سلسلۂ ادبیہ اُررو کورس چھٹی جماعت کے لیے مؤلّفہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم-اے، پی-اے-ڈی بیرسٹر ایٹ لا و ممبر پنجاب لیجسلیٹو کونسل و حکیم احمد شجاع بی-اے (علیگ) سیکرٹری لیجسلیٹو کونسل ۱۹۲۹ء فہرست مضامین ٍ۱- ۹ ۲- دیباچہ اُردو کی مروجہ درسی کتابوں میں یہ کمی عام طور پر محسوس کی جاتی ہے۔ کہ وہ نفسِ مضمون- اندازِ تحریر اور طریقۂِ انتخاب کے اعتبار سے زمانۂ حال کے مطالبات کو پورا نہیں کرتیں۔ یہ کتابیں ایک ایسے زمانے میں مرتب ہوئیں۔ جب انتخاب کے مواقع کم تھے۔ اور زبانِ اُردو نے وہ رنگ اختیار نہ کیا تھا۔ جو مغربی ادب کے تاثر کا لازمی نتیجہ ہے اُن کتابوں کے نقائص بیان کرنے کی بجائے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ کہ اس سلسلہ کی امتیازی خصوصیات ہی بیان کردی جائیں۔ سلسلۂ ادبیہ کی ترتیب میں اس امر کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے۔ کہ پرانے اساتذۂ فن کے نتائجِ فکر کے ساتھ ساتھ زمانۂ حال کے اُن انشا پردازوں اور شاعروں کے مضامینِ نظم و نثر بھی طالبِ علم کی نظر سے گذریں جنھوں نے اُردو کو ایک ایسی زبان بنانے کے لیے انتھک اور کامیاب کوشش کی ہیں جو موجودہ ضروریات کے مطابق اور ادائے مطالب پر قادر ہو۔ مضامین کے انتخاب کے تنوع کو مدنظر رکھتے ہوئے اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر مضمون ادبی خوبیاں رکھنے کے باوجود نئی معلومات کا حامل ہو۔ درسی کتابوں پر بالعموم متانت کا رنگ اس قدر غالب ہوتا ہے کہ طالبِ عالم ان میں زیادہ دلچسپی نہیں لے سکتے۔ اس نقص کو دور کرنے کے لیے اس سلسلہ میں ظریفانہ مضامین نظم و نثر کی چاشنی بھی شامل کردی گئی ہے۔ کیونکہ نوعمر بچوں کے دل و دماغ تک دلچسپ پیرایۂ اظہار کی وساطت ہی سے رسائی ممکن ہے۔ مضامین زیادہ تر ایسے ہی منتخب کیے گئے ہیں جن میں زندگی کا روشن پہلو جھلکتا ہو۔ تاکہ طالب علم اس کے مطالعہ کے بعد کشاکشِ حیات میں زیادہ استقلال۔ زیادہ خودداری اور زیادہ اعتماد سے حصہ لے سکیں۔ حقیقت میں ادبیات کی تعلیم کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔ کہ ادبی ذوق کی تربیت کے ساتھ ساتھ طلبا کی وسیع النظری اور اُن کے دل کے دل و دماغ کی جامعیت نشوونما پائے۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس سلسلے کی کتابوں کے مطالعہ سے طلبا زبانِ اُردو کے ادبی محاسن سے بھی واقف ہوجائیں گے۔ اور ان کو اس زبان کی روز افزوں ترقی، وسعت اور قدرتِ اظہا رکا علم بھی ہوجائے گا اس مجموعہ میں ایسے مضامین بھی ہیں۔ جن مین مناظر فطرت، ذہنی کیفیات اور طبعی جذبات کی تصویریں الفاظ میں کھینچی گئی ہیں اور ایسے بھی جن میں علم طبیعات کے انکشافات، صنعت و حرفت کی اختراعات اور عام علمی تحقیقات کو زبان اُردو میں بیان کیا گیا ہے۔ اخلاقی مضامین کے انتخاب میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کہ ان کا اسلوبِ بیان ایسا ہو جو طالب علم کو کمزور اور بُزدل بنانے کی بجائے نیک اور بہادر بنائے۔ اور اس امر کا لحاظ تو بالخصوص رکھا گیا ہے۔ کہ منتخبہ نظم و نثر پر وطنیت کا رنگ غالب ہو۔ تاکہ طلبا کے دلوں میں اخلاقِ حسنہ اور علم ادب کی تحصیل کے دوران میں اپنے وطن کی محبت کا پاک جذبہ موجزن ہو۔ اور وہ ہندوستان کو جس کی عظمت کے نشان اس مجموعہ میں جگہ جگہ پر موجود ہیں۔ زیادہ پُرعظمت بنانے میں حصہ لیں۔ سلسلۂ ادبیہ کو زبانِ اُردو کے طلباء کی ادبی رہنمائی کے لیے ہر طرح مکمل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ خدا کرے یہ طلبا کے مذاقِ ادب کو لطیف اور معیارِ لیاقت کو بلند کرنے میں کامیاب ثابت ہو۔ا س ضمن میں شیخ عبدالحمید صاحب ایم-اے، آئی-ای-ایس پروفیسر طریقۂ تعلیم ٹریننگ کالج لاہور کی عنایت خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ جنھوں نے اس سلسلے کی موجودہ تین کتابوں کے مسودات کو بغور ملاحظہ کیا اور جن کے قیمتی مشورے اس سلسلے کی ترتیب و تدوین میں بہت مفید ثابت ہوئے۔ مؤلفین اُردو کورس چھٹی جماعت کے لیے ۱- دُعا خالق رازِق ذلت آفت عزت اے خدا تو پاک ہے بے عیب ہے ذکر کرتی ہے ترا ہر ایک شے تو نے یہ سارا بنایا ہے جہاں سب زمیں تیری ہے تیرا آسماں سب ترے مخلوق ہیں ، خالق ہے تُو تیرے ہی بندے ہیں سب ، رازِق ہے تو تُو نے ہم کو عقل بھی دی جان بھی مہربانی سے دیا ایمان بھی نعمتیں یہ کیسی کیسی ہم کو دیں تجھ سے بڑھ کر مہرباں کوئی نہیں شکر تیرا ہم سے کیونکر ہو ادا ہم کو جو کچھ چاہیے تو نے دعا اے خدا! دے شوق ہم کو علم کا اب ہماری ہے یہی تجھ سے دعا ہم کو بے علمی کی ذلت سے بچا جاہلی کی سخت آفت سے بچا دو جہاں میں علم سے رتبہ بڑھا تو ہمیں عزت کے درجہ پر چڑھا تو ہدایت دے کہ ہم سیکھیں ہنر ہو بھروسا ہم کو تیری ذات پر اے خدا دے شوق سب کو علم کا ہے ذہیںؔ! اپنی یہی حق سے دعا سوالات ۱- اس نظم میں خدا کی جن جن نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن کو بیان کرو۔ اور جس جس چیز کی خواہش کی گئی ہے۔و ہ بھی بتائو؟ ۲- ساتویں شعر کی نثر بنائو۔ ۳- دو جہاں سے کیا مراد ہے؟ ۴- مندرجۂ ذیل الفاظ قواعد کی رُو سے کیا کیا ہیں: پاک۔ خالق۔ مہربانی۔ تیرا۔ سیکھیں۔ ذہین …٭…٭…٭… ۲- دنیا کی آبادی(۱) ذخیرہ خانہ بدوشی ابتدا لازم قانون تعمیل آرام اطمینان دنیا ہمیشہ سے ایسی ہی آباد نہیں ہے۔ جیسی اسے آج تم دیکھتے ہو۔ اور نہ یہ آبادیاں دنیا کی پہلی آبادیاں ہیں۔ وہ مقامات جہاں آج بڑے بڑے شہر آباد ہیں۔ کسی زمانے میں ویران میدان تھے۔ پرانے زمانے کے بڑے بڑے شہروں کے کھنڈے آج گھنے اور سنسان جنگلوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ نہ تو شہروں میں رہتے تھے، نہ قصبوں میں۔ بلکہ ان کے پاس رہنے کے لیے مکان تک نہ تھے۔ ان کی زندگی زیادہ تر جنگلی جانوروں کی طرح گزرتی تھی۔ وہ کوئی نہ کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لیتے تھے جہاں اُن کی گائے بھینسوں اور دوسرے مویشیوں کے لیے چارہ مل سکے۔ جب تک یہ چراگاہیں مویشیوں کی خوراک بہم پہنچا سکتیں وہ وہیں پڑے رہتے اور جب پانی سوکھ جاتا اور خوراک کا ذخیرہ ختم ہوجاتا۔ تو وہ وہاں سے اُٹھ کر کسی دوسری سرسبز جگہ کو تلاش کرلیتے۔ اُس زمانے کے لوگ زمین میں غاریں کھود کر اپنے آپ کو گرمی اور سردی سے بچاتے تھے۔ درختوں کے پتوں اور چھال سے بدن کو ڈھانپتے تھے۔ا ور پتھروں کے نکیلے اوزاروں سے جانوروں کا شکار کرکے پیٹ پالتے تھے۔ یہی وہ حالت ہے جسے خانہ بدوشی کی ہالت کہتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انسانوں نے ابھی گھروں کا بنانانہ سیکھا تھا اور بستیوں کی بنیاد نہ پڑی تھی۔ اس خانہ بدوشی کی حالت میں بھی یہ لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منقسم تھے۔ اور ہر ایک گروہ کے آدمی رشتہ داری کی قدرتی زنجیر میں بندھے ہوئے تھے۔ ماں، باپ، بیٹے، بیٹیاں، بہن، بھائی اکثر ایک ہی جگہ رہتے۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سفر کرتے تھے۔ یہی قریبی رشتہ داروں کے مل جل کر رہنے کی عادت خاندانوں کی ابتدا کا سبب ہوئی۔ ان چھوٹے چھوٹے خاندانوں کے آدمی اپنے بھائی بندوں کی بھلائی برائی کا خیال رکھتے تھے۔ اگرچہ یہ چھوٹے چھوٹے خاندان ایسے دوسرے سے الگ رہتے تھے اور ہر خاندان خاص خاص قاعدوں کا پابند تھا۔ مگر اُن کی زندگی عام طور پر ایک ہی قسم کی تھی۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب لوگوں نے زندگی گزارنے، مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی بھلائی برائی کا خیال رکھنے کے لیے ایسے قاعدے بنانے شروع کیے تھے جو سب کو پسند ہوں۔ یہ انسانی ترقی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس لیے یہ قاعدے بہت آسان تھے تاکہ سب ان کو سمجھ سکیں۔ اور ان پر عمل کرسکیں یہی قاعدے آخر میں خاندانی رسم و رواج بن گئے۔ا ور ہر خاندان کو اپنے اپنے رسم و رواج کی پابندی لازم ہوگئی۔ اب یہ امر ضروری تھا کہ ہر ایک خاندان میں کوئی ایسا شخص ہو۔ جس کا حکم اس خاندان کے سب آدمی مانیں۔ اور جب کسی قاعدے یا رسم و رواج کے سمجھنے میں کوئی مشکل ہو تو وہا ن کو سمجھا دے۔ یا اگر خاندان کے دو آدمیوں میں کسی بات پر جھگڑا ہوجائے تو وہ فیصلہ کردے۔ اور سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کر دکھائے۔ اس لیے ہر خاندان کے لوگ مل کر اپنے آدمیوں میں سے ایک ایسے شخص کو چن لیتے تھے۔ جو عمراور عقل میں سب سے بڑا ہو۔ اور جس کی نیکی اور اچھائی کیو جہ سے سب اُس کی عزت کرتے ہوں۔ اس کو وہ اپنا بزرگ سمجھتے تھے۔اور اُس کے حکم پر چلتے تھے۔ جو قاعدے قانون وہ بنا دیتا، سب اُن کو مانتے۔ اور کسی جھگڑے کا جو کچھ وہ فیصلہ کردیا، سب اُس کی پیروی کرتے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس بزرگ کی مرضی اور رائے ہی اُس خاندان کے لیے قاعدے اور قانون کا کام دیتی تھی۔ وہ وقت او رحالت کو دیکھ کر اور اپنی عقل کے مطابق ہر بات کو سمجھ کر حکم دیتا۔ اور اُس کے خاندان کے لوگوں پر اس حکم کی تعمیل لازم ہوجاتی۔ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا کہ کسی شخص کی کسی بات سے کسی دوسرے شخص کو نقصان نہ پہنچے۔ اور ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔ اس بزرگ کے سامنے لوگ سچ بولیں اور جو کچھ وہ پوچھے اس کا جواب بالکل سچائی سے دیں۔ تاکہ وہ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرسکے ہر ایک خاندان کے آدمی اپنے اپنے بزرگ کی عزت کرتے تھے۔ اور اس کے حکم اور فیصلہ کو خواہ وہ کسی ایک شخص کے لیے تکلیف اور نقصان کا باعث ہی کیوں نہ ہو، مان لیتے تھے۔ اس طرح ہر ایک خاندان کا بزرگ اپنے اپنے خاندان کا انتظام کرتا تھا۔ اور اُن میں جھگڑا فساد نہیں ہونے دیتا تھا۔ ہر ایک شخص کے سپرد جو کچھ کام ہوتا وہ کرتا اور یہ چھوٹے چھوٹے خانہ بدوش خاندان ضرورت اور حالات کے مطابق کبھی ایک جگہ کبھی دوسری جگہ رہ کر اپنے اپنے رسم و رواج کی پابندی اور اپنے اپنے خاندان کے بزرگ کی پیروی کرکے آرام و اطمینان سے زندگی بسر کردیتے۔ سوالات ۱- خانہ بدوشی سے کیا مراد ہے؟ خانہ بدوش لوگوں کی طرزِ زندگی کا اپنے لفظوں میں خاکہ کھینچو؟ ۲- دنیا میں قاعدے اور قانون کی ابتدا کس طرح ہوئی؟ ۳- خانہ بدوش لوگوں کی طرزِ معاشرت سے ہم کیا کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ۴- اس سباق میں جو الفاظ جمع آئے ہیں۔ ان کے واحد بتائو؟ نیز جمع بتانے وقت جو تبدیلیاں عمل میں آئیں وہ بھی بیان کرو؟ …٭…٭…٭… ۳- سرزمینِ ہند زرخیز شاداب مناظر عیاں عنواں عظمت طیور صبح صادق نغمہ خواں ضیائے دلکش جہاں میں ایک ایسی زرخیز اور شاداب سرزمین ہے وہ سرزمین جو تمام دنیا کی سرزمینوں سے بہتریں ہے نظر فریب اس کے ہیں مناظر فضا عجب اس کی دلنشیں ہے وجود روے زمین پہ فردوس کا کہیں ہے اگر وہیں ہے نہیں کوئی سرزمین ایسی - نظیر اس کی کہیں نہیں ہے وہاں کی سرسبز وادیوں سے عیاں ہے اک شانِ دلفریبی زمین پہ سبزہ ہے یا کہ پھیلا ہوا ہے دامانِ دلفریبی گلوں سے قائم کسی نے ہرجا کیے ہیں عنوانِ دلفریبی جدھر اُٹھائو نظر اُدھر ہیں ہزار سامانِ فریبی نہیں کوئی سرزمین ایسی - نظیر اس کی کہیں نہیں ہے بہار دیتے ہیں اُن کے دامن میں چار سُو کھیت لہلہا کر سلاتے ہیں جو طیور انساں کو وقت شب لوریاں سُنا کر وہی جگاتے ہیں خوابِ نوشیں سے صبحِ صادق کے گیت گا کر نہیں کوئی سرزمین ایسی - نظیر اس کی کہیں نہیں ہے کھڑے ہیں صف بستہ پیڑ ہر سُو طیور پیڑوں پہ نغمہ خوان ہیں لطیف اور خوشگوار پانی کی ندیاں جابجا رواں ہیں وہ سرزمین ہے وہ دستِ قدرت کی جس پہ گلکاریاں عیاں ہیں وہیں کی وہ خاکِ پاک ہے جس میں گوہر بے بہا نہاں ہیں نہیں کوئی سرزمین ایسی - نظیر اس کی کہیں نہیں ہے ہیں چاند سورج تو ہر زمیں پر مگر کہاں وہ ضیائے دلکش؟ کہاں گھٹا ٹوپ بادلوں میں وہ بجلیوں کی ادائے دلکش؟ بھلا کہاں دیکھنے میں آئیں گے ایسے نظارہ ہائے دلکش؟ کہ خوابِ دلکش دکھائی دیتے ہیں دیکھ کر وہ فضائے دلکش؟ نہیں کوئی سرزمین ایسی - نظیر اس کی کہیں نہیں ہے وہ سرزمین میرے ہند کی ہے سُن اے وفا جو مرا وطن ہے وہ جس کو جنت نشان کہتے ہیں ساری دنیا کا جو چمن ہے اُسی کا تاریخی نام ’’شائستگی کا گہوارۂ کہن‘‘ ہے ضیائے ماضی سے روئے مستقبل اس کا تاباں کُنِ زمن ہے نہیں کوئی سرزمین ایسی - نظیر اس کی کہیں نہیں ہے سوالات ۱- اس نظم میں شاعر نے مُلکِ ہند کی جو جو خُوبیاں بیان کی ہیں۔ اُن کو اپنے لفظوں میں بیان کرو۔ ۲- ’اُس کے مناظرِ نظر فریب ہیں‘۔ ’اُس کی نظیر کہیں نہیں ہے۔‘ ’جس پر دستِ قُدرت کی گلکاریاں عیاں ہیں‘۔ کا مطلب آسان لفظوں میں بیان کرو۔ ۳- ذیل کے الفاظ کو اپنے فقروں میں استعمال کرو: صف بستہ۔ خوشگوار۔ جابجا۔ دلکش ۴- ’پھیلا ہوا ہے‘، ’بہار دیتے ہیں‘، ’آئیں گے‘ کون کون سے فعل ہیں۔ اور کون کون سے مصدروں سے مشتق ہیں۔ …٭…٭…٭… ۴- یدھشٹر کا پہلا سبق پریشان کند ذہن راجکماروں حیران مطالعہ جب کو رَو اور پانڈو پڑھنے کے قابل ہوئے تو راجہ دھرت راشٹر نے اُن کو مہاراج درونا چاریہ کے سپرد کردیا۔ درونا چاریہ اس زمانہ میں نہایت ہی مشہور برہمن تھا۔ اور اُس کیع لمیت پر لوگ رشک کیا کرتے تھے۔ وہ صرف پڑھنے پڑھانے ہی کا نہیں بلکہ جنگ کے علم کا بھی ماہر تھا۔ درونا چاریہ نے راجکماروں کو سب سے پہلا سبق یہ دیا: ’’سچ بولو۔ غصہ سے پرہیز کرو۔‘‘ دوسرے راجکماروں نے یہ سبق بہت جلد یاد کرلیا اور اس کے بعد کھیلنے کودنے میں مشغول ہوگئے۔ مگر یُدھشٹر جو اُن سب میں بڑا تھا۔ سارا دن اسی فقرے کو یاد کرتا رہا۔ اور جب رات ہوئی تب بھی پریشان رہا۔ وریودھن نے اُسے دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیا اور کہا: یُدھشٹر بڑا کند ذہن ہے۔ مگر یُدھشٹر نے اس کی ذرا پروا نہ کی۔ اور رات بھر جاگ جاگ کر اپنا سبق زبانی یاد کرتا رہا: ’’سچ بولو۔ غصہ سے پرہیز کرو‘‘ ’’سچ بولو۔ غصے سے پرہیز کرو‘‘ دوسرے دن جب پڑھائی کا وقت ہوا تو درونا چاریہ نے پوچھا: کل کا سبق جس جس کو یاد ہوگیا ہو وہ اپنا ہاتھ بلند کردے۔ یہ سنتے ہی سب راجکماروں نے اپنا اپنا ہاتھ اُٹھا دیا۔ مگر یُدھشٹر سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ اور اُس نے اپنا ہاتھ کھڑا نہ کیا۔ درونا چاریہ نے کہا: آج کسی کو سبق نہیں دیا جائے گا۔ کل دیا جائے گا۔ پھر یُدھشٹر سے کہا: دیکھو کل تک تمھیں یہ سبق ضرور یاد ہوجانا چاہیے۔ یہ کہ کر شاہزادوں کو چھٹی دے دی۔ اور وہ ہنسی خوشی سے کھیلنے لگ گئے۔ مگر یُدھشٹر اپنے کمرے میں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتا جاتا تھا۔ اور بار بار اسی فقرے کو رٹتا جاتا تھا: ’’سچ بولو۔ غصہ سے پرہیز کرو۔‘‘ ’’سچ بولو۔ غصہ سے پرہیز کرو۔‘‘ رات کو جب سب سو گئے اُس وقت بھی یُدھشٹر اپنا سبق یاد کرتا رہا۔ ’’سچ بولو۔ غصہ سے پرہیز کرو۔‘‘ تیسرے دن جب پھر مدرسہ لگا۔ تو گورو نے پوچھا: کیوں یُدھشٹر! تمھیں سبق یاد ہوا یا نہیں؟ یُدھشٹر نے سر جھکا کر جواب دیا: مہاراج! ابھی تو نہیں ہوا۔ یہ سُن کر اس کے بھائی منہ پر رومال رکھ کر مسکرانے لگے۔ مگر گورو درونا چاریہ کو بہت غصہ آیا۔ چنانچہ اُس دن بھی کسی کو سبق نہ ملا۔ اور مدرسہ میں چھٹی ہوگئی۔ چوتھے دن، پانچویں دن اور چھٹے دن بھی یہی حال ہوا۔ گورو درونا چاریہ ہر روز پوچھتے تھے ’’کیوں یُدھشٹر! تمھیں سبق یاد ہوا یا نہیں؟‘‘ مگر یُدھشٹر ہر روز سر جھکا کر جواب دیتا تھا۔ مہاراج! ابھی تک نہیں ہوا۔ آخر ساتویں دن درونا چاریہ کو بہت غصہ آیا۔ اور انھوں نے طمانچے مار مار کر یُدھشٹر کا منہ لال کردیا۔ یُدھشٹر مار کھا کر چُپ ہو رہا۔ مگر دریودھن اس پر بہت حیران ہوا۔ اگر اُسے اس طرح مار پڑتی۔ تو وہ گورو کے سامنے کھڑا ہوجاتا۔ اور اُس کی بے عزتی کرنے سے بھی باز نہ آتا۔ آٹھویں دن بھی یُدھشٹر نے یہی جواب دیا کہ ’’مجھے یہ سبق ابھی تک یاد نہیں ہوا۔‘‘ اس لیے درونا چاریہ نے باقی بھائیوں کو آگے سبق دینا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مہینے کے بعد یُدھشٹر کے بھائیوں نے تو کتاب آدمی کے قریب ختم کرلی۔ مگر یُدھشٹر ابھی تک پہلے ہی سبق پر اڑا تھا: ’’سچ بولو- غصہ سے پرہیز کرو‘‘ (۲) ایک دن یُدھشٹر کے دادا مہاراج بھیشم پتامہ پاٹھشالہ میں آئے۔ اُنھوں نے سب شہزادوں سے اُن کا سبق سُنا۔ اور شہزادوں نے فرفر سُنا دیا۔ اس پر بھیشم پتامہ بڑے خوش ہوئے۔ مگر جب یُدھشٹر کی باری آئی۔ تو درونا چاریہ نے کہا یہ بڑا نکما لڑکا ہے۔ ایک مہینا ہوگیا ہے مگر اسے ابھی تک ایک فقرہ بھی یاد نہیں ہوسکا۔ میں بہت حیران ہوں کہ کل کو یہ راج کا کام کس طرح سنبھال سکے گا۔ اس پر بھیشم پتامہا نے کہا: کیوں یُدھشٹر! تم اپنا سبق نہیں یاد کرتے۔ بیٹا! تعلیم بڑی نعمت ہے۔ا س کے بغیر آدمی کو عقل نہیں آتی۔ اور تعلیم حاصل کرنے کا یہی وقت ہے۔ جب بڑے ہوجائو گے تو پھر پڑھنے پڑھانے کا وقت نہیں ملے گا۔ اُس وقت ہاتھ مل مل کر پچھتائو گے۔ مگر پچھتانے سے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ یُدھشٹر اسی طرح سر نیچا کیے کھڑا رہا۔ بھیشم پتامہ نے پھر کہا: ’’اِدھر آئو۔ اور میرے پاس کھڑے ہوکر بتائو کہ جب تمھارے دوسرے بھائیوں نے آدمی کتاب ختم کرلی ہے تو کیا وجہ ہے کہ تم کو ابھی تک پہلا ہی سبق یاد نہیں ہوا؟‘‘ یُدھشٹر نے جواب دیا: ’’بابا! سبق کا ایک حصہ ’’غصہ سے پرہیز کرو۔‘‘ مجھے یاد ہوگیا ہے۔ گورو جی سے پوچھ لیجیے۔ اُس دن جب انھوں نے میرے منہ پر طمانچے مارے تھے تو میں نے ذرا بھی غصہ نہیں کیا تھا۔ مگر سبق کا پہلا حصہ ’’سچ بولو‘‘ مجھے ابھی تک یاد نہیں ہوا۔ کبھی کبھی جھوٹ منہ سے نکل ہی جاتا ہے۔ جب تک دل سے جھوٹ کا خیال بھی دو رنہ ہوجائے تب تک میں کیسے کہ دوں کہ مجھے سبق یاد ہوگیا ہے اور خاص کر اس حالت میں جب کہ میرا سبق ہی یہ ہے: ’’سچ بولو- غصہ سے پرہیز کرو۔‘‘ بھائی دریودھن اور بھائی بھیم کو بھی یہ سبق ابھی تک یاد نہیں۔ مگر اُنھوں نے جھوٹ موٹ کہہ دیا ہے۔ میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ اور سچ سچ کہہ دیا ہے کہ مجھے ابھی تک اپنی زبان اور طبیعت پر قابو حاصل نہیں ہوا۔ یہ جواب سننا تھا کہ گورو درونا چاریہ اور بھیشم پتامہ کی آنکھیں کھل گئیں۔ اور اُن کو معلوم ہوگیا کہ یُدھشٹر معمولی لڑکا نہیں۔ اس کے بعد گوروجی نے اس کو کبھی سخت سست نہیں کہا اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’یہ لڑکا بڑا ہونہار ہے جو پڑھتا ہے، اُس پر عمل کرتا ہے۔ یہ میرا نام روشن کرے گا‘‘ اور جنھوں نے ہندوئوں کی مشہور کتاب مہابھارت کا کبھی مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ یُدھشٹر نے گورو درونا چاریہ کی امیدوں کو پرا کیا اور ساری عمر جھوٹ اور غصہ سے پرہیز کیا۔؎ سوالات ۱- درونا چاریہ کون تھا؟ اس نے راجکماروں کو سب سے پہلے کیا سبق کیا؟ ۲- یُدھشٹر ہر روز کیوں کہتا رہا کہ مجھے ابھی سبق یاد نہیں ہوا او ریہ کہنے سے اس کا حقیقی مطلب کیا تھا۔ اس واقعہ سے تعلیم کا حقیقی مفہوم کیا معلوم ہوتا ہے؟ ۳- اس سبق میں معرفہ کی کون کون سی قسمیں آئی ہیں؟ ۴- ’’پڑھتا ہے‘‘ کون سا فعل ہے۔ا س کے مونث صغیوں کی پوری گرداں کرو؟ …٭…٭…٭… ۵- ہندوستانی بچوں کا گیت غمخوار امداد تسکین غفلت ناز طوفان حاجت مایوس ہم بھارت ماتا کی سیوا میں تن من دھن کو لگا دیں گے ہم کیسے جواں ہیں بھارت کے یہ دنیا کو دکھلا دیں گے جب دنیا کو کچھ غم ہوں گے غمخوار جہاں میں کم ہوں گے دُکھ درد کے ساتھ ہم ہوں گے غم سارے جہاں کا مٹا دیں گے امداد کی حاجت ہوگی اگر ، امداد کو جائیں گے گھر گھر! تسکین اُداسی میں دے کر ہم روتوں کو بھی ہنسا دیں گے ہر دل میں کریں گے اپنا گھر ، ہیں ہم تو محبت کے پیکر ہر کونے کونے میں جا کر ہم پریم کے راگ سُنا دیں گے دُکھ میں نہ رونے دیں گے ہم مایوس نہ ہونے دیں گے غفلت میں نہ سونے دیں گے ہم سوتوں کو جگا دیں گے ہم نفس کو اپنے ماریں گے ہم جوش دلوں میں اُبھاریں گے جب جے بھارت کی پکاریں گے اک شور جہاں میں مچا دیں گے جب کوئی مسافر پائیں گے ہم اُس کے ناز اُٹھائیں گے سب گھر کے چین بھلائیں گے پردیس کو دیس بنا دیں گے کشتی جو بھنور میں پائیں گے طوفان کا جوش مٹائیں گے ہم ڈوبیں گے مر جائیں گے پر بیڑا پار لگا دیں گے سوالات ۱- بچے ملکی خدمت میں کیا کیا حصہ لے سکتے ہیں؟ اس نظم کی مدد سے جواب دو۔ ۲- ’’تن من دھن لگانا‘‘ اور ’’دل میں گھر کرنا‘‘ سے کیا مطلب ہے؟ ۳- مندرجۂ ذیل الفاظ کا مطلب بیان کرو۔ بھارت ماتا۔ تسکین۔ مایوس۔ جے ۴- اس سبق میں جس قدر ضمیریں آئی ہیں۔ اُن کی تحلیلِ صرفی کرو۔ …٭…٭…٭… ۶- زمین کی آبادی(۲) مستقل نجات امن و امان استعمال کاشت انتظام لیاقت قابض اب ان خانتوں کی ضرورتیں بھی ایسی ہوتی جاتی تھیں۔ جن کو لوگ صرف مل جل کر اور ایک جگہ رہ کر ہی پورا کرسکتے تھے۔ اس کے سوا اتنے بڑے بڑے گروہوں کا اکٹھے سفر کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اس لیے ان بڑے بڑے خاندانوں نے اچھی اچھی سرسبز و شاداب جگہیں تلاش کرکے وہاں مستقل طور پر رہنے کی تجویز سوچی۔ اور اپنے لیے چھوٹی چھوٹی بستیاں بنا لیں۔ جب اس زمانے کے لوگوں کو ان چھوٹی چھوٹی بستیوں میں آرام سے رہنا نصیب ہوا اور اُس خانہ بدوش زندگی سے ناجت ملی۔ تو یہ اپنے امن و امان سے گزارنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔ اب ان کو اس بات کی فکر ہوئی کہ کس طرح ان بستیوں کو اپنی ضرورتوں کے مطابق بنائیں۔ تاکہ پانی یا چارے کی کمی ان کو اور ان کے مویشیوں کو نہ ستائے۔ اُنھوں نے بڑھے بڑھے گڑھے کھود لیے تاکہ بارش کا پانی اُن میں جمع ہوجایا کرے۔ اور جب چشمے خشک ہوجائیں تو وہ اس پانی کو استعمال میں لاسکیں۔ اُنھوں نے گھاس اور دوسری زمین سے اُگنے والی پیداوار کو خود اپنی کوشش سے پیدا کرنے کی ترکیبیں سوچیں اور اس طرح کھیتی باڑی کا کام کرنا شروع کیا۔ اب تک یہ لوگن زیادہ تر گائے بھینس اور بکریوں کے دودھ یا اُس دودھ سے دوسری تیار کی ہوئی خوراک پر ہی گزارہ کرتے تھے۔ مگر اب اُن کو ایسی ایسی ترکاریاں اور ایسے ایسے غلے نظر آئے۔ جو اُن کی خوراک کا کام دے سکتے تھے۔ اس لیے اُنھوں نے اُن سب چیزوں کی زراعت بھی شروع کردی۔ آہستہ آہستہ ان کے پہننے کے کپڑوں میں بھی تبدیلی ہوگئی۔ا ور اب وہ پتوں اور چھال سے بدن ڈھانکنے کی جگہ درختوں کے ریشوں سے بنی ہوئی اور جانوروں کی کھالوں سے تیار کی ہوئی پوشاک پہننے لگے۔ ہر شخص اپنی اپنی ضرورت کے لیے خود ہی خوراک اور پوشاک کا انتظام کرلیتا تھا۔ اور رہنے کے لیے مٹی گارے اور پھونس کی جھونپڑیاں بنا لیا تھا۔ مگر بعد میں اس طرح الگ الگ انتظام کرنا مشکل ہوگیا۔ کیونکہ آدمی آدمی میں فرق ہوتا ہے۔ کوئی کسی کام کو اچھی طرح کرسکتا ہے۔ کوئی کسی دوسرے کام میں ہوشیار ہوتا ہے۔ آخرکار یہ قرار پایا کہ ایک بستی کے رہنے والوں کی تمام ضرورتوں کے تمام کاموں کو الگ الگ قسموں میں بانٹ دیا جائے اور ہر کام کے لیے ایک ایک گروہ مقرر کردیا جائے۔ چنانچہ کچھ آدمی کپڑا تیار کرنے کے لیے، کچھ کھیتی باڑی کرنے کے لیے، کچھ پانی جمع کرنے کے لیے مقرر کردیے گئے۔ اوّل اوّل تو ان کو ان خاندانوں کے بزرگوں نے چن لیا۔ مگر بعد میں کچھ ایسا رواج پڑا کہ ایک خاص کام کرنے والوں کی اولاد بھی وہی کام کرنے لگی۔ ہر شخص کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنا کام پوری لیاقت اور طاقت سے کرے۔ اس کے لیے اس کو کوئی مزدوری نہ دی جاتی تھی۔ بلکہ اُس کے کام کی یہی مزدوری تھی کہ اُس کے باقی کے کام دوسرے لوگ کردیتے تھے۔ مثلاً ایک شخص چار آدمیوں کے لیے کپڑے تیار کرتا۔ تو ان چاروں میں سے کوئی اُس کی خوراک، کوئی اُس کے پانی، کوئی اُس کی جھونپڑی۔ کوئی اس کے مویشی کے چارے کا انتظام کر دیتا تھا۔ گویا ایک شخص کا کام ایک قرض تھا جس کو ادا کرنے کے لیے دوسرے لوگ دوسری قسم کے کام کردیتے تھے۔ یہی بستیاں بعد میں بڑھتے بڑھتے گائوں اور قصبوں میں تبدیل ہوگئیں۔ جب بستیوں نے گائوں کی صورت اختیار کرلی اور گائوں اس طریق سے آباد ہوگئے تو ان کی آبادی کی تعداد کے مطابق ان کے درجوں میں بھی فرق پیدا ہوگیا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ان گائوں میں باشندوں کی زیادتی کے ساتھ کام میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ اور جب مختلف کام کاج کرنے والے جو محض تھوڑے باشندوں کے لیے کافی تھے۔ اس دن بدن ترقی کرنے والے کام کو نہ سنبھال سکتے تھے۔ تو ان کی تعداد میں بھی زیادتی کر دی جاتی تھی۔ مگر اُن میں بھی بعض تو ایسے گائوں تھے جو ایک دوسرے کے قریب تھے اور بعض ایسے جو ایک دوسرے سے دور۔ وہ گائوں جو ایک دوسرے سے بہت ہی قریب تھے، ترقی کرتے کرتے اور پھیلتے پھیلتے یک جا ہوگئے۔ یعنی ان گائوں کے مقررہ رقبے اور ان کی سرحدیں آپس میں مل گئیں۔ اور اگرچہ اپنے اپنے معاملات کے لحاظ سے یہ گائوں الگ تھے۔ مگر دیکھنے کو ایک ہی بڑی بستی معلوم ہوتے تھے۔ یہی وہ گائوں تھے جو بعد میں کاروبار کے مرکز بن گئے۔ اس زمانے میں خرید و فروخت کا طریق ایسا نہ تھا۔ جیسا اب ہے۔ یعنی لوگ روپے پیسے دے کر چیزیں نہیں خریدتے تھے۔ ہاں ہر چیز کا تبادلہ ہوسکتا تھا۔ اور یہی رواج اُس زمانے میں خرید و فروخت کا ایک طریقہ تھا۔ لوگ جنس کے بدلے جنس لے دے کر اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ اردگرد کے رہنے والے لوگ ایک خاص دن یا خاص موسم میں ان گائوں میں جمع ہوجاتے اور لین دین کرلیتے۔ اس سے دور دور کے رہنے والے بھی آسانی سے اپنے اپنے علاقے کی پیداوار کا تبادلہ کرسکتے تھے۔ ہوتے ہوتے اس قسم کے مختلف علاقے مقرر ہوگئے۔ جہاں قرب و جوار کے لوگ جمع ہوکر تجارتی کاروبار کرتے۔ یہی دستور تجارتی منڈیوں، میلوں اور نمایشوں کی بنیاد ہیں۔ مگر انسان دن بدن ترقی کررہا تھا او را س کی ضروریات بھی بڑھ رہی تھیں۔ اس لیے یہ دیکھا گیا کہ خاص خاص دنوں اور موسموں کی تجارتی منڈیاں قائم کرنے کا طریقہ لوگوں کے لیے سہولت کا باعث نہیں۔ کسی ضرورت کے معلوم ہوتے ہی اُس ضرورت کو پوراکرنے کے لیے انسان کا جی چاہتا ہے۔ اور ان مقررہ دنوں کے انتظار میں بیٹھے رہنا یقینا اس گائوں کے باشندوں کے لیے تکلیف دہ تھا۔ اس لیے عام طور پر یہ کاروبار کے مرکز جو حقیقت میں یا تو بڑے بڑے گائوں تھے یا چند چھوٹے چھوٹے گائوں کے مجموعے۔ عام طور پر ہمیشہ کے لیے تجارت کی منڈیاں بن گئے اور وہاں ہر روز تجارت ہونے لگی۔ یہی کاروبار کے مرکز یا تجارت کی منڈیاں بڑھتے بڑھتے اپنے باشندوں کی تعداد اور اپنے علاقے کے اور اپنے کاروبار کے لحاظ سے زیادہ ممتاز ہوگئیں اور اسی وجہ سے قصبے اور شہر کہلانے لگیں۔ سوالات ۱- اس سبق کے مضمون کی مدد سے بتائو کہ شہروں اور قصبوں کی بنیاد کس طرح پڑی؟ ۲- خانہ بدوشوں اور شہریوں کے لباس اور خوراک کا مقابلہ کرو۔ ۳- انسان کو کھیتی باڑی کی ضرورت کس طرح محسوس ہوئی۔ ۴- اس سبق میں اسم اشارہ کے کون کون سے لفظ ہیں اور ان کی اصلی حالت میں جو جو تبدیلی ہوئی ہے بیان کرو۔ ۵- ’’کرلیتا تھا‘‘ کون سا فعل ہے اور اُردو میں اس کے بنانے کا کیا قاعدہ ہے؟ …٭…٭…٭… ۷- صفائی بزم توقیر ظاہر و باطن خُرّمی مہ و انجم انہار شفاف ہر بزم میں توقیر دلاتی ہے صفائی بھاتی ہے ہر اک دل کو صفائی مرے بھائی میلا ہے اگر جسم تو دل صاف نہ ہوگا ظاہر کی صفائی سے ہے باطن کی صفائی کپڑے جو ہیں نا صاف تو ہے جسم بھی میلا تم جانتے ہو میل میں ہے کتنی بُرائی گر صاف رہیں ظاہر و باطن تو مزا ہے ہے دونوں جہانوں کی اسی میں تو بھلائی جو میلے کُچیلے ہیں وہ خوش رہ نہیں سکتے دلمیں نہ کبھی اُن کے ذرا خُرّمی آئی مہر و مہ و انجم کی طرف آنکھ اُٹھائو! قُدرت نے ہر اک چیز ہے کیا صاف بنائی گر صاف ہیں انہار تو شفاف ہیں چشمے آئینہ بھی پانی ہو اگر دیکھے صفائی سوالات ۱- اس نظم کی مدد سے صفائی کے فائدہ بیان کرو۔ اور بتائو کہ صفائی کیوں ضروری ہے؟ ۲- ظاہر و باطن صاف رہنے سے کیا مطلب ہے؟ ۳- ’’پانی ہونا‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ اس کو اپنے فقرے میں استعمال کرو؟ ۴- اس سبق میں اسم صفت اور اسم ظرف کون کون سے ہیں؟ …٭…٭…٭… ۸- راجہ ہریش چندر سنگھاسن دھرماتما شوہر نذرانہ بیہودگی شمشان قاتل تسلیم اصرار اُجدّھیا میں مہاراجہ رام چندر جی کی نسل سے ایک راجہ ہریش چندر نامی راج کرتا تھا۔ وہ ایسا نیک اور پاک دل تھا کہ لوگ اُسے دیوتا کہا کرتے تھے۔ اور اُس کے راج میں رہنما خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ راجہ ہریش چندر میں کئی خوبیاں تھیں۔ جن میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ ہمیشہ سچ بولتا تھا۔ اور جو زبان سے کہہ دیتا تھا۔ اُسے پورا کر دکھاتا تھا۔ ایک دن رشی وشوامتر اُس کے دربار میں آئے۔ اور کہنے لگے کہ :’’اے راجہ! میرا دل چاہتا ہے۔ کہ کچھ دنوں راج کروں۔ اس لیے تو اپنا راج مجھے دان کردے‘‘ ہریش چندر ہاتھ باندھ کر سنگھاسن سے نیچے اُتر آیا۔ اور سر جھکا کر بولا: ’’بہت اچھا مہاراج! تخت و تاج آپ لے لیں۔ میں نے دان کیا۔‘‘ وشوامتر نے ہنس کر کہا: ’’واقعی تو بڑا نیک اور دھرماتما ہے۔ دیوتا لوگ بھی تیری تعریف کرتے ہیں۔ تو نے میری خواہش پوری کی ہے پرماتما تجھے سکھی رکھے‘‘ یہ کہ کر وہ راج سنگھاسن پر بیٹھ گئے۔ ہریش چندر نے تاج رشی کے سر پر رکھ دیا۔ا ور شاہانہ لباس اُتار کر سادھوئوں کے کپڑے پہن لیے۔ جب وہ محل میں گئے تو رانی نے اُنھیں اس لباس میں دیکھ کر پوچھا: ’’سوامی! میں کیا دیکھ رہی ہوں‘‘ راجہ ہریش چند نے تمام واقعہ سنا کر کہا کہ ’’چلو کاشی جی چلیں۔ یہ محل اب ہمارا نہیں رہا‘‘ رانی تارا اپنے نیک شوہر کی دریا دلی کا حال سُن کر بہت خوش ہوئی۔ اور اُس نے زیور وغیرہ اُتار کر خود بھی ویسا ہی لباس پہن لیا۔ اُن کا ایک بیٹھا بھی تھا جس کا نام روہت تھا۔ اُسے بھی اُنھوں نے سادھوئوں کے کپڑے پہنا دیے۔ اور جس طرح ہزاروں سال پہلے اُسی اُجدّھیا سے سری رام چند جی سیتا اور لکشمن کے ساتھ بنوں کو روانہ ہوئے تھے۔ راجہ ہریش چندر بھی اپنے بیٹے اور بیوی کے ساتھ لے کر شہر سے باہر نکلے۔ آج بھی اُجدّھیا کے لوگ اُسی طرح رو رہے تھے۔ اتنے میں رشی وشوامتر راجہ ہریش چند کے پاس آئے اور کہتے لگے۔ راجن! یہ راج کا دان تو تم نے مجھے دے دیا۔ مگر میرا نذرانہ اب تک نہیں دیا۔ جب تک وہ نہ دو گے تب تک دان اُدھورا رہے گا۔ راجہ ہریش چند نے پوچھا: ’’مہاراج! نذرانہ کتنا چاہیے؟‘‘ ’’ایک ہزار اشرفی‘‘ ’’بہت بہتر مہاراج! ایک مہینہ میں یہ رقم بھی حاضر کردوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ تینوں کاشی کی طرف روانہ ہوگئے۔ ایک مہینے کے بعد وشوامتر پھر راجہ ہریش چند کے پاس جاپہنچے۔ او رکہنے لگے: ’’راجہ! مہینہ پورا ہوگیا۔ اب میرا نذرانہ دے دو‘‘ راجہ ہریش چندر نے جواب دیا: ’’مہاراج! میں نے بہت کوشش کی ہے۔ مگر کہیں نوکری نہیں ملی۔ نہ کسی نے قرض ہی دینا منظور کیا ہے۔ میرے پاس کو کھانے تک کے لیے بھی کچھ نہیں۔ ہزار اشرفی کہاں سے دوں؟‘‘ وشوامتر نے کہا: ’’تو تُو نے جھوٹ کہا تھا کہ ایک مہینہ میں دے دوں گا۔ اب دو ہی باتیں ہیں یا تو آج سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ہزار اشرفی دے دے۔ یا یہ کہہ دے کہ میں نے دیا ہوا راج واپس لے لیا۔ا ور خیال رکھ کہ میں بیکار آدمی نہیں کہ تیری ایک ہزار اشرفی کے لیے تیرے پیچھے پیچھے پھرتا رہوں گا۔ اس لیے شام تک انتظام ہوجائے‘‘ یہ کہہ کر وشوامتر رشی تو چلے گئے۔ مگر راجہ ہریش چند پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ بار بار سوچتا تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ اس وقت اُس کے دل میں ہزاروں خیال آتے تھے۔ مگر کوئی راستہ دکھائی نہ دیتا تھا ناچار رونے لگا۔ یہ دیکھ کر اُس کی بیوی تارا نے کہا: ’’مہاراج! آپ رو کیوں رہے ہیں؟ آپ نے جو اقرار کیا ہے اُسے پورا کرنا چاہیے۔ راجپوت کی پہچان تلوار اور زبان دو چیزوں سے ہوسکتی ہے۔ اگر آپ اس طرح گھبرا جائیں گے تو اقرار کیسے پورا ہوگا اور لوگ آپ کو کشتری کیسے کہیں گے؟‘‘ ہریش چندر نے پوچھا: ’’تُو ہی بتا۔ میں اس وقت کیا کرسکتا ہوں؟‘‘ تارا نے جواب دیا: ’’مجھے بیچ دیجیے۔ دھرم بچ رہے گا‘‘ یہ سُن کر ہریش چندر کا کلیجہ دہل گیا۔ اُسے تارا جان سے زیادہ عزیز تھی۔ مگر دھم اُس سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ اس لیے اُس نے یہ قبول کرلیا۔ کہ بیوی کو بیچ دوں۔ مگر یہ قبول نہ کیا کہ لوگ اُسے جھوٹے کے نام سے یاد کریں۔ شام کے وقت تارا بازار میں نیلام کی جارہی تھی۔ آخر ایک مہاجن نے پانسو اشرفی دے کر اُسے اور روہت دونوں کو خرید لیا۔ جدائی کے وقت تینوں کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جارہے تھے۔ مگر روہت کا مچلنا اور رونا سُن کر تو غیروں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے۔ ہریش چندر سوچنے لگا کہ پانسو اشرفیاں مل گئیں اب باقی کی پانسو کا انتظام کیسے ہوگا؟ تاکہ وشوامتر کا قرض اُتر سکے۔ اتنے میں وشوامتر سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ راجہ ہریش چندر کا جسم خوف سے کانپنے لگا۔ وشوامتر نے آتے ہی کہا: ’’ہریش چندر! میرے نذرانے کا انتظام ہوا یا نہیں؟ ہریش چند نے پانسو اشرفیاں رشی کے قدموں میں رکھ دیں۔ وشوامتر نے اشرفیاں گن کر کہا: ’’اور باقی پانسو؟‘‘ ہریش چندر نے جواب دیا: ’’بیوی اور بچے کو بیچ کر یہ انتظام کیا ہے۔ باقی کا بھی ہوجائے گا۔‘‘ وشوامتر نے غصہ سے کہا: ’’یہ کیا بیہودگی ہے؟ کیا نذرانہ دینے کا یہی طریقہ ہے؟ بابا! بیوی بچے کو بیچا ہے تو اپنے آپ کو بھی بیچ دے۔ اور باقی پانسو اشرفیاں بھی میرے حوالہ کر‘‘ ہریش چند اُسی وقت بازار میں کھڑے ہوگئے اور چلا چلا کر بولے کہ ’’میں بکنے کے لیے تیار ہوں۔ کوئی چاہے تو مجھے خرید لے۔ مول پانسو اشرفی‘‘ شمشان کے داروغہ کو ایک آدمی کی ضرورت تھی۔ اُس نے پانسو اشرفی اُسی وقت گن دی۔ اور کہا تم آج سے میرے غلام ہو۔ تمھارا کام یہ ہے کہ شمشان میں پہرہ دیا کرو۔ اور جو کوئی مردہ جلانے آئے۔ا ُس سے ایک روپیہ محصول لے لیا کرو۔‘‘ اس طرح بہادر ہریش چندر نے ہزار اشرفی وشوامتر کو دے دی۔ ادھر تو ہریش چندر شمشان میں مردے جلاتا تھا۔ اُدھر اُس کی رانی تارا مہاجن کے ہاں کام کاج کرتی تھی۔ مگر مہاجن اور اُس کی بیوی دونوں اُس سے ناخوش ہی رہتے تھے۔ اس سے تارا کو بہت تکلیف ہوتی تھی۔ بیچاری دن رات روتی تھی اور سوچتی تھی کہ کیا سے کیا ہوگیا۔ اپنے پرانے دن یاد کرکے اُس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ مگر مہاجن کی بیوی اُسے روتا دیکھ کر آگ بگولا ہوجاتی تھی۔ ایک دن شام کے وقت روہت باغ میں پھول توڑنے گیا۔ وہاں اُسے ایک سانپ نے ڈس لیا اور بے ہوش ہوگیا۔ بیچاری تارا کی نگاہوں میں دنیا اندھیر ہوگئی۔ وہ اُسے مردہ سمجھ کر جلانے کے لیے شمشان میں لے گئی۔ اُس وقت رات ہوچکی تھی۔ مگر بعض مردے ابھی تک جل رہے تھے۔ اور ہریش چندر ہاتھ میں لاٹھی لیے پہرہ دے رہا تھا۔ تارا اپنے بیٹے کی لاش لے کر وہاں روتی ہوئی آئی۔ اور لڑکے کو جلانے کے لیے آگے بڑھنے ہی کو تھی کہ ہریش چندر نے روکا: ’’اے عورت! پہلے ایک روپیہ دے دے پھر لڑکے کو جلانا‘‘ ہریش چندر مہتر کے لباس میں تھا۔ اس لیے تارا نے اُسے نہ پہچانا اور رو رو کر بولی: ’’مہاراج! میں غریب ہوں۔ میرے پاس روپیہ نہیں‘‘ ہریش چندر تارا کی شکل نہ پہچان سکا تھا۔ا ُسے غموں نے گھلا دیا تھا۔ مگر اُن نے اُس کی آواز پہچان لی۔ اور روتے ہوئے اُس کے گلے سے لپٹ گیا۔ تارا کو بھی آواز سُن کر کچھ شک سا ہوا تھا۔ اب یقین ہوگیا۔ وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ جب دل کا غبار نکل چکا تھا تو ہریش چندر نے کہا: ’’تارا جو ہونا تھا ہوچکا۔ا ب رونے سے کیا حاصل؟ روپیہ نکالو۔ اور روہت کے جسم کو آگ کے حوالے کرو۔‘‘ تارا نے جواب دیا: ’’میرے پاس تو ایک پیسہ تک نہیں۔ روپیہ کہاں سے لائوں؟‘‘ ہریش چندر نے کہا: ’’کہیں سے لائو۔ مگر جب تک روپیہ نہ لائو گی۔ نہ جلانے دوں گا۔ میرے مالک کا یہی حکم ہے‘‘ تارا نے لڑکے کی لاش وہیں رکھی اور روپیہ کے لیے بھیک مانگنے شہر کی طرف روانہ ہوئی۔ مگر جو کوئی اس کی بات سنتا تھا۔ وہی اُسے جھڑک دیتا تھا۔ لاچار وہ خالی ہاتھ واپس ہوئی۔ یکایک سپاہیوں نے آکر اُسے پکڑ لیا۔ اور وہاں کے راجہ کے پاس لے گئے۔ اُسی دن اُس راجہ کے لڑکے کو کسی نے قتل کردیا تھا راجہ نے حکم دیا تھا کہ اگر آدمی رات سے پہلے قاتل گرفتار نہ ہوگیا تو میں کوتوال کو قتل کرا دوں گا۔ کوتوال نے آدھی رات قریب دیکھ کر تارا کو گرفتار کرلیا۔ اور اُس پر قتل کا الزام لگا دیا۔ راجہ نے تارا سے پوچھا: ’’یہ قتل تم نے کیا ہے؟‘‘ تارا پر پے در پے آفتیں ٹوٹ رہی تھیں۔ وہ بے ہوش سی ہوگئی تھی۔ اُس کو معلوم نہ تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اس لیے وہ کچھ جواب نہ دے سکی۔ راجہ نے سمجھا کہ یہ اپنا قصور تسلیم کرتی ہے۔ اس لیے اُس نے حکم دیا کہ اسے ابھی شمشان میں لے جائو اور مہتر سے قتل کرا دو۔ سپاہی اُسے ہریش چندر کے پاس لے گئے۔ بیچارے پر اور مصیبت آگئی۔ مگر اُس نے اُف نہ کی۔ سوچا کہ یہ نوکری کا معاملہ ہے۔ مجھے جو حکم دیا گیا ہے اُس کی تعمیل کرنا میرا دھرم ہے۔ اس لیے اُس نے ایشور کا نام لیا اور تلوار مارنے ہی کو تھا کہ پیچھے سے کسی نے ہاتھ پکڑ لیا۔ ہریش چندر نے مڑ کر دیکھا تو وشوامتر تھے۔ اُس وقت اُن کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ اُنھوں نے ہریش چندر کو گلے سے لگا لیا اور کہا بیٹا! میں آزما رہا تھا۔ کہ تو کس حد تک دھرم کا پابند ہے۔ معلوم ہوا کہ دنیا جو تیری تعریف کرتی ہے وہ غلط نہیں ہے۔ اتنے میں کاش کا راجہ بھی وہیں آگیا۔ اُس نے جب سب حال سنا تو بہت شرمندہ ہوا۔ اور ہریش چندر سے معافی مانگنے لگا۔ روہت کی لاش ابھی تک پڑی تھی وہ حقیقت میں مرا نہیں تھا۔ صرف سانپ کے زہر کے اثر سے بے ہوش تھا۔ وشوامتر کے پاس سانپ کاٹے کی ایک کارگر دوا تھی۔ اُنھوں نے یہ دوا روہت کے جسم پر مل دی۔ سانپ کا زہر اُتر گیا اور وہ تندرست ہوگیا۔ ہریش چندر، تارا اور روہت کئی دن تک مہاراجہ کاشی کے مہمان رہے۔ اور اس کے اُجدّھیا کو واپس گئے۔ وشوامتر نے بڑے اصرار سے اُن کا راج اُن کے حوالے کیا۔ اور آپ بنوں کو عبادت کرنے کے لیے چلے گئے۔ سوالات ۱- راجہ ہریش چندر کی دریا دلی کا قصہ بیان کرو۔ اور اس سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ۲- رشی وشوامتر نے راجہ ہریش چندر کا امتحان کس طرح لیا۔ اور وہ اس امتحان میں کس طرح پورے اُترے؟ ۳- راجہ ہریش چندر کے اس واقعہ سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ۴- ’’غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑنا، آگ بگولا ہونا، نگاہوں میں دنیا اندھیر ہونا‘‘ کا مطلب بیان کرو؟ ۵- مندرجۂ ذیل الفاظ گریمر میں کیا کیا ہیں۔ خوش قسمت۔ کوشش۔ دیا ہوا۔ کیوں۔ بیچ دیجیے۔ …٭…٭…٭… ۹- شرافت خانوادہ دولت و حشمت مایۂ ہمت بارِ توطن عدم قصرِ شاہی عار مروت دست گاہ میں پوچھتا نہیں ہرگز تمھارا نام ہے کیا؟ نہ یہ کہ نام بزرگوں کا اور مقام ہے کیا؟ نہ خانوادہ سے مطلب نہ خانماں سے غرض یہاں تو نام سے کچھ ہے نہ ہے نشاں سے غرض تمھارے کام گر اچھے تو نام اچھے ہیں گھرانے اچھے ، گھر اچھے ، تمام اچھے ہیں جہاں کی دولت و حشمت کا یاں خیال نہیں امیر ہو کہ فقیر ، اس سے کچھ سوال نہیں کوئی امیر اگر ہے ، تو اپنے گھر بیٹھے بزرگ صاحب زر ہے تو لے کے زر بیٹھے یہاں تو مایۂ ہمت میں جو زیادہ ہے بزرگ امیر ہے اور خود امیر زادہ ہے مجھے نہیں ہے یہ پروا کہیں سے آئے کوئی کہیں سے بارِ توطن اُٹھا کے لائے کوئی جو پاک نہر ہے اور آب صاف چلتا ہے تو کیوں یہ پوچھیں کہ چشمہ کہاں نکلتا ہے درخت سے نہیں کچھ کام جس کے پھول ہو تم کمالِ اصل تو جب ہے کہ با اصول ہو تم عدم سے آن کے کس خاک پر گرے پہلے وہ کیا زمین تھی جس پر قدم پھرے پہلے گزارا تم نے لڑکپن ہے قصرِ شاہین میں کہ جھونپڑوں میں پلے خواری و تباہی میں مجھے نہ فخر ہے اُس کا نہ عار ہے اِس کی مگر تلاش ہے تو بار بار ہے اِس کی کہ رکھتے ہیں مُلکِ مروّت میں رسم و راہ ہو کیا؟ دکھاتے ہیں ہمتِ عالی میں دستگاہ ہو کیا؟ سوالات ۱- اس نظم کی مدد سے بتائو کہ اصلی شرافت کیا ہے۔ اور لوگ کس کو شرافت سمجھتے ہیں؟ ۲- آخری چار شعروں کا خلاصۂ مطلب اپنے الفاظ میں بیان کرو؟ ۳- مندرجۂ ذیل الفاظ کے معنی بیان کرو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں بیان کرو: دولت و حشمت۔ مایۂ ہمت، بااُصول۔ رسم و راہ۔ ۴- اس نظم میں کون کون سے لفظ مؤنث ہیں؟ …٭…٭…٭… ۱۰- زمین کی سرگذشت (۱) دلچسپ خوشنما نظامِ شمسی حرکت تحقیقات کششِ ثقل اصلیت وابستہ سورج اور زمین کو ہر روز تم دیکھتے ہو۔ کیا کبھی تم نے ان کی حقیقت پر بھی غور کیا۔ ان کی سرگذشت کو بھی سُنا۔ یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اسے سنو اور یاد رکھو۔ پہلے تو ایک ایسا زمانہ بھی تھا کہ ہر شخص کا یہ خیال تھا کہ زمین اور سورج جیسے نظر آتے ہیں، ویسے ہی ہیں۔ دنیا کے آغاز سے اسی شکل و صورت میں موجود ہیں۔ مگر جب لوگوں نے علم کی مدد سے ان کی تاریخ پر غور کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی دنیا کی ہر دوسری چیز کی طرح ترقی کرتے رہے اور ان کی شکل بھی تبدیل ہوتی رہی ہے۔ زمین اور سورج کی زمانۂ قدیم میں وہی حالت تھی جو آج ان چھوٹے چھوٹے خوشنما ستاروں کی ہے۔ جنھیں تم ہر رات آسمان پر چمکتا دیکھتے ہو۔ ننھی ننھی قندیلیں جو آسمان پر روشن ہیں۔ا ور ہمیں روشنی پہنچاتی ہیں۔ ان ستاروں سے مختلف ہیں۔ جنھیں صحیح معنوں میں ستارہ کہا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں یہ ایک باریک اور شفاف مادہ کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بادل ہیں۔ ان کی تعداد جہاں تک معلوم ہوسکی ہے کم از کم بارہ لاکھ ہے۔ ان میں کوئی بڑا ہے، کوئی چھوٹا۔ کوئی گول، کوئی چپٹا۔ کوئی صاف اور کوئی نکیلا۔ نظامِ شمسی کی حرکت اگر تم دیکھ سکتے تو تمھیں معلوم ہوتا کہ وہ ایک ہی طرف کو جاری ہے۔ یعنی تمام کے تمام سیارے سورج کے اردگرد قریب قریب ایک سطح پر گردش کرتے ہیں۔ پھر تم یہ دیکھ لیتے کہ سورج اور باقی کے سیارے ایک ہی مادہ سے بنے ہیں۔ کیا یہ معلوم کرکے یہ سوال تمھارے دل میں پیدا نہ ہوگا کہ ممکن ہے۔ کہ یہ زمین اور باقی کے سیارے بھی اس سورج کے جداشدہ حصے ہیں۔ جب ان باتوں کو دانائوں نے دیکھا۔ تو اُن کا بھی یہی خیال ہوا کہ کسی زمانے میں زمین اور باقی کے سیارے سورج سے علیحدہ ہوگئے ہوں گے اور جہاں تک تحقیقات کی گئی ہے، ثابت ہوگیا ہے کہ یہ خیال صحیح تھا۔ بلکہ اس بات کے ماننے میں کوئی دقت نہیں کہ سارے کا سارا نظامِ شمسی کسی زمانے میں اسی قسم کا چمکتا ہوا بادل تھا۔ جس قسم کے لاکھوں بادل چھوٹے چھوٹے ستاروں کی شکل میں روز آسمان پر نظر آتے ہیں۔ تم نے کئی مرتبہ گیند کو اُچھالا ہوگا۔ اور پھر اُسے زمین پر گرتے دیکھا ہوگا۔ مگر تم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ کیوں گرتا ہے۔ سُنو زمین میں ایک طاقت ہوتی ہے جس سے وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔ اسے کشش ثقل کہتے ہیں۔ سر آئزک نیوٹن ایک انگریز عالم نے ایک سیب کو درخت سے نیچے گرتے دیکھا۔ تو یہ سوال کیا کہ کیوں اُوپر کو نہیں اُٹھا۔ زمین پر کیوں گرا۔ اس کی عقل نے اُسے بتایا کہ زمین میں ضرور کوئی ایسی طاقت ہوگی۔ جس نے سیب کو اپنی طرف کھینچا۔ یہ اس نئی کشش کی دریافت کی ابتدا تھی۔ اب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ہر قسم کا بڑا مادہ ہر چھوٹے مادے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ کشش سورج چاند اور ہر دوسرے سیارے میں بھی موجود ہے۔ اور ان چمکتے ہوئے شفاف بادلوں میں بھی جن کا پہلے ذکر آچکا ہے۔ سر آئزک نیوٹن نے تو سیب کو زمین پر گرتے دیکھ کر یہ نتیجہ نکال کہ زمین میں کوئی نہ کوئی کشش ایسی ہے جو چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ مگر اس کے ایک پیرو نے جس کا نام مرشل تھا۔ اپنی تمام عمر اسی کشش کی اصلیت دریافت کرنے میں صرف کردی۔ وہ دن رات بڑی بڑی دور بینیں لیے پھرتا رہتا تھا یہی وہ شخص ہے۔ جس نے آسمان پر چمکنے والے ستاروں کی ایک بہت بڑی تعداد کو دریافت کیا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ آسمان ایک ایسے باغ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کے پھل، پھول اور پودے موجو دہیں۔ اور جو اپنی ترقی کی مختلف منزلیں طے کررہے ہیں۔ ایک شفاف بادل کو ایک روشن اور بڑا ستارہ بننے کے لیے قریب قریب ویسی ہی ترقی کرنی پڑتی ہے جیسی کہ ایک چھوٹی سی کلی کو ایک خوبصورت پھول بننے کے لیے یا ایک چھوٹے سے پودے کو ایک خوشنما اور بڑا درخت بننے کے لیے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ جس طرح زمین کی اندرونی کشش پھولوں اور پودوں کو زمین کے ساتھ وابستہ رکھتی ہے۔ اسی طرح آسمانوں پر بھی یعنی ان شفاف اجسام میں بھی ایک کشش موجود ہے۔ جو اُن کو خاص فاصلوں پر قائم اور ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے۔ گویا اُس نے نظامِ شمسی کی اس کشش کا راز دریافت کیا۔ جس کی وجہ سے تمام سیارے قائم ہیں۔ اور معینہ فاصلوں پر رہ کر گردش کرتے ہیں۔ حقیقت میں دنیا میں کوئی چیز ساکن نہیں ہر شے ہر وقت حرکت کرتی رہتی ہے۔ اگر کوئی کشش ان بڑے سیاروں کو کھینچے ہوئے نہ رکھتی تو یقینا یہ حرکت سے آپس میں ٹکرا جاتے اور دنیا کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ بس دنیا کے قیام کے لیے جیسے حرکت ضروری ہے ویسے ہی کشش بھی لازمی ہے۔ تاہم فضا ایسے چھوٹے چھوٹے اجسام سے بھری ہوئی ہے۔ جن کو انسان خوردبین کے بغیر نہیں دیکھ سکتا اور جو ہر وقت حرکت میں رہتے ہیں اور بعض اوقات آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔ ٹکر سے رگڑ پیدا ہوتی ہے اور رگڑ کا لازمی نتیجہ گرمی ہے۔ دیا سلائی کو جب جلاتے ہو تو اُسے کسی چیز سے رگڑتے ہو۔ اس رگڑ سے اتنی حرارت پیدا ہوجاتی ہے۔ جو دیا سلائی کو جلاسکے۔ یہ تو تم جانے ہو کہ رگڑ کے لیے حرکت کی سب سے پہلے ضرورت ہے۔ اگر تم نے ان باتوں کو یعنی حرکت، کشش، رگڑ اور حرارت کے ان سیدھے سادے اُصولوں کو سمجھ لیا ہے تو تمھارے لیے زمین کی سرگذشت کا سمجھ لینا مشکل نہ ہوگا۔ سوالات ۱- نظامِ شمسی سے کیا مراد ہے؟ ۲- کششِ ثقل کس نے اور کس طرح دریافت کی؟ ۳- اس سبق میں اسم صفت کون کون سے ہیں؟ تم ان کے ساتھ اپنی طرف سے ایک ایک موصوف لگائو۔ ۴- ’’ہوگئے ہوں گے‘‘ کون سا فعل ہے؟ اس کے بنانے کا قاعدہ بیان کرو۔ اور لکھنا مصدر سے اس کی پوری گردان کرو۔ …٭…٭…٭… ۱۱- دہنا ہاتھ سرد مہری اربابِ غرض رازقِ مطلق مروّت کوتاہیِ قسمت اَوج اخترِ قسمت اقربا اتفاقاتِ زمانہ کا ہوا میں جو شکار زندگانی مری افلاس نے کر دی دشوار جستجو ایسے کسی دوست کی تب مجھ کو ہوئی پائیں انجام مرے کام مدد سے جس کی کامیابی نہ ہوئی اس میں کسی طرح مجھے آشنا چلنے لگے آنکھ چرا کر مجھ سے ہمنشیں کرنے لگے سب مری صحبت سے گریز غیر تو ایک طرف کرتے تھے اپنے پرہیز تھا مرے پاس سے دم بھر جنھیں جانا مشکل ہو گیا اُن کو مرا پاس بٹھانا مشکل گرمجوشی سے جو ہر دم مرا دم بھرتے تھے سرد مہری سے وہ اربابِ غرض چلنے لگے مشورے گو مجھے دیتے تھے نہایت اچھے خوف بیٹھا تھا یہ دل میں کہ نہ کچھ مانگ اُٹھے بیکسی میں نہ کوئی جب پیٔ امداد آیا عقل نے رہبری کی جب تو خدا یاد آیا میں نے سوچا کہ ہو کیوں غیر کی پروا مجھ کو چاہیے رازقِ مطلق پہ بھروسا مجھ کو! جاکے پھیلائوں کسی دوست کے آگے کیا ہاتھ پاس ہے دوست مرے ایک مرا دہنا ہاتھ میرا ہر دم کا شریکِ غم و راحت ہے یہی میں بھروسا نہ کروں اس پہ قیامت ہے یہی میری امداد کرے گا یہی اس آفت میں ہے یہ وہ دوست کہ کام آتا ہے ہر حالت میں کام غفلت سے جو بگڑے ہیں سنوارے گا یہی بحرِ افلاس میں ڈوبا ہوں اُبھارے گا یہی خاک دنیا پہ مروّت کا گماں کوئی کرے کس طرح ریگ پہ تعمیرِ مکاں کوئی کرے یہ خیال آتے ہی دل بڑھ گیا ہاتھوں میرا حوصلے دل کے دیے ہمتِ عالی نے بڑھا نہ رہا شکوۂ کوتاہیِ قسمت مجھ کو لے اُڑی اَوج پہ بے پر مری ہمت مجھ کو پھر کسی کام کے کرنے میں مجھے عار نہ تھی پیش آئی کوئی مشکل تو وہ دشوار نہ تھی تھا قومی ہاتھ باندازۂ ہمت میرا پھر اُسی اَوج پہ تھا اخترِ قسمت میرا پھر وہی دوست جو کترا کے چلا کرتے تھے آشنا وہ کہ نہ بھولے سے ملا کرتے تھے ہمنشیں وہ کہ جنھیں ننگ تھی صحبت میری اقربا وہ جنھیں بھاتی تھی نہ صورت میری آشنائی کا اُسی طرح سے دم بھرنے لگے پھر زبانی وہ زر و مال فدا کرنے لگے! بے وفائی نہ کرے جو نہ کبھی چھوڑے ساتھ! دوست ہے وہ مرا پیارا یہ مرا داہنا ہاتھ آسرا تو نہ یہاں اور کسی کا کرنا ایک فقط قوتِ بازو پہ بھروسا کرنا سوالات ۱- اس سبق سے ہمیں کیا کیا سبق حاصل ہوتے ہیں؟ ۲- دم۔ ہاتھ پھیلانا کے معنی بیان کرو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو؟ ۳- ’’خاک دُنیا پہ مروّت کا گماں کوئی کرے۔‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۴- مندرجۂ ذیل کلمات قواعد میں کیا کیا ہیں: جستجو۔ ہمنشیں۔ بحر۔ ۵- اُبھارے گا، کون سا فعل ہے۔ اس کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۱۲- زمین کی سرگذشت (۲) غیر مسطح وثوق متحرک خصوصاً اب ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ یہ معلوم کریں کہ کرۂ ارض کی شکل ابتدا میں کیسی تھی۔ بعض لوگ جنھوں نے اس امر پر غور کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ زمین کی شکل ابتدا میں ناشپاتی کی طرح لمبوتری اور غیر مسطح ہوگی۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کی شکل ایک سنگترے کی مانند چپٹی اور غیر ہموار ہوگی۔ بہرحال ہم یہ بات کسی قدر وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ زمین کی شکل شروع میں ایسی نہ تھی۔ جیسی اب ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ زمین کی شکل بھی سورج کی ہو۔ اگرچہ سورج کے مقابلے میں زمین کا رقبہ کوئی حقیقت نہ رکھتا ہو۔ زمین ہقیقت میں اس مٹی یا پانی کا نام نہیں ہے جو سمندروں اور براعظموں کی شکل میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ بلکہ اُن کے ساتھ وہ تمام فضا بھی ہے جو پانی اور زمین کے اُوپر ہے۔ اور جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ یہ کرۂ زمین کے ساتھ سورج کے اردگرد چکر لگاتی ہے۔ اور اس حرکت کے دوران میں زمین کے ساتھ ساتھ لچک جاتی ہے گویا یہ کہنا بیجا نہ ہوگا۔ کہ ہوا بھی کرۂ زمین کا ایک حصہ ہے۔ جہاں تک معلوم ہوسکا ہے۔ یہ کرۂ ہوائی زمین کے کرۂ آبی اور کرۂ خاکی سے سو میل کے قریب بلندی تک موجود ہے۔ جب ہوائی جہاز میں اس کرۂ ہوائی میں سفر کرتے ہیں۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم جس قدر اُونچے اُڑتے جاتے ہیں۔ اُسی قدر ہوا لطیف ہوتی جاتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کم ہوتی جاتی ہے۔ گویا ایک درجہ ایسا بھی آسکتا ہے جہاں ہوا بالکل موجود نہ ہو۔ اسی طرح کرۂ خاکی اور کرۂ آبی کے متعلق بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ کرۂ زمین چمکدار گیس کا ایک کرہ تھا۔ جس میں گرمی، ہرکت اور لچک موجود تھی۔ یہ اُن چھوٹے چھوٹے ذرّوں سے مرکب تھا۔ جو اس حرکت یا رگڑ سے گرم ہوتے تھے۔ گرمی سے اُن میں نرمی اور لچک پیدا ہوگئی۔ اور اُنھوں نے پانی، مٹی، چٹان ہوا اور دوسری جاندار اشیا کی صورت اختیار کرلی۔ ہوا حقیقت میں گیسوں کا مرکب ہے جو ایک گرم اور نرم غلاف کی طرح کرۂ زمین کو ڈھانپے رکھتا ہے۔ اگر تم اس قدر سمجھ گئے ہو۔ تم تمھارے لیے یہ سمجھ لینا مشکل نہیں۔ کہ جس طرح مچھلیاں پانی کے سمندروں کی تہ میں رہتی ہیں۔ ہم ہوا کے ایک وسیع سمندر کی تہ میں چلتے پھرتے ہیں۔ اب انسان نے عقل اور علم کے ذریعے ہوائی جہازوں وغیرہ سے اس ہوا کے سمندر کی سطح پر تیرنا سیکھا ہے۔ جیسے کہ پرندے مچھلیوں کی طرح مشینوں کی مدد کے بغیر شروع سے اس ہوائی سمندر میں تیرتے تھے۔ فرق اتنا ہی ہے کہ تیرنے کو اُڑنا کہتے ہیں۔ اب رہا زمین کی حرکت کا سوال۔ ہم یقین سے کبھی نہیں کہہ سکتے کہ زمین حرکت کررہی ہے۔ کیونکہ نہ تو ہم اس حرکت کو محسوس کرتے ہیں اور نہ خود اس حرکت کی وجہ سے محترک ہوتے ہیں۔ مگر اس کا جواب بالکل آسان ہے۔ تم جب ریل میں سوار ہوکر سفر کرتے ہو۔ تو تم یہ نہیں بتاسکتے کہ آیا تمھاری گاڑی حرکت کررہی ہے یا وہ زمین جو تمھاری نظروں کے سامنے ہے۔ اس بات کو تم خصوصاً اُس وقت محسوس کرتے ہو۔ جب راستہ میں ایک دوسری گاڑی بھی اُسی طرف جاتی ہوئی مل جاتی ہے۔ تم یہی سمجھ لیتے ہو کہ دوسری گاڑی حرکت میں ہے۔ حالانکہ تمھاری اپنی گاڑی حرکت میں ہوتی ہے۔ پھر تم نے ریلوے اسٹیشنوں پر اکثر دیکھا ہوگا کہ جب دو گاڑیاں کھڑی ہوں اور دوسری گاڑی حرکت کرے تو تم یہی سمجھتے ہو کہ تمھاری گاڑی چل رہی ہے۔ یعنی دوسری گاڑی کی حرکت سے تم محسوس کرنے لگے جاتے ہو کہ تمھاری گاڑی حرکت کررہی ہے۔ پس اپنی حرکت کو محسوس کرنے کے صرف دو ہی طریقے ہوئے کہ یا تو انسان کسی حرکت کرنے والی چیز کو جس میں وہ خود سوار ہو۔ حرکت کرتے ہوئے محسوس کرے یا دوسری اشیا کو جو نظر حرکت کرتے دیکھ کر اپنی حرکت کا اندازہ لگائے۔ اب اگر ہم کشتی یا ریل گاڑی یا موٹر یا ہوائی جہاز پر سوار ہوں۔ تو ان کی ذاتی حرکت کو بھی محسوس کرسکتے ہوں۔ مگر زمین پر سوار ہونے کے باوجود ہم خود اس کی حرکت کو محسوس نہیں کرسکتے۔ اس لیے اس کی حرکت دریافت کرنے کا اب صرف ایک ہی طریقہ باقی رہا۔ یعنی ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ آیا وہ اشیا جو ہمیں نظر آتی ہیں۔ حرکت کرتے ہوئی معلوم ہوتی ہیں یا نہیں ہم روز دیکھتے ہیں کہ جب ہم آسمان پر نظر ڈالیں تو سورج ستارے چاند سب حرکت کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بالکل وہی حالت ہے جب ہم اپنی حرکت کرنے والی گاڑی کو ساکن اور دوسری ساکن گاڑی کو متحرک سمجھ لیتے ہیں۔ حقیقت میں سورج حرکت نہیں کرتا۔ بلکہ زمین جس پر ہم گویا کہ سوار ہیں۔ حرکت کرتی ہے۔ ہم اس وجہ سے کہتے ہیں کہ سورج طلوع ہوا یا سورج غروب ہوگیا۔ حالانکہ نہ تو سورج نکلتا ہے نہ چھپتا ہے۔ بلکہ اصلیت یہ ہے کہ زمین خود ایک لٹو کی طرح چکر لگاتی رہتی ہے۔ اگر تم ایک کرۂ زمین کا نقشہ لے کر اس امر کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ تو تم پر زمین کی اس حرکت کا حال روشن ہوجائے گا۔ مگر زمین بھی ایک قسم کی حرکت نہیں کرتی۔ بلکہ تین مختلف اقسام کی حرکتوں سے متحرک رہتی ہے۔ پہلی حرکت تو وہ ہے جس کی وجہ سے دن رات واقع ہوتے ہیں۔ اور ہمیں سورج نکلتا اور چھپتا نظر آتا ہے۔ اب اگر تم ایک گیند لے کر اس امر کو سمجھنے کی کوشش کرو تو زیادہ اچھا ہو۔ ایک طرف ایک جلتی ہوئی موم بتی لے کر رکھو۔ اور گیند کو اس کے سامنے رکھ کر چکر دو۔ جو طرف بتی کے سامنے ہوگی روشن ہوجائے گی۔ اور جو طرف بتی سے دور ہوگی۔ تاریک رہے گی۔ اب اگر تم اس گیند کو برابر چکر دیتے رہو۔ تو تم دیکھ لو گے۔ کہ کچھ عرصے کے بعد وہ جگہ جو روشن تھی تاریک ہوگئی اور جو حصہ پہلے تاریک تھا روشن ہوگیا۔ یہی وہ حرکت ہے۔ جس سے دن رات واقع ہوتے ہیں۔ سوالات ۱- زمین ہمیں گول کیوں نظر نہیں آتی؟ ۲- دن رات کے پیدا ہونے کو کس طرح سمجھا سکتے ہو؟ ۳- اس سبق میں کون کون سے فعل حال آئے ہیں؟ اُن کے مصدر اور مضارع بتائو؟ ۱۳- پہلے کام بعد میں آرام اندیشۂ انجام تلخیِ ایام دورِ راحت مفلس و نادار کامیابی کی تمنا ہے اگر کام کرو مرد کہلائو زمانے میں بڑا نام کرو وقتِ آغاز سے اندیشۂ انجام کرو کام کا لطف ہے جب صبح سے تاشام کرو پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو کام کے وقت جو آرام کیا کرتے ہیں آخرکار وہ ناکام رہا کرتے ہیں سخت نادان ہیں وہ لوگ بُرا کرتے ہیں ہم تو دانائوں سے یہ قول سُنا کرتے ہیں پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو لطف آرام میں ملتا ہے بہت کام کے بعد کام کرنے میں مزا آتا ہے آرام کے بعد دن کو جو سوئے تو کیا سوئے گا وہ شام کے بعد دورِ راحت کا مزا تلخیِ ایام کے بعد پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو جس کو آرام سے ہر وقت سروکار رہے فکرِ آرام میں جو کام سے بیزار رہے کیا تعجب ہے کہ وہ مفلس و نادار رہے کاہل و خستہ و درماندہ و لاچار رہے پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو چھوڑتے کام اُدھورا نہیں ہمت والے کام پورا نہیں کرتے کبھی راحت والے بازی لے جاتے ہیں جو لوگ ہیں محنت والے ہار جاتے ہیں سدا سسُتی و غفلت والے پہلے تم کام کرو بعد میں آرام کرو سوالات ۱- سچی خوشی کس کو کہتے ہیں؟ ۲- ’’بازی لے جانا‘‘ کو اپنے فقرے میں استعمال کرو؟ ۳- ’’جس کو آرام سے ہر وقت سروکار رہے‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۴- اس نظم میں جو جو ضمیری آئی ہیں بتائو؟ …٭…٭…٭… ۱۴- جیمس فرگسن علم نجوم منجم اوصافِ حمیدہ ذہانت محور جیمس فرگسن ایک مزدور کا بیٹا تھا۔ جو سکاٹ لینڈ میں شہر بینفشائر کے موضع کیتھ سے کچھ میل کے فاصلہ پر رہتا تھا۔ اس کا باپ غریب مگر ایماندار شخص تھا۔ ان کے خاندان میں مذہب کی روشنی ہوتی تھی اور محبت کا فانوس جلتا تھا۔ جیمس کے باپ کا دستور تھا کہ وہ اپنے اُن بچوں کو جن کی عمر وہ پڑھنے لکھنے کے لائق سمجھتا تھا، تعلیم دینا شروع کرتا تھا۔ جیمس کے اور بھائی بہن بھی تھے۔ یہ اُن سب سے چھوٹا تھا۔ سوائے جیمس کے اور سب بھائی بہن اپنے باپ سے پڑھا کرتے تھے۔ جیمس بیچارہ اُن کے پڑھنے پر دھیان رکھتا تکھا۔ اور جب تنہا ہوتا تھا تو خود ہی اپنے بھائی بہنوں کے سبقوں کو پڑھا کرتا تھا۔ اور جس جگہ کچھ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ وہ اپنے پڑوس کی ایک ضعیف عورت سے پوچھا لیتا تھا۔ اس طرح پوشیدہ طور پر پڑھتے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا۔ ایک دن جب وہ تنہائی میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس کے باپ نے چپکے چپکے اندر داخل ہوکر اُسے کتاب پڑھتے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ اپنے ننھے بچہ کی ذہانت اور لیاقت دیکھ کر بہت متعجب ہوا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی جب جیمس سات برس کا ہوا تو اس کا باپ ایک دن اپنے مکان کی چھپ کی مرمت کرنے بیٹھا۔ کیونکہ چھت گر پڑی تھی۔ اس نے ایک کڑی کے ذریعہ چھت کو اٹھا دیا۔ اور شکستہ حصہ کے تلے ایک نیا شہتیررکھ دیا۔ چھوٹے جیمس کو یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا اور غور و فکر میں غرق ہوگیا۔ کچھ دنوں کے بعد سوچتے سوچتے اس نے تین مشین کی طاقتیں بغیر کسی مطالعۂ کتاب دریافت کرلیں۔ پہیہ اور محور وغیرہ کی یہ طاقتیں معلوم کرکے اس نے سوچا کہ یہ باتیں اور لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔ اس لیے ان کا حال کسی کتاب میں لکھنا چاہیے۔ اسی خیال سے اس نے اس کا نقشہ کھینچنا اور حال لکھنا شروع کیا۔ مگر اس کو بہت نااُمیدی ہوئی جبکہ اُس نے اپنے ایک ہمسایہ کی زبانی یہ سُنا کہ یہ چیزیں لوگوں کو پیشتر سے معلوم ہیں اور اُن کا حال کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ کیتھ کے پادری مسٹر گلکرائسٹ کے مکان پر گیا۔ وہاں اس نے باورچی خانہ میں ایک ڈچ گھڑی دیکھی۔ ایک ملازم اس گھڑی کو صاف کررہا تھا۔ جیمس نے گھڑی کے اندرونی کل پرزوں کو اچھی طرح دیکھا۔ اور اب وہ اسی غور و فکر میں محو ہوگیا۔ اُس کے ایک ہمسایہ نے اُس کو پنڈولم کو نقشہ کھینچ دیا اور بتایا کہ کس طرح گلیلیو نے جو ایک اطالوی فلاسفر تھا۔ا یک دن گرجا میں لمپ کو اِدھر اُدھر جھولتے دیکھ کر اس سے وقت معلوم کرنے کا ارادہ کیا۔ ان چند اشارات سے فرگسن نے ایک نئی قسم کی گھڑی بنائی۔ ایک دن شام کو جب جیمس کا باپ گھر آیا تو جیمس گھڑی ختم کرچکا تھا۔ اور وہ مکمل ہوگئی تھی۔ گھڑی کو دیکھ کر باپ کو جو خوشی ہوئی۔ اس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہی جیمس کی صحت خراب ہوگئی۔ اس لیے صحت کے اچھے ہونے اور کسب معاش کی اُمید میں اُسے ایک ہمسایہ کاشت کار کی بھیڑیں چرانے کو جانا پڑا۔ وہ رات کے وقت تاروں بھرے آسمان کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ اس کے پاس کانچ کے کچھ ٹکڑے تھے۔ ان کے ذریعے اس نے تاروں کا فاصلہ معلوم کیا۔ اور اُن کے حالات اور نقشے کتاب میں درج کرتا گیا۔ ایک دن جب اُس کے آقا نے ان نقشوں کو دیکھا تو وہ پہلے پہل تو بہت ہنسا۔ لیکن پھر بعد میں اُس سے خوش ہوکر اُسے بہت آسان اور کم کام دینے لگا۔ اور اس طرح مطالعہ کے لیے زیادہ وقت جیمس کو مل گیا۔ بعد میں فرگسن نے اپنے ایک لیکچر کے دوران میں کہا تھا کہ میرے دل میں اپنے سابق آقا مسٹر جیمس گلیشن کی ہمیشہ عزت رہے گی۔ نوجوان فرگسن کا یہ مطالعہ اُسے مسٹر گرانٹ کے پاس لے جانے میں مددگار ثابت ہوا۔ جن کے پاس ایک عالم خانساماں تھا۔ فرگسن مسٹر گرانٹ کے یہاں ملازم ہوگیا۔ اور خانساماں کینٹلے سے مختلف شاخ ہائے علوم میں واقفیت حاصل کی۔ کینٹلے نے فرگسن کو بتایا کہ زمین کی شکل نارنگی کے مانند ہے۔ فرگسن نے اس کی مدد سے نہ صرف نقشہ کھینچنا سیکھ لیا بلکہ اس نے ایک گلوب بنا لیا۔ جس کی مدد سے اپنے مسئلوں کو حل کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ ڈاکٹر ینگ کی ملازمت میں رہا۔ مگر تندرستی خراب ہونے کی وجہ سے وہاں سے علیحدہ ہوگیا۔ گھر پر بیماری کی حالت میں بھی اُس نے اپنے مطالعہ کو جاری رکھا اور بہت ترقی کی۔ اس وقت اس نے ویل مچھلی کی ہڈی کے سپرنگ کی ایک گھڑی بنائی۔ بدقسمتی سے وہ ایک ہمسایہ کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی۔ اس سے فرگسن کو بہت صدمہ پہنچا۔ لیکن ان خداداد قابلیتوں کے باوجود بھی اس کے لیے کوئی خاص ذریعۂ معاش نہ تھا۔ پس اس نے نقشہ نویسی شروع کی۔ اس طرح کچھ روپیہ کماکر وہ اڈنبرا گیا اور وہاں کام کرنے لگا۔ آخر عمر میں اُس نے اپنی توجہات صرف علم نجوم پر صرف کردیں۔ اس نے سکاٹ لینڈ اور لندن کے بڑے بڑے شہروں میں لیکچر دیے۔ جارج چہارم خود تعلیم یافتہ منجموں کے لیکچروں کے سننے کا بڑا شائق تھا۔ لندن کی رائل سوسئٹی نے ۱۷۷۰ء میں اُسے ممبر بنایا۔ فرگسن نے اپنے علم پر مفید اور کارآمد کتابیں لکھیں۔ اس کے بعد میڈم ڈی جینلس لوئی فلپ ولی عہد فرانس کے لیے اسے ملازم رکھ لیا۔ اس طرح یہ گڈریے کا لڑکا بادشاہوں کا اُستاد بن گیا۔ اب گورنمنٹ سے اُسے پنشن ملنے لگی۔ ۱۷۷۶ء میں ۶۶برس کی عمر میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کے مرنے کا سب کو رنج ہوا۔ سب لوگ اُس سے محبت اور اُس کی عزت کرتے تھے۔ صرف خداداد لیاقت کے لیے نہیں۔ بلکہ متعدد اوصافِ حمیدہ کے لیے۔ سوالات ۱- جیمس فرگسن نے جو جو چیزیں اپنی عقلِ خداداد سے بنائیں بیان کرو؟ ۲- ’’اُن کے خاندان میں مذہب کی روشنی ہوتی تھی اور محبت کا فانوس جلتا تھا‘‘ کا مطلب بیان کرو؟ ۳- غور و فکر۔ متعجب۔ علیحدہ۔ خداداد۔ کو فقروں میں استعمال کرو؟ ۴- اس سبق میں جتنے اسم معرفہ آئے ہیں۔ بیان کرو۔ …٭…٭…٭… ۱۵- مکڑی اور مکھیاں القصہ آخرش شکارِ مگس بتیاب تنہا خوری طواف (۱) کہیں ایک مکڑی نے جالا تنا نہایت ہی باریک سے تار کا وہ باریک ایسا کہ اُنگلی پہ لو تو چھونے سے ہرگز نہ محسوس ہو اِدھر سے اُدھر اَور اُدھر سے اِدھر وہ مکڑی بناتی رہی اپنا گھر پس و پیش القصہ اور پیش و پس بنا جال بہرِ شکارِ مگس (۲) بہت خوشنما اور چمکتا ہوا وہ مکڑی کا گھر آخرش بن گیا اُسے دیکھنے آگئیں مکھیاں کھڑا دھوپ میں جھولتا تھا جہاں اِدھر سے اُدھر اَور اُدھر سے اِدھر لگی مکھیاں ناچنے سر بسر کبھی تیر آسا گزر کر گئیں پلٹ کر کبھی کھا کے چکر گئیں (۳) وہ مکڑی کہ تھی بھوک سے بیقرار رہی گھات میں اَور کیا انتظار وہ ڈالا کہ ہر اِک طرف کو نظر کہ آنکھوں سے تھا پٹ رہا اس کا سر رہیں مکھیاں گھیرا ڈالے مگر اِدھر سے اُدھر اَور اُدھر سے اِدھر ابھی آگے تھیں اور پیچھے ابھی ابھی اُوپر اُوپر تھیں نیچے ابھی (۴) کہا ایک مکھی سے مکڑی نے یوں کہ بی! بھوک سے سخت بیتاب ہوں مرے گھر میں تشریف لائو ذرا مرے ساتھ مل جل کے کھائو ذرا نہیں مجھ کو بھاتی ہے تنہا خوری کہ تنہا خوری کی ہے عادت بری اُڑا کیں بدستور وہ سب مگر اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر یہاں سے وہاں اور پھر ناگہاں پلٹ کر اُڑیں اِک طرف مکھیاں (۵) یہ تم دیکھتے ہو کہ وہ مکھیاں تھیں ہشیار جالے میں جاتیں کہاں وہ جالے کا کرتی رہیں گو طواف مگر دور کھنچتی گئیں صاف صاف وہ چکر پہ چکر لگاتیں چلیں بہم ناچتی اور گاتی چلیں اِدھر سے اُدھر اور پھر ناگہاں پلٹ کر پرے اُڑ گئیں مکھیاں سوالات ۱- مکڑی جالا کیوں بناتی ہے؟ مکھیاں اُس میں کیوں نہیں پھنستیں؟ ۲- ’’کبھی تیر آسا گزر کر گئیں‘‘ کا مطلب بیان کرو؟ ۳- ’’ڈالا کی‘‘ اصل میں کیا ہے۔ا ور یہ کون سا فعل ہے؟ …٭…٭…٭… ۱۶- زمین کی سرگذشت (۳) نقطہ تاریکی مقابل متحرک مشابہ شعاعیں حرارت براہِ راست اب اگر اسی گیند پر تم ایک نشان لگا دو اور گیند کو اس طرح حرکت دیتے رہو تو کبھی وہ نقطہ موم بتی کے سامنے آئے گا اور کبھی اس سے دور ہٹ جائے گا۔ جیسے یہ نقطہ اس گیند پر ہے۔ اسی طرح تمھارا مکان اس کرۂ زمین پر ہے۔ او رجس طرح حرکت سے یہ نقطہ ایک مقرر وقت کے بعد پھر روشنی کے سامنے آجاتا ہے تم اور تمھارا مکان بھی ایک خاص مقررہ وقت کے بعد روشنی میں آجاتے ہو۔ اب اگر تم اس گیند کو نہ پھرائو۔ یا دوسرے لفظوں میں حرکت نہ دو تو کیا اثر ہوگا۔ اگر وہ نقطہ موم بتی کے سامنے ہے تو وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اگر اس سے الگ ہے تو ہمیشہ تاریکی میں رہے گا اگر زمین اپنی حرکت چھوڑ کر ساکن ہوجائے تو تمھاری حالت بالکل یہی ہو۔ جو ممالک سورج کے سامنے ہوں وہ ہمیشہ روشن رہیں یعنی وہاں ہمیشہ دن رہے۔ اور جو سورج سے دور یا اس کے مقابل میں دوسری طرف ہوں وہاں ہمیشہ تاریکی یا دوسرے لفظوں میں رات رہے گی۔ ہم نے کہا تھا کہ زمین لٹو کی طرح گردش میں رہتی ہے لیکن جب لٹو کا زور ختم ہوجاتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ گردش کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کناروں کو بہت ہی جھکا جھکا کر ساکن ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر زمین بھی کبھی گردش کرتی اور کبھی ٹھہرتی تو موسموں اور دن راتوں کے مقررہ وقتوں میں فرق آجاتا لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ہم بڑے اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ زمین ہمیشہ سے متحرک ہے اور ہر وقت حرکت کرتی رہتی ہے۔ وہ حرکت سے جس دن رات کا ظہور ہوتا ہے۔ صرف ایک قسم کی حرکت ہے۔ اب اگر تم ایک لٹو کو ایک صاف میز پر چکر دو تو اپنے خاص مرکز کے اردگرد گھومنے کے علاوہ کبھی ایک جگہ گھومے گا کبھی دوسری جگہ۔ اور اسی طرح اپنی ایک حرکت کے علاوہ اِدھر اُدھر میز کی سطح پر حرکت کرتا رہے گا۔ گویا کہ دونوں حرکتیں لٹو میں تم نے ایک ساتھ دیکھ لیں۔ یعنی کس چیز میں ایک قسم کی حرکت ہونے کی وجہ سے یہ کوئی ضرورت نہیں کہ اُس میں دوسری قسم کی حرکت موجود نہ ہو۔ پس اسی طرح زمین بھی اپنے خاص مرکز کے اردگرد گھومنے کے علاوہ ساری کی ساری ایک دوسرے مرکز کے اردگرد گھومتی ہے۔ اور یہ وہ حرکت ہے جو ایک سال میں ختم ہوتی ہے۔ جس طرح دن کا نکلنا اور رات کا آنا قدرتی طور پر وقت کی تقسیم ہے اسی طرح سال کا ختم ہونا اور مہینے کا ختم ہونا بھی قدرتی تقسیم ہے۔ انسان نے اپنی آسانی کے لیے مہینوں کو ہفتوں میں تقسیم کرلیا ہے۔ یہ حرکت یا گردش جو کہ کرۂ زمین ایک سال میں ختم کرتا ہے۔ ایک دوسری قسم کی حرکت ہے۔ جو لٹو کی اُس حرکت سے مشابہ ہے۔ جو اس کے تمام جسم کو اس کے اپنے مرکز کے اردگرد گھومنے کے باوجود ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتی ہے۔ اب ہم نے زمین کی دو قسم کی گردشوں کا ذکر کردیا یعنی ایک گردش تو وہ جو زمین اپنے محور کے اردگرد کرتی ہے۔ اور دوسری وہ جو زمین سورج کے اردگرد کرتی ہے۔ اب تیسری قسم کی گردش کا حال سنو۔ جب لٹو میز پر گھمایا جاتا ہے تو دیکھتے ہو کہ وہ ان دو قسم کی گردشوں کے علاوہ جن کا اُوپر بیان آچکا ہے۔ ایک تیسری حرکت بھی کرتا ہے۔ یعنی اُچک اُچک کر کبھی بتی کے قریب اور کبھی بتی سے دور ہوجاتا ہے۔ یہ اُچکنا بہت ہی نتیجہ خیز ہے۔ کیونکہ سے موسموں کی تبدیلی ہوتی ہے اور اس سے زمین کے نصب حصے پر ایک زمانے میں اور نصف حصے پر دوسرے زمانے میں سورج کی شعاعیں براہِ راست تیزی سے پڑتی ہیں۔ جس کانتیجہ موسم گرما ہے۔ حالانکہ اس زمانے میں اس کے دوسرے نصف حصے پر سورج کی شعاعیں اسی طرح براہِ راست اور تیزی سے نہیں پڑتیں۔ جس کا نتیجہ موسم سرما ہے۔ اب تم نے دیکھ لیا کہ یہ سورج کی سیدھی اور تیز شعاعوں کے پڑنے کا اثر ہے۔ جس سے موسم گرما کی حرارت پیدا ہوتی ہے۔ا ور ان سیدھی اور تیز شعاعوں کے غائب ہونے کا اثر ہے جس سے موسم سرما کی ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے۔ اس سے شاید تم یہ نکال بیٹھو کہ جب زمین سورج کے قریب ہوتی ہے تو زمین پر گرمی کا موسم ہوتا ہے اور جب وہ سورج سے دور ہوتتی ہے تو سردی کا موسم ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہے۔ سوالات ۱- زمین کی حرکت کتنی طرح کی ہیں۔ اور وہ کس طرح پر ہوا کرتی ہیں؟ ۲- اگر گیند کو موم بتی کے سامنے پھرایا جائے تو کیا اثر ہوگا؟ ۳- مقررہ وقت۔ حرکت۔ گردش۔ تاریکی۔ براہِ راست کے معنی بتائو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو؟ ۴- ’’آئے گا‘‘ کون سا فعل ہے۔ کرنا مصدر اس فعل کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۱۷- ابر اُودی پپہیوں آنچل ظلمت جوئے شیر کُہسار سوانگ چرخِ کہن ابرِ مطیر گھٹا اُودی اُودی یہ کیا چھا گئی بہارِ چمن رنگ پر آگئی پروں کو اِدھر مور تولے ہوئے گھٹائیں اُدھر بال کھولے ہوئے وہ کوئل غضب نے بجاتی ہوئی پپہیوں سے تانیں لڑاتی ہوئی ہوا دوش پر شال ڈالے ہوئے گھٹائوں کے آنچل سنبھالے ہوئے! گھٹائیں وہ بگلوں کی سر سُو قطار کہ ظلمت میں آبِ حیات آشکار! سیاہی میں یہ اُجلی اُجلی لکیر رواں دامنِ کوہ میں جوئے شیر! یہ کُہسار میں راہ چھوٹی ہوئی سڑک سنگ مرمر کی کوٹی ہوئی! زمین و فلک پر ہے مستی کا شور گرجتے ہی نادل کے چلائے مور! کبھی ابر گریاں کبھی خندہ زن ہے دیوانے کا سوانگ چرخِ کہن! فلک پر گرجتا ہے ابر مطیر! زمین پر نہ کیوں رِند گائیں کبیر! سوالات ۱- شاعر نے بادل کی کیا حالت بیان کی ہے؟ ۲- آٹھویں شعر کی نثر لکھو؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: کبھی ابر گریاں کبھی خندہ زن ہے دیوانے کا سوانگ چرخِ کہن ۴- اس سبق کے واحد اسموں کی جمع اور جمع کے واحد لکھو۔ …٭…٭…٭… ۱۸- راجہ مایا داس لالچی تہ خانہ انبار خبرگیری لکشمی پجاری متوالا کروٹیں اُنڈیل راجہ مایا داس کے پاس سونے چاندی کی کمی نہ تھی لیکن وہ اتنا لالچی تھا کہ دن رات سونا چاندی اکٹھا کرتا رہتا تھا۔ اُس نے ایک محل کے اندر ایک تہ خانہ بنوایا تھا۔ اپنی ساری دولت وہ اُسی میں رکھتا تھا اور کسی نوکر پر اعتبار نہ کرتا تھا۔ر ات کو اُسی تہ خانے میں سوتا تھا۔ اور اپنے سونے چاندی کے انبار کی خبرگیری کرتا تھا۔ لالچ نے اسے راجہ سے چوکیدار بنا دیا تھا۔ وہ جب سونے کی اشرفیوں اور چاندی کے روپوں کے ڈھیر کی طرف دیکھتا تو پھولا نہ سماتا تھا مگر جب کبھی اُسے یہ خیال آجاتا کہ شاید کسی راجہ کے پاس اس سے بھی زیادہ اشرفیاں اور روپے ہوں تو اس کا دل اُداس ہوجاتا تھا۔ (۲) ایک دن شام کے وقت مایا داس اپنے اُسی تہ خانہ میں بیٹھا ہوا اشرفیوں اور روپوں کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا کہ اتنے میں اُسے ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی اور شخص بھی تہ خانے میں موجود ہے۔ مایاداس کا خون خشک ہوگیا۔ اُسے خیال آیا کہ اگر کسی نے میرا تہ خانہ دیکھ لیا تو پھر میری دولت کا چوری ہوجانا بالکل آسان ہوگیا۔ یکایک ایک اجنبی اُس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ مایاداس نے دروازے کی طرف دیکھا وہ بدستور بند تھا مایا داس حیران ہوکر سوچنے لگا کہ یہ کس راستے سے آیا ہے۔ دروازہ تو بند ہے۔ اتنے میں اجنبی نے کہا: ’’مایا داس! کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ مایا داس نے جواب دیا: ’’پہلے تم یہ بتائو کہ یہاں داخل کیسے ہوگئے‘‘ اجنبی نے جواب دیا: ’’میں دیوتا ہوں۔ مجھے دروازہ کھولنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں چاہوں جاسکتا ہوں‘‘ مایاداس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ اب اُسے یہ ڈر نہ تھا کہ یہ شخص میرا روپیہ چرا لے گا۔ اُس نے ہاتھ جوڑ کر دیوتا کو سلام کیا اور کہا: ’’مہاراج! آپ کیسے تشریف لائے۔‘‘ دیوتا نے جواب دیا: ’’میں لکشمی کا بیٹا ہوں۔ تم اُس کے پجاری ہو۔ اس لیے تم کو درخواست کرنے کا موقع دینے آیا ہوں۔ تم مجھے اپنی ایک خواہش بتائو میں اُسے پورا کردوں گا۔‘‘ مایا داس خوشی سے متوالا ہوکر بولا: ’’تو آپ میری خواہش پوری کردیں گے؟‘‘ ’’کردوں گا‘‘ ’’تو آپ مجھے سونے کا بنا ہوا تین میل لمبا اور چار میل چوڑا پہاڑ دے دیجیے‘‘ ’’بہت اچھا۔ کل صبح یہ پہاڑ تمھارے شہر کے بائیں طرف موجود ہوگا‘‘ یکایک مایاس داس کو ایک اور خیال سوجھا کہ اگر کسی اور شخص نے اُسی دیوتا سے اس سے بھی لمبا چھوڑ سنہری پہاڑ مانگ لیا تو پھر میں کیا کروں گا۔ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔ دیوتا نے اُس کا خیال اُس کے چہرے سے کھلی کتاب کی مانند پڑھ لیا اور کہا: ’’اگر کچھ اور مانگنا ہو تو وہ مانگ لو‘‘ مایا داس نے سوچ سوچ کر کہا: ’’آپ مجھے یہ طاقت دیں کہ جس چیز کو چھوئوں وہی سونے کی بن جائے‘‘ دیوتا نے ہنس کر کہا: ’’بہت اچھا! مایا داس! کل صبح یہ طاقت تمھیں مل جائے گی‘‘ مایاداس نے سر جھکا کر دیوتا کو سلام کیا مگر جب سر اُٹھایا تو اُس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ (۳) اُس دن مایا داس کو نیند نہ آئی۔ باربار کروٹیں بدلتا تھا اور سوچتا تھا کہ دن کیوں نہیں نکلتا۔ اُس رات اس کی آنکھیں مشرق کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ رات جتنی جلد ہوسکے گزر جائے۔ا ور اُسے وہ عجیب وغریب طاقت ملے جس سے وہ دنیا بھر میں امیر بادشاہ بن جائے گا۔ آخر سوج نے مشرق سے سر نکالا اور اپنی پہلی کرن مایا داس کی چارپائی پر ڈالی۔ مایاداس کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ اُچھل کر زمین پر کھڑا ہوگیا۔ اور اُس نے اپنا ہاتھ پلنگ پر رکھ دیا۔ فوراً ہی پلنگ سونے کا ہوگیا۔ مایاداس خوشی سے دیوانہ ہوگیا۔ اب وہ طاقت اُسے مل چکی تھی۔ جو دنیا بھر میں اُس وقت تک کسی کو حاصل نہ ہوئی تھی۔ وہ دوڑتا ہوا باغ میں گیا۔ اور درختوں کو چھو چھو کر سونا بنانے لگا۔ وہ جہاں جہاں سے گذرتا تھا۔ وہ جگہ سونے کی بنتی جاتی تھی۔ مایا داس ہنس رہا تھا اور باربار اپنے آپ سے کہتا تھا۔ مایا داس! اب تو دنیا بھر میں کوئی تجھ سا امیر نہیں ہوسکتا۔ اس کا باغ بڑا لمبا چوڑا تھا۔ اُس میں کئی گھنٹے تک وہ گھومتا رہا۔ اور سرسبز درختوں اور پھلوں کے پیڑوں کو سونے میں تبدیل کرتا رہا۔ا تنے میں بارہ بج گئے۔ یہ مایا داس کے کھانے کا وقت تھا۔ نوکروں نے کھانا حاضر کیا۔ اور مایاس داس کھانے لگا۔ لیکن اِدھر اُس نے روٹی کا لقمہ توڑا اُدھر وہ روٹی سونے کی ہوگئی۔ مایا داس نے ہنس کر اُسے پرے رکھ دیا۔ اور ایک گرم گرم آلو جلدی سے اُٹھا کر منہ میں رکھ لیا۔ لیکن وہ بھی منہ میں جانے کے ساتھ ہی سونے کا گرم ڈلا بن گیا۔ جس سے مایاداس کا منہ جل گیا۔ اب مایا داس حیران تھا کہ کیا کرے۔ا ور کس طرح پیٹ بھرے۔ آخر اُس نے پانی کا ایک پیالہ اُٹھا کر پینا چاہا۔ لیکن وہ بھی یکایک بھاری ہوگیا۔ اور مایا داس کے تعجب کی حد نہ تھی جب اُس نے دیکھا کہ وہ پانی بھی سونے کا ڈلا بن گیا ہے۔ مایا داس سوچنے لگا۔ کیا اب مجھے بھوکا مرنا ہوگا؟ (۴) اتنے میں اس پیاری لڑکی ’’منورما‘‘ اس کے پاس روتی ہوئی آئی اور بولی: دیکھو تو آج پھولوں کو کیا ہوگیا ہے۔ میرے ہاتھوں میں چبھ گئے ہیں۔ پہلے یہ کیسے نرم تھے۔ مگر اب تو لوہے کی طرح سخت ہوگئے ہیں۔ مایا داس نے ہنس کر جواب دیا۔ بیٹی! اب یہ سونے کے پھول ہیں۔ ان کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ’’نہیں۔ مجھے وہی پھول منگوا دیجیے۔ میں یہ سونے کے پھول نہیں چاہتی‘‘ مایا داس نے پیار سے منورما کو گود میں لے لیا اور اس کے ماتھے پر ایک پُرمحبت بوسہ دیا۔ مگر یکایک چلا کر پیچھے ہٹ گیا۔ منورما بھی سونے کا بُت بن چکی تھی۔ اب وہ نہ حرکت کرتی تھی، نہ بولتی تھی۔ بالکل جیسے اُس میں زندگی نہ ہو۔ مایا داس نے اُسے باربار بلایا مگر اب وہ کیسے بول سکتی تھی۔ جان ہوتی تو بولتی وہ تو سونے کا بُت بن گئی۔ مایا داس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ سوچنے لگاکیا یہ طاقت مصیبت ثابت ہوگی۔ اور میں روٹی کے ایک ٹکڑے اور پانی کے ایک گھونٹ کے لیے ترس ترس کر مروں گا۔ (۵) شام کا وقت وہی دیوتا پھر مایا داس کے سامنے تھا۔ مگر اس وقت مایا داس کی وہ حالت نہ تھی جو کل تھی۔ دیوتا نے پوچھا: ’’تمھاری خواہش پوری ہوگئی‘‘ ’’وہاں مگر…‘‘ دیوتا نے ہنس کر پوچھا: ’’مگر کیا۔ کیا اب بھی کچھ اور مانگتے ہو؟‘‘ ’’صرف یہ کہ یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو‘‘ ’’واپس لے لوں۔ کیوں؟ کیا تم دنیا بھر میں سب سے زیادہ امیر نہیں بننا چاہتے؟‘‘ ’’مگر یہ امیری تو مصیبت ہوگئی ہے۔ میں صبح سے بھوکا ہوں میری لڑکی سونے کا بُت بن گئی میں یہ طاقت نہیں چاہتا۔ اُسے واپس لے لو اور میری تمام دولت بھی مجھ سے لے لو۔ مگر یہ اجازت دو کہ روٹی کھاسکوں۔ پانی کا پیالہ پی سکوں۔ اور اپنی پیاری بیٹی کو پیار سے گلے لگا سکوں۔ میں اور کچھ نہیں چاہتا‘‘ دیوتا نے پوچھا: ’’سونے کا پہاڑ نہیں چاہتے؟‘‘ ’’اسے چولہے میں ڈالو۔ پرماتما کے لیے مجھ سے اپنی طاقت واپس لے لو۔ اب میں جان گیا ہوں کہ سچی خوشی اس سونے میں نہیں ہے‘‘ دیوتا نے جواب دیا: تمھارے باغ میں ایک چشمہ ہے۔ اُس میں جاکر نہائو۔ تم اصلی حالت پر آجائو گے۔ اس کے بعد اُس میں سے ایک لوٹا بھر کر جس جس چیز پر چھڑکو گے وہ اپنی اصلی حالت پر آجائے گی۔ (۶) مایا داس دوڑتا ہوا چشمے پر گیا۔ اور خوب نہایا۔ اس کے بعد اُس نے تجربہ کرنے کی غرض سے ایک پتھر کو چھوا۔ اور اُسے کیسی خوشی حاصل ہوئی جب اُس نے دیکھا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اُس نے ایک گھڑا پانی سے بھرا اور اُسے درختوں پر چھڑکنے لگا۔ وہ اصلی حالت پر آتے گئے۔ صبح وہ اُنھیں سونے کے بنا کر خوش ہوا تھا۔ا س وقت اُنھیں پھر اُن کی اصلی حالت میں واپس آتے دیکھ کر اُس سے بھی زیادہ خوش ہوا۔ مگر ابھی اس کی لڑکی باقی تھی۔ وہ دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔ اور سارا گھڑا اُس پر اُنڈیل دیا۔ فوراً سونے کے بُت نے حرکت کی اور منورما کے یہ الفاظ مایا داس نے سُنے: ’’یہ کیا کررہے ہو۔ میرے کپڑے بھیگ گئے ہیں‘‘ مایا داس نے محبت سے اُسے گلے لگا لیا۔ اور کہا۔بیٹی! تمھارے پھول پھر پہلے سے بن گئے ہیں منورما تالیاں بجاتی ہوئی باغ کی طرف دوڑی۔ سوالات ۱- راجہ مایا داس کس طرح کا آدمی تھا۔ا ور ہر وقت اس کو کیا خواہش رہتی تھی؟ ۲- اجنبی کون تھا۔ جو مایا داس کے تہ خانے میں آگیا تھا۔ اور اجنبی اور مایا داس کے درمیان پہلی دفعہ جو گفتگو ہوئی۔ اُس کو اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ ۳- مایا داس نے جو خواہش دیوتا سے پہلے مانگی تھی۔ اس کو واپس لینے کے لیے کیوں دیتا سے درخواس تکی؟ ۴- سبق بالا کی مدد سے بتائو کہ اصلی خوشی کس میں ہے؟ ۵- ’’ہو جاتا تھا‘‘ کون سا فعل ہے۔ رہنا مصدر سے اس فعل کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۱۹- اپنا گھر اقامت جنت صداقت قناعت نکہت حوادث رفعت مثمر قصر دنیا میں اگر مسکن راحت ہے تو گھر ہے ممکن جو کوئی جائے مسرت ہے تو گھر ہے در خُورْدِ تمنّائے اِقامت ہے تو گھر ہے اس دارِ فنا میں کوئی جنت ہے تو گھر ہے در ہوتے ہیں وا اس کے بصد جوشِ محبت زیبا ہے جو کہے اُنھیں آغوشِ محبت گھر کانِ مسرت ہے محبت کے اثر سے ایوانِ سعادت ہے صداقت کے اثر سے سرمایۂ دولت ہے قناعت کے اثر سے ہمپایۂ جنت ہے یہ راحت کے اثر سے گھر ساحلِ دریائے حوادث ہے جہاں میں رہتا ہے یہیں آ کے بشر امن و اماں میں گو عالمِ گلزار ہو ہر سمت سفر میں گلگشت کا سودا ہو سمایا ہوا سر میں کانٹا سا مگر ایک کھٹکتا ہے جگر میں! گھر دل میں جو رہتا ہے تو دل رہتا ہے گھر میں ضبطِ دل ناکام کا چارا نہیں رہتا! مدت جو گزر جائے تو یارا نہیں رہتا! وحشت سے جو گھر میں کبھی کھجلاتے ہیں تلوے کانٹوں کے لیے گھر سے نکلواتے ہیں تلوے جب ہوتے ہیں چھلنی تو مزا پاتے ہیں تلوے پھر خیر سے خود راہ پہ آجاتے ہیں تلوے دل تنگ کیے دیتی ہے صحرائوں کی وسعت خود گھر پہ سکڑتی ہے تمنائوں کی وسعت تسکین طلبوں کے لیے گھر دارِ سکوں ہے رم گھر سے جو کرتا ہے گرفتارِ جنوں ہے نیرنگِ سفر مُثمرِ آزارِ فزوں ہے آوار گئے دستِ سفر کارِ زبوں ہے نقشہ سا کھچا رہتا ہے گھر کا جو نظر میں ہوتا ہے یہی باعثِ آرام سفر میں کتنا ہی غریبانہ ہو بیکار نہیں ہے! گھر رفعتِ بام و در و دیوار نہیں ہے کچا ہو کہ خس پوش ہو کچھ عار نہیں ہے! پستی سے کوئی گھر کی نگونسار نہیں ہے ہو قصرِ شہنشاہ کہ درویش کا چھپر دونوں ہیں بحیثیتِ کاشانہ برابر بستا ہوا گھر رحمتِ باری کا نشاں ہے افلاک سے ہر دم برکت جلوہ کناں ہے نکہت گُلِ اُلفت کی وہاں عطر فشاں ہے ہے گُلشنِ شاداب کہ بے نقصِ خزاں ہے یا رب رہے آباد زمانے میں گھر ایسا ناکام زمانہ ہو مٹانے میں گھر ایسا سوالات ۱- نظم بالا کی مدد سے ’’اپنا گھر‘‘ کا مطلب آسان اُردو میں بتائو؟ ۲- بتائو کہ شاعر نے گھر کو کن کن چیزوں سے تشبیہ دی ہے؟ ۳- ’’تلوے کھجلانا، راہ پر آجانا، کانٹا سا کھٹکنا‘‘ کا مطلب بتائو اور اُن کو اپنے فقروں میں استعمال کرو؟ ۴- نظم بالا سے اسم ظرف الگ کرو؟ …٭…٭…٭… ۲۰- نیک دل شہزادہ معصوم مرہم بیتاب پیشین گوئی تصفیہ متانت مخاطب (۱) شام کا وقت تھا۔ ’’کپل وستو‘‘ کے شاہی محل میں دو لڑکے تیر کمان لیے کھیل رہے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام دیودت تھا۔ دوسرے کا سدھارتھ دونوں راجکمار تھے۔ اور دونوں کے چہروں سے شاہی شان و شوکت ظاہر ہورہی تھی۔ یکایک دیودت نے تیر کمان میں جوڑا اور آسمان میں اُڑنے والے راج ہنسوں پر چھوڑ دیا۔ سدھارتھ رحم دل شہزادہ تھا۔ اُس کا کلیجہ دھڑکنے لگا۔ مگر دیودت کو اُس کی پروا نہ تھی۔ اُس کے تیر نے ایک ہنس کو زخمی کردیا۔ اور وہ تڑپتا ہوا زمین پر گرا۔ سدھارتھ کی خوبصورت آنکھوں سے پانی کے قطرے بہنے لگے۔ اور اُس نے دوڑ کر ہنس کو گود میں لے لیا مگر وہ سخت زخمی تھا اور اُس کے زندہ بچنے کی کوئی اُمید نہ تھی۔ دیودت کھیل کود میں مصروف ہوگیا اور اُسے خیال تک نہ رہا کہ میں نے ایک معصوم پرندے کو بغیر کسی وجہ کے زخمی کردیا ہے۔ مگر سدھارتھ اُسے لے کر شاہی حکیم کے پاس پہنچا۔ اور بولا: ’’اس کے زخم پر مرہم لگا دیجیے۔ یہ بہت بیتاب ہورہا ہے‘‘ حکیم شہزادہ کی اس ہمدردی پر بہت خوش ہوا اور اُس نے دو زانوں ہوکر پیشین گوئی کی کہ ’’اے شہزادے! تو کسی دن دنیا میں آفتاب کی طرح چمکے گا۔‘‘ (۲) تین چار دن تک سدھارتھ ہنس کی مرہم پٹی کرتا اور کھیل کود سب کچھ بھول گیا۔ اُسے صرف خیال تھا کہ کسی طرح یہ ہنس بچ جائے اُسے تڑپتے دیکھ کر وہ خود اس طرح بیتاب ہوجاتا تھا۔ گویا ہنس کی بجائے وہ خود زخمی ہورہا ہے۔ آخرکار اس کی آرزو پوری ہوگئی۔ راج ہنس کے زخم بھر گئے۔ مگر وہ ابھی اُڑنے کے قابل نہ ہوا تھا کہ دیودت نے سامنے آکر کہا: ’’سدھارتھ! یہ پرندہ تو میرا ہے۔ تم اسے کہاں لیے پھرتے ہو؟‘‘ سدھارتھ نے راج ہنس کو گلے سے چمٹا لیا۔ اور جواب دیا: ’’نہیں تمھارا نہیں۔ میں اسے تمھارے حوالے کبھی نہ کروں گا‘‘ دیودت: ’’کیوں نہ کرو گے۔ میں مہاراج سے شکایت کردوں گا۔ کیا پھر بھی نہ دو گے؟‘‘ سدھارتھ: ’’پھر بھی نہیں دوں گا‘‘ (۳) دیودت نے اُسی وقت دربار میں پہنچ کر مہاراج شدھودن سے شکایت کردی۔ اتنے میں سدھارتھ بھی دربار میں آگیا۔ راج ہنس اُس وقت بھی اُس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا۔ اور سدھارتھ اُس کی گردن پر پیار سے آہستہ آہستہ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ مہاراج ایک پرندے کے ساتھ بیٹے کی اس محبت کو دیکھ کر پھولا نہ سمایا۔ لیکن دیودت بھی اُس کا رشتہ دار تھا۔ اس لیے اُسے آسانی سے نہ ٹال سکا۔ مقدمہ کا دربار میں تصفیہ کرنا لازمی ہوگیا تھا۔ اس نے مسکرا کر سدھارتھ سے کہا: ’’بیٹا! سچ مچ بتائو۔ یہ راج ہنس کس کا ہے؟‘‘ سدھارتھ نے نہایت متانت سے جواب دیا: ’’میرا‘‘ دیودت نے چلا کر کہا: ’’جھوٹ بولتا ہے۔ یہ راج ہنس میرا ہے‘‘ مہاراج نے پوچھا: ’’کس طرح؟‘‘ دیودت: ’’یہ راج ہنس آسمان میں اُڑا چلا جارہا تھا۔ میں نے اس کے تیر مارا۔ یہ زخمی ہوکر زمین پر گرگیا۔ اس لیے اس پر میرا حق ہے۔ا س سے پوچھئے یہ ٹھیک ہے یا نہیں؟ سدھارتھ: ’’یہ درست ہے‘‘ مہاراج: ’’تو پھر یہ ہنس تمھارا کیسے ہوگیا؟‘‘ سدھارتھ: ’’مہاراج! دیودت نے اسے زخمی کردیا تھا۔ اگر میں اس کی خبرگیری نہ کرتا۔ تو یہ ضرور مرچکا ہوتا۔ اس لیے دیودت کا حق اس پر اُس وقت تھا جب یہ زخموں سے تڑپ رہا تھا۔ مگر میں نے اُسے تندرت کردیا ہے۔ اب اس پر میرا حق ہے۔ دیودت کا نہیں۔‘‘ مہاراج حیران تھے۔ وہ اس مقدمہ کا فیصلہ نہ کرسکتے تھے۔ آخر اُن کے گورو نے آکر کہا۔ سدھارتھ اور دیودت آمنے سامنے کھڑ ہوجائیں اور درمیان میں ہنس کو چھوڑ دیا جائے۔ وہ جس کے پاس چلا جائے اُس کے حوالے کردیا جائے۔ (۴) دیودت اور سدھارتھ چند گز کے فاصلے پر کھڑے ہوگئے۔ درمیان میں ہنس چھوڑا گیا۔ وہ اس وقت اس طرح سہما ہوا تھا جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر سہم جاتا ہے۔ گورو جی نے دیودت کو اشارہ کیا اُس نے آگے بڑھ کر ہنس کی طرف دیکھا اور پچکار کر کہا: ’’آ جا‘‘ مگر ہنس نے منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد گوروجی نے سدھارتھ سے کہا: ’’لو بھائی! اب تم بلالو۔ اگر تمھارے پاس آگیا تو تمھارا۔ ورنہ کسی کا بھی نہیں‘‘ سدھارتھ مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔ اور ہنس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوگیا۔ اس وقت بھی اس کی نگاہوں میں وہی محبت بھری ہوئی تھی ہنس نے اُن زندگی بخشنے والی نگاہوں کو فوراً پہچان لیا اور زخمی پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے سدھارتھ کی طرف بڑھا۔ دربار میں شور مچ گیا۔ سدھارتھ کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا۔ ہنس اُسے مل گیا اور وہ اُس کی مرہم پٹی میں پھر اُسی طرح مصروف ہوگیا۔ (۵) پھر ایک ہفتہ کے بعد راج ہنس بالکل تندرست ہوگیا تو سدھارتھ اُسے لے کر محل کی چھت پر چڑھ گیا۔ اور اُس سے مخاطب ہوکر بولا کہ ’’اے ہنس میرا دل تجھے پیار کرتا ہے میں چاہتا ہوں کہ تجھے آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ تو اپنے بال بچوں کے لیے اُداس ہورہا ہے۔ اس لیے جا اور اُن کے ساتھ ہنس کھیل کر زندگی کے دن گزار۔ لیکن پھر کبھی شہر کی طرف نہ آنا ورنہ پھر کوئی شکار بچہ تجھے زخمی کردے گا۔‘‘ یہ کہتے کہتے راج ہنس کو اُڑا دیا۔ مہاراجہ شدھودن یہ دیکھ رہے تھے۔ اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُنھوں نے محبت سے بیٹے کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا: ’’بیٹا! تو کسی دن بڑا آدمی بنے گا‘‘ اور یہ سچ ہوا کیونکہ آخر میں وہی سدھارتھ گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہوا۔ اور اس نے دنیا میں ایک نیا مذہب قائم کیا۔ جو اُسی کے نام سے بدھ مذہب کہلاتا ہے۔ سوالات ۱- دیودت نے راج ہنس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اور سدھارتھ نے کیا کیا؟ ۲- راج ہنس کی بابت جب مقدمہ پیش ہوا تو اس کا فیصلہ کس طرح ہوا؟ ۳- سدھارتھ نیر اج ہنس کے ساتھ اخیر پر کیا سلوک کیا؟ ۴- ’’چلا جارہا تھا‘‘ کون سا فعل۔ اس کے بنانے کا قاعدہ بتائو۔ اور مصدر پھرنا سے اسی فعل کی پوری گردان کرو۔ …٭…٭…٭… ۲۱- سپوت خدنگ جرأت لخت جگر فرقت ہیولاک کردگار صلے للہ عارض شمائل آتا ہے ہند سے تو اے نوجواں سپاہی مجھ کو بھی کچھ بتا جا رکھے تجھے الٰہی اُنیسویں کی پلٹن ہے اک وہاں بہادر جس کا ہر اک سپاہی مشہور ہے دلاور کچھ اُن کا حال کہنا اور مجھ کو یہ بتانا کیا ہیں وہ سب سلامت اور خرم و توانا بیٹا مرا ہے اُن میں میرا عزیز بیٹا جس کی ہے سب سے بڑھ کر دنیا میں مجھ کو پروا احساس کرے گا ماں پر اُس کی خبر سنا کر لے رانڈ کی دعائیں اُس کی خبر سنا کر آتا ہوں ہند سے میں موجودہ جنگ میں تھا حصہ مرا بھی اُس جا تیر و خدنگ میں تھا اُنیسویں کی پلٹن کو خوب جانتا ہوں!! اُس کے سپاہیوں کی جرأت کو مانتا ہوں افسر ہوں یا سپاہی سب سے ہوں میں شناسا ہمراہیوں سے اپنے ہر اک ہے دوست میرا لایا پیام ہوں اک تیرے لیے بڑی ماں رابرٹ کا تیرے پیغام اب تو خوش ہو بڑی ماں رابرٹ کو میرے تم کیا پہنچاتے ہو بیٹا؟ سچ سچ بتانا جو کچھ تم جانتے ہو بیٹا! اے نیک خُو سپاہی اُس کا پیام کیا تھا؟ کہنا اُسی کے الفاظ اس کا کلام کیا تھا؟ ہائے وہ لفظ کہنا جو اُس کے منہ سے نکلے لختِ جگر کے میرے جو اپنے مُنہ سے نکلے تجھ کو خبر نہیں وہ کیسا مجھ ہے پیارا اپنی ضعیف ماں کی ہے آنکھ کا وہ تارا فرقت میں اُس کی ماں کا کیا حال ہو رہا ہے یہ دل مرا غموں سے پامال ہو رہا ہے ہیولاک کی لڑائی اس نے لڑی ہے ساری دشمن پہ وار سارے اس کے ہوئے ہیں کاری دو بار لکھنؤ پر وہ چڑھ کے خوب اڑا ہے تلوار سے لڑا ہے اور توپ سے لڑا ہے کر شکر اُس خدا کا جس نے اُسے بچایا ہر معرکے میں اُس پر حق کا رہا ہے سایا صد شکر یا الٰہی! طاقت نہیں بیاں کی تو نے سُنی دعائیں اُس کی غریب ماں کی اے دو جہاں کے مالک اے کردگار میرے اس رانڈ ناتواں کی سُن لی نثار تیرے گولے کی زد سے روکا تلوار سے بچایا اپنے کرم کا نقشہ دل پر مرے جمایا پر ہاں مجھے بتا دے پیغام اس کا کیا تھا اپنی ضعیف ماں کو کہنے کو کیا کہا تھا ’’اے ماں! بہادری سے تیرا لڑا ہے بیٹا اور ہر زباں پہ اُس کا پھیلا ہوا ہے چرچا کرنل کی جاں کو اُس نے رن میں بچا لیا تھا سرکار میں یہ قصہ سارا لکھا گیا تھا اس کے صلے میں اُس کو دیا گیا ہے ہے خوش نصیب لڑکا تیرا بہت بڑی ماں خوش قسمتی کا اس کی تارا رہے درخشاں‘‘ اے نیک دل سپاہی تیری زباں پہ رحمت جس خانداں سے ہے تو اُس خاندان پر رحمت اے پیارے مرنے والے تو کاش آج ہوتا اس میرے جھونپڑے میں کیا رنگ راج ہوتا دُکھ درد جو سہے تھے سب محو ہو گئے ہیں سالوں کے رنج و غم کو یہ لفظ دھو گئے ہیں پر ہاں ابھی تو باقی کچھ پوچھنا تھا تم سے حالت تھی اس کی کیسی اور کیا کہا تھا تم سے رابرٹ کا حال کیا تھا اور رنگ و روپ کیا تھا للہ مجھے بتا دو تم سے جو کچھ کہا تھا سرخی سے اس کی رنگت تانبا سی ہورہی ہے ڈاڑھی نکل کے خوبی عارض کی کھو رہی ہے ایسا بدل گیا ہے وہ نازنیں شمائل پہچان اس کی اماں تم کو بھی ہو گی مشکل مردِ جواں کیا ہے ہم نے تمھارا بچہ!! دل اس کا پر وہی ہے ہرگز نہیں ہے بدلا رکھتا ہے یاد تجھ کو کرتا ہے تیری باتیں اور جانتا نہیں ہے وہ ایسی ویسی باتیں لیکن جہاز اس کا سمجھو لگا کنارے جلدی ہی خود ملے گا وہ آکے تم کو بارے سچ مچ وہ آ رہا ہے سچ مچ ملے گا مجھ کو؟ کہ میرا پیارا ننھا دیدار دے گا مجھ کو؟ تم نے کہا ہے جلدی آیا وہ چاہتا ہے جھوٹا نہیں میں اماں سچ مچ وہ آچکا ہے ’’او میرے پیارے رابرٹ! اماں تمھاری واری‘‘ ’’او ماں! میں تیرے قرباں حق نے سُنی ہماری‘‘ سوالات ۱- نظم بالا کی مدد سے بتائو کہ سپوت کے کیا معنی ہیں؟ ۲- رابرٹ او رہیولاک کون تھے؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: سرخی سے اس کی رنگت تانبا سی ہورہی ہے ڈاڑھی نکل کے خوبی عارض کی کھو رہی ہے ۴- رکھے۔ بتانا۔ کہنا۔ جانتے ہو۔ نکلے۔ قواعد کی رُو سے کون کون سے کلمے ہیں؟ ۲۲- حب الوطنی جمہوری حکومت پرخاش جاگزیں عصمت عجلت مجمع الوداع طفیل مجتمع مشتعل (۱) روم میں جمہوری حکومت کو قائم ہوئے عرصہ نہیں ہوا تھا کہ شاہی خاندان لوگوں کو برسرِ پرخاش دیکھ کر اٹلی میں جاگزین ہوا۔ اس طرح روم میں جمہوری سلطنت قائم ہوگئی اور روم امن و چین کی زندگی بسر کرنے لگا کہ اتنے میں شاہی خاندان سکسنوں سے مدد حاصل کرکے روم پر حملہ آور ہوا۔ اور دریائے ٹائبر سے کچھ فاصلہ پر خیمے ڈال دیے۔ اہالیانِ روم کو جب اچانک یہ خبر ملتی ہے تو سب لوگ گھبرا اُٹھتے ہیں۔ اور اُن کو موقع نہیں ملتا کہ بادشاہ کے مقابلہ کے لیے تیاریاں کرسکیں ’’نہ راہِ رفتن نہ جائے ماندن‘‘ والا معاملہ ہے۔ آخر جلدی سے شہر میں اس واقعہ کی منادی کرائی جاتی ہے اور شہر کا ایک ایک ہتھیار بند بلا تمیز،اس کے کہ وہ بچہ ہے یا بوڑھا۔ امیر ہے یا غریب۔ تعلیم یافتہ ہے یا جاہل شہر سے باہر نکل کر دریائے ٹائبر کے اس پار پُل کے سامنے جا کھڑا ہوتا ہے۔ اور ہر ایک بہادر حب الوطنی کے جوش میں بھرا ہوا کٹ مرنے کو آمادہ نظر آتا ہے۔ مگر پھر بھی ایک قسم کی بددلی ہے۔ جو ہر ایک کے چہرہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ کوئی تجویز سمجھ میں نہیں آتی۔ جس سے دشمن کو روکا جائے۔ کسی کا دماغ کام نہیں کرتا۔ اسی اثنا میں اچانک ایک طرف سے کچھ آواز آتی ہے۔ سب کی نگاہیں اس طرف مُڑ جاتی ہیں اور ہمہ تن گوش ہوکر سُننے لگ جاتے ہیں۔ ’’دوستو، عزیزو! اب سرگوشیاں کرنے کا موقعہ نہیں رہا۔ آئو جسے اپنی جان کی نسبت اپنی قوم زیادہ پیاری ہے۔ اور اپنی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت پیاری ہے۔ آئو، میرے ساتھ وہ دو شخص آئیں جن کو اپنے مُلک سے محبت ہے۔ پُل بالکل تنگ ہے اور اس پر سے صرف دو شخص ایک وقت میں گزر سکتے ہیں۔ پس تین بہادر شخص دشمن کو اتنے عرصہ تک اُس پار روک سکتے ہیں۔ جب تک کہ باقی لوگ پُل کو درمیان میں سے توڑ دیں۔‘‘ یہ ایک ایسے شخص کی آواز تھی جس کو بہت کم لوگ جانتے تھے۔ جس کا نام ہوریشس تھا۔ بولنے والا خاموش ہوا اور چاروں طرف سے ’’واہ وا‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔ مگر کوئی بھی دیدہ و دانستہ موت کے منہ میں پڑنا پسند نہ کرتا تھا۔ ہوریشس نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پھر کہا: ’’آہ! میں سمجھتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی ضرور نکلے گا مگر افسوس! اے روم! تیرے باشندوں کے دلوں میں تیرے لیے کچھ بھی محبت نہیں رہی۔ لیکن یہ کوئی نہ کہے کہ روم دشمن کے حوالے کیا گیا اور اس کی حفاظت میں کوئی تلوار نہیں اُٹھی۔ دوستو! لو تمھارا فدائی اکیلا ہی چلتا ہے۔ اور اُسے یقین ہے کہ وہ دشمن کو زورِ شمشیر اس وقت تک دریا سے گزرنے نہ دے گا جب تک کہ تم پُل کو توڑ نہ لو گے۔ لو اب حوصلہ اور عجلت سے پُل توڑنے میں مصروف ہوجائو‘‘ ان لفظوں نے لوگوں کے دلوں پر بجلی کا کام کیا اور تقریر ختم ہوتے ہی دو بہادر مجمع سے نکل پڑے اس طرح تین بہادروں کا یہ مختصر سا دستہ شاہی فوج کے مقابلہ کے لیے پُل پر سے آگے کی طرف بڑھا۔ شاہی فوج آگے بڑھتی آتی ہے اور جب پُل کے قریب آکر تین آدمیوں کو کھڑا دیکھتی ہے۔ تو اُن کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ صلح کی نیت سے آئے ہوئے ہیں۔ یہ خیال کرکے شاہی فوج کا کمانڈر ایک آدمی کو اُن سے دریافت کرنے کے لیے آگے روانہ کرتا ہے۔ ہوریشس نے اُسے آگے آتے دیکھ کر پہلے ہی وار میں اُس کا کام تمام کردیا۔ اپنے سپاہی کو اس طرح مرتے دیکھ کر شاہی فوج کے غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور وہ اُن تین جاں نثاروں پر پل پڑی۔ لیکن پُل تنگ ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں دو سے زیادہ آدمی آ نہیں سکتے تھے۔ جن کا سر ہوریشس اور اس کے ساتھیوں کی شمشیر کی طفیل آگے بڑھتے ہی اُڑ جاتا تھا۔ ہوریشس کی تلوار میں آج غضب کی پھرتی تھی۔ کہ اتنے میں پیچھے سے آواز آئی: ’’ہوریشس! ہوریشس!! آجائو تمھارا کام ہوگیا۔ پُل اب ٹوٹنے والا ہے۔ آجائو آجائو‘‘ بہادر نے پھر کر دیکھا تو پُل سچ مچ ٹوٹنے والا تھا۔ لیکن دل میں پھر بھی ایک قسم کا شک تھا۔ مگر ساتھی موقع دیکھ کر واپس بھاگ گئے۔ لیکن ہوریشس کی غیرت نے منظور نہ کیا کہ اس حالت میں جب کہ ابھی کچھ نہ کچھ حصہ پُل کا باقی ہے۔ واپس پھرے۔ آخر پُل بالکل توڑ دیا گیا۔ا ور اس طرح ہوریشس دشمن کے ساتھ لڑتا رہا۔ دشمن نے ہوریشس کو اکیلا دیکھ کر ایک زور سے حملہ کیا۔ پُل بہادروں کی کثرت سے بھر گیا۔ لیکن ہوریشس کا مقابلہ ایک وقت میں دو سے زیادہ آدمی نہیں کرسکتے تھے۔ گو اُسے بھی زخم لگ رہے تھے۔ لیکن جدھر اس کی تلوار پھرتی تھی۔ صفائی کرتی چلی جاتی تھی۔ دشمن دشمن حیران تھے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ تلوا رہے کہ کیا؟ لیکن ہ آخر انسان ہی تو تھا۔ لڑتے لڑے بازو سست پڑنے لگے۔ اور زخموں سے خون کے بہائو نے جسم کو کمزور کردیا۔ اس کا کام ہوچکا تھا۔ پُل ٹوٹ چکا تھا۔ اور دشمن ابھی ایک عرصہ تک دریا کو عبور نہیں کرسکتا تھا۔ بس اس نے زور سے ایک خوشی کا نعرہ مارا کہ ’’اے پیارے روم الوداع‘‘ اور دریا میں کود پڑا۔ دوست دشمن سب حیران تھے کہ وہ بہادر جس کی تلوار نے سینکڑوں شجاعوں کو تہِ خاک کیا تھا۔ اس طرح ہمیشہ کے لیے دریا کی تہ میں بیٹھ گیا۔ لیکن نہیں ٹائبر اس قدر بے رحم اور ظالم نہ تھا۔ دریا کی ایک لہر آئی۔اور بہادر ہوریشس کو کنارے کے قریب اُٹھا کر لے گئی۔ یہ خود بھی بہت بڑا تیراک تھا۔ اس لیے اُس نے خود بھی جدوجہد کرنی شروع کی۔ اور تھوڑی دیر میں پایاب پانی میں چلنے لگا۔ روم کے بہادر کو دیکھ کر اہالیانِ روم اس کی طرف دوڑے اور اُسے ہاتھوں ہاتھ اُٹھا کر لے گئے۔ (۲) روم کی فوج کو مجتمع ہونے کا کافی وقت مل گیا۔ اور ہوریشس کی بے نظیر قربانی نے روم کو سکسنوں کے ظلم سے بچا لیا۔ اس کے اس دلیرانہ کام نے روم کے ہر ایک باشندہ کے دل میں حُبِّ وطن کی آگ مشتعل کر دی اور اُنھوں نے اس زور سے دشمن پر حملہ کیا۔ کہ حملہ کی تاب نہ لا کر اُنھیں میدان کو چھوڑ کر بھاگتے ہی بنی۔ آج ہوریشس کا جسم اس دنیائے فانی میں موجود نہیں۔ لیکن اٹلی کا بچہ بچہ اس کے نام کو عزت سے یاد کرتا ہے۔ سوالات ۱- ہوریشس نے بچائو کی کیا تجویز بتائی؟ ۲- ہوریشس کی تقریر کا لوگوں پر کیا اثر ہوا؟ ۳- ہوریشس نے حُبّ الوطنی کا کس طرح نمونہ دیا اور اس کا انجام کیا ہوا؟ ۴- ہمیں اس سے کیا سبق لینا چاہیے؟ ۵- نکلے گا۔ نہ کرتا تھا۔ چلتا ہے۔ ہو جائو۔ توڑ دیا گیا۔ کون کون سے فعل ہیں؟ …٭…٭…٭… ۲۳- زلزلہ بھونچال غفلت زدوں صورِ اسرافیل ذوالمنن اہتمام لرزہ محکوم قادرِ قدیر بھونچال کا جو حق نے یہ نقشہ جما دیا قدرت کا اپنی زور جہاں کو دکھا دیا روشن دلوں میں نُور نظر کا بڑھا دیا غفلت زدوں کو مار کے ٹھوکر جگا دیا دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا سنہ بارہ سو اٹھارہ میں یہ واردات تھی اوّل جمادی بارھویں تاریخ سات تھی دن بدھ کا جمعرات کی وہ آدھی رات تھی بھونچال کیا تھا قدرتِ حق کی یہ بات تھی دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا باہم کواڑ لڑ پڑے زنجیریں ہل گئیں! کڑیاں کڑک کڑک کے چھتوں سے نکل گئیں چھجے ستون کانپے منڈیریں دہل گئیں! دیواریں جھوم جھوم کے پنکھے سے جھل گئیں دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا قدرت کی تیغ کی ہے یہ کچھ آب دردری کھچتے ہی سب کے پڑ گئی سینوں میں تھرتھری دارائی کام آئی نہ کچھ یاں سکندری یک دم میں تھر تھرا گئی سب خشکی و تری دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا بھونچال کی دھمک کا وہ سنتے ہی کھڑکھڑا جی دھک سے تن میں ہوگیا اور دم نکل گیا اوروں کے دل کی کیا کہوں جانے وہی خدا پر میں تو جانا صورِ سرافیل پھک گیا دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا بھونچال کا تو کہنے کی خاطر نہ نام تھا یہ زور شور اور قدرت کا کام تھا احکامِ ذوالمنن کا جہاں اہتمام تھا یہ لرزہ تو وہاں کا اِک ادنیٰ غلام تھا دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا سجدے کرو خدا کے تئیں یار و دمبدم! آخر کریم تھا تو کیا اُس نے پھر کرم بااقی تو کچھ رہی نہ تھی پر تھم گئے قدم ورنہ اسی گھڑی میں نہ پھر تم تھے اور نہ ہم دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا بھونچال کیا وہ چاہے تو اک پل کے مارتے کر ڈالے آسمان و زمیں کو اُوپر تلے اُڑنے لگیں پہاڑ روئی کی طرح پڑے قادر قدیر دم میں جو کچھ چاہے سو کرے دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا محکوم سب ہیں اُس کے ہے حاکم وہی الٰہ تابع ہیں اُس کے حکم کے ماہی سے تابماہ جب اُس کا حکم آئے تو ہو کون سدِّراہ کیا حکم ہے عزیزو! ذرا دیکھو واہ واہ دریا و کوہ و دشت و جبل سب ہلا دیا اِک آن میں دیا دیا اور پھر تھنبا دیا سوالات ۱- نظم بالا کی مدد سے بتائو کہ سخت بھونچال کب آیا تھا اور کون سا مہینہ اور کیا دن تھا؟ ۲- بھونچال کے وقت کی حالت بیان کرو؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: باہم کواڑ لڑ پڑے زنجیریں ہل گئیں! کڑیاں کڑک کڑک کے چھتوں سے نکل گئیں ۴- دریا۔ کوہ۔ دشت۔ جبل یہ کیسے اسم ہیں؟ …٭…٭…٭… ۲۴- مہمان نوازی مُنادی حقوق عباسیوں مصاحب نقاب سکتہ محسن رائیگاں لِللّٰہ جب بنی اُمیہ کی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور بنی عباس سلطنت کے مالک ہوئے۔ تو اُن کے سب سے پہلے خلیفہ۱؎ سفاح نے اپنے تمام ملکوں میں اس بات کی مُنادی کرائی کہ جو لوگ اپنی جانوں کے خوف سے دوسرے ملکوں میں بھاگ گئے ہیں۔ وہ بلاخوف اپنے اپنے گھروں میں واپس آجائیں ۔ اُن کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے گی اور نہ اُن کے حقوق عباسیوں سے کم سمجھے جائیں گے۔ جب یہ خبر ابراہیم بن سلیمان نے سُنی جو اپنی جان کے خوف سے بھاگ کر شام کی طرف چلا گیا تھا۔ اور بڑی مصیبتوں میں اپنی زندگی بسر کر رہا تھا تو اُس نے یہ خیال کیا کہ اس مصیبت سے تو یہ بہتر ہے کہ میں خود خلیفہ کے پاس چلا جائوں۔ اگر بچ گیا تو خیر ورنہ اس مصیبت بھری زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا اور میں ہمیشہ ان پریشانیوں سے نجات پاجائوں گا۔ یہ خیال کرکے وہ خلیفہ (بادشاہ) سفاح کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ بادشاہ نے اُس کی بہت عزت کی۔ اور اُس سے پوچھا کہ تم نے اپنے سفر میں جو سب سے زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز بات دیکھی ہو بیان کرو۔ ابراہیم بن سلیمان نے کہا کہ جب میں اپنی جان کے خوف سے بھاگ کر کوفہ میں پہنچا تو وہاں ایک اجنبی ہونے کی حیثیت سے سخت پریشان تھا اور یہ خیال کرتا ہوا چلا جارہا تھا کہ میں ۱- مسلمانوں کا دینی بادشاہ۔ یہاں کہاں ٹھہروں گا۔ اور کہاں سے کھائوں گا۔ کہ اتنے میں سامنے ایک عالیشان مکان نظر آیا۔ میں کچھ سوچ کر اُسی مکان کی طرف بڑھا۔ اور اُس کی ڈیوڑھی میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ا بھی مجھے یہاں کھڑے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کچھ لوگ روشنی لیے ہوئے مکان میں داخل ہوئے آگے آگے ایک نہایت خوب صورت نوجوان تھا۔ اور پیچھے اُس کے کچھ مصاحب۔ میں نے اُسے صاحب خانہ سمجھ کر سلام کیا اور ساتھ ہولیا۔ مکان میں داخل ہوکر یہ نوجوان صحن میں ایک نہایت عمدہ تخت پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے کے بعد جب سب مصاحب اپنے اپنے قرینے سے چاروں طرف بیٹھ چکے تو میں اس نوجوان کے سامنے آیا اور کہا کہ میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں۔ اور میرا یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے۔ اس لیے آپ سے التجا ہے کہ خدا کے واسطے مجھے اپنے یہاں پناہ دیجیے۔ یہ سُن کر اُس نوجوان نے ایک قریب کے کمرے کی طرف مجھے ٹھہرنے کا اشارہ کیا۔ میں اُس سے رخصت ہوکر اس کمرے میں آیا۔ جس میں نہایت قیمتی فرش بچھا ہوا تھا۔ اور ہر ضرورت کی چیز موجود تھی۔ میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک نوکر کھانا لے کر آیا۔ میں نے کھانا کھا لیا۔ اور خدا کا شکر ادا کیا۔ کہ اُس نے مجھے ایک اجنبی مُلک میں ایسے آرام سے رکھا۔ اسی طرح مجھے وہاں رہتے ہوئے کئی ہفتے گذر گئے اور کسی نے کچھ نہ کہا۔ صاحب خانہ کا قاعدہ تھا کہ وہ روزانہ ایک مرتبہ صبح کو میری خیریت پوچھنے کے لیے آیا کرتا۔ اور اس کے بعد گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے مصاحبوں کے ساتھ کہیں باہر چلا جاتا۔ اور دوپہر کو نہایت پریشان و خستہ حال واپس آتا۔ ایک دن جب وہ میری خیریت پوچھنے کے لیے آیا تو میں نے اُس سے پوچھا کہ جناب روزانہ صبح کو کہاں جایا کرتے ہیں۔ا ور وہاں سے جب واپس آتے ہیں تو اس قدر پریشان کیوں ہوتے ہیں؟ اُس نے ایک آہ بھری اور کہا کہ عرصہ ہوا ایک شخص ابراہیم بن سلیمان نے میرے باپ کو قتل کیا تھا۔ اُسی کی تلاش میں جاتا ہوں۔ لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ میں اپنا نام اور قتل کا واقعہ سُن کر خوف سے کانپ گیا۔ اور خیال کرنے لگا کہ جس کے ڈر سے میں اتنے دنوں تک چھپا چھپا اور بھاگا پھرتا رہا۔ آج اُسی کے یہاں مہمان ہوں۔ میرا دل سفر کی مصیبتوں سے پریشان ہوگیا تھا۔ اور زندگی موت سے بدتر معلوم ہوتی تھی۔ اس لیے میں نے اپنے دل میں ارادہ کیا کہ خواہ میں قتل ہی کیوں نہ کردیا جائو۔ لیکن اب یہ راز اور سفر کی مصیبتیں مجھ سے برداشت نہ کی جائیں گی۔ یہ خیال کرکے میں نے کہا کہ جناب اگر میں آپ کے والد کے قاتل کا پتہ بتا دوں تو آپ خوش ہوجائیں گے؟ یہ سُن کر اُس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور میری طرف دیکھتے ہوئے نہایت جوش سے کہا کہ اُس دن مجھے اتنی خوشی ہوگی جتنی ایک آدمی کو دنیا یا ایک بڑی سلطنت مل کر ہوسکتی ہے۔ اگر آپ میرے باپ کے قاتل کا پتہ لگا دیں گے تو میں آپ کا بہت شکرگذار ہوں گا۔ میں نے کہا: نہیں۔ میں آپ کو اُس احسان کے عوض جو آپ نے ایک غریب اور بے پناہ مسافر کو اپنے یہاں جگہ دے کر کیا ہے۔ا ور یہ کہہ کر میں نے اپنے منہ پر پڑی ہوئی نقاب جس سے میں نے اپنا حلیہ بدل دیا تھا۔ اُتار ڈالی اور کہا کہ لیجیے آپ کے باپ کا قاتل آپ کے سامنے ہے۔ میری صورت دیکھ کر اُس نوجوان پر ایک سکتہ سا طاری ہوگیا۔ اور گھبرا کر کہنے لگا کہ ہاں تمھاری صورت تو ابراہیم سلیمان سے ضرور ملتی جلتی ہے لیکن مجھے سچ سچ بتائو کہ کیا وہ ابراہیم بن سلیمان تم ہی ہو۔ جس نے میرے باپ کو قتل کیا تھا؟ میں نے نہایت سست لہجے میں کہا کہ اے میرے محسن! وہ بدقسمت میں ہی ہوں۔ لِللّٰہ مجھے قتل کردیجیے۔ تاکہ میں سفر اور خوف کی اس مصیبت سے نجات پاجائوں اور آپ کو جس نے اتنی شفقت کے ساتھ میری مہماںداری کی ہے۔ اپنی جان دے کر خوش کرسکوں۔ نوجوان نے نہایت حسرت بھرے لہجے میں کہا کہ افسوس آج میری محنت رائگاں ہوگئی۔ اگر تو میرا مہمان نہ ہوتا اور تجھ کو اپنے گھر میں پناہ نہ دی ہوتی تو یقینا اسی وقت تیری گردن اُڑا دیتا۔ مگر مجبور ہوں کہ میں تجھے اپنے یہاں پناہ دے چکا ہوں۔ پناہ میں آنیو الے کو قتل کرنا شرافت کے خلاف ہے۔ اس لیے یہی بہتر ہے کہ تو فوراً یہاں سے کہیں دور چلا جائے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا خیال پھر تیری طرف سے بدل جائے۔ اور انتقام کے جوش میں تجھے قتل کرڈالوں۔ یہ کہہ کر اُس نے مجھے سفر خرچ کے لیے پانچ سو اشرفیاں دیں۔ جنھیں لے کر میں اُسے ہزاروں دعائیں دیتا ہوں اور اُس کی مہماںنوازی پر حیرت کرتا ہوا وہاں سے چلا آیا۔ سوالات ۱- ابراہیم بن سلیمان نے مہماںنوازی کی جو کہانی بادشاہ کو سُنائی۔ اس کو اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ ۲- جس کو پناہ دی ہوئی ہو۔ اُس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے؟ ۳- عباسیوں سے کی مراد ہے؟ ۴- مُنادی کرائی۔ زندگی بسر کرنا۔ نجات پانا۔ صاحب خانہ۔ خستہ حال۔ ان کے معنی بتائو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۵- اس سبق سے اسم ظرف الگ کرو۔ …٭…٭…٭… ۲۵- رونقِ بارش ترشُّح برق اولتی تارِسیمیں ارگن لَے غُسل گُلْغدار طیور جو سُوکھی زمیں پر ترشُّح ہوا!! نکلتی ہے بُو سوندھی سوندھی سی کیا گرجتے ہیں بادل چمکتی ہے برق! ہوا صحن کا صحن پانی میں غرق گئی نیند اُچٹ پانی کے شور سے بہی جاتی ہیں نالیاں زور سے ٹپکتی ہے بنگلے کی وہ اولتی!! کہ ہے تارِ سیمیں کی چلمن پڑی ہوا زور سے چلتی ہے بار بار پہنچتی ہے کمروں کے اندر پھُہار بنا ہے جو وہ ٹین کا سائباں! ہے اس وقت اگرن کا اس پرگماں عجب لَے سے پانی برستا ہے آج کہ زاہد بھی مے کو ترستا ہے آج چٹانوں پہ کیا لُطفِ نظارہ ہے کہ جو بوند ہے ایک فوارہ ہے صبا کے طپانچے جو کھائے ہیں آج تو پودے سروں کو جھکائے ہیں آج چلی آتی ہے بدلیوں کی قطار! ہوا کے ہیں گھوڑے پہ بادل سوار دُھواں دھار اس وقت چھایا ہے ابر فلک پر سیہ مست آیا ہے ابر اُٹھی شاخِ گل سبزہ کو چوم کر برستی ہے کیا کیا گھٹا جھوم کر ہیں آراستہ سبز پوشانِ باغ ہوا غسل سے ہر شجر کو فراغ یکایک رُکی بوند ٹھہری ہوا نظر آتی ہے اور ہی کچھ فضا تروتازہ ہر نخل ہے شاد کام لبا لب ہیں پانی سے تھالے تمام وہ باغوں میں جھولے پڑے بیشمار وہ ساون بھی گانے لگے گُلْغدار وہ آنبوں کے اشجار پر سامنے! کوئی کُوکتا ہے بڑے زور سے یہ ہے اس صدا کا اثر کان پر کہ دل لوٹ جاتا ہے ہر تان پر اِدھر کہ رہا ہے کوئی ’’پی کہاں‘‘! سُنا یہ تو قابو میں پھر جی کہاں کہیں کوئی چلا رہا ہے کہ ہاں!! ذرا دیکھنا اس گھڑی کا سماں پروں کو سمیٹے ہوئے وہ طیور درختوں پہ بیٹھے ہیں کیا دُور دُور سوالات ۱- نظم بالا کی مدد سے بارش ہونے کے وقت کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچو؟ ۲- اس کا مطلب بتائو؟ اُٹھی شاخِ گل سبزہ کو چوم کر برستی ہے کیا کیا گھٹا جھوم کر ۳- ’’ترشُّح۔ برق۔ صحن کا صحن۔ ارگن۔ مے‘‘ کے معنی بتائو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو؟ ۴- پانچویں شعر کی نثر بنائو۔ ۵- اس نظم سے فعل حال چنو۔ …٭…٭…٭… ۲۶- کنگ لیئر منجھلی فرائض قاصر گوشۂ عافیت مخاطب اظہار سعادت مند مغموم دیوانہ پن بہت زمانہ گذرا۔ مُلک برطانیہ پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کا نام لیئر تھا۔ یہ بادشاہ بہت شان و شوکت رکھتا تھا۔ اس کی سلطنت وسیع تھی۔ اس کی تین بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی گائیزبل تھی۔ جس کی شادی البنی کے نواب کے ساتھ ہوچکی تھی۔ منجھلی کا نام ریگن تھا۔ جو کارنوال کے نواب کی بیوی تھی۔ چھوٹی کا نام کارڈیلیا تھا۔ جس سے شادی کرنے کی آرزو بادشاہ فرانس کو بھی تھی۔ جب بادشاہ کی عمر کوئی اَسّی برس کی ہوگئی اور وہ سلطنت کے فرائض کو ادا کرنے سے قاصر ہوگیا تو اُس نے یہی مناسب سمجھا کہ اپنی زندگی ہی میں اپنی سلطنت کو بیٹیوں میں تقسیم کردے اور خود گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر باقی کے دن یادِ خدا میں بسر کردے۔ ایک دن اُس نے اپنی تینوں بیٹیوں کو دربار میں بلایا۔ا ور اُن کو اور دربایوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’مابدولت اب دنیاوی جھگڑوں سے آزاد ہوکر سفرِ آخرت کی تیاری کرنا چاہتے ہیں اور اس سلطنت کے کام کو جسے اب ہم انجا م نہیں دے سکتے۔ اپنی اولاد کے پُرہمت ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم پوچھنا چاہتے ہیں۔ کہ ہماری اولاد میں سے زیادہ محبت کون کرتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ سلطنت کی تقسیم کے وقت سب سے زیادہ حصہ اُسی کو ملے گا جو اپنی محبت کا سب سے زیادہ حصہ ہم کو دے گی۔ گائیز بل سب سے بڑی بیٹی نے آگے بڑھ کر کہا ’’الفاظ میری محبت کو ظاہر نہیں کرسکتے میں اپنے باپ کو اپنی آنکھوں کی روشنی اپنی زندگی اور آزادی سب سے بڑھ کر چاہتی ہوں۔‘‘ بادشاہ اپنی بیٹی کی زبان سے ایسے میٹھے الفاظ میں اس کی محبت کا اظہار سُن کر بہت خوش ہوا۔ اور اس نے اپنی محبت کے جوش میں سلطنت کا تیسرا حصہ اسے اور اس کے شوہر کو بخش دیا۔ پھر بادشاہ نے اپنی دوسری بیٹی ریگن سے پوچھا۔ اُس نے بڑی شدّ و مد سے محبت کا اظہار کیا۔ اور کہا: ’’جو کچھ میری بہن نے کہا ہے۔ وہ اگرچہ بہت بڑا دعویٰ ہے مگر میری محبت کے مقابل میں ہیچ ہے۔ میں اپنے باپ سے اس قدر محبت کرتی ہوں کہ اس محبت کی خوشی کے سامنے مجھے اپنی تمام خوشیاں بے لطف نظر آتی ہیں‘‘ بادشاہ یہ سُن کر بہت خوش ہوا۔ اور اُس کو بھی سلطنت کا تیسرا حصہ عطا کردیا۔ اب تیسری کی باری آئی۔ کارڈیلیا سے باپ کو بہت زیادہ محبت تھی۔ اس لیے وہ اُمید کرتا تھا کہ اس کی محبت کا اظہار بڑی بہنوں سے زیادہ ہوگا مگر کارڈیلیا کو خوشامد سے نفرت تھی۔ اس کو خوب معلوم تھا کہ گائز بل اور ریگن کے دعوے زبانی ہیں اور اُنھوں نے جھوٹ کہہ کر باپ کو دھوکہ دیا ہے۔ ان کا منشا صرف یہی ہے کہ سلطنت پر قابو پالیں اس لیے اس نے سادگی سے کہا: ’’میں اپنے باپ سے اسی قدر محبت کرتی ہوں جس قدر محبت کرنا ایک سعادت مند بیٹی کا فرض ہے‘‘ بادشاہ یہ سیدھے سادے الفاظ سُن کر غصے میں آگیا۔ اُس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کارڈیلیا بہت ناشکرگذار ہے۔ میں اس سے اتنی کرتا ہوں مگر اس کے دل میں اس کا کچھ اثر نہیں۔ اس کو اس کی بے مروّتی کی سزا دینی چاہیے۔ چنانچے اُس نے اِسی غصہ کی حالت میں کارڈیلیا کا تیسرا حصہ دونوں بڑی بیٹیوں میں برابر تقسیم کردیا۔ اور اُسی وقت دو تاج بنوا کر اُن کے سروں پر رکھ دیے اور یہ انتظام کیا کہ وہ خود سرداروں کے ساتھ ایک ایک مہینہ کے لیے دونوں بیٹیوں کے علاقوں میں رہ کر باقی عمر کا حصہ صرف کردے گا۔ اگرچہ سب سردار بادشاہ کی اس حرکت سے پشیمان تھے۔ مگر ایک جواںمرد اور باہمت سردار سے جو کنٹ کا نواب کہلاتا تھا نہ رہا گیا اور اس نے بادشاہ کو اس کے غلط فیصلے سے آگاہ کیا۔ مگر بادشاہ نے برافروختہ ہوکر اس کو دربار سے نکال دیا۔ پھر بادشاہ نے شاہِ فرانس کو جو اس وقت کارڈیلیا سے شادی کرنے کی آرزو میں آیا ہوا تھا۔ دربار میں بلا کر صورتِ حالات سے آگاہ کیا۔ شاہِ فرانس عقلمند تھا۔ اسے کارڈیلیا کے جہیز یا سلطنت کے حصہ کا لالچ نہ تھا۔ وہ فقط اس سے محبت کرتا تھا۔ چنانچہ وہ کارڈیلیا سے شادی کرنے پر رضامند ہوگیا اور شادی کے بعد اُسے لے کر آپ وطن کو چل دیا۔ کارڈیلیا رخصت کے وقت رو رہی تھی اور اپنے باپ کی آیندہ مصیبتوں کا خیال کرکے مغموم تھی۔ اب بادشاہ کیا آنکھیں کھلیں۔ ابھی پہلا مہینہ ختم نہ ہوا تھا کہ بادشاہ نے دیکھا کہ گائزبل اُس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی۔ آخرکار اُس نے اپنے باپ سے کہا ’’کہ سو سرداروں کی آپ کو کیا ضرورت ہے۔ میرے ملازم آپ کی خدمت کے لیے کافی ہیں‘‘ بادشاہ اس سلوک سے بہت ناخوش ہوا اور ریگن کے پاس چلا گیا۔ ریگن نے بہن سے بھی زیادہ بدسلوکی سے کام لیا۔ اور کہا کہ اگر آپ بہن سے ناراض ہوکر آئے ہیں تو میں آپ کو یہاں نہیں رکھ سکتی۔ بہتر ہے کہ آپ آیا کے پاس چلے جائیے۔ اتنے میں گائز بل خود آپہنچی۔ بادشاہ نے دونوں بیٹیوں کو محبت اور پیار سے ملتے دیکھ کر کہا: ’’تم کو اپنے بوڑھے باپ کی سفید ڈاڑھی کی بھی شرم نہیں آتی کہ اُس کو دربدر پھرنے کے لیے مجبور کرتی ہو۔ اگر تم نے میرے ساتھ یہی سلوک روا رکھا تو میں فرانس چلا جائوں گا‘‘۔ مگر ان دونوں کے دل پر باپ کی آہ و زاری کا کچھ اثر نہ ہوا۔ بادشاہ کا دل ٹوٹ گیا۔ اور اس نے دماغ کو اس قدر صدمہ پہنچایا کہ وہ پاگل ہوگیا اور اسی دیوانہ پن کی حالت میں جنگلوں کی طرف نکل گیا۔ کنٹ کے نواب کو خبر ملی تو وہ فوراً اُس کی تلاش میں نکلا اور پھر جنگل میں اُس کی آسائش کا انتظام کرکے خود فرانس گیا تاکہ کارڈیلیا کو اس کے باپ کی حالت اور بہنوں کے سلوک سے آگاہ کرے۔ کارڈیلیا اور شاہِ فرانس یہ خبر سنتے ہی بیتاب ہوگئے۔ اور ایک جرار فوج لے کر ڈوور پر آ اُترے۔ تاکہ ایسی بے وفا اولاد کو اس کی بدعہدی کا مزا چکھائیں۔ سب سے پہلے تو کارڈیلیا نے اپنے بوڑھے باپ کے علاج کی کوشش کی اور جب وہ اچھا ہوگیا تو اُس کے سامنے آئی۔ بادشاہ اپنے پرانے سلوک کو یاد کرکے آنسو بہا رہا تھا۔ بیٹی سینے سے لگی ہوئی رو رہی تھی۔ بوڑھے بادشاہ نے بیٹی کو دعائیں دے دے کر کہا: ’’بیٹی شاید یہ آنسو اس ظلم کے داغوں کو مٹا دیں جو میں نے تم سے کیا تھا۔‘‘ اس کے بعد دونوں بڑی لڑکیاں آپس کی دشمنی کا شکار ہوکر ماری گئیں۔ اگرچہ کارڈیلیا بھی بہت مدت تک زندہ نہ رہی مگر مرتے وقت اُسے اتنی تسلی ضرور تھی کہ اس کے باپ پر اصلی محبت اور جھوٹے دعووں کی حقیقت کھل گئی۔ سوالات ۱- لیئر کون تھا؟ اور کہاں حکمرانی کرتا تھا؟ ۲- اس نے اپنی لڑکیوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیے؟ ۳- کس لڑکی نے اس کے ساتھ محبت کی اور کس طرح؟ اپنے الفاظ میں بتائو؟ ۴- سفرِ آخرت۔ برافروختہ ہوکر۔ مغموم۔ جرار کے معنی بتائو۔ اور اُن کو اپنے فقروں میں استعمال کرو؟ ۵- رکھتا تھا۔ کون سا فعل ہے۔ اور پالنا مصدر سے اس فعل کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۲۷- مرغِ اسیر اور صیاد اسیر صیاد طائر ذبح مفارقت لعل نہاں جعل اِک مُرغ ہوا اسیرِ صیاد دانا تھا وہ طائر چمن زاد بولا جب اُس نے باندھے بازو کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو بیچا تو ٹکے کا جانور ہوں گر ذبح کیا تو مُشتِ پر ہوں پالا تو مفارقت ہے انجام دانا ہے تو مجھ سے لے مرے دام بازو میں نہ تو مرے گرہ باندھ سمجھائوں جو پند اُسے گرہ باندھ سُن کوئی ہزار کچھ سُنائے کیجیے وہی جو سمجھ میں آئے قابو ہو تو کیجیے نہ غفلت عاجز ہو تو ہاریے نہ ہمت آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجیے جاتا ہو تو اُس کا غم نہ کیجیے طائر کے یہ سُن کلام صیاد بن داموں ہوا غلام صیاد بازو کے جو بند کھول ڈالے طائر نے تڑپ کے پر نکالے اِک شاخ پہ جا چہک کے بولا کیوں پر مرا کیا سمجھ کے کھولا ہمت نے مجھے اُڑایا! غفلت نے تری مجھے چھڑایا دولت نہ نصیب میں تھی تیرے تھا لعل نہاں شکم میں میرے دے کر صیاد نے دلاسا چاہا کہ پھر کچھ لگائے لاسا بولا وہ کہ دیکھ کیا کیا جعل طائر بھی کہیں نگلتے ہیں اربابِ غرض کی بات سُن کر کر لیجیے یک بیک نہ باور سوالات ۱- مُرغِ اسیر نے کیا نصیحت صیاد کو دی؟ ۲- اس شعر کا مطلب بتائو: بازو میں نہ تو مرے گرہ باندھ سمجھائوں جو پند اُسے گرہ باندھ ۳- مُرغِ اسیر۔ صیاد۔ گرہ باندھنا۔ نہاں۔ باور۔ ان کے معنی بتائو اور ان کو اپنے فقرات میں استعمال کرو؟ ۴- بیچا۔ پالا۔ بولا۔ یہ کون کون سے فعل ہیں۔ جانا مصدر سے اس فعل کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۲۸- دُنیا کی سب سے بڑی چیز تعجب ماجرا بالائی فلاسفر کسوٹی معقول شبیہ شاہانہ انداز حیرت کا عالم (۱) ایک دِن جب بیربر دربار سے گھر کو جارہا تھا۔اُس نے رستے میں دیکھا کہ ایک غریب لڑکا درخت کے نیچے بیٹھا ہے۔ا ور ایک ایک کرکے چنے چبا رہا ہے۔ بیربر نے تعجب سے پوچھا کہ یہ تم ایک ایک دانہ کیوں کھا رہے ہو۔ مٹھی بھر چنے ہیں ایک دو دفعہ ختم کر ڈالو۔ لڑکا پہلے تو کچھ خاموش رہا۔ پھر آہستہ سے بولا۔ وزیر صاحب میں کئی دن کا بھوکا ہوں۔ یہ مٹھی بھر چنے میرے لیے بالکل ناکافی ہیں۔ اسی لیے ایک ایک دانہ کھا رہا ہوں کہ شاید اسی طرح کچھ تسلی ہوجائے۔ بیربر یہ جواب سُن کر بہت خوش ہوا۔ اور لڑکے کو اپنے گھر لے گیا۔ وہاں اُسے عمدہ کھانا ملتا تھا۔ عمدہ کپڑا دیا جاتا تھا۔ اور ایک سجا ہوا کمرہ اس کے رہنے کے لیے مقررہ تھا۔ چند ہی دنوں میں اس کی حالت تبدیل ہوگئی۔ اُس کے چہرے پر رونق آگئی۔ جسم خوب بھر گیا۔ جو دیکھتا تھا اس کی طبیعت خوش ہوجاتی تھی۔ (۲) کہتے ہیں بادشاہ اکبر بعض اوقات اپنے وزیروں سے بڑے بڑے مشکل سوال کیا کرتا تھا۔ ایک دن بیربر سے بولا: کیوں بیربر دُنیا میں سب سے بڑی چیز کیا ہے؟ بیربر نے کہا: خداوند! یہ سوال بڑا مشکل ہے۔ اس کا جواب دینے کے لیے ایک ماہ کی مہلت ملنی چاہیے۔ بادشاہ نے مہلت تو دے دی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس عرصے کے بعد مجھے صحیح جواب نہ ملا تو تمھیں قتل کر دیا جائے گا۔ اب بیربر دن رات اُداس رہنے لگا۔ وہ سوچتا تھا کہ کیا کروں اور کس طرح پتا چلائوں۔ کہ دنیا میں سب سے بڑی چیز کیا ہے۔ کسی نے کہا خوبصورتی۔ کسی نے کہا اولاد۔ کسی نے کہا تندرستی۔ غرض جو جس کے جی میں آیا کہا۔ آخر ایک شخص بولا یہ سب غلط ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی چیز آدمی کا چال چلن ہے۔ ایک اور شخص نے کہا یہ بھی نہیں۔ دنیا میں سب سے بڑی چیز آدمی کا اقبال ہے۔ ایک سادھو بولا۔ بابا! کیوں ناحق سر کھپا رہے ہو۔ جائو جاکر بادشاہ سے کہہ دو کہ دنیا میں سب سے بڑی چیز خدا کی بندگی ہے۔ ایک شرابی نے کہا خدا کی بندگی بھی کوئی چیز ہے؟ دنیا میں سب سے بڑی چیز دل کی خوشی ہے۔ مگر بیربر کو ان میں سے کوئی جواب بھی پسند نہ آیا۔ جوں جوں مہینے کے دن گزرتے جاتے تھے۔ اُس کا فکر بڑھتا جاتا تھا۔ اور اُسے یقین ہوتا جاتا تھا کہ اب موت کا دن قریب آرہا ہے۔ یہاں تک کہ اُنتیس دن گذر گئے۔ دوسرا دن جواب کے لیے آخری دن تھا۔ بیربر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اتنے میں اُس لڑکے نے سامنے آکر رونے کی وجہ دریافت کی۔ بیربر نے کہا۔ بیٹا! کیا پوچھتا ہے۔ کل میری زندگی کا آخری دن ہے۔ اسی لیے روتا ہوں۔ لڑکے نے پوچھا: ’’مگر کیوں؟ آپ کا قصور کیا ہے؟‘‘ بیربر نے تمام ماجرا کہہ سنایا۔ لڑکے نے کچھ دیر کے بعد جواب دیا: ’’یہ تو بالکل معمول سوال ہے۔ آپ کل جب دربار میں جائیں تو بادشاہ سے کہہ دیں کہ دنیا میں سب سے بڑی چیز عقل ہے۔‘‘ بیربر سے سوچ کر دیکھا تو لڑکے کی بات دل میں کھب گئی۔ اور اُسے یقین ہوگیا کہ اب جان بچ جائے گی۔ دوسرے دن جب دربار میں گیا تو طبیعت بشاش تھی۔ بادشاہ نے تخت پر پائوں رکھتے ہی پوچھا: ’’بیربر! بولو۔ دنیا میں سب سے بڑی چیز کیا ہے؟‘‘ بیربر نے کھڑے ہوکر اور ہاتھ باندھ کر جواب دیا: ’’بادشاہ سلامت! دنیا میں سب سے بڑی چیز عقل ہے‘‘ بادشاہ نے جواب دیا: ’’بیربر تم نے ٹھیک کہا ہے۔ واقعی دنیا میں سب سے بڑی چیز عقل ہے مگر اب یہ بتائو کہ عقل کھاتی کیا ہے؟ اس کے لیے بھی تمھیں ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اور اس دفعہ بھی شرط یہی ہے کہ اگر جواب صحیح نہ ہوا تو تمھارا سر کاٹ دیا جائے گا‘‘ (۳) بیربر کے ہوش اُڑ گئے۔ اُسے یقین ہوگیا کہ اب کے موت سے بچنا مشکل ہے۔ وہ دن رات سوچتا رہتا تھا مگر اُسے کوئی خیال نہ سوجھتا تھا۔ اب کے پھر وہ عقلمند آدمیوں سے پوچھنے لگا۔ کسی نے کہا عقل بادام کھاتی ہے۔ کسی نے کہا گھی۔ کسی نے کہا دودھ۔ کسی نے کہا بالائی۔ ایک فلاسفر نے کہا۔ جس چیز کو کھا کر کوئی بڑھے۔ وہی اُس کی خوراک کہلاتی ہے۔ عقل فلسفہ سے بڑھتی ہے۔ اس لیے عقل فلسفہ کھاتی ہے۔ ایک مُلّا صاحب نے کہا۔ عقل مار کھا کر بڑھتی ہے۔ اس لیے عقل کی خوراک مار ہے۔ ایک اور آدمی نے کہا۔ عقل کی خوراک محبت ہے۔ ایک پنڈت نے کہا عقل کی خوراک کتابیں ہیں۔ بیربر نے ہر ایک سوال کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا۔ مگر کوئی کھرا نہ اُترا۔ سب میں کھوٹ بھرا تھا۔بیربر پھر مایوس ہوگیا۔ اور جب مہینے کے اُنتیس دن گزر گئے۔ تو ایک ٹوٹی ہوئی کھاٹ لے کر لیٹ گیا۔ سارے محل میں شور مچ گیا۔ ہوتے ہوتے اُس لڑکے تک بھی یہ بات پہنچ گئی۔ اُس نے آکر پوچھا: ’’کیوں مہاراج! اب آپ کے رنجیدہ ہونے کا کیا سبب ہے؟‘‘ بیربر نے غمگین لہجہ میں جواب دیا: بیٹا! بادشاہ نے جو پہلا سوال کیا تھا۔ اُس کا صحیح جواب دے کر تم نے میری جان بچا لی تھی۔ مگر اب کے جو سوال پوچھا ہے اس کا جواب نہایت مشکل ہے۔ تم بھی نہ بتا سکو گے۔ لڑکے نے کہا: ’’کیا سوال ہے؟‘‘ ’’یہ کہ عقل کھاتی کیا ہے؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ یہ سوال تو پہلے سوال سے بھی آسان ہے۔ جاکر بادشاہ سلامت سے کہہ دیجیے کہ عقل غم کھاتی ہے۔ غم وہی کھاتے ہیں فکر وہی کرتے ہیں جو دانا ہیں۔ جن کے سر میں دماغ اور دماغ میں نہیں۔ وہ غم نہیں کھاتے نہ کبھی فکر کرتے ہیں۔ نہ کچھ سوچتے ہیں۔ بیربر کے مردہ جسم میں جان پڑ گئی۔ یہ جواب بالکل درست معلوم ہوا۔ دوسرے دن دربار گئے تو چہرے پر پھر وہی رونق تھی۔ وقت مقررہ پر اکبر بادشاہ نے تخت پر قدم رکھا۔ اور چھوٹتے ہی پوچھا: ’’بیربر! میرے سوال کا جواب لائے؟‘‘ بیربر نے سر جھکا کر جواب دیا: ’’بادشاہ سلامت! دنیا میں سب سے بڑی چیز عقل ہے اور وہ غم کھاتی ہے۔‘‘ اکبر نے کہا: ’’بیربر! تم نے بہت ٹھی کہا۔ سچ مچ عقل کی خوراک غم ہے۔ مگر اب یہ بتائو کہ عقل پیتی کیا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ یہ سوال بھی بہت مشکل ہے۔ اس لیے اب کے بھی تمھیں ایک مہینے کی مہلت دی جاتی ہے۔ اگر جواب درست نہ ہوا تو جان کی خیر نہ سمجھو‘‘ (۴) بیربر کے سر پر بجلی سی گر پڑی۔ اُنھوں نے سوچا۔ دو دفعہ لڑکا جان بچا چکا ہے۔ مگر اس مرتبہ سوال بہت ہی مشکل ہے۔ اس کا جواب وہ بھی نہ دے سکے گا۔ بہت دن تک غور کرتے رہے کہ عقل پیتی کیا ہے؟ مگر اس کا کوئی جواب نہ ملا۔ بیربر نے پھر دانائوں سے پوچا۔ کسی نے کہا عقل نصیحتیں پیتی ہے۔ کسی نے کہا۔ عقل آفتیں پیتی ہے۔ کسی نے جواب دیا۔ عقل علم پیتی ہے۔ کسی نے بتایا عقل تجربہ پیتی ہے۔ مگر بیربر کو کوئی جواب ٹھیک نہ معلوم ہوا۔ آخرکار جب مہینہ ختم ہونے والا تھا۔ اُس نے پھر اُسی لڑکے سے پوچھا: ’’بیٹا! تم نے مجھے بتایا تھا کہ دنیا میں سب سے بڑی چیز عقل ہے اور وہ غم کھاتی ہے۔ اب بادشاہ سلامت پوچھتے ہیں کہ عقل پیتی کیا ہے۔ کیا تم میری اس مشکل کو بھی حل کرسکتے ہو؟ سوال بڑا ٹیڑھا ہے‘‘ لڑکے نے جواب دیا: ’’مہاراج کوئی بات نہیں آپ فکر نہ کریں۔ رات کو آرام سے سوئیں اور کل جب دربار میں تشریف لے جائیں تو بادشاہ سلامت سے کہہ دیں کہ دنیا میں سب سے بڑی چیز عقل ہے۔ وہ غم کھاتی ہے اور غصہ پیتی ہے۔ غصہ وہی پی سکتا ہے اور اپنے آپ پر قابو وہی پاسکتا ہے جو عقلمند ہو۔ نادان لوگ ذرا ذرا سی بات پر لڑ مرتے ہیں اور اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی زندگیاں برباد کردیتے ہیں۔ (بیربر نے یہ جواب سُنا تو دنگ رہ گئے۔ اُنھیں تعجب ہوا کہ یہ لڑکا کس قدر قابل اور سمجھ دار ہے۔ اُن کی نگاہوں میں اُس کی عزت کئی گنا بڑھ گئی۔ دوسرے ہی دن اُنھوں نے دربار میں جاکر یہ جواب بھی سُنا دیا۔ اکبر بادشاہ بہت خوش ہوئے اور بولے: ’’بیربر! واقعی تم بہت عقلمند اور بہت دانا ہو۔ میرے سوال بہت ٹیڑھے تھے۔ مگر تم نے ان کا جواب نہایت ہی عمدگی سے دیا ہے۔ میں تم سے بے حد خوش ہوں۔ لیکن اب ایک اور سوال باقی ہے۔ اُمید ہے تم اس کا بھی صحیح جواب دے سکو گے اور وہ سوال یہ ہے کہ عقل کی شکل کیا ہے؟ جائو جاکر مہینہ بھر غور کرو اور اس کا جواب مجھے لا کر دو۔ ورنہ قتل کردیے جائو گے‘‘ (۵) بیربر نے سوچا۔ اب کے بچنا مشکل ہوگا۔ لڑکے نے نہایت مشکل سوالوں کے جواب دے دیے ہیں۔ مگر یہ سوال تو بڑا ہی بے ڈھب ہے۔ عقل کی شکل کیا ہے۔ بیربر سمجھ نہ سکے۔ کسی نے کہا عقل کی شکل ایک پری کی سی ہے۔ جو ہوا میں اُڑتی جاتی ہے اور زمین والوں پر رحمت اور برکت کے موتی برساتی جاتی ہے۔ کسی نے کہا۔ عقل کی شکل ایک دیوی کی سی ہے۔ جو ایک ہاتھ سے ستار بجا رہی ہے۔ دوسرے میں ایک کتاب لیے ہوئے ہے اور ایک خوبصورت راج ہنس پر سوار پانی میں تیر رہی ہے۔ کسی نے کہا۔ عقل کی شکل دکھانا ہے تو ایک چابی کی تصویر بنائو۔ جو بڑے سے بڑے صندوق کو کھول سکتی ہے۔ کسی نے رائے دی۔ ایک بھاری بھرکم آدمی کی شبیہ تیار کرائو جو جدھر جھکتا ہے۔ قدرت کے پردوں کو پھاڑ دیتا ہے۔ ایک شخص نے کہا۔ اندھیرے کمرے میں ایک کمزور آدمی دکھائو۔ جو اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے کچھ سوچ رہا ہو۔ یہ عقل کی شکل ہوگی۔ دوسرا بولا چوکی پر قلم اور دوات دکھا دو۔ بادشاہ خوش ہوجائے گا۔ ان میں سے ہر ایک جواب معقول معلوم ہوتا تھا مگر بیربر کی کسی سے بھی تسلی نہ ہوئی۔ آکر پھر اُسی لڑکے کو بلایا اور کہا: ’’اب یہ بتانا باقی ہے کہ عقل کی شکل کیا ہے؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا: ’’مہاراج! اس سوال کا جواب میں آپ کو بتا تو نہیں سکتا۔ ہاں اتنا کرسکتا ہوں کہ آپ کی بجائے دربا رمیں چلا جائو اور جاکر بادشاہ کے سامنے عقل کی شکل کا نقشہ کھینچ دوں۔ آپ سے جب وہ پوچھیں کہ بتائو عقل کی شکل کیا ہے تو آپ بے خوفی سے کہہ دیں کہ اس سوال کا جواب میرا ایک ملازم لڑکا دے گا۔ اُسے بلوا بھیجئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوگا اُس سے میں سمجھ لوں گا۔‘‘ بیربر نے ایسا ہی کیا اور دربار میں جاکر کہہ دیا کہ بادشاہ سلامت! آپ کے اس آخری سوال کا جواب میرا ایک ملازم لڑکا دے سکے گا۔ حکم ہو تو اُسے بلا لیا جائے۔ بادشاہ نے سر ہلا کر رضامندی کا اظہار کیا۔ بیربر نے ایک آدمی اپنے گھر بھیج دیا۔ (۶) جب لڑکا دربار میں آیا تو شہزادوں کا سا لباس پہنے ہوئے تھا اور بہت خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ اُس نے دربار میں حاضر ہوکر ادب سے سلام کیا اورچپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ اکبر نے پوچھا: ’’کیوں لڑکے! کیا تجھے معلوم ہے کہ عقل کی شکل کیا ہے؟‘‘ لڑکے نے جواب دیا: ’’ہاں بادشاہ سلامت! مجھے معلوم ہے کہ عقل کی شکل کیسی ہے؟‘‘ ’’بیان کرو؟‘‘ ’’ایک عرض ہے‘‘ ’’کیا؟‘‘ ’’اس سوال کا جواب میں دے دوں گا۔ اور عقل کی شکل آپ کو دکھا دوں گا۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک گھنٹہ کے لیے مجھے بادشاہی دے دی جائے اور تمام حاکموں کو حکم دے دیا جائے کہ وہ میرے ہر ایک حکم کی اس طرح تعمیل کریں۔ جس طرح آپ کی کرتے ہیں۔‘‘ بادشاہ نے کچھ دیر سوچا اور تب جواب دیا: ’’مجھے منظور ہے‘‘ بادشاہ نے ویسا ہی کیا۔ لڑکا تخت پر چڑھ گیا۔ اور شاہانہ انداز سے چوکی پر بیٹھ گیا۔ تاج اُس کے سر پر تھا۔ تمام درباریوں پر حیرت کا عالم طاری تھا۔ یکایک لڑکا جوش سے کھڑا ہوگیا۔ اور بولاد: ’’جلاد‘‘ لوگوں کے دم رُک گئے۔ فوراً ہی فلاج حاضر ہوا۔ اور سرجھکا کر کھڑا ہوگیا۔ لڑکے نے کہا: ’’گرفتار کرلو۔ یہ قاتل ہے‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے اکبر کی طرف اشارہ کردیا۔ دربار میں شور مچ گیا۔ لوگوں نے تلواریں نکال لیں۔ مگر لڑکا کڑک کر بولا: ’’میں بادشاہ ہوں۔ میرے عہد کی میعاد ایک گھنٹہ ہے۔ اور بادشاہ سلامت گواہ ہیں کہ وہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ تم کچھ نہیں کرسکتے‘‘ اکبر نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ سب نے تلواریںجھکا لیں۔ لڑکے نے کہا: ’’جلاد تلوار نکال لو‘‘ جلاد نے تلوار نکال لی۔ ’’آپ سر جھکا لیں‘‘ اکبر نے سر جھکا لیا۔ لڑکا بولا: ’’بادشاہ سلامت! دیکھ لیجیے۔ عقل کی یہی شکل ہے۔ میں غریب لڑکا ہوں۔ مگر آج تخت پر بیٹھا ہوں۔ آپ بادشاہ ہیں۔ مگر بے بس ہو رہے ہیں۔ عقل اسی طرح اُوپر والوں کو نیچے اور نیچے والوں کو اُوپر کرتی رہتی ہے۔ یہی عقل کی شکل ہے۔ یہی اس کی تصویر ہے۔‘‘ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اُس کے سوالوں کے جواب مل گئے۔ سوالات ۱- سبق بالا کی مدد سے بتائو کہ دنیا کی سب سے بڑی چیز کیا ہے اور وہ کیا کھاتی ہے اور کیا پیتی ہے؟ ۲- ثابت کرو کہ عقل غم کھاتی ہے؟ ۳- چھوٹے لڑکے نے کس طرح اکبر بادشاہ کو عقل کی شکل دکھائی؟ ۴- کھب جانا۔ بجلی گرنا۔د نگ رہ جانا کا مطلب بتائو اور ان کو اپنے فقروں کو استعمال کرو؟ ۵- بیٹھا ہے۔ چبا رہا ہے۔ کیسے فعل ہیں۔ کھانا مصدر سے ان کی پوری گردان کرو۔ …٭…٭…٭… ۲۹- جگنو کاشانۂ چمن انجمن مہتاب ظلمت گہن حسنِ قدیم پوشیدہ خلوت جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں آیا ہے آسمان سے اُڑ کر کوئی ستارہ! یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں حُسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اِک جھلک تھی لے آئی جس کو قدرت خلوت سے انجمن میں سوالات ۱- نظم بالا کا مطلب آسان اُردو میں لکھو؟ ۲- پہلے شعر کی نثر بنائو؟ ۳- تیسرے شعر کی تشریح کرو۔ اور بتائو کہ ’’نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی گہن میں‘‘ کا کیا مطلب ہے اور گہن سے یہاں کیا مراد ہے؟ ۴- نظم بالا میں جو اسم واحد ہیں۔ اُن کی جمع اور جو جمع ہیں۔ اُن کے والد لکھو؟ …٭…٭…٭… ۳۰- مینا عبادت تلاوتِ قرآن حجرہ مسل کر انتقال جنازہ لہٰذا نافرمانی مینا ایک خوش رنگ اور کبوتر سے کچھ چھوٹا جانور ہوتا ہے۔ اس کے کھلے سیاہی مائل پروں میں کہیں کہیں سفید پر نہایت ہی بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ کسی شہر میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ جو نہایت ہی نیک اور اللہ والے تھے۔ انھیں سوائے خدا کی عبادت کے کوئی کام پسند نہ تھا۔ وہ دن رات خدا کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ یہاں تک جب ان کے بیوی بچے کسی وبا میں مرگئے۔ اور گھر میں کوئی نہ رہا۔ تو اُنھوں نے اپنی تمام دولت اور جائداد اور گھر خدا کی راہ میں دے دیا۔ اور خود محلہ کی ایک مسجد میں رہنے لگے۔ جہاں وہ ہر وقت خدا کی یاد اور نماز و تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے تھے۔ جب یہ بزرگ مسجد میں رہنے لگے۔ تو محلہ والے تو اُنھیں پہلے ہی جانتے تھے کہ وہ ایک نہایت ہی بزرگ اور نیک آدمی ہیں۔ اس لیے ان کے کھانے پینے کا انتظام محلہ والوں نے کردیا۔ لیکن ان کو اللہ پاک سے اس قدر محبت تھی کہ وہ پیٹ بھر کر کبھی کھانا نہیں کھاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر میں خوب پیٹ بھر کر کھانا کھا لوں گا تو مجھ میں سستی آجائے گی اور پھر میں خدا کی عبادت اچھی طرح نہ کرسکوں گا۔ بس اسی خیال سے وہ ہمیشہ آدھا پیٹ کھانا کھاتے تھے۔ اور جو کچھ روٹیاں بچ جاتی تھیں۔ اُنھیں رات کو حفاظت سے رکھ دیتے تھے اور صبح سویرے اُن روٹیوں کو لے کر مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے اور چڑیوں کو کھلایا کرتے تھے۔ کچھ مدت تک جب یہ برابر روٹیاں چڑیوں کو کھلاتے رہے تو اب چڑیاں ان بزرگ صاحب سے بہت ہل گئیں۔ اور جہاں سویرا ہوا کہ بہت سی چڑیاں مسجد کے صحن میں پہلے ہی سے آبیٹھتی تھیں۔ اور جب یہ بزرگ صاحب اپنے حجرہ سے روٹیاں لے کر صحن میں آتے تو چڑیاں بڑے پیار سے اُڑ اُڑ کر اُن کے سر اور کاندھوں پر بیٹھ جاتی تھیں۔ اور یہ اُنھیں روٹیاں باریک باریک مسل کر کھلاتے جاتے تھے۔ بعض اوقات بزرگ صاحب کو اگر حجرہ سے نکلنے میں دیر ہوجاتی تھی تو چڑیاں حجرہ کے آس پاس چیختی پھرتی تھیں۔ اور جب بزرگ صاحب باہر آجاتے تو وہ سب کی سب اُڑ کر اُن کے اُوپر آبیٹھتی تھیں۔ اور پھر شور نہیں کرتی تھیں۔ غرض بہت دنوں تک بزرگ صاحب ان چڑیوں کو روٹی کھلاتے رہے۔ اتفاقاً ایک دن ایک مینا بھیا س مسجد کی چھت پر آبیٹھی۔ اُس نے دیکھا کہ مسجد کے صحن میں سینکڑوں چڑیاں چگ رہی ہیں اورایک ضعیف آدمی بیٹھا اُنھیں روٹیاں توڑ توڑ کر ڈال رہا ہے اور چڑیاں ہیں کہ اس کے سر اور کاندھوں پر اُڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ مگر وہ اُن سے کچھ نہیں کہتا یہ دیکھ کر مینا کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ چلو میں بھی چلوں اور اِن چڑیوں کے ساتھ میں بھی کچھ کھا لوں۔ یہ سوچ کر مینا بھی ڈرتے ڈرتے صحن میں اُتری۔ مگر جیسے ہی مینا چڑیاں کے جھنڈ میں پہنچی۔ چڑیوں نے چاروں طرف سے اُسے کاٹنا اور نوچنا شروع کردی۔ بیچاری مینا گھبرا کر کر پھر مسجد کی چھت پر جابیٹھی۔ بزرگ صاحب نے دیکھا کہ ایک خوبصورت مینا روٹی کھانے اُتری تھی مگر چڑیوں کے کاٹنے اور نوچنے کی وجہ سے وہ چھت پر جابیٹھی ہے۔ تو اُنھوں نے تھوڑی سی روٹی توڑ کر اور چڑیوں کی آنکھ بچا کر چھپ پر ہی پھینک دی۔ جسے مینا نے بڑی خوشی اور اطمینان سے کھا لیا۔ اور پھر اُڑ گئی۔ چونکہ مینا کو روٹی بہت پسند آئی اور اُسے ملی بھی پیٹ بھر کر۔ اس لیے اب مینا روزانہ مسجد میں آنے لگی اور اُس نے اِدھر اُدھر چگنا چھوڑ دیا۔ رفتہ رفتہ مینا بھی بزرگ صاحب سے ہل گئی۔ اب تو وہ بزرگ صاحب کے پاس سے ایک پل کو بھی جدا نہیں ہوتی تھی۔ ہاں جس وقت یہ بزرگ نماز یا وظیفہ میں مصروف ہوجاتے تو اس وقت تمام چڑیاں تو اُڑ جاتیں۔ لیکن مینا مسجد کی چھت پر ہی بیٹھی رہتی۔ اور جیسے ہی بزرگ صاحب مسجد کے اندر سے باہر صحن میں آتے مینااُڑ کر ان کے کاندھے پر آبیٹھتی۔ جب بزرگ صاحب نے مینا کی محبت کا یہ حال دیکھا۔ تو اُنھیں بھی مینا سے بہت محبت ہوگئی اور اب وہ تمام چڑیوں سے زیادہ مینا کو چاہنے لگے۔ اور اُس کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔ خدا کی شان کہ کچھ دن بعد یہ بزرگ صاحب سخت بیمار ہوگئے اور بیماری حد سے زیادہ بڑھ گئی جس کی وجہ سے اُنھیں نماز پڑھنا بھی مشکل ہوگیا اب تمام چڑیاں اپنے وقت پر آتیں اور بزرگ صاحب کو مسجد کے صحن میں نہ پاکر چلی جاتیں۔ لیکن مینا کا یہ حال کہ وہ مسجد کی چھت سے جدا نہیں ہوتی ہے۔ کبھی حجرہ کی چھت پر آبیٹھتی ہے۔ اور کبھی پھر مسجد میں چلی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس طرح کوئی تین دن گذر گئے۔ اب نہ تو مینا کہیں اُڑ کر ہی جاتی ہے اور نہ کہیں کچھ کھاتی پیتی ہے۔ اُدھر بزرگ صاحب کی بیماری دن بدن بڑھتی گئی۔ اور چوتھے دن اُن کا انتقال ہوگیا۔ جب بزرگ کا جنازہ لے کر لوگ حجرہ سے نکلے۔ تو مینا بھی چیختی ہوئی اُن کے جنازہ کے اُوپر اُڑنے لگی۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک مینا بزرگ کے جنازہ کے ساتھ ساتھ چیختی ہوئی چل رہی ہے وہ کبھی اُن کے جنازہ پر بیٹھ بھی جاتی ہے یہاں تک کہ جب اُن بزرگ کو دفن کردیا تو مینا وہیں ایک درخت پر بیٹھ رہی۔ لوگوں نے دیکھا کہ جو مینا جنازہ کے ساتھ ساتھ اُڑتی آرہی تھی وہ وہیں ایک درخت پر بیٹھ رہی ہے۔ مینا کی اس حرکت سے بعض لوگوں نے پہچان لیا کہ مینا کو بزرگ صاحب سے بہت محبت ہوگئی تھی۔ اسی لیے وہ اُن کی موت سے بہت بے چین ہے۔ لہٰذا اُن لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں تو اسی درخت کے نیچے دیر بیٹھتا ہوں اور یہ دیکھوں گا کہ آخر یہ مینا اب کرتی کیا ہے؟ اس خیال کے ساتھ اُن میں سے ایک شخص اس درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ جب سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تو اُس شخص نے دیکھا کہ یہ مینا درخت سے نیچے اُتری اور قبر پر جاکر بیٹھ گئی۔ اور کچھ دیر کے بعد اُس نے اپنی چونچ سے اُس قبر کو کھودنا شروع کیا۔ اور پھر اُس نے زور سے ایک چیخ ماری اور مرگئی۔ مینا کا یہ حال دیکھ کر اُس شخص پر بہت اثر ہوا اور یہ دوڑتا ہوا شہر میں آیا اور شہر میں آکر اُس نے یہ تمام قصہ شہر کے قاضی صاحب کو سُنایا۔ جب قاضی صاحب نے مینا کا یہ قصہ سُنا تو وہ بہت روئے۔ اور فرمانے لگے۔ کہ آہ! یہ تو ایک جانور تھا۔ جس نے بزرگ صاحب کے صرف روٹی کھلانے کے احسان میں اُن کے ساتھ اپنی جان دے دی۔ مگر ہم آدمی ہیں اور اپنے خدا کا کوئی شکر ادا نہیں کرتے۔ جس نے ہم کو دنیا کی تمام چیزیں عطا کی ہیں۔ ہم اپنے ماں کا ادب نہیں کرتے جو ہم کو بڑی محنت سے پالتے ہیں اور تمام عمر ہماری خدمت کرتے ہیں۔ ہم کو اچھے سے اچھا کھانا کھلاتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ کپڑے پہناتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی دولت سے لکھاتے پڑھاتے ہیں۔ راتوں کو ہماری خدمت کے لیے سوتے نہیں ہیں۔ مگر ہم جوان ہوکر اُن کا کہنا بھی نہیں مانتے۔ ہمیں تو یہ چاہیے تھا کہ ہم سمجھ دار ہوکر اُن کی خدمت کرتے جو کچھ کما کر لاتے۔ اُن کے ہاتھ میں دیتے۔ کیونکہ اُنھوں نے ہمارے لیے حد سے زیادہ مصیبتیں اُٹھائی ہیں جو بچے بڑے ہوکر اپنے خدا کی نافرمانی کرتے ہیں یا جو اپنے ماں باپ کو ستاتے ہیں۔ وہ مینا جیسے جانور سے بھی گئے گذرے ہیں۔ جس نے ایک بزرگ کے احسان کے بدلے میں اپنی عزیز جان دے دی۔ سوالات ۱- مینا کس قسم کا پرندہ ہے۔ اس کا قد کتنا بڑا ہوتا ہے۔ اس کے پروں کا رنگ کیسا ہوتا ہے؟ ۲- مینا اور بزرگ کی محبت کس طرح ہوئی۔ اور مینا نے بزرگ کے انتقال کر جانے پر جو محبت کا اظہار کیا۔ اُس کو اپنے لفظوں میں لکھو؟ ۳- چڑیوں کی محبت اصلی تھی یا مینا کی۔ جواب مدلل لکھو؟ ۴- عبادت۔ تلاوت۔ حجرہ۔ انتقال۔ جنازہ کے معنی بتائو اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو؟ ۵- ’’رہتے تھے‘‘ کون سا فعل ہے۔ اس کے بنانے کا قاعدہ بتائو اور پالنا مصدر سے اس کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۳۱- سکندر اعظم (۱) براعظم گریس جہالت تصنیفات مذاق مہارت محسوسات مقدونیہ تحسین شہسواری ہندوستان کے شمال مغرب اور بر اعظم یورپ کے جناب میں ایک چھوٹا سا مُلک واقع ہے۔ جس کو اہل فرنگ گریس اور اہل ایشیا یونان کہتے ہیں۔ یہ مُلک گو وسعت میں کم ہے۔ مگر شہرت میں دنیا کے کُل ملکوں سے زیادہ ہے۔ جس زمانے میں یورپ کے سارے ملکوں پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اُس وقت وہاں علم و فضل کی وہ روشنی تھی۔ جو شاید ہندوستان کے سوا کسی مُلک کو نصیب نہ ہوگی۔ بقراط و سقراط او رارسطو و افلاطون جیسے نامور حکیم گذرے ہیں۔ اور ہندوستان کے لوگ ان کے ناموں سے ناآشنا نہیں ہیں۔ سب اسی خطے کی خاک سے پیدا ہوئے تھے۔ شعر و سخن کی وہاں اتنی گرم بازاری تھی کہ یورپ کے لوگ آج تک اُن شاعروں کی تصانیف کو بڑی رغبت سے پڑھتے ہیں اور جس کو ان کے سمجھنے کا مذاق نہیں ہوتا اُسے فاضلوں میں شمار نہیں کرتے۔ پھر سنگ تراشی اور معماری اور مصوری غرض کوئی ایسا فن نہ تھا۔ جس میں وہاں کے لوگ اور مُلکوں کے باشندوں پر فائق نہ ہوں۔ باوصوف اس کے فنِ جنگ میں بھی ایسی مہارتِ کامل رکھتیت ھے۔ کہ کسی کو اُن کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ یہ مُلک ابتدا سے مختلف ریاستوں میں اس طرح منقسم تھا کہ جتنے شہر تھے۔ اُتنی ہی ریاستیں تھیں اور اُن میں ہمیشہ لڑائی رہا کرتی تھی۔ مگر زبان و مذہب اور اطوار و نسل کے لحاظ سے سب ایک تھے۔ سب کے سب ہندوئوں کی طرح مختلف دیوتائوں اور دیویوں کی پرستش کرتے تھے۔ اور ان کی صورتیں اپنی صورت کے مشابہ تصور کرتے تھے۔ زمین و آسمان، آفتاب و مہتاب، بحر و دریا اور ساری چیزیں جن میں انسان سے زیادہ قدرت پائی جاتی ہے۔ ان کے نزدیک عبادت کے قابل تھیں۔ اور اُن کے لیے اُنھوں نے کچھ خاص صورتیں ٹھیرا کر دیوتا مان رکھا تھا۔ اسی طرح صفاتِ انسانی مثلاً رحم و انصاف، عشق و غضب کی بھی پوجا ہوتی تھی۔ اور عالم محسوسات میں جتنی چیزیں خوشنما اور دلکش نظر آتی ہیں۔ وہ سب اُن کے ہاں دیوتا سمجھی جاتی تھیں۔ ان کے علاوہ جو لوگ اُن کی قوم میں بہادر اور جواںمرد ہوگئے تھے۔ ان کی بھی پرستش ہوتی تھی۔ اس مُلک کے شمال میں ایک اور چھوٹا سا مُلک واقع ہے۔ اور وہ مقدُونیہ کہلاتا ہے۔ اب وہ سلطان روم کی سلطنت میں داخل ہے۔ مگر جس زمانے کا ہم ذکر کرتے ہیں۔ اس وقت ایک خاندان کے بادشاہ حکمرانی کرتے تھے۔ جو اپنے تئیں یونانی بتاتے ہیں۔ ابتدا میں اس ریاست کو بہت رونق اور قدرت حاصل نہ تھی۔ مگر رفتہ رفتہ زور پکڑتی گئی اور سال مسیحی سے ۳۶۰برس پہلے فیلقوس کے عہدِ حکومت میں اس کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ اس بادشاہ نے اپنی شجاعت اور لیاقت سے اس سلطنت کو بہت بڑھایا۔ اور یونان کی کل ریاستوں کو بھی اپنا تابع فرمان بنایا۔ چونکہ قدیم سے اہل یونان اور اہل فارس میں جنگ چلی آتی تھی اور ایک بار اہلِ فارس نے مقدونیہ کو اپنا باجگزار بھی کرلیا تھا۔ اس سبب سے سب نے متفق ہوکر اہل فارس کے مقابلے کے واسطے فیلقوس کو اپنا سپہ سالار مقرر کیا وہ جنگ کے سامان کر رہی رہا تھا کہ مقدونیہ کے ایک امیر نے اس کا کام تمام کردیا۔ اور اس کا بیٹا سکندر بیس برس کی عمر میں باپ کا جانشین ہوا۔ یہ شہر یار مسیح سے ۳۵۶برس پہلے پیدا ہوا تھا اور بچپن ہی سے اس کی حرکات و سکنات اور بات سے بات عقل و دانش اور ہمت و شجاعت نمایاں تھی۔ وہ بارہ برس کا ہوگا کہ فیلقوس کسی مہم پر گیا اور اس کی غیبت میں شاہِ فارس کے ایلچی مقدونیہ میں آئے۔ سکندر ان سے اس طرح پیش آیا۔ اور ایسی معقول گفتگو زبان پر لایا کہ وہ حیران رہ گئے۔ اس نے ان سے کوئی بات بچوں کی سی نہ کی بلکہ یہ دریافت کیا۔ کہ فارس میں بڑے بڑے شہر کون سے ہیں۔ اور کتنے کتنے فاصلے پر واقع ہیں۔ سڑکوں کا کیا حال ہے اور بادشاہ کی خُو کیسی ہے۔ وہ اپنے دشمنوں سے کس طرح پیش آتا ہے۔ اور اُس کی قوت و شوکت کن چیزوں پر منحصر ہے؟ سکندر کی یہ خواہش نہ تھی کہ اس کا باپ اُس کے واسطے ایسی ریاست چھوڑ جائے جس میں عیش و عشرت کے اسباب مہیا ہوں۔ اور آسودگی سے عمر گذرے۔ بلکہ اس کی ہمتِ عالی کا یہ مقتضیٰ تھا کہ خود معرکہ آرا ہو۔ جنگ و جدال سے جاہ و جلال حاصل کرے۔ اپنے زورِ بازو سے ایک عالم کو قبضے میں لائے۔ اور اپنی شان و شکوہ کی بہار دیکھے اور دکھائے۔ اسی واسطے جب اُس کو فیلقوس کی فتح یابی اور کشور کشائی کا مژدہ پہنچتا تھا۔ تو افسردہ ہوکر اپنے یاروں اور جلیسوں سے یہ کہتا تھا کہ اگر میرا باپ یونہی مُلک پر مُلک فتح کرتا جائے گا تو ہمارے واسطے کیا باقی رہے گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کوئی سوداگر ایک نادر گھوڑا۱؎ فیلقوس کے پاس لایا۔ اور ۲۵ہزار روپیہ اُس کا مول کیا۔ بادشاہ سکندر اور اپنے سرداروں کو ساتھ لے کر گھوڑے کے امتحان کے واسطے میدان میں گیا۔ مگر اُس نے کسی کو پاس نہ آنے دیا۔ فیلقوس اس کی سرکشی اور بدرکابی دیکھ کر سوداگر پر بہت خفا ہوا۔ اس وقت بے ساختہ سکندر کی زبان سے یہ کلمہ نکلا۔ کہ افسوس! کیا عمدہ گھوڑا بے تمیزی سے کھوئے دیتے ہیں۔ فیلقوس اس کی بات خیال میں نہ لایا۔ مگر جب باربار اس کو یہی کہتے سُنا۔ تو اس کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا تو بڑوں پر طعن کرتا ہے اور اپنے تئیں اُن سے بہتر سمجھتا ہے۔ سکندر نے کہا بیشک اس گھوڑے کو قابو کرنے کی لیاقت تو اُن سے زیادہ رکھتا ہوں۔ فیلقوس نے کہا کہ اگر تجھ سے اس گھوڑے پر نہ چڑھا گیا تو بتا کیا ہارے گا؟ جواب دیا کہ گھوڑے کی قیمت۔ اس پر سب ہنس پڑے۔ مگر باپ بیٹوں میں یہ شرط قرار پاگئی۔ سکندر نے جھپٹ کر گھوڑے کی لگام پر ہاتھ ڈالا۔ اور اس کا منہ سورج کے سامنے کردیا۔ اصل میں وہ گھوڑا اپنے سائے سے ڈرتا تھا۔ اور سکندر یہ بات تاڑ گیا تھا۔ جب تک گھوڑے کا مزاج درست نہ ہوا۔ اُسے دلاسا دیتا رہا۔ پھر یکایک اُچک کر اُس کی پیٹھ پر جابیٹھا۔ پہلے اُسے قدم قدم چلایا۔ اور جب اُس کا ڈر بالکل نکل گیا تو ٹھکرا کر پویہ کیا۔ اور پھر سرپٹ ڈال دیا۔ اس وقت فیلقوس اور ارکانِ دولت سکتے کے عالم میں کھڑے سوار کی خیر منا رہے تھے کہ اتنے میں سکندر گھوڑے کو ۱- اس گھوڑے کا نام بیوسفلیس تھا۔ پھیر کر لے آیا۔ سب نے بے اختیار تحسین و آفرین کی اور اس کی شہسواری کی داد دی۔ فیلقوس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو بھر آئے۔ سکندر کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہنے لگا کہ بیٹا! اپنے واسطے کوئی اور سلطنت تلاش کر۔ مقدونیہ کی ریاست تیری شان کے لائق نہیں ہے۔ سوالات ۱- سکندر کون تھا۔ اور وہ کس مُلک کا بادشاہ تھا؟ ۲- سکندر کا نادر گھوڑے کو قابو میں لانے والا قصہ اپنے لفظوں میں بیان کرو۔ ۳- ’’کرتا جائے گا‘‘ کون سا فعل ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں ادا کرو۔ رہنامصدر سے اس فعل کی پوری گردان کرو۔ ۴- ذیل کے الفاظ کے معنی بتائو۔ اور انھیں اپنے فقرات میں استعمال کرو۔ جہالت۔ تصنیفات۔ مذاق۔ مہارت۔ تحسین …٭…٭…٭… ۳۲- کام محفل حامی برکتیں نازل شہرت کاہل مشاغل محروم ہو کبھی انساں نہ بیدل کام سے کیونکہ ہوتا ہے یہ کامل کام سے کام میں ہیں مہر و ماہ و ابر و باد سج گئی دنیا کی محفل کام سے اہل ہمت کا ہے خود حامی خدا برکتیں ہوتی ہیں نازل کام سے عزتیں محنت سے پا جاتے ہیں لوگ مرتبے ہوتے ہیں حاصل کام سے مرد کہلانا اُنھیں آساں نہیں! جی چراتے ہیں جو مشکل کام سے نام حاصل کر گئے دنیا میں جو وہ ہوئے شہرت کے قابل کام سے چست لڑکے شوق سے کرتے ہیں کام اور گھبراتے ہیں کاہل کام سے کیوں گنوائو تاش اور چوسر میں وقت کب ہیں اچھے یہ مشاغل کام سے دین و دنیا سے گیا محروم وہ ہو گیا جو شخص غافل کام سے سوالات ۱- نظم بالا کا مطلب آسان اُردو میں لکھو؟ ۲- نظم بالا کی مدد سے بتائو کہ کون کون سے شغل اچھے ہیں اور کون کون سے بُرے؟ ۳- بتائو کہ دین و دنیا سے کون سا آدمی محروم جاتا ہے؟ ۴- ان الفاظ کے معنی بتائو اور ان کو اپنے فقرات میں استعمال کرو: حامی۔ مہر و ماہ۔ ابر و باد۔ جی چرانا۔ ۵- ’’پا جاتے ہیں‘‘ کون سا فعل ہے۔ اس کے مؤنث صیغوں کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۳۳- تمباکو اور چائے سگار مُہلِک واقف نکوٹین مہذب احساس بادیان خطائی ٹینک ایسڈ کیفین تمباکو ہندوستان میں عام طور پر پیا اور کھایا جاتا ہے۔ بعض لوگ اُسے حقے میں پیتے ہیں۔ بعض پان میں کھاتے ہیں اور زیادہ تر سگریٹ اور سگار کی شکل میں استعمال کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا شہر ہو بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں کوئی نہ کوئی شخص اس عادت میں مبتلا نہ پایا جاتا ہو۔ اب بڑوں کی دیکھا دیکھی چھوٹے بچوں میں بھی یہ عادت پھیلتی جاتی ہے۔ تمباکو میں ایسے ایسے زہریلے اجزا موجود ہیں۔ جن کے مُہلِک اثرات سے ہر بچے کو واقف ہونا چاہیے تاکہ وہ اس بُری عادت میں مبتلا نہ ہو۔ اور اپنے ہاتھوں اپنی صحت، ترقی اور آیندہ کامیابی کی اُمیدوں کو برباد نہ کرے۔ وہ زہریلے اجزا جو تمباکو میں موجود ہوتے ہیں، یہ ہیں: اوّل:پرسک ایسڈ۔ جو ایک مشہور اور مُہلِک زہر ہے۔ اس کی حالت میں اس تیزاب کا ایک ذرا سی مقدار ایک تندرست شخص کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ دوم:ایک ایسا روغنی مادہ جس کا ایک قطرہ اگر سانپ جیسے زہریلے جانور کی زبان پر رکھ دیا جائے تو یہ اُسے فوراً ہلاک کردیتا ہے۔ سوم: نکوٹین۔ جو اس قدر خوفناک زہر ہے کہ اگر اس کی ایک رتی کا پانچواں حصہ ایک اچھے خاصے مضبوط کتے کو کھلا دیا جائے تو یہ اُسے پانی پینے کی مہلت نہیں دیتا۔ ان تینوں چیزوں کے علاوہ کچھ اور اجزا ہیں۔ جن کے مرکب کا نام تمباکو ہے۔ اور جسے بڑے بڑے مہذب اور قابل شخص سگریٹ یا حقہ میں پی کر یا پان میں کھا کر اس قدر لطف اُٹھاتے ہیں! تمباکو خصوصاً بچوں کے لیے بہت نقصان دہ چیز ہے۔ یہ اُن کے اعضاء کو بڑھنے اور پھیلنے سے روک دیتا ہے۔ قوتِ حافظہ کو برباد کردیتا ہے دل کو کمزور اور پھیپھڑوں کو گندہ کردیتا ہے۔ تمباکو کا دھواں بچوں کی اخلاقی حالت پر بھی بُرا اثر ڈالتا ہے۔ کیونکہ یہ احساس کی تمام قوتوں کو کند اور بیکار کردیتا ہے۔ شاید یہ بیان کردینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جب شروع شروع میں تمباکو نوشی کی عادت ترقی کرتی نظر آئی تو انگلستان، روس، اٹلی اور ایران کے بادشاہوں نے اس کو روکنے کے لیے بہت سخت تدابیر اختیار کیں۔ اس جرم کی سزا میں کئی آدمیوں کی ناک کاٹ ڈالی۔ اور بعض کٹر تمباکو نوش تو اس زہریلے دھوئیں پر اپنی جانیں ہی قربان کر بیٹھے۔ چائے بھی تمباکو کی طرح ہندوستان میں عام طور پر پی جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس کا رواج زیادہ تر مغلوں کے حکومت کے زمانے میں ہوا۔ مغلوں اور تاتاریوں کو چائے پینے کی عادت تھی۔ کیونکہ ترکستان اور اُس کے اردگرد کے علاقوں میں چین کے باشندوں کا زیادہ اثر تھا۔ اور چینیوں کی دیکھا دیکھی تمام وسط ایشیا کی قومیں چائے پینے کی عادی ہوگئی تھیں۔ یہ لوگ قہوہ پیتے تھے۔ اور اس کے ذائقہ اور خوشبو کو زیادہ دل پسند بنانے کے لیے سبز چینی چائے کو دار چینی اور الائچی اور بادیان خطائی کے ساتھ جوش دے دیتے تھے۔ مغلوں نے اور پھر بعد میں کشمیریوں نے اس میں یہ زیادتی کی کہ دودھ بھی شامل کردیا۔ اب بعض لوگ تو اس قسم کی چائے پیتے ہیں اور بعض وہی پرانی قسم کا قہوہ۔ لیکن زیادہ تر لوگ کالی چائے کے عادی ہوگئے ہیں جو ہندوستان آسام اور سیلون وغیرہ میں پیدا ہوتی ہے۔ اور جسے یورپ کے باشندے زیادہ رغبت سے پیتے ہیں۔ چائے کہ اجزا میں زیادہ تر حصہ ٹینک ایسڈ اور کیفین کا ہے۔ کیمیاوی تجربات سے ثابت ہوچکا ہے کہ ٹینک ایسڈ معدہ اور قوت ہاضمہ کے لیے سخت مضر ہے۔ کیونکہ یہ اس لعاب پر بُرا اثر ڈالتا ہے۔ جو خوراک ہضم کرنے کے لیے بہت ضروری ہے یہ تیزاب اپنی تیزی کے باعث معدے کی باریک اور نازک جھلی کے لیے بھی بہت مضر ہے۔ کیفین جو چائے کا ایک نشہ آور جزو ہے۔ رگوں اور پٹھوں پر فوراً اثر کرتا ہے۔ اور تھکن کو دور کرکے نیند کو غائب کردیتا ہے۔ تھکن آرام لینے کی خواہش کو کہتے ہیں۔ اور آرام گہری نیند ہی سے میسر آسکتا ہے۔ اس لیے کسی مصنوعی طریقے سے تھکن کو دُور کرنے کی کوشش کرنا۔ اور نیند سے بچنا جسم پر سب سے بڑا ظلم ہے۔ کیونکہ جس کے اعضا آرام کے بغیر تھک تھک کر اپنا کام کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ چائے کا ایک پیالہ جو سردی کے موسم میں اس قدر مزیدار اور گرمی پیدا کرنے والا معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ اپنا بُرا اثر جلد ظاہر نہ کرے۔ مگر چائے کی کثرت آہستہ آہستہ اپنا اثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ بچوں کے لیے جن کے اعضا نرم اور نازک ہوتے ہیں۔ چائے مضر اثر رکھتی ہے۔ چیز وہی اچھی ہے جو انسان کی صحت پر بُرا اثر نہ ڈالے اور توانائی کا باعث ہو۔ پس بچوں کو لازم ہے کہ وہ ان چیزوں کی عادت نہ ڈالیں۔ جن کا نتیجہ روپے کی بربادی اور جسم کی کمزوری کے سوا اور کچھ نہیں۔ سوالات ۱- تمباکو کو لوگ کس کس طرح سے استعمال کرتے ہیں؟ ۲- تمباکو میں کون کون سے زہریلے اجزا پائے جاتے ہیں۔ ان کا اثر کیا ہوتا ہے؟ ۳- چائے کیوں مضر ہے؟ ۴- ذیل کے الفاظ کے معنے بتائو۔ اور ان کو اپنے فقرات میں استعمال کرو: مبتلا۔ مُہلِک۔ واقف۔ قوتِ حافظہ۔ ۵- کرلے کون سا فعل ہے۔ پالنا مصدر سیا س فعل کی پوری گردان کرو؟ …٭…٭…٭… ۳۴- صبح کی چہل پہل گرہستن ناشتہ رچنا ٹمٹم شکرم تانگا فیشن ایبل ٹائم ٹیبل مہر کی جو سُورج نے نظر کی! کایا پلٹی دُنیا بھر کی! شہر میں دیکھو گوئی گرہستن دھوتی ہے بیٹھی گھر کے برتن کوئی اُٹھی ہے جھاڑو دے کر جھاڑ رہی ہے کپڑے بستر بچوں کا منہ اِک نے دُھلا کر رکھ دیا آگے ناشتہ لا کر لڑکوں نے لیے بغل میں بستہ! گھر سے لیا اسکول کا رستہ میں آ ۔ تُو آ ۔ یہ آ ۔ وہ آ! لگ گئی بازاروں میں رچنا گھوڑا بگھی ٹمٹم یکہ! شکرم تانگا بہلی چھکڑا جس کے جدھر ہیں سینگ سماتے آتے جاتے نظر ہیں آتے بائی سکل پر کوئی چڑھا ہے پیدل کوئی آگے بڑھا ہے! مُنشی بابو فیشن ایبل دیکھ رہے ہیں ٹائم ٹیبل لیس ہوئی ہے خلقت ساری کاروبار کی ہے تیاری کوئی کہاں تک لکھتا جائے کوزہ میں دریا کیسے سمائے سوالات ۱- نظم بالا کی مدد سے بتائو کہ جب سورج نکلتا ہے تو دنیا کی کایا کس طرح پلٹ جاتی ہے؟ ۲- لوگ کیا کیا کام کرنے لگ جاتے ہیں؟ ۳- ان الفاظ کے معنے بتائو۔ اور ان کو اپنے فقرات میں استعمال کرو: ناشتہ۔ شکرم۔ چھکڑا۔ سینگ سمانا۔ لیس ہونا۔ ۴- اس شعر کا مطلب بتائو: لیس ہوئی ہے خلقت ساری کاروبار کی ہے تیاری ۵- ’’دیکھو‘‘ کون سا فعل ہے۔ا س فعل کی گردان رکھنا مصدر سے کرو؟ …٭…٭…٭… ۳۵- سکندرِ اعظم (۲) اتالیق مسخرہ معتقد مسمار حمائل نوکتخدا کینہ توز معترض استغنا شجاعت جب سکندر تیرہ سال کا ہوا تو فیلقوس نے ارسطو کو اُس کا اتالیق مقرر کیا۔ جس رُتبے کا شاگرد تھا۔ اُسی پائے کا اُس کو اُستاد ملا۔ شاگرد نے اپنی فتوحات سے ایک عالم کو مسخر کیا۔ اور اُستاد نے اپنی تصانیف سے جہان کو معتقد بنایا اِس اُستادِ کامل نے تین برس کے اندر سکندر کو سب علوم سے ماہر کردیا۔ اور اِس حُسنِ خدمت کے صلے میں فیلقوس نے اُس کے شہر کو جسے پہلے مسمار اور برباد کردیا تھا۔ ازسرِ نو تعمیر و آباد کیا۔ سکندر کو علم کا شوق مُلک گیری کے شوق سے کم نہ تھا۔ یونان کے نامور شاعر ہومر کی کتاب ائیڈ اسے اس قدر عزیز تھی کہ اس کو لڑائی کے علم کی حمائل کہتا تھا۔ اور جب تک اس کتاب کو اپنی تلوار کے برابر سرہانے نہ رکھ لیتا تھا اُسے نیند نہ آتی تھی۔ سکندر کو سولھواں سال تھا کہ فیلقوس نے اس مُلک پر جس کو اب قسطنطنیہ کہتے ہیں۔ چڑھائی کی اور بیٹے کو مقدونیہ میں اپنا قائم مقام چھوڑا۔ باپ کی غیبت میں اُس نے انتظامِ سلطنت نہایت خوبی سے رکھا۔ اور ایک قوم کو جو اُس کے پیچھے باغی ہوگئی تھی۔ مطیع کرلیا۔ پھر باپ کے ساتھ جاکر یونانیوں سے لڑا۔ اور فتح پائی۔ ان ہی باتوں سے مقدونیہ کے لوگ اس کو بادشاہ اور فیلقوس کو جرنیل کہتے تھے۔ اور وہ بھی بیٹے کی محبت میں اس بات سے ناخوش نہ ہوتا تھا۔ مگر آخر کو باپ بیٹوں میں ان بن ہوگئی۔ سبب اس کا یہ ہوا کہ فیلقوس نے آخر عمر میں ایک نکاح کیا۔ اور شادی کے دن جب سب مہمان جمع تھے۔ اور شراب کا دور چل رہا تھا۔ دلہن کا چچا نشے کی لہر میں بنکار اُٹھا۔ کہ یارو! دُعا کرو۔ کہ خدا اس ناکتخدا کو اولاد دے۔ اور تخت کا حقیقی وارث پیدا کرے۔ یہ سُن کر سکندر ایسا برافروختہ ہوا کہ شراب کا پیالہ جو ہاتھ میں تھا۔ اُس کے منہ پر کھینچ مارا اور کہا کہ تو مجھ کو حرامی بناتا ہے۔ فیلقوس کو یہ حرکت سخت ناگوار معلوم ہوئی۔ اور وہ تلوار لے کر بیٹے کو مارنے اُٹھا مگر خیر گذری۔ کہ غصے کے جوش اور شراب کے نشے میں لڑکھڑا کر گرا پڑا۔ اس وقت سکندر نے اہل مجلس سے مخاطب ہو کر کہا کہ دیکھو۔ یہ وہی شخص ہے جو کل ایشیا کی فتح کے سامان کررہا تھا۔ اور آج ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جاتا سو سو ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اس طرح باپ سے آزردہ ہوکر سکندر نے اپنی ماں کو تو ماموں کے ہاں پہنچا دیا۔ اور آپ ایک اور مُلک میں جو مقدونیہ کے پاس ہے۔ چلا گیا۔ اس کے چند روز بعد یونان کا ایک سوداگر جو خاندان کا امیر تھا۔ اور فیلقوس سے رسمِ ااتحاد رکھتا تھا۔ اس کے ہاں مہمان آیا۔ فیلقوس نے اثنائے گفتگو میں اس سے دریافت کیا کہ یونان کی ریاستوں میں اتفاق کی کیا صورت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ جب تمھارے ہی میں سلوک نہیں تو اوروں کا حال کیا پوچھتے ہو؟ اس بات کا فیلقوس کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ اُسی دوست کے ہاتھ بیٹے کو مقدونیہ میں بلا لیا۔ مگر کسی بات پر باہم شکر رنج ہوگئی اور سکندر کی ماں نے جو کینہ توز اور مغرور عورت تھی۔ باپ بیٹوں میں صفائی نہ ہونے دی۔ اسی وجہ سے بعض مورخوں کو فیلقوس کے قتل میں اُس کی بی بی اور بیٹے کی شرکت کا بھی گمان گزرا ہے۔ مگر بیٹا اس الزام سے بری ہے۔ کیونکہ اُس نے اپنے باپ کے قاتلوں کی خوب خبر لی۔ اور اُن کو سخت سزا دی۔ فیلقوس کے مرتے ہی اہل یونان اور مقدونیہ کے قرب و جوار کی ریاستوں کے لوگ جو بزورِ شمشیر مغلوب ہوئے تھے۔ اور ہر وقت اپنی آزادی کی تمنا رکھتے تھے سکندر کو لڑکا سمجھ کر بغاوت پر مستعد ہوئے۔ اس وقت اُس کے مشیروں نے دشمنوں کا ہجوم دیکھ کر یہ صلاح دی کہ یونانیوں سے معترض نہ ہو۔ اور ان کو اُنھی کے حال پر چھوڑ دے۔ لیکن سکندر نے اُن کی بات نہ مانی۔ اور یہ جواب دیا کہ اگر ایک مُلک سے دست بردار ہوا تو کل مُلک ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ غرض پہلے اُس نے یونانیوں ہی خبر لی۔ اور اُن کے سروں پر یکایک اس طرح سے جاپہنچا کہ وہاں کی سب ریاستیں حیران اور ششدر رہ گئیں۔ مقام کورنث میں کل ریاستوں کے وکیل اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب نے فارس کی مہم کے واسطے اس کو اپنا سپہ سالار قرار دیا۔ کہتے ہیں کہ اس وقت سکندر کے پاس اس نواح کے بڑے بڑے حکیم اور مدبر مبارکباد کے واسطے آئے مگر دیوجانس۱؎ کلبی نہ آیا۔ سکندراس سے خود ملنے گیا یہ حکیم اس وقت دھوپ میں لیٹا تھا۔ بہت سے آدمیوں کو اپنے پاس آتا دیکھ کر ذرا اُٹھ بیٹھا۔ سکندر نے بہت اخلاق کے ساتھ اس سے گفتگو کی اور کہا کہ آپ کوئی خدمت میرے لائق فرمائیں۔ اُس نے جواب دیا کہ آپ ذرا دھوپ چھوڑ کر کھڑے ہوجائیں۔ اس بات پر سکندر کے رفقا قہقہہ مار کر ہنسے۔ مگر سکندر اس کے استغنا پر غش ہوگیا۔ اور اس سے کہنے لگا کہ اگر مجھ کو خدا نے سکندر نہ بنایا ہوتا تو اس سے دیوجانس ہونے کی دعا مانگتا۔ اس کے بعد مقدونیہ میں آکر شمالی و مغربی قوموں کی طرف متوجہ ہوا۔ ان کی سرکوبی میں مصروف تھا کہ یکایک یونان میں اُس کے مرجانے کی خبر اُڑی۔ اور سب سے پہلے شہر ایتھنز کے لوگوں نے بغاوت اختیار کی سکندر فوجِ جرار لے کر روانہ ہوا۔ اور پہلے اس سے کہ یونان کی اور ریاستیں باغیوں کی کمک پر آئیں۔ شہر کو جا گھیرا۔ اور ایک اشتہار اس مضمون کا جاری کیا کہ اگر اہل شہر اپنے سرغنے حوالے کردیں گے تو اُن سے کچھ باز پرس نہ ہوگی۔ اس کے جواب میں شہر والوں نے گھمنڈ سے کہا کہ سکندر ہی اپنے دو جرنیل ہم کو دے دے۔ غرض آشتی سے کام نہ چلا۔ اور ہنگامۂ کارزار گرم ہوا اگرچہ ایتھنز والوں نے مردانگی کی خوب داد دی۔ مگر سکندر کی فوج سے عہد بر آ نہ ہوسکے۔ چھ ہزار آدمی کے قریب لڑائی میں کام آئے اور قریب تیس ہزار کے غلام بنائے گئے۔ سکندر نے اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اور پھر اس بے رحمی کا اس کو تمام عمر افسوس رہا۔ مگر اس سے کل یونان میں اس کا رعب ایسا چھایا کہ پھر کسی نے سر نہ اُٹھایا۔ یونانیوں کی خلش مٹا کر مقدونیہ میں آیا اور چار پانچ مہینے تک ایران پر چڑھائی کے سامان کرتا رہا۔ پھر تیس ہزار پیادے اور پانچ ہزار سوار ساتھ لے کر روانہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ چلنے سے ۱- کلبی یونان میں حکیموں کے ایک فرقے کا نام تھا۔ اور اس وجہ سے رکھا گیا تھا کہ وہ کتے کا سا مزاج رکھتے تھے۔ اور انسان سے نفرت کرتے تھے۔ پہلے اُس نے بہت سا خزانہ اپنے دوستوںکو بانٹ دیا۔ا ور جب ایک سردار نے اس سے پوچھا کہ آپ نے اپنے لیے کیا رکھا؟ تو جواب دیا کہ اُمید۔ یہ سُن کر اُس سردار نے اور اُس کی تقلید سے اور کئی سرداروں نے لیا ہوا روپیہ پھیر دیا۔ اور کہا کہ ہم بھی آپ ہی کی اُمید میں شریک ہیں۔ غرض اس طرح داد و دہش کرتا مقدونیہ سے چلا اور ہلس پونٹ پر جس کو اب آبنائے ڈارڈنیلز کہتے ہیں۔ جاپہنچا۔ وہاں فوج کے واسطے جو جہاز مہیا تھے اُن پر اس کو سوار کروا کر آپ ایک کشتی میں بیٹھا اور اُسے خود کھیتا چلا۔ منجدھار میں پہنچ کر سمند رکے دیوتائوں اور دیویوں کے نام پر ایک سانڈ قربان کیا۔ اور جب کنارہ نزدیک آیا تو اپنا نیزہ خشکی پر پھینک دیا اور اس سے یہ شگون لیا کہ ایشیا پر قبضہ ہوگیا۔ کنارے پر اُتر کر شہر ٹرائے کی راہ لی۔ اور وہاں پہنچ کر اُن دلاوروں کے مقبروں کی جنھوں نے اُس میدان میں جانبازیاں کی تھیں۔ اور جن کے کارناموں کی تفصیل ہومر کی کتاب ائیڈ میں مندرج ہے۔ زیارت کی۔ اس عرصے میں داراشاہِ فارس کے جرنیل اس کے روکنے کے واسطے لشکرِ جرار لے کر دریائے گرینی کس پر آ پڑے۔ جب سکندر وہاں پہنچا تو دریا کا عمق اور زور زیادہ دیکھا اور ساحل جس پر دشمن کی فوج پڑی تھی بہت ناہموار پایا۔ شام بھی نزدیک تھی۔ اس سبب سے ایک جرنیل نے جو بڑا آزمودہ کار تھا۔ اُس نے کہا کہ اس وقت دریا کے پار جانا اور حملہ کرنا مناسب نہیں۔ مگر سکندر نے کچھ خیال نہ کیا۔ اور یہ جواب دیا کہ ہلس پوئٹ کو عبور کرکے اس چھوٹے سے دریا پر اٹکنا اچھی فال نہیں ہے۔ یہ کہہ کر گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ اور سواروں کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ سامنے سے دشمن نے تیر برسانے شروع کیے اور دریا کے تلاطم نے بھی اس کو کئی بار غوطے دیے۔ مگر وہ دیوانوں کی طرح جوش میں بھرا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ کنارے پر پہنچ کر اس کو صف آرائی کی مہلت نہ ملی۔ اور دونوں فوجیں غٹ پٹ ہوگئیں۔ سکند رکی زریں سپر اور مرصع کلغی سے اس کو پہچان کر دشمن کی فوج کے ایک غول نے آگھیرا۔ اور دو جرنیلوں نے نیزے اور تیر کے اس پر کئی وار کیے۔ ان حملوں میں اس کا جوشن جوڑ کے مقام سے کھل گیا۔ اور خود بھی چھلنی ہوگیا مگر جسم کو کچھ آسیب نہ پہنچا۔ اور اُس نے دونوں جرنیلوں کو اپنے ہاتھوں خاک میں سلا دیا۔ اتنے میں سکندر کی باقی فوج بھی دریا سے گزر کر آپہنچی۔ اور اُس کو دیکھ کر فارس کی فوج بھاگ نکلی۔ اس معرکے میں یونانیوں نے جو فارس کی فوج میں داخل تھے جان توڑ کر مقابلہ کیا اور شجاعت کی داد دی۔ مگر آخر کو کھیت سکندر ہی کے ہاتھ رہا۔ سوالات ۱- سکندر نے کس عمر میں اور کس اتالیق سے تعلیم شروع کی۔ اور بتائو کہ اس نے کتنے سال میں تعلیم حاصل کرلی؟ ۲- فیلقوس سکندر سے کس بات پر ناراض ہوا۔ اور سکندر کہاں چلا گیا؟ ۳- سکندر اور دیوجانس کلبی کا قصہ اپنے لفظوں میں بیان کرو۔ ۴- ’’دعا مانگتا‘‘ کون سا فعل ہے۔ اور پالنا مصدر سے اس فعل کی پوری گردان کرو۔ ۵- ذیل کے الفاظ کے معنی بتائو۔ اور اُن کو اپنے فقرات میں استعامل کرو: اتالیق۔ مسخر۔ مسمار۔ حمائل۔ کینہ توز۔ …٭…٭…٭… ۳۶- عزت دہر گوہر افلاس حشمت صولت عظمت کاش ہوس آدمی کے لیے ہر شے سے ہے عزت اچھی دولتیں جتنی ہیں سب سے ہے یہ دولت اچھی ہیچ ہیں دہر کے اسباب و درم گوہر و زر اپنی عزت سے نہیں کوئی بھی نعمت اچھی دولت و مال جو حاصل ہوں بُرے کاموں سے اُن سے افلا کا رنج اچھکا مصیبت اچھی جو بشر دہر میں ہیں حشمت و شوکت والے مالکِ جاہ و خدم دولت و صولت والے آخر انسان ہی ہیں کچھ بھی ہو رُتبہ اُن کا کچھ فرشتے تو نہیں شوکت و عظمت والے ایسے لوگوں کے زر و مال کو یا قسمت کو دھیان میں لائیں کب آزاد طبیعت والے کاش ہم فضل الٰہی سے یہ نعمت پائیں سیکھ کر علم و ہنر شہرت و عزت پائیں آئو سب مل کر کے خدا سے یہ دعا مانگیں ہم سب کے دل صاف ہوں آزاد طبیعت پائیں خصلتیں نیک ہوں پاس آئے نہ دنیا کی ہوس پاس ایماں کا رہے نیک طبیعت پائیں سوالات ۱- آدمی کے لیے سب سے اچھی کیا چیز ہے؟ ۲- جو دولت و مال بُرے کاموں سے حاصل ہوں۔ا ن سے کون سی چیز اچھی ہے؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: جو بشر دہر میں ہیں حشمت و شوکت والے مالکِ جاہ و خدم دولت و صولت والے ۴- ان الفاظ کے معنی بتائو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو: گوہر۔ حشمت۔ صولت۔ عظمت۔ ۵- ’’مانگیں‘‘ کون سا فعل ہے۔ا س فعل کی کرنا مصدر سے گردان کرو۔ …٭…٭…٭… ۳۷- دانت اور بال زیبائش لعاب فطرت منحصر مسواک دوران محسوس محفوظ اس بات کو شاید سب جانتے ہیں کہ صاف اور خوبصورت دانت چیرے کی زیبائش میں کسی دوسرے عضو سے کم حصہ نہیں لیتے۔ مگر اس بات کا خیال بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے کہ جسم کی صحت اور عام تندرستی کے لیے دانتوں کی صفائی اور مضبوطی کس قدر ضروری ہے؟ ظاہر ہے کہ ہر قسم کی خوراک دانتوں ہی سے چبائی جاتی ہے۔ اور اس طرح سخت چیزیں پس کر اور نرم ہوکر معدے میں پہنچتی ہیں۔ اگر دانت مضبوط نہ ہوں تو اپنا کام نہیں کرسکتے۔ا ور خوراک کے سخت اور بڑے بڑے ٹکڑے معدے میں چلے جاتے ہیں۔ جس سے خوراک کی نازک نالیوں اور معدے کی نرم جھلی کو نقصان پہنچتا ہے۔ اور معدہ اس قسم کی سخت چیزوں کو ہضم کرنے کی کوشش کرتے کرتے بیکار ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ دانت کی بیماریاں جو دانتوں کو صاف نہ رکھنے سے پیدا ہوتی ہیں۔ منہ میں بدبو پیدا کردیتی ہیں۔ جس سے مسورڑے گل جاتے ہیں۔ اور اکثر اوقات اُن کی جڑوں میں پیپ ہوجاتا ہے۔ یہ پیپ آہستہ آہستہ منہ کے لعاب کے ساتھ گلے میں رہتا ہے۔ جس سے گلے پھیپھڑوں اور معدے کی کئی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ دانت زیادہ تر بہت گرم یا بہت سرد اشیا کے استعمال سے بھی خراب ہوجاتے ہیں۔ بہت زیادہ نرم چیزیں کھانے یا ایسی خوراک استعمال کرنے سے بھی جو آسانی سے نگلی جاسکتی ہو۔ دانت اپنی قدرتی مضبوطی کھو دیتے ہیں۔ کیونکہ فطرت ایسے اعضا کو اچھی حالت میں نہیں رکھتی جن کا استعمال نہ کیا جائے۔ مٹھاس دانتوں کے لیے بھی ویسی ہی مضر ہے۔ جیسی معدے کے لیے۔ خصوصاً اگر مٹھاس کھا کر دانت صاف نہ کیے جائیں۔ تو اُن میں ایک تیزابی مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جو دانتوں کے روغن کے لیے سخت مضر ہے۔ تمباکو، پان اور گوشت کا زیادہ استعمال بھی دانتوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ حقیقت میں دانتوں کی مضبوطی دانتوں کی صفائی ہی پرمنحصر ہے۔ صبح اُٹھ کر کیکر یا نیم کی مسواک سے اور کھانے کے بعد کم از کم دو وقت نرم بُرش سے دانتوں کو صاف کرنا صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر رات کو سونے سے پہلے بھی دانتوں کو صاف کرلیا جائے تو دانت بہت اچھی حالت میں رہتے ہیں۔ دانتوں کی طرح بال بھی انسانی جسم کے ایسے اعضا میں سے ہیں جو زیادہ تر خوبصورتی اور زیبائش کی چیز سمجھتے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو بھی انسانی صحت سے اسی قدر تعلق ہے۔ جس قدر کسی اور عضو کو۔ بعض شوقین بال بڑھانے کے لیے دوائوں کا استعمال کرتے ہیں۔ بال بڑھانے کا یہ طریقہ مفید نہیں بلکہ مضر ہے۔ کیونکہ سر کی وہ جلدجس میں بالوں کی جڑیں ہوتی ہیں۔ بالوں کے غیر معمولی وزن سے کمزور ہوجاتی ہیں۔ا ور اگر دوائیں تیز خاصیت کی ہوں تو جڑیں جنھیں مسام کہتے ہیں۔ زیادہ کھل جاتے ہیں اور ایک ایک سوراخ سے دو طرف بال نکلنے شروع ہوجاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ آخرکار بالوں کے حق میں نقصان دن ہوتا ہے۔ سر کے بالوں کے لیے روغنِ زیتون کی مالش بہت مفید ہوتی ہے۔ سر کو تازہ ہوا پہنچانے پر بالوں اور دماغ کی صحت کا بہت کچھ دار و مدار ہے۔ نیم گرم پانی اور اچھے صابون سے سر کے بالوں کو دھونا اور پھر نرم بُرش سے بالوں کو سنوارنا بالوں کو اچھی حالت میں رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ سر کو اکثر کھلا رکھنا چاہیے تاکہ اُسے بھی تازہ ہوا لگے۔ اس سے دماغ تروتازہ رہتا ہے۔ اگر سر کی جلد میں خشکی سی ظاہر ہونے لگے تو چاہیے کہ روزنہ صبح اور شام کے وقت ہاتھ کی اُنگلیاں ٹھنڈے پانی میں بھگو کر اُن سے اس مقام کو سہلایا جائے۔ جہاں خشکی کے نشان موجود ہوں۔ اس کے بعد نرم بُرش سے بالوں کو سنوار لینا چاہیے۔ اس طریقہ سے خون کا دوران صحیح ہوجائے گا اور خشکی کا اثر جاتا رہے گا۔ ہندوستان میں بہت لوگ تیل کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور سر کو کم دھوتے ہیں۔ اس سے گرد زیادہ جم جاتی ہے۔ کپڑوں پر اس کے دھبے پڑ جاتے ہیں۔ اور دماغ پر بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ طریقہ دماغی صحت کے لیے بھی مضر ہے۔ اور تہذیب کے بھی خلاف۔ سر کے بالوں کے علاوہ قدرت نے تمام جسم پر بال پیدا کیے ہیں۔ حقیقت میں یہ چھوٹے چھوٹے بال جنھیں روئیں کہتے ہیں۔ بدن کے مساموں کی حفاظت کے لیے ہیں۔ ان مساموں کے ذریعے بدن کا میل پسینہ کی صورت میں نکلتا رہتا ہے۔ اور رئوں کی وجہ سے باہر کا میل جسم کے اندر نہیں جاسکتا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ بدن کی اُوپر کی سطح اور ان رئوں کو میل سے محفوظ اور صاف رکھا جائے۔ تاکہ پسینہ ان چھوٹے چھوٹے بالوں کے ساتھ جم کر ان سوراخوں کو بند نہ کردے۔ پسینہ چونکہ جسم کا میل ہے۔ اس لیے اس میں بدبو ہوتی ہے۔ اگر اس کو صاف نہ کیا جائے تو ظاہر ہے کہ بدن میں بدبو پیدا ہوجائے گی۔ اس مطلب کے لیے ہر روز نہانا نہایت مفید ہے۔ غسل کے لیے ٹھنڈا پانی۔ گرم پانی سے زیادہ فائدہ بخش ہے۔ منہ، ہاتھ اور ایسے اعضا کو جو کپڑوں سے چھپے ہوئے نہیں رہتے دن میں کئی مرتبہ دھونا چاہیے۔ تاکہ وہ گرد و غبار جو ان پر جم جاتا ہے۔ دور ہوجائے اور انسان کا جسم ہمیشہ صاف ستھرا رہے۔ تندرستی کا دار و مدار حقیقت میں جسم کی صفائی پر ہے۔ سوالات ۱- اگر دانت مضبوط نہ ہوں تو آدمی کو کیا نقصان پہنچتا ہے؟ ۲- دانتوں کو صاف نہ کرنے سے کون کون سی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں؟ ۳- دانت کس طرح صاف رکھے جاسکتے ہیں۔ اور بال کس طرح؟ ۴- بالوں کے بڑھانے کے لیے دوائوں کا لگانا کیوں مضر ہے؟ ۵- جانتے ہیں۔ کرلیا جائے۔ کہتے ہیں۔ جاتا رہے گا۔ کیے ہیں۔ کون کون سے فعل ہیں؟ …٭…٭…٭… ۳۸- پردیس غربت صعوبتیں غمخوار کلفتیں پیہم آبِ زندگانی فرقت بیزار بیزار اِک اپنی جان و تن سے بچھڑا ہوا صحبتِ وطن سے غربت کی صعوبتوں کا مارا چلنے کا نہیں ہے جس کو یارا غمخوار ہے کوئی اور نہ دِلجو اک باغ میں ہے پڑا لب جو ہیں دھیان میں کلفتیں سفر کی آپے کی خبر ہے اور نہ گھر کی ابر اِتنے میں اک طرف سے اُٹھا اور رنگ سا کچھ ہوا کا بدلا برق آ کے لگی تڑپنے پیہم اور پڑنے لگی پھوار کم کم سامان ملے جو دل لگی کے یاد آئے مزے کبھی کبھی کے دیکھے کوئی اس گھڑی کا عالم وہ آنسوئوں کی جھڑی کا عالم وہ آپ ہی آپ گنگنانا اور جوش میں آ کبھی یہ گانا ’’اے چشمۂ آبِ زندگانی گھٹیو نہ کبھی تری روانی جاتی ہیجدھر تری سواری بستی ہے اُسی طرف ہماری پائے جو کہیں مری سبھا کو دیتا ہوں میں بیچ خدا کو اوّل کہیو سلام میرا پھر دیجیو یہ پیام میرا قسمت میں یہی تھا اپنی لکھا فرقت میں تمھاریا آئی برکھا آتا ہے تمھارا دھیان جس دم مرغابیاں تیرتی ہیں باہم ہم تم یونھی صبح و شام اکثر تالاب میں تیرتے تھے جاکر جب سبزہ و گل ہیں لہلہاتے اُلفت کے مزے ہیں یاد آتے ہم تم یونھی ہاتھ میں دیے ہات پھرتے تھے ہوائیں کھاتے دن رات جب پیڑ سے آم ہے ٹکپتا میں تم کو اِدھر اُدھر ہوں تکتا رُت آم کی آئے اور نہ ہو یار جی اپنا ہے ایسی رُت سے بیزار ہے سرد ہوا بدن کو لگتی پر دل میں ہے آگ سی سلگتی‘‘ نشتر کی طرح تھی دل میں چبھتی فریاد یہ دردناک اُس کی تھا سوز میں کچھ ملا ہوا ساز پکڑا گیا دل سُن اُس کی آواز حیرت رہی دیر تک کہ آخر روڑا ہے کہاں کا یہ مُسافر پر غور سے اک نظر جو ڈالی نکلا وہ ہمارا دوست حالی سوالات ۱- پردیس کسے کہتے ہیں۔ اور پردیس میں انسان کو کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟ ۲- کیسی رُت سے آدمی کا جی بیزار ہوتا ہے؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: ہیں دھیان میں کلفتیں سفر کی آپے کی خبر ہے اور نہ گھر کی ۴- جان و تن سے بیزار ہونا۔ صعوبتوں کا مارا۔ مارا۔ پیہم کے کیا معنی ہیں؟ ۵- ’’جاتی ہے‘‘ کون سا فعل ہے۔ اس فعل کے بنانے کا قاعدہ بتائو۔ …٭…٭…٭… ۳۹- سکندر اعظم (۳) طرطوس انطاکیہ بے اعتدالی اسلحہ اہتمام تفتیش ضمیمہ تجہیزو تکفین نزع اس لڑائی کے بعد ایشیائے کوچک کو کھوندتا اور شہر پر شہر فتح کرتا طرطوس میں پہنچا۔ شہر کے نیچے جو دریا بہتا تھا۔ اُس کا پانی صاف و شفاف دیکھ کر اُس میں کود پڑا۔ منزل کی گرمی اور پانی کی خنکی نے مل کر بے اعتدالی پیدا کی۔ اور اس کو اس شدت سے بخار چڑھا کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ ساتھ کے حکموں نے اس اندیشے سے دوا دینے میں تامل کیا کہ وہ نہ بچا۔ تو اہل مقدونیہ ہم کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے۔ مگر ایک حکیم نے جو اُس کا خیر خواہ تھا۔ اور اس کے نزدیک بڑا اعتبار رکھتا تھا۔ جرأت کرکے دوا تجویز کی۔ ابھی وہ دوا تیار کرہی رہا تھا کہ سکندر کے اُسی جرنیل نے جر گرینی کس کے عبور کرنے سے مانع آیا تھا۔ ایک عریضہ بھیجا۔ اور اس میں یہ لکھا کہ زنہار اس حکیم کی دوا نہ کھانا۔ کہ وہ دارا سے ملا ہوا ہے اور دارا نے تمھارے زہر کے واسطے اس سے اور انعام و اکرام کے علاوہ اپنی بیٹی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ عریضہ سکندر نے اپنے سرہانے رکھ لیا۔ اور جب حکیم دوا بنا کر لایا تو ایک ہاتھ سے پیالہ منہ کو لگایا۔ اور دوسرے ہاتھ سے وہ عریضہ نکال کر حکیم کے حوالے کیا۔ سکندر دوا پیتا جاتا تھا۔ اور حکیم اس تحریر کو پڑھ کر پیچ و تاب کھاتا تھا۔ جب مرض سے صحت پائی۔ اور بدن میں کچھ طاقت آئی تو سمندر کے کنارے آگے بڑھا۔ اور ایک پہاڑ جس کو بابِ شام کہتے ہیں۔ گزر کر انطاکیہ کا راستہ لیا۔ اس عرصے میں دارا بھی فوجِ کثیر ہمراہ لے کر آپہنچا۔ ایک اور چھوٹے سے دریا پر دونوں کا مقابلہ ہوگیا۔ اگرچہ دارا کی فوج سکندر کی فوج سے کئی حصے زیادہ تھی اور اس کے لشکر میں تین ہزار یونانی جوان بھی تھے۔ مگر قسمت نے سکندر ہی کو جتایا۔ اور دارا میدانِ جنگ سے ایک گھوڑے پر سوار ہوکر ایسا بھاگا کہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔ اس لشکر کا مال و اسباب اہل مقدونیہ نے لوٹا۔ اور اس کا خیمہ اور رتھ اور لباس و اسلحہ سکندر کے واسطے رکھا جب سکندر خیمے میں داخل ہوا تو اُس کے مختلف درجے اور ہر درجے میں تکلف کے سامان دیکھ کر حیران ہوا۔ کسی میں حمام کا اہتمام اور مشک و عنبر جلتا دیکھا۔ کسی میں کھانے پینے کی چیزیں اور دنیا کی نعمتیں مہیا پائیں۔ اور کسی میں خوابگاہ کے تکلف نظر آئے۔ یہ بہار دیکھ کر اپنے رفقا سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے۔ ایشیا میں اسی عیش و عشرت کا نام بادشاہت ہے۔ اسی خیمے میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا کہ برابر کے خیمے سے عورتوں کی گریہ و زاری کی آواز آئی۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ دارا کی بیوی اور دو ناکتخدا لڑکیاں اُس کے رتھ اور کمان کو دیکھ کر روتی ہیں اور یہ جانتی ہیںکہ وہ لڑائی میں مارا گیا۔ سکندر نے اُن کے حالِ زار پر افسوس کیا اور اُن سے کہلا بھیجا کہ دارا زندہ ہے۔ تم غم نہ کرو۔ا ور خاطر جمع رکھو۔ جس عزت و حرمت سے اُس کے سامنے رہتی تھیں۔ اُسی صورت سے اب بھی رہو گی۔ میری لڑائی دارا سے فقط سلطنت کی بابت تھی۔ اُس کے ننگ و ناموس سے کچھ تعرض نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ دارا کی بی بی اور بیٹیاں حسن و جمال میں بے نظیر تھیں۔ مگر سکندر نے اُن کو تصویر کی مثال سمجھا۔ اور جو کلمہ زبان سے نکالا تھا۔ اس کو پورا کردکھا۔ اور اُن کی خاطر داری اور دلجوئی میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا۔ جتنے نوکر چاکر ان کی خدمت میں رہتے تھے۔ سب بدستور رہے۔ اور کسی بات میں فرق نہ آنے دیا۔ ان کی حرمت و آبرو کا ایسا پاس رکھا کہ لشکر کے کسی آدمی کو اُن کے خیمے کے پاس نہ پھٹکنے دیا۔ اور سب کو یہ حکم سُنا دیا۔ کہ اگر کسی کا بیہودہ کلام ان کے کان تک پہنچے گا تو اس کو سخت سزا دی جائے گی۔ اس لڑائی کے فتح ہوتے ہی شام کے مُلک پر سکندر کا تصرف ہوگیا۔ اور شہر دمشق میں دارا کا بہت سا مال و خزانہ اس کی فوج کے ہاتھ آیا۔ چونکہ فارس والوں کی طرف سے یونانیوں کو بغاوت پر آمادہ کرنے کا اندیشہ تھا۔ اور یونان میں اُن کی مدد جہازوں ہی کے ذریعہ پہنچ سکتی تھی۔ اس واسطے اُس نے بحیرۂ شام کے ساحل کے علاقے کو جسے فینشیا کہتے تھے۔ مسخر کرنا مقدم سمجھا یہاں کوئی اُس کے مقابلے میں نہ آیا۔ جس شہر میں پہنچا۔ وہاں کے لوگوں نے اطاعت سے سرجھکایا۔ مگر شہر سور کے باشندوں نے اپنے دیوتائوں کے گھمنڈ پر اُسے شہر میں داخل نہ ہونے دیا۔ یہ شہر اُس وقت ایک جزیرے میں واقع تھا۔ اور جزیرے کا فاصلہ کنارے سے آدھ میل تھا۔ سکندر نے اس کا محاصرہ کیا۔ اور ساحل سے شہر کی فصیل تک ایک چوڑا پشتہ باندھ لیا۔ ایک مؤرّخ لکھتا ہے کہ اثنائے محاصرہ میں اہل شہر نے اپنے ایک دیوتا کو خواب میں دیکھا اور اُسے یہ کہتے سُنا کہ میں تمھارے چلن سے بیزار ہوکر سکندر کی طرف جاتا ہوں۔ اس پر اُنھوں نے یہ بندوبست کیا کہ اُس کی مورت کو زنجیروں کے ساتھ جکڑ کر میخوں سے زمین میں ٹھونک دیا۔ اور پھر بیباک ہوکر طنز سے اُس کو سکندر ہی کہنے لگے۔ دیوتا وہیں دھرے رہے اور شہر سات مہینے کے بعد سکندر کے ہاتھ آگیا۔ اہل شہر کتنے ہی مارے گئے۔ اور رہے سہے اُس کے غلام بنے۔ یہاں سے اُس نے مصر کا رُخ کیا۔ او ریہ مُلک کو سر برس سے سلطنت فارس کا ضمیمہ چلا آتا تھا۔ بے وقت اُس کے قبضے میں آگیا۔ دریائے نیل کے دہانے کے قریب اُس نے ایک شہر آباد کیا جو اسی کے نام سے آج تک سکندریہ مشہور ہے۔ اور ایک مدت تک ہند اور افریقہ اور یورپ کا بڑا تجارت گاہ رہا ہے مصر سے سکندر پھر فینشیا میں آیا۔ اور وہاں سے روانہ ہوکر فرات اور دجلہ دونوں دریائوں کو عبور کرگیا۔ دجلے سے چار منزل چلا تھا کہ دارا کے کچھ سوار گرفتار ہوکر اس کے لشکر میں آئے۔ اُن کی زبانی معلوم ہوا کہ دارا کا لشکر شہر آربیلا سے بیس میل کے فاصلے پر دجلے اور کوہستان کردستان کے بیچ کے میدان میں ایک گائوں کے قریب پڑا ہے۔ جس کو فارس والے اُونٹ کا گھر کہتے ہیں۔ سکندر نے چند روز اپنی فوج کو آرام دے کر آدھی رات کو اُس گائوں کا رُخ کیا۔ اور صبح ہوتے ہی دارا کو جالیا۔ اس وقت فارس والے جو شبخون کے اندیشے سے راتوں کو جاگے تھے۔ تھک کر چور ہورہے تھے۔ مگر پھر بھی بعض جوان جی توڑ کر لڑے۔ اس لڑائی میں بھی دارا کے پائوں اُکھڑ گئے۔ اور اُس کے بھاگتے ہی سارا لشکر پراگندہ ہوگیا۔ یہ شکست دارا نے ایسی کھائی کہ فارسی کی سلطنت اس کے ہاتھ سے جاتی رہی۔ شاہ ظفریاب میدانِ جنگ سے روانہ ہوا۔ اور بابل وغیرہ کئی شہروں سے گزر کر دارا کا خزانہ لوٹتا ہوا فارس کے دارالخلافہ پری پولس میں جس کے کھنڈر شیراز کے قریب آج تک پائے جاتے ہیں اور چل منارہ کہلاتے ہیں، جاپہنچا اور دارا کے تخت پر جلوہ افروز ہوا۔ اس شہر میں تیس کروڑ روپے سے زیادہ اس کے ہاتھ آیا۔ اور اس نے فیاضی کو کام فرماکر اپنے رفیقوں کو انعام و اکرام سے مالا مال کردیا۔ کہتے ہیں کہ سکندر نے نشے کی ترنگ میں اس شہر کو جلا دیا۔ مگر بعض مؤرخوں کو یہ گمان مسلمانوں کی طرف سے گزرتا ہے۔ پری پولس سے سکندر دارا کی تلاش میں نکلا۔ اور پتا لگاتے لگاتے بحیرۂ خزر تک جاپہنچا۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ دارا کے ایک نوکر نے سلطنت کی ہوس میں اُس کو پابہ زنجیر کر رکھا ہے۔ یہ سُن کر اُس کو تعاقب کا شوق غالب ہوا۔ اور دو منزلہ سہ منزلہ کرکے فقط ساٹھ سواروں سے اُس نمک حرام کو جالیا وہ سمجھا کہ سکندر کا سارا لشکر مجھ پر آپڑا ہے۔ گھبرا کر بھاگا اور دارا کو ساتھ لے جانا چاہا۔ مگر اُس نے انکار کیا۔ اور یہ جواب دیا کہ تیری قید سے میں سکندر کی قید کو بہتر سمجھتا ہوں۔ اس پر ظالم نے دارا کو خنجر سے زخمی کیا۔ اور مردہ سمجھ کر سڑک پر ڈال گیا۔ جب سکند رکے سوار اُس کے پاس پہنچے۔ تو وہ نزع کی حالت میں تھا۔ ایک سوار سے اُس نے پانی مانگا سوار نے اُسی وقت پانی حاضر کیا۔ دارا نے پیالہ منہ سے لگایا اور سوار سے کہا کہ اب پیمانۂ عمر لبریز ہے اور میں تجھ کو انعام دینے کی طاقت نہیں رکھتا مگر اُس کا صلہ سکندر دے گا۔ اور سکندر کو خدا اجر دے گا کہ اُس نے میری بی بی اور بچوں کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا ہے۔ پھر سوار کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور کہا کہ یہ ہاتھ میں سکندر سے ملانا چاہتا تھا۔ اُدھر سوار کو ہاتھ دیا اور اُدھر جاں بحق تسلیم کی۔ سکندر نے پہنچ کر اُس کے مرنے کا بہت افسوس کیا۔ اور اپنا چغہ اُس کی لاش پر ڈال دیا۔ پھر شاہانہ کروفر سے اُس کی تجہیز و تکفین کی۔او ر اُس نمک حرام کو گرفتار کرکے بہت عذاب سے مارا۔ اس کے بعد سکندر مُلک ماژندراں اور خراسات ہوتا ہوا ہرات میں آیا۔ اور وہاں سے کابل پہنچ کر بلخ اور بخارا سمرقند و تاشقند کی تسخیر کے واسطے کوہ ہندوکش سے گزر گیا جب یہ علاقہ بھی فتح کرلیا تو دریائے سندھ پر پہنچا۔ اور قلعہ اٹک کے قریب جس کو یونانی ٹکسلا کہتے تھے۔ کشتیوں کا پُل باندھ کر دریائے سندھ سے اُتر آیا۔ یہاں کے راجہ نے سکندر کی اطاعت اختیار کی۔ اور پھر وہ بے دِقت دریائے جہلم تک آگیا۔ دریا کے پار راجہ پورو کا لشکر مقابلے کو تیار تھا۔ اور صدہا ہاتھی ساحل کو گھیر اس طرح کھڑے تھے کہ سکندر کی فوج کو اُترتے ہی پامال کریں۔ یا سونڈوں سے اُچھال کر عدم کو پہنچائیں۔ ایسی حالت میں اُس نے عبور دشوار دیکھ کر مقام کردیا۔ اور ہر روز اپنے لشکر میں دھوم دھام رکھنی شروع کی۔ تاکہ مخالف اُس کے خوگر ہوجائیں اور وقت پر بے خبر رہیں۔ پھر ایک اندھیری رات کو جب کہ بادل گرج رہا تھا اور بجلی کوند رہی تھی کچھ پیادے اور چیدہ سوار لے کر اُوپر کی طرف چلا اور ایک ٹاپو سے گزر کر دوسری طرف جاپہنچا۔ کنارے پر اُتر چند قدم چلا تھا کہ پورد کے ہزار سوار اُس کے سامنے پڑے۔ مگر جلد مغلوب ہوگئے۔ جب پور ونے سکندر کا دریا سے اُترنا سُنا۔ تو بہت سا لشکر لے کر خود اُس کے مقابلے کو آیا۔ اور تین پہر تک بڑی مردانگی سے لڑتا رہا۔ آخر شکست کھائی۔ اور اسیر ہوکر سکندر کے سامنے لایا گیا۔ سکندر نے اُس سے پوچھا۔ کہ اب آپ کے ساتھ کیا کریں؟ اُس نے جواب دیا کہ جو بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ پھر پوچھا کہ اور کیا چاہتے ہو؟ کہا میرے پہلے ہی جواب میں سب باتیں آگئیں۔ سکندر لڑائی میں اس کی دلاوری اور شجاعت دیکھ کر اور یہ عاقلانہ جواب سُن کر اُس سے ایسا خوجش ہوا کہ اُس کا مُلک اور قرب و جوار کا اور علاقہ جو فتح کیا۔ سب اُسی کو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ اس معرکے میں پورو کے ہاتھی نے اس کو اس کے پاس نہ پھٹکنے دیا۔ اور جتنے تیر اس کے جسم میں لگے تھے۔ سب اپنی سونڈ سے نکالے اسی لڑائی میں سکندر کا گھوڑا بیوس فیلس زخمی ہوکر کئی روز کے بعد مرگیا۔ اُس کے مرنے کا سکندر کو ایسا غم ہوا۔ جیسا کہ کسی عزیز رشتہ دار کا ہوتا ہے۔ چنانچہ جس جگہ اُس کو دفن کیا تھا۔ وہاں اُس کے نام سے بیوسفیلسا ایک شہر آباد کیا۔ دریائے جہلم کے کنارے پر سکندر نے ایک ماہ قیام کیا اور پھر پنجاب کو تاراج کرتا ہوا دریائے ستلج تک جاپہنچا اس علاقے میں کھتریوں کی ایک جنگجو قوم کے سوا جس کا دارالخلافہ غالباً لاہور ہوگا۔ کسی کو اُس کے مقابلے کا حوصلہ نہ ہوا۔ سکندر کا یہ ارادہ تھا کہ کل ہندوستان کو اپنے قبضے میں لائے اور جہانگیر نام پائے۔ مگر پورو سے لڑ کر اُس کی سپاہ نے ایسا جی چھوڑا کہ پھر آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا۔ ہرچند سکندر نے سمجھایا اور دھمکی اور خوشامد بھی کام میں لایا۔ مگر فوج کو کسی طرح اثر نہ ہوا۔ مجبوراً پیچھے ہٹا اور دریائے جہلم پر پہنچ کر فوج کے تین حصے کے۔ ایک حصے کو کشتیوں میں بٹھا کر آپ اس کے ساتھ ہوا۔ باقی دو حصوں کو دریا کے دونوں کناروں پر خشکی میں چلنے کا حکم دیا۔ چلتے چلتے ملتان کے قریب ایک قوم سے سخت معرکہ آپڑا۔ سکندر نے ان کے شہر پر حملہ کیا اور سیڑھی لگا کر سب سے پہلے آپ فصیل پر چڑھ گیا۔ چار افسر اور چڑھنے پائے تھے کہ سیڑھی ٹوٹ گئی اور اب اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ جست کرکے اپنی فوج میں آئے یا دشمنوں میں جائے۔ اُلٹا آنا اُس کو گوارا نہ ہوا جسم کو تول کر شہر ہی میں کودا۔ کودتے وقت اسلحہ کی چمک سے دشمنوں کو یہ گمان ہوا کہ اس کے بدن سے بجلی نکلتی ہے۔ سب کے سب ڈر کے بھاگنے لگے۔ مگر پھر اصل حقیقت سے آگاہ ہوکر اُس پر آپڑے۔ سکندر دیوار سے اڑ کر اُن کامقابلہ کرتا رہا۔ اور اُسی میں اُن کے دو افسر اپنے ہاتھ سے مارلیے۔ مگر ایک تیرا اُس کی پسلی میں ایسا لگا کہ زمین پر گر پڑا۔ اس کے بعد اُس کے دو افسر جو اُسی کے ساتھ کودے تھے۔ اُس کی حفاظت کرتے اور دشمن سے لڑتے رہے۔ اتنے ہی میں اُس کی سپاہ دروازہ کھول کر اور کچھ فصیل پر چڑھ کر شہر میں آگئی اور شہر فتح کرلیا۔ اس لڑائی میں سکندر ایسا زخمی ہوا کہ اُس کے جینے کی آس نہ رہی۔ ایک عرصے کے بعد تندرست ہوکر دریائے سندھ کے دہانے پر پہنچا۔ وہاں سے کشتیاں ایک آزمودہ کار ناخدا کے حوالے کیں۔ کہ بحر ہند کی راہ دریائے دجلہ اور فرات پر پہنچ جائے۔ اور آپ بلوچستان کی خاک چھانتا طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتا کرمان پہنچا۔ کرمان سے پرسی پولس کو روانہ ہوا۔ اور وہاں جاکر وہ خرابیاں کو اُس کی غیبت میں پیدا ہوگئی تھیں۔ رفع کیں۔ یہاں سے فرصت پاکر شہر سوسا میں دارا موسمِ گرما بسر کیا کرتا تھا۔ دارا کی بیٹی سے شادی رچائی۔ اور اس کی تقلید سے اُس کے بہت سے سرداروں اور سپاہیوں نے بھی فارس کی عورتوں سے شادیاں کیں۔ اِس دھوم دھام کے بعد بابل میں گیا اور چاہا کہ اِس شہر کو دار الخلافہ بنائے۔ مگر عنر نے وفا نہ کی دعوتوں کے جلسوں میں شراب اس کثرت سے پی کہ بخار چڑھ آیا۔ اور اسی عارضے میں سالِ مسیحی سے ۳۲۳برس پہلے ۲۳؍جون کو ۳۲برس کی عمر میں دنیا سے کوچ کرگیا۔ سوالات ۱- سکندر کس سبب سے بیمار اور کس طرح صحت پائی؟ ۲- سکندر نے کون کون سے مُلک فتح کیے۔ نیز بتائو کہ سکندر کی فوج نے ہندوستان میں دریائے جہلم سے آگے بڑھنے سے کیوں انکار کردیا؟ ۳- سکندر کی وفات کا باعث بیان کرو۔ اور ہمیں اُس سے کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟ ۴- ’’عمر نے وفا نہ کی‘‘ کے کیا معنے ہیں؟ ۵- ’’جاگے تھے‘‘ کون سا فعل ہے۔ کرنا مصدر سے اس فعل کی پوری گردان کرو۔ …٭…٭…٭… ۴۰- گنگا کا کنارہ سُہانی مِرگ چھالے جائے گیر دُھونی آسن سیلے نعرہ زن سیندور سُہانی ہے کس درجہ تاروں کی چھائوں ٹہلنے کی خاطر مچلتے ہیں پائوں بچھائے ہوئے مِرگ چھالے فقیر لبِ نہر تڑکے سے ہیں جائے گیر وہ جوگی بھی دُھونی رُمائے ہوئے ہیں پوجا میں آسن جمائے ہوئے وہ سیلے وہ جوڑے چمکتے ہوئے وہ کانوں میں مُندرے لٹکتے ہوئے وہ گھنٹی بجائے ہوئے برہمن ہیں بُت خانوں میں کس طرح نعرہ زن وہ تھالی میں سیندور چندن لیے کوئی آ رہا ہے عجب آن سے ہر اک کی نئی دھن نیا ڈھنگ ہے لب گنگ اس وقت کیا رنگ ہے سوالات ۱- گنگا کے کنارے کا نظارہ بتائو۔ ۲- برہمن کیا کام کرتے ہیں۔ اور جوگی کس طرح بیٹھے ہوئے ہیں؟ ۳- اس شعر کا مطلب لکھو: بچھائے ہوئے مِرگ چھالے فقیر لبِ نہر تڑکے سے ہیں جائے گیر ۴- سیندور اور چندن کیا چیز ہے۔ اور کس کام آتا ہے؟ ۵- اس نظم میں جو اسم جمع ہیں۔ ان کے واحد لکھو۔ …٭…٭…٭… ۴۱- بابر کا بچپن (۱) شاداب شاہ بلوط سنگریزوں شطرنج پھسلواں بے تحاشا ماشاء اللہ ناگہاں دریائے سیحوں کی وسیع اور شاداب وادی میں ایک بوڑھا شخص شاہ بلوط کے درخت سے کمر لگائے بیٹھا تھا۔ بوڑھا چھوٹے چھوٹے تنکوں اور سنگریزوں کو بار بار اُٹھاتا۔ اور پھر آہستہ سے زمین پر شطرنج کے مہروں کی طرح رکھ دیتا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں ہے۔ اور بچوں کی طرح تنکوں اور سنگریزوں سے کھیل کھیل کر اپنے خیالات کی اُلجھنوں سے نکلنا چاہتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا۔ چنانچہ باربار گھبرا کر تنکوں کو توڑتا مروڑتا اور سنگریزوں کو پھینک دیتا تھا۔ لیکن اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ابھی کسی نتیجہ تک نہیں پہنچا۔ سامنے ہی دریا کے کنارے دو نوعمر لڑکے دریا میں پائوں لٹکائے بیٹھے تھے۔ اور چھوٹے چھوٹے پتھر دریا کے بہتے ہوئے پانی میں پھینک پھینک کر کھیل رہے تھے۔ اسی اثنا میں اُنھوں نے دیکھا کہ کسی درخت کی ایک خوبصورت ٹہنی دریا میں بہتی چلی آرہی ہے۔ یہ بہتے بہتے اور موجوں کے تھپیڑے کھاتے کھاتے اُن کے قریب آپہنچی۔ ایک لڑکے نے جو دوسرے سے کسی قدر کم عمر معلوم ہوتا تھا۔ ٹہنی کو اپنے بالکل قریب دیکھ کر اُسے پکڑنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اس قدر جھک گیا کہ اس کے پائوں کنارے کی پھسلوان زمین سے اُکھڑ گئے۔ اور اس سے پیشتر کہ کوئی اُسے پکڑتا۔ پانی کی ایک تیز موج اُسے کنارے سے دور بہا لے گئے۔ دوسرے لڑکے نے اس کو گرتا دیکھ کر شور مچا دیا۔ ’’بابا! زرداد دریا میں گر پڑا‘‘ اور یہ کہتے کہتے وہ بغیر کچھ سوچ سمجھنے بے تحاشا پانی میں کود پڑا۔ پھر اپنے بہتے ہوئے ساتھی کو پکڑنے کے لیے زور زور سے ہاتھ پائوں مار کر تیرنے لگا۔ اس چیخ پکار نے اُس بوڑھے شخص کو جو درخت سے کمر لگائے بے خبری کے عالم میں بیٹھا تھا۔ چونکا دیا۔ اُس نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو اُسے سنسان کنارے اور چپ چاپ بہتے ہوئے دریا کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا۔ تاہم وہ دل ہی دل میں کچھ سوچ سمجھ کر چلا اُٹھا۔ ’’آہ! میری برسوں کی محنت برباد ہوگئی۔ اب میں سلطان کو کیا منہ دکھائوں گا۔ مگر وہ اپنی جسمانی کمزوری اور بڑھاپے کے باوجود بجلی کی تیزی سے بھاگ کر کنارے پر آیا۔ اور چاہتاہی تھا کہ اُن لڑکوں کے لیے اپنے آپ کو دریا میں گرا دے کہ یکایک اُس کے کانوں میں ایک نرم اور باریک آواز آئی۔ ’’بابا! جلدی آئو! میں نے زرداد کو پکڑ لیا ہے۔‘‘ بوڑھا شخص جس کا بدن کانپ رہا تھا۔ اور جس کی سفید ڈاڑھی آنسوئوں سے تربتر ہورہی تھی۔ یہ آواز سنتے ہی پانی میں کود پڑا اور دریا کے دھارے کے رُخ تیزی سے تیرنے لگا۔ اب اُسے ایک چھوٹا سا ہاتھ نظر آیا۔ جو پانی کی رو کو چیرنے کی کوشش کررہا تھا۔ بوڑھا آن کی آن میں لڑکے کے قریب جاپہنچا۔ اور چلایا۔ آغا! میرا ٹپکا پکڑ لو۔ لڑنے کے ہاتھ بڑھایا۔ جو بوڑھے کے چرمی جامہ پر پڑا۔ لڑکے نے اسے خوب مضبوط پکڑ لیا۔ اور زرداد کو جسے وہ اپنے دائیں ہاتھ سے سنبھالے ہوئے تھا اُوپر اُٹھانے کی کوشش کی۔ زرداد نے سر اُٹھایا۔ اور کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے جدوجہد کی۔ بوڑھا کنارے پر جاپہنچا۔ اُس نے اپنے ایک ہاتھ سے ایک سرکنڈے کی جڑ پکڑ لی۔ اور دوسرے ہاتھ سے دونوں لڑکوں کو جو ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے۔ جھٹکا دے کر خشکی پر پھینک دیا۔ اور پھر خود پانی سے نکل کر کنارے پر آگیا۔ بوڑھے نے چھوٹے لڑکے کو اپنے گھٹنوں پر اوندھا لٹا دیا تاکہ اُس کے منہ اور نتھنوں کے اندر سے پانی نکل جائے۔ پانی نکل جانے کے بعد جب لڑکے نے ذرا آسانی سے سانس لینا شروع کیا تو اُسے آہستہ سے سبز گھاس پر لٹا دیا۔ پھر جوشِ محبت اور احسان مندی سے اُٹھ کر بڑے لڑکے کو گلے سے لگا لیا۔ اور کہا: آغو! تم نے میرے بچے کو نچایا ہے۔ میں بھی تم پر اپنی جان قربان کر دوں گا۔ چھوٹے لڑکے نے لیٹے لیٹے آنکھیں جھپکا جھپکا کر کمزور آواز میں کہا: بابر! یہ قرض میرے سر پر ہے۔ اسے میں ہی ادا کردوں گا۔ یہ بوڑھا شخص خواجہ محمد سلطان عمر شیخ میرزا ولایت فرغانہ کے حاکم کا معتبر ملازم تھا۔ چوھٹا لڑکا اس کا بیٹا زرداد اور بڑا لڑکافرغانہ کا شہزادہ ظہیر الدین محمد بابر تھا۔ (۲) چار باغ میں جو دریائے سیحوں کے شمال میں قصبہ احسنی کا ایک پُر رونق اور شاداب حصہ ہے۔ بابر اور زرداد کھیل رہے تھے۔ بوڑھا خواجہ محمد ایک پرانی مگر مضبوط کمان میں تیر جوڑتا تھا۔ اور بابر اور زرداد باری باری کمان کا چلہ کھینچ کر درختوں پر لگی ہوئی نارنگیوں کو تیروں کا نشانہ بناتے تھے۔ جس کے تیر سے نارنگی گرتی۔ خواجہ محمد اُس کی پیٹھ ٹھوکتا اور نارنگی اُسی کے حصے میں آتی۔ بابر کی عمر اب بارہ برس کی تھی اور زرداد کی کوئی دس برس کی۔ اتنے میں ایک پہاڑی کوا کائیں کائیں کرتا نارنگی کے درخت پر آبیٹھا۔ کوے کو درخت پر بیٹھا دیکھ کر بابر بے چین ہوگیا۔ او رکہنے لگا: ’’بابا! جلدی تیر جوڑو۔ میں اس کورے پر نشانہ لگائوں گا‘‘ خواجہ محمد نے حیرت اور افسوس سے بابر کو دیکھ اور کہا: آغو! تیمور کی اولاد نے آج تک چیل کووں کا شکا رنہیں کیا۔ اگر ایسی ہی شکار کی خواہش ہے تو آغا سلطان کے دشمنوں کا شکار کرو۔ بابر نے ندامت سے سر جھکا لیا۔ اور دبی ہوئی زبان سے کہا: ’’آغ اسلطان نے تو مجھے فرغانہ سے دور اس سنسان جنگل میں بھیج رکھا ہے۔‘‘ خواجہ محمد نے بابر کی پیشانی کو چوم کر کہا: ’’آغو! اب تم ماشاء اللہ جوان ہوگئے ہو اور اپنی حفاظت خود کرسکتے ہو۔ آغا سلطان بہت جلد تم کو فرغانہ میں بلا لیں گے‘‘ بابر نے ایک جھٹکے سے سر کے ذرا لمبے بالوں کو پیشانی پر سے ہٹا کر اور تن کر کہا: ’’تو پھر آغا سلطان کا کوئی دشمن زندہ نہ رہے گا‘‘ یہ کہہ کر بابر نے ایک جست بھری۔ اور زرداد کے ساتھ کھیلنے میںمشغول ہوگیا۔ اتنے میں باغ کے دروازے سے ایک فوجی سپاہی گھوڑے پر سوار داخل ہوا۔ اس کے چہرے سے پریشانی ظاہر تھی۔ اور اس کی آنکھیں بے چینی سے کسی کو تلاش کررہی تھیں یکلخت اس کی نظر خواجہ محمد پر پڑی۔ وہ فوراً گھوڑے سے اُترا۔ اور اُس نے جلدی سے بڑھ کر ایک سر بمہر لفافہ خواجہ محمد کے ہاتھ میں دے دیا۔ خواجہ محمد نے سپای کی بدحواسی کو دیکھ کر پوچھا: ’’کیوں خیر تو ہے؟‘‘ سپاہی نے فقط یہی کہا اور چپ ہوگیا: ’’آپ لفافے کو کھول کر دیکھئے‘‘ خواجہ محمد نے جلدی سے لفافہ کھولا۔ا ور خط کو دیکھ کر سکتے کے عالم میں آگیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے اور وہ چلا اُٹھا۔ ’’آہ آغو! اب تم آغا سلطان کو کبھی نہ دیکھ سکو گے۔‘‘ اس خط میں سلطان عمر شیخ مرزا فرغانہ کے بادشاہ کی ناگہاں موت کی خبر تھی۔ سوالات ۱- وہ بوڑھا جو دریا کے کنارے بیٹھا تھا۔ کون تھا؟ اور اس کے ساتھ جو دو لڑکے تھے۔ وہ کون تھے؟ ۲- ان لڑکوں کو کس نے اور کس طرح دریا سے ڈوبنے سے بچایا؟ ۳- ذیل کے الفاظ کے معنے بتائو: شاداب۔ سنگریزوں۔ بے تحاشا۔ ماشاء اللہ۔ ناگہاں۔ ۴- بلا لیں گے کون سا فعل ہے۔ اس فعل کی پالنا مصدر سے پوری گردان کرو۔ …٭…٭…٭… ۴۲- میرا جھونپڑا وحشت زینت فرحت اُلفت دلبستگی ہمدم تعلق قصرِ سُلطانی بکھیڑوں ہے پرانا دوست بچپن کی محبت مجھ سے ہے کیوں نہ میں خوش ہوں کہ میرے دل کو راحت تجھ سے ہے دِل لگا ہے دل لگی کی آج صورت تجھ سے ہے کوئی وحشی ہوں جو کہدوں میں کہ وحشت تجھ سے ہے تیری زینت مجھ سے ہے اور میری فرحت تجھ سے ہے تجھ کو اُلفت سے مجھ ہے اور مجھ کو اُلفت تجھ سے ہے یوں تو کہنے کے لیے تو چیز ہے کیا ؟ جھونپڑا کوئی لیکن مجھ سے یہ پوچھے کہ کیسا جھونپڑا میرا ہمدم اور میرا پیارا پیارا جھونپڑا میرا چھوٹا جھونپڑا اور میرا اچھا جھونپڑا تیری زینت مجھ سے ہے اور میری فرحت تجھ سے ہے تجھ کو اُلفت سے مجھ ہے اور مجھ کو اُلفت تجھ سے ہے تیرے ہر ذرّہ سے میری جان ہے پہچان ہے یہ میری دلبستگی کا اِک بڑا سامان ہے جی نہیں گھٹتا ہے تجھ سے تجھ میں میری جان ہے بولتا ہے مجھ سے تنہائی میں تو انسان ہے تیری زینت مجھ سے ہے اور میری فرحت تجھ سے ہے تجھ کو اُلفت سے مجھ ہے اور مجھ کو اُلفت تجھ سے ہے میں نے تجھ کو دل دیا اور دل دیا تو نے مجھے لیتے ہیں دونوں برابر کی محبت کے مزے میں ترے قرباں مجھ سے یہ تعلق ہے تجھے کھینچتا ہے تو پکڑ کر دامنِ دِل کو مرے تیری زینت مجھ سے ہے اور میری فرحت تجھ سے ہے تجھ کو اُلفت سے مجھ ہے اور مجھ کو اُلفت تجھ سے ہے قصرِ سُلطانی بنا ہے سو بکھیڑوں کے لیے رہ کے اس میں مول شہ نے کس قدر جھگڑے لیے اس سے بڑ کر کیا خوشی کی بات ہے میرے لیے خاص تُو میرے لیے ہے خاص مَیں تیرے لیے تیری زینت مجھ سے ہے اور میری فرحت تجھ سے ہے تجھ کو اُلفت سے مجھ ہے اور مجھ کو اُلفت تجھ سے ہے سوالات ۱- نظم بالا کی مدد سے بتائو کہ شاعر نے جھونپڑے کو قصرِ سُلطانی پر کیوں ترجیح دی ہے؟ ۲- شاعر کو اپنا جھونپڑا کیوں اس قدر پیارا معلوم ہوتا ہے؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: دِل لگا ہے دل لگی کی آج صورت تجھ سے ہے کوئی وحشی ہوں جو کہدوں میں کہ وحشت تجھ سے ہے ۴- ان الفاظ کے معنی بتائو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعامل کرو: وحشت۔ زینت۔ فرحت۔ اُلفت۔ راحت ۵- اس نظم اسے اسم ضمیر الگ کرو۔ …٭…٭…٭… ۴۳- بابر کا بچپن نمبر۲ بدخواہوں نادان آثار انداز لہجہ خادموں غلاموں قاصد منتظر (۳) اب خواجہ محمد حیران تھا کہ کیا کرے۔ بابر کل کا بچہ جو ابھی ابھی اپنے باپ سے ملنے کے لیے بے صبر ہورہا تھا۔ اور بچپن کے جوش میں آغا سلطان کے دشمنوں کو تباہ کرنے کے لیے بے چین تھا۔ اس خبر کو کیسے سن سکے گا۔ آہ! اُس نے بابر کو دشمنوں سے بچا بچا کر اور بدخواہوں سے چھپا چھپا کر اِس اُمید پر پالا تھا کہ ایک دن جب وہ جوان اور مضبوط ہوجائے گا تو اُسے اُس کے باپ کی خدمت میں حاضر کرے گا اور اپنی دن رات کی محنت کا انعام پائے گا اُسے کیا خبر تھی کہ بیٹا باپ کی شکل کو ترس جائے گا۔ اور موت باپ کو اتنی مہلت نہ دے گی کہ وہ اپنی آنکھوں کے نور کو ایک نظر دیکھ لے۔ مگر اب جو کچھ ہونا تھا ہوگیا۔ تخت خالی ہے۔ چچا ماموں ہونے کو تو ہیں مگر بابر کی جان کے دشمن۔ بھائی ہیں۔ مگر کم عمر نادان۔ عمر شیخ مرزا کی آنکھیں بند ہوتے ہی رعایا آگ ہوگئی ہوگی۔ سردار بغاوت پر آمادہ ہوں گے۔ آخر کوئی نہ کوئی تدبیر تو ایسی کرنی چاہیے کہ حق نمک ادا ہو جائے اور بنی بنائی سلطنت نہ بگڑے۔ جب اُسے اپنے مرحوم آقا کی شکل یاد آتی تو اس کا دل خون ہوجاتا۔ آنکھوں میں آنسو اُمنڈ آتے۔ مگر یہ وقت رونے دھونے کا نہ تھا۔ کام کرنے کا تھا۔ خواجہ محمد نے دل ہی دل میں خدا سے حوصلہ اور ہمت کی دعا مانگی۔ اور بابر کو ڈھونڈنے کے لیے چلا۔ جو زرداد کے ساتھ باغ کے دوسرے گوشے میں کھیل کود میں مصروف تھا۔ بابر کو دیکھا تو رہی سہی ہمت جاتی رہی۔ بارہ برس کا نادان لڑکا۔ اور فرغانہ کی سلطنت کا بوجھ۔ یہ ننھی سی جان اس بار کو کیسے اُٹھا سکے گی۔ ناچار بڑھ کر بابر کے سامنے آیا۔ اور کچھ سوچ کر اپنے گھٹنوں پر جک گیا۔ پھر اس نے بابر کے بائیں ہاتھ کو اپنے دونوں دونوں میں لے کر بوسہ دیا۔ بابر کے ہاتھوں پر گرم گرم آنسوئوں کے قطرے گر پڑے۔ وہ حیران تھا کہ کیا معاملہ ہے ’’کیوں بابا کیا ہے۔ تم روتے کیوں ہو؟‘‘ خواجہ محمد نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا: ’’بابا کی جان قربان تم کیسے سُن سکو گے؟‘‘ بابر نے اپنے قد کو اور بلند کرکے ذرا بگڑ کر کہا: ’’کیوں تم کیوں نہیں کہتے؟‘‘ اس کے چہرے پر ابھی سے بادشاہی کے آثار ظاہر تھے۔ خواجہ محمد نے کھلا ہوا کاغذ بابر کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور ذرا پرے ہٹ کر ادب سے کھڑا ہوگیا۔ بابر کی آنکھیں کاغذ کو پڑھتے ہی آنسوئوں سے بھر گئیں۔ اُس کا چہرہ سُرخ ہوگیا۔ خواجہ محمد جو بابر کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ پکار اُٹھا: ’’بابر سلطان زندہ رہے۔‘‘ (۴) بابر کا چہرہ خواجہ خواجہ محمد کی دعا سنتے ہی اور سُرخ ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو خشک ہوگئے اور جوش اور ہمت سے بولا: ’’آغا سلطان کی وفات کی رسمیں میں خود جاکر ادا کروں گا‘‘ خواجہ محمد نے احتیاط کے انداز سے کہا: ’’مگر آپ کا اس طرح تنِ تنہا جانا مصلحت کے خلاف ہے۔‘‘ زرداد جو پاس کھڑا تھا۔ اور ان مختلف جملوں کی تمام اصلیت سے واقف ہوچکا تھا۔ دو قدم بڑھ کر بڑے جوش سے بولا: ’’جب تک زرداد زندہ ہے۔ بابر سلطان کبھی اکیلا نہیں رہ سکتا۔ میں ساتھ جائوں گا‘‘ یہ سُن کر بابر کی آنکھیں احسان مندی سے اُس کی طرف اُٹھ گئیں۔ا ور اُس نے بادشاہی سرپرستی کے لہجہ میں کہا: ’’بیشک زرداد! بابر کو تمھاری وفاداری پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘ خواجہ محمد جو اس وقت کچھ سوچ رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’حضور! قلعہ میں تشریف لے چلیں۔ سب نمک خواروں کو یہیں جمع کیے لیتا ہوں۔ اور لشکر کی تیاری کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘ بابر نے دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا: ’’آئو! یہ وقت بہت قیمتی ہے اس طرح انتظار میں ضائع نہیں کیا جاسکتا‘‘ معلوم ہوتا تھا کہ قدرت نے بادشاہی کی ذمہ داری دیتے ہوئے اس بارہ برس کے لڑکے کو شیر کی سی بہادری اور بزرگوں کی سی عقل مندی بخش دی تھی۔ قلعہ میں آکر بابر نے فوراً اپنا گھوڑا تیار کرنے کے لیے حکم دیا۔ زرداد اور خواجہ محمد اپنے اپنے گھوڑوں کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ اور جب تین سواروں کا بندوبست ہوگیا تو زرداد آج پہلی مرتبہ بابر کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ اب تک زرداد اور بابر دو دوستوں اور بچپن کے دو ساتھیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ مگر آج زرداد نے خود اپنے دوست کو بادشاہی کے مرتبہ پر پہنچتا دیکھ کر اپنی دوستانہ برابری کو دل سے بھلا دیا۔ اور تجربہ کار خادموں اور جان نثار غلاموں کی طرح بابر کی خدمت کرنے میں مشغول ہوگیا۔ بابر اپنے شکاری کپڑے پہن کر باہر نکلا۔ اور زرداد کو گھوڑے کی لگام ہاتھ میں لیے منتظر دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اُس نے بڑھ کر زرداد کی پیٹھ ٹھوکی۔ اور کہا: ’’زرداد! بابر فرغانہ کا بادشاہ ہے۔ مگر تمھارا دوست ہے۔ یہ کام تمھارے لائق نہیں۔ جائو۔ تم گھر میں آرام کرو۔ میں بہت جلد تم سے ملوں گا۔ زرداد نے آنکھیں نیچے کیے ہوئے صرف اتنا کہا: ’’میں ہر حالت میں بابر سلطان کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں‘‘ بابر دل ہی دل میں کچھ سوچ کر اور ’’بہت خوب‘‘ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ بابر کے گھوڑے کے پیچھے زرداد اور خواجہ محمد کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ بابر کے گھوڑے کے پیچھے زرداد اور خواجہ محمد کے گھوڑے تھے۔ وہ قاصد بھی جو وفات کی خبر لایا تھا۔ ان کے ساتھ ہولیا۔ اور وہ فرغانہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ سوالات ۱- بابر نے کس حالت میں باپ کے مرنے کی خبر سُنی۔ اور زرداد نے اس کی دوستی کو کس طرح سے چھوڑا اور اس کی غلامی کو کس طرح قبول کیا؟ ۲- بابر کس طرح سے اپنے مُلک فرغانہ میں اپنے والد کی رسمیں ادا کرنے کے لیے گیا؟ ۳- ان الفاظ کے کیا معنی ہیں۔ ان کو اپنے فقروں میں ادا کرو: بدخواہوں۔ آثار۔ انداز۔ خادموں۔ قاصد ۴- ’’بسر کرتے تھے‘‘ کون سا فعل ہے؟ اس فعل کی گردان مصدر رکھنا سے کرو۔ …٭…٭…٭… ۴۴- محنت امتحان پڑھائی سوا شکوے انعام اِکرام للکار کوڑا فیصلہ ہے امتحاں سر پر کھڑا محنت کرو محنت کرو باندھو کمر بیٹھے ہو کیا محنت کرو محنت کرو بیشک پڑھائی ہے سوا اور وقت ہے تھوڑا رہا ہے ایسی مشکل بات کیا محنت کرو محنت کرو شکوے شکایت جو کہ تھے تم نے کہے ہم نے سُنے جو کچھ ہوا اچھا ہوا محنت کرو محنت کرو محنت کرو انعام لو انعام پر اِکرام لو جو چاہو گے مل جائے گا محنت کرو محنت کرو جو بیٹھ جائیں ہار کر کہہ دو اُنھیں للکار کر ہمت کا کوڑا مار کر محنت کرو محنت کرو تدبیریں ساری کہہ چکے باتوں کے دریا بہ چکے بک بک سے اب کیا فائدہ محنت کرو محنت کرو یہ بیج اگر ڈالو گے تم دل سے اسے پالو گے تم دیکھو گے پھر اس کا مزا محنت کرو محنت کرو محنت جو کی جی توڑ کر ہر شوق سے منہ موڑ کر کر دو گے دم میں فیصلہ محنت کرو محنت کرو کھیتی ہو یا سوداگری ہو بھیک ہو یا چاکری سب کا سبق یکساں سُنا محنت کرو محنت کرو جن دن بڑے تم ہوگئے دنیا کے دھندوں میں پھنسے پڑھنے کی پھر فرصت کجا؟ محنت کرو محنت کرو بچپن رہا کس کا سدا انجام کو سوچو ذرا یا تو کہو کھائو گے کیا؟ محنت کرو محنت کرو سوالات ۱- نظم بالا کا مطلب آسان اُردو میں بتائو۔ ۲- اس نظم سے ہمیں کیا سبق سیکھنا چاہیے؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو: جو بیٹھ جائیں ہار کر کہہ دو اُنھیں للکار کر ہمت کا کوڑا مار کر محنت کرو محنت کرو ۴- کمر ہمت باندھنا۔ دم میں فیصلہ کردینا۔ جی توڑ کر محنت کرنا۔ ان کا مطلب بتائو اور اُن کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۵- دیکھو گے۔ کون سا فعل ہے۔ اس قسم کے فعل جس قدر اس نظم میں آئے ہیں۔ ان کو الگ کرو۔ …٭…٭…٭… ۴۵- بابر کا بچپن نمبر۳ اتالیق بارسوخ منچلے قابض موزوں ترشرو روزنوں مُستعِد (۵) اِدھر تو بابر اس بے بسی کی حالت میں کہ اُس کا بوڑھا اتالیق خواجہ محمد اور اس کا نو عمر دوست زرداد اور ایک سپاہی اُس کے ساتھ تھے۔ فرغانہ کی طرف روانہ ہوا۔ اُدھر سلطان احمد مرزا بابر کا حقیقی چچا بھائی کی وفات کی خبر سنتے ہی یہ سوچ کر کہ بھتیجا کم عمر اور نادان ہے۔ بابر کے تخت پر قبضہ کرنے کے لیے لائو لشکر لے کر فرغانہ پر چڑھ آیا۔ فرغانہ میں جب یہ خبر پہنچی تو ہل چل مل گئی۔ امیر حیران تھے کہ کس کا ساتھ دیں۔ سپاہی پریشان تھے کہ کس کا حکم مانیں۔ اگر سلطان احمد مرزا سے لڑتے ہیں تو جان جاتی ہے۔ اگر بابر کو دغا دیتے ہیں تو نمک حرام کہلاتے ہیں۔ الغرض عجب شش و پنج کا عالم تھا۔ کچھ نمک حرام امیر جو نئے مالک کو خوش کرکے انعام و اکرام کی اُمید رکھتے تھے۔ پوشیدہ طور پر سلطان احمد مرزا سے مل گئے۔ا ور کوشش کرنے لگے کہ بابر کے فرغانہ تک پہنچنے سے پہلے پہلے بغاوت ہوجائے۔ مگر ایسے وفادار اور جان نثار سردار بھی تھے۔ جنھوں نے اس دنیا کے لالچ کی پروا نہ کی۔ اور اپنے مرحوم آقا کی رُوح کو خوش کرنے کے لیے اور اپنے مُلک کے تخت و تاج کے اصلی حقدار کا حق ادا کرنے کے لیے یہ فیصلہ کرلیا کہ جان رہے یا نہ رہے۔ وہ بابر کا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔ ان میں ایک امیر شیر طغائی بڑا بارسوخ اور ولادر سردار تھا۔ اُس نے یہ خیال کرکے کہ کہیں راستہ میں بابر کا سامنا سلطان احمد مرزا کے لشکر سے نہ ہوجائے چند منچلے سوار لے کر اندجان کا رُخ کیا۔ بابر اپنی چھوٹی سی جمعیت کے ساتھ ابھی اندجان کے قلعہ کی سڑک پر ہی تھا اور چاہتا تھا کہ قلعہ میں داخل ہونے کا انتظام کرے کہ امیر شیر طغائی آپہنچا۔ گھوڑے سے اُتر کر چھوڑے سلطان کی رکاب کو بوسہ دیا۔ اور سلام کرکے ادب سے کھڑا ہوگیا۔ بابر نے شاہانہ مہربانی سے مزاج پُرسی کی اور اسے اپنے ارادہ سے آگاہ کیا۔ امیر طغائی نے دست بستہ عرض کی: ’’جان و مال قربان ہو۔ فرغانہ کی موجودہ حالت اطمینان بخش نہیں۔ اگر دو چار روز اندجان کے قلعہ میں قیام فرمائیے۔ تو میں لشکر جمع کرنے کا انتظام کرلوں۔‘‘ بابر نے حیران ہوکر پوچھا: ’’مگر لشکر کی کیا ضرور آپڑی؟‘‘ امیر طغائی نے عرض کیا: ’’جہاں پناہ! سلطان احمد مرزا فرغانہ کے تخت پر قبضہ کرنے کے لیے بہت بڑی فوج لے کر اس طرف آرہا ہے‘‘ بابر نے سوچتے ہوئے کہا: ’’مگر کیا چچا جان نہیں جانتے کہ سلطنت کا حق دار میں ہوں‘‘ امیر طغائی نے صرف اتنا کہا: ’’سلطنت کا لالچ انسان کو اندھا کردیتا ہے‘‘ بابر نے اکڑ کر جواب دیا: ’’تو خیر! جب تک بابر زندہ ہے۔ فرغانہ کے تخت و تاج پر اور کوئی شخص قابض نہیں ہوسکتا‘‘ (۶) بابر کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ خواجہ محمد جو بڑے غور سے قلعہ کی شمالی جانب کی طرف دیکھ رہا تھا ذرا گھبراہٹ سے چلایا: ’’مگر یہ گرد کیسی ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ دشمن اِدھر کا رُخ کیے آرہا ہے‘‘ بابر اور امیر شیر طغائی نے ایک ساتھ گردن پھیر کر اس طرف نظر دوڑائی۔ خدا جانے اس نظارے نے بابر پر کیا اثر کیا۔ کہ وہ شیر کی مانند گرج کر بولا: ’’دشمن آرہا ہے۔ تو کیا ڈر ہے میں بھی مقابلہ کروں گا۔ یہی بہتر ہے۔ کہ فرغانہ میں وہی شخص داخل ہو۔ جو اس تخت و تاج کے لیے دونوں میں زیادہ موزوں ہے۔‘‘ امیر شیر طغائی جو زیادہ تجربہ کار اور دنیا کے نشیب و فراز دیکھ چکا تھا۔ جہاں بابر کی ہمت پر خوش ہوا۔ وہاں اس کی بے باک تجویز پر عمل کرنے کے لیے رضامند نہ ہوسکا۔ اس لیے اُس نے دست بستہ عرض کی: ’’حضور کے اقبال سے ہم نمک خوار جانیں قربان کرنے کے لیے موجود ہیں۔ پھر آپ کو خطرے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ بابر نے ذرا ترشرد ہوکر جواب دیا: ’’تیموار کی اولاد دشمن کے مقابلہ کے لیے سب سے پہلے اپنی جان خطرے میں ڈالنے کی عادی ہے۔‘‘ خواجہ محمد نے جو چپ چاپ کھڑا تھا۔ بڑھ کر سمجھانا شروع کیا: ’’آغو سلطان! قلعہ میں چل کر اپنی فوج کو قاعدے سے قلعہ کی حفاظت کے لیے مقرر فرمائیے۔ ایک بڑے لشکر کا مقابلہ اس کھلے میدان میں عقلمندی کے خلاف ہے۔ امیر شیر طغائی اور ان کے سپاہی آپ کے احکام کی پابندی کرنے کے لیے موجود ہیں۔ دشمن کو موقعہ دیجیے کہ قلعہ کا محاصرہ کرے۔ میں فرغانہ جاتا ہوں اور کمک کا بندوبست کرتا ہوں۔ جب فرغانہ کے وفادار سردار اپنے سپاہیوں سمیت پہنچ جائیں۔ تو آپ اندر سے اور ہم باہر سے حملہ کردیں گے۔ اور دشمن کو پیس ڈالیں گے۔ بابر کے چہرے پر کامیابی اور فتح کی روشنی چمکنے لگی۔ اور اُس کے دل پر خواجہ محمد کے مشورہ کا اثر ہوا۔ کچھ سوچ کر بولا: ’’بہت بہتر تجویز معقول ہے۔ بہرحال میں چچا سے یہیں مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی صورت میں فرغانہ کو فتنہ و فساد سے بچانا میرا فرض ہے۔‘‘ امیر شیر طغائی یہ دیکھ کر آخر بابر احتیاط کرنے پر رضامند ہوگیا ہے۔ کہنے لگا: ’’مگر خواجہ محمد! آپ کا جانا مصلحت کے خلاف ہے۔ قلعہ کے صدر اور شمال و جنوبی دروازوں کی حفاظت کے لیے ایک ایک سردار کی ضرورت ہے۔ سلطان خود صدر دروازے کے سپاہیوں کی دیکھ بھال کرلیں گے۔ شمالی اور جنوبی دروازے کے لیے میری اور آپ کی موجودگی لازمی ہے۔ میں یہ کام صرف سپاہیوں پر نہیں چھوڑ سکتا۔ خصوصاً جب کہ مقابلہ پر سلطان احمد مرزا سا بہادر سردار ہو۔‘‘ خواجہ محمد یہ سُن کر سوچ میں پڑ گیا۔ مگر بابر نے کہا: ’’وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ دشمن کی فوجیں ساعت بساعت قریب آرہی ہیں۔ آکر کہو تو پھر جائے گا کون؟ بابر نے مشکل سے آخری جملہ ختم کیا ہوگا کہ زرداد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی او ریہ کہتا ہوا فرغانہ کی طرف ہوا ہوگیا۔ ’’زرداد جائے گا‘‘ (۷) ادھر زرداد فرغانہ کو روانہ ہوا۔ اُدھر بابر خواجہ محمد اور امیر شیر طغائی کے ہمراہ قلعہ اندجان میں داخل ہوگیا۔ اندجان کا فوجی سردار بابر کے پہنچنے کی خبر پاکر فوراً حاضر ہوا۔ اور دست بستہ سلام کرکے اُس کے حکم کی انتظام میں کھڑا ہوگیا۔ سب نے بیٹھ کر صلاح و مشورہ کیا اور قلعہ کی حفاظت کے لیے جابجا سپاہی مقرر کردیے۔ ابھی اتنا ہی انتظام کرنے پائے تھے کہ گھوڑوں کی ٹاپوں اور سپاہیوں کے شور کی آواز باہر سے سُنائی دینے لگی۔ بابر نے قلعہ کے روزنوں سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک بڑے لشکر نے قلعہ کا محاصرہ کرلیا ہے اُس نے بڑے بڑے فوجی سرداروں کو سلطان احمد مرزا کے اِردگرد کھڑے دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ قلعہ کو سر کرنے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ خواجہ محمد اور امیر شیر طغائی نے جب اتنا بڑا لشکر دیکھا تو اُن کے ہوش جاتے رہے۔ آخر اُن کے مٹھی بھر سپاہیوں کی حقیقت ہی کیا تھی۔ اور فرض کیا کہ فرغانہ کی سپاہ بھی آجائے تو وہ کیا بنا لے گی۔ سلطان احمد سا جرار بادشاہ اور فرغانہ کی سلطنت کا لاچ وہ جو کچھ بھی کر گزرے تھوڑا ہے۔ آخر شام ہوگئی۔ مگر نہ تو باہر سے حملہ ہوا۔ نہ اندر سے کسی نے پیش دستی کی۔ مگر امیر طغائی بڑا تجربہ کار سردار تھا۔ عمر شیخ مرزا کے سارے معرکوں میں اس کا شریک و رفیق رہا تھا۔ وہ سلطان احمد کی فوج کی نقل و حرکت سے تاڑ گیا کہ شبخون مارنے کے ارادے ہیں۔ کوئی پہر رات گزر گئی تھی۔ مگر کیا مجال بابر، خواجہ محمد یا امیر طغائی کی آنکھ بھی جھپکی ہو۔ وہ سب خطروں سے خبردار ہوکر اپنی پوری طاقت سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھے۔ اتنے میں اُنھوں نے قلعہ کے سوراخوں سے دیکھا کہ رات کی تاریکی میں سلطان احمد کی فوج کا ایک حصہ صدر دروازہ کی طرف بڑھا۔ امیر شیر نے فوراً حکم دیا کہ تمام سپاہی صدر دروازے کی منڈیروں پر جمع ہوکر بڑے بڑے پتھروں کو لڑھکانے کے لیے مُستعِد رہیں۔ جو اِسی غرض سے وہاں جمع رہتے تھے۔ یہ زمانہ گولے بارُود کا نہ تھا۔ تیر تلوار کا تھا۔ جب سلطان احمد کی فوج دروازہ کے قریب آگئی۔ اور دروازہ کو توڑنے میں مشغول ہوگئی تو بابر نے فوراً پتھر لڑھکانے کے لیے حکم دے دیا۔ رات کی تاریکی میں دھمادھم پتھ رگرنے شروع ہوئے۔ جو سپاہی پتھروں کی زد میں آیا۔ وہیں دب کر خاک ہوگیا۔ جو بچ سکا بھاگا۔ سلطان احمد کو جب ایک اطلاع ہوئی کہ دشمن خبردار ہے اور مقابلہ کرنے کے لیے تیار۔ تو ایک دم حملہ کرنے کا حکم دیا۔ کہ شاید اس ناگہانی ہڑبونگ سے قلعہ کا لشکر گھبرا کر ہتھیار ڈال دے۔ اب کے حملہ شمالی جنوبی اور صدر دروازوں پر ایک ساتھ شروع ہوا۔ رات کی تاریکی اس پر مشعل کا جلانا ناممکن۔ کہ کہیں دشمن کے تیر انداز اُسی کو نشانہ بان کر مصیبت نہ ڈھادیں۔ اتنے میں یکلخت امیر طغائی کی آواز سُنائی دی۔ دیکھو مشرقی فصیل پر نظر ڈالو۔ بابر اور خواجہ محمد نے اپنی اپنی جگہ سے مڑ کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ کئی ہوشیار کمندباز دریا کی طرف سے قلعہ پر چڑھ آئے ہیں۔ یہ وقت سوچ بچا رکا نہ تھا۔ امیر شیر نے جلدی سے خواجہ محمد سے یہ مشورہ کرکے سلطنت ہرے یا جائے۔ بابر کی جان بچ جائے بابر کو رضامند کرلیا۔ کہ فوراً سرنگ کے راستے ہوکر اور کند کے علاقہ کی طرف جو دامنِ کوہ میں محفوظ ہے نکل چلیں۔ جب کوئی گھڑی دو گھڑی کے بعد سلطان احمد مرزا اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوا۔ تو بابر کا کہیں پتہ نہ تھا۔ اس تدبیر سے بابر کی جان بچ گئی۔ مگر اس بارہ تیرہ برس کے بچے کو آیندہ چل کر جن مصیبتوں کا سامنا کرنا تھا۔ ابھی اس کی ابتدا ہی ہوئی تھی۔ سوالات ۱- بابر کے باپ کی وفات پر اس کے حقیقی چچا نے کیا ارادہ کیا اور کس قلعہ میں بابر کا محاصرہ کیا؟ ۲- بابر کس کی مدد سے وہاں بچ سکا؟ ۳- ذیل کے الفاظ معنے بتائو۔ اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو: اتالیق۔ قابض۔ موزوں۔ ترشرو۔ مُستعِد۔ ۴- ’’کرلیا ہے‘‘ کون سا فعل ہے۔ اور ’’کرلیتا ہے‘‘ کون سا؟ ان دونوں فعلوں کا فرق ظاہر کرو۔ …٭…٭…٭… ۴۶- مکتوبات لہٰذا اِحتیاط مضائقہ ہوا خوری معمول حوائج جسم فرائض نازِل تحریروں بشری خط نمبر۱ ۷۸۶ ۸؍محرم ۱۳۲۶ھ پیارے! یہ پہلا موقع ہے کہ میں تم کو پیارا لکھتا ہوں۔ آج میں تم کو وہ باتیں لکھنی چاہتا ہوں جو شاید تم کو ناگوار ہوں گی۔ اور تم خفا ہوجائو گے۔ اس لیے پیار سے، محبت سے اور چمکار کر یہ خط لکھتا ہوں: لڑکے! میرے نصیحت غور سے پڑھ اور اکیلے میں میں سوچ کہ جو کچھ میں لکھتا ہوں۔ وہ سچ ہے یا جھوٹ؟ زندگی کے یہ دن چند روزہ ہیں۔ اس وقت کو غنیمت سمجھ کر کوئی بات ایسی حاصل کرو کہ بُرے وقت میں کام آئے۔آوارہ اور بیکار رہنے کا زمانہ نہیں ہے۔ کچھ پڑھ۔ کوئی ہنر سیکھ اور اُن لوگوں سے ملنا ترک کر جو بدنام ہیں۔ اور تیرے خاندان کو جن کو ملاقات سے بٹہ لگتا ہے۔ تیرا خاندان بڑا شریف خاندان ہے۔ عزت دار خاندان ہے۔ ذی علم خاندان ہے۔ لیاقت اس میں ہے کہ باپ دادا کا نام روشن کرو۔ کوئی ایسی خوبی اور علمیت حاصل کرو کہ مفتیوں کا نام دوبارہ زندہ ہوجائے۔ مگر میری جان! افسوس کہ تم ایسا نہیں کرتے۔ مجھے سخت صدمہ ہوا۔ جب میں نے شہر میں تمھارے دشمنوں کو کہتے ہوئے سُنا کہ تم آوارہ اور خراب آدمیوں سے ملتے اور بدنام صحبت میں جاتے ہو۔ اگرچہ میرا یقین ہے کہ وہ باتیں فقط دشمننی کے سبب بیان کی گئیں۔ لیکن تم کو اس پر بھی احتیاط کرنی مناسب ہے۔ اور آوارہ لوگوں سے میل جول ترک کرنا ضروری ہے۔ اس زمانہ میں نقصان نہ پُرانی تعلیم سے ہے۔ نہ نئی روشنی سے ہے۔ نہ اس کی چہل پہل بلکہ بیکار، کاہل وجود اور فضول خرچ آدمیوں کی صحبت سے نوجوان بگڑتے ہیں۔ اگر انسان اچھے اور کامل آدمیوں کے پاس بیٹھے اور آٹھ پیسے کمانے کی تدبیر کرے تو اُس کے فیشن سے ڈر نہیں۔ چار پیسے خرچ کرنے میں بھی مضائقہ نہیں کیونکہ چار پیسے تو اس کی جیب میں باقی رہیں گے۔ یہ نہیں کہ کمائی تو ایک کوڑی کی نہ ہو اور خرچ چار پیسے کا۔ بالفعل دو کام شروع کرو (۱) وقت کی پابندی یعنی صبح کے وقت ہوا خوری کرو۔ کھانا کھائو اور جو محلہ میں نیک بزرگ آدمی ہوں۔ اُن کے پاس جائو۔ اُردو کی کتابیں پڑھو۔ لائبریری میں اخبارات دیکھو۔ شام کے وقت انگریزی کا سبق لو۔ وغیرہ وغیرہ۔ (۲) آہستہ آہستہ بدکار آدمیوں سے صاحب سلامت کم کرو اور پھر بالکل چھوڑ دو۔ گھر کے کام کاج کو دیکھو اور ایک نیک شریف لڑکے بن جائو۔ اگر تم نے میری کڑوی کسیلی باتیں دوا کے گھونٹ کی طرح پی لیں تو چار دن میں بدنامی کا مرض جاتا رہے گا اور یہی میری تمنا ہے۔ خط نمبر۲ ۷۸۶ میرٹھ مقام توحید ۱۶؍اکتوبر ۱۹۱۳ء محمود فاطمہ صاحبہ السلام علیکم۔ سُنا ہے کہ آج کل دہلی والے ساڑھے آٹھ بجے تک سوئے رہتے ہیں۔ اُن سے کہنا چاہیے سویرے اُٹھنا تندرستی کے لیے اور مشغولی خیالات کے لیے ضروری ہے۔ میں عموماً بہت سویرے بیدار ہوتا ہوں۔ کبھی کبھی اس کے خلاف ہوتا ہے۔ معمول یہ ہے کہ ۵بجے حوائجِ جسم اور فرائضِ خدا سے فراغت ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ہواخوری اور پیدل چلنے کے لیے ایک گھنٹہ صرف کیا جاتا ہے۔ اور پھر ہشاش بشاش بیٹھ کر دوسرے مشاغل ہوتے ہیں۔ سُنا ہے کہ تم دہلی والوں کے خلاف بہت سویرے بیدار ہوتی ہو اور قرآنِ شریف پڑھتی رہتی ہو جب تک اہلِ دہلی جاگیں۔ بہت اچھا معمول ہے۔ مگر اُن کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ جن کے گھر میں قرآن نازل ہوا تھا۔ اور شاید تم کو معلوم ہو کہ میں اہل بیت میں ہوں۔ واحدی صاحب کو نیم بیمار چھوڑا تھا۔ خدا پر جس کو چھوڑ دیا جائے تو فکر بہت کم رہ جاتا ہے اور وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ بالاخانہ کے دو پھول تمھارے والد صاحب نے عنایت کیے تھے۔ میں ان کی رنگت سے خوش ہوا مجھے زیادہ یا کم لکھنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ میں اس قسم کی تحریروں کا عادی نہیں ہوں۔ نہ میرے دل میں ان واقعات کے غور کرنے کی گنجایش ہے۔ میں قدرتاً طبع و نازک دماغ ہوں۔ ذرا سے ناروا برتائو سے متاثر ہوجاتا ہوں۔ حالانکہ یہ ایک بشری کمزوری ہے۔ والسلام سوالات ۱- پہلے خط میں کیا نصیحت دی گئی ہے تم بھی اپنے بیٹے کو خط لکھو اور اس کو بُری صحبت سے بچنے کی نصیحت کرو۔ ۲- دوسرے خط میں کیا نصیحت کی گئی ہے۔ اور بتائو کہ صبح سویرے اُٹھنا کیوں مفید ہے؟ ۳- ان الفاظ کے معنی بتائو اور ان کو اپنے فقرات میں استعمال کرو: ذی علم۔ مضائقہ۔ ہوا خوری۔ معمول۔ حائج جسم ۴- دوسرے خط سے اسم ظرف الگ کرو۔ …٭…٭…٭… فرہنگ ں ں ں …٭…٭…٭… ۱ مخلوق:پیدا کیا گیا خالق:پیدا کرنے والا رازق:رزق دینے والا ذلت:خواری، بے عزتی جاہلی:جہالت، علم نہ ہونا ۲ غاریں:جمع غار معنی گڑھا خانہ بدوش:خانہ بدوش ہونا جو ایک جگہ مستقل طور پر نہیں رہتے۔ بلکہ چار دن کہیں دس دن کہیں۔ چونکہ اپنے گھر کا سامان اور اسباب ساتھ اُٹھائے پھرتے ہیں۔ اس لیے خانہ بدوش کہلاتے ہیں۔ ابتدا:آغاز، شروع فیصلہ کرنا:جھگڑا مٹانا ۳ زرخیز:وہ زمین جس میں پیداوار بہت ہو۔ شاداب: تروتازہ بہترین: بہت اچھی نظر و فریب: نظر کو موہ لینے والا مناظر: جمع منظر کی، معنی نظارے فضا: میدان دلنشیں: دل میں بیٹھ جانے والا، دل میں کھب جانے والا فردوس: بہشت نظیر: ثانی، اُس جیسا وادی: نشیب زمین جو پانی کی رَو کی گزرگاہ ہو۔ اور وہ بہت سرسبز ہوتی ہے۔ عیاں: ظاہر دلفریبی: دل کو موہ لینا دامان: دامن پنجابی پلّا عنوان: نشان عظمت: بزرگی، بڑا ہونا کمال: بہت گردوں: آسمان گردوں سے سر ملانا: بہت اُونچا ہونا چار سو: چاروں طرف طیور: جمع طائر کی، معنی پرندے خوابِ نوشیں: میٹھی نیند صبح صادق: پو پھوٹنے کا وقت جب مشرق کی طرف صبح کی روشنی اچھی طرح ظاہر ہوجاتی ہے۔ صف بستہ: قطار باندھ کر طیور نغمہ خواں ہیں: پرندے چہچہا رہے ہیں۔ گلکاری: نقاشی ضیائے دلکش: خوبصورت روشنی، دل کو لبھانے والی روشنی گھٹا ٹوپ بادل: گہرے بادل جنت نشاں: بہت جیسی شائستگی کا گہوارۂ کہن: تہذیب کا پرانا پنگورہ یعنی تہذیب نے زمانۂ قدیم میں ہندوستان کی گود میں پرورش پائی۔ ضیائے ماضی: پچھلے زمانے کی روشنی روئے مستقبل: آنے والے زمانے کا چہرہ تاباں کنِ زمن: زمانے کو روشن کرنے والا ۴ کورو اور پانڈو: یہ دو خاندانوں کے نام ہیں۔ یہاں ان دونوں کے بچوں سے مراد ہے۔ رشک: کسی کو اپنے سے اچھی حالت میں دیکھ کر یہ خواہش کرنی کہ میں بھی ویسا ہی ہوجائوں۔ ماہر: بہت واقف راجکمار: شہزداہ، راجا کا بیٹا پریشان رہنا: فکر میں رہنا کُند ذہن: خراب ذہن والا طمانچہ: تھپڑ پاٹھشالہ: مدرسہ، مکتب راج: حکومت، سلطنت نام روشن کرنا: نام کو مشہور کرنا ۵ بھارت ماتا: مادرِ وطن، دیس تن من دھن لگانا: کسی کام پر جسم، دل اور دولت کو خرچ کرنا۔ یعنی جسمانی تکلیفیں برداشت کرنا غمخوار: ہمدرد دُکھ درد کا ساتھی: تکلیف کے وقت کام آنے والا تسکین: تسلی دل میں گھر کرنا: کسی کے دل میں کھب جانا۔ کسی شخص کے نزدیک عزت پانا پیکر: جسم پریم: محبت مایوس: نااُمید نفس کو مارنا: نفسانی خواہشات مثلاً غصہ، لالچ وغیرہ کو دُور کرنا جوش اُبھارنا: جوش دلانا بھارت کی جے: وطن کی فتح ناز اُٹھانا: لاڈ اُٹھانا بھنور: گھمن گھیری طوفان: پانی میں لہروں کا جوش۔ یہاں دنیا تکلیفوں اور حادثوں سے مراد ہے۔ ۶ مستقل طور پر: ہمیشہ کے لیے نجات: چھٹکارا کاشت: بونا تبادلہ: ایک چیز کا دوسری چیز سے بدلنا قرب وجوار: آس پاس تجارتی کاروبار: بیوپار خرید و فروخت نمائش: ایک قسم کا میلہ ہوتا ہے جہاں کسی خاص علاقے یا مُلک کی پیداوار اور صنعت و حرفت کے اعلیٰ نمونے لوگوں کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ سہولت: آسانی یقینا: ضرور تکلیف دِہ: تکلیف دینے والا مرکز: وہ جگہ جہاں اِردگرد کے لوگ کسی خاص مطلب کے لیے جمع ہوں ممتاز: معزز ۷ بزم: مجلس توقیر: عزت باطن: دل، اندر خرمی: خوشی مہر: سورج مہ: چاند انجم: ستارے انہار: جمع نہر کی آئینہ بھی پانی ہو: آئینہ بھی شرمندہ ہو پانی ہونا: محاورہ ہے، شرمانا شرمندہ ہونا ۸ اجدّھیا: فیض آباد کے پاس ایک شہر کا نام ہے۔ دیوتا: بزرگ، بڑا آدمی رشی: عابد، زاہد، پرہیز گار وشوامتر: ایک بزرگ کا نام ہے دان: سخاوت، پُن سنگھاسن: تخت دھرماتما: دھرم والا، ایمان دار شاہانہ لباس: بادشاہوں کا لباس سوامی: مالک، آقا کاشی جی: بنارس میں ہندووں کا جو تیرتھ ہے۔ اس کو کہتے ہیں شوہر: خاوند دریا دلی: حوصلہ نذرانہ: نذر، چھوٹے بڑوں کو جو کچھ بطور خدمت کے دیا کرتے ہیں غم کا پہاڑ ٹوٹنا: بہت غمگین ہونا، بہت تکلیف پیش آنا۔ کوئی راستہ نہ دکھائی دیتا تھا۔ کوئی تجویز سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ کلیجہ دہل گیا: کانپ اُٹھا مچلنا: بچے کا ضد کرنا شمشان: وہ جگہ جہاں ہندو لوگ مردے جلاتے ہیں۔ مرگھٹ آگ بگولہ ہونا: بہت غصے ہونا دنیا آنکھوں میں اندھیر ہونا: بہت گھبرا جانا پھوٹ پھوٹ کر رونا: بہت رونا پے در پے: لگاتار تسلیم کرنا: سلام کرنا بڑے اصرار سے: بڑے غور سے، باربار کہہ کر شرافت: شریف ہونا، بھلا مانس ہونا ۹ خانوادہ: خاندان خانماں: گھر دولت و حشمت: دولت اور دبدبہ صاحب زر: دولت مند مایۂ ہمت: ہمت کا سرمایہ امیر زادہ: امیر کا بیٹا بارِ توطن: کہیں قیام کرنے کا بوجھ یا اسباب بااصول: اصول والا عدم: پیدا ہونے سے پہلے کی حالت، نیستی، وجود کی ضد، وجود کے معنی ہونا قصرِ شاہی: بادشاہی محل فخر: عزت عار: شرم مروّت: جواںمردی رسم و راہ: دخل دستگاہ: لیاقت ۱۰ سرگذشت: قصہ حقیقت: اصلیت دلچسپ: دل کو لبھانے والا تاریخ: پچھلے حالات قندیل: کانچ کا گول برتن۔ جس میں موم بتی جلاتے ہیں۔ نظامِ شمسی: سورج، چاند اور ستاروں کا ایک خاص صورت سے گردش کرنا۔ سیارے: پھرنے والے ستارے وابستہ: ملا ہوا راز: بھید نظام: انتظام درہم برہم ہونا: بگڑ جانا، خراب ہوجانا قیام: قائم ہونا فضا: خلا حرارت: گرمی ۱۱ اتفاقاتِ زمانہ: زمانے کے حادثے شکار ہونا: پھنس جانا، مبتلا ہونا افلاس: غریبی دشوار: مشکل انجام کار: آخرکار آنکھ چرانا: کسی سے آنکھ بچا کر نکل جانا صحبت سے گریز کرنے لگے: میرے پاس بیٹھنے سے نفرت کرنے لگے ہمنشیں: پاس بیٹھنے والا دوست گرم جوشی: محبت، پیار دم بھرنا: کسی کی خیر خواہی کرنا سرد مہری: محبت نہ ہونا اربابِ غرض: خودغرض لوگ مطلبی بیکسی: عاجزی راہبری: رستہ دکھانا رازقِ مطلق: خدا، اصلی رزق دینے والا ہاتھ پھیلانا: مانگنا راحت: آرام یہی قیامت ہے: یہی بُری بات ہے آفت: مصیبت بحر: سمندر مروّت: نیکی ریگ: ریت ہاتھوں دل بڑھ گیا: بہت حوصلہ ہوگیا کوتاہیے قسمت: بدقسمتی باندازۂ ہمت: ہمت کے مطابق اخترِ قسمت: قسمت کا ستارہ نصیبہ اقربا: جمع قریبہ کی، قریبی رشتہ دار ۱۲ کُرہ: ہر گول چیز غیر مسطح: جس کی کوئی سطح نہ ہو وثوق: یقین حرکت کے دوران میں: حرکت کرتے وقت لطیف: ہلکا یا ہلکی گیس: ہوا وسیع: کھلا محسوس کرنا: معلوم کرنا متحرک: حرکت کرنیو الا خصوصاً: خاص کر ساکن: کھڑا ہونے والا روشن ہونا: معلوم ہونا تاریک: اندھیرا ۱۳ تمنا: خواہش نام بڑا کرنا: مشہور ہونا آغاز: شروع اندیشہ: سوچ، فکر انجام: اخیر صبح سے تاشام کرو: تمام دن کام کرو ناکام: ناکامیاب قول: بات لطف: مزا دَورِ راحت: خوشی کا زمانہ تلخیِ ایام: زمانے کی سختی سروکار: مطلب مفلس و نادار: غریب، کنگال کاہل: سست خستہ: دُکھیا درماندہ: عاجز بازی لے جانا: جیت جانا، بڑھ جانا ۱۴ ضعیف عورت: بڑھیا تنہائی: اکیلا ہونا ذہانت: ذہین ہونا، تیز طبیعت ہونا متعجب: حیران غور و فکر: سوچنا محور: پہیے کا دُھرا پیشتر: پہلے ڈِچ گھڑی: سوئٹزر لینڈ کی بنی ہوئی گھڑی محو ہونا: بہت توجہ اور دھیان سے کوئی کام کرنا فلاسفر: علم فلسفہ جاننے والا پنڈولم: گھڑی کا لٹکن کسب معاش: روزی حاصل کرنا مسئول: سوال کیا گیا سپرنگ: گھڑی کا پرزہ۔ جس کا وال کمانی کہتے ہیں خداداد: خدا کی دی ہوئی علمِ نجوم: ستاروں کا علم منجم: علم نجوم جاننے والا رائل سوسائٹی: شاہی انجمن انتقال ہوگیا: مرگیا متعدد: کئی اوصافِ حمیدہ: نیک صفتیں محسوس ہونا: معلوم ہونا ۱۵ پس و پیش: آگے پیچھے القصہ: آخرکار، بات یہ کہ شکارِ مگس: مکھیوں کا شکار آخرش: آخرکار سربسر: سب کی سب تیر آسا: تیر کی طرح تھا پٹ رہا: پٹ رہا تھا، بھرا ہوا تھا۔ پُر تھا۔ بہت آنکھیں تھی بیتاب: بے قرار تنہا خوری: اکیلے کھانا بدستور: اُسی طرح ناگہاں: اچانک طواف کرنا: کسی چیز کے گرد پھرنا ۱۶ تاریکی: اندھیرا ساکن ہونا: ٹھیر جانا، قائم ہوجانا ممالک: جمع مُلک گردش: پھرنا، حرکت کرنا متحرک: حرکت کرنے والی مشابہ: مانند، ملتی جلتی نصف: آدھا شعاعیں: جمع شعاع کی، کرنیں براہِ راست: بغیر کسی کے ذریعے کے حرارت: گرمی غائب ہونا: چھپ جانا، نظر سے اوجھل ہوجانا ۱۷ گھٹا: بادل چمن: باغ، اسم ظرفِ مکان نے: بانسری، مرلی کوئل: ایک جانور کا نام ہے جو باغوں میں کُو کُو کیا کرتی ہے۔ یہ ہندوستان کی بلبل ہے تانیں: جمع تان سُر: گت دوش: کندھا شال: دو شالہ، پشمینہ کا کپڑا آنچل: دوپٹہ کا کنارہ، پلہ، پلو ظلمت: اندھیرا، تاریکی آبِ حیات: زندگانی کا پانی، امرت، جس کے پینے سے موت نہیں آتی آشکار: ظاہر جوئے شہر: دودھ کی نہر کہسار: پہاڑی جگہ، پہاڑ اسم ظرف مکان گریاں: روتا ہوا، اسم حالیہ خندہ زن: ہنستا ہوا سوانگ: شکل، نقل، روپ، بھرنا، بھیس بدلنا، سانگ چرخِ کہن: پرانا آسمان، بوڑھا آسمان ابرِ مطیر: برسنے والا بادل ۱۸ تہ خانہ: سرد خانہ وہ مکان جو سطح زمین کے نیچے ہوتا ہے گرمیوں میں گرمی کے وقت امیر لوگ وہاں بیٹھتے ہیں۔ سرد ہوتا ہے۔ انبار: ڈھیر خبر گیری: حفاظت پھولا نہ سمانا: بہت خوش ہونا خون خشک ہوجانا: بہت ڈر جانا لکشمی: دولت پجاری: پوجا کرنے والا متوالا: مست کروٹیں: جمع کروٹ، کروٹ بدلنا، پہلو بدلنا دیوانہ: پاگل تعجب: حیرانگی مصیبت: دُکھ، تکلیف پُرمحبت: محبت سے بھرا ہوا انڈیل دیا: گرا دیا، ڈال دیا، اوندھا دیا مسکن: جائے سکونت رہنے کی جگہ، اسم ظرف مکان راحت: آرام، خوشی مسرت: خوشی درخورد: لائق اقامت: ٹھیرنا، رہایش اختیار کرنا دارِ فنا: دار بمعنے گھر یعنی فنا ہونے والا گھر مراد دنیا جنت: بہتشت در: دروازہ وا ہونا: کھلنا آغوش: گود، بغل ایوان: محل سعادت: نیک بختی صداقت: سچائی قناعت: صبر ہمپایہ: برابر حوادث: جمع حادثہ، مصیبتیں گلگشت: گل بمعنی پھول، گشت پھرنا، پھولوں میںپھرنا، باغ کی سیر کرنا یارا: طاقت، حوصلہ دارِ سکون: ٹھیرنے کا گھر، آرام کرنے کی جگہ رم کرنا: دوڑنا، بھاگنا نیرنگ: تماشا، عجیب چیز مُثمِر: ثمر دینے والا دشت: جنگل رفعت: بلندی تسکین طلب: آرام طلب (لوگ) عار: شرم خس پوش: جس مکان کی چھت پر گھاس پھوس پڑا ہو نگونسار: اوندھا، اُلٹا قصر: محل کاشانہ: گھر رحمت باری: خدا تعالیٰ کی رحمت افلاک: جمع فلک، آسمان جلوہ کناں: جلوہ کرنے والا، ظاہر ہونے والا نکہت: خوشبو گلشن: باغ، اسم ظرف مکاں شاداب: سیراب، تروتازہ ناکام: کامیاب نہ ہونا، مطلب کو نہ پہنچنا، مراد حاصل نہ کرنا راجکمار: راجہ کے بیٹے مصروف: مشغول معصوم: بے گناہ مرہم: پلستر دوا جو زخم کو اچھا کرنے کے لیے لگائیں بیتاب: بے طاقت، بے قرار، مضطر دو زانو ہوکر: گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پیشین گوئی: کسی بات کو اس کے واقع ہونے سے پہلے کہ دینا آرزو: خواہش تصفیہ: فیصلہ کرنا متانت: سنجیدگی، جس میں چھچھورا پن نہ ہو خبر گیری: خبر لینا سہما ہوا: ڈرا ہوا نگاہوں: نظروں ٹھکانا: حد مخاطب ہوکر: متوجہ ہوکر اوجھل کرنا: نظر سے دور کرنا خرم: خوش توانا: طاقتور خدنگ: تیر جرأت: بہادری، دلیری شناسا: جان پہچان رکھنے والا پیام: پیغام رابرٹ: لارڈ کا نام لخت جگر: جگر کا ٹکڑا، مراد بیٹا آنکھ کا تارا: پیارا بیٹا فرقت: جدائی پامال: پائوں میں روندے جانا ہیولاک: انگریزی جرنیل کا نام حق: خدا کردگار: خدا، خالق نثار: قربان زو: نشانہ رن: لڑائی صلے: بدلے زائد برآں: اس پر زیادہ علاوہ ازیں درخشاں: چمکتا ہوا محو ہوجانا: مٹ جانا لِللّٰہ: خدا کے لیے عارض: رخسارہ، پنجابی، گال شمائل: شکل و صورت ۲۲ جمہوری حکومت: وہ حکومت جس میں رعیت خود ہی بادشاہ ہوا کرتی ہے برسرِ پرخاش: لڑائی کے لیے آمادہ جاگزیں ہوا: رہنے لگا بسر کرنے لگا: گذارنے لگا سنکسوں: سنسکی (صوبہ جرمنی) کے رہنے والے حملہ آور ہوا: حملہ کیا اہالیان: رہنے والے نہ راہِ رفتن نہ جائے ماندن: نہ جانے کا راستہ اور نہ رہنے کی جگہ۔ ہر طرح مشکل منادی: ڈھنڈورا حب الوطنی: وطن کی محبت سرگوشیاں: کانوں میں چپکے چپکے باتیں کرنا، کانا پھوسی کرنا عصمت: پاک دامنی، بے گناہ ہونا دیدہ و دانستہ: جان بوجھ کر فدائی: فدا ہونے والا، قربان ہونے والا بہ زورِ شمشیر: تلوار کے زور سے عجلت: جلدی مجمع: جماعت، گروہ، اکٹھ کمانڈر: فوجی افسر، سپہ سالار، کمان افسر کام تمام کرنا: مار ڈالنا پل پڑی: ٹوٹ پڑی طفیل: مدد، سبب غیرت: شرم الوداع: رخصت شجاعوں: بہادروں جدوجہد: کوشش پایاب پانی: کم گہرا پانی مشتعل کرنا: بھڑکانا مجتمع: جمع ہونے والا بے نظیر: لاثانی ۲۳ غفلت زووں: جمع غفلت زدہ، غفلت کرنے والے تھنبا دیا: کھڑا کردیا واردات: حادثے، جو حالات آدمی پر گزریں واقعات اوّل جمادی: قمری مہینوں میں سے ایک مہینے کا نام جس کو جمادی الاوّل بھی کہتے ہیں کواڑ: دروازے کے تختے ستون: پنجابی تھم تیغ: تلوار دارائی: دارا بادشاہ کا کام۔ یعنی دارا کی قوت سکندری: یونان کے بادشاہ کا کام۔ سکندر جس نے دارا پر فتح پائی تھی۔ یعنی سکندر کا زور صور: بگل سرافیل: فرشتے کا نام جو قیامت کے دن بگل بجائے گا اور سب مردے زندہ ہوجائیں گے احکام: جمع حکم ذو المنن: ذو بمعنی صاحب منن جمع منت کی یعنی صاحب احسان مراد خدا تعالیٰ اہتمام: انتظام، بندوبست لرزہ: کانپنا کریم: کرم کرنے والا بخشش کرنے والا قادر: قدرت والا، طاقت رکھنے والا قدیر: قدرت والا محکوم: جس پر حکم چلایا گیا ہو ماہی سے تابماہ: زمین کے نیچے سے لے کر آسمان تک سِدّ راہ: راستے کی روک ۲۴ خلیفہ: مسلمانوں کا دینی بادشاہ حقوق: جمع حق بسر کررہا تھا: گزار رہا تھا خاتمہ ہوجانا: ختم ہوجانا، گزر جانا نجات پانا: خلاصی پانا، رہائی پانا، چھٹکارا پانا اجنبی: مسافر، غیر مُلک کا باشندہ مصاحب: ہم نشین صاحب خانہ: گھر کا مالک راز: بھید برداشت: سہارنا، سہنا شکر گزار: شکریہ ادا کرنے والا نقاب: پردہ، برقعہ، حلیہ، شکل سکتہ: ایک بیماری کا نام جس میں آدمی بے حس و حرکت اور بظاہر مردہ معلوم ہوتا ہے۔ طاری ہوگیا: چھا گیا محسن: احسان کرنے والا، اسم فاعل لِللّٰہ: خدا کے واسطے رائگاں: بے فائدہ، ضائع شرافت: بڑائی، بزرگی ۲۵ ترشح: ٹپکنا، پانی کا قطرہ قطرہ کرکے گرنا سوندھی سوندھی: دھیمی کوری مٹی کی سی خوشبو والا برق: چمکنے والی بجلی غرق: ڈوبنا، ڈوب جانا اولتی: چھپر یا کھپریل کے نیچے کا کنارہ تارِسیمیں: چاندی کے تار۔ شاعر نے بارش کے قطروں کو چاندی کے تار سے تشبیہ دی جاتی ہے ارگن: باجہ، ارغنون لَے: سُر، نغمہ زاہد: فقیر مَے: شراب صبا: صبح کی ہوا ابر: بادل فلک: آسمان سبز پوشانِ باغ: باغ کے سبز پوش مراد درخت غسل: نہانا شجر: درخت فراغ: فراغت، فرصت فضا: میدان نخل: درخت تھالے: گڑھے گلعذاد: گل بمعنے پھول، عذار رخسارہ مراد خوبصورت تان: آواز پی: پیارا خاوند طیور: جمع طائر، پرندے ۲۶ منجھلی: درمیانی فرائض: جمع فرض، کام قاصر: قصوروار، کمی کرنے والا گوشۂ عافیت: آرام کا کونہ مخاطب کرکے: متوجہ کرکے مابدولت: ہم اقبال کے ساتھ۔ بادشاہ اپنے آپ کو اس لفظ سے پکارتے ہیں سفرِ آخرت: اگلے جہان کا سفر۔ مراد موت سے ہے اظہار: ظاہر کرنا شوہر: خاوند شد و مد: زور و شور سعادت مند: نیک بخت پشیمان: پچھتانے والا آگاہ: واقف برافروختہ: غصے میں آکر مغموم: اسم مفعول، غمزدہ، رنجیدہ غمگین: رنجیدہ آپا: بڑی بہن دربدر: دروازے دروازے پر دیوانہ پن: پاگل پن، جنون آسایش: آرام جرار فوج: بہت بڑا لشکر، بہادر فوج ۲۷ اسیر: قیدی صیاد: شکاری طائر: پرندہ ذبح: جانوروں کا شرعی طور پر گلا کاٹنا، حلال کرنا مُشتِ پر: پروں کی مٹھی مطلب تھوڑے پر مفارقت: جدائی دام: قیمت، مول پند: نصیحت گرہ باندھنا: گانٹھ دینا، مراد یاد رکھنا نہاں: پوشیدہ، چھپا ہوا لعل: سرخ رنگ کا قیمتی پتھر شکم: پیٹ دلاسا: تسلی، تشفی لاسا لگانا: کسی جانور کے پکڑنے کے لیے کوئی چیز لگانا جعل: بے وقوفی اربابِ غرض: یعنی غرض مند لوگ باور: یقین ۲۸ تعجب: حیرانگی بعض اوقات: بعض دفعہ مہلت: فرصت ماجرا: حال، کیفیت، حقیقت، جو کچھ کہ گزرا کھب گئی: پسند آئی بشاش: خوش بالائی: ملائی جو دودھ کے اوپر آجاتی ہے فلاسفر: فلسفہ جاننے والا کسوٹی: ایک قسم کا پتھر جس پر سونا چاندی پرکھا جاتا ہے کھاٹ: چارپائی رنجیدہ: غمگین بجلی گرنا: مصیبت آنا نادان: بے وقوف دنگ رہ جانا: حیران ہوجانا بے ڈھب: بے طریقہ، مراد مشکل شبیہ: شکل معقول: پختہ، ٹھیک درست، کافی، اچھا حیرت: حیرانگی شاہانہ انداز سے: بادشاہی طور سے عالم: حالت ۲۹ کاشانہ: جھونپڑا، چھوٹا سا گھر، پرندوں کا گھونسلا چمن: باغ انجمن: مجلس مہتاب: چاند اور چاندنی ظلمت: تاریکی، سیاہی اندھیرا گہن: گرہن حُسنِ قدیم: پرانی خوبصورتی پوشیدہ: چھپی ہوئی ۳۰ خلوت: تنہائی، علیحدگی عبادت: خدا کی بندگی وبا: بیماری تلاوتِ قرآن: قرآن شریف پڑھنا آدھا پیٹ کھانا: جس قدر بھوک ہو۔ اُس قدر نہ کھانا بھوک سے کم کھانا حجرہ: کوٹھڑی مسل کرکے: ٹکڑے ٹکڑے کرکے، مل کر، باریک کرکے آنکھ بچا کر: چھپا کر انتقال ہوگیا: مرگئے۔ وفات پائی جنازہ: میت کو دفن کرنے کے لیے لے جانا لہٰذا: اس سبب سے عطا کی ہیں: بخشی ہیں، دی ہیں نافرمانی کرنا: حکم نہ ماننا گئے گزرے ہیں: نکمے ہیں ۳۱ اہل فرنگ: یورپ کے رہنے والے وسعت: پھیلائو، فراخی، چوڑا پن جہالت: بے وقوفی تاریکی: اندھیرا ناآشنا: ناواقف تصنیفات: جمع تصنیف کی معنی کتابیں مذاق: دلچسپی، شوق، ہنسی، ظرافت، خاص بات کا چسکا سنگ تراشی: پتھر کو صاف کرنے کا کام، پتھر کو چھیلنا یا کانٹا معماری: عمارت بنانے کا کام، عمارت بنانا مصوری: تصویر بنانا مہارتِ کامل: پوری پوری لیاقت، قابلیت تاب: طاقت عالمِ محسوسات: جو چیزیں حواسِ خمسہ سے محسوس ہوتی ہیں تابعِ فرمان: حکم کے نیچے حکم کے ماتحت حرکات و سکنات: حرکتیں، چلنا پھرنا، ادائیں غیبت: غیر حاضری، عدم موجودگی مُقتضیٰ: سبب، باعث معرکہ آرا: لڑائی کرنے والا افسردہ: ٹھٹھرا ہوا مرجھایا ہوا: پژمردہ نادر: عجیب بے ساختہ: خودبخود، بغیر ارادہ کے سکتے کے عالم میں: سکتہ ایک بیماری کا نام ہے جس میں انسان بالکل مردے کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی بالکل چپ چاپ ۳۲ بیدل: بے حوصلہ کامل: پورا پورا مہر و ماہ: مہر بمعنی سورج، ماہ چاند یعنی سورج اور چاند ابر و باد: ابر، بادل۔ باد ہوا، یعنی بادل اور ہوا محفل: مجلس حامی: مددگار نازل: اُترنے والا جی چرانا: چشم پوشی کرنا۔ کسی کام کے کرنے سے بچتے پھرنا کاہل: سست چوسر: ایک کھیل کا نام۔ چوپڑ مشاغل: کام (جمع) محروم: خالی ۳۳ سگار: چرٹ، سگرٹ مبتلا: گرفتار، مشغول، پھنسا ہوا مُہلِک: ہلاک کرنے والا واقف: آگاہ، تجربہ کار ہلاک کرنا: نکوٹین: ایک قسم کا زہر جو تمباکو میں ہوتا ہے مہلت: فرصت مہذب: شائستہ، آراستہ، تہذیب یافتہ نقصان دِہ: نقصان دینے والا (اسم فاعل) اعضا: جوڑ، حصے، جمع عضو کی قوتِ حافظہ: یاد رکھنے کی قوت احساس: حس کرنا، معلوم کرنا کند: جو تیز نہ ہو۔ پنجابی میں کھنڈا بیکار: بغیر کام کے نکما بادیان خطائی: ایک دوائی کا نام ہے ٹینک ایسڈ: مقوی تیزاب کیفین: کافی کاست ۳۴ مہر: مہربانی کایا پلٹنا: حالت تبدیل کرنا گرہستن: گھر والی عورت ناشتہ: صبح کا کھانا شکرم: وہ گاڑی جس کو آدمی کھینچے سینگ سمانا: جگہ ملنا، پناہ ملنا فیشن ایبل: فیشن والے وضعدار ٹائم ٹیبل: انضباطِ اوقات، وقت کی تقسیم لیس ہونا: تیار ہونا دریا کا کوزے میں سمانا: بہت سے مطلب کو تھوڑے سے الفاظ میں ادا کرنا بہت سی خوبیوں کا تھوڑی جگہ میں ذکر کرنا اتالیق: اُستاد پائے: درجے مسخر کرنا: تسخیر کرنا معتقد: اعتقاد والا، یقین کرنے والا ماہر: مہارت والا مسمار کرنا: گرا دینا حمائل کرنا: گلے میں لٹکانا غیبت: پیٹھ پیچھے، غیر حاضری بنکار اُٹھا: بول اُٹھا ناکتخدا: نئی شادی شدہ افروختہ ہوا: غصے ہوا رسم اتحاد: دوستی شکر رنجی: تھوڑی سی ناراضگی، خفگی کینہ توز: غصہ رکھنے والا قرب و جوار: گرد و نواح، آس پاس مستعد: تیار مشیروں: جمع، مشیر صلاح کار معترض: مخالفت کرنے والا، مانع، مزاحم ششدر: حیران رفقا: جمع رفیق، دوست، آشنا استغنا: بے پروائی آشتی: صلح خلش: چبھن داد و دہش: بخشش اور سخاوت آزمودہ کار: تجربہ کار تبر: کلہاڑا وار کرنا: حملہ کرنا جوشن: زرہ بکتر آسیب: تکلیف شجاعت: بہادری کھیت سکندر کے ہی ہاتھ رہا: سکندر نے ہی فتح پائی دہر: زمانہ دِرم: ایک سکے کا نام ہے گوہر: موتی زر: روپیہ، سونا افلاس: غریبی، مفلسی بشر: انسان حشمت: شان و شوکت صولت: دبدبہ عظمت: بڑائی، عزت کاش: کلمۂ تمنا ہوس: لالچ، حرص ۳۷ زیبایش: خوبصورتی مسوڑے: دانتوں کا گوشت لعاب: تھوک فطرت: پیدایش، اصل نیچر منحصر: موقوف مسواک: اسم آلہ (پنجابی داتن) دانت صاف کرنے کی لکڑی مسام: جسم کی کھال کے سوراخ۔ جن سے پسینہ نکلتا ہے نقصان دِہ: نقصان دینے والا دوران: دورہ، گردش محسوس: معلوم محفوظ: حفاظت میں رکھا ہوا۔ بچا ہوا۔ صحیح سلامت غسل: نہانا ۳۸ بیزار: متنفر، رنجیدہ غربت: مسافری صعوبتوں: جمع صعوبت، دُکھ، مصیبتیں، تکلیفیں یارا: طاقت غمخوار: غم کھانے والا، اسم فاعل لب جو: نہر کے کنارے کلفتیں: تکلیفیں برق: بجلی پیہم: متواتر، لگاتار، پے در پے آبِ زندگانی: زندگانی کا پانی، آبِ حیات فرقت: جدائی ۳۹ بے اعتدالی: بدپرہیزی اسلحہ: ہتھیار اہتمام: انتظام، بندوبست تفتیش: تلاش، دریافت کرنا ناکتخدا لڑکیاں: کنواری لڑکیاں بے نظیر: لاثانی، یکتا، بے مثال تصرف: قبضہ ضمیمہ: کوئی چیز جو کسی کے ساتھ بڑھا کر پیچھے لگا دیتے ہیں شبخون: چھاپہ مارنا، رات کو دشمن پر حملہ کرنا ظفریاب: فتح مند نزع: جان کنی اجر: بدلہ، عوض تجہیز و تکفین: مردے کے کفن و دفن کا سامان تیار کرنا۔ مردہ کو گوڑ گڑھا اسیر: قید تاراج: لوٹ مار کرنا، برباد کرنا عارضے: جمع عارضہ کی بیماریاں ۴۰ سہانی: خوبصورت مرگ چھالا: ہرن کی کھال جائے گیر: جگہ لیے ہوئے مراد بیٹھے ہوئے نعرہ زن: آواز مارنے والے آن: وقت، ساعت نئی دھج: نئی شکل، نئی صورت، نئی طرز نئی وضع: نئی ادا ۴۱ شاداب: سیراب شاہ بلوط: ایک درخت کا نام سنگریزوں: جمع سنگریزہ، کنکر شطرنج: ایک کھیل کا نام پھسلوان: پھسلنے والی بے تحاشا: بے خوف، بے ڈر دھار: بہائو جدوجہد: کوشش حیرت: حیرانی ندامت: شرمندگی ماشاء اللہ: چشم بددُور۔ خدا بُری نظر سے بچائے ناگہاں: اچانک ۴۲ راحت: خوشی، آرام وحشت: دیوانہ پن، بیہودگی زینت: سجاوٹ، خوبصورتی فرحت: آرام، خوشی اُلفت: محبت جان پہچان ہونا: کسی سے معمولی واقفیت ہونا دلبستگی: دل بندھا ہونا، دل لگی، محبت، پیار قصرِ سُلطانی: بادشاہی محل بکھیڑوں: دھندوں ۴۳ بے چین: بے آرام بدخواہوں: جمع بدخواہ بُرا چاہنے والا۔ دشمن آنکھوں کا نور: بیٹا نادان: بے وقوف آگ ہونا: غصے ہونا بار: بوجھ آثار: نشان انداز: طریقہ، ڈھنگ لہجہ: آواز خادموں: جمع خادم، غلام، نوکر، ملازم پیٹھ ٹھوکنا: شاباش دینا، تعریف کرنا قاصد: ایلچی، پیغام لانے والا ۴۴ کمر باندھنا: تیار ہونا، سوا، زیادہ شکوے: جمع شکوہ شکایتیں اِکرام: بخشش، عطا للکار کر: زور سے کوڑا: چابک دم میں فیصلہ کردینا: تھوڑی دیر میں سب کام کردینا چاکری: نوکری یکساں: ایک جیسا دھندوں: کام، کاج فرصت: وقت انجام: آخر، نتیجہ اتالیق: اُستاد دغا دینا: دھوکہ دینا، فریب دینا ۴۵ شش و پنج کا عالم: حیرانگی کی حالت بارسوخ: پہنچ والا، اعتبار والا منچلے: بہادر قابض: قبضہ کرنے والا موزون: مناسب بے باک: بے خوف بے ڈر ترشرو: غصے میں روزنون: جمع روزن، کھڑکی سر کرنا: فتح کرنا مستعد: تیار ناگوار: بدمزہ، بدذائقہ، ناپسند، ناخوش لہٰذا: اس لیے ۴۶ چند روزہ: تھوڑے دن ذی علم: صاحب علم، علم والا احتیاط: خبرداری، دُور اندیشی، بچنا، ہوشیاری برتنا آوارہ: بیہودہ پھرنا کاہل: سست مضائقہ: تنگی، دشواری، ہرج، قباحت، برائی ہوا خوری: سیر کرنا تمنا: خواہش بیدار: جاگتا ہوا معمول: قاعدہ حوائج جسم: حوائج جمع حاجت، ضرورتیں یعنی جسم کی ضرورتیں ہشاش بشاش: خوش خوش مشاغل: جمع شغل، کام نازل: اُترنے والا اہل بیت: گھر کے لوگ۔ خصوصاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے گھر والے تحریروں: جمع تحریر دستاویز: نوشت، لکھا ہوا، سند ناروا: ناجائزہ، نامناسب بشری: انسانی