اقبال اور قائد اعظم احمد سعید اقبال اکادمی پاکستان جملہ حقوق محفوظ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-132-0 طبع اوّل:۱۹۷۷ء طبع دوم : ۱۹۸۸ئ طبع سوم : ۲۰۰۸ء (نظر ثانی شدہ؍اضافوں کے ساتھ) تعداد : ۱۰۰۰ قیمت : ۔؍۱۰۰ روپے مطبع : شرکت پریس ، لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ فہرست حرفِ آغاز (طبع دوم) ۷ حرفِ آغاز (طبع اوّل) ۹ باب اول: اختلافات (۱۳۔۳۵) خ دہلی مسلم تجاویز: جداگانہ، مخلوط انتخاب ۱۶ خ سائمن کمیشن ۲۲ خ سائمن رپورٹ ۲۸ خ نہرو رپورٹ ۲۹ باب دوم: خیالات میں ہم آہنگی و یکسانیت (۳۷۔۵۰) خ علیحدگی سندھ ۳۹ خ شمال مغربی سرحدی صوبے میں اصلاحات ۴۱ خ فرقہ وار فیصلہ(Communal Award) ۴۲ خ وائٹ پیپر(White Paper) ۴۴ خ آل انڈیا فیڈریشن ۴۴ خ مغربی طرز جمہوریت ۴۵ خ پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریت ۴۶ خ فلسطین ۴۶ باب سوم: اختلافات کا خاتمہ (۵۱۔۹۵) خ مسجد شہید گنج ۵۳ خ قائداعظم، اقبال اور آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا قیام ۵۵ خ اقبال ۔جناح خط و کتابت پر ایک نظر ۵۹ خ سکندر ۔ جناح پیکٹ ۶۲ خ قائداعظم :علامہ اقبال کی نظر میں ۷۵ خ علامہ اقبال : قائداعظم کی نظر میں ۸۴ خ علامہ اقبال کی وفات پر قائداعظم کے تاثرات ۸۶ خ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی تعزیتی قرارداد ۸۸ خ اقبال کو قائد اعظم کا خراج عقیدت ۸۸ ضمیمہ خ اقبال کے خطوط بنام قائداعظم ۹۹ کتابیات ۱۱۵ اشاریہ ۱۱۹ انتساب : اپنے بھائی مصباح الدین عارف کے نام حرف آغاز (طبع دوم) میری زیر نظر کتاب ۱۹۷۷ء میں علامہ محمد اقبال کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر اقبال اکادمی پاکستان نے شائع کی تھی۔ اس وقت یہ کتاب نسخ ٹائپ میں چھپی تھی ۔ ۱۹۸۸ء میں اس کتاب کا نقش ثانی کسی تبدیلی کے بغیر شائع ہوا۔ مگر ناقص پروف خوانی کے سبب اس میں بہت اغلاط باقی رہ گئیں۔ اس اثنا میں قائد اعظم اورعلامہ اقبال کے حوالے سے بہت سا نیا مواد میرے سامنے آیا۔ اب دوسرے ایڈیشن کے موقع پر یہ تمام مواد کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے خطوط میں بار بار یونینسٹ پارٹی اور سکندر جناح پیکٹ کا ذکر ہوتا ہے ۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ قارئین کو ان دونوں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ ان کی ذاتی دلچسپی کے سبب کتاب کی جلد اشاعت ممکن ہو سکی۔ احمد سعید جوہر ٹائون ، لاہور ۸؍اگست ۲۰۰۷ء حرفِ آغاز (طبع اوّل) انیسویں صدی کا نصف آخر مسلمانان برعظیم کے لیے اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلم سیاسی قائد، صحافی اور مذہبی رہنما اس دور میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں نواب سلیم اللہ خاں (۱۸۸۸ئ)، سر آغا خان (۱۸۷۷ئ)، مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸ئ)، حکیم اجمل خان(۱۸۶۳ئ)،مولانا شوکت علی(۱۸۷۳ئ)، مولانا محمودحسن(۱۸۵۱ئ)،مولانا عبدالباری فرنگی محلی(۱۸۷۸ئ)، اے کے فضل الحق (۱۸۷۳)، مولانا حسرت موہانی (۱۸۷۸ئ)، ڈاکٹر مختار احمد انصاری (۱۸۸۰ئ) مولانا ظفر علی خاں (۱۸۷۳ئ)، مولانا اشرف علی تھانوی (۱۸۶۳ئ)، مولانا عبید اللہ سندھی (۱۸۷۲ئ) اور ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ئ) پیدا ہوئے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ اسی عرصے میں بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مفکرپاکستان علامہ محمد اقبال یکے بعد دیگرے ۱۸۷۶ء اور ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے۔ ان دونوں زعما نے فکری اور عملی میدانوں میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے وہ محتاج بیان نہیں۔ ایک طرف علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے خوابیدہ مسلم قوم کو بیدار کرنے اور بالخصوص پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کے احیا اور اس کو مضبوط بنانے کے سلسلے میں جو خدمات انجام دیں ،وہ ہماری تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش جزو بن چکی ہیں۔ دوسری طرف قائداعظم محمد علی جناح کی کوشش و کاوش کی زندہ مثال، وطن عزیز پاکستان کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی تھی کہ ان دونوں زعما کے سیاسی نظریات اور آپس کے باہمی تعلقات پر کچھ لکھا جائے او ریہ معلوم کیا جائے کہ وہ کون سے سیاسی مسائل تھے جو ان دونوں کے درمیان اختلافات کا سبب بنے اور ان اختلافات کی نوعیت کیا تھی؟ مسلمانانِ برعظیم پاک و ہند کے مستقبل سے وابستہ وہ کون سے اہم سیاسی و آئینی مسائل تھے جن کے بارے میں دونوں کی رائے ایک جیسی تھی۔ دونوں زعما کے درمیان اختلافات کا خاتمہ کب ہوا اور وہ ایک دوسرے کے نزدیک کب اور کیوں کر آئے۔ انھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ ۱۹۷۵ء میں راقم کو ایم اے او کالج لاہور کے مجلہ النور میں اسی موضوع پر ایک مضمون لکھنے کا اتفاق ہوا۔ اگرچہ یہ مضمون نہایت مختصر اور کئی لحاظ سے تشنہ تھا، اس کے باوجود اہلِ علم حضرات نے اس مضمون کی بہت پذیرائی کی اور بہت سے حضرات نے اس کی تشنگی کو دور کر کے اسے جامع بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔زیر نظر کتاب، مذکورہ مضمون کی اضافہ شدہ شکل ہے۔ اس کتاب میں اقبال اور جناح کے روابط ، اختلافات ، خیالات میں ہم آہنگی اور یکسانیت وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔ ساتھ ہی قائداعظم کے نام علامہ اقبال کے خطوط کا اردو ترجمہ بھی دیا گیا ہے اور اس ضمن میں کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، ترجمہ لفظی ہونے کے ساتھ ساتھ بامحاورہ بھی ہو۔ اس بارے میں ایک افسوس ناک امر یہ ہے کہ قائداعظم کے وہ خطوط جو انھوں نے علامہ اقبال کو جواباً تحریر فرمائے، ان کا سراغ نہیں ملتا۔ امید ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال اور علامہ کے دیگر قریبی احباب ان خطوط کو ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کریں گے تاکہ تاریخ کا یہ تشنہ باب مکمل ہو سکے۔ قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال کی زندگی کا ایک اور اہم باب ادوھورا ہے اور اس پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ معلوم کیا جائے کہ آیا لندن میں گول میز کا نفرنس کے دوران ان دونوں زعما کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں؟ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب اقبال کے آخری دو سال میں اس کا سرسری طور پر ذکر تو کیا ہے مگر ابھی تک اس بارے میں کوئی دستاویزی ثبوت ہمارے سامنے نہیں آیا۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے خطوط، سوانح اور بیانات جواب تک شائع ہو چکے ہیں، وہ بھی اس موضوع پر کوئی روشنی نہیں ڈالتے۔ امید ہے کہ کوئی صاحب اس موضوع پر تحقیق کریں گے اور اقبال اور قائداعظم کی زندگی کے اس رخ سے نقاب اٹھائیں گے۔ میں استاد گرامی ڈاکٹر عبدالحمید صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے مختلف موضوعات کی نشان دہی کی اور اس موضوع پر کام کرنے کے سلسلے میں مسلسل حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ ایم۔ بی خالد صاحب ڈپٹی سیکرٹری وفاقی محکمہ تعلیم کا بھی ممنون ہوں کہ انھوں نے اس مسودے کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی۔ جناب ڈاکٹر معز الدین ڈائریکٹر اقبال اکادمی کا خصوصی طور پر ممنون ہوں کہ انھوں نے مسودے کو بغور پڑھا اور اسے بہتر بنانے کے سلسلے میں بہت سے مفید مشوروں سے نوازا۔ پنجاب پبلک لائبریری کے مناظر عالم نے حسبِ سابق کتابوں کی فراہمی کا فریضہ نہایت تندہی سے انجام دیا۔ آخر میں شیخ محمد اشرف صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے مہربانی فرماتے ہوئے علامہ اقبال کے خطوط بنام قائداعظم کا ترجمہ کتاب میں شامل کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ ۱۸؍مارچ ۱۹۷۷ء احمد سعید باب اوّل اختلافات خ دہلی مسلم تجاویز: جداگانہ، مخلوط انتخاب خ سائمن کمیشن خ سائمن رپورٹ خ نہرو رپورٹ برعظیم پاک و ہند کی تاریخ میں تین شخصیات ایسی گذری ہیں جنھوں نے تعلیمی ، سیاسی اور فکری میدانوں میںزبردست کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ سر سید احمد خاں کی تعلیمی خدمات اور اس دور کے سیاسی حالات کے پیش نظران کے صائب سیاسی نظریات سے کون انکار کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانانِ عالم کی جو فکری رہنمائی کی ، تاریخ اس پر شاہد ہے اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے کارنامے کی جیتی جاگتی تصویر وطنِ عزیز پاکستان ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ امر نہایت ہی دلچسپ اور فکر انگیز ہے کہ ان تینوں زعما نے اپنے سفر کا آغاز ایک ہی منزل سے کیا اور بالآخر ایک ہی منزل پر جا پہنچے۔ یہ تینوں رہنما شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست واعی تھے۔ سر سید احمد خاں ہندو مسلم اتحاد کو ایک خوب صورت دلھن کی دو خوب صورت آنکھوں سے تشبیہ دیا کرتے تھے۔ ان کے کالج کے دروازے ہندوؤں کے لیے بھی کھلے ہوئے تھے۔ بہت سے ہندو ان کے قریبی حلقہ احباب میں شامل تھے جن میں بابو شیو پرشاد کا نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ ایم اے او کالج علی گڑھ میں کئی ہندو پروفیسر درس و تدریس میں مصروف تھے لیکن بالآخر سر سید کی تان مسلم قوم کے تشخص پر آن کر ٹوٹی۔ سر سید احمد خاں کی مانند علامہ اقبال نے بھی اپنے سفر کا آغاز ہندو مسلم اتحاد کی منزل سے کیا۔ وطن، ہمالہ اور اسی قسم کی دوسری نظموں سے ان کی ہندوستان دوستی اور نظریۂ وطنیت کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ مگر ’ہمالہ‘ اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ والا اقبال ہندی مسلمانوں کو بتانِ رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جانے کا پیغام دیتا ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے قیام کو مسلمانانِ برعظیم کے جملہ دینی، تہذیبی، ثقافتی اور اقتصادی مسائل کا حل بتاتا ہے۔۱ ابتدا میں سر سید اور اقبال کی مانند قائداعظم محمد علی جناحؒ بھی ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور مسلمانوں کا گوکھلے بننے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور یہی مشہور ہندو لیڈر آپ کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر(ambassador of Hindu-Muslim unity) کا خطاب دیتا ہے۔ مگر ہندو مسلم اتحاد کا یہ سفیر زندگی کے آخری مرحلے میں ہندو تعصب کے بغور، ذاتی اور طویل تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا قیام نا گزیر ہے۔ و ہ نہ صرف اس کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس کے قیام کے لیے سب سے اہم اور سب سے نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال کے سیاسی رجحانات ، سیاسی اختلافات اور باہمی تعلقات کا جائزہ لینے سے پہلے دونوں زعما کی سیاسی زندگیوں کا مختصر جائزہ لینا ضروری ہے۔ قائداعظم نے برعظیم میں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۰۶ء سے کیا جب کہ آپ نے پہلی مرتبہ کانگرس کے اجلاس میں شرکت کی۔ ۱۹۱۳ء میں آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبر بنے اور ۱۹۱۵ ء میں آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس دونوںکے اجلاس ایک ہی وقت اور ایک ہی مقام بمبئی میں بلانے کے سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ۱۹۱۶ء میں لکھنؤ پیکٹ آپ ہی کی کوششوں سے معرضِ وجود میں آیا۔ تحریکِ خلافت کے دوران جب خلافت کمیٹی اور مسلم لیگ گاندھوی سیاست کا شکار ہو گئیں تو آپ نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔ آپ نے ۱۹۲۴ء میں دوبارہ آل انڈیا مسلم لیگ کے احیا کی کوشش کی۔ علامہ اقبال نے اپنی عملی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۲۶ء میںکیا جب کہ آپ پہلی مرتبہ اپنے حریف ملک محمد دین کو تین ہزار ایک سو ستر ووٹوں سے شکست دے کر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ۲ اور اس کے کچھ ہی عرصہ بعد ’’اقبال جناح کشمکش‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔ دہلی مسلم تجاویز:جداگانہ ، مخلوط انتخاب ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریک ِ خلافت کے دوران ہی میں ادھورا نظر آنے لگا اور جونہی تحریکِ خلافت کمزور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوفناک سلسلہ چل نکلا اور بقول ڈاکٹر کے کے عزیز ہندو مسلم اتحاد کا یہ مختصر ہنی مون(honey moon) جلد ہی ختم ہو گیا۔ ۱۹۲۲ء میں محرم کے موقع پر ملتان میں فساد ہوا۔ ۱۹۲۳ء میں سہارن پور میں فساد ہوا جس میں ایک سو سے زیادہ افراد قتل اور زخمی ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں سب سے بڑا فساد کوہاٹ میں ہوا جہاں ایک ہندو نے ایک اشتعال انگیز نظم لکھ کر فساد کی آگ بھڑکائی ۔ ۱۹۲۰ء کے بعد ہندو مسلم تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۹۲۳ء میں ۱۱، ۱۹۲۴ میں۱۸، ۱۹۲۵ء میں ۱۶، ۱۹۲۶ئ، میں ۳۵ اور نومبر ۱۹۲۷ء تک ۳۷ ہندو مسلم فسادات رونما ہوئے۔۳ ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی زیرِ قیادت سنگھٹن اور شدھی کی تحریکیں شروع کیں۔ سنگھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔اس تحریک کے ذریعے ہندوؤں کو ایسے اسلحہ کے استعمال کی تربیت دی جاتی تھی جو مسلمانوں کے خلاف فسادات میں بروقت کام آسکے مثلاً لاٹھیوں ، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا استعمال وغیرہ۔ شدھی کا مطلب پاک کرنا تھا یعنی وہ لوگ جو ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصدہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنا تھا۔ مشہور متعصب ہندو تنظیم ہندو مہا سبھا کے لیڈر ڈاکٹر مونجے نے ۲۵ جولائی ۱۹۲۶ کو اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ہندو مہا سبھا کا مقصد یہ ہے کہ تمام ہندوؤں کو متحد کر دے اور ہندو دھرم کو اتنی ترقی دے کہ ہندوستان صحیح معنوں میں ہندوستان کہلا سکے یعنی ہندوؤں کا ملک ۔۴ اسی طرح ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا ، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انہیں دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔ اسی لیے ہندوؤں کے روزنامہ پرتاپلاہورنے ۱۰ جولائی ۱۹۲۷ کو لکھا کہ ’’شدھی ہندوؤں کے لیے موت و زیست کا مسئلہ بن گئی ہے‘‘۔ ہندوؤں کے نزدیک شدھی کا کام کس قدر اہم تھا اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اشعار سے لگایا جا سکتا ہے جو اس زمانے میں ہندوؤں میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں ہندوؤ تم میں ہے گر جذبۂ ایماں باقی رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلماں باقی ان ہندو تنظیموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے بھی ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور میر غلام بھیک نیرنگ کی زیرِ قیادت تنظیم اور تبلیغ کے نام سے دو جماعتیں قائم کیں۔ پُر لطف بات یہ ہے کہ ان حالات میں چند مسلم زعما ایسے بھی تھے جو ابھی تک ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے اور انھوں نے تنظیم اور تبلیغ کی مخالفت سے بھی گریز نہیںکیا۔ حالات اس حد تک تشویش ناک ہو چکے تھے کہ وزیرِ امور ہندنے برطانوی پارلیمنٹ میں کہا کہ سب سے بڑی تشویش جس سے آج ہندوستان کو سابقہ ہے وہ فرقہ وارانہ اختلاف ہے۔ اگر انگریز آج ہندوستان سے چلے جائیں تو اس کا فوری نتیجہ یہ ہو گا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ تحریکِ خلافت کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ عملاً معطل ہو کر رہ گئی تھی۔ بالآخر مئی ۱۹۲۴ء میں اس کا اجلاس قائداعظم کی زیرِ قیادت لاہور میںمنعقد ہوا۔ قائداعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہندوستان میں غیرملکی حکومت کا آغاز اور اس کا جاری رہنا محض ہندوؤں اور مسلمانوں میں عدم اتحاد کے باعث ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر اعتمادنہیں کرتے۔جس دن ان دونوں قوموںمیں اتحاد ہو جائے گا ہندوستان کو نو آبادی کے درجہ کی ذمہ دار حکومت مل جائے گی‘‘۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اس اجلاس میں مندرجہ ذیل اہم قرار داد منظور کی جس میں کہاگیا کہ ہندوستان کا آئین بناتے وقت مندرجہ ذیل اہم امور کا آئین میں شامل کیا جانا نہایت ضروری ہے (۱) ہندوستان میںوفاقی طرز حکومت رائج ہو، صوبوں کومکمل خودمختاری حاصل ہو اور مرکزی حکومت کو صرف مشترکہ مفاد سے متعلق امور سونپے جائیں۔ (۲) اگر کسی وقت صوبائی حدود میں تبدیلی کی جائے تو اس سے بنگال، پنجاب اور صوبہ سرحد میں مسلمانوں کی اکثریت کسی صورت متاثر نہیں ہو نی چاہیے۔ (۳) مجالس قانون ساز میں نمائندگی آبادی کے لحاظ سے ہونی چاہیے۔ (۴)اگر کسی قرار داد یابِل کی متاثرہ قوم کے تین چوتھائی ممبر مخالفت کریں تو یہ بل یا قرار داد پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس قرار داد سے مسلمانوںکا نقطۂ نظر سامنے آتا ہے۔ ۱۹۲۶ء کے اجلاس دہلی میں بھی قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد پر بہت زور دیا اور یہ امید ظاہر کی کہ ہندوستان کامسئلہ دوستی اور تعاون کے ذریعے سے حل ہو جائے گا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میںفرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر پھیلتے جارہے تھے اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے لیکن مسلم زعما بالخصوص قائداعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ ہندوؤں کے خیال میں جُدا گانہ انتخاب ہندو مسلم اتحاد کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ پنڈت موتی لال نہرو کی بھی اس بارے میں یہی رائے تھی۔۵ ادھر مشہور قانون دان اور مرکزی اسمبلی میں سوراج پارٹی کے ڈپٹی لیڈر سری نواس آینگر اور قائداعظم کے درمیان ہندو مسلم اتحاد کے معاملہ پر تبادلہ خیال ہوا۔ ۱۹۲۷ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے سلسلے میں قائداعظم دہلی میں مقیم تھے انکی دعوت پر ۲۰ مارچ ۱۹۲۷ء کو ویسٹرن ہوٹل میں ہندوستان کے تیس سر کردہ مسلم زعما نے ہندو مسلم اتحاد کی خاطر ایک فارمولا تیار کیا جس کو دہلی تجاویز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اجلاس کے شرکا میں راجہ صاحب محمود آباد، مولوی شفیع داودی ، نواب اسمٰعیل خاں، سر عبدالرحیم، مولانا محمدعلی، عبدالمتین چودھری، سر محمد شفیع، سر ذوالفقار علی خان، مولوی محمد یعقوب، سر عبدالقادر، سید آل نبی، انوار العظیم، ڈاکٹر ایل کے حیدر، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور راجا غضنفر علی خان شامل تھے۔ مسلمانوں کے یہ نمائندے ہندو مسلم اتحاد کی خاطر جُداگانہ انتخاب سے دستبردار ہو نے پر آمادہ ہو گئے بشرطیکہ ان کے دیگر اہم مطالبات تسلیم کر لیے جائیں۔ جدا گانہ انتخاب مسلمانوں کو پہلی مرتبہ منٹو مارلے اصلاحات (۱۹۰۹ئ) کے تحت حاصل ہوئے تھے۔ مسلمان چونکہ برعظیم پاک و ہندمیں اقلیت میںتھے اس لیے انھوں نے اپنے حقوق کی حفاظت کی غرض سے ۱۹۰۶ء میں وائسرائے ہند لارڈ منٹو سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ انھیں جداگانہ انتخاب کا حق دیا جائے جس کو ۱۹۰۹ء میں حکومت نے تسلیم کر لیا۔ ہندوؤں نے پہلی اور آخری مرتبہ ۱۹۱۶ میں مشہور لکھنؤ پیکٹ میں مسلمانوںکے اس حق کو تسلیم کیا تھا۔ مگر جلد ہی انھیں اپنی ’’غلطی‘‘ کا احساس ہو گیا اور وہ آخر تک جداگانہ انتخاب کی مخالفت میں پیش پیش رہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جداگانہ انتخاب نے مسلمانوںمیں قومی شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی جداگانہ انتخاب کے بارے میں رائے یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کے دیگر حقوق تسلیم کر لیے جائیںاور ان کے ذہنوں سے ’’اکثریت کا خوف‘‘ دور کر دیا جائے تو مخلوط انتخاب کو قبول کر لینا چاہیے۔ ہندو مسلم مفاہمت کی خاطر یہ تجویز پیش کی گئی کہ اگر ہندو مسلمانوں کے مندرجہ ذیل مطالبات تسلیم کر لیں تو مخلوط انتخاب کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے دیگرمطالبات میں سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، پنجاب اور بنگال میںآبادی کے تناسب سے نمائندگی،سرحد اور بلوچستان میںآئینی اصلاحات کااجرا اور مرکزی اسمبلی میں مسلمانوںکی ایک تہائی نمایندگی شامل تھے۔۶یہ امر قابل ذکر ہے کہ سر محمد شفیع بھی اس کانفرنس میں شریک تھے لیکن لاہور پہنچتے ہی انہوںنے دہلی تجاویز کے خلاف ایک محاذ کھول دیا۔ قائداعظم کی مندرجہ بالا تجاویز جو دہلی مسلم تجاویز کے نام سے یاد کی جاتی ہیںپنجاب پراونشل مسلم لیگ اور علامہ اقبال کا ہدف بن گئیں۔ ادھر آل انڈیا مسلم لیگ کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی راہ ہموارہونے لگی۔ علامہ اقبال نے ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ء کو پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور قائداعظم سے براہِ راست ان کا ’’تصادم‘‘ شروع ہوا۔ قائداعظم نے ۱۹۲۷ء میںآل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں ان تجاویز کو منصفانہ اور معقول قرار دیا تھا۔ ادھر علامہ اقبال ان تجاویز کے سخت خلاف تھے اور انہیںکسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔یکم مئی ۱۹۲۷ء کو پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے اجلاس میں علامہ نے دہلی تجاویز کے متعلق مندرجہ ذیل قرار داد پیش کی: پنجاب پراونشل مسلم لیگ اپنے اس عقیدے کا اعادہ کرتی ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی حالت میں جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب ہی کے ذریعے سے مرکزی مجلس وضع قوانین اور صوبوں کی مجالس وضع قوانین باشندگانِ ہند کی حقیقی نمایندہ مجالس بن سکتی ہیں۔ حلقہ ہائے انتخاب کی علیحدگی ہی سے باشندوںکے جائز حقوق و فوائد محفوظ رہ سکتے ہیں اور اسی صورت وہ فرقہ وار کشمکش دور ہو سکتی ہے جو وقتا فوقتاً پیش آتی رہتی ہے اور جو مخلوط و مشترک حلقہ ہائے انتخاب سے پید اہو گی۔ اس لیے لیگ کی یہ قطعی رائے ہے کہ جب تک اقلیتوں کے حقوق کی مؤثر ضمانت کاانتظام نہ ہو اس وقت تک مسلمان فرقہ وار حلقہ ہائے انتخاب کو دستورِ ہند کے ایک اساسی جزو کی حیثیت سے بر قرار رکھنے پر لازماً مصر رہیں گیـ۔۷ علامہ اقبال نے اس قرار داد پر تقریر کرتے ہوئے موجودہ حالات میں مخلوط انتخاب کو ناموزوں قرار دیا۔ علامہ نے ہندو زعما کی ذہنیت کے پیشِ نظر جداگانہ انتخاب کو ترک کرنے کو خارج از بحث قرار دیا۔ آخر میں آپ نے ہندو رہنماؤں کی ذہنیت پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا: مسلمان تعداد میں کم ہیں، اقتصادی حیثیت سے پیچھے ہیں، تعلیم میں پسماندہ ہیں ویسے بڑے بھولے بھالے ہیں ، حکومت انہیںآسانی سے چکنی چپڑی باتیں کر کے پھسلا لیتی ہے، ہندو انھیں پھسلا لیتے ہیں ۔ میںحیران ہوں کہ آخر ہندوؤں نے یہ ذہنیت کیوں اختیار کی اور یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کی ذہنیت ہے اور اگر کوئی اور وجہ نہ ہوتی تو میںکہتا کہ تنہا اسی وجہ سے حلقہ ہائے انتخاب علیحدہ رکھے جائیں۔۸ علامہ اقبال جدا گانہ انتخاب کو کسی بھی صورت ترک کرنے پر تیار نہیںتھے۔اکتوبر ۱۹۳۲ء میں بمبئی میںہندو مسلم مفاہمت کے سلسلے میں ہندوؤں ، نیشنلسٹ مسلمانوں اور خلافتی زعما کے درمیان گفتگو ہوئی۔ علامہ اقبال نے ۶ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو اس گفتگو کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس نازک وقت میں جدا گانہ اور مخلوط انتخاب کا مسئلہ چھیڑنا نامناسب ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہماری قوم اس نازک وقت میں اس تحفظ (جداگانہ انتخاب) کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس قائداعظم کی رائے یہ تھی کہ جداگانہ انتخاب اصل مقصود نہیں بلکہ اگر مسلمانوں کو دیگر آئینی تحفظات دے دیئے جائیں اور ان کے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں تو مخلوط انتخاب کو قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ قائداعظم کی رائے میں فرقہ وار مسئلے کے حل میں جداگانہ یا مخلوط انتخاب کی چٹان حائل نہیںہونی چاہیے۔ لکھنؤ یونی ورسٹی میں ہندوستان کی سیاسی صورتِ حال پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ میں خود مخلوط انتخاب اور آبادی کے اصول پر نشستوں کا حامی ہوں۔ لیکن میں قوم کی جانب سے اس کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کیونکہ میںجانتا ہوں کہ مسلمانوں کی اکثریت جداگانہ انتخاب کے اصول پر قائم ہے۔ بحالت موجودہ ہندوستان کے مفادات کو جداگانہ انتخاب کی خاطر قربان نہیںکیا جا سکتا۔ اگر ہندو پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کی اکثریت کے سوال پر راضی ہو گئے تو میں ذاتی طور پر مخلوط انتخاب کو ترجیح دوں گا۔۹ اس طرح جداگانہ انتخاب علامہ اقبال اور قائداعظم کے درمیان اختلاف اور دوری کا پہلا سبب بنا۔ اس سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ اقبال شروع سے لے کر آخر تک جداگانہ انتخاب کو مسلم قوم کے تحفظ و بقا کی خاطر ضروری سمجھتے رہے۔ ان کی رائے میں جداگانہ انتخاب مسلمانوں کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں اور وہ اپنے مذہب ، تہذیب و تمدن اور زبان کی حفاظت کی غرض سے جداگانہ انتخاب کو اپنی بقا کے لیے لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ ۱۹۳۰ء میں علامہ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا : چونکہ ہندوستان میں مختلف اقوام اور مذاہب موجود ہیں اس کے ساتھ ہی اگر مسلمانوں کی معاشی پستی، ان کی بے حد مقروضیت بالخصوص، پنجاب میں اور بعض صوبوں میں ان کی ناکافی اکثریتوں کا خیال کیا جائے تو آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ مسلمان جداگانہ انتخاب کے لیے کیوں مضطرب ہیں۔ علامہ اقبال جداگانہ انتخاب کو صرف ایک شرط پر چھوڑنے کو تیار تھے کہ صوبوں کی از سر نو تقسیم کسی ایسے اصول کے ماتحت ہو جائے کہ صوبے کے اندر تقریباً ایک ہی طرح کی ملتیں بستی ہوں اور ان کی نسل، مذہب، زبان اور ان کا تہذیب و تمدن ایک ہو تو مسلمانوں کو مخلوط انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۱۰ دوسری طرف قائداعظم مخلوط انتخاب کو چند شرائط کے ساتھ قبول کر لینے پر آمادہ تھے۔ آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ اگرچہ میں خود تو مخلوط انتخاب کا حامی ہوں، لیکن مسلم قوم جداگانہ انتخاب سے دستبردار ہونے کو کسی صورت بھی تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہندوستانی سیاست میں جداگانہ انتخاب کو خاص اہمیت حاصل رہی قائداعظم نے جداگانہ طریقِ انتخاب کے حق ہی میں رائے دی ۔ آپ کے مشہور چودہ نکات میں جداگانہ انتخاب کا مطالبہ شامل تھا۔ اس طرح اقبال اور قائداعظم کے درمیان جداگانہ انتخاب اختلاف کا سبب بنا۔قائداعظم جو ابھی تک ہندوؤں کی جانب سے مفاہمت سے مایوس نہیں ہوئیـ تھے اور اس بات پر تیار تھے کہ دونوں قوموں میں مفاہمت اور اتحاد کے حصول کی خاطر اگر جداگانہ انتخاب کو چھوڑنا پڑے تو مسلمانوںکو مخلوط انتخاب (چند شرائط کے ساتھ) قبول کر لینا چاہیے جب کہ علامہ اقبال ہندوؤں کی ’’ذہنیت‘‘ اور رویوں کے پیشِ نظر اس بات پر آمادہ نہیں تھے کہ مسلم حقوق اور جداگانہ انتخاب کو ہندو مسلم مفاہمت کی خاطر قربان کر دیا جائے۔ قائداعظم کا جداگانہ انتخاب کے بارے میں رویہ یہ تھا کہ چونکہ مسلمان اقلیت میں ہیں اس لیے ان کو اپنے حقوق کی حفاظت کے متعلق خوف لا حق ہے۔ لیکن اگر ایک مرتبہ دستور اساسی نافذ ہو گیا اور مسلمانوں کا عدم اعتماد اور خوف دُور ہو گیا تو وہ خود بخود جداگانہ انتخاب کو ترک کر دیں گے۔ ۱۱جب کہ علامہ اقبال کو ہندوؤں کی ذہنیت اور سوچ نے مایوس کر دیا تھا اور وہ جداگانہ انتخاب ہی کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری تصور کر تے تھے۔ سائمن کمیشن مانٹی گو چمسفورڈ اصلاحات (۱۹۱۹ئ) میں ایک شق یہ رکھی گئی تھی کہ دس سال کے بعد ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا جو ان اصلاحات کی کارکردگی کا جائزہ لے گا۔ اگرچہ یہ کمیشن اصولی طور پر تو ۱۹۲۹ء میںمقرر کیا جانا تھا مگر ہندوستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ کمیشن دو سال قبل ہی ۱۹۲۷ء میں مقرر کر دیا گیا۔ ۸ نومبر ۱۹۲۷ء کو برطانوی حکومت نے سر جان سائمن کی زیرِ قیادت ’’سائمن کمیشن‘‘ کی تقرری کا اعلان کیا۔ چونکہ اس کمیشن میں کسی بھی ہندوستانی کو شامل نہیں کیا گیا تھا اس لیے ہندوستان کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں نے سائمن کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر پنجاب پراونشل مسلم لیگ صرف وہ واحد جماعت تھی جس نے کمیشن کے ساتھ تعاون کا اعلان کیا۔ علامہ اقبال اس وقت پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے اس لیے آپ سائمن کمیشن سے تعاون کے حق میں تھے۔ ادھر قائداعظم محمد علی جناح ، سائمن کمیشن سے کسی بھی صورت تعاون کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ چنانچہ ان دونوں زعما کے درمیان سائمن کمیشن اختلاف کا دوسرا سبب بنا۔ اگرچہ علامہ اقبال سائمن کمیشن سے تعاون کے حق میںتھے لیکن آپ نے بھی کمیشن میںکسی ہندوستانی کو شامل نہ کرنے کو ’’غیر متوقع، مایوس کن اور تکلیف دہ ‘‘ قرار دیا۔ آپ نے ۹ نومبر ۱۹۲۷ء کو ایک بیان میں سائمن کمیشن میںہندوستانیوں کی عدم موجودگی کو ایک بڑی غلطی بتلایا لیکن ساتھ ہی کمیشن میں ہندوستانیوں کی عدم شمولیت کو ہندوستان کی ’’مختلف اقوام کے باہمی اختلاف اور کشمکش‘‘ کی وجہ قرار دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر کمیشن میں کسی ہندوستانی کو شامل بھی کیا جاسکتا تو وہ سر علی امام یا مسٹر جناح ہو سکتے تھے لیکن چونکہ یہ دونوں مخلوط انتخاب کے حامی تھے اس لیے پنجابیوں کے نزدیک یہ امر موجب اطمینان نہ تھا۔۱۲ اس موقع پر علامہ نے کمیشن سے تعاون یا عدم تعاون کے مسئلے پر اپنی رائے ظاہر کرنے سے احتراز کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اتحاد کانفرنس کی ناکامی اور دیگر رنج دہ حالات نے مسلمانوں کو اس پر مجبورکر دیا ہے کہ وہ بحیثیت اقلیت اپنی پوزیشن اور اپنے مفاد کا خاص خیال رکھیں۔۱۳ یعنی آپ نے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کر دیا۔ سائمن کمیشن میںہندوستانیوں کی عدم شمولیت کی وجہ سے جو ہنگامہ بر پا ہوا اس کو ختم کرنے کے لیے یہ تجویز پیش کی گئی کہ ہندوستان کی مرکزی مجلس قانون ساز کے ارکان میں سے ایک کمیٹی بنادی جائے۔ کمیشن کو ہندوستانی نقطۂ نظر سے باخبر کرنے کے لیے علامہ نے اس تجویز کو اگرچہ فائدے مند تصور کیا لیکن یہاں بھی اس خطرے کا اظہار کیا کہ پنجابی نقطہ خیال سے یہ مجلس بھی موجب اطمینان نہیں کیونکہ اسمبلی کے جن سر کردہ لوگوں کے مجلس میںمنتخب ہو جانے کا امکان ہے مثلاً مسٹر جناح ، نواب محمد اسماعیل خان، تصدق احمد شیروانی اور مولوی محمد یعقوب یہ سب مخلوط انتخاب کے حامی ہیں۔ ۱۴ سائمن کمیشن سے تعاون یا عدم تعاون کے مسئلے پر غورکرنے کے لیے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا ایک اجلاس۱۳ نومبر ۱۹۲۷ء کو سر محمد شفیع کے مکان پر منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پنجاب مسلم لیگ نے سائمن کمیشن سے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا۔اس اجلاس میںپنجاب پراونشل مسلم لیگ کے صدر سر محمد شفیع نے ایک قرار داد پیش کی جس میں کمیشن کے مقاطعہ کو مسلمانوں کے مفاد کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔ اجلاس کے بعد علامہ اقبال نے ایک اخباری بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کمیشن سے متعلق اپنی رائے کا واضح طور پر اعلان کیا۔ علامہ نے اپنے اس بیان میں سر محمد شفیع کی قرار داد کو ’’پنجابی مسلمانوں کے احساسات کا آئینہ‘‘ قرار دیا۔ آپ نے یہ اُمید ظاہر کی کہ دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی کمیشن کے متعلق موزوں طریق کار تجویز کریںگے۔علامہ نے سر جان سائمن کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کہاکہ ’’کمیشن کا فرض محض یہ ہوگا کہ ہندوستان کی طرف سے جو مختلف تجاویز پیش ہو ں انکی رو داد پیش کرے اور ان پر غوروخوض کرے۔ اس لیے ملک کی اقلیتی جماعتوں کے لیے یہ سنہری موقعہ ہے کہ وہ کمیشن کے روبرو اپنی اُمیدیں ، اپنی خواہشات اور اپنے اندیشے ظاہر کر سکیں۔ ۱۵ قائداعظم محمد علی جناح سائمن کمیشن کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ یوں تو آپ ابتداء ہی سے ہندوستانی سیاست میںایک نڈر اور بہادرکی حیثیت سے اپنا سکہ منوا چکے تھے۔ ۱۹۱۰ء میں جب آپ نے لارڈ منٹو (گورنر جنرل اور مرکزی قانون ساز کونسل کے صدر)کے ساتھ جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوںکے ساتھ انگریزوں کے طرز عمل پر ایک گرماگرم مکالمہ کیا تو ایک اخبار، اثنا عشری نے انہیں ’’جنگجو ممبر‘‘ قرار دیاتھا۔۱۶ اسی طرح بمبئی کے گورنر لارڈ و لنگڈن کی الوداعی پارٹی کے ضمن میں بھی قائداعظم نے جس جرأت اوربہادری کا مظاہرہ کیا ہندوستانی تاریخ میں وہ ’’جناح میموریل ہال‘‘ کی شکل میںہمیشہ یاد رہے گا۔ سائمن کمیشن کے مسئلے پر بھی قائداعظم نے اپنی سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے انگریزوں کی ’’ہندوستان دشمنی‘‘ اور ہندوستانیوںسے تحقیر و حقارت کے سلوک کی پُر زور مذمت کی۔ قائداعظم نے سائمن کمیشن میںکسی بھی ہندوستانی کو شامل نہ کرنے پر برطانوی حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی۔اس ضمن میںقائداعظم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے وائسرائے ہندکے سائمن کمیشن کے اعلان پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ رائل کمیشن کے متعلق میں نے وائسرائے کا اعلان پڑھا ہے۔ میرے لیے تو ایسے کمیشن کا تصور ہی شاق ہے جو ہندوستان کے آئندہ آئین اور ۳۵ کروڑ ہندوستانیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے مقرر ہو اور اس میںایک بھی ہندوستانی شامل نہ ہو۔اپنے اس بیان میںقائداعظم نے تمام جماعتوں سے اپیل کہ ’’وہ فوراً ایک جگہ جمع ہوں اور اس بات کا فیصلہ کریں کہ انہیں اس کے متعلق کیاکارروائی کرنی ہے۔‘‘ ۱۷ ۱۹ نومبر ۱۹۲۷ کو سائمن کمیشن کی تقرری کے خلاف بمبئی میں سر ڈنشا کی زیرِ صدارت ایک جلسہ منعقد ہوا ۔ اس جلسے میں قائداعظم محمد علی جناح نے سائمن کمیشن کے خلاف ایک قرار داد پیش کی جس میںکہا گیا کہ اہالیان بمبئی کا یہ جلسہ سائمن کمیشن کی تقرری کے خلاف پُر زور احتجاج کر تا ہے۔ اہل ہند اس کمیشن کو ہر گز قبول نہیں کر سکتے جس میں ملک کے آئندہ آئین کی ترتیب و تشکیل میںہندوستانی عوام کی شرکت و مساوی نیابت کے حق کو پامال کر دیا گیا ہے۔ یہ اجلاس اس امر کابھی اعلان کرتا ہے کہ بحالت موجودہ ہندوستان کے لوگ اس کمیشن کی سفارشات کو قبول کرنے کے پابند نہ ہوں گے۔۱۸ یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سائمن کمیشن کے خلاف ہونے والی طویل ایجی ٹیشن کا یہ پہلا جلسہ تھا۔ قائداعظم محمدعلی جناح نے سائمن کمیشن کے تقرر اور اس میں کسی بھی ہندوستانی کو شامل نہ کرنے پر برطانوی حکومت کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی۔ ۳۰جنوری ۱۹۲۸ء کو پونا میں مسٹر بھوپت کار کی زیرِ صدارت ایک جلسے میںتقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے سائمن کمیشن کو ’’لارڈ برکن ہیڈکا ساختہ پرداختہ‘‘ قرار دیا۔ آپ نے حاضرینِ جلسہ سے استدعا کی کہ وہ سائمن کمیشن کا اس نوع کامقاطعہ کریں کہ ’’سائمن صاحب دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کر سکیں۔۱۹ قائداعظم نے سائمن کمیشن کی تقرری کو’’ ہندوستانیوں کی روحوں کو ہلاک کرنے کی کوشش‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: جلیا نوالہ باغ میں انگریزوں نے ہمارے ہم وطنوںکو قتل کرکے ہمارے اجسام کونیست و نابودکیا تھا لیکن شاہی کمیشن کے تقرر سے ہماری روحوںکو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یکم جنوری ۱۹۲۸ء کو کلکتہ کے شردھا نند پارک میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے مختلف مجالس قانون سازکے ممبران سے اپیل کی کہ وہ سائمن کمیشن کی امداد کے لیے کمیٹیاں مرتب نہ ہونے دیں۔ آپ نے متنبہ کیا کہ اگر مجلس قانون سازکا کوئی رکن ایسی کمیٹی کا ممبر بنے گا تو ’’ اس کو سارے ملک کا مقابلہ کرناپڑے گا اور آئندہ انتخاب کے موقع پر ملک اس کو ٹھوکر مار کر نکال دے گا۔‘‘۲۰ ایک اور جلسے میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے سائمن کمیشن کی تقرری کو حکومت کی ایک ’’رجعت پسندانہ چال‘‘ قرار دیتے ہوئے ہندوستانیوں سے اپیل کی کہ وہ سائمن کمیشن کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ اس ضمن میںسب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ قائداعظم نے پنجاب پراونشل کانگرس کمیٹی کی وساطت سے پنجاب کے عوام کو ایک تار دیا جس میں اہلِ پنجاب سے اپیل کی گئی کہ وہ اس نازک موقع پر متحد ہو جائیں اور جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے کمیشن سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا واسطہ نہ رکھیں۔ ہندوستان کو حکومت میں حصہ دار بنانے سے انکار کیا گیا ہے اور اس کو کوئی وقعت نہیں دی گئی۔ مجھے پورا پورا یقین ہے کہ ہندوستان سے غداری کرنے میں کسی قوم کا فائدہ نہیں ہوگا سوائے ان لوگوں کے جن کوعوام کے گمراہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔۲۱ ظاہر ہے اس اشارے کی ہدف شفیع لیگ ہی تھی۔ اب علامہ اقبال اور قائداعظم میںبراہِ راست اخباری بیان بازی کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ۸دسمبر ۱۹۲۷ کو علامہ اقبال نے اپنے ایک اخباری بیان میں سائمن کمیشن کے ساتھ تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فرقہ وار اختلافات کا فیاضانہ اور منصفانہ تصفیہ کیا جائے۔ آپ نے قائداعظم کی کمیشن کے بائیکاٹ کی تجویز کے متعلق فرمایا کہ ’’ یہ ایک لاحاصل روش ہے اور اس کا حاصل افسوس اور ندامت کے سوا کچھ نہ ہوگا‘‘۔ علامہ اقبال نے کمیشن کے بائیکاٹ کو تباہ کن رویہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’کمیشن ہندوستان کی اقلیتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی پوری ضمانت لے کر آرہا ہے‘‘۔ قائداعظم نے کمیشن میںکسی بھی ہندوستانی کو شامل نہ کرنے کو ہندوستانیوں کی خود داری اور عزتِ نفس پرحملہ قرار دیا تھا۔علامہ اقبال نے اپنے بیان میں اس فقرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑالیا ہے کہ ہماری خودداری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وارجنگ اور خودداری یکجا قائم نہیںرکھی جا سکتیں۔ تدبر کا تقاضا ہے کہ اس نازک موقعے پرجذبات کو عقل اور دلیل پر حاوی نہ ہونے دیں۔۲۲ وزیر امور ہند لارڈ بر کن ہیڈ نے دارالامرا میں سائمن کمیشن کے سلسلے میں ایک بیان دیا جس میں اس نے سائمن کمیشن میںہندوستانیوں کو شامل نہ کرنے کے سلسلے میں دلائل پیش کیے تھے۔ لارڈبرکن ہیڈ نے کہا تھا کہ چونکہ ہندوستانیوں میںفرقہ وارانہ اختلاف اس درجہ گہرے موجود تھے اس لیے کسی بھی ہندوستانی کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا ۔ علامہ اقبال نے لارڈ برکن ہیڈ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے مندرجہ بالا بیان میں کہا تھا کہ ’’قابلِ افسوس فرقہ وارانہ حالت مجبور کر رہی ہے کہ ہم انکے بیانات اور اقوال طوعاً و کرعاً تسلیم کر لیں‘‘۔یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیںکہ قائداعظم محمد علی جناح نے لارڈ برکن ہیڈ کے مندرجہ بالا بیان پرکڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے مجلہ ہندوستان ریویو میں Lord Birkenhead's Latest Declaration on Indiaکے زیرِ عنوان ایک مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں قائداعظم نے لارڈ برکن ہیڈ کے بیان کے ایک ایک نکتے پر بحث کی اور سیکریٹری آف سٹیٹ کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے یہاں تک لکھاکہ ’’ سیکریٹری آف سٹیٹ ہماری خواہشات جاننے کے لیے بے تاب ہیں تو ہم یہ کہہ دیں کہ ہم انڈیا آفس بند کرنے اور سیکریٹری آف سٹیٹ کے عہدے کو ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔۲۳ ۱۹ دسمبر ۱۹۲۷ء کو ایک بیان میں علامہ اقبال نے قائداعظم کے ایک جوابی بیان پر کڑی نکتہ چینی کی۔ اس بیان میں علامہ اقبال نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ ہندو اور مسلمان صرف اتحاد و اتفاق سے ہی ہندوستان میںمستحکم سیاسی سلسلہ قائم کر سکتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اکثریت مسلمانوں کے ساتھ منصفانہ اور معقول تجاویز پر سمجھوتہ کرے۔ علامہ کی رائے تھی کہ ہندو، مسلمانوںکے تعاون کے بغیر اور ان کو ان کے حقوق دئیے بغیر سوراج کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ علامہ نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ہندو رہنما برطانوی حزب العمال کے ساتھ خفیہ سازشوں میں مصروف ہیں۔ علامہ نے اپنے بیان میں مسٹر جناح کو ’’چیف ایکٹر‘‘ کا خطاب دیا اور ان پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا : مسٹر جناح نے عجیب دِقت نظر سے اپنے تین دل پسند امور پر زور دیا ہے یعنی خودداری، مادرہند سے وفاداری اور مقاطعہ کے فوائد۔ اس سے ہم کو روشن تاریخ کی ایک سادہ کہانی یاد آگئی ہے۔ کسی پُرتکلف دعوت میں گوناں گوں گوشت اور شکار کی نمائش کی گئی تھی۔ لیکن آخر کار معلوم ہوا کہ یہ سب معمولی خنزیر کا گوشت تھا جس کو باورچی کی کاری گری نے مختلف صورتوں میں پیش کیا تھا۔ موجودہ صورت میں بھی مسٹر جناح ہندوستانی قومیت کومختلف فریب آمیز صورتوں میں مسلمانوں کے سامنے پیش کر تے ہیں‘‘۔ ۲۴ اس کمیشن سے تعاون کے سلسلے میںعلامہ اقبال کی یہ رائے تھی کہ چونکہ ہندو دولت، سیاسی اثروسوخ اور تعداد کے لحاظ سے مسلمانوں سے بہت آگے ہیں اس لیے جب تک مسلمان انگریز حکومت اور ہندوؤں سے اپنے حقوق کا مطالبہ مستعدی اور سر گرمی سے نہ کریں گے مسلمانوں کی سیاسی موت مسلمہ ہے۔‘‘ اس لیے آپ کمیشن سے تعاون پر زور دے رہے تھے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ علامہ اقبال نے سائمن کمیشن کے بارے میں جو بیانات دئیے ان میں ان کا نقطہ نظر ’’پنجابی نقطہ نظر ‘‘ تھا جب کہ قائداعظم آل انڈیا بنیادوں پر سوچ رہے تھے۔ قائداعظم کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمانوں دونوں کو مل کر کمیشن کا بائیکاٹ کرنا چاہیے جب کہ علامہ اقبال کا کہنا تھا کہ ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ پہلے مسلمانوں کے ساتھ فرقہ وارانہ معاملات طے کریں تا کہ حقیقی اتحاد کی فضا پیدا ہو سکے۔ یوں سائمن کمیشن قائداعظم اور علامہ اقبال کے درمیان اختلاف کا دوسرا سبب بنا۔ سائمن رپورٹ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ سائمن کمیشن سے تعاون اور عدم تعاون کرنے والے اقبال اور قائداعظم نے سائمن رپورٹ کے متعلق یکساں رائے قائم کی تھی۔ دونوں زعما سائمن رپورٹ سے مطمن نہیں تھے۔ ۲۴ جون ۱۹۳۰ کو علامہ اقبال نے سائمن رپورٹ کے متعلق ایک بیان دیا۔ علامہ کی رائے میں اس رپورٹ میں فیڈرل اسمبلی کی ترتیب کے علاوہ کوئی اور ’’جدت ‘‘ نہیں تھی۔ علامہ نے صوبجاتی خود مختاری کو ’’غیر واضح‘‘اور ’’غیر نمایاں‘‘ قرار دیا۔ پنجاب کے بارے میں کمیشن نے جو تجاویز پیش کیں علامہ نے ان پر کڑی نکتہ چینی کی اور کمیشن پر ’’ جانب داری‘‘ کا الزام عائد کیا۔ علامہ اقبال نے اس امر پر حیرت کا اظہارکیا کہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں یہ رائے تو ظاہر کی کہ بنگال اور پنجاب میں فرقہ وار حکومت قائم ہو جائے گی مگر کمیشن نے اس قسم کی ’’چھ ہندو فرقہ وارانہ‘‘ حکومتوں کونظر انداز کر دیا۔ آپ نے سندھ اور شمالی مغربی سرحدی صوبے سے متعلق مسلمانوں کے مطالبات کو پورا نہ کرنے پر ’’ سخت مایوسی‘‘ کا اظہار کیا۔ اپنے بیان کے آخر میں علامہ نے فرمایا کہ ’’رپورٹ کی تہ میںجو پالیسی کار فرما ہے اس کا مطلب ہمارے نزدیک اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں کے اہم مطالبات کو ٹھکرا کر انتہاپسند ہندوؤں کو خوش کرنا مقصود ہے۔‘‘ ۲۵ دوسری طرف قائداعظم نے بھی سائمن رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ۲۴ جون ۱۹۳۰ء کو آپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ یہ سفارشات ہندو مسلمانوں میں سے کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں ہیں۔ میںان فیصلوں کو اس وجہ سے بھی اہمیت نہیں دیتا کہ آخری فیصلہ لندن کانفرنس، حکومت برطانیہ اور پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔۲۶ ایک اور بیان میں قائداعظم نے سائمن رپورٹ کو ’’غیر اطمینان بخش‘‘ بتاتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ’’اسمبلی کے منتخب شدہ اراکین کے لیے سائمن رپورٹ ناقابل قبول ہے۔‘‘ ۲۷ نہرو رپورٹ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے درمیان نہرو رپورٹ اختلاف کا تیسرا سبب بنی۔ لیکن ایسامعلوم ہوتا ہے کہ نہرو رپورٹ ہی نے دونوں زعما کو ذہنی طور پر ایک دوسرے کے قریب لانے میںتھوڑی بہت مدد ضرور دی۔ وہ اس طرح کہ نہرورپورٹ میںجب مسلمانوں کے تمام مطالبات نظر انداز کر دئیے گئے تو دونوں زعمانے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں جوکچھ سوچا اس میں ایک بات مشترک ضرور تھی کہ ہندو کے ساتھ معاملات نپٹانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ وزیر امور ہند لارڈبرکن ہیڈ نے جب ہندوستانیوں کو ایک متفقہ آئین بنانے کا چیلنج دیا تو ہندوستانیوںنے اس چیلنج کو قبول کیا اور ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ ۱۹مئی ۱۹۲۸ء کو ہندوستان کی تمام قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ چونکہ اس اجلاس میں بھانت بھانت کی بولیاںبولنے والے لیڈر اور متضاد نقطہ ہائے نظر رکھنے والی سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی تھیں اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئین سازی کا کام ایک مختصر سی کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے۔ چنانچہ پنڈت موتی لال نہرو کی سر براہی میں ۹ ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کو نہرو کمیٹی کا نام دیا گیا۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ (آئین) تیار کی اس کو نہرورپورٹ کہا جاتا ہے۔ اس کمیٹی میں دو مسلمان سر علی امام اور شعیب قریشی بھی شامل تھے۔ سر علی امام نے ایک بھی اجلاس میں شرکت نہ کی جب کہ شعیب قریشی نے اس رپورٹ پر اختلافی نوٹ لکھا تھا جس کو شائع کرنے کی پنڈت موتی لال نہرو میں جرأت نہ ہوسکی۔ نہرو کمیٹی نے جو آئین تیار کیا اس میںمسلمانوں کے تمام اہم مطالبات عملاً نظر انداز کر دئیے گئے تھے۔ جداگانہ انتخاب ، مرکزی اسمبلی میںایک تہائی نمائندگی ، وفاقی آئین، صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری ، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، بلوچستان اور صوبہ سرحد میںاصلاحات کا اجرا یہ وہ اہم امور تھے جن سے برعظیم کے مسلمانوں کی بقا وابستہ تھی مگر نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے ان تمام مطالبات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ نہرو رپورٹ کی تیاری کے دوران قائداعظم انگلستان میںمقیم تھے۔ آپ ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۸ء کو انگلستان سے بمبئی واپس پہنچے ۔ بمبئی میں فری پریس کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ’’مجھے نہرو رپورٹ کے بغور مطالعہ کا موقع نہیں ملا ہے اور نہ فیصلہ جات لکھنؤ کی کوئی مستند روئیداد میرے پاس پہنچی ہے۔ البتہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان فیصلوں نے نہرو رپورٹ کی بعض تجاویز کی صورت کو بدل دیا ہے‘‘۔ قائداعظم نے ہندو مسلم تنازعات دورکرنے کی اس سعی پر مختلف رہنماؤں کی جدوجہد کی تعریف کی۔۲۸ اس موقع پر قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی تھے اور اس کے لیے انہوں نے تجویز کیا کہ ’’ہندوؤں کو لازم ہے کہ وہ زیادہ فراخ دلی اور رواداری سے کام لیں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اعتماد کو وسعت دیں‘‘۔ ۲۹قائداعظم کی خواہش تھی کہ نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کی حسب منشاء ترامیم شامل کرلی جائیں۔ ہندوستان واپس پہنچ کر قائداعظم نے یہاں کی سیاسی صورت حال کا بغور مطالعہ کیا۔ ۲ نومبر ۱۹۲۸ء کو آپ نے پنڈت موتی لال نہرو کو بذریعہ ایک خط مطلع کیا کہ ’’ہندو مسلم مفاہمت کے متعلق جو تجاویز (نہرو رپورٹ)آپ نے مرتب کی ہیں ان کو میں مسلم تجاویز دہلی جن کو حقیقتاً مدراس کانگرس اور مسلم لیگ ۱۹۲۷ء میں منظورکر چکی ہیں، کے خلاف سمجھتا ہوں‘‘۔ اپنے اس خط میں قائداعظم نے پنڈت نہرو سے اپیل کی کہ مجوزہ کنونشن کو مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس دسمبر تک ملتوی کر دیا جائے۔۳۰ اس کنونشن میںنہرو رپورٹ کو منظوری کے لیے پیش کیا جانا تھا۔ ابھی تک قائداعظم اس تگ ودو میں لگے ہوئے تھے کہ ہندو مسلم اتحاد کی کوئی صورت نکل آئے۔ آپ نہرو رپورٹ کو اسکی موجودہ شکل میں قبول کرنے کے لیے تیارنہیں تھے اور اسی غرض سے بار بار زور دے رہے تھے کہ مجوزہ کنونشن کا اجلاس اس وقت تک نہ بلایا جائے جب تک آل انڈیا مسلم لیگ اپنے اجلاس میںنہرو رپورٹ کے متعلق کوئی فیصلہ نہ کرلے۔ ایسو سی ایٹڈ پریس کے ایک نمائندے سے بمبئی میںملاقات کے دورا ن آپ نے کہا کہ ’’نہروکمیٹی کو لازم ہے کہ جب تک مختلف جماعتیں اپنے اپنے اجلاس منعقد نہیں کر لیتیں وہ کنونشن کے اجلاس کو ملتوی کردے۔ مجھے امید ہے کہ نہرو کمیٹی کنونشن کا اجلاس منعقدکرنے میں عجلت سے کام نہیں لے گی‘‘۔ قائداعظم نے اپنے اس بیان میں ہندو مسلم اتحاد کو ہندوستان کی آئندہ ترقی کا راز قرار دیا۔۳۱ قائداعظم کی زیرِ صدارت بمبئی پریزیڈنسی مسلم لیگ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جہاں نہرو رپورٹ کے متعلق ایک قرار داد منظور کی گئی۔ اس قرار داد میں کہا گیا کہ نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے حقوق کی محافظت نہیں کی گئی۔ اجلاس کے بعد قائداعظم نے اس قرار داد پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ جہاںتک مجھے علم ہے کوئی شخص ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ نہرو رپورٹ الہامی صحیفہ ہے اور صرف یہی امر کہ ایک نہایت ہی اہم مجلس کلکتہ میںرپورٹ پر غور کرنے والی ہے اور آخری فیصلہ اسی کا ہو گا اس کے لیے کافی دلیل ہے۔‘‘ ۳۲ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس کلکتہ میں منعقد ہوا جہاں اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم کی زیرِ قیادت ایک کمیٹی مجوزہ کنونشن میں شرکت کے لیے بھیجی جائے۔ اس کمیٹی نے نہرو رپورٹ میں ترامیم کامسودہ مرتب کیاتاکہ کنونشن میں اسے پیش کیا جائے۔چنانچہ آل پارٹیز کنونشن میںقائداعظم نے شرکت کی اور کنونشن پر زور دیا کہ وہ نہرو رپورٹ میںمسلمانوں کی مجوزہ ترامیم شامل کر لیں تا کہ ہندو مسلم اتحاد کی راہ ہموار ہو سکے۔ مگر قائداعظم کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں اور ان کو کہنا پڑا کہ ’’اب ہمارے تمھارے راستے جدا جدا ہیں‘‘۔ اب قائداعظم نہرو رپورٹ کو کسی بھی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیںتھے۔ چنانچہ مرکزی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے واضح کیا کہ ’’نہرو رپورٹ مسلمانوں کے مطالبات کے برعکس مرتب کی گئی ہے اور اس کومسلمانوںنے منظور نہیں کیا ہے‘‘۳۳روزنامہ انقلاب کے نمائندہ خصوصی سے گفتگو کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ‘‘جس حد تک نہرو رپورٹ کے اصول اساسی کا تعلق ہے میں ان کے سخت خلاف ہوں اور میرے نزدیک یہ اصول مسلمانوں کے مقاصد کے منافی ہیں اس لیے میں نہرو رپورٹ کامخالف ہوں۔ میرے خیال میںنہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے مقاصد اساسی کی حفاظت کے لیے کوئی سامان موجود نہیں۔‘‘ ۳۴ اخبار ڈیلی کرانیکل کے نمائندہ سے دوران گفتگو میںآپ نے نہرو رپورٹ کے بارے میںبہت زور دے کر کہا کہ ’’مسلم قوم نہرو رپورٹ کو ہرگزمنظورنہیں کر سکتی اور ایساہرگز نہ کرے گی۔ کسی قسم کی چال بازیاںعامتہ المسلمین سے نہرو رپورٹ کی منظوری حاصل نہیں کر سکتیں۔ ۳۵ نہرورپورٹ کی اشاعت کے بعدمسلم قوم تین حصوں میں بٹ گئی۔ اول نیشنلسٹ گروپ جو اس رپورٹ کو من وعن قبول کرنے پر زور دے رہا تھا ادھر دوسرا گروپ جس کی قیادت میاںمحمد شفیع کر رہے تھے نہرو رپورٹ کو کسی بھی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں تھا جبکہ تیسرا گروپ جس کی زمامِ قیادت قائداعظم کے ہاتھوںمیںتھی نہرورپورٹ کو اس صورت میںقبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کر رہا تھا بشرطیکہ اس میںمسلمانوںکی حسب منشا ترامیم شامل کر لی جائیں۔ چونکہ اس دور میں علامہ اقبال کا تعلق سر محمد شفیع کی لاہور لیگ سے تھا اس لیے آپ بھی نہرورپورٹ کے سخت مخالفین میں شمار ہوتے تھے۔ لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع میں نہرو رپورٹ کے سرسری مطالعہ کے بعد علامہ اقبال نے اپنے ایک بیان میں رپورٹ کو ’’صحیح الدماغی‘‘ کانمونہ قرار دیا تھا۔ ۲۰ اگست ۱۹۲۸ء کو ایسوسی ایٹڈ پریس کوایک بیان دیتے ہوئے آپ نے کہاکہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے اس سے میں نے یہی نتیجہ نکالا ہے کہ یہ صحیح الدماغی کا ایک نمونہ ہے۔ اور اس سے ملک کے اہم آئینی مشکلات کو حل کرنے کی حقیقی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر ایک ہندوستانی ان ممتاز ہندوستانی قانون دانوںکی مرتب کردہ رپورٹ کو فخر و مباہات کے جذبات کے بغیر مطالعہ نہیں کرے گا۔۳۶ علامہ اقبال نے اپنے اس بیان میںنہرو رپورٹ کے چند اہم نکات پرتبصرہ بھی کیا۔ نہرورپورٹ نے ہندوستان کے لیے درجہ مستعمرات dominion statusکا مطالبہ کیا تھا۔ علامہ نے رپورٹ کے مرتبین سے اس بارے میں ’’کلی اتفاق‘‘ کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ ’’اس رپورٹ میں درجہ مستعمرات کے مطالبے سے اہل ملک کے صحیح جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے۔ جہاںتک مجھے علم ہے تمام ملک اس سے زیادہ کسی قسم کی حکومت کا خواست گار نہیں‘‘۔ اس بیان کے آخر میںعلامہ نے ملک کی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس رپورٹ کی طرف توجہ دیںاور ’’فرقہ وار تنازعات میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے دستور اساسی کے متعلق کسی مستحسن باہمی سمجھوتے پر پہنچیں کیونکہ اسی پرملک کی موجودہ نجات اور آئندہ عظمت کا انحصار ہے۔‘‘ ۳۷ شروع میں علامہ اقبال نہرو رپورٹ کوملک کے آئینی مسائل کے حل کی کوشش سمجھ رہے تھے۔ ایک تو چونکہ آپ کا تعلق آل انڈیا مسلم لیگ کے شفیع گروپ سے تھا اور دوسرے رپورٹ کے تفصیلی مطالعہ کے بعد آپ نے اس کے متعلق اپنی رائے تبدیل کر لی اور پھر اسی رائے پر قائم رہے۔ اب آپ اس رپورٹ کوکسی بھی صورت میںقبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بعد میں علامہ اقبال نہرو رپورٹ کی سختی سے مخالفت کرتے رہے۔ مارچ ۱۹۲۹ء میں آل انڈیا مسلم لیگ (جناح لیگ) کے ایک اجلاس میں نہرو رپورٹ کے چند حامیوں نے قائداعظم کی غیرموجودگی میںاس کی تائید میں ایک قرار داد منظور کرانی چاہی اس واقعہ پر اپریل ۱۹۲۹ء کو علامہ اقبال نے جو بیان جاری کیا اس سے نہرو رپورٹ کے بارے میں ان کے سخت موقف کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ علامہ نے اپنے اس بیان میںبار بار اس امر پر زور دیا کہ نہرو رپورٹ کے حامی صرف ایک ’’مختصر سی ٹولی‘‘ پر مشتمل ہیں اور عام مسلمانوں کی رائے نہرو رپورٹ کے خلاف ہے۔ ۳۸ اگرچہ نہرو رپورٹ بھی دونوں لیڈروں کے درمیان اختلاف کا ایک سبب بنی لیکن اس رپورٹ کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس نے دونوں زعما کو ایک ہی نتیجے پر پہنچایا۔ نہرو رپورٹ کی منظوری کے بعد ایک طرف تو قائداعظم پر ’’ہندو ذہنیت ‘‘ بالکل واضح ہو گئی اور دوسری طرف علامہ اقبال کا بھی یہ یقین پختہ ہو گیا کہ ہندؤ قوم مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیںہو سکتی۔ چنانچہ آل پارٹیز مسلم کانفرنس کے اجلاس دہلی (۱۹۲۹ئ) میں آپ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ گذشتہ تین چار سال سے ہم کو جو مشاہدات و تجربات حاصل ہورہے ہیںوہ نہایت مفید اور نتیجہ خیز ہیں۔ ہم کو جو باتیں اپنے برادران وطن کے متعلق قیاسی طور پر معلوم تھیں اب وہ یقینی طور پر ہمارے علم میںآگئی ہیں۔۳۹ ژ ژ ژ حواشی ۱۔ ابو الحسن علی ندوی، نقوشِ اقبال، لکھنؤ ، ۱۹۷۰ئ، ص ۱۱۔ ۲۔ فقیر سید وحید الدین ، روزگارِ فقیر ،حصہ اول، لاہور، ۱۹۶۳ء ،ص ۱۰۴۔ 3. K.K. Aziz, Britain & Muslim India, London, 1963, p-89. ۴۔ محمد امین زبیری، سیاستِ ملیہ، آگرہ ، ۱۹۴۱ئ، ص ۲۱۱۔ ۵۔ سید نور احمد، مارشل لاء سے مارشل لاء تک،لاہور، ۱۹۶۲ئ، ص ۷۹۔ ۸۰۔ ۶۔ احمد سعید ،حصولِ پاکستان ،ایجوکیشنل ایمپوریم، لاہور، ۱۹۷۶ئ،ص ۱۶۵۔۱۷۰۔ ۷۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال،ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، ۱۹۶۹ئ، ص ۲۶۔ ۸۔ ایضاً،ص ۲۷۔ ۹۔ روزنامہ ، الجمیعۃ ،دہلی ، ۱۳ اگست ۱۹۳۱ئ، ص ۳۔ ۱۰۔ لطیف احمد شیروانی، حرفِ اقبال، المنار اکیڈمی ،لاہور، ص ۳۴۔ ۳۵۔ ۱۱۔ احمد سعید، گفتارِ قائداعظم، اسلام آباد ، ۱۹۷۶ئ،ص ۱۰۴۔ ۱۲۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال،ص ۵۰۔ ۱۳۔ ایضاً، ص ۵۱۔ ۱۴۔ ایضاً، ص ۵۰۔ ۱۵۔ ایضاً، ص ۵۲۔ ۱۶۔ روزنامہ ، پیسہ اخبار، لاہور ، ۲۴ مارچ ۱۹۱۰ء ص ۸۔ ۱۷۔ احمد سعید، گفتارِ قائداعظم، ص ۵۴۔ 18. G. Allana, Quaid-e-Azam: The Story of a Nation, 1967. ۱۹۔ احمد سعید، گفتارِ قائداعظم، ص ۵۶۔ ۲۰۔ ایضاً،ص ۵۶۔ ۲۱۔ روزنامہ ، پیسہ اخبار، لاہور، ۱۲ جنوری۱۹۲۸ئ، ص ۱۸۔ 22. Ahmed Saeed, Writings of Quaid-e-Azam, Lahore, 1976. ۲۳۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال،ص ۵۳۔ ۵۴۔ ۲۴۔ ایضاً، ص ۱۰۷۔ ۱۰۸۔ ۲۵۔ ایضاً۔ ۲۶۔ روزنامہ ، انقلاب ، لاہور، ۲۷ جون ،۱۹۳۰ ء ، ص ۶۔ ۲۷۔ احمد سعید، گفتارِ قائداعظم، ص ۹۴۔ ۲۸۔ روزنامہ ، انقلاب ، لاہور ، ۳۰ اکتوبر، ۱۹۲۸ ئ، ص ۵۔ ۲۹۔ ٰٓایضاً، ص ۵۔ ۳۰۔ روزنامہ ، انقلاب ،لاہور ، ۶ نومبر ، ۱۹۲۸ئ، ص ۴۔ ۳۱ ۔ ایضاً، ۱۷ نومبر ، ۱۹۲۸ئ، ص ۴۔ ۳۲۔ ایضاً، ۴ دسمبر ، ۱۹۲۸ئ، ص ۵ ۔ ۳۳۔ احمد سعید، گفتارِ قائداعظم، ص ۷۰ ۔ ۳۴۔ ایضاً، ص ۷۶۔ ۳۵۔ روزنامہ ، انقلاب ،لاہور، ۹ اپریل ،۱۹۲۹ئ، ص ۵۔ ۳۶۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال، ص ۶۶۔ ۳۷۔ ایضاً، ص ۶۹۔ ۳۸۔ ایضاً۔ ۳۹۔ ایضاً،ص ۸۷ ۔ ۹۱۔ باب دوم خیالات میں ہم آہنگی و یکسانیت خ علیحدگی سندھ خ شمال مغربی سرحدی صوبے میں اصلاحات خ فرقہ وار فیصلہ خ وائٹ پیپر خ آل انڈیا فیڈریشن خ مغربی طرز جمہوریت خ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت خ فلسطین گذشتہ باب میںبتلایا گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے درمیان جداگانہ انتخاب دہلی مسلم تجاویز، سائمن کمیشن اور نہرورپورٹ اختلاف کا سبب بنیں۔ مختلف مسائل پرمتضاد رائے رکھنے والے دونوں زعماء چند سیاسی مسائل اورمعاملات کے بارے میںیکساں خیالات رکھتے تھے۔ہندوستانی سیاست سے متعلق بہت سے اہم سیاسی و آئینی مسائل ایسے تھے جن کے متعلق دنوں زعما کی رائے ایک ہی جیسی تھی۔ اگر دونوں زعما کی سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں لیڈروں کے درمیان اختلاف کا عرصہ صرف ۱۹۲۷ء سے ۱۹۲۹ء تک محدود رہا اور اس عرصہ میں بھی زیادہ تر اختلافات سائمن کمیشن کے بارے میں پیدا ہوئے وگرنہ اکثر و بیشتر مسائل پر دونوںایک جیسی رائے رکھتے تھے۔ دونوں کے خیالات میں یکسانیت اور ہم آہنگی تقریباً۱۹۲۹ء سے شروع ہو چکی تھی۔ خود قائداعظم نے ۱۶ مئی ۱۹۴۴ء کو انعا م اللہ خاں کے نام اپنے خط میں اسی امرکا اعتراف کیا کہ اقبال اور میرے درمیان ۱۹۲۹ء سے ہی خیالات میںیکسانیت اور ہم آہنگی پیدا ہو چکی تھی۔ ۱ اب ان اہم سیاسی امورکا جائزہ لیا جاتاہے جن پر دونوںزعماء کے خیالات ایک جیسے تھے۔ علیحدگی سندھ انگریزوں نے سندھ پر ناجائز قبضے کے بعد اس کو صوبہ بمبئی سے ملحق کر دیا تھا اور یوںمسلمانوں کا یہ اکثریتی صوبہ اپنی جداگانہ حیثیت کھو بیٹھا تھا۔ چونکہ سندھ اوربمبئی میںکوئی چیز بھی مشترک نہیں تھی اس لیے نہ صرف مسلمانانِ سندھ بلکہ دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی دیر سے مطالبہ کر تے چلے آرہے تھے کہ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کیا جائے اور اسے ایک الگ صوبے کی حیثیت دی جائے۔ مسلمانوں کے یہ دونوںزعما سندھ کوبمبئی سے جدا کر کے ایک علیحدہ صوبہ بنانے کے زبردست حامی تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی ’’دہلی مسلم تجاویز ‘‘ میںبھی سندھ کی بمبئی سے علیحدگی ایک اہم شرط کے طور پر شامل تھی۔ قائداعظم نہرو رپورٹ میںجن ترامیم کو شامل کرانے کے متمنی تھے ان میں سندھ کی علیحدگی کامعاملہ خاص طور پرقابل ذکر ہے۔ اسی طرح آپ کے چودہ نکات میںبھی سندھ کی علیحدگی کا مطالبہ شامل تھا۔ پہلی گول میز کانفرنس میںقائداعظم کو سندھ سے متعلق ذیلی کمیٹی (sub committee) کا رکن مقرر کیا گیا۔ آپ نے ذیلی کمیٹی کی کارروائی میں گہری دلچسپی لی اور علیحدگی سندھ کی زبردست حمایت کی۔ قائداعظم کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ سندھ کی انتظامیہ بمبئی کی انتظامیہ سے بالکل جدا ہے اور عدالتی نظم و نسق کے سلسلے میں بھی چونکہ سندھ آزاد ہے اس لیے اسے بمبئی کے تحت کیوں رکھا جا رہا ہے۔ جو لوگ سندھ کی علیحدگی کے خلاف تھے وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ سندھ اپنے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکے گا لیکن قائداعظم اس مفروضے میں یقین نہیں رکھتے تھے آپ کا کہنا تھا کہ سند ھ ایک خود کفیل صوبہ ہے جو اپنے اخراجات کا خود متحمل ہو سکتا ہے۔ ذیلی کمیٹی میں اسی موضوع پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ: تھوڑی دیر کے لیے میں بحیثیت بمبئی کے نمائندہ کے کہتا ہو ں کہ اگر واقعی سندھ خسارے کا صوبہ ہے تو آخر اس کو بمبئی کے ساتھ ہی کیوں ملحق کیا گیا ہے۔ اس صوبے کو کسی اور صوبے کے ساتھ ملحق کر دینا چاہیے۔ آپ نے اس امر کی تر دید کرتے ہوئے کہ سندھ ایک خسارے کا صوبہ ہے کہا ’’میرا خیال ہے کہ سند ھ خسارے کا صوبہ نہیں ہے لیکن اگر یہ خسارے کا صوبہ ہے تو اس سفید ہاتھی (سندھ) کو کسی اور صوبے سے ملحق کر دینا چاہیے۔۲ قائداعظم نے ذیلی کمیٹی کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی کہ سندھ کی علیحدگی کے خلاف کئی ایک طبقات ہو سکتے ہیں لیکن ذیلی کمیٹی کو چاہیے کہ وہ صرف سندھ کے لوگوں کے مفاد اور ان کی خوشحالی ہی کومدِنظر رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کرے ۔۳ قائداعظم نے سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کرنے کی جدوجہد کو جاری رکھا یہاں تک کہ آپ کی کوششوں سے یکم اپریل ۱۹۳۴ء کو سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے ایک جداگانہ صوبے کی حیثیت دے دی گئی۔ قائداعظم کی مانند علامہ اقبال بھی سندھ کی بمبئی سے علیحدگی کے زبردست خواہاں تھے۔ آپ کی بھی یہ رائے تھی کہ چونکہ سندھ اور بمبئی میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں اس لیے سندھ کوبمبئی سے علیحدہ کر دیا جائے۔ ۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے آپ نے سندھ کی علیحدگی کا پُر زور مطالبہ کیا۔ اپنے مشہور خطبے میں آپ نے کہا کہ ’’احاطہ بمبئی اور سندھ میں کوئی چیز تو مشترک نہیں۔ علاوہ ازیں اگر سندھ کے زراعتی مسائل جن سے حکومت بمبئی کو مطلق کوئی ہمدردی نہیں اور اس کی بے شمار تجارتی صلاحیتوں کا لحاظ رکھا جائے اس لیے کہ کراچی بڑھتے بڑھتے ایک روز لازماًہندوستان کا دوسرا دارالسلطنت بن جائے گا تو صاف نظر آتا ہے کہ اس کا احاطہ بمبئی سے ملحق رکھنا مصلحت اندیشی سے کس قدر دور ہے۔ ۴ علامہ اقبال نے سائمن کمیشن رپورٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے بھی سندھ کی علیحدگی کا سوال اٹھایا تھا۔ چونکہ سائمن رپورٹ میں سندھ کی علیحدگی کے سوال پرپوری طرح غور نہیںکیا گیا تھا اس لیے علامہ نے سائمن رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’سندھ کی علیحدگی کے مسئلہ سے عملی طور پر بے پروائی کا اظہارکیا گیا ہے۔ یہ تنازع ہندوستانی مسلمانوںکو اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنے دے گا جب تک نئے دستور کے نفاذ سے قبل اس کا کوئی اطمینان بخش تصفیہ نہیںہو جاتا۔ ۵ شمالی مغربی سرحدی صوبے میں اصلاحات دونوں سیاسی زعما جس دوسرے معاملہ پر متفق تھے وہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں آئینی اصلاحات کے اجرا کامعاملہ تھا ۔ چونکہ صوبہ سرحد آئینی اصلاحات سے محروم تھا اس لیے مسلمانوں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اس صوبے میںبھی اصلاحات رائج کی جائیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بھی مسلمانوں کے اس مطالبے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات کے اجرا کا پرزور مطالبہ کیا۔ ۱۲ فروری ۱۹۲۶ء کومرکزی اسمبلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ممبر سید مرتضٰی نے صوبہ سرحد میں اصلاحات کے اجرا سے متعلق ایک قرار داد پیش کی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ء کو اس قرارداد پر بحث کرتے ہوئے صوبہ سرحد میں آئینی اصلاحات کے نفاذ کی زبردست حمایت کی۔ ہندو سیاست دان صوبہ سرحد میں اصلاحات کے اجرا کی اس بنا پر مخالفت کرتے تھے کہ وہاں پانچ فیصد ہندو آبادی نے صوبے کی معیشت کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کر رکھا تھا۔ اس لیے انہیں ڈر تھا کہ صوبے کے قیام سے ان کی یہ اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ اس لیے پانچ فیصد ہندوئوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ ۹۵ فیصد مسلمانوں کے حقوق کو غصب کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں یہ تجویز پیش کرتے تھے کہ اگر صوبہ سرحد کا الحاق پنجاب کے ساتھ کر دیا جائے تو سرحد کی پانچ فیصد ہندو آبادی مطمئن ہو سکتی ہے۔ قائداعظم کا مطالبہ تھا کہ صوبہ سرحد کا الحاق خواہ پنجاب سے ہو یا نہ ہو مگر وہاں اصلاحات کا اجرا نہایت ضروری ہے۔ ۱۹۲۷ء میں دہلی مسلم تجاویز میں قائداعظم نے ایک مرتبہ پھر صوبہ سرحد میں اصلاحات کے اجرا پر زور دیا۔ ۱۹۲۸ء میں مرکزی اسمبلی میں سرفراز حسین خاں کی تخفیف زر کی تحریک پر بحث کرتے ہوئے قائداعظم نے دوبارہ صوبہ سرحد میں اصلاحات کے نفاذ کا مسئلہ اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کہ اس مسئلے پر گذشتہ پانچ سال سے غور و خوض ہو رہا ہے آخر یہ مسئلہ کب طے ہوگا؟ قائداعظم نے اس بارے میں حکومت کے تساہل پر کڑی نکتہ چینی کی اور طنزیہ انداز میں دریافت کیا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ سر ڈینس برے (Sir Dennis Bray) اصلاحا ت کے متعلق اس صدی کے خاتمے سے پہلے پہلے ضرور اعلان کریں گے۔ ۶ قائداعظم کے مشہور چودہ نکات میں بھی صوبہ سرحد میں اصلاحات کے اجرا کا مطالبہ شامل کیا گیا تھا۔ قائداعظم کی مانند علامہ اقبال بھی صوبہ سرحد میں اصلاحات کے اجرا کی پُرزور وکالت کرتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بھی اس بارے میں اپنی رائے کا نہایت وضاحت کے ساتھ اعلان کیا۔ ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے صدارتی خطبے میں اس اہم معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ: کمیشن (سائمن کمیشن) نے عملاً اس امر سے انکار کیا ہے کہ اس صوبے کے باشندوں کو اصلاحات کا حق حاصل ہے۔ ان کی سفارشات برے کمیٹی سے بھی کم ہیں اور وہ جس کونسل کی تجویز پیش کرتے ہیں وہ چیف کمشنر کی مطلق العنانی کے لیے محض ایک آڑ کا کام دے گی۔ افغانوں کا یہ پیدائشی حق کہ وہ سگریٹ روشن کر سکیں محض اس لیے سلب کر لیا گیا کہ وہ ایک بارود خانے میں رہتے ہیں۔ ارکانِ کمیشن کی یہ دلیل کسی قدر بھی لطیف کیوں نہ ہو اس سے کسی جماعت کا اطمینان نہیں ہو سکتا۔ سیاسی اصلاحات کی مثال روشنی کی سی ہے نہ کہ آگ کی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم تمام انسانوں کو یہ روشنی پہنچائیں خواہ وہ بارود میں رہتے ہوں یا کوئلے کی کان میں۔ ۷ فرقہ وار فیصلہ (Communal Award) دوسری گول میز کانفرنس کے دوران برطانوی وزیراعظم ریمزے میکڈانلڈ نے یہ اعلان کیا کہ اگر ہندوستانی نمائندے کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے تو اس صورت میں برطانوی حکومت اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نافذ کردے گی۔ چنانچہ حکومت نے فرقہ وار فیصلے کا اعلان کیا جس کے تحت مختلف قانون ساز کونسلوں میں مختلف قوموں کی نمائندگی کا اعلان کیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے اگرچہ اس ایوارڈ میں جداگانہ انتخاب کا حق جاری رکھا گیا تھا لیکن مسلمان اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم فرقہ وار فیصلے کے متعلق بھی ایک جیسی رائے رکھتے تھے۔ دونوں کا خیال تھا کہ اگرچہ فرقہ وار فیصلہ مسلمانوں کے تمام مطالبات کو پورا نہیں کرتا تاہم جب تک کوئی دوسرا فیصلہ تیار نہیں ہو جاتا اس وقت تک مسلمانوں کو اس فیصلے کی حمایت کرنی چاہیے۔ علامہ اقبال نے فرقہ وار فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطبے (۱۹۳۰ئ) میں فرمایا کہ ’’بمبئی کے ایک صاحب فرماتے ہیں کہ حکومت برطانیہ کی بجائے یہ کام ڈاکٹر اقبال کے سپرد ہوتا تو بھی یہی فیصلہ ہوتا۔ میں ان صاحب کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے فرقہ وار مسئلے کا فیصلہ کرنا میرے ذمے ہوتا تو میں مسلمانانِ ہند سے ہرگز اتنی ناانصافی نہ کرتا جتنی کہ موجودہ فیصلے میں کی گئی ہے۔‘‘ علامہ نے اس فیصلے کو مسلمانوں کے ساتھ ’’صریح ناانصافی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: میں کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس فیصلے کے خلاف جتنی جائز شکایات مسلمانانِ ہند کو ہو سکتی ہیں کسی اور فرقے کو نہیں ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ برطانوی ضمیر نے کسی جماعت کے ساتھ اتنی صریح ناانصافی کو کیسے گوارا کیا۔ ۸ علامہ اقبال اگرچہ کمیونل ایوارڈ کو مسلمانوں کے ساتھ صریح زیادتی تصور کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ کی یہی رائے تھی کہ کسی دوسرے تصفیے تک فرقہ وار فیصلے کی حمایت کرنا ہی مسلمانوں کے لیے صحیح راہ عمل ہے۔ جون ۱۹۳۴ء میں کانگرس نے کمیونل ایوارڈ کے متعلق ایک ’’منافقانہ قرارداد ‘‘منظور کی کہ وہ اس فیصلے کو نہ تو منظور کرتی ہے اور نہ ہی مسترد۔ علامہ اقبال نے ۱۹ جون ۱۹۳۴ء کو کانگرس کی اس روش پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ’’کانگرس کی مجلس عاملہ نے اس قرارداد کے ذریعے اپنی اندرونی فرقہ پرستی کو چھپانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کوشش میں اس نے اپنے مقاصد کو اس حد تک بے نقاب کر دیا ہے کہ کوئی مسلمان اب اس شعبدہ بازی سے متاثر نہیں ہو سکتا۔‘‘ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جرأت کے ساتھ فرقہ وار فیصلے کی حمایت کریں اگرچہ اس میں ان کے تمام مطالبات کو منظور نہیں کیا گیا۔ تاہم یہی ایک راہ عمل ہے جس پر وہ ایک باعمل جماعت کی حیثیت سے گامزن ہو سکتے ہیں۔ ‘‘ ۹ قائداعظم محمد علی جناح کی بھی فرقہ وار فیصلے کے متعلق یہی رائے تھی۔ آپ نے ۷ فروری ۱۹۳۵ء کو مرکزی اسمبلی میں جائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی رپورٹJoint Parliamentary Committee Report پر تقریر کرتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگرچہ مسلمان بھی فرقہ وار فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں لیکن جب تک فرقہ وار مسائل کا متبادل حل پیش نہیں کیا جاتا اس وقت تک انہیں فرقہ وار فیصلے ہی کی حمایت کرنی چاہیے۔۱۰ وائیٹ پیپر (White Paper) حکومت برطانیہ نے گول میز کانفرنسوں کی سفارشات پر مبنی ایک قرطاس ابیض White paper مارچ ۱۹۳۳ء میں شائع کیا۔ مسلمانانِ ہند کے دونوں مسلم رہنما وائیٹ پیپر سے بالکل غیر مطمئن تھے اور دونوں نے اس کی کھل کر مذمت کی تھی۔ علامہ اقبال کے نزدیک ’’قرطاس ابیض مسلمانوں کی غیر معمولی توجہ‘‘ کا طالب تھا۔ آپ نے اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی اور مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے اس میں جو قابل اعتراض باتیں تھیں ان پر نکتہ چینی کی۔ علامہ نے فیڈرل اسمبلی میں مسلمانوں کی ناکافی نمائندگی کو ’’بے حد مایوس کن‘‘ بتلایا۔ علامہ نے اس امر پر بھی اعتراض کیا کہ وائیٹ پیپر میں نو نشستوں کو عورتوں کے لیے حقوق خصوصی کے طور پر مخصوص کر دیا گیا۔ چونکہ ان نشستوں میں رائے دہندگان کی اکثریت غیر مسلموں کی تھی اس لیے علامہ کے خیال میں ’’مسلم خواتین کا اسمبلی تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔‘‘ علامہ نے گورنروں کے بے حد وسیع اختیارات پر بھی کڑی نکتہ چینی کی۔ علامہ کے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ اس آئین میں مسلمانوں کے شرعی قانون کے مناسب تحفظ کا یقین نہیں دلایا گیاتھا۔ ۱۱ وائیٹ پیپر کے بارے میں علامہ اقبال اور قائداعظم کی رائے میں صرف ایک فرق تھا کہ علامہ نے اس کی مذمت میں سخت الفاظ استعمال نہیں کیے جبکہ قائداعظم نے وائیٹ پیپر کی مذمت میں سخت ترین الفاظ استعمال کیے۔ قائداعظم نے وائیٹ پیپر کے متعلق فرمایا کہ ’’یہ ہندوستان کو جھانسہ دینے کا ایک طریقہ ہے۔‘‘۱۲ آپ کے نزدیک وائیٹ پیپر کا مقصد ’’وائیٹ ہال سے ہندوستان پر حکومت کرنا ہے نہ کہ خود مختار حکومت کا قیام۔‘‘ قائداعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت اور اختیارات پر تبصرہ کرتے ہوئے گورنر جنرل کو ’’مطلق العنان ڈکٹیٹر‘‘ کا نام دیا۔ ۱۳ قائداعظم کے خیال میں ’’وائیٹ پیپر کی مذمت کے لیے کسی استدلال یا منطق کی ضرورت نہیں بلکہ وائیٹ پیپر کی تجاویز کا ایک سرسری مطالعہ ہی کافی ہوگا۔‘‘ ۱۴ آل انڈیا فیڈریشن قائداعظم اور علامہ اقبال دونوں ہندوستان میں وفاقی طرز حکومت کے قیام کے حامی تھے۔ علامہ اقبال کی رائے میں وفاقی طرزِ حکومت ہی ہندوستان میں رائج کی جا سکتی تھی اور وحدانی طرز حکومت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ۱۹۳۰ء میں اپنے مشہور خطبہ الہ آباد میں آپ نے فرمایا کہ ’’میں مسلمانان ہند کو کبھی یہ رائے نہیں دوں گا کہ وہ کسی ایسے نظامِ حکومت سے خواہ وہ برطانوی ہو یا ہندی اتفاق کریں جو حقیقی فیڈریشن کے اصول پر مبنی نہ ہو یا جس میں ان کے جداگانہ سیاسی وجود کو تسلیم نہ کیا جائے۔‘‘ ۱۵ لیکن ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں جس قسم کی فیڈریشن تجویز کی گئی تھی دونوں رہنما اس سے متفق نہیں تھے۔ علامہ کی رائے تھی کہ اگر مسلمانوں نے اس سکیم (فیڈریشن) کو منظور کر لیا تو اُن کا سیاسی وجود تھوڑے ہی عرصے میں کالعدم ہو جائے گا کیونکہ اس فیڈریشن میں ہندو والیان ریاست کی اکثریت ہوگی اور وہی حکومت کے سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔۱۶ علامہ اقبال کی رائے تھی کہ مجوزہ فیڈریشن میں شروع میں صرف برطانوی ہند کے صوبے شامل کیے جائیں اور صوبوں کو اقتدار اعلیٰ کا حق حاصل ہو۔ آپ نے اس بارے میں قائداعظم اور نواب بھوپال کے روئیے کو ’’سراسر حق بجانب‘‘ قرار دیا تھا۔ ۱۷ قائداعظم محمد علی جناح کی بھی یہی رائے تھی کہ اگرچہ ہندوستان کے لیے وفاقی طرز حکومت ناگزیر ہے لیکن ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں جس طرح کی فیڈریشن تجویز کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے مطالبات اور خواہشات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اسی سبب آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے بمبئی اجلاس ۱۹۳۶ء میں فیڈرل سکیم کے متعلق ایک قرار داد پیش کی جس میں اس سکیم کو ’’بنیادی طور پر غلط، ناقابلِ عمل اور اس پر نظر ثانی‘‘ کے لیے کہا گیا۔ مغربی طرز جمہوریت قائداعظم اور علامہ اقبال دونوں اس امر پر بھی متفق تھے کہ بر عظیم میں مغربی طرزِ جمہوریت کا مطلب مستقل طور پر ہندو راج کا قیام ہوگا کیونکہ یہاں نہ تو ایک قوم آباد ہے اور نہ ہی وہ ایک زبان بولتے ہیں۔ علامہ نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان اور مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ ان کے اعمال و افعال میں وہ احساس پیدا ہی نہیں ہو سکتا جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں موجود ہوتا ہے۔ علامہ نے ان حالات میں مغربی طرز جمہوریت کے نفاذ کو غیر مناسب قرار دیا۔ قائداعظم کی رائے میں بھی مغربی جمہوریت کا نفاذ ہندو راج کے قیام کے مترادف تھا۔ آپ نے انھی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۳۵ ملین ووٹروں پر نظر رکھتے ہوئے جن کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ، جاہل اور صدیوں پرانی تواہمات میں جکڑی ہوئی ہے اور جو اپنے کلچر اور تمدن کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں مغربی طرز کی حکومت کا چلانا ناممکن ہے۔ آپ نے اس امر کا بھی واضح طور پر اعلان کیا کہ ’’ایسی جمہوریت کا مطلب صرف تمام ہندوستان میں ہندو راج کا قیام ہوگا۔‘‘ ۱۸ پنجاب اور بنگال کی مسلم اکثریت ایک اور امر جس پر دونوں زعما متفق تھے وہ یہ تھا کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کو آئینی اکثریت حاصل ہونی چاہیے۔ الہ آباد میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ اگر ہندو آج پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت کو مان لیں تو اتحاد کے راستے کی تمام مشکلات حل ہو سکتی ہیں۔۱۹ ۱۱؍ اگست ۱۹۳۱ء کو لکھنؤ میں تقریر کرتے ہوئے آپ نے ان ہی خیالات کا اظہار کیا کہ اگر ہندو پنجاب اور بنگال میں مسلم اکثریت کو تسلیم کرنے پر تیارہو جائیں تو پھر فرقہ وارانہ سوال کا حل بغیر کسی تکلیف کے حل ہو جائے گا۔ ۲۰ قائداعظم نے اپنی بے شمار تقاریر میں اس خیال کا اعادہ کیا کہ مسلمانوں کو بنگال اور پنجاب میں اکثریت ملنی چاہیے۔ علامہ اقبال بھی ہندو مسلم تنازعات کو طے کرنے کے لیے بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کو اکثریت کا ملنا ضروری تصور کرتے تھے ۔ گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے روانگی سے قبل دہلی میں آپ نے تقریر کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ اگر بنگال اور پنجاب کی اکثریت اور مسلمانوں کے دیگر مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا تو جو دستور بھی ہندوستان کو دیا جائے گا مسلمانانِ ہند اس کے پرخچے اڑا دیں گے۔‘‘ ۲۱ فلسطین مسئلہ فلسطین کے بارے میں، جس نے عربوں اور مسلمانانِ عالم کے سینوں کو چھلنی کر رکھا تھا، دونوں زعما بہت مضطرب تھے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال دونوں اہل فلسطین کے حقوق بحال کرانے اور یہودیوں کے فلسطین میں داخلے کے سلسلے میں ایک جیسی رائے رکھتے تھے۔ دونوں زعما اس مسئلے سے بہت دلچسپی رکھتے تھے۔ علامہ اقبال نے ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو مولوی عبدالحق کو ایک خط میں تحریر کیا کہ ’’فلسطین کانفرنس کی صدارت سے کمر کے درد کی بنا پر مجبور ہوں حالانکہ مجھے مسئلہ فلسطین سے بے حد دلچسپی ہے۔‘‘ ۲۲ علامہ اقبال مسئلہ فلسطین کو خالص اسلامی مسئلہ سمجھتے تھے ۲۳ اور فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کے سخت مخالف تھے۔ ۹اکتوبر ۱۹۳۱ء کو لندن میں تقریر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسے اہل فلسطین کے ساتھ انصاف کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم اعلان بالفور کا منسوخ کیا جانا ہے۔۲۴ اسی طرح ۶ نومبر ۱۹۳۳ء کو وائسرائے ہند کو ایک تار میں علامہ نے بالفور اعلان کو واپس لینے اور فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کو ممنوع قرار دینے کا مطالبہ کیا۔۲۵ علامہ اقبال نے مختلف فلسطین کانفرنسوں کی صدارت کی اور وہاں نہایت ہی جذباتی انداز میں تقاریر بھی کیں۔ اقبال کا کہنا تھا کہ اگر یہودیوں کا فلسطین پر کوئی حق ہے تو پھر عربوں کا حق سپین اور سسلی پراور دوسری یورپین مفتوحہ اقوام پر کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں ضرب کلیم میں موجود شام و فلسطین کے زیر عنوان ایک نظم ان کے دلی جذبات کی بھرپور ترجمانی کرتی ہے: جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ مشکل ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا مقصد ہے ملوکیت انگلش کا کچھ اور قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا اقبال کی مانند قائداعظم نے بھی ہمیشہ فلسطینی عربوں کے موقف کی بھرپور اور اعلانیہ حمایت کی اور اس سلسلے میں برطانوی پالیسیوں کی شدید ترین مذمت کرتے رہے۔ ۲۴۔۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۷ء کو کلکتہ میں ایک فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر قائداعظم نے ۲۱؍ ستمبر ۱۹۳۷ء کو مولانا شوکت علی کو ایک پیغام بھیجا جس میں کہا گیا کہ: مجھے امید ہے کہ مسلمانانِ بنگال اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیں گے جن پر بے جا طور پر تکلیف دہ اور مہلک بالفور اعلان تھونپ دیا گیا ہے اور فلسطین کی تقسیم سے متعلق شاہی اعلان نے انھیں مکمل تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ ہم فلسطینی عربوں کی اس جرأت مندانہ جدوجہد میں جو وہ اپنے وطن کی آزادی کی خاطر کر رہے ہیں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اپنے دشمنوں کے خلاف عربوں کی اس مزاحمت میں ہم سے جو کچھ بھی بن پڑا ہم کریں گے۔ ان کے دشمن ان کی اپنے وطن کی آزادی کی جائز خواہشات اور تمنائوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ ۲۶ یہاں اس حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ ایم اے ایچ اصفہانی نے ۲۵ ستمبر۱۹۳۷ء کو اس بارے میں قائداعظم کو لکھا تھا کہ ’’کانفرنس میں آپ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس پر لوگوں نے بے حد داد دی۔‘‘ ۱۹۳۷ء میں قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کا بالخصوص ذکر کیا جس نے تمام برعظیم کے مسلمانوں کو دلگداز کر رکھا تھا۔ آپ نے فلسطینی عربوں سے متعلق برطانوی پالیسی کو دھوکہ دہی پر مبنی قرار دیا ’’جس نے بار بار اپنے اعلانات میں فلسطینی عربوں کو مکمل آزادی دینے کی ضمانت دی تھی۔ انھیں استعمال کرنے کے بعد ان سے جھوٹے وعدے کیے گئے۔ پہلے اس نے انتدابی طاقت (Mandatory Power) کے طور پر اپنے آپ کو فلسطین میں نصب کیا اور پھر قابلِ نفرت اور رسوائے زمانہ بالفور اعلان کیا۔ اب برطانوی شاہی کمیشن کی سفارشات اس المیے کی تکمیل کی طرف ایک قدم ہیں اور اس پر عمل درآمد کی صورت میں فلسطینیوں کی ہر جائز خواہش مکمل تباہی سے دوچار ہو گی۔ میں نہ صرف مسلمانانِ ہند بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے برطانیہ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ جنگِ عظیم سے قبل کیے گئے اعلانات کو پس پشت ڈالے گا تو وہ خود اپنی قبر آپ کھودنے کا مرتکب ہوگا۔‘‘ ۲۷ ۳۰۔ ۳۱ جولائی ۱۹۳۸ء کو قائداعظم کی زیر صدارت آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا اجلاس منعقد ہوا جس میں انہوں نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی جسے تین گھنٹے کی گرما گرم بحث کے بعد منظور کیا گیا۔ اس قرار داد کے تحت ۲۶ اگست ۱۹۳۸ء کو تمام برعظیم میں یوم فلسطین منانے کا فیصلہ ہوا۔۲۸ لیگ کی تمام شاخوں سے کہا گیا کہ وہ اس روز جلسے منعقد کریں جن میں برطانیہ کی فلسطین کے ضمن میں ناانصافی پر مبنی جابرانہ اور غیر انسانی حکمت عملیوں کی مذمت کی جائے اور فلسطینی عربوں کی اپنے وطن کی آزادی کی جنگ میں کامیابی کی دعائیں مانگی جائیں۔ ۸ ؍اکتوبر ۱۹۳۸ء کو کراچی میں سندھ مسلم لیگ کانفرنس کے اجلاس میں اپنی صدارتی تقریر میں قائداعظم نے ایک بار پھر اپنے فلسطینی بھائیوں کو یقین دلایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ فلسطینی عربوں کی امداد میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گی اور اس سے جو کچھ بن پڑا کرے گی۔ انھوں نے برطانوی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں اپنے ملک کی آزادی کی خاطر جنگ کرنے والوں پر جو سنگ دلانہ جبر و تشدد ہو رہا ہے اس کے سبب ہندوستانی مسلمانوں کے دل سخت مجروح ہیں اور انھیں شدید ایذا پہنچ رہی ہے۔ مسلمانانِ ہند کے دل فلسطینی عربوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں جو نہتے ہونے کے باوجود بہادری کے ساتھ اس عظیم الشان جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ اقبال کی مانند قائداعظم بھی فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کے سخت مخالف تھے۔ ۱۹۳۸ء میں آپ نے لیگ کے پٹنہ اجلاس میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کی شدید مذمت کی تھی۔ غرض کہ دونوں زعماء آخر وقت تک فلسطینی عربوں کی حمایت کرتے رہے۔ ژ ژ ژ حواشی 1. Ahmad Saeed (ed), Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah A Bunch of Rare Letters, Lahore, 1999, p.152. 2. M. Rafique Afzal, Speeches and Statements of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, Research Society of Pakistan, Lahore, 1973, p.381. 3. M. Rafique Afzal, Speeches and Statements of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, p.385. ۴۔ لطیف احمد شیروانی (مرتب)، حرفِ اقبال ،المنار اکادمی، لاہور، ص ۴۹۔ ۵۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال، ص ۱۰۸۔ 6. M. Rafique Afzal, Speeches and Statements of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, p.285-88. ۷۔ لطیف احمد شیروانی (مرتب)، حرفِ اقبال، ص ۴۹۔ ۸۔ ایضاً ، ص ۲۰۴۔ ۹۔ محمد احمد، اقبال کا سیاسی کارنامہ، کاروان ادب، کراچی، ص ۱۷۵۔ ۱۷۶۔ 10. Jamil-ud-Din Ahmed, Speeches and Writings of Mr. Jinnah, Shaikh Muhammad Ashrf, Lahore, 1960. ۱۱۔ لطیف احمد شیروانی (مرتب)،حرفِ اقبال، ص ۲۱۳۔ ۲۱۴۔ ۱۲۔ احمد سعید، گفتار قائد اعظم، ص ۱۲۲۔ ۱۳۔ ایضاً ، ص ۱۲۰۔ ۱۴۔ ایضاً، ص ۱۲۶۔ ۱۵۔ لطیف احمد شیروانی (مرتب)،حرفِ اقبال، ص ۳۶۔۳۷۔ ۱۶۔ ایضاً، ص ۳۸۔ ۱۷۔ ایضاً، ص ۴۰۔ 18. Jamil-ud-Din Ahmed, Speeches and Writings of Mr. Jinnah, Vol.I, p.89. ۱۹۔ احمد سعید، گفتارِ قائد اعظم، ص ۱۰۲۔ ۲۰۔ ایضاً، ص ۱۰۷۔ ۲۱۔ محمد حمزہ فاروقی، سفر نامۂ اقبال، مکتبہ معیار، کراچی، ۱۹۷۳ئ، ص ۱۵۔ ۲۲۔ ممتاز حسن، اقبال اور عبدالحق، مجلس ترقیِ ادب لاہور، ۱۹۷۳ئ، ص ۴۶۔ ۲۳۔ شیخ عطاء اللہ، اقبال نامہ، جلد اول ، شیخ محمد اشرف ، لاہور، سن ندارد، ص ۴۵۱۔ ۴۵۶۔ ۲۴۔ محمد حمزہ فاروقی،سفر نامہ اقبال، ص ۳۲۔ ۳۳۔ ۲۵۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال، ص ۱۷۹۔ 26. Quaid-e-Azam Papers, National Archives of Pakistan, Islamabad, File No.25, p.11. ۲۷۔ مرزا اختر حسین، تاریخ مسلم لیگ، مکتبہ لیگ، بمبئی، سن ندارد، ص ۴۵۸۔ ۴۵۹۔ ۲۸۔ اس سلسلے میں لیگ نے ایک وفد فلسطین بھیجا تھا جس کی کارروائی کے لیے دیکھیے: عبدالرحمن صدیقی کی قائداعظم کو رپورٹ، قائد اعظم پیپرز، فائل نمبر ۴۹، صفحات ۱۱۷ ۔ ۱۳۲۔ باب سوم: اختلافات کا خاتمہ خ مسجد شہید گنج خ قائداعظم، اقبال اور آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا قیام خ اقبال قائد اعظم خط و کتابت پر ایک نظر خ قائداعظم :علامہ اقبال کی نظر میں خ علامہ اقبال قائداعظم کی نظر میں خ علامہ اقبال کی وفات پر قائداعظم کے تاثرات خ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی تعزیتی قرارداد خ اقبال کو قائد اعظم کا خراج عقیدت مسجد شہید گنج ۱۹۳۵ء کے مسجد شہید گنج کے المناک واقعے نے لاہور کی سیاسی فضا میں ایک زبردست ہیجان پیدا کردیا اور لاہور میں فرقہ وار کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ مسجد شہید گنج مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان ایک متنازع فیہ مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ یہ مسجد ۱۶۵۳ء میں داراشکوہ کے خانِ ساماں عبداللہ خاں نے تعمیر کروائی تھی۔ پنجاب کے گورنر معین الملک نے سکھوں کی ایک برگزیدہ ہستی تاروسنگھ کو یہاں قتل کروا دیا تھا چنانچہ سکھوں نے اپنے عہد حکومت میں اس جگہ کو شہید گنج کا نام دے کر اسے ایک گردوارہ میں تبدیل کر دیا اور معین الملک کا مقبرہ مسمار کر کے اس کی نعش کو ضائع کر دیا۔۱ جون ۱۹۳۵ء میں جب سکھوں کے جتھے لاہور آنے لگے تو یکایک یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مسجد کو شہید کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر دونوں قوموں میں زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی۔ ادھر جب سکھوں نے مسجد کو گرانا شروع کر دیا تو مسلمان بھی مسجد کا رخ کرنے لگے اور یوں پولیس سے تصادم کے نتیجے میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔ ان نازک حالات میں جب کہ دونوں قوموں کے درمیان کشیدگی اور فرقہ وار منافرت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، قائداعظم لاہور تشریف لائے او رسکھوں اور مسلمانوں میں پیدا شدہ کشیدگی کو ختم کرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ قائداعظم نے لاہور میں پنجاب کے گورنر سے ملاقات کی اور اس سے مسلمان گرفتار شدگان کی رہائی اور مسلم اخبارات کی ضمانتوں کے متعلق گفتگو کی جس میں آپ بالآخر کامیاب ہوئے۔ آپ نے سکھ لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف جلسوں سے خطاب کیا۔۲ دہلی واپس جانے سے قبل شہید گنج مصالحتی بورڈ کے نام سے ایک کمیٹی قائم کی جس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قائداعظم کی ان کوششوں کو نہ صرف پنجاب بلکہ تمام ہندوستان میں خوب سراہا گیا۔ ہندوستان کے تمام اخبارات نے قائداعظم کو ان کی اس سعی پر مبارک باد دی۔ ان اخبارات میں روزنامہ الجمعیتہ (دہلی)، روزنامہ، عصر جدید (کلکتہ)، روزنامہ زمیندار (لاہور) اور پیسہ اخبار (لاہور) شامل تھے۔ ادھر شہید گنج سے متعلق مقدمہ عدالت میں بھی چل رہا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت سے فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوا۔ چنانچہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی رائے یہ تھی کہ قائداعظم ہائی کورٹ میں مسلمانوں کی طرف سے اس مقدمے کی پیروی کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں علامہ اقبال نے قائداعظم کو پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری غلام رسول خان سے ایک خط لکھوایا۔ اس خط میں علامہ نے قائداعظم سے درخواست کی کہ وہ خود لاہور تشریف لائیں تاکہ بقول اقبال ’’اس عمارت کی آخری اینٹ آپ کے مضبوط ہاتھوں سے رکھی جائے۔‘‘ علامہ نے قائداعظم کو یقین دلایا کہ اُن کے پنجاب آنے سے نہ صرف پنجاب بلکہ تمام ہندوستان کے مسلمان ان کے ممنون ہوں گے۔ ساتھ ہی علامہ نے یہ بھی لکھوایا کہ ’’آپ کی تشریف آوری سے صوبے میں مسلم لیگ کی تحریک میں نئی جان پڑ جائے گی۔‘‘۳ ملک برکت علی اور عاشق حسین بٹالوی اس سلسلے میں قائداعظم سے ملنے کے لیے بمبئی گئے مگر قائداعظم نے انہیں مشورہ دیا کہ ان کی بجائے ایک انگریز بیرسٹر کولٹ مین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ کیونکہ اس جھگڑے میں پہلے وہ ایک ثالث کی حیثیت سے لاہور گئے تھے اور اب ایک فریق کی حیثیت سے ان کا جانا مناسب نہیں۔ بہرحال اس واقعے نے بھی دونوں زعما کو اور زیادہ قریب آنے میں مدد دی۔ بعد میں مسجد شہید گنج کے قضیہ نے ہندوستانی سیاست پر بھی اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے اس مسئلے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر مسلم لیگ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس مسئلے پر غور و خوض کیا جائے۔ چنانچہ ۲ مارچ ۱۹۳۸ء کو قائداعظم نے علامہ اقبال کو مندرجہ ذیل خط لکھا: ہیسٹنگز روڈ نئی دہلی۔ ڈیئر سرمحمد اقبال اطلاعاً عرض ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس ماہِ رواں کی ۲۰ تاریخ کو دہلی میں منعقد ہو رہا ہے۔ ان اہم امور میں سے جن میں اس اجلاس میں غور کیا جائے گا ایک یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ کے خاص اجلاس کے لیے مناسب مقام کا فیصلہ کیا جائے۔ اس لیے مجھے یہ معلوم کرنے کی بے حد خواہش ہے کہ آیا آپ یہ اجلاس لاہور میں بلانا پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو کیا پراونشل مسلم لیگ خاص اجلاس کے لیے ضروری انتظامات کر سکے گی۔ بصورت اثبات آپ مجھے ایک رسمی دعوت نامہ ارسال فرمائیں تاکہ میں اسے کونسل کے سامنے پیش کر سکوں۔ ۴ علامہ اقبال نے ۷؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو اس خط کا جواب غلام رسول خاں سے لکھوا کر قائداعظم کو ارسال کیا۔ علامہ نے اس خط میں لکھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ایسٹر کی تعطیلات میں لاہور ہی میں منعقد کیا جائے اور اس خط کو رسمی دعوت نامہ تصور کیا جائے۔ قائداعظم کو پنجاب کی سیاسی صورتِ حال سے مطلع کرتے ہوئے علامہ اقبال نے لکھا کہ ’’شہید گنج کا مسئلہ اب پریوی کونسل میں پیش کیا جائے گا لیکن لوگوں کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ کسی بھی برطانوی عدالت کی طرف رجوع کرنا بے سود ہے۔‘‘ قائداعظم کو اس امر سے بھی مطلع کیا گیا کہ پنجاب کے مسلمان بہت بے تابی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس خصوصی کے منتظر ہیں اور پنجاب مسلم لیگ اجلاس خصوصی کے لیے تمام ضروری انتظامات کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیارہے۔۵ لیکن پنجاب مسلم لیگ کے صدر شاہنواز خان ممدوٹ نے جو دراصل سرسکندر حیات کے آدمی تھے، قائداعظم کو ایک خط میں یہ لکھا کہ یہ بات مسلم لیگ اور شہید گنج تحریک کے مفاد میں ہوگی کہ مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور علامہ اقبال کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی۔ قائداعظم، اقبال اور آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے قیام سے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے تحت چونکہ مرکزی اسمبلی کے ارکان کا انتخاب صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے کرنا تھا اس لیے آل انڈیا مسلم لیگ کے زعما نے یہ ضروری خیال کیا کہ مسلم لیگ کو ہندوستان کے مختلف صوبوں میں مقبول بنایا جائے۔ اس موقع پر قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کو صحیح معنوں میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بنانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کا آغاز کیا۔ جب صوبائی اور مرکزی قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوئیں تو مسلم لیگ کو یہ سوال درپیش ہوا کہ لیگ کے تحت پارلیمانی بورڈ قائم کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ آنے والے انتخابات چونکہ مسلمانانِ ہند کے لیے بہت اہمیت کے حامل تھے اس لیے ۱۲؍ اپریل ۱۹۳۶ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں راجہ غضنفر علی خان نے ایک قرار داد پیش کی جس کے تحت قائداعظم محمد علی جناح کو ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ کم از کم ۳۵ ممبروں پر مشتمل ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کیا جائے جو ہر صوبے کے مقامی حالات کے پیش نظر مختلف صوبوں میں صوبائی الیکشن بورڈ قائم کرے اور ان کا مرکزی بورڈ سے الحاق کرے۔۶اس قرار داد کی مولانا احمد سعید دہلوی، سید حسین امام، سرسلیمان قاسم مٹھا، عبدالحمید خاں، لیاقت علی خاں اور مولانا محمد عرفان نے تائید کی۔ اس قرار داد کے تحت قائداعظم نے ۲۶ تا ۲۸؍ اپریل ۱۹۳۶ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے ارکان اور مختلف صوبوں کے مسلمان زعما سے تفصیلی گفتگو کی اور ۲۱ مئی ۱۹۳۶ء کو ۵۴ ممبران پر مشتمل ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ کے ارکان کے ناموں کا اعلان کیا۔۷ صوبہ پنجاب انگریزوں کا ایک قلعہ تھا اور اس میں اس نے بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کے ذریعے ایک مضبوط حصار قائم کر رکھا تھا تاکہ اس کو فوج مہیا ہوتی رہے۔ اسی لیے آل انڈیا مسلم لیگ کو پنجاب میں اپنے قیام اور بقا و استحکام کے لیے سب سے زیادہ جدوجہدکرنی پڑی۔ پنجاب کے لیڈر سرفضلِ حسین سے لے کر سر سکندر حیات اور سرسکندر حیات سے سر خضر حیات ٹوانہ تک سب قائداعظم کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتے تھے اور کسی بھی صورت آپ کے پنجاب میں داخلہ کے مخالف تھے۔ پنجاب میں پارلیمانی بورڈ کے قیام کے سلسلے میں قائداعظم لاہور تشریف لائے اور یونینسٹ پارٹی کے بانی سر فضلِ حسین سے اس بارے میں گفتگو کی۔ لیکن سر فضلِ حسین نے قائداعظم او رآل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور دلیل یہ دی کہ مجوزہ پارلیمانی بورڈ کے قیام سے پنجاب میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں اشتراک کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ اس بنا پر انہوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا۔ قائداعظم علامہ اقبال سے ملے جنھوں نے آپ کو اپنے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس سلسلے میں ۸ مئی ۱۹۳۶ء کو قائداعظم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے علامہ اقبال نے ایک اخباری بیان میں اس امر کا اعلان کیا کہ بطل جلیل مسٹر محمد علی جناح ان قابل فخر مسلم رہنمائوں میں سے ہیں جن کی سیاسی دانش ہمیشہ مسلمانوں کے لیے صبرآزماوقتوں میں مشعل راہ کا کام دیتی رہی ہے۔ جس خلوص اور عزیمت سے انہوں نے مسلمانانِ ہند کی تمام اہم اور نازک موقعوں پر خدمت کی ہے اس کے لیے مسلمانوں کی آنے والی نسلوں کے سر عقیدت و احترام سے جھکے رہیں گے۔ ان کی تازہ ترین خدمت شہید گنج کے سانحہ المناک سے متعلق ہے۔ جس وقت کہ تمام صوبہ شہید گنج کے واقعہ خونچکاں کی وجہ سے خوف و ہراس سے سراسیمہ تھا اور مسلمانوں کے جلیل القدر رہنما اور سرفروش رضا کار قید میں ٹھونس دیئے گئے اور تقریباً تمام اسلامی پریس ضمانتوں اور ضبطیوں کے بارگراں سے عضوِ معطل بنا ہوا تھا اور پنجاب کے نام نہاد (یونینسٹ) رہنما منہ میں گنگنیاں ڈال کر اپنے فلک بوس محلوں میں محو عشرت تھے، اس وقت مسٹر جناح ہی تھے جو بمبئی سے ہزاروں میل کا سفر کر کے پنجاب کے مسلمانوں کے زخمی دلوں پر مرہم لگانے کے لیے فرشتہ رحمت بن کر نمودار ہوئے۔ ۸علامہ نے قائداعظم کو یقین دلایا کہ ’’جس اہم کام کی ابتدا مسٹر جناح نے کی ہے ہم اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں دل و جان سے ان کے حامی ہیں۔ ۹ چنانچہ جب قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا تو پنجاب سے علامہ اقبال کا نام سرِفہرست تھا۔ اب علامہ اقبال کی زیر قیادت، پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کے احیا کا کام ازسرنو شروع ہوا۔ علامہ اقبال کو پنجاب میں جو ایک خاص مقام حاصل تھا اس کا اندازہ یونینسٹ پارٹی کے ترجمان روزنامہ انقلاب کے ان اداریوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو اس نے پارلیمانی بورڈ، علامہ اقبال اور قائداعظم کے خلاف لکھے۔ قائداعظم کے اس فیصلے سے یونینسٹ پارٹی میں سخت اضطراب پھیل گیا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ روزنامہ انقلابنے مرکزی پارلیمانی بورڈ، قائداعظم اور علامہ اقبال پر کڑی نکتہ چینی کی کیونکہ اخبار یونینسٹ پارٹی کا ترجمان ہونے کی حیثیت میں قائداعظم کے پنجاب میں ’’داخلے‘‘ کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا تھا۔ روزنامہ انقلاب نے اپنے بہت سے اداریوں میں قائداعظم پر سخت کیچڑ اچھالا۔ پارلیمانی بورڈ کے قیام کو نہ صرف مسلمانوں میں افتراق انگیزی کا نام دیا بلکہ پارلیمانی بورڈ کے حامیوں کو ’’بزدل، منافق، بد دیانت اور نااہل ‘‘ قرار دیا۔ ۱۰ ۱۵؍ مئی ۱۹۳۶ء کو روزنامہ انقلاب نے یونینسٹ پارٹی کی وکالت کرتے ہوئے علامہ اقبال کے مندرجہ ذیل بیان کو موضوع سخن بنایا جس میں علامہ نے فرمایا تھا : مسٹر جناح کی بے نفسی اور دوراندیشی کی داد دینی چاہیے کہ انہوں نے ایسے موقع پر مسلمانوں کی رہنمائی کی ہے جب گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ مسٹر جناح کے اس اقدام سے ان غرض پسند اور رجعت پسند حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے جو اب تک مسلمانانِ ہند کی قیادت کا غلط دعویٰ کر کے اپنی مطلب براری کرتے رہے ہیں۔ اندریں حالات ہمیں یہ دیکھ کر قطعاً تعجب نہیں ہوا کہ بعض اخباروں نے مسٹر جناح کی ناکامی کی فرضی اور بے بنیاد داستانیں وضع کر کے شائع کرنا شروع کر دی ہیں۔ ان اخباروں کا یہ بیان کہ پنجاب میں سوائے احرار کے کسی اور جماعت نے مسٹر جناح کا ساتھ دینا گوارا نہیں کیا ایک صریح جھوٹ ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں قطعاً باک نہیں کہ مذکورہ بالا اخباروں کے اس قسم کے بیان صرف غلط ہی نہیں بلکہ گمراہ کن ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہماری قوم کو مسٹر جناحـ کی دیانت و امانت اور سیاسی بصیرت پر ایسا پختہ اعتماد ہے کہ مسلمانانِ پنجاب کے تمام طبقوں نے مسٹر جناح کی تجویز کو لبیک کہنے سے دریغ نہیں کیا۔۱۱ روزنامہ انقلاب نے علامہ کے مندرجہ بالا بیان پر تنقید کرتے ہوئے لکھاکہ ’’۱۹۲۷ء میں یہ اعتماد کہاں تھا۔ مسٹر جناح کا سیاسی تدبر اور دیانت اس وقت کہاں محوِ خواب تھے جب کہ حضرت علامہ اقبال اور ان کے رفقا نے مسٹر جناح کے مقابلے میں نئی لیگ کھڑی کر لی تھی۔ اس وقت بھی تو یہی مسٹر جناح تھے۔‘‘ چونکہ مرکزی پارلیمانی بورڈ میں مجلس احرار بھی شامل تھی اس لیے انقلاب نے احرار پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا : ’’احرار جو نہرو رپورٹ کے وقت سے مسلمانوں سے الگ تھے اور حضرت علامہ اقبال نہیں کہہ سکتے کہ احرار مسلمانوں کی رائے کے صحیح ترجمان تھے۔ اگر احرار صحیح ترجمان تھے تو حضرت علامہ اقبال کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ خود مسلمانوں کی رائے کے صحیح ترجمان نہ تھے۔ ۱۲ ۱۷؍ مئی ۱۹۳۶ء کو ایک اور اداریہ میں روزنامہ انقلاب نے علامہ اقبال کے بیان پر کڑی نکتہ چینی کی اور قائداعظم اور علامہ اقبال کے پرانے سیاسی رجحانات اور نہرو رپورٹ کے بارے میں دونوں زعما کے متضاد خیالا ت کو موضوعِ سخن بنایا۔ پارلیمانی بورڈ کے قیام سے پنجاب میں مسلم لیگ کے احیاء کا کام شروع ہوا اور آل انڈیا مسلم لیگ دس گیارہ سال کی مسلسل کوشش کے بعد یونینسٹ پارٹی کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ پارلیمانی بورڈ کے قیام سے قائداعظم اور اقبال ایک دوسرے کے بے حد قریب ہوئے اور پنجاب میں مسلم لیگ کو جس قدر بھی کامیابی حاصل ہوئی اس کا سہرا علامہ اقبال کے سر ہے۔ جیسا کہ قائداعظم نے اعتراف کیا تھا کہ ’’مسلم لیگ کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ اکثریتی صوبوں میں اس کی رہنمائی تسلیم کر لی گئی۔ سر محمد اقبال نے اس منزل مقصود تک ہمیں پہنچانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔‘‘ پارلیمانی بورڈ کے قیام کے بعد دونوں زعماء کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اقبال ۔جناح خط و کتابت پر ایک نظر آل انڈیا مسلم لیگ اگرچہ مسلمانانِ ہند کی نمایندہ جماعت تھی تاہم وہ انڈین نیشنل کانگرس کی مانند لکھاریوں، صحافیوں اور اخبارات کی قوت و طاقت سے محروم جماعت تھی۔ لیگ کو یہ آئینی جنگ لڑنے کے لیے ’’صحافتی توپیں‘‘ درکار تھیں، لیکن اس میدان میں اس کی بے سرو سامانی کا یہ عالم تھا کہ ۱۹۴۱ء میں جا کر وہ کہیں اپنا ترجمان ڈان جاری کرنے میں کامیاب ہوئی۔ جن گنے چنے لکھاریوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی آواز عام لوگوں تک پہنچائی ان میں جمیل الدین احمد، حمید نظامی، زیڈ اے سلہری، الطاف حسین، شریف المجاہد، اے پنجابی، اور احمد شفیع کے نام شامل ہیں۔ چند لکھاریوں کی اس صف میں ایم آر ٹی (MRT) بھی شامل ہیں جنھوں نے سرکاری ملازم ہونے کے باوجود آل انڈیا مسلم لیگ کے موقف کو بھرپور انداز میں آگے بڑھایا۔ ڈسٹرکٹ بورڈ چونڈہ؍ وزیر آباد کے ہیڈ ماسٹر محمد شریف طوسی نے روز نامہ ایسٹرن ٹائمز (لاہور) سول اینڈ ملٹری گزٹ (لاہور) سٹار آف انڈیا (کلکتہ) اور دیگر اخبارات میں جو کچھ لکھا اگر اس کو مرتب کیا جائے تو یہ مضامین کئی کتب کی شکل اختیار کر لیں گے۔ شریف طوسی چونکہ سرکاری قواعد و ضوابط کے تحت اپنے نام سے نہیں لکھ سکتے تھے اس لیے وہ اپنے بھائی محمد رفیق طوسی کے نام کا مخفف(MRT) استعمال کرتے رہے۔ایم آر ٹی نے اپنی ایک کتاب کی تدوین کے سلسلے میں قائد اعظم کی نجی لائبریری استعمال کرنے کی اجازت طلب کی۔ اس دوران قائد اعظم کے کاغذات میں علامہ اقبال کے چند خطوط ان کی نظر سے گذرے چنانچہ انھوں نے یہ خطوط ٹائپ کر کے قائد کو پیش کیے اور قائد کی توجہ ان کی اشاعت کی طرف مبذول کرائی۔ ایم آر ٹی کی خواہش تھی کہ یہ خطوط قائد اعظم کے جوابات کے ہمراہ شائع ہوں۔ چنانچہ قائد اعظم نے میاں بشیر احمد کو ۲۸؍جنوری ۱۹۴۳ء کو لکھا کہ انھیں اپنے کاغذات میں سر محمد اقبال کے وہ خطوط ہاتھ آئے جو انھوں نے مجھے ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۸ء کے درمیان لکھے تھے۔ تاریخی اہمیت کے حامل ان خطوط کو میں محفوظ کر لینا چاہتا ہوں لیکن بد قسمتی سے میرے تحریر کردہ جوابات دستیاب نہیں ہیںکیونکہ اس زمانے میں میرے پاس خطوط کی نقول رکھنے کا انتظام نہیں تھا۔ کیا آپ مہربانی فرما کر لاہور سے میرے خطوط حاصل کر کے مجھے بھجوا سکیں گے۔۱۳ میاں بشیر احمد نے ۲۴؍فروری ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم کو لکھا کہ انھوں نے لاہور میں مختلف جگہوں پر یہ خطوط تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہو سکی۔ میاں صاحب نے یہ بھی بتلایا کہ چودہری محمد حسین (ٹرسٹی) نے یقین دلایا ہے کہ نہ تو وہ اور نہ ہی علامہ اقبال کا نابالغ بیٹا (جو ان دنوں کالج میں زیر تعلیم ہے) ان خطوط کا کوئی معاوضہ طلب کریں گے اور اگر مستقبل میں یہ خطوط مل گئے تو آپ کے حوالے کرنے میں انھیں خوشی محسوس ہو گی۔ میاں صاحب نے قائد اعظم کو لکھا کہ اگر وہ پسند کریں تو ان خطوط یا ان کی تلخیص اپنے تبصرے کے ہمراہ یا اس کے بغیر ہی شائع کر دیجئے۔۱۴ میاں بشیراحمد نے ان خطوط کی تلاش کے ضمن میں میاں محمد شفیع (م۔ش) سے بھی رابطہ کیا جنھوں نے ۲؍فروری کو قائد اعظم کو خط میں لکھا کہ ’’میاں بشیر احمد نے نے مجھے آپ کا خط دکھایا۔ آپ کے اس ارادے نے مجھے خوشی سے بے تاب کر دیا‘‘۔ م ۔ ش نے قائد اعظم کو مطلع کیا کہ وہ ’’علامہ اقبال کی زندگی کے آخری دو تین سال ان کی جانب سے خطوط لکھتے رہے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ ان کی خط و کتابت کو محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا‘‘۔۱۵ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات کے لیکچر ر شیخ عطاء اللہ نے بھی ۱۹؍فروری ۱۹۴۳ء کو ایک خط میں قائد اعظم کو لکھا تھا کہ وہ علامہ اقبال کے خطوط جمع کر رہے ہیںاور انھیں معلوم ہوا ہے کہ علامہ اقبال کے کچھ خطوط آپ کے پاس موجود ہیں ۔ شیخ صاحب نے قائد اعظم سے درخواست کی کہ وہ یہ خطوط اشاعت کے لیے انھیں دے دیں۔ یاد رہے کہ شیخ عطاء اللہ کے مرتب کردہ خطوط اقبال نامہکے نام سے شیخ محمد اشرف نے لاہور سے شائع کیے تھے۔ اقبال جناح خط و کتابت کی اشاعت کے محرک ایم آر ٹی نے یہ خطوط ٹائپ کر کے قائد اعظم کو پیش کیے۔ شیخ محمد اشرف نے اپریل ۱۹۴۳ء میں کتاب کا پہلا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں شائع کیا تھا۔ ناشر نے قائد اعظم کو کتاب کے ایک سو اعزازی نسخے اور تین سو روپے بطور رائلٹی ادا کیے تھے جو انھوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کروا دئیے ۔ مارچ ۱۹۴۴ء میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ ایم آر ٹی نے کتاب کے پیش لفظ کا مسودہ تیار کیا تھا جس میں قائداعظم نے اپنے قلم سے بہت کانٹ چھانٹ کر کے اسے کتاب کا جزو بنا دیا۔ دیباچہ کے دوسرے پیراگراف میں اکتوبر ۱۹۳۷ء کے لکھنؤ اجلاس کی دوہری کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ فتح و ظفر مندی سر محمد اقبال جیسے دوستوں کی پُر خلوص جدو جہد اور بے لوث خدمت کا نتیجہ ہے ۔ شروع میں جہاں دوستوں کا ذکر آیا ہے وہاں اقبال کے علاوہ ایک آدھ نام اور بھی لکھا تھا نظر ثانی کرتے وقت قائد اعظم نے یہ نام قلم زد کر دیا تھا۔۱۶ سید مشتاق احمد چشتی نے ستمبر ۱۹۴۳ء میں ان خطوط کا اردو میں ترجمہ حیدر آباد دکن سے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد حیدر آباد ہی سے عبدالرحمن سعید نے بھی اردو ترجمہ شائع کیا۔ اقبال کے ان خطوط کا بنگالی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔ ابتدا میں اقبال کے خطوط کی تعداد محض تیرہ تھی۔ پروفیسر جہانگیر عالم کی تحقیق کے مطابق اب ان خطوط کی تعداد ۱۹ ہو گئی ہے۔ دو خطوط (۸؍دسمبر ۱۹۳۶ء اور ۱۳؍اگست ۱۹۳۷ئ) جہانگیر عالم کی دریافت ہیں جبکہ تین خطوط علامہ اقبال کی جانب سے غلام رسول خان نے تحریر کیے تھے ۔ ایک خط مورخہ ۱۰ ؍مئی ۱۹۳۷ء ڈاکٹر صابر کلوروی کی دریافت ہے۔ علامہ اقبال کے ایک خط مورخہ ۲۳؍مئی ۱۹۳۶ء سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس خط و کتابت کی ابتدا قائد اعظم کی طرف سے ہوئی تھی۔ اس ضمن میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تاحال تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ دسمبر ۱۹۳۴ء سے جاری تھا۔ علامہ اقبال ڈاکٹر مختار احمد انصاری کو یکم جنوری ۱۹۳۵ء کو لکھتے ہیں ’’آج صبح مسٹر جناح کا خط ملا ہے‘‘۔۱۷ ان تیرہ خطوط میں سے ۷ کے کونے پر ’’بصیغہ راز‘‘(Confidential) جبکہ ایک خط پر ’’اہم‘‘ (Important) درج ہے۔ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو قائد اعظم کی طرف سے چھ خطوط کا جواب ملا تھا جبکہ غلام رسول خان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک ’’طویل خط‘‘کے جواب میں قائد اعظم نے ملک برکت علی کو لکھا تھا کہ انھیں سر اقبال کا خط مل گیا ہے۔ ان خطوط میں علامہ اقبال نے اپنے ایک ’’مسودے‘‘ کا ذکر کیا ہے جو انھوں نے قائد کو بھیجا تھا اس کی نوعیت کے متعلق تو کچھ معلوم نہیں ہو سکا تاہم اتنا معلوم ہو گیا ہے کہ یہ گورداسپور کے ’’قابل وکیل‘‘ چراغ دین تھے۔ سکندر جناح پیکٹ علامہ اقبال کے ان خطوط میںجن تین چار موضوعات کا بار بار ذکر آیا ہے ان میں سر فہرست سکندر جناح پیکٹ ہے اس لیے اس معاہدے کا پس منظر اور اس کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوجود ۱۹۳۵ء ۔ ۱۹۳۶ء تک کوئی عوامی جماعت نہیں تھی۔ اس کی سرگرمیوں کا دائرہ کار نہایت محدود تھا ۔ ایک عام آدمی کی لیگ کے معاملات میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ اس کے اجلاس عموماً سنیما گھروں ، ہوٹلوں، ٹائون ہالوں یا پھر نجی گھروں میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ ۱۹۳۱ء میں لیگ کا اجلاس دہلی کے خان صاحب نواب علی کے گھر منعقد ہوا تھا جہاں محض ایک سو کے لگ بھگ لوگ موجود تھے۔۱۸ اسی طرح ۱۹۳۰ء میں الہ آباد اجلاس وہاں کے ایک تمباکو فروش رحیم بخش کے گھر منعقد ہوا تھا۔ ۱۹۲۳ء میں اس کا اجلاس کورم پورا نہ ہونے کے سبب منعقد ہی نہ ہو سکا چنانچہ لیگ کو مجبوراً کورم کی تعداد ہی گھٹانی پڑی تھی۔ ۱۹۱۰ء میں لیگ کا اجلاس دہلی کے سنگم تھیٹر اور ۱۹۱۹ء میں امرتسر اجلاس چوک فرید کے ’’منڈوے‘‘ میں منعقد ہوا تھا۱۹۔ ۱۹۲۹ء میں لیگ کے سالانہ اجلاس کا سٹیج دہلی کے روشن تھیٹر میں بنایا گیا تھا۔۱۹۲۴ء میں سالانہ اجلاس لاہور کے گلوب سنیما (میکلوڈ روڈ) میں منعقد ہوا تھا۔ لیگ کے سالانہ اجلاس صرف تقاریر اور قراردادوں تک محدود رہتے تھے۔ ایک طرف تو لیگ اور عوام کے درمیان رابطے کا یہ عالم تھا اور دوسری جانب اس کی صفوں میں عموماً شگاف پڑے رہتے تھے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میںلیگ دو حصوں یعنی شفیع لیگ اور جناح لیگ میں بٹی ہوئی تھی اور تیسری دہائی میں جب قائد اعظم اپنی سیاسی جلا وطنی ختم کر کے ہند واپس لوٹے تو اس وقت بھی یہ جماعت ہدایت لیگ اور عزیز لیگ میں منقسم تھی۔ ان حالات میں جب قائد اعظم نے لیگ کی تشکیل نو کا بیڑہ اٹھایا تو انھیں قدم قدم پر مختلف اطراف سے شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ پنجاب برطانوی استعمار کا ایک مضبوط ترین قلعہ تھا جس کی مضبوطی پر خود سلطنت کا استحکام منحصر تھا۔ چونکہ سلطنت کا ’’بازوئے شمشیر زن ‘‘ تمام ہند کو گندم اور بھاڑے کے فوجی مہیا کیا کرتا تھا اس لیے برطانوی حکومت کی ہر ممکن کوشش ہوا کرتی تھی کہ پنجاب ہر قسم کی ’’سیاسی ہلچل‘‘ سے محفوظ رہے۔ حکومت نے پنجاب میں سفید پوشوں، ذیل داروں ، زمینداروں، جاگیرداروں، درباریوں اور ٹوڈیوں کا ایک جال بن رکھا تھاجس کے ذریعے انھوں نے یہاں ایک بدترین قسم کا سماجی نظام وضع کر رکھا تھا۔ پنجاب میں میاں فضلِ حسین نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بطور ایک ’’ترقی پسند‘‘ (Progressive) سیاست دان کے کیا تھایہی وجہ ہے کہ ۱۹۰۷ء میں پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے قیام کے موقع پر وہ ’’رجعت پسند‘‘ میاں محمد شفیع کے مقابلے میں کھڑے تھے۔ لکھنؤ پیکٹ (۱۹۱۶ئ) کے موقع پر بھی میاں فضلِ حسین قائد اعظم کا ساتھ دے رہے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں سر فضل حسین نے ہندو، سکھ اور مسلمان جاگیر داروں اور ’’ فرزندانِ دل پذیر حکومت انگلیشیہ‘‘ پرمشتمل ایک غیر فرقہ وار جماعت پنجاب نیشنل یونینسٹ پارٹی کے نام سے قائم کی تھی جسے انھوں نے ۱۹۳۶ء میں اسے از سر نو منظم کیا تھا ۔اب یہاں یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ پنجاب میں برسر اقتدار یونینسٹ پارٹی اپنے آغاز سے ۱۹۴۶ء تک یعنی سر فضلِ حسین سے سر سکندر حیات اور سر سکندر حیات سے سر خضر حیات ٹوانہ تک مسلسل اس تگ و دو میں لگی رہی کہ پنجاب میں قائد اور لیگ دونوں کے پائوں جمنے نہ پائیں۔ نواب احمد سعید چھتاری نے بجا طور پر اس حقیقت کی نشان دہی کی تھی کہ ’’اگر سر فضلِ حسین کچھ دیر اور زندہ رہتے تو پنجاب میں مسٹر جناح کا داخلہ ممنوع رہتا اور برعظیم کی تاریخ یقینا مختلف ہوتی۔۲۰ یہ بات تو نواب چھتاری نے۱۹۴۶ء میں لکھی تھی لیکن ۱۹۴۴ء میں یہی بات زیادہ واضح الفاظ میں کونسل آف سٹیٹ کے ممبر نواب زادہ خورشید علی خان نے کہی تھی جب سر خضر حیات اور قائد اعظم کے درمیان ’’جنگ کا طبل بجا ‘‘ تو انھوں نے ملک خضر حیات ٹوانہ کو مبارک باد دی ’’جنھوں نے نہایت واضح اور غیر مبہم انداز میں ایک بیرونی عہدے دار (جناح) کی جانب سے ان کے صوبے کو نادر شاہی حکم دینے کی مزاحمت کی تھی۔۲۱ صوبہ پنجاب جاگیرداروں ، وڈیروں اور بیورکریسی کے اسقدر مضبوط شکنجے میں کسا ہوا تھا کہ جس کو توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس صورتحال کی بہترین عکاسی کرتے ہوئے ملک ظفر اللہ خان نے قائد اعظم کو ۱۷؍جولائی ۱۹۴۱ء کو لکھا تھا : ضلع شیخوپورہ کے لوگ انتہائی جاہل اور حکومتی مشینری سے زبر دست خوف زدہ ہیں ۔ یہ پاکستان کے نظریہ کو پسند تو کرتے ہیں اور مسلم لیگیں بھی قائم ہو رہی ہیں لیکن اگر کل ڈپٹی کمشنر نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تو آدھی لیگیں غائب ہو جائیں گی اور اگر اس نے تھوڑا سا اور زور مارا تو زیادہ تر مسلمان شاید ہندو مہاسبھا کے ممبر بن جائیں گے۔۲۲ پنجاب کی ضلعی لیگوں کے صدر اور سیکرٹری عموماً ’’وفا دار ‘‘ اور ’’جی حضوری‘‘ طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۴۱ء میں ضلع راول پنڈی کے صدر ’’خان بہادر‘‘ اور سیکرٹری ’’خان صاحب‘‘ کے تمغے اپنے سینوں پر سجائے ہوئے تھے۔ دیہاتوں یا جاگیرداروں کے انتخابی حلقوں میں تو کوئی بھی شخص ’’سرکار دوست‘‘ جماعت کے علاوہ کسی اور پارٹی کا علم اٹھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انتخابات میں کوئی بھی پڑھا لکھا باشعور شخص برادریوں ، قبائل اور گروپوں کے مقابلے میں دوڑ میں شریک نہیں ہو سکتا تھا۔ ان حالات میں یونینسٹ پارٹی کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ کو یک دم کھڑا کر دینا سیاسی دانش مندی کی علامت نہیں تھا۔