اقبال درونِ خانہ اوّل شاعر مشرق کی گھریلو زندگی کے نادر اور دلچسپ واقعات (نظر ثانی اور اضافا تِ جدیدہ کے ساتھ) خالد نظیر صوفی اقبال اکادمی پاکستان درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے! (اقبال) سرت گردم اے ساقیِ ماہ سیما بیار از نیاگانِ ما یادگارے! (اقبالؒ) انتساب: اپنی والدہ محترمہ وسیمہ مبارک کے نام جنھوں نے یادوں کے یہ جواہر پارے اپنی لوحِ ذہن پر محفوظ رکھے ترتیب خ پیش لفظ مولانا غلام رسول مہر ۱ خ حرفِ آغاز خالد نظیر صوفی ۱۵ خ حرفِ آگہی خالد نظیر صوفی ۱۸ سرودِ رفتہ ۱۹ (گھریلو حالات، عادات و خصائل) اور مختصر حالات زندگی دانائے راز ۴۵ (چند یادیں اور واقعات) حیاتِ جاوید ۶۷ (چند خواب) نوادر ۷۳ ( سکول اور کالج کے زمانے میں استعمال کردہ چند پرانی کتابیں) اقبالؒ منزل، سیالکوٹ ۷۷ (شاعرِ مشرق کی جائے پیدائش) بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی ۸۳ تاریخِ پیدائش ۱۰۱ (ایک غلط فہمی در غلط فہمی کا ازالہ) انکشافِ حقیقت ۱۰۹ اضافاتِ جدیدہ ۱۲۷ ( حیات اقبال کے خانگی پہلو ۔۔۔ چند نئے زاویے) احوالِ روز و شب ۱۲۹ حواشی ۱۴۸ بسم اﷲ الرحمٰن الرّحیم پیش لفظ عظیم القدر ہستیوں کے سوانحِ حیات لکھنا سہل بھی ہے اور حد درجہ مشکل بھی ۔ سہل یوں کہ معروف شخصیتوں میں سے شاید ہی کوئی ہو جس کے متعلق ضروری واقعات فراہم کر لینا زیادہ محنت و مشقت کا باعث سمجھا جائے ۔ یہ واقعات سامنے رکھ کر ہر قلم کار اپنی بساط و استعداد کے مطابق ایک مرقع بہ آسانی ترتیب دے سکتا ہے ، لیکن شخصی سوانح کی ترتیب کا مقصد میرے تصور کے مطابق یہ نہیں ہوتا کہ کسی شخصیت کے متعلق جو معلومات ادھر اُدھر سے فراہم کی جاسکیں ، انھیں ایک خاص ترتیب سے قلمبند کر دیا جائے ، اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ ترتیبِ کتاب کا انداز ایسا رکھا جائے جس میں شخصیت کے خصوصی پہلو خود بخود ابھر ابھر کر روشن صورت میں سامنے آتے جائیں اور پڑھنے والے کو اندازہ ہوتا جائے کہ شخصیت میں عظمت و امتیاز کے اہم خصائص کون کون سے ہیں اور اس نے کن وجوہ سے نظروں میں گوہرِ شہوار یا ستاروں میں ماہ و خورشید کی حیثیت حاصل کر لی ؟ یہ کہنا تحصیل حاصل ہے کہ شخصیت کو بہ ہر حال زیادہ سے زیادہ صحیح ، طبعی اور بے ساختہ صورت میں منظرِ عام پر پیش ہونا چاہیے ، تصنع اور بناوٹ کی خفیف سی بھی آمیزش نہ ہونی چاہیے ، جو سراسر غیر طبعی ہوگی ۔ ہر اداکاری کے لیے موقع اور محل کی مناسبت سے روپ بھرنا جائز سمجھا جاسکتا ہے لیکن شخصیت نگاری میں ایسا معمولی سا عمل بھی حقیقت و واقعیت کو مسخ کر دے گا ۔ {۲} مصور رنگ روغن کے ذریعے سے اور فوٹو گرافر کیمرے کی مدد سے تصویر تیار کر دیتا ہے جو اصل کے عین مطابق ہوتی ہے ، مگر اسے محض بے جان شبیہ سمجھنا چاہیے ، یعنی وہ شخصیت کی شکل و صورت ، وضع و ہیئت اور خد و خال کا عام نقشہ تو سامنے لے آتی ہے ، مگر اس کی سیرت و کردار ، اخلاق و عادات اور پسند و نا پسند کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتی ۔ حالانکہ زندہ و جاندار حقائقِ حیات وہی ہوتے ہیں ، جنھیں محفوظ رکھنے کی غرض سے شخصیت نگاری کا فن معرضِ وجود میں آیا ۔ مجسمہ بھی اصل کی مشابہت کا آئینہ دار تو بن سکتا ہے ، مگر اس کے سوا کوئی کام نہیں دے سکتا ۔ نہ مجسمّے کی آنکھیں نظر سے بہرہ مند ہوتی ہیں کہ حسبِ دلخواہ اشارات سے کام لے سکیں ، نہ جسم حرکت کر سکتا ہے کہ جب ضرورت محسوس ہو ، آگے بڑھنے والے کو روک لے یا رکے ہوئے کو آگے بڑھائے ، نہ زبان قوت گویائی سے مزیّن ہوتی ہے کہ دل کی بات کسی کے کان تک پہنچا سکے ۔ یہ شرف صرف سوانحِ نگار کے لیے مخصوص ہے جو رنگ روغن ، دھوپ چھاؤں ، ظل و نور یا سامان ِ سنگ تراشی کی جگہ بولتے ہوئے الفاظ کے لباس میں شخصیت کو سجا کر پیش کرتا ہے اور وہ زندگی کے ہر دائرے میں بے تکلف چلتی پھرتی ، اٹھتی بیٹھتی اور بولتی چالتی نظر آتی ہے ۔ اس کی ایک ایک حرکت ، ایک ایک عمل اور ایک ایک ادا سے عظمت و امتیاز کی کرنیں پھوٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ اس انداز کے سوانحِ حیات مرتب کر دینا ہر صاحبِ قلم کے بس کی بات نہیں ۔ خواجہ نظامی مرحوم اس مقام میں کیا خوب فرما گئے ہیں : سخن گفتن و بکر جان سفتن است نہ ھر کس سزاے سخن گفتن است غالباً یہی وجہ ہے کہ سوانح میں ان کتابوں کو زیادہ پسندیدہ سمجھا جاتا ہے جن میں شخصیت کے متعلق زیادہ سے زیادہ حکایات و روایات کا اہتمام ملحوظ رکھا گیا ہو اور وہ مستند ہوں ۔ عام سوانح نگار جب شخصیت کے اخلاق و فضائل کا ذکر چھیڑتے ہیں تو ہر عنوان کے لیے مستند حکایات و روایات ہی سے سامانِ زینت فراہم کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے کے ذہن میں حقائق و وثائق خود بخود پیوستہ ہوتے جائیں ۔ یہ طریقہ صاحبِ تحریر کے بیان سے کہیں زیادہ مؤثر و دل پذیر ہوتا ہے ۔ دراصل یہ معاملہ سہلِ ممتنع کا سا ہے ۔ دیکھنے میں بہت آسان لیکن لکھنا پڑے تو چند فقرے بھی مرتب نہ ہوسکیں ۔ {۳} میں کہہ نہیں سکتا کہ اقبال مرحوم و مغفور کے سوانح میں اب تک کتنی کتابیں مرتب ہو چکی ہیں ۔ اغلب ہے ، ان کا خاصا بڑا حصہ میری نظر سے نہ گزرا ہو ، لیکن جس وضع و انداز کی کتاب کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں ، ویسی تو شاید یہی کتاب مرتب ہوئی ہے جس کا مقدّمہ لکھنے کا شرف مجھے حاصل ہو رہا ہے ۔ اس کے ہر صفحے پر مرحوم و مغفور ابتدا سے آخری دور تک کاملاً بے ساختہ انداز میں چلتے پھرتے معلوم ہوتے ہیں ۔ کتاب کی بیشتر حکایت و روایات خود علامہ مرحوم کے اہلِ خاندان کی زبان سے بیان کی گئی ہیں ، جس سے زیادہ مستند شہادت کسی اور کی نہیں ہو سکتی ۔ ان روایات میں بھی بڑا حصہ مرحوم کی برادر زادی کا ہے ، جن کی زندگی بچپن سے شادی تک علامہ مرحوم اور ان کی بیگم یعنی والدۂ مرحومہ عزیزی جاوید اقبال کے ظل عاطفت میں گزری ۔ جس حد تک مجھے علم ہے ، اقبال مرحوم کا برتاؤ اپنے بھائی کے بچوں کے ساتھ ویسا ہی تھا کہ جیسا کسی باپ کا برتاؤ اولاد کے ساتھ ہوسکتا ہے ۔ اس لیے کہ مرحوم کے نزدیک اپنے بچوں اور بھائی کے بچوں میں اصلاً امتیاز کی گنجائش ہی نہ تھی ۔ برادر زادے علامہ مرحوم ہی کے زیر ِ نگرانی تعلیم و تربیت پا کر ملاز م ہوئے ۔ اس برتاؤ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بھائی ہی نے علامہ مرحوم کی تعلیم خصوصاً ولایت کی تعلیم کے گراں قدر مصارف انتہائی خوش دلی سے برداشت کیے تھے ، لیکن جس برادرزادی کی بیشتر روایات سے یہ کتاب مزیّن ہے ، اسے مرحومہ بیگم اقبال نے پچپن ہی میں منہ بولی بیٹی بنا لیا تھا اور برابر اپنے ساتھ رکھا ۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ ان گراں بہا معلومات کو محفوظ رکھنا ممدوحہ کا کتنا عظیم القدر کارنامہ ہے ، جسے علامہ مرحوم کے کروڑوں نیاز مندوں کی گردن پر ایک دائمی احسان کی حیثیت حاصل رہے گی ۔ پھر ممدوحہ کے صاحب زادے عزیزی خالد نظیر صوفی کا ہم سب کو سپاس گزار ہونا چاہیے جن کی سعی و کاوش سے یہ گنجینۂ بے بہا مرتب ہو کر منظرِ عام پر آ رہا ہے۔ {۴} میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ، ساتھ ہی سوچ رہا ہوں کہ آج سے ایک مہینہ اور بیس روز بعد حضرت علامہ مرحوم کی وفات پر تینتیس سال پورے ہوجائیں گے ، حالانکہ آنکھیں بند کر کے تصورات کی باگ ڈھیلی چھوڑتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ انار کلی والے بالا خانے یا میکلوڈ روڈ والی کوٹھی یا ’’ جاوید منزل ‘‘ کی خصوصی صحبتوں اور مجلسوں سے شرف یابِ فیض ہو کر ابھی اٹھا ہوں ۔ نہ گزشتہ تینتیس برسوں میں ایسی مجلسیں اور صحبتیں میسر آئیں اور نہ ان کے میسّر آنے کا بظاہر کوئی امکان ہے : یکے کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم علامہ مرحوم کے متعلق ان تینتیس برسوں میں جو کچھ بہ صورتِ مکتوب منظرِ عام پر آیا ، ان میں مستقل کتابوں کے علاوہ مضامین و مقالات کو بھی شامل کر لیا جائے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے ، ذکر و بیان کا یہ نادرِ روز گار ذخیرہ کس قدر وسعت اختیار کر جائے گا ۔ لیکن یہ آغاز ہے ؛ مرحوم کا کلام رفتہ رفتہ مختلف زبانوں میں منتقل ہو رہا ہے ؛ جب یہ عمل پایۂ اتمام پر پہنچ جائے گا ، یعنی دنیا کی تمام ملّتوں اور قوموں کے لیے مرحوم کے ارشادات و افادات سے بالواسطہ نہیں ، بلا واسطہ فیض یاب ہونے کا سر و سامان مہیا ہو جائے گا تو کون کہہ سکتا ہے ، آیندہ کیا کچھ لکھا جائے گا اور صوری و معنوی حیثیت سے اس کی مقدار کس درجے پر پہنچ جائے گی ؟ تاہم یقین ہے کہ پیشِ نظر کتاب جیسا کوئی دوسرا مرقّع شاید ہی تیار ہو سکے ، جس میں خالص علم و فضل اور فلسفہ و حکمت کے اسرار و رموز تو شاید نہ مل سکیں ، تاہم ایک معصوم بچی نے بچپن سے اپنے بلند منزلت عمّ ِ محترم کے پاس رہ کر جو کچھ دیکھا ، جزواً جزواً محفوظ رکھا اور اسے انتہائی بے ساختگی سے بیان کردیا ۔ اس میں بعض دوسرے افرادِ خاندان کے ذکر و روایات سے مرحوم کی ایک ایسی تصویر تیار ہوگئی جس سے مکمل تر تصویر تیار کرنے کے لیے مزید گھریلو سر و سامان دستیاب ہونے کی بظاہر کوئی امید نہیں ۔ اقبال ، زندگی کے کسی بھی دائرے میں وضع و ساخت کے کبھی پابند نہ ہوئے ۔ ان کی فطرت کو وضع و ساخت سے کوئی مناسبت نہ تھی اور اس کی مثالیں کتاب میں جابجا ملتی ہیں ؛ مثلاً ’’فالودہ‘‘یعنی پکے اور جمائے ہوئے نشاستے کے باریک قتلے ایک مشہور خورش ہے ۔ پنجاب کے شہری لوگ اسے ’’فالودہ‘‘ ہی کہتے ہیں ، لیکن ٹھیٹھ پنجابی میں اس کا تلفظ ’’پھلودہ‘‘ ہے ۔ اقبال نے اپنی والدہ ماجدہ کی زبان سے یہی تلفظ سنا اور وہ پنجابی میں باتیں کرتے تھے تو اس خورش کو ’’پھلودہ‘‘ ہی کہتے تھے ۔ دلیل دیتے کہ : ’’میری ماں نے تو مجھے یہی سکھایا ہے ۔ میں اپنی ماں کی تعلیم فراموش نہیں کر سکتا ۔ ‘‘ (ص ۳۴) گھریلو زندگی کا دائرہ ایسا ہے جس میں بڑی سے بڑی شخصیت کے متعلق تکلّف و تصنّع کا وہم بھی دل میں سے نہیں گزر سکتا ،لہٰذا اس کتاب میں جو کچھ بیان ہوا ہے ، وہ فی الجملہ زیادہ سے زیادہ صحیح اور واقعیت کے عین مطابق ہے ۔ اقبال کی بے ساختگی اور ہر قسم کے تکلّف سے مبّرا ہونے کی جیسی تصویریں یہاں ملتی ہیں وہ اور کہاں ملیں گی ؟ {۵} کتاب کے چند پہلو بطورِ خاص مستحقِ توجہ ہیں اور وہ کسی خاص شرح و تفصیل کے محتاج نہیں ۔ مثلاً : ۱۔ ٹھیک ٹھیک اندازہ ہوسکتا ہے کہ اقبال کا درجہ بطور مفکّر یا بطور داعیِ حق نہیں بلکہ محض بطور انسان کیا تھا اور اس میں محبوبیت کی کتنی فراوانی تھی ۔ ۲۔ اس میں مرحوم کے حالات ابتدا سے آخری دور تک زیادہ تر اہلِ خاندان کی زبان سے بیان ہوئے ہیں ، جن سے زیادہ مستند بیان اور کسی کا نہیں ہوسکتا ۔ ۳۔ اس میں بیشتر اقربا کے صحیح حالات آگئے ہیں لہٰذا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مرحوم نے کس فضا میں تربیت پائی ۔ فکر و نظر کے جو خاص جوہر قدرت نے ان میں ودیعت کیے تھے ، وہ کس ماحول میں جِلا پا کر عالم گیر روشنی کا مصدر بنے ۔ ۴۔ اس سے بعض نظموں کی مستند تاریخیں مل سکتی ہیں : مثلاً مشہور نظم ’’ بچّہ اور شمع ‘‘ کن حالات میں اور کس سے متاثر ہو کر کہی گئی تھی ۔ ۵۔ سکول اور کالج کے زمانے میں مرحوم نے جو کتابیں بطورِ نصاب پڑھی تھیں ، ان پر جابجا تحریریں ہیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ کتابیں یا ان میں سے اکثر محفوظ رہیں ۔ کتاب کا ایک باب ان کتابوں کے لیے وقف ہے جس کا عنوان ’’ نوادر ‘‘ رکھا گیا ہے ۔ ۶۔ مرحوم کے انتقال سے کچھ عرصہ بعد ان کی تاریخ پیدائش کے متعلق ایک مجمل سی تحریر شیخ عطا محمد مرحوم نے روز نامہ ’’انقلاب ‘‘ میں چھپوا دی تھی ؛ یعنی ۱۸۷۳ء ۔ یہی تاریخ عموماً مستند سمجھی جاتی رہی ۔ پھر کہا گیا کہ ۱۸۷۶ ء صحیح تاریخ ولادت ہے ۔ پیش ِ نظر کتاب میں پوری چھان بین کے بعد طے کر د یاگیا ہے کہ صحیح تاریخ ِ ولادت ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ عیسوی تھی (۲۸ ۔ ذی قعد ہ ۱۲۹۰ ہجری، اور دن غالباً دو شنبہ ) ۔ اس مسئلے کے لیے بھی کتاب کا ایک مستقل باب وقف ہے جس میں ہر اعتبار سے محکم دلائل پیش کر دیے گئے ہیں ۔ یقین ہے کہ اس مسئلے پر مزید بحث یا گفتگو کی ضرورت پیش نہ آئے گی ۔ {۶} اب کتاب کے بعض ان اندراجات کا ذکر مجملاً کروں گا جو کسی قدر تشریح کے متقاضی ہیں : ۱۔ یہ مسلّم ہے کہ علامہ مرحوم نے ۱۸۹۳ء میں میٹرک کا امتحان دیا ، اور ۱۸۷۳ء کو تاریخِ ولادت مان لیا جائے تو میٹرک پاس کرتے وقت ان کی عمر کم و بیش بیس سال کی تھی ۔ وہ بڑے ذہین اور محنتی تھے؛ یہ امر یقینا تعجب انگیز سمجھا جا سکتا ہے کہ جو امتحان عموماً پندرہ سولہ سال کی عمر میں پاس کر لیا جاتا تھا ، وہ کس وجہ سے بیس سال کی عمر میں پاس کیا ؟ آیا انھوں نے کچھ مدت کے لیے تعلیم ترک کر دی تھی ؟ میں مرحوم کے ابتدائی حالات کی جستجو میں دو مرتبہ سیالکوٹ گیا تھا اور ان تمام اصحاب سے ملا تھا جن سے مرحوم کے متعلق کچھ نہ کچھ معلوم ہو سکتا تھا ۔ سید نذیر نیازی اور ڈاکٹر عبداﷲ چغتائی بھی اس سفر میں میرے ساتھ تھے۔ شمس العلماء مولانا میر حسن مرحوم کے صاحب زادے سید تقی شاہ نے ، جو علامہ مرحوم کے ہم عمر تھے ، بتایا تھا کہ ابتدا میں مرحوم کو دینی تعلیم کے لیے ایک مکتب میں بٹھا دیا گیا تھا ۔ پھر ایک مرتبہ شمس العلماء مولانا میر حسن مرحوم اس مکتب میں گئے تو مرحوم کو مکتب سے اٹھا کر سکول میں داخل کرا دیا ، شمس العلماء مرحوم ، علامہ مرحوم کے والدِ ماجد شیخ نور محمد کے دوست تھے اور ان کے فیصلے کو بہ طیبِ خاطر قبول کر لیا گیا ۔ یوں میٹرک کے امتحان میں دو تین سال کی تاخیر ہوگئی ۔ البتہ اس روایت کی توثیق اور کسی بیان سے نہ ہوسکی ، کیونکہ کوئی ایسا فرد مل ہی نہ سکا جو اس حقیقت سے آگاہ ہوتا ۔ ۲۔ ایک مقام پر بیان کیا گیا ہے کہ علامہ مرحوم والدین کے بڑے فرماں بردار تھے : (الف) ان کے سامنے کبھی اونچی آواز سے گفتگو نہ کرتے تھے ۔ (ب) والدۂ ماجدہ سے انھیں بے پناہ محبت تھی ۔ جب سیالکوٹ تشریف لاتے تو سب سے پہلے بڑے پیار کے ساتھ ان سے گلے ملتے ۔ وہ بھی بڑی محبت سے ان کے سر اور پیشانی کو چومتیں ۔ ( ج ) اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کا بھی بے حد احترام کرتے تھے ۔ (ص : ۲۴) اس کا روشن ترین ثبوت تو وہ نظم ہے جو والدۂ مرحومہ کی وفات پر کہی گئی ۔ ایسی نظم شاید ہی کسی شاعر نے کسی زبان میں والدہ کے متعلق کہی ہو ۔ پھر اس کے مختلف اشعار بھی مندرجہ بالا بیان کی شہادت میں پیش کیے جا سکتے ہیں ۔ مثلاً : علم کی سنجیدہ گفتاری ، بڑھاپے کا شعور دنیوی اعزاز کی شوکت ، جوانی کا غرور زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم بے تکلف خندہ زن ہیں ، فکر سے آزاد ہیں پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں ٭ کس کو اب ہو گا وطن میں آہ ! میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا ٭ دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی میں تری خدمت کے قابل جب ہوا ، تُو چل بسی ٭ اس سلسلے میں اپنے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وہ جواں ، قامت میں ہے جو صورتِ سرو بلند تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند کاروبارِ زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا وہ محبت میں تری تصویر ، وہ بازو مرا تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ صبر سے نا آشنا ، صبح و مسا روتا ہے وہ بھائی کے خاص احترام کا ثبوت مشہور شاعر تلوک چند محرومؔ کے ایک بیان سے بھی ہوتا ہے؛ محروم ایک مرتبہ لاہور آئے تھے تو علامہ مرحوم سے بھی ملے تھے اور یہ غالباً ان کی پہلی ملاقات تھی ۔ باتیں کرتے کرتے محروم نے درخواست کی کہ میں آپ کا کلام آپ کی زبانِ مبارک سے سننے کا آرزو مند ہوں ۔ فرمایا : ’’میرے بھائی صاحب مجھ سے ملنے کے لیے آئے ہوئے ہیں اور ساتھ کے کمرے میں تشریف فرما ہیں اور میں پاسِ ادب سے ان کی موجودگی میں کلام نہیں سنا سکتا ۔ ‘‘ {۷} ۳ ۔ ایک مقام پر حضرت علامہ مرحوم کے متعلق لکھا ہے : ’’ وہ فطرتا ً بڑے تساہل پسند تھے ۔ (ص : ۲۸) واضح رہے کہ یہاں ’’ تساہل پسندی ‘‘ سے مقصود غفلت و سہل انگاری نہیں ۔ مقصود محض یہ ہے کہ انھیں زیادہ نقل و حرکت پسند نہ تھی ۔ اس لیے مندرجہ بالا فقرے کی تشریح ان الفاظ میں کی : ’’چار پائی پر نیم دراز یا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے رہنے کے بڑے دلدادہ تھے ۔ ‘‘ (ص : ۲۸) حقیقت یہ ہے کہ علامہ مرحوم کی طبیعت ابتدا ہی سے غور و فکر میں انہماک و استغراق کی طرف مائل تھی ۔ رفتہ رفتہ یہ انہماک بڑھتا گیا اور نقل و حرکت بارِ خاطر ہونے لگی ، حالانکہ بالکل ابتدائی دور میں وہ پہلوانوں کے اکھاڑے میں جاتے اور ورزش کرتے تھے ۔ ایک زمانے میں سیر بھی باقاعدہ کرتے رہے تھے ۔ پھر نقل و حرکت کم ہوتی گئی ۔ اس وجہ سے ان کے جسم کا نچلا حصہ کمزور ہوگیا تھا ، اگرچہ عام ملاقاتیوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔ وہ بیٹھنے کے لیے جو کرسی استعمال فرماتے تھے ، وہ بھی ایک حد تک آرام کرسی ہی تھی ۔ آپ اسے ’’ نیم آرام کرسی ‘‘ سمجھ لیں ۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں تھے تو عموماً برآمدے میں بیٹھتے ۔ گرمیوں میں تپش کے باعث برآمدے میں بیٹھنا دشوار ہو جاتا تو ڈرائنگ روم میں صوفے پر جا بیٹھتے ۔ سردیاں آتیں تو سرِ شام ہی خواب گاہ کے پلنگ پر تشریف فرما ہوجاتے ۔ دُھسّا کندھوں پر ہوتا ، لحاف سینے تک اوڑھ کر گاؤ تکیے سے ٹیک لگا لیتے ۔ مرحوم کی نشست کا معاملہ بھی عجیب تھا ؛ ان کے ارشادات کا سلسلہ جاری ہو جاتا تو وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ رہتا ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایک روز مجھے فرصت تھی اور میں صبح ہی ان کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے وسیع برآمدے میں باتیں شروع ہوگئیں ۔ جب میں اجازت لے کر اٹھا تو گیارہ گھنٹے گزر چکے تھے ۔ دوپہر کا کھانا بھی وہیں کھایا ۔ اس اثنا میں کرسیاں توادھر اُدھر کھسکاتے رہے ، لیکن اٹھے نہیں اور اتفاق یہ کہ اس روز کوئی ملاقاتی بھی صحبت میں خلل انداز نہ ہوا ۔ {۸} دسمبر ۱۹۳۱ء میں وہ لندن سے روما ، نیپلز اور قاہرہ ٹھہرتے ہوئے یروشلم گئے تھے ، جہاں سید امین الحسینی مفتیِ اعظم فلسطین نے مؤتمرِ اسلامی کے انعقاد کا انتظام کیا تھا ۔ مجھے بھی ہم رکابی کا شرف حاصل تھا ۔ ہمیں جس ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا ، وہ مقام مؤتمر سے بہت قریب تھا ۔ ایک روز صدر بلدیۂ یروشلم کی طرف سے ایک ہوٹل میں عصرانے کا انتظام کیا گیا ، جو ہماری قیام گاہ سے قریباً دو فرلانگ یا اس سے کسی قدر زیادہ فاصلے پر تھا ۔ ہم موٹر میں وہاں پہنچے ۔ چائے پی چکنے کے بعد شرکائے عصرانہ ایک دم باہر نکلے اور ہجوم کا سا سماں پیدا کر دیا ۔ حضرت علامہ نے فرمایا : ’’ان سب کو نکل جانے دو ، پھر ہم نکلیں گے ۔ ‘‘ جب باہر نکلے تو دیکھا کہ ایک بھی موٹر موجود نہیں ۔ جو لوگ پہلے نکلے تھے ، موٹروں میں سوار ہوکر اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف چلے گئے ، لہٰذا ہمارے لیے اس کے سوا چارہ نہ تھا کہ کسی موٹر کی واپسی کا انتظار کرتے ۔ میں نے عرض کی کہ ’’ہماری قیام گاہ کچھ دور تو ہے نہیں ، کیوں نہ ٹہلتے ٹہلتے پیدل وہاں پہنچ جائیں ؟ ‘‘ فرمایا : ’’ٹھیک ہے ، چلو ! ‘‘ لیکن پانچ دس قدم چل کر رُک گئے اور فرمایا : ’’مہر صاحب ! ہم تھک جائیں گے ۔ ‘‘ حسنِ اتفاق سے اسی وقت ایک موٹر آ گئی اور ہم اس میں سوار ہو کر قیام گاہ پہنچ گئے ۔ غرض ان کے لیے دو فرلانگ بھی چلنا مشکل تھا ا ور یہ فکری انہماک میں نقل و حرکت سے گریز ہی کا نتیجہ تھا ۔ فکری انہماک نہ ہوتا تو وہ نظمیں کیوں کر کہی جاتیں جن کے لیے قدرت نے ان کی فطرت میں خاص صلاحیت ودیعت کی تھی اور جن کی بدولت وہ عالمی شخصیتوں کی مجلس میں ایک ممتاز درجے پر فائز ہوئے ۔ میرے سامنے اور بھی واقعات ہیں لیکن اس بحث کو طول نہیں دینا چاہتا ۔ {۹} سادگی بھی ان کی ایک ایسی خصوصیت تھی جس کی کوئی مثال مجھے ان کے درجے یا اس سے کم مرتبے کے کسی فرد میں نہ مل سکی ، حالانکہ میرے سامنے ترکِ موالات کے دور میں بعض بلند پایۂ اصحاب نے انتہائی سادگی اختیار کر لی تھی ؛ مثلاً مولانا محمد علی مرحوم ، مولانا شوکت علی مرحوم ، سی۔ آر ۔داس ، موتی لال نہرو وغیرہ ۔ البتہ مولانا حسرت موہانی مرحوم ابتدا ہی میں سادگی کی اس منزل پر پہنچ گئے تھے جہاں کوئی دوسرا نہ پہنچ سکا ۔ گرمیوں کا موسم ہوتا تو علامہ مرحوم گھر میں سفید قمیص اور دھوتی پہنتے ، سردیاں آتیں تو دھسّا اوڑھ لیتے ۔ البتہ ہائی کورٹ جانا ہوتا یاکسی خاص تقریب میں شمول ناگزیر ہو جاتا تو سوٹ پہن لیتے ۔ شلوار کے ساتھ چھوٹا کوٹ بھی پہنا اور شیروانی بھی ۔ سر پر ترکی ٹوپی رکھتے تھے ۔ جب ترکی ٹوپیاں ملنی مشکل ہو گئیں تو قرہ قلی نما سیاہ ٹوپی پسند فرما لی ۔ کبھی کبھی پشاوری لنگی اور کلاہ بھی استعمال فرماتے ۔ تکلف کا لباس کبھی نہ پہنا ، تکلف کے تقاضوں سے وہ بالطبع نفور تھے ۔ میں نے سنا کہ اواسط عمر میں ایک درزی کو ناپ دے دیا تھا ، پھر کبھی ناپ نہ دیا ۔ اسی سے سوٹ سلواتے رہے ۔ ’’ٹرائی ‘‘ کے لیے کبھی درزی کی دکان پر نہ گئے ۔ درزی خود ہی پہلے ناپ کو سامنے رکھ کر اندازے کے مطابق خفیف سا ردّ و بدل کر دیتا ۔ مرحوم بے تکلف وہی سوٹ پہنتے رہتے ۔ کبھی یہ نہ دیکھا کہ سوٹ عین جسم کے مطابق ہے یانہیں یا اس میں کہیں کم یا زیادہ ڈھیل ہے ، جسے درست ہو جانا چاہیے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کا جسم ایسا بنایا تھا کہ کتنا ہی سادہ لباس پہنتے ، اس میں زیبائش کی ایک خاص شان نمودار ہو جاتی ۔ یہ حقیقت ان کی مختلف تصویریں دیکھ لینے سے آشکارا ہو سکتی ہے ۔ ان کی یہ سادگی بھی سراسر فطری تھی ۔ وہ لباس کو تن پوشی کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔ جو لباس وقت اور ماحول کے مطابق یہ تقاضا پورا کر سکتا ہے ، اس پر مطمئن رہتے تھے ۔ ایسے معاملات میں مین میکھ نکالنے سے ان کی طبیعت اِبا کرتی تھی ۔ حد یہ ہے کہ اپنے لیے بازار سے کپڑا خریدنے بھی کبھی نہ گئے ، ممکن ہے کچھ نمونے دیکھ کر کبھی کوئی کپڑا پسند کر لیا ہو ، ورنہ منشی طاہر دین مرحوم اور علی بخش مرحوم ہی ان کی ضرورت کا کپڑا خرید لاتے یا والدۂ ماجدہ جاوید کوئی کپڑا پسند کر کے ضرورت کی چیزیں بنوا دیتیں ۔ کتاب میں ایک واقعہ درج ہے کہ والدۂ جاوید کے بھائی عبدالغنی مرحوم کی شادی پر علامہ مرحوم کے لیے جو ’’رسمی جوڑا ‘‘ دیاگیا اس میں ’’بوسکی ‘‘ کی ایک قمیص بھی تھی ، جسے اس زمانے میں خاص تحفہ سمجھا جاتا تھا ۔ انھیں جب یہ قمیص دکھائی گئی او ر کہا گیا کہ یہ ’’بوسکی ‘‘ ہے تو فرمایا : ’’اس میں کوئی خاص بات تو نظر نہیں آتی ۔ ‘‘ (ص :۲۸) اسے بھی احساس کی فطری سادگی ہی کا ایک کرشمہ سمجھنا چاہیے ۔ کپڑوں کی قسموں یا خوبیوں یا پسندیدگی عوام سے انھیں کبھی کوئی سروکار نہ رہا ۔ ان کے لیے اتنا کافی تھا کہ لباس وقت کی ضرورت پوری کر رہا ہے ۔ {۱۰} ان کے بعض معاملات بڑے ہی عجیب تھے ؛ وقتاً فوقتاً گردے یا نقرس کا درد ہو جاتا تھا ۔ ایک مرتبہ گرمیوں میں گردے کی تکلیف ہوئی اور وہ کئی روز بیمار رہے ۔ میں دوپہر کے وقت دفتر جاتے جاتے مزاج پرسی کے لیے حاضرِ خدمت ہوا ۔ میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں ان کی خواب گاہ کے پیچھے ایک کمرہ تھا جس کا دروازہ شمالی جانب تھا ۔ اس میں تپش بہت کم ہوتی تھی ۔ فرش پر خوب پانی ڈلوا کر اس کمرے میں لیٹے ہوئے تھے ۔ میں نے خاموش بیٹھ کر ان کے چہرۂ مبارک پر نظر جما لی ۔ ہم لوگ عموماً ان کی نگاہوں سے حالات کا اندازہ کرنے کے عادی تھے ۔ اس اثنا میں ایک اور صاحب بھی عیادت کے لیے آ گئے اور میرے پاس بیٹھ گئے ۔ یکایک حضرت مرحوم نے مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا : ’’مہر صاحب ! تکلیف انسان پر اس کے نفس کی طرف سے آتی ہے یا اﷲ کی طرف سے ؟ ‘‘ میں جواب میں حدیثِ جبریل سے وہ الفاظ دہرا دینا چاہتا تھا جو رسولِ اکرم ﷺ نے قیامت کے سوال پر فرمائے تھے ، یعنی : ’’ما المسئول با علم من السائل ۔ ‘‘ ’’جس سے پوچھا گیا ہے اس کا علم پوچھنے والے سے زیادہ نہیں ۔ ‘‘ لیکن میں کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ جو صاحب میرے پاس بیٹھے تھے ، بول اُٹھے ! ’’ ڈاکٹر صاحب ! سب کچھ اﷲ ہی کی طرف سے ہوتا ہے ۔ ‘‘ یہ سنتے ہی ان پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی ؛ پہلے چیخ نکلی ، پھر روتے روتے کہتے جاتے کہ ’’اگر یہ تکلیف اﷲکی طرف سے ہے تو میری توبہ ، میری توبہ ، میری توبہ ، میں نے کیوں شکوہ کیا؟ ‘‘ طبیعت کے معمول پر آنے پر پانچ سات منٹ صرف ہوگئے ۔ سوال یہ نہیں کہ عیادت کے لیے آنے والے صاحب نے جو کچھ فرمایا ، وہ درست تھا یا نہیں ۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہر بات کا ایک مقام اور محل ہوتا ہے اور بیمار کے تصورات و احساسات کا صحیح اندازہ کیے بغیر ایسی بات کہہ دینا جو باعثِ راحت و اطمینان نہیں ، باعثِ زحمت و پریشانی ہو، قطعاً مناسب نہ تھا ۔ {۱۱} ان کی نظر ہمیشہ بنیادی حقائق پررہتی تھی ۔ کتاب میں ایک واقعہ درج ہے کہ جب وہ انار کلی میں رہتے تھے تو ایک روز شدید آندھی آئی ۔ تیسری منزل پر ایک دیوار گر گئی ۔ ان کی برادر زادی، جن کی بیشتر روایات پر یہ کتاب مشتمل ہے ، بہت چھوٹی تھی ۔ دیوار گر جانے پر اسے خیال ہوا کہ اسے از سر ِ نو تعمیر کیا جائے گا ۔ وہ سخت پریشان ہو کر بولی کہ ’’ہائے ! اس میں میرے چچا کے بہت سے روپے صرف ہوں گے ۔ ‘‘ حالانکہ مکان کرایے کا تھا اور شکست و ریخت کی مرمت کا ذمہ دار مالک مکان تھا ۔ یہ واقعہ حضرت علامہ نے سنا تو فرمایا : ’’بچی کے جذبے کی داد دینی چاہیے ، اتنی چھوٹی سی عمر میں اسے دوسرے کی تکلیف کا کتنا احساس ہے کہ دیوار گرنے کے ساتھ ایک دم اسے یہی خیال آیا کہ مرمت پر اب اس کے چچا کے روپے خرچ ہوں گے ۔ میری یہ بات یاد رکھیے کہ یہ بچی بڑی ہو کر بڑے حساس دل کی مالک ہو گی اور کسی دوسرے کی معمولی سی تکلیف بھی اسے بے چین کر دیا کرے گی ۔ ‘‘ (ص : ۲۴) کتاب میںایک واقعہ ایسا بھی ہے جو میرے علم کی حد تک پہلی مرتبہ منظر عام پر آ رہا ہے ؛ یعنی حضرت علامہ مرحوم کا فی البدیہ پنجابی شعر کہنا ۔ جاوید کو بچپن میں ’’ببّا ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے اور اس کے کھیلنے کے لیے بکری کا ایک بچہ بھی رکھ لیا گیا تھا ، جسے وہ بعض اوقات لیے لیے پھرتا تھا ۔ ایک روز جاوید بکری کے بچے سے کھیل رہاتھا۔ حضرت مرحوم زنانے میں گئے تو ایک چارپائی پر بیٹھ کر جاوید کا کھیلنا بھی دیکھ رہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے ، والدۂ جاوید کو خدا جانے یکایک کیا خیال آیا کہ حضرت مرحوم سے مخاطب ہو کر کہا : ’’آپ نے بے شمار شعر کہے ، لیکن جاوید کے متعلق کبھی کچھ نہ کہا ۔ حضرت نے فرمایا : ’’ یہ کون سا مشکل کام ہے ۔ لو ابھی کہہ دیتے ہیں ۔ ‘‘ پنجابی میں چند شعر کہہ دیے : اک سی ببّا بکری والا ہتھ وچ رکھ دا ڈنڈا نانی جو اوہنُوں پھڑن لگی نسیا مار پچھنڈا بھابی ببّا بکری والا نالے کھاندا توس تے انڈا نالے کھاندا حلوہ منڈا بھابی ببّا بکری والا (ص : ۴۷) شعر ایسے ہیں کہ محض فرمائش ہی پوری نہ ہوئی بلکہ جو بھی انھیں پڑھے گا یاسنے گا ، بے اختیار ہنس پڑے گا اور حد درجہ مسرت کا اظہار کرے گا ۔ یہ مرحوم کی حد درجہ خوشگوار گھریلو زندگی کا بھی ایک نہایت دل آویز مرقع ہے ۔ وہ عمر بھر محض اپنی ملت کو نہیں ، پورے عالمِ انسانیت کو بنیادی حقائقِ حیات کی دعوت دیتے رہے اور اس سلسلے میں ان کے افکارِ عالیہ کے تمام مجموعے حقیقی بصیرت و موعظت کی بیش بہا فکری ثروت کے گنجینے ہیں ۔ اﷲتعالی نے اپنی رحمت سے جو وظیفہ ان کے سپرد کیا تھا ، اسے جس اعلیٰ پیمانے پر انھوں نے پورا کیا ، اس کی گواہی دنیا کے اربابِ فکر و نظر ہی نہیں ، عوام بھی دے رہے ہیں ، لیکن دیکھیے ایک سرسری فرمائش انھیں کس طرح انتہائی بلندیوں سے اتار کر عام سطح پر لے آئی اور اس سطح پر بھی ان کی شان محبوبیت ویسے ہی جلوہ افروز ہوئی ، جیسے وہ انتہائی بلندیوں پر جلوہ افروز رہی ۔ غرض مرحوم ہر رنگ اور ہر حال میں محبوبیت ہی کا ایک بدیع پیکر تھے اور محبوبیت ہی کو ان کے اوصاف و خصائل میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ دلی دعا ہے کہ اﷲتعالی ہم سب کو ان کی تعلیمات ہی نہیں بلکہ ذاتی اوصاف و خصائل سے بھی بوجہِ احسن بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ یہ سرسری اشارے میںنے اپنے خیال کے مطابق اس لیے ضروری سمجھے کہ شاید یہ اصل کتاب کے مطالعے میں ایک حد تک معاون و رفیق بن سکیں ، ورنہ اصل کتاب اپنی سادگی اور بے ساختگی میں کسی اعانت و رفاقت کی طلب گار معلوم نہیں ہوتی ۔ و آخر دعوانا عن الحمد ﷲرب العالمین ۔ غلام رسول مہر یکم مارچ ۱۹۷۱ء مسلم ٹاؤن ، لاہور ٭٭٭ حرفِ آغاز مدت سے احباب کا اصرار تھا کہ میں حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کی گھریلو زندگی کے متعلق یاد داشتوں کو کتابی صورت میں مرتّب کروں لیکن اپنی علمی کم مایگی کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعرِ مشرق ؒ جیسی ہمہ گیر اور عظیم شخصیت کے متعلق کچھ لکھنے میں تامل سا محسوس کرتا رہا ۔ ۱۹۶۷ء کے یومِ اقبال پر میں نے علامہ اقبال ؒ کی گھریلو زندگی کے بارے میں کچھ یاد داشتیں یک جا کر کے ایک مضمون اخبارات کو بھیجا جو میری توقعات سے زیادہ پسند کیا گیا ۔ یہ ہمت افزائی مہمیز کا اثر کر گئی ۔ چنانچہ میں نے حکیم ا لامت کی گھریلو زندگی کے واقعات و حقائق کو مرتب کرنے کے کٹھن کام کا آغاز کیا اور خداوند کریم کا شکر ہے کہ اس میں کافی حدتک کامیاب رہا ہوں۔ زیرِ نظر کتاب کے بیشتر مندرجات میری والدۂ ماجدہ کی یاد داشتوں پر مشتمل ہیں ۔ میں اپنی والدہ کا سپاس گزار ہوں کہ انھوں نے اپنی لوحِ ذہن پر رقم شدہ واقعات اور یادوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرانے کی مقدور بھر کوشش فرمائی اور مجھے یہ سعادت حاصل کرنے کے قابل بنایا ۔ میری والدۂ محترمہ ، علامہ اقبال ؒ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کی سب سے چھوٹی صاحب زادی ہیں ۔ تقریباً دو برس کی عمر میں حضرتِ علامہؒ کی بیگم صاحبہ (والدۂ جاوید )نے انھیں گود لے لیا تھا اور اس طرح انھوں نے اپنی شادی تک علامہ اقبالؒ کے زیر ِ سایہ پرورش پائی ۔ اب اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھولی بسری یادوں کو یک جا کرنا اور بے ترتیب واقعات کو نوکِ زبان پر لانا ان کے لیے خاصا مشکل تھا ، لیکن میرے اصرار پر وہ ماضی کے دھندلکوں سے ایسے نقوش اُجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئیں جو حضرت علامہؒ کی زندگی کے بعض نئے پہلو اور زاویے منظر عام پر لاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں انھوں نے علامہؒ کے بچپن کے چند ایسے واقعات بھی بیان کیے ہیں جو بزرگوں کی وساطت سے ان تک پہنچے ہیں ۔ میں اپنے والد گرامی قدر جناب نظیر احمد صاحب صوفی کا بھی تہہ دل سے شکرگزار ہوں جن کی ہمت افزائی اور رہنمائی نے مجھے اس قابل کیا کہ میں یہ مجموعہ آپ کی نذر کر سکا ہوں۔