بیانِ اقبال نیا تناظر ڈاکٹر ارشاد شاکرؔ اعوان اقبال اکادمی پاکستان انتساب مصورِ پاکستان، حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کے حضور ترتیب خ التماس] دیباچہ[ مؤلّف ۷ خ پیش لفظ رفیع الدین ہاشمی ۱۱ مضامین: ۱۔ فکرِ اقبال کے ابتدائی خال و خط ۱۳ ۲۔ اقبال اورمتحدہ قومیت ۲۵ ۳۔اقبال کا تصورِ ملت اور آزادیِ ہند ۵۷ ۴۔علامہ اقبال اور ’’پاکستان اسکیم‘‘ ۹۹ ۵۔اقبال اور عشق و خرد (تقویمِ خودی میں تقدیر اور عشق کی حقیقت) ۱۲۳ ۶۔اقبال اور تہذیبِ مغرب ۱۴۱ ۷۔اقبال اور خاکِ مدینہ و نجف ۱۶۹ ۸۔اقبال اور فقہ اسلامی کی تدوین نو ۱۷۹ ۹۔محراب گل افغان کے افکار … ایک جائزہ ۱۹۳ خ کتابیات ۲۰۱ بسم اللہ الرحمن الرحیم التماس اقبال نے اپنی منفرد مثنوی رموز بے خودی (۱۹۱۸ئ) میں ’’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعالمینؐ‘‘ کے تحتِ عنوان، پورے اعتماد و یقین سے التجا کی تھی: گردلم آئینہ بے جوہر است ور بحر فم غیر قرآں مضمر است روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا ۱؎ لیکن ارمغانِ حجاز میں اپنی وفات (۱۹۳۸ئ) سے قبل ’حضورِ ملت‘ اپنے آخری پیغام میں ’’بحق دل بند و راہِ مصطفی ؐ رو‘‘ میں ع بہ نمرودانِ ایںدور آشنا باش‘ کے انتباہ کے ساتھ قرآن کی مظلومیت کا بیان بھی کیا ہے: ز من بر صوفی و مُلّا سلامے کہ پیغامِ خدا گفتند مارا ولے تاویلِ شاں در حیرت انداخت خدا و جبرئیل و مصطفیٰ را ۲؎ حقیقت یہ ہے کہ بعض شارحین و ماہرینِ اقبالیات کی ناروا نکتہ آفرینیوں اور غیر متعلق تاویلات نے خود فکر اقبال کے ساتھ اس سے مختلف سلوک نہیں کیا۔ حقیقتِ عالم ہو کہ حقیقتِ آدم، شخصیتِ انسانی کی تعمیر و تخریب اور کمال و زوال کے جملہ عوامل و عوارض سے متعلق فکر اقبال کی، مغربی فلاسفۂ مادیین سے تطبیق اور ’’مشرقی صوفیانہ تعبیرات‘‘ ہی اکثر ماہرین اقبالیات کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ کسی نے کہا کہ اُس کی ابتدا بھی وحدت الوجود سے ہوئی اور انتہا بھی وحدت الوجود پر۔ کسی نے اُس پر وطن پرستی اور دھرتی پوجا کی تہمت باندھی تو کسی نے پھر وطنیت کی طرف، کا طنزیہ تیر پھینکا۔ کسی نے اُس کی دعوتِ اتحاد کو مغربی تصورِ قومیت کو تہذیبی بنیاد فراہم کرنے کا الزام دیا تو کسی نے اُ س کی ملیّت کو تحقیر کا نشانہ بنایا۔ کسی نے آزاد اسلامی ریاست کے تصور کی تنقیص کی تو کسی نے اُس سے، اُس کا بری الذمہ ہونا ثابت کرنا چاہا۔ غرض، فکر اقبال کی تخریب میں ہر کسی نے کسی نہ کسی درجے میں، مقدور بھر حصہ ڈالا اور الٹا ثواب کمایا۔ زیر نظر مجموعہ بیان اقبال: نیا تناظر‘ اس حوالے سے فکر اقبال کے ۲۰سالہ آزادانہ مطالعے کا نتیجہ ہے۔ اس کے بظاہر متفرق مقالات اصلاً اسی ایک حوالے سے باہم مربوط ہیں۔ پہلا مقالہ: فکر اقبال کے ابتدائی خال و خط کا جائزہ لیتا ہے، جس کی تفصیلات پر دوسرا مقالہ: اقبال اور متحدہ قومیت، استوار ہے ___ تصور ملت سے مستفاد اُسی متحدہ قومیت سے تیسرا عنوان اقبال کا تصورِ ملت اور آزادیِ ہند پھوٹتا ہے۔اور آزادیِ ہند ہی کا ثمر وہ آزاد اسلامی مملکت تھی جس کا نام پاکستان رکھا گیا جس کے اول و آخر داعی و رہنما، علامہ اقبال تھے۔ اقبال اور پاکستان اسکیم، کی تحقیقی نوعیت یہی ہے۔ متحدہ قومیّت یا تصور ملت، فرد اور جماعت اور جماعتوں اور قومیتوں کے درمیان وحشیانہ تفاوتِ مدارج، جیسے عمرانی عارضے اور اجتماعی زندگی کے بنیادی مسئلے کا ایسا شافی حل ہے جس کی تائید تاریخ انسانی سے ہوتی ہے ] والعصر: تاریخ گواہ ہے …[ ۔ فرد اور جماعت کا ربطِ باہمی آئین و قانون کو جزو فطرت بنانے سے عبارت ہے۔ اقبال نے اُسے عشق کہا جسے کسی نے بدویت پسندی کہا تو کسی نے تہذیب دشمنی ___علامہ نے اُس کے تین مراحل بیان کیے: اطاعتِ الٰہی، ضبطِ نفس اور نیابتِ حق ___یہ وہ اصولی فارمیٹ ہے جس کا ماخذ دینِ اسلام ہے جو بقول اقبال: سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا پھل ہے : نخلِ اسلام نمونہ ہے برو مندی کا پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا ۳؎ اقبال نے تہذیب کے ہر قدیم و جدید حوالے کو اسی فارمیٹ کی روشنی میں پرکھا اور اخذ و ترک کے اسلامی اصول خذ ما صفا و دَعْ مَا کَدَر کے تحت، بہر آدم عالمے دیگر، کا وہ تصور دیا جس کی مثالی تصویر وادیِ سینا کے خیمۂ اجتماع سے عہدِ رسالت محمدؐیہ کی اقامتِ الصلوٰۃ تک نورافشاں رہی اور صدیقؓ سے علیؓ تک کے زمانۂ خلافت کی پہچان بنی۔ ’اقبال اور خاکِ مدینہ و نجف، میں اسی تصور و تصویر کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ خطبۂ الہ آباد (۱۹۳۰ئ) کے بعد جب اُس تصور کے تصویر ہونے کے امکانات بڑی حد تک واضح ہو گئے تھے اور اقبال فلک کو اس ’’قابلِ عمل نتیجے‘‘ تک پہنچتا دیکھنے لگے تھے جس کا انھیں ۱۹۰۴ء سے انتظار تھا) اور جس کے خاکے وہ ’ہمالہ‘‘ سے جاوید نامہ کے ’محکماتِ قرآنی‘ تک بکھیرتے رہے تھے) تو پھر اس انتظار کے پیچھے کارفرما خواہش، فقہِ اسلامی کی تدوینِ نو، بھی ’الاجتہاد فی الاسلام‘ کے عنوان سے اجاگر کر دی گئی۔ پٹھانوں کی آزاد مگر حائلی ریاست: افغانستان سے اقبال کی توقعات ان کی مجوزہ اسلامی ریاست کے مقاصد، امیدوں اور آرزؤں سے ہم آہنگ تھیں۔ محراب گل افغان کا تعارف اسی حوالے سے اس سلسلے کی آخری کڑی ہے۔آج افغانستان کی وہ حائلی حیثیت نہیں رہی، آزاد مملکت ہونے کی تڑپ بیدار ہو رہی ہے، افغان ابھی رہ گزر میں ہیں مگر ’نیل کے ساحل سے تابخاکِ کا شغر‘ عروقِ مردہ میں خونِ زندگی دوڑنے لگا ہے ع ضربتے باید کہ جانِ خفتہ بر خیزد ز خواب ، کی حقیقت کابل سے بغداد تک کھلنے لگی ہے۔ ملتِ اسلامیہ کے ایک ہونے میں بہت کم فاصلہ رہ گیا ہے، ان شاء اللہ ع دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی فکر اقبال کے اس تناظر کو ابھارنے میں اس ناتواں کو کہاں تک کامیابی ہوئی ہے، اہل نقد و نظر ہی بتا سکیں گے۔ و ما توفیقی اِلاَّ بِاللہ برادر محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا بے حد ممنون ہوں، جنھوں نے اس مجموعے کو دیکھ کر بعض مفید مشورے دیے اور بعض اہم ترامیم سے نوازا ___ میں برادرِ محترم محمد سہیل عمر ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان اور دوسرے کار پردازانِ گرامی کی عنایات کا بھی شکر گزار ہوں ___ جزاھم اللہ احسن الجزائ۔ خیر اندیش ارشاد شاکر اعوان ۶ نومبر ۲۰۰۵ء پیش لفظ ڈاکٹر ارشاد احمد شاکر اعوان صاحب سے ہمیں دیرینہ نیاز مندی حاصل ہے۔ مدتوں، صوبہ سرحد کے کالجوں میں اردو زبان و ادب کے استاد رہے۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد، قرطبہ یونی ورسٹی سے وابستہ ہو گئے۔ اور آج کل ہایر ایجوکیشن کمیشن کے ’’ایمی ننٹ پروفیسر‘‘ کے طور پر پشاور یونی ورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہیں۔ موصوف اردو، ہندکو اور پشتو کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور انگریزی پر بھی دسترس رکھتے ہیں۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تو بہت سے لوگ رکھتے ہیں مگر شعر و ادب کا اُن جیسا علمی و ادبی ذوق اور اقبالیات سے ان جیسا شغف اور وابستگی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ انھوں نے ’’اقبال اور دو قومی نظریہ: متونِ اقبال کی روشنی میں‘‘ کے موضوع پر ایم فل اقبالیات کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا تھا، پھر پی ایچ ڈی کے لیے بھی اقبالیات ہی کا ایک موضوع منتخب کیا: ’’جاوید نامہ، مقدمہ، حواشی و تعلیقات‘‘ اقبالیات کے علاوہ انھوں نے بعض دیگر علمی و ادبی موضوعات پر بھی تحقیقی و تنقیدی کام کیا ہے۔ زیر نظر مجموعے میں وہ اقبالیات پر اپنے تنقیدی مقالات پیش کر رہے ہیں۔ یہ مقالات بظاہر بالکل نئے اور نادر موضوعات پر تو نہیں ہیں، مگر شاکر صاحب نے یہاں بھی کچھ ایسے نکات پیدا کیے ہیں جو قارئین اقبال کے لیے قابلِ توجہ ہیں۔ متحدہ قومیت، ہندوستان کی آزادی، اقبال کا تصورِ ملت، خطبۂ الہ آباد اور ’’پاکستان سکیم‘‘ پر انھوں نے بڑی تفصیل سے بات کی ہے اور متعلقہ مآخذ و مصادر سے بھر پور استدلال کیا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے فکرِ اقبال کے اطراف میں بُنے ہوئے جالوں کو صاف کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ اسلوب ان کا اپنا ہے۔ اگر کہیں کہیں ’’عربیت زدگی‘‘ کا پرتو نظر آئے۔ تو اسے ان کے علم و ضل اور ان کے ماحول کی مجبوری سمجھ کر انھیں معذور سمجھا جائے۔ مجموعے کے دیگر مضامین بھی اپنے اپنے موضوعات پر خاصے وقیع اور بھر پور ہیں۔ اسی وقعت و اہمیت کی بنا پر یہ اقبال اکادمی کے اشاعتی پروگرام میں شامل کیے گئے اور اب منصّۂ شہود پر آ رہے ہیں۔ میں تہِ دل سے اس مجموعے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ رفیع الدین ہاشمی ۶؍ستمبر ۲۰۰۷ء ایمی ننٹ پروفیسر شعبۂ اقبالیات پنجاب یونی ورسٹی اورینٹل کالج، لاہور فکر اقبال کے ابتدائی خال و خط ۱ اقبال کے اپنے انتخاب اور ترتیب کے مطابق ’ہمالہ‘ بانگ درا کی پہلی نظم ہے اور ’نیا شوالہ‘ اس دور کی آخری نظم جسے ذہنی ارتقا کے مرحلۂ اول سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بانگ درا حصہ اول کی غزلیات اس پر مستزاد ہیں۔ سواے چند مخصوص مطالب پر مبنی نظموں کے اس دور کی جملہ شاعری مظاہر فطرت کے تحت عنوان رہی ہے۔مثلاً ’گلِ رنگین‘، ’ابر کہسار‘، ’آفتاب‘، ’شمع‘، ’گل پژمردہ‘، ’ماہ نو‘ ، ’چاند‘، ’انسان‘ اور ’بزم قدرت‘، ’جگنو‘، ’موج دریا‘، ’صبح کا ستارہ‘، ’عہد طفلی‘، ’طفلِ شیر خوار‘ اور ’سرگذشتِ آدم‘ کہ مظاہرِ فطرت کا شاہکارِ اعظم ہے۔ اسی سلسلۃُ الذہب نے بعض نقادوں کو اقبال کے اس دور کے کلام کو فطرت پسندی کا دور قرار دینے کی راہ دکھائی مگر دراصل یہ نظمیں اُن مطالب کی شرح کرتی ہیں جن کا اظہار ’ہمالہ‘ اور ’نیا شوالہ‘ میں کیا گیا ہے۔ ۲ اس درمیان میں ’ترانۂ ہندی‘ اور ’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘ بعض دوسری نظموں مثلاً ’صداے درد‘ اور ’تصویر درد‘ کے آئینے میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں، کیونکہ مظاہر فطرت کے مطالعے سے جس ’محبت‘ کا شرارہ شاعر کی آنکھ کا تارا بن کر جم گیا ہے اور ہمالہ کی خوش منظری اور ’’دیرینہ روزی کے نشان سے پاک جوانی‘‘ کی ضمانت قرار پایا ہے وہی اس برطانوی ورلڈ آرڈر (وطنی قومیت) کے پیدا کردہ بھیانک نتائج کا تریاق ہے جو عالمِ انسانیت کو عموماً اور ہندستان کے معاشرتی امن کے لیے خصوصاً زہرِ قاتل ثابت ہو رہا ہے ۔ یہی وہ شررِ محبت ہے جس نے بالآخر ہمالہ کی طرح سر بلند اور گردشِ دوراں کی مخالفانہ دست برد سے محفوظ، جدید تر معاشرتی تنظیم (نظام اجتماعی) کا خاکہ مرتب کرنے میں مدد دی۔ یہ وہ خاکہ تھا جسے اقبال ’’تلاشِ متصل‘‘ کہہ کر شمع ِ جہاں افروز بتاتا ہے اور جو کثرت کی پریشانی میں سامانِ جمعیت و وحدت ہے، تنقیدی نگاہِ غلط انداز نے جس طرح محبت (جذبِ باہمی) کو وحدتِ حیات کی بجاے وحدت الوجود دکھایا اسی طرح اس ’تلاشِ متصل‘ کو وطنیتکی حمایت پر محمول کر دیا۔ حالانکہ اقبال منزل محبت کی راہرو ’’موج دریا‘‘ کی طرح ’’زحمتِ تنگیِ دریا‘‘ سے گریزاں اور وسعتِ بحر کے لیے پریشان ہونے کا واضح عندیہ دے چکا تھا۔ زحمتِ تنگیِ دریا سے گریزاں ہوں میں وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہوں میں ۱؎ ’خفتگانِ خاک سے استفسار‘ اور ’عشق اور موت‘ میں اگرچہ ’’موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انسان میں ہے‘‘ لیکن یہ موت انفرادی نہیں جس سے بقول گیان چند: اقبال خوف زدہ تھا۔ بلکہ یہ اجتماعی زندگی کا وہ روگ ہے۔ جس کے لیے ایک طرف وطنی قومیت ہے تو دوسری طرف وہ سامانِ اتصالِ قومی،جس کی تلاش بقولِ اقبال فطرتِ انسانی کا خاصہ ہے اور جو ادراکِ انسانی کو خرام سکھاتی ہے۔ مذہب نے جسے ’الصلوٰۃ القائمہ‘ نام دیا ] الصلوٰۃ کا مصدر التصلیہ ہے[ جو قضا کے لیے قضا ہے وہ قضا جو التقدیر ہے اور: شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا ۲؎ یہی وہ شرر ہے جسے اقبال محبت کہتا ہے کبھی نور ازل لکھتا ہے ۔ کبھی خاموشی ازل، یہ تراکیب بلاشبہہ اپنا ایک ثقافتی پس منظر رکھتی ہیں لیکن جیسا کہ سرگذشتِ آدم، کے حوالے سے آگے اشارہ آئے گا۔ یہ ارسطو کا ’’محرکِ غیر متحرک‘‘ نہیں جو مادے میں جاری و ساری ہو کر گم ہو گیا ہے اور وجود جس کی بازیافت میں، مادے کی فنا کے درپے ہے۔ یہ نورِ مطلق کی آنکھ کا تارا ہے، وہ زندہ اور متحرک قوت جسے آپ روح کہیں یا شعور ، یہ وہ برقی رو ہے جو مقصدِ حیات (مقدر) سے پھوٹتی ہے۔ یعنی الامر ہے، اولی الامر نہیں۔ اس کے لیے بھی قضا ] التقدیر[ موجود ہے۔ یہ التقدیر Destiny ، اسلام ہے ’’اسلام بجاے خود التقدیر ہے‘‘ ۳؎ انسانی خودی اور اس کی بقاے دوام اسی التقدیر (التصلیہ) کے جبر سے وابستہ ہے۔ یہی وہ نظریۂ ملت ہے جسے اقبال ’’تلاش متصل‘‘ کا عنوان دیتا ہے، جو مغربی وطنیت کے اس نسخۂ اتصالی کی مرگ آفرینی سے نجات کی سبیل ہے جس نے ملتوں کے وجود (وسعت بحر) کو وطنی دیواروں (تنگیِ دریا) میں بند کر کے ’’مذہب اور عقل و ضمیر کی جگہ چھین لی ہے‘‘: ۴؎ یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو رشکِ جامِ جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو یہ تلاشِ متصل شمع جہاں افروز ہے توسنِ ادراک انساں کو خرام آموز ہے ۵؎ یہ نظم ’گل رنگیں‘ کا آخری بند ہے اور پھول اقبال کی نظر میں ’’ایک پیماں ہے رنگ و بو کا‘‘ اور ظاہر ہے اس پیمان، معاہدہ یا میثاق کے شریک، رنگ کو رنگ اور بُو کو بُو ہی رہنا ہوتا ہے۔ تب جا کر گلستاں کی خوش منظری مہکتی ہے اور عطر بیزی رنگ جماتی ہے۔ اس کے بغیر بہارِ جاں نواز کا تصور ممکن ہی نہیں۔ یہ حسن تناسب، اعتدال اور ہم آہنگی کا نام ہے اور محبت اس حسن کے احساس سے عبارت ہے، جو شیشۂ دہر میں مانندِ مے ناب ہے اور صرف انسان سے خاص نہیں بلکہ دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی۔ خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں صورتِ دل ہے ہر اک چیز کے باطن میں مکیں ۶؎ یہی وہ احساسِ حسن ہے جسے اقبال ضیاے شعور کہہ کر مافوقُ الفطرت آفتاب سے طلب کرتا ہے۔ وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے دل ہے خرد ہے روح رواں ہے شعور ہے اے آفتاب! ہم کو ضیاے شعور دے چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے ۷؎ اگر نظم ’سرگذشت آدم‘، ’انسان اور بزم قدرت‘، اور نظم ’جگنو‘ کو ملا کر پڑھا جائے تو مطالب کے اشتراک سے معلوم ہو گا کہ ’عہد طفلی‘ اور ’طفل شیر خوار‘ میں جب ’حرفِ بے مطلب تھی خود میری زبان میرے لیے‘ اور جب آنکھ وقفِ دید تھی لب مائل گفتار تھا، تب اس کا ماحصل صرف اتنا تھا ’’شورش زنجیر دَر میں لطف آتا تھا مجھے‘‘ یا ’’کیا تماشا ہے ردی کاغذ سے من جاتا ہے تو‘‘ بس یہی عالم تھا سرگذشتِ آدم میں ’’شعور کا جامِ آتشیں پینے کے بعد حقیقتِ عالم کی جستجو میں‘‘ریاضِ جنت میں طبیعت نہ لگنے کا۔ مزاجِ تغیر پسند نے اوجِ خیال فلک نشیں دکھا کر بے قراریوں کا وہ نقش جمایا جسے عہدِ طفلی سے معنون کیا جانا چاہیے۔ لیکن بتوں کو حرم نشیں کرنے کے بعد حرم سے اُن پتھر کی مورتوں کا اٹھانا،جس تغیر کی خبر دیتا ہے وہ طبعی تقاضوں کے تابع مہمل مادی شعور کے جام آتشیں اور طور سے حرا تک جاری جلوۂ کامل کی ستیزہ کاری ] دو متخالف و متصادم رویوں[ کی وہ داستان ہے جس کے لیے ہمالہ پر زمانے کو پیچھے کی طرف دوڑنے کو کہا گیا تھا۔ شعاعوں کو اسیر اور برقِ مضطر کو تسخیر کر لینے کے باوجود جب رازِ ہستی (حقیقتِ عالم) کی خبر نہ مل پائی تو چشمِ مظاہر پرست وا ہوئی اور خانۂ دل کا وہی مکیں بصیرت افروز ہوا جو کلیسائی تلواروں سے نہ دب سکا تھا۔ تسخیرِ فطرت، حقیقتِ عالم کے سراغ کا نام ہے اور وہ محض شعاعوں کو اسیر اور ہواؤں کو تسخیر کر لینے سے حاصل نہیں ہوتا، ضبطِ نفس سے ہاتھ آتا ہے۔ یہی حسن ہے وہ تناسب، اعتدال اور ہم آہنگی جو بغیرمحبت کبھی نہیں پیدا ہوتے۔ ’ترانۂ ہندی‘ میں ہمالہ، ہمارا سنتری بن کرابھرتا ہے اور اس راز سے پردہ اٹھتا ہے تو ہمالہ کے سر برف کی وہ دستارِ فضیلت، جو مہرِ عالم تاب کی نگاہ پر خندہ زن ہے، دو وجوہ سے عبارت نظر آتی ہے۔ ایک تو ہمالہ کا ’’تو زمین پر اور پہنائے فلک تیرا وطن‘‘ ہونا، اور دوسرے ’اس کے دامن کا عناصر کی بازی گاہ ہونا‘۔ یہی دو اسباب ہیں جن کی بدولت ’’تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن‘‘۔ دستِ قدرت نے یہ بازی گاہ بھی خوب بنائی ہے ہر عنصر دوسرے کا شیدائی ہے۔ اپنے انفرادی تشخص پر قائم رہتے ہوئے ہمالہ کی خوش منظری میں اوروں کا معاون و مددگار،چشمۂ دامن، آئینۂ سیال ہے، جس کے لیے دامنِ موج ہوا رومال ہے۔ ابر ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے جسے برقِ سرِ کوہسار نے کوڑا فراہم کردیا ہے۔ ہر عنصر دوسرے سے ہم آہنگ ہے کوئی مزاحمت نہیں، عناصر کا یہ تماشا محبت کے اثر سے قائم ہے (آگے چل کر یہی محبت عشق کہلائی) جس کی بدولت ہمالہ کی جوانی دیرینہ روزی کے نشان سے پاک ہے ع ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے کیا اہلِ ہند کے لیے اس میں کوئی سبق نہیں؟ وہ ہمالہ جسے ہندستان کہتے تھے صدیوں گردشِ دوراں کے درمیان زندہ پایندہ رہا ہے تو ایسی ہی وحدت آشنا معاشرت کی بدولت۔ یونان و مصر روما تو مٹ گئے مگر ہندستان سلامت اور محفوظ رہا تو اس کی وجہ یہی تھی: گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں گلشن ہے جن کے دم سے رشکِ جناں ہمارا ۹؎ ابر ’’فرط طرب‘‘ میں جھومتا ہے لیکن ’’فیلِ بے زنجیر ‘‘ ہے، ہوا کے گھوڑے پر سوار، ضبطِ نفس سے عاری، اس لیے اقبال اُسے چھوڑ کر ندی سے رجوع کرتا ہے جو کیسی ہی شیون سامان آزادی سے نہ چل رہی ہو اپنے مبدا و منشا سے رابطہ استوار رکھتی ہے (جیسا کہ ہمالہ ع تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن) یہی وہ عراقِ دل نشیں ہے جسے مسافر ندی چھیڑ رہی ہے اور دل اسے خوب سمجھتا ہے: چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو اے مسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو ۱۰؎ یہ ندی زندگی کی علامت ہے جس کا زمانے (دہر) سے گہرا تعلق ہے۔ ہمالہ کے حوالے سے انسانی مقدر کا راز صرف زمانہ (تاریخ) کھول سکتا ہے۔ لہٰذا طور کی تجلی سے حرا کے جلوۂ کامل ] پیام آخریں کے حوالے سے عمرانی زندگی میں قومیت سازی کی تاریخ [ پر اچٹتی سی نگاہ ڈال کر اقبال ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو‘‘ پر بات ختم کر دیتا ہے۔ ’سر گذشتِ آدم‘، اگلے مرحلے کو واضح کرتی ہے۔ اقبال نے ہمالہ کے پس منظر میں جو کچھ کہنا چاہا بکمالِ اشاریت کہہ دیا ہے۔ طور کی تجلی ایک قوم کے اندر رائج قبائلی عصبیتوں کو مٹا کر شیر و شکر کر کے ایک خیمۂ اجتماع (الصلوٰۃ القائمہ) کے حلقہ میں لانے کا مرحلہ، پہلا قدم ہے۔ حرا سے ملنے والے پیام آخریں کا جلوۂ کامل بے شمار قومی ندیوں کو وسعت بحر (ملت) سے آشنا کرنے کا اہتمام تھا۔ بِا اَلْعُرْوَ ۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَاط۱۱؎ ’مقالہ قومی زندگی‘ اور مقالہ ’ملت بیضا پرایک عمرانی نظر‘ان ہر دو مراحل و مراتب کااحاطہ کرتے ہیں۔ اقبال کا نظریۂ ملت صرف حرا والوں تک محدود نہیں بلکہ وطنیت کے مقابلے میں اتحاد بحوالۂ مذہب اس کی روح ہے۔ یہ ملت سازی، لا دین وطنیت کے مقابلے میں ملتوں کے انفرادی اور اجتماعی تشخص کے جملہ تحفظات کے ساتھ متحدہ قومیت کا دینی تصور ہے۔ چونکہ ہندستان کی غالب اکثریت اس پر راضی نہیں اور ملت اسلامیہ کا وجود ہی اس نظریے کا استشہاد ہے لہٰذا ملت کے اجتماعی تشخص کے تحفظ کے لیے سرگرم ہو جانا انسانیت دوستی ہے، یوں اقبال کے ابتدائی افکار مرحلہ در مرحلہ مزید محکم اور استوار ہوتے جاتے ہیں۔ تاہم ہندستان کا امن اور اہل ہند کا حقیقی اتحاد اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں رہتا کہ اسے انحراف کا الزام دیا جا سکے مگر افسوس ہمالہ کی تمثیل کے غلط معانی لیے گئے ۔ گویا بقول مولانا جلال الدین رومیؒ: ہر کسے از ظنِ خود شد یارِ من و ز درونِ من نجست اسرارِ من دوسرا لطیف نکتہ طور کی تجلی کا ہے جہاں مستضعفین مصر کو فراعنہ کی فرعونیت اور قبطیوں کی عصبیت سے نجات کے لیے ارضِ موعود کی بشارت دی گئی۔ ۱۹۰۱ء کی ایک غزل (بانگ درا حصہ اول کی چوتھی غزل) کا آخری شعر اس طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس غزل میں ہفتاد و دو ملت سے ملنے والی آنکھ سارے زمانے کے لیے ایک پیمانہ لے کر طلوع ہوتی ہے لیکن اقبال اپنے گلشن کی تنگ دامانی سے نالاں ہے۔ وہ مرغِ دل کو ایسے چمن میں آزادی کا کھلا گیت گانے سے روکتا ہے: اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کے گیت آہ یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے ۱۲؎ آگے چل کر اس کی وجہ ’’نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی‘‘ بتائی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نالہ خام نہیں، گلشن والے اس درد کے محرم نہیں جسے دیدۂ بیناے قوم، اقبال محسوس کر رہا تھا: اقبال کوئی محرم ملتا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا ۱۳؎ کب زباں کھولی ہماری لذتِ گفتار نے پھونک ڈالا جب چمن کو آتشِ پیکار نے ۱۴؎ لیکن مایوسی بہر نوع نہیں۔ ’جمع کر خرمن کو پہلے دانہ دانہ کر کے تو‘ کا عزمِ صمیم زندہ ہے۔ ہم صفیرو! تم مری عالی نگاہی دیکھنا شاخِ نخل طور تاڑی آشیانے کے لیے ۱۵؎ لیکن شاخِ نخلِ طور چونکہ (ارضِ موعود) مصر سے باہر تھی اسی لیے اقبال نے اسی زمانے میں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ یہاں مصرِ ہند کے اندر ہی ارضِ موعود کی تلاش ہے: دیکھ اے ذوقِ تکلم یاں کوئی موسیٰؑ نہیں میری آنکھوں میں جو پھرتا ہے وہ نقشہ اور ہے ۱۶؎ گویا شاخِ نخلِ طور پر آشیانہ سازی تو ہے لیکن جو نقشہ ارضِ موعود کا بنتا ہے وہ اور ہے۔ ۵ نظم ’آفتاب‘ اور ’آفتاب صبح‘ میں امتیاز ملت وآئیں سے آزاد جس تماشا اور جلوہ کا چشمِ باطن پر ظاہر ہونا طلب ہوا وہ اس حسن عشق انگیز کو ہر شے میں دیکھنے کی طلب ہے جو عقدۂ اضداد کی کاوش سے بے نیاز کر دے۔ ’ہندی ترانہ‘ میں اس حسن عشق انگیز (نسخۂ اتصال: محبت) کو ’’کچھ بات کہا‘‘۔ ع کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری لیکن ’ترانۂ ملی‘ میں یہ کچھ بات ’’توحید کی امانت‘‘ کہلاتی ہوئی آئی ہے: توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا ۱۸؎ گویا وہ خاموشیِ ازل، نورِ ازل، نورِ حقیقت، حقیقتِ عالم ، وہ محبت، وہ ضیاے شعور، وہ روحِ روان زندگی توحید کی امانت ہے۔ جسے معاشرتی زندگی میں وحدت و یگانگت میں مشہود ہونا چاہیے۔ ’ہندی ترانہ‘ اور ’ہندوستانی بچوں کا گیت‘ اسی ’’وحدت‘‘ کا گن گاتے آئے تھے۔ اس لیے کہ یہی وہ زندہ قوت تھی جس نے یونان و مصر و روما کے مقابلے میں ہندستان کو زمانے کے دست برد سے محفوظ رکھا۔ اسی حوالے سے نظم ’آفتا ب‘ کا شذرہ لکھ کر ہندومت کو بھی اصلاً موحد ثابت کیا گیا تھا۔ جس کی بنا پر اقبال کو آتش پرستی کا الزام دیا گیا حالانکہ اقبال نے شذرہ میں آفتابِ فوق المحسوسات اور نور السمٰوات والارض کے حوالے دیے تھے۔ دراصل یہ تکاثر ادیان کے برعکس وحدت ادیان کا فلسفہ تھا جس کی بنیاد حرا سے طلوع ہونے والے آخری پیام نے رکھی تھی۔ حضورؐ کی زبانِ وحی ترجمان سے اعلان کرایا گیا تھا: قُلْ یٰٓا ھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْاً وّلَا یَتَّخِذَ بَعضُنَا بَعْضاً اَرَبَابًا مِّنْ دُونِ اللّٰہط ۱۹؎ کلمۂ توحید پر اتفاق، غلامی، استحصال اور عصبیتوں کی جڑیں کاٹ کر تناسب، اعتدال اور ہم آہنگی کی روح پھونکتا ہے۔ مدینہ منورہ میں ملت سازی کا یہ پیغام غالب اکثریت کی طرف سے مل رہا تھا۔ یہی وہ پیغام تھا جو میثاق مدینہ کی صورت میں مدوّن ہو چکا تھا جس کی رو سے مدینہ کے یہود اور ان کے حلیف ’’اُمَّۃٌمَّعَ الْمُومِنِیْن‘‘ تسلیم کر لیے گئے تھے۔ حضرت مدنیؒ نے مسئلہ قومیت میں اس کا حوالہ باصرار دیا ہے لیکن ان کی نظر اس لطیف نکتے پر نہیں گئی کہ اقلیتیں ایسے میثاق نہیں لکھا سکتیں۔ یہ غالب اکثریت کا کام ہے اور یہاں غالب ہندو اکثریت مسلمانوں کو سرے سے قوم تسلیم کرنے پر راضی نہ تھی۔ خطبۂ الہٰ آباد کے بعد بھی اقبال اتحاد کی ہر کوشش کے ساتھ رہے لیکن ان کا اصرار رہا کہ یہ تجویز غالب اکثریت کی طرف سے آنی چاہیے جیسا کہ ۱۵ ؍اپریل ۱۹۳۲ کی لکھنؤ کانفرنس سے متعلق اقبال کی راے سے ثابت ہے۔ ۲۰؎مدینے کی غالب اکثریت نے غیر مسلم اقلیتوں کو شریکِ معاہدہ کر کے ان کے قومی تشخص کے ساتھ امت تسلیم کیا تھا۔ اقبال بھی یہ چاہتا تھا کہ ہندستان کی غالب ہندو اکثریت مسلمانوں کو اُمَّۃٌ مَّعَ الْہُنُودْ تسلیم کر کے ان کے قومی تشخص کے آئینی تحفظ کی ذمہ داری قبول کرے تاکہ مذہب کو وجہ نزاع بنائے بغیر سب متحد ہو جائیں۔ چشمِ ظاہر بیں نے اسے ماوراے مذہب اتحاد کا نام دے دیا حالانکہ اس اتحاد کی بنیاد میثاقِ مدینہ تھا جس کی روح اصلی تھی۔ ع مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ۲۱؎ جب مذہب بیر نہیں محبت او ریگانگت سکھاتا ہے تو اسے وجہ نزاع بھی نہ بننا چاہیے۔ قِرانِ ہند میں اتفاقاً جمع ہو جانے والے ’دو ستارے‘ ہر لحاظ سے ہندی ہیں اور ہندستا ن ہمارا کا دعویٰ کر سکتے ہیں لیکن ہندستان کے تہذیبی ورثے کا تحفظ ہر دو ستاروں کے اپنے اپنے مقرر شدہ راہ پر گامزن ہونے میں ہے۔ اسی طرح دنیا کے تیر تھوں میں اپنا تیرتھ سر بلند ہو سکتا ہے اور ہندستان کی مورتی کی من موہنی صورت سلامت رہ سکے گی۔ چنانچہ ’نیا شوالہ‘ اک ایسی سیاسی فضا کا استعارہ تھا جس کی فضائیں شورشِ ناقوس ا ور آواز ِ اذان کو بلا تفریقِ ملت و آئین، برداشت کرسکیں۔ اقبال کی طرف سے بار بار ’’نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو‘‘ کے انتباہ کے باوجود نہ غالب ہندو اکثریت پسیجی نہ طور و حرا کی تجلیِ تو حید کے امین اور وحدتِ آدمیت پر مبنی پیامِ آخرین (تصورِ ملت) کے نقیب (مسلمان) اس افتراق و انتشار سے ہاتھ اٹھا سکے۔ تاآنکہ شملہ وفد (۱۹۰۶ئ) کے درد مندوں نے یہ تسلیم کرا لیا کہ مسلمان صرف اقلیت نہیں بلکہ قوم کے اندر قوم کی حیثیت میں انھیں آئینی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ۲۲؎ ۶ اب یہاں اقبال تنہا نہ رہا تھا اب اور بھی کئی راز داں تھے۔ لہٰذا کھل کر نالہ کرنے کا وقت آ گیا۔ ’’مارچ ۱۹۰۷ئ‘‘ کی نظم اپنے تغزل میں ’’زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا‘‘ کا زمزمہ بن کر ابھری۔ اقبال نے پہلی بار مغربی وطنیت کے نسخہ سازوں پر واضح کر دیا کہ پارلیمانی نظامِ جمہوریت اور آل انڈیا نیشنل کانگریس کے مقاصد ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ وطنیت کا بت مغرب کے اپنے ہی پارلیمانی جمہوری نظام کے تیشے کی ضرب سے پاش پاش ہو گا۔ اس لیے کہ پارلیمانی نظام دو یا دو سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو چاہتا ہے اور اب ایک اور جماعت مسلم لیگ کے نام سے وجود میں آ چکی ہے۔ جس کی بنیاد مذہب پر ہے۔ لہٰذا وطنیّت کا بت اپنے ہی تیشے کی زد میں تھا: تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہو گا ۲۳؎ تہذیب مغرب کے حوالے سے اقبال کے ناقدین اس طرف توجہ نہیں دے سکے۔ اب اقبال نے اپنی قوم کو اس تیشے سے مسلح کرنے کی ٹھانی ’’اسلام بحیثیت اخلاقی و سیاسی نصب العین‘‘ میں اقبال نے قوم پر واضح کیا کہ برطانوی سامراج، جمہوریت کے رواج سے اسلام کی خدمت کر رہا ہے۔ یہ وہ کام تھا جو مسلم ایشیا کے حکمرانوں کو خود کرنا چاہیے تھا۲۴؎۔ حیرت ہے ایک طرف اقبال مسلمانوں کو جمہوریت کی طرف راغب کر کے مسلم لیگ کو نمایندہ جماعت بنانے میں مصروف تھا اور دوسری طرف کچھ لوگ اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجدیں بنا کر مسلمانوں کو جمہوریت سے متنفر کر کے غیر مسلح کرنے میں مصروف تھے۔ حد یہ کہ خود اقبال پر بھی اپنی جمہوریت دشمنی چسپاں کرنے میں عار محسوس نہیں کی، اقبال یہاں تک آگے گئے کہ انھوں نے قائداعظم محمد علی جناح کے نام خطوط میں واضح کیا کہ مسلم لیگ کب تک سروں اور جاگیرداروں کی باندی رہے گی اور مسلم عوام کی قوت کے بغیر تو نمایندہ حیثیت تسلیم کرانا ممکن نہیں۔ جمہوریت میں تولا نہیں کرتے گِنا کرتے ہیں لہٰذا مسلم لیگ کو عوامی سطح تک لے جانا ضروری ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ عوام اس جماعت کو منہ نہ لگائیں گے جو ان کی روٹی کا مسئلہ حل نہ کر سکے گی: ۲۵؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گِنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۲۶؎ یہ ہے سٹڈل کے خیال پر مبنی اس خوب صورت شعر کا حقیقی پس منظر۔ بالآخر جب مسلمانوں کی واضح اکثریت نے مسلم لیگ کو اپنی نمایندگی کا اعزاز بخشا تو مسلم لیگ سوادِ اعظم بن کر ابھری۔ یوں نہ صرف قِرانِ ہند کے دو ستارے الگ الگ تشخض قائم کرنے کے اہل ہوئے بلکہ برطانوی سامراج کوبھی جانا پڑا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اقبال کی موت پر مسجد خیر الدین امرتسر کے تعزیتی اجلاس میں اقبال کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتنی سچی بات کہی تھی:’’اقبال کو نہ قوم سمجھ سکی نہ انگریز، قوم سمجھ لیتی تو کب کی آزاد ہو چکی ہوتی، انگریز سمجھ لیتا تو اقبال یوں نہ مرتا بلکہ مصلوب کردیا جاتا‘‘ ۲۷؎ ع کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی ۲۸؎ _______________ حوالے و حواشی ۱۔ کلیات اقبال اردو، ص۶۲ ۲۔ ایضاً، ص۵۸ ۳۔ Thoughts and Reflection of Iqbal ، ص۱۶۵ ۴۔ Social Philosophies in Conflict، ص۴۵۰ ۵۔ کلیات اقبال اردو، ص۲۵ ۶۔ ایضاً، ص۱۱۷ ۷۔ ایضاً، ص۴۳ ۸۔ ان نظموں پر جس کسی نے قلم اٹھایا، اُس نے اقبال کو یا تو وحدت الوجود کا الزام دیا، یا اسے فطرت پرستی پر محمول کیا۔ حالانکہ ان نظموں میں جو چیز مشترک ہے وہ قدرت اور تقدیر حیات ]مقصدِ وجود[ ہے۔ مثلاً نظم ’جگنو‘ ہی کو لیں: ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی پروانے کو تپش دی، جگنو کو روشنی دی کلیات اقبال اردو، ص۸۴ قادر و قدیر نے جس کو چاہا تقدیر خاص ( مقصدِ زندگی) سے نواز دیا۔ اس تفاوت کو ’ہم سری‘ کے درمیان وجہِ امتیاز نہ بننا چاہیے۔ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو امتِ واحدہ بنا دیتا لیکن یہ اُس کی مشیّت کو منظور نہ تھا۔ فطرت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ کائنات میں تمام مظاہر فطرت، اس تفاوت کے باوجود، اپنی اپنی تقدیر میں کمالِ استغراق (عشق) کی بدولت ایک دوسرے کے معاون اور متفق ہیں۔ اسی سے فطرت میں نظم، توازن، ہم آہنگی اور حسن پیدا ہوا ہے۔ یہی حقیقت عالم ہے۔ ( تفصیل کے لیے فکر اقبال، خلیفہ عبد الحکیم، ص۴۳۶، مکتوب محررہ ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ئ، بنام خواجہ حسن نظامی ملاحظہ ہو)۔ انسانوں کی مختلف جمعیتیں بھی اپنی اپنی خود اختیار کردہ تقدیرات (حیاتِ اجتماعی کے انفرادی مقاصد یا آئین حیات) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بھی ایسا متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔ یہی نفسِ واحدہ کا عملاً مشہود ہونا ہے۔ ’ہمالہ‘ اس کی بہترین تمثیل اور ’نیا شوالہ‘ اس کی عمرانی ترکیب ہے، اور دراصل صوفیانہ الٰہیاتی تخیل، وحدت الوجود کی جدید ترین تفسیر۔ یعنی اقبال ایک الٰہیاتی نظریے کو عمرانی مسائل کے حل کے لیے کام میں لائے ہیں، جس کا مقصدِ اولیٰ مغربی تصور قومیت کی لادینی کو دینی حسن کی طرف گام زن کرنا تھا۔ اور اقبال نے اس کے لیے ملتِ اسلامیہ کو مثالی نمونے کے طور پر پیش کیا یہ محض خوش اعتقادی نہیں ___ تاریخی تعامل اس کا شاہد عادل ہے ___ مقالہ ’قومی زندگی‘ ۱۹۰۴ء میں ملتِ اسلامیہ کو خیرامت کہا اور ’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘، ۱۹۱۰ء میں اس تاریخی حقیقت کو واضح کیا۔ نظم ’جگنو‘ (مطبوعہ مخزن بابت دسمبر ۱۹۰۴ئ) کے آخری دو بند توجہ طلب ہیں۔ ۹۔ کلیات اقبال اردو، ص۸۳ ۱۰۔ ایضاً، ص۲۳ ۱۱۔ سورۃ البقرہ۲: ۲۵۶ ۱۲۔ کلیاتِ اقبال اردو، ص۱۰۰ ۱۳۔ ایضاً ، ص ۸۳ ۱۴۔ ایضاً، ص۴۳ ۱۵۔ ابتدائی کلام اقبال، ص۱۶۱، کلیات اقبال اردو، ص۱۰۰ کی چوتھی غزل کا شعرِ متروک۔ ۱۶۔ ابتدائی کلام اقبال، ص۶۰ ۱۷۔ کلیاتِ اقبال اردو، ص ۸۳ ۱۸۔ ایضاً، ص ۱۵۹ ۱۹۔ سورۃ آل عمران۳: ۶۴ ۲۰۔ گفتارِ اقبال: رفیق افضل، ص۱۶۰ ۲۱۔ کلیات اقبال اردو، ص ۸۳ ۲۲۔ برصغیر ہندو پاک کی ملت اسلامیہ، مترجم: ہلال احمد زبیری، ص ۳۲۹ ۲۳۔ کلیات اقبال اردو، ص ۱۴۰ ۲۴۔ Thoughts and Reflections of Iqbal، ص ۵۱/۵۲ ۲۵۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام، مرتب محمد جہانگیر عالم ، ص۴۸/۴۹ ۲۶۔ کلیات اقبال اردو، ص ۶۱۱ ۲۷۔ ہمارے دور کے چند علماے حق: سید امین گیلانی، ص ۱۷۵/ ۱۷۶ ۲۸۔ کلیاتِ اقبال اردو، ص ۱۷۰ خ خ خ اقبال اور متحدہ قومیّت ’’اقبال اور متحدہ قومیّت‘‘ ایک عرصہ سے موضوعِ بحث ہے۔ اقبال کے ذہنی ارتقا کے حوالے سے اُن کی نظموں، ’ترانۂ ہندی‘ (ہمارا دیس) اور ’نیا شوالہ‘ کی بنیاد پر یہ ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں کہ اقبال ابتدا میں، خصوصاً ۱۹۰۶ء سے قبل، مغربی نظریۂ قومیّت کے زبردست حامی تھے۔ یہاں تک کہ اُن کی نظم ’ہمالہ‘ (کوہستان ہمالہ) کو بھی جغرافیائی قومیت یا خالص ہندستانی وطنیت کا حامل ثابت کیا گیا۔ زیر نظر مقالے میں اس مفروضے کی غلطی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بحث کا آغاز کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ مغربی نظریۂ قومیت کیا تھا۔ انٹرنیشنل انسائی کلو پیڈیا آف سوشل سائنسز کے مطابق: ۱۸ویں صدی عیسوی کے فرانسیسی ادیبوں کی تحریروں میں لفظ nation کا اطلاق کسی مخصوص ملک کے اُن عوام پر ہوتا تھا جو بلا تفریق ذات و قبیلہ بادشاہوں سے مختلف ہوتے تھے۔ ۱۷۸۹ء اور ۱۷۹۳ء کے درمیانی عرصے میں شرفا اور پادریوں کے آسمانی اختیار سے محرومی کے بعد قوم (nation) اُن لوگوں کا نعرہ بن گیا جو عوام کے اختیار کی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ لا دینی، مساوات اور مرکزیت کے حوالے سے جدید قومی حکومتوں کے قیام کے پرچم لے کر نکلے۔ ازمنۂ وسطیٰ میں لفظ قوم کے جو بھی معنی تھے، ہوں گے، لیکن ۲۰ ویں صدی کے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں nation کا یہی مفہوم معروف ہوا۔ ۱؎ ہندستان میں برطانوی مدبرین، جس جدید قومی حکومت کے قیام کے آرزومند تھے اُس کے مقاصد اور ترکیب کیا تھی؟ موسیولی بان کی کتاب تمدنِ ہند کے درج ذیل اقتباس سے اس پر روشنی پڑتی ہے: جس وقت دو قومیں ایسی ہوں کہ اُن میں سے ایک دوسری کی محکوم ہو، اور جب اُن اقوام میں زیادہ فرق نہ ہو تو ایک قوم دوسری قوم کی حکومت کو بآسانی قبول کر لیتی ہے۔ مثلاً مسلمانوں کی حکومت، ہند میں، جہاں تقریباً پانچ کروڑ ہندوؤں نے اسلام قبول کیا ۲؎ برخلاف اس کے جب فاتح اور مفتوح میں فرق زیادہ ہو تو محکوم قوم اس آسانی سے غلامی نہیں قبول کر سکتی ۔ یہ حال ہند میں انگریزی حکومت کا ہے۔ باوجود ڈیڑھ سو سال کے تسلط کے انگریزوں نے اس ملک کے باشندوں کو اپنی زبان اور مذہب سکھانے میں کامیابی حاصل نہیں کی حالانکہ اتّصالِ قومی پیدا کرنے میں یہ دو بہت بڑے جزو ہیں۔ ۳؎ چنانچہ انگریزوں کی نو آبادی اور ہندستان کی غلامی کی محکمی کے لیے ’’لا دینی مساوات اور مرکزیت‘‘ کے تحت اتصالِ قومی کا جو نسخہ کثیر القومی ہندستان کے لیے تجویز ہوا اُس کے پیچھے کارفرما اُس نفسیات تک پہنچنا ضروری ہے جو، لی بان ہی نے پروفیسر سیلی کے الفاظ میں بیان کر دی ہے: جس روز ہند میں قومیت کا احساس پیدا ہونے لگا وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور گو یہ احساس اس حد تک نہ بھی بڑھے کہ غیر قوم کو عملی طور پر ملک سے باہر نکال دینے کا جوش پیدا کر سکے بلکہ صرف اسی قدر خیال پیدا کر دے کہ غیر قوم کی حکومت کی اعانت شرم کی بات ہے تو اسی روز گویا ہماری حکومت ختم ہو جائے گی، کیونکہ ہماری فوج میں دو تہائی دیسی سپاہی ہیں۔ ۴؎ پروفیسر سیلی کے ’’احساسِ خوف‘‘ نے اُسے جس ’’قومی احساس کی بیداری‘‘ سے ڈرایا، اُسی احساسِ بیداری کی موت کا دوسرا نام وہ مخلوط یا متحدہ قومیت تھا جسے مغربی مدبرین نے ہندستان کے لیے تجویز کیا۔ ہندستانیوں کو اپنی زبان اور اپنا مذہب ( لا دینی، مساوات اور مرکزیّت) سکھانے، کا یہی وہ نسخہ تھا، جس نے اتحاد قومی کی ایسی بیماری میں مبتلا کر دیا، جہاں یہ قومی احساسِ بیداری کہ ’’غیر قوم کی حکومت کی اعانت شرم کی بات ہے‘‘ اپنی موت آپ مر گیا۔ نیشنلسٹ مسلمانوں کی انگریز دشمنی تو کسی دلیل کی محتاج نہیں اور نہ آزادیِ ہند کے لیے اُن کی قربانیوں سے انکار ممکن ہے لیکن انھوں نے اپنے لیے جو نسخہ جاں فزا منتخب کیا وہ اُسی انگریز کا دیا ہوا تھا جو قومیت کے احساس کو بیدار ہونے نہیں دیتا تھا۔ اتصالِ قومی کے اس مغربی نسخے کا ثمر بقول لی بان یہ تھا: وہ مختلف اقوام جنھیں اسبابِ خارجی نے ایک ملت میں شامل کر دیا ہے آگے چل کر کسی روز قوم بن جائیں گی اور جو چیز انھیں ایک قوم بنائے گی وہ یہ ہے کہ اثر مرزبوم، ازدواجِ باہمی اور وراثت، یہ تینوں مل کر مدت ہاے دراز میں ایسی جسمانی، اخلاقی اور دماغی صلاحیتیں پیدا کر دیں گی جو ہر فردِ قوم میں عام ہو جائیں۔ ۵؎ موسیولی بان کے اس نسخۂ اتصالِ قومی، پر ذرا توجہ دیجیے تو دو باتیں بدیہی معلوم ہوں گی۔ ایک یہ کہ ملتیں کسی روز قوم میں ڈھل جائیں گی اور دوسری یہ کہ یہ قومیت مدت ہاے دراز، میں اپنا اثر دکھائے گی۔ اس صورت میں دو زیاں واضح ہیں۔ ملتّوں کے وجود کا خاتمہ اور انگریزی اقتدار کی طوالت اس مقصد کے لیے ایک انگریز وکیل ڈیوڈ ہیوم نے دسمبر ۱۸۸۵ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کی بنیاد رکھی جس نے ہر فردِ قوم میں وہ جسمانی، اخلاقی اور دماغی صلاحیتیں پیدا کرنا تھیں جو ملتوں کو مٹا کر ایک علاقائی یا وطنی قومیت کی تشکیل میں معاون ہوں۔ لیکن وہ احساسِ قومیت پیدا ہونے نہ دے جو غیر قوم کی حکومت سے نجات کی راہ نکال دے۔ یہ تھی وہ متحدہ قومیت یا مغربی نیشنلزم جو خود مغربی دانش وروں کے نزدیک بھی مذہب اور عقل و ضمیر کی بر طرفی کا دوسرا نام تھا: نیشنلزم نے مذہب اور عقل و ضمیر دونوں کی جگہ چھین لی ہے۔ وہ انسان کی زندگی کے تمام شعبوں پر اُسی طرح حاوی ہونا چاہتا ہے جس طرح کہ مذہب۔ ۶؎ اب ایک طرف تو وہ مغربی نظریۂ قومیت تھا جو ’’مذہب اور عقل و ضمیر‘‘ کی جگہ لے کر انگریزی اقتدار کو طویل تر دیکھنا چاہتا تھا اور دوسری طرف ہندستان میں آباد وہ ملتیں تھیں جن کے بارے میں سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ آنے والے مورخ البیرونی نے اپنے ۱۰سالہ وسیع اور عمیق مطالعے کا نچوڑ بایں الفاظ اپنی تصنیف کتاب الہند میں درج کیا تھا: اس ملک کے باشندے یعنی ہندو، مسلمانوں کے خلاف سخت ترین بغض اور عناد رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اُنھیں ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں اور اُن کے قریب آنا، اُنھیں چھونا بھی معیوب سمجھتے ہیں … جب صورتِ احوال یہ ہے کہ ہمارے (مسلمانوں) اور اُن (ہندوؤں) کے درمیان ایسی شدید نفرت، پرہیز اور چھوت چھات برتی جاتی ہے، کہ مسلمان اور ہندو یک سر جداگانہ طبقوں میں منقسم ہو کر رہ گئے ہیں۔ اگر یہی صورت رہی تو ان دونوں قوموں میں کبھی ربط و ضبط اور اتحاد و اتفاق قائم نہیں ہو سکے گا۔ ۷؎ سید احمد خاں اس پس آمدہ خطرے سے ۱۸۸۳ء ہی میں آگاہ تھے۔ لیجسلیٹو کونسل میں تقریر کرتے ہوئے اُنھوں نے دو ٹوک الفاظ میں بیان کر دیا تھا، کہ: ہمارا ملک ایک وسیع ملک ہے جس میں مختلف لوگ آباد ہیں، جو نسل او رمذہبی تضاد کے باعث ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان میں ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ آبادی مختلف ثقافتی ترقی کے مختلف مدارج پر قائم ہے۔ جب تک ہندستان میں معاشرتی نظام کی بنیاد مذہب اور ذات رہیں گے مغربی طرز کی انتخابی مشینری نہ اُن میں مساوات پیدا کر سکتی ہے نہ اخوت۔ البتہ یہ زیادہ ترقی یافتہ طبقوں کو کم ترقی یافتہ اہلِ وطن کا مالک و آقا بنا دے گی۔ ثقافتی اختلافات، ذات پات کے امتیازات اور مذہبی کش مکش ہمیشہ سے زیادہ نمایاں ہو جائے گی۔ عدمِ مساوات معاشرے کے ڈھانچے میں جڑ پکڑ جائے گی۔ ۸؎ اسی سال سید مرحوم نے کونسل سے استعفا دیا۔ یہ استعفا دراصل گلیڈ سٹون کی حریت پسندی اور لبرل ازم کے حوالے سے، پارلیمانی اداروں میں مسلم اقلیت پر ہندو اکثریت کے غلبے کے خلاف احتجاج تھا۔ اس لیے کہ یہ غلبہ سید مرحوم کے نزدیک مذہب کے خاتمے کی دلیل تھی۔ جس کے بغیر مغربی قومیت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکتا تھا۔ سید مرحوم کا یہ احتجاج بلا تمیز ہندو مسلم ، پورے ہندستان کے حوالے سے تھا۔ لیکن جب ایک مسلمان بدر الدین طیب کو کانگریس کا صدر بنا دیا گیا تو سید مرحوم نے اسے مسلم اتحاد میں رخنہ اور مسلمانوں کے لیے تباہ کن قرار دیا۔ انھوں نے بدر الدین طیب کے نام مکتوب ۱۸۸۸ء میں لکھا: میں نہیں سمجھتا نیشنل کانگریس کے الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندستان میں موجود مختلف ذاتوں اور مذاہب کا تعلق ایک قوم سے ہے اور اُن کے اغراض و مقاصد یکساں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔ اگر یہ ناممکن ہے تو نیشنل کانگریس قسم کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی او رنہ یہ بحیثیت مجموعی ہندستان کے لیے مفید ہو سکتی ہے۔ ۹؎ پس آل انڈیا نیشنل کانگریس کا نیشنلزم جہاں ایک لا دین قومیت کا ملجا و ماویٰ تھا وہاں ہندستان میں انگریزی اقتدار کی دوہری ضمانت بھی رکھتا تھا۔ (۱) ملتوں کے انجذاب سے ایک ایسی قومیّت کا خمیر تیار کرنا جس کے لیے مدتِ مدید کی ضرورت تھی۔ (۲) ہندو اکثریت کو اقلیتوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلبہ دلانا۔ اس دوسرے مقصد نے وہ مذہبی مناقشت اُبھاری جو انگریز کی ’’لڑاؤ او رحکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے عین مطابق تھی۔ اقبال نے ۱۹۰۱ء میں ’ہمالہ‘ کے عنوان سے ملکی مسائل کا جو علامتی حل پیش کیا، وہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ کانگریسی نقطۂ نظر کے مقابلے میں سید احمد خاں کے خیال سے مستنیر ہو رہا تھا۔ نظم ’ہمالہ‘ سے ’سرگذشتِ آدم‘ (۱۹۰۴ئ) تک علامہ اقبال کی شاعری کو فطرت پسندی، کا دور کہا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں ناقدینِ اقبال متفق الراے ہیں کہ اُن کی دل چسپی اُس زمانے میں بھی فطرت کے خارجی پہلوؤں کے خاموش مظاہر تک محدود نہ تھی۔ وہ خاموش مظاہر فطرت میں تکوینی اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں لیکن اُن کی توجہ کا اصل مرکز متحرکِ مظاہر فطرت ہیں جن سے وہ کاروانِ حیات کے آگے بڑھنے کی صلاحیتوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر تقدیر انسانی پر غور کرنے لگتے ہیں۱۰؎۔ ’نظم ہمالہ‘ سے اس فلسفیانہ جستجو کی ابتدا ہوتی ہے اور ’سرگذشتِ آدم‘ میں اقبال بالآخر چشم مظاہر پرست کے وا ہو جانے کا اعلان کرتے ہیں ۔ دونوں نظموں کا سنجیدہ مطالعہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ ’سرگذشتِ آدم‘ نظم ’ہمالہ‘ کا تکملہ ہے۔ نظم ’ہمالہ‘ کا اختتام اس مصرع پر ہوتا ہے: دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو جس کا مقصد اُس وقت کی کوئی داستان سننا ہے۔ جب ہمالہ کا دامن (سرا ندیپ) مسکن آباے انسان بنا تھا۔ ’سرگذشت آدم‘ اسی داستان غربت پر مشتمل ہے جس کا اختتام اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ رازِ حیات جسے برقِ مضطر کو اسیر کرنے والے نہ پا سکے وہ اُن کے نہاں خانۂ دل کا مکیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ اقبال یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اُس کے نہاں خانۂ دل کا مکیں، یہ رازِ حیات ہی آج کی مہذب دنیا کا خالق و محسن ہے اور جان دار ایسا کہ صلیب و دار سے گزرتے ہوئے اور کلیسائی تلواروں سے ٹکراتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھنا اُس کی تاریخی پہچان ہے۔ رازِ حیات کی اس فلسفیانہ جستجو کا ماحصل وہ ’’مدبرانہ دلیری‘‘ ہے۔ جو ’سید کی لوح تربت‘ سے پائی۔ جس کے بعد اقبال مذہب کو قوم و ملت کے امتیازات سے بری الذمہ ثابت کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا یہ اعلان جہاں یہ ثابت کرتا ہے کہ اقبال اول دن سے ہندستان کا حقیقی مسئلہ ’’فرقہ وارانہ مناقشت‘‘ کو سمجھتے ہیں وہاں یہ بھی ثابت ہے کہ اقبال مذہب کو وجہِ نزاع بنانے کے سخت خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب کے ہوتے ہوئے بھی، ایک ’’ہندی قوم‘‘ کا تخیل حاصل کیا جاسکتا تھا۔ بس اس کے لیے ایک ہی شرط ہے کہ ہندستان کی معاشرتی تشکیل کے تمام عناصر ترکیبی، اپنی اپنی اجتماعی تقدیر (مقصدِ حیات) پر کاربند رہتے ہوئے دوسروں کی اجتماعی تقدیر (مقصدِ حیات) کی راہ میں رکاوٹ بننے کی بجاے معاون ہوں۔ اس سے ملک وہ عروج دوبارہ حاصل کر سکتا ہے جو اُسے ہمیشہ تاریخ میں حاصل رہا۔ اس تخیل کا علامتی اظہار ’ہمالہ‘ ہے جس کی ابتدا ’’اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان‘‘ سے ہوتی ہے۔ اُس کا یہ مقام بلند، سوے خلوت گاہ دل دامن کش انساں ہے۔ یہ فصیل ، دیرینہ روزی کے نشان سے پاک جوانی کی حامل ہے۔ یوں کہ اُس کی عمر رفتہ عہدِ کہن کی اک آن ہے۔ گردشِ شام و سحر کے درمیان ہمالہ کا یہ مقام جس نے اُسے مطلع اول فلک دیوان بنا دیا ہے، نتیجہ ہے اُس کے ’بازی گاہِ عناصر‘ ہونے کا۔ ہمالہ کے دامن میں ابر، ہوا، چشموں کا بکمال آزادی اپنی اپنی فطرت (مادی تقدیرات یا مقصدِ حیات) پر کاربند رہتے ہوئے، اوروں کے وظائفِ حیات میں رکاوٹ بننے کے بجاے معاون ہونا ہی حقیقت میں ہمالہ کی خوش منظری کا راز ہے۔ اسی نے اُسے فصیلِ کشور ہندستان بنایا ہے۔ اسی کی بدولت برف نے ُاُس کے سر دستارِ فضیلت باندھ کر ’’مہر عالم تاب‘‘ پر خندہ زنی کا حق دیا ہے، اور یہی شے اُسے زمین پیوست فلک ہمسایگی کا شرف بخش رہی ہے: تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرمِ سخن تو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیال ہے دامنِ موج ہوا، جس کے لیے رومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برق سرِ کوہسار نے اے ہمالہ! کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے ہاے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتاہے ابر ۱۱؎ برقِ سرکہسار، رہوار ہوا کے واسطے، ابر کے ہاتھوں میں تازیانے کا کام دے رہی ہے، جس پر ابر ’’فیل بے زنجیر‘‘ کی طرح اڑا جا رہا ہے۔ دستِ قدرت کی یہی وہ شاہکار بازی گاہ عناصر ہے جو اقبال کی توجہ کامرکز ہے۔ کیونکہ یہی وہ نقطۂ اتصال ہے جس نے اُس کی عمر رفتہ کو عہدِ کہن کی اک آن بنا دیا ہے۔ یعنی اَلاٰنَ کَمَا کَانَ (جیسے تھا ویسے ہی ہے)۔ ناقابلِ تسخیر، تغیر نا آشنا۔ کیاانسانی معاشرہ اس اصول پر قائم نہیں ہو سکتا؟ ہمالہ کی خوش منظری، اسی سوال کے حوالے سے، سوے خلوت گاہِ دل دامن کش ہوتی ہے۔ اقبال اس سوال کی طرف پہلے ہی بند میں جوابی اشارہ کر چکے ہیں۔ مگر وہ واعظ بن کر سامنے نہیں آتے۔ طور سینا ہی وہ مقام تھا جہاں پہلی بار ایک قوم بنی اسرائیل کی قبائلی تفریق کو وحدت آشنا کرتے ہوئے قومیت کی تشکیل کی گئی تھی، جب کہ پوری انسانیت کو وحدت آشنا کرنے کا کام ’’حرا‘‘ سے ملنے والے آخری پیغام نے کیا تھا۔ طورِ سینا کا ایک جلوہ ہونا، اور چشم بینا میں ہمالہ کا سراپا تجلی ہونا، اسی تاریخی شعور کا آئینہ دار ہے: ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے ۱۲؎ (واضح رہے کہ الجیلی کی کتاب انسانِ کامل پر اقبال ایک سال قبل ہی (۱۹۰۰ء میں) Doctrine of Absolute Unity as Expounded by Abdul Karim Al-Jelani کے عنوان سے ریویو کر چکے تھے۔ انسانِ کامل کے باب ۴۱ میں ’’سورۂ طور کی عارفانہ تفسیر‘‘ طور کی طرح ہمالہ کے ’سوے خلوت گاہ دل دامن کش انساں‘ ہونے کے اشارات کی تفہیم کے لیے، خصوصی مطالعہ چاہتی ہے ورنہ یہ شکایت بہرحال رہے گی کہ ’’اقبال نے ہمالہ کو طور سے جا ملایا‘‘)۔ اقبال نے ۱۹۰۱ء ہی کی ایک غزل میں داد طلب انداز میں اعلان کیا تھا: ہم صفیرو! تم مری عالی نگاہی دیکھنا شاخ نخل طور تاڑی آشیانے کے لیے ۱۳؎ تاہم نظم ’ہمالہ‘ فلسفیانہ تلاش کی حامل تھی اس لیے تکوینی زندگی کے جمود (اَلانَ کَمَا کَانَ) سے تشریعی زندگی کے تحرک، کی طرف تدریجی سفر کیا۔ اب اقبال فیل بے زنجیر سے توجہ ہٹا کر فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی اترتی ندی سے مخاطب ہوتے ہیں جو ابر کے مقابلے میں بہر حال اپنی اصل سے استوار رابطہ رکھتی ہے۔ یہ ’’ایک مسلسل باقاعدہ اور غیر منقطع زندگی، کا حوالہ ہے۔ جو ہمالہ کی زمیں پیوست فلک آشیانی کے مقابلے میں بہر طور وقیع ہے۔ اقبال نے ’ساقی نامہ‘ میں بھی ارتقاے حیاتِ انسانی، اور ’قومی زندگی‘ میں ’’ملت‘‘ کے کردار کی تشریح کے لیے ندی ہی کو حوالہ بنایا ہے۔ اور ندی ہی جبلی شعور کی ’شیون سامان آزادیوں‘ سے نجات کے لیے مذہبی ضابطوں کی ضرورت، کا احساس پیدا کرتی ہے۔ یہی ’’می شود از جبر پیدا اختیار‘‘ کی حقیقت ہے: دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں ۱۴؎ یہی ’’عیش دوام‘‘ ہمالہ کے اَلانَ کَمَا کَانَ کا راز ہے اور یہی ’عیش دَوَام‘ تقدیر انسانی کے لیے ’طور‘ کا حوالہ ہے۔ یہی ندی کے عراقِ دل نشیں کا وہ پیغام ہے جس سے اقبال کا دل آشنا ہے۔ اس سنگ راہ سے گاہ بچنے، گاہ ٹکرانے کی کیفیت نے جہاں درختوں پر تفکر کا سماں طاری کر رکھا ہے وہاں اقبال ہمالہ سے اُس وقت کی کوئی داستان سننا چاہتا ہے۔ جب قافلۂ انسانی بہتی ندی کی طرح جبلی شعور کے زور پر فرازِ جنت سے دامن ہمالہ (سراندیپ) کی طرف نالہ و شیون کرتا ہوا آیا تھا۔ یہ تاریخی کہانی ہے اور زمانہ ہی اس کا امین ہے (وَالْعَصْرo اِنَّ الانِسَانَ لَفِی خُسْرo) تاریخ گواہ ہے انسان نے خسارے کا سودا کیا۔ لہٰذا اقبال تاریخ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے: ع ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ پر نظم ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن ’’مسکن آباے انساں جب بنا دامن ترا‘‘ کا جواب نہیں ملتا۔ ’سرگذشت آدم‘ ندی کی طرح یہاں سنگ راہ سے گاہ بچنے، گاہ ٹکرانے کی اسی ’’داستان غریب‘‘ پر مشتمل ہے۔ ۳۔ اس داستانِ غربت، کا آغاز قصۂ پیمان اولیں بھلا کر، جبلی شعور کے جام آتشیں سے سرشار ہونے اور جنت سے نکل آنے سے ہوتا ہے۔ یہی پیمان اولیں (اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ۔ قَالُوْا بلیٰ) اور جبلی شعور کا باہمی تصادم تھا جس نے وہ ’’اوج خیال فلک نشیں‘‘ دکھایا کہ مزاج تغیر پسند ہوگیا۔ کبھی حرم کو مورتیوں سے سجایا کبھی کعبے کو اُن سے خالی کر دیا۔ صلیب و دار سے ہوتے ہوئے، یونان و مصر و روما او رہندستان کی تہذیبوں کو جنم دیا۔ کلیسائی اقتدار سے ٹکر لی، اور یوں تمدن انسانی کو اُس کمال تک پہنچایا۔ جہاں وہ آج ہے۔ مگر افسوس شعاعوں کو اسیر کرنے والے اس راز حیات سے بیگانہ ہی رہے کہ مذہب ہی وہ قوتِ قائمہ ہے جو تمدن انسانی کو عروج کی طرف لے جاتی ہے، اور اُس ’عیشِ دوام‘ یا خوش منظری سے ہم کنار کر سکتی ہے، جس کے سامنے ہمالہ کی فصیل بھی ہیچ ہے۔ ان ہر دو نظموں میں جن لفظی پیکروں سے کام لیا گیا ہے اُن کا مفہوم ہندستان کے معروضی حالات کی روشنی ہی میں پانے کی ضرورت ہے۔ جہاں مغرب کا ’مہر عالم تاب‘ ایک طرف اور دوسری طرف اہلِ ہند کا وہ قافلۂ فیل بے زنجیر تھا جو اپنے لیے تازیانے بھی خود ہی فراہم کر رہا تھا۔ ۴۔ ان دو نظموں کے تخلیقی زمانے کے درمیانی عرصے میں اقبال اہلِ ہند کے مذہبی مناقشات کی قیامت خیز نفاق انگیزیوں کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے ہیں اور ان باہمی رزم آرائیوں کو گل چیں کی خوش نصیبی اور ہندستان کی کھلی بد نصیبی سے تعبیر کرتے ہیں: نشان برگ گل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گل چیں تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو! تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں ۱۵؎ وہ ’’اختلاط موجہ و ساحل‘‘ اور ’’قربِ فراق آمیز‘‘ کے بھیانک نتائج سے گھبرانے اور قرب حقیقی کی لذت کا شہید ہونے کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے کہ چمن کو آتش پیکار نے پھونک ڈالا ہے: لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں ۱۶؎ تاہم وہ دیگر مظاہر فطرت کے اطمینان کے مقابلے میں انسان کی پریشانیوں سے مایوس نظر نہیں آتے بلکہ وہ اُن پریشانیوں ہی کو سامان جمعیت قرار دیتے ہیں، کیونکہ بقول اُن کے یہی پریشانی وہ شمع جہاں افروز ہے جو توسنِ ادراک انساں کو خرام سکھاتی ہے۔ اس ضمن میں مرزاعبد القادر بیدل کا یہ شعر دل چسپی سے خالی نہ ہو گا: ہیچ کس بے شورِ کثرت طالبِ وحدت نہ شد رنگ تمیز سلامت در غبار آفت است اس کیفیت کو وہ ’’تلاش متصل‘‘ کا نام دیتے ہیں: یہ تلاش مُتّصَل شمع جہاں افروز ہے توسن ادراک انساں کو خرام آموز ہے ۱۷؎ نظم ’ہمالہ‘ اسی ’تلاشِ متصل‘ کا ابتدائی فلسفیانہ، علامتی جلوہ ہے، اور سرگذشت آدم اتصال قومی کا وہ نسخہ جس کی بنیاد وہ اوج خیال فلک نشیں ہے جو اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے پیمانِ اولیں پر قائم ہے۔ ایک ایسے منفرد اجتماعی نظام کا تصور جہاں تمام عناصر ترکیبی (ملتیں) اپنی اپنی قومی شناخت پر قائم رہتے ہوئے باہم متحد اور معاون ہو کر ہندستان کو ہمیشہ کی طرح ناقابلِ تسخیر بنائیں۔ یہ تصورِ اتحاد اُس مغربی نظریۂ قومیت کا کھلا نقیض تھا جو ملتوں کو مٹا کر، علاقہ و مرزبوم کے نام سے ایک لا دین قومیت کی تشکیل چاہتا تھا۔ اس تناظر میں اقبال کی نظم ’ترانۂ ہندی‘ (ہمارا دیس) اور ’نیا شوالہ‘ کے مافیہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال’ترانۂ ہندی‘ میں ایک بار پھر ’’ہمالہ‘‘ کا ذکر لاتے ہیں۔ وہ اُسے ہندستان کا سنتری کہتے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ ہمالہ کی گود میں کھیلتی ہوئی ہزاروں ندیوں کا وجود ہی گلستان ہند کو رشک جناں بنا رہا ہے۔ اسی ذیل میں اقبال نے رود گنگا سے مخاطب ہو کر آریاؤں کے ہندستان میں ورود کا ذکر کیا ہے۔ وہ مہذب قوم جو ہندستان ہی نہیں ایشیا و یورپ میں مذہبی روح پھونکنے کی ذمہ دار ہے، ہندستان جو اب تک گردش شام و سحر کے درمیان سلامت ہے، اسی آریائی مذہبی روح کا ثمر ہے۔ ایسے ہی مسلمانوں کا بھی ہندستان میں ورود ہوا۔ اقبال نے نظم ’آفتاب (ترجمہ گاتیری)‘ کے شذرے میں واضح کر دیا تھا کہ ہندومت بھی اصلاً توحید کا حامل ہے۔ لہٰذا ہندستان ہم سب کا ہے۔ ہم سب اس کی بلبلیں ہیں اور یہ ہم سب کا گلستان ہے۔ ’ترانۂ ہندی‘ کا یہ شعر اس ضمن میں خصوصی توجہ چاہتا ہے: غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا ۱۸؎ شاید کسی کو معلوم ہو کہ ۱۹۰۴ء میں اقبال ہندستان سے باہر رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم، پھر ’’غربت میں ہوں اگر ہم‘‘ اور سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہی جہاں ہمارا‘‘ سے کیا مراد لی جانی چاہیے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ’ترانۂ ملی (۱۹۱۰ئ) ‘میں جو بات اقبال نے یوں کہی ہے: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ۱۹؎ وہی بات ’ترانۂ ہندی‘ کے مذکورہ شعر میںبھی بیان ہوئی ہے۔ ہم بلا شبہہ دشت عرب سے یہاں آئے، جیسا کہ ہندو وسط ایشیا سے آئے۔ لیکن اس غربت سے یہ گمان نہ گزرنا چاہیے کہ ہندستان سے ہمیں کوئی قلبی لگاؤ نہیں۔ ہندستان ہمارا وطن ہے۔ ہم مسلمان ہیں، ہم جہاں بھی ہوں وہی ہمارا وطن ہے۔ قوم مسلم کی قوتِ قائمہ: دل تو اسلام ہے، اسلام جہاں بھی ہے وہی مسلمانوں کا وطن بھی ہے۔ ترانۂ ملی میں چین و عرب بلکہ سارے جہاں کو ہندستان سمیت اپنا وطن کہنے میں یہی نکتہ مضمر تھا۔ لہٰذا باور کیا جانا چاہیے کہ اقبال اکثریتی قوم، ہندو، کو جو ۱۸۸۵ء سے بی جی تلک کے زیر قیادت خود کو ہندستان کا مالک اور مسلمانوں کو بدیسی جانتی تھی، یہ یقین دلا رہے تھے کہ ہندستان ہم سب کا ہے۔ ہندستان سے مسلمانوں کا بھی وہی تعلق ہے جو ہندوؤں کا ہندستان سے ہے۔ رہا سوال مذہب کا، تو اقبال نے ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘ لکھ کر اور نظم ’آفتاب (ترجمہ گاتیری)‘ کے شذرے سے یہ بات واضح کر دی تھی کہ ہندستان کے دونوں مذاہب اصلاً توحید پرست تھے، اس لیے مذہب کو وجہ نزاع نہ بننا چاہیے۔ مذہب آپس میں بیر رکھنا نہیں سکھاتا۔ گردشِ شام و سحر کے درمیان، ہماری ہستی کو یونان و مصر و روما کے مقابلے میں جس ’بات‘ نے محفوظ اور سلامت رکھا، وہ یہی ’’روحِ مذہب‘‘ توحید تھی، جس نے مذہبی مناقشات سے پاک اتحاد کی دولت دی۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ ہندستان پر جب بھی کوئی آڑا وقت آیا، ہندو مسلم، بلاتفریق مذہب و ملت، اس کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو گئے۔ آج کیوں ایسا ہونا ممکن نہیں رہا؟ اگر ہندستان کی غلامی کی رات طویل سے طویل تر ہو رہی ہے تو اس لیے کہ ہم مذہب و ملت کے بکھیڑوں کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ ہمیں اسی ’بات‘ پر توجہ دینی چاہیے جو ہمارے اتحاد کی ضمانت رہی اور جس نے ہمیں اور ہماری ہستی کو گردش شام و سحر ، کے اثر سے محفوظ رکھا۔ یہی اتحادِ باہمی تو ہمالہ کی عمرِ رفتہ کو عہدِ کہن کی اک آن بنائے ہوئے ہے: کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا ۲۰؎ ’ترانۂ ملی‘ میں یہ بات کھل کر ’توحید کی امانت‘ کہلائی ہے: توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا ۲۱؎ اور ہم عرض کر چکے ہیں کہ اقبال نظم ’آفتاب (ترجمہ گایتری)‘ کے شذرے میں ہندومت کو بھی اصلاً توحید ثابت کر چکے تھے۔ یہ گویا قُلْ… تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ کی ربانی آواز کا اعادہ تھا۔ توحید ایک روحانی عقیدہ ہے، اور اس کا مظہر محسوس و مشہود، وحدت آدمیت ہے۔ اسلام نے اس کا اہتمام ریاست مدینہ میں ایک میثاق لکھ کر یہود کو اُمۃ مع المؤمِنِیْن تسلیم کر کے کیا تھا۔ ضرورت تھی کہ اکثریتی قوم ہندو، آج ایسے ہی میثاق سے عہدہ برآ ہوتی اور مسلمانوں کو امۃ مع الھنود تسلیم کر لیا جاتا ۲۲؎ لیکن افسوس مسلمان زبانی کلامی توحید کے مدعی تھے اور ہندو ایک ’ہندی قومیت‘ کا نعرہ تو لگاتے تھے مگر مسلمانوں کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اقبال نے جانبین کی اس کیفیت کو ’یوسف مطلق کو مقید‘ کرنے سے تعبیر کیا تھا: زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے کنویں میں تو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا ارے غافل! جو مطلق تھا مقیّد کر دیا تو نے ۲۳؎ نظم ’صداے درد‘ کا یہ شعر ’یوسفِ مطلق‘ کو مقید کرنے کے کنایے کی تشریح کرتا ہے: ایک ہی مے سے اگر ہر چشم دل مخمور ہو یہ عداوت کیوں ہماری بزم کا دستور ہو ۲۴؎ لیکن دعوے، عمل سے محروم تھے۔ چنانچہ اقبال (جیسا کہ ’نیا شوالہ‘ میں تفصیلاً عرض کیا جائے گا) ’’واعظ کے وعظ چھوڑے، چھوڑے ترے فسانے‘‘ پر مجبور ہو جاتے ہیں، کیونکہ صورت حالات عملاً اس سے مختلف ہے: رمز ہستی سے مرے اہلِ وطن غافل ہوئے کار زارِ عرصۂ ہستی کے ناقابل ہوئے امتیازِ قوم و ملت پر مٹے جاتے ہیں یہ اور اس اُلجھی ہوئی گتھی کو اُلجھاتے ہیں یہ ۲۵؎ اقبال، اس کار زارِ ہستی میں کہ مجموعۂ اضداد ہے، قوم و ملت کو مختلف معانی میں لیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ قوم اور ملت کے امتیاز کو چھیڑنا، اُلجھی ہوئی گتھی کو اور الجھانا ہے۔ وہ ملت کو دانہ ہاے یک رنگ سے تعبیر کرتے ہیں اور قوم کو گلستاں کے رنگا رنگ پھولوں سے۔ ہر پھول ایک الگ ملت ہے، جن سے باغ کی رونق ہے۔ اسی ربط باہمی سے نظامِ گلشن قائم ہے۔ اقبال کی فکر مذہبی ہے، مذہب انسان کی جان ہے، اسی سے انسان کی شان ہے۔ ورنہ ھَلْ اَتٰی عَلَی الِاْنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًاo۲۶؎۔ یہ مظاہر فطرت کے درمیان شی مذکور مذہب کی بدولت بنا۔ عَلّمَ الْاِ نَسْانَ مَالَم یَعَلَمْ۔ لیکن جہاں مذہب اعضاے بدن میں جان کی طرح ہم آہنگی پیدا کرتا ہے وہاں وہ رگوں سے خون آبائی نکالنے پر اصرار نہیں کرتا یعنی خون آبائی پر استوار قومیت کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان تناقضات کا جامع ہے گویا ملکی و نسلی قومیت اگر فطری آئین ہے تو ملت کی تشکیل شرعی آئین۲۷؎، اور دین و شرع، فطرت کے خلاف ہرگز نہیں،یہ تو ہے ہی دین فطرت ___ اور فطرت میں اگر ابر، ہوا، چشمۂ آب، برق، مختلف النوع اور مختلف الصفات و اوصاف ہوتے ہوئے بھی ہم آہنگ اور متحد و معاون ہیں تو شرع و دین (ملت) کی گودی اس کی نفی کب کر سکتی ہے؟ پس اگر مذہب کی محبت سچی ہے تو مذہب تو قوتِ جامعہ و قوتِ قائمہ ہے۔ اسے آپس میں بیر رکھنے کا ذریعہ نہ بننا چاہیے۔ ہم بلا تفریق مذہب و ملت، ہندی ہیں، ہندستان ہم سب کا ہے اس لیے ہم سب کو مل کر اس کے عروج کی فکر کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس، کوئی نہیں جو اس حقیقی نکتۂ اتحاد و اتصال کو سمجھ سکے۔ اتحاد، اتحاد تو ہر کسی کی زبان پر ہے مگر حقیقی اتحاد کا رمز آشنا کوئی نہیں: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا اقبال کوئی محرم ملتا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا ۲۸؎ یہی وہ ’’بات‘‘ تھی جو ہماری ہستی کی محافظ تھی، یہی وہ ’بات‘ تھی جس نے ہمالہ کی عمر رفتہ کو عہد کہن کی اک آن بنایا۔ یہی وہ ’’بات ‘‘تھی جو ہمالہ کی منظری دل کشی کا باعث تھی۔ یہی وہ ’’بات‘‘ تھی جو اقبال، مغرب کے انجذابی نظریۂ قومیت کے مقابلے میں ہندستان میں قائم و دائم دیکھنے کے متمنی تھے۔ یعنی ہندستان میں رہنے والی ساری اجتماعی قوتیں اپنی اپنی اجتماعی تقدیر پر کاربند رہتے ہوئے باہم متفق و متحد ہو جائیں۔ یہ ’ہندو مسلم اتحاد‘ کا خواب تھا۔ اسی معاشرتی نظام کو اقبال نے ’نیا شوالہ‘ کا علامتی نام دیا۔ ۵۔ اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ کے تجزیے میں کلیدی سوال یہ ہے کہ اس نظم میں اقبال کا مخاطب کون ہے، کیوں ہے، اور اقبال کا اپنے مخالب سے مطالبہ کیا ہے؟ ڈاکٹر وحید قریشی نے یہ فرض کر لیا کہ: علامہ اقبال نے پہلی بار ہندستان میں مغربی قومیت کو تہذیبی بنیاد مہیا کر دی۔ اُن کی فکری نہج کا یہ روپ جغرافیائی حدود کو تقدس اور پرستش کا رنگ دے دیتا ہے۔ مسلمانوں کی اقلیت کو اکثریت میں جذب کر کے اذان کو ناقوس میں ملایا اور دھرتی پوجا کے لیے راستہ صاف کیا۔ ۲۹؎ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے جغرافیائی حدود کو تقدس دیا کہ کسی بھی معاشرتی نظام کا نفاذ بہر حال برسرِ زمین ہی ہوتا ہے، اور اقبال کا ’نیا شوالہ‘ ہندستان کے مشترکہ مسائل ہی کا حل تھا۔ مگر نہ تو یہ پرستش کا رنگ ہے کہ ’’خاکِ وطن کو ایک مشترکہ دیوتا کی شکل‘‘ میں اُبھرنے کا الزام دیا جا سکے، نہ اسے ’’مغربی قومیت کو تہذیبی بنیاد فراہم کرنے‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جس کی روح اصلی لا دین مرکزیت تھی، مگر مساوات کا تو خصوصاً ہندستان جیسے کثیر القومی ملک میں دور دور تک کوئی امکان نہ تھا ___ اقبال جس مرکزیت کا پرچم لے کر نکلے تھے وہ وہی ’’کچھ بات‘‘ تھی جس نے اب تک ہندستان کو گردش شام و سحر کے درمیان سلامت رکھا تھا۔ یعنی ’’روح مذہب‘‘۔ ڈاکٹروحید قریشی نے اس حقیقت واقعہ سے برعکس جو نتائج اخذ کیے وہ اس مفروضے پر قائم ہیں کہ ’’انھوں نے اذان کو ناقوس میں ملایا‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ اصل الاصول مذہب کی طرف رجوع کی دعوت تھی۔ اس پر ذرا آگے چل کر تفصیلاً بات ہو گی۔ یہاں ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس نظم کا مخاطب کون تھا؟ نظم ’نیا شوالہ‘ پر اُس کی اولین ہیئت کے مطابق، پہلی ہی نگاہ میں معلوم ہو جاتا ہے کہ اقبال نے نظم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر حصے کا مخاطب اول ہندو برہمن ہے : سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدے کے بت ہو گئے پرانے ۳۰؎ ڈاکٹر صاحب نے اس تخاطب کو درخور اعتنا نہیں جانا‘ ورنہ وہ ’مسلمانوں کی اقلیت کو اکثریت میں جذب کرنے‘ کا الزام کبھی نہ دے سکتے اور نہ وہ اس بدگمانی کا شکار ہوتے کہ ’’اقبال ہندوئوں کی بت پرستی کے مخالف ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں‘‘ یہی بدگمانی ڈاکٹر سچانند سنہا کو بھی ہوئی مگر ان کے نتائج ڈاکٹر وحید قریشی سے مختلف ہیں: اقبال کی نظم ’نیا شوالہ‘ unfortunate ہے۔ ہندوئوں سے اپیل کرنا کہ وہ اپنی مذہبی نشانیوں کو چھوڑ دیں تا کہ غیر ہندوئوں سے مل سکیں۔ کیا ایسی ہی اپیل غیر ہندوئوں سے بھی کی جا سکتی ہے؟ کہ اتحاد کی خاطر وہ اپنی مذہبی روایات‘ رسوم‘ عقائد اور مذہبی طریقے کو چھوڑ دیں؟ ۳۱؎ ان ہر دو ناقدین کی آرا میں کتنا اختلاف ہے۔ ایک کے نزدیک ’’اقبال نے مسلمانوں کی اقلیت کو اکثریت میں جذب کرنا چاہا‘‘۔ دوسرے کے خیال میں ’’اقبال اکثریتی قوم کو اقلیت (غیر ہندوئوں) سے اتحاد کے لیے اپنی مذہبی عقائد و رسومات چھوڑنے کا کہہ رہا ہے‘ حالانکہ وہ غیر ہندوئوں (مسلمانوں) سے ایسی ہی اپیل نہیں کر سکتا یا نہیں کرتا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی نظم کی یہ تاویلات unfortunate ہیں۔ اقبال کی نظم اس یا اُس کسی بھی پیغام سے بری الذمہ ہے۔ اس کا مخاطب تو مسلمان ہے ہی نہیں لہذا ڈاکٹر وحید قریشی کا الزام سراسر بے بنیاد اور غیر متعلق ہے۔ اس نظم کا مخاطب ہندو ہے لیکن اقبال اُس سے بھی بت پرستی ترک کرنے کا آرزو مند نہیں۔ وہ تو اُس سے صرف اتنا چاہتا ہے کہ برہمن‘ اذان کو روکنے سے باز رہے۔ اذانوں کو بھی شورِ ناقوس کی طرح بلند ہوتے رہنے کا حق ملے‘ اور ایسی فضا قائم ہو کہ دونوں ملتیں اپنے ملی وجود کے تحفظ کے یقین کے ساتھ مل جائیں اور وہ احساس قومیت بیدار ہو جس سے بقول پروفیسر سیلی اغیار کے تسلط کے خاتمے کی راہ پیدا ہو جائے۔ یہ ہے اقبال کی متحدہ قومیت کا وہ تصور جسے وہ ’نیا شوالہ‘ کہتا ہے‘ اور یہ ہے اس کے مصرع ’’آوازۂ اذاں کو ناقوس سے ملا دیں‘‘ کا حقیقی مفہوم‘ جسے کثرتِ تعبیر نے بکھیر کر رکھ دیا۔ اقبال نے ہمالہ کے دامن میں عناصر کی کثرت میں وحدت کا جو تماشا دیکھا تھا وہ ہندستان کی معاشرتی زندگی میں مفقود تھا۔ یہاں عناصر ترکیبی ایک دوسرے کے معاون ہونے کی بجاے مزاحم ہو رہے تھے۔ اقبال اسی ’مزاحمت‘ کے خاتمے کا تمنائی تھا۔ نظم ’آفتاب صبح‘ اور’انسان اور بزم قدرت‘ کے مطالب اس کی شہادت دیتے ہیں۔ اقبال ’آفتاب‘ کو دفتر امکاں کا شیرازہ بند بتاتے ہوئے‘ اہل ہند کے لیے بھی ایسی ہی ضیاے شعور طلب کرتے ہیں جو عناصر کے تماشے کو اس طرح قائم رکھ سکے کہ ہر شے کی زندگی کا تقاضا پورا ہو اور ہرشے کا وجود اپنی جگہ قائم رہے : قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے اے آفتاب! ہم کو ضیاے شعور دے چشم خِرد کو اپنی تجلی سے نور دے ۳۲؎ اس فوق المحسوسات آفتاب (نُوَر السَّمٰوٰات وَ الْاَرْضِ) سے اس التماس سے قبل‘ اقبال نے آفتاب محسوس‘ کو مخاطب کیا تھا‘ اور اُس سے عقدہ اضداد کی کاوش سے نجات کے لیے حسن عشق انگیز (وجہ اتصال باہمی) کی طلب کی تھی: زیرو و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے بستۂ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوعِ انساں قوم ہو میری‘ وطن میرا‘ جہاں عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے حسنِ عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے ۳۳؎ ’انسان اور بزم قدرت‘ میں خورشید درخشاں سے اس آرزو‘ کا جواب یوں ملا تھا : ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود باغباں ہے تری ہستی‘ پئے گلزارِ وجود آہ! اے رازِ عیاں کے نہ سمجھنے والے حلقۂ دام تمنا میں الجھنے والے تو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے نہ سیہ روز رہے پھر نہ سیہ کار رہے ۳۴؎ کیا اس سوال و جواب میں فوق المحسوسات آفتاب سے‘ اپنی حقیقت سے خبردار رہنے اور سیہ روزی و سیہ کاری کے خاتمے کے لیے جو ضیاے شعور اور چشم خِردَ کے لیے جو نور طلب کیا گیا تھا وہ کسی ایسے ’نیا شوالہ‘ کی راہ دکھا سکتا تھا جو ہر شے سے اُس کی زندگی (حیات اجتماعی) کا تقاضا ہی چھین لے اور اُسے اُس کی اجتماعی شناخت ہی سے محردم کر دے؟ یا یہ کہ اقبال کا شعورِ خرد افروز اُس حسن عشق انگیز کی رونمائی چاہتا تھا‘ جو ہندستانی دفتر امکاں کی یوں شیرازہ بندی کر سکے کہ ہر عنصر بجاے خود قائم ہو‘ اپنے مقصد زندگی کی بجا آوری میں مکمل آزاد‘ تا کہ کوئی کسی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے‘ ٹھیک اُسی طرح جس طرح کہ ہمالہ کے دامن میں ’’بازی گاہ عناصر‘‘ کا تماشا دیکھا اور دکھایا تھا۔ چونکہ اکثریتی قوم ہندو‘ ہی اس راہ میں رکاوٹ تھی اس لیے اقبال نے ہندو برہمن کو مخاطب کیا‘ اور وہ بھی اُس روایت کے حوالے سے جو ہندومت کے بزرگوں کی تعلیمات میں موجود تھی۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ کوئی بھی مذہب اپنی اصل پر نہیں رہتا‘ انسانی فکری آمیزشیں روح مذہب کو فنا کرنے سے کبھی باز نہیں آئیں۔ یہی کچھ ہندو مت کے ساتھ بھی ہوا۔ گایتری اس کا بین ثبوت تھا۔ ’’تیرے صنم کدے کے بت ہو گئے پرانے‘‘ سے یہی مراد تھی‘ اور اس حوالے ہی سے ’’ آغیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں‘‘ کی دعوت دی گئی تھی۔ ۱۳ مئی ۱۹۱۳ء کی شام کو لاہور میں سر کشن پرشاد کے اعزاز میں پنجاب کے ہندوئوں اور مسلمانوں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا‘ جس میں اقبال نے خطاب کیا تھا۔ اس خطاب کو منشی محمد دین فوق نے اپنے اخبار کی اشاعت۲۸ جولائی میں ’’ڈاکٹر اقبال اور ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ یہ تقریر اقبال کے ’نیا شوالہ‘ کی نثری توضیح ہے۔ انھوں نے کہا : صاحبان! پنجاب کے ہندو مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلے میں آج کا جلسہ یادگار رہے گا۔ اختلافات کا ناگوار مسئلہ، اہلِ پنجاب کے اطمینان و سکون کا دشمن ہو رہا ہے‘ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو اختلاف کی کوئی چنداں وجہ بھی نظر نہیں آتی۔ ہندوئوں کے مذہب ‘ تاریخ‘ لٹریچر اور فلسفے سے بخوبی روشن اور ظاہر ہے کہ وہ غیر مذہب کے پیشوائوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست تائید فرماتے ہیں‘ اور اسی طرح مسلمانوں کے سرمایۂ حیات ‘ قرآنِ مجید میں بھی یہی ہدایت پائی جاتی ہے۔ تو اختلاف کے کیا معنی؟ اگر دونوں قومیں ایک دوسرے کی روایات سے آگاہ ہیں تو کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہیں ہوسکتی۔ اور اگر مغربی تعلیم جس کو مادی تعلیم کہا جاتا ہے‘ کی وجہ سے بے دینی شروع ہو گئی ہے اور اس کے باعث نہ کافر کفر میں پورا ہے نہ مسلمان‘ مسلمانی میں تو اس حالت میں بھی کوئی وجہ شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ تو وہی بات ہوئی: بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا میرا مضموں تو نہ پھیلا اور جوتا چل گیا اگر سیاسی اختلاف ہے تو میں کہوں گا دونوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ اب آہستہ آہستہ دونوں کو معلوم ہونے لگا ہے کہ اختلاف کی تہہ میں پولیٹیکل وجود بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیسا جیسا ہندو‘ مسلمان‘ ملک کی حیثیت کو سمجھیں گے زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ ۳۵؎ اقبال کے اس خطاب میں جس مذہبی رواداری کا ذکر ہے‘ ہندو برہمن کے بت اب اُس سے دور جا پڑے تھے۔ انھوں نے اپنوں سے بیر رکھنا سکھانا شروع کر دیا تھا۔ مسئلہ مذہبی نہ تھا۔ مذہبی رواداری دونوں مذاہب کے اصل الاصول میں شامل تھی۔ بلکہ مسئلہ تو آپس کی سیاسی برتری کا بھی نہ تھا، دونوں کی حالت قابلِ رحم تھی۔ کہ اب تو دونوں قومیں محکوم تھیں اور نہ صرف سیاسی اعتبار سے ایک جیسی تھیں بلکہ دونوں کے مذہب کو بھی خطرہ لاحق تھا۔ مغربی تعلیم جو بے دینی پھیلا رہی تھی مذہبی فرقہ واریت اُسی کا ثمر تھا۔ اور اس سے اُسی لادینیت کو تقویت مل رہی تھی۔ یہی وہ ڈاسن کا بوٹ تھا جو آپس میں چل گیا اور ہم ہندستان کے تاریخی مقام (تقدس) کی طرف سے مطلقاً غافل ہو کر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ اصل مسئلہ ’’ ملکی حیثیت‘‘ کا تھا۔ اقبال کا ’نیا شوالہ‘ اسی ملکی حیثیت کی طرف متوجہ کرا رہا تھا جب کہا گیا تھا۔ ع ہندوستاں کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے اس پر ذرا آگے اور تفصیل سے بات ہوگی۔ سرکشن پرشاد نے جوابی تقریر میں اقبال ہی کے دو شعر پڑھنا ضروری سمجھا: نظارۂ کہکشاں نے مجھ کو عجیب نکتہ یہ کل سُجھایا ہزار گردش رہی فلک کو مگر یہ تارے بہم رہے ہیں قفس میں اے ہم صفیر! اگلی شکایتوں کی حکایتیں کیا خزاں کا دورہ ہے اب چمن میں نہ تو رہا ہے نہ ہم رہے ہیں ۳۶؎ سوال یہ ہے کہ آیا کہکشاں بنانے والے وہ تارے جو گردش فلکی کے دوران ہمیشہ بہم رہے ہیں اپنی انفرادیت کھو بیٹھتے ہیں یا اپنی انفرادیت پر قائم رہتے ہوئے ایک ایسی اجتماعیت کو جلوہ دیتے ہیں جو وسیع و بسیط پہناے فلک میں نمایاں رہے اور گردشِ فلکی کے درمیان قائم و دائم ہو۔ یہی کچھ اقبال نے ’ترانۂ ہندی‘ میں ہندستان کے حوالے سے کہا تھا۔ حالانکہ ’’صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا‘‘ یہی بات ’نیا شوالہ‘ میں تھی ’’آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملا دیں‘‘ ان ناقدینِ اقبال کے نزدیک اقبال کا بوقتِ انتخاب ان اشعار کا متروک قرار دینا ہی گویا اس نظریے سے انحراف ٹھہرا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ یہ خیال ایک اور نظم ’نمودِصبح‘ میں بخوبی ادا ہو گیا تھا اس لیے اقبال نے ’نیا شوالہ‘ میں اُن کی شمولیت ضروری نہیں سمجھی۔ وہ اس خیال سے منحرف نہیں ہوئے تھے۔ نہ ہو سکتے تھے جیسا کہ ۱۹۱۳ء کی درج بالا تقریر سے ثابت ہے۔ اصل مسئلہ ملکی حیثیت تھی جہاں کل کے حاکم و محکوم یکساں طور پر سیاسی و مذہبی‘ مشکلات کا شکار تھے۔ ’نیا شوالہ‘ ان مشکلات ہی کے حل کی سبیل تھی۔ اقبال نے خاکِ وطن کے اسی تقدس کی طرف ہندو کو متوجہ کیا تھا جس سے وہ بت بنے تھے جن کی پرستش میں ہندو طاق تھا۔ اقبال نے بت پرستوں کو خاک وطن کے تحفظ کے لیے یہ نکتہ سمجھانا چاہا تھا کہ یہ تقدس اُسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب یہاں کے سارے باشندے اپنے اجتماعی تحفظ کے لیے ہندستان کے تحفظ کو ضروری سمجھنے لگیں۔ اور اُس کا ایک ہی گُر ہے اور وہ یہ کہ ہندستان میں ایسی پرِیت کی فضا پیدا کی جائے کہ ہوا ناقوس و اذان کو یکساں طور پر برداشت کرنے کی صلاحیت پا لے۔ جب یہ فضا قائم ہو گی تو باہمی مذہبی مناقشت جاتی رہے گی۔ سب کے سب غیریت کے پردے اٹھا کر‘ شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں گے تاکہ ہندستان کی انوپ صورت مورتی کا تحفظ کیا جائے اور اس تیرتھ کو تمام تیرتھوں سے بلند رکھتے ہوئے اس کا کلس آسمان سے ملا دیا جائے۔ یہی وہ پریت کی مے ہے جو تمام اقوامِ ہند کو تحفظِ ہند کے میٹھے منترمل کر گانے پر مجبور کر سکتی ہے۔ نظم ’نمودِ صبح‘ مطبوعہ مخزن جون ۱۹۱۰ء ان مطالب کی تائید کرتی ہے : مطلعِ خورشید میں مضمر ہے یوں مضمونِ صبح جیسے خلوت گاہِ مینا میں شرابِ خوش گوار ہے تہہ دامانِ باد اختلاط انگیز صبح شورش ناقوس آواز اذاں سے ہم کنار جاگے کوئل کی اذاں سے طائران نغمہ سنج ہے ترنم ریز قانونِ سحر کا تار تار ۳۷؎ ’نیا شوالہ‘ اسی صبحِ آزادی کی نمود کا استعارہ تھا۔ نمود صبح کی مسرت آفرینی اس مضمون میں ہے کہ اس کی ہوا اختلاط انگیز ہے۔ جس کے دامن میں شورش ناقوس اور آواز اذاں شورشِ ناقوس کو اوازۂ اذاں میں ملانا اور کوئی جدید نغمہ تیار کرنا مقصود نہ تھا جیسا کہ ڈاکٹر وحید قریشی کو وہم ہوا۔ بلکہ مقصود یہ تھا کہ فضا آواز اذاں اور شور ناقوس سے برابر گونجتی رہی ہے اور ایک آواز دوسری آواز کو دبانے کا نہ سوچے۔ اس کی مزید توضیح ’نمود صبح‘ کے درج بالا آخری شعر میں کر دی گئی ہے۔ جس طرح کوئل کی اذان سے سارے مرغانِ چمن نغمہ سنج ہو جاتے ہیں اور قانون سحر کا تار تار ترنم ریز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح انوپ صورت مورتی‘ ہندستان کی پریت ایسی عام ہو کہ آواز اذاں اور شورش ناقوس، اُس کے تحفظ میں ایک ہو جائے۔ کیا کوئل کی اذاں سے نوع بنوع مرغان نغمہ سنج کی ترنم ریزی میں ان طائران نغمہ سنج کا کوئل یا کوئل کا اپنے تشخص سے دست بردار ہو جانا بھی شامل ہوتا ہے؟ ظاہر ہے ہرگز نہیں۔ اندرین صورت ناقدینِ اقبال کے خیالات کو محض التباس ہی تسلیم کرنا پڑتا ہے جن کا فکر اقبال سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ اقبال دھرموں کو نہیں‘ دھرموں کے بکھیڑوں کو پریت کی نرگن اگنی میں جلانا چاہتے تھے۔۳۸؎ یہی وہ بکھیڑے تھے جو مذہبی منافرت کی آگ بھڑکا کر ملکی عروج کے لیے ہم نوا ہونے کی راہ میں حائل تھے۔ یہی مذہبی منافرت تھی جو واعظ کے وعظوں اور برہمن کے افسانوں کا اصل موضوع تھی۔ ان سے قطع نظر کرنا ہی‘ ’ہر دواردل‘ کی اس ویرانی کا علاج تھا جو مذہبی منافرت نے پھیلا رکھی تھی۔ یہ ’نیاشوالہ‘ دراصل ’ہردوار دل‘ میں قائم ہونا تھا جو ویران ہو چکا تھا اور اُس کی ویرانی پریت کی نرگن اگنی روشن کرکے ہی دور کی جا سکتی تھی۔ تاکہ اُس میں مذہبی تعصب کی ظلمت کا گزر ہی نہ ہو۔ بلکہ تمام ملتیں ہندستان کی حفاظت میں اس طرح ہم آواز ہو جائیں جس طرح ’’قانون‘‘ کے مختلف الآواز‘ تار‘ اپنے اپنے طبعی زیرو بم سے ایک ہی متحدہ لَے پیدا کرتے ہیں۔ ہندستان میں مکمل مذہبی آزادی سے اتحاد کی ایسی ہی لَے‘ ایسی صبح درخشاں کی نمود‘ اقبال کی آرزو تھی۔ ’شعاع اُمید‘ دور آخر کی نظم ہے۔ جس پر دور اول کی مفروضہ چھاپ لگانا ممکن نہیں۔ یہ نظم اسی قانون کے دو تاروں کے تشنۂ مضراب ہونے پر اظہار افسوس سے عبارت ہے۔ حالانکہ فطرت ہندستان کے دکھوں کے حل کے لیے ایسی ہی’نمودصبح‘ کا اشارہ کر رہی ہے۔ ملاحظہ ہو خاکِ ہند کا تقدس: خاور کی اُمیدوں کا یہی خاک ہے مرکز اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ خواب مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر فطرت کا اشارا ہے کہ ہر شب کو سحر کر ۳۹؎ اپنے اپنے معبدوں میں بے عملی کا شاہکار بن کر بیٹھنا اور اصل الاصول مذہب: توحید و وحدت سے غافل ہو جانا‘ شب غلامی کو تو سحر کرنے سے رہا۔ حالانکہ خاک ہند سے پورے ایشیا کی تقدیر وابستہ ہے لیکن بدنصیبی سے قانون ہند کے دو تار: ہندو مسلم‘ ایسے مضراب کو ترس رہے ہیں جس کی ضرب انھیں متحد الآواز کر دے۔ بصورتِ دیگر ہندستان کی شب غلامی کا سحر ہونا ممکن نہیں۔ کیا قانون کے تار جب بجتے ہیں اور مضراب اُس کی لَے کو ایک ہی ترنم میں پرو لیتا ہے تو اس میں ساز کے تاروں کا اپنی شخصی اور طبعی آواز سے دست بردار ہو جانا بھی شامل ہوتا ہے۔ یا یہ کہ مشترکہ مقصد کے لیے ہم آواز ہو جانے کے باوجود ہر تار کا ذاتی تشخص بہر حال قائم رہتا ہے۔ اقبال کے’نیا شوالہ‘ میں ’ آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملادیں‘ سے یہی مقصودتھا اور یہ فکر اتنی پختہ اور دیرپا تھی کہ ضرب کلیم بھی اُس سے خالی نہیں رہی۔ اس لیے کہ یہ بات پکی تھی کہ : ع دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے اور یہ پریت دھرموں (عناصر ترکیبی) کے بکھیڑے مٹانے سے عبارت تھی۔ یہی کچھ ہمالہ کی منظری دل کشی اور دیرینہ روزی کے نشان سے پاک جوانی کا راز تھا۔ یہی کچھ اقبال نے ’ترانہ ہندی‘ میں بیان کرنا چاہا۔ یہی ’نیا شوالہ‘ کا مقصود تھا۔ گویا اقبال روز اول ہی سے ہندستان کے عمرانی مسئلے کا حل ایسے اتحاد میں دیکھتے تھے جس میں متحدہ قوتیں‘ انفرادی اور اجتماعی تشخص میں مستحکم ہوں۔ یہ ایک ایسے جماعتی اتحاد کا تخیل تھا جس میں فرد و جماعت اور جماعت و جماعت کے باہمی تعلق کی بھر پور وضاحت موجود تھی اور اقبال کی زیرِ بحث نظموں کے اسی کردار کے حوالے سے پروفیسر حمید احمد خاں بہر حال راہِ صواب پر تھے: ان نظموں میں اقبال کی عظمت بظاہر ہندستان کے جغرافیے میں محدود معلوم ہوتی ہے مگر…اُن کا پس منظر ایک بے قیدِ مقام معنویت سے چمک رہا ہے۔ کہیں کوئی جھٹکا نہیں کوئی نا گہانی زلزلہ نہیں جو ہمیں ایک منزل سے گھسیٹ کر دوسری منزل میں لے جاتا ہو۔ اقبال نے ۱۹۰۵ء میں ’’سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ایک نیا لہجہ ہی اختیار نہیں کیا ‘ اجتماعی شعور کا وہ باب کھولا جو کچھ عرصہ پہلے بند تھا۔ ’نیا شوالہ‘ میں زندگی کی لرزش محسوس ہوتی ہے جو اعلان کرتی ہے کہ فرد کو جماعت میں ضم کرنے کے اس ابتدائی تجربے کے ذریعے اقبال نے اپنا مقصدِ زندگی پالیا۔ جس وقت شاعر کی روح اس نظم میں امڈ آئی تو زمانے نے دیکھ لیا کہ اُس کے دست و بازو میں ضربِ کلیم کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ ۴۰؎ حقیت یہ ہے کہ یہ’بے قید مقام معنویت‘ جو ’نیا شوالہ‘ کے پس منظر میں چمک رہی تھی‘ فکر اقبال اُس سے ’ہمالہ‘ ہی کے زمانے سے منور تھی۔ اسرار خودی فی الحقیقت‘ اُسی ’’عیش ِدوام‘‘ کے راز کی پردہ کشائی تھی جس نے عہد کہنُ کو ہمالہ کی عمرِ رفتہ کی اک آن بنا دیا تھا۔ اور اُس کی زمیں پیوستگی کو آسماں کی ہمسایگی دے رکھی تھی۔ سرِ عیشِ جاوداں خواہی‘ بیا ہم زمیں‘ ہم آسماں خواہی‘ بیا ۴۱؎ بس فرق اتنا تھا کہ یہ زمیں پیوست فلک رسی‘ جامد ہمالہ کے مقابلے میں شمشاد کی طرح ارتقا پذیر تھی : پا بہ گل مانند شمشادش کند دست و پا بندد کہ آزادش کند۴۲؎ زندہ ہر کثرت ز بندِ وحدت است وحدتِ مسلم ز دینِ فطرت است۴۳؎ لیکن یہ بھی نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ اقبال کبھی اس ’’یوسفِ مطلق کو مقید‘‘ کرنے کے روادار نہیں ہوئے۔ اسرار خودی بھی ہندو کو’نیا شوالہ‘ کی تعمیر کی دعوت سے خالی نہیں۔ وہ ہندو سے مخاطب ہوتے ہیں : تاشدی آوازۂ صحرا و دشت فکرِ بے باک تو از گردوں گذشت گفت شیخ اے طائرِ چرخ بلند اندکے عہدِ وفا با خاک بند مرد چوں شمع خودی اندر وجود از خیالِ آسماں پیما‘ چہ سود من نگویم از بتاں بیزار شو کافری‘ شائستۂ زنار شو گر ز جمعیت حیاتِ ملت است کفر ہم سرمایۂ جمعیت است تو کہ ہم در کافری کامل نہ ای در خورِ طوفِ حریم دل نہ ای ماندہ ایم از جادۂ تسلیم دور تو ز آزر من ز ابراہیم دور اے امانت دار تہذیبِ کہن پشتِ پا بر مسلک آبا مزن از گِل خود آدمے تعمیر کن بہر آدم‘ عالمے تعمیر کن ۴۴؎ مثنوی اسرار خودی کا یہ انتخاب‘ ڈاکٹر سنہا اور وحید قریشی کے ہر الزام کا شافی جواب ہے۔ ’’من نگویم از بتاں بیزار شو‘‘ یعنی اقبال نہ تو ہندو کی بت پرستی کا مخالف ہے نہ اسے ترک بت پرستی کی تعلیم دیتا ہے۔ اُن کی نگاہ تو ’’بہر آدم عالمے تعمیر کن ‘‘ پر ہے۔ وہ ’نیا شوالہ‘ جو ہندو مسلم اتحاد کی صورت میں تعمیر ہو سکتا ہے‘ جو ہندومت کی روایت ہے۔ لیکن ہندو تہذیب کہن کا امانت دار ہونے کے دعوے کے ساتھ اپنے اس آبائی مسلک: مذہبی رواداری سے منہ موڑ چکا ہے۔ ’نیا شوالہ‘ میں غیریت کے پردے اٹھا کر نقش دوئی مٹا نے سے یہی مراد تھی۔ ہندو اپنے فلسفے پر تو نازاں تھا مگر اُس خیال آسماں پیما کا کیا فائدہ‘جو بر سرِ زمین قیام سے نا آشنا ہو۔ ’’اندکے عہد وفا با خاک بند‘‘ اور یہی مفہوم تھا ’’خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے‘‘ کا۔ اقبال خاک وطن کے تقدس سے کب محروم رہا۔ وہ تو جاوید نامہ میں بھی ہندستان کے غداروں کے دردناک انجام سے غافل نہیں رہا۔ ہندستان کو انھوں نے’’حورے پاک زاد‘‘ کہا ہے اور’’با چنیں خوبی نصیبش طوق و بند‘‘ کا سبب ‘ ’’ہندیاں بیگانہ از ناموس ہند‘‘ بتایا ہے۔ ۴۵؎ پس’انوپ صورت مورتی‘ کو ’ہردوار دل‘ میں سجانا‘ اور مندر (روح کے شوالہ) میں پجاریوں کا آواز اذان کو شورش ناقوس میں ملاتے ہوئے آنا‘ دراصل اسی ’’ناموس ہند‘‘ کے تحفظ کی طرف متوجہ کرانا تھا۔ مگر نفرت نے ہر دوار دل کو سُونا کر دیا تھا۔ ہندو ’طوف حریم دل‘ کے لائق ہی نہیں رہا تھا۔ وجہ اس کی ایک ہی تھی ’مغربی لادینی‘ جس نے مسلماں کو مسلمان‘ اور ہندو کو ہندو ہی نہ رہنے دیا تھا۔ صرف تعصب کی آگ کا نام ناموس مذہب و وطن کی حفاظت ٹھہرا تھا : ماندہ ایم از جادۂ تسلیم دور تو ز آزر من ز ابراہیم دور ۴۶؎ چنانچہ جب عناصر ترکیبی اپنی اپنی تقدیر سے غافل ہو گئے تو ہمالہ کی وہ خوش منظری‘ وہ عیشِ دوام‘ وہ پا بہ گل فلک ہمسایگی‘ کہاں سے آتی۔ ’’کثرت میں وحدت‘‘ عناصر کے اپنی تقدیر میں کمال استغراق کے بغیر ہاتھ نہ آ سکتی ہے نہ آتی ہے‘ اور ہندستان کا اصل مسئلہ ہی یہ تھا۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۹۳۲ء کے صدارتی خطبے میں اقبال نے اس کا ذکر بھی کر دیا تھا : قدیم ہندی مفکرین کا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح وحدت‘ اپنی وحدت کو نقصان پہنچائے بغیر کثرت میں بٹ گئی۔ مگر آج یہ مسئلہ‘ ہمارے سیاسی مسائل کے حوالے سے بالکل برعکس ہے‘ ہمیں یہ حل نکالنا ہے کہ کثرت کو بغیر کسی نقصان کے کیسے وحدت آشنا کیا جائے۔ ۴۷؎ اقبال نے ’ہمالہ‘ کی ’بازی گاہ عناصر‘ کا راز‘ بہت پہلے جان لیا تھا ’’دل سمجھتا ہے تری آواز کو‘‘ ہندستان میں ہمالہ جیسا خوش منظر نیا شوالہ تبھی تعمیر ہو سکتا تھا جب اس کے تشکیلی عناصر‘ اپنی اپنی اجتماعی تقدیر‘ میں کمال استغراق سے عہدہ بر آ ہو جائیں اور یہاں یہ حال کہ ہندو‘ آزری میں اور مسلمان براہیمی میں کامل نہ تھا‘ ورنہ یہ اتحاد نا ممکن نہ تھا۔ حیاتِ ملی کا راز ہر قوم کی خود اختیار کردہ اجتماعی تقدیر میں کمال استغراق (عشق) میں مضمرہے۔ اس ضمن میں کفر و اسلام کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ کافری ہو یا اسلا م بہرحال سرمایۂ جمعیت بن سکتی ہے۔۴۸ ؎ اور ان جمعیتوں کے اتحاد کے لیے کسی مشترکہ غرض‘ چاہے وہ مادی ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ ’’ہندستان کی آزادی‘‘ اہل ہند کا مشترکہ مقصد تھا‘ کی ضرورت تھی۔ لیکن جب دونوں ملتیں صرف زبانی کلامی دعووں پر زندہ تھیں تو ایسے اتحاد کا امکان کب تھا۔ ۴۹؎ ایسے میں کسی بھی اتحاد کی کوشش‘ کمزور اقلیتوں کے اجتماعی تشخص کے لیے سم قاتل ہوتی ہے۔ سر سید احمد خان مرحوم نے یہ حقیقت جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ۱۸۸۳ء میں لیبحس لیٹو کونسل کی وساطت سے بیاں کر دی تھی۔ چنانچہ ’نیا شوالہ‘ کی تعمیر کے لیے ضروری تھا کہ ہر دو اقوام اپنا اجتماعی تشخص الگ الگ قائم کریں۔ یہ اقبال کی فکر کا انحرافی زاویہ نہ تھا بلکہ اسی فکر کا تسلسل تھا۔ اور اس سلسلے کی کڑیاں اقبال کے دم واپسیں تک جاتی ہیں۔ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۹ء کو اقبال نے برکت علی اسلامیہ ہال کے جلسے میں آیندہ گول میز کانفرنس میں جانے سے پہلے جن ضروری اقدامات کی طرف متوجہ کیا تھا اُن میں سے ایک بنیادی ضرورت یہی تھی: انگلستان متحد ہو گا‘ ہندستان کو بھی متحد ہونا چاہیے اور متحدہ ہندستان کو انگلستان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ پہلے مسلمان آپس میں اتحاد کریں پھر ہندو مسلم اتحاد ہو گا۔ ۵۰؎ حقیقت یہ ہے کہ اسی ایک ضرورت کا فقدان ہی گول میز کانفرنس کی ناکامی کا اصل سبب تھا۔ ۱۹۰۶ء میں اقبال نے اسی ضرورت کا احساس دلایا تھا۔ اُن کی دو نظمیں ’چاند اور تارے‘ اور ’ستارہ‘ اس تصور کے بنیادی حوالے ہیںاور نظم ’دو ستارے‘ اس کا کھلا اعلان۔ اپریل ۱۹۰۶ء کے شمارۂ مخزن میں اقبال کی جو غزل شائع ہوئی وہ ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے لیے ’رنگ و بو کے پیمان‘ کی شرط رکھتی تھی : ریاضِ ہستی کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا حقیقت گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا ۵۱؎ ’حقیقت گل‘ رنگ و بو کا پیماں ہے۔ ظاہر ہے اس پیمانِ رفاقت میں رنگ یا بو کے شخصی زیاں کا تصور موجود نہیں۔ مخزن نومبر ۱۹۰۶ء میں اقبال کی نظم ’چاند اور تارے‘ شائع ہوئی۔ جس میں چاند‘ تاروں کے اس استفسار کے جواب میں کہ : ہو گا کبھی ختم یہ سفر کیا منزل کبھی آئے گی نظر کیا؟ ۵۲؎ بتاتا ہے: ع اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو! (معروضی حالات میں اس سے بہتر استعارہ کہاں ممکن تھا) زندگی مسلسل سفر کا نام ہے اس راہ میں مقام، بے محل ہے۔ جو رکا‘ کچلا گیا۔ کیونکہ قرار میں اجل پوشیدہ ہے۔ نظم ’ستارہ‘ میں‘ جو ارشاد ہوتا ہے علم نجوم میں ہم قِران‘ ستاروں کے نظرات کا اصول اس کی تائید کرتا ہے : چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے جو اوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے ۵۳؎ مگر نظم ’دو ستارے‘ ایک ہی قران میں تقدیراً جمع ہو جانے والے دو ستاروں کے اس خواب کو کہ یہ وصل‘ وصلِ مدام ٹھہرے اس ’انجام خرام‘ کو غیر فطری بتاتی ہے‘ وصال کی یہی تمنا پیغام فراق تھی۔ کیونکہ یہ فطرت کا اٹل اصول ہے : گردش تاروں کا ہے مقدر ہر ایک کی راہ ہے مقرر ہے خواب‘ ثباتِ آشنائی آئین جہاں کا ہے جدائی ۵۴؎ یہ کھلے اعلانات دراصل ۱۹۰۶ء کے شملہ وفد کی طرف سے وائسراے کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کامیابی کا نتیجہ تھے کہ : مسلمانان ہند کو محض ایک اقلیت نہ گردانا جائے بلکہ قوم کے اندر قوم سمجھا جائے جس کے حقوق اور ذمہ داری کا تحفظ دستور کے اندر ہو ۔۵۵؎ اقبال کا ’نیا شوالہ‘ بھی تو ہندو سے یہی مطالبہ کرتا تھا کہ مسلمانوں کو اُمۃ مع الھنود‘ تسلیم کر لیا جائے۔ چونکہ یہی اقبال کی آرزو تھی اس لیے اس خبر نے جہاں انھیں اُس دردِ محرومی سے نجات دلا دی جو ’کسی محرم‘ کے نہ ملنے کی وجہ سے تھا بلکہ اب انھیں اپنی ’فکر‘ عام کرنے کے مواقع کی توقع بھی بندھی۔ چنانچہ‘ ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ کے تحتِ عنوان‘ ’زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا‘ کے شادیانے کے ساتھ اقبال نے یہ گجر بھی بجانے میں تامل نہ کیا کہ اب مغربی نظریۂ قومیت کا شیرازہ بکھر کر رہے گا : تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پایدار ہو گا ۵۶؎ اب اقبال کو رازداروں کی کمی کی شکایت نہ رہی تھی۔ اور اُن کے افکار کو سمجھنے والوں کی ایک جماعت اسی مرکز سے طلوع ہو چکی تھی جسے سید احمد خاں نے قائم کیا تھا۔ نظم ’وصال‘ اسی مسرت کی آئینہ دار تھی : اب تأثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں اہل گلشن پر گراں‘ میری غزل خوانی نہیں ۵۷؎ اس شعر کے ہوتے ہوئے اس نظم کو کسی اور ’اِس یا اُس واقعہ‘ سے منسوب کرنا‘ حقائق کو جھٹلانا ہے۔ یوں اقبال نے’ہمالہ‘ پر طور کے حوالے سے جو خواب دیکھا تھا‘ اب وہ اُس کی تعبیر کے لیے کوشاں ہوگئے۔ یہاں تک کہ خود مسلم لیگی رہنما بھی جہاں’’رکے‘‘ اقبال کی بانگ درا انھیں ایک بار پھر ’جادہ پیما‘ کرنے کے کام آئی۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اقبال ’’ہندستان کی حیثیت‘‘ سے کبھی غافل نہیں رہے۔اپنے مشہور خطبۂ الہٰ آباد ۱۹۳۰ء میں جو بات انھوں نے کہی، وہی بات موت سے کچھ دن پہلے ’سید حسین احمد مدنی‘ کے جواب میں دہرائی۔ وہ یہ بات اول روز سے کہتے چلے آئے تھے۔ ’نیاشوالہ‘ اسی مطالبے سے عبارت تھا۔ (ملت کا دفاع اور ہندستان کی آزادی کے لیے اتحاد) : اگر فرقہ وارانہ اُمور کے ایک مستقل تصفیے کے لیے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانانِ ہند کو اپنی روایات و تمدن کے ماتحت اس ملک میں آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ ۵۸؎ لیکن ’’آزادی ہند‘‘ اگرمسلم تشخص کی موت پر حاصل ہو تو مسلمان اس آزادی پر ہزار بار لعنت بھیجتے ہیں: مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی کے بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں (جیسا کہ نیشنلسٹ مسلمانوں کا مقصد ہے) بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقت ور بن جائے۔ اس لیے مسلمان کسی ایسی حکومت کے قیام میں مددگار نہیں ہو سکتا ، جس کی بنیادیں انھیں اصولوں (لادینی نظریۂ مرکزیت وطن) پر ہوں جن پر انگریزی حکومت قائم ہے … مسلمان ایسی آزادیِ وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا، سب کچھ حرام ہے۔۵۹؎ ہندستان کی جدوجہدِ آزادی کی تاریخ گواہ ہے اور متونِ اقبال اس کا منہ بولتا ثبوت، کہ نظم ’ہمالہ‘ سے محمد علی جناح کے نام اقبال کے زمانۂ آخر کے خطوط تک، فکر اقبال کا محوری نقطہ، ہندستان کے اند ر ایک ایسی پر امن فضا کا حصول رہا جس میں ہندستان کی آزاد ی اور اقوام ہند کے انفرادی اجتماعی تشخص کا تحفظ یکساں اہمیت رکھتے تھے بلکہ آزادی سے بھی ان کی مراد انفرادی اجتماعی تشخص کا تحفظ تھا۔ رائل کمیشن کے مقاطعۂ تعاون، کے حوالے سے پنجاب پراونشل لیگ کے ترجمان کی حیثیت میں اپنے بیان مطبوعہ انقلاب ۱۸ نومبر ۱۹۲۷ء میں اقبال نے دو ٹوک لفظوں میں واضح کیا تھا: ا س ملک کی قلیل التعداد جماعتوں کو رائل کمیشن کی آمد سے بڑھ کر اپنے اندیشے اپنی امیدیں اور اپنے مقاصد ظاہر کرنے کا کوئی اور موقع نہیں مل سکتا۔ میری راے میں اُن کا مقصد یہ ہے کہ اپنی اپنی تہذیبوں کے مطابق نشوو ارتقا حاصل کریں۔ یہ مقصد پورا ہونا چاہیے خواہ مغرب کے دستوری اصول سے حاصل ہو یا کسی دوسرے ذریعے سے جووقت کے مطابق ہو اور لوگوں کی ضرورت پوری کرے۔ ۶۰؎ ’نیا شوالہ‘ اسی آرزو، اسی مقصد اور ایسے ہی جدید معاشرتی نظام کی علامت تھا۔ جب وقت کے مطابق اس ضرورت کی تکمیل تقسیم ہند ہی کی صورت میں ناگزیر ہو گئی اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو دنیا کے نقشے پر جو نقشِ سبز ابھرا وہ اقبال ہی کے اسی تخیل کی تعبیر تھا۔ وہ ’نیا شوالہ ‘ جہاں اکثریت، اقلیت کے تمام مفادات کی محافظ ہے۔ کیا پاکستان کی اقلیتوں کو، مکمل مذہبی آزادی دیے بغیر پاکستان کے جغرافیائی استحکام کا پاس دار بنایا جا سکتا ہے؟ اور آیا مکمل مذہبی آزادی کی شرط پوری ہونے کے بعد کسی اقلیت کو بحیثیت جماعت یا ان کے کسی نمایندے کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے جغرافیائی تقدس سے غافل ہو جائے؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں، تو کیوں؟ کیا اس کی دلیل اس کے علاوہ کوئی اور ہے کہ اب پاکستان اور کسی بھی پاکستانی ملت کے درمیان کوئی مغایرت نہیں رہی اور دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہو گئے ہیں ۔ بلکہ اب تو معاملات اس سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں جدا گانہ انتخابات کا اہتمام بھی کر لیا گیا ہے جو مفکر پاکستان کے نزدیک مغربی نظریۂ قومیت سے متناقض نہیں ہے۔ ۶۱؎ کیا اب بھی اقبا ل کے ’نیا شوالہ‘ کے ناقدین اس الزام میں حق بجانب ہیں کہ ’’علامہ اقبال نے پہلی بار مغربی قومیت کو تہذیبی بنیاد فراہم کر دی۔ اُن کی فکری نہج کا یہ روپ جغرافیائی حدود کو تقدس اور پرستش کا رنگ دے دیتا ہے اور خاک وطن ایک مشترکہ دیوتا کی شکل میں ابھرتی ہے‘‘۔ ۶۲؎ ________________ حوالے و حواشی ۱۔ International Encyclopedea of Social Sciences (Nation)،جلد دوم، ص ۸ ۲۔ موسیو لی بان، کی یہ راے حقائق کے کتنے برعکس ہے، ہندو سماج کی ذات پات کے برعکس مسلم معاشرتی مساوات اور وحدت اس قبول اسلام کا سبب تھی نہ کہ یکسانی۔ اگر ایسا ہوتا تو مخلوط قومیت کی تشکیل میں وہ مشکلات کیوں پیش آتیں جو تمدن ہند کا حقیقی سببِ تصنیف ہیں اور جو انگریزوں کے تسلط کے استحکام میں اصلی رکاوٹ تھیں۔ ۳۔ تمدن ہند، ص ۱۲۱ ۴۔ ایضاً، ص ۲۳۴ ۵۔ ایضاً، ص ۱۱۹ ۶۔ مسئلہ قومیت (حاشیہ ) ،ص ۹۸، بحوالہ سوشل فلا سفیز ان کنفلیکٹ ص ۴۵۰ ۷۔ مجلہ فیض الاسلام، اقبال نمبر، ص ۱۰۵ ۸۔ تاریخ علی گڑھ تحریک، ص ۱۲۰ ۹۔ ایضاً، ص ۱۳۱ ۔ ۱۳۲ ۱۰۔ مقامات اقبال، ص ۶۰۵، ادب لطیف سال نامہ ۱۹۵۰ (اقبال کی شاعری کا پہلا دور) ص ۶۸ وغیرہ ۱۱۔ کلیات اقبال اردو، ص ۲۲ ۱۲۔ ایضاً، ص ۲۱ ۱۳۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۱۲۱ ۱۴۔ کلیات اقبال اردو، ص ۱۸۷ ۱۵۔ ایضاً، ص ۷۰۔۷۱ ۱۶۔ ایضاً ، ص ۴۲ ۱۷۔ ایضاً ، ص ۲۵ ۱۸۔ ایضاً ، ص ۸۳ ۱۹۔ ایضاً ، ص۱۵۹ ۲۰۔ ایضاً ، ص۸۳ ۲۱۔ ایضاً ، ص۱۵۹ ۲۲۔ نہرو رپورٹ نے اس امید پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پانی پھیر دیا تھا، مگر افسوس کہ کچھ نیشنلسٹ مسلمان تب بھی امۃ مع المومنین کا غلط استعمال روا سمجھتے رہے اور لطف یہ کہ تب بھی وہ مسلمانوں کے محافظ اور اسلام کے نام لیوا ہونے پر فخر کرتے رہے۔ ۲۳۔ کلیات اقبال اردو، ص ۷۳ ۲۴۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۱۶۹ نیز ص ۳۸۶، نمبر شمار ۱۴ ۲۵۔ ایضاً، ص ۱۶۸ ۲۶۔ سورۃ الدھر ۷۶ :۱، علامہ اقبال نے اپنی مثنوی اسرار ِخودی میں اس مطلب کو یوں واضح کیا ہے بود نقش ہستیم انگارئہ ناقبولے ناکسے ناکارۂ [ کلیات اقبالٖ، فارسی، ص ۱۰] ۲۷۔ مقالہ قومی زندگی [۱۹۰۴ئ] اور خطبہ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر [۱۹۱۰ئ] اسی مضمون سے عبارت ہیں اور دونوں مقالات کے مطالب میں بھی کوئی غیریت نہیں۔قومی زندگی، میں تمام عالمی اقوام کا ذکر کر کے لکھا… ’’اگرچہ یہ ساری قومیں، قومی زندگی کے اصل مفہوم کو ادا نہیں کرتیں ‘‘پھر مسلم قوم کو ’’خیر الامم‘‘ کہہ کر اس کے انتشار قومی کا رونا رویا ہے… ملتِ بیضا، میں اس خیرالامم کو حتمی، عمرانی حوالہ ثابت کیا ہے۔ ۲۸۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۸۳ ۲۹۔ اقبال اور پاکستانی قومیت، ص ۴۹ ۳۰۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۸۸ ۳۱۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۷۶، بحوالہ، اقبال (انگریزی) سچا نندا سنہا، ص ۱۹۴ ۳۲۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۴۳ ۳۳۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۴۹ ۳۴۔ ایضاً، ص ۵۵ ۳۵۔ اقبال بنام شاد (مقدمہ) ص ۴۰ مرتبہ: محمد عبداللہ قریشی ۳۶۔ ایضاً، ص ۴۱ ۳۷۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۱۵۴ ۳۸۔ دھرم، ہندو روایت کی ایک جامع اصطلاح ہے جس کا ترجمہ کسی اور زبان میں کرنا بہت مشکل ہے… دھرم کی اصطلاح انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کومحیط ہے … [ یہ اجتماع کے مقاصد چہار گانہ میں سے پہلامقصد ہے یعنی اصولوں پر مبنی انفرادی اور اجتماعی زندگی] لیکن بدھ مت میں یہ ایک مخصوص معنی جس میں کہ وہ بدھ فلسفہ میں استعمال ہوئی ہے، اجزاے وجود، کے ہیں… [ ملاخطہ ہو عماد الحسن آزاد فاروقی کا مقالہ پی ایچ ڈی: دنیا کے بڑے مذہب، ص ۵۱،ص ۱۲۲ کا حاشیہ نمبر ۲۸] گویا علامہ نے مذاہب کو جلانے مٹانے کی بات نہیں کی بلکہ جسد قومی کے اجزا کے بکھیڑے، نرگن: غیرصفاتی، اگنی میں جلانے کو کہا ہے۔ جس کا واضح مطلب___ بکھیڑے___ سے بچنا اور وطن کی خاطر ایک ہو جانا ہے ۔ پریت___ وہ محبت ہے جو کائنات کے ذرے ذرے میں موج زن ہے۔ کہ یہی دھرتی کے باسیوں کی نجات کا ذریعہ ہے۔ ۳۹۔ کلیات اقبال ،اردو، ص ۵۷۱ ۴۰۔ اقبال کی شخصیت اور شاعری، ص ۴۹۔۷۰ ۴۱۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۸ ۴۲۔ ایضاً، ص ۸۷ ۴۳۔ ایضاً، ص ۱۰۲ ۴۴۔ اقبال بنام شاد، ص ۸۳۔۸۴ ۴۵۔ کلیات اقبال فارسی، ص ۷۳۱۔ ۷۳۲ ۴۶۔ ایضاً، ص ۵۹ ۴۷۔ Thoughts and Reflection of Iqbal ،ص ۱۹۷ ۴۸۔ اس کی تفصیل کے لیے عمرانیات کے نام ور عالم، علامہ ابن خلدون کے مقدمے کا یہ اقتباس شاید مفید رہے: انسانی حیات ان اصول وقواعد سے بھی قائم رہتی ہے، جن کو حاکمِ وقت خود وضع کر لیتا ہے، اور عصبیت کی قوت کے بل پر انھیںلوگوں میں جاری کردیتا ہے، اور اپنے خود ساختہ قوانین پر انھیں چلاتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں اہل کتاب اور انبیا کو ماننے والے تھوڑے ہیں اور مشرک جن کے پاس کتاب نہیں، بہت ہیں، اور ساتھ ہی ان کی بڑی بڑی حکومتیں بھی ہیں اور عظیم آثاربھی۔ زندگی اور وجود کا تو ذکر ہی کیا، اس زمانے میں بھی اقاینم منحرفہ (شمال وجنوب ) میں ان کی حکومتیں موجود ہیں حالانکہ وہ نبوت سے آزاد ہیں، اور کسی نبی ؑ کو نہیں مانتے اور اسے ممتنع سمجھتے ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وجوبِ نبوت پر حکما کی یہ عقلی دلیل غلط ہے کیونکہ عقلی رو سے یہ دلیل نبوت کی مقتضی نہیں۔ اس لیے ضرورت نبوت پر دلیل محض شرعی ہے جیسا کہ سلف کی راے ہے [ مقدمہ ابن خلدون، ص ۲۲۲] علامہ نے بھی ’کفر ہم سرمایہ جمعیت است، اسی حوالے سے کہا لیکن یہ حتمی بات نہیں اسلام دراصل ایسے ہی خود وضع کردہ نظامات کے روز افزوں نقائص کو رفع کرتا اور مسائل کا حل دیتا ہے۔ جیسا کہ متن میں خود اقبال کے حوالے سے معلوم ہوگا۔ ۴۹۔ اس ذیل میں شاہ مراد ]م:۱۷۰۲ئ[ کی ایک نظم کے دو شعردل چسپی سے خالی نہ ہوں گے۔ ملاں ہو کے علم نہ جانے، اچی بانگ سناون کیا بہمن ہو کے بید نہ جانے، متھے تِلک لگاون کیا جوگی ہو کے جگت نہ جانے، جھوٹے کن پڑواون کیا جس بیڑی وچ ونجھ نہ چپا، اس بیڑی چڑھ جاون کیا یہی مراد تھی اقبال کی ’’واعظ کے وعظ چھوڑے، چھوڑے تیرے فسانے ‘‘ سے ۔ ۵۰۔ گفتارِ اقبال، ص ۱۰۶ ۵۱۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۱۳۷ ۵۲۔ ایضاً، ص ۱۱۹ ۵۳۔ ایضاً ، ص ۱۴۷ ۵۴۔ ایضاً، ص ۱۴۸ ۵۵۔ برعظیم پاک وہند کی ملت اسلامیہ، ص ۳۰۹ ۵۶۔ کلیات اقبال اردو، ص ۱۴۱ ۵۷۔ ایضاً، ص ۱۲۰ ۵۸۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۱۶۹ ۵۹۔ مقالاتِ اقبال، ص ۲۷ ۶۰۔ اقبال ایوان اسمبلی میں، ص ۵۹ ۶۱۔ خطوط اقبال ص ۲۲۱ علامہ اقبال نے ایڈیٹر ہمدم، لکھنو کے نام اکتوبر ۱۹۳۲ء میں لکھا: ’’ مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ ابھی ایک عرصے تک مسلمانانِ ہند کا مستقبل جدا گانہ انتخابات سے وابستہ ہے۔ میرے نزدیک جداگانہ انتخاب قومیت کے مغربی تصور سے بھی (جو ایک روحانی بیماری ہے )متناقص نہیں اور اس کے باوجود ہندی اقوام میں اتحاد ویک جہتی پیدا ہو سکتی ہے‘‘۔ ۶۲۔ اقبال اور پاکستانی قومیت، ص ۴۹… حیرت اس پر ہے کہ یہی صاحب اس وقت بالکل خاموش رہے جب صرف قوم مسلم کے لیے تشکیل پانے والے پاکستان میں ان کے مربی نے اسلام پسندی کے بلند بانگ دعووں کی گونج میں اپنے مفروضہ اخلاقی تعمیر نو کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا: یہ دنیا صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بنی اس میں غیر ملکی رابرٹسن اور بھارت کے کرنیل سنگھ کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مسلمان کا۔ ہم ۳۰،۴۰، ۶۲ کے عشرے میں نہیں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ جب کہ ملک میں اخلاقی تعمیرنو کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں [نواے وقت ۲۰ فروری ۱۹۸۴ء جھلکیاں ] موجودہ فوجی جمہوریت اسی روشن خیالی کو تو آگے بڑھا رہی ہے پھر واویلا کیوں؟ ع اے بادِ صبا ایں ہمہ آوردۂ تست، خ خ خ اقبال کا تصورِ ملت اور آزادیِ ہند بظاہر یہ کہنا کسی انکشاف کے ذیل میں نہیں آئے گا کہ اقبال نے متحدہ قومیت کے لادین مغربی تصورِ وطنیت کے جواب میں ہندستان کے حقیقی اتحاد کے لیے اسلامی تصور ملت کو پیش کیا کیونکہ انھیں یقین کامل تھا: نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا ۱؎ لیکن مذہب کو فرقہ واریت سکھانے کا الزام دینے والے اور مذہبی فرقہ واریت کے دل دادہ دونوں ہی اس حقیقت کو نہ پا سکنے کے باعث اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ اقبال ۱۹۰۵ء تک متحدہ قومیت کے قائل تھے۔ا س بحث میں پڑنے سے پہلے یہ معلوم کر لینا ضروری ہے کہ متحدہ قومیت کی ضرورت کیوں پڑی اور اس کا مقصد و مفہوم کیا تھا؟ تاکہ اقبال کے تصورِ ملت کو سمجھنا آسان ہو جائے۔ یورپ میں کلیسا اور ریاست کے درمیان اختیار کی طویل تاریخی کش مکش کا آغاز گریگوری ہفتم ( ۱۰۷۲ء ۔ ۱۰۸۰ئ) نے شاہ ہنری ہفتم کی طرف سے کلیسائی رئیسوں کی تقرر کو کالعدم قرار دے کر کیا، جس کے نتیجے میں بالآخر کلیسائی مطلقیت کاخاتمہ ہوا اور اس کی جگہ ریاستی مطلقیت نے لی، ہمارے خیال میں کلیسائی مطلقیت اور ریاستی مطلقیت ایک ہی سکۂ الحاد کے دو رخ ہیں۔ کلیسائی مطلقیت آشوریوں کے ہاتھوں قومی تشخص سے محرومی سے قبل ہی روحِ مذہب سے بیگانہ تھی۔ نصرانی کلیسائیت کے خاتمے کے بعد بھی یورپ کی لا دین متحدہ قومیت کی اٹھان اسی روحِ مذہب سے بیگانگی کی بنیاد پر ہوئی۔ کلیسائی مطلقیت نہ سہی ریاستی مطلقیت سہی۔ اللہ کے ہاتھ تو پہلے بھی بندھے تھے ] یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌط۲؎ [ کلیسائی رئیس بطور نائبینِ حق حکمران تھے۔ اب کلیسائی خدائی کی جگہ جس ریاستی مطلقیت نے لی وہ بھی کوئی نئی شے نہ تھی وہ بھی عظیم رومن ایمپائر کے دستور کا اعادہ تھی آگستس ] ۶۳ق م [ کا یہی دستور تھا ’’ریاست کی حیثیت سے روما کی پرستش کی جائے‘‘۔ ۳؎ اس کے برعکس اسلامی تصور ملت نے کلیسائی مطلقیت کے یہودی اور نصرانی تصور اور ریاستی مطلقیت کے رومی تصور کی جڑیں ] اجتماعی مشاورت اور میثاقِ مدینہ کی تدوین سے [ اکھاڑ ڈالیں اور توحید مطلق کے صاف اور شفاف عقیدے پر وحدتِ آدم کی عمارت کھڑی کر کے اپنی آفاقیت اور عالم گیری کا ثبوت دیا۔ اسلام نے جو اجتماعی شورائی نظام پیش کیا اُس کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں پھیلتے گئے۔ مغرب میں کلیسائی مطلقیت کے خاتمے کی پہلی آواز سینٹ تھامس اکیوناس ] ۱۲۲۷ء تا ۱۲۷۴ئ[ نے اٹھائی۔ یہ اس دور کا کلیسائی مفکر ہے جب حجازی اسلامی اجتماعی شورائی نظام کی روشنی سپین کے راستے یورپ میں پھیل رہی تھی اس نے کہا ’’خدا قادر مطلق ہے اور تمام اختیارات کا سر چشمہ اُسی کی ذات ہے۔ خدا ہی تمام اختیارات عوام کو تفویض کرتا ہے اس لحاظ سے خدا مقتدرِ اعلیٰ اور عوام مقتدر ہیں عوام جسے چاہیں یہ اختیارات سونپ دیں‘‘۴؎ وائی کلف جسے مغربی دنیا بجا طور پر مطلعِ اصلاحات کا ستارۂ صبح کہتی ہے۵؎۔ اللہ کی حاکمیت کا زبردست داعی تھا مگر وہ انجیل ہی کو مذہبی عقائد اور عمل کا معیار یقین کرتا تھا کلیسا اُس کے نزدیک اللہ اور اُس کے بندوں کے درمیان پردہ بن گیا تھا۶؎۔ اس عظیم انسان نے انجیل کا ترجمہ کر کے اسے پہلی بار عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا مگر وہ ترجمہ ضبط کر لیا گیا۔ بعینہٖ شاہ ولی اللہ دہلوی کو فارسی ترجمۂ قرآن کے بعد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بہر حال یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ مغرب میں کلیسائی مطلقیت کے خاتمے کی تحریک اسلامی اجتماعی شورائیت سے مستفاد تھی۔ کلیسائی مطلقیت کے خاتمے کے بعد دو سوال پیدا ہونے لازمی تھے ایک یہ کہ کلیسا کے برخاست کیے جانے کے بعد مرکزیت کا حوالہ کیا ہو گا؟ اور دوسرا یہ کہ ریاستی ہیئت حاکمہ کی تشکیل کیسے ہو گی؟ پہلے سوال کا جواب وطن میں ڈھونڈا گیا یعنی جو مقام کلیسا کو حاصل تھا وہ وطن کو مل گیا۔ کلیسائی مطلقیت میں بھی اللہ بے دست و پاتھا اور ریاستی مطلقیت میں بھی بے دست و پا۔ البتہ اب کے کلیسائی اختیار، بے جان وطن کو الاٹ ہو گیا۔ اہل کلیسا نے اپنی ’’بے دخلی‘‘ کو ’خدا کی بے دخلی‘ سے تعبیر کیا اور اس نئے نظام کو ’لا دین‘ قرار دیا۔ حالانکہ دوسرے سوال کا جو جواب روسو ]۱۷۱۲ئ۔ ۱۷۷۸ئ[ نے تلاش کیا، وہ واضح طور پر بحوالہ میثاق، مدینۃ المنورہ کی دستوری اسلامی ریاست کا ماحصل تھا۔ وہ فرد اور جماعت کے تعلق کو سوشل کنٹریکٹ یعنی میثاق لکھتا ہے اور ریاستی ہیئت حاکمہ کے ذریعے تشکیل پانے والے معاشرتی ڈھانچے کو ’انجمن‘ سے تعبیر کرتا ہے اور یہی اس کے ’ارادۂ معتبر‘ کا معاشرتی جلوہ تھا جو اسلامی نظامِ مشاورت میں ’جمہور کی راے‘ سے مستفاد تھا۔ وہ لکھتا ہے: معاشرتی نظم و ضبط ایک مقدس حق ہے اور یہی دیگر تمام حقوق کی بنیاد ہے۔ مگر مسئلہ ہے ایک ایسی انجمن کا جو اپنی مجموعی طاقت کے ساتھ ہر شخص اور اس انجمن کے ہر رکن کی جان و مال کا مکمل تحفظ اور دفاع کرے اور اس طرح انجمن کے ہر رکن کی بھلائی کا پہلو پیدا کرے۔ اس انجمن کا ہر فرد دوسرے لوگوں کے ساتھ متحدہوتے ہوئے بھی صرف اپنی اطاعت کرے اور اتنا ہی آزاد ہو جتنا آزاد وہ پہلے تھا۔ ۷؎ روسو کا یہی تصور انجمن بالآخر جمہوری پارلیمانی نظام کے تحت قومی حکومتوں کے قیام کے کام آیا جن سے حاکم و محکوم دو الگ الگ قومیں نہ رہیں اور وہ وحشیانہ تفاوتِ مدارج مٹ گیا جس نے اس انقلاب کی راہ کھولی تھی۔ اب عوام ہی حاکم بھی تھے محکوم بھی، ہر فرد دوسرے لوگوں کے ساتھ متحد ہوتے ہوئے بھی آزاد تھا، اسی کا نام ’ متحدہ قومیت‘ تھا۔ اس قومی حکومت کا حوالہ چونکہ وطن تھا اور وہ بھی ریاستی مطلقیت کے حوالے سے عظیم رومن ایمپائر کے تخیل سے مستفید تھا لہٰذا قومی استحکام اور مادی تسخیرات خصوصاً سمندروں کی تسخیر سے یہ قومی حکومتیں عظیم رومن ایمپائر بننے کا خواب دیکھنے لگیں جس نے نو آبادتی نظام کو رواج دیا۔ اس نظام کا نشانہ بننے والوں میں سے ایک برعظیم ہند تھا، جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک سو سالہ حکومت نے برطانوی تاج کی صورت اختیار کی اور ’متحدہ قومیت‘ کے مغربی تصور کی بار آوری کے لیے آل انڈیا نیشنل کانگریس کا ڈول ڈالا۔ خ متحدہ قومیت اورسر سید احمد خاں مغربی اقوام چاہے کلیسائی دور سے متعلق ہوں چاہے قومی حکومتوں کے دور سے متعلق ہوں ذات و قبیلہ میں تو مختلف تھیں لیکن مذہباً ایک تھیں۔ اُنھیں جس طرح براے نام کلیسائی آسمانی نظام متحد رکھے ہوئے تھا اسی طرح بے خدا وطنیت اور قومی حکومت متحد رکھ سکتی تھی لیکن کثیر القومی ہندستان کی صورت ِحال یہ نہ تھی۔ یہاں قوم کا سیاسی مفہوم ذات قبیلہ پر نہیں مذہب پر قائم تھا۔ اس لحاظ سے ہندستان کی دو بڑی قومیں مسلمان اور ہندو کے لیے قوم کا کوئی ایسا مفہوم جو انھیں مذہب بالفاظِ دیگر قومی شناخت سے محروم کر دے، کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ نہ’ہندستان‘ نہ ’حکومت‘ انھیں ایسا کرنے پر مجبور کر سکتے تھے۔ نہ اس سے پہلے کر سکے تھے۔ سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ آنے والے مورخ البیرونی نے اپنے دس سالہ وسیع و عمیق مطالعے کے بعد اپنی تصنیف کتاب ہند میں لکھا: ہندو مسلمانوں کو ملیچھ (ناپاک) تصور کرتے ہیں اور ان کے قریب آنا اور انھیں چھونا بھی معیوب سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے مسلمان اور ہندو دو یک سر جداگانہ طبقوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں اگر یہی صورت رہی تو ان دونوں میں کبھی ربط و ضبط اور اتحاد و اتفاق قائم نہ ہوسکے گا۔ ۸؎ ہندستان میں بھگتی تحریک، نانک کی تحریکِ وحدت، اکبر کا مخلوط قومیت کا تصور، صوفیہ کا تصورِ وحدت الوجود اپنے اپنے وقتوں میں ’’ہند و مسلم‘‘ کو ایک کرنے کی اپنی سی کوششوں میں ناکام رہ چکے تھے۔ اس کے باوجود ماسواے عہدِ عالم گیری ، غزنوی سے بہادر شاہ ظفر تک کی ایک ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد ہر سطح پر قائم رہا۔ ہر بیرونی حملے کا مقابلہ دونوں قوموں نے ہندو مسلم رہ کر بھی، مل کر کیا اور کبھی اقتدار کی کش مکش نہیں ابھری۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد، کمپنی کے ایک سو سالہ حکومت کے نتیجے میں صرف اور صرف مسلم اتحاد میں رخنہ پڑا تھا جس کی تاریخ لکھنؤ کی دہلی سے بغاوت اور ایسٹ انڈیا کمپنی سے دوستی کے علاوہ ع جعفر از بنگال و صادق از دکن، تک پھیلی ہوئی ہے۔ مسلم اتحاد کی یہی شکست و ریخت ایسٹ انڈیا کمپنی کو برطانوی تاج میں بدلنے کے کام آئی اور اسی شکست و ریخت نے ہندو کو برطانوی تاج کے زیرِ سایہ ہندستان میں قومی حکومت کے نام سے راج کرنے کا حوصلہ دیا۔ ایک انگریز وکیل کی قائم کردہ آل انڈیا نیشنل کانگریس ہندو کو اسی حوالے سے عزیز تھی۔ سر سید احمد خاں مرحوم وہ واحد مفکر تھے جنھوں نے سب سے پہلے اس خطرے کی بُو سونگھی۔ ۱۸۸۳ء میں لیجس لیٹو کونسل (مجلس قانون ساز) میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے واضح کیا: ہمارا ملک ایک وسیع ملک ہے جس میں مختلف لوگ آباد ہیں جو نسل اور مذہبی تضادات کے باعث ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان میں ہم آہنگی کافقدان ہے۔ آبادی مختلف ثقافتی ترقی کے مختلف مدارج پر قائم ہے۔ جب تک ہندستان میں معاشرتی نظام کی بنیاد مذہب اور ذات رہیں گے۔ مغربی طرز کی انتخابی مشینری نہ ان میں مساوات پیدا کر سکتی ہے نہ اخوت، البتہ یہ زیادہ ترقی یافتہ طبقوں کو کم ترقی یافتہ اہلِ وطن کا مالک و آقا بنا دے گی ثقافتی اختلافات، ذات پات کے امتیازات اور مذہبی کش مکش ہمیشہ سے زیادہ نمایاں ہو جائے گی، عدم مساوات معاشرے کے ڈھانچے میں جڑ پکڑ جائے گی۔ ۹؎ ۱۸۸۸ء میں آل انڈیا نیشنل کانگریس کے نو منتخب مسلم صدر بدر الدین طیب کے نام اپنے مکتوب میں انھوں نے متنبہ کیا ’’میں نہیں سمجھتا نیشنل کانگریس کے الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندستان میں موجود مختلف ذاتوں اور مذاہب کا تعلق ایک قوم سے ہے اور ان کے اغراض و مقاصد یکساں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نا ممکن ہے۔ اگر یہ نا ممکن ہے تو نیشنل کانگریس قسم کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی اور نہ یہ بحیثیت مجموعی ہندستان کے لیے مفید ہو سکتی ہے‘‘ ۱۰؎ سید مرحوم کے ان خدشات کی حقیقت، کسی تجزیے کی محتاج نہیں مگر انھیں سمجھنے کے لیے برعظیم میں مغربی طرز کی متحدہ قومیت کے اغراض و مقاصد کا سرسری جائزہ لینا ضروری ہے۔ خ ہندستان میں متحدہ قومیت کے اغراض و مقاصد قوم کی تشکیل بہرحال کسی مشترکہ مقصد کے تحت ہوتی ہے مغرب میں متحدہ قومیت، نے کلیسائی اختیار کے خاتمے سے ذاتوں اور قبیلوں میں بٹی ہوئی قوم کو نہ صرف متحد کیا بلکہ حاکم و محکوم کی تمیز بھی مٹا دی۔ کیا ہندستان میں متحدہ قومیت، یا قومی حکومت کی تشکیل کے یہی مقاصد تھے؟ اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب پروفیسر سیلی کے اس بیان سے ملتا ہے جو متحدہ قومیت کے زبردست مؤید ہے، موسیولی بان نے اپنی تصنیف تمدنِ ہند میں نقل کیا ہے: جس روز ہند میں قومیت کا احساس پیدا ہونے لگا، وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور گویہ احساس اس حد تک نہ بھی بڑھے کہ غیر قوم کو عملی طور پر ملک سے باہر نکال دینے کا جوش پیدا کر سکے بلکہ اسی قدر خیال پیدا کر دے کہ غیر قوم کی اعانت شرم کی بات ہے تو اسی روز گویا ہماری حکومت ختم ہو جائے گی، کیونکہ ہماری فوج میں دو تہائی دیسی سپاہی ہیں۔ ۱۱؎ یہی نہیں خود موسیولی بان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی کامیابی کا راز اسی’قومی احساس‘ کے فقدان میں تلاش کیا۔ وہ لکھتے ہیں: انگریزی حکومت محض اس وجہ سے قوی اور انقلابات سے محفوظ رہی کہ ہند میں قومیت کا مطلق احساس نہیں ہے ۱۸۵۷ء کا غدر بالکل سپاہیوں کا بلوہ تھا جس کے اسباب فوجی شکایتیں تھیں، عام اقوامِ ہند نے اس میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ صرف معدودے چند یورپیوں نے خیر خواہ دیسی سپاہیوں (گورکھوں اور پنجاب کے سکھوں) کے مدد سے اس بلوے کو فرو کیا۔ ۱۲؎ ان دو مفکرینِ مغرب نے دو مختلف حوالوں سے ایک ہی بات کہی ہے۔ موسیولی بان، ایسٹ انڈیا کمپنی کی کامیابیوں کا راز قومی احساس کا فقدان بتا رہا ہے اور پروفیسر سیلی، ایسٹ انڈیا کمپنی کی کامیابیوں کے نتیجے میں قائم برطانوی راج کو متنبہ کر رہا ہے کہ ہند میں قومیت کا احساس، ان کی حکومت کے خاتمے کا پیغام ہو گا۔ اس صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’متحدہ قومیت‘‘ کے حوالے سے قومی حکومت کا خواب اور اس مقصد کے لیے آل انڈیا نیشنل کانگریس کا قیام کیا قومیت کا احساس پیدا کرنے کا ذریعہ ہو سکتے تھے؟ اور اگر ’تھے‘ تو اس قومیت کی حقیقت کیا تھی؟ ان سوالوں کا جواب موسیولی بان ہی کی زبانی: جس وقت دو قومیں ایسی ہوں کہ ایک دوسری کی محکوم ہو، اور جب ان اقوام میں زیادہ فرق نہ ہو تو ایک قوم دوسری قوم کی غلامی کو بآسانی قبول کر لیتی ہے مثلاً مسلمانوں کی حکومت ہندستان میں جہاں تقریباً پانچ کروڑ، ہندوؤں نے اسلام قبول کیا۔ برخلاف اس کے جب فاتح اور مفتوح میں فرق زیادہ ہو تو محکوم قوم آسانی سے غلامی نہیں قبول کر سکتی، یہ حال ہند میں انگریزی حکومت کا ہے۔ باوجود ڈیڑھ سو سال کے تسلط کے انگریزوں نے اس ملک کے باشندوں کو اپنی زبان اور اپنا مذہب سکھانے میں کامیابی حاصل نہیں کی حالانکہ اتصالِ قومی پیدا کرنے میں یہ دو بہت بڑے جزو ہیں۔ ۱۳؎ تمدنِ ہند میں اتصالِ قومی پیدا کرنے کے لیے بیان کیے گئے ان مذکورہ بالا افکار کو ملا کر پڑھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اتصالِ قومی پیدا کرنے کے لیے مفتوح اور محکوم قوم کو اپنی زبان اور مذہب بھول کر فاتح اور حاکم قوم کی زبان اور مذہب قبول کرنا لازم ہے اور ظاہر ہے کہ ہندستان میں فاتح اور حاکم قوم، ہونے کو تو عیسائی تھی مگر سیاسی سطح پر لا دین۔ اور یہی مذہب لا دین، محکوموں کو اپنانا تھا‘ جس سے بیک وقت دو مقاصد حاصل ہونے تھے۔ ۱۔ مفتوح قوم، فاتح قوم کی غلامی کو بآسانی قبول کر سکے گی اور ۲۔ مفتوح قوم میں وہ احساسِ قومیت بیدار نہ ہونے پائے گا جو بالآخر فاتح غیر قوم کی حکومت کو ختم کر سکے۔ یہ وہ مقاصد تھے جو متحدہ قومیت آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ذریعے قومی حکومت کے قیام سے حاصل کرنا چاہتی تھی۔ یعنی ہندی قومیت کے احساس سے محرومی اور انگریزوں کے اقتدار کا دوام۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو باہمی سر پھٹول۔ یعنی ۱۔ اگر آل انڈیا قومی کانگریس کے گرد کثیر القومی ہندستان جمع ہو گیا تو پھر ایک طرف حکمران قوم ہو گی تو دوسری طرف وہ محکوم قوم جس کی نہ اپنی زبان ہو گی نہ مذہب، جو احساسِ قومیت کے دو بڑے جزو ہیں۔ یوں محکوم قوم احساس قومیت سے محروم ہو کر حاکم قوم کی غلامی کو بآسانی قبول کر سکے گی۔ جو بلحاظِ ذات و قبیلہ تو ان سے مختلف ہو گی مگر بلحاظ لادینی ایک۔ یورپ میں کلیسائی مطلقیت کی برطرفی اور قومی حکومتوں کے قیام سے پہلے فرانس میں nationکا یہی مفہوم تھا۔ ۱۴؎ ۲۔ اور اگر کثیر القومی ہندستان اپنے مذہب اور زبان سے دست بردار ہونے کو تیار نہ ہوا تو ہندو مسلم افتراق (بحوالہ زبان اور مذہب) کی صورت میں باہمی سر پھٹول سے بھی قومیت کا وہ احساس بیدار ہونے نہ پائے گا جو غیر قوم کی غلامی کا جوا اتار پھینکنے کے لائق ہو سکے۔ دونوں صورتوں میں غلامی کی رات کا طویل تر ہونا ظاہر ہے۔ اور ہم واضح کر چکے ہیں کہ کثیر القومی ہندستان کی دو بڑی قومیں (ہندو، مسلم) اپنوں (بھگتی، نانک، اکبر) کی تحریکوں سے بھی مذہبی تشخص سے دست بردار نہ ہو سکی تھیں تو غیر قوم انھیں ایسا کرنے پر کب راضی کر سکتی تھی۔ لہٰذا قومی حکومت کا دوسرا مقصد ہی پھلا پُھولا۔ پہلے زبان کا مسئلہ کھڑا ہوا پھر مذہبی آویزش نے سر اُٹھایا۔ حالانکہ اتصال قومی کے یہی دو بڑے جزو تھے، اور وہی سر پھٹول کا باعث بن گئے۔ یہ تھی لڑاؤ اور حکومت کرو کی وہ پالیسی جو آل انڈیا کانگریس کے سہارے بار آور ہوئی۔ سید احمد خاں نے روزِ اول سے اس کی طرف توجہ دلائی تھی اور اقبال نے پہلے ہی دن سے ’’مذہب وجہِ نزاع نہیں‘‘ کا اعلان کیا، مگر بد قسمتی سے بعض مسلم مذہبی پیشوا، لڑاؤ اور حکومت کرو، کی انگریز پالیسی سے واقف ہوتے ہوئے، اس بیماری کا علاج عطار کے اُسی لونڈے: آل انڈیا نیشنل کانگریس کے گرد جمع ہو کر حاصل کرنا چاہتے تھے جو اس بیماری کا مبدا و منشا تھی۔ ہزار نکتۂ باریک ترز مواین جاست نہ ہر کہ سر بتر اشد قلندری داند۱۵؎ ۳۔ ذرا اور گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو قومی حکومت کے جمہوری پارلیمانی نظام پر مبنی متحدہ قومیت بھی حاکم اور محکوم کے حوالے سے دو قومی نظریہ تھی۔ حالانکہ یورپ میں اسی متحدہ قومیت نے حاکم و محکوم کے دو قومی نظریے کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ یورپ کی نجات کا یہ پیغام، اسلامی تصورِ ملت سے مستفاد تھا۔ وہ قوم جس کی روحِ مذہب یورپ کی نجات دہندہ تھی کیا وہ متحدہ قومیت کے اس دو قومی نظریے کو قبول کر لے؟ اقبال کا تصورِ اتحاد، اسی سوال کا جواب تھا۔ لیکن کانگریس، غیر قوم کی تولیّت پر توراضی تھی مگر مسلم قومیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھی، جب کہ اقبال کا دو قومی نظریہ، ہندو اور مسلم ، دو قوموں کو تسلیم کر کے، انگریز کو تسلیم نہ کرتا تھا ہاں اقبال کے نزدیک اس کی تولیّت کو ایک خاص عرصے تک تو برداشت کیا جا سکتا تھا، ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اقبال کی نظم ’ہمالہ‘ فطری آزادی کے حوالے سے اسی اتحاد کا تکوینی حوالہ تھی تو نظم ’نیا شوالہ‘ برسرِ زمین اس تکوینی حقیقت کی عملی تشکیل کا علامتی اظہار یا پیش کش۔ جو بالآخر شہر مرغدین کی تلاش تک جا نکلا۔ اس اجمال کی تفصیل کی خاطر ۱۹۰۰ء تک اقبال کے افکار کا سرسری جائزہ لینا ضروری ہے۔ اقبال جب بغرضِ تعلیم (۱۸۹۳ئ) لاہور پہنچے تو انٹرمیڈیٹ سال اول کے ایک طالب علم غلام بھیک نیرنگ سے تبادلۂ کلام ہوا، اس پہلی معلوم غزل کے دو شعر نوجوان اقبال کی ذہنی اور نفسیاتی ساخت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ شورشِ قَالُوْبلٰی اٹھی جہاں صبحِ اَلَسْت دل اسی مے خانے کا ٹوٹا ہوا پیمانہ ہے اڑ کے اے اقبال سوے بزمِ یثرب جائے گا روح کا طائر عرب کی شمع کا پروانہ ہے ۱۶؎ ۱۹۰۰ء تک انجمن کشمیری مسلمانان لاہور، میں پڑھی گئی، اقبال کی نظمیں، چند قطعات (فروری ۱۸۸۶ئ) دو ایک غزلیات اور ۱۸۹۸ء کی ایک منسوخ غزل ۱۷؎اور ۱۹۰۰ء کی نظم ’نالۂ یتیم‘ خصوصی تذکرے کا حق رکھتی ہے۔ نوجوانی کے اس جذباتی دور کے مختصر سے سرمایے میں بھی، اخوت، اتحاد، آزادی، تعلیم و ترقی کی خواہش اور اس کی روشنی کو دوسروں تک پھیلانے کی آرزو، مے خانۂ الست کے پیمانِ اوّل کا ٹوٹا ہوا پیمانہ ہونے کا احساس، آدم کی جنتِ گم گشتہ کا وارث ہونے کا دعویٰ، کلیم کے ذوقِ تکلم اور جوابِ لن ترانی کے مقابلے میں رنگِ او ادنیٰ میں ڈوب کر بھی مَا عَرَ فْنَا کی حقیقت کا اشتیاق اور اس پر اظہارِ فخر۔ پنڈت کہلانے پر بت پرستی کے ایام کی یاد پر ندامت کا جذبہ اور اسی ذیل میں اڑ کر بزمِ عرب تک پہنچنے اور روح کے طائر کے شمعِ عرب کا پروانہ ہونے کا اعلان۔ ایسے عناصر ہیں جنھیں فکرِ اقبال اور اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیری مسلمانانِ لاہور، کی انجمن کو اخوت کا در مطلوب کہنا۔ انجمنِ حمایت اسلام کی وسعتوں میں پہنچ کر صاحبِ اوادنیٰ کی زبانی ’’ہم مسلمانوںسے غیرت میں کوئی بڑھ کر نہیں‘‘ کا بیان، اقبال کی قوتِ ایمانی کی خبر دیتا ہے۔ یہ نظم (نالۂ یتیم ۱۹۰۰ئ) ہر چند کہ یتیموں کے لیے چندہ طلب کرنے کا ذریعہ تھی مگر اس میں مذکور اتحاد و اتفاق اور باہمی اخوت و حمیت، کے دُرِ مطلوب تک پہنچنا ضروری ہے۔ خصوصاً وہ بند توجہ طلب ہے جس میں زندگی کے بحر کا قیام، جز رومدِ اُمید، قرار پاتا ہے۔ اور نورِ الفت سے ضیایاب ہونے کے بعد ابرِ تغیر کے طوفان ستم کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ زندگی کے لیے ’’نورِ الفت‘‘ اور ابرِ تغیر کا طوفانِ ستم، ہی ’نیا شوالہ‘ کے قفل کی کلید ہے۔ جس کا فطری حوالہ ’ہمالہ‘ ہے۔ ’مد و جزرِ امید، کی اہمیت مسلم، ورنہ خاکِ لحد، فناے دوام۔ ہے قیامِ بحرِ ہستی مدوجزر امید کا گاہے گاہے آ نکلتی ہے مسرت کی ہوا زندگی کو نورِ الفت سے ملی جس دم ضیا لے کے طوفانِ ستم ابرِ تغیر آ گیا ہے کسی کو کامِ دل حاصل کوئی ناکام ہے اس نظارے کا مگر خاکِ لحد انجام ہے ۱۸؎ یہی آخری مصرعے کی’مگر‘ بمعنی شاید وہ استفہام ہے جو آگے چل کر ’’خفتگانِ خاک سے استفسار‘‘ کا سبب تخلیق ہوا۔ امید کا یہ مدو جزر یہاں اہلِ ثروت کی طرف سے محرومیوں کے لیے دستِ تعاون کا محدود اشارہ سہی جیسا کہ ڈاکٹر گیان چند نے دیکھا مگر یہی ’دستِ تعاون‘ آگے چل کر علم الاقتصاد کا موضوع بنا (قوموں کے درمیان وحشیانہ تفاوتِ مدارج، کے خاتمے کے حوالے سے)۔ ’ہمالہ‘ میں یہی دستِ تعاون، نور الفت کی شرحِ تمثیلی ہوا۔ نظم ’سر گذشتِ آدم‘ میں یہی ابر تغیر کا طوفانِ ستم، جبلی شعور کی بیداری (بحوالہ علم الاسما) اور خانۂ دل میں مکیں اوجِ خیال فلک نشین (بحوالہ قَالُوْا بَلٰی) کی بازیافت کا حوالہ ہے۔ ۱۹۰۹ء کی نظم ’ستارہ‘ میں ابر تغیر کا یہی طوفانِ ستم ’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘ کا فطری اصول بن کر آیا۔ جس نے چاند کی زبانی ستاروں کو خرمنِ شب کے خوشہ چین! کہ کر پکارا، جو اوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے، اور نظم ’دو ستارے‘ اس انتباہ کو ’آئین جہاں کا ہے جدائی‘ تک لے گئی۔ یہ ایک مسلسل رو ہے جسے کسی انحراف کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ ’نالۂ یتیم، میں علتِ حرماں نصیبی کے دردِ آزار کے لیے جس نسخۂ مہر و محبت کو مسیحائی کا درجہ ملا تھا۔ وہی بانگِ درا کے حصہ اوّل میں کہیں نورِ ازل ہے کہیں حقیقتِ ازل اور کہیں ’قوتِ خاموش‘ (جمالیات اقبال کے مصنف ڈاکٹر ناصر کی توجہ کے لیے) یہی نسخۂ مہر و محبت، نظم آفتاب (فوق المحسوس) اور آفتابِ صبح (محسوس) میں ’ضیاے شعور‘ بن کر طلوع ہوا۔ اسی نورِ الفت کی بدولت ہمالہ کی خوش منظر جوانی، دیرینہ روزی کے نشان سے پاک دکھائی دی۔ اسی نسخۂ مہرو محبت نے ’نیا شوالہ‘ میں ’دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے‘ کا حتمی اعلان کرایا۔ باہمی سر پھٹول سے بچ کر غلامی کی رات کو سحر کرنے کانسخۂ کیمیا، مختصر یہ کہ نالۂ یتیم (۱۹۰۰ئ) سے دو ستارے (۱۹۰۹ئ) تک برابر چلتی ہوئی یہ ’وحدتِ فکر‘ معروضی تقاضوں کے تحت، پختگی کے ساتھ ساتھ‘ پیرایے تو بدلتی رہی مگر کسی انہو نے تغیر کی نشان دہی نہیں کرتی۔ ان نظموں کو اگر ایک ہی خیال کے بدلتے ہوئے سانچے اور وضاحتِ تصور کے پیرایے سمجھ کر مسلسل نظم کہہ دیا جائے تو ہر لحاظ سے برحق ہو گا۔ چاہے یہ نظمیں ملٹن کی جنتِ گم گشتہ کا جواب لکھنے کی آرزو کا نتیجہ ہوں،۱۹؎ یا ہندستان کی سیاسی ابتری کے علاج کے لیے غور و خوض کانتیجہ، مگر ماحصل ایک ہے صرف ایک یعنی نور الفت ، کی تلاش ہے۔ جسے اقبال نے تلاشِ متصل، کہہ کر ایسی شمع جہاں افروز کہا جو ادراکِ انساں کو ذوقِ خرام بخشتی ہے۔ یہ تلاش متصل شمعِ جہاں افروز ہے توسنِ ادراک انساں کو خرام آموز ہے۲۰؎ علم الاقتصاد (۱۹۰۳ئ) سے پہلے اقبال نے الجیلی کے نظریۂ توحید مطلق، کے حوالے سے انسانِ کامل پر ریویو لکھا اور اس کے ساتھ ’بچوں کی تعلیم و تربیت‘ ا ور ’اردو زبان‘ پر مضامین بھی رقم کیے۔ اقبال بچے کو سراپا متعلم ہستی ہی نہیں متحرک ہستی بھی قرار دیتے ہیں۔ اور یہ عام سی بات نہیں۔ ہمالہ اور اس کی گودی میں کھیلتے ہوئے عناصر فطرت ’سراپا متعلم ہیں‘ ندی، متحرک بھی ہے مگر اس کی حرکت ارادی نہیں جبلی شعور کے تابع ہے‘ انسان کی حرکت، شعوری ہے ارادی ہے‘ اور اس میں ’علم‘ کا کردار ہے‘ علم اگر علم الاسماء کے فطری زور پر ہو تو خودی نا مسلماں اور اگر قَالُوْابلیٰ کے عہدِ الست کے تابع ہو تو خودی مسلماں۔ عہدِ الست کی اطاعت و پاس داری(خودی و بے خودی اور عشق و خرد، زمان و مکاں اور تقدیر کی ساری بحثیں اسی کے گرد گھومتی ہیں) ہی وہ نورِ الفت ہے، جس نے جبلی شعور کو صراطِ مستقیم پر لگایا اور فطرت کو اپنے تصرف میں لانے کی راہ دکھائی۔ اس تسخیرِ فطرت کا پہلا مرحلہ قواے انسانی میں توازن و توافق ہے۔ لہٰذا قبال بچے کی شخصیت کی تعمیر کے لیے متوازن تربیت و پرورش پر زور دیتا ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد فرد کی ذات کی بیداری اور استحکام ہے۔ فرد کی جملہ ظاہر و مخفی صلاحیتوں کو ابھارنا اور ان کی مناسب نشوونما سے مضبوط شخصیت بنانا، جو فرد کے قویٰ کی متوازن تہذیب او رپرورش کرے تاکہ جستجو کی فطری صلاحیت چمکے اور تخلیق و جدت کے اوصاف پیدا ہوں، یہی اقبال کا نظریۂ تعلیم ہے۔ اور یہی مثنوی اسرار و رموز کا خلاصہ ہے۔ ۱۹۰۳ء میں اقبال نے نظم ’عقل و دل‘ لکھی اور اپنی بے عملی تسلیم کرتے ہوئے ’رمزِ وحدت‘ سے آشنائی کا دعویٰ کیا۔ اور بقول اس کے یہ رمز وحدت‘ جو خدا کو خدا نما بنانے کا عزم ہے ۲۱؎ اس نظم پر الجیلی کے تصورِ ذات و صفات کا بھر پور عکس ہے۔ صفت کو عمل میں بدل کر مشہود و محسوس بنانا مثلاً سخاوت:اُسی وقت مشہود ہوتی ہے جب محروموں کے لیے مٹھیاں کھل جائیں۔ پس توحید کو عمل سے وحدت آشنا کرنا ہی توحیدی ہونے کا استشہاد ہے۲۲؎ ۔ اقبال نے ’وحدت الوجود‘ کی نظری بحث کو ’وحدت الموجود‘ کا عملی اظہار دینے کی راہ پا لی۔ علم الاقتصاد کے دیباچے میں اقبال‘ اخلاق‘ معیشت اور تمدن کو لازم و ملزوم گردانتے ہیں۔ اسی کتاب کا خلاصہ ’قومی زندگی‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر بیان کیا ہے۔ جسے ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر کا نقشِ اوّل کہنا چاہیے۔ علم الاقتصاد میں اقبال نے معلم اوّل ارسطو کے اس نظریے سے اختلاف کیا ہے کہ ’غلامی تمدن کے قیام کے لیے ایک ضروری جزو ہے‘۔ ’’مذہب اور زمانہ حال کی تعلیم نے انسان کی جبلی آزادی پر زور دیا ہے اور رفتہ رفتہ مہذب قومیں محسوس کرنے لگی ہیں کہ وحشیانہ تفاوتِ مدارج بجاے اس کے کہ انسانی تمدن کے قیام کے لیے ضروری جزو ہو اس کی تخریب کرتا ہے، اور انسانی زندگی کے ہر پہلو پر نہایت مذموم اثر ڈالتا ہے‘‘۔ ۲۳؎ اقبال کے نزدیک نورِ الفت کی راہ میں حائل اس سَلبی قدر (وحشیانہ مدارجِ تفاوت) کے خاتمے کا انحصار انسانی فطرت کی اخلاقی قابلیتوں پر ہے۔ کتاب کے پانچویں باب آبادی میں وہ فطری ’قانونِ بقاے افرادِ قویہ‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’نظام عالم کے ہر حصے کے جان داروں کے درمیان ایک قسم کی مصافِ ہستی شروع ہوتی ہے جس میں افراد قویہ فتح پاتے ہیں اور ضعیف و ناتواں افراد صفحۂ عالم سے معدوم ہو جاتے ہیں‘‘۔ ’قومی زندگی‘ کے ابتدائی حصے کا یہی مفہوم ہے نظم ’ستارہ‘ چاند تاروں سے‘ اور نظم ’دوستارے‘ (۱۹۰۹ئ) خصوصاً اسی خیال کے منظوم پیرایے ہیں۔ یہی ابرِ تغیر کا طوفانِ ستم ہے جو زندگی کو نورِ الفت سے ضیا پانے کے بعد گھیرتا ہے۔ پھر کس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقبال اپنے ابتدائی افکار سے منحرف ہو چکا تھا؟ اقبال نے معروف ماہرِ اقتصادیات Walker سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا: ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ تمدنِ انسانی کی سب سے اعلیٰ صورت یہی ہے کہ تمام بنی نوع انسان حقیقی بھائیوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ مگر چونکہ نفس الامر میں ایسا نہیں، اس واسطے وہ اجنبیت اور غیریت جو حیوانوں میں موجود ہے اور جواُن کو مذکورہ بالا قانون (بقاے افراد قویہ) سے متاثر کرتی ہے، مختلف انسانی خاندانوں اور قوموں کے درمیان جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ حیوانوں میں یہ مصافِ زندگی افراد کے درمیان جاری ہے مگر انسانوں میں یہ لڑائی خاندانوں اور قوموں کے درمیان۔ ہر خاندان اور ہر قوم اس مصافِ ہستی میں فتح مند ہونے کی خواہش کرتی ہے اور سب کا یہ قدرتی اور فطری تقاضا ہے کہ حریف کو گرا کر تمام روے زمین کا خود وارث بن جائیں۔ ۲۴؎ ۱۹۰۳ء میں اقبال نے ہندستان کی سیاسی صورت حال کا کتنا واضح نقشہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ جنگ فطرت کی جنگ ہے نہ کہ مذہب کی سکھائی ہوئی۔ مذہب تو اخلاق کا نام ہے او رمصافِ ہستی کو اعلیٰ اخلاقی قابلیتیں ہی راہ راست پر لگا سکتی ہیں۔ ’نیا شوالہ‘ اور اس سے پہلے متعدد نظموں میں علامہ نے متنبہ کیا ہے کہ اس جنگ کا نتیجہ صفحۂ عالم سے مٹ جانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیونکہ یہ بھی فطری امر ہے۔ نورِ الفت سے اجزا کا ظہور ترکیب زندگی ہے تو ان کی پریشانی (نسخہ مہر و محبت کا فقدان) موت، ’’جس طرح اس قانون کے اثر سے حیوانوں کی بعض قدیم قسمیں صفحۂ ہستی سے معدوم ہو گئی ہیں اسی طرح اس قانون کے عمل سے انسانوں کی قدیم قومیں بھی حرفِ غلط کی طرح کتابِ ہستی سے مٹ گئیں اور اب ان کا نام و نشان تک نہیں باقی‘‘ ’ترانہ ہندی‘، اور ’ملی ترانہ‘ میں اقبال نے واضح لفظوں میں ہندستانی تہذیب کا بمقابلہ مصرو یونان وروما کے ابھی تک باقی رہنا مذہب (اخلاقی قابلیتوں) کا ثمر بتایا ہے، اور ’ملت اسلامیہ، کے کسی طرح نہ مٹ سکنے یا نہ مٹائے جا سکنے کا دو ٹوک اعلان، توحید کی امانت کے حوالے سے ہوا۔ ’قومی زندگی‘، اور ’ملت بیضا‘ کے ابتدائی حصے بھی اسی مضمون پر مشتمل ہیں جہاں باوجود ہزاروں بربادیوں کا سامنا کرنے کے یہود کا تاحال زندہ رہنا مثال بنا ہے۔ اور ترانۂ ملی میں اس کا مظہر ِ اتم، توحید کے امین، مسلمان قرار پائے۔ جنھیں باقی اقوام (جو قوم کے اصل مفہوم کو ادا نہیں کرتیں) کے مقابلے میں خیر الامم کہا اور تنبیہ کی ہے۔ بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیر مادی اشیا مثلاً خیالات و مذاہب کا قیام بھی اسی قانون کے تابع ہے جو خیال یا مذہب انسان کے تمدنی حالات اور اس کی عقلی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی نہ کرسکے ضرور ہے کہ وہ انسان کی جدید ضروریات کو پورا نہ کر سکنے کے باعث معدوم ہو جائے۔ ۲۵؎ نظم ’نالہ یتیم‘ اِنھی خیالات کا شعری جلوہ تھا۔ اس کتاب علم الاقتصاد میں اقبال یہ نتائج اخذ کرتے نظر آتے ہیں۔ ٭ پس اہلِ ہندستان اگر دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس علم (الاقتصاد) کے اصولوں سے آگاہی حاصل کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہے ہیں؟ ۲۶؎ ٭ حتی المقدور حیوانی (دوسروں کو مٹانے کی) خواہشوں کو پورا کرنے سے پرہیز کریں۔ ۲۷؎ ٭ عاقبت بینی کی راہ سے اپنی قوم کے انجام کی فکر کریں تاکہ ہمارا ملک مفلسی کے خوفناک نتائج سے محفوظ ہو کر تہذیب و تمدن کے ان اعلیٰ مدارج تک رسائی حاصل کرے جن کے ساتھ حقیقی بہبود وابستہ ہے۔ ۲۸؎ مقالہ ’قومی زندگی‘ میں اس حقیقی بہبود کو آیندہ نسلوں کی بہبود کو مد نظر رکھنے سے مشروط کر دیا ہے۔ گویا قومی حکومت کے نام پر حاصل ہونے والی رعایات و حقوق کے منطقی نتیجہ، غلامی کی طوالت سے اپنے بچوں اور آیندہ نسلوں کو محفوظ رکھنا۔ نظم ’مکھی او رمکڑا‘ رعایات و حقوق کی اسی سیڑھی کا حوالہ ہی تو ہے کہ ’’جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا‘‘ نظم ’ہمالہ‘ اسی سے راہِ نجات کا فطری علامتی اظہار ہے تو نظم ’نیا شوالہ‘ معاشرتی زندگی میں اس تصور کی قابلِ عمل تصویر۔ مطلب یہ کہ نظم ’ہمالہ‘ (۱۹۰۱ئ) اور نظم ’نیا شوالہ‘ ( ۱۹۰۵ئ) اقبال کے طویل اور عمیق مطالعے کا نتیجہ ہیں اور ان افکار کا خلاصہ جو اقبال ۱۸۹۳ء سے مسلسل کسی نہ کسی حوالے سے بیان کرتا آ رہا ہے جن میں ’اعلیٰ اخلاقی قابلیتوں کا حوالہ خصوصاً تواتر کے ساتھ چلتا رہا ہے۔ چاہے وہ نسخۂ مہر و محبت کے حوالے سے ہو یا اخوت کے حوالے سے اوروں کے لیے دستِ تعاون کی درازی، ہر حال اقبال کا موضوع سخن رہی ہے۔ اس تناظر میں نظم ’ہمالہ‘ پر نظر ڈالتے ہیں۔ خ نظم ’ہمالہ‘ اور نظم ’نیا شوالہ‘ اقبال کی اپنی ترتیب و انتخاب کے مطابق ’ہمالہ‘ (اپریل ۱۹۰۱ئ) بانگِ درا کی پہلی نظم اور ’نیا شوالہ‘ (مارچ ۱۹۰۵ئ) حصہ اوّل کی آخری نظم ہے۔ دونوںنظموں کے تقابلی مطالعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقبال نے وَ مَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَۃٌ ۲۹؎ کی رو سے تکوینی امور کو بطور مثال اور علامت پیش کیا ہے اور ’نیا شوالہ‘ کے علامتی اظہار میں ہندستان کے لیے ’عالمے دیگر‘ براے آدم‘ کا قابلِ عمل نمونہ پیش کرنے تک کا درمیانی عرصہ اپنے اس تخیل کو واضح کرنے میں صرف کیا جو وہ متحدہ قومیت‘ کے ملت کش‘ نظریے کے جواب میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ اس درمیانی عرصے میں سواے ان نظموں کے جو مخصوص مطالب رکھتی ہیں، جملہ شاعری مظاہرِ فطرت کے عنوانات کے تحت ہوئی ہے مثلاً گلِ رنگیں، ابر کہسار، ماہِ نو، چاند، انسان اور بزم قدرت، جگنو، طفلِ شیر خوار اور سرگذشتِ آدم کہ فطرت کا شاہ کار اور احسنِ تقویم کا سزا وار ہے۔ اس سلسلۃ الذہب نے بعض محققین کو مجبور کیا کہ وہ اس دور کو فطرت پسندی، کا دور قرار دیں۔ لیکن فی الاصل یہ نظمیں ’ہمالہ‘ کے فطری حوالوں کی شرح کا کام کرتی ہیں۔ جن کے بعد ’نیا شوالہ‘ تعمیر کرنے کی دعوت منطقی نظر آتی ہے۔ وہ چند نظمیں جو مخصوص مطالب رکھتی ہیں ان میں ’ترانہ ہندی‘ اور ’ہندوستانی بچوں کا گیت‘ اور بعض دوسری نظمیں جن میں نثری شاہ کار مقالہ ’قومی زندگی‘ بھی شامل ہے، ’صداے درد‘ اور ’تصویر درد‘ کے آئینے میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں، جن کا ’ہمالہ‘ اور ’نیا شوالہ‘ کے مطالب سے تقابلی مطالعہ ضروری ہے۔ نظم ’ہمالہ‘ میں اقبال نے متحدہ قومیت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ نہ تو برطانوی سامراجیوں کے تصور سے لگا کھاتا ہے نہ کانگریسی ہندوؤں کے مقاصد رکھتا ہے کہ اول الذّکر متحدہ قومیت سے جمہوری پارلیمانی نظام پر قائم، قومی حکومت کے ذریعے ایک ایسی ہندی قوم کی تشکیل چاہتے تھے جو فاتح غیر قومی حکمرانوں سے بلحاظِ ذات و قبیلہ تو مختلف ہو لیکن مذہبِ لا دینی میں ان جیسی، تاکہ وہ قومی احساس نہ ابھرنے پائے جو ان غاصبوں کے اقتدار کا خاتمہ کر سکے۔ جب کہ ثانی الذکر جمہوری پارلیمانی نظام پر قائم قومی حکومت کے ذریعہ اس غیر قوم کی تولیت میں ہندو اقتدار کا خواب دیکھتی تھی اور مسلمانوں کے وجود کو بحیثیت جداگانہ قوم، فنا کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ اقبال جس باہمی اتحاد کا نقش ابھارنا چاہتے ہیں، وہ بھی اول الذکر دونوں طبقوں کی طرح دو قومی نظریہ تھا لیکن اس تخیل اتحاد میں انگریزوں کے لیے محض عارضی جگہ تھی۔ یہ تخیل مسلمانوں اور ہندوؤں کے ایسے اتحاد پر مبنی تھا جس میں ہندو، ہندو رہ کر اور مسلمان، مسلمان رہ کر، اس طرح متحد ہوں کہ ہندستان کا نام دفتر اقوام میں سر فہرست آئے اور یہ بغیر آزادی کے ممکن نہ تھا، مراد یہ کہ اقبال کے اتحاد کا تخیل وہ متحدہ قومیت تھی جو ہندو اور مسلمان کا اجتماعی تشخض مستحکم کرتے ہوئے انھیں انگریز کی غلامی کے پھندے سے نجات دلا دے۔ کیونکہ یہی وہ اتحادی فضا تھی جس نے ’وطن‘ کو صدیوں کی دشمنانہ گردشِ فلکی کے ہاتھوں مٹنے سے بچایا تھا وہی اسے بلند اقبال کر سکتی ہے۔ نظم کا آغاز ’اے ہمالہ اے فصیل کشور ہندوستان‘ سے ہوتا ہے۔ گویا ہمالہ، کوہستان نہیں۔ فصیل‘ بڑا بلیغ کنایہ ہے، اقبال جس اتحاد کو اہلِ ہند کے لیے تجویز کر رہا ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے ہند اور اہلِ ہند کے انفرادی تشخص کے لیے فصیل کا کام دے گی۔ فصیل کا یہی کنایہ اقبال کو فطرت کے تکوینی عمل سے تشریعی عمل اور اس حوالے سے طور تک لے جاتا ہے اور اقبال زمانے کو پیچھے کی طرف دوڑنے کے اشارے پر نظم ختم کر دیتے ہیں۔ یہ اقبال کا تاریخی شعور ہے۔ چشمِ ظاہر تو ہمالہ کو ایک کوہستان دیکھتی ہے مگر دیدہ بینا کو یہی ہمالہ ’’سوے خلوت گاہِ دل‘‘ متوجہ کرتا ہے۔ ’سرگذشتِ آدم‘ میں جبلی شعور کا جام آتشیں پی کر۔ جنت سے نکلنا اسی تکوینی عالم سے آغاز ہوتا ہے اور ’اوجِ خیال فلک نشیں، تشریعی حوالہ کہ ایک علم الاسماء کا دوسرا قَالُوا بلیٰ کا علم بردار ہے ان کے باہمی تصادم ہی سے دنیا کبھی جہنم کبھی جنت بنتی ہے۔ ابر تغیر کا طوفانِ ستم، گاہے گاہے مسرت کی ہوالاتا ہے، مگر شعاعوں اور برقِ مضطر کو اسیر کر لینے کے باوجود سراغ ہستی نہیں ملتا، وہ تو ’خانۂ دل میں مکیں ہے‘ نظم ’سر گذشتِ آدم‘ یہاں ختم ہوتی ہے۔ ’ہمالہ‘ کا آعاز اسی سے ہوتا ہے۔ اور اسی ہر دوارِ دل میں نیا شوالہ تعمیر ہوتا ہے۔ طور کا حوالہ بے مقصد نہیں آیا۔ اور نہ طور سے ہمالہ کو ملایا جا رہا ہے جیسا کہ عزیز احمد نے خیال کیا۔ معاملہ تجلی کا ہے۔ ’کلیم طور سینا‘ نے تجلی، وہ بھی ایک جلوہ دیکھا تھا۔ وہ جلوہ شعوب و قبائل کے تعارف کی حد تک رہنے اور خیمۂ اجتماع میں ایک ہونے کا جلوہ تھا۔ مگر جب ان تمام مادی حوالوں کو رد کیے بغیر ان کے اور دوسری امتوں کے باہمی تناقضات مٹا کر ملت بنائی گئی تھی، تو وہ سراپا تجلی تھی۔ ۱۹۰۲ء میں اقبال نے اس کی وضاحت خود ہی کر دی تھی۔ ۳۰؎ یہ جغرافیائی اور خالص ہندستانی وطنیت کا تصور نہیں جیسا کہ عزیز احمد نے سمجھا ۔ہر دو جگہ ہجرت بنیادی حوالہ ہے۔ لیکن اقبال کے ہاں جس طرح تصور ملت، متحدہ قومیت کا حوالۂ نجات ہے ایسے ہی، ہجرت صرف وطنیت سے ہجرت کا حوالہ ہے۔ ۱۹۰۱ء کی ایک غزل کا ایک منسوخ شعر، طُورکے اس حوالے کی تشریح کرتا ہے۔ ہم صفیرو! تم مری عالی نگاہی دیکھنا شاخِ نخل طور تاڑی آشیانے کے لیے ۳۱؎ اور وہ بھی خواہ مخواہ نہیں لمبے چوڑے غور اور تدبر کے بعد اس نتیجے پر پہنچ کر کہ: اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کے گیت آہ! یہ گلشن نہیں ایسے ترانے کے لیے ۳۲؎ لیکن یہاں شاخِ نخل طُور، کا حوالہ تو صرف فرعونیوں سے نجات کا حوالہ ہے قبطیوں سے بیر نہیں۔ وہاں کی ہجرت اور یہاں کی ہجرت کا محولہ بالا یہ فرق اسی زمانے کے ایک شعر میں واضح اور نمایاں ہے۔ دیکھ اے ذوق تکلم یاں کوئی موسیٰ نہیں جو مری آنکھوں میں پھرتا ہے وہ نقشہ اور ہے ۳۳؎ یہ نقشہ، مصر سے باہر نہیں مصر ہند کے اندر ہے جس کا سرسری سا اشارہ خطبہ الہ آباد میں (۱۹۳۰ء کو) شمال مغربی ہندستان، کے حوالے سے دیا گیا۔ مگر اس تک پہنچنا کافی وقت مانگتا تھا اس لیے مرغِ دل سے بار بار قصۂ دار ورسن چھڑ نہ جائے کہیں کے دلائل کے ساتھ کہا گیا نالہ ابھی سینے میں تھامے رکھنے کا زمانہ ہے۔ یہی خوف ’ہمالہ‘ اور ’نیا شوالہ‘ میں علامتی اظہار پاتا ہے ورنہ تخیل واضح اور تصور روشن ہے۔ اس سے انحراف کی قطعاً ضرورت نہیں۔ چنانچہ ’’دیدۂ بینا‘‘ (جسے آگے چل کر شاعر کہا گیا) سوے خلوت گاہِ دل متوجہ ہوتا ہے۔ ہمالہ کے سر پر برف کی دستارِ فضیلت جو مہرِ عالم تاب پر خندہ زن ہے (مہر عالم تاب، کنایہ ہے اس اقتدار کے لیے جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا)۔ ہمالہ کی پیشانی کو جھک کر آسمان کا چومنا۔ اور کوئی دوسرے دل خوش کُن مناظر اسے اس عظمت کے اسباب پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اقبال یہ راز پا لیتا ہے کہ ہمالہ کی جوانی دیرینہ روزی کے نشان سے کیوں پاک ہے اور زمانے کی گردش اس پر کیوں منفی اثر نہیں ڈال سکی؟ اس کی عمر رفتہ عہدِ کہن کی اک آن کیوں ہے؟ ان سوالوں کا جواب یوں ملتا ہے۔ ۱۔ یہ زمین پر ہے مگر دامانِ فلک اس کا وطن ہے۔ یہ کھلے عام آفاقیت ہے اسے وطن پرستی سمجھنا ظلم ہے۔ ع تو زمیں پر اور دامانِ فلک تیرا وطن ۲۔ یہ کہ یہ عناصر کی ایسی بازی گاہ ہے جہاں ہر عنصر دوسرے عناصر کا معاون ہے مزاحم نہیں۔ چشمۂ دامن تر آئینہ سیال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوار ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا ابرِ سر کہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تو بھی جسے دستِ قدرت نے بنایا ہے عناصر کے لیے ہاے کیا فرطِ طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر فیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر نظم ’ابرِ سر کوہسار‘ ہمالہ کی بازی گاہِ عناصر کی بڑی عمدہ تفسیر ہے۔ یہاں دامنِ موجِ ہوا، چشمہ دامن کے لیے رومال ہے، ہوا، ابر کے لیے رہوار ہے۔ ابرِ سرِ کہسار نے اسے برق کا تازیانہ تھما دیا ہے اور ابر فیلِ بے زنجیر کی طرح فرطِ طرب میں جھومتا ہوا اڑ رہا ہے۔ ابر سر کہسار اسی فرطِ طرب کو آگے بڑھا رہا ہے۔ زادۂ بحر اور پروردۂ خورشید، ابرِ سرکہسار، اس لیے جاذب نظر ہے کہ وہ بازی گاہِ عناصر میں جان ڈالتا ہے وہ ناقۂ شاہدِ رحمت کا حدی خواں ہے، وہ چشمہ کوہ کو شورشِ قلزم دیتا ہے اور سبزۂ خوابیدہ کے سر پر کھڑے ہو کر ’قم‘ پکارتا ہے۔ (سبزۂ خوابیدہ، اردو ادب کی معروف علامت ہے۔ اس پر ضرور غور کیجیے)۔ یہ حدی خواں، رخِ ہستی پر گیسو بن کر بکھر جاتا ہے اور موجۂ صر صر اُس کے لیے شانے کا کام دیتی ہے۔ ’موجۂ صر صر‘ اور ’برقِ سر کوہسار‘ کے تازیانے کی بات ذرا آگے کھلے گی۔ نظم ’انسان او ربزمِ قدرت‘ میں بزمِ قدرت (بازی گاہِ عناصر) میں انسان ’گل رنگین‘ کی طرح صرف ’زیبِ محفل‘ نہیں رہتا‘ ’شریکِ شورشِ محفل‘ ہوتا ہے۔اس کی جگر سوزی، بزمِ قدرت کی پریشانیوں (کثرت) کے لیے سامانِ جمعیت (وحدتِ مقاصد) کا سرچشمہ ہے۔ یعنی وہ متفرق عناصر فطرت، جس وحدتِ حیات، سے مطمئن ہیں، اسی وحدتِ حیات کی جستجو نے عالم انسانی میں جدلیت او رپریشانی پیدا کر رکھی ہے۔ اور یہی پریشانی (کثرت) تو وحدت طلب ہے۔ بقول بیدل ع ہیچ کس بے شورِ کثرت طالبِ وحدت نہ شد۔ اقبال کے نزدیک: یہ پریشانیِ مری سامانِ جمعیت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو رشکِ جام جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو یہ تلاشِ متصل، شمع جہاں افروز ہے توسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے ۳۵؎ وہ ’تلاشِ متصل‘ اقبال کے توسنِ ادراک کو ’بازی گاہِ عناصر‘ کے حوالے سے خرام آموز کر گئی۔ وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کا سراغ، وہ اتصالی نکتہ، جو ہمالہ نے اسے سکھایا، توحید کو عملاً مشہود کرنے کی وہ راہ روشن کر گیا جو الجیلی کے نظریۂ توحید مطلق میں ذات و صفات کے حوالے سے کھلی تھی۔ ’انسان اور بزم قدرت‘ میں سورج کی ظلمت کشی، کے حوالے سے یہ صدا سنی تھی کہ تیری سیہ روزی، اور سیہ کاری اپنی حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہے ورنہ آفتابِ محسوس کا نور تیری نمود سے ہے۔ اب اقبال ’آفتاب صبح‘ سے مخاطب ہوتا ہے‘ تیری ضیا چشمِ ظاہر کھولتی ہے لیکن ہمیں وہ جلوہ چاہیے جس سے چشم باطن کھل جائے۔ آنکھوں کو ایسے جلوے کی تلاش ہے جو امتیازِ ملت و آئیں، سے دلوں کو آزاد کر دے‘ آنکھ اوروں کے لیے سر شک آباد ہو نوعِ انساں میری قوم اور سارا جہاں میرا وطن ہو جائے۔ دیدۂ باطن پر نظم عالم کا راز عیاں ہو، عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے اور ہر شے میں حسنِ عشق انگیز نظر آئے۔ ہر چند کہ عقدۂ اضداد کی کشود سعی بے حاصل ہے لیکن جو لطف اس ہمدردیِ انساں میں ہے سوئے ہوؤں کو جگانے والے آفتابِ صبح کو اس کی کیا خبر۔۳۶؎ یہ حسنِ عشق انگیز نورِ الفت ہی تو ہے۔ نظم ’صبح کا ستارہ‘ خاک میں مل کر حیاتِ ابدی پانے پر ختم ہوتی ہے۔ تاکہ زمانے کو سوزِ عشق دکھایا جائے، تو اسی زمانے میں (دسمبر ۱۹۰۴ئ) ایک نظم ’موجِ دریا‘ زحمتِ تنگیِ دریا سے گریزاں اور وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہونے پر ختم ہوتی ہے۔ اتصالِ قومی کی یہ تلاش ’ہمالہ‘ میں ’ابر کے فیل بے زنجیر ہو کر مستی میں جھومنے‘ سے توجہ ہٹانے پر مجبور کرتی ہے۔ اور ندی کی طرف متوجہ کر کے اس عراقِ دل نشیں کو چھیڑتی جا، کی پکار بنتی ہے جس کی آواز کو دل سمجھتا ہے۔یہ عراقِ دل نشیں۔ وہی زحمتِ تنگیِ دریا سے گریزاں اور وسعتِ بحر کی فرقت میں پریشاں ہونا ہے لیکن فیل بے زنجیر نہیں جیسا کہ ابر ہے، ندی اپنی اصل سے رابطہ رکھتی ہے۔ ’ابر سر کہسار پروردۂ خورشید ہے اور زادۂ بحر‘ اور پھر بحر سے واصل بھی ہوتا ہے مگر اقبال کو اس کی یہ ادا نہیں بھاتی۔ کیونکہ اقبال کو اختلاطِ موجہ و ساحل۔ کا سامنا ہے متحد ہونا چاہتے ہیں مگر وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسے وصلِ حقیقی کی تلاش ہے جس پر وہ صبح کے ستارے کی طرح مٹا جاتا ہے، تاکہ زمانے کو سوزِ عشق دکھا سکے، یہ کیا کہ خورشید کی تپش پائی تو جدا ہو گئے اور کبھی پھر آملے۔ ’نالۂ یتیم‘ میں، اسی ابرِ تغیر کے مدو جزر کے طوفانِ ستم کا حوالہ قیامِ بحرِ ہستی کے حوالے سے آیا تھا۔ ’ندی‘ کا حوالہ ابر کے فیل بے زنجیر سے زیادہ مستحکم ہے۔ اقبال نے بحرِ ہستی کے قیام کے لیے ’ندی‘ کو مستقل حوالہ بنایا ہے نظم ’ساقی نامہ‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ انسان بھی ندی ہی کی طرح جبلی قوتوں کے زور پر چلا تھا۔ ’ہندی ترانہ‘ میں موجِ رودِ گنگا سے اُن دنوں کے احوال پوچھنا اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا‘ اسی حوالے سے تھا۔ اقبال نے نظم ’ہمالہ‘ ’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو‘ پر ختم کی ہے کہ ’تشخص اور زمانہ‘ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اقبال کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کو ہندی تسلیم نہ کرنا تھا، وہ اسے عرب سے آئے ہوئے بتاتے تھے۔ ہندی ترانے میں ’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘ اسی حوالے سے تھا۔ ’ہمالہ‘ کی طرح مضبوط اور متحد ہندستان اسی حوالے سے صدیوں دورِ زماں کی گردش میں سلامت رہا تھا۔ وہ ’کچھ بات‘ اسی طرح کا اتحاد تھاجو ہمالہ کی گودی میں کھیلنے والے عناصر نے دکھایا تھا۔ ہندی ترانہ میں ہمالہ کا ذکر پھر آیا ہے ‘ مگر ندیوں کے حوالے سے۔ وہ ندیاں جو اس کی گودی میں آزادانہ چل پھر رہی ہیں انھی کی بدولت یہ وطن رشکِ چمن ہے۔ ندیاں مختلف ملتوں اور قوموں کا حوالہ ہیں۔ ان کا آزادی سے چلنا ہی ہندستان کو رشکِ چمن بنا سکتا ہے مگر افسوس کوئی اس راز سے واقف نہیں، اس درد کا محرم نہیں۔ اقبال کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا۳۷؎ ’ترانۂ ملی‘ میں ایک بار پھر عربی ہونے کا جواب دیا گیا ہے کہ ’ہمارا دل‘ جہاں ہو، وہی ہمارا وطن ہے وہ چین ہو کہ عرب یا ہندستان، بلکہ سارا جہان۔ ہم اسی طرح ہندی ہیں جس طرح کہ ہندو ہندی ہیں۔ ہندستان نے ایک ہزار سال سے ہمارے لیے محبت کی بانہیں کشادہ رکھی ہیں۔ ہمارا قتدار نہ صرف برداشت کیا بلکہ قبول کیا ہے۔ آج نو واردوں کی غلامی تو قبول ہے اپنے پرانے ہم وطنوں کی رفاقت قبول نہیں؟ ہندستان نے محبت سے ہمارا دل جیتا۔ دل ہمارا جہاں ہو وہی ہمارا وطن ہے۔ ہمارے سینوں میں توحید کی امانت ہے۔ اسے مٹانا اتنا آسان نہیں۔ ہندی ترانے کی وہ کچھ بات اب کھل کر توحید کی امانت: وحدت قومی، اتحاد و اتصالِ باہمی (نور الفت) کا حوالہ بن گئی۔ ہندستان اسی سے سلامت رہا ہندستان اسی سے سلامت رہے گا۔ ’ہمالہ‘ قومی زندگی کے استحکام کا استعارہ ہے۔ لیکن یہ زندگی کی خوابیدگی کی منزل ہے۔ خود انسان بھی ایک عرصہ اسی مقام پر رہا ہے جب وہ صرف فطری قوتوں کے زور پر زندہ تھا۔ ھَلْ اَتیٰ عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُوْراً۔ ۳۸ ؎ انسان پر ان گنت صدیاں بیت گئیں مگر وہ دیگر مظاہر فطرت و مظاہر حیات کے مقابلے میں شے مذکور نہ بن سکا۔ اِنَّا ھَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًاo ۳۹؎ ’ہم نے اسے اخلاقی اقدار سے نوازا چاہے وہ انھیں تسلیم کر کے شکر گزار بندہ بنے، چاہے انکار کر کے ناشکر گزاری کا ثبوت دے اور ’خسرانِ ابدی‘ کا سزا وار ٹھہرے‘ اسرارِ خودی میں ’ہمالہ‘ رودگنگ او رہمالہ‘ کے مابین گفتگو کے حوالے سے ایک باہر پھر حیاتِ خاموش کی مثال بنا ہے۔ کیا اسرارِ خودی بھی، جغرافیائی اور خالص ہندستانی وطنیت، پر مبنی ہے؟ یقینا نہیں۔ زندگی بر جائے خود بالیدن است ازخیابانِ خودی گل چیدن است قرن ہابگذشت و من پادر گِلم تو گماں داری کہ دور از منزلم ہستیم بالید و تاگردوں رسید زیرِ دامانم ثریا، آرمید چشمِ من بینائے اسرارِ فلک آشنا گو شم ز پروازِ ملک تا ز سوزِ سعیِ پیہم سوختم لعل و الماس و گہر اندوختم در درونم سنگ و اندر سنگ نار آب را بر نارِ من نبود گذار۴۰؎ جیسا کہ عرض کیا گیا ہمالہ خودی کا مرحلہ اوّل ہے جو زندگی کی خوابیدگی کی منزل ہے اور انسان خود بھی ایک عرصے تک اس مقام میں رہا۔ مگر قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ بود نقش ہستیم انگارۂ ناقبولے ناکسے ناکارۂ۴۱؎ ’’سرگذشت آدم‘‘ اسی مقام سے آغاز ہوتی ہے اور شعور کی دوروئیں:جبلی شعور اور دینی شعور (عقلِ نا مسلماں اور عقل مسلماں) کی باہمی آویزش سے مدو جزرِ بحرِ ہستی نے تہذیبوں کو جنم دیا۔ باہمی آویزشوں کو مٹانے کے لیے خیمۂ اجتماع سے اقامت الصلوٰۃ تک کی آخری منزل دکھائی۔ یہ رحمۃ اللعالمینی پیغام ہے۔ مگر افسوس اپنی زمیں قیامت کی نفاق انگیز ہے۔ اس چمن کو آتشِ پیکار جلا رہی ہے آزادی کے گیت پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ غلامی کی رات پر مر رہے ہیں۔ ع کب زباں کھولی ہماری لذتِ گفتار نے۴۲؎ نظم ’شمع‘ میں بیان ہونے والے اسرار و رموز واقعاتِ ترکیہ کے پس منظر میں ہندستان کے سیاسی عمرانی مسائل کے بنیادی خط و خال واضح کرتے ہیں۔ ’شمع کی یک بینی، کو صفتِ عاشقانِ راز ’کہنا‘ کہ بزمِ عشق ہو یا مزار‘ شمع کا کام یکساں طور پر جلنا اور اشک بہانا ہے۔ نظم ’آفتابِ صبح‘ کے یہی مطالب ہیں۔ شمع کا کعبے اور بت کدے میں یکساں طور پر ضیا بار ہونا، لیکن انسان امتیازِ دیرِو حرم میں مبتلا ہے اور یہی امتیازِ رفعت و پستی کی بنیاد ہے۔ غافل نہیں جانتا عالم ظہورِ جلوۂ ذوقِ شعور ہے، کار زارِ ہند اسی دو گونہ غلط نگری کے ابتلا میں تھا یعنی امتیازِ دیر و حرم، سے پیدا ہونے والا امتیازِ رفعت و پستی، اسی کش مکش نے غیر قوم کی لڑاؤ اور حکومت کرو، کی پالیسی کو کامیاب بنا دیا ہے۔ لہٰذا ع نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو ۴۳؎ اقبال مثالِ شمع یک بیں ہے۔ نظم ’نیا شوالہ‘ شمع کی اسی ’ضیاے یک بیں‘ کا درسِ دل نشیں ہے۔ ’شاعرِ معجزبیاں‘ دانۂ خرمن نما بننے کے لیے‘ جمع کر خرمن کو پہلے دانہ دانہ کر کے ۴۴؎ تو کاعزمِ مصمم لے کر اتحاد کی صدا دیتا ہے۔ اقبال نے نظم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر بند کا ایسی صد اسے آغاز ہوتا ہے۔ سچ کہدوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے تیرے صنم کدے کے بت ہو گئے پرانے۴۵؎ ڈاکٹر وحید قریشی کے نزدیک اقبال نے پہلی بار (اس نظم کے ذریعے) مغربی قومیت کو تہذیبی بنیاد فراہم کی، ان کی فکری نہج کا یہ روپ جغرافیائی حدود کو پرستش کا رنگ دے دیتا ہے، مسلمانوں کی اقلیت کو اکثریت میں جذب کر کے اذان کو ناقوس میں ملایا اور دھرتی پوجا کے لیے راستہ صاف کیا ہے ۴۶؎۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال نے جغرافیائی حدود کو تقّدس دیا کہ کسی بھی معاشرتی نظام کا نفاذ بہر حال برسرِ زمین ہوتا ہے۔ ہمالہ کو فصلِ کشور ہندوستان کہنا بھی ہندستان ہی کی بلند اقبالی، کی طرف توجہ دلانا تھا۔ ’نیا شوالہ‘ ہمالہ کی بازی گاہِ عناصر سے حاصل کردہ کثرت میں وحدت، کا وہی خواب تھا جس نے عہدِ کہن کو ہمالہ کی عمر رفتہ کی اک آن بنا دیا تھا کہ آسمان اُس کی پیشانی کو چومتا تھا اور اس کے سر بندھی ہوئی برف کی دستار، مہرِ عالم تاب پر خندۂ زن تھی۔ اس کا زمین پر ہو کر دامانِ فلک کو وطن بنانا بھی ’ہندستان‘ ہی کی اہمیت کا بیان تھا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ دامنِ ہمالہ میں عناصر کی وہ وحدت‘ اہلِ ہند میں نہیں۔ ’سیاسی غلامی‘ کے دردِ آزار سے تو غافل ہیں لیکن مذہبی تفریق اور امتیازِ دیر و حرم‘ کے دیوانے ہو رہے ہیں حالانکہ: مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا۴۷؎ اقبال اسی ’مزاحمت‘ کو مٹانے کا درس دیتے ہیں۔ نظم ’آفتابِ صبح‘ ا ور نظم ’انسان اور بزم قدرت‘ کے مذکورہ بالا مطالب اس کی شہادت دیتے ہیں۔ اقبال ’آفتاب‘ کو دفترِ امکاں کا شیرازہ بند بتاتے ہوئے، اہلِ ہند کے لیے بھی ایسی ہی ضیاے شعور طلب کر رہا ہے جو عناصر کے تماشے کو اسی طرح قائم رکھ سکے کہ ہر شے کی زندگی کا تقاضا پورا ہو اور ہر شے کا وجود اپنی جگہ قائم رہے: قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے ہر شے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے ہر شے کو تیری جلوہ گری سے ثبات ہے تیرا یہ سوزو ساز سراپا حیات ہے اے آفتاب ہم کو ضیاے شعور دے چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے ۴۸؎ اس فوق المحسوسات آفتاب، سے پہلے اقبال نے آفتابِ محسوس کو مخاطب کیا تھا اور اس سے عقدۂ اضداد کی کاوش سے نجات کے لیے حسنِ عشق انگیز (وجہ اتصال باہمی) کی طلب کی تھی۔ زیرو بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے آرزو ہے کچھ اسی چشمِ تماشا کی مجھے بستۂ رنگِ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوعِ انساں قوم ہو میری، وطن میرا جہاں عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے حسنِ عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے۴۹؎ سوال یہ ہے کہ آفتاب فوق المحسوسات (نُورُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ) سے جس ضیاے شعور کو طلب کیا گیا تھا کیا وہ کسی ایسے حسنِ عشق انگیز پر مشتمل ہو سکتا تھا جو ہر شے سے اس کی زندگی (حیاتِ اجتماعی) کا تقاضا ہی چھین لے؟ اور اسے اس کی اجتماعی شناخت ہی سے محروم کر دے؟ یا اقبال کا شعورِ خرد افروز اس حسنِ عشق انگیز کی رونمائی چاہتا تھا جو ’’امتیازِ رفعت و پستی‘‘ پیدا کرنے والے ’’امتیاز دیر و حرم‘‘ سے پاک ہو کر ہندستان کے دفترِ امکاں کی ایسی شیرازہ بندی کرسکے کہ ہر عنصر بجاے خود قائم ہو، اپنے مقصد زندگی کی بجا آوری میں مکمل آزاد، مگر اوروں کا معاون و مددگار ہو نہ کہ مزاحم اور رکاوٹ بنے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح ہمالہ کے دامن میں عناصر کا تماشا دیکھا تھا۔ چونکہ اکثریتی قوم ہندو ہی اس راہ میں رکاوٹ تھی اس لیے اقبال نے ہندو برہمن کو مخاطب کیا اور وہ بھی اس روایت کے حوالے سے جو ہندو مت کے بزرگوں کی تعلیم میں موجود تھی۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امتدادِ زمانہ کے ساتھ کوئی بھی مذہب اپنی اصل پر نہیں رہتا یہی کچھ ہندو مت کے ساتھ بھی ہوا، گا یتری اس کابیّن ثبوت ہے۔ لہٰذا ’تیرے صنم کدے کے بت ہو گئے پرانے‘ ہو یا ع واعظ کے وعظ چھوڑے، چھوڑے ترے فسانے، ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں۔ کیا فرقہ پرست مسلمان توحید کے امین ہو کر’وحدت‘ کی رسی میں پروے ہوئے تھے یا ہیں؟۔ ۱۳ مئی ۱۹۱۳ء کی شام کو لاہور میں سرکشن پرشاد کے اعزاز میں پنجاب کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا جس میں اقبال نے بھی خطاب کیا تھا، جو ڈاکٹر محمد دین فوق کے اخبار (۲۸ جولائی) میں ’ڈاکٹر اقبال اور ہندو مسلم اتحاد‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ تقریر ’نیا شوالہ‘ (۱۹۰۵ئ) کا نثری جلوہ ہے اگر ’نیا شوالہ‘ کو دیا گیا وہ الزام درست ہے جو ڈاکٹر وحید قریشی کے حوالے سے اوپر نقل ہوا تو کہنا چاہیے کہ اقبال ۱۹۱۳ء میں بھی وہی کچھ کہہ رہا تھا جو اُس نے ۱۹۰۵ء میں کہا تھا پھر تو انحراف (۱۹۰۵ء کے بعد) کا دعویٰ بھی غلط نکلے گا۔ نہیں، اقبال کی متحدہ قومیت اوّل دن سے وہی تھی جو آخری دن تھی ملاحظ ہو خطابِ اقبال: صاحبان! پنجاب کے ہندو مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلے میں آج کا جلسہ یادگار رہے گا۔ اختلافات کا ناگوار مسئلہ پنجاب کے اطمینان و سکون کا دشمن ہو رہا ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو اختلاف کی کوئی چنداں وجہ بھی نظر نہیں آتی ہندوؤں کے مذہب، تاریخ، لٹریچر اور فلسفے سے بخوبی روشن اور ظاہر ہے کہ وہ غیر مذہب کے پیشواؤں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست تائید فرماتے ہیں اور اسی طرح مسلمانوں کے سرمایۂ حیات قرآن مجید میں بھی یہی ہدایت پائی جاتی ہے تو اختلاف کے کیا معنی؟ اگر دونوں قومیں ایک دوسرے کی روایات سے آگاہ ہیں تو کسی کو ایک دوسرے سے شکایت نہیں ہو سکتی: اور اگر مغربی تعلیم جس کو مادی تعلیم کہا جاتا ہے، کی وجہ سے بے دینی شروع ہو گئی ہے اور اس کے باعث نہ کافر کفر پر پورا ہے نہ مسلمان مسلمانی میں تو اس حالت میں بھی کوئی وجہ شکایت نہیں ہونی چاہیے، یہ تو وہی بات ہوئی: بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا میرا مضموں تو نہ پھیلا اور جوتا چل گیا اگر سیاسی اختلاف ہے تو میں کہوں گادونوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ اب آہستہ آہستہ دونوں کو معلوم ہونے لگا ہے کہ اختلاف کی تہہ میں پولیٹکل وجوہ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جیسا جیسا ،ہندو مسلمان ملک کی حیثیت کو سمجھیں گے زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے۔ ۵۰؎ یہ تقریر کسی تجزیے کی محتاج نہیں، مثلاً ڈاسن کے بوٹ; لا دین غیر ملکی تسلط کا دیا ہوا رجحان ہے۔ نہ ہندوؤں کی روایتِ مذہبی میں بیر لکھا ہے نہ مسلمانوں کی روایاتِ مذہبی میں۔ مسئلہ سیاسی بھی نہیں کہ دونوں غلامی کے شکنجے میں ہیں۔ مسئلہ ہے ایک ایسے اتحاد کا جو ایک دوسرے کو فنا کرنے کی بجاے ڈاسن کے بوٹ کا چلنا بند کر دے۔ اس کے لیے ایک ہی مشترکہ مقصد ہے ’ہندستان کی محبت‘ غلامی سے نجات اور آزادی کی تڑپ، اقبال نے جب کہا ’ہندوستاں کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے، تو اس کا یہی مفہوم تھا اور جب کہا میں نے واعظ اور ہندو کے افسانے چھوڑ کر ہندستان کے ذرّے ذرّے کو دیوتا بنایا ہے تو اس کامطلب بھی وہی تھا کہ نہ ہندو کافری میں نہ مسلمان مسلمانی میں پورا ہے ورنہ ’اتحاد‘ کوئی بات نہ تھی ہمالہ کی گودی میں عناصر کا باہمی تعاون اسی سے ممکن ہوا کہ ہر عنصر اپنے مقصدِ تخلیق کو جزوِ حیات بناتے ہوئے اپنا تشخص قائم اور مستحکم رکھے ہوئے ہے۔ ایسا کیے بغیر کوئی اتحاد بار آور نہیں ہو سکتا تھا۔ ۱۹۰۶ء اپریل کے شمارۂ مخزن میں اقبال کی ایک غزل شائع ہوئی تھی جو ہندو مسلم اتحاد کے لیے اور ہندستان کی گل منظری کی خاطر ’رنگ و بو‘ جیسا پیمان ضروری بتاتی ہے: ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے سے ہے محبت کا جلوہ حقیقتِ گل کو تو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بو کا ۵۱؎ نومبر ۱۹۰۶ء کے مخزن میں نظم ’چاند اور تارے‘ شائع ہوئی تو اس میں بھی ’رنگ و بو‘ کے لیے الگ الگ راستوں کا مقدر ہونا، واضح کیا گیا تھا۔ جس پر چل کر ہی آزادی کا یہ سفر، طے ہو سکتا تھا۔ تاروں کے استفسار کے جواب میں کہ ہو گا کبھی ختم یہ سفر کیا؟ منزل کبھی آئے گی نظر کیا؟