سلسلۂ ادبیہ اردو کورس پانچویں جماعت کے لیے مؤلّفہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم -اے- پی -ایچ-ڈی- بیرسٹر ایٹ لاء و خان بہادر حکیم احمد شجاع بی -اے (علیگ) اسسٹنٹ سیکرٹری پنجاب لیبحسلیٹو اسمبلی ---------------- ۱۹۳۷ ؁ء دیباچہ اس سے پہلے چھتی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے لیے اردو کورس تیار کیے گئے تھے۔ جن کو پنجاب صوبجات متحدہ اور مدراس کی ٹیکسٹ بُک کمیٹیوں نے منظور فرمایا اور مدارس کے معلمین اور طلباء نے بہ نظر پسندیدگی دیکھا۔ اس وقت کورس عام طور پر ہندوستانی مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ کورس جن اصولوں کے ماتحت مرتب کیے گئے تھے ۔ قابل حوصلہ افزائی ثابت ہوئے۔ اب پانچویں جماعت کا اردو کورس ہدیۂ ناظرین ہے۔ اس میں بھی اس بات کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے کہ علم ادب کے مضامین اس طرح جمع کیے جائیں کہ طلباء کو نئی معلومات حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان سے دلبستگی پیداہو اور وہ ایسے انداز تحریرسے واقف ہو جائیں۔ جو اظہار مطالب پر حاوی ہو۔ مضامین کے انتخاب میں زمانۂ حاضرہ کی تمام ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ مضامین ایسے دلکش اور پُر اثر ہو ں کہ بچوں کی طبیعت ان کی طرف خود بخود راغب ہویہ مضامین بچوں کے دل میں مادرِ وطن کی محبت ، اخلاقی جرأت اور ادبی ذوق پیدا کرنے کے لیے اہل ہیں۔امید ہے کہ معلمین ان کو پڑھاتے وقت ان تمام جذبات عالیہ کو طلباء کے دل ودماغ پر نقش کرنے کی کوشش کریں گے۔ جو ان مضامین کی تہ میں موجزن ہیں۔بچوں کی تعلیمی مشکلات کو کم کرنے کے لیے ایک فرہنگ کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور قواعد اردو کے اصولوں کوا ن اسباق کے ذریعے آسان طریقے پر ذہن نشین کرنے کے لیے ہر سبق کے اختتام پر مشقی سوالات لکھ دیے گئے ہیں۔ خداکرے یہ کورس بھی پہلی کتابوں کی طرح طلباء کے دل میں علم ادب کا ذوق پیدا کرنے میں کامیاب ہواور وہ اس قابل ہو جائیں کہ اپنے خیالات کا اظہار صاف اور سلیس اردو میں کر سکیں کہ حقیقت میںیہی تمام درسی کتب کا منشا ہے۔ ہم جناب قبلہ سید اولاد حسین شاداں بلگرامی پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کے ممنون احسان ہیں کہ انہوں نے اس نصاب کی زبان پر نظر ثانی فرمائی۔ حضرت ممدوح اہل زبان ہیں اور ان کا علم و فضل کسی مزید تعارف کا محتاج نہیں۔ مؤلّفین گذارش مؤلفین کباب ہذا کی خواہش تھی کہ میں اس نصاب کی زبان پر بحیثیت صحت و سقم نظر ثانی کروں۔ چنانچہ تعمیل ارشاد کے لیے جہاں کہیں مجھے اپنے خیالات کے موافق سُقم معلوم ہوا۔ میں نے بلا امتیاز ترمیم کر دی یا نوٹ لکھ دیا۔ میں اس کتاب کے ہر مضمون کے مؤلف کو قابلِ فخر ہستی سمجھتا ہوں ۔ بعض مصنفین کی قابلیت مسلم ہندوستان ہے۔ ساتھ ہی اس کے میںیا کوئی خطائے بشری سے خالی نہیں۔ ۹ جون ۱۹۲۸ ؁ء فہرست مضامین ٍ۱- ۹ ۲- اردو کورس پانچویں جماعت کے لیے ----------------------- ۱- خدا کی قدرت پچھوا پُروا غرض ہر دم تیری آن نئی ہے جب دیکھو تب شان نئی ہے یاں پچھوا ہے واں پُروا ہے گھر گھر تیرا حُکم نیا ہے پھول کہیں کملائے ہوئے ہیں اور کہیں پھل آئے ہوئے ہیں کھیتی ایک کی سے لہراتی ایک کا ہر دم خون سُکھاتی ایک پڑے ہیں دھن کو ڈبوئے ایک ہیں گھوڑے بیچ کے سوئے ایک نے جب سے ہوش سنبھالا رنج سے اس کو پڑا نہ پالا ایک نے اس دُنیا میں آکر چین نہ دیکھا آنکھ اُٹھا کر مینہ کہیں دولت کا ہے برستا ہے کوئی پانی تک کو ترستا ایک کو مرنے تک نہیں دیتے ایک اُکتا گیا نیند ہی لیتے حال غرض دینا کا یہی ہے غم پہلے اور بعد خوشی ہے سوالات ۱- اس نظم کا مطلب مختصر لفظوں میں بیان کرو۔ ۲- ’’خون سُکھانا۔ گھوڑے بیچ کر سونا۔ ہوش سنبھالنا۔ پالا پڑنا‘‘ کا مطلب بیان کرو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- ’’غم پہلے اور بعد خوشی‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۴- اس نظم میں فعل کون کون سے آئے ہیں۔ ۵- پچھوا اور پُروا کا بارش سے کیا تعلق ہے۔ ۲- ادب خادم جاہل لازم واجب قابلِ ادب اطاعت ردّو کد ا- تم کو سمجھنا چاہیے کہ گو آدمی سب ایک طرح کے ہیں ۔ دو کان ۔ دو ہاتھ ۔ دو ٹانگیں۔ ایک ناک ۔ ایک سر سب کے برابر ہیں۔ لیکن پھر بھی آدمیوں میں بہت فرق ہے کوئی باپ ہے۔ کوئی بیٹا۔ کوئی استاد ہے۔ کوئی شاگرد۔ کوئی آقا اور مالک ۔ کوئی نوکر اور خادم۔ کوئی عالم ۔ کوئی جاہل۔ کوئی حاکم۔ کوئی طبیب۔ کوئی دکاندار۔ کوئی مزدور۔ پس اگر سب آدمی درجے میں برابر ہوں تو دنیا کا تمام انتظام ٹوٹ جائے ۔ اس لیے ہر ایک کے واسطے خاص درجے اور خاص رُتبے مقرر ہیں۔ بیٹے کو باپ کا ۔ شاگرد کو استاد کا ۔ نوکر کو مالک کا اور بیمار کو طبیب کا حکم ماننا لازم اور واجب ہے۔ عمر ۔ رشتے ۔ ذات ۔ تمیز ۔ لیاقت ۔ دولت اور حکومت سے بھی درجہ معلوم ہوتاہے۔ جس کی عمر زیادہ ہو اور رشتے میں بڑا یا جو ذات میں شریف ہو۔ جیسے مسلمانون میں سید اور ہنود میں برہمن یا جس کی لیاقت زیادہ ہو۔ جیسے مولوی اور پنڈت یا جو دولتمند اور حاکم ہو ۔ سب قابلِ ادب ہیں۔ ۳- اگر تم ادب کرتے ہو تو یہ نہ سمجھو کہ ہم دنیا کی ایک رسم ادا کرتے ہیں اور اگر ادب نہ بھی کریں تب بھی کچھ نقصان نہیں۔ خبردار ایسی بات ہر گز ذہن میں نہ آنے دو۔ ادب نہ کرنے میں سراسر تمہارا نقصان ہے۔ جس کا تم ادب کرو گے۔ ضرور وہ تم سے خوش ہوگا۔ اور اس کا جی چاہیے گا۔ کہ تمہیں کچھ نفع پہنچائے۔ استاد کا ادب کرو گے جی لگا کر اور سمجھا کر سبق دے گا۔ جب بھولو گے خوشی سے بتا دے گا۔ماں باپ کا ادب کرو تو پھر دیکھو کیسے کیسے چین وہ تم کو کراتے ہیں۔جو مانگا وہ موجود۔ جو کہا وہ حاضر۔ حاکم کا ادب کرو تو وہ عزت سے پاس بٹھائے گا۔ ہر بات میں تمہاری رعایت کرے گا۔ ۴-ادب ادب نہ کرنے والوں کی حالت پر نظر کرو۔ بے ادب شاگرد کو استاد بے دِلی سے پڑھاتا ہے۔ بھُولا ہوا پوچھتا ہے تو بتانے میں دریغ کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کیسا ناسمجھ ہے ایک دفعہ بتایا ہوا یاد نہیں رکھتا۔ اُٹھ اپنی جگہ پر کھرا ہو۔ بے ادب بیٹا ماں سے کوئی چیز مانگتا ہے تو ماں کہتی ہے چل دور ہو۔ میں تجھ ایسے کو نہیں دیتی۔ ۵- بے ادب جب حاکم کے دربار میں جاتا ہے تو چپڑاسی الگ دھکے دیتے ہیں ۔ مذکوری الگ۔ ادب صرف حکم ماننا ہی نہیں ہے۔ اگر تم باپ کا حکم مانو تو تم نے باپ کا ادب پورا نہیں کیا بلکہ ادب میں حکم ماننے کے علاوہ دِل سے اِطاعت اور دل سے تعظیم ضروری ہے۔ تم پر جِن جِن کا ادب لازم ہے اُن کو جُھک کر سلام کیا کرو۔ جہاں تک ہو سکے۔ اس کی خدمت کرو۔ ان کے سامنے بد لحاظی کی کوئی بات نہ کررو ۔ یہاں تک کہ نشست و برخاست میں بھی اتنا لحاظ کرو کی ان کی طرف پشت نہ ہو۔ ان سے اونچے نہ بیٹھو۔ ان کی طرف پائوں نہ پھیلائو۔ ان کے آگے نہ چلو۔ ان سے بات چیت میں ردّوکد نہ کرو۔ ان کے سامنے نہ بولواور بہت نہ ہنسو ۔ ان سے آنکھ مت ملائو ۔ ان کا نام نہ لو۔ اور جو ضرورتاً لو بھی تو بہت ادب کے ساتھ نام کے پہلے لفظِ جناب اور نام کے بعد لفظِ صاحب لگا کر لو۔ جب تم اتنی باتیں کروگے۔ تو ادب والے پیارے بیٹے کہلائو گے۔ جو لڑکے اپنے بڑوں کا ادب نہیں کرتے وہ دنیا میں ہمیشہ ذلیل اور خوار رہتے ہیں۔ سوالات ۱- ادب کسے کہتے ہیں؟اور کون کون لوگ ادب کے لائق ہیں اور کیوں؟ ۲- جو ادب کرے اسے کیا کہتے ہیں؟ اور جو نہ کرے اسے کیا ؟ دونوں میں فرق بیان کرو۔ ۳- ذیل کے الفاظ کو اپنے فقروں میں استعمال کرو ۔ نشست و برخاست ۔ ردّو کد۔ واجب۔ ۴- خادم۔ جاہل اور حاکم اسم کی کونسی قسم ہیں اور اور کس کس لفظ سے بنے ہیں۔ ۳- لوری یاس رنج و مِحن سخن سوجا آنکھ کے تارے سوجا سوجا دل کے سہارے سوجا سوجا راج دُلارے سوجا سوجا چاند ہمارے سوجا سوجا سوجا پیارے سوجا رات نے جھنڈے سُکھ کے اُڑائے نیند کھڑی ہے پائوں جمائے ہاں اب ماں بچے کو سلائے دھیمی سروں میں لوری گائے سوجا سوجا پیارے سوجا کلیاں شاخوں پر سوتی ہیں شاخیں جھک جھک کر سوتی ہیں چڑیاں بے بستر سوتی ہیں باجی اپنے گھر سوتی ہیں سوجا سوجا پیارے سوجا آہستہ کھیتوں سے نکل کر ندی سے گزری ہے سنبھل کر پیڑوں کے سائے میں ٹہل کر نیند آئی ہے دور سے چل کر سوجا سوجا پیارے سوجا یاس میں آس بندھائے گا تُو بگڑے کام بنائے گا تُو دُکھ دنیا کا مٹائے گا تُو سُکھ دے گا سُکھ پائے گا تُو سوجا سوجا پیارے سوجا خدمت کرنا پیارے وطن کی رونق بننا اپنے چمن کی یاد نہ آئے رنج و مِحن کی کرنا قدر افسر کے سخن کی سوجا سوجا پیارے سوجا سوالات ۱- لوری کس غرض کے لیے دی جاتی ہے۔ ۲- اس لوری میں ماں بچے کو کیا نصیحت کرتی ہے اور اس نصیحت سے غرض کیا ہے جب کہ چھوٹا بچہ جسے لوری دی جاتی ہے اس کا مطلب نہیں سمجھتا۔ ۳- مطلب بیان کرو اور نثر میں تبدیل کرو۔ (ا) یاس میں آس بندھائے گا تُو (ب) رونق بننا اپنے چمن کی ۴- یاس، آس ، رنج ومِحن کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۵- ماضی مطلق کے کون کون سے صیغے اس سبق میں آئے ہیں؟ ۴-تندرستی غنیمت احتیاط مضائقہ مرطُوب صحت بخش روح افزا ا-ع۔ ’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ صحت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی چیز عزیز نہیں۔ پس تندرست رہنا بڑی بات ہے۔ بیماری ایک طرح کا عذاب ہے۔ جو تکلیف کے علاوہ آدمی کے سب کام بند کر دیتی ہے۔ اگر کسی کو بیماری کا رنج ہو تو دنیا کے تمام عیش و عشرت اس کی نظروں میں ہیچ ہو جاتے ہیں۔ نہ کسی سے بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نہ کھانا مزے کا معلوم ہوتا ہے ۔ نہ کسی شغل میں جی بہلتا ہے۔ غرض بیماری سے زیادہ انسان کا کوئی دشمن نہیں۔ جہاں تک ہو سکے۔ اس دشمن سے بچنا چاہیے۔ ۲- لوگ پیٹ کی خبر گیری اچھی طرح نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں۔ اگر نقصان کرنے والی کوئی چیز کھا لو تو اس کا نقصان فوراً معلوم نہیں ہو گا۔ اس کے دھوکے میں لوگ پڑے ہیں۔ لیکن زندگی کی اصل پیٹ ہے ۔ کھانا پانی اول پیٹ میں جاتاہے او ر وہاں ہضم ہوتا یعنی پکتا اور گلتا ہے۔ اورا س کا عمدہ عرق جگر میں جا کر خون بنتا ہے۔ ۳- لڑکے اسی واسطے جلد جلد بیمار ہوا کرتے ہیں کہ کھانے میں احتیاط نہیں کرتے۔ روٹی۔ سنگھاڑے۔ ککڑی۔ جھڑ بیری کے بیر۔ مٹر کی پھلیاں۔ چنے ۔ بلا بدتر جوملا سب چٹ پھر بیمار نہ ہوں تو تعجب اور جب بیمار پڑتے ہیں تو مصیبت یہ نہ دوا پیتے ہیں نہ لگاتے ہیں۔ رونا ہے اور ہائے ہائے کرنا ۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ جب بیماری آچکی تو بع دوا کیے نہیں ٹلے گی۔ ۴- ہر ایک آدمی کو تھوڑی سی ورزش اور محنت بھی ضرور ہے۔ تاکہ کھانا خوب ہضم ہو۔ کھانے کے بعد تھوڑی دیر آہستہ آہستہ ٹہلنا بھی لازم ہے تاکہ کھانا پیٹ میںبچے۔گرمی کے دنوں میں دھوپ کے وقت باہر پھرنا گویا زبردستی بخار کو گھر میں بُلانا ہے۔ جب دھوپ تیز ہونے لگے اور سموم جس کو لُو بولتے ہیں۔ چلنے لگے تو مکان کے اندر محفوظ جگہ میں بیٹھنا چاہیے۔ بدبو اور دھواں اور گرد اور نمی اور بند ہوا۔ یہ پانچ چیزیں تندرستی کے لیے زہر ہیں۔ پس بدبو کے پاس بقدر ضرورت رہنے کا مضائقہ نہیں۔ باقی اس سے الگ رہنا چاہیے۔ اسی طرح دھواں بھی ضرر کرتا ہے اور گرد وغبار بھی مُوجب نقصان ہے۔ نمی بہت بُری چیز ہے ۔ بھیگا ہوا کپڑا اوڑے رہنا یا سِیلے ہوئے مکان میں بیٹھنا ضرور بیماری کا باعث ہے۔ شبنم یعنی اوس اس لیے مضر ہے کہ اس سے ک اس سے کپڑے سِیلتے ہیں۔ چھڑکائو کا کھلی ہوئی جگہ میں مُضائقہ نہیں ۔جیسے صحن یا کھلی ہوئی چھت پر ۔ لیکن بند کوٹھڑی میں چھڑکائو نہ کیا جائے۔ چھڑکائو کے بعد ایک بھبک اٹھتی ہے اگر مکان کُھلا ہوتا ہے تو بخارات نکل جاتے ہیں۔ لیکن بند مکان میں گُھٹ کر رہ جاتے ہیں ۔پس ان بخارات کے ملنے سے ہوا خراب اور زہریلی ہو جاتی ہے۔ برسات کے دنوں میں نمی کا بچائو مشکل ہوتا ہے۔ جو مکان ٹپکتا ہو اور جس کی زمین تر ہو۔ اس میں رہنا اچھا نہیں۔ جب دھوپ نکلے۔ بِلا ضرورت سب کپڑے خشک کرانے چاہییں۔ کیونکہ برسات کی ہوا مرطوب ہوتی ہے۔ اندر کے رکھے ہوئے کپڑے بھی سیل جاتے ہیں۔نہانے کے بعد فوراً تمام بدن کو کپڑے سے خشک کرناچاہیے اور اس کپڑے کا الگ رکھنا بہتر ہے بالا خانے پر رہنا اور اگر بالا خانہ مکان میں نہ ہو۔ تو کھلے ہوئے دالان میں رہنا اچھا ہے۔ کوٹھڑی جس میں اسباب بھرا ہے اور ہوا بند ہے۔ اس میں جانا نہ چاہیے۔ اس کے اندر کی ہوا اچھی نہیں ہوتی۔ برتنوں کا دھوون کبھی مکان میں نہ ڈالا جائے۔ علیحدہ دور پھینک دیا جائے۔ اس سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ ترکاری کے پتے مکان میں نہ پڑے رہیں۔ ان میں ایک طرح کا زہر ہوتا ہے۔ اور گھر میں کوڑا جمع رہنا بھی بہت برا ہوتا ہے۔ ۶- صبح کو ہوا ہر موسم میں نہایت صحت بخش اور روح افزا ہوتی ہے۔ خصوصاً گرمی کے دنوں میں۔ اگر چلنے پھرنے کی عادت ہو اور صبح شام ایک ایک گھنٹہ جنگل کی ہوا کھائیں تو سو دوا کی ایک دوا ہے۔ ۷- انگریز کیسے توانا اور قوی ہوتے ہیں۔ ان کے بچے بھی بڑے موٹے تازے ہوتے ہیں۔ یہ سب ہوا خوری اور ورزش کی بدولت ہے۔ چلنے پھرنے سے پسینہ آتا ہے اور جتنی رطوبت ناقص ہوتی ہے ۔ سب پسینے کی راہ نکل جاتی ہے۔ کھل کر بھوک لگتی ہے۔ ۸- ورزش کرنا ضرور چاہیے۔ اور صبح شام پیادہ وہا خوری سے بہتر اور کوئی ورزش نہیں ۔ تندرستی کا ایک اور آسان نسخہ یہ ہے کہ ہر وقت تھوڑی بھوک لگی رہے۔ خدا نے چاہا تو کبھی بیماری پاس نہ پھٹکے گی۔ مشقی سوالات ۱- تندرستی کے قائم رکھنے کے لیے کِن کِن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟ ۲- کونسی پانچ چیزیں تندرستی کے لیے زہر ہیں ؟ ان سے کیونکر بچ سکتے ہیں؟ ۳- ہوا خوری کے فائدے بیان کرو؟ ۴- ’’زندگی کی اصل پیٹ ہے‘‘ اس کی تشریح کرو۔ ۵-تندرستی زِیست حالِ پُرغم اندوہ وغم رنج و ملال مہ و سال کوئی کہتا ہے کہ دنیا میں ہے دولت اچھی ہے کسی شخص کی دانست میں حکمت اچھی کوئی کہتا ہے کہ ہے تیری طبیعت اچھی کوئی کہتا ہے کہ اچھی ہے تو صورت اچھی میں یہ کہتا ہوں ہر اک شے سے ہے صحت اچھی نہیں صحت کے برابر کوئی نعمت ہرگز ہو نہ صحت تو میسر نہ ہو راحت ہرگز مال دے دل کو خوشی اور نہ دولت ہرگز دل میں باقی نہ رہے زیست کی چاہت ہرگز کچھ بھی اچھا نہیں جب تک نہیں صحت اچھی قدرِ صحت کوئی بیمار کے دل سے پوچھے حال پُر غم کوئی بیمار کا جا کر دیکھے یوں تو کہتے ہیں جو اس چیز کو ہیں کھو بیٹھے زندگانی کا مزا گر ہے تو ہے صحت سے اچھی ہر چیز ہے جب تک کہ ہے صحت اچھی علم کا شوق ہے گر دل میں تمہارے لڑکو بات سن لو یہ مِری غور سے پیارے لڑکو گر نہیں جیتے دوائوں کے سہارے لڑکو کام محنت سے سنور جائیں گے سارے لڑکو علم حاصل نہ ہو جب تک نہ ہو صحت اچھی گر یہ چاہو کہ بڑے ہو کے بنیں با اقبال اپنی صحت کا تمہیں چاہیے ہر وقت خیال پھر نہ پاس آئیں گے اندوہ و غم و رنج و ملال دل لگا کر جو کرو علم کو حاصل مہ و سال جی نہ اکتائے گا جب تک کہ ہے صحت اچھی سُست لڑکے نہیں ہوتے ہیں توانا ہرگز اپنی صحت کو نہ سُستی میں گنوانا ہرگز سُست رہنے کا نہیں ہے یہ زمانا ہرگز جی نہ تم سختیٔ ورزش سے چرانا ہر گز کیونکہ ورزش ہی سے رہ سکتی ہے صحت اچھی ------------------------- سوالات ۱- لوگ کن کن چیزوں کو اچھا سمجھتے ہیں؟ ۲- درحقیقت اچھی چیز کیا ہے؟ ۳- تندرستی کی قدر کس شخص کو ہوتی ہے اور کیوں؟ ۴- ’’تندرستی ہزار نعمت ہے‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۵- دوسرے بند کے پہلے شعر کی نثر بنائو۔ ۶- زمانے کتنے ہیں؟ اس سبق سے ہر ایک کی ایک ایک مثال دو۔ ۶-چٹور پن خوشامد ندامت بے اعتدالی مصاحب توقیر راستبازی کوئی بچہ ایسا ہوگا جو اس لفظ کے معنی نہ سمجھتا ہو ۔ چٹخاروں کا مزا کہو یا زبان کا مزا نام رکھو۔ وہ کیا ہے؟ یہی چٹور پن ہے۔ یہ عادت بچوں کو بچپن میں پڑ جاتی ہے اور بڑے ہو جانے پر بہت خراب کرتی ہے۔ چوری یہ سِکھا دیتی ہے ۔ جھوٹ اور خوشامد کا عادی یہ بنا دیتی ہے۔ امیر سے غریب یہ بنا دیتی ہے۔ بے عزتی اور بے غیرتی کا اصل جوہر ہے۔ برابر والوں کی آنکھوں میں ذلیل اس سے ہونا پڑتا ہے۔ تاہم چشموں میں ندامت اس سے اُٹھا نی پڑتی ہے۔ بدچلنی کا پیش خیمہ بھی یہی چٹور پن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ خرابی ہے کہ مزیدار کھانوں سے بے اعتدالی ہو کر صحت بھی بگڑ جاتی ہے۔ اگر کیس چٹورے کو مزیدار کھانا نہ ملے تو ہو بھوکا رہنا پسند کرتا ہے ۔ مگر زبان کے چٹخارے کو نہیں چھوڑتا۔ جس سے اس کی طاقت گھٹتی ہے۔ دل کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے اور بڑھاپے میں جا کر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ چٹوروں نے مکان گِرو رکھ رکھ کر ابرف کھائی ہے اور پھر وہ تکلیف اٹھائی ہے کہ نہ رہنے کو گھر ملا ہے نہ پہننے کو کپڑا۔ نہ کھانے کو روٹی۔ غرض دُنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی بُری عادت نہیں ہے۔ بُرے مصاحب کی صحبت سے تو آدمی گھڑی دو گھڑی بچ بھی سکتا ہے۔ مگر یہ دوست نما دشمن۔کسی وقت دور نہیں ہوتا۔ جب تک مُنہ میں زبان ۔ زبان میں قوت ذائقہ موجود ہے۔ یہ مصاحب بھی سائے کی طرح ساتھ ہے۔ اس عادت کے چھوڑنے سے آدمی بہت بری عادتوں سے محفوظ رہتا ہے۔ بہتیرے عیبوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ تمام عمر آرام سے رہتا ہے اور بڑی عزت اور توقیر سے گزارہ کرتا ہے۔ زبان کی خاطر جھوٹ بولے کی اسے حاجت نہیںرہتی۔ کسی کی خوشامد وہ نہیں کرتا۔ راستبازی سے وہ نہیں ڈرتا۔ کسی کے سامنے اس کی آنکھ نیچی نہیں ہوتی۔ غرض ایک چٹور پن کے چھوڑنے سے بیسیوں نیک خصلتیں انسان کے دل میں گھر کر لیتی ہیں اور بہت سی شرمندہ کرنے والی عادتیں چھوٹ جاتی ہیں۔ سوالات ۱- چٹور پن سے کیا مرادہے؟ ۲- چٹور پن کیوں دوست نما دشمن ہے؟ ۳- چٹور پن کا شروع سے عادی نہ ہونے یا چٹور پن کی عادت چھوڑ دینے سے انسان کو کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ ۴- تشریخ کرو چٹور پن بدچلنی کا پیش خیمہ ہے۔ ۵- دکھائی ہے۔ کونسا فعل ہے؟ اس کا صیغہ جمع متکلم مونث بنائو۔ ۷-وقت ابلق مطلق احمق سمجھتے ہو تم وقت کیا شے ہے؟ بچّو! یہ دولت سے بڑھ کر ہے پوچھو اگر حق سفید اور سیہ داغ ہیں رات اور دن یہ سمجھو کہ وقت ایک گھوڑا ہے ابلق ٹھہرتا نہیں تیز رَو اس قدر ہے پہاڑ آگے آ جائے اس کے کہ خندق ہے دن آگ اور رات اس کا دھواں ہے یہ انجن ہے دنیا کا غُل اس کی بھق بھق بری اس کو کہیے تو بالکل بجا ہے چمکتے ہوئے پر ہیں دنیا کی رونق یہ چڑیا ہے اُڑ جائے گی پُھر سے دیکھو! اگر اس کی پروا نہ کی تم نے مطلق اسے پا لیا جس نے بس وہ ہے دانا اسے جس نے کھویا وہ ہے سب سے احمق سوالات ۱- ابلق گھوڑا کیسا ہوتا ہے؟ ۲- وقت کو ابلق گھورا کیوں کہا ہے؟ ۳- وقت کو انجن کیوں کہا ہے؟ ۴- اس سبق میں ماضی کی کون کون سی مثالیںہیں؟ ۸-وقت خود دولت ہے سراب مُستحکم تلافی حُکما عُلما عائد مُرقع عملاً فراغنۂ مصر دولت جب کسی کے پاس کم ہوتی ہے تو ہر شخص اس کے صرف کرنے میں احتیاط کرتا ہے۔ مگر وقت باوجودیکہ ایسی دولت ہے کہ نہایت کم اور نا پائدار ہے اور اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ حباب ہے یا سراب ہے۔ بادل کا سایہ ہے یا خواب و خیال ہے۔ تاہم بعض انسانوں کے نزدیک وہ ایک خزانہ ہے کہ اس کو کتنا ہی خرچ کرو۔ کبھی خالی نہ ہوگا۔ یا ایسا پائدار اور مستحکم ہے کہ اس میںکچھ خلل نہ آئے گا۔ ہم کو اس سمجھ پر نہایت حیرت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک چیز دنیا میں ایسی ہے کہ اس کی تلافی ہو سکتی ہے لیکن وقت ایسی چیز ہے کہ اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا۔ تما حُکما۔ عُلما اور دانشمد یہی نصیحت کرتے آئے کہ وقت کی قدر کرو اور اسے ضائع نہ ہونے دو۔ تاریخ بھی ہم کو یہی سبق دیتی ہے۔ صدیوں کا تجربہ بھی ہم کو یہی سکھاتا ہے اور باوجود اس کے حیرت اور نہایت حیرت ہے کہ ہماری سمجھ میں یہ اب تک نہیں آیا کہ وقت کیسی چیز ہے ۔ کیسی بڑی ذمہ داری ہے۔ جو اس کے سبب سے ہم پر عائد ہوتی ہے اور وہ خدا کی کیسی بڑی امانت ہے۔ کیونکہ اگر ذرا بھی ہمیں اس کی قدر ہوتی تو ہم اس کے برباد کرنے میں ایسی جلدی نہ کرتے اور اس بے پروائی اور بے خبری سے اسے یوں ضائع نہ کرتے۔ اگر ہم کو قدر کیوں نہیں اور اس کی اصلاح بھی نہیں کی جاتی۔ بظاہر وقت کی بربادی کے یہ اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ لڑکپن سے بچوں کو اس کی قدرو قیمت بتائی نہیں جاتی۔ نہ اُن کو وقت کا عمدہ طور سے استعمال کرنا سکھایا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسی صحبت نہیں پاتے جہاں ان کو عمدہ نمونہ ملے اورا سی وجہ سے اس کو وقت کی پابندی کی عادت نہیں ہوتی۔ ہم اپنے بچوں کو علم کی مختلف شاخوں کی تعلیم دلاتے ہیں اور ان پر ہر طرح کے علوم و فنون کے دروازے کھولتے ہیں ۔ لیکن یہ بات ان کو نہیں سکھاتے کہ وہ وقت کو کس طرح صرف کریں اور اس میں کفایت شعاری کس طرح برتیں۔ منٹ اور لحطہ تو ان کے لیے کوئی چیز نہیں۔ یہ تو یونہی ضائع کر دیے جاتے ہیں اور تمام بچے بچپن سے وقت کو مفت برباد کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ایک اور دھوکا ہے جو انسان کو وقت کے ضائع کرنے کی شرم اور افسوس سے بچائے رہتا ہے اور وہ لفظ ’کل‘ ہے ۔ جس کے لیے کہا گیا ہے کہ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو کل کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں، اتنی حماقتوں ، اتنی وعدہ خلافیوں ، اتنی خشک امیدوں ، اتنی غفلتوں اور بے پروائیوں، اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لیے جواب دہ ہو۔ کیونکہ آنے والی کل آئے نہ آئے۔ گزری ہو ئی کل تو گزر ہی چکی۔پس تمہارے پاس جو کچھ ہے آج ہی کا دن ہے۔ وقت جب ایک دفعہ مر گیا تو اس کو پڑا رہنے دو۔ اب اس کے ساتھ کچھ کرنا نہیںہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی قبر پر ایک دو آنسو بہا دو۔ اور آج کی طرف لوٹ آئو۔ مگر لوگ اس کی طرف نہیں لوٹتے اورعملاً کبھی فردا کو امروز نہیں ہونے دیتے۔ یہ بھی ہم نہیں سمجھتے کہ جو کام ہم کرتے ہیں۔ وہ کام وقت میں اس طرح کندہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح نشان پتھر میں اور وہ اُن حرفوں سے بھی زیادہ پائدار ہوتے ہیں۔ جو مصر کے میناروں پر نقش ہیں۔ کیونکہ وہ بھی ایک روز بوسیدہ ہو نگے۔ مگر ہماری زندگی کا کوئی بے کار لمحہ بھی ایسا نہیں ہے ۔ جو زمانے کے اس دفتر میں نہ لکھا جاتا ہو۔ جو ہمیشہ قائم رہے گا اور اس کتاب ِ قدرت کے صفحے پر سے اس کا نشان نہ رہے گا۔ گزرے ہوئے وقت کا افسوس کرنا فضول ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے۔ ؎ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ہندی زبان کی کہاوت ہے ۔ ’’اب پچھتائے کیو ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘ فارسی مثل گو کہتا ہے ’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید۔ بر کلّہ خود باید زد‘‘۔ گزشتہ باتوں پر کس کو خیال نہیںآتا۔ اور کون نہیں چاہتا کہ کاش جب ہم چاہتے گزشتہ زمانے میں واپس چلے جاتے اور اس میں زندگی بسر کرتے۔ کاش ہم اپنی زندگی پھر شروع کریں اور اپنے تجربہ سے فائدہ اٹھائیں۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا۔ گزرے ہوئے وقت کو تم نہیں پاسکتے۔ وہ آنے سے پہلے تمہارے ہاتھ میں ہے مگر اس کا ٹھیرنا اور رُکنا تمہارے ہاتھ میں نہیں۔ وہ سائے کی طرح آتا ہے اور نکل جاتا ہے۔ مگر ہاں ہمارے کاموںکو اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ نہ اس کا لمحہ پھر ہم پا سکتے ہیں نہ اس کے آہنی پنجے سے ہم گرفتار کام چھوٹ سکتے ہیں۔ جو کچھ ہوا وہ ہمیشہ کے لیے ہو گیا۔ ہر کام پر اچھا ہو یا برا۔ اس کی مُہر لگ جاتی ہے۔ نہ پشیمانی فائدہ کرتی ہے نہ گریہ و زاری۔ وقت جب تک نہیں آتا اس کی گرفت آسان ہے ۔ مگر جاتے ہی وہ ایسا سخت ہو جاتا ہے کہ کوئی چیز اس سے زیادہ سخت نہیں ہوتی۔ وہ ایک ایسا بے رحم اور بے درد ہے کہ معافی کا نام نہیں جانتا۔ کیسی خوفناک بلا ہو۔ کیسی ہی مہیب مصیبت ہو ۔ کیسی ہی سخت مجبوری ہو۔ وقت کی اس بے درد گرفت کے مقابل سب ہیچ ہیں۔ یہ ایسی گرفت ہے جو کچھی نہیں پسیجتی اور جو کچھ اس کے پنجے میں آگیا پھر اسے نہیں چھوڑتی۔ گئے گزرے وقت پر افسوس کرنا اور اس کے رنج میں بیٹھا رہنا یہ دوسرے طور سے کام کے وقت کا ضائع کرنا ہے۔ اس بدنصیب کی حالت افسوس کے لائق ہے جس نے دن کا ایک گھنٹہ فضول ضائع کیا اور باقی تیئیس گھنٹوں میں اس کو واپس لانے کی بے سود کوشش یا اس کے واپس نہ لاسکنے پر بے فائدہ افسوس کرتا رہا۔ بھلا اس سے کیا ہوتا ہے ۔ وہ تو ایسا ہی چلا گیا ہے۔ جیسے فراغنۂ مصر کی سلطنت بوڑھوں کی جوانی۔ موسم بہار کا شباب۔ یہ بات آسان نہیں ہے کہ گزری ہوئی ساعت پھر حاصل کی جائے نہ پچھلے زمانے پر کچھ افسوس کرو ۔ نہ کل کا اندیشہ ۔ اس وقت جو کچھ کرنا ہے وہ کرو یہی وقت غنیمت ہے۔ (نواب محسن الملک میر مہدی علی خان) سوالات ۱- وقت کسی طرح دولت ہے؟ اور ہم اس کی قدر کیوں نہیں کرتے؟ ۲- وقت کے متعلق اردو ، ہندی اور فارسی کی جو کہاوتیں ہیں ان کا مطلب بیان کرو۔ ۳- وقت کی کونسی تین صورتیں ہیں اور ان میں سے کون کون سی قابلِ اعتبار ہیں؟ ۴۔ فراغنۂ مصر سے کیا مراد ہے؟ ۵- معنی بتائو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ مستغرق۔ مہیب۔ خلل۔ عملاً ۶- حکما اور علما کس کس لفظ کی جمع ہے؟ اس قسم کے چار لفظ اور بتائو ۹-پَن چکّی طے ختم سفر محتاج نہر پر چل رہی ہے پن چکی دھن کی پوری ہے کام کی پکی بیٹھتی تُو نہیں کبھی تھک کر تیرے پہیے کو ہے سدا چکر پیسنے کو نہیں لگی کچھ دیر تُو نے چھٹ پٹ لگا دیا اک ڈھیر لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ تیرا آٹا پھر بھرے گا کتنے پیٹ بھر کے لاتے ہیں گاڑیوں میں اناج شہر کے شہر ہیں تیرے محتاج تُو بڑے کام کی ہے اے چکی! کام کو کر رہی ہے طے چکی ختم تیرا سفر نہیں ہوتا نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا پانی ہر وقت بہتا ہے بھل بھل جو گھماتا ہے آ کے تیری کل کیا تجھے چین ہی نہیں آتا؟ کام جب تک نبڑ نہیں جاتا مینہ برستا ہو یا چلے آندھی تُو نے چلنے کی شرط ہے باندھی تُو بڑے کام کی ہے اے چکی مُجھ کو بھاتی ہے تیری لَے چکی علم سیکھو سبق پڑھو بچو اور آگے چلو بڑھو بچو جب نبڑ جائے کام تب ہے مزا کھیلنے کھانے اور سونے کا دل سے محنت کرو خوشی کے ساتھ نہ کی اکتا کے بیدلی کے ساتھ دیکھ لو چل رہی ہے پن چکی دُھن کی پوری ہے کام کی پکی سوالات ۱- پن چکی کی بناوٹ بیان کرو اور بتائو نہر پر کیوں ہوتی ہے؟ تمام قسم کی چکیوں کے نام لو۔ اب کسی کا زیادہ رواج ہے اور کیوں؟ ۲- ’’دُھن کا پورا ہونا‘‘ کے معنی بیان کرو اور اس کو اپنے فقرے میں استعمال کرو۔ ۳- ہم پن چکی سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ۴- ’’تیرا سفر ختم نہیں ہوتا ‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۵- اس سبق میں جو مصدر ہیں۔ ان سے ماضی کے صیغے بتائو۔ ۱۰- نمک کی کان نمک خوار خصوصیت بلورین تاریکی صنعتوں ۱- کھیوڑہ ضلع جہلم علاقۂ پنجاب میںا ایک مشہور مقام ہے۔ شمالی ہندوستان کے رہنے والے اکثر اسی کان کے نمک خوار ہیں۔ پنڈدادن خان اسٹیشن ہے ۔ یہاں ریل سے اتریں تو آگے صرف ڈھائی میل کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ آس پاس کوئی خصوصیت ایسی نظر نہیں آتی جس سے معلوم ہو کہ اس سرزمین میں قدرت نے ایک ایسا قیمتی دفینہ چھُپا رکھا ہے ۔ ہاں خشک چٹان نظر آتے ہیں اور جس میدان سے گزر کر جاتے ہیں۔ وہ بھی کچھ ایسا سرسبز نہیں۔ آدھ گھنٹے میں کان کے دروازے پر جا پہنچتے ہیں۔ یہاں البتہ رونق نظر آتی ہے۔ سینکڑوں من نمک چھکڑوں میں لد کر باہر جانے کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔ کان کے گرد مزدوروں اور ان کے افسروں کی جو کان کھودنے پر مقرر ہیں۔ایک اچھی خاصی بستی آباد ہے اور اس سے کچھ دور محکمہ کے عہدہ داروں اور ان کے کلرکوں کے بنگلے اور مکان نظر آتے ہیں۔ گویا اس نمک کی بدولت جنگل میں منگل ہو رہا ہے۔ باہر تو جو رونق ہے سو ہے اندر جاکر دیکھو۔ آتشبازی موجود ہے۔ دام دیجیے اور توڑی سی آتش بازی ساتھ لیجیے۔ کان کے اندر جا کر یہ نری بازی نہیں رہ جاتی ۔ بلکہ مفید ا ور کار آمد ہو جاتی ہے۔ کئی حصے ایسے ہیں۔ جہاں گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے یہاں مہتابی بہت کام دیتی ہے ۔ داخل ہوتے وقت ہی باہر کی کُھلی ہوا کے مقابلے میں ذرا دم گھٹتا معلوم ہوتا ہے ۔آگے چل کر ایک وسیع حصے میں سینکڑوں زن ومرد نظر آتے ہیںجو نمک کے بڑے بڑے ڈلے لا کر جمع کرتے ہیں۔ کوئی ایک طرف آرام سے بیٹھ کر ناشتا کر رہا ہے۔ کوئی تاریک ذخیرے میں سے نمک لانے کے لیے چراغ لیے جا رہا ہے۔ کوئی ٹیک لگائے سستا رہا ہے۔ کوئی اپنے ساتھی سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے ۔ گویا زمین کے نیچے ایک زندہ دنیا آباد ہے۔ یہاں سے نکل کر دوسری طرف آئیں تو نمک کا یاک بڑا دالان سامنے ہے ۔ نمک نکالتے وقت کان کھودنے والے اپنی کاریگری کے جوہر دکھاتے ہیںچھت کی سطح ہموار اور صاف ہے اس کے نیچے سڈول ستون ہیں۔ دیواریں بھی خوبصورتی سے تراشی ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی سفید پتھر کے مکان میں کھڑے ہیں۔ یہ تمام کوشش محض خوشنمائی کے لیے نہیںبلکہ اس سے کان کھودنے والوں کی حفاظت بھی مقصود ہے۔ اگر اندھا دھند کان کے حصے بارود سے اُڑاتے چلے جائیں اور اوپر کے حصے کو اتنا کریدیں کہ اُوپر کی سطح نمک کا ایک چھلکا سا رہ جائے تو ذرا سے صدمے سے چھت اس کے سروں پر آپڑے۔ یہ سفید پتھر کے کمرے جو اس کان کے نیچے جا بجا بنے ہوئے ہیں کہیں کہیں مشعلوں اور چراغوں کے دھوئیں اور مزدوروں کے میلے ہاتھوں کے چھو جانے سے کچھ سیاہ سے ہو رہے ہیں۔ لیکن اگر کھیوڑے کے نمک کو اپنی اصلی شفاف بلورین حالت میں دیکھنا ہو تو کسی ایسے حصے میں جانا چاہیے جہاں نمک بارود کے ذریعے سے اُڑایا جا رہا ہو۔ اس کے لیے کچھ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ آہا کیا زور کا دھماکہ ہوا۔کہ پائوں کے تلے کی زمین ہِل گئی۔ نا واقف تو یہ سمجھے کہ شاید کان پھٹ گئی اور اب باہر جانا دشوار ہو جائے گا۔ مگر یہ دھماکا یہاں دن میں کئی دفعہ سنا جاتا ہے۔ جس حصے سے نمک نکالنا ہوتا ہے ۔ اس میں ایک چھوٹی سُرنگ لگا کر بارود بھر دیتے ہیں۔ جہاں بارود کو آگ پہنچائی۔ وہیں نمک کا پہاڑپھٹا اورمنوں کی وزنی سلیں ٹوٹ کر گر پڑیں۔ اس طرح آہستہ آہستہ ہاتھوں سے کھودنے کی ضرورت نہیں رہتی اور کام بھی جلد ہو جاتاہے ۔ پھر مزدور آکر اس نمک کو جمع کر لیتے ہیں اور اس کے بعد ہاتھ کے ذریعے ہمواری پیدا کی جاتی ہے۔ اسی کان میں ایک دو حصے ایسے ہیں۔ جو نہایت تاریک ہیں اور ان کی تاریکی میں پانی کے بڑے قدرتی حوض چھپے ہوئے ہیں۔ان حوضوں کے کنارے کھڑے ہو کر مہتابی روشن کرو تو عجب کیفیت نظر آتی ہے ۔ اسی پانی سے نمک کی سلیں بنتی ہیں۔ جن سے خدا کی رنگا رنگ صنعتوں کا گہرا نقش دل پر بیٹھتا ہے۔ سوالات ۱- پنجاب میں نمک کی کان کہاں واقع ہے؟ اس کے باہر اور اندر کی مختصر کیفیت بیان کرو۔ ۲- محکمہ نمک کس غرض سے بنایا گیا؟ ۳- کان میں سے نمک کس طرح نکالتے ہیں؟ ۴۔ مطلب بیان کرو:- شمالی ہندوستان کے رہنے والے اکثر اسی کان کے نمک خوار ہیں۔ ۱۱-صبح کی آمد رفتار و گفتار مُرغ سحر نسیم صبا شمع انجمن مُؤذِّن خبر دن کے آنے کی میں لا رہی ہوں غرض میرے جلوے پہ سب مر رہے ہیں اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں پجاری کو مندر کے میں نے جگایا مُؤذِّن کو مسجد کے میں نے جگایا جھٹکتے مسافر کو رستہ بتایا اندھیرا گھٹایا اُجالا بڑھایا اُٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں لدے قافلوں کے بھی منزل میں ڈیرے کِسانوں کے ہل چل پڑے مُنہ اندھیرے چلے جال مچھوے ہیں لے کر سویرے دلذر ہوئے دور آنے سے میرے اٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں (مولوی محمد اسمعیل صاحب) سوالات ۱- صبح کی آمد خود اس کی زبانی نثر میں بیان کرو؟ ۲- ان لفظوں کو اپنے فقروں میں استعمال کرو:- رفتار وگفتار، شمع ، انجمن، موذّن ۳- ’’غرض میرے جلوے پہ سب مررہے ہیں‘‘ کا مطلب بیان کرو اور بتائو اس میں اردو کا کونسا محاورہ استعمال ہوا ہے؟ تم اس کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴۔ لا رہی ہوں ، کون سا کلمہ ہے ؟ اس کی مذکر صورت کیا ہو گی؟ ۵- نثر بنائو۔ ؎ چلے جال مچھوے ہیں لے کر سویرے ۱۲-ہاتھی زحمت عظیم الشان ممتاز مخصوص ۱- پارس اپنے مکان کی کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔اس نے ایک لخت شور مچا کر کہا ۔ دیکھنا پِتا جی! سڑک پر یہ کالا پہاڑ سا کیا جا رہا ہے؟ پارس کا باپ۔ کہاں؟ ہاں بیٹا! یہ ہاتھی ہے۔ ہمارے ہندوستان میں جس قدر حیوان ہیں۔ یہ ان میں سب سے بڑا ہے ۔ اس کے جسم کا وزن ۱۱۲ من سے ۱۴۰ من تک ہوتا ہے۔ اس کی آنکھیں بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اور تم نے دیکھا نہیں ۔ اس کے کان کتنے بڑے بڑے اور پنکھے کی طرح تھے۔ یہ ان سے سننے کے علاوہ مکھیاں وغیرہ اڑانے کا کام بھی لیتا ہے۔ اس کے سنیے کی قوت دیکھنے کی قوت سے زیادہ ہے۔ پارس: اس کے گلے میں گھنٹہ کیوں پڑا ہے جو بج رہا ہے۔ پارس کا باپ: بات یہ ہے کہ ہاتھی کے پائوں ملائم ، گول اور برے بڑے ہوتے ہیں اور جب یہ چلتا ہے تو اس کے پائوں کی آہٹ نہیں ہوتی۔ اسی لیے اس کے گلے میں گھنٹہ ڈال دیتے ہیں تاکہ لوگ دور سے سمجھ لیں کہ ہاتھی آرہا ہے۔ ۲-پارس: پِتا جی! اسے اپنے موٹے اور وزنی جسم کی وجہ سے بعض موقعوں پر تو بڑی تکلیف اور زحمت ہوتی ہو گی۔ آخر یہ کیونکر دوڑتا ہو گا؟ پارس کا باپ: بھولے بچے! چونکہ تم نے اس عظیم الشان جانور کو پہلی ہی بار دیکھا ہے اس لیے تم خیال کرتے ہو کہ یہ کیونکر تیز چلتا ہو گا اور دوڑتا ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہاتھی اس بھدے پن کے ساتھ نہایت چالاک اور پُھرتیلا جانور ہے۔ یہ تیز چلنے کے وقت اتنا تیز چلتا اور دوڑنے کے وقت اتنا تیز دوڑتا ہے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں ۔ سمجھ دار آدمی جانتے ہیں کہ اسے ٹانگیں ہی اتنی مضبوط ملی ہیں کہ وہ پہاڑ سے جسم کا بوجھ اٹھا سکیں۔ اس کی ٹانگوں پر اس کا جسم اس طرح رکھا ہوا ہے۔ جیسے چار آبنوسی ستونوں پر ایک بہت بڑی سیاہ چٹان ہے۔ ۳- پارس: یہ کھانا کیسے کھاتا ہوگا؟ اورکیا یہ پانی پیتا ہی نہیں؟ پارس کا باپ: کھانا بھی کھاتا ہے اور پانی بھی پیتا ہے ۔ دیکھو اس کے منہ کے پاس جو تم نے ایک موٹا رسا لٹکتے ہوئے دیکھا ۔ یہ اس کی سُونڈ تھی۔ سُونڈ ہاتھی کے جسم کا سب سے عجیب اور مفید حصہ ہے۔ ہاتھی اس میں ضرورت کے مطابق پانی بھر کر حلق میں ڈال لیتا ہے۔ یہ سُونڈ گوشت کے نہایت لوچدار حلقوں سے مل کر بنی ہے جبھی تو ہاتھی اسے ہر طرف موڑ سکتا ہے اور ربڑ کی طرح گھٹا بڑھا سکتا ہے۔ یعنی بات یہ ہے کہ یہ ہاتھی کے بہت ہی کام آتی ہے ۔ ہاتی اس سے باریک سے باریک اور بھاری سے بھاری چیز اُٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ بڑے بڑے پیڑوں کو تو وہ آن کی آن میں اُکھاڑ کر دور ڈال دیتا ہے۔ دونّی ، چونّی ، سوئی وغیرہ بڑی آسانی سے ہماری تمہاری طرح اٹھا لیتا ہے۔ سُونڈ کے نیچے کے سرے پر دو کنارے سے ہوتے ہیں۔ ایک انگوٹھے اور دوسرا انگلی کا کام دیتا ہے۔ ہاتھی اپنی سُونڈ سے پتا اور پھول سے کچھ آسانی سے الگ الگ توڑ سکتا ہے۔ دروازہ کھول اور بند کر سکتا ہے۔ تالے میں کنجی بھی وہ اپنی اس عجیب سُونڈ سے لگا سکتا ہے۔ لیکن ہاتھی کے لمبے لمبے سفید دانت بڑی قیمتی چیز ہیں۔ اوپر کے جبڑے سے باہر نکلے ہوئے ساتھ آٹھ فٹ کے قریب لمبے اور کسی قدر مڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ تقریباً سوا من تک ان کا وزن ہوتا ہے۔ اور بعض ہاتھیوں کے دانت تو چودہ چودہ فٹ لمبے دیکھے گئے ہیں۔ بعض موقعوں پر تو ہاتھی دانت ڈھائی ڈھائی سو روپیہ فی من فروخت ہوتا ہے۔ ۴- پارس! اور سنو۔ ان قیمتی دانتوں کے علاوہ ہاتھی کے مُنہ میں سولہ دانت اور بھی ہوتے ہیں۔ جن سے وہ گنے اور موٹے موٹے روٹ اچھی طرح کھاتا ہے اور اسی لیے تو یہ مثل مشہورہو گئی ہے کہ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ ۵- پارس: اوہو پِتا جی! اس ہاتھی کا قصہ تو بڑا مزیدار ہے۔ تو ایسے موٹے بڑے اور خوفناک جانور کے چلانے کے لیے بھی کسی دیو کی ضرورت ہوتی ہو گی۔ پارس کا باپ: نہیں بیٹا! انسان نے دنیا کی خوفناک سے خوفناک چیز کو بھی اپنا تابع کر لیا ہے۔ ہاتھی بھی اس کا غلام ہے۔ چنانچہ ہاتھی کے چلانے والے کو مہاوت کہتے ہیں۔ مہاوت کے خاص اشارے ہوتے ہیں۔ جنہیں ہاتھی اچھی طرح سمجھتا ہے اور جو کچھ مہاوت حکم دیتا ہے کرتا ہے۔ یہ بڑا شریف۔ عقل مند اور ہوشیار ہوتا ہے۔ اسے جو کچھ سکھایا جائے سیکھ جاتا ہے۔ اکثر سرکس میں ہاتھیوں کو سلام کرتے ۔ گرہ کھولتے اور طرح طرح کے تعجب خیز کھیل کرتے دیکھا ہے۔ لیکن جو بچے اسے شرارت سے چھیڑتے ہیں۔ یہ انہیں اپنی سُونڈ سے اُٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ آخر جانور ہی تو ہے۔ ۶- پہلے زمانوں میں بادشاہ کی سواری کے لیے ہاتھی ممتاز تصور کیا جاتا تھا۔ اور لڑائی میں میں اس سے بہت کام لیے جاتے تھے۔ ہاتھی آگ اور گرج سے بہت ڈرتا ہے اور آج کل توپوں کی زیادتی سے چونکہ جنگ آگ اور دھوئیں اور گج ہی کا کھیل ہے۔ اس لیے ہاتھی اب لڑائیوں میں کام نہیں دے سکتا۔ تاہم اس زمانے میں بھی ہاتھی کی سواری راجہ مہاراجہ اور امیر لوگوں کے لیے مخصوص ہے۔ ہاتھی کے ذریعے شیر کا شکار بھی خوب ہوتا ہے۔ جس دریا کا پانی زیادہ گہرا ور تیز ہو اور جہاں کشتی نہ چل سکتی ہو وہاں ہاتھی کے ذریعے دریا کو عبور کرنا بہت آسان ہے۔ یہ پانی میں خوب تیرتا ہے اور پانی خواہ کتنا ہی تیز ہو سیدھا ہی تیرتا ہے۔ دیکھو دیکھو پارس! گھنٹے کی گونج کے ساتھ وہی ہاتھی واپس آرہاہے۔ سوالات ۱- ہاتھی کھانے پینے کی چیزوں کے پکڑنے اور ان کو توڑنے کا کام کس چیز سے لیتا ہے؟ ۲- ہاتھی کیا کام کرتا ہے؟ ۳- یہ کہاوت کس موقع پر بولتے ہیں اور کس طرح بنی؟ ’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور‘‘ ۴- ان الفاظ کو اپنے فقروں میں استعمال کرو:- خوفناک، تابع، مُمتاز، مخصوص، عبور۔ ۵- سُنتا ہے ، کونسا فعل ہے ، اس سے جمع متکلم مونث کا صیغہ بنائو۔ ۶- اس فقرے کو درست کرو:- اُن عورتوں نے کہا، ہم آتی ہیں۔ ۱۳-گرمی کُہسار ریگِ صحرا آبِ دریا رودبار بادِ سموم سبیل گرمی سے تڑپ رہے ہیں جاندار اور دھوپ میں تپ رہے ہیں کُہسار بھُوبل سے سوا ہے ریگِ صحرا اور کھول رہا ہے آبِ دریا سانڈے ہیں بِلوں میں مُنہ چھُپائے اور ہانپ رہے ہیں چار پائے ہیں لومڑیاں زبان نکالے اور لُو سے ہرن ہوئے ہیں کالے چیتوں کو نہیں شکار کی سُدھ ہرنوں کو نہیں قطار کی سُدھ ہیں شیر پڑے کچھار میں سُست گھڑیاں ہیں رودبار میں سُست ڈھوروں کا ہوا ہے حال پتلا بیلوں نے دیا ہے ڈال کندھا بھینسوں کے نہیں لہو بدن میں اور دودھ نہیں گئو کے تھن میں گرمی کا لگا ہوا ہے بھبکا اور انس نکل رہا ہے سب کا آرے ہیں بدن پہ لُو کے چلتے شعلے ہیں زمین سے نکلتے ہے آگ کا دے رہی ہوا کام ہے آگ کا نام مُفت بدنام رستوں میں سوار اور پیدل سب دھوپ کے ہاتھ سے ہیں بیکل گھوڑوں کے نہ آگے اٹھتے ہیں پائوں ملتی ہے کہیں جو پیڑ کی چھائوں پنکھے سے نکلتی جو ہوا ہے وہ بادِ سموم سے سوا ہے ٹٹّی میں ہے دن گنواتا کوئی تہ خانے میں مُنہ چھپاتا کوئی بازار پڑے ہیں سارے سنساں آتی ہے نظر نہ شکل انسان خلقت کا ہجوم کچھ اگر ہے یا پیائو پر یا سبیل پر ہے پانی سے ہے سب کی زندگانی میلہ ہے وہیں جہاں ہے پانی سوالات ۱- گرمی سے کون سی گرمی مُرا د ہے اور گرمی کا جو نقشہ شاعر نے کھینچا ہے اسے آسان نثر میں بیان کرو؟ ۲- امیر لوگ گرمی سے بچنے کے لیے کیا کیا تدبیریں کرتے ہیں؟ ۳- گرمی کس طرح انسان کے لیے مفید ہے؟ ۴۔ مطلب بیان کرو:- میلہ ہے وہیں جہاں ہے پانی ۵- پندرھیوں شعر میں گنواتا اور چھپاتا کون کون سے فعل ہیں۔ ۱۴-شاہجہان کا دربار خود بدولت انتخاب دلکُشا لعل ویاقوت تسبیح شاہجہان نے ۱۶۴۸؁ء میں دہلی میں قلعہ کی بنیاد ڈالی جو دس برس میں تیار ہوا ۔ میر عمارت نے عرضی لکھی۔ خود بدولت ہوا دار آبی پر سوار ہو کر لبِ دریا کے دروازے سے قلعے میں داخل ہوئے۔ قلعے کو ملاحظہ کیا ۔ سر سے پائوں تک سنگ سرخ سے سرخ پوش اور اس میں سنگ سفید کے حاشیے۔بُرجیاں ، فصیلیں۔ باغ و مہر دِلکُشا۔ سڑکیں لا جواب غرضیکہ ہر طرح سے انتخاب تیار ہوا۔ بعد تیاری جشن کا انتظام ہوا۔ دیوان عام کے سامنے دل بادل شامیانے اوردیوان کاص کے سامنے سبھا منڈل خیمے دونوں لگائے گئے۔ جن کے کلس آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔یہ دونوں خیمے سونے چاندی کے ستونوں پر کھڑے تھے۔ دربار خاص کی چھت پر سونے کی مینا کاری کی گئی تھی۔ دروازوں پر اطلسی پردے لگالیے گئے تھے۔ بیچ میں تخت طائوس سجا ہوا تھا جو دنیا بھر میں ایک عجیب نمونہ تھا۔ صرف اس کا یاک تختہ جس پر بادشاہ کی پشت لگی رہتی تھی ۔ دس لاکھ روپے کا تھا۔ بارہ ستونوں پر اس کی چھتری رکھی ہوئی تھی۔جو جواہرات کی مینا کاری سے پُر تھی۔ اوپر کے چبوترے کی تین سیڑھیاں اس خوبصورتی اورصفائی سے بنائی گئی تھیں کہ تخت اس پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے انگشتری پر نگینہ دھرا ہے۔ اس کے سامنے کی محراب پر ایک سونے کا درخت لگایا گیا تھا۔ جو سبزہ و برگ سے زیادہ سرسبز اور لعل و یاقوت سے زیادہ خوش نما تھا۔ دونوںطرف دو مور رنگین جواہرات سے منڈھے ہوئے بنے تھے جو چونچ میں تسبیح لیے اس طرح کھڑے کیے گئے تھے گویا اب ناچا چاہیتے ہیں اس تخت کے چاروں طرف موتیوں کی جھالر جھلملاتی تھی۔ آگے ایک شامیانہ ایک لاکھ روپے کی لاگت کا لگا ہوا تھا۔ ارد گرد شاہزادوں اور امیروں کی چوکیاں اور کُرسیاں اپنے اپنے رُتبے سے سجی ہوء تھیں۔ مگر تخت کے گرد ا گرد شاہانہ ادب کے لحاظ سے کئی گز کا حاشیہ چھُوٹا ہوا تھا اور اس کے برابر چاندی کا کٹہرا لگایا گیا تھا۔ غرضیکہ قلعہ تیار ہونے کے بعد اس خوشنمائی سے دربار آراستہ ہوا کہ کٹہرے کے باہر پہلی صف میں شاہزادے اس کے بعد راج گان و مہا راجگان ۔ امیر و وزیر اپنے اپنے عہدوں کے مطابق کھڑے تھے۔ باہر کے دالان میں منصب دار۔ تحصیلدار ۔ مُنشی ۔ مُتصدی اپنے اپنے رتبے کے لحاظ سے بیٹھے تھے اور ان تمام فرمانبرداروں کے کان شاہی حکم کے منتظر تھے۔ غرض کہ سب سے پہلے شہزادوں کی نذریں گزرنی شروع ہوئیں۔ پھر درجہ درجہ راجائوں مہاراجوں نے نذریں پیش کیں۔ سب کو انعام و اکرام اور ترقئے منصب کے احکام سنائے گئے۔ سب سے زیادہ سعد اللہ خان وزیر اعظم کو ہفت ہزاری اور سات ہزارسوار کا درجہ عنایت ہوا۔ خدا کی قدرت اور علم کی عزت دیکھو۔ کہ سعد اللہ ایک زمیندار کا بیٹا جو پنجاب کے علاقہ جھنگ قصبہ چنیوٹ کا رہنے والا تھا۔ لاہور میں اس نے علم حاصل کیااور اپنی علمیت کی سفارش سے دربار میں ملازم ہوا ۔ پانچ ہی سال کے اندر دیوان کے عہدے تک ترقی کی اور دوسرے سال وزیر اعظم بن گیا۔ یہ سب علم کی برکت تھی جو اس کو ایسا عظیم الشان منصب ملا۔ رات کو جشن مہتابی ہوا۔ تمام دیوان عام نور ہی نور نظر آنے لگا۔ فرش کی مخمل سفید ۔قالین سفید۔ اطلس ۔ زربفت۔ کمخواب کے تمام پردے سفید۔ روشنی کے سب سامان سفید۔ تمام بلّور اور شیشے سفید۔ چمن میں درختوں کے پھول پتے تمام سفید۔ گھاس سفید دربار کا لباس سفید۔ یہاں تک کہ انگوٹھی بھی چاندی کی ۔ اس پر بھی الماس سفید۔ غرضیکہ زمین سے آسمان تک نور کا عالم تھا اور دریائے مہتاب لہراتانظر آتا تھا۔ چندر ماں کے تُلا کے جشن میں نو دن باقی تھے۔ اس لیے نو دن تک برابر یہی شغل رہا اور جشن کے انعام و اکرام جاری رہے۔ شاہجہان کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا۔ یوں تو اس نے بہت سی ایسی عمارتیں بنوائی ہیں۔ جو آج تک کسی بادشاہ نے تعمیر نہیں کرائیں۔ لیکن روضۂ تاج گنج جو اپنی بیوی کی یادگار میں آگرے میں تعمیر کرایا۔ اس میں جتنا روپیہ صرف ہوا۔ اتنا کسی عمارت میں نہیں لگا۔ اس کی خوبصورتی اور صنعت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کہ پتھر پر کیسا عمدہ اور صاف کام کیا گیا ہے۔ دونی بھر جگہ بھی سات سات رنگ کے پتھر اس عمدگی سے جڑے ہیں کہ یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ایک ہی قسم کا پتھر ہے یا سات قسم کا ۔ غرضیکہ یہ قابل دید عمارت بنا کر اکیس برس اچھی طرح سلطنت کر کے شاہجہان نے انتقال کیا اور تاج گنج میں اپنی بیوی کے پہلو میں مدفون ہوا۔ ---------------------------- سوالات ۱- قلعہ دہلی میں شاہجہان نے جو دربار کیا اس کی کیفیت اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ ۲- تخت طائوس کی وضع بیان کرو؟ ۳- شاہجہان کا وزیر اعظم کون تھا؟ اس نے یہ مرتبہ کس چیز کے ذریعے حاصل کیا؟ ۴۔ شاہجہان کے زمانے کی یادگار کیا چیز ہے؟ ۵- اپنے فقروں میں استعمال کرو:- دلکُشا، لاجواب، سُرخ پوش۔ ۶- راجہ کی جمع قاعدے کے لحاظ سے جو اردو میں استعمال ہوتی ہے کیا ہے؟ اس قسم کی دو جمع اور بتائو؟ ۱۵-اچھا آدمی مُدبِّر قلمزن تیغ زن مُہندس مُؤرِّخ منطقی فلسفی سخنور حکمراں اچھا ہے کوئی اور کوئی اچھا وزیر کوئی ہے اچھا مُدبّر اور کوئی اچھا امیر کوئی ہے اچھا قلمزن کوئی اچھا تیغ زن پہلوان اچھا کوئی اچھا کوئی نازک بدن کوئی ہے اچھا مہندس کوئی اچھا فلسفی کوئی ہے اچھا مورخ کوئی اچھا منطقی کوئی ہے اچھا سخنور کوئی اچھا نکتہ جو کوئی ہے اچھا مصور کوئی اعلیٰ خوش گلو خوبیٔ قسمت سے بن جاتا ہے کیا کیا آدمی سب سے اچھا ہے مگر دنیا میں اچھا آدمی سوالات ۱- دنیا میں لوگ انسانوں کو کس کس لحاظ سے اچھا کہتے ہیں؟ لیکن درحقیقت اچھا آدمی کون ہوتا ہے؟ ۲- جب کہتے ہیں فلاں شخص اچھا مُورّخ ہے اس سے کیا مُراد ہوتی ہے؟ ۳- اس نظم میں جن جن عِلموں کا ذکر آیا ہے اُن کے نام لو؟ ۱۶- قول کا پورا صادق صادق اِلتجا ضمانت اِنتہا مجمع صداقت ایثار ۱- صادق ایک شریف سوداگر جب تجارت کرنے کی غرض سے دمشق پہنچا تو وہاں کسی جُرم کے شبہ میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بے حد کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔ آخر اسے قتل کا حکم دے دیا گیا۔ تاریخ مقرر ہو گئی اور صادق اس تاریخ تک اپنی موت کا انتظار کرنے کے لیے دمشق کے جیل خانے میں بھیج دیا گیا۔ ۲- صادق کو اپنی موت کا رنج نہ تھا۔ کیونکہ اس کا دل کسی جرم کی یاد سے شرمندہ نہ تھا۔ اس کی آنکھیں بے گناہی کے نور سے چمکتی تھیں۔ مگر پھر بھی جب وہ مقررہ تاریخ پر قتل گاہ میں لایا گیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ۔ اس کے چہرے سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دمشق کے ان سینکڑوں لوگوں سے جوآج اس کے قتل ہونے کا تماشا دیکھنے آئے تھے ۔ رحم اور مہربانی کی التجا کر رہا ہے۔ اس کی نگاہوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔ مگر کہہ نہیں سکتا۔ لوگ ان تمام باتوں کو قتل کے خوف کا سبب سمجھتے تھے۔ مگر کسی کو اس پر اتنا رحم نہ آتا تھا کہ اس کے دل کی بات اس سے پوچھ لے۔ ۳- آخر تمام لوگوں کی خاموشی دیکھ کر اس نے خود کہا۔ کہ اے لوگو! میں پر دیسی ہوں۔ مسافر ہوںاور اس وقت بے گناہ قتل کیا جا رہا ہوں۔ میری خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے اپنے بیوی بچوں کو دیکھ لیتا۔ اگر تم لوگوں میں سے کوئی شخص میری ضمانت دے دے تو بڑا احسان ہو۔ ۴- صادق ابھی اپنی گفتگو ختم نہ کرنے پایا تھا کہ اس بھیڑ میں سے ایک بہادر ترک آگے بڑھا۔ اس نے صادق سے پوچھا تمہارا گھر کہاں ہے؟ یہاں سے صرف چار گھنٹے کے فاصلے پر تما کتنی دیر میں واپس آسکو گے پانچ گھنٹے میں کیا تم یہ وعدہ سچا کر رہے ہو؟ اور کیا تمہیں اپنے واپس آنے کا پورا یقین ہے؟ میرا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے کہ میں ایمان اور وفا سے اپنی جان کو زیادہ قیمتی نہیں سمجھتا۔ ۵- صادق اور ترک میں یہ گفتگو ہوئی۔ بہادر ترک اس کی ضمانت کے لیے تیار ہو گیا۔ لوگوں نے اسے منع کیا ۔ مگر اس نے کسی کی نہ سنی ۔ حاکم سے ضمانت کی درخواست کی گئی۔ جو فوراً منظور ہو گئی۔ اور صادق پانچویں گھنٹے کے اندر اندر لوٹنے کی شرط پر آزاد کر دیا گیا۔ اس کی بیڑیاں بہادر ترک کے پائوں میں ڈال دی گئیں۔ ۶- صادق نے اپنے گھر پہنچ کر جب اپنی پریشانی کا حال سنایا تو گھر بھر میں کُہرام مچ گیا۔ اس کے دوستوں اور گھر والوں نے اسے مشورہ دیا کہ اسے یہ آزادی قدرت کی طرف سے ملی ہے۔ اب واپس جانا گویا اپنے پائوں سے موت کے مُنہ میں جانا ہے۔ لوگوں نیا سے مجبور کیا کہ وہ اپنی جان بچا کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کسی طرف نکل جائے ۔مگر صادق نے نہایت دلیری سے جواب دیا۔ ’’میں وعدہ خلافی ہر گز نہیں کروں گا‘‘ اور اس بہادر ترک کو جس نے میری آخری خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ہے ، دھوکا نہ دوں گا۔ اگر قدرت بے گناہوں کی حامی ہے تو میں ضرور آزاد ہو جائوں گا۔ ورنہ موت سے ڈرنا بزدلی ہے اور تقدیر سے بھاگنا انتہا درجے کی بے وقوفی ۔ ۷- آخر اس نے سب کو خدا حافظ کہا اور ایک تیز گھوڑے پر چڑھ کر روانہ ہو گیا۔ آندھی کی طرح اڑا ہوا چلا جا رہا تھا کہ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور صادق کو لے کر گرا۔ گھوڑے کے بہت چوٹ آئی اور صادق کے ہاتھ پائوں زخمی ہو گئے ۔ مگر وہ اٹھا ۔ اس نے گھوڑے کو وہیں چھوڑا اور اسی حالت میں دمشق کی طرف روانہ ہو گیا۔ ۸- ساڑھے چار گھنٹے گزر چکے تھے۔ لوگوں کی آنکھیں راستے کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ بہادر ترک کو صادق کے واپس آنے کا پورا یقین تھا۔ وقت اور بھی تیزی سے گزرنے لگا اور وعدے کے پورا ہونے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے۔ حاکم نے ترک سے کہا ۔ تیار ہو جائو ۔ صادق نہیں آیا۔ اب تمہیں اس کے بدلے میں قتل ہونا پڑے گا۔ تمام لوگوں میں بڑی بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ مگر بہادر ترک کو اب بھی اعتبار تھا کہ صادق ضرور آئے گا۔ ۹- اب وقت پورا ہونے میں صرف تین منٹ باقی رہ گئے ۔ جلاد تلوار لے کر ترک کے سرپر آپہنچا۔ بہادر ترک نے آنکھیں بند کر لیں اور سر جھکا دیا۔ جلاد نے تلوار اٹھائی اور چاہتا تھا کہ ترک کا سر اڑا دے کہ یکا یک لوگوں نے غل مچا دیا ’’وہ آگیا ، وہ آگیا‘‘۔ حاکم نے جلاد کی تلوار پکڑ لی ۔ ترک نے آنکھیں کھول دیں اور دیکھا کہ صادق زخموں میں چور اور گرد میں اٹا ہوا اس کے قدموں میں پڑا ہے۔ ۱۰- تمام مجمع صادق کی اس وعدہ وفائی پر حیرت کر رہا تھا۔ حاکم پر بھی اس واقعہ کا گہرا اثر ہوا۔ ترک نے کہا۔ اے ایماندار صادق! اگر تجھ جیسے نیک اور قول کے پورے انسان کے لیے میری جان بھی جاتی تو مجھے کوئی ملال نہ ہوتا۔ تو حقیقت میں صادق ہے تیری یہ صداقت تیری بے گناہی کی روشن دلیل ہے۔ خدا ضرور تیری مدد کرے گا۔ ۱۱۔ لوگوں پر حیرت چھائی ہوئی تھی۔ سب خاموش تھے۔ افسر غور کر رہا تھا کہ یکا یک خلیفہ کی طرف سے ایک ہر کارہ دوڑتا ہوا آپہنچا اور کہنے لگااے حاکم! خلیفہ کا حکم ہے کہ صادق کو رہا کر دو۔ اصلی مجرم کا پتہ مل گیا ہے اور صادق بے قصور ہے۔ ۱۲- لوگوں نے صادق کو مبارکباد دی۔ وہ رہا کر دیا گیا۔ دمشق کے لوگوں میں اس کی صداقت اور وفا اور بہادر ترک کی ہمدردی اور ایثار کا قصہ اب تک مشہور ہے۔ سوالات ۱- صادق نے لوگوں سے کیا درخواست کی؟ کس نے منظور کی؟ اور صادق اور اس کے ضامن کے درمیان کیا گفتگو ہوئی؟ ۲- صادق جب گھر پہنچا تو اس کے گھر والوں نے اسے کیا صلاح دی؟ اور اس نے کیا جواب دیا؟ ۳- صادق کیوں دیر سے پہنچا؟ ۴- صادق کو وعدہ پورا کرنے کا کیا اجر ملا؟ ۵- ’’خدا حافظ‘‘ اصل میں کیا ہے؟ اور یہ کلمات کس موقع پر بولتے ہیں؟ نیز مطلب بیان کرو۔ اس کی آنکھیں بے گناہی کے نور سے چمکتی تھیں؟ ۶- ’’دیکھنے آئے تھے‘‘ کون سا فعل ہے اور عبارت میں اس کا فاعل کون ہے؟ اور بتائو دیکھنے کے بعد کیا لفظ محذوف ہے؟ ۱۷-کام مہرو ماہ ابرو باد محفل اہلِ ہمت مشاغل ہو کبھی انسان نہ بیدل کام سے کیونکہ ہوتا ہے یہ کامل کام سے کام میں ہیں مہر و ماہ و ابر و باد سج گئی دنیا کی محفل کام سے اہلِ ہمت کا ہے خود حامی خدا برکتیں ہوتی ہیں نازل کام سے عزتیں محنت سے پا جاتے ہیں لوگ مرتبے ہوتے ہیں حاصل کام سے مرد کہلانا انہیں آساں نہیں جی چراتے ہیں جو مشکل کام سے نام حاصل کر گئے دُنیا میں جو وہ ہوئے شہرت کے قابل کام سے چُست لڑکے شوق سے کرتے ہیں کام اور گھبراتے ہیں کاہل کام سے کیوں گنوائو تاش اور چوسر میں وقت کب ہیں اچھے یہ مشاغل کام سے دین و دنیا سے گیا محروم وہ ہو گیا جو شخص غافل کام سے سوالات ۱- محنت اور کام سے انسان کو کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ ۲- طالب علموں کو تاش اور چوسر کھیلنے کی بجائے کیا کام کرنا چاہیے؟ ۳- اس شعر کا مطلب بیان کرو:- مرد کہلانا اُنہیں آساں نہیں جی چُراتے ہیں جو مشکل کام سے ۴- اوپر کے شعر میں صلہ موصول کی کونسی مثال ہے؟ ۱۸-اصلی شرافت مذاق خاطر تواضع حیرت خادمہ قابلیت ایک زمانے میں اُجین کے راجہ وکرم کے ملک میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ راجہ کو جنگل میں ایک لڑکا پلا ہو ا ملا۔ جس کو راجہ اٹھا کر اپنے محل میں لے آیا اور اپنی رانی کے سپرد کر دیا اور رانی کو تاکید کر دی کہ اس بچے کو اپنے بیٹے کی طرح پالے اور پرورش کرے۔ راجہ کے حکم کے مطابق بچے کی نگرانی اور تربیت ہونے لگی اور جب اس کی عمر چھ سات برس کی ہوئی تو اس کو مدرسے میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا گیا اور اپنی جماعت کے سب لڑکوں سے کمزور اور پیچھے رہتا تھا۔ ایک دن وہ اور لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ کھیلتے کھیلتے ایک لڑکے نے اس سے اس کے ماں باپ کا نام اور پتہ پوچھا اور جب وہ نہ بتا سکا تو سب لڑکے اس کا مذاق اڑانے لگے۔ وہ روتا ہوا راجہ کے پاس گیا اور راجہ سے اپنے ماں باپ کا نام دریافت کیا۔ لیکن راجہ نے اس سے صرف یہ کہہ دیا کہ تمہارے باپ کا نام پھر کبھی بتا دیں گے۔ اس کو راجہ کا جواب سن کر تعجب بھی ہوا اور افسوس بھی۔ اب وہ ہر وقت اپنے ماں باپ کا پتہ لگانے کی فکر میں رہنے لگا اور اس کو یقین ہوگیا۔ کہ میں راجہ کے کنبے کا لڑکا نہیں ہوں اور نہ مجھے راج گدی ملنے کا کوئی حق ہے۔ اس خیال سے اس نے دل لگا کر پڑھنا شروع کیا اور محنت کر کے اپنے درجے کے اچھے اور قابل لڑکوں میں ہوگیا۔ مدرسے کی تعلیم ختم ہونے کے بعد اس نے سپاہ گری کے کام اور فوجی کرتب سیکھے اورایساقابل ہو گیا جیسے اس زمانے کے قابل اور ہونہار لڑکے ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں یہ قاعدہ تھا کہ جب کوئی راجہ اپنی بیٹی کی منگنی کرنا چاہتا تھا تو ایک بڑا جلسہ کر کے آس پاس کے راجائوں اور رئیسوں کے لڑکوں اور رشتیہ داروں کو جمع کرتا تھا اور ان میں سے جس کسی کے ساتھ لڑکی شادی کرنا چاہتی ۔ اس کے گلے میں اپنا ہار ڈال دیتی۔ اس جلسے کو سوئمبر کہتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد دوسرے ملک کے راجہ کی لڑکی کا سوئمبر ہوا۔ راجہ وکرم نے اس لڑکے کو سوئمبر میں جانے کا حکم دیا۔لیکن ان نے یہ خیال کر کے کہ نہیں معلوم میں کون ہوں اور کس کا بیٹا ہوں وہاں جانے سے انکار کیا۔ راجہ اس پر ناراض ہوا اورراجہ کے غصے سے ڈر کر اس لڑکے کو سوئمبر میں جانا پڑا۔ جب وہاں پہنچا تو اس کی بڑی خاطر تواضع ہوئی۔ اور دعوت کا سامان ہونے لگا۔ آخر ایک روز اسے دربار میں بلایا گیا۔ جہاں بڑے بڑے شہزادے اچھے اچھے لباس پہنے راجہ کی خوبصورت بیٹی کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ لڑکا معمولی کپرے پہنے دربار میں پہنچا اور سب کے پیچھے جا کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں راجہ کی بیٹی جو سارے ملک میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی۔ دربارمیں آئی اور شرمائی ہوئی نظروں سے ان سب شہزادوں کو دیکھا ۔ سب شہزادے اس کی طرف امیدیں لگانے دیکھ رہے تھے۔ لیکن یہ لڑکا شرم کے مارے اوپر کو نظر بھی نہ اٹھاتا تھا۔ آنکھیں نیچی کیے اپنی جگہ پر بیٹھا تھا ۔ اتنے میں راجہ کی بیٹی آگے بڑھی اور شرما کر اپنا ہار اس لڑکے کے گلے میں ڈال دیا۔ لڑکا مارے تعجب اور حیرت کے کچھ دیر چپ رہا اور پھر اس کے بعد اس نے راجہ کی بیٹی سے کہا کہ ’’میں ایک گمنام لڑکا ہوں اور ہر گز اس قابل نہیں کہ تم سے شادی کر سکوں اس وجہ سے تمہارا ہار واپس کرتا ہوں۔ تم کسی اور کو پسند کر لو۔ اگلے روز پھر جلسہ ہوا اور راجہ کی بیٹی نے دوبارہ اسی لڑکے کے گلے میں ہار ڈالا۔ لڑکے نے پھر یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ تم ایک مرتبہ اور سوچ لو۔ تیسرے دن پھر سب جمع ہوئے اور آج دو نئے آدمی بھی جلسے میں نظر آئے۔ ایک سادھو اور ایک اس کی خادمہ ۔ یہ دونوں اس لڑکے کے قریب بیٹھ گئے۔ راجہ کی لڑکی دربار میں داخل ہوئی اور تیسری مرتبہ اسی لڑکے کے گلے میں ہار ڈالا اس مرتبہ اس نے کچھ نہیں کہا۔ بیٹی والوں کو اپنی بیٹی کی اس حرکت پر سخت غصہ آیا ۔ جلسہ ختم ہونے والا تھا کہ وہ سادھو اٹھا اور یوں کہنے لگا۔ چھبیس برس ہوئے راجہ وکرم کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا۔ لیکن راجہ نے اس خیال سے اس بات کو چھپا لیا کہ لڑکا کہ لڑکا تعلیم و تربیت سے دل نہ لگائے گا۔ چنانچہ اس گمنامی کی حالت میںاس کی تعلیم ہوتی رہی۔ اور جب وہ ہر طرح قابل اور لائق ہو گیا تو راجہ نے اس کو سوئمبر کے جلسے میں بھیجا۔ وہاں راجہ کی بیٹی نے اس کی قابلیت اور شرمیلے برتائو کو دیکھ کر اس کے گلے میں ہار ڈال دیا۔ سادھو نے اس لڑکے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا اور کہا کہ وہ لڑکا یہی ہے اور میں راجہ وکرم ہوں اور یہ عورت میری بیوی اور اس لڑکے کی ماں ہے۔ لوگ تعجب سے اس قصے کو سنتے رہے اور راجہ اُجین کی عقلمندی کی تعریف کی۔ لڑکی والے اس خبر کو سن کر بے حد خوش ہوئے اور ان کا رنج و غصہ سب جاتا رہا۔ سوالات ۱- اس کہانی کو مختصر طور پر اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ ۲- اصلی شرافت کیا ہے؟اس کہانی سے ثابت کرو ۳- سوئمبر کسے کہتے ہیں؟ ۴- معنی بتائو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو:- مذاق اڑانا، آدمی بننا ۵- کلمات ذیل قواعد اردو کی رُو سے کیا کیا ہیں؟ تھوڑی، اپنی ، تم ، یہی۔ ۱۹-بچے کا پہلا احساس احساس محوِ رقص پرفشاں مُتصل شعاع مہر بچہ تنہا تو کھیل میں لگتا نہیں ہے دل اب جلد میرے بھائی کو واپس بلائیے پھر بھونرے محوِ رقص ہیں پھولوں کے مُتصل بھائی کدھر گیا میرا مجھ کو بتائیے؟ ------------ تتلی ہوا میں جا کے دکھاتی ہے اپنا رنگ ہوتی شعاعِ مہر میں جب پرفشاں ہے وہ بھائی بغیر اس سے بھی لگتا نہیں ہے دل واپس بلائیے اسے اماں! کہاں ہے وہ؟ ------------ پھولوں پہ دیکھ آئی ہوئی کیا بہار ہے جو پھول ہم نے بوئے تھے اماں! کنارِ باغ انگور کی جو بیل ہے سو بار دار ہے بھائی مرا کہاں ہے کہ لوٹیں بہارِ باغ سوالات ۱- یہ کونسا غم ہے جسے بچے نے محسوس کیا؟ ۲- کن کن چیزوں کو دیکھ کر بچے کو بھائی یاد آیا اور کیوں؟ ۳- بہار آنا اور بہار لوٹنا کے معنی بیان کرو اور انہیں اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- ذیل کے شعر کی نثر بنائو اور بتائو د وسرے مصرع میں وہ اسم ضمیر کا مرجع کون ہے۔ تتلی ہوا میں جا کے دکھاتی ہے اپنا رنگ ہوتی شعاعِ مہر میں جب پرفشاں ہے وہ ۲۰-تار گھر انتظامات متعجب طفلانہ مطمئن لالہ باسدیو تار گھر میں نوکر تھے۔ تیس روپے تنخواہ ملتی تھی۔ اس میں گھر بھر کا خرچ چلتا تھا ۔ ایک دن ان کا اکلوتا بیٹاکرشن گوپال جو ابھی چھ ہی برس کا تھا ۔ ان کے ساتھ تار گھر گیا اور تار کے انتظامات دیکھ کر بہت ہی متعجب ہوا وہ سوچنے لگا کہا س کا باپ گرگٹ کی آوازوں ہی سے کس طرح خبریں پا جاتا ہے۔ اس نے بہت کچھ سوچا لیکن اس کا چھوٹاسا دماغ کچھ سمجھ نہ سکا تو اس نے اپنے باپ سے دریافت کیا ۔ بابو جی! آپ کس طرح کھٹ کھٹ ہی کی آوازوں سے خبریں سمجھ لیتے ہیں؟ میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔ با سدیو اپنے گوپال کی بھولی بھالی باتیں سن کر ہنسنے لگا۔ اور جواب دیا ۔ بیٹا! اس کا سمجھنا سیکھنے سے ہوتا ہے۔ میں نے سیکھا ہے اسی سے سمجھ لیتا ہوں۔ جب تم بھی سیکھ لو گے تو تار کا کام تم کو بھی معلوم ہو جائے گا۔ کرشن گوپال نے کہا ۔ میں روز آپ کے ساتھ آیا کروں گا۔ اور دیکھوں گا کہ آپ کے پاس کیسی خبریں آیا کرتی ہیں۔ باسدیو نے کہا۔ نہیں گوپال تم ابھی بچے ہو ۔ ابھی یہ سب باتیں نہیں سمجھ سکتے۔ جب تم بڑے ہو جائو گے تب سمجھ لو گے۔ کرشن گوپال کچھ اداس ہوا اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں اپنے باپ کی انگلیوں کو دباکر بولا ۔ لیکن میں تو تار کا طریقہ سیکھنا چاہتا ہوں ۔ آپ کے پاس کہاں کہاں سے خبریں آیا کرتی ہیں بابو جی! باسدیو۔ دور دور سے کبھی بمبئی سے کبھی دِلّی سے اور کبھی کاشی جی سے۔ کرشن گوپال یہ جواب پاکر دل میں بہت خوش ہوا اور بولا اچھی بات ہے ۔ یہ علم سیکھ کر میں بھی آپ کی طرح روز یہی کام کروں گااور روزانہ ایک تار راجہ کو بھیجا کروں گا۔ باسدیو نے بھی اس طفلانہ خوشی میں اپنے بچے کا ساتھ دیا اور پوچھا ۔ اچھا یہ تو بتائو تم اپنے راجہ کو کیا تار دو گے؟ کرشن گوپال۔ میں تار دوں گا کہ راجہ جی فوراً میرے پاس آئیے ۔ میں آپ کے درشن کرنا چاہتا ہوں۔ باسدیو ۔ (ہنس کر) اور جب تمہارے راجہ آئیں تو ان سے بہت سا روپیہ مانگنا۔ اس سے ہم لوگ ایک عالیشان محل بنوا لیں گے ۔ تم کو اچھے اچھے ریشمی کپڑے بنوا دیں گے اور تمہاری ماںکے لیے سونے کے زیور خرید دیں گے۔ کرشن گوپال کا دل ان باتوںسے مطمئن نہیں ہوا۔ وہ بولا۔ نہیں بابوجی! میں روپیہ نہیں مانگوں گا۔ جب راجہ میرے پاس آئیں گے تو میں ان سے ایک ریشمی خوبصورت رسی ، ایک چھوٹا سا کھٹولا جھولا جھولنے کے لیے مانگوں گا اور ساتھ کھیلنے کے لیے دو چار ہمجولی لڑکے۔ بس میں تو یہی چاہتا ہوں۔ اس قسم کی باتیں کرتے ہوئے شام کو باپ بیٹے گھر واپس ہوئے ۔ کرشن گوپال کی ماں نے اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو چھاتی سے لگا کر پیار کر لیا۔ لیکن گوپال جب تک جاگتا رہا۔ تار گھر کی عجیب و غریب باتیں اپنی ماں کو سناتا رہا۔ (۲) دوسرے ہی دن سے کرشن گوپال نے ایک تار گھر اپنے ہی مکان پر بنایا۔ وہ ایک پتھر کا ٹکڑا لیتا اور اسے میز پر کھٹکھٹاتا۔بس اسی طرح وہ تار بھیجتا۔ اس کی ماںاگر پوچھتی ۔ کہ گوپال ! کیا کر رہا ہے؟ تو ہو جواب دیتا میں راجہ کو تار بھیج رہا ہوں اور پھر کھٹ کھٹ تار برقی شروع ہو جاتی ۔ اس نے اپنی ماں سے طے کر لیا تھا کہ اگر وہ ایک بار کھٹ کرے تو اس کامطلب ہے کہ وہ پیاسا ہے اگر وہ دو مرتبہ کھٹ کرے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بھوکا ہے اور کھانا چاہتا ہے اور اگر اس نے تین بار کھٹکھٹایا تو سمجھنا چاہیے کہ اسے نیند لگی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ دنوں تک یہ طریقہ ٹھیک جاری رہا ۔ ایک دن گوپال کی ماں اپنے دیوتا کی پوجا کر رہی تھی ۔ وہ پوجا میں آنکھیں بند کیے چپ چاپ دھیان میں مگن تھی کہ یکبارگی گوپاک کے تار کی آواز کان میں پہنچی۔ وہ پوجا پاٹ چھوڑ دوڑ کر اپنے بچے کے پاس پہنچ گئی اور کہا کیا چاہتا ہے گوپال! گوپال کھلکھلا کر ہنس پڑا اور بولا ۔ میں تو تمہارے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ مجھے تو کچھ بھی نہیں چاہیے۔ ماں نے کہا ۔ پوجا کے وقت تم مجھے نہ دِق کیا کرو۔ یہ کہہ کر وہ کچھ خفا ہو کر پتھر کا ٹکڑا پھینکنے لگی۔ گوپال نے پتھر اپنی ماں کے ہاتھ سے چھین کر کہا ۔ اچھی اماں! اسے مت پھینکو۔ اگر تم اسے پھینک دو گی تو میں اپنی خبریں تم کو یا راجہ کو کس طرح سے بھیجوں گا؟میں تو آزما رہا تھا کہ تم مجھے زیادہ پیار کرتی ہو یا اپنے دیوتا کو۔ یہ سنتے ہی مامتا کی ماری ماں خوش ہو گئی ۔ اس نے گوپال کو گود میں اٹھا لیا اور بڑے پیار سے کہا ۔ میرے لال! تم میرے دیوتا میں بھی ہو ۔ میں اس کی پوجا کے ساتھ تمہاری بھی پوجا کیا کرتی ہوں۔ کرشن گوپال نہیں سمجھا کہ اس کی ماں نے جو بات کہی اس میں کیا نکتہ تھا۔ اس نے اپنی چھوتی سے بانسری نکالی اور بجانے لگااور اس کی ماں اپنے بھولے بھالے گوپال کی طرف بڑے پریم سے دیکھنے لگی۔ سوالات ۱- کرشن گوپال نے اپنے گھر میں کس طرح تار گھر بنایا اور اپنی ماں سے اس نے کیا کیا اشارے مقرر کیے؟ وہ راجہ کو کیوں تار بھیجا کرتا تھا؟ ۲- کرشن گوپال نے پوجا کے وقت اپنی ماں کا کس بات میں امتحان کیا اور کس طرح؟ ۳- تار خبر کیسے پہنچتی ہے؟ ۴- ’’مگن ہونا ‘‘ کے معنی بتائو اور اسے اپنے فقرے میں استعمال کرو۔ ۲۱-چاند بی بی کی بہادری عاقِل قابِل تیغ زن غضنفر مسلم صف شکن نریمان سُہراب پیلتن اقامت ثنا خواں بہت عورتیں ایسی گزری ہیں عاقل جو مردوں سے بیشک زیادہ تھیں قابل ہنر میں تھیں یکتا فنوں میں تھیں کامل ہر اک بات کا فخر ان کو تھا حاصل غرض ان میں سے ایک تھی چاند بی بی دلاور تھی اور نیک تھی چاند بی بی چڑھا فوج لے کر جو فرزندِ اکبر کیا حملہ اس نے پھر احمد نگر پر بڑھی چاند بی بی بھی لے اپنا لشکر دِکھانے لگی رن میں مردوں کے جوہر وہ زن تھی مگر تیغ زن بھی بڑی تھی تھی سب فوج پیچھے وہ آگے کھڑی تھی بڑھایا دل انے سپہ کا یہ کہہ کر کہ اے شیر مردو! کسی کا ہے کیا ڈر لڑو رن میں بڑھ کر کی تم ہو غضنفر نہیں ہٹتے میداں سے مردِ دلاور جو بھاگو گے تو بھی نہ جاں سے بچو گے مرو رن میں لڑ کر کہ آخر مرو گے ضروری ہے انسان کو جاں سے گزرنا مُسلم ہے اس دہر سے کوچ کرنا مثل ہے کہ دنیا میں آخر ہے مرنا جو مرنا ہے پھر کیا ہے مرنے سے ڈرنا مرو رن میں لڑ کر کہ چرچے رہیں گے تمہیں بعد مرُدن بھی زندہ کہیں گے کرو کام وہ جس سے نامی وطن ہو غلامی سے آزاد ملک دکن ہو صفیں چیر ڈالو کہ تم صف شکن ہو نریماں ہو، سہراب ہو، پیلتن ہو لڑو گے اگر آج میداں میں بڑھ کر دعا تم کو سب دینگے تاریخ پڑھ کر رہے گا کتابوں میں یہ ذکر عزت لڑی تھی کوئی بادشاہوں سے عورت نہ باقی رہے گی عمارت نہ دولت مگر نام عزت کو ہے کچھ اقامت فدا جاں کرو ملک اور مال پر تم کہ دنیا میں چمکو گے مثل قمر تم یہ کہہ کر جو ببی نے ڈھارس بندھائی تو ان کی سمجھ میں بھی کچھ بات آئی ہزاروں نے لاکھوں سے کی وہ لڑائی کہ اب تک ثنا خواں ہے ساری خدائی رہی چاند بی بی نہ فرزندِ اکبر فسانہ مگر ان کا ہے ہر زبان پر مشقی سوالات ۱- چاند بی بی کون تھی اس نے اپنی فوج کا دل بڑھانے کے لیے تقریر کی ۔ آسان نثر میں بیان کرو۔ ۲- ’’تمہیں بعد مُرون بھی زندہ کہیں گے‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۳- یکتا، مسلم، ڈھارس ، ثنا خواں کے معنی بتائو اور فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- اس نظم میں اسم معرفہ کون کون سے ہیں اور فعل مستقبل کی کون کون سی مثالیں ہیں؟ ۲۲-روضۂ تاج محل لاجواب با عصمت خاتون دلدادہ قضائے الٰہی داغ مفارقت دلرُباء ممتاز کہ ومہ گرویدہ زرِ کثیر روضۂ تاج محل ہندوستان کی سب سے مشہور عمارت ہے اور ہندوستان پر کیا موقوف ہے۔ اپنی طرز میں دنیا بھر میںلاجواب ہے ۔ یہ روضہ ایک باعصمت خاتون کی یاد گار ہے۔ جس کا وفادار اور دلدادہ شوہر شاہجہاں شہنشاہِ ہندوستان تھا۔ جب قضائے الہٰی سے یہ بادشاہ بیگم جس کا نام ممتاز محل تھا اور جسے بادشاہ پیار سے تاج محل کہا کرتے تھے اپنے شوہر کی زندگی میں فوت ہو گئی اور اسے داغ مفارقت دے گئی۔ تو بادشاہ نے اپنی محبت کو اس آرام گاہ کے بنانے اور سجانے میں صرف کر دیا۔ جس میں اس کی دل کی مالک بیوی ہمیشہ کے لیے سوتی تھی۔ دارالسلطنت آگرہ میں دریائے جمن کے کنارے خالص سنگ مرمر کا ایک عالی شان مقبرہ تیار ہوا۔ جس کے وسط میں بادشاہ بیگم کی قبر بنی۔ اور کچھ عرصے بعد اس قبر کے قریب شاہجہان بھی جا لیٹا۔ روضۂ تاج محل کی خوبصورتی اور دلربائی جس کی ایک دنیا شیدائی ہے۔ کیا صرف سنگِ مرمر کی نفیس جالیوں سے پیدا ہوئی جو مزار کے ارد گرد بنی ہوئی ہیں؟ یا ان گلکاریوں کا نتیجہ ہے جن سے باکمال استادوں نے سنگِ مرمر کی سفید زمین میںسرخ و سبز قیمتی پتھروں کے نگینے جڑ کر اپنی ہُنرمندی کے جوہر دکھائے ہیں۔ یہ سب چیزیں بجائے خود دلکش ہیں۔ مگر باوجود ان کے ممکن تھا کہ روضۂ ممتاز اس قدر ممتاز نہ ہوتا۔ یہ آب جو اس در ِ خوش آب میں موجود ہے اورجوہر کہ ومہ کو گرویدہ کر لیتی ہے یہ اس سچی محبت کی برکت سے ہے جس نے شاہجہان سے روضہ کی بنیاد رکھوائی تھی۔ یورپ کے سیاحوں نے اس عمارت کو عجیب عجیب ناموں سے یاد کیاہے۔ چنانچہ بعض نے لکھا ہے کہ عمارت کیا ہے ایک دلآویز خواب ہے جو سنگ مرمر کی صورت میں جلوہ آرا ہوا ہے۔ بعض اور ہیں جو کہتے ہیں نہیں یہ ایک دلپذیر نظم ہے۔ جس میں صناع نے اپنی شاعری کے اظہار کے لیے سنگِ مرمر سے کاغذ کا کام لیا ہے۔ فن تعمیر کے جاننے والے مدتوں سے اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ یہ نادِر عمارت کس کاریگر کے ہاتھ کی بنی ہوئی ہے کوئی کہتا ہے کہ شاہجہان نے ملک اطالیہ سے کاریگر بلوائے تھے اور اس کی زیر نگرانی یہاں کے بڑے بڑے استاد جو ملک کے ہر گوشے سے جمع ہو گئے تھے۔ کام کرتے تھے۔ کوئی کہتا ہے ۔ نہیں اس کے بنانے والے یہیں کے رہنے والے تھے۔ آج کل سے اندازہ نہ لگائیے۔ جب سب پُرانی صنعتیں مٹتی چلی جاتی ہیں۔ اس وقت ہر فن کا کامل استاد ہندوستان میں موجود تھا۔ ایک ضعیف سی مگر نہایت مشہور روایات یہ بھی ہے کہ شاہجہان نے کاریگروں کو انعام واکرام دے کر رخصت کرتے وقت ان کے ہاتھ کٹوا دیے تھے۔ تاکہ اور کہیں ایسی عمارت نہ بنا سکیں۔ مگر میرا دل اس روایت کے ماننے پر سوائے صحیح اور مستند تاریخی ثبوت بہم پہنچنے کے کسی طرح تیار نہیں۔ میں نے جب روضۂ ممتاز کو دیکھا تو پہلا خیال جو میرے دل میں آیا اور جو برابر اور سب خیالات پر غالب رہا وہ یہی تھا کہ یہ جمال سے ملا ہوا جلال جو اس عمارت پر برستا ہے ۔ وہ محض کاریگری یا محض صرفِ زرِ کثیر سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ شاہجہان کا عہد ہندوستان میں عمارت کے اعتبار سے سب بادشاہوں کے زمانوں سے بڑھا ہوا تھا اور بہت سی نفیس اور خوش نما عمارتیں اس کے عہد کی یاد گار ہیں۔ وہ سب بڑے بڑے کاریگروں کے ہاتھ سے بنیں اور سب پر بے شمار روپیہ لگا۔ پھر بھی کسی میں یہ بات پیدا نہ ہوئی ۔ جو تاج محل آگرہ میں ہے اس کا سبب یہی ہے کہ وہ شوقِ نام ونمود کا نتیجہ تھیں اور یہ خلوص کا۔ سوالات ۱- روضۂ تاج محل کس نے بنایا؟ اور اسکے بنانے سے کیا غرض تھی؟ ۲- تاج محل کے متعلق کیا کیا باتیں مشہور ہیں؟ ۳- کاریگروں کو انعام و اکرام دینے کے بعد بادشاہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیوں؟ کیا یہ روایت معتبر ہے؟ ۴- دلکش، ممتاز، سیاح، لآویز، صناع کے معنی بتائو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ----------------------- ۲۳-سچی دوستی الوا لقاسم ضبط مردانگی خاتمہ ہمدم و یاور ایک مشہور شخص بیرم خان تھا ہمایوں کی فوج کا افسر دی ہمایوں کو شیر شہ نے شکست ہو گیا سب تِتر بِتر لشکر بھاگ نکلا وہاں سے بیرم بھی سینگ اس کے جدھر سمارے اُدھر اک سپاہی بھ ساتھ تھا اس کے تھا جو بیرم کا ہمدم و یاور تھا سپاہی کا نام ابوالقاسم دوستی کا تھا خاتمہ اس پر چھپتے پھرتے تھے دونوں بے چارے جنگلوں جنگلوں ادھر سے اُدھر ڈھونڈتا پھر رہا تھا بیرم کو ہر طرف شیر شہ کا لشکر ایک دن بیرم اور ابو القاسم دونوں بیٹھے تھے اک جگہ تھک کر اتنے میں ایک فوج کا دستہ آیا آتا ہوا ادھر کو نظر آئے اور آکے ان کو گھیر لیا بھاگتے وہ تو بھاگتے کیونکر شکل دونوں کی ملتی جلتی تھی ایسا ہوتا ہے اتفاق اکثر سمجھا دشمن کہ ہے یہ بیرم خان پڑی قاسم کے چہرے پر جو نظر اسی دھوکے میں آکے حکم دیا ہے یہ بیرم اُڑا دو اس کا سر سن کے بیرم سے ضبط ہو نہ سکا اور کہا اس نے سامنے آکر نہیں یہ بلکہ میں ہوں بیرم خاں مارنا مجھ کو چاہتے ہو اگر اس پر قاسم نے اپنے دل میں کہا اب وفا کے دکھائیے جوہر اور پھر وہ یہ سوچ کر بولا میں ہوں بیرم یہ ہے مرا نوکر ہے وفا دار یہ بہت میرا جان میرے بچائی ہے اکثر اتنا سنتے ہی اک سپاہی نے کیا اک وار بڑ کے قاسم پر واہ شاباش! اے ابو القاسم! یہی مردانگی کے ہیں جوہر جان دی اپنی دوسرے کے لیے دوستی کا ہے خاتمہ تجھ پر سوالات ۱- بیرم خان کون تھا؟ہمایوں سے اس کا کیا تعلق تھا؟ ۲- ابو القاسم کون تھا؟ اس کی وفاداری کا قصہ نثر میں بیان کرو۔ اس سے بیرم کی کیا خوبی معلوم ہوتی ہے۔ ۳- سینگ سمانا، جوہر دکھانا کا مطلب بتائو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- ڈھونڈتا پھر رہا تھا ۔ فعل کس زمانے سے تعلق رکھتا ہے؟ ----------------------- ۲۴-ہاتھوں کی نمائش شرافت بلور یقین شرمندہ کسی دریا کے کنارے چار امیر عورتیں بیٹھی ہاتھ مُنہ دھو رہی تھیں۔ ایک نے دوسری سے کہا۔ بہن! دیکھنا میرے ہاتھ پائی میں کتنے اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری عورت بے پروائی سے ہاں۔ مگر تمہارے ہاتھ میرے ہاتھوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ یہ بات تیسری نے جو سنی تو وہ مسکرائی۔ ان دونوں نے پوچھا کیوں بہن! تم کیوں ہنس رہی ہو؟ اس نے کہا۔ تم دونوں کی عقلمندی پر اور کیوں؟ اپنے مُنہ میاں مٹھو بننا کون سی شرافت ہے اور جو سچ پوچھو تو نہ تمہارے ہاتھ اچھے ہیں نہ ان کے ۔ ہاتھ ہیں میرے یہ دیکھو نا! کیسے سڈول ہیں۔ چوڑیاں کیسی پھنسی وہ اتنا ہی کہنے پائی تھی کہ چوتھی کوتائو آیا اس نے کیا کیا ۔ جلدی سے اپنی آستین چڑھائی اور ہاتھ کو عجب انداز سے کھڑا کر کے بولی۔ دیکھا! ہاتھ ایسا ہوتا ہے اور اب تو کچھ بھی نہیں ۔ ہاں تھا کبھی بچپن میں میری کلائیاں ایسی تھیں ۔ جیسے بلور صاف شفاف۔ یہ سن کر تینوں عورتوں کو ہنسی آگئی۔ چوتھی کو کہاں تاب؟ ماتھے پر بل ڈال کر بولی ۔ اے واہ! تمہیں یقین ہی نہیں آتا ۔ سچ مچ۔ ہاں ! میں نے کئی دفعہ اپنی کلائی میں چاند دیکھا ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اتنے مین ایک لنگڑی فقیرنی ادھر آنکلی اور ان سے کچھ کھانے کو مانگا۔ انہوں نے دیا دلایا تو کچھ نہیں ۔ بولیں کیوں ری بڑھیا! ہم چاروں میں کس کے ہاتھ اچھے ہیں؟ بڑھیا یہ کہتی ہوئی آگے بڑھی کہ پیٹ بھرے گا تو بتا دوں گی۔ وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک غریب کالی سی عورت بیٹھی کپڑے دھو رہی تھی۔ بُڑھیا نے اس سے بھی وہی سوال کیا۔ غریب عورت نے اپنا رومال کھولا اور بولی۔ لے مائی! میں اپنے لیے دو روٹیاں لائی تھی ایک ان میں سے تُولے لے۔ بڑھیا نے روٹی کھا کر پانی پیا ۔ خدا کا شکر ادا کیا اور اس عورت کو سینکڑوں دعائیں دیں۔ جب پیٹ میں پڑ گئی تو بڑھیا کو کیا سوجھی ۔ اس غریب عورت کو اپنے ساتھ لے کر امیر عورتوں کے پاس آئی اور کہنے لگی بیٹیو! تم امیروں سے اس غریب کے ہاتھ اچھے ہیں ۔ جنہوں نے مجھ اپاہج کا پیٹ بھرا۔ یہ کہہ کر بڑھیا وہاں سے چل دی۔ امیر عورتیں بہت شرمندہ ہوئیں اور عہد کیا کہ پھر کبھی ایسا نہ کریں گے۔ سوالات ۱- ہاتھوں کی خوبصورتی کس بات میں ہے؟ ۲- اس کہانی کو اپنے لفظوں میں مختصر طور پر بیان کرو۔ ۳- ’’اپنے مُنہ میاں مٹھو بننا‘‘ کو اپنے فقرے میں استعمال کرو۔ ۴- روٹی کھا کر پانی پیا۔ اس فقرے کے دو فقرے بنائو۔ نیز ’کر ‘ کی جگہ اور کون کون سا لفظ بول سکتے ہیں؟ ----------------------- ۲۵-پھول اور کانٹا گُلشن قدر داں شادی و غم گُلچیں حُسن و نزاکت ایک دن پھول نے کانٹے سے کہا جھُلجھلا کر کسی لیے رہتا ہے تو میرے برابر اکثر میں ہوں جس شاخ پہ رہتا ہے اسی جا تُو بھی رنگ و بُو میں برابر ہے مرے کیا تُو بھی مجھ میں ہے رنگ۔ نہیں اس کا پتہ بھی تجھ کو مجھ میں خوشبو ہے نہیں اس کی ہوا بھی تجھ میں میری رنگت سے زمانے کی ہیں آنکھیں روشن میری خوشبو سے بسا رہتا ہے سارا گلشن مجھ کو سب سر پہ چڑھاتے ہیں لگاتے ہیں گلے تجھ کو تو بھل کے بھی پائوں سے کوئی نہ ملے گود میں لیتے ہیں۔ ٹوپی میں لگاتے ہیں مجھے قدر کرتے ہیں میری، سر پر چڑھاتے ہیں مجھے تُو ستاتا ہے تری نوک سے سب ڈرتے ہیں پاس جاتا نہیں کوئی ترے سب ڈرتے ہیں قدر داں ایسے بھی دنیا میں ہیں اکثر میرے میز پر رکھتے ہیں گُلدستے بنا کر میرے تجھ کو در پر بھی تو رہنے نہیں دیتا کوئی پھینکنے کو بھی نہیں ہاتھ میں لیتا کوئی دیکھ لوگوں نے بڑھایا ہے یہ رتبہ میرا سر پہ دولھا کے بندھا کرتا ہے سہرا میرا کبھی سیجوں پہ لگاتے ہیں وہ چادر میری کبھی قبروں پہ چڑھاتے ہیں وہ چادر میری مانگ ہوتی ہے مِری شادی و غم دونو میں دیکھ تو کتنا بڑا فرق ہے ہم دونو میں خوبیاں کونسی تجھ میں ہیں بتا اے کانٹے دیکھ دنیا میں تری قدر ہے کیا اے کانٹے نوک چُبھ جاتی ہے بن کر تیری نشتر اے خار خار کھائے ہوئے سب بیٹھے ہیں تجھ پر اے خار کس لیے ہاتھ میں گُلچین کے تُو چبھ جاتا ہے لینے آتا ہے وہ مجھ کو ترا کیا جاتا ہے جیسی ہے شکل ہے ایسا ہی بُرا نام تیرا دور ہو! چل! مِرے پہلو میں ہے کیا کام تیرا سن کے سب پھول کی تقریر یہ بولا کانٹا ٹھہر اے پھول! خفا ہونے سے حاصل ہے کیا کام کا تُو ہے اگر میں بھی تو بیکار نہیں بات یہ اور ہے تو اس سے خبر دار نہیں نہیں معلوم مِرے وصف جو مطلق تُجھ کو پھر بُرا کہنے کا اے پھول! ہے کیا حق تجھ کو تُو نے جو کچھ کہا وہ سب ہے درست اور بجا لیکن اے پھول! تُو اس حن و نزاکت پہ نہ جا خوشنما رنگ تِرا دیکھنے ہی کا ہے فقط بُو پہ اِتراتا ہے یہ دھوکا ہی دھوکا ہے فقط نہ یہ بُو رہتی ہے تجھ میں نہ یہ رنگت قائم عمرہے شام سے اے پھول! سحر تک تیری نہیں لیتا کوئی بعد اس کے خبر تک تیری گِر پڑے سُوکھ کے یا توڑ کے کوئی تجھ کو زندگی ہے یہی اللہ نے بخشی تجھ کو تیری خوشبو کی طرح ہے ترا آنا جانا تُو نے اک رات میں جینے کا مزا کیا جانا سر میں تیرے بھری اے پھول! ہے شیخی کتنی پھولتا کیا ہے بتا عمر اگر ہو اتنی جس کا یہ حال ہو اس حسن سے حاصل کیا ہے اس کے ہونے سے نہ ہونا ہی بہت اچھا ہے کیا کریں لے کے وہ دولت جو ہمیشہ نہ رہے بھاڑ میں جائے وہ صورت جو ہمیشہ نہ رہے نکلا سورج تو گیا رنگ بھی تیرا بُو بھی دن کا جانا تھا کی رخصت ہوا اے عمل! تو بھی تُو خفا ہوتا ہے کیوں دیکھ کے صورت میری ارے نادان! میں کرتا ہوں حفاظت تیری نوک چُبھ جاتی ہے جو توڑنے آتا ہے تجھے میرا نشتر ہی ہے اے گُل! جو بچاتا ہے تجھے میرے ہونے ہی سے بچ جاتے ہیں دو چار کبھی میں نہ ہوتا تو کوئی پھول نہ رہتا باقی باغ کے چار طرف بولتے ہیں مجھ کو مالی تاکہ پھل پھول کی چوروں سے کروں رکھوالی تار کانٹوں کے ہیں بنگلوں میں لگائے جاتے میری ہی نقل اڑائی ہے یہ انگریزوں نے میں اسی واسطے رستے میں پڑا رہتا ہوں بے تمیزی سے چلیں جو انہیں ہوشیار کروں خاک پر لڑکے جو ضد کر کے مچل جاتے ہیں ان کے چُبھتا ہوں کیے کی وہ سزا پاتے ہیں پاس تیرے نہیں ہتھیار حفاظت کے لیے اور مِری نوک ہے تیار حفاظت کے لیے بے خطا کوئی ستاتا ہے کسی کو اے پھول! کہ تُو دیتا ہے یہ الزام مُجھی کو اے پھول! جو نہ چھیڑے مجھے تکلیف اسے کیا دیتا ہوں ہاں مزا توڑنے والوں کو چکھا دیتا ہوں نوک جھونک اُن کی کہیں عقل نے بھی سن پائی سنتے ہی دونوں کے سمجھانے کو دوڑی آئی کہا دونوں سے کہ احمق نہ بنو۔ ہوش میں آئو اپنی تعریف نہ ہر گز کرو۔ باتیں نہ بنائو خود جو اچھے ہیں برا سن کے بھلا کہتے ہیں جو بُرے ہیں وہی اوروں کو بُرا کہتے ہیں ہاتھ سے اپنے بنایا ہے خدا نے تم کو خاص مخلوق اسی ایک کی تم دونوں ہو کام اس کا کوئی حکمت سے نہیں ہے خالی تم ہو جس باغ میں اس کا ہے وہی مالی اس نے بیکار کیا دونوں کو ہے پیدا؟ فائدہ کچھ بھی نہ ہوتا تو نہ کرتا پیدا یاد رکھو کہ ہے دنیا میں خوشی بھی غم بھی جس جگہ ہوتی ہے شادی ہے وہیں ماتم بھی رنج کے بعد مزا ملتا ہے راحت میں سوا اس لیے پھول کے رہتا ہے برابر کانٹا فائدہ کچھ ہے اگر گُل میں تو کچھ خار میںہے نفع دونوں میں ہے کیا فائدہ تکرار میں ہے سوالات ۱- پھول اور کانٹے کی گفتگو مختصر طور پر اپنی نثر میں بیان کرو؟ ۲- عقل نے دونوں کی گفتگو سن کر کیا سمجھایا؟ ۳- ذیل کے شعر کی نثر بنائو اور مطلب بیان کرو۔ رنج کے بعد مزا ملتا ہے راحت میں سوا اس لیے پھول کے رہتا ہے برابر کانٹا ۴- ’کہتے ہیں‘ میں کون سا زمانہ ہے؟ اگر ’ہیں‘ کو ’تھے‘ سے بدل دیں تو پھر کونسا زمانہ ہو جائے گا؟ ----------------------- ۲۶-ہاتھوں کی نمائش عمامہ شفقت اعزاز واکرام عفو تقصیرات بساط جو کچھ مرزا عسکری ( ہمایوں بادشاہ کا بھائی اور اکبر کا چچا) کے ہاتھ آیا۔ لُوٹا کھسوٹا اور اکبرکو بھی اپنے ساتھ قندھار لے گیا۔ قلعے کے اندر ایک بالا خانہ رہنے کے دیا اور سلطان بیگم اپنی بی بی کے سپرد کیا۔ بیگم بڑی محبت و شفقت سے پیش آتی تھی۔ خد ا کی شان دیکھو۔ باپ کے جانی دشمن بیٹے کے حق میں ماں باپ ہو گئے۔ ماہم اور جیجی اندر۔ میر غزنوی باہر خدمت میں حاضر رہتے تھے یا عنبر خواجہ سرا تھا کہ اکبری اقبال کے دور میں اعتماد خان ہو کر بڑا صاحب اقتدار ہوا۔ ترکوں میںرسم ہے کہ بچہ جب پائوں چلنے لگتا ہے تو باپ دادا چچا وغیرہ میںسے جو بزرگ موجود ہو وہ اپنے سر سے عمامہ اتار کر بچے کو چلتے ہوئے مارتا ہے اس طرح کہ بچہ گِر پڑے اور اس کی بڑی خوشی سے شادی کرتے ہیں۔ جب اکبر سوا برس کا ہوا اور پائوں چلنے لگا تو ماہم نے مرزا عسکری سے کہا کہ یہاں تم ہی اس کے باپ کی جگہ ہو ۔اگر یہ رسم ادا ہو جائے تو شفقت بزرگانہ سے بعید نہ ہوگا۔ اکبر کہا کتا تھا کہ ماہم کا یہ کہنا اور مرزا عسکری کا عمامہ پھینکنا اور اپنا گِرنا وہ ساری صورت حال مجھے اب تک یاد ہے۔ ان ہی دنوں میں سر کے بال بڑھانے کو باباحسن ابدال کی درگاہ میں لے گئے ۔ کہ قندھار میں ہے وہ بھی آج تک مجھے یاد ہے۔ جب ہمایوں ایران سے پھرا اور افغانستان میں آمد آمد کا غل ہوا تو مرزا عسکری اور کامران گھبرائے۔ آپس میں دونو کے نامہ وہ پیام دوڑنے لگے۔ کامران نے لکھا کہ اکبر کو ہمارے پاس کابل میں بھیج دو ۔ مرزا عسکری نے یہاں مشورت کی ۔ بعض سرداروں نے کہابھائی اب پاس آ پہنچا ہے۔ اعزاز و اکرام سے بھتیجے کو بھیج دو اور اسی کو عفو تقصیرات کا وسیلہ قرار دو۔ بعض نے کہا کہ اب صفائی کی گنجائش نہیں رہی۔ مرزا کامران ہی کا کہنا ماننا چاہیے۔ مرزا عسکری کو بھی یہی مناسب معلوم ہوا۔ اکبر کو سب متعلقوںکے ساتھ کابل بھیج دیا۔ مرزا کامران نے انہیں خانزادہ بیگم اپنی پھوپھی کے گھر اتروایا اورا ن کے کاروبار بھی انہیں کے سپرد کیے۔ دوسرے دن باغ شر آرا میں دربار کیا اور اکبر کو بھی دیکھنے کو بلایا۔ اتفاقاً شب برات کا دن تھا۔ دربار خوب آراستہ کیا۔ وہاں رسم ہے کہ بچے اس دن چھوٹے چھوٹے نقاروں سے کھیلتے ہیں۔ مرزا ابراہیم اس کے بیٹے کے لیے رنگین و نگارین نقارہ لایا۔ اس کے لے لیا۔ اکبر بچہ تھا۔ کیا سمجھتا تھا کہ میں کس حال میں ہوں اور یہ کیا وقت ہے۔ اس نے کہا ۔ یہ نقارہ میں لوں گا۔ مرزا کامران تو پورے حیا دار تھے انہوں نے بھتیجے کی دلداری کا ذرا خیال نہ کیا کہا کی اچھا دونوں کُشتی لڑو ۔جو پچھاڑے اس کا نقارہ۔ یہی خیال ہو گا۔ کہ میرا بیٹا اسے سے بڑا ہے دے مارے گا۔ یہ شرمندہ بھی ہو گا اور چوٹ بھی کھائے گا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ہوتے ہیں۔ وہ نو نہال اقبال مند ان باتوں کو ذرا خیال میں نہ لایا۔ جھٹ لڑنے کو آگے بڑھا ۔لپٹ کر گُتھ پُتھ ہو گیا اور ایسا بے لاگ اٹھا کر مارا کہ دربار میں غُل اٹھا۔ کامران کچھ شرمندہ ہوا اور کچھ اپنے حال کو سوچ کر چُپ رہ گیا کہ آثار اچھے نہیں۔ ادھر والے باغ باغ ہو گئے اور اندر اندر آپس میں کہا کہ اسے کھیل نہ سمجھو یہ باپ کا دمامۂ دولت لیا ہے۔ جب ہمایوں نے کابل فتح کیا ۔ تو اکبر دو برس دو مہینے آٹھ دن کا تھا۔ بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں روشن کیں اور خدا کا شکر بجا لایا۔ چند روز کے بعد تجویز ہوئی کہ ختنہ کی رسم ادا کی جائے۔ بیگم وغیرہ حرم سرا کی بیبیاں قندھار میں تھیں۔ وہ بھی آئیں اس وقت عجب تماشا ہوا۔ ظاہر ہے کہ جب ہمایوں اور اس کے ساتھ بیگم ایران کو گئے تھے اس وقت اکبر کی کیا بساط تھی ۔ دنوں اور مہینوں کا ہوگا۔ اتنی سی جان کیا جانے کہ ماں کو ن ہے؟ اب جو سواریاں آئیں تو ان سب کو لا کر محل میں بٹھایا۔ اکبر کو بھی لائے اور کہا کہ جائو مرزا! اماں کی گود میں جا بیٹھو ۔ بھولے بھالے بچے نے پہلے تو بیچ میں کھڑے ہو کر ادھر اُدھر دیکھا ۔ پھر خواہ دانشِ خداداد کہو ۔ خواہ دل کی کشش کہو۔ خواہ لہو کا جوش کہو۔ سیدھا ماں کی گود میں جا بیٹھا ۔ماں برسوں سے بچھڑی ہوئی تھی۔ آنکھو سے آنسو نکل پڑے۔گلے سے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا۔ اس عمر میں اس کی سمجھ اور پہچان پر سب کو بری بڑی امیدیں ہوئیں۔ ۹۵۴ہجری میں جب کامران پھر باغی ہوا کابل کے اندر تھا اور ہمایوں باہر گھیرے پڑا تھا۔ ایک دن دھاوے کا ارادہ تھا۔ باہر سے گولے برسانے شروع کیے ۔ اکثر اشخاص کے گھر اور گھر والے اندرتھے۔ خود ہمایوں کے لشکر میں شامل تھے۔ بے درد کامران نے ان کے گھر لوٹ لیے ۔ ان کے بچوں کو مار کر فصیل پر پھنکوا دیا۔ غضب یہ کیا کہ جس مورچے پر گولوں کا زور تھا ۔ پونے پانچ برس کے معصوم بھتیجے کو وہاں بٹھا دیا۔ ماہم نے گود میں دبکا لیا۔ اور ادھر سے پیٹھ کے کے بیٹھ گئی کہ اگر گولہ لگے تو بلا سے پہلے میں پیچھے بچہ۔ ہمایوں کے لشکر میںکسی کو اس حاسل کی خبر نہ تھی۔ یکا یک توپ چلتے چلتے بند ہو گئی ۔ کبھی مہتاب دکھائی ۔ تو رلجک چاٹ گئی۔ کبھی گولہ اُگل دیا۔ سنبل خان میر آتش بڑا تیز نظر تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو سامنے آدمی بیٹھا معلوم ہوا۔ دریافت کیا تو یہ حقیقت حال معلوم ہوئی۔ سوالات ۱- مرزا کامران اور مرزا عسکری سے اکبر کا کیا رشتہ تھا؟ ۲- مرزا کامران نے اپنے بیٹے اور اکبر کی کُشتی کیوں کرائی اور کیا نتیجہ ہوا؟ ۳- جب کابل میں کامران کا ہمایوں سے مقابلہ ہوا تو اکبر پر کیا حادثہ گزرا اور اس وقت کس نے جان نثار ی کی؟ ۴- ’’مرزا کامران تو پورے حیا دار تھے‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۵- اس سبق میںاسم صفت کون کون سے ہیں؟ ان کے ساتھ اپنی طرف سے موصوف لگائو۔ ----------------------- ۲۷-اندھا لڑکا نظارا آشکارا عجائب اختیار ہاں ہاں! مجھے بتا دو کیا چیز روشنی ہے قسمت میں میری لکھا جس کا نہیں نظارا کیا چیز ہے بصارت؟ وہ کس لیے بنی ہے؟ اس اپنے اندھے لڑکے پر کر دو آشکارا -------------- ہو دیکھتے عجائب کرتے ہو ذکر ان کا کہتے ہو مہرِ تاباں جلوے ہے یوں دکھاتا بیشک وہ گرم تو ہے روشن ہے یہ نہ دیکھا دنیا میں کس طرح ہے دن رات وہ بناتا -------------- دن رات میں تو اپنے ہوں آپ ہی بناتا جب سو گیا تو شب ہے کھیلا کیا تو دن ہے اور اس طرح ہمیشہ گر کھیلتا ہوی جاتا گر آدھی رات ہوتی کہتا میرا تو دن ہے -------------- سنتا ہوں سرد آہیں تم کھینچتے ہو اکثر کرتے ہو سوزِ دل سے غم میری بے بسی کا لیکن یہ میرا نقصاں بھاری نہیںہے مجھ کو میں جھیلتا ہوں اس کو کچھ بھ نہیں ہے پروا ---------------- جس چیز پر نہیں ہے کچھ اختیار مجھ کو وہ کیوں مجھے بنا دے اک کم نصیب لڑکا ہوں بادشاہ جس دم گاتا ہوں شاد ہوہو ہوں گرچہ دیکھنے میں اندھا غریب لڑکا سوالات ۱- اندھے لڑکے نے روشنی کے متعلق سے کیا گفتگو کی اپنے لفظوں میں بیان کرو۔ ۲- اندھا لڑکا دن رات کا اندازہ کس طرح کرتا ہے ؟ رات اس کے نزدیک کب دن ہے؟ ۳- لڑکے نے ماں کی کس طرح تسلی کی کہ مجھے اندھا ہونے کا رنج نہیں ہے؟ ۴- دوسرے بند کے پہلے شعر کی نثر بنائو۔ ۵- اسسبق میں ضمیریں کون کون سی ہیں؟ اور پہلے شعر میں ’مجھے‘ کا مرجع کون ہے؟ ----------------------- ۲۸-اصلی اور نقلی پھُولوں کی پہچان سلیمانؑ شُہرت مصنوعی آج سے صدیوں پہلے شام کے ملک میں ایک پیغمبر گذرے ہیں۔ جو اپنی قوم کے بادشاہ بھی تھے۔ ان کا نام سلیمانؑ تھا۔ کہتے ہیں وہ تمام دنیا کے جانوروں کی بولیاں سمجھتے تھے ان کی دانائی کی شہرت دوردورتک تھی۔ اور دوردراز ملکوں سے لوگ ان کا امتحان لینے کے لیے آیا کرتے تھے۔ سلیمان ؑ سبک کو ایک ہی نظر میں جانچ لیتے تھے اور کبھی کسی کے دھوکے میں نہ آتے تھے۔ ملک ِ سبا کی ملکہ کے کانوں تک بھی سلیمان ؑ کی شہرت پہنچی۔ یہ بھی اپنے زمانے کی ایک عقلمند ملکہ تھی۔ اس نے سوچا کہ میں بھی تو سلیمانؑ کی دانائی کا امتحان لوں۔ دیکھوں تو کیسی عقل کے آدمی ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے باغ میںگئی ۔ چند تازہ اور خوبصورت پھول چنے اور ویسے ہی موم کے مصنوعی پھول بھی بنوا لیے۔ پھر اپنے ملک کے نہایت ہوشیار اور تجربہ کار مالیوں کو بلایا اور سب کے سامنے اصلی اور نقلی پھول رکھے۔ جب ان میں سے کوئی اصل اور نقل میں فق نہ کر سکا تو ملکہ کو یقین ہو گیا کہ میں ضرور سلیمانؑ کو نیچا دکھا دوں گی۔ آخر وہ سلیمانؑ کے دربار میں پہنچی اور صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی عقل اور علم کی شہرت سن کر بڑی دور سے امتحان لینے حاضر ہوئی ہوں یہ کہہ کر اس نے دو تھالیوں میں علیحدہ علیحدہ اصلی اور نقلی پھول رکھ دیے اور سلیمانؑ سے کہا ۔ بس آپ مجھے یہ بتا دیجیے کہ کس تھا ل میں اصلی پھول ہیں اور کس میں نقلی؟ سلیمان ؑ نے پہلے تو کچھ سوچا ۔پھر انہوں نے دیوار پر بیٹھی ہوئی شہد کی مکھی کو اُڑا دیا اور وہ اُڑ کر اصلی پھولوں پر آبیٹھی۔ تب سلیمانؑ نے ملکِ سباکی شہزادی سے کہا۔ دیکھ اے عقلمند ملکہ ایک مکھی اصل سے نقل بتا رہی ہے۔ سوالات ۱- حضرت سلیمانؑ کون تھے؟ ۲- ملکِ سبا کی شہزادی نے ان کی عقل کا امتحان کس طرح کیا؟ اور حضرت سلیمانؑ کس طرح اس میں پورے اترے؟ ۳- ’’نیچا دکھانے‘‘ کے کیا معنی ہیں؟ کسی فقرے میں استعمال کرو۔ ۴- اس سبق میں اسمِ علم کون کون سے ہیں؟ ----------------------- ۲۹-قطب صاحب کی لاٹھ احاطۂ تقریر مدُوّر منبّت کاری ماذنہ مُعِز الدین قرین قیاس ابولمعالی ۱- اس عمارت کی رفعت و شان۔ بلندی اور خوش نمائی احاطہ ٗ تقریر سے باہر ہے ۔ حقیقت میں یہ عمارت ایسی ہے کہ روئے زمین پر اپنا مِثل نہیں رکھتی۔ نقل مشہور ہے۔ کہ اگر اس کے نیچے کھڑے ہو کر اوپر دیکھو تو ٹوپی والے کو ٹوپی اور پگڑی والے کو پگڑی تھام کر دیکھنا پڑتا ہے۔ اس لاٹھ پر سے نیچے کے آدمی ذرا ذرا سے معلوم ہوتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے آدمی اور ننھے ننھے ہاتھی ۔ گھوڑے دکھائی دینے سے عجیب کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح نیچے والوں کو اوپر کے آدمی بہت چھوٹے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ غرض یہ لاٹ عجائب روز گار سے ہے۔ باوجود اس قدر بلندی اور عظمت کے ایسی خوبصورت اور خوش قطع بنی ہوئی ہے کہ بے اختیار دیکھنے کو جی چاہتا ہے ۲- اس لاٹ کے نیچے کے درجے کی ایک سمت مدور اور ایک کمرکھی بنی ہوئی ہے۔ دوسرے درجے کی مدور اور تیسرے کی کمرکھی ہے ۔ اسے سے اوپر کے دونوں درنے گول ہیں اور تمام عمارت سنگِ سرخ کی بنی ہوئی ہے! البتہ چوتھے درجے پر سنگِ مرمر بھی لگا ہوا ہے اور ہر جگہ مننّت کاری اور گل کاری بہت خوبصورتی سے کی ہے۔ ۳- اس لاٹھ کی بنا میں بہت گفتگو ہے اکثر مورخوں نے لکھا ہے کہ یہ لاٹھ سلطان شمس الدین التمش کی بنائی ہوئی ہے اور جو کتبہ سکندر بہلول لودھی کے زمانے میں کندہ ہوا ہے ۔ اس میں اس لاٹھ کو اسی بادشاہ سے منسوب کیا ہے۔ بعض تاریخوں میں اس لاٹھ کو مسجد کا ماذنہ لکھا ہے۔ اور بعض میں سلطان مُعِزالدین کی لاٹھ لکھا ہے۔ ۴- یہ بات مدت سے مشہور چلی آئی ہے اور ہے بھی قرین قیاس کہ اس لاٹھ کو رائے پتھورا نے اپنے قلعے اور بُت خانے کے ساتھ ۱۱۴۳ء میں تعمیر کرنا شروع کیا کیونکہ اس کی بیٹی سورج مُکھی مذہب کی تھی اور اس مذہب والے جمنا کو سورج کی پُتری خیال کرتے ہیں اوراس کا درشن کرنا داخلِ ثواب جانتے ہیں۔ اس سبب سے جمنا کے درشن کے لیے اس لاٹھ کا پہلا کھنڈر بنا۔ ۱۱۹۳ء میں جب شہر مسلمانوں نے فتح کیا توا س پر اپنے نام کے کتبے لگالیے اور فضل بن ابو المعالی کو متولی کیا اور اس کا نام پتھر پر کھود کر دروازے کے پاس لگا دیا۔ ۱۲۲۹ء میں سلطان شمس الدین التمش نے اس مسجد کے ادھر اُدھر تین تین در بڑھا لیے اور اسی زمانے میں اس لاٹھ کو بھی بلند کیا اور دوسرے کھنڈ کے دروازے پر اس کا حال کھدوا کر اس کا نام ماذنہ رکھا اور ہر درجے پر اسی کے نام کا کتبہ اور قرآن کی آئتیں کندہ کرائیں اور معمار کا نام لکھوایا۔ ۵- اب اگرچہ اس لاٹھ کے پانچ کھنڈ ہیں لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ جس طرح مشہور ہے ۔ پہلے اس لاٹھ کے ساتھ کھنڈ تھے اور منارۂ ہفت منظری کے نام سے بھی یہ لاٹھ مشہور تھی۔ جہاں اب کٹہرا لگا ہوا ہے وہاں ایسے کنگورے بنے ہوئے تھے ۔جیسے فصیلوں کے ہوتے ہیں ۔ چھٹے درجے پر چاروں طرف دروازے تھے۔ اور اس پر لدائو کی مخروطی برجی بنی تھی۔ یہی اس کا ساتواں درجہ شمار کیا جاتا تھا۔ یہ ساتواں درجہ ۱۳۲۸ء میں فیروز شاہ نے بنایا تھا۔ کیونکہ اس نے لکھا ہے کہ مرمت کے وقت میں نے اس لاٹھ کو جتنی پہلے تھی اس سے اونچا کر دیا اور اس لاتھ کی مرمت کا حال پانچویں کھنڈ کے دروازے پر کھدوا دیا۔ اس کے بعد لاٹھ پھر مرمت طلب ہو گئی تھی۔ چنانچہ ۱۵۰۳ء میں فتح خان نے سلطان سکندر بہلول کے زمانے میں مرمت کی اور اس کا حال کھدوا کر پہلے دروازے کی پیشانی پر لکوا دیا۔ کہتے ہیں ۱۷۸۶ ء کی کالی آندھی اور بھونچال کے صدمے سے اوپر کے کھنڈ گِر پڑے تھے۔ اور پہلے کھنڈ کے بہت سے پتھر گِر جانے کی وجہ سے لاٹھ مرمت طلب ہو گئی تھی۔ ۶- ۱۸۲۱ء میں گورنمنٹ انگریزی کے حکم سے اس لاٹھ کی اول سے آخر تک پھر مرمت ہوئی۔ جس جگہ کنگورے تھے۔ وہاں بہت مستحکم سنگین کٹہرا لگا دیا گیا۔ اور پانچویں درجے پر بہت خوبصورت برنجی کٹہرا بنا دیا۔ چھٹے کھنڈ کی جگہ نہایت خوبصورت پتھر کی بُرجی اور ساتویں کھنڈ کی جگہ کاٹھ کی بُرجی نصب کی گئی۔ اور اس پر پھر ایک بڑا کٹہرا لگایا گیا۔ افسوس کہ دونوں بُرجیاں قائم نہ رہ سکیں ۔سنگین بُرجی کو لاٹھ پر سے اتار کر نیچے کھڑا کرنا پڑا اور کاٹھ کی بُرجی ضائع ہو گئی۔ مرمت کے وقت اس کاٹھ کے کتبوں کے حرف جو گر پڑے تے بالکل غلط بنا دیے گئے۔ اکثر جگہ لفظوں کی صورت بنا دی ہے۔ غو رس ے دیکھنے پر معلوم ہو تا ہے کہ یہ لفظ نہیں ہیں بلکہ صرف نقش ہیں۔ بعض لفظ غلط بنا دیے ہیں اور بعض جگہ اپنی طرف سے ایسی عبارت کھودی ہے کہ اصلی کتبے کے مضمون سے مطلق علاقہ نہیں رکھتی۔ ۷- اس لاٹھ کا پہلا کھنڈ تقریباً بتیس گز ، دوسرا سترہ گز، تیسرا تیرہ گز ، چوتھا اور پانچواں آٹھ آٹھ گز اونچا ہے۔ اس حساب سے لاٹھ کی کُل اونچائی اسی گز کے قریب ہے۔ سنگین بُرجی کی اونچائی جو گورنمنٹ انگریزی نے چڑھائی تھی اور اب اتار کر نیچے رکھ دی ہے چھ گز ہے۔ جب اس لاٹھ کے ساتوں کھنڈ اپنی اصل حالت پر قائم تھے تو اس کی بلندی سوگز تھی۔ لاٹھ کام محیط سطح زمین پر پچاس گز ہے اور چوٹی پر دس گز ۔ لاٹھ کے اندر اوپر چڑھنے کے لیے چکر دار سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں ۔ یہ سیڑھیاں تعداد میں تین سو اٹھتر ہیں۔ سوالات ۱- قطب صاحب کی لاٹھ کہاں واقع ہے اورکیوں دیکھنے کے لائق سمجھی جاتی ہے؟ ۲- اس لاٹھ کی بنیاد سب سے پہلے کس شخص نے ڈالی اور کس غض کے لیے؟ ۳- پہلے لاٹھ کی کتنی منظلیں تھیں اور اب کتنی ہیں؟ بلندی پہلے کیا تھی اب کیا ہے سیڑھیاں کتنی ہیں؟ ۴- کب اور کس طرح لاٹھ کو نقصان پہنچا؟ اور پھر اس کی کس نے اور کب مرمت کرائی؟ ۵- ’’احاطہ تقریر سے باہر ہے‘‘ کے لیے سلیس فقرہ بولو اور ’’ یہ کیفیت لکھی نہیں جا سکتی‘‘ کی بجائے پہلے جیسا فقرہ بولو؟ ۶- ’بنایا تھا‘ فعل میں کون سا زمانہ ہے ؟ باقی دو زمانوں کے لیے اسی سے فعل بنائو۔ ----------------------- ۳۰-مور نقش ونگار بال وپر شگفتہ شادمانی خورسند کیا مور ہے بنایا پروردگار تُو نے بخشے ہیں اس کو کیا کیا نقش و نگار تُو نے گویا کہ بال و پر میں گلزار کھل رہا ہے حو بیل ہے نرالی بوٹا جو ہے نیا ہے یہ پھول ہیں شگفتہ تن پر جو داغ سے ہیں چُن کر یہاں لگائے قدرت کے باغ سے ہیں یہ تاج اس کے سر پر کیسا ہے یا الہٰی! بخشی ہے تو نے اس کو گلشن کی بادشاہی چھم چھم برس چکا ہو سبزے پہ جب کہ پانی ہوتی ہے اس کے دل کو اس وقت شادمانی دلشاد ہو کے بولی تب اپنی بولتا ہے پر ناچنے کی خاطر اس وقت کھولتا ہے دم کو چنور بنا کر ہے ناچتا خوشی سے ہے اپنے دوستوں کو دیتا صدا خوشی سے جس وقت باری باری ہیں ناچنے پہ آتے جنگل میں مل ملا کر منگل یہ مناتے انسان نے بھی بنائے ہر چند مور نقلی کرتے نہیں ہیں ہم کو خورسند مور نقلی مٹی کے موم کے ہوں کاغذ کے ہوں کہ خس کے وہ مور کچھ نہیں جو ہیں آدمی کے بس کے وہ بولتے ہیں ان میں وہ بولنا کہاں ہے وہ ناچتے ہیں ان میں ویسی ادا کہاں ہے قدرت تو ہے یہ کامل انسان ہے نامکمل اور مور جو ہے اس کا بے جاں ہے نامکمل دیں بدنما جو ٹانگیں انصاف یہ تِرا ہے اچھا ہے اس کے حق میں زیبا ہے اور بجا ہے مغرور تاکہ اپنی خوبی پہ ہو نہ جائے جب پائوں اپنے دیکھے شرمائے اور لجائے اس وقت یوں زباں سے اپنی کہے خدایا! صد شکر مجھ کو سارا ایسا نہیں بنایا سوالات ۱- مور کی خوبصورتی اپنے لفظوں میں بیان کرو۔ ۲- اصلی اور نقلی مور میں فرق بیان کرو؟ ۳- مور کے جسم میں کونسی چیز بدصورت ہے اور اس میں کیا حکمت ہے؟ ۴- ذیل کے شعر کی نثر بنائو اور مطلب بیان کرو۔ دیں بدنما جو ٹانگیں انصاف یہ تِرا ہے اچھا ہے اس کے حق میں زیبا ہے اور بجا ہے ۵- اپنے فقروں میں استعمال کرو:- شگفتہ، خورسند، نامکمل، دلشاد۔ ۶- ’’ناچنے پہ آتے ہیں‘‘ کونسا فعل ہے؟ لکھنا مصدر سے اسی قسم کے فعل کا صیغہ جمع متکلم بنائو۔ ----------------------- ۳۱-انگریزی سلطنت کی برکتیں خاطر خواہ عیش وعشرت ذلیل و خوار تصور ادنیٰ انگریزی سلطنت کی بدولت ہندوستان میں آج وہ روشنی پھیل رہی ہے کہ رات اور دن میں کچھ تمیز نہیں رہی۔ راستے ایسے صاف ہیں کہ جہاں پہلے قافلوں کا گزر نہ ہوتا تھا ۔ اب وہاں جس کا جی چاہے ۔ اکیلا سونا اچھالتا چلا جائے ۔ تجارت اس قدر آسان ہو گئی کہ دو دن میں ہزاروں من مال مشرق سے مغرب میں اور جنوب سے شمال میں پہنچتا ہے۔ جن شہروں کا پہلے نام سنتے تھے۔ اب وہاں جانا ایک ایسی بات ہے جیسے بازار میں سیر کر آئے۔ اگر ہزاروں کوس کسی کو چیز بھیجنی ہو۔ یا وہاں سے منگانی ہو تو مُنہ سے بات نکالنے کی دیر ہے۔ جو چیز بھیجو اس کی رسید لو جو بات پوچھو اس کاجواب لو۔ پیشے والے پہلے اپنے کاموں کی قدر نہ جانتے تھے۔ اب ہر شخص کو اس کی محنت کا خا طر خواہ پھل ملتا ہے۔ یہ غلطی ہمیشہ سے چلی آتی تھی کہ نکمے آدمی سدا عیش و عشرت سے بسر کرتے تھے اور کام کے آدمی ذلیل وخوار پھرتے تھے۔یہ اسی سلطنت کا صدقہ ہے کہ جتنے حقدار تھے ۔ وہ اپنے حق کو پہنچ گئے۔ کھیتی کا مدار پہلے ہر جگہ بارش یا کنوئوں کے پانی پر تھا ۔ اب جمنا اور گنگا چاروں کھولٹ میں دوڑی دوڑی پھرتی ہیں ۔ جہاں جہاں نہر گئی ہے ۔وہاں ہمیشہ سماں رہتا ہے۔ اس کے سوا پہلے بادشاہوں اور امیروں کے سوا غریب آدمیوں کی بیماری کا علاج جیسا چاہے ویسا نہ ہوتا تھا۔ کہیں طبیب کو دینا پڑتا ہتھا کہیں دوائں گرہ سے مول لینی پڑتی تھیں۔ اب شہر شہر، قصبہ قصبہ، گائوں گائوں میں سرکاری ڈاکٹر علاج کرتے پھرتے ہیں۔ نہ کچھ ڈاکٹروں کو دینا پڑتا ہے نہ دوا مول لینی پڑتی ہے۔ جس کا جی چاہے علاج کر الے۔ جو چاہے دوا لے جائے۔ پہلے اول تو کتاب ملتی ہی نہ تھی اور اگر ملتی بھی تھی تو بہت بھاری قیمت کو ملتی تھی۔ اب چھاپے کی بدولت کتاب اور ترکاری ایک بھائو بکتی ہے۔ جو سواریاں پہلے بادشاہوں کو میسر نہ تھیں آج ادنیٰ ادنیٰ آدمیوں کے پاس موجود ہیں جو کپڑا پہلے امیروں کو نصیب نہ ہوتا تھا وہ اب پنہاریوں کے بچے پہنے ہوئے پھرتے ہیں۔ پہلے جب کوئی سفر کر کے تمام عالم کی سیر کرتا تھا۔ تب اس کو دنیا کی حقیقت معلوم ہوتی تھی۔ اب ہر ایک ملک کا نقشہ نہایت صحیح کھینچا ہوا کاغذ کے مول بکتا پھرتا ہے۔جس کا جی چاہے۔ گھر بیٹھے ساری دنیا کے پہاڑ۔ جنگل اور دریا اور جزیرے اور آبادی اور ویرانے کی سیر کر لے۔ پہلے شہروں کی صفائی ایک ایسی چیز تھی کہ کبھی اس کا تصور بھی دل میں نہ آتا تھا ۔ اب ایک ایک گلی اور ایک ایک کُوچہ اور سڑک اور بازار ایسے صاف رہتے ہیں کہ پہلے شاید امیروں کے رہنے کے مکان بھی اتنے صاف نہ رہتے ہوں گے۔ سوالات ۱- انگریزی سلطنت سے ہندوستان کو کیا کیا فائدے پہنچے ہیں؟ ۲- چھاپے کے ایجاد سے پہلے کتابیں کیوں مہنگی تھیں؟ اور چھاپے کے ہونے سے کیوں سستی ہو گئی ہیں؟ ۳- مطلب بیان کرو:- ا- گنگا اور جمنا چاروں کھونٹ میں دوڑی دوڑی پھرتی ہے۔ ب- رات اور دن میں تمیز نہیں ۔ ج- کتاب اور ترکاری ایک بھائو بکتی ہے۔ ۴- اس سبق میں فعل ماضی کے کون کون سے لفظ ہیں؟ ----------------------- ۳۲-حُبِّ وطن چرخِ کہن تکالیف سفر عالی نسب نازِش کروّفر خود پرست ذلت وتحقیر کیا مردہ دل ایسا بھی ہے کوئی تہِ چرخ کہن جس نے کہا ہر گز نہ ہو یہ ہے مِرا اپنا وطن یہ ہے مِرا اپنا وطن بعد از تکالیف سفر حدِ وطن پر آن کر جی جس کا بھر آیا نہ ہو گر ہو کوئی ایسا بشر کرنا بغور اس پر نظر شاعر کوئی اس ملک میں ہوگا ہوگا نہ اس کا مدح گر ہر چند جو عالی نسب نازاں ہو نازِش نام پر دولت میں قارونِ زماں یا اس سے بھی مشہور تر رکھتا ہو شاہوں کی طرح شان و شکوہ و کرّ وِ فر وہ خود پرست و مُردہ دل ہر گز نہ ہوگا نامور یہ جیتے جی کی موت ہے اور اس کو جب موت آئے گی جس خاک سے پیدا ہوا با ذلت و تحقیر وہ اُس خاک میں مل جائے گا کیا غم میں اس بد بخت کے آنسو بہائے گا کوئی یا پھول اس کی قبر پر جا کر چڑھائے گا کوئی یا گیت اس کے نام کا دنیا میں گائے گا کوئی سوالات ۱- حُبِّ وطن کے اصلی معنی کیا ہیں؟ ۲- جو شخص محبِ وطن نہیں ہوتا لوگ اس کو کیسا سمجھتے ہیں؟ ۳- ’’نازاں ۔ قارونِ زمان کرّو فر‘‘ کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- ’’مل جائے گا‘‘ کون سا فعل ہے؟ اور اس کا فاعل کون ہے؟ ۵- تمام نظم کو نثر میں بیان کرو۔ ۳۳- قسطنطنیہ لطفِ مزید عمیق مُحکم مُرتفع اشجار پُر بہار ارابہ آتش زدگی سلطان المعظم قسطنطنیہ سا خوبصورت اور خوش نما شہر ساری خدائی میں نہیں۔ یہ شہر ساحل بحر مار مورا پر واقع ہے اور اونچے اونچے پہاڑ اس کے سامنے اور بھی لطف مزید دکھاتے ہیں ۔ تین حصے مکانات شہر کے سمندر سے صاف نظر آتے ہیں اور عجیب کیفیت دکھاتے ہیں۔ مغرب کی سمت ایک بڑی عمیق کھائی ہے۔ اور شہر پناہ نہایت محکم اور مرتفع چار میل تک گئی ہے۔ باغ اس شہر میں اس کثرت سے ہیںکہ کوئی محلہ ایسا نہیں۔ جس میں دس بارہ باغ نہ ہوں۔ باغبانی اور نخل بندی اس شہر کے کامل فن باغبانوں پر ختم ہے۔ اکثر اشجارِ پُر بہار اس قدر بلند ہیں کہ گویا آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ انجیر۔ شہتوت ۔ کھجور اور تاڑ اس دارالسلطنت کے گردا گرد مختلف مقامات پر بوئے گئے ہیں۔ جنوب کی سمت پہاڑوں کی قطار ہے۔ جن کی چوٹی ہمیشہ برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ بازار عموماً تنگ ہیں۔ مگر صاف بازاروں میں گاڑیوں اور گھوڑوں کی آمدو رفت کم ہے۔ جسیے بڑے شہروں کا قاعدہ ہے کہ خاص خاص بازاروں اور نمائش او ر چوک میں شوروغل مچا کرتا ہے۔ یہاں نہیں ۔ فٹن اور پالکی گاڑی کی یہاں صورت بھی دیکھنے میں نہیں آتی۔ ایک قسم کی رنگی ہوئی گاڑی ہوتی ہے۔ جس کو ارابہ کہتے ہیں۔ اس میں بھینسے جوتے جاتے ہیں۔ ان گاڑیوں میں اکثر خاتونیںاور معزز عورتیں ہوا کھانے نکلتی ہیں۔ جس طرح ہندوستان میں بیل گاڑی قدم قدم چلتی ہے۔ اسی طرح ارابہ بھی جاتا ہے۔ شب کو دس بجے کے بعد شہر میں سناٹا ہو جاتا ہے۔ آتش زدگی کے وقت پہرے والے غل مچاتے ہیں۔ رمان جنوار یعنی آگ لگی ۔ آگ لگی۔ حُکم سلطانی ہے کہ اگر عرصۂ دراز تک آگ گُل نہ ہو تو وزرا خود جائیں اور بندوبست کریں۔ بادشاہ نے حکم دے رکھا ہے کہ اگر ہم غافل سو رہے ہوں تو بھی آتش زدگی کے وقت ہم کو جگا دو۔ اگر ہم نہ جاگیں تو پلنگ الٹ دو۔ کئی بار خود حضرت سلطان المعظم بنفس نفیس آگ فرو کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اس شہر میں تخمیناً دس لاکھ آدمیوں کی آبادی ہو گی۔ مگر مردم شماری کا قاعدہ اچھی طرح جاری نہیں ہے۔ پندرہ ہزار کلت گہیوں روزانہ صرف میں آتا ہے۔ یہ وزن قریب چار لاکھ بیس ہزار سیر کے ہوا۔ تُرکوں کے علاوہ ۔ یونانی ۔ یہودی۔ ارمن اور فرینگ آباد ہیں۔ ان سب کی وضع اور قطع اور پوشاک سب مختلفف ہے اور مختلف حصوں میں بود وباش رکھتے ہیں۔ قسطنطنیہ کی آب وہوا نہایت خوشگوار ہے ۔اپریل سے ستمبر تک ہوا پُروائی چلتی ہے اور موسم زمستان میں جنوبی ،لیموں اور نارنج کے درخت میدانوں میں بوئے جائیں تو مُرجھا کر کانٹا ہو جائیں ۔ وجہ یہ ہے کہ آب و ہوا اس درجہ معتدل ہے کہ یہ درخت سر سبز نہیں ہونے پاتے۔ گرمی چاہتے ہیں۔ لہٰذا کسی قدر سائے میں بوئے جاتے ہیں۔ بارش کم ہوتی ہے ادھر گھٹا چھائی ، مینہ برسا اُدھر کھل گیا۔ یہاں تخمینہ کیا گیا ہے کہ قسطنطنیہ مین ۶۴ دن تو پانی برستا ہے۔ پانچ روز برف پڑتی ہے۔ پندرہ روز آندھی آتی ہے۔ بیس روز بادل رہتا ہے اور چھتیس دن ہوا بدلتی رہتی ہے اور ۲۲۰ دن مطلع صاف رہتا ہے۔ سوالات ۱- قسطنطنیہ کہاں واقع ہے؟اور وہاں کن لوگوں کی حکومت ہے؟ اور وہاں کون کون سے لوگ آباد ہیں؟ ۲- اس شہر میں کس چیز کی کثرت ہے؟ اُس کی کیفیت اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ ۳- ’’مان جنوار‘‘ کون سی زبان کے الفاظ ہیں اور اس کے کیا معنی ہیں؟ اور قسطنطنیہ میں ان الفاظ کے کیا معنی ہیں؟ اور قسطنطنیہ میں ان الفاظ کو کون کس وقت استعمال کرتا ہے؟ ۴- آتش زدگی کے متعلق حُکم سلطانی کیا ہے؟ ۵- آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ عرصۂ دراز اور بود و باش کے معنی بیان کرو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۶- ان لفظوں کے واحد بنائو:- ا- اشجار، مقامات، وزرا۔ ب- جگادو کون سا فعل ہے اور اسے کس طرح بول سکتے ہیں۔ ۳۴-گھڑیاں اور گھنٹے آفاق قدوقامت مسافت مہم کرامات ہوں جس قدر آفاق میں گھڑیاں کہ ہوں گھنٹے ہے سب کا عمل ایک بڑے یا کہ ہوں چھوٹے چھوٹے بھی کسی طرح بڑوں سے نہیں ہیٹے دراصل یہ سب ایک ہی تھیلی کے ہیں بٹے گو ایک سے ان کے نہیں ہوتے قدو قامت طے کرتے ہیں پر سب کے سب ایک ساتھ مسافت گر روز ہو یا رات ہو یا صبح ہو یا شام جب دیکھیے چلنے سے سدا اپنے انہیں کام لیتے کسی ساعت کسی لحظ نہیں آرام ہو جاتے اسی میں ہیں بسر عُمر کے ایام نقل و حرکت سے انہیں فرصت نہیں دم بھر گویا انہیں جانا ہے کہیں دور مہتم پر ہر چند کہ رفتار میں اپنی نہیں مختار پر اپنے ٹھہرنے کو سمجھتے ہیں یہ بیکار رہتے ہیں سفر ہی میں ہو دن یا کہ شبِ تار ہٹتے نہیں پیچھے قدم ان کے دمِ رفتار جب دیکھیے ہوتے ہیں یہ سرگرم روانی گویا کہ ہیں عمر گزران کی یہ نشانی دم رکھتے ہیں گو جان نہیں رکھتے بدن میں گویا ہیں زباں گرچہ نہیں ان کے دہن میں عادت میں نرالے ہیں انوکھے ہیں چلن میں دیکھا یہ انہیں کو کہ مسافر ہیں وطن میں ہے جیسے کہ گردش میں زمانہ سحر و شام ان کا وہ سفر ہے نہیں جس کا کہیں انجام خشکی ہو گزرگاہ ہیں ان کی کہ سمندر کھاڑی ہو کہ ہو جھیل جزیرہ ہو کہ بندر مینار کے اوپر ہو کہ تہ خانے کے اندر رکھے انہیں پاس اپنے سکندر کہ قلندر ان کو نہیں یاں اونچ کا یا نیچ کا کچھ غم اپنی اسی ٹِک ٹِک سے سروکار ہے ہر دم کھٹکا نہیں آندھی کا نہ بارش کا خطر کچھ نقصان انہیں جاڑے سے نہ گرمی سے ضرر کچھ طوفان کا کچھ خوف نہ بھونچال کا ڈر کچھ ہوں لاکھ تغیر نہیں پر ان کو خبر کچھ کچھ موسم گُل کی نہ خزاں کی انہیں پروا ہیں دونوں برابر انہیں پچھوا ہو کہ پروا سمرن کے کھٹاکے سے کم ان کا نہیں کھٹکا خاصا ہے یہ اک یادِ خدا کے لیے کھٹکا کوڑا ہے یہ اس کے لیے جو راہ سے بھٹکا کانٹوں میں دیا دامنِ دل جس نے کہ اٹکا دیتے ہیں سنوں غور سے ہر دم یہ دہائی لو وقت چلا ہاتھ سے کچھ کر لو کمائی کیا ان کی بساط اور کہو کیا ان کی ہے اوقات جانے دو نہیں ان میں اگر کوئی کرامات انصاف کرو تو ہے یہی کتنی بڑی بات جس کام کے ہیں اس میں لگے رہتے دن رات ہیں چلنے میں تھکتے نہ ٹھٹھکتے نہ مچلتے جس راہ پہ وہ ڈال ہیں اس راہ پہ چلتے سوالات ۱- گھڑیاں اور گھنٹے ہمیں کیا سبق سکھاتے ہیں؟ ۲- چوتھے بند کا مطلب آسان لفظوں میں بیان کرو اور اس کے پہلے شعر کی نثر بنائو اور بتائو دم رکھتے ہیں اور گویا ہیں کے پہلے کون کون سا لفظ مخدوف ہے؟ ۳- ہو جاتے ہیں کونسا فعل ہے اور کون کون سے صیغے کے لیے بولا جاتا ہے؟ اسے مونث صیغے میں تبدیل کرو۔ ۳۵-زمین کی کشش کشش سر آئزک نیوٹن محسوس تحقیق تم نے سینکروں مرتبہ گیند کو اچھالا ہو گا اور کنکریاں اوپر پھینکی ہوں گی اور ان کو پھر زمین پر گرتے دیکھا ہو گا۔ لیکن کبھی اس کا بھی خیال آیا کہ یہ چیز یںاوپر جانے کے بعد کیوں لوٹ آتی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور جو چیز زمین سے بلند ہوتی ہے اگراس کو کوئی دوسری چیز نہ روک لے تو وہ ضرور گر پڑتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ اونچا کودنے میں کوئی شخص پانچ فٹ کا زیادہ سے زیادہ چھ فٹ سے زیادہ زمین سے اونچا نہیں کود سکتا اس موقع پر تمہارے دل میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اس سے زیادہ اونچا کودنا محال ہے اور اونچا ہونے کے بعد ہم کیوں اتنی جلدی نیچے آرہتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین کی اس کشش کے خلاف طاقتور سے طاقتور لڑکا یا جوان آدمی صرف اپنی طاقت اور قوت سے بہت تھوڑی دور اوپر جا سکتا ہے اور اچھلنے کے بعد فوراً ہی زمین کی کشش کے زور سے بے قابو ہو جاتا اور دھڑ سے پھر زمین پر آپڑتا ہے۔ سیڑھی کے ذریعے سے زمین سے بہت اونچا چڑھ سکتا ہے لیکن اگر وہاں سے گریں تو بہت سخت چوٹ لگے گی۔ تم خود اس قدر نہیں کود سکتے۔ جتنا گیند کو اچھال سکتے ہو اور گولی بندوق سے نکل کر اور بھی دور جاتی ہے۔ لیکن کتنی ہی دور جائے ، کشش زمین کی قوت سے باہر نہیں جا سکتی ۔ جب تم زینے پر چڑھتے ہو تو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور جس قدر اوپر چڑھتے جاتے ہو زیادہ زور صرف کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اترتے وقت نہایت آسانی اور تیزی سے گد گد نیچے اترتے چلے آتے ہو۔ اس کا یہی سبب ہے کہ چونکہ اوپر چڑھنے کا کام زمین کی کشش کے خلاف ہے۔ اس لیے تکلیف اور بوجھ معلوم ہوتا ہے لیکن اتنے میں دو قوتیں کام کرتی ہیں۔ ایک توتم خود اپنے ارادے سے نیچے آنے کی کوشش کرتے ہو دوسرے زمین کھینچتی ہے ۔نتیجہ یہ کہ تم بلا دقت اترآتے ہو۔ زمین میں قوت تو ہمیشہ سے موجود ہے لیکن ہزاروں برس تک کسی کا خیال اس طرف نہیں گیا۔ سب سے پہلے جس شخص نے اس طرف توجہ کی وہ سر آئزک نیوٹن تھا۔ نیوٹن ایک دن اپنے باغ میں بیٹھا ہوا تھا سامنے سیب کا درخت تھا ۔ اس سے ایک سیب ٹوٹ کر گرا۔ نیوٹن کو یکا یک خیال آیا کہ سیب زمین پر کیوں گرا۔ آسمان کی طرف کیوں نہیں چلا گیا؟ آخر سوچتے سوچتے تحقیق کرتے کرتے اس نے دریافت کیا کہ ہر چیز کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے اس سے زیادہ عجیب بات ثابت ہوئی کہ صرف زمین ہی نے سیب کو اپنی طرف نہیں کھینچا ۔ بلکہ سیب نے بھی زمین کو اپنی طرف کھینچا لیکن زمین اتنی بڑی ہے کہ اس کا کھینچنا انسان اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ جب کوئی بھاری چیز اوپر سے گرتی ہے تو اول اس کی رفتار کم ہوتی ہے ۔ جوں جوں زمین کے قریب آتی جاتی ہے ۔ رفتار تیز ہوتی جاتی ہے۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو گے کہ جتنی بھاری چیز ہوتی ہے ۔اتنی ہی تیزی سے زمین پر گرتی ہے۔ مثلاً ایک پر ، پتا ، کاغذ دیر میں زمین پر گریں گے پیسہ ان سے جلدی گرے گا ، اشرفی پیسے سے بھی جلدی گرے گی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ زمین کسی چیزکو زیادہ قوت سے کھینچتی ہے ، کسی کو کم قوت سے۔ زمین کی کشش تو ہر چیز کے لیے برابر ہے۔ خواہ وہ چیز کیسی ہی ہلکی یا کتنی ہی بھاری ہو ۔ بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ زمین اور گرنے والی چیز کے درمیان ہوا حائل ہے اور وہ چیز ہوا کو چیرتی ہوئی گرتی ہے۔ کوئی چیز جس قدر بھاری ہوگی ۔ اتنی ہی تیزی سے ہوا کو چیرتی ہوئی چلی جائے گی۔ ہلکی چیز ہو اکو دیر میں چیر سکے گی۔ اور ہوا بھی اس کو اڑائے اڑائے پھرے گی۔ اس لیے پتنگ کٹنے کے بعد دیر میں گرتی ہے۔اورپتھر کو اچھالیں تو فوراً زمین پر آبڑتا ہے۔ لیکن اگر ہوا درمیان میں راستہ نہ روکے تو ہر بھاری اور ہلکی چیز برابر رفتار سے زمین پر گرے گی۔ اگر کسی برتن میں سے ہوا ۔ بالکل نکال لی جائے اور اس کے اندر پتا اور روپیہ ساتھ چھوڑے جائیں تو دونوں ساتھ گریں گے۔ یہ کشش صرف زمین ہی میں نہیں ۔بلکہ آسمان میں بھی پائی جاتی ہے ۔ یعنی سورج چاند زمین اور سب ستارے ایک دوسرے کو اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ سوالات ۱- زمین کی کشش کس طرح ثابت ہوتی ہے؟ اول اول یہ بات کس نے معلوم کی اور کس طرح؟ ۲- زمین کی کشش سے انسان کو کیا کیا فائدے حاصل ہیں؟ ۳- اگر پر اور اشرفی کو ایک ساتھ چھوڑا جائے تو کون سی چیز پہلے زمین پر گرے گی اور کیوں؟ ۴- اس سبق میں فعل مستقبل کون کون سے ہیں ؟ ان کا مصدر بھی بتائو ۳۶-سنجو گتا حسین خوشرو شُہرہ شباب ازدحام سنجوگتا حسین تھی خوشرو تھی نیک تھی راوی کا یہ بیاں ہے، ہزاروں میں ایک تھی کم ایسے حسن والے ہوئے ہیں جہان میں شُہرہ تھا اس کے حسن کا ہندوستان میں آیا شباب حسن پہ شادی کا سن ہوا آخر مقرر ایک سوئمبر کا دن ہوا گُل خوشنما ہر ایک چمن سے لیے گئے راجے تمام ہند کے مدعو کیے گئے ہاں ایک پرتھی راج کو دعوت نہ دی گئی -------------------------------------------------- سنجو گتا چے چند والیے قنوج کی لڑکی کا نام تھا پرتھی راج شاہِ دہلی سے جے چند کے تعلقات کشیدہ تھے ۔ اسی لیے سنجو گتا کے سوئمبر میں اسے دعوت نہ دی گئی اور اس کا ایک بت بنا کر دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ لیکن سنجو گتا پرتھی راج ہی سے شادی کرنا چاہتی تھی اس لیے اس نے پرتھی راج کی مورت کے گلے میں جے مال ڈال دی چنانچہ اسی سے شادی ہوئی۔ جے چند اور اس میں بہت تھی چلی ہوئی سنجو گتا کو اس کا بہت ہی ملال تھا لیکن پتا کے حکم کا ٹلنا محال تھا جے چند کو نہ صبر اسی بات پر ہوا پرتھی کا بُت بھی در پہ بنا کر کھڑا کیا مطلب یہ تھا نظر میں کرے سب کی کم اسے دربان کی طرح گویا سمجھتے ہیں ہم اسے ----------- آخر کو راجہ آئے سوئمبر کے دن تمام قنوج میں تھا ہند کے شاہوں کا ازدحام سنجو گتا کا جام محبت پیے ہوئے تھے دل میں کیسی کیسی امیدیں لیے ہوئے آئے تھے ایسے ایسے حسین خوبرو جوان دیکھے کوئی تو اس کو فرشتوں کا ہو گمان مشہور راجپوت ہیں ہندوستان میں پانی کہاں ہے ان کا شجاعت میں شان میں جے مال ہاتھ میں لیے سنجو گتا چلی اٹھلاتی گویا باغ میں بادِ صبا چلی سارے جوان کانپ رہے تھے کھڑے کھڑے دھڑکا یہ تھا کہ دیکھیے کس پر نظر پڑے آگے بڑھی وہ ایک نظر سب کو دیکھ کر سنجو گتا کے دل میں بسی تھی کسی کی بُو آنکھیں کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں چہار سُو آخر وہ مُورتی کی طرف سوئے در بڑھی اور مالا پرتھی راج کی گردن میں ڈال دی سوالات ۱- سنجو گتا کون تھی؟اس کے سوئمبر کی کیفیت بیان کرو۔ ۲- باپ کی مرضی کے خلاف سنجو گتا نے کیوں پرتھی راج کے بت کے گلے میں ہار ڈالا؟ ۳- دھڑکا ہونا، اٹھلانا، دل میں کسی کی بُو بسنا کے معنی بیان کرو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- خوشنما اور خوشرو قواعد کی رو سے کون کون سے کلمے ہیں ۳۷-مٹی کا تیل حقیر و ذلیل بیچارگی اشرف المخلوقات متوسط عالمگیر اللہ میاں نے اس دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں پیدا کی جو بیکار ہو یا حقیر و ذلیل سمجھی جا سکے۔ چار عنصر آگ، ہوا، پانی، خاک میں سب سے زیادہ بے حقیقت خاک ہے جو تمام مخلوقات کے پائوں میں روند ی جاتی ہے۔ پانی کے زور کے ساتھ بہہ جاتی ہے ۔ ہوا کے جھونکے سے اُڑ جاتی ہے اور آگ کی گرمی سے جلا کرتی ہے ۔ مگر اُف نہیں کرتی ۔ دیکھنے میں ہمیں اس کی بیچارگی اور ذلت پر ترس آتا ہے لیکن خود اس سے سوال کیا جائے تو خدا کا لاکھ لاکھ شکر کرے گی کہ میری شان سب سے بڑی اور نرالی بنائی۔ ہر چیز کا خمیر میرے وجود سے تیار کیا۔ خاص کر انسان جو اشرف المخلوقات ہے مجھ سے پیدا ہوتا ہے اور مجھی میں فنا لو کر مل جاتا ہے۔ اس ناچیز خاک کی تہہ میں وہ نایاب خزانے قدرت کے دبے ہوئے ہیں۔ جن کو کام میں لا کر انسان آدمی کہلاتا ہے ۔ ورنہ جانووروں کی طرح زندگی بسر کرتا۔ خیر اور بڑی چیزیں تو اپنی جگہ ہیں۔ مٹی کے بعض ٹکڑوں کی تہہ میںایک قسم کا چکنا نیلگوں بدبو دار پانی ہوتا ہے جس کو لوگ مٹی کا تیل کہتے ہیں۔ مقابلہ کر کے دیکھو تو چنبیلی کا تیل۔ موتیے کا تیل اپنی خوشبو کے سبب اس بدبو دار تیل سے لاکھ درجے بہتر ہے۔ بڑے بڑے خوبصورت اور نازک دماغ لوگ چنبیلی وغیرہ کے تیل کو سر چڑھاتے ہیں اور جہاں مٹی کا تیل آیا ناک بھون چڑھائی۔ مگر ضرورت کے لحاظ سے یہ گندہ سڑا پانی تمام تیلوں سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ اگرچہ گیس اور بجلی کی روشنی نے اب مٹی کے تیل کو بھی مات کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاہم اس کا عالمگیر اثر ابھی تک باقی ہے۔ متوسط درجہ اور ادنیٰ درجہ کے آدمی جو دنیا میں زیادہ تعداد رکھتے ہیں۔ مٹی کے تیل کے سوا اور کچھ نہیں جلا سکتے۔ یہی تیل اپنی روشنی میں لڑکوں کو سبق دیا کرتا ہے اوربوڑھوں کو ٹھوکروں سے بچاتا ہے۔ اسی کی روشنی میں نمازی نمازیں پڑھتے ، پجاری پوجا کرتے ۔وعظ اور کتھا کے جلسے ہوتے ہیں۔یہی وہ تیل ہے کہ چور کو چوری میں مدد دیتا ہے اور پولیس کو چور پکرنے میں لالٹین دکھاتا ہے۔ غم کی رات میں ۔ جدائی کی رات میں جب مونس و غمگسار پاس نہ ہو تو مٹی کا تیل جل جل کر اپنا وجود فنا کر دیتا ہے اور انسان کا شریک غم ہ و کر باعث تسلی ہوتا ہے۔ امریکہ کا راک فیلر اسی خاک کے نیچے رہنے والے تیل کی بدولت لا تعداد دولت کا مالک ہے ۔ یہ تیل دنیا کی تمام کلوں میں کام آتا ہے ۔ یہ وہ چیز ہے جس کے بل پر دنیا کی مشہور سواری موٹر کار زمین پر دوڑتی پھرتی ہے۔ سوالات ۱- مٹی کا تیل کیا چیز ہے اورکہاں سے نکلتا ہے؟ ۲- ایشیا میں اس کی بڑی کان کہاںہے؟ ۳- مٹی کا تیل کس کس کام آتا ہے اور کیوں مفید ہے؟ اور کس حالت میں مضر ہے؟ ۴- راک فیلر کون ہے اور وہ کس طرح دولتمند ہوا؟ـ ۵- مطلب بیان کرو:- آج کل تمام دنیا میں اسی کے دم سے اجالا ہے۔ ۶- کہتے ہیں کونسا فعل ہے اور کس کس صیغے کے لیے بولا جاتا ہے؟ اس سے یہی صیغے مونث کے بنائو۔ ۳۸-دیا سلائی اسم شریف داروگیر پیچ و تاب مشرب آپ کون؟ نا چیز تنکا۔ اسم شریف؟ لوگ دیا سلائی کہتے ہیں۔ دولت خانہ! جناب! دولت نہ خانہ۔ اصلی گھر جنگل ویرانہ تھا مگر چند روز سے احمد آباد میں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھیے تو یہ لکڑی کا ننھا سا کاغذی ہو ٹل جس کو آپ ڈبیا کہتے ہیں اور جسے آپ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔ میرا موجودہ ٹھکانہ ہے۔ یہ احمد آباد ناروے یا سویڈن کے پاس کوئی نیا مقام ہے؟کیونکہ آپ کی بستیاں تو انہیںعلاقوں میں سنی جاتی ہیں۔ نہیں جناب! احمد آباد ہندوستان میں ہے ۔ آپ دیکھتے نہیں میری رنگت ۔ یہ اسی ملک کی نشانی ہے۔ ورنہ ناروے سویڈن کی دیا سلائی گوری چٹی ہوتی ہے۔ مجھ غریب کو اس سے کیا نسبت؟ آہا! تو آپ ہمارے ملک کی دیا سلائی ہیں تب تو گو آپ کا رنگ سانولا ہو ۔ مگر ہماری نگاہ میں سب دیا سلائیوں کی رانی ہو۔ ذرا مہربانی کر کے مجھ کو رانی نہ فرمائیے۔ بیگم کہیے۔ میں نے مسلمانوں کے گھر میں جنم لیا ہے۔ بہت اچھا میاں تنکے! ناراض نہ ہو۔ اللہ اکبر! تم کو بھی یہ دن لگے ۔ کہ رانی اور بیگم میں تمیز کرتے ہو۔ وہ وقت بھول گئے کی زنجیروں میں باندھ کر مشین کے آرے کے نیچے رکھے جاتے تھے اور آرا آن کی آن مین تمہارے ٹکڑے کر ڈالتا تھا۔ اس کے بعد جیسی گت بنتی تھی وہ خود خیال کر کے گریبان میں مُنہ ڈال سکتے ہو۔ تمہارے تراشیدہ کندوں کا ظلماتی گرم چشمے میں ڈالا جانا اور اس کھولتے ہوئے پانی میں ۳۹-وفادار غلام انتہا اتفاقاً امکان محسن باغِ ارم مُصاحب ملک افریقہ میں ایک سوداگر رہتا تھا۔ جو تجارت کے لیے اکثر ایک ملک سے دوسرے ملک کو جاتا ۔ دولت کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ہر ایک ملک میں اس کے کارندے موجود تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ یہ سوداگر دوران سفر میں اپنے بیوپار میں مصروف تھا کہ کوئی شخص چند غلاموکو لیے راستے سے گزرا۔ اتفاقاً سوداگر کی نظر غلاموں پرپڑی۔ اس نے دیکھا کہ ان میں سے ایک اپنا سر نیچے کیے چلا جا رہا ہے۔ اس نے فوراً اس شخص کو بلا بھیجا اور اس غلام کی قیمت دریافت کی۔ تاکہ اس کو خرید لے۔ اس اجنبی نے اس غلام کی قیمت بڑھا کر بتائی۔ مگر سوداگر کو کیا پروا تھی۔ فوراً اتنی ہی قیمت ادا کر کے اس غلام کو خرید لیا۔ اس غلام کا قصہ سنیے۔ وہ ایک دور دراز کے ملک کا رئیس زادہ تھا۔ مگر سرحدی ڈاکوئوں نے حملہ کر کے اس کو پکڑ لیا تھا اور اسے ایک معمولی غلام کی طرح فروخت کر دیا تھا۔ سوداگر اس کی صورت دیکھتے ہی تاڑ گیا تھا۔ کہ یہ کوئی گڈری کا لال ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ اس غلام کو اپنے ساتھ رکھتا۔ غلام دل وجان سے اپنے آقا کی خدمت میں مصروف رہتا۔ اشاروں پر کام کیا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اسے بے حد عزیز ہو گیا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سوداگر اور اس کا اکلوتا رفرزند جو ماں باپ کی آنکھو کا تارا تھا۔مع اس غلام کے جہاز میںسفر کر رہے تھے کہ جہاز طوفان میں گھِر گیا اور اس سوداگر کا لڑکا سمندر میں جا پڑا۔ قریب تھا کہ ڈوب جائے ۔ لیکن اس غلام نے جھپٹ کر اس کو ڈوبنے سے بچا لیا اور اپنی جان پر کھیل کر ایک کشتی پر سوار کر صحیح سلامت کنارے پر لے آیا۔ سوداگر نے جب بیٹے کو زندہ پایا۔ جان میں جان آئی ۔خدا کا شکر بجا لا یا اور غلام سے کہا کہ تُونے جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ تو میں ادا کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن جو کچھ میرے امکان میں ہے اس کو میں کیے بغیر نہ رہوں گا۔ میں نے تجھ کو آزادکیا اور جو کچھ نقد و جواہرات اور اسباب اس جہاز پر ہے وہ تیری نذر ہے۔ یہ سب کچھ تیرا مال ہے۔ جا اس سے فائدہ اٹھا ۔ غلام اپنے محسن آقا سے یہ الفاظ سہن کر بے حد خوش ہوا اور جہاز میں سوار ہو کر ایک طرف کو چلا گیا۔ کچھ دور نہ گیاتھا کہ طوفان نے آگھیرا اور جہازایک چٹان سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ صرا س غلام کی جان بچی ۔ ایک تختے پر پڑ کر بیہوش ہو گیا۔ اور یہ تختہ بہتے بہتے ایک جزیرے کے کنارے پر آلگا۔ اس غلام کو کئی گھنٹے کے بعد ہوش آیا۔ تو اپنی بے کسی اور جہاز و مال کی یاد آئی۔ بے اختیار رونے لگا۔ آخر تھوڑی دیر کے بعد جی کڑا کر کے آگے بڑھا کہ شاید کہیں آبادی نظر پڑے اور کھانے پینے کے لیے کچھ میسر آجائے یہ سوچتے ہوئے کچھ فاصلہ طرے کیا تھا کہ ایک آباد شہر دور سے دکھائی دیا۔ شہر کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔ وہاں کھڑا ادھر اُدھر نظر دوڑا ہی رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ نہ معلوم کون لوگ ہیں اور کس طرح پیش آئیں۔خیالات دل میں تھے ہی کہ ان کی نظر اس غلام پر پڑی ۔ تو خوشی کے نعرے مارنے لگے اور بادشاہ سلامت ، بادشاہ سلامت کی آوازیں بلند کرتے اس کی طرف بڑھے اور ایک نہایت ہی شاندار گھوڑے پر سوار کر کے شاہی شان و شوکت کے ساتھ محل میں لے گئے۔ وہاں عجیب کیفیت تھی۔ بے شمار خدمت گار خدمت میں حاضرتھے۔اُمراء و وزراء حاضر ہو کر آدابِ شاہانہ بجا لائے اور اس کو شاہانہ لباس پہنا کر مسند شاہی پر بٹھا دیا۔ غلام حیران تھا کہ کیا ماجرا ہے کیاخواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ مگر تھوری دیر کے بعد اس کو معلوم ہو گیا کہ یہ سب حقیقت ہے نہ خواب نہ خیال۔ ایک مُصاحب سے دریافت کیا۔ کیا سبب ہے کہ تم میری اس قدر عزت کرتے ہو؟ میں محتاج ہوں ۔ جاہل ہوں۔ پھر مجھے کیوں بادشاہ بنا دیا گیا؟ اس مُصاحب نے عرض کی ۔ بادشاہ سلامت! اس مُلک کا یہ دستور ہے کہ ہر سال ایک نیا شخص بادشاہ بنا یا جاتا ہے ۔ چنانچہ ہر سال یہاں کے سب لوگ سمندر کی طرف جاتے ہیں اور جو شخص پہلے نظر آتا ہے۔ اس کو نہایت تُزک و احتشام کے ساتھ لا کر بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور جب سال ختم ہو جاتا ہے تو اس کو تخت سے اتار کر ایک جہاز میں سوار کر دیتے ہیں اور ایک ویران جزیرے کی جانب روانہ کر دیتے ہیں۔ پچھلے بادشاہ نہایت نا عاقبت اندیش اور آرام طلب تھے۔ سال بھر عیش کرنے کے بعد جزیرے میں پہنچ کر بقیہ زندگی نہایت ذِلت اور پریشانی سے بسر کرتے تھے۔ اس نے مُصاحب کی تقریر بہت ہی غور سے سُنی اور آئندہ آنے والی مصیبتوں کا سامنا کرنے کو تیار ہو گیا۔ پھر مصاحب سے صلاح کی ۔ مصاحب نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت! جس طرح آپ یہاں خالی ہاتھ آئے ہیں اس طرح جزیرے میں پہنچا دیے جائیں گے۔ اس لیے مناسب ہے کہ آپ اس وقت نامی کاریگر اور معماروں کو اس جزیرے میں بھجوائیں اور حکم دین کہ وہاں جا کر عالیشان مکانات بنائیں ، باغات لگوائیں اور تمام علاقے کو سر سبز و شاداب بنائیں۔ تاکہ دور دور کے لوگ وہاں جا کر آباد ہو جائیں اور وہاں کے لوگ آپ کی رعایا اور محکوم بن کر رہیں۔ دانشمند مصاحب کا مشورہ سن کر عارضی بادشاہ بہت خوش ہوا اور فوراً تاکیدی احکام جاری کر دیے اور تھوڑے عرصے میںجزیرہ باغِ بہشت کا نمونہ بنا دیا گیا۔ہر طرف سے لوگ آکر آباد ہوئے اور تھوڑے ہی دن میں شاہی محل اور باغات تیار ہوگئے۔ اس سے پہلے بادشاہ اس عارضی حکومت پر پھول جاتے اور انجام سے غافل رہتے تھے۔ یہ دانا اور عاقل بادشاہ عارضی سلطنت کو چھوڑ کر اپنی مستقل حکومت میں جانے کے لیے بے چین رہتا ۔آخر وہ دن آپہنچا ۔ شاہی اختیارات چھین لیے گئے اور وہی بوسیدہ اور میلے کپڑے جو امانت کے طور پر رکھے گئے تھے۔ پہنا کر جہاز میں سوار کر دیا گیا۔ جہاز سیدھا جزیرے کی طرف روانہ ہوا اور جب ساحل پر پہنچا تو نئی رعایا اس کے استقبال کے لیے حاضر ہوئی اور باجے بجاتے اور خوشیاں مناتے نہایت احترام اور شان کے ساتھ بادشاہ کو شاہی محل میں پہنچا دیا۔وہ جزیرہ جو بالکل ویران اور وحشت ناک مقام تھا ۔ باغِ ارم بن گیا تھا۔ ایک غلام وہاں پہنچ کر مستقل بادشاہ کی حیثیت سے رہنے لگا اور نہایت اطمینان اور عمدگی سے باقی عمر بسر کی اور اپنی وفاداری اور ہمت کا اس کو میٹھا پھل حاصل ہوا۔ سوالات ۱- یہ غلام اصل میں کون تھا؟ غلام کس طرح بنا؟ ۲- اس غلام نے اپنے آقا سے کیا وفاداری کی؟ ۳- یہ غلام کس طرح بادشاہ بنا؟ اور دور اندیشی سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا؟ ہم اس سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ ۴- جہاز کے غرق ہونے کے بعد سے بادشاہ بننے تک کی کیفیت مختصر الفاظ میں لکھو؟ـ ۵- ’دانشمند‘ کس کس لفظ سے مرکب ہے اور کیا معنی دیتا ہے؟ اس قسم کے پانچ لفظ اور بتائو۔ ۴۰-بہشتِ بریں رشکِ گلستاں تا ابد شاد وخرم جانِ مادر دامنِ صحرا روح پرور جورِ خزاں بچہ سُنا ہے یہ کہتے تمہیں ہم نے اماں کوئی اور ہے ملک رشک گلستاں سبھی لوگ ہیں واں کے خوشحال رہتے نہ غم ہیں اٹھاتے نہ تکلیف سہتے ہر اک گھر پہ واں کے ہے رونق برستی کہو اچیھی اماں کہاں ہے وہ بستی؟ اسے ہم بھی ڈھونڈیں نشاں پائیں گیر ہم رہیں پھر وہاں تا ابد شاد و خرم وہاں ہے جہاں پر ہیں جگنو چمکتے ہیں بن آتشِ گُل سے سارے دہکتے نہیں واں نہیں ہے وہ اے جانِ مادر بھلا پھر جہاں نخلِ خُرما کھڑا ہے کھجوروں سے دامانِ صحرا بھرا ہے سمندر میں ہے ہیں جاہں سبز ٹاپُو ہوا سارے بن کی مہک سے ہے خوشبو وہ فرفر ہوائوں کا ہر وقت چلنا وہ چشمے کے پانی کا ہاتھوں اُچھلنا درختوں کی ہر سو وہ پیہم قطاریں وہ شام و سحر ان کی دلکش بہاریں انوکھی وہ خوش رنگ چڑیاں چہکتیں ستارہ سی کلیاں پروں کی چمکتیں نہیں واں نہیں ہے وہ اے جانِ مادر پھر اچھا کہیں دور وہ ملک ہوگا جہاں بہتے ریگِ طلا پر ہیں دریا کہیں بہتی اٹھکھیلیوں سے ہیں نہریں وہ شفاف پانی پہ کم کم سی لہریں جواہر کا واں کچھ نہیں ہے ٹھکانا اسی جا ہے قدرت کا گویا خزانا وہ یاقوت کی جوت سے بن پہ جو بن وہ کانوں میں تارے سے ہیروں کے روشن وہاں کی زمیں موتیوں سے جڑی ہے وہی ملک ہے کیوں نہ اماں وہی ہے؟ نہیں واں نہیں ہے وہ اے جانِ مادر ماں نہ آنکھوں نے پھول اس چمن کے چُنے ہیں نہ کانوں نے واں کے ترانے سُنے ہیں عجب روح پرور وہاں کی فضا ہے تصور سے کچھ اس کے دل جاگتا ہے نہ گرمی کی ایذا نہ سردی کی زحمت وہاں بس ہے انساں کو راحت پہ راحت تصور میں نقشہ کھنچے اس کا کیونکر نہ واں غم کا دخل اور نہ مرنے کا کچھ ڈر بہار اس کی محفوظ جورِ خزاں سے پرے قبر سے بلکہ دُور آسماں سے وہ ملکِ بقا واں ہے اے جانِ مادر سوالات ۱- بچے نے ماں سے بہشت کی کیا صفات بیان کیں؟ ۲- ماں نے کیا جواب دیا؟ آسان لفظوں میں بیان کرو؟ ۳- مطلب بیان کرو اور نثر بنائو:- ہیں بن آتشِ گُل سے سارے دہکتے ۴- ان لفظوں میں کون کون سے مذکر ہیں اور کون کون سے مونث ہیں؟ فضا۔ تصور۔ اِیذا۔ مہک۔ ـ ۴۱-والمیک غضبناک پرماتما جہنم اطمینان والمیک کی رامائن سنسکرت کی مشہور کتاب ہے۔ اس کے پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ والمیک کی شاعری بڑے اعلیٰ پایہ کی ہے۔ اسے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ والمیک بڑا بزرگ گزرا ہے۔ لیکن بہت لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو گا کہ یہی والمیک پہلے نہایت خوفناک ڈاکو تھا۔ والمیک جوانی میں ڈاکے ڈالا کرتا تھا اور راہ چلتے مسافروں کو لُوٹ کر ان کو قتل کر دیا کرتا تھا۔ وہ ایسا بے رحم اور خوفناک تھا کہ لوگ اس کا نام سن کر کانپ اٹھتے تھے اور جس طرف والمیک آیا جایا کرتا تھا۔اس طرف کبھی بھول کر بھی نہ جاتے تھے۔ وہ بچوں اور عورتوں کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہ کرتا تھا۔ ایک دن چند سادھو اسے طرف آ نکلے ۔ والمیک نے ان کو جا پکڑا اور تلوار نکال کر کہا۔ تمہارے پاس جو کچھ ہے رکھ دو۔ سادھوئوں نے جواب دیا۔ اے والمیک! سادھوئوں کے پاس سوائے ہر نام کے اور کیا ہے ۔ وہ اگر چاہو تو لے لو۔ والمیک نے کہا۔ مجھ سے تمام دنیا کانپتی ہے ۔ مگر کیا سبب ہے کہ تم میرے سامنے بے خوف کھڑے ہو؟ سادھوئوں نے جواب دیا ہم جانتے ہیں کہ تُو ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ والمیک غضبناک ہو کر بولا میں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔کیوں؟ سادھوئوں نے جواب دیا۔ پرماتما کی یہ خواہش نہیں ہے اس لیے۔ والمیک نے تلوار ایک سادھو کی گردن پر رکھی اور کہا۔ لے میں پہلے تجھے جہنم میں پہنچا دوں پھر اوروں کی طرف توجہ کروں گا۔ سادھو جس کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی تھی، کھکھلا کر ہنس پڑا۔ والمیک کو بہت تعجب ہوا۔ تُو ہنستا کیوں ہے؟ سادھو نے جواب دیا ۔ تیری بیوقوفی پر۔ کیا بیوقوفی؟ یہی مجھے قتل کرنے کی ۔ بھلا بتائو تو سہی مجھے قتل کر کے تجھے کیا ملے گا۔ روپیہ ، سونا ، ہیرا ، موتی؟ کچھ نہیں۔ پھر اس پاپ سے کیا حاصل؟ بات سچی تھی۔ والمیک کے دل میں گھر کر گئی۔ اس نے تلوار ہٹا لی اور کہا جائو میں نے سب کو معاف کیا۔ اس سادھو نے کہا۔ اے والمیک! تُو نے میر جان بخشی ہے اس لیے میرا فرض ہے کہ تیرے ساتھ کچھ نیکی کروں۔ والمیک کو اور بھی تعجب ہواْ سادھو نے پوچھا۔ تُو ڈاکے مارتا ہے؟ والمیک نے جواب دیا ۔ ہاں۔ مسافروں کو قتل کردیتا ہے؟ ہاں۔ مگر یہ گناہ ہے تو کیوں کرتا ہے؟ بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے۔ سادھو نے پوچھا ۔ توکیا تُو جانتا ہے کہ اس گناہ کا نتیجہ تجھے بھگتنا نہ پڑے گا؟ تیرے گھر کے آدمی تیرے ساتھ اس میں شریک نہ ہوں گے۔ کیوں نہ ہوں گے؟ سادھو نے اطمینان سے جواب دیا۔ جا کر ان سے پوچھ آ۔ ہم یہیںبیٹھے ہیں۔ والمیک گھر گیا اور بیوی سے بولا ۔ میں جو یہ پاپ کرتا ہوں ۔اس کے نتیجے میں تم بھی شریک ہو گی یا نہیں؟ بیوی نے ہنس کر جواب دیا۔ نہیں۔ کیوں؟ کیونکہ جو پاپ کر تا ہے پھل اسی کو ملتا ہے اس کے رشتہ داروں کو نہیں۔ مگر میں سب کچھ تمہارے ہی لیے کرتا ہوں۔ والمیک کی بیوی نے تیوری چڑھا کر کہا۔ اگر تم پکڑے جائو تو کیا سزا پائو گے؟ والمیک نے لرز کر جواب دیا ۔ پھانسی۔ کیا مجھے بھی یہی سزا ملے گی؟ والمیک نے سوچ کر کہا ۔نہیں۔ تو پھر جو راجہ نہیں کرتا وہ بے انصافی ایشور کیسے کر سکتا ہے؟ والمیک کی آنکھیں کھل گئیں۔ روتاہوا گھر سے نکل آیا اور سادھو کے قدموں پر جا گرا۔ سادھو نے اسے بہت سی قیمتی نصیحتیں کیں اور عبادت کرنے کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد اس کی زندگی نے ایسا پلٹا کھایا کہ آج تک اس کا نام زندہ ہے۔ سوالات ۱- والمیک کون تھے۔ اور پہلے کیا کام کرتے تھے؟ ۲- والمیک نے رہزنی کا کام کس طرح چھوڑا؟ ۳- والمیک اور اس کی بیوی کی گفتگو بیان کرو۔ ۴- آنکھیں کھُل جانا، کے معنی بیان کرو اور اسے اپنے فقرے میں استعمال کرو۔ـ ۵- ’جا کر ان سے پوچھ آ‘ کے دو فقرے بنائو۔ ۴۲-شیر شاہ سوری اتالیق قابلیت تعاقت حُقہ آتش ہندوستان کے مشہور اور طاقتور بادشاہوںمیں سے شیر شاہ سوری بھی ایک بہادر، عالی ہمت اور کامیاب بادشاہ گزرا ہے۔ اس کا اصلی نام فرید خاں تھا اور اس کے باپ کا نام میاں حسن خاں تھا۔ شیر شاہ کا دادا جس کا نام ابراہیم خاں سور تھا۔ صرف گھوڑوں کی تجارت کرتا تھا اور سب سے پہلے اس خاندان کا یہی شخص افغانستان سے ہندوستان آیا تھا۔ سلطان بہلول نے جو اس زمانے میں ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ پٹھانوں کو خوش کرنے اور اپنی فوج بڑھانے کے لیے ان لوگوں کو جاگیریں وغیرہ تقسیم کرنی شروع کی تھیں۔ اس سلسلے میںابراہیم خان سوری کے بیٹے میاں حسن خاں یعنی شیر شاہ سوری کے باپ کے نام بھی علاقہ سہسرام میں دو پرگنے بطور جاگیر کے سلطان نے عطا کر دیے تھے۔ شیر شاہ بچپن ہی سے حوصلہ مند تھا۔ اس کے باپ نے ایک لونڈی سے بھی شادی کر لی تھی اور اسی کی شکایتوں پر وہ شیر شاہ سے ناراض رہتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ ناراضی بہت بڑھ گئی۔ تو شیر شاہ گھر سے نکل کھڑا ہوا اور جونپور کے حاکم کے پاس پہنچ گیا اور اپنے باپ کی بے انصافیاں بیان کیں۔ یہ حاکم بھی پٹھان تھا اور اس کو حسن خان کی یہ حرکت پسند نہ آئی۔ اس نے شیر شاہ کو بہت آرام سے رکھا۔ یہیں کے مدرسوں میں شیر شاہ نے اس زمانے کی اچھی خاصی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم سے اس کے خیالات اور زیادہ اچھے ہو گئے۔ ہمت بلند ہو گئی اور حوصلے عالی طبیعت میں عدل و انصاف پیدا ہو گئے۔ جو انتظام اور حکومت کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی قابلیت دیکھ کر جونپور کے حاکم جمال خاں نے اس کے باپ کو بلا بھیجا اور باپ بیٹوں کی صلح کرا دی۔ اب حسن خاں نے اپنے بیٹے کو لائق پا کر اپنی جاگیر کا تمام انتظام سپردکر دیا اور شیر شاہ نے بھی ایسے انصاف ، خوش انتظامی اور قوت سے کام کیا کہ دور دور شہرہ ہو گیا۔ جب اس کا باپ مرگیا تو اس کے سوتیلے بھائی سلیمان نے ایک اور جاگیردار سے مل کر شیر شاہ کے خلاف فساد کرانا چاہا۔ شیر شاہ نے اس جاگیردار کو بھی شکست دے دی اور اپنی جاگیر میں اور بہت سا ادھر اُدھر کا علاقہ شامل کر کے بڑا علاقہ دار بن گیا۔ ابھی تک شیر شاہ کا نام شیر شاہ نہ تھا۔ بلکہ فرید خاں تھا۔ ایک دفعہ یہ حاکم بہار سلطان محمد کے دربار میں تھیرا ہوا تھا کہ سلطان محمد کے ساتھ شکار میں جانے کا اتفاق ہوا اور اس نے تن تنہا ایک زبر دست شیر شکار کیا۔ سلطان محمد نے اس کو شیر خاں کا لقب دیدیا اس طرح فرید خاں ، شیر خاں ہوگیا۔ اسی زمانے میں اس کی رسائی شہنشاہ بابر کے دربار میں ہوئی ۔ بابر نے اس کے چہرے سے پہچان لیا کہ یہ کوئی بڑا شخص ہونے والا ہے اور اس کو اپنے قبضے میں لانا چاہیے۔ مگر شیر شاہ بھی بابر کی نگاہیں پہچان گیا اور راتوں رات بادشاہ کے لشکر سے نکل گیا اور پھر سلطان محمد حاکم بہار کے پاس گیا۔ یہ پہلے ہی سے شیر شاہ سے بہت خوش اور اس کی قابلیت کا قدر دان تھا۔ اس نے شیر شاہ کو اپنے کم عمر بیٹے جلال خاں کا اتالیق مقرر کر دیا اور شیر شاہ جلال خاں کی تربیت کرنے لگا۔ تھوڑے ہی دن کے بعد سلطان محمد مرگیا اوراس کا جانشین یہی جلال خاں ہوا۔ چونکہ جلال خاں نو عمر تھا اس لیے سلطان محمد کی بی بی نے شیر شاہ کو اپنے جلا خاں حاکم بہار کا نائب مقرر کیا۔ اس طرح شیر شاہ کا اثر تمام ملک بہار میں قائم ہوگیا۔ رفتہ رفتہ اس نے بنگال بھی فتح کر لیا۔ جس زمانے میں شیر شاہ بنگال میں اپنی حکومت پھیلا رہا تھا ۔ اس وقت بابر وفات پا چکا تھا اور اس کا بیٹا ہمایوں ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ ہمایوں کو شیرشاہ کی یہ باتیں ناگوار تھیں کہ بادشاہی صوبوں کو اپنی حکومت بناتا چلا جائے۔ لہٰذا اس نے بھی بنگال پر شیر شاہ کے خلاف چڑھائی کر دی۔ جس میں کامیابی شیر شاہ ہی کو ہوئی۔ اب شیر شاہ نے مالوہ اور دوسرے شاہی علاقوں پر بے دھڑک حملے کرنے شروع کر دیے اور میوات پر قبضہ کر کے پنجاب و لاہور کو بھی فتح کر لیا اور دِلّی پر چڑھائی کردی۔ ہمایوں کو یہاں بھی شکست ہوئی اور لاہور میں آکر پناہ لی۔ شیرشاہ کا لشکر برابر ہمایوں کا تعاقب کر رہا تھا۔ آخر کار ہمایوں اپنے بھائی کامران کو لے کر ملتان روانہ ہوا۔ دریائے سندھ سے اتر کر ایران چلا گیا اور شیر شاہ کو سارے ہندوستان کی بادشاہت مل گئی اور بڑے انتظام سے اس نے حکومت کی۔ آخر میں لالنجر کے راجہ سے لڑ رہا تھا کہ حُقہ آتش سے جل کر ۸۵۶ ہجری میں وفات پائی۔ لیکن اپنے مرنے سے پہلے کالنجر کے قلعے کی فتح اور راجۂ کالنجر کو گرفتار دیکھ چکا تھا۔ سوالات ۱- شیر شاہ کا اصلی نام کیا تھا اوریہ نام کس طرح ہوا؟ ۲- شیر شاہ کا دادا کیا کام کرتا تھا اور اس کے باپ کو کس طرح جاگیر اور حکومت ملی؟ ۳- اس نے کس طرح بادشاہی حاصل کی اور کس بادشاہ کو شکست دی؟ ۴- شیر شاہ کے وہ اوصاف بیان کرو جن سے وہ سلطنت میں کامیاب ہوا۔ـ ۵- ’کرنے لگا‘ کو اور کس طرح بول سکتے ہیں؟ ۴۳-حواسِ خمسہ فصیح غالباً سیاست اصطلاحی جامع تفصیل اختصار اُردو زبان کا ایک فصیح محاورہ ہے اور ہماری اکثر بہنیں آئے دن بولتی رہتی ہیں کہ ’’اس کے حواس تو بجا نہیں رہے، ہمارے حواس تو ٹھکانے نہیں، ذرا حواس تو درست کرو، تمہارے تو حواس جاتے رہے‘‘ وغیرہ ۔ لیکن غالباً بہت کم بہنوں نے کبھی غور کیا ہوگا کہ یہ چار حرفی لفظ جو ہماری زبان پربے تکلف جاری ہے اور خانگی سیاست کا ایک جُز بن گیا ہے اس کی اصل حقیقت کیا ہے اور اس کے معنی کیا ہیں۔ یہ کس زبان کا لفظ ہے۔ کوئی اصطلاحی لفظ ہے یا معمولی۔ اچھا آئو۔ ہم بتائیں اور مختصر مگر جامع عبارت میں اس کی بابت سمجھائیں۔ حواس اصل میںحاسہ کی جمع ہے اور ایک اصطلاحی عربی زبان کا لفظ ہے۔ سین مہملہ کی تشدید کے ساتھ حاسہ ایک قوت کا نام ہے۔ جس سے کسی چیز کی حِس یعنی علم حاصل ہوتا ہے اور اس کا اثر معلوم کیا جاتا ہے۔ حاسہ کو علم طبعیات میں مدرکہ بھی کہتے ہیں۔ اس کی دس قسمیں ہیں۔ پانچ ظاہری اور پانچ باطنی۔ اور ان کو حواسِ خمسہ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں علم طبعیات پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں ان کا بہت تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ لیکن ہم اس وقت نہایت اختصار کے ساتھ چند بہت معمولی معلومات بہم پہنچانا کافی سمجھتے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ کبھی مزید وضاحت سے لکھیں گے۔ حواسِ خمسہ ظاہری کی پہلی قسم باصرہ ہے۔ جس سے ہماری آنکھیں دنیا کی جاندار و غیرجاندار مخلوقات کو صورتوں اور شکلوں ، رنگوں کا اختلاف دیکھتی بھالتی اور معلوم کرتی ہیں۔ اس کی حکما کے نزدیک تین قسمیں ہیں۔ دوسری قوت سامعہ ہے۔ جس سے ہمارے کان مختلف چیزوں کی آواز کوجانتے ، پہچانتے ہیں اور ہر چیز کی آواز میں امتیازکرتے ہیں۔ مثلاً برتنوں کی جھنکار۔ گھنٹہ کی ٹن ٹن۔ بادل کی گرج، بجلی کی کڑک، باجوں کی آوازیں۔ جانوروں کی بولیاں ۔ آدمیوں کی بول چال۔ تیسری قوت شامہ ہے۔ (میم کی تشدید کے ساتھ) اس کے ذریعے سے اشیا کی خوشبو ، بدبو ناک کی راہ سے دریافت ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً باغ میں پہنچ کر پھولوں کی خوشبوئیں۔ جب ہمارے دماغ میں پہنچتی ہیں تو ہم فوراً ایک قسم کی فرحت پاتے ہیں۔ پھر گلاب ، چنبیلی، جوہی ، بیلا، مولسری سب پھولوں کی خوشبوئیں جدا جدا سمجھ میں آجاتی ہیں۔ اور سبزے کی بدبو، خراب اور سڑی ہوئی چیز کی بدبو سے دماغ فوراً پریشان ہو جاتا ہے۔ یہ اثر اسی قوت ِ شامہ کی مدد سے حاصل ہوتا ہے۔ چوتھی قوتِ ذائقہ ہے۔ جو خدا کی طرف سے زبان میں رکھی گئی ہے۔ اس کی بدولت ہم فوراً کھانے پینے کی چیزوں کا مزہ معلوم کر لیتے ہیں۔ مثلاً نارنگی کھٹی، شکر میٹھی، ہڑ بکھٹی اور نیم کڑوا۔ سالن نمکین، سلونا وغیرہ وغیرہ اسی قوت ذائقہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ پانچویں قوت لامسہ ہے۔ جو ہمارے تمام جسم کی جلد میں اور انگلیوں کے اوپر کے پوروں میں خاص کر کلمہ والی انگلی کے سرے والے پورے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے ہر چیز کو چھو کر بآسانی معلوم کر لیتے ہیں۔ اسی انگلی پر کچھ موقوف نہیں ہے۔ بلکہ ہمارے جسم کے کسی حصے سے بھی ذرا کوئی شے چھو جائے۔ پس ہم کو فوراً معلوم ہو جائے گا کہ وہ چیز گرم تھی یا سرد، نرم تھی یا سخت۔ اگر کبھی کسی عارضہ یا بیماری کی وجہ سے ان پانچوں قوتوں میں سے کسی ایک کا اثر کم ہو جاتا ہے اور کبھی بالکل جاتا رہتا ہے تو ایسی حالت میں انسان کو سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے اور زندگی انتہا درجے کی بد مزہ ہو جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بعض لوگ اندھے ہوتے ہیں ۔ یعنی ان کی آنکھیں تو موجود ہوتی ہیں۔ مگر قوت باصرہ جس کو بینائی بھی کہتے ہیں، جاتی رہتی ہے۔ اور اندھے کسی چیز کے حسن ، خوبصورتی و بد صوریت کے مشاہدے اور اثر سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح جو لوگ بہرے ہوتے ہیں وہ بھی ایک بڑی نعمت سے نا آشنا ہوجاتے ہیں۔ پیانو اور ہارمونیم۔ گراموفون وغیرہ ایسے ایسے لطیف باجوں کی سُریلی اور دلکش آوازوں کی کیفیت سے وہ لذت آشنا نہیں ہو سکتے۔ خوش گلو اور موسیقی دان صاحب کمالوں کے دل پذیر گیتوں کے سننے سے جو روحانی تفریح حاصل ہوا کرتی ہے۔ وہ بیچارے اسے جانتے ہی نہیں اور نہ نغمہ سنج اور ترنم ریز جانوروں کی پرکیف و سرور بخش آوازیں ان کے کانوں میں پہنچ کر ان کو محظوظ کر سکتی ہیں۔ کان ہوتے ہیں مگرقوت ِ سامعہ نہیں ہوتی۔ بعض بیچارے سونگھنے کی حس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور خوشبو بدبو کچھ انہیں سمجھ نہیں پڑتی اور یہ گویا خدا کی بہترین نعمت سے محروم ہو جانا ہے۔ بعض لوگوں کی زبان سے ذائقہ کی قوت فنا یا خراب ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے یا تو بالکل احساس نہیں رہتا ہے یا ہر مزیدار چیز بدمزہ معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ کس قدر نعمتوں سے وہ محروم رہتے ہیں۔ بعض میں لامسہ کی قوت باقی نہیں رہتی جیسے سُن کے عارضے سے ۔ یاقدرتاً ہوتی ہی نہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کوئی لازمی بات نہیں کہ ان پانچ قوتوں سے زیادہ ہونا ممکن ہی نہیں۔یا یہ کہ ہر جاندار میں یہ پانچوں حسیں ضرور پائی جاتی ہیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب تک جن حواس کا ہم کو علم ہوا ہے ۔ وہ صرف پانچ ہی ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ حقیقت میں کوئی اور دوسرا حاسہ بھی پایا جاتا ہو۔ انسان میں نہیں تو اور حیوانات میں ہی سہی اور ہم کو اس کا علم نہ ہو۔ اور بعض ایسے بھی جاندار ہیں جو ان پانچ حواس میں سے کسی حاسہ سے محروم ہی ہوتے ہیں۔ جسے قدرتی اندھا کہ وہ بینائی کو جانتا ہی نہیں وغیرہ۔ سوالات ۱- حواسِ خمسہ کے نام اور ان میں سے ہر ایک فائدے بیان کرو؟ ۲- ’حواس بجا نہ رہنا‘ کے معنی بیان کرو اور اپنے فقرے میں استعمال کرو۔ ۳- لوگ کہتے ہیں ’’دل کی آنکھ سے دیکھو، دل کے کان کھول کر سنو‘‘ اس سے کیا مراد ہوتی ہے؟ ۴- ذیل الفاظ کے ہجے یاد کرو:-ـ باصرہ، سامعہ، لامسہ، شامہ ، ذائقہ، فصیح ، جامع، اختصار۔ ۴۴-سرودِ زندگی خوابِ پریشاں عالمِ ہستی عیش وطرب رنج وزحمت اصل و غایت میدانِ دِغا وفات کسبِ فضیلت ہم سے یہ رونا نہ روئو ہر آں ہستی ہے اک خوابِ پریشاں مردہ ہے وہ روح جو سوئے بات نہیں جو لوگ ہیں سمجھے ------------- عالم ہستی ہے بیداری قبر نہیں ہے غایت اس کی مِٹی ہے تُو مِٹی میں ملے گا رُوح کی جانب کب ہے اشارا ------------- عیش و طرب یا رنج و زحمت اپنی نہیں ہے اصل و غایت بلکہ رہیں یونہی محوِ ترقی آج سے کل بہتر ہو اپنی فضل و ہنر کی حد نہیں بارے وقت ہے جاتا بھرے طرارے گو ہے ہمارے قلب میں ہمت ہاتھوں میں کس بل پائوں میں طاقت لیکن سینے میں نوبت آسا بجتا ہے ہر دم کوچ کا ڈنکا ------------ دنیا کے میدان وِغا میں عُمر کی دارو گیر بلا میں ہنکتا نہ جا جوں بے بس حیواں ہاتھ دِکھا بن مردِ میداں ----------- ہو کتنا ہی خوش کُن فروا رکھیے نہ ہر گز اس پہ بھروسا اور نہ رو مافات کا دُکھڑا اس کا رہنا یوں ہی اچھا حاضر ناظر حق کو سمجھ کے کرنا ہے تو اب کچھ کر لے ----------- کہتی ہے تاریخ سلف کی ہم بھی سدھاریں حالت اپنی نقشِ قدم کو دائیں بائیں راہ میں اپنی چھوڑتے جائیں تاکہ کوئی بھی بھُولا بھٹکا پائے جو راہ عمر میں کھٹکا چھوڑے نہ جی تنہائی کے غم میں پائے ڈھارس نقشِ قدم سے ---------- آئو پھر راضی برضا ہو سعی پہ باندھو چست کمر کو رہیے محوِ کسب و فضیلت گنج ہے مُزدِ رنج و محنت (مولوی سید احمد کبیر) سوالات ۱- لوگ زندگی کو کیا سمجھتے ہیں اور درحقیقت کیا ہے؟ ۲- زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ ۳- زمانہ ماضی اور مستقبل کیوں بھروسے کے قابل نہیں ؟اور کونسا وقت قابل اعتبار ہے؟ ۴- ہماری زندگی کس طرح دوسرے کے لیے مفید ہو سکتی ہے؟ـ ۵- چھٹے بند کے تینوں شعروں کا مطلب آسان لفظوں میں بیان کرو اور تینوںکی نثر بنائو؟ ۴۵-مکتوباتِ آزاد اضطراب الحمدلللّٰہ اقبال نشانِ من الف لیلہ وعدۂ حصول تعہُّد اِنشاء اللہ (۱) ہاں صاحب میں جو دلی گیا تو وہاں ابرو کے چیچک نکل آئی۔ بڑا اضطراب رہا۔ غرضیکہ انیس دن وہاں رہنا پڑا۔ ۱۴ کو الحمدُ لللّٰہ کہ اسے لے کر آیا۔ تب آپ کا خط دیکھا ۔ اس لیے جواب میں دیر ہوئی۔ معاف کیجیے گا۔۲۰ روز تک آپ کا انتظار رہا۔ اب مجبور ہو کر یہ خط روانہ کر دیا ہے۔ ۱۵ کو آپ کی عرضی برائے سفارش منصفی صاحب رجسٹرار کو دی تھی۔ ابھی جواب نہیں ملا۔ نواب صاحب سے بھی وعدہ سفارش کا لیا ہے۔ آپ کو یہاں آنا ضرور چاہیے تھا۔ خیران چھٹیوں میںہوتا تو بہت اچھا تھا۔ یہ نہ ہوا تو ہفتہ آئندہ میں یا اس کے بعد آئیے اور میرا ارادہ پٹیالہ کا ہے۔ انشاء اللہ اتوار کو یہاں آجائوں گا۔ (۲) اقبا نشانِ من! بعد از دعاہا معلوم باد۔ تم لاہور میں آئے اور مجھ سے بے ملے چلے گئے۔ شاباش! شاباش!! خدا تمہیں ایسا بڑا کرے کہ مجھے پہچان بھی نہ سکو۔ میں بھی اسی میں خوش ہوں۔ مگر میرا ایک ضروری کام ہے۔ وہ کر دوکہ مولوی علی احمد مدرس فارسی نے ایک کتاب لکھی ہے وہ کہیں سے لے کر بھیج دو۔ زیادہ دعا۔ (۳) عالی جنابِ من نہایت شکر گزار ہویں کہ آپ نے میاں غلام نبی صاحب سے الف لیلہ کے باب میں وصولی کے لیے تحریک فرمائی اور ان سے وعدۂ حصول بھی حاصل کیا۔ لیکن ایک تحصیل کا چپراسی جو پہلے سے مجھے جانتا ہے۔ اس کی معرفت آج انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ وہ کتاب تو میرے پاس سے کھوئی گئی کہو تو بمبئی سے اور منگا دوں یا جو چاہو۔ اس کی قیمت لے لو۔ اب آپ خیال فرمائیں کہ اس اشراف آدمی کی نیت کا کیا حال ہے۔ خیر آپ اس بات کو خیال میں رکھیںاور ایسے رہیں کہ گویا نہیں سنا۔ میں نے اس معاملے کواب آپ پر چھوڑ دیا ہے۔ جب تک آپ نہ فرمائیں گے۔ مقدمے کو آگے نہ بڑھائوں گا۔ اگر مناسب ہو تو ایک دفعہ پھر ان کی نبض دیکھیے۔ معلوم تو ہو کہ طبیعت کا کیا حال ہے میں آپ کی عنایت کا تو دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور جس قدر توجہ فرمائی ہے ۔ اس کا ممنون احسان ہوں۔ کیونکہ بے کسی طرح کی سابقپ معرفت کے ان پر یہ مہربانی کی ہے اور جو کچھ کیا۔ شرافت اور تہذیب کے رشتے کا لحاظ کر کے کیا ہے۔ زیادہ نیاز۔ (۴) صاحبِ من! مجھے پیچھے خیال آیا کہ جو خط میں نے بھیجا تھا ۔ اس کی اطلاع دہی سے میں تمہیں سٹیشن پر نہیں بلا سکتا تھا۔ خیر تمہارے خط کے میرے پہلے جواب تو تم تک پہنچ گئے۔ مگر اسی وقت مجھے اپنی روانگی کا تعہُّد معلوم ہوا۔ جس وقت کہ میں روانہ ہوا۔ اور خط جو لکھا ہوا رکھا تھا۔ اسے خود ڈاک میں ڈال دیا۔ میں ضرور تمہارے پاس ایک دو دن ٹھیرتا۔ مگر بھائی گوردت سنگھ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے چھوڑ کر کہاں جائو گے۔ میں بھی شرما گیا اور ان کے ساتھ ساتھ لاہور چلا گیا۔ الحمدُ لللّٰہ یہاں سب کو زندہ پایا اور اب سب کے مزاج مائل بصحت ہیں۔ ہمیرا بیچارہ تپ میں مبتلا تھا۔ اسے جُلاب دیا۔ الحمدُ لللّٰہ کہ آج اس کی دو باریاں ٹل گئیں۔ یہ دونوں بھائی بڑے غریب ہیں اور کیوں نہ ہوں ۔آخر آپ کی تعلیم ہے ۔ میں ان سے بہت شرمندہ ہوں کہ جیسے جی چاہتا ہے۔ ویسی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ آج اس نے مجھ سے کہا۔ ۔۔ کہ میں نے کئی خط گھر کو بھیجے ہیں۔ مگر وہاں سے خط نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرا خط وہاں تک نہیں پہنچتا۔ آپ منشی دُنی چند صاحب کو لکھیے کہ وہ میرے گھر سے خبر منگائیں اور ان سے کہیں کہ جاڑا قریب آیا ہے ۔مجھے سرمائی کپڑے بنانے ہیں اور شروع ماہ پر اب مدرسے میں داخل ہو ں گے۔ کتابیں بھی لینی ہیں۔ اس لیے جس طرح ہو سکے ہمیں بھیج دیں۔ یہ تو ان کا پیغام تھا۔ کہ تمام ہوا۔ اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ نے میرے خط کا جواب کیوںنہیں لکھا؟ مجھے بڑا خیال ہے اور بڑا تعجب ہے ۔ دیکھتے ہی جواب لکھیے اور دیر کا سبب لکھیے اور پٹیالے کا جو کچھ حال معلوم ہوا ہو۔ مفصل لکھیے۔آبرو آداب کہتا ہے۔ چٹھی رساں یہاں آکر میں نے ایک نیا آدمی پایا۔ مجھے یہ بھی شبہ ہے کہ شاید میرے خط گُم نہ ہوتے ہوں۔ جواب جلد لکھیے۔ فقط۔ سوالات ۱- پہلے خط میں کاتب نے مکتوب الیہ کے خط کا جواب دیر سے دینے کا کیا سبب بیان کیا ہے ؟ اور کیوں مکتوب الیہ کو بلایا ہے؟ ۲- دوسرے خط میں مکتوب الیہ سے کس بات کی شکایت کی گئی ہے اور کس پیرائے میں؟ ۳- تیسرے خط میں کس بات کا شکریہ ادا کیا گیا ہے اور کیا فرمائش کی گئی ہے؟ ۴- چوتھے خط میں کاتب نے مکتوب الیہ کو جو کچھ لکھا ہے۔ مختصر طور پر اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ـ ۵- تیسرے خط میں ان فقروں کی تشریح کرو۔ ایک دفعہ پھر ان کی نبض دیکھیے ، معلوم تو ہو کہ طبیعت کا کیا حال ہے؟ ۶- ذیل الفاظ کے معنی بیان کرو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو:- اضطراب، الحمدُ لللّٰہ ، ممنون احسان۔ ۷- دبائو اور دبائیے میں فرق بیان کرو اور بتائو کہ دونوں کلمے کی کونسی قسم ہیں؟ ۴۶- اندھی، بہری اور گونگی عورت والدین جگر خراش معالجہ تقریباً اضافہ موزونیت اضطراب اس عجیب و غریب عورت کا نام ہیلن کیلر ہے۔ اِس وقت اس کی عمرکم وبیش پچپن سال کی ہے اور خدا کی قدرت دیکھو کہ اگر چہ اندھی ہے مگر دیکھ سکتی ہے، اگرچہ گونگی ہے ، مگر بول سکتی ہے اور اگرچہ بہری ہے مگر سُن سکتی ہے۔ تم حیران ہو گے کہ یہ کیسے؟ ہم نیچے کی سطروں میں تمہاری حیرانی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ ہیلن کیلر ۲۷ جون ۱۸۸۰ء کو شمالی امریکہ کے ضلع الاباما کے ایک چھوٹے سے گائوں سکمبیا میں پیدا ہوئی۔ اس کے بزرگ سوئٹزرلیندسے ترکِ وطن کے کے اس خطے میں مدتِ مدید سے آباد تھے۔ اس کا باپ امریکہ کی جنگِ آزادی میں قومی فوج کا کپتان تھا۔ اس کی والدہ امریکہ کے ایک معزز خاندان کی رکن تھی۔ ہیلن کیلر اپنے ماں باپ کی اکلوتی بچی تھی۔ اا لیے اس کی پیدائش کے موقع پر بہت خوشیاں منائی گئیں اور چونکہ والدین کی چہیتی بیٹی تھی اس لیے خاندان میں اس کا نا م تجویز کرنے پر بہت کچھ اختلاف ہوا اور یہ بتا دینا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اس کا باپ اپنے بزرگوںکی مناسبت سے اس کا نام رکھنا چاہتا تھا اور اسی طرح اس کی والدہ اپنے خاندان کے بزرگوں کی مناسبت سے اس کا نام تجویز کرتی تھی۔ آخر کار والدہ کی جیت ہوئی اور والدہ کا تجویز کیا ہوا نام رکھا گیا۔ تمہارا خیال ہوگا کہ عام لوگوں کی طرح ہیلن کیلر بھی بڑی ہو کر کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوئی ہو گی اور اس کی وجہ سے اندھی اور گونگی بہری ہوئی ہو گی۔ مگر نہیں ہیلن کیلر ابھی ڈیڑھ برس کی تھی کہ بخار میں مبتلا ہوئی ، بخار اس شدت کا تھا کہ اس کے اثر سے ہیلن کیلر کے معدے اور دماغ کا خون جم گیا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ یہ لڑکی مر جائے گی۔ اس کے بعد بخار فوراً اتر گیااور جب اس کا علم اس کے والدین کو ہوا تو وہ بہت ہی خوش ہوئے۔ مگر یہ کوئی نہ جانتا تھا کہ اگرچہ بخار تو اتر گیاہے مگر لڑکی نہ تو آئندہ دیکھ سکے گی، نہ بول سکے گی اور نہ سُن سکے گی۔ تم خود اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہو کہ جب اس کے والدین کو اس حادثے کا علم ہوا ہو گا تو اس جگر خراش صدمے کے علاوہ جو کہ ایسے موقع پر ہونا لازمی ہے انہوں نے اس کے علاج میں کونسا دقیقہ اٹھا رکھا ہوگا؟ بلا شبہ انہوں نے ہیلن کے علاج و معالجے کے لیے تمام امریکہ کو چھان مارا۔ یوروپ کے بڑے بڑے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا، مگر فائدہ نہ ہوا۔ اگرکچھ فائدہ ہوا تو یہ کہ بوسٹن کے ایک لائق ڈاکٹر نے بڑی تلاش کے بعد ہیلن کے لیے ایک استانی بھیج دی۔جوکہ اندھوں اور گونگوں کو تعلیم دینے میں بہت مشہور تھی ۔ اس استانی صاحبہ کا نام مس سلیون تھا۔ اس وقت ہیلن کی عمر تقریباً سات سال کی تھی جب۔ استانی صاحبہ آئیں۔ اب تم سوچ سکتے ہو کی یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ بالکل اندھی، گونگی اور بہری عورت عام انسانوں کی طرح لکھ سکے۔ ہر ایک چیز کو صرف انگلیوں سے محسوس کر کے اس کی حقیقت پا لے اور اسی طرح انگلیوں کی حرکت اور اشارے سے اپنا مطلب دوسرے کو سمجھا دے۔ فی الواقعہ جن حیرت انگیز طریقوں سے مس سلیون نے ہیلن کیلر کو تعلیم دی ان کا سہرا انہی استانی صاحبہ کے سر ہے۔ تم یہ سن کر تعجب کرو گے کہ اس لڑکی نے اوائل عمر ہی میں کتنی ہی کتابیں تصنیف کیں ۔ جس کی وجہ سے تمام ملک میں اس کی شہرت ہو گئی۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی۔ اس کے علم اور شہرت میں بھی ترقی ہوتی گئی۔ مس سلیون نے نہایت محنت اور دلی محبت کے ساتھ اسے پڑھایا اور اس کی تعلیم کو زندگی کے ہر شعبہ کے لیے موزوں تر بنایا۔ اسے تمام امریکہ کی سیر کرائی گئی اور اس نے ریل، جہاز، سمندر، موٹر، ہوائی جہاز اور دوسری طرف نمائشیں ،جلسے ، تھیئیٹر، گانا، موسیقی وغیرہ سب چیزوں کو عملی طور پر محسوس کیا۔ جس سے اس کے علم میں اضافہ ہوا اور اب یہ حالت ہے کہ اس کی ملاقات کو بڑے بڑے مصنف، ایڈیٹر اور ڈاکٹر اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔ ہیلن کیلرنے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ جس کا نام ’میری سرگزشت حیات ‘ ہے۔ اس میں اس نے اپنی زندگی کے حالات کو پورے طور پر اور تفصیل سے لکھا ہے۔ کتاب کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اس کتاب میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ جو ایک کتاب میں ہونی لازمی ہیں۔ وہاں عبارت کی روانی اور شستگی اور لفظوں کی موزونیت کچھ ایسی ہے کہ پڑھنے والے پر اثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ خاص کر اس حصے میں کہ جہاں وہ اپنی بیماری اور بیماری کے بعد اندھا۔ بہرا اور گنگا ہو جانے کا ذکر کرتی ہے ۔ بخار کے بعد فوراً ہی جب بینائی جاتی رہی تو اپنی حالت کی اس اچانک تبدیلی کی وجہ سے جو اذیت اسے پہنچی ہوگی۔ ہم تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ مگر جن لفظوں میں اس نے اپنی اس حالت کوبیان کیا ہے۔ اس کو پڑھنے سے اس کی تمام حالت اور کیفیت کا نقشہ پڑھنے والے کی آنکھوںکے سامنے آجاتاہے اور بغیر دل پر اثر کیے نہیں رہتا۔ مثلاً ایک جگہ لکھتی ہے:- ’’میرے دماغ میں اس بیماری کی تھوڑی بہت یاد اب تک باقی ہے۔ خصوصاً میری والدہ کی شفقت مادری کہ جس کے جوش میں بیخود ہو کر وہ میری بیداری کے اذیت اور تکلیف سے بھرے ہوئے چند گھنٹوں میں مجھے بہلانے اور میٹھی میٹھی باتوں سے میرا دل خوش کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ مجھے اپنی والدہ کی وہ محبت بھری پریشانی اور اضطراب بھی نہیں بھولا۔ جبکہ میں اپنی دیکھنے اور بولنے کی قوت کو کھو چکنے کے بعد گھبراہٹ اور بے چینی کی تھوڑی سی نیند لے کر جان توڑ تکلیف محسوس کرتی ہوئی جاگ پڑتی اور اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں کو روشنی کی تلاش میں گھبراہٹ کے عالم میں دیوار کی طرف پھیر دیتی لیکن سوائے ان جلدی سے گزر جانے والے خیالوں کے باقی تمام باتیں ایک ڈرائونا خواب معلوم ہوتی ہیں‘‘۔ اس کے بعد ایک دوسری جگہ لکھتی ہے:- ’’ مجھے یاد نہیں کہ مجھے کب یہ معلوم ہوا کہ میں دوسرے انسانوں کی طرح نہیں۔ لیکن بہر صورت یہ بات مجھے اپنی استانی صاحبہ کے تشریف لانے سے پہلے معلوم ہو چکی تھی اور میں نے معلوم کر لیا تھا کہ میرے ماں باپ اور رشتہ دار بات چیت کرتے وقت اشاروں کا استعمال نہیں کرتے ۔ جیسے کہ میں کرتی ہوںبلکہ منہ سے بولتے ہیں۔ بعض اوقات میں دو آدمیوں کے درمیان کھری ہو جاتی جو کہ آپس میں باتیں کرتے ہوتے تھے اور ان کے ہونٹوں پر اپنی انگلیاں رکھ دیتی اور ا ن کی باتوں کو نہ سجھ سکنے کی وجہ سے غصے میں آ جاتی ۔ اس کے بعد خود ہونٹوں کو ہلاتی اور ان کی طرح باتیں کرنے کی کوشش کرتی۔ مگر بے فائدہ بعض اوقات بات کرنے کی کوشش میں ناکامیاب ہو نے پر اس قدر غصے میں آجاتی کہ آپے سے باہر ہو جاتی اور جھنجھلاکر آس پاس کی چیزوںکو ٹھوکریں لگاتی اور جب تھک کر چور ہو جاتی تو رونا شروع کر دیتی‘‘۔ غرض یہ تمام کتاب اس کی حیرت انگیز زندگی کے حالات سے بھری پڑی ہے۔ مگر تمہارے سامنے ہیلن کیلر کی زندگی کا یہ تھوڑا سا حال اس لیے بیان نہیں کیا گیا کہ تم اس کے اندھا ، بہرا اور گونگا ہونے پر رحم کھائو یا اس کے ماں باپ اور رشتہ داروں سے ہمدردی ظاہر کرو۔ یااس کے لیے دعا کرو کہ خدا وند کریم اسے آنکھیں ، کان اور زبان دے۔ بلکہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ تم اس بات پر غور کرو کہ جب اس درجہ محتاج لڑکی جو کہ نہ سن سکتی ہ، نہ دیکھ سکتی اور نہ بول سکتی ہے اس قدر ترقی کرجائے کہ تمام دنیا میں مشہور ہو جائے اور لوگ اس سے ملاقات کرنے کو فخر کا باعث خیال کریں تو پھر تم جو کہ آنکھیں ، کان اور زبان رکھتے ہو اور خدا کے فضل و کرم سے تندرست بھی ہو کیوں نہ ترقی کی طرف قدم بڑھائواور خود لائق و فاضل بن کر اپنی قوم و ملک کی بہتری کی تدبیریں سوچو۔ خدا کرے ہیلن کیلر کا یہ مختصر افسانہ تمہارے لیے ترقی کی راہ میں چراغ ثابت ہو۔ سوالات ۱- مس ہیلن کیلر کی ابتدائی زندگی کا حال بیان کرو؟ ۲- ہیلن کیونکر اندھی ، بہری او ر گونگی ہوئی؟ ۳- اس کی تعلیم کس نے کی اور کیونکر؟ ۴- اس کی زندگی سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ـ ۵- اس فقرے کا مطلب بیان کرو:- ’ان کا سہرا انہی استانی صاحبہ کے سر ہے‘۔ ۴۷-کرجُگ آفات مثلِ گُل نُکتہ ثنا خوانی مہمانی دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے میوہ کھِلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے کلجُگ نہیں کرجُگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے کانٹا کسی کے مت لگا گر مثل گُل پھُولا ہے تُو وہ تیرے حق میں زہر ہے کس بات پر پھُولا ہے تُو مت آگ میں ڈال اور کو پھر گھاس کا پُولا ہے تُو سُن رکھ یہ نکتہ بے خبر کس بات پر پھُولا ہے تُو کلجُگ نہیں کرجُگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے تُو اور کی تعریف کر تجھ کو ثنا خوانی ملے کر مشکل آسان اور کی تجھ کو بھی آسانی ملے تُو اور کو مہمان کر تجھ کو بھی مہمانی ملے روٹی کھلا روٹی ملے، پانی پلا پانی ملے کلجُگ نہیں کرجُگ ہے یہ، یاں دن کو دے اور رات لے کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے (حضرت نظیر اکبر آبادی مرحوم) سوالات ۱- کلجُگ اور کر جُگ کی تعریف کرو اور فرق بیان کرو؟ ۲- دنیا کو بازار کویں کہا ہے؟ ۳- مطلب بیان کرو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو:- کانٹا لگانا، پھولنا، مشکل آسان کرنا۔ ۴- اس سبق میں جو ضمیریں ہیں بتائو۔ ۴۸-بنارس مقدس صداقتٍ صبر وتحمل سکون اعتدال عقیدت بنارس ایک بہت پرانا شہر ہے جس کا نام پہلے کانشی تھا۔ اب بھی بعض لوگ اس کو کاشی کہتے ہیں۔ یہ ہندوئوں کے بڑے مقدس تیرتھ کی جگہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے تاریخی واقعے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے رِشی اور مُنی بنارس کے نام کے ساتھ اب تک زمانے کو یاد ہیں۔ مہاراجہ ہریش چندر یہیں کے راجہ تھے اور یہیں ا ن کی صداقت اور صبر وتحمل کی آزمائش کی گئی تھی۔ بنارس گنگا کے نورانی کناروں پر آباد ہے۔ صبح کے وقت جب سورج نکلتا ہے اور شواگوں کے سنہری کلس گنگا میں اشنان کرتے ہیں تو پانی سونے کی چادر بن جاتا ہے ۔ گنگا کے پانی میں نہانے سے دل کو سکون ، تسلی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ اور ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق بہت سے گناہ پانی کے ساتھ بہہ جاتے ہیں۔ بنارس میں مندر بہت زیادہ ہیں اور گنگا کے کنارے اب بھی سینکڑوں سادھو اور مسافر خدا کی یاد اور عبادت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہاں میلے تو بہت ہو تے ہیں۔ مگر ’بوڑھوا منگل‘ سب سے زیادہ مشہور میلہ ہے۔ یہ میلہ گنگا میں منایا جاتا ہے۔ کشتیوں میں چراغ جلائے جاتے ہیں۔ جب بہت سی کشتیاں دریا میں جمع ہو جاتی ہیں تو بڑا دلچسپ سماں ہو جاتا ہے۔ لوگ گاتے بجاتے بڑی دیر تک گنگا کی سیر کرتے رہتے ہیں۔ ہندو یونیورسٹی بنارس کی ایک مشہور یونیورسٹی ہے۔ جس میں مذہبی تعلیم کے علاوہ تمام علموں کی تعلیم نہایت محنت اور کوشش سے دی جاتی ہے۔ یہاں سنسکرت کی تعلیم کا نہایت اچھا انتظام ہے۔ بنارس میں اور بھی بہت سے سکول اورکالج ہیں۔ جن میں ہر قوم کے بچے تعلیم پاتے ہیں۔ بنارس متھرا سے بڑا اور الہ آباد سے چھوٹا ہے ۔ گنجائش کے لحاظ سے آبادی زیادہ نہیں ، آب وہوا میں اعتدال رہتا ہے۔ زمینیں زرخیز اور قابل کاشت ہیں ۔آس پاس چاول بہت پیدا ہوتا ہے اور زیادہ کھایا بھی جاتا ہے۔ یہاں سرائیں ۔ مسجدیں اور دھرم سالہ بھی کچھ ہیں۔ مگر جو لطف گنگا کے گھاٹوں پر صبح شام آتا ہے۔ وہ شہر میں کسی وقت اور کہیں نصیب نہیں ہوتا۔ گنگا کے کنارے جو بڑے بڑے مندر زمانۂ قدیم کے بنے ہوئے ہیں۔ وہ اب تک اپنی عظمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ بنارس دیکھنے والے کے دل پر سب سے پہلے جس چیز کا اثر ہوتا ہے ۔ وہ انہیں مندروں کی شاندار دیواریں ہیں۔ جو گنگا سے مُنہ پھیرے اور گنگا کے سامنے اب تک ہندوستان کی مذہبی عظمت و عقیدت کی زندہ شہادتیں ہیں۔ سوالات ۱- بنارس کہاں واقع ہے اور کیوں مشہور ہے؟ ۲- بنارس میں کسی چیز کی کثرت ہے؟ ۳- بنارس میں کونسا میلہ زیادہ مشہور ہے ؟ اس کی مختصر کیفیت بیان کرو۔ ۴- مطلب بیان کرو:- ’’شوالوں کے سنہری کلس گنگا میں اشنان کرتے ہیں‘‘ ۵- کی گئی تھی ۔ کون سا فعل ہے؟ اس کا مصدر بتائو۔ ۴۹-ملکہ معظمہ وکٹوریا ممدوحہ شفیق عظمت قابلیت مادرِ مشفقہ والدۂِ ماجدہ استقلال اعتدال صحیح النسب حضور ممدوحہ کے پدربزرگوار کا نام ایڈورڈ کنٹ ہے۔ اور ۲۴ مئی ۱۸۱۹ء میں حضور ممدوحہ بمقام کنزنکٹن پیلس پیدا ہوئیں۔ اگلے ہی سال میں حضور ممدوحہ کے شفیق باپ نے قضا کی اور ہماری ملکہ معظمہ یتیم ہو گئیں۔ اس وقت یہ بات کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ آسکتی تھی کہ یہ بن باپ کے لڑکی ایک روز ایسی عظمت اور شان کو پہنچے گی کہ یوروپ اور افریقہ اور ایشیا اور امریکہ ہر ایک حصۂ ملک میں اس کی حکومت اور طاقت کا لوگ اقرار کریں گے۔ لیکن اب میں آپ صاحبوں کو بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جس کے سبب ہماری ملکہ معظمہ نے ایسی بڑی ناموری حاصل کرنے کی قابلیت پیدا کی۔ یہ حضور ممدوحہ کی مادرِ مشفقہ کی تعلیم کا نتیجہ تھا۔ حضورممدوحہ کی والدۂِ ماجدہ کا نام ڈچس آف کینٹ تھا جو بادشاہ بلجیم کی بہن تھیں۔ انہوں نے بعد انتقال اپنے شوہر کے بڑے استقلال اور قابلیت کے ساتھ اپنی یتیم لڑکی کی تعلیم و تربیت کا اہتمام خود اپنے ذمے لیا۔ سب سے پہلے انہوں نے جناب ملکہ معظمہ کو ورزش سکھلائی۔ یعنی وہ کام جن سے بدن چست اور طبیعت خوش رہے۔ ہمارے ملک کے آدمی ابھی اس اہم معاملے کی خوبی کسے آگاہ نہیںہیں۔ اور ابھی اولاد کی صحتِ جسمانی کا زیادہ لحاظ نہیں کرتے۔ حالانکہ یہ ابتدائی احتیاط ہرایک قسم کی تعلیم کی جڑ ہے۔ اگر بچوں کی صحت و عافیت میں ابتداسے کچھ خلل آجائے تو پھر ان کی ہر ایک قسم کی استعداد پژمردہ ہو جاتی ہے اور وہ تعلیم کے اعلیٰ درجے کو نہیں پہنچ سکتے۔ ورزش کے بعد جس چیز کی تعلیم دی گئی۔ وہ اعتدال ہے۔ یعنی ہر ایک کام میں سلامت روی اختیار کرنا۔ اس کے علاوہ گھوڑے کی سواری اور جہازی سفر وغیرہ امور کی تعلیم بھی دی گئی تاکہ جب کبھی سفر پیش آجائے یا فوجوں کے ساتھ رہنے کی ضرورت پڑے تو حضور ممدوحہ ہر ایک موقع پر مستعد رہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ ایک اور بری عمدہ چیز سکھلائی گئی۔ یعنی کفایت شعاری جو بادشاہوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مگر اس ملک کے لوگ شاید اس کو بہت کم سمجھیں گے۔ اس لیے کہ یہاں ایسے بادشاہوں نے فرمانروائی کی ۔ جن کو کفایت شعاری سے کچھ غرض نہ تھی۔ جس وقت کام میں ان کا جی چاہا ۔ خزانہ صرف کر دیا۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہ تھا۔ برخلاف اس کے ہماری ملکہ معظمہ کی طبیعت میں ابتدا ہی سے ایسا اعتدال او ر کفایت شعاری داخل کی گئی کہ کسی وقت اس سے قدم باہر نہیں رکھا ۔وائی کونٹ مل برن صاحب نے حضور ممدوحہ کو ان تمام اصول انتظام سلطنت کی تعلیم دی جن کے بموجب اس وقت انگلستان کی سلطنت میں کاروائی ہوتی تھی۔ آخر اس تمام عمدہ تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا ۔ جب بادشاہ ولیم چہارم نے انتقال کیا اور صحیح النسب وارث سلطنت نہ رہا تو بموجب قانون انگلستان کے ۲۰ جون ۱۸۳۷ء کو ہماری ملکہ معظمہ تخت نشین ہوئیں۔ جو اس وقت ہر طرح سے ایسے بڑے عہدے کے لائق تھیں۔ ۱۰ فروری ۱۸۴۰ء کو حضور ممدوحہ کی شادی ہوئی اور ۱۸۴۱ء میں پرنس آف ویلز ولیعہد سلطنت پیدا ہوئے۔ (اور اب حضور ممدوحہ کا سن پچپن سال کو پہنچا) جناب ملکہ معظمہ کے عہد کی نسبت جس قدر تعریف اور توصیف کی جائے وہ سب بجا درست ہو گی۔ میں اس وقت ایک بڑے لائق مصنف لارڈ بروہم کا قول بیان کرتا ہوں۔ جس نے بہت ہی مختصر اور سیدھے اور سچے لفظوں میں ہماری ملکہ معظمہ کی نسبت رائے دی ہے۔ لیکن قبل اس قول کو بیان کرنے کے میں آپ صاحبوں پر ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ یوروپ کے مصنفوں کے بیان کو ایشیائی مصنفوں کے بیان پر قیاس نہ کریں۔ جن کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے بادشاہوں کی ایسی تعریفیںبیان کرتے ہیں ۔ جن کی کچھ اصل نہیں ہوتی اور بعض جھوٹ ہوتی ہیں اور جن سے ہر گز کسی بادشاہ کے اصلی حالات معلوم نہیں ہو سکتے۔ یوروپ کے مصنفوں کا طرز اس سے بالکل بر خلاف ہے۔ یہ مصنف کبھی کسی کی ایسی تعریف نہیں کرتے جس کا وہ مستحق نہ ہو ۔ پس لارڈ بروہم کا قول جو اب میں بیان کرتا ہوں۔ اس کی نسبت کیس طرح یہ گمان نہیں ہو سکتا کہ اس نے اس بیان میں کچھ بھی مبالغہ کیا ہواگا۔ اس عالی رتبہ مصنف کا وہ قول یہ ہے کہ ’’کسی ملک میں ایسی ملکہ آج تک نہیںہوئی۔ جو پبلک اور پرائیویٹ باتوں میں ملکہ وکٹوریا سے بڑھ کر قابلِ تعریف اور رعایا کی شکر گزاری کی مستحق ہو‘‘ اب اس مصنف کے اس فقرے کے ہر ایک لفظ پر غور کرنا چاہیے۔ کہ اس میں کس قدر سادگی اور سچائی بھری ہوئی ہے۔ خصوصاً یہ آخر کا جملہ کہ رعایا کی شکر گزاری کی مستحق ہو۔ کیسی سچی اور کس قدر بڑی تعریف کی بات ہے اور جو سچ اور بالکل سچ ہے۔ کسی ملک کی رعایا کو اس قدر آزادی اور اس قدر حقوق حاصل نہیں ہیں۔ جیسے انگلستان کی رعایا کو حاصل ہیں۔ وہاں ایک بادشاہ مانا جاتا ہے ۔ لیکن اس کے اختیارات کی وہ کیفیت نہیں ہے ۔ جیسے آپ صاحبوں کے خیال میں سمائی ہوئی ہوگی۔ اور جیسے ایشیا کے بادشاہوں کی کیفیت تھی ۔جن کو یہ اختیار تھا کہ جس شخص کو جو چاہیں دے دیں۔ جس کام میں جس قدر چاہیں خزانہ صرف کر دیں۔ انگلستان کے بادشاہ کی حالت بالکل اس کے برعکس ہے۔ یہاں کے بادشاہ کے اختیارات محدود ہیں اور تمام قوانین جن پر سلطنت کی کُل کارروائی منحصر ہوتی ہے۔ رعایا کی منظوری کے بعد جاری ہوتے ہیں۔ بادشاہ کو ہر گز اختیار نہیں ہے کہ سلطنت کے خزانے کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہے صرف کر دے۔ پس جب رعایا کی آزادی اور ان کی مداخلت انتظام مملکت میںا ور ان کے حقوق اسی درجہ بڑھے ہوئے ہیں۔ تو لارڈ بروہم کا قول نہایت ٹھیک ہے۔ اگر ہمارے ملک کے آدمی ویسی ہی لیاقت حاصل کر لیں۔ جیسی انگلستان والوں نے حاصل کی ہے اور ان لیاقتوں کو ویسی ہی نیک نیتی اور خیر خواہی سے استعمال میں لائیں، جیسی نیک نیتی اور خیر خواہی اہلِ انگلستان کو اپنی گونمنٹ کی نسبت ہے تو بلا شبہ وہ تمام حقوق اس ملک کی رعایا کو بھی حاصل ہو جائیں گے ۔ ایک بڑے مصنف کا قول یہ ہے کہ گو آزادی رعایا کاایک اصلی حق ہے لیکن اس قسم کے حقوق اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں۔ جبکہ رعایا میں برتنے کے لیے لیاقت موجود ہو۔ پس ہمارے ملک والوں کو اگر انگلستان کی رعایا کے سے حقوق کی آرزو ہے تو ان کو بھی ویسی ہی لیاقت حاصل کرنے میں کوشش کرنی چاہیے۔ (سر سید احمد خان مرحوم) سوالات ۱- ملکہ معظمہ وکٹوریا کی تعلیم و تربیت کس نے کی؟ اور کیا کیا باتیں سکھائیں؟ ۲- سلامت روی ، استقلال، کفایت شعاری، اعتدال اور اہتمام کے معنی بیان کرو اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- اس سبق میں سے اسم معرفہ چنو۔ ۵۰-آنکھ کا نور سرور ضرور نفُور وفور صفات مائل بیٹے کو لوگ کہتے ہیں آنکھوں کا نور ہے ہے زندگی کا لطف اور دل کا سرور ہے گھر میں اسی کے دم سے ہے ہر وقت روشنی نازاں ہے اس پہ باپ تو ماں کو غرور ہے خوش قسمتی کی اس کو نشانی سمجھتے ہیں کہتے ہیں یہ خدا کے کرم کا ظہور ہے اکبر بھی اس خیال سے کرتا ہے اتفاق اس کا بھی ہے خیال کہ ایسا ضرور ہے البتہ شرط یہ ہے کہ بیٹا ہے ہونہار مائل ہے نیکیوں پہ برائی سے دور ہے سنتا ہے دل لگا کے بزرگوں کی بات کو دقتِ کلام لب پہ جناب و حضور ہے رکھتا ہے خاندان کی عزت کا وہ خیال نیکوں کا دوست صحبت بد سے نفور ہے کسبِ کمال کی ہے شب و روز اس کو دھن علم و ہنر کے شوق کا دل میں وفور ہے لیکن جو ان صفات کا اس میں نہ ہو پتا اور پھر بھی ہو خوشی تو خوشی کا قصور ہے سوالات ۱- بیٹے کو لوگ کیا کیا کہتے ہیں؟ ۲- اچھے بیٹے میں کیا کیا اوصاف ہونے چاہییں؟ ۳- اس شعر کا مطلب بیان کرو:- لیکن جو ان صفات کا اس میں نہ ہو پتا اور پھر بھی ہو خوشی تو خوشی کا قصور ہے ۴- نازاں ، نفور اور وفورکو اپنے فقروںمیں استعمال کرو۔ ۵- اس نظم میں جو لفظ جمع ہیں ان کے واحد بنائو۔ ۵۱-ہمت والوں کو صدا صدا اشکوں غافل فانی حیرانی جولانی جو اپنی خدمت کرتا ہے احسان وہ کس پر دھرتا ہے کیا غیروں کا دم بھرتا ہے کیوں خوف کے مارے مرتا ہے اس ہاٹ کا یہ ہی پرتا ہے کچھ گانٹھ سے دے تب ترتا ہے اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے جو عمریں مفت گنوائے گا وہ آخر کو پچھتائے گا کچھ بیٹھے ہاتھ نہ آئے گا جو ڈھونڈے گا وہ پائے گا تو کب تک دیر لگائے گا یہ وقت بھی آخر جائے گا اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے جو موقعہ پا کر کھوئے گا وہ اشکوں سے مُنہ دھوئے گا جو سوئے گا وہ روئے گا اور کاٹے گا جو بوئے گا تو غافل کب تک سوئے گا جو ہونا ہو گا ہوئے گا اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے یہ دنیا آخر فانی ہے اور جان بھی اک دن جانی ہے پھر تجھ کو کیوں حیرانی ہے کہ ڈال جو دل میں ٹھانی ہے جب ہمت کی جولانی ہے تو پتھر بھی پھر پانی ہے اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے سوالات ۱- اس نظم کا خلاصہ مطلب اپنے لفظوں میں بیان کرو؟ ۲- دم بھرنا، پتھر پانی ہونا، کمرباندھنا۔ کے معنی بیان کرو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- ذیل کے کلمات گریمر کی رُو سے کیا کیا ہیں؟ دیکھ۔ گنوائے گا۔ غافل ۔ فانی۔ ۵۲- بہارستان کا آسیب ’’آج کل کوہ مری میں نہ تو کوئی مکان خالی ہے ۔ نہ کسی ہوٹل میں رہنے کی جگہ ہے۔ اس لیے ہم آپ کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ آپ مری میں قیام کرنے کی جگہ براہ راست کشمیر تشریف لے جائیں۔ ہاں یہاں ایک بنگلہ خالی ہے اور وہ سات برس سے خالی ہی رہتا ہے۔ کیونکہ اس میں کوئی شخص رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس کی نسبت عجیب عجیب روایتیں مشہور ہیں۔ کہتے ہیں کہ آج سے سات سال پہلے کئی لوگوں نے اس میں رہنے کی ہمت کی ۔ مگر صبح کو ان کی لاش برآمد ہوئی اور جو زندہ رہے وہ عقل وہوش سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بار بار کے تجربے سے مایوس ہو کر اب کوئی شخص وہاں رہنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ اس بنگلے کو بہارستان کہتے ہیں۔ اور یہ مشہور ہے کہ کبھی یہ عجیب فضا اور چہل پہل کا مقام تھا۔ یہ ایک خط کے الفاظ تھے۔ جس کو لفٹنٹ جہانگیر موٹر میں بیٹھا بار بار پڑھ رہا تھا۔ موٹر مری کی پیچدار اور ڈھلوان سڑک پر تیزی سے جارہی تھی۔ سڑک کے ایک طرف سر سبز پہاڑیوں کی بلندی تھی اور دوسری طرف شاداب وادیوں کی گہرائی۔ جہانگیر کبھی کبھی اس کاغذ سے جواس کے ہاتھ میں تھا۔ نظر اٹھاکر اپنے پریشان دماغ کو تسکین دینے کی کوشش کرتا ۔ مگر پھر اس خط کے پڑھنے میں مصروف ہو جاتا۔ یک لخت اس نے کسی قدر بلند آواز میں کہنا شروع کیا۔ یہ حد درجے کی کم ہمتی ہے۔ اگر سات سال تک کسی نے بہارستان میں رہنے کی جُرأت نہیں کی تو یہ کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ میں بھی محض ایک وہم سے ڈر جائوں۔ سپاہی صرف مرنے اور بہادرانہ زندگی بسر کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ میں آج بہار ستان میں رہوں گااور یا تو کل میری لاش نکلے گی بہارستان کی ہولناک فضا میں پھر انسان کے قہقہوں کی بلند آواز گونجے گی۔ موٹر کارٹ روث پر پہنچ کر ٹھہر گئی۔ اور لفٹنٹ جہانگیر اتر کر موٹر ایجنسی کے دفتر کے اندر داخل ہوا۔ ایجنسیکے منیجر نے ایک نوجوان فوجی افسر کو دیکھ کر ادب سے سلام کیا۔ جہانگیر نے سلام کا جواب دے کر نہایت بے تکلف انداز سے مسکراتے ہوئے کہا۔ مجھے آپ کا خط مل گیا ہے ۔ مگر میں مری میں قیام کروں گا اور بہارستان میں رہوں گا۔ آپ مہربانی کر کے کسی کو میرے ساتھ کر دیں تاکہ مجھے وہاں تک پہنچا آئے اور اگر تکلیف نہ ہو تو بہارستان کا کرایہ بھی طے کر دیجیے۔ منیجر یہ سن کر کچھ حیران سا ہو گیا۔ آخر اس نے یہ سوچ کر کہ اگر یہ جان سے ہاتھ دھو چکا ہے تو میںاس کو بچانے والا کون؟ رکتے رکتے ہوئے کہا۔ بہر حال میں یہی مشورہ دوں گا کہ پہلے آپ اس بنگلے کو دیکھ لیں ۔ جہانگیر نے اس کے جواب میں صرف اتنا ہی کہا۔ بہت خوب ! کسی آدمی کو میرے ساتھ کر دیجیے کہ مجھے بہارستان تک پہنچا آئے اور میرا سامان بھی وہاں بھجوا دیجیے۔ منیجر نے پھر غور سے اس کی طرف دیکھا اور انتظام کرنے میں مصروف ہو گیا۔ جہانگیر بہارستان کے احاطے میں داخل ہوا تو مالی اور دوسرے خدمت گار جو اس بنگلے کی حفاظت اور باغ کی غور و پرداخت کے لیے مقرر تھے۔ آکر اس کے گرد جمع ہو گئے اور ایک حیرت آمیز سکوت سے جہانگیر کی طرف دیکھنے لگے۔ جہانگیر نے کچھ انتظار کے بعد پوچھا۔ اس مکان کی کنجی کس کے پاس ہے؟ بوڑھے مالی نے ذرا آگے بڑھ کر جواب دیا ۔ کنجی تو میرے پاس ہے مگر آپ کنجی کا کیا کریں گے؟ جہانگیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو ذرا مہربانی سے دروازہ کھول دیجیے۔ میں اس مکان میں قیام کرنے کے لیے آیا ہوں۔ آپ اس مکان میں قیام کریں گے؟ مالی نے ایک حیرت ناک گھبراہٹ سے جہانگیر کی طرف دیکھ کر کہا۔ ہاں ہاں چلو ، دروازہ کھولو۔ جہانگیر نے ذرا سختی سے کہا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے اس کا عزم ٹپک رہا تھا۔ مکان کھل گیا۔ جہانگیر نے اس میںداخل ہو کر سب کمروں کا معائنہ شروع کر دیا۔ اس کی حیرت کی کوئی حد نہ تھی۔ ہر ایک کمرہ صاف تھا ہر ایک چیز قرینے سے رکھی ہوئی تھی۔ آخر جہانگیر نہ رہ سکا اور اس نے دریافت کیا۔ مکان کتنے عر صے سے خالی ہے؟ مالی نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔ کوئی سات سال سے۔’’مگر یہ تو اس قدر صاف اور آباد معلوم ہوتا ہے۔ مالی نے فوراً قطع کلام کیا۔ حضور! ہم لوگ تنخواہ کس بات کی پاتے ہیں۔ مکان کو صاف ستھرا رکھنے کے سوا ہمارا اور کام ہی کیا ہے۔ جہانگیر نے کچھ تعجب اور کسی قدر شبہ سے سوال کیا۔ مگر کیا تم لوگ اس آسیب سے نہیں ڈرتے؟ یا وہ تم پر اس قدر مہربان ہے کہ تمہارے آرام اور اطمینان میں مخل نہیں ہوتا؟ مالی نے کچھ جھجھک کر جواب دیا۔ صاحب! ہم نے تو کبھی آسیب کو نہیں دیکھا ۔ہاں ہم دن ہی دن میں سب کام کر لیتے ہیں اور دن کو تو آسیب کسی کو نہیں ستاتا۔ جہانگیر نے دل ہی دل میں کچھ سوچ کر ایک فیصلہ کُن لہجہ میں کہا۔ خیراب رات کو بھی وہ کسی کو نہ ستائے گا۔ شام کے کھانے سے فارغ ہو کر جہانگیر سونے کے کمرے میں آیا۔ لمپ کی روشنی سے کمرہ معمول سے زیادہ خوبصورت نظر آرہا تھا، وہ ایک لمبے سفر کے بعد کچھ تھکن محسوس کر رہا تھا اور پھر آج دن بھر کی تشویش نے اسے اور تھکا دیا ۔ وہ کچھ دیر تک سنگار میز کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتا رہا۔ اس وقت اگر چہ اس کی نظریں اپنے چہرے کے عکس پر پڑی ہوئی تھیں۔ مگر اس کے دماغ میں وہ تمام حالات جو اس نے آج دن بھر میں بہارستان کے متعلق سنے تھے۔ زندہ اور متحرک تصویریں بن کر چکر لگا رہے تھے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر میز پر سے اپنا پستول اٹھایا جس کو اس نے آج بڑی احتیاط سے صاف کر کے چھ گولیوں سے بھر کر رکھا تھا۔ا سے بڑے شوق سے پھر کھولا اور گولیوں کو دیکھ کر بند کر دیا۔ اب وہ پستول لیے اپنے پلنگ کی طرف جا رہا تھا اور دل ہی دل میں کہتا تھا ۔یہ آسیب اگر کوئی روحانی چیز ہے تو نہ اس پستول سے اس کو ڈرنے کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے اور نہ مجھے اس سے کسی خطرے کا احتمال ہے۔ لیکن اگر اس میںذرا سی بھی جسمانیت ہے تو مجھے ہاتھ لگانے سے قبل وہ کم از کم اس جسمانیت کو تو ہمیشہ کے لیے رو بیٹھے گا۔ یہ سوچتے ہوئے وہ پلنگ پر لیٹ گیا۔ اور اپنی کشمیری شال کو اوڑھ کر اور پستول کو دائیں ہاتھ میں مضبوط پکڑ کر آسیب کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ گیارہ بج گئے۔ مگر آسیب کا کوئی پتہ نہ تھا ۔ یک لخت وہ چادر کو چہرے سے ہٹا کر ایک بلند آواز سے ہنسا اور پکار کر کہنے لگا۔ یہ آسیب ہے کسی نہایت محتاط اور دور اندیش فلسفی کی روح کہ میرے پستول کی مہلک گولیوں سے چھیڑ چھاڑ پسند نہیں کرتا۔ بالکل وہم ہے ۔ کمزور انسان اسی طرح خیالی بت بنا کر اس سے ڈرنے لگ جاتے ہیں اور اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے جنات اور آسیبوں کی آڑ تلاش کرتے ہیں۔ اب وہ بہت مطمئن تھا ۔ کمرے کے دروازوں کو اس نے خود بند کیا تھا۔ اس لیے کمرے میں اب کسی کے آنے جانے کا کوئی امکان نہ تھا۔ مگر پھر بھی احتیاطاً اس نے پستول کو اسی طرح اپنے دائیں ہاتھ کی مضبوط گرفت میں پکڑے رکھا اور چادر اوڑھ لی۔ کلاک نے بارہ کا گھنٹہ بجایا۔ جہانگیر کی آنکھیں نیند سے بیگانہ تھیں اور اس کا دل آرام سے نا آشنا۔ وہ آنکھیں بند کیے ہوئے سو جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ یک لخت اس نے اپنے دونوں پائو ں پر آہنی پنجے کی گرفت محسوس کی۔ جہانگیر اتنی غفلت کے باوجود اس ناگہانی ملاقات کے لیے بالکل تیار تھا۔ بائیں ہاتھ کے ایک جھٹکے سے اس نے چادر کو چہرے سے ہٹا لیا اور دائیں ہاتھ کو اٹھا کر ایک تجربہ کار نشانچی کے انداز سے اپنے پستول کی نالی کا رخ اپنے پائوں کے اوپر کی فضا کی طرف کر دیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک مہیب اور سیاہ پوش شکل اس کی ٹانگوں پر جھکی ہوئی ہے ۔ا س کی آہنی گرفت کی سختی کو پہلے سے زیادہ محسوس کیا ۔ جہانگیر نے تحکمانہ آوا زمیں کہا۔ میری ٹانگوں کو چھوڑ دو اور بتائو کہ تم کیا چاہتے ہو؟ میرے پستول کی گولی کسی دشمن میں خواہ وہ انسان ہو یا آسیب فرق کرنا نہیں جانتی۔ اس نے یک لخت دیکھا کہ وہ ہاتھ جو اس کی ٹانگوں کو پکڑے ہوئے تھے ۔ اُٹھے اور آگے کی طرف بڑھے۔ مگر اس سے پیشتر کہ وہ اس کی گردن میں پیوست ہو جاتے متواتر گولیوں کے چلنے کی آواز آئی اور ایک چیخ سنائی دی۔سیاہ پوش چارپائی کی پائینتی کے قریب گر چکا تھا۔ جہانگیر فوراً اٹھا اور سیاہ فرغل کو ہٹا کر اس آسیب کو دیکھنے لگا۔ ایک بلند قامت اور مضبوط انسانی جسم کے سینے اور مُنہ سے خون بہ رہا تھا۔ وہ بے حس و حرکت پڑا تھا۔ جہانگیر نے گھبرا کر اس کو ہلانے کی کوشش کی۔ اگر چہ جسم گرم تھا ۔ مگر حرکت سے قاصر معلوم ہوتا تھا۔ جہانگیر ایک اندوہ و رنج سے کہنے لگا۔ ’’اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ یہ خطر ناک آسیب صرف ایک کمزور انسان ہے تو آج میں اپنا ہاتھ ایسے بُزدل چور کے خون سے نہ رنگتا۔‘‘ کہنے کو تو جہانگیر یہ الفاظ کہہ گیا ۔ مگر جب اس کو خیال آیا کہ تمام دروازے اس نے اپنے ہاتھ سے بند کیے تھے تو دل ہی دل میں کانپ گیا۔ پھر اطمینان کی غرض سے ایک ایک دروازے کو دیکھنے لگا۔ سب دروازے بند تھے۔ جہانگیر اسی طرح دائیں ہاتھ میں پستول لیے آخری دروازے سے سہارا لے کر سوچنے لگا کیا سنگار میز کے قریب کی الماری کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ جس میں میں نے سونے سے پہلے کپڑے اتار کر لٹکائے تھے۔ نہیں اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے اسے خود بند کیا تھا۔ یہ سوچ کر وہ کھلی ہوئی الماری کی طرف بڑھا ۔ مگر ۔۔۔ جہانگیر کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اس میں کوئی کپڑا نہ تھا۔ بلکہ الماری کی پشت کا تختہ جس پر کپڑوں کی کھونٹی لگی ہوئی تھی۔ غائب تھا اور اسی کی جگہ ایک اور کھلا ہوا دروازہ نظر آرہا تھا۔ ۔ جہانگیر فوراً چلا اٹھا ۔ یہی دروازہ ہے جسے سے یہ چور داخل ہو کر مسافروں پر حملہ کیا کرتا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے لمپ بائیں ہاتھ میں لیا اور دائیں ہاتھ میں پستول کو مضبوط پکڑے اور آگے کی طرف جھکائے اس دروازے میں داخل ہو گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا۔ اس قدر چھوٹا کہ اسے شاید کمرہ کہنا بھی درست نہیں۔کوئی چار قدم چل کر اس کو ایک زینہ نظر آیا۔ جو نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ جہانگیر نے بڑی احتیاط سے اُترنا شروع کیا۔ یہ زینہ ایک وسیع اور آراستہ کمرے میں جا نکلا۔ جہانگیر نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اس کمرے کے ارد گرد بہت سے دروازے تھے۔ ابھی وہ کوئی دو قدم ہی چلا ہو گا کہ اس کے کان میں کسی عورت کی آواز آئی۔ کون ہے؟ جہانگیر ایک لمحہ کے لیے ہراساں سا ہوگیا۔ مگر پھر حوصلہ کر کے آگے بڑھا اور اس کمرے میں داخل ہوا جہاںسے یہ آواز آئی تھی۔ یہاں جو نظارہ اسے دیکھا اسے دیکھنے کی اسے توقع نہ تھی۔ ایک خوبصورت نازنین جس کے ہاتھ پائوں لوہے کے مضبوط اور بھاری زنجیروں میںجکڑے ہوئے تھے۔ ایک نہایت مکلف بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ کمرہ ضروری سامان آرائش و آسائش سے آراستہ تھا۔ جہانگیر نے حیرت زدہ ہو کر سوال کیا۔ آپ کون ہیں؟ اور آپ کو اس مصیبت میں کس نے مبتلا کر رکھا ہے؟ نازنین نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا ۔و ہ ظاہراً طور پر بہت خوف زدہ معلوم ہوتی تھی۔ جہانگیر نے دل ہی دل میں کچھ سمجھ کر ایک بلند اور فاتحانہ آواز میں کہا ’’ وہ آسیب جس سے آپ ڈرتی ہیں، اب ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اب آپ کسی سے نہ ڈریں‘‘۔ نازنین کے مغموم چہرے پر ہلکی سی بشاشت ظاہر ہوئی۔ اور اس نے اپنی زبان کو جسے اب زیادہ تر خاموش رہنے کی عادت ہو چکی تھی ۔ بات کرنے پر مجبور کرنا چاہا۔ کیا یہ سچ ہے ۔کہ آپ اس زندہ موت پر غالب آگئے؟ تو خدا کے واسطے مجھے بھی اس مصیبت سے رہا کیجیے۔ جہانگیر نے بڑھ کر ان زنجیروں کو توڑنے کی کوشش شروع کی۔ یہ کام اس کے اندازے سے زیادہ طاقت طلب او ر دشوار ثابت ہوا اور آکر سب زنجیریں ٹوٹ کر زمین پر گر گئیں۔ تو اس عورت نے پوچھا ۔ وہ خوفناک ڈاکو جس نے مجھے زندہ درگور کر رکھا تھا ۔ کیا واقعی اب اس دنیا میں نہیں ہے؟ جہانگیر نے اس کو ہاتھ کا سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے کہا ۔آئیے آپ اپنی آنکھوں سے اس کا انجام دیکھ لیجیے۔ وہ دونوں اس کمرے میں آئے جہاں وہ بے رحم غارتگر ایک مہیب اور زخمی حیوان کی طرح سسک رہا تھا۔ روشنی اور آواز محسوس کر کے اس نے آنکھیں کھول دیںاور اس گرفتار بلا کو آزاد دیکھ کر اور شاید اپنے مظالم سے پشیمان ہو کر فریاد کی۔ ’’خدا کے واسطے مجھے بچا لو۔‘‘ جہانگیر ا س کو ابھی تک زندہ دیکھ کر کچھ حیران مگر بہت زیادہ خوش ہوا کہ ابھی تک ان بھیدوں کو اسی کی زبان سے سننے کا موقع باقی تھا۔ جہانگیر نے دروازہ کھولا کہ بنگلے کے ملازموں کو آواز دے ۔ مگر جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو سب ملازموں کو برآمدے میں جمع پایا۔وہ دیوانوں کی طرح حیران کھڑے تھے اور گولیوں کی آواز سے گھبرا کر آج شب کے حادثے کا انتظار کر رہے تھے۔ جہانگیر نے زخمی کو ہسپتال پہنچانے کا حکم دیا اور پھر اس واقعہ کی مختصر کیفیت کی تھانے میں اطلاع دی۔ صبح کو تحقیقات شروع ہوئی۔ مجرم نے مرنے سے پیشتر اپنے جرموں کا اقبال کیا۔ یہ وہ بیانات تھے۔ جنہوں نے ہر شخص کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ پا بزنجیر نازنیں جس کو جہانگیر نے اس مصیبت سے چھڑایا تھا۔ بہارستان کے مالک کی لڑکی تھی۔ جس کی اچانک موت نے آج سے نو سال پہلے مری کے باشندوں کو رنج وقلق میں مبتلا کر دیا تھا اور جس کے سفید سنگ مرمر کی قبر بہارستان کے چمن کے ایک گوشے میں اب تک موجود تھی۔ وہ خونی مجرم جو ایک زندہ آسیب کی صورت میں نظر آآ کر کئی بے گناہوںکے خون سے ہاتھ رنگ چکا تھا۔ بہارستان کے مرحوم مالک کی جائداد کا منتظم تھا۔ جس نے اپنے آقا کی وفات کے بعد اس کی جائداد پر قبضہ کرنے کی ٹھیرائی اور اس کے لیے یہ تدبیر کی کہ ثروت آرا کی ناگہاں موت کی خبر مشہور کر کے اس کو اس تہہ خانے میں جس کے راز سے صرف وہی واقف تھا ۔ قید کر دیا۔ پھر ایک جعلی وصیت نامہہ کی بنا پر تمام جائداد کا وارث بن بیٹھا۔ اور جب سر کار نے اس کے حق کو تسلیم کرنے سے تامل کیا ۔ تو باضابطہ قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہو گیا۔ اس کا مقدمہ اب تک عدالت میں دائر تھا۔ لیکن اس خیال سے کہ کوئی شخص بہارستان میں رہ کر اس تہہ خانے کے راز سے واقف نہ ہو جائے۔ اس نے آسیب بن کر لوگوں کو ڈرانا شروع کیا۔ جو لوگ ڈر کر بھاگے گئے ہمیشہ کے لیے اس مکان کے قریب آنے سے پرہیز کرتے رہے۔ اور جنہوں نے مقابلہ کیا ۔ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ثروت آرا نے عدالت میں خود حاضر ہو کر اپنے بیانات قلم بند کرائے۔ جس سے مقدمہ بالکل صاف ہو گیا۔ مجرم نے اقبال جرم کرتے وقت کچھ ایسی پشیمانی سے بیان دیا کہ ثروت آرا اسے معاف کرنے کے لیے تیار ہو گئی ۔ مگر قانون فطرت کا زبردست ہاتھ اپنا انتقام لے کر رہا۔ بہارستان پر پھر بہار آگئی۔ ثروت آرا کو تمام جائدا د کا قبضہ مل گیا ۔ مگر جس دولت کے ملنے پر اس کو سب سے زیادہ ناز تھا۔ وہ جہانگیر سے بہادر اور حسین شوہر کی محبت تھی۔ سوالات ۱- بہارستان میں لوگوں نے رہنا کیوں بند کر دیا تھا؟ ۲- جس آسیب کا لوگوں کو خیال تھا وہ حقیقت میں کیا تھا؟ اور کس طرح معلوم ہوا اور اس کا کیا حشر ہوا؟ ۳- بہارستان کے مالک کی لڑکی کسی مصیبت میں گرفتار تھی؟ اسے کس نے اور کس طرح چھڑایا؟ ۴- لفٹنٹ جہانگیر کو اس دلیری سے کیا حاصل ہوا؟ ۵- اس کہانی کو مختصر لفظوں میں بیان کرو۔ ۶- آنکھیں نیند سے بیگانہ ہونا، کسی کے خون سے ہاتھ رنگنا، زندہ درگور کرنا، جان سے ہاتھ دھونا۔ کواپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۵۳-نمک کا داروغہ جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فائدہ اٹھانے کی عام ممانعت کر دی گئی تو لوگ دروازۂ صدر بند پا کر روزن و شگاف کی فکریں کرنے لگے۔ چاروں طرف خیانت اور غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوار گری کا معزز اور پُر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر لوگ صیغۂ نمک کی برقندازی کرتے تھے اور اس محکمے کا داروغہ تو وکیلوں کے لیے بھی رشک کاباعث تھا۔ جب انگریزی تعلیم اور عیسائیت مترادف الفاظ تھے ۔ فارسی کی تعلیم سندِ افتخار تھی۔ لوگ حُسن اور عشق کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر اعلیٰ ترین زندگی کے قابل ہو جاتے تھے۔ منشی بنسی دھرنے بھی زلیخا کی داستان ختم کی اور مجنوں و فرہاد کے قصۂ غم کو دریافتِ امریکہ یا جنگِ نیل سے عظیم تر واقعہ خیال کرتے ہوئے روزگار کی تلاش میں نکلے۔ ان کے باپ ایک جہاندیدہ بزرگ تھے۔ سمجھانے لگے۔ بیٹا! گھر کی حالت زار دیکھ رہے ہو۔ قرضے کے بار سے گردنیں دبی ہوئی ہیں۔ لڑکیاں ہیں۔ وہ گنگا جمنا کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ میں کگارے کا درخت ہوں ۔ نہ معلوم کب گِر پڑوں۔ تم ہی گھر کے مالک و مختار ہو۔ مشاہرے اور عہدے کا مطلق خیال نہ کرنا ۔ یہ تو پیر کا مزار ہے ۔ نگاہ چڑھاوے اور چادر پر رکھنی چاہیے۔ ایسا کام دھونڈنا جہاں کچھ بالائی رقم کی آمد ہو۔ ماہوار مشاہرہ پورنماشی کا چاند ہے۔ جو ایک دن دکھائی دیتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے غائب ہو جاتا ہے۔ بالائی رقم پانی کا بہتا ہوا سوتا ہے۔ جس سے پیاس ہمیشہ بجھتی رہتی ہے۔ مشاہرہ انسان دیتا ہے ۔ اس لیے اس میں برکت نہیں ہوتی ۔ بالائی رقم غیب سے ملتی ہے اس لیے اس میں برکت ہوتی ہے اور تم خود عالم و فاضل ہو۔ تمہیں کیا سمجھائوں۔ یہ معاملہ بہت کچھ ضمیر اور قیافہ کی پہچان پر منحصر ہے۔ انسان کو دیکھو۔ اس کی ضرورت کو دیکھو اور خوب غور سے کام لو۔ غرض مند کے ساتھ ہمیشہ بے رحمی اور بے رُخی کر سکتے ہو۔ لیکن بے غرض سے معاملہ کرنا مشکل کام ہے۔ ان باتوں کو گرہ میں باندھ لو۔ میری ساری زندگی کی کمائی ہیں۔ بزرگانہ نصیحتوں کے بعد کچھ دعائیہ کلمات کی باری آئی۔ بنسی دھرنے سعادت مند لڑکے کی طرح یہ باتیں بہت توجہ سے سنیں اور تب گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ اس وسیع دنیا میں جہاں اپنا استقلال اپنا رفیق ہو ۔ اپنی ہمت اپنی مدد گار اور اپنی کوشش اپنا مربی ہے۔ لیکن اچھے شگون سے چلے تھے۔ خوبی قسمت ساتھ تھی۔ صیغۂ نمک کے داروغہ مقررہو گئے۔ مشاہرہ معقول ، بالائی رقم کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔ بوڑھے منشی جی نے خط پایا تو باغ باغ ہو گئے۔ کلوار کی تسکین و تشفی کی ایک سند ملی۔ پڑوسیوں کو حسد ہوا،اور مہاجنوں کی سخت گیریاں مائل بہ نرمی ہو گئیں۔ (۲) جاڑے کے دن تھے۔ اور رات کا وقت نمک کے برقنداز اور چوکیدار شراب خانے کے دربان بنے ہوئے تھے۔ منشی بنسی دھر کو ابھی یہاں آئے چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوئے لیکن اسی عرصے میں ان کی فرض شناسی اور دیانت نے افسروں کا اعتباراور پبلک کی بے اعتباری حاصل کر لی تھی۔ نمک کے دفتر سے ایک میل پورب کی جانب جمنا ندی بہتی تھی۔ اور اس پر کشتیوں کی ایک گزر گاہ بنی ہوئی تھی۔ داروغہ صاحب کمرہ بند کیے۔ میٹھی نیند سوتے تھے۔ یکا یک آنکھ کھلی۔ تو ندی کے میٹھے سہانے راگ کی بجائے گاڑیوں کا شورو غل اور ملاحوں کی بلند آوازیں کام میں آئیں۔ اُٹھ بیٹھے ۔ اتنی رات گئے گاڑیاں کیوں دریا کے پار جاتی ہیں۔ اگر کچھ دغا نہیں ہے تو اس پر دۂ تاریک کی ضرورت کیوں؟ شبہ کو استدلال نے تقویت دی ۔ وردی پہنی طپنچہ جیب میں رکھا اور آن کی آن میں گھوڑا بڑھائے ہوئے دریا کے کنارے آپہنچے۔ دیکھا تو گاڑیوں کی ایک لمبی قطار زلفِ محبوب سے بھی زیادہ طولانی پُل سے اُتر رہی ہے۔ حاکمانہ انداز سے بولے۔ ’’کسی کی گاڑیاں ہیں؟‘‘ تھوڑی دیر تک سناٹا رہا ۔آدمیوں میں کچھ سر گوشیاں ہوئیں۔ تب اگلے گاڑی بان نے جواب دیا۔ ’’ پنڈت الوپی دین کی‘‘ کون پنڈت الوپی دین؟‘‘ ’’داتا گنج کے‘‘ منشی بنسی دھر چونکے۔ الوپی دین اس علاقے کا سب سے بڑا اور ممتاز زمیندار تھا۔ لاکھوں کی ہُنڈیاں چلتی تھیں۔ غلے کا کاروبار الگ۔ بڑا صاحبِ اثر ، بڑا حکام رس۔ بڑے بڑے انگریز افسر اس کے علاقے میں شکار کھیلنے آتے اور اس کے مہمان ہوتے ۔ بارہ مہینے سدا برت چلتا تھا۔ پوچھا یہ کہاں جائیں گی؟ جواب کہ کانپور کو ۔لیکن اس سوال پر کہ ان میں کیا ہے؟ ایک خاموشی کا عالم طاری ہو گیا اور داروغہ صاحب کا شبہ یقین کے درجے تک پہنچ گیا۔ جوا ب کے ناکام انتظار کے بعد ذرا زور سے بولے ۔کیا تم سب گونگے ہو گئے؟ ہم پوچھتے ہیں۔ ان میں کیا لدا ہے؟ (۳) جب اب کے بھی کوئی جواب نہ ملا ۔ تو انہوں نے گھوڑے کو ایک گاڑی سے مال دیا اور ایک بورے کو ٹٹولا ۔ شبہ یقین سے ہم آغوش تھا ۔ یہ نمک کے ڈھیلے تھے۔ پنڈت الوپی دین اپنے سجیلے رتھ پر سوار کچھ سوتے کچھ جاگتے چلے آتے تھے۔ کہ دفعتہ کئی گھبرائے ہوئے گاڑی بانو ں نے آکر جگایا اور بولے۔ مہاراج ! داروغہ نے گاریاں روک دیں اور گھاٹ پر کھڑے آپ کو بلاتے ہیں۔ پنڈت الوپی دین کو مبلغ علیہ السلام کی طاقت کا پورا پورا اور عملی تجربہ تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دنیا کا ذکر ہی کیا ہے۔ دولت کا سکہ بہشت میں بھی رائج ہے اور ان کا یہ قول بہت صحیح تھا۔ قانون اور حق و انصاف یہ سب دولت کے کھلونے ہیں۔ جن سے وہ حسبِ ضرورت اپنا جی بہلایا کرتی ہے۔ لیٹے لیٹے امیر از بے پروائی سے بولے۔ ’’اچھا چلو ہم آتے ہیں‘‘ یہ کہہ کر پنڈت جی نے بہت اطمینان سے پان کے بیڑے لگائے اور تب لحاف اورڑھے ہوئے داروغہ جی کے پاس آکر بے تکلفانہ انداز سے بولے۔ بابو جی۔ شیر باد۔ ہم سے ایسی کیا خطا ہوئی کہ گاڑیاں روک دی گئیں۔ ہم برہمنوںپر تو آپ کی نظر عنایت ہی رہنی چاہیے۔ بنسی دھر نے الوپی دین کو پہچانا۔ بے اعتنائی سے بولے۔ ’’سرکاری حکم‘‘ الوپی دین نے ہنس کر کہا۔ ’’ہم سرکاری حکم کو نہیں جانتے اور نہ سرکار کو ہمارے سرکار تو آپ ہی ہیں۔ ہمارا اور آپ کا تو گھر کا معاملہ ہے ۔ کبھی آپ سے باہر ہو سکتے ہیں ۔ آپ نے ناحق تکلیف کی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ادھر سے جائیں اور اس گھاٹ کے دیوتا کو بھینٹ نہ چرھائیں۔ میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ بنسی دھر پر دولت کی ان شیریں زبانیوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ دیانت داری کا تازہ جوش تھا۔ کڑک کر بولے۔ ہم ان نمک حراموں میں نہیں ہیں، جو کوڑیوں پر اپنا ایمان بیچتے پھرتے ہیں۔ آپ اس وقت حراست میں ہیں۔ صبح کو آپ کا باقاعدہ چالان ہوگا۔بس مجھے زیادہ فرصت نہیں ہے۔ جمعدار بدلو سنگھ! تم انہیں حراست میں لے لو۔ میں حکم دیتا ہوں۔ پنڈت الوپی دین اور اس کے ہوا خواہوں اور گاڑی بانوں میں ایک ہل چل سی مچ گئی۔ یہ شاید زندگی میںپہلا موقع تھا کہ پنڈت جی کو ایسی ناگوار باتوں کے سننے کا اتفاق ہوا ہو۔ بدلو سنگھ آگے بڑھا ۔ لیکن فرط رعب سے ہمت نہ پڑی کہ ان کا ہاتھ پکڑ سکے۔ الوپی دین نے بھی فرض کو دولت سے ایسا بے نیاز اور ایسا بے غرض کبھی نہیں پایا تھا۔ سکتے میں آگئے ، خیال کیا کہ یہ ابھی طفلِ مکتب ہے۔ دولت کے ناز و انداز سے مانوس نہیں ہوا ۔ الھڑ ہے ۔ جھجکتا ہے ۔ زیادہ ناز برداری کی ضرورت ہے۔ بہت منکسرانہ انداز سے بولے بابو صاحب! ایسا ظلم نہ کیجیے۔ ہم مٹ جائیں گے۔ عزت خاک میں مل جائے گی۔ آخر آپ کو کیا فائدہ ۔ بہت ہوا تو تھوڑا سا انعام واکرام مل جائے گا۔ ہم کسی طرح آپ سے باہر تھوڑا ہی ہیں۔ بنسی دھر نے سخت لہجے میں کہا۔’’ہم ایسی باتیں سننا نہیں چاہتے۔‘‘ الوپی دین نے جس سہارے کو چٹان سجھ رکھا تھا۔وہ پائوں کے نیچے سے کھسکتا ہوا معلوم ہوا۔ اعتماد ِ نفس اور غرورِ دولت کو سخت صدمہ پہنچا۔ لیکن ابھی تک دولت کی تعدادی قوت کا پورا بھروسا تھا۔ اپنے مختار سے بولے۔ لالہ جی! ایک ہزار روپیہ کا نوٹ بابو صاحب کی نذر کرو۔ آپ اس وقت بھوکے شیر ہو رہے ہیں۔ بنسی دھر نے گرم ہو کر کہا۔’’ ایک ہزار نہیں۔ مجھے ایک لاکھ بھی فرض کے راستے سے نہیں ہٹا سکتا۔‘‘ دولت فرض کی اس خام کارانہ جسارت اور اس زاہدانہ نفس کشی پر جھنجھلائی۔ معرکے کی کشمکش شروع ہوئی۔ دولت نے پیچ و تاب کھا کھا کر مایوسانہ انداز دے بولے۔ ’’اس سے زیادہ میری ہمت نہیں۔ آئندہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘ بنسی دھر نے اپنے جمعدار کو للکارا۔ بدلو سنگھ دل میں داروغہ جی کو گالیاں دیتا ہوا الوپی دین کی طرف بڑھا۔ پنڈت جی گھبرا کر دو تین قدم پیچھے ہت گئے اور نہایت منٹ آمیز بیکسی کے ساتھ بولے۔ ’’بابو صاحب ایشور کے لیے مجھ پر رحم کیجیے، میں پچیس ہزار پر معاملہ کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ غیر ممکن۔ تیس ہزار پر۔ غیر ممکن۔ کیا چالیس ہزار پر بھی ممکن نہیں؟ ’’چالیس ہزار نہیں، چالیس لاکھ پر بھی غیر ممکن۔ بدلو سنگھ! اس شخص کو فوراً حراست میں لو۔ اب میں ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا۔ فرض نے دولت کو پائوں تلے کچل ڈالا۔ الوپی دین نے ایک قوی ہیکل جوان کو ہتکڑیاں لیے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا۔ چاروں طرف مایوسانہ نگاہیں ڈالیں اور تب غش کھا کر زمین پر گر پڑے۔ (۴) دنیا سوتی تھی۔ مگر دنیا کی زبان جاگتی تھی۔ صبح ہوتے ہی یہ واقعہ بچے بچے کی زبان پر تھا اور ہر گلی کوچے سے ملامت اور تحقیر کی صدائیں آتی تھیں۔ گویا دنیا میںاب گناہ کا وجود نہیں رہا۔ پانی کو دودھ کے نام سے بیچنے والا گوالا ۔ فرضی روزنامچے بھرنے والے حکام سرکار۔ ٹکٹ کے بغیر ریل پر سفر کرنے والے بابو صاحبان اور جعلی دستاویزیں بنانے والے سیٹھ ساہو کار۔ یہ سب اس وقت پارسائوں کی طرح گردنیں ہلاتے تھے اور جب دوسرے دین پنڈت الوپی دین کا مواخذہ ہوا اورجب وہ کانسٹیبلوں کے ساتھ شرم سے گردن جھکائے ہوئے عدالت کی طرف چلے ۔ ہاتھوں میں ہتکڑیاں۔ دل میں غصہ و غم۔ تو سارے شہر میں ہل چل سی مچ گئی۔ میلوں میں بھی شاید شوقِ نظارہ ایسی امنگ پر نہ ہوتا ہو گا۔ کثرتِ ہجوم سے سقف و بازار میں تمیز کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر عدالت میں پہنچنے کی دیر تھی۔ پندت الوپی دین اس قلزم ِ نا پیدا کنار کے نہنگ تھے۔ حُکام ان کے قدر شناس ۔ عملے اس کے نیاز مند۔ وکیل اور مختار ان کے ناز بردار اور اردلی کے چپراسی اور چوکیدار تو ان کے درم خریدہ غلام تھے۔ انہیں دیکھتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑے۔ ہر شخص حیرت سے انگشت بدنداں تھا۔ اس لیے نہیں کہ الوپی دین نے کیوں ایسا فعل کیا۔ بلکہ وہ کیوں قانون کے پنجے میں آئے۔ ایسا شخص جس کے پاس محال کو ممکن کرنے والی دولت اور دیوتائوں پر جادو ڈالنے والی چرب زبانی ہو۔ کیوں قانون کا شکار بنے۔ حیرت کے بعد ہمدردی کے اظہار ہونے لگے۔ فوراً اس حملے کو روکنے کے لیے وکیلوں کا ایک دستہ تیار کیا گیا۔ اور انصاف کے میدان میں فرض اور دولت کی باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ بنسی دھر خاموش کھڑے ۔ یکہ و تنہاسچائی کے سوا اور کچھ پاس نہیں، صاف بیانی کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں۔ استغاثہ کی شہادتیں ضرور تھیں۔ مگر ترغیبات سے ڈانواڈول ، حتیٰ کہ انصاف تھی کچھ ان کی طرف سے کھچا ہوا نظر آتا تھا۔ یہ ضرور سچ ہے کہ انصاف سیم وزر سے بے نیاز ہے۔ لیکن پردے میں وہ اشتیاق ہے جو ظہور میں ممکن نہیں۔ دعوت اور تحفے کے پردے میں بیٹھ کر دولت زاہد فریب بن جاتی ہے۔ وہ عدالت کا دربار تھا۔ لیکن ارکان پر دولت کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ مقدمہ بہت جلد فیصل ہو گیا۔ ڈپٹی مجسٹریٹ نے تجویز لکھی۔ پنڈت الوپی دین کے خلاف شہادت نہایت کمزور اور مہمل ہے ۔ وہ ایک صاحب ثروت رئیس ہے ۔ یہ غیر ممکن ہے کہ وہ محض چند ہزار کے فائدے کے لیے ایسی کمینہ حرکت کا مرتکب ہو سکے۔ داروغہ صاحب نمک منشی بنسی دھر پر اگر زیادہ سنگین نہیں تو ایک افسوسناک غلطی اور خام کا رانہ سرگرمی کا الزام ضرور عائد ہوتا ہے۔ ہم خوش ہیں کہ وہ ایک فرض شناس نوجوان ہے ، لیکن صیغہ نمک کی اعتدال سے بڑھی ہوئی نمک حلالی نے اس کے امتیاز و ادراک کو مغلوب کر دیا۔ اسے آئندہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ وکیلوں نے یہ تجویز سنی اور اچھل پڑے ۔پنڈت الوپی دین مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ حوالی موالی نے روپے برسائے۔ سخاوت اور فراخ حوصلگی کا سیلاب آگیا۔ اور اس کی لہروں نے عدالت کی بنیادیں تک ہلا دیں۔ جب بنسی دھر عدالت سے باہر نکلے۔ نگاہیں غرور سے لبریز، تو طعن اور تمسخر کے آوازے چاروں طرف سے آنے لگے۔ چپراسیوں اور برقندازوں نے جھک کر سلام کیے۔لیکن ایک ایک اشارہ اس وقت اس نشہ غرور پر ہوائے سرد کا کام کر رہا تھا۔ شاید مقدمے میں کامیاب ہو کر وہ شخص اس طرح اکڑتا ہو انہ چلتا ۔ دنیا نے اسے پہلا سبق دے دیا تھا۔ انصاف ، علم اور پنج حرفی خطابات اور لمبی ڈاڑھیاں اور ڈھیلے چغے ایک بھی حقیقی عزت کے مستحق نہیں۔ (۵) لیکن بنسی دھر نے ثروت اور رسوخ سے بیر مول لیا تھا۔ اس کی قیمت دینی واجب تھی۔ مشکل سے ایک ہفتہ گزرا ہو گا کہ معطلی کا پروانہ آپہنچا۔ فرض شناسی کی سزا ملی۔ بیچارے دل شکستہ اور پریشان حال اپنے وطن کو روانہ ہوئے۔ بوڑھے منشی جی پہلے ہی بدظن ہو رہے تھے کہ چلتے چلتے سمجھایا تھا ۔ مگر اس لڑکے نے ایک نہ مانی۔ہم تو کلوار اور بُوچڑ کے تقاضے سہیں۔ بڑھاپے میں بھگت بن کر بیٹھیں اورو ہاں بس وہی سوکھی تنخواہ۔ آخر ہم نے بھی نوکری کی ہے اور کوئی عہدہ دار نہیں تھے۔ لیکن جو کام کیا۔ دل کھول کر کیا اور آپ دیانت دار بننے چلے ہیں۔ گھر میں چاہے اندھیرا رہے ، مسجد میں چراغ ضرور جلائیں گے۔ حیف ایسی سمجھ پر۔ پڑھانا لکھانا سب اکارت گیا۔ اسی اثنا میں بنسی دھر خستہ حال مکان پر پہنچے اور بوڑھے منشی جی نے روئداد سنی تو سر پیٹ لیا اور بولے جی چاہتا ہے کہ اپنا اور تمہارا سر پھوڑ لوں۔ بہت دیر تک پچھتائے اور کف افسوس ملتے رہے۔ غصے میں کچھ سخت سُست بھی کہا اور بنسی دھر اگر وہاں سے ٹل نہ جائیں تو عجب نہیں تھا کہ یہ غصہ عملی صورت اختیار کر لیتا۔ بوڑھی اماں کو بھی صدمہ ہوا۔ جگن ناتھ اور رامیشور کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں اور بیوی نے تو کئی دن تک سیدھے مُنہ سے بات نہیں کی۔ اس طرح اپنے یگانوں کی ترش روی اور بیگانوں کی دل دوز ہمدردیاں سہتے سہتے ایک ہفتہ گزر گیا۔ شام کا وقت تھا۔ بوڑھے منشی رام نام کی مالا پھیر رہے تھے۔ کی ان کے دروازے پر ایک سچا ہوا رتھ آکر رکا ۔ سبز اور غلابی پردے۔ پچھان کی نسل کے ناگو ری بیل۔ ان کی گردنوںمیں نیلے دھاگے۔ سینگ پیتل سے مڈھے ہوئے۔ منشی جی پیشوائی کو دوڑے۔ دیکھا تو پنڈت الوپی دین ہیں۔ جھک کر ڈنڈوت کی اور مدبرانہ دُر فشانیاں شروع کیں۔ آپ کو کیا مُنہ دکھائیں،مُنہ میںکالک لگی ہوئی ہے۔ مگر کیا کریں، لڑکا نالائق ہے ، نا خلف ہے۔ ورنہ آپ سے کیوں مُنہ چھپاتے۔ ایشور گھر بے چراغ رکھے ، مگر ایسی اولاد نہ دے۔ بنسی دھر نے الوپی دین کو دیکھا۔مصافحہ کیا ۔ لیکن شانِ خودداری لیے ہوئے فوراً گمان ہوا کہ یہ حضرت مجھے جلانے آئے ہیں ۔ زبان شرمندۂ معذرت نہیں ہوئی۔ اپنے والد بزرگوار کا خلوصِ زمانہ ساز سخت ناگوار گزرا۔ پنڈت جی نے قطع کلام کیا ۔ ’’نہیں بھائی صاحب ! ایسا نہ فرمائیے‘‘ بوڑھے منشی جی کی قیافہ شناسی نے جواب دے دیا۔ انداز حیرت سے بولے۔ ایسی اولاد کو اور کیا کہوں ۔ الوپی دین نے کسی قدرجوش سے کہا۔ ’’فخرِ خاندان اور بزرگوں کا نام روشن کرنے والا ایسا سپوت لڑکا پا کر آپ کو پرماتما کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ دنیا میں ایسے کتنے انسان ہیں جو دیانت پر اپنا سب کچھ نثار کرنے پر تیار ہوں ۔ داروغہ جی! اسے زمانہ سازی نہ سمجھیے۔ زمانہ سازی کے لیے مجھے یہاں تک تکلیف کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ اس رات کو آپ نے مجھے حکومت کے زور سے حراست میں لیا تھا۔ آج میں خود بخود آپ کی حراست میں آیا ہوں۔ میں نے ہزاروں رئیس اور امیر دیکھے۔ ہزاروں عالی مرتبہ حکام سے سابقہ پڑا۔ لیکن مجھے زیر کیا تو آپ نے ، میں نے سب کو اپنا اوراپنی دولت کا غلام بنا کر چھوڑدیا۔ مجھے اجازت ہے کہ آپ سے کوئی سوال کروں؟‘‘ بنسی دھر کو ان باتوں میں کچھ خلوص کی بُو آئی۔ پنڈت جی کے چہرے کی طرف اُچٹتی ہوئی مگر تلاش کی نگا ہ سے دیکھا، صداقت کی نمایاں جھلک نظر آئی۔ غرور نے ندامت کو راہ دی۔ شرماتے ہوئے بولے۔ ’’ یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔ فرض نے مجھے آپ کی شان میں بے ادبی کرنے پر مجبور کیا۔ ورنہ میں تو آپ کی خاکِ پا ہوں۔ جو آپ کا ارشاد ہو گا بحدِ امکان اس کی تعمیل میں انکار نہ کروں گا۔‘‘ الوپی دین نے التجا آمیز نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ ’’ دریا کے کنارے آپ نے میرا سوال رد کر دیا، لیکن یہ سوال آپ کو قبول کرنا پڑے گا۔‘‘ بنسی دھر نے جواب دیا۔ ’’ میں کس قابل ہوں ۔ لیکن مجھ سے جو کچھ نا چیز خدمت ہو سکے گی۔ اس میں دریغ نہ کروں گا۔‘‘ الوپی دین نے ایک قانونی تحریر نکالی اور اسے بنسی دھر کے سامنے رکھ کر بولے۔ ’’اس مختار نامے کو ملاحظہ فرمائیے اور اس پر دستخط کیجیے۔ میں برہمن ہوں ، جب تک یہ سوال پورا نہ کیجیے گا ۔ دروازے نہ ٹلوں گا۔‘‘ منشی بنسی دھر نے مختار نامے کو پڑھا تو شکریہ کے آنسو آنکھو میں بھر آئے۔ پنڈت الوپی دین نے انہیں اپنی ساری ملکیت کا مختار عام قرار دیا تھا۔ چھ ہزار سالانہ تنخواہ جیب خاص کے لیے روزانہ خرچ الگ۔ سواری کے لیے گوڑے۔ اختیارات غیر محدود۔ کانپتی ہوئی آواز سے بولے۔ ’’پنڈت جی! میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں کہ آپ نے مجھے ان عنایات بیکراں کے قابل سمجھا لیکن میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کی میں اتنے اعلیٰ رتبے کے قابل نہیں ہوں۔ الوپی دین ہنس کر بولے ۔ ’’ اپنے مُنہ سے اپنی تعریف نہ کیجیے۔‘‘ بنسی دھر نے متین آواز سے کہا ۔ ’’ یوں میں آپ کا غلام ہوں ۔ آپ جیسے نورانی اوصاف بزرگ کی خدمت کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے ۔ لیکن مجھ میں نہ علم ہے ۔ نہ فراست۔ نہ وہ تجربہ ہے جوا ن خامیوں پر پردہ ڈال سکے۔ ایسی معزز خدمات کے لیے ایک بڑے معاملہ فہم اور کار کردہ منشی کی ضرورت ہے۔‘‘ الوپی دین نے قلمدان سے قلم نکالا اور بنسی دھر کے ہاتھ میں دے کر بولے۔ ’’مجھے نہ علم کی ضرورت ہے۔ نہ فراست کی ۔ نہ کار کردگی کی اور معاملہ فہمی کی۔ ان سنگ ریزوں کے جوہر میں بارہا دیکھ چکا ہوں۔ اب حُسنِ تقدیر اور حُسنِ اتفاق نے مجھے وہ بے بہا موتی دے دیا ہے۔ جس کی آب کے سامنے علم اور فراست کی چمک کوئی چیز نہیں۔ قلم حاضر ہے۔ زیادہ تامل نہ کیجیے۔ اس پر چُپکے سے دستخط کر دیجیے۔ میری پرماتما سے یہی التجا ہے کہ آپ کو سدا وہی ندی کے کنارے والا بے مروت ، سخت زبان ، تندمزاج لیکن فرض شناس داروغہ بنائے رکھے۔ بنسی دھر کی آنکھو میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ دل کے تنگ ظرف میں اتنا احسان نہ سما سکا۔ پنڈت الوپی دین کی طرف ایک بار پھر عقیدت اور پرستش کی نگا ہ سے دیکھا اور مختار نامے پر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دستخط کر دیے۔ الوپی دین فرطِ مسرت سے اچھل پڑے اور انہیں گلے سے لگا لیا۔ ہدایت: اس کہانی کو مختصر طور پر بیان کرو۔ ۱ - خدا کی قدرت آن : (اردو) عزت۔ شان پچھوا: وہ ہوا جو پچھم کی طرف سے چلتی ہے۔یہ ہوا موسمِ برسات کی بارش کے لیے اچھی نہیں ہوتی۔ خون سکھانا: فکر میں ڈالنا۔ غمگین بنانا۔ گھوڑے بیچ کر سونا: کسی کام کی طرف سے بے فکر ہونا۔ چونکہ گھوڑوں کے سوداگر کا جب تک مال نہیں بک جاتا ۔اسے چوری وغیرہ کی فکر رہتی ہے ۔ جب بیچ لیتا ہے تو بے فکر ہو جاتا ہے ۔ اس لیے یہ محاورہ ہو گیا۔ ۲- ادب خادم: خدمت کرنے والا، نوکر۔ جاہل: جہالت والا ، گنوار، بیوقوف ، ناداں۔ لازم ، واجب: ضروری۔ مذکوری: پیادہ جو زر معاملہ وصول کرنے پر نوکر ہوتا ہے۔ اطاعت: فرمانبرداری۔ نشست برخاست: اٹھنا، بیٹھنا۔ ردّ و کدّ: جھگڑا ، تکرار۔ ۳- لوری آنکھ کا تار: بہت عزیز بیٹا۔ راج دُلارا: عزیزِسلطنت، شہزادہ۔ محبت سے ہر ماں اپنے بیٹے کو کہہ دیتی ہے ۔ مشہور ہے۔ کہ ماں باپ کی موجودگی میں اولاد کے لیے بادشاہی ہوتی ہے۔ چمن: باغ۔ یہاں مراد وطن سے ہے۔ رنج و محن: دُکھ اور تکلیف سخن: کلام ، نظم، اشعار۔ ۴- تندرستی بس: بہت غنیمت: عمدہ۔ مفید۔ بہتر۔ بے زحمت ہیچ ہونا: کچھ نہ ہونا۔ شغل: کام میں مصروفیت۔ مطلق کار۔ خبر گیری: خبر لینا۔ جگر: جسم کے اندر وہ عضو ہے جس میں خون بنتا ہے۔ ککڑی: ایک میوہ جسے پنجابی میں تر کہتے ہیں۔ مضائقہ : حرج۔ ضرر: نقصان بلا بدتر: نکمی چیز۔ خراب و ناکارہ چیز۔ بال خانہ: اوپر کی منزل کا مکان۔ صحت بخش: صحت دینے والا۔ رُوح افزا:جان میں جان پیدا کرنے والا۔ خوش کُن: مفرح۔ توانا، قوی:طاقتور رطوبت: تری ۔ جسم کے اندر کا پانی۔ ۵- تندرستی دانست : سمجھ زیست: زندگی حالِ پُر غم: غمگین حالت۔ با اقبال: اقبال مند۔ خوش قسمت۔ اندوہ و غم: فکر اور رنج رنج و ملال:تکلیف۔ مہ وسال: مہینے اور برس یعنی ہمیشہ۔ ۶ -چٹور پن چٹورپن: زبان کا مزہ۔ چٹخارا: وہ آواز جو زبان اور تالو سے کسی خوش ذائقہ چیز کے مزہ لینے سے نکلتی ہے۔ چسکا۔ ہم چشم: برابر والے۔ ندامت: شرمندگی۔ پیش خیمہ: لین ڈوری۔ کیس امر کے آگے آنے کا سامان۔ بے اعتدالی:حد سے بڑھ جانا۔ خمیازہ بھگتنا:سزا پانا۔ قصور کی سزا ملنا۔ مصاحب:ہمنشین۔ دوست۔ دوست نما دشمن: وہ دشمن جو بظاہر دوست معلوم ہو۔ فریبی دوست۔ سائے کی طرح ساتھ رہنا:ہروقت ساتھ رہنا۔ توقیر: عزت۔ راستبازی: سچا ہونا۔ صداقت۔ ۷-وقت اہلق: دو رنگ کا ۔ خصوصاً سیاہ اور سفید رنگ سے مرکب ہو۔ خندق: کھائی۔ بھق بھق: انجن میں سے دھوئیں کے نکلنے کی آواز (اسم صوت)۔ ۸-وقت خود دولت ہے حباب: بُلبُلا سراب: سورج کی روشنی اور کبھی چاند کی چاندنی سے جنگل کی ریت پانی کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ پیاسے مسافر کوپانی کا دھوکا ہوتا ہے۔ جوں جوں قریب جاتا ہے وہ اور آگے بڑھتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی چیز کو جو بظاہر کچھ معلوم ہو۔ لیکن حقیقت میں کچھ نہ ہو سراب کہتے ہیں۔ مستحکم: مضبوط۔ حکما: حکیم کی جمع یعنی دانا۔ علما: عالم کی جمع یعنی علم والا۔ عائد ہونا: کسی چیز سے لاحق ہونا۔ جوابدہ: جواب دینے والا۔ امروز: آج مراد زمانہ حال سے ہے۔ کتاب قدرت:قدرت کی کتاب ۔ مراد دنیا سے ہے۔ مشتے کے بعد از جنگ بیاد آید بر کلۂ خود باید زو: جو مُکا لڑائی کے بعد یاد آئے ۔ اپنے مُنہ پر مارنا چاہیے۔ یعنی جو بات وقت گزرنے کے بعد یاد آئے اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ گرفت: پکڑ۔ پکڑنا۔ مواخذہ ۔ نہیب: مہیب۔ ڈرائونی چیز۔ فراعنۂ مصر:فراعنہ لفظِ فرعون کی جمع ہے۔ فرعون مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اور ایک خاص بادشاہ کا نام بھی ہے۔ جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا اور خدائی دعویٰ کرتا تھا۔ ۹- پن چکی دھن کا پورا ہونا: اپنے خیال کا پکا ہونا۔ بھل بھل:بہت سے پانی کے ساتھگرنے کی آواز (اسم صوت)۔ شرط باندھنا: عہد کرنا۔ ذمہ لینا۔ لے: شوق۔ دھن۔ ۱۰- نمک کی کان خصوصیت:خاص بات۔ دفینہ: خزانہ جو زمین میں دفن ہوا ہو۔ جنگل میں منگل ہونا: ویرانے میں رونق ہونا کار آمد: کام کی بات۔ بازی: کھیل گھٹا ٹوپ اندھیرا: سخت اندھیرا۔ سستانا: دم لینا۔ سڈول: خوبصورت۔ (بیڈول کی ضد) مشعل: موٹا فلیتہ۔ عام لوگ مثال کہتے ہیں ۱۱- صبح کی آمد کار بہوار:کاروبار رفتار و گفتار:چال ڈھال۔ جھنکار: آواز جو جھانج ایسی چیزسے نکلتی ہے چہکار: چہچہانا۔ مرغِ سحر: مرغے کو خصوصاً اور قمری ۔ فاختہ اور بُلبُل وغیرہ کو جو صبح کے وقت بولتے ہیں۔ عموماً کہتے ہیں۔ شاما: ایک پرندہ ہے جسے شام چڑیا بھی کہتے ہیں۔ مہکانا: خوشبو دار بنانا۔ معطر کرنا۔ لہکانا: اُکسانا۔ اُبھارنا۔ جوش لانا۔ نسیم اور صبا: ہوائوں کے نام ہیں۔ جو صبح کے وقت چلتی ہیں۔ شمع: موم بتی۔ انجمن: مجلس ۔ جلسہ۔ چوکڑی: چھلانگ لگانا۔ زقند بھرنا۔ کلیلیں کرنا:جانورکا آکر دائیں بائیں اچھلنا۔ خوش فعلیاں کرنا۔ جلوہ: نظارہ ۔ رونق۔ سامنے آنا۔ کسی چیز پر مرنا:اس کی دل میں بہت چاہت ہونا۔ اس پر فریفتہ ہونا۔ پجاری: پوجا کرنے والا۔ مُؤذِّن: اذان (بانگ) دینے والا۔ ۱۲- ہاتھی خِفّت: سُبکی اور شرم۔ آبنوس: ایک قسم کی سیاہ رنگ کی لکڑی ہوتی ہے۔ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور: دکھاوا اور چیز ہے اور برتائو اور چیز۔ ظاہر کچھ اور باطن کچھ۔ تابع: پیچھے پیچھے چلنے والا۔ پیرو۔ سرکس: وہ تماشا جس میں ہاتھی۔ شیر ۔ گھوڑے وغیرہ جانوروں کا کھیل اور کرتب کر کے دکھاتے ہیں۔ ممتاز: معزز۔ اچھی چیز۔ عبور کرنا: گزرنا۔ ۱۳- گرمی کہسار: پہاڑی علاقہ۔ ریگِ صحرا: جنگل کی ریت۔ سوا: زیادہ ۔ یعنی زیادہ گرم سُدھ: ہوش۔ بھبکا: شعلہ۔ لپٹ۔ انس: مغز۔ جان ۔قوت۔ بادِ سموم: وہ گرم ہوا جو گرمیوں میں دوپہر کے وقت چلتی ہے۔ ہجوم: بھیڑ۔ پیائو: مویشی کے پانی پلانے کی جگہ۔ ۱۴- شاہجہان کا دربار خود بدولت:بادشاہ کے لیے بولتے ہیں۔ جب دوسرا بولے۔ اور اگر بادشاہ اپنے لیے خود بولے تو ’ما بدولت ‘ کہے گا۔ ہوا وار: تختِ رواں۔ ایک قسم کی امیرانہ سواری جسے کہار اُٹھاتے ہیں۔ آبی: آسمانی رنگ کا نیلا۔ دلکشا: دل کو خوش کرنے والی چیز۔ لاجواب: بے نظیر۔ انتخاب: چنا ہوا۔ چیدہ۔ دل بادل شامیانہ: درباری خیمہ۔ شاہجہانی خیمہ کا نام بھی ہے۔ بڑا شامیانہ۔ دیوانِ عام:وہ دربار جس میں سب کو آنے کی اجازت ہے۔ دیوانِ خاص: وہ دربار جس میں خاص خاص آدمی شامل ہوں۔ سبھا منڈل: جلسہ کی جگہ مینا کاری: جڑائو کام ۔سبز رنگ کے مصالحہ (مسالے) کا کام زیور میں۔ الماس: ہیرا لعل و یاقوت: سُرخ رنگ کے جواہرات کے نام ہیں۔ تسبیح: مالا۔ ترقی منصب: درجے کی ترقی۔ دیوان: وزیر مال۔ محکمہ مال کا بڑا افسر۔ اطلس، زربفت، کمخواب: ریشمی کپڑوں کے نام ہیں۔ جو سنہری تاروں سے بُنے جاتے ہیں۔ چندرما: چاند۔ تُلا: بارہ بُرجوں میں سے ایک بُرج کا ہندی نام جسے بُرجِ میزان کہتے ہیں۔ چاند اڑھائی دن ایک برج میں رہتا ہے۔ ۱۵- اچھا آدمی مدبّر: تدبیر کرنے والا۔ ملکی معاملات کو سوچنے والا۔ پالیٹیشن۔ قلمزن: منشی۔ تیغ زن: سپاہی۔ مہندس: علمِ ہندسہ جاننے والا۔ انجنئیری کا علم جاننے والا ۔ انجنئیر۔ فلسفی: علم فلسفہ جاننے والا۔ مورخ: علم تاریخ جاننے والا۔ منظقی: علم منطق جاننے والا۔ سخنور: شاعر۔ نکتہ جُو: بات کی تہہ کو پہنچنے والا۔ مصور: تصویر بنانے والا۔ خوش گُلو: اچھا گانے والا۔سریلی آواز والا۔ خوبیِ قسمت:خوش قسمتی۔ ۱۶- قول کا پورا صادق دمشق: ملک شام کا ایک مشہور شہر ہے۔ جُرم: قصور۔ کُہرام: رونا پیٹنا۔ چِلا کر رونا۔ حامی: حمایت کرنے والا۔مدد گار۔ آزاد ہونا: رہا ہونا۔ مقدر: تقدیر ۔ قسمت۔ جلاد: قاتل۔ ایثار: اپنی ضرورت سے دوسرے کی ضرورت کو زیادہ ضروری سمجھ کر اپنی ضرورت کو قربان کر دینا۔ مثلاہم پیاسے ہیں۔ پانی کا ایک گلاس ہمارے پاس ہے۔ ایک اور پیاسا آکر سوال کرتا ہے۔ ہم خود پیاسے رہ کر وہی پانی اس کودے دیتے ہیں۔ اسے ایثار کہتے ہیں۔ ۱۷- کام بیدل: بے حوصلہ۔ کامل: پورا۔ مہر و ماہ: سورج اور چاند۔ ابر و باد: بادل اور ہوا۔ محفل: مجلس۔ اہلِ ہمت: ہمت والے لوگ۔ نازل ہونا:اُترنا۔ چوسر: پچیسی کی قسم کا ایک کھیل جسے پانسوں سے کھیلتے ہیں۔ مشاغل: مشغلہ کی جمع۔ کاروبار۔ کام دھندے۔ ۱۸- اصلی شرافت تربیت: پرورش مذاق اُڑانا: مخول ۔ ٹھٹھا کرنا۔ ہنسی کرنا۔ کھلّی بازی۔ راج گدی:بادشاہی تخت۔ مسند۔ گُمنام: غیر مشہور۔ جسے کوئی نہ جانتا ہو۔ خادمہ: نوکرانی۔ ملازم عورت۔ آدمی بننا: لائق ہونا۔ آدمی یا انسان کہلانے کے قابل ہونا۔ ۱۹- بچے کا پہلا احساس غم احساسِ غم:غم محسوس کرنا۔ تنہا: اکیلا بھونرا: ایک قسم کی سیاہ رنگ کی بھڑ۔ جو اکثر لکڑی میں چھید کر کے رہتی ہے ۔ اس کی گونجدار آواز سے گرمی کا سماں بندھتا ہے۔ بھونرا اور چیل ابتدائے گرما سے بولنے لگتے ہیں۔وہ عموماً پھولوں کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے۔ محوِ رقص ہونا: ناچنے میں مست ہونا۔ متصل: پاس۔ پر فشاں ہونا: اُڑنا۔ شعاع ِ مہر:سورج کی کرن بہار آنا: کسی چیز پر رونق اور جوبن آنا۔ باردار ہونا: پھل لگنا۔ ۲۰- تار گرگٹ: کھٹ کھٹ کی آواز کاشی جی: ہندوئوں کاایک تیرتھ گاہ ہے۔ طفلانہ خوشی:بچوں کی سی خوشی۔ مگن: مست۔ دیوتا: پرمیشور۔ بھگوان۔ خدا۔ نکتہ کی بات: دانائی کی بات۔ پریم: محبت۔ ۲۱-چاند بی بی یکتا: بے مثل۔ بے نظیر۔ کامل: پورا۔ جوہر: خوبی۔ مُردن: مرنا۔ اقامت: قیام۔ ٹھیرائو۔ مثلِ قمر: چاند کی طرح۔ ڈھارس بندھنا: اطمینان پیدا کر دینا۔ حوصلہ دلانا۔ دلیری دینا۔ ثنا خواں: تعریف کرنے والا۔ اچھا کہنے والا فسانہ : قصہ پیلتن: لفظی معنی ہاتھی کے جسم والا۔ جسیم آدمی۔ پہلوان۔ ایران کے مشہور پہلوان رستم کا لقب بھی ہے۔ ۲۲- روضہ تاج محل لا جواب: لا ثانی۔ با عصمت: پاکدامن۔ دلدادہ: عاشق۔ قضائے الٰہی: خدا کی تقدیر۔ داغِ مفارقت: جُدائی کا داغ۔ دِلرُبائی: دلکش ہونا۔ شیدائی: فریفتہ۔ ممتاز: معزز ۔ مشہور۔ آب: رونق۔ چمک۔ دُرِ خوش آب: چمکدار موتی۔ کِہ و مِہ: چھوٹا بڑا۔ ادنیٰ اعلیٰ۔ دلاویز: دلپسند۔ صناع: بہت کاریگر۔ اظہار: ظاہر کرنا۔ مُستند: معتبر۔ سچا۔ جمال: خوبصورتی۔ جلال: بزرگی۔ رعب و داب۔ صرفِ زر کثیر:بہت روپیہ خرچ کرنا۔ نام و نمود: ناموری اور نمائش۔ خلوص: دلی محبت ۲۳- سچی محبت سینگ سمانا: گزارہ ہونا۔ پناہ ملنا۔ گنجائش اور موقع ہونا۔ ہمدم و یاور: مدد گار و دوست۔ دوستی کا اس پر خاتمہ تھا: بے نظیر دوست تھا۔ اس سے بڑھ کر کوئی دوست نہ تھا۔ ضبط نہ ہوسکا: چُپ نہ رہ سکا۔ اصلیت کو چھُپا نہ سکا۔ جوہر دکھانا: کمال دکھانا۔ مردانگی: بہادری۔ ۲۴- ہاتھوں کی نمائش اپنے مُنہ میاں مٹھو بننا: اپنے مُنہ سے اپنی تعریف کرنا۔ شرافت : بھلمنسائی۔ تائو: غصہ ۔ جوش۔ آستین: کوٹ یا قمیض یا کُرتے وغیرہ کی بانھ۔ آستین چڑھانا: کسی کام کے کرنے کے لیے تیار ہونا۔ لڑنے کے لیے تیار ہونا۔ تاب: طاقت۔ حوصلہ اپاہج: لنگڑا لُولا۔ ۲۵- پھول اور کانٹا۔ قدردان: قدر جاننے والا۔ گلدستہ: بہت سے پھولوں کا یکجا بندھا ہوا مٹھا۔ اسے گُلدستہ کہتے ہیں۔ خار: کانٹا۔ نشتر: وہ چاقو کی شکل کا تیز نوک کا ہتھیار جس سے فصد کرتے ہیں۔ خار کھانا: حسد کرنا۔ جلنا۔ گلچین: پھول توڑنے والا۔ حسن و نزاکت: خوبصورتی اور نازکی۔ اترانا: فخر کرنا۔ نوک جھوک: طعنہ ۔ چھیڑچھاڑ۔ چھیڑ خانی۔ ماتم: سوگ۔ راحت: خوشی۔ تکرار: جھگڑا۔ ۲۶- شہنشاہ اکبر کا بچپن عمامہ: پگڑی۔ سرکا ـصافہ۔ شفقت: مہربانی۔ بعید: دور بال بڑھانا: بال اُڑانا۔ بال منڈوانا۔ مشورت: مشورہ اعزاز و اکرام: عزت و آبرو عفو تقصیرات: قصوروں کی معافی۔ نگارین: منقش۔ نقاشی۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات: یہ ضرب المثل ہے۔ یعنی جو چیز آئندہ اچھی ہونے والی ہو، وہ پہلے ہی اچھی ہوتی ہے اور اس میں ایسے نشان ہوتے ہیں ۔ جن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ چیز اچھی ہو گی۔ بے لاگ: بے تکلف۔ آسانی سے۔ دمامۂ دولت:بادشاہی نقارہ۔ طبلِ سلطنت آنکھیں روشن کرنا: کسی چیز کو دیکھ کر خوش ہونا۔ حرم سرا: زنانخانہ۔ بیگمات کے رہنے کا محل۔ دانشِ خداداد: خدا کی دی ہوئی عقل۔ بے درد: بے رحم۔ مہتاب: مہتابی ۔ ایک قسم کی آتش بازی۔ رنجک: بارود جو توپ کے پیالے میں آگ دینے کے واسطے رکھی جاتی ہے۔ میرِ آتش: توپ خانے کا افسر۔ ۲۷- اندھا لڑکا نظارا: دیکھنا ۔ دیدار ۔ درشن۔ بینائی: نظر ۔ دیکھنے کی قوت۔ آشکارا: ظاہرا۔ عجائب: عجیب چیزیں۔ مہرِ تاباں: چمکنے والا۔ سورج۔ جلوہ دیکھنا: ظاہر ہونا۔ سرد آہیں کھینچنا: رنج وغم کرنا۔ سوزِ دل: دل کی جلن۔ دلی رنج۔ بے بسی: عاجزی۔ ۲۸- اصلی اور نقلی پھولوں کی پہچان پیغمبر: خدا کا برگزیدہ بندہ جو خلقت کو ہدایت کرتاہے اور خدا کے احکام اس تک پہنچاتا ہے۔ سبا: ملک یمن میں ایک شہر۔ ۲۹-قطب صاحب کی لاٹھ رفعت و شان: شان و شوکت۔ بلندی۔ مرتبہ۔ ٹھاٹھ۔ عظمت: بزرگی۔شان۔ پکھ: طرف۔ پہلو۔ مدور: گول۔ کمرکی: پہلو دار۔ پہلدار۔ منبت کاری: وہ نقاشی جس کے نقش زمین سے اُبھرے ہوئے ہوں۔ جیسے سکے پر کے نقش۔ گلکاری: نقاشی۔ بیل بوٹے کا کام۔ بِنا: تعمیر کتبہ: وہ عبارت جو پتھروں پر لکھوا کر دیا کھدوا کر عمارتوں کی دیواروں پر لگاتے ہیں۔ ماذنہ: اذان دینے کی جگہ بعض مسجدوں کے ساتھ اونچی جگہ ہوتی ہے جس پر کھڑے ہو کر بانگ دیتے ہیں۔ کندہ ہونا: کھدوانا۔ منسوب کرنا: نسبت دینا۔ تعلق ظاہر کرنا۔ قرین قیاس: ماننے کے قابل۔ پُتری: بیٹی ۔ لڑکی۔ داخلِ ثواب جاننا: نیک کام سمجھنا۔ متوفی: انتظام کرنے والا۔ آیت: قرآن شریف کا جملہ۔ منارہ ہفت منظری: سات کھنڈ والا منارہ۔ لدائو کی بُرجی: وہ برجی جس کی چھت پر لکڑیاں نہ ہوں اور چُونے سے ڈاٹ وغیرہ لگا کر پاٹ دیں ۔ گنبد نما چھت۔ مخروطی: گاجر کی شکل کی۔ گائو دُم۔ سنگین: پتھر کا محیط: گردا ۔ گھیرا۔ ۳۰ - مور نقش و نگار: بیل بوٹے۔ نقاشی۔ بال وپر: بازو۔ پر۔ شگفتہ: کھلا ہوا۔ گلشن: باغ شادمانی: خوشی دلشاد: خوش دل خورسند: خوش تواں: طاقت کامل: پورا نا مکمل: ادھورا زیبا: مناسب۔ درست۔ ۳۱- انگریزی سلطنت کی برکتیں خاطر خواہ: معقول ۔ اچھا۔ کافی۔ عیش و عشرت: آرام اور چین۔ ذلیل و خوار: بے عزت۔ بے قدر۔ مدار: سہارا۔ وہ چیز جس پر کوئی دوسری چیز ٹھیری ہویء ہو۔ مثلاً ناموری کا مدار محنت پر ہے۔ یعنی ناموری محنت ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کھونٹ: طرف۔ گوشہ۔ علاقہ سماں: بہار۔ میسر: حاصل تصور: خیال ۳۲- حُبِ وطن شہرۂ آفاق: دنیا بھر میں مشہور۔ تہہِ چرخِ کہن:پرانے آسمان کے نیچے۔ مراد دنیا بھر میں۔ جی بھر آنا: دل کو صدمہ ہونا۔ رونا آجانا۔ مدح گر: تعریف کرنے والا۔ مداح۔ عالی نسب: عالی خاندان۔ بڑے خاندان والا۔ نازاں : ناز کرنے والا۔ فخر کرنے والا۔ نازش: فخر کرنا۔ قارونِ زماں: اپنے زمانے میں ایسا دولتمند جیسا کی قارون تھا۔ شان وشکوہ: شان و شوکت۔ کرو فر : ٹیم ٹام۔ ٹیپ ٹاپ۔ خود پرست:اپنے آپ کو اچھا سمجھنے والا۔ باذِلت و تحقیر:حقارت و خواری کے ساتھ۔ ۳۳- قسطنطنیہ لطفِ مزید: زیادہ لطف۔ عمیق: گہری یا گہرا۔ شہر پناہ: وہ دیوار جو شہر کے گرد حفاظت کے لیے بناتے ہیں۔ محکم: مضبوط مرتفع: بلند نخل بندی: باغبانی کاملِ فن: جو اپنے فن میں پورا ہو اشجار: شجر کی جمع۔ درست۔ پُر بہار: جس چیز پر بہت بہار ہو۔ آتش زدگی: آگ لگنا۔ وزرا: وزیر کی جمع سلطان المعظم: عزت و عزمت والا سلطان ۔ سلطان ِ روم سے مراد ہے۔ نہ نفسِ نفیس: بذاتِ خود کلت: ٹن کے برابر ایک وزن کا نام یہودی: حضرت موسیٰ ؑ کی اُمت ارمن: آرسینیاکا رہنے والا۔ فرینک: ملک فرانس کا باشندہ بود و باش: سکونت۔ رہنا سہنا۔ ۳۴- گھڑیا اور گھنٹے آفاق : دنیا ۔ جہان۔ عمل: کام ہیٹے: پست ہمت۔ کمینہ۔ بُزدل۔ قدو قامت: اونچائی۔ مسافت: سفر۔ فاصلہ۔ ساعت: گھڑی ایام: دن ۔ مدت۔ مہم: مشکل کام۔ لڑائی۔ رفتار: چال مختار: اختیار والا شبِ تار: اندھیری رات۔ دمِ رفتار: چلنے کے وقت سر گرم روانی: چلنے میں سرگرم عمر گزراں:گزرنے ولی عمر۔ فانی عمر۔ گویا: بولنے والا دہن : مُنہ : انجام: خاتمہ بندر: بندر گاہ ۔ سمندر کے کنارے۔ جہازوں کے ٹھہرنے کا سٹیشن۔ سکندر: یہاں بادشاہ سے مراد ہے۔ قلندر: فقیر ضر: نقصان تغیر: تبدیلی موسم گل: بہار کا موسم خزاں: پت جھڑکا موسم سمرن: تسبیح مالا۔ کھٹاکا، کھٹکا:کھٹ کھٹ کی آواز جس میں جھنکار نہ ہو۔ لٹکا: شغل ۔ دھندا بساط: حقیقت اوقات: حیثیت کرامات: خوبی ٹھٹکنا: چلتے چلتے رُک جانا۔ ۳۵- زمین کی کشش کشش: کھینچنا محال: ناممکن۔مشکل گدگد: اوپر تلے گرنے کی آواز۔ پے در پے گرنے کی آواز۔ بلا دقت: آسانی سے سرآئزک نیوٹن: انگلستان کے ایک مشہور سائنسدان کا نام ہے۔ ۳۶- سنجو گتا حسین، خوشرو: خوبصورت راوی: روایت کرنے والا۔ بیان کرنے والا۔ شہرہ: شہرت شباب: جوانی مدعو کرنا: بُلانا ازدحام: بھیڑ جامِ محبت پینا: دل میں کسی کی محبت پیدا کرنا۔ شجاعت: بہادری جے مال: وہ ہار جو شادی کے موقع پر گلے میں ڈالتے ہیں۔ اٹھلانا: ناز و انداز سے چلنا دھڑکا ہونا:خطرہ ہونا۔ دل میں اندیشہ ہونا۔ چہار سُو: چاروں طرف۔ ۳۷- مٹی کا تیل حقیر و ذلیل: نکمی اور بیکار عنصر: اس لفظ کے معنی اصل اور بنیاد کے ہیں۔ طبیب لوگ آگ۔ پانی۔ ہوا اور مٹی کو عنصر کہتے ہیں۔ کیونکہ یہی چار چیزیں۔ انسان اور تمام موجودات کی اصل ہیں۔ بیچارگی: عاجزی کمیاب: جو چیز بہت کم ملے۔ جس چیز کا ثانی نہ ملے۔ نیلگوں: نیلے رنگ کا عالمگیر: وہ اثر جو تمام دنیا پر ہو۔ مُونس: دوست غمگسار: ہمدرد دوست۔ راک فیلر: مٹی کے تیل کے سوداگر کا نام ہے۔ لا تعداد: بے شمار ۳۸-دِیا سلائی دولت خانہ:تکلف سے اُمرا کے گھر کو کہتے ہیں۔ احمد آباد: ہندوستان میں ایک شہر ہے جہاں دیاسلائی کا کارخانہ ہے۔ ہوٹل: مسافروں کے عارضی قیام کی جگہ۔ ایک قسم کا مسافر خانہ جس میں سب سامان مہیا ہوتا ہے۔ بکس: بکس اللہ ُ اکبر: تعجب اور عظمت کے موقع پر بولتے ہیں۔ لفظی معنی اللہ بڑا ہے۔ دن لگنا: گھمنڈ ہونا ۔ کمینے آدمی کو دولت ملنا گت بننا: بُرا حال ہونا۔ تراشیدہ کُندے: کاٹی ہوئی موٹی موٹی لکڑیاں۔ تلملانا: بیقرار ہونا۔ ظلماتی گرم چشمہ: سیاہ گرم چشمہ دارو گیر: پکڑ دھکڑ۔ پیچ و تاب : اضطراب عالم ِوجود میں آنا: پیدا ہونا۔ بننا۔ سرنگوں: اوندھا ۔ سر نیچے پائوں اوپر۔ منڈیا: سر خانہ زاد: گھر میں پیدا شدہ غلام۔ بے کم و کاست: بغیر کمی کے۔ بالکل اتنا ہی۔ مشرب: مذہب۔ طریقہ ۔ تاریکی: اندھیرا۔ ۳۹- وفادار غلام انتہا: حد کارندے :کام کرنے والے۔ نوکر ۔ ایجنٹ ۔ گماشتے۔ جان پر کھیلنا: جان کی پروا نہ کرنا۔ جان کو خطرے میں ڈالنا۔ امکان: طاقت۔ مقدور۔ محسن: احسان کرنے والا جی کڑا کرنا: حوصلہ کرنا۔ اُمرا و وزرائ: امیر ۔ وزیر۔ آدابِ شاہانہ: وہ سلام جو بادشاہوں کو کیا جاتا ہے۔ تزک و احتشام: شان و شوکت۔ لائو لشکر جس سے شان بڑھ جاتی ہے۔ نا عاقبت اندیش: دور اندیشی نہ کرنے والا۔ انجام پر نظر نہ کرنے والا۔ عارضی بادشاہ: بادشاہ جو مستقل نہ ہو۔ بلکہ ایک خاص وقت کے لیے ہو۔ باغِ اِرم: بہشت ۴۰- بہشتِ بریں بہشتِ بریں: بلند بہشت۔ اونچے درجے کی بہشت۔ رشکِ گلستان: وہ جگہ جو باغ سے بھی زیادہ بارونق اور دلکش ہو۔ تا ابد: ہمیشہ تک۔ شاد و خرم: خوش آتش ِ گل:سرخ رنگ کے پھولوں سے مراد ہے۔ نخلِ خُرما: کھجور کا درخت۔ دامانِ صحرا:جنگل کا دامن یعنی جنگل فر فر: ہوا کے تیز چلنے کی آواز (اسم صوت) ہاتھوں اچھلنا: بہت اونچا اچھلنا ریگِ طِلا: سونے کی ریت۔ اٹھکھیلیاں: شوخیاں جوت: روشنی جوبن: خوبصورتی ترانے : راگ۔ روح پرور: روح کو پالنے والی ۔ جان کو خوش کرنے والی۔ فضا: بہار ایذا: تکلیف جورِ خزاں: موسم خزاں کی سختی یعنی بربادی۔ ملکِ بقا: باقی رہنے والا ملک۔ غیر فانی زندگی ۴۱- والمیک ہری نام: خدا کا نام پرماتما: خدا جہنم: دوزخ جہنم میں پہنچانا: سخت سزا دینا پاپ: گناہ دل می گھر کرنا: دل میں اثر کرنا۔ جاں بخشی کرنا:نہ مارنا۔ مارا جانے سے بچا لینا ایشور: خدا ۴۲- شیر شاہ سوری حرکت: کام شہرہ: شہرت۔ مشہوری قدر دان: قدر شناس۔ قدر جاننے والا۔ تعاقب : پیچھا کرنا۔ حقہ آتش: ایک قسم کا آلہ جس سے دشمن کی فوج میں آگ لگایا کرتے ہیں۔ ۴۳- حواسِ خمسہ حواسِ خمسہ: پانچ حسیں فصیح: فصاحت والا۔ خوش بیاں آئے دن: ہمیشہ حواس بجا نہ رہنا، حواس ٹھکانے نہ ہونا، حواس جاتے رہنا: ہوش نہ رہنا۔ گھبرا جانا۔ حواس درست کرنا: ہوش میںآنا۔ خانگی سیاست: گھر کی حکومت جامع: وہ چیز جس میں سب کچھ آجائے۔ اِنشاء اللہ: اگر خدا نے چاہا۔ مزید فصاحت: زیادہ کھول کر بیان کرنا امتیاز کرنا: فرق معلوم کرنا۔ فرحت: خوشی بکھٹی: اکیلی۔ سوندھا: کرارا پیانو، ہارمونیم، گراموفون: باجوں کے نام ہیں۔ لذت آشنا: جو کسی چیز کے مزے سے واقف ہو۔ خوش گلو: خوش آواز موسیقی داں: راگ جاننے والا۔ دلپذیر: دلپسند نغمہ سنج جانور، ترنم ریز: گانے والے چہچہانے والے جانور پُرکیف: نشے سے پُر۔ مست۔ سرور بخش: خوشی بخشنے والی۔ محظوظ کرنا: خوش کرنا۔ بہترین نعمت: سب سے اچھی نعمت احساس ہونا: معلوم ہونا۔ ۴۴- سرودِ زندگی سرودِ زندگی: زندگی کا راگ کسی چیز کا رونا رونا: شکایت کرنا خوابِ پریشان: ایسا خواب جس کو دیکھ کر طبیعت پریشان ہو۔ مثلاً کوئی شخص خواب دیکھے کہ جس مکان میں وہ بیٹھا ہے ۔ اس کے چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور اسے باہر نکلنے کو راستہ نہیں ملتا۔ عالمِ ہستی: انسانکا ہونا دنیائے وجود۔ بیداری: جاگنا۔ غایت: مقصد عیش وطرب: خوشی رنج و زحمت: تکلیف اصل و غایت: مقصد محوِ ترقی رہنا: ترقی میں ہمہ تن مصروف ہونا۔ فضل و ہنر: خوبی لیاقت طرارے بھرنا: جلدی چلنا۔ قلب: دل کس بل: طاقت زور نوبت آسا: نوبت کی طرح میدانِ وغا: لڑائی کا میدان دار وگیر بلا: مصیبت کی پکڑ دھکڑ مردِ میدان: بہادر خوش کُن: خوش کرنے والا فردا : (آنے والا) کل۔ مراد زمانہ مستقبل سے ہے مافات: جو چیزفوت ہو گئی ۔ مراد زمانہ ماضی سے ہے۔ حاضر و ناظر: موجود اور دیکھنے والا سلف: گذشتہ زمانہ اور گذشتہ زمانے کے لوگ۔ نقشِ قدم: پائوں کا نشان محوِ کسبِ فضیلت رہنا: فضیلت اور بزرگی کے حاصل کرنے میں ہمہ تن مصروف رہنا۔ گنج: خزانہ مزدِ رنج و محنت: تکلیف کی مزدوری۔ ۴۵- مکتوباتِ آزاد اضطراب:بے قراری۔ بے چینی۔ گھبراہٹ الحمدُ لللّٰہ: خدا کا شکر ہے۔ اِنشاء اللہ: اگر خدا نے چاہا ۔ اگر خدا کو منظور ہوا۔ اقبال نشاں: اقبال مند۔ شاباش: خوش رہو۔ وعدۂ حصول: حاصل کرنے کا وعدہ مقدمہ: معاملہ۔ قصہ۔ بات۔ نبض دیکھنا: (بطور محاورہ) کسی کی طبیعت معلوم کا حال معلوم کرنا۔ کسی کی طبیعت معلوم کرنا۔ ممنون ِاحسان: احسان مند۔ رشتہ: تعلق اطلاع دہی: اطلاع دینا تعہد: خبر گیری مائل بصحت: صحت کی طرف ۴۶- اندھی۔ بہری اور گونگی عورت ترکِ وطن: وطن چھوڑ دینا مُدت مدید: بہت لمبا عرصہ۔ زمانۂ دراز مہلک بیماری: سخت بیماری۔ ہلاک کرنے والی بیماری۔ جگر خراش:سخت صدمہ پہنچانے والا دقیقہ اُٹھا رکھان: کسی کام میں کسر چھوڑنا۔ کسی کام میں کوتاہی کرنا۔ شعبہ: شاخ موزوں: مناسب اضافہ: ترقی۔ زیادتی موزونیت: موزوں ہونا اذیت: تکلیف شفقتِ مادری: ماں کی محبت اضطراب: گھبراہٹ ۔ بے چینی ۴۷- کر جُگ آفات: آفت کی جمع ۔ معنی تکلیفیں مصیبتیں کانٹا لگانا: تکلیف دینا۔ پھولنا: فخر کرنا۔ اترانا۔ آگ میں ڈالنا: تباہ کرنا۔ پُولا: گٹھا نکتہ: دانائی کی بات کلجگ: وہ چوتھا زمانہ یعنی آخری زمانہ جس میں نیکی نہیں ہو گی۔ بدی ہی بدی ہو گی۔ اور بدی کی سزا دیر میں ملے گی۔ کرجُگ: وہ زمانہ جس میں کیے کا بدلہ فوراً مل جائے ۔ گویایہ ست جگ کا دوسرا نام ہے۔ ثنا خوانی: تعریف کرنا مشکل آسان کرنا: مشکل حل کرنا۔ ۴۸- بنارس تیرتھ: ہندوئوں کا مقدس مقام رشی، منی: سادھو، سنت صداقت: سچائی صبر و تحمل: برداشت کرنا اشنان: نہانا۔ غسل۔ یونیورسٹی: وہ بڑا مدرسہ جہاں سب قسم کے علم پڑھائے جاتے ہیں اور بڑ ی بڑی علمی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ اعتدال: نہ زیادہ نہ کم زرخیز: وہ زمین جس میں زیادہ پیدا وار ہو۔ قابلِ کاشت: بونے کے لائق عظمت: برائی ۔ بزرگی۔ شہادتیں: گواہیاں ۴۹- ملکہ معظمہ وکٹوریا ممدوحہ: تعریف کی گئی۔جس کا ذکر اوپر ہوا ۔ یہ صیغہ مونث کا ہے۔ مذکر کے لیے ممدوح بولتے ہیں۔ شفیق: مہربان ْْقضا کی: فوت ہو گئے۔ پیلیس: محل بن باپ کی لڑکی: یتیم لڑکی۔ ناموری: شہرت مشہوری مادر مشفقہ: مہربان ماں والدہ ماجدہ: بزرگ ماں انتقال: مرنا شوہر: خاوند استقلال: ہمت حوصلہ اہتمام: انتظام ابتدا: شروع استعداد: لیاقت پژ مردہ: کملایا ہوا۔ اعتدال، سلامت روی:درمیانہ درجہ ۔ نہ حد سے زیادہ نہ حد سے کم کفایت شعاری: اندازے سے خرچ کرنا۔ آمدنی سے زیادہ خرچ نہ کرنا۔ صحیح النسب: خاندانی قبل: پہلے پبلک باتیں: جن باتوں کا تعلق رعایا سے ہو۔ پرائیویٹ باتیں: جن کا تعلق اپنی ذات سے ہو۔ شکر گزاری: شکریہ برعکس: برخلاف۔ اُلٹ۔ محدود: وہ چیز جس کی کوئی حد ہو قوانین: قانون کی جمع۔ آرزو: خواہش۔ ۵۰- آنکھ کا نور سرور: خوشی نازاں : فخر کرنے والا ظہور: ظاہر ہونا کرم: مہربانی وقتِ کلام: بولنے کے وقت۔ صحبت بد: بری صحبت نفور : نفرت کرنے والا۔ کسبِ کمال: کمال حاصل کرنا ۵۱- ہمت والوں کی صدا دم بھرنا: ہمدردی کرنا ہاٹ: دکان پرتا: دستور گانٹھ: گرہ ترنا: وصول ہونا کمر باندھنا:تیار ہونا۔ ہمت کرنا۔ کسی کام کے کرنے کے لیے تیار ہونا۔ اشکوں سے مُنہ دھونا: رونا فانی: فنا ہونے والی چیز۔ نہ رہنے والی چیز۔ جولانی : کودنا ہمت کی جولانی: ہمت کا جوش پتھر پانی ہونا: مشکل کام کا آسان ہونا۔ ۵۲- بہارستان کا آسیب آسیب: جن ۔ بھوت۔ براہ راست: سیدھے راستے عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھے: ان کی عقل ماری گئی۔ جان سے ہاتھ دھونا: جان سے نا امید ہونا۔ حیرت آمیز سکوت: حیران ہو کر چپ ہونا۔ مُخل ہونا: خلل ڈالنا۔ فیصلہ کُن: فیصلہ کرنے والا۔ سنگار میز: وہ میز جس پر کنگھی آئینہ وغیرہ آرائش کا سامان ہوتا ہے۔ محتاط: احتیاط کرنے والا۔ ہوشیار۔ فلسفی: حکیم۔ دانا۔ جنات: جن کی جمع فضا : خلا مہیب: ڈرائونا آہنی گرفت: سخت پکڑ فرغل: بڑا سا چغہ بلند قامت: لمبے قد والا کسی کے خون سے ہاتھ رنگنا: قتل کرنا۔ ہراساں: خوفزدہ حیرت زدہ: حیران فاتحانہ: فتح مندوں کی طرح بشاشت: خوشی زندہ درگور: جس کی زندگی موت کے برابر ہو۔ مظالم: جمع مظلمہ یعنی ظلم نتائج: نتیجہ کی جمع۔ نتیجے اقبال کرنا: مان لینا پابہ زنجیر: زنجیر میں جکڑا ہوا۔ قلق: غم قانون فطرت : قانون قدرت