دراصل اس وقت اس ٹھنڈے لوہے پر کتنی بھی طاقت سے ضرب لگانا محض اپنی طاقت کا ضیاع تھا۔ اس پس منظر کے ساتھ قائد اعظم کی سیاسی دور بینی کی داد دینی پڑے گی کہ انھوں نے اس ’’ٹھنڈے لوہے‘‘ کو آہستہ آہستہ گرم کر کے ۱۹۴۴ء میں اس پر پہلی ضرب لگائی لیکن اس کی مضبوطی ملاحظہ ہو کہ ۱۹۴۶ء تک اس کے دم خم میں کوئی بل نہیں پڑا اور بالاخر اس سال اسے جناح کی طاقت کے آگے خم ہونا پڑا۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کسمپرسی کا بہترین عکاس قائد اعظم کا وہ خط ہے جو انھوں نے ملک برکت علی کو مورخہ ۲۳؍جون ۱۹۴۳ء کو لکھا تھا۔ قائد نے لکھا کہ ’’اب میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب میں لیگ کی پوزیشن نہایت افسوسناک ہے‘‘ ۔ قائد کو اگرچہ اس صورت حال پر افسوس تھا تاہم انہیں اس بات کا قوی یقین تھا کہ ’’ہمارے دشمن اور مخالفین ناکام ہوں گے‘‘۔۲۳ پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے مقابلے میں پنجاب پراونشل مسلم لیگ میں جان ڈالنا قائد کی سیاسی حکمت عملی کا ایک اہم جزو تھا اور اس کے لیے ’’صبر و تحمل‘‘ سب سے بنیادی چیز تھی۔ اسی لیے وہ اپنے پیرو کاروں کو بار بار صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ چنانچہ ملک برکت علی کو لکھتے ہیں کہ ’’میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ صبر سے کام لو۔ لیگ نے تو بہرحال آگے بڑھنا ہے‘‘۔۲۴ یہی بات تقریباًایک سال قبل میاں بشیر احمد کو لکھی کہ ’’میں پنجاب کی صورت حال سے بخوبی آگاہ ہوں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ پنجاب میں کیا ہو رہا ہے۔ ابھی بھی تھوڑا سا صبر ضروری ہے‘‘۔۲۵ انھی ایام میں قائد نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے سیکرٹری غلام رسول خان کو انکی دلیرانہ اور جرأت مندانہ کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’پنجاب میں ہماری ناکامی بھی ہماری کامیابی ہے کیونکہ آپ نے پنجاب میں کم از کم لیگ کا جھنڈا تو گاڑ دیا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور محض پانچ ماہ میں معجزوں کی توقع نہیں کر سکتا‘‘۔ اس وقت پنجاب کی سیاسی بساط پر تین کھلاڑی اپنے اپنے مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے چالیں چل رہے تھے۔ سر سکندر حیات کو اگرچہ برطانوی سامراج کی مکمل حمایت حاصل تھی اور ان کی حکومت اسی کے زیر سایہ قائم و دائم تھی تاہم انھیں دو مختلف محاذوں پر مزاحمت کا سامنا تھا۔ ایک محاذ پر کانگرس نے مورچہ جما رکھا تھا دوسری جانب قائد اعظم سر سکندر کی خواہش کے برعکس پنجاب پراونشل مسلم لیگ کی آبیاری میں مصروف تھے۔ سر سکندر کی مربی برطانوی حکومت تو کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتی تھی کہ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ اپنے قدم جما سکے کیونکہ اس صورت میں پنجاب برطانوی استعمار کے ہاتھوں سے نکل جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لارڈ لنلتھگو (Linlithgow) اور لارڈ ویول اور پنجاب کے مختلف گورنر سر سکندر اور سر خضر حیات کی پیٹھ تھپکتے نظر آتے ہیں۔ پنڈرل مون کی مرتب کردہ لارڈ ویول کی ڈائری کا ہر صفحہ اس دعویٰ کی بھر پور تصدیق کرتا ہے۔ سر سکندر حیات بقول ایم اے ایچ اصفہانی ہمیشہ دو کشتیوں میں سوار رہے۔ ایک طرف انھیں دعویٰ تھا کہ قرارداد لاہور کا مسودہ انھوں نے تیار کیا تھا اور دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں اسی ’’پاکستان‘‘ کے خلاف بیان بھی جاری کیا۔ سر سکندر حیات ہمیشہ اس امر میں کوشاں رہے کہ پنجاب میں لیگ کو پنپنے نہ دیا جائے۔ اسی سبب ملک برکت علی، غلام رسول خان اور ان کے درمیان ٹھنی رہی۔ یاد رہے کہ ملک برکت علی ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی وفات تک پنجاب اسمبلی میں لیگ کا علم بلند کیے رکھا تھا۔ جبکہ ان کے ساتھ لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے راجہ غضنفر علی خان اگلے ہی روز یونینسٹ پارٹی کے حق میں ’’جاں بحق‘‘ ہو گئے تھے۔ ملک برکت علی تن تنہا پنجاب اسمبلی میں یونینسٹ پارٹی کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے انھیں یونینسٹ پارٹی کے تمام قائدین کی سخت مخالفت اور مزاحمت کا سامنا تھا۔ ۱۹۴۱ء میں جب ملک برکت علی آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن منتخب کیے گئے تو ان ہی راجہ غضنفر علی خان نے قائد اعظم کو ۳؍اکتوبر ۱۹۴۱ء کو لکھا تھا کہ برکت علی کی نامزدگی سے پنجاب کے لیگی حلقوں میں بہت حیرت اور اضطراب پیدا ہوا ہے۔ بعض مورخین کے نزدیک سر سکندر کانگرس کی مسلم عوام رابطہ مہم (Muslim Mass Contact Movement) سے خوف زدہ تھے اس لیے کانگرس کا مقابلہ کرنے کے لیے لیگ کی چھتری تلے آنا ضروری تھا۔ انھیں نہ تو لیگ سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی قائد سے ۔ اس دلیل میں بھی کوئی وزن نظر نہیں آتا کیونکہ سر سکندر اور ان کی مربی برطانوی حکومت محض اس بات سے خائف تھی کہ اگر کہیں پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئی تو اس سے یونینسٹ پارٹی کا شیرزاہ بکھر جائے گا اور اس صورت میں پنجاب جیسا صوبہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یوں برطانوی سلطنت کا مستقبل مخدوش ہو جائے گا۔ دوسرا کھلاڑی یعنی برطانوی استعمار اپنے مخصوص مقاصد کے پیش نظر اس بات کا متمنی تھا کہ ہر صورت سرسکندر کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں ۔ سر خضرحیات ٹوانہ نے اس بارے میںلکھا ہے کہ حکومت ہند کا ہوم ممبر اور پنجاب ایگزیکٹو کونسل میں سر سکندر حیات کا سابق رفیقِ کار ہنری کریگ(Henry Craig) سر سکندر کے ساتھ رابطہ رکھے ہوا تھا۔ اس کے خیال میں ’’جناح کے ہاتھ مضبوط کیے بغیر برطانوی حکومت کے لیے کانگرس کے مطالبات کے آگے ٹھہرنا ناممکن تھا ‘‘۔ سر خضر حیات نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ سر سکندر نے لیگ کے اجلاس لکھنؤ (۱۹۳۷ئ) میں شرکت کے لیے روانگی سے قبل اپنے ذاتی دوست ہنری کریگ سے ملاقات کی تھی جس نے ان کی اس ’’چال‘‘ کی مکمل حمایت کی تھی۲۶۔یہاں اس بات کا بھی تذکرہ ضروری ہے کہ گورنر جنرل لارڈ لنلتھگو نے سر سکندر کے اس فیصلے کو ان کی ’’ایک اہم اور حیران کن چال‘‘ بتلایا تھا ۲۷۔ تیسرے اورسب سے اہم کھلاڑی محمد علی جناح کے نزدیک آل انڈیا مسلم لیگ کو ایک مرکزی وحدت کی شکل دینے اور اسے مسلمانوں کی کل ہند جماعت بنانے کے لیے صوبہ پنجاب اور بنگال کو ساتھ لے کر چلنا نہایت ضروری تھا۔ نیز اس موقع پر خود جناح یونینسٹ کشمکش سے پارٹی کے اندر بہت اضطراب پھیلا ہوا تھا۔ اس کا اندازہ احمد یار خان دولتانہ کے خط بنام جناح مورخہ ۱۲؍اگست ۱۹۳۶ء سے بخوبی ہوتا ہے۔ دولتانہ نے ڈلہوزی سے انھیں لکھا : ہمارا نیا قائد سر سکندر حیات نہ صرف آپ کا دوست بلکہ آپ کی قیادت ، تدبر اور دیگر بے مثل خوبیوں کا مداح ہے۔ دونوں جماعتوں (لیگ اور یونینسٹ پارٹی) کے درمیان مخاصمت کی صورت میں میرا اور سکندر کا ایک طرف ہونا اور جناح اور اقبال کا دوسری طرف ہونا بڑی بد قسمتی کی بات ہو گی۔ میں سر سکندر کو لکھ رہا ہوں کہ وہ آپ کے ساتھ کسی Working settlement کے لیے بات چیت کرے۔آپ کے اور سر سکندر کے درمیان مفاہمت کے لیے میں بہت مضطرب ہوں۲۸۔ سکندر جناح پیکٹ کے حوالے سے عمران علی کا کہنا ہے کہ چونکہ یونینسٹ پارٹی دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی اس لیے سر سکندر کو خدشہ تھا کہ کہیں ان کا مخالف دھڑا قائد اعظم سے نہ مل جائے اس لیے وہ پہل کرتے ہوئے لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ عمران علی کی یہ دلیل اس لیے قابل قبول نہیں کہ نہ تو سکندر جناح پیکٹ سے قبل اور نہ ہی اس کے بعد یونینسٹ پارٹی کا کوئی بھی دھڑا لیگ میں شامل ہوا کیونکہ ان سب کا مفاد ایک تھا اور ان میںیہ جرأت نہیں تھی کہ وہ حکومت کی مخالفت مول لے کر سر سکندر کی بجائے قائد کا ساتھ دیں۔ سکندر جناح پیکٹ کے شدید ناقد عاشق حسین بٹالوی کا یہ تجزیہ سوفی صد حقیقت پر مبنی تھا کہ قائد اعظم اس وقت دو محاذوں پر لڑنا قرین مصلحت نہیں سمجھتے تھے چونکہ کانگرس مسلمانوں کی قومی جمعیت کو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی تھی لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ گھر کے اندرونی اختلافات کسی نہ کسی طرح ختم کر کے ایک متحدہ محاذ قائم کریں۔ اس موقع پر یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب پراونشل مسلم لیگ کی مجموعی حیثیت کا جائزہ لیا جائے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ یونینسٹ پارٹی کے مقابلے میں کھڑا ہوناکوئی معمولی بات نہیں تھی۔ جب قائد اعظم نے لیگ کو ایک کل ہند جماعت بنانے کی غرض سے ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کیا اور اس کے اجلاس کی صدارت کے لیے ۱۹۳۶ء میں لاہور آئے تو ریلوے سٹیشن پر محض آٹھ دس آدمی ان کے استقبال کو موجود تھے اور اس دوران جب دہلی دروازے کے باہر ایک جلسہ منعقد ہوا تو شرکاء کی تعداد دوسو کے لگ بھگ تھی ۲۹۔لیگ علامہ اقبال اور ان کے گنتی کے چند مخلص ساتھیوں پر مشتمل تھی۔ ۱۹۳۵ء کے آئین کے تحت لیگ کے ٹکٹ پر محض برکت علی اور راجہ غضنفر علی خان منتخب ہوئے تھے جن میں سے راجہ صاحب تو اگلے ہی روز حسب پروگرام یونینسٹ پارٹی سے جا ملے تھے۔ چونکہ پنجاب میں انتخابی حلقوں پر جاگیرداروں اور وڈیروں کی مکمل اجارہ داری قائم تھی اس لیے اس وقت لیگ کو عوامی جماعت بنائے بغیر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا بعید از قیاس تھا۔ قائداعظم کی حکمت عملی یہ نظر آتی ہے کہ اس بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے آہستہ آہستہ مرحلے وار قدم اٹھائے جائیں ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ پنجاب میں ’’داخلے‘‘ کا تھا۔ سکندر جناح پیکٹ کے ذریعے مسلم لیگ کے لیے یہاں اپنے پائوں جمانا ممکن ہوا۔ ۱۹۳۷ء میں لیگ کا اجلاس لکھنؤ میں ہونا طے پایا تھا۔ اس اجلاس میں پنجاب سے سر سکندر حیات اور بنگال کے مولوی اے کے فضل الحق نے شرکت کی تھی۔ سکندر جناح پیکٹ کے متعلق عاشق حسین بٹالوی نے لکھا ہے کہ ۱۴؍اکتوبر ۱۹۳۷ء کی شب محمود آباد ہائوس میں لیگ کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا اور کرسی صدارت پر محمد علی جناح کی بجائے نواب اسمٰعیل خان بیٹھے تھے۔ جلسے کی کارروائی بڑی بے کیف ہو گئی تھی۔ میں اٹھ کر تھوڑی دیر کے لیے باہر آ گیا۔ اتنے میں غلا م رسول خان میرے قریب سے گذرے میںنے پوچھا کہاں کے دھاوے ہیں۔ کہنے لگے مسٹر جناح کے کمرے میں سر سکندر حیات سے کچھ لکھت پڑھت ہونے لگی ہے تم آ جائو۔ ہم مسٹر جناح کے کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے میز کے گرد مسٹر جناح ،سر سکندر ، ملک برکت علی اور میر مقبول محمود بیٹھے تھے۔ ملک برکت علی کچھ لکھنے میں مصروف تھے جب لکھ چکے تو انھوں نے کاغذ مسٹر جناح کو دے دیا۔ مسٹر جناح نے وہی کاغذ پڑھ کر سر سکندر کے حوالے کر دیا۔ سر سکندر نے جب مسودہ پڑھا تو غصے میں آ کر کہنے لگے: ہم نہیں مانتے ملک صاحب تو ہماری وزارت توڑنے کے درپے ہیں۔ اس پر ملک برکت علی ، سر سکندر اور میر مقبول محمود کے درمیان کچھ تیز تیز باتیں ہوئیں۔ بعد میں ایک موقع پر عاشق حسین بٹالوی نے ملک برکت علی سے پوچھا تھا کہ آخر آپ کے تحریر کردہ مسودے میں کونسی بات تھی جسے سر سکندر نے ماننے سے انکار کر دیا تھا تو ملک برکت علی نے کہا کہ ’’یہ اعلان کیا جائے کہ یونینسٹ پارٹی جس کی تشکیل اپریل ۱۹۳۶ء میں سر فضلِ حسین نے کی اور جس کے تحت ۱۹۳۷ء کے الیکشن ہوئے ختم ہو چکی ہے اور اب پارٹی کے مسلم اراکین لیگ کے حلف نامے پر دستخط کر کے مسلم لیگی بن گئے ہیں۳۰۔سید نور احمد کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ملک برکت علی کا تحریر کردہ مسودہ جب سر سکندر کو دکھایا گیا تو انھوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس مسودے کا مقصد مجھے لیگ کے اندر رکھنے کی بجائے لیگ سے باہر رہنے پر مجبور کرنا معلوم ہوتا ہے‘‘ ۳۱ بعد میں قائداعظم نے سر سکندر سے مسودے کی عبارت لکھنے کوکہا چنانچہ میر مقبول محمود نے ان کی طرف سے مسودہ تیار کیا تو اسے قائد ، برکت علی اور سر سکندر نے باری باری پڑھا۔ ملک برکت علی نے مسودے پر چند اعتراضات کیے اور بقول عاشق حسین بٹالوی شاید مسودے میں ایک آدھ جگہ کچھ تبدیلی کی گئی ۔گیارہ بج چکے تھے چنانچہ قائد اس کام سے فارغ ہو کر سیدھے آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں چلے گئے۔ میر نور احمد نے اپنی کتاب مارشل لا سے مارشل لا تک میں سکندر جناح پیکٹ کا سرسری طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : راجہ غضنفر علی خان دو ٹائپ شدہ کاپیاں لے کر جناح صاحب کی خواب گاہ میں پہنچے۔ مسٹر جناح شب خوابی کے لباس میں تھے۔ راجہ صاحب نے انھیں مسودہ دکھایا جسے پڑھ کر مسٹر جناح نے فرمایا کہ ’’یہ ٹھیک معلوم ہوتا ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں‘‘ ۳۲ سید نور احمد کی اس خود ساختہ کہانی کے بارے میں عاشق حسین بٹالوی کا یہ کہنا بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے : راجا صاحب مسلم لیگ سے قطع تعلق کر کے یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور وہ مسٹر جناح سے اس قدر خائف و نادم تھے کہ انھیں تین چار سال تک مسٹر جناح کو اپنی صورت دکھانے کا حوصلہ نہیں ہوا تھا ۔۳۳ سکندر جناح پیکٹ چار شقوں پر مشتمل تھا (۱) سر سکندر واپس پنجاب جا کر اپنی پارٹی کا ایک خاص اجلاس بلائیں گے جس میں پارٹی کے ان تمام مسلمان ممبران کو جو ابھی تک لیگ کے ممبر نہیں ہدایت کریں گے کہ وہ سب لیگ کے حلف نامے (creed) پر دستخط کر کے لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اندریں حالات وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے لیکن یہ معاہدہ یونینسٹ پارٹی کی موجودہ کوالیشن(Coalition) پر اثر انداز نہیں ہو گا۔(۲) معاہدہ قبول کرنے کے بعد آئندہ مجلس قانون ساز کے عام اور ضمنی انتخاب میں وہ متعدد فریق جو موجودہ یونینسٹ پارٹی کے اجزائے ترکیبی ہیں متحدہ طور پر ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت کریںگے۔ (۳) یہ کہ مجلس قانون ساز کے وہ مسلم اراکین جو لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوں گے یا اب لیگ کی رکنیت قبول کرتے ہیں اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی متصور ہوں گے۔ ایسی مسلم لیگ پارٹی کو اجازت ہو گی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی پالیسی اور پروگرام کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسری پارٹی سے تعاون یا اتحاد کرے۔ اس قسم کا تعاون انتخابات کے ماقبل یا مابعد ہر دو صورتوں میں کیا جا سکتا ہے نیز پنجاب کی موجودہ متحدہ جماعت اپنا موجودہ نام یونینسٹ پارٹی برقرار رکھے گی۔(۴) مذکورہ بالا معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے پراونشل پارلیمانی بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میں آئے گی۔ سکندر جناح پیکٹ کے بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ خالص قانونی یا عدالتی اصطلاح میںکوئی معاہدہ نہیں تھا۔ دراصل سول اینڈ ملٹری گزٹ کے نامہ نگار نے اپنے اخبار کو مراسلہ بھیجتے ہوئے اسے پیکٹ کا نام دے دیا ۔خود یونینسٹ پارٹی کے ترجمان نور احمد نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ایک مرحلے پر مسٹر جناح نے یہ نکتہ واضح کردیا تھا کہ اس کی آئینی حیثیت کسی ایسے معاہدے کی نہیں جو دو افراد یا پارٹیوں کے درمیان کیا گیا ہو۔ آئینی لحاظ سے یہ لیگ کا گھریلو انتظام تھا جسے پنجاب کے مخصوص حالات کے پیش نظر اور لیگ کے اندر سر سکندر اور ان کے ساتھیوں کی پوزیشن میں عملی تضاد کو ختم کرنے کے لیے لیگ کونسل نے منظور کیا تھا۔۳۴نور احمد نے اسے معاہدے کی بجائے ’’مفاہمت‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ سر سکندر حیات اور قائد اعظم کے درمیان معاہدہ ہوتاتو جیسا کہ ایک مرحلے پر خود قائد اعظم نے کہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک قائد اور اس کے پیروکار کے درمیان معاہدہ ہو کیا وجہ ہے کہ نہ صرف پنجاب کے معاملات بلکہ خود اس پیکٹ کی تشریح کے بارے میں سر سکندر حیات ، ملک برکت علی اور علامہ اقبال بار بار محمد علی جناح کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سکندر جناح پیکٹ کے ناقد عاشق حسین بٹالوی کا بھی یہی موقف ہے کہ : یہ ایک بیان تھا جو سر سکندر نے کونسل میںپڑھ کر سنایا یا یوں سمجھنا چاہیے کہ سکندر نے اپنے اور اپنی جماعت کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں چند وعدے کیے تھے اور ان وعدوں کا لیگ کونسل میں اعلان کیا تھا چنانچہ مسلم لیگ کونسل نے سکندر جناح مفاہمت کا جو مسودہ مرتب کیا تھا اس پر مندرجہ ذیل سطریں بطور تمہید درج تھیں۔ آج سر سکندر اور مسٹر جناح کے درمیان تبادلہ خیالات ہوا جس کے بعد اول الذکر خصوصی دعوت پر لیگ کونسل کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں مندرجہ ذیل اعلان کیا گیا۔۳۵ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سکندر جناح پیکٹ خواہ یہ معاہدہ تھا یا مفاہمت کا اعلان ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیںہوئی تھی کہ سر سکندر، میر مقبول محمود ، راجہ غضنفر علی خان ، سر چھوٹو رام اور یونینسٹ پارٹی کے ارکان نے اس کی من مانی تو جیہات شروع کردیں۔ اس سلسلے میں سب سے مضحکہ خیز بیان خود سر سکندر حیات کا تھا جنھوں نے قائد اعظم کو ۳؍نومبر ۱۹۳۷ء کو لکھا کہ آپ سر اقبال کو بتلائیں کہ پیکٹ کی شرائط میں یہ بات شامل تھی کہ میں مسلمان یونینسٹ ارکان اسمبلی کو کہوں گا کہ وہ لیگ میں شمولیت اختیار کریں اور پراونشل لیگ میں ہمیں controlling voice حاصل ہوگی۔ایک اور بات جو آپ سر اقبال کو لکھیں کہ موجودہ یونینسٹ پارٹی بدستور کام کرتی رہے گی اور صرف ایک تبدیلی جو ہم نے سوچی تھی کہ مسلمان یونینسٹ لیگ کی رکنیت اختیار کریں گے اور ملک برکت علی یونینسٹ پارٹی میں شمولیت کریں گے۳۶۔ کیا اس سے مضحکہ خیز شرط بھی کوئی اور ہو سکتی تھی۔ سکندر جناح پیکٹ کے حوالے سے تیسری اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف علامہ اقبال ، سر سکندر بلکہ ہندوئوں اور سکھوں نے بھی اس پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ علامہ اقبال کے خطوط بنام جناح میں تو بنیادی نکتہ ہی اس پیکٹ پر تنقید ہے۔ فضل کریم خان درانی جن کا تعلق پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے اقبال گروپ سے تھا اپنے ہفت روزہ ٹروتھ (Truth) کی ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کی اشاعت میں لکھا تھا کہ اس پیکٹ سے پنجاب میں مسلم لیگ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس معاہدے کی شرائط کے تحت لیگ کے تمام عہدے یونینسٹ پارٹی کے کنٹرول میں چلے گئے اور لیگ عملی اعتبار سے پنجاب میں اپنے وجود سے محروم ہو چکی ہے اور اسے یونینسٹ پارٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جیسا مرضی چاہے سلوک کرے۳۷۔ ملک برکت علی کے ہفت روزہ نیو ٹائمز (New Times) کا کہنا تھا کہ اگر کانگرسی لیڈر واقعی قومی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ان کا نیشنل ازم ہندو مہاسبھا کے چہرے پر ایک خالی نقاب (mask) نہیں تو انھیں لکھنؤ میں کیے گئے فیصلوں اور خاص طور پر فضل الحق اور سر سکندر حیات کی لیگ میں دوبارہ شمولیت کا خیر مقدم کرنا چاہیے۳۸۔ سکھوں نے بھی سکندر جناح پیکٹ پر تنقید کی۔ اخبار شیر پنجاب نے ۲۴؍ اکتوبر کی اشاعت میں قائداعظم پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ : یہ بات قطعی ہے کہ سر سکندر نے لیگ میں اپنی مرضی سے شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ کسی ’’تیسرے آدمی‘‘ کی فرمائش پر کی ہے۔ اس تیسرے شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی سابقہ سانٹھ گانٹھ کی طرح بالاخر یہ چال بھی اس کے پٹھووں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی۳۹۔ لاہور سے شائع ہونے والے سکھوں کے ترجمان اکالی پتریکا نے سکندر جناح پیکٹ کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے لکھا کہ : یونینسٹ پارٹی جس نے غیر فرقہ وارانہ جماعت کا نقاب اوڑھ رکھا تھا اب وہ نقاب ہٹ گیا ہے اور یوں یہ پارٹی سیدھی فرقہ واریت کے کیمپ میں جا بیٹھی ہے۴۰۔ اس متنازعہ پیکٹ پر ہندو سکھ تنقیدسے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں اس بات سے خائف تھیں کہ اب یونینسٹ پارٹی غیر فرقہ وارانہ جماعت کی بجائے ایک فرقہ وار جماعت بن جائے گی۔ ہندوئوں کے ایک متعصب اخبار پرتاپ (لاہور) نے اپنی ۱۸؍اکتوبرکی اشاعت میں لکھا کہ : سکندر جناح معاہدے کا ایک ایک لفظ یہ اعلان کر رہا ہے کہ یونینسٹ پارٹی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔ اب پنجاب پر غیر فرقہ وار حکومت کی بجائے ایک مسلم پارٹی کی حکومت ہو گی اور کابینہ کے ہندو سکھ ارکان ایک مسلم حکومت کا حصہ ہوں گے۴۱۔ اخبار ڈیلی ہیرلڈ نے اپنی دو اشاعتوں میں سکندر جناح پیکٹ کو کڑی تنقید کانشانہ بنایا ۔ اخبار نے ۲۱؍اکتوبر کی اشاعت میںلکھا کہ : آیا سر سکندر نے جناح کے ساتھ معاہدہ کر کے کوئی غلطی کی یا نہیں اس کے اندھے پیروکاروں کے لیے یہ بات غیر اہم ہے۔ جناح مسلمانوں کو عوام کی فلاح و بہبود ، آزادی کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے منظم نہیں کر رہا بلکہ کانگرس اور حکومت کے درمیان کشمکش میں ’’تیسری پارٹی‘‘ کا کھیل کھیل رہا ہے۔ جناح کا فضل الحق اور سر سکندر حیات کے ساتھ معاہدہ کانگرس کے حملے کا جواب اور انتقامی نوعیت کا ہے۴۲۔ یہاں ہندو سوچ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے ۔ ہندوئوں کے نزدیک آزادی کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان فی الحال اپنے حقوق کے تحفظ کی بات کرنا چھوڑ دیں۔ ملک کو ہندوئوں کے ساتھ مل کر آزاد کرائیںپھر آزادی کے بعد حقوق و رعایات کا معاملہ طے کر لیا جائے گا۔ ہندوئوں کے نزدیک ملک میں صرف دو ہی جماعتوں کا وجود تھا ایک کانگرس دوسری حکومت۔جناح کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے للکار کر کہا: نہیں، یہاں تیسری جماعت بھی موجود ہے۔ کیا ڈیلی ٹیلی گراف اور پنڈت نہرو کی سوچ میں کوئی فرق نظر آتا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گرافنے ۴ روز بعد سخت الفاظ میں سکندر جناح پیکٹ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے لکھا کہ یہ پیکٹ مسلم فرقہ واریت کی اپنے ڈھیر ہونے سے قبل آخری اٹھان ہے۔ سکندر جناح پیکٹ خطرناک امکانی قوت سے پُر ہے۔ سکندر جناح مفاہمت کا ایک خوش آئند پہلو یہ تھا کہ ملک بھر کے مسلمانوں نے اس کاپُر جوش خیر مقدم کیا تھا۔ اس سے پیشتر مسلمان غیر متحد پارٹیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ لیگ کے لکھنؤ اجلاس میں مسلم اقلیتی اور مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمان دوش بدوش نظر آئے تو مسلم قومیت اور مسلم اتحاد کے جذبے کو نئی تقویت ملی اور ان کے اندر نیا حوصلہ اور اعتماد پیدا ہوا ۴۳۔ کوپ لینڈ (Coupland) نے بھی پیکٹ کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پنجاب ، بنگال اور آسام کے وزراء اعظم کی شرکت نے مسلم لیگ میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکی اور اب جناح پوری قوم کے تنہا اور واحد نمائندہ لیڈر بن گئے۴۴۔ لیگ کے اجلاس میںسرسکندرحیات کی شمولیت کو ایک ہندو مصنف کے۔ سی۔ یادو (K.C. Yadev) نے جناح کی برتری کو تسلیم کرنے سے تشبیہ دی ہے۴۵۔ سر سکندر حیات کی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس لکھنؤ میں شرکت کے سلسلے میں ان کے فرزند سردار شوکت حیات نے عجیب و غریب انداز اختیار کیا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب گم گشتہ قومکو تین زعما کے نام معنون کیا ہے۔ سردار شوکت حیات نے محمد علی جناح کے لیے پانچ الفاظ ، علامہ اقبال کے لیے بھی پانچ جبکہ اپنے والد سر سکندر حیات کے لیے پچاس الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ محمد علی جناح کی قابل ستائش قیادت کے اور ڈاکٹر علامہ اقبال کی ایمان افروز رہنمائی کے اور اپنے والد محترم سرسکندر حیات خان کی خدمات کے جو بطور وزیر اعظم پنجاب از خود اپنی جماعت ’’اتحاد پارٹی‘‘ کے مسلمان ممبروں کو جو پنجاب کی پچانوے فی صد مسلم نشستیں جیت چکے تھے بغیر کسی دبائو کے ۱۹۳۷ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن لکھنؤ میں از خود مسلم لیگ کی اعانت میں لے گئے۴۶۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نہ صرف سردار شوکت حیات بلکہ سر محمد شفیع کی صاحبزادی بیگم جہاں آرا شاہنواز، چودھری خلیق الزماں اور میاں محمد شفیع (م ۔ ش) اس پیکٹ کو سر سکندر کی نیک نیتی اور لیگ سے ان کی بے انتہا محبت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سر سکندر حیات واقعی نیک نیتی سے لیگ میں شامل ہوئے تھے تو انھوں نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران (۱۹۳۷ء ۔ ۱۹۴۲ئ) اس پیکٹ پر کتنے فی صد عمل کیا؟۔ کیا ان کی یونینسٹ پارٹی کے اراکین اسمبلی نے لیگ کے حلف نامے پر دستخط کر کے لیگ کو مضبوط بنایا ۔ ان سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ علامہ کے ان خطوط میں آل انڈیا نیشنل کنونشن کا بھی ذکر ہے جو ۱۹ ؍مارچ ۱۹۳۷ء کو دہلی میں منعقد ہوا تھا۔ کنونشن میں کانگرس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے ۸۸۰ ارکان جمع تھے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنے خطبے میں یہ کہا تھا کہ ہندوستان کا اصل مسئلہ اقتصادی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے مطالبات اور خواہشات کو ’’فرقہ وارانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے تجویز کیا کہ ’’اس نام نہاد فرقہ وارانہ مسئلے‘‘ کے حل کا طریقہ معاشی مسائل کا حل ہے۔ پنڈت جی نے اپنے اس خطبے میں بار بار مسلمانوں کی علیٰحدہ تنظیم کو ’’فرقہ پرستی کی لعنت‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ : آج تمام مسلمان کیا بوڑھے کیا نوجوان اس جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں کہ فرقہ پرستی کی لعنت سے دامن چھڑا کر اپنے آپ کو حریت و ترقی کی تحریکوں سے وابستہ کریں۔ علامہ اقبال نے اپنے خط میں قائد اعظم کو لکھا کہ ’’اس خطبے میں جوروح کار فرما نظر آتی ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہ ہو گی‘‘۔علامہ نے قائد اعظم سے آل انڈیا نیشنل کنونشن کے مقابلے میں دہلی میں آل انڈیا مسلم کنونشن بلانے کی درخواست کی۔ علامہ مسلم کنونشن کے فوری انعقاد کو کس قدر اہم اور ضروری تصور کرتے تھے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ۲۲؍اپریل ۱۹۳۷ء کو دوبارہ اسی موضوع پر قائد اعظم کو توجہ دلائی تھی۔ قائداعظم علامہ اقبال کی نظر میں جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے قیام کے بعد قائداعظم اور علامہ اقبال ایک دوسرے کے بے حد قریب آگئے تھے۔ یہاں آگے بڑھنے سے پیشتر اس امر پر غور کرنا ضروری ہے کہ آخر علامہ اقبال کی نگاہ انتخاب برعظیم کے سیکڑوں مسلمان راہنمائوں میں سے صرف قائداعظم پر ہی کیوں ٹھہری۔ اس وقت پنجاب میں سرسکندر حیات خان ایسے ذہین اور منجھے ہوئے سیاست دان بھی موجود تھے اور جن کی یونینسٹ پارٹی میں وہ کام بھی کر چکے تھے۔ مولوی اے کے فضل الحق جیسے تجربہ کار سیاست دان اور جری شخص بھی زندہ و سلامت تھے جن کی بنگال میں پرجا پارٹی پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کی مانند خاصا اثر ونفوذ رکھتی تھی۔ خان عبدالغفار خان بھی اس وقت صوبہ سرحد کی ایک جماعت کے سربراہ تھے۔ مولانا ظفر علی خان بھی اپنی اتحاد ملت پارٹی کی سربراہی کر رہے تھے۔ پنجاب ہی میں چودھری افضل حق جیسے دردمند مفکر متوسط درجے کے مسلمانوں کی جماعت مجلس احرار کی آبیاری کر رہے تھے۔ مولانا حسرت موہانی جیسے دلیر،بے باک اور پیکر حریت ہستی اور مولانا شوکت علی جیسے کہنہ مشق سیاست دان اور سرفروش ہستی بھی موجود تھی۔ میدان سیاست میں ابوالکلام آزاد اور حسین احمد مدنی بھی سرگرم عمل تھے لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے علامہ کی نظر قائداعظم پر کیوں ٹھہری اس کا جواب خود انہی کی زبانی سنیے: مسلمانوں کی قیادت کا اہل اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو وہ صرف جناح ہیں۔ اس لیے کہ وہ دیانت دار ہیں۔ انہیں خریدا نہیں جا سکتا۔ وہ مخلص ہیں۔ ان سے اختلاف رائے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے لائحہ عمل سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے تاہم ان کی نیت پر شبہ ممکن نہیں۔ میں نے خود سائمن کمیشن کے ضمن میں ان سے اختلاف کیا۔ مجھے لکھنؤ پیکٹ کے بارے میں بھی ان سے اختلاف ہے۔ اس کے باوجود میں ان پر بھرپور بھروسہ کر سکتا ہوں کہ وہ قوم کے بارے میں جو کچھ سوچیں گے بے غرض ہو کر سوچیں گے۔ وہ کسی لالچ یا حرص یا ہوس کے باعث قومی مفاد کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انہیں اسلام کے دین حق ہونے پر کامل یقین ہے نیز یہ کہ وہ بے خوف ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ انہوں نے مغربی جمہوریت کی انگریزی صورت کا انگلستان میں رہ کر گہرا مطالعہ کیا اور برعظیم میں جس قدر طویل براہ راست تجربہ اس جمہوری عمل کا انہیں حاصل ہے اتنا کسی او رکو بھی نہیں۔ ۴۷ ۱۹۳۶ء میں حیدر آباد دکن کے صحافی بادشاہ حسین نے علامہ اقبال سے ملاقات کی ۔ اس بارے میں انھوں نے لکھا کہ ’’عظیم شاعر اور فلسفی کے ساتھ میری ایک گفتگو ان کی وفات سے دو سال پیشتر ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ ہندو فرعونوں کی غلامی سے ہندوستانی مسلمانوں کو نجات دلانے والے موسیٰ کی تلاش میں علامہ اقبال کی نگاہ انتخاب قائداعظم محمد علی جناح پر کیوں پڑی۔ یہ گفتگو اس طرح ہوئی۔ ڈاکٹر اقبال: میرا خیال ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہوگا کہ مجھے اپنے دینی بھائیوں سے کتنی گہری محبت ہے شاید دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح تمہارا بھی یہ خیال ہے کہ سیاست میرا کھیل نہیں ہے۔ میرے پیارے نوجوان دوست میرے نظریئے کے مطابق میری قوم کی ترقی کا راز سیاسی آزادی میں پنہاں ہے۔ برطانوی استعمار ہمارے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے اور ہندوئوں کا غلبہ بھی ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ دونوں طرف کا دبائو ہمیں کچل رہا ہے۔ ان حالات میں ہر صحیح الفکر مسلمان نہ صرف ہندوستانی سیاست میں حصہ لے رہا ہے بلکہ بہت مضطرب بھی ہے۔ بادشاہ حسین: کیا اسی وجہ سے آپ سیاست کے میدان میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر اقبال : میرے سیاست میں داخل ہونے سے آپ کا مفہوم کیا ہے؟ میں پہلے بھی میدان سیاست میں تھا اور اب بھی ہوں۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبود میری ساری زندگی کا مشن رہا ہے کیا یہ سیاست سے کوئی مختلف چیز ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں عوامی رہنما نہیں رہا تو یہ محض غلط فہمی ہیـ۔ میں نے اپنے کلام سے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیا۔ کیا میں نے مسلمانوں میں کہتری کے غلط احساس کو ختم نہیں کیا؟کیا میں نے یہ تلقین نہیں کی کہ مسلمان مجاہد ہیں؟ کیا میں نے انجام کار اس برعظیم کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور نہیں دیا۔ بادشاہ حسین: بے شک آپ نے ایسا ہی کیا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ایک ایسا صحیح رہنما ہے جو مجاہدوں کی قوت کو منزل مقصود حاصل کرنے کے لیے استعمال کر سکے۔ آپ کے خیال میں کیا مسٹر جناح مطلوبہ شخصیت (man of the destiny) ہیں؟ ڈاکٹر اقبال : جی ہاں میری بصیرت کہتی ہے کہ مسٹر جناح ملتِ اسلامی کو منزل مقصود تک پہنچائیں گے۔ بادشاہ حسین: کیا آپ نے انہیں بالکل قریب سے دیکھا ہے۔ ڈاکٹر اقبال: ہم نے اکثر اوقات تقریباً تمام اہم مسائل پر خط و کتابت کے ذریعے عملاً گفتگو کی ہے۔ ہم نے ملاقاتوں کے ذریعے بھی تفصیل سے باہم تبادلہ خیالات کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسٹر جناح سے بڑھ کر کوئی دوسرا رہنما اس مشکل کام(uphill task)کو سرانجام نہیں دے سکتا۔ بادشاہ حسین: لیکن شاید عوام میں انہیں مقبولیت حاصل نہیں۔ ڈاکٹر اقبال: یہ میری پیشین گوئی ہے کہ مسٹر جناح ایسے کردار، اخلاق، فہم و تدبر اور عزم محکم کے مالک ہیں جن کی بنا پر وہ بہت جلد ایک ایسے عوامی ہیرو بن جائیں گے کہ مسلم ہندوستان میں ابھی تک اس قسم کا کوئی لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔ مسٹر جناح برطانوی استعمار اور نوکر شاہی کی اصلیت سے بخوبی واقف ہیں اور وہ کانگرس کی ذہنیت کے بھی بھیدی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صرف وہی ان دونوں سے نبرد آزما ہو سکتے اور ان کو شکست دے سکتے ہیں۴۸۔ بادشاہ حسین کی تحریر کے ثقہ ہونے کا ثبوت حوالدار عبدالرحیم خاکی کے تحریر کردہ واقعے سے ہوتا ہے جنھوں نے علامہ اقبال سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اوائل اپریل ۱۹۳۶ء کی بات ہے کہ ہم لوگ ایک مختصر سی جمعیت کی شکل میں حضرت علامہ اقبال کے آستانہ پر حاضر ہوئے۔ راجا حسن اختر نے ہمارا تعارف کرایا۔ راجا فضل الٰہی جو ہمارے مختصر سے قافلہ کے سرخیل تھے اپنی بیاضِ خاص نکالی او رایک کے بعد ایک جواب طلب امور حضرت علامہ سے دریافت کرنے لگے۔ بات پھیلتے پھیلتے خودی تک جا پہنچی جو علامہ کا موضوع عزیز تھا۔ آخرمیں راجا فضل الٰہی نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کا درسِ خودی خوب رہا۔ بلاشبہ ہمارا ذہن تاریک خلائوں میں بھٹک رہا تھا اور آپ کی شمع ہدایت نے سیدھی راہ سجھا دی ہے مگر ایک اور بات اگر آپ اسے جسارت نہ سمجھیں تو عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔‘‘ ’’کیوں نہیں کیوں نہیں‘‘ حضرت علامہ نے پہلو بدلتے ہوئے فرمایا: ’’آپ ضرور پوچھیں جو کچھ میں جانتاہوں ضرور بتلائوں گا۔‘‘ راجا صاحب نے صراحت سے پوچھا کہ ’’کیا ہندوستان میں کوئی ایسا شخص ہے جسے ہم آپ کی خودی کا مظہر کہہ سکیں۔‘‘ ’’ہاں بالکل ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے فرمایا ’’اور وہ محمد علی جناح ہے۔ اپنی قوم کو میں جس خودی کا درس دے رہا ہوں وہ محمد علی جناح کے وجود میں جلوہ فرما ہے۔ یہ انگریزی ماحول کا اور تہذیب کا پروردہ شخص بڑا ہی کام کا ہے۔ زبان اس کے دل کی رفیق ہے۔ حق بات کہنے میں اسے باک نہیں نہایت ہی اعتباری آدمی ہے۔ قوم کی ر ہنمائی اسے سونپ دی جائے تو بگڑی بن سکتی ہے۔ مسلم قوم کا نجات دہندہ ہونے کی ساری صفات اس میں پائی جاتی ہیں۔ وقت موافق ہویا ناموافق قوم کی خدمت کرنے کا اسے موقع میسر آجائے تو یہ دنوں میں انقلاب لا سکتا ہے۔‘‘ راجا فضل الٰہی اس پر چونک اٹھے کیونکہ ان کے نزدیک محمد علی جناح ایک چوٹی کے وکیل ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہ تھے معاً سوال کیا کہ اسے کیونکر میدانِ عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ قوم کا کاررواں بے حس ہی نہیں احساسِ زیاں تک سے محروم ہو چکا ہے۔‘‘ حضرت علامہ نے کہنا شروع کیا میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں کہ انہیں سیاسی میدان میں مسلم قوم کی رہنمائی پر آمادہ کر سکوں۔ بہت دنوںسے میرے اور ان کے درمیان اس موضوع پر خط وکتابت جاری ہے۔ وہ میرے خیالات سے متاثر تو ہیں دیکھیے انجام کار کیا ہوتا ہے۔ ۴۹ علامہ اقبال نے اپنی زندگی کے آخری دو سالوں میں پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لیے جس سرگرمی کے ساتھ کام کیا خود قائداعظم نے اس کا اعتراف کیا تھا۔ اب دونوں رہنما ایک دوسرے پر بے حد اعتماد کرنے لگے تھے۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں قائداعظم محمد علی جناح نے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو ایک بیان دیا جس میں آپ نے کہا کہ ’’آج کل مسلمانوں کا سب سے اہم فرض یہی ہے کہ وہ اپنی تنظیم کریں اور ہندوستان کی واحد اسلامی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک محاذ پر جمع ہو جائیں۔ ہماری امیدیں نوجوانوں سے وابستہ ہیں جنھیں عنقریب مستقبل کا بوجھ اور ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خیال آرائیوں سے گمراہ ہونے کی بجائے حقائق کی روشنی میں عملی کام کر کے دکھائیں۔ میں آپ کی کامیابی کے لیے دست بدعا ہوں۔‘‘ ۵۰ علامہ اقبال نے اپنے پیام میں قائداعظم کے بیان کی تائید فرماتے ہوئے کہا کہ ’’میں مسٹر جناح کے ایک ایک لفظ کی تائید کرتا ہوں۔ مسلمان نوجوانوں کو اس سے بہتر مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ ۵۱ ۱۹۳۷ء میں پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ بیان داغا کہ ہندوستان میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہیں ایک کانگرس اور دوسری حکومت۔ اس پر قائداعظم نے پنڈت نہرو کو للکارا اور کہا کہ نہیں ایک تیسری پارٹی بھی موجود ہے اور وہ مسلمان ہیں۔ ساتھ ہی قائداعظم نے کانگرس کی اس پالیسی پر بھی اظہار افسوس کیا جو وہ مسلم لیگی امیدواروں کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کر کے اختیار کر رہی تھی۔ قائداعظم کے اس بیان پر پنڈت جی نے سخت نکتہ چینی کی اور کہا کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم آباد ہے جس کی نمائندگی کانگرس کرتی ہے۔ اس موقعہ پر علامہ اقبال نے جو بیان دیا اس سے قائداعظم کے متعلق علامہ کے دلی جذبات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے دل میں پنڈت نہرو کی بہت عزت ہے۔ انھوں نے آزادیِ وطن کی خاطر جو مصائب برداشت کیے ہیں اور قربانیاں گوارا کی ہیں میںان کی قدر کرتا ہوں لیکن میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے بلاوجہ مسٹر جناح کے ساتھ الجھنے کی کوشش کی ہے۔ مسٹر جناح آج مسلمانوںکے سب سے بڑے اور سب سے معتمد علیہ لیڈر ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کی جو خدمت کی ہے وہ کسی اور لیڈر سے کم نہیں لیکن مسٹر جناح تخیل کی دنیا میں پرواز کرنے کی بجائے حقیقت بینی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کی قوم پرستی اور حب الوطنی حقائق و واقعات کے صحیح تجزیئے پر مبنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ پنڈت نہرو کو جلد اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ مسٹر جناح مسلمانوں میں کتنی بلند حیثیت اور ارفع مقام کے مالک ہیں۔ مسلمانوں کی طرف سے اگر کسی شخص کو بات کرنے کا حق ہے تو وہ صرف مسٹر جناح ہیں۔ ۵۲ ملت کے یہ دونوں زعماء ایک دوسرے کے بے حد قریب آگئے تھے اور ایک دوسرے پر حد درجہ اعتماد کرنے لگے تھے۔ اب علامہ اقبال قائداعظم کے سوا کسی کو اپنا لیڈر ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے پنڈت نہرو اور میاں افتخار الدین کی علامہ اقبال کے ساتھ ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ اس ملاقات میں میاں افتخار الدین نے کہا کہ ’’ڈاکٹر صاحب آپ مسلمانوں کے لیڈر کیوں نہیں بن جاتے۔ مسلمان مسٹر جناح سے زیادہ آپ کی عزت کرتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کی طرف سے کانگرس کے ساتھ بات چیت کریں تو نتیجہ بہتر نکلے گا۔‘‘ علامہ اقبال لیٹے ہوئے تھے یہ بات سنتے ہی غصے میں آگئے اور انگریزی میں فرمانے لگے ’’اچھا تو چال یہ ہے کہ آپ مجھے بہلا پھسلا کر مسٹر جناح کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو بتلا دینا چاہتا ہوں کہ مسٹر جناح ہی مسلمانوں کے اصل لیڈر ہیں۔ میں تو ان کا ایک معمولی سپاہی ہوں۔‘‘ ۵۳ سید نذیر نیازی نے بھی اس ملاقات کا ذکر اپنی کتاب اقبال کے حضورمیں کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’’میاں افتخار الدین نے کہا کہ مسلمان بھی آزادیِ وطن کے ایسے ہی خواہش مند ہیں جیسے ہندو۔ وہ بھی شہنشاہیت کے ایسے ہی دشمن ہیں جیسے کوئی اور۔ آپ حق بات کیوں نہیں کہتے کہ مسلمانوں پر آپ ہی کا اثر ہے جناح کی کون سنتا ہے۔‘‘ اس پر علامہ نے فرمایا ’’مجھے یہ کہنے میں کیا عذر ہے کہ مسلمان آزادی کے طالب، استعمار اور شہنشاہیت کے دشمن ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ جناح تو حق بات سن لیتے ہیں، نہیں سنتی تو کانگرس۔‘‘ قائداعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی جو کوشش کر رہے تھے، ان کے متعلق علامہ نے فرمایا: اس امر سے تو شاید آپ کو (میاں افتخار الدین) بھی انکار نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کا اتحاد ایک امر ضروری ہے تو جناح کی قیادت سے جو تھوڑا بہت اتحاد پیدا ہوا ہے تو کیا اسے اس لیے ختم کر دیا جائے کہ ہندو نہیں چاہتے کہ مسلمان بحیثیت ایک قوم متحد ہو جائیں۔ ۵۴ اسی ملاقات میں ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ علامہ اقبال نے پنڈت نہرو کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’جناح اور آپ میں قدرِ مشترک کیا ہے وہ ایک سیاست دان ہیں اور آپ ایک محبِ وطن۔‘‘۵۵ اس ملاقات کا لاہور میں خوب چرچا ہوا اور علامہ کے دوستوں کو یہ ڈر پیدا ہوا کہ کہیں مخالفین اس جملہ سے کہ ’’جناح سیاست دان ہیں اور نہرو محبِ وطن‘‘ غلط مطلب اخذ کرتے نہ پھریں اور اس جملہ کو اپنی مطلب براری کے لیے استعمال نہ کریں۔ اسی شام میاں بشیر احمد (مدیر ہمایوں) علامہ اقبال کے پاس تشریف لائے اور اس جملے کے بارے میں گفتگو کی۔ میاں صاحب نے کہا کہ ’’میں نے سنا ہے کہ آپ نے پنڈت جی سے فرمایا تھا کہ پنڈت جی بات اصل میں یہ ہے کہ آپ تو محبِ وطن ہیں لیکن جناح قانون دان یا شاید یہ کہ جناح سیاست دان، آپ محبِ وطن۔ یہ بات ویسے تو ٹھیک معلوم نہیں ہوتی لیکن اندیشہ ہے کہ لوگوں میں اس کا چرچا ہوا تو مخالفین اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ہماری کوئی صحافت نہیں ہے نہ کوئی مرکز اطلاعات اور نشر و اشاعت۔ یوں لیگ اورجناح کے خلاف پراپیگنڈا ہوگا۔‘‘ اس پر علامہ نے فرمایا ’’فرض کیجیے میرے الفاظ کا مطلب وہی ہے جو بقول آپ کے لوگوں نے سمجھا۔ اس میں کیا مضائقہ ہے۔ میں نے تو ایک سیدھی سادی بات کی تھی وہ یہ کہ جناح سیاست دان ہیں لیکن پنڈت نہرو محبِ وطنJinnah is a politician, you are a patriot اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ جناح میں حب الوطنی کی کمی ہے یا یہ کہ پنڈت نہرو بہت بڑے سیاست دان ہیں۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ پنڈت نہرو کی نظر حقائق پر نہیں ہے جیسا کہ ایک سیاستدان کی ہونی چاہیے۔ وہ جذبات کی رو میں بہہ رہے ہیں گوبہ سبب جذبہ حب الوطنی۔ لیکن یہ امر سیاست کے منافی ہے۔ برعکس اس کے جناح سیاست دان ہیں ان کا مزاج قانونی ہے اور وہ خوب سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ بھی کہ ہندوئوں اور انگریزوں میں جو کشمکش جاری ہے اس کی حقیقی نوعیت کیا ہے۔ وہ یہ نہیں کر رہے کہ حب الوطنی کے جوش میں واقعات سے آنکھیں بند کر لیں وہی تو حقیقت میں محب الوطن ہیں۔‘‘ ۵۶ ۱۹۳۶ء کے آخری دنوں میں ایک روز قائداعظم کی امانت و دیانت اور قابلیت کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس پر علامہ اقبال نے کہا کہ ’’مسٹر جناحـ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج تک ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آئی۔ حاضرین میںسے کسی نے پوچھا کہ وہ خوبی کیا ہے، تو آپ نے انگریزی میں فرمایا: He is incorruptible and unpurchaseable بات یہ ہے کہ انگریز نے ہندوستان میں پارلیمانی طرز حکومت کے نام سے اپنی شہنشاہیت کو مضبوط کرنے کا ایک جال بچھایا ہے۔ جناح اس جال کی ایک ایک گرہ سے واقف ہے۔ وہ بیچارہ صرف یہ کہتا ہے کہ مسلمان اس نظام حکومت کے ماتحت کہیں خسارہ نہ اٹھائیںاس لیے وہ اپنی سیاسی بصیرت کی روشنی میں آپ کو ہوشیار ہو جانے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘۵۷ قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں ’’دین‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ علامہ کو جب یہ تقریر پڑھ کر سنائی گئی تو آپ نے قائداعظم کے لفظ ’’دین‘‘ استعمال کرنے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’جناح کی زبان سے دین کا لفظ کیسا بھلا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ۵۸ قائداعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس دہلی میں تقریر کرتے ہوئے صوبوں میں کانگرسی وزارتوں کے طرز عمل اور خصوصیت سے ’’بندے ماترم‘‘ اور اردو زبان کا ذکر کیا۔ قائداعظم نے اس تقریر میں ’’بندے ماترم‘‘ کے مسلم دشمن ترانے کے متعلق فرمایا کہ: اس سے شرک کی بُو آتی ہے اوریہ مسلمانوں کے خلاف ایک قسم کا نعرئہ جنگ ہے۔‘‘ کانگرسی صوبوں میں ہندی ہندوستانی کے جبری نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ ’’میرے خیال میں یہ چیز اسلامی تمدن اور اردو زبان کے لیے پیغام مرگ ہے اور ہمارے بچوں کے لیے مہلک ثابت ہو گی۔۵۹ ایک مجلس میں جب علامہ اقبال کو قائداعظم کی مندرجہ بالا تقریر پڑھ کر سنائی گئی تو علامہ نے اس پر بڑی مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ دو باتوں سے جی خوش ہوا ایک تو جناح کے یہ کہنے پر کہ بندے ماترم سے شرک کی بُو آتی ہے دوسرے اس پر کہ ہندی ہندوستانی تحریک دراصل اردو پر حملہ ہے اور اردو کے پردے میں بالواسطہ اسلامی تہذیب پر۔۶۰ اب علامہ اقبال قائداعظم کی قیادت پر کامل یقین رکھتے تھے۔ اب آپ کی یہ پختہ رائے تھی کہ مسلمانوں کی مشکلات کا مداوا یوں ہو سکتا ہے کہ: انھیں چاہیے کہ جناح کے ہاتھ مضبوط کریں۔ متحدہ محاذ لیگ کی ہی سربراہی میں قائم ہو سکتا ہے اور لیگ کامیاب ہو گی تو جناح کے سہارے۔ جناح کے سوا اب کوئی مسلمانوں کی قیادت کا اہل نہیں۔۶۱ علامہ اقبال نے اپنی اس پختہ رائے کا اظہار یونینسٹ پارٹی کے ترجمان روزنامہ انقلابکے مدیران غلام رسول مہر اور عبدالمجید سالک سے بھی کیا جو علامہ سے ملاقات کی غرض سے آئے تھے۔ دورانِ گفتگو علامہ نے دونوں حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ہمارے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ یونینسٹ پارٹی توڑ دی جائے۔ لیگ جو متحدہ محاذ قائم کر رہی ہے سب اس میں شامل ہو جائیں۔ مسلمانوں کی زمام قیادت صرف لیگ کے ہاتھ میں ہو۔ ہمیں جناح سے بہتر کوئی آدمی نہیں مل سکتا۔ جناح ہی ہماری قیادت کے اہلِ ہیں۔‘‘ ۶۲ مارچ ۱۹۴۰ء میں یوم اقبال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سرعبدالقادر نے ایک واقعہ سنایا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ علامہ اقبال کی نگاہ میں قائداعظم کو کیا مقام حاصل تھا۔ سرعبدالقادر نے بتلایا کہ ۲۰ اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال کو نٹال (Natal) کے ایک انگریزی اخبار کا تراشا موصول ہوا جس میں مسلمانانِ نٹال کی طرف سے اتاترک، علامہ اقبال اور قائداعظم کی طویل زندگی کی دعا کا ذکر تھا۔ علامہ اقبال کو جب یہ تراشا پڑھ کر سنایا گیا تو انھوں نے کہا کہ میں تو اپنی زندگی کا کام ختم کر چکا ہوں۔ مسٹر جناح نے ابھی زندگی کا مشن پورا کرنا ہے اس لیے مسلمان ان کی زندگی کے لیے دعا کریں۔ ۶۳ علامہ اقبال: قائداعظم کی نظر میں دوسری جانب قائداعظم محمد علی جناح نے بھی کھلے دل سے علامہ اقبال کی خدمات کا اعتراف کیا۔ ۱۹۴۳ء میں لاہور کے مشہور ناشر کتب شیخ محمد اشرف نے اقبال کے خطوط بنام جناح شائع کیے۔ قائداعظم نے ان خطوط کا دیباچہ تحریر کیا جس میں قائداعظم نے اپنے دوست اقبال کی ’’مخلصانہ اور بے لوث‘‘ خدمات کا ذکر کیا۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ خود قائداعظم نے میاں بشیر احمد (سابق مدیر ہمایوں) کے نام مندرجہ ذیل خط میں ان خطوط کو ’’تاریخی خطوط‘‘ قرار دیا تھا۔ ’’مائی ڈیر میاں بشیر احمد، کچھ پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے مجھے سر محمد اقبال کے چند پرانے خطوط ملے جو انھوں نے مجھے اپنی وفات سے قبل ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۸ء کے درمیان لکھے تھے۔ چونکہ یہ خطوط تاریخی اہمیت حاصل کر چکے ہیں، اس لیے میں ان کو محفوظ کر لینا چاہتا ہوں لیکن بدقسمتی سے ان خطوط کے جوابات جو میں نے تحریر کیے وہ دستیاب نہیں ہیں کیونکہ ان خطوط کی نقول میں نے اپنے پاس نہیں رکھیں۔ کیا آپ مہربانی فرما کر ان خطوط کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش فرمائیں گے اور مجھے جلد از جلد ارسال کریں گے۔‘‘ ۶۴ قائداعظم محمد علی جناح نے ان خطوط کے دیباچے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ آپ کے دلی جذبات کا آئینہ دار ہے۔ آپ نے لکھا کہ ’’یہ خطوط جو اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں وہ ہمارے قومی شاعر، فلسفی اور دانش ور، مرحوم ڈاکٹر سر محمد اقبال نے مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصے میں مجھے لکھے۔ یہ بات ان کی وفات سے چند ہی ماہ قبل کی ہے۔ یہ عرصہ مسلمانان ہند کی تاریخ کے ایسے دور کے ساتھ آتا ہے جو نہایت اہم واقعات سے پُر ہے یعنی آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کا قیام، جون ۱۹۳۶ء اور اکتوبر ۱۹۳۷ء میں ہونے والے تاریخی اجلاس لکھنؤ کا درمیانی وقفہ۔‘‘ مرکزی پارلیمانی بورڈ اور اس کی صوبائی شاخیں پہلی بڑی کوشش تھی تاکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے تحت ہونے والے آئندہ انتخاب کے لیے مسلمانوں کی رائے ہموار کی جائے جس کے تحت صوبائی اسمبلیوں کے لیے لیگ کے ٹکٹ جاری کیے گئے تھے۔ اگر یہ پہلا اہم اقدام تھا تو دوسرا بڑا قدم جو اٹھایا گیا وہ اجلاس لکھنؤ میں یہ مرحلہ طے کرنا تھا کہ مسلم لیگ کو کس طرح از سر نو منظم کیا جائے تاکہ وہ مسلم عوام کی رائے کی عکاس بن سکے اور مسلم ہند کی واحد بااختیار نمائندہ جماعت بن سکے۔ ان دونوں مقاصد کا حصول زیادہ تر اپنے دوستوں بالخصوص علامہ اقبال کی بے لوث تائید، مخلصانہ کوشش، بے غرض مساعی اور سچی کوششوں کے باعث ہوا اور لیگ اس مختصر عرصے میں قوت پکڑتی چلی گئی۔ ان تمام صوبوں میں جہاں لیگ پارلیمانی بورڈ اور لیگ پارٹیاں قائم کی گئیں لیگ کے امیدواروں نے جس قدر نشستوں کے لیے الیکشن لڑے ان میں سے ۶۰ سے ۷۰ فیصد تک نشستیں جیت لیں۔ مدراس کے دور دراز علاقے سے لے کر شمال مغربی سرحدی صوبے تک ہر صوبے میں سینکڑوں ڈسٹرکٹ اور ابتدائی لیگیں قائم ہو گئیں۔ لیگ نے کانگرس کی جاری کردہ نام نہاد مسلم عوامی رابطے کی تحریک جو مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پھیلانے اور لیگ کو مطیع بنانے کے لیے شروع کی گئی تھی، اس پر کاری ضرب لگائی۔ لیگ نے بیشتر ضمنی انتخابات جیت لیے اور جو لوگ ریشہ دوانیوں اور عیارانہ سازشوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی حمایت حاصل نہیں ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ لکھنؤ اجلاس سے صرف اٹھارہ ماہ قبل آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کی حیثیت سے ابھری اور اس کا ایک ترقی پسندانہ اور ترقی پذیر پروگرام بھی وجود میں آگیا اور اس کے زیرِاثر وہ صوبے بھی آگے جو وقت کی کمی یا تیاری کی کمی کے سبب ابھی تک لیگ پارلیمانی بورڈ کی سرگرمیوں سے پورا پورا فائدہ نہ اٹھا سکے تھے۔ لکھنؤ اجلاس نے اس امر کا ناقابلِ تردید ثبوت مہیا کر دیا کہ لیگ کو مسلمانوں کے تمام طبقوں اور گروہوں میں کس قدر مقبولیت حاصل ہے۔ مسلم لیگ کے لیے ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ اکثریتی اور اقلیتی دونوں صوبوں میں اس کی قیادت تسلیم کر لی گئی۔ اس کامیابی کا سہرا تمام ترسر محمد اقبال کے سر ہے جو اس وقت عوام کے سامنے ظاہر نہیں ہوا۔ سکندر جناح پیکٹ پر عمل کے سلسلے میں ان کے اپنے کچھ شکوک تھے اور وہ اس کی تعبیر اور روشن نتائج کو جلد از جلد دیکھنے کے خواہش مند تھے تاکہ ابھرتے ہوئے شکوک اور غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے۔ مگر افسوس کہ وہ یہ دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے کہ پنجاب میں اس قدر ہمہ گیر ترقی ہوئی ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ مسلمان مضبوطی کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ اس مختصر تا ریخی پس منظر کے بعد ان خطوط کو بہت دلچسپی سے پڑھا جائے گا، تاہم مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ اقبال کو جو جوابات میں نے تحریر کیے دستیاب نہیں ہیں۔ مذکورہ عرصے کے دوران میں بالکل تنہا اور ذاتی عملے کی معاونت کے بغیر کام کرتا تھا۔ چونکہ مجھے متعدد خطوط کے جوابات خود ہی لکھنا ہوتے تھے اس لیے ان کی نقول بھی اپنے پاس نہ رکھ سکا۔ میں نے اس ضمن میں لاہور میں اقبال کے لواحقین سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ میرے جوابات وہاں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ لہٰذا میرے لیے کوئی اور صورت نہ تھی کہ ان خطوط کو اپنے تحریر کردہ جوابات کے بغیر ہی شائع کر دوں کیونکہ میرے نزدیک یہ خطوط بے حد تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ بالخصوص وہ خطوط جن میں اقبال نے مسلم ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار نہایت واضح الفاظ میں کیا ہے۔ ان کے خیالات مجموعی طور پر میرے تصورات سے ہم آہنگ تھے۔ ہندوستان کو جو آئینی مسائل درپیش تھے ان کے گہرے مطالعہ اور غور و خوض کے بعد میں بھی آخر کار ان ہی نتائج تک پہنچا جن تک سراقبال پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ اور یہ خیالات وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانانِ ہند کے متحدہ عزم کی شکل میں ظاہر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی اس قرار داد کی صورت میں ڈھل گئے جو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی اور جسے اب قراردادِ پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ۶۵ علامہ اقبال کی وفات پر قائداعظم کے تاثرات ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو علامہ اقبال اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس روز قائداعظم محمد علی جناح کلکتہ میں موجود تھے جہاں کے مسلمان فٹ بال گرائونڈ میں فلسطین کے معاملے پر غور و خوض کے لیے جمع تھے۔ جونہی ان کی وفات کی خبر جلسہ گاہ میں پہنچی تو اسے تعزیتی جلسے میں تبدیل کر دیا گیا۔ قائداعظم نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کو نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: ان کی وفات نے دنیائے اسلام پر افسردگی اور رنج و غم طاری کر دیا ہے۔ اقبال بلاشبہ تمام ادوار کے عظیم ترین شاعر، فلسفی اور پیامبرِ انسانیت تھے۔ انہوں نے ملکی سیاست میں نمایاں حصہ لیا اور اسلامی دنیا کی ذہنی اور ثقافتی تشکیلِ نو میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ادب اور فکری دنیا میں ان کی کاوشیں ہمیشہ زندہ جاوید رہیں گی۔ ایک ذاتی دوست، فلاسفر اور رہنما ہونے کے ناطے میرے لیے وہ روحانی فیضان کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ بحیثیت صدر پنجاب پراونشل مسلم لیگ وہ علالت کے باوجود تن تنہا تمام دنیا کی مخالفت کے آگے ایک مضبوط چٹان کی طرح دلیری کے ساتھ لیگ کے جھنڈے کو تھامے رہے۔ جب انہیں اپنی شدید علالت کے باعث لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونا پڑا تو انہیں لیگ کا سرپرست منتخب کیا گیا۔ اس کے باوجود وہ لیگ کی رہنمائی کرتے رہے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو انہیں یہ جان کر زبردست اطمینان ہوتا کہ پنجاب اور بنگال کے مسلمان اب آل انڈیا مسلم لیگ کے مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں اور اس کامیابی میں اقبال کا غیر مرئی حصہ سب سے زیادہ ہے۔ اس مرحلے پر ان کی وفات سے مسلمانوں کو اس سے زیادہ شدید دھچکا نہیں لگ سکتا ہے۔۶۶ قائداعظم اپنے فلسفی شاعر اور دستِ راست سے محروم ہو گئے۔ علامہ کی ذات آل انڈیا مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناح دونوں کے لیے پنجاب میں زبردست قوت کا ذریعہ تھی چنانچہ یہی وجہ تھی کہ قائداعظم نے اپنے دوست علامہ اقبال کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ قائداعظم نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ: مجھے سر محمد اقبال کی وفات کی خبر سن کر سخت رنج ہوا۔ وہ عالمی شہرت کے ایک نہایت ممتاز شاعر تھے۔ ان کی شہرت اور ان کے کام ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ملک اور مسلمانوں کی انہوں نے اتنی زیادہ خدمات انجام دی ہیں کہ ان کے ریکارڈ کا مقابلہ کسی بھی عظیم ترین ہندوستانی کے ریکارڈ سے کیا جا سکتا ہے۔ ابھی حال ہی تک وہ پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ کے صدر تھے جب کہ ایک غیر متوقع علالت نے انہیں استعفیٰ پر مجبور کر دیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام کے حامی تھے۔ میرے لیے وہ ایک رہنما بھی تھے، دوست بھی اور فلسفی بھی۔ تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گذرنا پڑا وہ چٹان کی طرح قائم رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی متزلزل نہیں ہوئے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ صرف تین دن قبل انہوں نے اس کامل اتحاد کا ذکر پڑھایا سنا ہوگا جو کلکتہ میں پنجاب کے مسلم قائدین کے مابین ہو گیا اور آج میں فخر و مباہات کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانانِ پنجاب مکمل طور پر مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور اس کے جھنڈے تلے آچکے ہیں جو یقینا سر محمد اقبال کے لیے عظیم ترین اطمینان کا واقعہ تھا۔ اس مفارقت میں میری نہایت مخلصانہ اور گہری ہمدردیاں ان کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ اس نازک وقت میں ہندوستان کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ایک عظیم نقصان پہنچا ہے۔۶۷ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کی تعزیتی قرار داد ۴؍دسمبر ۱۹۳۸ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس قائداعظم محمد علی جناح کی زیرصدارت منعقد ہوا جہاں علامہ اقبال کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ اس اجلاس میں علامہ کی وفات پر مندرجہ ذیل تعزیتی قرار داد منظور کی گئی۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ایک فلسفی اور عظیم قومی شاعر کی خدمات کا اعتراف کرتا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے مستقبل کی تعمیر اپنے ماضی کی روایات کو سامنے رکھ کر کریں۔ اگرچہ آج وہ ہم میں موجود نہیں لیکن اپنی لاثانی شاعری کے ذریعے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کا کلام تمام دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کو گرماتا رہے گا۔ کونسل کا یہ اجلاس ان کی وفات پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔۶۸ اقبال کو قائد اعظم کا خراج عقید ت ۲۶ دسمبر ۱۹۳۸ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس پٹنہ میں قائداعظم نے اپنے دوست علامہ اقبال کی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ: علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے جن کا شمار دنیا کے عظیم شعرا میں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ ہے۔ ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی خواہشات کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری ہمارے اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دے گی۔۶۹ مارچ ۱۹۴۰ء میں جب قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں لاہور تشریف لائے تو اس موقع پر آپ نے پنجاب یونیورسٹی ہال میں ۲۵ مارچ کو منعقد یوم اقبال کے ایک جلسے کی صدارت بھی کی۔ قائداعظم نے اپنی صدارتی تقریر میں علامہ اقبال کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ: اقبال میرا پرانا دوست تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ ابتدا میں ایک قسم کی علمی (academic) جماعت تھی۔ ۱۹۳۶ء میں ہم میں سے بعض نے خیال کیا کہ اس جماعت کو صحیح پارلیمانی جماعت میں بدل دیا جائے۔ جب میں اپریل ۱۹۳۶ء میں پنجاب آیا تو پہلا شخص جسے ملا وہ علامہ اقبال تھے۔ میں نے انہیں اپنے خیالات پیش کیے انہوں نے فوراً لبیک کہی اور اس وقت سے تادمِ مرگ اقبال میرے ساتھ مضبوط چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ اقبال بہت بڑے آدمی تھے اور بلاشبہ بہت بڑے شاعر تھے۔ جب تک مشرقی زبانیں زندہ رہیں گی اقبال کا کلام زندہ رہے گا۔ وہ خود ہندوستانی تھا لیکن دنیا میں ’’شاعرِ اعظم‘‘ کی حیثیت سے متعارف تھا۔ اقبال نے مسلمانوں میں قومی شعورپیدا کرنے اور اس کی نشوونما میں گراں بہا خدمات انجام دیں۔ میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ ایک مرتبہ میں علی گڑھ سے بریلی کا سفر کر رہا تھا۔ راستے میں ایک چھوٹے سے سٹیشن پر گاڑی ٹھہری تو سینکڑوں کی تعداد میں دیہاتی جمع ہو گئے۔ میں حیران تھا کہ ان کے اجتماع کا مقصد کیا ہے؟ دفعتاً ان سب نے اقبال کا یہ ترانہ پڑھنا شروع کر دیا: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا شعرا اقوام میں جان پیدا کرتے ہیں، ملٹن۔ شیکسپیئر اور بائرن وغیرہ نے قوم کی بے بہا خدمت کی ہے۔ کارلائل نے شیکسپیئر کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا کہ اسے جب شیکسپیئر اور دولتِ برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو اس نے کہا کہ میں شیکسپیئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا۔ گو میرے پاس سلطنت نہیں ہے لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔۷۰ ۲ مارچ ۱۹۴۱ء کو یوم اقبال کی ایک اور مجلس سے قائداعظم نے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں قائداعظم نے کہا کہ: اگر میں اس تقریب میں شامل نہ ہوتا تو اپنی ذات کے ساتھ بڑی بے انصافی کرتا۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ مجھے اس جلسے میں شامل ہو کر اقبال مرحوم کو عقیدت کے پھول پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ اقبال کی ادبی شخصیت عالم گیر ہے۔ وہ بڑے ادیب، بلند پایہ شاعر اور مفکراعظم تھے لیکن اس حقیقت کو میں ہی سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاست دان بھی تھے۔ انہوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو سکتا۔ مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ مجھے ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کا م کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔ جس بات کو وہ صحیح خیال کرتے یقیناً وہ صحیح ہوتی اور وہ اس پر مضبوط چٹان کی طرح قائم رہتے تھے۔ ان کی علمی اور ادبی گل کاریوں کی وجہ سے ان کا نام جریدئہ عالم پر ثبت ہو چکا ہے۔۷۱ ۱۹۴۱ء میں شاہد حسین رزاقی نے اقبال اور سیاست کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس کتاب پر جو دیباچہ لکھا اس کا ایک ایک لفظ اقبال کے لیے عقیدت و احترام میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ قائداعظم نے لکھا: Every great movement has a philosopher and Iqbal was the philosopher of the national renaissance of Muslim India. He, in his works, has left an exhaustive and most valuable legacy behind him and a message not only for the Muslims but for all other nations of the world. Iqbal was a poet who inspired the Muslims with the spirit and determination to restore to Islam its former glory and although he is no more with us, his memory will grow younger and younger with the progress and development of Muslim India.72 نومبر ۱۹۴۲ء میں قائداعظم لاہور تشریف لائے۔ ۲۲ نومبر ۱۹۴۲ء کو آپ میاں بشیر احمد (سابق مدیر ہمایوں) اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں کے ہمراہ علامہ اقبال کے مزار پر پہنچے۔ فاتحہ کے بعد قائداعظم کو علامہ اقبال کا وہ فقرہ یاد دلایا گیا جو انھوں نے قائداعظم کو ایک خط میں لکھا تھا کہ مسٹر جناح آ پ واحد شخص ہیں جو اسلامی ہند کو اس سیلاب سے بچا سکتے ہیںجو ۱۹۳۵ء کے آئین حکومت ہند کے جلو میں آرہا ہے۔ تو قائداعظم نے فرمایا: ’’کہ میں اس زمانے میں تین مرتبہ پنجاب آیا اگر مجھے تسکین ملی تو اس مرد قلندر کی بارگاہ میں۔‘‘ اس کے بعد قائداعظم کو ’’ذوق و شوق‘‘ کے چند اشعار سنائے گئے تو آپ نے سن کر فرمایا : ’’روح مسلمان میں واقعی اضطراب ہے او ر ان شاء اللہ ہم ایک عظیم الشان اور پاکیزہ انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوں گے۔۷۳ ۱۹۴۴ء میں ایک مرتبہ پھر قائداعظم نے علامہ اقبال کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ یوم اقبال کے موقع پر آپ نے کہا : میں اس دن جب کہ ہمارے عظیم ملّی شاعر، فلاسفر اور مفکر اقبال کا یوم منایا جا رہا ہے، خلوص قلب سے انھیںخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی روح کو بے پایاں رحمت سے ابدی اطمینان بخشیں۔ اگرچہ اقبال آج ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا غیر فانی کلام ہمارے دلوں کو گرماتا رہے گا۔ ان کی شاعری جو کہ حسن بیان کے ساتھ حسنِ معانی کی بھی آئینہ دار ہے۔ اس عظیم شاعر کے دل و دماغ میں اُن پنہاں جذبات ، احساسات او رافکار کی عکاسی بھی کرتی ہے جن کا سرچشمہ اسلام کی سرمدی تعلیم ہے۔ اقبال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اور مخلص پیروکار تھے۔ وہ اول تا آخر مسلمان اور اسلام کے صحیح مفسر تھے۔ اقبال محض ایک فلسفی اور معلم ہی نہ تھے بلکہ وہ حوصلہ، عمل، استقامت اور خود اعتمادی کے پیکر بھی تھے۔ سب سے بڑھ کر انھیں اللہ تعالیٰ پر لازوال ایمان و ایقان تھا۔ وہ اسلام کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ ان کی زندگی ایک شاعر کے بلند مقاصد کے ساتھ ساتھ ایک عملی انسان کی حقیقت پسندی کا حسین امتزاج تھی۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ سعی پیہم ان کی مسلسل جدوجہد ان کے پیغام کا جزو لاینفک ہے۔ اس لحاظ سے وہ صحیح معنوں میں اسلامیت کا نمونہ تھے۔ انھیں اسلام کے اصولوں سے غیر فانی لگائو تھا اور ان کے نزدیک زندگی میں کامیابی کا راز اپنی خودی کا شعور حاصل کرنا تھا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے وہ اسلام کی تعلیم پر نہ صرف ایمان رکھتے تھے بلکہ اسے شاہراہ عمل بھی گردانتے تھے۔ اقبال ایک عظیم شاعر اور فلاسفر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عملی سیاست دان بھی تھے۔ جہاں انھیں ایک طرف اسلام کے مقاصد سے شیفتگی اور عقید ت تھی وہاں وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل ایک اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا۔ ایک ایسی مملکت جو کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور جنوب مشرقی حصوں پر مشتمل ہو گی جو کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کے وطن سمجھے جاتے ہیں۔ میں پورے خلوص سے یومِ اقبال کی کامیابی کا خواہاں ہوں اور یہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی جھلک ان کے کلام میں موجود ہے تاکہ ہم بالآخر پاکستان حاصل کر کے ان ہی اصولوں کو اپنی مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت میں جاری و ساری کر سکیں۔ ۷۴ قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد ایک روز قائداعظم نے اپنے سیکرٹری مطلوب الحسن سید سے گفتگو کرتے ہوئے کہا : ’’آج اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسا ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے۔‘‘۷۵ حواشی ۱۔ نقوش، لاہور نمبر، ص ۵۶۳۔ ۵۶۴۔ ۲۔ تفصیل کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون: ’’قائداعظم اور مسجد شہید گنج‘‘، المعارف، لاہور، فروری ۱۹۷۶ئ۔ ۳۔ عاشق حسین بٹالوی ،اقبال کے آخری دو سال، ص ۶۰۴۔۶۰۵۔ ۴۔ ایضاً۔ ۵۔ ایضاً، ص ۶۱۹۔ ۶۲۰۔ 6. Syed Sharif-ud-Din Pirzada, Foundations of Pakistan, Karachi, Vol: II, p 262-263. 7. Prof. Ahmed Saeed (Ed), Writings of the Quaid-e-Azam, Lahore, 1976, p 66-68. ۸۔ رفیق افضل، گفتارِ اقبال، ص ۲۰۳۔ ۲۰۴۔ ۹۔ عاشق حسین بٹالوی ، اقبال کے آخری دو سال، ص ۳۱۸۔ ۱۰۔ راقم کا مضمون: ’’آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ اور قائداعظم روزنامہ انقلاب کی نظر میں‘‘، مجلہ ثانوی تعلیم ،قائداعظم نمبر، دسمبر ۱۹۷۶، ص ۷۰ ۔ ۹۰۔ ۱۱۔ عاشق حسین بٹالوی ،اقبال کے آخری دو سال، ص ۳۱۷۔۳۱۸۔ ۱۲۔ روز نامہ انقلاب، لاہور ، اداریہ ، ۱۵؍مئی ۱۹۳۶ء ، ص ۳۔ 13. Prof. Ahmed Saeed (Ed), Writings of the Quaid-e-Azam, Lahore, 1976, p.101. 14 Mukhtar Masood, Eye Witnesses of History, Karachi, 1968, p.108-109. 15. Ibid, p.106. ۱۶۔ پس منظر از مختار مسعود, اقبال نامہ، اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور، ۲۰۰۵ء ، ص ۶۵۱۔ 17. Musheer-ul-Hasan, Muslims & Congress, Lahore, 1980, p 237. 18. Indian Annual Register, Vol: II, 1931, p.275. ۱۹۔ عبدالمجید سالک، سرگذشت ، لاہور ، ۱۹۶۳ئ، ص ۱۱۰۔ ۲۰۔ احمد سعید چھتاری ، یاد ایام، علی گڑھ، ص۱۷۲۔ 21. Indian Annual Register, Vol: I, 1944, p.59. 22. Rizwan Ahmed, The Quaid-e-Azam Papers, Karachi, 1976, p.47-48. 23. Qaem Hussain Jafferi (ed), Quaid-i-Azam's correspandence with Punjabi Muslim League Leaders, Lahore, 1977, p.72. 24. Ibid. ۲۵۔ خط بنام میاں بشیر احمد مورخہ ۵؍جولائی ۱۹۴۰ء ، بحوالہ جعفری ، ص ۷۳۔ 26. The 1937 Elections & Sikandar Jinnah Pact, Punjab Past & Persent, Patyala, October 1976, p.37. ۲۷۔ دیکھیے: جان گلن ڈی ون کی کتاب The Viceroy at Bay ، لندن، ۱۹۷۱ء ص ۷۸۔ 28. Eye Witness of History, p.32-33. ۲۹۔ عاشق حسین بٹالوی، اقبال کے آخری دو سال، ص ۵۵۳۔ ۳۰۔ ایضاً ، ص ۵۶۹۔ ۳۱۔ سید نور احمد، مارشل لا سے مارشل لا تک، ص ۱۹۰۔ ۳۲۔ ایضاً۔ ۳۳۔ عاشق حسین بٹالوی، اقبال کے آخری دو سال، ص ۵۰۸۔ ۳۴۔ سید نور احمد، مارشل لا سے مارشل لا تک، ص ۱۹۰۔ ۳۵۔ عاشق حسین بٹالوی، اقبال کے آخری دو سال، ص ۵۱۱۔ 36. Eye Witness of History,p.31. 37. Punjab Native Newspapers Reports, 1936, p.437. 38. Ibid, p.448. 39. Ibid, p.449. 40. Ibid, p.440. 41. Ibid, p.438. 42. Ibid, p.439. ۴۳۔ سید نور احمد، مارشل لا سے مارشل لا تک، ص ۱۹۲. 44. Coupland, Indian Politics, p.183. 45. Punjab Past & Present, April 1983, p.128. ۴۶۔ شوکت حیات خان ، گم گشتہ قوم، لاہور ، ۱۹۹۵ء ۔ ۴۷۔ پروفیسر محمد منور کا مضمون: ’’قائد اعظم اقبال کے خضر وقت‘‘، مجلہ ثانوی تعلیم، قائد اعظم نمبر، ۱۹۷۶ء ، ص ۱۱۱۔۱۱۲۔ ۴۸۔ رحیم بخش شاہین (مرتب)، اوراق گم گشتہ، لاہور، ۱۹۷۵ئ، ص ۲۵۵۔۲۵۷۔ ۴۹۔ ماہنامہ ہلال، راولپنڈی ، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ء ، ص ۵۔ ۵۰۔ روز نامہ انقلاب، لاہور، ۱۹؍اکتوبر ۱۹۳۷ئ۔ ۵۱۔ رفیق افضل، گفتار اقبال، ص ۲۱۰۔ ۵۲۔ عاشق حسین بٹالوی، اقبال کے آخری دو سال، ص ۳۸۴ تا ۳۸۶۔ ۵۳۔ ایضاً، ص ۵۷۴۔ ۵۴۔ سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، اقبال اکادمی، کراچی ، ۱۹۷۱ء ، ص ۱۰۲۔ 55. Jawahirlal Nehru, The Discovery of India, Bombay,1960, p.355. ۵۶۔ سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ص ۱۰۳۔۱۰۴۔ ۵۷۔ غلام دستگیر رشید (مرتب)، آثار اقبال، دکن، ۱۹۴۵ئ، ص ۴۱۔ ۵۸۔ سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ص ۱۳۵۔ ۵۹۔ گفتار قائد اعظم، ص ۱۹۸۔ ۶۰۔ سید نذیر نیازی، اقبال کے حضور، ص ۱۳۵۔۱۳۶۔ ۶۱۔ ایضاً ، ۲۹۷۔۲۹۸۔ ۶۲۔ ایضاً ، ص ۳۹۴۔ 63. Waheed Ahmed, The National Voice, Karachi, 1992, p.498. 64. Quaid-e-Azam Papers, File 846, p.14. ۶۵۔ اقبال کے خطوط بنام جناح، شیخ محمد اشرف ، لاہور ، دیباچہ ، ص ۱۔ ۴۔ 66. The Nation's Voice, p.25. ۶۷۔ سب رس، اقبال نمبر ، جون ۱۹۳۸ء ، ص ۶۷۔ 68. Liaqat Ali Khan, Resolution of the All-India Muslin League, Dehli, p.303. 69. Foundations of Pakistan, Vol: II, p.303. ۷۰۔ روزنامہ انقلاب، لاہور، ۲۹؍مارچ ۱۹۴۰ء ، بحوالہ گفتار قائد اعظم، ص ۲۴۲۔ ۷۱۔ ہفت روزہ حمایت اسلام، لاہور ، ۶؍مارچ ۱۹۴۱ء ، ص ۳۔۴۔ 72. Writings of the Quaid-e-Azam, p.311. ۷۳۔ روز نامہ انقلاب، ۲۵؍نومبر ۱۹۴۲ئ۔ ۷۴۔ شورش کاشمیری (مرتب)، اقبال پیامبر انقلاب، فیروز سنز ، لاہور، ۱۹۶۸ء ، ص ۲۳۔۲۴۔ 75. Matloob-ul-Hasan, Muhammad Ali Jinnah: A Political Study, Karachi, 1975, p.231. ضمیمہ خ اقبال کے خطوط بنام قائداعظم اصل خطوط انگریزی میں ہیں اور Letters of Iqbal to Jinnah کے نام سے ۱۹۴۱ء میں شائع ہو چکے ہیں۔ اقبال کے خطوط بنام قائداعظم لاہور،۲۳ مئی ۱۹۳۶ء ، ڈیرمسٹر جناح، ابھی ابھی آپ کا خط ملا اس کے لیے بے حد ممنون ہوں۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ کا کام (پارلیمانی بورڈ کے سلسلے میں ) آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ پنجاب کی جماعتیں بالخصوص احرار اور اتحادِ ملّت کچھ پس و پیش کے بعد بالآخر آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گی۔ اتحادِ ملّت کے ایک سرگرم و فعال رکن نے مجھے چند روز ہوئے یہی بات بتلائی ہے۔ مولانا ظفر علی خاں کے رویّے کے بارے میں خود اتحاد ملت کے لوگ بھی کچھ زیادہ وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال ابھی کافی وقت ہے اس لیے جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ رائے دہندگان اسمبلی میں اتحادِ ملت کے آدمی بھیجنے کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔ ملاقات کا آرزو مند۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ———— لاہور، ۹ جون ۱۹۳۶ء مائی ڈیر مسٹر جناح، میں آپ کو اپنا مسودہ بھیج رہا ہوں اور اس کے ساتھ ہی کل کے ایسٹرن ٹائمز کا ایک تراشہ بھی بھیج رہا ہوں۔ یہ گورداس پور کے ایک قابل وکیل کا ایک خط ہے۔ مجھے امید ہے کہ پارلیمانی بورڈ کی جانب سے جو بیان جاری کیا جائے گا اس میں سکیم کی پوری تفصیل موجود ہو گی اور ساتھ ہی اس سکیم پر اب تک جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا جواب بھی دیا جائے گا۔ اس بیان میں راست بازی سے مسلمانانِ ہند کی حکومت اور ہندوئوں کے ضمن میں موجود پوزیشن سے متعلق واضح اور صاف صاف اعلان ہونا چاہیے۔ اس بیان میں یہ انتباہ بھی ہونا چاہیے کہ اگر مسلمانانِ ہند نے موجودہ (پارلیمانی بورڈ) سکیم کو نامنظور کیا تو نہ صرف وہ تمام کچھ جو انھوں نے گذشتہ پندرہ سالوں میں حاصل کیا کھو دیں گے بلکہ اپنا شیرازہ خود اپنے ہاتھوں سے درہم برہم کر کے اپنے لیے خسارے کا باعث ہوں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال مکرر: میں آپ کا ممنون ہوں گا اگر آپ اپنا بیان اخبارات کو بھیجنے سے قبل مجھے بھیج سکیں۔ بیان میں ایک اور نکتہ جو واضح کیا جائے، پیش کرتا ہوں۔ ۱۔ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب نے یہ بات قطعی طور پر ضروری بنا دی ہے کہ جو اراکین صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کیے جائیں وہ آل انڈیا مسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہوں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی کے لیے جو نمائندے چنیں وہ ایسے لوگ ہوں جو سنٹرل اسمبلی میں مرکزی امور جن کا تعلق خاص مسلمانوں سے ہے ان کی تائید و حمایت کریں اور اپنی حیثیت اس طرح منوائیں کہ جس سے معلوم ہو کہ وہ ہندوستان کی دوسری بڑی قوم ہیں۔ جو لوگ اس وقت صوبائی پالیسیوں اور پروگراموں کی حمایت کر رہے ہیں دراصل وہی لوگ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریقِ انتخاب کو آئین کا جزو بنانے کے سلسلے میں آلہ کار بنے ہوئے تھے۔ بلاشبہ اسی امر میں غیر ملکی حکومت کا مفاد وابستہ تھا- اب جب کہ ہماری قوم اس بدبختی (بالواسطہ انتخاب ) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس نے انتخاب کے لیے ایک کل ہند پالیسی طے کی ہے جس کی ہر صوبائی امیدوار پابندی کرے تو اب وہی لوگ غیر ملکی حکومت کے اشاروں پر قوم کی شیرازہ بندی کی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ ۲۔ اسلامی وقف (جیسا کہ مسجد شہید گنج نے ضرورت کا احساس کرایا ہے) سے متعلق قانون اور اسلامی ثقافت، زبان، مساجد اور قانونِ شریعت سے متعلق مسائل پر بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ———— پرائیویٹ اور بصیغۂ راز لاہور، ۲۵ جون ۱۹۳۶ء مائی ڈیر مسٹرجناح دو ایک روز قبل سر سکندر حیات لاہور سے روانہ ہو گئے۔ میرا خیال ہے کہ وہ آپ سے بمبئی میں ملیں گے اور آپ سے چند اہم امور پر بات چیت کریں گے۔ کل شام دولتانہ مجھ سے ملنے آئے تھے وہ کہتے تھے کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان اراکین مندرجہ ذیل اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ: ان تمام امور میں جن کا تعلق مسلم قوم سے بحیثیت ایک کل ہند اقلیت کے ہوگا وہ لیگ کے فیصلہ کے پابند ہوں گے اور صوبائی اسمبلی میں کسی بھی غیر مسلم گروپ کے ساتھ قطعاً کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔ بشرطیکہ صوبائی لیگ مندرجہ ذیل اعلان کرے کہ:جو لوگ لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوں گے وہ اس پارٹی یا گروپ کے ساتھ تعاون کریں گے جن میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔ ازراہ ِ کرم اپنی پہلی فرصت میں اس تجویز کے بارے میں اپنی رائے سے مطلع فرمائیں نیز سرسکندر سے آپ کی جو گفتگو ہوئی اس کے نتائج سے بھی آگاہ فرمائیے۔ اگر آپ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو شاید وہ ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ———— میو روڈ لاہور، ۲۳ اگست ۱۹۳۶ء مائی ڈیر مسٹر جناح مجھے امید ہے کہ آپ کو میرا خط مل گیا ہوگا۔ پنجاب پارلیمانی بورڈ اور یونینسٹ پارٹی کے درمیان کسی مفاہمت کی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ میں اس قسم کی مفاہمت کے بارے میں آپ کی رائے جاننا پسند کروں گا نیز یہ کہ اس قسم کی مفاہمت کی کیا شرائط ہونی چاہییں۔ میں نے اخبارات میں پڑھاکہ آپ نے بنگال پرجا پارٹی اور (مسلم لیگ مرکزی) پارلیمانی بورڈ کے درمیان مفاہمت کروائی ہے۔ میں اس مفاہمت کی شرائط و ضوابط جاننا پسند کروں گا۔ کیونکہ پرجا پارٹی بھی یونینسٹ پارٹی کی مانند ایک غیر فرقہ وار جماعت ہے۔ بنگال میں آپ کی مفاہمت یہاں بھی آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ———— نہایت خفیہ لاہور، ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء مائی ڈیر مسٹر جناح میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت نہرو کا وہ خطبہ پڑھا ہوگا جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کنونشن کے موقع پر پڑھا اور اس خطبے میں ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق جو روح کار فرما نظر آتی ہے وہ بھی آپ کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے آئین (۱۹۳۵ئ)نے ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان اور مسلم ایشیا میں آئندہ سیاسی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو منظم کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا ہے۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی سیاسی اور اخلاقی قوت کا انحصار کلیتہً مسلمانان ہند کی تنظیم کامل پر منحصر ہے۔ اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کو ایک مؤثرجواب دیا جائے۔ آپ دہلی میں فوراً آل انڈیا مسلم کنونشن کا انعقاد کریں جس میں تمام صوبائی اسمبلیوں کے نومنتخب ارکان اور دیگر ممتاز مسلمان سیاسی لیڈروں کو مدعو کریں۔ اس کنونشن میں آپ پوری قوت اور واشگاف طور پر ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی نصب العین واضح کردیں کہ وہ ملک میں ایک جداگانہ سیاسی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہندوستان اور بیرون ہند یہ بتلانا بھی نہایت ضروری ہے کہ ہندوستان کو محض اقتصادی مسئلہ ہی درپیش نہیں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اسلامی نقطہ نظر سے تہذیبی ورثے کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے بلکہ اقتصادی مسئلے سے کم اہم نہیں۔ اگر آپ اس نوع کا کنونشن منعقد کریں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی نیتوں کا پتا بھی چل جائے گا جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی خواہشات اور مقاصد کے خلاف جماعتیں بنا رکھی ہیں۔ علاوہ ازیں اس سے ہندوئوں پر بھی یہ واضح ہو جائے گا کہ خواہ کیسی ہی عیارانہ سیاسی چال کیوں نہ چلی جائے ہندوستانی مسلمان اپنی ثقافتی ہستی سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے۔ میں چند ایک روز میں دہلی آرہا ہوں اور اس اہم معاملہ پر آپ سے گفتگو کروں گا۔ میں افغان قونصل خانے میں قیام کروں گا، اگر آپ کچھ وقت نکال سکیں توہماری وہاں ملاقات ہو جائے۔ ازراہِ کرم اس خط کے جواب میں چند حروف جلد از جلد تحریر فرما دیں۔ مکرر: معاف فرمایئے، یہ خط میں نے اپنے ایک دوست سے لکھوایا ہے کیونکہ میری بینائی خراب ہوتی جار ہی ہے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لا ———— لاہور، ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء مائی ڈیر مسٹر جناح کوئی دو ہفتے ہوئے آپ کو ایک خط تحریرکیا تھا معلوم نہیں وہ خط آپ تک پہنچا ہے یا نہیں۔ یہ خط آپ کے دہلی کے پتے پر لکھا تھا۔ بعد میں جب میں دہلی گیا تو معلوم ہوا کہ آپ دہلی سے پہلے ہی روانہ ہو چکے ہیں۔ میں نے اپنے اس خط میں تجویز کیا تھا کہ ہمیں فوراً آل انڈیا مسلم کنونشن دہلی میں منعقد کرنی چاہیے اور ایک مرتبہ پھر حکومت اور ہندوئوں سے متعلق مسلمانانِ ہند کی پالیسی کی وضاحت کرنی چاہیے۔ چونکہ صورت حال نازک ہوتی جا رہی ہے اور پنجاب میں مختلف وجوہ کی بنا پر جس کی تفصیل اس وقت غیر ضروری ہے، مسلمانوں کے رجحانات تیزی سے کانگرس کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے میں درخواست کروں گا کہ آپ اس معاملے پر غور فرمائیں اور اس کے متعلق جلد از جلد فیصلہ کریں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اگست تک ملتوی ہو چکا ہے، اس لیے ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمانوں کی پالیسی سے متعلق دوبارہ فوری اعلان کیا جائے۔ اگر مجوزہ کنونشن سے قبل ممتاز مسلمان قائدین ملک کا دورہ کریں تو کنونشن کی کامیابی یقینی ہے۔ از راہِ کرم اس خط کا جواب جس قدر جلد ممکن ہو سکے عنایت فرمائیں۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ———— لاہور، ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء مائی ڈیر مسٹر جناح آپ کے خط کا شکریہ جو مجھے اسی اثنا میں مل گیا۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ لیگ کے پروگرام اور آئین میں تبدیلی سے متعلق جو کچھ میں نے آپ کو لکھا تھا، آپ اسے مدنظر رکھیں گے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ آپ کو اس صورت حال کی نزاکت جس کا مسلم ہند سے تعلق ہے پورا پورا احساس ہے۔ لیگ کو بالآخر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلمانوں کے محض اعلیٰ طبقے کی نمائندہ بنی رہے یا عام مسلمانوں کی نمائندگی کرے جو اب تک معقول وجوہ کی بنا پر اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ جب تک کوئی سیاسی جماعت عام مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کا وعدہ نہ کرے، وہ اس وقت تک عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتی۔ نئے آئین (۱۹۳۵ئ) میں بڑی بڑی آسامیاں تو اعلیٰ طبقے کے بچوں ہی کے لیے وقف ہیں اور جو چھوٹی چھوٹی ملازمتیں ہیں وہ وزرا کے دوستوں اور رشتہ داروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ دوسرے امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے عام مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے باب میں سوچا تک نہیں۔ روٹی کا مسئلہ دن بدن ٹیڑھا ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ گذشتہ دو سو سالوں میں وہ برابر تنزل کی طرف جا رہے ہیں۔ عام طور پر وہ (مسلمان) سمجھتا ہے کہ ہندو کی سودخوری اور سرمایہ داری اس کی غربت کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ احساس کہ غیر ملکی حکومت بھی ان کے افلاس کی ذمہ دار ہے، ابھی عام مسلمان کے ذہن میں پیدا نہیں ہوا مگر یہ احساس ضرو رپیدا ہو کر رہے گا۔ جواہر لال کی لادینی اشتراکیت مسلمانوں میں کبھی مقبول نہیں ہوگی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے اور لیگ کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک مسلمانوں کے اس مسئلے کا حل نکالتی ہے۔ اگر لیگ نے اس سلسلے میں کوئی امید نہ دلائی تو مجھے یقین ہے کہ مسلمان عوام پہلے کی مانند لیگ سے لا تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ سے اس مسئلے کا حل ہو سکتا ہے۔ اسلامی قوانین کے گہرے اور دقّتِ نظر مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو کم از کم ہر شخص کے لیے حق روزی تو محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب تک اس ملک میں ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرض وجود میں نہ آئیں، اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ۔ سال ہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے اور میں اب بھی اسی کو مسلمانوں کی روٹی کے مسئلے اور ہندوستان کے امن و امان کا بہترین حل سمجھتا ہوں۔ اگر یہ بات ممکن نہیں تو ہندوستان کے لیے دوسرا راستہ محض خانہ جنگی ہی کا باقی رہ جاتا ہے جو کہ درحقیقت پہلے ہی ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کئی سالوں سے ظہور پذیر ہو چکی ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہندوستان کے کچھ حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین کی داستان دہرائی جائے گی اور یہ بھی کہ جواہر لال کی اشتراکیت اگر ہندوئوں کی ہئیت سیاسیہ میں سرایت کر گئی تو خود ہندوئوں میں بہت خون خرابہ ہوگا۔ معاشرتی جمہوریت (سوشل ڈیموکریسی) اور برہمنیت میں وجہ نزاع بدھ مت اور برہمنیت کے نزاع سے مختلف نہیں۔ آیا ہندوستان میں اشتراکیت کا حشر بدھ مت کا سا ہوگا یا نہیں، میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن مجھے اتنا ضرور نظر آتا ہے کہ اگر ہندومت نے معاشرتی جمہوریت (Social Democracy)کو قبول کر لیا تو خود ہندو دھرم ہی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسلام کے لیے سوشل ڈیماکریسی کا کسی موزوں شکل میں اور شریعت کے مطابق قبول کرنا کوئی نئی بات یا انقلاب نہیں بلکہ ایسا کرنا اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنا ہوگا۔ مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے، ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ مسلم ہند کے ان مسائل کا حل اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب کہ ملک کی از سرِنو تقسیم کی جائے اور ایک یا زائد مسلم ریاستیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہو وجود میں لائی جائیں۔ کیا آپ کے خیال میں اس مطالبے کا وقت نہیں آن پہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے۔ بہرحال میں نے اپنے خیالات آپ کی خدمت میں اس امید پر پیش کر دیے ہیں کہ آپ ان خیالات کو اپنے خطبے یا لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں پوری توجہ دیں گے۔ مسلم ہند کو یہ توقع ہے کہ آپ کی فطانت و فراست اس نازک مرحلے پر موجودہ مشکلات کا کوئی حل نکالے گی۔ مخلص محمد اقبال مکرر: اس خط کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرا دوں لیکن مزید غور و خوض کے بعد میں نے موجودہ وقت کو اس کے لیے مناسب نہ پایا۔ ———— لاہور، ۲۱ جون ۱۹۳۷ء ، مائی ڈیر مسٹر جناح مجھے کل آپ کا خط ملا، شکریہ۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ایک بہت مصروف انسان ہیں مگر امید ہے کہ میرا آپ کو بار بار خط لکھنا بارِ خاطر تو نہ ہوگا کیونکہ اس وقت جب کہ شمال مغربی ہندوستان بلکہ تمام ہندوستان میں جو طوفان بڑھتا چلا آرہا ہے ہندوستانی مسلمان صرف آپ ہی سے رہنمائی کی امید رکھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت ہم حقیقتاًً خانہ جنگی کی حالت میں ہیں اور اگر فوج اور پولیس موجود نہ ہو تو یہ چشمِ زدن میں عالم گیر ہو جائے۔ گذشتہ چند مہینوں سے ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری ہے۔ صرف شمال مغربی ہندوستان میں ان تین ماہ میں کم از کم تین فسادات ہوئے اور ہندوئوں اور سکھوں کی جانب سے اہانت رسولؐ کی کم از کم چار وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ان چاروں وارداتوں کے مجرموں کو قتل کر دیا گیا۔ ادھر سندھ میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ اس تمام صورت حال کا میں نے بغور مطالعہ کیا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان تمام واقعات کی اصل وجود نہ معاشی ہیں نہ مذہبی بلکہ سراسر سیاسی ہیں۔ وہ یہ کہ ہندو اور سکھ، مسلمانوں کو ان کے اکثریتی صوبوں میں بھی ہراساں کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ادھر نیا آئین کچھ اس قسم کا ہے کہ اس نے مسلمانوں کو ان کے اکثریتی صوبوں میں بھی غیر مسلموں کا محتاج بنا رکھا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم وزارت نہ صرف یہ کہ کوئی مناسب کارروائی نہیں کر سکتی بلکہ الٹا مسلمانوں ہی سے ناانصافی برتتی ہے تاکہ وہ لوگ جن کی امداد پر ان کی وزارت کا انحصار ہے، ان کو خوش کر سکیں۔ دوسرے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وزارت بالکل غیر جانبدار ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس اس آئین (۱۹۳۵ئ) کو مسترد کرنے کے لیے خاص وجوہ موجود ہیں۔ مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ یہ آئین محض ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہاں وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں مگر مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کو ہندوئوں کا دست نگر بنا دیا گیا ہے۔ مجھے اس امر میں قطعاً کوئی شک و شبہ نہیں کہ نیا آئین مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی غرض سے بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا بھی حل نہیں ہے جو مسلمانوں میں شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ کمیونل ایوارڈ ہندوستان میں مسلمانوں کے محض سیاسی وجود کو تسلیم کرتا ہے لیکن یہ اعتراف جو ان کی معاشی پسماندگی کا کوئی حل پیش نہیں کرتا، ان کے لیے بے سود ہے۔ کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت ہی سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری ہندوسیاسی جماعت، ہندو مہاسبھا ہے جس کو میں ہندوئوں کی اصل نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں اس نے کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ ہندوستان میں ایک ہندو مسلم متحدہ قوم کا معرض وجود میں آنا ناممکن ہے۔ ان حالات میں ظاہر ہے کہ ہندوستان میں امن قائم رکھنے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ اس کو نسلی، مذہبی اور لسانی اشتراک کی بنا پر از سرنو تقسیم کر دیا جائے۔ بہت سے برطانوی مدبرین بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں اور اس آئین کے جلو میں جو ہندو مسلم فسادات تیزی سے رونما ہو رہے ہیں وہ اس ملک میں اصل حقیقتِ حال کے متعلق ان کی آنکھیں مزید کھولیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ میری انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈ لوتھیاں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہندوستان کے مصائب کا حل میری سکیم میں مضمر ہے مگر اس کو عملی جامہ پہنانے میں ۲۵ سال لگ سکتے ہیں۔ پنجاب کے بعض مسلمان پہلے ہی یہ تجویز بھی پیش کر رہے ہیں کہ شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی ایک کانفرنس طلب کی جائے اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ مجھے آپ کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ ابھی ہماری قوم اس قدر منظم نہیں ہے اور ابھی اس قسم کی کانفرنس منعقد کرنے کا صحیح وقت بھی نہیں آیا۔ لیکن میری رائے ہے کہ آپ اپنے خطبے میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کریں جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمان بالآخر مجبوراً اختیار کریں گے۔ میرے خیال میں نیا آئین جس کا مقصد ہے کہ تمام ہندوستان پر مشتمل ایک وفاق قائم کرے، قطعاً مایوس کن ہے۔ ہندوستان میں امن و امان قائم کرنے اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب یہی ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ مسلم صوبوں کی علیحدہ فیڈریشن قائم کی جائے۔ کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ قوم تصور نہ کیا جائے اور جنھیں حقِ خود اختیاری حاصل ہو جس طرح کہ ہندوستان کی دیگر اقوام کو اور بیرونِ ہندوستان لوگوں کو حاصل ہے۔ ذاتی طور پر میری رائے ہے کہ شمالی مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیتی صوبوں کو نظرانداز کر دینا چاہیے۔ مسلم اکثریتی اور مسلم اقلیتی صوبوں کا بہترین مفاد اس وقت اسی طریق سے وابستہ ہے۔ اس لیے آل انڈیا مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیتی صوبے میں منعقد کرنے کی بجائے پنجاب میں منعقد کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہو جاتا ہے، لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے امکان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور آئندہ اجلاس کا لاہور میں انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں نئی سیاسی بیداری پیدا کرنے کا باعث ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ———— لاہور،۱۱اگست ۱۹۳۷ء مائی ڈیر مسٹر جناح۔ حالات نے یہ بات واشگاف طور پر واضح کر دی ہے کہ لیگ کو اپنی تمام تر سرگرمیوں کا مرکز شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بنانا چاہیے۔ لیگ کے دہلی آفس سے مسٹر غلام رسول کو یہ اطلاع ملی ہے کہ لیگ کے آئندہ اجلاس کی تاریخیں ابھی تک طے نہیں ہوئی ہیں۔ اندریں حالات مجھے اندیشہ ہے کہ لیگ کا اجلاس اگست اور ستمبر میں منعقد نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا میں اپنی اس درخواست کو دوبارہ دہراتا ہوں کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں وسط یا اوآخر اکتوبر میں منعقد کیا جائے۔پنجاب میں لیگ کے لیے جوش و خروش تیزی سے بڑھ رہا ہے اور مجھے اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور میں لیگ کے اجلاس کا انعقاد اس کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گا اور عوام سے رابطہ پیدا کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہو گا۔ از راہِ کرم اس خط کے جواب میں چند سطریں تحریر فرمائیے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بارایٹ لا ———— پرائیویٹ اور بصیغہ راز لاہور، ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء مائی ڈیر مسٹر جناح۔ لیگ کے اجلاس لکھنؤ میں پنجاب سے ایک مضبوط گروپ کی شرکت متوقع ہے۔ سر سکندر حیات کی زیرِ قیادت یونینسٹ مسلمان بھی اجلاس میں شرکت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آج کل ہم بہت مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ اس پُر آشوب زمانے میں آپ اپنے خطبے میں نہایت واضح الفاظ میں ان کی مکمل ترین رہنمائی فرمائیں گے۔ میرا مشورہ ہے کہ لیگ کو کیمونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی یا مکر ر وضاحت کا اعلان ایک موزوںقرار داد کی شکل میں کرنا چاہیے۔ میرے سننے میں آیا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں بعض گمراہ مسلمان کمیونل ایوارڈ میں ہندوئوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے کچھ تبدیلی کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سادہ لوح لوگ شاید اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرنے کے بعد وہ اپنا اقتدار قائم رکھ سکیںگے ۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ چونکہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنے کی فکر میں ہے اس لیے وہ (ہندو) کمیونل ایوارڈ میں تبدیلی کو خوش آمدید کہیں گے۔ اس غرض سے برطانوی حکومت اپنے مسلمانِ ایجنٹوں کے ذریعے اس کو درہم برہم کروانے کی کوشش میں ہے۔ میں لیگ کونسل کی خالی نشستوں کے لیے ۲۸ افراد کی ایک فہرست تیار کر وں گا۔ مسٹر غلام رسول یہ فہرست آپ کو دکھائیں گے۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ انتخاب بہت احتیاط کے بعد ہی کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی ۱۳ تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے ذہنوں میں بہت اضطراب پیدا کررہا ہے۔ لیگ کے مقاصد سے عوام کے قریب تر آنے کا اس سے بہتر موقع اور کونسا ہو سکتا ہے ۔مجھے قوی اُمید ہے کہ لیگ اس مسئلے (فلسطین) پر ایک بہت ہی سخت قرار داد منظور کرے گی۔ ساتھ ہی لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس بھی منعقد کی جائے جہاں ایک مثبت لائحہ عمل طے کیا جائے جس کے ذریعے مسلمان بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔ اس طریق سے لیگ کو فوراً مقبولیت حاصل ہوگی اور شاید فلسطین کے عربوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے ۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کی خاطر جیل جانے کو بھی تیار ہوں جس سے اسلام اور ہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔مشرق کے دروازے پر مغرب کا ایک اڈا بننا اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پُرخطر ہے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال مکرر: لیگ کو یہ قرار داد منظور کرنی چاہیے کہ کوئی بھی صوبہ کمیونل ایوارڈ کے سلسلے میں کسی دوسری قوم کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہیں۔ چونکہ اس مسئلے (کمیونل ایوارڈ) کا تعلق تمام ہندوستان سے ہے اس لیے اس کو طے کرنے کا حق صرف لیگ ہی کو حاصل ہے۔ آپ ایک قدم اور آگے جا سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ نا مناسب فضا کسی فرقہ وار مصالحت کے لیے ساز گار نہیں۔ ———— پرائیوٹ اور بصیغہ راز لاہور، ۳۰اکتوبر ۱۹۳۷ء مائی ڈیر مسٹر جناح۔ امید ہے کہ آپ نے پہلے ہی آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی قرار داد پڑھ لی ہو گی۔ آپ کی بروقت تدبیر کارگر ثابت ہوئی ۔ ہم سب لوگ کانگرس کی قرار داد پر آپ کے تاثرات کے منتظر ہیں۔ لاہور کے اخبار ٹریبیون نے پہلے ہی اس پر نکتہ چینی کی ہے اور میرا خیال ہے کہ ہندو رائے عامہ بالعموم اس کی مخالفت ہی کرے گی۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے انھیں اس بات کے نشے میں نہیں رہنا چاہیے بلکہ ہمیں نظم ملت کا کام پہلے سے زیادہ جوش اور ولولے کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے اور اس وقت تک دم نہیں لینا چاہیے جب تک پانچ صوبوں میں مسلم حکومتیں قائم نہ ہو جائیں اور بلوچستان میں اصلاحات رائج نہ ہو جائیں۔ یہاں افواہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصہ لیگ کے منشور پر دستخط کرنے کو تیار نہیں ہے ابھی تک سر سکندر اور ان کی پارٹی کے لوگوں نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ میں نے آج صبح ہی سنا کہ وہ لیگ کے آئندہ اجلاس تک انتظار کریں گے۔ اس سے ان کا مقصد جیسا کہ ان میں سے ایک نے مجھے بتایا یہ ہے کہ صوبائی لیگ کی سرگرمیوں کو دھیما اور سست کر دیا جائے۔ بہر حال میں چند روز تک آپ کو تمام حقائق کی تفصیل بھیج دوں گا پھر آپ کی رائے معلوم کروں گا کہ ہمیں کس طرح اپنا کام آگے بڑھانا چاہیے۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ آپ اجلاس لاہور سے قبل کم از کم دو ہفتے کے لیے پنجاب کا دورہ کریں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ———— لاہور،یکم نومبر۱۹۳۷ء نہایت تاکیدی مائی ڈیر مسٹر جناح۔ سر سکندر حیات کل اپنی پارٹی کے چند ممبروں کے ساتھ میرے یہاں تشریف لائے اور لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے درمیان اختلافات کے سلسلے میں ہماری کافی طویل گفتگو ہوئی۔ فریقین نے اخبارات کو بیانات جاری کر دیے ہیں۔ دونوں فریقوں نے سکندر جناح پیکٹ کی اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق تاویلات کی ہیں۔ اس سے کافی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا ‘ میں یہ تمام بیانات آپ کو چند ایک روز میں روانہ کر دوں گا۔ فی الحال میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ مجھے اس سمجھوتے کی نقل ارسال کر دیں جس پر سر سکندر نے دستخط کیے تھے جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے یہ آپ کے پاس موجود ہے۔ میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ آیا آپ اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ صوبائی پارلیمانی بورڈ پر یونینسٹ پارٹی کا کنٹرول رہے گا۔ سر سکندر نے مجھے بتایا کہ آپ اس پر راضی ہو گئے تھے اس لیے اب ان کا مطالبہ ہے کہ (پارلیمانی) بورڈ میں یونینسٹ پارٹی کی اکثریت ہونی چاہیے مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے سکندر جناح معاہدے میں ایسی کوئی بات نہیں۔ از راہ کرم اس خط کا جواب جلد از جلد تحریر فرمائیں ۔ ہمارے آدمی صوبے کا دورہ کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر لیگ کی شاخیں قائم کر رہے ہیں۔ گذشتہ شب لاہور میں ہمارا ایک بہت کامیاب جلسہ منعقد ہوا اور اُمید ہے ایسے اور بھی جلسے ہوں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بارا یٹ لا ———— لاہور، ۱۰نومبر ۱۹۳۷ء نجی اور بصیغہ راز مائی ڈیر مسٹر جناح۔ سر سکندر اور اُن کے ساتھیوں سے متعدد مذاکرات کے بعد میں اس قطعی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ وہ اس سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے کہ لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کا مکمل اختیار ان کو دے دیا جائے۔آپ کے ساتھ ان کا جو معاہدہ ہوا اس میں یہ مذکور ہے کہ پارلیمانی بورڈ کی تشکیل نو کی جائے گی اور یونینسٹ پارٹی کو اس میں اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر نے مجھے بتایاہے کہ آپ نے اس بات سے اتفاق کیاہے کہ بورڈ میں ان کو اکثریت دے دی جائے۔ میں نے کچھ دن ہوئے آپ سے دریافت کیا تھا کہ آیا آپ واقعی بورڈ میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت دینے پر رضا مند ہو گئے تھے ۔ ابھی تک مجھے آپ کا جواب نہیں ملا۔ ذاتی طور پر مجھے اس بات میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا کہ اپنے لیے جو اکثریت وہ چاہتے ہیں وہ انہیں دے دی جائے۔ لیکن جب وہ لیگ کے عہدے داران میں مکمل تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ معاہدے سے ہٹ جاتے ہیں۔ مثلاً خاص طور سے وہ لیگ کے موجودہ سیکرٹری (غلام رسول خاں) کو بدلنے کے خواہاں ہیں جس نے مسلم لیگ کے لیے اتنا کچھ کیا ہے، وہ اس بات کے بھی خواہش مند ہیں کہ لیگ کے مالی معاملات پر ان کے آدمیوں کا کنٹرول رہے۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح لیگ پر قبضہ جما کر اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ صوبے کی رائے عامہ کو جانتے ہوئے میں اس بات کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ لیگ کو سر سکندر اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دیا جائے۔ اس معاہدے (سکندر جناح پیکٹ) نے پہلے ہی صوبے میں لیگ کے وقار کو کافی نقصان پہنچایا ہے اور یونینسٹ حضرات کی عیاریاں اسے اور بھی نقصان پہنچائیں گی۔ ان لوگوں نے ابھی تک لیگ کے نصب العین پر دستخط نہیں کیے ہیں اور مجھے معلو م ہوا ہے کہ وہ ایسا کرنا بھی نہیں چاہتے ۔ یہ لوگ لیگ کا اجلاس لاہور میں فروری کی بجائے اپریل میں منعقد کرنا چاہتے ہیں ۔ میرے خیال میں وہ اپنی زمیندارہ لیگ کے قیام اور استحکام کے لیے مہلت حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔ شاید آپ کو علم ہو گا کہ سر سکندر نے لکھنؤ سے واپسی پر ایک زمیندارہ لیگ بنائی تھی اور اب اس کی شاخیں تمام صوبے میں قائم کی جارہی ہیں۔ از راہِ کرم بتلائیں کہ ہم ان حالات میں کیا کریں۔ اگر ممکن ہو تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو جس قدر جلد ممکن ہو ایک تفصیلی خط تحریر فرمائیں۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لا ۱۱۵؍۱۱۶ کتابیات ۱۱۹؍۱۲۰ اشاریہ ۱- ابو الحسن علی ندوی: نقوشِ اقبال، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ، ۱۹۷۰ئ۔ ۲- احمد سعید: حصول پاکستان، ایجوکیشنل ایمپوریم، لاہور، ۱۹۷۶ئ۔ ۳- احمد سعید(مرتب): گفتارِ قائد اعظم، قومی کمیشن برائے تحقیق و تاریخ و ثقافت، اسلام آباد، ۱۹۷۶ء ۔ ۴- اختر حسین، مرزا: تاریخ مسلم لیگ، مکتبہ لیگ، بمبئی، سن ندارد ۔ ۵- رفیق افضل، ایم: گفتارِ اقبال، ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان، لاہور، ۱۹۶۹ء ۔ ۶- شورش کاشمیری: اقبال پیامبر انقلاب، فیروز سنز، لاہور، ۱۹۶۸ء ۔ ۷- عاشق حسین بٹالوی: اقبال کے آخری دو سال، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۷۱ء ۔ ۸- عطا اللہ، شیخ: اقبال نامہ، (جلد اول)، شیخ محمد اشرف، لاہور، سن ندارد ۔ ۹- غلام دستگیر رشید: آثارِ اقبال، حیدر آباد دکن، ۱۹۴۵ء ۔ ۱۰- لطیف احمد شیروانی: حرفِ اقبال، المنار اکیڈمی، لاہور، ۱۹۴۸ء ۔ ۱۱- محمد احمد: اقبال کا سیاسی کارنامہ، کاروانِ ادب کراچی، سن ندارد ۔ ۱۲- محمد امین زبیری: سیاستِ ملیہ، عزیزی پریس، آگرہ، ۱۹۴۱ء ۔ ۱۳- محمد حمزہ فاروقی: سفر نامہ اقبال، مجلس مکتبہ معیار، کراچی، ۱۹۷۳ء ۔ ۱۴- ممتاز حسن: اقبال اور عبدالحق، ترقی ادب، لاہور، ۱۹۷۳ء ۔ ۱۵- نور احمد، سید: مارشل لا سے مارشل لا تک، لاہور، ۱۹۶۲ئ۔ ۱۶- نذیر نیازی، سید: اقبال کے حضور، اقبال اکادمی، کراچی، ۱۹۷۱ئ۔ ۱۷- فقیر سید وحید الدین: روزگارِ فقیر، لائن آرٹ پریس، لاہور، ۱۹۶۳ئ۔ ——— اخبارات روزنامہ انقلاب ، لاہور۔ روزنامہ پیسہ اخبار ، لاہور۔ سہ روزہ الجمیعۃ ، دہلی۔ رسائل ماہنامہ ہلال ، راولپنڈی ، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۳ئ۔ ہفت روزہ حمایت اسلام ، لاہور، مارچ ۱۹۴۱ئ۔ ماہنامہ المعارف ، لاہور، فروری ۱۹۷۶ئ۔ ماہنامہ سب رس، اقبال نمبر جون ۱۹۳۸ئ۔ نقوش ، لاہور نمبر۔ مجلہ ثانوی تعلیم ، لاہور، دسمبر ۱۹۷۶ئ۔ English Books 1- Ahmad Saeed,Writings of the Quaid-e-Azam,Lahore, 1976. 2- Ahmad Saeed, Quaid-i-Azam Jinnah-A Bunch of Rare Letters, Lahore, 1999. 3- Allana, G. Quaid-e-Azam The Story of a Nation, Lahore, 1967. 4- Aziz, K.K., Britain & Muslim India, London, 1963. 5- Jamil-ud-Din Ahmad, Speeches and Writings of Mr. Jinnah, Lahore, 1973. 6- Liaquat Ali Khan (ed), Resolutions of the All-India Muslim League, Delhi, n.d. 7- Nehru, Jawaharlal, The Discovery of India, Bombay, 1960. 8- Pirzada, Syed Sharif ud Din, Foundations of Pakistan, Vol-II, Karachi, 1971. 9- Rafique Afzal M., Speeches & Statements of Quaid-i-Azam Jinnah, Lahore, 1973. 10- Waheed Ahmad (ed), The Nation's Voice, Karachi, 1992. آسام،۷۴ آل انڈیا کانگرس کمیٹی،۱۱۱ آل انڈیامسلم کنونشن،۷۵،۱۰۳،۱۰۴ آل انڈیا مسلم لیگ،۱۶،۱۸۔۲۰،۳۰،۴۱،۴۸، ۶۴۔۶۶، ۷۰، ۷۹، ۸۲ ، ۸۵۔۸۹، ۱۰۴، ۱۰۵، ۱۰۸۔۱۱۱ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس (۱۹۳۰ئ)، ۴۰، ۴۲، ۴۳، ۶۲ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس پٹنہ،۴۹، ۸۸ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس بمبئی،۴۵ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس کلکتہ،۳۱، ۴۸ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس لکھنٔو (۱۹۳۷ئ)، ۶۱، ۶۷، ۶۸، ۷۴، ۸۵، ۸۷، ۱۰۹ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس دہلی،۶۲، ۸۳، ۸۸ آل انڈیا مسلم لیگ ،اجلاس لاہور،۵۵ آل انڈیا مسلم لیگ ،پارلیمانی بورڈ،۵۵،۵۶ آل انڈیا مسلم لیگ دہلی آفس،۱۰۹ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل،۴۸، ۵۴، ۵۵، ۵۶، ۶۸، ۶۹، ۷۱، ۱۱۰ آل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی،۶۶ آل انڈیا مسلم لیگ ،مرکزی پارلیمانی بورڈ،۵۸، ۵۹، ۷۵، ۸۴، ۱۰۰ آل انڈیا نیشنل کنونشن،۷۵، ۱۰۲، ۱۰۳ آل پارٹیز کانفرنس (۱۹۲۸ئ)،۲۹ آل پارٹیز کنونشن(کلکتہ)،۳۰، ۳۱ آل پارٹیز مسلم کانفرنس (دہلی اجلاس)،۳۳ آلِ نبی، سید،۱۹ آئینگر، سری نواس،۱۸ ابوالکلام آزاد،۷۶ اتا ترک،۸۴ اتحادِ ملت پارٹی،۷۶، ۹۹ اثنا عشری (اخبار)،۲۴ احمد سعید دہلوی، مولانا،۵۶ احمد سعید چھتاری، نواب،۶۳، ۶۴ احمد شفیع ،۵۹ اسماعیل خان، نواب،۱۹، ۲۴، ۶۹ اصفہانی ،مرزا ابوالحسن،۴۸، ۶۶ افتخار الدین ،میاں،۸۰، ۸۱ افضل حق، چودھری،۷۶ افغان قونصل خانہ(دہلی)،۱۰۳ اکالی پتریکا(لاہور)،۷۲ الجمیعۃ(روزنامہ ،دہلی)،۵۴ الہ آباد،۴۶ انڈیا آفس،۲۷ انڈین نیشنل کانگرس،۱۶، ۴۳، ۵۹، ۶۵۔۶۸، ۷۳، ۷۵،۷۸، ۸۰، ۸۵، ۱۰۴، ۱۰۷،۱۱۱ انڈین نیشنل کانگرس مدراس سیشن،۳۰ انعام اللہ خان،۳۹ انقلاب( روزنامہ، لاہور)،۳۱، ۵۷۔۵۹، ۸۳ انوار العظیم،۱۹ اودھ ہندو سبھا،۱۷ ایسٹرن ٹائمز(روزنامہ، لاہور)،۵۹، ۹۹ ایسوسی ایٹڈ پریس،۲۴، ۳۰، ۳۲ ایشیا،۱۰۲ ایم آر ٹی،۵۹۔۶۱ ایم اے او کالج، علی گڑھ،۱۵ بادشاہ حسین (صحافی)،۷۷،۷۸ بالفور اعلان،۴۷، ۴۸ بائرن،۸۹ برکت علی ، ملک،۵۴، ۶۲، ۶۵، ۶۶، ۶۸، ۶۹،۷۱، ۷۲ برکن ھیڈ، لارڈ،۲۵۔۲۷، ۲۹ برطانیہ،۱۷، ۲۹، ۳۰، ۴۳، ۴۴، ۴۸، ۷۶،۱۰۸ برطانوی پارلیمنٹ،۱۷ بریلی،۸۹ بشیر احمد، میاں (مدیر ہمایوں)،۶۰، ۶۵، ۸۱، ۸۴، ۹۰ بلوچستان،۱۹، ۲۹،۱۱۱ بمبئی،۱۶، ۱۹، ۲۰، ۲۵، ۲۹، ۳۰، ۳۹، ۴۳، ۵۷، ۱۰۱ بمبئی پریذیڈنسی مسلم لیگ،۳۱ بنگال،۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۸، ۴۶، ۶۷، ۷۴، ۸۷، ۱۰۲ بھوپت کار،۲۵ پاکستان،۱۵،۶۴، ۶۶،۹۲ پرتاپ (روزنامہ، لاہور)،۱۷، ۷۳ پرجا پارٹی (بنگال)،۷۶، ۱۰۲ پریوی کونسل،۵۵ پنجاب،۱۸۔۲۰، ۲۸، ۴۱، ۴۲، ۴۶، ۵۲، ۵۵۔۵۹، ۶۳۔۶۸، ۷۰۔۷۲، ۷۴، ۷۶، ۷۹، ۸۶۔۸۹، ۹۹،۱۰۴، ۱۰۸، ۱۱۰، ۱۱۲ پنجاب اسمبلی،۱۶، ۶۶ پنجاب ایگزیکٹو کونسل،۶۷ پنجاب پروانشل کانگرس کمیٹی،۲۶ پنجاب پروانشل مسلم لیگ،۱۹، ۲۰، ۲۳، ۲۴، ۵۵، ۶۳، ۶۵، ۶۸، ۷۲، ۸۷ پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن،۷۹، ۹۰ پنجاب مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ،۱۰۲، ۱۱۲ پنجاب یونی ورسٹی ہال،۸۹ پنڈرل مون،۶۶ پونا،۲۵ پیسہ اخبار (روزنامہ، لاہور)،۵۴ تبلیغ،۱۷ تحریک خلافت،۱۶،۱۸ تنظیم،۱۷ ٹروتھ (ہفت روزہ، لاہور)،۷۲ ٹریبیون (روزنامہ ،لاہور)،۱۱۱ ٹوانہ ، سرخضرحیات،۵۶،۶۳، ۶۴، ۶۶،۶۷ جداگانہ انتخاب،۲۰۔۲۲، ۳۹ جرمنی،۱۷ جلیانوالہ باغ،۲۵ جمیل الدین احمد،۵۹ جناح لیگ،۳۲، ۶۳ جناح میموریل ہال،۲۴ جنوبی افریقہ،۲۴ جہانگیر عالم،پروفیسر،۶۱ چراغ دین (وکیل)،۶۲ چودہ نکات ،۲۲، ۴۲ چوک فرید، امرتسر،۶۲ چونڈہ ڈسٹرکٹ بورڈ،۵۹ چھوٹو رام،سر،۷۱ چین ،۸۹ حسرت موہانی، مولانا،۷۶ حسن اختر،راجہ،۷۸ حسین امام، سید،۵۶ حسین احمد مدنی، مولانا،۷۶ حمید نظامی،۵۹ حیدر آباد دکن،۶۱،۷۷ حیدر ، ڈاکٹر ایل کے، ۱۹ خطبہ الہ آباد (۱۹۳۰ئ)، ۴۵ خلافت کمیٹی، ۱۶ خلیق الزماں،چودھری، ۷۵ خورشید علی خان، نواب زادہ، ۶۴ دارشکوہ، شہزادہ، ۵۳ دارالامرائ،۲۶ درانی،فضل کریم خان، ۷۲ دولتانہ، احمد یار خان، ۶۷،۱۰۱ دہلی، ۱۹، ۵۳، ۵۴، ۵۶، ۷۵، ۱۰۳، ۱۰۴ دہلی دروازہ ،لاہور،۶۸ دہلی مسلم تجاویز (۱۹۲۷ئ)،۱۶، ۳۰، ۳۹،۴۲ ڈان (روزنامہ، دہلی)،۵۹ ڈلہوزی،۶۷ ڈنشا، سر،۲۵ ڈیلی ٹیلی گراف (روزنامہ)،۷۴ ڈیلی کرانیکل (روزنامہ)،۳۱ ڈیلی ہیرلڈ(روزنامہ، لاہور)،۷۳ ڈینس برے ،سر،۴۲ ذوالفقار علی خان، نواب سر،۱۹ روال پنڈی، ۶۴ رحیم بخش، ۶۲ رفیق طوسی، محمد، ۶۰ روشن تھیٹر(دہلی)، ۶۲ ریمزے میکڈانلڈ، ۴۲ زمیندارہ لیگ، ۱۱۳ سالک ، عبدالمجید، ۸۳ سائمن، سر جان، ۲۳، ۲۴ سائمن کمیشن، ۲۲۔۲۸، ۳۹، ۷۶ سائمن کمیشن رپورٹ، ۲۸، ۴۱ سپین، ۴۷ سٹار آف انڈیا(روزنامہ ،کلکتہ)، ۵۹ سرفراز حسین خان، ۴۲ سسلی، ۴۷ سکندر جناح پیکٹ، ۶۲، ۶۷۔۷۵، ۱۱۲، ۱۱۳ سکندر حیات ،سر،۵۵،۵۶، ۶۳، ۶۷، ۶۹، ۷۱، ۱۰۱، ۱۰۹، ۱۱۱۔۱۱۳ سلیمان قاسم مٹھا، سر،۵۶ سلہری،زیڈ اے، ۵۹ سہارن پور،۴۶ سندھ،۱۹، ۲۸، ۲۹، ۳۹، ۱۰۷، ۱۱۰ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی،۴۰،۴۱ سنگم تھیٹر(دہلی)،۶۲ سنگھٹن، تحریک،۱۶، ۱۷ سوراج پارٹی،۱۸ سندھ مسلم لیگ کانفرنس (کراچی، ۱۹۳۸ئ)،۴۸ سول اینڈ ملٹری گزٹ،۵۹، ۷۱ سیداحمد خان ، سر،۱۵ شاہد حسین رزاقی،۹۰ شاہنواز، بیگم جہاں آرا ،۷۵ شردھا نند پارک (کلکتہ)،۲۶ شردھا نند، سوامی،۱۶ شدھی ،تحریک،۱۶، ۱۷ شریف المجاہد ، پروفیسر، ۵۹ شریف طوسی، محمد، ۵۹ شعیب قریشی، ۲۹ شفیع دائودی، مولوی، ۱۹ شفیع لیگ، ۲۶،۳۲، ۶۳ شمال مغربی سرحدی صوبہ، ۱۸، ۲۸، ۲۹، ۴۱، ۷۶، ۸۵ شوکت حیات، سردار، ۷۴، ۷۵ شوکت علی ،مولانا ، ۴۷، ۷۶ شہید گنج مصالحتی بورڈ، ۵۳ شیخ محمد اشرف (لاہور)، ۶۱، ۸۴ شیخوپورہ (ضلع) ، ۶۴ شیر پنجاب (روزنامہ ،لاہور)، ۷۲ شیروانی ، تصدق احمد خان، ۲۴ شیکسپیئر، ۸۹ شیو پرشاد ،بابو، ۱۵ صابرکلوروی، ۶۱ ضرب کلیم، ۴۷ ظفر علی خان مولانا، ۹۹ ظفر اللہ خان، ملک، ۶۴ عاشق حسین بٹالوی، ۵۴، ۶۸، ۷۱، ۸۰ عبدالحق ،مولوی، ۴۶ عبدالحمید خان، ۵۶ عبدالرحمن سعید، ۶۱ عبدالرحیم، سر، ۱۹ عبدالرحیم خاکی، ۷۸ عبدالغفار خان، خان،۷۶ عبدالقادر،سر، شیخ، ۱۹،۸۳،۸۴ عبداللہ خان، ۵۳ عبدالمتین چودھری، ۱۹ عزیز لیگ،۶۳ عزیز ، کے کے، ۱۶ عصر جدید (روزنامہ ،کلکتہ)،۵۴ عطاء اللہ ،شیخ ، ۶۰،۶۱ علی امام،سر، ۲۳، ۲۹ علی گڑھ، ۸۹ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ۶۰ عمران علی، ڈاکٹر، ۶۷ غضنفر علی خان،راجہ، ۱۹، ۵۶، ۶۶، ۶۸، ۷۰، ۷۱ غلام رسول خان، ۵۴، ۶۱، ۶۲، ۶۵، ۶۶، ۶۹، ۱۰۹، ۱۱۰، ۱۱۳ فرانس، ۱۷ فرقہ وار فیصلہ، ۴۲۔۴۴ فری پریس، ۳۰ فضل الحق ، اے کے، ۶۸، ۷۲، ۷۶ فضل الٰہی ،راجہ، ۷۸، ۷۹ فضلِ حسین، میاں سر،۵۶، ۶۳، ۶۴ فلسطین ،۴۶۔۴۸، ۸۶، ۱۱۰ فلسطین کانفرنس (کلکتہ، ۱۹۳۷ئ)،۴۷، ۴۸ قرارداد لاہور، ۶۶، ۸۶، ۹۲ کارلائل،۸۹ کچلو،ڈاکٹر سیف الدین، ۱۷ کراچی،۴۱ کریگ، ہنری،۶۷ کلکتہ، ۱۳، ۸۶، ۸۸ کیمونل ایوارڈ، ۱۰۷، ۱۱۰ کوپ لینڈ،۷۴ کولٹ مین (بیرسٹر)، ۵۴ کونسل آف سٹیٹ، ۶۴ کوہاٹ،۱۶ گلوب سینما( لاہور)، ۶۳ گورداسپور،۶۲،۹۹ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ (۱۹۳۵ئ)، ۵۵، ۸۵، ۹۰، ۱۰۵، ۱۰۷ گوکھلے ، جی کے، ۱۵ گول میز کانفرنس (پہلی)، ۴۰ گول میزکانفرنس (دوسری)، ۴۲ لاجپت رائے، لالہ، ۱۶ لاہور، ۱۸، ۱۹، ۵۳، ۵۵، ۶۰، ۸۱، ۹۰، ۱۰۸، ۱۱۲ لکھنٔو، ۳۰، ۶۷، ۷۲، ۱۱۳ لکھنٔو پیکٹ (۱۹۱۶ئ)، ۱۶، ۱۹، ۶۳، ۷۶ لکھنٔو یونی ورسٹی، ۲۱ لن لتھ گو، لارڈ، ۶۶، ۶۷ لوتھیان، لارڈ، ۱۰۸ لیاقت علی خان، نواب زادہ، ۵۶ مالویہ، پنڈت مدن موھن، ۱۶ مانٹی گو چمسفورڈ اصلاحات ( ۱۹۱۹ئ)، ۲۲ مجلس احرار،۵۸، ۷۶، ۹۹ محمد حسین چودھری، ۶۰ محمد دین ، ملک، ۱۶ محمدشفیع ،میاں سر، ۱۹، ۲۴،۱ ۳، ۶۳، ۷۵ م۔ش (میاں محمد شفیع)، ۶۰، ۷۵ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت، ۹۱ محمد عرفان، مولانا، ۵۶ محمد علی جوہر، مولانا، ۱۹ محمد یعقوب ،مولوی، ۱۹، ۲۴ محمودآباد، راجہ صاحب، ۱۹ محمود آباد ہاوس، ۶۸ مختار احمد انصاری، ڈاکٹر، ۱۹، ۶۲ مدراس، ۸۵ مرتضیٰ بہادر، سید، ۴۱ مرکزی قانون سازاسمبلی، ۴۱۔۴۳ مسجد شہید گنج ، ۵۳۔۵۵، ۵۷، ۱۰۱ مسلم عوام رابطہ مہم، ۶۶ مشتاق احمد چشتی، ۶۱ مطلوب الحسن ، سید، ۹۲ معین الملک(گورنر پنجاب)، ۵۳ مقبول محمود، میر، ۶۹، ۷۱ ملتان، ۱۶ ملٹن، ۸۹ ممدوٹ ، نواب شاہنواز خان، ۵۵ منٹو، لارڈ ، ۱۹، ۲۴ منٹو مارلے اصلاحات،۱۹ مونجے،ڈاکٹر، ۱۷ مہر، غلام رسول، ۸۳ نٹال،۸۴ نذیر نیازی ، سید، ۸۱ نواب آف بھوپال، ۴۵ نواب علی، خان صاحب، ۶۲ نور احمد،سید، ۶۹۔۷۱ نہرو ،پنڈت جواہر لال، ۷۳، ۷۵، ۸۰۔۸۲، ۸۵، ۱۰۲، ۱۰۵۔۱۰۷ نہرو، پنڈت موتی لال، ۱۸، ۲۹، ۳۰ نہرو رپورٹ، ۱۹، ۲۹۔۳۳، ۵۸، ۵۹ نہرو کمیٹی، ۳۰ نیرنگ، میرغلام بھیک، ۱۷ نیو ٹائمز(اخبار، لاہور)، ۷۲ وائیٹ پیپر، ۴۴ وائیٹ ہال، ۴۴ وزیر آباد ، ڈسٹرکٹ بورڈسکول، ۵۹ ولنگڈن،لارڈ (گورنر بمبئی)، ۲۴ ویسٹرن ہوٹل (دہلی)، ۱۹ ویول ، لارڈ، ۶۶ ہدایت لیگ، ۶۳ ہمایوں (ماہنامہ ،لاہور)، ۸۱ ہندو مہاسبھا، ۱۷، ۶۴، ۷۲، ۱۰۷ ہندوستان، ۱۷، ۱۸، ۲۱۔۲۵، ۴۶، ۵۳، ۵۵، ۷۵،۷۸، ۸۲، ۸۶، ۸۹، ۹۱، ۱۰۰۔۱۰۳، ۱۰۵۔۱۰۸ ،۱۱۰ ہندوستان ریویو (ماہنامہ)، ۲۷ یادو ، کے سی، ۷۴ یونینسٹ پارٹی، ۵۶۔۵۹، ۶۲۔۶۸، ۷۱۔۷۴، ۸۳، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۱۱۔۱۱۳