونے کے علاوہ دینی فکر و عقیدے کے احیا کے بھی مبلغ تھے۔ اپنے اس مقصد کی تبلیغ کے لیے انھوں نے اپنی حیات مستعار کو وقف کر دیا تھا اور مضطربانہ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کر کے اپنا پیغام نوجوانوں تک پہنچارہے تھے۔ یہ پیغام کیا تھا؟ چند سطور میں اس کا لب لباب ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ سید جمال الدین افغانی اپنے عہد کی دہریت اور اس کے اثرات کو تمام ادیان عالم خصوصاً اسلام کے لیے فتنۂ عظیم خیال کرتے تھے۔ لٰہذا اس کے خلاف انھوں نے زبردست قلمی جہاد کیا۔ انھوں نے اپنی ذکاوت اور روشنیِ طبع سے مادیت کے تباہ کن خصائص کو اس وقت بے نقاب کیا جب یورپ میں ڈارونیت اور مارکسیت کا عام چرچا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’کبھی مادیین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا مقصد ہمارے دلوں کو توہمات سے پاک صاف کرنا اور دماغوں کو صحیح علم سے روشن کرنا ہے، کبھی وہ اپنے آپ کو ہمارے سامنے غریبوں کے خیر خواہ، کمزوروں کے محافظ اور ستم رسیدوں کے داد رس ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے وہ جس گروہ سے بھی ہوں، ان کے عمل کی تہہ میں ایسا ہولناک مادہ مضمر ہے جو معاشرے کی بنیادوں کو ہلا دے گا اور اس کی محنت کے ثمرات کو برباد کر ڈالے گا۔ یعنی مادہ پرستوں کے اقوال قلب کے شریف داعیات کو محو کر دیں گے اور ان کے تخیلات سے ہماری روحیں مسموم ہو جائیں گی۔ نیز ان کے تجربے نظام معاشرہ میں مسلسل فساد پیدا کرتے رہیں گے‘‘۔ سید جمال الدین افغانی کے نزدیک بنی نوع انسان کی بقا و ارتقا اور اس کی سعادت و مسرت کا انحصار مذہب پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مذہب قوموں کا، ہیولیٰ اور انسانی مسرتوں کا سرچشمہ ہے… حقیقی تہذیب وہ ہے جس کی بنیاد علم، اخلاق اور مذہب پر ہو، نہ کہ مادی ترقی پر مثلاً بڑے بڑے شہر بنانے، بے شمار دولت جمع کرنے یا تباہ کن آلات کی تکمیل پر ہے۔ اس کے علاوہ وہ اسلامی اجتماعیات کو جس کا مدارمحبت، عقل اور آزادی پر ہے، مادی اشتراکیت اور اشتمالیت پر، جس کی بنیاد نفرت، خود غرضی اور ظلم پر ہے، ترجیح دیتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ سید جمال الدین افغانی ایک روشن خیال اور عقلیت پسند مسلمان تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے تمام فرقوں سے استدعا کی کہ عقلی اصول کو، جو اسلام کی امتیازی خوبی ہے، اپنائیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ : ’’تمام مذاہب عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو برہان کی روشنی میں بھی اپنی حقانیت کو ثابت کرسکتا ہے‘‘…[ برہان کے بغیر بھی ایمان بالغیب کی اہمیت ہے لیکن برہان مانگنے والے کے لیے اسلام کے پاس برہان بھی ہے۔ اسلام عقلی تحقیق کا مخالف نہیں اور عقل کی روشنی میں بھی برحق ثابت ہو سکتا ہے](۳) سید جمال الدین افغانی نے عقیدئہ جبر کے خلاف معتزلہ کے عقیدئہ قدر یا آزادیٔ عمل کی حمایت کی۔ اول الذکر وہ عقیدہ ہے جسے عموماً اہل مغرب مسلمانوں سے منسوب کرتے ہیں۔ افغانی کی رائے میں اسلامی عقیدۂ قضا و قدر اور جبر میں بڑا فرق ہے۔ قضا و قدر پر یقین رکھنے سے انسان کے عزم کو تقویت پہنچتی ہے، اخلاقی قوت میں ترقی ہوتی ہے اور انسان میں زیادہ حوصلہ مندی اور استقامت آجاتی ہے۔ بخلاف اس کے جبر ایسی بدعت ہے جس کی عالم اسلام میں بدنیتی سے زیادہ تر سیاسی اغراض کے پیش نظر اشاعت کی گئی۔(۴) سید جمال الدین افغانی تحریک اتحاد عالم اسلامی کے ، جسے مغربی اہل قلم (زیادہ تر مذمت کی خاطر) ’’پان اسلامزم‘‘ کہتے ہیں، علمبردار تھے۔ اس تحریک کا مقصد تمام اسلامی حکومتوں کو ایک خلافت کے جھنڈے تلے متحد و منظم کرنا تھا تاکہ وہ غیر ملکی تسلط سے چھٹکارا حاصل کر سکیں۔ العروۃ الوثقٰی میں ’’اتحاد اسلامی‘‘ کے عنوان کے تحت وہ لکھتے ہیں: ’’مسلمان کبھی ایک پر جلال سلطنت کے ماتحت متحد تھے، چنانچہ فلسفہ اور علم و فضل میں ان کے کارنامے آج تک تمام مسلمانان عالم کے لیے باعث فخر ہیں۔ مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان تمام ممالک میں جو کبھی بھی اسلامی رہ چکے ہیں، اسلامی حکومت کے قیام اور استقلال کے لیے مل کر کوشش کریں۔ انھیں کسی حالت میں بھی ان طاقتوں سے جو اسلامی ممالک پر حصول اقتدار کے لیے کوشاں ہیں، اس وقت تک مصالحانہ رویہ اختیار کرنا مطلق جائز نہیں، جب تک کہ وہ ممالک بلا شرکت غیر کاملاً مسلمانوں کے قبضے میں نہ آجائیں‘‘۔ (بحوالہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد ۷ ، صفحہ ۳۷۸،۳۷۹) چند لفظوں میں سید جمال الدین افغانی کی تحریک کو سمیٹا جائے تو یہ کہہ سکتے ہیں: ’’مسلمانوں کے لیے افغانی کا پیغام یہ تھا کہ قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی طرف رجوع کیجئے، اسی میں عالم اسلامی کی فلاح ہے!‘‘ اور یہی مطمح نظر اقبال کا بھی تھا۔ [ سامراجی اور کمیونسٹ اسی لیے ان رہنمائوں کو ’’رجعت پسند‘‘ قرار دیتے ہیں] ( ۸ ) جاوید نامہ کی تخلیق خطبات کے بعد ہوئی اور تکمیل اپریل ۱۹۳۱ء میںہوئی۔ یہ فارسی مثنوی اقبال کی پختہ فکر اور پختہ تر شعور فن کی نمائندہ ہے۔ اس مثنوی میں اقبال نے پیر رومیؒ کی رہنمائی میں عالم افلاک کی روحانی سیر کی ہے۔ اس سیاحت کے دوران میں ان کی ملاقات ارواح رفتگاں سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی سلسلے میں جب پیر و مرید فلک عطارد پر پہنچے جسے رومی ’’مقام اولیائ‘‘ کہتے ہیں، تو یہاں انھیں سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح مقدسہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ رومی تعارف کراتے ہیں اور اقبال کا نام ازرہ شوخی زندہ رود بتاتے ہیں۔ تعارف کے بعد اقبال اور افغانی کے مابین حالات حاضرہ اور ملت اسلامیہ کے احوال پر گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔ افغانی زندہ رود (اقبال) سے مسلمانوں کی موجودہ حالت کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ اقبال ملت اسلامیہ کے موجودہ ضعف ایمانی، دین مبین کی قوت سے ناامیدی اور بے یقینی کا اظہار کرتے ہوئے وطنیت، ملوکیت اور اشتراکیت کے مغربی فتنوں کا تذکرہ کرتے ہیں جن سے ملت اسلامیہ اس وقت دو چار ہے۔ افغانی، دین و وطن کی بحث میں مغرب کے تصور وطنی قومیت کے معائب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب کے مکار داناخود تو مرکزیت کی تلاش میں ہیں لیکن انھوں نے اہل مشرق (عالم اسلامی) کو نفاق میں مبتلا کر رکھا ہے۔ افغانی اس کے بعد حب الوطنی کے فطری تصور اور عالم اسلامی و عالم انسانی کے دینی تصور، اتحاد پر روشنی ڈالتے ہیں اور مثالیں دے کر اس کی وضاحت کرتے ہیں: لُردِ مغرب آں سراپا مکر و فن اہل دیں را داد تعلیم وطن او بفکر مرکز و تو در نفاق بگزر از شام و فلسطین و عراق تو اگر داری تمیز خوب و زشت دل نہ بندی با کلوخ و سنگ و خشت چیست دیں برخاستن از روئے خاک حیف اگر در خاک میرد جان پاک گرچہ آدم بر دمید از آب و گل رنگ و نم چوں گل کشید از آب و گل حیف اگر در آب و گل غلطد مدام حیف اگر برتر نپرّد زیں مقام گفت تن در شو بخاک رہگزر گفت جاں پہنائے عالم را نگر! جاں نگنجد در جہات اے ہوشمند مرد حر بیگانہ از ہر قید و بند حُر ز خاکِ تیرہ آید در خروش! زانکہ از بازاں نیاید کارِ موش آں کف خاکے کہ نامیدی وطن ایں کہ گوئی مصر و ایران و یمن با وطن اہل وطن را نسبتے است زانکہ از خاکش طلوع ملتے است اندریں نسبت اگر داری نظر نکتۂ بینی ز مو باریک تر گرچہ از مشرق برآید آفتاب با تجلی ہائے شوخ و بے حجاب در تب و تاب است از سوز دروں تا ز قید شرق و عرب آید بروں بردمد از مشرقِ خود جلوہ مست تاہمہ آفاق را آرد بدست! فطرتش از مشرق و مغرب بری است گرچہ او از روئے نسبت خاوری است اس کے بعد افغانی اشتراکیت و ملوکیت کے فتنوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ جدید اشتراکیت کے بانی یہودی النسل کارل مارکس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کے باطل نظریے میں چند معاشی حقائق بھی موجود ہیں۔ اس کا دل مومن ہے لیکن دماغ کافر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے افلاک (روحانیت) کو گم کر کے شکم میں جان پاک کو تلاش کرنا شروع کیا ہے۔ اس پیغمبر باطل (حق ناشناس) کے دین (کمیونزم) کی بنیاد مساوات شکم پر ہے، حالانکہ اخوت و مساوات کا اصل سرچشمہ دل (قلب مومن کی بے نیازی و اتقا) ہے۔ ملوکیت و استعمار نے ہر برگ و گل سے شہد نچوڑ لیا ہے۔ اس کا بدن فربہ اور سینہ بے نور ہے۔ افغانی ان دونوں فتنوں (اشتراکیت و ملوکیت) کو یزداں ناشناس (ملحدانہ) اور آدم فریب قرار دیتے ہیں۔ ملوکیت انسانوں سے خراج وصول کرتی ہے اور اشتراکیت خروج (جسے وہ انقلاب کا پُرفریب نام دیتی ہے) کے ذریعے ملکوں میں انتشار اور انسانوں میں فساد برپا کرتی ہے۔ ان دو پتھروں کے درمیان آدم کا شیشۂ دل چور چور ہو رہا ہے۔ یہ دونوں فتنے تن کو روشن کرتے ہیں لیکن من کو تاریک بناتے ہیں۔ صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل زانکہ حق در باطلِ او مضمراست قلب او مومن دماغش کافراست غربیاں گم کردہ اند افلاک را درشکم جوئند جان پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جز بہ تن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبر حق ناشناس بر مساواتِ شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخِ او در دل نہ در آب و گل است ہم ملوکیت بدن را فربہی است سینۂ بے نورِ او از دل تہی است مثل زنبورے کہ برگل می چرد برگ را بگزارد و شہدش برد شاخ و برگ و رنگ و بوئے گل ہماں بر جمالش نالۂ بلبل ہماں از طلسم و رنگ و بوئے او گذر ترک صورت گوے و در معنی نگر مرگ باطن گرچہ دیدن مشکل است گل مخواں او راکہ درمعنی گل است ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب زندگی ایں را خروج آں را خراج درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج ایں بہ علم و دین و فن آرد شکست آں برد جاں راز تن ناں را ز دست غرق دیدم ہر دو را در آب و گل ہر دو را تن روشن و تاریک دل زندگانی سوختن با ساختن در گِلے تخمِ دلے انداختن اس مکالمے کے بعد سعید حلیم پاشا مشرق اور مغرب کے اختلاف فکر و نظر پر روشنی ڈالتے ہوئے ترکوں کو قرآن شناسی کی دعوت دیتے ہیں۔ اس پر زندہ رود سید جمال الدین افغانی سے عالم قرآن کے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ افغانی محکمات عالم قرآنی کی وضاحت کرتے ہوئے خلافت آدم، حکومت الٰہی، ارض ملک خدا است و حکمت خیر کثیر است کے عنا دین سے قرآن پاک کی بنیادی عمرانی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ زندہ رود محکمات قرآنی پر افغانی کے بصیرت افروز ارشادات سن کر سراپا سوال بن جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ تعلیمات قرآنی جو اتنی مفید خلائق ہیں، اب تک پردئہ حجاب میں کیوں مستور ہیں۔ یہ ظہور میں کیوں نہیں آتیں؟ جواب میں سعید حلیم پاشا زوال امت کے اسباب بیان کرتے ہوئے علمائے سُو کے کردار پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات پر غور و فکر کرنے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کے اسوئہ حسنہ سے اکتساب نور کی تلقین کرتے ہیں اور ملاقات کے آخر میں افغانی ملت روسیہ کو پیغام دیتے ہیں جس میں قرآنی تعلیمات کے معاشی پہلوئوں کی وضاحت کر کے اشتراکیت پر اسلام کی فضلیت ثابت کی گئی ہے، تاکہ قوم روسیہ لا سے آگے گزر کر الاکی طرف گامزن ہو جس کے بغیر وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں ناکام رہے گی اور اشتراکیت کے نام پر خود ایک سامراجی طاقت بن جائے گی(اور اس نظام کا آخریہی انجام ہوا) جاوید نامہ میں اقبال نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی زبانی وطنیت، ملوکیت اوراشتراکیت پر تنقید کی ہے اور ان ملحدانہ و مادہ پرستانہ نظام ہائے سیاست کو نسل انسانی کی تباہی کے راستے بتا کر اسلام کے معاشرتی و معاشی عدل کی فضیلت واضح کی ہے۔ خوب وزشت کی اس تمیز کو اگر اقبال کے خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کے اس زمانے کے فکر و عمل کے زاویے بہ خوبی واضح ہو جاتے ہیں اور سید جمال الدین افغانی سے ان کے ذہنی و فکری رابطے کے بھرپور اظہار و اعتراف کی وجوہ بھی معلوم ہو جاتی ہیں۔ میثاق سعد آباد جو حیات اقبال کے آخری سال میں طے پایا، آج ایک معمولی سا واقعہ نظر آتا ہے لیکن افغانی اور اقبال کے مقاصد کی پیش رفت میں اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک اہم قدم تھا۔اقبال نے اس سے دو برس قبل جمعیت اقوام کی بجائے جمعیت اقوام مشرق کے سلسلے میں اپنی اس آرزو کا اظہار کیا تھا: تہراں ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے اس زمانے میں صرف چند مسلمان ممالک اپنی خود مختاری کا بھرم قائم رکھے ہوئے تھے۔ ترکی، ایران، عراق، افغانستان کا یہ میثاق عام کلچرل نوعیت کا تھا لیکن اس دور تیرہ و تار میں روشنی کی یہ ایک کرن بھی امید افزا محسوس ہوتی تھی۔ اقبال جدید ترکی اور ایران کے سربراہوں کی حد سے بڑھی ہوئی تجدد پسندی کے بھی شاکی تھے اور اسے خود فریبی قرار دیتے تھے: نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی جمال الدین افغانی بھی ہمیشہ ملوکیت سے نالاں رہے۔ کیونکہ یہ اسلام کی روح، حریت فکر کی حریف بنی رہی۔ بلکہ افغانی تو اپنے ذاتی تلخ تجربات کی وجہ سے آخر میں ملوکیت کے سخت مخالف ہو گئے تھے۔ اس مضمون کے شروع میں افغانی اوراقبال کے اجساد خاکی کے قرب اور ملاپ کا جو منظر ہم نے پیش کیا ہے وہ ایک ایسے زمانے کا واقعہ تھا جب دنیا دوسری جنگ عالمگیر کے قلزم خون سے دو چار اور آتش و آہن کے طوفان کی زد میں تھی اور خود اس خطے (پاکستان) کے مسلمان محکومی کی حالت میں تھے۔ جنگ میں فسطائی طاقتوں کی شکست اور سامراجی طاقتوں کے زوال کے نتیجے میں ایشیا اور افریقہ کے بہت سے مسلم ممالک آزادی کی دولت سے بہرہ ور ہوئے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ یہ افغانی اور اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ اسلامی ممالک کی آزادی کے ساتھ معدنی ذخائر (خصوصاً پٹرولیم) کی وجہ سے دنیائے اسلام کو اقوام عالم میں جو اہمیت حاصل ہو گئی ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ گو نو آزاد ملکوں کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، فلسطین اور کشمیر کے مسئلے عالمی مسائل ہونے کے علاوہ عالم اسلام کے خصوصی مسائل ہیں،احیائے دین اور اتحاد عالم اسلامی اب محض تصورات نہیں رہے بلکہ ٹھوس حقیقتیں بن چکی ہیں۔ سانحہ بیت المقدس (۱۹۶۹ئ) کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی رباط کانفرنس اتحاد عالم اسلامی کا سنگ بنیاد تھی جس پر اب عمارت کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ یہ عمارت سنگ وخشت کی بھی ہے اور قلب و روح کی بھی! یہ مقام میثاق سعد آباد سے یقینا بہت آگے اور بہت بلند ہے۔ افغانی اور اقبال کی روحیں آج عالم افلاک میں ضرور شاد کام ہوں گی، لیکن یہ اتحاد کی منزل اولین ہے۔ محکمات قرآنی کے ظہور کا ابھی انتظار ہے۔ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی تکمیل اس کے بغیر تشنہ ہو گی۔ عالم انسانی کی فلاح کے لیے نظام مصطفی کا نفاذ از بس ضروری ہے اور اس کے لیے مسلمانان عالم کو بڑی قربانیوں اور ایثار کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لیے افغانی اور اقبال کا پیغام آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتا ہے! اقبال ایک مطالعہ،اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور،۱۹۷۷ء حوالے اور حواشی ۱۔ بحوالہ آثار جمال الدین افغانی، مطبوعہ ۱۹۴۰ء ۔ ۲۔ دوسری گول میز کانفرنس پر لندن جاتے ہوئے راستے میں اقبال نے بمبئے کرنیکل کو انٹرویو دیتے ہوئے پان اسلام ازم کا تجزیہ کیا اور کہا کہ ان کے خیال میں پان اسلام ازم کی اصطلاح سب سے پہلے ایک فرانسیسی صحافی نے استعمال کی اور یہ ایک طرح سے یورپی استعمار کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے اسلامی خطرے کے موہوم تصور کا اظہار تھا۔ بعد میں یہ نام استنبول میں اسلامی ملکوں کے اتحاد کی کسی سازش یا منصوبے کو دیا گیا جس کی تردید پروفیسر برائون نے کی ہے۔ بعد میں سیدجمال الدین کی اتحاد اسلامی کی تحریک کو بھی یہ نام دیا گیا ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ افغانی نے خود یہ اصطلاح استعمال کی یا نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ افغانی نے افغانستان، ایران اور ترکی کو یورپی حملے کی صورت میں متحد ہونے کا مشورہ دیا۔ یہ ایک طرح سے مدافعانہ صورت تھی اور افغانی اس میں بالکل حق بجانب تھے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے) Letters and Writings of Iqbal, 1967, Page 55,56 ۳۔ اقبال کے کلام میں دانش وجدانی (ایمان بالغیب) اور دانش برہانی (عقل) کے مباحث کو پیش نظر رکھا جائے تو عشق اور عقل کی یہی درجہ بندی اور ان کے امتیازی اوصاف سامنے آتے ہیں۔ ۴۔ یہی اقبال کا بھی خیال تھا۔ ملاحظہ ہو تصوف پر ان کے مضامین (مقالات اقبال) ’’نیز تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ (متعلقہ مباحث) دانتے کا طربیۂ خداوندی اور جاوید نامۂ اقبال پروفیسر اشرف حسینی اقبال اور دانتے دونوں کا موضوع عالم بالا کی سیر ہے۔ اس موضوع پر ان شعرا سے کافی عرصہ قبل بھی بہت کچھ لکھا جا چکا تھا جس کی تفصیل اگلے صفحات میں دی گئی ہے۔ دانتے نے طربیۂ خداوندی اپنی جلا وطنی کے زمانے میں دس سال کے عرصے میں مکمل کی۔ اس کی تکمیل دانتے کی موت سے تین سال قبل ہوئی۔ اس کی کتاب کی ترتیب یہ ہے: پہلے دوزخ کا ذکر ہے۔ یہ چونتیس کینٹوز پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد اعراف کا ذکر ہے اور سب سے آخر میں جنت کا ذکر آتا ہے۔ اعراف اور جنت دونوں تینتیس کینٹوز پر مشتمل ہیں ۔ اقبال نے صرف جنت (پیراڈائزو) کو سامنے رکھ کر جاوید نامہ کو ترتیب دیا ہے۔ دانتے کا شاہ کار چودہ ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے اور اقبال کے جاوید نامہ میں ۱۸۲۳ اشعار ہیں۔ دانتے نے پیراڈائزو۱۳۱۸ - ۱۳۲۱ ء میں مکمل کی۔ اقبال کا یہ شاہ کار اس قدر مقبولیت کے درجہ تک پہنچا کہ اس کے تراجم انگریزی، اطالوی، جرمن، فرانسیسی، اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ یہ تراجم بھی منظوم ہیں۔ جاوید نامہ اقبال کی چھٹی کتاب ہے۔ اس سے پہلے وہ مندرجہ ذیل کتب شائع فرما چکے تھے: ۱۔ بانگ درا طبع اول ۱۹۲۴ -۱۹۰۴ -۱۹۲۳ میں مکمل ہوئی۔ ۲۔ اسرار خودی ۱۹۱۵ (کل اشعار ۸۲۰) ۳۔ رموز بے خودی ۱۹۱۸ (کل اشعار ۱۰۷۶) ۴۔ پیام مشرق۱۹۲۴ء (کل اشعار ۱۰۱۷) ۵۔ زبور عجم ۱۹۲۶ -۱۹۲۷ء (کل اشعار ۲۲۳۴) ۶۔ جاوید نامہ ۱۹۲۹ -۱۹۳۲ء (کل اشعار ۱۸۲۳) جاوید نامہ مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی کی بحر میں سپرد قلم کیا گیا ہے۔ اس میں چھ درجن کے لگ بھگ اشعار دیگر شعرا کے ہیں جن کے اسما یہ ہیں: مولانا روم، غنی کاشمیری، ناصر خسرو، قرۃ العین طاہرہ اور مرزا غالب۔ کچھ اشعار اقبال نے دیگر کتب اسرار خودی اور زبور عجم وغیرہ کے بھی یہاں شامل کئے ہیں۔ کتاب کے چار حصے ہیں: ۱۔ مناجات۔ ۲۔ تمہید آسمانی ۳۔ تمہید زمینی ۴۔ جاوید نامہ۔ تمہید آسمانی کو اقبال نے گوئٹے کے ’’پرولوگ ان ہیون‘‘ (Prologue in Heaven) سے متاثر ہو کر لکھا ہے۔ زندہ رود کا تصور بھی گوئٹے کی نعت مصطفوی (’’نغمہء محمدؐ ‘‘) سے لیا گیا ہے جہاں گوئٹے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بحر رواں دکھایا ہے اور اقبال نے ’’جوئے آب‘‘ کے نام سے نظم سپرد قلم کی ہے۔ جاوید نامہ پر سب سے گہری چھاپ عظیم اطالوی شاعر دانتے کی ہے جس کی ولادت اقبال سے ۶۱۲ سال قبل ہوئی تھی۔ دانتے=ولادت مئی ۱۲۶۵ئ وفات ۱۴ ستمبر ۱۳۲۱ء اقبال=۹نومبر ۱۸۷۷ئ وفات ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء دانتے کی طربیہ میںاس کے مذہب عیسائیت کا خاصا پرچار ہے اور اس نے حتی الوسع ہر مقام پر تثلیث کو پیش نظر رکھا ہے۔ اس مختصر سے مقالے میںچند مثالوں پر اکتفا کروں گا۔ عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث ہے کہ ایک خدا تو اللہ ہے، دوسرا حضرت مسیح ؑاور تیسرا حضرت مریم ؑ ۔ دانتے نے دیوینا کو میدیا کو تین کینٹوز میں تقسیم کیا ہے۔ ہر حصے کو سوائے ’’انفرنو‘‘ (دوزخ) کے تینتیس کینٹوز پر مشتمل رکھا ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ مسیح ؑ کی ارضی زندگی تینتیس برس کی تھی۔ بحر نہ مثنوی کی ہے اور نہ رباعی کی بلکہ تثلیث کی مناسبت سے ’’ثلاثی‘‘ رکھی گئی ہے جسے اطالوی میں ’’تیر زاریما‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ صوتی اثرات خواجہ حافظ کے کلام کی طرح عجیب آہنگ اور لطف پیدا کرتے ہیں لیکن یہ لطف صرف اطالوی زبان میں ہے جسے موسیقی سے خاص قسم کی مناسبت ہے۔ اس عظیم شاعر نے ہر ثلاثی کو دوسری ثلاثی سے اس طرح منسلک کیا ہے کہ ایک سنہری سلسلتہ السلاسل بن گیا ہے۔ کچھ لاشعوری اتفاقات بھی ہیں، مثلاً مرنے سے تین سال پہلے یہ نظم ختم ہوئی اور اس کے تین حصے ہیں، دوزخ۔ اعراف اور جنت۔ دانتے نے اپنی محبوبہ بیاترچے کے ساتھ نو کے عدد کو منسوب کیا ہے جو تین کا مربع ہے۔ دوزخ کے طبقات بھی نو ہیں۔ اعراف کی سطوح بھی نو ہیں۔ شاعری کی دیویاں بھی یونانیوں اور رومیوں کے نزدیک نو ہیں۔ دانتے کی یہ تمثیلی نظم لفظی(لٹرل)، تمثیلی (ایلی گوریکل) اور صوفیانہ (مسنی کل) ہے۔ دانتے نے اپنے اس شاہ کار کا نام صرف ’’کو میدیا‘‘ تحریر کیا تھا۔ اس کی موت کے تین چار سو سال بعد اس کے عقیدت مندوں نے اس کے ساتھ لفظ ’’دیوینا‘‘ کا اضافہ کر کے طربیہ کو طربیۂ خداوندی بنا دیا۔ بوکیشو، جو دانتے پر سب سے بڑی اتھارٹی ہے، تحریر کرتا ہے کہ دانتے نے پہلے طربیہ کو لاطینی میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن بعد ازاں اس امر کے پیش نظر کہ لاطینی کو یونانی زبان کی طرح المیہ نگاری سے مناسبت ہے، اپنے طربیہ کو اطالوی میں لکھا۔ دانتے کے مآخذ اسلامی اور ایرانی ہیں جن میں سے قابل ذکر یہ ہیں: ۱۔ ارداویراف نامہ (زرتشت کی عالم بالا کی سیر) ۲۔ معراج نامہ (فارسی)، ابن سیناؒ ۳۔ الطیر (عربی) : ابن سیناؒ ۴۔ رسالہ انفوان : ابوالعلاء معری ۵۔ مثنوی سیر العباد الی المعاد : سنائیؒ ۶۔ رسالتہ النفسفخر الدین رازیؒ ۷۔ فتوحات مکیہ : علامہ ابن عربیؒ مضمون کے آخر میں دیئے گئے چارٹ پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے دانتے کا اس کے ماخذ سے بخوبی موازنہ کیا جاسکتا ہے۔ دانتے نے صرف چند انبیاء علیہم السلام کا ذکر کیا ہے۔ حضرت دائود ؑ ، حضرت سلیمانؑ، مسیح ؑوغیرہ بیشتر عیسائی شخصیتیں ہیں۔ اسلامی شخصیتوں میں ابن سینا اور ابن رشد کو دکھایا ہے۔ یہ اس چارٹ میں نہیں ہیں کیونکہ یہ صرف پیرا ڈائزو پر مشتمل ہے۔ دانتے نے انہیں دوزخ (انفرنو)میں دکھایا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے مقتدا اور مرشد و رجل کو بھی د وزخ کے ادنی طبقے میں دکھایا ہے۔ جس کا نام لمبو تحریر کیا ہے۔ لمبو میں فلاسفہ کے طبقے میں ارسطو کو مرکز میں بیٹھا ہوا دکھایا ہے اور سقراط ، افلاطون، دیوجانس، دیمو کرائتس، ہیرا کلیتس، انیکسا غورث، ایمپی ڈوکلیز، تھیلیز، زینو، سسرو، مینیکا، اقلیدس ، بطلیموس، بقراط، جالینوس، ابن سینا، ابن رشد کو اردگرد بیٹھا ہوا دکھایا ہے۔ اقبال کے ہاں شعرا بھی معدودے چند ہیں۔ دانتے نے شعرا کی طویل فہرست مرتب کی ہے۔ اس میں ہومر، ہوریس، اووڈ۔ لوکن، ورجل، وغیرہ دکھائے ہیں۔ اور یہاں دانتے نے زیادتی کی ہے کہ اس امر کے باوجود کہ ان کا زمانہ مسیح کی بعثت سے قبل کا ہے، انہیں جہنم میںدکھایا ہے کہ ان کابپتسمہ نہیں ہوا تھا۔ اقبال نے دانتے کی طربیہ کے ابتدائی دو حصوں جہنم اور اعراف کا ذکر چھوڑ دیا اور آخری حصہ پیراڈائزو پیش نظر رکھا ہے۔ اس میں سے سیارہ شمس میں کوئی شخصیت نہیں دکھائی۔ دانتے نے شمس میں اساتذہ، مورخین اور مذہبی رہنمائوں کی خاصی تعداد شمس پر دکھائی ہے جیسا کہ جدول (چارٹ) کے مندرجات سے ظاہر ہے۔ عالم بالا کے سفر کا آغاز:- امریکہ کے مشہورپادری ول ڈیوراں نے اگرچہ اس امر سے فرار کی کوشش کی ہے کہ یہ ثبوت نہیں ملتا کہ دانتے کی طربیۂ خداوندی کے ماخذ کے تراجم ہو چکے تھے لیکن راقم مقالہ کو ڈیوراں سے اتفاق نہیں ہے۔ اطالوی زبان ہسپانوی کی طرح لاطینی سے مشتق ہے۔ دانتے لاطینی بڑی اچھی طرح جانتا تھا ۔ اس نے لاطینی میں کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے ادوار۔ اقبال کی زندگی کو بعض ناقدین پانچ ادوار میں تقسیم کرتے ہیں: پہلا دور ’’ابتداء سے ۱۹۰۵تک‘‘ احمد دین نے ان کی پہلی نظم ’’نالہء یتیم‘‘ بتائی ہے۔دوسرا دور ۱۹۰۵ ء سے ۱۹۰۸ء تک۔ یہ قیام ولایت کا زمانہ ہے۔ تیسرا دور۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۳تک کا ہے۔ اس دور کی ان کی مشہور نظمیں ’’شکوہ‘‘، ’’جواب شکوہ‘‘، ’’شمع و شاعر‘‘،’’والدئہ مرحومہ کی یاد میں‘‘، ’’خضر راہ‘‘ اور فارسی زبان کی مثنویاں اسرار خودی اور رموز بے خودی ہیں۔ چوتھا دور ۱۹۲۳ء سے ۱۹۳۵ء تک کا خیال کیا جاتا ہے۔ اس دور کا زیادہ تر کلام فارسی زبان میں ہے اور اردو کے مجموعہء کلام میں فارسی اساتذہ کا چربہ اتارنے کی کامیاب سعی عمل میں لائی گئی ہے اور پہلی دفعہ ان کی رائے یورپی سیاست اور دیگر مفکرین کی نسبت منصہ شہود پر آتی ہے۔ اس دور کی اہم تصنیف جو گوئٹے کے دیوان مغرب کے جواب میں لکھی گئی پیام مشرق ہے۔ دیگر کتب جاوید نامہ، زبور عجم، مثنوی مسافر اور بال جبریل ہیں۔ شیطان کا تصور بھی ان کے کلام میں پہلی دفعہ اسی دور کی پیداوار ہے۔ پانچواں دور ۱۹۳۵ء سے ان کی وفات کے سال ۱۹۳۸ء تک ہے۔ اس دور کی تصانیف ضرب کلیم، پس چہ باید کرد اور ارمغان حجاز ہیں۔ رسالہ نیرنگ خیال سالنامہ ۱۹۴۲ء کے ایک مضمون بعنوان ’’اقبال کی شاعری کے تین دور‘‘ میں مندرجہ ذیل ادوار قائم کئے گئے ہیں: پہلا دور ابتدا سے ۱۹۱۲ء تک۔ اس دور کی اہم خصوصیات حب الوطنی، منظر نگاری اور لفظ تراشی ہیں۔ دوسرا دور ۱۹۱۲ء سے ۱۹۳۵ء تک کا قرار دیا گیا ہے۔ اس دور کی اہم کتب پیام مشرق، جاوید نامہ اورزبور عجم ہیں۔ تیسرا دور وہی ہے جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ اس مقالے میں بحث جاوید نامہ کی چل رہی ہے۔ لہذا اس کو صرف اسی حد تک محدود رکھا جائے گا۔ اقبال کے خطوط سے ہمیں اس امر کا اظہار ملتا ہے کہ وہ دانتے الغیری کے انداز میں ایک کتاب سپرد قلم کرنے کا پروگرام ذہن میں رکھے ہوئے تھے، اور یہ پروگرام زبور عجم کے لکھے جانے سے بھی قبل کا تھا جیسا کہ ان کے مکتوبات بنام سید نذیر نیازی سے ظاہر ہوتا ہے: زبور عجم اس وقت مطبع میں تھی…فرمایا میری یہ کتاب اہل مشرق کے لئے ہے جس کا مطلب ایک طرح سے یہ تھا کہ جیسے پیام مشرق اہل مغرب کے لیے …لیکن پھر جب حضرت علامہ کے اس ارشاد پر کہ میری یہ کتاب اہل مشرق کے لئے ہے عابد صاحب نے کہا : اور اس کے بعد ؟ تو ارشاد ہوا کہ اس کے بعد دانتے کی’ڈیوائن کامیڈی ‘ کی طرح ایک اسلامی کامیڈی۔ عابد صاحب نے کہا : مگر اس کے لئے تو کسی بیٹرس (بیاترچے) کی ضرورت ہو گی۔ حضرت علامہ مسکرائے اور فرمایا: اب میری عمر بیٹرس کی نہیں۔ ہاں جاوید کو اللہ تعالیٰ زندگی دے میں اس کا نام جاوید کے نام پررکھوں گا۔ پھر پاس ہی رکھی ہوئی ایک تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اپنی بیاض اشعار اٹھا کر بعض مطالب کی تشریح میں چند ایک قطعات سنائے جو آگے چل کر بہ حک و اضافہ جاوید نامہ کا جزو بنے‘‘ (۱) مکتوبات اقبال کی اسی عبارت سے اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ کو اس امر کا بھی علم تھا کہ دانتے نے اس موضوع پر اسلامی لٹریچر سے استفادہ کیا تھا۔ دانتے نے اس جہان آب و گل کو چھوڑ کر عالم بالا کا رخ کیا اور اب تو ثابت ہوچکا ہے کہ ڈیوائن کامیڈی کا سارا خاکہ ابن عربی سے ماخوذ ہے۔ لیکن ابن عربی کے مقاصد، خیالات اور تصورات کی دنیا اور تھی، دانتے کی اور۔ صوفیہ اسلام میں بعض اور بزرگوں نے بھی اپنے مشاہدات کا حال اسی پیرائے میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے متعدد سیاروں اور ستاروں کی سیر کی۔ اقبال نے یوں کہا: ’’میں بھی عالم بالا کا رخ کر رہا ہوں۔ مولانا روم میری رہ نمائی کریں گے اور آپ دیکھیں گے کہ لفظ کامیڈی میں ایک نئے معنی پیدا ہو گئے ہیں جو دانتے پیدا نہیں کر سکا‘‘(۲) اگست ۱۹۳۱ء کے ایام میں کتاب الطواسین اقبال کے زیر مطالعہ رہی تھی اور چند روز کے لئے نذیر نیازی کو دی تھی۔ نیازی صاحب نے یہ کتاب آگے چلا دی جس پر انہیں ۳۰ اگست ۱۹۳۱ء کو انگریزی میں ایک خط میں ڈانٹ پلائی۔ یہ خط محولہ بالا مکتوبات کے صفحات ۲۸، ۲۹پر تحریر ہے۔ نذیر نیازی صاحب نے فوراً کتاب ارسال کی جس کے جواب میں اقبال کا خط محررہ ۱۴ اگست ان کو اگلے روز موصول ہوا جس کا مضمون یہ تھا : ’’ڈیر نیازی صاحب۔ السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ کتاب الطواسین بذریعہ ڈاک لکھنو سے آگئی ہے۔ محمد اقبال ۱۴ اگست ۱۹۳۱ء ‘‘ اقبال ابتدا میں مولانا رومی کی رہ نمائی میں فلک قمر پر جاتے ہیں۔ دانتے نے بھی علامہ ابن عربی کی فتوحات کے زیر اثر اپنی کتاب کے تیسرے حصے پیراڈائزو میں اپنی عالم بالا کی سیاحت کی پہلی منزل مشہور اطالوی شاعر ورجل کی اقتدا میں فلک قمر دکھائی ہے۔ دانتے اور اقبال دونوں کو پہاڑوں کا سلسلہ فلک قمر پر دکھائی دیتا ہے۔ اقبال نے پر سکوت منظرمیں ان آتش فشاں پہاڑوں میں سے (جن کی تعداد سو پر مشتمل ہے) دو کے نام ذیل کے شعر میں لئے ہیں: آں سکوت، آں کوہسارِ ہولناک اندروں پر سوز و بیروں چاک چاک صد جبل از خافظین و یلدرم بر دہانش دود و نار اندر شکم(۳) دانتے اور اقبال دونوں یہاںستاروں کا نغمہ سنتے ہیں۔ مولانا رومی اور زندہ رود (اقبال) دونوں سیارہ قمر پر نزول اجلال کر کے ایک غار میں جاتے ہیں جہاں ان کی ملاقات ’’عارف ہندی‘‘ یا ’’جہاں دوست‘‘ یا وشوامترا سے ہوتی ہے جو مہاراجہ رام چندر کے استاد تھے۔ عارف اپنے خیالات میں مستغرق ہے اور ایک سفید سانپ اس کے سر کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے ہے۔ ’’عارف ہندی‘‘ رومی کو پہچان لیتا ہے اور ان سے استفسار کرتا ہے کہ آپ کے ساتھ یہ نووارد کون ہے: گفت با رومی کہ ہمراہ تو کیست؟ در نگاہش آرزوئے زند گیست!(۴) رومی آٹھ اشعار میں اقبال کا تعارف کراتے ہیں جو جاوید نامہ کے صفحہ ۳۵ / ۶۲۳ پر درج ہیں۔ اس کے بعد عارف اس نووارد کی روحانی فضیلت کا اندازہ کرنے کے لئے چند سوالات کرتا ہے، مثلاً ۱۔خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی پردہ یا حجاب نہیں۔ ۲۔ سدا بہار جوانی کے حصول کی خاطر دوسرے عالم میں ولادت کی خاطر تیار اور کمربستہ رہنا چاہئے۔ ۳۔ انسان فنا پذیری کے باعث علم فنا میں اپنے خالق سے برتر ہے! (معاذ اللہ) وغیرہ۔ سوالات کے جواب تسلی بخش پانے پر عار ف مختلف چیزوں کے بارے میں بعض حقائق منکشف کرتا ہے جن کا ذکر اقبال نے ’’نہ تا سخن از عارف ہندی‘‘کے عنوان کے تحت صفحہ ۳۸/۶۲۶تا ۴۰/۶۲۸پر کیا ہے۔ اس کے بعد رومی اور ان کا مقتدی یرغمید یا طواسین کی وادی سے گزرتے ہیں جہاں انہیں ایک بڑی چٹان دکھائی دیتی ہے جس پر چار تصاویر کندہ ہیں: کندہ بر دیوارے از سنگ قمر چار طاسین نبوت را نگر(۵) یہ طاسین طاسین گوتم، طاسین مسیح، طاسین زرتشت اور طاسین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ طاسین گوتم میں ایک رقاصہ کو گوتم کے ہاتھ پر تائب ہوتا دکھایا گیا ہے۔ طاسین زرتشت میں اہرمن اپنے فرستادہ پیغمبر زرتشت کی آزمائش کرتا ہے، طاسین مسیح میں روس کے حکیم، مصلح اور چوٹی کے ناول نگار ٹالسٹائی کی روح کو دکھایا گیا ہے جو عیسائیت کے ’’فساد فی البر و البحر‘‘ پر نالاں ہے۔اس عظیم مفکر ٹالسٹائی کو افرنگین نامی ایک جادو گرنی دکھائی دیتی ہے۔ وہ افلاطوس رومی حاکم کو اس امر پر مطعون کرتی ہے کہ تو نے حضرت مسیح کو تختہ دار پر کیوں چڑھایا؟ وہ جواب میں کہتا ہے کہ ہم نے مسیح (روح القدس) کے جسم کو گزند پہنچایا مگر تم نے ان کی روح مقدس کو آلودہ اور پامال کر دیا۔ قیمت روح القدس نشناختی تن خریدی، نقد جاں درباختی!(۶) پروفیسر آرتھر آربیری نے افرنگین کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ فاسد مسیحی تہذیب سے استعارہ ہے۔ طواسین کا حصہ دانتے کے ہاںنہیں ہے۔ اقبال نے یہ حصہ حضرت منصور حلاج کی کتاب کتاب الطواسین سے لیا ہے۔ انہوں نے اگست ۱۹۳۱ء کے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا ہے کہ ان کو یہ کتاب لکھنو سے موصول ہو گئی تھی۔ آخری طاسین میں ابو جہل حضور علیہ الصلوٰت و السلام کے خلاف واویلا کرتا ہوا دکھایا گیا ہے۔ دانتے کو دوزخ اور اعراف میں ورجل کی رہنمائی حاصل تھی، لیکن ان سیاروں پر جنہیں اس نے فردوس کے حصے میں دکھایا ہے اس کی نئی مرشدہ بیاترچے کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ بیاترچے کے علاوہ اس کی ملاقات حضرت مسیحؑ اور حضرت مریمؑ سے ہوتی ہے۔ حدیث کے لٹریچر میں حضور علیہ السلام کی ملاقات فلک اول پر آدم سے ہوئی تھی۔ چاند تذبذب کی علامت ہے۔ دانتے چاند میں مشاہدہ کرتا ہے کہ زمین سورج کے گرد حرکت کر رہی ہے۔ چاند کے بعد کی دوسری منزل دونوں کی فلک عطارد ہے جسے منجمین دبیر الملک کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔دانتے نے فلک عطارد پر روم کے مقنن جسٹینین کو دکھایاہے جس نے اپنے جرنیل بیلی سیریس کو اس لئے اپنے عسکری فرائض سونپ دیئے تھے کہ وہ اپنے ملک کے شہری حقوق و ضوابط کی جانب توجہ مبذول کرنا چاہتا تھا۔ نیز دانتے نے اس فلک پر مقرب فرشتے (کروبیان) دکھائے ہیں۔ اقبال کی ملاقات رومی کی قیادت میں افغانستان کے مفکر سید جمال الدین افغانی سے ہوتی ہے اور سعید حلیم پاشا سے بھی ملاقی ہوتے ہیں۔ پاشا اہل شرق و اہل غرب کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انگریزوں کا شعلہ اب غم خوردہ ہو چکا ہے۔ ان کی آنکھ اگرچہ دور بین اور تیز ہے لیکن پہلو میں دل مردہ ہو چکا ہے۔ پاشا ترکوں کے نام پیغام دیتے ہیں کہ کتاب اللہ کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اقبال ان کے ہاتھ چومتا ہے: من ز جا برخاستم بعد از نماز دست او بوسیدم از راہ نیاز(۷) سعید حلیم پاشا اور افغانی دونوں کی گفتگو باری باری زندہ رود (اقبال) کے ساتھ ہوتی ہے۔ اقبال افغانی سے پوچھتے ہیں: زورق ما خاکیاں بے ناخداست کس نداند عالم قرآں کجاست!(۸) افغانی اس کا جواب ’’محکمات عالم قرآنی‘‘ کے عنوان کے تحت مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت دیتے ہیں: ۱۔ خلافت آدم ۲۔ حکومت الٰہی ۳۔ ارض ملک خداست ۴۔ حکمت خیرکثیر است ۔ قرآن حکیم کے بارے میں اقبال کے بڑے عمدہ اشعار ہیں۔ جاوید نامہ کے ص ۸۱ / ۶۶۹ پر افغانی کے ملت روسیہ کے نام پیغام کے تحت یہ اشعار درج ہیں: نقش قرآں تا دریں عالم نشست نقشہاے کاہن و پاپا شکست فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود [جب سے اس جہان میں قرآن حکیم کا نقش ثبت ہوا ہے کاہن اور لاٹ پادری کے نقوش باطل مٹ گئے ہیں۔ میںاپنے دل کی بات ڈنکے کی چوٹ سے کہتا ہوں کہ یہ کتاب نہیں کوئی اور ہی چیز ہے۔ جب یہ جان میں سرایت پذیر ہوتی ہے جان کی اور ہی کیفیت ہو جاتی ہے اور جب جان کی کیفیت اور ہو جائے تو جہان ہی بدل جاتا ہے۔] افغانی کے پیغام میں اسلامی سپرٹ کا بلشویت سے موازنہ کیا گیا ہے۔ اسے بے حد اچھے انداز سے شاعر نے نبھایا ہے۔ ابن عربی نے دوسرے فلک، فلک قمر، پر حضرت عیسی ؑ اور حضرت یحیی ؑ دکھائے ہیں اور امام سیوطی نے خصائص کبریٰ میں حضور علیہ السلام کی ملاقات انھی دو پیغمبروں سے کرائی ہے۔ عطارد کے بعد کی منزل میں دانتے اور اس کی محبوبہ انتہائی سرعت اور تیزی کے ساتھ مریخ سیارے کی جانب تیرتے چلے جارہے ہیں۔ دانتے ایک چیز کو یہاں خاصا محسوس کر رہا ہے۔ زہرہ یونانیوں اور رومیوں کی حسن و جمال کی دیوی ہے۔ اسی مناسبت سے دانتے نے اس سیارے پر عشاق کی اروا ح دکھائی ہیں۔ اقبال بھی اسی مناسبت سے یہاں بتوں کی قیام گاہ کا ذکر کرتے ذیل کے نام گنواتے ہیں: بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر رم خن و لات و منات و عسر و غسر(۹) دانتے نے جو شخصیات یہاں دکھائی ہیں وہ عشق و سرمستی کے ہاتھوں اس قدر سر گردان ہیں کہ ان پر جنون کی کیفیت طاری ہے۔ نغمہ و سرود کی فضا نے اس سیارے میں طلسماتی کیفیت طاری کر رکھی ہوتی ہے۔ دانتے نے یہاں اپنے آپ کو اپنے عزیز ترین دوست چارلس مارٹل کے ساتھ محو گفتگو دکھایا ہے۔ یہ گفتگو کینٹو نمبر ۳۱ سے شروع ہو کر اس کینٹو کے آخری مصرعہ نمبر ۱۴۸پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ دانتے اور چارلس مارٹل کی عمر میں صرف چھ سال کا فرق تھا۔ چارلس دانتے سے چھوٹا تھا۔ دانتے نے چھبیس سال کی عمر میں شاعری کے میدان میں خوب شہرت حاصل کرلی تھی۔ مارٹل انیس سال کی عمر میں سریر آرائے سلطنت ہوا اور ہنگری کی وسیع قلم رو سنبھال لی۔ اس سیارے میںچارلس اپنے دوست دانتے کو بتاتا ہے کہ خدا نے اس پر مہربانی فرمائی اور اسے اس کی عیاشی کی سزا دے کر فلک مریخ پر بھیج دیا۔ اقبال نے بھی اسی طرح اپنی اور رومی کی ارواح کو تیزی سے تیرتا ہوا دکھایا ہے۔ اقبال کے اس سیارے کا پہلا منظر قدیم اقوام کے دیوتائوں کی مجلس ہے۔ ان میں بعض دیوتائوں کے نام شاعر نے وہ بتائے ہیں جن کا ذکر قرآن اور دیگرالہامی کتب میں آیا ہے، لیکن بعض نام ایسے بھی ہیں جو فرضی ہیں۔ شاعر نے اس سیارے پر بتوں کی فراوانی کی تاویل بت شکن شخصیتوں ابراہیم ؑاور محمود غزنوی کے نہ ہونے کی وجہ بتائی ہے۔ اس سیارے میں رومی اور اقبال کی ملاقات فرعون مصر اور لارڈ کچنر کی روحوں سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں ارواح بد سیارہ مریخ کے ایک دریا کی تہہ میں پڑی ہوئی ہیں۔ ان کی گفتگو جنت میں مہدی سوڈانی کی روح کو اپنی جانب مبذول کرتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ اے کچنر! اگر تجھ میں فہم و خرد کی رتی بھی ہے تو درویش کی مٹھی بھر خاک کا انتقام دیکھ ۔ تجھے فلک خاک نے قبر کے لئے جگہ فراہم نہ کی اور نتیجے کے طور پر تجھے سمندر میں ڈوبنا پڑا۔ گفت ’’اے کشنر اگر داری نظر انتقام خاک درویشے نگر! آسماں خاک ترا گورے نداد مرقدے جز دریم شورے نداد‘‘(۱۰) کچنر سے گفتگو کے بعد مہدی سوڈانی کی مبارک روح عربی بولنے والی اقوام سے خطاب کرتی ہے۔ رومی اقبال سے فرماتے ہیں: اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں بے خوف و خطردو کہ میں موسیٰ کی طرح سینہ سمندر کو چیرنے اور اس کی ضمیر میںداخل ہونے کے طریقے سے آگاہ ہوں۔ رومی فرعون کو بتاتے ہیں: ہر چہ پنہاں است ازو پیداستے اصل ایں نور از ید بیضاستے!(۱۱) تو فرعون حسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: باز اگر بینم کلیم اللہ را خواہم از وے یک دل آگاہ را(۱۲) فلک زہرہ کے سفر کا خاتمہ اقبال کے اس شعر سے ہوتا ہے: سارباں یاراں بہ یثرب ما بہ نجد آں حدی کو ناقہ را آرد بہ وجد(۱۳) دانتے نے زہرہ سیارے پر عشق مجازی کے کچھ اور اسیر بھی دکھائے ہیں۔ البتہ وہ اشخاص جنہوں نے زندگی میں خوب رنگ رلیاں منائی ہیں، مثلاً ہیلن اور پیرس وغیرہ، ان کو جہنم میں دکھایا ہے۔ مذہبی شخصیات دانتے نے سیارہ شمس پر دکھائی ہیں۔ اس سیارے پر بارہ مذہبی شخصیات ہیں جنہوں نے دانتے اور بیاترچے کے اردگرد ستاروں کی صورت میں ایک دائرہ بنا رکھا ہے۔ یہ شخصیتیں ڈور تھی سیرز نے دانتے الغیری کے طربیہ فردوس کے صفحہ ۱۲ پر ایک تصویر میںدکھائی ہیں۔ ان میں سے قابل ذکر یہ ہیں: تھامس ایکوینا، البرٹ اعظم، پیٹر، حضرت سلیمان ؑ، دائی نوسی اس وغیرہ۔ اس دائرے کے اردگرد مزید بارہ ستاروں کا ایک اور دائرہ بنایا ہے جس میں سینٹ بونا دینتر، فرا ایگوس تیز، پیٹر آف اندلس، ناتھانس وغیرہ دکھائے ہیں۔ بیاترچے حضرت سلیمان ؑسے ان ستاروں کے درجات تنویر کے متعلق سوال کرتی ہے جو انہیں موت کے بعد حاصل ہوئے ہیں، تو حضرت سلیمان ؑعنایت، مشاہدہ، پیار اور تابانی کا باہمی تعلق اس پر واضح فرماتے ہیں۔ اس اثناء میں روشنی کا ایک دائرہ سیاروں کی صورت میں رونما ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس کے پہنچنے سے پہلے ہی دانتے مریخ سیارے پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں دانتے حضرت مسیح ؑکا مشاہدہ کرتا ہے جو سب انواع پر سبقت لے جاتا ہے۔ یہ سیارہ لڑائی کی علامت ہے۔ دانتے نے اس پر وہ لوگ دکھائے ہیں جو صلیبی جنگوں میں قتل کئے گئے تھے۔ یہ سیارے صلیب کی صورت میں دکھائے گئے ہیں۔ دانتے نے یہاں رومی حکم ران رابرٹ بھی دکھایا ہے حالانکہ اس شخص نے روم کو تاخت و تاراج کیا تھا۔ چھٹے سیارے مشتری میں دانتے نے وہ حکم ران دکھائے ہیں جنہوں نے اس دنیا میں امن و انصاف سے حکومت کی۔ یہ دائود ؑ، فریقیہ، قسطنطین، تراجن، ولیم آف سسلی، رے پی آس ہیں۔ دائود ؑ کو شاہین کی صورت میںدکھایا ہے اور دیگر محولہ بالا حکم ران آپ کی آنکھ پر ابرو کی صورت میںدکھائے ہیں۔ آخری سیارہ زحل ہے۔ اقبال نے جعفر اور میر قاسم کو دوزخ کے بجائے اس منحوس سیارے پر دکھایا ہے۔ یہ ملک و ملت کے غدار تھے اور ان کے افعال اس قدر شنیع تھے کہ دوزخ بھی ان کو قبولنے کے لئے آمادہ نہ تھی کہ یہ ننگ آدم،ننگ دین اور ننگ وطن تھے: جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن (۱۴) دانتے جب فلک زحل پر پہنچتا ہے تو یہاں اسے اس کی محبوبہ حسن و جمال کی پوری تابانی پر دکھائی دیتی ہے۔ وہ اسے دیکھ کر اس کی جانب اس لئے مسکراہٹ سے گریز کرتی ہے کہ کہیں وہ اس کی مسکراہٹ سے جل کر بھسم نہ ہو جائے۔ دانتے نے فلک زحل پر وہ راہب دکھائے ہیں جنہوں نے اپنی منتیں پوری کرنے میں پورے تقدس و دیانت داری کا ثبوت دیا ہے۔ ان میں ایک سینٹ پیٹر دامیان ہے جس سے دانتے پوچھتا ہے کہ انسان ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘ کے مرتبے تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔ سینٹ جواب دیتا ہے کہ اس کا جواب تو بڑے بڑے راہبوں کے پاس نہیں ہے جو یہاں موجود ہیں۔ دانتے فلک زحل سے آنسوئے افلاک تک پہنچنے سے قبل ثوابت پر منزل کرتا ہے لیکن اقبال سیدھے آنسوئے افلاک پر پہنچ جاتے ہیں۔ مجلہ اقبال، بزم اقبال لاہور، اپریل، ۱۹۸۲ء کینٹو دانتے کے طربیۂ خداوندیکے اہم کردار حوصلہ ۱ تا ۵ شہزادی پشاردا انصاف و عدل ۵ تا ۷ شہنشاہ جسٹینین، رومیو اعتدال ۸ تا ۹ عشاق: چارلس مارتل، جونیزا، فول کوایت آف مارسلز حزم و احتیاط ۱۰ تا ۱۴ اساتذہ، مورخ اور مذہبی رہنما: ایکوانس، البرٹ، گریشن، پیٹر، لمبارد، سلیمانؑ، دیوانی سیس، اوروسی اس، رچرڈ، ڈاکٹر پروفیسر سے جیئر، ہسپانیہ کا پیٹر حوصلہ ۱۴ تا ۱۸ جنگ جُو لوگ: جوشوا، شارلیمان، رولینڈ، ولیم آف اورینج انصاف ۱۸ تا ۲۰ منصِف: ٹروجن، دائودؑ، قسطنطین، ولیم دوم آف سسلی اعتدال ۲۱ تا ۲۲ پیر دامیاں، مچاریس، رومو آلوس ایمان، رجا ۱۸ تا ۲۷ مسیحؑ کی فتح، مریمؑ، سینٹ پیٹر، سینٹ جیمز، سینٹ جان ایڈم ۳۰ تا ۳۳ سینٹ برنارڈ، بیاترچے کی عرش پر واپسی اقبال کے جاوید نامہکے کردار عبدالکریم جیلی فتوحاتِ مکیہ رومیؒ، عارف ہندی (وشوامترا) فرشتہ سروش، آدمؑ آدمؑ گوتم، زرتشت، مسیحؑ ،حضور علیہ الصلوٰۃ واسلام ٹالساٹائی، افلاطوس، اہرمن، ابوجہل روپہلی رومی، زندہ رود (اقبال)، جمال الدین افغانی، سعید نوحؑ، فن کاروں مسیحؑ اور حلیم پاشا کے معاون فرشتے قدیم اقوام کے دیوتا، بعل، نسر، لات و منات یوسفؑ، فرشتے یوسفؑ وغیرہ، فرعون، لارڈ کچز اور مہدی سوڈانی شعرا، مصور کی روح زرد، سبز رنگ مہندس اقبال نے شمسی سیارے پر کوئی شخصیت نہیں ادریسؑ ادریسؑ دکھائی منجم، فرامرز نامی ایک طاغوتی کردار، ایک یحییٰؑ، عزرائیل ہارونؑ مدعیۂ نبوت صدرہے خوف، سختی قرمزی رنگ قوت کا مظہر حضرت حسین بن منصور حلاج، قرۃالعین طاہرہ، موسیٰؑ، میکائیل موسیٰؑ مرزا غالب، ابلیس رحمت اور برکت اور ان کا وعظ کے فرشتے نیلا رنگ میر جعفر، میر صادق اور ہند کی روح ابراہیمؑ ابراہیمؑ ذہانت کا مظہر، رنگ سیاہ نطشے، شرف النسائ، علی ہمدانی، بھرتری ہری، ٹیپو سلطان، ناصر خسرو، نادر شاہ، حوریں، رویتِ باری حوالے ۱۔ سید نذیر نیازی، مکتوبات اقبال (لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، بار دوم، اکتوبر ۱۹۷۷ئ)، ص ۳۲-۳۳۔ ۲۔ ایضاً ، ص ۳۴۔ ۳۔ جاوید نامہ (کلیات اقبال فارسی)، ص ۳۲/۶۲۰۔ ۴۔ ایضاً ، ص ۳۴/۶۲۲۔ ۵۔ ایضاً ، ص ۴۵/۶۳۳۔ ۶۔ ایضاً ، ص ۲۵/۶۴۰۔ ۷۔ ایضاً ، ص ۶۱/۶۴۹۔ ۸۔ ایضاً ، ص ۶۷/۶۵۵۔ ۹۔ ایضاً ، ص ۸۸/۶۷۶۔ ۱۰۔ ایضاً ، ص ۹۷/۶۸۵۔ ۱۱۔ ایضاً ، ص ۹۴/۶۸۲۔ ۱۲۔ ایضاً ، ص ۹۵/۶۸۳۔ ۱۳۔ ایضاً ، ص ۹۸/۶۸۶۔ ۱۴۔ ایضاً ، ص ۱۴۲/۷۳۰۔ اقبال اور گوئٹے ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی علامہ اقبال مشرق و مغرب کی جن ممتاز شخصیات سے متاثر ہوئے، ان میں گوئٹے ایک نمایاں نام ہے۔ اقبال نے گوئٹے کے ساتھ اپنی جس وابستگی کا اظہار کیا ہے، اس کے پیش نظر یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ اقبال مشرق میںمولانا روم سے اور مغرب میں گوئٹے سے متاثر ہوئے۔ گوئٹے اور اقبال کے ذہنی روابط کا بیان اور دونوں کا تقابلی مطالعہ ہی اس مقالے کا موضوع ہے۔ جرمن کا یہ عظیم مفکر شاعر فرانکفرٹ کے مشہور شہر میں پیدا ہوا۔ اس نے ۸۳ سال کی طویل عمر پائی اور اس کاانتقال اقبال کی پیدائس سے ۴۵ سال پہلے ۱۸۳۲ء میں ہوا۔گوئٹے نے اپنی قانون کی تعلیم مکمل کر کے ملازمت کا آغاز ہی کیا تھا کہ وائی مار کے علم دوست ڈیوک کارل آوگسٹ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس نے گوئٹے کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی اور گوئٹے اپنی آخری عمر تک وائی مار میں ہی مقیم رہا اور یہیں مدفون ہوا۔ وائی مار میں وہ مختلف عہدوں پر فائز رہا۔ ڈیوک نے دل کھول کر اس کی قدر افزائی کی۔ گوئٹے کو یہاں اتنی معاشی فراغت اور ذہنی آسودگی میسر آئی کہ وہ تقریباً ساٹھ سال تک اپنے علمی و ادبی مشاغل اور سائنسی تحقیقات میں مشغول رہا۔ گوئٹے کا گھر وسیع، دل و دسترخوان کشادہ تھے، اس لیے یورپ کے ادیب و شاعر ان کی ملاقات کو آتے رہتے تھے۔ گوئٹے کی شہرت اس کی زندگی ہی میں ساری دنیا میں پھیل چکی تھی۔ یورپ کے سربر آوردہ اہل قلم گوئٹے کے پرستاروں میں اور اکثر اس کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ انگلستان میں کار لائل جیسا شخص گوئٹے پر پرمغز مقالے لکھ رہا تھا۔ کالرج اور شیلے اس کی شاعری کے انگریزی ترجمے کر رہے تھے۔بائرن کو گوئٹے اپنا معنوی فرزند کہتا تھا (اور بائرن نے manfred گوئٹے ہی کے نام لکھی) گوئٹے کی اولیں سوانح عمری بھی ایک انگریز جارج ہنری لیوس نے لکھی۔ انگریز اہل قلم کی گوئٹے میں اس دلچسپی نے اس کے قارئین کا حلقہ وسیع کر دیا اور گوئٹے کا نام انگریزی کے توسط سے برصغیر پہنچا۔ گمان غالب یہی ہے کہ گوئٹے تک اقبال کی رسائی اول انگریزی کے ذریعے سے ہوئی ہو گی۔ ادب کے تقابلی مطالعے کو کچھ عرصے سے بین الاقوامی یک جہتی کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں کسی ایک ملک کے شاعر یا ادیب کا کسی دوسرے ملک کے شاعر یا ادیب سے مقابلہ کیا جاتا ہے۔ ان دونوں کے احوال و آثار، فکر و فن اور موضوعات و مطالب کا بڑی محنت سے مطالعہ کر کے مشترکہ نتائج اخذ کئے جاتے ہیں۔ جس مقصد کے لیے یہ کاوش کی جاتی ہے اس کے نیک ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اس مطالعے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں، کسی مشترک بنیاد کا ہونا بھی ضروری ہے۔ بعض اوقات یہ کاوشیں بالکل بے اثر رہتی ہیں، اور اس ادبی مشن سے کچھ حاصل نہیں ہو پاتا۔ پابلو نرودا اور دین کار سے جب اقبال کا موازنہ کیا جائے گا، اس سے جو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، اس کے بارے میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ لیکن گوئٹے اور اقبال کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔ اقبال اور گوئٹے کے روابط کی تاریخ اور ان روابط کے حدود بہت واضح ہے۔ اس تعلقات کے ارتقاء کی مکمل تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ اقبال ۱۹۰۵ئ- ۱۹۰۸ء تک اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں یورپ میں رہے، لیکن گوئٹے سے وہ سفر یورپ سے پہلے ہی متعارف ہو چکے تھے۔ انھوں نے مرزا غالب پر اردو میں جو نظم کہی، وہ اس تعارف کے ثبوت میںپیش کی جاسکتی ہے۔ اس میں اقبال ، غالب کا گوئٹے سے موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے اس موازنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گوئٹے کے بارے میں علامہ کا علم سرسری معلومات سے کہیں زیادہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ گوئٹے کا مقابلہ کس اردو شاعر سے ممکن ہے۔ اس سطح پر گوئٹے کو روشناس کرانے کی اردو میں شاید یہ پہلی کوشش کی تھی، جو علامہ کے ذریعے ۱۹۰۵ء میں عمل میں آئی۔ ۱۹۰۷ء میں علامہ جرمنی میں آئے۔ یہاں وہ ۲۰ جولائی سے ۵ نومبر تک رہے۔ ان کا قیام ہائیڈل برگ اور میونخ کے شہروں میں رہا۔ ہائیڈل برگ میں انھوں نے اپنی جرمن استاد اور دوست ایما ویگے ناسٹ کے ساتھ گوئٹے اور کچھ دوسرے جرمن شعرا کا مطالعہ کیا۔ اس وقت جرمن زبان میں اقبال کی استعداد کچھ زیادہ نہیں تھی، لیکن استاد کی مدد، اپنی ذہانت اور شاعرانہ ذکاوت کی بناء پر وہ بہت جلد بطن شاعر میں اتر گئے۔ گوئٹے کے فائوسٹ کا دوسرا حصہ بعض اصطلاحات کی وجہ سے عام جرمن قارئین کے لیے بھی مشکل ہے لیکن اقبال نے جتنی جلدی اس کو سمجھا، اس پر ان کے جرمن احباب کو بھی حیرت ہوئی۔اقبال کو جرمنی میں اپنے قیام کے دوران گوئٹے کو زیادہ پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ ذہنی روابط کی مستحکم بنیاد اسی زمانے میں پڑی اور یہ روابط اقبال کی آخری عمر تک برقرار رہے۔ ۱۹۰۸ء میں اقبال وطن واپس آئے اور ان کی پہلی شعری تصنیف مثنوی اسرار خودی ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی لیکن ۱۹۱۰ ء میں اقبال نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک بیاض مرتب کرنا شروع کی۔ اس بیاض کو ڈاکٹر جاوید اقبال نے Stray Reflections کے نام سے ۱۹۶۱ء میںشائع کیا۔شذرات فکر اقبال اسی کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ اسی کتاب میں اگر کوئی ایک شخصیت چھائی ہوئی نظر آتی ہے، تو وہ گوئٹے کی ہے۔ گوئٹے کے بارے میں اس کتاب میں آٹھ نواندراجات موجود ہیں۔ اقبال نے یہ اعزاز کسی اور شخصیت کو نہیں بخشا۔ ان اندراجات سے جہاںاقبال کی گوئٹے سے وابستگی کا پتہ چلتا ہے، وہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال نے گوئٹے کا کس قدر گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اقبال کی یہ خوش بختی تھی کہ ادبی زندگی کے اوائل ہی میں بعض عظیم مفکرین کے ساتھ ان کے ذہنی روابط قائم ہوئے اور بلاشبہ گوئٹے ان میں سے ایک تھا۔ اپنے شاعرانہ اارتقا میں گوئٹے کے اثرات کا اعتراف خود اقبال نے ان لفظوں میں کیا ہے: ’’جب کسی عظیم ذہن سے ہمارا رابطہ قائم ہوتا ہے تو ہماری روح اپنے آپ کو پالیتی ہے۔ گوئٹے کے تخیل کی بے کرانی سے آشنا ہونے کے بعد مجھ پر اپنے تخیل کی تنگ دامانی منکشف ہو گئی‘‘۔ ایک اور اندراج میں اقبال نے گوئٹے کاشمار ان مفکرین میںکیا ہے، جس سے انھوں نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنا سیکھا۔ گوئٹے کی ادبی تصانیف کی فہرست طویل ہے، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ ان میں سے علامہ اقبال نے کس کس کا مطالعہ کیا تھا۔ اقبال کی تحریروں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں گوئٹے کا ڈراما فائوسٹ بہت پسند تھا۔ وہ اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ اس کے بارے میں بیاض ہی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمایئے: ’’گوئٹے نے ایک معمولی قصے کو لیا اور اس میں صرف انیسویں صدی ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے تمام تجربات سمو دیئے۔ ایک معمولی قصے کو انسان کے اعلیٰ ترین نصب العین کے ایک منظم و مربوط اظہار میں ڈھال دینا الہامی کارنامے سے کم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بے ہنگم ہیولیٰ سے ایک حسین کائنات تخلیق کر دی جائے‘‘۔ گوئٹے کی دوسری کتاب جو اقبال کو بہت پسند تھی وہ West-oestli cher Diwan یا دیوان غرب شرقی جسے اقبال دیوان مغربی کہتے ہیں۔ ۱۹۲۳ء میںاقبال نے پیام مشرق کے نام سے اسی دیوان کا جواب لکھا۔ اس قسم کی جواب نویسی مشرق کی ایک معروف ادبی روایت ہے۔ شعرا نے مسلمہ شاہکاروں کے جواب لکھ کر جہاں اپنی قدرت کلام کا ثبوت بہم پہنچایا ہے، وہیں انھوں نے اس جواب کے ذریعے اس شاہکار کی عظمت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ فارسی کی ادبی تاریخ میں نظامی گنجوی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ انھوں نے پانچ شاہکار مثنویاں تحریر کیں۔ بے شمار شعرا نے خمسہ نظامی کا جواب لکھا ، ان میں سے امیر خسرو، فیضی اور مولانا جامی قابل ذکر ہیں۔ اقبال نے اس قسم کے دو جواب لکھے ہیں۔ ایک تو انھوں نے چودہویں صدی عیسوی کے بزرگ صوفی شاعر شیخ محمود شبستری کی معروف مثنوی گلشن راز کا جواب گلشن راز جدید کے نام سے لکھا۔ اس میں اقبال نے شیخ کے وحدت الوجود کی تردید کی ہے اور اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ دوسرا جواب گوئٹے کے دیوانکا پیام مشرق کی صورت میں لکھا ہے۔ یہ جواب لکھ کر اقبال نے پورے مشرق کی طرف سے ایک طرح کا فرض کفایہ ادا کیا ہے اور اسی بدولت انھیں گوئٹے کے مداحوں میں ایک منفرد اعزاز حاصل ہوا۔ پیام مشرق کے دور میں اقبال اور گوئٹے کے درمیان انتہائی قربت نظر آتی ہے۔ اقبال گوئٹے سے متاثر تھے ان کے مقلد نہیں تھے، اس لیے پیام مشرق میں ان کے اثرات تو نظر آتے ہیں مگر تقلید کا نشان بھی نہیں ملتا۔ پیام مشرق میں گوئٹے کے دیوان کی کسی نظم کا ترجمہ نہیں ملتا صرف ایک نظم ’’حور و شاعر‘‘ میں عنوان کا اشتراک ضرور ملتا ہے کیونکہ اس نام کی ایک نظم دیوانمیں بھی موجود ہے۔ اسی میں گوئٹے کی نظم ’’حور و شاعر‘‘ کے درمیان ایک مکالمہ ہے اور یہ مکالمہ کافی طویل ہے۔ شاعر جنت میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ حور اس کو مجاہد و غازی سمجھ کر اس کے زخم دیکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کے بعد اسے جنت میں داخلے کی اجازت دی جاسکے لیکن اقبال کی نظم ’’حور و شاعر‘‘ گوئٹے کی نظم سے بالکل مختلف ہے۔ اقبال نے خود بھی ایک ذیلی عنوان کے ذریعے وضاحت کر دی ہے کہ ان کی نظم گوئٹے کی نظم کے جواب میں ہے۔ اس نظم میں حور، شاعر سے اس کی بے التفاتی کا گلہ کرتی ہے۔ شاعر جواب میں بہت کچھ کہتا ہے لیکن اس کے جواب کو ان دو شعروں میں سمیٹا جاسکتا ہے: ز شرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابے سر منزلے ندارم کہ بہ میرم از قرارے دل عاشقاں بمیرد بہ بہشت جاودانے نہ نواے درد مندے نہ غمے نہ غمگسارے دیوان حافظ…گوئٹے کے دیوانکا سب سے بڑا محرک تھا، گو اقبال اسرار خودی میں حافظ کو مسترد کر چکے تھے لیکن پیام مشرق کی غزلیات پر کم از کم حافظ کے اسلوب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے بلکہ غزلیات کے حصے ’’مئے باقی‘‘ کا عنوان بھی حافظ ہی کے ایک مصرعے سے ماخوذ ہے۔ حافظ کے ان اثرات کو قبول کر کے اقبال نے پیام مشرق کو گوئٹے کے دیوانسے ذرا قریب رکھنے کی کوشش کی ہے۔ پیام مشرق میں بھی اقبال نے گوئٹے کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اقبال نے یوں تو بہت سے مفکرین کے ساتھ ہم سفری اختیار کی ہے لیکن کچھ دور اُن کے ساتھ چل کر انھوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ جتنا کوئی انھیں پسند آیا، اس کی انھوں نے اتنی ہی تعریف کی ۔ ایک زمانے میں وہ ہیگل کے نظام سے بہت مرعوب تھے لیکن ایک وقت آیا کہ انھیں ہیگل کا صدف گہر سے خالی نظر آیا۔ برگساں سے اقبال کی ہم آہنگی اپنی جگہ لیکن زناری برگساں ہونا انھیں پسند نہیں کیونکہ اس میں خودی کھونی پڑتی ہے۔ نیطشے کا دل مومن مگر دماغ کافر ہے۔ کارل مارکس کلیم بے تجلی اور مسیح بے صلیب ہے۔ لیکن مغرب میں ایک گوئٹے ہے جس کی اقبال نے ہمیشہ تعریف کی ہے اور یہ تعریف پیام مشرق میں تو اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ پہلے خود عقیدت کے جذبات کا اظہار کیا، اسے پیر مغرب کہا، حکیم حیات کے نام سے یاد کیا۔ اقبال نے اس پر اکتفا نہیں کیا۔ مولانا روم کے منہ سے گوئٹے کی تعریف کرائی۔ یہ گوئٹے کی تجلیل کی انتہا ہے: گفت رومی اے سخن را جاں نگار تو ملک صید استی و یزداں شکار فکر تو در کنج دل خلوت گزید ایں جہان کہنہ را باز آفرید سوز و ساز جاں بہ پیکر دیدۂ در صدف تعمیر گوہر دیدۂ ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست ’’داند آں کو نیک بخت و محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است‘‘ (رومی) ۱۹۳۰ء میں اقبال کے خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam کے نام سے شائع ہوئے لیکن یہ فلسفیانہ تصنیف بھی گوئٹے کے ذکر سے خالی نہیں۔ اس میں اقبال نے گوئٹے کے دو اقتباس دیئے ہیں، ایک کا تعلق اسلام کے بارے میں گوئٹے کی مثبت رائے سے ہے، دوسرے میں وجود باری پر چند خوبصورت اشعار ہیں، جن کا اردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے اس طرح کیا ہے: اپنی ہی ذات کے بے پایاں تکرار میں کیونکہ وہی سدا رواں دواں ہے کتنی محرابیں ہیں جو بڑھ بڑھ اور مل مل کر اتنے بڑے قالب کو سہارا دیتی ہیں ہر شے سے زندگی کی محبت پھوٹ رہی ہے بلند ترین ستارہ ہو یا حقیر ترین ذرہ یہ ساری کشمکش اور ساری جدوجہد ابدی سکون ہے، ذات خداوندی میں غرض شاعری ہو یا فلسفہ، گوئٹے اقبال کے لیے معتبر حوالہ بن گیا جس کا استعمال وہ بار بار کرتے ہیں۔ ۱۹۳۲ء میں اقبال کی شاہکار تصنیف جاوید نامہ منظر عام پر آئی۔ اس میں گوئٹے کا کوئی براہ راست ذکر تو نہیں ملتا لیکن اس میں تمہید آسمانی اور تمہید زمینی کی تعمیر و تشکیل میں فائوسٹ کے Prologues اقبال کے پیش نظر رہے ہیں۔ اقبال کی آخری تصنیف ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوریٰ سے ذہن گوئٹے کے فائوسٹ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ اقبال کی تصانیف کے اس سرسری جائزے سے گوئٹے اور اقبال کے ذہنی روابط کی تاریخ اور اس کے حدود واضح ہو جاتے ہیں لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی تربیت انگریزی نظام تعلیم میں ہوئی اور اس وقت انگریزوں کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ دنیا کے اس حصے میں انگریز اور انگلستان ہی ہر معاملے میں حجت کا درجہ رکھتے تھے۔ پھر اقبال جرمنی کی طرف کیوں متوجہ ہوئے۔ اس کے مفکرین سے کیوں اتنا اثر لیا اور شیکسپیئر کو چھوڑ کر انھوں نے گوئٹے کو کیوں مرکز توجہ بنایا؟ پہلے سوال کا جواب عہد اقبال کے سیاسی واقعات میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں انگلستان کے مقابلے میں جرمنی کی ابھرتی ہوئی قوت کو محکوم ہندوستان کے حق میں نیک فال سمجھا گیا۔ اس ملک سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرلی گئیں۔ جرمنی اور ترکیہ کے بڑھتے ہوئے تعاون اور روابط کی بدولت جرمنی نے مسلمانان ہند کے دل جیت لیے۔ جرمنی نے بھی اپنی خارجہ پالیسی میں ’’مسلم انڈیا‘‘ کو بڑی اہمیت دی۔ وہ ان کی مزاحمتی تحریکوں کے ذریعے برطانوی سامراج کو پریشان کرنا چاہتا تھا۔ قیصر ولیم کے زمانے کی وزارت خارجہ کی دستاویزات میں ہندوستان مسلم انڈیا اور غیر مسلم انڈیا میں منقسم ملتا ہے جس کی کثرت سے اس زمانے میں یہ ترکیب ان دستاویزات میں استعمال ہوئی ہے، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ ریشمی رومال کی تحریک میں مسلم انڈیا کے لیے جرمنوں کی حمایت کے واضح آثار نظر آتے ہیں۔ ان اسباب کی بناء پر برصغیر کے مسلمان جرمنی کے لیے اپنے دلوں میں ایک نرم گوشہ رکھتے تھے۔ اقبال کا تعلق بھی اس نسل سے تھا۔ جرمنی اور اس کے مفکرین کی طرف ان کا میلان بلاوجہ نہیں تھا۔ اقبال کی گوئٹے سے متاثر ہونے کی اولیں وجہ تو گوئٹے کا شاعرانہ کمال ہی ہو سکتا ہے۔ اقبال کو شکیسپیئر اور گوئٹے دونوں پسند تھے لیکن ان دونوں میں قابل ترجیح گوئٹے ہی تھا۔ اس کی وجہ خود اقبال نے Stray Reflections میںاس طرح بیان کی ہے: Both Shakespeare and Goethe rethink the Divine thought of Creation. There is one important difference between them. The realist Englishman rethinks the individual; the Idealist German the Universe. His Faust is a seeming individual only. In reality he is humanity individualized. اسلام کی جانب گوئٹے کا پسندیدہ رویہ بھی اقبال کی گوئٹے سے وابستگی کا ایک اہم سبب تھا۔ گوئٹے کی لائبریری واقع وائی مار میںآج بھی قرآن مجید کے متعدد نسخے اور تراجم، قرآن سے اس کے لگائو کا ثبوت ہیں۔ اس کے کلام میں اسلامی تعلیمات کی گونج صاف سنائی دیتی ہے۔ اس کے دیوانکا آغاز جس نظم سے ہوتا ہے اس کا جرمن عنوان بھی ’’ہجرت‘‘ ہے۔ دیوان میں اس نے خدا کی وحدانیت، اس کے حضور تسلیم و رضا اور ایک پیغمبرؐ کی شفاعت پر بہت زور دیا ہے۔ اسلام کے بارے میں دیوان میں ایک جگہ گوئٹے لکھتا ہے: If Islam means Submission to God . We all live & die in Islam's dominion. وہ زلیخا، مریم، خدیجہؓ کا شمار دنیا کی برگزیدہ ترین خواتین میں کرتا ہے۔ گوئٹے کا دیواناسلام اور اسلامی تعلیمات سے بھرا پڑا ہے۔ دیوان کے اس پہلو کی بنا پر گوئٹے کو یہ لکھنا پڑا کہ اگر کوئی شخص اس دیوان کو پڑھ کر مجھ پر مسلمان ہونے کا شبہ کرے تو وہ اس شبہ میں حق بجانب ہو گا۔ گوئٹے نے اسلام پر باعتبار ایک تعلیمی قوت کے تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار اپنے سیکرٹری سے کہا: ’’تم نے دیکھا اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں۔ ہمارا کوئی نظام اور ہم پر کیا موقوف ہے کوئی انسان اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘‘ اس قول کو اقبال نے بھی اپنے خطبات میں نقل کیا ہے۔ گوئٹے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شخصیت سے بھی بہت متاثر تھے اور اس نے حضوراکرم ؐ کو مرکزی کردار بنا کر ایک ڈراما بھی لکھنا شروع کیا تھا جسے وہ مکمل نہ کر سکا۔ Mahomets Gesang یا نغمۂ محمدؐ اس کی باقیات میں سے ہے۔ اقبال نے ’’جوئے آب‘‘ کے نام سے اسی کا آزاد ترجمہ پیام مشرقمیں شامل کیا ہے۔ اس خوبصورت نظم میں گوئٹے نے نبیؐ کے کردار کا موازنہ ایک رواں دریا کے کردار سے کیا ہے جو زمین کے لیے کیسی کیسی نعمتیں لے کر آتا ہے اور اس کا کردار کتنا انقلاب آفریں ہوتا ہے۔ یہ نظم بھی گوئٹے کی اسلام اور نبی اسلامؐ کے ساتھ اس کی وابستگی کی واضح دلیل ہے اور اقبال ایسے شخص سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے تھے، کیونکہ یورپ میں اسلام کے ساتھ تعصب جتنا عام رہا ہے، ہمدردی اتنی ہی شاذ رہی ہے۔ گوئٹے اول و آخر مغربی تھا۔ اس کے باوجود مشرق کی جو تجلیل اس کے ہاں ملتی ہے، اقبال کو اس نے بہت متاثر کیا۔ گوئٹے کا دیوان مشرق کے ساتھ اس کے عشق کا زندہ ثبوت ہے لیکن جس مشرق کے ساتھ گوئٹے کو عشق ہے، اس کے حدود مشرق وسطیٰ سے آگے نہیں بڑھے۔ ایک مختصر مدت کے لیے وہ ہندو اساطیر کا اسیر رہا لیکن وہ بہت جلد ہندوئوں کے دیوی دیوتائوں سے بیزار ہو گیا اور ان پر اس نے کھل کھلا کرلعنتیں بھیجیں، البتہ عرب و عجم کی تعریف سے اس کا دیوان بھرا پڑا ہے۔ وہ کہتا ہے مشرق کس شان سے بحیرہ روم پر چھایا ہوا ہے۔ وہ واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ مشرق کے شعرا، مغرب کے شعرا سے زیادہ عظیم ہیں۔ وہ مغرب سے بھاگ کر مشرق کی آغوش میں پناہ لینا چاہتا ہے۔ اسلام اور مشرق کے بارے میں گوئٹے کے نقطۂ نظر کے علاوہ بعض مسائل پر دونوں شاعروں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ان کے کچھ موضوعات مشترک ہیں۔ ان میں سے ایک موضوع زندگی کے امکانات کے بارے میں ہے۔ دونوں کا نقطۂ نظر ایک ہے۔ اقبال سمجھتے ہیں کہ انسان اپنے عمل کے ذریعے اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ دنیا کھلے امکانات کے ساتھ اس کے سامنے موجود ہے، اس لیے انھوں نے ہر اس فلسفے اور عقیدے کی مخالفت کی جو انسان کو عمل کے نتائج کے بارے میں شک و شبہ میں ڈال دے۔ افلاطون کا نظریہ علم ہو یا عقبیٰ پرستی، منفی تصور تقدیر ہو یا وجودی تصوف،برگساں کا اندھا جوش حیات ہو یا نیطشے کی تکرار ابدی، ڈارون کا حیاتیاتی جبر ہو یا کارل مارکس کا جبر تاریخ…اقبال نے ان سب کو اسی بنیاد پر مسترد کیا کہ یہ سب نظریات انسان کو لذت عمل سے بیگانہ کرتے ہیں۔ ان سب مفکرین کے مقابلے میں گوئٹے انھیں اس لیے بھی عزیز ہے کہ اس نے حکیم فائوسٹ اور شیطان کی عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج کی نشان دہی بڑی خوبصورتی کے ساتھ کی ہے۔ گوئٹے اور اقبال دونوں زندگی کے بارے میں ایک متوازن نظریہ رکھتے ہیں۔ دونوں زندگی کے مادی پہلو کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی پہلو کی اہمیت سے بھی غافل نہیں ہیں۔گوئٹے نے دیوان کے ذریعے مغرب کو اس کی بڑھتی ہوئی مادہ پرستی سے خبردار کیا ہے اور اس کے معاصر ہائینے کا دیوان پر یہ تبصرہ بالکل بجا ہے: ’’یہ دیوانایک گلدستۂ عقیدت ہے جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے۔ اس دیوانسے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہو کر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے‘‘۔ ؁ّاقبال نے زندگی کے روحانی پہلو پر اپنے خطبات اور کلام میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اقبال نیخطبات میں ایک بڑی پتے کی بات کہی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں: ’’آج انسانیت کو تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ کائنات کی ایک روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور کلی اہمیت کے وہ بنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سوسائٹی کے ارتقا کا رخ متعین کر سکیں‘‘ دونوں شاعر جدوجہد اور حرکت و عمل میں انسانی بقا کا راز دیکھتے ہیں۔ گوئٹے کے خیال میں زندگی کے ابدی تسلسل کا عقیدہ جدوجہد کے تصور کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ اگر کوئی شخص زندگی کے آخری لمحے تک مصروف عمل رہتا ہے، تو قدرت ایسی پختہ روح کو ایک خارجی شکل اور ایک دوسرا وجود دینے پر مجبور ہو جاتی ہے تاکہ وہ اس فرد کو جدوجہد میں زندہ رکھ سکے۔ اقبال کے نزدیک ذاتی بقا، ذاتی جدوجہد سے حاصل ہوتی ہے، انسان تو اس کا بس ایک امیدوار ہے۔ خیر و شر کے ازلی موضوع پر بھی اقبال گوئٹے سے مختلف ہیں۔ گوئٹے کے خیال میں زندگی میں خیر و شر کی دو قوتیں ہیں جو متضاد جہتوں پر عمل پیرا ہیں لیکن خدائی مقصد پورا کرنے میں دونوں ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں۔ گوئٹے ماضی کی ثنویت پر یقین نہیں رکھتا لیکن وہ اس دنیا میں شر کی کارفرمائی سے بھی آنکھیں بند نہیں کرتا۔ اس کی رائے میں انسان کی بہترین خصوصیات خیر و شر کے عمل اور ردعمل سے ہی جنم لیتی ہیں۔ اقبال نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کئی جگہ کیا ہے۔پیام مشرق کی ایک مثال دیکھئے: چہ گویم نکتۂ زشت و نکو چیست زباں لرزد کہ معنی پیچدار است بروں از شاخ بینی خار و گل را درون او نہ گل پیدا نہ خار است گوئٹے اور اقبال دونوں سمجھتے ہیں کہ انسان کی شخصیت کے ارتقا اور اس کے حرکت و عمل کے لیے ابلیس کا وجود ضروری ہے۔ گوئٹے کے خیال میں ابلیس انسان کا ایسا ساتھی ہے جو اسے ہر لحظہ چوکنا رکھتا ہے کہ کہیں وہ سو نہ جائے یا سست نہ ہو جائے۔ یہی بات بال جبریل میں ابلیس، جبریل سے کہتا ہے: ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو گوئٹے اور اقبال ان مشابہتوں کے باوجود اپنی اپنی تہذیب کے نمائندے ہیں، اس تہذیب کے جس میں ان کی جڑیں پیوست ہیں۔ ان کی عظمت کا راز اس میں ہے کہ انھوں نے اپنی اپنی جگہ مضبوط رہتے ہوئے بھی مشرق و مغرب کے درمیان ایک پل تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ مجلہ اقبال، لاہور، جولائی ۱۹۸۸ء اقبال اور نیطشے محمد شمس الدین صدیقی اقبال کے نقادوں اور شارحوں نے فکر اقبال پر نیطشے کے اثرات دکھانے میں بالعموم یاتو افراط سے کام لیا ہے یا تفریط سے۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جو اقبال کے تصور خودی اور تصور مومن کو بیشتر نیطشے کے خیالات سے ماخوذ بتاتے ہیں، دوسری طرف وہ ہیں جو نیطشے کے اثر سے یکسر منکر ہیں۔ حقیقت دونوں کے بین بین ہے۔ جب اقبال ۱۹۰۵ء میں انگلستان گئے تو نیطشے کو فوت ہوئے پانچ سال گزر چکے تھے، لیکن اس جرمن فلسفی کے افکار سے سارے یورپ میں تہلکہ مچا ہوا تھا۔ اقبال نے اس کی تحریریں غور سے پڑھیں اور ان میں اسلامی تعلیمات کی بازگشت محسوس کی مثلاً نیطشے نے مسیحیت کے خلاف جو بحثیں کی تھیں، ان میں اور ایک حد تک اس کے برتر انسان کے کردار میں اقبال کو اسلامی تعلیمات کی جھلکیاں نظر آئیں۔ غالباً یہ کہنا درست ہو گا کہ نیطشے کے مطالعے نے اقبال کی اس سوچ بچار کے لئے مہمیز کا کام دیا جو اُن دنوں وہ مسلمانوں کے زوال کے بارے میں کہہ رہے تھے، انھوں نے اپنے افکار کو نئے سرے سے ترتیب دیا اوران پر اپنی زندگی کے لئے ایک نئے نصب العین کا انکشاف ہوا۔ اس کے اور محرکات بھی تھے لیکن منجملہ ان محرکات کے نیطشے کی تحریریں بھی تھیں۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ انھوں نے اپنا فلسفہ نیطشے کے فلسفے سے مستعار لیا۔ نیطشے نے البتہ ان کی آنکھیں کھول دیں کہ انھیں اسلامی مذہبی فکر کی نئی تعبیر و تشکیل کی شدید ضرورت نظر آنے لگی۔ اقبال کو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ مادہ پرست یورپ کی تاریک کا فرانہ فضا میں نیطشے نے اسلامی تعلیمات کے ایک خاص پہلو کی شعاعیں بکھیر دی تھیں، اسی لئے اقبال نے نیطشے کے دل کو مومن قرار دیا، لیکن چونکہ نیطشے خدا کے وجود کا منکر تھا، اس لئے اس کے دماغ کو اقبال نے کافر ٹھہرایا۔ نیطشے کے بارے میں ان کامشہور قول ہے:۔ ’’قلبِ او مومن د ماغش کافر است وقت کی تنگی اس امر میں مانع ہے کہ نیطشے کی تعلیمات کی تفصیل اور اسلام سے ان کی جزوی مشابہت پر شرح و بسط کے ساتھ کچھ کہا جائے۔ یہاں صرف اس قدر کہہ دنیا کافی ہے کہ نیطشے کے خیالات اور اقبال کے خیالات میں جو مماثلتیں اور مشابہتیں ملتی ہیں وہ دراصل نیطشے اور اسلام کی تعلیمات کی مشابہتیں اور مماثلتیں ہیں، اور ان کے لئے اقبال نیطشے کے مرہون احسان نہیں ہیں بلکہ کلام اللہ اور مولانا رومی کی تعبیرِ قرآن کے رہین منت ہیں۔ مثال کے طور پر آیئے اقبال کے مومن اور نیطشے کے انسان برترکا موازنہ کو دیکھیں، دونوں کی مشابہتیں اور اختلافات اپنے آپ ظاہر ہو جائیں گے۔ نیطشے کے خیال میں اخلاق کی اساس ہے طاقت نہ کہ شفقت وکرم۔ اصل کسوٹی حیاتیاتی ہے، چنانچہ ہمیں چاہئے کہ اشیا کے حسن و قبح کافیصلہ زندگی کے سلسلے میں ان کی قدر و قیمت کی رو سے کریں۔ ضرورت ہے کہ تمام مروجہ اقدار کو نئے سرے سے مرتب کیا جائے۔ آدمی کی آزمائش اس کی توانائی، صلاحیت اور طاقت کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسان کی کوششوں کا مقصود سب کو اونچا اٹھانا نہیں ہونا چاہئے بلکہ بہتر اور قوی تر افراد کا ارتقا۔ نیطشے کے الفاظ یہ ہیں: ’’بنی نوع انسان نہیں بلکہ انسان برتر مطمح نظر ہے‘‘۔ شروع شروع میں تو نیطشے کا انداز اس بارے میں ایسا تھا گویا کہ وہ ایک نئی نوع تخلیق کا متوقع ہے لیکن آگے چل کر اس نے اپنے انسان برتر کو نئی نوع کی بجائے ایک ایسا اعلیٰ فرد قرار دیا جو کہ معمولی اوسط درجے کے لوگوں کے انبوہ میں سے نمودار ہوتا ہے اور اپنے وجود کے لئے محتاط پرورش اور صحیح غور و پرداخت اور تربیت کا متقاضی ہے نہ کہ فظری انتخاب کے اتفاقات کا نتیجہ۔ انسانی انتخاب، نسلی پیش بینی، اور جوہر شرافت پیدا کرنے والی تعلیم و تربیت کے ذریعے انسان برتر اپنا وجود قائم رکھتا ہے۔ نیطشے کہتا ہے کہ بہترین افراد کو بہترین افراد ہی کے ساتھ شادی کرنی چاہئے کیونکہ شادی کا مقصد محض نسل کشی نہیں بلکہ ارتقا ہے۔ عمدہ نسل اور اچھی پیدائش کے بعد انسان برتر بننے کے لئے ایک سخت مقامِ تربیت درکار ہو گا جہاں آرائشیں کم سے کم اور ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ ہوں گی، جہاں اعلیٰ درجے کی قابلیت مطلوب ہو گی، جہاں اخلاقی تصورات کی رکاوٹیں نہ ہوں گی، جہاں عزم وارادہ کی تپسیا کے باوجود طبعی و جسمانی مطالبات کو مردود قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس طرح زائیدہ تربیت یافتہ آدمی یعنی برتر آدمی خیر و شر سے ماورا ہو گا۔ اسے جبر و تعدی کرنے میں کوئی تأمل نہ ہو گا، اگر اس کے مقاصد کے لئے اس کی ضرورت پڑے، وہ نیک نہیں بلکہ بے خوف ہو گا۔ نیطشے کے الفاظ یہ ہیں: ’’خیر کیا ہے؟ ہر وہ چیز خیر ہے جو آدمی میں طاقت کا احساس اپنے عزم للقوۃ اور خود طاقت میں اضافے کی باعث ہو۔ اور شر کیا ہے؟ کمزور ی سے مشتق ہر چیز ہے‘‘۔ نیطشے کے انسان برتر کا امتیازی خاصہ ہو گا، خطر پسندی و کش مکش، دوستی، توانائی، ذہانت، بے خوفی، جاہ و جلال، یہ چیزیں ہیں جو انسان برتر بناتی ہیں لیکن یہ صفات ہم آہنگ ہونی چاہئیں۔ اپنے نفس کی تنظیم بہت ضروری چیز ہے۔ نیطشے کے الفاظ ہیں: ’’وہ شخص جو عامتہ الناس ہی کا ایک معمولی فرد رہنا نہیں چاہتا اس پر فرض ہے کہ اپنے آپ نرمی نہ کرے‘‘۔ کوئی ایسا مقصد رکھنا جس کی خاطر آدمی نہ صرف اوروں پر بلکہ خود اپنے آپ پر سختی کرے، جس کی خاطر ہر چیز کرنے کو تیار ہو، یہ ہے انسان برتر کے نسخے کا آخری جزو۔ مختصر یہ کہ نیطشے کے انسان برتر میں یہ خصوصیات و صفات پائی جاتی ہیں: اعلیٰ مقاصد کے لئے اخلاقی پابندیوں سے آزادی، عملی، تحقیقی عظمت، اس ارضی زندگی کو ہی اصلی زندگی کے طور پر قبول کرنا، اسے ہولناک مگر اچھی سمجھنا، ہر اس چیز کو روک دینا جو عظمت و قوت کے راستے میں حائل ہو، گناہ، دوزخ، موت اور ضمیر کے خوف سے آزادی، جسمانی تندرستی، سخت دلی، جباری و قہاری، خطر پسندی، عزم بلند، خود پسندی وغیرہ۔ نیطشے کے خیال میں نپولین انسان برتر کے تصور سے بڑی مطابقت رکھتا تھا، نہ محض اس لئے کہ اس کی عسکری فتوحات شاندار تھیں بلکہ اس لئے کہ وہ ایک ایسے آدمی کا نمونہ تھا جو اپنی کمزوریوں کے باوجود اپنی چھوٹی چھوٹی قومتیوں اور جدید قومی مملکتوں سے ارفع ہو گیا اور اس نے ایک متحدہ یورپ اور ایک نئے یورپی تمدن کے خواب کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی۔ اسی طرح نیطشے کے نزدیک جولیس سیزر بھی انسان برتر تھا کیونکہ وہ نہ صرف ایک طاقتور حکمران تھا بلکہ ایک ایسے جذباتی آدمی کا نمونہ بھی تھا جس نے اپنے جذبات پر قابو پایا اور تکمیل ذات اور ضبط نفس کا مجسمہ بنا۔ نیطشے نے انسانی خودی پر زور دیتے ہوئے تکمیل ذات، حصول ذات، ضبط نفس، خود نمائی، خود بینی وغیرہ کا پرچار کیا ہے لیکن عام ذہنوں کو جھجھوڑنے اور اشتعال دلانے کی خاطر وہ ان سب باتوں کو ’’خود غرضی‘‘ کے لفظ سے ادا کرتا ہے۔ حالانکہ ’خود غرضی‘ سے اس کی مراد وہ نہیں ہے جو اس لفظ کے مروجہ مفہوم میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح وہ اس ارضی زندگی کو قبول کرنے کے مفہوم کو عمداً لفظ تعیش سے ادا کرتا ہے۔ہمیں ان الفاظ سے گمراہ نہیں ہو جانا چاہئے۔ نیطشے کے برتر انسان کی تصویر دیکھ لینے کے بعد آیئے اب اقبال کے مرد مومن پر ایک نظر ڈالیں اور دونوں کی مشابہتوں اور اختلافات کا مطالعہ کریں۔ اقبال کا مومن ایسا آدمی ہے جو توحید کا دل و جان سے قائل ہے، وہ اپنے مادی و تمدنی ماحول سے فعال ربط کے ذریعے اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو نشوونما دیتا ہے اور اپنی انفرادیت کو مستحکم کرتا ہے۔ یہ مضبوط مرتکز انفرادیت جو عملی تجربے کی زندگی سے تیز اور کڑی ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کی خدمت کے لئے وقف ہوتی ہے اور اس کا حامل اللہ تعالیٰ ہی کے واسطے اسی کے نام پر دنیا کو فتح کرنے، کائنات کو تسخیر کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس میں اتنی مضبوطیِ کردار ہوتی ہے کہ وہ ان تمام ترغیبات کا کامیابی سے مقابلہ کرتا ہے جو آدمی کی اخلاقی سیرت کو کمزور کردیتی ہیں۔ اس کی خودداری اسے دوسروں کے حقوق اور ان کی شخصیت کا احترام کرنے میں مانع نہیں آتی بلکہ بنی نوع انسان کے ساتھ اس میں جو انسانیت کی قدر مشترک ہے، اس کا پورا احساس دلاتی ہے۔ اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں وہ راستے کے موانعات اور مزاحمتوں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ خیر اور شر کے دائرے سے ماورا نہیں رہتا بلکہ قوانین و احکام الٰہی کی پابندی کرتا ہے۔ راستی و صداقت کی راہ میں جو چیز اور جو کوئی روڑا بن کر آئے وہ اسے بے تکلف ہٹا دیتا ہے، مٹا دیتا ہے اور اس بارے میں اپنی پوری طاقت استعمال کرنے سے نہیں جھجکتا، لیکن شر کے خلاف اس درشتی اور سختی کے باوجود وہ ان سب کے ساتھ ہمدردانہ، مشفقانہ اور رحم دلانہ برتائو کرتا ہے جو ہمدردی، شفقت، رحم اور ترس کے مستحق ہوں۔ مرد مومن سلطان اور ولی کا ایک خوشگوار امتزاج ہے، درویش بھی ہے اور حاکم بھی۔ وہ بایزید بسطامی اور صلاح الدین ایوبی دونوں کا مرکب ہے۔ وہ اس دنیا میں خدا کا حقیقی نائب ہے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے جواب دہ جانتا ہے اور اپنے آپ کو قانون ساز و قانون مجسم نہیں سمجھتا۔ اقبال کہتے ہیں: ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا کار ساز خاکی و نوری نہاد، بندئہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب، اس کی نگہ دلنواز نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز ایک اور مقام پر وہ مومن کی یہ خصوصیات بتاتے ہیں: پیش باطل تیغ و پیش حق سپر امر و نہیِ او، عیار خیر و شر عفو و عدل و بذل و احسانش عظیم ہم بہ قہر اندر مزاج او کریم اس سلسلے میں یہ شعر بھی زباں زد عام و خاص ہیں: ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن، نئی شان گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان غرض کہاں تک اشعار نقل کئے جائیں، اقبال کے اردو اور فارسی کلام میں جس مرد مومن، مرد مسلمان کا ذکر بار بار آتا ہے وہ انہی خصوصیات کا جامع ہے جن کا ذکر ابھی ابھی ہوا۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کے نزدیک مثالی مومن یا انسان کامل پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلٖہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔ اور جو فرق پیغمبر اسلام اور نپولین و سیزر میں ہے، وہی فرق اقبال کے تصور مومن اورنیطشے کے تصور انسان برتر میں ہے۔ اور یہ تو ہر منصف مزاج اورعقل سلیم والا تسلیم کرے گا کہ یہ فرق بہت بڑا ہے ۔ کیا بہ لحاظ کیفیت، کیا بہ لحاظ کمیت اور کیا بہ لحاظ مرتبت۔ چونکہ نیطشے کے تصور خودی اور اقبال کے تصور خودی میں فرق ہے اس لئے اس خودی کے بہترین مظہر دونوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ نیطشے کا برتر انسان کم و بیش جابر، متشدد، بے ضمیر، عزم القوۃ کا پتلا ہے، جو کسی کے آگے جواب دہ نہیں، جو اخلاقی و معاشرتی قدروں سے ماورا ہے، جو سماجی عدل و مساوات کے قوانین کو نہیںمانتا، جو خود آپ اپنا قانون ہے۔ برخلاف اس کے اقبال کا مومن بنیادی طور پر توحید پرست ہے اور آدمی کی ، بحیثیت آدمی کے، عزت کرتا ہے، چنانچہ اسی لئے ہمدرد، مشفق، رحم دل اور دوست ہے۔ نیطشے کی فکر میں تعمیری سے زیادہ تخریبی عناصر ہیں۔ اس کا انفرادی آزادی کا تصور اس قدر قوی اور غالب ہے کہ فرد کا معاشرے اور کائنات سے رشتہ بہت ہی مبہم و غیر معین ہو گیا ہے۔ اس کے حاسئہ قوت نے حاسئہ اخلاقی و حاسئہ جمال کو بالکل دبا کر رکھ دیا ہے۔ خدا کا انکار اور انسانیت عامہ کا استر داد نیطشے کو فرد پر اس قدر زور دینے اور انسان برتر کا ایسا غیر سماجی تصور پیش کرنے پرمائل کرتا ہے۔ وہ ’لا‘ کی منزل ہی میں کھو کر رہ جاتا ہے اور ’الا‘ تک نہیں پہنچ پاتا۔ اقبال نیطشے کے ان خیالات کو تو پسند کرتے ہیں جو شخصیت کی تعمیر و تکمیل، استحکام ذات، ضبط نفس اور عظمت انسان سے متعلق ہیں، لیکن اقبال کے ہاںخودی کے ساتھ ساتھ بے خودی کا بھی تصور ہے جو ان کے مرد مومن کے تصور کو مکمل کرتا ہے، اور اس کا رابطہ معاشرے سے، کائنات سے، اور خدا سے قائم کرتا ہے۔ ڈارون کے نظریہء ارتقا سے پیدا ہونے والے حیوانیتِ انسان اور جبر مشیت کے تصورات کے خلاف نیطشے نے جو آواز بلند کی تھی، اقبال اس کے تو ہمنوا ہیں، اور نیطیشے نے جمہوریت کی، رہبانیت کی، کمزوری و ضعیفی کی جو مذمت کی ہے وہ اس سے بھی متفق ہیں، لیکن وہ ان سب تصورات کو عین مین نہیںقبول کرتے بلکہ تعلیمات اسلام کی روشنی میں ان میں ترمیم، تنسیخ اور اضافے کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کا تصور مومن نیطشے کے انسان برتر ہے اس قدر مختلف ہو جاتا ہے کہ ہم کہہ اٹھتے ہیں: بہ بیں تفاوت رہ از کجا ست تابہ کجا خیابانِ اقبال، ناشر: خیبر بک ایجنسی ،پشاور، ۱۹۶۶ء اقبال اور برگساں ڈاکٹر عشرت حسن انور اقبال، جیسا کہ انھوں نے بعض مقامات پر خود اعتراف کیا ہے، برگساں سے بہت متاثر ہیںلیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہو گا کہ انھوں نے سب کچھ برگساں کے فلسفے ہی سے اخذ کیا ہے یا کہ انھوںنے برگساں کے فلسفے کو ذاتی نقطہء نگاہ سے پرکھے بغیر تسلیم کرلیا ہے۔ اس باب میں یہ دکھانے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ کس حد تک برگساں کے ہمنوا ہیں اور کس مقام پر پہنچ کر وہ برگساں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ اقبال، کانٹ اور برگساں کی طرح فلسفے کا غائر مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ حقیقت کا ادراک عقل و فکر کے ذریعے قطعی ناممکن ہے، یہ بات سب سے پہلے کانٹ نے کہی تھی اور اپنی کتاب حکمت نظری (Pure Reason) میں اس نے مدلل طور پر ثابت کیا ہے کہ حقیقت کا ادراک بغیر کسی دلیل کے ہی ہو سکتا ہے مگر اسی ایک بات کو ثابت کرنے میں مذکورہ بالا تینوں فلسفیوں نے تین مختلف دلیلیںدی ہیں اور تین مختلف نتائج اخذ کئے۔ کانٹ کے نزدیک حقیقت کا ادراک اس لیے ناممکن ہے کہ عقل ایک مقام پر پہنچ کر متضاددعاوی (Antinomies) پیش کرتی ہے اور یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں سے کون سی بات تسلیم کی جائے اور کون سی ردکی جائے۔ دونوں متضاد دعوے درست معلوم ہوتے ہیں اور ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا ناممکن ہو جاتا ہے مثلاً باری تعالیٰ کا وجود عقل کے نزدیک ثابت بھی ہے اور غیرثابت بھی، اس کے وجود کو واجب بھی ثابت کر سکتے ہیں اور ممکن اور غیر ضروری بھی، فلسفہ ان دونوں امکانات کے درمیان ہی ایک مقام کا مستحق ہے: تڑپ رہا فلاطون میان غیب و حضور (اقبالؒ) اس لیے فلسفے کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ وہ حقیقت کی تلاش میں کامیاب ہوا ہے۔ اس طرح فلسفی کا اصلی مقصد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ انسان کو اپنی عقل کی محدود رسائی کا علم ہو جائے یا زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہو جائے کہ حقیقت کے جاننے کی سعی میں عقل کی پرواز کہاں تک ہو سکتی ہے، بالفاظ دیگر فلسفے کا صرف یہی کام ہے کہ ہم کو ہمارے جہل سے آگاہ کر دے اور ان حدود کو مقرر کر دے جہاں سے آگے عقل و حکمت کے پر جلتے ہیں۔ اس طرح کانٹ نے عقل و حکمت کی تردید کے لیے عقل و حکمت ہی کو استعمال کیا۔ برگساں نے بھی کانٹ کی طرح عقل کو محدود قرار دیا ہے اور مروجہ فلسفے کو حقیقت سے آگاہ ہونے کے قابل تصور نہیں کیا، کیونکہ عقل نہایت محدود ہے۔ برگساں کے نزدیک عقل کی تردید کے لیے حقیقت الحقیقت تک پہنچنے کی مسافت طے کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف گردن جھکا کر اپنی حقیقت پہچان لینا کافی ہے۔ عقل تو حقیقت اقصی کا ادراک درکنار ہماری ذات تک کا اقرار نہیں کر پاتی۔ اس کے نزدیک ہماری ذات ایک نقطۂ موہوم کی طرح ہے، مثلاً ڈے کارڈز (Descartes)نے جب تعقل کے ذریعے ذات انسانی کی حقیقت کو سمجھنا چاہا تو اس کے آگے اور کچھ نہ کہہ سکا کہ یہ ایک ’’غیر مادی نقطہ‘‘ کی طرح یا ایک غیر مرئی جوہر کی طرح ہے۔ مگر یہ نقطہ اگر دراصل ’’نقطہ‘‘ ہے تو پھر غیر مادی کس طرح ہو سکتا ہے اور اگر جوہر ہے تو غیر مرئی کیونکر ہے، یہ کچھ پتہ نہیں چلتا، نیز ذات شخص تو کیفیات و حالات و احساسات کا ایک مجموعہ ہے اس لیے یہ کہنا کہ یہ ایک نقطہ ہے کس طرح صحیح ہو سکتا ہے۔ نقطہ کے لفظ سے تو یہ ابہام پیدا ہوتا ہے کہ ذات نفس کو ایک ایسی وحدت سمجھا گیا ہے جو کثرت احوال کا کسی طرح پتہ نہیں دیتی۔ اس لیے نفس ذات کے ادراک میں بھی عقل اسی قدر عاجز ہے جس قدر حقیقت اولیٰ کے ادراک تک پہنچنے میں بے دست و پا تھی۔ برگساں نے انتہائی خلوص کے ساتھ اس پر غور کرنا شروع کیا کہ عقل کی اس نارسائی کو دیکھ کر کیا کانٹ کی طرح یہ کہا جائے کہ حقیقت کو جاننے کی کوشش لا حاصل ہے یا اس کوشش سے دست بردار ہو کر ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائیں۔ گو عقل کی رسائی معلوم تھی مگر فطرت انسانی کانٹ کے نتائج پر کسی طرح قانع نہیں ہوتی۔ عقل محدود سہی اور عقل کے ذریعے انکشاف حقیقت ناممکن سہی لیکن آیا تعقل کے علاوہ کوئی اور ذریعے انکشاف حقیقت کا ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اگرچہ کانٹ نے اس سوال کو اس طرح نہیں اٹھایا تھا لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اس کا دل بھی اس کے اپنے پیدا کردہ نتائج سے بہت حد تک مطمئن نہ تھا۔ باری تعالیٰ کا وجود، انسانی خود مختاری کا مفروضہ اور حیات بعدالموت کا عقیدہ عقل کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا لیکن عقل ان کا انکار بھی نہیں کر سکتی۔ اتنا کہہ دینے کے بعد ایک حد تک کانٹ بھی حقیقت کو سمجھنے کے لیے ایک نئی روشنی کا متمنی تھا۔ اگر عقل ان حقائق کا سرے سے انکار ہی کر دیے ہوتی تو شاید ان کو سمجھنے کی مزید کوشش بے معنی ہوتی مگر وہ ان کا نہ پورے طور پر انکار ہی کر سکتی ہے اور نہ اقرار، اس لیے ان حقائق کو سمجھنے کی سعی کو ختم کر دینا عقل کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہو گا۔ کانٹ نے بھی انسانی عقل کی حدود کو متعین کر دینے کے بعد پھر یہ سوال اٹھایا تھا کہ آیا انسان نرا عقل کا پتلا ہے یا کچھ اور بھی؟ اور اس کے جواب میں کہا تھا کہ انسان حکمت نظری (Pure Reason) کے علاوہ حکمت عملی (Practical Reason)کا بھی حامل ہے: ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے (اقبال) انسان میں جس طرح حقائق کی تلاش کا جوہر پنہاں ہے، اسی طرح اس میںکانٹ کے نزدیک ذوق عمل اور تعمیر و تکمیل ذات کا شوق بھی مضمر ہے۔ اگر انسان اپنے فطری عقلی رجحانات کی بنا پر جس طرح بعض حقائق کو حقائق سمجھنے پر مجبور ہے، اسی طرح اپنے فطری عملی رجحانات کی بنا پر اس بات پر بھی مجبور ہے کہ انپے کردار کی اعلیٰ ترین تکمیل کرے۔ اگر انسان موخر الذکر فطری رجحان کا صحیح طور پر جائزہ لے تو بہت جلد محسوس کرے گا کہ دو مفروضات کے بغیر (کانٹ کے نزدیک یہ صرف مفروضات ہی ہیں) تکمیل ذات بڑی حد تک مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے؛ اول یہ کہ نفس انسانی زندئہ جاوید ہے، اس لیے تعمیر اخلاق و تکمیل ذات کی وہ کوشش جو زندگی میں شروع کی جاتی ہے، کسی نہ کسی طرح موت کے بعد بھی جاری و ساری تصور کی جائے، دوسرے یہ کہ تکمیل ذات کی کوشش نہ صرف یہ کہ جاری رہے بلکہ جزا و سزا کی مستحق بھی قرار دی جاسکے اور اس جزا اور سزا کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک ہستی کو تسلیم کیا جائے جو جزا و سزا کے فرائض انتہائی منصفانہ طور پر انجام دے سکے۔ اس قسم کے فرائض کی انجام دہی اسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ ہستی خبیر اور بصیر ہو اور یہ جان سکے اور دیکھ سکے کہ ہمارے اعمال کس قدر جزا یا سزا کے مستحق ہیں اور قادر مطلق ہو تاکہ جزا و سزا پر اس کو پورا اختیار حاصل ہو۔ مذکورہ بالا بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کانٹ بھی ایک حد تک عقل کے نتائج سے مطمئن نہ ہو سکا تھا اور عقل کے حدود سے آگے قدم بڑھانے کا حوصلہ کرتا رہا لیکن چونکہ اس کا مقصد صرف اسی قدر تھا کہ عقل کے حدود کو متعین کر دے اس لیے اس نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ حکمت عملی کے مفروضات (یعنی خدا یا ذات نفس یا ذات شخص) کی خود مختاری یا حیات بعد الموت ثابت بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں اور اس نے ان حقائق کو مفروضات کے نام سے ہی موسوم کیا اور بتایا کہ اگرچہ حکمت نظری (Pure Reason) ان حقائق کو ثابت کرنے سے عاجز ہے لیکن حکمت عملی (Practical Reason) ضرور ان حقائق کا اثبات کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بعد بھی نتیجہ بہرحال وہی رہا جو پہلے تھا یعنی حقیقت کا ادراک عقل و حکمت کے ذریعے میسر نہیں ہوتا اور یہ جان لینے کے بعد بھی حقیقت کی جو تشنگی باقی رہتی ہے اس کا علاج کانٹ کے یہاں موجود نہیں۔ برگساں نے اس تشنگی کی سیرابی کے لیے چارہ جوئی کرنا شروع کی، کانٹ کے نتائج حقیقتہً درست ہو گئے۔ یہ بہت خلوص اور درد کے ساتھ عقل و حکمت کے تحت اخذ کئے گئے تھے لیکن ان نتائج کے بعد یہ ضروری تھا کہ فلسفہ و حکمت کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں یا جب فلسفہ و حکمت حقیقت کی تلاش میں کامیاب نہیں تو پھر حقیقت کی تلاش ہی کو کیوں نہ ختم کر دیا جائے، لیکن اگر فطرت انسانی اس کی متحمل نہیں تو پھر حقیقت کے انکشاف کے لیے کوئی دوسرا ذریعے اختراع کرنا ضروری ہے۔ برگساں اس پر مصر رہا اور کانٹ کے نتائج کے باوجود ناامید ہو کر بیٹھ نہیں گیا بلکہ حقیقت کی تلاش میں برابر سرگرداں رہا۔ اس کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے لیے حقائق کو سمجھنے کے لیے کوئی نہ کوئی سبیل ضرور پیدا ہو گی اور آگے چل کر ایسا ہی ہوا۔ برگساں اسی جستجو میںتھا کہ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ اپنی حقیقت اور اپنی ذات سے قریب تر ہوتا جارہا ہے، اور ایسا معلوم ہوا کہ اس کی حقیقت اس کے لیے ’’منکشف‘‘ ہوتی جارہی ہے، یہ کس طرح، عقل و حکمت کے تحت نہیں بلکہ ذات نفس سے انتہائی قربت کے اصول سے برگساں نے اس ذات نفس سے اس قرب، موافقت اور مطابقت کو ’’وجدان‘‘(Intuition)کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے ذریعے ذات نفس کے تمام رموز اظہر من الشمس ہو گئے اور ذات نفس کے رموز جن کی عقدہ کشائی سے عقل و حکمت عاجز تھی، وجدان کے ذریعے واضح ہوتے ہوئے معلوم ہوئے، اور وہ حقائق جن کے ادراک سے آج تک حکما و فلاسفہ محروم رہے تھے اور جو تعقل و تفکر اور حواس خمسہ کے ذریعے کسی طرح سمجھ میں نہ آئے تھے، اب اس طرح روشن و واضح ہو گئے کہ ان میں کسی شک و شبہ کی گنجائش اور ان کے ثبوت کے لیے کسی دلیل و برہان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ذات نفس کا وجدان حاصل ہونے کے بعد برگساں نے اس وجدان کی نوعیت اور حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس نے محسوس کیا کہ وجدان مندرجہ ذیل خصوصیات کا حامل ہے۔ ۱۔ ذات نفس سے عرصہء دراز تک گہرا تعلق، قربت اور مواصلت رکھنے سے وجدان میسر ہو سکتا ہے۔ انتہائی فکر مندی یا دردمندی کی صورت میں یہ قربت کسی قدر آسان ہو جاتی ہے۔ ۲۔ وجدان علم کا بہت ہی معتبر ذریعے ہے۔ وجدان میں حقیقت براہ راست منکشف ہوتی ہے۔ اس کے برعکس عقل و فکر کے ذریعے حقیقت کا علم نہ براہ راست ہو سکتا ہے اور نہ یقینی کہا جاسکتا ہے۔ ۳۔ وجدان کسی شے یا حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کا نام ہے اس لیے عقل و فکر کے بالکل متضاد ہے۔ عقل و فکر تو کسی شے کا محض بیرونی طواف کرتی ہے، اس کے ذریعے شے کی تہہ تک پہنچنا قطعی ناممکن ہے۔ ۴۔ تعقل کے ذریعے حقیقت کا انکشاف نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عقل کی کارفرمائی مخصوص تصورات کے ذریعے ہوتی ہے اور بندھے بندھائے مروجہ تصورات اصل حقیقت کا پتہ نہیں دے سکتے۔ یہ تصورات شے کے ان ہی اوصاف کو ظاہر کر سکتے ہیں جو تمام اشیا کے درمیان مشترک ہیں۔ اس خاص شئے کے وحید اور بے مثل پہلو کو قطعی ظاہر نہیں کر سکتے، مثلاً یہ تصورات ہر شخص کی زندگی کو دوسرے شخص کی زندگی کے مماثل سمجھتے ہیں اور ان کے مشترکہ خیالات، احساسات اور واردات کو کسی ایک لفظ سے ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان تصورات کے ذریعے صرف صفات مشترکہ کا ضرور اظہار ہو سکتا ہے، لیکن وہ انفرادی اور ایسے ذاتی صفات کے اظہار سے جو کسی خاص شے یا شخص سے مخصوص ہوں، وحید اور بے مثل ہوں، بالکل قاصر ہیں اور زبان و بیان سے جن کی بنا پر عقل کی کارفرمائی ہوتی ہے، حقیقت کا اظہار نہیںہو سکتا اور معمولی سے معمولی حقیقت بھی شرح و بیان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اصل حقیقت سمجھنے کے لیے صرف احساس قوی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ احساس آگے چل کر وجدان کا سبب بن جاتا ہے۔ ۵۔ عالم کائنات میںایک ایسی حقیقت موجود ہے جس کا ادراک سوائے وجدان کے اور کسی طرح میسر ہی نہیں ہو سکتا۔ خود ہماری ذات کو کسی طرح سمجھنا ناممکن اور کسی اور ذریعے سے اس کے ادراک کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ تعقل و تفکر کے ذریعے جب اس کو سمجھنے کی کوشش کی گئی تو اس کو ایک نقطہء موہوم سمجھا گیا اور اس کی وحدت پر زور دیتے ہوئے کثرت احساسات و تجربات کو (جن پر وہ مشتمل ہے) بالکل نظر انداز کر دیا گیا، مثلاً ڈے کارڈز (Descartes) نے ایسا ہی کیا تھا۔ اس کے برعکس حامیانِ تجربہ مثلاً ہیوم(Hume) نے جب اس کو تجربہ اور حواس ظاہری کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی تو اس کو کثرت خیال کیا اور اس وحدت کو جو اس کثرت کا سبب ہے، نظر انداز کر دیا۔ انھوں نے کثرت تجربات و احساسات کو ہی سمجھ کر یہ اعلان کیا کہ وحدت ذات صرف اعتباری ہے حقیقی نہیں۔ اس طرح یہ لوگ ذات نفس سے انکار کر بیٹھے (مثلاً ہیوم) وحدت و کثرت کے یہ تمام حقائق، جو ذات نفس سے متعلق ہیں، وجدان میں من و عن اظہر من الشمس ہو جاتے ہیں۔ وجدان ہی سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ذات نفس (جو درون سینہ مضمر ہے) ہر لحظہ متبدل، متحرک اور منقلب اور ہر لمحہ مختلف احوال اور کیفیات کی حامل ہے اور یہی بات حامیانِ تجربہ نے کہی تھی جو کسی حد تک صحیح تھی لیکن برگساں کے نزدیک ذات نفس کی وہ کل حقیقت نہیں۔ اول تو ان لوگوں کو کثرت احوال میں وحدت ذات ہی ہاتھ نہ لگ سکی، دوسری غلطی ان سے یہ ہوئی کہ انھوں نے کیفیات ، حالات اور احساسات وغیرہ کا اس طرح تصور کیا کہ گویا یہ خود کوئی ساکت، جامد، اور غیر متبدل اور ٹھہرنے والی کیفیتیں اور حالتیں ہیں، مثلاً ماہرین نفسیات نے ذات نفس کو احساسات، جذبات، مشاہدات اور ادراکات کا مجموعہ قرار دیا تھا۔ ان کے تصور میں احساسات و جذبات کی نوعیت اس قسم کی تھی کہ ایک احساس کو دوسرے آنے والے احساس سے غیر متعلق اور غیر منسلک قرار دیا جانا ضروری تھا۔ چنانچہ علم نفسیات کی ترقی اسی طرح ہوئی تھی کہ اس نے ذات نفس کو مختلف احساسات، حالات، کیفیات اور ادراکات میںمنقسم کر دیا تھا اور پھر ہر کیفیت، حالت اور احساس کو مقیم اور غیر متحرک تصور کر کے ان کو علیحدہ علیحدہ ٹٹولا تھا اور پھر اس کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا۔ لیکن برگساں نے ذات نفس کے وجدان کے بعد یہ محسوس کیا کہ وہ تو حالات، کیفیات اور احساسات کا ایک متلاطم سمندر ہے اور درون سینہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ کون سی کیفیت کہاں پر ختم ہوتی ہے اور دوسری کیفیت یا حالت کہاں سے شروع ہوتی ہے۔ درون سینہ تو نفسیاتی کیفیات، احساسات یا حالات، کچھ اس طرح منسلک اور متغیر ہیں کہ نہ ان کو علیحدہ علیحدہ تقسیم ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ ساکن اور جامد ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور درون سینہ جو ایک مسلسل حرکت جاری ہے، اس کا تلاطم ہر لحظہ نئے نئے احساسات، جذبات اور حالات کا سبب بنتا ہے بلکہ یہ مختلف احساسات، جذبات اور حالات وغیرہ بذات خود ہر لحظہ دگر گوں ہیں اور عرف عام و حسن بیان کے لیے ان احساسات، جذبات، خیالات و ادراکات کو ساکت، غیر متحرک اور ایک دوسرے سے غیر متعلق سمجھ لیا گیا ہے مگر حقیقت اس کے خلاف ہے۔ وجدان کے ذریعے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذات نفس ایک مسلسل بہائو اور سیلاب کی حامل ہے۔ اس لیے درون سینہ کی زندگی کو دریا سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ جس طرح دریا میں ایک مسلسل بہائو ہوتا ہے اور یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ کون سی موج کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں ختم ہوئی، اسی طرح درون سینہ کی زندگی میں بھی یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہے کہ کون سا جذبہ یا احساس کہاں سے شروع ہوا اور کب شروع ہوا، کہاں ختم ہوا اور کب ختم ہوا۔ وہ زندگی کا ایک ایسا ’’بہائو‘‘ ہے جو ایک غیر منقطع تسلسل ہے اور یہ سلسلہ نہ کہیں ختم ہوتا ہے اور نہ کہیںسے شروع ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے برگساں کے ’’وقت‘‘ اور ’’زمانہ‘‘ کے نظریے کو سمجھنا ضروری ہے۔ برگساں کے نزدیک (اور اقبال اس سے پورے طور پر متفق ہیں) زمانے کا وہ نظریہ غلط ہے جس میں اس کو ماضی، حال اور مستقبل میںتقسیم کیا گیا تھا۔ یہ نظریہ حساب دانوں نے علم حساب کے تصورات کے تحت بنایا تھا، مثلاً نیوٹن نے زمانے کو لکیر کی طرح تصور کیا، جس کا کچھ حصہ طے کیا جاچکا ہے اس کو ماضی کہتے ہیں، کچھ حصہ پر ہم چل رہے ہیں اس کو حال کہتے ہیں، کچھ حصہ طے کرنا باقی ہے اس کو مستقبل کہتے ہیں۔ یہ نظریہ زمانے کا خارجی ادراک کرنے کی کوشش ہے لیکن در حقیقت زمانہ کیا ہے، اس کا پتہ اس سے نہیںچلتا۔اگر بالفرض زمانے کو لکیر کی طرح فرض بھی کر لیں تو پھر زمانے دو ہی کہے جا سکتے ہیں، ماضی اور مستقبل۔ جس کو حال کہا جاتا ہے وہ ایک ایسا نقطہء موہوم ہے جس کو یا تو پار کر لیا گیا ہے اور وہ ماضی ہو چکا ہے یا اس نقطے کو پار کرنا باقی ہے اور اس صورت میںاس کو مستقبل کہا جائے گا، اب ماضی کو لیجیے، کیا ماضی وہ زمانہ ہے جو گزر گیا اور ختم ہو گیا؟ ایسا نہیں ہے۔ ہماری تمام زندگی ماضی کی حامل ہے، ہمارا ماضی ہی ہماری زندگی کے آئندہ (اگرچہ برگساں کے نزدیک یہ آئندہ، آئندہ نہیں ہے) رجحانات کو متعین کرتا ہے، اس لیے حساب دانوں کا نظریۂ زمان اس وجدان کے قطعی برعکس ہے جو ہم کو درون سینہ میسر ہوتا ہے۔ وجدان ذات میں جیسا کہ ابھی کہا جاچکا ہے کہ اندرون سینہ کی زندگی ایک مسلسل ’’بہائو‘‘ کی طرح ہوتی ہے، جس میںماضی، حال، مستقبل، سب ایک ’’سلسلۂ وجود‘‘ (Duration) میںموجودمعلوم ہوتے ہیں۔ نہ نشیبے نہ فرازے نہ مقامے دارم نہ بہ امروز اسیرم، نہ بہ فردا و نہ دوش عشق کی تقویم میںعصر رواں کے سوا اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام (بال جبریل) لیکن یہ ’’موجود‘‘ اس قدر متلاطم، متغیر اور منقلب ہے کہ اس کو ثابت اور ساکن سمجھنا محال ہے۔ بلکہ وہ ایک ایسا ’’بہائو‘‘ ہے جو ہر لحظہ آگے بڑھ رہا اور متغیر ہو رہا ہے۔زمانے کے اس وجدان کے تحت یہ کہنا بجا ہو گا کہ زندگی کا ہر لحظہ دگر گوں ہے: ٹھہرنا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات سفر زندگی کے لیے برگ و ساز سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز بڑی تیز جولاں بڑی زود رس ازل سے ابد تک دم یک نفس زمانہ کی زنجیر ایام ہے دموں کے الٹ پھیر کا نام ہے (بال جبریل) ان اشعار سے واضٗح ہے کہ اقبال برگساں کے مذکورہ بالا خیالات سے پورے متفق ہیں اور ان کو اپنانے کے بعد اپنے فلسفے کی ضروریات کے تحت بعض بعض جگہ کچھ ترمیمیں اور اضافے بھی کرتے ہیں۔ دونوں حکما عقل و فکر کو ٹھکرا کر حقیقت کی تلاش میں آگے بڑھتے ہیں اور دونوں کا یہ حوصلہ کانٹ کے طریقۂ کار کے بالکل برعکس ہے۔ گو ایک حیثیت سے دونوں کانٹ ہی کے ممنون احسان ہیں کیونکہ دونوں کا فلسفہ اسی مقام سے شروع ہوتا ہے جہاں پر کانٹ کا فلسفہ ختم ہوتا ہے۔ دونوں کانٹ کی طرح عقل و فکر کو محدود بناتے ہیں لیکن کانٹ کے نتائج سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور حقیقت کی تلاش میں ایک نئی روشنی اور رہنمائی کے متلاشی ہیں، مثلاً اقبال کہتے ہیں: ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل تو ذرا صاحبِ ادراک نہیں ہے (بال جبریل) ــــــــــــ دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ــــــــــــ علم کی حد سے پرے بندئہ مومن کے لیے لذتِ شوق بھی ہے، نعمتِ دیدار بھی ہے (بال جبریل) ــــــــــــ گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے (بال جبریل ) ــــــــــــ خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ رہگزر ہے ــــــــــــ درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہگزر کو کیا خبر ہے اقبال اور برگساں دونوں وجدان ذات کے ذریعے عقل کی تردید کرتے ہیں اور وجدان کو شمع ہدایت قرار دے کر تحقیقات کا سلسلہ شروع کرتے ہیں، اقبال کہتے ہیں: در بود و نبودِ من اندیشہ گماں ہا داشت از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من ــــــــــــ ہر معنیِ پیچیدہ در حرف نمی گنجد یک لحظہ بدل در شو شاید کہ تو دریابی دونوں کے نزدیک وجدان کے ذریعے ذات شخص کا صرف اثبات ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کی حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ وجدان ہی کے ذریعے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ ہماری ذات بیک وقت وحدت اور کثرت کی کس طرح حامل ہے، چنانچہ اقبال کہتے ہیں: اسرار ازل جوئی بر خود نظرے وا کن یکتائی و بسیاری، پنہانی و پیدائی دونوں کے نزدیک ذات نفس ایک مسلسل انقلاب اور پیہم سلسلۂ، تغیر کی حامل ہے: ہستم اگر میروم گر نروم نیستم لیکن اس مقام پر پہنچ کر اقبال برگساں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور خود آگے بڑھ جاتے ہیں۔ برگساں ذات نفس کو ایک مسلسل بہائو اور سیلاب اور ’’دوران‘‘ (Succession) کا حامل قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک ذات نفس مسلسل تغیر اور انقلاب کی حامل ہے اور مسلسل انقلاب ہی ذات نفس کا عین کمال ہے، یہی اس کی حقیقت ہے۔ لیکن اس انقلاب اور تغیر کا مقصود کیا ہے؟ یہ سوال برگساں نے نہیں اٹھایا مگر اقبال کے نزدیک یہ سوال بہت اہم ہے۔ مسلسل انقلاب ضرور ذات نفس کا آئینہ دار ہے لیکن اصل مقصود کیا ہے؟ برگساں کے نزدیک ان تمام تغیرات، واردات اور احوال کا مقصد نہیں، ہم زورِ زندگی کے تحت بہتے چلے جارہے ہیں مگر کہاں جارہے ہیں، یہ کوئی نہیں کہہ سکتا۔ اقبال اس سوال پر غور و فکر کرتے ہیں، یہاں تک تو وہ برگساں کے ہم خیال تھے، مثلاً پیام مشرق میں کہتے ہیں: زندگیِ رہرواں در تگ و تاز است و بس قافلہء موج را جادہ و منزل کجا است لیکن برگساں اسی مقام پر ٹھہر جاتا ہے اور آگے بڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ اس کا خیال ہے کہ آزادیء نفس اسی وقت باقی رہ سکتی ہے، جب ذات نفس کے لیے کوئی منزل اور مقصود متعین نہ ہو، لیکن اقبال کا خیال ہے کہ مقصود کا ہونا ضروری ہے مگر یہ مقصود خارجی نہ ہو۔ اگر خارجی ہو گا تو ذات نفس لاتغیر، آزاد اور خود مختار نہ رہے گی۔ اس لیے ان کے نزدیک یہ مقصود فی نفسہٖ ذات نفس ہی سے متعلق ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ذات نفس مسلسل تغیر اور انقلاب احوال کے ذریعے ’’خودی‘‘ کی پرورش اور تکمیل میں مصروف ہے: بر مقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است تاب خود را برفزودن زندگی است پیش خورشید آزمودن زندگی است ــــــــــــ یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے خودی کیا ہے، تلوار کی دھار ہے خودی کیا ہے، راز درون حیات خودی کیا ہے، بیداریء کائنات خودی جلوہ بدمست و خلوت گزند سمندر ہے اک بوند پانی میں بند لیکن یہ خودی کیا ہے؟ عُرف عام میں اس کو خود شناسی، خود فہمی اور خود نمائی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، جو اقبال کے فلسفے کا بنیادی نظریہ ہے۔ اس فلسفۂ خودی ہی نے ان کو برگساں کے نتائج سے کہیں آگے پہنچا دیا۔ برگساں کے نزدیک اولاً تو ’’زور زندگی‘‘ (Elan Vital) کسی مخصوص مقصود کے حصول کے درپے نہیں، ثانیاً یہ ’’زورِ زندگی‘‘ ہی کائنات میںمختلف صورتوں اور حالتوں میں جلوہ نما ہے اور اصل سب کی یعنی چرندوں، پرندوں، حیوانوں اور انسان حتیّٰ کہ ہر شاخ و شجر کی ایک ہی ہے اور مختلف مظاہر میں ایک ہی حقیقت رونما ہے، یہ حقیقت ’’زور زندگی‘‘ کے مترادف ہے۔ اقبال بڑی حد تک برگساں کے ان خیالات سے متفق ہیں، ان کے نزدیک بھی زندگی ایک سیلاب اور بہائو ہے جو ہمیشہ آگے بڑھتا جاتا ہے: دما دم رواں ہے یمِ زندگی ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی فریب نظر ہے سکون و ثبات تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوق پرواز ہے زندگی برگساں کی طرح اقبال کا بھی عقیدہ ہے کہ ’’زور زندگی‘‘ ہی مختلف صورتوں، ہئیتوں اور وجود کی مختلف اقسام کا باعث ہوتا ہے: اسی سے ہوئی ہے بدن کی نمود کہ شعلہ میں پوشیدہ ہے موج دود یہ وحدت ہے کثرت میںہر دم اسیر مگر ہر کہیں بے چگوں، بے نظیر یہ عالم یہ بتخانۂ شش جہات اسی نے تراشے ہیں یہ سومنات چمک اس کی بجلی میں تارے میں ہے یہ چاندی میں سونے میں پارے میں ہے اسی کے بیاباں اسی کے ببول اسی کے ہیں کانٹے اسی کے ہیں پھول لیکن برگساں کے نزدیک ’’زور زندگی‘‘ ہی غایت حقیقت ہے اور اس کلام میں برگساں کے خیالات کا اثر ہر جگہ نمایاں ہے: جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے ــــــــــــ زندگی جزو کی ہے کل میں فنا ہو جانا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ــــــــــــ زندگانی ہے تری آزاد قیدِ امتیاز تیری آنکھوں پر ہویدا ہے مگر قدرت کا راز ــــــــــــ وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں یہ شیریں بھی ہے گویا، بے ستوں بھی، کوہکن بھی ہے لیکن تھوڑے ہی دن بعد اقبال نے برگساں کے دونوں مذکورہ بالا نظریوں (یعنی زندگی ہی غایتِ حقیقت ہے اور وہ کسی مقصد یا منتہائے نظر کے در پے نہیں ہے) کی پرزور تردید کی، اور اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس وقت تک ان کو شاید وجدان ذات میسر نہیں ہوا تھا اور وہ برگساں کے خیالات کی ترجمانی ہی کرتے تھے اور شاید وہ خود اس وجدان سے محروم تھے جس پر برگساں کے تمام فلسفے کی بنیاد ہے، لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ اقبال کو جب وجدان ذات میسر ہوا تو وہ برگساں سے بجائے قریب تر ہونے کے دور تر ہو گئے۔ یہی وجدان ذات (جس پر برگساں کے تمام فلسفے کی بنیاد ہے) جب اقبال کو میسر ہوا تو وہ برگساں کی طرح ’’ہمہ اوست‘‘ کا اقرار کرنے کے بجائے اس کا انکار کر بیٹھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ شاید وجدان ذات کے بھی مدارج ہیں اور اقبال کے نزدیک وجدان ذات صرف وحدت اور کثرت ہی کی گتھی نہیں کھولتا یا ’’زور زندگی‘‘ ہی کو واضح نہیں کرتا بلکہ یہ حقیقت بھی منکشف کر دیتا ہے کہ ’’زور زندگی‘‘ خود ایک بلند تر حقیقت کے تابع ہے، اس بلند تر حقیقت کو ’’زور زندگی‘‘ کے نام سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اس مقام پر پہنچ کر اقبال اپنے پرانے رفیق برگساں کا ساتھ چھوڑ کر دو نئے ہم سفروں نطشے اور جیمس وارڈ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ اقبال اور مشرق و مغرب کے مفکرین ، ڈاکٹر عشرت حسن انور، بزم اقبال، لاہور، ۱۹۸۹ء اقبال اور کارل مارکس پروفیسر جگن ناتھ آزاد شوپن ہائر(۱۷۷۸ - ۱۸۶۰ئ)کے افکارمغرب کی دنیاے فلسفہ میں پوری شدت سے گونج رہے تھے کہ دنیاے سیاست میں ایک نئی فلسفیانہ آواز بلند ہوئی۔ یہ کارل مارکس (۱۸۱۸ - ۱۸۸۳ئ) کی آواز تھی۔(۱) ایک فلسفی تومحض افراد کے دل و دماغ ہی کو متاثر کرتا ہے لیکن ایک سیاسی فلسفی سماجی اور معاشی نظام کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ یوں تو افلاطون اور ارسطو بھی جن کا ذکر اس کتاب کے اولین صفحات میں آیا ہے، سیاسی فلسفی تھے اور ہیگل، لاک اور مل بھی لیکن دنیا کی سیاست پر جس طرح مارکس کے خیالات اثر انداز ہوئے اس کی مثال تاریخ عالم میںملنا دشوار ہے۔ اقبال نے مارکسزم کا اثر قبول کیا یا نہیں اور اگر کیا تو وہ اثر کیا ہے اور کس حد تک ہے ایک انتہائی مشکل سوال ہے۔ ہمارے اکثر نقادوں نے اس مسئلے کو انتہائی آسان بناکے پیش کیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر اعجاز حسین لکھتے ہیں: ’’ہندوستان میں غالباً اردو زبان نے سب زبانوں سے پہلے آگے بڑھ کر انقلاب روس کا خیر مقدم کیا۔ چنانچہ اقبال نے خاص مسرت کے ساتھ اعلان کیا‘‘ آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک اور ساقی نامے میں انتہائی مسرت کے ساتھ عوام الناس کو یہ کہہ کر مبارک باد دی۔ گیا دورِ سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا سرور صاحب نے اس مسئلے پر مقابلتہً احتیاط سے قلم اٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’اقبال سرمایہ داری کے خلاف ہیں۔ اردو شاعری میں سب سے پہلے انھوں نے مزدوروں کی حمایت میں آواز بلند کی۔ مارکس کی وہ بڑی حمایت کرتے ہیں مگر ایک تو وہ اشتراکیت کی انتہا پسندی کے خلاف ہیں اور زمین کو بجاے زمیندار یاکسان کی ملکیت سمجھنے کے، خدا کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ ان مادی قدروں سے بیزار ہیں جن پر مارکس نے اپنے تصورات کی بنیاد رکھی ہے، ورنہ ان کی روح اشتراکی ہے۔(۲) وہ اسلامی سوشلسٹ ہیں‘‘۔ ان دو مقتدر نقادوں کے نظریے کے ساتھ ہی اگر ہم اقبال کی اپنی درج ذیل تحریریں بھی پڑھ لیں تو نظر آئے گا کہ مسئلہ اتنا سلجھا ہوا نہیں ہے جتنا اوپر کے اقتباسات سے ظاہر ہو رہا ہے۔ ’’اسلام ہیئت اجتماعیہ انسانیتہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہیئت اجتماعیہ انسانیتہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ ہر دستورالعمل جو غیر اسلامی ہونا، معقول و مردود ہے‘‘۔ (مضامین اقبال) ’’سوشلزم کے ماننے والے مذہب اور روحانیت کے منکر ہیں۔ یہ لوگ مذہب کو افیون سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے جس شخص نے مذہب کو افیون کہا ہے وہ کارل مارکس تھا۔ میں ایک مسلمان ہوں اور ان شاء اللہ مسلمان ہی مروں گا۔ میرے نزدیک تاریخ کی مادی تعبیر قطعاً سراسر غلط ہے‘‘۔ (خواجہ غلام السیّدین کے نام خط مورخہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۷ئ) ’’ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کلیتہً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدترین ہو جائے تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہوں۔ (مضامین اقبال صفحہ ۱۹۶) ان دو ایک اقتباسات سے اقبال کے نظریۂ و طنیت پر بحث کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اقبا ل کارل مارکس یا سوشلزم کے بارے میں کیا خیال رکھتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ ۱۹۲۱ء میں اقبال نے ’’خضرراہ‘‘ کہی تو وہ سرمایہ داری کے مخالف اور مزدور کے حامی کی حیثیت سے ہمارے سامنے آئے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اقبال کارل مارکس کی بڑی حمایت کرتے ہیں اقبال کے افکار کی صحیح ترجمانی نہیں ہے اور پھر اقبال کو اسلامی سوشلسٹ کہنا تو اسلام اور سوشلزم دونوں کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش ہے ۔ کیونکہ اقبال ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ہئیتِ اجتماعیہ انسانیتہ کے اصول کی حیثیت میں کوئی لچک اپنے اندر نہیں رکھتا اور ہیت اجتماعیہ انسانیتہ کے کسی اور آئین سے کسی قسم کا راضی نامہ یا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیارنہیں۔ دراصل اسلامی سوشلزم کی ترکیب ایک ایسی ترکیب ہے جو کتابوں میں تو موجود ہے لیکن دنیا کے کسی سیاسی نظام میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ یہ ترکیب مفہوم سے قطعاً خالی ہے اور اس کا طول و عرض بس اتنا ہے کہ دو متضاد نظاموں میں ایک ایسی مفاہمت کا پہلو لیے ہوئے نظر آتی ہے جو عملی دنیا میں مفقود ہے ۔(۳) پاکستان کے مشہور قانون دان اے کے بروہی اقبالی اجتہاد اور اسلامی سوشلزم کا نظریہ کے زیر عنوان ایک مقالے میں لکھتے ہیں: ’’ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسلامی سوشلزم، اگر ہم اس کے عملی امکانات کو سمجھ لیں، ہمارے تمام دکھوں کا مداوا ہے ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں یہ عرض کروں گا کہ مجھے یہ سمجھنے میں سخت دقت کا سامنا ہے کہ آخر اسلامی سوشلزم کے نظریے کا مطلب کیا ہے ۔ سوشلزم کی اصطلاح ہر شخص سمجھ لیتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ’’ اسلام‘‘ کی اصطلاح کا مطلب بھی میں سمجھتا ہوں۔ اگر مجھے عرض کرنے کی اجازت دی جائے تو میں یہ کہوں گا کہ ان دو الفاظ کا غیر منطقی اختلاط ایک معقول ذہن کو خلفشار سے دو چار کر دیتا ہے، اس دوغلے لفط ’’ اسلامی سوشلزم‘‘ سے ذہن کو جس مخمصے سے دو چار ہونا پڑتا ہے اس کی تفصیل یوں پیش کی جا سکتی ہے …… اگر سوشلزم کا مطلب بالکل وہی ہے جس کا اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے تو پھر سوشلزم بطور ایک قومی نظریے کے بھی قابل ہونا چاہیے۔ لیکن اگر روایتی سوشلزم کو اسلام ہمارے لیے قابل قبول قرار نہیں دیتا تو پھر سوال یہ ہے کہ اسلام نے اس نظریے میں کیا تبدیلی کی ہے جس کی وجہ سے اسے اسلامی سوشلزم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اور سوشلزم کی غیر اسلامی اقسام کے مقابلے میں اسلامی سوشلزم قابل قبول بن جاتا ہے۔ لفظ اسلام بذات خود مستقل بالذات ہے آخر اس کو اس قدر کیوں گرا دیا جائے کہ یہ ’’ سوشلزم‘‘ کا لاحقہ یا سابقہ بن کر رہ جائے ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس ملک کا کوئی بھی شخص اس سوال کا منطقی اور دیانتدارانہ جواب نہیں دے سکتا۔ ایک طرف کیا ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلام ایک جامع ضابطۂ حیات ہے جس میں بنی نوع انسان کی اقتصادی سیاسی اور سماجی تنظیم سے متعلق جملہ مسائل کے حل موجود ہیں۔ دوسری جانب یہ بتایا جاتا ہے کہ سوشلزم نام کا بھی ایک نظریہ موجود ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے ۔بشرطیکہ ہم اس میں کچھ رد و بدل کر لیں اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ صرف اسلام نہیں بلکہ یہ اسلامی سوشلزم ہے جو ہمیں نجات دلائے گا اور اس وقت ہماری زندگی کا جو نظم و ضبط ہے اسلامی سوشلزم کی بدولت ہم اس نظم و ضبط کا بہ در جہا زیادہ معنی خیز اہتمام کرسکیں گے۔ ’’ اسلام اگر ایک عالم گیر مذہب ہے یعنی اگر ایک ایسا طرز زندگی ہے جو ہر دور اور تمام جغرافیائی حالات میں تمام لوگوں کے لیے موزوں ہے تو پھر یہ ان مخصوص اقتصادی اور سیاسی مسائل کا مناسب حل پیش کرنے سے کیوں قاصر ہے جن سے ہم پاکستانی آج کل دو چار ہیں اور جن کی وجہ سے ہم غیر ملکی تہذیب اور ثقافت سے ’’نمونہ‘‘ مستعارلینے پر مجبور ہیں۔ اگر سوشلزم کا مطلب سماجی تنظیم کے ایسے نظریے یا پالیسی سے لیا جاتا ہے جو اس امر کی داعی ہے کہ جملہ ذرائع پیداوار، سرمایہ ، اراضی اور املاک تمام معاشرے کی ملکیت قرار دے دیے جائیں اور ان کا انتظام و تقسیم بھی سب کی بہبود کے لیے عمل میں لایا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام اس ضمن میں کچھ کہنے سے قاصر ہے ۔اگر آپ کے خیال میں حصول انصاف کا یہی واحد طریقہ ہے تو آپ سوشلزم کے نظریے یا طریق کار کے حلقہ بگوش ہو سکتے ہیں لیکن اس کے برعکس آپ کے نزدیک سوشلزم کے نظریہ اور پالیسی سے انصاف کے موقف کو تقویت ملنے کے عوض ٹھیس لگتی ہے تو آپ کو اس نظریے کا حلقہ بگوش ہونے سے انکار کر دینا چاہیے لیکن اس کا اسلام سے کیا تعلق ہو سکتا ہے ۔ انصاف کے حصول کے لیے سوشلزم کا طریق کارآج تو موزوں ہو سکتا ہے آگے چل کر موزوں نہ رہے اس لیے اسلام کو اس جھگڑے میں الجھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ (نوائے وقت ،لاہور،۱۸مئی ۱۹۶۷ئ) اے کے بروہی کی یہ تحریر اسلام اور سوشلزم کے بارے میں علامہ اقبال ہی کے افکار کی صدائے باز گشت ہے ۔ اقبال کے بارے میں یہ غلط فہمی کہ اقبال اسلامی سوشلسٹ تھے، دو رستوں سے آئی ہے۔ ایک تو اقبال کی جادو بھری شاعری خود اس کی ذمہ دار ہے جو اپنے بے پایاں کیف و تاثر کے ساتھ قاری کو بہا لے جاتی ہے ۔ایک ایسے کیف و تاثر کے ساتھ جو اقبال سے پہلے اردو شاعری میں موجود نہیں تھا اور دوسرا ایڈورڈ تھامسن اور جواہر لال نہرو کی تحریروں سے(۴) اقبال نے جب یہ کہا: بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریںکو مزدیوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت ،تہذیب ،رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے نغمۂ بیداری جمہور ہے سامانِ عیش قصۂ خواب آورِ اسکندر و جم کب تلک آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک تو قاری جس نے کبھی سرمایہ و محنت کی آویزش کا ذکراردو شاعری میں دیکھا نہیں تھا اور سرمایہ و محنت کی آویزش کا تصور جس کے ہاں مارکس کی تحریروں اور انقلاب روس کے ذریعے سے آیا تھا فوری طور پر اس کے سوا اور کس کے نتیجے پر پہنچ سکتا تھا کہ اقبال سوشلزم کا پیغام لے کر آئے ہیں’’ خضر راہ‘‘ کے طلسم نے قاری کو یہ سوچنے کا موقع ہی کہاں دیاکہ سوشلسٹ کبھی یہ نہیں کہتا کہ ۔ پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو سوشلسٹ یہ تو کہتا ہے ؎ جو کرے گا امتیازِ رنگ وخوں مٹ جائے گا لیکن یہ نہیں کہتا: دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تو یا دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فرداکو میں یا سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری یا زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھرکیا طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی اصل میں اقبال کا قلم پارس تھا اور ایسا پارس جو صرف پتھر ہی کو نہیں بلکہ لوہا، لکڑی جس چیز کو بھی چھو لیتا تھا اسے خالص سونا بنا دیتا تھا اور اس سونے کی تا بناکی نے ہر دیکھنے والے کی آنکھوں کو چندھیادیا۔ دوسرا سبب جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے جواہر لال نہرو اور ایڈورڈ تھامسن کی تحریریں ہیں۔ جواہر لال نہرو اپنی تصنیف دریافت ہند میں لکھتے ہیں۔ ’’عمر کے آخری حصے میں اقبال زیادہ سے زیادہ سوشلزم کے قریب ہوتے گئے سوویت روس نے جو عظیم ترقی کی تھی وہ اس سے متاثر ہوئے اور ان کی شاعری نے بھی ایک نیا رنگ اختیار کیا‘‘۔ (۱۹۵۶ء ایڈیشن مطبوعہ لندن صفحہ۳۵۵) جواہر لال نہرو نے دریافت ہند کے اس حصے میں اقبال کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے لیکن چونکہ اس ملاقات کی باقی باتیں میرے اس مقالے کے احاطے سے باہر ہیں۔ اس لیے میں اپنی بات چیت اقبال اور سوشلزم کے بارے میں جواہر لال نہرو کے خیالات ہی تک محدود رکھوں گا۔ جواہر لال نہرو کی اقبال سے یہ ملاقات جنوری ۱۹۳۸ء میں ہوئی (۵) اقبال کے انتقال سے تین ماہ قبل۔ معلوم نہیں جواہر لال نے اقبال کی کس بات سے یہ اندازہ لگایا کہ اقبال عمر کے آخری حصے میں سوشلزم کے قریب ہوتے چلے گئے حالانکہ یکم جنوری ۱۹۳۸ء کو لاہور ریڈیو سے نئے سال کا پیغام نشر کرتے ہوئے اقبا ل واضح طور پر کہہ چکے تھے ۔ ’’ … لیکن اس تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبر و استبداد نے جمہوریت، قومیت، اشتراکیت ، فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں حریت اور شرف انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا‘‘۔ (حرف اقبال ۱۹۵۵ء صفحہ۲۲۳) اس پیام کے بعد یہ اندازہ کرنا کہ اقبال اشتراکیت سے قریب آ رہے تھے ایسی بات ہے جو آسانی سے سمجھ میں نہیں آ سکتی اور پھر نہ جانے جواہر لال نہرو نے کس بنا پر یہ لکھ دیا کہ سوویت روس کی ترقی سے متاثر ہو کر اقبال کی شاعری نے نیا رنگ اختیار کیا۔ سوویت روس کی ترقی سے متاثر ہو کراقبال نے نظمیں تو ضرور کہیں لیکن یہ کہنا کہ اقبال کی شاعری نے نیا رنگ اختیار کیا ایسا دعویٰ ہے جس کی تائید اقبال کی شاعری نہیں کرتی۔ اس زمانے میں غلام رسول خاں اور ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی علامہ اقبال کے سیکرٹری تھے ۔ ڈاکٹر عاشق حسین نے مجھے بتایا کہ بات چیت کے دوران میں جب مسٹر جناح کی لیڈری کا ذکر چھڑا اور پنڈت جواہر لال نہرو نے کچھ دبی زبان سے جناح صاحب کے طرز عمل پر اعتراض کیا تو علامہ مرحوم نے پنڈت جی کو مخاطب کرکے انگریزی میں فرمایا تھا: ’’ جناح واحد شخص ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے کچھ کہہ سکتے ہیں … اور میں ان کا معمولی سپاہی ہوں‘‘ ڈاکٹر عاشق حسین کا یہ کہنا ہے کہ یہ فقرہ من و عن علامہ اقبال ہی کے الفاظ میں ہے ۔ اقبال کا یہ مبینہ فقرہ یہاں درج کر کے میں اقبال اور جناح کے تعلقات پر روشنی ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر جنوری ۱۹۳۸ء تک اقبال کے خیالات جناح اور جناح کی سیاست کے بارے میں یہ تھے کہ وہ اپنے آپ کو ان کا معمولی سپاہی کہتے تھے تو پھر انھیں عمر کے آخری حصے میں ’’ زیادہ سے زیادہ سوشلزم کے قریب‘‘ کہنا غلط فہمی ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔(۶) اقبال اور جواہر لال نہرو دونوں نابغہ تھے عالم تھے ، سیاست حاضرہ پر دونوں کی گہری نظر تھی اور دونوں ایک دوسرے کا احترا م کرتے تھے۔ جواہر لال کے بارے میں اقبال کتنی اونچی رائے رکھتے تھے اس کا اندازہ اقبال کے ان الفاظ سے ہو سکتا ہے جو انھوں نے جواہر لال نہرو کے ’’ ماڈرن ریویو‘‘ والے مقالے کے جواب میں کہے تھے ۔ اقبال اس میں لکھتے ہیں :۔ ’’میرے لیے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ پنڈت جی کو مشرق کے بلکہ ساری دنیا کے ایک عظیم الشان مسئلے سے جو دلچسپی ہے میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ میری رائے میں یہ پہلے ہندوستانی قوم پرست قائد ہیں جنہوں نے دنیائے اسلام کی موجودہ روحانی بے چینی کو سمجھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔‘‘ لیکن اس باہمی احترام کے باوجود اقبال اور جواہر لال کے رستے الگ الگ ہیں اور وہ کسی میدان میں بھی دو قدم ایک ساتھ چلتے نظر نہیں آتے ۔ دریافت ہند میں مصطفی کمال کا ذکر کرتے ہوئے جواہر لال نہرو لکھتے ہیں ۔ ’’مصطفی کمال نے ترکی کو غیر ملکی اقتدار سے نجات دلوائی۔ صرف یہی نہیں بلکہ یورپی سامراجی طاقتوں، بالخصوص انگلستان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔ لیکن جوں جوں مصطفٰے کمال کی پالیسی کھل کر سامنے آئی گئی اوریہ نظر آتا گیا کہ مذہب سے اسے لگائو نہیں۔ سلطانی اور خلافت کو وہ ختم کرنے کے حق میں ہے ، ملک میں ایک سیکولر نظام لانے کے لیے کوشاں ہے اور اس حکومت کو جو مذہبی بنیادوں پر قائم ہو باقی رکھنے کے حق میں نہیں ہے، تو راسخ العقیدہ مسلمانوں میں اسکی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کم ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ لیکن یہی پالیسی ہندوئوں اور مسلمانوں کے نوجوان طبقے میں اس کی زیادہ ہر دلعزیزی کا باعث بنی۔‘‘ قریب قریب ایسے ہی خیالات کا اظہار جواہر لال نہرو نے اپنے اس مقالے میں کیاتھا جو ماڈرن ریویو میں شائع ہوا تھا اور جس میں انھوں نے احمدیت کو موضوع بحث بنایا تھا اقبال نے اس کے جواب میں جو مقالہ لکھا اس میں جواہر لال نہرو کے مصطفٰے کمال اور ترکی کے بارے میں خیالات پربھی بحث کی ۔ اس بحث کے دوران میں انھوں نے لکھا: ’’کیاہندوستان سے باہر دوسرے اسلامی ممالک خاص طور سے ترکی نے اسلام کو ترک کر دیا ہے؟ پنڈت جواہر لال نہرو خیال کرتے ہیں کہ ترکی اب اسلامی ملک نہیں رہا۔ معلوم ہوتا ہے وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتے کہ یہ سوال کہ آیا کوئی شخص یا جماعت اسلام سے خارج ہو گئی مسلمانوں کے نقطہ نظر سے خالص فقہی سوال ہے اور اس کا فیصلہ اسلام کی ہیت ترکیبی کے لحاظ سے کرنا پڑے گا۔ جب تک کوئی شخص اسلام کے دو بنیادی اصولوں پر ایمان رکھتا ہے یعنی توحید اور ختم نبوت تو اس کو ایک راسخ العقیدہ ملاّ بھی اسلام کے دائرے سے خارج نہیں کر سکتا خواہ فقہ اور آیات قرآنی کی تاویلات میں وہ کتنی غلطیاں کرے۔ غالباً پنڈت جواہر لال نہرو کے ذہن میں وہ مفروضہ یا حقیقی اصطلاحات ہیں جو اتاترک نے رائج کی ہیں۔ اب ہم تھوڑی دیر کے لیے ان کا جائزہ لیں گے کیا ترکی میں ایک عام مادی نقطہ نظر کی نشوو نما اسلام کے منافی ہے؟ مسلمانوں میں ترکِ دنیا کا بہت رواج رہ چکا ہے مسلمانوں کے لیے وقت آ چکا ہے کہ وہ حقائق کی طرف متوجہ ہوں۔ مادیت مذہب کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ ہے لیکن ملا اور صوفی کے پیشوں کے استیصال کے لیے ایک موثر حربہ ہے جو عمداً لوگوں کو اس غرض سے گرفتار حیرت کر دیتے ہیں کہ ان کی جہالت اور زود اعتقادی سے فائدہ اٹھائیں ۔ اسلام کی روح مادہ کے قرب سے نہیں ڈرتی۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ تمہارا دنیا میں جو حصہ ہے اس کو نہ بھولو‘‘ ایک غیر مسلم کیلیے اس کا سمجھنا دشوار ہے۔ گزشتہ چند صدیوں میںدنیائے اسلام کی جو تاریخ رہی ہے اس کے لحاظ سے مادی نقطۂ نظر کی ترقی، تحقیق ذات کی ایک صورت ہے۔ کیا لباس کی تبدیلی یا لاطینی رسم الخط کا رواج اسلام کے منافی ہے؟ اسلام کا بہ حیثیت ایک مذہب کے کوئی وطن نہیں اور بہ حیثیت ایک معاشرت کے اس کی نہ کوئی مخصوص زبان ہے اور نہ کوئی مخصوص لباس۔ قرآن کا ترکی زبان میں پڑھا جانا تاریخ اسلام میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی چند مثالیں موجود ہیں۔ ذاتی طورپر میں اس کو فکر و نظر کی ایک سنگین غلطی سمجھتا ہوں کیوں کہ عربی زبان و ادب کا متعلم اچھی طرح جانتا ہے کہ غیریورپی زبانوں میں اگرکسی زبان کا مستقبل ہے تو وہ عربی ہے۔ بہرحال اب یہ اطلاعیں آ رہی ہیں کہ ترکوں نے ملکی زبان میں قرآن کا پڑھنا ترک کر دیا ہے تو کیا کثرت ازدواج کی مخالفت یا علماء پر لائسنس حاصل کرنے کی قید منافی اسلام ہے؟ فقہ اسلام کی رو سے ایک اسلامی ریاست کا امیر مجاز ہے کہ شرعی’’ اجازتوں‘‘ کو منسوخ کردے بہ شرطیکہ اس کو یقین ہو جائے کہ یہ اجازتیں معاشرتی فساد پیدا کرنے کی طرف مائل ہیں۔ رہا علماء کا لائسنس حاصل کرنا ، آج مجھے اختیار ہوتا تو میں یقینا اسے اسلامی ہند میں نافذکر دیتا۔ ایک اوسط مسلمان کی سادہ لوحی زیادہ تر افسانہ تراش ملاّ کی ایجادات کا نتیجہ ہے۔ قوم کی مذہبی زندگی سے ملائوں کو الگ کر کے اتاترک نے وہ کام کیا جس سے ابنِ تیمیہؒ یا شاہ ولی اللہ ؒ کا دل مسرت سے لبریز ہو جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مشکوٰۃ میں درج ہے جس کی رو سے وعظ کرنے کا حق صرف اسلامی ریاست کے امیر یا اس کے مقررکردہ شخص یا اشخاص کو حاصل ہے۔ خبر نہیں اتاترک اس حدیث سے واقف ہیں یا نہیں تاہم یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ان کے اسلامی ضمیر کی روشنی نے اس اہم ترین معاملے میں ان کے میدان عمل کو کس طرح منور کردیا ہے ۔ اسی مقالے میں آگے چل کے علامہ اقبال لکھتے ہیں : ’’پنڈت نہرو نے جس اصلاح کا خاص طور سے ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ترکوں اورایرانیوں نے نسلی اور قومی نصب العین اختیار کر لیا ہے معلوم ہوتا ہے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایسا نصب العین اختیارکرنے کے معنی یہ ہیں کہ ترکوں اور ایرانیوں نے اسلام کو ترک کردیا ہے۔ تاریخ کا طالب علم اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام کا ظہور ایسے زمانے میں ہوا جب کہ وحدت انسانی کے قدیم اصول جیسے خونی رشتہ اور ملوکیت ناکام ثابت ہورہے تھے۔ پس اسلام نے وحدت انسانی کا اصول گوشت اور پوست میں نہیں بلکہ روح انسانی میں دریافت کیا۔ نوع انسانی کو اسلام کا اجتماعی پیغام یہ ہے کہ ’’ نسل کی قیود سے آزاد ہو جائو یا باہمی لڑائیوں سے ہلاک ہو جائو۔‘‘ یہ دونوں اقتباسات کچھ زیادہ طویل ہو گئے ہیں لیکن ان اقتباسات سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ مذہب کے بارے میں اس قسم کے خیالات رکھنے والے فن کار کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ اشتراکی ہے یا اشتراکیت سے قریب ہے ۔ اب رہے اس قسم کے اشعار: ابھی تک آدمی صید زبونِ شہر یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہونہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے ــــــــــــ افسر و پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت نئے اسکندری و نغمۂ دارائی رفت کوہ کن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرتِ خواجگی و محنتِ لالائی رفت چشم بکشائے اگر چشم تو صاحبِ نظر است زندگی در پیٔ تعمیر جہان دگراست ــــــــــــ من دریں خاک کہن گوہر جاں می بینم چشم ہر ذرہ چوانجم نگراں می بینم دانۂ را کہ بہ آغوش زمین است ہنوز شاخ در شاخ و برومند و جواں می بینم کوہ رامثل پرکاہ سبک می یابم پرکا ہے صفت کوہ گراں می بینم انقلابے کہ نہ گنجد بہ ضمیرافلاک بینم و ہیچ نہ دانم کہ چساں می بینم خرم آں کس کہ دریں گرد سوارے بیند جوہر نغمۂ زلرزیدن تارے بیند ــــــــــــ تو ان کا محرک ایک تو وہ درد انسانی ہے جس سے اقبال کی شخصیت عبارت تھی۔ دوسرا حالات حاضرہ پران کی گہری نظر اور تیسرا ان کی بصیرت یا فراست جس کی بدولت انھوں نے ۱۹۰۷ء میں یہ شعرکہے تھے ۔ دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہوگا! آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ روس میں اتنا بڑا انقلاب نمایاں ہو اور اقبال ایسا حساس فنکار اس سے متاثر ہی نہ ہو لیکن متاثر ہونا اور بات ہے اور اپنا نظریہ اور عقیدہ اس کی نذر کر دینا دوسری بات ہے ۔ اقبال اس انقلاب سے صرف متاثر ہی ہوئے ہیں اور متاثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسلام بھی ملوکیت اور سرمایہ داری کا دشمن ہے اور انقلاب روس نے بھی ملوکیت اورسرمایہ داری کو اپنا نشانہ بنایا ورنہ جہاں تک مارکس کے نظریۂ اشتراکیت کا تعلق ہے اقبال کے لیے اس نظریے کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ایک اشتراکی کے لیے خدا، روح اور مذہب تینوں سے انکار لازمی ہے۔ بالشوزم میں اگر خدا کا تصور شامل کر دیا جائے تو اس سے اسلام معرض وجود میں نہیں آ جائے گا بلکہ کوئی انمل بے جوڑ قسم کا نظام رونما ہو گا جس کا تجربہ ابھی تک دنیا نے نہیں کیا۔ اقبال نے اپنے ایک خط میں سرفرانسس ینگ ہسبینڈ کو لکھا تھاکہ چونکہ بالشوزم میں خدا کا تصورشامل کر لینے سے وہ بہ ظاہر اسلام کا مماثل ہو جاتا ہے اس لیے ایک ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب اسلام روس کو نگل لے یا روس اسلام کو نگل لے۔ تو انقلاب روس کے اس پہلو سے کہ اس نے ملوکیت اور سرمایہ داری کو اپنا نشانہ بنایا۔ اقبال بڑی حد تک متاثر ہوئے اور انکا یہ تاثر طرح طرح سے شعر کے دل کش پیکر میں ڈھل کر آیا ’’ پیام مشرق‘‘ میں صحبت رفتگاں (در عالم بالا) ایک بڑی دلکش نظم ہے جس میں ٹالسٹائی (۷)کہتا ہے کہ شہریار کے لشکر نے روٹی کے لیے ظلم کی تلوار ہاتھ میں اٹھا لی ہے۔ ملوکیت کے اس غلام کو نیک و بدکی تمیز نہیں رہی۔ یہ بیگانوں کا دوست اور اپنوں کا دشمن بن گیا ہے۔ تاج (ملوکیت) کلیسا (مذہب) اور وطن انسان کے حق میں نشے (بے ہوشی) کی کیفیت رکھتے ہیں خواجہ (ملوکیت) نے ایک ہی جام سے جان خداداد خرید لی ہے کارل مارکس (۸) اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتا ہے ۔ راز دان جزو و کل از خویش نا محرم شداست آدم از سرمایہ داری قاتلِ آدم شداست اب اس مقام پرہیگل آ کر اپنا فلسفہ چھانٹتا ہے اور کہتا ہے کہ اضداد (۹) پر غور کرنے ہی سے انسان پر حقیقت واضح ہو سکتی ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ حنظل اور انگور کی اصل ایک ہے اور یہ دونوں ایک ہی شے کے مختلف پہلو ہیں۔ فطرت اضداد خیز واقع ہوئی ہے اور انہی اضداد کے طفیل نظام عالم کا کارخانہ چل رہا ہے کیونکہ انہی اضداد کی بدولت جدلیاتی کیفیت رونما ہوتی رہتی ہے اور اسی کے سبب خواجہ و مزدور ، آمرو مامور ہمیشہ آپس میں دست و گریباں رہیں گے۔ یہاں ٹالسٹائی ہیگل سے مخاطب ہو کے کہتا ہے کہ عقل دورخی چال چلتی ہے یہ سرمایہ دار کو خود پرستی اور بندۂ مزدور کو سرمایہ دار کی رضا جوئی کا درس دیتی ہے (۱۰) یہاں آ کر یہ نظم انتہائی فنی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہے اور ایران کا قدیم فلسفی حکیم مزدک ٹالسٹائی کی تائید میں آگے بڑھتا ہے اور بڑی مسرت سے اعلان کرتا ہے کہ میںنے آج سے پندرہ سو برس پہلے خاک ایران میں جو بیج بویا تھا وہ آج پھل رہا ہے یعنی آج یورپ میں بادشاہت ختم ہو رہی ہے اور اشتراکیت ، رفتہ رفتہ پنے قدم جما رہی ہے مزدک کی یہ گفتار اقبال کی سحر آفریں زباں سے سنیے۔ دانۂ ایراں زکشت زار و قیصر بردمید مرگ نومی رقصد اندر قصرِ سلطان و امیر مدّتے در آتش نمرود می سوزد وخلیل تاتہی گردد حریمش از خدادندان پیر دور پرویزی گذشت اے کشتہ پرویز خیز! نعمت گم گشتۂ خود راز خسر و باز گیر اس ڈرامے کا آخری کردار کوہ کُن ہے جو مزدور کی علامت ہے وہ دنیا بھر کے مزدوروں کو ملوکیت کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کہتا ہے۔ نگارِ من(۱۱) کہ بسے سادہ و کم آمیزاست ستیزہ کیش و ستم کوش و فتنہ انگیزاست برون اوہمہ بزم و درون اوہمہ رزم زبان او زمسیح و دلش زچنگیز است گست عقل و جنون رنگ بست و دیدہ گداخت در آب جلوہ کہ جانم زشوق لبریز است اگرچہ تیشئہ من کوہ راز پا آدرد ہنوز گردش گردوں بکام پرویز است زخاک تابہ فلک ہرچہ ہست رہ پیماست قدم کشائے کر زرفتارِ کارواں تیزاست(۱۲) اقبال کی زندگی کا بیشتر حصہ ایک ایسے دور میں گزرا جب کہ یورپی ممالک کے طریقہ ہائے استحصال اپنی انتہا کو پہنچ گئے تھے ۔اشتراکی اور قومی تحریکوں نے اقبال کے سامنے نشوو نما پائی۔ اقبال ایک درد مند دل لے کر آئے تھے انھیں سرمایہ داری اور جاگیرداری کی یہ ادا ایک آنکھ نہ بھاتی تھی کہ وہ تمام روحانی اقدار کو بالائے طاق رکھ کر عوام کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہیں یہ تو حالات کی ستم ظریفی تھی کہ مسلم لیگ سے تعلق کی بنا پراقبال کو ہندوستان میں انہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے سمجھوتہ کرنا پڑا جن کے طور طریقوں سے انھیں ازلی نفرت رہی۔ وہ جب دنیا کی منڈی میں انسان اور اس کی روح کو بھیڑ بکری کی طرح بکتا دیکھتے تھے تو انھیں ایک دلی کرب ہوتا تھا اور یہ کرب ان کی شاعری میں قدم قدم پر نظر آتا ہے۔’’ محاورہ مابین حکیم فرنسوی اگسٹس کو مٹ و مرد مزدور‘‘ بھی اسی درد و کرب کا ایک مظہر ہے جس میں حکیم فرنسوی مزدور سے کہتا ہے کہ بنی آدم ایک دوسرے کے اعضا ہیںاور ایک ہی درخت کے برگ و بار ہیں ۔ فطرت نے ان تمام اعضا کے لیے اپنے اپنے فرائض مقرر کر رکھے ہیں۔ مثلاً دماغ کا کام فکر سے کام لینا ہے اور پائوں کا کا م زمین پر چلنا ہے۔ ایک کا کام حکم دینا اور دوسرے کا حکم کی تعمیل کرنا ہے۔ محمود محمود ہے ، ایاز ایاز ہے۔کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ اسی تقسیم سے زندگی کا خار زار چمن بنا ہوا ہے؟ حکیم فرنسوی کا مقصد یہ ہے کہ اعضا کی طرح انسانی طبقوں میں تقسیم کار کا اصول کار فرما ہے اور اسی اصول کے تحت سرمایہ دار سرمایہ دار ہے، مزدور مزدور اوراسی تقسیم کار ہی سے زندگی میں حسن ہے لیکن مزدور اس فلسفے کے فریب میں نہیں آنا چاہتا اور صاف لفظوں میں حکیم فرنسوی سے کہتا ہے : فریبی بہ حکمت مرا اے حکیم کہ نتواں شکست ایں طلسم قدیم مس خام را از زر اندودۂٖ؟ مراخوئے تسلیم فرمودۂ کند بحر را آبنایم اسیر زخار ابرد تیشہ ام جوے شیر حق کو ہکن دادی اے نکتہ سنج بہ پرویز پر کار و نابردہ رنج؟ خطا رابہ حکمت مگر داں صواب خضر را نہ گیری بدام سراب بدوش زمیں، بار، سرمایہ دار ندارد گذشت از خورو خواب کار جہاں راست بہروزی از دست مزد ندانی کہ ایں ہیچ کار است دُزد پے جرمِ او پوزش آوردۂٖ؟ بہ ایں عقل و دانش فسوں خوردۂٖ؟ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اقبال سرمایہ داری کے خلاف مزدور کی بغاوت سے توخوش تھے لیکن اشتراکی نظام حکومت پران کا قطعی ایمان نہیں تھا۔ اقبال کے جن اشعار یا نظموں کو لے کر انھیں یا، ان کی روح کو اشتراکی کے لقب سے نوازا جا رہا ہے وہ نظمیں ایک تو اس جذبہ بغاوت کا نتیجہ ہیں جو اقبال کے دل میں سرمایہ داری اور جاگیر داری کے خلا ف سلگ رہا تھا۔ دوسرا انسان دوستی کا ۔ اقبال چوں کہ عملی طور پر سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے اور عملی سیاست میں انھیں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا تھا اس لیے ان کی شاعری میں یہ دبی ہوئی آگ اور تیزی سے بھڑکی ہے اور کہیں اس نے ۔ مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزّات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات کا تلخ رنگ اختیار کیا ہے اور کہیں ’’ قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور‘‘ کا طنزیہ انداز جس میں سرمایہ دار کی ’’ فیاضی‘‘ اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے جب کہ وہ صرف زمین کو اپنی ملکیت بناتا ہے اور زمین سے لے کر آسماں تک ساری کائنات مزدور کو بخش دیتا ہے ۔ غوغائے کارخانۂ آہنگری زمن گلبانگِ ارغنون کلیسا ازانِ تو نخلے کہ شہ خراج برومی نہد زمن باغ بہشت و سدرہ و طوبا ازانِ تو تلخابۂ کہ دردِ سر آرد ازانِ من صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو مرغابی و تدرو و کبوتر ازان من ظل ہمائو شہپر عنقا ازانِ تو ایں خاک و آنچہ درشکم او ازانِ من وزخاک تابہ عرش معلاّ ازانِ تو یہاں میں اشتراکیت کے موضوع پر اقبال کی ایک اور نظم ’’ نوائے مزدور‘‘ کا ذکر بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ نظم علامہ نے اسی زمانے (یعنی ۱۹۲۲ئ) میں کہی جب کہ انھوں نے ’’ خضر راہ‘‘ کہی تھی اسی لیے صرف یہی نہیں کہ دونوں نظموں میں ایک سا ولولہ، امنگ اور حوصلہ مندی نظر آتی ہے بلکہ اکثر مصرعوں کے مضمون بھی قریب قریب یکساں ہیں۔ ’’ خضر راہ‘‘ اور ’’ نوائے مزدور‘‘ ایسی نظمیں پڑھنے کے بعد اگرکوئی اقبال کو اشتراکی سمجھ بیٹھے تو یہ پڑھنے والے کی نہیں بلکہ اس کا سبب کلام اقبال کی سحر انگیزی اور اثر آفرینی ہے۔ زمزد بندۂ کر پاس پوش و محنت کش نصیب خواجۂ نا کردہ کار رخت حریر(۱۳) زخوے فشانی من لعل خاتم والی زاشک کو دک من گوہر ستام امیر زخونِ من چوز لُو فربہی کلیسارا بزورِ بازوے من دستِ سلطنت ہمہ گیر خرابہ رشک گلستاں زگریۂ سحرم شباب لالہ و گل از طراوت جگرم بیا کہ تازہ نوامی تراود از رگِ ساز(۱۴) مئے کہ شیشہ گداز د بہ ساغراندازیم مغان و دیر مغاں را نظام تازہ دہیم(۱۵) بنائے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم زرہزنان چمن انتقام لالہ کشیم بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم بطوف شمع چو پروانہ زیستن تاکے(۱۶) زخویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تاکے ورنہ اقبال کس حد تک اشتراکیت کو ایک مکمل یا جائز ضابطہ حیات سمجھتے تھے اس کا اندازہ اس قسم کے اشعار سے ہو سکتا ہے ۔ زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھرکیا طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہوویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اور جہاں تک اشتراکی انقلاب کا تعلق ہے اس اشتراکی انقلاب کا جس نے ایک جہان کہنہ کو ختم کر دیا ہے اسے وہ ضمیر کی موت سے تعبیر کرتے ہیں : نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت دلوںمیں ولولۂ انقلاب ہے پیدا قریب آ گئی شاید جہان پیر کی موت اس سلسلے میں اقبال کی نظم ’’ موسیولینن و قیصرولیم‘‘ اشتراکیت کے بارے میں اقبال کے نظریے پر بھر پور روشنی ڈالتی ہے ۔ اس نظم میں اقبال قیصر ولیم کی زبانی یہ کہلواتے ہیں کہ غلامی انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ جیسے برہمن کی فطرت میں بتوں کے طواف کا جذبہ۔ موسیولینن اس بات کا دعویٰ کرتا ہے۔ غلامِ گر سنہ دیدی کہ بر درید آخر قمیص خواجہ کہ رنگین زخون ما بودست شرارِ آتش جمہورکہنہ ساماں سوخت رداے پیر کلیسا قباے سلطان سوخت قیصر ولیم اسے جواب دیتے ہیں : اگر تاج کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست ہوس اندر دل آدم نہ میرد ہماں آتش میان مرزغن ہست عروس اقتدار سحر فن را ہماں پیچاک زلف پر شکن ہست ’’نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نہ باشد کوہ کن ہست‘‘ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے اقبال کو مارکسزم یا نئے روس میں جو خوبیاں نظرآئیں ۔ وہ یہ ہیں کہ یہ نظام ملوکیت(۱۷) اور سرمایہ داری کا دشمن ہے اور اس میں محنت کش طبقے کے لیے مواقع موجود ہیں ورنہ مارکس کی جدلیاتی مادیت سے اقبال کو شدید اختلاف ہے۔ اقبال مارکسزم کا ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ملوکیت، سرمایہ داری اور طبقہ داری کش مکش تو اسی طرح ناپید ہوں جس طرح مارکسزم میں ناپید ہیں لیکن اس کی بنیاد روحانیت ، پر ہومادیت پر نہ ہو اور ایسا نظام اقبال کو صرف اسلام میں نظر آتا ہے چنانچہ ایک نظم ’’ اشتراکیت‘‘ میں اس نظریے کو وہ بڑے صاف لفظوں میں بیان کرتے ہیں ۔ قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمیٔ رفتار اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بے زار انساں کی ہوس نے جنھیں رکھا تھا چھپا کر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار(۱۸) قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار جوحرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار مجھے احساس ہے کہ یہ بحث خاصی طویل ہو گئی ہے اور اپنے اس نظریے کی وضاحت میں کہ اقبال کو اسلامی اشتراکی کہنا اقبال، اسلام اور اشتراکیت تینوں کے ساتھ بے انصافی کرنے کے مترادف ہے۔ میں نے ضرورت سے زیادہ اقتباسات پیش کر دیئے ہیں لیکن اس کا سبب صرف یہی ہے کہ کہنے کو تو جواہر لال نہرو نے بھی کہہ دیا کہ اقبال عمرکے آخری حصے میں زیادہ سے زیادہ سوشلزم کے قریب آگئے۔ آل احمد سرور اور عزیز احمد نے بھی انھیں مسلم سوشلسٹ لکھ دیا۔ سردار جعفری نے بھی لکھ دیا ہے کہ انھوں نے ۱۹۳۷ء میں علی گڑھ میں اشتراکیت کے حق میں کچھ کہا تھا اور ڈاکٹر تاثیر نے بھی کہہ دیا ہے کہ انھوں نے کئی موقعوں پر کھلے لفظوں میں یہ کہا تھا کہ ’’ اگر مجھے کسی مسلم ملک کا ڈکٹیٹر بنا دیا جائے تو پہلا کام جو میں کرونگا یہ ہوگا کہ اس ملک کو سوشلسٹ ملک بنا دوں گا‘‘ لیکن اس دعوے کی تائید نہ اقبال کی نظم سے ہوتی ہے نہ ان کی نثر سے (۱۹) ضرب کلیم اور ارمغانِ حجاز ان کی آخری کتابیں ہیں ان میں کہیں تو ایسی بات نظر آ جاتی جس سے آج کا قاری یہ اندازہ لگا سکتا کہ زندگی کے کسی دور میں اقبال اپنے پرانے خیالات سے تائب ہو گئے تھے کیا ’’ ہم کارل مارکس کی آواز‘‘ سے یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہیں جس میں اقبال کہتے ہیں : یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکارکی نمائش تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوط خم دار کی نمائش مریز و کج دار کی نمائش جہان مغرب کے بت کدوں میں ، کلیسائوں میں، مدرسوں میں ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش کہ اقبال مسلم سوشلسٹ بن چکے تھے یا مندرجہ ذیل شعر سے ہم اس نتیجے پرپہنچ سکتے ہیں کہ اقبال نے اسلام اور اشتراکیت کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کر دیا تھا ؟ یہ وحی دہریتِ روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیسائیوں کے لات و منات ڈاکٹر تاثیر مرحوم نے تو اس سلسلے میں خاصا خلطِ مبحث سے کام لیا ہے لکھتے ہیں کہ پیام مشرق میں اقبال لینن کو قیصر ولیم کی پست سطح پر لے آئے ہیں اور بال جبریل میں انھوں نے لینن کو ایک سنت کے روپ میں پیش کیا ہے (۲۰) ڈاکٹر تاثیر مرحوم کا اشارہ پہلی مثال میں نظم موسومہ بہ ’’موسیولینن و قیصرولیم‘‘ کی طرف ہے اور دوسر ی مثال میں نظم موسوم بہ ’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ کی طرفِ۔ اول تو پہلی نظم سے یہ اندازہ لگانا کہ قیصرولیم کو اقبال نے کسی پست سطح پر رکھا ہے خواہ مخواہ کی کھینچا تانی ہے۔ اس نظم میں اقبال نے نہ تو قیصرولیم کو کسی پست سطح پر دکھایا ہے اور نہ لینن کو۔ قیصر ولیم اور لینن پہلی جنگ عظیم کے دو کردار ہیں۔ ایک کے لیے جنگ زوال کا اور دوسرے کے لیے عروج کا باعث بنی۔ قیصرولیم اس نظم میں لینن سے یہ کہتا ہے کہ ’’ یہ فرض کرنا کہ اشتراکی دور میں عوام غلامی سے آزاد ہو گئے ہیں غلط ہے ۔ دراصل وہ پہلے زار روس کے غلام تھے اب اشتراکیت کے غلا م ہیں‘‘ اگر ہم یہ فرض بھی کر لیں کہ یہ اقبال کا اپنا نظریہ ہے اور انھوں نے اشتراکیت کے لیے ایک شاعرانہ انداز بیان اختیار کیا ہے تو کیا اس طنز کی نشتریت اس نظم میں آ کر کم ہو جاتی ہے جس میں بہ قول ڈاکٹر تاثیر اقبال نے لینن کو ایک سنت کے روپ میں پیش کیا ہے ؟ اشتراکی نظام حکومت پر اس سے بڑ ا طنز اور کیا ہو سکتا ہے کہ لینن خدا کے حضور میں پیش ہو اور وہاں یہ کہے: اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پایندہ تری ذات محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے بینائے کو اکب ہو کہ دانائے نباتات وہ قوم کہ فیضان سمادی سے ہو محروم حداس کے کمالات کی ہے برق و بخارات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات(۲۱) یہ تو لینن نہ ہوا ونو بابھاوے کی طرح کا کوئی سادھو ہوا۔ یہاں علامہ اقبال کا ایک خط جو انہو ں نے مسٹر جناح کو ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کو لکھا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو دولت کی غیر مساوی تقسیم کے متعلق ان خیالات پر خاصی روشنی ڈالتا ہے اسے اب چاہے کوئی اشتراکیت سمجھ لے یا اشتمالیت لیکن خط کے الفاظ یہ ہیں : ’’ روٹی کا مسئلہ روز بروز زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے اور مسلمان یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ وہ گذشتہ دو سو برس سے بتدریج نیچے گرتا چلا جا رہا ہے ۔ مسلمان کے خیال میں اس کا افلاس ہندوسا ہوکاروں اور سرمایہ داروں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ یہ پہلو ابھی اس کی آنکھوں سے اوجھل ہے کہ اس افلاس کی ایک بہت بڑی وجہ بدیشی حکومت بھی ہے ، تاہم زود یا بدیر اس حقیقت کا احساس اسے ہو کر رہے گا ۔ جہاں تک جواہر لال کے اس سوشلزم کا تعلق ہے، جس کی بنیاد دہریت پر ہے۔ مسلمان اس کی طرف چنداں توجہ نہیں کریں گے ۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ پھر مسلمانوں کا افلاس دور کرنے کی اور تدبیر کیا ہو سکتی ہے ۔ یاد رکھیے! مسلم لیگ کے سارے مستقبل کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ لیگ اس سوال کا کوئی تسلی بخش حل تلاش کرے۔ اگر لیگ ایسا کوئی حل تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو مسلمان عوام حسب سابق لیگ سے بے تعلق اور غافل رہیں گے۔‘‘ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو آپ نے مسٹر جناح کے نام مسئلہ فلسطین کے بارے میں جو خط لکھا اس کا متن یہ ہے ۔ ’’مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو سخت پریشا ن کر رکھا ہے … ذاتی طور پر میں ایک ایسے مسئلے کی خاطر جس کا تعلق اسلام اور ہندوستان سے ہے۔ جیل جانے کو تیار ہوں مشرق کے دروازے پر مغربی استعمار کے اس اڈے کی تعمیر اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے خطرے کا باعث ہے‘‘ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی اپنی کتاب ’’ اقبال کے آخری دوسال‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’جب ۲۶جنوری کو ہائی کورٹ کے فل بنچ نے مسجد شہید گنج کی اپیل خارج کر دی تو مسلمانوں میں سخت ہیجان پیدا ہو گیا تھا اور بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکلنا شروع ہو گئے تھے اسی شام غلام رسول خاں نے ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے تو ڈاکٹر صاحب رو پڑے اور کہنے لگے : ’’مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری چارپائی کو اپنے کندھوں پر اٹھائو اور اس طرف لے چلو جدھر مسلمان جا رہے ہیں۔ اگر گولی چلی تو میں بھی ان کے ساتھ مروں گا‘‘۔ آخر الذکر خط اور بیان کا تعلق اقبال کے نظریۂ اشتراکیت کے ساتھ تو نہیں ہے لیکن ان سے یہ تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ آخر دم تک اقبال اپنے ہی نظریے کے مطابق مسلمانوں کے مفاد کے بارے میں سوچتے رہے، خواہ وہ ان کا معاشی مسئلہ ہو خواہ مذہبی۔ یہاں میرا اعتراض اس بات پر نہیں کہ اقبال ایسا کیوں سوچتے رہے۔ بلکہ میرا اعتراض ان ناقدینِ اقبال پر ہے جو اقبال کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اقبال کے پیش نظر اگر معاشی عمرانی اور مذہبی مسائل رہے ہیں اور ان کا حل انھوں نے اشتراکی نظام سے باہر ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے تو اس سے ان کی شاعرانہ یا مفکرانہ عظمت پر کوئی حرف نہیں آتا اور نہ ہم سردار جعفری کے ہم خیال ہو کر اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ا قبال شاعر بڑے ہیں اور فلسفی چھوٹے۔ اقبال شاعر تو یقینا بہت بڑے ہیں ۔ اتنے بڑے کہ آج تک اردو کا کوئی شاعر ان کی بلندی تک نہ پہنچ سکا لیکن اقبال مفکر بھی چھوٹے نہیں ہیں۔ ان کا اپنا ایک انداز فکر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بعض نقاد اس انداز فکر سے متفق نہیں ہیں لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان کی نثری تصانیف پر جس میں انھوں نے وضاحت سے اپنا نظام فکر پیش کیا ہے کھل کر بحث ہوئی بھی کہاں ہے ۔ اقبال نے اگر مشرقی اور مغربی مفکرین کے خیالات کو اپنایا ہے تو اسی حد تک جس حد تک وہ انھیں قابل قبول تھے ۔اس حد کے بعد انھوں نے اپنا راستہ الگ اختیار کیا۔ مغربی خیالات کو جانچنا، پرکھنا اور انھیں اپنانا یا رد کرنا کسی بھی فن کار کی عظمت کی دلیل ہے ۔اس کے علی الرغم ان سے آنکھیں بند رکھنا یقینا چھوٹے پن کا ثبوت ہے ۔ اقبال نے مغربی خیالات کی گہرائی میں اتر کر اور کہیں انھیں قبول کر کے اور کہیں رد کرکے اپنے اوریجنل مفکر ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ ہاں کانٹ ویل اسمتھ کی اس بات کی مکمل تردید شاید مشکل ہو کہ جدید سائنس یا جدید سماجیات کے بارے میں اقبال کی وہ واقفیت نہ تھی جو جدید فلسفے کے بارے میںتھی ۔اصل میں فلسفے کے مطالعے نے انھیں اتنی مہلت ہی نہ دی کہ وہ موجودہ اقتصادی اور سماجی رشتے پر اس توجہ سے غور کرتے جس توجہ سے انھوں نے فلسفیانہ مسائل پر غور کیا تھا۔ غالباً اسی بنا پر کانٹ ویل اسمتھ نے لکھا ہے کہ ’’ اقبال نے خیالات سے خیالات حاصل کئے نہ کہ واقعات سے ۔ان کے خیالات صحیح تھے لیکن انھیں یہ خبر نہ تھی کہ وہ کون سے ٹھوس واقعات ہیں جنہوں نے ان خیالات کو صحیح بنایا ہے‘‘ کانٹ ویل اسمتھ کے الفاظ میں’’ اقبال اقتصادیات اور سماجیات سے بھی ناواقف تھے اور اسی ناواقفیت کی بناپر وہ ہندوستان‘‘ اور اسلام میں ان جماعتوں کو نہ پہچان سکے جو دراصل انھیں کے مقاصد کے خلاف کام کر رہی تھیں۔اپنی عملی زندگی میں انھوں نے انھیں جماعتوں کی مخالفت کی اور ان جماعتوں کی حمایت کی جو ان کے مقاصد کے خلاف کام کر رہی تھیں۔ لیکن اقبال پر یہ اعتراض کرتے وقت اسمتھ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اقبال کے سامنے مسلمانوں کی بہبود کا ایک اپنا تصور تھا پہلے تو اقبال کو کھینچ تان کر سوشلسٹ ثابت کر نا اور پھر ان کے سوشلزم پراعتراض کرنا اور یہ کہنا کہ وہ سوشلزم کے بارے میں یہ نہیں جانتے تھے اور وہ نہیں جانتے تھے ایک مہمل قسم کی تنقید ہے۔ اسمتھ اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ صحیح یا غلط اقبال مسلمانوں کے مسائل کا علاج سوشلزم کو نہیں بلکہ اسلام کو سمجھتے تھے ۔اور اسلام بھی وہ نہیں جو مولانا ابوالکلام آزاد نے پیش کیابلکہ وہ جوخود اقبال نے پیش کیا ۔ اقبال نے اگر کارل مارکس کو پیغمبر کہا ہے تو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اسے پیغمبر بے جبرئیل اور پیغمبر حق ناشناس کہا ہے اور اس کی تصنیف سرمایہ کو کوئی اہمیت دی ہے تو یہ کہہ کر ’’ نیست پیغمبر و لیکن دربغل دار د کتاب‘‘ اقبال اگر ملوکیت کے خلاف تھے تو یہ فرض کر لینا ایک خوش اعتقادی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کہ وہ اشتراکیت کے حق میں تھے جاوید نامہ میں کس قدر کھل کر انھوںنے دونوں نظریات پر تنقید کی ہے : صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل ز آنکہ حق در باطل او مضمر است قلب او مومن دماغش کافراست غربیاں گم کردہ اندافلاک را درشکم جویند جان پاک را رنگ و بو ازتن نگیر د جان پاک جزبہ تن کارے نہ دارد اشتراک دین آں پیغمبر حق ناشناس بر مساوات شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است ہم ملوکیت بدن را فربہی است سینۂ بے نورِ او ازدل تہی است مثلِ زنبورے کہ برگل می چرد برگ را بگذارد و شہدش برد شاخ و برگ و رنگ و بوئے گل ہماں برجمالش نالۂ بلبل ہماں از طلسم رنگ و بوئے او گذر ترک صورت گوی و در معنی نگر مرگ باطن گرچہ دیدن مشکل است گل خو اوراکہ درمعنی گل است ہر دوراجاں ناصبور و نا شکیب ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب زندگی ایں را خروج آں راخراج درمیان ایں دوسنگ آدم زجاج ایں بہ علم و دین و فن آرد شکست آں بردجاں راز تن ناں راز دست غرق دیدم ہر دو را در آب و گل ہر دو راتن روشن و تاریک دِل زندگانی سوختن با ساختن در گلے تخم دلے اندا ختن صرف یہی کہ اقبال اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کو ایک ہی سطح پر رکھ کر روشن تن اور تاریک دل کہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اخوت کا مقام دل میں ہو نہ کہ آب و گل میں اور اسی نظریے کی وضاحت کے لیے وہ اشتراکیت اور ملوکیت پر شدید نکتہ چینی کے فوراً بعد محکمات عالم قرآنی کا باب لاتے ہیں اور خلافت آدم، حکومت الٰہی، ارض ملک خدا است اور حکمت خیر کثیراست کی وضاحت کرتے ہیں تاکہ اشتراکیت اور اسلام کا فرق پوری طرح واضح ہو جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جمال الدین افغانی کی طرف سے روس کو مسلمان بن جانے کا پیغام بھی دلواتے ہیں ۔ تو کہ طرح دیگرے انداختی دل زدستور کہن پر داختی ہم چوما اسلامیاں اندر جہاں قیصریت راشکستی استخواں تو بجاں افگندۂ سوزے دگر در ضمیر تو شب و روزے دگر کردۂ کار خداونداں تمام بگزر ازلا، جانب الاخرام درگزر ازلا اگر جوئندہ تارہِ اثبات گیری زندۂ اے کہ می خواہی نظام عالمے جستۂ اورا اساسِ محکمے(۲۲) اس سوال کے بعد جمال الدین افغانی روس سے سوال کرتے ہیں کہ لاقیصر و کسریٰ کا مژدہ کس نے دیا جواب ظاہر ہے کہ قرآن اور اسلام نے اور بقول اقبال ۔ چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ دست گیر بندۂ بے ساز و برگ ان اشعار کی موجودگی میں کانٹ ویل اسمتھ کا اقبال پر یہ اعتراض کرنا کہ اقبال اصول کی وضاحت میں انتہائی جدید ہیں اور انھیں عملی صورت دینے کا وقت آتا ہے تو ان کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔ کسی بھی سوشلسٹ کی طرف سے اقبال کے مقصد حیات کو غلط تو قراردیا جا سکتا ہے لیکن ایک ایسا مقصد ان کی حیات سے وابستہ کرکے جو دراصل ان کا مقصد حیات نہیں ہے ان کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’ جذباتی اعتبار سے وہ سوشلسٹ تھے‘‘، ’’ ذہنی اعتبار سے وہ سوشلسٹ نہیں تھے‘‘۔ ’’ وہ تجزیاتی طور پر نہیں جانتے تھے کہ سرمایہ داری میں کیا خرابی ہے۔‘‘ انھوں نے اشتراکیت کے بارے میں مختلف قسم کا اظہار کیا ہے ‘‘ ۔ ’’ ان کی تحریروں سے سوشلسٹ قسم کا تاثر جھلکتا ہے ۔ آخر میں انھوں نے کئی اشتراکیا نہ نظمیں کہیں اور انھوں نے مغربی تہذیب کی مخالفت میں کارل مارکس کا نام استعمال کیا۔ ’’ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انھیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ اشتراکیت کیا ہے‘‘۔ بالکل بے سروپا باتیں ہیں اور ایک ایسے طالب علم کی جو صدق دل سے اقبال کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے کوئی رہنمائی نہیں کرتیں۔ اقبال کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اشتراکیت کیا ہے اور پھر ان کے کلام کو ’’ اشتراکیانہ‘‘ قرار دے کر اس پر بحث کرنا اقبال کو ان کی شخصیت سے باہر لے جا کر دیکھنے کی کوشش ہے۔ کسی بھی فن کار کا مطالعہ اس کی شخصیت سے باہر جا کر نہیں کیا جا سکتا ۔ جاوید نامہ توخیر ۱۹۳۳ کی کتاب ہے ۔ ارمغان حجاز علامہ کے انتقال کے بعد منظر عام پر آئی ہے اور اس میں ۱۹۳۵ء کے بعد کا کلام بھی ہے ۔ اس کتاب کے حصہ اردو میں پہلی نظم ہے ’’ ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ اس نظم میں اقبال اپنے اس موقف پر پوری طرح قائم ہیں کہ مسائل حیات کا حل اسلام کے ہاتھ میں ہے سوشلزم یا کمیونزم کے ہاتھ میں نہیں۔ ابلیس نے ابتدا ہی میں دنیا کو عناصر کا پرانا کھیل کہہ کر اور یہ کہہ کر کہ کارساز نے اس کا نام جہان کاف ونون رکھا تھا نظریۂ اسلام کی مخالفت کی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ابلیس ان باتوں کا بیک وقت دعوے کرتا ہے کہ ۔ میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں لیکن نظم کے گہرے مطالعے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکارا ہو جاتی ہے کہ ابلیس اپنا دشمن اول اشتراکیت کو نہیں بلکہ اسلام کو سمجھتا ہے ۔ اس تمثیلی نظم میں ابلیس کا دوسرا مشیر پہلے مشیر سے جمہوریت کے بارے میں سوال کرتا ہے ۔ خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغاکہ شر؟ پہلا مشیر اسے بتاتا ہے کہ یہ جمہوریت تو دراصل ملوکیت ہی کا ایک پردہ ہے اس سے ہمیں کیا خطر ہو سکتا ہے ۔(۲۳) ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے حق شناس و خود نگر کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجود میرو سلطاں پر نہیں ہے منحصر تیسرا مشیر اس بات پر بڑے اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ جمہوری نظام میں روحِ ملوکیت باقی ہے لیکن وہ روس میں اشتراکیت کے عروج پر بہت پریشان ہے۔ چنانچہ اس پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتا ہے : روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن دربغل دارد کتاب کیا بتائوں کیاہے کافر کی نگاہ پردہ سوز! مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روزِ حساب اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب چوتھا مشیر اس کو بتاتا ہے کہ اس یہودی یعنی کارل مارکس کی تعلیم اور سیاست کا توڑ مسولینی ہے جو ایک بار پھربحیرہ روم کے چاروں طرف اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ سن کر تیسرا مشیر مسولینی کو نا عاقبت اندیش کے لقب سے نوازتا ہے کہ یہ اشتراکیت کا کیاتوڑ پیدا کر سکتا ہے ۔ اس نے تو اپنے طرز عمل سے مغربی سیاست کو بالکل بے نقاب کردیا ہے۔اب پانچواں مشیر ذرا کھل کر سیاسیات مشرق و مغرب پر بات کرتا ہے اور پوری شدت کے ساتھ اشتراکیت کو اپنی تنقید کا ہدف بناتا ہے اور کہتا ہے کہ اب کارل مارکس نے جس فتنے کی بنیاد ڈالی ہے اس کی بدولت باقی تمام نظام درہم برہم ہو جائیں گے اور انجام کار اشتراکیت ہی اشتراکیت ساری دنیا پر غالب آ جائے گی ۔ اس کے بعد ابلیس خود ساری صورت حال پر تبصرہ کرتا ہے اور ایک ایک مشیر کی بات کا ’’ سوچ سمجھ کر‘‘ جواب دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے۔ دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ ہو گویا اشتراکی نظام کے معرض وجود میں آ جانے سے بالکل کوئی تشویش نہیں ہے بلکہ ہے اگر مجھ کو خطرہ کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحرگاہی سے جو ظالم وضو ابلیس یہاں آ کر اپنی گفتار کو مبہم نہیں رہنے دیتا اور بڑی وضاحت سے کہتا ہے : جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے یہاں تیسرے مشیر کے اس اضطراب آمیز اظہار خیال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب کے جواب میں ابلیس کا اضطراب ملاحظہ ہو: اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و نظر کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں(۲۴) اسی طرح ساری نظم ابلیس کی اس پریشانی کی تصویر ہے جو اسلام کے سبب سے اس کے دل و دماغ میں موجود ہے چنانچہ وہ اپنے مشیروں کو یہ مشورہ دیتا ہے : ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر جو چھپادے اس کی آنکھوں سے تماشاے حیات ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے اقبال کے ان اشعار کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبالی مغربی یورپ کے جمہوری نظام پر اشتراکی نظام کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اشتراکی نظام کے مقابلے میں اسلام کو بدرجہا بہتر نظام سمجھتے ہیں اس لیے کانٹ ویل اسمتھ اور ان کے ہم خیال سوشلسٹ نقاد اقبال کو سوشلسٹ کہہ کر ان پر اسلامی سوشلسٹ ہونے کا اتہام لگانے کے عوض اگر اقبال کو سوشلسٹ نہیں بلکہ مسلمان تسلیم کریں تو خلط مبحث کا بڑی حد تک خاتمہ ہو جائے گا۔ اس صورت میں سوشلسٹ طرز فکر کے نقادوں کے اعتراض کی نوعیت بھی بڑی حد تک بدل جائے گی۔ انھیں اس بات کا تو حق ہو گا کہ اسلام کے مقابلے میں اشتراکی نظام کوبہتر قرار دیں لیکن یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہو گی کہ اقبال تھے تو سوشلسٹ لیکن وہ سوشلزم کی حقیقت سے بے خبر تھے ۔ درماں زدرد ساز اگرخستہ تن شدی خوگر بہ خار شو کہ سراپا چمن شوی ایک اور قطعہ یہ ہے : گر نواخواہی زپیش او گریز در نئے کلکش غریو تندراست نیشتر اندر دل مغرب فشرد دستش از خون چلیپا احمرا ست آں کہ بر طرح حرم بت خانہ ساخت قلب او مومن دماغش کا فر است خویش را در نارِ آں نمرود سوز زاں کہ بستان خلیل از آذر است اس قطعے کے ساتھ ہی علامہ اقبال لکھتے ہیں : ’’ نطشے نے مسیحی فلسفۂ اخلاق پر زبردست حملہ کیا ہے اس کا دماغ اس لیے کافر ہے کہ وہ خدا کا منکر ہے مگر بعض اخلاقی نتائج میں اس کے افکار مذہب اسلام کے بہت قریب ہیں ۔ ’’قلب او مومن دماغش کا فراست‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس قسم کا جملہ امّیہ ابن الصلّت (عرب شاعر) کی نسبت کہا تھا۔ ’’ اٰمن لسانہ و کفر قلبہ ‘‘ نطشے (۱۸۴۴ء - ۱۹۰۰ء ) جس زمانے میں پیدا ہوا وہ یورپ کی اقتصادی خوشحالی اور سیاسی عروج کا دور تھا ۔ یورپی ممالک ایشیا اور افریقہ میں نئے نئے ممالک پر قابض ہو رہے تھے لیکن اس خوشحالی کے ساتھ یورپ کا صنعتی انقلاب سارے یورپ کے لیے نئے نئے مسائل بھی لے آیا۔ کارخانوں کے قیام کی بدولت بھاری تعداد میں آبادیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو ئیں اس صورتحال نے زندگی کی ہم آہنگی اور انضباط کو درہم برہم کردیا۔ نطشے نے اپنی تحریروں میں جگہ جگہ زندگی کے اس عدم توازن کا ذکر کیا ہے اور زندگی کی ان قدروں کو جو نئے حالات کے ساتھ قدم بقدم نہیں چل سکتیں اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔اصل میں نطشے نے زندگی کو ایک فلسفی کے نقطہ نگاہ سے نہیں بلکہ ایک روشن ضمیر رشی منی کی حیثیت سے دیکھا۔ اس نے انسان کے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے میں نظری دلیلوں اور خشک منطق سے کام نہیں لیا بلکہ زندگی کے توازن میں انسان کے دکھوں کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی اور بنی نوع انسان کے مستقبل کی بہتری کی خاطر اپنے نظریات اوراپنی تحریروں میں خون جگر صرف کیا۔ اقبال نے اس کے متعلق ایک عجیب وغریب بات دو فقروں میں لکھی ہے ۔ اپنے اس شعر؎ اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے میں ’’ مجذوب فرنگی‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ لکھتے ہیں : ’’ جرمنی کا مشہور مجذوب فلسفی نطشہ جو اپنے قلبی واردات کا صحیح اندازہ نہ کر سکا اور اس کے فلسفیانہ افکار نے اسے غلط راستے پر ڈال دیا ۔‘‘ اس حقیقت کو جاننے کے لیے کہ اقبال نے نطشے کے کن نظریات کو قبول کیا اور کن نظریات کو رد کیا۔ یہ فقرہ ایک چراغ راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اقبال نطشے کے قلبی واردات کے قائل ہیں لیکن اس کے فلسفیانہ افکار اسے جسے راستے پر لے گئے وہ اقبال کی نظر میں صحیح راستہ نہیں تھا ۔ اصل میں نطشے کا فکر و نظر مابعدالطبیعات کے مسائل کو پیچھے چھوڑ کر اسے نفسیات کی اس گہری دنیا میں لے گیا جہاں انسان اپنے اندر ہی علت العلل حقیقت کا مشاہدہ کرنے کی شدت سے آرزو کرتا ہے۔ مادیت کے بوجھ تلے دبے ہوئے یورپ میں نطشے ایک حیرت انگیز شخصیت تھا۔ وہ اپنے وقت کا ایک صوفی تھا۔ روحانی کیفیات سے لبریز اور اسے اس کا پوری طرح احساس تھا یہ دوسری بات ہے کہ وہ خدا کو نہیں مانتا تھا۔ لیکن خدا کو نہ ماننے سے انسان کی روحانیت میں کمی تو نہیں آ جاتی۔ آخر ہمارے ہندوستان میں مہابدھ ایسی عظیم شخصیت بھی تو گزری ہے جس نے خدا کی ہستی سے انکار کیا اور خود خدائی کا دعویٰ بھی نہیں کیا لیکن وہ روحانیت کی ان بلندیوں پر پہنچے کہ ہندوئوں کے خاصے طبقے نے انھیں خدا تسلیم کیا ۔ نطشے نے ایک ایسے مذہبی گھرانے میں جنم لیاتھا جو نسلاًبعد نسلٍ پادریوں کا گھرانہ چلا آتا تھا۔ گویا تبلیغی جوش نطشے کو وراثت ملا تھا اوروہ عمر کے آخری حصے تک ایک مبلغ رہا ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ جذبہ تبلیغ پہلے عیسائیت کے حق میں استعمال رہا بعد میں اس کے خلاف۔ وِل ڈیوارں لکھتا ہے کہ اگر نطشے کے رگ و پے میں وہ اخلاقی قوت نہ ہوتی جو عیسائیت ہی کی بدولت اسے ملی تو وہ عیسائیت پر کبھی پے بہ پے حملے نہ کر سکتا تھا۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جس زمانے میں عیسائیت اس کے ہدف تنقید کا نشانہ تھی جنیوا میں اس کا نام ایک سنت اور مہاتما کے طورپر لیا جاتا تھا۔ نطشے کی ماں ایک متقی اور پرہیز گار خاتون تھی اور اخلاق اور مذہب کے معاملات میں سخت محتاط زندگی بسر کرتی تھی۔ ماں کی اس تعلیم کا نطشے کی زندگی پر گہرا اثر ہوا اور آخر تک وہ ایک راہب کی طرح پاک رہا۔ بقول وِل ڈیوراں’’ یہ نطشے کی طبیعت کی راہبی ہی کا نتیجہ ہے کہ اس نے اتقائ، پرہیز گاری اور اخلاق و مذہب کے مقابلے میں انتہائی محتاط زندگی بسر کرنے پر سخت حملے کئے ہیں۔ نہ جانے اس ناقابل اصلاح مہاتما کے دل میں گناہ گار بننے کے لیے کتنی شدید تڑپ موجود رہی ہو گی ‘‘ اقبال یہاں نطشے کے بارے میں بڑی حد تک وِل ڈیوراں کے ہم خیال ہیں ۔ خدنگ سینۂ گردوں ہے اس کا فکر بلند کمند اُس کا تخیّل ہے مہرومہ کے لیے اگرچہ پاک ہے طینت میں راہبی اس کی ترس رہی ہے مگر لذت گنہ کے لیے نطشے جس روز پیدا ہوا وہ جرمنی کے بادشاہ فریڈرک ولیم چہارم کا جنم دن تھا۔ اس کا والد شاہی خاندان کے اکثر افراد کا معلّم رہ چکا تھا ۔ اس لیے اسے جذبہ حب الوطنی کے لیے نیک فال سمجھا اور اپنے بچے کا نام فریڈرک کے نام پر رکھا۔ نطشے کہاکرتا تھا کہ ’’ میرے اس جنم دن کی بدولت کم سے کم ایک فائدہ مجھے ضرور حاصل رہا اور وہ یہ کہ میرے بچپن کے دنوں میں میری سالگرہ کے موقع پر ملک بھر میں خوشیاں منائی جاتی تھیں۔‘‘ والد کی موت کے بعد نطشے کی دیکھ بھال خانوادے کی عورتوں کے ہاتھ میں آ گئی جس کی بدولت غیر شعوری طور پر اس میں ایک نسائی لطافت اور نازک مزاجی پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ سگریٹ اورشراب کا استعمال اس زمانے میں مردانہ خوبیوں میں شمار ہوتا تھا لیکن نسائی ماحول میں پرورش پانے کے باعث نطشے ’’ان خوبیوں‘‘ سے دور رہا اپنے انہی طور طریقوں کی بدولت وہ اپنے ہم درس طلبہ میں ایک ننھے پادری کے طور پر مشہور ہو گیا۔ اکثر اپنے ہم جماعتوں سے الگ جا کر خلوت میں بائیبل کامطالعہ کیا کرتا تھا ۔ بائیبل کے ساتھ اس کے دلی لگائو کا یہ عالم تھا کہ جب وہ اوروں کے سامنے بائیبل کی قرأت کرتا تھا تو سننے والے کی آنکھوں میں آنسو ا ٓ جاتے تھے ۔ اس رقت قلبی کے ساتھ ساتھ اس کے اندر پختہ اعتقادی کی بدولت ایک مستقل مزاجی بھی آہستہ آہستہ پرورش پا رہی تھی۔ ایک بار اس کے ہم درس طلبہ نے بائیبل میں بیان کئے ہوئے ایک واقعے کو خلاف اصلیت کہا تو نطشے نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ واقعہ خلاف اصلیت نہیں۔ جلتی ہوئی دیا سلائیاں اپنی ہتھیلی پر رکھ دیں۔ یہ واقعہ اس کے لڑکپن کا ہے لیکن اپنے آپ کو پختہ تر کرنے کا جذبہ ساری عمر اس کے دل میں کار فرما رہا۔ نطشے کے اس فلسفہ حیات سے کہ ’’سخت ہو جائو، خطرے کی زندگی بسر کرو ، اچھائی کیا ہے؟ جو تم میں قوت کا احساس پیدا کرے۔ برائی کیا ہے وہ سب جو کمزوری سے حاصل ہوتا ہے‘‘ اقبال بہت متاثر ہوئے ہیں بلکہ اسرارخودی کی کہانی ’’حکایت الماس وزغال‘‘ انھوں نے نطشے ہی سے لی ہے ۔ اس میں الماس زغال سے کہتا ہے : پیکرم ازپختگی ذوالنّو شد سینہ ام از جلوہ ہا معمور شد خوار گشتی از وجود خام خویش سوختی از نرمی اندام خویش فارغ از خوف و غم و و سواس باش پختہ مثل سنگ شو الماس باش می شود ازوے دو عالم مستنیر ہر کہ باشد سخت کوش و سخت گیر مشت خاکے اصل سنگ اسوداست کو سراز جیب حرم بیروں زداست رتبہ اش از طور بالاتر شداست بوسہ گاہ اسود و احمر شد است در صلابت آبروئے زندگی است ناتوانی نا کسی نا پختگی است یہ خیر ایک مثال تھی ۔جہاں تک کلام اقبال کا تعلق ہے اس میں نطشے کی سختی، صلابت اور پختگی کے نظریے کی لا تعداد مثالیں ملتی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اقبال نے اس نظریے کو مکمل طور پر اپنا لیا ہے تو غلط نہ ہوگا : کہا پہاڑ کی ندی نے سنگ ریزے سے فتادگی و سرافگندگی تری معراج ترا یہ حال کہ پامال و درد مند ہے تو مری یہ شان کہ دریا بھی ہے مرا محتاج جہاں میں تو کسی دیوار سے نہ ٹکرایا کسے خبر کہ تو ہے سنگ خارا یا کہ زجاج فولاد کہاں رہتا ہے شمشیر کے لائق پیدا ہو اگر اس کی طبیعت میں حریری ــــــــــــ جو سختیٔ منزل کو سامان سفر سمجھے اے وائے تن آسانی ناپید ہے وہ راہی ــــــــــــ اونچی جس کی لہر نہیں ہے وہ کیسا دریاے جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں وہ کیسا طوفان ــــــــــــ جھپٹنا ، پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ ــــــــــــ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ــــــــــــ جوش کردار سے شمشیر سکندر کا طلوع کوہ الوند ہوا جس کی حرارت سے گداز ــــــــــــ نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ــــــــــــ ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں ــــــــــــ حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے اگرکانٹے میں ہو خوئے حریری نطشے کا یہ فلسفۂ صلابت و پختگی اقبال نے’’ خرابات فرنگ‘‘ میں جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے اس کی مثال کلام اقبال کے سوا اور کہیں ملنا دشوار ہے۔ اقبال کا کمال فن ، ان کی ڈرامائی اور مکالماتی نظموں میں اپنے انتہائی عروج پر نظر آتا ہے۔ یہ چند اشعار بھی انھی نظموں کی ذیل میں آتے ہیں۔ اقبال مکالمے کے ذریعے سے اپنے حسن بیان کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ اس نظم میں اقبال نے نطشے کا فلسفہ خواہش اقتدار ہی بیان نہیں کیا بلکہ چونکہ یہ نظریہ مذہب اور اخلاق کی نفی کرتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال نطشے سے الگ اپنا راستہ اختیارکرتے ہیں اس لیے انھوں نے اسے پر نظریاتی ضرب کاری لگائی ہے اور طنزیہ انداز اختیار کر کے اس مغربی سیاست کا جس کی بنیاد میکاولی اور نطشے کے نظریات پر ہے کھوکھلا پن بھی ظاہرکیا ہے ۔ دوش رفتم بہ تماشائے خرابات فرنگ شوخ گفتاری رندے دلم از دست ربود گفت ایں نیست کلیسا کہ بیابی دروے صحبت دخترک زہرہ وش وناے و سرود ایں خرابات فرنگ است وز تاثیر مئیش آنچہ مذموم شمار ند نما ید محمود نیک و بد را بہ ترازوئے دگر سنجیدیم چشمہ داشت ترازوئے نصاریٰ و یہود خوب زشت است اگر پنجۂ گیرات شکست زشت خوب است اگر تاب و توان توفزود تو اگر درنگری جزبہ ریانیست حیات ہر کہ ا ندر گرد صدق و صفا بودنہ بود دعویٔ صدق و صفا پردۂ ناموس ریاست پیرماگفت مس از سیم بباید اندود فاش گفتم بہ تو اسرار نہاں خانۂ زیست باکسے باز مگو تا کہ بیابی مقصود اس نظم کے حاشیے میں علامہ اقبال نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ رندسے مراد نطشے ہے۔ بائیبل اور عیسائیت میں نطشے کی پختہ اعتقادی زندگی کے اس عدم توازن کی تاب نہ لا سکی۔ جو اس کی آنکھوں کے سامنے موجود تھا اور آخر عقائد کا یہ شیشہ اپنے دور کے حالات سے ٹکرا کے پاش پاش ہو گیا۔ اس کی عمر اٹھارہ سال کی تھی کہ خدا اور عیسائیت دونوں سے اس کا اعتقاد اٹھ گیا اور اس کے بعد اس کی ساری زندگی ایک ایسے خدا کو تراشنے میں صرف ہو گئی جس پر وہ ایمان لا سکے کہنے کو تو اس نے کہہ دیا کہ خدا سے اس کا اعتقاد اٹھ گیا ہے لیکن دراصل یہ اس کی خود فریبی تھی ۔اٹھارہ سال کی عمر تک جبکہ دل و دماغ پر عقیدے کے نقوش بہت گہرے ہوتے ہیں۔ اس نے عیسائیت کو اپنی روح کی گہرائیوں میں بسایا تھا اور اب وہ عیسائیت ہی سے منحرف ہو چکا تھا۔ اس انحراف کے بعد اس کی حالت ایک ایسے جواری کی سی تھی جو اپنا سب کچھ ایک ہی دائو پر لگا کر بازی ہار چکا ہو۔ مذہب اس کی زندگی کے سانچے میں رچا بسا ہوا تھا۔ اور جب مذہب اس کی زندگی سے خارج ہو گیا تو زندگی کے اس سانچے میں ایک لامتناہی خلا پیدا ہو گیا۔ اس خلا کو اس نے ہر ممکن طریقے سے پر کرنے کی کوشش کی کبھی بحث مباحثے سے اور کبھی سگریٹ اور شراب کے استعمال سے لیکن سگریٹ اور شراب سے وہ بہت جلد بے زار ہوگیا کیونکہ اس کے بارے میں اس کا خیال یہ ہو گیا تھا کہ سگریٹ اور شراب کے استعمال سے انسان کے ادراک میں حس لطیف باقی نہیں رہتی اور وہ گہرے سوچ بچار کے قابل نہیں رہتا۔ جن حالات کے مشاہدے نے نطشے کو عیسائیت سے بیزار کر دیا تھا اس سے اس بے زاری کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ عیسائیت اپنے ساتھ اس کی دلی تسکین کے اسباب بھی لیتی گئی اور اب اس کے لیے کسی سے یا کسی فرد میں تسکین کا پہلو باقی نہیں رہ گیا تھا۔ فکری اعتبار سے اب ایک تنہائی کے سوا اس کا کوئی رفیق نہیں تھا۔ نطشے کے لیے یہ ایک ذہنی کش مکش کا دور تھا اور اس ذہنی کشمکش کے بارے میں اس نے لکھا ۔ ’’ میں اس وقت ایک سخت مسئلے سے دو چار ہوں مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں ایک گھنے جنگل میں بھٹک رہا ہوں۔ کاش میرے کچھ مرید ہوتے ۔ کاش میرا کوئی مرشد ہوتا۔‘‘ لیکن اسے کوئی مرید مل سکا نہ پیر۔ انیسویں صدی اس کے نزدیک ہر اعتبار سے ایک سپاٹ اور اجاڑ زمانہ تھا۔ ا گرچہ بعض دوسرے مفکروں کی نظر میں یہ دور ایک رجائی اور ترقی پسند دور تھا۔ لیکن نطشے اسے منکر مذہب و اخلاق قرار دے کر اس پر پے بہ پے حملے کر رہا تھا اور اس کی شکست وریخت میں مصروف تھا۔ خدا کے بارے میں اس کے اس نظریے نے کہ خدا مرچکا ہے، اسے نئے خدائوں کی تخلیق پر مجبور کیا وہ اپنی ایک تصنیف میں ایک کردار کے منہ سے کہلواتا ہے۔ ’’ کیا ہم خود خدا نہیں بن سکتے۔ اتنا عظیم کارنامہ اس سے قبل ظہور پذیر نہیں ہوا۔ اگریہ کارنامہ انجام پا جائے تو ہمارے بعد آنے والے اپنے آپ کو تاریخ کے ایک اعلیٰ اور ارفع دور میں پائیں گے ایسا دور آج تک صفحہ کائنات پر رونما نہیں ہوا ہوگا ۔‘‘ یہ اصل میں فوق البشر کا تصور تھا جو نطشے پیش کر رہا تھا اسے ہم تلاش حقیقت کی کوشش کہیں یا حقیقت سے فرار لیکن نطشے فوق البشر کے تصور سے اپنے اس خلا کو پر کر رہا تھا جو خدا کو نہ ماننے سے اس کی زندگی میں پیدا ہوا گیا تھا ۔ از سستی عناصرِ انساں دلش تپید فکر حکیم پیکر محکم تر آفرید افگند در فرنگ صد آشوب تازۂ دیوانۂ بے کار گہ شیشہ گر رسید جب ۱۸۷۷ء میں جرمنی اور فرانس میں جنگ چھڑی تو نطشے نے اپنے ملک کی آواز پر لبیک کہا اور بھرتی ہونے کے لیے محاذ جنگ کو روانہ ہو گیا۔ رستے میں فرینک فرٹ کے مقام پر اس نے فوج کے ایک دستے کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’ زندگی کی تمنا سے مراد یہ نہیں کہ انسان محض زندہ رہنے کے لیے خستہ حالی کے ساتھ جدوجہد کرتا رہے بلکہ اس کے دل میں جنگ کرنے کی ، قوت حاصل کرنے کی اور غلبہ پانے کی تمنا بیدار ہو‘‘ نطشے کی نظر کمزور تھی اس لیے وہ فوج میں بھرتی نہ ہو سکا۔ چنانچہ اسے نرسنگ کے کام پر لگا دیا گیا۔ فکری اعتبار سے جنگ کی تلقین کرنے والے فلسفی نے میدان جنگ کی قیامت خیزیاں کہاں دیکھی تھیں۔ زخمی سپاہیوں کی حالت زار دیکھنے کی اس میں تاب نہ تھی۔زخموں سے رستا لہو وہ زیادہ دیر نہ دیکھ سکا اور بیمار پڑ گیا اور اسی حالت میں اسے واپس گھربھجوادیا گیا ۔(۲۶) عیسائیت سے بیزار ہونے کے بعد نطشے کسی سیاسی یا نیم سیاسی نظام حیات کے دامن میں پناہ نہ لے سکا۔ جمہوری یا اشتراکی نظام اس کے تسکین دل کا سامان مہیا نہ کرسکے۔ یہاں پھر اقبال نطشے کے ہم نواہیں جمہوریت کے بارے میں علامہ کہتے ہیں ۔ متاع معنیٔ بے گانہ ازدوں فطرتاں جوئی! زموراں شوخیٔ طبع سلیمانے نہ می آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نہ می آید ضرب کلیم میں اگرچہ علامہ نے یہ قطعہ اسٹینڈل کے حوالے سے لکھا ہے : اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے لیکن جمہوریت کے بارے میں نطشے نے بھی الفاظ قریب قریب یہی استعمال کئے ہیں(۲۷) نطشے کے سامنے جتنے بھی سیاسی نظام تھے اس کے نزدیک انسانی مسائل میں اضافہ کا سبب تھے نہ کہ مسائل زندگی کا حل، اس کی نظر میں اس کے زمانے کی ایک عام خاصیت یہ تھی۔ کہ انسان اپنی نظر میں بے وقار ہو کے رہ گیا ہے۔ انسان کے وقار کو دوبارہ بحال کرنے کا ذریعہ اس کے سامنے صرف فوق البشر تھا اور فوق البشر کی سب سے بڑی خاصیتیں نطشے کے نزدیک تخلیق آرزو اور قوت ارادی ہیں۔ گویا یہاں تک کہ نطشے کے فوق البشر اور اقبال کے مرد مومن میں بڑی مطابقت ہے ۔ افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں ــــــــــــ آں مسلمانے کہ بیند خویش را از جہانے برگزیند خویش را از ضمیر کائنات آگاہ اوست تیغ لا موجود اِلاّ اللہ اوست صبحش از بانگے کہ برخیز ذرجاں نے زنور آفتاب خاوراں فطرت اوبے جہات اندر جہات او حریم و در طوافش کائنات وجودش شعلہ از سوز درون است چوخس او را جہان چند و چون است کند شرح انا الحق ہمت او پئے ہر کن کہ می گوید یکون است لیکن نطشے ضابطہ حیات کے لیے طاقت کو بنیاد قرار دیتا ہے نہ کہ شفقت و کرم کو۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ فوق البشر کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ بہترین افراد بہترین افراد کے ساتھ شادی کریں۔ یہ گویا نسلی امتیاز پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہاں اقبال کا نظریہ نطشے سے مختلف ہو جاتا ہے کیونکہ اقبال کے نزدیک نسلی امتیاز غیر اسلامی اور غیر انسانی ہے ۔ جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابیٔ والا گہر (بانگ درا) ’’بقول زردشت‘‘ میں نطشے نے انسان کو ظالم ترین جانور کہا ہے لیکن اقبال کا مرد مومن قوت و جبروت اور شفقت و کرم کا امتزاج ہے ۔ ؎ جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں پیش باطل تیغ و پیش حق سپر امرو نہی او عیار خیر و شر عفو و عدل و بذل و احسانش عظیم ہم بہ قہر اندر مزاج او کریم نطشے کا فوق البشر اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہے ۔ وہ جبر و تشدد کا مجموعہ ہے اور کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے لیکن اقبال کا مرد مومن توحید پرست بھی ہے اور انسان دوست بھی ؎ مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لاالہٰ سایۂ شمشیر میں اس کی پنہ لا الٰہ خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاص جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دل نواز نرم دم گفت گو، گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز ــــــــــــ آدمیت احترام آدمی باخبر شو از مقام آدمی نطشے کا فوق البشر جہاں خودی سے آگاہ ہے وہاں اقبال کا مرد مومن خودی کے ساتھ بیخودی کا بھی رمز شناس ہے۔ گویا اقبال جہاں نطشے کے قلبی واردات کے قائل ہیں وہاں اس کے فلسفیانہ افکار کے قائل نہیں۔ اس کی غیب دانی، روشن ضمیری اور غیر معمولی بصیرت کی بنا پر اقبال نے اسے مجذوب اور’’ حلاج‘‘ کہا ہے ، اور اسی وجہ سے ’’ جاوید نامہ‘‘ میں نطشے کو مادی اور روحانی جہانوں کے درمیان … آں سوئے افلاک … ہی دکھایا ہے۔ مادی دنیا نطشے کا مقام اس لیے نہیں بن سکی کہ اس کا قلب مومن ہے اور روحانی دنیا کے قابل وہ اس لیے نہیں ہو سکا کہ اس کا دماغ کافر ہے ۔(۲۸) مطالعۂ کلام اقبال سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اقبال کو نطشے کی تحریروں کے ذریعے سے اس کی ذات کے ساتھ ایک خاص تعلق خاطر پیدا ہو گیا تھا اور انھیں نطشے کے الحاد سے دلی دکھ ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ اس بات کی حسرت کرتے تھے کہ کاش نطشے کو شیخ احمد سرہندی ایسا کوئی رہ نمائے کامل مل جاتا جو اس کے فلسفیانہ افکار کو سیدھے راستے پر ڈال دیتا ؎ برثغور ایں جہان چون و چند بود مردے با صداے درد مند دیدۂ او از عقاباں تیز تیز طلعت اوشاہد سوزِ جگر دم بدم سوز درونِ او فزود برلبش بیتے کہ صد بارش سرود ’’نہ جبر یلے، نہ فردوسے، نہ حورے، نے خداوندے کف خاکے کہ می سوزد زجانِ آرزو مندے‘‘ قاری کے لیے نطشے کی آتش دل کا بیان ان الفاظ میں کرنے کے بعد وہ رومی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ؎ من بہ رومی گفتم ایں دیوانہ کیست؟ گفت ’’ ایں فرزانۂ المانوی است درمیان ایں دو عالم جاے اوست نغمۂ دیرینہ اندر ناے(۲۹) اوست باز ایں حلّاجِ بے دار و رسن نوع دیگر گفتہ آں حرف کہن حرف او بے باک و افکارش عظیم غربیاں ازتیغِ گفتارش دو نیم نطشے کو ’’ بے دارورسن‘‘ حلاج کہہ کر اقبال نے نطشے کے نظریۂ فوق البشر کو دو حرفوں میں سمیٹ لیا ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اقبال رومی سے پوچھتے ہیں یہ دیوانہ کون ہے؟ رومی اقبال کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دیوانہ نہیں ہے بلکہ جرمنی کا مفکر ہے ۔ اور اس کا مقام انہی دونوں عالموں کے درمیان ہے۔ اس کی (۳۰) بانسری میں نغمہ دیرینہ موجود ہے۔ اس حلاج بے دارورسن نے حرف کہن کودوسرے انداز سے بیان کیا ہے(۳۱) اس نے جو کچھ کہا بڑی بے باکی سے کہا۔ اس کے خیالات عظیم ہیں اہل مغرب اس کی گفتار یا تیغ تنقید سے دو ٹکڑے ہوچکے ہیں ۔(۳۲) با تجلی ہم کنار و بے خبر دور ترچوں میوہ از بیخ شجر چشم او جزرویت آدم نہ خواست نعرہ بے باکانہ زد، آدم کجا است ورنہ او از خاکیاں بے زار بود مثل موسیٰ طالب دیدار بود کاش بودے در زمانِ احمدے تارسیدے برسرورے سرمدے فوق البشر کے علاوہ ایک اور اہم موضوع جس کے بارے میں اقبال اورنطشے کے خیالات کا ذکر کرنا ضروری ہے ’’ عورت‘‘ ہے عورت کے متعلق اقبال یہاں تک تو نطشے کے ہم خیال ہیں کہ مرد اور عورت میں مساوات کا سوال نہیں ہوتا لیکن وہ نطشے کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ’’ عورت مرد کے لیے ایک خطرناک کھلونا ہے‘‘ نہ ہی وہ نطشے کی طرح یہ کہتے ہیں کہ ’’ مرد کی تعلیم جنگی ماحول کے پیش نظر ہونا چاہئے اور عورت کی مرد کے دل بہلاوے کے پیش نظر۔‘‘ بلکہ وہ اس نظریے کی صاف مخالفت کرتے ہیں۔ بہل اے دخترک ایں دل بری ہا مسلماں را نہ زیبد کا فری ہا منہ بردل جمال غازہ پردرد بیا موز از نگہ غارت گری ہا ــــــــــــ جہاں رامحکمی از امہّات است نہاد شاں امین ممکنات است اگر ایں نکتہ را قومی نہ داند نظامِ کاروبارش بے ثبات است ــــــــــــ طینتِ پاک تو مارا رحمت است قوت دین و اساس ملت است می تراشد مہر تو اطوار ما فکر ما، گفتار ما، کردار ما جہاں نطشے نے یہ کہا ہے کہ عورت مرد کے لیے ایک خطرناک کھلونا ہے وہاں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مرد عورت کے لیے بچہ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ گویا نطشے مرد اور عورت کے تعلقات کو ایک حیاتی تعلق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اقبال اس تعلق کو ایک اعلیٰ سماجی اور روحانی سطح پر لے جاتے ہیں اور ان کے خیال میں : ؎ جو ہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتہ شوق آتشیں لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود نطشے اور اقبال کے خیالات کی مماثلت کی ایک ہلکی سی جھلک ان سطور میں پیش کی گئی ہے۔ یہ اقبال کے نطشے کے ساتھ فکری رشتے اور تعلق خاطر کی ایک جامع تصویر نہیں ہے جیسا کہ اس مقالے کے زیر نظر حصے کی ابتداء میں ذکر کیا جا چکا ہے ۔اقبال نطشے کے اکثر نظریات کو رد کرنے کے باوجود اس کی شخصیت سے بھی بے حد متاثر ہیں اور اس کی تحریروں سے بھی۔ نطشے کی شاعرانہ تحریروں کے اکثر حصوں کا علامہ نے بڑا گہرا اثر قبول کیا ہے اور انھیں اپنے کلام میں ایک نئے حسن کے ساتھ اور اپنے نظریے کے تحت پیش کیا ہے اس کی دوایک مثالیں یہ ہیں۔ میرا زمانہ ابھی نہیں آیا، کل کے بعد جودن آئیگا وہ میرا ہے۔ (نطشے) من نواے شاعر فردا ستم (اقبال) انسان کامل نسلوں کے انتخاب اور تیاریوں کے بعد منصہ شہود پر آتا ہے ۔ آج ایک ایک شخص جس صورت میں ہم لوگوں کے سامنے ہے اس میں اس کے آبائو اجداد کا لہو صرف ہو چکا ہے ۔ (نطشے) عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں (اقبال) ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ورپیدا (اقبال) مدتوں تک ہم اس شخصیت کے اجزا او رٹکڑے بن کر رہے ہیں جو ایک مکمل شخصیت اور مکمل نظام کہلائی جا سکتی ہے۔ (نطشے) بود و نبود ماست زیک جلوۂ صفات از لذت خودی چو شرر پارہ پارہ ایم (اقبال) صرف وہ شخص جو میری تحریروں کے ماحول میں سانس لینا جانتا ہے اس حقیقت سے آشنا ہے کہ یہ ماحول بلندیوں کا ماحول ہے یہ ایک ہمہ گیر ماحول ہے میرے قاری کو اس کے مطابق ہونا چاہئے ورنہ اس بات کا امکان ہے کہ یہ ماحول اسے ہلاک کر دے گا۔ (نطشے) نظر نہیں تو مرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ کہ نکتہ ہاے خودی ہیں مثال تیغ اصیل (اقبال) جمہوریت ………… افراد کو گننے کا ایک جنوں (نطشے) متاع معنیِ بے گانہ از دوں فطرتاں جوئی زموراں شوخیٔ طبع سلیمانے نہ می آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خرفکرِ انسانے نمی آید (اقبال) خطرے کی زندگی بسر کرو۔ اپنی بستیاں آتش فشاں پہاڑو سو پٹیس کے اس پار بسائو۔ اپنے جہازوں کو ان سمندروں میں بھیجو جو اب تک بنی نوع انسان کی رسائی سے دور رہیں۔ ( نطشے) بہ کیش زندہ دلاں زندگی جفاطلبی است سفر بہ کعبہ نہ کر دم کہ راہ بے خطر است گربخود محکم شوی سیل بلا انگیز چیست مثل گوہر دردل دریا نشستن می تواں (اقبال) رفیقش گفت اے یار خرد مند اگر خواہی حیات اندر خطرزی دما دم خویشتن رابرفساں زن زتیغ پاک گوہر تیز تر زی خطر تاب وتواں را امتحان است عیار ممکنات جسم و جان است (اقبال) اسے (نطشے کو) اس بات کا اندیشہ تھا کہ آرٹ لوگوں میں صلابت کے عوض نرمی پیدا کر دے گا۔ (ول ڈیوراں) من آں علم و فراست با پرکا ہے نہ می گیرم کہ از تیغ و سپر بے گانہ سازد مرد غازی را (اقبال) علامہ نے نطشے کے ان نظریات کو جس طرح اپنی ترمیم اور اضافے کے ساتھ لباس شعر پہنایا ہے وہ صرف ان کی فکری عظمت ہی کی نہیں بلکہ شاعرانہ عظمت کی بھی دلیل ہے۔ یہ کہنا کہ اس قسم کی مثالوں سے علامہ کی شاعرانہ عظمت پر حرف آتا ہے صحت مندانہ انداز سے نہیں بلکہ مریضانہ انداز سے سوچنے کا نتیجہ ہے۔ عظیم فکری شخصیتیں ہمیشہ ایک دوسرے سے متاثر ہوتی رہی ہیں۔ فوق البشر کا نظریہ ہو یا خودی کا۔ تاریخ فکر انسانی میں یہ کسی نہ کسی انداز میں ہر دور میں مل جائے گا۔ گیتا میں بھگوان کرشن کا صیغہ واحد متکلم اس خودی ہی کا ایک پر تو ہے اپنے اپدیش کے ذریعے سے کرشن جس طرح ارجن کے تنِ مردہ میں نئی جان ڈالتے ہیں اسے اقبال کے اس مصرع میں بیان کیا جا سکتا ہے : نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں یہی مرد مومن یا مرد کامل رامائن اور مہا بھارت کے زمانے میں بھی موجود ہے ۔اور رومی کے یہاں بھی ہے ۔ کار لائل کے یہاں یہی ’’ ہیرو‘‘ کہلاتا ہے ۔ اور شوپن ہائر کے یہاں’’ جینئس‘‘۔ اقبال کے یہاں یہ ’’ مردِ مومن‘‘ بھی ہے، ’’انسانِ کامل بھی اور ’’ دانائے راز ‘‘ بھی ۔ اقبال اور مغربی مفکرین ، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۸۷ء حوالے اور حواشی ۱۔ کارل مارکس ۵ مئی ۱۸۱۸ء کو جرمنی (رائنش پرشیا) کے شہر ٹریویس میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک یہودی وکیل تھا جو ۱۸۲۸ء میں مارٹن لوتھر کی تعلیمات کے زیر اثر پروٹسٹنٹ بن چکا تھا۔ کارل مارکس کا خاندان ایک خوش حال اور مہذب خاندان تھا اور انقلاب کے اثرات اس خاندان میں دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔ ٹریویس سے بی۔اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد مارکس پہلے بورن اور پھر برلن یونیورسٹی میں داخل ہوگیا۔ جہاں اس نے فقہ، تاریخ اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ ۱۸۴۱ء میں فارغ التحصیل ہو کر اس نے اپی کیورس کے فلسفے پر اپنا مقالہ ڈاکٹریٹ کے لیے پیش کیا۔ تعلیم کے ان مرحلوں سے فارغ ہو کے مارکس پھر بون آیا۔ اب اس کا ارادہ بون ہی میں لیکچرر بننے کا تھا لیکن اسے اس ارادے میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اگلے برس وہ کولون کے انقلابی اخبار رائنِش گزٹ کا ایڈٹیر مقرر ہوا۔ مارکس کی زیرادارت اس اخبار کا انقلابی پہلو اور زیادہ اُجاگر ہوتا چلا گیا۔ حکومت نے پہلے تو اخبار پر سنسر کی قیود عائد کیں لیکن بعد میں انھیں ناکافی سمجھ کر پوری طرح اخبار کو اپنے عتاب کے شکنجے میں کس لیا۔ مارکس نے مستعفی ہو کر اخبار کو بچانے کی کوشش کی لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی اور اخبار نے نامساعد حالات کی تاب نہ لا کر ۱۸۴۳ء میں دم توڑ دیا۔ اسی سال مارکس نے اپنے بچپن کی ایک دوست جینی وان ویسٹ فیلن نامی لڑکی سے شادی کی۔ یہ لڑکی جرمنی کے ایک رجعت پسند گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کا بھائی اس زمانے میں پرشیا کا وزیر داخلہ تھا۔ شادی کے فوراً بعد مارکس نے پیرس کا رخ کیا اور وہاں سے ایک ریڈیکل میگزین جاری کیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ اس میگزین کو چوری چھپے جرمنی میں تقسیم کیا جائے۔ لیکن اس مقصد میں اسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی اور ایک شمارے کے بعد ہی میگزین بند ہوگیا۔ پیرس میں قیام کے دوران میں کارل مارکس کی علمی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔ اس نے اپنے خیالات کی نشرواشاعت کے لیے متعدد کتابیں لکھیں اور یہیں اینگلز کے ساتھ اس کی دوستی کی بنیاد پڑی۔ اگلے برس پرشیا کی گورنمنٹ کے مطالبے پر مارکس کو پیرس سے شہر بدر کر دیا گیا۔ اس پر الزام یہ تھاکہ وہ ایک خطرناک انقلابی ہے۔ پیرس سے اس نے برسیلز کا رخ کیا۔ ۱۸۴۷ء میں مارکس اور اینگلز دونوں کمیونسٹ لیگ نامی ایک خفیہ پراپیگنڈا سوسائٹی کے ممبر بن گئے اور اس لیگ کی دوسری کانگریس میںجس کا اجلاس اسی سال لندن میں منعقد ہوا انھوں نے نمایاں حصہ لیا۔ یہیں ان دونوں نے مل کر کمیونسٹ مینی فیسٹو بنایا جس پر آگے چل کے کمیونسٹ سوسائٹی کی بنیادیں قائم ہوئیں۔ جب فروری ۱۸۴۸ء میں انقلاب برپا ہوا تو مارکس کو بلجیم سے نکل جانے کا حکم ملا۔ وہاں سے پیرس آیا اور پیرس سے پھر عازم جرمنی ہوا۔ وہاں ایک برس تک پھر اس نے اخبار نکالا۔ اس اخبار کی تحریریں پھر رنگ لائیں۔ پہلے تو مارکس کے خلاف عدالتی کارروائی ہوئی۔ جب اس سے اس کا کچھ نہ بگڑا تو اسے پھر جرمنی سے نکال باہر کیا گیا۔ جرمنی سے نکل کے وہ پھر پیرس میں آیا اور وہاں سے اس نے لندن کا رخ کیا جہاں وہ اپنے انتقال کے وقت تک رہا۔ مارکس کی جلاوطنی کا دور مصائب کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ اس کی ساری زندگی صرف دربدر پھرتے ہی نہیں گزری بلکہ انتہائی مفلسی کے عالم میں بسر ہوئی۔ اگر اینگلز وقتاًفوقتاً اس کی مالی امداد نہ کرتا تو اس کی تصنیف ’’سرمایہ‘‘ کے مکمل ہونے کی کوئی صورت ہی نہ تھی۔ سرمایہ تو ایک طرف رہی خود اس کی زندگی انتہائی ناکامیوں کا شکار ہو کے رہ جاتی۔ قیامِ لندن کے دوران ہی میں مارکس نے اپنے رفقأ کے ساتھ مل کر مشہورِ عالم پہلی انٹرنیشنل کی بنیاد ڈالی۔ مارکس اس انٹرنیشنل کی روح رواں تھا۔ اس انٹرنیشنل کا پہلا خطبہ،متعددرزولیوشن، اعلانات اور مینی فیسٹو مارکس ہی کے قلم کی مرہونِ منت ہیں۔ اس نے متعدد ممالک کی مزدور تحریکوں کو ایک لڑی میں پرویا۔ اور ان تمام ممالک میں پردلتاری جدوجہدکا ایک طریق کا روضع کیا۔ ۱۸۷۱ء میں پیرس کمیون کی ناکامی کے بعد یورپ میں انٹرنیشنل کا زندہ رہنا ناممکن ہوگیا۔ چنانچہ مارکس نے اس کی جنرل کونسل کو نیویارک میں منتقل کردیا۔ اس وقت تک پہلی انٹرنیشنل اپنا تاریخی رول ادا کر چکی تھی۔ دنیا کے ہر ملک میں مزدور تحریک شروع ہوچکی تھا اور اکثر ملکوں میں سوشلسٹ پارٹیاں یا مزدور جماعتیں معرضِ وجود میں آچکی تھیں۔ انٹرنیشنل کے قیام اور اس کی کامیابی کے لیے اوراپنے خیالات کو تحریری صورت میں پیش کرنے کے لیے مارکس کو جو دماغی اور جسمانی محنت کرنا پڑی اس سے اس کی صحت بری طرح متاثر ہوئی ’’سرمایہ‘‘ کی تکمیل کا کام اس کے علاوہ تھا۔ جس کے لیے اسے صرف گوشے گوشے سے نیا موادہی جمع نہیں کرنا پڑا بلکہ متعدد زبانیںجن میں روسی بھی شامل تھی سیکھنا پڑیں۔ یہ تمام محنت اس کے لیے جان لیواثابت ہوئی اور بالآخر ۱۴مارچ ۱۸۸۳ء کو جبکہ وہ اپنی آرام کرسی میں محو فکر تھا اس کی روح عالم بالا کو پرواز کرگئی۔ ۲۔ سرور صاحب اس حقیقت کو نہ جانے کیسے فراموش کر گئے ہیں کہ اشتراکیت جب روح کی نفی کرتی ہے تو روح اور اشتراکیت میں یہ رشتہ کیونکر ممکن ہے۔ ۳۔ مولانا جمال الدین الا فعانی (۱۸۳۸۔۱۸۹۷ع) نے اوّل اوّل اشتراکیت کے تصور کو اسلام کے ساتھ وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس موضوع پر اپنے مقالات میں جو انھوں نے ۱۸۹۲۔۱۸۹۷ع کے درمیان لکھے بحث کی ہے ’’مسلم ورلڈ‘‘ ہارٹ فورڈ کنکٹی کٹ (جنوری ۱۹۶۷ع) میں پروفیسر سامی اے ہانا نے ’’الافغانی اشتراکیت الاسلام کا پہلا رہنما‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا ہے جس میں البرٹ ہورانی کے اس خیال کی تردید کی ہے کہ ’’اگرچہ اشتراکیت الاسلام کی ترکیب شبلی شمائل ۱۸۱۷ئ۔۱۸۶۰ع نے وضع نہیں کی لیکن غالباً وہ پہلا مصنف تھا جس نے عربی زبان و ادب میں اشتراکیت کے مفہوم کو فروغ دیا۔‘‘ اس مقالے میں پروفیسر ہانا نے مصطفی السبا نامی ایک مصنف کی کتاب ’’اشتراکیت الاسلام‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ مقالے کے آخر میں مصنف لکھتے ہیں: ’’اس امر کی بڑی ضرورت ہے کہ اسلامک سوشلزم کے تصور پر مزید روشنی ڈالی جائے۔ اس موضوع پر جو خیالات آج کل پیش کیے جا رہے ہیں ان کا بظاہر تاریخ سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس تصور کی صحیح اہمیت کا پتہ نہیں چل رہا۔ اشتراکیت کے موضوع پر مزید تحقیق کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ اس کا عرب تہذیب (اسلامی تہذیب نہیں) کے ساتھ ایک فطری تعلق نظر آتا ہے۔ ۴۔ اس کا ایک تیسرا سبب بعض پڑھے لکھے ہندوستانیوں کا ضعفِ ایمان بھی ہو سکتا ہے وہ ترقی پسندی کے شوق میں اپنے آپ کو سوشلسٹ یا کمیونسٹ کہلانا بھی پسند کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ ہندو یا مسلمان بھی کہلائیں اور سنا ہے کمیونزم اور سوشلزم کے بعض بہی خواہ ایسے بھی ہیں جو تحریروں اور تقریروں میں مذہب کی پورے طور سے نفی کرتے ہیں لیکن وہ تو ہم پرستی کی حدتک مذہب سے وابستہ ہیں اور ان انجمنوں کے ساتھ بھی ان کا ربط و ضبط ہے جن کی بنیاد مذہب ہی نہیں فرقہ پرستی ہے: معشوق مابہ شیوہ ہرکس برابر است باما شراب خورد و بہ زاہد نماز کرد یہ طرز عمل صرف ’’صنعفِ ایمان‘‘ ہی نہیں بلکہ مصلحت اندیشی کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ ۵۔ اگرچہ جواہر لال نے اپنی تحریر میں تاریخ ملاقات بیان نہیں کی لیکن یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب پنڈت جی جنوری ۱۹۳۸ء میں ڈاکٹر محمد عالم بیرسٹرایٹ لا کے ازالہ حیثیت عرفی کے استغاثے میں شہادت دینے کے لیے لاہور تشریف لائے تھے اور میاں افتخار الدین کے یہاں ٹھہرے تھے۔ اس ملاقات کے دوران میں میاںافتخارالدین بھی موجود تھے اور راجہ حسن اختر بھی۔ لاہور میں اس ملاقات کا بڑا چرچا ہوا اور اقبال کا یہ فقرہ کہ ’’جواہر لال آپ محب وطن ہیں اور جناح سیاست داں‘‘ لاہور میں بچے بچے کی زباں پر تھا۔ مجھ سے اس ملاقات کا ذکر ڈاکٹر محمد عالم نے کیا تھا۔ جن کا میں ۴۶۔۴۵ء میں پرائیویٹ سیکرٹری رہا۔ ۶۔ جناح کے بارے میں اس رائے سے جواہر لال نہرو کے مندرجہ ذیل خیالات کی بھی تردید ہوتی ہے جو انھوں نے اقبال کے بارے میں دریافت ہند میں بیان کئے ہیں: ’’اقبال پاکستان کے اولین حامیوں میں سے تھے لیکن اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان خطرات کو جان گئے تھے جو تصور پاکستان سے وابستہ تھے اوراس تصور کے کھوکھلے پن سے بھی آشنا تھے۔ ایڈورڈتھامسن نے لکھا ہے کہ بات چیت کے دوران میں اقبال نے انھیں بتایا کہ میں نے پاکستان کی حمایت محض اس لیے کی ہے کہ میں مسلم لیگ کا صدر ہوں۔ ورنہ انھیں اس بات کا احساس تھا کہ یہ ہندوستان کے لیے بہ حیثیت مجموعی اور مسلمانوں کے لیے خاص طور سے مضرت رساں ثابت ہوگا (اس کا سبب یہ تھا کہ)غالباً بعد میں ان کے خیالات میں تبدیلی آگئی تھی یا شروع میں انھوں نے اس سوال پر پوری طرح سے غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت تک اس سوال کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ زندگی کے بارے میں اقبال کا نظریہ اول سے آخر تک، ان حالات و واقعات کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتا جو تصور پاکستان یا تصور تقسیم ہند کے نتیجے کے طور پر رونما ہوتے چلے گئے۔‘‘ ۷۔ روس کا مشہور مصلح جس نے یورپ کی سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کی۔ (اقبال) ۸۔ جرمنی کا مشہور اسرائیلی ماہر اقتصادیات جس نے سرمایہ داری کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ اس کی مشہور کتاب موسوم بہ سرمایہ کو مذہب اشتراک کی بائیبل تصور کرنا چاہیے۔ (اقبال) ۹۔ جلوہ دہد باغ وراغ معنی مستور را عین حقیقت نگر حنظل و انگور را فطرت اضداد خیز لذت پیکار داد خواجہ و مزدور را، آمرو مامور را (اقبال) ۱۰۔ٹالسٹائی کی زبان سے یہ شعر کہلا کے اقبال نے ہیگل کے فلسفے پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ اسی ہیگل کے بارے میں اقبال ایک اور جگہ پر کہہ چکے ہیں، ہیگل کا صدف گہر سے خالی ہے اس کا طلسم سب خیالی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہیگل کا فلسفہ اکثر مقامات پر آکر ’’کوہ کندن و کاہ برآوردن‘‘ بن کے رہ جاتا ہے اور پھر اس کا اندازبیان ایسا ہے کہ جو چاہے اس کی اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق تاویل کرسکتا ہے۔ کس قدر حیرت کا مقام ہے کہ ایڈورڈکیئرڈ نے ہیگل کا تتبع کیا تو اس نے عیسایئت کے اصول عقل کی روشنی میں پیش کیے اور مارکس اس کے نقشِ قدم پر چلا تو اس نے روحانیت سے قطعی انکار کیا اور مادہ پرستی کی بنیاد رکھی۔ ۱۱۔ میرا معشوق یعنی سرمایہ دار ۱۲۔ یہی مزدور کی برتری کا مضمون اردو میں ایک اور سحر کارانہ انداز سے ہمارے سامنے آتاہے، جب فرشتے خدا سے کہتے ہیں۔ خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہہ و میر وپیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلندبام ابھی اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو اس آخرالذ کر شعر سے بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال کس حد تک مارکسزم کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ ۱۳۔ اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخ آہوپر رہی صدیوں تک تیری برات ۱۴۔ آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا ۱۵۔ اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ۱۶۔ کرمکِ ناداں طوافِ شمع سے آزاد ہو اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو عرب خود را ز نورِ مصطفی سوخت چراغ مردئہ مشرق برا فروخت ولیکن آں خلافت راہ گم کرد کہ اول مومناں را شاہی آموخت (ارمغانِ حجاز) خلافت برمقام ما گواہی است حرام است آں چہ برما پادشاہی است ملوکیت ہمہ مکراست و نیرنگ خلافت حفظِ ناموسِ الٰہی است ۱۸۔ اسرار سے مراد یہ نظریہ ہے کہ پیدا وار کا انحصار سرمائے پر نہیں بلکہ محنت پر ہے۔ ۱۹۔ ایڈورڈتھامسن، جواہر لال نہرو اور کانٹ ویل اسمتھ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اقبال عمر کے آخری حصے میں مطالبہ پاکستان کے حامی نہیں رہ گئے تھے۔ میں یہاں اس موضوع کو زیر بحث نہیں لائوں گا۔ اگرچہ اس کا اقبال اور اشتراکیت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ اقبال اگر واقعی اشتراکی بن چکے تھے تو ان کا مطالبہ پاکستان سے دست بردار ہونا لازمی تھا لیکن اقبال کی کوئی تحریر (نظم و نثر) نہ تو ان کے اشتراکی ہونے کی شہادت دیتی نہ اس بات کی کہ وہ مطالبہ پاکستان سے دست بردار ہو گئے تھے۔ ویسے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس مسٔلے پر کھل کر بحث کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری نئی نسل اقبال کے بارے میں کم از کم اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ اقبال نے اپنے دور کی اہم ہستیوں سے کہا کچھ اور اور کتابوں میں لکھا کچھ اور۔ ۲۰۔ کانٹ ویل اسمتھ نے اپنی کتاب ہندوستان اور پاکستان میں جدید اسلام میں ڈاکٹر تاثیر کا یہ فقرہ نقل کیا ہے لیکن اپنی طرف سے اس میں لفظ ’’جہنّم‘‘ کا اضافہ کر دیا ہے اور فقرہ یوں مکمل کیا ہے کہ اقبال لینن کو جہنّم میں قیصر کی سطح پر لے آئے ہیں۔ معلوم نہیں اسمتھ نے یہ لفظ جہنم کہاں سے شامل کیا ہے۔ کیونکہ یہ لفظ نہ تو کہیں اقبال کی نظم میں آیا ہے نہ ڈاکٹر تاثیر کی مذکورہ تحریر میں۔ ۲۱۔ ڈاکٹر تاثیر نے اپنی اس تحریر میں اس خلط مبحث کو اور بھی آگے بڑھایا ہے اور یہ کہنے کے بعدکہ اقبال کے نزدیک ایک سوشلسٹ ملک خودی کی نشوونما کے لیے بہتر مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ انھوں نے اقبال کو سامراج، سرمایہ داری اور ہر قسم کے ذرائع استحصال کا دشمن ظاہر کیا ہے۔ یہاں تک تو خیر بات صحیح ہے لیکن اس کے بعد ڈاکٹر تاثیر لکھتے ہیں کہ ’’خودی پر اس قدر زور دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بعض دفعہ ’’شیطان‘‘ اور اس کے زندہ نمونوں (مسولینی وغیرہ) کی بھی تعریف کر دیا کرتے تھے۔‘‘ جہاں تک ابلیس کے جذبہ بغاوت کا تعلق ہے اقبال نے اسے سراہا ہے اور یہ اقبال کی شاعری کا بہت ہی نمایاں پہلو ہے: ’’میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح‘‘ اور ’’رجیم و کافر و طاغوت خواندند‘‘ اس کی روشن مثالیں ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ اقبال شیطان کے زندہ نمونوں مثلاً مسولینی وغیرہ کی تعریف کر دیا کرتے تھے۔ فکر اقبال کے بے احتیا ط مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے مسولینی پر دو نظمیں کہی ہیں۔ ایک بال جبریل میں ہے دوسری ضرب کلیم میں۔ (یہاں میں ان نظموں کی بات نہیں کررہا ہوں جن میں محض مسولینی کا ذکر موجود ہے مثلاً ایبے سینا (۱۸ اگست ۱۹۳۵ء )’’تہذیب کا ۔۔۔۔کمال شرافت کا ہے زوال‘‘ ’’غارت گری جہاں میں ہے اقوام کی معاش ہر گرگ کو ہے برئہ معصوم کی تلاش‘‘ یا ’’کون بحرِ روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا گاہ بالد چوں صنوبر گاہ نالد چوں رباب‘‘ بالِ جبریل والی نظم اس وقت کہی گئی جب مسولینی اپنی جدوجہد سے اٹلی کا ڈکٹیٹر بنا۔ اس وقت تک اس کا کوئی شیطانی روپ دنیا پر ظاہر نہیں ہوا تھا۔ اس کا شیطانی روپ دنیا پر اس وقت ظاہر ہوا جب اس نے ایبے سینا پر حملہ کیا۔ اس وقت اقبال نے مسولینی کے پردے میں اس ساری غارت گری اور آدم کشی کو اپنا ہدف بنایا جو مغربی اقوام کا شیوہ رہی ہے۔ مسولینی نے جب ایبے سینا پر حملہ کیا تو لیگ آف نیشنر نے اٹلی پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا جس کے جواب میں مسولینی خداوندانِ لیگ سے کہتا ہے: ؎ میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج آلِ سیرز چوبِ نے کی آبیاری میں رہے اور تم دنیا کی بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشتِ دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج پردئہ تہذیب میں غارت گری آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے میںروا رکھتا ہوں آج ۲۲۔ ہم چناں بینی کہ در دورِ فرنگ بندگی با خواجگی آمد بجنگ روس را قلب و جگر گردیدہ خوں از ضمیرش حرف لا آمد بروں آں نظام کہنہ را برہم زد است تیز نیشے بررگِ عالم زداست کردہ ام اندر مقاماتش نگہ لا سلاطیں، لاکلیسا، لاالہٰ ! فکرِ او ورتند بادِ لا بماند مرکبِ خود را سوئے الاّ نراند آیدش روزے کہ از زورِ جنوں خویش را زیں تند باد آرد بروں در مقام لا نیا ساید حیات سوئے الاّ می خرا مد کائنات لا و الاّ سازو برگِ امّتاں درمحبت پختہ کے گردد خلیل تانہ گردو لا سوئے الاّ دلیل اے کہ اندر حجرہ ہا سازی سخن نعرئہ لا پیش نمرو دے بزن ایں کہ می بینی نیرزد بادو جو ازجلالِ لا الہٰ آگاہ شو ہر کہ اندر دستِ او شمشیر لاست جملہ موجودات رافرماں رداست (پس چہ باید کرداے اقوام شرق) ۲۳۔ ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طبِّ مغرب میںمزے میٹھے، اثر خواب آوری گرمیِٔ گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زر گری (بانگِ درا) ۲۴۔ یہاں اقبال ایک طرح سے زمین کی ملکیت کے بارے میں اشتراکیت پر اسلام کی برتری ظاہر کر رہے ہیں۔ ۲۵۔ یہ مصرع اقبال نے کارل مارکس کے بارے میں بھی دہرایا ہے۔ آں کہ حق در باطلِ او مضمر است قلب او مومن و ماغش کافر است ۲۶۔ جاوید اقبال اپنے ایک مضمون ’’ابّاجان‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’ابّا جان کی بڑی تمنا یہ تھی کہ میں تقریر کرنا سیکھوں۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ میں کشتی لڑا کروں۔ اس سلسلے میں میرے لیے گھر میں ایک اکھاڑہ کھدوا دیا گیا تھا وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اکھاڑے کی مٹی پر ڈنٹر پیلنا یا لنگوٹی باندھ کر لیٹ رہنا صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ پھر بڑی عید کے روز ہمیشہ مجھے تلقین کیا کرتے تھے کہ بکرے کے ذبح ہوتے وقت میں وہاں موجود رہوں لیکن اپنا یہ حال تھا کہ کسی قسم کا خون بہتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ ایک دفعہ دالان میں مجھے جو کھیلتے ہوئے ٹھوکر لگی تو منہ کے بل گرا۔ میرا نچلا ہونٹ اندر کٹ گیا۔ ابّا جان اتفاق سے ادھر آنکلے اور میرے منہ سے خون بہتا دیکھ کر بجائے اس کے کہ میرے قریب پہنچیں یا مجھ سے پوچھیں: ’’ کیا ہوا ہے‘‘۔ وہ چند لمحوں کے لیے ساکت ومبہوت کھڑے رہے۔ پھر ان کے قدم ڈگمگائے اور وہ بے ہوش ہو کر وہیں گر پڑے۔ جب ہوش آنے پر انھیں بتایا گیا کہ معمولی چوٹ تھی اور اب میں ٹھیک ہوں تو بڑے متعجب ہوئے۔ کہنے لگے کہ اس کے منہ سے تو خون کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔‘‘ ۲۷۔ جمہویت افراد کو گننے کا ایک جنون ہے۔ (نطشے) ۲۸۔ جہاں تک اقبال کے نظریہ مرد مومن کا تعلق ہے عام خیال یہ ہے کہ اقبال نے یہ نظریہ نطشے کے نظریہ فوق البشر سے مستعار لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے مرد مومن اور نطشے کے فوق البشر میں کسی حد تک مماثلت کے پہلو موجود ہیں۔ میں نے سطورِ بالا میں دونوں پہلوئوں کی کسی حد تک نشان دہی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس ضمن میں علامہ اقبال کی اپنی ایک تحریر پر نظر ڈالنا اس موضوع کے مطالعے کے لیے ناگزیر ہے۔ جس زمانے میں ڈاکٹر نکلسن نے اسرارِ خودی کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا۔ اور غالباً یہ ۱۹۱۸ء کی بات ہے۔ بعض انگریز نقادوں نے اپنے مقالات میں علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو موضوع بحث بنایا تھا اور انھوں نے اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا تھا کہ اقبال کا تصور مرد مومن نطشے کے تصور فوق البشر کی صدائے بازگشت ہے۔ اقبال نے اس سلسلے میں ڈاکٹر نکلسن کے نام اپنے ایک خط میں لکھا تھا: ’’مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ اسرار خودی کا ترجمہ انگلستان میں قبول عام حاصل کر رہا ہے۔ بعض انگریز تنقید نگاروں نے اس سطحی تشابہ اور تماثل سے جو میرے اور نطشے کے خیالات میں پایا جاتا ہے دھوکا کھایا ہے اور غلط راہ پر پڑ گئے ہیں۔ ’’دی انتھیم‘‘ والے مضمون میں جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں وہ بہت حد تک حقائق کی غلط فہمی پر مبنی ہیں لیکن اس غلطی کی ذمہ داری صاحب مضمون پر عائد نہیں ہوتی۔ وہ لاعلمی کی بنا پر معذور ہے۔ اس نے اپنے مضمون میں میری جن نظموں کا ذکر کیا ہے اگر اسے ان کی صحیح تاریخ اشاعت کا بھی علم ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ میری ادبی سر گرمیوں کے نشر و ارتقا کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ بالکل مختلف نظر آتا۔ وہ انسانِ کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خلط مبحث کر کے میرے انسان کامل اور جرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کرلیا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً بیس سال قبل انسان کامل کے صوفیانہ عقیدے پرقلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں ۔۔۔۔۔۔نطشے بقائے شخصی کا منکر ہے۔جو شخص حصول بقا کے آرزومند ہیں وہ ان سے کہتا ہے: ’’ کیا تم ہمیشہ کے لیے زمانے کی پشت کا بوجھ بنے رہنا چاہتے ہو؟‘‘ اس کے قلم سے یہ الفاظ اس لیے نکلے ہیں کہ زمانے کے متعلق اس کا تصور غلط تھا۔ اس نے کبھی مسئلہ زبان کے اخلاقی پہلو کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ بہ خلاف اس کے میرے نزدیک بقا انسان کی بلند ترین آرزو اور ایسی متاعِ گراں مایہ ہے جس کے حصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمل کی تمام صور و اشکال مختلفہ کو جن میں ’’تصادم و پیکار‘‘ بھی شامل ہے ضروری سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک ان سے انسان کو زیادہ استحکام و استقلال حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں نے سکون و جمود اور اس نوع کے تصوف کو جس کا دائرہ محض قیاس آرائیوں تک محدود ہو، مردود قرار دیا ہے۔ میں تصادم کو سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں۔ حالانکہ اس باب میں نطشے کے خیالات کا مدار غالباً سیاست ہے۔‘‘ (ترجمہ مکتوب علامہ اقبالؒ ، از عبدالرحمن طارق) ۲۹۔ ’’نائے ‘‘ حلق کو بھی کہتے ہیں۔ ۳۰۔ ’’نائے‘‘ حلق کو بھی کہتے ہیں۔ ۳۱۔ یہاں اس نکتے کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ حلاج نے جب انا الحق کہا تھا تو اس نے انائے مقیّد کو حق (خدا)قرار دیا تھا۔ نطشے نے بھی ایک طرح سے انا الحق ہی کہا لیکن اس کے کہنے کا طریقہ مختلف تھا یعنی اس نے انائے مقید کو فوق البشر کا نام دیا تھا۔ ۳۲۔ نطشے نے مسیحی فلسفہ اخلاق پر زبردست حملہ کیا ہے۔ (اقبال )خدا اور مذہب سے بیزار ہوجانے کے بعد اس نے بڑی بے باکی کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر تنقید کی۔ اقبال اور شپنگلر ڈاکٹر وزیر آغا ابن خلدون کی استثنائی مثال سے قطع نظر جدید دور سے قبل تاریخ کو تہذیبی عوامل کے حوالے سے جانچنے اور سمجھنے کا عمل ناپید رہا ہے البتہ پچھلے ڈیڑھ دو سو برس میں متعدد زاویہ ہائے نگاہ وجود میں آئے ہیں اور اب تہذیبوں کے عروج و زوال بلکہ ان کی پیدائش سے موت تک کے مراحل کو سمجھنا خاصا آسان ہو گیا ہے۔ تاریخ کو جانچنے کا ایک مقبول زاویہ تو یہ ہے کہ اسے بادشاہوں یا بادشاہوں کے خاندانوں کی تاریخ قرار دیا جائے۔ تعلیم کے ابتدائی درجوں میں بھی یہی زاویہ مستعمل ہے۔ ایک اور زاویہ یہ ہے کہ تاریخ کو زمین اور اس کے ثقافتی عوامل کی کارکردگی کا ثمر شیریں (یا تلخ) متصور کیا جائے۔ ایک زاویہ مارکسی ہے جو تاریخ کو پیداواری ذرائع کی تبدیلی کا شاخسانہ قرار دیتا ہے اور ایک نفسیاتی جس کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کے جبلی میلانات کو جب دبا دیا جاتا ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح یا تو معاشرتی لبادے کو پھاڑ کر اودھم مچانے لگتے ہیں اور پھرھن، منگول، تاتار، دائکنگ، وینڈل یا ہکسو کی طرح پورے خطوں کو روند ڈالتے ہیں یا پھر قلب ماہیت کے ذریعے ایک بہتر اور برتر تہذیب کو وجود میں لانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ تاریخ کو جانچنے کا ایک اور زاویہ یہ ہے کہ اسے بڑی بڑی شخصیتوں کے اعمال کا نتیجہ قرار دیا جائے مثلاً سکندر اعظم، ہنی بال، نپولین ، ہٹلر وغیرہ کے بارے میں کہا جائے کہ ان میں سے ہر ایک نے تاریخ کے ایک پورے دور کو جنم دے ڈالا تھا۔ ایک زاویہ اصلاً مذہبی اور روحانی ہے اور تاریخ کو خیر اور شر کی قوتوں کے باہمی تصادم کا نتیجہ سمجھتا ہے، مگر اس سلسلے میں سب سے مقبول نظریہ وہ ہے جسے فلسفہء تاریخ کا نام ملا ہے اور جس کے ساتھ ہیگل، شپنگلر، ٹائن بی اور سوروکن کے نام وابستہ ہیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں جب علامہ اقبال یورپ گئے تو اس زمانے میں شپنگلر کے نظریات کی بڑی دھوم تھی۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال کو بھی ان نظریات کو جاننے کے مواقع ملے مگر عام لوگوں کی طرح علامہ نے شپنگلر کو کلیتاً قبول یا کلیتاً ردنہیںکیا بلکہ اس کے بعض نتائج سے اختلاف اور بعض سے اتفاق کیا۔ تاہم شپنگلر کے نظریات کو زیر بحث لا کر دراصل اپنے نظریہ ثقافت کے سارے خدوخال واضح کر دیے۔ لہٰذا ثقافت کے بارے میں علامہ اقبال کے موقف کو سمجھنے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ پہلے شپنگلر کے موقف سے تعارف حاصل کر لیا جائے۔ شپنگلر نے اپنی کتاب زوال مغرب میں تین ثقافتوں کے خدوخال کو واضح کیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے انہیں ایک دوسری سے متمیز بھی کر دیا ہے۔ ان میں ایک ثقافت تو قدیم ہے جس کے نمائندوں میں قدیم یونان اور ہندوستان شامل ہیں اور جسے شپنگلر نے کلاسیکی کلچر کا نام دیا ہے، دوسری ثقافت یورپی ہے جس کا نمائندہ فائوسٹ (Faust)ایسا بے قرار فرد ہے۔ لہذا شپنگلر نے اسے (Faustian culture) کا نام دیا ہے۔ تیسری ثقافت مشرق وسطی اور اس کے مذاہب سے منسلک ہے اور اس کو شپنگلر نے (Magian culture) کہہ کر پکارا ہے۔ کلاسیکی کلچر مزاجاً تاریخ سے بے بہرہ اور ’’یادداشت‘‘ سے محروم ہوتا ہے۔ گویا کلاسیکی آدمی کی زندگی میں ماضی اور مستقبل کے بجائے صرف زمانہء حال موجود ہوتا ہے۔ کلاسیکی کلچر میں زندگی کی بے ثباتی کا تصور اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے سحر میں جکڑے ہوئے لوگ اپنے مردوں کو بھی زمین میں دفن نہیں کرتے، گویا زندگی بعد از موت کے قائل نہیں چنانچہ قدیم ہندوستان اور ہومر (Homer) کے یونان میں مردوں کو جلانے کی رسم کو فروغ ملا جب کہ مشرق وسطی کے ممالک بالخصوص مصر میں موت کی نفی کا رویہ اہرام مصر کی صورت میں سامنے آیا۔ اسی طرح کلاسیکی ریاضی میں اشیاء کو وقت سے ماورا حاضر و ناظر جاننے کا رجحان ابھرا جو بالاخر اقلیدس کے فروغ پر منتج ہوا، جب کہ جدید دور والوں کی ساری توجہ اشیاء کی غیر متغیر حالت کے بجائے ان کے متغیر ہونے کے عمل پر مرتکز ہوئی ہے۔ لہذا تجزیاتی جیومیٹری وغیرہ کو فروغ ملا ہے کلاسیکی دنیا بقول شپنگلر فطرت سے یکسر ہم آہنگ ہونے کی صورت ہے بعینہ جیسے پودا زمین سے چمٹا ہوتا ہے۔ کلاسیکی عبادت گاہیں مثلاً مندر ’’کھڑکی‘‘ سے نا آشنا ہر قدم پر دائرے کے انداز میں مڑی ہوئی عبارتیں ہیں۔ گویا ہر شے ایک ’’مرکز‘‘ کے گرد طواف کر رہی ہے یوں سمت اور اس کی گہرائی کی یکسر نفی ہو گئی ہے۔ شپنگلر نے کلاسیکی کلچر کی روح کو مزاجاً اپالو(Apolla) کے اوصاف کا حامل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ کلاسیکی انسان باہر کے بجائے اندر کی طرف جھانکتا ہے۔ کلاسیکی کلچر پس منظر کو محض ایک تصویر قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے اور کلاسیکی بت ایسے ہی ہے جیسے موجود فطرت کی ایک قاش ہو۔ وہ سرتاپا ایک اقلیدسی جسم ہے جو نہ دیکھتا ہے اور نہ بولتا ہے اور ناظر کے وجود سے تو وہ قطعاً بے نیاز رہتا ہے۔ کلاسیکی کلچر میں کولمبس (Columbus) کی طرح سیاحت کرنے کے میلان کا فقدان ہے۔ وہاں تو سمادھی لگا کر چپ چاپ بیٹھنا اور غور و فکر کرنا ہی اصل حیات ہے۔ اقبال ذہنی اور جذباتی طور پر کلاسیکی کلچر اور اس کے سریانی تصورات کو ناپسند کرتے تھے، اس لئے بھی کہ ان کے نزدیک اسلامی کلچر کلاسیکی کلچر سے مزاجاً ایک مختلف شے تھا۔ چانچہ اپنے خطبات میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ قرآن کی روح بنیادی طور پر کلاسیکی انداز فکر کی ضد ہے۔ کلاسیکی کلچر کے بعد مشرق وسطی کے کلچر کا ذکر ہونا چاہئے۔ جِسے شپنگلر نے مجوسی کلچر (Magian Culture) کا نام دیا ہے۔ شپنگلر کے مطابق مجوسی کلچر کے ممالک کی فضا پراسرار ہے۔ جس طرح صحرا میں رات اور دن کی حدود بہت واضح ہوتی ہیں، اسی طرح وہاں خیر اور شر بھی بالکل الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ بدروحیں انسان کو زک پہنچاتی ہیں مگر پریاںاور فرشتے اسے خطرات سے بچاتے ہیں۔ اس فضا میں پراسرار علاقے، شہر اور عمارات ہیں، تعویذ ہیں، آب حیات اور سلیمانؑ کی انگشتری ہے اور پھر کارواں کی وہ لرزتی ٹمٹماتی ہوئی روشنی ہے جسے بے پایاں تاریکی نگل جانے کے لئے ہمہ وقت مستعد نظر آتی ہے۔ اس کلچر میں روشنی تاریکی کے خلاف اور خیر شر کے خلاف جہاد اکبر میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ تمام کائنات کے پس پشت صرف ایک ہی علت اولیٰ ہے اور یہ علت اولیٰ کسی اور سبب کے تابع نہیں شپنگلر کے مطابق مجوسی سوسائٹی میں اجماع تو ہے مگر فرد کی خودی موجود نہیں۔تمام افراد زندوں کے علاوہ مردوں سے بھی ہم رشتہ اور منسلک ہیں۔ اس کلچر کا فرد رات کی گہری تاریکی سے نبرد آزما ہے اور چاہتا ہے کہ روشنی آئے تاکہ تاریکی کا عفریت کچل دیا جائے۔ چنانچہ تاریکی کو روشنی میں اور پارے کو سونے میں تبدیل کرنے کی خواہش پروان چڑھتی ہے۔ چاندنی رات پارے کی طرح سیمیں اور تغیر آشنا ہے جب کہ دن سونے کی طرح چمک دار، زردی مائل اور ثابت و سالم ہے۔ جب اس کلچر کا فرد کیمیا گری کے فن کو اختیار کرتا ہے اور پارے کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دراصل رات کو دن بنا دینے اور شرکی تاریکی کو خیر کی روشنی سے دور کرنے کی سعی کرتا ہے۔ اس کلچر میں تقدیر کا عمل دخل بہت زیادہ اور تقدیر کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا میلان قوی ہے۔ قانون اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جو اس کے برگزیدہ بندوں کے ذریعے خلق خدا تک پہنچتا ہے ۔ شے کے مخفی اوصاف کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لہٰذا مجوسی کلچر کیمیا گری کے پراسرار علم کا محافظ اور اس لئے خود بھی پراسرار ہے۔ بقول شپنگلر : ’’یہ کلچر ایک ایسی روح کا کلچر ہے جو بڑی جلدی میں ہے، جسے اپنے اندر جوان ہونے سے پہلے ہی عہد پیری کے آثار نظر آنے لگتے ہیں‘‘ بحیثیت مجموعی مجوسی کلچر کے بارے میں یہ تصویر ابھرتی ہے کہ اس کا فرد نہ صرف پوری کائنات میں متصادم قوتوں (مثلاً خیر اور شر، روشنی اور تاریکی، اہرمن اور اہرمز)کے ڈراما کو ہر دم دیکھتا ہے بلکہ ایک اسم اعظم کے ذریعے خیر اور روشنی کو غالب آنے میں مدد بھی دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ دیوتائوں کی کثرت کے تصور کو مسترد کر کے ایک ہی الوہی قوت پر ایمان لاتا ہے اور اجماع کے ذریعے رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ تیسرا کلچر جس کا ذکر شپنگلر نے کیا ہے ’’یورپی کلچر‘‘ ہے جس کے لئے اس نے فائوسٹ کے حوالے سے (Faustian Culture) کا نام تجویز کیاہے۔ فائوسٹ ایک بے قرار روح ہے جو ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اور ایک خاص منزل کی طرف رواںدواں ہے اور یہی شپنگلر کی نظروں میں یورپی کلچر کے بنیادی اوصاف ہیں۔ مجوسی کلچر میں ’’کیوں اور کب‘‘ کو اہمیت حاصل تھی مگر فائوسٹن کلچر میں کیا اور کیسے کو اہمیت ملی ہے اور یہ بنیادی طور پر ایک استقرائی اور سائنسی انداز نظر ہے۔ یونانی ڈراما اصلاً واقعات کا ڈراما تھا لیکن یورپی ڈراما کردار کا ڈراما ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یورپی کلچر میں فرد کی انفرادیت کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ہندوستان اور یونان میں کردار کے بجائے مثالی نمونے ابھرے لیکن یورپ کرداروں کا ذخیرہ ہے اور ان میں سے ہر کردار کولمبس کی طرح اپنی دھرتی سے منقطع ہو کر سفر کرتا اور نئی نئی دنیائوں کو دریافت کرتا ہے۔ گویا یورپی کلچر کے فرد میں ایک بیقرار روح موجود ہے جو خواہش کی بیقراری کے لئے ایک علامت ہے۔ مثالی نمونے اس کلچر میں نمودار ہوتے ہیں جو فرد کو معاشرے کا تابع مہمل بنا دیتے ہیں جب کہ کردار اپنے معاشرے سے ہر دم متصادم رہتا ہے۔ ہندوستانی فضا میں لنگ کی پوجا کا تصور عام تھا اور انسان خود کو فطرت سے منسلک محسوس کرتا تھا، بعینہ جیسے پودا دھرتی سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن یورپی کلچر میں ’’ماں اور بچے‘‘ کا رشتہ ابھرا ہے جو دراصل کلچر میں ’’مستقبل‘‘ کے عنصر کی پیدائش پر دال ہے۔ بقول شپنگلر : مغربی کلچر کی روح ایک بے پایاں احساس تنہائی میں مبتلا ہے۔ فرد اور معاشرے کے درمیان ہی نہیں، فرداور فرد بلکہ فردکی داخلی اور خارجی دنیا کے درمیان بھی بڑا فاصلہ ہے۔ اس کلچر میں ’’کھڑکی‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ کھڑکی تجربے کی گہرائی کی علامت ہے اور انسان کی اس خواہش کا اعلامیہ ہے کہ وہ زندان سے باہر نکل کر لامحدود کا نظارہ کرے۔ یورپی کلچر کا ایک اور وصف اس کا تحرک اور جہت ہے۔ یہ بات مغربی موسیقی میں بہت نمایاں ہے جہاں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک پوری فوج بینڈکی آوازسے ہم آہنگ ہو کر کسی منزل کی طرف ایک ساتھ قدم بڑھا رہی ہو۔ اسی طرح مصوری میں تناظر کا شدید احساس نمایاں ہے جو فاصلے کے عنصر کو اور بھی گہرا کر دیتا ہے۔ ادب میں صورت یہ ہے کہ مغربی کلچر میں پیدا ہونے والا ’’المیہ‘‘ بنیادی طور پر ایک فرد کی داستان عروج و زوال ہے جب کہ کلاسیکی ’’المیہ‘‘ واقعات کی اساس پر استوار ہوتا ہے۔ یورپی ڈراما حرکت ہی حرکت ہے، جب کہ مشرقی ڈراما انفعالیت ہی انفعالیت! ایک گہرا احساس تنہائی اور فاصلے کا شعور کلاسیکی کلچر سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے، کیونکہ وہاں ہر شے قریب ہے اور درخت زمین کا اور فرد معاشرے کا سہارا لیتا ہے جب کہ یورپی کلچر میں ایک داخلی نشبخ ہے، فاصلہ ہے، ایک گہرا احساس تنہائی ہے، تحرک کا احساس اور سمت کا شعور ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ مراجعت ممکن نہیں۔ بحیثیت مجموعی مغربی کلچر کا فرد سوچ کے آشوب میںمبتلا ہے اور تغیر اور حرکت کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ بجائے خود قوت کی ایک قاش ہے، خواہش کا ایک ٹکڑا ہے اور یہ قوت، یہ خواہش، کسی مقصد کی ڈور سے بندھی ہوئی ایک خاص سمت میں اسے لے جارہی ہے۔ فائوسٹن کلچر کا فرد ’’میں‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک بے قرار، متحرک، خواہشات کی زد میں آئی ہوئی ’’میں‘‘ اور جس بڑی ’’میں‘‘ سے اس کا سامنا ہے وہ بھی منفعل نہیں بلکہ فرد ہی کی طرح فعال ہے! لہذا یہ فرد اپنے طور پر لامحدود کے بارے میں نتائج کا استخراج کرتا ہے اور اپنی خودی پر انحصار کرکے پوری کائنات کے روبرو سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اپنے ’’خطبات‘‘ میں علامہ اقبال نے شپنگلر کے اس نظریے کو تو مان لیا کہ مغربی کلچر اصلاً کلاسیکی کلچر کی ضد تھا تاہم انھوں نے شپنگلر کی بات کو نہیں مانا کہ ہر کلچر ایک جزیرے کی طرح باقی کلچروں سے کٹا ہوتا ہے۔ اس سے علامہ اقبال کا مقصود فقط اس بات کا اظہار تھا کہ اسلامی کلچر ہی نے مغربی کلچر کو کروٹ دی ہے اور اگر شپنگلر کو مغربی کلچر کلاسیکی کلچر کی ضد نظر آیا ہے تو مغربی کلچر کا یہ وصف بھی دراصل اس بغاوت ہی کا نتیجہ ہے جو مسلمانوں نے یونانی افکار کے خلاف کی تھی۔ مراد یہ کہ مغربی تہذیب اور اس کی ’جہت‘ مغربی علوم اور ان کا پھیلتا ہوا افق، مغربی انداز فکر اور اس کا استقرائی اور تجزیاتی انداز۔ یہ سب کچھ مغربی تہذیب کے فروغ سے پہلے اسلامی تہذیب میں موجود تھا اور وہیں سے سلطنت کی طرح دست بدست ہوتا ہوا مغرب کے ہاتھوں میں آیا۔ اقبال کہتے ہیں کہ یہ بات شپنگلر کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ اگر وہ اس بات کو مان لیتا تو اس کا وہ سارا نظریہ ہی باطل قرار پاتا جو نہ صرف مختلف ثقافتوں کے درمیان ایک مستقل خلیج قائم رکھنے کا داعی ہے بلکہ ثقافتوں کے ایک دوسری پر اثرات مرتسم کرنے کی حقیقت کو بھی نہیں مانتا۔ مگر اقبال اصولی طور پر اس بات کے حق میں تھے اور یہی حقیقت پسندانہ رویہ بھی ہے۔ بے شک اقبال نے دبی زبان سے اسلامی کلچر پر مجوسی کلچر کے چھلکے کا وجود تسلیم کیا مگر وہ کہتے تھے کہ یہ چھلکا اس اسلامی کلچر سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا جو اس کے نیچے ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ یوں دیکھیے تو اقبال نے مجوسی کلچر اور یورپی کلچر کے فرق کو تسلیم کیا مگر اسلامی کلچر اور یورپی کلچر کو ایک ہی تہذیبی تسلسل کی مختلف کروٹیں قرار دیا۔ مگر کیا واقعی مجوسی کلچر یورپی کلچر سے کوئی مختلف شے تھا اور کیا یہ بات واقعتاً درست ہے کہ اسلامی کلچر نے اس مجوسی کلچر کو جھٹک کر اپنے اوپر سے الگ کیا تو وہ اپنے اصل روپ میں دکھائی دیا؟ واضح رہے کہ مجوسی کلچر سے شپنگلر کی مراد وہ مشترکہ کلچر تھا جو مشرق وسطیٰ کے مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت، زرتشتی مذہب اور اسلام سے منسلک تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ مجوسی کلچر کا علاقہ ایران، شام، فلسطین اور جزیرہ نما عرب سے لے کر مصر تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر جب اس سارے علاقے کے کلچر کے خدوخال کو دیکھا جائے تو اس کے اوصاف قریب قریب وہی نظر آتے ہیں جو اسلامی کلچر سے خاص تھے اور جو بعد ازاں اسلامی کلچر کی وساطت سے مغربی کلچر میں نمودار ہوئے۔ لہذا مغربی کلچر مجوسی کلچر کی ضد نہیں بلکہ اس کی توسیع ہے۔ اقبال نے یہ کیا کہ ایک طرف تو مجوسی کلچر اور اسلامی کلچر میں حد فاصل قائم کی، دوسری طرف اسلامی کلچر اور مغربی کلچر میں مماثلت دریافت کی۔ زیر نظر مطالعہ کے لئے اقبال کا یہ نظریہ کہ اسلامی کلچر کے اثمار ہی مغربی کلچر تک پہنچے ہیں اور اس لئے مغرب کے تجزیاتی، استقرائی اور عقلی رویے اسلامی تہذیب کی روح سے متصادم نہیں، بے حد خیال انگیز ہے کہ اس سے اقبال پر خرد دشمنی کا الزام باطل ہو جاتا ہے۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اسلامی کلچر نے مجوسی کلچر کی بعض رسوم اور ظواہر کو تو مسترد کیا مگر اس کی ذہنی اور فکری جہات سے قطع تعلق نہ کیا۔ وجہ یہ کہ مجوسی روح اپنے مرزبوم کا ثمر تھی اور یہی مرزبوم اسلامی کلچر کو بھی ورثے میں ملا تھا۔ مرزبوم کا ذکر آیا ہے تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مجوسی کلچر کو ان علاقوں میں فروغ ملا جن میں زیادہ تر صحرا تھے یا پھر سطح مرتفع تھی جو ایک بے سنگ میل منطقے کی صورت میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بے شک اس خطہء ارضی میں ’’زرخیز ہلال‘‘ (Fertile Crescent) کا علاقہ بھی تھا، مگر پورے علاقے کے تناظر کو ملحوظ رکھیں تو یہ ’’زرخیز ہلال‘‘ محض ایک نخلستان ہی کی صورت میں نظر آئے گا۔ صحرا کی صورت یہ ہے کہ اس میں تمام سمتیں یکسر ناپید ہو جاتی ہیں اور صحرا میں سفر کرنے والے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارئہ کار نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنے مقام کا تعین آسمان کے حوالے سے کرے۔ اسی لئے مجوسی کلچر میںآسمانی ڈرامے نیز آسمانی مظاہر، کو اس قدر اہمیت ملی ہے۔ صحرا بھی سمندر ہی کی طرح ہوتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ سمندر میں پانی کی لہریں ہوتی ہیں اور صحرا میںریت کی موجیں۔ ورنہ جس طرح سمندر میں سمت باقی نہیں رہتی اور مسافر کو قطب ستارے کی مدد سے اپنے مقام کا تعین کرنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح صحرا کا باسی بھی زمینی نشانات سے اپنے مقام کا تعین نہیں کرسکتا اور آسمانی مظاہر مثلاً سورج اور چاند کے طلوع و غروب یا ستاروں کے حوالے سے سمت دریافت کرتا ہے۔ پھر جس طرح سمندر میں کشتی یا جہاز کے سوا سفر ممکن نہیں، اسی طرح صحرا میں اونٹ کے بغیر سفر محال ہے۔ چنانچہ اسی لئے اونٹ کو سفینتہ الصحرا کا لقب ملا ہے کہ اونٹ بھی کشتی ہی کی ایک صورت ہے۔ مجوسی کلچر کے باشندوں کو ایک تو پانی کے سمندر تک رسائی حاصل تھی، دوسرے وہ ریت کے سمندر میں مصروف خرام رہتے تھے اور بقول غالب: بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا۔ لہذا انہوں نے ایک طرف بادبانی کشتی اور دوسری طرف صحرائی اونٹنی کا سہارا لیا اور ایک مسلسل سفر یا سیاحت کی عادل ڈال لی۔ یہی سیاحت پسندی اسلامی کلچر کا بھی امتیازی وصف ہے اور یورپی کلچر کا بھی۔ لہذا جہاں یورپ والوں نے کئی امریکہ دریافت کئے وہاں مجوسی کلچر اور پھر اسلامی کلچر سے وابستہ لوگوں نے بھی ایک مستقل سفر ہمیشہ اختیار کیا۔ عرب جہاز ران کہاں کہاں نہیں گئے۔ فونیشیا والوں نے پورے بحیرئہ روم کو تختہء مشق بنایا۔ مصر کے ڈیلٹا والوں نے مینیز (Menes) کے زمانے ہی میں سمندر کو عبور کر کے کرٹین یا منوان تہذیب کی بنیاد رکھ دی تھی۔، اسی طرح سمیریا کے باشندوں نے مصر سے لے کر ہندوستان تک کے سارے علاقے میں تجارت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کوئی کلچر زمین سے پوری طرح وابستہ ہوتا ہے تو اس سے متعلق لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان کے ہاں زرعی کلچر کا پورا نظام ابھر آتا ہے، لیکن جب کوئی کلچر اپنے اندر تحرک اور جہت پیدا کرتا ہے تو تجارت کو فروغ ملتا ہے۔ تجارت کے لئے ذہن کی چمک دمک، نفع نقصان کا شعور، انفرادیت کا احساس اور موجود کو واقعی سمجھنے کا رجحان بہت ضروری ہے ورنہ سفر محض سنیاس کی صورت اختیار کر لے گا۔ چنانچہ مجوسی کلچر اور اس کے بعد اسلامی کلچر میں زمین کے اثمار کو اہمیت ملی ہے۔ موجود کو واقعی متصور کیا گیا ہے اور سمت کا تعین اس لئے کیا گیا ہے کہ شخصی اور قومی سطحوں پر ذات کا تشخص ہو سکے۔ زرعی معاشرے میں رہنے والا شخص اپنے معاشرے سے پوری طرح وابستہ ہوتا ہے۔ ذات پات، پیشہ، مذہب اور دنیاوی مقام کے اعتبار سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے، لیکن صحرا کے متحرک معاشرے میں اس شخص کے لئے معاشرے کا تابع مہمل ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ لہذا وہاں ’’فرد‘‘ جنم لیتا ہے۔ فرد اس لئے بھی جنم لیتا ہے کہ سفر کرنے والے گروہ کو ایک رہبر یا لیڈر کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوتی ہے، بعینہ جیسے آسمان پر اسے سورج یا قطب ستارہ ایسے رہبروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ صحرا کے تناظر میں اپنے ’’مقام‘‘ کا تعین کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مجوسی کلچر اور اس کے بعد اسلامی کلچر میں ’’فرد‘‘ پیدا ہوا جو معاشرے سے وابستہ بھی تھا اور اس سے آزاد بھی! غزل کے اس شعر کی طرح جو پوری غزل سے وابستہ ہونے کے باوصف اپنی منفرد حیثیت میں ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی آئینہ ہو جاتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں غزل ایسی صنف شعر کو کیوں فروغ ملا۔ بہر کیف فرد کی انفرادیت کی نمود مجوسی کلچر اور پھر اسلامی کلچر کا طرئہ امتیاز ہے (عرب کا باشندہ بنیادی طور پر انفرادیت پسند تھا اور ہے) اور یہی وصف مغربی کلچر کو بھی حاصل ہے کہ وہاں بھی فرد نے ہمیشہ اپنی انفرادیت کا تحفظ کیا ہے۔ مجوسی کلچر میں آسمان ایک مستقل حیثیت رکھتا تھا اور اس میں جابجا نشانیاں تھیں مگر زمین پر ریت کے ٹیلوں کا لامتناہی سلسلہ سدا اپنی صورت بدلتا رہتا تھا۔ تاہم زمین پر دو ’’نشانیاں‘‘ مستقل نوعیت کی بھی تھیں۔ ایک کھجور، دوسرا اونٹ، اور ان دونوں نے مجوسی کلچر کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا، مثلاً کھجور کی ہئیت کو میناروں نیز عربوں کے لباس کی مخصوص تراش خراش میں باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اونٹوں کی پوری قطار گزرتے ہوئے لمحات کے تسلسل کو سامنے لاتی ہے۔ چنانچہ مجوسی کلچر میں اگر زماں کا ایک حرکی تصور پیدا ہوا ہے تو اس کا نہایت گہرا تعلق کارواں کے سفر سے بھی ہے۔ کلاسیکی کلچر میں زماں کا تصور ’’اب‘‘ کے مرکزی نقطے کو عبور کرنے پر قادر نہیں تھا، لیکن مجوسی کلچر میں پورے قبیلے کے مسلسل سفر نے زماں کے تینوں منطقوں کا احساس دلایا۔ چنانچہ حال کے علاوہ ماضی اور مستقبل سے بھی وابستگی پیدا ہوئی اور ان تینوں کے ازلی و ابدی تسلسل کا ادراک کیا گیا۔ جیسا کہ سب کو علم ہے، مجوسی کلچر میں شجرئہ ِنسب کی روایت نے جنم لیا جو ماضی سے رشتہ استوار کرنے ہی کی ایک کاوش تھی۔ اونٹوں کی قطار سے اس کی مماثلت بھی قابل غور ہے۔ اسی طرح اس کلچر کے تحت ’’قیامت‘‘ کے تصور کو رواج ملا جو تاریخ کی مستقبل بعید تک توسیع کا اعلامیہ تھا۔ واضح رہے کہ خودمجوسی کلچر اس قدیم ارضی تہذیب سے پھوٹا تھا جو کسی زمانے میں پورے افریشیا کی تہذیب تھی، مگر پھر جب موسمی تبدیلیوں کے باعث بڑے بڑے صحرا وجود میں آگئے تو اس کے اثرات ’’زرخیز ہلال ‘‘ کی تہذیبوں مثلاً سمیریا اور مصر وغیرہ میں تو برقرار رہے مگر باقی سارے خطے پر آوارہ خرام قبائل کا کلچر مسلط ہوتا چلا گیا۔ یہ نیا کلچر مجوسی تاریخ کے حرکی تصور سے فیض یاب اور فرد کی انفرادیت کے ظہور سے عبارت تھا۔ بحیثیت مجموعی مجوسی کلچر کی سطح تخلیقی تھی۔وہ اس طرح کہ جو کلچر پوری طرح زمین سے وابستہ ہو جائے اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور ایک مادی نقطہء نظر اس قدر غالب آجاتا ہے کہ وہ تخلیقی طور پر فعال نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہر وہ کلچر جو زمین سے خود کو پوری طرح منقطع کر لیتا ہے محض ہوا میں معلق ہونے کے باعث تخلیقی طور پر بانجھ ہو جاتا ہے۔ مجوسی کلچر کا امتیازی وصف یہ تھا کہ اس نے زمین اور جسم کی تطہیر پر زور دیا، یعنی ارض کو آسمان سے ہم رشتہ کر دیا۔ یہی فن کا طریق بھی ہے کہ وہ جسم کو اس کے بوجھ سے آزاد کر کے ارفع اور سبک اندام بنا دیتا ہے۔ مجوسی کلچر میں سے دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کی نموداس کے تخلیقی رخ ہی کا کرشمہ تھا اور یہی تخلیقی رخ اسلامی کلچر میں بھی نمودار ہوا کیونکہ دونوں کی مرزبوم ایک ہی تھی۔ شپنگلر نے مجوسی کلچر کی اصل روح کو پیش نہیں کیا۔ یہ کام اقبال نے سرانجام دیا جب انہوں نے مجوسی کلچر کے چھلکے کو تو مسترد کر دیا مگر اس کے مغز کو قبول کر لیااورپھر دیکھا کہ یہی مغز اسلامی کلچر میں بھی موجود تھا۔ تب انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ یورپی کلچر نے جس روح اور اس کی جہت کا مظاہرہ کیا تھا وہ اصلاً اسلامی کلچر ہی کی روح تھی۔ اس حوالے سے اقبال نے عقلی اور استقرائی رویے کو بھی اسلامی کلچر ہی کا ثمر قرار دیا اور کہا کہ یہی ثمر مسلمان مفکرین کے ذریعے یورپ تک پہنچاتھا اور پھر نشاۃ الثانیہ کے سلسلے میں ایک بہت بڑا محرک بن گیا تھا۔ اقبال ریویو، لاہور، جنوری، ۱۹۸۳ء اقبال اور بعض شخصیات ڈاکٹر معین الدین عقیل اقبال کی فکر میں جدید دنیاے اسلام کے تقریباً تمام اہم مسائل، افکار اور تحریکات کی باز گشت محسوس ہوتی ہے۔ اقبال نے ایک تو جدید دنیائے اسلام کو پیش آنے والے مسائل پر اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے یا جو تحریکیں جدید دنیائے اسلام میں اصلاحی و تعمیری مقاصد کے تحت رونما ہوئیں، ان کی تائید و تحسین کی ہے یا ایسی شخصیات جن کے افکار دنیائے اسلام کو متاثر کرنے کا سبب بنے، اقبال کی فکر کو بھی کسی نہ کسی طور پر متاثر کرتی نظر آتی ہیں۔ بہت بڑے بڑے مسائل، افکار اور تحریکات کے علاوہ خود اقبال کے اپنے عہد میں بعض ایسی شخصیات، ان کے افکار اور ان کی تحریکیں پیدا ہوئیں، جن کی اقبال نے یا تو تائید و حمایت کی یا ان میں دلچسپی لی۔ ایسی شخصیات اور تحریکات کا مقصد چونکہ مجموعی طور پر احیائے اسلام رہا ہے، اس لیے اقبال نے احیائے اسلام، مسلمانوں کی فلاح و بہبود، ترقی اور بیداری کا ذکر کرتے ہوئے اور اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے ان شخصیات و تحریکات کی تعریف وتحسین کی یا بطور مثال ان کا حوالہ دیا ہے۔ اس ضمن میں ایسی شخصیات، جنھوں نے اپنی راسخ فکر اور اپنی مفید کاوشوں سے دنیائے اسلام کو متاثر کیا، متعدد ہیں اور اقبال نے ان میں سے بیشتر کاذکر کیا ہے لیکن بعض شخصیات اور ان کے کارنامے اقبال کی نظروں میں زیادہ پسندیدہ اور زیادہ قابل توجہ رہے، مثلاً ٹیپو سلطان کی شخصیت اور ان کی جدو جہد اقبال کے لیے بڑی پسندیدہ اور مثالی تھی۔ ٹیپو کی شہادت کو وہ دنیائے اسلام کی تاریخ میں بے حد اہم سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں ٹیپو کی شہادت (۱۷۹۹ئ) کے بعد مسلمانوں کی ہندوستانیوں میں سیاسی نفوذ حاصل کرنے کی جو امید تھی، اس کا بھی خاتمہ ہوگیا (۱) اسی سال جنگ نوارینو، لڑی گئی، جس میں ترکی کا بحری بیڑا تباہ ہوا، جس کے نتیجے میں، اقبال کے خیال میں ایشیا میں اسلام کا انحطاط اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ (۲) اور اسی کے زیر اثر وہ سمجھتے تھے کہ جدید اسلام اور اس کے مسائل ظہور میں آئے (۳) اقبال کو ٹیپو سے جو عقیدت تھی اس کا اظہار اس امر سے ہوتا ہے کہ جب وہ دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری ایام اور جنوری ۱۹۲۹ء کے اوائل میںجنوبی ہند کے سفر پر گئے تو میسور میں بالخصوص ٹیپو کے مزار پر پہنچے۔ (۴) اسی عرصہ میں اقبال ٹیپو پر ایک نظم لکھ کر اپنی اس کتاب (جاوید نامہ)میں شامل کرنا چاہتے تھے، جسے وہ اپنی زندگی کا ماحصل بنانے کے خواہش مند تھے (۵) چنانچہ جاوید نامہ (اشاعت ۱۹۳۲ئ) میں اقبال نے ’’سلطان شہید‘‘ کے عنوان سے چند صفحات پر مشتمل اشعار نظم کیے۔ ان اشعار میں اقبال نے حقیقت حیات و مرگ و شہادت کے موضوع پر جو خیالات بیان کیے ہیں، وہ جاوید نامہ کے اہم مقامات میں سے ہیں۔ جاوید نامہ کے علاوہ اقبال نے ضرب کلیم (اشاعت ۱۹۳۵ئ) میں بھی ایک نظم ’’سلطان ٹیپو کی وصیت‘‘ کے عنوان سے لکھی۔ اس نظم میں انھوں نے ٹیپو کی سیرت کے حوالہ سے ان اصولوں کی وضاحت کی ہے، جن پر ٹیپو ساری عمر کار بند رہے۔ مہدی سوڈانی (۶) کی شخصیت اور جدو جہد کے حوالہ سے اقبال کی یہ آرزو رہی کہ مسلمانوں کے انتشار اور زوال کے اس دور میں کاش کوئی ایسا شخص پیدا ہوجائے، جو اپنے پیغام سے قوم کے دل میں جہاد کا ولولہ پیدا کردے: سارباں یاراں بہ یثرب ما بہ نجد آں حدی کہ ناقہ را آرد بہ وجد جاوید نامہ میں اقبال نے مہدی سوڈانی کے حوالہ سے مسلمانوں کو جہاد اور سخت کوشی کی تلقین کی ہے اور عالمِ عرب کے سرکردہ رہنمائوں کو مخاطب کر کے سوال کیا ہے کہ تم کب تک اس طرح تفرقہ کا شکار بنے رہو گے؟ کب تک اپنی ذاتی ترقی کے لیے کوشاں رہو گے؟ کب تک ملت اسلامیہ کے مفاد عمومی سے غافل رہو گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے سوز پیدا کرو اور اسلام کی سربلندی کے لیے متحد ہوجائو۔ اس مقام پر وہ سوڈان کے مسلمانوں سے بڑی امیدیں وابستہ کرتے ہوئے انھیں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہونے کا پیغام دیتے اسی ذیل میں وہ فرعون کی روح کے حوالہ سے کچنر (ہربرٹ کچنر)سے سوال کرتے ہیں کہ مہدی سوڈانی کی قبر کھود کر اور ایک مرد مومن کی نعش کی بے حرمتی کر کے تمہاری قوم کی حکمت میں کیا اضافہ ہوا؟ (۷) سعید حلیم پاشا (۸) سے، بالخصوص قومیت اور تہذیب و معاشرت میں اس کے خیالات سے، اقبال بہت متاثر تھے۔ چنانچہ اپنے خطبے The Principle of Movement in the Structure of Islam. میں جو ان کے ’’خطبات‘‘ کے مجموعے میں شامل ہے، ترک وطن پرستوں کے لادینی نظریۂ سیاست کی تردید کرتے ہوئے اس ضمن میں سعید حلیم پاشا کے خیالات کی تائید اور تعریف کی ہے۔ خصوصاً قومیت کے تعلق سے ان کے خیالات کہ اسلام کا کوئی وطن نہیںہے اور نہ کسی ترکی اسلام کا کوئی وجود ہے، نہ عربی ، ایرانی اور ہندی اسلام کا (۹)، اقبال کے خیال میں وہ ’’نہایت ہی با بصیرت اہلِ قلم‘‘ تھے (۱۰) اور اس کا طرزِ فکر سراسر اسلامی تھا (۱۱) جاوید نامہمیں بھی اقبال نے ان کے ایسے خیالات پیش کیے ہیں کہ جن میں مغربی تہذیب سے گریز کا پیغام ملتا ہے۔ حلیم پاشا کے حوالہ سے اقبال کہتے ہیں کہ تقلید مغرب کے بجائے مسلمانوں کو قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوجائے گا کہ اسلام ایک ایسا ضابطۂ حیات ہے جو دنیا میں کسی اور قوم کے پاس نہیں۔ اگر مسلمان اس پر عمل کریں تو ساری دنیا ان کے قدموں پر جھک سکتی ہے۔ اسی موقع پر انھوں نے ترکوں کی اس روش پر تنقید کی کہ وہ قرآن سے بیگانہ ہو کر مغرب کی تقلید کر رہے ہیں۔ آگے چل کر ایک اور مقام پر اقبال حلیم پاشا کے توسط سے علماء اور صوفیہ کو ان کی اہمیت جتاتے ہوئے انھیں مسلمانوں کو ماضی سے روشناس کرانے اور انھیں ان کے مقام اور مقصد سے آگاہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں (۱۲) اقبال مفتی عالم جان بارودی (۱۳) کی ان مساعی کے بھی قدر داں تھے، جنہوں نے روس میں مسلمانان وسط ایشیا کی فکری رہنمائی کی اور مسلمانوں کی پستی کا علاج جدید تعلیم کو قرار دیا تھا (۱۴) اقبال کا خیال تھا کہ وہ غالباً محمد بن عبد الوہاب سے متاثر تھے (۱۵) چونکہ ان کے بارے میں اقبال کی معلومات محدود تھیں، اس لیے انھیں تفصیلات معلوم کرنے کا اشتیاق رہا۔ مولانا سید سلیمان ندوی سے انھوں نے اس ضمن میں استفسار کیا تھا کہ مفتی عالم جان کی تحریک کی اصل غایت کیا تھی۔ یہ محض ایک تعلیمی تحریک تھی یا اس کا مقصود مذہبی انقلاب بھی تھا؟ (۱۶) چنانچہ رسالہ معارف(اعظم گڑھ) مئی ۱۹۲۲ء میں مفتی عالم جان کے حالات پر مشتمل ایک مضمون ’’علمائے روس‘‘ شائع ہوا تو اقبال نے سید سلیمان ندوی کو لکھا کہ وہ ’’میری آرزو سے بڑھ کر ہے‘‘ (۱۷) اقبال کو اس تحریکِ انقلاب سے بھی دلچسپی رہی جو چینی ترکستان کے مسلمانوں میں نمودار ہو رہی تھی۔ ۱۹۱۴ء میں وہاں چینی منصفوں کے تقرر اور حکومت کی طرف سے وہاں کی آبادی پر، جو تقریباً سب مسلمانوں پر مشتمل تھی، چینی زبان مسلّط کرنے کی وجہ سے بڑی بے چینی پھیل گئی تھی۔ مسلمان یہاں عرصہ سے چینیوں کے ظلم و ستم سہتے آئے تھے۔ اس کے نتیجے میں بعد میں جو بغاوت ۱۹۳۰ء میں شروع ہوئی اس کی قیادت ما چونگ ینگ نامی ایک کم سن مسلمان نے کی۔ اقبال اس کی جدو جہد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چنگیز، تیمور اور بابر کا وطن اب بھی اعلیٰ درجے کا بہادر سپہ سالار پیدا کر سکتا ہے (۱۸) اقبال سمجھتے تھے کہ اس تحریک کی کامیابی سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ چینی ترکستان میں، جہاں مسلمانوں کی تعداد تقریباً ۹۹ فیصد ہے، ایک خوشحال اور مستحکم اسلامی مملکت قائم ہوجائے گی اور اس طرح وہاں کے مسلمان ہمیشہ کے لیے چینیوںکے برسوں کے ظلم و ستم سے نجات حاصل کر سکیں گے (۱۹) اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ہندوستان اور روس کے درمیان ایک اور اسلامی مملکت کے قیام سے اشتراکیت، مادہ پرستی، دہریت اور لادینیت کے خطرات وسط ایشیا سے بالکل نہ مٹے تو کم از کم ہندوستان کی سرحدوں سے زیادہ دور ہو جائیں گے (۲۰) اقبال کو ہندوستان کے بھی بعض زعماء کی اصلاحی، تبلیغی اور احیائی مساعی سے بھی دلچسپی رہی۔ مثلاً مولوی ابو محمد مصلح (۲۱) کی تحریک قرآن کی، جس کا مقصد قرآن حکیم کی تعلیم، معنی ِاور مطلب کے ساتھ عام اور لازمی کرنا تھا، انھوں نے تائید و تحسین کی تھی (۲۲) ابو محمد مصلح کے نام اپنے ایک خط میں انھوں نے لکھا تھا کہ قرآنی تحریک کا مقصد مبارک ہے، اس زمانہ میں قرآن کا علم ہندوستان سے مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں نئی زندگی پیدا کی جائے، کیا عجب کہ آپ کی تحریک بار آور ہو اور مسلمانوں میں قوت عمل پھرعود کر آئے (۲۳) اسی ضمن میں اقبال نے ان کی ان کاوشوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جو وہ ترویج تعلیم قرآن کے سلسلہ میں انجام دیتے رہے۔ انھیں تحریک قرآن کی رفتار سے بھی دلچسپی رہی (۲۴) ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے فرزند جاوید اقبال کے لیے وہ ان کا مرتب کیا ہوا قاعدہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جس میں، ان کی تحریر کے مطابق، بچوں کو قرآن پڑھانے کا نیا طریق ایجاد کیا گیا تھا(۲۵) اقبال نے سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی تحریک کو بھی، جو گو کہ ابھی اپنے تشکیلی اور ابتدائی مراحل میں تھی، اور ان کی تصانیف بالخصوص الجہاد فی الاسلام اور تنقیحات اور ان کے مجلّہ ترجمان القرآن میں ان کی تحریروں سے اس کا آغاز ہو چکا تھا (۲۶) اپنی آخری عمر میں اپنی توقعات کا مرکز بنا لیا تھا۔ اس عرصہ میں ان کی یہ خواہش ہوگئی تھی کہ ایک ادارہ ایسا قائم کریں اور کچھ ایسے افراد کو، جو جدید علوم سے بہرہ ور ہوں، چند ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کردیں، جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو، تاکہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہوسکیں (۲۷) وہ چاہتے تھے کہ کسی پرسکون مقام پر ایک ایسی مختصر سی بستی کی بنیاد رکھی جائے، جہاںخالص اسلامی ماحول پیدا کیا جائے اور وہاں بہترین دل و دماغ کے نوجوانوں کو ایسی تربیت دی جائے جس سے ان میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کی اہلیت پیدا ہوجائے (۲۸) چنانچہ ان کی اسی خواہش کے پیش نظر چودھری نیاز علی خاں نے پٹھان کوٹ کی اپنی اراضی میں سے ایک قطعہ اس مقصد کے لیے وقف کردیا اور اقبال سے باہمی صلاح و مشورہ کے بعد (۲۹) مولانا مودودی کو جو اس وقت حیدر آباد دکن میں مقیم تھے، پٹھان کوٹ منتقل ہونے کی دعوت دی، چنانچہ مولانا مودودی مارچ ۱۹۳۸ء میں نقل مکانی کر کے پٹھان کوٹ پہنچ گئے (۳۰) اقبال مولانا مودودی کے خیالات سے بڑی حد تک متفق تھے اور ترجمان القرآن میں ان کے مضامین کی تحسین و تعریف کرتے تھے (۳۱) علمی کاموں میں اس وقت اقبال کے پیش نظر اسلامی قانون اور فلسفہ کی تدوین کا کام تھا، اور وہ خود بھی اس کام کے دوران گاہے گاہے دارالسلام (پٹھان کوٹ) جانے کا ارادہ رکھتے تھے (۳۲) لیکن اقبال کی زندگی میں وہ مقصد ابتدائی مرحلہ سے آگے نہ بڑھ سکا، جسے کچھ عرصہ بعد ’’جماعتِ اسلامی‘‘ کے قیام اور تحریک اسلامی کے فروغ سے مولانا مودودی نے پورا کرنے کی جدو جہد کی۔ دراصل اقبال کی فکر میں جدید دنیائے اسلام کے تقریباً تمام اہم افکار اور تحریکات کی باز گشت محسوس ہوتی ہے۔ جن مسائل نے ملّت اسلامیہ کو انتشار اور اضطراب میں مبتلا کردیا تھا اور جو اسے اپنے اسلامی تشخص سے دور کر رہے تھے، اقبال کی تنقید کا نشانہ بنے اورجو تحریکیں اور شخصیتیں دنیائے اسلامی کی فلاح، اصلاح اور تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہوئیں، اقبال نے ان کی تائید و ستائش کی اور بعض شخصیات و تحریکات سے اثرات بھی قبول کیے۔ اپنے مقصد اور پیغام کے لحاظ سے اقبال نے احیائے اسلام کے لیے نہ صرف ایک مربوط اور مستحکم فکر کی تشکیل کی بلکہ ملت اسلامیہ میں دنیاے اسلام کی آزادی، خود مختاری اور بہتر مستقبل کی تعمیر کا احساس بھی پیدا کیا۔ اقبال کے جو اثرات ان کے اپنے عہد پر ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ اقبال کی فکر کو جدید دنیائے اسلام کے تناظر میںدیکھا جائے اور اس اعتبار سے اقبال کی اہمیّت و حیثیت متعین کی جائے۔ اس نوع کی کوشش توجہ طلب رہی ہے۔ اسی طرح اقبال کے ان اثرات کے تفصیلی اور ہمہ گیر مطالعہ کی بھی ضرورت ہے، جو ان کے عہد پر مرتسم ہوئے اور جن کے نتیجے میں برِّ عظیم پاک و ہند اور دنیائے اسلام کی ذہنی و سیاسی زندگی میں ایک اضطراب اور ہلچل پیدا ہوئی۔ صرف یہی نہیں کہ اقبال نے اپنے عہد کو متاثر کیا، بلکہ ان کی فکر کے اثرات ان کے بعد بھی فکر اسلامی، تہذیب و سیاست اور ادب پر خاصے نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال کی فکر سے وہ تحریکیں بھی متاثر ہوئیں، جن کا آغاز یا تو خود اقبال کے عہد میں ہوا، یا وہ بعد میں شروع ہوئیں، لیکن وہ فکر اقبال سے بھی باور ہوئیں۔ چنانچہ اقبال کی فکر کا یہ بھی ایک تقاضا ہے کہ اس کے ان ہمہ گیر اثرات کا مطالعہ کیا جائے، جو اقبال کے اپنے عہد میں اور ان کے بعد افکار اور تحریکاتِ اسلامی پر محسوس ہوتے ہیں۔ اقبال اور جدید دنیائے اسلام، ڈاکٹر معین الدین عقیل، مکتبہ تعمیرانسانیت لاہور، ۱۹۸۶ء حوالے اور حواشی ۱۔ حرف اقبال ص ۱۴۲ ۲۔ ایضاً، ونیز ص ۱۴۷ ۳۔ ایضاً، ص ۱۴۲ ۴۔ تفصیلات کے لیے:گفتار اقبال ص ۲۲۹؛ انوارِ اقبال ص ۲۲۷۔۲۲۸ ۵۔ اقبال بنام محمد جمیل، مورخہ ۴ اگست ۱۹۲۹ء مشمولہ اقبال نامہ ج ۲، ص ۹۱۔۹۳؛ اسی مکتوب میں اقبال نے مکتوب الیہ سے ٹیپو کے ایک روزنامچے کا علم ہونے پر اسے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ۶۔ سید محمد احمد نام، پیدائش ۱۲ اگست ۱۸۴۴ء وفات ۲۲ جون ۱۸۸۵ء ؛ سوڈان کے ایک مصلح، مجاہد اور درویشوں کی تحریک کے بانی، سوڈان کے انگریزوں اور خدیو مصر سے آزاد کرایا اور ایک فلاحی مملکت قائم کرنے کی کوشش کی۔ ان کی وفات کے بعد عبداللہ بن محمد نے ان کے خلیفہ کے طور پر ۱۸۸۵ء سے ۱۸۹۸ء تک حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، لیکن مصری افواج نے ایک انگریز ہربرٹ کچنر(Herbert Kitchener) کی قیادت میں سوڈان پرحملہ کر کے اس اقتدار کو ختم کردیا اور سوڈان پر پھر مصری اور برطانوی تسلّط قائم ہوگیا۔ تفصیلات کے لیے: ہولٹ،The Mahdist State in the Sudan 1881-1898, A Study of its Origins, Development and Overthrow. ۷۔ کلیات اقبال (فارسی) ص ۶۸۴۔ ۶۸۶ ۸۔ پیدائش ۱۸۶۳ء ؛ وفات ۱۹۲۱ئ؛ خدیو مصر کے خاندان سے تعلق رکھنے والا دولت عثمانیہ کا وزیر اعظم، ممتاز مدبّر، سیاستدان اور احیائے اسلام کے موضوع پر متعدد کتابوں کا مصنف اور مغربی سیاست، تہذیب اور قومیت کا مخالف اور اسلامی تہذیب، اتحاد اور اخلاقیات کا مبلغ۔ اس کا عقیدہ تھا کہ مسلمانوں کا صرف وہی وطن ہے، جہاں شریعت نافذ ہو۔ تفصیلات کے لیے لیوس، ……The Emergence of Modern Turkey. ص ۲۲۵۔ ۳۵۸ ۹۔ خطبات ص ۱۵۶ ۱۰۔ ایضاً۔ ۱۱۔ ایضاً، ص ۱۵۶۔ ۱۵۷ ۱۲۔ کلیات اقبال (فارسی) ص ۶۵۳۔ ۶۵۴، ۶۶۴۔ ۶۶۵ ۱۳۔پیدائش ۱۸۵۶ئ؛ وفات ۱۹۲۱ئ۔ قازان (وسط ایشیا) میں جدید طرز کی ایک درسگاہ کے بانی اور ناظم، جس نے ۱۸۸۰ء میں قازان کی اسلامی یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا۔ اس درسگاہ نے روسی مسلمانوں کے انقلاب و ترقی میں نمایاں اثر پیدا کیا، جدید علوم اورسائنس کی تدریس کے طفیل، ایک مغربی مدبر کے بقول، پادری پرست روسی عیسائیوں سے روسی مسلمان زیادہ مغربی ہوگئے، بحوالہ سید سلیمان ندوی ’’علمائے روس‘‘ ؛ معارف (اعظم گڑھ) مئی ۱۹۲۲ئ؛ ص ۳۳۹؛ مسلمانوں کی بیداری کی سرگرمیوں کے نتیجہ میں زار کی حکومت نے قید و بند کی صعوبتیں دیں، لیکن ان کی تحریکات کو نقصان نہ پہنچا۔ سلطان عبدالحمید خاں نے ان کی رہائی کے لیے کوشش کی چنانچہ ذرا نے انھیں ترکی بھیج دیا، جہاں وہ ۱۹۱۱ء تک مقیم رہے اور اسی سال روس لوٹے اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں …All Russia Muslim Democratic Party. قائم ہوئی۔ ۱۹۱۷ء کے انقلاب روس کا انھوں نے خیر مقدم کیا۔ مسلمانوں نے انھیں حکومت روس میںیورپی روس، سائبیریا اور قازقستان کا مفتی منتخب کیا۔ اس کے بعد وہ مجلس اسلامیہ روس کے صدر مقرر ہوئے۔ لیکن ان کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر اشتراکیوں نے ان کو قید کردیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد آزاد ہوگئے۔ مئی ۱۹۱۸ء میںروسی مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد میں شریک ہو کر ماسکو گئے اور اشتراکی اکابر کے سامنے مسلمانوں کا یہ مطالبہ پیش کیا کہ مسلمانوں کے اداروں کو مداخلت سے پاک رکھا جائے۔ تفصیلات کے لیے: ایضاً۔ ونیز ’’کیمبرج‘‘ ج ۱، ص ۶۲۷؛ ۶۳۰؛ ۶۳۵؛ مزمل یٰسین، تاریخ سلطنت مسلمانان روس ص ۷۱۔۷۲۔ ۱۴۔حرفِ اقبال ص ۱۴۸ ۱۵۔ایضاً۔ ۱۶۔مکتوب بنام؛ سلیمان ندوی مورخہ یکم مئی ۱۹۲۴ئ؛ مشمولہ اقبال نامہ ج ۱؛ ص ۱۲۸۔ ۱۲۹ ۱۷۔مکتوب، مورخہ ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء ؛ مشمولہ ایضاً ص ۱۱۸ ۱۸۔خطبات وبیانات ص ۲۲۸ ۱۹۔ایضاً؛ ص ۲۳۰ ۲۰۔ایضاً۔ ۲۱۔عالمِ دین، مصنف اور شاعر۔ کئی کتابیں، بشمول اقبال اور قرآن تصنیف کیں، جن میں ’’توضیح القرآن‘‘ قرآن حکیم کے ترجمہ اور تفسیر پر مشتمل ہے۔ دیگر تصانیف میں تاریخ سہسرام، مشاہیر شعرائے سہسرام اور شہید کربلا قرآن کی روشنی میں ان کی معروف تصانیف ہیں۔ نام وزیر خاں اور تخلص ’’احقر‘‘ اور ’’مصلح‘‘ تھا ۔ کنیت ابو محمد مصلح، مولانا ابو محمد مصلح سہسرامی کے نام سے بھی معروف تھے۔ سہسرام میں تقریباً ۱۸۷۸ء میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ خانقاہ کبیریا سہسرام میں تعلیم حاصل کی، پھر ۱۹۰۰ء میں دیو بند گئے۔ مولانا انور شاہ کشمیری سے تلمذ حاصل ہوا۔ تحریکِ خلافت میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ سہسرام ہی سے اپنی اصلاحی تحریک کا آغاز کیا اور الاصلاح کے نام سے رسالہ جاری کیا۔ اسی نام سے ۱۹۲۶ء میں ایک مطبع بھی قائم کیا۔ اس سے قبل ڈھری اون سون سے عبدالقیوم انصاری کی معیت میں حسن و عشق کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالتے رہے۔ پھر حیدر آباد دکن منتقل ہوگئے، جہاں ’ اِدارۂ عالمگیر تحریک قرآنی‘‘ قائم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ رسالہ ترجمان القرآن جاری کیا۔ ۱۹۳۶ء میں لاہور منتقل ہوئے اور علامہ اقبال کے انتقال (اپریل ۱۹۳۸ئ) تک وہیں رہے پھر حیدرآباد دکن چلے گئے وہاں سے ’’قرآنی دنیا‘‘ کے نام سے اردو اور انگریزی میں مجلہ جاری کیا۔ قرآن کی تعلیم کو عام کرنے میں زندگی بھر مستعدی سے حصہ لیا حوصلہ مند، منتظم اور دین دار عالم تھے عمر بھر سادہ وضع اختیار کی۔ شاعری میں حسن جان خاں سہسرامی اور جلال لکھنوی سے تلمذ حاصل تھا۔ اوّل الذکر سے سلسلۂ ابو العلائیہ میں بیعت بھی تھے۔ تاریخ وفات ۲۰ رجب ۱۳۸۸ھ؍ ۳۰ستمبر، ۱۹۶۸ء ہے اور مدفن حیدر آباد دکن۔ تفصیلات کے لیے ماہنامہ ذکریٰ (رامپور، اپریل ۱۹۸۲ئ) ص ۵۲۔ ۵۴ ونیز ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی اقبال کی صحبت میں ص ۴۶۶۔ ۴۶۷ ابو محمد مصلح اقبال اور قرآن۔ ۲۲۔کچھ تفصیلات کے لیے اقبال اور قرآن ص ۱۳۔ ۱۴ ۲۳۔مکتوب، مشمولہ ایضاً۔ ص ۱۵ ۲۴۔ایضاً، ص ۱۸ ۲۵۔’’…مجھے اس کتاب کی ضرورت ہے، جس میں انھوں نے بچوں کو قرآن پڑھانے کا نیا طریق ایجاد کیا ہے۔ اس قاعدے کی جاوید کے لیے ضرورت ہے‘‘ مکتوب بنام ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی، مورخہ ۶؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء مشمولہ اقبال نامہ ج ۲، ص ۳۳۹۔۳۴۰، غالباً یہ قاعدہ قرآن مجید مع بچوں کی تفسیر کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا ذکر محمد مصلح نے کیا ہے، ص ۱۷، ۱۸۔ ۲۶۔مودودی، سید ابوالاعلیٰ مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم (پٹھان کوٹ، بار سوم) ص ۴ ۲۷۔مکتوب، بنام مصطفی المراغی، مورخہ ۵ ؍ اگست ۱۹۳۶ئ، مشمولہ خطوط اقبال ص ۲۸۵، ونیز مکتوب دیگر، مشمولہ، اقبال نامہ ج ۱، ص ۲۵۱۔ ۲۵۳ ۲۸۔نیاز علی خاں، چودھری دارالسلام کی حقیقت بحوالہ قاضی افضل حق قرشی ’’نادرات اقبال‘‘ مشمولہ صحیفہ (لاہور، اقبال نمبر ۱۹۷۳ئ) ج ۱، ص ۲۲۹۔ ۲۳۰ ۲۹۔جس کی تفصیل: ایضاً ص ۲۳۰، سید نذیر نیازی ’’علامہ اقبال کی دعوت پر مولانا مودودی پنجاب میں‘‘ مشمولہ، ہفت روزہ ایشیا (لاہور) ۱۷ اپریل ۱۹۶۹ء ؛ ونیز ’’کیامولانا مودودی علامہ اقبال کی دعوت پر پنجاب آئے تھے؟‘‘ مشمولہ، ایضاً ۱۹ اپریل ۱۹۷۰ء میں ہے۔ ۳۰۔خود اس ضمن میں مولانا مودودی کی جو خواہشات تھیں، ان کے لیے: شخصیات ص ۲۵۳۔ ۲۵۷ ۳۱۔مکتوب مولانا مودودی، مشمولہ گیلانی، سید اسعد، مولانا مودودی سے ملیے ص ۳۸۸؛ اور اقبال مولانا مودودی کے لیے ایک روحانی سہارا تھے، شخصیات ص ۶۵۳ ۳۲۔ایضاً، ص ۲۵۳۔ ۲۵۶ ۷ ۶ جاوید نامہ چودھری محمد حسین حضرت علامہ اقبال نے ۱۹۲۹ء کی ابتدا میں جاوید نامہ لکھنا شروع کیا۔ کم وبیش تین سال کے بعدیعنی اب ابتدائے ۱۹۳۲ء میں یہ کتاب چھپ کر شائع ہوئی ہے۔ جاوید نامہ دراصل معراج نامہ ہے۔ اسرار و حقائقِ معراج محمدیہؐپر کتاب لکھنے کا ایک مدت سے حضرت علامہ کا خیال تھا۔ کتاب کا نام بجائے معراج نامہ،جاوید نامہ کے رکھنے کی محرک دو تین باتیںہوئیں۔ اسلام کی بہت سی اور باتوں کی طرح مسلمانوں نے حقیقت معراج پر بھی بہت کم غور کیا ہے۔ دراصل گلشن راز جدید کی طرح علوم حاضرہ کی روشنی میں معراج کی شرح لکھ کر ایک قسم کا ’’معراج نامہ جدید‘‘ لکھنے کا خیال تھا۔ یہ’’ معراج نامہ‘‘ بہت ممکن ہے عام شرحی انداز تحریر میں ہوتا اور اپنی موجودہ ’’آسمانی‘‘ ڈرامہ کی شکل اختیار نہ کرتا۔ لیکن اس اثنا میں اٹلی کے مشہور شاعردانتے کی کتاب ڈیوائن کامیڈی پر بعض نئی اور اہم تنقیدات یورپ میں شائع ہوچکی تھیں جن میں اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچایا گیا کہ ڈیوائن کامیڈی کے آسمانی ڈرامے کا تمام پلاٹ بلکہ اس کے بیشترتفصیلی مناظر ان واقعات پر مبنی ہیں اور ان کی نقل ہیں جو اسلام میں معراج محمدیہؐ کے متعلق بعض احادیث و روایات میں مذکور ہوئے یا بعد میں بعض مشہور متصوفین و ادبا کی ان کتابوں میں درج ہوئے جن میں انھوں نے مختلف نقطئہ ہائے خیال سے خود اپنے معراجوں کا ذکر کیا یا معراج نبوی کی شرح لکھی۔ ایک حد تک اس واقعہ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ بجائے عام تشریحی انداز میں ’’معراج نامہ‘‘ لکھنے کے جو وسعت مضامین کے لحاظ سے یقینا حقائق معراج کے مباحث تک ہی محدود رہتا، دانتے کے انداز میں ادبی (عرفانی نہیں) نقطہ نگاہ سے ’’معراج اقبال‘‘ لکھا جائے جس میں قید مباحث سے آزادی ہو اور تخیّل و ادراک، تاویل و تفسیر کی محدود وسعتوں سے گزر کر فکر وبصیرت اور اختراع والہام کی جن لا محدود فضائوں تک پرواز کرنا چاہیں باآسانی کر سکیں۔ جاوید نامہ اور ڈیوائن کامیڈی یہ مرکب الفاظ ایک دوسرے کے مترادف نہیں (نہ غالباً جیسا کہ آئندہ بیان کیا جائے گا ایسا ہونا ضروری تھا) تاہم بادی النظر میں ایک معنوی سی مناسبت دونوں ناموں میں موجود ہے حضرت علامہ کے فرزند ارجمند عزیزی ’’جاوید اقبال‘‘ سلمہ، کا نام بھی کسی حد تک جاوید نامہ کا نام جاوید نامہ ہونے کا ذمہ دار ہے۔ کتاب کا وہ آخری حصہ ہے جو آسمانی ڈرامہ کے خاتمہ کے بعد بطور ضمیمہ کے آتا ہے اور جس کا نام ’’خطاب بہ جاوید‘‘ (سخنے بہ نژاد نو) ہے۔ ڈیوائن کامیڈی کا نام ڈیوائن کامیڈی خود دانتے کا تجویز کردہ نہیں۔ دانتے نے اپنے آسمانی ڈرامے کا نام محض کامیڈیا(COMMEDIA)رکھا تھا۔ لفظ ’’ڈیوائن‘‘ (پاک الٰہیہ۔ آسمانی) کتاب کے نفس مضمون۔ اس کی خوبی۔اس کی شہرت و ہر دلعزیزی کی بنا پر دانتے کے قدر دانوں اور مداحوں کی طرف سے بعدمیںزیادہ کیا گیا۔دانتے کی موت ۱۰۲۱ء میں واقع ہوئی۔ کامیڈیا کے جس سب سے پہلے ایڈیشن کا نام ڈیوائن کامیڈی رکھا گیا وہ ۱۰۰۰ء میں چھپا۔ اگرچہ خود دانتے کو ڈیوائن کہنا اس کے مداحین نے ۱۰۱۲ء ہی میں شروع کر دیا تھا۔ مشرق کے لوگ اگرچہ اب تک اس حقیقت سے بے خبر ہوں اہل مغرب پر ہسپانیہ کے بعض مستشرقین کی جدید تحقیقات نے اب یہ حقیقت روزروشن کی طرح واضع کر دی ہے کہ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا ماخذ اولا ًوہ احادیث نبوی ہیں جن میں معراج کی کیفیات (بعض صورتوںمیں باختلاف تفصیلات )مروی ہیں ثانیاً وہ کتب تصوف وادب اسلامیہ جن میں اسرار معراج نبوی پر روشنی ڈالنے کے علاوہ بعض صورتوں میں مصنفین نے خود اپنی سیاحت علوی اورمشاہدہ تجلیات کا ذکر کیا ہے۔ موخر الذ کر میں محی الدین ابن عربی کی مشہور کتا ب فتوحات مکیہ اور ابوالعلا معری کی تصنیف رسالۃ الغفران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میڈرڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسرآسن(۱)جو اس نہایت اہم انکشاف کے بانی ہوئے،اپنی معرکتہ الٓاراکتاب اسلام اینڈ دی ڈیوائن کامیڈی میں لکھتے ہیں۔ جب دانتے الیغیری اپنی اس حیرت انگیز نظم کا تصور اپنے ذہن میں لایا، اس سے کم از کم چھ سو سال قبل اسلام میں ایک مذہبی روایت موجود تھی جو محمدؐ کی مساکن حیات ما بعد کی سیاحتوں پر مشتمل تھی۔رفتہ رفتہ آٹھویں سے لے کر تیرھویںصدی کے اندر مسلم محدثین علماء مفسرین،صوفیائ، حکما اور شعرا سب نے مل کر اس روایت کو ایک مذہبی تاریخی حکایت کا لباس پہنا دیا۔ کبھی یہ روایتیں شروحِ معراج کی شکل میں دہرائی جاتیں، کبھی خود راویوں کی اپنی واردات کی صورت میں اور کبھی ادبی اتباعی تالیفات کے انداز میں۔ ان تمام روایات کو ایک جگہ رکھ کر اگر ڈیوائن کامیڈی سے مقابلہ کیا جائے تو مشابہت کے بیشمار مقامات خود بخود سامنے آجائیں گے۔ بلکہ کئی جگہ بہشت اور دوزخ کے عام خاکوں، ان کی منازل و مدارج، تدکرہ ہائے سزا وجزا، مشاہدۂ مناظر، انداز حرکات و سکنات افراد، واردات و واقعات سفر، رموز و کنایات، دلیل راہ کے فرائض اور اعلے ادبی خوبیوں میں مطابقت تامہ نظر آئیگی۔ پروفیسر آسن نے احادیث معراج کو باعتبار اسناد تین زمانوں میں تقسیم کر کے ہر زمانہ کی روایت کے تفصیلی اختلاف کو قصہ معراج کے ارتقا کا موجب قرار دیا ہے۔ لیکن اس امر کا ذکر کر کے کہ رُسول مکرمؐ سے پہلے بھی بعض پیغمبروں کے متعلق معراج کی روایتیں موجود تھیں بلکہ ارداویراف کی ایرانی بہشت کی سیر کے قدیم افسانے بھی ذکر ہوتے تھے۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ: ان سیاحتوں اور معراجوں میں کوئی بھی اتنا واضع، وسیع اورمکمل نہ تھا جس قدر کہ اسلامی روایت اپنے لٹریچر میں تھی۔ اس کے علاوہ اسلامی روایت ہر عالم و جاہل مسلمان کے دل میں گھر کر چکی تھی اور اس کو صحیح تسلیم کرنا ان کے ایمان کا جزو تھا۔ آج اس وقت بھی تمام اسلامی دنیا میں معراج پیغمبرؐ کا دن مذہبی تیوہار کا دن سمجھا جاتا ہے اور ترکی، مصر، مراکش جیسے اسلامی ممالک میں اس روز قومی تعطیل منائی جاتی ہے۔اسی سے واضع ہے کہ پیغمبر (علیہ السلام) کے معراج کے واقعہ میں مسلمانوں کا عقیدہ کس قدر راسخ ہے۔ پروفیسر آسن نے اگر خود اسلامی دنیا کی سیر کی ہوتی اور مسلمانوں کی ہر زبان کے لٹریچر کو بنظر غائر دیکھا ہوتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ معراج پیغمبرؐ کی روایت کا مسلمانوں کے عقیدے اور تصور پر اتنا تسلط ہے کہ کوئی زبان دنیا میں ایسی نہ ہوگی جسے عام طور پر مسلمان بولتے ہوں اوراس میں معراج نامہ موجود نہ ہو۔ بلکہ سچ پوچھو تو مسئلہ معراج مسلمانوں کی سیاسیات پر بھی اثر انداز ہوا۔ معراج جسمانی تھا یا روحانی اس اختلاف پر لڑائیوں تک نوبت پہنچی۔ روایت معراج کے مختلف پہلو: معراج کا مذہبی اور علمی پہلوتو وہی ہے جسے مشاہدہ تجلی ذات یعنی (Direct Vision) کہنا چاہیے۔ اور جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہوا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جسے تصوف کا پہلو کہنا چاہیے صوفیا کا معراج بھی دراصل ایک قسم کا علمی اور مذہبی پہلو رکھتا ہے۔ مختلف صوفیانے مختلف رنگوں میں تجلی ذات کے مشاہدہ کا ذکر کیا ہے۔ تصوف ان طریقوں کا نام ہے جن سے براہ راست معرفت ذات باری کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے اورجو لوگ ان طریقوں کے اختیار میں تجلی ذات کے پرتو سے بہرہ یاب ہوئے انھوں نے بعض اوقات اس حصول مقصد کو معراج سے تعبیر کیا۔ اعظم صوفیا میں حضرت بایزید بسطامیؒ اور محی الدین ابن عربیؒ کا معراج عام مشہور ہے۔ اعظم صوفیا میں حضرت بایزید بسطامی کی کیفیات تو شایدقلم بند ہی نہ ہوئیں لیکن محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہمیں اپنے معراج پر دفترکے دفتر لکھے ہیں اور سیاحت علوی میں دو افراد کو اپنا راہنما اور ساتھی بنا کر جن میں سے ایک فلسفی ہے اور دوسرا عالم دین، ان کی زبان سے تمام دنیا جہان کے علوم و فنون اور مسائل و مباحث کے متعلق اس انداز میں اظہار خیالات فرمایا ہے گویا یہ سب خیالات وہ انکشافات و الہامات ہیں جو ان کے قلب پر معراج میں وارد ہوئے۔ خالص عرفانی ہونے کی بجائے محی الدین ابن عربی کا معراج زیادہ تر ’’مذہبی‘‘ ہے۔ سیاحت آسمانی اور مشاہدہ ذات کے حقائق بے حد طویل تفصیلات سے دیے ہیں۔تاہم مذہبی اور اخلاقی مباحث میں جس قدر توجہ صرف ہوئی ہے وہ عرفانی حیثیت کی صورت میں نہیں۔ منازل،مناظر، واقعات، کیفیات مشاہدات کم و بیش اسی ترتیب میں ہیں جس میں معراجِ پیغمبرؐ تاہم تفصیلات و تصریحات نے تصویر کو اس کامل صورت میں پیش کیا ہے کہ دانتے کے نقادکو ڈیوائن کامیڈی کا تمام نقشہ فتوحات مکیہ کے انھیں ابواب کا چربہ نظر آتا ہے جن میں معراج کا ذکر ہے۔ معراج کا تیسرا پہلوخالص ادبی (Literary)اور آرٹسٹک ہے۔ ادبی پہلو ضروری نہیں کہ اخلاق اورمذہب کی جھلک سے بالکل معرا ہو۔ مشہور عربی نابینا شاعر ابوالعلامعری کا رسالۃ الغفران اسی ادبی پہلوکا حامل ہے۔یہ رسالہ ابوالعلامعری نے اپنے ایک شاعراور ادیب دوست ابوالقارحِ حلبی کے ایک خط کے جواب میں رقم کیا جس میں ابوالقارح نے باوجود ابوالعلا کا مداح ہونے کے اس پر طنز کے پیرایہ میں ان شعراوادبا کو مورد عتاب الٰہی قرار دیا تھا۔ جنہوں نے گنہگاری کی زندگی بسر کی ہو۔ابوالعلانے رسالۃ الغفران میں ادبی رنگ میں اپنی بہشت و دوزخ کی سیر دکھائی اور وسعت رحمت ذات کوواضع کرنے کے لیے کئی بدکاروں، گنہگاروں اور جاہلیت کے شعرا کو جنہوں نے بالآخر مرنے سے پہلے توبہ کرلی تھی غفران ورحمت کاسزا وار ہوتے اور جنت میں داخل ہوتے دکھایا۔ پروفیسر آسن کا خیال ہے کہ ڈیوائن کامیڈی کی بعض ادبی خوبیاں رسالۃ الغفران کی خصوصیات کی شرمندہ احساس بھی ہیں۔ رسالۃ الغفران میں نہ صرف بعض قدیم وہمعصر شعرا وغیرہ کے کلام پر تنقید ہے بلکہ علمائے لغت وغیرہ سے ملاقات کے دوران میں بعض لغوی مسائل پر بحثیں بھی ہیں۔ اسی طرح شہرزوری کا ایک قصیدہ سفر روح کے متعلق ہے۔ جس کو ابن خلکان نے نقل کیا ہے اوروسٹن فیلڈ نے ترجمہ کر کے شائع کیا ہے۔ ممکن ہے اسلامی لٹریچر میں اور بھی کئی کتابیں ایسی ہوں جنہیں معراج کے عرفانی اور ادبی پہلوئوں کے نمونے کہا جا سکے لیکن اس کے متعلق تحقیق کی ضرورت ہے (۲)یوں معراج نبوی کے اسرار و حقائق کا تذکرہ اسلامی لٹریچر میں قریباً ہر بڑے مصنف کی کسی نہ کسی تصنیف میں ملے گا۔ اسلامی مصنفات پر ایک زمانے میں یہ رنگ بھی غالب رہا ہے کہ حمدِ باری تعالیٰ کے بعد جب نعت پیغمبرلکھنے پر مصنف یا شاعرآیا، تو اس نے معراج رسول اللہ پر ایک علیحدہ مستقل باب لکھا۔نظامی کا پنج گنج اٹھا کر دیکھیے۔ قریباً ہر کتاب میں یہ خصوصیت ملے گی۔ مغرب میں معراج کی روایت پروفیسر آسن کی تحقیق کے مطابق معراج کی روایت مغرب میں ہسپانوی علما و صوفیائے اسلام کے ذریعہ پہنچی۔ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کو معراج کے ادبی پہلو کا دوسرا بڑا نمونہ کہنا چاہیے۔ یہ امر جیسا کہ اوپر ذکرہوا متحقق ہے کہ دانتے نے محی الدین ابن عربی کی کتاب فتوحات سے بہشت و دوزخ واعراف اوران کی تمام منازل ومناظر کو نقل کیا۔ اسی طرح تمام علوم مروجہ پر اپنی سیر کے دوران میں بحثیں کیں۔ البتہ سیاسی اور تاریخی واقعات وغیرہ کی بحث سے اپنی کتاب کی خوبیوں کو بڑھایا اور اپنے ماخذوں کا ذکر نہ کر کے ایک آنے والے طویل زمانہ تک یورپ پر اپنی شاعرانہ و حکیمانہ خوبیوں کا سکہ بٹھا لیا۔ فتوحات اور ڈیوائن کامیڈ ی کا مقابلہ اس مضمون کو غیر متعلق اور طویل مباحث میں لے جائے گا۔ ورنہ بتایا جا سکتا تھا کہ جو لوگ مغرب میں بڑے بڑے ادبی، علمی اور سیاسی انقلابات پیدا کر گئے وہ اسلامی علوم و تہذیب سے کس قدر خوشہ چینی کے بعد اس قابل ہوئے۔ جاوید نامہ ۔ روایت معراج کا تیسرا ادبی نمونہ: اسلامی روایت معراج کے دنیا میں مشہور ہونے سے چھ سو سال بعد دانتے نے اپنے تخییلی معراج کے مشاہدات کی صورت میں اس زمانہ کے علوم و فنون پر تبصرہ، مغربی عیسائی اقوام کی مذہبی اور اخلاقی کمزوریوں پر جرح اور سیاسیات یورپ کے صحیح کوائف کا وہ مرقع اہل مغرب کے سامنے رکھا کہ نصف ربع مسکون کی اس وقت کی نسلوں کے دل و دماغ، اخلاق و عادات اور احساس و شعور حیات میں وہ ہیجان رونما ہوا جو تھوڑا ہی عرصہ بعد یورپ کی عام علمی و سیاسی نشاۃ ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا دانتے کی موت سے تقریباً پورے چھ سو سال کے بعد اقبال کا جاوید نامہ اہل مشرق کے سامنے زمانہ حال کی مقتضیات وترقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے قریباً انھیںمباحث و مقاصد کو پیش کر کے اس حصہ دنیا میں ویسے ہی انقلابات کاپیش خیمہ ہونے والا ہے۔ جاوید نامہ کوہم روایت معراج کا تیسرا اہم ادبی نمونہ کہیں گے۔ ممکن ہے اس چھ سو سال کے عرصہ میں کسی اورمسلم صوفی شاعر نے بھی اس موضوع پر لکھا ہو۔ لیکن جہاں تک ہم کوشش کر سکے ہیں عام معراج ناموں کے سوائے جن کی حیثیت قصے کہانیوں سے زیادہ نہیں کوئی قابل ذکر تصنیف اس مبحث پر دستیاب نہیں ہو سکی۔ معراج نبوی۔ فتوحات مکیہ اور ڈیوائن کامیڈی: فتوحات اور دانتے کے آسمانی ڈرامے میںجو عام مماثلت ہے،اس پر اب کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ دونوں تصانیف میں جس خاص فرق کی طرف یہاں اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ فتوحات کا مصنف خود صوفی اور صاحب حال تھا۔ اس کی تصنیف اس کے اپنے مکاشفات وواردات اور رُوحانی و عرفانی تصرفات کا آئینہ ہے۔ اس کی بنا محض تخیل یا آرٹ نہیں۔ دانتے نے فتوحات کی پیش کردہ تصویرکے قریباً ہر خط وخال کو اپنے موقلم کی نگارش کی صورت میں پیش کیا۔ لیکن یہ کارنامہ ایک بہترین ادبی تصنیف کے رتبہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ باقی یہ امر کہ بلحاظ نتائج اس کی خوبیاں بعض مقاصد میں بنی نوع کے ایک کثیرگروہ کے دل و دماغ پر فتوحات کی نسبت زیادہ دور رس اثر ڈال گئیں، ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی جرات نہیں ہو سکتی۔ حیات ما بعد الموت کی حقیقتوں کے تجسس میں ابن عربی اوردانتے دونوں نے سات ستاروں (بعض صورتوں میںنو)کی سیرسے گزرکر بہشت ودوزخ اوراعراف کی فضائوںکے نقشے کھینچے ہیں اور اصلاً ان کو اسی طرح تصور کیا ہے جس طرح وہ احادیث نبوی میں یبان ہوئے۔ سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ معراج نبوی میں اقصی سے لے کر حدود آسمان سے پارجانے تک میں کسی درمیانی فلک یا ستارہ کی سیر کا ذکر نہیں البتہ بعض احادیث میں واپسی کے موقعہ پر بعض ستاوں کی سیر کا ذکر ہے۔ معراج نبوی کا عام ذکر لکھنے والے مدارج عروج ہی میں سیر سیارگان کو لے آتے ہیں مگر یہ قصے زیادہ تر کمزور احادیث پر مبنی ہیں یا ان کا ماخذ محی الدین ابن عربی کی فترحات ہوئی ہے۔ فتوحات، ڈیوائن کامیڈی اورجاوید نامہ: جاوید نامہ کو ڈیوائن کامیڈی اور فتوحات سے دوباتیں ممیز کرنے والی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس میں وہ تمثیلاتی مظاہرات و علامات (Symbolism)ناپید ہیں جوان میں ہر مقام پر ملتے ہیں اور جن کی وجہ سے آج تک انکے بعض مباحث عقیدہ ہائے لاینحل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری یہ کہ اقبال نے زیادہ تر سیارگان (وہ بھی سات نہیں بلکہ چھ) کی سیاحت پر اکتفا کی ہے دوزخ و اعراف کے نزدیک تک نہیں گیا۔ بجائے ساتویں ستارے میں پہنچنے کے ’’آں سوئے افلاک‘‘ جا نکلا ہے اور یہ غالباً اس لیے کہ ’’جنت‘‘ اور ’’حضور‘‘ و ’’تجلی‘‘ (Beatific Vision)کے نئے تصورات اورنئے مقاصد و معانی دنیا کے سامنے رکھنے تھے۔ ’’ندائے جمال‘‘ کی سماعت کا شوق بھی کچھ کم کشش کا باعث نہ تھا۔ ’’کلیم اللّہیٗ‘‘ مشکل تھی۔ لیکن ’’سمیع اللہی‘‘ میں کیا باک ہوسکتا تھا۔ جن لوگوں کو واصل جنہم دکھانے کی ضرورت تھی ان کو’’فلک زحل‘‘کے ایک قلزم خونیں میں مبتلائے عذاب دکھا دیا ہے اور وہ ایسے لوگ نہیں جو خالص مذہبی یا اخلاقی نقطہ خیال سے مجرم و گنہگارہوں بلکہ وہ ایسی ارواح رذیلہ ہیںجو ملک و ملت سے غداری کی مرتکب ہوئیں اور جن کو دوزخ نے بھی اپنے اندر لینا قبول نہ کیا۔ فتوحات اور ڈیوائن کامیڈ ی حیات مابعدالموت کے حقائق و کیفیات کی کنہ معلوم کرنے کی مساعی ہیں۔ معنوی اعتبار سے دونوں جدا ہیں۔ ایک عام طور پر عرفانی مشاہدات کی حامل دوسری علمی، ادبی اور سیاسی نکات پرزیادہ حاوی۔ افراد کے اذہان و اخلاق کی شائستگی دونوں کا نصب العین ہے۔ تاہم ’’صوفی‘‘ اور ’’ڈرامہ نویس‘‘ اپنی توجہ مختلف مقاصد کو پیش نظر رکھ کر حیات مابعد پر ہی مرکوز رکھتے ہیں۔ اقبال کہ حیات مابعد (آخرت) کا مسئلہ بوجہ ایک مسلم عالم و حکیم ہونے کے اس کے لیے بہت پیش پا افتادہ ہوچکا ہے، اپنی زیادہ تر توجہ حیات حاضرہ یا حیات مطلق یا بالفاظ دیگر بقائے حیات انسانی کے مسئلہ پر صرف کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ بات اس قدر اہم نہیں کہ مرنے کے بعد بہشت ودوزخ یا اعراف میں انسانوں کی زندگی کیسی ہوگی۔ جس بات نے اس کوتمام عمرپیچ و اضطراب میں رکھا ہے، وہ یہی موجودہ حیات انسانی ہے جو اقوام مشرق کے لیے بوجہ ان کی سیاسی و اقتصادی پستی کے موت سے بد تر ہوچکی ہے اورجس کے پاکیزہ ارتقا کی ضرورتوں سے اہل مغرب بوجہ اپنے مذہبی، روحانی اور اخلاقی انحطاط وتنزل کے غافل ہو چکے ہیں اور قریب ہے کہ اسے ایک ایسی دنیاوی قیامت سے بہت جلد دوچار ہونا پڑے جو مشرق ومغرب دونوں کی موجودہ نسلوںکو تباہ و برباد کر کے تمام دنیا میں ایک ہموار نسل اور ایک ہم مقصد واحد قوم کے شہود و فروغ کے لیے میدان صاف کرجائے۔ بقاودوام حیات انسانی کے مباحث بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اقبال نے اس تصنیف کا نام جاوید نامہ کیوں رکھا۔ احادیث معراج ، فتوحات مکیہ، ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ اگر پہلوبہ پہلوبہ نظر امعان مطالعہ کئے جائیں تو شاید وہ تمام فرق مراتب سامنے آجائے جس سے نبی، ولی، شاعرفلسفی، اور فلسفی شاعر کو ایک دوسرے سے متمیز کیا جا سکتا ہے۔ جاوید نامہ کے بعض اہم مباحث پیشتر اس کے کہ مختصراً جاوید نامہ کے بعض اہم مباحث کا ذکر کیا جائے۔ کتاب کے دیباچہ کا جو صرف دو اشعار پر مشتمل ہے یہاں نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس سے شایدانسانی زندگی کا وہ نصب العین قارئین کے سامنے آجائے جس کے مطابق شاعر یہ سمجھتا ہے کہ منزل آخرت میں قدم رکھنے سے پیشترممکن ہے حیات انسانی ابھی زمین کی طرح اور ستاروں کو بھی آباد کرے یا ان کے آباد کرچکنے کے بعد دوام ابد کی طرف انتقال سے پہلے اس زمینی ستارہ میں بطور آخری منزل کے وارد ہوئی ہو۔ظاہر ہے کہ یہ خیال موجودہ سائنس کے ان اکتشافات پر مبنی ہے جن کے مطابق مریخ وغیرہ ستاروں میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ دیباچہ میں صرف یہ دو شعر ہیں:۔ خیال من بتماشاے آسماں بود است بدوشِ ماہ و بآغوش کہکشاں بود است گماں مبرکہ ہمیں خاکداں نشیمن ماست کہ ہر ستارہ جہان است یا جہاں بود است! چونکہ خود احادیث معراج میں بعض اجرام سماوی کے اندر حیات انسانی کا ممکن ہونا ان ملاقاتوں کی وجہ سے پایا جاتا ہے جو پیغمبرؐ خدا نے معراج سے واپسی کے وقت مختلف انبیا کرام سے کیں اس لیے شاعرکا تخیل محض سائنس کے تصورات پر مبنی نہیں کہا جا سکتا۔ خود محی الدین ابن عربی نے بہشت و دوزخ سے پہلے سیارگان کی سیاحت اپنے ان مکاشفات میں کی جوانھیں مکہ معظمہ کے دوران قیام میں حاصل ہوئے اور جن کوفتوحات مکیہ کے نام سے تعبیر کیا گیا۔ پیغمبرؐ خدا کے معراج کے سلسلے میں بجائے ’’سیارگان‘‘ کے ’’افلاک‘‘ کا ذکر ہے۔ اقبال نے غالباً اسی نکتے کو ملخوظ رکھ کر جاوید نامہ میں قمر وعطارد ومشتری وغیرہ کو ’’فلک‘‘ کا نام دیا ہے۔ مناجات اور’’اقبالی شکوے‘‘ کتاب ’’مناجات‘‘ سے شروع ہوتی ہے لیکن ایسی مناجات کہ اقبال ہی کی زبان سے ادا ہوسکتی تھی۔ حقائق حیات کے متعلق مستفسرانہ انداز میں ذات باری تعالیٰ کو مخاطب کرنا جیسا اقبال کو آیا، شاید اولیائے خاص کوبھی نصیب نہ ہوا ہوگا۔ ہر شعر، ہر مصرع تعلق ولایت پردال ہے۔ ناممکن ہے کہ ’’شکوہ‘‘کا مصنف شکایات کے اعادے سے تھک جائے بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جب تک اپنے مقاصدکو حاصل نہ کرلے گاخدا کا پلہ نہ چھوڑے گا۔ بعض مشہور ’’اقبالی شکوے‘‘ اس مناجات میں آگئے ہیں۔ ’’جہان ہفت رنگ‘‘میں آدمی کی’’ہم نفس‘‘ سے محرومی سب سے پہلی شکایت ہے۔ یہ موجودہ جہان اس کو راس نہیں آیا۔ آرزوئے ہم نفس می سوزدش نالہ ہاے دلنواز آموزدش لیکن ایں عالم کہ از آب و گل است کے تواں گفتن کہ داراے دل است! یہ لیل و نہار کی دنیا پسند نہیں۔ اس کے متعلق پہلے طعنہ دیا تھا کہ:۔ ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی اب مناجاتی التجائیں ہیں کہ اس ’’جہان چارسو‘‘ کی بجائے جس کا وجود ایک دوسرے سیارہ کے وجود کا محتاج ہے وہ جہاں عطا کر جس پر ’’رفت و بود‘‘ کا اطلاق نہ ہو:۔ اے خوش آں روزے کہ ازایام نیست صبح او را نیم روز و شام نیست اے خدا روزی کن آں روزے مرا وا رہاں زیںروز بے سوزے مرا گویا اس مکانی ’’وقت‘‘ سے دل بیزار ہے اور اس نئی قسم کے ’’روز‘‘ کا متمنی ہے جس کی شان یہ ہوکہ: روشن از نورش اگر گردد رواں صوت راچوں رنگ دیدن می تواں غیبہا از تاب او گردد حضور نوبت او لا یزال و بے مرور! پھر سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ جس ہستی کی شان میں آیت تسخیر نازل کی، جس کی دید کا متوالا سپہر نیلگوں کو بنایا، جسے راز دان ’’علم الاسما‘‘ کیا۔ گویا تمام عالم سے جس کو برگزیدہ کر کے اپنے رازدورن کا محرم تک بنایا اور خود حکم دیا کہ ہر چیز مجھ سے مانگ، اسی سے خود اپنی ذات کو حجاب میں رکھا۔ مشاہدہ تجلی ذات کی عاشقانہ بیتابی کا اس سے بڑھ کر مظاہرہ کیا ہوگا۔ اے ترا تیرے کہ مارا سینہ سفت حرف ادعونی کہ گفت و باکہ گفت؟ روے تو ایمان من، قرآن من جلوئہ داری دریغ از جان من ؟ از زیانِ صد شعاعِ آفتاب کم نمی گردد متاع آفتاب علم و عقل کی نعمتیں کافی نہیں۔ جس چیز کی طلب اور آرزو ہے اوروہ ملی نہیں۔ وہ دید ذات ہے۔ بے تجلی زندگی رنجوری است عقل مہجوری و دیں مجبوری است عقل و دین اورمعرفت یا مشاہدہ ذات کے فلسفوں اوربحثوں میں پڑنے کا یہ مقام نہیں۔ مضمون کے طویل ہوجانے کا ڈر ہے۔ صرف اتنا کہ دنیا کافی ہے کہ حصول معرفت (Religious Experience)جس کا باربار ذکر حضرت علامہ کے کلام میں آتا ہے،اس وقت فلسفہ نفسیات کا ایک اہم مبحث ہے جس پر اعلے پایہ کے محققین کی توجہ مبذول ہورہی ہے اورجو ممکن ہے کہ عام تجربہ اور مشاہدہ کی طرح ایک دن علم حقہ کے حصول کا عام ذریعہ بن جائے۔حصول ابدیت کی آواز کو پھر ایک دفعہ دہرایا ہے اور کہا ہے کہ:۔ آنیم من جاودانی کن مرا از زمینی آسمانی کن مرا اور اخیر پر ذاتی التجائوں کو چھوڑ کر پھر وہی تقاضے آگئے کہ وہ ’’ہم نفس‘‘ عطا کر جن میں زندگی کا وہی شرار پیدا ہوجو مجھ میں ہے جو میرے طوفان میں اس طرح لپٹ جائیں کہ پھر میری حدود سے باہر نہ نکل سکیں:۔ بحرم و از من کم آشوبی خطاست آں کہ در قعرم فرود آید کجاست؟ پرانی نسل سے قطعی نا امیدی ہے آیندہ نسلوں کو آغوش میں لینے کو تمنا کے ساتھ اس دعا پر مناجات کو ختم کیا ہے کہ الٰہی عہد حاضر کے نوجوان میری باتوں کو سمجھیں۔ من کہ نومیدم زپیران کہن دارم از روزے کہ می آید، سخن! بر جواناں سہل کن حرف مرا بہر شاں پایاب کن ژرفِ مرا تمہید آسمانی: مناجات کے بعد تمہید آسمانی میں آسمان کی زبان سے زمین کوطعنہ دیا ہے کہ:۔ خاک اگر الوند شد جزخاک نیست روشن و پایندہ چوں افلاک نیست اس طعنہ کو سن کر زمین خجل ہوئی جاتی تھی اور اپنے ’’درد بے نوری‘‘ کا شکوہ خدا کے سامنے پیش کرتی تھی کہ ’’ز آنسوئے گردوں‘‘ تسلی کی یہ ندا آئی کہ:۔ اے امینے از امانت بے خبر غم مخور، اندر ضمیر خود نگر شستا از لوح جاں نقش امید؟ نور جاں از خاک تو آید پدید! عقلِ آدم بر جہاں شبخوں زند عشق او بر لامکاں شبخوں زند تمہید زمینی: ’’تمہید آسمانی‘‘ کے بعد’’تمہید زمینی‘‘ آتی ہے۔ نظم کا یہ حصہ خاص طور پر اہم ہے اسی میں سیاحت سماوی کا آغاز ہوتا ہے۔ سرسری دیکھنے والے کوخیال ہوگا کہ ’’تمہید زمینی‘‘پہلے اور ’’تمہید آسمانی‘‘ بعد میں ہونے چاہیے تھی۔ لیکن چونکہ ایک ’’زمینی‘‘ آسمان کی تسخیر کو روانہ ہونے والا تھا اس لیے آسمان کی زبان سے پہلے زمین کوطعنہ دلا دیا اور پھر اس کے بعد اس کی تسخیر پر کمر باندھی۔ ’’تمہید زمینی‘‘ کے اخیر پر مولانا رومؒ کی زبان سے جو سیر افلاک میں شاعر کے رہنمابنے، اسرار معراج نبوی کی شرح کی گئی ہے معراج کے جسمانی یا روحانی ہونے کا مسئلہ ابتدائی سے ما بہ النّزاع چلا آتا ہے۔ اقبال نے اس کی تشریح ایک خاص ندرت سے کی ہے۔ آسمانی سیر کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ شاعر ’’تشنہ‘‘ اور ’’دور ازکنارِ چشمہ سار‘‘ مولانا رومؒ کی ایک غزل بے اختیار گانے لگتا ہے۔ جس کے مفصلہ ذیل دو اشعار اسرار خودی کی سب سے پہلی ایڈیشن کے سرورق کے اندر کی طرف چھپے تھے اور جن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک طرح فلسفہ خودی کی ضرورت کی تائید کے لیے کتاب ’’خودی‘‘کی بسم اللہ سے بھی پہلے چھاپا گیا:۔ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردشہر کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست اس اثنا میں شام ہو جاتی ہے۔ آفتاب غروب ہوجاتا ہے لیکن شام متاع آفتاب سے ایک ’’پارہ‘‘ اڑا کر اسے کوکب کی صورت میں افق پر نمایاں کرتی ہے کہ اتنے میں۔ روح رومی پر دہا را بر درید از پس کُہ پارئہ آمد پدید! شاعر اس کی طلعت در خشندہ اور پیکر روشن سے کچھ عرصہ دنگ رہنے کے بعد اپنے فلسفیانہ سوالات اس پر کرتا ہے کہ ’’موجود‘‘ و ’’ناموجود‘‘ کیا ہے۔ ’’محمود‘‘ و ’’نامحمود‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ جب انپے جوابات کے دوران میں مولانا روم کی روح اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ۔ بر مقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است مرد مومن در نسازد با صفات مصطفےؐ راضی نہ شد الابذات شاعر کی روح پھڑک اٹھتی ہے۔ دید ذات کا شوق مضطرب کرتا ہے سوال ہوتا ہے کہ ’’ذات‘‘ تک رسائی کیسے ہو؟ باز گفتم پیش حق رفتن چساں؟ کوہ و آب و خاک راگفتن چساں؟ جواب کیا ملا؟ جس طرح ایک ’’پیدائش‘‘ سے آدمی دنیا میں آتا ہے اسی طرح ایک اور پیدائش کے ذریعہ دینا سے باہر بھی جا سکتا ہے:۔ گفت ’’اگر، سلطاں، ترا آید بدست می تواں افلاک را ازہم شکست نکتۂ ’’الا بسلطاں‘‘ یاد گیر ورنہ چوں مور و ملخ در گل بمیر از طریق زادن اے مرد نکوے آمدی اندر جہان چار سوے ہم بروں جستن بزادن می تواں بند ہا از خود کشادن می تواں سوال و جواب کا سلسلہ آگے چلتا ہے۔ مولانا رومؒ اس نئے ’’زادن‘‘ کی تشریح فرماتے ہیں۔ عشق کی قوت و برہان مبین کے کرشموں کا ذکرہونا ہے۔ مکان و زمان پر قابو پانے کے طریق بتائے جاتے ہیں۔ ’’نہ آسمان‘‘ اور ’’فراخائے جہان‘‘ کے خوف سے بے نیاز ہو جانے کی تلقین کی جاتی ہے۔ زمان و مکان کی حقیقت بتائی جاتی ہے کہ:۔ ایں دویک حال است از احوال جاں جان و تن کے صحیح تعلق کا راز بتایا جاتا ہے اور ان تمام مقدمات کے بعد آخر کے چند اشعار میں جو سوال و جواب ہوتے ہیں ان میں معراج کا نکتہ خود بخود واضح ہو کر پیش نظر آجاتا ہے۔ چیست جاں؟ جذب و سرور و سوز و درد ذوقِ تسخیر سپہرِ گرد گرد! چیست تن؟ بارنگ و بوخو کردن است با مقام چار سو خو کردن است از شعور است ایں کہ گوئی نزد و دور چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق وارہاند جذب و شوق از تحت و فوق ایں بدن با جانِ ما انباز نیست مشت خاکے مانع پرواز نیست اس مکالمے کے بعد شاعر کے تن کا ہر ذرہ پروازافلاک کے لیے سیماب کی طرح بیتاب ہو جاتا ہے۔زمان و مکان کی روح جس کا نام شاعرنے ’’زروان‘‘رکھا ہے ایک بادل کے پردے سے فرشتے کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور اس کو کہتی ہے کہ میں ’’زروان ‘‘ہوں۔ تمام زمین و آسمان پر میری قاہری کا تسلط ہے۔ نظم کے اس حصہ میں شاعر نے زمان و مکان کے موجودہ تخیلات اور ان کی اس حقیقت پر جو قرآنی آیات و احادیث سے پیدا ہے، عجب شاعرانہ و فلسفیانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ محی الدین ابن عربی اور دانتے دونوں کا آغاز سیاحت ایک پہاڑ کے قرب سے ہوا۔ اتفاق ہے کہ اقبال کے سامنے بھی روح رومی ایک پہاڑ کے عقب ہی سے نمودار ہوتی ہے۔ فلک قمر: اس کے بعد معراج کا فلسفہ نہیں بلکہ خودشاعر کا اپنا معراج شروع ہوتا ہے۔ فلک قمر سب سے پہلے آتا ہے۔ رومی اس دنیا کے ہولناک کہسار شاعر کو دکھاتا ہے۔ کچھ دور دونوں جاتے ہیں تو قمر کے ایک غار میں سب سے پہلے ہندوستان کا ایک قدیم عارف ملتا ہے جسے اہل ہند ’’جہاں دوست‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ جہاں دوست ’’وشوامتر‘‘ کا ترجمہ ہے۔ وشوامتر ’’رام‘‘ کا استاد تھا۔ اثنائے گفتگو میں ’’جہاں دوست‘‘ مولانا رومؒ پر سوالات کرتا ہے کہ عالم کیا ہے۔ آدم کیا ہے۔ حق کیا ہے۔ رومی دو شعروں میں نہ صرف عالم و آدم اور حق کی کنہ بتاتا ہے بلکہ ’’عالم‘‘ و ’’حق‘‘ کے متعلق شرق و غرب کے رجحانات کی حقیقت بھی کھول کر رکھ دیتا ہے۔ آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ فسن شرق حق را دبد و عالم راندید غرب در عالم خزید، از حق رمید ’’جہاں دوست‘‘ ان حقائق کو تسلیم کرتا ہے۔ مانتا ہے کہ مشرق وجود و عدم کے مسائل میں آج تک پھنسا رہا لیکن وہ اس کے مستقبل سے نا امید نہیں۔ بتایا ہے کہ کل قشمرود (فلک قمر کا ایک پہاڑ )کی چوٹیوں پر ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا۔اس کی نگاہ سے ذوق دیدار ٹپکتا تھا۔ اور وہ نگاہ صرف ہمارے خاکدان (مشرق) پر بندھی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا کہ اس ’’خاک خموش‘‘ میں تجھ کو کیا نظر آتا ہے کہیں پھر کسی زہرہ کے جمال پر تو نظر نہیں۔ لیکن اس نے جواب کیا دیا؟ اپنی ٹکٹکی باندھنے کی کیا وجہ بتائی؟۔ گفت ’’ہنگام طلوعِ خاور است آفتاب تازہ او را دربر است رستخیرے در کنارش دیدہ ام لرزہ اندر کوہسارش دیدہ ام عرشیاں را صبح عید آں ساعتے چوں شود بیدار چشم ملتے! وشوامتر کی زبان سے یہ پیغام مشرق اور بالخصوص ہندوستان اور اہل ہند کے نام لانا اقبال ہی کا حصہ تھا۔ اس کے بعد وادی یرغمید میں شاعر اور اس کارہنما داخل ہوتے ہیں۔ اس وادی کا نام فرشتوں کی زبان میں وادی ’’طواسین‘‘ ہے۔ منصور حلاج کی مشہور تصنیف کتاب الطواسین فرانس میں طبع ہو چکی ہے۔ طس قرآن کریم کی ایک سورۃ کا نام ہے۔ اور قرآن کے حرف مقطعات میں سے ہے۔ منصور حلاج کی جدت کوشی کا یہ کمال تھا کہ اس نے اپنی تصنیف کے مختلف حصوں کو بجائے ابواب میں تقسیم کرنے کے ان کا نام طواسین (طس کی جمع )رکھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی مصنف لفظ ’’لوح‘‘ یا ’’منزل‘‘ بمعنی ’’باب‘‘ یا ’’فصل‘‘ استعمال کرے۔ چونکہ پاس ادب مانع تھا کہ پیغمبروں سے بالمشافہ ملاقات کی جاتی۔ اس لیے شاعرنے اس امر پر اکتفا کی ہے کہ بجائے ان سے مل کر گفتگو کرنے کے ان کی طواسین با الفاظ دیگر الواح، فلک قمر میں پڑی ہوئی دکھائی ہیں جن کے کتبوں سے ان میں سے ہر ایک کی تعلیم کا اہم پہلو واضع ہو گیا ہے۔ طواسین رسل میں چار طواسین شامل ہیں۔ طاسین گوتم جس کا عنوان ہے ’’توبہ آوردن زن رقاصہ عشوہ فروش‘‘ طاسین زرتشت جس کا عنوان ہے ’’آزمائش کردن اہر من زرتشت را‘‘ طاسین مسیح (’’رویائے حکیم طالسطائی۔‘‘ اس میں دکھایا گیا ہے کہ مغربیوں نے دور حاضر میں عیسائیت کا کیا حال کیا ہے) طاسین محمدؐ (’’نوحہ روح ابوجہل در حرم کعبہ‘‘) کعبہ کے بت خانہ سے حرم بن جانے پر ابوجہل کا یہ نوحہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ فلک عطارد: زاں بعد شاعراور اس کا رہنما فلک عطارد میں پہنچتے ہیں۔ یہاں جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کی ارواح سے ملاقات ہوتی ہے۔افغانی سے تعارف کراتے وقت رومی بتاتا ہے کہ میرے ساتھی کا نام ’’زندہ رود‘‘ ہے (Living Stream)زندہ رود سے افغانی اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق سوال کرتا ہے۔ زندہ رودجواب دیتا ہے۔پھر افغانی اپنے جواب میں دین و وطن کا صحیح مفہوم بتاتا ہے اشتراک و ملوکیت دونوں کے طلسموں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہتا ہے کہ۔ زندگی ایں را خروج و آں را خراج درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج! سعید حلیم پاشا مشرقیوں اور مغربیوں کے فطری اختلاف پر رائے زنی کے بعد کہتا ہے کہ افرنگیوں کا شعلہ اب ’’ نم خوردہ‘‘ ہوچکا ہے۔ ان کی آنکھ اگرچہ تیز ہے لیکن دل مردہ ہے۔ مصطفے کمال پاشا نے جو یورپ کی نقالی شروع کی ہے اس سے ترک اپنے اصلی مرکز سے ہٹ جائے گا۔ ترک اس وقت جو اپنی طرف سے نئی باتیں پیدا کر رہے ہیں وہی ہیں جو یورپ میں پرانی ہو چکی ہیں۔ سعید حلیم کا ترک کے نام پیغام یہ ہے کہ اگر کسی ’’جہان تازہ‘‘ کی تلاش ہے تو بھی ع در ضمیر خویش و در قرآں نگر زندہ رود کو شکایت ہے کہ قرآن تو موجود ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ عالم قرآن کہاں ہے۔ اس کا جواب افغانی کی طرف سے آتا ہے۔ محکمات عالم قرآنی کی حقیقت واضع کی جاتی ہے۔ ۱۔خلافتِ آدم ، ۲۔حکومت الٰہی، ۳۔ارض ملک خداست، ۴۔حکمت خیر کثیر است۔ یہ چار باتیں بطور محکمات و اصول قرآنی کے پیش کی گئی ہیں۔ طوالت کا خوف ہے یہ مضمون اپنی حد سے پہلے ہی زیادہ طویل ہو گیا ہے۔ ورنہ ان میں ہر مبحث ایک مستقل دفتر تنقید و تشریح کا مقتضی ہے۔ اس کے بعد افغانی نے ملت روسیہ کے نام پیغام دیا ہے۔ اس پیغام کی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر کچھ نہیںکہ چند اشعار نقل کر دیے جائیں۔ تو کہ طرح دیگرے انداختی دل ز دستور کہن پرادختی ہمچو ما اسلامیاں اندر جہاں قیصریت را شکستی استخواں تا برافروزی چراغے در ضمیر عبرتے از سرگذشت ماہگیر پائے خود محکم گذاراندر نبرد گرد ایں لات و ہبل دیگر مگرد کردہ ای کار خداونداں تمام بگذر از لا جانبِ الا خرام اے کہ می خواہی نظام عالمے جستہ ای او را اساس محکمے؟ داستان کہنہ شستی باب باب فکر را روشن کن از اُم الکتاب با سیہ فاماں ید بیضا کہ داد؟ مژدہ ’’لا قیصر و کسری‘‘ کہ داد؟ جز بقرآن ضیغمی روباہی است فقر قرآں اصل شاہنشاہی است اس کے بعد اشتراکی نقطہ نگاہ سے قرآن کے چند حقایق بیان فرمائے ہیں۔ ملوک کی قریہ ویرانی، ربوا کی حرمت، الارض للہ، لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا کی تشریح کی ہے۔ فلک زہرہ: شاعر کی ’’جان پاک‘‘’’سو‘‘ سے ’’بے سوئی‘‘ کی طرف پرواز پر پرواز کیے جاتی ہے۔ایک جہان میں مر کر دوسرے میں جانکلنا دوسرے میں مرکر تیسرے میں جانکلنا اس کی فطری بے تابیوں کا خاصہ ہے۔ اور آخر اس کا منتہی کیا ہے۔ می کند پرواز در پہنائے نور مخلبش گیرندئہ جبریل و حور! تاز ’’مازاغ البصر‘‘ گیرد نصیب بر مقام ’’عبدہ‘‘ گردد رقیب مقام ’’عبد،‘‘ پر ’’رقابت‘‘ کا مسئلہ کسی شاعر کے اس نعتیہ شعر سے زیادہ کہیں حل نہ ہوا ہوگا۔ موسیؑ زہوش رفت بیک جلوہ صفات توعین ذات می نگری در تبسمی سواد زہرہ میں جو منظر سب سے پہلے آتا ہے وہ خدایان اقوام کہن کی مجلس ہے۔ بعض نام حقیقی ہیں اور بعض نام شاعر کی طباعی نے خود تراش لیے ہیں۔ بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر رمخن ولات و منات و عسروغسر ان میں سے ہر ایک اپنے از سر نو زندہ ہوجانے کے امکان پر ثبوت لا رہا ہے اور اس بات سے کہ یہ عہد پھر بے ’’خلیل‘‘ اور بے ’’بت شکن‘‘ ہو چکا ہے۔ بر قیام خویش می آرد دلیل از مزاج ایں زمانِ بے خلیل بعل ایک نغمہ گاتا ہے۔ یہ نغمہ ’’نوحہ روح ابوجہل‘‘ (طاسین محمدؐ در فلک قمر) کا جواب سمجھنا چاہئے۔ بت خانہ کعبہ کو ’’حرم ‘‘میں متبدل دیکھ کر ابوجہل چلا اٹھا تھا کہ۔ سینئہ ما از محمدؐ داغ داغ از دم او کعبہ را گل شد چراغ! از ہلاک قیصر و کسریٰ سرود نوجواناں را ز دستِ ما ربود اسلام کی موجودہ پستی کی کوئی حد ہے! ابوجہل کائنات سے اپیل کرتا ہے (خدا تو اس کا کوئی ہے نہیں) کہ محمد (صلعم) سے بدلہ لے۔ اس لیے کہ بقول ابوجہل۔ مذہب او قاطع ملک و نسب از قریش و منکر از فضل عرب درنگاہ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خواں نشست قدر احرارِ عرب نشناختہ با کلفتانِ حبش در ساختہ احمراں با اسوداں آمیختند آبروئے دودمانے ریختند! بعل کا نغمہ امید کا نغمہ ہے۔ ’’بت‘‘ نے جہاں بالواسطہ ’’بت پرست‘‘ کو تسلی دی ہے وہاں اپنے ساتھی بتوں کے سامنے اعلان کیا ہے کہ اب آدم پھر ’’محسوس‘‘ پرستی کی طرف راغب ہوچکا ہے۔ وقت ہے کہ اٹھو اور پھر دنیا کو اپنا پرستار بنا جائو۔ اس مادہ پرستی کے زندہ کرنے کے لیے وہ قدرتاً افرنگیوں کا ممنون ہے۔ کہتا ہے کہ زندہ باد افرنگی مشرق شناس آنکہ مارا از لحد بیروں کشید پھر زیادہ اچھا موقعہ اس لیے پیدا ہو گیا ہے۔ کہ ابراہیم کا قائم کردہ حلقہ توحید و وحدت ٹوٹ چکا ہے۔ آل ابراہیم ؑبے ذوق الست ہے۔ ملک و نسب کے لیے نصب العیون نے دین ومذہب کو شکست دے دی ہے۔ محمدؐ کا مذہب سب سے بڑا پہاڑ تھا جو ہمارے رستہ میں حائل تھا لیکن اب اس وقت ہزاروں ابو لہب محمدؐ کے چراغ کو پھونکوں سے بجھا دینے کے درپے ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد مسافر فرعون اور لارڈ کچنرکی روحوں کو دیکھتے ہیں لیکن کہاں؟ زہرہ کے ایک دریا کی تہ میں۔ اس لیے کہ دونوں کا انجام سمندر میں غرقابی تھا۔ سمندر کے اندر یہ مجلس اس طرح منعقد ہوتی ہے۔ رومی اقبال کو کہتا ہے کہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے اور ڈر نہیں۔ پیچھے چلتا آ۔ میں موسیٰ کی طرح سینہ دریا کو چیرنا اور اس کے ضمیر کے اندر داخل ہو جانا جانتا ہوں۔ دونوں سمندر میں قدم رکھتے ہیں۔ تو سمندر اپنا سینہ کھول کر ان کو اندر آنے دیتا ہے۔ اس حیرت انگیز منظر کی تصویر شاعر نے اس طرح کھینچی ہے۔ بحر برما سینہ خود را کشود یا ہوا بود و چو آبے وا نمود قعر اویک وادی بے رنگ و بو وادی تاریکی او تو بتو پیر رومی سورئہ طٰہٰ سرود زیر دریا ماہتاب آمد فرود! کوہ ہائے شستہ و عریان و سرد اندراں سرگشتہ و حیراں دو مرد اقبال کے اس تخیل کی مثال دانتے اور ابن عربی بلکہ دنیا کے تمام شعرا کے کلام میں مشکل سے ملے گی فرعون اور کچنر حیرت زدہ ہو کر ایک دوسرے کو تکتے رہ جاتے ہیں۔ آخر فرعون مسافروں سے پوچھتا ہے کہ یہ سحر یہ دریائے نور۔یہ صبح یہ ظہور یہاں سمندر کی تہ میں کیسے پیدا ہوگئے۔ رومی دو لفظوں میں اس کی آنکھیں کھول دیتا ہے اور حقیقت منکشف کر دیتا ہے۔ فرعون کے سوال کا جواب صرف یہ ایک شعر ہے:۔ ہرچہ پنہاں است ازو پیدا ستے اصل ایں نور از ید بیضا ستے فرعون آخری وقت سمندر میں ہاتھ پائوں مار کر غرق ہونے سے پہلے اپنے ایمان کا اعلان کر کے رخصت ہوا تھا۔ ’’آمنت برب موسیٰ و ہارون‘‘ مسلمانوں کا عام عقیدہ ہے کہ یہ ’’ایمان بالباس‘‘ تھا اور قابل قبول نہ تھا۔تاہم یہ حقیقت شاعر کے سامنے ہے۔ فرعون کے لب پر رومی کے یہ الفاظ سن کر افسوس و تاسف کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں اور پکار اٹھتا ہے۔ آہ نقدِ عقل و دیں در باختم دیدم و ایں نور را نشنا ختم اپنے انجام اور ملوکیت و فرعونیت کے انجام پر آٹھ آٹھ آنسو رو کر کہتا ہے۔ چیست تقدیر ملوکیت؟ شقاق محکمی جستن زِ تدبیر نفاق ملوکیت جو تدبیر نفاق یعنی (Divide and Rule)کی پالیسی پر اپنی محکمی کی اساس رکھتی ہے اس کا انجام سوائے تباہی اور بربادی کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ تہ قلزم موت کے دن سے آج تک فرعون یہ حسرت لیے بیٹھا ہے کہ۔ باز اگر بینم کلیم اللہ را خوا ہم ازوے یک دل آگاہ را اس جواب کے بعد کچنر فرعون سے مخاطب ہوتا ہے۔ مصر میں زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائی ہورہی ہے۔ اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ اس سے اقوام پارینہ کے حالات و واقعات کا منکشف کرنا مقصود ہے۔ فرعون اس کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میری قبر تو علم و حکمت کی اغراض سے کھود ماری لیکن مہدی سوڈانی کی تربت کے اندر کیا تھا کہ تونے اپنے زمانہ میں اس کو کھدوا ڈالا؟اس کا جواب کیا ہوسکتا تھا۔ دفعتہ گلشن جنت کی طرف درویش سوڈانی کی روح پروازکرتی ہوئی اس بزم میں آنکلتی ہے۔ اورسب سے پہلے کچنر سے مخاطب ہوتی ہے۔ گفت اے کشنر اگر داری نظر انتقامِ خاک درویشے نگر! آسماں خاک ترا گورے نداد مرقدے جز دریم شورے نداد اس تمام باب میں سب سے اہم وہ پیغام ہے جو مہدی سوڈانی نے اقوام عرب وافریقہ کے نام دیا ہے۔ افسوس ہے کہ یہاں سوائے چند اشعار کے زیادہ درج نہیں کیا جا سکتا۔ گفت اے روحِ عرب بیدار شو چوں نیاگاں خالق اعصار شو! زندہ کن در سینہ آں سوزے کہ رفت در جہاں باز آور آں روزے کہ رفت! خاک بطحا خالدے دیگر بزاے نغمہ توحید را دیگر سراے اے نخیل دشت تو بالندہ تر برنخیزد از تو فاروقے دگر؟ اے جہانِ مومنانِ مشک فام از تومی آید مرا بوئے دوام! زندگانی تاکجا بے ذوق سیر تا کجا تقدیر تو دردست غیر! بر مقام خود نیائی تابکے استخوانم دریمے نالد چونے! از بلا ترسی؟ حدیثِ مصطفے است مرد را روزِ بلا روزِ صفا است فلک مریخ: فلک مریخ میں شاعر کے تخیل نے اس ستارے کا ایک فلاسفر دکھایا ہے۔ جس کا نام حکیم مریخی ہے۔وہ انجم شناس واقع ہوا ہے۔ مسافروں کی دنیا کے حالات سے آگاہ ہے۔ بلکہ کسی زمانہ میں اس کی سیر کر چکا ہے۔ ایران و فرنگ دیکھ چکا ہے۔ ’’نیل‘‘ و ’’رود گنگ‘‘ کے ملکوں سے خوب واقف ہے۔ بہر تحقیقِ فلزآتِ زمین، امریکہ،جاپان، چین سب کی سیاحت کر چکا ہے۔ مسافروں کو بتاتا ہے کہ جہاں تم پہنچے ہو یہ شہر مرغدین کا نواح ہے۔ وہ خود یہاں کیوں پیدا ہوئے یہ تمام حالات بتائے جاتے ہیں۔ شہر مرغدین کے حالات میں حکیم مریخی کہتا ہے کہ۔ کس دریںجا سائل و محروم نیست عبد و مولیٰ حاکم و محکوم نیست یہاں زندہ رودیعنی اقبال اور حکیم مریخی میں تقدیر و تدبیر کے مسٔلے پر مکالمہ ہوتا ہے۔ زندہ رود تقدیر کے متعلق اپنا نیا نقطہ خیال واضح کرتا ہے۔ جس مذہب نے تقدیر کو قناعت و سکون اور بے علمی سمجھ کر بطور عقیدہ کے دل میں جگہ دے لی ہے اس کے متعلق کہتا ہے۔ وائے آں دینے کہ خواب آرد ترا باز در خواب گراں دارد ترا! سحر و افسون است یا دین است ایں؟ حب افیون است یا دین است ایں؟ تذکیر نبیہ مریخ: فلک مریخ میں ہزاروں کاخ و کوہ گذرنے کے بعدمسافر ایک جگہ دیکھتے ہیں،ایک شہر ہے اور اس کے باہر ایک وسیع فراخ میدان ہے۔ وہاں مرد و زن کا ہجوم ہے۔ گویا ایک عام جلسہ ہے جہاں ایک عورت تقریر کر رہی ہے۔ اس کا چہرہ بظاہر خوب چمکتا دمکتا ہے لیکن اس کے تن میں نور جان پیدا نہیں۔ اس کے الفاظ بے سوزہیں اور اس کی آنکھ بے نم یعنی سرورِ آرزو و محبت سے یکسر نامحرم ہے۔ اس کا سینہ جوش جوانی سے خالی اور اس کا ’’ آئینہ‘‘ کورو صورت ناپذیر‘‘ واقع ہوا ہے۔ یہ فیشن وآزادی کی دلدادہ، محبت و آئین محبت سے قطعاً بے خبر ہے۔ مراد یہ کہ مرد کی صحبت سے گریزاں ہے۔ اور اس سے ازدواج کے تعلق کو برا سمجھتی ہے۔ یہ وہی رنگ ہے جو اب یورپ کی تقلید میں مشرق کی عورتیں بھی اپنے اوپر وارد کرنے کی آرزو مند ہورہی ہیں۔ حکیم نکتہ دان مسافروں کو بتاتا ہے کہ یہ نوجوان لڑکی اہل مریخ سے نہیں ہے بلکہ فرزمرز جسے شاعر نے مریخ کا آمرِ کردار’’ زشت‘‘ بیان کیا ہے اسے یورپ سے اٹھا کر یہاں لے آیا ہے تاکہ مریخ کی عورتوں کے دل میں بھی اس کی تقلید کی خواہش پیدا کر کے انھیں بگاڑ دے۔ فرزمرز نے ’’کارنبوت‘‘ (تبلیغ) میں اسے پختہ کر دیا ہے۔ لیکن وہ خود اب یہ دعویٰ کرتی ہے کہ میں آسمان سے بطور نبیہ نازل ہوئی ہوں اور میری دعوت ’’دعوت آخرِزمان‘‘ ہے۔ اس کا خاص فن کیا ہے۔ از مقام مرد و زن دارد سخن فاش ترمی گوید اسرار بدن یہ فرنگی آزاد لڑکی جو اس دنیا کی لڑکیوں کو نئے آزادی کے رستہ پر لگا کر اب مریخ میں ’’کارنبوت’’ کے فرائض ادا کرنے کے لیے جا پہنچی ہے، وہاں کی عورتوں کو اپنی سحر پرور تقریر میں مردوں سے باغی ہو جانے کی تلقین کرتی ہوئی کہتی ہے۔ اے زناں! اے مادراں! اے خواہراں! زیستن تاکے مثال دلبراں؟ ــــــــــ دلبری اندر جہاں مظلومی است دلبری محکومی و محرومی است! در دو گیسو شانہ گردانیم ما مرد را نخچیر خود دانیم ما مرد صیادی بہ نخچیری کند گرد تو گردد کہ زنجیری کند! ہمبرِ او بودن آزار حیات وصلِ او زہر و فراقِ او نبات پھر ایک نہایت دلچسپ انداز میں شادی سے بے نیازی اور ماں بننے کی مصیبت سے جو حیلے آجکل یورپ میں اختیار کیے جا رہے ہیں ان کا نقشہ کھینچا ہے اور ان خیالات کی بیہودگی کا رازرومی کی زبان سے ظاہر کیا ہے۔ فلک مشتری: فلک مشتری میں ارواح جلیلہ منصور حلاج، غالب اور ایران کی مشہور شاعرہ قرۃ العین ملتی ہیں۔ نوائے حلاج، نوائے غالب، نوائے طاہرہ سننے کے بعد زندہ رود اپنی بعض مشکلات ان ارواح بزرگ کے سامنے پیش کرتا ہے اور ان کے جواب سنتا ہے۔ مثلاً حلاج سے سوال ہوتا ہے۔ از مقام مومناں دوری چرا؟ یعنی از فردوس مہجوری چرا؟ حلاج کے جواب میں جنت کی حقیقت پر شاعر اپنے تمام خیالات کو واضح کر جاتا ہے: جنت مُلاّ مے و حور غلام جنت آزاد گاں سیر دوام! یہ الفاظ منصور ہی کی زبان کو سزا وار تھے کہ۔ عشق ما از شکوہ ہا بیگانہ ایست گرچہ او را گریہ مستانہ ایست ایں دل مجبور ما مجبور نیست ناوک ما از نگاہ حور نیست! آتش ما را بیفزاید فراق جانِ مارا ساز گار آید فراق بے خلش ہا زیستن، نازیستن باید آتش در تہ پا زیستن! بعض دوسرے سوالات کے جواب میں منصور تقدیر کی حقیقت پر بحث کرتا ہے اور ’’انا الحق‘‘ کہنے کی وجہ سے اسے دار پر کیوں لٹکایا گیا اس کی تشریح کرتا ہے۔ ایک پیرایہ میں شاعر بتا گیا ہے کہ منصور کا ’’انا الحق‘‘ کہنا کفر نہ تھا بلکہ ’’خودی‘‘ کے مظہر اتم ہونے کا مشاہدہ تھا۔ منصور ’’خودی‘‘ کے حقائق بیان کرتا ہے اور شاعر کو متنبہ کرتا ہے کہ دیکھ تو بھی ان ملائوں کے نزدیک کم و بیش اسی گناہ کا مرتکب ہورہا ہے جس کا میں ہوا تھا ع آنچہ من کردم تو ہم کر دی بترس! کیونکہ جس طرح میں نے اپنے سینہ کی بانگ صور یعنی ’’انا الحق‘‘ سے ایک ایسی ملت کو جو ’’قصد گور‘‘ کر چکی تھی از سر نوزندہ کرنے کی کوشش کی اور اس کا بدلہ اُنھوں نے مجھے سولی پر لٹکا کر دیا اور الٹا کافر کہا، اسی طرح تونے بھی وہی حرکت کی ہے۔ محشرے بر مردہ آوردی بترس! غالب سے پہلے اس کے ایک شعر کی شرح پوچھی گئی ہے۔ یہ شعر دراصل اردو میں ہے اور ازبسکہ یہ اردو غالب کی کہی ہوئی ہے اس لیے محض الفاظ ردیف کو فارسی میں بدل لینے سے فارسی شعر بن گیا ہے۔ اردو شعر یہ ہے۔ قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشانِ جگر سوختہ کیا ہے ’’سوختہ کیا ہے‘‘ کو ’’سوختہ چیست‘‘ بنا کر شعر فارسی میں بدل لیا گیا ہے۔ اس شعر کے مفہوم پر بعض ادبی رسالوں اور کتابوں میں کچھ عرصہ ہوا بحث چھڑی تھا۔ ’’معارف‘‘ کے کسی نمبر میں بھی ایک صاحب کے مضمون میں اس شعر پر بحث تھی۔ وہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ اس شعرکی تشریح خود غالب کی زبان سے جاوید نامہ میں لکھی جائے۔ اس تشریح پر بحث مضمون کی غیر ضروری طوالت کا باعث ہے اس لیے اس میں دلچسپی رکھنے والے قارئین اصل کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے آگے مسئلہ ’’رحمتہ للعالمین‘‘ پر بحث ہے۔ غالب نے اس مسٔلہ پر لکھتے ہوئے اپنی ایک مثنوی (۴)میں یہ شعر لکھا ہے۔ ہر کجا ہنگامۂ عالم بود رَحمتہ للعالمینے ہم بود جاوید نامہ میں اس نکتے پر جو مکالمہ غالب و اقبال کے درمیان ہوا ہے اس میں ’’رحمتہ للعالمین‘‘ کے انتہائی حقائق و اسرار واضح کر دیے گئے ہیں۔ غالب ایک طرح اس رمز کی صحیح حقیقت کے وا کرنے سے عاجز آجاتا ہے۔ آخر منصور اس راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بروید آرزو یا زنورِ مصطفےؐ او را بہاست یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفےؐ است اس پر زندہ رود مستفسر ہوتا ہے کہ پھر اس ’’جوہر‘‘ کا ’’سر‘‘کیا ہے جس کا نام ’’مصطفےؐ ‘‘ ہے۔ وہ حقیقت میں ’’آدم‘‘ ہے یا کوئی ’’جوہر‘‘ ہے جو گاہے گاہے ’’وجود‘‘ میں آجاتا ہے۔ حلاج کے جواب نے اس نکتہ کی نہایت دقیق کنہوں کو طشت ازبام کرنے کی کوشش کی ہے۔ ’’عبد‘‘ (آدم) کے کیا معنی ہیں اور (عبدہ ’’اللہ کا عبد‘‘ کیا شے ہے یہ اپنی قسم کی پہلی بحث ہے جو جاوید نامہ میں آئی ہے۔ ’’رحمتہ للعالمینی‘‘ کا نکتہ سمجھ چکنے کے بعد مسائل ’’دیدار پیغمبر‘‘اور ’’ دیدار ذات‘‘ زیر بحث آتے ہیں۔ حلاج اس صوفی پر افسوس ظاہر کرتا ہے جو ظاہری ھاوھو میں مشاق ہے لیکن ’’حکم حق‘‘ پہلے اپنی جان پروارد کرنا اورپھر اسے جہاں میں جاری کرنا نہیں جانتا۔ وائے درویشے کہ ہوے آفرید باز لب بربست و دم درخود کشید خانقا ہے جست و از خیبر رمید راہبی ورزید و سلطانی ندید! موجودہ زمانے کے صوفی کو خطاب ہے کہ۔ نقشِ حق داری؟ جہاں نخچیر تست ہم عناں تقدیر باتدبیر تست عصر حاضر با تو می جوید ستیز نقشِ حق بر لوحِ ایں کافر بریز! یہ بحث ذرا لمبی ہے کہ نقش حق جہان پر کس طرح وارد کیا جا سکتا ہے۔ ’’زور دلبری‘‘ سے یا ’’زور قاہری‘‘ سے؟ اس بحث کے اختتام پر ابلیس نمودار ہوتا ہے جسے شاعر’’ خواجہ اہل فراق‘‘کا نام دیتا ہے۔ ’’نالہ ابلیس‘‘ میں ’’ابلیسیت‘‘ کو جو صدمہ ’’آدمیت‘‘نے پہنچایا ہے اس کا گلہ ہے۔ ابلیس روتا ہے کہ موجودہ ’’ابن آدم‘‘ تو میرا کوئی شکار ہی نہیں۔ اگر مجھے اتنا بڑا ’’ابلیس‘‘ بنانا تھا تو پھر میرا ’’منکر‘‘ بھی کوئی ایسا بنایا ہوتا جو میری گردن توڑتا یہ آدم کیا کہ جس کو میں جس طرف چاہتا ہوں پیچھے لگائے پھرتا ہوں۔ خدا سے ابلیس کی آخری التجا یہ ہے کہ۔ اے خدا یک زندہ مردِ حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست فلک زحل: فلک زحل میں ایک خاص شاعرانہ پیرایہ میں ہندوستان کی بعض گذشتہ اور موجود سیاسیات زیربحث آتی ہیں۔ فلک زحل کو شاعر نے ان رواح رزیلہ کا مقام قرار دیا ہے جنہوں نے ملک و ملت سے غداری کی اوردوزخ نے بھی ان کو مرنے کے بعد قبول نہیں کیا۔ اس ’’منزل ارواح بے یوم النشور‘‘میں دو ’’طاغوت‘‘ دکھائے گئے ہیں جنہوں نے ملک وملت سے بے وفائی کی اوراپنے تن کی خاطر ملت کوقربان کر دیا۔ وہ دو ’’طاغوت‘‘ کون ہیں۔ جعفر از بنگال وصادق از دکن ننگ آدم، ننگ دیں، ننگ وطن! اول الذکر نے سراج الدولہ سے غداری کی اور موخر الذکر نے سلطان ٹیپو سے۔ دونوں کی غداری کا نتیجہ کیا ہے۔ یہ کہ اس پاک سر زمین ہند میں غلامی کا بیج بویا گیا۔ جس عذاب میں یہ دونوں غدار مبتلا ہیں۔ اس کا ہولناک نقشہ کھینچنے کے بعد شاعر ’’روح ہندوستان‘‘ کو بصورت ’’حور پاک زاد‘‘ آسمان کے پردوں سے باہر آتے دکھاتا ہے اور اس کے نالہ و فریاد کی تصویر اپنے خاص انداز میں پیش کرتے ہوئے ہندوستان کی موجودہ غلامی کے اسباب اور اس کے موجود سیاسی حربوں کے حسن و قبح پر شاعرانہ انداز میں بحث کرتا ہے۔ آخیر پر وہ انتباہ ہے جو اس زمانے کے ’’غداران ملک و ملت‘‘ سے ہوشیار رہنے کے متعلق ہندوستانیوں کو کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی تقدیر میں اس وقت تک غلامی باقی ہے جب تک یہ ’’جعفر‘‘ اس کے اندر پیدا ہوتے رہیں گے۔ کس طرح ہر زمانہ ایک نئی قسم کے ’’جعفر‘‘ پیدا کر لیتا ہے، نہایت لطیف انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ نکات سمجھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کے شب ہندوستاں آید بروز! مرد جعفر، زندہ روح او ہنوز! تاز قید یک بدن وا می رہد آشیاں اندر تنے دیگر نہد! گاہ او را با کلیسا ساز باز گاہ پیش دیریاں اندر نیاز دین او آئین او سودا گری است عنتری اندر لباس حیدری است پیش ازیںچیزے دگر مسجود او در زمان ما وطن معبود او ظاہر او از غم دیں دردمند باطنش چوں دیریاں زناز بند جعفر اندر ہر بدن ملت کش است ایں مسلمانے کہن ملت کش است ’’جعفر‘‘ زمانہ حال کی منافقت کا نمایاں ترین نشان یہ بتایا ہے (اور نہ معلوم وہ کون ہے!!)کہ خند خندان است و باکس یار نیست مار اگر خنداں شود جز مار نیست از نفاقش وحدت قومے دونیم ملت او از وجود او لیئم! قومی وحدت کو دونیم کرنے کے ذمہ دار آج ایک نہیں سینکڑوں ہیں۔ آں سوئے افلاک : آخری پرواز سیر حدود افلاک سے پرے جانے کے لیے ہے۔ لیکن پیشتر اس کے کہ وہاں پہنچیں ایک اورجہان دیکھا گیا ہے جس کی ثغور پر ایک مرد جس کے لب پر ایک دردمند صدا جاری ہے، نظر آتا ہے۔ رومی بتاتا ہے کہ یہ شخص حکیم المانوی ’’نطشا‘‘ ہے۔ ’’نطشا‘‘ کے متعلق مدت ہوئی اقبال کہہ چکا ہے کہ قلب او مومن دماغش کافر است اب بتایا کہ اس کی اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ بھی اپنی وضع کا منصور حلاج تھا۔ جس کو اس کے ملک کے لوگوں نے نہ پہچانا منصور کی جان اگر ملا نے لی تو نطشا کی طبیب نے۔ نطشا کو اطبا نے دیوانہ قرار دیا تھا۔ اقبال اسے مجذوب بتاتا ہے برنارڈ شاگو اس حقیقت سے واقف نہیں مگر وہ بھی نطشا کو دیوانہ کہنے سے انکاری ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دنیا نے اسے دیوانہ سمجھنا شروع کر دیا۔ اگر یورپ میں کوئی اس مجذوب کی واردات کو سمجھنے والا ہوتا توشاید وہ گم گشتہ نہ ہونے پاتا۔ اگر عیسائیت کا پردہ چاک کرنے کے بعد وہ توحید کی طرف راہ نہ پاسکا تو اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ اس کو رستہ پر لگانے والا کوئی نہ تھا۔ اس کے افکار نے جہاں یورپ کے مروجہ معتقدات کے طلسم توڑ ڈالے، وہاں وہ خود بھی ان میں گھر کر رہ گیاتا آنکہ۔ مستی او ہر زجاجے راشکست از خدا ببرید وہم از خود گسست! او بہ لا در ماند و تا اَلا نرفت از مقامِ ’’عبد‘‘ بیگانہ رفت! اقبال کا خیال ہے کہ شایدنطشا اگر مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کے زمانہ میں پیدا ہوتااور اس مرد کامل کی صحبت اسے نصیب ہو جاتی تو وہ منزل مقصود کو پا جاتا۔ کاش بودے در زمانِ احمدے تا رسیدے بر سرور سرمدے جس قددر مجدد الف ثانی ’’مجذوبیت‘‘ کی قدیم اور بے پناہ رو کو ’’سلوک‘‘ میں بدلنے میں کامیاب ہوئے شاید اورکوئی مجدد یا ریفارمر دنیا کا اس بات میں اتنا کامیاب نہ ہوا ہوگا۔ حرکت بجنت الفردوس: اب مسافر کائنات کی حد سے باہر چلے جاتے ہیں اورجہانِ بے جہات میں قدم رکھتے ہیں۔ اس جہان بے جہت کی تعریف کے سلسلے میں پھر زمان و مکان کے مبحث نئے سے نئے رنگ میں پیش کئے ہیں۔ دوزخ اور بہشت کی حقیقت رومی کی زبان سے ان الفاظ میں پیش کی ہے۔ گفت رومی اے گرفتارِ قیاس در گذر از اعتبارات حواس از تجلی کار ہائے خوب و زشت می شود آں دوزخ ایں گردد بہشت! ایں کہ بینی قصر ہائے رنگ رنگ اصلش از اعمال ونے از خشت و سنگ! آنچہ خوانی کوثر و غلمان و حور جلوئہ ایں عالم جذب و سرور زندگی ایں جا زِ دیدار است و بس ذوق دیدار است و گفتار است و بس! قصرِ شرف النسا: سب سے پہلا قصر جو جنت میں نظر آیا وہ شرف النسا بیگم کا تھا۔ شرف النسا نواب خان بہادر خاں کی بیٹی اورنواب عبدالصمد خاں کی پوتی تھیں۔ یہ دونوں باپ بیٹا بہادر شاہ اورشاہ عالم کے زمانہ میں یکے بعد دیگرے پنجاب کے گورنر تھے۔ اس عہد میں صوبوں کے حکمران ایک طرح خود مختار ہوچکے تھے۔ تاہم دہلی کے مغل شاہنشاہ کو خراج دیا جاتا تھا اور اہم شاہنشاہی فرمانوں کی تعمیل ہوتی تھی۔یہ عبدالصمد خان وہی ہیں جنھوں نے پنجاب میں بندہ بہادر کے فتنہ کو دبایا اور اسے قید کر کے دہلی پہنچایا۔ اس زمانہ میں پنجاب کا گورنمنٹ ہائوس وہ جگہ تھی جہاں اب شہر کی شمالی جانب شالامار کو جاتے ہوئے بیگم پورہ کا گائوں آباد ہے۔ نواب عبدالصمد خاں کی بیگم کے نام پر ہی اس جگہ کا نام بعد میں بیگم پورہ مشہور ہوا۔ نواب عبدالصمد خاں اور اس کے بیٹے نواب بہادر خاں کی قبریں بیگم پورہ میں چار دیواری کے اندر موجود ہیں۔ اس گورنمنٹ ہائوس کی عماتوں کے کھنڈر اور بعض مساجد و مقابر اب تک کھڑے ہیں۔ انھیں مقبروں میں شرف النسا بیگم کا مقبرہ ہے۔ شرف النسا بیگم نے محلات شاہی کے احاطہ میں ایک چبوترہ بنوا رکھا تھا جس پر سیڑھی لگا کرچڑھا جاتا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ ہرروز صبح کی نماز کے بعد جوتا اتار کر اس چبوترہ پر بیٹھ جاتیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ ایک مرصع تلوار پاس ہوتی تھی۔ جب تلاوت ختم کر لیتیں تو قرآن شریف کو تہ کر کے وہیں پڑا رہنے دیتیں اور اس کے ساتھ تلوار رکھ کر نیچے آجاتیں۔ مرتے وقت وصیت کی کہ مجھے اس چبوترے پر دفن کیا جائے اوروہ قرآن و تلوارقبر کے اوپر ہمیشہ کے لیے محفوظ پڑے رہیں چنانچہ موت کے بعد اسے وہیں دفن کیا گیا۔ پھر اس چبوترہ پر گنبد بنا۔ اب اس گنبد کو دیکھیں تو سمجھ میں نہیںآتا کہ یہ دو منزلہ گنبد کیوں تعمیر ہوا۔ لیکن اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔مقبرہ کی بالائی دیواروں کے باہر سرو کے درختوں کے نقوش ہیں۔اور ان کی وجہ سے لوگ اب اس مقبرہ کو سرو والا مقبرہ کہتے ہیں۔ اقبال نے شرف النسا بیگم کا جو قصر جنت میں دکھایا ہے وہ لعل ناب سے تعمیر ہوا ہے جو اپنی ضوفشانی میں آفتاب سے خراج وصول کرتا نظر آتا ہے۔ جب زندہ رود رومی سے سوال کرتا ہے کہ یہ کاشانہ کس کا ہے تو موخرالذکر اس کی تعریف بیان کر کے کہتا ہے کہ۔ قلزم ما ایں چنیں گوھر نہ زاد ہیچ مادر ایں چنیں دختر نہ زاد خاک لاہور از مزارش آسماں کس نداند رازِ او را در جہاں! اس کے بعد شاعرانہ انداز میں شرف النسا کے وہی حالات بیان کئے ہیں جو اوپر درج ہوئے۔ ماں کوجو آخری وصیت کی اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے۔ بر لب او چوں دم آخر رسید سوئے مادر دید و مشتاقانہ دید! گفت اگر از رازِ من داری خبر سوئے ایں شمشیر و ایں قرآں نگر ایں دو قوت حافظ یک دیگراند کائنات زندگی را محور اند! اندریں عالم کہ میرد ہر نفس دُخترت را ایںدو محرم بود وبس! وقتِ رخصت با تو دارم ایں سُخن تیغ و قرآں را جدا از من مکن مومناں را تیغ با قرآں بس است تربت مارا ہمیں ساماں بس است حسب وصیت تیغ و قرآن شریف شرف النسا کی قبر پر ایک مدت محفوظ پڑے رہے۔لیکن ۴۶،۱۸۴۵ء کے ان ہنگاموں میں جو سکھوں میں خانہ جنگی کی وجہ سے لاہور میں رونما ہوئے، تاریخ میں لکھا ہے کہ کسی سکھ سردار نے یہ سن کر کہ اس دو منزلہ مقبرہ میں خزانہ مدفون ہے، اس پر چڑھ کر اس کو کھولا اور تو کچھ ہاتھ آیا یا نہ وہ تیغ وقرآن ضرور وہاں سے نکال لے گئے۔ رومی کہتا ہے کہ۔ عمر ہا در زیر ایں زریں قباب بر مزارش بود شمشیر و کتاب مرقدش اندر جہان بے ثبات اہل حق را داد پیغامِ حیات تا مسلماں کرد با خود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در نورد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا روبہی را پیشہ کرد! از دلش تاب و تب سیماب رفت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت! خالصہ شمشیر و قرآں را ببرد اندر آں کشور مسلمانی بمرد جاوید نامہ میں یہی ایک مقام ہے جہاں پنجاب کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک درد انگیز منظر پیدا ہے۔ قصر شرف النسا کی زیارت کے بعد حضرت سید علی ہمدانی اور ملا طاہرغنی کشمیری سے ملاقات ہوتی ہے۔ ان مکالمات میں خطہ کشمیر کے ماضی و حاضر اور مستقبل پر ان خیالات و جذبات کا ایک سماں پیدا کیا ہے کہ اگر آج اہل خطہ ان سے روشناس ہوجائیں تو زندگی کی تازہ لہر جو اب ان کی رگوں میں دوڑنے لگی ہے، ایک نئی سرعت و حرارت اختیار کر لے۔ کشمیر کی گذشتہ اور موجودہ پالیٹکس، خطہ کا مہاراجگانِ کشمیر کے پاس بیچا جانا، یہ سب واقعات جن الفاظ میں ادا ہوئے ہیں، وہ نشتر بن کر دل کے پار ہو جانے والے ہیں۔ شاعر سرینگر کے نواح میں نسیم باغ اور نشاط باغ کی سیر و سیاحت کے لطف اٹھاتا رہا ہے۔ انکے جوش بہار کے منظروں سے مسرورہو کر ’’بشنو ازنے‘‘ کے نغمے الاپنے لگتا ہے۔ ایک پرندہ ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا ہوا اسے مخاطب کر کے کہتا ہے کہ یہ بہار اوراس کے یہ موسم ہمارے لیے جو اس خطہ کے رہنے والے ہیں پر پشہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ۔ لالہ رست و نرگس شہلا دمید بادِ نوروزی گریبانش درید! عمر ہا بالید ازیں کوہ وکمر نستر از نورِ قمر پاکیزہ تر عمر ہا گل رخت بربست و کشاد خاک ما دیگر شھاب الدیں(۵) نزاد! اس پرندہ کا نغمہ ابھی ختم ہوا تھا کہ ایک مرد دیوانہ جوش و خروش میں ایک نالہ مستانہ کرتا اور شاعر کو یہ کہتا سنا گیا کہ۔ بگذر ز ما و نالہ مستانہ مجوئے بگذرز شاخ گل کہ طلسمے است رنگ وبوئے یہ جو بظاہرپرندہ درخت کی ٹہنی پر تم نے گیت گاتے سنا ہے وہ دراصل غنی کی روح ہے جومرگ آرزوکی ماتمی ہوکر پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ۔ باد صبا اگر بہ جنیوا گذر کنی حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوئے دہقان و کشت و جوے و خیاباں فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند! آگے چل کر غنی شاعر کو پھر بتاتا ہے کہ اہل خطہ کے مستقبل سے نا امید نہ ہو۔ باش تابینی کہ بے آواز صور ملتے برخیزد از خاک قبور! شہر ہا زیرسپہر لاجورد سوخت از سوز دل درویش مرد سلطنت نازک تر آمداز حباب از دمے اورا تواںکردن خراب یہ اشعار اس وقت لکھے گئے تھے جب ابھی کشمیر کے موجودہ انقلاب کا وہم بھی اہل خطہ کو نہ آیا ہوگا۔ افسوس کہ جاوید نامہ کی طباعت میں تاخیر کی وجہ سے اب آکر شائع ہوئے۔ شاہ ہمدانی کی زبان سے فقیری و شاہی اور ’’تخت و تاج‘‘ کی اصلیت کے متعلق ان گراں بہا اسرارو حقائق کا اظہار کیا گیا ہے کہ ان کا جاننا تمام اقوام کی سیاسی راہنمائی کا باعث ہو۔ اس کے بعدہندوستان کے مشہور شاعر برتری ہری سے مل کر اس پر سوال کیا جاتا ہے کہ شعر کیا چیز ہے۔ پھر ہندوستان کے موجودہ سیاسی پیچ و تاب پر اس کی رائے دریافت کی جاتی ہے اوراس سلسلہ میں برتری ہری کی ایک خاص نظم کا فارسی ترجمہ درج کیا ہے۔ کاخِ سلاطین: اس منظر سے گذر کرکاخ سلاطین مشرق میں نادر شاہ ابدالی اور سلطان شہید (ٹیپو) سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ نادر ایرانیوں کی موجودہ حالت دریافت کرتا ہے۔ زندہ رود ایرانیوں کے تمام وہ موجودہ رجحانات ان کے سامنے بیان کرتا ہے۔ جو ’’اسلامیت‘‘ اور ’’عربیت‘‘ سے ہٹا کر ان کو ’’ایرانیت‘‘ کی طرف لے جارہے ہیں اور افرنگی’’قومیت‘‘ کی تقلید پر ان کو گامزن کررہے ہیں۔ ابدالی کا پیغام ملت افغانیہ کے نام ہے۔ ایشیا میں بحیثیت قوم افغانوں کی سیاسی اہمیت پر بحث کی ہے افغانوں کو نصیحت ہے کہ جس طرح ترک فرنگیوں کی تقلید سے اپنا آپ کھو رہے ہیں۔ تم ان کی پیروی سے بچنا اوراپنی خصوصیات کو محفوظ رکھنا۔ رضا شاہ پہلوی اور نادر خاں موجودہ حکمران افغانستان کو سیاسیات کے بغض اہم نکات سمجھائے گئے ہیں۔ سلطان شہید ٹیپو زندہ رود سے ہندوستان کا حال دریافت فرماتے ہیں۔ زندہ رود بتاتا ہے کہ اس وقت ’’سول نافرمانی‘‘ کا دور دورہ ہے۔ ہندیاں منکر ز قانونِ فرنگ در نگیرد سحر و افسونِ فرنگ سلطان اپنے دکن کے حالات دریافت کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا دکن میں بھی کوئی آثار حیات پیدا ہیں۔ اقبال کو اپنا دکن کا سفر یاد آجاتا ہے جواب میں کہتا ہے کہ۔ تخم اشکے ریختم اندر دکن لالہ ہا روید ز خاک آں چمن! سرنگاپٹم میں تیرے محلات کے نیچے بہنے والی کاویری پھر اپنے اندر نئی موجیں پیدا کر رہی ہے۔ رود کاویری مدام اندر سفر دیدہ ام در جان او شورے دگر! ’’سلطان‘‘ زندہ رود کو دریاے کاویری کے نام اپنا پیغام دیتا ہے۔ اس پیغام میں حقیقت حیات و مرگ اور شہادت پر حیرت انگیز خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔ آخری مناظر فردوس بریں سے رخصت ہونے کے ہیں۔ حوارن بہشتی شاعر سے شعر سنانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہ فرمائش قبول کی جاتی ہے اور ایک غزل سے انھیں مسرور کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد عین ’’حضور‘‘ میں حاضری ہے (Direct Vision)یعنی تجلی ذات کے مباحث ایسے ہیں کہ اقبال ان پر لکھتا کبھی صبر نہیں پاتا۔ علم و عشق کے حقائق نئے الفاظ اور نئے پیرائے میں پھر پیش کر دیے ہیں۔ لذت دیدار سے بہرہ یاب ہو کربارگاہ سرمدی میں کچھ التجائیں کی ہیں۔ وہ التجائیں پھر وہی ہیں کہ اس سفلی خاکدان سے نکال کر کسی اورجگہ ہم کو پھینک دے۔ ایں چنیں عالم کجا شایانِ تست آب و گل داغے کہ بردامانِ تست مگر ’’ندائے جمال‘‘ نے جمالی انداز میں انتباہ کیا کہ۔ زندہ؟ مشتاق شو، خلاق شو ہمچو ما گیرندئہ آفاق شو! در شکن آنزا کہ ناید ساز گار از ضمیر خود دگر عالم بیار ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست زاں بعد ناگہاں ’’تجلی جلال‘‘ نمودار ہوتی ہے۔ تمام زمین و آسمان نور شفق میں غرق ہو جاتے ہیں اورسرخ نظر آنے لگتے ہیں۔ شاعر کلیم اللہ کی طرح جلوہ مست ہوکرگر پڑتاہے۔ تاب گفتار باقی نہیں رہتی۔ اور عالم بے چون و چند کے ضمیر سے یہ نوائے سوزناک سنتا ہے۔ بگذر از خاور و افسونی افرانگ مشو کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو آں نگینے کہ تو ہا اہر مناں باختۂ ہم بہ جبریل امینے نتواں کرد گرو! ــــــــــــ زندگی انجمن آراو نگہدار خود است اے کہ در قافلہ ای بے ہمہ شو باہمہ رو از تنک جامی ما میکدہ رسوا گردید شیشۂ گیر و حکیمانہ بیا شام وبرو کتاب کا آخری حصہ ’’خطاب بہ جاوید‘‘ پر مشتمل ہے۔ اس میں موجودہ زمانے کے نوجوانوں کو حالات حاضرہ کی روشنی میں نصیحتیں کی گئی ہیں۔ ہر شعر حرز جان بنانے کے قابل ہے۔ اس سے لطف اندوزی کے لیے اس کا مسلسل مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ کارواں،سالنامہ، ۱۹۳۳ء بہ حوالہ: نقد اقبال ، حیات اقبال میں، مرتبہ : ڈاکٹر تحسین فراقی، بزم اقبال لاہور، ۱۹۹۲ء حوالے اور حواشی ۱۔ پورا نام Asin Palaciosہے ۔ ۲۔ اس ضمن میں سنائی کی سیر العباد الی المعاد، عطار کی منطق الطیر اور ابنِ لطفیل کی حی ابن یقظان بھی معراج کے عرفانی پہلوئوں اور روحانی سمتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ۳۔ یہ بات درست نہیں۔ طس قرآن کی کسی سورۃ کا نام نہیں۔ یہ قرآن میں مستعملہ حروف مقطعات ہیں۔ ۴۔ مثنوی کا نام بیان نموداری شان نبوت و ولایت ہے۔ ۵۔ یکے از سلاطین مشہور کشمیر (مصنف)۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ سید نذیر نیازی قارئین کو معلوم ہے خطبات کا موضوع ہے: الہٰیات اسلامیہ کی تشکیل جدید، لیکن فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو لفظ الہٰیات قدرے وضاحت طلب ہے۔ ایک لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں الہٰیات عبارت ہے اس فکر سے جو ذات الہٰیہ کے اثبات پر مرتکز رہتا اور جملہ حقائق کی تشریح اس کے حوالے سے کرتا ہے۔ عام معنوں میں اس کا مطلب ہے مذہبیات یعنی وہ سلسلۂ بحث و استدلال جس سے ہر مذہب اپنے مخصوص تصورات کی تائید اور عقلی جواز کا سہارا ڈھونڈتا ہے لیکن بہت کم ہوتا ہے کہ یہ فلسفیانہ غور و فکر کے معیار پر پورا اُترے۔ اصل اس اصطلاح کی یونانی لفظ تھیالوجی ہے (تھیوس بمعنی الہٰ) جسے گویا مابعد الطبیعیات کا مترادف سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ یونانی فلسفے میں خدا (یا بہت سے خداوؤں) کا وجود مسلّم تھا اور اس کے بعد الطبییعی غور و فکر کا سلسلہ اسی پر جا کر ختم ہوتا تھا۔ لہٰذا یہ جو مشرقی ادب میں افلاطون کے نام کے ساتھ ’’الہٰی‘‘کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ افلاطون کے فکر کی حیثیت مذہبی تھی۔ اس لیے کہ باوجود اس کی مذہبیت کے، ہم افلاطون کا شمار فلسفیوں ہی میں کریں گے۔ بہرحال یہاں جس امر پر زور دینا مقصود ہے وہ یہ کہ الہٰیات کا اصل موضوع ہے حقیقت: کا ادراک اور اس کی تعیین و ترجمانی، اور یہی وجہ ہے کہ خطبات کے انگریزی عنوان ’’مذہبی فکر‘‘ Religious Thought کے لیے اردو میں لفظ الہٰیات کا انتخاب کیا گیا۔ یوں بھی خطبات کا مدارِ بحث ہستی باری تعالیٰ ہی کا اثبات ہے اور وہی اس ساری محنت اور کاوش کا حاصل ہے۔ مگر الہٰیات یا کلام کے ایک مسئلے کی حیثیت سے نہیں، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، بلکہ حقیقت کی اس مابعد الطبیعیاتی جستجو کے ماتحت جس میں ایک عقلی تقاضے کی تسکین کے ساتھ ساتھ ان مسائل کا حل بھی ضروری ہو جاتا ہے جن کا تعلق انسان اور کائنات سے ہے اور جو ہمارے مابعد الطبیعیاتی غور و فکر کا ویسا ہی جزو ہیں جیسے حقیقت مطلقہ کے ادراک اور ماہیت کی بحث۔ حاصل کلام یہ کہ خطبات کی نوعیت سر تا سر علمی اور فلسفیانہ ہے۔ اس سلسلے میں لفظ مذہب کا صحیح مفہوم بھی ایک حد تک واضح کر دینا ضروری ہے۔ مذہب کا نام لیجیے تو ناممکن ہے ہمارا ذہن ذات الہٰیہ کی طرف منتقل نہ ہو جائے اور پھر اس سے بعض مخصوص عقائد اور اعمال کی طرف۔ اس لیے کہ مذہب کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم نے خدا پرستی کا اقرار کر لیا، خواہ اس اقرار کی نوعیت کچھ بھی ہو اور اس کے پیش نظر زندگی کو ایک مخصوص اور معین سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ یوں مذہب کا مسئلہ زندگی کا مسئلہ بن جاتا ہے اور پھر مذہب کے راستے سے زندگی کا رخ کیجیے، یا زندگی کے راستے سے مذہب کا، دونوں صورتوں میں اس مسئلے کی حیثیت ’’حیاتی‘‘ ہو جاتی ہے، یعنی ایک ایسے مسئلے کی جس کا حل زندگی کے لیے ناگزیر ہے اور جس کا ماحصل یہ ہے کہ یہ عالم جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں، اس میں حقیقت کے روبرو ہمارا موقف کیا ہے؟ اصولاً اور عملاً ہم اس میں کیا روش اختیار کریں تاکہ اس سے بہترین نتائج مترتب ہوں؟ لہٰذا یہ موقف ’’مذہبی‘‘ ہو یا ’’غیر مذہبی‘‘ جس طرح مذہب کی صورت میں اس کا ایک نظری اور عقلی پس منظر ہو گا، بعینہٖ علم اور عقل پر اساس کے باوجود اس کی نوعیت مذہبی رہے گی۔ زندگی کو بہر کیف کسی نہ کسی مرحلے پر اس قسم کا کوئی موقف اختیار کرنا پڑے گا،خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ، اور جس میں عقلی اعتبار سے ہم پھر اسی مقام پر آجاتے ہیں جو مابعد الطبیعی غور و فکر کا نقطۂ آغاز ہے، گو اس غور و فکر میں ہم صرف عقل پر قناعت نہیں کریں گے۔ بایں ہمہ اس غور و فکر کی انتہا جس فیصلے پر ہو گی اس سے عقل کی تنقیص لازم نہیں آئے گی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا دارو مدار سر تا سر عقل پر نہ ہو۔ عام مصطلحات میں ہم اس روش کو ’’ایمان‘‘ سے تعبیر کیا کرتے ہیں جس میں ہمارا منطقی فہم غلطی سے عقل کو ایمان کا منافی سمجھ لیتا ہے، حالانکہ ان کے درمیان کوئی نزاع نہیں۔ خطبات کے مطالعے میں بہرحال ان دونوں باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ الہٰیات کا حقیقی منصب اور مذہب کی صحیح حیثیت بہ لحاظ زندگی کے ایک مسئلے کے، تاکہ ہم اس نقظۂ نظر کو بہ تمام و کمال سمجھ سکیں جس کے ماتحت یہ خطبات دیے گئے۔ پھر اس نقطۂ نظر کا سمجھ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ خطبات میں وہ مسئلہ جو الہٰیات کا موضوع ہے عقلی اور مذہبی ــــــ بلکہ یوں کہنا چاہیے ’’حیاتی‘‘ ــــــ دونوں پہلوؤں سے زیر بحث آ گیا ہے۔ ان کی ابتدا اگر اس سوال سے ہوتی ہے کہ عقل محض کی رسائی کیا حقیقت مطلقہ تک ممکن ہے تو انتہا اس پر کہ عقل و فکر کے علاوہ بعض اور تقاضے بھی ہیں جن کی بنا پر ہم مجبور ہیں کہ اس مسئلے کا جو مابعد الطبیعیات کے سامنے ہے از روے علم کوئی حل تلاش کریں اور جس سے ان خطبات میں از اول تا آخر ایک منطقی ترتیب قائم ہو گئی ہے۔ منطقی اس لیے کہ ایک ہی موضوع ہے جو اصولاً عقلی اور مذہبی ـــــ یا جیسا کہ ہم نے کہا تھا ’’حیاتی‘‘ اور اس لیے ’’اسلامی‘‘ ــــــ نقطۂ نظر سے پھیلتا چلا گیا ہے لیکن جس میں نہ عقل نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے، نہ فکر و وجدان سے متصادم ہے، نہ زندگی کو اس روش سے اِبا ہے جو مذہب اس کے لیے تجویز کرتا ہے اور نتیجہ یہ کہ اس ساری بحث میں اگر عقل ایمان سے ہم آہنگ ہے توعلم عمل سے۔ فکر اس حقیقت کا عقلی تصور ہے جس سے وجدان کو اتصال و تقرب کی آرزو ہے۔ ایمان وہ موقف ہے جس کی بنا پر ہم زندگی کی تعمیر ایک مستقل اور محکم اساس مہیا کرتے ہیں۔ عمل بجائے خود یہ تعمیر جس سے فرد کو تکمیل ذات اور جماعت کو اپنے پیہم ارتقا اور نشو و نما کا راستہ مل جاتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اور دوسرے خطبے میں اگر اصل بحث ’’علم‘‘ کی ہے جس میں فکر اور وجدان کا جائزہ لیتے ہوئے ذات الہٰیہ کا اثبات کیا گیا ہے تو تیسرے اور چوتھے خطبے میں ذات الہٰیہ کے تصور، اس کی اہم صفات، انسان اورکائنات، حیات بعد الموت، دعا، خیرو شر اور جبر و قدر ایسے مسائل کی، اور جس سے قدرتاً یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ زمان و مکان کی اس دنیا میں ہمارا مطمح نظر زندگی کے بارے میں کیا ہے، لہٰذا اسلامی ثقافت اور اسلامی نظام مدنیت، یا ریاست اور قانون کی بحث نا گزیر ہو گئی جس پر پانچواں اور چھٹا خطبہ مشتمل ہے۔ ساتویں خطبے میں یہ سب مسائل پھر زندگی کا مسئلہ بن کر ہمارے سامنے آ جاتے ہیں اس لیے کہ انسان اور انسان کے ساتھ ساتھ عالم انسانی کے ایک جزو کی حیثیت سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ہماری اس عقلی کاوش، یا پختگی ٔایمان کی جسے ہم فلسفہ اور مذہب سے تعبیر کرتے ہیں، کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟ ہماری تہذیب و تمدن کا مستقبل کیا ہے؟ ہماری تقدیر کیا ہے؟ جس میں ہم فکر سے علم اور علم سے مذہب یعنی اسلام کی طرف آ جاتے ہیں اور جس میں اس امر کا اقرار کیے بغیر بن نہیں پڑتی کہ ہماری ذات کسی ایسی برتر اور وسیع تر ذات سے وابستہ ہے جس نے کائنات اور اس کے ذرے ذرے کو اپنے احاطے میں لے رکھا ہے۔ لہٰذا ان خطبات کا عنوان تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ ہے۔ ’’تشکیل‘‘ ایک نئے فکر کی تشکیل ہے۔ ’’الہٰیات‘‘ عقل اور ایمان کا وہ نقطۂ اتصال ہے جس کی بناء علم پر ہے اور ’’اسلام‘‘ محسوس حقائق کی اس دنیا میں زندگی کا رستہ۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ فکر کو حق کی آرزو ہے، علم کو تیقن کی اور عمل کو کسی محکم اساس کی۔ مزید یہ کہ ہم ان کو ایک دوسرے سے بے تعلق نہیں رکھ سکتے۔ ان میں کوئی معنی پیدا ہوں گے تو جب ہی کہ وہ ایک کل کی شکل اختیار کر لیں اور اس لیے فکر جب ہی فکر ہے کہ اس کل پر مرتکز ہو جائے جس کی اسے خود بھی طلب ہے۔ مغرب اور مشرق کی تاریخ فکر بے شک اس قسم کے نظامات فلسفہ سے خالی نہیں جن میں انسان اور کائنات کے ساتھ ساتھ زندگی کی بھی ایک جگہ ہے۔ لیکن ان فلسفوں کی روح چونکہ سر تا سر خیالی اور زمان و مکان کی اس دنیا سے بیزار ہے جس میں انسان اپنے عزائم اور مقاصد اور اپنی آرزوؤں اور قدروں کے لیے ایک سازگار ماحول کی تلاش کرتا ہے تاکہ وہ اپنی زندگی میں بااعتماد و وثوق قدم اٹھا سکے، لہٰذا ان فلسفوں نے کوئی راہ عمل پیدا کی، نہ سکون و اطمینان کی وہ کیفیت جس کی ذہنِ انسانی کو اس لیے طلب تھی کہ جس کائنات کے بدلتے ہوئے احوال و شئون اسے ہر لحظہ مضطرب رکھتے ہیں وہ اس میں اپنا کوئی مستقل مقام اور موقف متعین کر سکے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خطبات کی اہمیت دو گونہ ہے۔ ایک تو اس لیے کہ ان میں فکر کی ماہیت نہایت خوبی سے متعین ہو گئی ہے۔ فکر لاحاصل نہیں، نہ اس کو کسی سہارے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی کارفرمائی میں آزاد ہے اور اس قابل کہ اس کی حرکت قائم رہے تو حقیقت مطلقہ تک جا پہنچے، یعنی اسے اپنے تصور میں لے آئے۔ لیکن جس سے اتصال اور تقرب پیدا ہو گا تو کسی دوسرے ذریعے سے۔ بایں ہمہ اس سے فکر کی آزادی یا نتیجہ خیزی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ برعکس اس کے عقل اس کا ساتھ دے کر اپنے لیے اور زیادہ تقویت اور نشو و نما کا سامان پیدا کر لیتی ہے۔ دراصل ذہن انسانی کا رجحان یا تو اس طرف رہا ہے کہ عقل ہی سب کچھ ہے یا اس طرف کہ عقل کچھ بھی نہیں۔ یا پھر ہم ایک عقل کے لیے کسی دوسری عقل کا سہارا تلاش کرتے ہیں، حالانکہ عقل ہر حالت میں عقل ہے خواہ نظری ہو، خواہ عملی۔ اس سے تو عقل میں جزئی اور کلی کا وہ امتیاز ہی، جو بااعتبار اس کے وظیفے کے مولانا روم نے کیا تھا، کہیں زیادہ بہتر اور مبنی برواقعہ ہے۔ جزئی سے مطلب ہے کسی دعوے کی مخالفت یا موافقت میں اس کا اس غرض سے استعمال کہ اس کی تردید یا تائید کا جواز پیدا ہو جائے۔ مثلاً ہمارے اس دعوے کا کہ بجز عقل کے علم کا کوئی ذریعہ نہیں، لہٰذا حقیقت وہی ہے جسے عقل حقیقت کہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقلیت کے مقابلے میں جتنے بھی نظامات وضع ہوئے عقل ہی کی بنا پر ہوئے۔ عقل کا کلی استعمال البتہ عقل پر بحیثیت عقل نظر رکھتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ اس کی رسائی کہاں تک ہے۔ اس صورت میں ہماری نگاہیں کسی مخصوص دعوے کی بجائے چونکہ صرف نفس فکر اور نفس علم پر ہوتی ہیں، لہٰذا ہم ایک ایک کر کے جملہ حقائق کا جائزہ لیتے اور فکر کا رشتہ علم سے جوڑ دیتے ہیں۔ یوں بھی فکر کا مسئلہ علم ہی کا مسئلہ ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس پر ان خطبات کی بالخصوص نظر ہے۔ اس لیے کہ یہ فکر ہو، یا وجدان، احوال و واردات، یا مدرکات حواس یہ سب علم ہی کا تارو پود ہیں اور انھیں کی صحیح ترکیب سے اس کا وجود تیارہوتا ہے جس سے ان کا رشتہ قائم ہے تو ان کے کچھ معنی بھی ہیں، لیکن جس میں ذرا سا بھی فرق آیا تو پھر فکر کا رشتہ علم سے کٹ جائے گا۔ ہم سمجھیں گے ایک ادراک بالحواس ہے دوسرا محض ظن و تخمین۔ حالانکہ اگر ہماری نگاہیں حقائق پر ہیں اور ہم اپنے شعور کے اس تقاضے کو خوب سمجھتے ہیں جو صرف جاننے پر قناعت نہیں کرتا، بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ جس چیز کو جانا گیا، یعنی جس کا علم حاصل ہوا اس کے معنی و مطلب کیا ہیں، تو ان میں باہم کوئی مغائرت نہیں رہے گی۔ دراصل ہمیں کہنا چاہیے تھا کسی شے کا جاننا اور اس کے معنی ومطلب کو سمجھنا ایک ہی بات ہے۔ اس لیے کہ علم کا کام بھی حکم لگانا ہے۔ وہ بھی ایک تصدیق ہے، لہٰذا فکر اور علم ایک ہی عمل کے دو پہلو ہیں جن کا توازن قائم ہے تو اس بحث و نزاع کا سلسلہ خود بخود ختم ہو جائے گا جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے علمی نظریات اور فلسفیانہ تصورات، یا فلسفیانہ تصورات اورعلمی نظریات باہمد گر متفاوت اور اس لیے احقاق حق یا دوسرے لفظوں میں ایمان و یقین کے لیے لاحاصل ہیں۔ اب علمی نظریات اور ان کی فلسفیانہ تعبیر یا فلسفیانہ تصورات اور ان کی علمی تنقید تو ایک نظری مسئلہ ہے جس سے زندگی کو دور کا تعلق ہے، لیکن ایمان و یقین کی دنیا اگر علم اور غور و فکر کی دنیا سے الگ رہی اور حق کا وجود مشتبہ ہو گیا تو یہ امر بڑا تشویش ناک ہو گا۔ اس صورت میں یا تو ہم اپنے آپ کو علم کے اشارے پر چھوڑ دیں گے، یا عقل کی رہنمائی قبول کرتے ہوئے اس سے وہ کام لیں گے جس کی درحقیقت وہ اہل نہیں، یا پھر ہماری خواہش ہو گی کہ دونوں کو زندگی سے بے دخل کر دیں جو قطعی نا ممکن ہے، یا پھر زندگی عبارت ہے جس وحدت سے اس کو داخل کی روحانی اور خارج کی مادی دنیا میں تقسیم کر دیں۔ راقم الحروف کے نزدیک فکر اور علم کی یہی بے ربطی، جس کا اظہار طرح طرح کے مذاہب عمل یا آیتوں میں ہو رہا ہے، عصر حاضر کی سب سے بڑی غلطی ہے مگر جس کا ازالہ خطبات کے نقطۂ نظر کی پیروی سے باآسانی ہو سکتا ہے۔ بہرحال خطبات میں فکر اور علم کا ربط جس خوبی سے قائم کیا گیا وہ جہان علم اور جہان فکر دونوں کی بہت بڑی خدمت ہے۔ بلکہ ہمیں یہ کہنا چاہیے ایک طرح کا اشارہ کہ ان کا نشو و نما کس نہج پر جاری رہنا چاہیے۔ پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خطبات کو بحث ہے تو ان مہمات مسائل سے جن سے گویا مطلق فلسفہ مطلق علم اور مطلقاً مذہب کا وجود وابستہ ہے، یا مختصراً اس مسئلے سے جو مابعد الطبیعی اور حیاتی اعتبار سے ہمارے سامنے ہے تو یہ دیکھ کر تسلی ہوتی ہے کہ ایک ایسا نقطۂ نظر بھی ہے جس پر ہماری ذہنی کد و کاوش اورمصالح عمل اس خوبی سے جمع ہو جاتے ہیں کہ یہ فلسفۂ ہو یا مذہب یا محسوس حقائق کی اس دنیا میں تہذیب و تمدن کی زندگی، ان میں باہم کوئی نزاع باقی نہیں رہتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے حدود، منہاجات اور مقولات میں آزادی کے باوجود ایک دوسرے سے بیگانہ نہیں۔ ان میں کوئی حقیقی ربط قائم ہے جس سے ہمارے خیالات اور تصورات کا سلسلہ اگر ایک طرف حقیقت سے جا ملتا ہے تو دوسری جانب زمان و مکان کی اس دنیا سے جس میں زندگی نے ہمیں طلب علم پر آمادہ کیا تھا۔ یوں ہماری ہستی اور ہمارے وجود میں کچھ معنی پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح یہ کائنات ہی فریب نظر رہے گی، نہ اپنی آرزوئوں اور قدروں کے لیے ہمیں کوئی موہوم اور دوسرا عالم تلاش کرنا پڑے گا۔ برعکس اس کے ایک کامیاب زندگی کے لیے ہماری عملی کشمکش وہی رنگ اختیار کر لے گی جیسے ہمارا اخلاقی اور روحانی نصب العین۔ لیکن جس میں ہم اپنے غور و تفکر اور واردات باطن کے ساتھ ساتھ واقعیت کی اس دنیا سے منہ نہیں موڑیں گے جو محسوس حقائق اور لحظہ بہ لحظہ بدلتے ہوئے واقعات اور حوادث کی شکل میں ہمارے سامنے آتی اور جواباً کسی عمل پر مجبور کرتی ہے۔ پھر اس نقطۂ نظر کی مزید خوبی یہ ہے کہ اس سے فلسفے کا رخ اس طرح متعین ہو جاتا ہے جس سے من حیث الکل اس کے منصب میں کہ حقیقت کا ادراک حاصل کرے سرمو فرق نہیں آتا۔ اسلامی فکر کی روایت پھر سے خطبات کی بدولت فلسفے کا نشو و نما بجز ایک استثنا کے ان قوموں میں ہوا جن کا نقطۂ نظر وثنی تھا یا ثنوی۔ لہٰذا انھوں نے یا تو زمان و مکان کی دنیا کو باطل ٹھہرایا، یا حقیقت کو دو متضاد اجزا میں تقسیم کر دیا۔ اس سے حیات انسان کے لیے جو افسوسناک نتائج مترتب ہوئے ان کا ذکر بیسود ہے، اِلّا یہ کہ ہمارا دل و دماغ اب بھی ان تفریقات سے پورے طور پر آزاد نہیں ہوا جو ہماری کم نظری، یا سوئے فہم نے قائم کر رکھی ہیں۔ برعکس اس کے مسلمانوں کی دنیا توحید کی دنیا تھی اور یہی وہ استثنا ہے جس نے زندگی کے دوسرے پہلوؤں کی طرح فکر کا رخ بھی اس حقیقت کی طرف پھیر دیا کہ وثنی ثنوی فلسفے کی نظر جس مابعد الطبیعیاتی وحدت پر ہے اس کے ماورا ایک اور وحدت بھی ہے۔ حقیقی وحدت ــــــ جو دراصل فکر کا مقصود ہے اور جس کی عقلی ترجمانی میں ان کی ذہنی کاوشوں کااظہار جس غور و تفکر میں ہوا اس کی صحیح قدر و قیمت ابھی تک متعین نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس خالص اسلامی فکر کو اس فکر سے الگ کرنے کی ضرورت ہے جس کو تاریخ فلسفہ میں روایتاً قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل عالم اسلام میں فلسفیانہ غور و تفکر کے نشو و نما میں کئی محرک کام کر رہے تھے۔ ایک ــــــ اولین اور اہم ترین ــــــاسلام جس کی بنا کتاب اللہ پر ہے، اور کتاب اللہ علم و حکمت کی اساس ہے۔ لہٰذا یہ کوئی مخصوص فکر نہیں ہو گا جس کی اساس قرآن مجید پر رکھی جائے گی، بلکہ فکر مطلق جس کا خود فلسفہ محتاج ہے۔ اس لیے کہ اگر فلسفہ عبارت ہے ذہن انسانی کے اس عقلی تقاضے سے کہ من حیث الکل حقیقت کاادراک حاصل کرے تو وہ اپنا منصب جب ہی پورا کر سکتا ہے کہ اس کا نشو و نما قرآن مجید پر مرتکز رہے، یعنی انسان کی صحیح اور سادہ فطرت ــــــ فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیھا ــــــ پر ، ثانیاً مسلمان جو فلسفے کے ان معنوں میں تو ضرورت مند نہیں تھے جن معنوں میں ان کے ثنوی اور وثنی اور وثنی خیال پیش رو، کیونکہ بغیر اس کے ناممکن تھا اور وہ اپنے مخصوص تصور حیات یا تصور عالم کی تشریح و توسیع کر سکتے۔ وہ اس کے اخذ و اکتساب پر مائل ہوئے تو اس لیے کہ ان کے افکار و خیالات کا رخ اسلام سے ہٹنے نہ پائے، یا پھر اس لیے کہ اسلام سے باہر مہذب دنیا کی عقلی کاوشیں مفکرین اسلام کے لیے جو مسائل پیدا کر رہی تھیں۔ مخالف یا موافق ــــــ ان کا جائزہ لیا جائے۔ ثالثاً امت اسلامیہ کا اپنا ذوق تجّسس اور رابعاً وہ نومسلم قومیں جنھوں نے اگرچہ اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن جن کی روایات ابھی تک غیر اسلامی تھیں اور جن کا ذہن بار بار اس ثنوی فلسفے کی طرف منتقل ہو جاتا جس نے ان کے دل و دماغ کی پرورش کی تھی اور جس سے غالباً وہ اپنے نئے عقائد کی مصالحت کا راستہ تلاش کر رہے تھے، لیکن جس کی مسلمانوں نے بڑے شد و مد سے نفی کی۔ مگر پھر اس وقت جب اسلامی مشرق کا دل و دماغ صدیوں کے زوال و انحطاط کے باعث مضمحل ہو چکا ہے، اہل مغرب کچھ اپنے غرور علم اورکچھ ان ذہنی تعصبات کے زیر اثر جن کا تعلق قومی اور مذہبی رقابتوں سے ہے ــــــ مثلاً اہل یورپ کی یہی کوشش کہ فکر یونان اور فکر حاضر کی برتری بطور ایک امر واقعہ تسلیم کر لی جائے ــــــ ہماری تاریخ فلسفہ کو جس انداز میں پیش کر رہے ہیں وہ بڑا گمراہ کُن ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی فکر ہی نہیں تھا جو ایک مہمل سی بات ہے، اس لیے کہ جس دستور حیات نے علم و عمل کی دنیا میں ایک بنیادی اور ہمہ گیر انقلاب پیدا کر دیا تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس سے افکار و خیالات کا ایک نیا رخ متعین نہ ہوتا۔ یہ رخ متعین ہوا اور عالم اسلام کی ذہنی کاوشوں نے عقل و فکر کی رہنمائی جس نئے انداز میں کی اس کے لیے ہمیں اپنی میراث فلسفہ کا پھر سے اور بالاستعیاب مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ کام ہمارا ہے مستشرقین کا نہیں۔ ہمیں اپنے تاریخی افکار کو غیر اسلامی عناصر سے پاک کر سکتے ہیں اور ہمیں وہ روایات از سر نو قائم کریں گے جس کا تعلق خالصاً اسلامی فکر سے ہے۔ مگر پھر ہمارے ان الفاظ یعنی ’’اسلامی فکر‘‘ سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اس سے کسی خاص نقطۂ نظر کی تائید و حمایت مقصود ہے، اس لیے کہ فلسفے کا اپنا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہے۔ اس کا کام ہے آزادانہ تحقیق۔ لیکن سوال یہ ہے، کس کی؟ لہٰذا فلسفے مجبور ہے کہ اپنا ایک مقصد اور ایک سمت متعین کرے۔ مگر یہ سمت اور یہ مقصد جب ہی معین ہو گا جب ذہن انسانی میں یہ صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ اس عقلی تقاضے کی صحیح نوعیت بہ تمام و کمال سمجھ لے جو حقیقتاً اس کی علت ہے۔ اس لیے کہ فلسفہ کی تعریف بہ اعتبار اس کے تاریخی نشو و نما کے، اس طرح بھی تو کی جا سکتی ہے کہ یہ عبارت ہے اس عقلی کاوش سے جو قومیں اس لیے کرتی ہیں کہ ان کے شعور ذات سے ان کے حیات عملی و ذہنی میں جو گوناگوں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ان کا کوئی حل تلاش کریں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہر قوم کا فلسفۂ نتیجہ ہے اس کے اجتماعی ماحول کا جس سے نا ممکن ہے وہ اپنا قدم باہر رکھ سکے۔ اس لیے کہ یہ اس کی تہذیبی اور ثقافتی اساسات ہی تو ہیں جن کے استحکام کی دراصل اسے آرزو ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر فلسفہ کی ایک غرض ہو گی۔ یہ غرض فلسفۂ یونان نے بھی پوری کی، ہندو اور کسی دوسرے فلسفے نے بھی، جیسے دور حاضر کے مغربی فلسفے نے مغربی تہذیب و تمدن کی۔ پھر اگرچہ اس صورت میں بھی فلسفے کا مقصود حقیقی ایک حد تک پورا ہوتا رہے گا اس لیے کہ یہ محسوس حقائق، واقعات اور حوادث ہی کی دنیا ہے جس میں اس کا آغاز ہوتا ہے، لیکن، تمام و کمال اور جیسا کہ چاہیے تھا ویسے نہیں۔ اس کی شرط اول ہے شعور انسانی کی کامل بیداری، شرط ثانی ان موانع کا سدّباب جو اس کے راستے میں حائل ہوں۔ اب اصولاً اسلام ہی وہ نقطۂ نظر ہے جس سے یہ دونوں شرائط بدرجۂ اتم پوری ہو جاتی ہیں، خواہ مسلمانوں کی اپنی غلطیاں اس سلسلے میں کچھ بھی ہوں، مگر جس کے باوجود انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک ’’اسلامی فکر‘‘ کا ارتقا ضرور ہوا۔ چنانچہ یہی فکر ہے جس کی تشکیل نو کا فریضہ خطبات میں نہایت خوبی سے سر انجام دیا گیا اور پھر یہی فکر دراصل انسانی فکر ہے، ان معنوں میں کہ اس کی توجہ فلسفے کے بنیادی مسائل کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی ہے کہ علم و عمل کی اس دنیا سے جس کا فی الحقیقت وہ ایک جُز ہے، اس کا رشتہ منقطع نہ ہونے پائے۔ مثلاً یونہی کہ مطلق فلسفہ کے لیے یہ مسئلہ کہ فکررسا ہے یا نارسا، اگر موت اور زندگی کا مسئلہ ہے تو علم و عمل کے لیے بھی اس کی اہمیت کا کچھ کم نہیں۔ اندریں صورت سوال یہ ہو گا کہ ہمارے علم میں کیا تیقن کا کوئی عنصر موجود ہے؟ ہے، تو اس کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہاں تک ممکن ہے کہ ادراک حقیقت میں ہم اس سے کوئی مدد لے سکیں۔ بعینہٖ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اگر عمل کو فی الواقعہ کسی محکم اساس کی طلب ہے تو فکر اور علم کی حیثیت اس باب میں کیا ہے؟ پھر اسلام ہے جس نے سمع و بصر اور فواد و قلب کے ساتھ ساتھ بار بار فکر اور علم پر زور دیا اور جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ لہٰذا خطبات نے اس بنیادی مسئلے کے ضمن میں کہ فکر رسا ہے یا نارسا، اس روایت کی پھر سے تجدید کی جس کی انتہا غزالی پر ہوئی، یا جس سے گویا اس بحث کا آغاز ہوا۔ اپنی عالمگیر اورمخصوص دونوں حیثیتوں سے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے اس کل کے پیش نظر جو عبارت ہے زندگی سے اور جس کی ترجمانی ہم کبھی مذہب، کبھی فلسفے اور کبھی تہذیب و تمدن کے حوالے سے کرتے ہیں، اسلامی فکر کا سلسلہ اور آگے بڑھائیں تاکہ ان روایات کی قدر و قیمت متعین ہو سکے جو اسلاف سے ہمیں ورثے میں ملیں۔ بعینہٖ جیسے ان مسائل میں جن کی طرف گویا ضمناً اشارہ کر دیا گیا ہے۔ مثلاً اشاعرہ کا نظریۂ جواہر، یا وہ ذہنی بغاوت جو فلسفہ یونان کے خلاف رونما ہوئی اور جس سے ہمارا ذہن ایک ایسی ہی بغاوت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جس کا تعلق ایک دوسرے خطہ ارض ــــــ ارض یورپ ــــــ سے تھا۔ پھر جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہی بغاوت تھی جس نے فکر حاضر کا راستہ صاف کیا، حالانکہ اس کا زمانہ کہیں موخر تھا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعلق تو نہیں تھا؟ تھا تو کیا؟ ہماری رائے بہرحال یہ ہے کہ موخرالذکر کا وجود اول الذکر کے و جود سے بے تعلق نہیں تھا۔ پھر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ خطبات ہی تو ہیں جن کی بدولت اسلامی روایتِ فکر کا احیا ہوا تو اس کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ قرآن پاک ہی اس غور و تفکر کا سر چشمہ ہے جس پر خطبات کی بنا رکھی گئی، لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ جب تک ہمارا ذہن تاویل و تعبیر کے اس سلسلے سے ہٹ کر جو اسلام کی مخالفت اور موافقت، یا انفرادی اور اجتماعی احوال کے پیش نظر تہذیب و تمدن کے پیدا کردہ احوال سے مصالحت کی کوشش میں وقتاً فوقتاً جاری رہا اور اب تک جاری ہے، تعلیمات قرآنی پر مرتکز نہیں ہو جاتا۔ جب تک ہم نہیں سمجھتے اسلام کا مطمح نظر عالم انسانی کے بارے میں کیا ہے۔ وہ ہم سے کس قسم کی زندگی کا طالب ہے، ہمارے اخلاقی اور مادی نشو و نما کے ساتھ ساتھ حیات فرد اور استحکام جماعت کی طرح تہذیب انسانی کے حفظ و ارتقاء کی اساس کن اصولوں پر رکھتا ہے، لہٰذا بحیثیت ایک جامع اور ہمہ گیر تحریک کے اس کا ماضی کیا تھا، حال اور مستقبل کیا ہے۔ ہماری حیات ملّی کا گزر کن کن مراحل سے ہوا، وہ کیا مشکلات تھیں جو ہمیں اپنے ثقافتی نصب العین اور مذہبی اور روحانی زندگی کے اظہار میں پیش آئیں۔ ہماری میراث علم و حکمت اور سرمایۂ ادب و فن کیا ہے۔ ہم نے تاریخ عالم کا رخ کس طرف موڑا۔ اس کا صحیح رُخ ہے کیا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم حسب سابق ان قوتوں کو پھر سے اپنے تصرف میں لائیں جو تقدیر انسانی کی صورت گر ہیں اور جس کے بغیر نہ ہمارے اخلاق و روحانیت ہی کے کچھ معنی ہیں، نہ اعمال و عقائد کے۔ ہماری نگاہیں عالم انسانی پر ہونی چاہئیں۔ اس کے پیہم رد و بدل، اضطراب و انقلاب مگر اس کے باوجود تدریجی تعمیر و تشکیل پر۔ ان وثنی نظامات اور مذہبی تحریکات پر جن سے دنیاے قبل اسلام متشکل ہوئی، جیسے اس شدید مذہبی تعصب اور اس بڑی ہی زبردست اخلاقی اور تہذیبی مزاحمت، علیٰ ہذا اس نسلی اور قومی مفاخرت اور نارواداری پر جس کا تعلق دنیاے بعد اسلام، بالخصوص مغرب اور مغربی تہذیب و سیاست کے غلبے اور استیلا سے ہے۔ لیکن اس باب میں ہماری پہلی اور سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کا مطالعہ بطور ایک کتاب کے کریں۔ یہ نہیں کہ پہلے سے قائم شدہ افکار اور تصورات کو لے کر اس سے اپنے ارادوں اورمقاصد کی تائید اور جواز کا سہارا ڈھونڈیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا دستور حیات تھا جس کی تکمیل حضور رسالت مآب ﷺ کے مقدس اور بابرکت ہاتھوں سے اس طرح ہوئی کہ صدیوں کے زوال و انحطاط اور طرح طرح کی بدعات اور فتنوں کے باوجود اس کی اصل حقیقت نہ کبھی ارباب بصیرت سے چھپ سکی، نہ عالم اسلام کی تاریخ ان ہستیوں سے خالی رہی جن کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ عملاً اس کی ترجمانی اور قیام و بقاء کی سعی کرتے رہیں۔ جب تک یہ نہیں ہو گا ہم نہیں سمجھیں گے وہ کیا تعلیمات تھیں جن سے ہمارے ماضی کی تشکیل ہوئی اور جن سے گویا عالم انسانی کی تقدیر وابستہ ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ہماری سب سے بڑی رکاوٹیں دو ہیں۔ ایک فتنۂ استشراق، دوسرا ہمارا زوال علم۔ فتنۂ استشراق کی حیثیت تو اس ذہنی یلغار کے پیشرو دستے کی ہے جس سے یورپ کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ عالم اسلام کے دل و دماغ کو اس درجہ مجروح اور مضمحل کر دے کہ وہ اپنے ہی ماضی سے بیزار اور مستقبل سے مایوس ہو جاتے حالانکہ اس کا خطاب دراصل اپنے ہی نفس سے ہے تاکہ فکر یونان اور تہذیب حاضر کے آزادانہ نشو و نما کے مفروضے پر مغرب کی الگ تھلگ اور ایک طرح سے منتخب انسانیت کا جو افسانہ انھوں نے وضع کر رکھا ہے، اس کے متعلق ان کا ذہن آسودہ رہے۔ پھر اس کے مقابلے میں ہمارے زوال علم کا حال یہ ہے کہ ہم ان مغالطوںاور معارضوں یا علمی اور نظری خامیوں کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے جو ان کی تحقیق و تفتیش، مطالعے اور تنقید میں جابجا ملیں گی۔ یہ اس لیے کہ ہم جس فضا میں سانس لے رہے ہیں وہ مغربی تعلیم اور مغربی تہذیب و تمدن کے تصرف اور استیلا کے باعث ان خیالات سے معمور ہے جن پر علم حاضر کی انتہا ہوئی۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں علم و حکمت کی تاریخ یا تہذیب و تمدن کا کوئی منظم اور مربوط بیان ہے تو وہی جو اہل مغرب پیش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کچھ ہے تو چند متفرق اور منتشر حقائق، چند ادھورے اور بے ربط نظریات، اور اس لیے ہمارا غور و فکر اور ہمارا ذوق تجسس بالآخر وہی راستہ اختیار کرلیتا ہے جو دانایان فرنگ کا ہے اور اس لیے ہم بھی ایک طرح سے وہ سب نتائج قبول کر لیتے ہیں جو مغربی علم و فضل نے ہمارے ماضی و حال کی تعبیر میں قائم کر رکھے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس علم و فضل سے اور آگے بڑھنے کی کوشش کریں اور اس پر قانع نہ رہیں، یعنی اس کے بے چون وچرا اتباع کی بجائے ابداع سے کام لیں۔ ہمیں فکر مستعار اور فکر خلاق میں فرق کرنا ہو گا۔ فکر مستعار کی روح ہے اخذ و اکتساب اور اس لیے ناممکن ہے وہ ان حدود و قیود سے آزاد ہو سکے جو خارج سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ فکر خلاق اس کے برعکس ماضی و حال پر بہ نقد و تفحص نظر ڈالتا اور ایک شان اجتہاد کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ اگر اس میں اور کسی دوسرے فکر میں کچھ مشابہت ہے تو کوئی مضائقہ نہیں، اس لیے کہ ذہن انسانی کو اساساً جن مسائل سے سابقہ پڑتا ہے ان کی حیثیت ایک ہے لہٰذا وہ ان سب سے اپنا رابطہ قائم رکھتے ہوئے ہمارے سامنے ایک نیا نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔ راقم الحروف نے کہا تھا خطبات کی اساس تعلیمات قرآنی پر ہے اور اس کا یہ دعویٰ غلط نہیں۔ قرآن مجید ہی کی تعلیمات نے صاحب خطبات میں وہ نظر پیدا کی جس نے ان حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے جو ہمارے شعور ذات اور اس لیے علم و عمل کا نقطۂ آغاز ہیں، ایک ایسے فکر کی طرح ڈالی جس کی شان خلاقی اور جامعیّت کا یہ عالم ہے کہ اس نے حقیقت کا ایک ایسا تصور پیش کیا جو ان نقائص اور فروگذاشتوں سے پاک ہے جو مختلف نظامات فلسفہ میں بالعموم کسی نہ کسی پہلو سے باقی رہ جاتے ہیں اور جو ہماری اس پریشانی اور پراگندہ خیالی کی علت ہیں کہ فلسفہ کا تعلق شاید کسی ایسے عالم سے ہے جس میں واقعیت کی کوئی جگہ نہیں۔ بایں ہمہ اس فکر کو اپنی آزادانہ روش کی طرح نفس فکر کی آزادی پر اصرار ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ حقیقت کی ترجمانی میں ہم اپنے اجتہادات اور سعی و کاوش کا سلسلہ برابر جاری رکھیں۔ دراصل اس فکر کا حقیقی سرچشمہ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کر دیا گیا تھا قرآن مجیدہے اور قرآن مجید ہی سے ہمیں ان سب مسائل یا مشکلات میں جو اس کی تشریح و توضیح میں پیدا ہوں رجوع کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ خطبات میں بحیثیت خطبات اس فکر کی اساسات ہی پیش کی جا سکتی تھیں جس میں صاحب خطبات نے اگر عہد حاضر کے الفاظ اور مصطلحات سے کام لیا تو ہم ’’گرفتاران فرہنگ ‘‘ کی خاطر اس لیے کہ ان کا خطاب دراصل ہمیں سے ہے اور ہماری وساطت سے جدید عملی دنیا سے جس میں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ ان کے مخاطب افکار حاضرہ سے بخوبی واقف اور مشرق اور مغرب کی تاریخ فلسفہ، علیٰ ہذا تہذیب و تمدن پر پوری پوری نظر رکھتے ہیں۔ یوں بھی فکر اگر فکر ہے تو اس کا نشو و نما جن مراحل سے گذر کر اب جس منزل پر آ پہنچا ہے اس کو جدید عملی فضا کی رعایت سے جدید زبان ہی میں پیش کیا جا سکتا تھا۔ بہرحال خطبات کے مباحث ایک نئے فکر کی تمہید ہیں۔ اسلامی ــــــ اور ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں ہونا چاہیے کہ انسانی ــــــ فکر کی ۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، سید نذیر نیازی کے ترجمہ اردو کے مقدمے سے اقتباس،۔ بزمِ اقبا ل، لاہور، ۲۰۰۰ء فلسفہء بے خودی پروفیسر رشید احمد صدیقی ہر چیز ایک نظام کے ماتحت ہوتی ہے۔ ہماری زندگی فی الحقیقت علائق اور نسبتوں کی ایک نامتناہی زنجیر ہے۔ جزو کل کا ربط ناگزیر ہے۔ وہ ہر چیز جسے ہم انسانی زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ تعیناتِ مخصوصہ کا نام ہے اور تعین کا وجود تسلسل سے ہے افراد کا جماعت سے تعلق ہوتا ہے، جز کی بحث ہو چکی۔ اب کل کے ساتھ اس کی نسبتوں پر نظر ڈالنی لازم آتی ہے، اقبال نے اس کا اعادہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ فرد و قوم آئینہء یک دیگر اند سلک و گوہر کہکشان و اختر اند فرد می گیرد ز ملت احترام ملت از افراد می یا بد نظام فرد تا اندر جماعت گم شود قطرئہ وسعت طلب قلزم شود فرد تنہا از مقاصد غافل ست قوتش آشفتگی را مائل ست ملت کا قیام اختلاط افراد پر ہے اور اس کی تعمیر و تکمیل نبوت سے ہوتی ہے، جماعت کا حقیقی مفہوم نفس نبوت کا ترجمان ہے ہر شے خواہ وہ افراد سے متعلق ہو یا جماعت سے جب تک کوئی زندہ عقیدہ یا قانون اسے مربوط یا مستحکم نہ کرے، ربط کا کوئی حقیقی مفہوم پیدا نہیں ہوتا۔ تاخدا صاحب دلے پیدا کند کو زحرفے دفترے املا کند ساز پر دازے کہ از آوازئہ خاک را بخشد حیاتِ تازئہ زندہ از یک دم دو صد پیکر کند محفلے رنگیں زیک ساغر کند بندہا از پاکشاید بندہ را از خداونداں رہاید بندہ را گویدش تو بندئہ دیگر نأ زیں بتان بے زباں کمترنأ تا سوے یک مدعایش می کشد حلقہء آئیں بپایش می کشد ایک اسلامی شاعر ہونے کی حیثیت سے اقبال کے نزدیک اس عالم کی حقیقی نجات بہ الفاظ دیگر معاشرت کے تمام شعبہ جات کی کامیابی و کامرانی اسلامی اصول کی پابندی اور ان کے نفاذ سے وابستہ ہے۔ شاعری کا براہ راست کام یہ ہے کہ وہ جذبات کو متاثر کرے اور ایک مذہب پرست کاشیوئہ مذہبی عقائد کی ترویج و تلقین ہے وہ بھی اس طور پر کہ وہ اپنے عقائد کو محض عقائد کی حیثیت سے تسلیم کرائے۔ ان نظریات کو ملحوظ رکھ کر اقبال کی شاعری پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت محسوس ہوتی ہے کہ وہ باوجود شاعر اور مذہب پرست ہونے کے، انسانی ذہن و فکر کے میلانات طبعی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔ وہ ارکان اسلامی کی صداقت اور ہمہ گیری پر زور دیتے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ خود مسلمان ہیں بلکہ محض اس بنا پر کہ انسانی ذہن و فکر کا اسلام سے انحراف کرنا ناممکنات سے ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اپنے شعر و شاعری میں الفاظ اور ترکیبیں تو ضرور شاعرانہ رکھتے ہیں لیکن بحث و استدلال ایک فاضل حکیم کے انداز سے کرتے ہیں۔ اسلام کے ارکان اساسی میں توحید، رسالت، نماز، روزہ، حج و زکوٰۃ کو مخصوص حیثیت حاصل ہے، آخرالذکر چار فرائض ایسے ہیں جو عمل سے متعلق ہیں، اقبال نے ان کے فلسفہ پر خیالات ظاہر کیے ہیں لیکن پہلے دو حقیقتوں یعنی توحید اور رسالت پر رموز بے خودی میں نہایت شرح و بسط سے بحث کی ہے، توحید اور رسالت کا تعلق چونکہ معتقدات سے ہے اور یہیں سے دوسرے شعبہ جات کی ابتداء ہوتی ہے۔ اس لیے اقبال نے ان پر خصوصیت کے ساتھ بحث کی ہے، کیونکہ توحید اور رسالت کو دیگر ارکان اسلامی سے وہی تعلق ہے جو بقیہ دفعات قانونی کو تمہید یا ’’پری ایمبل‘‘ سے ہوتی ہے فرماتے ہیں۔ اہل حق را رمز توحید ازبر است در اٰتیِ الرّحْمٰن عبداً مضمر ست دیں از و، حکمت ازو، آئیں ازو زور ازو، قوت ازو، تمکیں ازو اسود از توحید احمر می شود خویش فاروقؓ و ابو ذرؓ می شود ملت ازیک رنگیِ دلہاستی روشن از جلوئہ ایں سیناستی قوم را اندیشہا باید یکے در ضمیر ش مدعا باید یکے جذبہ باید در سرشتِ او یکے ہم عیار خوب و زشتِ او یکے گرنبا شد سوز حق در ساز فکر نیست ممکن ایں چنیں انداز فکر مدعاے ما، مآل مایکے ست طرز و انداز خیال مایکے ست توحید ہی وہ حقیقت ہے جو انسان کو ان مکروہات سے محفوظ و مصئون رکھتی ہے جن میں اسیر ہو کر وہ زندگی کو پرآشوب تصور کرنے لگتا ہے۔ مایوس، محزوں یا مخوف ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ یا تو انسان کو اپنے اوپر اعتماد نہیں ہے یا پھر وہ کسی ایسے حکیم و قادر کا قائل نہیں ہے جو نہ کبھی غلطی کرتا ہے اور نہ کبھی ظلم گوارا رکھتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت بھی ظاہرہو جائے گی کہ خود اعتمادی کا اصلی راز بھی اسی عقیدئہ توحید میں مضمر ہے، ہم کو اپنے اوپر اس لیے اعتماد نہیںہے کہ ہماری قوت و حکومت کے ذرائع و وسائل نامحدود ہیں بلکہ اس کا باعث صرف یہ ہے کہ جہاں سے ہم قوت و قدرت حاصل کرتے ہیں وہ ایک ایسی ہستی اور حقیقت ہے جو کبھی غلطی یا زیادتی نہیں کرتی۔ اس لیے جب تک ہم اس حقیقت یا ہستی کی پیروی کریں گے ناکامیاب نہیں رہ سکتے۔ اقبال نے اس کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے۔ مرگ را ساماں ز قطع آرزو ست زندگانی محکم از لا تقنطُوا ست اے کہ در زندان غم باشی اسیر از نبی تعلیم لاتحزن بگیر چوں کلیمے سوے فرعونے رَود قلب او از لاتخف محکم شود بیم غیر اللہ عمل را دشمن ست کاروانِ زندگی را رہزن ست بیم چوں بندست اندر پاے ما ورنہ صد سیل ست در در یاے ما ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست اصل او بیم ست اگر بینی درست لابہ و مکاری و کین و دروغ ایں ہمہ از خوف میگیرد فروغ ہر کہ رمز مصطفیٰ فہمیدہ است شرک را در خوف مضمر دیدہ است اسلام سے پہلے، انسانی ذہن و فکر کو وہ آزادی حاصل نہ تھی جسے آج ہم علم و تہذیب کا طرئہ امتیاز سمجھتے ہیں، انسان موجودات فطرت کی پرستش کرتا تھا اس لیے وہ کبھی اس پر جری نہ ہو سکا کہ ان کو اپنا تابع اور مسّخر بنائے چاند، سورج، برق و باراں، پہاڑ، دریائیں۔ غرض کہ اس قسم کی تمام چیزیں اس کے نزدیک معبود کی حیثیت رکھتی تھیں۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ وہ ان کا کسی طور پر تجزیہ کرتا یا ان پر قدرت حاصل کرنے کی جرات کرتا اس سے ترقی کر کے انسان نے انسان کی پرستش شروع کی، اس کی مختلف صورتیں تھیں، کبھی اس نے اپنی ہی نوع کو مذہبی حیثیت سے قادر مطلق گردانا اور کبھی کسی جابر قہرمان کے آگے جھکا، اس کا ایک نہایت دل نشین خاکہ رموز بے خودی میں اقبال نے یوں پیش کیا ہے۔ بود انساں در جہاں انساں پرست ناکس و نابود مند و زیر دست سطوت کسریٰ و قیصر رہزنش بند با در دست و پاو گردنش کاہن و پاپا و سلطان و امیر بہر یک نخچیر صد نخچیر گیر صاحب اورنگ و ہم پیر کنشت باج برکشت خراب او نوشت در کلیسا اسقف رضواں فروش بہرایں صید زبوں دامے بدوش برہمن گل از خیابانش ببرد خرمنش مغ زادہ با آتش سپرد از غلامی فطرت او دوں شدہ نغمہ ہا اندر نیٔ او خوں شدہ ایک دوسرے مقام پر اس کا اعادہ یوں کیا ہے۔ فکر انساں بت پرستے بتگرے ہر زماں درجستجوے پیکرے باز طرح آزری انداخت ست تازہ تر پروردگارے ساخت ست کاید از خوں ریختن اندر طرب نام او رنگ ست و ہم ملک و نسب اگر غور کیا جائے تو اسلام نے سب سے بڑی نعمت جو دنیا کو تفویض کی وہ یہ ہے کہ ہر انسان علم و عمل کے لیے آزاد ہے اس طور پر بقول اقبال اسلام کو ایک وسیع علمی تحریک قرار دیناچاہیے۔ یہ ایک حقیقت تھی جس کو اسلام سے قبل طرح طرح سے مستور رکھا گیا۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے اس حقیقت کو فطری ہی طور پر برافگندہ نقاب بھی کیا، اس نے محض ایک مقولہ نہیں پیش کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ نمونہ بھی دنیا کے سامنے لا کھڑاکیا اور وہ بھی اس سہل اور سادہ انداز سے کہ معمولی سے معمولی عقل و تمیز بھی اس سے پوری طور پر آشنا ہو سکی۔ اسلام کے خدا نے اسلام کا محض اپنے کلام و الہام سے اعلان نہیں کیا بلکہ اس کو جناب رسالت مآبؐ کی ذات میںثابت بھی کر دیا۔ رسالت مآبؐ کے وجود و حیات سے نہ صرف یہ حقیقت واضح ہوئی کہ خدا کیا ہے بلکہ انسان کو کیا کرنا ہے اور جو کچھ کرنا ہے وہ کر بھی سکتا ہے، نظر برآں رسالت مآبؐ کی زندگی کو خدا سے وہی نسبت حاصل ہے جو انسانوں کو رسالت مآب سے حاصل ہے۔ اس لیے جہاں تک علم و عمل کا دخل ہے رسالت مآب کی زندگی ہم انسانوں کے لیے خدا کی ذات و صفات سے زیادہ قریب، زیادہ قابل تقلید اور زیادہ ممکن العمل ہے ممکن ہے اسی عقیدے کا اظہار اقبال نے ان الفاظ میں کیا ہو۔ معنی حرفم کنی تحقیق اگر بنگری بادیدئہ صدیقؓ اگر قوت قلب و جگر گردد بنی از خدا محبوب تر گردد بنی رسالت مآبؐ نے دنیا کے سامنے جو دستورالعمل اپنے نمونہء زندگی سے پیش کیا ہے اس پر غور کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ’’حریت ‘‘ ’’مساوات‘‘ و ’’اخوت بنی نوع انسان‘‘ کی بنیاد اس کا نمونہ اور اس کا مقصود’’رسالت محمدیہ‘‘ تھی، عالم انسان کی نجات ان ہی ہرسہ حقیقتوں کی تشکیل و تعمیم میں مضمر ہے۔ حریت نے ہر انسان کو انفرادی طور پر آزاد کیا، مساوات نے ان سب کو بااعتبار فطرت ایک سطح پر لاکھڑا کیا اور پھر ان دونوں کو جس نے دنیا کے لیے باعث رحمت و عافیت بنایا وہ ’’اخوت بنی نوع انسان‘‘ تھی۔ اسلام کے اصطلاحی اور محدود مفہوم سے قطع نظر کر لیا جائے تو اس کے تسلیم کرنے میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ ان صفات کے اعتبار سے اسلام زمان و مکان دونوں کی قید سے آزاد ہے۔ ممکن ہے یہی سبب ہو جس کی بنا پر پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسول ما رسالت ختم کرد رونق از ما محفل ایام را او رسل را ختم و ما اقوام را خدمت ساقی گری باما گذاشت داد مارا آخریں جامے کہ داشت اقبال کی زبان پر آیا ہو۔ حریت مساوات اور اخوت کی بنا پر قومیت کا جغرافیائی مفہوم بالکل بے معنی ہو جاتا ہے۔ ’’پین اسلامزم‘‘ کا رمز ملک گیری میں نہیں بلکہ ’’اخوت بنی نوع انسان‘‘میں مضمر ہے، ترکوں کا جدید رویہ جس کی بنا پر انھوں نے جمہوریہ ترکی کو ’’وطنیت ترکیہ‘‘پر قائم کیا ہے اس بناء پر صحیح نہیں ہے کہ انھوں نے ترک یا ترکی اور اسلام کو دو مختلف حیثیتیں دے دی ہیں۔ عزل خلافت سے انھوں نے اسلام کے مفہوم کو بھی مسخ کر دیا ہے۔ خلافت کا کام یہ نہ تھا کہ اسلام کے دینی اقتدا کو دنیوی طاقت سے برقرار رکھا جائے بلکہ اس کا اصلی مقصد یہ تھا کہ دنیوی اقتدار کو ان پابندیوں سے بے نیاز نہ ہونے دیا جائے جن سے آزاد ہو کر حکومت اور اس کی نعمتیں محض ایک ہی قوم اور ایک ہی خطہ تک محدود نہیں رہ جاتیں بلکہ دوسری اقوام اور دوسرے ممالک کے لیے موجب آزار ہوتی ہیں۔ حکومت ترکی نے وطنیت ترکیہ کے قائم کرنے میں یوں غلطی کی ہے کہ اس نے نہ صرف اسلام کی ہمہ گیری اور اس کے فیض عام کو ترکی تک محدود کر دیا اور شاید یہ بھی متیقن نہیں ہے۔ بلکہ ایک طور پر اس نے دوسرے اقوام کو بھی اسلام کی خوبیوں سے بے خبر رکھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔اسلام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ دوسرے اقوام اور دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک پیام عمل و عافیت ہے، اسلام صرف اسلامیوں کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لیے ایک عام تبلیغ عمل ہے جس کو کسی صورت میںمحدود نہیں کرنا چاہیے۔ ملت اسلامیہ زمان و مکان دونوں قیود سے آزاد ہے اور یہی سبب ہے کہ اسلام میںنسل و ملک کا کوئی مفہوم نہیں۔ جوہر ما با مقامے بستہ نیست بادئہ تندش بجامے بستہ نیست ہندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گلِ اندام ماست قلب ما از ہند و روم و شام نیست مرز بوم او بجز اسلام نیست مسلم استی دل بہ اقلیمے مبند گم مشو اندر جہان چون و چند می نگنجد مسلم اندر مرز بوم در دل او یا وہ گرد و شام و ردم ــــــــــــ عقدئہ قومیت مسلم کشود از وطن آقاے ماہجرت نمود حکمتش یک ملت گیتی نورد براساسِ کلمہء تعمیر کرد ہجرت آئین حیات مسلم ست ایں ز اسباب ثبات مسلم ست صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو ــــــــــــ آں چناں قطع اخوت کردہ اند بروطن تعمیر ملت کردہ اند تا وطن را شمع محفل ساختند نوع انساں را قبائل ساختند مردمی اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد روح از تن رفت و ہفت اندام ماند آدمیت گم شد و اقوام ماند تاسیاست مسندِ مذہب گرفت ایں شجر در گلشن مغرب گرفت قصہء دین مسیحائی فسرد شعلہء شمع کلیسائی فسرد ــــــــــــ بادہ ہا خوردند و صہبا باقی است دو شہاخوں گشت و فردا باقی است در سفر یا رست و صحبت قائم است فرد رہ گیر است و ملت قائم است فرد بر می خیزد از مشت گلے قوم زاید ازدلِ صاحبدلے گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد از اجل فرماں پذیرد مثل فرد امت مسلم ز آیات خدا ست اصلش از ہنگامہء قَالُوْابَلیٰ ست از اجل ایں قوم بے پروا ستے استوار از نَحنُ نَزّلْنَا ستے سطوت مسلم بخاک و خوں تپید دید بغداد آنچہ روما ہم ندید تو مگر از چرخ کج رفتار پرس زاں تو آئین کہن پندار پرس آتش تاتاریاں گلزار کیست؟ شعلہ ہاے او گلِ دستار کیست؟ رومیاں را گرم بازاری نماند آں جہانگیری جہانداری نماند شیشہء ساسانیاں درخوں نشست رونق خمخانہء یوناں شکست مصر ہم در امتحاں ناکام ماند استخوان او تہ اہرام ماند درجہاں بانگ اذاں بودست و ہست ملت اسلامیاں بود ست و ہست ملت کی بنیاد اختلاط افراد پر ہے لیکن خود ملت کی شیرازہ بندی کے لیے بھی کسی آئین یا دستور کا وجود لازمی ہے۔ ایک ایسی ملت کے لیے جو تمام عالم کے لیے ابدالآباد تک ایک زندہ حقیقت کا درجہ رکھتی ہو ضروری ہے کہ اس کا آئین بھی اتنا ہی ہمہ گیر اور لازوال ہو، جیسا کہ اس سے پہلے کہیں آچکا ہے۔ افراد اور ملت دونوں کسی نہ کسی حد تک فنا پذیر ہیں لیکن مقصد حقیقی ان اسالیب عمل سے بلند و پائندہ تر ہوتا ہے، جس کی طرف اقبال نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔ فصل گل از نسترن باقی تر ست از گل و سرو سمن باقی تر ست کان گوہر پروری گوہر گرے کم نہ گرد و از شکست گوہرے ملّتِ اسلامیہ کا آئین قرآن مبین ہے۔ اقبال نے اس خیال کو یوں ادا کیا ہے۔ نغمہ از ضبطِ صدا پیدا ستی ضبط چوں رفت از صدا غوغا ستی در گلوے مانفس موج ہوا ست چوں ہوا پابند نے گردد نواست توہمیں دانی کہ آئین تو چیست؟ زیر گردوں سر تمکین تو چیست؟ آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لایزال ست و قدیم حرف او را ریب نے تبدیل نے آیہ اش شرمندئہ تاویل نے نوع انساں را پیام آخریں حامل او رَحمَتہ لّلعَالَمِیْنْ آنکہ دوش کوہ بارش برنتافت سطوتِ او زہرئہ گردوں شگافت بنگر آں سرمایہ آمال ما گنجد اندر سینہء اطفال ما گر تومی خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بقرآں زیستن اسی سلسلے میں اقبال نے ایک نہایت نازک لیکن اتنا ہی معرکتہ آلارا مسئلہ بھی پیش کیا ہے جس پر اس زمانہ میں صبر و ایمانداری کے ساتھ غور کرنا اتنا ہی ممکن معلوم ہوتا ہے جتنا یہ ضروری بھی ہے، یعنی زمانہ انحطاط میں تقلید اجتہادسے بہتر ہے۔ آج بیرونی اثرات کے سیلاب اور مذہبی ناواقفیت (جس میں علم و عمل دونوں کا فقدان ہے) نے ہر شخص کو اس پر جری کر دیا ہے کہ وہ اسلام کی تعلیم پر نظرثانی کرے۔ کسی مسئلے پر مجتہدانہ انداز سے نظر ڈالنا قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ آج اجتہاد کے علم بردار کہے جاتے ہیں اُن کے میلانات ذہنی یا استعداد علم و عمل کا تجزیہ کیا جائے تو حسب ذیل قوتیں برسرکار نظر آئیں گی جن کے موجود ہوتے ہوئے یہ حکم لگایا جاسکتا ہے کہ ان نام نہاد اجتہادیوں کا طرز عمل صحیح نہیں ہے۔ ۱۔ عام طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ موجودہ مغربی تہذیب ہر حال میں مفید اور قابل تقلید ہے۔ اس وقت زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو تہذیب یورپ کو اسلام سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔ بعض ایسے مسلمان مصنفین جو یورپین تہذیب اور خیالات سے باخبر کہے جاسکتے ہیں یا کہے جاتے ہیں، اپنے سامنے یہ حقیقت رکھ کر آگے بڑھتے ہیں کہ جو کچھ اس وقت یورپ میں تہذیب و تمدن کے اعتبار سے مفید اور بہتر خیال کیا جاتا ہے وہ اسلام کی تاریخ اور تہذیب سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اصول غلط بھی ہے اور خطرناک بھی۔ ۲۔ اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اسلام کے بعض اصول کو کسی طور پر کمزور یا قابل اصلاح سمجھتے ہیں وہ خود اپنے علم و عمل کے اعتبار سے جامع نہیں کہے جا سکتے۔ جب تک اسلام اور مغربی اصول دونوں کا صحیح اور مکمل تجربہ نہ ہو اس وقت تک کسی قسم کی ترمیم یا تنسیخ پیش کرنا صحیح نہ ہو گا۔ ۳۔ یورپ کو اس وقت ایک حکمران کی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اس کو وہ سب فطری سہولتیں حاصل ہیں جو اس کے تہذیب و تمدن کو مقبول بنا سکتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جہاں خالص اسلامی شریعت نافذ ہے وہاں اسلامی اصول کا نفاذ کہاں تک مفید یا مکمل ہے۔ اس سلسلہ میں ہم کو افغانستان کی مثال سامنے رکھنی پڑے گی۔ لیکن اندیشہ ہے کہ بعض حضرات ترکی کی مثال پیش کرنا زیادہ اہم سمجھیں گے۔ اب تک ترکوں یا کمالیوں کا اس بارۂ خاص میں جو رویہ رہا ہے۔ اسے ملحوظ رکھتے ہوئے بے تامل کہا جاسکتا ہے کہ ترکی سلطنت صحیح معنوں میں سلطنت اسلامیہ نہیں ہے بلکہ محض سلطنت یا ’’وطنیت ترکیہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ترکی نے جو نیا ورق پلٹا ہے اس کا کچھ ہی سبب کیوں نہ ہو جن اسباب یا واقعات کی بنا پر اس نے اتنا زبردست انقلاب روا رکھا ہے وہ اسلام یا خلافت کی کوتاہیوں یا زیادتیوں کے سبب سے نہ تھا بلکہ اس کی اصلی وجہ خلفائے عثمانیہ یا دولت عثمانیہ تھی۔ ۴۔ انحطاط کے زمانہ میں قوائے جسمانی و ذہنی دونوں پژمردہ ہو جاتے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسلاف کے کارنامے اپنے نظروں میں ناقابل رسائی معلوم ہونے لگتے ہیں، انسانی فطرت دشوار پسندی اور اولولعزمی سے فطری طور پر کنارہ کش رہنا چاہتی ہے، قوم اور افراد دونوں فاتح کی حیثیت حاصل کرنے کی بجائے فاتحین کی ہمرکابی و ہمنوائی زیادہ پسند کرنے لگتے ہیں۔ اقبال نے اس حالت میں تقلید کو اجتہاد سے بہتر بتایا ہے۔ عہد حاضر فتنہ ہا زیر سر است طبع نا پرواے او آفت گرست بزم اقوام کہن برہم ازو شاخسار زندگی بے نم ازو جلوہ اش ما را زما بیگانہ کرد ساز مارا از نوا بیگانہ کرد از دل ما آتش دیرینہ برد نور و نار لَا اِلہٰ از سینہ برد راہ آبا رو کہ ایں جمعیت ست معنی تقلید ضبط ملت ست اجتہاد اندر زمان انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط ز اجتہاد عالمان کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر جس طور پر ہر عمل کا کوئی خاص مقصد ہوتا ہے خواہ یہ انفرادی ہو یا اجتماعی اسی طور پر ملت اسلامیہ محمدی کا ایک نصب العین ہے اور وہ ’’حفظ و نشر توحید‘‘ ہے۔ افراد کو جو قوت جماعت کی شکل میں نمودار کرتی ہے۔ وہ کسی مخصوص مقصد کی تبلیغ یا تشکیل ہے اگر ایسا نہ ہو تو افراد اور جماعت کبھی ایک دوسرے سے وابستہ نہ ہو سکیں اس لیے ’’جمعیت‘‘ کا مدار کسی مخصوص نصب العین کی تعمیر و تعمیم پر ہے لیکن ’’حقیقی جمعیت‘‘ اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب نصب العین بھی ہر طور پر مکمل و مستحسن ہو۔ اس عالم حیات کا اصلی راز تبلیغ توحید میں مضمر ہے اور چونکہ اسلام کو دین فطرت ہونے کا دعویٰ ہے اس لیے مقصد بھی اتنا ہی عالمگیر اور مقدس ہے: ہمچو جاں مقصود پنہاں در عمل کیف و کم ازوے پزیرد ہر عمل گردش خونے کے در رگہا ے ماست تیز از سعیِ حصول مدعا ست صد نیستاں کاشت تایک نالہ رست صد چمن خوں کرد تایک لالہ رست نالہ ہا درکشت جاں کاریدہ است تا نواے یک اذاں بالیدہ است نقطہ ادوار عالم لَا الٰہ انتہائے کار عالم لَا الٰہ زانکہ در تکبیر راز بود تست حفظ و نشر لَا اِلہ مقصود تست جلوہ در تاریکیِ ایام کن آنچہ برتو کامل آمد عام کن لرزم از شرم تو چوں روز شمار پرسدت آں آبروے روزگار حرف حق از حضرت مابردئہ پس چرابا دیگراں نہ سپردئہ حیات انسانی کے تمام افعال و مشاغل باعتبار تعینات ہمیشہ متشکل ہوتے رہتے ہیں اور یہ محض اس لیے کہ مزید سعی و کوشش کے لیے ایک نمونہ سامنے ہو اور یہ معلوم ہوتا رہے کہ ہر سعی و حرکت کس طور پر اور کہاں تک بار آور ہوئے اور جو کچھ کامیابی حاصل ہوئی ہے کیا وہ اس پایہ کی ہے کہ اس کے لیے مزید کوشش کی جائے یا اس کے قائم رکھنے میں مزید تگ و دو روا رکھی جائے۔ گویا ہر مزید کوشش ابتدائی کوشش کے لیے ایک سند جواز ہے۔ اس طور پر گویا زندگی کی یہ سعی پیہم ایک مقصد و مرکز کے لیے ہے۔ حیات ملّیہ کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ’’مرکز محسوس‘‘ ہو، ملت اسلامیہ کا مرکز ’’بیت الحرام‘‘ ہے، اقبال نے اس تفصیل و تخصیص کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔ در گرہ چوں دانہ دارد برگ وبر چشم برخود واکند گردد شجر خلعتے از آب و گل پیدا کند دست و پاو چشم و دل پیدا کند ہمچناں آئین میلاد امم زندگی بر مرکزے آید بہم حلقہ را مرکز چوجاں در پیکر ست خطہ او در نقطۂ او مضمر ست قوم را ربط و نظام از مرکزے روزگارش را دوام از مرکزے راز داردر راز ما بیت الحرام سوز ما ہم ساز مابیت الحرام دعویِ او را دلیل استیم ما از براہین خلیلؑ استیم ما در جہاں مارا بلند آوازہ کرد باحدوث ما قدم شیرازہ کرد تو ز پیوند حریمے زندئہ تا طواف اوکنی پائندئہ در جہاں جان امم جمعیت است در نگر سر حرم جمعیت است عبرتے اے مسلم روشن ضمیر از مآل امت موسیٰؑ بگیر داد چوں آں قوم مرکز راز دست رشتہء جمعیت ملت شکست آج یورپ کی جو چیز ہم کو سب سے زیادہ قابل رشک معلوم ہوتی ہے وہ اس کے فرزندوں کی’’تسخیر قوائے نظام عالم‘‘ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں تک قوائے نظام عالم کو مسخر کرنے کا تعلق ہے یورپ کی ترقی بہر نوع مہتم بالشان ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس حقیقت سے آشنا ہیں یا آشنا ہونا پسند کرتے ہیں کہ جو ترقیاں علم و عمل کی آج نظر آرہی ہیں ان کی آج سے بہت پہلے مسلمانوں نے یورپ میں ابتدا کی تھی۔ یورپ کو جو برکات مسلمانوں سے حاصل ہوئیں ان کے شمار کرانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس کا اعتراف خود اہل یورپ کر چکے ہیں مسلمان اکثر اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ وہ عام عالم اسلام پر اس وقت جو انحطاط رونما پاتے ہیں وہ اسلام کے اساسی تعلیمات کے سبب سے نہیں ہے بلکہ اس کا باعث مسلمان خود ہیں۔ مسلمانوں سے پہلے یہ تعلیم کسی مذہب نے نہیں دی ہے کہ یہ سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، دریائیں آبشار، برق و باد پرستش کے لیے نہیں ہیں۔ بلکہ انسان کے تابع کئے گئے ہیں اور وہ اس کے ذہن و فکر اور قوت عمل کی مختلف وسیع جولا نگاہیں ہیں۔ اسلام تو ایک شریعت عمل تھا ہم نے اس کو یا تو متکلمین و معتزلہ کی ورزش دماغی سمجھ لیا یا پھر جاہل مولویوں یا واعظوں کا وسیلئہ رزق۔ قوائے عالم کی تسخیر ڈرائینگ روم کی لطیف معصیتوں یا تکفیر کے فتووں سے نہیں کی جاسکتی اس کے لیے ضرورت تھی محنت اور قربانی کی جس سے ہم آج بھی بہت دور ہیں۔ ہم تودوسروں کے ثمرئہ محنت سے مستفید ہونا ہی اپنا ایک بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ ہماری بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم اسلام کی تعلیم کو محض ’’راہ نجات‘‘ یا ’’بہشتی زیور‘‘ کی تعلیم سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک ایک زندہ جاوید پیغام عمل ہے جس سے منحرف رہ کر مسلمان ہی نہیں کوئی قوم دنیا میں زندہ یا کامیاب نہیں رہ سکتی۔ حیات ملیہ اسلامیہ کا مقصد اسرار حیات کو اس طور پر برافگندہ نقاب کرنا ہے کہ دنیا میں امن و کامرانی کے امکانات وسیع ہوتے رہیں۔ اس لیے حیاتِ ملّی کے لیے لازم ہے کہ اس کا مقصد عین تسخیر قوائے نظام عالم ہو۔ اقبال نے اس کی تبلیغ یوں کی ہے۔ اے کہ بانا دیدہ پیماں بستۂ ہمچو سیل از قید ساحل رستۂ چوں نہال از خاک ایں گلزار خیز دل بغائب بند و ہا حاضر ستیز ماسوا از بہر تسخیر است و بس سینئہ او عرضئہ تیر است و بس ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد عالمے از ذرئہ تعمیر کرد کوہ و صحرا، دشت و دریا بحر وبر تختۂ تعلیم ارباب نظر نائب حق در جہاں آدم شود برعناصر حکم او محکم شود آنکہ بر اشیا کمند انداخت ست مرکب از برق و حرارت ساخت ست علم اسما اعتبار آدم است حکمت اشیا حصارآدم است جس طور پر افراد کے لیے استحکام خودی ضروری ہے اسی طور پر حیات ملیہ کے لیے بھی ’’احساس خودی‘‘ لازمی ہے۔ جہاں تک ان اصول و عقائد کا تعلق ہے جن کے حفظ، تعمیم و تشکیل کا وسیلہ ملت اسلامیہ ہے یہ بحث اس سے پہلے آچکی ہے کہ ہماری حیات کا مقصد اور اس کا دارومدار لَا اِلہ پر ہے لیکن امت کو جو نسبت رسول سے حاصل ہے وہ کئی حیثیت سے اہم ہے۔ خدا نے بعثت نبوی میں سب سے بڑا راز یہ رکھا ہے کہ وہ جو کچھ ہم بندوں سے کرانا چاہتا ہے اس کا ہم بندوں ہی میں سے نمونہ بھی پیش کر دیتا ہے تاکہ ہم اس کو اپنے لیے محض ایک آسمانی کرشمہ نہ سمجھیں جو بندوں کی فہم و ادراک یا ان کے سعی عمل سے بالا ہو۔ بلکہ ایک ممکن العمل حقیقت تصور کریں۔ ٹھیک اسی طور پر ملت کی ترقی و بقا کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم محض عقائد مجردہ کی علم برداری کرتے رہیں بلکہ ان روایات کا احترام کریں اور اس کو برقرار رکھیں جو ہمارے برگزیدہ اسلاف نے اپنے عمل سے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں اقبال نے اس کی تفصیل و توضیح ایک نوزائیدہ بچے سے کی ہے جو ابتداً ہر شے سے ناآشنا ہوتا ہے اور جس کا۔ بستہ با امروز او فرداش نیست حلقہ ہاے روز و شب در پاش نیست چشم ہستی را مثال مردم ست غیر را بینندہ و از خود گم ست رفتہ رفتہ:۔ صد گرہ از رشتہء خود وا کند تا سر تار خودی پیدا کند گرم چوں افتد بکار روز گار ایں شعور تازہ گردد پایدار نقشہا بردار و اندازد او سرگذشت خویش رامی سازد او اسی طور پر :۔ قوم روشن از سو اد سرگذشت خود شناس آمد زیادِ سرگذشت سرگذشت او گر از یادش ردد بازاندر نیستی گم می شود چشم پرکارے کہ بیند رفتہ را پیش تو باز آفریند رفتہ را ضبط کن تاریخ را پایندہ شو از نفسہاے رمیدہ زندہ شو سر زند از ماضیِ تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو مشکن از خواہی حیات لازوال رشتۂ ماضی ز استقبال و حال موج ادراک تسلسل زندگی است می کشاں را شور قلقل زندگی است موجودہ زمانہ میں ہر حقیقت کی سند جو از یا عدم جواز یورپ سے حاصل کی جاتی ہے اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یورپ کے اصول یا اس کے فیصلے نقائص یا غلطیوں سے مبرا ہوتے ہیں۔ بلکہ آج وہ فاتح کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے حورائین کو ممتاز اور مخالفین کو سرنگوں کرنے کے قابل ہے، ہم آج یہ نہیں دیکھتے کہ ہم میں کیا خوبیاں ہیں بلکہ یورپ کے بعض صریح نقائص کو بھی چاہتے ہیں کسی طور پر مستحسن ثابت کر سکیں قطع نظر دیگر مسائل کے جن کو معرض بحث میں لانا طوالت سے خالی نہیں ہے۔ ایک مسئلہ خواتین کی تعلیم حقوق اور آزادی کا ہے، یہاں اس سے بحث نہیں کہ یورپ نے عورتوں کو کیا سمجھ یا بنا رکھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کا جو درجہ مقرر کیا ہے وہ ہماری نظروں میں کیا وقعت رکھتا ہے۔ تعداد ازدواج، پردہ اور اس قسم کی اور چیزیں ہم روشن خیالوں کے لیے نہایت روح فرسا ہیں اور مغرب کے لیے جب ’’حلف وفاداری‘‘ اٹھاتے ہیں تو سب سے پہلے ہماری نظر عورت ہی پر پڑتی ہے اس کے بعد کوئی تعجب نہیں کہ اگر مذہب بھی زد میں آجائے ۔ نام نہاد روشن خیال طبقہ کے کارناموں پر نظر ڈالی جائے یا ان کی میلانات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ ان میں سے ہر ایک کی نظر صرف دو نقائص پر پڑتی ہے، ایک مذہب دوسری عورت۔ لیکن لطف، عبرت یا تعجب یہ ہے کہ یہی دو چیزیں ہیں جو مشرق بالخصوص اسلام کے امتیازات خصوصی ہیں، اسلام نے عورت (بالفاظ دیگر امومت) کو کیا درجہ دیا ہے۔ اقبال کے حسب ذیل خیالات سے ظاہر ہو گا ؎ پوشش عریانی مرداں زن ست حسن دل جو عشق را پیراہن ست آنکہ نازد بر وجودش کائنات ذکر او فرمود باطیب و صلٰوۃ ملت از تکریم ارحام ست و بس ورنہ کار زندگی خام ست و بس بردمد ایں لالہ زار ممکنات از خیابان ریاض امہات حافظ رمز اخوت مادراں قوت قرآن و ملت مادراں اقبال نے نسائِ اسلام کے لیے سیدۃ النساؓء کو ’’اسوہ کاملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ نور چشم رحمتہ للعالمین آں امام اولین و آخریں بانوے آں تاجدار ھل اتی مرتضیٰ مشکل کشا شیر خدا مادر آں مرکز پر کار عشق مادر آں کارواں سالار عشق مزرع تسلیم را حاصل بتولؓ مادراں را اسوئہ کامل بتولؓ آں ادب پروردئہ صبر و رضا آسیا گرداں و لب قرآں سرا مثنوی کے اس حصے کو اقبال نے انتہاے جوش عقیدت سے لکھا ہے جس کے ایک ایک حرف سے والہانہ شیفتگی کا اظہار ہوتا ہے موجودہ زمانہ میں تہذیب و شائستگی کے نام سے پیکرناموس و عفت کے ساتھ جیسا کچھ سلوک روا رکھا جارہا ہے، اقبال نے اس کی طرف بھی اشارہ کیا ہے: اے روایت پردئہ ناموس ما تاب تو سرمایہء فانوس ما اے امین نعمت آئین حق در نفسہائے تو سوز دین حق دور حاضر تر فروش و پرفن ست کاردانش نقد دیں را رہزن ست کور و یزداں ناشناس ادراک او ناکساں زنجیری پیچاک او چشم او بیباک و ناپرداستے پنجۂ مژگان او گیراستے ہوشیار از دست برد روزگار گیر فرزندان خود را درکنار ایں چمن زاداں کہ پرنکشا دہ اند ز آشیان خویش دور افتادہ اند فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند چشم ہوش از اسوئہ زہرؓا بلند تاحسینےؓ شاخ تو با آورد موسم پیشیں بہ گلزار آورد خاتمہ مثنوی پر اقبال نے سورئہ اخلاص (قل ھواللہ) کی تفسیر دی ہے اور اسے ’’خلاصہ مطالب مثنوی‘‘ قرار دیا ہے۔ ’’ھوا للہ احد‘‘ کا پیغام حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے زبان مبارک سے یوں دیا ہے: آں کہ نام تو مسلماں کردہ است از دوئی سوے یکی آوردہ است خویشتن را ترک و افغاں خواندئہ واے بر تو آنچہ بودی ماندئہ صدملل از ملتے انگیختی برحصار خود شبیخوں ریختی یک شود توحید را مشہود دکن غائبش را از عمل موجود کن اسی طور پر دیگر آیات شریفہ کی ترجمانی کی ہے: گر بہ اللہ الصمد دل بستۂ از حد اسباب بیروں جستۂ بندئہ حق بندئہ اسباب نیست زندگانی گردش دولاب نیست راہ دشوارست ساماں کم بگیر درجہاں آزاد زی آزاد میر خود بخود گردد در میخانہ باز برتہی پیمانگان بے نیاز فارغ از اب و ام و اعمام باش ہمچو سلماں زادئہ اسلام باش گر نسب را جزو ملت کردئہ رخنہ درکار اخوت کردئہ رشتۂ مایک تولایش بس ست چشم مارا کیف صہبایش ست ہر کہ پادر بند اقلیم و جد ست بے خبر از ’’لم یلد لم یولد‘‘ ست رشتۂ با ’لم یکن‘ باید قوی تا تو در اقوام بے ہمتا شوی آں کہ ذاتش واحد ست و لاشریک بندہ اش ہم در نہ ساز باشریک مومن بالاے ہر بالا ترے غیرت او بر نتابد ہمسرے خوار از مہجوری قرآں شدی شکوہ سنج گردش دوراں شدی آخر میں اقبال نے ’’رحمتہ للعالمین‘‘ کے حضورمیں ’’عرض حال‘‘ کیا ہے: اے ظہور تو شباب زندگی جلوہ ات تعبیر خواب زندگی در جہاں شمع حیات افروختی بندگاں را خواجگی آموختی ــــــــــــ مسلم از سر نبیؐ بیگانہ شد باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد از منات و لات وعزّیٰ و ہبل ہر یکے دارد دبتے اندر بغل ــــــــــــ اے کہ از احسان تو ناکس کس ست یک دعایت مزد گفتارم بس ست عرض کن پیشِ خداے عزوجل عشق من گردد ہم آغوش عمل ہست شان رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز تا بیاساید دل بے تاب من بستگی پیدا کند سیماب من با فلک گریم کہ آرامم نگر دیدئہ آغاز انجامم نگر ــــــــــــ آثار اقبال، مرتّبہ: غلام دستگیر، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۴ء اقبال کی نثر کا مزاج ڈاکٹر سلیم اختر اقبال کی نثر کے سلسلے میں یہ اساسی امر ملحوظ رہے کہ اقبال بنیادی طورپر نثر نگار نہ تھے۔ ان معنوں میں نثر نگار کہ صرف نثر ہی کو وسیلہ اظہار بنایا اور زیادہ تر اسی کو خیالات کی ترسیل اور تصورات کے ابلاغ کے لیے منتخب کیا۔ گو اقبال یورپ جانے سے پیشتر ۱۹۰۳ء میں علم الاقتصاد ایسے اہم موضوع پر ایک باضابطہ کتاب لکھ چکے تھے۔یہ کتاب اقبال کے اقتصادی تصورات سمجھنے میں بہت ممد ثابت ہو سکتی ہے بالخصوص وہ اقتصادی تصورات جو ایک حد کے بعد ملکی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں (اور ہوتے ہیں)۔ اقبال نقلاب روس سے ۱۴ برس قبل ہی قومی زندگی پر اقتصادی عوامل کا تجزیاتی مطالعہ کر کے غیر منصفانہ تقسیم دولت اور سرمایہ و محنت کی کشمکش کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ملتے ہیں۔ علم الاقتصادکا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا کہ نثر سے لمبی چوڑی دلچسپی نہ ہونے کے باوجود بھی اقبال کی پہلی باضابطہ تصنیف، جسے خود انھوں نے اپنی ’’علمی کوششوں کا پہلا ثمر‘‘ قرار دیا تھا، ایک نثری تصنیف ہی تھی۔ اقبال کی نثر کے مطالعے کے ضمن میں یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اقبال نے خود کو روایتی ادیبوں سے ہمیشہ ممیز کیا۔ چنانچہ جب اقبال کی شاعری کی شہر ت دوردور تک پھیل چکی تھی تو وہ خود کو شاعرنہ کہلوانے پر مصر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ایک سے زائد خطوط میں یہی بات الفاظ بدل بدل کر لکھی: ’’میں نے کبھی اپنے آپ کوشاعر نہیں سمجھا۔ اس واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں۔ فن شاعری سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں! بعض مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ورنہ: نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست (۱)!‘‘ ان ’’مقاصد خاص‘‘ کی تفصیل میں جائے بغیر انھیں صرف قومی احیاء اور اسلام کی نشاۃ الثانیہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہی افکار اقبال کا مرکز ہیں اور اس کے تصورات کا محور! عجیب بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے تو شاعری کوملک کے حالات و روایات کی رو سے موزوں سمجھا لیکن دوسرں کو کبھی بھی اس کامشورہ نہ دیا چنانچہ مولوی احمد علی صاحب کو لکھا: ’’دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے فرصت کے اوقات کے لیے شاعری سے بہتر مصرف تلاش کریں اگر اردو کی خدمت کا شوق ہو تو اس وقت نظم سے زیادہ نثر کی ضرورت ہے (۲)۔‘‘ اقبال نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے نثر اپنانے کا مشورہ اور بھی کئی لوگوں کو دیا تھا میاں ایم اسلم صاحب نے اپنے مضمون (’’راوی‘‘ اقبال نمبر ۱۹۷۴ئ) میں یہ انکشاف کیا ہے: ’’کہ وہ اقبال کے کہنے پر نثر کی طرف متوجہ ہوئے تھے‘‘۔ اس مشورہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اقبال نے ایم اسلم کو کالج کے انعامی مشاعرہ میں نظم پر اول انعام حاصل کرنے کے بعد یہ تلقین کی تھی شاید اقبال غیر ضروری شعرا کو قوم کے لیے مضر سمجھتے ہوں اس بنا پر کہ یہ سبھی روایتی قسم کی گُل و بلبل کی شاعری کر کے قوم کے قویٰ میں مزید کردنی پیدا کریں گے۔ اس معاملہ میں اقبال کے خیالات سرسّید اور حالی سے ملتے ہیں۔ جوقوم میں نئے خیالات کے نفوذ کے لیے شاعری پر نثر کو ترجیح دیتے تھے اوران کی یہ سوچ بھی لکھنؤ کے دبستان کے خلاف ردعمل سمجھی جاسکتی ہے کہ وہاں شاعری یا تو لفظی جمناسٹک بنی یا پھر سستے جذبات کی تسکین کا ذریعہ قرار پائی اسی لیے حالی اور ان کے بعد اقبال شاعری سے بدظن رہے۔ ہر چند کہ دونوں خود بہت اچھے شاعر تھے۔ سرسید تحریک میں نثر نگاری کی جو اہمیت تھی اسے بطور خاص اجاگر کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ دور نثر تھا۔ اقبال کے وقت تک اس دور کے اثرات کلیتاً ختم نہ ہوئے تھے بلکہ قومی ترقی کی جس مہم کا سرسید نے نہایت نا مساعد حالات میں آغاز کیا تھا۔ اقبال اسے اس کی منطقی انتہا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ گو اقبال نے سرسید کے دیگر نامور رفقائے کار کی مانند نثر کو بطور خاص اپنے اظہار کے لیے نہ برتا، لیکن ایک بات محسوس ہوتی ہے کہ اپنے مزاج کے عتبار سے اقبال کی نثر شبلی اور محمد حسین آزاد کے مقابلے میں سرسید اور حالی کی نثری روایات کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔ شبلی اور آزاد کی خوش آہنگ نثر پر جوش اور جذباتی مواقع پر بلند آہنگ ہوجاتی ہے۔ دونوں تخیل اور امیجری سے بھی خاصہ کام لیتے ہیں۔ ان دونوں کے مقابلے میں سرسید اور حالی کی نثر خاصی خشک اور روکھی پھیکی معلوم ہوتی ہے۔ دونوں تشبیہ وغیرہ کو ڈیکوریشن پیسنر کی طرح استعمال کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ مقصد پسندی ان کی نثر کا جوہر قرار دی جا سکتی ہے اور مقصد پسندی اقبال کی نثر کا بھی وصف خاص سمجھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ خطوط، مضامین خطبات سب میں اقبال نے الفاظ کی سجاوٹ کے مقابلے میں مواد کی منطقی پیشکش کو فوقیت دی ہے۔ اسی لیے شاعری کے مقابلہ میں اقبال کی نثر روکھی پھیکی ہے اور اقبال کے مزاج اوراس کے مخصوص قومی (اور ان حصول کے لیے ادبی) مقاصد کے لحاظ سے شعر اور نثر میں اس بُعد کی وجہ سمجھنی دشوار بھی نہیں۔ اقبال نے تو کبھی شاعری میں بھی شعوری کاوش سے لفظی محاسن پیدا کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔ ملاحظہ ہو ایک خط سے یہ منہ بولتی سطریں: ’’شعر محاورہ اور بندش کی درستی اور چستی ہی کا نام نہیں۔ میرا ادبی نصب العین نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے۔ میرے کلام میں شعریت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور میری ہرگز یہ خواہش نہیں کہ اس زمانے کے شعرا میں میرا شمار ہو (۳)‘‘۔ سید سلیمان ندوی نے مثنوی اسرار خودی میں بعض فروگزاشتوں کی طرف اشارہ کیا تو انھیں یہ جواب دیا: ’’قوافی کے متعلق جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا بالکل بجا ہے مگر چونکہ شاعری اس مثنوی سے مقصود نہ تھی اس واسطے میں نے بعض باتوں میں عمداً تساہل برتا (۴)‘‘۔ اگر اقبال اسرارخودی کی تحریر میں عمداً تساہل برت سکتا ہے تو اس سے نثر کو آراستہکرنے کی توقع ہی بے جا ہے۔اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اقبال شبلی، حالی یا سرسید وغیرہ کی مانند بنیادی طور پر نثر نگار نہ تھے وہ خود کو اپنے زمانے کے شعرا میں نہ بھی شمار کریں مگر تھے اول تا آخر شاعر ہی، نثر تو زیادہ سے زیادہ منہ کا ذائقہ بدلنے کی چیز ہوگی۔ کسی وقتی ضرورت کے تحت کوئی مضمون قلم بند کر دیا اور بس! ظاہر ہے کہ ان حالات میں اقبال نے نثر میں جمالیاتی اوصاف نہ پیدا کرنے تھے۔ اس کی بڑی وجہ مضامین کی سنجیدہ فکر بھی قرار دی جاسکتی ہے۔ مجھے تو اقبال کی نثر سرسید کی نثر کے رن سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے۔ میری دانست میں اقبال کی نثر کے اساسی اوصاف میں اس کا منطقی رنگ، غیر ضروری طوالت سے احترازکرتے ہوئے مواد کی مدلل پیش کش، عالمانہ متانت کی خشکی وغیرہ کو بطور خاص گنا جا سکتا ہے اور یہی تمام اوصاف سرسید کی نثر میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سرسید کے ہاں تو پھر بھی کبھی کبھی مزاح کا چھینٹا یا طنزیہ رنگ مل جاتا ہے، مگر اقبال نے اس سے تقریباً کورے ہیں۔ اسی طرح عالمانہ متانت بھی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہے۔ چنانچہ بعض اوقات تو عبارت ایسے صحرا کا منظر پیش کرتی ہے جہاں نہ تو تشبیہ کی کلیاں چٹکتی ہیں اور نہ ہی استعاروں کے پھول مہکتے ہیں۔ البتہ سرسید کے برعکس اقبال کو انگریزی الفاظ کے استعمال کا شوق نہیں۔ شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ اقبال انگریزی پر بھی عالمانہ دستگاہ رکھتے تھے۔ پورپ میں تعلیم حاصل کی تھی اور انگریزوں سے قطعاً مرعوب نہ تھے۔ اس لیے وہ اس احساس کمتری میں مبتلانہ تھے۔ جس میں ۱۸۵۷ء کے بعد کے دانش ور مبتلا نظر آتے ہیں۔ لہٰذا انھیں خود کو انگریزوں کے درجہ کا اور اپنی اردو کو انگریزی کے برابر کی ظاہر کرنے کا شوق نہ تھا۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اقبال کی نثرکے آہنگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے : ’’نوعِ انسانی کی موجودہ ترقی جیسا کہ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کوئی سستے داموں کی چیز نہیں ہے۔ سینکڑوں قومیں علمی اور تمدنی ترقی کی حسین دیوی کے لیے قربان ہوتی ہیں اور ہزاروں افراد کا خون اس کی خوفناک قربان گاہ پر بہایا جاتا ہے۔ جنگیں، وبائیں اور قحط اس ہمہ گیر قانون کے عمل کی عام صورتیں ہیں اور اگر ان کو ارتقا نوع انسانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ واقعات جو بظاہر آفاتِ سماوی معلوم ہوتے ہیں۔ طبقہ انسانی کے لیے ایک برکت ہیں جس کا وجود نظام قدرت کی آراستگی کے لیے انتہا درجہ کا ضروری ہے اس قانون کا اثر اقوام انسانی تک ہی محدود نہیں بلکہ بزم ہستی کے کسی حصے کی طرف نگاہ کرو اس کا عمل جاری نظر آئے گا۔ سینکڑوں مذاہب دنیا میں پیدا ہوئے، بڑھے، پھولے پھلے اور آخر کار مٹ گئے کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان کے عقلی ارتقا کے ساتھ ساتھ جدید ضروریات پیدا ہوتی گئیں جن کو ان مذاہب کے اصول پورا نہ کر سکے۔ یہی سبب ہے کہ اہل مذہب کو وقتاً فوقتاً نئے نئے علم الکلام ایجاد کرنے کی ضرورت پیش آتی رہی جن کے اصول کی رو سے انھوں نے اپنے اپنے مذاہب کو پرکھا اور ان کی تعلیم کو ایسی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی جو عملی اور روحانی زندگی میں انسان کی راہنما ہو سکے ……‘‘ (’’قومی زندگی‘‘) یہ نثر پارہ کسی شعوری انتخاب کا نتیجہ نہیں لیکن جہاں تک اقبال کی نثر کے مزاج کا تعلق ہے تو یہ بھی اتنا ہی نمایندہ تصور کیا جا سکتا ہے جتنا کہ کسی اور مضمون کا اقتباس! اقبال کی نثر میں استدلال کی قوت عجب شان سے جلوہ گر ہوتی ہے اور یہ نثر پارہ بھی اس کی ایک نمایاں مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے مالتھس کے نظریہ آبادی کا جس لطیف انداز میں مذاہب پر اطلاق کر کے علم الکلام سے اس کا رشتہ استوار کیا یہ ان کی قوت استدلال کا ایک کرشمہ ہے۔ ایک دقیق مسئلہ کو چند سطروں میں یوں پیش کر دینا کہ قاری کا ذہن ا س کی منطق کو قبول بھی کر لے آسان کام نہیں اور پھر اس کے لیے جو بنیادی طور پر شاعر ہو، ایمائی انداز سے بات کرتا ہواور برہنہ حرف نگفتن کو کمال گویائی گردانتا ہو۔ اقبال کا یہ منطقی انداز اس کی نثر میں قوت کی زیریں لہر کی صورت میں رونما ہوتا ہے! اقبال کی نثر اور شاعری کا بیک وقت مطالعہ کرنے پر یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ دو الگ شخصیتوں کا اظہار ہو مجھے تو نثر نگار اقبال وکیل نظر آتا ہے۔ اس کی نثر میں ادبی حسن کے مقابلے میں ’’لیگل ڈرافٹنگ‘‘ کا انداز زیادہ نمایاں نظر آتا ہے اس سے اقبال کی نثر میں استدلال کی قوت جلوہ گر نظر آتی ہے۔ قوت کی ایسی زیریں لہر جو ایک انتہا پر اثر آفرینی میں برقی رو کا کام کرتی محسوس ہوتی ہے تو دوسری انتہا پہ محض ’’سرد منطق‘‘ بن کر رہ جاتی ہے۔ قانونی عبارت کا غالباًسب سے اہم وصف اس کا غیر جذباتی انداز نگارش ہوتا ہے ایک تو اس لیے کہ مواد کی پیش کش میں وکیل پارٹی نہیں بنتا اور یہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ وہ وقوعات کو منطقی رنگ میں تحریر کر کے ان کے پس پردہ کار فرما محرکات کی اپنی منطق تلاش کر کے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور کچھ یہی عالم اقبال کی نثر کا ہے۔ ملاحظہ ہو ان کے مضمون ’’خلافتِ اسلامیہ‘‘ (۱۹۰۸ء )سے ایک اقتباس: ’’… اس امر کے تسلیم کرنے میں شبہ نہیں رہے گا کہ قرآن پاک نے جو اصول اساسی قائم کیا ہے وہ انتخاب ہی کا اصول ہے رہا یہ امر کہ عملاً حکومت کے اس طرز عمل کو دنیا میں قاثم کرنے کے لیے اس اصول کی کیا کیا تشریح و تاویل کی جا سکتی ہے اور اس سے کون کون سی مزعومات و تفصیلات مستنبط ہوتی ہیں اس بات کے فیصلہ کا دارو مدار وقتی حالات و دیگر واقعات پر چھوڑ دیا گیا ہے جو مختلف زمانوں میں مختلف جگہوں میں پیدا ہو سکتے ہیں، مگر شومی قسمت سے مسلمانوں نے انتخاب کے مسئلہ کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کی اور وہ خالص جمہوری بنائوں پر اصول انتخاب کے مسئلہ کو فروغ دینے سے قاصر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان فاتحین ایشیا کے سیاسی نشووارتقا کے لیے مطلقاً کچھ نہ کر سکے۔ بغداد اور اندلس میں بیشک اصولِ انتحاب کی ہیئت کو قائم رکھا گیا لیکن اس قسم کے باقاعدہ سیاسی نظام کوئی قائم نہ کئے گئے جن سے بحیثیت مجموعی قوم کو استحکام و استقرار نصیب ہو…‘‘ اقبال کی ’’علم الاقتصاد‘‘ کے ایک اقتباس سے بھی اقبال کی نثر کے مزاج میں منطقی، استدلال کی قوت کی کار فرمائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے: ’’… یہ امر بھی ظاہر ہے کہ جوں جوں آبادی بڑھتی ہے۔ ضرورت ان زمینوں کو کاشت میں لانے پر مجبور کرتی ہے جو اس سے پہلے غیر مزروعہ پڑی تھیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو زمین افزائش آبادی سے پیشتر کاشت کی جاتی تھیں، ان کا لگان بڑھ جاتا ہے۔ زمیندار روز برورز دولتمند ہوتے جاتے ہیں حالانکہ یہ مزید دولت جو ان کو ملتی ہے نہ ان کی ذاتی کوششوں اور ان کی زمینوں کے محاصل مقدار بڑھنے کا نتیجہ ہوتی ہے بلکہ صرف آبادی کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے ان کی ذاتی کوششوں اور ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ دولت مند ہوتے جائیں کوئی وجہ نہیں آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی قوم اس سے محروم رہے اگر یہ فائدہ ان کی ذاتی کوششوں یا ان کی دولت مندی کے یہ اسباب نہیں ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ان کی اجیری صریحاًاصول انصاف کے خلاف ہے ‘‘(۵)۔ یہ اقتباس میں نے بطور خاص منتخب کیا یہ دکھانے کے لیے ایک جذباتی مسئلے پر لکھتے وقت بھی اقبال استدلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھٹنے دیتے جس کی نتیجہ میں پر جوش یا بلند آہنگ خطیبانہ انداز اختیار کرنے کے برعکس وہ عالمانہ غیر جانبداری کے پیرایہ میں اس پر ایک علمی مسئلہ کے ماننداظہار خیال کرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس شاعری میں اقبال پر جوش ہو گئے تھے ملاحظہ ہو ان کی نظم : ’’فرمانِ خدا (فرشتوں سے)‘‘ کے یہ اشعار: اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو، کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو، جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو! ( ۲ ) اقبال کے مقالات میں موضوعات کا تنوع ان کے مخصوص فکری رجحانات کا مظہر قرار دیا جا سکتا ہے گو ان مقالات میں زیادہ تر ادبی نوعیت کے ہیں جیسے ’’زبان اردو‘‘ ’’اردو زبان پنجاب‘‘ (۱۹۰۶ء )، ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ ، ’’اسرارخودی‘‘ (۱۹۱۶ء ) اور ’’جناب رسالتمآبؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ (۱۹۱۷ئ) وغیرہ کے ساتھ ۱۹۲۳ء میں کی گئی ’’کابل میں ایک تقریر‘‘ بھی اسی ذیل میں آجاتی ہے۔ ان کے علاوہ اسرارخودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، اور اسرار خودی (طبع دوم)کے دیباچوں میں اور منشی محمد دین فوق کی کتابوں پر مختصر تقاریر کو بھی اس سلسلہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ’’خلافت اسلامیہ‘‘ (۱۹۰۸ء )، ’’ملت بیضاپر ایک نظر (۱۹۱۰ء ) اور ’’پین اسلام ازم‘‘ (۱۹۱۱ء )، ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ (۱۹۳۸ء )۔ ایسے مضامین میں اسلام کا بطور سیاسی قوت مطالعہ کر کے مسلمانوں کی قومی زندگی کے لیے اسلام پر مبنی ایک لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ ’’اسلام اورعلوم جدیدہ‘‘ (۱۹۱۱ء )ایک مختصر تقریر ہے جس میں اس اہم موضوع پر اقبال نے بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ ’’محفلِ میلادالنبیؐ ‘‘ ایک تقریر ہے اور ’’خطبہ عید الفطر‘‘ ایک پمفلٹ ہے۔ یہ دونوں ایک دیندار مسلمان کی تحریریں ہیں اور دین دار مسلمانوں سے ہی ان میں خطاب کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ’’قومی زندگی‘‘ (۱۹۰۴ء ) ’’یورپ کے سفر کی روداد‘‘ بصورت مراسلات (۱۹۰۵ء )، ایک انٹرویو (۱۹۱۴ء ) ’’تصوف وجودیہ‘‘ (۱۹۱۶ء ) اور انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں خطبہ صدارت بھی اقبال کی فکر کے کسی نہ کسی پہلو کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ فہرست صرف ایک کتاب مقالات اقبال سے ہے لیکن ان کے علاوہ بھی کئی مقالات اورخطبات وغیرہ مختلف جرائد میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ اقبال کی نثری کاوشوں کے تجزیاتی مطالعہ سے پیشتر اس حقیقت کا ذہن نشین رکھنا لازم ہے کہ موضوعات اورمسائل کے اعتبار سے ان میں سے بیشتر ایسے مقالات ہیں جن کی آج چنداں اہمیت نہیں۔ میرا مطلب ہے اقبال کے نام سے الگ کر کے بطور ایک واحد مضمون کے اس سیدھی سی وجہ تو یہ ہے کہ پچاس ساٹھ بلکہ ستر برس قبل کے ان مضامین میں جن موضوعات کو چھیڑا گیا۔ آج کے حالات میں قومی زندگی کے لیے ان کی اتنی اہمیت نہیں بنتی۔ (لیکن تمام مضامین کے لیے یہ نہیں کہا جا سکتا ) آج ان مضامین کی خواہ وہ کتنے مختصر، سرسری اور غیر اہم ہی کیوں نہ ہوں اس بنا پر اہمیت بنتی ہے کہ یہ اقبال کے قلم سے نکلے ہیں اور اس کی سوچ سے روشن ہیں، صرف اسی تعلق کے باعث یہ مضامین اپنی عام سطح سے بلند ہو کر خاص الخاص بن جاتے ہیں۔ آج ہم اقبال کی فکر کے ماخذات، اس کی تشکیل اور اس کے ارتقا کے بارے میں ہر ذریعے سے حصول معلومات کے خواہاں ہیں۔ اس لیے اقبال کے تحریر کردہ ایک مضمون کی تو بات ہی کیا ایک سطر بھی اہمیت حاصل کر لیتی ہے۔ چنانچہ ان مضامین اور تقاریر کی اہمیت بھی اس امر میں مضمر ہے کہ یہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر اقبال کی سوچ کے آفاق پر روشنی ڈالنے کا موجب بنتے ہیں ان میں سے کچھ نزاعی ہیں، بعض میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے تو بعض میں دوسرں کے اعتراضات کے جوابات دیے ہیں جبکہ بعض سے اس کی مخصوص ذہنی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے تو بعض قومی مشاغل اور دینی سوچ کے آئینہ خانے ہیں۔ الغرض! یہ مضامین ہمیں اقبال کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اس کی سوچ کے کئی رخ دکھاتے ہیں اور اس کے ذہن کے بارے میںبہت سے کارآمد سراغ مہیا کرتے ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اقبال نے لکھے! اقبال نے کہا تھا: نہ زباں کوئی غزل کی نہ زبان سے باخبر میں کوئی دل کشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی اقبال کی شہرت جیسے جیسے پھیلتی گئی اس کے مداحوں اور معترضوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا، مداح تھے اس کے فلسفے کے، پیغام کے، قومی درد اور ملی شعور کے جبکہ معترضین کی نگاہ فلسفہ و پیغام کی ترسیل کے آلے یعنی الفاظ، محاورات، عروض وغیرہ تک محدود رہی۔ انھیں روح سے تو غرض نہ تھی ہاں جسم سے بیحددلچسپی تھی،انھیں لباس سے تعرض نہ تھا البتہ سلائی میں چند ٹانکے غلط لگ جانے پر سیخ پا تھے۔ چنانچہ اہل زبان اقبال کی زبان و بیان پر وقتاً فوقتاؒ اعتراضات کرتے رہتے تھے۔ (یہ اعتراضات جو اخبارات و جرائد میں مطبوعہ مضامین سے بڑھ کر کتابی صورت بھی اختیار کر گئے)۔ ملاحظہ ہو: ۱۹۲۸ء میں لاہور سے مطبوعہ حضرت جراح کی ۸۸ صفحات پر مشتمل کتاب اقبال کی خامیاں (مرتبہ دور نکودری) اقبال نے ان اعتراضات کی بالعموم پرواہ نہ کی۔ اس کی ایک وجہ تو گزشتہ سطور میں بیان کی جا چکی ہے۔ یعنی اقبال نے خود کو روایتی مفہوم میں کبھی شاعرنہ سمجھا تھا اور نہ ایسے شعرا کی بھیڑ میں خود کو دیکھنا پسند کرتے تھے۔ اقبال کے شاعرانہ مقاصد اور محض ایک اہل زبان شاعرکے مقاصد میں بعد المشیرقین تھا اس لیے اقبال سے بطورخاص اس کی توقع بے کار تھی کہ وہ صرف الفاظ کے بل پر ہی شاعری کرے گا۔ پھر زبان و بیان کا مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں حرف آخر کوئی بھی نہیں، میرؔ، سوداؔ، مصحفیؔ، غالبؔ، کون ہے جس پر ان کے معاصرین نے اعتراضات نہ کیے تھے۔ اقبال تو پھر پنجابی تھا لہٰذا اس پر اہل زبان کو اعتراضات کی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی گنجایش نظر آئی۔ جب تک تواقبال خاموش رہا، خاموش رہا۔ لیکن جب جواب دیا تو لفظ و بیان کی سندیں لانے میں اقبال جس طرح سے اساتذہ کے اشعار کے حوالے لے آئے وہ زبان کے گہرے شعور اور فن شاعری کے اصولوں سے گہری واقفیت کے مظہر ہیں۔ ’’اردو زبان پنجابی میں‘‘ اس لحاظ سے بے حد اہم تحقیقی مقالہ ہے کہ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اقبال کو الفاظ کے تخلیقی استعمال کا سلیقہ ہی نہ تھا بلکہ اس معاملہ میں اس کی معلومات اور مطالعہ کسی بھی اہل زبان شاعر سے فروتر نہ تھا۔ اقبال کے بارے میں اب تک یہ عام تاثر ملتا ہے کہ اقبال کوحسن بیان کے لوازم اورضنائع بدائع وغیرہ کا اول تو شعور ہی نہ تھا یا اگر شعور تھا تو انھوں نے کبھی ان سے خصوصی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا لیکن یہ خیال غلط ہے اور اقبال کے ناکافی مطالعہ کا نتیجہ۔ سید عابد علی عابد نے ’’شعر اقبال‘‘ میں اقبال کا اسی معیار پر جائزہ لیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا: ’’جن صنائع لفظی و معنوی کا ذکر بلاغت کی کتابوں میں کیا گیا ہے وہ تمام کی تمام اقبال کے کلام میں موجود ہیں‘‘۔ یہی نہیں بلکہ صرف صنائع بدائع کے لحاظ سے بھی اقبال کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ نذیر احمد کی تالیف ’’اقبال کے صنائع بدائع‘‘ کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے شاعری کے فنی محسن کی طرف شعوری توجہ نہ کرتے ہوئے بھی صنائع بدائع کی کل ستر اقسام استعمال کی ہیں۔ یہ سب صرف اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لیے تھا کہ اقبال زبان نا آشنا نہ تھا۔ بعض اوقات اس کا لاہوری ہونا آڑے آجاتا تھا۔ اقبال کا مقالہ ’’اردو زبان پنجاب میں‘‘ محض اس لیے اہم نہیںکہ اس میں ’’ایک منصف مزاج پنجابی‘‘ نے دہلوی اورلکھنوی اساتذہ کے اشعار کو اعتراضات کے جواب میں بطور سند پیش کیا بلکہ اس کی اصل اہمیت اس امر میں مضمر ہے کہ علم اللسان کا ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی اقبال نے تبدیلیٔ زبان کے عمل سے آگہی کا ثبوت دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’… اس بات پر مصر ہیں پنجاب میں غلط اردو کے مروج ہونے سے یہی بہتر ہے کہ اس صوبے میں اس زبان کا رواج ہی نہ ہو، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ غلط اور صحیح کا معیار کیا ہے جو زبان بہمہ وجوہ کامل ہو اور ہر قسم کے ادائے مطلب پر قادر ہواس کے محاورات والفاظ کی نسبت تو اس قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جاتا ہے لیکن جو زبان ابھی بن رہی ہو اور جس کے محاورات و الفاظ جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً اختراع کیے جا رہے ہوں اس کے محاورات وغیرہ کی صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا میری رائے میں محالات سے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے اردو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کونا شروع کیا اور کیا تعجب کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو، وہاں کے لوگوں کا طریقِ معاشرت ان کے تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ ایک مسلم اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے۔ اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے‘‘۔ اس اقتباس کی آخری سطریں بہت معنی خیز ہیں اور اس عمل کی غماز جسے اردو کے سفر سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اردو کی نشوونما کے تین مراحل مقرر کیے جا سکتے ہیں، جنوبی ہند، دہلی اورلکھنؤ۔ تینوں مقامات پر اسکا تعلق مقامی درباری اور معاصر تہذیب سے رہا جنوبی ہند کی اردو کو تو خیر کسی نے اردو تسلیم ہی نہ کیا۔ لہٰذا شمالی ہند میں دہلی اور لکھنؤ ہی اس کے دو مراکز قرار پاتے ہیں۔ دونوںشہروں نے اردو زبان و ادب کی نشوونما اورترقی میں جو قابل قدر کردار ادا کیاوہ اردو ادب کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ اور کسی صورت میں اس کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد کے سیاسی اور اقتصادی حالات نے ان دونوں شہروں کی (اردو کے نقطئہ نظر سے) اہمیت ختم کر دی۔ سرسید تحریک کے ملک گیر اثرات کے نتیجے میں اردو کی ترقی میں پانی پت، علی گڑھ اور حیدر آباد کن سر فہرست آگئے۔ ادھر دہلی اور آگرے کے مہاجرین نے لاہور میں اردو کی بزم جمائی اور پنجابیوں کو اردو کی حلاوت سے آشنا کیا۔ ’’انجمن پنجاب‘‘ کے مشاعروں،ادبی جلسوں اور بعد ازاں مخزن ایسے جرائد کی صورت میں لاہور خیالات نو کی اشاعت کا سب سے پہلا مرکز بن گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیشتر اس کے کہ دہلی اور لکھنؤ کے اساتذہ کو احساس ہوتا اردو کی ترقی کا مرکز لاہور منتقل ہو چکا تھا۔ چنانچہ موجودہ صدی کا اردو کی ترقی میں پنجابیوں کے فعال کردار سے آغاز ہوتا ہے۔ اقبال زبان اور تہذیب و تمدن کی باہمی اثر پذیری کو تسلیم کرتے ہیں۔ زبان کا مزاج متعین کرنے میں معاشرتی حالات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ الفاظ کے اخذ و قبول اور ردّو متروک کا عمل ان ہی حالات کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ تمدنی حالات کے نتیجے میں زبان میں نئے نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں اور اس عمل کے منطقی نتائج کے خلاف مزاحمت زبان کی نشوونما کے عمل اور ذخیرئہ الفاظ کے استعمال پر پابندی کے مترادف ہے۔ معترضین کے جواب میں اقبال ان الفاظ میں اظہار تعجب کرتے ہیں۔ ’’تعجب ہے کہ میز، کمرہ، کچہری، نیلام وغیرہ اور فارسی اورانگریزی کے محاورات کے لفظی ترجمے کو بلا تکلف استعمال کرو لیکن اگر کوئی شخص اپنی اردو تحریر میں کسی پنجابی محاورے لفظی ترجمہ یا کوئی پر معنی پنجابی لفظ استعمال کر دے تواس کو کفرو شرک کا مرتکب سمجھو اور باقی باتوں میں اختلاف ہو تو ہو مگریہ مذہب منصور ہے کہ اردو کی چھوٹی بہن یعنی پنجابی کا کوئی لفظ اردو میں گھسنے نہ پائے۔ یہ قید ایک ایسی قید ہے جوعلم زبان کے اصولوں کے صریح مخالف ہے اور جس کا قائم اور محفوظ رکھنا کسی فرد و بشر کے امکان میں نہیں ہے اگریہ کہو کہ پنجابی کوئی علمی زبان نہیں ہے جس سے اردو الفاظ و محاورات اخذ کیے جائیں تو آپ کا عذر بے جا ہوگا۔ اردو ابھی کہاں کی علمی زبان بن چکی ہے جس سے انگریزی نے کئی ایک الفاظ بدمعاش، بازار، لوٹ چالان وغیرہ لے لیے ہیں اور ابھی روزبروز لے رہی ہے‘‘۔ یہ نہ سمجھیے کہ پنجابی کے ناطے اقبال پنجابی زبان کی بیجا حمایت کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں گو یہ دوست ہے کہ اقبال نے پنجابی کے حوالے سے بات کی ہے لیکن پس منظر میں وہی عمومی اصول کار فرما ہے جسے زبانوں کی نشوونما کے لیے لازم سمجھا گیا ہے اور وہ ہے زبان میں نئے الفاظ کی شمولیت کا مسئلہ۔ اسی عمل سے زبانیں ترقی پاتی ہیں۔ زبان میں نئے الفاظ کو نیا خون بلکہ خون کے حیات بخش سرخ خلیے سمجھنا چاہیے کہ اسی سے زبان معاصر زندگی کے معاشرتی تقاضوں اور تمدنی امور سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے۔ اقبال نے اپنے بعض خطوط میں بھی زبان کے بارے میں بعض بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ چنانچہ مولوی عبدالحق کو ۹ دسمبر ۱۹۳۹ء کے ایک مکتوب میں اس خیال کا اظہار کیا: ’’زبانیں اپنی اندورنی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے (۶)‘‘۔ اسی طرح سردار عبدالرب نشتر کے نام ۱۹ اگست ۱۹۲۳ء کو لکھے گئے خط میں جو لکھا اسے زبان کے بارے میں خود اقبال کا اپنا موقف بلکہ بطور تخلیقی فن کار اس کا منشور بھی قرار دیا جا سکتا ہے: ’’زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے (۷) ‘‘۔ وہ لوگ جو زبان کو سومناتھ کا مندر سمجھتے ہیں اور خود کو اس کا پجاری۔ انھیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ زبان ایک بت نہیں بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ ہے وہ انسانی ذریعہ جو انسانوں کی مخصوص ضروریات کے مطابق انسانوں کے لیے انسانوں نے وضع کیا ہے اسی لیے ’’دیوبانی‘‘ کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ دیوابانی بننے کا مطلب انسانوں اور زندگی کے متنوع مظاہر کے حیات بخش اثرات سے رابطہ منقطع کرنے کے مترادف ہوگا۔ سنسکرت کی مثال نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اقبال نے اپنے ایک مضمون ’’قومی زندگی‘‘ میں قانون ارتقا کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے اس کا زبانوں پر اطلاق کر کے زبان میں نئے الفاظ کی اہمیت اور ضرورت کا احساس کرایا ہے: ’’ایک زمانہ تھا جب یونانی یا لاطینی اور سنسکرت وغیرہ زندہ زبانیں تھیں مگر اب ایک عرصے سے یہ زباینں بے جان ہوچکی ہیں ان کی موت کا راز اس قانون کا عمل ہے اورخود پنجابی زبان جس کوہم روز مرہ استعمال کرتے ہیں اس سے روز بروز متاثر ہو رہی ہے۔ سینکڑوں الفاظ ہیں جو تعلیم یافتہ لوگوں کے روزمرہ استعمال میں ہیں مگر اس زبان میں موجود نہیں اظہار خیالات کے جدید طریقے ہماری عقلی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں یہ زبان ان کے ادا کرنے سے قاصر ہے ایسے حالات میں یہ لازم ہے کہ اس زبان کا حشر وہی ہوجو اور قدیم زبانوں کا ہوا ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ اقبال کا یہ شعر بھی ملا حظہ ہو: الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا غوّاص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے؟ اور اسی پر یہ مضمون ختم کیا جا سکتا ہے کہ شاعر اقبال کا فنی منضب اس سے واضح ہو جاتا ہے، وہ فنی منصب جس کی تشریح اس کی نثر سے بھی ہو جاتی ہے۔ اقبال کا نفسیاتی مطالعہ، مکتبہ عالیہ لاہور، ۱۹۷۷ء حوالے ۱۔ اقبال نامہ، صفحہ۱۹۶ ۲۔ اقبال نامہ، حصہ دوم: ۲۵۶ ۳۔ اقبال نامہحصہ دوم ص : ۲۵۴ ۴۔ اقبال نامہ حصہ اول ص :۸۶ ۵۔ علم الاقتصاد مطبوعہ اقبا ل اکادمی کراچی (۱۹۶۱ء )ص :۱۵۲ ۶۔اقبال نامہ حصہ اول ص: ۵۶ ۷۔اقبال نامہ حصہ دوم ص: ۸۵ ’’علم الاقتصاد‘‘ اور تشکیل خودی کے عمرانی مقدمات ڈاکٹر صدیق جاوید بیسوی صدی کے آغاز میں اقبال کی فکری زندگی کا آغاز ہوا تو برصغیر میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوشاں انیسویں صدی کے نصف آخر کی اصلاحی اور عملی کوششوں کے باوجود قوم کے طرز عمل میں خاطر خواہ تبدیلی واقع نہ ہوئی تھی۔ اقبال کو بھی دوسرے درد مندان قوم کی طرح پہلے پہل قومی فلاح کا راز تعلیم کے حصول ہی میں نظر آیا۔ انھوں نے ۱۹۰۲ء میں ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ اس کے بعد ۱۹۰۴ء میں ان کی تصنیف علم الاقتصاد شائع ہوئی جو اپنی اصل کے اعتبار سے ایک درسی کتاب ہے اور شاید اسی لیے اقبال کے فکری ارتقا کے رسمی جائزے میں اس کو زیادہ قابل توجہ خیال نہیں کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے دوران میں اقبال کو عمرانی مسائل پر غور کرنے کا موقع ملا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ زیر نظر کتاب میں اقتصادی مسائل کی وضاحت کے سلسلے میں بعض ثانوی مباحث آتے ہیں مگر اقبال کے دل و دماغ پر ان کا ایسا تسلط قائم ہوجاتا ہے کہ ان کی فکر ی بنیادیں انھی مباحث پر استوار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ اقبال کے فکری محور ۔۔۔۔۔۔۔ خودی کا سر چشمہ بھی انھی سے پھوٹتا ہے۔ ان مباحث کی عمرانی معنویت اور اہمیت کے علاوہ علامہ اقبال کے تصور خودی کی تشکیل میں ان کے بنیادی کردارکے پیش نظر انھیں عمرانی مقدمات قرار دیا گیا ہے۔ یہاں وہ ضمنی مباحث پیش کیے جاتے ہیں: ۱۔ قدیم مہذب قوموں کی تباہی کے اسباب (۱)۔ ۲۔ نظریہ مصاف ہستی اور ’’قانوں بقائے افراد قویہ‘‘ (۲)۔ ۳۔خیالات یا مذاہب کے اصولوں اور تمدنی حالات و عقلی ترقی میں مطابقت کی ضرورت (۳)۔ ۴۔ تعلیم اور قومی فلاح و بہبود (۴)۔ ۵۔ قومی ترقی میں اقتصاد و معا ش کی اہمیت، خصوصاً صنعت اور تجارت کا حصہ۔ ۶۔ معاشرتی مسائل مثلاً تعدد ازدواج وغیرہ۔ ۷۔ فرد اور جماعت کا باہمی تعلق (۵)۔ ۸۔ غلامی پر اظہار خیال (۶)۔ ۹۔ شخصیت پر افلاس کے منفی اثرات (۷)۔ ۱۰۔ انسانی تمدن کی ترقی کے لیے ضروری شرط ۔۔۔۔۔۔۔تسخیر فطرت (۸)۔ متذکرہ نکات کے تناظر میں اقبال کے افکار کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عمرانی اہمیت کے یہ نکات ہمیشہ اقبال کے فکر و نظر کا محور رہے اور کبھی ان کی نظروں سے اوجھل نہ ہوئے۔ لہٰذا ان پر مسلسل غور فکر کے نتیجے میں ان کے فکری رویے متعین ہوتے چلے گئے اورمناسب وقت پر تخلیقی عمل کے ارتقائی مدارج (development)کے مطابق قائم بالذات موضوع بن کر سامنے آئے۔ تصور خودی کی تشکیل تک یہ نکات اقبال کے دل دماغ میںکس طرح متحرک رہے ہیں، اس کا ایک اجمالی تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ علم الاقتصاد کے بعداقبال کا ایک مضمون ’’قومی زندگی‘‘ گویا ان کے فکر و خیال کی اگلی منزل ہے۔ اس مضمون کا پس منظر یہ ہے کہ اقبال ’’اگست ۱۹۰۴ء میں کچھ مدت کے لیے شیخ عطا محمد کے پاس ایبٹ آباد گئے۔وہاں احباب کے اصرار پر ایک لیکچر قومی زندگی پر دیا‘‘ (۹) جو بعد میں بطور مضمون مخزن کے دو شماروں بمطابق اکتوبر ۱۹۰۴ء و مارچ ۱۹۰۵ء میں شائع ہوا۔ اس مضمون کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ علم الاقتصاد میں مباحث ثانوی حیثیت رکھتے تھے اور مختلف ابواب میں بکھرے ہوئے تھے، جن کی سطور بالا میں نشاندہی کی گئی ہے، اب منضبط ہو کر باقاعدہ موضوع بحث بن گئے ہیں۔چنانچہ انھیں وضاحت کے ساتھ اور مربوط اندازمیں ایک مضمون (قومی زندگی) کی شکل میں قلمبند کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں بھی مصاف ہستی میں ’’بقاے افراد قویہ‘‘ کے قانون کا تفصیلی ذکر ہوا ہے۔ ان قدیم قوموں، تہذیبوں اور تمدنوں کا تذکرہ بھی ہے جو ’’ارتقا نوع انسانی‘‘ (۱۰)کے قانون کی زد میں آکر فنا ہوگئیں۔ ان اقوام کا بھی ذکر ہے جنھوں نے بقا کے عمرانی اصول اور رمز کو سمجھا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں: ’’اگر ہم متمدن دنیا کی گذشتہ اور موجودہ تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اقوام قدیمہ میں سے صرف چار قومیں ایسی ہیں جو قوانین زندگی کی تیز تلوار سے بچ کر بری بھلی حالت میں اب تک صفحہء ہستی پر قائم ہیں، یعنی چینی، ہندو، بنی اسرائیل اور پارسی۔ حال کی قوموں میں دیگر مغربی اقوام کے علاوہ ایشیا میں جاپان اورفرنگستان میں اہل اطالیہ، دو قومیں ایسی ہیں جنھوں نے موجودہ تغیر کے مفہوم کو سمجھ کر اپنے تمذنی، اخلاقی اور سیاسی حالات کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔۔۔‘‘ (۱۱)۔ اقبال یہودیوں اور پارسیوں کی تاریخ پر اجمالی نگاہ ڈالنے کے بعد جاپان کی ترقی کا ذکر یوں کرتے ہیں: ’’ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ قوم قریباً مردہ تھی ۔۔۔۔۔۔ ۱۸۷۲ء میں جاپان کا پہلا تعلیمی قانون شائع کیا گیا ہے اور شہنشاہ جاپان نے اس کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے: ’’ہمارا مدعا یہ ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گائوں میں کوئی خاندان جاہل نہ رہے‘‘۔ غرضیکہ ۳۶ سال کے قلیل عرصے میں مشرق اقصیٰ کی اس مستعد قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی، دنیوی اعتبار سے ممالک مغرب کی تقلید کر کے ترقی کے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیوی اعتبار سے سب سے زیادہ مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جاپانیوں کی باریک بین نظر نے اس عظیم الشان انقلاب کی حقیقت کو دیکھ لیا اور وہ راہ اختیار کی جو ان کی قومی بقا کے لیے ضروری تھی۔ افراد کے دل و دماغ دفعتاً بدل گئے اورتعلیم و اصلاح تمدن نے قوم کی قوم کو اور سے کچھ اور بنا دیا، اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان نے رموز حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے، اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لیے سب سے اچھا نمونہ ہے۔ ہمیں لازم ہے کہ اس قوم کے فوری تغیر کے اسباب پر غور کریں اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو، اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں‘‘ (۱۲)۔ اس کے بعد ہندوستان کی تمدنی اور اقتصادی صورت حال کے جائزہ کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے: ’’ان واقعات کی روشنی میں اگر ہندوستان کی حالت کو دیکھا جائے تو ایک مایوس کر دینے والا نظارہ سامنے آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایسے حالات میںجب مصنوعات اور تجارت کی طرف سے ہمارا ملک بالکل غافل ہو، یہ کس طرح ممکن ہے کہ مصاف زندگی میں جس کا دائرہ روز بروز وسیع ہوتا جاتا ہے کامیاب ہوں گے ۔۔۔۔۔‘‘ (۱۳)۔ پھر یہ بتاتے ہوئے کہ ’’اقوام ہند میں سے ہمارے بھائیوں نے اس راز کو کسی قدر سمجھا ہے‘‘ ،مسلمانوں کی مخدوش حالت، ان کے ’’مذہبی تنازعات‘‘ امرا کی عشرت پسندی، عوام کی تمدنی زبوں حالی اور افلاس پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’یہ بڑا نازک وقت ہے، اور سوائے اس کے کہ تمام قوم متفقہ طور پر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ کرے کوئی صورت نظر نہیں آتی، دنیا میں کوئی بڑا کام سعی بلیغ کے بغیر نہیں ہوا، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم اپنی حالت خودنہ بدلے‘‘ (۱۴)۔ قوم کی تقدیر کیسے بدل سکتی ہے؟ اس ضمن میں فرد اور قوم کو لازم و ملزوم ٹھہراتے ہوئے لکھا ہے: ’’دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘ (۱۵)۔ آخر میں قومی اور انفرادی اصلاح اور بہبود کے ضمن میں فرماتے ہیں: ’’اگر ہم جاپان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیں اور موجودہ وقت میں یہی ملک ہمارے واسطے بہترین نمونہ ہے، تو اس وقت ہمیں دو چیزوں کی سخت ضرورت ہے، یعنی اصلاح تمدن اور تعلیمِ عام، مسلمانوں میں اصلاح تمدن کا سوال در حقیقت ایک مذہبی سوال ہے، کیونکہ اسلامی تمدن اصل میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا نام ہے، اور ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصول مذہب سے جدا ہوسکتا ہو‘‘ (۱۶)۔ اصلاح تمدن کے باب میں حقوق نسواں، تعدد ازدواج، پردہ، تعلیم اور شادی کے قبیح رسوم کی اصلاحات پر غور کیا ہے۔ اصلاح تمدن کے لیے دوسری ضرورت عام تعلیم کی بحث میں یہ سطور قابل توجہ ہیں: ’’ان حالات کو مدنظر رکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہندوستانیوں اورخصوصاًمسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہیے، واقعات کی رو سے یہ بات و ثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو قوم تعلیم کی اس نہایت ضروری شاخ کی طرف توجہ نہ کرے گی وہ یقینا ذلیل و خوار ہوتی جائے گی، یہاں تک کہ صفحہ ہستی پر اس کا نام ونشان بھی باقی نہ رہے گا، لیکن افسوس کہ مسلمان بالخصوص اس سے غافل ہیں اورمجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنی غفلت کا خمیازہ نہ اٹھائیں‘‘ (۱۷)۔ قومی مسائل اورقوم کے افراد میں تجاہل، تغافل، تساہل اور توکل کے رویے نے اقبال کو بیکل اور بے چین کر دیا تھا۔ زیر نظر مضمون میں اقبال کے خاتمہ کلام کے تین چار جملوں کو سرسری نہ لینا چاہیے وہ لکھتے ہیں: ’’اس مضمون کے متعلق تاثرات کا جو ہجوم میرے دل میں ہے، اسے الفاظ میں ظاہر نہیں کر سکتا اوریقینا ٹوٹی پھوٹی سطور سے میرے مافی الضمیر کا پورا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ از اشک مپرسید کہ در دل چہ خروش است ایں قطرہ ز دریا چہ خبر داشتہ باشد‘‘ (۱۸) علامہ کے دل و دماغ میں جذبات اور خیالات کی یہ کیفیت تھی جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے عازم انگلستان ہوئے۔ دورانِ سفر عدن سے ایک خط میں دس بارہ دن کی روداد لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ایک دن کے لیے دہلی میں رکے اور احباب کے ساتھ حضرت نظام الدین اولیاؒ اور مرزا غالب کے مزاروں پر حاضری دی۔ مزار غالب پر ولایت نامی خوش آواز لڑکے نے خوش الحانی سے غزل گائی۔ بقول اقبال ’’اس نے یہ شعر پڑھا ؎ وہ بادئہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پر نم ہوگئیں‘‘ (۱۹) اس رد عمل اور تاثر کے پس منظر میں مسلمانوں کے عروج وزوال کا جو استعارہ ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ البتہ اس سے اقبال کے شدید احساس کی غمازی ہوتی ہے۔ اسی خط کے ایک حصے سے علامہ کے قومی احساس کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ بمبئی کے ہوٹل کے دوران قیام ایک یونانی سوداگر سے چینیوں کی قوم پرستی کا حال سنتے ہیں تو انھیں ہندوستانیوں کے طرز عمل خصوصاً ہندوئوں اور مسلمانوں کے باہمی نفاق کے تصور سے سخت رنج ہوتا ہے۔ وہ اپنے مکتوب الیہ مولوی انشا اللہ ایڈیٹر اخبار وطن لاہور کو لکھتے ہیں: ’’مولوی صاحب، میں بے اختیار ہوں، لکھنے تھے سفر کے حالات اور بیٹھ گیاہوں وعظ کرنے، کیا کروں؟ اس سوال کے متعلق تاثرات کا ہجوم میرے دل میں اس قدر ہے کہ بسا اوقات مجھے مجنوں سا کر دیا اور کر رہا ہے‘‘ (۲۰)۔ اس خط میں ایک جگہ بمبئی کے پارسیوں کا ذکر ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کے غور و فکر میں قوموں کے مستقبل کا سوال نقطئہ جاذب رہا ہے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتصادیات کو، قومی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت دینے کے باوجود قومی زندگی کی تکمیل کے لیے اس کے علاوہ دوسرے پہلوئوں اور تہذیبی عناصر کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، ان کے مطابق: ’’یہاں پارسیوں کی آبادی نوے ہزار کے قریب ہے ۔۔۔۔۔۔ اس قوم کی صلاحیت نہایت قابل تعریف ہے اور ان کی دولت و عظمت بے انداز، مگر اس قوم کے لیے کسی اچھی فیوچر (Future)کی پیش گوئی نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ عام طور پر سب کے سب دولت کمانے کی فکر میں ہیں اورکسی چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ بھی نہیں ڈال سکتے‘‘ (۱۲)۔ اس خط کا آخری پیرا اقبال کی روحانی واردات اور عشقِ رسول ﷺ کے جذبے کی موثر ترجمانی کرتا ہے۔ عرب کا ساحل نزدیک آرہا ہے۔ اس خیال سے اقبال پر شیفتگی اور والہانہ پن کی کیفیت چھا جاتی ہے لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔۔ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت دل میں پیدا کر دیا ہے، اس کی داستان کیا عرض کروں۔ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں ۔۔۔۔۔۔ اے عرب کی مقدس سر زمین، ۔۔۔۔۔۔۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اوریہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو، کاش میں تیرے صحرائوں میں لٹ جائوں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پائوں کے آبلوںکی پروانہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جا پہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلالؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی‘‘ (۲۲)۔ اس ساری تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال جب انگلستان پہنچے ان کی ذہنی اور دماغی حالت نہایت پختہ ہو چکی تھی۔ وہ وسیع المشرب اور وسیع الظرف تو ضرور تھے مگر ان کی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت میں نور تھا۔ ان کا باطن پاک اور ضمیر زندہ تھا۔ ان کا قومی احساس توانا اورمذہبی شعور مضبوط و محکم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب کی متضاد معاشرت اور مخالف تہذیب سے منفی انداز میں متاثر نہیں ہوئے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے مغربی اقوام کی تہذبی ترقی اور تمدنی عروج کی داستان ان کے لیے خبر سے زیادہ نہ تھی۔ مگر یورپ آکر جب بچشم خود ہو شربا سائنسی ترقیاں اور حیران کن سائنسی ایجادات کی ولولہ انگیز کار فرمائیاں دیکھیں تو وہ ان سے مرعوب و مغلوب نہ ہوئے بلکہ نہایت صحت مندانہ اندازمیں قائل ہوئے اور یہ تاثر تادیر قائم رہا۔ اسرار خودی کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’مغربی اقوام اپنے عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں اور اسی وجہ سے اسرار زندگی کو سمجھنے کے لیے ان کے ادبیات و تخیلات اہل مشرق کے واسطے بہترین رہنما ہیں‘‘ (۲۳)۔ جب اقبال نے یورپ کی تمدنی ترقیاں، علمی فتوحات، سیاسی حالات، غالب اقوام کی باہمی آویزش اور مغربی اقوام کے فعال افراد کا رخ کردار مشاہدہ کیا تو ان کی نگاہ ایشیا اور افریقہ کی پسماندہ اقوام کی پژمردگی، مجہولیت اور انفعالیت کی طرف منعطف ہوئی۔وہ اس تقابل اور تفاوت سے کافی بد دل ہوئے۔ اس کی ایک جھلک شیخ عبدالقادر کے دیباچہ بانگ درا میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں اقبال نے ایک دن ترکِ شعر گوئی کا ارادہ ظاہر کیا تھا وہ کہ یہی وقت کسی مفید کام میں صرف کر سکیں۔ شیخ عبدالقادر اور آرنلڈ نے ان کی شاعری کی تاثیر کے پیش نظر ان کی درماندہ قوم کے لیے اس کی ضرورت کا احساس جتا کر ’’ارادئہ ترکِ شعر‘‘ سے باز رکھا (۲۴)۔ معلوم ہوتا ہے اقبال نے مغربی اقوام اور مشرقی اقوام کا خصوصاً مسلم اقوام کا قانون ’’مصاف ہستی‘‘ اور ’’قانون بقائے افراد قویہ‘‘ کے حوالے سے جائزہ لیا تو انھیں مشرق کی حالت مخدوش نظر آئی۔ انھوں نے اس کی بقا کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنی ایک نظم ’’عبدالقادر کے نام‘‘ مطبوعہ مخزن دسمبر ۱۹۰۸ء (۲۵)میں اپنے ہمدم ودمسازکو اس جدوجہد میں شرکت کے دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرئہ شبنمِ بے مایہ کو دریا کر دیں اس نظم کی حیثیت اقبال کی آپ بیتی کے ایک باب کی سی ہے۔ اس نظم کے مطالعے سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ جولائی ۱۹۰۸ء میں (۲۶)انگلستان سے واپس ہندوستان پہنچنے کے ساتھ ساتھ اقبال کے قومی مقصد کا تعین ہوگیا۔یہ مقصد تھا، مشرق کی حالت بدلنے کا، مشرقیوں کی زندگی کے ہرشعبے میں انقلاب لانے کا، درماندہ قوم کی راہبری کے لیے شاعری کو ذریعہ بنانے کا۔ جو فیصلہ یورپ میں ہواتھا اب اسے بروے کار لانے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اگرچہ ۱۹۰۴ء میں اقبال اس رمز سے شعوری سطح پر آگاہ ہو چکے تھے کہ: ’’دنیا میں کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس قوم کے افراد اپنی ذاتی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں‘‘ (۲۷)۔ لیکن انسانیت کی تاریخ گواہ ہے کہ زوال اور انحطاط کی شکار اقوام کے منفعل افراد کو ایسی اظہر من الشمس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا، مشکل ترین کام رہا ہے۔ اقبال نے محولہ بالا دوسرے شعرمیں اسی حقیقت کا ادراک کیا کہ جب تک قطرے کی طرح حقیر،کمزور اورناتواںفرد کی قلب ماہیت نہیں ہوتی اس کے اندر دریا کی تیزی و تندی، بہائو اور روانی،زور، قوت اوروسعت پیدا نہیں ہوگی۔ گویا جس وقت تک قطرہ جزو دریا نہیں بنتا ۔۔۔۔۔۔ اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ قطرے کو اس ضرورت کا احساس ہو ۔۔۔۔۔۔ وہ حقیر اور بے مایہ رہے گا۔ بالفاظ دیگر جب تک افرادکے اندر احساس ذات بیدار نہیں ہوتا اوران کے اغراض ومقاصدقومی اغراض و مقاصد میں نہیں ڈھلتے، قومی زندگی میں کوئی انقلاب رونما نہیں ہوسکتا۔ اقبال جیسی شخصیت کا خلاّق ذہن اس ایک نکتے کو عمرانی نظام فکر کی صورت مرتب کرنے میں بطور خاص تقریباً تین چار سال مصروف رہا۔ اقبال کی تخلیقی اورفکری زندگی میں انگلستان سے واپسی کے بعد دو سال نہایت اہم ہیں۔ ان دو سالوں میں جو تحریریں ضبط تحریر میں آئیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ نے یہ دو سال بڑے کرب اورپیچ و تاب کی حالت میں گزارے۔ہندی مسلمانوں کے تمدنی اورعمرانی مسائل لگا تار ان کے پیش نظر رہے۔ ہندوستان ریویو الہ آباد کے دو شماروں، بمطابق جولائی و اگست ۱۹۰۹ء میں ان کا انگریزی مضمون Islam as a moral and political idealشائع ہوا۔ اس مضمون کے کئی مقامات سے التباس ہوتا ہے کہ شاید اسرار خودی کے مطالب بیان کر رہے ہیں۔ یہاں اسلام کے اخلاقی نظام کے ضمن میں بعض ایسے امور زیربحث آئے ہیں جنھیں اسرار خودی کے عناصر ترکیبی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں زیر نظر مضمون کے بعض پہلوئوں کا اجمالی جائزہ لیا جاتا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ ۱۹۰۹ء میں ہی اسرار خودی کے مضامین اقبال کے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ مضمون کے پہلے حصے میں تین عالمی مذاہب بدھ مت، عیسائیت اور زرتشیت کے بنیادی اخلاقی اصول بیان کرنے کے بعد (۲۸)، اسلام میں انسان اور کائنات کے تصور کا جائزہ لیا ہے اوراسلام کے اخلاقی اور اصول واضح کئے ہیں۔ سردست ہمارے نقطئہ نظر سے اس مضمون کے کئی مقامات محتاج توجہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مضمون میں اقبال نے وہ عمرانی قدر دریافت کرلی تھی جسے ابھی شخصیت کہتے ہیں۔ مگر بعدازاںاسے خودی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ایک مغربی مصنف لکھتا ہے: ’’کسی جماعت کی اخلاقی سطح کی نمایاں ترین علامت اس اہمیت سے متعین ہوتی ہے جو وہ جماعت انسانی شخصیت کو دیتی ہے‘‘ (۲۹)۔ اس مضمون میں بدھ مت، عیسائیت اور زرتشتیت کے بعض تصورات مثلاً دکھ، گناہ اور کشمکش کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ان مذاہب کے تصورات کے مطابق انسان بے بس اور مجبور ہے اورشرکائنات کا لازمہ ہے، اس کے مقابلے میںاسلام کائنات اور موجودات کو ایک حقیقت خیال کرتا ہے۔ اس لیے گناہ، دکھ، غم اور کشمکش کی حقیقت کو بھی تسلیم کرتا ہے مگر اسلام شر کو کائنات کا لازمہ نہیں سمجھتا۔ گناہ اورشر کے عناصر کا بتدریج خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کی اخلاقی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ خوف ہے۔ اقبال ایک مدلل بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں چونکہ انسان کی آزاد شخصیت اور انفرادیت کا احساس اسلامی اخلاقیات کا مقصود ہے۔ اس لیے بقول اقبال: ’’اسلام کا اخلاقی مطمح نظر انسان کو خوف سے نجات دلانا ہے تاکہ وہ اپنی شخصیت کا احساس کر سکے اوراپنے متعلق اس حقیقت کا ادراک کر سکے کہ وہ طاقت کا ایک سرچشمہ ہے۔ انسان کے بارے میں عقیدہ کہ وہ اپنی انفرادیت کے لحاظ سے لامتناہی طاقت کا حامل ہے، اسلام کی تعلیمات کے مطابق تمام انسانی عملیات کی قدر و قیمت کو معین کرتا ہے۔ جو چیز انسان کے اندر انفرادیت کے احساس کو شدیدسے شدید تر بناتی ہے وہ نیکی یا خیر ہے اور جو چیز اس احساس کو کمزور یا ضعیف کرتی ہے وہ بدی یا شر ہے‘‘ (۳۰)۔ اس سلسلٔہ کلام میں علامہ نے عمرانی پہلو نظر انداز نہیں کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’انسانی افعال کی بعض خاص صورتیں ہیں مثلاً نفس کشی، مفلسی، غلامانہ اطاعت بعض اوقات اپنے آپ کو انکسار، بے نیازی اور دنیا فراموشی کے خوبصورت نام میں چھپاتی ہیں حالانکہ ان سے انسانی شخصیت کی قوت میں ضعف واقع ہوتا ہے۔ انھیں بدھ مت اور عیسائیت میں نیکیاں خیال کیا جاتا ہے اور اسلام نے انھیں قطعی طور پر نظر انداز کر دیا ہے‘‘ ۔ اس مضمون کی مندرجہ ذیل سطور سے خودی اور مرد کامل کے تصورات پر کتنی اچھی روشنی پڑتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے: ’’اسلام قدیم دنیا کی اخلاقی اقدار کی قلب ماہیت کرتا ہے اور انسانی شخصیت کے احساس کی شدت اور حفاظت کو تمام اخلاقی عملیات کی قطعی بنیاد قرار دیتا ہے۔ انسان ایک ذمے دار ہستی ہے، وہ اپنی شخصیت کو خود بناتا ہے اپنی نجات کے لیے کوشش کرتا اس کا اپنا معاملہ ہے‘‘ ۔ اس طویل بحث کو اقبال یوں مجملاً بیان کرتے ہیں: ’’ایک قوی جسم میں ایک مضبوط ارادہ اسلام کا اخلاقی نصب العین ہے‘‘ ۔ علامہ اس اخلاقی اصول کے حوالے سے پوچھتے ہیں: ’’کیا ہندوستان کے مسلمان اس معیار پرپورے اترے ہیں؟ کیا ہندوستانی مسلمان کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک توانا جسم میں مضبوط قوت ارادی رکھتا ہے؟ کیا اس میں زندہ رہنے کا عزم موجود ہے؟ کیا وہ اپنے اندر اتنی قوت کردار رکھتا ہے کہ ان تمام طاقتوں کا مقابلہ کر سکے جو اس کے معاشرتی نظام کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں؟ افسوس ہے کہ مجھے اپنے سوالات کا جواب نفی میں دینا پڑ رہا ہے۔ قارئین جانتے ہیں کہ حیات کی تگ و دو (Great struggle for existence)میں افراد کی کثرت تعداد ہی وہ عنصر نہیں جو کسی معاشرتی نظام کی بقا کا ضامن ہے بلکہ اجتماعی قوت کردار اس کی بقا کے لیے ایک قطعی لازمہ ہے‘‘ (۳۱)۔ کردار کی اہمیت کے پیشِ نظر ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’کردار انسان کا بنیادی ہتھیار (قطعی لازمہ )ہے۔ یہ ہتھیار نہ صرف ان کوششوں میں اس کا ساتھ دیتا ہے جو وہ معاندانہ فطری ماحول کے خلاف کرتا ہے بلکہ اس مقابلے میں بھی اس کی مددکرتا ہے جو اس کے عزیز مریضوں (Kindred Competitors)کے ساتھ صورت پذیر ہوتا ہے تاکہ وہ بھرپور، اچھی اور بہتر زندگی حاصل کر سکے ’’ہندوستانی مسلمان کی قوت زندگی درد انگیز طورپر کمزور ہوگئی ہے۔ مذہبی روح کے زوال نے جس میں سیاسی قسم کے اورعوامل بھی شامل ہیں جن پر اس کو کوئی اختیار نہیں ہے اس کے اندر خود کو چھوٹا محسوس کرنے کی عادت اور دوسروں پر انحصار کرنے کا شعور (احساس، چلن)پیدا کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں روح کی سستی پیدا ہوگئی ہے جسے کمزور لوگ ’’قناعت‘‘ کے مقتدر اور معزز نام سے پکارتے ہیں اورجس کے پردے میں اپنی کمزوری کو چھپاتے ہیں‘‘ (ترجمہ)۔ اس اقتباس میں اقبال نے ہندستانی مسلمانوں کی کمزور سیرت اورکردار کے اسباب و علل پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے اس احساس کے نتیجے میں، خودی کے حوالے سے فعال شخصیت کے تصور میں صلابت اوراصابت کی ضرورت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے گویا ایک قوی سیرت اورآزاد شخصیت کی تربیت اقبال کا مطمح نظر ہے۔ کردار کی بحث کے تسلسل میں اقبال نے عزت نفس کو ایک اہم کرداری خصوصیت قرار دیتے ہوئے، شیطان کی تعریف کی ہے۔ اقبال شناسوں کے ہاں ’’اقبال کا ابلیس ‘‘ ایک نہایت اہم موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ مگر انھوں نے عام طور پر زیر نظر مضمون میں ابلیس کے حوالے سے اعتنا نہیں کیا۔ حالانکہ زیر بحث مضمون میں پہلی بار ان کے ہاں ابلیس کی آزاد شخصیت کا تصور ابھرا ہے۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ ابلیس کے اس تصور کا پس منظر بھی سراسر عمرانی محرکات کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے قومی اہمیت کے مقاصد کو مسلمانوں کے مفادات اورمصلحتوں کی بھینٹ چڑھتے دیکھا تو انھیں حمیت اور عزت نفس سے محروم ایسے انسانوں کے مقابلے میں شیطان کا کردار زیادہ روشن نظر آیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’میرے دل میں شیطان کے لیے ایک خاص حد تک قدر و منزلت ہے۔ آدم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے، جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتا تھا، اس نے اپنی عزت آپ کرنے اور کردار کی عظمت کا ایک بلند احساس یا شعور ظاہر کیاجو میری رائے میں اس کو روحانی عیب سے مبرا کرسکتا ہے‘‘ ۔ زیر بحث مضمون کی آئندہ سطور میں اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کی تمدنی حالت خصوصاً ان کی معاشی بد حالی کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا خیال ہے: ’’تمام مختلف النوع برائیاں‘‘ محتاجی (۳۲) کی پیداوار ہیں۔ حتیّٰ کہ ہندوستانی مسلمان کی برائیاں اس میں قوت حیات کے ضعف کی دلیل ہیں۔ جسمانی طور پر بھی اس کا خوفناک انحطاط ہوا ہے‘‘ ۔ اقبال کے نزدیک قانون حیات کیا ہے،سنیے: ’’طاقت،توانائی، قوت ۔۔۔۔۔ ہاں قوت جسمانی ۔۔۔۔۔ زندگی کا قانون، ایک طاقت ور انسان کی جب جیب خالی ہوتی ہے تو وہ دوسروں کو لوٹ لیتا ہے اس کے برعکس ایک کمزورانسان کسمپرسی کی موت مرجاتا ہے۔ یہ موت دنیا کے مسلسل، رواں دواں، جنگ و جدل کے دہشت ناک منظر میں واقع ہوتی ہے‘‘۔ اسی مضمون کے آئندہ صفحات میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے آخر میں اقبال یوں انتباہ کرنے ہیں: ’’مجھے ان مشکلات کا بخوبی احساس ہے جو ہمارے راستے میں موجود ہیں۔ جو کچھ میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنی مشکلات پر قابو نہیں پاسکتے تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمارے وجود سے چھٹکارا حاصل کرلے گی‘‘ ۔ اس مضمون میں ایک جگہ اقبال نے لکھا ہے کہ: ’’انسانیت کی اخلاقی تربیت حقیقتاً عظیم شخصیات کا کام ہے جو مختلف تاریخی زمانوں میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کا معاشرتی ماحول ایسی اخلاقی طور پر مقناطیسی شخصیات کے نشوونما کے لیے ساز گار نہیں۔ ایسی شخصیات کی کامیابی کے اسباب معلوم کرنے کے لیے مرئی اور غیرمرئی قوتوں کا محتاط تجزیہ درکار ہے جنھوں نے ہمارے معاشرتی ارتقا کی روش متعین کی ہے۔ لیکن میں اس مضمون میں یہ تحقیقی مطالعہ اپنے ذمہ نہیں لے سکتا‘‘۔ بیاض اقبال اور ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۹ء کے متذکرہ انگریزی مضمون کے بعد سال سوا سال اقبال نے ایسی موزوں اور مناسب شخصیت کے اوصاف پر غور و فکر کیا جو مسلمانوں کے دلوں کو تمنا سے زندہ کرے اور ان کے قلوب کو گرمائے۔ اگرچہ تصانیف اقبال کے متن کا تقابلی مطالعہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ تاہم بیاض اقبال کے بعض شذرات (۳۳)جس طرح ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں کھپائے گئے ہیں۔ اس سے کسی موضوع پر اقبال کے غور و فکر اور اس کے نتائج کو مربوط انداز میں پیش کرنے کے طریق کار کا پتا چلتا ہے۔ بہر حال ۱۹۰۹ء کے مضمون ’’اسلام بحیثیت اخلاقی اور سیاسی نصب العین۔‘‘۱۹۱۰ء کی بیاض (Stray Reflections)اور ۱۹۱۱ء کے خطبہ علی گڑھ (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر )سے یہ ثبوت بہم پہنچتا ہے کہ اقبال نے انگلستان سے واپسی کے بعد خاص طور پر مسلمانوں کے تمدنی اور عمرانی مسائل اور عمرانی انقلاب میں عظیم اورقومی شخصیات کے کردار پر بڑی محنت سے غور و فکر کیا تھا۔ اقبال کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ ملت اسلامیہ زوال و انحطاط کے گرداب سے کیسے نکلے؟ اور خصوصاً یہ کہ ہندی مسلمانوں کا عمرانی اختلال اور انتشار کیسے دور ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کی تمدنی ابتری اور سیاسی اوراقتصادی بد حالی کے اسباب کا تجزیہ کیا تو انھیں کسی مرد راہ داں کی ضرورت کا احساس ہوا۔ اس موقع پر علم الحیات کا ایک اصول ان کے سامنے آتا ہے۔ انھوں نے بیاض اقبال کے ایک شذرے میں عظیم شخصیت کی مسیحائی کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ایک علیل معاشرتی عضویہ انپے اندر ایسی قوتوں کو مجتمع کر لیتا ہے جو اس کی صحت کی حفاظت کا رجحان رکھتی ہیں مثلاً ایک عظیم شخصیت پیدا ہوتی ہے جو ایک نصب العین کے انکشاف سے قریب المرگ عضویے کو نئی توانائی بخشی ہے‘‘ (۳۴)۔ اس شذرے کے خیال کو ’’ملت بیضاپر ایک عمرانی نظر‘‘ میں علم الحیات کے ایک اصول کی روشنی میں فرد اور جماعت کے عمرانی مقاصد کے حوالے سے مدلل تحریر کیا ہے: ’’۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح ایک جسم ذوی اعضا مریض ہونے کی حالت میں بعض دفعہ خود بخود بلا علم و ارادہ اپنے اندر ایسی قوتوں کو برا نگیختہ کر دیتا ہے جو اس کی تندرستی کا موجب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک قوم جو مخالف قوتوں کے اثرات سے سقیم الحال ہوگئی ہو بعض دفعہ خود بخود رد عمل کرنے والی قوتوں کو پیدا کر لیا کرتی ہے مثلاً قوم میں کوئی زبردست دل و دماغ کا انسان پیدا ہو جاتا ہے یا کوئی نئی تخیل نمودار ہوتی ہے یا کوئی ہمہ گیر مذہبی اصلاح کی تحریک بروئے کار آتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قوم کے قوائے ذہنی و روحانی تمام باغی اورسرکش قوتوں کو اپنا مطیع و منقادبنانے اور اس مواد فاسد کو خارج کر دینے سے جو قوم کے نظام جسمانی کی صحت کے لیے مضر تھا، قوم کو نئے سرے سے زندہ کردیتے ہیں اوراس کی اصلی توانائی اس کے اعضا میں عود کر آتی ہے‘‘ (۳۵)۔ سقیم الحال قوموں کا دوبارہ طاقت اور قوت حاصل کر لینا ہی کافی نہیں۔ وہ اپنے تسلسل حیات کے لیے کیا طریق عمل اختیار کرتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی عمرانی مسئلہ ہے اقبال اپنے خطبہ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اقوام کے لیے سب سے زیادہ مہتم بالشان عقدہ فقط یہ عقدہ ہے (خواہ اس کی نوعیت تمدنی قرار دی جائے خواہ اقتصادی، خواہ سیاسی)کہ قومی ہستی کا سلسلہ بلا انقطاع کس طرح قائم رکھا جائے، مٹنے یا معدوم ہوجانے کے خیال سے قومیں بھی ویسی خائف ہیں جیسے افراد۔ کسی قوم کی مختلف عقلی یا غیرعقلی قابلتیوں اور استعدادوں کے محاسن کا اندازہ ہمیشہ اسی غایت الغایات سے کرنا چاہیے۔ ہم کو لازم ہے کہ اپنے محاسن کو جانچیں اور پرکھیں اور اگر ضرروت آ پڑے تو نئے محاسن پیدا کریں، اس لیے کہ بقول نیٹشے کے کسی قوم کی بقا کا دارومدار محاسن کی مسلسل اور غیر مختتم تولید پر ہوتا ہے۔ کائنات یقینا جناب باری کی حکمت نابغہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر اس کا مفہوم سرتا سر انسانی ہے‘‘ (۳۶)۔ اس کے بعد اقبال نے ملت اسلامیہ کے حوالے سے چندضروری امور پر بحث کے لیے مندرجہ ذیل تین شقیں مرتب کی ہیں۔ ۱۔ جماعت المسلمین کی ہیئت ترکیبی ۲۔ اسلامی تمدن کی یک رنگی ۳۔ اس سیرت کا نمونہ جو مسلمانوں کی قومی ہستی کے تسلسل کے لیے لازمی ہے۔ دوسری شق کے تحت اسلامی سیرت کے نمونے کی خصوصیات کے ضمن میں بیان کیا ہے کہ۔ ’’قومی ہستی میں شریک ہونے کی غرض سے ہر فرد کے لیے قلب ماہیت لازمی ہے اوراس قلب ماہیت کے لیے خارجی طور پر ارکان و قوانین اسلام کی پابندی کرنی چاہیے اوراندرونی طور پر اس یک رنگ تہذیب و شائستگی سے استفادہ کرنا چاہیے جو ہمارے آباو واجدا کی متفقہ عقلی تحریک کا ماحصل ہے‘‘ (۳۷)۔ تیسری شق کے تحت بتایا ہے کہ کسی قوم میں سیرت کے مقبول نمونے محض اتفاق کی پیداوار نہیں (۳۸) بلکہ ان کے بقول، زمانہ حال کا علم عمرانیات ہمیں یہ نکتہ سکھاتا ہے کہ قوموںکا اخلاقی تجربہ خاص قوانین معینہ کا تابع ہو ا کرتا ہے‘‘ (۳۹)۔ اس مضمون کا وہ حصہ عمرانی اعتبار سے بہت اہم ہے جہاں وہ بتاتے ہیں کہ قدیم معاشروں میں جہاں مصاف ہستی کی صورت شدید تھی ایک شجاع آدمی محبوب سیرت کا نمونہ ہوتا تھاپھر باصطلاح گڈنگز (Giddings)زندہ دلی اورمجلسی سیرت کا نمونہ مقبول اورپسندیدہ ٹھہر،ا جو لذائذِ حیات سے لطف اندوز ہوا۔ اس نے شجاعت اور بہادری کو نظر انداز نہ کیا مگر وسیع المشربی، فیاضی اوردوستداری کی خصوصیات اپنائیں۔ چونکہ سیرت کے یہ دونوں نمونے ناعاقبت اندیشی اور بے اعتدالی کا رجحان رکھتے ہیں، ان کے خلاف ردعمل کے طورپر سیرت کا تیسرا عظیم نمونہ ظہور پذیر ہوتا ہے (۴۰)۔ جس کی غایت الغایت ضبط نفس ہے اور جو زندگی پرزیادہ متانت و تقشف کے ساتھ نظر ڈالتا ہے‘‘ (۴۱) اس بحث کے آخر میں لکھتے ہیں: ’’میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا سایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ اس نمونے کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اسے پیش نظر رکھیں‘‘ (۴۲)۔ اقبال ایک حقیقت شناس مفکر تھے۔ چونکہ وہ جدید ہندوستان کے مسلمانوں کے جدید عمرانی تقاضوں سے باخبر تھے، اس لیے ان کے پیش نظر ہندوستان کے مسلمانوں کی قومی بقا کا مسئلہ تھا۔ انھیں احساس تھا کہ نئے زمانے اور نئے ماحول میں سیرت کے نئے نمونے کی ضرورت ہے۔ اس نمونے کا تصور چند شرطوںکے ساتھ ملتزم کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگرقومی تسلسل حیات ہمارا مقصود ہے تو ہمیں سیرت کا ایسا نمونہ تیار کرنا چاہیے، جو بہر قیمت اپنی سیرت میں استقلال رکھتا ہے اور جبکہ دوسرے نمونوں کے محاسن کو بلا تامل اختیار (جذب و قبول) کرتے ہوئے نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی زندگی سے وہ تمام (عناصر)خارج کر دیتا ہے جو اس کی عزیزروایات اور اداروں سے مخاصمت رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلم قوم کے گہر ے مشاہدے سے اس محور و مرکزکا انکشاف ہوتا ہے جس پر قوم کے اخلاقی تجربے کے مختلف خطوط اتصال آمادہ ہیں‘‘ (۴۳)۔ مندرجہ بالا بحث اورخصوصاً اقبال کے محولہ بالا اقتباسات سے اسرار خودی کا تناظر روشن ہوتا ہے۔ گویا اسرار خودی کا محرک تخلیق، سیرت کے نمونے کا وہ تصور ہے جو مختلف صالح عمرانی اقدار کے امتزاج سے متشکل ہوتا ہے اور زندگی کے نئے عمرانی محاسن کا شعور پیدا کرتا ہے جس کی بدولت اجتماعی کردار میں استواری پیدا ہوتی ہے۔ بقول اقبال: ’’۔۔۔۔۔۔۔ کردار ہی وہ غیر مرئی قوت ہے۔ جس سے قوموں کے مقدرمتعین ہوتے ہیں‘‘ (۴۴)۔ اقبال اپنی قوم کے اخلاقی اضمحلال، اقتصادی بد حالی اورسیاسی زوال کا مطالعہ و تجزیہ بڑی درد مندی سے کرتے رہے۔ بیاض اقبال میں ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۔۔ مسلمانان ہند اپنے سیاسی زوال کے ساتھ ہی بڑی تیزی سے اخلاقی انحطاط میں مبتلا ہوگئے۔ دنیا کی تمام مسلم قوموں میں کردار کے لحاظ سے شاید ان کا مقام سب سے پست ہے۔ اس ملک میں اپنی عظمت رفتہ کی تحقیر میرا مقصد نہیں، کیونکہ ان عوامل کے بارے میں جو بآلاخر قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں میں اپنے تقدیر پرست ہونے کا اعتراف کرتا ہوں۔ سیاسی قوت کی حیثیت سے شاید اب ہماری ضرورت باقی نہیں، لیکن میرا ایمان ہے کہ خدا کی وحدت مطلق کے شاہدواحد کی حیثیت سے ہمارا وجود اب بھی دنیا کے لیے ناگزیرہے۔ اقوام عالم میں ہماری اہمیت خالص شواہداتی ہے‘‘ (۴۵)۔ سیاسی تقدیر پرستی کے باوجود ان کے شعور و تحت الشعورمیں ’’قانون بقائے افراد قویہ‘‘ اور ان قوموں کی مثالیں تھیں جنھوں نے زمانے کی حقیقت کو سمجھا اور ملکی، قومی و تمدنی انقلاب سے بہرور ہوئیں اور انھیں مہذب اقوام میں سرفرازی نصیب ہوئی۔ اقبال کے پیش نظر بھی ملکی بالخصوص قومی انقلاب تھا۔ اور ساتھ ہی انھیں یہ احساس بھی تھا کہ: ’’قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے، کمزورں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے‘‘ (۴۶)۔ مگر اقبال کو اپنی قوم میں کوئی ایسی تواناشخصیت نظر نہ آرہی تھی جسے مطلوبہ سیرت کا نمونہ کہا جا سکتا۔ اس مایوسی کے عالم میں ان کا مسلسل غور وفکر ایک نقطئہ ارتکاز میں سمٹ آیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے تخلیقی و جدان سے ندا آئی: ’’پیکر قوت مہدی کا انتظار چھوڑو اور مہدی کی تخلیق کرو‘‘ (۴۷)۔ اس ذہنی، فکری اورروحانی پس منظر میں اقبال نے اپنے تخلیقی و جدان کی زیر ہدایت مثنوی اسرار خودی کا ڈول ڈالا۔ کتاب کا آغاز مثنوی مولانا رومی کے ان اشعار سے ہوتا ہے۔ ؎ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کز دام و دد ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود، جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست فکر اقبال کا عمرانی مطالعہ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور۔ ۱۹۹۶ء حوالے اور حواشی ۱۔اقبال، علم الاقتصاد، اقبال اکادمی پاکستان لاہور۔ ۱۹۷۷ء ص ۴۹۔۲۷، ۲۴۸ ۲۔ علم الاقتصاد، ص ۲۴۰۔۲۵۱ ۳۔ایضا، ص ۲۵۳ ۴۔ایضا، ص ۳۱۔۳۲ ۵۔ایضا، ص ۱۰۱،۲۳۸ ۶۔ایضا، ص ۳۱ ۷۔ایضا، ص ۳۱،۲۳۵،۲۵۸ ۸۔ایضا، ص ۴۳ ۹۔جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا تشکیلی دور، شیح غلام علی اینڈ سنز لاہور ۱۹۷۹ء ص ۹۳ ۱۰۔سید عبدالواحد معینی (مرتب)مقالات اقبال، شیح محمد اشرف لاہور، ۱۹۶۳، ص ۴۲ ۱۱۔مقالات اقبال، محولہ بالا، ص ۴۷ ۱۲۔مقالات اقبال، ص ۴۹، ۵۰ ۱۳۔مقالات اقبال، ص ۵۰، ۵۱ نوٹ: اقبال نے اپنی مشہورنظم تصویر درد، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی اور مخزن مارچ ۱۹۰۴ء مین بطور ضمیمہ شائع ہوئی تھی ۔اس کے اشعار سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ’’قومی زندگی‘‘ کے مطالب اور دلائل بھی اسی زمانے سے اقبال کے دماغ میں آرہے ہوں گے۔ جن کی مدد سے بعد میں مضمون تیار کیا گیا۔ خصوصاً مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے: رلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں ! مجھ کو کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستاں والو! تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں یہی آئین قدرت ہے، یہی اسلوب فطرت ہے جو ہے راہ عمل میں گامزن، محبوب فطرت ہے ۱۴۔مقالات اقبال، ص ۵۳ ۱۵۔مقالات اقبال، ص ۵۳ ۱۶۔مقالات اقبال،ص ۵۴ ۱۷۔مقالات اقبال، ص۶۱ ۱۸۔مقالات اقبال، ص ۶۱، ۶۲ ۱۹۔مقالات اقبال، ص ۶۴ ۲۰۔مقالات اقبال، ص ۶۶ ۲۱۔مقالات اقبال، ص ۶۸ ۲۲۔مقالات اقبال، ص ۷۵، ۷۵ ۲۳۔مقالات اقبال، ص ۱۵۷ ۲۴۔دیباچہ بانگِ درا،ص:ل، م ۲۵۔’’یہ (نظم)دسمبر ۱۹۰۸ء کے مخزن میں شائع تھی۔ جب اقبال کو ولایت سے واپس آئے ہوئے کم وبیش چار مہینے ہو چکے تھے‘‘ مطالب بانگ درا از مولانا مہر ص ۱۴۳، ڈاکٹر غلام حسین مخزن میں اس نظم کی تاریخ اشاعت نومبر ۱۹۰۸ء بتاتے ہیں۔ اقبال کا ذہنی ارتقا، ص ۳۳ ۲۶۔جاوید اقبال، زندہ رود، حیات اقبال کا تشکیلی دور، اشاعت اول ۱۹۷۹، صفحہ ۱۳۷ ۲۷۔مقالات اقبال، ص ۵۳ ۲۸۔اگرچہ اقبال کی تصانیف کا تحقیقی مطالعہ ہماراموضوع نہیں۔ تاہم یہاںزیرتبصرہ مضمون کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ بیاض اقبال کے شذرات کا سلسلہ ۱۹۱۰ء کی بجائے وسط ۱۹۰۹ء کے قریب شروع ہو چکا ہوگا۔ بیاض اقبال کا شذرہ نمبر ۱۵ بعنوان ’’شخصیت کی بقا‘‘ بعض جزئیات کے لحاظ سے زیرتبصرہ مضمون کا پیش خیمہ معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً شذرے کی مندرجہ ذیل آخری سطور داخلی شہادت کی بہترین مثال ہیں۔ ملاحظہ کیجئے: ’’۔۔۔۔۔۔۔۔ پس شخصیت کی بقا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ اس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کاش اس نقطۂ نظر سے اسلام، بدھ مت اورعیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسرآتا، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں‘‘ (شذرات فکر اقبال، ص ۷۷،۷۸) ۲۹۔مترجم ڈاکٹر حامد حسن حامد، رسالہ المعارف لاہور بابت اپریل ۱۹۸۲ء ص ۳۱ ۳۰۔مترجمہ ڈاکٹر حامد حسن حامد، محولہ بالا ص ۳۲ ۳۱۔ مترجمہ زندہ رود (حیات اقبال کا وسطی دور) از جاوید اقبال، ص ۱۸۶ (الف)راقم کو اس ترجمہ سے اتفاق نہیں کیونکہ Competitorsکا مطلب مریض نہیں بلکہ مسابقت کرنے والے ہوتا ہے ۔ ترجمہ ڈاکٹر حامد حسن حامد محولہ بالا۔ ص ۳۵ ۳۲۔زندہ رود، حصہ دوم، ص ۱۸۷ مترجم ڈاکٹر حامد محولا بالا، ص ۳۶ مترجم ڈاکٹر حامد محولا بالا، ص ۴۸ ۳۳۔مثال کے طورپر شذرات نمبر(۲۱، ۳۲، ۱۹، ۲۴، ۶۱)اقبال کے خطبہ علی گڑھ The Muslim Community ...... a Sociological Study مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مطبوعہ مجلّہ تحقیق لاہور جلد ۳، شمارہ ۱ کے صفحات بالترتیب ۱۷، ۱۹، ۲۲، اور۲۹، پر ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال کا یہ انگریزی خطبہ مع مولانا ظفر علی خاں کے اردو ترجمہ بعنوان ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ڈاکٹر مظفرعباس نے کتابی صورت میں مرتب کر دیا ہے جسے مکتبہ عالیہ لاہورنے ۱۹۸۷ء میں شائع کیا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذولفقار نے بھی اس خطبے کا انگریزی متن اور اردو ترجمہ (ظفر علی خاں)ایک ساتھ بزم اقبال لاہور سے شائع کیا ہے۔ ۳۴۔ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی (مترجم)شذرات فکر اقبال، مجلس ترقی ادب لاہور، ص ۱۳۵ ۳۵۔مقالات اقبال،ص ۱۱۷ ۳۶۔مقالات اقبال، ص ۱۱۹ ۳۷۔مقالات اقبال، ص ۱۲۵ ۳۸۔The Muslim Community ...... a Sociological Studyمشمولہ مجلہ تحقیق لاہور، جلد ۳ شمارہ ۱ ، ص ۲۲ ۳۹۔مقالات اقبال، ص ۱۲۷ ۴۰۔The Muslim Community ...... a Sociological Studyمجلہ تحقیق لاہور جلد ۳ شمارہ ۱ ص ۲۲، ۳۲ ۴۱۔ملت بیضا (مقالات اقبال)ص ۱۲۷ ۴۲۔مقالات اقبال، ص ۱۲۸ ۴۳۔ The Muslim Community ...... a Sociological Study مجلہ تحقیق لاہور، جلد ۳ شمارہ ۱، ص ۲۳ ۴۴۔شذرات فکر اقبال، ص ۱۲۴ ۴۵۔شذرات فکر اقبال، ص ۷۳، ۷۴ ۴۶۔شذرات فکر اقبال، ص ۱۳۲ ۴۷۔شذرات فکر اقبال، ص ۱۳۴