۵۲؎ یہ درس دیا گیا تھا کہ اس بستی میں ’ جو اوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے‘ مگر نظم ’دو ستارے‘ ۱۹۰۹ء میں ایک ہی قران میں تقدیراً جمع ہو جانے والے ’دو ستاروں‘ کے اس خواب کو کہ یہ وصل، وصلِ مدام ٹھہرے، پیغامِ فراق‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فطرت کے اس اٹل قانون کو دہرایا گیا تھا کہ اپنے اپنے تشخص کو قائم رکھے بغیر یہ ’وصلِ دوام‘ کی تمنا کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ بصورتِ دیگر موت اٹل ہے۔ اس قران کو ’’قرانِ ہند‘‘ اور دو ستاروں کو ہندو مسلم، ٹھان کر غور کریں تو اعلان واضح ہو جائے گا: گردش تاروں کا ہے مقدر ہر ایک کی راہ ہے مقرر ہے خواب ثباتِ آشنائی آئین جہاں کا ہے جدائی۵۳؎ لہٰذا ’نیا شوالہ‘ میں ’آوازۂ اذان کو ناقوس میں ملا دیں، کسی نئی لے کو ابھارنا نہ تھا بلکہ ’ہر دوارِ دل ‘ میں ہندستان کی انوپ صورت مورتی کو سجا کر، اس کی سر بلندی و اقبال مندی کے لیے دونوں قوموں کا متحد ہو کر، چلنا تھا۔ یہ ’مندر ‘بر سرِ زمین نہیں ’ہر دوا ردل‘ میں قائم ہونا تھا۔ مگر افسوس دل کی بستی مدت سے سُونی پڑی تھی اس میں ہندستان کی انوپ صورت مورتی کی محبت کی بجاے باہمی نفرتوں کے بت بٹھا دیے گئے تھے۔ امتیازِ دیر و حرم نے ’امتیازِ رفعت و پستی‘ قائم کر رکھا تھا۔ ایک کا اوج دوسرے کی پستی کے بغیر ممکن نہ تھا مگر اس میں بھی اصل زیاں ہندستان کے دیرینہ تاریخی مقام کو تھا غلامی کی رات ہی گہری ہو رہی تھی۔ چنانچہ یہ کہنا کہ آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملا کر، ہندستان کی مورتی کی پوجا کے لیے ’ہر دوارِ دل‘ کی طرف دوڑنا، مسلمانوں کی اقلیت کو اکثریت میں جذب کرنا تھا، قطعاً بے بنیاد اور غیر متعلق ہے۔ اسی طرح اس سے یہ مطلب لینا کہ ’’اقبال ہندوؤں سے اپنی مذہبی نشانیوں کو چھوڑ کر غیر ہندوؤں سے ملنے کی تلقین کرتا ہے جو بدبختانہ ہے‘‘ جیسا کہ ڈاکٹر سچا نند سنہا سمجھے۵۴؎، قطعاً غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ وہ تو ہندو کو کافری میں اور مسلمانوں کو اسلام میں پختہ تر دیکھنا چاہتا ہے جس کے بغیر پایدار امن اور اتحاد کا خواب بے کار تھا۔ سرکشن پرشاد نے محولہ بالا تقریرِ اقبال کے جواب میں اقبال ہی کے دو شعر پڑھ کر اس حقیقت کو واضح کر دیا تھا: نظارۂ کہکشاں نے مجھ کو عجیب نکتہ یہ کل سجھایا ہزار گردش رہی فلک کو مگر یہ تارے بہم رہے ہیں قفس میں اے ہم صفیر! اگلی شکایتوں کی حکایتیں کیا خزاں کا دورہ ہے اب چمن میں نہ تو رہا ہے نہ ہم رہے ہیں ۵۵؎ اصل مسئلہ ’خزاں کا دور‘ تھا جس کی طرف سے غافل ہو کر، ہندو، ہزار سالہ دورِ اسلامی کے انتقام کی خاطر انگریزوں کی غلامی قبول کرنے پر آمادہ تھا مگر مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری۔ حالانکہ ہزار گردش فلکی کے درمیان یہ تارے کہکشاں کی طرح بہم رہے ہیں ’ترانۂ ہندی‘ میں یہی وہ کچھ بات تھی، جس نے گردش فلکی کے درمیان ہندستان کو مصر و یونان و روما کے مقابلے میں، مٹنے سے بچایاتھا۔ یہی کہکشاں نشانی، ہندستان کی روایت تھی جس کے حوالے سے اقبال نے کہا آؤ ’غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھائیں‘ اور ’پریت‘ کو اپنا کر دھرتی کے باسیوں کے لیے خزاں کے دور سے مکتی کی راہ نکالیں۔ یہ مطالب صرف ’نیا شوالہ‘ تک محدود نہیں۔ اسرارِ خودی میں ایک بار پھر اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اور ’نیا شوالہ‘ کو ’بہرِ آدم عالمے‘ تعمیر کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اقبال نے ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر سچا نند سنہا اور ان کے ہم نواؤں کے ایک ایک اعتراض کا جواب دے دیا ہے، ملاحظہ ہو۔ خطاب یہاں بھی ہندو سے ہے جیسا کہ سرکشن پرشاد کے نام مرسلہ ان اشعار کے ساتھ وضاحت کر دی گئی ہے۔ ہندستان کے تیرتھ کو تمام تیرتھوں سے بلند رکھنے اور اس کا کلس آسمان سے ملانے کی توضیح: تاشدی آوارۂ صحرا و دشت فکرِ بے باکِ تواز گردوں گذشت گفت شیخ اے طائرِ چرخِ بلند اند کے عہد وفا با خاک بند مرد چوں شمعِ خودی اندر وجود از خیالِ آسماں پیماچہ سود من نگویم از بتاں بیزار شو کافری، شائستۂ زنار شو گرز جمعیت حیاتِ ملت است کفر ہم سرمایۂ جمعیت است تو کہ ہم در کافری کامل نہ ای در خورِ طوفِ حریم دل نہ ای ماندہ ایم از جاوۂ تسلیم دور تو ز آزر من ز ابراہیمؑ دور اے امانت دار تہذیب کہن پشتِ پا بر مسلکِ آبا مزن از گل خود آدمے تعمیر کن بہرِ آدم، عالمے تعمیر کن۵۶؎ شاید اب ’ ہر دوارِدل‘ کی بات سمجھ میں آئی ہو اور مندر میں آوازۂ اذاں کو ناقوس میں ملاتے ہوئے آنے کا نکتہ واضح ہوا ہو۔ شاید کھلا ہو کہ غیریت کے پردے اٹھانے کا کیا مفہوم تھا اور تصورِ ملت سے مستفاد، متحدہ قومیت، برطانوی اور کانگریسی نقطۂ نظر سے کس قدر مختلف تھی۔ آزری کی آزری میں پختگی اور ابراہیمی کی ابراہیمی میں پختگی اس کی شرطِ اوّل تھی۔ اور اس متحدہ قومیت کا ’مقصدِ اتصال‘ ہندستان کا اقبال تھا۔ اقبال ہندستان کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہا۔ نیا شوالہ میں ’خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے‘ اسرارِ خودی میں ’’اند کے عہد و فاباخاک ہند‘‘ میں ظاہر ہوا۔ ورنہ ’خیال آسمان پیما‘ بے کار ہے‘ علم الاقتصاد میں ایسے خیالِ فلک پیما کا جو انسان کے تمدنی حالات اور انسان کی جدید ضروریات کو پورا نہ کر سکے، معدوم ہونا، فطری امر بتایا گیا تھا۔۵۷؎ مسلمانوں کا عقیدہ توحید ہو (ابراہیمی) یا وحدت میں کثرت کا ہندو فلسفہ( آزری) ہندستان سے غداری کر کے، مسلمان اور ہندو کو بھی مٹا دے گا اور خود بھی مٹ جائے گا: ع نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو جاوید نامہ میں اقبال نے ہندستان کو ’حورے پاک زاد‘ کہہ کر باچنیں خوبی نصیبش طوق و بند، پر اظہارِ افسوس کیا ہے اور ہندستان کے غداروں کے درد ناک انجام کا لرزا دینے والا نقشہ دکھایا ہے۔ اقبال ہندستان کے تقدس سے کبھی غافل نہیں رہا۔ اصل مسئلہ اس تقدس کی بحالی کے لیے ہندو کا ہندو رہتے ہوئے اور مسلمان کا مسلمان ہوتے ہوئے،متحد ہونا تھا۔ جسے اقبال نے ’نیا شوالہ‘ کی علامت سے ظاہر کیا۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۹۳۲ء کے صدارتی خطبے میں اقبال نے یہ نکتہ بھی واضح کر دیا تھا: قدیم ہندی مفکرین کا مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح وحدت، اپنی وحدت کو نقصان پہنچائے بغیر، کثرت میں بٹ گئی؟ مگر آج یہ مسئلہ، ہمارے سیاسی مسائل کے حوالے سے بالکل برعکس ہے، ہمیں یہ حل نکالنا ہے کہ کثرت کو بغیر کسی نقصان کے کیسے وحدت آشناکیا جائے؟ ۵۸؎ اس کا فطری نقشہ عالم تکوینی میں ’ہمالہ‘ تھا تو ہندستان کے تمدنی حالات کے حوالے سے ’نیا شوالہ‘ مگر اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آل انڈیا نیشنل کانگریس تھی جس پر مسلمان بھی فدا ہو رہے تھے۔ اقبال ’اتحاد کی اس دعوت‘ میں برابر مصروف رہا لیکن حالات ابھی واضح نہ تھے اس دعوت کا جواب آسان نہ تھا۔ اچانک اقبال نے اعلان کیا: گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں۵۹؎ اب اسے اپنے درد کے محرم مل گئے۔ مرغِ دل کے لیے آزادی کے گیت گانے کا موسم آ گیا اور بلبل شوریدہ اپنے نالے کو دل میں تھامے رکھنے کے مراحل سے نکل آیا۔ ’نیا شوالہ‘ کے ضمن میں ایک اہم بات یاد رکھنی چاہیے کہ اقبال نے، قرآنِ پاک، سیال کوٹ کے ایک محلہ شوالہ، کی مسجد میں پڑھا۔ وہ کیا شوالہ ہو گا جس پر محلے کا نام پڑا۔ اس محلے میں مسجد اور اس میں تعلیم القرآن ___ کیاروح افزا فضا تھی اس محلے کی ___ نوجوان اقبال نے ___ ’ناقوس و اذاں‘ کی ویسی ہی ہم آہنگی پورے ملک میں دیکھنا چاہی تو اسے ’نیا شوالہ‘ بنانے سے بہتر کیا ترکیب ہو سکتی تھی ؟ ۱۹۰۶ء میں شملہ وفد کے مطالبے کی منظوری اس ترکیب کی بہترین صورت نظر آئی۔ واضح رہے مارچ ۱۹۰۷ء میں منٹو مارلے اصلاحات کا مسودہ بصورتِ مراسلہ لندن پہنچا ۶۰؎ تو اقبال کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ دل اپنی برسوں کی خواہش پوری ہونے کی امید پر بلیوں اچھلنے لگا، اعلان ہوا: ع زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا خ مارچ ۱۹۰۷ء اکتوبر ۱۹۰۶ء میں سر آغا خاں کی قیادت میں، مسلمانوں کے ایک وفد نے ، شملہ میں وائسراے لارڈ منٹو سے ملاقات کی اور یہ عرض داشت پیش کی: ’’ہندستان کے مسلمانوں کو محض ایک اقلیت نہیں بلکہ قوم کے اندر ایک قوم سمجھنا چاہیے اور اس کے حقوق اور ذمہ داریوں کی ضمانت ایک آئین کے ذریعے ہونی چاہیے‘‘۔ ۶۱؎ دسمبر ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ قائم ہوئی۔ مسلمانوں کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم وجود میں آ گیا۔ گویا اقبال کے تصورِ ملت سے مستفاد متحدہ قومیت، کی بار آوری کے موسم کی آمد آمد تھی۔ متحدہ قومیت کا مغربی نسخہ پارلیمانی جمہوریت کے تحت قومی حکومت کا قیام تھا۔ سر سید احمد خاں مرحوم مذہبی افتراق کے ہوتے ہوئے پارلیمانی جمہوریت (مغربی طرز کی انتخابی مشینری) کو مساوات کے حوالے سے ناکام سمجھتے تھے لیکن اقبال کو اسی پارلیمانی جمہوریت میں نہ صرف مسلمانوں کی نجات بلکہ پورے ہندستان کی نجات نظر آئی۔ پارلیمانی جمہوریت ہی برقِ سر کوہسار کا دیا ہوا وہ تازیانہ تھا جو راہو ارِ ہوا‘ کو تیز گام کر سکتا تھا۔ اقبال نے اعلان کیا: تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہو گا ۶۲؎ پارلیمانی نظام ہی وہ خنجر تھا جو مغربی تہذیب: لا دین متحدہ قومیت کو موت کے گھاٹ اتار سکتا تھا۔ ہندستان کے لیے پارلیمانی جمہوریت، مسلمانوں کے لیے جداگانہ حق نیابت اور مسلم لیگ کے قیام نے وہ مرحلہ طے کر دیا۔ برطانوی تاجروں نے ہندستان پر قبضہ کر کے اپنے ہر سکے کوہر جگہ کے لیے کھرا سمجھ رکھا تھا۔ مگر ایسانہ تھا۔ متحدہ قومیت کا لا دین فلسفہ یورپ میں تو کارآمد رہا لیکن کثیر القومی اور کثیر الملی ہندستان ، خدا کی بستی تھی، کلیسیائی خدائی کی دکان نہ تھی۔ یہاں اب اس کے ’کم عیار‘ ہونے کے دن آ گئے تھے: دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی، دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا ۶۳؎ اب وقت تھا کہ اقبال اپنے تصوّر کے لیے سرگرمِ عمل ہو جائے‘ دیدارِ یار عام‘ ہو، علامتی پردوں سے باہر آئے‘ بے حجابی کا زمانہ آگیا‘ درد کے محرم پیدا ہو گئے ہیں: یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں ۶۴؎ یہی ’وصال‘ کا مرحلہ تھا‘ مسرت کی ہوا چلنے لگی تھی اور قیام ہستی کے بحر میں مدو جزرِ امید کی مسرّت بخش فضا قائم ہو گئی تھی‘ چنانچہ گجر بجا۔ ] نظم ’وصال‘ اگست ۱۹۰۷[ اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں اہلِ گلشن پر گراں‘ میری غزل خوانی نہیں ۶۵؎ اب تہذیبِ مغرب کے عطا کردہ خنجر پارلیمانی جمہوریت کو اپنا آلۂ کار سمجھ کر استعمال کرنے کی ترغیب کا مرحلہ تھا لہٰذا مسلم لیگ کے قیام کے ساتھ اقبال نے اپنا مشن بطرزِ نو شروع کیا۔ کہ اب اسے دعوتِ اتحاد کو صرف مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے کام میںلانا تھا۔ خ خلافتِ اسلامیہ (اکتوبر ۱۹۰۸ئ) اقبال نے خلافتِ اسلامیہ کے اصول و ضوابط کی تشریح کی‘ اہلِ سنت‘ اہلِ تشیع اور خوارج کے نظریات کو سیرتِ رسولؐ اور خلافتِ راشدہ کے تعامل کی روشنی میں پرکھا‘ اسلامی قومیت کے لیے طبقات پرستی اور فرقہ بندی کو سمِ قاتل بتایا۔ اس مقالے کے تین مرکزی نکات تھے: ۱۔ زمانۂ حال کی سیاسی جماعتوں کی زندگی کا نشوونما زیادہ تر آئین و حکومت کے مشترک اصولوں پر مبنی ہو رہا ہے۔ یہ گویا ملتِ اسلامیہ ہی سے مستفاد ہے‘ یہ بالقوۃ اسی قسم کی جامع کمالات ملت کی تشکیل کے لیے فطری فضا پیدا کرنے میں معاون ہے۔ ’’ایسے نظام کی تعمیر کی بنیاد دنیا کی مادّی قوتوں پر کھڑی نہیں ہو گی اس کا تمام تر مدار ایک منتہاے مشترک و واحد کی روحانی قوت ہو گا۔‘‘ ۶۶؎ یہ کانگریسی مسلمانوں کے لیے کتنا خوب صورت پیغام تھا۔ ۲۔ ’’قرآن پاک نے جو اصولِ اساسی قائم کیا وہ انتخاب ہی کا اصول ہے۔ البتہ اس اصول کی فروعی تفصیلات کے استنباط کا دارومدار (عملی نفاذ کے حوالے سے) وقتی حالات اور دیگر واقعات پر چھوڑا گیا ہے۔ مگر شومیِ قسمت سے‘ مسلمانوں نے انتخاب کے مسئلے پر کما حقہٗ توجہ نہیں دی اور خالص جمہوری بنائوں پر اصولِ انتخاب کے مسئلے کو فروغ دینے کی سعی سے قاصر رہے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان فاتحین ‘ ایشیا کے سیاسی نشو وارتقا کے لیے مطلقاً کچھ نہ کرسکے‘‘۔ ۳۔ ’’ایسا نہ ہو سکنے کی دو وجوہات تھیں ایک تو ایرانیوں اور منگولوں کا انتخاب کے مفہوم سے نا آشنا ہونا اور فقِیہ کو ہمیشہ مظہرِالوہیت سمجھ کر اس کی پرستش کرنا (جیسا کہ یہودی حکومت الہٰی اور نصرانی کلیسائی مطلقیت میں تھا یا اہلِ اسلام میں خوارج کی حکومت الہٰی میں امام نائب حق (ظل اللہ) سے ظاہر ہے)۔ دوسرا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا فتوحات میں مصروف رہنا ور تمام تر قوّت کا استعمال مملکت و سلطنت کی تقویم و توسیع کے لیے وقف ہو جانا جس کے نتیجے میں فطری طور پر تمام تر اقتدار چند ہاتھوں میں آگیا جن کا اقتدار دانستہ نہ سہی عملاً ایک مطلق العنان بادشاہ کے مترادف تھا اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جمہوریت قدرتاً شہنشاہیت کے دوش بدوش چلنے اور کام کرنے کو تیار نہیں‘‘۔ ۶۸؎ یہ ہے تمھاری تہذیب اپنے خنجر کے ہاتھوں خود کشی کرنے کا مفہوم۔ چنانچہ جہاں جمہوریت‘ ملت سازی کے لیے مفید ہے وہاں برطانوی شہنشاہیت کے خاتمے کے لیے بھی مفید ہے۔ اقبال نے مسلم مصلحین کو مشورہ دیا کہ وہ ملت کو باور کرائیں کہ سیاسی آزادی کے (جمہوری) اصول جو بظاہر غیر اسلامی نظر آتے ہیں عین اسلامی ہیں ۶۹؎ اور عصرِ حاضر میں بلاتفریقِ رنگ و نسل یا دیگر قومی امتیازات کے‘ ملت سازی‘ سیاسی جماعت بندی ہی سے ممکن ہے اور ملت کی اساس‘ مشترک و واحد روحانی قوت ہے نہ کہ مادّی حوالہ۔ جو لوگ کسی ایسی جماعت سے منسلک رہیں جس کا حوالہ مادّی ہو وہ ملت سے اخراج کی راہ پر ہیں۔ یہی سیاسی جماعت بندی جہاں ملت سازی کے کام آئے گی وہاں چونکہ جمہوریت اور شہنشاہیت قدرتاً ایک ساتھ نہیں چل سکتے اس لیے ہندستان کی نجات‘ بھی اسی سیاسی جماعت بندی اور جمہوریت کے رواج میں مضمر ہے۔ مطلب یہ کہ اقبال نے کانگریس میں جمع ہونے کو اصولِ ملت کے خلاف اور مسلم لیگ میں جمع ہونے کو ملت سازی سے تعبیر کرکے اس کا حتمی نتیجہ آزادیِ ہند قرار دیا۔ خ اسلام ایک اخلاقی اور سیاسی نصب العین (جولائی ۱۹۰۹ئ) ۱۹۰۹ء میں منٹو مارلے اصلاحات کی تجاویز نے ’آئینِ مجالس ہند‘ کے ذریعے قانونی شکل اختیار کی۔جس میں ہندستان کے لیے من حیثِ المجموع جو کچھ بھی تھا‘ تھا۔ مسلم نقطۂ نظر کے حوالے سے یہ اہم بات تھی کہ جداگانہ حلقہ ہاے انتخابات قائم ہو گئے، شملہ وفد کا مطالبہ پورا ہو گیا اور جداگانہ مسلم نمایندگی کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ ۱۹۱۰ء میں کانگریس نے اسے جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی‘ کہہ کر مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ’’حق راے دہی کے معاملے میں ملکہ معظم کی رعایا کے مختلف فرقوں کے درمیان اس قسم کی بے قاعدہ حد بندیوں‘ کو دور کیا جائے‘‘ ۔۷۰؎ فی الواقع پارلیمانی نظام میں متناسب نمایندگی اور جدا گانہ انتخاب کا تصور اکثریت کے خلاف جاتا ہے اس سے ہندو اکثریت کی بالا دستی کا خواب چکنا چور ہو گیا‘ ایسے نظام میں آئینی حکمران کی بالادستی مسلّم ہوتی ہے۔ برطانوی تاج نے ایسا کرکے اپنے اقتدار کو مستحکم کر لیا تھا اور کانگریسی تخیّل مُسمار ہو گیا۔ علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے قیام کو ’وصال‘ اور خنجر سے یُوں ہی تشبیہ نہ دی تھی۔ علامہ اقبال نے اب مسلمانوں کو جہاں سر سید احمد خان کے افکار کے برعکس جمہوری سیاست کی طرف راغب کرنے اور اس طرح اسلام کی وہ خدمت کرنے کی ترغیب دی جو ایشیا کے مسلم حکمرانوں کے کرنے کا کام تھا مگر وہ نہ کرسکے اور اب برطانیہ وہ کام کر رہا ہے۔ لہٰذا برطانیہ سے تعاون گویا اپنے ساتھ تعاون ہے یہ سر سید احمد خان کی فکر کا احیا تھا۔ علامہ نے واضح کیا: جمہوریت ہی اسلام کا سیاسی نصب العین ہے (جس نے انسان کو اپنی مقدر کا خود مالک بنایا) ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے کہ مسلمانوں نے انفرادی آزادی کے اس اجتماعی نظام سے ایشیا کی سیاسی نشو ارتقا کے لیے کچھ نہیں کیا ان کے ہاں جمہوریت صرف ۳۰سال تک رہی (خلافت راشدہ) اور سیاسی پھیلائو کے ساتھ غائب ہو گئی ایشیائی ممالک میں اس کی روح پھونکنا انگریزوں کا مقدر تھا۔ انگلینڈ نے صدیوں کی مطلق العنانیت کے کچلے ہوئے لوگوں تک اسے پہنچایا۔ یہی وسیع سلطنت برطانیہ کی قوتِ حیات ہے۔ اس ایمپائر کا استقلال ہمارے حق میں ہے کہ یہ ہمارے ہی کام کو آگے بڑھا رہی ہے۔ برطانوی جمہوری نظام ہندستان میں مسلمانوں کا عددی تحفظ ہی نہیں کرتا بلکہ یہ ہندستان کو دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت بھی بناتا ہے۔ ۷۱ ؎ ’مذہبی پیشوائیت‘ کے لیے نفاذِ شریعت کا غلغلہ مچانے والے جب اقبال کو جمہوریت مخالف ثابت کرتے ہیں تو سخت دکھ ہوتا ہے۔ علامہ کے افکارِ سیاسی ان محققین کا ابطال کرتے ہیں۔ یہی تو اسلام کا اخلاقی نصب العین تھا: انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرنا۔ اللہ کا حکم ہی مقتدر اعلیٰ ہے۔ ماسواے تشریح کے کسی کا کوئی مقام نہیں (کہ اس کی اتباع کو قرآن و سنت کی اتباع قرار دیا جائے) اسلام شخصی اتھارٹی سے نفرت کرتا ہے‘ مسلمان اسے انسانی تشخص کے انکشاف کا دشمن سمجھتے ہیں۔ شیعہ تصور امامت جس میں امام معصو م ہوتا ہے اور اس کی قانونی تشریح حتمی ہوتی ہے‘ تاریخِ انسانی کے ابتدائی معاشروں میںمفید رہی ہو گی لیکن یہ مہذب معاشروں میں کام نہیں آسکتی‘ ایران میں اصولِ انتخاب کی تڑپ اس کی شاہدِ عادل ہیں۔ ۷۲ ؎ (حضرت علامہ نے ایران میں جمہوری انقلاب کی روح کو کتنی مدت پہلے بیدار ہوتا دیکھ لیا تھا! جمہوری روح کی اسی بیداری کے بعد ہی تو‘ مذہبی پیشوائیت کے علم برداروں کو شیعہ کافر نظر آنے لگا حالانکہ وہ اب سنی نقطۂ نظر کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ جمہوری حکومت کا قیام اور امام خمینی کی طرف سے باقاعدہ منتخب عوامی نمایندے کو اپنا نائب مقرر کرنا شیعیت کے اصل الاصول کو اکھاڑ پھینکنے کے مترادف ہے۔) بہر حال علامہ اقبال نے جمہوریت کو اسلام کا سیاسی نصب العین اور اس کے اخلاقی نتیجے کو غلامی سے نجات قراردیا تھا لہٰذا برطانیہ کی طرف سے اس نظام کے قیام کا مطلب‘ ہندستان کو دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت بنانے سے تعبیر کر کے مسلمانوں کوسر دست برطانیہ کے خلاف نہ ہو کر اور انگریز دشمنی سے بازرہ کر اس سیاسی نظام کو ملت سازی کے لیے کام میںلانے کی ترغیب دی۔ علی گڑھ کے طلبہ کے نام جون ۱۹۰۷ء کے پیغام میں یہی دو باتیں تو مذکور تھیں: بادہ ہے نیم رس ابھی‘ شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے منہ پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی ۷۳؎ ’بادۂ نیم رس سیاسی آزادی‘ (جمہوری نظام) کے عدم رواج و عدم استحکام کا استعارہ ہے تو ’شوق کی نارسائی‘ اس رجحان کی طرف اشارہ جو انگریز دشمنی کے نام پر کانگریسی نقطۂ نظر کی حمایت میں سر گرم تھا‘ اور اس میں ’ابھی‘ برطانوی تولیت کی فوری ضرورت کے تحت دیرپا فوائد کی خبر دیتا ہے۔ ’وطنیت‘ کے پرستاروں کو جنرل باڈی سے الگ ہونے کے تلخ نتائج سے آگاہ کیا گیا۔ ’مازنی‘ کے تحتِ عنوان ۱۹۱۰ء میں اقبال نے شذرات میں لکھا تھا: مازنی کا صحیح دائرہ عمل ادب تھا نہ کہ سیاست‘ سیاست سے اس کے شغف نے اطالیہ کو اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا دنیا کو نقصان پہنچایا۔۷۴؎ یہی کچھ برعظیم کے مذہبی رہنما وطنیت کے حوالے سے کر رہے تھے جس سے ہندستان کو اتنا فائدہ نہ پہنچ رہا تھا جتنا کہ انگریزکو اور انگریزوں کو اتنا نقصان نہ پہنچ رہا تھا جتنا کہ مسلم نقطۂ نظر کو۔ بعض مذہبی رہنمائوں کے اسی رویے نے اقبال کو تحریکِ خلافت سے جذباتی وابستگی کے باوجود دور رکھا۔ اقبال نے اس مقالے میں: ۱۔ اسلام کو انجمن قرار دیا جس کا قیام دو کلمات پر ایمان سے مشروط ہے (لا الہٰ اِلّااللہ محمدرسول اللہ: توحیدِ باری تعالی اور الرسولِ آخرؐ کی ابدی امامت ) ۲۔ ہندستان میں مسلم اقتدار کا راز ضعیفوں اور کچلے ہوئے لوگوں کی سربلندی میں تھا۔ برطانوی اقتدار کا ماحصل بھی یہی ہے (شرفا اور کلیسائی مطلقیت کے خلاف جمہوریت کے رواج سے) اگر برطانیہ نے اس اصول کو مضبوطی سے تھاما تو یہ اس کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہوگا جتنا کہ اس کے پیش رو مسلمانوں کے لیے تھا ۔۷۵؎ ۳۔ اسلام واحد اور ناقابلِ تقسیم ہے یہ اپنے اندر کوئی متفرق ندیاں نالے نہیں رکھتا۔ شیعہ سنی وہابی کی تفریق سے اسلام بے زار ہے۔ جب حق بذاتہٖ خطرے میں ہو تو حق کی فروعات میں جھگڑا کیوں؟ ۷۶؎ اقبال نے مسلمانوں کو اتحاد‘ اور برطانیہ کو مسلم ضعیفوں کی حمایت کی طرف ترغیب دلائی۔ مقالہ ’ ملت بیضا پر عمرانی نظر‘ انھی مطالب کو آگے بڑھاتا ہے۔ ’’میرا مدعا یہ ہے کہ مسلمانوں کا ذہنی افق ایک ہوتا کہ جماعت، مخصوص مقصد کے تحت فردواحد کی صورت میں مشحض ہو جو صرف اور صرف مسلم قومیت کا طرۂ امتیاز ہے‘‘۔ خ تحریکِ خلافت تحریکِ خلافت نے وطنیت کے بت کو پاش پاش کرکے ملّی نظریے کی تصدیق کر دی لیکن تحریکِ خلافت کئی وجوہ سے مسلمانوں کے لیے غیر مفید بھی تھی۔ ایک توتر کی میں’خلیفہ عثمانی‘ کی بحالی کے حوالے سے‘ دوسرے ’ہندستان میں مسلمانوں اور برطانوی حکمرانوں کے درمیان تصادم کے حوالے سے، جس میں گاندھی جی کا وافر حصّہ تھا۔ اور تیسرا‘ گاندھی جی کا ایک متفقہ قائد کے طور پر ابھر آنا۔ لیکن اس کا مفید ترین نتیجہ تمام ہندی مسلمانوں کا ایک جگہ اکٹھا ہو جانا تھا۔ جس کے حوالے سے اقبال نے ترانۂ ملی لکھ کر ’’ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا‘‘۷۸؎ کی مسرت کا اظہار کیا۔ جہاں تک خلیفہ عثمانی کی بحالی کا تعلق ہے اقبال نے’ مؤتمر عالم اسلامی‘ کو زیادہ اہمیت دی۔ لیکن گاندھی جی کی قیادت اور انگریزوں سے تصادم کو اقبال کسی’ لندنی سازش‘ کانتیجہ سمجھتے تھے‘ اس سے متحدہ قومیت کے اقبالی نظریے پر ضرب پڑتی تھی۔ اقبال کے خدشات درست ثابت ہوئے۔ اقبال اس سے پہلے میثاقِ لکھنو ۱۹۱۶ء سے بھی بقول عبدالمجید سالک‘ اختلاف کر چکے تھے کہ: اس میں پاسنگ کے اصول سے نہ تو مسلم اکثریت والے صوبوں میں مسلمانوں کو مؤثر اقتدار مل سکتا تھا نہ مسلم اقلیت والے صوبوں کو خاطر خواہ فائدہ پہنچتا تھا۔ علاوہ اس کے ایسا میثاق اسی صورت میں مفید ہو سکتا ہے کہ ہندستان میں متحدہ قومیت کی داغ بیل ڈالنا منظور ہو اور حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں قومیت متحدہ کی تعمیر نہ ممکن ہے نہ اس کے لیے کوشش کرنا مفید ہے۔ ۷۹؎ اقبال ’آفتاب صبح‘ (مئی ۱۹۰۲ئ) میں اسے سعیِ لا حاصل‘ قرار دے چکے تھے۔ مسلم لیگ کے قیام سے مسلمانوں کا جداگانہ تشخص تسلیم ہوا اور جداگانہ حقِ نیابت ملا۔ تحریکِ خلافت نے نظریۂ وطنیت پر کاری ضرب لگائی‘ لیکن ایک تو خلافت کی دریوزہ گری اور دوسرے گاندھی کی قیادت جس سے تحریکِ خلافت کا سیاسی ثمر‘ لٹ رہا تھا اقبال کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۹ء کو یومِ خلافت منایا گیا (جو حکومت کے جشن فتح کے خلاف تھا)۔ حضرت علامہ کی تقریر اس حوالے سے قابلِ غور ہے‘ معاہدہ سیورے‘ نے خلافت کی دریوزہ گری کے عوض ترکیہ کی آزادی کا جو سودا کیا تھا اور جوانان تاتار نے اس کے خلاف آواز اٹھا کر صاحب نظر ہونے کا جو ثبوت دیا تھا‘ ملاحظہ ہو اس کی تفسیر خوشامد منت اور مانگے سے کچھ نہیںملا۔ خدا کے سوا کسی کی اطاعت ہمارے لیے واجب نہیں۔ یاد رکھو! جو قوم ایک بڑا مقصد لے کر پیدا ہوئی ہے وہ یوں ہی نہیں مٹ سکتی بادشاہیاں مٹ رہی ہیں انسان نے اپنے فطری حقوق کا دعوٰی پیش کردیا ہے تمھاری تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔پریذیڈنٹ وِلسن نے ۱۴ اصول قائم کیے جن کے مطابق عالم گیر جنگ کا فیصلہ کیا جانا تھا ان میں سے ایک بات یہ تھی‘ ہر ایک قوم اپنے معاملے کو خود فیصل کر لیا کرے۔ ہماری سرکار نے بارہا اعلان کیا کہ ہم حق ‘ انصاف اور صداقت کے لیے لڑ رہے ہیں ہماری جنگ اس لیے ہے کہ بین الاقوامی اصول قائم رکھے جائیں‘ ہم بھی یہی کہتے ہیںکہ ہمارے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ ۸۰؎ مراد یہ کہ مسئلہ حقیقت میںبحیثیت قوم ترکیہ کے عوام کا اپنا معاملہ خود فیصل کرنے کے مسلّمہ بین الاقوامی اصولی حق کا تھا جس کا فائدہ خود ہندی مسلمانوں کو بھی پہنچ جاتا۔ مگر وہاں توصرف ’خلافت‘ کو بچانا ہی سب کچھ تھا جسے خلیفہ معاہدوں سے اور اہلِ ہند تحریکوں سے بچانا چاہتے تھے گاندھی کو ملت کے قلعے میں سرنگ لگانے کا موقع ہاتھ آیا ’’صد کوچہ ایست دربنِ دنداں خلال را‘‘ ۸۱؎ گاندھی جی نے مسلمانوں کو دَنگئی ثابت کیا‘ ہجرت کی راہ دکھا کر ہندستاں کو ان سے خالی کرانا چاہا‘ اچانک عدم تشدد کا دورہ پڑا اور مسلمان بے یارو مددگار رہ گئے۔ گاندھی جی اپنے پیچھے اس نامرادی کے ساتھ ساتھ شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں چھوڑ کر جیل میں مقیم ہوئے، نہرو رپورٹ نے میثاقِ لکھنؤ کی دھجیاں اڑائیں۔ عدمِ تعاون‘ تعاون میں بدل گیا‘ سوراج پارٹی وجود میں آئی‘ انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا گیا جمعیت علماے ہند نے ساتھ دیا۔ ۸۲؎ اور ۱۹۲۳ء کے انتخابات ’یا بآں شوراشوری یا بایں بے نمکی‘ کے مصداق کسی رکاوٹ کے بغیر ہو گئے اور انگریز دشمنی اسی طرح بے داغ رہی۔ تحریکِ خلافت کے عوض تحریکِ ترکِ موالات کے لیے دی گئی قربانیوں کے نتیجے میں ایوانِ اقتدار سج گیا۔ فرنگی اقتدار محفوظ ہو گیا اور ہندو مسلم منافرت تیز ہو گئی۔ مسلم لیگ کے قائد‘ محمد علی جناح نے تجاویز دہلی (۲۰‘ اپریل ۱۹۲۷ئ) میں جداگانہ انتخابات سے دست برداری کو چند شرائط کے ساتھ منظور کر لیا تو لیگ دوحصوںمیں بٹ گئی‘ لاہور لیگ اور کلکتہ لیگ۔ سائمن کمیشن سے تعاون اور مقاطعے کے سوال پر علامہ نے تمام قوموں کو ایک بار پھر جمع کرنے کی کوششوں کا خیر مقدم کیا: ’’مگر شرط یہ ہے کہ اس مرتبہ محض سیاسی اختلافات دور کرنے اور ان کے متعلق سمجھوتے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ مذہبی امور زیر بحث لانا‘ جیساکہ پہلے ہوتا رہا بالکل بے سود ہے اور نہ تنہا مذہبی معاملات کے متعلق اتفاق تمام اختلافات کو مٹا سکتا ہے۔ ۸۳؎ سوال یہ ہے کہ کیا ۱۳ نومبر ۱۹۲۶ء کی اس دعوتِ اتحاد کو بھی ’’ماوراے مذہب اتحاد‘‘ کا الزام دیا جا سکتا ہے جیسا کہ ’نیاشوالہ‘ اس الزام کا مورد ٹھہرا؟ ہرگز نہیں‘ تو پھر تسلیم کر لیا جانا چاہیے کہ اقبال روزِ اوّل ہی سے ایسا ہی اتحاد چاہتے تھے۔ ہندو اکثریت کی طرف سے ایک ایسے میثاق کی آرزو‘ جو مسلمانوں کو تسلیم کرالے، جس میں میثاقِ مدینہ کی طرح مرقوم ہو ’’مسلم بحیثیت منفرد قوم ہندوئوں کے ساتھ رہیں گے‘‘ تا کہ آوازِ اذاں شورش ناقوس سے ہندستان کی آزادی کے لیے ہم آہنگ ہو جائے۔ ہندو اکثریت اس پر آمادہ نہ ہو سکی‘ تو اقبال نے ’دیکھ اے ذوقِ تکلم یاں کوئی موسیٰ نہیں‘ ’’میرے آنکھوں میں جو پھرتا ہے وہ نقشہ اور ہے‘‘ کے اس اور نقشہ‘ کا دھندلا سا تصور شمال مغربی اسلامی ریاست ‘ ہندستان کے اندر یااس سے باہردکھایا۔ جو اس نے ۱۸۹۸ یا ۱۸۹۹ میں دیکھا تھا۔تاہم خطبہ الہٰ آباد کے اس تصور کے بعد بھی اقبال’ ہندی قومیت‘ کے لیے مذکورہ بالا اتحاد کی کوششوں سے دست بردار نہیں ہوئے خود کو وہ ہندستان اور ملت دونوں کے مفاد کا پابند سمجھتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قادیانیوں کو ان جرائم کا مرتکب کیونکر ثابت کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کلیسائی ہٹ دھرمی مذہب کو سیاست سے جدا کرنے کا باعث ہوئی اسی طرح ہندو برہمنوںاور ان کے ہم نوا چند مسلم مذہبی پیشوائوں کی ہٹ دھرمی ہندستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔۔۔۔ بہت سی دوسری تفصیلات کی طرح‘ شمال مغربی اسلامی ریاست اور چودھری رحمت علی کے پاکستان(بحروف انگریزی) کی بحث سے قطع نظر کر کے ہم اپنی بات کو مختصر تر کرتے ہیں‘ وگرنہ ع ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوے لالا خطبہ الہٰ آباد میں اقبال نے مسلمانوں کو ہندستان اور ملت کی طرف سے عائد ہونے والے دہرے فرائض سے آگاہ کرنے کے بعد کہا تھا: فرانسیسی عالم ارنسٹ رینان کے نزدیک قوم کی تخلیق کے لیے جس اخلاقی شعور کی ضرورت ہے وہ عظیم قربانی کا طالب ہے‘ جس کے لیے ہندستان میں کوئی جماعت تیار نہیں۔ اور مسلمان تو فطری طو ر پر ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ پس قومیتِ ہند کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون واشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے… اگر ہم نے اس چھوٹے سے ایشیا میں جو مغرب ومشرق کا سنگم ہے ’اشتراک و تعاون کی کوئی صورت نکال لی جو اس کے مصائب کا مداوا بن سکے تو نہ صرف ہمارے اندر صلح و آشتی کا دور دورہ ہو گا بلکہ تمام ایشیا کے لیے باعثِ رحمت ہو گا۔۸۴؎ اس اقتباس میں’’قومیت ہند‘‘ کے جس نقشے کو نہ صرف ہندستا ن بلکہ پورے ایشیا کے لیے باعثِ رحمت کہا گیا‘ یہ وہ ’’ہندی قومیت‘‘ نہ تھی جو انگریز دشمنی کے حوالے سے تو نہایت حسین اور شاعرانہ کشش رکھتی تھی لیکن ۸۵؎ اپنے ایک انضمامی تصور کے باعث ناقابلِ عمل تھی‘ جو مسلمانوں کو ہندو اور انگریز دونوں کی غلامی کو بآسانی قبول کر سکنے کے لیے احساسِ قومیت سے محروم کرنا چاہتی تھی۔ بلکہ یہ ’قومیت ہند‘ میثاقِ مدینہ کے عطا کردہ تصورِ ملت سے مستفاد تھی۔ جو التقدیر ہے اور کسی اور تقدیر کو نقصان نہیں پہنچاتی‘ اس قومیت ہند کا نقشہ اقبال نے ’ہمالہ‘ اور ’نیا شوالہ‘ میں دکھایا تھا مگر ۱۹ دسمبر ۱۹۲۹ء کو برکت علی اسلامیہ ہال میں سر ذوالفقار علی خاں کی زیر صدارت‘ اپنی تقریر میں اسے پھر دہرایا تھا (گول میز کانفرنس کے حوالے سے): انگلستان متحد ہو گا‘ ہندستان کو بھی متحد ہونا چاہیے اور متحدہ ہندستان کو انگلستان کا مقابلہ کرنا چاہیے پہلے مسلمان آپس میں اتحاد کریں پھر ہندو اور مسلم کا اتحاد ہو گا۔ ۸۶؎ مسلم لیگ کے قیام کو ’وصال‘ قرار دینا اور ’عام دیدار یار ہونا‘ سے تعبیر کرنا اسی مسلم اتحادکے حوالے سے تھاکہ: ربط وضبط ملتِ بیضا ہے مشرق کی نجات مشرق و مغرب کے سنگم ‘ ہندستان کو اُسی پیغامِ اتحاد کی ضرورت تھی جو تین بر اعظموں کے وسط‘ ارضِ حجاز سے‘ بلند ہواتھا اور جس کا مقصد و مدعا وہی تھا جو اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۹۳۲ء میں دہرایا تھا۔ ’’کثرت کو کسی نقصان کے بغیر وحدت آشنا کرنا‘ جس طرح وحدت نے خود کو نقصان پہنچائے بغیر کثرت اختیار کی ہے‘‘ ۸۷؎ نظم’ہمالہ‘ اس کا تکوینی حوالہ تھی تو نظم ’نیا شوالہ‘ تشریعی جلوہ تھا بصورت دیگر جاوید نامہ کا محکماتِ قرآنی پر قائم و استوار شہرِ مرغدین مستقبل کی حتمی منزل۔ جب ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مسلم اتحاد ہو گیا تو ہندو مسلم دونوں قومیں آزادی کی اس منزل سے ہم کنار ہو گئیں جس سے مغربی متحدہ قومیت انھیں دور رکھنا چاہتی تھی۔ یہ آزادی نہ تو برطانوی تولیت کے کسی تصور( مثلاً چودھری رحمت علی کا پاکستان) ۸۸؎ سے آلودہ تھی اور نہ ہندو اکثریتی غلبے کے نیچے دبی ہوئی۔ ہمالہ کے سر برف کی باندھی ہوئی دستارِ فضیلت‘ برطانوی مہرِ عالم تاب پر خندہ زن تھی۔ مسلم رہوارِ ہوا نے اُسی کوڑے سے کام لیا اور ابرِ غلامی کے بوجھ سے سبک دوش ہو گیا جو اُسے خود ’برقِ سر کوہسار‘ نے بصورت پارلیمانی نظام تھمایا تھا۔ تہذیبِ مغرب (متحدہ مخلوط قومیت) اپنے ہی خنجر (جمہوریت) سے موت کے گھاٹ اتر گئی۔ اقبال ہی کا کلام اقبال کے نام ع عمر ہادر کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تاز بزمِ عشق یک داناے راز آید بروں۸۹؎ _______________ حوالے و حواشی ۱۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۲۰۵ ۲۔ سورۃ، ۵ المائدہ۵: ۶۴ ۳۔ افکار سیاسی (مشرق و مغرب ) ،ص ۲۹۴ ۴۔ ایضاً، ص ۱۹۳۔۱۹۴ ۵۔ ا یضاً ۶۔ ایضاً ، ص ۱۸۸۔ ۱۸۹ ۷۔ ایضاً، ص ۲۹۴ ۸۔ مجلہ فیض السلام (اقبال نمبر )، ص ۱۰۵ ۹۔ تاریخ علی گڑھ تحریک، ص ۱۳۰، سلسلۂ مطبوعات ۹۸ ۱۰۔ ایضاً، ص ۱۳۱۔۱۳۲ ۱۱۔ تمدن ہند، اردو ترجمہ: سید علی بگرامی، ص ۲۳۴ ۱۲۔ ایضاً ، ص ۲۳۴ ۱۳ ایضاً ، ص ۱۲۰ ۱۴۔ ا نسائی کلو پیڈیا آف سوشل سائنسز(Nation)، جلد ۲۰، ص۸ ۱۸ویں صدی عیسوی کے فرانسیسی ادیبوں کی تحریروں میں لفظ Nationکا اطلاق کسی مخصوص ملک کے ان عوام پر ہوتا تھا جو بلا تفریق ذات و قبیلہ، بادشاہوں سے مختلف ہوتے تھے۔ ۱۵ دیوانِ حافظ شیراز، ردیف دال ۱۶۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۴۵ ۱۷۔ ایضاً، ص۶۰۔ نوٹ: اس سے آگے کی تلخیص کے لیے ابتدائی کلامِ اقبال کی طرف رجوع کیجیے۔ ۱۸۔ ایضاً ص ۶۲ ۱۹۔ اقبال عہد آفریں، ص ۳۰۸ ۲۰۔ کلیاتِ اقبال‘ اردو، ص ۲۵ ۲۱۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۱۶۲ ۲۲۔ شیخ عبد الکریم الجیلیؒ کے مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہستی خالص، مطلقیت کو چھوڑنے کے بعد تین مراحل: احدیت، غیریت، ذاتیت سے گزارتی ہے (خود سے غیر خود تخلیق کرنے کے بعد غیر خود کو ان مراحل سے گزارتی ہے)یعنی وحدت سے کثرت اور کثرت سے وحدت کا سفر … مرزا عبدالقادر بیدل نے یہ بات اس طرح بیان کی: ہیچ کس بے شور کثرت طالب وحدت نہ شد رنگ تمییز سلامت درغبار آفت است تفصیل کے لیے فلسفۂ عجم اقبال۔ مترجم حسن الدین، ص ۱۳۳ ملاخطہ ہو۔ ۲۳۔ علم الاقتصاد (دیباچہ )، ص ۳۱ ۲۴۔ ایضاً، ص ۲۵۲۔ ۲۵۳ ۲۵۔ ایضاً، ص ۲۵۲۔ ۲۵۳ ۲۶۔ ایضاً، ص ۲۲ (دیباچہ) ۲۷۔ ایضاً، ص ۲۶۱ ۲۸۔ ایضاً، ص ۲۲۱ ۲۹۔ القمر۵۴:۵۰… آیت کریمہ اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَ مْرُ ( الاعراف ۷:۵۴)کا یہی تقاضا ہے۔ ۳۰۔ ابتدائی کلام اقبال ص ۱۶۸ ۔ ۱۶۹ ع لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں۔ قرب حقیقی تناقضات کو مٹائے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ یہ صلاحیت صرف دین اسلام میں ہے کہ وہ تمام تناقضات کا محلل اور جامعِ اضداد ہے، بغیر کسی انفرادی نقصان کے۔ تفصیل کے لیے، ملاخطہ ہو، اقبال کا مکتوب بنام غلام قادر گرامی، اقبال نامہاول، ص ۱۳ ۳۱۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۱۲۱ ۳۲۔ کلیا ت اقبال، اردو، ص ۱۰۰ ۳۳۔ ابتدائی کلام اقبال، ص ۶۰ ۳۴۔ مثلاً دیکھیے خواجہ میر درد: حیف سنتے ہیں، ہوا گلزار تاراجِ خزاں آشنا اپنا بھی واں اک سبزۂ بیگانہ تھا یہی ’’سبزۂ بیگانہ ‘‘ سیر چمن کرنے والوں کے پاؤں تلے مسلا جاتا اور سبزہ خوابیدہ کہلاتا ہے اور کاٹ کر چمن سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ فی زمانہ یہی عوام الناس کا استعارہ ہے۔ ۳۵۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۲۴۔ ۲۵ ۳۶۔ ایضاً، ص ۴۹۔ ۵۰ ۳۷۔ ایضاً، ص ۸۳ ۳۸۔ سورۃ الدھر۷۶: ۱ ۳۹۔ ایضاً،آیت:۳ ۴۰۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۶۰۔ ۶۱ ۴۱۔ ایضاً،ص ۱۰ ۴۲۔ کلیات اقبال، اردو،ص ۴۳ ۴۳۔ ایضاً، ص ۷۱ ۴۴۔ ایضاً، ص ۴۳ ۴۵۔ ایضاً، ص۸۸ ۴۶۔ اقبال اور پاکستانی قومیت، ص۴۹ ۴۷۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۸۳ ۴۸۔ کلیات اقبال،اردو، ص ۴۳۔ ۴۴ ۴۹۔ ایضاً، ص۴۹ ۵۰۔ اقبال بنام شاد ، ص ۴۰۔۴۱ ۵۱۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۱۳۷ ۵۲۔ ایضاً، ص ۱۱۹ ۵۳۔ ایضاً، ص ۱۴۸۔ یعنی متحدہ قومیت بھی انفرادی قومی تشخص کے ہمراہ تھی۔ تاریخِ ہند میں ۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۹ء تک کے عرصے کی اہمیت کو بھی مدنظر رہنا چاہیے۔ ۱۹۰۶ء میں شملہ وفد کا مطالبہ اور ۱۹۰۹ء میں اس کے آئینی اہتمام نے اقبال کی اس عرصے کی شاعر ی پر خصوصی اثرات مرتب کئے۔ ۱۹۰۶ء کا انتباہ ’’ جواوج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے‘‘ علم نجوم کے اصول نظرات کے عین مطابق تھا، مارچ ۱۹۰۷ء شملہ وفد کی مقصد برآری کا جشن تھا۔ ’وصال‘ اگست ۱۹۰۷ء اقبال کے خواب کی تعبیر نکلا، اب اقبال تنہا نہ تھا۔ اور محرم نہ ملنے کا درد اب دوا بننے والا تھا۔ جس گل کی جستجو تڑپاتی تھی وہ مل گیا۔ حقیقت گل رنگ بو کا پیمان تھا۔ شاید اب اتحاد کا مقصد پورا ہو جائے… بصورت دیگر قِران ہند میں اتفاقاً جمع ہوجانے والے ’دوستارے‘ آئینِ جہاں___ جدائی___ تو اپنائیں۔ ۵۴۔ ابتدائی کلام اقبال‘ ص ۲۷۶ بحوالہ اقبال (انگریزی)۔ سچا نند سنہا، ص ۱۹۴ ۵۵۔ اقبال بنام شاد، ص ۴۰۔ ۴۱ ۵۶۔ باقیات اقبال ص ۲۳۶ آخری شعر ع ازگل خود___ علامہ نے مثنوی اسرار خودی میں درشرح اسرار اسماے علی مرتضیؓ کے تحت عنوان ذر ا سی تبدیلی کے ساتھ درج کیا ہے۔ ازگل خود آدمے تعمیر کن آدمے را عالمے تعمیر کن (کلیات اقبال، فارسی، ص ۴۹) ۵۷۔ علم الاقتصاد، ص ۲۵۲۔ ۲۵۳ ۵۸۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۱۹۷ ۵۹۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۳۵۳ ۶۰۔ جدوجہد پاکستان ___ مترجم ہلال احمد زبیری ۶۱۔ ایضاً، ص ۶۰ بحوالہ دی میموریزآف آغا خان، ص ۱۲۳ ۶۲۔ کلیاتِ اقبال، اردو،ص ۱۴۰۔ ۱۴۱ ۶۳۔ ایضاً ۶۴۔ ایضاً، ص ۳۵۳ ۶۵۔ ایضاً، ص ۱۲۰ ۶۶۔ مقالات اقبال، ص ۱۲۹۔ ۱۳۰ ۶۷۔ ایضاً، ص۱۵۱ ۶۸۔ ایضاً ۶۹۔ ایضاً، ص ۱۵۲ ۷۰۔ ٹائمز ۵ اکتوبر ۱۹۱۰ء بحوالہجدوجہد پاکستان،ص ۴۵ ۷۱۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۵۲ ۷۲۔ ایضاً ۷۳۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۱۱۵ ۷۴۔ شذرات فکر اقبال۔ اردو ترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص ۱۰۸ ۷۵۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۵۲ ، ۵۴ ۷۶۔ ایضاً ۷۷۔ دی مسلم کمیونٹی: سوشیولوجیکل سٹڈی، ص ۲۲ ۷۸۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۱۵۹ ۷۹۔ ذکر اقبال۔ عبدالمجید سالک، ص ۱۰۲ ۸۰۔ انوار اقبال، ص ۴۳۔ ۴۴ ۸۱۔ زمیندار، لاہور ۱۲ نومبر ۱۹۲۱ء بحوالہ ذکراقبال، ص ۱۱۲ (اقبال نے اس شعر سے انگریز کے مضبوط قلعے پر حملہ اور ملت کے مضبوط حصار پر گاندھی جی کا قبضہ دونوں مفہوم لیے ہیں جیسے خلال دانتوں میں راہ کر لیتا ہے ایسے ہی ضعیف طاقت وروں کے اندر راہ کر لیتے ہیں جیسے کہ اہل ہند نے برطانیہ کے ساتھ اور گاندھی نے ملت اسلامیہ میں گھس کر دکھا دیا۔) ۸۲۔ کانگریس کی تاریخ (انگریزی) ڈاکٹر پتابھی سیتارامیا، ص ۴۹۲ ۸۳۔ گفتار اقبال، ص ۵۰۔ ۵۱ ۸۴۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۱۶۸ ۸۵۔ مفکر پاکستا ن، محمد حنیف شاہد، ص ۲۳۵۔ ۲۳۶ ۸۶۔ گفتار اقبال، ص ۱۰۸ ۸۷۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۱۹۷ ۸۸۔ اقبال: ہز پو لیٹکل آئیڈیاز ایٹ کر اس روڈایس حسن احمد، ص ۸۰ ۔ ۸۹۔ کلیات اقبال، فارسی،ص ۴۶۵ خ خ خ علامہ اقبال اور ’’پاکستان اسکیم‘‘ ’’تقسیم ہند برطانوی سازش یا الٰہی تدبیر‘‘ کے تحتِ عنوان روزنامہ جنگ میں مطبوعہ سلسلہ مضامین میں ڈاکٹر اسرار احمد کے خیالات پر بہت سے اہلِ قلم اپنا رد عمل ظاہر کر چکے ہیں۔ ۳جولائی ۱۹۹۴ء کے روزنامہ جنگ میں جناب زیڈ اے سلہری نے ڈاکٹر صاحب کا نام لیے بغیر بھر پور تبصرہ کیا ہے۔ ان کا یہ تجزیہ ان کی منفرد تحریروں میں بھی ممتاز رہے گا کہ انھوں نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے خیالات کو المیہ مشرقی پاکستان سے متعلق وزیراعظم پاکستان سے کیے گئے سوالات اور اس کے بعد موجودہ پاکستان کے حالات سے جوڑا ہے ___ لہٰذا مجھے ڈاکٹر صاحب کے خیالات سے کہیں زیادہ ان کے مضامین میں علامہ اقبال کی مومنانہ بصیرت کے تذکرے پر محمداقبال ملک کے ردعمل سے سروکار ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ملک صاحب مذکور کے مکتوب کو ’اقبال اور پاکستان‘ کے تحتِ عنوان ۱۰ اور ۱۱ جون کے روزنامہ جنگ میں شائع کرا دیا۔ اس مکتوب کے مندرجات پر تاحال کسی طرف سے گرفت نہیں ہوئی۔ ممکن ہے ماہرینِ اقبال نے خاموشی ہی کو (فارسی محاورے کے مطابق) بہتر جواب سمجھا ہو۔ لیکن اس فکری مغالطے کی جڑیں بہت گہری ہیں اور یہ فکری مغالطہ اپنے مَالَہٗ وَ مَا عَلَیْہِ کے اعتبار سے مہلک اثرات رکھتا ہے اس لیے اقبالیات کے عام سے طالب علم کی حیثیت سے اس مغالطے کی حقیقی اور افسانوی نوعیت کا اظہار ضروری خیال کرتا ہوں۔ محمد اقبال ملک نے حکیم راغب احسن مرحوم اور آنجہانی پروفیسر ایڈورڈ تھامپسن کے نام علامہ اقبال کے مکتوبات سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، تاریخی اعتبار سے وہ نہ صرف غیر متعلق اور بے اصل ہیں بلکہ تاریخ سے کامل بے خبری کا نتیجہ ہونے کے باعث گمراہ کن بھی ہیں ___ علامہ اقبال کی طویل فکری اور عملی جدوجہد سے واقف کوئی سلیم الطبع پاکستانی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ’’پاکستان کا تصور غلط طور پر اقبال سے منسوب ہے‘‘ اور یہ کہ ’’اقبال جو کچھ چاہتے تھے اس سے تو بمشکل روال پنڈی ڈویژن ہی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا‘‘ محمد اقبال ملک کا یہ کہنا بھی کہ ’’لارڈ لوتھین نے جس تجویز کو پسند کیا تھا اس کی سفارش نہرو کمیٹی اور سائمن کمیشن نے بھی کی تھی‘‘ تاریخ سے ان کی بے خبری پر دلالت کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریکِ پاکستان سے ڈاکٹر اسرار احمد نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بے دخل کرنا چاہا تو محمد اقبال ملک نے ایک قدم اور بڑھا کر علامہ اقبالؒ کو بھی نکال باہر کیا۔ اور یوں ڈاکٹر اسرار احمد کے عنوان کے اولین حصہ ’’تقسیمِ ہند برطانوی سازش‘‘ ہی کو ’’الٰہی تدبیر‘‘ ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کی گئی۔ خ فکری پس منظر دراصل ایڈورڈ تھامپسن کے نام علامہ اقبال کے مکاتیب سے جن جن مورخین نے بھی اول اول استفادہ کیا ان کا مقصد اولیٰ یہی ثابت کرنا تھا جو محمد اقبال ملک کے مکتوب کا منطقی نتیجہ ہے اور جن لوگوں نے اس پر زور دیا کہ پاکستان، چودھری رحمت علی مرحوم کے تصور کا عکس ہے فی الحقیقت وہ بھی غیر شعوری طور پر اسی مفروضے کو تسلیم کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ’’یہ سازش‘‘ برطانوی مدبر مسٹر ایڈورڈ تھامپسن کی دروغ بافی پر مبنی مغالطہ انگیزی سے آغاز ہوتی ہے۔ خطبہ الہٰ آباد کو من پسند معانی پہنانے سے لے کر India Inlist Freedom کی اشاعت ۱۹۴۰ء تک مسٹر تھامپسن کے فکری مغالطوں اور دروغ بافیوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ان کے فراہم کردہ اس مغالطہ انگیز اور دروغ پر مبنی مواد سے پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی تصنیف Discovery of India میں اور ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنی کتاب India Devided میں فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ ثابت کرنا چاہا کہ اقبال سے تصور پاکستان غلط طور پر منسوب ہے اور یہ کہ تقسیمِ ہند برطانوی سازش کا نتیجہ ہے۔ یہی فکر مولانا حسین احمد مدنی مرحوم کی خود نوشت نقش حیات کا محور ہے ___ پاکستان کی دولختی کے بعد ایس حسن احمد نے Iqbal: His Ideas at Cross Roads (1979) میں اور ڈاکٹر شفیق علی خان نے اپنی تصنیف Iqbal's Concept of Separate North West Muslim State (1987) میں تھامپسن کے نام مکتوب کے علاوہ حکیم راغب احسن کے نام مکتوبِ اقبال سے پنڈت نہرو کے اخذ کردہ نتیجے کو ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ خان عبد الولی خان کی کتاب Facts are Facts اس سلسلے کی تکمیلی کڑی بن کر سامنے آئی۔ اور یہی کچھ آج ڈاکٹر اسرار احمد اور ان کے معاون محمد اقبال ملک جیسے دوسرے لوگوں کے تدبر پر آویزاں ہے۔ خ پنڈت جواہر لال نہرو اور تھامپسن پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی مذکورہ بالا کتاب کے صفحہ ۳۳ پر لکھا: اقبال پاکستان کے اولین حامیوں میں سے ایک تھا۔ تاہم انھوں نے اس کے مضمر خطرہ اور اس کی لغویت کو محسوس کر لیا تھا۔ ایڈورڈ تھامپسن نے لکھا ہے کہ ایک گفتگو کے دوران اقبال نے ان سے کہا کہ انھوں نے پاکستان کی وکالت اس لیے کی تھی کہ ان کی حیثیت مسلم لیگ کے اجلاس کے صدر کی تھی لیکن انھیں یقین تھا کہ یہ تجویز ہندستان کے لیے بحیثیت مجموعی اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص مضر ہو گی۔ غالباً انھوں نے راے تبدیل کر دی تھی۔ اس سوال پر ابتداً زیادہ غور نہیں کیا تھا کیونکہ اس وقت اس کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی ۱ ؎ آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو کے اس اقتباس کی بنیاد چونکہ تھامپسن کے بیان پر ہے اس لیے مسٹر تھامپسن کا بیان دیکھے بغیر اس پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں ہو گا۔ لیکن یہاں یہ لکھ دینا مفید ہو گا کہ تھامپسن کے نام اقبال کے مکتوب میں جس ’’پاکستان اسکیم‘‘ کو بحیثیت مجموعی ہندستان (برطانوی ایمپائر) اور مسلمانوں کے لیے بالخصوص مضر کہا گیا، وہ اقبال کی مجوزہ اسکیم نہ تھی۔ اس لیے اقبال نے اس ’’پاکستان اسکیم‘‘ کے حامیوں اور محرکین میں سے ایک ہونے سے انکار کیا۔ کیونکہ وہ تو خطبۂ الٰہ آباد والی منظم اسلامی ریاست کے بلا شرکت غیرے محرک اور داعی تھے اور رہے۔ اور اگر یہ بات واضح ہو جائے تو از خود یہ بھی ثابت ہو جائے گی کہ وہ ’’پاکستان اسکیم‘‘ جس کے بارے میں پنڈت نہرو نے لغویت او رمضمر خطرہ جیسے الفاظ استعمال کیے اور ’’اس وقت کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی‘‘ کا الزام دیا وہ وہی ’’پاکستان اسکیم‘‘ ہو گی، اقبال نے جس کے حامیوں میں سے ایک ہونے سے تھامپسن کے نام اپنے مکتوب میں انکار کیا۔ نہ کہ وہ اسلامی ریاست (پاکستان) جس کی تجویز اقبال نے اپنے خطبۂ ا لہٰ آباد میں پیش کی اور جس کے وہ اول و آخر محرک اور داعی رہے اور جو مسلمانانِ ہند پر اللہ تعالیٰ کا بے نہایت کرم ہے۔ خ علامہ اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد اور تھامپسن کی اختراع (۳ ؍ اکتوبر ۱۹۳۱ئ) (الف) علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہٰ آباد ۱۹۳۰ء میں اپنا سارا زور استدلال آل پارٹیز کانفرنس دہلی کی قراردادوں کی توثیق پر صرف کیا ۲؎ جو جداگانہ انتخاب، صوبہ جاتی خود مختاری،از سر نو علاقائی تقسیم اور مرکز میں ۳۳ فیصد کے مطالبے پر مشتمل تھیں۔ ان صوبوں کے لیے اقبال نے مسلم اٹانومس سٹیٹس یا انڈین ہوم لینڈز کی تراکیب استعمال کیں۔ اس ضمن میں وہ یہ چاہتے تھے کہ جداگانہ انتخاب کے مطالبے سے ہر گز دست بردار نہ ہونا چاہیے اور اگر ہندستانی فیڈریشن میں دیسی ریاستوں کو بھی شامل کیاجانا ٹھہرے جیسا کہ گول میز کانفرنس میں ان کی شمولیت سے ظاہر ہے۔ تو پھر دیسی ریاستوں میں ہندو ریاستوں کی اکثریت کے پیش نظر مسلمانوں کو ۳۳ فیصد کے سوال پر مزید غور کرنا ہو گا ___ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد کا فوری مقصد یہی تھا اور ظاہر ہے کہ ان مسلم اٹانومس سٹیٹس کا ہندستان کے اندر ہونا لازمی تھا، اسی لیے ان اسلامی ریاستوں یا صوبوں states کو برطانیہ کا بازوے شمشیر زن ثابت کیا گیا تھا۔۳؎ (ب) اس خطبے میں اقبال نے ایک دور بیں مدبر کی حیثیت سے برطانوی شہنشاہیت اور جمہوریت کے حوالے سے ہندو اکثریت کے ملاپ میں مسلمانوں کے لیے کسی بہتر مستقبل کے معدو م ہونے کے باعث یہ محسوس کیا کہ مسلمان ان قوی قوتوں کے ہاتھوں بالآخر دیوار سے لگا دیے جائیں گے اس صورت میں انھیں آزادانہ سیاسی اقدام پر مجبور ہونا پڑے گا۔ انھوں نے پرزور لفظوں میں متنبہ کیا: مسلم مندوبین کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ قرار داد دہلی (یکم جنوری ۱۹۲۹ئ) کو غیر مسلم مندوبین سے منوا لیں۔ اگر ان مطالبات کو مسترد کیا جاتا ہے تو پھر ایک عظیم الشان سوال پیدا ہو گا ___ آزادانہ سیاسی اقدام ___ اگر سنجیدہ ہو تو تیار رہنا ہو گا۔ ۴؎ اس ’’آزادانہ سیاسی اقدام‘‘ کی آخری منزل ’’شمال مغربی ہندستان میں ایک آزاد منظم اسلامی ریاست‘‘ کا حصول تھا۔ جس کے لیے انھوں نے state کا لفظ استعمال کیا لیکن اس منظم اسلامی ریاست کے برطانیہ یا برطانوی ہند کے ساتھ تعلق کے سوال کو اقبال نے حالات اور زمانے کے تقاضوں پر چھوڑتے ہوئے within or without The British Empire سے زیادہ کچھ نہ کہا۔۵؎ خ تجزیہ خطبہ الٰہ آباد ’مسلم اٹانومس سٹیٹس‘‘ کے لیے ہندستان کے اندر وکالت کر رہا تھا۔ وہ آزاد مسلم ریاست جو بالآخر قوی قوتوں (شہنشاہیت او رجمہوریت) کے ناپاک گٹھ جوڑ سے مسلمانوں کا آخری نصب العین بننا تھی صرف ایک تصور تھا جس کی تفصیلات (within or without ) کو حالات اور زمانے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اقبال نے خود ہی اس تجویز سے متعلق نہرو کمیٹی کی بحث کا ذکر کیا ہے، ’’لیکن اراکینِ مجلس نے اسے اس بنا پر روک دیا کہ اس قسم کی کوئی ریاست قائم ہوئی تو اس کا رقبہ اس قدر وسیع ہو گا کہ اس کا انتظام کرنا دشوار ہو جائے گا‘‘۔۶؎ گویا محمد اقبال ملک صاحب کا یہ تجزیہ کہ ’’اقبال جو کچھ چاہتے تھے اس سے تو بمشکل راول پنڈی ڈویژن کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا‘‘ اسی طرح غلط ہے جس طرح کہ اس تجویز کی سفارش کا نہرو کمیٹی کی طرف سے اور سائمن کمیشن کی طرف سے ہونا، غلط ہے اور لارڈ لوتھین کے الفاظ تو یہ ہیں ’’جو کچھ آپ چاہتے ہیں…‘‘، تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔ خ پروفیسر ایڈورڈ تھامپسن کا تبصرہ مطبوعہ دی ٹائمز ۳ اکتوبر ۱۹۳۱ء جب علامہ اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن میں تھے تو ایڈورڈ تھامپسن کا ایک تبصرہ شائع ہوا: اقبال کا خطبہ الٰہ آباد پان اسلام ازم کی سازش ہے۔ سر محمد اقبال جو مطالبہ کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہندستانی فیڈریشن کے اندر یا باہر (مسلم صوبوں) کی کنفیڈریشن بن جائے۔ اب دیکھیے اور یہ اندازہ کیجیے کہ باقی ہندستان کے لیے کس قسم کی قابل دفاع سرحد رہ جائے گی۔۷؎ تھامپسن کا یہ تبصرہ ’’گول میز کانفرنس‘‘ میں موجودہ مسائل کے لیے کسی قابل عمل نتیجے تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور مغالطے پیدا کرنے کی ایک سازش تھی۔ ۱۔ مسٹر تھامپسن نے مسلم اٹانومس سٹیٹس اور منظم اسلامی ریاست کے آخری نصب العین کو خلط ملط کر دیا۔ اسے باقی ہندستان کے لیے کوئی قابل دفاع سرحد نہ رہنے کا خدشہ اسی لیے لاحق ہوا۔ اقبال نے تو مسلم اٹانومس سٹیٹس یا مسلم صوبوں کو برطانیہ کے لیے بازوے شمشیرزن ثابت کر دیا تھا اور وہ بھی مرکزی افواج سے مل کر، کے حوالے سے۔ ایسا تو اسی صورت میں ممکن تھا جب وہ مسلم اٹانومس سٹیٹس ہندی وفاق کے اندر ہوں۔ اس لیے تھامپسن کا اندر یا باہر لکھنا ایک مغالطہ تھا۔ ۲۔ جہاں تک آخری نصب العین شمال مغربی منظم اسلامی ریاست کے تصور کا تعلق ہے اقبال نے اسے state لکھا تھا۔ تھامپسن نے اپنی ذہنی اختراع کے تحت اسے کنفیڈریشن بنا دیا ۔ خ علامہ اقبال کا مکتوب بنام تھامپسن چنانچہ علامہ اقبال نے طے شد باتوں کو درخور اعتنا نہ سمجھتے ہوئے وضاحتی خط لکھا اور اپنی مسلم اٹانومس سٹیٹس کے کردار تک ہی محدود رہے۔ In this passage I do not put forward a demand of a Muslim State outside the British Empire, but only a guess at the possible outcome in the dim future of the mighty forces now shapping the destiny of the Indian Sub-Continent. 8 اس مکتوب میں اقبال نے مجوزہ آخری نصب العین ’’شمال مغربی اسلامی ریاست‘‘ کے لیے کنفیڈریشن کی اصطلاح کو رد کرتے ہوئے اسے A Muslim State لکھا اور اس کے لیے برطانوی سلطنت سے باہر کی بات کو ’’اس وقت‘‘ In this passage قبل از وقت قرار دیا۔ اور بتایا کہ یہ تو اُن ’’قوی قوتوں‘‘ کے حوالے سے ’’دھندلے مستقبل میں ایک قیاس ہے‘‘ جو اس وقت برصغیر ہند کی تقدیر کا فیصلہ کرنے یا برصغیر کی تقدیر کو متشکل کرنے میں مصروف ہیں۔ گویا اقبال نے یہ واضح کیا کہ ___ جس آخری نصب العین کا تصور میں نے دیا ہے وہ ایک منظم ریاست ہو گی نہ کہ کنفیڈریشن ___ اس وقت میں نے جس بات کو پیش کیا ہے وہ مسلم اٹانومس سٹیٹس ہندستانی وفاق کے اندر ہوں گی۔ اور ظاہر ہے ان اسٹیٹس یا ہوم لینڈز میں ہندستان کے تمام مسلم اکثریتی حصے، شمال مغربی اور شمال مشرقی شامل ہیں۔ خ کیمبرج کی نیشنل موومنٹ کا پہلا پملفٹ ۱۹۳۳ء پمفلٹ میں انھوں نے پہلی بار اپنے مطالبے کے لیے ’’پاکستان‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ گویا ان کی ’’پاکستان اسکیم‘‘ خود ان کے مطابق اقبال کے خطبۂ الہٰ آباد کی تجویز سے مختلف تھی۔ وہ لکھتے ہیں: This demand is basically different from the suggestion put forward by Dr. Sir Mohammad Iqbal, in his presidential address to the All-India Muslim League in 1930. While he proposed the amulgamation of four out of above named provinces (Punjab, NWFP (Afaghina) Sind, Kashmir and Baluchistan) into a single state forming a unit of All India Federation. We propose that all the five provinces should have a seperate federation of their own outside India.(9) چودھری رحمت علی کا موقف وہی ہے جو تھامپسن نے اقبال سے متعلق کرنا چاہا تھا۔ اور یہی وہ فرق ہے جو ان کے مطالبے کو اقبال کی تجویز سے مختلف کرتا ہے۔ تھامپسن نے مسلم اٹانومس سٹیٹسکو ایک کنفیڈریشن لکھا تھا جسے چودھری صاحب نے فیڈریشن بنا کر اسے ہندستانی وفاق کے اندر رکھا ___ گویا یہ وہی مغالطہ ہے جو تھامپسن نے پیدا کرنا چاہا تھا۔ یعنی شمال مغربی ریاست کو مسلم اٹانومس سٹیٹس بنانا اور اسے کنفیڈریشن کہنا۔ جسے اقبال نے مسترد کر دیا تھا البتہ ان مسلم اٹانومس سٹیٹس کے لیے outside the British Empire کے خیال کو فی الوقت کسی صحیح الدماغ مدبر کے لیے حکمت سے خالی قرار دیا تھا۔ چودھری رحمت علی نے اسی خیال کو اپنایا لیکن ساتھ ہی اقبال کی مجوزہ اسلامی ریاست کو ہندی فیڈریشن کا ایک یونٹ لکھ دیا حالانکہ خطبہ الٰہ آباد میں اقبال نے اس کے اس کردار کو within or without کے حوالے سے اس وقت In this passage قبل از وقت فیصلہ لکھا تھا۔ گویا قوی قوتوں کے ہاتھوں جب مسلمان آخری نصب العین کے لیے آزادانہ سیاسی اقدام اپنائیں گے تو وہ نہ صرف ہندستان سے باہر بلکہ تیسری قوت (برطانیہ) کے تسلط سے بھی باہر ہو گی ___ مگر مسلم اٹانومس سٹیٹس کے لیے ’ہندستان سے باہر‘ اس وقت سوچا جانا ممکن نہیں کیونکہ ممکن العمل نہیں تھا۔ چودھری رحمت علی کا دوسرا بیان بھی مغالطے پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ اقبال چار صوبوں کی بات کرتا ہے۔ خطبۂ الٰہ آباد کا یہ جملہ ثبوت میں پیش کیا جاتا ہے: It (Federation of an unholy union between democracy and depotism) can be of no advantage to the Muslims unless they get majority in five out of eleven Indian provinces with full residuary powers. (10) اقبال نے ’’ہندستان کے اندر‘‘ گیارہ میں سے پانچ صوبوں میں مکمل اکثریت اور مابقیٰ اختیارات کی ضرورت بیان کی تھی۔ نہ کہ چار صوبوں کے باہمی ادغام کا مطالبہ کیا تھا۔ چار صوبوں کے باہمی ادغام کا مطالبہ تو آخری نصب العین تھا۔ جسے تھامپسن نے خلط ملط کیا۔ خ برطانوی تولیت میں گیارہ میں سے پانچ کا مطالبہ نومبر ۱۹۳۲ء میں اقبال ہی نے ۱۱ میں سے پانچ صوبوں کا مطالبہ کیا تھا مگر یہ ایک تجویز تھی۔ بقول امبیڈ کر صرف علامہ اقبال نے تیسری گول میز کانفرنس میں اس راے کا اظہار کیا کہ: صوبوں کو مکمل خود مختاری دی جائے لیکن ہندستان میں ان کا مشترکہ مرکز نہ ہو بلکہ وہ آزاد ریاستیں (dominions) ہوں جن کا راست تعلق لندن میں وزیر ہند سے ہو۔ ۱۱؎ چودھری رحمت علی کا گیارہ میں سے پانچ ریاستوں کی فیڈریشن کا مطالبہ بھی یہی تھا لیکن ان ریاستوں کا مشترکہ مرکز نہ تھا۔ پانچ مسلم ریاستوں کا کسی مشترکہ مرکز کے بغیر براہِ راست لندن سے تعلق ہی وہ تجویز تھی جسے لارڈ لوتھین نے ’’واحد قابل عمل حل‘‘ کہا تھا۔ جو ان کے بقول ۲۵سال لے گی۔ اقبال کی طرف سے یہ تجویز کمیونل ایوارڈ کو قرطاسِ ابیض کے ذریعے نہرو رپورٹ کی جھولی میں ڈال دیے جانے کے ساتھ ماضی کا حصہ بن گئی۔ اس لیے یہ کہنا کہ اقبال کی تجویز (خطبۂ الہ آباد) سائمن کمیشن رپورٹ اور نہرو کمیٹی رپورٹ میں بھی تھی، محمد اقبال ملک کی تاریخ سے بے خبری پر دلالت کرتی ہے۔ نہرو رپورٹ تو اقبال کے خطبۂ الہٰ آباد کی تجاویز بھی (تین چار سال پہلے) مسترد کر چکی تھی۔ ہندو ’’مشترکہ مرکز‘‘ کے عدم وجود کو کیسے تسلیم کر سکتے تھے۔ اسی لیے اقبال خطبۂ الہٰ آباد میں قرار داد دہلی کی غیر مسلم مندوبین سے منظوری کو بھی مسلم مندوبین کی کامیابی سمجھتے تھے کمیونل ایوارڈ نے اقبال کی مذکورہ بالا ___ مشترکہ مرکز کے بغیر ’’برطانوی تولیت میں لینے‘‘ کی تجویز مسترد کر دی تھی مگر چودھری رحمت صاحب نے اس ’’ناممکن العمل‘‘ تجویز کو لے لیا تھا۔ جب کمیونل ایوارڈ نے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ تسلیم کر لیا تو اقبال اس پر بے حد خوش تھے۔ پروفیسر تھامپسن کے نام مکتوب ۲۰ جون ۱۹۳۳ء میں ان کی مسرت چھپائے نہیں چھپتی: مجھے سیاست سے کوئی دل چسپی نہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ہندی قومیت بالاخر لادینی تک لے جائے گی اور مسلمان حقیقی اسلامی قومیت سے بے خبری کی وجہ سے ہندی قومیت کا شکار ہو جائیں گے اندریں حالات میرا اخلاقی فرض بنتا تھا کہ نئی نسل کو حقیقتِ اسلام سے آگاہ کروں سو مجھے میدان میں اترنا پڑا۔ تاہم باوجود پیشہ ورانہ نقصانات کے میرے لیے مقام مسرت ہے کہ مسلمانوں نے بھی اور برطانیہ نے بھی جزواً سہی (کمیونل ایوارڈ میں) میری بات سنی اور تسلیم کی کہ ہندستان کے مسلمان ایک ممتاز قوم ہیں اور انھیں اپنے خطوط پر آزادانہ ترقی کا حق ضرور ملنا چاہیے۔ ۱۲؎ لیکن کمیونل ایوارڈ میں سکھوں اور اچھوتوں کو ملنے والے حقوق نے گاندھی جی کے فلسفۂ ہندی قومیت پربھی ضرب لگائی تھی وہ مرنے پر تل گئے تو برطانوی قوت اس راہ پر زیادہ دیر نہ رہ سکی۔ اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۹۳۲ء میں اس کی پیش گوئی کر دی تھی۔ ۱۳؎ چنانچہ قرطاسِ ابیض ۱۹۳۳ء میں ایسا ہی ہوا۔ ۱۴؎ اب اقبال ’’برطانوی تولیّت‘‘ سے وابستہ توقعات، سے مایوس ہو گئے اور ’’براہِ راست وزیر ہند لندن‘‘ سے تعلق کی بات بے معنی لگنے لگی ۱۵؎چنانچہ ’’احسن ذاتی فائدے‘‘ کے لیے انھوں نے ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کی کوششیں ۱۶؎از سر نو تیز کر دیں۔ ڈاکٹر انصاری کے نام ایک دن کے وقفے میں یکے بعد دیگرے دو خطوط اس ضمن میں اقبال کی بے تابی اور بے قراری کا وافر ثبوت مہیا کرتے ہیں۔ اقبال کی نئی جدوجہد قرار داد دہلی ۱۹۲۹ء کی ہندو اکثریت سے منظوری کی جدوجہد تھی جسے وہ خطبۂ الٰہ آباد میں مسلم مندوبین کی کامیابی قرار دے چکے تھے مگر برطانیہ کی طرف سے یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات جو کبھی کانگریس کو (کمیونل ایوارڈ کے ذریعے) اور کبھی مسلمانوں کو (قرطاس ابیض کے ذریعے) برانگیختہ کر کے خانہ جنگی کی طرف لے جاتے تھے، اس اتحاد کو بھی نا ممکن العمل بنا رہے تھے۔ یعنی جہاں مسلمانوں کو جداگانہ انتخابات کا حق نہیں مل رہا تھا کہ ان کا مسلم تشخص تسلیم ہو۔ وہاں کسی مرکز کے بغیر یا ہندستانی وفاق سے باہر براہِ راست وزیر ہند لندن، سے تعلق پر کسی مسلم ریاست کا مطالبہ کس صحیح الدّماغ مدبر کو زیب دیتا تھا۔ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں اقبال، ڈائرکٹر ہمدم کے نام لکھتے ہیں: مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ ابھی ایک عرصے تک مسلمانانِ ہند کا مستقبل جداگانہ انتخاب اور کامل خود مختار صوبوں پر مشتمل ہندوفاق سے وابستہ ہے۔ میرے نزدیک جداگانہ انتخاب قومیت کے مغربی تصور سے بھی متناقض نہیں۔ اس کے باوجود اس سے ہندی اقوام میں اتحاد اور یک جہتی پیدا ہو سکتی ہے۔۱۷؎ اس خط میں بھی ’’ابھی ایک عرصے تک‘‘ کا وہی مطلب ہے جو تھامپسن کے نام مکتوب ۱۹۳۱ء میں In this passage کا تھا۔ خ تھامپسن کا دوسرا تبصرہ ۱۹۳۴ء ایسے میں مسٹر تھامپسن نے اقبال کی کتاب (خطبات مدراس) پر تبصرہ شائع کیا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اقبال پاکستان اسکیم کے حامیوں میں سے ایک ہیں‘‘۔ اقبال نے کتاب پر تبصرے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس ’’خیال‘‘ کی نفی کی: You call me (a) Protogonist of the scheme called "Pakistan". Now Pakistan is not my scheme. The one I suggested in my address is the creation of a Muslim province. i.e a province having an over-whelming population of Muslims, in the North West of India. This province will be according to my scheme a part of proposed Indian Federation. "Pakistan Scheme" proposes a seperate Federation of Muslim provinces directly related to England as a seperate Dominion. The Scheme originated in Cambridge. (18) یہ مکتوب ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کو لکھا گیا (نہ کہ ۴ جون کو جیسا کہ محمد اقبال ملک نے خیال کیا) اس مکتوب میں اقبال نے وہی بات کہی جو چودھری رحمت علی نے Now or Never میں خود بیان کر کے اپنی تجویز یا مطالبے سے اسے مختلف تسلیم کیا تھا۔ اس لیے اقبال نے Protogonist (a) لکھ کر (a) کو قوسین میں لکھا اور ’’پاکستان اسکیم‘‘ کے ایک حامی و محرک ہونے سے انکار کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ چودھری رحمت علی کی ’’پاکستان اسکیم‘‘ اقبال کی تجویز سے تھی ہی مختلف تو اقبال اس کے حامی ہونے کا اقرار کیوں کرتے؟ البتہ (a) کو بریکٹس میں لکھ کر انھوں نے واضح کیا کہ وہ پاکستان کے حامیوں میں سے ایک نہیں بلکہ بلا شرکت غیرے محرک ہیں Now (اب )چونکہ پاکستان اسکیم ان کی اسکیم ہی نہیں تو اس اسکیم کے حامیوں میں سے ایک لکھنا بھی غلط ہے۔ اب اقبال نے اپنی تجویز اور ’’پاکستان اسکیم‘‘ کا فرق واضح کرتے ہوئے: ۱۔ اپنی تجویز کو ’’مسلم صوبوں کے باہمی ادغام سے بننے والی ایک ریاست یا صوبہ لکھا اور چونکہ وہ تھامپسن کے نام اس ایک منظم ریاست کے لیے In this passage ہندستان سے باہر، کے تصور سے انکار کر چکے تھے اس لیے اسی طرح، اب کے بھی حالات کے تحت انھوں نے اسے ہندی وفاق کا ایک یونٹ بتایا ___ کہ ان دنوں وہ کسی ایسے ہندی وفاق کی تشکیل کے لیے کانگریس کو آمادہ کر رہے تھے۔ ۲۔ وہ اپنی اس مجوزہ اسلامی ریاست کو چونکہ برطانوی تولیت میں دینے سے بے زار ہوچکے تھے اس لیے انھوں نے پاکستان اسکیم کے کنفیڈریشن کے تصور اور برطانوی تولیت میں براہِ راست وزیر لندن سے تعلق کو مسترد کر دیا جو اب چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم تھی۔ نہ کہ ’’اقبال کی مجوزہ منظم اسلامی ریاست‘‘ جس کا انھوں نے خطبۂ الہٰ آباد میں بطور ایک آخری نصب العین تصور دیا تھا۔ اسی لیے دو روز بعد (۶ مارچ ۱۹۳۴ء کو) حکیم راغب احسن کے نام مکتوب میں یہ واضح کیا کہ تبصرہ نگار نے میری تجویز اور کیمبرج کی ’’پاکستان اسکیم‘‘ کو خلط ملط کر دیا ہے۔ اس خلط ملط کی حقیقت تھامپسن کے نام ۱۹۳۱ء کے مکتوب کو سامنے رکھ کر ہی معلوم کی جا سکتی ہے۔ جب اقبال نے ایک بار اس کی نفی کر دی تھی تو تھامپسن کو اسے دوبارہ دہرانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا اس لیے نہیں کہ کیمبرج اسکیم اس کے ذہن کی اختراع تھی اور وہ ایک بار پھر اسے اقبال کے کھاتے میں ڈالنے نکلے؟ اقبال نے راغب احسن کو لکھا: ’’اس تبصرے کے مصنف نے میری اسکیم کو ’’پاکستان اسکیم‘‘ سے خلط ملط کر دیا ہے۔ اس نکتے کو ایڈیٹر پر واضح کرنا نہ بھولیے‘‘۔۱۹؎ جب اقبال کے نزدیک (جو درج بالا خطوط سے واضح ہے) ان کی تجویز خطبہ الہٰ آباد اور کیمبرج کی ’’پاکستان اسکیم‘‘ ایک ہیں ہی نہیں تو پھر ’’پاکستان اسکیم‘‘ سے لا تعلقی اور براء ت ’’پاکستان‘‘ سے لا تعلقی اور براء ت کیونکر ٹھہری؟ ڈاکٹر شفیق علی خان اس حقیقت سے یا تو ناواقف رہے یا دانستہ اغماض برتنے کے مرتکب ہوئے۲۰؎۔ اقبال کے نزدیک ’’کیمبرج کی پاکستان اسکیم‘‘ ان کی شمال مغربی اسلامی ریاست کے مقاصد کی تردید تھی۔ وہ پاکستان سے نہیں، اُس ’’پاکستان اسکیم‘‘ سے لاتعلق ہو رہے تھے جسے اچھالا جا رہا تھا۔ اور جسے خود چودھری رحمت علی نے اقبال کی تجویز سے مختلف تسلیم کیا اور بتایا تھا۔ عبد الوحید خان رکن مجلس شوریٰ آل انڈیا مسلم لیگ بھوپال میں اقبال سے اپنی ایک گفتگو (۱۹۳۵ئ) کے حوالے سے لکھتے ہیں: میرے استفسار پر آپ نے فرمایا: پاکستان کے قیام سے میرا مقصد صرف مسلمانوں کا قومی، نسلی یا تمدنی تحفظ ہی مقصود نہیں ہے بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ہندستان کے ایک حصے میں مسلمانوں کو آزاد اور خود مختار حکومت قائم کرنے کا موقع مل جائے جس میں وہ اسلام کے قوانین و آئین کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ا س پر میں نے پاکستان کی وجہ تسمیہ کے متعلق دریافت کیا۔ اس زمانے میں اس کا انتساب چودھری رحمت علی صاحب سے کیا جا رہا تھا اور چودھری صاحب موصوف لندن میں اس اسکیم کو اسی نام سے متعارف کرا رہے تھے۔ اس پر علامہ اقبال نے مجھے جو جواب دیا اس سے اس نظریے کی تردید ہوتی ہے۔۲۱؎ اقبال کا پاکستان، او ر’’کیمبرج کی پاکستان اسکیم‘‘ اقبال کے نزدیک دو متضاد منصوبے تھے اور اقبال کے بقول کیمبرج کی پاکستان اسکیم ان کے مجوزہ پاکستان کے مقاصد کی تردید کرتی ہے۔ اس لیے ان دو متضاد اسکیموں کو خلط ملط کرنا اور اس اسکیم کے ایک حامی کے طور پر اقبال کا نام لکھا جانا غلط تھا جس سے براء ت اور لا تعلقی کا اعلان ضروری سمجھا گیا: اقبال نے اپنے ’’پاکستان‘‘ کے مقاصد کی وضاحت عبد الوحید خان سے گفتگو میں یوں کی تھی: پاکستان کے قیام سے میرا مقصد صرف مسلمانوں کا قومی ___ نسلی یا تمدنی تحفظ ہی نہیں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ ہندستان کے ایک حصے میں مسلمانوں کو آزاد اور خود مختار حکومت قائم کرنے کا موقع مل جائے جس میں وہ اسلام کے قوانین و آئین کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ (ایضاً) کیا یہ مقاصد برطانوی تولیت میں براہِ راست وزیر ہند لندن سے تعلق کے تحت پورے ہو سکتے تھے؟ ___ یہ مقاصد تو اسی وقت حاصل ہو سکتے تھے جب مسلم ریاست برطانیہ اور ہندو اکثریت دونوں کے اثر سے آزاد ہو۔ اور جب تک مسلمانوں کو ’’ایک ممتاز قوم‘‘ تسلیم نہیں کیا جاتا ’’بین الاقوامی قانون حق خود مختاری‘‘ سے استفادہ ممکن نہیں تھا۔ اور مسلمانوں کو ایک ممتاز قوم تسلیم کیے جانے کے لیے پہلے ضروری تھا کہ انھیں جداگانہ انتخاب کا حق دیا جائے۔ اسی لیے ڈائرکٹر ہمدم کے نام اقبال نے مسلمانوں کے مستقبل کو ’’ابھی‘‘ جداگانہ انتخاب سے وابستہ کہا۔ اس ’ابھی‘یا ’ایک عرصے‘ کا وہی مفہوم ہونا چاہیے جو مسٹر تھامپسن کے نام پہلے مکتوب ۱۹۳۱ء میں In this passage اور دوسرے مکتوب ۱۹۳۴ء میں Now کا ہونا چاہیے۔ کیونکہ اقبال جداگانہ انتخاب کو بھی مغربی تصور قومیت سے متناقض نہیں سمجھتے تھے اور مغربی تصور قومیت بالآخر مسلمانوں کو بقول ان کے لا دینی کی طرف لے جانے والا ہے۔ مراد یہ کہ ابھی آخری نصب العین باقی ہے، مسلم اٹانومس سٹیٹس کا حصول تو مطلوب تھا مقصود نہیں۔ اس لیے اقبال کو یہ الزام دینا کہ وہ اس آخری نصب العین سے منحرف ہو گئے تھے جو ان کا اپنا تجویز کردہ تھا، انتہائی کم عقلی اور تدبر سے خالی استدلال کا نتیجہ ہے۔ وہ تو اس نصب العین کے ۱۹۰۴ء سے بھی پہلے منتظرتھے جیسا کہ ان کے مقالہ ’قومی زندگی‘ کے اس جملے سے واضح ’’لیکن ابھی وطن چونکہ کسی قابل عمل نتیجے تک نہیں پہنچا…‘‘ اب دو سوال مزید باقی ہیں۔ ایک یہ کہ اقبال کا عبد الوحید خان سے گفتگو کے دوران ’’پاکستان سے میرا مقصد‘‘ کہنے کے باوجود ’’پاکستان اسکیم‘‘ جس کا چودھری رحمت علی پرچار کررہے تھے کو recant کرنا … کیوں؟ اور پاکستان اسکیم کو اپنے مقاصد کی تردید سمجھنا کس بنا پر؟ مناسب ہے کہ ہم پہلے دوسرے سوال کو لیں تاکہ پیشِ نظر بحث مکمل ہو۔ مگر ایسا کرنے سے ہماری بحث کا نقطہ آغاز مجروح ہوتا ہے جس کے حوالے سے ہم نے زیڈ اے سلہری کی تحریر (۳ جولائی ۱۹۹۴ء روزنامہ جنگ) کو ان کی منفرد تحریروں میں ممتاز تحریر لکھا۔ اس لیے ہم پہلے، پہلے ہی سوال کو لیتے ہیں۔ خ لفظ پاکستان کا خالق؟ اقبال نے ’’پاکستان سے میرا مقصد‘‘ کہہ کر ’نفس پاکستان‘ کو مسترد نہیں کیا، آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب خاصا تکلیف دہ ہے۔ پہلے یہ سوال سن لیجیے: کیا جب پاکستان ۱۹۴۷ء میں وجود میں آیا وہ ہندستان کے اندر یا برطانوی تولیت میں تھا؟ ۔ یقینا نہیں ___ تو اسے ’’کیمبرج کی پاکستان اسکیم‘‘ کی کامیابی کس دلیل پر قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سید مطلوب الحسن صاحب سے نہ کہا تھا: آج اقبال ہوتے تو بہت خوش ہوتے کیونکہ ہم نے وہی کچھ کیا جس کی وہ ہم سے توقع رکھتے تھے! ۲۲؎ کیا قرار داد پاکستان کے حقیقی محرک قائداعظم کے اس بیان کے بعد بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اقبال کی خواہش اور تصور کا مظہر نہیں؟ پاکستان اگر ’’پاکستان اسکیم‘‘کا مظہر شہود ہوتا تو لازم تھا کہ ماؤنٹ بیٹن پاکستان کا گورنر جنرل ہوتا۔ کیونکہ براہِ راست برطانوی تولیت کا کیمبرج تصور ا س کے بغیر پورا نہ ہو سکتا تھا۔ لیکن قائداعظم نے ایسا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایسا کرنے سے ’’آزاد اور خود مختار حکومت‘‘ کا وہ مقصد پورا نہ ہو سکتا تھا، جو اقبال کے پیش نظر تھا۔ ’’آزاد اور خود مختار حکومت‘‘ کے قیام کے لیے قائداعظم کا ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل تسلیم کرنے سے انکار ان کی مؤمنانہ بصیرت اور اقبال کی مدبرانہ حکمت کی بار آوری کا ثبوت تھا۔ بھارت نے ماؤنٹ بیٹن کو تسلیم کر کے اقبال کی پیش بینی برطانوی شہنشاہیت اور ہند و اکثریت کی بالا دستی ( بذریعہ جمہوریت) کے ناپاک گٹھ جوڑ کو بھی ثابت کر دیا۔ ۲۳؎یہ قائداعظم ؒ کی ہوسِ اقتدار نہ تھی مومنانہ بصیرت اور نصب العین سے عشق کا نتیجہ تھا۔ کیا چودھری رحمت علی لفظ پاکستان کے خالق بھی تھے؟ جناب شریف بقا ہر سال ایک آدھ مضمون لکھ کریہ تصور نسلِ نو کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے کہ ۱۹۳۵ء تک خود مسلم لیگی بھی جس کا شکار رہے۔ عبد الوحید خان کی اقبال سے بھوپال میں گفتگو کا ایک حصہ پہلے نقل کیا گیا ہے۔ بقایا حصہ پیش خدمت ہے: ہندستان کے جدید رجحانات سے علامہ صاحب بہت مطمئن نظر آتے تھے۔ مسلمان مرکزی اسمبلی کے انتخابات مسلم یونٹی بورڈ کے ماتحت لڑ چکے تھے۔ مسلم لیگ کے عروقِ مردہ میں خون دوڑانے کا خیال مسلم لیڈروں میں پیدا ہو چکا تھا۔ اس لیے علامہ اقبال کو یقین تھا کہ مسلم ہندستان اپنی خاکستر سے ایک جہانِ نو کی تعمیر میں کامیاب ہو گا۔ یہ جہانِ نو اس وقت ’پاکستان‘ کے نام سے موسوم و مشہور ہو چکا تھا۔ مسلم مفکرین نے علامہ اقبال کی پیش کردہ اسکیم پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا تھا ___ اس زمانے میں اس (پاکستان) کا انتساب چودھری رحمت علی سے کیا جا رہا تھا اور چودھری صاحب موصوف لندن میں اس اسکیم کو اسی نام سے متعارف کرا رہے تھے ___ اس لیے میں نے مزید وضاحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا ___ جب میں گول میز کانفرنس کی شرکت کے لیے ۱۹۳۱ء میں لندن میں تھا۔ ایک مرتبہ چودھری رحمت علی صاحب میرے پاس آئے اور کہا جو اسکیم آپ نے مسلم لیگ کے الہٰ آباد سیشن کے خطبۂ صدارت میں پیش کیا ہے اس کے مطابق اگر کوئی حکومت وجود میں آئی تو اس کا نام کیا ہو گا؟ اس پر میں نے کہا شمال مغربی ہندستان کے ہر صوبے کا پہلا لفظ لے لو اور بلوچستان کا تان لے لو تو اتفاق سے ایک با معنی اور عمدہ لفظ بن جاتا ہے یعنی پاکستان ___ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ نام ہو خواہ کوئی دوسرا،مقصد یہ ہے کہ اپنی اکثریت کے علاقوں میں ان کو خود حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ ۲۴؎ ۱۹۴۷ء کا پاکستان تو خود چودھری رحمت علی کے بقول اُن کی تجویز سے مختلف تھا کہ چودھری صاحب کا پاکستان، براہِ راست لندن میں وزیر ہند سے متعلق ہوتا۔ لیکن اقبال اس مطالبے کو کامل آزادی اور خود حکومت کرنے کے حق کے مطالبے کی تردید سمجھتے تھے۔ اور پاکستان برطانیہ اورہندی وفاق سے آزاد نکلا۔ لیکن خود لفظ پاکستان بھی چودھری صاحب کی تخلیق نہ تھا۔ معتبر اور ثقہ راوی کی درج بالا شہادت کے علاوہ خود چودھری صاحب کی اپنی ایک تحریر اس کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے ۔ چودھری صاحب ہمیشہ انگریزی میں لکھتے رہے۔ پاکستان کا لفظ انھوں نے بار بار استعمال کیا مگر پاکستان کے حدود و قیود کی وضاحت انھوں نے اپنی کتاب Pakistan مطبوعہ ۱۹۴۷ء میں پہلی بار فرمائی: Pakistan is both Persian and Urdu word. It is composed of letters taken from our homelands__ Indian and Asian. That is Punjab, Afghania (NWFP), Kashmir, Iran, Sind, (Including Kuch and Kathiawar) Turkistan, Afghanistan and Baluchistan. It means the land of the Paks. The spiritually pure and clean: (25) ڈاکٹر شفیق علی خان اور ان کے متبعین غور فرمائیں، کیا ۱۹۴۷ء کو یہی پاکستان وجود میں آیا تھا؟ اگر چودھری صاحب کی ’’پاکستان اسکیم‘‘ کامیاب ہوتی تو مسلم انڈیا ہی نہیں تمام ایشیائی مسلم ممالک کو برطانیہ کی تولیت میںجانا تھا۔ اور کیا ایران اور افغانستان جیسے آزاد اسلامی ممالک بھی برطانوی تولیت قبول کر لیتے؟ یہ تو محض دیوانے کی بڑ تھی۔ معاملہ کچھ بھی ہو مگر ۱۹۴۷ء کا پاکستان اس نقشے سے قطعی مختلف تھا جو چودھری صاحب نے اپنی کتاب پاکستان میں کھینچا ہے۔ اسی حوالے سے اقبال کی عبد الوحید خان سے گفتگو سے اٹھنے والا فرق واضح ہوتا ہے۔ چودھری صاحب کے مندرجہ بالا لفظی نقشے میں بنگال کا ذکر نہیں۔ اقبال پر بھی یہ الزام اکثر دہرایا گیا کہ انھوں نے بنگال کا نام کبھی نہیں لیا۔ لیکن ایسا نہیں۔ اقبال اچھی طرح جانتے تھے کہ جو حقوق شمال مغربی ہندستان کو ملیں گے وہ لازمی طور پر بنگال کوبھی ملیں گے۔ اس لیے ان کا سارا زور استدلال شمال مغربی ہندستان سے متعلق رہا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ بنگال ان کی نظر سے اوجھل تھا۔ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال قائداعظم سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ___ مسلم ہندستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی راے میں اس مطالبے کا وقت نہیں آ پہنچا۔ ۲۶؎ میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، صرف واحد راستہ ہے۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندستان اور بنگال کے مسلمانوں کوعلاحدہ اقوام تصور کر لیا جائے جنھیں ہندستان اور بیرونِ ہندستان کی دوسری اقوام کی طرح حقِ خود اختیاری حاصل ہو۔ ۲۷؎ علامہ اقبال نے ان خطوط میں ’’موجودہ حالات کے تحت‘‘ ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں کی تقسیم‘‘ کو ایک جداگانہ مسلم وفاق کہہ کر شمال مشرقی ہندستان کو بھی ’’ایک قوم‘‘ کے طور پر حقِ خود اختیاری ملنے کی دلیل بنایا۔ اگر اقبال صرف شمال مغربی ہندستان ہی کو وفاق بنانا چاہتے تو بنگال کا ذکر غیر ضروری تھا۔ اور بنگال کے لیے حقوق کی یافت کا راستہ شمال مغربی ہندستان ہی کی طرح قومیت کا مغربی اصول نسلی،مذہبی اور لسانی اشتراک تھا۔ لیکن اقبال ان تمام صوبوں (شمال مغربی اور شمال مشرقی) کا ایک وفاق دیکھنا چاہتے تھے۔ اسی حوالے سے ۱۹۴۰ء کی قرار داد کو اپریل ۱۹۴۶ء میں State میں بدلا گیا۔ اور حقیقت میں یہی قرار داد پاکستان تھی۔۲۸؎ مسلم لیگ کے رہنماؤں کی طرف سے states کو state کرنا بھی تصورِ اقبال ہی کی پیروی ثابت ہوتا ہے۔ ایک آزاد اسلامی ریاست کو اقبال نے اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں state ہی کہا تھا لیکن ہند یونین کے اندر ان ریاستوں (صوبوں) کو مسلم اٹانومس سٹیٹس لکھا تھا۔ ۱۹۴۶ء میں چونکہ حالات بالکل واضح ہو چکے تھے اور پاکستان کی آزادانہ حیثیت کی تحسین ممکن ہو چکی تھی اس لیے ۱۹۴۰ء کا states ۱۹۴۶ء میں state کر لیا جانا ضروری تھا۔ خ اقبال کا دو قومی نظریہ چودھری رحمت علی کے برعکس۲۹؎ اقبال کا دو قومی نظریہ ’’مسلم اور غیر مسلم‘‘ کے تصور سے عبارت تھا۔ ۳۰؎ ان کے نزدیک ترکی، ایران اور دوسرے اسلامی ممالک کو علاقائی یا نسلی قوم پرستی کے اصول کا الزام دینا انتہائی مغالطہ انگیز تھا (اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ طرزِ استدلال کس کا طرۂ امتیاز تھا۔ یہی تو وہ بنیاد تھی جس کی رو سے ___ ’’مسلم لیگ ریزولیشن دیکھ کر روح کے بے اختیار ماتم‘‘ کا ذکر کیا گیا تھا )اقبال غیر کانگریسی مگر مسلم لیگ سے باہر کے اس گروپ کے طرز استدلال سے نا واقف نہ تھے۔ انھوں نے۱۹۳۰ء کے خطبہ الہٰ آباد میں اس کی وضاحت بھی کر دی تھی۔ انھوں نے پر زور لفظوں میں کہا: نہیں، ایسا نہیں۔ انھیں (ترکی، ایران وغیرہ کو ) اپنی اکثریت کی وجہ سے ایسے مسائل درپیش نہیں اور وہاں کی اقلیتیں بھی اہلِ کتاب ہونے کی وجہ سے اس مقام پر نہیں جیسا کہ ہم ہندی اقلیتی مسلمان ہیں۔ ان کے چھو جانے سے مسلمانوں کا کھانا ناپاک نہیں ہوتا۔ ان سے تو از روے قرآن مناکحت بھی جائز ہے لیکن مسلمانانِ ہند کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مسلم قومیت کی حفاظت صرف ہمارا ہی فریضہ ہے کہ یہیں اس کے تشخص کو خطرہ لاحق ہے اس لیے اسے وطنیت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ ۳۱؎ اقبال نے اس مضمون کو اپنے ایک شعر میں بیک دستہ گل بنا کر بھی پیش کیا ہے۔ ہے اگر قومیتِ اسلام پابند مقام ہند ہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس ہے نہ شام ۳۲؎ مراد یہ کہ اقبال کسی اکثریتی صوبے میں یا ملک میں مسلمان اور وطن میں تفریق کے روادار نہ تھے کہ ایسی جگہ اسلام اور وطن ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ اسلام کی حفاظت اور پاکستان کی مخالفت، یک جا نہیں ہو سکتے۔ اسلام کی حفاظت کا ثبوت پاکستان سے محبت اور ا س کی حفاظت میں مضمر ہے۔ پاکستان کو برطانوی سازش لکھنا اور خود کو اسلام کا علم بردار ٹھہرانا دو متضاد باتیں ہیں۔ جب پاکستان بن گیا تو دو قومی نظریے کی تکمیل ہو گئی۔ جس طرح ایران اور ترکی میں دو قومی نظریے کی حفاظت کا نعرہ بے معنی ہے اسی طرح ایک مسلم قوم کے لیے بننے والے پاکستان میں بھی دو قومی نظریے کی حفاظت کا علم اٹھانا بے معنی تھا مگر اٹھایا گیا۔ کس لیے؟ ٭ اس لیے کہ چودھری رحمت علی اپنی ’پاکستان اسکیم‘ میں شمال مغربی اسلامی ریاست کو (پاکستان) اور شمال مشرقی اسلامی صوبہ بنگال کو( بنگستان) لکھ کر دو توام قومیں لکھتے رہے تھے (our twin nations )جب شمال مغربی اور شمال مشرقی مسلم ہندستان، ایک مسلم وفاق کی صورت میں تخلیق و تشکیل کے مراحل سے گزر گیا تو ’’دو قومی نظریے‘‘ کی حفاظت کا غلغلہ ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دو توام قومیں جن کی بنیاد کیمبرج کی پاکستان اسکیم کے مطابق نسلی اور علاقائی تھی الگ الگ ہو گئیں۔ اور برطانوی سازش کامیاب ہو گئی۔ یہ اقبال کے دو قومی نظریے کی شکست نہ تھی۔ وہ تو ۱۹۴۷ء کو بار آور ہو کر از خود ختم ہو گیا تھا۔ یہ اس دو قومی نظریے کا ثمر تھا جو ۱۹۴۷ء کے بعد آغاز ہوا اور پاکستان و بنگستان کو دو قومیں سمجھتا تھا۔ اقبال نے اس ’’پاکستان اسکیم‘‘ کو مضر دیکھا تھا تو اسی لیے کہ اقبال کا پاکستان صرف قومی، نسلی یا تمدنی تحفظ کے لیے نہ تھا۔ بنگستان اور پاکستان کی پاکستان اسکیم ملت کو ۱۰قوموں میں لسانی، نسلی یا تمدنی لحاظ سے دیکھتی تھی اس لیے اقبال اسے اپنے تصور کی تردید سمجھتا تھا۔ اور جب مسٹر تھامپسن نے اس کے ساتھ اس پاکستان اسکیم کو نتھی کرنا چاہا تو اس نے اس سے لاتعلقی کا واشگاف اظہار کیا۔ ٭ آخر میں راجندر پرشاد، پنڈت نہرو اور ان کی تقلید میں ڈاکٹر شفیق علی خان کا یہ مغالطہ انگیز بیان کہ ’’اقبال کے تصور کو کبھی پذیرائی نہ ملی تھی‘‘ ۳۳؎ یا بقول پنڈت نہرو ’’ابتداً یا اس وقت اس کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوئی تھی‘‘ خطبۂ الہٰ آباد سے قرار داد پاکستان کی منظوری تک دوست اور دشمن ’’پاکستان اسکیم‘‘ کو اقبال سے نتھی کرتے رہے۔ کیا یہ اقبال کے تصور کی عدم مقبولیت یا ’’کوئی اہمیت نہ ملی‘‘ جیسے الفاظ کا مستحق ہے؟ خطبۂ الہٰ آباد پر ہندو پریس اور برطانوی عمال کا رد عمل ہی اس نظریے کی مسلم دوستی، کا شاہد عادل ہے: ۱۔ انڈین ڈیلی میل کے نامہ نگار ایف ڈبلیو ولسن مقیم لندن کے ٹیلی گرام کے مطابق وزایرعظم برطانیہ ریمزے میکڈ انلڈ سخت ناراض ہوئے۔ ۳۵؎ ۲۔ لیڈر کے نامہ نگار لندن کے بقول اس کے خلاف نہ صرف برطانوی بلکہ ہندستانی حلقے بھی غصے کا اظہار کرنے لگے۔ ۳۶؎ ۳۔ اینگلو انڈین اخبارات Poineer اور ٹائمز آف انڈیا نے جو ۱۹۴۷ء تک برابر سامراج کے ناقوس رہے اپنے اداریوں میں اقبال کے خیالات کو رجعت پسندانہ، ناقابلِ عمل اور نامناسب قرار دیا۔ ۳۷؎ ۴۔ لاہور کے ہندو روزنامے ٹریبون نے شدید تنقید کے ساتھ یہ طنز بھی کیا کہ اقبال کو چونکہ گول میز کانفرنس میں نہیں بلایا گیا اس لیے انھوں نے بدلہ لے لیا۔ پہلے انھوںنے مسلمان مندوبین کو ٹیلی گرام بھیجا اور مخلوط انتخاب قبول کرنے کے خلاف احتجاج کیا اور پھر خطبہ الہٰ آباد سے ہندو مسلم سمجھوتے اور نیشنلزم کی لٹیا ڈبو دی۳۸؎۔ ۵۔ لاہور کے ہندو اخبار پرتاب نے اقبال کو شمالی ہند کا خوف ناک مسلمان لکھا اور اقبال کے خیالات کو گستاخیاں کہہ کر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ ۶۔ غرض ہندو اور برطانوی پریس سراپا فغاں بن گئے۔ روزنامہ انقلاب کا ایک افتتاحیہ ہی اس کے بیان کے لیے کافی ہے ’’شاید ہی الٹی سیدھی لکیریں لکھنے والا کوئی ہندو ہاتھ ہو جس نے اس خطبے کو اپنی مذموم اور قابل صد نفرین جولانی کا تختہ مشق نہ بنایا ہو ___ خطبۂ مذکورہ کی انتہائی مذمت میں اس درجہ مستعدی سے کام لیا گیا کہ شاید حکومت انگلشیہ سے آزادی حاصل کرنے میں بھی آج تک ایسی مستعدی کا اظہار نہیں ہوا ___ گویا اقبال کے خطبے نے ان کے ہاتھ سے وہ چیز چھین لی ہے جسے وہ خالصتاً اپنی ملکیت سمجھتے تھے‘‘۔ ۳۹؎ کیا یہ مشتے نمونہ از خروارے دیکھ کر بھی کوئی بہ سلامتیِ ذہن یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’اس وقت اس کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہوئی تھی‘‘ جیسا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے لکھا اور جس کی تقلید ڈاکٹر شفیق علی خان نے کی؟ جہاں تک مسلمانان ہند میں اقبال کے اس تصور کی مقبولیت کا تعلق ہے قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد سید مطلوب الحسن سے قائدؒ کا یہ جملہ ہی کافی ہے ’’ہم نے وہی کچھ کیا اقبال ہم سے جس کی خواہش رکھتے تھے‘‘ لیکن نہیں خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں تیسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اقبال کا نام مسلم مندوبین میں نہ پا کر وائسراے ہند نے وزیر ہند لندن کو لکھا: آپ کو غالباً اس بات کا اندازہ نہیں کہ آج اقبال ہندستان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا روحانی پیشوا ہے بالخصوص ہندستانی مسلمانوں کا نوجوان طبقہ تو اقبال کا پرستار ہے جس جلسے میں بڑی بڑی مرصع اور پر جوش تقریریں ناکام رہ جائیں وہاں اقبال کا ایک شعر کام کر جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اقبال سے جو عقیدت ہے اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے کسی قومی اجتماع کو اس وقت تک اپنی نمایندگی کا پروانہ عطا نہیں کرتے جب تک اقبال اس اجتماع کو اپنی شرکت کا فخر نہ بخشے۔ لہٰذا اقبال گول میز کانفرنس میں زبان کھولے یا چپ رہے۔تقریریں کریں یا ہونٹوں پر مہرسکوت لگا کر بیٹھا رہے اس کی شرکت، مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ۴۰؎ اقبال کی یہ مقبولیت کلکتہ لیگ کے خلاف اپر انڈیا آل مسلم کانفرنس کے خطبہ الہٰ آباد ہی کا ثمر تھی۔ اقبال کی اسی مقبولیت کے پیشِ نظر تھامپسن اس برطانوی سازش کو جو ۱۹۳۱ء میں اقبال سے منسوب نہ ہو سکی اور جسے ۱۹۳۳ء میں چودھری رحمت علی نے اپنایا، مقبول بنانے کے لیے بار بار اقبال سے منسوب کرتا رہا مگر اس کی ہر کوشش ناکام رہی۔ برطانوی مدبر، برطانوی سازش میں ناکامی کے بعد پنڈت نہرو اور راجندر پرشاد کے پرستاروں کو البتہ دھوکے میں ڈالنے میں کامیاب رہا ۔ ع حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کے تعزیریں ۴۱؎ ______________ حوالے و حواشی ۱۔ ڈسکوری آف انڈیا ، ص ۳۳ بحوالہ اقبال کا سیاسی کارنامہ، ص ۸۳۱۔۸۳۲ ۲۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ص ۱۷۰، حرفِ اقبال، ص ۲۸ ۔ ۲۹ ۳۔ حرفِ اقبال ، ص ۴۳ و ما قبل ۴۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال،ص ۱۹۱، حرف اقبال، ص ۳۰،۵۰۔۵۱ ۵۔ حرفِ اقبال، ص ۲۹ ۶۔ ایضاً ۷۔ Letters and Writings of Iqbal ، ص ۱۱۸ ۸۔ ایضاً، ص ۱۹۹ ۹۔ Now or Never، ص ۶ ۱۰۔ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال، ۱۷۹ ۱۱۔ پاکستان آر پارٹیشن آف انڈیا، ص ۳۲۹ ۱۲۔ Iqbal: His Political Ideas at Cross Roads. ، ص ۷۲ ۱۳۔ آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی ۱۹۳۲ء کے صدارتی خطبے میں اقبال نے واضح کیا: ’’ہندستان کے مسلمان حکومت کے طریق کار سے بدظن ہو چکے ہیں___ اور بہت سے لوگ اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا تیسری جماعت کی قوت، مسلمان اقلیت کی سیاسی مخالف اور اقتصادی طور پر غالب اکثریت سے بچانے کی ضامن ہو سکتی ہے؟ ___ واقعات کی تیز رفتاری اور سیاسی دنیا کے فوری تغیرات ایک شہنشاہی جمہوریت خصوصاً ایک پارٹی گورنمنٹ کو اس کی مہلت ہی نہیں دیتے کہ وہ کسی متعین راہ پر زیادہ عرصے تک رہ سکے‘‘۔ حرفِ اقبال، ص۶۳۔ ۶۴ ۱۴۔ حرفِ اقبال، ص ۱۹۴ء قرطاس ابیض پر اقبال کا رد عمل مطبوعہ ۲۰ مارچ ۱۹۳۳ء ۱۵۔ حضرت علامہ نے انگریز پرنسپل کے خلاف شورش کے حوالے سے ۱۹۰۷ء میں علی گڑھ کے طلبہ کے نام جو نظم لکھی اس کاآخری شعر یوں تھا: بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیاابھی (کلیات اقبال اردو، ص۱۱۵) ’’ابھی‘‘ صاف صاف بتا رہا ہے کہ جب تک بادہ نیم رس اور شوق نارسا ہے خشت کلیسا ضروری ہے۔ ۱۹۱۰ء میں وہ اپنے تدبر و تفکر کا نچوڑ شذرات کی صورت میں لکھنے لگے۔ ان میں سے بعض اخبارات میں Stray Thoughts کے عنوان سے شائع بھی ہوئے۔ ان شذرات میں ایک عنوان ہے ’’تولیت اقوام‘‘ وہ لکھتے ہیں: ’’کسی بدیسی حکومت کا مطلق بے لوث ہونا نا ممکن ہے تاہم اقوام کی تولیت ضروری ہے۔ بعض اوقات اس تولیت و تربیت کے معاوضے میں قوموں کو نان شبینہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اہل میکسیکو کو ہسپانیہ والوں کے ماتحت تربیت کے شدید مراحل سے گزرنا پڑا تب جا کر وہ انتظام سنبھالنے کے لائق ہو سکے‘‘۔ (شذرات فکر اقبال، ص ۱۰۳) ۳۰ جولائی ۱۹۳۱ء میں علامہ سر فرانسس ہسبینڈ نام اپنے مکتوب میں فیصلہ سناتے ہیں: ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر ہندو ہم پر حکومت کریں۔ بشرطیکہ ان میں حکومت کرنے کی اہلیت اور شعور ہو۔ لیکن ہمارے لیے دو آقاؤں کی غلامی نا قابل برداشت ہے۔ ہندو اور انگریز میں سے کسی ایک ہی کا اقتدار گوارا کیا جا سکتا ہے‘‘۔ (حرفِ اقبال ، ص ۱۵۶) ۱۷ نومبر ۱۹۳۲ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں وہ یہ راے دیتے ہیں: ’’صوبوں کو مکمل خود مختاری دی جائے لیکن ہندستان میں ان کا مشترکہ مرکز نہ ہو بلکہ وہ آزاد ریاستیں (Dominions) ہوں جن کا راست تعلق لندن میں وزیر ہند سے ہو‘‘۔ (پاکستان امبیڈکر، ص ۳۲۹) ۲۰ جون ۱۹۳۳ء کو تھامپسن کے نام مکتوب میں لکھا: ’’___ تاہم باوجود پیشہ ورانہ نقصانات کے میرے لیے مقام مسرت ہے کہ مسلمانوں نے بھی او ربرطانیہ نے بھی جزواً سہی (کمیونل ایوارڈ میں) میری بات سنی اور تسلیم کی کہ ہندستان کے مسلمان ایک ممتاز قوم ہیں اور انھیں اپنے خطوط (قوانین و آئین۔ م) پر آزادانہ ترقی کا حق ملنا چاہیے‘‘۔ (ایس۔ حسن احمد، ص ۷۲) تاہم قرطاسِ ابیض نے ان کی وہ مدبرانہ بصیرت سچ کر دکھائی جس کا اظہار آل انڈیا مسلم کانفرنس ۱۹۳۲ء کے صدارتی خطبے میں کیا تھا۔ ملا حظہ ہو: حاشیہ ۱۔ اس خطبے میں انھوں نے ’’بد اندیش تیسری قوت‘‘ کی نشان دہی کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنی پالیسی احسن ذاتی فائدے پر استوار کرنے کی تلقین کی: ’’انگلستان کی سیاسی جماعتوں کا مزاج اور ان کے مقاصد کچھ ہی ہوں آپ کو اپنی پالیسی کی بنیاد ایسے احسن ذاتی فائدے پر رکھنی چاہیے جس میں تمام برطانوی اقوام کو متاثر کرنے کی صلاحیت ہو۔ ایسی جنگ میں شمولیت سراسر حماقت ہو گی جہاں مال غنیمت ان لوگوں کے ہاتھ آئے جو آپ کے بد اندیش ہوں۔ (حرف اقبال، ص ۶۰) سرحد اور کشمیر کے فسادات کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے واضح کیا: ’’تمام دنیا کی اقوام میں احساس خود داری بیدار ہو رہا ہے اور اس احساس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ حکومت میں زیادہ حصہ طلب کریں۔ ایک غیر متمدن قوم کے لیے سیاسی سرپرستی (تولیت) شاید موزوں ہو لیکن یہ چیز خود حکومت کے مفاد میں داخل ہے کہ جب لوگوں کے نظریے کی تبدیلی کسی تبدیلی کا مطالبہ کرے تو وہ (حکومت) بنیادی تبدیلیوں سے بھی نہ گھبرائے‘‘… (حرف اقبال، ص ۶۳/ ۶۴) ۱۶۔ اس تیسری جماعت کی طرف سے بد ظنی کے اظہار کے ساتھ ہی حضرت علامہ نے ’’اتحاد‘‘ کی کوششوں کی ابتدا کر دی تھی۔ انھوں نے واضح کیا: ’’قدیم فلاسفہ ہند کا مسئلہ یہ تھا کہ وحدت کس طرح اپنی وحدت کو قربان کیے بغیر کثرت میں بدل گئی۔ مگر آج یہ مسئلہ اپنی اخلاقی بلندیوں سے بہت نیچے آ کر ہماری سیاسی زندگی کے منصوبوں میں دخیل ہو گیا ہے اور ہمیں اس مسئلے کو برعکس طور پرحل کرنا ہے۔ وہ یہ کہ کس طرح کثرت اپنی انفرادی کثرتیت کو نقصان پہنچائے بغیر وحدت آشنا ہو سکتی ہے‘‘۔ (Thoughts and Reflection of Iqbal P.221) اسی حوالے سے اقبال نے ڈائرکٹر ہمدم کے نام اکتوبر ۱۹۳۲ء میں جداگانہ انتخاب سے ابھی ایک عرصے تک مسلمانوں کے مستقبل کو وابستہ بتایا۔ (ملاحظہ ہو متن مقالہ ہذا) اب دیکھیے خشت کلیسا کو ’’ابھی‘‘ خم کے منہ پر رہنے دیجیے سے ’’ابھی ایک عرصہ تک‘‘ جداگانہ انتخاب سے مسلمانوں کے مستقبل کو وابستہ کہنے کا عندیہ کیا کہیں یہ بھی شبہہ پیدا کرنے دیتا ہے کہ اقبال کی نظر آخری نصب العین سے ہٹ رہی ہے وہ ہندوؤں کو مسلمانوں پر حکومت کا اہل ہی نہیں سمجھتے …لیکن بالآخر برطانوی تولیت کا خیال بھی ’’تیسری جماعت کے بد اندیش‘‘ ہونے کی وجہ سے مٹ رہا ہے ___ اتحاد ___ مگر کس لیے ’’احسن ذاتی فائدے‘‘ کے لیے، وہ احسن ذاتی فائدہ، شہنشاہیت (برطانوی اقتدار) اور جمہوریت (ہندو اکثریت کی بالا دستی) سے بیک وقت نجات ہی میں تو مضمر تھا۔ ۱۷۔ خطوطِ اقبال، ص ۳۴۱ ۱۸۔ Iqbal: His Political Ideas at Cross Roads.، ص ۸۰ ۱۹۔ کلیاتِ مکاتیب اقبال (برنی)، جلد سوم، ص ۴۷۳۔ ۴۷۴ اس بات کو ڈاکٹر شفیق علی خان بھی سمجھتے ہیں اور ہماری عبارت اُن ہی سے نقل ہوئی ہے۔ (اقبالز کنسپٹ آف سیپریٹ نارتھ ویسٹ مسلم سٹیٹ)، ص ۸۳۔ ۸۴ ۲۰۔ ملاحظہ ہو ڈاکٹر صاحب کی محولہ بالا کتاب ۲۱۔ اقبال کا سیاسی کارنامہ، ص ۸۹۸۔ ۸۹۹ ۲۲۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام (تعارف)، ص ۱۵ ۲۳۔ حرف اقبال، ص ۳۷۔ ۳۸ ۲۴۔ اقبال کا سیاسی کارنامہ ، ص ۸۹۸ تا ص ۹۰۰ بحوالہ تاثرات و تصورات از عبد الوحید خان،ص ۶۱۔ ۶۲ ۲۵۔ پاکستان چودھری رحمت علی، ص ۲۲۵۔ ۲۲۸ ۲۶۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام، ص ۵۰۔۵۱ ۲۷۔ ایضاً ، ص ۵۴۔۵۵ ۲۸۔ قرار داد ۱۹۴۰ء کو معلوم نہیں حقیقی قرار دادِ پاکستان کیوں قرار دیا گیا؟ اس قرار داد کو پڑھنے والے "States" کے جھمیلے سے نکلنے نہیں پاتے حالانکہ حقیقی قرار دادِ پاکستان اپریل ۱۹۴۶ء میں روبہ عمل آئی اور جسے مشرقی پاکستان کے حسین شہید سہروردی نے پیش کیا: ’’حسین شہید سہروردی نے خاص قرار داد پیش کی جس میں ’’شمال مشرقی منطقے میں بنگال اور آسام اور شمال مغربی منطقے میں پنجاب، صوبہ سرحد، صوبہ سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک مقتدر اعلیٰ آزاد مملکت کا مطالبہ کیا گیا‘‘۔ (جدوجہد پاکستان، اشتیاق حسین قریشی، ص ۳۳۸) ۲۹۔ ۱۹۴۰ء میں چودھری رحمت علی نے پاکستان قومی تحریک کی اعلیٰ مجلس میں ایک بیان دیا۔ اس میں انھوں نے بقول اپنے ’’ہندستانیت‘‘ کے خطرے پر زور دیا تھا۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’ہندستانیت نے اسلام کو روحانی اور اخلاقی طور پر خراب کیا ہے ___ مسلمانوں کی ملت کو ہندستان سے کوئی واسطہ نہ رکھنا چاہیے ۔ شمال مغربی ہندستان کو پاکستان کی قومی مملکت بننا چاہیے۔ مگر یہی کافی نہیں ہے ہندوستان کے دوسرے حصوں میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزاد کرانا چاہیے۔ بنگال اور آسام کو بانگ اسلام کے نام سے دوسری مملکت بننا چاہیے۔ حیدر آباد میں نظام کی قلمرو ایک اور مملکت ’’عثمانستان‘‘ کے نام سے ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ان تینوں مملکتوں کا ایک اتحاد ثلاثہ بننا چاہیے‘‘ (جدوجہد پاکستان ایضاً، ص ۱۶۸۔ ۱۶۹) ملاحظہ کیجیے چودھری صاحب کی ’’ملت‘‘ کتنی قوموں میں بٹی تھی۔ وہ ان توام اقوام کوبرطانوی تولیت میں دے کر ان کا کنفیڈریشن چاہتے تھے۔ پہلی بات تو نہ ہوئی کہ اقبال کا تصورِ پاکستان اور قائداعظم کی بالغ نظر قیادت کامیاب ہو گئی۔ مگر ۱۹۴۷ء کے بعد دو قومی نظریے کو پروان چڑھانے کے نتیجے میں جب بنگالستان یا ’’بانگ اسلام‘‘ بنگلہ دیش بن گیا تو دو قومی نظریے کے پرستار کنفیڈریشن کی خبریں سناتے رہے لیکن ’’سارک‘‘ تو بن گئی مگر وہ کنفیڈریشن، ابھی تک خواب ہے، بے تعبیر خواب۔ ۳۰۔ فرقان حمید کاارشاد ہے: ھَلْ اَتٰی عَلٰی الْاَنِسْانِ حِیْنٌ مِنَّ الدَّھِرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُورًاo (الدھر۷۶: ۱) انسان پر ان گنت زمانے گزرے کہ وہ قابل ذکر شے نہ تھا۔ اُس حالت انسانی کو قرآن ’امۃ واحدہ‘ سے تشبیہ دیتا ہے کہ انسان صرف حواس ہی سے طبعی تقاضوں کی تکمیل کر رہا تھا جیسا کہ دوسرے جانور۔ ارشاد ہوتا ہے۔ کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاَحِّدَۃًقف فَبَعَثَ اللّٰہُ النَبِّیْنِ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ ___ وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo (البقرہ۲: ۲۱۳) اِنَّا ھَدَیْنٰہ السَّبِیْلَ امَّا شَاکِرا وَ اِمَّا کَفُوْرًاo (الدھر۷۶: ۳) پس وَاللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَاء کا مفہوم اِمَّا شَاکِرًا وَ اِمَّا کَفُوْرًا ہی کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے یعنی جو ہدایت چاہتا ہے، اللہ اسے ہدایت دیتے ہیں صراط مستقیم کی طرف۔ پس وہ امۃ واحد ___ دو امتوں میں بٹ گئی۔ ایک وہ جس نے انبیا کی تعلیم قبول کر کے شکر گزار بندہ ہونے کا ثبوت دیا (ہدایت پائی) اور ایک امت وہ جس نے کفر کیا اور نا شکر گزار ثابت ہوئی۔ اسی موخر الذکر گروہ کو اپنی امت مسلمہ سے الگ کرتے ہوئے زبان وحی ترجمان سے اعلان کرایا گیا لَکُمْ دِیْنَکُمَ وَلِیَ دِیْنَ۔ اب ان دو امتوں میں شعوب و قبائل کی گنجایش تو ہے کہ یہی شے افزایش نسل کے جبلی تقاضوں کے ضمن میں محرمات کے حوالے سے انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے۔ مگر علاقائی قومیت کی یا دوسری کسی لسانی یا لونی قومیت کی کوئی گنجایش نہیں ___ اقبال اسی دو قومی نظریے یا نظریۂ ملت کے داعی تھے جس نے مسلمانانِ ہند کو مغرب اور مشرق میں ہوتے ہوئے ایک ملت او رایک مملکت کا مالک بنایا۔ مگر افسوس ۱۹۷۰ء میں اس کا خواب مخالفین کی کثرتِ تعبیر کی بھینٹ چڑھ کر پریشان ہو گیا۔ جسدِ قومی کی یہ دولختی، بالکل ریاست فلسطین کی دولختی کا نمونہ تھی۔ جس کے اسباب سب جانتے ہیں مگر عمل میں تبدیلی کی کوئی صورت نہیں۔ ۳۱۔ حرف اقبال، ص ۵۰ ۳۲۔ کلیاتِ اقبال ،اردو، ص ۱۴۷ ۳۳۔ Iqbal's Concept of North West Muslim State ، ص ۷۲ ۳۴۔ Discovery of India، ص۳۳۰ ۳۵۔ انڈین ڈیلی میل، یکم جنوری ۱۹۳۱ء بحوالہ سرگذشت اقبال ۳۶۔ لیڈر الٰہ آباد، ۴ جنوری ۱۹۳۱ئ، ایضاً ۳۷۔ سرگذشتِ اقبال، ص ۳۲۴ ۳۸۔ ٹریبون، یکم جنوری ۱۹۳۱ئ، بحوالہ سرگذشتِ اقبال ۳۹۔ انقلاب، ۱۷ جنوری ۱۹۳۱ئ، ایضاً ۴۰۔ سرگذشت اقبال، ص ۴۰۸ ۴۱۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۲۷۱ خ خ خ اقبال اور عشق و خرد (تقویم خودی میں تقدیر اور عشق کی حقیقت) ناقدین اقبال کی اکثریت اس الجھن میں ہے کہ اقبال فلسفی ہو کہ خرد دشمن کیوں ہے؟ آخر وہ عشق کیا شے ہے جسے اقبال اپنا مرشد و رہنما بنائے ہوئے ہے۔ سید علی عباس جلال پوری کے نزدیک ’’یہ وہی روحانی وجدان ہے جو صوفیہ کا رہنما ہے۔ فلسفۂ خودی میں اقبال صوفیہ سے الجھا مگر عشق کے معاملے میں وہ ان ہی سے جا ملا ___ سید موصوف کے نزدیک ’’قابلِ غور بات یہ ہے کہ فراقِ عارف و معروف کو خیر سمجھنے والا اقبال وجدان کو حصولِ علم کا ذریعہ بنا کر، وصال عارف و معروف کے شر کوقبول کرنے پر کیوں آمادہ ہوا ___ سید موصوف، اسے خرد دشمنی کا نتیجہ بتاتے ہیں، حالانکہ قرآن تدبر و تفکر و تعقل سے کام لینے کا حکم دیتا ہے اور عقل سے کام نہ لینے والوں کو جانوروں سے پست درجہ دیتا ہے، وہ سوال اٹھاتے ہیں، ’’کیا عقل و خرد اور عشق و وجدان کے ملاپ سے وسیع نقطۂ نظر کی تشکیل ہو سکتی ہے؟ ’’واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے ملاپ سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا، کیونکہ عقل و خرد اور عشق و وجدان کا ملاپ گویا اجتماع نقیضین ہے جو نا ممکنات میں سے ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ عقل سیدھی سڑک پر سفر کرتی ہے اور عشق دائرے میں حرکت کرتا ہے‘‘ سید موصوف ریمزے میور کا ایک حوالہ نقل کر کے تسلیم کرتے ہیں کہ ’’حیوانات، جبلّتوں کے ہاتھوں میں بے بس اور بے دست و پا ہیں کیونکہ ان کا ذہن، تفکر و تعقل سے عاری ہے۔ انسان میں عقل و خرد نے جبلتوں کا بے پناہ تصرف توڑا اور ترقی کے لیے راستہ ہموار کیا‘‘ لیکن سید موصوف ریمزے میور کی محولہ راے کے اس حصے پر توجہ نہیں دیتے: جذبات اور جبلّتوں میں حیوانات اور ہم برابر کے شریک ہیں۔ انھیں ضبط میں لانے کی صلاحیت ہی ہمیں انسان کہلانے کا مستحق بناتی ہے اور جذبات اور جبلّتوں پر بتدریج قابو پانا ہی انسان کی ترقی کی روح رواں رہا ہے۔ ۱؎ سید موصوف کی فکر کے ان اقتباسات سے جو نکات حاصل ہوتے ہیں۔ ان کا ماحصل یہ ہے کہ اقبال نے وجدان کو حصولِ علم کا ذریعہ بنا کر ’خرد دشمنی‘ کا مظاہرہ کیا اور اُن صوفیہ سے جا ملا، جن سے وہ فلسفۂ خودی میں الجھا تھا مگر میرے خیال میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سید موصوف نے عقل اور عشق کے ملاپ کو اجتماعِ نقیضین کہہ کر نا ممکنات بتایا ہے اور لکھا ہے کہ وجہ اس کی یہ ہے کہ عقل سیدھی سڑک پر سفر کرتی ہے اور عشق دائرے میں حرکت کرتا ہے ___ یوں وہ خود ہی ایک بات کہتے ہیں اور خود ہی اسے جھٹلاتے ہیں کیونکہ جس عشق کو وہ دائرے میں سفر کرتا ہوا تسلیم کرتے ہیں وہ وہی جبلی شعور ہے جس میں بقول ان کے ، ہم اور دیگر حیوانات برابر کے شریک ہیں۔ یہ وہ عقلِ مادی ہے جو جذبات اور جبلتوں کے ہاتھوں میں بے بس اور بے دست و پا ہے۔ انسانی عقل بلا شبہہ، ان نفسانی خواہشات اور جذبات کی شیرازہ بند ہے، لیکن اس کی یہ قوتِ جامع، بھی تو انھیں خواہشات اور طبعی تقاضوں سے پھوٹتی ہے کہ عقل، حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والے علم پر عمل کرتی ہے اور ان سے سرِ مو انحراف نہیں کر سکتی۔ گویا وہی مقصد ہے اور وہی حصول مقصد کے لیے راہ عمل، یہ ہے ایک دائرے میں حرکت کرنا۔اقبال نے یہ حقیقت یوں واضح کی ہے: فروغِ دانشِ ما از قیاس است قیاسِ ما ز تقدیرِ حواس است۲؎ اور چونکہ یہ صلاحیت تمام حیوانات میں مشترک ہے، اس لیے اقبال چاہتا ہے کہ انسان اس سطح حیوانی سے بلند ہو، چنانچہ تقدیر حواس پر تصرف ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ: چو حس دیگر شد این عالم دگر شد سکون و سیر و کیف و کم دگر شد۳؎ علم بالحواس کی یہی نا محکمی۔ انسانی تشخص، کے لیے مہلک ہے۔انسان، حیوانی صف سے بلند نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ جب یہ بات واضح ہو گئی کہ مسئلہ تشخص کا ہے تو خودی کی ماہیت معلوم کر لینی چاہیے کہ خودی ہے کیا؟ اور یہ کہ اس کا تقدیر اور عشق سے کیا تعلق ہے؟ اللہ، جس کی شانِ لا یزالی، احدیت ہے، جو لَمْ یَلِدْ o وَ لَمْ یُوْلَدْo۴؎ کی صفت سے متصف ہے، وہی ازلی، ابدی، سرمدی، اللہ، خلق و امر کا مالک بھی ہے۔ اَلاَ لَہٗ الْخَلْقُ وَ الْاَ مْرُط۵؎۔ عالمِ خلق و امر روح اور مادے کا اتصالی نقطہ ہے۔ خلق، ناپ، مقدار، کمیت سے عبارت ہے اور امر، ترتیب و توازن کی کیفیت ہے۔۶؎ خلق: کمیت میں اختلاف صورت ہے لیکن امر: ترتیب و توازن میں وحدت، وَ مَآ اَمْرُنَآ اِلاَّ وَاحِدَۃٌ ۷؎ تسویہ، زندگی کا کیف و کم ہے۔ اَلَّذِیْ خَلَقَ فَسَوّٰی۸؎ یہ تخلیق و تسویہ، بے مقصد نہیں رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً۹؎ او رنہ یہ کھیل تماشا ہے وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآئَ وَالْارْضَ وَمَا بَیْنھُمَا لٰعِبِیْنَ۔۱۰؎ ہر شے چاہے جمادی ہو، نباتی یا حیوانی اور ان میں نوری بھی شامل ہیں کسی نہ کسی مقصد سے تخلیق ہوئی ہے۔ یہ حکمت یا مقصد تخلیق، تقدیر کہلاتا ہے۔ وَ خَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقدِیرًاo ۱۱؎ لیکن ایسا بھی نہیں کہ تخلیق و تسویہ او رتقدیر کا تعین کر کے اسے کھلا چھوڑ دیا گیا___ ’’کھلا چھوڑ دینا‘‘ باطل تصورِ حقیقت ہے۔ اسی باطل تصورِ حقیقت نے انسانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کو اپنا الٰہ بنائیں، یہ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُولَۃٌط(اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۱۲؎) کا وہ باطل تصور ہے جس نے یہودی لاویوں کو بطور نائبین حق، صاحب اختیار بتا کر باقی مخلوق خدا کو ان کی بے اختیار بندگی میں دے دیا تھا اور اسے حکومتِ الٰہی یا آسمانی بادشاہت کا قیام بتایا تھا، اسی باطل تصورِ حقیقت نے آگے چل کر نصرانی کلیسائی خدائی کی شکل اختیار کی۔ ان خود ساختہ نائبین حق نے، سارے اختیارات اپنے لیے خاص کرنے کی خاطر، خلق و امر کے مالک الٰہِ حقیقی کو انسان کی تخلیق کے بعد، نعمتوں کے لینے دینے سے برضا و رغبت دست بردار ہونے کا مفروضہ گھڑا مَا اَنزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍط ۱۳؎ کا دعویٰ اسی باطل تصورِ حقیقت کا شاخسانہ تھا۔ وَ مَا قَدَرُ اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ۱۴؎ نہیں ایسا ہرگز نہیں الہِ حقیقی نے تخلیق و تسویہ کے مرحلے ہی میں جہاں، تقدیر کو فطرت کا جزو بنایا وہاں اس تقدیر کے مطابق عمل کی راہ بھی سکھا دی اور یہ ہدایت بھی فطرت کا حصہ بنا دی۔ وَ اَلَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰیo۱۵؎ یہ جزوِ فطرت تقدیر و ھدیٰ۔ وہ قوت خاموش ہے، جو اسبابِ عمل کے تحت پابندِ عمل ہے۔ وہی مقصدِ زندگی یا تقدیر وہی عمل، اسی سے ہر شے کی زندگی اور انفرادی تشخص یا خودی قائم ہے۔ قوتِ خاموش و بے تاب عمل از عمل پابندِ اسباب عمل۱۶؎ یہ بے تابِ عمل، قوتِ خاموش، تقدیر ہے۔ امرِ ربی۔ روح یا زندگی۔ اسی سے ہر شے متحرک ہے، ہر شے مسافر ہر چیز راہی، قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ۱۷؎۔ روح امرِ رب سے ہے۔ فطرت کے اندر، ’’تقدیر و ہدایٰ‘‘ کا یہ ودیعت کردہ اٹل امر ہی ہے، جس کی قوتِ خاموش (محرک غیر متحرک) ہر شے کی زندگی کا راز ہے۔ اس تقدیر و ہدایٰ کے تحت بے اختیار و ارادہ حرکت و عمل چار و ناچار اسلام ہے۔ وَلَہٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا۔ ۱۸؎یہ چارو ناچار اطاعت، ہدایتِ فطرت کے جزوِ حیات ہونے کی بدولت ہے جس سے انکار کی گنجایش نہیں۔ اور اسی بے چون و چرا اطاعت سے ہر شے کا انفرادی تشخص قائم ہے۔ (وہ محرک غیر متحرک جو دراصل تقدیر ہے، خودی ہے روح ہے، فلاسفۂ مادیّین نے اسے ہستیِ مطلق یا اللہ سمجھا اور بھٹک گئے۔ فلاسفہ کا یہ تصور حقیقت، یہودی ورثۃ الانبیاء کے ’’بے اختیار الٰہ‘‘ کے تصور کا ثمر تھا جسے سیدعلی عباس جلال پوری، خدا کا شخصی تصور سمجھ کر اقبال کے تصور خدا کو مختلف سمجھ بیٹھے) اس تقدیر کے جزو حیات، ہونے کی وجہ سے ہر شے کا انفرادی تشخص، نہ صرف قائم ہے بلکہ مستحکم بھی ہے۔ اقبال کے ہاں بقول نکلسن یہ لفظ عشق نہایت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ عشق کسی شے کو اپنے اندر جذب کر لینے اور اسے اپنا جزو حیات بنا کر اپنا لینے کا نام ہے۔ ۱۹؎پس، کمالِ استغراق یا محویت، جسے صوفیہ، بے خودی اور فنا کہتے ہیں، دراصل تقدیر کو جزو حیات بنا لینا ہے۔ اسی عشق سے ہر شے کی خودی کی نمود ہے۔ مثال کے طور پر ہائیڈروجن اور آکسیجن کو لیں- ایک کی تقدیر خود جلنا ہے اور دوسری کی تقدیر جلنے میں مدد دینا ___ کسی جار میں ان دو میں سے کوئی ایک بند کر کے پوچھا جائے کہ اس جار میں آکسیجن ہے یا ہائیڈروجن تو سائنس کے عام طالب علم کے لیے بھی یہ معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہ ہو گا۔ وہ دیا سلائی دکھا کر بتا دے گا کہ جار میں کون سی گیس ہے۔ وہ خود جلنے والی گیس کو ہائیڈروجن بتائے گا اور دیا سلائی کے جلتے رہنے کی صورت میں جار کے اندر بند گیس کا نام آکسیجن بتائے گا۔ اگر اس کے برعکس بتا دے تو جواب غلط قرار دیا جائے گا۔ کیا ان گیسوں کی پہچان ان کی تقدیر ہی نہیں؟ اگر آکسیجن جلنے میں مدد دینا چھوڑ دے تو اسے کون آکسیجن کہہ سکتا ہے؟ معلوم ہوا آکسیجن کی پہچان، اس کی تقدیر کے جزوِ حیات ہونے سے ہے ___ یہی عشق ہے۔ اسی عشق سے آکسیجن کی انفرادیت قائم ہے۔ اسی مستحکم انفرادیت کی بدولت، ان کا باہمی تعاون، آگ جلانے میں کام آتا ہے۔ اگر ان کی انفرادی شخصیت یا خودی مستحکم نہ ہوتی تو یہ باہمی معاونت بھی ممکن نہ ہوتی۔ خ خ خ یہ تو اشیا کی انفرادیت کی مثال ہے۔ لیکن ان ہر دو مذکورہ گیسوں کو ایک خاص نسبت سے یک جا کر دیا جائے تو یہ اپنی انفرادیت کھو بیٹھتی ہیں اور پانی وجود میں آ جاتا ہے جو نہ جلتا ہے نہ جلنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس کے برعکس آگ بجھانے کے کام آتا ہے۔ پانی (H2O) قطرات کے اجتماع کا نام ہے۔ پانی کی تقدیر آگ بجھانا ہے اس لیے کہ یہ دو گیسوں کے اجتماع سے وجود میں آیا۔ اس اجتماعی تقدیر نے انفرادی شخصیات کو فنا کر دیا۔ مگر اس پانی کی حرکت اس کی ایک اور اجتماعی تقدیر کا نتیجہ ہے۔ حکمتِ اشیا کے ماہرین بتاتے ہیں کہ ’’مائعات اپنی سطح ہموار رکھتے ہیں‘‘ قطرۂ آب، اپنی انفرادیت میں گول ہوتا ہے، مگر جامد، جب دوسرے قطرات سے مل جاتا ہے تو اپنی انفرادیت گولائی، بھول جاتا ہے۔ اور یوں اس کے اندر حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ پانی دوڑتا ہے، کیوں کہ اس کی سطح ہموار نہیں۔ پانی رک جاتا ہے کیوں کہ اس کی سطح ہموار ہو گئی ہے۔ پانی کا دوڑنا اور پانی کا رک جانا، بظاہر متضاد عمل ہیں مگر ان کا محرک ایک ہی ہے یعنی سطح ہموار رکھنا، کی اجتماعی تقدیر۔ پانی کا تشخص اسی اجتماعی تقدیر کے جزوِ حیات ہونے سے قائم اور مستحکم ہے۔ یہ اس کا جبری اسلام ہے۔ جس سے وہ سر مو انحراف نہیں کر سکتا، ورنہ پانی نہیں کہلائے گا۔ یہی جبری اسلام ]تقدیرِ اجتماعی[ وہ محرکِ غیر متحرک ہے، پانی جس کے اتباعِ مہمل پر مجبور ہے۔ انسان نے اس کی اس مجبوری سے خوب خوب کام لیا۔ یہ تقدیرات لا انتہا ہیں، جو غیرمتبدل ہیں۔ لاَ تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِط۲۰؎ ان قوانینِ جاریہ، پر سائنسی علوم کا دارو مدار ہے۔ خ خ خ پانی اپنی اجتماعی تقدیر کے جبر کے تحت دوڑتا ہے اور اسی جبر کے تحت رک جاتاہے۔ آخر وہ کون سی قوت ہے جو اسے سطح نا ہموار ہونے کی خبر دیتی ہے اور دوڑنے پر مجبور کرتی ہے؟ یہ قوت بھی وہی تقدیر ہے۔ تقدیر کا جزو فطرت ہو جانا ہی، اس شعور کو جنم دیتا ہے، جو پانی کو سطح نا ہموار یا ہموار ہونے سے آگاہ کرتا ہے۔ گویا تقدیر، مقصدِ تخلیق بھی ہے، وجہِ حرکت و حرارت بھی ہے، شعور بھی ہے اور یوں اس شے کا تشخص ابھرتا ہے ۔ نباتات کو لیں، ان میں نشوونما کی قوت بھی ہے اور افزایش نسل کا جذبہ بھی مگر زمین پیوستگی کے ساتھ۔ حیوانات، زمین پیوست نہیں، انھیں ذہن بھی عطا کیا گیا ہے۔ وہ افزایش نسل کے فطری جذبے کو نباتات کے برعکس پورے اختیار و ارادے سے پورا کرتے ہیں۔ مگر اسی وقت جب فطرت اس کا اشارا کرتی ہے۔ انسان اس سے بھی ایک قدم آگے ہے کہ ُاسے تعقل و تفکر کی قوت سے بھی نوازا گیا ہے۔ حیوانات، آکسیجن وغیرہ کی طرح ایک عنصر نہیں۔ یہ خاک و باد و آب و آتش کا مرکب ہیں لیکن ایسا مرکب بھی نہیں جیسے مثلاً پانی کہ اس کے اجزاے ترکیبی نے اجتماعی تقدیر کی خاطر، انفرادی تقدیرات بھلا دی ہیں۔ انسان کے اجزاے ترکیبی، اپنی اپنی انفرادی تقدیرات کے ساتھ نفسِ انسانی میں موجود ہیں۔ یہ انفرادی تقدیرات، جذبے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان طبعی تقاضوں کی (جو اکثر و بیش تر متضاد اور متخالف ہوتے ہیں) ذہنِ انسانی شیرازہ بندی کرتا ہے۔ محسوسات ہوں کہ مدرکات، ان کا سر چشمہ یہی طبعی تقاضے اور ان کی شیرازہ بندی کرنے والا ذہن ہوتا ہے۔ یہ داخلی و خارجی موثرات، انسان کو جس شعور سے نوازتے ہیں، وہ واحد ،ہے۔ جمادات سے حیوانات تک یہ وحدت، برابر قائم ہے۔ وَ مَا اَمْرُنَآ اِلاَّ وَاحِدَۃٌ۲۱؎ حیوانات اسی شعور کے تحت اپنی طبعی تقاضے پورے کرتے ہیں اسے عقلِ مادی، کہا جاتا ہے۔ جو دائرے میں حرکت کرتی ہے، سیدھی سڑک پر سفر نہیں کرتی، جیسا کہ علی عباس جلال پوری کا ارشا دہے۔ اس لیے کہ یہاں عمل ہی مقصودِ زندگی اور اس مقصد کے حصول کی کوشش ہی زندگی ہے ___ عالمِ انسانی اور دیگر عوالم کے درمیان جو تعقل و تفکر کا امتیاز ہے وہ بھی دراصل تقدیر و ہدیٰ کے امتیازی فرق کا نتیجہ ہے۔ جہاں عالم انسانی سے باہر، کے مظاہرِ حیات، تخلیق و تسویہ ہی کے مرحلے میں تقدیر و ہدیٰ سے نوازے گئے، اور کر، اور کیے جا، کے امر کی تعمیل پر مامور ہیں وہاں نفسِ انسانی، اگرچہ انھیں عناصر کا مجموعہ ہے جو ’کر اور کیے جا‘ کی تقدیر کے پابند ہیں لیکن، خود انسان کو ’کر‘ اور ’نہ کر‘ کی متضاد تقدیرات سے نوازا گیا ہے۔ اسے ایک طرف حَیْثُ شِئْتُمَاکے مطابق وَ کُلاَ مِنْھَا رَغَدًا۲۲؎ کی چھوٹ دی گئی ہے تو دوسری طرف وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہ الشَّجَرَۃَ۲۳؎ کی پابندی بھی لگا دی گئی ہے۔ اور ان متضاد تقدیرات کی عطا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے جواب میں بَلٰی کے ۲۴؎ عہد کا امتحان تھا۔ اس عہدِ الست کو انسان نے خارجی مظاہر میں موثر کرنا تھا۔ آدم و حوا نے جب جبلی شعور کی پکار پر لبیک کہہ دی تو حَیْثُ شِئْتُمَا کی چھوٹ سے فائدہ اٹھایا مگر لَا تَقْرَبَا کے حکم کو توڑ دیا گیا۔ اس طرح گویا نفسانی خواہشات کے حکم کو تسلیم کر کے عہدِ الست توڑنے کے مرتکب ہو گئے۔ جس کی پاداش میں جنت بدر ہوئے ___ پانی تو طبعی تقاضے کی پکار پر لبیک کہہ کر سکون پاتا ہے مگر آدم و حوا سے سکینہ چھین گیا۔ عالم انسانی سے باہر تمام عوالم کے لیے طبعی تقاضوں پر بلا چون و چرا عمل، اسلام ہے، لیکن عالم انسانی میں یہی طاغوت کی بندگی ہے۔ نفس کو الہٰ تسلیم کرنا اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَ اہُ ط ۲۵؎ خواہشات کی بندگی، یہاں عہدِ الست سے رو گردانی ہے۔ ایک طرف نفسی تقاضوں: مادی تقدیرات کی ناقابلِ شکست قوت ہے اور دوسری طرف اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط کی پکار۔ اسی باہمی جدلیت کے درمیان انسان نے اپنا تشخص قائم کرنا ہے۲۶؎۔ مادی تقدیرات (طبعی تقاضوں) کے درمیان تطبیق اور ان تقاضوں کی تکمیل میں عہدِ الست کی پاس داری ___ یہی انسان کی تقدیر ہے ___ اس تقدیر یا مقصدِ زندگی کا حصول ہی طبعی تقاضوں کی تکمیل ہے اور ان طبعی تقاضوں کی تکمیل اسی تقدیر کے تابع ہو گی تو انسان دوسرے حیوانات سے ممیز اور ممتاز ہو گا___ عالمِ حیوانی کی طرح انسان کے لیے بھی تقدیر و ہدایت تو ہے جو اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا oص فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا oص ۲۷؎ ___ مگر متصادم ہیں باہم آویز ___ انسان کا فرض انھیں باہم آمیز کرنا ہے ___ ریمزے میور نے کہا تھا ’’جذبات اور جبلتوں میں حیوانات اور ہم برابر کے شریک ہیں، انھیں ضبط میں لانے کی صلاحیت ہی ہمیں انسان کہلانے کا مستحق بناتی ہے اور جذبات اور جبلتوں پر بتدریج قابو پانا ہی انسان کی ترقی کی روح رواں ہے‘‘ کیا عقل انسانی صرف طبعی تقاضوں پر چل کر یہ انضباطی عمل، جاری رکھ سکتی ہے؟ ہرگز نہیں ۔ عقل انسانی، جنت بدری کا حکم صادر کرا چکی ہے تو اسی لیے ___ مادی تقدیرات (جذبات اور جبلتوں) کو ضبط میں لانا اور ان پر بتدریج قابو پانا‘‘ مادی تقدیرات کی تابعِ مہمل عقل، کے ذریعے ممکن نہیں ___ اسے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کے جواب میںباندھے گئے عہد کی رو سے ،’’رب کی مرضی‘‘ کے مطابق کر کے ہی مسخر کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ مشکل ترین کام ہے جس کا بیڑا اٹھانے سے زمین و آسماں نے انکار کر دیا وَحَمَلَھَا الِاْنْسَانُ ط ۲۸؎ اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا___ اگر، اللہ، خلق و امر کا مالک چاہتا تو انسان کی اس تقدیر کو بھی اس کی فطرت اور طبعیت کا جزو بنا دیتا۔ پھر انسان بھی اس کے تابعِ مہمل ہو کر امتِ واحدہ ہو جاتے لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً۔۲۹؎ علم بالحواس اور عقل کے اشاروں پر عمل کر کے ___ انسان، کیا دیگر حیوانات کی صف سے بلند ہو جاتا ؟ ہرگز نہیں، پہلے پہل انسان اسی طرح فطری قوتوں کے زور پر چل رہا تھا اور کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف۳۰؎۔ اس لیے کہ وہ اسی عقل سے کام لے رہا تھا جو اس کے جذبات اور جبلی وجدان سے اٹھنے والی شعوری روؤں کی جامع تھی۔ تب یہ اجتماعی شعور انھی جذبات کے اشاروں پر عمل کی تحریک بنا دیتا تھا۔ اور بس۔ اگر تمام انسان امتِ واحدہ تھے تو اسی مَا اَمَرْنَا اِلَّا وَاحِدَۃً کی رو سے۔ لیکن ان کے طبعی تقاضوں میں تضاد بھی تو تھا۔ تقدیرِ حواس، میں فرق، اس امت واحدہ کو بھی تصادم سے دوچار کرتا رہا یہاں تک کہ بحرو برفساد سے بھر گئے۔ ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیِ النَّاس۳۱؎ یہ عقل مادی کی بندگی کا ثمر تھا۔ دائرے میں حرکت کا نتیجہ __ خ خ خ اس فساد کو مٹانے کے لیے انبیاے کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے۔ تاکہ طاغوتِ نفس کی بندگی سے نجات کے لیے انسانوں کو، خلق وامر کے مالک، الہِ حقیقی ہی کی جانب سے، اجتماعی تقدیر سے نوازا جائے ___ یہ اجتماعی تقدیر کچھ نفوسِ قدسیہ کے ’’دل‘‘ پر نازل کی گئی ___ اقبال نے عقل و دل کے درمیان مکالمہ لکھ کر اپنا ما فی الضمیر بڑی خوبی سے واضح کر دیا تھا۔ ۳۲؎اس کے نزدیک عقل بھولے بھٹکوں کی رہنما ضرور ہے مگر زمان و مکاں کی زندانی ہے۔ یہ زمان و مکاں کی اسیری طبعی تقاضوں کی بلا چون و چرا بندگی کی طرف اشارہ ہے لیکن دل طائرِ سدرہ آشنا ہے۔ یہ سدرہ آشنائی طبعی تقاضوں کی بندگی سے ماورا۔ مادی تقدیرات کے اثر سے بے نیاز۔ علم، کا استعارہ ہے ___ اگر پانی کی مثال سامنے ہو اور انسان یہ تسلیم کر لے کہ یہ کائنات، کسی بے ارادہ اور بے مقصد، اندھی مشیت، کی حادثاتی تخلیق نہیں بلکہ ارادہ و اختیار کے مالک علیم و بصیر اور قادر و قیوم الٰہ کی با مقصد تخلیق ہے تو جس طرح پانی، اجتماعی تقدیر، کو جزوِ حیات بنانے کی بدولت،جلنے جلانے کے فساد کو بجھانے کے لائق ہوتا ہے اور امن و سکون کی دولت پاتا ہے۔۳۳؎ اسی طرح انسان بھی الہ حقیقی ہی کی طرف سے ملنے والے اجتماعی ضابطہ، سے اپنے پھیلائے ہوئے فساد کو فرو کر سکتا ہے۔ تو یہ مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ ہائیڈروجن اور آکسیجن اگر اجتماعی تقدیر کے تحت توازن و تناسب سے ضبط آشنا ہو سکتی ہیں تو انسان بھی، اجتماعی تقدیر کے تحت نفس کے عناصرِ ترکیبی کے جبر سے آزاد ہو سکتا ہے۔ ہائیڈروجن و آکسیجن کی اجتماعی تقدیر، خلق و تقدیر و ہدیٰ، کے مالک کی طرف سے جزوِ فطرت بنائی گئی ہے، اس میں ان کے ارادے اور اختیار کا دخل نہیں لیکن انسان کی اجتماعی تقدیر: الدین و شریعت، کا اختیار کرنا یا نہ کرنا، انسان کے اُس اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے جو اس کے نفس ہی میں رکھ دیا گیا ہے۔ (فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرھَا وَ تَقْوٰھَاo) پس جہاں دیگر عوالم ، تقدیر اور ہدایت ِ فطرت کی بلا چون و چرا پابندی سے اپنی انفرادیت قائم کیے ہوئے ہیں، وہاں انسان کا امتیازی تشخص احکامِ الٰہی کی پابندی سے مشروط ہے: تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند ۳۴؎ طائر سدرہ آشنا، دل نے حرا میں سنا، کوئی کہہ رہا ہے اقرا ___ تو جواب دیا مَا اَناَ بِقارِی ’’میں تو خود سے پڑھنے کا نہیں‘‘ مگر جب آواز آئی، اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَo۳۵؎ تو پھر پڑھنے میں ذرہ بھر دیر نہیں ہوئی۔ یہ وہ اُفقِ الْاَعْلٰی تھا جس کی تائید وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیo ط۳۶؎ نے کر دی۔ یہ اپنی خواہشات کی پکار پر نہیں بولتا اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰیo ۳۷؎ گویا ایک وجدان۔ جبلی شعور ہے۔ جس کا مرکز دماغ ہے، عقل ہے ___ دوسرا وجدان۔ وحی ہے جس کا مرکز دل ہے، قلب ہے، فواد ہے۔ اول الذکر وجدان، طبعی تقاضوں سے پھوٹتا ہے۔ دوسرا وجدان، طبعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے، ایسا لائحۂ عمل اور ضابطہ لاتا ہے جو طبعی تقاضوں کے اثر سے ماورا ہے ___ پہلا، فطری الہامِ ہے تو دوسرا فَاطِرِ السَّمٰوٰاتِ وَ الْاَرْضِ کا کلام ___ جسے وحی کہا جاتا ہے۔ فطری الہام بھی فطری تقاضوں کی تکمیل کرتا ہے مگر فطری تقاضوں کا تابع مہمل ہو کر۔ وحی بھی فطری تقاضوں ہی کی تکمیل کے لیے ہے لیکن فطری تقاضوں کے اثر سے آزاد ___ مراد یہ کہ علم بالوحی، انسانی عقل کو فطری تقاضوں کے جبر سے آزاد کر دیتا ہے ___ صاحب الوحی کی زبان وحی ترجمان سے سنایا گیا ہے___ اَفَغَیْرَ دِینِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہٗ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَ الْاَرضِ طَوْعًا وَ کَرْھًا وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo ۳۸؎ جو اللہ کے عطا کردہ (بالوحی) اجتماعی تقدیر: الدین کو نہیں اپناتے، وہ اللہ کی حکمرانی سے نکل تو نہیں سکتے۔ ہم ان بد نصیبوں کو فطری ہدایت کے جبر سے آزاد کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ ہماری اس رحمت سے منہ موڑ کر، کفرانِ نعمت کر کے نفس پرستی کی طرف لوٹ رہے ہیں ، جس پر ساری کائنات، بلا چون و چرا چل رہی ہے، لوٹنا تو ہماری ہی طرف ہے (وَاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ) اقبال نے یہ لطیف نکتہ یوں واضح کیا: کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی ۳۹؎ مگر یہ کفران، جبر کی اسیری ہے۔ ہماری رحمت سے محروم رہے۔ اقبال نے اس لطیف نکتے کو جاوید نامہ میں مرزا غالب کی زبانی یوں شعر کا پیکر دیا: خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمتہ للعالمینی انتہاست ۴۰؎ انسان اپنی عقل خداداد سے بھی اس منزل کو پا سکتا تھا، لیکن کب؟ اَن گنت صدیاں اسی عقل کے انتخاب و عمل میں ضائع ہو گئیں۔ علم بالحواس، غیر مستحکم اور لحظہ بہ لحظہ بدلنے والا ہے۔ ع چوحس دیگر شد این عالم دگر شد، Trail and Error دائرے میں حرکت کا عمل ہے، انسان جہاں سے چلتا تھا، ناکامی کی صورت میں پھر وہیں آ کھڑا ہو تا تھا (اور آج تک ایسا ہی ہو رہا ہے)۔ انسان حیوانات کی صف سے نہ اٹھ سکا اور اس اناؤں کی کارگہ میں قابل ذکر شے نہ بن سکا، احسن تقویم کے منصب بلند کو نہ پا سکا۔ اس پر اس کی شخصیت واضح نہ ہو سکی ھَلْ اَتٰی عَلَی الْانِسْانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًاo ۴۱؎ پس عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ۴۲؎ کا قانونِ قدرت، الْامْر، حرکت میں آیا۔ ہم عرض کرچکے ہیں کہ خلق و امر کا مالک الہِ حقیقی اگر چاہتا تو انسان کی اس اجتماعی تقدیر: الدّین، کو فطرت ِ انساں کا جزو بنا دیتا ہے۔ لیکن یہ رب العالمین کی صفتِ رحیمی کے خلاف ہوتا۔ جب انسان کو فطری قوانین کے جبر سے آزاد ہی کرنا مقصود تھا تو پھر یہ بھی انسان پر چھوڑ دیا جانا ضروری تھا کہ وہ چاہے تو اسے اپنا کر، جزوِ حیات بنا کر شکر گزار بندہ ہونے کا ثبوت دے اور چاہے تو ظلماتِ نفس میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے اِنَّا ھَدَیْنٰہْ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُورًا۴۳؎۔ شعور ِ نبوت سے ملنے والا علم، عقل کو اسی السَّبیل: صراط مستقیم پر چلاتا ہے اور انسان کو اس کے اختیارِ محمود سے لیس کر کے خیر بِالذات، اعمال کی نشان دہی سے نوازتا ہے۴۴؎۔یہ سیدھی سڑک ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا امر، میں وحدت ہے ___ دیگر مظاہر فطرت، جس طرح، اپنی انفرادی اور اجتماعی تقدیر کو جزو حیات بنا کر ہی اپنا تشخص قائم و مستحکم رکھتے ہیں، اسی طرح انسانی خودی بھی، اس اجتماعی تقدیر:احکام الٰہی کو جزوِ حیات بنانے ہی سے قائم اور مستحکم ہو سکتی ہے۔ اقبال احکام الٰہی کو جزوِ حیات بنانے ہی کو عشق کہتے ہیں۔ اطاعتِ الٰہی میں یہ کمالِ استغراق، طبعی تقاضوں کی تکمیل کے لیے، عقل کی رہنمائی کرتا ہے اور عقل کو طبعی تقاضوں کے مہمل اتباع سے بچاتا ہے۔ یہ عشق اب دائرے میں حرکت نہیں کرتا بلکہ سیدھی سڑک: صراط مستقیم پر سفر کرتا ہے۔ احکامِ الٰہی میں کمالِ استغراق کے بغیر جذبات اور جبلتوں کو نہ تو ضبط میں لایا جا سکتا ہے، نہ ان جبلتوں اور جذبات پر بتدریج قابو پانا ممکن ہے، یہ وہ صلاحیت ہے جس کے بغیر بقول ریمزے میور ہمیں انسان کہلانے کا حق حاصل نہیں ہو سکتا، اور نہ انسانی تمدن کی ترقی ممکن ہے معلوم ہوا عقل و خرد اور عشق کا اجتماع نا ممکن نہیں۔ انسانی خودی، انفرادی ہو یا اجتماعی، نام ہی متناقض جذبات میں توافق کا ہے۔ اقبال کا صاحب خودی: مسلم ہے اور اسلام وہ قوت ہے جو جامع اضداد اور محلل تمام تناقضات کی ہے۔۴۵؎ تقویمِ خودی کے مذکورہ بالا اس سارے عمل کو اقبال تربیتِ خودی کے تین مراحل میں تقسیم کرتا ہے، مگر یہ تین مراحل ایک دوسرے سے اس طرح پیوست ہیں کہ انھیں علاحدہ علاحدہ خانوں میں رکھنا محال ہے، ضبطِ نفس، اطاعتِ الٰہی کے ذریعے تاکہ جذبات اور جبلتوں کا مرکب، ان کا راکب بن جائے اور ان پر تصرف کی صلاحیت پا کر نائب حق کہلانے کا مستحق ہو۔ نائبِ حق کو عناصر ترکیبی کا حکمراں ہونا چاہیے نہ کہ دیگر حیوانات کی طرح محکوم، تابعِ مہمل ___ عناصر کی تقدیرات : طبعی تقاضوں پر یہی تصرف اور حکمرانی تسخیرِ فطرت ہے: نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است ۴۶؎ خ خ خ انفرادی خودی، احکامِ الٰہی کی اطاعت میں ذاتی طبعی میلانات کی بندگی سے نکلنے اور ان میلانات کو تصرف میں لانے کا نام ہے۔ تو اجتماعی خودی، اس انفرادی خودی کو قائم و برقرار رکھتے ہوئے دوسری انسانی اناؤں کے تعاون سے ابھرتی ہے۔ جس طرح آکسیجن کا جلنے میں مدد دینا، ہائیڈروجن کا جلنے میں، معاونت کر کے، آگ جلانے کے عمل میں، کام آنا ہے۔ لطف یہ ہے کہ انسان کی اجتماعی تقدیر۔ اقامتِ الصلوٰۃ ہے ___ جس کا مادہ ص ل و اور ص ل ی‘ ہے‘ اس کے جتنے بھی لغوی معانی ہیں، ان میں آگ کا مفہوم مشترک ہے یعنی یہ ایسی آگ ہے جو ان تمام فاسد مادوں اور ان کے اثرات کو جلا کر ، فنا کر دیتی ہے، جو انسانی معاشروں میں فساد کا باعث بنتے ہیں اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَر۔ الصلوۃ فاحشات و منکرات سے روکتی ہے، فحشا، طبعی تقاضوں کی بے لگام غلامی ہے اور منکرات، ان بے لگام خواہشات کا اعمال میں مؤثر ہونا ہے ___ اس کے برعکس، احکامِ الٰہی کی اطاعت میں کمالِ استغراق سے جہاں خواہشاتِ نفس پر قابو کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے وہاں دوسروں کی خواہشات کے احترام کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ اینٹوں سے چنی ہوئی دیوار کی طرح مستحکم و مضبوط ہو جاتا ہے یوں کہ ایک اینٹ دوسری اینٹ کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ یا معاشرہ ایک بدن کی مثال ہو جاتا ہے جہاں ایک ادنیٰ سے ادنیٰ عضو بھی تکلیف میں ہو تو سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے اور آنکھ سو نہیں سکتی۔ فرد، ملت کا بہی خواہ ہوتا ہے تو ملت فرد کی نگہبان و نگراں، نہ جماعت پر فرد کے مفادات قربان ہوتے ہیں، نہ فرد، جماعت کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ’’فرد و قوم آئینہ یک دیگر‘‘ ۴۷؎ بن جاتے ہیں ___ جس طرح انفرادی خودی، متضاد فطری جذبات میں وحدت قائم کرنے سے مشخص ہوتی ہے اسی طرح اجتماعی خودی، انفرادی خودیوں کے طبعی تضادات میں نظم و ضبط اور وحدت سے مشخص ہو جاتی ہے۔ گویا سلبی اقدار کا خاتمہ اور ایجابی اقدار کا فروغ اس نظامِ اخلاق کی روح ہوتی ہے۔ روحانی عقیدۂ توحید، تمام خارجی مظاہر۔ (اعمال اور اجتماعی آئین) میں مؤثر اور عملی طور پر مشہود ہو جاتا ہے۔ یہ ہے فلسفۂ خودی، کثرت کو نقصا ن پہنچائے بغیر وحدت آشنا کرنا، کی عملی تشکیل، وصالِ عارف ومعروف، نروان و نجات، فنا و بقا اور خودی و بے خودی کے قدیم صوفیانہ متن کی جدید تفسیر۴۸؎۔ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ وحی ترجمان سے قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ یُوْ حٰیٓ اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلہٌ وَّاحِدٌ ج ۴۹؎ کا پیغام دراصل یہود و نصاریٰ کے نفس پرست علما کے دیے ہوئے باطل تصورِ حقیقت کی کھلی نفی تھا۔ جہاں الٰہ واحد کا اقرار ہو گا وہاں خود صاحب الوحی بھی بَشَرٌ مِثْلُکُمْ ہو گا۔ ۵۰؎ اس کے بغیر وہ ثقافتی انقلاب ممکن نہیں جو رنگ،نسل، قوم، قبیلہ، علاقہ و زبان میں بٹی ہوئی اقوام اور طبقات میں بٹے ہوئے معاشروں میں وحدت قائم کر سکے۔ اقبال کے تصور خودی و بے خودی کو ، تصوف و کلام کے الٰہیاتی و ما بعد الطبعیاتی فلسفوں، کے معیار سے جانچنا قرینِ انصاف نہیں، یہ الٰہیاتی یا ما بعد الطبیعاتی فلسفہ نہیں یہ عمرانی مسئلہ ہے۔ وہ تمدنی مسائل جنھیں اہلِ مغرب ، ملتوں کو مٹاکر وطنی قومیت کی تشکیل سے حل کرنا چاہتے تھے، اقبال نے اسے توحید کے روحانی عقیدے کو مادی دنیا میں مؤثر کر کے حل کرنے کی ترغیب دلائی۔۵۱؎ بشرطیکہ اسے الٰہیاتی بحث و مباحثے کا موضوع بنانے کی بجاے عمل میں مشہود کیا جائے: زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی آج کیا ہے فقط اک مسئلۂ علمِ کلام روشن اس ضو سے اگر ظلمتِ کردار نہ ہو خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام ۵۲؎ اقبال کا فلسفۂ خودی ،نگہِ مسلمان پر مسلمان کا مقام واضح کرنے کا دوسرا نام ہے، اقبال جانتا تھا کہ تقدیراتِ حق لا انتہا ہیں۔ اور انسان کی تقدیر، ان لا انتہا تقدیرات کی تسخیر ہے۔ تسخیر کے معانی ہیں تصرف میں لانا۔ اس تسخیر کے لیے توحید کی شمشیرِ براں ہی سے کام لیا جا سکتا ہے، لیکن: میں نے اے میرِ سپہ! تیری سپہ دیکھی ہے قل ھو اللہ کی شمشیر سے خالی ہے نیام ۵۳؎ توحید، وحدت کردار میں متشکّل ہو تو وحدتِ افکار ہاتھ آتی ہے۔ اقبال کی خودی، افلاطونی فلسفے کے متاثرین اشراقیوں کی خودی نہیں جو ’’محض فریب تخیل ہے، جسے گلے سے اتار پھینکنے ہی میں نجات کا راز مضمر ہے‘‘۔ بلکہ یہ خودی ’’وحدت وجدانی یا شعور کا وہ روشن نقطہ ہے، جس سے تمام انسانی تخیلات و جذبات مستنیر ہوتے ہیں۔ یہ پر اسرار شے، فطرت انسانی کی منتشر اور غیر محدود کیفیتوں کی شیرازہ بند ہے‘‘ ۵۴؎ لہٰذا اقبال کے نزدیک لذت حیات (نجات) انا کی انفرادی حیثیت اور اس کے اثبات و استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے‘‘۔ اس خودی کی تقویم، بے خودی سے مشروط ہے اور بے خودی، ’’اپنے ذاتی اور شخصی میلانات،رجحانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہو جانا ہے۔ اس طرح پر کہ اس پابندی کے نتائج سے انسان بالکل لا پروا ہو جائے اور محض رضا و تسلیم کو اپنا شعار بنائے یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا و بقا ہے‘‘ ۵۵؎ یہی اقبال کا تصورِ عشق ہے ، اور یہی وہ تصورِ حقیقت ہے جن کے حامل افراد، ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں جس میں حریت اور مساوات کا دور دورہ ہو اور حفظِ بنی نوعِ انساں جس کا مقصود ہو: آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیہ وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام ۵۶؎ خ خ خ اس ’’امامت‘‘ کے فرائض، کماحقہ، وہی شخصیت پوری کر سکتی ہے، جس نے، اطاعتِ الٰہی کو جزوِ فطرت بنا کروہ مقامِ عشق حاصل کر لیا ہو کہ رضا و تسلیم کو شعار کر سکے۔ اور چونکہ یہ مقام بہ تمام و کمال صرف اور صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل ہوا۔ تقدیر و ہدیٰ کے اٹل قانون کے مطابق سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰٓیo ۵۷؎ کی آسمانی سند صرف آپ ؐ کو ملی اور چونکہ اس نسبت سے آپؐ کی سیرت ہی مَا یَکُوْنُ لِٓیْ اَنْ اُبَدِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَایئِ نَفْسِیْج۵۸؎ کا سچا اور بے داغ حوالہ ہے۔ اس لیے صرف اور صرف آپؐ ہی کی شخصیت، انسان کامل کے مقامِ محمود کی رفعتوں سے آشنا ہے، اور، کہلانے کی مستحق ع فاش تر خواہی بگو ھو عبدہ ۵۹؎بد نصیبی سے سید علی عباس جلال پوری کو یہ ’’ھو عبدہ‘‘ بھی ھُوَ ھُوا نظر آیا۔ حالانکہ اقبال نے ’’با ابتدے بے انتہا‘‘ کہہ کر سارے شکوک رفع کر دیے ہیں۔ ھو عبدہٗ سے مراد یہ ہے کہ صرف وہی یعنی محمد رسول اللہ، عبدہٗ کے مقام بلند پر فائز ہیں۔ اس لیے یہی مقامِ مصطفی ؐ تا قیامت، اسوۂ حسنہ ہے۔ حضورؐ سے عشق (آپؐ کی سیرت و کردار: سنت کو اپنی زندگی کا جزو بنانا) ہی، تقویم و استحکامِ خودی کا وسیلہ ہے۔ پس حضورؐ کے اتباع سے عشق کے بغیر اطاعت الٰہی میں کمالِ استغراق کا حصول ممکن نہیں۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَج۶۰؎ ہر دیگر حوالے سے گزر کر اسی ایک حوالے کو فلاح و نجاتِ ابدی کا ذریعہ بنانا ہو گا۔۶۱؎ بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است ۶۲؎ _______________ حوالے و حواشی ۱۔ اقبال کا علم الکلام، ص ۱۲۸، ما قبل ۲۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۵۶۲ ۳۔ ایضاً ۴۔ سورۃ الاخلاص ۱۱۲ : ۳ ۵۔ سورۃ الاعراف۷: ۵۴ ۶۔ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، اردو ترجمہ: سید نذیر نیازی،ص ۱۵۵ ماقبل و ما بعد ۷۔ سورۃ القمر۵۴:۵۰ ۸۔ سورۃ الاعلیٰ ۸۷: ۲ ۹۔ سورۃ آلِ عمران ۳: ۱۹۱ ۱۰۔ سورۃ الانبیاء ۲۱: ۱۶ ۱۱۔ سورۃ الفرقان ۲۵: ۲ ۱۲۔ سورۃ المائدہ ۵: ۶۴ ۱۳۔ سورۃ الانعام ۶: ۹۱ ۱۴۔ ایضاً ۱۵۔ سورۃ الاعلیٰ ۸۷: ۳ ۱۶۔ کلیاتِ اقبال، فارسی،ص ۱۴ ۱۷۔ سورۃ بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵ ۱۸۔ سورۃ آل عمران ۳: ۸۳ ۱۹۔ اقبال اور لذتِ پیکار، ص ۱۸۳ (دیباچہ اسرار خودی از نکلسن) ۲۰۔ سورۃ الروم ۳۰: ۳۰ ۲۱۔ سورۃ القمر ۵۴: ۵۰ ۲۲۔ سورۃ البقرہ۲: ۳۵ ۲۳۔ ایضاً ۲۴۔ سورۃ الاعراف۷: ۱۷۲ ۲۵۔ سورۃ الفرقان۲۵: ۴۳ ۲۶۔ علامہ اقبال نے جس حقیقت کا اظہار اپنی نظموں میں کیا ہے اور مسٹر ڈکنس نے جس کا ذکر اپنے اینتھم والے مضمون میں کیا وہ یہی حقیقت تھی… ’’میرے عقیدے میں حقیقت ایسے اجزا کا مجموعہ ہے جو تصادم کے واسطے سے ربط و امتزاج پیدا کر کے’ کل‘ کی صورت میں تبدیلی کی سعی کر رہے ہیں اور یہ تصادم لا محالہ ان کی شیرازہ بندی اور ارتباط پر منتج ہو گا۔ دراصل بقاے شخصی اور زندگی کے علو و ارتقا ] ارتفاع[ کے لیے تصادم نہایت ضروری ہے۔ (اقبال کے نثری افکار (شکیل) ص۲۶۲) ۲۷۔ سورۃ الشمس ۹۱: ۷۔۸ ۲۸۔ سورۃ الاحزاب ۳۳: ۷۲ ۲۹۔ سورۃ النحل ۱۶: ۹۳ ۳۰۔ سورۃ البقرہ ۲: ۲۱۳ ۳۱۔ سورۃ الروم ۳۰: ۴۱ ۳۲۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۴۱۔ ۴۲ ۳۳۔ یہ ایک لمبی بحث ہے اجمالاً یہ جاننا چاہیے کہ پانی کی اجتماعی تقدیر: سطح ہموار رکھنا ہے۔ اسی کے مہمل اتباع میں، سطح کی ناہمواری کی صورت میں، پانی دوڑتا ہے۔ یہ پانی کی فطری آزادی ہے۔ جو اُس کے لیے بقول اقبال’ سامانِ شیون‘ ہے۔ جوں ہی اس کی سطح ناہموار ہوتی ہے بے محابا دوڑنے لگتا ہے اور ایک آپا دھا پی مَچ جاتی ہے، اسے بہایا اُس سے سر ٹکرایا (ظہر الفساد کی حقیقت)۔ لیکن یہی تقدیر: سطح ہموار ہونا جس وقت حاصل ہو جاتی ہے تو پانی کو دولتِ سکینہ (امن و سکون) بھی مل جاتا ہے۔ یعنی معاشرتی امن، فطری آزادی، میں نہیں آئینِ حیات کی پابندی میں ہے: دہر میں عیش دوام، آئیں کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں (کلیات اقبال، اردو، ص ۱۸۷) اقبال کی نظم ہمالہ کا اس تناظر میں مطالعہ ضروری ہے____ تب معلوم ہو گا کہ طور کا حوالہ کیا معانی رکھتا ہے۔ اور عناصر کی بازی گاہ کو فصیل کہنے سے مقصود کیا تھا۔ ۳۴۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۵۲۶ ۳۵۔ سورۃ العلق۹۶: ۱ ۳۶۔ سورۃ النجم ۵۳: ۳ ۳۷۔ ایضاً:۴ ۳۸۔ سورۃ آلِ عمران۳: ۸۳ ۳۹۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۳۲۷ ۴۰۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۷۱۵ ۴۱۔ سورۃ الدھر۷۶: ۱ ۴۲۔ سورۃ العلق۹۶: ۵ ۴۳۔ سورۃ الدھر ۷۶: ۳ ۴۴۔ اَلدِّیْن ھُو وَضْعٌ اِلٰھِیٌّ سَائِق لِذَوِی العُقُول بِاخِتْیَارِ ھِمْ الْمحمودِ الی خَیْر بِالذَّات الدین اللہ کا بنایا بتایا ضابطہ ہے جو عقل والوں کو اُن کے اختیارِ محمود کے ساتھ خیر بالذات کاموں کی طرف چلاتا ہے (نور الانوار، شرح المنار۔ملاجیون، ص ۶) ۴۵۔ اقبال نامہ، جلد اول، ص ۱۳ مکتوب بنام غلام قادر گرامی، مارچ ۱۹۱۰ء ۴۶۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۴۴، ۸۶ ۴۷۔ ایضاً ۴۸۔ اقبال کے نثری افکار، مرتب: عبد الغفار شکیل ، ص ۲۶۶، مکتوب بنام نکلسن ۴۹۔ سورۃ الکھف ۱۸: ۱۱۰ ۵۰۔ اسلامی نظام اجتماع میں اہل الراے و بادی الراے کی جاہلی تقسیم کی بھی کوئی گنجایش نہ رہی۔ یہاں اہل حل و عقد کے لیے اوْلی الامر منکم کی نادر اصطلاح استعمال ہوئی اور اولیٰ الامر منکم کے لیے معتمد علیہ ہونا بنیادی شرط ہے۔ مفرض الطاعۃ اوْلِی الا مر منکم الرسولؐ نے یہ اعلان کر کے فاذا اَمَرتْم بشیئٍ مِّن رای فانما انا بشرٌ (مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب الاعتصام بالسنہ) اہل الراے اور بادی الراے کے تمام جاہلی تصورات فنا کر دیے۔ ۵۱۔ قوم کسی ایک داعیہ کے تحت، داعی کے گرد، مرد و زن کے یک جان ہونے والی انسانی جماعت کو کہتے ہیں۔ مسلم قوم، توحید کے تحت، داعیِ توحید، اول المسلمین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جمع ہونے والی انسانی جماعت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیْمَا کا یہی مقصود ہے۔ اس سے بڑی رحمت طلبی کا مظاہرہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔ صلوا کا مصدر التصلیہ ہے جس میں اتصال باہمی کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ اسی مفہوم سے بے خبری نے مسلمانوں کو فرقہ فرقہ کر دیا۔ آگے چل کر معلوم ہو گا کہ اقبال کا عشقِ رسولؐ یہی مفہوم لیے ہوئے ہے۔ یعنی بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست۔ ۵۲۔ کلیات اقبال، اُردو، ص ۴۸۷ ۵۳۔ کلیات اقبال، اُردو، ص ۴۸۷ ۵۴۔ اقبال کے نثری افکار، ص ۸۶ (دیباچہ اسرار خودی) ۵۵۔ کلیاتِ مکاتیب اقبال ، ج۱، ص ۷۳۰، مکتوب بنام اکبر الہ آبادی ۲۰ جولائی ۱۹۱۸ء ۵۶۔ کلیاتِ اقبال، اردو،ص ۴۸۷ (نظم توحید) ۵۷۔ سورۃ الاعلیٰ۸۷: ۶ ۵۸۔ سورۃ یونس ۱۰: ۱۵ ۵۹۔ کلیات اقبالٖ، فارسی، ص ۷۱۷ ۶۰۔ سورۃ النساء ۴: ۸۰ ۶۱۔ حرف اقبال ، ص ۱۲۷ (مکتوب بنام اسٹیٹس مین مطبوعہ ۱۰ جون ۱۹۳۵ء ) ’’ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا، لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شخصیت کا مرہونِ منت ہے‘‘۔ ۶۲۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۶۹۱ خ خ خ اقبال اور تہذیبِ مغرب خ تہذیب کی تعریف تہذیب کے لغوی معنی عیوب سے پاک کرنا اس عربی لفظ کا مادہ ’ہ ذب‘ ہے اور یہ ثلاثی مزید فیہ کے باب تفعیلسے مصدر ہے (ہَذَّبَ یُھَذِّبُ تَھْذِیْباً۔ کسی شے کا بنانا سنوارنا، اخلاق و عادات کا پاکیزہ کرنا، درخت کی شاخ تراشی کرنا وغیرہ۱؎۔ اصطلاح میں تہذیب کسی قوم کی اجتماعی زندگی کا وہ نقشہ ہے جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرے، انگریزی میں اس کا مترادف لفظ: سِویلائزیشن (civilization) ہے۔ اردو میں کلچر، ثقافت، تہذیب اور تمدن وغیرہ ہم معنی اور مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں لیکن دراصل یہ جدا جدا الفاظ ہیں اور ان کے معانی بھی معین و مقرر ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی تہذیب و ثقافت کو یوں ممیز کرتے ہیں: تہذیب کا زور خارجی چیزوں اور طرزِ عمل کے اظہار پر ہے جس میں خوش اخلاقی، اطوار و گفتار اور کردار شامل ہے لفظ ثقافت کا زور ذہنی صفات پر ہے جن میں علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنا اور ترقی دینا ہے۔ ۲؎ جب کہ پروفیسر محمد منور تہذیب کاتعلق باطن سے اور تمدن کا تعلق خارجی مظاہر سے جوڑتے ہیں: تہذیب آدم کا اندرونی اضطراب اور اس کا اثر ہے اور تمدن آدم کے اضطراب اور اثر کا بیرونی پر تو (عکس ، جلوہ)۔ داستانِ تہذیب و تمدن اسی داخلی کیفیت اور بیرونی ہیئت کے تقابل و تصادم کا نام ہے۔ ۳؎ بعض لوگ ثقافت سے سماجی اداروں کے وہ اثرات مراد لیتے ہیں جو انفرادی شخصی نشوونما پر پڑتے ہیں یا ان کے مختلف النوع اظہار میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً فنون لطیفہ، سائنس اور مذہب جبکہ تہذیب سے ادارے اور مادی وسائل مراد ہوتے ہیں۔ انتھرا پالوجی (علم البشری) کے ماہرین، تمدن میںمستقل تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہیں لیکن تہذیب کو ایک مسلسل عمل بتاتے ہیں جو ایک دوسرے پراثرا نداز ہوتی ہیں۔ ۵؎ خ مختلف تہذیبیں اور تہذیبی عوامل اسلامی تہذیب کے علاوہ بڑی بڑی ۱۲تہذبیوں کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے جو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے پر اثرا نداز ہوتی رہیں، مثلاً: ہندو تہذیب، بدھ تہذیب، ایرانی تہذیب، یونانی تہذیب، مصری تہذیب، عبرانی تہذیب، بابلی تہذیب، مجوسی تہذیب، جاہلی عرب تہذیب، یہودی تہذیب، کلدانی تہذیب اور موجودہ مغربی تہذیب۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ ہر تہذیب کسی نہ کسی تمدنی نظریے پر استوار ہوتی ہے اور درج بالا تہذیبیں بھی کسی تمدنی نظریے پر قائم ہوئیں، پروان چڑھیں اور فنا ہو گئیں۔ یہ تہذیبیں جن بعض نظریات پر استوار ہوئیں سید ابو الحسن علی ندوی نے ان کی تقسیم اس طرح کی ہے۔ حسی تمدن، عقلی تمدن اور اشراقی تمدن حسی تمدن، مادے سے ادھر کسی شے کو تسلیم نہیں کرتا۔ عقلی تمدن، جو چیز عقل میں نہ آ سکے اس کا انکاری ہے۔ ظاہر ہے عقلِ محض بھی حسیات کی اسیر ہوتی ہے اس لیے ظاہری فرق کے باوجود دونوں نظریے ایک جیسے نتائج کے حامل ہیں۔ اشراقی تمدن حسی تمدن کے برعکس مادے کا منکر ہے رہبانیت اور ترک دنیا اس کا دستور ہے لیکن رہنا تو ان کو بھی اسی مادی دنیا میں ہوتا ہے اس لیے ان کی زندگی دورنگی سے دوچار ہوتی ہے، روحانی زندگی ترک دنیا پر ا ور دنیوی زندگی حسی اور عقلی نظریوں پر گزارتے ہیں۔ اشوک اعظم (بدھ مت کا پیروکار) اور قسطنیں (رومی) اسی دو عملی کے شکار تھے جنھیں روحانیت کے ساتھ بت پرست مادیت کو جمع کرنا پڑا۔ اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اصلاً تینوں تمدن اناے انسانی کو بے حسی سے دو چار کر کے مردہ و مفلوج کر دینے والے ہیں اور ایک جیسے نتائج دکھاتے ہیں۔ دنیا کے جن تمدنوں کو پہلی اور سر سری نظر میں عقلی اور علمی سمجھا جاتا ہے گہری اور تنقیدی نظر کے بعد وہ بھی حسی اور مادی ثابت ہوتی ہیں ان میں سب سے زیادہ فریب یورپ کے موجودہ تمدن کا ہے۔ ۶؎ جو عبادت گاہوں میں اشراقی و روحانی ہے لیکن بساط سیاست پر خالص مادی اور حسی ہے۔ خ مغربی تہذیب محققین کے نزدیک تہذیبی عناصر دو بنیادی عوامل کے پیدا کردہ ہوتے ہیں ایک ماضی کے اثرات اور دوسرے عصرِ موجود کے حالات اور تقاضے۔ مغربی تہذیب پر ان پہلوؤں سے نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تہذیب اشراقیت اور نظریاتی رہبانیت کے زیر اثر صدیوں پر پھیلے دورِ مظلمہ کی کوکھ سے اس وقت پھوٹی جب لوتھر نے کلیسائی اختیار مطلق کے خلاف تحریکِ اصلاح مذہب چلائی، فرانس نے فکری و عملی کروٹ لی، امریکا آزاد ہوا اور برطانیہ میں زرعی اور صنعتی انقلاب آیا۔ اقتدار و اختیار سے کلیسا کی بے دخلی نے وطن کو مرکز یت کا حوالہ بنایا کلیسائی بپتسمہ (مہر اعتماد و تصدیق) کی جگہ عوام کے صواب دیدی اختیار نے لی اور سیاست سے مذہب کو علاحدہ کر دیا گیا۔ قانون سازی کامدار پارلیمنٹ کی اکثریت (جسے روسو نے ’’ارادۂ معتبر‘‘ نام دیا تھا) پر طے ہوا۔ مغربی مفکرین، ہیگل،مارکس، ڈارون کی فکر نے ہر جگہ مختلف ناموں سے ظہور کیا، یورپ کی سرمایہ پرست لا دین جمہوریت، روس و چین وغیرہ کی لا دین اشتراکیت اور ہٹلر اور مسولینی کی فاشسٹ حکومتیں نام اور صورت میں مختلف لیکن مزاجاً ایک تھیں بقول علامہ محمد اسد : متوسط یورپین خواہ وہ جمہوری ہو یا فاشستی سرمایہ دار ہو یا اشتراکی صناع اور دست کار ہو یا دماغی کام کرنے والا صرف ایک اثباتی مذہب جانتا ہے: مادی ترقی کی پرستش اور یہ یقین کہ زندگی کا مقصدِ وحید زندگی کو مسلسل آسان سے آسان تر اور فطرت سے آزاد بنانا ہے۔ ۷؎ چنانچہ اٹلی کے مفکرین دانتے اور میکا ولی نے قوم پرستی کو ہوا دی اور مارٹن لوتھر نے ریاستی مطلقیت کے پرچم گاڑھے تو ہابس اور روسو کی فطری آزادی اور ارادۂ معتبر کلیسا کے ساتھ مذہب کو بھی بہا لے گئے۔ جس طرح خوارج کی حکومتِ الٰہیہ بالآخر قومی حکومتوں کے قیام اور مذہب و سیاست میں جدائی لانے کا سبب ہوئی تھی اسی طرح مغربی اہلِ کلیسا کی ہٹ دھرمی مذہب کو نجی معاملہ اور ریاست کو عوامی اختیارِ فیصلہ کے تحت لانے کا باعث بنی۔ اول الذکر لا دینی لائی اور ثانی الذکر نے جمہوریت (معاشرتی، سیاسی، مساوات) نام پایا۔ چنانچہ قومی ریاستوں کے زیر اثر وطنیت کو عالم گیر شہرت ملی۔ انٹرنیشنل انسائی کلو پیڈیا آف سوشل سائنسز نے ان قومی ریاستوں کی حقیقت یوں بیان کی ہے: ۱۷۸۹ء اور ۱۷۹۳ء کے درمیانی عرصے میں شرفا اور پادریوں کے آسمانی اقتدار سے محرومی کے بعد قوم (Nation) ان لوگوں کا نعرہ بن گیا جو عوام کے اختیار کی جنگ لڑ رہے تھے وہ لا دینی، مساوات اور مرکزیت کے حوالے سے جدید قومی حکومتوں کے پرچم لے کر نکلے ۲۰ویں صدی کے ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکا میں نیشن کا یہی مفہوم معروف ہوا۔ ۸؎ یہی مادیت، لا دینیت، وطنیت اور مساوات پرمبنی وہ جدید مغربی تہذیب تھی جس کے اوضاعِ مختلف کو علامہ نے روح اصلی کے حوالے سے پرکھا، اچھے پہلوؤں کو سراہا اور معائب افشا کیے لیکن من حیثِ المجموع اسے بحوالۂ لا دینی ’’بے چشمۂ حیواں ظلمات‘‘ ثابت کیا۔ یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ سیاست پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات ۹؎ یہ دو شعر بھی روح عصر کی ترجمانی میں بے مثل ہیں۔ یورپ میں یہ تہذیب بلا شبہہ حاکم و محکوم کا تصور مٹا رہی تھی، اصولاً عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ٹھہرے تھے لیکن قومی حکومتوں کو عظیم رومن ایمپائر بننے کے خوابوں، سائنسی ترقی اور سمندروں کی فتح نے جس نو آبادیاتی راہوں پر گامزن کر دیا تھا اس نے ہر یورپی نو آبادی کو حاکمی و محکومی ہی نہیں غلامی کے ایسے عذاب میں مبتلا کر دیا تھا جہاں غلاموں کا قومی تشخص ہی مٹنے والا تھا۔ ’’پیتے ہیں لہو‘‘ صرف خام مال کی لوٹ مار تک محدود نہ تھا تاہم ایسا نہیں کہ علامہ کو تہذیبِ مشرق میں کوئی خرابی نظر نہ آتی تھی اور تہذیبِ مغرب کی گویا کسی خوبی کے وہ قدر دان نہ تھے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن وہ ضرب لگانے کے لیے فرنگ کا ذکر لازمی سمجھتے ہوں ۱۰؎جیسا کہ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے محسوس کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ تہذیبی کش مکش کے اس دور میں علامہ ایک ایسی تہذیبی روح کی بیداری کے متمنی تھے جو ’’مشرق و مغرب‘‘ کے گل زاروں کو کانٹوں کی خلش سے پاک کر دے اور یہ صرف اور صرف مذہب کی حکمرانی سے ممکن تھا۔ مغرب خصوصاً اسلام نے انسان کو انسان کی غلام ہی سے نہیں فرد کو انفرادی نفسی بندگی سے بھی نجات دلا کر فطرت اور مظاہر فطرت، اس کے تصرف میں دے دیے تھے۔ علامہ کے فلسفۂ خودی، ضبط نفس، اطاعتِ الٰہی اور نیابت حق کا اور مفہوم کیا تھا؟ یہی عمل، اجتماعی زندگی میں پورے معاشرے کو فرد واحد کی طرح متحد و متفق بنا دیتا ہے اس حوالے سے فکرِ اقبال کا مطالعہ ناگزیر ہے کیونکہ ایسا کیے بغیر ان کی تنقید مغرب کی تفہیم ممکن نہیں۔ خ اہم نکات ۱۔ کسی قوم کی تہذیب اس کے علوم و آداب، فنون لطیفہ، صنائع بدائع،اطوار معاشرت، اندازِ تمدن اور طرزِ سیاست کا نام ہے۔ ۲۔ تہذیبی مظاہر کی اساس وہ تمدنی نظریات ہوتے ہیں جو برسوں کے تعامل سے کسی قوم کی نفسیات کا حصہ بن جاتے ہیں یہ زندگی کے بارے میں عقیدہ کہلاتا ہے۔ ۳۔ اگر یہ عقیدہ اور تمدنی نظریہ مادے پر مدار رکھتا ہو اور روحانیت کا منکر ہو تو اس تہذیب کی تقدیر فنا ہے کیونکہ ایسا عقیدہ ’’بے حس‘‘ کر کے مردہ یا مفلوج کر دیتا ہے۔ ۴۔ تہذیب مغرب ہر سہ (حسی، عقلی، اشراقی) تمدنی نظریات کا مرقع ہے لا دینی اور وطنیت اس کی نا پایداری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ۵۔ تہذیبِ مغرب‘ کلیسائی مطلقیت کے خلاف رد عمل کے نتیجے میں مذہب ہی سے بیگانہ ہو گئی لیکن وطن کی پرستش اور عقلِ محض پر قائم اکثریتی فیصلوں کی اطاعت نے کلیسائی مطلقیت کی بے خدا خدائی جیسی صورت حالات ہی پیدا کی اور کسی خاص تبدیلی کا اظہار نہ ہو سکا حاکم و محکوم کا دیرینہ تصور ضرور مٹا لیکن بندگی کا یہ جدید نو آبادیاتی تصور اس سے بھی بڑھ کر مہلک ثابت ہوا۔ ۶۔ برطانیہ ہندستان کو بھی اسی طرف لے جانے کے درپے تھا مگر ’’حاکم ومحکوم‘‘ کے نظام کو پختہ تر کرتا جاتا تھا۔ اس لیے علامہ کی تنقید کا نشانہ یہی لا دینی تھی۔ خ اقبال او رمغربی تہذیب تہذیب مغرب پر علامہ اقبال کی مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ آخر وہ کون سا معیار تھا جس پر علامہ نے مغرب ومشرق کی تہذیب و تمدن کو پرکھا اور کہا: بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا پھر اس ’’بے ذوقیِ صہبا‘‘ کو مہمل نہیں رہنے دیا بلکہ اعلان کیا: لبالب شیشۂ تہذیبِ حاضر ہے مے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ اِلّا ۱۱؎ اس ’’بے ذوقی‘‘ کا انجام اور مشرق کی بیماری ’’مکی خفتہ در بطحا‘‘ کہہ کر بیان بھی کر دی ظاہر ہے یہ حوالہ ’’قرآن و سنت‘‘ پر علامہ کی نظر کو واضح کرتا ہے۔ قرآن حکیم خلافتِ ارضی کے لیے جن اعلیٰ اصولوں کو بنیادی حیثیت دیتا ہے وہ اس نے تخلیقِ آدم کی تمثیل کے ذریعے سمجھائے ہیں اس کے لیے ’سرگذشت آدم‘، ’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘۱۲؎ اور ’تسخیر فطرت‘ ۱۳؎ جیسی کئی نظموں کا خصوصی مطالعہ ضروری ہے جس میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ وہ اصول درج ذیل ہیں۔ ۱۔علمِ حقائق اشیا ۲۔ باہمی مشاورت، ۳۔ سجدۂ خلافت (اعتماد کا ووٹ)، ۴۔ عہدِ الست۱۴؎ علامہ نے جاوید نامہ میں (جو تہذیب کی حیات جاوداں کا نسخہ ہے) محکماتِ عالمِ قرآنی کے تحتِ عنوان ان مبادی کو اس طرح ترتیب دیا ہے: خلافتِ آدم، حکومتِ الٰہیہ، الارض لِلّٰہ اور حکمت خیرِ کثیر ۱۵؎ جہاں تاریخ قرآنی (ایامِ اللہ) ہمیں صالحین کو الٰہ پکڑنے اور فراعنہ و نماردہ کو رب الاعلیٰ تسلیم کرائے جانے سے آگاہ کرتی ہے، وہاں وہ اس کے خلاف تحریکِ دعوتِ توحید کے (نوح علیہ السلام سے قبلِ موسیٰ علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ و ہارون علیہ السلام کے ’’خیمہ اجتماع‘‘ سے لے کرجناب طالوت کی پہلی آسمانی بادشاہت حضرت داؤد علیہ السلام کی خلافت اورریاست مدینہ کی بانیِ اول و آخر، مفرض الطاعۃ اولی الامرمنکم حضرت محمد ا تک کے انتظامی و انصرامی اصول و قواعد سے بھی مفصلاً آگاہ کرتی ہے۔ علامہ کے تاریخی شعور اور قرآن و سنت پر ان کی گہری نظر نے ایک مفکر و مصلح کی حیثیت میں انھیں اس آئینے میں ساری دنیا کے نظامات و افکار کو پرکھنے کی جو صلاحیت بخشی وہ کم کم ہی کسی اور کو نصیب ہوئی۔ ہجرتِ مدینہ ہو یا معراجِ مصطفویٰ ؐ، تمام روے ارضی کو مصلیٰ بنانے کے ارشادات الٰہی ہوں یا کعبۃ اللہ کو قبلہ بنانے کے احکامات، علامہ اقبال نے ان کے عام معانی و مفاہیم کے ساتھ ساتھ ایک دائمی ابدی معاشرتی تنظیم (ملت) کے حوالے سے ان کی جو جو تعبیریں کی ہیں، وہ مغربی تصور قومیت و اجتماعیت ہی نہیں خود مشرقی مفکرین کے بعض افکار کو بھی پرکھنے کا غیر معمولی معیار بنتی ہیں۔ قرآن حکیم نے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۱۶؎ کا اعلان کیا اور رسول اکرم ا نے آخری خطبے میں اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ عَلٰی ھَیْئَتِہٖ یَومَ خَلَقَ السَّمٰوٰاتِ وَالارضْ۱۷؎ بلا شبہہ زمانہ پھر پھرا کر، وہیں آرکا جہاں تخلیق سما و ارض کو تھا۔ ظاہر ہے زمانے کا حقیقی تصور، آدم کی تخلیق اور خلافتِ ارضی کے مذکورہ بالا واقعہ ہی سے تھا خلافتِ آدم کے تمام اصول و مبادی جو طالوت و داؤد ؑ پر جزاً بروے عمل آئے حضرت محمد ا پر کاملاً پورے ہو گئے۔ ۱۔ منشاے ربانی تھی کہ ارضی خلافت کسی کو سونپی جائے مقصد ذاتِ باری تعالیٰ کا عرفان تھا: فَاَ حبْبَتُ اَنْ اُعرِفَ فَخَلَقْتُ الْخَلق ۱۸؎ رب العالمین کی یہ منشا آگے چل کر اولادِ آدم کی ضرورت بن گئی قوم نوح ؑ نے اس ضرورت اجتماع کو وُدّاع وغیرہ کو الٰہ پکڑ کر پورا کیا۔ یہ بگاڑ لاویوں، یہودیوں اور نصرانیوں میں علما کو بطور نائبینِ حق، کلی اقتدار و اختیار سونپنے تک جاری رہا۔ حالانکہ اصول یہ تھا کہ حکومت جن کی ضرورت ہو وہی حکمران کو نام زد کریں جیسا کہ اللہ نے آدم کو نام زد کیا۔ قوم سموئیل کو بھی جالوت کے مقابلے کے لیے حکمران کی ضرورت پڑی مگر انھوں نے یہ ضرورت پیغمبر وقت کے ذریعے پوری کرتے ہوئے اللہ سے حکمراں مانگا۔ یہ مامور من اللہ حکمران: طالوت، ملک کہلایا۔ ۱۹؎ ۲۔ یہ مامور من اللہ ملک باوجود اس کے کہ جالوت پر فتح پا کر تمام تر تبرکات موسیٰ ؑ (دولت سکینہ) واپس لانے میں کامیاب رہا چونکہ ورثۃ الانبیا نے اسے بپتسمہ (مہرِ اعتماد و تصدیق) سے نہ نوازا تھا اس لیے ساؤل (غیر قومی اور غاصب) کہلایا۔ اس کے خلاف حکومتِ الٰہی کی بحالی کی تحریک چلی اور قتل کر دیا گیا، تاہم اس کی جگہ پھر بھی نائبین حق نہ آ سکے بلکہ طالوت کے ایک لشکری کو جس نے زرہ بنا کر جالوت پر غلبے کو آسان بنایا (ملاحظہ ہو: علم حقائقِ اشیا کی اہمیت) خلیفہ بنا دیا گیا اللہ تعالیٰ نے اسے نبوت سے سرفراز کر کے اس انتخاب کی توثیق کر دی اور خلیفہ (طالوت کا خلیفہ) کہہ کر پکارا، صدیق اکبرؓ جس طرح خلیفۃ الرسول کہلائے۔ ۳۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد جب سلیمان علیہ السلام برسر اقتدار آئے باوجود اس کے کہ نبی تھے اللہ نے ان کا شمار ملوک میں کیا ہے۔ حضورؐ نے اپنے بعد کسی کو نام زد نہ فرماکر اور عبد اللہ ابن عمر کو حضرت عمرؓ نے اپنے بعد خلافت کا امیدوار نہ ہونے کا اعلان فرما کر اور حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کی بیعت کر لینے کا پوچھنے والوں کو لا امْر کُمْ وَلَا انَھٰکُمْ وَ اَنْتم اَبصرا ۲۰؎ فرما کر اس تعلیم ربانی قرآنی کی تعمیل کی۔ حضرت امیر معاویہؓ نے یزید ابن معاویہؓ کا اپنے بعد تقرر فرما کر ملوکیت کی آغاز کی۔ ۴۔ اہلِ یثرب کو بھی جنگِ بعاث کی بھڑکائی ہوئی آتشِ نفرت سے نجات کے لیے سردار کے انتخاب کی ضرورت پڑی۔ انھوں نے کسی غیر جانب دار سردار کے انتخاب پر سوچ بچار کیا اور تاجِ شاہی بھی تیار کر لیا تاکہ غیر جانب دار سردار عبد اللہ ابن ابی کا انتخاب کر لیا جائے کہ اتنے میں کسی متوقع جنگ کی صورت میں حلیفوں کی تلاش انھیں قبیلہ بنو ہاشم کے محمد بن عبد اللہ کے پاس لے آئی۔ آپؐ نے دعوتِ توحید دی تو وہ خوش ہوئے کہ یہی تو ان کے دکھوں کا مداوا تھا چنانچہ بیعت عقبہ ہوئی دوسری تیسری بیعت میں حضورؐ سے یثرب آنے کا وعدہ لیا گیا، اب مستقر چھوڑنے کا شرعی عذر سردارانِ قریش نے مل کر قتل کرنے کا منصوبہ بنا کر بہم پہنچایا، اتمام حجت کے ساتھ اللہ نے ہجرت کا حکم دے دیا۔ آپ یثرب پہنچے اور مطاع تسلیم کر لیے گئے۔ عبد اللہ ابن ابی کا سر، تاج پوشی سے محروم رہا۔ عمر بھر اقتدار کی ہوس اسے مسلمانوں میں نفاق کے بیج بونے پر مجبور کرتی رہی۔ ۵۔ حضورؐ نے میثاق مرتب کیا مسلم اور غیر مسلم فریق معاہدہ کے علاحدہ علاحدہ حصے مرتب ہوئے دونوں حصوں کی شق نمبر ا‘ ایک لفظ (لیکن بہت بڑے فرق کی نشان دہی کرنے) کے فرق سے یوں تھی۔ مسلم حصہ ’’اس معاہدے کے شرکا اہلِ ایمان اپنے تمام تنازعات اللہ اور محمد اکے سامنے پیش کرنے کے پابند ہیں۔ غیر مسلم اپنے تنازعات اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے پیش کرنے کے پابند ہوں گے‘‘۔ مسلمانوں کے لیے صرف ’’محمدؐ‘‘ اور غیر مسلموں کے لیے ’’رسول‘‘ لانا ایک اہم نکتہ ہے ۲۱؎ جو مسلمانوں کو محمدؐ کابحیثیت رسول اور بحیثیت اولی الا مر… مطیع و فرما ن بردار رہنے کا حکم دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے دستور کی اس شق کے اسی دو گونہ اثر (قرآن و سنت کا اتباعِ) کی توثیق فرمائی اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اَولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْج فَاِنْ تَنَازَ عْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ والرَّسُوْلِ۲۲؎ یہاں ’’اَلرَّسُولُ وَ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُم ‘‘ ایک شخصیت ہے فَاِنْ کی فاے ترتیبی کا یہی تقاضا ہے اور آیت فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ والرَّسُولِکہہ کر اس کی توضیح کرتی ہے کہ اللہ کی اطاعت کی طرح الرسول کی اطاعت بحیثیت اُولِی الْاَ مْرِ مِنْکُمْ بھی واجب ہے۔ اس سے الرسول (صاحب الوحی کی وحی یعنی قرآن اور اُولِی اَمْرِ مِنْکُمْ کا طریقہ یعنی سنت دونوں کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور چونکہ یہ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ الرَّسُوْل ہے اور بعد کے اولی الا مر منکم الرسول نہ ہوں گے اس لیے مفرض الطاعۃ بھی نہ ہوں گے لہٰذا تمام متنازع امور ان کی طرف نہیں بلکہ اللہ (قرآن) اور اَلرَّسُوْلَ اُوْلِیٰ الْاَ مْرُ مِنْکُمْ (سنت) کی طرف لوٹیں گے۔ مسلم مملکتوں کے دساتیر میں اگر ایک ہی شق میں یہ ترمیم کر دی جائے کہ تمام متنازع امور میں سربراہِ مملکت (صدر یا وزیراعظم) کے بجاے ’’اللہ اور رسول محمدؐ‘‘ کی طرف رجوع کیا جائے گا اور پھر اس پر سختی سے عمل بھی کیا جائے تو نہ آمریتوں کو راہ ملے نہ کسی نفاذِ شریعت بل وغیرہ کی ضرورت پڑے بہر حال میثاق مدینہ کی یہ شق اولیٰ الا مر کے لیے منکم کی شرط کو شرطِ لازم کر کے کسی غیر مسلم کو سربراہِ مملکت کے منصب پر فائز المرام کرنے کی کھلی نہی فرماتی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی جاوید نامہ میں شاہ ہمدانؒ کی زبانی ’’باج‘‘ کا حق دار منکم کی شرط پورا کرنے والے حکمران کو قرار دیا ہے۔ یا اولیِ الامرے کہ منکم شانِ اوست آیۂ حق حجت و برہانِ اوست ۲۳؎ ۶۔ حکمران کے انتخاب کے بعد مجلسِ مشاورت کا نمبر آتا ہے۔ چونکہ مشاورت، باب مفاعلت سے ہے جس میں ’’مشورہ دینا اور مشورہ لینا‘ دونوں شامل ہیں اس لیے مجلس مشاورت بھی اُولِی الْاَ مر مِنْکُمْ کے منصب کی حامل اور ان شرائط ہی سے مشروط ہو گی یعنی باقاعدہ اختلاف راے کے اظہار کے بعد عوامی انتخاب سے قائم ہو گی اور منکم کی شرطِ لازم کا بھی لحاظ ہو گا۔ مسلم مجلسِ مشاورت میں کسی غیر مسلم کی کسی طرح کوئی گنجایش نہیں نہ عہدِ رسالت میں نہ خلافتِ راشدہ میں کسی غیر مسلم کو مشیر بنایا گیا قرآنِ مجید کا حکم بھی واضح ہے۔ لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَأْلُوْ نَکُمْ خَبَالاً ط۲۴؎ ’’مومنو! اپنے سوا کسی (غیر مسلم)کو اپنا راز دار (مشیر) نہ بنانا وہ تمھاری بربادی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا‘‘۔ ۲۔ قرآن مجید نے حالت امن اور خوف (ایمر جنسی) کو خاطر میں لائے بغیر تمام معاملات کو استنباط کے لیے مجلسِ مشاورت میں پیش کرنے کا پابند کیا ہے۔ فرمایا اِذَا جَآئَ ھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الَامْنَ اَوِالْخَوْفِ اَذَا اعُوُابِہٖط وَلَوَردُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلیٰٓ اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُم لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُونَہٗ مِنْھُمط۲۵؎ ظاہر ہے اس آیت کے نزول کے وقت الرسول ہی اولی الا مر منھم تھے۔ الرسول کی طرف رجوع ’’وحی‘‘ سے معلوم کرنا ہے، کسی نصِ قطعی کی عدم موجودگی میں الرسول ہی کو بحیثیت اَولِیٰ الا مر مِنْھُم یہ معاملہ مجلس مشاورت کے سامنے پیش کرنے کا مکلف کر دیا گیا۔ کیا یہ آیت کریمہ کسی ایمر جنسی کے نام پر اصول ضرورت کی روا دار ہے اورکیا اس آیت کریمہ کی رو سے مجلس مشاورت سے بالا بالا احکامات صادر کرنے کی کوئی گنجایش ہے؟ اسی لیے تو فقہاے امت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مجلس مشاورت سے بالا بالا فیصلوں کے عادی حکمران کو معزول کرنا واجب ہے: لَا خِلَافَ فِی وَجُوبِ عَزَلٍ مَنْ لاَّ یَسْتَشِیْر (فتح القدیر) اور اگر اولی الا مر منھم سے مراد الرسول کے علاوہ کوئی اور شخصیت یا اشخاص ہوں تو بھی اَلَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْ نَہٗ مِنْھُمْ کی طرف رجوع کا حکم واضح ہے اب وہ بھی ’’مشاورت‘‘ کے اصولوں کے تحت اولی الا مر منھم کے منصب پر فائز ہو جائیں گے۔ حضور اکرم اکے حینِ حیات اور عہدِ خلافت میں بھی ان لوگوں کا مسلمانوں کا معتمد علیہ ہونا کسی شک و شبہ سے بری ہے لہٰذا مجلس مشاورت بھی اولی الا مر منکم (حکمران) ہی کی طرح مسلمانوں کی باقاعدہ منتخب ہونی چاہیے اور منکم کی شرط کے تحت مسلمان ہونا بھی لازم ہے الرسول کی طرف رجوع کی شرطِ اول مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطاَعَ اللّٰہَ ط۲۶؎ کے حوالے سے قرآن کی تعلیمات کی پابندی کا حکم ہے۔ اگر نصِ قطعی نہ ہو تو پھر مجلس مشاورت کے ذریعے اس پر فیصلہ بصورتِ اجماع بھی قرآنی تعلیم اور الرسول اولی الامر منکم کی سنت کی پیروی ہو گی اس سے ہٹ کر کوئی بھی طریقِ عمل، اور کچھ بھی ہو اسلامی طریقہ نہیں ہو سکتا۔ علامہ نے اسی کو ’’غلام پختہ کارے شو‘‘ کہا اور اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ پر زور دیا۔ اس طویل بحث سے تہذیبِ اسلامی کے جو عناصر و عوامل ہاتھ آتے ہیں، حسب ذیل ہیں: ۱۔ توحید ۲۔ رسالت (وحی، انبیا اور ختمِ نبوت) ۳۔ بعث بعد الموت (مواخذہ و محاسبۂ آخرت) جن پر نظام عدل اور معاشی، معاشرتی، سیاسی سماجی مساوات کا دارومدار ہے۔ توحید کا اثر معاشرے پر دو گونہ پڑتا ہے۔ عبادات میں یوں کہ غائب پر ایمان نہ صرف ہر حاضر و موجود سے بے زار کرتا ہے اور کسی بندے کی غلامی سے نجات دلاتا ہے بلکہ کسی کو اپنا غلام بنانے سے بھی روکتا ہے۔ معاملات میں بھی وحدت آتی ہے ریاستی معاملات میں ’’برادری او ربرابری‘‘ کا اصول راہ پاتا ہے۔ ’’مستحق و غیر مستحق میں برابری‘‘ کا الزام دینے والا افلاطونی اشرافی تصور (برادری اور برابری) مسترد ہو جاتا ہے۔ وسائلِ رزق پر اجارہ داری کا تصور مٹتا ہے اور اشتراکیت کی راہ روکتی ہے۔ کسی کو نائب حق بن کر مسلمانوں کی گردنوں پر بیٹھنے نہیں دیتا اور اسے ارباباً من دون اللہ پکڑنے سے تعبیر کرتا ہے معاشرہ اندر باہر سے محفوظ ہو کر دولت سکینہ سے سرفراز ہوتا ہے۔ وَ الَّذِیْنَ اَسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَمْرُ ھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ۲۷؎ ’’جن لوگوں نے اپنے رب کا حکم مانا (یعنی حقیقی فرمان بردار بندے وہ ہیں) جو اقامت الصلوٰۃ کے پابند ہیں ان کے امور باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں اور جو اللہ کے دیے ہوئے رزق میں سے ’انفاق‘ کے پابند ہیں‘‘۔ انفاق کا مادہ ن ف ق ہے جو ایسی تھیلی کو کہتے ہیں جن کے دونوں سرے کھلے ہوں یہ ہے نظام العفو ع ہر چہ از حاجت فزوں داری بدہ انفاق ارتکازِ دولت اور ضرورت کی چیزوں غلہ وغیرہ کے احتکار (ذخیرہ کرنے) کا روادار نہیں ہو سکتا۔ صلوٰۃ: ص ل و یا ص ل ی (واؤ، یائی مبدل بہ الف ہو کر) صلا مصدر التصلیہ یعنی جڑ کر رہنا اور جڑ کر رہنے کی دعوت عام کرنا۔ عبادات میں دیکھیں ’’جماعت‘‘ کی اہمیت دراصل اتصال باہمی اور مساوات ہی کی تجلی ہے۔ اس تہذیب کے سارے نظامات تمام ادارے زندگی کا کوئی شعبہ ان اصولوں سے غفلت نہیں برت سکتا۔ علامہ اقبال مشرق کو ان اصولوں سے تہی دامن دیکھتے ہیں کہ یہاں صدیوں سے ملوکیتوں کا راج تھا لیکن جہاں ان اصولوں کی جھلک نظر آتی ہے علامہ کا دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے وہ سلطانیِ جمہور کا غلغلہ ہو یا بے کنار نجی ملکیتوں کا دشمن، اشتراکی نظام وہ ان کے وسیلے سے حقیقت اسلام کے نمودار ہونے کی امید باندھنے لگتے ہیں لیکن آنکھیں بند کرکے اس پر ایمان نہیں لاتے بلکہ گہری تنقیدی نظر سے اس کے ہر پہلو پر غور کرتے ہیں اور اس کے جو حصے وحی و رسالت (آسمانی ہدایت) مواخذۂ آخرت کے تصور سے محروم ہوں وہ ان پر بے تامل برس پڑتے ہیں اور مسلمانوں اور ان کے وسیلے سے اولادِ آدم کو حیاتِ جادواں کی راہ دکھاتے ہیں۔ امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ہنگامۂ قالوا بلی ست از اجل ایں قوم بے پروا ستے استوار از نحن نزلنا ستے۲۸؎ 2۔ اہم نکات ۱۔ اسلامی نظام حیات، توحید، رسالت (وحی اور ختمِ نبوت) اور مواخذۂ آخرت کے عقیدے پر استوار ہے۔ ۲۔ توحید معاشرے میں کسی بھی حوالے سے اجتماعی زندگی میں مساوات یعنی برادری اور برابری کے خلاف بندوبست کی مکمل نفی کرتی ہے۔ ۳۔ رسالت سے مراد ختم نبوت کا اصول ثقافتی زندگی میں مجردراے کی نفی کا اصول ہے۔ یہ اصول یہودی و کلیسائی تصورِ نائبین حق کی جڑ کاٹتا ہے اور وحی و تنزیل سے محروم اکثریتی راے کو بھی بندوق کی حکمرانی سے تعبیر کرتا اور توحید اور ختم نبوت کے عقیدے کے منافی قرار دیتا ہے۔ ۴۔ اتصالِ قومی کا یہی وہ نسخہ ہے جو قومی زندگی کو فنا کے گھاٹ اترنے سے بچاتا ہے صرف تنازع للبقا نہیں، بقاے اصلح کا قانون بھی کائنات میں کارفرما ہے۔ لہٰذا اصل الاصول صالحیت (صالح، ص ل ح سے ہے، مراد با صلاحیت شخص ہے) اور ’’ہر کام کے لیے کچھ لوگ ہوتے ہیں‘‘ لہٰذا یہ فیصلہ اجتماعی شعور ہی کر سکتا ہے کہ کون کس کام کے لائق ہے اور روشن ضمیری، مردانِ حر کا نصیب ہے اور حریت، ضبطِ نفس سے تسخیر فطرت تک پھیلی ہوئی ہے۔ خ تہذیب مغرب کی تنقید جیسا کہ بیان ہوا، علامہ اقبال کی تنقید براے تنقید ہرگز نہیں وہ جس طرح قد ما مفکرین اور اپنے ہم عصروں کے افکار کی خوبی کو سراہتے ہیں اور خرابی کی نشان دہی کرتے ہیں اسی طرح تہذیب مغرب کی خوبیوں خرابیوں پر ان کی نظر یکساں ہے۔ وہ تہذیب مغرب کی خامیوں اور خرابیوں پر جو تنقید کرتے ہیں اس کی نوعیت بھی دوہری ہے کچھ خامیاں عالمی سطح پر اثر انداز ہوتی ہیں اور کچھ خرابیوں کی نوعیت مقامی ہے اہل ہند پر اس کے مضر اثرات کو علامہ نے نظم و نثر میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ بد قسمتی سے شارحینِ اقبال نے اس طرف کم کم توجہ دی ہے۔ مثلاً ان کا کہنا کہ: خبر ملی ہے خدایانِ بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گزر سیلِ بے پناہ میں ہے ۲۹؎ اور ان کی یہ پیش گوئی کہ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپایدار ہو گا ۳۰؎ دو الگ الگ احساسات کے اظہارات ہیں اور انھیں ایک ہی پیمانے سے تولنے نے اچھی خاصی فکری گمراہی کو جنم دیا اسی طرح: دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری ۳۱؎ اور ان کا کہنا کہ: فرنگ آئین جمہوری نہاد است رَسنْ از گردنِ دیوے کشاد است ۳۲؎ دو مختلف کیفیات کو ظاہر کرتا ہے بعض اوقات ان کی فکر کو برعکس معانی بھی پہنا دیے گئے مثلاً ان کا انتباہ: زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ۳۳؎ یا جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۳۴؎ ایسے شعروں کا تجزیہ زبردست دل چسپی کا حامل ہے جس سے فکر اقبال کے نئے گوشے دریافت ہوں گے آپ کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے ان شاء اللہ اس طرف آگے کچھ اشارے کیے جائیں گے۔ پہلے علامہ کے کلام سے تہذیب مغرب کے بارے میں اشعار درج کیے جاتے ہیں۔ تلاش کرنے پر اور بھی بہت کچھ مل سکتا ہے: نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے کیا یہی ہے معاشرت کا کمال مرد بے کار و زن تہی آغوش حرارت ہے بلا کی شیشۂ تہذیبِ حاضر میں بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تنِ خاکی حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست باقی نہیں اب میری ضرورت تہِ افلاک اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوے غلامی میں عوام جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی دوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی دوئی چشمِ تہذیب کی نا بصیری غارت گرِدیں ہے یہ زمانہ ہے اس کی نہاد کافرانہ ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام واے تمناے خام، واے تمناے خام تاریک ہے افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے یہ وادیِ ایمن نہیں شایانِ تجلّی ہے نزع کے عالم میں یہ تہذیبِ جواں مرگ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری سرور و سوز میں ناپایدار ہے ورنہ میِ فرنگ کا تہِ جرعہ بھی نہیں ناصاف پیر مے خانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روزِ مکافات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات وہ قوم کہ فیضانِ سماویٰ سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری، ہوس کی وزیری خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف شعلۂ افرنگیاں نم خوردہ است چشمِ شاں صاحب نظر، دل مردہ ایست فرنگی را دلے زیرِ نگیں نیست متاعِ او ہمہ ملک است، دیں نیست من درونِ شیشہ ہاے عصر حاضر دیدہ ام آن چناں زہرے کہ ازوے مار ہادر پیچ و تاب خدا وندے کہ درطوفِ حریمش صد ابلیس است و یک روح الا میں نیست ترا ناداں امیدِ غم گساری ہا زافرنگ است دلِ شاہیں نسوزد بہرِآں مرغے کہ درچنگ است ۳۵؎ افسوس کہ فارسی ذوق ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور تہذیب اسلامی اور خصوصاً فکرِ اقبال کو محرومِ فارسی قارئین سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہی حال عربی کا ہے۔ گذشتہ اوراق میں رقم شعروں ہی میں دیکھیں ’’طریقِ کوہکن‘‘ طریق راستے کو کہتے ہیں، طریقِ کوہکن، کوہکن کے راستے میں۔ اس کہانی پر غور کریں کیا کوہکن اسی تیشے سے سر پھوڑ کر نہیں مرا جس سے وہ کوہ بیستوں کو کاٹ کر نہر بہا لانے میں کامیاب ہوا تھا؟ یہ ہیں ’’پرویزی حیلے‘‘ کیا عوامی حکومتوں کے خلاف عوام دشمنوں نے عوامی قوت ہی کو استعمال کر کے آمریتوں کو مسلط نہیں کیا؟ کیا مزدور دشمن قوتیں مزدوروں ہی کے ذریعے کامیاب نہیں ہوتیں؟ یہی حال ہے عیش دوام یا ’’عیش جہاں کا دوام‘‘ کا، عیش بمعنی عشرت بھی ہیں لیکن عیش زندگی کو کہتے ہیں لَا عَیْشَ اِلاَّ عَیْشَ الْاٰخِرۃ (قول رسولؐ) حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے ع دہر میں عیشِ دوام آئیں کی پابندی سے ہے، آب و آتش باد و خاک ہر مظہرِ فطرت جب سے پیدا کیا گیا تب سے ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس کا مقصدِ زندگی (آئین و دستورِ حیات یا تقدیر) اس کی فطرت کا حصہ ہے اس لیے وہ ہر وقت اس کا پابند ہے۔ آئین حو اس کی تابع مہمل عقل (عقلِ محض) کا بنایا ہوا ہو تو اس میں استقلال معلوم ع عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے، اس لیے کہ حواس کے ذریعے حاصل شدہ قیاس بدلتا رہتا ہے۔ ایک وقت میں جو شے آنکھوں میں کھب کر دل میں بیٹھ جاتی ہے دوسرے وقت وہی بری لگنے لگتی ہے۔ علامہ نے ایک خطبے میں اس حقیقت کو اس طرح ظاہر کیا ہے۔ جس حق و صداقت کا انکشاف عقلِ محض کی وساطت سے ہو اس سے ایمان و یقین میں وہ حرارت پیدا نہیں ہوتی جو وحی و تنزیل کی بدولت ہوتی ہے۔ ۳۶؎ اب اگر علامہ تہذیب فرنگ کو جو ’’عقل محض‘‘ کا شاہ کار ہے ’’رہ گزرِ سیل بے پناہ‘‘ میں دیکھتے ہیں اور عیش جہاں کا دوام پانے کو تمناے خام کہتے ہیں تو اس میں کیا غلطی ہے؟ شپنگلر نے اپنی کتاب زوالِ مغرب میں اس کے علاوہ اور کیا کہا ہے؟ بہرحال درج بالا اشعار پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے کم ازکم ذیل کے موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ لا دینی، وطنیت، جمہوریت، اشتراکیت، سرمایہ داری، تعلیم۔ علامہ نے متعدد دوسرے موضوعات پر بھی لکھا ہے لیکن صرف ان موضوعات پران کے خیالات معلوم کر لینا کافی ہو گا دوسرے موضوعات دیگر مختلف عنوانات کے تحت آپ پڑھ چکے ہوں گے یا پڑھ لیں گے۔ خ لا دینی علامہ کے ایک خطبے کا ایک اقتباس اوپر گزر چکا ہے۔ وحی چونکہ صاحب الوحی (پیغمبر صادقؐ) کے نفسانی خواہشات سے ماورا ہوتی ہے وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰیo اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحیٰo ۳۷؎ ’’اور (پیغمبرؐ) اپنی خواہشات کے تحت نہیں بولتا مگر یہ کہ جو کچھ وحی ہو۔‘‘ اب وحی اسی کی طرف سے ہوتی ہے جس نے انسان کو طبعی تقاضے اور خواہشات دیے اور اکثر طبیعتوں میں تضاد ہے اگر یہ تضاد نہ ہوتا تو وحی کی ضرورت بھی نہ تھی۔ وحی تو ان تضادات کو ان کے تضاد کے ساتھ وحدت آشنا کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے وہ احکام جو وحی کی بنیاد پر ہوں کسی بھی طبیعت پر جبر نہیں ہوتے بلکہ دوامی ہوتے ہے۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِقف۳۸؎ ’’احکام دین میں فی نفسہٖ کوئی جبر نہیں‘‘۔ مذہب ہی وہ ذریعہ ہے جس سے افکار و خیالات کی دنیا میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور جس کے سہارے ہم زندگی قوت اور طاقت کے دائمی سر چشمے تک پہنچتے ہیں۔ ۳۹؎ بحیثیت مجموعی یورپ نے اپنے باشندوں کی تعلیم و تربیت میں سے مذہب کا عنصر حذف کر دیا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس بے لگام انسانیت کا کیا حشر ہو گا: ۴۰؎ بندۂ کز آب و گل بیروں نجست شیشۂ خود را بسنگ خود شکست۴۱؎ جس انسان کی نگاہ آب و گل یعنی مادے سے باہر نہ نکل سکی، اس نے اپنا شیشہ اپنے ہی پتھر سے پھوڑ دیا۔ اب تہذیبِ مغرب کے ناپایدار ہونے اور اپنے ہی خنجر سے خود کشی کرنے جیسے خیالات کی صداقت پر کسے شبہہ ہو سکتا ہے؟ اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ علامہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے بھی اثر لیتے رہے ہیں اور ہندستانی معاملات (غلامی و آزادی) کے بارے میں جو کچھ اس حوالے سے محسوس کرتے رہے کہتے چلے گئے ہیں۔ فاشسٹ نظام مغربی سرمایہ دار جمہوریت کے خاتمے کی علامت نظر آیا تو علامہ نے ’’دیکھیے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ‘‘۴۲؎ جیسے جذبات کا اظہار کیا، ایک مکتوب میں اس کا بیان یوں ہوا ہے: دنیا اس وقت عجیب کش مکش میں ہے جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ پرستی کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہو رہا ہے۔ تہذہب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) بھی حالت نزع میں ہے غرض کہ نظامِ عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ۴۳؎ اور نظام عالم کی نئی تشکیل وہ صرف نظامِ اسلام میں دیکھتے تھے مگر زنگ ملوکیت سے پاک اسلام۔ اسی لیے تو وہ جہاں سرمایہ داری کے خلاف ’’جہادِ عظیم‘‘ پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں وہاں جمہوریت کی موت اور ملوکیت کے قیام پر ’’ماتم‘‘ کا سا سماں باندھتے ہیں۔ وہ ملوکیت کے کبھی حامی نہیں رہے، آمریت کو کبھی پسند نہیں کیا، ڈکٹیٹر شپ کو کبھی نہیں چاہا، وہ پیامبرِ خودی تھے اورخودی غلامی میں مرجاتی ہے۔ جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہ ہو سکتا تھا جس کے وہ تمنائی تھے وہ البتہ کچھ ذہنی تحفظات رکھتے تھے جن کا ذکر اسی لا دینی کے حوالے سے جمہوریت کے تحت عنوان ہو گا لا دینی مردہ دلی کا نام ہے اور دلِ مردہ دل نہیں ہوتا عقلِ محض کا غلام ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت ہم دیکھ آئے ہیں پس دل کا احیا ہی امتوں کے مرضِ کہن کا علاج تجویز ہوا: دل مردہ، دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ ۴۴؎ خ وطنیت وطن اور وطن سے محبت فطری ضرورتیں ہیں لیکن یہی وطن جب سیاسی اصطلاح بن جائے تو وہ ایک بت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ دنیا کی جتنی سلطنتوں نے اپنے وطن سے نکل کر دوسری قوموں کو غلام بنایا ہے انھوں نے اسی جذبۂ قوم پرستی سے کام لیا ہے جس کا اول و آخر وطن کی پرستش تھا۔ کسی بھی ابتدائی دینی ریاست نے اپنوں یا غیروں کے وطن پرقبضہ نہیں کیا۔ جالوت کی جوعِ الارض کا جواب جوعِ الارض سے نہیں دیا گیاتھا۔ ہاں اسرائیل پر بار بار کی یورشوں اور اسرائیلیوں کی بار بار غلامی و رہائی سے غیر دینی تاریخ بھری پڑی ہے عظیم رومن ایمپائر ہو یا یورپی سامراجیوں کی قومی حکومتیں وہ سکندر اعظم کی صورت میں ہوں یا ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں ہرکہیں دوسری اقوام و اوطان کو اپنے زیر نگیں لانا ان کا مطمع نظر رہا۔ دین ہر کسی کو اللہ کی بندگی میں لانے کا نام ہے یہاں جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ہے: اس وقت اسلام کا دشمن سائنس نہیں۔ اسلام کی پوزیشن سائنس کے خلاف نہایت مضبوط ہے مگر اس کا دشمن یورپ کی علاقائی قومیت ہے جس نے عربوں کو خلافت عثمانیہ کے خلاف اکسایا مصر میں مصریوں کے لیے آواز بلند کی اور ہندستان کو پین انڈین ڈیموکریسی کا بے معنی خواب دکھایا۔ ۴۵؎ قومیت کا ملکی تصور جس پر زمانۂ حال میں بہت کچھ حاشیے چڑھائے گئے ہیں اپنی آستین میں اپنی تباہی کے جراثیم خود پرورش کر رہا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جسے اقبال ہی سمجھے بلکہ خود مغربی مفکرین بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے۔ وطن تو ہندستان بھی تھا اور ہندستانی کیا وطنیت کے تحت برطانوی سامراج کو دیس نکالا نہ دیتے؟ ضرور، لہٰذا اسی خوف سے تو ’’مسلم ہندو‘‘ فسادات کو ہوا دی گئی ’’آل انڈیا نیشنل کانگریس‘‘ جیسی تنظیمیں بنا کر مذہبی جوش و جذبے سے باہمی سر پھٹول کا اہتمام کیا گیا اس لیے کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کا تصور کسی مذہبی دوئی کاروا دار نہ ہوسکتا تھا اور اس کانِ نمک میں داخل ہونے والوں کو نمک ہی بننا پڑتا۔ کیا قومیں اوطان سے بنتی ہیں جیسے متنازع افکار نہیں اچھلتے رہے اور قومی اتحاد میں رخنہ و فساد نہیں پڑتا رہا؟ اتحادِ قومی کسی بھی حوالے سے ہوتا، برطانوی سامراج کی موت ہوتا، یہ خوف موسیولی بان جیسے ماہرین عمرانیات کی تحریروں میں واضح ہے: جس روز ہند میں قومیت کا احساس پیدا ہونے لگا وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اور گویہ احساس اس حد تک نہ بھی بڑھے کہ غیر ملکی قوم کو عملی طور پر ملک سے باہر نکال دینے کا جوش پیدا کر سکے بلکہ اس قدر خیال پیدا کر دے کہ غیر قوم کی اعانت شرم کی بات ہے تو اسی روز گویا ہماری حکومت ختم ہو جائے گی۔ ۴۶؎ چونکہ وطنیت مسلمانوں کے لیے نقصان دہ تھی اس لیے علامہ نے خود یورپ کے لیے بھی اسے نقصان دہ ثابت کرنا چاہا اور مسلمانوں کو بھی اس کے مضر قومی اثرات و نتائج سے آگاہ کیا: اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ۴۷؎ دنیا پر واضح کیا کہ ’’جدید تصورِ قومیت‘‘ ایک ایسا بت اور اس بت کی پرستش کی راہ ہے جس کا نتیجہ سواے باہمی جنگ و جدال کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ ۴۸؎ دو عالم گیر جنگوں کا تجزیہ کرنے والے اس سے مختلف اسباب جنگ نہیں تلاش کر سکے۔ ہمیں ایک فیصلہ کن مرحلہ درپیش ہے ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم جغرافیائی قومیت کا اصول تسلیم کر لیں یا جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے اپنا ملی اور سیاسی وجود قائم رکھیں جغرافی قومیت میں اسلام کی حیثیت محض ایک نظامِ اخلاق کی رہ جائے گی جس کی انتہا ممکن ہے لا دینی پر ہو۔۴۹؎ یعنی تان وہیں ’’ٹُوٹی‘‘ صرف اور صرف لا دینی کا تاریک غار جس میں اولادِ آدم لحظہ لحظہ، قدم قدم تا گلو دھنستی جا رہی ہے: اس وجہ سے مجھ کو ایشیا کے لیے اور خصوصاً اسلام کے لیے فرنگی سیاست کا یہ نظریہ (وطنیت) ایک خطرۂ عظیم محسوس ہوتا ہے۔ ۵۰؎ خ جمہوریت جمہوریت کے بارے میں بھی علامہ کے افکار کی سطحیں دو ہیں عالمی تناظر میں اور ملکی و مقامی ہندستانی حالات کی روشنی میں۔ علامہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا جمہوریت کو ڈکٹیٹر شپ، آمریت، ملوکیت کے مقابل سمجھتے ہیں ایسے میں سواے آمریت کے پجاریوں کے کوئی بھی سلیم الطبع شخص اقبال کو جمہوریت دشمن نہیں کہہ سکتا خصوصاً جب خود ہی علامہ واضح کر چکے ہیں کہ: ایک تو جمہوری طرزِ حکومت اسلام کی روح کے عین مطابق ہے ثانیاً اگر ان قوتوں کا بھی لحاظ رکھ لیا جائے جو اس وقت عالمِ اسلام میں کام کر رہی ہیں تو یہ طرزِ حکومت اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔۵۱؎ وہ ’’قوتیں‘‘ اب خاندان نہیں رہے تھے سیاسی جماعتوں نے ان کی جگہ لے لی تھی پھر علامہ نے برطانیہ کو جمہوریت کے نفاذ و رواج کے حوالے سے اسلام کا محسن بھی قرار دیا کہ برطانیہ ہندستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی راہ پر گام زن ہے۔: جمہوریت ہی اسلام کا سیاسی نصب العین ہے۔ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ مسلمانوں نے انفرادی آزادی کے اس اجتماعی نظام سے ایشیا کی سیاسی نشوونما کے لیے کچھ نہیں کیا، ان کے ہاں جمہوریت صرف ۳۰سال تک رہی اور سیاسی پھیلاؤ کے ساتھ ہی غائب ہو گئی۔ ایشیائی ممالک میں اس نظام کی روح پھونکنا انگریزوں کا مقدر تھا۔ انگلینڈ نے صدیوں کی مطلق العنانیت کے کچلے ہوئے لوگوں تک اسے پہنچایا یہی وسیع سلطنتِ برطانیہ کی قوتِ حیات ہے۔ اس ایمپائر کا استقلال ہمارے حق میں ہے کہ یہ ہمارے ہی کام کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ۵۲؎ برطانوی جمہوری نظام ہندستان میں مسلمانوں کا عددی تحفظ ہی نہیں کرتا بلکہ یہ ہندستان کو دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت بھی بناتاہے۔ ۵۳؎ حقیقت یہ ہے کہ اس ’’بے چشمۂ حیواں ظلمات‘‘ میں جو برطانیہ ہندستان میں متعارف کرا رہا تھا صرف اور صرف روشنی کی ایک کرن نجات کے نوشد ارو کا ایک قطرہ صرف جمہوریت تھی اور وہ بھی ’’پارلیمانی جمہوری نظام‘‘ جس کے حوالے سے درج ِ بالا اقتباس میں علامہ نے ’’مسلمانوں کے عددی تحفظ‘‘ کی بات کی۔ پارلیمانی نظام دو یا دو سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا تقاضا کرتا ہے اور ’’آل انڈیا قومی کانگریس‘‘ کا تخیل اس سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ جب مسلمانوں کے وفد کو شملہ میں وائسراے نے یہ وعدہ دیا کہ ’’مسلمانوں کو صرف اقلیت نہیں قوم کے اندر قوم کی حیثیت سے آئینی تحفظ دیا جائے گا‘‘ تو علامہ نے جشن منایا۔ ’زمانہ آیا ہے بے حجابی کا‘ ’عام دیدار یار ہو گا‘۔ یہ غزل نما نظم یا نظم نما غزل منٹو مارلے اصطلاحات کا مسودہ بصورت مراسلہ لندن پہنچنے پر لکھی گئی۔ یہ نظم ’مارچ ۱۹۰۷ئ‘ کا عنوان رکھتی ہے جب مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت کا روپ دھارا۔ اب پارلیمانی نظام کاخنجر ہی وطنی قومیت کی لا دینی کے سینے میں اترنے والا خنجر نہ تھا تو اور کیا تھا؟ کیا ۱۹۴۶ء کے جداگانہ انتخابات نے اس خنجر کی کارفرمائی ثابت نہیں کر دی؟ تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپایدار ہو گا ۵۴؎ یہ ’’سکہ کھرا‘‘ تھا لیکن برطانوی اقتدار کے استحکام کے کام نہ آ سکا، کم عیار ثابت ہوا۔ کیا برطانیہ ہندستان کو جمہوریت اس لیے دے رہا تھا کہ اہلِ ہند آزادی کی نعمت سے ہم کنار ہوں؟ اور حاکم و محکوم کا فرق مٹے جس طرح کہ خود یورپ کے اندر ہوا تھا؟ نہیں بلکہ رعایات و حقوق کی یہ سیڑھی ایک فریب تھا، ہوم رول ایک خواب تھا، اقتدارِ اعلیٰ بہر حال غیر ملکی آمروں کے ہاتھ میں رہتا یہی مفہوم تھا دیوا ستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب کا۔ یہ نفسِ جمہوریت پر نہیں نفاذِ جمہوریت کے مقاصد پر چوٹ تھی۔ اسی لیے علامہ اسے آزادی کی نیلم پری سمجھنے والوں کو ’’نادان‘‘ لکھتے ہیں لیکن برطانیہ کے لیے ان کا یہی پیغام اور طرح ہے کہ برطانوی خواب بھی پورا نہ ہو گا: فرنگ آئین جمہوری نہاد است رَسن از گردنِ دیوے کشاد است زمن دِہ اہلِ مغرب را پیامے کہ جمہور است تیغ بے نیامے ۵۵؎ فرنگیوں نے نظام جمہوریت دے کر دیو کی گردن سے رسی کھول دی ہے اہلِ مغرب سے کہو: جمہوریت تیغ بے نیام ہے۔ عوام کی قوت بالآخر مسلم لیگ کو مسلم نمایندگی کا حق دلا کر پاکستان کی تخلیق اور ہندستان کی آزادی کی نوید لائی۔ اسی لیے تو علامہ نے محمد علی جناح کو لکھا تھا: مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی، جنھوں نے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دل چسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔۵۶؎ یہ انتباہ دراصل جمہوریت سے متعلق سٹڈل کی اس راے کے پیشِ نظر کیا گیا جس کو علامہ نے یوں نظم کا پیرایہ دیا: جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ۵۷؎ جو دانا اس راز کو جانتے ہیں وہی اقتدار رو اختیار کے مالک بنتے ہیں۔ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمایندگی کا بھر پور حق تب ملا جب اسے جمہور نے ووٹ سے نوازا۔ حکومت سازی کی حد تک علامہ نظامِ جمہوری سے بہتر کسی نظام کو نہیں سمجھتے البتہ ایک تو برطانوی انتظام کے تحت شہری اور پھر خاص مالی حیثیت کے مالک بندوں کو ووٹ کا حق دینا علامہ کو پسند نہ تھا وہ مفصّل کے لوگوں (مرکزی شہروں سے ہٹ کر تمام افراد) کو بھی ووٹ کا حق دلانا چاہتے تھے اس لیے کہ حضرت عمرؓ کا قول اس پرحجت تھی۔ ’’وہ انتخاب جو لوگوں کی جزوی راے کے اظہار پر عمل میں آیا ہو منسوخ و مسترد سمجھنا چاہیے‘‘۔ ۵۸؎ دوسرے یہ کہ قانون سازی محض اکثریت راے کے تحت نہیں بلکہ ’’وحی‘‘ کی تعلیم کے مطابق ہونی چاہیے کہ ع از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آید۵۹؎ جمہوریت میں ضابطہ پسندی کے جذبے کو فروغ دینے کا میلان پایا جاتا ہے ضابطہ پسندی فی نفسہٖ بری چیز نہیں لیکن بد قسمتی سے یہ خالص اخلاقی نقطہ نظر کو برطرف کر کے غیر قانونی اور غلط کو معناً مترادف قرار دیتی ہے۔ ۶۰؎ تاہم وہ قانون سازی (اجتہاد) کے لیے صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی کو موزوں جگہ سمجھتے تھے اور علما کی کسی بالا دست کمیٹی کو خصوصاً اہل ِ سنت کے لیے اور بھی خطرناک خیال کرتے تھے۔۶۱؎ کلیسائی اور اس سے پہلے یہودی لاویوں کی تاریخ نے شاید علامہ کو اس خطرے سے آگاہ کیا لیکن قرآن حکیم نے مسلمانوں کو قانون سازی (معاملات طے) کرنے کا جو سلیقہ سکھایا ہے اس کا تقاضا بھی وہی ہے جو علامہ نے لکھا اگر اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمکی گذشتہ بحث یاد ہو تو صرف یہ آیت کریمہ ہی لکھ دینا کافی ہے۔ وَ اِذَا جَآئَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَ مْنَ اَوِالْخَوْفِ اَذَا عُوْابِہِط وَلَوْرَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلٰی اُولیِ الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الّذِیْنَ یسَتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْط۔۶۲؎ یہ آیت کریمہ اولی الامر منھم کی نگرانی میں قانون سازی (اجتہاد) پر حجت کاملہ کا درجہ رکھتی ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ وطنِ عزیز میں ہر طرح مجلس شوریٰ کو بے دست و پا کرنا ہی اسلامی خدمت سمجھا جاتا ہے حالانکہ دین و سیاست میں دوئی کا اس سے بڑھ کر خطرناک کھیل اور کوئی نہیں کہ پارلیمنٹ سیاسی امور طے کرے اور علما کی کمیٹی مذہبی امور طے کرے پھر چنگیزی کو کون روک سکتا ہے؟ باہمی کش مکش تو لازمی ہے اور انجام کسی لوتھرکنگ کی تحریک۔ بہرحال جمہوریت پر علامہ کے اعتراضات کا تعلق بھی برطانوی ہند کے معروضی حالات سے متعلق تھا یا لا دینی کے حوالے سے ورنہ من حیث المجموع جمہوریت کو وہ عین اسلامی نظام سمجھتے تھے۔ خ اشتراکیت جمہوریت دشمن کلیسائی نوابوں کی ہٹ دھرمی نے نہ صرف کلیسا کو ویٹی کن سٹی تک محدود کرایا بلکہ راہبِ دیرینہ اور جمہوریت مخالف افلاطون کے اشرافی کمیونزم کی راہ بھی کھولی۔ تنازع للبقا نے سرمایہ و محنت کی جنگ میں نجی ملکیتوں کے خاتمے پر مبنی مارکسی نظامِ اشتراکیت سے روشناس کیا۔علامہ الارض لِلّٰہِ کے تو قائل تھے ہی اس لیے سرمایے پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کے خاتمے سے انھوں نے اسلامی معاشی نظریے کے دن پھرنے کا یقین کر لیا۔ جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ تھی اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار ۶۳؎ ’’العفو‘‘ ضرورت سے زیادہ کا انفاق تاہم یہ قافلہ، لا سلاطین، لا کلیسا سے آگے بڑھ گیا اور لا الہ تک جا نکلا یعنی اس کی یہ نفی والا عقلی گھوڑا الّا کے گرد باد میں الجھ کررہ گیا اور الّا تک نہ جا سکا۔ مثنوی پس چہ باید کرد اور جاوید نامہ میں خصوصاً لاو اِلاَّ کے حوالے سے بڑی بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ روسی بالشوزم یورپ کی عاقبت نا اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست ردِعمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں سکھائی ہے اسلام سرمایے کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرتِ انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے۔۶۴؎تاہم علامہ سرمایہ داری نظام سے کسی سمجھوتے پر راضی نہ ہو سکے اس لیے کہ یہ نظام اخوت و مروت کا دشمن ہے۔ اسلام ارتکاز زرکو ہلاکت سے تعبیر کرتا ہے۔ خ اہم نکات تہذیب مغرب پر علامہ کی تنقید، محض براے تنقید نہ تھی کہ اسے چلتے چلتے ایک بے وجہ ٹھوکر سے تعبیر کیا جا سکے۔ یہ انتہائی درجہ حکیمانہ تنقید، جہاں مسلمانوں کو الحاد سے بچانے والی تنقید ہے وہاں وہ خود مغرب کے لیے بھی (کہ بہر حال وہ بھی نبوت پر ایمان رکھتے ہیں) ایک فکری تازیانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ علامہ نے تہذیب مغرب کے ہر اس عنصر کی تحسین کی ہے جو انسانیت کے لیے، مسلمانانِ ہند کے لیے اور خود مغرب کے لیے مفید تھی اور ہے۔ البتہ انھیں تہذیب مغرب کی لا دینی کسی طرح پسند نہ آ سکتی تھی اس لیے وہ اس تہذیب کی خوبیاں اپنانے میں بھی احتیاط کی شرط رکھتے ہیں اور ان خوبیوں کو بھی جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں جھوٹے نگوں کی ظاہری چمک دمک سے محتاط رہنے کا سبب وہ خود بیان کرتے ہیں۔ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے مغربی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک (ذہنی اعتبار سے عالم اسلام کی مغرب کی طرف پیش قدمی) میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جو ہر ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں۔ ۶۵؎ حوالے و حواشی ۱۔ مصباح اللغات (عربی) ۲۔ پاکستانی کلچر، ص ۴۶ ۳۔ اقبال اور ثقافت ، ص ۹ (حرف تقدیم) ۴۔ کشاف اصطلاحات فلسفہ، ص ۱۰۹ ۵۔ اسلام کا ثقافتی نظام، ڈاکٹر کامل سوڈانی ، ص ۱۰ ۶۔ مذہب و تمدن۔ سید ابو الحسن علی ندوی، ص ۵۵ ۷۔ (Islam at the Cross Roads)، ص ۵۵ ۔ ۵۸ ۸۔ انٹرنیشنل انسائی کلو پیڈیا آف سوشل سائنسز ، جلد۲ (انگریزی)، ص ۸ ۹۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص۳۹۹ ۱۰۔ فکرِ اقبال، ص ۲۰۳ ۱۱۔ کلیات ِاقبال اردو، ص ۳۱۵ ۱۲۔ ایضاً، ص ۸۱ ۱۳۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۲۵۵ ۱۴۔ سورۃ البقرہ۲ : ۳۰ ۔ ۳۹، سورۃ الاعراف۷: ۱۷۲ ۱۵۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۶۵۶ ۱۶۔ سورۃ الاحزاب۲۳: ۲۱ ۱۷۔ سیرت ابن ہشام (عربی)، ص ۶۰۴ ۱۸۔ منارات السائرین۔ نجم الدین ابو بکر بحوالہ احادث مثنوی فیروز انفر ، ص ۴۱۔ ابن تیمیہؒ نے اسے حدیث تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ (اللوا لو المرصوع، ص ۶۱) ۱۹۔ قَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَاَلُوْتَ مَلِکاًط ( البقرہ۲: ۲۴۷) نبی کی زبان وحی ترجمان سے اللہ کے نامزد (امام منصوص) کو ملک کہا گیا ہے یہ نکتہ لائقِ توجہ ہے۔ ۲۰۔ طبری، جلد چہارم، ص ۱۱۲ ۲۱۔ سیاسی و ثیقہ جات، ص ۲۲، ۲۳ ذیلی دفعہ نمبر۷، دفعہ ۱۹ ۲۲۔ سورۃ النساء ۴: ۵۹ ۲۳۔ کلیات اقبال، فارسی ، ص ۷۵۲ ۲۴۔ سورۃ آل عمران۳: ۱۱۸ ۲۵۔ سورۃ النسائ۴: ۸۳ ۲۶۔ ایضاً: ۸۰ ۲۷۔ سورۃ الشوریٰ ۴۲: ۳۸ ۲۸۔ کلیاتِ اقبال، فارسی، ص ۱۱۹ ۲۹۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۳۶۱ ۳۰۔ ایضاً، ص ۱۴۱ ۳۱۔ ایضاً، ص ۱۶۱ ۳۲۔ کلیاتِ اقبال، فارسی، ص ۵۵۹ ۳۳۔ کلیاتِ اقبال، اردو ، ص ۳۳۲ ۳۴۔ ایضاً، ص ۶۶۱ ۳۵۔ علی الترتیب کلیات اقبال، اردو، ص ۲۷۴، ۵۵۵، ۲۲۵، ۴۵۴، ۶۴۸، ۳۲۲، ۴۱۰، ۵۴۸، ۳۵۴، ۶۰۲، ۳۳۵، ۳۷۰، ۳۵۶، ۴۰۰، ۳۳۹، ۴۰۰، ۲۳۲۔ علی الترتیب کلیات اقبال، فارسی، ص ۶۵۳، ۱۰۲۴، ۴۸۸، ۱۰۶۴، ۵۲۱ ۳۶۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۷۶ ۳۷۔ سورۃ النجم۵۳: ۳۔ ۴ ۳۸۔ سورۃ البقرہ ۲ : ۲۵۶ ۳۹۔ تشکیل جدید، ایضاً، ص ۲۹۱ ۴۰۔ اقبال نامہ، جلد دوم، ص ۲۸۲ ۴۱۔ کلیاتِ اقبال، فارسی، ص ۶۹۷ ۴۲۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۴۵۹ ۴۳۔ اقبال نامہ، جلد اول، ص۱۸۱ ۴۴۔ کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۴۹۸ ۴۵۔ اقبال نامہ، جلد ۲، ص ۵۶۔ ۵۷ ۴۶۔ تمدنِ ہند، اردو ترجمہ سید علی بلگرامی، ص ۲۳۴ ۴۷۔ کلیات ِ اقبال، اردو، ص ۲۴۸ ۴۸۔ ایضاً، ص ۱۶۰۔ ۱۶۱ (وطنیت) ۴۹۔ اقبال کے حضور، ص ۲۹۲ ۵۰۔ انوار اقبال، ص ۱۶۸ ۵۱۔ تشکیل جدید، ص ۲۴۳ ۵۲۔ علامہ اقبال ۱۹۳۱ء تک برطانوی اقتدار کو مسلمانوں کی سیاسی و ذہنی تربیت کے لیے مفید اور ضروری سمجھتے تھے۔ تو لیت اقوامِ___ کی اسی ضرورت کے تحت انھوں نے علی گڑھ کے طلبہ کو مشورہ دیا تھا ع رہنے دو خم کے منہ پہ تم خشتِ کلیسا ابھی (کلیاتِ اقبال، اردو، ص ۱۱۵)لیکن جب برطانیہ، جمہوریت مخالف اقدامات پر اُتر آیا تو علامہ نے بھی اس تصور میں تبدیلی کر دی اور برطانوی تولیت سے بھی آزادی کی فکر کو اپنایا۔ چودھری رحمت علی کی ’’پاکستان اسکیم‘‘ سے اقبال کی برأت کے اعلان کا کئی دوسرے عوامل کے علاوہ ایک سبب یہ بھی تھا۔ ملاحظہ ہو: مقالۂ اقبال اور پاکستان اسکیم، کتاب ہذا کا حاشیہ ۱۵۔ ۵۳۔ تھاٹس اینڈ ری فلیکشنز آف اقبال، ص ۵۱۔ ۴۲ ۵۴۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۱۴۱ ۵۵۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۶۶۰ ۵۶۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام، ص ۴۸ ۵۷۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۶۱۱ ۵۸۔ اقبال کے نثری افکار، ص ۲۰۰ ۵۹۔ کلیاتِ اقبال، فارسی، ص ۳۰۵ ۶۰۔ شذراتِ فکر اقبال، ص ۱۴۶ ۶۱۔ تشکیل جدید ، ص ۲۷۰۔ ۲۷۱ ۶۲۔ سورۃ النسائ۴: ۸۳ ۶۳۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۵۹۸ ۶۴۔ گفتار اقبال، ص ۷ ۶۵۔ تشکیل جدید، ص ۱۱ خ خ خ اقبال اور خاک مدینہ و نجف سہ ماہی صحیفہ اقبال نمبرشمارہ اکتوبر دسمبر ۱۹۸۷ء کے صفحہ ۱۳۱ پر ’’۱۹۸۶ء کا اقبالیاتی ادب‘‘ کے زیر عنوان جناب محمد حسن کی کتاب اقبال، اسلامی جمہوریہ پاکستان، جنرل محمد ضیاء الحق کا تعارف کراتے ہوئے فاضل مقالہ نگار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں: (یہ کتاب) اپنے نام کی طرح موضوعاً بھی دل چسپ ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’اقبال کو پرستار تو بہت مل گئے ہیں مگر سمجھ بوجھ سے باتیں کرنے والوں سے بے چارہ آج بھی محروم ہے۔ مصنف نے علامہ کی شاعری اور فکر کے بارے میں اپنے تاثرات و احساسات لگی لپٹی رکھے بغیر پیش کر دیے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقبال اس صدی کا ممتاز ترین شاعر ہے اور اس کے مرتبے کو دنیا کا کوئی شاعر نہیں پہنچ سکا۔ لیکن بیک وقت ایک اچھا شاعر ہونا اور ایک اچھا مسلمان ہونا بہت مشکل ہے۔ اقبال کے ہاں ان کے عقیدے اور شاعرانہ تقاضوں میں مسلسل تصادم ہوتا رہتا ہے۔ شاعر اقبال اکثر اوقات گمراہی کی حد تک شاعرانہ باتیں کر جاتا ہے مثلاً علامہ کا یہ شعر: غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل ۱؎ ’’ان کے بد عقیدہ ہونے کی کھلی علامت‘‘ ہے (ص۲۲) کیونکہ انھوں نے حسین ابن علی کا نام ایک پیغمبر کے ساتھ لیا ہے اور دونوں کو برابر مقام دیا ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف ۲؎ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ شاعروں کا مزاج قافیہ و ردیف کا ایسا پابند ہوتا ہے کہ عقائد ان کے سامنے ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں… مدینہ کے ساتھ نجف کو ایک ہی جذبے میں لانا کم ازکم ہم شدید بد مذاتی سمجھتے ہیں (کتاب زیر بحث ص ۲۲) میرا خیال ہے جناب محمد حسن کی شعر فہمی پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔جناب رفیع الدین ہاشمی اسے صرف شعر فہمی کا معاملہ سمجھ کر آگے بڑھ گئے لیکن ہمارا خیال ہے، معاملہ صرف شعر فہمی کا نہیں ایک ایسی شخصیت کو بدعقیدہ اور گمراہی کی حد تک شاعرانہ باتیں کرنے والا کہنا جسے قوم اس کے حینِ حیات حکیم الامت کا خطاب دے چکی ہے اور جس کی فکری کاوشوں کا ماحصل وہ پاک سر زمین ہے جس کی فضاؤں میں جناب حسن اور اس قبیل کے دوسرے ’’سمجھ بوجھ‘‘ رکھنے والے سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے جس وسیع علمی پس منظر کی ضرورت ہے یہ ’’سمجھ بوجھ‘‘ رکھنے والے نہ صرف یہ کہ اس سے بے بہرہ ہیں بلکہ بعض دینی تحریکات کے پھیلائے ہوئے مسلکی اور نظریاتی غبار نے اس سے ہمیشہ کی محرومی مقدر کر دی ہے۔علامہ اقبال نے ایسی ہی سمجھ بوجھ رکھنے والے کی نذریہ شعر کیا تھا: اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش اے گرفتارِ ابو بکر و علی ہشیار باش ۳؎ جناب محمد حسن کو اسماعیل کے ساتھ حسین کا نام اور خاکِ مدینہ کے ساتھ خاکِ نجف کا لایا جانا پسند نہیں آیا اور اپنی اس کو ر ذوقی کو انھوں نے اقبال کی بد مذاقی کہ دیا۔ جناب حسن کو کیا معلوم کہ اقبال نے ان دو اشعار میں دینی معاشرے کی تشکیل و تعمیر کے آسمانی نظام کی تاریخ منضبط کر دی ہے، انھیں کیا خبر کہ جس دینی معاشرے کی تاریخ حضرت اسماعیل ؑ کے ذبحِ عظیم سے آغاز ہوئی وہ حضرت حسینؓ کی شہادتِ عُظمیٰ پر ختم ہو گئی اور اس کے بعد بقولِ اقبال رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی ۴؎ اس دورِ الحاد میں اقبال ہی تھا جس نے مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرایا اور ثابت کیا کہ: نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا ۵؎ اسی نخل کا ایک پھل خلافتِ راشدہ کی صورت میں عالمِ انسانیت کو ملا۔ خاکِ مدینہ و نجف اسی دورِ ہدایت کے اول و آخر کے استعمار ہیں۔ جنابِ حسن کو خاکِ مدینہ میں الرسول آخر صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں استراحت فرما صدیق اکبر نظر نہیں آئے۔ ورنہ ان دونوں (صدیق اکبر اور علی المرتضیٰ) کے حوالے سے وہ اقبال کی عقیدت اور راست روی کوضرور سمجھ سکتے۔ یہ محض خوش گمانی یا تک بندی نہیں، ہم اس کی حقیقتِ واقعہ پوری تفصیل سے واضح کریں گے جو نہ صرف اقبال سے متعلق ’’سمجھ بوجھ‘‘ رکھنے والوں کی بد گمانی رفع کرنے کی ایک کوشش ہو گی بلکہ اس سے اسلام کی اجتماعی شورائیت کی علمی کوشش جمہوریت کو حُکْمُ النَّاسِ عَلَی النَّاسِ بتانے والی حکومتِ الٰہیہ کی چھیڑی ہوئی اختیار کی جنگ کی حقیقت بھی واضح ہو جائے گی۔ اقبال نے اتحادِ امت اور ملتِ واحدہ کے احیا کی بات جب بھی کی، دلِ مرتضیٰ ؓ اور سوزِ صدیقؓ کا حوالہ ضرور آیا: تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دلِ مرتضیٰ، سوزِ صدیق دے ۶؎ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی وطنی قومیت اور مسلکوں کی تفریق کے دوہرے عذاب کے درمیان اتحادِ امت کی کوئی کوشش ان دو حوالوں کے بغیر شرمندۂ تعبیر ہو ہی نہیں سکتی۔ کہ امامتِ امت کے حوالے سے وہ سیاسی جنگ جس نے امتِ واحدہ کو فرقہ فرقہ کر دیا، انھی حوالوں سے آغاز ہوئی۔ حالانکہ اس تفرقہ بازی کے شجرِ خبیثہ کی جڑ کاٹنے کی اولیت بھی انھی دو حوالوں کا نصیب تھی۔ شبِ ہجرت حضرتِ صدیق اکبرؓ (ثَانِی اثْنَیْنِ فِیْ الغَارِ) کو مقامِ نبوت کی حفاظت سونپی گئی۔ اور علی المرتضیٰ ؓ کو بسترِ رسالت پہ اس لیے چھوڑا گیا کہ آپ لوگوں کی وہ امانتیں لوٹا کر مدینہ تشریف لائیں جو حضورؐ کے جانی دشمنوں نے آپ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ حق تو یہ ہے کہ دونوں رفقا نے اس لمحے بھی اور اپنے اپنے عہدِ خلافت میں بھی اس فرض کو بکمالِ حسن و خوبی نبھایا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی طرف کم کم ہی توجہ دی گئی۔ حالانکہ شبِ ہجرت کے یہ فرائض مستقبل کے لیے بلیغ اشارے تھے۔ جن کا ثبوت تاریخ کے اوراق میں حرف بہ حرف لکھاگیا۔ صدیق اکبرؓ کو حضورؐ کے بعد مسلمانوں کی خلافت ملی، وفات سے قبل حضور اکرمؐ مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت اسامہؓ کے زیر سرکردگی لشکر کی تیاری و روانگی کا حکم دے چکے تھے۔ صدیق اکبرؓ کو بارِ خلافت اٹھانے کے بعد سب سے پہلے یہی معاملہ نمٹانا تھا۔ صورتِ حالات ایسی ابتر تھی کہ کسی لشکر کی روانگی بظاہر خطرناک نظر آتی تھی۔ تمام اہل الراے اس کی موقوفی پر متفق تھے۔ لیکن صدیق اکبرؓ کی ایک ہی بات تھی: مجھے کتے کھا جائیں یا بھیڑیے اچک لے جائیں تو وہ اس سے بہتر ہے کہ میں رسولِ آخر کے فیصلے کو بدلوں۔ لشکر اسامہ ضرور روانہ ہو گا۔ ۷؎ فاروق اعظمؓ نے راے دی۔ آپؓ کم از کم اسامہؓ کی کم سنی کے پیشِ نظر اسے امیر لشکر نہ بنائیں ممکن ہے اکابر صحابہؓ ان کے زیر سرکردگی جہاد میں شمولیت پر خوش نہ ہوں۔ اب تو صدیق اکبرؓ کا غیظ و غضب دیدنی تھا: اے عمرؓ تیری ماں تجھے روئے۔ اسے حضور نے مقرر فرمایا اور تو مجھے اسے ہٹانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ۸؎ لشکر روانہ ہوا۔ آپؓ دور تک ساتھ گئے اور رخصت کرتے ہوئے اعلان کیا اَنَا مُتَّبِعٌ وَلَا مُبْتَدِعٌ ’’میں رسول کا اتبا ع کرنے والا ہوں، بدعتی نہیں ہوں‘‘۔ افسوس کہ ہمارے ہاں صدیق اکبرؓ کے نام لیوا اس واقعے سے امام (حکمران) کا حق فائق تسلیم کرانے میں لگے ہیں اور اس کے لیے شوریٰ کے فیصلے مسترد کر سکنے کا اختیار ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ نہیں سوچتے کہ یہ اختیار امام (صدیق اکبرؓ) کا نہیں بلکہ الرسولؐ کا تھا۔ صدیق اکبرؓ نے اپنی راے سے شوریٰ کی راے مسترد نہیں کی تھی بلکہ الرسولؐ کے فیصلے نے شوریٰ کی راے کو مسترد کیا تھا۔ یہ فیصلہ فَاِنْ تَنَاَزعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ ۹؎ اور ’’وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَی الرَّسُوْلِ۱۰؎ کے فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق ہوا۔ اور شوریٰ نے اپنی راے واپس لے لی، سر تسلیم خم کر دیا ۔ اللہ اَولِی الْاَمِر حقیقی کا حکم اور اُولیِ الْاَ مْرِ مِنْکُمْ الرَّسُوْل کا فیصلہ مان کر صدیق اکبرؓ نے ’’اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ کے غیر مشروط حکم کی تشریح عملاً کر دی۔ کہ مفرض الطاعۃ اولی الامر منکم (امام المسلمین) صرف اور صرف الرسولِ آخرؐ ہیں۔ حضورؐ کے بعد کوئی اولیِ الامر منکم اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتا۔ اُولیِ الْاَمْرِ مِنْکُمْ کے ساتھ عوام یا عوام کے منتخب نمایندوں کا کسی مسئلے پر اختلاف (نزاع) آ جائے تو فیصلہ اللہ اور الرسول (مفرض الطاعۃ اولی الامر منکم) کے فیصلوں اور سنت کے مطابق ہو گا۔ اگر صدیق اکبرؓ شوریٰ کی راے قبول کر لیتے تو مقامِ نبوت (مفرض الطاعۃ اولی الامر منکم) ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پس پشت ڈال دیا جاتا۔ اور بعدِ رسول امام (حکمرانوں) کا حق فائق ثابت ہو جاتا۔ اور یوں رہتی دنیا تک امام (حکمران) نائبِ حق بن کر عوام کی گردنوں پر سوار ہو جاتے ۔ واضح رہے کہ الدین (الاسلام) میں انسانوں کے درمیان حاکم و محکوم کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں یہاں حکمران صرف اللہ تعالیٰ ہے (اولی الامر حقیقی) اور اللہ کے احکام پر عمل کا احسن نمونہ الرسولؐ کی سنت ہے۔ الرسولؐ کو اسی حوالے سے اولیٰ الامر منکم کہہ کر مفرض الطاعۃ کہا گیا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ میں جس اُولیِ الامر منکم کی اطاعت کا وجوب ثابت ہے وہ الرسول ہے اور واؤ تفسیری ہے۔ اُس الرسول کی اطاعت جو اُولِی الامر منکم کی حیثیت سے تمھارے درمیان موجود ہے۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اُولِی الامر منکم الرسول ہی تھے آپ کے فیصلے اور فیصلے کرنے کا طریقہ (سنت) تا قیامت واجب الاتباع ٹھہرے۔ آپ کو وَشَاوِرْھُم فِی الْاَمْرِج۱۱؎ کا مکلف اسی حیثیت سے بنایا گیا ورنہ بحیثیت الرسول تو آپؐ اپنی خواہش پر عمل کرنے کا حق بھی نہیں رکھتے تھے۔ وَمَالِی اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِی نَفْسِیْ ۱۲؎ یہ وحی تھی، قرآن۔ اولی الامر حقیقی کے احکام۔ ان پر عمل، الرسولؐ کے لیے بھی اسی طرح فرض تھا جس طرح کسی اور کے لیے۔ حضورؐ کی زبانِ وحی ترجمان سے فیصلے کرنے کا طریقہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سکھا دیا گیا۔ جب حکم ہوا۔ حالتِ امن ہو یا حالتِ جنگ کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو: وَلَو رُدَّوْہُ اِلَی الرَّسُولِ وَ اِلٰٓی اُوِلِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُو نَہٗ مِنْھُمْط۱۳؎ ترجمہ و تشریح: اس مسئلے کو الرسولؐ کے پاس لاؤ (اگر وحی نے معاملہ طے کر لیا تو ٹھیک، کہ الرسولؐ کا کام وحی پر عمل کرنا ہے )وَمَایَنَطِقُ عَنِ الْھَویٰ اِن ھُوَ اِلاَّ وَ حیٌ یُّوحیٰ) بصورت دیگر معاملہ الرسولؐ کے پاس بحیثیت اولٰی الا مر منھم آئے گا۔ اب بھی الرسول اپنی راے سے اس کا فیصلہ کرنے کی بجاے بحیثیت اولی الامر مِنْھُمْ (مشیر اول) یہ مسئلہ ان عوامی نمایندوں (مِنھم) کے علم میں لائیں گے جو استنباط کریں گے۔ آج الرسولؐ ہمارے درمیان موجود نہیں۔ صدیق اکبرؓ کے دور میں بھی الرسول موجود نہ تھے مگر الرسولؐ نے جاتے جاتے اس کا حل بھی بتا دیا تھا۔ تَرَکْتُ فِیکُمْ اَمَرَیْنِ کِتابُ اللّٰہِ وُ سُنَّتِیْ۱۴؎ میں (الرسول) تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتاہوں ان پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اللہ کی کتاب اور میری سنتِ یَاد رکھو ہر طرح کی بدعت گمراہی ہے ۔ صدیق اکبرؓ نے اعلان کیا اَنَا مُتَّبِع وَلَا مُبْتَدعٌ۔ میں بدعات کو راہ نہیں دوں گا۔ فیصلے کرنے کا سلیقہ سکھانے والی آیت مذکورہ بالا میں وَلَوَ رُدَّوُہْ اِلَی الرَّسُولِ۔ میں الرسولؐ کی جگہ قرآن و سنت نے لے لی (ترکت۔ الرسول نے قرآن و سنت چھوڑی ہے)۔ الرسول کا فیصلہ سامنے تھا، لشکرِ اسامہؓ کی تیاری اور روانگی کا حکم الرسولؐ دے چکے تھے۔ صدیق اکبرؓ اس پر عمل کرنے کے پابند تھے۔ آپؓ نے اس کی تعمیل کر کے مقامِ رسالت کا تحفظ فرمایا اور کسی آیندہ کے حکمران کے لیے برعکس کرنے کا کوئی جواز نہ چھوڑا۔ اگر الرسول کا فیصلہ موجود نہ ہوتا توپھر صدیق اکبر وَ اِلٰی اوُلی الْاَمْرِ مِنْھُمْ کے فرمان باری پر عمل کرتے اور لَعَلِمَہ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُونَہٗ مِنْھُمْ کے مطابق شوریٰ کا فیصلہ قبول کرنا ہوتا۔ یہ امام (حکمران) کاحقِ فائق کس آیتِ قرآنی یا سنتِ رسول سے ثابت ہے؟ … آیتِ مذکورہ میں اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ اور استنباط کرنے والے ایک ہی حکم میں شامل ہیں اس لیے دونوں ہی فریق حکمران اور شوریٰ اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ کے ذیل میںآتے ہیں وَ شَاوِرْھُمْ امر کا صیغہ ہے بابِ مفاعلہ سے جس میں مشورہ لینے والا اور مشورہ دینے والا دونوں ایک ہی حیثیت کے ہونے چاہییں۔ اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکُمْ اَنْ تُؤَئَ دوُّا الْاَمنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَالا۱۵؎ کے حکم کے مطابق حکمران اور شوریٰ دونوں کا عوام کے عطاکردہ اختیار سے لیس ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر دونوں حیثیتوں کا جامع ہونا ممکن نہیں۔ ماضی قریب کے طرزِ عمل کی شرعی حیثیت اس حوالے سے پرکھی جا سکتی ہے۔ حضرت علیؓ کے معاملے میں اس کی مزید وضاحت ہو گی۔ یہاں صرف یہی دکھانا مقصود تھا کہ صدیق اکبرؓ نے شبِ ہجرت کے تفویض کردہ فریضے کو اس لمحے بھی نبھایا اور عہدِ خلافت میں بھی۔ مقامِ نبوت کی حفاظت کر کے امام (نائبِ حق) کے لیے حقِ فائق کو بدعت ثابت کر کے، اس سے برأت کا اعلان کیا۔ اقبال نے سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ ۔ کہہ کر اسی عملِ صدیقی کے اتباع کا اعلان کیا۔ اس میں حسن صاحب کو بد مذاقی نظر آئی۔ (اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اَلِیْہْ رَاجِعُوْنَ) اب آئیے! خاکِ نجف کے استعارے کی جانب: خلیفۂ چہارم امیر المؤمنین حضرت علیؓ (مدفونِ نجف) خلیفۃ المسلمین تھے۔ امیر معاویہؓ آپؓ کی خلافت کے قیام کے قائل نہ تھے۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ وہ مستعفی ہوں اور وہ اہل الراے جو اُن کے انتخاب کے وقت مدینے سے باہر تھے، دوبارہ خلیفہ کا انتخاب کریں چاہے حضرت علیؓ ہی کو منتخب کر لیا جائے۔ واضح رہے کہ فاروق اعظمؓ نے اپنے عہد میں اہل الراے پر مدینے سے باہر جانے پر پابندی لگا دی تھی لیکن حضرت عثمان غنیؓ کی نرم دلی نے اس پابندی کو ناروا جان کر اٹھا لیا تھا۔ اہل الراے اس وقت مدینہ میں نہ تھے، جب حضرت عثمانؓ کے گھر کا گھیراؤ کر کے ان سے استعفا طلب کیا جا رہا تھا، اور بالآخر شہید کر دیے گئے۔ بہرحال حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان لڑی گئی جنگِ صفین کی حقیقی بنیاد امیر معاویہؓ کا درج بالا مطالبہ تھا۔ جنگ زوروں پر تھی کہ امیر معاویہؓ کے لشکر نے قرآن حکیم بلند کر کے تحکیم (ثالثی) کا مطالبہ کر دیا۔ حضرت علیؓ اسے مکمل شکست سے بچنے کا حربہ جان کر جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن آپؓ کے لشکری جن میں کثیر تعداد قبائل ربیعہ کی تھی، تحکیم قبول کرنے پر اصرار کرنے لگے بصورتِ دیگر علیؓ کے خلاف لڑنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ ناچار حضرتِ علیؓ آمادہ ہو گئے۔ جب حضرت علیؓ اپنی طرف سے حکم (نمایندہ ثالث) ابنِ عباسؓ کو بنانے لگے تو یہ قبائل ربیعہ کے افراد پھر بگڑ گئے ان کا اصرار تھا کہ ہمارا نمایندہ ابو موسیٰ اشعریؓ ہو۔ اس میں حکمت یہ تھی کہ ابو موسیٰ ؓ کو چونکہ حضرت عثمانؓ نے بصرے کی گورنری سے معزول کیا تھا اس لیے وہ یقیناایک امویِ فرد، امیر معاویہؓ کے خلاف فیصلہ دیں گے۔ وہ کیا جانتے تھے کہ حَبَّبَ اِلَیْکُم الْایْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۱۶؎ کے آسمانی سند یافتہ کیا ہوتے ہیں۔ فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف آیا۔ لشکریانِ علیؓ کے خواب بکھر گئے۔ معاملہ بگڑتے دیکھا تو دوہری چال چلی۔ تحکیم (ثالثی) کو دھاندلی کا الزام دیا اور حضرت علیؓ کو تحکیم پر آمادگی کی وجہ سے مشرک اور کافر بتایا۔ حالانکہ یہ سب کچھ خود ان کا کیا دھرا تھا۔ حکومتِ الٰہیہ (اِنْ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہ) کے پرچم بلند کرتے ہوئے نکل آئے۔ ان کا کہنا تھا: امام (نائب حق) نے عوام کوخلیفہ کے انتخاب کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ حضرت علیؓ نے اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہ کی اس تاویل کو باطل قراردیتے ہوئے اعلان کیا: عوام کو بہرحال ایک حکمران کی ضرورت ہے جو پوری قوت سے احکام نافذ کر سکے۔ ۱۷؎ اس لیے میں نے تحکیم قبول کر کے کوئی کفر یا شرک نہیں کیا۔ حکومت الٰہیہ کیا ہوتی ہے؟ اس کے دو مفہوم آپ کے سامنے ہیں، ایک لشکرِ علی میں شامل قبائل ربیعہ کا اخذ کردہ مفہوم جو اس مطالبے کے بعد خارجی کہلائے اور ایک حضرت علیؓ کا اخذ کردہ مفہوم جو دربار رسالت سے اقضا کم کی سند پا چکے تھے ۔ خارجی، تشکیلِ حکومت کے لیے عوام کے اختیار فیصلہ کو شرک سمجھتے تھے اور حضرت علیؓ حکمران اور حکومت کو عوام کی ضرورت بتاتے تھے اس لیے ان کے نزدیک وہی حکمران پوری قوت سے احکام نافذ کر سکتا ہے جو عوام کے عطا کردہ اس اختیار سے لیس ہو۔ مگر خارجی نہ مانے۔ معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا گیا۔ بالاخر ذوالفقارِ علیؓ بے نیام ہوئی۔ جنگِ نہروان میں خارجی گاجر مولی کی طرح کٹے جو جان بچا سکے کوفہ ان کی جاے پناہ ٹھہری۔ ان بچ رہنے والوں میں سے ہی ایک شقی عبد الرحمان ابن ملجم تھا۔ جس نے حضرت علیؓ پر قاتلانہ حملہ کر کے اپنے ساتھیوں کے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی۔ جسے اللہ تعالیٰ نے تھوڑی بہت فراستِ مومنانہ سے نوازا ہے وہ ان واقعات پر غور کرے گا تو اس نتیجے پر پہنچے گا کہ حالات و واقعات میں اختلاف کے باوجود پروردۂ رسالت صدیقؓ و علیؓ کے فیصلوں کی روح ایک ہی ہے۔ یہی روحِ ایمانی آج بھی ہمارے نظریات و اعمال میں دوڑ جائے تو اتحادِ امت میں ایک لحظہ کی بھی دیرنہیں لگ سکتی۔ ان واقعات سے جو اصول حاصل ہوئے قرآن و سنت کے عین مطابق ہیں: ۱۔ حکمران کے انتخاب کا اختیار عوام کی صواب دید پر ہے کیونکہ حکمران عوام کی ضرورت ہے۔ ۲۔ کسی ایسے مسئلے پر جس کی نظیر موجود نہ ہو عوام کی راے سنی جائے گی۔ اور عوام یا اُن کے نمایندوں کے لیے اس اختیار کو شرک بتانا باطل ہے (یہ حضرت علی کے فیصلوں سے ثابت ہے)۔ ۳۔ کسی بھی مسئلے پر عوام یا عوام کی سادہ اکثریت کا فیصلہ اُس وقت تک اجماع نہیں بن سکتا جب تک وہ قرآن و سنت کے مطابق نہ ہو۔ ۴۔ صرف قرآن و سنت کا حوالہ ہی ایسے اجماع کو رد کر سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اہل الراے ہی کا فیصلہ حتمی ہو گا اور کسی بھی امام کو اس کے استرداد کا حقِ فائق حاصل نہ ہو گا (یہ حضرتِ صدیق و علی کے مشترکہ فیصلوں سے ثابت ہے)۔ پہلے دو اصول اسلام کے شورائی نظام اور مغربی جمہوریت میں مشترک ہیں۔ اور دوسرے دو اصول مغربی جمہوریت اور اسلام کے اجتماعی شورائی نظام کا ما بہ الا متیاز۔ اس لیے نہیں کہ مغربی جمہوریت اس کی نفی کرتی ہے بلکہ اس لیے کہ جمہوریت سے قبل کلیسائی عہد بھی اس سے محروم تھا۔ اہلِ کلیسا نے جمہوریت کو لا دینی نظام اس لیے نہیںکہا تھا کہ اس میں مذہب کی بنیاد پر قانون سازی نہیں ہوتی بلکہ اس لیے کہ اس نظام نے اُن سے وہ خصوصی اختیار چھین لیے تھے جو انھیں امام (نائبِ حق) اور منزّہ عنِ الخطاء ہونے کی وجہ سے حاصل تھے۔ اسلام کا اجتماعی شورائی نظام کلیسائی نہیں کہ اہلِ کلیسا (علماء الناس) ہی آسمانی اختیار کے مالک ہوں اور عوام الناس کے لیے یہ اختیار طلب کرنا شرک ٹھہرے۔ یہ اصول، قواعد عربی ہی کے خلاف ہے۔ تفصیل میں تو جانے کا موقع نہیں لیکن یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ عام کی نفی، خاص کی نفی ہوتی ہے۔ جو اختیار عوام کے لیے شرک ہے وہ خواص (علماء الناس یا رؤساء الناس) کے لیے کیسے ثابت ہو گیا؟ کیا وہ شرک نہیں ہو گا؟ یہی کلیسائی پاپائیت کا طرۂ امتیاز تھا۔ اسی لیے تو اہلِ اصول عام کی نفی کو خاص کی نفی سے بہتر سمجھتے ہیں کہ عام کی نفی سے خاص کی نفی از خود ثابت ہو جاتی ہے اور بعض کو بعض کے لیے ارباباً من دون اللہ پکڑنے کی یہودی و نصرانی روایت کی جڑ کٹتی ہے۔ اپنے لیے یا کسی بھی مخصوص گروہ کے لیے اختیار ثابت کرنے کے حق میں جو بھی دلائل لائے جائیں گے وہ عوام کا اختیار ثابت کرنے کے کام آئیں گے کہ خاص کے لیے جو بات ثابت ہو، عام کے لیے از خود ثابت ہو جاتی ہے۔ ۱۸؎ اس بحث کی روشنی میں صدیقؓ و علیؓ رضوان اللہ کے فیصلے ایک بار پھر دیکھیے کتنے برحق کتنے صائب اور قرآن و سنت کی تعلیمات کا عکس ہیں۔ اقبال اسی حوالے سے خاک مدینہ و نجف کے استعارے لاتا ہے، اسی خاک کا سرمہ اُس کی آنکھوں کو وہ نورِ بصیرت دیتا تھا جو بقول اس کے شراب میں نشے کو دیکھ سکتا ہے۔ ایسی آنکھ جلوۂ دانشِ فرنگ (کلیسائی پاپائیت)کے تماشے سے خیرہ نہیں ہو سکتی۔ اور ایسے ہی افکار کی وجہ سے اقبال کو اپنے صوفی و ملا در حرم زاد و کلیسا را مرید ۱۹؎ نظر آتے تھے۔ _________________ حوالے و حواشی ۱۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۳۵۵ ۲۔ ایضاً، ص ۳۳۲ ۳۔ ایضاً، ص ۲۶۶ ۴۔ ایضاً، ص ۳۰۴ ۵۔ ایضاً، ص ۲۰۵ ۶۔ ایضاً، ص ۶۱۶ ۷۔ طبری ، ج ۳، ص ۴۴۶ ۸۔ ایضاً ۹۔ سورۃ النسائ۴: ۵۹ ۱۰۔ سورۃ ایضاً: ۴:۸۳ ۱۱۔ سورۃ آل عمران۳: ۱۵۹ ۱۲۔ سورۃ یونس۱۰: ۱۵ ۱۳۔ سورۃ النسائ۴: ۸۳ ۱۴۔ مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب الاعتصام باب ۳ بحوالہ موطا امام مالک ۱۵۔ سورۃ النساء ۴ : ۵۸ ۱۶۔ سورۃ الحجرات ۴۹: ۷ ۱۷۔ نہج البلاغہ ۴۰ واں خطبہ ۱۸۔ الاتقان فی علوم القرآن نوع، ۵۷، خبر و انشائ، ص ۱۸۹ ۱۹۔ کلیات اقبال، فارسی، ص ۸۳۲ خ خ خ اقبال اور فقہ اسلامی کی تدوینِ نو یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی، مذہب کو زندگی کے تمام شعبوں میں بطور اصل الاصول تسلیم کرانے میں بسرہوئی۔ انھوں نے ہر مناسب موقع پر یہ بات واضح کی کہ اسلامی ثقافت کو فنا کے گھاٹ اترنے سے بچانا ہے تو تعلیماتِ اسلامی کے چہرۂ انور سے مجوسی غلاف اتارنا ہو گا۔ فی الواقع پچھلی نصف صدی سے خصوصاً جمہوری اسلامی ممالک (استثناے ایران) میں احیاے اسلام کی تحریکوں کو جس مایوسی کا سامنا رہا ہے، وہ اسلام کی نہیں، اُس رجعت پسند مجوسی ذہنیت کی ناکامی ہے جس نے سادیت پسندی اور مذہبی پیشوائیت کے تصور کو احیا دیا۔ جب تک تو حید باری تعالیٰ اور خاتمیتِ رسالت و نبوت کی حقیقت ہمارے ہاں اسلامی جمہوری فلاحی معاشرت کی صورت میں جلوہ گر نہیں ہو جاتی۔ اسلامی ثقافت کے احیا کی کوششیں فاسد انڈے کی طرح بے کار اور لا حاصل رہیں گی۔ زندگی کے بارے میں علامہ کا تصور مجوسی تصور سکون کے برعکس حرکی تھا اس لیے زندگی کے نت بدلتے ہوئے احوال و ظروف میں مذہب کے بھرپور کردار کے حوالے سے وہ مذہب میں بھی اصولِ حرکت پر پختہ یقین رکھتے تھے، اور اسلام میں اصولِ حرکت کا ظہور صرف اور صرف اجتہاد میں ہوتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ نے مسلسل سوچا، ۱۹۰۴ء میں اپنے مقالے ’’قومی زندگی‘‘ میں جو ایبٹ آباد میں پڑھا گیا۔ امام علیؓ اور امام ابو حنیفہؒ کی فقہی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے بعد خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ایسا عالی دماغ مقنن، اب ناپید ہے جس کے قواے عقلیہ و متخیّلہ کا پیمانہ اتنا وسیع ہو کہ وہ قانون اسلامی کو مسلّمات کی بنیاد پر نہ صرف جدید پیرایے میں مرتب و منظم کر سکے بلکہ تخیل کے زور سے اصول کو ایسی وسعت دے سکے جو حال کے تمدنی تقاضوں کی تمام ممکنہ صورتوں پر حاوی ہو۔ لہٰذا وہ اس کام کی اہمیت کے پیش نظر ایک سے زیادہ دماغوں کی ضرورت کا ذکر کرتے ہیں جس کی تکمیل کے لیے بقول ان کے کم ازکم ایک صدی کی ضرورت ہے۔ تاہم وہ اس بحث کو (جس میں عورتوں کے حقوق، ایک بنیادی عمرانی ضرورت کے مطابق شامل ہیں) دو وجوہات سے ملتوی کر دیتے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ قوم ابھی ٹھنڈے دل سے اس قسم کی باتیں سننے کی عادی نہیں۔ اور دوسرے، اس لیے کہ ’’ملک چونکہ ابھی کسی قابلِ عمل نتیجے تک نہیں پہنچا۔ ۱؎ ۱۹۱۰ء میں اپنے انگریزی مقالے ’ ’ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں انھوں نے امتِ مسلمہ کو عمرانی تاریخ کا ماحصل ثابت کیا ’’قومی زندگی‘‘ میں تمام گذشتہ و موجودہ قوموں، چینی، ہندو، بنی اسرائیل، پارسی اور دیگر مغربی اقوام کے علاوہ ایشیا میں جاپانیوں اور فرنگستان میں اہل اطالیہ کے حوالے سے اہلِ ہند کی قومی زندگی کا جائزہ پیش کرتے ہوئے صرف اتنا کہا تھا: ’’اگرچہ یہ ساری قومیں، قومی زندگی کے اصل مفہوم کو ادا نہیں کرتیں‘‘، لیکن امتِ مسلمہ کو خیر الامم بتایا ہے اور اُس کے اندر فرقہ آرائیوں سے اس کے اتحاد و یگانگت کی کسی صورت کے ناپید ہونے پر اظہار افسوس کیا تھا۔ فقہ کی تدوینِ نو، ایک سے زیادہ دماغوں کے ذریعے دراصل اتحا دو یگانگت کی گویا واحد راہ تھی جس پر انھوں نے بھر پور غور و فکر کے باوجود وقت کی نامساعدت کے تحت تفصیلی راے سے اجتناب کیا۔ ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں وہ ایک بار پھر خیر الامم کے اتحاد و یگانگت کے لیے اقتصادی بہبود کے ساتھ ساتھ، فقہ کی تدوینِ نو کے حوالے سے امام ابو حنیفہؒ کے اجتہادی کام کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور زمان و مکاں کے احوال و ظروف میں ماضی سے رشتہ منقطع کیے بغیر جدید مسائل کے حل کی خاطر فقہ پر از سرِ نو غور کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ’’معتقداتِ مذہبی کی وجوہات‘‘ کو اسلامی تہذیب کی یک رنگی کے لیے لازمی قرار دیتے ہیں ۳؎ اور ایک اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کی تجویز دیتے ہوئے لکھتے ہیں: لیکن ہندستان میں اسلامی یونی ورسٹی کا قائم ہونا ایک اور لحاظ سے بھی نہایت ضروری ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ہماری قوم کے عوام کی اخلاقی تربیت کا کام ایسے علما اور واعظ انجام دے رہے ہیں جو اس خدمت کی انجام دہی کے پوری طرح اہل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کا مبلغ علمی اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم کے متعلق نہایت محدود ہے۔ اخلاق اور مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانے کے واعظ کو تاریخ ، اقتصادیات اور عمرانیات کے حقائق عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اور تخیل میں پوری دست رس رکھنی چاہیے۔ الندوہ، علی گڑھ کالج، مدرسہ دیو بند اور اسی قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کر رہے ہیں اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کر سکتے۔ ان تمام بکھری ہوئی تعلیمی قوتوں کا شیرازہ بند ایک وسیع تر اغراض کا دارالعلوم ہونا چاہیے جہاں افرادِ قوم نہ صرف خاص قابلیتوں کو نشوونما دینے کا موقع حاصل کر سکیں بلکہ تہذیب کا وہ اسلوبی سانچا تیار کیا جا سکے جس میں زمانۂ موجودہ کے ہندستانی مسلمانوں کو ڈھلنا چاہیے جس کے لیے اعلیٰ تخیّل، زمانے کے رجحانات کا لطیف احساس اور مسلمانوں کی تاریخ اور مذہب کے مفہوم کی صحیح تعبیر لازمی ہے۔ ۴؎ عامۃ المسلمین میں خاص قابلیتوں کے نشوونما کی ضرورت اور علما کی طرف سے مایوسی کا یہ اظہار اس کا متقاضی تھا کہ علامہ نے فقہ کی تدوین نو کے لیے جو راہ تجویز کی ہے اس کی نوعیت واضح ہو۔ جو نہ صرف زمان و مکاں کے احوال و کوائف پر پوری اترے بلکہ ملت کے اتحاد و یگانگت کا سبب بھی ٹھہرے۔ ۱۹۲۴ء میں علامہ کو ایک امریکی مصنف انجنیدز کے وہم کی تردید میں مقالہ لکھنا پڑا، اُس مصنف نے اپنی کتاب محمڈن تھیوریز آف اسلام میں لکھا تھا (اسلامی نظریہ ہاے مالیات مطبوعہ کولمبیا یونی ورسٹی) ’’بعض احناف اور مقزلہ کے نزدیک اجماع نص کو منسوخ کر سکتا ہے‘‘۔ چنانچہ علامہ نے ’’ہیئت اسلام میں حرکت کا اصول‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر اجتہاد کی ضرورت و اہمیت اور اس کے حدود و قیود واضح کیے۔ یہ مقالہ سر عبد القادر کی صدارت میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے حبیبیہ ہال میں دسمبر ۱۹۲۴ء میں پڑھا گیا۵؎۔ لیکن جیسا کہ پروفیسر غلام مصطفی تبسم کے نام ان کے مکتوب محررہ ۲ ستمبر ۱۹۲۵ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اپنی تحقیق سے مطمئن نہ تھے اس لیے یہ مقالہ شائع نہ ہو سکا۔۶؎ ۱۹۲۴ء سے ۱۹۲۹ء تک علامہ اور سید سلیمان ندوی کے مابین خط کتابت میں اس امریکی مصنف کے خیال کی تصدیق و تردید اور اجتہاد کے مسائل زیر بحث آتے رہے تاآنکہ ۱۹۳۰ء کے خطبہ الہ آباد میں ایک آزاد اسلامی ریاست کے تصور نے ملک کے لیے ’کسی قابلِ عمل نتیجہ‘ کی راہ روشن کر دی اور علامہ اقبال کے لیے یہ ممکن ہو گیا کہ وہ ۱۹۰۴ء والی اُس حالتِ احتیاط سے باہر نکل آئیں جس کے تحتِ اثر انھیں کہنا پڑا تھا: نیست جرأت بعرضِ حال مرا گلہ مندم ز بے زبانی ہا ۷؎ اور کسی بھی لومۃ لائم سے بے پروا ہو کر وہ نسخۂ کیمیا اثر بیان کر دیں جو منتخب حکمرانوں کی نگرانی میں قانون سازی کا سلسلہ منقطع ہونے اور ملوکیتوں کے قیام سے پہلے، اتحادِ ملی کا ضامن تھا۔ بالکل اُسی طرح جیسے کہ خلیفۂ عثمانی کے حالات کی دگرگونی نے علامہ کو خلافتِ اسلامیہ (۱۹۰۸ئ) اور ’’اسلام بحیثیت ایک اخلاقی و سیاسی نصب العین‘‘ (۱۹۰۹ئ) جیسے مقالات لکھنے پر اکسایاتھا جن میں علامہ نے پوری جرأت اور محنت سے تاریخ اسلامی کو کھنگالنے کے بعد واضح کیا تھا: اسلام ابتدا ہی سے اس اصول کو تسلیم کر چکا تھا کہ فی الواقع اور عملاً سیاسی حکومت کی کفیل و امین ملتِ اسلامیہ ہے نہ کہ کوئی خاص فرد واحد۔ ۸؎ اس لیے شریعت حقہ کے نزدیک جمہوریہ اسلامیہ کی بنا ایک مطلق آزاد مساوات پر قائم ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے نزدیک کوئی گروہ، کوئی ملک، کوئی زمین فائق و مرجح نہیں۔ اسلام کوئی مذہب پیشوائیت یا مشیخیت نہیں، نہ یہاں ذات پات اور نسل و وطن کا کوئی امتیاز ہے۔ از روے شریعتِ محمدیہؐ مذہب و سیاست میں کوئی فرق نہیں۔ گویا ہمارے نزدیک مذہب و حکومت کے یک جا کرنے کا نام سیاست نہیں بلکہ سیاست وہ عنصرِ غالب ہے جس میں اس قسم کے فرق و امتیاز کی گنجایش ہی نہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خلیفۃ المسلمین کو افضل ترین مذہبی پیشوا سمجھا جاے۔ روے زمین پر اُس کی حیثیت نائب خدا کی ہے وہ معصوم نہیں، بشر ہے۔ پیغمبر عربؐ فداہ امی وابی نے عربوں جیسی قوم کو اطاعت و اقتدار کی زنجیروں میں جکڑ دیا لیکن خود اپنے ذاتی اقتدار و حکومت کی مخالفت تمام دنیا سے بڑھ کر خود آپؐ نے کی، ارشاد فرمایا: ’’میں ایسا ہی بشر ہوں جیسے تم سب ہو، تمھاری طرح میری مغفرت بھی خدا کے رحم و کرم پر موقوف ہے‘‘۔ ۹؎ ان مقالات میں علامہ نے اہلِ مغرب کے جمہوری اثر کو ایک احسانِ عظیم سے تعبیر کیا اور انگلینڈ کے مدبرین کے اس جمہوری مشن کو انگلینڈ کے استحکام اور ہندستان میں مقصدِ اسلام کی بار آوری قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں: جمہوریت، اسلام کے سیاسی نصب العین کا نہایت اہم جزو ہے___ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلمانوں نے انفرادی آزادی کے اس جمہوری اصول کی خاطر اور ایشیا کے سیاسی ترقی کی خاطر کچھ نہیں کیا۔ جمہوریت ان میں صرف ۳۰سال رہی اور سیاسی پھیلاؤ کے ساتھ بکھر گئی۔ قدرت نے یہ کام مغرب کے لیے اٹھا رکھا تھا۔ قیام جمہوریت، عہدِ حاضر میں، انگلینڈ کا واحد مشن ہے اور انگریز مدبر اسے ان ممالک تک پہنچا رہے ہیں جو صدیوں سے مطلق العنانی اور جبر کے دردناک عذاب میں مبتلا ہیں۔ انگلینڈ کی ناگزیریت اسی اصول کے بتدریج نفاذ میں ہے۔ انگلینڈ اس طرح ہمارا عددی تحفظ ہی نہیں کرتا بلکہ وہ ہندستان کو عالمی سطح پر ایک عظیم اسلامی ملک بھی بنا رہا ہے۔ ۱۰؎ وہ مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں: فرقہ بندی اور طبقاتیت کے بت توڑ کر ایک ہو جائیں۔ انسانیت کو توہمات سے نجات دلانے کا بنیادی فرض کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے جب تک یہ فرض انجام دینے والے خود اُن زنجیروںسے آزاد نہ ہو جائیں۔ اسلام میں کوئی وہابی، سنی، شیعہ نہیں۔ حق کی تعبیر و تشریح پر لڑنے کے بجاے حق کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہو جاؤ کہ حق خود خطرے میں ہے۔ ۱۱؎ چنانچہ اصلاً اسی جذبے کے تحت علامہ نے وہ مضمون لکھا جسے ملی اتحاد و یگانگت کے لیے نسخۂ کیمیا اثر کہنا چاہیے یعنی The Idea of Ijtihad in the law of Islam یہ مقالہ ۱۹۳۰ء میں حیدر آباد دکن کے تاریخی دورے کے دوران پڑھا گیا اور اب ’الاجتہاد فی الاسلام‘ کے عنوان سے تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں چھٹے نمبر پر درج ہے۔ علامہ نے پہلے یہ بات واضح کی کہ نوعِ انسانی ایک ہے اور اس کی زندگی کا مبدا اصلاً روحانی ہے، عیسائیت کا ظہور ایک نظام رہبانیت کی شکل میں ہوا اس لیے اس میں ایک نظام اجتماعی کی گنجایش ہی نہ تھی لہٰذا قیصر جولین کو ایک بار پھر قدیم دیوتاؤں کی طرف رجوع کرنے اور ان کی تائید میں فلسفیانہ تاویلات سے کام لینا پڑا۔ ظہورِ اسلام کے وقت پوری دنیا کا یہی حال تھا۔ چنانچہ ظہور اسلام نہ صرف وقت کی ضرورت تھی بلکہ کسی ایسی سر زمین سے اس کا ظہور لازم تھا جو قدیم تہذیبی اثرات سے یک سر پاک ہو۔ تین براعظموں کے وسط میں آباد (اُمِّیِّیْن ) کی اس نئی تہذیب نے اتحادِ عالم کی بنیاد اصولِ توحید پر رکھی۔ جس کا تقاضا تھا کہ ہم صرف اللہ کی اطاعت کریں نہ کہ ملوک و سلاطین کی۔ اب چونکہ اللہ ایک قائم و دائم وجود ہے جسے ہم اختلاف و تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں اس لیے توحیدی معاشرے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ دوامی اصولوں کے ساتھ تغیر کی نفی اسے صفات الٰہیہ میں کُلَّ یومٍ ھُوَ فِیْ شَأْن کی آئینہ دار نہیں رہنے دیتی جیسے کہ یورپ کی ناکامی اور مشرق کے جمود سے ظاہر ہے۔ اسلام کی ہیئت ترکیبی میں اس دوام و تغیر کافریضہ اجتہاد سے ادا ہوتا ہے۔ حضرت معاذ ؓ سے یمن کا گورنر بناتے وقت حضورؐ نے پوچھا: معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ جواب ملا: کتاب اللہ کے مطابق، فرمایا: بصورتِ دیگر؟ تو جواب ملا: اللہ کے رسول کی سنت کے مطابق لیکن سنتِ رسول ؐ بھی ناکافی ٹھہری تو؟ اس پر حضرت معاذؓ نے کہا: پھر میں خود ہی راے قائم کرنے کی کوشش کروں گا۔ حضورؐ نے دعا دے کر رخصت کیا۔ علامہ نے اس پر بحث نہیں کی بلکہ فتوحات میں اضافے کے حوالے سے قانون میں باقاعدہ غور و فکر کی ناگزیری سے مشہور فقہی مذاہب کی تدوین کے ظہور کا اشارہ دیا اور اجتہاد کے تین درجات کا ذکر چلایا۔ ۱۔ تشریح یا قانون سازی میں مکمل آزادی، جس سے آئمۂ مذاہب ہی نے فائدہ اٹھایا۔ ۲۔ محدود آزادی جو کسی مذہب فقہ کے حدود کے اندر رہ کر ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ ۳۔ وہ مخصوص آزادی جس کا تعلق ایسے مسئلے میں قانون کے اطلاق سے ہے جسے بانیانِ مذاہب فقہ نے جوں کا توں چھوڑ دیا ہو۔۱۳؎ علامہ نے اپنی بحث کے دائرے کو شق اول تک محدود رکھا۔ قرآن پر مدار رکھنے والے فقہی مکتب (اہل سنت والجماعت) کی طرف اسے اجتہاد پر قدغن پر اظہارِ حیرت کر کے آزادانہ فقہی سوچ بچار کے ضمن میں جمود کے اسباب بیان کیے اور اس جمود کے حوالے سے مغربی محققین کے اس خیال کو تسلیم نہیں کیا کہ فقہا نے یہ قدغن ترکی کے حالات کے پیشِ نظر عائد کی۔ بلکہ بقول اُن کے حد سے بڑھی ہوئی عقلیت اس قدغن کی اصل وجہ تھی۔ قدیم علما نے تحریکِ عقلیت کو ایک انتشار خیز قوت خیال کیا جس سے بحیثیت ایک نظامِ مدنیت، اسلام کا استحکام ختم ہو جانے کا خطرہ تھا اسلام کا وجودِ اجتماعی برقرار رکھنے کے لیے ان کے پاس قوانین کے اندر سختی پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ فقہا کی لفظی حیلہ تراشیوں کے خلاف تصوف کا وجود، بھی آزاد خیالی کی تحریک ثابت ہوا اور رفتہ رفتہ جب اس میں اگلی یا دوسری دنیا کی روح سرایت کرتی چلی گئی تو اسلام کا یہ نہایت اہم پہلو کہ یہ ایک نظام مدنیت بھی ہے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہو گیا۔ ۱۴؎یہ سب عالمانِ کم نظر کی کج بحثیوں کا ثمر تھا۔ علامہ نے ۱۹۰۸ئ، ۱۹۰۹ء کے مقالات میں علما کی ناکامیوں کا ذکر کیا تھا لیکن ۱۹۱۸ء میں اپنی مثنوی رموز بے خودی میں ’’در معنی ایں کہ در زمانۂ انحطاط تقلید از اجتہاد اولیٰ تراست‘‘ پر ایک باب باندھا ہے۔ فرماتے ہیں: مضمحل گردد چو تقویم حیات ملت از تقلید می گرد ثبات راہِ آبا رو کہ ایں جمعیت است معنیِ تقلید ضبطِ ملت است نقش بر دل معنیِ توحید کن چارۂ کارِ خود از تقلید کن اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد حیات ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر اے کہ از اسرارِ دیں بیگانہ ای بایک آئیں ساز اگر فرزانہ ای۱۵؎ اس ’’یک آئینی‘‘ کی راہ کیا تھی؟ اس کا جواب اس نکتے میں مضمر ہے جو علامہ نے پیش کیا یہ قدغن، یہ جمود گویا معاشرے میں تبدیلی کی صلاحیتوں کے نہ ہونے کا اقرار تھا۔ چنانچہ امام ابن تیمیہؒ اور امام سیوطیؒ نے اس قدغن کو توڑا ہے لیکن ابن تیمیہؒ کا نقطۂ نظر قانونی امور میں حدیث ہی میں منحصر ہونے سے غیر تنقیدی ہو گیا اور امام سیوطیؒ اتنے آگے نکل گئے کہ ہر صدی کے بعد ایک مجدد کے احتیاج پر زور دیا۔ ابن تیمیہ کی تحریک نے تحریک وہابیت کو جنم دیا جو مسلمانوں کی زندگی میں اولین اور ہمہ گیر ارتعاش تھا۔ ایشیا ہو یا افریقہ، عالمِ اسلام کی یہ تحریک اسی عربی احتجاجیت کی عجمی صداے بازگشت تھی۔ تاہم غیر تنقیدی نقطۂ نظر نے یہاں بھی وہ اثرات نہ دکھائے جن کی ضرورت تھی۔ ۱۶؎ ترکی کے سیاسی و مذہبی افکار میں اجتہاد کو عہدِ حاضر کے فلسفیانہ خیالات نے خوب خوب تقویت پہنچائی۔ عالم اسلام کو نشاَتِ ثانیہ ترکی ہی کی طرح اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدر و منزلت کا جائزہ لینے پر مجبور کر دے گی۔ حزبِ وطنی نے مغربی اثرات کے تحت مذہب اور ریاست کو الگ کر دینا ضروری خیال کیا حالانکہ اسلام نے روحانی اور مادی (دینی اور دنیوی) عالم کا الگ الگ تصور دیا ہی نہیں۔ ۱۷؎اسلام ایک واحد اور ناقابلِ تجزیہ حقیقت ہے جس کا ایک رخ دنیوی ہے اور دوسرا دینی۔ یہ روح ہی تو ہے جسے زمان و مکاں کے حوالے سے دیکھا جائے تو مادے کی شکل اختیار کر لیتی ہے: لہٰذا انسان عبارت ہے جس وحدت سے جب اس کے اعمال و افعال کا مشاہدہ عالمِ خارجی کے حوالے سے کیا جائے تو ہم اسے بدن، لیکن جب ان کی حقیقی غرض و غایت اور نصب العین پر نظر رکھی جائے تو اُسے روح کہیں گے۔ گویا بحیثیت ایک اصولِ عمل، توحید اساس ہے حریت مساوات اور حفظِ بنی نوع انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو از روے اسلام ریاست کا مطلب ہو گا ہماری یہ کوشش کہ یہ عظیم اور مثالی اصول، زمان و مکاں (مادی احوال و ظروف) کی دنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ وہ گویا ایک آرزو ہے۔ ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشریٰ میں مشہود دیکھنے کی، لہٰذا اسلامی ریاست کو حکومتِ الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں، ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمام کسی ایسے خلیفۃ اللہ فی الارض کے ہاتھ میں دے دیں جو اپنی مفروضہ محصومیت کے عذر میں اپنے جورو استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔ ۱۷؎ حضور اکرمؐ نے ساری دنیا کو ہمارے لیے مسجد قرار دے کر کسی ناپاک دنیا کا یہودی و نصرانی تصور ہی ختم کر دیا ہے۔ لہٰذا سلامی نقطۂ نظر سے ریاست کے معنی ہوں گے ہماری یہ کوشش کہ ہم جسے روحانی کہتے ہیں اس کا حصول اپنی ہیئت اجتماعیہ ہی میں کریں۔ یعنی ریاست و کلیسا کی دوئی کے برعکس انفرادی زندگی کی طرح اجتماعی زندگی میں بھی اسے نافذ کریں۔ چنانچہ ایسی ریاست (جغرافیائی حدود) اور مذہب میں مغایرت نہیں رہتی۔ ترکوں نے یہ دوئی مغربی سیاست کی تاریخ افکار سے اخذ کی ۔ عیسائیت ایک نظام رہبانیت تھا جو اس ناپاک دنیا میں قائم کیا گیا لہٰذا امورِ دنیوی سے غیر متعلق رہا۔ انھوں نے ہر معاملے میں رومی حکومت کی فرمان برداری کی لیکن جب سلطنتِ روما نے اسے بطور مذہب قبول کر لیا تو کلیسا و ریاست کے درمیان اختیار کی جنگ چھڑ گئی۔۱۸؎ جب کہ اسلام کا ظہور بطور ایک اجتماعِ مدنی کے ہوا ہے اور قرآن مجید کی بدولت اسے وہ سادہ اور صاف قوانین مل گئے جن میں تعبیر و تاویل کے ذریعے مزید وسعت کے امکانات تاریخ سے ثابت ہیں۔ یہی وزیراعظم ترکی سید حلیم پاشا کا تجزیہ ہے۔ حزب ملی اور حزب وطنی ترکی کے افکار اور مجلسِ ملّی کے قیام سے ترکوں کا جو اجتہاد سامنے آیا ہے اولاً اس کا نتیجہ یہ ہے کہ’’ اسلامی تعلیمات کی رو سے منصبِ خلافت کسی فردِ واحد کا حق نہیں اسے افراد کی ایک جماعت بلکہ کسی منتخب شدہ مجلس کے ذمے بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ۱۹؎ علامہ کے نزدیک ترکوں کا یہ نقطہ نظر سرتا سر درست ہے اتنا درست کہ اس کی تائید میں کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ ایک تو جمہوری طرزِ حکومت، اسلام کی روح کے عین مطابق ہے ثانیاً اگر ان قوتوں (خانوادوں اور قبیلوں کی بجاے سیاسی جماعتوں) کا بھی لحاظ رکھ لیا جائے جو اس وقت عالم اسلام میں کام کر رہی ہیں تو یہ طرزِ حکومت اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔۲۰؎ مجلسِ ملی کے قیام نے جدید جمہوری ریاستوں کے قیام کی صورت میں منتخب پارلیمنٹ کے حقِ اجتہاد (شرعی قانون سازی کے حق کو) تسلیم کر لیا ہے۔ اس طرح عالم گیر خلافت کا تصور نہیں رہا۔ علامہ اقبال اس تحریک کا جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔ اس انتباہ کے بعد علامہ نے اسلامی قانون کے مآخذ کا ذکر کیا ہے یعنی قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔ ۱۔ قرآن علامہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد کہ زندگی مسلسل تخلیقی عمل ہے بجاے خود اس امر کا مقتضی ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل اسلاف کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسائل آپ حل کرے، یہ نہیں کہ اسے اپنے لیے روک تصور کرے۔ ۲۱؎مطلب یہ کہ قدامت پسند قوتوں کی قدرو قیمت اور وظائف کو فراموش نہ کیا جائے لیکن نظامات فقہ کو اٹل اور ابدی بھی تصور نہ کیا جانا چاہیے کہ بہرحال وہ افراد ہی کی ذاتی تعبیرات کا نتیجہ ہیں۔ ۲۲؎ قرآن مجید نے مشاورتِ عامہ کو مسلم سوسائٹی کا اصل الاصول قرار دے کر منتخب مسلم حکمران کو اولی الامر منھم کے خطاب سے یاد کیا ہے۔ قرآن مجید کی یہ نادر اصطلاح خلیفہ و ملک جیسے خطابات سے انتہائی مختلف ہے۔ مسلمانوں پر واجب کر دیا گیا ہے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے اللہ اور الرسول کی طرف رجوع کریں۔ اللہ اور الرسول کی اطاعت میں کوئی مغایرت نہیں مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہِ اس لیے کہ الرسولؐ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحَیٌ یُّوْحیٰ کے مقام بلند پر فائز ہے۔ لہٰذا اللہ اور الرسول کی طرف رجوع کا مطلب قرآن کی طرف رجوع کرنا ہے اور الرسول ہی مسلمانوں کے پہلے منتخب اولی الامرمنھمہے۔ اس لیے ازروے قرآن آپؐ کی اس حیثیت میں بھی اطاعت کو واجب کر دیا گیا ہے اور خود الرسولؐ نے بحیثیت اولِی الْاَمْر مِنْھُمْ اس حکم کی تعمیل کی اور اعلان کیا وَمَا یَکوُنَ لِیْ اَنْ اُبدَِّ لَہٗ مِنْ تِلْقَایِٔ نَفْسِیْ۔ اس لیے اجماع کی کوئی بھی صورت ہو وہ نص (وحی) کی تنسیخ کا حق نہیں رکھتی۔ اجماع کو قرآن کا تابع ہونا ہو گا۔ اور اسی رو سے سنت کا بھی جیسے کہ آگے حدیث کے ذیل میں آئے گا۔ ۲۔حدیث چونکہ اس مذکورہ آیت کریمہ اطیعُوا اللّٰہ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اوُلِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ کے نزول کے وقت الرسولؐ خود اولی الا مر منکم کے منصب پر فائز تھے لہٰذا اس حیثیت میں بھی آیتِ مذکورہ آپؐ کی اطاعت کو واجب قرار دیتی ہے۔ اور چونکہ بحیثیت اولی الامر منکم، الرسول کو بھی وشاورِ ھُم فِی الْاَمْرِ کا مکلف بنایا گیا ہے لہٰذا مشاورتِ عامہ، آپؐ کی سنت ہے جو بہرحال واجب الاتباع ہے۔ سنتِ فعلی تو مشاورتِ عامہ ہے جو انفرادی اجتہاد کی راہ روکتی ہے اور اجتماعی اجتہاد سکھاتی ہے۔ وَلَوْ رَدُّوہ اِلَی الرَّسُولِ وَ اِلٰی اُولی الْاَمْرِمِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۔ علامہ اسی کے حامی ہیں۔ اور سنتِ قولی، الرسولؐ کی وہ تشریحات جو آپؐ نے احکامِ قرآنی کے حوالے سے دیں۔ جن کا واجب الاتباع ہونا الرسولؐ کی سنت کی طرح ہے۔ لہٰذا علامہ عراق و حجاز کے اختلاف کے حوالے سے مجرد غور و فکر کے خاتمے کے ساتھ احادیث سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ البتہ وہ ایسی احادیث کو جن کی حیثیت سرتا سر قانونی ہے ایسی احادیث سے الگ کرنے کی تجویز دیتے ہیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ پھر ایسی احادیث کا مطالعہ اور استعمال یہ سمجھتے ہوئے کرنے پر زور دیتے ہیں کہ: وہ کیا روح تھی جس کے ماتحت آنحضرتؐ نے احکامِ قرآنی کی تعبیر فرمائی تاکہ ان قوانین کی حیاتیاتی قدرو قیمت کے فہم میں اور بھی آسانی پیدا ہو جائے جو قرآنِ حکیم نے قانون کے متعلق قائم کی ہے۔ ۲۳؎ (جہاں تک مجھے معلوم ہے علامہ کی تدوینِ حدیث سے متعلق اس خواہش کو ابھی تک علما نے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا) بہرحال علامہ حدیث کو بھی ازروے قرآن، اصل الاصولِ ثانی تسلیم کرتے ہیں یوں علامہ کا محاکمہ گویا عراقی و حجازی اسلوب تفقہ کے اجتماع سے عبارت ہے۔ جہاں مجرد غور و فکر کی بجاے حدیث بنیاد ہو گی اور صرف حدیث پر تکیہ کر کے قیاس سے کام نہ لینے کی حجازی رسم بھی نہ رہے گی۔ یوں عراقی تجزیہ و تحلیل اور حجازی اندازِ دوامی بطریقِ استخراج و استقرا زمان و مکاں کے احوال و ظروف میں ارتقائی منازل طے کرتے رہیں گے۔ ۳۔ اجماع اجماع نہ تو قرآن و سنت کا ناسخ ہو سکتا ہے نہ ہم پلّہ۔ اجماع تو معروضی حالات میں قیاس کا تابع ہے جو ابدی نہیں ہو سکتا سواے اس اجماع کے جو امرِ واقع کے تحت ہو مثلاً معوذتین کو قرآن کا حصہ تسلیم کرنا۔ اس کے شاہدِ عادل صحابہؓ ہیں اس لیے یہ اجماع ابدی اور امرِ واجب ہے۔ لیکن جو اجماع قیاس پر مبنی ہو وہ امر واجب نہیں البتہ ایک بہترین نظیر ضرور ہے۔ جس سے قیاس میں مدد لی جا سکتی ہے۔ فقہِ اسلامی کا یہ تیسرا ماخذ بقولِ اقبال اسلام کے قانونی تصورات میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ ۲۴؎صدرِ اسلام میں اسے ایک مستقل ادارے کی صورت مل جاتی لیکن اموی اور عباسی خلفا کا فائدہ اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے اس کی بجاے، کہ اس کام کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو، جو بہت ممکن تھا کہ اُن (خلفا) سے بھی زیادہ طاقت حاصل کر لیتی۔ بہرحال یہ دیکھ کر اطمینان ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا میں جو نئی نئی قوتیں ابھر رہی ہیں کچھ ان کے اور کچھ مغربی اقوام کے سیاسی تجربات کے پیشِ نظر مسلمانوں کے ذہن میں بھی اجماع کی قدرو قیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔ بلاداسلامیہ میں جمہوری روح کا نشوونما اور قانون ساز مجلس کا بتدریج قیام ایک بڑا ترقی زا قدم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ مذاہبِ اربعہ کے نمایندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں اپنا یہ حق‘ مجالس تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس لیے اس وقت ممکن بھی ہے تو اجماع کی یہی شکل۔ مزید برآں عامۃ المسلمین بھی، جو، ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو جو ہمارے نظاماتِ فقہ میں خوابیدہ ہے از سرِ نو بیدار کر سکتے ہیں یوں ہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمحِ نظر پیدا ہو گا۔۲۵؎ ہندستان میں یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیونکہ ایک غیر مسلم مجلس کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو گا۔ ۲۶؎یہی وہ مشکل تھی، علامہ ۱۹۰۴ء میں جس کے پیش نظر اس موضوع پر راے دینے سے مجتنب رہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز مجلس قائم ہو گی اس کے ارکان زیادہ تر فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہوں گے۔ اس سوال اور اس جیسے دوسرے سوالات کے حوالے سے علامہ نے دو تجاویز دی ہیں: ۱۔ علما کو پارلیمنٹ کا جزو بنا دیا جائے البتہ علما کی کسی بالا دست کمیٹی کا قیام بہرحال خطرناک ہو گا۔ ۲۔ علما بھی کسی بالادستی کے خواب کے بجاے مجالسِ قانون ساز میں ہر امر قانونی میں آزادانہ بحث اور اظہارِ راے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ ۳۔ بلادِ اسلامیہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے اس کی اصلاح کی جائے اور نصاب میں مزید توسیع کے ساتھ ساتھ جدید فقہ کا مطالعہ بھی با حتیاط اورسوچ سمجھ کر کیا جائے۔ (یعنی دینی مدارس، فقہی مکاتبِ فکر کی بجاے دینی بنیادوں پر قائم ہوں) ۲۷؎ ۴۔ قیاس اگر ہم حضرت معاذؓ ابن جبل سے متعلق روایت پر غور کریں تو قیاس، یعنی قانون سازی میں قرآن و سنت میں کسی واضح نص نہ ہونے کی صورت میں، مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا ہی، اجتہاد کا اصل آلہ نظر آتا ہے۔ قیاس بھی دراصل مجرد غور و فکر کا نام نہیں اور نہ محض مجلسِ ملی یا پارلیمنٹ کے اکثریتی فیصلے کا نام ہے۔ یہ قرآن و سنت اور امر واقعی میں صحابہؓ کے اجماع کی روشنی میں غور و فکر سے عبارت ہے۔ اور جیسا کہ اجماع کے تحت گزر گیا امورِ قانونی میں اجماع بھی ابدی نہیں ہو جاتا، تو ہر دور میں قیاس کی حجت قائم ہو جاتی ہے اور اگر اجتہاد کی شرائط میں قیاس بھی ایک شرط ہے تو مسلم ریاستوں میں قانون کا ماخذ قرآن و سنت ہونا چاہیے اور ایسے فقہی مسلک کو شریعت کا درجہ دے کر اس کے نفاذ کے درپے نہ ہو جانا چاہیے ، جو اُس فقہی مسلک کے علما تک محدود اور مسلم اکثریت کے اجماع سے محروم ہو۔ علما کو اس سے گھبرانا نہ چاہیے۔ وہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر، پارلیمنٹ میں اپنا جوہرِ قابل بھیجیں اور پارلیمنٹ کے حق اجتہاد کو تسلیم کر لیں تاکہ مسلم ملی جمعیت کے احیا کا عمل تیز ہو سکے اور اسلام پر لگی مجوسیت کے سکونی تصور کی چھاپ مٹ جائے۔ اس کے برعکس سوچنے سے ، نصف صدی ضائع ہو چکی ہے۔ آج اجتہاد کی زیادہ آسانیاں میسر ہیں۔ قرآن و سنت میں تفاسیر و شروح کا ذخیرہ اس حد تک وسیع ہو چکا ہے کہ آج کے مجتہدین کے پاس بہ نسبت سابقین کے تعبیر و ترجمانی کا کہیں زیادہ سامان موجود ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ختمِ نبوت کے حقیقی ثمر (استخلاص از آمریت و پیشوائیت) سے انسانیت کو بہرہ ور کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور راستہ نہیں۔ اس کے علاوہ حکومتِ الٰہی کا ہر تصور باطل ہے۔ جہاں تک شریعتِ اسلامیہ کی غلط تعبیرات کے خدشے اور خوف کا تعلق ہے وہ بھی بے وزن نہیں مگر اس کا حل بھی موجود ہے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں: با ایں ہمہ شریعتِ اسلامیہ کی غلط تعبیرات کا سد باب ہو سکتا ہے تو صرف اسی طرح کہ بحالتِ موجودہ بلادِ اسلامیہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے اس کی اصلاح کی جائے۔ فقہ کا نصاب مزید توسیع کا محتاج ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ فقہِ جدید (قانون سازی کے لیے اختیار کردہ جدید انداز) کا مطالعہ بھی باحتیاط اور سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ ۲۸؎ خلاصۂ کلام یہ کہ: ۱۔ علامہ اقبال کے نزدیک زندگی کے بارے میں اسلام کا تصورِ حیات، مجوسی سکونی تصور کے برعکس حرکی تھا اور اسلام کا اصولِ حرکت ان کے بقول اجتہاد میں ظہور پاتا ہے۔ اس لیے حیاتِ ملّی کا جمود توڑنے کے لیے اجتہاد یعنی فقہِ اسلامی کی تدوینِ نو ضروری ہے۔ ۲۔ علامہ اقبال خوارج کے برعکس، جمہوریت کو عین اسلام سمجھتے تھے اور فقہی اختلافات کے خاتمے اور اتحادِ ملی کے احیا کی خاطر مجلس ملی (مسلم پارلیمنٹ) کو شرعی قانون سازی یا اجتہاد کا اختیار دینے کی پر زور تائید کرتے ہیں اور اس ضمن میں علما کی کسی بالادست کمیٹی کو انتہائی خطرناک خیال کرتے ہیں۔ ۲۔ علامہ تجویز کرتے ہیں کہ علما پارلیمنٹ کا حصہ بن کر، آزادانہ بحث میں رہنمائی کا فرض ادا کریں۔ ۳۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی کے حوالے سے قانون سازی کے جدید اسلوب کو بھی فقہی نصاب کا حصہ بنانے اور ایک اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک موجود دینی و مذہبی ادارے بوجوہ یہ کام انجام نہ دے سکیں گے۔ حوالے و حواشی ۱۔ اقبال کے نثری افکار، ص ۷۰ ۲۔ ایضاً، ص۱ ۶۔ جن لوگوں کو یہ وہم ہے کہ اقبال یورپ جانے کے بعد تصورِ ملّت سے آگاہ ہوئے ان کے لیے اقبال کی ۱۹۰۴ء کی یہ فکر انگیز تحریر فکری تازیانے کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ تمام اقوامِ عالم کو قوم کے اصل مفہوم پر پورا اترتا نہیں دیکھتے لیکن فرقہ واریت کی شکار قومِ مسلم کو خیر الامم لکھتے ہیں۔ ۱۹۱۰ء کا مقالہ ’ملتِ بیضا پر عمرانی نظر‘ اس امت کو خیر الامم ہونے کے ناتے قویِ ترین محکم اور آخری عمرانی حوالہ ثابت کرتے ہیں۔ ۳۔ ایضاً، ص ۲۲۸ ۴۔ ایضاً، ص ۲۳۶۔ ۲۳۷ ۵۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص ۳۱۴ ۶۔ کلیاتِ مکاتیبِ اقبال (برنی)، ص ۵۹۷ ۷۔ اقبال کے نثری افکار، ص ۶۸ ۸۔ ایضاً، ص ۲۰۰، مقالات اقبال، ص ۱۲۶ ۹۔ ایضاً، ص ۳۰۴، مقالاتِ اقبال، ص ۹۲، ۱۳۱۔ یہ آیات ِ قرآنی دو تین سورتوں کے مفہوم پر مشتمل ہیں۔ ۱۰۔ Islam as an Ethical and Political Ideal مرتب: ایس وائی ہاشمی، ترتیبِ نواز محمد اشرف ڈار، ص ۱۰۶ ۱۱۔ ایضاً ۱۱۱۔ ۱۱۲ ۱۲۔ تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ ، ص ۲۲۸ ۱۳۔ ایضاً، ص ۲۲۹ ۱۴۔ ایضاً، ص ۲۳۱ ۱۵۔ کلیاتِ اقبال، فارسی، ص ۱۲۴۔ ۱۲۵ ۱۶۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۲۳۲ ۱۷۔ ایضاً، ص ۲۳۸ ۱۸۔ ایضاً، ص ۲۴۰ ۱۹۔ ایضاً، ص ۲۴۲ ۲۰۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ،ص ۲۴۳ ۲۱۔ ایضاً، ص ۲۵۷، ۲۵۹ ۲۲۔ ایضاً، ص ۲۵۹ ۲۳۔ ایضاً، ص ۲۶۷ ۲۴۔ ایضاً ۲۵۔ ایضاً، ص ۲۶۸ ۲۶۔ ایضاً، ص ۲۷۰ ۲۷۔ ایضاً، ص ۲۷۱ ۲۸۔ ایضاً محراب گل افغان کے افکار: ایک جائزہ ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ ۲۰ قطعات یا غزل نما ٹکڑوں۱؎ پر مشتمل، ضربِ کلیم (مطبوعہ جولائی ۱۹۳۶ئ) کا آخری باب ہے۔ ۲؎ ضربِ کلیم کی اشاعت کے دو ڈھائی ماہ بعد حکیم محمد حسن عرشی کے استفسار پر علامہ نے ان کے نام اپنے مکتوب محررہ ۱۵ ستمبر ۱۹۳۱ء میں ’’محراب گل‘‘ کو ایک فرضی نام بتایا۔ ۳؎البتہ ’’خوشحال و اقبال‘‘ کے مصنف میر عبد الصمد خان نے اس نام کے انتخاب کو علامہ کے ایک افغان دوست موضع خدر خیل (ضلع کوہاٹ) کے رسال دار سجید گل سے مستفاد قرار دیا ہے۔ انھوں نے شاعر افغان شناس‘ خوشحال خان خٹک کی شاعری سے علامہ کے تعارف کو بھی اس افغان دوست کے تعلق سے منسوب کیا ہے۔ وہ اس کے ثبوت میں سجیدگل رسال دار کے فرزند زرین گُل خان سے اپنے انٹرویو کا حوالہ لائے ہیں زرین خان نے میرصاحب کو بتایا کہ: جب رسال دار صاحب نے اُن (اقبال) سے محراب گل افغان کی شخصیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: ’’مجھے پٹھانوں سے جتنی محبت ہے اتنی کسی اور سے نہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پٹھانوں کے ناموں کے آخر میں گل ہی ہوتا ہے جیسا کہ آپ کے نام کا آخری حصہ گل ہی ہے۔ بس میں نے اسی نسبت سے یہ ایک فرضی نام محراب گل چُن لیا ہے‘‘۔ ۴؎ میر صاحب کے استدلال کے دوسرے حصے ’’کلام خوشحال‘‘ سے متعلق ان کا کہنا یہ ہے کہ علامہ کی سجید گل سے پہلی ملاقات ۱۹۱۹ء میں ہوئی جب سجید گل کا رسالہ میاں میر چھاؤنی لاہور میں تھا۔ اس سے قبل علامہ اقبال نے خوشحال خان خٹک کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ ۵؎ لیکن ڈاکٹر عابد پیشاوری محراب گل کے پردے میں خوشحال خان خٹک کو دیکھتے ہیں وہ ٹھوس دلائل لاتے ہیں مثلاً وہ نظم اقبال کے پہلے ٹکڑے : میرے کہستاں تجھے چھوڑ کر جاؤں کہاں کا تقابل خوشحال خان کے پشتو شعر سے کرتے ہیں: ھغہ باد چہ کابل خیز دے پہ ما واڑہ عنبر بیز دے کابل سے اُٹھنے والی ہوا میرے لیے عنبر بکھیرنے والی ہے۔ یعنی کہستانِ کابل سے یہ محبت رسال دار سجید گل سے تعلق نہیں رکھتی پھر نظم کی فضا بھی افغانی ہے جو سر زمین کوہاٹ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ ٹکڑے کا یہ شعر بھی رسال دار سجید گل کی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتا: اے مرے فقرِ غیور فیصلہ تیرا ہے کیا خلعتِ انگریز یا پیرہنِ چاک چاک سجیدگل ساری عمر انگریز فوج میں ملازم رہا ہے یا وظیفہ خوار، اسے اُس حریت سے کیا واسطہ جو اس شعر میں بیان ہوئی ہے: قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ ’’خلعتِ انگریز کی جگہ ’خلعتِ سلطاں‘ رکھ دیجیے تو تصویر بدل جاتی ہے۔ اس کے پردے میں وہ مفکر، حکیمِ ملت افغانیاں سردارِ فقیر منش جھانکنے لگتا ہے جسے افغان باباے پشتون اور اقبال حکیمِ ملتِ افغانیاں‘ نابغہ اور مجاہد شاعر کا نام دیتے ہیں‘‘۔ ۶؎جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بالِ جبریل (مطبوعہ جنوری ۱۹۳۵ئ) میں ’’خوشحال خان کی وصیت‘‘ کے تحتِ عنوان لکھا: کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات وہ مد فن ہے خوشحال خاں کو پسند اڑا کر نہ لائے جہاں بادِ کوہ مغل شہسواروں کی گردِ کمند حاشیے میں یہ نوٹ بھی درج ہے: خوشحال خان خٹک پشتو زبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا۔ جس نے افغانستان کو مغلوں سے آزاد کرانے کے لیے سرحد کے افغان قبائل کی ایک جمعیت قائم کی۔ ۷؎ علامہ کی پٹھانوں سے محبت، ان کی مختلف تحریروں میں ملتی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُن کے مستقبل کے بارے میں مسلسل غور و فکر کرتے رہے۔ ظاہر ہے اس غور و فکر میں خوشحال خان خٹک کی پیدا کردہ روحِ حریت و جمعیت کا واضح عمل دخل تھا۔ ۱۹۱۰ء میں علامہ نے ’’افغانستان کے مستقبل‘‘ کے بارے میں لکھا تھا: تاریخ کا فیصلہ اٹل ہے کہ حائلی مملکتیں عظیم سیاسی وحدتوں کی صورت اختیار کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ ملکِ شام جو سلطنتِ روما اور اہل فارس کے درمیان ایک حائلی مملکت تھا۔ اسی صورتِ حال سے دو چار رہا۔ لہٰذا افغانستان کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی دشوار ہے۔ ۸؎ پیام مشرق (مطبوعہ مئی ۱۹۲۳ئ) کے دیباچے میں اقبال نے ع ’’زندگی جہد است و استحقاق نیست‘‘ کی تاریخی حقیقت واضح کرتے ہوئے لکھا: فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّروُا مَا بِاَ نْفُسِھِمْط۹؎کے سادہ و بلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے اور میں نے اپنی فارسی تصانیف میں اسی صداقت کو مدنظر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالکِ مشرقی میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافی حدود سے بالا تر کر کے ان میں صحیح اور قَوِی انسانی سیرت کی تجدید و تولید ہو، قابل احترام ہے۔ اسی بنا پر میں نے ان چند اوراق کو اعلیٰ حضرت فرما نرواے افغانستان کے نامِ نامی سے منسوب کیا ہے کہ وہ اپنی فطری ذہانت و فطانت سے اس نکتے سے بخوبی آگاہ معلوم ہوتے ہیں اور افغانوں کی تربیت انھیں خاص طور پر مدِ نظر ہے۔ اس عظیم الشان کام میں خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو۔ ۱۰؎ علامہ نے ’پیش کش‘ کے تحتِ عنوان منظوم انتساب میں یہ ’’عظیم الشان‘‘ کام اُس ’’ملتِ صدپارہ کی شیرازی بندی‘‘ بتایا ہے جس کا آفتابِ اقبال غروب ہو چکا ہے ( ع آفتابِ ما توارت بالحجاب) بطحا سے ہند تک ہر کہیں شرارِ زندگی بجھ چکا تھا بس ایک قومِ افاغنہ تھی جس کی رگ میں خونِ شیراں ابھی موج زن تھا مگر وہ رستخیرِ زندگی سے ناواقف اور دنیا میں اپنے حصے سے غافل تھی، اسی لیے اس کا کوکبِ تقدیر بے چمک تھا۔ ملتے آوارۂ کوہ و دمن در رگِ اُو خونِ شیراں موج زن زیرک و روئیں تن و روشن جبیں چشمِ اوچوں جرّہ بازاں تیز بین قسمت خود از جہاں نایافتہ کوکبِ تقدیر او ناتافتہ در قہستاں خلوتے ورزیدہ ای رستخیرِ زندگی نادیدہ ای جانِ تو برمحنتِ پیہم صبور کوش در تہذیبِ افغانِ غیور تا ز صدِیقان ایں اُمت شوی بہرِ دیں سرمایۂ قوت شوی ۱۱؎ علامہ کے بقول:’’ اس عظیم الشان فریضے کی حقیقی اہمیت اور وسعت کا پورا پورا اندازہ تھا تو سید جمال الدین افغانی کو‘‘۔ ۱۲؎ لہٰذا محراب گل افغان کے جن افکارِ عالیہ کا بیان اس نظم میں ہوا ہے، وہ خوشحال خان خٹک اور سید جمال الدین افغانی جیسے ہر نابغہ پرچسپاں کیے جاسکتے ہیں۔ مئی ۱۹۲۸ء کے سہ ماہی اسلامک کلچر حیدر آباد دکن میں خوشحال خان خٹک کی شاعری پرعلامہ کا ایک انگریزی مضمون چھپا جس میں انھوں نے افغانوں کو خوشحال خان خٹک کی شاعری کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے اور اس سے اپنی ذہنی اور فکری حالت بدلنے کی تلقین کی اور وزیر تعلیم افغانستان کو مشورہ دیا کہ وہ خوشحال خان خٹک کے کلام کو مدون کرائیں اور اس پر تحقیق کرانے کا انتظام کریں۔ ۱۳؎ جاوید نامہ (فروری ۱۹۳۲ئ) میں آنسوے افلاک جہاں علامہ اقبال احمد شاہ ابدالی سے محوِ گفتگو ہیں، اور ایشیا کو آب و گل کا پیکر اور ملتِ افغان کو اس پیکر کے اندر دل سے تشبیہ دیتے ہیں، وہاں خوشحال خان خٹک کو شاعرِ افغان شناس حکیم ملتِ افغانیاں اور طبیب علتِ افغانیاں کے خطابات سے یاد کرتے ہیں۔ ۱۴ ؎ مثنوی مسافر میں (جو افغانستان کی چند روزہ سیاحت، اکتوبر ۱۹۳۳ء کی یاد دلاتی ہے) علامہ ’’افغانوں کی علّت‘ ‘ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ خیبر کو تو ایسی زمین بتاتے ہیں جس کا کبک بھی شاہین مزاج ہے لیکن بے مرکزیّت کے باعث اس کے باشندوں کا ’’امروز، بے فردا‘‘ ہے۔ خیبر از مردانِ حق بیگانہ نیست در دلِ او صد ہزار افسانہ ایست سر زمینے، کبک اُو شاہیں مزاج آہوے او گیرد از شیراں خراج لیکن از بے مرکزی آشفتہ روز بے نظام و نا تمام و نیم سوز آہ قومے بے تب و تابِ حیات روزگارش بے نصیب از واردات ریز ریز از سنگِ او میناے اُو آہ از امروزِ بے فرداے او ۱۵؎ انجمن ادبی، کابل میں تقریر کرتے ہوئے علامہ نے جو پیغام دیا، وہ بھی اسی نظم کا نثری جلوہ ہے اور مکمل پڑھے جانے کے لائق کیونکہ آج بھی جب یہ حروف آپ کے سامنے ہیں، کابل کو صرف اور صرف اس کی ضرورت ہے کہ وہ خود کو حائلی مملکت کے زمرے سے نکال لے اور وحدت آشنا ہو… ’’قومیں شعرا کی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پا کر مر جاتی ہے… افغانستان کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو قبائلی زندگی سے نکال کر وحدتِ ملی کی زندگی سے آشنا کر سکے‘‘۔ ۱۶؎ ستمبر ۱۹۳۴ء میں علامہ کو کتاب ماڈرن افغانستان کا پیش لفظ لکھنے کو کہا گیا تو علامہ نے اس پر بڑی مسرت کا اظہار کیا: نہ صرف اس لیے کہ میں ہمیشہ سے افغان قوم کو لا متناہی قوتوں کا حامل سمجھتا ہوں بلکہ اس لیے بھی کہ مجھے مرحوم و مغفور بادشاہ نادر شاہ سے ذاتی نیاز حاصل تھا۔ مرحوم وہ سپاہی منش سیاست دان تھے جن کے فہم و ادراک نے ان کی قوم میں نئی زندگی کی لہر دوڑائی اور اسے جدید دنیا سے متعارف کرایا افغانوں کی تاریخ کا نہ اب تک بغور مطالعہ کیا گیا اور نہ بنظر استحسان دیکھا گیا… افغانوں کی تاریخ کے باب میں ابھی کام ہونا باقی ہے، ہندستان میں اور افغانستان میں بھی وہ قوم جس نے محمد غوری، علاؤ الدین خلجی، شیر شاہ سوری، احمد شاہ ابدالی، امیر عبد الرحمن خان، بادشاہ نادر شاہ اور سب سے بڑھ کر مولانا سید جمال الدین افغانی جیسے سپوت پیدا کیے جو بعض پہلوؤں سے عظیم مسلمان تھے اور ہمارے دور کے یقینا عظیم ترین ایشیائی رہنما تھے اور جنھیں ایشیائی زندگی کا ایک اہم جزو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں… افغانوں کی قدامت پسندی تو ایک اعجاز ہے۔ یہ اپنی جگہ برقرار بھی ہے اور اسے جدید ثقافتی قوتوں کا نہ صرف شعور ہے بلکہ وہ اس کے مزاج میں رچ بس گئی ہیں۔ یہی افغان قوم کی صحت مندی کا راز ہے۔ قدیم افغانستان دنیا کا تجارتی مرکز تھا اور ازمنۂ وسطیٰ تک اس کا یہی حال رہا۔ حتیٰ کہ جدید دنیا میں بحری آمد و رفت کا آغاز ہوا۔ ایشیا کی تاریخ اور سیاست میں اس ملک کی حیثیت بنیادی رہی ہے اوررہے گی ۔ ۱۷؎ یہی وجہ ہے جب علامہ نے ’’دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ‘‘ کا علم ضربِ کلیم کے عنوان سے بلند کیا تو اس کی تان ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ پر ٹوٹی۔ ضربِ کلیم (مطبوعہ جولائی ۱۹۳۶ئ) کی اس نظم تک آنے سے پہلے، محراب گل کو درج بالا تمام شخصیات کا عکس کہنے کی اجازت کے ساتھ ڈاکٹر عابد پشاوری کے ایک اور، مگر برحق قیاس سے اقتباس غیر مفید نہ ہو گا: اگر ان نظموں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ صریحاً اقبال کے اپنے خیالات ہیں جو انھوں نے افغانوں کو جگانے کے لیے افغان کے منہ سے کہلوائے ہیں۔ یہ محض ایک پیرایۂ اظہار ہے اور بس۔ یہ افکار، اقبال کے لیے کچھ نئے نہیں ہیں بلکہ ان کی گونج ۱۹۰۸ء کے بعد کے کلام میں اکثر سنائی دیتی ہے مثلاً لا دینی و لاطینی، کس پیچ میں الجھا تو دارو ہے ضعیفوں کا لاَ غاَلِبَ اِلاَّھُوْا ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں سے اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے! خدائی یہ نکتہ خوب کہا شیر شاہ سوری نے کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری یہ تلقینِ خودی ایک رسال دار کا نتیجۂ فکر نہیں خود اقبال کا اندازِ فکر ہے۔ شیر شاہ سوری کا قول بھی کوئی اقبال جیسا عالم ہی نقل کر سکتا تھا۔ معمولی رسال دار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال افغانوں کی خودی کو بیدار کرنا چاہتے تھے، نصیحت اگر اپنے کسی ہم قوم کی طرف سے ہو تو اس کا اثر بڑھ جاتا ہے لہٰذا اقبال نے ایک فرضی کردار تراش لیا یہ الگ بات ہے کہ اس کردار کی تخلیق کی طرف رہنمائی کسی ایسی شخصیت نے کی ہو جو خود افغانی ہو اور جس میں وہ تمام جو ہر موجود ہوں جو اقبال، معاصر افغان قوم میں دیکھنا چاہتے ہیں اس مقصد کے لیے بھی کسی ایک شخصیت نے اقبال کا دامنِ نگاہ اپنی طرف نہیں کھینچا بلکہ اس میں کئی لوگ شریک ہو سکتے ہیں مثلاً نام کے لیے سجید گل (محراب گل اور سجید گل کا ربطِ معنوی ظاہر ہے) خودی، خو د داری، ہم آہنگیِ افکار اور آزادی کی تڑپ کے لیے شخصیت و کلامِ خوشحال خان خٹک، انگریزوں پر تنقید کے لے سید جمال الدین افغانیؒ جن کے لیے علامہ نے نہایت بلند خیالات کا اظہار کیا: ۱۸؎ زمانہ حال میں میرے نزدیک کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے۔ مصر و ایران و ترکی و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبد الوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہو گا۔ موخر الذّکر ہی اصل میں موسس ہے مسلمانوں کی نشاَتِ ثانیہ کا۔ ۱۹؎ محراب گل افغان کے افکار پر ایک سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو یہ نظم افغانوں کے بارے میں من حیثِ القوم علامہ کے افکار و خیالات اور توقعات کا خلاصہ نظر آتی ہے۔ بد قسمتی سے ضربِ کلیم کی اشاعت تک علامہ کی کوئی آرزو اس حوالے سے پوری نہ ہو پائی۔ لہٰذا ضربِ کلیم کے خصوصی تناظر میں اس نظم کو افغانوں کے حق میں وصیت تصور کیا جانا چاہیے، اور اس حوالے سے عالم اسلام کے لیے جامع پیغام۔ دراصل عہدِ اقبال میں، جیسا کہ پہلے بھی شاید عرض کیا گیا ایک افغانستان ہی فرنگی تسلط سے آزاد مسلم ریاست تھی اسی لیے تو اسے ایشیا کا دل کہا گیا۔ لیکن اس کا حائلی مملکت ہونا جیسا کہ ۱۹۱۰ء میں علامہ اقبال نے دیکھا آج بھی اس کے مستقبل کے امکانات کو (جس کی اس میں ہر طرح سے صلاحیت ہے) مخدوش کیے ہوئے ہے۔ _______________ حوالے و حواشی ۱۔ علامہ اقبال نے اپنی ایسی نظموں کو خود ہی غزل نما ٹکڑے قرار دیا ہے ملاحظہ ہو: مکاتیب اقبال بنام گرامی ص ۲۴۱ ۲۔ علامہ نے ضرب کلیم کی ان نظموں کو چھے ابواب میں تقسیم کیا ہے، اگرچہ ہر باب کی نظموں (قطعات یا غزل نما ٹکڑے) کو الگ الگ عنوان بھی دیے ہیں۔ البتہ آخری باب ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے واحد عنوان کے تحت ۲۰ ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ ۳۔ اقبال نامہ، اول، مرتبہ: عطا اللہ شیخ، ص ۳۳ ۴۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: خوشحال و اقبال۔ میر عبد الصمدخان ۵۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: خوشحال و اقبال، میر عبد الصمدخان ۶۔ مقالہ اقبال اور ملتِ افغانیہ از ڈاکٹر عابد پیشاوری مشمولہ محفل اقبال ص ۱۹۱ ۷۔ کلیات اقبال، اردو، ص ۴۴۶ ۸۔ شذراتِ فکر اقبال، ص ۸۹۔ اُردو ترجمہ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی۔ ملتِ افغانیہ سے علامہ کی توقعات اور خیالات و افکار کے لیے سہ ماہی مجلہ اقبال (انگریزی) جنوری تا مارچ ۱۹۷۱ء میں بشیر احمد ڈار کا مقالہ ریفلیکشنز آف محراب گل افغان ملاحظہ ہو۔ ۹۔ سورۃ الرعد ۱۳: ۱۱ ۱۰۔ کلیات اقبال، فارسی (پیام مشرق)، ص ۱۸۹ ۱۱۔ ایضاً، ص ۱۸۸ ۱۲۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ (خطبۂ چہارم) ۱۳۔ خوشحال خان خٹک دی واریئر پوئٹ، مشمولہ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال ۱۴۔ کلیات اقبال، فارسی (جاوید نامہ)، ص ۷۶۵ ایضاً ۱۵۔ کلیات اقبال، فارسی (مثنوی مسافر)، ص ۸۵۳۔ ۸۵۲ ایضاً ۱۶۔ مقالاتِ اقبال ۲۶۰۔۲۶۱ ۱۷۔ اقبال اور ملتِ افغانیہ از ڈاکٹر عابد پیشاوری مشمولہ محفلِ اقبال ص ۱۹۳ ۱۸۔ مقالات اقبال، ص ۲۹۸ ۔ ۳۱۲ ایضاً ۱۹۔ اقبال نامہ دوم، ص ۲۳۱۔ ۲۳۲ایضاً خ خ خ کتابیات قرآن مجید تصانیف اقبال الف ۔ نظم کلیاتِ اقبال اردو شیخ غلام علی اینڈ سنز ، بار ہفتم ۱۹۷۶ء کلیات اقبال، فارسی ایضاً ، اشاعت پنجم ۱۹۷۵ء ابتدائی کلام اقبال : ڈاکٹر گیان چند ۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور ۲۰۰۴ء باقیاتِ اقبال : عبد الواحد معینی +محمد عبداللہ قریشی ۔ آئینہ ادب لاہور طبع سوم ۱۹۷۸ء ب۔ نثر اردُو اقبال کے نثری افکار، مرتب: عبدالغفار شکیل۔ انجمن ترقیِ اردو ہند،دہلی ۱۹۷۷ء اوراقِ گم گشتہ، مرتب: ڈاکٹر رحیم بخش شاہین، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور‘ ۱۹۷۵ء تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ، اردو ترجمہ: سید نذیر نیازی بزم اقبال لاہور، طبع سوم ۱۹۷۶ء حرفِ اقبال، مرتب: لطیف احمد شروانی، ایم ثناء اللہ خاں، لاہور، بار چہارم ۱۹۶۱ء شذراتِ فکرِ اقبال، اردو ترجمہ: ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ،مجلس ترقیِ ادب، لاہور، ۱۹۷۳ء علم الاقتصاد، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء فلسفۂ عجم، اردو ترجمہ: میر حسن الدین۔ نفیس اکادمی، کراچی، بار ششم ۱۹۴۹ء گفتار اقبال، مرتب محمد رفیق افضل۔ ادارہ تحقیقاتِ پاکستان، دانش گاہِ پنجاب لاہور، ۱۹۴۹ء مضامینِ اقبال، مرتب: تصدق حسین تاج۔ احمدیہ پریس حیدرآباد دکن۔ ۱۹۴۳ء مقالاتِ اقبال، مرتب: سید عبدالواحد معینی۔ آئینۂ ادب لاہور، باردوم ۱۹۸۲ء ج۔نثر انگریزی l Islam as an Ethical and Political Ideal. Ed. Dr S.Y. Hashimy, Islamic Books Lahore. 1988 l Letters and writing of Iqbal: B.A Dar Iqbal Academy Lahore. 1967 l Mementos of Iqbal. Dr. Rahim Buksh Shaheen, All Pakistan Educational Conference Lahore. 1976 l Speeches, Writings and Statements of Iqbal, Ed. Latif Ahmad Sherwani- Iqbal Academy Lahore. 1995 l Reconstruction of Religious Thought in Islam: M. Saeed Sheikh. Institute of Islamic Culture Lahore. 1986 l Thoughts and Reflections of Iqbal. S. Abdul Wahid, Sheikh Muhammad Ashraf Lahore, 1964 دِیگر کتابیں الف۔اقبالیات انگریزی l Iqbal's Concept of Separate North West Muslim State: Dr. Shafique Ali Khan-Markaz-e-Shaooml-eAdab Karachi. 1987 l Iqbal: His Political Ideas at Cross Road: S. Hassan Ahmad Paint Wall Publishers Aligarh 1988. l Iqbal the Poet and His Message: Dr. S. Sauna. National Press Allahabad 1947. ب۔ متفرق انگریزی l Discovery of India: Pandat Jawahar Lal Nehru. Meredian Books Ltd. London, 1951. l Islam at Cross Roads: Muhammad Asad, Lahore 1963. l Millat and Her Ten Nations: Ch. Rehmat Ali. The Pakistan National Movement Cambridge 1944. l Now or Never, The Pakistan National Movement Cambridge 1933, National Museum Karachi No. 1963- 245/6 l Pakistan: Ch. Rehmat Ali 1947. l Pakistan or Pakistan of India: Dr. Bh Amleadicar. Bombay 1945. ج۔ مکاتیب اقبال l اقبال بنام شاد: محمدعبداللہ قریشی۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۸۶ء l اقبال کے خطوط جناح کے نام: محمد جہانگیر عالم۔ یونیورسل بکس لاہور، ۱۹۸۶ء l اقبال نامہ، اول و دوم: شیخ عطاء اللہ، شیخ محمد اشرف، لاہور، ۱۹۴۴ء ‘ ۱۹۵۱ئ، علی الترتیب l انوار اقبال، بشیر احمد ڈار۔ اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۱۹۷۷ء l خطوطِ اقبال: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ مکتبہ خیابانِ ادب لاہور، ۱۹۷۶ء l کلیات مکاتیب اقبال: مظفر حسین برنی۔ اردو اکادمی ہند، دہلی جلد اول ۱۹۹۰ء ‘دوم ۱۹۹۳ئ‘ سوم ۱۹۹۳ء دیگر کتابیں الف__اقبالیات اردو l اقبال اور پاکستانی قومیت: ڈاکٹر وحید قریشی۔ مکتبہ ٔ عالیہ لاہور، ۱۹۷۷ء l اقبال اور ثقافت: ڈاکٹر مظفر حسن ملک۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۸۶ء l اقبال ایوان اسمبلی میں: پروفیسر حق نواز۔ یونیورسل بکس لاہور، ۱۹۸۸ء l اقبال عہد آفریں: اسلم انصاری۔ کاروانِ ادب ملتان، ۱۹۸۷ء l اقبال کا علم الکلام: سید علی عباس جلال پوری۔ مکتبہ ٔ فنون لاہور، ۱۹۷۲ء l اقبال کا سیاسی کارنامہ: محمد احمد خاں۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء l اقبال کے حضور: سید نذیر نیازی۔ اقبال اکادمی کراچی، ۱۹۷۱ء l تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، اقبال اکادمی، پاکستان لاہور، ۱۹۸۲ء l ذکر اقبال: عبدالمجید سالک۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۵۵ء l سرگذشتِ اقبال: ڈاکٹر عبدالسلام خورشید۔ اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ۱۹۷۷ء l فکر اقبال: ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم۔ بزم اقبال لاہور، ۱۹۵۷ء l محفل اقبال: جموں و کشمیر اکیڈیمی آف کلچر اینڈ لینگویجز، سری نگر، ۱۹۷۸ء l مفکرپاکستان: محمد حنیف شاہد۔ سنگ میل پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۲ء l مقاماتِ اقبال:ڈاکٹر سید محمد عبداللہ۔ لاہور اکیڈیمی لاہور، ۱۹۶۴ء ب۔ متفرق کُتب l احادیث مثنوی:ڈاکٹر بدیع الزمان فروزانفر۔ اردو ترجمہ: ڈاکٹر محمد عبداللّطیف۔ پیکیجز لمیٹڈ لاہور، ۱۹۷۵ء l افکار سیاسی ]مشرق و مغرب[ :صلاح الدین ناسک۔ عزیز پبلشرز لاہور، ۱۹۸۰ء l اَلاِتقان فی عُلُوم القُران حصہ دوم: علامہ جلال الدین سیوطی۔ ادارہ اسلامیات لاہور، ۱۹۸۲ء l برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ:اشتیاق حسین قریشی۔ اردو ترجمہ: بلال احمد زبیری۔ شعبۂ تصنیف و تالیف کراچی یونیورسٹی، ۱۹۸۷ء l پاکستانی کلچر: ڈاکٹر جمیل جالبی، طبع سوم، ۱۹۷۳ء l تاریخ علی گڑھ تحریک(سلسلہ مطبوعات ۹۸): پروفیسر ممتاز حسین۔ آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کراچی، ۱۹۸۸ء l تمدن ہند: گستائولی بان۔ اردو ترجمہ: سید علی بلگرامی مقبول اکیڈیمی لاہور، ۱۹۶۲ء l جدوجہد پاکستان ،اردوترجمہ: بلال احمد زبیری۔ شعبۂ تصنیف و تالیف کراچی یونی ورسٹی، ۱۹۸۷ء l دنیا کے بڑے مذہب: عمادالحسن آزاد فاروقی۔ فیمس بُکس لاہوربار دوم، ۱۹۹۱ء l دیوانِ حافظ: حافظ شیرازی۔ مطبع نامی لاہور l سیاسی وثیقہ جات :ڈاکٹر حمیداللہ حیدرآبادی۔ اردو ترجمہ: مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی۔ مجلس ترقیِ ادب لاہور، ۱۹۴۰ء l سیرت ابن ھشام (عربی) مطبوعہ بیروت، ۱۹۵۵ء l فیض الاسلام (اقبال نمبر) راول پنڈی۔ l مسئلہ قومیت : سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ مکتبۂ جماعت اسلامی پٹھان کوٹ، طبع پنجم ۱۹۴۷ء l مسئلہ قومیت اور اسلام: سیدحسین احمد مدنی۔ المحمود اکیڈیمی لاہور، ۱۹۶۵ء l نور الانوار شرح المنار: شیخ احمد ملاّ جیون۔ مطبع یوسفی لکھنوئ، سنہ ندارد ج۔ اشاریے‘ لغات‘ فرہنگ وغیرہ l اشاریہ کلام اقبال اردو: ڈاکٹرصدیق شبلی۔ کتاب مرکز فیصل آباد، ۱۹۷۷ء l انٹرنیشنل انسائی کلو پیڈیا آف سوشل سائنسز جلد NATION میک میلن کمپنی اینڈ فری پریس نیو یارک خ خ خ