سلسلۂ ادبیہ اردو کورس ساتویں جماعت کے لیے مؤلّفہ ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم -اے- پی -ایچ-ڈی- بیرسٹر ایٹ لاء و خان بہادر حکیم احمد شجاع بی -اے (علیگ) اسسٹنٹ سیکرٹری پنجاب لیبحسلیٹو اسمبلی فہرست مضامین ٍ۱- ۹ ۲- دیباچہ اردو کی مروجہ درسی کتابوں میں یہ کمی عام طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ وہ نفسِ مضمون ۔ انداز تحریر اور طریقۂ انتخاب کے اعتبار سے زمانۂ حال کے مطالبات کو پورا نہیں کرتیں۔ یہ کتابیں ایک ایسے زمانے میں مرتب ہوئیں جب انتخابات کے مواقع کم تھے اور زبان اردو نے وہ رنگ اختیار نہ کیا تھاجو مغربی ادب کے تاثر کا لازمی نتیجہ ہے۔ ان کتابوں کے تقائص بیان کرنے کے بجائے یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی امتیازی خصوصیات ہی بیان کر دی جائیں۔ سلسلۂ ادبیہ کی ترتیب میں اس امرکا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے کہ پرانے اساتذہ فن کے نتائج فکر کے ساتھ ساتھ زمانہ حال کے ان انشاء پردازوں اور شاعروں کے مضامین نظم ونثر بھی طالب علم کی نظر سے گزریں جنہوں نے اردو کو ایک ایسی زبان بنانے کے لیے انتھک اور کامیاب کوششیں کی ہیں۔ جو موجودہ ضروریات کے مطابق اور ادائے مطالب پر قادر ہو۔ مضامین کے انتخاب کے تنوع کومدِنظر رکھتے ہوئے اس امر کی کوشش کی گئی ہے کہ ہر مضمون ادبی خوبیاں رکھنے کے ساتھ ساتھ نئی معلومات کا حامل ہو۔ درسی کتابوں پر بالعموم متانت کا رنگ اس قدر غالب ہوتاہے کہ طالب علم ان میں زیادہ دلچسپی نہیں لے سکتے۔ اس نقص کو دور کرنے کے لیے اس سلسلہ میں ظریفانہ مضامین نظم و نثر کی چاشنی بھی شامل کر دی گئی ہے۔ کیونکہ نوعمر بچوں کے دل ودماغ تک دلچسپ پیرایۂ اظہار کی وساطت ہی سے رسائی ممکن ہے۔ مضامین زیادہ تر ایسے ہی منتخب کیے گئے ہیں۔ جن میں زندگی کا روشن پہلو جھلکتا ہے۔ تاکہ طالب علم اس کے مطالعہ کے بعد کشا کش حیات میں زیادہ استقلال، زیادہ خود داری اور زیادہ اعتماد سے حصہ لے سکیں۔ حقیقت میں ادبیات کی تعلیم کا یہی مقصد ہونا چاہیے کہ ادبی ذوق کی تربیت کے ساتھ ساتھ طلباء کی وسیع النظری اور ان کے دل ودماغ کی جامعیت بھی نشو و نما پائے۔ ہمیں امید ہے کہ اس سلسلے کی کتابوں کے مطالعہ سے طلباء زبان اردو کے ادبی محاسن سے بھی واقف ہو جائیں گے اور ان کو اس زبان کی روز افزوں ترق، وسعت اور قدرت اظہار کا علم بھی ہو جائے گا۔اس مجموعہ میں ایسے مضامین بھی ہیں جن میں مناظر فطرت ، ذہنی کیفیات اور طبعی جذبات کی تصویر یں الفاظ میں کھینچی گئی ہیں اور ایسے بھی ہیں جن میں علم طبیعات کے انکشافات ، صنعت وحرفت کی اختراعات اور عام علمی تحقیقات کو زبان اردو میں بیان کیا گیا ہے۔ اخلاقی مضامین کے انتخاب میں اس امر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ان کا اسلوب بیان ایسا ہو جو طالب علم کو کمزور اور بزدل بنانے کے بجائے نیک اور بہادر بنائے اور اس امر کا لحاظ تو بالخصوص رکھا گیا ہے کہ منتخبہ نظم و نثر پر وطنیت کا رنگ غالب ہو تاکہ طلباء کے دلوں میں اخلاق حسنہ اور علم ادب کی تحصیل کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کی محبت کا پاک جذبہ موجزن ہو اور وہ ہندوستان کو جس کی عظمت کے نشان اس مجموعہ میں جگہ جگہ پر موجود ہیں زیادہ پر عظمت بنانے میں حصہ لیں۔ سلسلہ ٔ ادبیہ کو زبان اردو کے طلباء کی ادبی رہنمائی کے لیے ہر طرح مکمل بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ خدا کرے کہ یہ طلباء کے مذاقِ ادب کو لطیف اور معیارِ لیاقت کو بلند کرنے میں کامیاب ثابت ہو۔ اس ضمن میں شیخ عبدالحمید صاحب ایم -اے-آئی-ای-ایس سابق پروفیسر طریقۂ تعلیم ٹریننگ کالج لاہور کی عنایت خاص طور پر قابلِ ذکرہے۔ جنہوں نے اس سلسلے کی موجودہ تین کتابوں کے مسودات کو بغور ملاحظہ کیا اور جن کے قیمتی مشورے اس سلسلے کی ترتیب و تدوین میں بہت مفید ثابت ہوئے۔ مؤلّفین اردو کورس ساتویں جماعت کے لیے -------------- وقتِ سحر لطفِ سحر نکہتِ تر وجد حمدوثنا عارف زاہد زمزمہ خواں اذان وقتِ سحر ہے سونے والو! دھیان کدھر ہے سونے والو! جاگو نیند کے اے متوالو! لطفِ سحر کو کھونے والو! جاگ اُٹھا ہے پتا پتا غفلت کیسی؟ سونا کیسا؟ بادِ سحر کے جھونکے آئے نکہتِ تر کے جھونکے آئے تازہ نوا مرغانِ چمن ہیں نغمے جن کے جانِ چمن ہیں میٹھی بولی بول رہے ہیں اُڑنے کو پر کھول رہے ہیں وجد میں ہیں سب آئے جاتے حمدِ خدا کے گیت ہیں گاتے گلشن میں جو نہر ہے جاری کرتی ہے سجدۂ خالقِ باری حمدوثنا کے ترانے گاتی اپنی جبیں کو ہے گھستی جاتی نخل کھڑے نہیں سر کو جھکائے دستِ دُعا شاخوں نے اُٹھائے محوِ یادِ خدا ہے سبزہ سربسجود پڑا ہے سبزہ شاخ پہ بُلبُل زمزمہ خواں ہے خاک پہ سنبل سجدہ کُناں ہے باگو یادِ خدا کی گھڑی ہے وقتِ نماز دُعا کی گھڑی ہے شور اٹھا ناقوس و اذاں کا وقت نہیں یہ خوابِ گراں کا عابد - شیخ - برہمن جاگے جانب مسجد و مندر بھاگے عارف - زاہد اور پجاری نیند نہیں ہے جن کو پیاری نیند سے پیاری یادِ خدا ہے یادِ خدا میں جن کو مزا ہے محفل راز میں جا کر بیٹھے دل کو جہاں سے اُٹھا کر بیٹھے مشقی سوالات ۱- اس نظم کی مدد سے سلیس نثر میں صبح کی کیفیت بیان کرو۔ ۲- اس سبق میں اسم ظرف کون کون سے ہیں؟ ۳- ’’آئے جاتے ہیں‘‘ اور ’’گھستی جاتی ہے‘‘ کون کون سے فعل ہیں۔ ان کو اور کس طرح بول سکتے ہیں؟ ۲- رام چند رجی (۱) سعی شہرۂ آفاق سبقت صبا رفتار حسن وجمال شیطان سیرت افسوں ایفا اگلے زمانے میں ہندوستان کا وہ حصہ جہاں سورج بنسی خاندان کے راجا راج کرتے تھے ، کوشل کے نام سے مشہور تھا اور شہر اُجدّھیا جس کے کھنڈر اب فیض آباد کے قریب دریائے گھاگرا کے کنارے پر پائے جاتے ہیں۔ اس کا پایہ تخت تھا۔ ابتداً اس خاندان کے راجا اِکشوُا کو سے ہوئی اور چھپن راجائوں کے بعد راجہ جسرتھ کو راج پہنچا۔ اس راجہ کے ہان تین رانیوں سے چار بیٹے پیدا ہوئے۔ رانی کوشلّیا سے رام چندر جی۔ رانی کیکئی سے بھرت جی اور رانی سمترا سے لچھمن جی اور شتروگھن جی ۔ یہ چاروں لڑکے نہایت خوبصورت اور ذہین تھے اور راجہ ان سے کمال الفت اور محبت رکھتا تھا۔ پانچ برس کی عمر سے ان لڑکوں کی تعلیم شروع ہوئی اور تھوڑے ہی عرصہ میں عقل خدا داد کی رسائی اور استادان کامل کی سعی سے وہ سب علموں میں طاق اور سپہ گری کے تمام فنون شہرہ آفاق ہو گئے۔ رام چندر جی جیسے عمر میں سب بھائیوں میں بڑے تھے ویسے ہی علم و ہنر میں بھی سب پر سبقت لے گئے۔ یوں تو سارے بھائی دل و جان سے ان کی اطاعت کرتے اور ان سے الفت رکھتے تھے مگر لچھمن جی ان پر ایسے نثار تھے کہ جہاں ان کا پسینہ گرتاوہاں اپنا لہو بہانے کو تیار تھے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ رام چندر جی نے اپنے کسی دوست کی کمان کو ایسا کھینچا کہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ اس وقت اس دوست نے ان سے کہا کہ آپ نے میری کمان کو توڑا تو کیا ہوا ایسا ہی زور دکھانا ہے تو متھلا پوری میں جائو اور وہاں کے راجہ جنک کے ہاں جو کمان رکھی ہے اس پر زور آزمائو۔ رام چندر جی نے پوچھاکہ وہ کمان کیسی ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ کمان ایسی کڑی ہے کہ آج تک کسی سے نہیںکھچی اور راجہ جنک نے جس کی بیٹی سیتا جی حسن وجمال میں اپنا نظیر نہیں رکھتی یہ عہد کیا ہے کہ جو شخص اس کمان کو توڑے گا اس کے ساتھ سیتا جی کی شادی ہو گی۔ اس بات کو رام چندر جی نے اپنے دل میں رکھا۔ مگر اس دوست کو اس وقت کچھ جواب نہ دیا۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رام چندر جی کو متھلا جانے کا اتفاق ہوا اور وہ سخت کمان انہوں نے ہاتھ میں لیتے ہی توڑ ڈالی۔ راجہ جنک نے ان کی یہ شہزوری دیکھ کر اسی وقت صبا رفتار گھوڑوں کے سوار اجدّھیا کو روانہ کیا کہ راجہ جسرتھ کو اس حال سے خبر دیں اور متھلا پوری میں لے آئیں۔ راجہ جسرتھ اپنے وزیروں اور سرداروں کو لے کر بڑے کروفر سے متھلا پوری میں آئے اور بری دھوم دھام کے ساتھ بیٹے کی شادی رچائی۔ راجہ جنک نے بھی ان کی خاطر تواضع میں کوئی دقیقہ باقی نہ رکھا اور بہت سا جہیز دے کر بیٹی اور داماد کو رخصت کیا۔ بیاہ کے تھوڑے عرصے بعد جب رام چندر جی سن بلوغ کو پہنچے تو کوشل کے سرداروں اور وزیروں نے اپنے راجہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ اس ریاست کا ہمیشہ سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ جب راجہ ضعیف ہو جاتا ہے تو اپنے بڑے بیٹے کو یوو راج یعنی چھوٹا راجہ بناراج میں شریک کر لیتا ہے اور پھر وہی اس کے بعد گدی پر بیٹھتا ہے اس واسطے ہماری اور ساری رعایا کی یہ تمنا ہے کہ مہا راج بھی رام چندرجی کو یووراج بنائیں اور آپ ریاست کے مخمصوں سے سبکدوش ہو کر باقی عمر یاد الٰہی اور فکر عاقبت میں بسر کریں۔ راجہ جسرتھ نے یہ بات سن کر دربار عام کا حکم دیااور جب ریاست کے سارے سردار اور فوج کے بڑے بڑے افسر دربار میں حاضر ہوئے توان سے پوچھا کہ تم نے رام چندر جی میں کیا خوبی دیکھی ہے جو ان کا یودراج ہونا چاہتے ہو؟ سب نے عرض کی مہاراج! ہم آپ کے فرزند رام چنرد جی میں وہ خوبیاں دیکھتے ہیں جو کسی بشر میں نہیں پائی جاتیں۔ دانائی میں وہ بے مثل اور بے نظیر ہیں۔بہادری میں کوئی ان کا ہمسر نہیں۔ جب لچھمن جی کے ساتھ غنیم پر چڑھ کر جاتے ہیں تو فتح ہی کر کے آتے ہیں۔ہمارے رنج سے ان کو رنج اور ہماری خوشی سے ان کو خوشی ہوتی ہے ان کی خفگی اور مہربانی کوئی بے محل نہیں۔ فاضلوں اور بوڑھوں کی وہ تعظیم کرتے ہیں ۔ زبان کے سچے۔ دل کے صاف اور ہاتھوں کے فیاض ہیں۔ حضور کی ساری رعایا دل وجان سے ان پر فدا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا یوو راج ہونا چاہتے ہیں۔ جب راجہ جسرتھ نے سرداروں کا یہ کلام سنا تو اسی وقت رام چندرجی کو سر دربار بلا کر کہ دیا کہ کل تم کو دیوراج کا منصب عطا ہوگا۔ رام چندرجی دربار سے رخصت ہو کر اپنی ماں کے پاس آئے اور یہ خوشخبری اسے سنائی وہ سن کر نہایت خوش ہوئی اور خدا کا شکر بجا لائی۔ مگر دوسری رانی کیکئی کے تن بدن میں آگ لگ گئی اس نے سوچا کہ اگر رام چندر راجہ ہو گئے توان کے عہد میں مجھ کو شلّیا کی لونڈی اور میرے بیٹے بھرت کو رام چندر جی کا غلام بن کر رہنا پڑے گا ۔ وہ اس سوچ میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کی ایک باندی انسان صورت شیطان سیرت جو اس کے ساتھ جہیز میں آئی تھی پاس آکر کہنے لگی۔ رانی تو کس نیند سوتی ہے؟ تجھ سا بے خبر میں نے کوئی نہیں دیکھا ۔ آج تیرے واسطے قیامت کا دن ہے ۔ جو کچھ بن سکے اب تدبیر کر نہیں تو ہاتھ ملتی رہ جائے گی اور کوئی صورت بن نہ آئے گی۔ رانی بولی کیا کروں؟ باندی نے کہا ۔ سنگھار اتار کر زمین پر پھینک دے اور میلے کچیلے کپڑے پہن ، بال بکھیر ا، بری صورت بنا کوٹھڑی میں جا پڑ۔ راجہ جو دل وجان سے تجھ پر فدا ہے جب تجھے اس روپ میں دیکھے گا بے چین ہو جائے گا۔ اور ہر طرح تیری دلجوئی کرے گا۔ اس وقت تو اپنا مطلب ظاہر کیبحیو اور کہیو کہ جب تم لڑائی میںزخمی ہوئے تھے اور میں نے تمہاری جان بچائی تھی تو تم نے وعدہ کیا تھا کہ جو دو باتیں تو چاہے گی میں ان کو پورا کروں گا۔ سو اب میری آرزو ہے کہ رام چندر جی کو چودہ برس کا بن باس اور بھرت کو راج ملے۔ راجہ ہر چند تجھ کو اس بات سے منع کرے گا اور طرح طرح سے سمجھائے گا مگر تو ایک نہ سنیو۔ آخر مجبور ہوکر مان ہی لے گا اور جب رام چندر جی کو چودہ برس کا بن باس مل جائے گا تو اس عرصے میں رعیت بھرت سے پرچ جائے گی اور وہ بے کھٹکے راج کا مالک ہو جائے گا۔ کیکئی نے باندی کے کہنے پر عمل کیا۔ جب شام کو راجہ محل میں آیا اور رانی کا یہ حال پایا تو حیران ہو کر پوچھنے لگاکہ آج تماری یہ کیا حالت ہے؟ زیور کویں اترا پڑا ہے اور ایسے میلے کچیلے کپڑے کیوں پہنے ہیں؟ اگر کسی نے خفا کیا ہے تو اس کو سزا دوں ۔ اگر طییعت ناساز ہے تو طبیب کو بلائوں یہ کہہ کر آنسو پونچھنے لگا اور دلجوئی کی باتیں کرنے لگا۔ رانی نے جب دیکھا کہ میرا افسوں کار گر ہوا اور اب جو میں کہوں گی راجہ با آسای مان لے گا تو کہنے لگی کہ میں اپنے دل کی بات اس وقت کہوں گی جب آپ اس کے پورا کرنے کی قسم کھائیں۔ راجہ نے رام چندر جی کی قسم کھائی تب رانی نے کہا کہ وہ جوآپ نے میری دو باتیں ماننے کا مجھ سے اقرار کیا تھا۔ اس کا ایفا چاہتی ہوں اور وہ دو باتیں یہ ہیں کہ رام چندر جی کو چودہ برس کا بن باس اور بھرت کو راج ملے۔ کیکئی سے یہ بات سن کر راجہ کے ہوش اُڑ گئے ۔ ہر چند اس نے منت سماجت کی اور طرح طرح سے سمجھایا مگر اس نے اپنی ہٹ نہ چھوڑی اور یہی کہے گئی کہ تا تو میری بات مانو اور اپنا اقرار پورا کرو نہیں تو ابھی زہر کھا لیتی ہوں۔ وہ قلق کی رات راجہ نے کیکئی کے ہاں کاٹی جب صبح ہوئی تو رام چندر جی کے یوو راج بنانے کا سامان مہیا ہوا ۔ سارے شہر میں دھوم مچ گئی اور امنگ میں عورت، مرد ، لڑکے بالے سب اپنے گھروں سے باہر نکل کر بازاروں میں آکھڑے ہوئے ۔ مگر جب راجہ جسرتھ دربار میں نہ آیا اور اس کے آنے میں بہت دیر ہوئی تو وزیر نے اس کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ سب سامان تیار ہے اور فقط مہا راج کے قدم رنجہ فرمانے کا انتظار ہے۔ راجہ نے سن کر کچھ جواب نہ دیا۔ مگر کیکئی نے کہا کہ جائو رام چندر جی کو یہاں بھیج دو۔ جب وزیر نے راجہ کا بھی یہی منشاء پایا تو رام چندر جی کے پاس آیا اور کہا کہ مہاراج آپ کو یا د فرماتے ہیں۔ مشقی سوالات ۱- مختصر طور پر اپنے الفاظ میں بیان کرو کہ راجہ رام چندر جی کی سیتا جی سے شادی کیونکر ہوئی اور انہیں بن باس ملنے کا کیا سبب ہوا؟ ۲- ’’ حسن وجمال میں اپنا نظیر نہیں رکھتی ‘‘ کے لیے نہایت سلیس فقرہ استعمال کرو۔ ۳- ’’تن بدن میں آگ لگنا‘‘ اور ’’ہاتھ ملتے رہ جانا ‘‘ کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- ’’تم نے رام چندر میں کیا خوبی دیکھی ہے‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۵- مندرجہ ذیل مرکبات اور ان کے اجزا کے نام بتائو:- علم وہنر ، کمال الفت ، سارے بھائی ، میری آرزو۔ ۳- خدا کی نعمتیں تفریح ملبوس بندۂ زر عِبرت موجِ صبا نغمۂ بُلبُل مُنعم سامانِ فراغت (۱) پینے کو میسر پانی ہے، کھانے کے لیے حاضر ہے غذا تفریح کو سبزہ جنگل کا، صحت کی محافظ صاف ہوا پوشش کے لیے ملبوس بھی ہے، رہنے کو مکان بھی ستھرا سا اور اس کے سوا کیا حاجت ہے، انصاف تو کر تو دل میں ذرا راحت کے لیے جو ساماں ہیں وہ قدرت نے بہم پہنچائے ہیں اے بندۂ زر! پھر تیری ہوس نے پائوں یہ کیوں پھیلائے ہیں (۲) دولت کا نتیجہ کلفت ہے سامان امارت ذلت ہے جس دل میں ہوس کی کثرت ہے دور اس سے حقیقی راحت ہے ارمان بہت ہیں، کم کر دے ہستی یہ نہیں، اک غفلت ہے آغاز سراپا دھوکہ ہے، انجام سراسر عِبرت ہے تاریخ اٹھا! بتلائیگی وہ ، دنیا میں خوشی کا نام نہیں جس دل پہ ہوس کا سکہ ہے اس دل کے لیے آرام نہیں (۳) صحت میں تری کچھ نہیں ، اعضا میں تیرے نقصان نہیں پھر بھی یہ شکایت تجھ کو ہے، اسباب نہیںسامان نہیں انعامِ خدا کا منکر ہے، اللہ پہ اطمینان نہیں تو حرص و ہوا کا بندہ ہے ، مضبوط ترا ایمان نہیں دنیا کی حکومت تیری ہے، اپنے کو گدا کیوں کہتا ہے؟ سامان فراغت حاضر ہیں ، بیکار پریشاں رہتا ہے (۴) یہ ابر ، یہ وادی ، یہ گلشن ، یہ کوہ و بیاباں یہ صحرا یہ پھول ، یہ کلیاں ، یہ سبزہ ، یہ موسم گُل ، یہ سرد ہوا یہ شام کی دلکش تفریحیں، یہ رات کا گہرا سناٹا یہ پچھلے پہر کی رنگینی ، یہ نور سحر ، یہ موج صبا معبود کی کس کس بخشش کو مُکرے گا ، چھپائے جائے گا اللہ کی کس کس نعمت کو، اے منکر دیں جھٹلائے گا (۵) اللہ کی رحمت عام ہے سب پر شاہ ہو اس میں یا ہو گدا یہ چاند ، یہ سورج ، یہ تارے ، یہ نغمۂ بُلبُل ، یہ دریا دونو کے لیے یہ تحفے ہیں ، کچھ فرق اگر ہے تو اتنا ان جلووں سے لذت پاتا ہے ، آزاد کا دل منعم سے سوا شاہوں کے سروں میں تاج گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے جو اہلِ صفا ہیں ان کے دل میں نور کا چشمہ بہتا ہے مشقی سوالات ۱- اس نظم میں شاعر نے خدا کی جن جن نعمتوں کا ذکر کیا ہے ۔ انہیں اپنی عبارت میں بیان کرو۔ ۲- ’’پائوں پھیلانا - باہم پہنچانا ‘‘ کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- اس نظم میں صفت موصوف کی کون کون سی مثالیں ہیں؟ ۴- دوسرے اور تیسرے شعر میں کون کون سی ضمیریں ہیں ان کا مرجع بھی بتائو۔ ۴- شیر شاہ سوری تقرب قیافہ شناس اقتدار فلاح عامہ فضائل حسنہ مظالم مقدم صدر الصدور شیر شاہ کا اصلی نام فرید خاں تھا۔ اس کا دادا ابراہیم خاں سلطان بہلول لودی کے عہد سلطنت میں گھوڑوں کی سوداگری کرتا تھا۔ سکندر لودی کے زمانہ میں ابراہیم خاں نے جمال خاں حاکم جونپور کی ملازمت اختیار کی ۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا حسن خاں جانشین ہوا اور اپنی لیاقت اور کار دانی سے ترقی پا کر پانچ سو سواروں کا افسر ہو گیا۔ سہسرام اور بانڈہ جاگیر میں پایا۔ یہیں شیر شیاہ پیدا ہوا اور عین شباب کے عالم میں اپنے باپ سے ایک بات پر رنجیدہ ہو کر جونپور چلا گیا۔ پھر جمال خاں کی خدمت میں حاضر ہو کر تحصیل علم میں مشغول ہوا اور نہایت شوق وذوق سے علم حاصل کیا۔ باپ نے جب بیٹے کو ہونہار دیکھا تو بلا بھیجا مگر یہ نہ گیا۔ آخر کار خودجونپور آکر نہایت اصرار سے بیٹے کو اپنے ساتھ لے گیااور اپنی جاگیر کا مختار کر کے سہسرام کو روانہ کیا۔ شیر شاہ نے نہایت عقلمندی سے جاگیر کا انتظام کیا اور باپ کے مرنے کے بعد خود اس کا مالک ہوا ۔ اسی عرصہ میں سلطان بابر نے ابراہیم لودی سے ہندوستان جیت لیا ۔ لودی خاندان کا ایک امیر کہ بہار کا حاکم تھا۔ سلطان محمود کے خطاب سے خود مختار ہو بیٹھا۔ شیر شاہ اس کی ملازمت میں حاضر ہو کر عمدہ خدمتیں بجا لایا۔ ایک دن شکار گاہ میں نہایت مردانگی دکھائی اور تلوار سے شیر کا شکار کر کے شیر خاں کے خطاب سے موصوف ہوا۔ بعد چندے شیر خاں محمود سے کسی بات پر بدگمان ہو کر اس کے پاس سے چل دیا اور درباری امری جنید برلاس کی خدمت میں حاضر ہو کر خاص تقرب حاصل کیا اور اسی کے ساتھ بابر کے دربار میں آیا۔ یہاں مغلوں کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر اس کی اولوالعزمی نے جوش مارا اور بادشاہی خیالات پیداہوئے۔ اکثر اپنے یاروں سے کہا کرتا کہ تمام مغل عیش وعشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور آج کا کام کل پر موقوف رکھتے ہیں۔ اگر میری قوم ساتھ دے تو میں مغلوں کو ہندوستان سے اس طرح نکال دوں جیسے دودھ سے مکھی کو نکال دیتے ہیں۔ اس کے دوست ان باتوں پر ہنستے تھے۔ ایک دین شیر خاں جنید برلاس کے ساتھ دعوت شاہی میں شریک ہوا۔ بابر بلا کا قیافہ شناس تھا۔ اس کے تیور دیکھتے ہی دل میں کھٹک گیا اور فوراً قیدکا حکم دیا ۔ جنید برلاس نے عرض کی کہ اگر جہاں پناہ اسے قید فرما دینگے تو دربار سے پٹھانوں کی آمدو رفت بند ہو جائے گی۔ بابر یہ سن کر چپ ہو رہا ۔ اگرچہ تمام گفتگو حُر کی زبان میں ہوئی تھی۔ مگر شیرخاں طرز کلام سے کل مطلب سمجھ گیا اور اس وقت دربار میں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھ کر پھر بہار کے حاکم کے پاس جا پہنچا۔ وہاں اس نے ایسا اقتدار پایا کہ سلطان محمود کے مرنے کے بعد خود ریاست کا مالک بن بیٹھا اور قرب وجوار کے علاقوں اور قلعوں کو فتح کر کے ۹۴۵ھ میں تمام بنگالہ اور پٹنہ پر قابض ہو گیا۔ سلطنت کا شوق تو مدت سے اس کے دل میں لہرا رہاتھا۔ بابر کے مرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ہمایوں اور اس کے بھائی آپس میں نفاق رکھتے ہیں اور ان کے تمام امرا آرام طلب و عیش پسند ہیں تو اس نے بادشاہی علاقے پر ہاتھ پھیلانا شروع کیااور تمام افغانوں کے دلوں میں اتفاق کے ساتھ قومی ترقی اور ہمت و حوصلہ کی روح پھونک کر انہیں ایسا سپاہی بنا دیا کہ جدھر کارخ کیا کامیابی نے ’’خوش آمدید ‘‘ کا گیت سنایا۔ دشمن یا تو لڑ کر ہارا یا اس کے دائوں پیچ میں آرہا۔ آخر کئی خونریز معرکوں کے بعد شیرخاں نے ہمایوں کو ہندوستان سے باہر نکال دیا اور ۹۴۷ ھ میں محض اپنے قوت بازو سے کل سلطنت ہند کا مالک ہو کر شیر شاہ کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اگر چہ مرگ بے ہنگام نے اسے پانچ سال سے زیادہ سلطنت ہند کا نظم و نسق نہ کرنے دیا۔ مگر اس قلیل عرصے میں اس نے فلاح عامہ کے ایسے ایسے کام کیے اور انصرام سلطنت کے ایسے ایسے نادر اصول باندھے کہ مشکل سے کوئی بادشاہ ہو گا جس نے اپنی پنجاہ سالہ حکومت میں بھی اس سے زیادہ یادگاریں چھوڑی ہوں ۔ پندرہ برس امارت اور سلطنت کے حاصل کرنے میں صرف ہوئے ۔ صرف پانچ برس سرسبزی کی بہار دیکھی۔ شیر شاہ کی منصف مزاجی زبان زد ہر خاص و عام ہے ۔ اس کا قول تھا کہ عدل تمام فضائل حسنہ کا زیور ہے۔ اس نے جابجا عدالت کی کچہریاں قائم کیں اور خودعدالت کا ایسا شوقین تھا کہ جب کوئی ستم رسیدہ اس کے دربار میں آتا تو سب کام چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوتا اور ظالم کو خواہ وہ اس کے بیٹوں عزیزوں یا امیروں ہی میں سے کیوں نہ ہوتا بغیر سیاست کے نہ چھوڑتا وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ بادشاہوںکے ظلم و غفلت اور ارکان دولت کی رشوت ستانی نے مجھے بادشاہ بنایا ہے۔ راہزنی اور چوری کے انسداد کے واسطے شیر شاہ نے یہ قانون بنایا تھا کہ اگر دچور اور راہزن مع مال کے گرفتار نہ ہوں تو جس قدر مال چوری گیا ہو اس کی قیمت اس مقام کے مقدم سے سلائی جائے جہاں چوری یا راہزنی ہوئی ہو۔ اگر مقام کے تعین میں اختلاف ہو تو چاروں حدود کے مقدموں سے چوری کا معاوضہ دلایا جائے۔ گرفتاری کی حالت میں چوروں کو شرع محمدی کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر کوئی قتل ہو اور قاتل پکڑا نہ جائے تو عامل مقدموں کے ذریعہ سے اس کا پتہ لگائیں۔ ایک مرتبہ اٹاوہ کے قریب ایک قتل ہوا ۔ مقام قتل کی نسبت کہ کس کی حد میں ہے ، مقدموں میں جھگڑا تھا۔جن قاتل کا پتہ نہ چلا تو یہ مقدمہ شیر شاہ تک پہنچا۔ بادشاہ نے خفیہ طور سے دو آدمی تعین کیے کہ مقام متنازعہ پر پہنچ کر ایک درخت کاٹیں اور جو شخص منع کرے اس کو گرفتار کر کے دربار میں بھیج دیں۔ جب یہ دونوں آدمی وہاں پہنچے اور درخت کاٹنا شروع کیا تو ایک مقدم نے آکر روکا ۔ وہ گرفتار کر کے بادشاہ کے روبرو لایا گیا۔ شیر شاہ نے اس سے کہا کہ اتنے فاصلے پر ایک درخت کاٹنے کی تو تجھے خبر ہو گئی ۔ مگر ایک آدمی کا گلا کٹنے کی خبر نہیں ہوئی۔ حکم دیا کہ اس گائوں کے تمام مقدم قید کیے جائیں۔ اگر وہ تین دن کے اندر قاتل کو پیدا نہ کریں توا س کے عوض میں وہ قتل کیے جائیںگے۔ آخر دوسرے ہی دن قاتل کا پتہ چل گیا اور مقدموں نے قید سے رہائی پائی۔ اسی عدالت کی سخت گیری کی بدولت اس کے عہد میں رہزنی یا دیگر جرائم بہت کم ہوتے تھے۔ شیر شاہ کو زراعت کی افزائش اور حفاظت کا بہت زیادہ خیال تھا۔ اس کا حکم تھا کہ میرے ممالک محروسہ میں ہر سال پیمائش ہو ۔ اسی پیمائش کے بموجب جنس کی صورت میں مالگذاری وصول کی جاتی تھی۔ اس نے تمام ملک کو پرگنوں میں تقسیم کیا تھا۔ ہر پر گنہ کے واسطے ایک قانون گو مقرر تھا۔ پرگنہ کا تمام زراعتی حساب کتاب اس کے ذمے تھا ۔ ایک امیر ، ایک فوجدار، ایک خزانچی، ایک کارکن ہندی نویس،ا یک فارسی نویس ہر پرگنہ میں متعین رہتاتھا۔ ہر سرکار میںا یک صدر فوجدار اور ایک صدر الصدور رہتا تھا کہ عُمّال کے مظالم ہ بیداد سے رعایا کو بچاتے رہیں۔ سال دو سال کے بعد عالموں کا تبادلہ ہو جاتا تھا ۔ لشکر کے کوچ کی حالت میں بادشاہ خود زراعت کی حفاظت کرتا ۔ اگر کسی سپاہی سے ذرا بھی زراعت کا نقصان ہوتا تو اس کو نہایت سخت سزا دیتا تھا اگر کسی مجبوری سے زراعت پامال ہوتی تو اس کا کافی معاوضہ یا جاتا تھا۔ دشمن کے ملک میں بھی اس کے لشکر کو ہر قسم کی رسد کثرت سے مل جاتی تھی اور اس کا ملک ایسا سر سبز و شاداب تھا کہ قحط کا تو کیا ذکر کبھی غلہ کی گرانی بھی نہیں ہوئی۔ شیر شاہ کا قانون تھا کہ سوداگروں اور مسافروں کی ہر طرح سے خاطرداری کی جائے ۔ اگر کوئی تاجر مر جائے تو اس کے مال میں دست اندازی نہ کی جائے اور جہاں تک ممکن ہو وارثوں کو تلاش کر کے ان کے پاس پہنچا دیا جائے۔ تمام ملک میں صرف دو جگہ مال تجارت پر محصول وصول کیا جاتا تھا۔ جب بنگال کی طرف سے سوداگر آتا تو گڑھی (سیکری گلی) میں اور جب خُراسان کی طرف سے آتا تو سرحد پر محصول لیا جاتا تھا۔ درمیان میں کسی کا مقدور نہ تھا کہ کسی قسم کا محصول وصول کرے۔ بادشاہ اور امرا بھی بازارکے نرخ سے مال خریدتے تھے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے علائوالدین خلجی نے جاگیر کا طریقہ موقوف کر کے فوج کو نوکررکھا اور خدمت کا ضابطہ نکالا۔ فیروز شاہ تغلق کے عہد میں پھر جاگیریں مل گئیں۔ شیر شاہ نے اپنے زمانے میں خدمت کے آئین کو پھر تازہ کیا اور فوج کی جاگیریں موقوف کر کے تنخواہیں مقرر کیں۔ وہ اپنے سپاہیوں کو بہت عزیز رکھتا تھا۔ اس کی فوج ممالک محروسہ کی مختلف چھائونیوں میں متعین رہتی تھی اور اس کا تبادلہ ہوتا تھا۔ قلعہ رُہتاس گڑھ ، بہرہ کھنڈ، شیر گڑھ ، شیر کوہ وغیرہ کئی قلعے تعمیر کرائے وہ کہا کرتا تھا کہ اگر زندگی نے وفا کی تو ہر پرگنہ میں مناسب مقام پر ایک ایک قلعہ تعمیر کرائوں گا۔ شیرشاہ کو خیرات اور امورات رفاہ عامہ کی طرف خاص توجہ تھی۔ فقراء ، مساکین اور محتاجوں کے واسطے لنگر خانے جاری تھے۔ ان لنگر خانوں کا خرچ پانچ سو اشرفی روزانہ تھا ۔ اندھے، لُولے، لنگڑے ، بڈھے ، بیوہ اور مریض عورتوں کے لیے نقد وظیفے مقرر تھے۔مشائخ علماء اور طلباء کی مدد معاش مقرر تھی۔ اس کا دستر خوان خدائی دستر خوان تھا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے۔ مسافروں کے آرام کے واسطے اس نے چار بڑی بڑی سڑکیں بنوائں۔ ایک قلعہ رُہتاس (پنجاب) سے سُنار گائوں (بنگالہ) تک جو چار ماہ کا راستہ تھا۔ دوسری آگرہ سے بُرہان پور (دکن) تک۔ تیسری آگرہ سے جودھ پور اور چتوڑ تک۔ چوتھی لاہور سے ملتان تک ۔ ان سڑکوں پر دور ویہ کھرنی ار آم وغیرہ کے درخت نصب تھے ۔ دو دو کوس کے فاصلے پر سرائیں موجود تھیں۔ جن میں ہندو اور مسلمانوں کے واسطے علیحدہ علیحدہ مکان تعمیر کیے گئے تھے ہر سرائے میں مسلمانوں کے واسطے مسجد، امام ، موذن ، پانی کی سبیل ، خدمت کے واسطے خدمتگار، ہندوئوں کے واسطے برہمن موجود رہتا تھا۔ ایک ایک نقارہ دودو گھوڑے ڈاک کے ہر سرائے میں رہتے تھے۔ جب بادشاہ دسترخوان پر بیٹھتے ۔ فوراً نقارہ بجتا تھا ۔ اس کی آواز سن کر برابر کے سرائوں میں نقارہ بجتا چلا جاتا تھا۔ اسی وقت مسلمانوں کو پکا پکایا کھانا اور ہندوئوں کوکچی رسد تقسیم ہوتی تھی۔ گھوڑوں یا بیلوں کے واسطے دانہ وغیرہ تک مفت ملتا ۔ آج تک ان سرائوں کے نشان کہیں کہیں باقی ہیں۔ فوجی قلعوں کے علاوہ شیر شاہ جے دار الخلافت دہلی میں جمنا کے کنارے نیا شہر آباد کیا۔ جس میں قلعہ حاکم نشین شیر منڈل کے نام سے موسوم تھا۔ اب اس کا کوئی نشان باقی نہیں۔ دہلی کے پرانے قلعہ کی مشہور عمارت جہاں نما جو شیر منڈل کے نام سے مشہور ہے اور خوشنما مسجد اور درگاہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی چاردیواری شیر شاہ کی یاد گاریں ہیں۔ ۹۵۲ء میں شیر شاہ نے قلعہ کا لنجر کا محاصرہ کیا اثنائے محاصرہ میں ایک دن وہ خود ایک مورچہ پر کھڑا تھا۔ باروت کے گولے قلعہ میں پھینکے جا رہے تھے۔ ایک گولا دیوار قلعہ پر لگا اور ٹکرا کر مورچہ پر آیا۔ پاس ہی اور گولوں کا ڈھیر تھا۔ دفعتہ سب بھڑک اٹھے سینکڑوں سپاہی اور سردار کباب ہو گئے۔ شیر شاہ بھی جھلس گیا۔ کبھی ہوش میں آجاتا تھا ، کبھی بے ہوش ہو جاتا تھا۔ مگر جب کبھی آنکھ کھولتا ۔ للکار کر حملے کا حکم دیتا۔ جو کوئی سردار اسے دیکھنے آتا اس سے کہتا کہ یہاں کیوں آئے ہو ؟ قلعہ میں جا کر لڑو۔ لوگ صندل اور گلاب چھڑکتے تھے۔ مگر موت کی تپش تھی کہ کسی طرح ٹھنڈی نہ ہوتی تھی ۔ شیر شاہ بار بار فتح کی خبر پوچھتا تھا۔ اُدھر کسی نے فتح کی خوشخبری سنائی۔ اُس نے الحمدللہ کہا اور فوراً طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا۔ ہزاروں حسرتیں دل کی دل ہی میں رہ گئیں ۔ شیر شاہ کی نسبت مشہور ہے کہ جب وہ آئینہ دیکھتا تو کہتا کہ افسوس شام کے وقت مجھے بادشاہی ملی۔ شیر شاہ کا مقبرہ سہسرام میں ہے اور نہایت عمدہ اور خوشنما عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔ مشقی سوالات ۱- شیر شاہ نے چوری اور راہزنی کا انسداد جس طریق سے کیا۔ اس کو اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ خیرات اور رفاہ ِ عام کے متعلق اس نے کون کون سے قابل یاد گار کام کیے؟ ۲- ’’اس کا قول تھا‘‘۔ ’’عدل فضائل حسنہ کا زیور ہے‘‘ ۔ ’’طائر روح قفس عنصری سے پرواز کر گیا ‘‘ ان تینوں کا مطلب سلیس الفاظ میں بیان کرو۔ ۳- ہونہار۔ کاروانی۔ قابض ۔ ستم رسیدہ۔ افزائش ، قوائد کی رُو سے کیا کیا ہیں؟ ۴- دلایا جائے اور پکڑا نہ جائے ۔ کون کون سے فعل ہیں؟ ۵-کوہسار ہمالہ جبل مَلک شمس وقمر آغوش دِلکُشا مشہور نام تیرا کوہ ہمالیا ہے تو ہند کی ہے عزت اور شان ایشیا ہے گلزاراور بیاباں دونو کا حال یکساں تیرا وسیع میداں سب کے لیے کھلا ہے چشمے ابل رہے ہیں۔ دریا نکل رہے ہیں سینہ میں تیرے گویا۔ طوفان سا بھرا ہے کوہ و جبل جہاں کے ہیں پست تیرے آگے اظہار عاجزی میں ہر اک کا سر جھکا ہے ہم پایۂ فلک ہے۔ ہمسایہ ملک ہے شمس و قمر کو بھی تو نیچا دکھا رہا ہے دنیا کو ترک کر کے جاتے ہیں لوگ اکثر غاروں میں تیرے لطف آغوش دلکشا ہے یہ برف پوش منظر۔ سورج کی یہ شعائیں ہیرے کا تاج پہنے جیسے کوئی کھڑا ہے اٹھلا رہی ہیں کیا کیا ٹھنڈی ہوا کی موجیں عالم بہار کا ہے تیری عجب فضا ہے شملہ تیرا گلستان کشمیر تیری جنت تیری ہی وادیوں میں جینے کا کچھ مزا ہے مشقی سوالات ۱- دنیا کو ترک کر کے جاتے ہیں لوگ اکثر غاروں میں تیرے لطف آغوش ِ دلکشا ہے اوپر کے شعر کی نثر بنائو اور نہایت آسان الفاظ میں مطلب بیان کرو۔ ۲- نیچا دکھانا، اٹھلانا کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- مضاف الیہ کی جو ضمیریں اس نظم میں ہیں ۔ بیان کرو۔ ۶-رام چندر جی (۲) سعادت ناز و نعمت عبور جرار مفارکت قلق دامِ محبت التفات رام چندر جی فوراً راجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کو نہایت غمگین اور اُداس دیکھ کر کیکئی سے سبب دریافت کیا۔ اس نے کہا کہ راجہ نے مجھ سے قسم کھا کر دو باتوں کے پورا کرنے کا اقرار کیا تھا۔ اب جو وہ باتیں میں نے چاہیں تو پچھتاتا ہے اور اپنے اقرار سے پھرا جاتا ہے اگر تم چاہتے ہو کہ تمارے باپ کی قسم نہ ٹوٹے تو آج ہی شہر سے نکل جائو اور چودہ برس تک ڈنڈک (یہ بن بہت وسیع تھا۔ اور الہ آباد سے گوداوری تک پھیلا ہوا تھا) میں رہو اور بھرت کو راج کی اجازت دو۔ رام چندر جی نے کہا۔ باپ کا حکم بجا لانے میں مجھے کیا عذر ہو سکتا ہے ان کی اطاعت میری سعادت ہے میں ان کے قول کو سچا کرتا ہوں اور آج ہی بنوں کو چلا جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اپنی ماں کے پاس آئے اور ساری حقیقت اس کے روبرو بیان کی۔ ماں کو بیٹے کی محرومی اور جدائی کب گوارا ہو سکتی تھی ۔ سنتے ہی اس کے پائوں تلے کی زمین نکل گئی اور غش کھا کر گر پڑی۔ جب ہوش میں آئی تو کہنے لگی۔ کہ آخر میں بھی تیری ماں ہوں میرے حکم کی اطاعت راجہ سے زیادہ تجھ پر واجب ہے بہتر یہ ہے کہ تو راجہ کا حکم نہ مانے اور فوراً راج پر قابض ہو جائے۔ لچھمن جی نے بھی اس کلام کی تائید کی اور کہا کہ میں رام کے ساتھ ہوں اور اپنے تیرو ترکش کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو رام کے مقابلے میں آئے گا وہ زندہ بچ کر نہ جائے گا۔ جب تک میریدم میں دم ہے کس کا مقدور ہے کہ رام کے سوا کسی اور کو راج دے سکے۔ رام چندرجی نے ان دونوں کو سمجھایا اور کہا کہ خاوند اور باپ کے حکم کی بجا آوری سب چیزوں پر مقدم ہے ۔ تم ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالو۔ تب ماں نے کہا کہ اگر یہی تیری مرضی ہے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چل کہ سوکن کے طعن و تشنیع اور تیری جدائی کے رنج سے بچوں۔ مگر رام چندرجی نے اس کو پھر سمجھایا اور راجہ ہی کی خدمت میں رہنے کی التجا کی۔ ماں سے رخصت ہو کر بیوی کے پاس آئے اس کو حال کی مطلق خبر نہ تھی اور وہ دروازے پر آنکھ لگائے ان کی سواری کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ جب ان کو سرجھکائے اور غیم کی صورت بنائے آتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھنے لگی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ چتر شاہی کہاں ہے؟ اور چنور تم پر کیوں نہیں ہوتا؟ رام چندرجی نے اس کو بھی سب حقیقتد سنائی اور کہا کہ جب تک میں آئوں تم یہیں میرے باپ کی خدمت میں رہو اور جوفرائض نیک بیبیوں کے ہیں انہیں بجا لائو۔ سیتا جی نے جواب دیا کہ میں تو آپ کے ہی قدموں کے ساتھ ہوں۔ مجھ سے تمہاری جدائی کا صدمہ اٹھایا نہ جائیگا۔ اگر یہاں چھوڑ جائو گے تو آکر جیتا نہ پائو گے ۔ تب رام چندر جی نے کہا کہ راجہ کی بیٹی نازونعمت میں پلی ہو۔ محل کے سوا تم نے کچھ نہیں دیکھا۔ جنگل کی مصیبتیں تم کب اٹھا سکو گی۔ دھوپ کی تپش سے تمہارا پھول سا بدن کملا جائے گا۔ یہ ریشمی کپڑے جو تم پہنے ہوئے ہو ان کے بدلے درختوں کی چھال اور ہرنوں کی کھال پہننی پڑے گی۔ کھانے کو بناس پتی اور کڑوے پھلوں کے سوا کچھ میسر نہ آئے گا بلکہ دنوں اس کو بھی ترسو گی۔ وہاں نرم بچھونے اور پھولوں کی سیجیں کہاں ۔ کانٹوں پر سوانا اور گھاس کا بچھونا ہوگا۔ڈانس اور پسُّو کاٹ کاٹ کر بدن سُجائیں گے۔ شیروں کی دھاڑ اور ہاتھیوں کی چنگھاڑ دل کو دہلائے گی اور سانپ اور بچھو کا ہر وقت ڈر ہو گا۔ پس بہتر یہی ہے کہ تم یہیں رہواور میرے ساتھ چل کر میری مصیبت کو نہ بڑھائو۔ سیتا جی ان کے یہ باتیں سن کر آنکھوں میں آنسو پھر لائیںاور کہنے لگیںکہ میں یہ سب باتیں جانتی ہوںمگر تمہارے ساتھ یہ ساری مصیبتیں مجھے راحت ہو جائیں گی اور تم بن یہ محل بن سے زیادہ معلوم ہو گا اور کاٹ کھانے کو دوڑے گا۔ یہ کہہ کر ان کے پائوں پر گر پڑیں اور زار زار رونے لگیں ۔ جب رام چندر جی نے ان کی محبت کا جوش اس درجے پایا تو وہ ان کو اور نیز لچھمن جی کو کہ وہ بھی ہر حال میں ان کا ساتھ دینے پر آمادہ تھے ۔ ہمراہ لے چلنے کو راضی ہوئے۔ جس وقت رام چندر جی اُجدھّیا سے رخصت ہو کر بنوں کو چلے اس وقت شہر کی جو کیفیت تھی۔ اس کے بیان کرنے کا قلم کو یارا نہیں۔ ایک طرف راجہ جسرتھ بے بس اور بے کس غم کی تصویر بنا بیٹھا تھا اور کہتا تھا کہ بیٹا رانی کیکئی کی بات پر نہ جا اور اُجدھیا کا راج لے ۔ دوسری طرف ساری رانیاں کیکئی کے سوا کبھی سیتا جی کو اور کبھی رام چندر جی اور لچھمن جی کو گلے لگا کر زار زار روتی تھیں اور کوشلیا کا تو اس غم سے سکتے کا عالم ہو گیا تھا۔ شہر میں کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو آنسوئوں سے تر نہ ہو اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو رنج مفارقت سے نڈھال نہ ہو ۔ رام چندر جی کا رتھ میں سوار ہو کر شہر سے چلنا تھا کہ ہر طرف سے آہ ونالے کا شور اُٹھا اور بہت سے آدمی ان کے رتھ کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ رام چندر جی نے ہر چند ان کو سمجھایا کہ تم اپنے گھروں کو جائو۔ مگر ان کو رام چندر جی کی جدائی گوارا نہ ہوئی اور انہوں نے دریائے تمسا (اب اس دریا کو تونس کہتے ہیں) تک ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ رات کو اس دریا پر رام چندرجی نے قیام کیااور صبح ہونے سے پہلے کہ ابھی ساتھ کے لوگ جاگے بھی نہ تھے۔ آگے کو روانہ وہ گئے۔ جب لوگوں نے صبح ان کو وہاں نہ پایا تو ناچار اپنے گھروںکو پھر آئے۔ رام چندر جی دریائے گنگا کو عبور کر کے الہ آباد پہنچے اور وہاں سے چتر کوٹ نام ایک پہاڑ پر جو بندیل کھنڈ میں واقع ہے چلے گئے اور ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ ان کو گئے چھ دن ہوئے تھے کہ ساتویں روزرات کو راجہ جسرتھ نے ان کی جدائی کے رنج میں اس جہان سے کوچ کیا۔ رانیوں کا اس صدمے سے برا حال ہوا ۔ سارا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ چونکہ رام چندر جی اور لچھمن جی بنوں کو گئے ہوئے تھے اور بھرت جی اور شتروگھن جی اپنے نانا کے ہاں پنجاب میں تھے اس سبب سے اس روز راجہ کی لاش کو نہ پھونکا اور وزیروں اور برہمنوں کے مشورے سے تیل میںڈال دیا تاکہ سڑنے نہ پائے۔ جب بھرت جی کہ ان کے بلانے کے لیے پہلے ہی سے قاصد روانہ کر دیے گئے تھے۔ اُجدھیا میں آئے تو ان کو باپ کے مرنے اور بھائیوں کے جلا وطن ہونے کا سخت قلق ہوا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی ماں کو بھی بہت ملامت کی ۔ پھر رسم کے موافق باپ کا کریا کرم کیا اور جب اس سے فارغ ہوئے تو وزیروں اور امیروں نے جمع ہو کر ان کے راج گدی پر بیٹھنے کی درخواست کی ۔ مگر انہوں نے قبول نہ کیا اور یہ جواب دیا کہ راج بھائی رام چندر جی کاحق ہے میں ان کی تلاش میں جاتا ہوں اور ان کو ساتھ لے کر جلد پھر آتا ہوں ۔ وزیر اور امیر اور شہر کی بہت سی خلقت بھی ان کے ساتھ ہوئی اور وہ چتر کوٹ پر جا پہنچے ۔ دونو بھائی بہت تپاک سے ملے ۔ پھر بھرت جی نے رام چندر جی سے راج قبول کرنے کی درخواست کی مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ جب تک چودہ برس ختم نہ ہو لیں۔ مجھ کو اُجدھیا میں قدم رکھنا حرام ہے ۔ جب بھرت جی نے ان کو باپ کا قول پورا کرنے پر ایسا ثابت قدم پایا تو ان سے چودہ برس کے بعد اُجدھیا میں آنے اور راج قبول کرنے کا عہد لیا۔ پھر سونے کی کھڑاویں ان کے پائوں میں پہنا کر اپنے ساتھ لیتے آئے اور ان کھڑائوں کو تخت پر رکھ کر رام چندر جی کی طرف سے راج کرنے لگے۔ بھرت جی کے واپس آنے کے بعد رام چندر جی نے لچھمن جی او ر سیتا جی کو ساتھ لے کر دکن کا رخ کیا اور بنوں اور جنگلوں کی سیر کرتے اور وہاں وحشی اور خونخوار باشندوں سے لڑتے بھڑتے تیرہ برس کے بعد گوداوری پر پہنچے۔ یہاں پہنچ کر پنج وٹی میں جس کو آج کا نسک (نسک اس مقام کا نام اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ یہاں لچھمن جی نے سروپ نکھا کی ناک کاٹی تھی اور زبان سنسکرت میں ناسک کی جگہ ہو کہتے ہیں۔) کہتے ہیں، سکونت اختیار کی۔ یہ مقام اس وقت لنکا کے راجہ راون کی عملداری میں تھا اور اس کے دو بھائی کھر اور دوشن اس کی طرف سے اس علاقے میں حکومت کرتے تھے۔ ایک روز جو اتفاق سے راون کی بہن سروپ نکھا کا پنج وٹی میں گذر ہوا تورام چندرجی کو شکیل اور خوبصورت جوان دیکھ کر ان پر عاشق ہو گئی۔ ہر چند اس نے طرح طرح کی دلفریب باتوں سے اپنے دام ِ محبت میں ان کو پھنسانا چاہا ۔ مگر رام چندر جی نے کہ اپنی ایک بیوی کے سوا دوسری عورت کی طرف آنکھ بھر کر دیکھنا حرام جانتے تھے۔ کچھ التفات نہ کی ۔ بلکہ ان کے بھائی لچھمن جی نے اس کے یہ انداز دیکھ کر تلوار سے اس کی ناک کاٹ ڈالی۔ تب وہ روتی پیٹتی او راپنی چھاتی کوٹتی لہو میں ڈوبی ہوئی اپنے بھائیوں کھر اور دوشن کے پاس آئی۔ بھائیوں نے جب بہن کا یہ حال دیکھا تو غصے کے مارے انہیں تاب نہ رہی اور رعد کی طرح کڑکتے ہوئے رام چندرجی اور لچھمن جی پر حملہ آور ہوئے ۔ مگر ان بہادروں نے ان پر تیروںکی ایسی بوچھاڑلی کہ ان کے بدن چھلنی ہو گئے اور وہ اسی میدان میں کھیت رہے۔ اب سروپ نکھا نے راون کے پاس جا کر فریاد کی اور کہا اگر کچھ ہمت اور غیرت ہے تو میرا اور اپنے بھائیوں کا بدلہ لے۔ یہ بات سن کر راون سخت بدنہاد تھا ۔ بیقرار ہو گیا اور اسی وقت پنج وٹی کو روانہ ہوا۔ ایک روز ایسے وقت کہ رام چندر جی اور لچھمن جی اپنی جھونپڑی میں نہ تھے اور سیتا جی اکیلی بیٹھی ہوئی تھیں۔ راون فقیروں اور بھیک منگوں کا بھیس بنا کر ان کے پاس پہنچا اور پکڑ کر زبردستی اپنے ساتھ لے گیا۔ سیتا جی نے ہر چند چیخیں ماریںاور غل مچایا ۔ مگر اس وقت کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا ۔ جب رام چندر جی اور لچھمن جی جھونپڑی کو واپس آئے تو سیتا جی کو وہاں نہ دیکھ کر نہایت پریشان ہوئے اور جابجا جنگل میں ان کی تلاش کرنے لگے۔ آخر کو یہ سراغ لگا کہ لنکا کا راجہ راون ان کو لے گیا ہے اس بات کے دریافت ہوتے ہی رام چندرجی نے جنوب کی راہ لی اور چلتے چلتے سگریو نام ایک راجہ کے علاقے میں پہنچے ۔ یہ زبردست سردار فورج جرار اپنے قبضے میں رکھتا تھا اور ہنو مان اس کا سپہ سالار اور مشیر کار تھا۔جب اس نو اس معاملے کی خبر ہوئی تو بہت سی فوج دے کر ہنو مان کو رام چندرجی کے ساتھ کیا اور یہ لشکر اس آبنائے پر جو ہندوستان اور لنکا کے مابنین واقع ہے ۔ پُل باندھ کر لنکا میں جا پہنچا ادھر سے راون بھی اپنی فوجیں لے کر رام چندرجی کے مقابلے میں آیا۔ اٹھارہ دن تک برابر لڑائی ہوتی رہی ۔ انجام کار راون اور اس کے رشتہ دار اور بڑے بڑے سردار جب میدان جنگ میں کام آئے اور رام چندرجی نے راون پر فتح پائی تو سیتا جی بھی ان کے ہاتھ آئیںاور چونکہ اب چودہ برس ختم ہو چکے تھے اس واسطے رام چندرجی مع لچھمن جی اور سیتا جی کے اُجدھیا کو روانہ ہوئے ۔ بھرت جی کو جب ان کے آنے کی خبر ہوئی تو راج کے سارے سرداروں اور افسروں کو ساتھ لے کر ان کے استقبال کو گئے اور رعایا کو بھی ان کے آنے کی ایسی خوشی ہوئی کہ ابھی شہر کے باہر ہی تھے کہ ہر ایک شخص اپنی حیثیت کے موافق نذر لے کر ان کی خدمت میں پہنچا ۔ کو شلیا نے جس کو رام چندرجی کی جدائی میں ایک ایک دن ایک ایک برس کے برابر گزرا تھا۔ اپنے نور دیدہ کو دیکھ کر دوبارہ زندگی پائی ۔ بھرت جی نے سلطنت رام چندر جی کے حوالے کی اور وہ مدت تک بڑی شان وشوکت سے اُجدھیا میں راج کرتے رہے۔ مشقی سوالات ۱- بن باس کو جاتے وقت رام چندر جی کی جو گفتگو ان کی والدہ سے ہوئی۔ اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ ۲- ’’پائوں تلے کی زمین نکل گئی ‘‘ اور ’’سارا شہر ماتم کدہ بن گیا‘‘ کامطلب آسان الفاظ میں بیان کرو۔ ۳- مندرجہ ذیل کلمات گرائمر کی رُو سے کیا کیا ہیں۔ ۴- ’’چھوڑ جائو گے‘‘ کون سا فعل ہے ۔ اس کے مونث صیغوں کی پوری گردان کرو۔ ۷- گنگا تلاطم صولت سطوت شاداب منظور نہیں ہے خوش بیانی گنگا کی دکھائوں گا روانی گومکھ سے وہ آب چل پڑا ہے بیساختہ خود نکل پڑا ہے کس شان و شکوہ سے چلا ہے رحمت ہے کہیں۔ کہیں بلا ہے کھیتوں کو کہیں کیا ہے شاداب بنجر تک کو کیا ہے سیراب کیا فیض رساں ہیں اس کی لہریں جاری کر دیں تمام نہریں ویراں کہیں گائوں کر دیے ہیں نالے تالاب بھر دیے ہیں کیا خوب ہے آن بان اس کی ساحل پہ بھی ایک شان اس کی جاتا ہے جدھر کو مُنہ اٹھائے لاکھوں ہی کھڑے ہیں سر جھکائے سر کوئی زمین پہ دھر رہا ہے ڈنڈوت ہی کوئی کر رہا ہے کچھ سیر کو لوگ آ رہے ہیں منظر کا مزہ اٹھا رہے ہیں مد پر آئے تو زور دیکھو ہل جائے زمین وہ شور دیکھو دیکھا جو کئی جگہ تلاطم آئے ہوئے ہوش ہو گئے گم فطرت کا عجیب کھیل دیکھا گنگا جمنا کا میل دیکھا القصہ بڑھا یہاں سے پانی اب قابل ذکر ہے روانی اچھلا کہیں دب کے سر اٹھا کر اُبلا کہیں دب کے سنسنا کر چلنا وہ کہیں مچل مچل کر بہنا وہ کہیں سنبھل سنبھل کر وہ جوش میں آن کر بگڑنا زُلفوں کی طرح ہوا سے لڑنا وہ شان وہ دبدبہ وہ صولت وہ رعب وہ داب اور سطوت چوگان کہیں موج کو بنانا اور گوئے حباب کو اُڑانا آتش آسا کہیں چمکنا کندن کی طرح کہیں دمکنا دب کے جان کہیں دبانا انداز و ادا کہیں دکھانا دامن کو کہیں جھٹک کے چلنا ساحل پہ کہیں مٹک کے چلنا مُڑتا ہے جہاں تو چھب دکھا کر اُڑتا ہے جہاں غضب دکھا کر شوخی ہے کہیں، کہیں شرارت سردی ہے کہیں، کہیں حرارت بیخوف و ہراس شوخ و بیباک آزاد و شریر و چست و چالاک آرام سے اس کو سخت نفرت اور کام سے رات دن ہے رغبت جلوہ ہر رنگ میں دکھایا آیا جو سامنے بہایا مشقی سوالات ۱- مطلب بیان کرو۔ ۱- رحمت ہے کہیں ، کہیں بلا ہے ب- آرام سے اس کو سخت نفرت اور کام سے رات دن ہے مطلب ۲- اس نظم کی مدد سے دریائے گنگا کے فوائد بیان کرو۔ ۳- اس سبق میں جو مصدر آئے ہیں۔ وہ کیا معنے دیتے ہیں؟ ۴- بیخوف اور بیباک قواعدمیں کیا ہیں؟ نیز بیباک اور بیباق میں فرق بیان کرو۔ ۸- اُلّو ضرب المثل موجودات صفاتِ یزدانی مظہر صائم ریاکاری محل شناسی صدائے عبرت اُلّو ایک ایسے جانور کا نام ہے۔ جس کی نحوست کو سب مانتے ہیں۔ ضرب کے جملے بیچارے اس پرندے کے وجود پر بن گئے ہیں۔ جب کسی گھر یا شہر کی ویرانی بیان کرنی منظور ہو تو کہتے ہیں کہ وہاں تو اُلّو بول رہا ہے ۔ یعنی وہ مقام بالکل اُجاڑ ہے۔ آبادی کی چہل پہل بالکل نام کو نہیں۔ فقط نحوست اور ویرانہ پن ہی میں اُلو بدنام نہیں ہے۔ ضاقت اور بے عقلی کے موقعہ پر بھی اُلّو ہی کا نام لیا جاتا ہے۔ اُلّو کی آواز سے بہت بد شگونیاں منسوب ہیں۔ بش ایسے منحوس جانور کے ذکر اذکار میں کون جی لگائے گا۔ کس کو رغبت ہو گی کہ بُلبُل ہزار داستان اور طو طی شکر مقال کے چرچوں کو چھوڑ کر ان بدنام پرند کے بیان میں مصروف ہو ۔ مگر دنیا کے پردے پر سب آدمی ایک مزاج و طبیعت کے نہیں بستے۔ ہزار اُلّو کو برا کہنے والے ہیں۔ تو دو چار اس کی مدح سرائی کرنے والے بھی نکل آئیں گے۔ خاص کر وہ گروہ جو موجودات کے ہر نیک و بد کو صفاتِ یزدانی کا مظہر تصور کرتا ہے۔ اُلّو کی زندگی اور بود و باش ایک با خدا اور تارک الدنیا درویش کی سی ہے ۔ وہ آبادی سے گھبراتا ہے اس کو خلوت اور تنہائی بھاتی ہے۔ عام پرندوں کی طرح رونق دار شہر اور غل و شور کے مقام پر آشیانہ نہیں بناتا۔ سر سبز درختوں کی شاخوں پر بیٹھ کر نغمہ سنجی نہیں کرتا۔ جس سے فرحت پسند انسان بھی بہلا لیے۔ اُلّو سار دن حریص پرندوں کی مثل پیٹ کی خاطر دربدر مارا مارا نہیں پھرتا۔ بلکہ اُجاڑ اور غیر آباد کھنڈروں میں نشیمن بناتا ہے۔ جہاں کوئی غیر مانوس آواز اس کی مشغولی میں خلل انداز نہ ہو۔ دن بھر صائم رہتا ہے اور شام کو سورج چھپنے کے بعد رزق کی تلاش میں نکلتا ہے اور جونہی نکلا خدا تعالیٰ شکار کے چند لقمے دلوا دیتا ہے۔ جن سے روزہ افطار کر کے کسی ٹوٹے ہوئے گنبد یا جُھکی ہوئی دیوار پر آبیٹھتا ہے اور ہُوہُو کے نعرے لگانے لگتا ہے اس ذکر وشغل اور یاد الٰہی میں صبح ہو جاتی ہے اور یہ پکا اور سچا صوفی ریاکاری کے ڈر سے خاموش ہو کر اپنے حجرے میں گھس جاتا ہے اور حبس دم کے مراقبے میں بیٹھ جاتا ہے۔ پھر شام تک باہر نہیں آتا۔ یہ خود پسند آدمی بادشاہی کا تاج پہن کر نوبت نقارے بجواتا ہے ۔ نوبت خاں کے لیے اونچے اونچے مکان تیار کراتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ نوبت ہمیشہ بجے گی۔ لیکن زمانے کا چکر چند ہی روز میں اس سرکش کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ پھر دنیا والے اس کو اور اس کے نوبت نقاروں کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ مگر اُلّو نہیں بھولتا ۔ مٹنے والے تاجدار کے خاکی ڈھیر پر جاتا ہے اور نقیب اور چوہداروں کی آواز صدائے عبرت میں مرنے والے کے وجود خاکی کو سناتا ہے اور اس کے نوبت خانے پر بیٹھ کر ٹھیک رات کے بارہ بجے کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فاَن (ہر چیز فنا ہو جانے والی ہے) کی نوبت بجاتا ہے۔ ایک دفعہ گرمی کے موسم میں راقم الحروف درگاہ حضرت خواجہ قطب صاحب(ان ولی اللہ کا نام ہے جن کے مزار کے پاس قطب مینار تعمیر ہے) میں حاضر تھا ۔ پچھلی رات جب کہ چاند غروب ہو رہا تھا۔ جی چاہا کہ قطب مینار کا نظارہ کروں اس وقت عجیب پُر اثر وقت تھا۔ چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ رات سائیں سائیں کر رہی تھی۔ درگاہ شریف سے نکل کر مقبرہ ادہم خاں کے قریب آیا تو دسویں رات کے چاند کی صورت سامنے آگئی۔ بیچارہ ماندگی کے عالم میں افق تنزّل پر چمک رہا تھا اور اپنی افسردہ شعاعیں ویران درودیوار پر ڈال رہا تھا ۔ ملگجی روشنی میں شاہی کھنڈرات کی صورت ایسی ہیبتناک اور ڈرائونی معلوم ہوئی کہ کلیجہ کانپنے لگا۔ تاہم ہمت کر کے ذرا اور آگے بڑھا۔ جوگ مایا کا مندر دور سے نظر آرہا تھا۔ دوسری طرف جو پھر کر دیکھا تو غیاث الدین بلبن۔ محمد خاں شہید کے شکستہ مقبرے اور ہستیوں اونچی نیچی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں نظر آئیں۔ جن پر پھیکی پھیکی چاندنی اور رات کی خاموشی نے خبر نہیں کس بلا کا اثر پھیلا رکھا ہے کہ بے اختیاری کی سی حالت پیدا ہو گئی ۔ لیکن ارادہ قطب مینار دیکھنے کا تھا۔ ان نظاروںمیں تھوڑی دیر مصروف رہ کر آگے بڑھ گیا اور علائوالدین خلجی کے مقبرے کے پاس پہنچ گیا۔ دیکھا کہ بیچارہ سلطان خلجی اکیلا تنہا خوفناک کھنڈر کی گود میں پڑا سوتا ہے کوئی پہرہ دار نہیں۔ پاسبان نہیں جو اس سکندر ثانی کی خوابگاہ کے قریب جانے سے مجھ اجنبی کو روکے۔ زندگی کی تو خبر نہیں مرنے کے بعد جب ابن بطوطہ نے اس مقبرے کو دیکھا ہے توعجب شان تھی۔ زریں مخملی غلاف پڑے ہوئے تھے۔ اگر اور لوبان کی خوشبو سے مقبرہ مہک رہا تھا۔ عالیشان گنبد کے قریب بہت بڑا مدرسہ تھا۔ جہاں سینکڑوں طلباء رہتے تھے۔ آج کی رات نہ گنبد باقی تھا نہ غلاف نہ خوشبو نہ مدرسہ نہ طلباء یہاں تک کہ قبر کا نشان بھی ناپید تھا۔ چونے اور پتھروں کے انبار میں خبر نہیں کس جگہ سکندر (سلطان علائو الدین خلجی کا لقب ہے) ثانی سلطان علائو دین خلجی کی ہڈیاںپڑی تھیں۔ اس منظر نے میرے پائوں پکڑ لیے۔ بدن ساکن کر دیا۔ آنکھوں کو دریائے عبرت میں غرق کر دیا محوِ عبرت بنا تھا کہ سامنے کی شکستہ دیوار پر اُلّو کی صدا کان میں آئی۔ جو سلطان کی گذشتہ شان وشوکت کا نوحہ رُک رُک کر پڑھ رہا تھا۔ ان سب پُر اثر نظاروں سے زیادہ میرے دل پر صدائے بوم چوٹ لگی۔ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت کیا حالت ہوئی اور اب جب اس کا خیال کر تا ہوں کیا کیفیت دل کی ہو جاتی ہے ۔ تو کیا ایسے ناصح اور بیکسوں کے دمساز جانور کو آپ برا کہہ سکتے ہیں۔ اگر اس محل شناسی پرغور کیا جائے تو بے ساختہ داد دینی پڑتی ہے۔ جن کو سب بھول گئے۔ سب نے چھوڑ دیا۔ ان کو اُلّو نے نہیں بھلایا اور ساتھ نہیں چھوڑا۔ اُلّو کی آواز کو منحوس نا حق کہتے ہیں۔ ذرا دھیان سے سنو ’’اللہ ہُو‘‘ صاف سمجھ میں آجائے گا۔ بعض دفعہ محض ’’ہُو ہُو‘‘ بھی کہتا ہے اور بعض وقت پورا ’’اللہ ہُو‘‘ پکارتا ہے۔ بنگالی مینا۔ ہیرا بن طوطا اور یہ ننھی ننھی خوبصورت چڑیاں میٹھی میٹھی بولیوں سے آپ کا جی خوش کرتی ہیں ۔ مگر اُلّو اپنے نعرہ حق سے آپ کے دل کو لرزا دیتا ہے۔ اس لیے آپ اس کو منحوس کہتے ہیں۔ نہیں نہیں ، ایسا خیال نہ کرو ۔ یہ خوش نوا پرندے دل کو یاد حق سے ہٹا کر تکلفات دنیا میں مصروف کرتے ہیں اور اُلّو کی جگر خراش فریاد انجام کار یاد حق دلاتی ہے اور کہتی ہے ؎ جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے مشقی سوالات ۱- اُلو کا نام کیوںنحوست کے موقع پر بولا جاتا ہے ؟ ۲- مدح سرائی کرنا اور مارا مارا پھرنا کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- اُلّو کس قسم کا جانور ہے ؟ کس وقت خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے ؟ ۴- ’’اُلّو ایک جانور کا نام ہے ‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۵- بن گئے ہیں۔ کہتے ہیں۔ بول رہا ہے ۔ لگائے گا ۔ آئیں گے ۔ کرتا ہے ۔ قواعد کی رُو سے کون کون سے فعل ہیں اور کون کون سے مصدروں سے بنے ہیں؟ ۹-برسات کبریائی منادی خلش پیک عمامہ بیساختہ برسات ہے۔ کیا بہار آئی قدرت نے دکھائی کِبریائی ہے ابر سیہ فلک پہ چھایا رت بدلی۔ نیا کمال ہے آیا اب فتح کے بج رہے ہیں باجے دنیا میں ہیں۔ میگھراج راجے اس فتح کی کُو بکُو ہے شادی عِشرت کی ہے چار سُو منادی سبزہ ہے اُگا روش روش پر قدرت نہیں خار کو خلش پر قطرے سے شبنم کے کیا پڑے ہیں ہیرے الماس پر جڑے ہیں سبزہ ہے لہلہاتا بن بن نکلا ہے زمین کا پھوٹ جوبن جب سے پیکِ صبا نے آآ مُژدہ ہے بہار کا سنایا غنچے آپس میں مسکرائے بیساختہ گل بھی کھلکھلائے پھولے ایسے خوشی میں آکر جامے سے نکل پڑے ہیں باہر باندھے ہوئے شبنمی عمامہ پہنے ہوئے سرخ و سبز جامہ گل مثل عروس ہیں سراپا اور برگ بنے ہوئے ہیں دولہا طائوس چنور کیے ہوئے دُم ہے رقص میں بیخودی سے وہ گُم بھینی بھینی شمیم خوشبو ٹھنڈی ٹھنڈی نسیم ہر سُو مشقی سوالات ۱- اس نظم کے مضمون کو اردو نثر میںلکھو۔ ۲- اس شعر کا مطلب بتائو۔ اب فتح کے بج رہے ہیں باجے دنیا میں ہیں میگھراج راجے ۳- نظم بالا کی مدد سے برسات پر جواب مضمون لکھو۔ ۴- برسات، عِشرت ، شبنم، مسکرائے، نکل پڑے ہیں، سرخ تالاب ۔ قواعد میں کون کون سے کلمے ہیں۔ ۱۰- رام شاشتری منتہائے کمال اولوالعزمی منتظم عطیۂ ِ عظمیٰ قعرِپستی مسلط بے لوث وطیرہ تاریخ عالم پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہر شخص کو اپنی عمر میں ایک موقع ترقی کا ضرور ملتاہے ۔ خواہ وہ اسے فائدہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ اسی طرح ہر قوم کی ترقی کا بھی ایک دور آیا کرتا ہے اور جب وہ دور آتا ہے تو اس قوم کے افراد میں وہ تمام صفات جمع ہو جاتی ہیں جو منتہائے کمال پر پہنچنے کے لیے لازمی ہیں۔ مرہٹوں کی قوم کبھی فنون سپہ گری یا اولوالعزمی کے لحاظ سے ممتاز نہ تھی۔ بلکہ زراعت ہی ہمیشہ سے ان کا ذریعہ معاش تھا اور وہ شمشیر زنی اور ملک گیری کی بجائے ہل جوتنے اور مویشی چرانے میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن جب ان کی ترقی کا دور آیا تو گو وہ مدت کے اعتبار سے بجلی کی چمک یا پھونس کی آگ سے زیادہ پائدار نہ تھا۔ مگر ان میں بھی سیوا جی جیسا فاتح ۔ مادھو رائو جیسا اولوالعزم سپہ سالار ۔ نانا فرنویس جیسا مدبر۔ دولت رائو سندھیا جیسا جنرل اور رام شاستری جیسا منصف جج پیدا ہو گیا۔ مرد تو مرد عورتیں بھی ایسی دانشمند اور منتظم ہوئیں۔ جیسے کہ اہلیا بائی، کہ جس کی یاد کبھی زمانہ کے دل سے محو نہیں ہو سکتی ۔ اگرچہ اولوالعزم لوگوں کے کارنامے خواہ ان کی حوصلہ مندی کا اظہار کسی میدان میں ہو۔ قومی ہمت کے قائم رکھنے کے لیے عطیہ عظمیٰ ہیں۔ لیکن یہ باتیں اسی وقت کام آتی ہیں۔ جب کہ قوم قوم ہو۔ لیکن جب کوئی قوم بد نصیبی سے اوبار میں مبتلا ہو کر قعرِ پستی میں جا پڑتی ہے اور ہر چند ہاتھ پائوں مارتی ہے مگر کامیابی کی شکل نہیں دیکھتی تو اس وقت گزشتہ عظمت و شان کے قصوں کا دہرانا بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی شخص کی خوبیوں کا ذکر اس کے جنازے کے سامنے بیٹھ کر کیا جائے۔ جس کا نتیجہ صرف یہ ہو گا کہ داغ حسرت تازہ اور مایوسی اور بھی ہر طرف سے مسلط ہو جائے۔ ایسی درماندہ حالت میں اگر کوئی تدبیر کارگر ہوتی ہے تو وہ یہی ہے کہ قوم کے سامنے اخلاق کے ایسے اعلیٰ نمونے پیش کیے جائیں۔ جو بھولے بھٹکوں کے لیے چراغ ہدایت کا کام کریں تاکہ قوم پھر اس اخلاقی عظمت پر پہنچ سکے۔ جو ہر قسم کی ترقی کے لیے لازم ہے ۔پس اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت اس امر کی ضرورت ہے کہ بجائے سیوا جی مہا راج اور نانا فرنویس کے رام شاستری جیسے اخلاق کے پتلوں کی یاد تازہ کی جائے۔ رام شاستری مہا راشٹر کا ایک غریب برہمن تھا۔ مگر وہ اپنے علم و فضل ۔ عدل و انصاف اور اعلیٰ اخلاق کی بدولت سری مہنت مادھو رائو بلا ڑ پیشوا کے عہد میں نیائے دہیش یا میر عدل یا آجکل کی اصطلاح میں چیف جسٹس کے عہدے پر ممتاز ہوا۔ اگرچہ اس شخص کے کارنامے بھی آریہ ورت کے دوسرے بڑے لوگوں کی طرح گمنامی کی نذر ہو گئے اور کچھ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کہاں پیدا ہوا ، کس جگہ کن کن استادوں سے اس نے تعلیم حاصل کی اور کن طریقوں سے دربار پیشوا میں رسائی پیدا کر کے ایسے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا۔ لیکن قلم کی کوتاہی کو خلائق کی زبان نے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ اس بے نظیر شخص کے عدل وانصاف ۔ جرأت و ہمت اور اخلاقی عظمت کے قصے مہا راشٹر میں زبان زد خاص و عام ہیں۔ دربارِ پیشوا میںمیر عدل کے اعلیٰ عہدے کے علاوہ برہمنوں کو دکشنا دینے کا کام بھی اسی دیانتدار شخص سے متعلق تھا۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ دوسروں کے ساتھ رام شاستری کا بھائی بھی دکشنا لینے آیا اور نانا فرنویس نے رام شاستری کے خوش کرنے کے لیے حکم دیا کہ اس کو خاص طور پر بیس روپے دیے جائیں ۔ مگر رام شاستری کی بے لوث انصاف پسندی نے اس کو گوارہ نہ کیا اور صاف جواب دیا کہ دوسروں کی طرح وہ بھی ایک جاہل برہمن ہے اور اس لیے صرف دو ہی روپے ہانے کا مستحق ہے۔ ایک اور نقل بھی بیان کی جاتی ہے۔ جس سے اس بے نفس شحص کی اخلاقی عظمت اس سے بھی نمایاں طریقے سے ثابت ہوتی ہے۔ بیان کیا جاتاہے کہ رام شاستری کے صرف ایک ہی بیٹا تھا ۔ مگر اتفاق سے وہ کچھ اس قدر غبی اور کند ذہن تھا کہ رام شاستری نے اسے لکھانے اور پڑھانے کی ہر چند کوشش کی مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ جب وہ بڑا ہو کر دربار میں آیا تو پیشوا نے چاہا کہ اس کو جاگیر دے ۔مگر جب رام شاستری کو معلوم ہو ا تو اس نے بہت زور سے مخالفت کہ اور صاف کہہ دیا کہ ایسے نالائق لوگوں کو جاگیر سے کیا مناسبت؟ ان کو تو یہی شایان ہے کہ کسی امیر کے گھر میں پانی بھر کر اپنی گزر اوقات کریں ۔ یہ سن کر پیشوا کو سخت حیرت ہوئی۔ اگرچہ رام شاستری کے علم و فضل میں شک نہیں ہے ۔لیکن وہ عام پنڈتوں کی طرح تنگ خیال نہ تھے۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ وہ سریمنت مادھو رائو پیشوا سے ملنے کے لیے صبح کے وقت گئے۔ خدمتگاروں نے اطلاع دی کہ سریمنت جپ میں مصروف ہیں ۔ ملاقات کا کوئی موقع نہیں ہے ۔ یہ سن کر رام شاستری اپنے گھر واپس آئے اور اپنے ٹٹو پر اپنا اوڑھنا بچھونا لاد کر دربار میں پہنچے اور پیشوا سے درخواست کی کہ ان کو کاشی جی کے تیرتھ کی اجازت دی جائے ۔ سریمنت حیران رہ گئے کہ کیا ماجرا ہے کہ وہ دفعتہ ایسا ارادہ کر بیٹھے ۔ جب اصرار سے پوچھا تو رام شاستری نے جواب دی کہ صرف میرا ہی نہیں بلکہ آپ کا تشریف لے چلنا بھی مناسب ہے۔ کیونکہ جب آپ نے برہمنوں کا طریقہ چھوڑ کر چھتریوں کا وطیرہ اختیار کیاہے اور وہ آپ کو زیب بھی دیتا ہے توا ب اگراس سے بھی بددل ہو کر پھر جپ میں مصروف ہونے کا قصد ہے تو مسند ِ حکومت تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے ۔بہتر ہے کہ میرے ہمراہ کاشی جی چلیے۔ ہم دونو گنگاکنارے بیٹھ کر رات دن پوجا پاٹ میں مصروف رہا کریں گے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ دونو طریقے ایک ساتھ جمع ہو سکیں اور اگر ایسا کیا جائے گا تو نہ یہ ہو گا اور نہ وہ ہوگا ۔ آپ کا پوجا پاٹ یہی ہے کہ اپنی رعایا کی پرورش کریں اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوں یہ سن کر سری منت مادھو رائو بہت شرمندہ ہوئے اور پختہ وعدہ کر لیا کہ آئندہ اس قسم کی عبادت برہمنوں کے لیے چھوڑ دونگا۔ یہ تو رام شاستری کی صاف گوئی کی ایک ادنیٰ مثال ہے ۔ ایک دوسرے موقع پر اس نے اپنی نڈر حق پسندی کا اس بھی بڑھ کر ثبوت دیا۔ جب مادھو رائو بلاڑ ملک عدم کو سدھارے اورپیشوائی کی پگڑی نوجوان نرائن رائو کے سر پر رکھی گئی تو ہر طرف سے سازشوںکا بازار گرم ہوا اور بالآخر محافظ دستے کے سپاہیوں نے شورش کرکے غریب نرائن رائو کو قتل کر ڈالا۔ یہ ایک نہایت دردناک واقعہ تھا اور اس لیے اس کی دریافت رام شاستری جیسے پختہ کار شخص کے سپرد ہوئی۔ رام شاستری کو فوراً ہی معلوم ہو گیا۔ کہ یہ کام سوائے نرائن رائو کے چچا رگھوناتھ رائو کے اور کسی کا نہیں ہے ۔ جو ایک مدت سے پیشوائی سے لو لگائے ہوئے تھا۔ اس دلیر شخص نے رگھو ناتھ رائو کے پاس جا کر بلا رتکلف کہہ دیا کہ مجھے بخوبی علم ہو چکا ہے کہ یہ کام آپ ہی کے ایما سے ہوا ہے تو رگھو ناتھ رائو نے پہلے تو بہت کچھ ٹالنا چاہا لیکن جب اس کو یقین ہو گیا کہ رام شاستری کو پہلے ہی سے ساری حقیقت معلوم ہو چکی ہے توا س کو بالآخر کہنا پڑا کہ میں نے تو صرف گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔ لیکن میری بی بی آنندی بائی نے جوبلا کی اولوالعزم ہے ۔ اس حکم کو موت کے حکم سے تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد رگھو ناتھ رائو کہنے لگا کہ آخر جو کچھ ہوتا تھا وہ ہوگیا۔ مگر اس پاپ سے بچنے کے لیے کیا پرائسچت (کفارہ) ادا کرنا چاہیے۔ رام شاستری نے نہایت استقلال سے جواب دیا۔ کہ خون کا بدلہ خون ہے ۔ یاد رکھو کہ اس کے بعد چاہے تم ہزار برس تک زندہ رہو تم سے کبھی کوئی نیک کام نہ ہوگا اور ایسے گناہ کبیرہ کے بعد تمہارے راج کی بھی خیریت نہیں ہے ۔ پس اب میرا بھی سلام ہے۔ جب تک آپ گدی پر ہیں آپ مجھے کبھی پُونا میں نہ دیکھیں گے ۔آج تک میں آپ کا پکا ہوا خواہ تھا لیکن آئندہ سے میری نسبت ایساخیال نہ فرمائیے ۔ یہ کہہ کر رام شاستری دربار سے رخصت ہو گئے اور انہوں نے اپنی باقی عمر ایک چھوٹے سے موضع میں جوآئی ضلع ستارہ کے قریب ہے ۔ افلاس میں گزار دی۔ مشقی سوالات ۱- رام شاستری کی صاف گوئی اور حق پسندی کی جو مثالیں اس سبق میں ہیں۔ اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ ۲- مرہٹے پہلے کیا کیا کام کرتے تھے بعد ازاں سپہ گری کے فن میں کس طرح ممتاز ہوئے؟ ۳- شمشیر زنی ۔ ملک گیری۔ عطیۂِ عظمیٰ۔ ادبار۔ نیائے دہیش۔ بے لوث۔ کارگر ہونا ۔ صاف گوئی ۔ اصرار ۔ گزر اوقات کرنا۔ ان کے معنے لکھو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- اس سبق میں اسم فاعل کون کون سے ہیں؟ ۱۱-اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے فتنہ گر شوریدہ سر دیہیم رحلت رعونت ظلمت محل شناسی ہر دم دکھا رہا رنگِ دگر زمانہ یہ فتنہ گر زمانہ۔ شوریدہ سر زمانہ رہتا نہیں ہمیشہ اک شکل پر زمانہ دشمن اُدھر فلک ہے۔ دشمن ادھر زمانہ جو کچھ ہو کام کرنا دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ دیے جا اُس ہاتھ لیے جا زندہ نہیں رہے گا۔ آخر کبھی مریگا مرنے کے بعد پھر کچھ نہ کر سکے گا پوچھیں گے جب فرشتے تو کیا جواب دیے گا اس وقت دستِ حسرت افسوس سے ملے گا جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا اُس ہاتھ سے لیے جا اب ہے کہاں وہ ان کا دیہیم و تخت و افسر اب ہے کہاں وہ ان کا سامان و مال و لشکر روپوش ہو گئے سب صورت دکھا دکھا کر جمشید ہے نہ دارا۔ خسرو نہ ہے سکندر جو کچھ ہو کام کرنا ۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا اُس ہاتھ سے لیے جا اب ہے کہاں وہ وامق اب ہے کہاں وہ مجنوں اب ہے کہاں ارسطوں۔ اب ہے کہا فلاطوں مر کر زمین کے نیچے سب ہو گئے مدفوں پھر سامنے نہ آئے پردے میں چھپ گئے یوں جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا شاہ و گدا برابر دونوں ہیں بعد رحلت کام آئیگی نہ ہر گز زیر مزار دولت بیجا ہے یہ تکبر۔ بے جا ہے یہ رعونت نادان تو سمجھ لے۔ اس وقت کو غنیمت جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا کل یہ نہیں رہے گا۔ جو آج ہے ترا دن یہ کل نہیں رہے گا۔ جو آج ہے تراسِن وہ ہوں گے کل مخالف۔ جو آج ہیں معاون جو بات آج ممکن ہو کل ہے غیر ممکن جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا راہِ خدا میں جس نے کچھ صرف کر دیا ہے ایک ایک کے عوض میں سو سو اسے ملا ہے خوش ہے ادھر خدائی راضی ادھر خدا ہے رتبہ غرض سخی کا۔ دونوں طرف بڑا ہے جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا ہر گز نہ رکھ خزانہ دفنا کے گھر کے اندر کچھ ملک کی خبر لے کچھ قوم کی مدد کر لیکن نہ صرفِ بیجا جس سے ہو حال ابتر پھیلا نہ پائوں اتنا ہو جس قدر نہ چادر جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا سب کو ہے موت آنی سب کے لیے قضا ہے سب کو ہے جان دینی سب کے لیے فنا ہے کوئی نہیں رہیگا۔ کوئی نہیں رہا ہے باقی جہان میں صرف اک نام رہ گیا ہے جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا رنج و الم نہ پہنچا۔ آزار دے نہ کوئی برہم نہ ہو کسی پر غصہ نہ ہو ذرا بھی پیوند خاک ہوگا۔ اک روز جسم خاکی ہاں یادگار تیری۔ نیکی بدی رہے گی جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا رہتی نہیں ہمیشہ دنیا کی ایک حالت دو دن کی چاندنی ہے پھر اس کے بعد ظلمت جانے وہ حال اس کا رکھتا ہو جو لیاقت بیجا نہیں تمہاری اے نوح یہ نصیحت جو کچھ ہو کام کرنا۔ دنیا میں وہ کیے جا اس ہاتھ سے دیے جا۔ اُس ہاتھ سے لیے جا مشقی سوالات ۱- اب ہے کہاں وہ ان کا دیہیم و تخت و افسر اب ہے کہاں وہ ان کا سامان و مال و لشکر روپوش ہو گئے سب صورت دکھا دکھا کر جمشید ہے نہ دارا۔ خسرو نہ ہے سکندر ان کا مطلب آسان اردو میں لکھو۔ ۲- اس نظم سے ہمیں کیا سبق سیکھنا چاہیے۔ ۳- ’’جس قدر چادر نہ ہو اتنا پائوں نہ پھیلائو‘‘ کا مطلب بتائو۔ اور بتائو کہ یہ کس موقع پر بولا جاتا ہے ؟ ۴- دکھارہا ہے۔ فتنہ گر ۔ فلک ۔ مریگا۔ کیے جا۔ آپ ۔ سخی ۔ قواعد میں کون کون سے کلمے ہیں۔ ۱۲-سر سا لار جنگ فطرت مساعدت محافظ مُفّوضہ مدارُ المہامی عزم بالجزم صریح حیطہ صلاحیت منعقد عزاداری ہز ایکسیلنسی نواب شجاع الدولہ مختار الملک سر سالار جنگ بہادر جی۔سی ۔ایس۔آئی۔ ڈی۔سی۔ایل جن کا نام نامی میر مراتب علی خاں تھا۔ میر محمدؐ علی خاں بہادرشجاع الدولہ کے فرزند ارجمند تھے۔ جو نواب منیر الملک کے بڑے بیٹے تھے۔ منیر الملک نے ۱۸۰۴ء میں میر عالم سید ابو قاسم کی دوسری بیٹی سے شادی کی تھی۔ جن کے بطن سے میر محمد علی خاں پیدا ہوئے۔ سر سالار جنگ کی والدہ سید قاسم علی خاں بہادر مختار الدولہ کی بیٹی تھیں۔ جو سید جعفر رضوی کی اولادمیں تھے اور جن کا وطن نیشا پور تھا۔ منجملہ ان قابلیتوں اور قوتوں کے جو فطرت نے نہایت ہی فیاضی سے اس اولوالعزم مُدبر کو عطا کی تھیں۔ان کی عالی خاندانوں کے رُکن تھے۔ جو اپنے وقت میں امور مملکت میں پورا دخل رکھتے تھے۔ سر سالار جنگ کی پیدائش کے بعدہی ان کے جد امجد میر عالیم جو اس وقت حیدر آباد کی کُرسی وزارت پر جلوہ افروز تھے، انتقال کر گئے اور ان کی خدمت سر سالارجنگ کے دادا منیرالملک کو تفویض ہوئی۔ لیکن ۱۸۳۲ء میں ان کا انتقال ہو گیا اور ان کی جگہ نواب سراج الملک کو دی گئی جو سر سالار جنگ کے چچا تھے۔ ان ہی کو نوجوان سر سالار جنگ کا محافظ سر پرست اور نگران بنایا گیا نواب سراج الملک نے اپنے ہونہار بھتیجے کی تعلیم وتربیت میں کوئی وظیفہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘بہت تھوڑے عرصے میں انہوں نے عربی اور فارسی میں معقول لیاقت اور سپاہیانہ فنون میں کافی و وافی دستگاہ پیدا کر لی۔ سر سالار جنگ کی ذمہ دار زندگی ۱۸۴۷ء سے شروع ہوتی ہے جب وہ ۱۹ برس کی عمر میں دیہ کہم واقع تلنگا نہ (ریاست حیدرآباد دکن ) میں تعلقدار مقرر کیے گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں وہ فریق مالگذاری اور سیاستِ حکمرانی کے اصول سے اچھی طرح واقف ہو گئے اور اپنی خدمتِ مفوّضہ کوبہمہ وجوہ احسن طریقہ سے انجام دینے لگے۔ ۲۶مئی ۱۸۵۳ء کو نواب سراج الملک کا انتقال ہو گیا۔ اس کے پانچویں دن دربار عام میں جس میں کرنل لوبرٹش ریذیڈنٹ حیدرآباد بھی موجود تھے۔ حضور مغفور نظام دکن نوات ناصر الدولہ بہادر نے سر سالار جنگ کو عہدہ ٔ مدار المہامی پر مامور فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر پچیس سال کی تھی لیکن اس عالی دماغ شخص نے اس کم سنی کے باوجود اس اہم خدمت کو نہایت سرگر می عمدگی اور لیاقت سے انعام دیا اور اس بڑی ذمہ داری کو بطریق احسن نبھایا۔ اس اول العزم مدبر نے بیشمار مصیبتوں اور دشواریوں کی پروا نہ کر کے انتظامی نقائص کی اصلاح کا عزم بالجزم کیا اور دامن صبر و استقلال کو مضبوط پکڑ کر لگا تار کوششوں سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کی۔ سلطنت کے تمام صیغوں کے آئین نہایت باریک نظری اور دور بینی سے مرتب کیے ۔ مالگذاری کے طریقے میں بہت کچھ ترمیم کی اور انتظام مالگذاری کے متعلق بہت صاف اور صریح قاعدے بنائے۔ اس زمانے میں معاملہ زمین زر نقد کے ذریعہ وصول نہ کیا جاتا تھا اور غلہ داری کا طریقہ رائج تھا۔ اس خرابی کو دفع کرنے کے لیے ضلع بندی کر کے حصول معاملہ کا نظام انگریزی مالگذاری کے اصول پر جاری کیا۔ سلطنت کا کوئی صیغہ ایسا نہ تھاجس میںسر سالارجنگ کی دانشمندی سے کوئی نہ کوئی ترقی واقع نہ ہوئی ہو۔ ان انتظامات کے ضمن میں کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن ان کی لیاقت اور دانائی ان تمام مشکلات پر غالب آئی۔ ان اصلاحوں میں گورنمنٹ آف انڈیا نے ان کا ہاتھ بٹایا اور بہت کچھ امداد کی۔ اسی زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا۔ جسے وفاداری و استقامت کے امتحان کا بہترین موقع کہہ سکتے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کے غدر کے حادثے میںان کی دانشمندی اور وفاداری نے ان کی عظمت کا سکہ انگریزی حکام کے دلوں میں بٹھا دیا۔ اس زمانے میں مغربی شمالی اور وسطی ہندوستان کا بیشتر علاقہ شورش میں مبتلا ہو گیا۔ ریاست کے جذبات وفا کیشی میں سرمُو فرق پیدا نہ ہوا۔ عین اس نازک زمانے میں نواب ناصر الدولہ بہادر فرمانروائے حیدر آباد نے انتقال فرمایا اور نواب افضل الدولہ بہادر مسند نشین حکومت ہوئے۔ لیکن سر سالار جنگ کی تدبیر و سیاست سے جنوبی ہندوستان میں امن و امان قائم رہا اور انگریزوں اور ہندوستانیوں کے بے حساب جانیں ، بیحد روپیہ محفوظ رہا۔ ان انتظامات کی نسبت حضور نظام کی فوج کے سپہ سالارمیجر جنرل ہل یوں لکھتے ہیں کہ ’’ان موثر اور اولوالعزمانہ تدابیر نے جنوبی ہندوستان کو بچا لیا ورنہ اگر حیدرآباد کے لوگ ہماری مخالفت کرتے تو مدراسی بھی ضرور ان کی تقلید کرتے ۔ اہل انگلستان کو واقف ہونا چاہیے کہ اس اولوالعزم شخص ہی کی بدولت ایسے نازک وقت میں انگریزی حکومت استحکام کے ساتھ جنوبی ہندوستان میں قائم رہی۔ غدر کے فرو ہونے کے بعد ایک موقع پر کرنل ڈیوڈسن برٹش ریذیڈنٹ نے کہا تھا کہ حضور نظام کے مدار المہام نے جس استقلال اور آمادگی سے برٹش گورنمنٹ کو مدد دی ہے۔ وہ حیطہ تعریف سے باہر ہے۔ ۱۸۵۹ء میں لارڈ کیننگ نے حضور نظام کو اپنے ہاتھ سے ایک خط لکھا ۔ جس میں اس اہم وقت میں امداد دینے کاشکریہ ادا کیا اور بہت ہی عمدہ اور مناسب الفاظ میں سر سالار جنگ بہادر کی بر وقت خدمات کا اعتراف کیا۔ اس کے دو سال بعد ۵نومبر ۱۸۶۱ء کو گورنمنٹ آف انڈیانے ایام غدر کی وفاداری کے صلہ میں حضور نظام کو کوئی ایک لاکھ روپیہ کے تحائف بھیجے اور پچاس لاکھ روپیہ کا قرض معاف کیا اور رائچور، نلدرگل، وہاراسیواکے اضلاع واپس کر دیے۔ سر سالار جنگ بہادر کی اصلاحی تدبیریں اس افسوسناک واقعہ کی وجہ سے رُک گئی تھیں۔ لیکن ہر طرف امن و امان کے قائم ہوتے ہی انہوں نے اپنی اصلاحی کوششیں شروع کر دیں۔ حیدر آباد میں اس وقت تک بردہ فروشی زوروں پر تھی۔ سر سالار جنگ نے ایک اعلان عام کے ذریعے بیچنے والوں کے ساتھ ساتھ خریدنے والوں کے لیے بھی سخت سزائیں مقرر کیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ وحشیانہ رسم آئندہ کے لیے یک قلم موقوف ہو گئی۔ اس کے بعد اعلیٰ حکام کو جو رشوت ستانی کے بیحد عادی تھے۔ اس قبیح عادت سے باز رکھنے کی تدابیر کیں اور جولوگ اس جرم میں پکڑے گئے۔ ان کو سخت سزائیں دیں ۔ اس زمانہ میں حیدر آباد ی راحت و آرام کی طرف بہت زیادہ مائل تھے۔ اور ملازمت کرنے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کی صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ تعلیم کا بھی چرچا نہ تھا۔ سرسالار جنگ نے متعدد سکول مشرقی و مغربی علوم کی تحصیل کی غرض سے قائم کیے اور تمام لوگوں میں بیداری پیدا کرنے لے لیے اور ان کو عملی سبق دینے کی غرض سے ہندوستان کے دوسرے حصوں سے لائق و فائق لوگوں کو بڑی بڑی تنخواہوں پر بلوا کر ریاست کے اعلیٰ عہدوں پر مامور کیا۔ سر سالار جنگ حد درجہ کے مردُم شناس تھے۔ جن لوگوں کو انہوں نے بلوایا۔ ان پر آج تک ہندوستان ناز و فخر کرتا ہے۔ محسن الملک بہادر نواب وقار الملک بہادر، مولوی چراغ علی، نواب اعظم یار جنگ ، شمس العلما مولانا نذیر احمد۔ شمس العلما مولوی سید علی بلگرامی۔ نواب عماد الملک مولوی سید حسین بلگرامی جیسے بزرگوں کو سر سالار جنگ کی نظر انتخاب نے منتخب کیاتھا۔ ان بزرگوں کی خدمات سے حیدر آباد کو بیحد فوائد پہنچے۔ ۱۸۶۹ء کی فروری میں نواب افضل الدولہ بہادر نے رحلت فرمائی۔ اس وقت حضور نظام مرحوم ہز ہائینس نواب میر محبوب علی خان بہادر کی عمر دو سال کی تھی۔ اس لیے گورنمنٹ آف انڈیا کے ایما سے ریاست میں کونسل آف ریجنسی قائم کی گئی۔ جس کے مشورے سے امور مملکت تمام وکمال سر سالار جنگ ہی کو انجام دینے پڑتے تھے۔ ۱۸۷۵ء میں اعلیٰ حضرت آنجہانی شہنشاہ ایڈورڈ ہفتم جو اس وقت پرنس آف ویلز تھے۔ بغرض سیاحت ہندوستان تشریف لائے تو حضور نظام کی طرف سے خیر مقدم کے لیے وکالتاً سر سالار جنگ بمبئی گئے تھے۔ہز رائل ہائینس نے از راہ عنایت خسروانہ انہیں چاندی کی ایک مرصّع تلوار۔ سونے کی ایک انگوٹھی۔ سونے کا ایک تمغہ جس کے ہر ایک طرف حضور ممدوح کی تصویر تھی اور تین بہت ہی عمدہ قیمتی کتابیں بطور تحفہ عنایت فرمائیں۔ ماہ اپریل ۱۸۷۶ء میں سر سالار جنگ یورپ کے سفر کے عزم سے روانہ ہوئے۔ اٹلی میں شاہ اٹلی سے دربار میں ملاقات کی۔ بعد ازاں پاپائے روم سے ملے۔ یورپ ممدوح نہایت مہربانی سے پیش آئے اوربا لفاظ مناسب اس بات کا شکریہ ادا فرمایا کہ سرکار نظام کی ریاست میں رومن کیتھولک انگریزوں کو نہایت امن وامان میسر ہے۔ ۱۳ مئی کو پیرس پہنچے اور گرینڈ ہوٹل میں فوکش ہوئے ۔اسی رات اتفاقاً زینہ پر سے پائوں پھسل جانے کی وجہ سے ران کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ علاج معالجہ کے بعد آخر مئی میں انگلستان کو روانہ ہوئے۔ پہلی جون کو فاکسٹن کے بندر پر جہاز پہنچا۔ خیر مقدم کے لیے وہاں عمائدین و معززین کا کثیر مجمع تھا۔ انگلینڈ میں تما لوگوں نے بہت گرمجوشی اور تپاک سے اُن کی آئو بھگت کی اور بڑے ہی اخلاق اور تکریم سے آپ کو استقبال کیا گیا۔ لندن کے ایک مشہور اخبار نے اس زمانے میں لکھا تھا کہ ’’ہمارا مہمان وہ شخص ہے کہ جس نے ایسے نازک وقت میں جنوبی ہندوستان کو انگلینڈ کے لیے بچائے رکھا کہ جب ہماری سلطنت وہاں متزلزل ہو رہی تھی اور دہلی ہمارے قبضے سے نکل گئی تھی۔ سر سالار جنگ نے ہماری بے حساب جانوں اور بے حساب روپے کو تلف ہونے سے بچا یا۔ ان کی بے بہاخدمتوں کے شکریہ ادا کرنے کا موقع یہی ہے کہ اب وہ انگلستان میں موجود ہیں۔ ۸ جون کو اعلیٰ حضرت مرحوم ایڈورڈ ہفتم نے ان کے اعزاز میں ایک عظیم الشان جشن ِدعوت منعقد کیا۔ ۲۱ جون کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے ڈی۔ سی ۔ ایل کی اعزازی ڈگرہ عطا ہوئی۔ ۳ جولائی کومارکوٹس آف سالسبری نے انہیں علیا حضرت قیصرۂ ہند ملکہ معظمہ وِکٹوریہ آنجہانی کی خدمت میں بمقام وِنڈ سرکیسل پیش کیا۔ حضرت ملکہ معظمہ نے انہیں اپنی نوازش خسروانہ سے سرفراز فرمایا اور شاہی دسترخوان پر مدعو کیا۔ ۲۵ جولائی کو گلڈ ہال میں کورٹ آف کامن کونسل کا ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں آپ کو شہر لندن کی اعزازی آزادی عطا کی گئی۔ ۲۵ اگست کو سر سالار جنگ واپس حیدر آباد پہنچ گئے ۔ سر سالار جنگ کی حقیقی عظمت اور عزت جو ہر درجہ کے انگریزوں کے دلوں میں تھی۔ اس واقعہ سے ظاہر ہو تی ہے کہ یورپ سے واپس ہونے وقت ان کے جہاز کو ایک جنگی جہاز ملا۔ جنگی جہاز والوں کو خبر ہوئی کہ دوسرے جہاز میں سر سالار جنگ ہیں تو تمام افسر اور سپاہی جہاز کے بالائی حصہ پر جمع ہوئے اور بڑے جوش کے ساتھ ان کا نام لے لے کر خوشی کے نعرے بلند کرنے لگے۔ ۱۸۷۱ء کے دسمبر میں دہلی کے شاہی دربار میں حضور نظام مرحوم میر محبوب علی خاں کے ساتھ گئے ۔ راس کے بعد اسی سال حضور نظام کو یورپ کی سیرکرانے کا قصد کیا۔ سفر کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ یکا یک ۵ فروری کی رات کو سر سالار جنگ کی طبیعت بِگڑ گئی۔ اگرچہ اُن کے لیے نظیر استقلال میں ذرا بھی فرق نہ آیا ۔ لیکن اجل نے کسی کی گریہ وزاری کی پروا نہ کی اور آخر کار ۸ فروری۱۸۸۳ء کی شام کے ۷ بجے آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ۹ کی صبح کو دس بجے میر مومن کے دائرہ میں جہاں ان کے خاندان کے لوگ مدفون ہیں۔ اپنے پرعظمت کارنامے ہمیشہ کے لیے یا دگار چھوڑ کر فن ہوئے۔ سکندر آباد اور بلارم کی چھائونیوں سے اور ریذیڈنسی سے اس اولوالعزم اور عالیشان مدبر کی عزاداری کی توپیں سر کی گئیں اس طرح ملک کی یہ برگزیدہ ہستی اس جہاں فانی سے روپوش ہو گئی۔ مشقی سوالات ۱- اس سبق کے ذریعہ سے سر سالار جنگ کے مختصر حالات لکھو اور بتائو کہ انہوں نے غدر کے زمانہ میں کس طرح سے سلطنت انگلشیہ کی بدوکی۔ ۲- دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔ بہمہ وجوہ۔ بطریق احسن۔ ہاتھ بٹانا۔ فروکش ہونا۔ آئو بھگت کرنا۔ روح قفس عنصری سے پرواز کر جانا۔ ان کا مطلب بتائو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۳- ’’مدراسی بھی ان کی تقلیدکرتے ‘‘۔ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۴۔ سر سالار جنگ کب اور کس کی وفات پر مدارالمہام مقرر ہوئیَ؟ انہوں نے محصول زمین یا لگان کے وصول کرنے کا کیا قاعدہ جاری کیا؟ ۱۳-صبح چمن صحن چمن جوہی سیوتی خوبانی زیرِ نگیں مہک بادِسحر ثنائے خدا عنبر سارا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چمن میں ڈال رہی ہے جاں سی تن میں باغ کا عالم دیکھیے کیا ہے صحنِ چمن کیا خوب سجا ہے قطرے نہیں شبنم کے پڑے ہیں پتوں پہ گویا موتی جڑے ہیں پٹڑی پٹڑی کیاری کیاری سُتھری سُتھری، پیاری پیاری جوہی ، چنبیلی ، سیوتی ، بیلا سیب ، بہی ، خوبانی ، کیلا اس دم جتنا ملک زمیں ہے شبنم کے سب زیرِ نگیں ہیں مہک رہا ہے گلشن سارا بکھرا ہے گویا عنبر سارا بادِ سحر ہے جھونکا دیتی ڈالی زمیں کا ہے بوسہ لیتی ڈالی ڈالی ہری بھری ہے بوُٹا ہے یا سبز پری ہے ٹہنی ٹہنی پر ہے پرندا گاتا گیت ثنائے خدا کا مشقی سوالات ۱- اس نظم کوآسان اردو نثرمیں لکھو۔ ۲- اس شعر کا مطلب بتائو: اس دم جتنا ملک زمین ہے شبنم کے سب زیرِنگیں ہے ۳- جان سی تن میں ڈالنا۔ باغ کا عالم ۔ عنبر سارا۔ بادِ سحر۔ ثنائے خدا کے معنی بتائو اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۴- ’’ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چمن میں ‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۱۴- وضعداری آغوش لحد القط غلطاں پیچاں مملو جبن حیات علیک سلیک عسرت نصرت اللہ کی شان ہے۔ دہلی کیا مٹی۔ اس کی ہر آن بان خاک میں مل گئی۔ سب رنگ رلیاں اور وضعداریاں خواب و خیال و افسانہ ہو گئیں۔ ایک زمانہ تھا جسے بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ کوئی پچاس پچپن برس پہلے کی بات ہے اس شہر میں ہزاروں وضعدار سورتیں دکھائی دیتی تھیں۔ ہر وضع ایک دوسرے سے نرالی اور بڑھ چڑھ کر ہوتی تھی۔ یا آج یہ وقت آیا ہے کہ ہم ان کی کہانیاں لکھنے بیٹھے ہیں۔ لال قلعے کی سلامتی میں دلی کا ہر گھر اپنی صدیوں کی شکل پر قائم و برقرار تھا۔ ماں کی گود سے آغوش لحد تک ہر شخص کا لباس رفتار گفتار ایک رنگ اور ایک طرح کی رہتی تھی۔ یہ نہیں کہ صبح کچھ ۔ دوپہر کو اور ۔اور شام کو وہ بھی القط۔ خلقت نئی روشنی اور نئی ہوا کے اثر سے کچھ عجب راستہ پر چل رہی ہے کہ کسی بات کا ٹھکانہ نہیں۔ پیر میں جوتی انگریزی ہے۔ تو سر پر ٹوپی کا مدار ۔ گلے میں انگرکھا دیسی ہے تو ٹانگوں پر پتلون سوار۔ کوئی شے موزوں اور مناسب ہو تو اس کا ذکر کیا جائے۔ دوستوں میں مروت باقی نہیں۔ یاری اور وفا شعاری کا نام صرف ناولوں اورر ناٹکوں کے لیے مخصوص ہو گیا۔ ہر شخص پیٹ بھرنے کی دُھن میں بیدار ہوتا ہے اور معاش ہی کی فکر میں غلطاںپیچاں رات کو پلنگ پر جاتا ہے۔ میل جول ۔ ملاقاتیں سب مطلب نکالنے اور غرض پوری کرنے تک محدود ہیں۔ نوشت و خوائد۔ کھیل کود ۔ شادی غمی۔ سارے دھندے پیسے کے لیے ہیں۔ کہتے ہیں ملک زندگی کے میدان میں قدم بڑھا رہا ہے مگر ہمارا تو یہ خیال ہے کہ زندگی کے ولولے۔ سازوسامان لبِ دم ہیں۔ جن کا تھوڑے دنوں بعد نشان تک نہ رہے گا۔ آج جو درد اگلی وضعداریوں کا چند دلوں میں پایا جاتا ہے۔ کل یہ بھی نہ ہو گا۔ اور نہ وہ بچے کھچے مرثیہ خواں ملیں گے۔ جو اس سمے کی یادگاریں ہیں۔ لہٰذا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ ان قبر میں پیر لٹکائے ہوئے بڈھوں سے جو کچھ ہاتھ لگ سکے ۔ قلمبند کر لیا جائے تاکہ آئندہ نسلیں اسے دلچسپی مگر عبرت کی نگاہ سے ملاحظہ کریں اور ممکن ہو تو اپنی گذری ہوء حالت سے کوئی فائدہ اٹھائیں۔ قابل عطار کے کوُچے میںایک صاحب رہتے تھے۔اصلی نام تو یاد نہیں عُرف میر سنگی تھا۔ خدا جنت نصیب کرے۔ ابھی حال میں دنیاسے سدھارے ہیں۔ غدر سے پہلے بڑے رنگ روپ کے نُکیلے جوان تھے۔ ان کی بابت دیکھنے والے کہتے ہیںکہ کبھی دوسرے کی دی ہوئی جھاڑو آپ کی سمجھ نیں نہ آئی ۔ روز تاروں کی چھائوں میں اٹھتے اور ضروریات سے فارغ ہو کر خود گھر بھر کی صفائی کرتے اور پھر دروازے سے لے کر گلی کی نُکڑ تک زمین کو چندن بنا دیتے۔ یہ دستور تھا جس میں تا حین حیات فرق نہ آیا۔ ایک دن کا ذکر ہے ۔ جناب ڈیوٹی ختم کرکے اندر گئے اور اتفاقیہ کچھ دیر بعد پھر باہر آئے۔ دیکھتے کیا ہیں کہ گلی میں سُموں کے نشان ہیں ۔ بہت بگڑے اورپوچھنے لگے کہ کس بے رحم نے یہ سفاکی کی۔ لوگوں نے جواب دیا کہ صاحب دو دن سے فلاں شخص بیمار ہے اور حکیم محمود خان (دہلی کے مشہور خاندانی طبیب) علی الصبّاح اسے دیکھنے کو آتے ہیں ۔ بولے ’’آتے ہیں تو آئیں مگر گھوڑا سڑک پر ہی رہے گا‘‘۔ خیر رفت وگذشت ۔ دوسرے دن معمول پورا کیا اور مُنڈھا بچھا کر گلی کے سرے پر بیٹھ گئے۔ حکیم صاحب موصوف بھی اول درجے کے وضعداروں میں تھے۔ مرتے مرگئے جاڑے گرمی ایک تن زیب کے انگرکھے کے سوا جسم پر اور کپڑا نہ آنے دیا۔ آخری عُمر میں زیادہ سردی لگتی تو مخمل کی نیم آستین پہن لیتے اور بس۔ اسی طرح جس کے ہاں جانے کا جو وقت مقرر کر دیتے تھے اسے نہ بدلتے تھے ۔ آندھی مینہ کسی سے نہ رُکتے اور پابندی کو قائم رکھتے۔ چنانچہ میرسنگی کی گلی میں بھی جو روش چل گئی تھی۔ا سی کے موافق تشریف لائے۔ میر صاحب تو ان کا انتظار کر ہی رہے تھے۔ دور سے چلائے ’’ بندہ پرور! گھوڑے سے اُتر جائیے میں اپنی محنت رائگاں نہ ہونے دونگا۔ دیکھیے تو یہ گلی اس لائق ہے کہ اسے اپنے گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندیں‘‘۔ حکیم صاحب ان باتوں کے قدردان تھے ۔ فوراً مسکراتے ہوئے نیچے آگئے اور پھر کبھی اس گلی میں سے گھوڑے پر سوار ہو کر نہ گزرے۔ -------------------- (۲) ان ہی میر سنگی کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک دفعہ ان کے پاس کہیں سے آٹھ سو روپے آگئے۔ چوروں کو بھی اس کی اطلاع پہنچی۔ چنانچہ ایک شخص گھس آیا۔ یہ رقم سرہانے رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ چور نے اس پر ہاتھ ڈالا ۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ جھٹ گردن پکڑ لی اور بولے ۔ میاں! تمہیں خبر دار نے یہ خبر تو دے دی کہ روپے رکھے ہیں لیکن یہ نہ بتایا کہ سپاہی زادے کے قبضے میں ہیں۔ اچھا خیر اب تم ہمارے مہمان ہو (برابر کی چار پائی کی طرف اشارہ کر کے) اس پر لیٹ کر آرام کرو ۔ صبح چلے جانا ۔ چور نے کہا ۔حضور! میں تو اشتہاری آدمی ہوں دن میں کیس کی نظر پڑگئی تو کہیں کا نہ رہوں گا۔ جواب دیا ’’کچھ فکر نہ کرو جب تک ہمارے دم میں دم ہے تم سے کوئی آنکھ نہیں ملا سکتا‘‘۔ غریب مجبور ہو کر پڑگیا۔ صبح ہوئی تو آپ نے اس کے سامنے ناشتا رکھا اور ڈولی میں بٹھا کر شہر سے باہر پہنچوا دیااور ایک ٹوکری مٹھائی کی ساتھ کر دی کہ گھر سے ہاتھ خالی نہ جائے۔ --------------------- (۳) ایک صاحب تھے کہ لوگوں کے سلاموں کا جواب نہ دیتے تھے۔ کسی نے دریافت کیا ۔ ’’حضرت یہ کیا حرکت ہے ، کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’بھئی مسلمان تو ہوں اور سلام کا جواب بھی کوئی ایسا نہیں جس کو میں نے نہ دیا ہو لیکن اشتہار نہیں کرتا چپکے سے وعلیکم السلام کہہ دیتا ہوں۔ کیونکہ زور سے جواب اسی کو دینا چاہیے جس کی سلامتی کے لیے انسان کچھ کام بھی آسکے۔ دوچار ہی ایسے آدمی ہیں جن سے بآواز علیک سلیک ہوتی ہے۔ سو ان کے دکھ درد میں اپنے دکھ درد کی طرح شریک ہونا پڑتا ہے ۔ہر شخص کے ساتھ یہ معاملہ کیونکر نبھ سکتا ہے۔ (۴) خان دوران خان عہد مغلیہ کے امیر کبیر ۔ ان کے پاس ایک سپاہی نوکری کی غرض سے آیا۔ خان صاحب بڑے چُلبلے مزاج کے شخص تھے۔ جب منشی مُلازموں کے رجسٹر میں اس کا نام درج کرنے لگا تو بولے ’’ان کی بیوی کا نام بھی پوچھ لینا۔ سپاہی نے نہایت سنجیدہ شکل بنا کر عرض کیا۔ خداوندِ نعمت! بیوی کا نام تو اس وقت ذہن سے اُتر گیا ۔ سالے کا نام کہیے تو بتلا دوں‘‘ فرمایا ’’ہاں اس نے ہاتھ باندھ کر کہا خان دوران خان چپ رہ گئے اور منشی کو حکم دیا ان کی اتنی تنخواہ مقرر کر دو ۔ سپاہی نے جواب دیا ۔ جضور! بس میں سالے کی نوکر ی نہیں کرتا۔ السلام علیکم یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا مگر خان دوران خان کو تگ ودو ہوئی کہ یہ کون تھا اور کہاںرہتا ہے ۔آخر پتہ لگا کر اس کے مکان پر پہنچے ۔ سپاہی موجود نہ تھا ۔ اس کی بیوی سے کہا میں تیرا بھائی ہوں ۔ یہ روپے رکھ اور اپنے خاوند سے کہہ دیجیو کہ یہ میرا بھائی خان دوران خان دے گیا ہے۔ وہ بہت حیران ہوئی ۔ مگر ان کے کہنے سننے سے روپے رکھ لیے۔ اس وقت سے معمول کر لیا کہ چاند ہوا اور مقررہ رقم اس کے ہاں بھجوا دی ۔ا س طرح ایک زمانہ بیت گیا اور خان دوران خان کو کسی فوج کا سردار بن کر جنگ میں جانا پڑا ۔وہاں انہیں ناکامیوں پہ ناکامیاں ہوئیں۔ سپاہی کی بیوی نے کہا کہ ہم اپنے محسن کے کس دن کام آئیں گے جائو اور کچھ کر کے دکھائو ۔سپاہی بھی بالکل تیار تھا۔ بیوی کا کہنا اور ان کا روانہ ہونا۔گیا اور ایسا بڑھ بڑھ کر لڑا کہ جان جاتی رہی مگر خان دوران خان سرخرو اور فتحیاب دلّی آئے۔ اس کے بعد سے انہوں نے بہن کے وظیفے کو دو چند کر دیا اور اس کی زندگی تک اس کو تکلیف نہ ہونے دی۔ ------------------ (۵) ایسی ہی خان دوران خان کی بیوی تھیں کسی نے آکر خان دوران خان سے کہا کہ میں آپ کا ہمزلف ہوں۔ خان دوران خان اٹھ کر زنان خانے میں آئے اور بیوی سے پوچھا کہ اس نام کا کوئی تمہارا بہنوئی ہے ۔ انہوں نے سوچ کر جواب دیا کہ ہاں کبھی فلاں عورت بچپنے میں میرے ساتھ کھیلی تھی۔ جسے میں نے بہن کہہ لیا تھا ۔ یہ اس کا میاں ہو گا۔ قصہ مختصر خان دوران خان نے اسے اپنا مصاحب نبا لیا اور بات آئی گئی ہو ئی۔ اتفاقاً کچھ عرصے بعد پھر گھر میں اس شخص کا ذکر چھڑا ۔ بیگم صاحبہ نے مُنہ بولی بہن کی خیر سلّا دریافت کرائی۔ ان وقت اس نے کہا کہ میں نے تو صرف یہ خیال کر کے اپنے تئیں ہمزلف کہا تھا کہ میرے گھر میں عسرت ہے اور خان دوران خان کے ہاں نصرت ۔ ورنہ میں نہ کسی کا خاوند اور نہ کوئی میری بیوی۔ ------------------ (۶) سر سید (علیہ الرّحمۃ)(علی گڑھ کالج کے نامور بانی) کے بڑے بھائی سید محمد مرحوم کا کسی صاحب سے دوستانہ تھا۔ سر سید انہیں اپنا بزرگ سمجھتے۔ ان کے گھر پر آتے جاتے تھے۔ جب سید محمدصاحب کا انتقال ہو گیا ۔ تب بھی یہ سلسلہ قائم رہا لیکن دوست صاحب کسی بات پر سر سید سے ناراض ہو گئے اور ان کے ہاں آنا ترک کر دیا۔ سر سید بھی رک گئے۔ اس کی اطلاع آپ کی والدہ ماجدہ کو ہوئی انہوں نے نہایت افسوس کیا اور فرمایا کہ وہ اپنی وضع کو چھوڑتے ہیں تو تم ان کی تقلید نہ کرو ۔ جائو اور ضرور جائو۔ سر سید نے ارشاد کی تعمیل کی۔ مشقی سوالات ۱- میر سنگی اور خان دوران خان کی وضعداری کی کوئی ایک مثال اپنے الفاظ میں لکھو۔ ۲- مندرجہ ذیل محاورات کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ قبر میں پیر لٹکانا۔ تاروں کی چھائوں اٹھنا۔ خواب و خیال ہو جانا۔ ۳- اس سبق میں جس قدر حاصل مصدر ہیں۔ ان کو لکھو۔ ۴۔ پایا جاتا ہے ۔ دکھائی دیتی تھیں۔ چلے جانا، کون کون سے فعل ہیں ۔ان کی تحلیل صرفی کرو۔ ۱۵-نورجہاں کا مزار مزار سماں تہِ خاک مرقد طور تُربت شب دیجور محبوب مسیحائے زماں مدفن دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے کہتے ہیں۔ یہ آرام گہ نُور جہاں ہے مُدت ہوئی۔ وہ شمع تہِ خاک نِہاں ہے اُٹھتا مگر اب تک سرِ مرقد سے دُھوا ہے جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم تُربت یہ ہے ان کی شب دیجور کا عالم تجھ سی ملکہ کے لیے یہ بارہ دری ہے غالیچہ سرِ فرش ہے کوئی نہ دری ہے کیا عالمِ بیچارگی۔ اسے تاجوری ہے دِن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے ایسی کسی جوگن کی بھی کُٹیا نہیں ہوتی ہوتی ہے مگر یوں سرِ صحرا نہیں ہوتی رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکان تھے جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے محبوب دل خلق تھے۔ جاں بخش جہاں تھے تھے یوسف ثانی۔ کہ مسیحائے زماں تھے جو کچھ تھے۔ مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیرِ زمین ہیں دنیا کا یہ انجام ہے۔ دیکھ اے دل ناداں ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں باقی ہیں نہ وہ باغ۔ نہ وہ قصر نہ ایواں آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں ٹوٹا ہوا ایک ساحل راوی پہ مکاں ہے دِن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے مشقی سوالات ۱- نور جہاں کون تھی؟ ۲- نظم بالا کا مطلب آسان اردو میں لکھو۔ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو:- جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم تُربت یہ ہے ان کی شب دیجور کا عالم ۴۔ مزار ۔ تہِ خاک۔ مرقد۔ بسرام۔ کُٹیا۔ محبوب۔مدفن۔ قصر کے معنی بتائو ۵۔ اس نظم میں سے اسم ظرف چنو۔ ۱۶-ایک وکیل اور اس کا بیٹا فصاحت عدالت سشن جیوری تعزیرات شامت اعمال مفقود النجر نصائح دمِ واپسیں عزم مُصمّم تضاد (ترجمہ از فرانسیسی) وکلائے شہر میں موسیو مارگے کی فصاحت کی دھوم تھی۔ پہلے یہ شخص وکالت کرتاتھا۔ لیکن بعد میں سرکار کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل مقرر ہو گیا۔ جب کبھی عدالت سشن میں کوئی بھاری مقدمہ پیش ہوتا تھا تو ملزم کے خلاف تقریر اسی کے سپرد ہوتی تھی۔ اس کی گونجتی ہوئی آواز مشہور تھی اور اس کی تقریر کی گرمی اور جوش نہایت پُر تاثیر تھا۔ معززین شہر جو بطور ’’جیوری‘‘ کے ملزم کی قسمت کا فیصلہ کرنے بیٹھتے تھے۔ ہمیشہ اس کی تقریر سے متاثر ہو جاتے تھے۔ لب کشا ہونے سے پیشتر وہ ایک اثر حاضرین پر ڈال لیتا تھا۔ اس کی صورت گویا اس وقت مجسم انتقام ہوتی تھی۔ جس کا فرض تھا کہ ملک کو جرم سے پاک کر دے۔ قانون تعزیرات کے عملدرآمد کرنے والے وزیر دولت کا جامہ اسے خوب زیب دیتا تھا۔ اس کا عدالت کے کمرے میں آکر اپنی کرسی پر بیٹھنا ملزم کے حواس باطل کر دیتا تھا ۔خود دوسرے وکلاء اس کی لیاقت کے قائل تھے اور سمجھتے تھے کہ موسیو مارگے کو خدا نے اس فصاحت کا جو فن وکالت کے لیے درکار ہے ، خاص حصہ دیاہے۔ موسیو مارگے اپنی تمام ہمت اس خدمت میں صرف کرتا تھا اور اپنی قوت کا استعمال اس سختی کے ساتھ کرتا تھاکہ گویا اس کو نرم دلی اور رحم سے کچھ واسطہ ہی نہیں۔ ضابطہ فوجداری ہاتھ میں لیے وہ ہر ملزم کے متعلق حکم مناسب لگا دیتا تھا۔ اور رحم کو اس معاملے میں بالکل دخل نہیں دیتا تھا۔ اس کی یہ عادت اس حدتک بڑھی ہوئی تھی کہ کسی نے کبھی اس کو ہنستے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی روز مرہ زندگی ہر قسم کی تفریح سے خالی تھی اور سب خوشیاں چھوڑ کر وہ کام میں محو تھا۔ لوگ اس کی عزت کرتے تھے اور اس سے ڈرتے تھے اور یہ جانتے تھے کہ جس بات پر اڑ جائے کبھی اس سے ٹلنے والا نہیں مگر حقیقت یہ تھی کہ موسیو مارگے کو ایک ایسی مصیبت کا سامنا ہو چکا تھا جس کا صدمہ اسے اندر ہی اندر کھائے جا تا تھا اور اس لیے وہ چاہتا تھا کہ سخت محنت سے اپنے غمِ جانکاہ کو کسی قدر گھٹا دے۔ ابتدائے عُمر میں اس کی شادی ایک جوان شریف عورت سے ہوئی تھی۔ جس پر وہ دل سے فدا تھا۔ خدا نے اس بیاہ سے ایک لڑکا دیا۔ جو ماں باپ دونوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ ان کی جوانی کی خوشی اور ان کے بڑھاپے کی امید۔ مگر شامت اعمال سے لڑکا بگڑ گیا اور اس مایوسی نے باپ کا یہ حال کر دیا۔ شاید باپ کی طبیعت کی قدرتی سختی بھی کسی حد تک لڑکے کی خرابی کا باعث ہوئی ہو۔ کبھی کبھی یہ سوال آتا تھا کہ ماں کی طبیعت کی کمزوری لڑکے کے چلن بگڑنے کا باعث ہوئی ہوگی۔ لیکن ایسے واقعات کے صحیح اسباب کون بتا سکتا ہے اور ذمہ داری کا ٹھیک حصہ دریافت ہونے کا کونسا ذریعہ ہے؟ موسیو مارگے نے لڑکے کی نافرمانی سے تنگ آکر اس کی اصلاح کی یہ تدبیر سوچی تھی کہ اسے جہاد پر معمولی ملاحوں میں نوکر کرا دیا جائے۔تاکہ جہاز کی زندگی کی سختیاں اس کی سرکشی کا علاج بنیں اور جو طبیعت گھر میں ہر طرح کی کوشش سے راہ ِراست پر نہیں آسکی۔ وہ جہازوالوں کے احکام کی پابندی سے مائل بہ اطاعت ہو جائے۔ اس نے جب لڑکے کو یہ فیصلہ سنایا اور کہا کہ ’’تمہیں جانا پڑے گا‘‘ تو لڑکا ناچار بادلِ ناخواستہ گھر سے نکل پڑا ۔ مگر سخت اندوہگیں تھا اور غم و غصہ سے جل رہا تھا۔ ماں کی مامتا مشہور ہے لڑکے کو رخصت کرتے وقت زار زار رونے لگی۔ مگر لڑکے کا دل اس بدسلوکی سے پتھر ہو گیا تھا اس نے نہ ماں کے آنسوئوں کی پروا کی اور نہ ان نصائح کی جو باپ نے وقت رخصت ضروری سمجھیں۔ دل ہی دل میں کچھ ارادہ کیا اور چل دیا۔ جہاز کی سختی اس سے کہاں جھیلی جاتی۔ پہلے ہی مقام پر جہاں جہاز کنارے لگا ۔ اتر کر سیر کو گیا اور پھر واپس نہ آیا۔ اس دن سے برابر مفقود الخبر تھا ۔ چھ سال گزر گئے اور باپ کو معلوم تک نہ تھا کہ مرگیا یا جیتا ہے۔ اول اول ماں باپ دونوں بیٹھے اپنی اس بدقسمتی پر افسوس کیا کرتے تھے۔ کبھی بیٹے کو کسی مصیبت میں مبتلا تصورت کرتے تھے۔ کبھی ڈرتے تھے کہ کسی قید خانے میں ہوگا۔ کبھی کہتے تھے کہ کاش یقینا معلوم ہو جاتا کہ مر ہی گیا ہے۔ چار آنسو تو بہا لیتے اس کشمکش اور قلبی تکلیف نے آخر ماں کی جان لی ۔ ماں کو دم واپسیں تک بیٹے کی یاد تھی ۔ خاوند کو جو آخری وصیت کی ۔یہ تھی۔ ’’اسے معاف کر دو!‘‘ لڑکا پہلے جا چکا تھا ۔ بیوی یوں رخصت ہوئی اور بیچارہ موسیو مارگے ہمیشہ کے لیے ان کا ماتم کرنے کو رہ گیا۔ اس حالت میں کام میں دل لگانا اور سخت محنت کرنا یہی اس کے درد کا درماں تھا او ر اس لیے وہ کام میں اس قدر مصروف رہتا تھا ۔ ------------------ آج بھی حسب معمول موسیو مارگے کا غذات کا پلندا بغل میں دبائے کچہری کو گیا ۔ دل مضمون تقریر سوچتا جاتا تھا کہ قتل کے اس مقدمے میں جو عدالت کے سامنے پیش ہو نے کو ہے اور جس کا شہربھر میں بہت چرچا تھا۔ یہ باتیں کہنی چاہئیں۔ اس مقدمے کی شہرت کا زیادہ تر باعث یہ ہوا کہ قاتل نے عدالت میں اپنا نام بتانے اور ارادۂ جرم کی وجہ بیان کرنے سے قطعی انکار کیا۔ سشن کے کمرے میں لوگ صبح سے مقدمہ سننے کے لیے جمع تھے۔ اتنے میں چوکیدار نے اعلان کیا۔’’عدالت بیٹھی ہے‘‘ اور افسران سشن سرخ چوغے پہنے کمرہ میں داخل ہوئے ۔ موسیو مارگے ان کے پیچھے پیچھے تھاوہ آتے ہی اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور بغیر ادھر ادھر دیکھنے کے حسب عادت اپنے کاغذات میں مصروف ہو گیا۔ تاکہ فرد قرارداد جرم کی تیاری میں اگر کچھ کمی رہ گئی ہو تو پوری ہو جائے اور سرکار کی طرف سے مقدمہ ار مضبوط ہو جائے ۔اتنے میں ملزم بھی داخل ہوا ۔ ایک جوان خوش پوش آدمی ۔ عین بہار شباب میں ۔ جس کی ظاہری حالت معمولی مجرموں سے بالکل علیحدہ تھی۔ صدر عدالت نے سوال کیا ’’ تمہارا کیا نام ہے؟‘‘ ملزم- میں پیشتر بھی اس سوال کا جواب دینے سے انکار کر چکا ہوں۔ میرا سر آپ کی عدالت کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہے لیکن یہ میرا عظم مصمم ہے کہ میں اپنا راز فاش کیے بغیر مروں گا ۔میرا نام ہر گز کسی کو معلوم نہ ہوگا۔ اس آواز سے موسیو مارگے کانپ اٹھا۔ کیونکہ اس کے کان اس آواز سے آشنا تھے۔ اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اسے معلوم ہو اکہ بدقسمت ملزم اس کا گمشدہ لڑکا ہے۔ ادھر ملزم نے بھی اپنے باپ کو پہچان لیا اور اس کا دل بھی بے اختیار پگھلا۔ بچپن کے آرام کے دن اس کی آنکھو کے سانے پھر گئے۔ ماں باپ کی ان دنوں کی ناز برداریاں یاد آئیں اور ماضی و حال کا یہ تضاد اس قدر گراں گزرا کہ اسے غش آگیا۔ نوجوان کو اٹھا کر باہر لے گئے اور مقدمہ ملتوی ہو گیا۔ لوگ بھی اس غیر متوقعہ حادثہ سے متاثر ہو کر گھروں کو چل دیے اور سوچتے جاتے تھے کہ دیکھیں اس عجیب مقدمے کا انجام کیا ہوتاہے۔ ---------------------- ایڈوکیٹ جنرل اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور اس سے چلا نہیں جا تا تھا۔ کمرہ کا دروازہ اندر سے بند کیا اور اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دبا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ دل سے پوچھنے لگا کہ کیا کیا جائے۔ مدعی بن کر بیٹے کا جرم خود ثابت کرنا اور اس کی جان لیتا تواسے صاف ناممکن نظر آیا۔ البتہ یہ خیال آیا کہ چپکے سے کوئی عذر کر کے کسی کو یہ راز بتائے بغیر یہ مقدمہ کسی اور وکیل کے سپرد کر دے ۔ مگر مہر پدری نے گوشۂ دل سے آواز دی کہ بیٹا اگر بچ سکے تو کسی طرح اسے بچانا چاہیے۔ اس کی تائید میں اس مرنے والی کی آخری وصیت یاد آئی کہ ’’اسے معاف کر دو‘‘ ان الفاظ کا یا د آنا تھا کہ اسے اور سب کچھ بھول گیا ۔ نہ یہ خیال رہا کہ لڑکے کے کیا کیا قصور تھے نہ یہ کہ اب وہ کسی جرم کا ملزم ہے ۔ اتنا ہی یادرہ گیا کہ ’’میں باپ ہوں وہ بیٹا ہے‘‘ اور وہ ایڈوکیٹ جنرل جو سنگدل مشہور تھا۔ زار زار رونے لگا اور طبعیت ذرا سنبھلی تس اٹھا اور اس نے بے پس وپیش نوکری سے اپنا استعفیٰ لکھ کر عدالت میں بھیج دیا۔ اب کیا تھا ۔ آزاد ہے اور اپنی مرضی کا مالک ۔ اس نے معمولی وکیل کا لباس زیب تن کیا اور یہ لفظ کہے:- ’’اے میری پیاری بیوی ! اے مرنے والی ۔ جس کی یاد میں میں آج ماتمی ہوں ۔ لے ! میں تیرے حُکم کی تعمیل کرتا ہوں ۔ میں نے اسے معاف کر دیا اور میں اس کی طرف سے وکالت کرنے کے لیے عدالت کے روبرو جاتا ہوں۔‘‘ مشقی سوالات ۱- موسیو ماگے کون تھا اور تمام شہر میں کیوں مشہور تھا؟ ۲- موسیو مارگے پر کون سی مصیبت آئی تھی جس کا صدمہ اسے گھلا رہا تھا؟ ۳- موسیو مارگے کی عورت نے مرتے وقت کونسی وصیت کی اور کیا اس کے خاوند نے اس کی وصیت پر عمل کیا اور کس طرح؟ ۴۔ فصاحت ۔ جیوری۔ مجسم ۔ انتقام ۔ غم جانکاہ ۔ آنکھ کا تارا۔ شامت اعمال ۔ دل پتھر ہو جانا۔ مفقود الخبر۔ دم واپسیںکے معنی بتائو۔ ۵- اس کہانی میں سے اسم فاعل چنو۔ ۱۷-گمنام نامور عبرت لولوئے شہوار لطافت شمیم بادصرصر عنادل نواسنجی لحد مقابر قریوں نظر کر ذرا حالتِ بحر و بر پر محل ہے یہ عبرت کا ایے دل سراسر ہزاروں ہیں لو لوئے شہوار ایسے سمجھتے جنہیں لوگ بہتر سے بہتر ہے آب ان کی پُر آبِ دریا میں پنہاں تہِ سطح تاریک قعرِ سمندر عجائب ہیں نیرنگ گلزار ہستی زمیں نے کھلائے ہیں پھول ایسے اکثر ہر ایک گل سے اچھے ہیں جو رنگ و بو میں لطافت ہے اُن کی کہ قدرت کا منظر مگر ہیں وہ لوگوں کی نظروں سے پنہاں کھِلے اور ہیں گِر پڑے خشک ہو کر پڑے ہار بن کر گلے میں کسی کے نہ لہرایا طُرّہ ہے ان کی سروں پر شمیم اُن کی محدود جنگل میں بھٹکی یہاں تک کہ غالب ہوئی باد صرصر عنادل تھے ایسے بہت اس چمن میں نواسنجیوں میں نہیں جن کا ہمسر خیالات روشن لیے ساتھ اپنے چھپے جا کے تاریک قبروں کے اندر نہیں جانتا نام بھی اُن کے کوئی لحدہو گئی ہے زمیں کے برابر کِسی وقت جا کر کرو غور اُن میں مقابر ہیں جو اگلے قریوں کے باہر تو پائو گے اُڑتے ہوئے ایسے ذرے ہیں جن میں نہاں فخر تیمور و بابر اولوالعزم خوش فکر ہمدردِ ملت زئیسوں کے سرتاج شاہوں کے افسر ملیں ہستیاں اُن کی یوں نیستی میں سرابوں کو جیسے مٹاتی ہے صرصر مشقی سوالات ۱- نظم بالا کا مطلب آسان اردو میں بتائو؟ ۲- ان اشعار کا مطلب بتائو؟ ہے آب ان کی پُر آبِ دریا میں پنہاں تہِ سطح تاریک قعرِ سمندر عنادل تھے ایسے بہت اس چمن میں نواسنجیوں میں نہیں جن کا ہمسر ۳- عبرت۔ لطافت۔ شمیم۔ عنادل۔ نواسنجی۔ لحد کے معنی بتائو؟ ۴۔ نظم بالا میں جو لفظ جمع ہیں، اُن کے واحد لکھو۔ ۵- ’’جنہیں لوگ بہتر سمجھتے تھے ‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۱۸-ویل مچھلی بحر اطلانتک عجیب الخلقت کلّوں منطقۂ حارہ مسلح زاد سفر مہلک شرابور سکت حشر ویل ایک قسم کی بڑی مچھلی کا نام ہے۔ جو بحر اطلانتک اور بحر الکاہل میں کثرت سے پائی جاتی ہے ۔ نام کو تو ہے مچھلی۔ مگر حقیقت میں اس کو دریائی گائے سمجھو۔ مچھلیاں انڈے دیتی ہیں اور اپنے ننھے ننھے بچوں کو چُرا کر پالتی ہیں۔ ویل جیتے جاگتے بچے جنتی ہے اور ان کو دودھ پلا کر پرورش کرتی ہے۔ مچھلیاں گلپھڑوںسے ہوا لیتی ہیں۔ ویل صحرائی جانوروں کی طرح پھیپھڑے سے سانس لیتی ہے۔ مچھلیوں کا جسم اکثر کانٹے دار ہوتا ہے ۔ ویل کے بدن پر تنگ کھا ہوتی ہے۔ مچھلیوں کا خون ٹھنڈا رہتا ہے ۔ ویل کا خون گرم ہوتا ہے۔ اب اس عجیب الخلقت دودھ پلانے والے دیائی جانورکو جو چاہو سمجھ لو۔ ویل کا اگلا دھڑ مچھلیوں کا سا ہوتا ہے ۔ لیکن پروں کے بدلے جن سے مچھلیاں تیرتی ہیں، ویل کے دو بڑے بازو ہوتے ہیں۔ ان کی ہنڈیوں کے جوڑ بند۔ رگ اور پٹھوں کی ترکیب کو دیکھو تو بالکل ویسی ہی ہے جیسے انسان کے بازو میں ہوتی ہے۔ انہیں ہاتھوں سے ویل اپنے پیارے چھوٹے بچوں کو گود میں لیتی ہے اور خطرے کے وقت ان کو جلدی سے پکڑ کر اپنے سینے میں چھپا لیتی ہے۔ تم کو سن کر حیرت ہو گی کہ ویل کے دونوں پچھلے پائوں نہیں ہوتے ۔ لیکن ان کا نشان اندر گوشت میں موجود ہے۔ اگرچہ صحرائی جانوروں کی طرح ویل بھی سانس لیتی ہے ۔ لیکن بلا سانس لیے وہ گھنٹوں پانی کے اندر رہ سکتی ہے اور اس کا دم نہیں پھولتا ہے۔ جب سانس لینا چاہیتی ہے ۔تو پانی سے اوپر ابھرتی ہے اور خوب پیٹ بھر سانس لے کر مچلتی ہوئی غوطہ لگاتی ہے اور خوش خوش پانی کی پھوہار اُڑاتی اور اپنے بچوں کے ساتھ کھیلتی ہوئی سمندر کی تہ میں پہنچ جاتی ہے۔ ویل کیا کھا کر زندگی بسر کرتی ہے اور کیونکر کھا تی ہے اس کی دل لگی سنو۔ اس کے کلّوں میں دونوں طرف قطار قطار چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں۔ جب وہ بھوکی ہوتی ہے۔ تو کچھار کی طرف نکل آتی ہے اور مُنہ کھول کر غوطہ مارنا شروع کرتی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ۔ گھونگے۔ سیپ وغیرہ جو کچھ اس کے مُنہ میں آتا جاتا ہے ۔نگلتی جاتی ہے اور پانی کلّے کے سوارخوں سے باہر نکل جاتا ہے۔ شکار پکڑنے میں ویل کا مُنہ جس کا دہانہ محض چھوٹا سا ہوتا ہے ۔ بالکل مچھیروں کے جال کا کام دیتا ہے ۔ اس کا سر بہت بڑا اور بھاری ہوتا ہے۔ آنکھیں اُبلی ہوئی گائے کی آنکھ کے برابر ہوتی ہیں۔ کان نہایت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن آواز سننے میں غضب کے تیز ۔ اوپر کا رنگ کہیں کالا اور کہیں بھورا ہوتا ہے۔ پیٹی تمام سفید ہوتی ہے ۔قد کی لمبائی پچاس ساٹھ ہاتھ ہوتی ہے اور وزن کچھ کم چار ہزار من ہوتا ہے۔ ویل دو قسم کی ہوتی ہے ۔ پہلی قسم جوسب سے بڑی ہوتی ہے وہ ہے جس کے دانت نہیں ہوتے۔ یہ پوہلی ویل منطقۂ باردہ کے سمندروں میں رہتی ہے اس کی زبان کے دونو طرف لمبے لمبے مسوڑوںکی دو قطاریں ہوتی ہیں۔ جو اوپر سے بڑھ کر نچلے جبڑوں تک پہنچتی ہیں۔ ان مسوڑوں کی تعداد تین سو ہوتی ہے۔ تاجروں کے روز مرہ میں اسے ویل کی ہڈی کہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں یہ ایک قسم کا سخت پٹھہ ہوتا ہے ۔ جس سے بال سنوارنے کا برش۔ چابک اور چھری کا دستہ وغیرہ بنتا ہے دوسری قسم کی ویل وہ ہے۔ جس کے نچلے جبڑوں میں گائے کی طرح دانت ہوتے ہیں۔ اس کا سر وزن میں قریب نو سو من ہوتا ہے اور اس میں سے اس قدر تیل نکلتا ہے کہ چالیس چالیس ٹین کے پیپے بھر جاتے ہیںل۔ اس تیل کو جوش دے کر جب ٹھنڈا کرتے ہیں تو تہ میں تیل بیٹھ جاتا ہے جس دیکھنے میں بالکل موم کا سا ہوتا ہے ۔ا سسے موم بتی بنتی ہے۔ اور روغن بہت سے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح کی ویل منطقہ حارہ کے سمندروں میں ملتی ہے۔ تم پوچھ سکتے ہو کہ ویل جس کی کھال اور دودھ پلانے والے جانوروں کی کھال کی سی موٹی اور گرم نہیں ہوتی تو منطقہ باردہ کے سمندروں میں جن کا پانی ہمیشہ یخ رہتا ہے ۔ وہ کیونکر زندہ رہ سکتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کھال کے اندر کوئی دس بارہ تہ کے برابر چربی کا موٹا دل ہوتا ہے ۔ جس میں سر سے دُم تک اس کا سارا بدن لپٹا رہتا ہے۔ ویل برف کے سمندروں میں رہتی ہے اور اس کو سردی محسوس نہیں ہوتی۔ ویل کا حال سن چکے ۔ اب اس کا طریق شکار سنو۔ تم کو حیرت ہو گی کہ اتنے بڑے ڈرائونی ڈیل ڈول کے جانور کو جو سمندر میں جتنا غوطہ چاہے لگا سکتا ہے۔ آدمی کیونکر پکڑ سکتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ ویل بچہ جنتی ہے اور بچہ جننے والے جانوروں کی طرح سانس لینے کی غرض سے پانی کے اوپر کی سطح پر آتی ہے۔ شکاریوں کی بن آتی ہے ۔لمبی لمبی ڈانڈ کے برچھوں کو پھینک کر اس غضب کا تلا ہوا ہا تھ مارتے ہیں کہ ویل گتھ جاتی ہے وہ بھاگتی ہے ۔ مچھوے پیچھا کرتے ہیںاور موقع پاکر لگاتار زخم لگاتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے جسم کا سارا خون بہ جاتا ہے اور غریب مچھلی آخر کو موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک مسلح آہن پوش جہاز جو نہایت مستحکم بنا ہوتا ہے ۔ مہینوں کا زاد سفر لے کر ویل کے شکار کو روانہ ہوتا ہے۔ اس پر ساٹھ ستر آدمی سوار ہوتے ہیں۔ جہاز کی بار برداری کی طاقت چودہ ہزار من سے کم نہیں ہوتی۔ اس پر آٹھ چھوٹی چھوٹی کِشتیاں ہوتی ہیںاور ہر ایک کشتی کے سرے پر ایک چھوٹی سی توپ ہوتی ہے اور توپ کے نزدیک لوہے کے کیل پر پیتل کی ایک گھرنی لگی رہتی ہے ۔ جس پر ڈورکو رکھ کر ڈھیل دیتے ہیں۔ جہاز کو دیکھو تو اس کی جانب کئی کلیں لگی ہوئی ہیں۔ کوئی تو شکار کی لاس کو جس کا وزن سن چکے ہو کئی ہزار من ہوتا ہے ۔ آن کی آن میں پانی سے اوپر اٹھا لاتی ہے اور کوئی اس کے ٹکڑے پرزے اُڑا کر بات کی بات میں ڈھیر کر دیتی ہے۔ دوسری جانب دیکھو تو روغن نکالنے اور اس کو صاف کرنے کا اہتمام ہوتا ہے ۔ کہیں پر تیز چمکتے ہوئے چُھرے ۔ کُلہاڑیاں ۔ بیلچے رکھے ہوتے ہیں ۔ کہیں پر خالی ٹین کے پیپے جن میں چربی بھر بھر کر لاتے ہیں۔ چھوٹی کشتیوں میں جو ویل کے شکا ر کو جاتی ہیں۔ دستی برچھے اور بھالوں کی ڈانڈ دو ہاتھ لمبی ہوتی ہے اور ہر ایک کا وزن چھ سیر ہوتا ہے ۔ راس کا پھل نہایت سخت لوہے کا بنا ہواتکونا لمبا اور چوڑا ہوتا ہے۔ جس کے دونوں طرف غضب کی تیز دھار ہوتی ہے۔ اس کے سامنے تو ایک نوک ہوتی ہے۔ لیکن پیچھے کو پھری ہوئی وہ نوکدار شاخیں اور ہوتی ہیں۔اور یہ اس غرض سے بنائی جاتی ہیں کہ بھالے کی سنان جس کو موت کی زبان سمجھو ۔ گوست کو کاٹتی ہوئی شکار کے جسم میں گھس تو آسانی سے جائے۔ لیکن اس کا نکلنا دُشوار ہو۔ بھالوں کو مشین سے چلاتے ہیں۔ اور برچھوں کو جن کی لمبی ڈانڈ ہلکی پھلکی ہوتی ہے ہاتھ سے تان تان کر مارتے ہیں ۔ قصہ کوتاہ شکاری جہاز ان سب مہلک ہتھیاروںکے ساتھ اپنے کیل کانٹے سے درست ہو کر کسی طرف کو نکل جاتا ہے اور شکار کی ٹوہ میں تمام سمندر ناپتا پھرتا ہے ۔ یہاں تک کہ کوئی ویل سامنے آنکلتی ہے۔ اس مچھلی کا یہ سبھائو کہ جب سانس لینے اوپر آتی ہے تو زور سے پانی کی پھوہار اُڑاتی ہے ۔ شکاری مچھوے جو اسی تک میں نظر جمائے بیٹھے رہتے ہیں ۔پھوہار کو دیکھتے ہی فوراً بھانپ لیتے ہیں ۔ آن کی آن میں اپنی شکاری کشتیوں کو جہاز سے نیچا کر کے ان پر اتر آتے ہیں اور چالاکی سے پُشت کی جانب سے شکار کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اس وقت نشانہ باز بھالوں کو مشین میں دے کراس انداز سے تاک کر باڑھ مارتے ہیں کہ خونخوار بھالا اک خوفناک گھیرا کاٹتا ہوا اندر گوشت میں دھنس جاتا ہے ۔ویل گھبرا کر زور سے غوطہ مار کر بھاگتی ہے اور بھالا لیے ہوئے جس کی ڈور کو ڈھیل دیتے جاتے ہیں۔ سیدھی سمندر کی تہ میں پہنچ جاتی ہے ۔ جدھر جدھر وہ بھاگتی ہے کشتیاں بھی اس کی طرف کو بڑھی چلتی ہیں۔ تم سمجھے کہ میں کیا کہتا ہوں۔ مچھلی پانی کے اندر بھاگتی ہے ۔ کشتی پانی کے اوپر چلتی ہے۔ مچھلی کا پتہ ڈور بتاتی ہے ۔ تھوڑی دیر میں زخمی ویل سانس لینے کو ڈرتے ڈرتے پھر باہر آتی ہے۔ مچھوے جو حلقہ باندھے ہوئے برچھا مارنے پر تُلے ہوتے ہیں ۔ تیزی سے سمٹ کر ایک مرتبہ قریب آجاتے ہیں اور ہر طرف سے برچھے تان کر مارتے ہیں۔ تم جانو ان مُوذی شکاریوں کے تُلے ہوئے ہاتھ کب خطا کر سکتے ہیں۔ مچھلی برچھیوں میں الجھ جاتی ہے اور اپنے خون میں شرا بور ڈوب کر پھر زور سے بھاگتی ہے۔ اسی طرھ کئی مرتبہ غوطہ لگانے اور پے درپے زخم کھانے کے بعد اس میں سکت باقی نہیں رہتی ۔ خون کے بہ جانے سے ضعف زیادہ ہو جاتا ہے۔ پانی میں دم گھٹتا ہے۔ سانس لینے باہر نہیں آسکتی۔اب اس کا جینا دُشوار ہو جاتا ہے ۔ ہے ہے بیگناہ مچھلی کس بے بسی سے مرنا گوارا کرتی ہے اور آخر ی سانس لینے کو باہر آتی ہے ۔ شکاری برچھا مارتے ہیں ۔ وہ بھاگ نہیں سکتی۔ تھوڑی دیر میں آخر کو سر پٹک پٹک کر مر جاتی ہے اور ا س کی ڈرائونی لوتھ چت پانی پر تیرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ شکاری خوش خوش شکار کی لاش کے پاس آکر جمع ہو جاتے ہیںاور اس کو پانی پر کھینچتے ہوئے جہاز کے قریب لاتے ہیں۔ جہاز جو دیر سے منتظر کھڑا ہوتا ہے ۔ اپنی جگہ سے حرکت کرتا ہے اور ویل کی لاش کو بوجھ اٹھانے والی کل سے اوپر کھینچ لیتا ہے۔ پھر ایک دوسری کل پر رکھ کر اس کو چرخ دیتے ہیں۔ جو ویل کے ناہموار اعضاء کو کاٹ کاٹ کر برابر کر دیتی ہے۔ اس کے بعد مزدور لاش پر کھڑے ہو کرچُھرے کُلہاڑی اور بیلچوں سے اپنا کام کرنے میں مصروف ہوتے ہیں کوئی ہڈی نکالتا ہے اور کوئی چربی کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو کاٹ کر ڈھیر کر دیتا ہے۔ یہ تو حشر ہوتا ہے اس ویل کا جس کے دانت نہیں ہوتے۔ لگے ہاتھ دانت والی قسم کا بھی خاتمہ سن لو۔ اس کے سر کو چاک کر کے بڑا سوراخ بناتے ہیں۔ اس کے دماغ میں سینکڑوں من تیل بھرا رہتا ہے ۔ جس کو ڈولچیوں میں بھر بھر کر اس طرح نکالتے ہیں ۔ جیسے حوض سے پانی نکالا جاتا ہے۔ جب ویل کے مردہ جسم سے کُل کام کی چیزوں کو نکال لیتے ہیں تو جہاز اپنی کامیابی پر فخر کرتا ہوا ساحل کی جانب واپس ہوتا ہے۔ مشقی سوالات ۱- ویل در اصل کس قسم کا جانور ہے۔ اس کے شکار کا طریقہ کیا ہے؟ ۲- ویل اپنی خوراک کس طرح حاصل کرتی ہے؟ ۳- ویل سے آدمی کو کیا کیا فائدے ہیں؟ ۴۔ عجیب الخلقت ۔ کلّوں۔ڈانڈ ۔ آہن پوش۔ زادِ سفر۔ اہتمام۔ بھانپ لینا۔ شرابور کے معنے بتائو۔ ۵- پہلے پیرے میں سے فعل حال چنو۔ ۱۹-زندگی دردناک خفتہ بخت لاکلام زیست مدام بہائم سلام بھیجنا قیام (۱) کیوں دردناک لفظوں میں کرتے ہو یہ کلام انساں کی زندگی کا ہے خواب و خیال نام جس خفتہ بخت سے نہ ہو تفریق اصل و نقل سمجھو تم اس کی روح کو مردہ ہے لا کلام (۲) ہے زندگی قدیم گنوائو نہ اس کو مفت مرنے کو یہ نہ سمجھو کہ ہے اس کا اختتام تو خاک سے بنا ہے ملے گا تو خاک میں تھا جسم کے لیے نہ کہ یہ روح کا پیام (۳) منشا ہماری زیست کا یہ ہی فقط نہیں رنج و خوشی کے ہو رہیں اور کچھ کریں نہ کام ہر روز بلکہ کام میں ایسے لگے رہیں جس سے ترقیات زیادہ ملیں مدام (۴) کرنا بہت ہے کام مگر وقت ہے قلیل دل میں ہمارے گو نہیں خوف و خطر کا نام تاہم دُہل کی طرح دھڑکتے ہیں دم بدم اور موت کی خبر ہمیں دیتے ہیں صبح و شام (۵) دنیا کو سمجھو جنگ کا میدان دوستو اور اس کے عیش جانو ہیں آرام کا مقام تنبیہ چاہو تم نہ بہائم کے طور پر مردوں کی مثل شوق سے خد ہو شریکِ لام (۶) آئندہ وقت پر نہ بھروسہ کرو کبھی گزرے ہوئے زمانہ پہ بھیجا کرو سلام لے کر خدا کا نام کر حوصلہ بلند موجودہ وقت کام میں لائو بصد نظام (۷) بتلا رہے ہیں ہم کو بزرگوں کے واقعات ہم بھی بنیں زمانہ میں یکتا و شاد کام اور کام وہ کریں کہ جو مرنے کے بعد بھی قائم رہیں جہاں کاا جب تک رہے قیام مشقی سوالات ۱- نظم بالا کا مطلب آسان اردو میں لکھو؟ ۲- اِن اشعار کا مطلب لکھو؟ منشا ہماری زیست کا یہ ہی فقط نہیں رنج و خوشی کے ہو رہیں اور کچھ کریں نہ کام ہر روز بلکہ کام میں ایسے لگے رہیں جس سے ترقیات زیادہ ملیں مدام ۳- اِن الفاظ کے معنی بتائو؟ لاکلام ، اختتام ، دُہل ، سلام بھیجنا ، لام ، یکتا ، زیست ، بہائم ۔ ۵- نظم بالا میں سے اسم فاعل ، اسم مفعول ، حاصل مصدر الگ الگ لکھو۔ ۲۰-جانوروں کی الف لیلہ (۱) معبر چرخِ سِفلہ پرور حیرت خیز نفور شکوہ سنجی مقاومت الحفیظ مضغہ واللہ اعلم بہت زمانہ گزرا ایک طائوس زریں پر و بال مع اپنی مادۂ خوش جمال کے ایک سمندر کے قریب رہتا تھا۔ اُس کے مسکن کے ارد گرد دریا اور جھیلیں بکثرت تھیں اور ہر قسم کے جانوران صحرائی بھی افراط کے ساتھ رہتے تھے اور اشجار پر بہار کی قطار منزلوں چلی گئی۔ صبح سے شام تک یہ جوڑا پیٹ کی فکر کرتا ۔ درختوں کے میوے کھاتا ۔ چشموں کا پانی پیتا او ر شام سے ایک بڑے اونچے درخت پر بسیرا لیتا۔ تاکہ جانور ان ِ درندان کو کِسی نوع کا گزند نہ پہنچائیں ان کے سائے تک کو نہ پائیں۔ کچھ دن یونہی ان دونوں نے بسر کی ۔ آخر کار جب خوف زیادہ ہوا تو دوسری جگہ شب باش ہونے کے لیے تجویز کی۔ جس جگہ انہوں نے نقل مکان کیا وہ ایک ٹاپُو تھا۔ سراپا بہار ہر سمت لالہ زار و رودبار۔ اس جزیرے کے درختوں کے فواکہ تر مزے مزے سے کھاتے اور آب سرد و خوشگوار چشمہ ساروں سے پیتے تھے اور ان ہی دونوں چیزوں پر زندگی کا دارومدار تھا۔ ان ہی پر جیتے تھے۔ دونوں خوش اور شاد تھے ۔ بامراد تھے۔ ایک روز دونوں میاں بی بی درخت پر بیٹھے تھے کہ دفعتہ ایک بط کا گزر ہوا۔ کانپنے اور تھرتھرانے سے ان کو معلوم ہو ا کہ خوف زدہ ہے مارے ڈر کے تھر تھر کانپتا تھا۔ طائوس کو یقین کامل تھا کہ یہ بط کوئی حیرت خیز تعجب انگیز قصہ سنائے گا۔ اپنی بیتی بیان کرے گا اور ہم کو لطف حاصل ہو گا۔ اپنی بی بی سے کہا کہ اس وقت تم کو ایک نئی کہانی سنائیں گے اور رات بھر دل بہلائیں گے۔ اس نے پوچھا وہ کون ساقصہ ہے ۔ اتنے دن سے ہم اور تم ساتھ رہتے ہیں ۔ ہم نے کبھی کوئی کہانی نہیں سنی ۔ کوئی داستان تمہاری زبان سے نہیں سنی۔ اس نے کہا ابھی ابھی سنو اور وجد کرو تو سہی ۔ قریب جا کر پوچھا کیوں بھئی تمہارا کیا حال ہے اور بشرے پر کیوں اس قدر آثار رنج وملال ہے ۔ وہ بولا میں چرخِ سفلہ پرورکے ہاتھوں تباہ ہوں اور بصد حسرت جویائے پناہ ہوں۔ آدم زاد کے جور کا صید بے گناہ ہوں۔ انسان کی بُو جہاں پائوں وہاں سے منزلوں دور بھاگ جائوں ۔ قریب نہ بھٹکوں چاہے اور باتوں میں لاکھ بھٹکوں ۔ آدمی کے نام سے طبیعت نطور ہے۔ اس کی رگ رگ میں مکر وزور ہے۔ اس کی گھُٹی میں فریب بھرا ہے۔ میں بھی حضرتِ انسان کے ہاتھوں تنگ آیا ہوں۔ جان بچا کر تم دونوں کی پناہ میں مشت اُستخوان لایا ہوں۔ اگربچائیے تو مہربانی اور عنایت ورنہ نہ موقع شکوہ سنجی ہے نہ گنجائش شکایت۔ مور نے کہا ۔ آپ کا گھر ہے۔ بندہ ہر طرح حاضر ہے ۔ آپ کو یہاں نہ کسی قسم کا خوف ہے نہ ڈر ہے ۔ آدم زاد کا یہاں کہاں گزر ہے۔ ہاں اس میںشک نہیں کہ حضرت انسان عجیب چیز ہے اور ماشاء اللہ ہر دلعزیز ہیں اور کیوں نہ ہوں سب پر شیر ہیں۔ بڑے دلیر ہیں۔ پرند اور چرند اور چوپائے اور صحرائی اور خانگی جانور سب پر نظر عنایت ہے۔ گھوڑے ہاتھی پر سواری کرتے ہیں اورنٹ پر مال اور اسباب دھرتے ہیں۔ گدھے پر کبھی دھوبی کی لادی ہے ۔ کبھی مٹی اور اینٹ ہے کبھی خود اُچک کے بیٹھ جاتے ہیں اور ٹخ ٹخ کرتے آرام کے ساتھ گھر آتے ہیں۔ بیل بیچارے سے کہیں ہل جتواتے ہیں۔ کہیں بوجھا اٹھواتے ہیں۔ گائے کا دودہ پیتے ہیں۔ کھویا بناتے ہیں ۔ مرغ۔ تیتر۔ بٹیر سب آپ کے دسترخوان کے لیے موزوں ہیں۔ سانپ۔ بِس کھوپڑے وغیرہ وغیرہ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے قتل کرتے ہیں۔ گرگٹ پر ڈھیلے مارتے ہیں۔ شکار کھیلنے جاتے ہیں۔ تو ایک جانور کو نہیں چھوڑتے۔ الغرض عجب چیز ہیں اور کویں نہ ہوں ۔ تلوار لٹھ ۔ لکڑی۔ بندوق۔ توپ ۔ گولہ ۔ بارود۔ چھترے ۔ بھالا ۔ تینچہ سب ان کے پاس موجود ہے۔ پھر ان سے کوئی کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ مقادمت کا کون دم بھر سکتا ہے۔ اگر کسی کو جنون ہو ۔ لڑنے پر آمادہ ہو جائے تو دم بھر بھی تاب ِ مقاومت نہ لائے جب چیتے اور پاڑھے۔ پاتھی اور شیر تک مقابلے کی طاقت نہیںرکھتے۔ توہم تم کس کھیت کی مولی ہیں۔ مگر تسلی اس بات کی ہے کہ چو طرفہ تو سمندر ہے ۔پانی ہر چہار طرف ادھر اُدھر ہے۔ یہاں انسان کا کہاں گزر ہے۔ بس مزے مزے سے رہو اور بے فکری کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ کھانے کو خدا نے بہت کچھ دیا ہے۔ صبح شام محنت کر کے پیٹ بھرو اور چین کرو۔ بط بولا۔ اے طائوس زریں پر وبال خوش جمال تمام عمر اپنی میں نے اسی جزیرے میں بسر کی۔ یہیں بڑھا اور یہیں رہا سہا۔ ایک روز میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی مجھ سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے اور دم دے رہا ہے اور میں اس کے بھروں میں آرہا ہوں کہ دفعتہ ایک آواز غیب سے آئی۔ کسی نے کہا اے بط! از برائے خدا اِن ذاتِ شریف کی باتوں پر نہ جانا۔ اُن کے قول کو ہر گز ہر گز خیال میں نہ لانا۔ یہ عجیب شخص ہیں۔ ایمانداری اور مروت اور محبت اور صدق و صفا سے ان کو کوئی سرو کار نہیں ہے۔ جھوٹ بولنے سے ذرا بھی عار نہیں ہے۔ یہ جو کچھ نہ کریں۔ وہ تھوڑا ہے۔ بہتر ہے کہ ان کو دور ہی سے سلام کرو۔ نہ یہ کہ نامہ وپیام اور باہم کلام کرو۔ ان کی روباہ بازیاں مشہور جہاں ہیں۔ یہ ایک ہی کائّیاہیں۔ یہ حضرت مچھلی کو دریا اور جھیل اور سمندر کی تہ سے کھینچ لیتے ہیں۔ چین نہیںلینے دیتے ہیں ۔گولیوں اور چھریوں سے جانووروں کا شکار کرتے ہیں۔ اور کھیدا کر کے ہاتھی سے مست جانور کو گرفتار کرتے ہیں۔ میں تجھ کو آگاہ کیے دیتا ہوں آئندہ اختیار بدست مختار۔ یہ کہہ کر وہ مجھ سے رخصت ہوا اور میری آنکھ کھل گئی۔ تو وہ آدمی نہ آدم زاد۔ فقط میں اور میرا مسکن ۔ تب سے میں بڑا خائف رہتا ہوں۔ ہر دم ڈر رہتا ہے کہ خدا وندا بچائیو۔ انسان کے پھنڈے سے نجات میں رہوں ۔ پناہ میں رہوں۔ الامان! لحذر! الحفیظ! خدا دُشمن کوبھی اس کے پھندے میں نہ ڈالے کہ پھر بچنا محال ہے۔ جانور خواہ پرند ہو۔ خواہ درند اس کے مقابلے کی تاب لا سکے کیا مجال ہے۔ اسی دن میں نے اس سامنے کے کوہ رفیع کے ایک غارِ عمیق میں ایک شیر کا بچہ دیکھا۔ جس کا رنگ زرد تھا ۔اس نے جو مجھے دیکھا تو کہا کہ میں تیرے رنگ جوش اور روئے زیبا کا عاشق ہوں ۔میرے قریب آئواور مجھ کواپنا نام اور اپنی ذات بتائو۔ میں نے کہا نام تو میرا بط ہے اور جانوروں کی قسم سے میں بھی ایک پرند ہوں۔ میں نے پوچھا۔ آپ کتنے دنوں سے یہاں تشریف فرما ہیں۔ کہا ہماری داستان یہ ہے کہ ہمارا باپ شیر مجھ سے ہمشہ کہا کرتا تھا کہ بیٹا تم دنیا کے کُل جانوروں کے قبلہ گاہ۔ سب کے بادشاہ اور جہاں پناہ ہو ۔ جس جانور کی طرف نظر عنایت سے دیکھو وہ مالا مال ہو جائے۔ نہال ہو جائے اور جس پر قہر کی نظر ڈالو۔ سنگسار ہو جائے۔ پانی بھی نہ مانگے۔ مگر ایک قوم ایسی ہے کہ گو ایک شیر سے اس کے دس آدمی بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مگر وہ ہم پر ضرور غالب آجائے گا۔ ہماری تباہی کا وہی باعث ہے اس سے ذرا بچتے رہنا ۔ فریب ، دغا، کسی کی جان لینا ، آزار پہنچانا، ماں کو بچے سے چھٹانا، بچوں کو ماں باپ سے جدا کرنا۔ الغرض جتنی قسم کی باتیں ہیں اور ایذا پہنچانے کی جتنی گھاتیں ہیں ۔ وہ سب ان کو یاد ہیں۔ بڑے ہی ذات شریف ہیں ۔ ہر فن میں استاد ۔ ان کے کاٹے کا منتر نہیں۔ ان سے بچے رہنا ۔ ورنہ جان لے لینا ان کے نزدیک بہت ہی آسان امر ہے۔ میں نے پوچھا ۔ ابا جان وہ قوم کو ن ہے؟ کہا بیٹا وہ ذاتِ شریف انسان کہلاتے ہیں اور ایک روز دریا کے پارسے مشکل بھی دکھا دی۔ دس آدمی مچھلیاں پکر رہے تھے۔ تب سے ابا جان کی تصیحت مجھے یاد ہے۔ آج میں نے اپنی بدبختی سے خواب میں ایک آدمی دیکھا۔ تب سے ہوش ٹھکانے نہیں ہیں۔ بد حواس ہو رہا ہوں کہ یہ خوان پریشان میں نے کیوں دیکھا۔ اب اس کی تعبیر کس سے پوچھوں معبر بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ شیر تعبیر خواب کیا جائے۔ شیر نے جو یہ حال سنایااور خواب کاقصہ بتایا تو میرے حواس اور بھی غائب ہو گئے اور اس سے کہا کہ اب میرے ہاتھ پائوں اور پھول گئے کہ تم سا شاہ جانوران اور انسان سے اس قدر خائف۔ اب ہماری کیا اصل و حقیقت ہے ہم تو ایک مُضغہ گوشت ہیں۔ مگر تم کوئی ایسی ترکیب کرو کہ انسان کو مار ڈالو تمہارے ایک پنجے میں اس کا کام تمام ہو جائے گا۔ شیر نے کہا ۔ بھائی جان! یہ تو سب سچ ہے۔ مگر آدم زاد ہاتھ کہاں آئے گا اور اگر جنگل میں آتا بھی ہے تو ہاتھیوں پر سوار ۔ بندوقیں ساتھ ۔ گل چلے ہمراہ ۔ گولی بارود بکثرت۔ آدمیوں کی کوئی گنتی ہی نہیں۔ فوج کی فوج ساتھ۔ ایک لشکر کا لشکر لیے ہوئے۔ اب ہم تو اکیلے اور وہ اس سامان کے ساتھ پھر بھلا تم ہی بتائو ۔ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اس گفتگو کے بعد شیر کھڑا ہو کر بڑے شان اور آن بان کے ساتھ ٹہلنے لگا اور خوب زور سے ڈکارتا اور بپھرتا تھا اور ایک دفعہ اپنے بازو اس زور سے پھٹکارے کہ میں اس کی پیٹھ پر بیٹھا ہوتا تو ہڈیاں تک چور ہو جاتیں۔ میں بھی اس کے ساتھ ساتھ جاتا تھا۔ چلتے چلتے کیا دکھتے ہیں کہ بڑی گرد اُڑی اور غُبار ایسا بلدن ہوا کہ ایک اور آسمان بن گیا۔ حیران تھے کہ یا الٰہی یہ کیا آفت آئی۔ کہ دفعتہ ایک گدھا نمو دار ہوا اور زور سے تھاگا آتا تھا کبھی لڑھکنی کھاتا تھا۔ شیر نے للکار کر پکارا کہ او بھاگنے ولاے کھڑا رہ۔ گدھا بہت اطاعت کے ساتھ رک گیا اور آہستہ آہستہ حاضر ہوا۔ بچہ شیر نے کہا تُو کون ہے اور اس گھبراہٹ کے ساتھ کیوں بھاگا آتا ہے اور کہاں جاتا ہے؟ وہ بولا حضور تو ہمارے بادشاہ کے ولیعہد بہادر ہیں۔ حضور! میں نے حضور کے قدموں میں پناہ لی۔ اب کوئی میرا کیا کر سکتا ہے۔ میں حضور کا گدھا ہو ںاور بھاگا اس سبب سے جاتا ہوں کہ آدم زاد کا مجھے بڑا خوف ہے۔ اسی کے ڈر کے مارے اپنی جان بچاکے بھاگتا ہوں۔ شیر نے پوچھا کیا تُجھ کو بھی خوف ہے کہ آدمی تیری جان لے گا۔ اور تجھ کو ایذا دے گا۔ وہ بولا نہیں حضور جان نہیں لے گا۔ مگر مجھے گرفتار کر کے مُجھ پر سوار ہو گا۔ اور بوجھ لا دے گا۔ اور ڈنڈوں سے خبر لے گا۔ اور عمر بھر پریشان کرے گا۔ ایک نہ سنے گا۔ اگر سیپوں سیپوں کروں تو بے دم کر دے ۔ مارتے مارتے بھرکس نکال دے اور اگر ذرا کہیں ٹھوکر کھائوں تو بھی پِٹوں۔ کسی طرح اس کمبخت سے مفر کی صورت نہیں ہے۔ جب دیکھو ڈنڈا ہا تھ میں۔ ہر دم تیوری چڑھی ہوئی ۔ سقے جو پانی دریا سے بھر کر بیچتے ہیں وہ بھی میری ہی پیٹھ کے اُوپر مشکیں لادتے ہیں۔ اے طائوس خوش جمال! جب میں نے گدھے کی زبانی یہ حال سنا تو سخت پریشان ہوا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ کہ خدا خیر کرے ۔ اللہ اس آفت سے بچائے۔ آدم زاد کی صورت بھی نہ دکھائے۔ شیر نے جب اس گدھے سے دریافت کیا کہ اب تم اس وقت جاتے کہاں ہو تو وہ بولا کہ صبح کو میں نے ایک آدمی کو دور سے دیکھا تھا اسی سبب سے بھاگا جاتا ہوں۔ کیونکہ میرا باپ مجھے یہ وصیت کر کے مرا ہے کہ اگر میرے لڑکے ہو تو آدمی کی صورت دیکھ کر پھر وہاں نہ ٹھیرنا۔ منزلوں بھاگنا دم نہ لینا اور نہ پیچھے پھر کے دیکھنا۔ مگر حضور ہمارے بادشاہ ثریا جاہ ہیں۔ حضور نے للکارا تو غلام رک رہا۔ شیر رخصت ہو کے جانے ہی کو تھا کہ ایک دفعہ پھر گرد اُٹھی اور تھوڑی دیر میں گھوڑا سمندِ سیاہ زانو نظرآیا۔ بے تحاشا بھاگتا جاتا تھا۔ شیر نے ڈانٹ کے کہا۔ بس یہیں ٹھیر جا۔ تو گھوڑا توراً رُک گیااور ادب کے ساتھ روبرو حاضر ہوا۔ شیر نے کہا تم اس بد حواسی کے ساتھ کہاں بھاگے جاتے ہواور بکشت کہاں سے آتے ہو۔ وہ بولا اے ولیعہد سلطان! غلام اس وقت بچۂ آدم کے خوف کے سبب سے جان بچا کے بھاگا اور اگرحضور حکم نہ دیتے تو اب تک دور نکل جاتا۔ کوئی میرا پتہ بھی نہ پاتا۔ شیر نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ یہ ڈیل ڈول یہ ہاتھ پائوں یہ تن وتوش اور یہ بزدلی ۔ لاحول ولاقوۃ! اگر کسی کے ایک لات مارو تو آدمی کا دم نکل جائے۔ پانی بھی نہ مانگنے پائے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدر آدمی کا کیوں خوف ہے۔ میں چھوٹا سا جانور ہوں ۔ لیکن سچ کہتا ہوں کہ اگر سامنا ہو جائے تو ایک تھپڑ میں آدمی کا کام تما کروں ۔ سارے جنگل میں نام کروں مگر ہاں والد بزرگوار کی نصیحت یہی ہیھ کہ بیٹا! انسان کے سائے سے بھاگنا۔ یہ ہزار ہا صد ہا ترکیبوں سے شیر کو نیچا دکھا تا ہے۔ مگر اب ایسا بھی خوف و ڈر نہیں ہے کہ جیسے تم بد حواس بھاگے جاتے ہو۔ گھوڑا بولا۔ اب حضور ہی غور فرمائیں، انصاف کریں کہ آپ ہمارے بادشاہ جانوروں کے پشت و پناہ ہو کر جب ڈرتے اور خوف کھاتے ہیں ۔ تو ہم کس شُمار قطار میں ہیں۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔اور ہاتھ ہائوں اور تن توش تو برابر کی لڑائی میں کام آتا ہے اور جہاں دغا اور مکر اور فریب سے کام لیا جاتا ہے۔ وہاں ہا تھ پائوں کیا کر سکتے ہیں۔ آدمی کا قاعدہ ہے کہ ایک گڑھا کھودا اور اس پر چھپر رکھا اور اس پر گھاس جما دیاور بکری چرنے کے لیے چھوڑ دی ۔ شر نے بکر کی بُو پائی تو جھپٹ کر گیا۔ جاتے ہی مع بکری اور چھپر اور گھاس اور پتوں کے گڑھے میں ہو رہا ۔ آدم زاد نے جو چاہا۔وہ کیا گولی ماری دی۔ کھال بیچ لی ۔ بچے پکڑ کے بیچ ڈالے ۔ اب طاقت فرمائیے کس کام آسکتی ہے۔ خاک! کوئی چیز نہیں سمجھتے۔ توہم کس گنتی میں ہیں۔ ہم کو وہ گرفتار کر کے اصطبل میں باندھ دیتا ہے اور گھاس اور دانہ کھلا کر اور پانی پلا کر سوار ہوتا ہے اور بادشاہ بنا ہوا ہم پر حکومت کرتا ہے۔ چابک جماتا ہے۔کوڑے لگاتا ہے جوچاہتا ہے وہ کرتا ہے اس کی داد ہے نہ فریاد ہے ۔روئو چاہے سر پیٹو۔ محنت نہ کرو تو مار کھائو۔ اپنا کچھ بس تھوڑا ہی ہے۔ ہم لوگوں پر تو اُن کی بڑی نظر عنایت ہے۔ مرتے دم تک ہم پر ستم جائز رکھا جاتا ہے۔ بہت ہی سختی کرتا ہے اور انتہا سے زیادہ ستاتا ہے ۔ ہمارا کچھ زور نہیں چلتا اور ناناجان کی زبانی سنا تھا کہ انسان شیر سے کچھ کام نہیں لے سکتا۔ مگر بند رکھتا ہے اور تماشا دیکھتا ہے اور ہر روز اس کے رہنے کی جگہ صاف کرتا ہے اور کچا گوشت دیتا ہے ۔ حضور کا بس اتنا خوف ہے کہ گدھے اور گھوڑے کی طرف مشقت محنت نہیں کرنی پڑتی۔ لیکن جنگل چھوٹتا ہے۔ پہاڑ چھوٹتا ہے ۔ اپنے قوم کے لوگوں کی صورت نہیں دیکھنے میں آتی ۔ ہمیشہ تنہائی ہی تنہائی رہتی ہے اور اسی سبب سے طبیعت بہت ہی گھبراتی ہے۔ مگر ’’قہرِ درویش بر جانِ درویش‘‘ کی مصداق راست آتی ہے۔ شیر نے پوچھا۔ تم کو اس وقت آدم زاد کہاں ملا تھا۔ تو جواب دیا کہ دور سے صورت دکھائی دی اور میں فوراً بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ پھر گرد بلند ہوئی اور ایک اونٹ نمودار ہوا اور اونٹوں سے اس کا قد بہت بلند تھا اور بھاگتے ہوئے بڑے زور سے بول رہا تھا اور زمین پر زور زور سے پائوں پٹکتا تھا۔ جب وہ قریب آیا اور بڑا صاحبِ تن توش دیکھا تو مارے گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ اور خوف کے شیر سمجھا کہ یہی آدم زاد ہے اور قریب تھا کہ لپک کے تھپڑ دے۔ مگر میں نے منع کیا کہ حضور یہ آدمی نہیں ہے ۔ یہ تو اونٹ ہے ۔ حضور کو آپ کے ابا جان انسان کی صورت دکھا چکے ہیں ۔ کہا ہاں ہم نے دھوکا کھایا۔ اونٹ کو آدمی بنایا۔ اونٹ نے جھک کر سلام کیا ۔ شیر نے کہا۔ بڑے استعجاب اور حیرت کا مقام ہے کی تم اور آدمی سے ڈر جائو۔ اگر گِر پڑو تو دس آدمی کچل جائیں۔ چکنا چورکر ڈالو۔ ہڈیاں تک سرمہ بن جائیں۔ کہیں پتہ نہ لگے ۔ مگر واللہ اعلم کیا سبب ہے کہ جس کو دیکھتا ہوں ۔انسان کے نام سے ڈرتا ، کانپتا تھرتھراتا ہے۔ بدن کا رونگٹا رونگٹا کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ بولا۔ اے سلطانِ عالم۔ میرا اُس سے کچھ بس نہیں چل سکتا ۔ وہ دیو سے بھی نہیں ڈرتا۔ اُس کو کسی کا خوف نہیں ہے۔ بالکل نڈر ۔ اونٹوںپر اس کی بادشاہی ہے۔ ناک چھیدا ہے۔ اس میں رسا ڈالتا ہے۔ خود ہمارے اوپر بیٹھتا ہے ۔ اسباب لادت ہے ۔ اونٹ لاکھ بلبلاتا رہے مگر ایک نہیں چلتی۔ ہر طرح وہی غالب آتا ہے۔ سب سے بھاری بوجھ اور جانوروں کی نہ نسبت ہمارے ہی اوپر لادا جاتا ہے اور جب اونٹ مُسِّن ہو جاتا ہے تو قصاب کے ہاتھ بیچ ڈالتا ہے اور وہ حلال کر کے گوشت بیچتا ہے اور کھال کو الگ فروخت کرتا ہے ۔ میں کیا بتائوں کہ ہم پر کس قدر جورو جفا کرتا ہے ۔ خدا اس سے سمجھے۔ بچہ شیر نے کہا چاہے جو بھی ہو ہم تو کسی آدم زاد سے ضرور مقابلہ کریں گے اورطنطنے کے ساتھ لڑیں گے۔ نبرد آزمائی کرینگے اور نیچا دکھائیں گے اگر سوبھی ہوں تو وہ ہم سے تابِ مقاومت نہ لائیں گے۔ اونٹ بولا ۔ اے شاہ ِ جانورانِ صحرائی! اس خیال خام سے درگزر یے۔ اور انسان سے ڈرتے رہیے۔ اچھا مانا کہ آپ بڑے جرار اور کرار ار جوانمرد اور طاقت اور بہادری میں فرد ہیں۔ لیکن آدم زاد میدان میں سے لڑنے تھوڑا ہی آئے گا۔ وہ اس طرح کا مقابلہ بچا جائے گا۔ مگر دور سے گولی مارے تو کیا کیجیے۔ اس وقت کس کو تھپڑ دیجیے۔ یوں تو بقول آپ کے اگر میں گِر پڑوں تو دس بیس آدمی کچل جائیں۔ ہڈیاں تک سرمہ بن جائیں۔ مگر اس کا کیا علاج ہے کہ دور سے گولی مارے اور یہاں لاش پھڑکنے بھی نہ پائے اور جان سَن سے نکل جائے۔ مشقی سوالات ۱- جانوروں نے آدمی کو کیوں عجیب چیز کہا اور اس کے لیے کیا کیا دلیلیں پیش کیں؟ ۲- گھوڑے اور گدھے نے آکر شیر کے رُوبروکیا حال بیان کیا اور شیر نے اُن کو کیا کہا ؟ ۳- جب اونٹ آیا۔ تو شیر نے کیا خیال کیا اور اونٹ نے اپنا کیا ماجرا بیان کیا۔ شیر نے کیا جواب دیا؟ ۴۔ جان سَن سے نکل جانا، ہڈیوں کا سرمہ بن جانا، نیچا دکھانا، تھر تھرانا، رونگٹے کھڑے ہو جانا، سنگسار ہونا کا مطلب بتائو۔ ۵- ’’ہمارا باپ شیر مجھ سے ہمیشہ کہا کرتا تھا‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۲۱-ندی کا راگ نشیمن چشم زدن مسا جھانجھ مشاطہ نامیہ ساحت ہاموں پیہم رقص زہرہ افلاک بگلوں اور چہوں کے نشیمن سے میں نکل کر ناگاہاں چشم زدن میں سیل بلا کی طرح جھپٹ کر آتی ہوں کتنی گھاٹیوں کے دامن کو راہ میں آئی جھٹک کر میں کتنے ٹیکروں اور ٹیلوں کے تلوے میں سہلاتی ہوں بیسیوں گائوں اور قصبوں کے پہلو سے نکلی مٹک کر میں سینکڑوں ہی پُل ہیں متھی میں دِل جن کا چرا کر لاتی ہوں زید کے کھیت کے نیچے بہ کر تھوڑی سی دور پر آخر کار جا کے چھلکتے دریا کو میں شربت وصل پلاتی ہوں عمر و زید کی ہستی ہی کیا ہے صبح آئے گئے شام سدھار مجھ کو دیکھو کہ ایک روش پر صبح و مسا چلی جاتی ہوں پائوں پہ جھانجھ بھنور کی پہنے اوڑھے لطافت کی چادر چھم چھم کرتی ہوئی آپ اپنے حُسن پہ میں اتراتی ہوں بن کر میں مشاطہ کبھی الجھاتی ہوں گیسوئے ساحل کو کھیتوں کا دھو آتی ہوں مُنہ، میدانون کو نہلاتی ہوں اور کبھی ساقی بن کے مرتب کرتی ہوں سبزہ کی محفل کو ساغرِ نامیہ بھر کے بنفشہ اور سمن کو پلاتی ہوں گاتی بجاتی جشن مناتی تھوڑی سی دور پہ آخر کار جا کے چھلکے دریا کو میں شربتِ وصل پلاتی ہوں عم و زید کی ہستی ہی کیا ہے صبح آئے گئے شام سدھار مجھ کو دیکھو کہ ایک روش پر صبح و مسا چلی جاتی ہوں زیب بدن میں کر کے آب رواں کا پاک اور صاف لباس ساحتِ ہاموں پر جس دم بل کھاتی ہوئی اٹھلاتی ہوں اپنے آنچل میں بھر لاتی ہوں کہیں پھول اور کہیں گھاس گردیوں میں روہو کو کبھی جھینگے کو کبھی میں کھلاتی ہوں لوٹتے لوٹتے رستہ میں بستر پہ سنہری کنکروں کے میں ٹکرا کے کسی پتھر سے روپہلی چھینٹیں اڑاتی ہوں بہتی بہتی بس اس انداز سے تھوڑی دور پہ آخر کار جا کے چھلکتے دریا کو میں شربت وصل پلاتی ہوں عمر و زید کی ہستی ہی کیا ہے صبح آئے گئے شام سدھار مجھ کو دیکھو کہ ایک روش پر صبح و مسا چلی جاتی ہوں سورج کی کرنوں کو اپنے ریت کی ٹاپوئوں پر پیہم رقص میں لا کر زُہرہ کو افلاک پہ میں شرماتی ہوں جھاڑوں میں جھنکاڑوں میں صحرائوں میں ویرانوں میں سدا چاند کو اور تاروں کو میںاپنا میٹھا راگ سناتی ہوں اپنی ریت کی مینڈوں میں کچھ دیر کو لیتی ہوں سستا اپنے کنارے کو بوٹیوں سے دم بھر کو میں دل بہلاتی ہوں کاٹتی ہوں اک چکر پھر اور تھوڑی سی دور پہ آخر کار جا کے چھلکتے دریا کو میں شربت وصل پلاتی ہوں عمر و زید کی ہستی ہی کیا ہے صبح آئے گئے شام سدھار مجھ کو دیکھو ایک روش پر صبح و مسا چلی جاتی ہوں مشقی سوالات ۱- نظم بالا کو آسان اردو نثر میں لکھو؟ ۲- اس شعر کا مطلب بتائو؟ زیب بدن میں کر کے آب رواں کا پاک اور صاف لباس ساحتِ ہاموں پر جس دم بل کھاتی ہوئی اٹھلاتی ہوں ۳- اس نظم کا مطلب مختصر کر کے بتلائو؟ ۴۔ چشم زدن ، سیل بلا ، ساغر نامیہ ، شربت وصل ، آبِ رواں ، روہو ، مینڈوں کے معنے بتائو۔ ۵- لاتی ہوں ۔ محفل ۔ مسا ۔ پلاتی ہوں۔ اور ۔ صبح ۔ مجھ ۔ عمر ۔ زید قواعد میں کیا کیا کلمے ہیں؟ ۲۲-رنگ و بیرنگی مشابہت مخالفت محققین منعکس طلسمات انحراف شعاع منشور مثلث اِدعا دنیا میں جتنے رنگ ہیں۔ سب کا ظہور روشنی پر موقوف ہے۔ جتنے زور کی روشنی ہوگی۔ اتنا ہی صاف ہر چیز کا رنگ نظر آئے گا۔ مدھم روشنی میں رنگ بھی ماند معلوم ہوتا ہے اور اندھیرے میں تو نیلا زرد کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اس مناسبت سے خیال گزرتا ہے کہ رنگ کو روشنی سے کچھ نہ کچھ نسبت ضرور ہے۔ کسی بے فکرے کے سامنے گفتگو ہو تو چھوٹتے ہی کہے گا ۔ میاں اندھیرے میں تو آدمی کو قلعہ نہیں سوجھتا۔ تم رنگ کو لیے پھرتے ہو لیکن اگر دنیا میں سب ایسے ہی آزاد اور عقل کے دشمن پیدا ہوتے تو خدا کی خدائی کبھی ایسی آباد نہ ہوتی۔ کار سازِ عالم نے دُنیا کا انتظام ایسے اصول پر رکھا ہے کہ سر سری نگاہ سے دیکھیے تو ہر بات معمولی ہوتی ہے لیکن جتنا عقل کو دخل دیجیے۔ بات میںسے بات نکلتی آتی ہے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بات کا دفتر بن جاتا ہے ۔ ذرا سی مشابہت یا مخالفت دو چیزوں میں ہونی شرط ہے۔ پھر اس میں جتنی غورو فکر کی جائے ۔ تھوڑی ہے ۔جس قدر جس کے ذہن کی رسائی ہے قدرت کے کرشمے اسی قدر اس کو نظر آنے لگتے ہیں۔ فلسفہ طبیعیات کے عالموں نے صد ہا عملی ونظری دلائل سے پایۂ ثبوت کو پہنچایا ہے کہ رنگ کوئی مادی شے نہیں بلکہ خود روشنی کا جزو ہے ۔ طبیعیات کی کتابوں میں لائٹ یعنی ضیاء یا روشنی کے نام سے ایک باب الگ ہی ہوتا ہے ۔ بلکہ اکثر محققین نے کتابیں کی کتابیں اسی مضمون سے پر کر دی ہیں۔ یہاں روشنی کے چند خواص نہایت اختصار کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ کسی روشن چیز کی طرف دیکھیے تو اس میںسے باریک باریک روشنی کے خط جھاڑو کی تیلیوں کی طرح نکلتے معلوم ہوتے ہیں۔ ان خطوں کو شعاع یا کرن کہتے ہیں۔ ایک چیز کی روشنی دوسری چیزوں پر ان شعاعوں ہی کے ذریعے سے پہنچتی ہے۔ شعاعیں جب کسی شے پر پڑتی ہیں تو کچھ اس پر سے منعکس ہو کر دوسری چیزوں پر چلی جاتی ہے کچھ اسی شے کے اندر جذب ہو جاتی ہیں۔ کچھ اس کی سطح بیرونی پر پھیل کے رہ جاتی ہیں اور اگر وہ شے لطیف و شفاف ہے تو کچھ شعاعیں پار بھی نکل جاتی ہیں۔ اس تقسیم سے باری تعالیٰ کی ظاہری مصلحتیں یہ ہیں:- ۱- جہاں روشنی براہ راست نہیں پہنچ سکتی۔ وہاں بھی خاصا اُجالا ہوتا ہے۔ اگر آفتاب کی شعاعیں منعکس ہو کے نہ پہنچیں تو کمرے ، دالان ، سائبان میں دن کے وقت بھی اندھیرا گُھپ ہوا کرے۔ ۲- اگر جذب نہ ہوں ۔ تو کوئی چیز بغیر آگ کے اندر رکھے گرم ہی نہ ہو اور وہ بھی فقط بیرونی سطح ۔ گلنا، جلنا، پکنا ، پگھلنا کچھ بھی نہ ہو۔ نہ بخارات بنیں۔ نہ مینّہ برسے ۔ جو چیز ایک دفعہ تر ہو جائے وہ بھی خشک ہونے کا نام نہ لے۔ بارہ مہینے جاڑا ہی رہے۔ ٹھٹھرے ہوئے ہاتھ پائوں کو آگ سے بھی خاک اثر نہ ہو۔ ۳- اگر سب شعاعیں جذب یا معکس ہو جائیں اور سطح پر کچھ بھی قائم نہ رہیں تو واقعی دن کو قلعہ نہ دکھائی دے۔ بازار سب پٹ پڑے رہیں اور رستے میں ہاتھ کو ہاتھ نہ سُوجھے۔ ۴- اگرصاف شفاف شے سے شعاعیں پار نہ نکلیں تو لمپ۔ لالٹین ۔ جھاڑ ۔ فانوس سب بیکار کمرے کے کواڑ۔ الماری۔ روشن دان وغیرہ میں بھولے سے کوئی شیشے نہ لگائے۔ اول تو آفتاب کی روشنی زمین تک پہنچنے ہی کیوں لگی۔ زمین کے اوپر چالیس پچاس میل کے دل کا خول ہوا اور بخارات وغیرہ کا چڑھا ہوا ہے۔ یہ چند خاصیتیں جو ابھی بیان کی گئیں۔ آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔ نہ آلات کی ضرورت نہ علم کیمیا اور طبعیات کی کچھ ایسی واقفیت درکار ہے بعض خواص ایسے ہیں کہ بغیر کیس مدد اور ذریعے کے نہیں معلوم ہو سکتے۔ کبھی دیکھا ہو گا۔ بچے جو صابن کے بلبلے اُٹھاتے ہیں۔ اُن میں طرح طرح کے رنگ معلوم ہوتے ہیں۔حالانکہ صابن سفید پانی سفید۔ شیشے کے ٹکڑے میں بھی اسی طرح کے رنگ نظر آتے ہیں۔ گھر میں پڑی پڑائی کہیں جھاڑ کی قلم مِل جائے تو اس میں سے دھوپ کی طرف دیکھیے۔ سات رنگ (لا ل، نارنجی ، زرد، سبز، آبی نیلا، بنفشی) صاف دکھائی دیں گے۔ آخر یہ رنگ کہاں سے آئے۔ شیشہ اپنی ذات سے سفید۔ اندر سے ٹھوس ۔ نہ رنگ بھرا ہوا۔ نہ پیپر ویٹ کی طرح بیچ میں تہ دی ہوئی۔ آس پاس کھونٹی الگنی پر رنگ برنگ کے کپڑے نہیں پڑے ہوئے۔ یہ طاقوں میں گلدستے چنے ہوئے۔ جس چیز کے عکس کا شبہ ہو۔ اسے ہٹوا دیجیے۔ پھر دیکھیے تو وہی ساتواں رنگ اور وہی ترتیب، قلم پر شبہ ہو تو توڑ کر دیکھ لیجیے۔ وہی رنگ اپنی اپنی جگتہ پر ہر ٹکڑے میں نظر آئیں گے۔آخر یہ طلسمات کیا ہے؟ اہل علم نے بچوں کے کھلونوں سے ایک بات پا کر غور کرنا شروع کیا ۔مہر پہلو سے دیکھا طرح طرح کے آلات سے تجربہ کیا۔ آخر یہ بات نکلی کہ یہی دھوپ جو بظاہر سفید اور بے رنگ معلوم ہوتی ہے سات رنگ کی شعاعوں سے مرکب ہے۔ رہی یہ بات کہ شیشے کے ذریعہ سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ یُوں کیوں نہیں معلوم ہوتے۔ اس کے واسطے ایک اور مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں انحراف شعاع کی بحث ہے۔ فی الحال یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ منشور مثلث یعنی تکونے شیشے میں داخل ہو کر ایک ایک رنگ کی شعاعیں الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ سفیدی میں سب رنگ شامل ہیں۔ اس کی جانچ ایک اور طریقے سے ہو سکتی ہے جس کو عملِ معکوس کہتے ہیں۔ وہی بچوں کے کھلونوں میں سے ایک پھرکی لے لیجیے اور اس کا رہا سہا رنگ بھی چاقُو سے کھرچ کے یا پانی میں بھگو کے چھٹا دیجیے پھر اس کے دور میں اوپر کی طرف سات نقطے ساتوں رنگ کے ایسی ترتیب سے لگا دیجیے۔ جیسی شیشے کی قلم میں نظر آتی ہے۔ اس پھر کی کو پھرانے کسے اُن نقطوں کی جگہ ایک لکیر بالکل سفیدرنگ کی نظر آئے گی۔ جس کے یہ معنے ہوئے کہ ساتوں رنگ کے ملنے سے سفید رنگ پیدا ہوگیا۔ قلم کے ذریعہ سے ثابت ہوا تھا کہ سفید رنگ میںسات رنگ شامل ہیں۔ پھرکی سے یہ ظاہر ہوا وہی سات رنگ ملانے سے سفید رنگ بن جاتا ہے ۔ اب اس کے مان لینے میں کیا توقف ہے کہ جتنے رنگ ہیں۔ سب کی اصلیت سفیدی ہے۔ ہاں دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہر شے کا ایک خاص رنگ ہوتا ہے یہ کہاں سے آتا ہے اور اس اختلاف کی کیا وجہ ہے؟ محققین کی رائے ہے کہ رنگ کوئی مادی شے نہیں اور نہ کسی شے کی ذات میں موجود ہے بلکہ جس رنگ کی شعاعیں سطح پر باقی رہ جاتی ہیں۔ وہی نظر آتی ہیں اُن ہی کو اس شے کا رنگ کہتے ہیں۔ نیلے رنگ کی شعاعیں باقی رہ گئیں تو نیلا رنگ معلوم ہوتا ہے ۔ شرخ شعاعیں باقی رہیں تو سرخ رنگ ، کئی رنگ کی شعاعیں باقی رہیں تو وہ رنگ معلوم ہوتا ہے جو ان کی ترکیب سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ امر کہ کیسی سطرح پر کیس رنگ کی شعاعیں باقی رہ جاتی ہیں۔ ایک علیحدہ بحث ہے۔ یہاں اس کی گنجائش نہیں۔ غرض رنگ کے متعلق سائنس کی تحقیقات کاخلاصہ یہ ہے کہ ۱- فی نفسہٖ کسی شے کا کوئی رنگ نہیں۔ ۲- جتنے رنگ ہیں۔ سب روشنی کی شعاعوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ۳- روشنی کی ذات میں سب رنگ موجود ہیں اور وہ خودسفید یعنی بے رنگ ہے۔ اسی مضمون کا ایک شعر ہے سارے رنگوں کی ہے بے رنگی میں راہ ابر گر ہے رنگ بے رنگی ہے ماہ پہلے مصرعے میں اِوّعا ہے کہ رنگوں کی جڑ سفیدی یعنی بے رنگی ہے۔ دوسرے مصرعے میں تمثیل ہے کہ ابر سے ماہ میں رنگ آتا ہے ۔ حالانکہ ماہ میں بظاہر کوئی رنگ نہیں ۔ چاندنی رات میں ہلکا سا ابر ہوتاہے تو یہ سماں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بادل کا کوئی ٹکڑا چاند پر آجاتا ہے تو اس کا رنگ نہایت خوشنما نارنجی معلوم ہوتا ہے اور جب ہٹ جاتا ہے تو وہ نہیں رہتا۔ مشقی سوالات ۱- روشنی میں کون کون سے رنگ ملے ہوئے ہیں؟ ۲- تجربے سے کس طرح ثابت کر سکتے ہو کہ روشنی سات رنگوں سے مرکب ہے؟ ۳- انحراف شعاع کسے کہتے ہیں؟ ۴۔ سبق بالا کی مدد سے رنگ و بیرنگی پر جواب مضمون لکھو۔ ۵- خاصیتیں ، شعاعیں ، بُلبلے ، کرشمے ، خطوں ، شعاعوں ، رنگوں کے واحد لکھو۔ ۲۱-بہار زمُرّد ریاحین شمیم صناعیاں اثمار اشجار بادِ صر صر وحش طیور بہار آئی نکھرے نہال چمن بدلنے لگے نخل رختِ کہن درختوں نے پہنا وہ دھانی لباس لبِ نہر سبزہ زمُرّد اساس نئی پتیاں وہ چمکنے لگیں وہ کھِل کھِل کے کلیاں مہکنے لگیں ریاحین سر سبز تازہ بہار وہ پھولی حنا ہر طرف عطر بار وہ شاخوں میں کوپل نکلنے لگی درختوں کی صورت بدلنے لگی بنفشہ کہیں سنبل ت کہیں کہیں سوسن و گل بہار آفریں گُلستاں میں ہر سُو شمیم بہار اُری دوشِ باد سحر پر سوار کھلے پھول بیلے کے وہ لاجواب وہ پھولے ہزاروں طرح کے گلاب وہ پھولی چنبیلی کھِلا موگرا کِھلی چاندنی باغ میں جابجا چمن زیورِ گُل سے زیبا نگار وہ نو خاستہ نو عروسِ بہار یہ فطرت کا ہے قدرتی انتظام کھِلے پھول لاکھوں طرح کے تمام وہ پھولوں پہ ارتی ہوئی تتلیاں دکھاتی ہیں قدرت کی صنّا عیاں گریں پھولوں پہ شہد کی مکھیاں وہ چھتوں سے جھکنے لگی ٹہنیاں بھری گود شاخوں کی اثمار سے ٹپکنے لگا شہد اشجار سے وہ گد رائے پھل رنگ لانے لگے انار اپنا جوبن دکھانے لگے تروتازہ سر سبز ہے ہر شجر لدے ہیں درختوں میں فصلی ثمر وہ صحرا کی دیکھیے کوئی اب بہار کہ پھولوں سے ہر شاخ ہے شعلۂ زار وہ پھولا ہوا ڈھاک بھی ہر طرف لگائے ہیں اک آگ سی ہر طرف وہ مرسے کے پھولوں کی بُو تیز و تند جسے سُونگھتے ہی کھُلے ذہن کُند دکھاتے ہیں اس وقت کیا کیا پھبن چمکتی ہو چاندی کی جیسے کرن عجب مست خُوشبو ہے پھولوں کی واہ ہوئی جاتی ہے دل کی حالت تباہ بہت دور وہ جھاڑیاں ہیں مگر ہوا میں لپٹ آرہی ہے ادھر وہ صحرا کا ہر نخل پھولا ہوا غمِ بادِ صرصر کو بھولا ہوا ہوا میں ہے نشو نما کا اثر ہیں مستی پہ و طیور و بشر نہیں ہوتا یہ زورِ مستی کبھی کہ ہر شے پہ ہے اک بیخودی میں اس شانِ قدرت پہ ہر دم نثار دِکھائی ہمیں جس نے کیا کیا بہار مشقی سوالات ۱- نظم بالا کو آسان اردو میں لکھو۔ ۲- بہار پر اس نظم کی مدد سے جواب مضمون لکھو؟ ۳- اس شعر کا مطلب بتائو؟ بہار آئی نکھرے نہال چمن بدلنے لگے نخلِ رختِ کہن ۴- اس نظم نے میں جس قدر جمع کے الفاظ ہیں۔ ان کے واحد لکھو۔ ۵- چمکنے لگیں۔ آئی۔ بدلنے لگی۔ اُڑی ۔ پھُول ۔ دکھاتی ہیں۔ دیکھتے ۔ لگائے ہے۔ قواعد رو سے کیا کیا فعل ہیں؟ ۲- جانوروں کی الف لیلہ (۲) جبہہ سائی نجّار تصفیہ خباثت تملق چکمے مُحسن کُش دُرگت لجاجت اُول جلُول دامِ تزویر فی النارو السّقر مواخذہ اتنے میں پھر غبار بلند ہوا اور دیکھا کہ ایک آدمی بوڑھا اور دبلا پتلا لڑکوں کو ساتھ لیے ہاتھ میں ہاتھ دیے آہستہ چلا آتا ہے ۔ کسی طرف دیکھتا ہے نہ بھالتا ہے ۔ میں تو مارے ڈر کے کانپ اُٹھا اور اندھیرا سا آنکھوں کے تلے چھا گیا۔ گویا قضا کا پیادہ مجھے پا گیا۔ کیونکہ مجھے پورا پورا یقین ہو گیا تھا کہ اب بچنا غیر ممکن ہے۔ بس گئے گزرے اب تھوڑی دیر میں یہ سب کومار ڈالے گا۔ ایک کو باقی نہ رکھے گا۔ سیر اکڑتا بررتا ہوا اس کے قریب گیا تو انے کہا ، اے سلطانِ جہان شاہِ جانوراں و جن و انساں خوش آمدی تو علیک السّلام و الاکرام۔ آج ہم نے کسی اچھے کا مُنہ دیکھا تھا۔ اگر خدا سے کچھ اور دعا مانگتے تو قبول ہو جاتی۔ سویرے مُنہ اندھیرے سے حضور ہی کی تلاش میں تھا۔ اگر آپ سے بھی میرا کام نہ نکلا۔ تو غضب ہو جائے گا۔بس پھر میں مع اِن بچوں کے خودکشی کروں گا۔ اپنی اور ان کی دونوں کی جان لوں گا ۔ مثل سچ ہے کہ ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ جب حضور سے بادشاہ کے قدموں میں آکر اپنی مراد نہ پائوں تو بھلا پھر کہاں میرا ٹھکانا ہے۔ کون وسیلہ ہے۔ جس کے ذریعہ سے میں اپنی داد پائوں۔ بادشاہوں کی خوشامد اور خدمت سے بھی اگر ذرا سا کام نہ نکلے ۔ تو پھر فرمایے۔ کوئی کہاں جائے۔ کس در پر جبہہ سائی کرے۔ شیر نے کہا ، اے آدم زاد ! میں نے تمام عمر میں ایسا خوش تقریر اور مطیع اور فرمانبردار مخلوق نہیں دیکھا تھا۔ جسیا تو ہے اب یہ بتا کہ میں تجھے کس قسم کی مدد دوں اور کون ہے جس نے تجھے ستایا ہے اور جس کی سزا تُو میرے ذریعہ سے چاہتا ہے؟ اُس نے کہا ۔ جہاں پناہ میں قوم کا بخارہوں بڑھئی کا کام کرتا ہوں۔ایک آدمی نے مجھے بہت ستایا ہے اور انتہا کا دِق کیا ہے۔ کل صبح کو وہ حضور کے رُو برو حاضر ہو گا۔ میرا اس کا فیصلہ کر دیجیے ۔ خاطر خواہ تصفیہ کر دیجیے۔ زیرد ستوں کو زبر دستوں کی تعدی سے بچانا بادشاہوں کی شان کے شایان ہے اور میری بیکسی اور بے بسی اسی سے عیاں ہے کہ ان بچوں کے ساتھ لے کر بے خوف و خطر یہاں آیا ہوں اور حضور کے قدموں کے تلے پناہ لی ہے۔ میں خوب سوچے ہوئے تھا کہ اگر کوئی درندہ راہ میں آمادہ ٔ گزند ہو گا تو حضور کا نام لوں گا۔ کہ ان کا غلام ہوںوہ فوراً چھوڑ دے گا۔ ہر گز نہ بولے گا۔ شیر نے کہا کہ اگر وہ کل ہمارے پاس آئے گا تو ہم فیصلہ کر دیں گے اور یہ کہہ کر بپھرنے اور غرانے اور ڈکارنے لگا اور زورزور سے دکارنے کی آواز سن کر میرا تو کلیجہ کانپ کانپ اٹھتا تھا۔ مگر مجھے خوف نہ تھا کیونکہ شیر دلیر میرا دوست بن گیا تھا اور میری حفاظت کو اپنے اوپر فرض سمجھتا تھا میں نے شیر کو سمجھایا کہ از برائے خدا تم اس پھیر میں نہ پڑو۔ پرانے پھٹے میں پائوں نہ ڈالو۔ مگر وہ تو شیر تھا۔ کہا کیا مجال ہے ۔ اب یہ شخص اتنی دور سے ہمارے پاس آیا ہے اور ہم اس کو ٹال دیں۔ تو شیر نہیں جنگل کے شاہ دلیر نہیں۔’’جرأت لازم ہے بادشاہی کے لیے‘‘ میرا مقابلہ کیا کچھ دل لگی یا ہنسی ٹھٹھا ہے۔ آدمی نے جواب دیا۔ بہت بجا ہے جضور! شیر نے کہا اگر میرا کہنا نہ مانے گا تو ہو جانے گا۔ میں اپنی بات کی تعمیل کو ضروری سمجھتا ہوں۔ جو کہوں وہی ہو۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیتا۔ کسی نے ذرا خلاف کیا اور میں نے فوراً بدلہ لیا۔ یہ ممکن نہیں ۔ کہ ہاں کے جواب میں کوئی نہیں کر سکے۔ کیا مجال اور اگر نہیں کہوں اور کوئی ہاں کہے اسی دم سزا دوں اور ایسا بدلہ لوں کہ تمام عمر یاد کرے۔ کبھی نہ بھولے اور تمام عمر کیا معنی ممکن نہیں کہ دم بھر بھی زندہ رہے آدمی نے کہا ۔ شاہازِکرم برمن درویش نگر برحال منِ خستہ وہ دل ِریش نگر ہر چند نیم لائق بخشائش تو برمِن منگر بر کرم خویش نگر شیر کو یہ خوشامد بہت بھائی اور میری تقریر ازبس پسند آئی ۔ کہا ہم دل اور جان سے تمہارے شریک ہیں۔ جو تم سے آنکھ ملائے گا۔ وہ ضرور سزا پائے گا اور پچھتائے گا۔ تم صبح کو اس کو ضرور حاضر کرو ۔ آدمی نے کہا۔ انشاء اللہ ضرور حاضر کروں گا۔ شیر بولا ہم تمہاری اطاعت سے بہت خوش ہوئے اور چونکہ ہم اس جنگل اور اس پہاڑ کے سلطان ذی جاہ ہیں۔ لہٰذا تم کو کسی سے یہاں گزند پہنچنے کا احتمال نہیں ہے۔ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کے دیکھے یہ کسی کی مجال نہیں ہے ۔ ہاں اگر کوئی ہم کو مار ڈالے تو پھر تم پر ظلم کر سکتا ہے۔ بط نے کہا کہ مجھے آدم زادکے ان الفاظ سے بوئے خباثت آتی ہے ۔ صاف روباہ بازی پائی جاتی ہے ۔ مگر شیر کو لاکھ لاکھ سمجھایا ، اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ انسان کے تملق میں آنا عقل سلیم سے دور تھا۔ بندہ مجبور تھا ۔ میں خوب جانتا تھا کہ اس خوشامد میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا زور تھا۔ آدم زاد نے کہا کہ ہم لوگ جو انسان کہلاتے ہیں بڑے ملول و غمگین رہتے ہیں ۔ انواع و اقسام کے رنج سہتے ہیں اور میں تو خصوصاً صیدِ ادبار ہوں ۔ ہر قسم کے غم کا شکار ہوں ۔ یہ کہہ کر اور سب جانور تو سدھارے ۔ یہ مصیبت کے مارے سلطان جنگل البتہ اس کی باتوں میں آگئے۔ گدے نے سب کے پہلے راہ لی۔ اس کے بعد اونٹ روانہ ہوا اور پھر گھوڑا چپکے سے چل دیا اور سب مجھ سے کہہ گئے کہ دیکھ لینا اس آدمی سے شیر دھوکا کھائے گا ۔ ضرور چکمے میں آئے گا۔ آدم زاد نے شیر سے پوچھا کہ کیوں حضور ! اگر اس جنگل میں سرکارکو ایک مکان بنا دوں تو کیسا ؟ اس نے کہا ۔ واہ واہ بہت اچھا ۔ بڑھئی کاریگر تو تھا ہی اور اوزار سب ہمراہ تھے ۔وہیں بیٹھ کے لکڑی کاٹی اور بڑا مضبوط ایک صندوق اتنا بڑا بنایا کہ دو شیر اس میں اچھی طرح سے رہ سکیں اور اس صندوق کے ادھر اُدھر لوہے کے سینچے لگا دیے اور شیر کو لے جا کر دکھا۔ شیر بڑا خوش ہوااور کہا ہم اس کے اندر کیونکر جائیں۔ واللہ اعلم سمائیں یا نہ سمائیں۔ بڑھئی نے دروازہ کھول دیا۔ اور شیر اندر گیا تو بڑھئی نے دروازہ بند کیا اور پھر کھول دیا کہا اگر دھوپ کبھی ستائے تو اوپر کا ڈھکنا بند کر دیا جائے اور شب کو یہ دروازہ بھی بند ہو جائے۔ شیر بولا سب دکھا دو۔ بڑھئی نے اوپر کا ڈھکنا جو بنایا تھا وہ بند کے کے مقفل کیا اور کہا بس اب چلے آئو ۔ شیر بولا اب دوسرا دروازہ بھی بند کر کے پوری کیفیت دکھا دو ۔ بڑھئی نے دوسرا دروازہ بھی بند کر دیا اور قفل لگا دیا ۔ میں انتہا سے زیادہ خوف زدہ وہ کر رونے لگا ۔ مگر انسان کی مجھ پر نظر نہ پڑی کہ میں دور سے یہ کُل معاملہ دیکھ رہا تھا۔ شیر نے تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ اب مجھے قفس سے نکالو تو چشمے میں جا کر ذرا پانی پی آئوں۔ بڑھئی نے کچھ جواب نہ دیا تو شیر نے پھر کہا کہ میں تشنہ لب ہوں ۔ کھول دو تو پانی پی لوں۔ بڑھئی بولا کچھ پاگل ہوا ہے ۔ میں نے تیرے کھولنے بند کرنے کے لیے یہ صندوق اس محنت سے تھوڑا ہی تیار کیا ہے کھول دینا کیا ہنسی ٹھٹھا ہے۔ اب پہیے بنا لینے دو اور لے جانے دو۔ شیرنے جو یہ فقرہ سنا تو کہا یہ کیا گفتگو ہے ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ تم نے یہ کیوں بنایا۔ وہ بولا جب کسی رئیس کے ہاتھ بیچوں گا تب سمجھ میں آجائے گا۔ اس کے بغیر تو پتہ بھی نہ پائے گا۔ شیر تو تھا ہی اس کو بڑا غیظ آیا اور بولا کہ اگر اسی دم تو قفل نہ کھولے گا تو ہڈیاں چبا ڈالوں گا ایک نہ مانوں گا۔ آدم زاد نے جواب دیا کہ او جنگل کے کُتے زبان سنبھال کے بول اور یہ کہ کر ایک درخت سے لکڑی توڑی اور سلاخوں کے اندر سے مارنا شروع کیا۔ شیر نے لکڑی توڑ ڈالی اور اس بلند آواز سے ڈکارا کہ زہرہ آب آب ہو گیا۔ اس کی آواز سن کر گدھا اور گھوڑا اور اونٹ بھی یک بعد دیگرے آئے ۔ آدم زاد پھر لکڑی کاٹنے گیاکہ پہیے بنائے اور شیر کو وہاں سے اُٹھا لے جائے۔ بڑھئی کی عدم موجودگی میں میں گیا ۔ میرے بعد اونٹ آیا ۔ کہا حضور اس کی چاپلوسی میں آگئے ۔ اب گدھا آیا اس نے بھی افسوس کے ساتھ کہا کہ حضور آدم زاد کیسا دغا باز، مُحسن کُش ہوتا ہے اور کس قدر جور اس کے سبب سے ہر ایک کو سہنا پڑتا ہے ۔مگر اب چھٹکارے کی کون تدبیر ہے یہی توشتۂ تقدیر ہے ۔ شیر نے کہا۔ اگرچہ میری بھی کی اس نے خانہ بربادی مگر کبھی نہ کسی روز میں ہوا شاکی پر اب تو ظلم پہ جلاد نے مکر باندھی چمن میں رکھا نہ بُلبل کا نام تک باقی خدا کرے یوں ہی ہو جائے بے فشاں صیّاد گدھے نے کہا ہماری اصلاح مانیے تو اب خوشامد اور چاپلوسی سے کام کیجیے اور غرور شاہی کو جانے دیجیے۔ا ب آپ سلطان جنگل نہیں ۔ اسیر ہیں۔امیر نہیں فقیر ہیں۔ اب اس کی خوشامد کرنا لازم ہے۔ آدم زاد کو چکما دینا غیر ممکن ہے۔ لیکن پھر بھی تو کوشش کرنا چاہیے۔ گھوڑے نے اس رائے کی تائید کی اور یہی صلاح دی اور کہا کہ گو گدھا ہے۔ مگر بات پتے کی کہتا ہے ۔ اونٹ نے بھی اتفاق ۔ مگرشیر بولا کہ سب سے بہتر ترکیب یہ ہے کہ تم میں سے دو ایک یہاں کھڑے رہو۔ تاکہ تم کو دیکھ کر وہ ڈر کے بھاگ جائے اور پھر اِدھر نہ آئے ۔گھوڑا بولا یہ تو اور بھی حضور کے حق میں مضر ہو گا۔ اس قید خانے سے کیونکر مفر ہو گا۔ کنجی اس کے پاس ہے اور اس کا کھولنا بھی وہی جانتا ہے۔ شیر نے کہا اچھا ۔ تم ذرا زور تو کرو ۔اس قید خانے کو توڑو تو۔ پہلے گدھے نے کوشش کی اور کہا ۔ ہم تو بھول گئے ہم اور ہمارے باپ دونوں سے اس کا توڑنا محال ہے۔ اس کے بعد سمند نے لات ماری تو اس زور سے چوٹ لگی کہ کئی منٹ تک درد رہا اور اس ارادے سے باز آیا۔ اب اونٹ نے کوشش کی مگر مضبوط لوہا ٹُوٹے کیونکر۔ سب ہار گئے اور تھک کر کہنے لگے ۔ کہ اب اس امر کی کوشش ہی بیکار ہے ۔ وہ آدم زاد بہت بڑا چالاک اور ہوشیار ہے۔ گدھے نے کہا ہم کہتے ہی تھے کہ اس کے یارانے کا بھروسہ فضول ہے یہ بڑا نامعقول ہے گھوڑا بولا ۔ جی ہاں ہم نے بھی یہی کہا تھا ۔ اونٹ نے کہا ۔ مجھ سے کہتے تھے کہ با انیہمہ تن و توش انسان سے تو اتنا ڈرتا ہے ۔ شیر نے غصے میں آکر ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کیا ۔ مارے غیظ کے اس زور سے ڈکارتا تھا کہ یہ جانور کانپ کانپ اٹھتے تھے۔ گھوڑے نے کہا ۔ حقیقت یوں ہے کہ آدم زاد کے مقابلے میںایک کی نہیں چلتی ۔ کسے باشد شیر تک جو ہمارا سب کا بادشاہ ہے ۔ ایسے زبر دست جانور کو اس مشت خاک نے زیر کیا اور نیچا دکھایا۔ ہاتھی سواری کے لیے تجویز فرمایا۔ مٹھی بھر کا مخلوق اور یہ حال ہے سچ یوں ہے کہ بڑا کمال ہے۔ بے خطا ہر ایک کو حکم تہِ شمشیر ہے مملکت میں آدمی کے یہ بڑا اندھیر ہے کوئی کافر پوچھنے والا نہیں اس ظلم کا بے گُنہ شیروں کا خُوں ہوتا ہے کیا اندھیر ہے شیر نے کہا تم میں سے کوئی جا کے دیکھو تو کہ وہ کر کیا رہا ہے ۔گدھا بولا، صاحب ہم تو نہ جائیں گے ۔ گھوڑے نے کہا جو جائے وہ مصیبت میں گرفتار ہو ۔ خود ہی شکار ہو ۔ اونٹ نے کہا۔ ہم جاتے مگر بیمار ہیں۔ اس سبب سے نا چار ہیں میں نے کہا یہ کوئی نہیں جاتے نہ جائیں ، مختار ہیںمیں جاتا ہوں اور ابھی خبر لاتا ہوں ۔ گدھے نے کہا کیوں شامت آئی ہے اچھی قسمت آزمائی ہے۔ اونٹ بولا ۔ جانے دو ایک چھرے میں ٹیاں سی جان نکل جائے گی۔ کرتے دھرتے کچھ نہ بن آئے گی۔ گدھے نے ہنس کے کہا یہی تو بڑے شیرہیں۔ ہم سب سے دلیر ہیں ۔ مشتِ پر بے خبر تیری کیوں قضا چلچلائی ہے ۔ پیس کے دھر دے گا۔ سانس تک نہ لے گا۔ شیر کو ان کی یہ تقریر سخت ناگوار گزری اور جھلا کے ان کو برا بھلا کہنے لگا کہ اونمک حراموں میرے باپ کی رعایا ہو اور ایک تو خود نہیں جاتے دوسرے بط کو بھی جانے سے روکتے ہو۔ ایک ایک کو نہ کھا جائوں ۔ توسہی ۔ ان سب کو اس سخت کلامی پر غصہ آیا۔ اونٹ بولا ہم رعایا ہیں یا تمہارا باپ ہمارا غلام ہے یہ کیا سخت و نا ملائم کلام ہے۔ گھوڑے نے کہا ۔ کمبخت تیرے پھنسنے سے ہم خوش اور ہمارا خدا خوش۔ خدا کرے جنگل کے سب شیروں کو آدم زاد گرفتار کر لے جائے اور تمہارے بس کا ایک بھی نہ رہنے پائے۔ گدھے نے کہا ۔ اللہ اللہ قیدیوں کی بھی یہ جرأت ہے کہ ہم سے اس قسم کی گفتگو کریں اور پیٹھ پیچھے بھی نہیں دو بدو کریں۔ اب تم ہو گیا بیچارے ۔ تھوڑی دیر میں آدم زاد آتا ہوگا۔ پہیے لگاتا ہوگا۔ کھینچ کے جائے گا اور وہ درگت بنائے گا کہ عمر بھر یاد کرو گے ۔ شیر کو اور بھی غیظ آیابہت ہی زور سے ڈکارا اور زور سے سینچوں پر ایک ہاتھ مارا تو اونٹ بلبلانے لگا ۔ گھوڑا ہنہنانے لگا۔ گدھے نے کہا ۔ شیر دیوانہ ہوا ہے اس کو سوادائی کہو مجنوں سمجھو اتنا نہیں سمجھتا کہ یہ ہمارا دوست کب تھا۔ نہ اب ہے ۔نہ جب تھا ۔صرف جنگل میں رہنے کے سبب سے اور اس باعث سے کہ دیکھیں کیا گُل کھلتا ہے ۔ہم اِدھرآنکلے۔ ورنہ ہم راضی ہمارا خدا راضی۔ بقول بھائی گھوڑے کے ہم چاہتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک جنگل میں نہ باقی رہے۔ مارے خوف کے حضور اور سرکار اور جہاں پناہ کہتے تھے۔ ورنہ ہم توروز سویرے اُٹھ کے دعا مانگتے تھے۔ کہ یا خدا! اس موذی کو غارت کر۔ اس کا نام ونشان مٹا دے۔ گھوڑے نے کہا ۔ بھائی صاحب سنیے ہم تو اس کمبخت موذیوں کے سردار کے ساتھ ہمدردی کرنے آئے اور اس نے ہم کو گالیاں دینی شروع کیں۔بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ آدم زاد سے یارانہ پیدا کریں اور اس کو مدددیں کہ یہ مکان عالیشان جو اس نے لکڑی اور لوہے سے بنایا ہے اس کو کھینچ لے جائیں اور اس موذی کو جنگل باہر کر آئیں۔ اونٹ نے یہ صلاح پسند کی اور کہاہم اکیلے کھینچ لائیں گے اور دور تک پہنچا آئیں گے۔ شیر نے جو یہ تقریر سنی تو سخت رنچ ہوا کہ ابھی یہ لوگ مجھے سلطان جنگل اور ولیعہد بہادر بادشاہ ذی جاہ کہتے تھے اور اب ان کا یہ حال ہے اور قضا کے مُنہ میں اپنے آپ کو پایا تو اور بھی رنج سخت ہوا ۔ دیکھا تو بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ جان جاتی ہے ۔زار زار رونے لگا تو اس کا رونا سن کر جانور انِ صحرائی جوق جوق آئے مگر کٹہرے کے اندر بند دیکھ کر بھڑکے اور فوراً چلے گئے کہ مبادا حضرت انسان دیکھ پائیں اور ان کو بھی کٹہرے میں بند کر کے لے جائیں۔ گدھا اور اونٹ اور وہ سمند البتہ وہیں ٹھہرے رہے ۔ جب بخار پہیے بنا کر آیا تو اس نے دیکھا کہ یہ جانور شیر کے ارد گرد کھڑے ہیں اورا س سے ہمدردی کی سی باتیں کرتے ہیں ۔ للکار کے کہا کہ جس طرح تمہارے جنگل کا بادشاہ گرفتار ہو کے بے بس ہو گیا ہے ۔ اسی طرح تمہاری بھی گت بنائوں گا اور سب کو بند کرے کے اپنے وطن پہنچائوں گا اور فروخت کر کے دولت حاصل کروں گا۔ اس میں ہر گز دریغ نہ ہوگا۔ اونٹ بولا۔ بھائی صاحب آپ سے ہم لوگ باہر نہیں ہیں۔ شیر کی حالت پر ہمیں ضرور افسوس ہے مگر ہم نے جو ان کی ہمدردی کی تو یہ اور بھی ہم پر شیر ہو گئے اور برا بھلا کہنے لگے کہ ’’چنیں ہے اور چناں ہے‘‘۔ ہم لوگوں کو بھی اس پر غصہ آگیا اور ہم نے باہم یہ مشورہ کیا کہ تم کو ضرور مدد دیں اور وہ مدد یہ ہے کہ ہم لوگ مل کے اس قید خانے کو جہاں تک کہو گے کھینچ لے جائیں گے۔ دور تک پہنچائیں گے ۔ تم کو زحمت بھی نہ ہوگی اور ان کو کسی رئیس کے ہاں کوڑے کر لینا۔ خاطر خواہ دالم لینا اور ہم کو دعائے خیر دینا۔ بڑھئی نے کہا ۔ بھئی بات تو معقول ہے ۔ مگر تم لوگوں کا کوئی اعتبار نہیں۔ اونٹ وفا شعار نہیں۔ گدھا تو پھر گدھا ہی ہے۔ اس کا کیا اعتبار ہے ۔ گھوڑا کب وفادار ہے۔ گھوڑوں کی بے وفائی مشہور زمانہ ہے ۔ ایک معروف ترانہ ہے اور اگر تم لوگوں نے بے ایمانی کی اور کہیں اور لے گئے تو ہم تو بے موت مرے۔ ان لوگوں نے قول وقرار کیا ۔ زبان دی کہ تابہ زیست بے وفائی نہ کریں گے اور جو کہا ہے اس کے خلاف کوئی بات عمل میں نہ آئے گی۔ جان جائے گی مگر شیر کا ساتھ نہ دینگے۔ بڑھئی نے کہا بہتر ہے ہم پہیے لگا لیں ۔ تو تم لو گ باری باری کھینچ لے چلو اور ہم کو اس میں مدد دو تو تمہارا احسان ہو گاا ور ہمارا مطلب نکلے گا۔وقت پر ایک دوسرے کے کام آتا ہی ہے۔ ایک دوسرے سے مدد و اعانت پاتا ہی ہے۔ شیر کہ اس بلا میں پھنس کر نیم جان ہو چکا تھا۔ پہیوں کو دیکھ کر اور بھی رویا اور بڑھئی سے بہ لجاجت عرض کی کہ اے انسان مجھے بچا دے توتیری سوداگری میں تجھ کو بڑی مدد دوں اور اس جنگل کے کُل صحرائی جانور مثل گھوڑے اور گدھے اور اونٹ کے تجھ کو گرفتار کر دوں اور تو خوب ان کی سوداگری کرے اور ان کو بیچ لے اور چین سے زندگی بسر کرے۔ میرے مار ڈالنے سے کوئی نفع نہ ہو گا۔ بلکہ اور تیرا دل شرزنش کرے گا کہ ایک اپنے محسن کو مار ڈالا ۔ذرا خاطر داری نہ کی۔ پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس نے تجھ کو ایذا نہیں پہنچائی اس کے درپیٔ آزار تو کیوں ہوا۔ ہم نے تو تم سے یہ اقرار کیا تھا کہ جس شخص نے تم کو ستایا ہے اس سے ضرور تمہارا بدلہ لیں گے اور اس کو ایسی زک دینگے کہ تمام عمر وہ یاد ہی تو کرے گا اور تم اس کے عوض میں ہم سے یوں پیش آتے ہو اور ہمیں وطن سے دور بستی اور آبادی میں لیے جاتے ہو۔ جہاں ہمارا کوئی یا ر و مددگارنہ ہو گااور لوگ ہم کو دیکھ دیکھ کر طرح طرح کی باتیں بنائیں گے اور خواہ مخواہ ستائیں گے۔ بڑھئی نے کہا ۔ اوبے جنگل کے کتے ۔ لومڑی سے بد تر تو اور ہم کو چکمے میں لائے اور ایسی اُول جلُول باتیں بنائے ۔ ہم اس دام تزویر میں کب پھنسنے والے ہیں۔ یہ ان چکموں میں اور آنے والے ہیں۔ یہ فضول بات چیت بھلا ہم کو کب بھاتی ہے ۔ تیری قضا بہت جلد آتی ہے۔ میں تجھے ایک رئیس کے ہا تھ فروخت کروں گا اور جو چاہوں گا دام ان سے لوں گا۔ شیر نے پوچھا ۔ میں کس مرض کی دوا ہوں۔ اونٹ کو لے جائو کہ انسان کے کام آتا ہے ۔ گھورا سواری دیتا ہے ۔ گدھے پر بوجھ لادا جاتا ہے ۔ شیر کس کام آتا ہے ۔وہاں روز دونوں وقت مجھے گوشت دینا ہو گا اور بڑی حفاظت کرنی پڑے گی کہ کہیں میں کُھل نہ جائوں کہ پھر آدم زاد سے پورا پورا بدلہ لوں اور جہاں تک ممکن ہو ۔ پیٹ بھر کے آدمی کا گوشت چکھوںاور دندنائوں اور بھاگ کر جنگل کی راہ لوں ۔ اگر ہم کو رہائی دو گے تو ہفت اقلیم کی بادشاہی کرو گے ورنہ اب تو ہم تمہارے بس میں آ ہی گئے اور تم ہم کو اکیلا اور تنہا پا گئے ۔ جو چاہو کرو اختیار ہے بے بسی سے شیر بھی مجبور اور نا چار ہے ۔ خدا کسی کو مصیبت میں نہ ڈالے اور کوئی کسی کے پالے نہ پڑے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی کہ تم ہماری خوشامد کرتے تھے اور یہ تینوں نمک حرام ہماری عظمت کا دم بھرتے تھے اور اب ان کی یہ کیفیت ہے کہ ہمارے درپیٔ آزار ہیں۔ یہ سب دغا باز مکار ہیں۔ مگر یہ تو ذرا بتائو کہ ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم اس طرح سے ہم سے پیش آتے ہو اور وطن سے اس مصیبت کی حالت میں لیے جاتے ہو۔ ہم نے کیا گناہ کیا ہے۔ کسی کو کسی قسم کا چکما دیا ہے یا برا بھلا کہا ہے۔ ہم تو کسی سے نہ بوتے ہیں نہ چالتے ہیں۔ اگر کوئی دو کلمے کہہ بھی جاتا ہے تو حتی الوسع ٹالتے ہیں۔کہ بھئی زمانہ نازک ہے کیوں خواہ مخواہ کا جھگڑا مول لیںاور بیٹھے بٹھائے کسی سے لڑ پڑیں۔ تم سے بھی اسی سبب سے ملائمت اور لطف سے پیش آئے ورنہ اگر ہم چاہتے تو ایک دم کے دم میں فی النار والسّقر پہنچاتے۔ اتنی نوبت کیوں آنے پاتی ۔ چٹکیوں میں تمہاری جان جاتی اور ہم اس وقت کیس چشمے کے قریب اکڑ رہے ہوتے اور یہ سؤر جو سامنے کھڑے بے ادبی کر رہے ہیں ان کو نوالہ بان لیتا۔ چھک کے کھا لیتا ۔ بوٹیاںنوچ نوچ کے کھاتا اور مزے سے دندناتا ۔ خوب ڈکاریں لیتا۔ اب تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ تم فوراً ہمیں چھوڑ دو اور سواری کو یہی گھوڑا لو اور گدھے اور اونٹ پرجنگل کی لکڑی بار کرو۔ ہمارے قول کا اعتبار کرو ورنہ دیکھ لینا ضرور پچھتائو گے اور بجز رنج کے اور کچھ نہ ہاتھ آئے گا۔ ہائے غضب کہ کے پچھتائے گا۔ کف افسوس ملنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو گا اور یہ تینوں مجھے چکما دے کے الگ ہو جائیں گے۔ پھر عمر بھر صورت نہ دکھائیں گے۔ بڑھئی نے کہا۔ ان سب کی بستی اور آبادی میں بڑی کثرت اور افراط ہے۔ ان کی کیا بساط ہے۔ ہاں شیر کی البتہ چاہ ہے۔ اگر شیر ملے تو کیا کہنا ہے ۔ میری خوش نصیبی تھی کہ تو مجھ کو مل گیا ہے اور اس آسانی سے جال میں پھنسا ۔ ایک رئیس باتوقیر کے ہاتھ تجھ کو بیچوں گا اور خاطر خواہ دام اس سے لوں گا۔ وہ تجھے کٹہرے میں بند کرے گا اور گوشت کھلائے گا اور بستی کے لوگ دور دور سے مجھے دیکھنے آئیں گے اور اس رئیس کے ہاتھی تجھ کو دیکھ دیکھ کر ڈھیٹ ہو جائیں گے ۔ شیر نے ٹھنڈی سانس بھر کے کہا ۔ یہ بات ہماری سمجھ میں نہ آئی کہ ہاتھی ہم کو کیوں دکھائے جائیں گے اور ڈھیٹ کیونکر بنائیں گے۔ اس نے کہا رئیسوں امیروں کو شکار کا بہت شوق ہوتا ہے ۔ اس سے نہایت ذوق ہوتا ہے۔ شکار کو جنگل میں جاتے ہیںاور شیر کا شکار سب سے زیادہ پسند فرماتے ہیں۔ دس بارہ ہاتھی بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ ہاتھیوں کو پہلے ہی سے شیر کی صورت دکھاتے ہیں تاکہ جنگل میں دیکھ کر بھڑکنے نہ پائیں بلکہ وہ ٹھوکر دیں۔ وہ لات جمائیں کہ شیر بھی لڑھکنے لگے۔صورت بدل جائے پہچان نہ پڑے کہ شیر ہے یا بھیڑ ہے۔ شیر گو اسیر زندان بلا تھا۔ مگر تھا تو شیر ہی اس فقرے پر بہت جھلایا ۔ بڑا طیش کھایا ۔ کہنے لگا، ہاتھی اور ہاتھی کے مالک کی کیا اصل و حقیقت ہے کہ شیر کا مقابلہ کرے اور شیروں سے جنگل میں گڑے کھوڈ کے اسی جگہ گاڑ دیں۔ ہاتھی بیچارہ بھلا کیا کھا کے ہم کو لپڑّ لگائے گا ۔اگر مقابل میں آئے گا تو ضرور مُنہ کی کھائے گا۔ اور بڑے مرد بے ہو تو ذرا کھڑکی کول دو اور مزہ دیکھ لو کہ تم چاروں کو ایک ہی تھپر میں کہاں پہنچاتا ہوں ۔ خدا گنج کی راہ دکھاتا ہوں ایسا ایسا لپڑ دیا ہو کہ ہزار لڑھکنی کھائو پھر یہ سب ڈینگ کی باتیں بھو ل جائو ۔ ساری شیخی رکھی رہے۔ اونٹ اتنا بڑا جانور ہے۔ مگر میرے سامنے چوں نہیں کر سکتا ۔ گھوڑا صورت دیکھے منزلوں بھاگتا ہے اور گدھاکس کھیت کی مولی ہے اس کی کس میں گنتی ہے۔ اونٹ نے کہا ۔ یا ر کیوں گپ اڑاتے ہو ۔ شیر ہو چاہے ہاتھی ہو۔ ممکن نہیں کہ اونٹ کے جنگل میں جائے اور اگر جائے تو ایسی بے بھائو کی پڑیں کہ یاد ہی تو کرے۔شیر خاموش ہو رہا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہا اگر کٹہرا کھل جائے تو پھر البتہ میاں اونٹ کو دل لگی دکھائوں اور بڑھئی کے تو تنکے تنکے اڑائوں ۔ عمر بھر یاد ہی تو کرے مگر بات یہ ہے کہ اب تو ہم اس وقت بھیڑ سے بھی بد تر ہیں۔ گدھا تو گدھا ہی ہے ۔ اصل میں تو اب ہم ہی گیدی خر ہیں ۔ واہ ری قسمت کہ جن جانوروں کو ہماری صورت دیکھے سے بخار چڑھتا ہے وہ اب ہم سے اس طرح گفتگو کریں اور مُنہ پر برا بھلا کہیں مگر ہماری قسمت میں یوں ہی لکھا تھا۔ نوشتۂ تقدیر ہر گز مٹ نہیں سکتا۔ اب ہم نہ کسی کو خوشامد کریں گے نہ روئیں گے۔ بڑھئی نے کہا۔ تم بستی اور آبادی میں چلنے سے بیزار کیوں ہو۔ وہاں بھی تمہارے بھائی بند مل ہی جائیں گے۔ کوئی اس کٹہرے میں کوئی اُس کٹہرے میںکوئی اس کوٹھڑی میں کوئی اُس کوٹھڑی میں۔ کوئی گزند نہ پہنچائے گا ۔ بہت آرام سے رہو گے ۔ زحمت نہ سہو گے ۔ کھانا عمدہ سے عمدہ۔ تازہ بہ تازہ ۔ پانی جس قدر چاہو ۔ پیو۔کوئی مواخزہ نہ کرے گا اور گرمی میں خس کی ٹٹیاں چھڑکی جائیں گی اور سردی میں حفاظت کی جائے گی ۔ کہ ہوا نہ پہنچے اور برسات میں پانی تم پر نہ پڑنے پائے گا۔ ہاں جنگل کا سماں البتہ نظر نہ آئے گا ۔ خیر پھر اب تو پھنس ہی گئے ہو۔ یہ کہہ کر نجار نے اونٹ کو اس میں جوتا اور میاں اونٹ صاحب ٹھمک چال چلنے لگے۔ خیر سے کوئی کروٹ درست نہیں۔ کوئی پیر ٹھیک نہیں ۔ شیر کی گریہ وزاری اور بے قراری کا حال نا گفتہ بہ مگر ضبط کیے رہا کہ رونے دھونے اور خوشامد اور تملق سے کیا ہوتا ہے۔ دل ہی دل میں روتا ہے ۔ گدھا اور گھوڑا ہمراہ رکاب تھا۔ بڑھئی اور گدھا اور گھوڑا باہم باتیں کرتے جاتے تھے ۔ میاں اونٹ صاحب بھی شُتر غمزہ کرتے اور بِلبلاتے تھے۔ شیر بیچارہ مصیبت کا مارا سرِ بالیں سر ٹپکتا تھا اور یہ سب اس کی بے قراری پر بغلیں بجاتے تھے۔ منگل گاتے تھے۔ مشقی سوالات ۱- آدمی نے آکر شیر کے رُو برو کیا بیان کیا اور آدم زاد نے کس طرح سے شیر کو پنجرے میں بند کیا؟ ۲- جب آدمی شیر کو بند کر کے لکڑیاں کاٹنے چلا گیا تو بط، اونٹ ، گھوڑا اور گدھاکیوں شیر کے پاس آئے؟ کیا وہ درحقیقت شیر کے سچے ہمدرد تھے؟ ۳- اونٹ وغیرہ جانوروں نے شیر کو چھڑانے کی کس طرح تجویز کی۔ اور کیا شیر کو رہائی ملی۔ آدمی شیر کو کس کی مدد سے شہر میں لے گیا؟ ۴۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مراچ نہ پانا۔ درپہ جبہہ سائی کرنا۔ تصفیہ کرنا۔ پھیر میں پڑنا۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینا۔ صیدِ ادبار ہونا۔ ہڈیاں تک چبا ڈالنا۔ ان کا مطلب بتائو اور اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ ۵- ذی جاہ۔ خباثت ۔ غمگین۔ مقفل۔ محسن کش ۔ رہتے ہیں۔ لگا دیا۔ بول ۔ بیچوں گا قواعد کی رُو سے کیا کیا کلمے ہیں؟ ۲۵-خدمت ِ خدا و خلق لطفِ جاں داغِ رفتگاں سوزش نہاں سیلِ آب عندلیب فرطِ انبساط نغمۂ طرب مستیٔ نشاط زندگی مزے کی ہے لطف جاں اٹھائے جا لطف جاں اٹھائے جا یہ مزے اڑائے جا حملہ ہائے فکر و غم ہوں اگرچہ دم بدم وار سب بچائے جا فکر و غم ٹلائے جا ظُلم دُشمناں سہی جورِ دوستان سہی رشکِ رازواں سہی بھول جا بھلائے جا داغ رفتگاں سہی سوزش نہاں سہی داغ یہ چھپائے جا آگ یہ بجھائے جا زندگی کہیں جسے وہ تو سیل آب ہے بہ چل اور بہائے جا بہ چل اور بہائے جا شب زیادہ شمع کم ہے اگر تو کیا ہے غم جب تلک کہ جل سکے بیدھڑک جلائے جا میری جان عندلیب! بامِ شاخسار سے تختِ نوبہار سے فرطِ انبساط سے مستیِٔ نشاط سے خوب چہچہائے جا خوب چہچہائے جا فصل گُل منائے جا راگنی سنائے جا یہ دل مرا لبھائے جا تیری زندگی ہے راگ میری زندگی ہے رنگ راگ رنگ مل گئے میں سنوں تُو گائے جا گائے جا بجائے جا خوب چہچہائے جا مست نغمہ نشاط تُو مجھے سنائے جا ہائے وہ تو اُڑ گئی لو یہ کیا سنا گئی جستجوئے عیش میں عمر مت گنوائے جائے بے طلب تو ہاتھ آئے اور طلب سے بھاگ جائے اشتیاق انبساط دل سے تو بھلائے جا خدمت خدا و خلق ہے نشاطِ زندگی اس میں اپنا جان و مال شوق سے لگائے جا مشقی سوالات ۱- شاعر اور بُلبل کی باہمی گفتگو کو اپنی نثر میں بیان کرو۔ ۲- خدمت خدا و خلق سے کیا مراد ہے؟ نیز ’’بہ چل اور بہائے جا ‘‘ کا مطلب بیان کرو۔ ۳- اُڑائے جا ۔ بچائے جا ۔ کون سے فعل ہیں اور کیا معنے دیتے ہیں؟ ان کو دوسرے لفظوں میں کس طرح بول سکتے ہیں؟ ۴- مندرجہ ذیل قواعد کی رُو سے کیا کیا ہیں؟ دُشمنان۔ شب ۔ خوب۔ تیزی ۔ ہائے۔ ۲۶-حج اکبر اشک ریزی لطیف جذبہ مناظر نوعیت حماقت کم ظرف شگون قلق احتظاظ زائرین منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی۔ اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچے کے لیے دایہ رکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے لیکن ایک تو بچہ کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے ہیٹھے بن کر رہنے کی ذلیت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر دم اس کے گلے کا ہار بنا رہتا ۔ اس وجہ سے دایہ اور بھی ضروری معلوم ہوتی تھی۔ مگر شاید سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ وہ مُروت کے باعث دایہ کو جواب دینے کی جرأت نہ کر سکتے تھے۔ بُڑھیااُن کے یہاں تین سال سے نوکر تھی۔ اس نے اس کے اکلوتے بچے کی پرورش کی تھی۔ اپنا کام دل و جان سے کرتی تھی۔ اس کے نکالنے کا کوئی حیلہ نہ تھا اور خواہ مخواہ کھچڑ لکالنا صابر جیسے حلیم شخص کے لیے غیر ممکن تھا۔ مگر شاکرہ اس معاملہ میں اپنے شوہر سے متفق نہ تھی۔ اسے شک تھا کہ دایہ ہم کو لُوٹے لیتی ہے۔ جب دایہ بازار سے لوٹتی تو وہ دہلیزمیں چھپی رہتی کہ دیکھوں آٹا کہیں چھپا کر تو نہیں رکھ دیتی۔ لکڑی تو نہیں چھپا دیتی۔ اس کی لائی ہوئی چیز کو گھنٹوں دیکھتی پچھتاتی۔ بار بارپوچھتی۔ اتنا ہی کیوں ؟ کیا بھائو ہے۔ کیا اتنا مہنگا ہو گیا۔دایہ کبھی تو ان بدگمانیوں کا جواب ملائمت سے دیتی لیکن جب بیگم زیادہ تیز ہو جاتیں تو وہ بھی کڑی پڑ جاتی تھی۔ قسمیں کھاتی صفائی کی شہادتیں پیش کرتی۔ حروید اور حجت میں گھنٹوں لگ جاتے۔ قریب قریب روزانہ یہی کیفیت رہتی تھی اورروز یہ ڈرامہ دایہ کی خفیف سی اشک ریزی کے بعد ختم ہو جاتا تھا۔ دایہ کا ایسی سختیاں جھیل کر پڑے رہنا شاکرہ کے شکوک کی آب ریزی کرتا تھا۔ اسے کبھی یقین نہ آتا تھا کہ یہ بُڑھیا محض بچے کی محبت سے پڑی ہوئی ہے وہ دایہ کو ایسے لطیف جذبہ کا اہل نہیں سمجھتی تھی۔ (۲) اتفاق سے ایک روز دایہ کو بازار سے لوٹنے میں ذرا دیر ہو گئی ۔ وہاں دو کنجڑوں میں بڑے جوش وخروش سے مناظرہ ہو رہا تھا۔ دایہ بھی کھڑی ہو گئی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے۔ پر تماشا اتنا دل آویز تھا کہ اسے وقت کا مطلق احساس نہ ہوا۔ یکایک نو بجنے کی آواز کان میں آئی تو سحر ٹوٹا۔ وہ لپکی ہوئی گھر کی طرف چلی۔ شاکرہ بھی بیٹھی تھی۔ دایہ کو دیکھتے ہی تیور بدل کر بولی۔ بازار میں کھو گئیں تھیں کیا ؟ دایہ نے خطا وارانہ انداز سے سر جھکا لیا اور بولی ۔ بیوی! ایک جان پہچان کی ماما سے ملاقات ہو گئی اور باتیں کرنے لگی۔ شاکرہ اس جواب سے اور بھی برہم ہوئی۔ یہاں دفتر جانے کو دیر ہو رہی ہے۔ تمہیںسیر سپاٹے کی سوجھی ہے۔ مگر دایہ نے اس وقت دبنے میں خیریت سمجھی۔ بچہ کو گود میں لینے چلی پر شاکرہ نے جھڑک کر کہا رہنے دو تمہارے بغیر بے حال نہیں ہوا جاتا۔ دایہ نے حکم کی تعلمیل ضروری نہ سمجھی ۔ بیگم صاحبہ کا غصہ فرو کرنے کی اس سے زیادہ کارگر کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔ اس نے نصیر کو اشارے سے اپنی طرف بلایا ۔ وہ دونوں ہاتھ پھیلائے لڑکھڑاتا ہوا اس کی طرف چلا۔ دایہ نے اسے گود میں اٹھا لیا اور دروازہ کی طرف چلی۔ لیکن شاکرہ باز کی طرح جھپٹی اور نصیر کو اس کی گود سے چھین کر بولی۔ تمہارا یہ مکر بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں ۔ یہ تماشے کسی اور کو دکھائیے۔ یہاں طبیعت سیر ہو گئی۔ دایہ نصیر پر جان دیتی تھی اور سمجھتی تھی کہ شاکراس سے بے خبر نہیں ہے اس کی سمجھ میں شاکرہ اور اس کے درمیان یہ ایسا مضبوط تعلق تھا۔ جسے معمولی تُرشیاں کمزور نہ کر سکتی تھیں۔ اسی وجہ سے باوجود شاکرہ کی سخت زبانیوں کے اسے یقین نہ آتا تھا کہ وہ واقعی مجھے نکالنے پر آمادہ ہے۔ پر شاکرہ نے باتیں کچھ اس بے رخی سے کیں اوربالخصوص نصیر کو اس بیدردی سے چھین لیا کہ دایہ سے ضبط نہ ہو سکا ۔ بولی بیوی! کوئی مجھ سے بڑی خطا تو نہیں ہوئی ۔بہت تو پائو گھنٹہ کہ دیر ہوئی ہوگ۔ اس پر آپ اتنا جھلا رہی ہیں ۔صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ دوسرا دروازہ دیکھو۔ اللہ نے پیدا کیا ہے تو رزق بھی دے گا۔ مزدوری کا کال تھوڑا ہی ہے۔ شاکرہ: تو یہاں تمہاری کون پروا کرتاہے ۔ تمہاری جیسی مامائیں گلی گلی ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں۔ دایہ: ہاں خدا آپ کو سلامت رکھے ۔مامائیں دائیاں بہت ملیں گی ۔ جو کچھ خطا ہوئی معاف کیجیے گا میں جاتی ہوں۔ شاکرہ: جاکر مردانے میں اپنی تنخواہ کا حساب کر لو۔ دایہ: میری طرف سے نصیر میاں کو اس کی مٹھائیاں منگوا دیجیے گا۔ اتنے میں صابر حسین بھی باہر سے آگئے ۔پوچھا کیا ہے کیا؟ دایہ: کچھ نہیں بیوی نے جواب دے دیا ہے ۔ گھر جاتی ہوں۔ صابر حسین خانکی ترودات سے یوں بچتے تھے ۔ جیسے کوئی برہنہ پا کانٹوں سے بچے۔ انہیں سارے دین ایک ہی جگہ کھڑے رہنا منظور تھا ۔ پر کانٹوں میں پیر رکھنے کی جرأت نہ تھی۔ چیں بہ جبیں ہو کر بولے ، بات کیا ہوئی؟ شاکرہ: کچھ نہیں ۔اپنی طبیعت نہیں جی چاہتا نہیں رکھتے ۔ کسی کے ہاتھوں بک تو نہیں گئے۔ صابر: تمہیں بیٹھے بٹھائے ایک نہ ایک کھچڑ سوجھتی رہتی ہے۔ شاکرہ: ہاں مجھے تو اس بات کا جنون ہے۔ کیا کروں خصلت ہی ایسی ہے ۔ تمہیں یہ بہت پیاری ہے تو لے جا کر گلے باندھو ۔ میرے یہاں ضرورت نہیں ہے۔ دایہ گھر سے نکلی تو اس کی آنکھیں لبریز تھیں ۔ دل نصیر کے لیے تڑپ رہا تھا۔ کہ ایک بار بچے کو گودمیں لے کر پایر کر لوں ۔ پر یہ حسرت لیے اسے گھر سے نکلنا پڑا۔ (۳) نصیر دایہ کے پیچھے پیچھے دروازے تک آیا لیکن جب دایہ نے دروازہ باہر سے بند کر دیا تو وہ مچل کر زمین پر لوٹ گیا ۔اور انّا انّا کہہ کر رونے لگا۔ شاکرہ نے چمکارا ، پیار کیا، گود میں لینے کی کوشش کی ، مٹھائی کا لالچ دیا۔ میلہ دکھانے کا وعدہ کیا۔ اس سے کام نہ چلا تو بندر اور سپاہی اور لولو اورہوا کی دھمکی دی مگر نصیر پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ شاکرہ کو غصہ آگیا ۔ا س نے بچے کو وہیں چھوڑ دیا اور آکر گھر کے دھندوں میں مصروف ہو گئی۔ نصیر کا مُنہ اور گال لال ہو گئے۔ آنکھیں سوج گئیں۔ آخر وہ زمین پر سسکتے سسکتے سوگیا۔ شاکرہ نے سمجھا تھا۔ تھوڑی دیر میں بچہ رو دھو کر چپ ہو جائے گا۔ پر نصیر نے جاگتے ہی پھر انّا کی رٹ لگائی۔ تین بجے صابر حسین دفتر سے آئے اور بچے کی یہ حالت دیکھی توبیوی کی طرف قہر کی نگاہوں سے دیکھ کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ اور بہلانے لگے۔ آخر نصیر کو جب یقین ہو گیا کہ دایہ مٹھائی لینے گئی ہے تو اسے تسکین ہوئی۔ مگر شام ہوتے ہی اس نے پھر چیخنا شروع کیا ’’انّا مٹھائی لائی‘‘۔ اس طرح دو تین دن گزر گئے۔ نصیر کو انّا کی رٹ لگانے اور رونے کے سوا اور کوئی کام نہ تھا۔ وہ بے ضرر کُتا جو ایک لمحے کے لیے اس کی گود سے جدا نہ ہوتا تھا۔ وہ بے زبان بلی جسے طاق پر بیٹھے دیکھ کر وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ وہ طائر بے پرواز جس پر وہ جان دیتا تھا۔ سب اس کی نظروں سے گر گئے وہ آن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا تھا ۔انّا جیسی جیتی جاگتی پیار کرنے ، گود میں لے کر گھمانے والی، تھپک تھپک کر سلانے والی ، گا گا کر خوش کرنے والی ، چیز کی جگہ ان بے جان ، بے زبان چیزوں سے پر نہ ہو سکتی تھی۔ وہ اکثر سوتے سوتے چونک پڑتا اور انّا انّا پکار کر رونے لگتا۔ کبھی دروازہ پر جاتا اور انّا انّا پکار کر ہاتھوں سے اشارہ کرتا ۔گویا اسے بلا رہا ہے۔ انّا کی خالی کوٹھڑی میں جاکر گھنٹوں بیٹھا رہتا ۔ اسے امید ہوتی تھی کہ انّا یہاں آتی ہو گی ۔ اس کو ٹھڑی کا دروازہ بند پاتا توہ جا کر کواڑ کھٹکھٹاتا کہ شاید انّا اندر چھپی بیٹھی ہو ۔ صدر دروازہ کھلتے سنتا تو انّا انّا کہہ کر دوڑتا ، سمجھتا کہ انّا آگئی۔ اس کا گدرایا ہوا بدن گُھل گیا۔ گلابھ کے سے رخسارے سوکھ گئے۔ ماں اور باپ دونوں اس کی موہنی ہنسی کے لیے ترس ترس کر رہ جاتے ۔ اگر بہت گد گدانے اور چھیڑنے سے ہنستا بھی تو ایسا معلوم ہوتا ۔ دل سے نہیں محض دل رکھنے کے لیے ہنس رہا ہے۔ اسے اب دودہ سے رغبت تھی نہ مصری سے نہ میوہ سے نہ میٹھے بسکٹ سے نہ تازی امرتیوں سے ۔ ان میں مزہ تھا جب انّا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ اب ان میں مزہ نہ تھا۔ دو سال کا ہونہار لہلہاتا ہوا شاداب پودا مرجھا کر رہ گیا۔ وہ لڑکا جسے گود میں اٹھاتے ہی نرمی گرمی اور وزن کا احساس ہوتا تھا ۔ اب استخوان کا ایک پتلا رہ گیا تھا ۔شاکرہ بچہ کی یہ حالت دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتی اور اپنی حماقت پر پچھتاتی۔ صابر حسین جو فطرتاً خلوت پسند آدمی تھے۔ اب نصیر کو گود سے جدا نہ کرتے تھے۔ اسے روز ہوا کھلانے جاتے، نت نئے کھلونے لاتے، پر مرجھایا ہوا پودا کسی طرح نہ پنپتا تھا۔ دایہ اس کی دنیا کا آفتاب تھی۔ اس قدرتی حرارت اور روشنی سے محروم ہوکر سبزی کی بہار کیونکر دکھاتا ۔ دایہ کے بغیر اسے اب چاروں طرف اندھیرا سناٹا نظر آتا تھا۔ دوسری انّا تیسرے ہی دن رکھ لی تھی ۔ پر نصیر اس کی صورت دیکھتے ہی مُنہ چھپا لیتا تھا۔ گویا وہ کوئی دیونی یا بھُتنی ہے۔ عالم وجود میں دایہ کو نہ دیکھ کر نصیر اب زیادہ تر عالم خیال میں رہتا ۔ وہاں اس کی اپنی انّا چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ اس کی وہی گود تھی۔ وہی محبت ۔ وہی پیار پیاری باتیں۔ وہی پیارے پیارے گیت وہی مزیدار مٹھائیاں۔ وہی سہانا سنسار ۔ وہی دلکش لیل ونہار ۔ اکیلے بیٹھے انّا کسے باتیں کرنا۔ انّا کتے بھونکے، انّا گائے دودھ دیتی ہے، انّا اجلا اجلا گھوڑا دوڑتا ۔ سویرا ہوتے ہی لوٹا لے کر دایہ کی کوٹھڑی میں جاتا اور کہتا ’’انّا پانی پی‘‘ ۔ دودھ کا گلاس کے کر اس کی کوٹھڑی میں رکھ آتا اور کہتا ۔ انّا دودھ پلا ۔ اپنی چارپائی پر تکیہ رکھ کر چادر سے ڈھانک دیتا اور کہتا ’’انّا سوتی‘‘ شاکرہ کھانے بیٹھتی تو رکابیاں اٹھا اٹھا کر انّا کی کوٹھڑی میں لے جاتا اور کہتا انّا کھانا کھائے گی ۔ انّااس کے لیے اب ایک آسمانی وجود تھی۔ جس کی واپسی کی اسے مطلق امید نہ تھی۔ وہ محض گذشتہ خوشیوں کی دلکش یادگار تھی جس کی یاد ہی اس کا سب کچھ تھی۔ نصیر کے انداز میں رفتہ رفتہ طفلانہ شوخی اور بیتابی کی جگہ ایک حسرت ناک توکل ایک مایوسانہ خوشی نظر آنے لگی۔ اس طرح تین ہفتے گزر گئے۔ برسات کا موسم تھا ۔ کبھی شدت کی گرمی۔ کبھی ہوا کے ٹھنڈے جھونکے ۔ بخار اور زکام کا زور تھا۔ نصیر کی نحافت ان موسمی تغیرات کو برداشت نہ کر سکی۔ شاکرہ احتیاطاً اسے فلالین کا کرتہ پہنائے رکھتی۔ اسے پانی کے قریب نہ جانے دیتی ۔ ننگے پائوں ایک قدم نہ چلنے دیتی۔ مگر رطوبت کا اثر ہو ہی گیا۔ نصیر کھانسی اور بخار میں مبتلا ہو گیا۔ (۴) صبح کا وقت تھا ۔ نصیر چارپائی پر آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ ڈاکٹروں کا علاج بے سود ہو رہا تھا۔ شاکرہ چارپائی پر بیٹھی اس کے سینہ پر تیل کی مالش کر رہی تھی اور صابر حسین صورت غم بنے ہوئے بچہ کو پر درد نگاہوں سے دیکھ رہے تھ۔ اس طرف وہ شاکرہ سے بہت کم بولتے تھے۔ انہیں اس سے ایک قسم کی نفرت سی ہوتی تھی۔ وہ نصیر کی اس بیماری کا سارا الزام اس کے سر رکھتے تھے وہ ان کی نگاہوں میں نہایت کم ظرف ، سفلہ مزاج بے حس عورت تھی۔ شاکرہ نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔ آج بڑے حکیم صاحب کو بلا لیتے ۔ شاید ان ہی کی دوا سے فائدہ ہو۔ صابر حسین نے کالی گھٹائوں کو دیکھ کر ترشی سے جواب دیا۔ بڑے حکیم نہیں۔ لقمان بھی آئیں تو اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ شاکرہ: توکیا اب کسی کی دوا نہ ہو گی۔ صابر: بس ۔ اس کی ایک ہی دوا ہے اور وہ نا یاب ہے شاکرہ: تمہیں تو وہی دھن سوار ہے ۔ کیا وہ عباسی امرت پلا دے گی۔ صابر: ہاں وہ تمہارے لیے زہر ہو لیکن بچے کے لیے امرت ہی ہوگا۔ شاکرہ: میں نہیں سمجھتی کہ اللہ کی مرضی میں اسے اتنا دخل ہے۔ صابر: اگر نہیں سمجھتی ہو اور اب تک نہیں سمجھا تو روئو گی ۔ بچے سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ شاکرہ: چپ بھی رہو ۔ کیسا شگون زبان سے نکالتے ہو۔ اگر ایسی جلی کٹی سنائی ہیں تو یہاں سے چلے جائو۔ صابر: ہاں تو میں جاتا ہوں ۔ مگر یاد رکھو ۔ یہ خون تمہاری گردن پر ہوگا ۔ اگر لڑکے کو پھر تندرست دیکھنا چاہتی ہو توا سی عباسی کے پاس جائو۔ اس کی منت کرو ۔ التجا کرو ۔ تمہارے بچے کی جان اسی کے رحم پر منحصر ہے۔ شاکرہ نے کچھ جواب نہ دیا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ صابر حسین نے پوچھا ۔ کیا مرضی ہے ۔ جائوں اسے تلاش کروں شاکرہ: تم کیوں جائو گے ۔ میں خود چلی جائوں گی۔ صابر: نہیں معاف کرو۔ مجھے تمہارے اوپر اعتبار نہیں ہے۔ نہ جانے تمہارے مُنہ سے کیا نکل جائے کہ وہ آتی بھی ہو ، تو نہ آئے۔ شاکرہ نے شوہر کی طرف نگاہ ملائمت سے دیکھ کر کہا ۔ ہاں اور کیا مجھے اپنے بچے کی بیماری کا قلق تھوڑے ہی ہے ۔ میں نے شرم کے مارے تم سے کہا نہیں۔ لیکن میرے دل میں بار بار یہ خیال پیدا ہوا ہے ۔ اگر مجھے دایہ کے مکان کا پتہ معلوم ہوتا تو میں اسے کب کی منا لائی ہوتی۔ وہ مجھ سے کتنی ہی ناراض ہو ۔ لیکن نصیر سے اسے محبت تھی ۔ میں آج ہی اس کے پاس جائوں گی۔۔ تم منت کرنے کو کہتے ہو۔ میں اس کے پیروں پر سر رکھ دوں گی۔ اس کے قدموں کو آنسوئوں سے تر کر دوں گی۔ اور وہ جس طرح راضی ہو گی۔ راضی کروں گی۔ شاکرہ نے بہت ضبط کر کے یہ باتیں کہیں۔ مگر امڈے ہوئے آنسو اب نہ رُک سکے ۔ صابر حسین نے بیوی کی طرف ہمدردانہ نگاہ سے دیکھا اور نادم ہو کر بولے۔ میں تمہارا جانا مناسب نہیں سمجھتا ۔میں خود ہی جاتا ہوں۔ (۵) عباسی دنیا میں اکیلی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا خاندان گلاب کا سر سبز شاداب درخت تھا۔ مگر رفتہ رفتہ خزاں نے سب پتیاں گرا دیں۔بادِ حوادث نے درخت کو پامال کر دیا اور اب یہی ایک سوکھی ٹہنی اس ہرے بھرے درخت کی یادگار باقی تھی۔ مگر نصیرکو پاکر اس سوکھی ٹہنی میں جان سی پڑ گئی تھی۔ اس میں ہری بھری پتیاں نکل آئی تھیں۔ وہ زندگی جو اب تک خشک اور پامال تھی۔ اس میں پھر رنگ وبُو کے آثار پیدا ہو گئے تے۔ اندھیرے بیانان میں بھٹکے ہوئے مسافر کو شمع کی جھلک نظر آنے لگی تھی۔ اب اس کا جولیے حیات سنگریزوں سے نہ ٹکراتا تھا ۔ وہ اب ایک گلزار کی آبیاری کرتا تھا۔اب اس کی زندگی مہمل نہیں تھی۔ اس میں معنی پیدا ہو گئے تھے۔ عباسی نصیر کی بھولی بھالی باتوں پر نثار ہو گئی وہ اپنی محبت کو شاکرہ سے چھپاتی تھی۔ اس لیے کہ ماں کے دل میں رشک نہ ہو۔ وہ نصیر کے لیے ماں سے چھپ کر مٹھائیاں لاتی اور اسے کھلا کر خوش ہوتی۔ وہ دن میں دو دوتین تین بار اسے اُبٹن ملتی۔ کہ بچہ خوب پروان چڑھے وہ اسے دوسروں کے سامنے کوئی چیز نہ کھلاتی کہ بچے کو نظر نہ لگ جائے۔ ہمیشہ دوسروں سے بچے کی کم خوری کا رونا رویا کرتی۔ اسے نظر بد سے بچانے کے لیے رتعویز اور گنڈے لاتی رہتی۔ یہ اس کی خالص مادرانہ محبت تھی۔ جس میں اپنے روحانی احتظاظ کے سوا اور کوئی غرض نہ تھی۔ اس گھر سے نکل کر آج عباسی کی وہ حالت ہو گئی جو تھیئٹر میں یکا یک بجلیوں کے گُل ہو جانے سے ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے وہی صورت ناچ رہی تھی۔ کانوں میں وہی پیاری پیاری باتیں گونج رہی تھیں۔ اسے اپنا گھر پھاڑے کھاتا تھا۔ اس کال کوٹھڑی میں دم گھٹا جاتا تھا۔ رات جوں توں کر کے کئی صبح کو وہ مکان میں جھاڑو لگا رہی تھی۔ یکا یک تازے حلوے کی صدا سن کر بے اختیار باہر نکل آئی۔ معاً یاد آگیا ۔ آج حلوہ کون کھائے گا؟ آج گود میں بیٹھ کر کون چہکے گا؟ وہ نغمہ مسرت سننے کے لیے جو حلوا کھاتے وقت نصیر کی آنکھوں سے ۔ ہونٹوں سے اور جسم کے ایک ایک عضو سے برستا تھا ۔ عباسی کی روح تڑپ اٹھی ۔ وہ بے قراری کے عالم میں گھر سے نکلی کہ چلوں نصیر کو دیکھ آئوں۔ پر آدھے راستے سے لوٹ گئی۔ نصیر عباسی کے دھیان سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں اترتا تھا ۔ وہ سوتے سوتے چونک پڑتی۔ معلوم ہوتا ،نصیر رو رہا ہے۔ بیٹھے بیٹھے ہنس پڑتی۔معلوم ہوتا ، نصیر ڈنڈے کا گھوڑا دبائے چلا آتا ہے ۔ پڑوسنوں کے پاس جاتی تو نصیر ہی کا چرچا کرتی۔ اس کے گھر کوئی آتا تو نصیر ہی کا ذکر کرتی ۔ نصیر اس کے دل اور جان میں بسا ہوا تھا۔ شاکرہ کی بے رخی اور بد سلوکی کے ملال کے لیے اس میں جگہ نہ تھی۔ وہ روز ارادہ کرتی کہ آج نصیر کو دیکھنے جائوں گی۔ اس کے لیے بازار سے کھلونے اور مٹھائیاں لاتی۔ گھر سے چلتی۔ لیکن کبھی آدھے راستہ سے لوٹ جاتی۔ کبھی دوچار قدم سے آگے نہ بڑھا جاتا۔ کون سا مُنہ لے کر جائوں ؟ جو محبت کو فریب سمجھتا ہو اسے کیا مُنہ دکھائوں۔ کبھی سوچتی کہیں نصیر مجھے نہ پہچانے تو! بچوں کی محبت کا اعتبار کیا۔ نئی دایہ سے پرچ گیا ہو۔ یہ خیال اس کے پیروں پر زنجیر کا کام کر جاتا تھا۔ اس طرح دو ہفتے گزر گئے۔ عباسی کا دل ہر دم اچاٹ رہتا۔ جیسے اسے کوئی لمبا سفر درپیش ہو۔ گھر کی چیزیں جہاں کی تہاں پڑی رہتیں۔ نہ کھانے کی فکر تھی۔ نہ کپڑے کی ۔ بدنی ضروریات بھی خلائے دل کو پر کرنے میں لگی ہوئی تھیں ۔ اتفاق سے اسی اثناء میں حج کے دن آگئے۔ محلے میں کچھ لوگ حج کی تیاریاں کرنے لگے ۔عباسی کی حالت اس وقت پالتو چڑیا کی سی تھی۔ جو قفس سے نکل کر پھر کسی گوشہ کی تلاش میں ہو۔ اسیاپنے تئیں بھلا دینے کا یہ ایک بہانہ مل گیا۔ آمادہ ٔ سفر ہو گئی۔ (۶) آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں اور ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں۔ دہلی اسٹیشن پر زائرین کا ہجوم تھا۔ کچھ گاڑیوں میں بیٹھے تھے ، کچھ اپنے گھر والوں سے رخصت ہو رہے تھے۔ چاروں طرف ایک کہرام سا مچا ہوا تھا ۔ دنیا اس وقت بھی جانے والوں کے دامن پکڑے ہوئے تھی۔ کوئی بیوی سے تاکید کر رہا تھا ۔ دھان کٹ جائے ۔ تو تالاب والے کھیت میں مٹربو دینا اور باغ کے پاس گہیوں۔ کوئی اپنے جوان لڑکے کو سمجھا رہا تھا۔ اسامیوں پر بقایا لگان کی نالش کرنے میں دیر نہ کرنا اور دو روپیہ سینکڑہ سود ضرور مجرا کر لینا۔ ایک بوڑھے تاجر صاحب اپنے منیم سے کہ رہے تھے۔ مال آنے میں دیر ہو تو خود چلے جائیے گا۔ اور چلتو مال لیجیے گا۔ ورنہ روپیہ پھنس جائے گا۔ مگر خال خال ایسی صورتیں بھی نظر آتی تھیں۔ جن پر مذہبی ارادت کا جلوہ تھا۔ وہ یا تو خاموش آسمان کی طرف تاکتی تھیں۔ یامحوِ تسبیح خوانی تھیں۔ عباسی بھی ایک گاڑی میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔ ان بھلے آدمیوں کو اب بھی دنیا کی فکر نہیں چھوڑتی۔ وہی خرید و فروخت لین دین کے چرچے۔ نصیر اس وقت یہاں ہوتا تو بہت روتا۔ میری گود سے کسی طرح نہ اترتا لوٹ کر ضرور اسے دیکھنے جائوں گی۔ یااللہ کسی طرح گاڑی چلے ۔ گرمی کے مارے کلیجہ بھنا جاتا ہے۔ اتنی گھٹا اُٹھی ہوئی ہے۔ برسنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ معلوم نہیں کہ ریل والے کیوں دیر کر رہے ہیں۔ جھوٹ موٹ ادھر اُدھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جھٹ پٹ گاڑی کھول دیں۔ مسافروں کی جان میں جان آئے۔ یکا یک اس نے صابر حسین کو بائسکل لیے پلیٹ فارم پر آتے دیکھا۔ ان کا چہرہ اترا ہوا تھا اور کپڑے تر تھے۔ وہ گاڑیوں میں جھانکنے لگے۔ عباسی محض یہ دکھانے کے لیے کہ میں بھی حج کرنے جا رہی ہوں ۔ گاڑی سے باہر نکل آئی۔ صابر حسین اسے دیکھتے ہی لپک کر قریب آئے اور بولے ۔ کیوں عباسی تم بھی حج کو چلیں؟ عباسی نے فخریہ انکسار سے کہا۔ ہاں یہاں کیا کروں زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ کیا معلوم کب آنکھیں بند ہو جائیں۔ خدا کے یہاں مُنہ دکھانے کے لیے بھی تو کوئی سامان چاہیے۔ نصیر میاں تو اچھی طرح ہیں؟ صابر ۔ اب تم جا رہی ہو۔ نصیر کا حال پوچھ کر کیا کرو گی۔ اس کے لیے دعا کرتے رہنا۔ عباسی کا سینہ دھڑکنے لگا۔ گھبرا کر بولی ’’کیا دشمنوں کی طبیعت اچھی نہیں ہے کیا؟ صابر حسین:اس کی طبیعت تو اسی دن سے خراب ہے ۔ جس دن سے تم وہاں سے نکلیں ۔ کوئی دو ہفتہ تک تو شب وروز انّاانّا کی رٹ لگاتا رہا اور اب ایک ہفتہ سے کھانسی اور بخار میں مبتلا ہے۔ ساری دوائیں کر کے ہار گیا۔ کوئی نفع ہی نہیں ہوتا۔ میں نے ارادہ کیا تھا۔ چل کر تمہاری منت سماجت کر کے لے چلوں ۔ کیا جانے تمہیں دیکھ کر اس کی طبیعت کچھ سنبھل جائے۔ لیکن تمہارے گھر پر آیا تو معلوم ہوا کہ تم حج کرنے جا رہی ہو۔ اب کس مُنہ سے چلنے کو کہوں۔ تمہارے ساتھ سلوک ہی کونسا اچھا کیا تھا کہ اتنی جرأت کر سکوں اور پھر کار ثواب میں رخنہ ڈالنے کا بھی خیال ہے ۔ جائو اس کا خدا حافظ ہے ۔ حیات باقی ہے تو صحت ہو ہی جائے گی۔ ورنہ مشیت ِ ایزدی سے کیا چارہ۔ عباسی کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ سامنے کی چیزیں تیرتی ہوئی معلوم ہوئیں ۔دل پر ایک عجیب وحشت کا غلبہ ہوا ۔ دل سے دعا نکلی ۔ اللہ میری جان کے صدقے میرے نصیر کا بال بانکا نہ ہو۔ رقت سے گلا بھر آیا۔ خیال آیا ۔میں کیسی سنگدل ہوں ۔پیارا بچہ رو رو کر ہلکان ہو گیا اورمیں اسے دیکھنے تک نہ گئی۔ شاکرہ بد مزاج سہی۔ بد زبان سہی ۔ نصیر نے میرا کیا بگاڑا تھا۔ میں نے ماں کا بدلہ نصیر سے لیا۔ یا خدا میرا گناہ بخشیو۔ پیارا نصیرمیرے لیے ہُڑک رہا ہے ۔ا س خیال سے عباسی کا کلیجہ مسوس اٹھا اور آنکھو سے آنسو بہ نکلے۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اسے مجھ سے اتنی محبت ہے ورنہ شاکرہ کی جوتیاں کھاتی اور گھر سے قدم نہ نکالتی۔ آہ! نامعلوم بچارے کی کیا حالت ہے۔ اندازِ وحشت سے بولی۔ ’’دودھ پیتے ہیں نا؟‘‘ صابر: تم دودھ پینے کو کہتی ہو ۔اس نے دو دن سے آنکھیں تک تو کھولی نہیں۔ عباسی: یا میرے اللہ۔ ارے او قلی قلی ۔ بیٹا آکے میرا اسباب گاڑی سے اتار دے ۔ا ب مجھے حج وج کی نہیں سوجھتی۔ ہاں بیٹا جلدی کر ۔ میاں دیکھیے کوئی یکہ ہو تو ٹھیک کر لیجیے۔ یکہ روانہ ہوا ۔ سامنے سڑک پرکئی بگھیاں کھڑی تھیں ۔ گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ عباسی بار بار جھنجھلاتی تھی۔ اور یکہ بان سے کہتی تھی ۔ بیٹا جلدی کر میں تجھے کچھ زیادہ دے دونگی۔ راستے میں مسافروں کی بھیڑ دیکھ کر اسے غصہ آتا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا ۔ گھوڑے کے پر لگ جاتے لیکن جب صابر حسین کا مکان قریب آگیا تو عباسی کا سینہ زور سے اچھلنے لگا۔ بار بار دل سے دعا نکلنے لگی خدا کرے سب خیر و عافیت ہو۔ یکہ صابر حسین کی گلی میں داخل ہوا۔ دفعتہ عباسی کے کان میں کسی کے رونے کی آواز آئی اس کا کلیجہ مُنہ کو آگیا۔سر تیورا گیا۔ معلوم ہوا دریا میں ڈوبی جاتی ہوں۔ جی چاہا یکہ سے کود پڑوں۔ مگر ذرا دیر میںمعلوم ہوا کہ عورت میکہ سے بِدا ہو رہی ہے۔ تسکین ہوئی۔ آخر صابر حسین کا مکان آپہنچا۔ عباسی نے ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف تاکا۔ جیسے کوئی گھر سے بھاگا ہوا یتیم لڑکا شام کو بھوکا پیاسا گھر آئے اور دروازے کی طرف سہمی ہوئی نگاہوں سے دیکھے کہ کوئی بیٹھا تو نہیں ہے۔ دروازے پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ باورچی بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ عباسی کو ذرا ڈھارس ہوئی ۔ گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ نئی دایہ بیٹھی پولٹس پکا رہی ہے۔ کلیجہ مضبوط ہوا ۔ شاکرہ کمرے میں گئی توا اس کا دل گرما کی دوپہری دھوپ کی طرح کانپ رہا تھا۔ شاکرہ نصیر کو گود میں لیے دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے تاک رہی تھی۔ غم اور یاس کی زندہ تصویر۔ عباسی نے شاکرہ سے کچھ نہیں پوچھا۔ نصیر کو اس کی گود سے لے لیا اور اس کے مُنہ کی طرف چسمِ پُر نم سے دیکھ کر کہا ۔ بیٹا نصیر آنکھیں کھولو۔ نصیر نے آنکھیں کھولیں ۔ ایک لمحہ تک دایہ کو خاموش دیکھتا رہا ۔ تب یکا یک دایہ کے گلے سے لپٹ گیا اور بولا۔ انّا آئی انّا آئی۔ نصیر کا زرد مرجھایا ہو ا چہرہ روشن ہو گیا ۔ جیسے بجھتے ہوئے چراغ میں تیل پڑ جائے۔ ایسا معلوم ہوا ۔ گویا وہ کچھ بڑھ گیا ہے۔ ایک ہفتہ گزر گیا۔ صبح کا وقت تھا۔ نصیر آنگن میں کھیل رہا تھا۔ صابر حسین نے آکر اسے گود میں اٹھا لیااور پیار کے کے بولے ۔ تمہاری انّاکو مار کر بھگا دیں؟ نصیر نے مُنہ بنا کر کہا ۔ ’’نہیں ، روئے گی‘‘ عباسی بولی، کیوں بیٹا۔ مجھے تو تُونے کعبہ شریف نہ جانے دیا۔ میرے حج کا ثواب کو ن دے گا؟ صابر حسین نے مسکرا کر کہا۔ تمہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب ہو گیا۔ اس حج کا نام حجِ اکبر ہے۔ مشقی سوالات ۱- صابر حسین ، شاکرہ ، عباسی ، نصیر کون تھے؟ ۲- نصیر عباسی کو ماں باپ کی نسبت کیوں زیادہ چاہتا تھا؟ ۳- تمہارے خیال میں عباسی کس قسم کی عورت تھی؟ عباسی کے گھر سے چلے جانے کے بعد نصیر کی کیا حالت ہوئی؟ ۴- عباسی واپس کیوں بُلائی گئی، سٹیشن پر عباسی کو کون لینے گیا اور کیوں؟ ۵- عباسی حج کو چھوڑ کر کیوں واپس آئی اور اس کو کیا صلہ ملا؟ ۶- حجِ اکبر کسے کہتے ہیں اور یہ عام حج سے کیوں بڑھ کر ہے؟ ۷- ’’نصیر چارپائی پرآنکھیں بندکیے پڑا تھا‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۲۷- دال الوان عنقا شفقتِ مادر غربت حقِ رفاقت انیس الغربا ثقالت مقتبس لے لے کے مزے کھائیں نہ ہم کیونکر بھلا دال ہے گوشت سے آزادوں کو سو درجہ سوا دال از بس ہے زمانے میں سدا دل کو بدل راہ یہ دال پہ قربان ہے اور اس پہ فدا دال ہوتی نہیں یہ گربہ خوانِ کس ہو ناکس بے گوشت ہی خوش رہتے ہیں اور لیتے ہیں کھا دال ہیں نعمت الوان سے سمجھتے اسے بہتر آرام سے گھر بیٹھے اگر دیوے خدا دال بل بے تری آداب کہ عالم میں ہمیشہ ہے تاج سرِ بیضۂ عنقا و ہما دال بچپن کی جو ہے چاٹ تو پیری کا سہارا ہے دال کی خوبی پہ دلا اس کی وفا دال ہے دال کی گر چاولوں پہ شفقت مادر تو روٹیوں کو پالتی ہے مثل دوا دال غربت میں بھی کرتی نہیں منعم سے کنارہ جو حق رفاقت ہے سو کرتی ہے ادا دال خوانِ اُمرا کا ہے اگر گوشت مصاحب ہے کاسۂِ غربت میں انیس الغربا دال ہے گوشت میں تاثیر فقط حرص و ہوا کی اور اس کو جو دیکھو ہے فرشتوں کی غذا دال قربان شکم تجھ کو جو ہونا ہے تو کھا گوشت اور دفع ضرورت جو ہو مطلوب تو کھا دال ہے نام میں بھی گوشت کے آثار ثقالت اور اس کا لقب دیکھو کہ ہے دال شفا دال یہ دال شفا مقتبس خاک شفا ہے مومن ہے سوا وہ ہی جسے بھاوے سوا دال خوش ہو ہو کے کیا گوشت کے جڑتا ہے نوالے ایسا نہ ہو ہو جاوے کہیں تجھ سے خفا دال یہ گوشت تو جولہے میں گیا پہنچے یہ نوبت اتنا نہ رہے کھائے جو ٹکڑے سے لگا دال کیوں زاغ و زغن گوشت پہ ماریں نہ جھپٹے مردار کا ہو جن کو مزا کھائیں وہ کیا دال آزاد ابھی ہوتے ہیں شاگرد ہم اس کے کاغذ کے پتیلے میں جو یوں دیوے پکا دال مشقی سوالات ۱- نظم بالا کا مطلب آسان اردو میں بتائو۔ ۲- وہ وجوہات بتائو۔ جن سے شاعر نے دال کو گوشت سے بہتر خیال کیا ہے؟ ۳- کنارہ کرنا، دل کو دل سے راہ ہے، چاٹ ہونا، حق رفاقت ادا کرنا ، انیس الغربا، آثار ثقالت کا مطلب بتائو؟ ۴- ’’کاغذ کے پتیلے میں جو یوں دیوے پکا دال‘‘ کا مطلب بتائو۔ ۵- ’’جو کاغذ کے پتیلے میں یوں دال پکا دیوے‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۲۸- سرائے کا نقشہ برسات میں سنگِ خارا پاکھے بدھنی ایندھن بھرتیوں موباف تقاضا ٹپکا لگنا دھوانس چراٹا ہونا ’’دلّی کے مشہور داستان گو میر باقر علی صاحب جن کے دم سے داستان گوئی کے مٹتے ہوئے فن کا نام اس شہر میں باقی ہے۔ جس چیز کا بیان کریں اس خوبی سے کرتے ہیں کہ کہاجا سکتا ہے وہ لفظوں میں مصوری کرتے ہیں۔ ذیل کا مضمون ایک ظریفانہ کہانی کا جزو ہے ۔ ہماری درخواست پر انہوں نے اسے قلمبند کر دیا ہے۔ اس میں بھولے بھٹکے مسافر کی حالت کا خاکہ کھینچا ہے۔ جو کسی معمولی سرائے میں برسات کے موسم میں جا پھنستا ہے۔ بارش ہو رہی ہے۔ شام کا وقت ہے ۔ خدا خدا کر کے سرائے کی صورت نظر آئی۔ بے ڈول سنگِ خارا کے ٹکڑے اور مٹی سے چنے ہوئے دروازے کے پاکھے۔ بانس کے کواڑ جو بان سے بندھے ہوئے ہوا کے جھونکے سے کبھی دروازے کے سامنے کے پیڑ سے ٹکرا آتے ہیں اور کبھی بھیگی ہوئی کچی گرنے والی دیوار کو صدمہ پہنچاتے ہیں۔ بیلوں کے کھروں سے روندا ہو ا گوبر سیاہ سڑی ہوئی مٹی سا گھاس بھُس کے تنکے۔ ملگجے ملگجے جھاگ۔ کیچڑ سا کالا پانی ٹونٹی اور کنارہ ٹوٹی ہوئی بدھنی کبھی اوندھی اور کبھی سیدھی ہو کر پانی کے ساتھ لڑھکتی ہوئی چلی آتی ہے۔ مسافربھیگا ہو الباس پہنے ہوا کے سرد جھونکوں سے دل کانپ رہا تھا۔ ہونٹ نیلے ہو گئے تھے۔ مگر لوگوں کے ہنسنے کے خیال سے تھر تھری کو ضبط کر ٹٹو کو بڑھا اندر آیا تو دیکھا کہ سرائے کے بیچ میں سارے صحن میں ٹخنوں ٹخنوں کیچڑ۔ بیسیوں چھکڑے کھڑے ہوئے ۔ جن پر پرانی سِرکیاں اور بھیگے ہوئے دو لڑے پڑے ہیں۔ بیلوں پر ٹاٹ اور پرانی گڈری کی جھولیں بھیگی ہوئی پڑی ہیں۔ جن سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔ چھکڑے والے بھیگے ہوئے پتھروں کے چولہے بنائے سیلے ہوئے ایندھن کو پھونک رہے ہیں۔ دھواں اٹھ رہا ہے۔ چہرہ سرخ آنکھوں سے آنسو بہ رہے ہیں۔ بھرتیوں میں دال چڑھا رکھی ہے ۔ لوہے کی پراتوں میں چنے کا سا آٹا گوندھا ہوا ہے۔ چار طرف گلے ہوئے سیاہ پھونس کے چھپر جس کا جگہ جگہ سے پھونس ہٹ گیا ہے اور دھوانس لگے ہوئے بانسوں کا ٹھاٹر اور پرانے بان کے بند نظر آرہے ہیں۔ کسی پر مٹکے کا ٹھیکرا اور کہیں پیندا نکلا ہوا کوندا دھکا ہے۔ کئی چھپروں پر نیم کے درخت کا سایہ ہے ان پر زرد زرد پتیاں اور سوکھے ہوئے نیم کے تنکے کوّوں کی گرائی ہوئی ہڈیاں جو بارش سے پھول گئی ہیں۔ کچھ کھمبیاں چھپروں پر نکلی ہوئی ایک طرف کو بڑے چھپر کے نیچے بھتیاری پیڑھی پر بیٹھی ہے۔ جس کا کالا رنگ اوپلا سا چہرہ چنیاں سی آنکھیں ۔ چپٹی ناک۔ گروہ سے ہونٹ اور موٹے موٹے ہاتھ پائوں۔ سر میں سرسوں کا تیل جو مسافروں کے چراغوں سے بچا ہے پڑا ہوا۔ میڈھیاں گوندھی ہوئی جن میں دیسی سوت کا کلاوہ زرد و سرخ پڑا ہے۔ بندھوں کے بِلوں میں مٹی اٹی ہوئی۔ ہاتھ گلے میں پیتل ، کانسی ، چاندی کا زیور، انوٹ ، بچھوے، لچھے ، گجری، کنگن، ہار ، حمیل ، مالا ، کنٹھ مالا، موہن مالا، پچلڑا، ستلڑا، چھن ، سرپہ قند کا سرخ دوپٹہ، لال تلک ، نیلی سوسی کا پاجامہ۔ ادھوڑی کی جوتی، جس پر ریشم کی لکڑیاں بنی ہوئیں ۔ داہنے ہاتھ کی طرف سوکھے ہوئے آم و جامن کے پتے۔دس بارہ گرہ کی دونوں طرف سے جھلسی ہوئی لکڑی جس سے کوڑا جھونک رہی ہے۔ آگے کے چولہے پر گلا ٹُوٹے ہوئے مٹکے کا پیندا رکھا ہے۔ جس پر کئی روٹیاں ڈال دی ہیں۔ ہا تھ میں پیڑا ہے۔ کسی ہانڈی میں ڈوئی چلاتی ہے۔کسی کا نمک چکھا ۔ ایک مسافر چولہے کی راک میں روٹیاں سینک رہاہے۔ کسی کا بچہ رو کر روٹی کا تقاضا کر رہا ہے ۔ میاں بھٹیارے ایک طرف مٹی کا حقہ جس کے نیچے پر کپڑے کی جگہ بان لپٹا ہوا ۔ مٹی کا چلم ۔ اونٹ کی مینگنی کی آگ سے بھری ہوئی کھانس کھا نس کر دم لگا رہا ہے۔ ہم بھی پہنچے ۔ بی بھٹیاری ! ہم کو کوئی جگہ بتا دو۔ بھٹیاری: میاں مسافر! وہ سامنے کی کوٹھڑی خا لی ہے۔ میں: ٹپکتی تو نہیں؟ بھٹیاری: ٹپکنے وپکنے کی تو خبر نہیں۔ میں وہاں آیا ۔ تو دیکھا۔ گیل کوٹھڑی دو کڑیاں چھت کی چٹخی ہوئیں۔ جگہ جگہ ٹپکا لگا ہے اور زمین میں چھوٹے چھوٹے گڑھے پڑ گئے ہیں۔ دھوانس کا سرخی مائل بودار پانی جمع ہے۔ جب بوند پڑتی ہے تو چاروں طرف پانی اچھلتا ہے۔ مسافر: میاں مہتر جی یہاں آئو۔ بھٹیارا: میاں آیا۔ مسافر: بھائی یہاں تو ٹپکا لگا ہوا ہے۔ بھٹیارا: میاں آج کل ٹپکے کی نہ کہو ۔ بڑے بڑے اسٹیشنوں پر لگا ہو ا ہے۔ مسافر: ایک چارپائی تو لائو۔ تھوڑی دیر میں ایک چارپائی آئی۔ جس کے ٹوٹے پھوٹے بان بھیگ کر تن گئے ہیں۔ کان نکلا ہوا دو پایہ اونچے دو نیچے۔ بھٹیارا نے لا کر بچھائی اور ایک ہاتھ سرہانہ کے پایہ پر دوسرا پائنتی کے پایہ پر رکھ کر زور کیا۔ تو ایک چراٹا ہوا اور پائے کھٹ سے بیٹھ گئے۔ بھٹیارا: میاںدو پیسے ہوں گے۔ بھئی اچھا۔ آخر مجبور اسی پر سیلا ہوا بچھونا بچھا کر لیٹ رہا۔ تھکا ہوا تھا۔ کچھ نیند آگئی۔ رات کے دو بجے ہوں گے۔ کہ گرج کی آواز سے آنکھ کھلی۔ بجلی چمکی اور موسلادھار پانی پڑنے لگا۔ ٹپکا شروع ہوا کبھی چار پائی کو ادھر کبھی اُدھر کھینچا۔ عورتوں سے سنا کرتے تھے ۔ تلے دھارا اوپر دھارا اور سوچتے تھے کہ یہ کیا محاورہ ہے۔ آج معلوم ہوا کہ شاید اسی موقع کو کہتے ہوں گے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی ۔ بارش ذرا تھم گئی۔ مسافر غریب نے اپنی راہ لی۔ مشقی سوالات ۱- سرائے کا نقشہ برسات میں مصنف نے کس طرح کھینچا ہے؟ ۲- اگر تمہیں بھی کسی سرائے میں رہنے کا یا دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو اس کا حال لکھو؟ ۳- مختلف زیورات کے نام لو جو بھٹیاری نے ہاتھ گلے پہنے ہوئے تھے؟ ۴- مٹی کے چنے ہوئے۔ ملگجے ملگجے۔ بدھنی۔ سیلے ہوئے۔ ایندھن ۔ بھرتیوں کا مطلب بتائو اور ان کو اپنے فقروں میں استعماکرو۔ ۵- ’’شام کا وقت ہے‘‘ کی تحلیل صرفی کرو۔ ۲۹-ایثار لبِ کوثر ماتم عاشق شہِ ابرار دغا شہِ ذی جاہ جب حضرت زینب کے پسر مر گئے دونو تھا شور کہ پیاسے لبِ کوثر گئے دونو چھوٹے تھے مگر نام بڑے کر گئے دونو دربارِ محمدؐ میں برابر گئے دونو زہرا کی طرح عاشقِ اولاد تھی زینبؑ بیٹوں کا تو ماتم تھا مگر شاد تھی زینبؑ دو بیٹوں کے مرنے کی یکا یک خبر آئی نہ روئی نہ ماتم کیا نہ خاک اُڑائی مُنہ سے نہ کہا کہ لٹی کس کی کمائی پوچھا تو یہ پوچھا کہ سلامت تو ہیں بھائی جب حضرتِ عون ومحمدؐ جو حضرت امام حسین علیہ السلام کے بھانجے تھے ۔ معرکہ کربلا میں شہید ہو چکے تو ان کی بہادر ماں حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے بچوں کے بیمثال ایثار پر ماتم کی جگہ طمانیت کا اظہار کیا۔ اس نظم میں ان کی اسی عدیم المثال دلیری کی کیفیت بیان کی گئی ہے سمجھی نہ کہ دنیا سے یہ پیارے گئے کس کے یہ بھی نہ کہا لاڈلے مارے گئے کیس کے فرزندوں سے ماں کو کوئی ہوتا نہیں پیارا جن بیٹوں کی عاشق تھی انہیں بھائی پہ وارا بے دم ہوئے دو لعل پہ دم اس نے نہ مارا پوچھا نہ کہ جنت کی طرف کون سدھارا چادر نہ گِری سر سے نہ چِین آئی جبین پر دو شُکر کے سجدے کیے جھک جھک کے زمین پُرسے کے لیے آئیں جو سب بیبیاں باہم فرمایا بھرے گھر میں مناسب نہیں ماتم ہے ہے نہ کرو صاحبو! کچھ مجھ کو نہیں غم مانگو یہ دعا خلق میں بھائی کا رہے دم کونین میں رتبے میرے پیاروں کے بڑھے ہیں میں جانتی ہوں آج وہ پروان چڑھے ہیں کچھ قاسم و اکبر سے سوا ان کا نہ تھا پیار کیوں روئوں سلامت رہیں دونوں مرے دلدار سو ایسے پسر ہوں تو نثار شہِ ابرار میں شاد ہوں رحم ان پہ کرے ایزدِ غفار جب تک نہ وہ مارے گئے تھے مجھ کو قلق تھا حق بھائی کا مجھ پر تھا تو ان پر مرا حق تھا تھی مجھ کو بڑی فکر کہ کیا ہو گا الہٰی پر دونوں نے جو بات کہی تھی وہ نباہی مرتے نہ پسر آج تو تھی ماں پہ تباہی میں کہتی تھی جو ہوتا تھا میدان کو راہی سر دینے کو رن میں نہ شہِ جن و بشر جائیں میں نے تو دُعا کی تھی کہ پہلے یہی مر جائیں کہتے ہیں بڑا نام کیا خوب دغا کی ہر ضرب پہ خود قبلۂ عالم نے دعا کی سنتی ہوں الٹ دی تھیں صفیں اہل جفا کی میں ایسی نہ تھی کچھ یہ عنایت ہے خدا کی ہاں صاحب ہمت تھے وفا کر گئے دونو حق دود پلانے کا ادا کر گئے دونو مرنا مجھے دونو کا مبارک کرے اللہ پائیں ظفر اس لشکر کیں پہ شہِ ذی جاہ قاسم کو تو قسمت نے دکھایا مجھے نو شاہ اب دھوم سے اپنے علی اکبر کا کروں بیاہ تم روئو نہ ماں ہو کے میں روئی نہیں لوگو اکبر سے زیادہ مجھے کوئی نہیں لوگو مشقی سوالات ۱- اس قسم کی نظم کو کیا کہتے ہیں؟ ۲- اس سبق سے ہم کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ۳- قاسم و اکبر کون تھے؟ ۴- اس نظم میں حروفِ جار کون کون سے ہیں؟ ۵- ’’لبِ کوثر جانا‘‘ اور ’’جنت کی طرف سدھارنا‘‘ سے کیا مراد مطلب ہے؟ ۶- شہِ ابرار اور شہِ جن وبشر سے کیا مراد ہے؟ ۳۰- مکتوباتِ اکبر فراغ خاطر صاحب بصیرت ہِذیان جُرعہ معاذ اللہ حوادثات احتباس مطول احتمال مجتمع ترکِ صوم طُرّہ الہ آباد ۸ نومبر ۱۹۱۲ء مکرمی! دلی یہی کہتا ہے کہ خاموش ہو رہوں۔ بخدا کوئی دلچسپی دنیا سے نہیں رہی۔ یہ تو برسوں سے نہ تھی۔ شاید چالیس برس سے البتہ ضرورت اس کی تھی کہ فراغ خاظر حاصل رہے۔ اب اسباب فراغِ خاطر اس قدر کم ہو گئے ہیں کہ دنیا کچھ موافقت کرے بھی تو کیا۔ لیکن وہ موافقت کویں کرنے لگی اور اب تو وہ اس حالت میں ہے کہ صاحب بصیرت کو ادھرمائل ہونا بالکل نا ممکن ہے آپ کا خط پڑھ کر اور حور کی علالت کا حال سن کر دل چاہا کہ فوراً اُٹھوں اور دِلّی چلا آئوں لیکن ہاشم کو کیا کروں۔ پہلے ہاشم نے کہا۔ میں بھی چلوں گا۔ پھر کہا میں دیکھ چکا ہوں۔ آپ جائیے گا۔ تو مٰن تین دین پریانواں چلا جائوں گا۔ جہاں ان کی بھاوج ہیں۔ دیکھیے کیا ہو سکتا ہے ۔ خط لکھوں گا۔ (اکبر حسین) ----------------- الہ آباد -- ۳۰ مئی ۱۹۱۳ کل طبیعت پھر بگڑ گئی۔ ایک جمعہ دودھ بھی نہیں پیا۔ ہوش کی باتیں امید افزا نہیں۔ تو ہِذیان سے پریشانی ۔ دو دن سے سارے بدن میں درد کی سخت شکایت ہے اور ایک اُنگلی کو بھی جُنبش دینے کی طاقت نہیں ہے۔ کروٹ بدلنا ہفت خوانِ رستم طے کرنا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ۔ زیادہ چت نہ لیٹیں۔ صرف گردن پھرتی رہے اور جُرعہ جُرعہ چمچے سے دوا پیتے رہیں۔ آج دو چار چمچے دودھ کے پیے ہیں۔ جن میں پانی ملا تھا۔ ڈاکٹر نیا نسخہ لکھ گئے ہیں۔ حکیم صاحب نبض دیکھ کر اور ہوش کی باتیں سن کر کہتے ہیں کہ جسمانی ضعف ہے ۔ لیکن روحانی یا اندرونی قوت میں کچھ کمی نہیں ہے۔ آپ کی ہمدردی اگر چہ نیچرل ہے۔ پھر بھی شکر گزار ہوں ۔ دعا کیے جائیے۔ ہاشم نے کل قریباً یہ الفاظ کہے جس کا مصرعہ بن گیا۔ ’’مرے مالک مرے مولا مجھے اچھا کر دے‘‘ جی گئے تو اس مصرعے کی تصنیف کے دعویدار ہیں۔ (اکبر حسین) ----------------- الہ آباد -- ۱۳ جون ۱۹۱۷ء مکرمی! کارڈ پہنچا بیشک نازک وقت ہے اور آپ میرے پاس ہوتے تو اچھا ہوتا آپ شریک غم ہیں اور اہل دل میرے تمام خیالات اور فلسفے پر ہنوز شدت الم غالب ہے ۔ سینہ میں الجھن دماغ میں گرمی محسوس ہوتی ہے۔ بہت کم روتا ہوں۔ لیکن دل ہر وقت بھرا ہوا اور آنکھیں آنسوئوں سے ڈبڈبائی رہتی ہیں۔ کوشش کرتا ہوں کہ ہاشم کے بدلے ہاشم آفرین کا تصور کرے کے اس سے فریاد کروں ۔ مدد چاہوں لیکن وہ بھولی صورت اور پیاری آواز چشم و گوش پر ہنوز محیط ہے۔ پھر اس بچے کے ارمان اس کی بے بسی۔ اس کا اللہ اللہ کرتے رہنا ناز کو چھوڑ کر اس چودھویں سال کی عمر میں بے کسانہ اور عاجزانہ فریاد ہر آجانا۔ معاذاللہ! ان باتوں کی یاد دل پر بجلیاں گراتی ہے۔ میں تو اس کا مذہبی فلسفہ تلاش کرتا ہوں یا قرآن و حدیث سے کوئی توضیح تاکہ دل کو فی الجملہ تسکین ہو۔ وہ لڑکا میری طبیعت کے سانچے میں ڈھل رہا تھا۔ ’’اِنّالِللّٰہِ وَ اِنّا اِلَیہ رَاجعُون‘‘ پڑھتا ہوں۔ افسوس ہے کہ اس کے معانی پر پیشتر سے غور کر کے ان حوادثات کے لیے تیار نہ تھا اورسچ تو یہ ہے کہ کون تیار ہوتا ہے ۔ اِنّالِللّٰہ کا مطللب یہ ہے کہ میں بھی خدا کے لیے لڑکا بھی خدا کے لیے میں سمجھتا تھا لڑکا میرے لیے ۔ بہر کیف دعا فرمائیے کہ طبیعت کو جلد سکون ہو جائے اور بعد ازاں بشرط زندگی توجہ الی اللہ کی لذت ملے۔ (خاکسار اکبر حسین) ---------------------- الہ آباد -- ۲۶ مئی ۱۹۱۴ء قدر افزائے اکبر سلمہ اللہ تعالیٰ آپ کی خیریت نہیں سنی۔ آپ کیسے ہیں گرمی کی کچھ حد نہیں۔ ہوا نہ ہو تو ٹٹیاں کیا کریں اور بھی احتباس ہو جاتا ہے۔ ولایتی پنکھا اس وجہ سے نہیں لگاتا کہ طبیعت اور بھی حساس ہو جائے گی۔ لیکن آج بہ مجبوری کہہ دیا کہ بندوبست کیا جائے۔ دوپہر سے پانچ چھ بجے تک کباب ہو جاتا ہوں۔ بیچر کو مزا آتا ہو گا۔ جو خدا کی مرضی۔ کچھ اشعار آپ کو بھیجنا چاہتا ہوں۔ لیکن حواس درست ہوں تو لکھوں ۔ مختصر کارڈ بھی بار ہے۔ چٹنی کی میں نے شاید زیادہ شکایت کی۔ بجز کہنگی کے کوئی عیب نہیں۔ امید ہے کہ ۲ یا ۳ جون کو آپ کو مطول خط لکھ سکوں ۔ آپ تو اجمیر شریف کی تیاریوں میںہونگے۔ کب جائیے گا۔ کب واپس تشریف لائیے گا۔ احتمال ہے کہ شاید آپ دہلی میں ہوں۔ --------------------- الہ آباد -- ۳ اگست ۱۹۱۴ء پیارے خواجہ صاحب۔ اللہ تعالیٰ خوش اور تندرست رکھے۔ رات کو ایک خط لکھ چکا ہوں ۔ یہ کیا معلوم ہو۔ کہ جو لکھنا تھا۔ سب لکھ دیا۔ قلم کے ساتھ رہیں تو اداے مطلب ہو۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ قلم کہیں اور ہم کہیں۔ بار بار حواس کو مجمع کرنا ہوتا ہے ۔ پھر کیا سلسلہ قائم رہے کیا مدعا کی تکمیل ہو۔ اکثر یہ ہوا ہے ۔ جو شِ دل سے کہا۔ یا اللہ ایک سیکنڈ میں دل ہی سے جواب سنا۔ کہو کیا کہنا ہے۔ اب بالکل بھول گئے کیوں پکارا تھا۔ کیا گزارش کریں۔ ’’سبحان اللہ وبحمدہٖ‘‘ کہہ کر رہ گئے ۔ انتشار طبع کی باتیں ہیں ۔ لیکن دفع ِ غم کے لیے بھی یہ حالت کسی قدر نافع ہے۔ دل ہی کو غم نہیں کہ ہوا مبتلائے غم غم بھی بلا میں ہے کہ ہوا مبتلائے دل اس وقت مزاج پرسی کا کارڈ پہنچا۔ روحانی قوت کا باعث ہوا۔ غش تو نہیں آیا لیکن یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا ۔ تبخیر نے دماغ کی حالت دگرگُوں کر دی تھی۔ خیر اب تو ترک صوم ہے۔ اگرچہ اس کا افسوس ہے۔ یعنی کیوں دماغ ایسا کمزور ہو گیا کہ تبخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جان کیوں اتنی قوی ہے کہ غم دل شکنی کا تحمل کر رہی ہے۔ زندگی ہے تو ستمبر اکتوبر میں امیدِ ملاقات ہے حضرت احسان الحق صاحب اسوۂ حسنہ کے لیے مضمون مانگتے ہیں۔ کچھ لکھ دوں گا۔ (خاکسار اکبر حسین) -------------------- الہ آباد -- ۲۱ جون ۱۹۱۵ء الطاف فرمائے من! یہاں بارش نہیں ہوئی۔ شدت گرمی سے بے حواس ہوں۔ آج سال کا سب سے زیادہ بڑا گرم دین ہے۔ ۲۴ تک جان بچ گئی تو قیاس ہو سکے گا کہ گرمیوں سے بچ گیا۔ طُرّہ سنیے۔ ۱۵ - ۲۰ دن سے دانتوں کے درد میں مبتلا ہوں۔ یہ موسم اور برف کیسی۔ سادہ پانی ایذا دیتا ہے۔ سخن سازی سے قطع نظر سخن بازی کر رہا ہوں۔ اللہ جلد آرام عطا فرمائے ۔ کھانے پینے کا افسوس نہیں ہے۔ نماز و قرآن میں انتشار سے انتشار ہوتا ہے۔ اللہ اس عقیدے کو خوش رکھے کہ تکلیف سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ میری جمع پونجی تو یہی ہے۔ خط کا جواب کل یا پرسوں لکھوں گا۔ اس وقت جمیعت حواس دشوار ہے۔ آپ نے خوب کیا ۔ سفر دکن ملتوی رکھا۔ شب برات کا لحاظ ضرور تھا ۔ خیر زندوں کی آپ نہ سنتے ۔ مردوں کی مروت ضرور تھی۔ لڑکوں کو دعائیں ۔ بوڑھوں کو تسلیم ۔ سب سے التماس دعا۔ (اکبر) ----------------- مشقی سوالات ۱- پہلے خط کا مطلب آسان اردو میں بتائو؟ ۲- چھٹے خط میں کس کی شکایت کی گئی ہے اور چوتھے خط میں کس بات کی؟ ۳- دوسرے خط کا مطلب آسان اردو میں لکھو؟ ۴- اپنے مضمون کا ایک خط اپنے کسی دوست کو لکھو، مگر خیال رہے کہ اس میں کتابی الفاظ استعمال نہ ہوں۔ ۵- ہفت خوانِ رستم کی تشریخ کرو۔ ۳۱-موج اور حباب حباب ساحل اَوج سالک خلل تعلّی اِضطراری روش دور کوہ لب ساحل سے جو گذری ایک موج کوہ نے اس سے کہا تو نے نہ دیکھا مرا اَوج مجھ سے مل کر تجھے جانا تھا برائے دمِ چند بولی سالک کبھی کرتے نہیں ساکن کو پسند ہیں بڑے آپ مگر اپنی جگہ پر ہیں اٹل اپنی رفتار میں کیا فائدہ ڈالوں میں خلل ہنس کے اس بحث پہ بولا کسی جانب سے حباب پوچھیے موج سے ہے بھی اسے رک جانے کی تاب اپنے بس ہی میں نہیں ہے یہ تعلّی کیسی اضطراری ہے روش شان ارادی کیسی بہ گئی موج یہ کہہ کر کہ میں مغرور نہیں تجھ میں اے کوہ مگر روشنی طور نہیں بلبلا ٹوٹ گیا کوہ بھی خاموش رہا وہی حیرت رہی دریا کا وہی جوش رہا مشقی سوالات ۱- کوہ ۔ موج۔ اور حباب کی گفتگو اپنی نثر میں بیان کرواوراس کا مطلب بیان کرو؟ ۲- اس نظم میں کون کون سے کلمے اسم ضمیر ہیں اور ان میں جو جو تبدیلیاں ہوئی ہیں ان کی وجوہات بیان کرو؟ ۳- ذیل کے الفاظ کے معنی بیان کرو اور انہیں اپنے فقروںمیں استعمال کرو؟ تعلّی ، اوج، اٹل ، اضطراری، شان ارادی۔ ۴- نہیں کرتے ، ڈالوں ، پوچھیے ، کون کون سے فعل ہیں صیغہ اور مصدر بھی بتائو۔ ۳۲-دروپدی کا سوئمبر تزک و احتشام شاداں و فرحاں تجمل اربابِ موسیقی نقد ِ شجاعت عظمت امارت مقہورِ دارین آج مہا راجہ پانچال کی راج دھانی شہر کام پلیا میں بڑی دھوم دھام اور تزک و احتشام ہے۔ شاہی محلوں سے سنکھ۔ دمامہ اور شہنائی کی صدا ٓتی ہے ۔اُمراء اور رؤسا کے دولت خانوں میں شادیانے بج رہے ہیں۔ راجا راج پر جا سُکھی۔ اہل شہر کے گھروں میں بھی اکثر جگہ گانا بجانا ہو رہا ہے ۔ شہر میں دیکھو تو آئینہ بندی کے سامان ہیں۔ کوچہ و بازار میں کہیں قناتیں کھڑی ہیں۔ کہیں شامیانے استادہ ہیں۔ کوٹھیوں اور بالا خانوں پر نئی رنگ آمیزی اور گلکاری ہوئی ہے۔ دکانیں بڑے تجمل سے آراستہ ہیں ۔ سائبانوں میں گلبدن ۔ کمخواب اور زربفت کے تھان اپنی زرق برق شان دکھا رہے ہیں۔ جا بجا سبز پتوں اور رنگ برنگ کے پھولوں کی بندھن واریں تنی ہوئی ہیں۔ اہل شہر مکلف لباس زیب تن کیے اِدھر اُدھر گشت کرتے پھرتے ہیں۔ مرد ، عورت، بچے ، بوڑھے ، جوان جسے دیکھو شاداں و فرحاں نظر آتا ہے۔ خوشی کی امنگیں دلوں میں نہیں سماتیں۔ خندہ ریز بن کر لوگوں کے مُنہ سے باہر نکلی چلی آتی ہیں۔ ایک ایک کو دیکھ کر متبسم ہوتا ہے اور بادل شاد مبارک باد دیتا ہے۔ یوں تو ہر کوچہ و بازار میں مردو زن کا ازدحام ہے۔ مگر چوک میں اور بھی انبوہ ِ کثیر ہے۔ خلق خدا ہے۔ کہ بڑے بازار کی سیر کرتی ہوئی شہر کے بڑے دروازہ سے باہر چلی جا رہی ہے۔ سوار ہیں۔ پیادے ہیں۔ رتھ ہیں۔ بہلیاں ہیں۔ ہٹو۔ بچو کی صدائیں کان میں آتی ہیں۔ غول کے غول جے کارے بولتے چلے جاتے ہیں۔ آئو۔ ان کے ساتھ ہم بھی چلیں اور دیکھیں شہر کے باہر کیا ہو رہا ہے۔ آہا! باہر تو ایک نیا شہر بسا ہوا ہے۔ جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے ۔ خیمہ وخرگاہ شامیانے اور فرودگاہیں نظر آتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔جیسے کوئی بڑا بھاری لشکر آکر اترا ہے۔ نہیںنہیں یہ ایک لشکر نہیں ہے ۔ علیحدہ علیحدہ دَل کے دَل پڑے ہوئے ہیں۔ سپاہیوں کی وردیاں جُدا جُدا ہیں۔ بول چالر ۔ تراش خراش اور وضع و لباس میں بھی فرق عظیم نظر آتا ہے۔ شاید دیس دیس کے راجہ و مہاراجہ یہاں فراہم ہوئے ہیں۔ یہ ان کے کمپو ہیں۔ یہاں بھی دور ویہ بازار گرم ہے ۔ دیس دیس کا آدمی چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ کبھی کوئی راجہ اپنے جلوس کے ساتھ بازار میں سے گزرتا ہے کبھی کوئی امیر کچھ سواروں کی جمیعت کے ساتھ نکل جاتا ہے ۔ بازی گر تماشے کر رہے ہیں۔ نجومی اضطرلاب لیے اور پوتھی کھولے بیٹھے ہیں۔ خوانچے والے دلکش صدائیں لگاتے ہیں ۔ ارباب موسیقی راگ راگنی کے میٹھے سروں سے دل کو لبھاتے ہیں۔ کمپوں میں اور ہی بہار ہے۔ خیمے سر بفلک کھڑے ہیں۔ طنابیں کھچی ہوئی ہیں ۔ ہر ایک راجہ کا جلوس اپنی شان علیحدہ رکھتا ہے۔ دروازوں پر چاندی کے عصا لیے دربان کھڑے ہیں۔ مسلح سپاہی کثرت کر رہے ہیں۔ خیموں میں مکلف سامان ہیں اور اہل جاہ وہ منا صب اپنے اپنے مرتبے پر بیٹھے ہیں۔ راجہ کے خیمے سب سے پر تکلف اور ممتاز ہیں۔ ان کے پاس بے اجازت کوئی بھٹکنے نہیں پاتا۔ ہر کمپو میں ہاتھی گھوڑوں کا بھی ہجوم ہے۔ ان کی جھلا جھلی کی جھولیں اور زرق برق سازوسامان دیکھنے کے لائق ہیں۔ رتھوں کی وضع جُدا جُدا ہے۔ شکاری جانور ۔ مثلاً باز ۔ چیتے وغیرہ بھی ہر کمپو میں ہیں اور میر شکار خرگاہوں کے باہر چار پائیوں پر بیٹھے ہیں۔ بعض راجہ اپنے ہمراہ گینڈے ۔ شیر یا اور عجیب و غریب جانور بھی لائے ہیں۔ ان کے دیکھنے کو ہر وقت خلقت کا ہجوم رہتا ہے۔ غرض جنگل میں منگل ہو رہا ہے۔ سولہ روز سے یہی دھوم دھام اور تزک و احتشام جاری ہے ۔ مہاراجہ پانچال کی جانب سے مہمانوں کی خاطر و مدارت میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں ہوا۔ روز جلسے اور جشن ہوتے ہیں۔ کبھی شکار کو جاتے ہیں ۔ کبھی فنون سپہ گری کی آزمائش کا دنگل جمتا ہے۔ پنڈتوں کے مباحثے ہوئے۔ شعرا کے مشاعرے ہوئے ۔ موسیقی میں لوگوں نے اپنے اپنے جوہر اور شعبدہ گروں نے اپنے اپنے کمال دکھائے۔ہر دن دسہرے کا مبارک دن رہا اور ہر رات دیوالی کی خوشی کی رات۔ سولہ روز سے یہ راجہ مہاراجہ یہاں آئے ہوئے ہیں۔ مہاراجہ پانچال کی راجکماری دروپدی کا سوئمبر ہے۔ ان سب کو مراسلے پہنچے تھے۔ مگر مراسلوں سے پہلے دروپدی کے حسن وجمال کا شہرہ اور حسن صورت و سیرت کا آوازہ ان کے گوش زد ہو چکا تھا۔ سب اسی دھن میں ہیں کہ اس گوہر یکتا کو نقد شجاعت دے کر حاصل کریں۔ چنانچہ اسی شوق میں کھینچے چلے آئے ہیں۔ ان میں بڑے بڑے سور بیر ہیں۔ اور انہیں اپنے زورِ بازوپر بڑا بھروسہ ہے۔ آج سترھواں دن ہے۔ یہی دن سوئمبر کا ہے ہر ایک کشتری سورما اپنے اپنے وطن کی سج دھج سے سوئمبر میں جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ بیش بہا جواہرات سے بازوں اور گلے کو مزین کرتا ہے ان سے بھی بیش قیمت پیش قبض اور تلوار کمر سے باندھتا ہے ۔ کمان ہا تھ میں اٹھاتا ہے اور فخر و ناز سے آئینہ دیکھتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون سا سورما ہے۔ لو! وہ سنکھ ۔ شہنائی اور دمامے بجے اور ان کی صدا سے تمام کمپو گونچ اٹھا۔ یہ اس بات اطلاع ہے کہ سوئمبر کا وقت قریب آگیا۔ ہر ایک راجہ اپنے خیمہ سے باہر آیا۔ جلوس پہلے ہی سے تیار ہے کوئی ہاتھی پر سوار ہو کر فخر وناز کے ساتھ چلتا ہے۔ کوئی گھوڑے پر چڑھتا ہے ۔ کوئی رتھ میں سوار ہوتا ہے ۔ نقیب ’’ہٹو بچو‘‘ کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور راجائوں کی سواری سوئمبر کے احاطہ میں پہنچتی ہے۔ اوہو! کیا بڑا احاطہ گھیرا ہے۔ گِرد بانوں اور رستوں کی باڑھ ہے۔ دو عالیشان دروازے ہیں۔ جنہیں سبز پتوں اور پھولوں سے آراستہ کیا ہے۔ ایک طرف دل بادل کا شامیانہ استادہ ہے۔ اس کے نیچے چبوترے پر مکلف فرش ہے ۔ گائو تکیے لگے ہوئے ہیں۔ سنگھاسن بچھے ہیں۔ راجہ آتے جاتے ہیں اور سنگھاسنوں پر متمکن ہوتے جاتے ہیں۔ گردوپیش مصاحب قالینوں پر بیٹھے ہیں۔ احاطہ کے گِرد خلق خدا کا اِزدحام ہے۔ راجہ پانچال کے سپاہی انتظام پر متعین ہیں۔ احاطہ کے بیچ میں ایک نہایت اونچی بلی گزی ہوئی ہے اور اس پر ایک سونے کی مچھلی ہے ۔احاطہ کے بیچ میں ایک چکر ہے۔ کاریگر نے یہ کمال کیا ہے کہ چکربرابر پھرے جاتا ہے اور اس پر نگاہ نہیں ٹھہرتی۔ لکڑی کے برابر ایک نہایت سخت کمان دھری ہے۔ سوئمبر کی شرط یہ ہے کہ جو راجہ پہلے نشانہ میں اس کڑی کمان سے ایسا تیر لگائے کہ چکر میں سے ہو کر مچھلی کی آنکھ میں جا لگے۔ وہی دروپدی کا خاوند ہے۔ لو اب سب راجہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے ۔ وہ راجکماری بھی اپنے بھائی کے ساتھ احاطہ میں آئی ۔ اس کے داخل ہوتے ہیں برہمن ہون میں آہوتی ڈالتے ہیں اور وید دھونی بلند ہوتی ہے۔ سام وید کا گانا شروع ہوتا ہے ۔ منتر اور رچائیں پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی سریلی آوازیں سن کر کانوں میں کیسا رس پڑتا ہے اور دل میں کیسی شانتی آتی ہے ۔دروپدی بھائی کے ساتھ احاطہ میں کھڑی ہے۔ لباس فاخرہ زیب تن ۔ بیش بہا مرصع زیوروں سے لدی ہوئی۔ ہاتھ میں پھولوں کا ہار کہ جو سورما سوئمبر کی شرط ادا کرے۔ اسی کے گلے میں ڈال دے۔ راجکماری بھائی کے پاس کھڑی ہے۔ مگر حیا نگاہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ نیچی گردن کیے کھڑی ہے۔ تمام راجہ مہاراجہ اور خلق خدا اس کے حسنِ خداداد کو دیکھتی ہے اور بے ساختہ سب کے مُنہ سے تحسین و آفرین نکلتی ہے۔ برہمن خاموش ہوتے ہیں تو دروپدی کا بھائی راجائوں کو سوئمبر کی شرط سناتا ہے اور پھر آواز بلند کہتا ہے کہ ہا ں بھائیوں آریہ ورت کی زمین سورمائوں کی سرزمین ہے۔ اپنے اپنے جوہر دکھائو اور انعام میں دروپدی کو لو۔ کڑی کمان اور اس سے بھی کڑی شرط تیر اندازی کو سن کر تمام راجہ حیران ہیں ۔ یکا یک کسی کا حوصلہ نہیں پڑتا کہ سبقت کرے۔ اور نشانہ ملامت و مضحکہ بنے۔ اسی عرصے میں راجکماری کا بھائی اس کے کان میں چپکے چپکے ہر ایک راجہ کا حسب و نسب اور اوصاف بیان کرتا ہے۔ آخر ایک راجہ ہمت کر کے کمان کے پاس آتا ہے اور ہاتھ سے پکڑ کر اٹھاتا ہے ۔ اوہو کیا بھاری کمان ہے۔ راجہ سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ پائوں ڈگمگائے جاتے ہیں۔ کھچتی کیا خاک ۔ بیچارہ شرمندہ ہو کر اپنی جگہ واپس چلا آتا ہے۔ اس کی ناکامیابی اور راجائوں کے لیے ایک سبق ہے۔ وہ اپنے کپڑے اور زیوراتار رکھتے ہیں۔ اور مردانہ وار زور آزمانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ باری باری سے ایک ایک آتا ہے اور زور آزمائی کیا قسمت آزمائی کرتا ہے۔ مگر تمام سعی بے سود ہے۔ بہتوں سے کمان اٹھتی تک نہیں۔ بہتوں نے اٹھا تو لی ہے ۔مگر کھینچ نہیں سکتے۔ دو چار نے کھینچی بھی۔ مگر تیر بہدف نہیں بیٹھا۔ راجائوں کے جرگہ میں مہاراجہ دریودھن بھی ہیں اور اپنے مصاحبوں سے کچھ سر گوشیاں کر رہے ہیں ۔ خود دریودھن کی تو ہمت نہیں ہوتی ۔ مگر کرن اٹھ کر کمان کے پاس آتا ہے ۔ یہ شخص جیسا سخی اور دانی مشہور ہے ۔ویسا ہی سورما بھی ہے۔ اس کے زور و طاقت اور فن تیر اندازی کے کمال سے ہر کہ ومہ آگاہ ہے اور سب کو گمان ہے کہ بازی لے جائے گا۔ مگر دروپدی کا بھائی بہن سے کچھ سرگوشی کرنے کے بعد دبآواز بلند کہتا ہے ۔’’کرن! اگر تون نے سوئمبر کی شرط ادا بھی کر دی تع بھی میری بہن تجھ سے شادی کرنے کا آمادہ نہیں ۔ کشتریوں کی لڑکی نیچوں کے گھرانے میں نہیں بیاہی جاتی۔‘‘ کرن یہ سن کر پیچ و تاب تو بہت کھاتا ہے ۔ مگر کمان کو ہاتھ سے رکھ کر احاطہ سے باہر نکل جاتا ہے۔ تمام راجہ کچھ تو پہلے ہی شرمندہ ہیں۔ اس پر یہ واقعہ ۔ سب میںایک سناٹا سا چھا جاتا ہے اور چار اور ہمت کر کے اٹھتے ہیں۔ مگر بے نیل مرام واپس آتے ہیں۔ خلق خدا کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے کہ سوئمبر کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ایک جانب بہت سے برہمن کھڑے ہیں۔ ان میں بھی باہم کچھ سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ ان پانچ نوجوانوں کو دیکھنا حقیقی بھائی معلوم ہوتے ہیں۔ شاید کسی رِشی کے بیٹے ہیں۔ صورت سے جلال برستا ہے اور بشرے سے آثارِ عظمت و امارت عیاں ہیں۔ سب سے بڑا بہت سنجیدہ اور متین معلوم ہوتا ہے۔ اس سے برابر ایک نہایت قوی ہیکل سا نوجوان کھڑا ہے۔ مگر اس تیسرے بھائی کو دیکھو۔ قطار سے بڑھا جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ دنگل میں اتر کر تیر اندازی کے جوہر دکھائے۔ دیکھنا دیکھناوہ دوڑ کر کمان کے پاس پہنچا اور کس آسانی سے اٹھا لی۔ مگر برہمنوں کی صف میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ جو کام کشتریوں سے نہیں ہوا۔ بھلا ان کے دست نگر برہمن سے کب انجام کو پہنچے گا۔ کوئی کہتا ہے۔ برہمن کے لڑکے نے کچھ دیکھ کر ہی حوصلہ کیا ہے۔ ہَول دِلے برہمن بڑھ کر اس سے کہتے ہیں۔ بھائی تیری گستاخی سے کشتری راجہ ناراض ہو کر کہیں۔ ہمارا ٹکڑا بندنہ کر دیں۔ جانے دے ابھی کچھ نہیں گیا۔ واپس آجا۔ وہ شیر مرد باتیں تو سب کی سنتا ہے۔ مگر مانتا ایک کی بھی نہیں۔ لو وہ اس نے چلا چڑھا کر اور شست باندھ کر تیر مارا۔ وہ کیا چکر سے گزر کر عین مچھلی کی آنکھ میں جا کر لگا۔ اب کیا ہے۔ تماشائیوں اور برہمنوں کے جرگہ سے ایک دفعہ ہی واہ واہ کا شور اٹھتا ہے۔ کوئی چادر ہلاتا ہے۔ کوئی تالیاں بجاتا ہے ۔ شور ذرا کم ہوتا ہے۔ تو راجکماری ہار لیے آتی ہے اور رِشی کمار کے گلے میں ڈال دیتی ہے ۔ مگر رِشی کمار کو دیکھ کر وہ کیا تمام تماشائی حیرت میں ہیں۔ کیا میدان میں شیر سا کھڑا ہوا ہے۔ عضو عضو سے مترشح ہے کہ فن سپاہگری میںکامل آدمی ہے۔ ایسی قبول صورت لڑکی کو ایسا ہی خاوند زیبا بھی ہے۔ چہرے سے کیا شان مردمی برس رہی ہے۔ جتنے تماشائی اس شیر مرد کی صفت و ثناء میں تر زبان ہوتے ہیں ۔ اتنے ہی را جہ مہا راجہ غیظ وہ غضب سے لال پیلے ہوئے جاتے ہیں! برہمنوں کا یہ حوصلہ کہ کشتریوں سے یوں گوئے سبقت لے جائیں۔ انہیں مار مار کر ابھی فنا کر دواور ساتھ سے ہوگی کہ سب دیکھیں گے۔ مشقی سوالات ۱- سوئمبر کیا ہے ؟ اس کی مختصر کیفیت بیان کرو۔ ۲- اس سوئمبرسے ہمیں کیا سبق حاصل ہوتا ہے؟ ۳- ’’اس گوہر یکتا کو فقد شجاعت دے کر حاصل کریں‘‘ کا مطلب بیان کرو؟ ۴- اس سبق میں سے صفت موصوف کی مثالیں چنو۔ ۵- مندرجہ ذیل الفاظ گریمرکی رُو سے کیا کیا ہیں ؟ آسانی، دیکھنا دیکھنا، ممتاز ، خیمہ ۳۳-میرا وطن پیغام حق وحدت دشت عرب کہکشاں میر عرب رفعت فردوس چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چُھڑایا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے یونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا سارے جہاں کو جس نے علم و ہنر دیا تھا مِٹّی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا تُرکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے ٹوٹے سے جو ستارے فارس کے آسمان سے پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے وحدت کی لے سنی تھی دنیا نے جس مکاں سے میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے میرط اوطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے بندے کلیم جس کے پربت جہاں کے سینا نوح نبی کا ٹھیرا آکر جہاں سفینا رفعت ہے جس زمین کی بامِ فلک کا زینا جنت کی زندگی ہے۔ جس کی فضا میں جینا میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے گوتم کا جو وطن ہے، جاپان کا حرم ہے عیسیٰ کے عاشقوں کا چھوٹا یروشلم ہے مدفون جس زمین میں اسلام کا چشم ہے ہر پھول جس چمن کا فردوس ہے ارم ہے میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے مشقی سوالات ۱- شاعر نے کون سے ملک کی تعریف کی ہے؟ اور جو خوبیاں اس نے اس نظم میں بیان کی ہیں وہ اپنی نثر میں بیان کرو۔ ۲- ذیل کے بزرگوں کی نسبت تمہیںکیا معلوم ہے؟ چشتی ، نانک ، میرِ عرب، کلیم ، نوح ، گوتم ، عیسیٰ ۳- پہلے بند کا مطلب بیان کرو اور اس میں جن واقعات کی طرف اشارہ ہے ان کو کھول کر بیان کرو۔ ۴- اس نظم سے مرکب اضافی چنو۔ ۵- ’’آکر ٹھیرا‘‘ کون سا فعل ہے؟ اس قسم کا کوئی اورفعل اس نظم میں ہو تو بتلائو۔ ۳۴-کلیم کی سرگزشت عصیان حقوق والدین احرام ہجرت مستعد مسرف ناعاقبت اندیش اعتکاف بالمشافہ کلیم کی نصُوح کے خیالات سے مانوس کرنے کے لیے وہاں ہر طرح کا موقع تھا۔ لیکن عصیانِ خدا کا وبال اور عقوقِ والدین کی شامت ابھی بہت سی گردشیں اس کی تقدیر میں تھیں۔ جونہی گلی کے باہر نکلا کہ میاں فطرت اس کو مل گئے۔ یہ حضرت نصوض کے چچا زاد بھائیوں میں سے تھے۔ اور انہیں نصوح سے موروثی عداوت تھی۔ جیسی کہ دنیا دار خاندانوں میں اکثر ہوا کرتی ہے۔ رشتہ داری کی وجہ سے ایک کے حالات دوسرے سے مخفی نہ تھے۔ فطرت سن چکا تھا کہ نصوح کو دینداری کا نیا خبط اچھلا ہے۔ جس کی وجہ سے تمام خاندان میں ایک کھلبلی مچ رہی ہے۔ جو دقتیں بیچارے نصوح کو اصلاح خاندان میں پیش آتی تھیں۔ فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کا ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی۔ فطرت کو سب کی خبر لگتی تھی اور یہاں کے تذکروں کو ایک مضحکہ ہوتا تھا۔ کلیم کی عادت سے تو واقف تھا ہی۔ فطرت اپنے یہاں کہا کرتا تھا کہ میاں نصوح لاکھ دینداری جتائیں۔ مگر جب جانیں کہ بڑے بیٹے کو اپنی راہ پر لائیں کلیم کو جو ننگے سر ننگے پائوںسرِ بازار جاتے ہوئے دیکھا ۔ تو فطرت سے چھیڑ کر پوچھا کیا میاں کلیم ! تم نے ابھی سے احرامِ حج باندھ لیا۔ کلیم: احرامِ حج باندھ لیا۔ فطرت : وہی تو کہوں ۔ مجھ کو تمہاری وضعداری اور دانشمندی سے شیخ وقت کی تقلید نہایت مستبعد معلوم ہوتی ہے۔ کلیم: جی۔ نہیں ۔ شیخ کی خدمت میں جیسی ارادت شاعروں کو ہے معلوم۔ فطرت: بس یہی دیکھ لو۔ کہ بھائی نصوح کا اپنی اولاد کے ساتھ اور اولاد میں بھی تمہارے ساتھ کہ آج ماشاء اللہ فخرِ خاندان ہو۔ یہ طرز مدارت ہے۔ ہم لوگ تو خیر کہنے کو اجنبی اور گیر ہیں۔ ایسی ہی بد مزاجیوں نے کنبے والوں سے میل ملاپ چھڑایا ورنہ انصاف شرط ہے۔ ہمارا ان کا کیا بانٹیے۔ اپنا کھانا اپنا پہننا۔ لڑائی کس لیے۔ اور جھگڑا کیوں؟ اور طُرّہ یہ ہے کہ جس قدر حضرت سِن رسیدہ ہوتے جاتے ہیں۔ مزاج جوان ہوتا جاتا ہے۔ بھائی صد آفرین ہے۔ تمہاری والدہ کو نہیں معلوم ایسے آتش مزاج بے مروت آدمی کے ساتھ اس نیک بخت نے کیونکر بناہ کیا۔ مگر عورت ذات مُوذی کے پنجۂ غضب میں گرفتار ہے ۔ کرے تو کیا کرے ۔ میاں کلیم! تم اس کو سچ جاننا کہ تم لوگوں کی مصیبت کا خیال کر کر کے بھائی ہمارا تو گھر بھر بے چین رہتا ہے ۔ یہ خون کا جوش ہے ورنہ ملنا ملانا ترک۔ آنا جانا موقوف۔ سلام پیام مسدود۔ کیا کریں کچھ بس نہیں چلتا۔ بھلا پھر اس حالت سے تم جاتے کہاں ہو؟ کلیم: خالہ جان کے یہاں جانے کا ارادہ ہے۔ فطرت: تمہارے باپ کے ڈر سے دیکھا ہی چاہیے کہ گھر میں سے دیں کلیم: نہیں۔ ان سے تو ایسی توقع نہیں۔ فطرت: مگر ذات شریف خود نہ تشریف لے جائیں اسی کی کیا روک ۔ کلیم: اس کا خدشہ تو ضرور ہے دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا جب دھم سے آکہوںگا حضرت سلام میرا فطرت: میں کہ تو نہیں سکتا ۔ لیکن سمجھو تو ہم بھی خدا نخواستہ تمہارے یا بھائی نصوح کے دشمن نہیں ہیں۔ ارے میاں رشتہ داروں ہی میں کھٹ پٹ بھی ہوا کرتی ہے۔ شکوہ غیر کا نہیںکرتے۔ گِلہ اُوپر سے نہیں ہوتا۔ جو ہم کو تمہارا اور تم کو ہمارا درد ہو گا۔ وہ خالہ خالو کو نہیں ہو سکتا بھائی نصوح بھی جب وبا میں بیمار پڑے ضدا شاہد ہے دونوں وقت میں خودمحلے میں آکر خبر لے جاتا تھا۔ ہماری امّاں جا ہمیشہ حلال خوری سے تمہارے یہاں کے حالات پوچھا کرتی ہیں۔ مجھ سے تو رسوائی گوارا نہیں ہو سکتی کہ تم اس حالت سے ایسے بے وقت خالہ کے یہاں جائو۔ چلو شب کو ہمارے یہاں آرام کرو۔ ایسا ہی ہوگا۔ تو صبح کو خالہ کے یہاں بھی ہو آنا۔ لو یہ میرا دوپٹہ تو سر پر لپیٹ لو۔ لوگ آتے جاتے ہیں اور چلو پاس کے چھنے سے ہو کر نکل چلیں۔ غرض میاں فطرت للو پتو کر کے کلیم کو اپنے گھر لے گئے اور نصوح کی جلن سے اس کی ایسی بزرگ داشت کی کہ کسی کے گھر والے بھی نہ کرتے ہوں گے۔ کلیم نے جب سے دینداری اور اصلاح وضع کی چھیڑ چھاڑ سنی تھی۔ کیا ماں کیا باپ کیا بھائی سب کو اپنی رائے سے برخلاف پایا۔ اب جو فطرت نے بغرض اس کی دلجوئی اور خاطرداری کی۔ اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔اور نصوح کو مجنوں اور بد مزاج اور سخت گیر ٹھیرایا۔ یہ احمق سمجھا کہ بس فطرت اور اس کے گھر والوں سے بڑھ کر کوئی اس کا خیر خواہ نہیں۔ اب تک تو وہ باپ سے صرف اختلاف رائے رکھتا تھا۔ اب اس کو باپ سے ایک نفرت و عداوت پیدا ہوئی۔ فطرت نے جلی کٹی باتیں لگا کر یہ خیال اس کے دل سے بالکل دور کر دیا کہ نصوح کو اس کی تدیُّن نے اولاد کے ساتھ روک ٹوک کرنے پر مجبور کیاہے اور چونکہ کلیم اپنے پندار میں یہی سمجھتا تھا کہ اس وقت تک میں ہی اکیلا گھر سے نکلا ہوں۔ فطرت کے بہکا دینے سے اس کو یقین ہو گیا کہ دینداری اور خدا پرستی کا حیلہ تھا ورنہ فی الاصل باپ کو اس کا گھر سے نکال دینا مرکوز ِ خاطر تھا۔ کلیم اس وقت دو مخالفوں کی کشمکش میں تھا ۔ باپ اس کو صراط مستقیم کی طرف کھینچتا تھا اور فطرت گمراہی اور ضلالت کی طرف۔ لیکن فطرت حریف ِ غالب تھا۔ اس واسطے کہ اول تو خود کلیم کا میلانِ طبع اس کی جانب تھا۔ دوسرے نصوح ایک نئی اور نامانوس اور دُشوار گزار راہ پر اس کو لے جانا چاہتا تھا۔ جس میں ذہد و ریاضت اور اِتقا اور نفس کُشی اور انکسار اور فروتنی اور خوف عاقبت کی چند در چند تکلیفیں اور مصیبتیں درپیش تھیں۔ اس راہ میں کلیم کو بدرقہ اور رہنما تو خیر رفیق اور ہم سفر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ برخلاف اس کے فطرت اس کو ایک شارع عام دکھانا تھا۔ ایسا آباد کہ گویا اس سرے سے اس سرے تک بازار لگا ہے اور نہ صرف منزل بمنزل بلکہ قدم بہ قدم تن آسانی اور عیاشی اور خود پسندی اور کبر اور بے فکری اور مطلق العنانی طرح طرح کی آسائشیں اور انواع و اقسام کی راحتیں موجود ومہیا تھیں اس راہ میں کلیم کو میلے کا حظ یعنی سفر میں حضر کا لطف حاصل تھا۔ غرض کلیم میاں فطرت سے شیر و شکر کی طرح ملا۔ نصوض نے جب یہ خبر سُنی تو سخت افسوس کیا۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ فطرت سے عداوت رکھتا تھا۔ کیونکہ عداوت تو دین داری کے اعتبار سے بڑا گناہ ہے اور نصوح سے اس کے ارتکاب کی امید نہیں کی جا سکتی تھی ۔ لیکن اس کا یہ خدشہ کچھ بیجا نہ تھا۔ کہ فطرت اصلاح میں کوشش نہیں کرے گا۔ فطرت کے یہاں کلیم کو اور تو کسی طرح سکی تکلیف نہ تھی مگر اس کی مرضی کی کتابیں یہاں نہیں ملتی تھیں۔ تب اس نے فطرت سے بیان کیا کہ دن بھر خالی بیٹھے بیٹھے طبیعت گھبرایا کرتی ہے۔ اگرچہ میں نے اپنے حالات میں ایک مثنوی کہنی شروع کر دی ہے اور سَو سوا سَو شعر ہو بھی گئے ہیں۔مگر فکر سُخن بے اطمینان خاطر بن نہیں پڑتا اگر آپ صلاح دیں تو میں اپنی چند کتابیں گھر سے منگوا بھیجوںْ فطرت: مجھ کو بھائی نصوح سے توقع نہیں کہ وہ اتنی رعایت بھی تمہارے حق میں جائز رکھیں۔ خصوصاً اس حال میں کہ تم میرے نزدیک ہو۔ تمہارا یہ جرم ان کے مذہب میں تکفیر کے لیے کافی ہے ۔ مگر ہاں اپنی والدہ سے کہلا بھیجو ان کا قابو چلے گا تو البتہ دریغ نہ کریں گی۔ کلیم تو متردد تھا ،ہ کس سبیل سے کتابیں منگوائے مگر فطرت از بس کی عیاری اور چالاکی کے موکّلاس کے مطیع تھے ۔ خود بول اٹھا کہ اجی یہ کون سی بڑی بات ہے۔ مجھ سے کہیے تو بھائی نصوح کی چار پائی اٹھوا منگوا دُوں اور اُن کے فرشتیوں کو خبر نہ ہو۔ غرض فطرت نصوح کے گھر گیا اور کسی ڈھب سے اس نے سارا حال معلوم کیا اور وہ آگ جو نصوح نے کلیم کی کتابوں میں لگائی تھی۔ فطرت نے کلیم سے جا لگائی۔ ایک تو خانہ ویرانی ۔ اس پر فطرت کی آتش بیانی۔ کلیم پر اس آتش زنی کی خبر نے وہ اثر کیا جو حضرتِ موسٰیؑ پر آتش طور نے کیا تھا۔ سنتے کے ساتھ ایسا بے خود ہو گیا کہ گویا بجلی گری ۔ آپے میں آیا۔ تو مزاج ایسا برافروختہ تھا کہ شاید نصوح اس وقت موجود ہوتا تو یہ مردک دست و گریبان ہو کر لپٹ جاتا۔ کوئی نا گفتنی جلی کٹی بات اس نے اٹھا نہیں رکھی۔ مگر لال پیلا ہوکر خاموش ہو رہا اور اس بات کے درپے ہوا کہ باپ سے انتقام لے۔ کلیم نے جو طریقے انتقام کے سوچے تھے وہ سخت بیہودہ تھے۔ جب اس نے اپنی تدبیروں کو فطرت پر عرض کیا تو اس نے سب کی تحمیق کی اور کہا کہ بھئی تم نرے صاحبزادے ہو ۔ میں تم کو ایسی تدبیر بتائوں کہ ہم کینہ و ہم خزینہ۔ کلیم: وہ کیا؟ فطرت: گائوں پر آخر تمہارا نام چڑھا ہواہے۔اس پر دخل کرو۔ کلیم: ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ اُن کے متعدد کارندے اور نوکر جاکر اس پر مسلط ہیں۔ فطرت: گائوں تمہارا ہے تو نوکر اور کارندے تمہارے یا ان کے؟ کلیم: لیکن میں صرف اسم فرضی ہوں۔ فطرت: اس کا قبض و دخل عین تمہارا قبض و دخل اور ان کا روپیہ عین تمہارا روپیہ ہے۔ بائع نے تمہارے نام سے رسید دی ہے۔ گائوں میں پٹہ قبولیت تمہارے نام سے ہوتا ہے۔ خزانۂ سرکار میں مالگذاری تمہارے نام سے سیاہہ ہوتی ہے۔ کلیم: جب سرے سے اسم فرضی ہوں تو نام کا ہونا میرے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہو سکتا۔ فطرت: لیکن اگر اسم فرضی سے انکار کیا جائے تو اس کی تردید کچھ آسان نہیں ہے۔ کلیم: میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ کیونکر ایک امر واقعی کی تکذیب ہو سکتی ہے۔ فطرت: ہاں۔ یہ شاعری نہیں ہے۔ دنیا داری ہے ۔ اس کو ایک خاص سلیقہ درکار ہے۔ کلیم: غرض اس تدبیر کا پیش رفت ہونا تو ممکن نہیں معلوم ہوتا ۔ کوئی اور سوچیے۔ فطرت: جب تم سے ایسے سہل کام کا سرانجام نہیں ہو سکتا تو گھر سے نکلنے کا حوصلہ تم نے ناحق کیا۔ یہی اسم فرضی کا حق مجھ کو حاصل ہوتا تو سیر دکھاتا۔ کلیم: فرض کر لیجیے کہ آپ کو حاصل ہے۔ فطرت: کیونکر فرض کر لوں ۔ جیسے تم اسم فرضی مالک ہو۔ ویسا ہی ایک فرضی بیع نامہ میرے نام کر دو۔ تو البتہ میں فرض کر سکتا ہوں ۔ کلیم: اگر ملکیت فرضی کا بیع نامہ کچھ بکار آمد وہ سکتا ہے تو گائوں کی کیا حقیقت ہے۔ میں تو سلطنت روم کا بیع نامہ آپ کے نام لکھ دوں۔ فطرت: بھلا گائوں تم کتنے پر بیع کرو گے۔ کلیم:ـ کسی فرضی قیمت پر۔ فطرت: بھلا اس کا اندازہ بھی؟ کلیم : فرض کیجیے کہ سو روپے۔ فطرت : مجھ سے ہزار نقد لیجیے۔ کلیم: سچ؟ فطرت: سچ کلیم: واللہ بیچا۔ فطرت: واللہ لیا۔ کلیم کو فطرت کی قسم پر بھی اعتبار نہ ہوتا تھا۔ فطرت نے گھر میں جا کر ہزار روپے کا توڑا لا سامنے رکھ دیا۔ ادھر روپے گنے گئے اور ادھر بیع نامہ لکھ پڑھ کر تیار ہو گیا۔ کلیم نے سوچا کہ میں نے یہ سودا کیا کیا۔ ایک غنیمت باروہ مفت ہاتھ آئی۔ اس وقت تو بات کی پچ کر کے فطرت نے روپیہ دے دیا ہے۔ ایسا نہ ہو پھر چنید کرے۔ بہتر ہے کہ چل دیجیے۔ یہ سوچ روپے کا توڑا بغل میں داب کلیم رخصت ہوا۔ سو سیدھا چاندنی چوک میں آیا۔ محلدار خاں کا کمرہ اس روز خالی ہواتھا۔ کہ اس نے سر قفلی جا دی۔ دہلی جیسا شہر اور کلیم جیسا نہ عاقبت اندیش اور مسرت اور اس طرح کا مال مفت ۔ بات کی بات میں فرش فروش۔ جھاڑ فانوس ۔ سازو سامان ۔ نوکر چاکر سب کچھ موجود ہو گیا۔ یہاں تک کہ اگلے ہی دن پہلے مشاعرے کی محفل اس کے بعد ناچ کا جلسہ ٹھیرا۔ جتنے یار آشنا تھے۔ سب کے نام رقعے تقسیم ہوئے اور کلیم کے سارے شیاطین الانس پھر بدستور جمع ہوگئے۔ حتیٰ کہ وہ مرزا ظاہر دار بیگ بھی اتنے بڑے بے غیرت کہ خبر سن کر دوڑے آئے اور کلیم اتنا بڑا احمق کہ ایسا دھوکہ کھا کر پھر ان سے صاف ہوگیا۔ جس کیفیت سے کلیم نے دو مہینے گزارے نا گفتہ بہ ہے۔ وہ بد کر داری کی تپ کُہنہ رکھتا تھا۔ اب یہ دو مہینے گویا بحران کے تھے۔ ہزار روپے کی کل جمع پونجی اور ایسا بے دریغ خرچ۔ تیسرا مہینا شروع نہیں ہوا تھا کہ ہزار تمام ہوئے۔ پہلے سے بھی بزاز۔ درزی ۔ حلوائی۔ کبابی۔ نان دائی۔ میوہ فروش۔ گندھی۔ بساطی وغیرہ کا حساب باقی تھا۔ نوکروں کا وہ ماہہ چڑھ چکا تھا۔ اب آٹا دال تک ادھار آنے لگا۔ شدہ شدہ ہر طرف سے طلب و تقاضا شروع ہوا۔ استعمال سے پہلے اسباب خانہ داری کے بکنے کی نوبت پہنچی تو کلیم خواب غفلت سے بیدار ہوا لیکن اس کا متنبہ کچھ چنداں سودمند نہ تھا۔ اس کے یار دوست دستور کے موافق اس کے پاس کا آنا جانا قاطبتہً ترک کر چکے تھے۔ نوکر چاکر بھی گھر بیٹھ رہے تھے اور جو تھے تنخواہ کے نہ ملنے سے ایسے گستاخ ہو گئے تھے کہ کار خدمت تو درکنار رُو در رُو جواب دیتے تھے۔ جو چیز جس کی تحویل میں تھی۔ہیکڑی سے اس کو اپنا مال سمجھتا تھا۔ کوئی وقت ایسا نہ تھا کہ دو چار قرض خواہ اس کے درِ دولت پر نہ ہوں۔ کلیم نے چاہا کہ چپکے سے چل دے ۔ مگر اس کے بغلی دشمنوں یعنی نوکروں کی وجہ سے اس کا منصوبہ فاش ہو گیا اور جُوں ہی پہر رات گئے نوکروں کا لباس بدل کر باہر نکلا تھا۔ کہ سر ہنگان دیوانی کے پنجۂ غضب میں گرفتار ہو گیا۔ اس غفلت شعار کو اب معلوم ہو ا کہ کئی ڈگریاں یک طرفہ اس پر جاری ہیں۔ ان پیادوں کی حراست میں جس کیفیت سے کلیم نے رات گزاری۔ بیگ کی مسجد کا اعتکافِ شبینہ حسرت کے ساتھ یاد آتا تھا۔ اگلے دن کچہری کے وقت پیادوں نے کلیم کو کے جا حاکمِ عدالت کے رُو برو حاضر کیا۔ احاطہ کچہری میں پہنچتے ہی پہلے نصوح سے مٹھ بھیڑ ہوئی۔ کلیم باپ کو دیکھ کر بے اختیار رو دیا۔ مگر پیادوں کے خوف اور اپنی ندامت کے سبب کچھ کہہ نہ سکا۔ نصوح کا کچہری میں آنا بھی ان ہی حضرت کی وجہ سے تھا۔ فطرت نے اس بیع نامہ فرضی کا ایک ظومار بنا کھڑا کیا۔ وہ چار نمک حرام کارندوں کو گانٹھا اور چند کاشتکاروں کو بیگھے پیچھے دو دو چار چار آنے کی کمی کر کے استمراری پٹے کر دیے۔ دِلّی شہر کے چند آبرو باختہ غُنڈے ساتھ لے گائوں پر زبردستی دخل کر لیا۔ نوبت بہ عدالت پہنچی۔ مقدمے میں کچھ ایسے پیچ پڑتے گئے کہ دروغ کو فروغ ہو گیا۔ کلیم نے اپنے نزدیک ایک کھیل کیا تھا ۔ نصوح بیچارے کو مفت میںپانچ چھ ہزار کا گائوں ہارنا پڑا۔ اسی تقریب سے نصوح حاضر کچہری تھا کہ کلیم اس کو دوسری مرتبہ پیادوں کے ہاتھ میں گرفتار نظر آیا ۔ گو باپ بیٹوں میں بالمشافہ بات چیت تو درکنار دعا سلام کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن ایک کو دوسرے کی کیفیت معلوم ہو گئی۔ باپ نے ابھی کچہری کے احاطے سے پائوں باہر نہیں رکھا تھا کہ بیٹا جیلخانے جا داخل ہوا۔ شمس العلما مولوی نذیر احمد مشقی سوالات ٍ۱- میاں فطرت نے کلیم کو کس طرح اپنے ہتے پر چڑھا لیا؟ ۲- کلیم نے گائوں کس کے پاس کتنے روپے کو بیچا؟ روپیہ لے کر کیا کیا؟ ۳- ذیل کے محاورات کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ کھلبلی مچنا ، راہ پر لانا، جلی کٹی با تیں کرنا، لال پیلا ہونا۔ ۴- مرکبات اضافی کی جو مثالیں اس سبق میں ہیں چنو۔ ۵- ’’دیکھا چاہیے‘‘ کون سا فعل ہے۔ اس کو اور کس طرح بول سکتے ہیں؟ --------------------- ۳۵- آغاز اور انجام حُسن عنقا الم وملال عاشق زار حائل تُربت مہدی لحد سب پھول تھے ایک ہی شجر کے گویا تھے چراغ سارے گھرکے وہ ایک ہی جگہ پر پلے تھے اور حُسن کے ساتھ بڑھ رہے تھے کیا وقت وہ تھا جو سب بہم تھے عنقا الم و ملال و غم تھا سب خوش تھے عجب دلوں کو کل تھی ان کے دم سے چہل پہل تھی ماں عاشق زار اور شیدا ہر شب دستور تھا یہ اس کا کسی پیار سے ہوتے ہیں وہ جھک کے بوسے لیتی تھی میٹھے میٹھے رہتے تھے نظر کے سامنے سب پروا نہ تھی سب پہ دن ہو یا شب ہر چند وہ پھول بے کھلے تھے کیا کچھ نہیں ماں کے حوصلے تھے قبروں میں ہیں ہائے اب وہ تنہا حائل ہیں پہاڑ اور دریا اس پانی میں ایک کی ہے تُربت جس کی ہے بہت سیاہ رنگت ہے ایک کی خوابگاہ اے وا ! جنگل سنسان امرکہ کا سنتا ہوں غریب کی لحد پر ہے سایہ کیے ہوئے صنوبر اس بحر میں ڈوبا اک اکیلا پانی جس کا ہے خوب نیلا اُس جا سوتا ہے تہ کے اندر جس جا سے نکالتے ہیں گوہر آبی تُربت پہ اس کے اصلا اب کوئی نہیں ہے رونے والا اسپین میں ایک سو رہا ہے اس قبر پہ تاک رو رہا ہے شمشیر زنی زبس رہی واں ندی اک خون کی بہی واں رایت کو لیے تھا کس ہنر سے باندھے مضبوط تھا کمر سے دشم کہیں چھین کر نہ لے جائیں الٹی نہ اسے شکست دے جائیں اک ان میں سے دفن اب وہاں ہے مہندی کا بڑا شجر جہاں ہے ہلکے ہلکے ہوا کے جھونکے مل کے شاخوں سے پھنگیوں سے برساتے ہیں پتیاں وہ اتنی بن جائیں جو چادر اک لحد کی جا کر ہو اطالیہ مری ہے پھولوں کی جہاں بہار بھی ہے گھر بھر میں وہی تو اک حسین تھی پیاری صورت تھی نازین تھی سوتے ہیں الگ الگ وہ دلبر ---------------------- مشقی سوالات ۱- شاعر نے آغاز و انجام کا جو خاکہ اپنی نظم میں کھینچا ہے تم اپنی نثر میں بیان کرو۔ ۲- مطلب بیان کرو :- پروانہ تھی سب پہ دن ہو یا شب ۳- ہائے کیسا کلمہ ہے؟ اس کی قسم اور کلمات بھی بتائو۔ جو اردو میں بولے جاتے ہیں۔ ۴- اس نظم میں کون کون سے حروف جار آئے ہیں؟ ---------------- ۳۶- جانوروں کی الف لیلہ (۳) لاحول ولا قوۃ مشتاق شامتِ اعمال جبرئیل صحرائیت گذشتہ را صلواۃ حماقت صادق اونٹ بولا چاہے آہ کرو چاہے سر دے مارو۔ اب تو اسی قید خانے میں تمہاری جان جائے گی۔ جنگل کی صورت بس خواب ہی میں نظر آئے گی۔ اب اسی کو عمر بھر کا مسکن سمجھو۔ مگر واہ رے آدم زاد! تیری بھی کیا بات ہے۔ واللہ تجھ میں بڑی کرامات ہے۔ گھوڑے نے کہا۔ میں تو عش عش کرتا ہوں۔ کہ کس سہل ترکیب سے شیر سے جانور کو بس میں کر لیا اور اس کاٹھ کے مکان میں دھر لیا۔ کہ واہ واہ ۔سبحا اللہ! شیر نے اپنے دل میں کہا ۔ تھوڑی دیر ہوئی کہ گھوڑا اسی آدمی کو دیکھ کر بھاگا جاتا تھا اور بہت گھبراتا تھا ۔مگر اب ساتھ ساتھ ہے ۔ انسان کی بھی کیا بات ہے ۔ جس کو تاکا اس کو مارا ۔ جس کو چاہا گرفتار کر لیا۔ قیدی بنایا۔ اس کے مقابل میں کوئی نہ آیا اور ذرا سا قد ہاتھ پائوں کچھ بھی نہیں۔ ایک مشت خاک بھلا اونٹ اور بھینس کے مقابل میں اس کی کیا اصل و حقیقت ہے۔ مگر مجھ تک کو اس نے بس میں کر لیا۔ ہائے اب صورت رہائی نہیں۔ بستی میں کسی سے شناسائی نہیں۔اگر کچھ رشوت لے کے کوئی آدمی ہم کو اس میں سے باہر نکالے تو جان پڑجائے اور سیدھا اسی جنگل کی راہ لوں۔ ادھر دیکھوں نہ اُدھر دیکھوں ۔ کسی سے کچھ کہوں نہ سنوں۔بس چپ چاپ چل دوں اور پھر قسم کھا لوں کہ انسان کے چکموں میں نہ آئوں ۔ ہر گز اس کا کہا نہ مانوں گا اور ہمیشہ اس کو بے اعتبار اور ذلیل اور خوار جانوں گا۔ گدھے نے اس کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔ کہو یار شیر! جنگل میں تو ہم لوگوں پر بڑے شیر تھے۔ اب یہاں کچھ بس نہیں چلتا۔ یہ خونخواری اور خلق آزاری اچھی نہیں۔ شیر نے کہا خدا کی شان گدھا اور ہم کو یا ر کہے۔مگر افتاد۔ گھوڑا بولا۔ ہمارے شیر صاحب اس وقت اگر کہیں کھل جائیں ۔ بڑھئی بولا جی نہیں۔ یہ جو لڑکے میرے ہمراہ ہیں۔ ان کے پاس گولی بارود بھی ہے۔ ذرا بولا اور ٹائیں سے دم فنا ہو گیا۔ شیر نہیں کھال سہی۔ کچھ نہ کچھ تو بیچ ہی لیں گے۔ شیر کی بدولت کچھ مل ہی جائے گا۔ خالی ہاتھ بندہ نہ آئے گا۔ اونٹ نے ایک مقام پر کہا کہ یار ہمیں ذرا پیاس معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں کھول دو تو جا کے پانی پی آئیں۔ نجار بولا۔ بھئی واہ! تمہاری بھی کیا باتیں ہیں۔ ارے میاں جب ہم ساتھ موجود ہیں تو پانی لانا کیا مشکل ہے۔ یہ کہہ کر آفتابہ لیا اور گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوا اور چشمے پر جاکر پانی پیا۔ گھوڑے کو پلایا اور اونٹ اور شیر اور گدھے کے واسطے لایا۔ یہاں اتنے عرصے میں شیر نے اونٹ کی خوشامد کی اور کہا کیوں بڑے بھائی صاحب بھلا یہ کون سی دوستی کی بات ہے کہ ہم تم پشتہا پشت سے اسی جنگل میں رہتے ہیں اور باپ دادا کے وقت کی ملا قات ہے اور باایں ہمہ تم کو ہمارا ذرا خیال نہیں۔مطلق رنج و ملال نہیں۔کہ ایک غیر کفو ہم کو قید کیے لیے جاتا ہے۔ تم کو حمیت کا بھی کچھ خیال آتا ہے۔ ہم تم تو پھر ایک ہیں۔وہ بیگانہ ہے ۔ تو بھی اس کے مکر سے نہ بچے گا۔ اس کو دوست نہ سمجھ کچھ دیوانہ ہوا ہے ۔ گدھے نے کہا۔ واہ! ییا خوب پٹی پڑھاتے ہو۔ اچھی سناتے ہو ۔ بھلا ہم کو انسان سے کیا خوف۔ ڈرہے تو تیم سے ہے اور اگر کچھ خط ہے تو تم سے ہے وہ اگر قید بھی کرے گا تو جان نہ لے گا۔آرام دے گا، کھلائے گا، پلائے گا۔ کام لے گا، شام کو باندھ دے گا اور تم تو ایک ہی پنجے میں کام تمام کر دو گے۔ خون سے تمام جنگل بھر دو گے۔ اور اگر ہم کوشش بھی کریں کہ تم کو اس قید سے رہا کریں تو اس کی کون سی صورت ہے۔ کوئی نہیں۔ ہمارے امکان میں کیا ہے۔ گولی۔ بارود ۔ بندوق سب اس کے پاس ہے۔ سب سامان سے لیس۔ ذرا کوئی بولا اور اس نے دھر دھمکا۔ ہم لوگوں کی بھی کوئی ہستی ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا۔ دیکھو نہ کس آسانی سے تم کو لادے لیے جاتا ہے۔ تمہارا زور اب یہاں کس کام آتا ہے۔ بکری سے بھی بد تر ہو۔ گو شیر ہو۔ مگر اب تو بھیڑ ہو۔ اب ایک نہیں چلتی کوئی تدبیر کار گر نہیں ہوتی۔ ہم بولیں ہم بھی خواہ مخواہ دھرے جائیں۔ اور بستی کی راہ لیں۔ کوئی پوچھے ۔ بھئی کہاں چلے۔ کیونکر پھنسے ۔ اب جنگل میں نہ آئو گے۔ عمر بھر وہیں رہو گے۔ ہمیں صورت نہ دکھائو گے۔ تو اس کا کیا جواب دینگے۔ تمہاری طرح ہم بھی مصیبت میں پڑیں گے۔ بھائی صاحب بس یہی غنیمت ہے کہ یہ آدم زاد ہم سے اچھی طرح ملتا ہے اور ہمارا دوست ہے۔ ورنہ ہم کو کیا سمجھتا ہے۔ ہم اس کے سامنے کیا چیز ہیں۔ ایک گولی میں کام تمام ہو گا۔ جب گھوڑا واپس آیا تو بڑھئی نے پہلے اونٹ پھر شیر اور اس کے بعد گدھے کو پانی پلوایا اور اونٹ کی زبانی شیر کی داستان سنی کہ ہمدردی کی ترغیب دیتا تھا اور بڑی لجاحت اور خوشامد سے کہتا تھا کہ یار عزیز بڑے بھائی صاحب ہم کو رہا کر دو۔ ہم تمھارے دوست ہیں۔ ہم کو نہ دِق کرو۔ ہم تم باپ دادا کے وقت سے ایک ہی جنگل میں رہے ہیں۔ بھلا کوئی اپنے پڑوسیوں اور ہمسایوں سے ایسا برتائو کرتا ہے۔ انسان کے دھوکے میں بندہ تو آگیا۔ اب تم بھی ان کے پھندے میں پھنسنا چاہتے ہو۔ الغرض بڑھئی نے دونوں لڑکوں کو گدھے پر سوار کیا اورخود بدولت گھوڑے پر متمکن ہوئے اور ادھر یہ سب ادھر میاں اونٹ صاحب چلے۔ تو راہ میں اونٹ اور گھوڑے سے یوں گفتگو ہوئی۔ گھوڑے نے کہا یار! اگر جی چاہے اور آدم زاد کے قول کا اعتبار کرو اور کوئی ہرج نہ دیکھو تو چلو ذرا بستی اور آبادی بھی دیکھ آئیں اور دیکھیں کہ وہاں ہمارے بھائی بند کیونکر رہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ مگر اس شرط پر چلیں گے۔ کہ یہ بڑھئی لڑکوں کی قسم کھا لیں کہ ایک ہفتے میں ہم کو واپس کر دیں گے۔ اونٹ بولا۔ بھائی صاحب ہم تو ایک منزل بستی سے ادھر رہیں گے۔ ہر گز ہرگز نہ جائیں گے۔ شیر نے کہا ۔ اے بے وقوفو! تم سب کو گرفتار نہ کیا ہو۔ تو ہمارا ذمہ ۔ کیا دل لگی ہے کہ انسان کے پھندے سے ہم تو بچ نہ سکیں۔اور یہ بچ جائیں۔ اس قدر پریشاں کرے کہ عمر بھر نہ بھولو یہ آدم زاد ہے۔ دل لگی نہیں ہے۔ فریب اس کو یاد۔ چال اس کو یاد۔مکر میں یہ طاق۔ روباہ بازی میں یہ مشتاق۔ ہر فن میں ہے استاد اسے کیا نہیں آتا اس کی روباہ بازی سے خدا بچائے۔ مگر ہم بھی خوش ہیں کہ ایک ہم ہی نہ پھنسے۔ اب تین چار ہوئے۔ آدم زاد نے کہا ۔ بچہ! تم ہم کو ہمارے دوستوں کے سامنے بدنام کرتے ہو یاد رکھو کہ اس کا بھی ایسابدلا لوں کہ یاد ہی تو کرو۔ گدھے نے کہا ۔ اجی آپ کسی کے مُنہ لگتے ہیں۔ اس سودائی بد مغذ سے نہ بولیے۔ ذرا ہم کو گانا سنائیے۔ کہ ہم آدم زاد کے گانے کی بڑی تعریف سنتے ہیں۔ بڑھئی نے گانا شروع کیا۔ دوستوں کا دل بہلانا شروع کیا۔ شیر بولا۔ دنیا بھی عجب شے ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ انسان ہماری صورت دیکھتا تو زہرہ آب آب ہو جاتا اور آج یہ برھئی ہم کو گرفتار کیے لیے جاتا ہے اور گاتا ہے اور گدھا تک ہمیں الو بناتا ہے۔ وائے بیددردی کوئی تاپے کسی کا گھر جلے مگر ’’ از ماست کی برماست۔ اگر آدم زاد کو تھپڑ مار کر گرا دیتے اور اسی دم خون پی لیتے اور کھا جاتے تو اس مصیبت میں کیوں پڑتے۔گدھے اور گھوڑے سے کیوں لڑتے۔ مگر شامت اعمال کہ اس گت کو پہنچے اور یہ درگت ہوئی۔ خیر اگر خواستۂ خدا ہے تو کسی نہ کسی ترکیب سے بچ ہی جائیں گے۔ ورنہ ہر چہ بادا باد۔ بڑا بُرا چکمہ کھایا۔ بڑا گہرا چکمہ کھایا۔ کئی دن اسی طرح سے گزرے تو ایک روز دوپہر کے وقت گھوڑے اور اونٹ اور گدھے اور بڑھئی نے شیر کو حسب دستور کٹہرے میں چھوڑا اور گھنے جنگل کی سیر کو چلے اور وہاں اعلیٰ اعلیٰ قسم کے فواکۂِ تر خوب پیٹ بھر کر چکھے تو میں نے (یعنی بط نے) موقع پایا اور شیر کے قریب جا کر کہا ۔افسوس کا مقام ہے کہ تم ایسا سلطان ذی شان دشکارِ دام ہے اب زیادہ دور تک نہیں جا سکتا۔ یہیں سے سلام ہے۔ شیر بولا کہ ہمیں تم سے بڑا کام ہے۔ ایک تم ہی تو جنگل میں ہمارے خیر خواہ نکلے۔ صرف تم ہی کو ہم سے ہمدردی ہے۔ باقی تو اور سب کے سب بدمعاش اور بد خواہ ہیں اور ان ہی کے سبب سے ہم اس قدر تباہ ہیں۔ اس وقت کوئی کام نہ آیا۔ ہزاروں زیر دستوں کو ہم نے زبر دستوں کی ایذا سے بچایا۔ بلکہ یہ کمبخت جس نے ہمیں بند کیا ہے اور ہم پر یہ ستم دھا دیا ہے اس کے ساتھ بھی ہم نے سلوک کیا تھا۔ اس کو کوئی رنج نہیں دیا تھا۔ اس تک نے ہمارے ساتھ بدی کی اور نیکی کی سزار بدی دی۔ مگر یہاں قضیہ بالعکس نظر آتا ہے۔ گیہوں ، جَو ، بالی لاتا ہے ۔ اِملی کی جڑ سے پتنگ نکلا ۔ ہماری قسمت ہمارا نصیب۔ اس کو کوئی کیا کرے افسوس صد افسوس۔ بط نے کہا۔ اب اگر کوئی کام میرے متعلق ہو تو مجھے اطلاع دیجیے۔ ہائے بنی نوع انسان کے پنجے سے حضور کی رہائی محال ہے۔ اس کمبخت کی دوستی ایک جنجال ہے۔ شیر بولا تمہاری مہربانی کیا کم ہے۔ ہم تو یہی غنیمت سمجھتے ہیں کہ تم بہ لطف پیش آتے ہو۔ یہاں تک تمہارا ہمارے ساتھ چلے آنا ہی کیا کم ہے۔ کچھ سوجھ نہیں پڑتا۔ کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں ۔ مفت میں اپنی جان میں نے گنوائی۔بڑی شامت آئی۔ لیکن خود کردہ را چہ علاج ؟ اور ہم کو شک کی جگہ یقین ہے اور سچ پوچھو یہی ایمان و دین ہے۔ کہ اونٹ اور گھوڑا اور گدھا بھی گہرا چکمہ کھائیں گے۔ جائے امن نہ پائیں گے۔ ہم میں ان میں فرق یہ ہو گا کہ ہم مفت کی روٹیاں توڑیں گے نہ کوئی کام ہو گا نہ کاج اور ان سے محنت لی جائے گی۔ آسائش صورت نہ دکھائے گی۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ہو گا کہ ان کو ادھر اُدھر آنے جانے کی آزادی مطلق العنانی ہو گی اور ہم ایک مکان میں بند رہیں گے۔ ہمارے والد بستی کی ساری کیفیت دیکھ آئے ہیں۔ دور سے دیکھا اور بھاگے۔ جب تو ہم سے فہمائش کر گئے تھے کہ بیٹا! خبر دار آدم زاد سے بچنا۔ یہ عجیب ذات شریف ہیں۔ ان کے کاٹے کا منتر نہیں۔ زور اور کس بل کا ان پر اثر نہیں یہ بڑے پڑھے ہوئے لوگ ہیں اور جس سے انہوں نے یارانہ پیدا کیا وہ گیا گزرا پھر اس کا کہیں ٹھکانا نہیں۔ اس سے کسی کو امید وفا نہ رکھنی چاہیے۔ مشقی سوالات ۱- شیر اور دوسرے حیوانات کی باہمی گفتگو کا خلاصہ بیان کرو۔ ۲- مندرجہ ذیل کی تشریح کرو اور ان کو اپنے فقروں میں استعمال کرو۔ کیا پدی کیا پدی کا شوربا، لاحول ولا قوۃ، گذشتہ را صلواۃ، اُلّو بنانا، چکمہ کھانا، شیخی بُھلا دینا۔ ۳- مندرجہ ذیل گریمر کی رو سے کیا کیا ہیں۔ خلق آزادی ۔ کوشش۔ خیال خام ۔ گرفتار۔ ۴- کانپتا تھا۔ گاتا ہے کون سے فعل ہیں؟ پہلے کا جمع متکلم مذکر منفی کا صیغہ اور دوسرے کا واحد حاضر مونث مثبت کا صیغہ بتائو۔ ----------------------- ۱ سحر:صبح - اسم ظرف۔ متوالا:مست بادسحر:صبح کی ہوا - مرکب اضافی۔ نکہت تر:تر خوشبو تازہ نوا:تازہ آواز والا۔ خوش آواز اسم فاعل۔ نغمہ :راگ وجد :بے خودی۔ مستی۔ حمد خدا:خدا کی تعریف خالق باری:اللہ تعالیٰ ترانے:گیت جبیں:پیشانی ۔ماتھا۔ محوہونا:فنا ہونا۔ فریفتہ ہونا سربسجود:جس نے سجدہ سے سر جھکایا ہوا ہو۔ زمزمہ خواں:گیت گانے والا۔ چہچہانے والا۔ سُنبل:ایک خوشبودار گھاس کا نام ہے جسے ہندی میں بالچھڑ کہتے ہیں۔ ۲ ناقوس:سنکھ جس کو ہندو لوگ پجاریوں کو پوجا کے لیے بلانے کے وقت بجاتے ہیں۔ ۱ذان:مسلمانوں کی بانگ جو نمازیوں کو بلانے کے لیے دی جاتی ہے۔ خواب گراں:گہری نیند۔ مرکب توصیفی ہے عارف:معرفت والا۔ خدا کو پہچاننے والا۔ اسم فاعل عابد:عبادت کرنے والا شیخ:واعظ ۔ صوفی۔ محفل راز:راز کی مجلس یعنی گوشہء عبادت اور راز سے مراد رازِ خدا ہے دِل اُٹھانا:کسی چیز سے توجہ ہٹا لینا۔ ۳ عقل خدا داد:خدا کی دی ہوئی عقل ۴ رسائی:پہنچ ۔ مدد۔ حاصل مصدر ہے۔ سعی:کوشش۔ شعرۂِ آفاق ہونا:دنیا بھر میں مشہور ہونا۔ سبقت لے جانا:بڑھ جانا کڑی:سخت ۔ تیز۔ حسن جمال میں اپنا نظیر نہیں رکھتی:بہت خوبصورت ہے۔ شہ زوری:بہت طاقتوری صبا رفتار:خوش رفتار۔ اسم فاعل کرّو فر:شان وشوکت۔ ۵ کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا:کوئی کسر نہ چھوڑنی ۔ کمال کوشش کرنی۔ جہیز:والدین لڑکی کو شادی کے موقعہ پر زیور کپڑے اور برتن وغیرہ جو کچھ دیتے ہیں۔ جہیز کہلاتا ہے۔ پنجابی داج سن بلوغ:جوانی کی عمر ۶ مخمصوں :جھگڑوں سبکدوش ہونا:فارغ ہونا ہمسر:برابر ۔ ثانی۔ غنیم:دشمن بے محل:بے موقع فیاض:بہت فیض کرنے والا ۔سخی ۷ منصب:درجہ ۔ مرتبہ تن بدن میں آگ لگنا:طیش میں آنا ۔ غصہ بھڑکنا۔ شیطان سیرت:شیطان کی خصلت والا۔ شریر۔ اسم فاعل کس نیند سوتی ہے:کیسی غافل ہے۔ کسی غفلت میں ہے۔ قیامت کا دن ہے:مصیبت کا دن ہے۔ سنگار:آرائش کا سامان مثلاً زیور۔ خوبصورت کپڑے وغیرہ۔ روپ:شکل۔ بن باس:جنگل میں رہنا۔ ناساز:بیمار ۔ علیل ۸ افسوُں:جادو۔ تدبیر۔ کارگر:موثر ۔ مفید ۹ ایفائ:پورا کرنا۔ قلق:رنج اُمنگ:شوق۔ قدم رنجہ فرمانا:تشریف لانا۔ بڑے آدمی کا آنا۔ ۱۰ یاد فرتے ہیں:بلاتے ہیں۔ میسر:حاصل تفریح:فرحت ۔ خوشی۔ ملبوس:لباس بندۂ زر:دولت کا غلام۔ یعنی دولت سے بہت محبت رکھنے والا۔ لالچی ۔ حریص۔ ہوس:حرص۔ خواہش۔ ۱۱ پائوں پھیلانا:محاورہ ہے۔ معنی بہت لالچ کرنا ۔ زیادہ مانگنا۔ ارمان:خواہش ۔ آرزو ۔ تمنا سراپا:دراصل یہ لفظ تھا ’’ازسر تا پا‘‘ بمعنی سے سے پائوں تک۔ یعنی تمام آغاز:شروع ۔ یہ لفظ انجام کی ضد ہے۔ عبرت:نصیحت پکڑنا۔ سکہ ہونا: حکومت ہونا۔ یہ محاورہ ہے۔ اعضائ:جمع عضو کی ۔ معنے بدن کے جوڑ منکر:انکار کرنے والا ۔ اسم فاعل حرص وہوا کا بندہ: بہت لالچی۔ ۱۲ فراغت:خوش حالی۔ وادی:دریا کی گزرگاہ۔ بیابان:جنگل موسم گُل:بہار کا موسم فصل گُل۔ دلکش:دل کو کھینچنے والی چیز۔ دل کو لبھانے والی۔ اسم فاعل۔ سناٹا:سنسان ۔ خاموشی ۔ چپ چاپ۔ موجِ صبا:صبا کی لہر، یعنی صبا کا چلنا۔ صبا کا جھونکا۔ اور صباایک ہوا کا نام ہے جو پورب کی سِمت سے چلتی ہے۔ معبود:جس کی عبادتے کی جائے۔ مراد خدا تعالیٰ ۱۳ آزاد :لغوی معنی بے قید۔اصطلاح میں اس آدمی کو کہتے ہیں ۔ جو دنیا سے بے تعلق ہو۔ مراد فقیر آدمی۔ منعم:نعمت والا۔ دولتمند تاج گراں:بھاری تاج۔ مراد قیمتی تاج۔ دردِ سر:علاوہ مشہور معنوں (بیماری) کے تکلیف کے معنوں میں بھی آتا ہے ۔ یہاں یہی آخری معنی ہیں۔ اس شعر میں دردِ سر کے دونوں معنی موجود ہیں۔ دردِ سر کواسطے کہتے تو ہیں صندل دوا اسکا لانا اور گھسنا درد سر یہ بھی تو ہے اہل صفا:صفائی والے لوگ۔ صاف باطن لوگ۔ مراد خدا کے نیک بندوں سے ہے۔ ۱۴ کاردانی:تجربہ کاری۔ شباب:جوانی ۱۵ تقرب:قرب۔ نزدیکی ۔ رسوخ اوالعزمی:استقلال ۔ ارادے کا پکا ہونا۔ موقوف رکھنا: ملتوی کرنا۔ قیافہ شناس:کسی انسان کی شکل وصورت دیکھ کراُس کے اندرونی حالات معلوم کر لینے والا شخص (اسم فاعل ہے) قیافہ ایک علم کا نام ہے جس سے انسان کے ہاتھ پائوں اور چہرے وغیرہ کے خط وخال سے اس کے افعال و احوال پر رائے زنی کرتے ہیں۔ تیور دیکھنا:کسی کی نظر یا اندازِ نگاہ دیکھنا ۔ کسی کا رُخ دیکھنا۔ دل میں کھٹکنا:دل کو کوئی چیز بری یا اپنے مخالف معلوم ہونا۔ ٍ جہاں پناہ:جہاں کی پناہ۔ وہ شخص جو جہان کے لیے پناہ ہو۔ بادشاہ کو کہتے ہیں۔ اقتدار:قدر۔ عزت۔ عروج۔ ترقی۔ قرب وجوار:گردو نواح ۔ آس پاس۔ نفاق :دشمنی کامیابی نے ’’خوش آمدید ‘‘ کا گیت سنایا:کامیابی حاصل ہوئی۔ خونریز معرکہ:سخت لڑائی۔ ۱۷ مرگ بے ہنگام:بے وقت موت نظم و نسق:انتظام۔ بندوبست فلاح عامہ:عام لوگوں کی بہتری انصرام:انتظام نادر:عجیب ۔ عمدہ امارت:امیری ۔ سرداری۔ زبان زد ہونا:مشہور ہونا۔ کسی بات کا چرچا ہونا۔ فضائل حسنہ:اچھی خوبیاں۔ فضائل جمع فضیلت کی ۔ معنی بزرگی۔ خوبی ۔ حسنہ صفت ہے۔ ستم رسیدہ:مظلوم جس پر ظلم ہوا ہو ۱۸ سیاست:سزا ارکان دولت:سلطنت کے امیر وزیر ارکان جمع رکن معنی ستون راہزنی:ڈاکہ مارنا۔ راہزن کے معنی ڈاکو لٹیرا۔ مقدم:نمبردار۔ نیچ تعین:مقرر کرنا عامل:حاکم ۔اہلکار۔ متنازعہ:جھگڑا کیا گیا۔ وہ چیزجس پر جھگڑا ہو۔ اسم مفعول جرائم:جمع جُرم کی ۔ معنی قصور سخت گیری:سختی کرنی۔ ۱۹ افزائش:زیادتی۔ ترقی (حاصل مصدر ہے) ممالک محروسہ:ممالک مقبوضہ مالگزاری:معاملہ جو سرکار زمینداروں سے لیتی ہے۔ زمین کا محصول۔ فوجدار:مجسٹریٹ۔ لوتوال۔ فوج کا افسر۔ صدر الصدور:منصف درجہ اول۔ اول درجہ کا جج۔ عُمّال:جمع عامل کی۔ حاکم ۔ سرکاری افسر۔ اہلکار مظالم:جمع مظلمہ کی۔ معنی ظلم و ستم ۲۰ پامال ہونا:پائوں میں روندا جانا ۔ خراب ہونا۔ تباہ ہونا۔ ٍ فریق غالب:زبردست فریق دست اندازی:ہاتھ ڈالنا۔ دخل دینا۔ ضابطہ:قاعدہ ۔ قانون۔ امور ات رفاہ عام:عام لوگوں کے آرام کی چیزیں۔ ۲۱ مساکین:جمع مسکین کی معنی عاجز غریب۔ مددِ معاش:وظیفہ۔ مشائخ:شیخ کی جمع۔ بزرگ آدمی۔ صوفی فقیر۔ ۲۲ نصب:گاڑنا۔ لگانا۔ کھِرنی:ایک درخت اور اس کے پھل کا نام ہے جو ذائقہ میں میٹھا ہوتا ہے اور شکل میں نیم کی بنولی سے ملتا جلتا ہے۔ امام:پیش نماز۔ وہ شخص جس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ موذن:اذان دینے ولا ۔ بانگ دینے والا (اسم فاعل ہے) خواجہ قطب الدین بختیار کاکی: یہ بزرگوار اولیائے ہند میں بڑے پایہ کے بزرگ ہیں۔ بختیار کاکی آپ کا لقب ہے۔ مدت تک اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں رہے۔ پھر ان ہی کے حکم سے دہلی میں آکر قیام اختیار فرمایا۔ جہاں سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ۱۲۹۱ء میں انتقال فرمایااور وہیں دفن ہوئے۔ محاصرہ کرنا:گھیر لینا دفعتہ:یکا یک۔ کباب ہونا:جل جانا الحمدُ للہ:خُدا کا شکر ہے۔ طائر روح :جان کا پرندہ ۔ جان قفسِ عنصری:جسم حسرت:آرزو۔ افسوس ۲۵ گلزار:باغ بیابان:جنگل طوفان:طغیانی۔ چڑھائو۔ جوش۔ جبل:پہاڑ اظہار:ظاہر کرنا۔ ہم پایہ:ہم مرتبہ۔ برابر ملک:فرشتہ شمس وقمر:سورج اور چاند نیچا دکھانا:زک دینا۔ شرمندہ کرنا۔ ترک کرنا:چھوڑنا ۔ (یہاں فقیروں سے مراد ہے ۔ جو دینا کو چھوڑ چھاڑ کر پہاڑوں میں جا بیٹھتے ہیں) تارکُ الدُنیا لوگ۔ لطف:مزا آغوش دلکشا:دل خوش کرنے والی گود برف پوش:برف سے ڈھکے ہوئے۔ برف میں چھپی ہوئی چیز۔ ہیرا:الماس جو جواہرات کی قسم سے ہے۔ اس کی قلم سے شیشہ کاٹتے ہیں۔ اِٹھلانا:ناز ونخرے سے چلنا ۔ مٹک کر چلنا۔ فضا:بہار ۔ کیفیت۔ اِطاعت:فرمانبرداری۔حکم ماننا۔ سعادت:نیک بختی۔ خوبی۔ ۲۸ واجب:ضروری۔ تائید کرنا:اتفاق کرنا۔ ترکش:تیردان مقدم:پہلے طعن وتشنیع:برا بھلا ۔ طعنے۔ ۲۹ فرائض : فرض کی جمع۔ ناز ونعم میں پلنا:لاڈلا ہونا۔ ۳۰ بناس پتی:بناتات۔ ساگ پتی ڈانس:ایک قسم کابڑا مچھر۔ دہلانا:ڈرانا۔ یارا:ہمت حوصلہ۔ ۳۱ سکتہ:ایک بیماری ہے۔ جس میں بیمار بیحس و حرکت ہو جاتا ہے اور بالکل مُردے کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے بالکل چُپ ہو جانے کے موقع پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ مفارقت:دنیا سے کُوچ کرنا۔ مر جانا۔ فوت ہونا۔ ماتم کدہ:اسم ظرف ماتم کا گھر۔ ماتم کی جگہ۔ قلق:رنج ۳۳ پنچ وٹی:دریائے گوداوری کے کنارے جنگل کا نام ہے۔ ۳۴ دامِ محبت میں پھنسانا:اپنے اوپر کسی کو فریفتہ کرنا۔ التفات:توجہ۔ رعد:بجلی کی گرج بدنہاد:بدذات ۳۵ فوج جرار: بہادر فوج نورِ دیدہ:آنکھو کا نور ۔ مراد بیٹا۔ نور چشم ۳۷ خوش بیانی:کسی بات کو عمدگی سے بیان کرنا۔ اچھی طرح بیان کرنا۔ روانی:بہنا ۔ چلنا۔ مکھ:مُنہ بے ساختہ:بے سوچے سمجھے شان وشکوہ:شان وشوکت شاداب:سرسبز ۔ ہرا بھرا بنجر: وہ زمین جس میں کھیتی نہ ہوتی ہو۔ سیراب کرنا :پانی دینا فیض رسان:فیض پہنچانے والا۔ (اسم فاعل) ۳۸ ڈنڈوت:سجدہ کرنا۔ ماتھا ٹیکنا منظر:نظارہ تلاطم:پانی کی تھپیڑیں جوش۔ فطرت:قدرت سنسنانا:کسی چیز کے زور سے جانے کی آواز مچلنا:ضد سے لوٹنا۔ بپھرنا۔ زلف:سر کے بالوں کی لِٹ۔ صولت:رعب وداب سطوت:دبدبہ گوئے حباب:بُلبلے کی گیند چوکان:بلّا آسا:مثل ۔ مانند ۔ طرح کندن:سونا انداز و ادا:ناز و نخرے دامن چھٹک کر چلنا:دامن چھڑا کر چلنا مٹک کر چلنا:اٹھلانا چھب:آرائش ۔ زینت۔ غضب:غصہ جلوہ:دیدار۔ رونق۔ ۳۹ نحوست:نا مبارکی۔ بد شگنی ضرب المثل:کہاوت ۴۰ وہاں تو اُلّوبول رہا ہے:وہ مقام بالکل اُجاڑ ہے۔ حماقت:بیوقوفی۔ بے عقلی۔ بدشگون:نا مبارک ۔ منحوس منسوب:نسبت کیا گیا (اسم مفعول) اذکار:جمع ذکر کی۔ بُلبل ہزار داستان: خوش الحان بُلبل۔ طوطی شکرِ مقال:میٹھی باتوں والی طوطی۔ مدح سرائی:تعریف کرنا۔ موجودات:جمع موجودہ مخلوقات۔ صفاتِ یذدانی :خدا کی صفتیں۔ مظہر:جائے ظہور۔ ظاہر ہونے کی جگہ۔ اسم ظرف ِ مکاں۔ بودوباش:رہنا سہنا (حاصل مصدر) تارِک ُ الدُّنیا:دنیا کا چھوڑنے والا۔ (اسم فاعل) خلوت:تنہائی نغمہ سنجی:راگ۔ گانا۔ ۴۱ فرحت پسند:خوشی پسند نشیمن:آرام کی جگہ۔ رہنے کی جگہ۔ پرندوں کا گھونسلا۔ اسم ظرف مکاں۔ غیر مانوس آواز:ایسی آواز جس سے اُنس نہ ہو۔ جو آواز کبھی نہ سنی ہو۔ خلل انداز:خلل ڈالنے والا۔ نقصان کرنے والا۔ اسم فاعل صائم:روزہ دار۔ اسم فاعل روزہ افطار کرنا:روزہ کھولنا ریا کاری:فریب دھوکا:ظا ہر داری حبس:قید مراقبہ:گردن نیچے ڈالنا اور تمام چیزوں کا خیال چھوڑ کر خدا کو یاد کرنا۔ امید کرنا۔ ۴۲ نقیب:پیشوا۔ ایک نوکر جس کاکام اپنے افسر کا خطاب مسلط:تسلط کرنے والا۔ قبضہ کرنے والا۔ غالب۔ اسم فاعل ۵۰ زبان زد خاص و عام :خاص وعام آدمیوں کی زبان پر بے لوث:بے عیب۔ پاک۔ ٍ۵۱ غبی:کند ذہن کارگر ہونا:فائدہ مند ہونا۔ مفیدہونا۔ گذرِ اوقات کرنا:گزارہ کرنا۔ ۵۲ اصرار:ضد وتیرہ:طریقہ۔ دستور ۔ قاعدہ۔ طرز۔ صاف گوئی:صاف صاف کہنا ۵۳ شورش:فساد ۔ لڑائی۔ حاصل مصدر لو لگانا:توجہ کرنا۔ خواہش کرنا۔ ایما:اشارہ ۔ منشائ۔ حکم۔ پرائسچت:گناہوں کا بدلہ۔ ۵۴ گناہ کبیرہ: بڑا گناہ ہوا خواہ:خیر خواہ۔ نیکی چاہنے والا۔ بھلا چاہنے والا۔ اسم فاعل افلاس: غریبی ۔ مفلسی۔ ۵۵ فتنہ گر:فسادکرنے والا۔ فسادی۔ اسم فاعل شوریدہ سر:پریشان ۴۶ میگھراج:بادل۔ کُو بکُو:کوچے کوچے۔ گلی گلی۔ منادی:دھنڈورا قدرت:طاقت خلش:چبھن۔ حاصل مصدر۔ پیک:قاصد۔ ایلچی جامے سے باہر نکل پڑنا:بہت ہی خوش ہونا۔ پھولا نہ سمانا عمامہ:پگڑی عروس:دلہن ۴۸ منتہائے کمال:کمال کی انتہا۔ اولوالعزمی :پکا ارادہ شمشیر زنی:تلوار مارنا۔ تلوار چلانا ملک گیرہ:ملک فتح کرنا۔ ملک لینا پائدار:محکم مضبوط ۔ پکا۔ مدت تک قائم رہنے والا مدبر:تدبیر کرنے والا۔ انتظام کرنے والا۔ اسم فاعل منتظم:انتظام کرنے والا۔ بندوبست کرنے والا۔اسم فاعل عطیۂ عظمیٰ:بڑی بخشش ۴۹ اِدبار:بد نصیبی۔ بد اقبالی۔ بد قسمتی۔ تنزّل۔ قعرِ پستی:پستی کا گہرائو۔بہت پست ہونا۔ کاروبار:سلطنت کے کام دھندے جد امجد:بزرگ، دادا تفویض:سپرد کرنا محافظ:حفاظت کرنے والا۔ بگہبان۔ اسم فاعل۔ نگران: نگرانی کرنے والا۔ رکھوالی کرنے والا۔ اسم فاعل دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا: کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات: لائق اور ہونہار بچہ پنگوڑے سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ دستگاہ: مہارت۔ قابلیت۔ لیاقت مفوّضہ: تفویض شدہ۔ سپرد ہوئی ہوئی۔ اسم مفعول۔ بہمہ وجوہ: پورے پورے طور پر ۔ ہر طرح سے۔ مدارالمہامی: وزارت مامور:مقرر بطریق احسن: اچھے طریقے سے نقائص: جمع نقص کی اصلاح : درستی عزم بِالجزم: پکا ارادہ ۶۲ مرتب: ترتیب دیا گیا۔ ترمیم: مرمت کرنا درستی: اصلاح صریح: صاف۔ رائج: جاری۔ ضمن: متعلق۔ اثناء ہاتھ بٹانا: مدد دینا ۶۳ جذبات: جمع جذبات کی۔ خواہشات۔ سرِ مُو: بال بھر۔ مسند نشین: تخت نشین۔ تدابیر: جمع تدبیر کی۔ مخالفت: دشمنی۔ تقلید: پیروی۔ حیطہ: احاطہ ۔ گھیرا۔ ۶۴ اہم: ضروری۔ اعتراف: ا قرار تحائف: جمع تحفہ کی۔ بردہ فروشی: غلاموں کو بیچنا۔ یک قلم: بالکل۔ قبیح عادت: بُری عادت۔ بُری رسم۔ ۶۵ صلاحیت: نیکی ۔ پارسائی۔ متعدد: کئی۔ ۶۷ فروکش ہونا: اُترنا۔ تپاک : شوق۔ بے قراری۔ آئو بھگت کی: خاطر تواضع کی۔ متزلزل: زلزلہ پانے والا۔ ڈگمگانے والا۔ کانپنے والا۔ اسم فاعل تلف: ضائع گلڈ ہال: لندن کا ٹائون ہال۔ ۶۸ منعقد: انعقاد پانے والا۔ مقررقائم ۶۹ مدفون: دفن کیا گیا۔ اسم مفعول پُر عظمت: عظمت سے بھرا ہوا ۔ بڑائی والا۔ عزا داری: ماتم رکھنا۔ سوگواری اور ماتم کی رسومات بجا لانا۔ برگزیدہ: چنا ہوا۔ منتخب۔ اسم مفعول روپوش ہونا: چُھپ جانا۔ مر جانا ۷۱ جوہی: ایک قسم کی جنگلی چنبیلی سیُوتی: گلاب کی قسم کے ایک پھُول کا نام جس کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ بیلا: ایک قسم کا پھُول خوبانی: ایک پھل کا نام۔ خورمانی۔ زیرِ نگیں: مطیع۔ فرمانبردار۔ عنبر سارا: خالص عنبر۔ عنبر ایک عمدہ خوشبو دار چیز جو سمندر کے کنارے کنارے ملتی ہے۔ زمین کا بوسہ لینا:زمین کا چُومنا۔ کسی چیزکازمین پر گرنا۔ ثنائے خدا: خدا کی تعریف۔ ۷۲ آغوش لحد: قبر کی گود رفتار: چال ۔ حاصل مصدر۔ گفتار:بات چیت۔ حاصل مصدر القط: علیحدہ۔ جُدا۔ ۷۳ کامدار: وہ کپڑا جس پر زری اور ریشم کا کام کیا ہوا ہو۔ غلطاں و پیچاں: لوٹنا اور پیچ و تاب کھاتا ہوا ۔ بے قرار نوشت و خواند: لکھنا اور پڑھنا۔ حاصل مصدر مملو: پُر۔ بھرا ہوا۔ دنیا سے سدھارنا: مرجانا تاحین حیات: زندہ رہنے تک۔ حین کے معنے وقت۔ ڈیوٹی: فرض ۔ کام۔ سفاکی:بے رحمی ۔ ظُلم ۷۷ علیک سلیک: صاحب سلامت۔ معمولی واقفیت تگ ودو: دوڑ دھوپ۔ کوشش۔ (حاصل مصدر) ہم زلف: سالی کا خاوند۔ جورُو کی بہن کا خاوند۔ پنجابی سانڈھو۔ خیر سلّا: خیریت عسرت: تنگی۔ نصرت: فتح تقلید: پیروی مزار: مقبرہ ۔ قبر۔ خصوصاً بزرگوں کی قبر۔ (اسم ظرف ہے۔ یعنی زیارت کی جگہ) سماں: حالت آرام گہ: آرام کرنے کی جگہ۔ (اسم ظرف مکان) تہِ خاک: مٹی کے نیچے نہاں: پوشیدہ ۔ چھپی ہوئی مرقد:قبر۔ طُور: کوہ طُور جہاں حضرت موسیٰ علیہ السّلام خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے تھے۔ تُربت: قبر شبِ دیجور: اندھیری رات۔ بسرام کرنا: رہنا ر۔ رہائش اختیار کرنا۔ آرام کرنا۔ کُٹیا: جھونپڑی۔ ۸۲ پیکر ہستی : ہستی کا وجود۔ محبوب: پیارا مسیحائے زماں: زمانے کا مسیح۔ اپنے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانند کامل طبیب مدفن: دفن کرنے کی جگہ (اسم ظرف مکان) قصر: محل۔ ۸۳ وکلائ: جمع وکیل کی۔ فصاحت: خوش بیانی۔ خوش گوئی۔ صاف اور عمدہ کلام کرنا۔ ایڈوکیٹ جنرل: سب سے بڑا سرکاری وکیل۔ عدالت سشن: وہ عدالت جس میں خون کرنے والے آدمیوں کے مقدمے چلا کرتے ہیں۔ ٍ۸۴ جیوری: وہ لوگ جو کسی خون کے مقدمے میں ثالث یا بنچ ہوتے ہیں۔ اور جج کو مشورہ دیتے ہیں۔ لب کشا ہونا: بات کرنا ۔ بولنا۔ مجسم: ہمہ تن۔ بالکل۔ انتقام : بدلہ قانون تعزیرات: قانون فوجداری۔ حواس باطل کر دینا: ہوش ٹھکانے نہ رہنے دینا ۔ ہوش گم کر دینا ۸۵ اڑ جانا: کسی کام پر تُل جانا۔ ضد کرنا غمِ جانکاہ: جان کو گھٹانے والا غم۔ جانکاہ۔ اسم فاعل آنکھ کا تارا: بہت چاہتا ۔ پیار بیٹا شامتِ اعمال: بُرے عملوں کی شامت۔ بُرے عملوں کا بُرا نتیجہ۔ نافرمانی: حکم نہ ماننا۔ ۸۶ احکام: جمع حکم کی۔ اطاعت: فرمانبرداری۔ حکم ماننا دل پتھر ہو جانا: سنگدل ہو جانا۔ سخت دل ہو جانا۔ نصائح: جمع نصیحت کی ۔ نصیحتیں مفقود الخبر: لا پتہ ۔ گمنام۔ جس کی کوئی خبر نہ ہو۔ ۸۷ کشمکش: لڑائی جھگڑا۔ فتنہ و فساد۔ غم والم۔ کھینچا تانی۔ قلبی تکلیف: دل کی تکلیف دمِ واپسیں: مرنے کا وقت درماں: علاج پلندا: بنڈل ۔ گٹھڑی۔ قطعی: بالکل ۸۸ اعلان: ظاہر کرنا۔ اظہار۔ شہرت فرد قرارداد جُرم: لگائے ہوئے جُرم کا کاغذ یا رجسٹر عین بہارِ شباب میں: عین جوانی کی حالت میں۔ عزمِ مصمم: پکا ارادہ (صفت موصوف) راز فاش کرنا: بھید ظاہر کرنا ۔ بھید بتانا تضاد: باہم ضد ہونا۔ آپس میں مخالف ہونا۔ ۸۹ زیب تن کرنا: پہننا۔ تعمیل: عمل کرنا۔ حکم ماننا عبرت: نصیحت پکڑنا۔ نصیحت حاصل کرنا۔ لولوئے شہوار: قیمتی موتی۔ شاہانہ موتی۔ آب: چمک لطافت: پاکیزگی۔لطیف ہونا شمیم: خوشبودار ہونا بادِ صر صر: تیز ہوا ۔ آندھی۔ عنادل:جمع عندلیب۔ بُلبلیں نوا سنجی: راگ گانا۔ مقابر: جمع مقبرہ کی۔ مقبرے قریوں : جمع قریہ کی ۔ گائوں ہستیاں: جمع ہستی کی ۔ زندگیاں۔ سراب: دھوکہ۔ ریت کا دور سے آفتاب کی کرنوں سے پانی دکھائی دینا۔ ۹۵ بحر اطلانتک: بحرِ اوقیانوس ۔ جو یورپ کے مغرب کی طرف ایک سمندر ہے۔ صحرائی جانور: جنگلی جانور عجیب الخلقت: عجیب پیدائش والا ۹۶ دم پھولنا: دم چڑھنا ۔ سانس چڑھنا ۹۷ کلّوں: جمع کلّہ ۔ جبڑوں کچھار: غار تاجروں کے روز مرہ میں: تاجروں یا سوداگروں کی بول چال میں۔ ۹۸ منطقہ حارہ: خطِ سرطان اور خطِ جدی کے درمیان کا حصہ۔ گرم حصہ ۹۹ ڈانڈ: بانس۔ بلّی۔ مسلح: ہتھیار بند۔ ہتھیار لگے ہوئے۔ آہن پوش: لوہے سے ڈھکا ہوا مستحکم : مضبوط۔ زادِ سفر: سفر کی خوراک۔ سفر کا توشہ ۔شامانِ سفر۔ ۱۰۰ گھرنی: چرخی۔ اہتمام: بندوبست۔ انتظام ۱۰۱ سنان: بھالے کی نوک۔ مہلک: ہلاک کرنے والا۔ مارڈالنے والا۔ اسم فاعل ٹوہ: تلاش۔ سبھائو: خاصہ طبیعت بھانپ لینا: تاڑ لینا۔ معلوم کر لینا آن کی آن میں: فی الفور۔ تھوڑی دیر میں۔ انداز: طریقہ ۔ ڈھنگ۔ باڑھ مارنا: بہت سی توپوں یا بندوقوں کا اکٹھا چھوڑنا یا چلانا۔ ۱۰۲ حلقہ باندھے ہوئے: گھیرا ڈالے ہوئے۔ شرابور: شور بور۔ تربتر سکت: طاقت۔ قوت۔ لوتھ: لاش ۔ مردہ جسم۔ ۱۰۵ دردناک: درد والا۔ اسم فاعل خفتہ بخت: خفتہ (اسم مفعول) سویا ہوا۔ بخت نصیب۔ جس کے نصیب سوئے ہوئے ہوں۔ بد نصیب لاکلام: لاکلام نفی۔ نہیں ۔ کلام بات۔ یعنی بات نہیں۔ مُراد شک نہیں۔ بلا شک۔ زیست: زیست۔ زندہ رہنا۔ جینا حاصل مصدر ۱۰۶ مدام : ہمیشہ قلیل: تھوڑا دُہل: ڈھول بہائم: چوپائے۔ بہیمہ کی جمع۔ سلام بھیجنا: کسی چیز کا خیال چھوڑ دینا۔ یکتا: یکتا ۔ لاثانی ۔ بے نظیر۔ بے مثل قیام: قائم رہنا۔ ٹھیرنا۔ ۱۰۸ طائوس ِ زریں: سنہری مور۔ طائوس مور۔ زریں سنہری۔ اسم صفت خوش جمال: خوبصورت مسکن: جائے سکونت۔ رہنے کی جگہ۔ اسم ظرف مکان افراط: کثرت۔ زیادتی۔ بہتات۔ جانوران درندہ: چیرنے پھاڑنے والے جانور۔ نوع: قسم ۔ طرح۔ گزند پہنچانا: تکلیف دینا۔ ۱۰۹ شب باش ہونا: رات کو بسیرا لینا۔ رات کو رہنا۔ رات گزارنا۔ نقل مکان کرنا: مکان کا تبدیل کرنا۔ جگہ بدلنا۔ دارو مدار: انحصار۔ ٹھیرائو۔ حیرت خیز: حیران کرنے والا۔ اسم فاعل۔ ۱۱۰ بُشرہ: چہرہ۔ مُلال: رنج۔ غم۔ آثار: نشانات۔ نشانیاں۔ جمع اثرکی۔ چرخ ِسِفلہ پرور: کمینوں کو پالنے والا آسمان۔ کمینہ پرور آسمان۔ جویائے پناہ: پناہ ڈھونڈنے والا۔ اسم فاعل جور: ظلم۔ نفور: نفرت کرنا گھُٹی: دست آور دوائی۔ جو نوزائیدہ بچے کا پیٹ صاف کرنے کے لیے دودھ پلانے سے پہلے جوش دے کر اس کے مُنہ میں ٹپکاتے ہیں۔ یعنی کسی کی پختہ عادت جو جائے نہیں۔ مُشتِ اُستخواں: ہڈیوں کی مُٹھی۔ مُٹھی بھر ہڈیاں۔ چھوٹا سا جسم۔ موقع شکوہ سنجی: شکایت کرنے کا موقع۔ ماشاء اللہ: جو کچھ اللہ نے چاہا۔ خدا کرے یہ کلمہ دُعا بھی ہے اور جب کبھی کسی پیاری چیز کی تعریف کرتے ہیں تو پہلے یہ کلمات بول لیتے ہیں۔ تاکہ نظرِ بد نہ ہوجائے۔ ۱۱۱ خانگی جانور: پالتو جانور۔ گھروں میں رہنے والے جانور۔ ٹخ ٹخ: گھوڑے یا گدھے کو ہانکنے کی آواز۔ مقاومت: مقابلہ کرنا دم بھرنا: خواہش کرنا۔ دعویٰ کرنا۔ ۱۱۲ بھرّو میں آنا: فریب میں آنا سروکار: تعلق لگائو عار: شرم۔ روباہ بازیاں: فریب لومڑی کے کھیل۔ مکاریاں۔ ۱۱۳ کھیدا کر کے: اوگی لگا کر۔ اوگی وہ گڑھا جس پر پھوس اور پتلی پتلی لکڑیاں ڈال کر مٹی سے چھُپا دیتے ہیں۔ شیر ہاتھی وغیرہ کا اس سے شکار کرتے ہیں۔ الامان: خدا پناہ دے۔ یہ کلمہ کسی مصیبت کے نازل ہونے کے وقت بولا جاتا ہے۔ الحذر: خدا بچائے الحفیظ: خدا بچائے۔ الہٰی پناہ کوہِ رفیع: بلند پہاڑ ۔ صفت موصوف غار عمیق: گہرا گڑھا۔ صفت موصوف سنگسار: پتھرائو کرنا۔پتھر مار مار کر ماردینا۔ یہ ایک شرعی سزا ہے۔ تعبیر: بیان کرنا۔ خواب کا نتیجہ بتانا۔ معبّر: تعبیر بتلانے والا۔ اسم فاعل خائف: خوف کرنے والا۔ ڈرنے والا۔ اسم فاعل۔ مضغہ: گوشت کا لوتھڑا اطاعت: فرمانبرداری ۔ حکم ماننا سیپوں ، سیپوں: گدھے کی ہنہنانے کی آواز۔ اسم صَوت۔ بھرکس نکالنا: مار پیٹ کر بُرا حال کرنا۔ ہڈی پسلی توڑ ڈالنا۔برباد کرنا۔ ۱۱۷ مفر: بھاگنے کی جگہ بے تحاشہ: بے دھڑک۔ ۱۱۸ بِگٹُٹ: تیز بھاگتے ہوئے۔ تن وتوش: جسم لَاحَولَ وَلَا قُوّۃَ: کلمۂ تعجب۔ لفظی معنی ہیں۔ گناہوں سے بچنا اور نیکی کرنا خدا کی مدد کے بغیر نہیں۔ ۱۲۰ قہرِ درویش بر جانِ درویش: غریب کا قہر اپنی جان پر۔ مصداق: صادق آنے کا اوزار۔ یعنی وہ شے جس پر کوئی معنی بولے جا سکیں۔ ۱۲۱ استعجاب: تعجب کرنا ۔ حیرانگی۔ واللہ اعلم: اور خدا خوب جانتا ہے ۱۲۲ طنطنے: جمع طنطنہ کی ۔ باجے کی آواز۔ بلند آواز نبرد آزمائی: جنگ آزمائی ۔ لڑائی آزمانا۔ ۱۲۴ چشم زدن: پلک جھپکنا۔ تھوڑی دیر۔ سیلِ بلا: مصیبت کی طغیانی۔ مراد بہت سخت مصیبت شربتِ وصل پلانا: کسی سے ملنا۔ روش: طریقہ۔ مسا: شام۔ اسم ظرفِ زماں۔ جھانجھ: ایک قسم کا پائوں میں پہننے کا زیور۔ ۱۲۵ اِترانا: غرور کرنا۔ تکبر کرنا۔ گھمنڈ کرنا۔ مشاطہ: بال سنوارنے والی عورت۔ نائن ساقی: پلانے والا۔ اسم فاعل ساغر: پیالہ نامیہ: بڑھانے والی قوت۔ آبِ رواں: بہتا ہوا پانی۔ چلتا ہوا پانی۔ ساحتِ ہاموں: جنگل کا میدان روہو: ایک قسم کی مچھلی۔ روپہلی: چاندی جیسی انداز: ڈھنگ ۔ طریقہ پیہم: متواتر۔ لگا تار۔ رقص : ناچنا زہرہ: آسمان پر ایک خوبصورت ستارہ۔ افلاک : جمع فلک کی یعنی آسمان سستا لینا: آرام کرنا۔ دم لینا۔ ۱۲۷ موقوف: وقف کیا گیا۔ منحصر۔ اسم مفعول۔ عقل کے دشمن: بے عقل ۔ بے سمجھ۔ نا دان۔ بیوقوف۔ کارساز: اسم فاعل۔ کام بنانے والا۔ مُراد۔ اللہ تعالیٰ۔ اُصول: قاعدہ۔ ۱۲۸ مشابہت : مشابہ ہونا۔ یکساں ہونا۔ مخالفت: اختلاف۔ فلسفۂ طبعیات: علوم طبی کا فلسفہ عملی: تجربہ کی۔ نظری: مشاہدے کی۔ لائٹ: انگریزی لفظ ہے۔ روشنی ضیائ: روشنی محققین: جمع محقق کی۔ تحقیق کرنے والے۔ اصل حال دریافت کرنے والے۔ اسم فاعل خواص: جمع خاصیت کی۔ منعکس: عکس قبول کرنے والا۔ شعاع جو اُلٹ کر آئے۔ ۱۳۰ دَل کا خول: موٹائی کا غلاف۔ جھاڑ کا قلم: فانوس کا لٹکن یعنی بلّور کا ٹکڑا پیپر ویٹ: شیشے کا گلدستہ جو کاغذ دبانے کے کام آتا ہے۔ ۱۳۱ طلسمات: جادو۔ انحراف شعاع: شعاع کا پھر جانا منشور مثلث: تکونے شیشے ۔ بلّور کے تکونے لمبے ٹکڑے۔ ۱۳۲ توقف : ٹھیرنا۔ اِدّعا: دعویٰ کرنا۔بے دلیل بات کہنا۔ تمثیل: مثال دینا۔ تشبیہ دینا۔ نہال: درخت ۔ پودے۔ نخل: درخت رختِ کہن: پرانا لباس۔ پرانا اسباب۔ زمُرّد اساس: سبز رنگ۔ لفظی معنی زمُرّدکی بنیاد والا۔ زمُرّد جواہرات کی قسم سے سبز رنگ کا پتھر ۱۳۵ ریاحین : جمع ریحان کی ۔ پھول۔ حنا: مہندی سوسن: ایک پھول کا نام۔ جو نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ شمیم: خوشبودار ہوا۔ دوش: کندھا نوخاستہ: بیا اٹھا ہوا۔ مراد نیا پیدا ہوا ہوا۔ اسم مفعول صناعان: جمع صنّاع کی بمعنے کاریگر۔ کاریگران۔ اثمار: جمع ثمر کی بمعنے پھل۔ اشجار: جمع شجر کی۔بمعنے درخت۔ ڈھاک: ایک قسم کا درخت۔ جس کی ایک ٹہنی پر تین ہی پتے ہوا کرتے ہیں۔ پنجابی چھِچھرا۔ مثل مشہور ہے کہ ’ؔ’ ڈھاک کے وہی تین پات‘‘ پھبن: سجاوٹ بادِ صرصر: تیز ہوا ۔ آندھی۔ نشو ونما: بڑھنا۔ پرورش پانا۔ حاصل مصدر وحش: وحشی جانور۔ چوپائے جانور۔ ۱۳۶ طیور: جمع طائر کی ۔ پرندے ۔ نثار: قربان ۱۳۷ قضا: موت ۱۳۸ خوش آمدی : تُو خوش آیا۔ علیک السلام والاکرام: تجھ پر سلامتی اور عزت ہو۔ خودکشی کرنا: اپنے آپ کو مار ڈالنا در: دروازہ جبہہ سائی: ماتھا رگڑنا ۔ پیشانی رگڑنا۔ نجار: بڑھئی ۔ ترکھان۔ ۱۳۹ تصفیہ: فیصلہ۔ تعدی: ظلم ۔ سختی۔ شایاں: مناسب ۔ لائق پرائے پھٹے میں پائوں نہ ڈالو: دوسروں کی مصیبت میں نہ پڑو۔ دوسرے کی بات میں دخل نہ دو۔ ۱۴۰ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا: ذرا سی بات کو بھی نہیں سہارتا۔ اِنشاء اللہ: اگر خُدا نے چاہا۔ اگر خدا کو منظور ہے۔ ذی جاہ: بڑے مرتبے والے احتمال: شک۔ گمان۔ خیال۔ ۱۴۱ خباثت: خبیث ہونا ۔بُرا ہونا۔ پلیدی۔ تملق: چاپلوسی ۔ خوشامد۔ ملول: دلگیر۔ غمگین۔ صیدِ ادبار: بدبختی کا شکار۔ چکمے: دھوکے فریب ۱۴۲ مقفل : قفل لگا ہوا ۔ تالا لگا ہوا۔ قفس: پنجرہ۔ تشنہ لب: پیاسا۔ غیظ: غصہ زہرہ آب آب ہو جانا: پِتّہ پانی پانی ہو جانا۔ بہت ڈر لگنا۔ ۱۴۴ محسن کُش : احسان کرنے والے کو مار ڈالنے والا ۔ بے وفا۔ اسم فاعل اسیر: قیدی بات پتے کی کہتا ہے: ٹھیک بات کہتا ہے۔ ہم تو بول گئے: ہم تو ہار گئے۔ ۱۴۷ بنس: خاندان دوبدو: آمنے سامنے روبرو جوق جوق: گروہ گروہ۔ مسادا: ایسا نہ ہو۔ شیر ہو جانا: دلیر ہو جانا زحمت: تکلیف۔ کوڑے کر لینا: بیچ ڈالنا۔ اونے پونے کرنا۔ وفا شعار: وفا دار۔ معروف ترانہ: مشہور راگ۔ اعانت: مدد۔ لجاجت: عاجزی ۔ منّت۔ خوشامد ایذا: تکلیف۔ دُکھ۔مصیبت۔ زک دینا: شکست دینا ۱۵۲ اُول جلُول: احمق۔ اکھڑو۔ بدسلیقہ۔ اُوت۔ بے معنی۔ دامِ تزویر: فریب کا جال۔ دندنانا: خوشی کرنا ۔ مزے اڑان ۱۵۳ پالے نہ پڑنا: واسطہ نہ ہونا۔ فِی النّار والسّقر ہونا: فی ۔ میں (حرف جار) ۔نار۔ آگ۔ سقر۔ دوزخ۔ دوزخ میں جلنا ۔ دشمن کے لیے بد دعا۔ ۱۵۴ چاہ: خواہش لپّڑ: تھپڑ مُنہ کی کھان: شکست کھانا ۔ ہار جانا ۔ شرمندہ ہونا۔ ۱۵۶ گدھا کس کھیت کی مولی ہے: کدھے کی کیا حقیقت ہے۔ بے بھائو کی پڑیں۔: بہت سزا ملی۔ تکے تکے اُڑانا: ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ ۱۵۷ مواخذہ: گرفت کرنا۔ کسی سے بات بات میں جواب لینا۔ باز پرس کرنا۔ پکڑنا۔ خس کی ٹٹیاں: خس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ جس کی ٹٹیاں بناتے ہیں۔ ۱۵۸ شُترغمزہ: ناموزوں نخرہ۔ ۱۵۹ لطفِ جاں: زندگی کا مزا جورِ دوستاں: دوستوں کا ظلم۔ دوستوں کی سختی۔ رازداں: بھید جاننے والا۔ بھیدی داغ رفتگاں: رفتگاں جمع رفتہ کی لفظی معنے گئے ہوئے ۔ مراد مرے ہوئے۔ داغ رفتگاں کے معنے مرے ہوئوں کا رنج۔ سوزش نہاں: دل کی جلن۔ ۱۶۰ سیلِ آب : پانی کی رو۔ عندلیب: بُلبل بام شاخسار: شاخ کی چھت۔ مُراد شاخ کی بلندی۔ نوبہار: موسم بہار۔ فرطِ انبساط: خوشی کی کثرت۔ مستیِٔ نشاط: خوشی کی مستی فصلِ گُل: موسم بہار۔ نغمہ: راگ ۱۶۲ ہیٹھے بن کر رہنا: نیچا بن کر رہنا۔ ذلت: خواری۔ بے عزتی۔ گلے کا ہار بنا رہتا تھا: گلے سے الگ نہیں ہوتا تھا ۔ گلے سے چمٹا رہتا تھا۔ ۱۶۳ تردید: رد کرنا۔ حجت: دلیل اشک ریزی : آنسو ٹپکانا۔ آنسوگرانا۔رونا شکوک : جمع شک کی آب ریزی کرنا: کھیتوں میں پانی دینا۔ سیراب کرنا لطیف جذبہ : پاک خواہش ۱۶۳ احساس نہ ہوا : خیال نہ آیا ۱۶۴ غصہ فرو کرنا : غصہ دور کرنا۔ غصہ اتارنا۔ غصہ کم کرنا۔ ترشیاں : ناراضگیاں۔ خفگیاں ۱۶۵ خانگی تردّدات : خانگی جھگڑے ۔ گھر کے فکر۔ برہنہ پا : ننگے پائوں والا چیںبہ جبیںہو کر : غصے ہو کر۔ خفا ہو کر۔ تیوری چڑھا کر۔ ۱۶۷ تسکین : تسلی ۱۶۸ طائرِ بے پرواز : نہ اڑنے والا پرندہ صدر دروازہ : بڑا دروازہ۔ پھاٹک امرتیوں : ایک قسم کی مٹھائی حماقت : بیوقوفی۔ نادانی فطرۃً : عادت کے طور پر خلوت پسند : تنہائی پسند۔ اکیلا رہنا۔ پنپتاتھا : پرورش پاتا تھا نحافت : نحیف ہونا۔ کمزوری۔ کم ظرف : کمینہ سفلہ مزاج : کمینہ مزاج والا یا والی۔ ۱۷۲ اشگون : بُرا شگون۔ الف نفی کا ہے ۱۷۳ قلق : رنج ۱۷۴ بادِ حوادث : مرکب اضافی۔ حوادث جمع حادثہ کی۔ حادثات کی ہوا۔ آبیاری کرنا: کھیتوں میں پانی دینا۔ سیراب کرنا۔ اُبٹن : اُبٹنا۔ پروان چڑھے : خوبصورت نکلے۔ ۱۷۵ احتظاظ : حظ اٹھانا ۱۷۷ خلائے دل : دل کی خالی جگہ۔ زائرین : زیارت کرنے والے۔ جمع زائر ۱۷۸ خال خال : کوئی کوئی۔ محوِ تسبیح خوانی : تسبیح پڑھنے میں مشغول انکسار : عاجزی رخنہ ڈالنا : نقصان پہنچانا مشیتِ ایزدی : خدا کی مرضی۔ ۱۸۰ وحشت : دیوانگی۔ دیوانہ پن۔ رقت : نرمی۔ دل بھر آنا۔ رحم ۔ دردمندی۔ ہلکان ہو گیا : ہلاک ہو گیا۔ بہت تکلیف ہوئی۔ ہُڑک رہا ہے : بے دل ہو رہا ہے۔ مسوس اُٹھا : پکڑا گیا۔ ۱۸۱ سہمی ہوئی نگاہوں سے: ڈری ڈری نگاہوں سے۔ ڈھارس : امید ۱۸۳ حجِ اکبر : بڑا حج۔ ۱۸۴ سوا : زیادہ۔ صدا : آواز ہر کس و ناکس : امیر وغریب الوان : رنگا رنگ۔ طرح طرح بیضہ : انڈا عنقا : فرضی جانور کا نام۔ جش کا وجود دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ہما : جانور کا نام جس کا سایہ آدمی کے سرپر پڑ جائے تو یا بادشاہ ہو یا ولی۔نیز کہتے ہیں۔ کہ یہ جانور ہڈیاں کھاتا ہے اورکسی جانور کو نہیں ستاتا۔ چاٹ : مزہ۔ لطف۔ شفقت مادر : ماں کی محبت۔ ماں کی مہربانی ۱۸۵ غُربت : سفر ۔ مسافری۔ کنارہ کرنا : جدا ہو جانا۔ حقِ رفاقت : دوستی کا حق مصاحب : ہم نشیں۔ کاسۂ غربت : غریبی کا پیالہ۔ انیس الغُربا : غریبوں کی مدد گار۔ مطلوب : طلب کیا گیا۔ اسم مفعول۔ ثقالت : ثقیل ہونا۔ مقتبس : روشنی لینے والا۔ فائدہ ڈھونڈنے والا زغن : چیل زاغ : کوّا ۱۸۷ بے ڈول : بے شکل۔ بد شکل سنگِ خارا : سخت پتھر۔ مٹی سے چتے ہوئے: مٹی سے لپے ہوئے۔ پاکھے : پہلو ۔ بازو۔ کھروں : پائوں۔ جمع کُھر کی۔ ملگجے ملگجے : میلے میلے۔ بدھنی : چھوٹا ٹونٹی دار لوٹا۔ دولڑے : شہتیر سِلے ہوئے ایندھن : بھیگی ہوئی جلانے کی لکڑیاں۔ بھرتیوں : دیگچوں۔ ٹھاٹر۔ ڈھانچ۔ اوپلا سا چہرہ : گوبر کی تھاپی (گوٹھا) جیسا چہرہ۔ بدصورت چہرہ۔ چنیاں سی آنکھیں : چھوٹی چھوٹی آنکھیں گروہ سے ہونٹ : موٹے موٹے ہونٹ اٹی ہوئی : بھری ہوئی ۔ پُر۔ انوٹ : ایک گھنگرو دار زیور ہے جسے ہندو عورتیں پائوں کے انگوٹھے میں پہنتی ہیں۔ بچھوے : پائوں کی انگلیوں کا زیور۔ گجری : کلائی کا زیور پچلڑا : اپانچ لڑ والا۔ ستلڑا : سات لڑ والا بندن : کڑا (ایک زیورکا نام ہے) چھن : کنگن مکڑیاں : مکڑی کی شکل کی گلکاری ۱۹۰ ڈوئی : ایک لکڑی کا چمچہ ۔ جس سے پکا ہوا کھانا نکالتے یا ہانڈی می چلاتے ہیں۔ تقاضا : خواہش۔ طلب۔ درخواست۔ چٹخی ہوئیں : ٹوٹی ہوئیں۔ ٹپکا لگنا : پانی کا قطرہ قطرہ کرکے گرنا۔ دھوانس : دھوئیں کا کسی چھت سے لگ کر اس میں جالے سے پیدا کر دینا۔ ۱۹۱ اسٹیشنوں : جمع اسٹیشن کی۔ مُراد بڑی جگہ ۔ چھائونی۔ چراٹا ہونا : آواز کا نکلنا سِیلا ہوا : بھیگا ہوا۔ تلے دھارا اوپر دھارا : اوپر اور نیچے پانی ہی پانی ۱۹۲ خدا خدا کر کے : بڑی مشکل سے خدا کا نام لے لے کر۔ ۱۹۳ ایثار : اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو مقدم سمجھنا۔ مثلاً اگر کوئی بھوکا آ جائے تو اپنی بھوک کو روک کر اس کو اپنا کھانا دینا۔ یہاں ایثار یہ ہے کہ حضرت زینبؓ نے چاہا کہ ان کے بیٹے شہید ہو جائیںان کے بھائی امام حسین علیہ السلام اور ان کے بیٹے زندہ رہیں اور اسی لیے ان سے پہلے اپنے بیٹوں کو میدانِ جنگ میں بھیجا۔ کربلا : وہ میدان جہاں امام حسین ؑ اور ان کے رفقاء یزیدی لشکر سے لڑ کر شہید ہوئے تھے۔ سَلامُ اللہ علیہا : اُن پر خدا کا سلام یعنی رحمت ہو۔ علیہا مرکّب ہے علیٰ حرف جار بمعنی پر اور ہا ضمیر غائب مونث واحد ہے۔ سلامُ اللہ علیہ : علیہ السَّلام ۔ اس کے بھی وہی معنی ہیں۔ جو سلام اللہ علیہا کے ہیں ۔ صرف فرق یہ کے کہ وہ مونث کے لیے اور یہ مذکر کے لیے بولے جاتے ہیں۔ عدیم المثال : لاثانی طمانیت : اطمینان۔ خاطر۔ کوثر : بہشت میں ایک حوض ہے ۔ جس کا پانی مسلمانوںکے اعتقاد کے موافق دودھ سے زیادہ لذیذ اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے۔ اہل بہشت کو وہ پانی پینے کے لیے ملے گا۔ نام بڑا کرنا : شہرت حاصل کرنا عاشقِ اولاد : اولاد سے بہت محبت رکھنے والا یا والی۔ زہراؑ : حضرت محمدﷺ کی دخترِ فرخندہ اختر جن کا اسم مبارک فاطمہ ؑ تھا۔ اور حضرت علی علیہ السّلام کے نکاح میں تھی۔ امام حسنؑ اور امام حسینؑ انہیں کے بطن سے تھے۔ ماتم : افسوس ۔ غم۔ ۱۹۴ دولعل : مُراد فرزندانِ حضرت زینب سے ہے۔ جبیں پر چین آنا : تیوری چڑھانا۔ چیں بجبیں ہونا۔ پُرسا : ماتم پرسی۔ مردے کے وارثوں کو دلاسا دینے کے واسطے اس کے گھر جانا۔ کونین : دونو جہاں ۔ یعنی دنیا اور آخرت یہ صیغہ تثنیہ کا ہے ۔لفظ کون سے جس کے معنی دنیا ہے۔ تثنیہ عربی زبان میں دو کے لیے الگ صیغہ ہوتا ہے اور دو جمع میں داخل نہیں۔ تین یا تین سے زیادہ جمع شمار ہوتے ہیں۔ اردو میں اس قسم کے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً طرفین۔ فریقین۔ والدین وغیرہ۔ پروان چڑھنا : کمال کو پہنچنا۔ مُراد کو پہنچنا قاسم : حضرت امام حسن ؑ کے بیٹے۔ جو اپنے چچا امام حسین ؑ کے ساتھ میدانِ کربلا میں شہید ہوئے۔ اکبر : امام حسینؑ کے اٹھارہ برس کے کڑیل جوان بیٹے جو کربلا میں شہید ہوئے دلدار : پیارا۔ محبوب۔ نثار : پیارا۔ محبوب۔ شہِ ابرار : نیکوں کے بادشاہ۔ مُراد امام حسین ؑ سے ہے ایزد غفار : صفت موصوف ۔ معنے گناہ بخشنے والا خدا قلق : رنج شہِ جن و بشر : انسانوں اور جنوں کے بادشاہ۔ مُراد امام حسین ؑ۔ وغا : حرف اول وائوبمعنی لڑائی قبلۂ عالم : جہاں کا بزرگ۔ بادشاہوں کا لقب۔ مُراد امام حسینؑ صفیں الٹنا : لڑائی کی صف بستہ فوجوں کو تتر بتر کرنا۔یعنی بھگا دینا۔ اہلِ جفا : ظالم لوگ یہاں مراد لشکر یزید سے ہے۔ لشکرِ کیں : دُشمنی کا لشکر۔ یعنی لشکرِ دشمن۔ نوشاہ : دولہا۔ ۱۹۷ مکرّمی : یائے متکلم ۔ میرے مکرّم۔ میرے معزز۔ میرے بزرگ دوست۔ بخدا : ب (حرف قسم) خداکی قسم۔ فراغِ خاطر : دِل کی تسلی موافقت کرنا : اتفاق رکھنا۔ ساتھ دینا۔ صاحبِ بصیرت : عقلمند ۱۹۸ بھاوج : بھائی کی عورت امید افزا : امید بڑھانے والی۔ اسم فاعل۔ ہذیان : بیہودہ باتیں کہنا۔ بکنا۔ بیہوشی میں بڑبڑانا ہفت خوانِ رستم : رستم کی ان ساتھ منزلوں سے مُراد ہے۔ جو اسے کیکائوس کی شاہ مازندران کی قید سے چھڑانے کے لیے طے کرنی پڑیں۔ جُرعہ جُرعہ : گھونٹ گھونٹ نیچرل : قدرتی ۱۹۹ شدتِ الم : غم کی شدت۔ غم کی زیادتی۔ محیط : احاطہ کرنے والا۔ اسم فاعل ۲۰۰ معاذ اللہ : اصل اعُوذُ معاذ اللہ ہے۔ یعنی پناہ چاہتا ہوںمیں خدا سے ۔ خدا کی پناہ۔ بجلیاںگرانا : تکلیف دینا اِنّا لِللہ وَ اِنّا اِلیہ رَاجِعُون : تحقیق ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہ کلمہ مسلمان لوگ اس موقعہ پر پڑھتے ہیں۔جب کسی کے مرنے کی خبر سنیں یا جب کوئی مصیبت نازل ہو۔ حوادثات : جمع الجمع حادثہ کی بہرکیف : بہر حال۔ ہر طرح سے ۲۰۴ موج : لہر۔ حباب : بُلبلہ کوہِ لبِ ساحل : ساحل کے کنارے کا پہاڑ اَوج : بلندی۔ شان۔ دمِ چند : تھوڑی دیر سالک : چلنے والا ساکن : کھڑا ہونے ہونے والا ۲۰۵ تاب : طاقت تعلّی : شیخی ۔اپنی بڑائی کا دعویٰ کرنا۔ اِضطراری روش : وہ چال جس میں انسان بے اختیار ہو۔ شانِ ارادی : اپنے اختیار اور ارادے سے کوئی کام کرنے کی حالت۔ روشنی طور : وہ روشنی جو کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو نظر آئی تھی۔ ۲۰۶ سوئمبر: ہندوئوں کے ہاں وہ رسم جس میں لڑکی اپنا خاوند خود پسند کرتی ہے۔ دروپدی : مہاراجہ دروپد کی بیٹی پانچال : پہلے پنجاب کو پانچال کہتے تھے۔ راجدھانی : دارالخلافہ تزک واحتشام : شان وشوکت دمامہ : نقارہ شہنائی : نفیری اُمرا : امیر کی جمع رؤسا : رئیس کی جمع شادیانہ : خوشی کا باجا (جو خوشی کے موقع پر بجاتے ہیں) آئینہ بندی : آئینوں سے سجاوٹ کرنا۔ رنگ آمیزی اور گلکاری : مختلف رنگوں کو ملا کر نقاشی کرنا۔ تجمل : شان وشوکت گلبدن، کمخواب، زربفت : کپڑوں کے نام ہیں زرق برق : چمکدار زیب تن کرنا : پہننا شاداںو فرحاں : خوش و خرم خندہ ریز : ہنسنے والا۔ ۲۰۷ متبسم : مسکرانے والا۔ اسم فاعل ازدحام : بھیڑ۔ کثرت انبوہِ کثیر : بہت بھیڑ جے کارے : فتح کے نعرے خرگاہ : بڑا خیمہ ۲۰۸ تراش خراش : وضع قطع فرقِ عظیم : بڑا فرق دو رویہ : دونوں طرف نجومی : علم نجوم جاننے والا اُصطرلاب : وہ آلات جن سے سورج ۔ چاند اور سیاروں کی گردش کا حال معلوم کرتے ہیں۔ ہندی میں ان کو جنتر منتر کہتے ہیں۔ پوتھی : کتاب خوانچے والے : چھابڑی والے ارباب موسیقی : گویّے لوگ سربفلک : اونچے طنابیں : رستے۔ اہل جاہ و مناصب : عہدیدار۔ امیر وزیر۔ جھلا جھلی : چمکدار۔ زرق برق خاطر مدارت : خاطر تواضع کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں ہوا: کوئی کمی نہیں کی گئی۔ کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شعبدہ گر : بھان متی کا تماشا کرنے والا مداری۔ راجکماری : شہزادی مراسلہ : خط۔ پروانہ۔ شُہرہ : شہرت آوازہ : مشہوری گوش زد ہونا : سننا گوہرِ یکتا کو نقدِ شجاعت دے کر حاصل کریں : یعنی دروپدی سے شادی کریں۔ سُوربِیر : بہت بہادر (یہ لفظ مُرکب ہے سُور اور بِیر سے دونوں کے معنے بہادر اس لیے مرکب کے معنے بہت بہادر)۔ سُورما : بہادر مزین کرنا : زینت دینا۔ سنوارنا۔ دل بادل کا شامیانہ : درباری خیمہ۔ سنگھاسن : تخت متمکن ہونا : بیٹھنا متعین : مقرر ہون : جلتی ہوئی آگ۔ آہوتی : جَو۔ تِل ۔ گُڑ اور گھی وغیرہ ملا کر ایک چیز بنائی جاتی ہے۔ جسے آگ میں ڈالتے ہیں۔ وید دھونی : وید کی آواز سام وید : وہ وید جس میں راگ کا ذکر ہے۔ منتر اور رچائیں : وید کے اشعار شانتی : خوشی۔ اطمینان۔ ۲۱۳ کڑی : سخت سبقت کرنا : پہل کرنا۔ مضحکہ : مذاق قسمت آزمائی : یعنی قسمت کا امتحان۔ تمام سعی بیسود ہے : تمام کوشش بے فائدہ ہے۔ ساری کوشش کا کچھ فائدہ نہیں۔ تیر بہدف : تیر نشانے پر سرگوشی : کسی کے کان میں باتیں کرنا ، کانا پھوسی۔ کہ ومہ : ادنیٰ و اعلیٰ۔ چھوٹا بڑا۔ ۲۱۵ بے نیل مرام : ناکامیاب رشی : زاہد۔ ہندو، فقیر اور بزرگ جلال : بزرگی بُشرہ : چہرہ آثار عظمت وامارت : امیری اور بزرگی کے نشان دست نگر : ہاتھ کو دیکھنے والا۔ (یعنی کسی سے کچھ لینے والا بطور سخاوت) محتاج ۲۱۶ مترشح ہے : ٹپک رہا ہے۔ظاہر ہے۔ لال پیلا ہونا : بہت غصے میں آنا۔ ۲۱۷ کبیدہ خاطر : رنجیدہ دل۔ نصائح : جمع نصیحت کی راج سبھا : راجائوں کی مجلس مقہورِ دارین : وہ شخص جس پر خدا دونوں جہانوں میں خفا ہو اور اس پر اپنا قہر نازل کرے۔ اُپنشدوں : اُپنشد۔ وہ کتابیں جو ویدوں کے آسان عبارت میں لانے سے تصنیف ہوئیں۔ آشرم : سادھوئوں کے رہنے کی جگہ۔ برہم رشی : برہمن زاہد یا فقیر (اگر کھشتری فقیر ہو جائے تو اسے راج رشی کہتے ہیں۔ ۲۱۸ حُزن و ملال : رنج وغم مسرت : خوشی باچھیںکھِل جانا : خوش ہو جانا ۲۲۰ چشتی : خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے مراد ہے۔ جن کا مزار اجمیرشریف میں ہے۔ پیغامِ حق : خدا کا پیغام۔ یعنی خدا کے احکام نانک : گورونانک صاحب جنہوں نے ہنود میں توحید کو جاری کیا۔ تاتاری : تاتار کے رہنے والے ۔ مُراد ترکوں سے ہے۔ جنہوں نے ہندوستان کو فتح کر کے یہاں سلطنت کی۔ حجازی : اہلِ عرب سے مُراد ہے جنہوں نے ہندوستان پر حملے کیے۔ یونانی : یونانیوں سے مُراد سکندر کا حملہ ہے۔ وحدت کی نَے : وحدت کی بانسری یعنی توحید کی آواز مُراد تعلیم اسلام سے ہے۔ کہکشاں : آسمان پر اکٹھے ستارے جن سے راستہ بنا ہوا دکھائی دیتا ہے چنانچہ پنجابی میں اس کو راہ ہی کہتے ہیں۔ تاب دینا : چمکانا ۲۲۱ میرِ عرب : مُراد پیغمبرِ اسلامﷺ سے ہے۔ اور ٹھنڈی ہوا کا اشارہ اس مطلب کی ایک حدیث شریف کی طرف ہے۔ ۲۲۲ مانوس کرنا : کسی چیز کی محبت کسی کے دل میں ڈالنا۔ کسی کو کسی کی طرف مائل کرنا۔ عِصیاں : نافرمانی۔ گناہ۔ وبال : شامت عقوقِ والدین : ماں باپ کی نافرمانی۔ موروثی عداوت : خاندانی دشمنی مخفی : پوشیدہ۔ خبط : دیوانوں کا سا خیال۔ ۲۲۳ اصلاح : درستی۔ مضحکہ : ہنسی احرامِ حج : حاجی لوگ کعبہ کی سرحد میں پہنچ کر ایک خاص مقام پر سِلے ہوئے کپڑے اتار کر صرف دو بے سِلی چادریں پہن لیتے ہیںاور اس روز سے سلا ہوا لباس ۔ خوشبو ۔ حجامت وغیرہ چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر دیتے ہیں۔ حج کے اس عمل کا نام احرام ہے۔ ہجرت : اپنا وطن چھوڑ کر کسی غیر ملک میں سکونت اختیار کرنا۔ وضعداری : پابند وضع ہونا۔اپنی وضع کو نہ چھوڑنا۔ شیخ وقت : مُراد نصوح سے ہے۔ تقلید : پیروی مستبعد : بعید از عقل۔ خلاف عقل۔ اِرادت : عقیدت ۔ اعتقاد معلوم : یعنی سب کو معلوم ہے کہ شاعروں کو شیخ یعنی واعظ و ناصح سے عداوت ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ اپنے شعروں میں ان کو بُرا کہتے ہیں۔ ماشاء اللہ : یہ عربی جملہ ہے۔ اس کے لفظی معنے’’جو کچھ خدا نے چاہا‘‘ یعنی جو کچھ خدا کو منظور ہے۔ لیکن اردو میں یہ الفاظ ایسے مقام پر بولتے ہیں کہ جب کسی چیز کی تعریف کرنی ہو اور خیال ہو کہ اسے نظر بد نہ ہو جائے یعنی ’’چشم بد دور‘‘ کے معنوں میںا ستعمال ہوتے ہیں۔ ۲۲۴ طُرّہ : تماشا۔ عجیب بات۔ سن رسیدہ : بوڑھا۔ آتش مزاج : غصہ والا آدمی۔ خون کا جوش : رشتہ داری کیا تعلق مسدود ذاتِ شریف : نصُوح سے مراد ہے اور یہ طنزاً کہا گیا۔ ۲۲۵ اوپرے : اجنبی۔ شاہد : گواہ۔ حلال خوری : بھنگن۔مہترانی۔ للّو پتّو کرنا : چکنی چپڑی باتیں کرنا۔ پھسلانا۔ ۲۲۶ بزرگ داشت کرنا : کسی کی بہت عزت کرنا۔ بہت بڑا سمجھنا۔ آئو بھگت۔ سخت گیر : سختی کرنے والا تدین : دینداری۔ پابندِ مذہب ہونا۔ پندار : غرور۔ فی الاصل : دراصل۔ مرکوز خاطر تھا : دل میں بیٹھا ہوا تھا۔ کشمکش : کھینچا ۔ کھینچی۔ صراط مستقیم : راہِ راست۔ سیدھا راستہ۔ نیکی۔ ہدایت۔ ۲۲۷ ضلالت : گمراہی۔ بُرائی۔ حریف : مقابلہ کرنے والا۔ میلانِ طبع : طبیعت کا جھکائو۔ نامانوس : جس چیز کی طبیعت کو عادت نہ ہو۔ دشوار گزار راہ : وہ راستہ جس پر چلنا مشکل ہو۔ مُراد دینداری اور پرہیز گاری سے ہے۔ جس پر چلنا واقعی مشکل ہے۔ زُہد : پرہیز گار۔ ریاضت : عبادت۔ اِتقا : خدا سے ڈرنا۔ خوفِ خدا نفس کشی : نفس کا کہا نہ ماننا۔ خواہشاتِ نفس پہ نہ چلنا۔ انکسار و فروتنی : عاجزی۔ عاقبت : مرنے کے بعد اگلا جہاں۔ بدرقہ : رہنما شارع عام : عوام الناس کی گزر گاہ۔ تن آسانی : آرام طلبی کِبر : غرور ۔تکبر۔ مطلق العنانی : خود مختار ہونا۔ آزاد حظّ : لطف۔ مزا۔ حضر : سفر کی ضد۔ یعنی گھر میں ہونا ۲۲۸ ارتکاب : گناہ کرنا۔ بُرا کام کرنا۔ مثنوی : وہ نظم جس میں کوئی قصہ کہانی بیان کی جائے۔ فکرِ سخن : شعر کہنا۔ تکفیر : کسی کو کافر کہنا۔ متردد : حیران۔ متفکر۔ سبیل : طریقہ۔ راستہ۔ ازبس : بہت۔ عیّاری : چالاکی۔ ۲۲۹ موکّل : فرشتے یا جِن کہ اکثر لوگ کلام کے زور سے اُن کو قابو میں لا کر اُن سے بہت سے کام لیا کرتے ہیں۔ آتش بیانی : جوش والی تقریر۔ آتش زنی : آگ لگانا۔ برافروختہ : غصہ میں آیا ہوا۔ نا گفتنی : جو کہنے کے لائق نہ ہو۔ انتقام : بدلہ۔ تحمیق کرنا : احمق بنانا کینہ : دشمنی۔ مُراد بدلہ خزینہ : خزانہ۔ ۲۳۰ ایں خیال است ومحال است و جنوں : یہ محض خیال ناممکن امر اور دیوانہ پن کی بات ہے ۔ یعنی بالکل نا ممکن ہے۔ متعدد : کئی۔ مسلط : مقرر کیا گیا۔گماشتہ۔ قبض ودخل : قبضہ اور دخل بائع : بیچنے والا۔بیع کرنے والا۔اسم فاعل پٹہ قبولیت : وہ اقرار نامہ جو کاشتکار مالک۔ زمین کو لکھ کر دیتے ہیں۔ عُرف میں صرف پٹہ بولتے ہیں ۔ سیاہہ ہوتی ہے : داخل ہوتی ہے۔ تردید : رد کرنا۔ کسی چیز کو جھوٹا قرار دینا۔ تکذیب : جھوٹا کرنا۔ ۲۳۱ پیش رفت ہونا : کارگر ہونا ۔ کامیاب ہونا۔ بیع نامہ : وہ کاغذ جو بیچنے والا (بائع) خریدنے والے (مشتری) کو لکھ دیتا ہے کہ میں نے فلاں چیز بدیں شرائط فلاں کے ہاتھ بیچ دی۔ ۲۳۲ واللہ : خدا کی قسم(اس میں وَ حرف قسم ہے) غنیمت باردہ : لوٹ کا مال۔ چنید کرنا : نا حق حجت کرنا۔ فضول بہانہ کرنا۔ سر قفلی : وہ تحریر جو کرایہ دار تھوڑا سا کرایہ پیشگی دے کر مکان کی چابی حاصل کرتا ہے۔ نا عاقبت اندیش : انجام کو نہ سوچنے والا۔کوتاہ اندیش مسرف : فضول خرچ (اسم فاعل) جھاڑ فانوس : بلور یا کانچ کا فانوس جو امیروں کے مکانوں میں روشنی اور زیبائش کے واسطے لٹکاتے ہیں۔ شیاطین الانس : شیطان سیرت انسان بُرے آدمی۔ ۲۳۳ ناگفتہ بہ : بیان کرنے کے قابل نہیں۔ بد کرداری : بد چلنی۔ تپِ کہنہ : پرانا بخار ۔ جسے تپ دق بھی کہتے ہیں بحران : بیماری کے زور کا دن۔طبیعت اور بیماری کا مقابلہ۔ دو ماہہ : دو مہینے کی تنخواہ۔ شُدہ شُدہ : ہوتے ہوتے۔ طلب وتقاضا : مانگ۔ تنبّہ : جاگنا۔ ہوشیار ہونا۔ قاطبتہً : بالکل۔ تحویل : سپردگی۔ ۲۳۴ ہیکڑی : زبردستی۔ درِ دولت : مکان۔ (یہاں طنزاً کہا ہے)۔ منصوبہ فاش ہو گیا : راز ظاہر ہو گیا۔ بغلی دشمن : گھر کا بھیدی (مارِ آستین) سر ہنگانِ دیوانی : عدالت دیوانی کے پیادے جو قرض داروں کی قرقی کرتے ہیں۔ غفلت شعار : غافل ۔ لا پروا۔ یک طرفہ : وہ عدالتی کاروائی جو مُدعی یا مُدعا علیہ کی غیر حاضری کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ یعنی عدم ثبوت میں ڈگری دی جاتی ہے۔ حراست : نگہبانی۔ پہرہ۔ اعتکافِ شبینہ : رات کی گوشہ نشینی۔ شب باشی۔ حسرت : افسوس۔ مُٹھ بھیڑ : آمنا سامنا ندامت : شرمندگی۔ طُو مار : جھوٹ۔ طوفان۔ بہتان۔ ۲۳۵ گانٹھنا : کسی کو اپنے ساتھ ملا لینا۔ استمراری پٹہ : وہ پٹہ جو ہمیشہ کے لیے لکھ دیا جائے۔ آبروباختہ : ذلیل۔ بے عزت۔ بدنام۔ دروغ کو فروغ ہو گیا : جھوٹ کامیاب ہو گیا۔ یعنی جھوٹا مقدمہ جیت لیا۔ بالمشافہ: رُوبرو ۔ سامنے۔ ۲۳۶ آغاز : شروع انجام : اخیر شجر : درخت حُسن : خوبصورتی۔ الم وملال : رنج و غم عنقا ہونا : نہ ہونا۔ اس لیے کہ عنقا ایک فرضی جانور ہے اس کا وجود نہیں ہے۔ عاشق زار : بہت فریفتہ تُربت : قبر۔ ۲۵۰ خودکردہ راچہ علاج: اپنے کیے کا کیا علاج مطلق العنانی : خودمختاری۔ ذاتِ شریف : بھلے مانس (طنزاً) یعنی بُرے ہیں۔