یہاں یہ ذکر کردینا مناسب ہوگا کہ میرے والد ِ ماجد کو حضرت علامہ ؒ کی حقیقی بڑی ہمشیرہ (محترمہ طالع بی بی صاحبہ ) کا پوتا ہونے شرف بھی حاصل ہے ۔ انھیں بھی بچپن ہی سے حضرت علامہؒ کے ساتھ دلی لگاؤ رہا ہے ۔ ان کی یاد داشتوں سے بھی کئی ایک جواہر ریزے دستیاب ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’بے داغ ہے مانند ِ سحر اس کی جوانی ‘‘ کے زیر عنوان ان بے بنیاد باتوں کو، جو نام نہاد شناسان اقبالؒ کے اذہان کی پیداوار ہیں ، حقائق کی روشنی میں باطل ثابت کیا گیا ہے۔ کافی عرصے سے حکیم الامت ؒ کی تاریخ پیدائش ایک اختلافی مسئلے کی صورت اختیار کر گئی ہے ۔ میں خداوند کریم کا شکر گزار ہوں کہ اسے سلجھانے اور حضرتِ علامہ علیہ الرحمۃ کی بالکل درست تاریخِ پیدائش کو منظر عام پر لانے کی سعادت بھی میرے حصے میں آئی ہے ۔ چنانچہ دستاویزوں اور ناقابل تردید شہادتوں کی روشنی میں اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں ’’انکشاف ِ حقیقت ‘‘ کے تحت ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب ، ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب اور محترمہ حجاب امتیاز علی صاحبہ کے بیان کردہ واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں بعض باتیں انکشافات کا درجہ رکھتی ہیں ۔ میں ان سب کے تعاون کا شکر گزر ہوں ۔ ’’سرود ِ رفتہ ‘‘ میں تسلسل قائم رکھنے کے لیے مجھے متعدد کتابوں اور رسائل سے استفادہ کرنا پڑا اور ’’بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی ‘‘ میں فراہمیِ ثبوت کے لیے مختلف کتابوں سے کئی ایک اقتباسات شاملِ کتاب کرنے پڑے ۔ اس کے لیے متذکرہ کتابوں کے فاضل مصنفین و دیگر اصحاب کا ممنون ہوں ۔ میں مولانا غلام رسول صاحب مہر کا بھی احسان مند ہوں جنھوں نے کتابِ زیر نظر کو بڑی کاوش سے دیکھا اور ’’پیش لفظ ‘‘ لکھنے پر رضامندی ظاہر کرکے میری حوصلہ افزائی فرمائی ۔ اس سلسلے میں جنابِ مہر نے چند ایک تجاویز بھی مرحمت فرمائیں جن سے میں نے ’’اقبال ؒ درونِ خانہ ‘‘ میں جابجا استفادہ کیا ہے ۔ اگرمیں یہاں اپنے مرحوم اور شفیق بزرگ سید امتیاز علی صاحب تاج کا شکریہ ادا نہ کروں تو یہ میری بہت بڑی کوتاہی ہوگی کیوں کہ انھوں نے زیر نظر کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں جس قدر توجہ فرمائی اور میری حوصلہ افزائی کا موجب ہوئے ، اس کے لیے میںان کی روح کا بے حد احسان مند ہوں ۔ لیکن ساتھ ہی مجھے اس کا دلی افسوس بھی ہے کہ میری کتاب ابھی اشاعت کے ابتدائی مراحل میں تھی کہ تاج صاحب اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اور انھوں نے ناشر کی حیثیت سے جو نوٹ لکھنا تھا اس سے یہ کتاب محروم رہی ۔ اس کے ساتھ ہی برادرم گوہر نوشاہی صاحب کا بھی شکر گزار ہوں کہ وہ بھی اس سلسلے میں میری معاونت فرماتے رہے ۔ آخر میں ان تمام احباب کے لیے بھی سراپا سپاس ہوں جنھوں نے اس سلسلے میں میری ہمت افزائی فرمائی ۔ خاص طور پر اپنے دوست ریاست علی چودھری صاحب کا ممنون ہوں جنھوں نے سب سے پہلے میری توجہ اس کتاب کے لکھنے کی طرف مبذول کروائی ۔ خالد نظیر صوفی ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ ء اقبال ؒ منزل، سیالکوٹ حرفِ آگہی اقبال درونِ خانہ جلد اوّل کی اس اشاعت مکرر کے ساتھ حضرت علامہ کی خانگی زندگی کے متعلق وہ واقعات جواقبال دورنِ خانہ (جلد دوم) کی اشاعت کے بعد میرے علم میں آئے نذرِ قارئین کیے جا رہے ہیں۔ گو ان کو جلد دوم میں ہی شامل کیا جانا چاہیے مگر اب اس کے طبع دوم کا انتظار شاید درست نہ ہو کہ خدا جانے کب اس کی نوبت آئے۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ اب جبکہ ’جلد اوّل‘ کا نقشِ ثالث اشاعت پذیر ہو رہا ہے تو کیوں نہ ان واقعات کو بھی اس میں شامل کر دیا جائے۔ اس میں خاندان کے چند بزرگوں کی روایات کے علاوہ کچھ دوسرے واقعات اور حقائق ’’روحانیت اور تصوف‘‘ کے زیرِ عنوان بھی شامل کیے جا رہے ہیںجو نہ صرف دلچسپی بلکہ قارئین کے لیے معلومات افزا بھی ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ حضرت علامہ کی درونِ خانہ زندگی کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے موضوعات کا احاطہ بھی کرتے ہیں جو شاید ابھی تک درست انداز میں منظرِ عام پر نہیں آ سکے۔ ۱۵؍شعبان المعظم ۱۴۲۵ھ خالد نظیر صوفی یکم اکتوبر ۲۰۰۴ئ اقبال منزل، سیالکوٹ سرودِ رفتہ (گھریلو حالات ، عادات و خصائل اور مختصر حالاتِ زندگی) عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تا زبزمِ عشق یک داناے راز آید بروں (اقبالؒ) ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ ء بروز سوموار ، صبح صادق کے وقت سیالکوٹ کے ایک معزز اور متوسط کشمیری گھرانے کے صوفی منش بزرگ جناب شیخ نور محمد صاحب کے چھوٹے سے گھر کی ناپختہ اور نیم روشن کوٹھڑی میں ایک عظیم روح نے دیے کی ٹمٹماتی اور مدھم سی روشنی میں آنکھیں کھولیں ۔ نومولود کے خدو خال بہت پیارے اور رنگ سرخ و سپید تھا ۔ یوں محسوس ہوا جیسے چاند نکل آیا ، لیکن اس وقت کسے خبر تھی کہ اس بچے کی قسمت کا ستارہ ایک دن آسمانِ شہرت پر اس تابناکی سے چمکے گا کہ مشرق و مغرب کو اپنی ضیا پاشیوں سے جگمگا دے گا اور زمانے کے قلب و نظر کو منور کر کے انسانیت کے لیے مینارِ نور کی حیثیت اختیار کر لے گا ۔ اس اقبال مند روح کی بلند اقبالی کی بشارت گو شیخ نور محمد صاحب کو خواب میں مل چکی تھی، مگر ان کو بھی یہ احساس یقیناً اس وقت نہ ہوا ہو گا کہ ان کے بلند اقبال صاحب زادے کا شمسِ اقبال بیسویں صدی میں عین نصف النہار پر ہوگا ۔ نومولود کی والدۂ ماجدہ نے ’’محمد اقبال ‘‘ نام تجویز کیا ، لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ بچہ اسم بامسمیٰ ہوگا اور اس دور میں محمد ؐ کے دین کا اقبال بلند سے بلند تر کر دکھائے گا ۔ ننھا منا اقبال اپنی عظیم ماں (محترمہ امام بی بی ) کے سایۂ شفقت میں آہستہ آہستہ پروان چڑھنے لگا ۔ ایسی عظیم مائیں بہت کم بچوں کو نصیب ہوتی ہیں جو جسمانی پرورش کے ساتھ ساتھ ذہنی اور روحانی نشوونما پر بھی نگاہ رکھتی ہیں اور بچے کو صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ قدم بڑھانے اور کارگاہِ حیات میں ہمت کے ساتھ قدم جمانے کی تربیت بہم پہنچاتی ہیں ۔ یہ اسی اعلیٰ تربیت کا اثر تھا کہ اقبال بچپن میں ہی بڑے پاکیزہ مزاج اور خاموش طبع تھے ۔ عام بچوں کی طرح کھیل کود اور غیر سنجیدہ حرکات انھیں بالکل پسند نہ تھیں بلکہ ’’ ہونہار برواکے چکنے چکنے پات ‘‘کے مصداق وہ بڑے ذہین اور سمجھ دار واقع ہوئے تھے ۔ پانچ چھ برس کی عمر میں پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا ۔ شمع علم سے انھیں والہانہ عشق تھا ۔ حصولِ علم کے لیے ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ رات کو نیند میں اٹھ اٹھ کر پڑھتے رہتے ۔۱ شاید قدرت انھیں جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ علوم سے بہرہ مند کرنے کا انتظام کر رہی تھی۔ ایک دفعہ نصف شب کے وقت بے جی ( والدۂ اقبال) کی آنکھ اچانک کھل گئی تو انھوں نے نانا جان (علامۂ مغفور ) کو دیے کے قریب بیٹھے سکول کا کام کرتے ہوئے پایا ۔ دو ایک آوازیں دیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ انھوں نے اٹھ کر شانوں سے پکڑ کر ہلایا اور کہا : ’’اقبال ! اس وقت آدھی رات کو کیا پڑھ رہے ہو ؟ اٹھو سو جاؤ ، صبح کام کر لینا ۔ ‘‘ نانا جان کسمسائے اور جواب دیا: ’’بے جی ! سویا ہوا تو ہوں‘‘۔ اب تو ان کی والدہ کو وہم ہوگیا ، روز رات کو کئی کئی بار اٹھ کر دیکھتیں اور اکثر انھیں اسی حالت میں پاتیں اور اٹھا کر سلاتیں ۔ صبح کو جب آپ سے اس کے متعلق استفسار کیا جاتا تو وہ لاعلمی کا اظہار کرتے ۔ حیران کن بات یہ تھی کہ ریاضی کے جو سوالات وہ نیند میں حل کرتے ، وہ بالکل درست ہوتے ۔ آہستہ آہستہ ماں کی توجہ سے ان کی یہ عادت چھوٹ گئی ۔۲ چھوٹی ہی عمر میں آپ بڑے حاضر جواب اور سکول میں بڑے ہر دل عزیز تھے ۔ استاد اور ہم سبق ان کو بڑی قدر اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ حاضر جوابی کا یہ عالم تھا کہ ایک روز جماعت میں ذرا دیر سے پہنچے ، استاد نے استفسار کیا تو جواب دیا : ’’ جناب ! اقبال دیر ہی سے آیا کرتا ہے ۔ ‘‘ ایک ناپختہ ذہن سے ایسے بامعنی جواب نے استاد کو چونکا دیا اور اس نے پس منظر میں جھلکتی ہوئی ایک عظیم شخصیت کا پرتو دیکھا تو سینے سے لگا لیا ۔ نانا جان قبلہ جن دنوں سکاچ مشن سکول کی چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھے ، ایک روز ان کی جماعت میں ایک مرد قلندر ، اونچے لمبے اور سرخ و سپید ، اپنے حال میں مست آن وارد ہوئے۔ بڑی شفقت سے ان کے سر پر ہاتھ رکھا ، پیشانی پر بوسہ دیا اور بغیر کچھ کہے سنے واپس چلے گئے۔ استاد نے آپ سے ان کے متعلق پوچھا توانھوں نے بالکل لاعلمی کا اظہار کیا ۔ بعد میں تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ اس مردِ درویش نے کسی سے بھی ان کے متعلق دریافت نہ کیا تھا اور خود ہی سیدھے ان کے پاس جا پہنچے تھے۔ اس کے بعد بھی وہ مردِ قلندر کبھی کبھار نانا جان سے ملنے آتے رہتے تھے۔۳ شاعر مشرقؒ کو بچپن ہی میں شاعری سے لگاؤ تھا ۔ میری نانی جان مکرمہ (علامہ مرحوم کی بھاوجہ بیگم شیخ عطا محمد صاحب) بتایا کرتی تھیں کہ ’’اقبال بڑے خوش گلو اور پر سوز آواز کے مالک تھے ۔ بچپن میں وہ ہمیں منظوم قصے بڑے پیارے لحن کے ساتھ سنایا کرتے تھے ۔ اکثر اوقات قصہ پڑھتے پڑھتے ، اپنی طرف سے بھی کوئی فقرہ (مصرع ) اس میں جڑ دیتے اور ان کا فقرہ (مصرع) ایسا پُر اثر اور خوبصورت ہوتا کہ ہم سب انھیں بے ساختہ داد دیا کرتیں ۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل دس بارہ برس تھی ۔ ‘‘ بچپن میں آپ کو کبوتروں سے بے حد لگاؤ رہا ۔ چونکہ اس زمانے میں فراغت زیادہ تھی اس لیے لوگ عجیب عجیب مشاغل رکھتے تھے ۔ انھی میں ایک مشغلہ کبوتر پالنا بھی تھا اور سیالکوٹ کے محلہ کشمیریاں میں تو یہ شغل ان دنوں انتہا پر تھا ، آج بھی وہاں اس کے کافی آثار ملتے ہیں ۔ چونکہ بچے پرندوں اور جانوروں کے دل دادہ ہوتے ہیں اس لیے ان کا اس ماحول میں کبوتروں کی طرف راغب ہو جانا ایک قدرتی امر تھا ۔ میاں جی (والد ِ اقبال ) نے ان کا شوق دیکھ کر انھیں گھر ہی پر کبوتر رکھنے کی اجازت دے دی تاکہ وہ کبوتروں کے شوق میں غلط صحبت میں نہ پڑ جائیں ۔ اب نانا جان کوٹھے پر سے اپنے کبوتر اڑاتے اور گھنٹوں خاموش بیٹھے ان کی پرواز سے لطف اندوز ہوتے رہتے ۔ کبوتروں کا شوق انھیں کافی عرصے تک رہا ؛ لاہور میںانارکلی میں بھی ان کے پاس کبوتر تھے ، پھر جب میکلوڈ روڈ پر منتقل ہوئے تو کبوتروں کے لیے خاص ڈربے بنوائے ۔ لیکن جب جاوید ماموں پیدا ہوئے تو انھوں نے یہ شوق ختم کر دیا اور تما م کبوتر گھر سے نکال دیے تاکہ جاوید ماموں اس شغل کے اثرات سے محفوظ رہیں۔ کبوتروں سے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی آپ چھت یا صحن میں لیٹے ہوتے تو دور فضا میں محوِ پرواز کبوتروں کو فوراً پہچان لیتے کہ یہ کون سی قسم ہے اور وہ کون سی نسل ۔ آپ نے ۱۸۹۳ ء میں سوا انیس برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ ان دنوں میں چونکہ سیالکوٹ میں امتحانات کا سینٹر نہیں تھا اس لیے آپ نے گجرات کے سینٹر سے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ وہ امتحان دینے گجرات گئے ہوئے تھے کہ وہاں کے سول سرجن خان بہادر عطامحمد صاحب نے انھیں دیکھا اور پسند فرمایا اور اپنی صاحب زادی کے لیے سلسلہ جنبانی شروع کی ۔ چنانچہ اس وقت کے رواج کے مطابق والدین نے شادی طے کر دی ۔ اگرچہ آپ اتنی کم سنی میں شادی کے لیے تیار نہ تھے مگر بزرگوں کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑا ۔ اس بیوی سے دو بچے پیدا ہوئے ؛ معراج بیگم ۴ (یہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو ۱۸ برس کی عمر میں فوت ہوگئیں ) اور آفتاب اقبال ۔ انگلستان سے واپسی کے بعد نانا جان نے چند گھریلو وجوہ ۵کے زیرِ اثر دوسری شادی کرنے کے ارادے کا اظہار اپنے بزرگوں سے کیا تو ان کے والد ِ گرامی اور بڑے بھائی بہت برہم ہوئے اور ان پر زور دیا کہ وہ والدۂ آفتاب کو لاہور لے جائیں اور دوسری شادی کا خیال دل سے نکال دیں ۔ لیکن اب چونکہ وہ خود مختار تھے اور اپنا برا بھلا اچھی طرح سمجھ سکتے تھے اس لیے انہوں نے اپنے بزرگوں پر دلائل کے ساتھ یہ ثابت کر دیا کہ دوسری شادی ناگزیر ہے ۔ چنانچہ ۱۹۱۲ء میں لاہور کے ایک معزز کشمیری گھرانے کی نیک سیرت اور خوش اطوار بی بی سے ، جو قرآن شریف اور گھر پر اردو پڑھی ہوئی تھیں ، ان کا نکاح ہوگیا ۔ لیکن چند وجوہ کی بنا پر تقریباً دو برس تک رخصتی نہ ہو سکی ۔ اسی دوران لدھیانے کے مشہور نولکھا خاندان میں علامہ مرحوم کی تیسری شادی ہوئی ۔ ۱۹۱۴ء میں جب والدۂ جاوید سیالکوٹ آئیں ، اس وقت میری والدہ مکرمہ دو اڑھائی برس کی اور اپنے چچاجان کی بڑی چہیتی تھیں ۔ آپ کو ان سے دلی لگاؤ تھا اور اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتے تھے (ان کا یہ پیار آخر دم تک قائم رہا ) ۔ وہ انھیں (میری والدہ کو) گود میں لیے کھلاتے رہتے ۔ مٹھائی کا لالچ دے کر تمام گھر والوں کے عجیب عجیب نام پکارنے کو کہتے اور دوسروں کے چیں بجبیں ہونے سے بڑے محظوظ ہوتے ۔ وہ بچوں کی ٹوٹی پھوٹی اور توتلی باتیں بڑے شوق سے سنتے ، گھر کے تمام چھوٹے بچوں سے ان کے نام بار بار پوچھتے اور جب بچے الٹے سیدھے نام بتاتے تو خوب ہنستے ۔ میری بڑی خالہ محترمہ بھی ان دنوں چھوٹی تھیں ، جب ان سے ان کا نام پوچھا جاتا تو وہ بڑی تیزی سے بتاتیں ’’علیت بیگن ‘‘(عنایت بیگم) ۔ آپ ہنستے ہوئے فرماتے : ’’عنایت نام نہیں بتاتی بلکہ بندوق داغتی ہے ۔ ‘‘ اس کے بعد جب میری والدہ کی باری آتی تو وہ بڑی آہستگی سے اپنا نام ’’چھیما بارک ‘‘ (وسیمہ مبارک ) بتاتیں تو آپ پوچھتے : ’’کون سی بارک ۔ فوجیوں والی ؟ ‘‘ انہی دنوں کا ذکر ہے کہ محلے میں کسی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ’’تجمل حسین ‘‘ رکھا گیا ۔ میری والدہ محترمہ اپنی توتلی زبان میں اسے ’’جمل شین‘‘ کہتیں ۔ نانا جان قبلہ کو یہ ’’جمل شین ‘‘ ایسا پسند آیا کہ بار بار پوچھتے اور وہ ہر بار بھولپنے سے ’’جمل شین ‘‘ بتا دیتیں تو خوب ہنستے ۔ آخر بار بار پوچھنے سے زچ ہو کر ایک روز وہ غصے میں بولیں : ’’شو واری تے دشیا اے ۔ جمل شین ، جمل شین ، جمل شین ‘‘ (سو بار تو بتایا ہے کہ ۔ تجمل حسین ۔ تجمل حسین ، تجمل حسین ) ۔ آپ ان کے غصے سے بڑے محظوظ ہوئے اور ہنستے ہوئے فرمایا : ’’اچھا بابا ، ہماری توبہ ، اب کبھی نہیں پوچھیں گے۔ ‘‘ آپ کی طرح والدۂ جاوید بھی بچوں کی بے حد دل دادہ تھیں ۔ خواہ کتنا ہی میلا کچیلا بچہ ہوتا، اسے گود میں اٹھا لیتں اور بھینچ بھینچ کر پیار کرتیں ۔ میری والدہ کے ساتھ ان کا پیار اتنا بڑھا کہ انھیں منہ بولی بیٹی بنا لیا اور ہر وقت ان کو اپنے پاس رکھتیں ۔ کچھ عرصے بعد جب حضرت علامہ ؒ نے انھیں لاہور بلا لیا تو وہ انھیں ( میری والدہ کو ) بھی ہمراہ لے گئیں ۔ سب نے بہت منع کیا کہ ابھی چھوٹی ہے ۔ وہاں جا کر تنگ کرے گی ، مگر وہ نہ مانیں ۔ اس طرح اب میری والدہ ہمہ وقت اپنے چچا جان کے سایۂ شفقت میں پرورش پانے لگیں اور شادی تک زیادہ تر وہیں مقیم رہیں۔ ۶ والدۂ مکرمہ اپنے بچپن کا ایک واقعہ یوں بیان فرماتی ہیں : ’’ان دنوں ہم انار کلی بازار میں رہتے تھے ۔ میں زیادہ سے زیادہ چار پانچ سال کی ہوں گی ایک روز سہ پہر کے وقت بڑے زور کی آندھی آئی ۔ ہم چونکہ تیسری منزل پررہتے تھے اس لیے ہوا بے حد زور دار تھی ۔ چچی جان (والدۂ جاوید) اور گھریلو ملازمہ صحن میں سے سامان وغیرہ اٹھا اٹھا کر اندر رکھ رہی تھیں ۔ میں بھی اپنی مینا کا پنجرہ اندر لے آئی ۔ اسی وقت ہوا کے شدید دباؤ سے صحن کے ایک طرف کی دیوار کا کچھ حصہ دھڑام سے گر پڑا ۔ ڈر کے مارے میری چیخ نکل گئی اور میں نے روتے ہوئے کہا :’’ ہائے ہائے ! میرے چاچا جی اینے پریے کتھوں لان گے ؟ ‘‘ (ہائے ہائے! میرے چچا اتنے روپے کہاں سے لگائیں گے ؟ ) میرے چھوٹے سے ذہن میں اس وقت یہی خیال آیا کہ اب اس دیوار کی مرمت پر چچا جان کے روپے خرچ ہوں گے ۔ چچی جان میرے ’پریے‘ (روپے ) کہنے سے بہت محظوظ ہو رہی تھیں ۔ بار بار ’پریے ‘ دُہراتیں اور ہنستیں ۔ جب چچا جان (حضرت علامہؒ) اوپر تشریف لائے تو چچی جان نے انھیں سارا واقعہ سنایا اور اسی طرح نقل کر کے بتایا کہ ’’ ہائے ہائے ! میرے چاچا جان اینے پریے کتھوں لان گے ؟ ‘‘ چچی جان کے اس طرح نقل کرنے سے مجھے بڑی شرم آئی اور میں بھاگ کر اندر کمرے میں جا چھپی ۔ چچاجان نے چچی جان سے فرمایا : ’’ آپ بچی کی بات کو مذاق میں نہ اڑائیں بلکہ اس کے جذبے کی داد دیں کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی اسے دوسرے کی تکلیف کا کتنا احساس ہے کہ دیوار گرنے کے ساتھ ایک دم اسے یہی خیال آیا کہ مرمت پر اب اس کے چچا کے روپے خرچ ہوں گے ۔ میری یہ بات یاد رکھیے کہ یہ بچی بڑی ہو کر بڑے حساس دل کی مالک ہو گی اور کسی دوسرے کی معمولی سی تکلیف بھی اسے بے چین کر دیا کر ے گی ۔ ‘‘ پھر چچا جان نے پیار سے مجھے اپنے پاس بلایا اور بڑی محبت سے گود میں بٹھا کر سمجھایا کہ ’’ سیما بیٹی ! یہ مکان ہمارا نہیں بلکہ ہم تو یہاں پر کرایہ دار ہیں ۔ اگر دیوار گری ہے تو اس کی مرمت مالک مکان کرائے گا ، تم بے فکر رہو ، تمہارے چچا کے ’پریے ‘ محفوظ ہیں ۔ ‘‘ اس واقعے کے بعد چچا جان اور چچی جان نے ’پریے ‘ کو میرا مذاق ٹھہرا دیا ۔ عید کے روز چچا جان فرماتے : ’’سیما ! تمھیں کتنے ’پریے ‘ عیدی دی جائے ۔ ‘‘ ہر بات میں جان بوجھ کر ’پریے ‘ استعمال فرماتے۔ کبھی چچی جان سے کہتے : ’’سیما کو بہت سارے ’پریے‘دینا‘‘ اسی طرح میں کافی بڑی ہو گئی لیکن چچا جان مجھے ’پریے‘ کہہ کہہ کر تنگ کرتے رہے ۔ بڑے ہوجانے کے بعد مجھے بہت شرم آتی کہ میں کبھی روپوں کو ’پریے ‘ کہا کرتی تھی ۔ آخر ایک روز چچی جان نے انھیں منع کیا کہ اب تو بے چاری سیما بڑی ہو گئی ہے ، اسے یوں تنگ نہ کیا کریں ۔ چنانچہ اس کے بعد پھر کبھی چچا جان نے اس لفظ کا ذکر نہیں کیا ۔ ‘‘ والدۂ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’چچاجان بیرونِ خانہ اگرایک عظیم مفکر اور بلند پایہ شاعر تھے تو اندرونِ خانہ ایک ہمدرد شوہر اور شفیق باپ بھی تھے ۔ وہ گھر میں بڑے خوش و خرم رہتے اور اہلِ خانہ کا ہر طرح خیال رکھتے ۔ البتہ جب کبھی بیٹھے بیٹھے کسی گہری سوچ میں گم ہو جاتے تو انھیں مخاطب کرنا خاصا مشکل ہو جایا کرتا ۔ ‘‘ حضرت علامہؒ اپنے والدین کے بڑے فرماں بردار تھے اور انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے ۔ ان کی عزت انھیں اس قدر ملحوظ تھی کہ ان کے سامنے کبھی اونچی آواز میں گفتگو نہ کرتے ۔ اپنی والدۂ ماجدہ سے تو انھیں بے پناہ محبت تھی ۔ جب سیالکوٹ تشریف لاتے تو سب سے پہلے بڑے پیار سے ان سے گلے ملتے اوروہ بھی بڑی محبت سے ان کے سر اور پیشانی کو چومتیں ۔ آپ اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کا بھی بے حد احترام کرتے تھے ۔ (شیخ صاحب علامہ صاحب سے تقریباً پندرہ برس بڑے تھے )۔ وہ ان کے پاس بڑے با ادب بیٹھتے ۔ اگر وہ گھر پر موجود ہوتے تو کبھی اونچی آواز میں شعر نہ پڑھتے ۔ دونوں بھائیوں میں پیار اور محبت بھی بے حد تھی ۔ گھنٹوں اکٹھے بیٹھے مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیالات کرتے رہتے اور جب تک دونوں بھائی آپس میں مشورہ نہ کر لیتے کسی کام کی ابتدا نہ کرتے ۔ ایک دفعہ میری بڑی خالہ محترمہ کے لیے کہیں سے رشتے کا پیغام آیا ، لڑکا اور اس کے والدین ختمِ نبوت کے منکرین میں سے تھے۔بڑے ناناجان(شیخ عطا محمد صاحب) گو خود پکے حنفی المذہب مسلمان تھے۷ لیکن چونکہ رشتے داری تھی اور لڑکا بھی اچھا تھا اس لے وہ اس سلسلے میںنیم رضا مند تھے ۔ البتہ آخری فیصلہ علامہ صاحب سے مشورے تک ملتوی کر دیا ۔ چند روز بعد علامہ مغفور جب سیالکوٹ تشریف لائے تو شیخ صاحب نے اس کا ذکر ان سے کیا اور ان کی رائے دریافت کی تو آپ نے جواب دیا : ’’ بھائی صاحب ! اگر میری اپنی بیٹی ہوتی تو میں ہرگز ہرگز یہاں اس کی شادی نہ کرتا۔ ‘‘ بڑے نانا جان نے فرمایا : ’’ کیا یہ تمھاری بیٹی نہیں ؟ اگر تمھیں ناپسند ہے تو یہ رشتہ کبھی نہ ہوگا ۔ ‘‘ چنانچہ اسی وقت انکار کر دیا گیا ۔ حضرت علامہؒ اپنی بڑی بھاوجہ (بیگم شیخ عطا محمد صاحب ) کی بھی بے حد عزت کرتے تھے اور انھیں بمنزلہ اپنی ماں جانتے تھے ۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ’’بھابی جی تو میری ماں کی جگہ ہیں ۔ ‘‘ (بھابی جی جب بیاہ کر آئیں تو شاعرِ مشرق اس وقت بمشکل دس گیارہ برس کے تھے اور بھابی جی نے انھیں اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھا ) ۔ وہ انھیں ’’بھابی جی ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ۔ یہ نام اتنا عام ہوا کہ سب انھیں اسی نام سے پہچانتے اور پکارتے ۔ اپنے بچوں کے علاوہ پوتوں اور نواسوں تک نے انھیں اسی نام سے جانا اور پہچانا ۔ فرق صرف اتنا ہوا کہ ہم نے انھیں ’’وڈے بھابی جی ‘‘ (بڑی بھابی جی ) کے روپ میں دیکھا ۔ وہ ایک عظیم خاتون تھیں ۔ پابندِ صوم و صلوٰۃ ، پاکباز اور صالح ، ایک دلنواز اور پیاری شخصیت ، وہ بڑی وسیع القلب اور سیدھی سادی طبیعت کی مالک تھیں ۔ کبھی کسی کی برائی کا تصور بھی دل میں پیدا نہیں ہونے دیا ۔ ہر کسی کی بھلائی ان کو مقصود اور ہر کسی کی اچھائی ان کے لیے باعثِ مسرت ہوتی تھی ۔ ’’ میاں جی ‘‘ (والدِ اقبال ) ان کے اس قدر گرویدہ تھے کہ ان کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کے سوا کسی دوسری چیز کو پسند نہ فرماتے ،یہاں تک کہ حقہ بھرنے کی ڈیوٹی بھی ان ہی کی تھی اوروہ کسی دوسرے کے بھرے ہوئے حقے سے مطمئن نہ ہوتے ۔ اکثر اوقات یوں ہوتا کہ بھابی جی ’’ چلم ‘‘ بھر کے کسی بچے کے ہاتھ بھجوا دیتیں تو میاں جی اس کو ناقص قرار دے دیتے لیکن کئی دفعہ ’’چلم ‘‘ کوئی دوسرا بناتا اور بھابی جان صرف ان کے حقے پررکھ آتیں تو وہ بالکل مطمئن رہتے اور چلم کے اچھے بھرے ہونے کی تعریفیں کرتے ۔ آخر عمر میں میاں جی کو بڑے نانا جان (شیخ عطا محمد صاحب) اور بھابی جی (بیگم شیخ عطا محمد صاحب) کے بغیر ایک پل چین نہ آتا تھا ۔ ایک دفعہ چھوٹے نانا جان (علامہ مرحوم ) کو دردِ گردہ کا شدید دورہ ہوا تو بڑے نانا جان مع بھابی جی تقریباً ایک ماہ لاہور میں ان کے پاس مقیم رہے ۔ سیالکوٹ میں میاں جی کے پاس ان کی بڑی صاحب زادی محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ ، گھر کی دوسری خواتین اور بڑے پوتے شیخ اعجاز احمد صاحب تھے ۔ میاں جی نے چند روز تو صبر کیا مگر پھر شور مچانے لگے کہ ’’عطا محمد کو بلاؤ ۔ مہتاب (بیگم شیخ عطا محمد ) کو بلاؤ ۔ ‘‘ سب ان کو سمجھاتے کہ وہاں پر ان کی موجودگی ضروری ہے کیونکہ علامہ صاحب بہت بیمار ہیں ۔ کچھ دیر تو خاموش رہتے لیکن پھر وہی مطالبہ شروع کر دیتے ۔ کبھی ماموں اعجاز صاحب سے فرماتے کہ ’’اگر میں فوت ہوگیا تو تم کیا کرو گے ، لاؤ میرا کفن ، میں خود تیار کرکے رکھ دوں ۔ عطا محمد یہاں پر نہیں ہے ، تم کہاں کفن تیار کرواتے پھرو گے ۔ ‘‘ اعجاز ماموں ان کو سمجھاتے کہ ابا جان لاہور ہی تو گئے ہیں ، کون سے ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں ، آپ ایسی باتیں کیوں سوچتے ہیں ۔ ‘‘ لیکن وہ تو بہانے سے نانا جان اور نانی جان کو بلانا چاہتے تھے ۔ اگر اس طرح کامیابی نہ ہوتی تو پھر کہنے لگتے ’’تم لوگوں نے تو مجھے بھوکا مار دیا ہے ، دودھ میں پانی ملا دیتے ہو ۔ جلدی عطا محمد اور مہتاب کو بلاؤ ۔ میں تمھارے ہاتھ کی کوئی چیز نہ کھاؤں گا ۔ ‘‘ آخر نانا جان قبلہ اور نانی جان جنت مکانی واپس تشریف لائے اور میاں جی کا اضطراب ختم ہوا۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کی بینائی بالکل ختم ہو گئی اور ضعیفی اس قدر تھی کہ سارا وقت اپنے بستر پر بیٹھے ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے ۔ اسی زمانے میں انھیں یہ وہم ہوگیا کہ انھیں درست وقت نہیں بتایا جاتا ۔ اگر دن کے نوبجے دریافت کرتے کہ کیا وقت ہوا ہے اور کوئی بتاتا کہ صبح کے نو بجے ہیں تو آپ بضد ہوتے کہ نہیں یہ تو رات کے نو ہیں ، تم سب غلط بیان کرتے ہو ۔ لاؤ رات کا کھانا لاؤ ۔ انھیں کہا جاتا کہ ابھی تو آپ نے ناشتہ کیا ہے ،رات کاکھانا کہاں سے آئے ، تو وہ کبھی نہ مانتے ، سارا گھر سر پٹختا کہ یہ صبح کے نو ہی ہیں لیکن وہ نہ مانتے ۔ اگر کبھی رات کو وقت پوچھتے اور بتایا جاتا کہ رات کے بارہ بجے ہیں تو وہ کہتے نہیں ، یہ تو دن کے بارہ بجے ہیں ۔ لاؤ دوپہر کا کھانا لاؤ ، مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔ اب خواہ کوئی کچھ کرے ، وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے کہ یہ رات کے بارہ ہیں۔ حضرت علامہؒ بڑے بذلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے تھے ۔ روتوں کو ہنسا دینا تو ان کے لیے معمولی بات تھی ، گفتگو کے دوران میں چھوٹے چھوٹے چٹکلے بیان کرنا ان پر ختم تھا ۔ ان کی گفتگو میں اس قدر روانی اور زور ہوتا کہ کسی کو قطع کلامی کی جرأت نہ ہوتی ۔ دوسروں کو لاجواب کردینے کا انھیں خاص ملکہ تھا ۔ کوئی سوال کرتا تو جواب میں الفاظ و معانی کا بحرِ زخار امنڈتا چلا آتا۔ آسان موضوع ہوتا یا کوئی دقیق مسئلہ وہ بلا تکان بولتے چلے جاتے۔ ایسے معلوم ہوتا کہ خیالات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس میں حاضرین بہے چلے جا رہے ہیں اور کسی کو تن بدن کا ہوش نہیں۔ ان کا جواب اس قدر جامع اور معلومات افزا ہوتا کہ اس موضوع پر مزید سوالات کی گنجائش مشکل ہی سے پیدا ہوتی ۔ عام طور پروہ گفتگو پنجابی زبان میں کرتے ، البتہ جب کوئی دقیق اور فلسفیانہ مسئلہ در پیش ہوتا تو اردو اور انگریزی وغیرہ کو اظہار مطلب کا ذریعہ بناتے ۔ گھر میں وہ ہمیشہ پنجابی اور وہ بھی ٹھیٹھ سیالکوٹی میں بات چیت کرتے ۔ آپ بڑی بلند اور رعب دار آواز میں گفتگو کرنے کے عادی تھے ۔ دورانِ گفتگو میں وہ آنکھوں کو تھوڑا سیکڑ لیتے ، البتہ جب گفتگو میں شدت پیدا ہوتی تو آنکھیں پوری کھل جاتیں، چہرہ جلال اور جوش سے سرخ ہو جاتا ۔ آپ کی آواز بڑی صاف ، بلند ، پُرسوز اور پر وقار تھی ۔ علی الصبح قرآن حکیم کی تلاوت ان کا روز کا معمول تھا ۔ وہ اس قدر خوش الحان تھے کہ سننے والے مسحور ہوجاتے۔ دل چاہتا کہ وہ یونہی تلاوت کیے جائیں اور آدمی سنتا رہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران میں ان پر اس قدر رقت طاری ہو جاتی کہ وہ زار و قطار رونے لگتے اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ قرآن پاک کے صفحات تر ہو جاتے ۔ نانا جان قبلہ انتہائی طور پر سادگی پسند تھے ، خصوصاً لباس کے معاملے میں تو وہ بے پروائی کی حد تک سادہ مزاج تھے ۔ گرمیوں میں گھر پر صرف دھوتی اور بازو والی بنیان پہنے رہتے ۔ اکثر یہ دونوں کپڑے کافی میلے ہو جاتے لیکن وہ اپنے حال میں مست ، نشست گاہ میں لوگوں کے درمیان بیٹھے حکمت کے خم لنڈھاتے رہتے ۔ والدۂ جاوید کئی کئی بار ان کی توجہ میلے کپڑوں کی طرف مبذول کراتیں لیکن وہ ٹال جاتے ۔ آخر جب وہ زیادہ ہی مصر ہوتیں تو بڑی بے نیازی سے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے : ’’ کوئی ایسے میلے تو نہیں ہیں ، البتہ اگر تمھاری یہی خوشی ہے تو لاؤ بدل ہی لیتے ہیں۔ ‘‘سردیوں میں گھریلو لباس میں دو چیزوں کا اضافہ ہو جاتا ، ایک تو گلے میں ’’ٹاسے ‘‘ کا کھلا کرتا پہن لیتے اور دوسرے شانوں پر دُھسّا ڈال لیتے ۔ گرمی کے مقابلے میں سردی کا احساس انھیں زیادہ ہوتا تھا ۔ گرمیوں میں عام طور پر بغیر پنکھے کے بیٹھے رہتے لیکن سردیوں میں جہاں بیٹھتے کوئلوں کی انگیٹھی قریب رکھواتے ۔ گھر پر پاؤں میں سلیپر کی بجائے سیاہ رنگ کا پمپ شو (گُرگابی) پہنتے جس کے اوپر ’’ بو‘ ‘ لگی ہوتی تھی ۔ جوانی میں انھیں عام پنجابیوں کی طرح شلوار قمیص پسند تھی ۔ قمیص پرعام کوٹ لیکن سردیوں میں بند گلے کا فراک کوٹ پہنتے تھے اور سر پر سفید یا موتیے رنگ کی ململ کی پگڑی باندھتے تھے ۔ بعد میں انھوں نے ترکی ٹوپی بھی پہننی شروع کر دی ۔ انگریزی ٹوپی (ہیٹ ) شاید ہی کبھی پہنتے تھے۔ ولایت جانے سے بیشتر انھوں نے کبھی انگریزی لباس نہیں پہنا ۔ ولایت سے واپس آ کر بھی انھوں نے سوٹ وغیرہ بہت کم استعمال کیا ۔ دراصل انھیں انگریزی لباس بالکل ناپسند تھا اور وہ دیسی لباس ہی کو دل سے پسند فرماتے تھے ۔ والدہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ ’’ میں نے چچا جان کو بہت ہی کم کوٹ پتلون پہنے دیکھا ہے ۔ یا تو کچہری جانے کے لیے کوٹ پتلون پہنتے اور بڑی ناگواری سے نکٹائی لگاتے یا پھر کسی خاص تقریب میں شمولیت کے لیے انگریزی لباس زیب تن کرتے تھے۔ کپڑے پہنتے وقت وہ سرد آہیں بھرا کرتے تھے ۔ شاید انگریزی لباس سے دلی نفرت کی بنا پر اسے پہننا طبیعت پر گراں گزرتا ۔ گھر واپس پہنچتے ہی سب سے پہلے کوٹ پتلون اتارتے اور اپنا پسندیدہ گھریلو لباس پہن لیتے ۔ ‘‘ سادگی کا یہ عالم تھا کہ جیسا بھی کپڑا مل جاتا پہن لیتے ۔ انھیں اس سے سروکار نہ تھا کہ کپڑا ریشمی ہے یا سوتی ۔ انھوں نے کبھی اپنے لیے کپڑے وغیرہ پسند نہیں کیے ۔ والدۂ جاوید جیسے کپڑے بنوا دیتیں وہ بخوشی پہن لیتے ۔ کپڑے کے معاملے میں پہچان کا یہ عالم تھا کہ والدۂ جاوید کے بھائی کی شادی پر انھیں جو کپڑے ملے ان میں ’’بوسکی ‘‘کی قمیص تھی ۔ والدۂ جاوید نے قمیص دکھاتے ہوئے انھیں بتایا کہ یہ ’’ بوسکی ‘‘ ہے ۔ وہ بڑے حیران ہوئے اور فرمایا : ’’ اچھا ! تو یہ ’بوسکی‘ ہے لیکن اس میں کوئی خاص بات تو نظر نہیں آتی ۔ ‘‘ وہ فطرتاً تساہل پسند تھے ۔ چارپائی پر نیم دراز یا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے رہنے کے بڑے د ل دادہ تھے ۔ وقت کی پابندی ان کے لیے مشکل تھی ۔ اگر کہیں وقتِ مقررہ پر پہنچنا ہوتا تو انھیں ہمیشہ دیر ہو جاتی۔ اکثر مطالعے میں اس قدر منہمک رہتے۔ کہ دوپہر کا کھانا بھی بھول جاتے۔ جب فارغ ہوتے تو بڑے معصومانہ انداز میں دریافت فرماتے : ’’ کیا میں نے کھانا کھا لیا تھا ؟ ‘‘ صبح یا شام کی سیر کی عادت نہ تھی ، شام کے وقت صحن میں ہی دو ایک چکر لگا لیتے اور بس ، یہی ان کی سیر تھی ۔ سفر سے ان کی طبیعت بہت گھبراتی تھی ۔ اگر کہیں جانے کا پروگرام بنتا تو کئی روز پہلے ہی سے اس کی فکر دامن گیر ہو جاتی ۔ بار بار ہدایات دیتے ؛ کبھی گاڑی کا وقت معلوم کراتے ، کبھی سامان وغیرہ کے متعلق دریافت کرتے ۔ اگر کبھی مستورات کو بھی ساتھ جانا ہوتا تو ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ۔ والدۂ مکرمہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’سیالکوٹ آنے کے لیے پہلے کئی روز تک تو ارادہ ہی باندھتے رہتے اور اس قدر پریشان ہوتے اور اہتمام فرماتے جیسے سفرِ حج پر روانہ ہو رہے ہوں ۔ سیالکوٹ کے لیے ہمیشہ شام کی گاڑی سے روانہ ہوتے اور جب تک گھر پہنچ نہ جاتے ان کی بے شمار اور بے بنیاد پریشانیوں کا خاتمہ نہ ہوتا ۔ اگر کبھی چچی جان (والدۂ جاوید) اور میں بھی ان کے ہمراہ ہوتیں توان کی پریشانی دیدنی ہوتی ۔ یوں محسوس ہوتا کہ ان کے ساتھ کوئی بہت بڑا خزانہ ہے جس پر ڈاکا پڑ جانے کا ڈر انھیں چین نہیں لینے دے رہا ۔ ‘‘ کھانے کے معاملے میں وہ سادہ مزاج ضرور تھے لیکن نفاست پسند بہت تھے ۔ جو کچھ کھانے میں مل جاتا بہ رضا و رغبت کھا لیتے ، کبھی کسی چیز میں نقص نہ ڈالتے ، البتہ اچھے کھانے کی تعریف ضرور کرتے ۔ لیکن جو چیز آنکھوں کو بھلی معلوم نہ ہوتی اسے کھانے سے انکار کر دیتے ۔ والدہ صاحبہ اس سلسلے میں ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ’’ ایک روز ہنڈیا بھوننے میں زیادہ سرخ ہوگئی جس کی وجہ سے سالن ذرا سیاہی مائل ہوگیا ۔ چچا جان (علامہ صاحب )نے کھانے سے انکار کیا تو چچی جان (والدۂ جاوید ) نے کہا کہ ’’مزے دار تو بہت ہے ۔ ‘‘ چچا جان نے فرمایا : ’’ جو چیز آنکھوں کو بھلی معلوم نہیں ہو رہی اس کے لذیذ ہونے کا کیا فائدہ ؟ ‘‘ انھیں مغز یا کلیجی وغیرہ پکی ہوئی دیکھنی بھی گوارہ نہ ہوتی ۔ ایک دفعہ بیماری کے دوران میں حکیم نابینا نے انھیں بکرے کا مغز بھون کر کھانے کا مشورہ دیا لیکن انھوں نے انکار کردیا کہ کھانا توایک طرف ، مغز دیکھ کر ہی میری طبیعت متلانے لگتی ہے ۔ ترش ، چٹ پٹے اور مرغن کھانے انہیں بہت مرغوب تھے ۔ نمک مرچ تیز پسند کرتے تھے ۔ کھانے کے بعد میٹھا ضرور کھاتے ۔ عام طور پر والدۂ جاوید دودھ اور سویوں کی کھیر پکا کر رکھتیں جسے وہ بڑے شوق سے کھاتے ۔ عید کے دن ہمیشہ سویوں پر دہی ڈال کر کھاتے اور فرماتے کہ یہ میری والدہ کی پسند ہے ۔ ہر قسم کا اچار انھیں بہت پسند تھا ۔ خاص طور پر شلغم کا اچار بہت مرغوب تھا ۔ فرمایا کرتے : ’’ اچار ِ شلغم ایک نعمت ہے ۔ ‘‘ آم کا اچار جب ڈالا جاتا تو خاص طور پر ان کی ہدایت ہوتی کہ آم کی گٹھلی کے اندر کا گودا رہنے دیا جائے کیونکہ انھیں یہ بہت پسند تھا اور اچار کی پھانک کے ساتھ گودا بھی بڑی رغبت سے کھایا کرتے تھے ۔ خشکہ ان کی طبیعت کو راس نہیں آتا تھا اس لیے عام طور پر روٹی ہی کھاتے ۔ شب دیگ کے بہت شوقین تھے اور شب دیگ ہمیشہ خشکے کے ساتھ کھاتے تھے ۔ میٹھی چیزیں انھیں بہت پسند تھیں ، یہاں تک کہ دوا بھی میٹھی ہی پسند فرماتے ۔ جب کبھی دوا کی ضرورت محسوس ہوتی ، حکیم نابینا یا کسی دوسرے حکیم سے رجوع فرماتے تاکہ کسی میٹھی معجون یا خمیرۂ گاؤ زبان ہی سے کام چل جائے ۔ خمیرۂ گاؤ زبان ان کی پسندیدہ دوا تھی ۔ کڑوی کسیلی دوا پینا ان کے لیے انتہائی مشکل ہوتا ۔ کسی دوسرے شخص کو خاموشی اور آرام سے کڑوی دوا پیتے دیکھ کر بہت حیران ہوا کر تے ۔ والدہ صاحبہ اس سلسلے میں ایک واقعہ یوں بیان فرماتی ہیں : ’’ میری عمر اس وقت سات آٹھ برس ہو گی ۔ گرمیوں کا موسم تھا اور چچا جان چھٹیوں میں سیالکوٹ آئے ہوئے تھے ۔ ایک روز مجھے بڑا تیز بخار ہوگیا ۔ ابا جان (شیخ عطا محمد صاحب ) اس معاملے میں بڑے مستعد تھے ۔ گھر میں کوئی بیمار ہو جائے ، دوائی کھلانے کی ڈیوٹی ان کی ہوتی۔بخار میں ان کا سب سے پہلا علاج جلاب ہوا کرتا تھا۔چنانچہ انھوں نے مجھے بھی فوراً ایک گلاس میں ’’فروٹ سالٹ ‘‘ گھول کر پینے کے لیے دیا اور میں ایک ہی گھونٹ میں پورا گلاس پی گئی ۔ چچا جان بھی وہیں بیٹھے تھے اور مجھے اس طرح دوا پیتے ہوئے حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔ جب میں نے پورا گلاس پی لیا تو وہ ابا جان سے کہنے لگے : ’’ بھائی صاحب ! آپ کے ڈر کی وجہ سے سیما نے ایک دم ساری دوا پی لی ہے ۔ ‘‘ ابا جان نے جواب میں فرمایا : ’’ نہیں بھائی ، یہ دوا پینے میں بڑی بہادر ہے ۔ ‘‘ چچا جان کو اور بھی حیرت ہوئی اور فرمایا : ’’ اچھا ! کم از کم میں تو اتنا بہادر نہیں ہوں ۔ ‘‘ آپ ریو ڑیاں ، کشمش اور اخروٹ کے مغز ملا کر بڑے شوق سے کھاتے ۔ سیالکوٹ سے جو بھی لاہور جاتا ۔ ان کا یہ من بھاتا کھاجا ضرور ہمراہ لے کر جاتا۔ (ان دنوں سیالکوٹ کی ریوڑیاں بہت اچھی ہوتی تھیں) جب خود سیالکوٹ آتے تو روزانہ یہ کھاجا ضرور کھاتے۔ آپ کھانا بڑی قلیل مقدار میں کھانے کے عادی تھے ۔ صبح ہلکا سا ناشتہ ، دوپہر کے وقت کبھی تھوڑا سا پلاؤ یا ایک ڈیڑھ خمیری روٹی (انھوں نے کبھی پوری دو روٹیاں نہیں کھائیں)اور رات کو مکمل فاقہ۔البتہ رات کو نو دس بجے کے قریب دو خطائیاں اور نمکین کشمیری چائے (سبز چائے) کی ایک پیالی نوش فرماتے ۔ البتہ کبھی کھانے کے بعد چائے مل جاتی توایک پیالی پی لیا کرتے ۔ گوشت سے رغبت زیادہ تھی لیکن ہرقسم کی سبزیاں بھی پسند کرتے تھے ۔ پلاؤ اور شامی کباب ان کے پسندیدہ کھانے تھے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ اسلامی کھانے ہیں ۔ سیخ کباب بھی بڑے شوق سے کھاتے تھے ۔ نانا جان مرحوم نئی نئی قسم کے کھانے بہت پسند فرماتے تھے ۔ والدہ مکرمہ بتاتی ہیں : ’’ کہیں سے کوئی نئی ترکیب معلوم ہوتی تو چچی جان کو آ کر بتاتے اور چچی جان اتنی ماہر تھیں کہ ان کی بتائی ہوئی نامکمل ترکیب ہی سے مطلوبہ کھانا تیار کر لیا کرتیں اور چچاجان بڑی رغبت سے کھاتے اور داد دیتے۔ ایک دفعہ آپ کہیں سے پلاؤ پکانے کی یہ ترکیب سن کر آئے کہ پلاؤ میں اگر ٹماٹروں کا پانی ڈال کر پکایا جائے تو بہت لذیذ ہوتا ہے۔ چچی جان سے ذکر کیا تو انھوں نے دوسرے ہی روز اس ترکیب کو آزما ڈالا ۔ چچا جان نے تناول فرمایا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا : ’’ یہ تو واقعی بے حد لذیذ ہے ، اب جب بھی پلاؤ پکائیں تو یہی طریقہ استعمال کیاکریں ۔ چنانچہ چچی جان ہمیشہ ہی ٹماٹر والا پلاؤ پکایا کرتیں ۔ ‘‘ ان کی یہ ترکیب ایسی مشہور ہوئی کہ خاندان میں اس کا نام ہی ’سردار چچی والا پلاؤ ‘ رکھ دیا گیا ۔ ‘‘ جب انھیں دردِ گردہ کی شکایت ہوئی تو معالجین نے تشخیص کیا کہ رات کے فاقے کی بنا پر گردوں سے چربی بالکل ختم ہو چکی ہے اس لیے رات کا کھانا فوراً شروع کر دیا جائے ۔ معالجین نے رات کے کھانے میں مرغ مسلّم تجویز کیا ۔ چند روز تو آپ نے اس پر عمل کیا لیکن چونکہ عادت نہ تھی اس لیے ہاضمہ خراب رہنے لگا ۔ چنانچہ مرغ دوپہر کے کھانے میں شامل کر دیا گیا اور رات کو تھوڑا سا دلیا یا کھچڑی کھانے لگے ۔ آم ان کی سب سے بڑی کمزوری تھے ۔ خواہ بیمار ہوں ، آم سے پرہیز ناممکن تھا ۔ (قبلہ نانا جان پرہیز کے بالکل قائل نہ تھے ، وہ فرمایا کرتے تھے کہ ’ میں پر ہیز کا قائل نہیں ‘) ۔ گرمیوں میں تقریباً روزانہ ہی اعلیٰ سے اعلیٰ اقسام کے آم منگوائے جاتے اور کام و دہن کو لطف اندوز کیا جاتا۔ سہارن پور ، الہٰ آباد اور دلی وغیرہ سے ان کے نیاز مند دوست قسم قسم کے آم بھجواتے جنھیں وہ خود بھی بڑی رغبت سے کھاتے اور احباب کو بھی کھلاتے ۔ وہ آم کی تعریف بڑے نرالے انداز میں کیا کرتے تھے ؛ ان کا فرمانا تھا کہ ’’ قدرت نے میووں کو ترقی دے کر انگور بنائے اور انگوروں میں جو کمی رہ گئی تھی وہ آموں کی تخلیق میں پوری کر دی۔ ‘‘ انھیں رات کو دیر سے سونے کی عادت تھی۔ دس گیارہ بجے تک محفل جمی رہتی۔ محفل برخاست ہونے کے بعد کچھ دیر مطالعہ فرماتے یا حقہ منہ میں دبائے خاموش گہری سوچوں میں گم رہتے ۔ اکثر نمازِ عشاء ادا کر کے سوتے مگر پھر علی الصبح بیدار ہو جاتے ۔ کبھی تہجد اور کبھی نماز ادا کرتے اور پھر حسبِ معمول بڑی خوش الحانی سے تلاوتِ کلام پاک فرماتے ۔ ان کی سحر خیزی کا یہ عالم تھا کہ علی بخش کو فجر کی نماز کے لیے وضو کے پانی اور جائے نماز کا اہتمام رات کو سونے سے پہلے ہی کرنا پڑتا کیونکہ فجر کی نماز اول وقت میں ادا کرنا ان کا معمول تھا ۔ آپ کو سونے میں خراٹے لینے کی عادت تھی ۔ خراٹے بھی کوئی عام قسم کے نہیں بلکہ بہت بلند اور گرج دار ۔ بعض اوقات تو ایسی بھیانک قسم کی آوازیں ہوتیں کہ گھر کے دوسرے افراد ڈر جاتے ۔ انھیں سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر بستر کے ایک طرف لیٹنے کی عادت تھی ۔ اس حالت میں ان کا ایک پاؤں ہلتا رہتا جس سے اندازہ ہوتا کہ ان کی نیند ابھی گہری نہیں ہوئی ، لیکن جوں ہی نیند گہری ہوتی خراٹوں کا دور شروع ہو جاتا ۔ میری والدہ مکرمہ بتاتی ہیں کہ ’’رات کو سارے گھر میں چچا جان کے خراٹے گونجا کرتے اور سب اپنے اپنے بستروں میں دبکے ان کے بلند و بالا خراٹے سنا کرتے۔ بعض اوقات تو ایسی عجیب اور ڈراؤنی آوازیں ہوتیں کہ رات کی خاموشی میں کلیجا منہ کو آنے لگتا ۔ ‘‘ اہلِ خانہ اور گھریلو ملازمین سے ان کا برتاؤ بڑا ہی نرم ہوتا تھا ۔ کبھی کسی کو سخت سست نہیں کہا ۔ اگر کسی سے کوتاہی ہو جاتی تو درگزر فرماتے ۔ بڑی سے بڑی بات پر بھی غصہ نہ آتا اور اگر کبھی معمولی سا غصہ آتا بھی تو اس کی مدت بہت قلیل ہوتی ۔ دراصل وہ بڑے متحمل مزاج تھے ۔ والدہ محترمہ اس سلسلے میں ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں : ’’ ایک روز چچی جان (والدۂ جاوید) اور میں نے کھانا وغیرہ پکانے کی تیاری شروع ہی کی تھی کہ چچا جان باورچی خانے میں تشریف لے آئے اور فرمایا : ’ آج مجھے ذرا جلد کچہری پہنچنا ہے ‘ اس لیے کھانا جلدی تیار کر دیں ۔ چچی جان نے یوں ہی کہہ دیا کہ بس ابھی تیار ہوا چاہتا ہے تو چچا جان بولے ، اچھا میں یہیں بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں ، اور وہ و ہیں باورچی خانے کے دروازے کے قریب چارپائی پر خاموش بیٹھ گئے۔ اب ہم دونوں کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ، جتنی جلدی کی کوشش کریں اتنی ہی دیر ہوتی جائے ۔ کافی دیر کے بعد چچا جان نے پھر کھانے کے متعلق دریافت کیا ۔ چچی جان نے آہستہ سے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بس جی ابھی تیار ہوا چاہتا ہے ۔ وہ پھر سر جھکا کر بحرِ فکر میں غوطہ زن ہو گئے اسی طرح تقریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا اور تب انھیں کھانا ملا ، مگر انھوں نے کسی قسم کی خفگی یا برہمی کا اظہار نہ کیا ۔ خاموشی سے کھانا تناول فرمایا اور چلے گئے اور ہماری جان میں جان آئی۔ ‘‘ ملازمین سے خواہ کتنا ہی بڑا نقصان ہو جاتا ، ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لیتے ۔ انھیں ملازمین کے کھانے وغیرہ کا بھی خاص طور پر خیال رہتا تھا ۔ جو چیز گھر میں تیار ہوتی یا باہر سے آتی ، تمام ملازمین کو ضرور دی جاتی ۔ کبھی یہ نہیں ہوا کہ انھوں نے کوئی چیز اکیلے کھائی ہو ۔ ایک دفعہ گھر میں پالتو گائے کے بچھڑے کو باؤلے کتے نے کاٹ کھایا جس کی وجہ سے وہ بیمار ہو گیا۔ زہر کا اثرزائل کرنے کے لیے اسے روزانہ دوا وغیرہ دی جاتی ۔ ایک روز گھریلو ملازم اسے دوا دے رہا تھا کہ بچھڑے نے اس کے ہاتھ پر کاٹ لیا ۔ ان کو معلوم ہوا تو اسی وقت اس ملازم کو ’’ کسولی پہاڑ ‘‘ پر علاج کے لیے بھجوا دیا ۔ ان دنوں باؤلے کتے کے زہر کا علاج صرف کسولی کے ہسپتال میں ہوتا تھا ۔ وہ ملازم مکمل طور پر صحت یاب ہونے تک وہاں زیرِ علاج رہا اور اس دوران میں اس کے تمام اخراجات نانا جان نے خود ادا کیے ۔ علی بخش تقریباً چالیس برس حضرت علامہ کی خدمت میں رہا ۔ اس کا بیان ہے کہ ’’ڈاکٹر صاحب نے کبھی مجھے برا بھلا نہیں کہا ۔ ایک دفعہ ان کے بھانجے نے مجھے گالی دی تو اس پر سخت ناراض ہوئے بلکہ اسے پیٹا بھی ۔ البتہ دو تین دفعہ مجھ پر خفا ضرور ہوئے اور یہ خفگی بھی تھوڑی دیر میں جاتی رہی ۔ وفات سے سال بھر پہلے کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں ایک سکھ آیا ۔ ( ان کے ہاں ہر قسم کے لوگ آتے تھے ، کوئی روک ٹوک نہ تھی ) ۔ اس نے آتے ہی گلاس مانگا اور بغل سے بوتل نکال ، گلاس میں شراب انڈیل غٹا غٹ چڑھاگیا ۔ علامہ صاحب کو تاب کہاں ۔ سخت خفا ہوئے اور فرمانے لگے : ’ تم نے اس کم بخت کو گلاس کیوں لا دیا اور جب وہ شراب پینے لگا تو اسے روکا کیوں نہیں ، اس واقعے کے سوا وہ عمر بھر کبھی مجھ سے اس قدر ناراض نہیں ہوئے‘‘ ۔ بلند پایۂ فلسفی اور عالی مرتبت مفکر ہونے کے باوجود وہ تنہائی پسند بالکل نہ تھے ۔ ہرقسم کے لوگوں سے ملتے اور ہر شخص سے اس کے مذاق کے موافق گفتگو کرتے ۔ جس سے بھی ملتے انتہائی بے تکلفی کے ساتھ ملتے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے والا شخص ان کے انکسار و حسن خلق کا گہرا نقش دل پر لے کر اٹھتا ۔ گھریلو محفلوں میں وہ بڑے شوق سے شریک ہوتے۔جب بھی لاہور سے سیالکوٹ تشریف لاتے تو ’’ اقبال منزل‘‘ کی اندرونی نشست گاہ میں تختوں کے اوپر گھریلو محفل جمتی ۔ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے اور آہستہ آہستہ حقے کے کش لگاتے ہوئے اپنی بڑی بھاوج اور چھوٹی بہنوں سے خاندان اور محلے کی باتیں بڑے غور اور دلچسپی سے سنتے ۔ فلاں کی شادی ہوئی ، فلاں فوت ہوگیا، وہاں لڑکا ہوا اور وہاں لڑکی ۔ اس قسم کی گھریلو باتیں سنتے ہوئے کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے بلکہ خود ہر ایک کے متعلق استفسار فرماتے ۔ اگر کبھی دونوں بہنیں (محترمہ کریم بی بی صاحبہ اور محترمہ زینب بی بی صاحبہ)۸ کسی اختلافی موضوع پر آپس میں جھگڑتیں تو ہلکا ہلکا مسکراتے رہتے اور ان کی دلچسپ نوک جھونک مزے سے سنتے رہتے ۔ اگر محلے میں سے کوئی بچپن کا ساتھی ملنے کے لیے آ جاتا تو بڑے تپاک سے ملتے اور بچپن کی باتیں یاد کر کے بڑے محظوظ ہوتے ۔ آپ اپنی مادری زبان پنجابی ، سیالکوٹ کے مخصوص محاورے اور تلفظ کے ساتھ بولنے پر بڑی سختی سے عمل پیرا تھے ۔ فالودہ کو ہمیشہ ’’پھلودہ ‘‘ بولتے ۔ اگر والدئہ جاوید فالودہ کہنے کے لیے کہتیں تو فرماتے : ’’ میری ماں نے تو مجھے یہی سکھایا ہے۔ میں اپنی ماں کی تعلیم فراموش نہیں کر سکتا۔ ‘‘ سیالکوٹ میں واسکٹ کو ’’ کڑتی ‘‘ کہا جاتا ہے لیکن اہلِ لاہور زنانہ قمیص کو ’’کڑتی ‘‘بولتے ہیں ۔ ایک دفعہ نانا جان قبلہ نے گھریلو ملازمہ سے کہا کہ ’’ اندر سے کڑتی لے آؤ ‘‘۔ وہ بے چاری تھی لاہور کی ، زنانہ قمیص اٹھا لائی تو والدۂ جاوید کہنے لگیں : ’’ اب تو یہ سیالکوٹی بولی چھوڑ دیجئے۔ ‘‘ آپ نے فوراً جواب دیا : ’’ جب آپ لاہوری زبان نہیں چھوڑ سکتیں تو آخر میں کیوں اپنی مادری زبان بھول جاؤں ۔ ‘‘ اتنا عرصہ لاہور میں رہنے کے باوجود انھوں نے کبھی ’’ھے گا اے ‘‘یا ’’ھے گی اُو ‘‘ کا استعمال نہ کیا بلکہ ہمیشہ سیالکوٹ کے لہجے میں ’’ ھے جے ‘‘ یا ’’ ھے وے ‘‘ ہی کہتے رہے ۔ انھیں اپنی مادرِ محترم سے بھی بے حد عقیدت تھی ۔ ان کی وفات ۹کے بعد جب بھی سیالکوٹ تشریف لاتے دوسرے روز علی الصبح (وہ ہمیشہ رات کی گاڑی سے یہاں پہنچتے ) قبر ستان امام صاحب میں اپنی والدہ مرحومہ کی قبر پر حاضر ہوتے اور کافی دیر وہاں بیٹھے فاتحہ خوانی اور تلاوت میں مصروف رہتے۔ اپنی والدہ مکرمہ سے بے پناہ عقیدت و احترام کا اندازہ ان کی مشہور نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ سے بخوبی ہوتا ہے ۔ آپ بڑے رحم دل اور حساس طبیعت کے مالک تھے ۔ خاص طور پر بے زبان اور کمزور جانداروں پر نہ کبھی خود سختی کرتے اور نہ ہی کسی دوسرے کا ظلم و تشدد برداشت کرتے ۔ جن دنوں وہ انارکلی میں سکونت پذیر تھے ، ایک دفعہ والدۂ جاوید نے چوزے نکلوائے ۔ سارا دن مرغی اپنے بچوں کو ادھر اُدھر لیے پھرتی ۔ ساتھ والے مکان میں کوئی ہندو رہتے تھے اور اتفاق سے دونوں مکانوں کا صحن مشترک تھا ، اگر کسی وقت مرغی اور چوزے ، چگتے چگتے ، ہندو ہمسایوں کی طرف چلے جاتے تو وہ لوگ برا مناتے ۔ ایک روز کا ذکرہے کہ نانا جان قبلہ بالا خانے کی کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے ، نیچے صحن میں چوزے اپنی ماں کے ساتھ ادھر اُدھر پھر رہے تھے کہ ہندو ہمسایوں کے ملازم نے لپک کر ایک چوزہ پکڑا اور اس کی دونوں ٹانگیں مروڑ کر اسے پھینک دیا ۔ آپ یہ ظلم دیکھ کر غصے میں گرجے تو وہ بھاگ گیا ۔ انھوں نے علی بخش سے کہا کہ نیچے جا کردیکھو اس بزدل نے بے زبان کی ٹانگیں توڑ دی ہیں ؟ علی بخش جا کر چوزہ اٹھالایا ۔ وہ بے چارہ مر چکا تھا ۔ آپ غصے سے سرخ ہو گئے اور آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے ۔ ایک موٹا سا ’’ڈنڈا ‘‘ ہاتھ میں پکڑ لیا اور علی بخش کو حکم دیا کہ ’’ اسی وقت اس ظالم آدمی کو پکڑ لاؤ ، میں اسی طرح اس کی ٹانگیں توڑوں گا ، اس ننھی سی جان کو مسلتے ہوئے اس بزدل کا دل نہیں کانپا ! میں اسے بتاؤں گا کہ بے زبان بھی تکلیف کا احساس رکھتے ہیں۔ ‘‘ میری والدہ بتاتی ہیں کہ ’’بڑی مشکل سے سردار چچی جان نے ان کا غصہ ٹھنڈا کیا لیکن وہ پھر بھی سارا دن کھڑکی سے گھات لگا کر بیٹھے رہے کہ ہمسایوں کا ملازم نظر آئے تو اس کی خبر لیں ۔ وہ بے چارا ڈر کے مارے وہاں سے ملازمت ہی چھوڑ گیا ۔ میاں جی ۱۰ (والد ِ اقبال ) بڑے متقی اور صوفی منش بزرگ تھے ، جو بات کہہ دیتے پوری ہو کر رہتی ۔ والدہ ٔ جاوید کے ہاں جب کافی عرصے تک کوئی اولاد نہ ہوئی تو سب بڑے فکر مند ہوئے، وہ خود بھی اس وجہ سے بڑی مضمحل رہنے لگیں ۔ ایک روز میاں جی نے فرمایا : ’’ ناک کا زیور اتارے گی تو بچہ ہو گا ‘‘ (والدۂ جاوید ناک میں زیور پہنتی تھیں) ۔ انھوں نے اسی وقت ناک سے زیور اتار دیا اور واقعی شادی کے تقریباً دس برس کے بعد ۵؍اکتوبر ۱۹۲۴ء کو جاوید اقبال پیدا ہوئے۱۱۔ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اتنا عرصہ گزر گیا لیکن نہ تو لدھیانے والی بیگم اور نہ ہی والدۂ جاوید کے ہاں کوئی اولاد ہوئی اور اب ایک ساتھ ہی دونوں کے ہاں امید ہوئی ۔ دونوں میں بالکل سگی بہنوں کا سا پیار تھا اس لیے دونوں نے آپس میں عہد کیا کہ ایک دوسرے کے بچے کو اپنی حقیقی اولاد کی طرح پرورش کریں گی ۔ آخری ایام میں لدھیانے والی بیگم تو لدھیانے چلی گئیں اور والدۂ جاوید سیالکوٹ تشریف لے آئیں ۔ مشیّتِ ایزدی سے لدھیانے والی بیگم صاحبہ ایام زچگی میں وفات ۱۲ پاگئیں ۔ علامہ صاحب ان دنوں وہیں پر تھے ۔ انھوں نے سیالکوٹ اپنے بڑے بھائی صاحب کو ایسا درد ناک خط لکھا کہ وہ رو رو کر بے حا ل ہو گئے ۔ آپ نے یہ بھی لکھا کہ ’’ مرحومہ آخر وقت میں آپ سب کو اور خصوصاً سردار ( والدئہ جاوید) کو بہت یاد کرتی رہی ۔ ‘‘ سب کو ان کی بے وقت موت کا بے حد رنج اور افسوس ہوا ۔ والدۂ جاویدنے اس کا بڑا اثر لیا اور کئی روز تک یاد کر کر کے روتی رہیں۔ جس دن جاوید ماموں پیدا ہوئے ، میاں جی کی خوشی کا ٹھکانا نہ تھا ۔ اسی وقت خدا کے حضور سر بسجود ہو کر شکرانہ ادا کیا ۔ جس وقت جاوید ماموں کو میاں جی کے پاس اذان کہنے کے لیے لایا گیا تو انھوں نے گود میں لے کر پہلے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر اذان کہی اور درازیِ عمر کی دعائیں دیں ۔ نانا جان قبلہ ان دنوں لاہور میں تھے ۔ انھوں نے میاں جی کو خط لکھا کہ ’’ میرے لیے یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ میرے بیٹے نے اپنے آباء و اجداد کے مسکن میں آنکھیں کھولیں اور وطنِ عزیز کی پاک فضاؤں میں پہلا سانس لیا ۔ ‘‘ انھوں نے اسی خط میں جاوید ، فاروق اور زبیر نام تجویز کیے جن میں سے ’’ جاوید ‘‘ سب کو پسند آیا ۔ اس کے علاوہ آپ نے تاریخی نام ظفر الاسلام (۱۳۴۳ھ) بھی نکالا ۔ بچوں کے ساتھ کھیلنا آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ اپنے بھتیجوں (امتیاز احمد صاحب اور مختار احمد صاحب ) کو انھوں نے گودیوں کھلایا اور ان دونوں پر ’’ طفلِ شیر خوار ‘‘ اور ’’ بچہ اور شمع‘‘ وغیرہ نظمیں بھی لکھیں ۔ ان کے بعد میری والدہ سے تو انھیں بے اندازہ محبت تھی ۔ انھیں اپنی پیٹھ پر بٹھا کر گھوڑا گھوڑا بنتے ، دیر تک ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کیا کرتے اور ان کے معصومانہ جوابات سے بہت محظوظ ہوتے ۔ وہ بتاتی ہیں : ’’ چچا جان کبھی بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آئے ۔ جاوید ، منیرہ یا مجھے کبھی ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھا ۔ اگر کسی بات سے منع فرماتے تو بڑے پیار اور شفقت سے سمجھاتے۔ انھوں نے کبھی کسی کو بد دعا یا گالی نہیں دی ۔ برہمی کا اظہار ہمیشہ ان الفاظ میں کرتے ’احمق آدمی ! بے وقوف گدھے ! ‘جاوید سے تو انھیں والہانہ محبت تھی ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اس میں تو میری جان ہے۔ البتہ کسی کے سامنے کبھی جاوید کو پیار نہ کرتے کیوں کہ اس وقت کے وضع دار معاشرے میں اپنی اولاد سے زیادہ پیار معیوب سمجھاجاتا تھا۔ انھوں نے اپنے بڑے صاحب زادے آفتاب کو بچپن میں کبھی بلایا تک نہیں۔ دراصل اس زمانے کے لوگ اپنی اولاد سے پیار کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے تھے لیکن گھر کے دوسرے بچوں سے پیار کرنا معیوب نہ سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے جب جاوید پیدا ہوا تو چچا جان کی عمر پختہ ہو چکی تھی اور انھیں یہ زیب نہ دیتا تھا کہ بچوں کو اُٹھائے اُٹھائے پھریں ، البتہ جاوید کی معمولی سی تکلیف بھی ان کے لیے نا قابلِ برداشت ہوتی تھی ۔ اگر جاوید کبھی بیمار ہو جاتا تو بہت بے چین رہتے ۔ وہ کسی کو بھی تکلیف میں نہ دیکھ سکتے تھے ۔ اس کے علاوہ ،وہ بڑے رقیق القلب بھی تھے۔ ایک دفعہ صحن میں کھیلتے ہوئے جاوید ٹھوکر لگنے سے منہ کے بل گر پڑا اور ہونٹ کٹ جانے کی وجہ سے خون بہنے لگا ۔ اتفاق سے چچا جان بھی آگئے، خون بہتا دیکھ کر بجائے اس کے کہ جاوید کو تھامتے اور دلاسہ دیتے، چند لمحوں تک ساکت و مبہوت کھڑے دیکھتے رہے اور پھر ان کے قدم ڈگمگائے اور دھڑام سے بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ ‘‘ حضرت علامہؒ بہت جلد گھبرا جایا کرتے تھے ۔ خاص طور پر جاوید ماموں کے لیے ان کی گھبراہٹ دیدنی ہوا کرتی تھی ۔ والدۂ محترمہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں : ’’ ایک دفعہ کوئی صاحب ہمارے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ ایک روز وہ کہیں باہر گئے تو جاوید کے ضد کرنے پر اسے بھی موٹر میں ہمراہ لے گئے ۔ غلطی ان سے یہ ہوئی کہ کسی کو بتا کر نہ گئے ۔ شاید ان کا خیال ہوگا کہ جلد ہی لوٹ آئیں گے لیکن جب کافی دیر تک جاوید کہیں نظر نہ آیا تو اس کی ڈھنڈ یاپٹری ۔ چچا جان بے حد پریشان ہوئے ، چہرے کا رنگ اُڑ گیا ، ملازموں کو ادھر اُدھر دوڑایا ، خود بھی کوٹھی سے باہر نکل کر دیکھتے رہے ، پریشانی میں کبھی ادھر جاتے اور کبھی اُدھر ، وہ بے حد سراسیمہ نظر آ رہے تھے۔ آخر تھک ہار کر برآمدے میں پریشانی کے عالم میں سر جھکا کر بیٹھ گئے ۔ اندر چچی جان ( والدۂ جاوید ) کی حالت بھی غیر ہو رہی تھی ۔ کافی دیر بعد جب وہ صاحب واپس آئے تو چچا جان اسی طرح برآمدے میں بیٹھے تھے۔ جوں ہی ان کی نظر موٹر میں بیٹھے ہوئے جاوید پر پڑی، لپک کر موٹر کی طرف گئے اور بڑی بے تابی سے جاوید کو کھینچ کر سینے سے لگا لیا ۔ پھر اسی طرح گود ۱۳ میں اُٹھائے اُٹھائے اسے اندر لائے اور چچی جان کے حوالے کیا ۔ اس وقت دونوں پر کچھ ایسی کیفیت طاری تھی کہ ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہ ہوا ۔ چچی جان تو جاوید کو سینے سے لگا کر رونے لگیں اور چچا جان جلدی سے باہر چلے گئے کیونکہ ان کی نمناک آنکھیں بھی چھلکنے کے قریب ہی تھیں ۔ ‘‘ والدہ محترمہ بیان فرماتی ہیں : ’’ ماہِ صیام میں بڑا اہتمام کیا جاتا۔چچی جان بڑی پکی روزہ دار تھیں ، خواہ کچھ بھی ہو روزہ کبھی قضا نہ کرتیں۔ چچا جان بھی اپنی جوانی میں بڑے پکے روزہ دار تھے لیکن جن دنوں کا میں ذکر کر رہی ہوں ان دنوں انھیں کئی قسم کی بیماریاں لاحق تھیں۔ کبھی دردِ گردہ تو کبھی نقرس ، جن کی وجہ سے ان کی صحت اکثر خراب رہتی تھی ۔ اس کے باوجود وہ ہمت کرکے کبھی کبھی روزہ رکھا کرتے۔ اور جس دن وہ روزہ رکھ لیتے تو کمزوری کی وجہ سے گھبرا جاتے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پوچھتے کہ اب افطاری میں کتنا وقت باقی ہے ؟ جب چچی جان بتاتیں کہ ابھی تو آدھا وقت بھی نہیں گزرا تو فرماتے: ’’خدا جانے روزے طویل ہو گئے ہیں یا پھر مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں رہی۔‘‘ عصر کے وقت ہی علی بخش کو حقہ تازہ کرنے کا حکم مل جاتا اور افطاری کے بعد سب سے پہلے حقہ پیتے ۔ جاوید ماموں کو سحری کھانے کا بے حد شوق تھا ، روزانہ ضد کر کے اٹھتے ۔ اگر کسی روز چچی جان منع کر تیں تو کہتے ’’ نہیں میں ضرور اٹھوں گا۔ رات کو جب سحری سو ں سوں کرکے کے توے پر ناچتی ہے تو بڑا لطف آتا ہے ۔ ‘‘ سحری کے ناچنے کی اختراع اس نے ’’پراٹھا ‘‘ پکنے کی آواز سے بنا لی تھی ۔ ‘‘ والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں : ’’ چچا جان فلم دیکھنے کے بہت مخالف تھے ۔ انھوں نے کبھی فلم نہیں دیکھی اور نہ ہی گھر میں سے کسی کو سینما جانے کی اجازت تھی، حالانکہ ہماری میکلوڈ روڈ والی کوٹھی کے بالکل قریب ہی سینما تھا ۔ ایک دفعہ جاوید ضد کر کے گھریلو ملازم کے ساتھ فلم دیکھنے چلا گیا۔ اس وقت اس کی عمر زیادہ سے زیادہ پانچ چھ برس کی ہوگی۔ ابھی آدھا وقت ہی گزراہو گا کہ چچا جان کو اس کا علم ہو گیا اور انھوں نے اسی وقت دوسرے ملازم کو بھیج کر واپس بلا لیا اور اس ملازم کو ، جو جاوید کو فلم دکھانے لے گیا تھا ، بڑی سختی کے ساتھ آئندہ کے لیے اس قسم کی حرکت سے منع فرمایا ۔ آپ گھر پر ریڈیو یا گرامو فون تک بجانے کے خلاف تھے لیکن سردار چچی جان گرامو فون سننے کی بہت شوقین تھیں ۔ ایک دفعہ مختار بھائی۱۴ کہیں سے گراموفون اور ریکارڈ وغیرہ لے آئے ۔ رات کو جب چچا جان اپنے کمرے میں سو جاتے اور پوری طرح یقین ہو جاتا کہ اب وہ اندر تشریف نہیں لائیں گے تو ہم پچھلے کمرے میں سب دروازے وغیرہ بند کر کے گرامو فون سنا کرتے اور سردار چچی جان فرمایا کرتیں کہ گانا تو روح کی غذا ہے ۔ ‘‘ اس واقعے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ علامہ علیہ الرحمہ نغمہ و سرود کے مخالف تھے ، البتہ عورتوں کے لیے اسے ناپسند کرتے تھے ۔ خود انھیں قوالی وغیرہ سننے کا شوق تھا اور وہ ستار بھی بڑی اچھی بجاتے تھے ۔ ایک شاعر کے لیے اچھی موسیقی کا دل دادہ ہونا قدرتی امر ہے ۔ شاعرِ مشرق نے اپنی زندگی میں کبھی کسی گویے کو اپنا کلام گانے کی اجازت نہیں دی ۔ ایک دفعہ کسی گرامو فون کمپنی نے ان سے اجازت لیے بغیر ان کی مشہور نظم ’’ شکوہ ‘‘ کے چند بند کسی مشہور گلوکار کی آواز میں ریکارڈ کروا لیے ۔ لیکن جب آپ کو اس کا علم ہوا توانھوں نے سختی کے ساتھ نوٹس لیا اور اس کمپنی کو وہ ریکارڈ ضائع کرنے پر مجبور کردیا ۔ والدۂ محترمہ بتاتی ہیں کہ انھی دنوں گھر میں اس واقعے کاذکر آیا تو کسی نے چچا جان سے دریافت کیا کہ اس سلسلے میں انھوں نے اس قدر سختی سے کام کیوں لیا ہے تو آپ نے جواب میں فرمایا : ’’ اس لیے کہ میرا کلام گویوں کے گانے کے یے نہیں ہے ۔ ‘‘ وہ بڑے سبک قدم تھے ۔ ان کے چلنے کی آہٹ اتنی معمولی ہوتی تھی کہ وہ سر پر آن کھڑے ہوتے اور معلوم ہی نہ ہوتا ۔ گھر پر وہ ہمیشہ پمپ شو پہنتے ، باہر جاتے تو اکثر بوٹ پہن لیتے لیکن بوٹ کے ساتھ بھی ان کے چلنے کی آواز بہت کم ہی پیداہوتی ۔ وہ سنبھل سنبھل کر اور قدم جما کر چلنے کے عادی تھے ۔ نہ زیادہ تیز اور نہ ہی زیادہ آہستہ ۔ ان کی چال بڑی پُر وقار اور دبدبے والی تھی ۔ آپ ظاہری شان وشوکت کو بہت ناپسند فرماتے تھے اور ایسی تقریبات میں شمولیت سے انکار کر دیتے جن سے غرور اور تکبرپیدا ہونے کا ذرا سا بھی احتمال ہوتا۔ والدہ صاحبہ کے مندرجہ ذیل بیان سے اس سلسلے میں ان کی سخت مزاجی پر روشنی پڑتی ہے۔ ’’ یہ ۱۹۲۶ء کاذکر ہے ؛ چچا جان بڑی بھاری اکثریت سے پنجاب قانون سازکونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ جس وقت ان کی کامیابی کا اعلان ہوا تو ان کے حامی ایک عظیم جلوس کی صورت میں فلک شگاف نعرے لگاتے کوٹھی پر آ پہنچے۔ چچا جان اس دن گھر ہی پر رہے تھے اور اس وقت اندرونِ خانہ تشریف فرما تھے ۔ ملک لال دین صاحب قیصر۱۵ اور دیگر احباب نے اندر پیغام بھجوا یا کہ ہم شہر میں آپ کے اعزاز میں جلوس نکالنا چاہتے ہیں اس لیے باہر تشریف لائیے ۔ انھوں نے جلوس میں شمولیت سے انکار کرتے ہوئے سختی سے جواب دیا کہ میں جلوس وغیرہ میں شامل ہونے سے قاصر ہوں کیونکہ یہ آدمی کو مغرور کر دیتا ہے ۔ دوستوں نے کہلا بھیجا کہ جلوس نکالنا اور اس میں آپ کی شمولیت اشد ضروری ہے لیکن وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے اور کہلایا کہ جلوس بے شک نکالیے مگر مجھے شمولیت سے معذور رکھیے ۔ اس کے علاوہ میں صرف اس صورت میں باہر آؤں گا کہ آپ سب وعدہ کریں کہ مجھے مجبور نہیں کریں گے ۔ آخر احباب کو سرِ تسلیم خم کرتے ہی بنی اور تب کہیں وہ باہر تشریف لے گئے ۔ سب حضرات کا شکریہ ادا کیا اور جلوس کو ان کے بغیر ہی روانہ ہونا پڑا ۔ ‘‘ جن دنوں وہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے الیکشن میں کھڑے ہوئے تو ان کے مخالفین نے لاہور کی ارائیں برادری کے ایک فرد کو مقابلے پر کھڑا کر دیا تاکہ ارائیں برادری کے ایک طرف ہو جانے سے علامہ علیہ الرحمہ کے ووٹ کم ہو جائیں۔ لیکن ارائیں برادری نے آپ کا پور ا پورا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور علانیہ ان کی حمایت شروع کر دی۔ انھی دنوں کا ایک واقعہ میری والدہ صاحبہ یوں بیان کرتی ہیں : ’’ ایک روز سردار چچی جان (والدۂ جاوید) اور میں صحن میں بیٹھے تھے کہ چچا جان خاموشی سے ہمارے پیچھے آ کھڑے ہوئے ۔ چچی جان کی نظر اچانک پیچھے پڑی تو چچا جان کے سر پر سفید ململ کی بڑی سی پگڑی دیکھ کر ڈر گئیں ۔ چچا جان ہنس پڑے اور فرمایا : ’ او ہو ڈر گئیں ! ‘ چچی جان نے جواب دیا : ’ اس پگڑی نے ڈرا دیا ۔ میں سمجھی خدا جانے کون پگڑی والا اندر آگیا ہے ۔ یہ آپ کو کہاں سے ملی ؟ ‘ چچا جان نے بتایا آج ارائیں برادری نے اپنی رسم کے مطابق میرے سر پر یہ پگڑی باندھ کر اپنے اس وعدے کا اعادہ کیا ہے کہ وہ الیکشن میں میرا مکمل ساتھ دے گی ۔ ‘‘ آپ کے وقت کا زیادہ حصہ لوگوں سے ملنے ملانے میں گزرتا تھا ۔ اس کے علاوہ لکھنے پڑھنے میں بھی کافی وقت صرف کرتے لیکن لکھتے کم اور پڑھتے زیادہ تھے ۔ ان کے سونے کے کمرے میں ایک بڑی میز پر بے شمار کتابیں بکھری رہتیں ۔ اگر کبھی ان کو الماری میں ترتیب سے رکھنے کی کوشش کی جاتی تو منع فرماتے ۔ ان کے کمرے کی حالت پریشان سی رہتی تھی ۔ دیواریں گرد و غبار سے اَٹی ہوتیں، بستر ان کی دھوتی اور بنیان کی طرح میلا ہو جاتا مگر انھیں خود سے بدلوانے کا خیال کبھی نہ آتا ۔ دراصل انھیں ظاہرہ شان و شوکت سے کوئی سرو کار نہ تھا ۔ وہ اپنے حال میں مست، لباس اور ماحول سے بے نیاز ملک و ملت کے مسائل میں مستغرق رہتے ۔ آپ کا اندازِ گفتگو نہایت دل آویز تھا ۔ وہ ہر شخص کے مذاق کے مطابق اس سے بات چیت کرتے تھے ۔ ان کی گفتگو ہمیشہ پاک صاف ، ذاتیات و تصنّع سے مبرا اور کسی قدر ظرافت کی چاشنی لیے ہوئے ہوتی ۔ یہ ایک فطری چیز تھی جو آخر دم تک قائم رہی ۔ وہ اس سادگی سے گفتگو فرماتے کہ سامعین کو اس کا احساس تک نہ ہوتا کہ وہ ایک بہت بڑے عالم و فاضل کی معیت میں ہیں ۔ اپنی خاکساری کے اظہار کے لیے وہ اپنے مخاطب سے ایسے سوالات کرتے گویا اس سے مستفید ہو رہے ہیں ۔ نانا جان قبلہ کو قیمتی پتھروں ،خصوصاً ہیروں سے بہت دلچسپی تھی ۔ اس لیے نہیں کہ ان کی مادی قیمت زیادہ ہو تی ہے بلکہ اس لیے کہ ان میں شاعر کی نگاہ حسنِ ازل کی جھلک دیکھتی ہے ۔ انھیں ایک دفعہ معلوم ہوا کہ نظام دکن کے پاس ایک بے بہا ہیرا ہے جو نہایت چمک دار اور خوب صورت ہے ۔ جب ان کی ملاقات نظام دکن سے ہوئی تو انھوں نے وہ ہیرا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔ نظام دکن نے فوراً ہیرا منگوا کر دکھایا ۔ وہ اکثر اس ہیرے کی چمک ۔ وزن اور حسن کا تذکرہ کیا کرتے تھے ۔ اسی دلچسپی کی بنا پر جب گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان گئے تو والدۂ جاوید کے لیے ’ پلاٹینم ‘ کی ایک انگوٹھی لائے جس میں اعلیٰ قسم کا ہیرا لگا ہوا تھا ۔ آپ ہمیشہ سے بہت بڑے نقاد تھے مگر آخری عمر میں ان کی قوت تنقید بہت بڑھ گئی تھی ۔ مرض الموت کے دوران تو وہ ایسے ایسے سوالات اپنیمعالجین سے کرتے جن کا جواب ان کے بس میں نہ ہوتا ۔ دوا کے معاملے میں ان کی طبیعت پہلے ہی لطافت پسندتھی مگر ان ایام میں تو وہ بہت ہی حساس ہو گئے تھے ۔ ان کا مطالبہ ہوتا کہ دوا خوش ذائقہ ، قلیل المقدار اور سریع الاثر ہونی چاہیے ۔ وہ طبعاً بے حد ذکی الحس تھے ۔ ذرا سی تکلیف برداشت نہ کر سکتے تھے لیکن شدید سے شدید بیماری کے دوران بھی ضبط و تحمل کا پیکر بن جایا کرتے تھے ۔ درویشانہ ، حکیمانہ اور قلندرانہ زندگی نے انھیں نہایت مستغنی ، بے نیاز اور خود دار بنا دیا تھا۔ ایک دفعہ پنجاب میں تحریک شروع ہوئی کہ دو لاکھ روپیہ جمع کرکے حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کیا جائے لیکن انھوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور اپنی غریب قوم پر یہ ناواجب بوجھ ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ ان کے شدید دباؤ سے یہ تحریک ختم ہوگئی۔ آپ بہت قناعت پسند تھے ۔ جب وکالت کرتے تھے تو صرف اتنی مالیت کا کام لیتے جس سے ضروریات زندگی پوری ہو جائیں ۔ اگر کوئی مقدمہ جھوٹا یا کمزور نظر آتا تو اسے ہاتھ میں لینے سے انکار کر دیتے اور سائل کو سمجھاتے کہ تمھارے ’’ کیس ‘‘ میں جان نہیں ہے ، خواہ مخواہ روپیہ ضائع نہ کرو ۔ ایک دفعہ ایک شخص اپنے مقدمے کی پیروی کرانے کے لیے آیا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مقدمہ بالکل بے جان ہے ۔ وہ آدمی بضد تھا کہ آپ اپنی منہ مانگی فیس لیں اور پیروی کریں ، اگر فیصلہ میرے خلاف بھی ہو گیا تو مجھے افسوس نہ ہو گا ۔ مگر انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں حرام کی کمائی کا قائل نہیں ۔ آخر بڑی ردّ و کد کے بعد وہ شخص ناراض ہو کر چلا گیا ۔ آخری عمر میں طویل علالت کی وجہ سے انھیں وکالت چھوڑنا پڑی ۔ تین چار سال بڑی پریشانی کے عالم میں گزرے کیونکہ معقول آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا ۔ جب یہ خبر نواب صاحب آف بھوپال کو پہنچی تو انھوںنے محض اپنے تعلقِ خاطر کی بنا ء پر اپنی جیبِ خاص سے پانچ سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ علامہ مرحوم پہلے اس کے لیے رضامند نہ تھے مگر ان کے عزیز دوست سر راس مسعود اور خود نواب صاحب کے یقین دلانے پر کہ یہ ریاست کی طرف سے نہیںبلکہ ایک مخلص دوست کا اظہارِ عقیدت ہے ، انھوں نے اسے قبول فرما لیا ۔ اس کے بعد متعدد عقیدت مندوں نے اپنی طرف سے مزید وظائف پیش کرنا چاہے لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’میری ضروریات کے مطابق خدا وند کریم نے بڑا اچھا انتظام کر دیا ہے ۔ ‘‘ ۱۹۳۷ء کے اواخر میں انھیں کئی قسم کی بیماریوں نے گھیر لیا ۔ اس کے علاوہ والدۂ جاوید کی وفات ۱۶ کا غم انھیں گھن کی طرح کھا چکا تھا لیکن آپ نے ان تمام تکالیف کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کیا ۔ شدید تکلیف کے باوجود اسی طرح محفلیں جمتیں اور وہ بستر پر لیٹے لیٹے ہر طرح کے مسائل پر اظہارِ خیال فرماتے ۔ وفات سے چند روز پیشتر بڑے نانا جان (شیخ عطا محمد صاحب ) سیالکوٹ سے ان کی عیادت کو گئے اور انھیں دلاسا دیا تو انھوں نے فرمایا۔ ’’ بھائی صاحب ! میں موت سے نہیں ڈرتا ۔ ان شاء اﷲ مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کروں گا ۔ ‘‘ اور پھر یہ شعر پڑھا : نشانِ مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست دو ایک روز قیام کر کے شیخ عطا محمد صاحب سیالکوٹ واپس تشریف لے آئے اور یہاں آ کر اہلِ خانہ کو بتایا کہ ۔ ’’ اقبال اب روبصحت ہے ، چہر ے پر رونق ہے ، خدا نے فضل کیا تو چند روز میں مکمل طور پر صحت یاب ہو جائے گا ۔ اس نے سب کو ملاقات کے یے بلایا ہے ۔ ‘‘ سیالکوٹ سے سب لاہور جانے کے لیے تیار ہی ہو رہے تھے کہ تیسرے روز ان کی وفات کا تار آ گیا اور سب گھر والے اسی وقت روانہ ہو گئے ۔ تار چونکہ دیر سے ملا تھا اس لیے وہاں پہنچنے تک جنازہ اٹھایا جا چکا تھا۔ سب لوگ بادشاہی مسجد پہنچے تو اس وقت نمازِ جنازہ ادا کی جارہی تھی ۔ میری والدۂ محترمہ بیان کرتی ہیں: ’’ مرد تو نمازِ جنازہ میںشامل ہوگئے اور سب عورتیں قبر کے پاس بیٹھ گئیں ۔ نماز جنازہ کے بعد جب میت قبر کے پاس لائی گئی تو اس قدر ہجوم تھا کہ ہم کہیں سے کہیں جا پہنچے ۔ بڑی تگ و دو کے بعد پھر قبر کے قریب پہنچے مگر میّت تک رسائی ناممکن نظر آتی تھی۔ آخر بھائی خورشید۱۷ نے آگے بڑھ کر گرجدار آواز میں کہا : ’’ اگر آپ لوگ اسی طرح ہمیں منہ تک نہ دیکھنے دیں گے تو ہم ابھی میّت کو سیالکوٹ لے جائیں گے ، ہمارے ساتھ عورتیں بھی ہیں جو سیالکوٹ سے آخری دیدار کے لیے آئی ہیں لیکن آپ لوگ ہماری سنتے ہی نہیں ! ‘‘ ان کا اتنا کہنا تھا کہ مجمع کائی کی طرح پھٹ گیا ، رضا کاروں نے قبر اور میّت کے گرد حلقہ بنا لیا اور ہم سب نے چچا جان (علامہ صاحب ) کا آخری دیدار کیا ۔ امنڈتے ہوئے آنسوؤں کی اوٹ سے میں نے انھیں پُرسکون انداز میںلیٹے ہوئے دیکھا ، جیسے کتاب پڑھتے پڑھتے سو گئے ہوں ، چہرے پر ہلکی زردی تھی اوریوں محسوس ہوتا تھا کہ نور کا ایک ہالہ چہرے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سر کے بال اور مونچھیں چاندی کی طرح چمک رہی تھیں ، آنکھیں اور لب بڑی نرمی سے بند اور لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ چچا جان ابھی اٹھ بیٹھیں گے اور حسبِ عادت مجھ سے کہیں گے : ’سیما بیٹی ! ایک گلاس پانی دینا۔‘ابا جان ان کے سرہانے بیٹھے زار و قطار رو رہے تھے ، ان کی سفیدداڑھی آنسوؤں سے ترتھی اور وہ شدت جذبات سے کانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہے تھے ’ مجھے امید تھی کہ اس دفعہ خاندانی روایت۱۸ بدل جائے گی کیونکہ ہماری عمروں میں بہت فرق۱۹ تھا۔مگر تم پھر بھی مجھ سے پہلے چلے گئے ۔ میری دلی خواہش تھی کہ تم میرے جنازے کو کاندھا دیتے ۔ لیکن آج میں بدنصیب تمھاری قبر کو مٹی دینے آیا ہو ں۔ اقبال ! یہ تم نے کیا کر دیا ؟ ‘ ہم سب بلک بلک کر روتے رہے لیکن چچا جان ، جو روتوں کو ہنسا دینے کے ماہر تھے ، لا تعلق سے۔۔۔۔ منہ ایک طرف کو موڑے لیٹے رہے ۔ اباجان روتے روتے بے حال ہوگئے لیکن انھیں اپنے عزیز بھائی کا کوئی خیال نہ آیا ۔۔۔۔ خدا جانے وہ ہم سے کیوں ناراض ہو گئے تھے ۔۔۔۔ ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔ کبھی واپس نہ آنے کے لیے ۔۔۔۔ آخر پرنم آنکھوں اور بوجھل دلوں کے ساتھ ان کے جسدِ خاکی کو آخری آرام گاہ میں اتارا گیا اور وہ مشفق اور پیاری ہستی جو کبھی جانِ محفل ہوا کرتی تھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوں مٹی کے نیچے چھپ گئی اور ہمارا بلکنا اور اباجان کا تڑپنا کسی کام نہ آسکا ۔ ‘ ‘ مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا (اقبال) ٭٭٭ حواشی ۱۔ روایت بیگم شیخ عطا محمد صاحب (علامہ اقبالؒ کی بڑی بھاوجہ ) ۔ ۲۔ بیان بیگم شیخ عطا محمد صاحب ، روایت والدۂ راقم الحروف ۔ ۳۔ علامہ اقبال کے ایک ہم جماعت کا بیان ۔ روایت والدم محترم۔ ۴۔ ذکرِ اقبال میں مولانا سالک نے ان کا نام مریم لکھا ہے جو درست نہیں ۔ دوسرے وہ علامہ کی والدۂ محترمہ کی وفات سے پہلے نہیں بلکہ بعد میں فوت ہوئیں کیونکہ والدۂ اقبالؒ ۹؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو فوت ہوئیں ، جب کہ معراج خالہ ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء میں ۔ (مصنف) ۵۔ ان کا ذکر غیر ضروری ہے۔ (مصنف) ۶۔ ۱۹۱۴ ء سے ۱۹۳۴ء تک ۔ ۷۔ یہاں یہ واضح کردینا مناسب ہوگا کہ علامہ صاحب کے والد گرامی اور بڑے بھائی کبھی بھی ختم نبوت کے منکرین میں شامل نہیں رہے ۔ وہ ہمیشہ ختم نبوت کے ماننے والے اور پکے حنفی المذہب مسلمان تھے ۔ شیخ عطا محمد صاحب کا جنازہ ان کی وصیت کے مطابق ، جو انھوں نے میرے والد گرامی کو کی تھی ، اقبال منزل (سیالکوٹ ) کے بالمقابل واقع مسجد کے امام مولوی سکندر خان صاحب نے ، جو حنفی المذہب تھے، پڑھایا تھا ۔ اس کے علاوہ بیگم شیخ عطا محمد کا جنازہ بھی مولوی صاحب مذکور نے ہی پڑھایا تھا ۔ ۸۔ حضرت علامہؒ کی چار حقیقی بہنیں تھیں ۔ دو ان سے بڑی : محترمہ فاطمہ بی بی ، محترمہ طالع بی بی اور دو چھوٹی : محترمہ کریم بی بی اور محترمہ زینب بی بی ۔ ۹۔ علامہ اقبال کی والدہ محترمہ ۹ نومبر ۱۹۱۴ء کو ۷۸ برس کی عمر میں فوت ہوئیں ۔ ۱۰۔ آپ ۱۷ اگست ۱۹۳۰ ع کو ۹۵ برس کی عمر میں فوت ہوئے ۔ ۱۱۔ جاوید ماموں ، اقبال منزل سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۲۔ آپ ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو فوت ہوئیں ۱۳۔ جاوید ماموں اس وقت تقریباً پانچ یا چھ برس کے تھے ۔ ۱۴۔ شیخ عطا محمد صاحب کے چھوٹے صاحب زادے ۔ ۱۵ ۔ لاہور کے مشہور سیاسی کارکن ۔ آپ لاہور کی ککے زئی برادری سے تعلق رکھتے تھے ۔ ۱۶۔ آپ ۲۳ مئی ۱۹۳۵ ء کو فوت ہوئیں ۔ ۱۷۔ علامہ علیہ الرحمہ کے حقیقی بھانجے اور میرے دادا جان ۔ ۱۸۔ کئی پشتوں سے خاندان میں چھوٹا بھائی بدقسمتی سے بڑے بھائی سے پہلے فوت ہو جاتا ہے ۔ ۱۹۔ دونوں بھائیوں کی عمروں میں تقریباً پندرہ برس کا فرق تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دانائے راز (چندیادیں اور واقعات) حدیثِ بندۂ مومن دل آویز جگر پر خوں ، نفس روشن ، نگہ تیز (اقبالؒ) حکیم الامت ؒ کی ہر بات ، خواہ وہ کوئی علمی و ادبی گفتگو ہو یا عام گھریلو بول چال ، اپنے اندر کوئی نہ کوئی نکتہ ضرور پنہاں رکھتی ہے۔ ماضی میں گھر کے افراد کو یہ احساس نہ ہوسکا کہ مستقبل میں علامہ اقبالؒ کا مقام اس قدر بلند ہو گا کہ ان کی عام بول چال بھی فرمودات کا درجہ پائے گی اس لیے ان کی کوئی بات یا چیز کسی خاص احتیاط کے ساتھ محفوظ نہ کی جاسکی ، یہاں تک کہ شاعر مشرق کے سینکڑوں خطوط ، جو وہ اپنے والدِ گرامی اور برادرِ محترم کو گاہے بگاہے تحریر کرتے رہے اور جن میں بڑی بڑی اہم باتیں درج ہوا کرتی تھیں ، ردی کاغذات کے ساتھ نذرِ آتش کر دیے جاتے رہے ۔ البتہ لاشعور کے نہاں خانوں میں ادھر اُدھر بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے واقعات ضرور تھے لیکن ان جواہر ریزوں کو یکجا کرنا خاصا محنت طلب کام تھا ۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے بزرگوں کی اعانت سے ، جن میں میری والدۂ محترمہ پیش پیش ہیں ، کئی ایک واقعات کو آئندہ صفحات میں ترتیب وار سجانے کی سعادت حاصل کرسکا ہوں ۔ ان میں بعض واقعات علامہ اقبالؒ کی شخصیت پر بالکل نئے انداز میں روشنی ڈالتے ہیں ۔ (مصنف) ٭ رولٹ بل: یہ ۱۹۱۹ء کا ذکر ہے ۔ میری والدہ محترمہ اس وقت تقریباً سات برس کی تھیں ۔ وہ بیان کرتی ہیں : ’’ ان دنوں ہم انار کلی میں رہتے تھے ۔ ایک روز بازار سے عظیم الشان جلوس گزرا ۔ بے شمار نوجوان بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھے اور ’’ رولٹ بِل ۔۔۔۔ ہائے ہائے ‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگاتے جا رہے تھے۔ ہم سب نے دریچوں سے اس کا نظارہ کیا ، ابھی تھوڑ ی دیر ہی گزری تھی کہ بازار میں پھر شور اٹھا ، ہم سب کھڑکیوں کی طرف لپکے تو ایسا دلفگار منظر نظر آیا کہ روح کانپ کانپ گئی ۔ چند فوجی گاڑیاں جن میں خون میں لت پت لاشیں بڑی بے ترتیبی سے پڑی ہوئی تھیں ، آہستہ آہستہ بازار میں سے گزر رہی تھیں۔ ہر طرف شور تھا کہ جلوس پر گولی چل گئی ۔ بڑے بڑے خوب صورت نوجوان ، جو ابھی چند لمحے پیشتر ’’ رولٹ بِل۔۔۔۔ ہائے ہائے ‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے گزرے تھے ، خون میں نہلا دیے گئے تھے ۔ جدھر سے ان شہیدوں کا جلوس گزرتا لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے ۔ یہ روح فرسا نظارہ دیکھ کر چچاجان کا چہرہ غصّے اور ضبط سے تمتما رہا تھا اور ان کا دلی کرب چہرے سے صاف عیاں تھا ۔ سردار جچی جان (والدۂ جاوید ) زار و قطار رو رہی تھیں۔ انھوں نے روتے روتے چچا جان سے کہا : ’’ ظالموں نے کتنی ماؤں کے لال موت کے گھاٹ اتار دیے ہیں ۔ ‘‘ چچا جان سر جھکائے خاموش بیٹھے تھے ، آہستہ سے سر اٹھا کر دلگیر لہجے اور گلوگیر آواز میں فرمایا : ’’ میرے مولا کو یہی منظور ہے ، سر تابی کی مجال نہیں ، وہ ان شہداء کی قربانیاں ضرور قبول کرے گا جنھوں نے عروسِ آزادی کی مانگ کے لیے اپنا گرم اور نوجوان خون پیش کیا ہے ‘‘ اتنا کہا اور پھر سر جھکا لیا ۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے ۔ ‘‘ محرم اور رمضان: یہ دسویں محرّم کا دن تھا اور گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی ۔ عزاداروں کا ماتمی جلوس ابھی ابھی ’’اقبال منزل‘‘(سیالکوٹ )کے نیچے سے چلچلاتی دھوپ میں گزرا تھا ۔ والدۂ جاوید اس صورتِ حال سے بڑی پریشان تھیں اورا نھیں رہ رہ کر بیچارے عزاداروں پر ترس آ رہاتھا۔ سب بیٹھے ادھر اُدھر کی باتیں کر رہے تھے کہ وہ ایک دم فرمانے لگیں : ’’ اتنی شدید گرمی میں بیچاروں کا برا حال ہے، آج کل تو پانی وغیرہ بھی پی لیتے ہوں گے لیکن اگر کبھی رمضان شریف میں محرّم آ جائے تو بیچارے کیا کریں ؟ ‘‘ نانا جان ہنس پڑے اور مسکراتے ہوئے فرمایا : ’’ واہ ! یہ بھی خوب رہی ۔ سردار ! رمضان اور محرم دونوں اسلامی مہینے ہیں ، دونوں ایک ساتھ کیسے آ سکتے ہیں ؟ ‘‘ والدۂ جاوید پہلے تو حیران سی ہوئیں اور پھر ہنس پڑیں اورکہنے لگیں : ’’اوہو ، مجھے تو خیال ہی نہیں رہا ۔ ‘‘ پنجابی شاعر: ایک دفعہ کہیں سے بکری کا ایک بچہّ جاوید ماموں کے ہاتھ آ گیا ۔ وہ سارا دن اس کو لیے لیے پھرتے ۔ ایک روز حضرت علامہؒ باہر سے تشریف لائے تو جاوید ماموں حسبِ معمول بکری کے بچے کے ساتھ کھیلنے میں مشغول تھے۔ آپ ان کے پاس ہی بیٹھ گئے اور ان سے باتیں کرنے لگے۔ والدۂ جاوید کو خدا جانے کیا خیال آیا کہ کہنے لگیں : ’’آپ نے بے شمار شعر کہے ہیں لیکن جاوید پر کبھی کچھ نہیں لکھا ۔‘‘ علامہ علیہ الرحمہ مسکرائے اور فرمایا : ’’ یہ کون سی مشکل بات ہے ، لو ابھی کہے دیتے ہیں ۔ ‘‘ اور پھر مندرجہ ذیل پنجابی اشعار فی البدیہ کہے : اک سی ببّا ۱ بکری والا ہتھ وچ رکھدا ڈنڈا نانی جو اہنوں پھڑن لگی نسیا مار پچھنڈا بھابی ببّا بکری والا نالے کھاندا توس تے انڈا نالے کھاندا حلوا منڈا بھابی ببّا بکری والا (ایک ببّا بکری والا ہے جو ہر وقت ہاتھ میں چھڑی رکھتا ہے ۔ نانی اس کو پکڑنے لگی تو وہ بھاگ گیا ۔ وہ توس اورا نڈا بھی کھاتا ہے اور حلوا مانڈا بھی ۔ ) ولی اﷲ: میری والدۂ محترمہ کے بیان کے مطابق: ’’ ایک روز سردار چچی جان (والدۂ جاوید) صندوقوں میں کپڑے وغیرہ رکھ رہی تھیں ، میں بھی پاس ہی بیٹھی ان کا ہاتھ بٹا رہی تھی ۔ اسی دوران میں ایک صندوق میں کپڑوں کے نیچے مجھے ایک کاپی نظر پڑی ، کھول کر دیکھا تو ٹیڑھے میڑھے الفاظ میں لکھاتھا : ’ ان کی عادتیں بالکل ولیوں جیسی ہیں … ‘ میں نے ابھی اتنا ہی پڑھا تھا کہ چچی جان نے دیکھ لیا اور لپک کر کاپی میرے ہاتھ سے چھین لی اور فرمایا : ’’ اس کاپی میں تمھارے چچا جان کے متعلق باتیں لکھ رہی ہوں ، لیکن ابھی مت پڑھو ، جب مکمل ہوجائے گی تو میں خود سب کو پڑھاؤں گی ۔ ‘‘ اس واقعے کے بعد میں نے اکثر انھیں اس کاپی میں کچھ نہ کچھ لکھتے ہوئے دیکھا مگر ان کی وفات کے بعد وہ کاپی کہیں نہ ملی ۔ نہ معلوم کہیں ضایع ہوگئی یا چچا جان نے اپنے قبضے میں کر لی ۔ ‘‘ غریب کا بیٹا: جاوید ماموں کی پیدائش پر انھیں ددھیال اور ننھیال دونوں کی طرف سے طلائی کنگنوں کی ایک ایک جوڑی پہنائی گئی تھی ۔ والدۂ مکرمہ ان کے متعلق ایک واقعہ یوں بیان فرماتی ہیں : ’’ ایک روز میں نے کنگنوں کی دونوں جوڑیاں ، ایک ہاتھوں میں اور دوسری پاؤں میں ، جاوید کو پہنا دیں اور ایک طلائی زنجیر ، جس میں پونڈ لگے ہوئے تھے ، اس کے گلے میں ڈال دی۔ ان زیورات میں چھ سات ماہ کا جاوید بڑا پیارالگ رہاتھا۔اسی وقت چچا جا ن مسکراتے ہوئے تشریف لائے اورجاوید کے پاس بیٹھ گئے۔ میں نے بڑے فخریہ انداز میں ان سے کہا : ’ چچا جان ! دیکھئے جاوید کو یہ زیورات کتنے بھلے معلوم ہو رہے ہیں‘۔ لیکن میری توقع کے بر عکس انھوں نے بڑی نرمی سے فرمایا: ’سیما بیٹی! یہ کوئی اچھی بات نہیں ۔ یہ سارے زیورات اتار دو ‘ جاوید کسی مہاجن کا لڑکا نہیں ، ایک غریب کا بیٹا ہے ۔ ، میں نے فوراً ان کے حکم کی تعمیل کی ۔ ‘‘ اس واقعے سے شاعرِ مشرق کی سادہ طبیعت اور تصنّع سے بیزاری کا اظہار ہوتا ہے ۔ اچھی بیٹیاں پان نہیں کھایا کرتیں : حضرت علامہ کی لدھیانے والی بیگم صاحبہ (محترمہ مختار بیگم ) پان کھانے کی عادی تھیں ۔ میری والدہ صاحبہ ایک واقعہ بیان فرماتی ہیں : ’’ میری عمر کوئی چھ سات برس کی تھی کہ ایک روز میں نے بھی ضد کر کے مختار چچی جا ن سے پان لے کر کھا لیا ۔ چچا جان نے دیکھا تو پوچھا : ’سیما ! پان کیوں کھا رہی ہو ؟ ‘ میںنے بھولپن سے جواب دیا کہ چچی جان نے دیا ہے ۔ انھوں نے اسی وقت مختار چچی جان سے کہہ دیا : ’مختار ! بچی کو پان مت دیا کرو‘ اور مجھے بھی آئندہ پان کھانے سے منع فرمایا۔ میں ان دنوں ناسمجھ تھی ، دوسرے روز پھر چچی جان سے پان کے لیے ضد کرنے لگی ۔ انھوں نے ڈرایا دھمکایا لیکن میں نہ مانی ۔ آخر تنگ آ کر انھوں نے پان تو دے دیا لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ اپنے چچا جان کے سامنے منہ صاف کر کے جانا ۔ میں نے پان کھا کر تولیے سے رگڑ رگڑ کر منہ صاف کیا مگر پان کی سرخی پوری طرح سے نہ اتر سکی ۔ چچا جان نے دیکھا تو فوراً پہچان لیا اور ناراض ہو کر فرمایا : ’کل بھی تمہیں منع کیا تھا مگر آج پھر تم نے پان کھایا ہے ؟ ‘ میں نے ٹھنک کر جواب دیا کہ چچی جان بھی تو کھاتی ہیں ۔ یہ سن کر چچا جان نے پیار سے مجھے گود میں بٹھا لیا اور بڑی محبت اور نرمی سے سمجھایا: ’دیکھو تم ابھی چھوٹی ہو اور تمھاری چچی بڑی ہیں، دوسرے اچھی بیٹیاں پان نہیں کھایا کرتیں‘۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آئندہ ہرگز پان نہیں کھاؤں گی اور اس کے بعد میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی ۔ ‘‘ وسیمہ یا مبارکہ : نانا جان مرحوم خاندان کے نومولود بچوں کے نام بڑی خوشی سے تجویز کیا کرتے تھے ۔ ان کی حیات میں خاندان کے جتنے بچے پیدا ہوئے ، تقریباً سبھی کے نام انھوں نے ہی تجویز فرمائے اور بعض ایک کے تاریخی نام بھی نکالے ۔ میری والدۂ مکرمہ کی پیدائش پر پھوپھی جان محترمہ (علامہ اقبال ؒ کی چھوٹی ہمشیرہ،محترمہ کریم بی بی )نے ’’مبارکہ ‘‘ نام رکھا ۔ نانا جان چھٹیوںمیں سیالکوٹ تشریف لائے تو آپ نے فرمایا کہ ’’مبارکہ ‘‘ مناسب نہیں ، بچی کا نام ’’ وسیمہ ‘‘ رکھا جائے۔ لیکن پھوپھی جان مُصر تھیں کہ انھی کا تجویز کردہ نام اچھا ہے ۔ چنانچہ آپ نے دونوں نام ملا کر ’’ وسیمہ مبارک‘‘ بنا دیا لیکن سب انھیں پیار سے صرف ’’سیما ‘‘ کے نام سے پکارتے تھے اور آج بھی وہ اسی نام سے سار ے خاندان میں پہچانی جاتی ہیں ۔ ایک پنجابی پہیلی : ایک دفعہ رات کو ’ اقبال منزل‘ (سیالکوٹ) میں گھریلو محفل جمی ہوئی تھی ، باتوں باتوں میں حضرت علامہؒ نے ایک منظوم پنجابی پہیلی بٗجھوائی ، جو کسی سے بوجھی نہ گئی ۔ پہیلی یوں تھی : ایس گبھرو دے کم کولّے رہندا رناّں دے دولّے پگ نہ بنھدا ٹوپی پاندا بِن پَیراں تھیں ٹردا جاندا (سیدھا برقع) (اس نوجوان کے کام عجیب و غریب ہیں ۔ یہ ہر وقت عورتوں کے ارد گرد رہتا ہے ۔ یہ پگڑی نہیں بلکہ ٹوپی پہنتا ہے اور پاؤں کے بغیر چلتا ہے ) ۔ ماں کی یاد: میاں جیؒ (والدِ اقبال ) اپنے بلند اقبال فرزند کے کلام کے بہت مداح تھے اور ہر وقت اس کا ورد ان کا معمول تھا ۔ ’بانگِ درا ‘ کی یہ غزل : کبھی اے حقیقتِ منتظر ! نظر آ لباس مجاز میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں انھیں بے حد پسند تھی اور خاص بات یہ تھی کہ جس وقت اسے پڑھتے تو ساتھ زار و قطار روتے ۔ شدتِ گریہ اور ضعیفی کی وجہ سے کپکپاتی ہوئی آواز میں جب اس شعر پر پہنچتے : نہ کہیں جہاں میں اماں ملی ، جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں ۲ تو بار بار دہراتے ۔ ’’ جو اماں ملی تو کہاں ملی ۔ جو اماں ملی تو کہاں ملی۔ جو اماں۔ ‘‘ میری والدۂ مکرمہ اور خالۂ محترمہ (عنایت بیگم صاحبہ) جو ان دنوں بچیاں تھیں ، ’’اماں‘‘ کو ’’ماں ‘‘ سمجھتیں اور حیران ہو کر ایک دوسرے سے کہتیں کہ میاں جی اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن بیچارے اب تک اپنی ’’ماں ‘‘ کو یاد کر کر روتے ہیں ۔ ایک روز میری والدہ نے اس کا ذکر نانا جان قبلہ علامہ مرحوم سے کیا اور دریافت کیا کہ میاں جی آخر اپنی ’’ماں ‘‘ کو اتنا زیادہ کیوں یاد کرتے ہیں ؟ والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ ’’چچا جان میر ے اس معصومانہ استفسار سے بہت محظوظ ہوئے اور ہنستے ہوئے فرمایا : ’ یہ بات ابھی تمھاری سمجھ سے بالاتر ہے ‘ جب تم بڑی ہو جاؤ گی تو تمھیں خود بہ خود معلوم ہوجائے گا کہ میاں جی اپنی ’’ماں‘‘ کو اس قدر کیوں یاد کرتے ہیں ۔ ‘‘ شادی اور دکھ: جب مارچ ۱۹۳۴ء میں میری والدۂ مکرمہ کی شادی ہوئی تو نانی جان (والدۂ جاوید ) بہت زیادہ بیمار تھیں اس لیے شادی کی تقریب میں ان کی شمولیت نا ممکن تھی ۔ البتہ نانا جان اکیلے آنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے ، لیکن ان ہی دنوں آپ کو گلے کی تکلیف لاحق ہوگئی جس کی وجہ سے آواز بالکل بند ہوگئی ۔ اس صورت حال سے آپ بہت پریشان ہوئے کیونکہ شادی میں شامل ہونے کے لیے آپ کا سیالکوٹ آنا بہت ضروری تھا ۔ چنانچہ ہر روز نئے سے نیا علاج ہوتا ؛ جو نسخہ بھی کوئی بتاتا آپ فوراً اسے آزماتے تاکہ جلد از جلد آرام کی کوئی صورت نکل آئے۔ بھانت بھانت کا یہ علاج فائدے کی بجائے الٹا نقصان دہ ثابت ہوا اور مرض اس قدر بگڑ گیا کہ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا اور سفر کرنے کی ممانعت کر دی ، جس کی وجہ سے آپ تقریب ِ شادی میں شریک نہ ہو سکے ، جس کا آپ کو ہمیشہ افسوس رہا ۔ والدۂ محترمہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’ شادی کے کچھ عرصے بعد میں چچا جان اور چچی جان کی بیمار پرسی کے لیے لاہور گئی تو چچی جان کی تشویش ناک حالت دیکھ کر کلیجہ مسوس کر رہ گئی ۔ ابھی چند ماہ پیشتر میں انھیں اچھا بھلا چھوڑ کر گئی تھی مگر اس قلیل عرصے میں وہ سوکھ کر بالکل کانٹا ہو گئی تھیں اور چہرے کی رنگت سیاہ پڑ گئی تھی ۔ اس روز ان کی ران پر نکلے ہوئے پھوڑے کا گھر پر ہی آپریشن ہوا تھا جس کی تکلیف کی وجہ سے وہ نڈھال ہو رہی تھیں ۔ جس وقت میں پہنچی، وہ بستر میں پڑی کراہ رہی تھیں اور زخم سے خون رس رس کر پٹی کو بھگو رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر چچی جان (جو بڑی صابر و شاکر خاتون تھیں ) کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا اور وہ زار و قطار رونے لگیں ۔ میں بھی ان کے سینے سے لگ کر آنسو بہانے لگی ۔ کتنی ہی دیر ہم دونوں اسی طرح روتی رہیں ۔ نہ ان کے منہ سے کوئی بات نکلی اور نہ ہی میں کچھ کہہ سکی ۔ چچی جان میرے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی رہیں اور روتی رہیں۔ چچا جان کو میرے آنے کی خبر ہوئی تو آپ فوراً اندر تشریف لائے اور ہمیں روتا دیکھ کر خود بھی آبدیدہ ہوگئے اور گلوگیر آواز میں چچی جان کو مخاطب کر کے فرمایا : ’سردار ! سیما بے چاری اتنی دور سے تمھاری خبر لینے آئی ہے اور تم رلا رلا کر اسے ہلکان کیے دے رہی ہو ۔ ‘ چچی جان نے یہ سن کر بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا اور مجھے بھی چپ کرایا ۔ میں سیدھی ہو کر بیٹھی تو چچا جان نے پیار سے میر ے سر کو تھپتھپایا اورمیرے پاس ہی بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا کہ اس عرصے میں وہ بھی کافی کمزور ہو گئے تھے اور چہرے پر زردیاں کھنڈ رہی تھیں۔ کچھ دیر مضمحل سی خاموشی طاری رہی ۔ چچی جان بستر میں چت لیٹی چھت کو گھور رہی تھیں ، شدت گریہ سے وہ بے دم سی ہو گئی تھیں ۔ آخر چچا جان ہی نے مُہر سکوت توڑی اور بڑی افسردگی سے شادی میں شامل نہ ہو سکنے پر میری ساس صاحبہ۳ سے (وہ بھی میر ے ساتھ ان کی بیمار پرسی کے لیے گئی تھیں ) اور مجھ سے معذرت کی ۔ آپ کے گلے میں اس وقت بھی شدید تکلیف تھی اور آپ بڑی مشکل سے بات کر رہے تھے ۔ زور لگانے سے گلے کی رگیں پھول جاتیں اور چہرہ سرخ ہو جاتا ۔ پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے جذبات سے رندھی ہوئی آواز میں فرمایا : ’زندگی میں شاید اس سے زیادہ دکھ مجھے کسی اور بات سے نہیں پہنچا کہ بیماری نے سردار کو اور مجھے اس قدر معذور کر دیا کہ ہم دونوں اپنی پیاری بیٹی کی شاد ی میں شمولیت سے محروم رہے ‘۔ آپ کا اتنا کہنا تھا کہ جذبات سے مغلوب ہو کر چچی جان پھر سے رونے لگیں اور میرے بھی آنسو نکل آئے ۔ چچا جان جلدی سے اٹھ کر باہر چلے گئے ۔ شاید وہ ہمارے سامنے آنسو بہانا مناسب نہ سمجھتے تھے ۔ ‘‘ شب بیداری کے لیے قدرتی انتظام : میری والدہ ماجدہ بتاتی ہیں کہ ۔۔۔۔ ’’ میکلوڈ روڈ پر ہماری کوٹھی کے پچھواڑے دیال سنگھ کالج کا کھیل کا وسیع میدان تھا جس میںشام کے وقت کالج کے لڑکے کھیلا کرتے تھے۔ اکثر ان کا فٹ بال یا کرکٹ کا گیند اچھل کر ہمار ے صحن میں آ گرتا۔ چچی جان (والدۂ جاوید ) نے کئی بار چچا جان کو کالج کے پرنسپل سے اس کی شکایت کرنے کے لیے کہا مگر آپ نے ہمیشہ درگزر سے کام لیا اور چچی جان کو یہ کہہ کر سمجھایاکہ۔۔۔۔ اس طرح بچوں پر پابندیاں لگوانے سے کیا حاصل ہوگا۔ ان کو آزادی سے کھیلنے دو۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ قوم کے نونہال غلط قسم کے اشغال چھوڑ کر اب صحت مند کھیلوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں ۔ ہمیں ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ کیا ہوا کہ اگر کبھی کبھار ان کا گیند ہمارے صحن میں آ جاتا ہے۔ اس سے ہمارا کوئی نقصان تو نہیں ہوتا اور اگر کچھ ہو بھی جائے تو یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا ہماری آئندہ نسل کا صحت مند ہونا ضروری ہے ۔ ‘ لیکن ایک روز تو حد ہی ہو گئی ؛ کرکٹ کا سرخ سرخ گیند زنّاٹے کے ساتھ آیا اور صحن میں بیٹھی ہوئی چچی جان کے بازو پر اس زور سے لگا کہ ان کے حواس گم ہو گئے اور بازو پر چوٹ کا نشان پڑ گیا۔ اس روز چچی جان نے چچا جان سے پُر زور شکایت کی کہ اس کا کچھ سدِّباب ہونا چاہیے ۔ مگر چچا جا ن نے بات کو ہنسی میں ٹال دیا اور فرمایا ’ بیگم ! ملک و قوم کے لیے تو لوگ بڑی بڑی قربانیاں دیا کرتے ہیں ‘تمہیں تو ذرا سا گیند ہی لگا ہے۔‘ موسمِ برسات میں جب موسلادھار بارشیں ہوتیں تو یہ میدان پانی سے بھر جاتا اور ایک وسیع جھیل کا منظر پیش کرتا ۔ پانی جمع ہو جانے سے ہمار ے لیے ایک اور مصیبت جنم لیتی یعنی مچھر اور مینڈک بڑی بہتات سے پیدا ہو جاتے ۔ مچھروں سے تو کسی نہ کسی طرح بچاؤ کا انتظام ہو ہی جاتا مگر مینڈک رات کو اس شدت سے ٹرّاتے کہ سونا حرام کر دیتے ۔ چچی جان اس بے پناہ اور مکروہ شور سے زچ ہوکر کبھی کالج والوں کو برا بھلا کہتیں تو کبھی مینڈکوں کو کوستیں۔ ایک روز چچا جان سے بھی اس کا ذکر آیا تو آپ بہت ہنسے اور فرمایا: ’ یہ تو بڑی اچھی بات ہے ، لوگ شب بیداری کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں لیکن آپ کے لیے تو قدرت نے خود ہی انتظام کر دیا ہے اس لیے مینڈکوں کو برا بھلا کہنے کی بجائے اﷲاﷲ کیا کیجیے ۔‘‘ چڑیا گھر: ماضی میں پالتو جانور رکھنے کا شوق اپنے عروج پر رہا ہے اور شاید ہی کوئی مشرقی گھر ایسا ہوتا ہوگا جس میں کم از کم ایک عدد طوطا موجود نہ ہو ۔ کبوتر پالنا تو اس دور میں جنون کی صورت اختیار کر گیا تھا ۔ دوسرے الفاظ میں پالتو جانور مشرقی تہذیب کا لازمی جزو بن چکے تھے ۔ اب یہ شوق گو کافی حد تک محدود ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہمارے گھروں میں اس کے آثار ملتے ہیں ۔ ناناجان کو بھی کبوتروں کا شوق تھا اور ان کی بیگمات نے بھی کئی ایک مختلف جانور اور پرندے پال رکھے تھے ۔ والدۂ مکرمہ بتاتی ہیں کہ۔۔۔۔ ’’ ہمارے گھر میں اس قدر پالتو جانور ہوا کرتے تھے کہ بعض اوقات تو چڑیا گھر کا گمان گزرتا ۔ ان میں سب سے زیادہ تو چچاجان کے کبوتر تھے جن کے لیے انھوں نے ایک بڑا سا کمرہ نما پنجرہ بنوا رکھا تھا جس میں قسم قسم کے کبوتر بھرے رہتے اور سارا دن غٹر غوں غٹرغوں کا شور مچایا کرتے۔ بچپن میں میں گھنٹوں پنجرے کے پاس بیٹھی ان کا تماشا دیکھنے میں مصروف رہا کرتی تھی اور ان کو دانا دنکا ڈالا کرتی تھی ۔ مختار چچی جان۴ کو بلیوں کا شوق تھا ؛ چنانچہ انھوں نے ایک بڑی پیاری سی بلی پال رکھی تھی جسے وہ ’’ پُسّی‘‘ کے نام سے پکارا کرتی تھیں ۔ چچی جان کو تو بس ہر وقت پُسی ہی کا خیال رہا کرتا تھا اور وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے دُم ہلاتی پھرا کرتی تھی ۔ چچی جان جہاں بھی ہوتیں وہاں پُسی کی موجودگی لازمی ہوتی ، یہاں تک کہ سونے کے لیے بھی اسے چچی جان کی گود ہی پسند تھی اور وہ بھی بڑے پیار سے اس کو گود میںلیے بیٹھی پان چبایا کرتیں یا سروتے سے چھالیہ کی ڈلیہ کاٹتی رہتیں ۔ چچا جان بھی پُسی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور اکثر پیارسے اس کو تھپتھپایا کرتے تھے ۔ آپ ہمیشہ اسے ’’ مختار کی بے زبان بیٹی‘‘ کہہ کر چچی جان کو چھیڑا کرتے ۔ اس کے علاوہ سردار چچی جان (والدۂ جاوید ) نے طوطا ، مینا اور چند مرغیاں پال رکھی تھیں اور اکثر چوزے بھی نکلوایا کرتی تھیں۔چوزے نکلنے سے ہمارے گھر کی رونق میںمزید اضافہ ہو جایا کرتا ۔ مرغی اپنے بچوں کی فوج کو لیے سارے گھر میں گھومتی پھرتی ۔ چچا جان اس کو ’’ چوزہ بریگیڈ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ اگر کبھی مرغی اپنے بریگیڈ کے ہمراہ ان کے کمرے میں جا گھستی تو آپ فوراً علی بخش کو آواز دیتے ۔۔۔۔’’ علی بخش ! چوزہ بریگیڈ کی ڈیوٹی کسی دوسری طرف لگاؤ۔‘‘ سردار چچی جان کا پالتو طوطا بڑے مزے کی باتیں کیا کرتا تھا اور مینا تو انتہائی درجے کی باتونی واقع ہوئی تھی اور ایسی ایسی باتیں بنایا کرتی تھی کہ عقل دنگ رہ جاتی ۔ چچا جا ن اس کو نا پسند کرتے تھے اور ’’ چغل خور ‘‘ کہا کرتے تھے ۔ البتہ طوطے کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتے اور بعض اوقات سیٹی بجا کر اسے بلایا بھی کرتے تھے ۔ ‘‘ کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا ؟ نانا جان مرحوم جب بھی کسی کی دعوت کرتے تو خاص اہتمام کیا جاتا۔ ان کی چھوٹی بیگم صاحبہ (والدۂ جاوید) کھانے پکانے کی بڑی ماہر تھیں۔ ان کے پکائے ہوئے کھانے اس قدر اعلیٰ اور لذیذ ہوتے کہ مہمان چٹخارے لے لے کر کھاتے ۔ ایک دفعہ کسی صاحب کی دعوت تھی ، نواب ذوالفقار علی خان بھی مدعو ّین میں شامل تھے ۔ سب لوگوں نے کھانوں کی بہت تعریف کی لیکن کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ پکائے ہوئے کس کے ہیں۔(نہ کسی نے پوچھا اور)نہ ہی علامہ صاحب نے بتانا مناسب سمجھا ۔ سوء اتفاق چند روز بعد نواب ذوالفقار صاحب کے ہاں کسی تقریب کا اہتمام تھا ۔ انھوں نے حضرت علامہ کو پیغام بھیجا کہ اس دن جس خانساماں نے آپ کے ہاں کھانا وغیرہ تیار کیا تھا براہِ نوازش اس کا پتا بتائیں ۔ آپ اس پیغام سے بڑے محظوظ ہوئے اور جواب بھجوایا : ’’ بھائی ! میں تو غریب آدمی ہوں ، کھانا وغیرہ میری بیگم خود ہی پکاتی ہیں۔ ‘‘ پھر والدۂ جاوید کو سارا واقعہ سنایا اور مسکراتے ہوئے کہا : ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا؟‘‘ مشابہت: میری والدہ مکرمہ کی شکل علامہ علیہ الرحمہ سے اس قدر مشابہ ہے کہ جب وہ ان کے پاس لاہور میں ہوتی تھیں تو سب لوگ انھیں ان کی حقیقی اولاد سمجھتے تھے ۔ ایک دفعہ کوئی نومسلم انگریز ادیب اپنی بیگم کے ہمراہ کھانے پر مدعو تھے ۔ وہ انگریز خاتون اندرونِ خانہ بیگم علامہ (والدۂ جاوید) سے بھی ملنے آئیں ۔ وہ اچھی خاصی اردو جانتی تھیں اور کافی دیر تک ان سے مصروف گفتگو رہیں ۔ میری والدہ کے متعلق انھوں نے بیگم علامہ سے پوچھا : ’ یہ آپ کی بیٹی ہیں نا ؟ ‘ انھوں نے جب اثبات میں جواب دیا تو وہ کہنے لگیں کہ میں نے تو پہلے ہی شکل سے پہچان لیا تھا ۔ وہ جتنی دیر بیٹھیں میری والدہ کو ، جو اس وقت گیارہ بارہ برس کی تھیں ، اپنے پاس بٹھائے پیار کرتی رہیں ۔ (اس وقت تک جاوید ماموں پیدا نہیں ہوئے تھے )۔ باہر جا کر انگریز خاتون نے نانا جان قبلہ سے کہا کہ آپ کی صاحب زادی تو ہو بہو آپ پر گئی ہے ، میں نے تو اسے ایک نظر دیکھ کر ہی جان لیا تھا کہ وہ آپ کی بیٹی ہے ۔ ان کے جانے کے بعد آپ جب اندر تشریف لائے تو میری والدہ کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’ سیما ! تم نے ان محترمہ پر کیا جادو کر دیا تھا ، وہ تو تمھارے لیے بڑی رطب اللّسان تھیں ۔ ‘‘ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی : والدہ محترمہ ایک واقعہ اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ ’’ ایک دفعہ چچی جان ( والدۂ جاوید ) اور مجھے انگریزی سیکھنے کا شوق چرّایا اور CAT - RAT والے قاعدے منگوا کر مختار بھائی سے سبق لینا شروع کیا ۔ ایک روز چچی جان اور میں آموختہ یاد کر رہی تھیں۔ چچی جان بلند آواز سے اور ہل ہل کر C-A-Tاور R-A-Tکا ورد کر رہی تھیں کہ چچا جان تشریف لے آئے۔ ہم دونوں پڑھنے میں اس قدر محو تھیں کہ معلوم ہی نہ ہوا اور وہ پاس آ کر بولے : اُونہوں ، آج تو یہاں انگریزی مدرسہ لگا ہوا ہے۔ ‘پھر مسکرا کر فرمایا : ’لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ‘ چچی جان نے جواب دیا کہ ہم کون سا سکول یا کالج میں جا کر پڑھتی ہیں ، گھر پر معمولی شُد بُد حاصل کر لینے میں کیا برائی ہے ؟ تو چچا جان نے فرمایا : ’ اچھا بابا ! اچھا! ‘ پھر پوچھنے لگے کہ کس سے سبق لیتی ہیں ؟ چچی جان نے بتایا کہ مختار تھوڑا بتا دیتا ہے تو وہ فرمانے لگے : ’ اگر چاہو تو میں بھی بتانے کے لیے تیار ہوں ۔ ‘ سوامی جی : ایک ’سوامی جی ‘ علامہ علیہ الرحمہ کے بڑے گہرے دوست تھے ۔ وہ اکثر تشریف لاتے اور کئی کئی روز قیام کرتے۔ ان کا منہ سر بالکل منڈا ہوتا تھا ۔ عام طور پر ایک لنگوٹی باندھتے اور اوپر ایک قیمتی دھسّا لپیٹے رہتے۔ کسی وقت گیروے رنگ کے کپڑے بھی پہنتے تھے ۔ ان کا کھانا بڑے اہتمام اور عمدگی سے پکایا جاتا تھا ، یہاں تک کہ ان کے لیے الگ برتنوں کا انتظام بھی کیا جاتا ۔ خاص احتیاط یہ تھی کہ جو شخص گوشت والی ہنڈیا پکا رہا ہو وہ سوامی جی کے برتنوں کو ہاتھ نہ لگائے ۔ لیکن عنایت خالہ جان ہمیشہ دانستہ سوامی جی کے اس پوتّر (ویشنو) کھانے میں گوشت والے سالن کا چمچ چلا کر اسے بھرشٹ کر دیا کرتیں اور اپنی شرارت پر خوش ہو ہو کر کہتیں : ’’ بڑا آیا گوشت سے پرہیز کرنے والا۔ اب تو کھائے نا ! رہنا مسلمانوں کے ہاں اور کرنا گوشت سے پرہیز ۔۔۔ ہُنہ ! ‘‘ دلشاد بہن: سیالکوٹ سے عنایت خالہ جان جب بھی لاہور خط لکھتیں تو ہمیشہ ان الفاظ سے ابتدا کرتیں : ’’ آپ کا خط ملا ، پڑھ کر دلشاد ہوا ۔ ‘‘بار بار ’’دلشاد‘‘ پڑھ پڑھ کر نانا جان نے ان کا نام ہی ’’دلشاد بہن ‘‘ رکھ دیا ۔ اب جب ان کا خط لاہور پہنچتا تو آپ فرماتے : ’’ لو جی ، آج ہماری ’دلشاد بہن ‘ کا خط بھی آیا ہے۔ ‘‘ ایک پہیلی : ایک دفعہ والدۂ جاوید سیالکوٹ آئی ہوئی تھیں ۔ لاہور سے حضرت علامہ ؒ کا خط آیا تو انھوں نے اس میں ایک پہیلی بھی لکھی اور ساتھ یہ شرط لگائی کہ اگر آپ بوجھ نہ سکیں تو سب کو مٹھائی کھلائیں ۔ حسنِ اتفاق سے وہ بوجھ نہ سکیں اور سب نے مزے سے مٹھائی کھائی ۔ پہیلی یوں تھی: وہ ایسی پارسا ہے ہر قدم سجدے میں رہتی ہے زباں خاموش رکھتی ہے مگر ہر بات کہتی ہے (اس کی بوجھ قلم ہے) یاحییّ یا قیوم: میری والدۂ محترمہ کے بیان کے مطابق : ’’ سردیوں کی ایک خاموش اور اندھیری رات تھی، ہم بستروں میں دبکے تھے کہ ایک دم بڑے زور کا زلزلہ آیا۔ ہماری میکلوڈ روڈ والی کوٹھی چونکہ کافی پرانی تھی اس لیے تمام کھڑکیاں اور دروازے زور زور سے بج اٹھے اور چھت سے مٹی گرنے لگی۔ چچی جان (والدۂ جاوید)نے ہڑبڑا کر سوئے ہوئے جاوید کو اٹھایا اور باہر صحن کی طرف بھاگ نکلیں، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے بھاگی۔ بوڑھی ملازمہ شور مچاتی رہی کہ بیگم صاحبہ بیٹھ جائیے، بھاگیے نہیں لیکن اس وقت اس کی کون سنتا تھا ، ہم نے تو صحن میں پہنچ کر ہی دم لیا ۔ دوسرے کمرے سے مختار بھائی بھی آ گئے ۔ چچی جان چونکہ بہت کمزور دل کی مالک تھیں ، اس لیے اتنی سی بات سے گھبرا گئیں اور بے ہوش ہو کر گرنے لگیں ، مختار بھائی نے لپک کر بڑی مشکل سے انھیں سنبھالا اور میں نے بدقّت ان کی گرفت سے جاوید کو آزاد کرایا ۔ اسی اثنا میں چچا جان بھی شور سن کر آ گئے ۔ چچی جان کو بے ہوشی کی حالت میں اندر لایا گیا اور فوراً ڈاکٹر بلالیا گیا ۔ کافی دیر بعد چچی جان کو ہو ش آیا تو سب کی جان میں جان آئی ۔ تھوڑی دیر بعد چچا جان ، مختار بھائی سے کہنے لگے کہ صبح سیالکوٹ تار دے دینا ۔ چچی جان تار کے ذکر سے پھر گھبرا گئیں تو چچا جان نے دلاسا دیا اور فرمایا کہ میرا مطلب تھا کہ ان لوگوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے تار دے دیا جائے ۔ چچی جان چونکہ ابھی تک گھبرائی ہوئی تھیں اس لیے سب ان کے پاس بیٹھے تھے ۔ چچا جان بھی آنکھیں بندکیے ، دُھسّا لپیٹے پلنگ پر نیم دراز تھے ۔ خدا جانے انھیں کیا سوجھی کہ ایک دم بلند آواز سے ’’ یاحیی یا قیوم ‘‘ کا ورد شروع کر دیا ۔ ان کی آواز اس قدر بلند تھی کہ سارا کمرہ گونج اٹھا ۔ چچی جان ان کی بلند آواز سے پھر گھبرا گئیں اور آہستگی سے مجھے کہا کہ میرے دل کو پھر کچھ ہو رہا ہے ، ان کو خاموش کراؤ ۔ اب مختار بھائی اور میں عجیب شش و پنج میں تھے کہ چچا جان کو کون خاموش کرائے کہ انھیں خود ہی اس کا احساس ہوگیا اور وہ ایک دم خاموش ہو گئے اور ہنس کر فرمایا : ’او ہو پھر ڈر گئی ہو ، میں تو تمھارے دل کو تقویت پہنچانے کے لیے ذکر الٰہی کر رہا تھا ۔ ‘ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر کہنے لگے : ’اچھا لو تمھارا دل بہلانے کے لیے کچھ اور باتیں کرتے ہیں ۔ ‘ اُن دنوں افغانستان کے بادشاہ غازی امان اﷲ خان کو نیا نیا ملک بدر کیا گیا تھا ۔ چنانچہ ان کے متعلق بڑی دیر تک پوری تفصیل کے ساتھ بتاتے رہے ۔ ‘‘ بُت شکن: حضرت علامہ اقبالؒ کی چھوٹی ہمشیرہ (محترمہ کریم بی بی صاحبہ ۵) بتایا کرتی تھیں کہ ’’بھائی صاحب (علامہ اقبالؒ) کو بچپن میںمیری گڑیوں سے خدا واسطے کا بیر ہوا کرتا تھا ۔ وہ ہر وقت ان کی تاک میں رہتے اور جب بھی داؤ چلتا ان کے ناک کان کاٹ دیتے اور آنکھیں پھوڑ ڈالتے یا پھر دونوں ٹانگوں سے پکڑ کر بیچاری گڑیا کو پرزے پرزے کر دیتے ۔ میں جب اپنی گڑیوں کو اس حال میں پاتی تو رو رو کر برا حال کرلیتی ۔ میاں جی اور بے جی ، بھائی صاحب کو ڈانٹتے مگر وہ شاید اپنی طبیعت سے مجبور تھے یا مجھے تنگ کرنا انھیں پسند تھا کہ گڑیوں کو سامنے دیکھ کر اپنے اوپر ضبط نہ رکھ سکتے ۔ ‘‘ استاد اور شاگرد: نانا جان قبلہ کو شامی کباب بے حد مرغوب تھے ۔ ایک دفعہ میری والدہ مکرمہ نے شامی کباب تیار کیے ۔ جب آپ نے تناول فرمائے تو تعریف کرتے ہوئے کہا : ’’ آج تو کباب بڑے مزے کے ہیں ۔ ‘‘ والدۂ جاوید نے فخریہ بتایا : ’’ آج ہماری سیما نے کباب تیار کیے ہیں ۔ ‘‘ آپ بڑے حیران ہوئے اور خوش ہو کر فرمایا : ’’شاباش سیما ! شاباش! تم تو اپنی استاد (والدۂ جاوید ) سے بھی نمبر لے گئیں ۔ ‘‘ نہرو دی پوٹ: والدہ صاحبہ فرماتی ہیں : ’’جاوید کو بچپن میں کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا ، رات کو سونے سے پہلے مجھ سے ضرور کہانی سنا کرتا ۔ ایک روز دوپہر کو چچا جان کھانا کھا نے کے بعد پلنگ پر نیم دراز تھے کہ جاوید ان سے کہانی کی فرمایش کرنے لگا ۔ انھوں نے ٹالنے کے لیے کہہ دیا کہ دن کے وقت کہانی سنانے سے مسافر راستہ بھول جاتے ہیں مگر جاوید ٹلنے والا کہاں تھا ، کہنے لگا : ’تو پھر کوئی پہیلی ہی سہی ۔ ‘ چچا جان مان گئے اور تھوڑی دیر سوچنے کے بعد فرمایا : اک جناور ایسا جدہی چُنچ اُتے پیسہ اوہدیاں ہڈیاں حلال اُوہدا شوربا حرام (ایک جانور ایسا ہے جس کی چونچ پر پیسہ ہے ، اس کی ہڈیاں حلال مگر شوربا حرام ہے ) جاوید کچھ دیر سوچتا رہا ، پھر ایک دم بولا : ’’ نہر و دی پوٹ‘‘ ۔ اس جواب پر چچا جان خوب ہنسے اور فرمایا : ’ بالکل درست ، بالکل درست ۔ تم نے ’ نہرو رپورٹ‘ کو بالکل صحیح پہچانا ہے۔‘ دراصل ان دنوں ’’ نہرو رپورٹ‘ ‘ کا بہت چرچا تھا اور جاوید چونکہ ہر وقت اسی کا تذکرہ سنتا رہتا تھا اس لیے وہی کہہ دیا ۔ ‘‘ پہلا یومِ اقبال: والدہ صاحبہ کے بیان کے مطابق ’’ جس روز پہلا یوم اقبال منایا گیا اس روز جاوید بہت علیل تھا ۔ وہ اس وقت تقریباً چار برس کا تھا اور ابھی اسے اسکول میں داخل نہیں کرایا گیا تھا ۔ چچاجان اسے دیکھنے اندر آئے تو بتایا کہ آج ’یوم اقبال‘ کی تقریب میں جاوید کی صحت یابی کے لیے بھی دعا کی گئی ہے ۔ چچی جان (والدۂ جاوید ) نے حیران ہو کر دریافت کیا کہ یوم تو آپ کا منایا گیا ہے مگر آپ سارا دن گھر پر ہی رہے ہیں ۔ چچا جان نے جواب دیا : ’ ہاں، جس کا یوم منایا جائے وہ اس میں شرکت نہیں کرتا ۶ ۔ ‘‘ شیر والی تقریر : جاوید ماموں بچپن میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ ہاتھ چلا چلا کر تقریر کیا کرتے تھے ۔ اس وقت وہ بمشکل پانچ چھ برس کے ہوں گے لیکن بڑے بڑے مقررین کی طرح بلاجھجک اور پُر اعتماد طریقے سے خود ہی ترتیب دیے ہوئے چند جملے بولتے چلے جاتے ۔ حضرت علامہ کو ان کی یہ تقریر اور انداز بیان اس قدر پسند تھا کہ با ر بار سنا کرتے ۔ وہ جس وقت کہتے : ’’ چلو جاوید ! ذرا اپنی شیر والی تقریر تو سناؤ ۔ ‘‘ جاوید ماموں فوراً اٹھ کھڑے ہوتے اور جوش سے ہاتھ ہلا ہلا کر پنجابی میں بولنا شروع کر دیتے : ’’ او بھراؤ ! میں تہانوں پیا کہناں واں ، جاگدے روو ، جیہڑا جاگدا روے گا اُہنوں شیر نئیں کھاوے گا ۔تے جیہڑا سوں جا وے گا اُوہنوں شیر کھا جاوے گا ۔ ایس لئی جاگدے روو ، او بھراؤ ! میں تہانوں پیا کہناں …‘‘ (بھائیو ! میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ ، جاگتے رہو، جو جاگتارہے گا اس کو شیر نہیں کھائے گا مگر جو سو جائے گا اسے شیر کھا جائے گا ، اس لیے جاگتے رہو ۔ بھائیو ! میں آپ سے کہہ رہا ہوں … ) علامہ مغفور خاموشی سے سنتے رہتے ، خوشی سے ان کا چہرہ دمکنے لگتا ۔ جاوید ماموں کو گود میں لے کر پیار کرتے اور فرماتے : ’’ شاباش!بیٹے شاباش ! ان شاء اﷲ ہم جاگتے رہیں گے ۔ ‘‘ پھر والدۂ جاوید کو مخاطب کر کے کہتے : ’’ بیگم ! ان شاء اﷲ ہمارا جاوید بڑا بے باک مقرر بنے گا ۔ ‘‘ معلمہ: میری والدہ صاحبہ کے بیان کے مطابق جب منیرہ خالہ پیدا ہوئیں اورنانا جان مرحوم نے پہلی بار انھیں دیکھا تو سر ہلا کر فرمایا : ’’ یہ تو بالکل معلمہ نظر آتی ہے ۔ ‘‘ ان کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا اور آج منیرہ خالہ بڑے رعب اور دبدبے کی مالک ہیں ۔ سب بچے برابر ہوتے ہیں : ایک دفعہ گھر پر کام کرنے والی ملازمہ کا بچہ صحن میں کھیل رہا تھا ۔ حضرت علامہ نے اسے دیکھا تو فرمانے لگے : ’’ جاوید اور اس بچے میں اس وقت کوئی خاص فرق نہیں ، کیونکہ سب بچے برابر ہوتے ہیں ، لیکن بڑے ہوکر ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جائے گا ۔ اس کامطلب ہرگز نہیں کہ جاوید کسی اعلیٰ قسم سے تعلق رکھتا ہے بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ اسے اپنی زندگی میں ایسے مواقع میسر آئیں گے کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک بڑا آدمی بن سکے لیکن دوسرا بچہ اپنی زندگی میں کسی غیر معمولی اتفاق کے فقدان کی بنا پر وہیں کا وہیں رہ جائے گا حالانکہ اگر اس کو بھی ایسے مواقع میسر آ جائیں تو اس کے پوشیدہ جوہر بھی کھل سکتے ہیں اور سنگِ راہ کی بجائے یہ بھی آسمانِ شہرت کا درخشندہ ستارہ بن سکتاہے ۔ ‘‘ فضول خرچی: میری والدہ محترمہ ایک واقعہ اس طرح سناتی ہیں : ’’ مختار بھائی کی شادی قریب تھی اور ہم ابھی لاہور ہی میں شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے ۔ سردار چچی جان (والدۂ جاوید )نے منیرہ کے لیے دس بارہ فراک تیار کیے تھے ۔ ایک روز چچی جان اور میں ، منیرہ کے تمام کپڑے پھیلائے ان کو بٹن وغیرہ ٹانک رہے تھے کہ ایک دم چچا جان وہاں آگئے ۔ اس سے پیشتر ہم ان کے آنے سے پہلے ہی کپڑے وغیرہ چھپا لیا کرتے تھے مگر اس دن مہلت ہی نہ ملی ۔ وہ آ کر دوسرے پلنگ پر بیٹھ گئے اور دریافت فرمایا کہ کیا ہو رہا ہے ؟ چچی جان نے بتایا کہ مختار کی شادی کے لیے منیرہ کے کچھ کپڑے بنائے ہیں ، انھیں بٹن وغیرہ لگا رہے ہیں ۔ چچا جان نے بڑی حیرت سے کپڑوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا : ’ کیا یہ سب منیرہ کے لیے ہیں ؟ ‘ چچی جان نے جب اثبات میں جواب دیا تو وہ اور زیادہ حیران ہوئے اور فرمانے لگے : ’ شادی تو صرف ایک ہوگی ، کیا آپ یہ تمام کپڑے منیرہ کو ایک ہی دن میں پہنائیں گی ؟ یہ تو بڑی فضول خرچی ہے ۔‘ چچی جان نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ شادی میں کم ازکم ایک ہفتہ تو گہماگہمی رہے گی ۔ ان تمام دنوں میں یہ کپڑے منیرہ کو پہنائیں گے ۔ لیکن چچاجان نے پھر بھی اسی پر اصرار کیا کہ یہ بے جا قسم کا اسراف ہے اور انسان کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ کافی دیر بیٹھے وہ ہمیں کفایت شعاری کے فوائد اور فضول خرچی کے نقصانات سے آگاہ فرماتے رہے ۔ان کے جانے کے بعد ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ابھی انھوں نے ہمارے کپڑے نہ دیکھے تھے ۔ ‘ ‘ طفلِ شیر خوار: حضرت علامہ بچوں کو کھلانا بہت پسندکرتے تھے ۔ گھنٹوں چھوٹے بچوں کو گود میں لیے بیٹھے رہتے ۔ ایک روز امتیاز ماموں ۷ کو اسی طرح کھلا رہے تھے کہ انھوں نے میز پر سے چاقو اٹھا لیا اور اس سے کھیلنا چاہا ۔ انھوں نے اس ڈر سے کہ بچہ زخمی نہ ہوجائے ، چاقو امتیاز ماموں کے ہاتھ سے لے لیا ، اس پر وہ احتجاجاً رونے لگے اور لاکھ بہلانے سے بھی چپ نہ ہوئے ۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر آپ نے ایک نظم ’’ طفل شیر خوار ‘‘ کہی جو ’بانگِ درا ‘ میں شامل ہے ۔ بچہ اور شمع: مختار ماموں ۸ کم سنی میں گھنٹوں شمع کی جانب دیکھ دیکھ کر کھیلا کرتے تھے ۔ کبھی اچھل اچھل کر اسے پکڑنے کی سعیِ لا حاصل کرتے اور کبھی ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے ۔ حضرت علامہ اکثر انھیں گود میں بٹھا لیتے اور سامنے لیمپ یا شمع دان رکھ کر ان کا تماشا دیکھا کرتے اور لپک لپک کر روشنی کو پکڑنے کی کوشش سے بڑے محظوظ ہوتے ۔ شمع کے ساتھ مختار ماموں کے پروانہ وار عشق سے متاثر ہوکر انھوں نے ایک نظم ’’ بچہ اور شمع ‘‘ کہی ، یہ نظم بھی ’بانگ درا ‘ میں موجود ہے ۔ مربہّ جات: ایک دفعہ نانا جان قبلہ کے کسی حکیم دوست نے کئی قسم کے مربہ جات چینی کے خوبصورت اور صاف ستھرے مرتبانوں میں بھجوائے ۔ آپ کو خدا جانے کیا شک گزرا کہ کوٹھی کے باغیچے میں گڑھا کھدوا کر مع مرتبانوں کے تمام کے تمام مربہ جات دفن کروا دیے اور کسی کو رتی بھر چکھنے کی بھی اجازت نہ دی ۔ وہ کون تھے : علامہ اقبالؒ کی بڑی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کے چھوٹے صاحب زادے محترم فضل حق صاحب اپنا ایک چشم دید واقعہ یوں بیان کرتے تھے : ’’ میری عمر اس وقت تقریباً سولہ سترہ برس ہوگی کہ میں ایک دفعہ سردیوں میں اپنی والدہ کے ہمراہ لاہور، ماموں جان (علامہ مرحوم) کے ہاں گیا ہوا تھا ۔ ایک رات پتا نہیں مجھے کیا سوجھی کہ میں نے یہ ضد کی کہ آج ماموں جان کے کمرے میں سوؤں گا ۔ والدہ مکرمہ نے بہت منع کیا لیکن میں مصر رہا ۔ ماموں جان کو معلوم ہوا تو انھوں نے اجازت دے دی ، چنانچہ میں ان کے کمرۂ خاص میں ایک کونے میں چارپائی ڈال کر سو گیا ۔ پتا نہیں رات کا کون سا پہر تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ کمرے میں دو آدمی کسی دقیق مسئلے پر آپس میں گفتگو کر رہے ہیں ۔ ماموں جان کی آواز تو میں نے پہچان لی لیکن دوسری آواز میرے لیے بالکل اجنبی تھی ۔ میں متجسّس ہو کر اٹھا اور ایک دم کمرے میں روشنی کر دی۔ روشنی ہوتے ہی آوازیں بند ہو گئیں ۔ ماموں جان اپنے پلنگ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے ، دُھسا ان کے گرد لپٹا ہوا تھا اور وہ آنکھیں بندکیے اپنے حال میں مست تھے ۔ میں نے ڈرتے ڈرتے انھیں آواز دی اور پوچھا کہ آپ تواکیلے بیٹھے ہیں لیکن ابھی ابھی تو آپ کسی سے باتیں کر رہے تھے ، وہ کون تھے ؟ ماموں جان نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں اور میری طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا : ’ یہ تمھارے سمجھنے کی بات نہیں ، چلو سو جاؤ ! ‘ ان کی آواز میں اس وقت اس قدر رعب اور دبدبہ تھا کہ میں جلدی سے روشنی بند کر کے بستر میں گھس گیا اور پھر صبح تک مجھے کچھ ہوش نہ رہا ۔ ‘‘ مقامِ اقبالؒ: میرے والدِ گرامی ایک واقعے کا ذکر اکثر اس طرح کیا کرتے ہیں : ’’یہ ۱۹۳۱ء کا ذکر ہے، میں گرمیوں کی تعطیلات میں کشمیر گیا ہوا تھا ۔ سرینگر میں جس جگہ میرا قیام تھا اس سے نزدیک ہی عید گاہ کے میدان میں ایک خدا رسیدہ عارف ، بڑے با شرع اور پرہیزگار بزرگ کا ڈیرہ تھا ۔ ان کی عمر اس وقت تقریباً ۸۰ برس کے لگ بھگ تھی ۔ وہ دن رات اپنے حال میں مست عبادتِ الٰہی میں مشغول رہتے اور لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ۔ میں ان دنوں کوئی ۱۷ یا ۱۸ برس کا تھا اور مجھے بھی ان ایام میں چلہ کشی کا بے حد شوق تھا ۔ اس لیے ایک روز ایک عزیز کے ہمراہ ، اس مردِ خدا سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے ان کے ڈیرے پر جاپہنچا ۔ مجھے دیکھتے ہی انھوں نے فرمایا : ’ جاؤ بھائی، جاؤ! پہلے ہی ہمارے پاس کیا بچا ہے کہ اب اس نے تمھیں بھیج دیا ہے ۔ ‘ میں نے عرض کیا کہ حضرت ! میں کسی کا بھیجا ہوا نہیں آیا بلکہ خود ہی حاضر خدمت ہوا ہوں ۔و ہ بولے : ’ نہیں سمجھے۔۔۔ اس تمھارے اقبال کا ذکر ہے ۔ ‘ میں بڑا حیران ہوا مگر خاموش بیٹھا رہا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھر بولے : ’ نہیں سمجھے۔۔۔ بھائی ! ہمارے پاس کیا ہے ، اسی کے پاس جاؤ ۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ کبھی خدا ہمارے پاس ہوتاہے اور کبھی ہم خدا کے پاس ، مگر اس کے پاس خدا ہر وقت ہوتا ہے ، یعنی خدا اور وہ دونوں ایک ہو گئے ہیں ۔ ہم تو کسی کو کچھ دکھانے یا بتانے کی قدرت نہیں رکھتے مگر اس کو تمام طاقتیں حاصل ہیں ۔ ‘ میں خاموشی سے ان کے ارشادات سنتا رہا ۔ پھر میں نے ان خدا رسیدہ بزرگ سے پوچھا کہ آج کل ہندوستان کے مسلمانوں کی بڑی ابتر حالت ہے اور یہ قانونِ فطرت ہے کہ جب مسلمانوں کی پستی کی انتہا ہو جائے تو ایک مجدّد بھیجا جاتا ہے۔۔۔ وہ کب آئے گا ؟ وہ بزرگ فوراً اپنے مخصوص لہجے میں گویا ہوئے : ’ نہیں سمجھے ، تم اب تک نہیں سمجھے ، بھائی! تمھیں بتا تو دیاہے کہ وہی سب کچھ ہے ، اسی کے پاس جاؤ ۔ ‘ میں تھوڑی دیر اور ان کی خدمت میں بیٹھا پھر اجازت لے کر چلا آیا ۔ ‘‘ چو مرگ آید تبسم بر لب ِ اوست نانا جان مرحوم نے وفات سے چند روز پیشتر بڑے نانا جان (شیخ عطا محمد صاحب ) کے دلاسا دینے پر ان سے کہا تھا : ’’ بھائی صاحب ! میں موت سے نہیں ڈرتا ، انشاء اﷲ مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کروں گا ۔ ‘‘ پھر یہ شعر پڑھا : نشانِ مردِ مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لبِ اوست ان کی وفات کے بعد جب بڑے نانا جان قبلہ لاہور پہنچے تو جنازہ اٹھایا جا چکا تھا ۔ وہ بادشاہی مسجد پہنچے تو وہاں اس قدر ہجوم تھا کہ میّت تک رسائی ناممکن تھی ۔ حضرت علامہ کے بڑ ے بھائی زار و قطار رو رہے تھے اور پکار پکار کر کہتے تھے : ’’ مجھے ایک دفعہ اقبال کا چہرہ دیکھ لینے دو ۔ اس نے مجھ سے کہاتھا کہ جب مردِ مومن فوت ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر تبسم ہوتا ہے ، مجھے دیکھنے دو کہ اس کا کہنا سچ ہوا یا نہیں ۔ ‘‘ آخر جب بڑی تگ و دو کے بعد وہ علامہ صاحب کی میّت کے سرہانے پہنچے اور اپنے عزیز اور عظیم بھائی کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا تو شدتِ غم سے رندھی ہوئی آواز میں کہا : ’’ اقبال ! تو نے سچ کہا تھا ۔ مجھے فخر ہے کہ تیرے چہرے پر تبسم موجود ہے ۔تو نے اس شعر کی بالکل صحیح تفسیر پیش کی ہے ۔ خدا مجھے بھی تیرے نقشِ قدم پر چلنے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۹‘‘ خودی : زندگی خواہی خودی را پیش کن چار سو را غرق اندر خویش کن (اقبالؒ) شاعر مشرق کے والد گرامی نے ایک دفعہ ان سے حضرت بو علی قلندرؒ کے رنگ میں لکھنے کی فرمائش کی تھی ۔ اگرچہ وہ اپنی افتادِ طبع کی وجہ سے ان کی خواہش تو پوری نہ کر سکے لیکن کلام بوعلی قلندرؒ کے مطالعے سے ان پر بعض رموز و اسرار ضرور منکشف ہو گئے ۔ جب حکیم الامتؒ نے اپنا فلسفۂ خودی عوام کے سامنے پیش کیا اور دانشوروں نے ’’اقبالی خودی ‘‘ کے تخیل کو مغربی ادب سے اخذ کردہ ثابت کرنا چاہا تو حضرت علامہ ؒ نے فرمایا تھا کہ میرے کلام کا مخرج صرف اسلامی ادب میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کسی کو تحقیق کی توفیق ہو تو خودی کیا ، میرے تمام افکار کا منبع اسلامی ادب میں ہی مل سکتا ہے ۔ خودی کیا ہے اور شاعرِ مشرق نے اسے کہاں سے اپنایا؟ ہمیشہ سے ایک حل طلب معمہ ہی رہا ، تا آنکہ اس رازِ سربستہ سے اس طرح پردہ اٹھایا گیا : ’’ حضرت شاہ بو علی قلندر ؒ نے اس ضمن میں کیا خوب کہا ہے : خود شناسی در جہاں عرفاں بود! عارفِ خود عارفِ سبحاں بود ! کشف دانی چیست؟ عالی ہمتی! مردِ رہ نبود بجز زورِ خودی! صوفیاں چوں عارفِ خویش آمدند در خودیِ خویشتن پیش آمدند (مثنوی وحدت الوجود) جنابِ قلندر ؒ کے اشعار کی روشنی میں کہنا حقیقت ہے کہ علامہ مرحوم نے اپنا فلسفۂ خودی مغربی مفکرین سے متاثر ہو کر نہیں بلکہ صوفیائے اسلام کی طرح تخلقو با خلاق اﷲ کے اسلامی نظریۂ حیات پرور سے مستفید ہو کر مجو ّز کیاتھا ۱۰ ۔ ‘‘ مقامِ حیرت ہے کہ اس انکشاف ِ حقیقت کے بعد بھی محققینِ اقبالیات خودی کی رونمائی کے لیے مغربی آئینوں کا ہی سہارا لیتے ہیں ۔ خدا کی ہستی : پروفیسر محمددین بھٹی ۱۱ روایت کرتے ہیں کہ ۱۹۰۸ء میں جب حکیم الامتؒ انگلستان سے واپس تشریف لائے تو سیالکوٹ کی مشہور جامع مسجد دو دروازہ میں ایک روز انھوں نے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بڑی اچھی اچھی دینی اور علمی باتیں بتائیں ۔ ان کی تقریر کے دوران میں کسی نے سوال کیا کہ ’خدا کی ہستی کس طرح ثابت ہوتی ہے ؟ ‘ حکیم الامت نے اس کے جواب میں کہا کہ ’دنیا کی وہ عظیم ہستی ، جس کو بعثت سے پہلے ہی لوگ ’’ امین ‘‘ جیسے لقب سے پکارتے تھے ، فرماتے ہیں کہ خدا موجود ہے ، اس لیے ہمارے پاس اس بات پر کسی قسم کی بحث کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا اور ہم اس پر مکمل ایمان رکھتے ہیں ۔ ‘ ٭٭٭ حواشی ۱۔ جاوید ماموں کو بچپن میں پیار سے ببّا کہتے تھے ۔ مندرجہ بالا واقعے کے وقت ان کی عمر چار پانچ برس کے قریب تھی ۔ (مصنف) ۲۔ والدہ ٔ مکرمہ کے بیان کے مطابق اس وقت یہ مصرع یوں تھا : ’’ مرے جرمہائے سیاہ کو ترے عفوِ بندہ نواز میں ‘‘ (مصنف) ۳۔ مرحومہ مہتاب بی بی جنت مکانی ۔ اتفاق سے میری دادی جان اور نانی جان دونوں کاایک ہی نام تھا ۔ (مصنف) ۴۔ علامہ مرحوم کی لدھیانے والی بیگم صاحبہ ۔ ۵۔ آپ علامہ صاحب سے تین برس چھوٹی تھیں ۔ (مصنف) ۶۔ پہلے یومِ اقبال کے متعلق لوگ مختلف تاریخیں بیان کرتے ہیں : بعض کا خیال ہے کہ سب سے پہلا یوم اقبال حضرت علامہ کی وفات سے صرف دو تین ماہ پیشتر منایا گیا تھا ۔ خواجہ عبد الوحید صاحب کے بیان کے مطابق یہ ۶ ستمبر ۱۹۳۲ء کا دن تھا ۔ لیکن میری والدہ محترمہ کے بیان سے یہ پتا چلتا ہے کہ جب پہلا یومِ اقبال منایا گیا اس وقت جاوید ماموں کی عمر تقریباً چار برس تھی ۔ جاوید ماموں کی پیدائش ۵ اکتوبر ۱۹۲۴ء کی ہے ۔ والدہ مکرمہ مزید بتاتی ہیں کہ جاوید ماموں کو پانچ برس کی عمر میں سکول داخل کر ا دیا گیا تھا لیکن جن دنوں یہ تقریب منائی گئی ، ان دنوں وہ ابھی سکول نہیں جاتے تھے یعنی ان کی عمر اس وقت پانچ برس سے بہرحال کم تھی۔ اس وضاحت کی رو سے پہلا یومِ اقبال ۱۹۲۸ء یا ۱۹۲۹ء میں منایاگیا ۔ صحیح تاریخ کا تعین اس وقت کی اخبارات کی پرانی فائلوں سے ہو سکتا ہے کیونکہ والدہ مکرمہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’دوسرے روز اخبارات میں اس کے متعلق خبریں شائع ہوئی تھیں ۔ ان دنوں زمیندار اور انقلاب دو مشہور اخبار تھے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے ’’انقلاب ‘‘ میں یہ خبر پڑھی تھی اور مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اس روز چچا جان نے خاص طور پر اخبار اندر بھیجا تھا تاکہ ہم بھی یہ خبر پڑھ لیں کیونکہ خبر میں جاوید کی صحت کے لیے کی گئی دعا کا بھی ذکر تھا ۔ ‘‘ اس کے علاوہ جب یہ کتاب مولانا غلام رسول مہر کے پاس پیش لفظ کے لیے گئی تو چند ایک مندرجات کے متعلق ان سے میری گفتگو ہوئی جن میں پہلے یوم اقبال کا ذکر بھی آیا اور انھوں نے میری تحقیق کو درست قرار دیا ۔ (مصنف) ۷۔ شیخ عطا محمد صاحب کے منجھلے صاحب زادے ۔ ۸۔ شیخ عطا محمدصاحب کے چھوٹے صاحب زادے۔ ۹ ۔ شیخ عطا محمد صاحب کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کی وفات کا غم جان لیوا ثابت ہوا اور وہ حضرت علامہ کی وفات کے صرف دو برس اور آٹھ ماہ بعد ۲۲ دسمبر ۱۹۴۰ء کو اپنے پیارے بھائی سے جا ملے۔ اس وقت ان کی عمر ۸۲ برس تھی ۔ ۱۰۔ دیباچہ نور خودی مصنّفہ جناب نظیر صوفی۔ ۱۱۔ علامہ اقبالؒ کے ایک ہم مکتب ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیات ِ جاوید (چند خواب) یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے : ۱۹۴۷ء میں جن دنوں فسادات زوروں پرتھے اور مہاجرین کے لٹے پٹے قافلے مشرقی پنجاب سے پاکستان پہنچ رہے تھے ، میری والدہ محترمہ نے نانا جان قبلہ کو خواب میں دیکھا ۔ وہ بیان فرماتی ہیں : ’’ میں نے دیکھا ، چچا جان (علامہ صاحبؒ) اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹے ہیں اور بڑی بے قراری سے کبھی ایک پہلو بدلتے ہیں کبھی دوسرا ۔ میرے سوا ان کے پاس اور کوئی نہ تھا اور مجھے یہ احساس مطلقاً نہ ہوا کہ چچا جان فوت ہو چکے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد انھوں نے بڑی مضمحل آواز میں مجھ سے پانی مانگا ۔ میں نے پانی کا گلاس پیش کیا تو انھوں نے دو ایک گھونٹ پیے ، پھر اپنے سر کو ہاتھوں میں تھام کر بیٹھ گئے ۔ میںبڑی متذبذب تھی لیکن ہمت نہ پڑتی تھی ۔ آخر جب ان کی بے قراری حد سے بڑھی تو میں نے ہمت کر کے دریافت کیا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے ؟ انھوں نے آہستہ سے اپنا سر اوپر اٹھایا اور میری جانب پُرنم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے گلوگیر آواز میں فرمایا : ’ یہ جو کچھ ہو رہا ہے ، میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے ۔ ‘ اتنا کہا اور پھر بڑی بے دلی سے بستر پر دراز ہو گئے ۔ ‘‘ رسم ِ قُل: میرے والدِ گرامی اپنا ایک خواب یوں بیان فرماتے ہیں: ’’ ۱ ۱؍اکتوبر ۱۹۵۷ء کی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت علامہؒ سیالکوٹ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں ۔ کافی دیر تک مختلف موضوعات پر گفت و شنید ہوتی رہی۔ اس کے بعد وہ فرمانے لگے : ’عزیزم ! آج ہم تمھارے گھرفوت ہو رہے ہیں ، ہماری تجہیز و تکفین کا انتظام کر دینا ۔ ‘ اتنا فرمایا ، پلنگ پر دراز ہوئے اور فوت ہوگئے ۔ میں نے اکیلے ہی ان کے جسدِ خاکی کو اوپر کی منزل سے نیچے اتارا ، غسل دیا ،کفنایا اور برائے تدفین لاہور لے جانے کا سوچ ہی رہاتھا کہ میری آنکھ کھل گئی ۔ صبح اٹھ کر یہ خواب میں نے اپنی یاد داشتوں کی کاپی میں درج کر لیا اور کاروبارِ زندگی کی ہما ہمی میں وفات کی متعلقہ رسوم نظر انداز کر گیا ۔ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء کی رات پھر حضرت علامہ مجھے خواب میں ملے اور شکایت کرتے ہوئے فرمایا : ’بھائی ! پرسوں ہم تمھارے ہاں فوت ہوئے تھے ، آج تیسرا دن ہے لیکن تم نے ہماری رسمِ قُل ادا نہیں کی ۔ ‘ میں معافی کا خواستگار ہوا اور وعدہ کیا کہ صبح سب سے پہلا کام یہی کروں گا ۔ چنانچہ دوسرے روز ان کی روح کے ایصال کے لیے قرآن حکیم کا ختم دلوایا اور رسمِ قُل کے تمام لوازم پورے کیے ۔ اس کے بعد انھوں نے پھر کبھی اس قسم کی شکایت نہیں کی ۔ ‘‘ ملنے کا طریقہ: حکیم الامتؒ کے فوت ہونے کے کافی عرصہ بعد ایک شب عنایت خالہ جان نے انھیں خواب میں دیکھا ۔ وہ فرماتی ہیں ـ ’’ میں نے دیکھا کہ چچا جان ایک دریا کے کنارے کنارے چہل قدمی کر رہے ہیں اور حسنِ اتفاق سے میں بھی وہاں موجود ہوں۔پہلے تو مجھے یہ احساس ہی نہ ہوا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے یاد آ گیا کہ آپ انتقال فرما چکے ہیں۔میں نے آگے بڑھ کر چچا جان سے دریافت کیا کہ اگر آپ سے ملنا ہو تو کیا طریقہ اختیار کیا جائے َ انھوں نے جواب دیا : ’ مجھ سے ملنا ہو تو شمع روشن کرو ۔ ‘ اس خواب میں بڑا لطیف اشارہ موجود ہے کہ حضرت علامہؒ تک پہنچنے کے لیے شمع دل فروزاں کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کتاب بھی آپ کے لیے تھی : پھوپھی جان مکرمہ (علامہؒ کی ہمشیرہ ، محترمہ کریم بی بی صاحبہ ) نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت علامہ ایک بلند مقام پر کھڑے ہیں اورارد گرد لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہے ۔ آپ اپنی بغل میں ایک کتاب ، جو کافی ضخیم تھی ، دبائے کسی دقیق موضوع پر اظہارِ خیال فرما رہے ہیں ۔ تقریر کرتے کرتے انھوں نے وہ کتاب مجمع کو دکھاتے ہوئے فرمایا : ’’ یہ کتاب بھی آپ کے لیے تھی مگر افسوس کہ اسے آپ تک پہنچا نہ سکا ۔ ‘‘ اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ ارمغان حجاز ابھی زیر ترتیب تھی کہ شاعرِ مشرقؒ وفات پا گئے اور یہ مجموعۂ کلام بعد میں شائع ہوا ۔ مندرجہ بالا خواب اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ارمغان حجاز کے بعد وہ ایک اور کتاب قلم بند کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ شاید وہ ’’ تفسیر القرآن‘‘ ہوتی کیونکہ اس سلسلے میں آپ نے کچھ نوٹس وغیرہ لینے کی ابتدا کر دی تھی ۔ سرحدوں کے دورے پر: ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے تقریباً ایک ماہ بعد اکتوبر میں مختار ماموں نے ایک بڑا طویل خواب دیکھا جس میں علامہ اقبال علیہ الرحمہ کے بلند مرتبے اور عظیم مشن کا ہلکا سا پرتو نظر آتا ہے ۔ وہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’ ایک شب میں نے خواب میں دیکھا کہ منشی طاہر الدین صاحب ۱ کی طرف سے مجھے ایک تار موصول ہوا جس میں اطلاع دی گئی تھی کہ ہم فلاں فلاں وقت لاہور پہنچ رہے ہیں ، ہمیں ہوائی مستقر پر آ کر ملو ۔ جس وقت تار ملا ، وقت بہت تنگ تھا ۔ میں بھاگم بھاگ ہوائی اڈے پہنچا ۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس وقت تو کوئی طیارہ نہیں آتا ۔ میں بڑا حیران ہوا اور ساتھ ہی مایوسی بھی ہوئی لیکن تار کو غلط ماننے کو بھی جی نہ چاہتا تھا ،اسی شش و پنج میں ، میں ٹہلتا ٹہلتا باہر گیلری میں چلا گیا اور فضا میں ادھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا ۔ آسمان بالکل صاف تھا اور ہر طرف پھیلی ہوئی خوش گوار دھوپ میںکسی طیارے کے دور دور تک کوئی آثار نہ تھے ۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فضا کی بلندیوں میں ایک موہوم سا متحرک سایہ میری نظر پڑا ۔ مجھے ایک دم خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہی میرا مطلوبہ طیارہ ہے ۔ وہ سایہ بڑی سرعت سے زمین کی طرف گر رہا تھا ، میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیسا طیارہ ہے کیونکہ طیارے تو بڑے آرام سے زمین کی طرف آتے ہیں لیکن جوں ہی وہ میری حدِ نگاہ میں آیا تو یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ وہ ایک عظیم عقاب تھا جو اپنے پر سمیٹے نیچے کی طرف گرتا چلا آ رہا تھا ۔ عقاب نے زمین کے قریب آکر اپنے لمبے چوڑے پر کھول دیے اور بڑی آہستگی سے ہوائی اڈے کے کھلے میدان میں بیٹھ کر اپنے پر سمیٹ لیے ۔ میں بڑی حیرت سے یہ تمام کاروائی دیکھ رہاتھا ، لیکن یہ دیکھ کر تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ عقاب کی دم آہستہ آہستہ اوپر اٹھی اور اس جگہ ایک دروازہ نمودار ہوا جس میںسے منشی طاہر الدین صاحب برآمد ہوئے ۔ وہ باہر نکل آئے تو عقاب کی دم پھر نیچے گر گئی ، اس نے پر پھیلائے اور فضا میں بلند ہوگیا ۔ میں دیوارِ حیرت بنا گیلری کے جنگلے کو مضبوطی سے تھامے کھڑا تھا کہ منشی صاحب میرے پاس آ پہنچے۔ میں نے ایک ہی سانس میں ان سے کتنے سارے سوال کر ڈالے کہ آپ کہاں سے آ رہے ہیں ؟ کہاں جانا ہے ؟ اکیلے ہیں یا چچا جان بھی ساتھ ہیں ؟ اور مجھے کس سلسلے میں یادکیا گیا ہے؟ منشی صاحب گیلری میں پڑی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مجھے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر فرمایا : ’ میں شاعر مشرقؒ کے ہمراہ ہوں اور ہم سرحدوں کا دورہ کر کے آ رہے ہیں ۔ مجھے یہاں اتار کر علامہ صاحب ، حضرت داتا گنج بخشؒ سے ملاقات کو گئے ہیں ، اس کے بعد ہمیں سرہند شریف جانا ہے ۔ تمہیں علامہ صاحب نے کسی ضروری کام کے لیے بلایا ہے اور وہ ابھی واپس آ کر تمھیں ملیں گے۔‘ ہم وہاں بیٹھے ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے ۔ منشی صاحب اپنے صاحب زادوں کے لیے پیغامات دینے لگے ۔ کچھ دیر بعد وہ عقاب پھر نمودار ہوا ۔ منشی صاحب مجھے ساتھ لے کر اس کی طرف بڑھے ، اتنی دیر میں وہ زمین پر بیٹھ چکا تھا اور کھلا ہوا دروازہ ہمارا منتظر تھا ۔ اندر داخل ہوا تومیں نے اپنے آپ کو ایک کشادہ کمرے میں پایا جس کے فرش پر دبیز قالین بچھے تھے اور سامنے گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ، حقہ منہ میںدبائے، چچا جان بحر فکر میں غوطہ زن تھے ۔ میں جھک کر آداب بجا لایا ،انھوں نے کمال شفقت سے اپنے پہلو میں بٹھا لیا اور فرداً فرداًتمام افراد خاندان کی خیر و عافیت دریافت کی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ جاوید کی شادی ہو گئی ہے ؟ تو انھوںنے زیرِ لب مسکراتے ہوئے فرمایا : ’ ہاں ‘ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے ۔ ‘ پھر فرمانے لگے : ’ تمھیں اس لیے بلایا تھا کہ میری ایک نصیحت جاوید تک پہنچاؤ ۔ ‘ پھر جاوید کے لیے پیغام دینے کے بعد گویا ہوئے : ’ اچھا اب تم چلو ، ہمیں جلد سرہند شریف پہنچنا ہے ۔ وہاں ہمارا انتظار ہو رہا ہو گا ۔ ‘ میں انھیں سلام کر کے باہر نکل آیا ۔ عقاب کی دم نیچے ہوئی ، اس نے پر پھیلائے اور اڑ گیا ۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے فضا کی پہنائیوں میں گم ہو گیا ۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تو اس خواب کی ایک ایک تفصیل میرے ذہن پر ثبت تھی حالانکہ اس سے پیشتر اور بعد میں بھی میں نے نہ تو کبھی اتنا مفصل خواب دیکھا اور نہ ہی کبھی اس طرح یاد رہا ہے بلکہ میری یاد داشت کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے سے چھوٹا خواب بھی بڑی مشکل سے یاد رہتا ہے۔ مندرجہ بالا خواب اس حققیت کی منہ بولتی دلیل ہے کہ عظیم روحیں ، جہانِ فانی سے کوچ کر جانے کے بعد بھی مصروفِ عمل اور اپنے رب کی طرف سے تفویض کیے گئے مشن کے ساتھ ہر ساعت منسلک رہتی ہیں ۔ سیالکوٹ کا دورہ: ستمبر ۱۹۶۵ء میں جنگ بندی کے چند روز بعد میری والدہ محترمہ نے گذشتہ خواب سے ملتا جلتا ایک خواب دیکھا۔ وہ اسے اس طرح بیان کرتی ہیں : ’’ میں نے دیکھا کہ چچا جان چند افراد کے ہمراہ ، ہمارے ہاں سیالکوٹ تشریف لائے ہیں ۔ وہ برہنہ پا اور دھول میں اٹے ہوئے تھے اور ان کے کپڑوں پر کہیں کہیں کیچڑ وغیرہ بھی لگا ہوا تھا ۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر میں بڑی متعجب ہوئی لیکن دوسرے افراد کی موجودگی کی وجہ سے خاموش رہی ۔ یوں نظر آتاتھا کہ وہ کہیں دور سے آ رہے ہیں ۔ خالد۲ نے ان کا منہ ہاتھ دھلایا اور کپڑے وغیرہ صاف کیے ۔ اتنے میں خالد کے ابا بھی آ گئے اور چچا جان کو نشست گاہ میں لے گئے جہاں بیٹھ کر وہ تبادلۂ خیالات کرنے لگے اورمیں ان کے لیے کھانے وغیرہ کے انتظام میں لگ گئی ۔ ‘‘ زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں (اقبالؒ) ٭٭٭ حواشی ۱۔ یہ صاحب ایک مدت تک علامہ اقبالؒ کے منشی رہے ۔ ۲۔ مصنف نوادر (علامہ اقبال ؒ کی سکول اور کالج کے زمانے میں استعمال کردہ چند پرانی کتابیں ) چند کتابیں : نانا جان قبلہ کی زندگی میں بے شمار اشیا ان کے زیرِ استعمال رہیں لیکن لاعلمی اور سادگی کی وجہ سے ان میں سے زیادہ تر ضائع ہو گئیں یا کر دی گئیں ۔ البتہ خوش قسمتی سے خاندانی لائبریری میں چند ایک کتابیں افتادِ زمانہ کے ہاتھوں بچ کر ہم تک پہنچ سکی ہیں ۔ ان میں زیادہ تر آپ نے سکول کے زمانے میں چھوٹی اور بڑی جماعتوں میں پڑھی تھیں۔ ان پر جابجا حکیم الامت نے اپنے دستخط ، کہیں اردو اور کہیں انگریزی میں ، ثبت فرمائے ہیں ۔ ان کتابوں سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کتابوں پر نوٹس وغیرہ لکھنے کے عادی تھے ۔ بعض کتابوں کے حاشیے تو بالکل سیاہ ہیں ، کسی جگہ مشکل الفاظ کے معنی لکھے گئے ہیں اورکہیں پورے کے پورے پیراگراف کی تلخیص درج ہے ۔ پنسل اور قلم دونوں سے اس قدر صاف اور باریک لکھا گیاہے کہ ایک ایک لفظ بآسانی پڑھا جا سکتا ہے ۔ ان تحریروں سے ثابت ہوتاہے کہ شاعرِ مشرق بچپن میں ہی بڑے خوش خط تھے ۔ ان کتابوں میں سے ایک ، جو انھوں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی اور اس پر ان کے دستخط موجو د تھے ، ۱۹۵۳ء میں محترمہ فاطمہ جناح کی ’’ اقبال منزل ‘‘ سیالکوٹ میں آمد پر میرے والدِ گرامی نے یادگار کے طور پر ان کی خدمت میں پیش کی تھی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مادرِ ملت نے کتاب قبول فرماتے ہوئے بڑی حیرت اور مسرت کا اظہار کیا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ میں اسے ہمیشہ بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھوں گی ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کتاب اب بھی محترمہ کی ذاتی لائبریری میں محفوظ ہو ۔ متذکرہ کتابوں میں سب سے پرانی کتاب وہ ہے جو آپ نے نویں جماعت میں پڑھی تھی ۔ اس پر ایک جگہ مندرجہ ذیل انگریزی شعر بڑی خوبصورتی سے تحریر کیا ہوا ہے : Steal not the book for fear of shame Look down and see my powerful name Mohd Iqbal تقریباً تمام کتابوں پر انھوں نے مندرجہ ذیل فقرہ ضرور لکھا ہے : This book belongs to S.Mohammad Iqbal کئی کتابوں پراپنے نام کے ساتھ جماعت ، سکول یا کالج کا نام اور بعض مقامات پر اپنا رول نمبر بھی تحریر فرمایا ہے ۔ دو ایک کتابوں پر ان کے نام کی بنی ہوئی لکڑی کی مُہر بھی ثبت ہے ۔ چند کتابوں پر انھوں نے اپنا نام اور تخلص اس طرح تحریر فرمایا ہے : Sh.Mohd.Iqbal"Iqbal" آئندہ صفحات میں ان تمام کتابوں کی تفصیل درج کی جا رہی ہے جو اب تک محفوظ بچی ہیں ۔ A Grammar of the English Languageجو آپ نے ۱۸۹۱ء میں نویں جماعت میں پڑھی ، اس پر ان کا نام مع تاریخ اس طرح درج ہے : This Grammar belongs to Mohd Iqbal student Scotch Mission High School, Sialkot. 10/5/91 "Reading in Poetry" بھی نانا جان نے نویں جماعت میں ہی پڑھی ۔ اس پر انھوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اس طرح لکھا ہے : This book now belongs to Mohammad Iqbal Student 9th Class,S.M. City Sialkot. اسی کتاب پر ایک جگہ انھوں نے راگ کے بول تحریر فرمائے ہیں : ۱ ۲ ۳ ۴ ۵ ۶ ۷ ۸ سا۔ رے ۔ گا۔ ما ۔ پا ۔ دھا ۔ نی ۔ سا خرج رکھب گندھار مدھم پنچم دھیوت نکھاد اس کے نیچے بیدل ، غالب ، ناسخ اور واقف کے مختلف اشعار درج ہیں جو پنسل سے لکھے ہونے کی وجہ سے صاف نہیں پڑھے جاتے ۔ اس کتاب پر ایک دوسری جگہ راگ کے بول یوں درج ہیں : ۲ ۱ ۱ ۱ ۱ دھا خرج(خاص) ری گا دھا (خاص) ۱ ۱ ۱ ۱ ۱ ۱ پا (خاص) گا ری سا ری گا " The Royal Readers" بھی انھوںنے نویں جماعت میں پڑھی تھی جس پر ان کے دستخط کچھ اس طرح موجود ہیں : Mohammad Iqbal, Student 9th Class of Scotch Mission School, Sialkot City. Learned Men's English علامہ علیہ الرحمہ نے دسویں جماعت میں پڑھی ۔اس پر انھوں نے اپنا نام اوررول نمبر درج کیا ہے : S. Mohd Iqbal 673, Student of 10th Class Scotch Mission High School, Sialkot. English Men of Action انھوں نے ایف ۔ اے میں استعمال کی ۔ اس کے حواشی پر بے شمار نوٹس لکھے گئے ہیں ۔ کسی جگہ پنسل اور کسی جگہ قلم کے ساتھ بڑے صاف اور باریک الفاظ موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ۔ اس پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں : S. Mohammad Iqbal Student Scotch Mission College, Sialkot. "SHAKESPEARE" کا ڈراما The Tragedy of King Richard II بھی ایف ۔ اے میں پڑھا گیا ۔ اس کے حواشی پر بھی بے شمار نوٹس تحریر کیے گئے ہیں اور علامہ صاحب نے اپنے دستخط اس طرح ثبت فرمائے ہیں : S. Mohammad Iqbal Student Scotch Mission College,1894 Longman's School Composition بھی ایف ۔ اے میں ہی پڑھی گئی ہے۔ اس پر علامہ صاحب کے دستخط مع تاریخ اس طرح درج ہیں : S. Mohammad Iqbal Student F.A. Class, Scotch Mission College, Sialkot. 7th June , 1893 Lives of Indian Officers آپ نے بی ۔ اے میں استعمال کی اور اس پر اپنا نام مع تخلص ثبت فرمایا : S.Mohammad Iqbal "Iqbal" Student IV yr Govt: College, Lahore. EURIPIDESانھوں نے ایم ۔ اے میں پڑھی اور یوں دستخط فرمائے : S.Mohammad Iqbal , Student M.A. Class, Govt. College, Lahore. 18th Feb,1898 Lectures on the Origin and Growth of Religionبھی انھوں نے ایم ۔ اے میں استعمال کی اور اس طرح دستخط فرمائے : Mohammd Iqbal Philosophy M.A. Class, Govt. College, Lahore. مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ بعض کتابوں پر صرف دستخط اور بعض کے حواشی پر نوٹس لکھے گئے ہیں ۔ انھی کتابوں میں ایک کلیات سودا بھی ہے جس پر جا بجا ان کے دستخط موجود ہیں اور کسی جگہ مختلف قافیے اور کسی جگہ اشعار لکھے ہوئے ہیں ۔ ٭٭٭ اقبال منزل، سیالکوٹ (شاعر مشرقؒ کی جائے پیدائش) ’اقبال منزل‘ وہ منزلِ سعید ہے جس میں مشرق کے عظیم شاعر نے آنکھیں کھولیں اور جہانِ عمل میں اولین سانس لی ۔ یہ مکان سیالکوٹ کے تاریخی شہر کے قدیم ترین بازار چوڑی گراں میں ، جسے اب ’اقبال سٹریٹ ‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، بر لبِ سڑک واقع ہے ۔ اس کو علامہ اقبالؒ کے دادا شیخ محمد رفیق صاحب نے فروری ۱۸۶۱ء میں خریدا۔ اس وقت مکان کا صرف پچھلا حصہ ، جو گلی کی طرف ہے ، خرید کیا گیا ۔ اس زمانے میں یہ ایک منزلہ ، کچھ کچا اور کچھ پکا پرانے فیشن کا مکان تھا جس میں گلی کی طرف ایک ڈیوڑھی ، دو کوٹھڑیاں ان کے ساتھ ایک دالان اور اس کے آگے چھوٹا سا صحن تھا ۔ دسمبر ۱۸۹۲ء اور مارچ ۱۸۹۵ء میں میاں جی (شیخ نور محمد صاحب )نے اس میں اضافہ کیا اور ایک ملحقہ مکان خرید کر پہلے مکان میں شامل کر لیا ۔ شاعرِ مشرقؒ اسی مکان کے پرانے حصے میں جو ۱۸۶۱ء میں خریدا گیا ، پیدا ہوئے ۔ قدیم حصے کے کونے والی کوٹھڑی کو ، جس کی دو کھڑکیاں گلی میں کھلتی ہیں ، آپ کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے ۱ ۔’بے جی ‘ (حضرت علامہ کی والدۂ ماجدہ ) نے اسی قدیم مکان کے ناپختہ صحن میں انھیں پاؤں پاؤں چلنا سکھایا اور وہ یہیں کھیلتے کودتے جوان ہوئے ۔ اسی مکان میں انھوں نے اپنی تعلیم کا آغاز کیا اور ابتدائی اسباق ازبر کیے ، ایف ۔ اے تک وہ اسی مکان میں لکھتے پڑھتے رہے اور یہیں ان کی پہلی شادی ہوئی ۔ میاں جی (علامہ علیہ الرحمہ کے والد گرامی شیخ نور محمد صاحب)نے اس دوران میں ایک اور مکان خریدا جو کرایے پر اٹھا دیا گیا۔ یہ مکان ’ اقبال منزل ‘ کے قریب ہی تھا ۔ بعد میں جب انھوں نے جائداد تقسیم کی تو یہ مکان چھوٹے نانا جان (علامہ اقبالؒ) کے حصے میں آیا جسے کچھ عرصے بعد انھوں نے فروخت کر دیا ۔ جدّی مکان ، جس میں شاعرِ مشرقؒ پیدا ہوئے ، بڑے نانا جان (شیخ عطا محمد صاحب ) کو ملا ۔ انھوں نے جدی مکان کے ساتھ ملحقہ ایک اور مکان خرید کر کے آج سے تقریباً چھپن ستاون برس قبل موجودہ مکان کا سنگِ بنیاد رکھا اور اسے ایک عظیم الشان سہ منزلہ حویلی میں تبدیل کر دیا اور اپنے عزیز چھوٹے بھائی کے نامِ نامی پر اس کا نام ’’ اقبال منزل ‘‘ رکھا ۔ بڑے نانا جان قبلہ (شیخ عطا محمد صاحب) نے جدّی مکان کی تعمیرِ نو ضرور کی لیکن اس کی پرانی ہیئت کو برقرار رکھا ۔ دیواریں اور فرش نئے طریقے سے پختہ ضرور کر دیے گئے مگر ڈیوڑھی ، کوٹھڑیاں اور دالان تقریباً اسی طرح رہے اور صحن کا طول و عرض بھی قریب قریب وہی رکھا ۔ اس طرح وہ تاریخی جگہ جہاں حکیم الامتؒ نے جنم لیاتھا ، اسی طرح موجود رہی ۔ ’’ اقبال منزل ‘‘ میں کم و بیش پندرہ کمرے اور سات دکانیں ہیں ۔ ان میں ڈیوڑھی سے ملحقہ وہ کمرہ بھی ہے جس میں علامہ اقبالؒ نے جنم لیا ۲ ، وہ دالان اور صحن ہے جس میں ان کا بچپن اور لڑکپن گزرا ۔ ان کے علاوہ آج سے نصف صدی پیشتر تعمیر کیے گئے وہ کمرے ہیں جن میں علامہ علیہ الرحمہ اٹھے بیٹھے ، چلے پھرے ، سوئے جاگے اور مصروفِ گفتگو و مطالعہ رہے ۔ ان میں میاں جی (والدِ اقبال) کاکمرۂ خاص بھی ہے جس میں علامہ اقبالؒ نے ان سے نصیحتیں سنیں اور پہروں حاضرِ خدمت رہے ۔ یہاں وہ کمرہ بھی ہے جو حکیم الامتؒ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد صاحب کے لیے مخصوص تھا اور جس میں دونوں بھائی اکٹھے بیٹھ کر مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیالات فرمایا کرتے تھے ۔ اقبال منزل کی اندرونی نشست گاہ میں آج بھی اسی طرح لکڑی کے تخت بچھے ہیں جس طرح اس زمانے میں تھے ۔ انھی تختوں پر سفید چاندنیوں کے اوپر گاؤ تکیوں کے سہارے بیٹھ کر شاعرِ مشرقؒ حقہ نوش فرمایا کرتے تھے اور رات کو گھریلو محفل جما کرتی تھی ۔ انھی تختوں کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت علامہؒ جب سیالکوٹ میں قیام فرماتے تو انھی کے اوپر ان کا پلنگ بچھایا جاتا ۔ یہاں پر وہ بیرونی نشست گاہ بھی موجود ہے جس میں مفکر اعظمؒ لوگوں کو شرفِ ملاقات بخشا کرتے تھے ۔ اقبال منزل میں لاتعداد ایسی چیزیں موجود ہیں جنھیں حکیم الامتؒ کے استعمال میں رہنے کا شرف حاصل رہا ہے ۔ وہ آرام کرسیاں جن پر انھوں نے آرام فرمایا ، وہ پلنگ جن پروہ محوِ استراحت رہے ، وہ قالین جنھیں ان کے قدم چومنے کی سعادت نصیب رہی ، وہ در و دیوار جن کو شاعر مشرقؒ کے ہاتھوں کا لمس میسر آیا ، وہ کتابیں جو ان کے مطالعے میں رہیں ، وہ آتش دان جس کے سامنے بیٹھ کر مفکرِ اعظمؒ سرما کی طویل اور خنک راتوں میں محوِ فکر رہے ۔ یہاں تیل کے وہ دیوار گیر لیمپ آج بھی موجود ہیں جن کی روشنی میں آپ مصروفِ مطالعہ رہے ۔ اقبال منزل کو قیام پاکستان سے قبل اور بعد ، کئی ایک مشاہیر عالم کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا رہا ہے ۔ اپریل ۱۹۴۴ء میں قائداعظمؒ یہاں تشریف لائے ۔ میری عمر گو اس وقت بمشکل پانچ برس تھی لیکن مجھے اچھی طرح یادہے کہ اقبال منزل کے آگے بڑی شاندار آرائشی محراب بنائی گئی تھی جو اس موقع کے لیے خاص طور پر امتیاز ماموں جان۳نے تیار کروائی تھی ۔ جب قائداعظمؒ کا عظیم الشان اور فقید المثال جلوس یہاں پہنچا تو بے پناہ رش کی بنا پر حضرت قائداعظمؒ ، اقبال منزل میں اوپر تشریف نہ لا سکے ۔ اقبال منزل کے صدر دروازے کے آگے ان کی سواری روکی گئی ۔ میرے والدِ گرامی نے انھیں خوش آمدید کہا اور پھولوں کے ہار پہنائے ، قائداعظمؒ نے ان کی شکریہ ادا کیا اور اقبال منزل میں اوپر نہ جاسکنے پر افسوس اور معذرت کا اظہار فرمایا ۔ پھر انھوں نے اوپر بالکنی میں بیٹھے ہوئے خاندان کے دوسرے افراد کو ہاتھ ہلا کر سلام کیا اور اوپر سے ان پر پھولوں کی بارش کی گئی ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قائداعظمؒ گرے رنگ کی ملگجی سی شیروانی اور سر پر جناح کیپ پہنے ہوئے تھے اور ان کے گلے میں ڈھیر سارے ہار پڑے تھے ۔ ان کے چہرے سے سفر کی تکان کے آثار نمایاں تھے مگر اس پر ناگواری کے اثرات بالکل نہ تھے بلکہ وہ بڑے خوش و خرم مسکرا مسکرا کر لوگوں کے فلک شگاف نعروں کا ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دے رہے تھے ۔ جس موٹر کار میں وہ کھڑے تھے وہ پھولوں سے لدی ہوئی تھی اور لوگوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں بڑی مشکل سے رینگ رہی تھی ۔ میں نے سیالکوٹ میں اس سے بڑا اور پرجوش استقبال کسی دوسرے راہنما کا آج تک نہیں دیکھا ۔ ۱۹۵۲ء یا ۵۳ء میں محترمہ فاطمہ جناحؒ جب سیالکوٹ تشریف لائیںتو انھوں نے اقبال منزل میں بھی قدم رنجا فرمایا ۔ میرے والد گرامی نے انھیں خوش آمدید کہا ، مجھ ناچیز کو بھی مادرِ ملتؒ کے گلے میں ہار پہنانے کا شرف حاصل ہوا اور انھوں نے مادرانہ شفقت سے میرے سر پر اپنا دستِ محبت رکھا ۔ پھر میرے والد صاحب انھیں اوپر اقبال منزل میں لائے اور وہ کافی دیر وہاں تشریف فرما رہیں اور گھر کی خواتین سے فرداً فرداً ملیں ۔ ان دنوں میری نانی جان محترمہ بقیدِ حیات تھیں ، ان سے مل کر مادرِ ملتؒ نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا اور رخصت ہوتے وقت ان سے گلے ملیں ۔ مادرِ ملت کی خدمت میں علامہ اقبالؒ کی ایف ۔ اے میں استعمال کردہ ایک نادر کتاب ، جس پر علامہ صاحب کے دستخط ثبت تھے ، بطور یادگار پیش کی گئی ، جو انھوں نے بڑی خوشی سے قبول فرمائی۔ اپریل ۱۹۵۶ء میں ایران کے مشہور ادیب اور پروفیسر علامہ سعید نفیسی یہاں تشریف لائے ۔ وہ علامہ اقبالؒ کے شیدائیوں میں سے تھے ۔ انھوں نے درخواست کی کہ ایک رات کے لیے انھیں اقبال منزل میں قیام کرنے کی اجازت دی جائے ، چنانچہ وہ ایک رات کے لیے یہاں شب باش ہوئے ۔ مصر کے مشہور ادیب علامہ عبدالوہاب المصری مرحوم ، جامعۂ ازہر کے دو پروفیسر صاحبان کی معیت میں تشریف لائے ۔ علامہ عبدالوہاب ، علامہ اقبالؒ سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نے قدم قدم پر کیا ۔ اقبال منزل میں داخل ہونے سے پیشتر انھوں نے صدر دروازے پر کھڑے ہو کر دعا مانگی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ انھیں مشرق کے عظیم شاعر اور مفکر کا مولد دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ۔ پھر جب میرے والدِ محترم نے انھیں خوش آمدید کہا تو وہ بڑے ادب اور احترام سے جھک کر ان سے ملے اورکتنی ہی دیر ان کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامے فخریہ کلمات کہتے رہے ۔ انھوں نے فرمایا کہ آج میرا سر فخر سے بلند ہے اور میں خداوند کریم کا شکر گزار ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور میں اقبالؒ کے خاندان کے ایک فرد سے شرف ملاقات حاصل کر رہا ہوں ۔ جب میرے والدِ گرامی نے انھیں اقبال منزل میں اوپر چلنے کی دعوت دی تو انھوں نے سیڑھیوں میں آگے چڑھنے سے انکار کر دیا اور میرے والد صاحب کو پیشوائی پر مجبور کیا اور فرمایا کہ میں اس گستاخی کا مرتکب نہیں ہو سکتا کہ ’’ علامہ اقبال ؒ کے خون‘‘ کے آگے آگے چلوں ۔ اقبال منزل کی سیڑھیوں میں قدیم رواج کے مطابق دیوار کے ساتھ ساتھ ایک موٹا رسّا لٹکا ہوا ہے تاکہ اترتے اور چڑھتے وقت سہارا لینے میں آسانی رہے ۔ علامہ المصری نے اسے بہت پسند فرمایا اور اس کا استعمال بڑی حیرانی اور مسرت کے ساتھ کیا ۔ وہ ہر سیڑھی پر بسم اﷲ اور تکبیر پڑھ پڑھ کر اوپر پہنچے اور مکان کا ایک ایک کونہ دیکھا ۔ وہ جب تک اقبال منزل میں رہے ، ہر قدم پر بسم اﷲ پڑھتے رہے ۔شاعر ِ مشرقؒ کی ’’ جائے ولادت ‘‘ میں پہنچ کر علامہ المصری نے پھر دعا پڑھی اور کافی دیر آنکھیں بندکیے خاموش کھڑے رہے ۔ آج تک اقبال منزل کو دیکھنے بے شما ر لوگ آئے ہیں لیکن میری نظر سے علامہ عبد الوہاب المصری مرحوم جیسا عقیدت مند اور عاشقِ اقبال نہیں گزرا۔ آج بھی یہ منزلِ سعید مرجعِ خاص و عام ہے اور ملکی و غیر ملکی شخصیات اس کی زیارت کے لیے اکثر تشریف لاتی رہتی ہیں ۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ ذکرِ اقبال از مولانا سالک میں صفحہ ۹ کے بالمقابل جو تصویر علامہ اقبالؒ کے کمرۂ ولادت کی دی گئی ہے ، وہ درست نہیں کیونکہ یہ کمرہ مکان کے اس حصے میں واقع ہے جو دسمبر ۱۸۹۲ء کے بعد خریدا گیا ۔ اسی طرح صفحہ ۱۲ کے بالمقابل جس کمرے کی تصویر ہے وہ بھی اسی حصے میں واقع ہے ۔ ۲۔ میری والدہ مکرمہ کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی ولادت بھی اسی تاریخی کمرے میں ہوئی ۔ ۳۔ شیخ عطا محمد صاحب کے منجھلے صاحب زادے ۔ انھوں نے سیالکوٹ میں قائد اعظمؒ کے جلوس کی اپنی مٹر سائیکل پر قیادت کی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے داغ ہے مانندِ سحر اس کی جوانی (زہد اور رندی ۔ بانگِ درا) کسی ادب کی جوقسمت بگڑتی ہے اقبال تو پہلے ہوتے ہیں نادان نکتہ چیں پیدا تنقید اگرکسی فن پارے کے تجزیے یاکسی شخصیت کو سمجھنے کے لیے اس کے مختلف پہلوؤں کی پُرخلوص تفہیم تک محدود رہے تو قابل اعتراض نہیں ، لیکن جہاں نقاد ذاتی تعصبات کے باعث محض دوسروں پر کیچڑ اچھالنے یا اپنی شخصیت کی نمائش کے لیے کسی فن پارے میں صرف برائیاں تلاش کرنے کا عمل اپناتا ہے ، وہاں تنقید اپنے منصب سے گر جاتی ہے ۔ایسے نقادوں سے حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی شخصیت بھی محفوظ نہیں رہی ۔ حکیم الامت ؒ کی عظمت اورشہرت سے کون آگاہ نہیں ، حضرت علامہ کی زندگی میں بھی ان پر کئی دفعہ غلط الزامات۱ تراشے گئے لیکن انھوں نے کبھی انھیں در خورِ اعتنا نہ جانا اور وہ الزامات اپنے خالقوں سمیت اپنی موت آپ مر گئے ۔ آج بھی ان لوگوں کی کمی نہیں جو شاعرِ مشرقؒ کی شرافت اور نیک طبیعت کی قسم کھاتے ہیں ۔ لیکن اب چونکہ ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو نکتہ چینوں کی وضع کردہ باتوں کو قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ،اس لیے ان غلط اندیشوں کا میٹھا زہر بڑی خاموشی سے نا پختہ ذہنوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے اوریہی وجہ ہے کہ آج اقبالؒ کے کلام پراتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنے ان نقادوں کے مفروضے پسند کیے جاتے ہیں ۔ اس قسم کے لوگ اس صورتِ حال پر بہت خوش ہیں کہ علامہ اقبالؒ کو شرابی ، رنگ رلیاں منانے والا اور قیامِ یورپ میں معاشقے لڑانے والا ثابت کیا جا رہا ہے ۔ مقام ِ افسوس ہے کہ اس عظیم مفکر کو ، جس نے اپنی ساری زندگی قوم کے لیے وقف کردی ، قوم یہ انعام دے رہی ہے اور اس کے حیات افروز پیغام سے فیض یاب ہونے کی بجائے اس کی ذات میں کیڑے نکالنے اور اسے عیاش تک ثابت کرنے میں خوشی ہی نہیں بلکہ فخر بھی محسوس کر رہی ہے ۔ پیشتر اس کے کہ حقائق کی روشنی میں علامہ اقبال ؒ پر عائد کردہ ان الزامات کو باطل ثابت کیا جائے ، مناسب ہوگا کہ ایک نظر اس ماحول پر ڈالی جائے جس میں شاعرِ مشرقؒ نے پرورش پائی اور تعلیم حاصل کی ۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ علامہ اقبال ؒ نے ایک انتہائی دین دار اور با شرع گھرانے میں جنم لیا ، جس میں نیکی ، پارسائی ، عفت اور پاکیزگی کی بلند قدریں تھیں ۔ ان کے والد گرامی ، صوفی منش اور بڑے متقی و پرہیز گار بزرگ اور ان کی والدہ ماجدہ پابند صوم و صلوٰۃ اور بڑی صالح خاتون تھیں ۔پاکباز او ر پرہیزگار والدین کے علاوہ اقبالؒ کو سب سے پہلے شمس العلماء سید میر حسن شاہؒ صاحب جیسے اعلیٰ صفات و ارفع عادات بزرگ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ۔ ان تمام بزرگوں نے یقینا علامہ اقبالؒ کو نیکی اور بدی کا فرق اور اچھے برے کی تمیز سب سے پہلے اور اچھی طرح ذہن نشین کرائی ہوگی اور انھیں کم از کم اسلام کے بنیادی اصولوں سے ضرور روشناس کرایا ہوگا ۔ حلال و حرام کی تمیز اسلام کے بنیادی اصولوں کی بھی بنیاد مانی جاتی ہے تو کیا یہ مان لیا جائے کہ اقبالؒ تمام عمر اس بنیادی اور زریں اصول سے نا واقفیت کا شکار رہے ؟ علامہ اقبالؒ کی زندگی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی شعائر ِ اسلام سے ان کی بے پناہ محبت اور خدا اور رسولِ مقبولؐ سے والہانہ عشق کا کافی اندازہ ہو جاتا ہے لیکن اگر ذرا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو ان کی تمام زندگی پر یہ محبت اور عشق حاوی نظر آتے ہیں ۔ کیا یہ اس ابتدائی تعلیم کا اثر نہیں تھا ؟ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جو بات اور عادت بچپن میں ذہن نشین اور پختہ ہو جائے وہ کبھی فراموش نہیں ہوتی ۔ اس لیے جس شخص کو بچپن ہی میں انتہائی پاکیزہ ماحول اور نیکی سے بھرپور فضا میسر آئی ہو اور انتہائی نیک اصحاب نے تربیت دی اور پروان چڑھایا ہو ، اس سے شراب نوشی اور رنگ رلیاں منانے جیسی لغزشوں کی امید ناقابلِ یقین ہی نہیں بلکہ نا قابلِ فہم بھی ہے ۔ میری والدہ مکرمہ حلفیہ بیان فرماتی ہیں کہ:۔ ’’ حضرت علامہ نے کبھی شراب سے شغف نہیں رکھا ۔ ‘‘ وہ اتنا طویل عرصہ ان کے پاس رہیں لیکن ان کے مشاہدے میں کبھی کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا جس سے یہ شبہ بھی ہو سکتا کہ علامہ صاحب شراب کا شوق کرتے ہیں اور نہ ہی کبھی علامہ صاحب کی بیگم صاحبہ (والدۂ جاوید ) نے کوئی ایسا اشارہ کیا ۔ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ، میرے خیال میں کسی قسم کے پردے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا ، جب کہ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ وہ بلا روک ٹوک حضرت علامہ کے کمرے میں چلی جایا کرتی تھیں ۔ اس کے علاوہ ان کے باہر جانے کے بعد ان کے کمرے کی پوری طرح تلاشی لیا کرتی تھیں تاکہ کوئی ایسی کتاب مل جائے جو ابھی پڑھی نہ ہو ۔ ان حالات میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرتِ علامہ روزانہ رات کو سونے سے پیشتر ایک بوتل شراب پیا کرتے تھے تو وہ خالی بوتل آخر کیاہوتی تھی ؟ آدمی خواہ کتنی ہی احتیاط برتے کسی نہ کسی وقت تو بے احتیاطی ہو ہی جاتی ہے ۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکی کہ علامہ صاحب کے پاس کون سا جن تھا جو رات کو سونے سے پہلے ان کو شراب پیش کیا کرتا تھا اور پھر خالی بوتل اپنے ہمراہ لے جاتا تھا ۔ اس بہتان کی نفی میں میری والدہ محترمہ ایک واقعہ یوں بیان فرماتی ہیں : ’’ ایک روز نشست گاہ میں محفل جمی ہوئی تھی ۔ چچی جان ( والدۂ جاوید ) اور میں اس وقت ملحقہ کمرے میں تھیں ۔ دونوں کمروں کے درمیان ایک دروازہ تھا جس سے بند ہونے کے باوجود تمام گفتگو بآسانی سنی جا سکتی تھی ۔ چچا جان اس وقت اپنے حیدر آباد (دکن ) کے حالات سفر بیان فرما رہے تھے اس دوران انھوں نے بتایا کہ ’ ایک روز حیدر آباد کے وزیر اعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد کے ہاں رات کے کھانے کی دعوت تھی ، کھانے کے بعد ناچ گانا شروع ہوا اور جام چھلکنے لگے ۔ ‘ چچا جان اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ حاضرین میں سے کسی نے سوال کیا : ’ کیا آپ نے بھی شوق فرمایا ؟ ‘ چچا جان نے بلا تامل اور بڑی ملائمت سے جواب دیا : ’ نہیں بھائی ! میں محفل سے اٹھ گیا کیونکہ سب جانتے ہیں کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی ۔‘ حضرت علامہ کے مندرجہ بالا بیان کو جھٹلانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ آخر انھیں غلط بیانی کی کیا ضرورت تھی ۔ اگر وہ شراب پینے کے گنہ گار ہوتے تو یقینا خاموش رہتے اور کبھی بلا تامل اور اتنی جرأت سے بھری محفل میں انکار نہ فرماتے ۔ ایک ایسی شخصیت پر ، جس کی تمام شاعری زندگی کی سچائیوں کی بنیاد پر استوار ہے اور ان انمٹ اصولوں کی مظہر ہے جو نوعِ انسانی کی نجات کا ذریعہ ہیں ، دروغ گوئی کا شبہ قرینِ انصاف نہیں ۔ اس کے علاوہ اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ شاعرِ مشرقؒ کو ایک دفعہ دردِ گردہ کی شدید تکلیف ہو گئی ۔ ڈاکٹروں نے نہ معلوم کس بنا پر کھانے کے بعد ’’ برانڈی کا ایک پیگ‘‘ بطور دوا تجویز کیا لیکن حضرت علامہ نے اس سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا : ’’ قیام یورپ کے دوران بھی جس چیز کو میں نے کبھی منہ نہ لگایا ، اب اس معمولی سی تکلیف کے لیے کیسے استعمال کر سکتا ہوں ، اور میں تو موت سے بچنے کے لیے بھی کسی حرام چیز کا سہارا لینے کا روا دار نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘ اس کے بعد وہ کافی عرصے تک دردِ گردہ کی شدید تکلیف برداشت کرتے رہے ۔ لیکن کبھی بھی ’’ برانڈی کے پیگ ‘‘ کا نسخہ استعمال کرنے کا خیال تک نہ آیا ۔ آخر حکیم نابینا کے علاج سے گردوں کی پتھری پیشاب کے ساتھ تھوڑی تھوڑی کر کے خارج ہو گئی ۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ اگر علامہ اقبال ؒ شراب کے عادی تھے تو بطور علاج استعمال سے انھیں کیوں انکار تھا ۔ حکیم الامتؒ کا دیرینہ خادم علی بخش بیان کرتاہے : ’’ ایک دفعہ ایک سکھ ، علامہ صاحب سے ملنے آیا اور میں نے اسے علامہ صاحب کے پاس پہنچا دیا کیوں کہ ان کے پاس ہر قسم اور ہر مذہب کے لوگ آتے تھے ، کسی کو روک ٹوک نہ تھی۔بیٹھتے ہی اس سکھ نے ایک گلاس مانگا۔ میںنے اس کے ارادے سے نا واقفیت کی بنا پر گلاس لا کر دے دیا ۔ اس سکھ نے ایک دم اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے بوتل نکا لی اور گلاس میں شراب انڈیل کرغٹاغٹ چڑھا گیا۔یہ دیکھ کر علامہ صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور مجھے گرج دار آواز میں ڈانٹا : ’ علی بخش ! تم نے اس کم بخت کو گلاس کیوں دیا اور جب یہ شراب پینے لگا تھا تو اسے منع کیوں نہیں کیا ؟ اب یہ گلاس باہر پھینکو اور اس بدتمیز کر یہاں سے نکال دو ۔ ‘ میں نے خاموشی سے ان کے احکامات پر عمل کیا لیکن باقی سارا دن ان کی طبیعت مکدر رہی اور اس روز ، پہلی دفعہ ، مجھے دو تین بار جھڑکیاں سننی پڑیں ۔ ‘‘ یہ واقعہ اس حقیقت کا بیّن ثبوت ہے کہ خود شراب پینا تو در کنار ، علامہ صاحب کسی دوسرے کو بھی اپنے سامنے پینے کی اجازت نہیں دیتے تھے ، یعنی دوسرے الفاظ میں وہ شراب سے انتہائی درجے کی نفرت کرتے تھے۔علی بخش ان کے پاس انگلستان جانے سے پہلے سے ملازم رہا مگر اس نے انھیں کبھی بھی شراب سے شغل فرماتے نہیں دیکھا ۔ بعض غیر محتاط افراد اپنے آپ کو علامہ اقبالؒ پر متخصص ثابت کرنے کے شوق میں بے سر و پا بیانات اور بے بنیاد واقعات کا سہارا لینے سے بھی نہیں چوکتے اور بغیر سوچے سمجھے سنسنی خیز افواہیں وضع کرنے اور پھیلانے میں پیش پیش رہتے ہیں ۔ کوئی کہتا ہے کہ میں خود حضرت علامہ کو شراب پیش کیا کرتا تھا ، تو دوسرا کہتا ہے کہ میں بازار سے خرید کر لایا کرتا تھا ۔ کئی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انھوں نے شاعرِ مشرقؒ کو شاعری سکھائی تھی ۔ لیکن جب اس قسم کے اصحاب پر دو ایک سوال کیے جاتے ہیں تو علامہ اقبال ؒ سے ان کے قرب کا پول کھل جاتا ہے اور وہ ’آئیں بائیں شائیں ‘ کر کے رہ جاتے ہیں ۔ دراصل ان لوگوں کا مقصد صرف حضرت علامہ کی شہرت سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور خود کو ان کا مصاحبِ خاص ثابت کرنا ہوتاہے ۔ ابھی پچھلے دنوں ایک ایسے ہی ڈاکٹر صاحب سے ، اقبال لائبریری ، سیالکوٹ میں ملاقات ہوئی ۔ لائبریرین صاحب ۲ نے تعارف کرواتے ہوئے میرے متعلق انھیں بتایا کہ یہ آج کل حیاتِ اقبال پر ایک کتاب مرتب کر رہے ہیں ، چنانچہ موضوع ِ سخن حیات اقبال کی طرف مڑ گیا اور مذکورہ بالا ڈاکٹر صاحب اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ کافی عرصہ علامہ اقبالؒ سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں لیکن دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے علامہ صاحب کو کبھی دیکھا تک نہ تھا ۔ دوران گفتگو لائبریرین صاحب نے ان سے پوچھا : ’’ لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبال ؒ شراب پیتے تھے ، آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘ تو انھوں نے بلا سوچے سمجھے جواب دیا ۔ ’’ہاں ہاں ، علامہ اقبالؒ شراب پیتے تھے ، میرے پاس اس کا ثبوت موجود ہے ۔ ‘‘ وہ رعب جمانے کے لیے بات تو کر گئے لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ جھوٹ کا پول فوراً ہی کھل جائے گا ۔ میں بڑی دیر سے خاموشی کے ساتھ ان کی بے سرو پا باتیں سن رہاتھا ، اب میں نے بڑی آہستگی سے انھیں بتایا کہ میرے پاس اس کے حتمی اور قابل یقین ثبوت موجود ہیں کہ حکیم الامتؒ نے کبھی شراب سے شغف نہیں رکھا ۔ اور دریافت کیا کہ کیا آپ اپنے بیان کردہ ثبوت سے آگاہ فرمائیں گے تاکہ اس کی روشنی میں کوئی صحیح فیصلہ کیا جاسکے ؟ لطف کی بات یہ ہے کہ مذکورہ ڈاکٹر صاحب کو میرے متعلق یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت علامہ علیہ الرحمہ سے میرا کوئی رشتہ ہے،لیکن پھر بھی اس سوال پر وہ بغلیں جھانکنے لگے اور جواب میں ایسی بات کہہ ڈالی کہ جس سے ثابت ہو گیا کہ جھوٹ کے پاؤں واقعی نہیں ہوا کرتے ۔ ان کا جواب تھا: ’’ دیکھیے جناب ! اس وقت مجھے کچھ یاد نہیں رہا اور دوسرے آپ کو میری بات کا یقین بھی نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ میرا بیان اس سلسلے میں Authentic تو نہیں ہے ۔ ‘ ‘ غور کا مقام ہے کہ جس ثبوت کی بنیاد پر ڈاکٹر صاحب موصوف لاف زنی فرما رہے تھے وہی انھیں یاد نہ تھا اور ساتھ ہی وہ خود اپنی بات کی ’صحت‘ سے بھی مطمئن نہیں تھے۔ مجھے ان کی اس بوالعجبی پر بڑی ہنسی آئی کہ یہ عجیب قسم کے ’’ڈاکٹر ‘‘ ہیں جو اپنی باتوں تک کی صحت کی پروا نہیں کرتے ، مریضوں کی صحت کا خاک خیال فرماتے ہوں گے ۔ بر سبیلِ تذکرہ یہاں اسی قسم کے افراد کے متعلق ایک لطیفہ بیان کر دینا تفنن طبع کا باعث رہے گا جو علامہ اقبالؒ سے خواہ مخواہ اپنی قربت کا اظہار کرتے ہیں ۔ ابھی پچھلے دنوں میرے والدِ گرامی سے ’ یو پی‘ کے ایک صاحب کی ملاقات ہوئی ۔ باتوں باتوں میں وہ صاحب کہنے لگے کہ مجھے علامہ اقبالؒ کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ جن دنوں علامہ صاحب ’’علی گڑھ یونیورسٹی ‘‘ میں پڑھایا کرتے تھے میں وہاں ان سے درس لیتا رہا ہوں ۔ اب انھیں کون یہ باور کراتا کہ علامہ اقبالؒ نے تو اپنی زندگی میں کبھی علی گڑھ میں درس و تدریس کا کام کیاہی نہیں ۔ اس کے علاوہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ان صاحب کی عمر بمشکل چالیس یا پینتالس برس رہی ہوگی اور علامہ اقبال کو فوت ہوئے ۳۰ برس گزر چکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب حضرت علامہ فوت ہوئے تو صاحبِ موصوف زیادہ سے زیادہ ۱۵ برس کے ہوں گے ۔ اس قسم کے متفنی اصحاب سے اتنا بھی نہیں ہوتاکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم وقت کا ہی تھوڑا حساب کر لیا کریں ۔ آمدم بر سرِ مطلب ، شاعرِ مشرقؒ اپنے ایک خط میں ، جو عطیہ بیگم فیضی کو تحریر کیا گیا ، لکھتے ہیں : ’’ اس لیے اب واحد علاج یہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جاؤں یا پھر شراب نوشی میں پناہ ڈھونڈوں کہ خودکشی کا مرحلہ آسان ہو جائے ۳ ۔‘‘ یہ خط انگلستان سے واپسی کے بعد ۱۹۰۹ء میں لاہورسے لکھا گیااور اس خط سے یہ صاف ظاہر ہوتاہے کہ ۱۹۰۹ء تک علامہ اقبال ہرگز شراب نوش نہ تھے بلکہ شراب نوشی کو خود کشی کے مترادف قرار دیتے تھے ، یہاں یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ قیامِ یورپ کے تین برسوں میں اور بعد میں بھی جب کبھی وہ یورپ گئے ، انھوں نے گوشت بالکل استعمال نہ کیا ، چہ جائے کہ شراب ۔ واپس آ کر وہ اکثر بتایاکرتے تھے کہ وہاں کوئی گوشت مسلمان کے کھانے کے قابل نہیں ہوتا کیونکہ غیر اسلامی طریق سے ذبح شدہ جانوروں اور سؤر کا گوشت ہر جگہ موجود ہوتا ہے ۔ ۴ ان کا یہ عمل حرام چیزوں سے ان کی بے پناہ نفرت کی عیاں دلیل ہے ۔ اس کے علاوہ جب وہ ’’ یورپ گئے تو عام ہندوستانی طلبا کی طرح وہاں کے چار تحائف : خمر و خنزیر و روزنامہ و زن سے مرعوب نہ ہوئے ۔ بر خلاف اس کے ان پر ان کا برعکس اثر پڑا ۵ ‘‘ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ قیام یورپ کے دوران انھوں نے ہر اس چیز سے پرہیز کیا جو اسلام کی رو سے حرام ہے ، تو آخر اپنے ملک میں وہ کیوں ان سے دور نہ رہے ہوں گے ؟ یورپ کے مسموم ماحول میں ، جہاں بڑے بڑے پارساؤں کی پارسائی پانی کا بلبلہ ثابت ہوتی ہے ، علامہ اقبالؒ جب ہر طرح ثابت قدم رہے تو پھر ہندوستان کے بدرجہا بہترماحول میں ان کے مضبوط قدم آخر کس طرح ڈگمگا سکتے تھے ! اقبال اکادمی کراچی کے سہ ماہی مجلے اقبال ریویو کے شمارۂ جنوری ۱۹۶۹ء میں خواجہ عبد الوحید صاحب کا ایک مضمون ’’ میری ذاتی ڈائری میں ذکرِاقبال ‘‘ شائع ہوا ہے ۔ اس میں خواجہ صاحب نے بھی علامہ اقبالؒ پر شراب نوشی کے الزام کی اس طرح نفی فرمائی ہے : ’’ میں نے حضرت علامہ کو شروع سے لے کر ان کی وفات تک (تقریباً تیس برس ) حقہّ پیتے دیکھا اور کبھی یہ نہیں سنا کہ انھوں نے اس تمام زمانے میں شراب کو ہاتھ لگایا ہو ۶ ۔ ‘‘ خواجہ عبدالوحید صاحب کے مندرجہ بالا بیان کے مطابق انہیں تقریباً تیس برس حضرت علامہ کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ، یعنی وہ علامہ صاحب کو ۱۹۰۸ء میں ۷ انگلستان سے واپسی کے فوراً بعد سے جانتے ہیں ۔ ۱۹۰۸ء میں علامہ صاحب کی عمر ۳۴ ، ۳۵ برس۸ تھی ۔ اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ علامہ علیہ الرحمہ عالمِ شباب میں بھی شراب نوشی سے محفوظ تھے ۔ خواجہ عبدالوحید صاحب کا بیان میری تحقیق کی تائید کرتا ہے کہ علامہ صاحب نے اپنی زندگی میں کبھی شراب سے شغف نہیں رکھا ۔ در حقیقت حضرت علامہ اقبالؒ پر شراب نوشی کا بہتان چپکانے کی کوشش صرف اس مفروضے کا جواز پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہے کہ شراب نوشی کے بغیر شاعری نا ممکن ہے ، حالانکہ یہ تصور حقیقت کے سراسر منافی ہے ۔ اگر ہم اپنے ماضی کے شعرا پر نظر ڈالیں تو ان میں کئی ایسے بلند پایہ شعرائے کرام موجود تھے جنھوں نے کبھی شراب سے شغف نہ رکھا ۔ اس کے علاوہ موجودہ دور میں بھی بیشتر شعرا مطلقاً شراب استعمال نہیں کرتے ۔اس لیے شاعرِ مشرقؒ جیسے عظیم انسان اور بلند مرتبہ شاعر پر شراب نوشی کا الزام اور ا ن کی اعلیٰ و ارفع شاعری کو ( جس کے متعلق جسٹس ایم آر کیانی مرحوم فرمایا کرتے تھے : ’’ اقبال کی شاعری قرآن کی آیات سے مملو ہے ، پڑھنے والوں کے علاوہ سننے والوں کو بھی با وضو ہونا چاہیے ۹ ‘‘ ) مرہونِ شراب نوشی قرار دینا علامہ اقبال ؒ کی کھلی توہین اور ان پر بہتان عظیم ہی نہیں بلکہ ان کی شاعری کی تذلیل اور آیاتِ قرآنی کی بے حرمتی کے مترادف ہے ۔ شاعر مشرق خود فرماتے ہیں : کامل وہی ہے رندی کے فن میں مستی ہے جس کی بے منتِ تاک حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ پر سب سے زیادہ شر انگیز اور بے سر و پا الزام یہ لگایا جاتاہے کہ ایامِ جوانی میں وہ ایک طوائف کے قتل کے مرتکب ہوئے تھے ۔ پیشتر اس کے کہ اس بے بنیاد کہانی کی تردید میں کچھ کہا جائے ، ہمیں ایک دفعہ پھر اس ماحول کا جائزہ لینا ہوگا جس کا تفصیلی ذکر گزشتہ صفحات میں آ چکا ہے ؛ علامہ اقبالؒ کو گھر اور مدرسے میں والدین اور استادوں کی شکل میں بہترین اور پر ہیز گار انسانوں سے تربیت ملی اور ان بزرگوں نے یقینا انھیں نیکی و بدی کا فرق واضح طور پر ذہن نشین کرایا ۔ اس قدر پاکیزہ ماحول اور تربیت میں پروان چڑھنے والا ذہن کبھی اتنا پراگندہ نہیں ہو سکتا کہ وہ قتل جیسے فعل کا مرتکب ہو ۔ دوسرے اپنے والدِ گرامی کی زندگی میں اگر حضرت علامہ سے اس قسم کا شدید جرم سرزد ہوا تو یہ کبھی باور نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے والدِ محترم نے، جو بڑے با شرع اور سچے مسلمان تھے ، انھیں معاف فرما دیاہو گا ۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ علامہ اقبالؒ سے ایسی غلطی سرزد ہو گئی تھی تو کیا تمام زندگی اقبالؒ جیسے حسّاس انسان کو ان کے ضمیر نے کبھی ملامت نہ کی ؟ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کتنا بھی چھپانے کی کوشش کی جائے ، خون کبھی چھپا نہیں رہتا اور ضمیر کی خلش انسان کو اس کے اظہار اور اقرار پر مجبور کردیتی ہے ۔ لیکن علامہ اقبالؒ نے اپنی ساری زندگی میں کبھی اس قسم کا کوئی اقرار یا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی ان کی زندگی میں ایسی بات کبھی سننے میں آئی ، بلکہ ان کی وفات کے بعد یہ من گھڑت قصہ مشہور کرنے کی جسارت کی گئی ۔ جہاں تک افرادِ خاندان کا تعلق ہے ، کبھی کسی نے اس واقعے کی طرف اشارہ نہیں کیا ۔ اگر کبھی ایسی بات ہوئی ہوتی تو ضرور کسی نہ کسی کی زبان سے نکل جاتی ۔ اس کے علاوہ خاندان کے ان افراد نے بھی ، جو علامہ اقبالؒ کے انتہائی مخالف اور برملا دشمن شمار ہوتے تھے ، کبھی اس واقعے کا ذکر نہیں کیا ۔ میں نے خود ان میں سے کئی ایک افراد سے دریافت کیا ہے لیکن ہر کسی نے اس کی تردید ہی کی ۔ اس کے علاوہ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ واقعہ سیالکوٹ کا بتاتے ہیں اور کچھ اسے لاہور کی واردات قرار دیتے ہیں ۔ چنانچہ یہ بھی اس کے بے بنیاد ہونے کا بیّن ثبوت ہے کہ ابھی تک اس کی جائے وقوع کا تعین بھی نہیں ہوسکا ۔ اس سلسلے میں علامہؒ کے ایک ہم مکتب پروفیسر محمد دین بھٹی صاحب سے ( جو اس وقت بعُمر ۸۸ برس بقید حیات اور بقائمی حوش و ہواس ہیں ) میں نے جب استفسار کیا تو انھوں نے بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : ’’ میں نے اپنی جوانی میں کوئی ایسا واقعہ علامہ مرحوم و مغفور کی ذات سے منسوب نہیں سنا لیکن آج جب اس قسم کی باتیں سنتا ہوں تو ان لوگوں کی ذہنی پستی اور احسان فراموشی پر رونا آتا ہے۔ یہ میری انتہائی بدقسمتی ہے کہ ایسے من گھڑت اور دل خراش الزامات سننے کے لیے زندہ ہوں۔ ‘‘ دراصل اس قبیل کے بے سر و پا الزامات تراشنے اور مشہور کرنے میں ایک مخصوص ’’فرقے‘‘ کے افراد کا ہاتھ کار فرما ہے اور وہ محض اس بنا پر اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی اس ’’ بین الاقوامی ‘‘ تذلیل کا بدلہ چکا سکیں جو حضرتِ علامہ کے ہاتھوں انھیں اٹھانی پڑی تھی ۔ سب سے زیادہ افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ ’’ شہرِ اقبال ؒ ‘‘کے بیشتر باشندے ، جو سیالکوٹ سے باہر خود کو ’’شہر اقبال ‘‘کا باسی ظاہر کرنا باعثِ فخر خیال کرتے ہیں اور اقبالؒ کے نام سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں ، وہ بھی اس مذموم پراپیگنڈے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ میرے خیال میں حضرت علامہ اقبالؒ کے مخالفین اور بدخواہ جس قدر سیالکوٹ میں پائے جاتے ہیں ، شاید ہی کسی دوسری جگہ ہوں ۔ اس تمام مخالفت کے پسِ پردہ حسد کا جذبہ کروٹیں لیتا ہوا صاف نظر آتا ہے یہ لوگ اپنی پیشانیوں پر ’’ اہالیانِ شہر اقبال ‘‘ کا لیبل تو ضرور چپکا لیتے ہیں لیکن تعصب کا زہر اپنے دلوں کے نہاں خانوں میں محفوظ رکھتے ہیں اور اسے اگلنے کا کوئی موقع ضائع کرنا گناہ سمجھتے ہیں ۔ ان کو چاہیے کہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا کریں اور اپنے اپنے دل کے چور کو پہچانیں ۔ اس خصلت اور ذہنیت کے افراد شہرِ اقبال کے ان اصحاب کے لیے ، جو شیدائیانِ اقبالؒ میں شمار ہوتے ہیں ، ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا محاسبہ بے حد ضروری ہے ۔ ذکرِ اقبال میں مولانا سالک نے حضرت علامہ اقبالؒ پر ’’ رنگ رلیاں ‘‘ منانے کا جو الزام لگایاہے ، پیشتر اس کے کہ حقائق کی روشنی میں اسے پرکھا جائے ، بہتر ہوگا کہ اگر مولانا سالک کی مجہول نویسی کے ایک شاہکار کو پیشِ نظر رکھا جائے ۔ سالک اپنی متذکرہ بالا کتاب میں علامہ اقبالؒ کے بچپن میں بٹیر۹ پالنے کے شوق کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : ’’ مولانا میر حسن بھی ( انھیں ) منع نہ کرتے تھے بلکہ ایک دفعہ مولانا نے دیکھا کہ اقبال سبق پڑھ رہے ہیں اور ایک ہاتھ میں بٹیر تھام رکھی ہے ۔ آپ نے فرمایا : ’ کم بخت ! اس میں تجھے کیا مزا ملتاہے ؟ َ‘ تو اقبال نے برجستہ جواب دیا کہ حضرت ! ذرا اسے پکڑ کر دیکھیے ۱۰۔ ‘‘ ایک معمولی عقل و فہم کا ملک بھی سالک صاحب کی اس ’تحریر‘ پر سوائے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا ۔ مقامِ غور ہے کہ موجودہ زمانے میں ، جب کہ استاد کا رعب اور وقار تقریباً ختم ہو چکا ہے ، اگر ایک طالب علم بٹیر پکڑ ے بیٹھا سبق پڑھ رہا ہو اور استاد کے پوچھنے پر مندرجہ بالا جواب دے تو استاد اگر اس کی مرمت نہیں کرے گا تو کم از کم اس کے والدین تک شکایت ضرور پہنچائے گا ۔ اب ذرا اس دور کو تصور میں لائیے جب استاد کے دبدبے اور رعب سے طالب علم تو کجا والدین تک کانپتے تھے ۔ اقبالؒ بٹیر لیے بیٹھے ہیں اور استاد کے پوچھنے پر استاد کو بھی بٹیر پکڑنے کا مشورہ دیتے ہیں اور طُرفہ یہ کہ استاد انھیں کچھ بھی نہیں کہتے ۔ علامہ اقبالؒ اپنے استادوں ، خاص طور پر مولانا میر حسن صاحب کا جس قدر ادب و احترام کرتے تھے اس کے متعلق متعدد کتابوں میں ذکر آیا ہے ایک دفعہ کسی نے شاعر مشرقؒ سے پوچھا تھاکہ کبھی مولوی صاحب (مولانا میر حسن صاحب) کو اپنے اشعار بھی سنائے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ مجھے کبھی جرأت نہیں ہوئی ۔ اس کے علاوہ علامہ اقبالؒ کے ہم مکتب پروفیسر محمد دین بھٹی صاحب، جنھیں مولانا میر حسن مرحوم کا شاگرد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت علامہ جیسا مؤدب شاگرد انھوں نے آج تک نہ دیکھا اور نہ سنا ۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ شاگردی کے زمانے میں شاہ صاحب قبلہ (مولانا میر حسن) کے سامنے با ادب بیٹھ کر سبق حاصل کرنا علامہ صاحب پر ختم تھا ۔ بھٹی صاحب فرماتے ہیںکہ ’’ علامہ اقبالؒ بامِ عروج پر پہنچنے کے بعد بھی جب کبھی شاہ صاحب سے ملاقات کے لیے آتے تو دو زانو ہو کر بڑے با ادب ان کی خدمت میں بیٹھتے اور انتہائی توجہ کے ساتھ ان کی نصیحتیں سنتے ۔ اگرشاہ صاحب کوئی سوال کرتے تو اس کا مختصر ترین جواب دے کر شاہ صاحب کو گفتگو کا زیادہ موقع دیتے ۔ ‘‘ ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اپنے استادِ مکرم کا انتہائی ادب کرتے تھے ۔ چنانچہ ان کے سامنے بٹیر لے کر بیٹھنا اور پھر ان کو بھی بٹیر پکڑنے کی دعوت دینا نا ممکن ہے ۔ مولانا سالک کے علاوہ اقبال باکمال میں عظیم فیروز آبادی نے اپنے ایک مضمون ’’اقبال کی حیاتِ معاشقہ ‘‘ میں علامہ اقبالؒ پر مس ویجی نائٹ ۱۱ ۔ مس شنی شیل ۱۲ اور عطیہ بیگم جیسی باذوق اور عالم خواتین سے معاشقوں کا مذموم الزام عائد کیاہے ۔ عظیم فیروز آبادی کی مفروضہ نگاری کا پول صرف اس معمولی سی بات سے کھل جاتا ہے کہ بقول ان کے علامہ اقبالؒ کی بیگم صاحبہ (والدۂ جاوید ) ’’ وکٹوریہ گرلز کالج ‘‘ کی طالبہ تھیں ۱۳ ، حالانکہ وہ کالج تو کیا سکول۱۴ کی تعلیم یافتہ بھی نہیں تھیں ۔ والدۂ جاوید گھر پر صرف قرآن مجید اور معمولی اردو پڑھی ہوئی تھیں اور صحیح طرح لکھ بھی نہیں سکتی تھیں ۔ شادی کے بعد انھوں نے معمولی اردو لکھنا سیکھا ۔ اگر ایک مضمون نگار اپنی مرضی سے بیگم اقبالؒ کو کالج کی طالبہ بنا سکتا ہے تو اس قسم کے ’’ زرخیز ‘‘ ذہن سے ہر قسم کی ’’ ایجادات ‘‘ کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ یہاں اگر عطیہ بیگم اور علامہ اقبال ؒ کے مابین تعلقات پر ایک نظر ڈالی جائے تو بہترہوگا ؛ عام طور پر عطیہ کے نام اقبالؒ کے خطوط کو بنیاد بنا کر عجیب و غریب اور مضحکہ خیز مفروضے تشکیل کیے جاتے ہیں ، لیکن اقبال از عطیہ بیگم میں شامل علامہ اقبالؒ کے تمام خطوط کا اگر بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے تو ان میں کہیں عشق و محبت کی ہلکی سی جھلک بھی نظر نہیں آتی ۔ دو ایک خطوط کے سوا تما م خط عطیہ بیگم کے خطوں کے جواب میں تحریر کیے گئے ہیں اور یہ تمام خطوط سیدھی سادی باتوں اورکہیں کہیں علمی موشگافیوں کے مظہر ہیں ۔ عظیم فیروز آبادی اپنے متذکرہ مضمون میں اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ’’ اقبال کے عطیہ بیگم کے نام خطوط ’ Love Letters‘ کا اچھا نمونہ نہیں ہیں ، بلکہ محض رسمی اور خشک باتیں ہیں اور نہ ہی ان میں ان کی والہانہ شیفتگی کا پتا چلتا ہے۔ ۱۳‘‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اعتراض اٹھانا کہ ’’تاہم یہ جاننے کو ضرور جی چاہتا ہے کہ … عطیہ بیگم کی کن خواہشات کا احترام اقبالؒ نے نہیں کیا اور اگر اس خلا کو قیاس سے پُر کیا جائے تو سب کھیل ہی کھیل نظرآئے گا ۱۴ ‘‘ انتہائی درجے کی کور ذوقی اور بدنیتی کی زندہ مثال ہے اور اس قیاس آرائی کے پس منظرمیں متعصب ذہن کار فرما نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں ایک صاحبِ فہم کی مندرجہ ذیل رائے بہت اچھی روشنی ڈالتی ہے : ’’ دوسرے ممالک کی طرح ہمارے ملک کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت بھی غالباً یہ خیال کرتی ہے کہ جذبۂ محبت دراصل جنسی جذبے ہی کی ایک بدلی ہوئی صورت ہے ۔ یہ نظریہ ماہر نفسیات ’سگمنڈ فرائڈ ‘ نے آج سے چالیس برس ادُھر پیش کیا تھا ، بظاہر بہت صحیح معلوم ہوتاہے لیکن یہ جس قدر مقبول ہے ، حقیقت میں اسی قدر غلط ہے‘‘ ۱۵ اقبال از عطیہ بیگم سے علامہ اقبالؒ کے اخلاق پر کسی قسم کاکوئی دھبہ ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی عطیہ بیگم نے ان پر کوئی الزام عائد کیا ہے ، البتہ چند ایک مقامات پر عطیہ کے ریمارکس یہ چغلی ضرور کھاتے ہیں کہ وہ (عطیہ بیگم ) علامہ اقبالؒ کے ساتھ شادی کی خواہش مند تھیں مگر شاعرِ مشرقؒ نے کبھی اس کا نوٹس نہ لیا ۔ حکیم الامتؒ کے اس خط سے ، جس میں عطیہ کی ان خواہشات کا ذکر ہے جن کا احترام نہ ہو سکا ، عظیم فیروز آبادی جیسے اصحاب کا غلط قیاس آرائیوں کی طرف جانا ناقابل فہم ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبالؒ ، عطیہ بیگم کو ایک علمی دوست کی حیثیت سے تو پسند کر سکتے تھے لیکن بیوی کے روپ میں وہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھیں کیونکہ وہ جس قسم کی بیوی کے خواہش مند تھے وہ عطیہ بیگم سے مختلف تھی ۔ عطیہ بیگم نے خود اور نواب صاحب آف جنجیرہ ۱۶ نے علامہ اقبالؒ کو یورپ سے واپسی کے فوراً بعد جنجیرہ ‘ آنے کی متعدد دعوتیں دیں لیکن انھوں نے ہر بار مصروفیت کا عذر کر دیا ۔ آخر کیوں ؟ صاف ظاہر ہے کہ اقبالؒ ، عطیہ کی دیرینہ خواہش (شادی ) کو پورا کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ شاعر مشرقؒ نے ستمبر ۱۹۳۱ء میں عطیہ بیگم کی شادی کے کافی عرصے بعد اس کی دعوت کو شرفِ قبولیت بخشا اور بمبئی میں اس کے ہاں چند روز کے لیے قیام فرمایا ۔ علامہ اقبالؒ اگر چاہتے تو عطیہ بیگم یا کسی دوسری اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کے ساتھ شادی میں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی لیکن چونکہ وہ اعلیٰ تعلیم اور آزادی نسواں کے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے اور ان کی چشم بینا اس کی قباحتوں کو بخوبی پہچانتی تھی اس لیے انھوں نے معمولی تعلیم یافتہ بیگمات کو ترجیح دی ۱۷ اور وہ تمام زندگی ان سے ہر طرح مطمئن رہے ۔ والدۂ جاوید سے شادی کے بعد انھوں نے ایک دوست کو بتایاتھا کہ ان کی شادی کیا ہوئی ہے ،گویا جنت الفردوس مل گئی ہے ۔ حکیم الامت چونکہ ایک اعلیٰ سیرت ، نیک چلن اور پاک طینت بیوی کے خواہش مند تھے اس لیے گھریلو قسم کی خاتون سے شادی پر اظہارِ آسودگی فرمایا ۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ علامہ اقبالؒ کبھی بھی ’’ آزاد پریوں ‘‘کی عشوہ طرازیوں کے دل دادہ نہیں رہے اور نہ ہی وہ ان ’’ پری وشوں ‘‘کی کمزوری سے لذت گیر ہونے کے قائل تھے ۔ عطیہ بیگم ، ویجی نائٹ اور شنی شیل جیسی عالم خواتین سے علمی و ادبی استفادے ضرور ہوتے رہے لیکن ان ملاقاتوں سے اقبال کی حیات ِ معاشقہ کا مفروضہ تشکیل دینا نا مناسب ہی نہیں ، نا واجب بھی ہے ،۔ اس سلسلے میں حضرت علامہ کے ایک قریبی دوست ڈاکٹر تاثیر مرحوم کا قول کافی ہے کہ ’’ وہ ( علامہ اقبال ؒ ) اچھی شکل کو اچھی شکل ضرور کہتے تھے لیکن عاشقی کے گنہ گار کبھی نہ ہوئے ۱۸ ۔ ‘‘ اسی طرح مولانا عبدالسلام ندوی ’’ علامہ اقبال ؒ کا اخلاق و عادات ‘‘ کے زیرِ عنوان رقم طراز ہیں : ’’ ڈاکٹر صاحب کی شاعری ، فلسفے اور سیاسی نظریات پر بہ کثرت اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ صوفیوں کا ایک گروہ ، جو مستقل طور پر ان کا مخالف تھا ، وہ اخلاقی اور مذہبی حیثیت سے ان پر سخت سے سخت اعتراض کر سکتاتھا لیکن ہم نے ڈاکٹر صاحب پر جو مضامین دیکھے ہیں ، ان میں کوئی مضمون ہماری نظر سے ایسا نہیں گزرا جس میں ڈاکٹر صاحب کے اخلاق و عادات پر اعتراض کیے گئے ہوں ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اخلاقی حیثیت سے ان کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں تھا ۔ ۱۹ ‘‘ اس سلسلے میں پروفیسر جی ۔ سی چیٹر جی آئی ۔ ای ۔ ایس ۔ صدر شعبۂ فلسفہ ، گورنمنٹ کالج لاہور کے مضمون ’’ ایک عظیم الشان شخصیت ‘‘ کا مندرجہ ذیل اقتباس بھی قابلِ غور ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ میں ان کی غیر معمولی سادگی سے متاثر ہوا ۔ میں نے سن رکھا تھا کہ اقبال عیش و عشرت کے دل دادہ ہیں لیکن میں نے ان کے ارد گرد کبھی تن آسانی ، عیش پرستی اور نفس پروری کا کوئی سامان نہیں دیکھا ۔ ان کو ہمیشہ سادہ ترین لباس میں فرش پر بیٹھے ہوئے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف یا کسی ہم فکر کے ساتھ گہری حکیمانہ بحث میں مشغول پاتا تھا ، دوسری بات جو میں نے ان کے متعلق محسوس کی ، یہ تھی کہ ایک ایسے وقت میں ، جبکہ ہماری اجتماعی زندگی مکر و فریب اور خود غرضی کا شکار ہو رہی تھی ، اقبال ذاتی مفاد سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور ان کی آرزوؤں اور خواہشوں کا واحد مرکزتمدّن اور روحانیت کی دنیا رہی ۔۲۰ ‘‘ پروفیسر چیٹر جی کا یہ اظہار خیال علامہ اقبالؒ پر ’رنگ رلیوں ‘ اور ’ شراب نوشی‘ جیسے مذموم الزامات عائد کرنے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ فراہم کرتا ہے ۔ یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ جب شاعر مشرقؒ کو ۱۹۲۳ء میں ’ سر ‘ کا خطاب دیا گیا تو بعض ہندو اور مسلم آزادی پسند حلقوں میں پنجاب تا بنگال ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ۔ اخبارات اور رسائل میں ان کے خلاف مضامین اور اشعار کی بھرمار ہوئی ۔ ان کی وطن دوستی اور عشقِ ملّی تک پر شک و شبہ کا اظہار کیا گیا لیکن کسی کو ان کے اخلاق کو ہدف تنقیدبنانے کی جرأت نہ ہوئی ۔ اگرعلامہ صاحب میں معمولی سی بھی اخلاقی گراوٹ ہوتی تو مخالفین کے لیے اسے منظرِ عام پر لانے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی ۔ البتہ یہ ’’سعادت ‘‘ علامہ صاحب کی وفات کے کافی عرصے بعد ان کے ایک احسان فراموش خوشہ چین کے حصے میں آئی جس نے محض جلبِ منفعت کی خاطر یا کسی کے اشارے پر ’’رنگ رلیوں ‘‘ کی تہمت تراشی ۔ ذیل میں ، میں اپنی والدہ محترمہ کی روایت سے ایک گھریلو واقعہ قلم بند کر رہا ہوں جو حضرت علامہ کی پاکیزہ مزاجی ، بلند اخلاق اور اعلیٰ کردار کی نشاندہی کرتا ہے ؛ وہ اس طرح بیان فرماتی ہیں : ’’ یہ ۱۹۱۵ء کا ذکر ہے ۔ ہمارے ایک پھوپھی زاد بھائی ۲۱ چچا جان (علامہ صاحب ) کے پاس لاہور میں رہتے تھے ۔ موسمِ گرما کی تعطیلات میں حسبِ معمول چچا جا ن اہل خانہ کے ہمراہ سیالکوٹ تشریف لے آئے اور لاہور والے مکان پر ان کے بھانجے اکیلے رہ گئے ۔ انھی دنوں ہمارے ان پھوپھی زاد بھائی کو بازارِ حسن جانے کا چسکا پڑا اور وہاں کی ایک طوائف ۲۲ کی التجاؤں سے متاثر ہو کر اسے گناہ آلود زندگی سے نجات دلائی اور گھر لا کر نکاح پڑھوا لیا۔ اس عورت کے لواحقین نے بڑا طوفان اٹھایا اور آخر معاملہ پولیس تک پہنچا لیکن عورت کے بیان سے فیصلہ ہمارے پھوپھی زاد بھائی کے حق میں ہوا ۔ تعطیلات کے اختتام پر چچا جان جب واپس لاہور پہنچے تو گھر پر ایک اجنبی عورت کو دیکھ کر بہت حیران ہوئے ۔ اپنے بھانجے سے دریافت کیا تو انھوں نے تمام واقعہ بتا دیا ، مگر چچا جان کو تاب کہاں ! بہت برہم ہوئے اور اسی وقت ہمارے پھوپھی زاد کو ان کی بیوی سمیت گھر سے چلے جانے کا حکم سنا دیا اور پھر تما م زندگی ان کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہ ہوئے ۔ ‘‘ انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو ایک مجبور و مظلوم عورت کو گناہ آلود زندگی سے نجات دلانا ایک مستحسن فعل تھا لیکن علامہ اقبالؒ جیسے اصول پرست اور پاکیزہ مزاج انسان یہ برداشت نہ کر سکے کہ ان کے خاندان کا ایک فرد بازارِ حسن کا رخ کرے ۔ عظیم فیروز آبادی اپنے اسی مضمون میں ’’ زہد و رندی ‘‘ کے مندرجات اور ’’ بے داغ ہے مانند سحر اس کی جوانی ‘‘ کے متعلق یوں خیال آرائی فرماتے ہیں : ’’ اس کو اقبال کی کمزوری کہیے یا جرأت رندانہ کی کمی کہ انھوں نے اپنی ان خطاؤں کو داد طلب سمجھنے کی جگہ ان کی ایسی تاویل کی جس کے تسلیم کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ ۲۳ ‘‘ عظیم صاحب کے اس ’’ارشاد ‘‘ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تنقید برائے تنقید کے قائل اور واضح سے واضح بات پر بھی اعتراض کرنے کے عادی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں وہ تعمیری تنقید کی بجائے تخریبی تنقید کے علمبردار ہیں ۔ ترجمان حقیقت پر جھوٹ کا بہتان لگانا کم علمی کی دلیل ہے کیونکہ حضرت علامہ کی طالب علمی کے زمانے کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک ’’ مو لانا ‘‘ ، جو عالم دین ہونے کے دعوے دار بھی تھے ، دروغ گوئی کے مرتکب ہوئے تو علامہ اقبالؒ بڑے بد دل ہوئے اور کئی روز تک بے کیف اور بے چین رہے ۲۴ ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خود جھوٹ بولنا تو در کنار ، دوسرے کی زبانی سننا تک انھیں گوارا نہیں تھا ۔ اس سلسلے میں عظیم صاحب جیسے بے پر کی اڑانے والوں کے لیے مولانا عبد السلام ندوی کا مندرجہ ذیل قول کافی ہے : ’’ یہ ڈاکٹر صاحب کی بے ریائی اور نیک نفسی ہے کہ انھوں نے اپنے ان اخلاق کو بھی بہ تصریح بیان کردیا ہے جو قابلِ اعتراض سمجھے جاتے ہیں ۲۵ ۔ ‘‘ شاعرِ مشرقؒ کی ان نظموں اور غزلوں کو ، جو قیام یورپ کے دوران کہی گئیں ، بنیاد بنا کر ان پر عشق بازی کی تہمت تراشنا زیادتی ہے کیونکہ اقبالؒ جس اعلیٰ پایے کے حقیقت نگار سخن ور تھے ان کی روح اسی اعلیٰ درجے کی حساس حسن شناس بھی تھی ، وہ خود فرماتے ہیں : جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حسن بے پایاں ہے ، دردِ لا دوا رکھتاہوں میں اس لیے اگر انھوں نے کسی مقام پر کسی کے حسن دل آویز کی سحرکاریوں کے لطیف تاثر کو نشاط انگیز لہجے اور حسین پیرائے میں بیان کیاہے تو اس سے یہ خیال آرائی کرنا کہ وہ بقول سالک ’’رنگ رلیوں ‘‘ میں مشغول رہا کرتے تھے اور بقول عظیم فیروز آبادی عشق و محبت کے کھیل کھیلا کرتے تھے ، حد درجہ افسوس ناک ہے ۔ جو ’’ حضرات ‘‘ علامہ اقبال ؒ کی مذکورہ بالا نظموں کی من مانی تشریحات کر کے اقبالؒ کو عشقِ مجازی میں گرفتار ہی نہیں ’’ ہر جائی ‘‘ تک ثابت کرنے کے درپے رہتے ہیں ان کے لیے ایک فاضل نقاد کی مندرجہ ذیل رائے لمحۂ فکریہ فراہم کرتی ہے : ’’ انھیں (علامہ اقبالؒ )انسان کا عشق ہو ہی نہیں سکتا ۔ ان کا عشق یا خدا سے تھا یا پیغمبر سے ۲۶ ۔ ‘‘ یہ مانا کہ شاعرِ مشرق کی شاعری میں عشق کا ذکر بہت ہے لیکن ہر عشق کو ایک ہی ترازو میں تولنا اور ایک ہی کسوٹی پر پرکھنا قرین انصاف نہیں ۔ اقبالَ کے عشق حقیقی پر عشقِ مجازی کی تہمت لگانا اور یہ کہنا کہ عشقِ مجازی کے بغیر شاعری ممکن ہی نہیں ’’ کنویں کے مینڈک ‘‘ والی بات ہے ۔ اگر ماضی بعید میں ہمارے بیشتر شعراء عشق مجازی میں گرفتار رہے اور مجازی محبوبوں کے عارض و گیسو سے فرصت حاصل نہ کرسکے تو یہ ضروری نہیں کہ اقبالؒ اور ان کے بعد آنے والے شعراء بھی اسی فرسودہ لکیر کو پیٹتے رہیں ۔ اقبال نے عشق کو ایک نیا اور وسیع میدان عطا کیا اور فنا کے چکر سے نکال کر ابدیت کے مقامِ بلند پر پہنچایا ۔ یہ اقبالؒ ہی تھے جنھوں نے عشق کو مجاز کی پُرپیچ اور ناہموار پگڈنڈیوں سے نجات دلائی اور حقیقت کی صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا ۔ اس سلسلے میں خلیفہ عبدالحکیم فرماتے ہیں : ’’ اقبال عشقِ مجازی کا شاعر نہ تھا لیکن محض مشقِ سخن کے طور پر مصنوعی عاشقی کی کچھ غزلیں اقبال نے کہیں ۲۷ ۔‘‘ خلیفہ عبدالحکیم مزید رقم طراز ہیں : ’’ اقبال کا عشق حیات و کائنات کی ایک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے ۔ یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے ، جو افراد و اشیاء سب پر پھیلا ہوا ہے لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمع نظر نہیں ، اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد وہ تمام نوع انسانی پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے ، آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہوجاتی ہے ۲۸‘‘ کلامِ اقبال کے ایک نقاد آسی ضیائی صاحب ۲۹ کے دو لطیفے یہاں بیان کر دینا تفنن طبع کا باعث ہوں گے لیکن ان پر صرف ہنس دینا ہی کافی نہیں بلکہ ان پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ آپ کو اس کا احساس ہو سکے کہ حکیم الامت ؒ کی نیک نامی کے خلاف کس منصوبہ بندی کے تحت کام ہو رہا ہے۔ آسی ضیائی صاحب اپنی کتاب کلامِ اقبال کابے لاگ تجزیہمیں علامہ اقبالؒ کو ’’بوالہوس ‘‘ ثابت کرنے کے لیے ان کی تین شادیوں پر اعتراض کرتے ہوئے ’’ ارشاد ‘‘ فرماتے ہیں : ’’ آخر اقبال نے کیوں یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں او ر وہ بھی اس طرح کہ تینوں بیویاں بیک وقت موجود تھیں ۳۰ ؟ ‘‘آسی صاحب کی اس ’’ عظیم الشان ‘‘ کم علمی پر کسی قسم کے تبصرے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اس حقیقت کو دہرا دینا ہی کافی ہوگا کہ اسلام میں بیک وقت چار بیویوں کی اجازت موجود ہے ۔ آسی صاحب اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں اور ان کی اس سنسنی خیز اور چونکا دینے والی دریافت کی جس قدر بھی ’’داد ‘‘ دی جائے ، کم ہو گی ؛ وہ فرماتے ہیں کہ چونکہ کلام اقبال میں ’’ خورشید ‘‘ کا ذکر بار بار آتا ہے اس لیے علامہ اقبالؒ کی کوئی محبوبہ خورشید نامی ضرور رہی ہوگی ۳۱ ۔ میری ناقص رائے میں کلامِ اقبالؒ کے ’’ بے لاگ ‘‘ نقادوں کے لیے یہ بڑا سنہری موقع ہے ۔ انھیں چاہیے کہ وہ فوراً اس سلسلے میں ریسرچ کا آغاز فرمائیں کہ کلامِ اقبالؒ میں ’’ لالہ ‘‘ اور ’’ شاہین ‘‘ کا ذکر چونکہ بہت زیادہ ہے اس لیے کہیں علامہ اقبالؒ کے لاشعور کی کسی کھونٹی سے ان کی محبوبائیں ’’ لالہ رخ ‘‘ اور ’’ شاہینہ بیگم ‘‘ نہ لٹک رہی ہوں ۔ آسی ضیائی اور ان جیسے دوسرے حضرات کی ذہنی سطح پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے : رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید ضمیرِ پاک و خیال بلند و ذوقِ لطیف (اقبالؒ ) میں اس موضوع کو والدِ محترم جناب نظیر احمد صاحب صوفی کی ایک خیال افروز غزل پر ختم کرتا ہوں ۔ یہ غزل نہ صرف تکملۂ مضمون ہے بلکہ اس میں بیان کردہ حقیقتوں کے بعد مزید بحث و تمحیص کی گنجائش باقی نہیں رہتی : آدم بزورِ عشق حقیقت شناس شد در جستجو چو تارکِ وہم و قیاس شد سالک کسے بود کہ طلب گارِ حق شود در حیرتم کہ ’سالکے ‘ ناحق شناس شد شانِ عبودیت کہ از ادراک بر گزشت بر عبدہُ چو وسعت افلاک طاس شد حیراں دلم بہ ظلمتِ ظلمات زندگی جانم مگر ز شوقِ نظر بے ہراس شد حق ناشناس صوفیا گردد چو آں بدے ہر کہ بزعمِ علم و خرد بدحواس شد ٭٭٭ حواشی ۱۔ لیکن ان کے اخلاق کو کبھی ہدفِ تنقید بنانے کی کسی کو بھی جرأت نہیں ہوئی ۔ (مصنف) ۲۔ جناب ریاست علی چودھری ۔لائبریرین ، اقبال لائبریری، سیالکوٹ۔ ۳۔ اقبال از عطیہ بیگم ، صفحہ ۳۷ ۔ ۴۔ روایت ہمشیرہ اقبالؒ محترمہ کریم بی بی صاحبہ۔ ۵۔ اقبال کی پیش گوئیاں از ڈاکٹر ہاشمی صفحہ ۱۱۸ ۔ ۶۔ اقبال ریویو جنوری ۱۹۶۹ء ، صفحہ ۴۷ ۔ ۷۔ اقبال ریویو جنوری ۱۹۶۹ء ، صفحہ ۴۵ ۔ ۸ ۔ علامہ اقبالؒ ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے اور انھوںنے ۶۴ برس عمر پائی ۔ ۹۔ اوّل تو یہ بات ہی غلط ہے کہ حضرت علامہ اقبال ؒ کو کبھی بٹیر پالنے کا شوق تھا ، البتہ انھیں کبوتروں کا شوق ضرور تھا اور ان کے اس شوق سے سب آگاہ ہیں ۔ (مصنف) ۱۱۔۱۲۔ یہ دونوں خواتین قیامِ یورپ میں علامہ اقبالؒ کی استاد تھیں ۔ ۱۳۔ اقبال باکمال صفحہ ۱۰۴۔ ۱۴۔ اقبال باکمال صفحہ ۱۰۴۔ ۱۵۔ حیات اقبال کا ایک جذباتی دور صفحہ ۹۵ ، ۹۶ ۔ ۱۶۔ یہ عطیہ بیگم کے بہنوئی تھے ۔ ۱۷۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے ، لوگ مشہور کرتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے اس لیے مزید دو شادیاں کیں کیوں کہ وہ زیادہ پڑ ھ جانے کی وجہ سے اپنی پہلی بیوی (جو کم تعلیم یافتہ تھیں) سے مطمئن نہیںتھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ صاحب کی وہ دونوں بیگمات بھی ، جن سے انھوں نے انگلستان سے واپس آ کر شادی کی ، زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھیں ۔ ان کی لدھیانے والی بیگم صاحبہ تقریباً ان پڑھ تھیں اور والدۂ جاوید قرآن مجید اور تھوڑی بہت اردو گھر پر پڑھی ہوئی تھیں ۔ دراصل ان کی مزید دو شادیوں کی وجوہات کچھ اور تھیں جن کا اظہار ضروری نہیں ۔ (مصنف) ۱۸۔ مضمون ’’ اسما ء الرجال اقبال ‘‘ از ڈاکٹر تاثیر ، مطبوعہ کریسنٹ ، مجلۂ اسلامیہ کالج ۔ فروری، اپریل ۱۹۵۱ئ۔ ۱۹۔ اقبال با کمال صفحہ ۷۰ ۔ ۲۰ ۔ اقبال نامہ مرتّبہ چراغ حسن حسرت ، صفحہ ۹۲ ، ۲۱۔ ان کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ۔ (مصنف) ۲۲۔ دراصل وہ خاتون طوائف نہیں تھیں بلکہ کشمیر کے کسی اچھے ہندو گھرانے سے تھیں جنھیں اغوا کر کے ’’ اس بازار‘‘ میں پہنچا دیا گیا تھا ۔ وہ آخر دم تک اپنے خاوند کی فرمانبردار رہیں ۔ (مصنف ) ۲۳۔ اقبال باکمال صفحہ ۹۸ ۔ ۲۴۔ سیرت اقبال صفحہ ۳۱ ۔ ۲۵ ۔ اقبال با کمال صفحہ ۷۰ ۔ ۲۶۔ حیات اقبال ایک جذباتی دور صفحہ ۱۳۷ ۔ ۲۷۔ فکر اقبالاز خلیفہ عبدالحکیم صفحہ ۱۔ ۲۸ ۔ فکر اقبال از خلیفہ عبدالحکیم صفحہ ۳۸ ۔ ۲۹ ۔ موصوف مرے کالج سیالکوٹ میں اردو کے لیکچرار ہیں ۔ ۳۰ ۔ کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ از آسی ضیائی صفحہ ۶۶ ۔ ۳۱۔ کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ از آسی ضیائی صفحہ ۵۹ ۔ تاریخِ پیدائش (ایک غلط فہمی در غلط فہمی کا ازالہ) زیر نظر کتاب کی ترتیب کے دوران والدِ گرامی کا شدید اصرار رہا کہ میں حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی تاریخ پیدائش پر بھی ایک تحقیقی مقالہ اس میں شامل کروں لیکن کسی ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت کے بغیر اس موضوع پر قلم اٹھانا ناممکن نظر آتا تھا ۔ والدِ محترم کو پختہ یقین تھا کہ علامہ علیہ الرحمہ کی نئی تاریخ پیدائش ۹ نومبر ۱۸۷۷ء بلا تحقیق قبول کر لی گئی ہے ۔ اس شک کو اس حقیقت سے بھی تقویت پہنچتی تھی کہ عام طور پر سکول میں داخل کرواتے وقت بچوں کی عمریں کم لکھوا دی جاتی ہیں تاکہ تکمیلِ تعلیم کے بعد حصول ملازمت کے لیے کافی وقت مل سکے ۔ اس کے علاوہ ماضی میں چونکہ بچوں کو پہلے دینی مدارس میں بٹھایا جاتا تھا اور قرآنِ حکیم و دینی تعلیم کی تکمیل کے بعد اگر مناسب خیال کیا جاتا تو سکول کی طرف رجوع کیا جاتا ، اس لیے شاعرِ مشرقؓ کی تعلیمی ریکارڈ میں مندرج تاریخِ پیدائش میں فرق کا احتمال موجود تھا ، مگر اس وقت کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں تھا جب تک کہ میونسپل کمیٹی کے ریکارڈ کے ساتھ اسے پوری طرح پرکھ نہ لیا جاتا ۔ چنانچہ اس سلسلے میں ، میں نے تحقیق کا آغاز میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے دفتر پیدائش و اموات ہی سے کیا اور ۱۸۷۰ء سے ۱۸۷۷ء تک کے رجسٹر پیدائش کی ذاتی طور پر کئی دن تک چھان بین کی اور ایک ایک اندراج کو بنظرِ غائر دیکھا ۔ ان آٹھ برسوں میں شیخ نور محمد صاحب عرف ’’نتھو ۱ ‘‘ کے چار بچوں کے اندراجات دستیاب ہوئے ، جن کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ علیہ الرحمہ نہ تو ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو اور نہ ہی ۹ نومبر ۱۸۷۷ء کو پیدا ہوئے بلکہ ان کی صحیح تاریخ پیدائش ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء ہے ۔ میری والدہ مکرمہ بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے اپنی والدہ ماجدہ (محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ ) اور اپنی دو پھوپھیوں (محترمہ کریم بی بی صاحبہ اور محترمہ زینب بی بی صاحبہ ) سے با رہا یہ سنا ہے کہ حضرت علامہ کی بڑی ہمشیرہ محترمہ طالع بی بی صاحبہ ، ان سے تقریباً تین برس بڑی تھیں اور علامہ صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ مرحومہ کریم بی بی صاحبہ ان سے کوئی تین برس چھوٹی تھیں ۔ میں نے خود پھوپھی کریم بی بی صاحبہ کی زبانی سنا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ ان سے تین برس بڑے تھے ۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علامہ ان دونوں بہنوں کے درمیان پیدا ہوئے ۔ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش میں جو اندراجات دستیاب ہوئے ہیں ، ان کی رو سے دونوں بہنوں کے درمیان دو بھائی پیدا ہوئے جن میں ایک وفات پا گئے اور دوسرے حضرت علامہ ؒ تھے ۔ ان چاروں بہن بھائیوں کی پیدائش کے اندراجات میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر پیدائش میں اس طرح سلسلہ وار موجود ہیں : نمبر تاریخ پیدائش لڑکا یا لڑکی ولدیت ۶۴۳۳ ستمبر ۱۸۷۰ء یک لڑکی نتھو ۱۴۰ ۲۲فروری۱۸۷۳ء یک لڑکا نتھو ۱۰۴۸ ۲۹دسمبر۱۸۷۳ء یک لڑکا نتھو ۹۶۲ ۱۴نومبر۱۸۷۶ء یک لڑکی نتھوولدمحمدرفیع۲ محلہ پیشہ، قوم و مذہب اطلاع کنندہ چوڑی گراں کشمیری رفیق کشمیریاں کشمیری نتھو چوڑی گراں مسلمان خیاط علی محمد ولد غلام محی الدین کشمیریاں مسلمان کشمیری نتھو ۶ ستمبر ۱۸۷۰ ء کو پیدا ہونے والی لڑکی علامہ صاحب کی بڑی ہمشیرہ محترمہ طالع بی بی زوجۂ غلام محمد صاحب تھیں جو حضرت علامہ سے تقریبا تین برس بڑی تھیں ۔ یہ اس طرح بھی صحیح ثابت ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ کی یہ بڑی ہمشیرہ ۱۳ جولائی ۱۹۰۲ء کو گھریلو یاد داشت کے مطابق تقریباً ۳۲ برس کی عمر میںانتقال فرما گئیں ۔ ان کی فوتیدگی کا اندراج میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر اموات میں اس طرح موجود ہے : نمبر تاریخ وفات نام زوجہ مرد یا عورت ۱۶۵۰ ۱۳؍جولائی ۱۹۰۲ء طالع بی بی غلام محمد عورت عمر متوفی پیشہ، قوم و مذہب محلہ اطلاع کنندہ ۳۰ سال شیخ مسلمان حکیم حسام الدین تاج دین رجسٹر کے اندراج میں حضرت علامہؒ کی ہمشیرہ کی عمر اندازاً ۳۰ سال لکھی گئی ہے جو کہ اطلاع کنندہ کے بیان پر مبنی ہے ۔ اگر ۳۰ برس کے حساب سے ان کی تاریخ پیدائش نکالی جائے تو پھر وہ ۱۸۷۲ء میں پیدا ہوئیں جب کہ اس سال میں شیخ نور محمد صاحب کے کسی بچے کا اندراج موجود نہیں ہے ۔ اس لیے یہ ثابت ہوا کہ وہ گھریلو یادداشت کے مطابق تقریباً ۳۲ برس کی عمر میں ہی فوت ہوئیں اور ۶ ستمبر ۱۸۷۰ء کا اندراجِ پیدائش انھی کا ہے ۔ اس اندراج کے بعد شیخ نور محمدصاحب کے دوسرے بچے کا اندراج ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو ملتا ہے جو لڑکے کا ہے ۔ یہی وہ تاریخ ہے جو اب تک حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی تاریخ پیدائش کے طور پر مشہور رہی ہے ۔ روزگار فقیرکے مصنف نے اس تاریخ کو اس طرح غلط ثابت کیا ہے کہ ۲۲ فروری ۱۸۷۳ء کو پیدا ہونے والا بچہ فوت ہوگیا تھا ۔ یہ واقعی درست ہے ۔ دراصل یہ وہ بچہ ہے جسے پیدائش کے فوراً بعد والدہ ماجدہ اقبالؒ نے میاں جی (والدِ اقبال ) کے ایما پر اپنی دیورانی کی جھولی میں ڈال دیا تھا کیونکہ ان کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہ تھی ۔ مشیت ایزدی سے وہ بچہ شیرخواری کی عمر میں ہی انتقال کر گیا ۔ اﷲ تعالی کو شاعر مشرقؒ کے والدین کا یہ بے لوث ایثار اتنا پسند آیا کہ اسی سال پورے سوا دس ماہ بعد ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو ایک با اقبال فرزند عطا فرما کر ان کی دل جوئی فرمائی ۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اس تاریخ کے اندراج میں شیخ نور محمد صاحب کا پیشہ ’خیاط ‘ لکھا گیا ہے جب کہ دوسرے تمام اندراجات میں اسی خانے میں کشمیری درج ہے؛ لیکن دراصل یہ ایک خانہ تین قسم کے اندراجات کے لیے ہے ؛ یعنی پیشہ قوم اور مذہب ۔ اس لیے کبھی تو اس میں قوم لکھی گئی ، کبھی مذہب اور کبھی پیشہ ۔ اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں کہ شیخ نور محمد صاحب کپڑے کی ٹوپیاں اورکلاہ ۳ بنانے کا کاروبارکرتے تھے اور حضرت علامہ کی پیدائش کے وقت ان کا یہ کا روبار عروج پر تھا۔ اس ولادت کے اطلاع کنندہ ، علی محمد ولد غلام محی الدین صاحب نے جو رشتے میں نور محمد صاحب کے پھوپھی زاد بھائی تھے ، متعلقہ کلرک کے دریافت کرنے پر یقینا یہ بتایا ہوگا کہ شیخ نور محمد صاحب ٹوپیاں بنانے کا کاروبار کرتے ہیں ۔ چنانچہ ٹوپیاں بنانے کی مناسبت سے متعلقہ کلرک نے ’ خیاط ‘ لکھ دیا ۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کے ٹھیک تین سال بعد ۴۱ نومبر ۱۸۷۶ء کو ایک لڑکی کا اندراج متعلقہ رجسٹر میں ملتا ہے جو یقینا علامہ صاحب کی اس ہمشیرہ کا ہے جو ان سے تین برس چھوٹی تھیں ۔ یہ اس طرح بھی درست ثابت ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ کی یہ چھوٹی ہمشیرہ مرحومہ کریم بی بی صاحبہ زوجہ احمد الدین صاحب ،یکم جولائی ۱۹۵۸ء کو گھریلو یادداشت کے مطابق ۸۱ یا ۸۲ برس کی عمر میں فوت ہوئیں ۔ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ کے رجسٹر اموات میںان کی فوتیدگی کا اندراج ۴ جولائی ۱۹۵۸ء کی تاریخ میں اس طرح موجود ہے : نمبر تاریخ وفات نام زوجہ مرد یا عورت ۴۴۲ ۴؍جولائی ۱۹۵۸ء کریم بی بی احمد الدین عورت عمر متوفی پیشہ، قوم و مذہب محلہ اطلاع کنندہ ۸۲ برس کشمیری مسلمان چوڑی گراں افتخار احمد مندرجہ بالا اندراج میں تخمیناً عمر ۸۶ برس درج ہے ۔ اس حساب سے ان کی تاریخ پیدائش نکالی جائے تو ان کی پیدائش ۱۸۷۲ء کی نکلتی ہے جو اس لیے درست نہیں کہ اس سال میں شیخ نور مـحمد صاحب کے کسی بچے کی پیدائش کا اندراج موجود نہیں ہے ۔ دوسرے اگر ان کو ۱۸۷۲ء میں پیدا شدہ تسلیم کر لیا جائے تو اس طرح وہ علامہ اقبالؒ سے ۱۸۷۳ء کے حساب سے بھی ایک برس بڑی ہو جاتی ہیں ، جب کہ حقیقت میں وہ ان سے تین برس چھوٹی تھیں ۔ اس کے علاوہ چونکہ وہ گھریلو یادداشت کے مطابق تقریباً ۸۲ برس کی عمر میں فوت ہوئیں اس لیے ۱۴ نومبر ۱۸۷۶ء کا اندراجِ پیدائش انھی کا ہے ۔ اب مضحکہ خیز صورتِ حال یہ ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ کی وہ ہمشیرہ ، جو ان سے تین برس چھوٹی تھیں ، ۱۴نومبر ۸۷۶ ۱ء کو پیدا ہوئیں لیکن روز گار فقیرکے فاضل مصنف کی رُو سے شاعر مشرقؒ کی پیدائش ان سے پورے ایک برس بعد ۹نومبر ۱۸۷۷ء کو ہوئی ۔ اگر پوری طرح تحقیق کی جاتی تو اس قسم کی ’’ بوالعجبی ‘‘ سے یقینا محفوظ رہا جا سکتا تھا ۔ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کی صداقت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علامہؒ کے برادرِ بزرگ شیخ عطا محمد صاحب کا تخمینی بیان ، جو اخبارانقلاب کے شمارہ ۷ مئی ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا ، اس میں انھوں نے علامہ اقبالؒ کی پیدائش کا مہینہ ’دسمبر ‘بیان کیا ۔ اقتباس ملاحظہ ہو : ’’ حضرت علامہ اقبال کے جو مختصر سوانح حیات انقلاب کی کسی گزشتہ اشاعت میں چھپے تھے ان میں شیخ عطا محمد صاحب برادرِ کلاں حضرت علامہ مرحوم کے تخمینی بیان کے مطابق حضرت مرحوم کی تاریخ پیدائش دسمبر ۱۸۷۶ء بتائی گئی تھی ۔ ۴ ‘‘ مندرجہ بالا اقتباس سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑے شیخ صاحب کو سنہ پیدائش گو صحیح یاد نہ تھا لیکن مہینہ انھوں نے بالکل درست بیان کیا جو میونسپل ریکارڈ کے عین مطابق ہے ۔ ۱۸۷۶ء کی غلط فہمی دراصل اس طرح پیدا ہوئی کہ حضرت علامہؒ کی دونوں بڑی اور دونوں چھوٹی بہنوں کی عمروں میںتقریباً تین تین برس کا فرق تھا ۔ فروری ۱۸۷۳ء میں پیدا ہونے والا لڑکا بھی اپنی بڑی بہن مرحو مہ طالع بی بی جنت مکانی سے تقریباً تین برس چھوٹا تھا ۔ اس پیدائشی قاعدۂ کلیے کے پیشِ نظر ، مرورِ ایام کے ساتھ ، خاندان میں حضرت علامہ کو فروری ۱۸۷۳ء میں پیدا ہونے والے لڑکے کے تین سال بعد ۱۸۷۶ء میں پیدا شدہ سمجھا جانے لگا ۔ بہن بھائیوں کے ایک جیسے پیدائشی فرق نے اس خیال کو مزید تقویت بخشی ۔ چونکہ اس زمانے کے سیدھے سادے لوگ زیادہ تردد میں پڑنے کے قائل نہ تھے اس لیے یہ غلط فہمی آہستہ آہستہ صحیح تاریخ کے مقابلے میں مشہور ہوگئی اور کسی کو بھی اس کا خیال نہ رہا کہ ۱۸۷۶ء میں تو علامہ صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ پیدا ہوئی تھیں ۔ چنانچہ حکیم الامتؒ کو بھی اپنے بزرگوں کی اسی روایت کا سہارا لینا پڑا اور اس طرح انھوں نے اپنے تحقیقی مقالے کی تعارفی نوٹ اور پاسپورٹ میں اپنا سنہ پیدائش ۱۸۷۶ ء ہی درج فرمایا ۔ مزید برآں حضرت علامہ علیہ الرحمہ کی پہلی بیگم محترمہ کریم بی بی صاحبہ (والدۂ آفتاب ) کی روایت بھی ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کو درست ثابت کرتی ہے کہ ۱۸۹۳ء میں شادی کے وقت علامہ صاحب کی عمر بیس برس سے کچھ کم تھی ۔ لیکن نومبر ۱۸۷۷ ء کی رو سے آپ کی عمر شادی کے وقت پندرہ سولہ برس تھی اور فروری ۱۸۷۳ء کے مطابق بیس سال سے زیادہ ، البتہ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء کے حساب سے اس وقت آپ کی عمر بیس سال سے کچھ کم بنتی ہے ۔ یہ اس کی صداقت کا ایک اور ثبوت ہے ۔ دسمبر ۱۸۷۳ء کے مطابق حضرت علامہؒ نے سوا انیس برس کی عمر میں میٹرک پاس کیا ۔ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ۱۸۹۳ء میں کالج میں داخلے کے وقت ان کی عمر کا اندراج کالج ریکارڈ میں ۱۸ برس ہے لیکن اس حساب سے آپ کی تاریخ پیدائش ۱۸۷۵ء میں جا نکلتی ہے جو مندرجہ بالا شواہد کی موجودگی میں قابلِ قبول نہیں ۔ درحقیقت آج سے ایک صدی قبل دین دار لوگ اپنے بچوں کو پہلے مسجد کے مدرسے میں درسِ قرآن اور دینی تعلیم کے لیے بٹھا دیا کرتے تھے اور قرآنی تعلیم سے فراغت کے بعد اگر مناسب سمجھا جاتا تو سکول کی طرف رجوع کیا جاتا ۔ اسی ماحول کے مطابق حضرت علامہ کو بھی ان کے والدِ گرامی نے مولوی غلام حسین صاحب ( امام مسجد شوالہ والی ) کے دینی مدرسے میں داخل فرمایا ۵ ۔ ان دنوں مولوی میر حسن شاہ صاحب جب بھی اپنے دوست مولوی غلام حسین صاحب سے ملاقات کے لیے جاتے تو علامہ اقبالؒ کی ہونہاری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے ۔ دراصل ان کی دو رس نگاہیں علامہ اقبالؒ کی روشن پیشانی سے ذہانت اور اقبال مندی کی پھوٹتی ہوئی کرنوں کو بخوبی دیکھ رہی تھیں ۔ انھوں نے کئی بار شیخ نور محمد صاحب کو ، جن سے ان کے قریبی دوستانہ مراسم تھے ، مشورہ دیا کہ لڑکے کو ان کے سپرد کر دیا جائے تاکہ اسے سکول میں داخل کروا دیا جائے ۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ یہ بچہ مدرسوں میں پڑھنے والا نہیں ہے ۔ میاں جی اپنے دینی رجحان کی وجہ سے پہلے تو انھیں ٹالتے رہے تاکہ اقبالؒ دینی تعلیم سے فارغ ہو جائیں تو پھر کچھ سو چا جائے لیکن شاہ صاحب کے متواتر اور شدید اصرار نے انھیں مجبور کر دیا اور انھوں نے حضرت علامہ کو آخر کار ان کے سپرد کر دیا ۔ اسی کشمکش میں حضرت علامہ اقبالؒ پہلے ایک دو برس مدرسے میں رہے اس لیے سکول میں دیر سے داخل ہوئے ۔ یقینا اس فرق کو دور کرنے کے لیے سکول میں ان کی عمر اصل سے کم لکھوائی گئی لیکن حقیقت میں وہ ۱۸۹۳ء میں سوا انیس برس کے تھے جو ان کی بڑی بیگم صاحبہ کے بیان کے مطابق ثابت ہے ۔ مندرجہ بالا تمام حقائق اور شواہد کی روشنی میں کسی قسم کی بحث کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور بلا شک و شبہ یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت علامہ اقبالؒ ۲۹ دسمبر ۱۸۷۳ء بروز سوموار پیدا ہوئے اور بوقت وفات آپ کی عمر ۶۴ برس ۳ ماہ اور ۲۳ دن تھی ۔ میرے خیال میں اس اختلافی مسئلے کی اس طرح نقاب کشائی کے بعد محققین کو اسے قبول کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے: ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ ٭٭٭ حواشی ۱۔ شیخ نور محمد صاحب کو عرف عام میں شیخ نتھو کہتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی ولادت سے پیشتر ان کے والدین کے اوپر تلے دس لڑکے فوت ہوگئے ، چنانچہ ان کی پیدائش پر بڑی منتیں مانی گئیں اور ان کے ناک کان چھدوا کر زیور پہنائے گئے ۔ ناک میں نتھ ہونے کی وجہ سے وہ عرف عام میں نتھو مشہور ہو گئے۔ (مصنف) ۲۔ شیخ نور محمد صاحب کے والد کا نام شیخ محمد رفیق تھا جو یہاں سہواً محمد رفیع لکھا گیا ہے ۔ (مصنف ) ۳۔ آپ کی دکان کی بنی ہوئی مردانہ ٹوپیاں اورکلاہ پشاور تک مقبولِ خاص و عام تھے اور اسی کاروبار کی وجہ سے آپ کے خاندان کو سیالکوٹ میں ’’ ٹوپیاں والے ‘‘ کہہ کر پکارتے اور پہچانتے تھے ۔ آج تک یہ نام زبان زدِ عام ہے ۔ اس کے علاوہ سیالکوٹ میں سب سے پہلے کپڑے سینے کی مشین آپ ہی نے خریدی جسے سارا شہر دیکھنے کے لیے آتا تھا اور اس طرح آپ کا نام ’’ کلا والے ‘‘ بھی پڑ گیا ۔ (مصنف) ۴۔ روزگار فقیر ، حصہ اول ، صفحہ ۲۳۰۔ ۵۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے تحقیقی مقالے کے تعارفی نوٹ میں خود اس کا اعتراف یوں کیا ہے : My education began with the study of Arabic and Persian. A few years after I joined one of the Iocal school . The development of Metaphsics in Persia ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انکشافِ حقیقت یہاں قارئین کو شاعرِ مشرق ؒ کی بیرونِ خانہ زندگی کی چند نئی جھلکیاں ملیں گی جن میں سے بعض دلچسپ ہیں اور بعض حیرت انگیز ۔ محترمی ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب نے حکیم الامتؒ کے وقتِ آخر کے متعلق جس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے وہ کئی ایک غلط فہمیوں کا ازالہ کرتا ہے اور مکرمی ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب کے بیان کردہ واقعات علامہ مرحوم کی عظیم شخصیت کا ہلکا سا پرتو دکھاتے ہیں ۔ علاوہ ازیں محترمہ حجاب امتیاز علی ، حضرت علامہ کے سفرِ مدراس کی چند نئی یادیں منظرِ عام پر لائی ہیں ۔ ان کے مضمون میں ’’ بساٹو ہوٹل ‘‘ میں شاعرِ مشرقؒ کی دعوتِ طعام کا ذکر خاص طور پر قابلِ توجہ ہے ۔ (مصنف) ڈاکٹر عبد القیوم ملک۱: ڈاکٹر ملک صاحب میری منجھلی ممانی محترمہ محمودہ بیگم صاحبہ ۲؎ کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ آپ کافی عرصہ شاعرِ مشرقؒ کی صحبت میں بیٹھتے رہے اور اکثر ان کے علاج کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکیم الامتؒ کو آخر عمر میں جب کبھی کوئی تکلیف ہوا کرتی تو ان سے ضرور مشورہ کیا کرتے تھے ۔ ملک صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ علی بخش کے علاوہ صرف وہ آخری وقت میں شاعرِ مشرقؒ کے پاس موجود تھے ۔ ملک صاحب بڑے کم سخن اور سنجیدہ طبیعت کے مالک ہیں اسی لیے انھوں نے آج تک کبھی بھی اس حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا ، کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس طرح ان اصحاب کے جھوٹ کا پول کھل جائے جو اس رات کے متعلق بڑھ چڑھ کر ڈینگیں مارتے ہیں ۔ مگر خوش قسمتی سے ایک روز گھریلو محفل میں سرِراہے یہ ذکر آیا تو میرے اصرار پر ملک صاحب کو اس کی تفصیلات بیان کرنی ہی پڑیں ورنہ شاید وہ کبھی بھی اس حقیقت کو بے نقاب نہ کرتے ۔ اس کے علاوہ ملک صاحب کی زبانی دو ایک اور نادر واقعات بھی معلوم ہوئے جو یہاں پیش کیے جارہے ہیں ۔ شاعرِ مشرقؒ کا وقتِ آخر: آج کئی اصحاب اس کے دعوے دار ہیں کہ نانا جان قبلہ نے جس وقت اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی تو یہ لوگ آپ کے پاس موجود تھے ۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وقتِ نزع شاعرِ مشرقؒ کا سر ان کی گود میں تھا یا وہ آپ کے پاؤں داب رہے تھے ۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب کے اس انکشاف نے ان کے دعووں پر پانی پھیر دیا ہے کہ اس رات نانا جان کی روح جسم کی قید سے آزاد ہوئی تو اس وقت صرف علی بخش آپ کے پاس تھا ۔ ڈاکٹر ملک صاحب ، نانا جان مغفور کی زندگی کی آخری رات کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ میںنے اخبارات اور کتابوں میں کئی ایک ’’ بزرگانِ قوم ‘‘ کے بیانات اس رات کے متعلق دیکھے ہیں لیکن چونکہ میں کسی کو جھوٹا ثابت کرنا اور اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا تھا اس لیے آج تک خاموش رہا ۔ میں نے چونکہ وہ رات جاوید منزل ہی میں گزاری تھی اس لیے مجھے سب معلوم ہے کہ اس رات کیا کیا واقعات پیش آئے ۔ ۲۰ اپریل کی شام کو ڈاکٹر جمعیت سنگھ ، جو حکیم الامتؒ کے فیملی ڈاکٹر تھے ، تشریف لائے تو علامہ مرحوم کی حالت کے پیشِ نظر انھوں نے Mersalylکاٹیکہ لگانے کا فیصلہ کیا ۔ مجھ سے انھوں نے مشورہ کیا تو میں نے بھی تائید کی ۔ ان دنوں چونکہ اس ٹیکے سے پیشتر ’’ ایمونیم کلورائیڈ ‘‘ (نوشادر) دینا ضروری سمجھا جاتا تھا تاکہ پیشاب کھل کر آ جائے اس لیے ڈاکٹر سنگھ نے میری ڈیوٹی لگائی کہ میں بازار سے ’’ ایمونیم کلورائیڈ ‘‘ لا کر علامہ مرحوم کو پلا دوں تاکہ صبح ٹیکہ لگایا جا سکے ۔ چنانچہ میں اسی وقت بازار سے مطلوبہ دوا لے کر آیا ۔ ’’ ایمونیم کلورائیڈ ‘‘ چونکہ بہت تیز اور بدذائقہ ہوتا ہے اور مجھے علامہ مرحوم کے مزاج سے واقفیت تھی کہ آپ کڑوی کسیلی دوا کے بہت خلاف ہیں اس لیے دوا کے ذائقے کو گوارا بنانے کے لیے اس میں تھوڑا سا ’’ گلیسریزا ۳ ‘‘ بھی ملا دیا ، لیکن اس کے باوجود جب دوا آپ کو پلائی گئی تو اس کا ذائقہ انھیں بہت ناگوار گزرا اور آپ نے برا سا منہ بنا کر فرمایا : ’ تم ڈاکٹروں کی دوائیں انتہائی بد ذائقہ ہوتی ہیں اور تم مریض کے مزاج کا قطعاً خیال نہیں رکھتے ۔ ‘ اس رات ڈاکٹر سنگھ کو اور مجھے اس کا احساس تھا کہ یہ رات علامہ مرحوم کے لیے خطرناک ہے کیونکہ ان کی حالت اس کی غمازی کر رہی تھی کہ وہ شاید ہی آج کی رات گزار سکیں ۔ اس لیے ڈاکٹر سنگھ اور میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ رات کو میں جاوید منزل ہی میں ٹھہروں گا ، چنانچہ اسی فیصلے کے تحت علامہ مرحوم کی زندگی کی آخری رات میں ان کے پاس موجود رہا ۔ ‘‘ ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب کا بیان ہے کہ ’’رات کے بارہ بجے تک کافی لوگ وہاں موجود تھے اور باتیں بھی ہو رہی تھیں لیکن علامہ مرحوم زیادہ تر خاموش ہی رہے اور صرف ’ ہوں ، ہاں‘ ہی میں کسی کسی بات کا جواب دیا۔ ہاں جس چیز کا انھوں نے اس رات بار بار ذکر کیا وہ پنجابی کی کوئی نعت تھی جو آپ نے کبھی سنی تھی۔ اس کے متعلق ان کا فرمانا تھا کہ ویسی نعت انھوں نے اردو ، فارسی یا عربی میں نہ تو کہیں پڑھی اورنہ ہی کبھی سنی ہے ۔ وہ اپنے احباب سے اس نعت کی تعریفیں کرتے رہے کہ پنجابی زبان کی وہ نعت اس قدر بلند پایہ ہے کہ اپنی ساری زندگی میں کوشش کے باوجود وہ خود بھی اس کے ہم پلہ کوئی نعت نہیں کہہ سکے ۔ آپ کی شدید خواہش تھی کہ ایک دفعہ پھر وہ نعت اس آدمی کی زبانی سنیں جس سے کہ پہلے سنی تھی ۔ اس خواہش کا اظہار بار بار انھوں نے اپنے دوستوں سے کیا ، چنانچہ ایک ایک کرکے سارے دوست ، جو اس وقت وہاں موجود تھے ، یہ وعدہ کر کے چلے گئے کہ اس نعت خواں کو لے کر آتے ہیں ۔ اس طرح تقریباً ایک بجے تک تمام احباب چلے گئے اور حکیم الامتؒ کے پاس صرف میں (ڈاکٹر عبدالقیوم ملک ) اور علی بخش رہ گئے ۔ علامہ مرحوم دمِ واپسیں تک اس نعت خواں کے منتظر رہے مگر صد افسوس کہ وعدہ کر کے جانے والوں میں سے کوئی بھی واپس نہ آیا اور شاعرِ مشرقؒ کی آخری خواہش تشنۂ تکمیل ہی رہی ۔ ‘‘ میں نے ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب سے استفسار کیا کہ یہ بات بہت عام ہے کہ وفات سے صرف دس منٹ قبل جب شاعر مشرقؒ سے کسی تیمار دار نے طبیعت کا حال پوچھا تو آپ نے جواب میں اپنی یہ مشہور رباعی سنائی تھی کہ : سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید نسیمے از حجاز آید کہ ناید سرآمد روزگار ایں فقیرے دگردانائے راز آید کہ ناید تو ڈاکٹر ملک صاحب نے فرمایا کہ : ’’ ایک بجے تک تو تمام لوگ چلے گئے تھے اوروہاں پر صرف میں تھا یا علی بخش ، ہم دونوں میں سے کسی نے بھی وفات سے دس منٹ قبل آپ سے کوئی بات نہیں پوچھی اور نہ ہی آپ کی زبانی یہ رباعی اس وقت سنی ۔ ہاں البتہ ایک بجے سے پہلے کسی نے آپ کا حال پوچھا ہو اور آپ نے جواب میں یہ رباعی سنائی ہو تو کہہ نہیں سکتا ۔ ‘‘ ملک صاحب بتاتے ہیں کہ : ’’ اس رات حکیم الامتؒ کا بستر جاوید منزل کے پورچ (Porch) میں لگایا ہوا تھا ۔ ساری رات آپ وہیں بستر میں خاموش لیٹے رہے اور ایک پل کے لیے بھی آنکھ نہیں جھپکی ۔ پچھلے پہر کچھ خنکی ہو گئی اس لیے صبح ہونے کے بالکل قریب آپ نے فرمایا : ’بھائی ! مجھے اندر کمرے میں لے چلو۔ ‘ یہ وہ آخری الفاظ ہیں جو علامہ مرحوم نے وفات سے چند لمحے قبل کہے ۔ میں اور علی بخش انھیں چارپائی سمیت اٹھا کر ان کے کمرۂ خاص میں لے گئے جو جاوید منزل کی نشست گاہ سے ملحق ہے اور جس کی دو کھڑکیاں باہری برآمدے میں کھلتی ہیں ۔ رات بھر جاگنے سے میری طبیعت کسلمند ہو رہی تھی اس لیے کچھ دیر سستانے کی خاطر باہر لان میں آکر لیٹ گیا اور علامہ مرحوم کے پاس اندر صرف علی بخش رہ گیا ۔ میں ابھی لیٹا ہی تھا کہ علی بخش نے کمرے میں سے چلا کر مجھے پکارا کہ ڈاکٹر صاحب جلدی آئیے ۔ میں بھاگ کر اندر پہنچا تو آپ اﷲ کو پیارے ہو چکے تھے ؛ گردن ڈھلک کر چہرہ خودبخود قبلہ رو ہو گیا تھا ، آنکھیں نرمی سے بند اور لبوں پر ہلکا ہلکا تبسم رقصاں تھا ۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آپ بڑے آرام سے محوِ استراحت ہیں ۔ میں نے جلدی سے آپ کی نبض ٹٹولی اورمایوس ہو کر ’ انا ﷲ و انا الیہ راجعون ‘‘ پڑھتے ہوئے جب چادر سے آپ کا چہرہ ڈھانپا تو علی بخش آپ کے قدموں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اس وقت ہر جانب سے صبح کی اذانوںکی پُرسطوت صدائیں آ رہی تھیں ۔ ‘‘ ملک صاحب مزید بتاتے ہیں کہ : ’’ میں نے تھوڑی دیر بعد فون پر ریڈیو سٹیشن والوں کو اطلاع کر دی۔ دن چڑھے دوست احباب آنے شروع ہوگئے اور ریڈیو پر اعلان کے بعد سارا شہر جاوید منزل کی طرف امڈ پڑا ۔ ‘‘ ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب نے حقائق کو جس تفصیل اور ایمانداری سے بے نقاب کیا ہے اور ’’بزرگان قوم‘‘کی پردہ پوشی کے جذبے کے تحت آج تک جس طرح مہر بہ لب رہے ہیں ۔ وہ قابل ستائش ہے اور جبکہ ان ’’ بزرگانِ قوم ‘‘ کی قلعی پوری طرح کھل گئی ہے تو مجھے امید ہے کہ وہ آئندہ غلط بیانیوں کے بے بنیاد قصر تعمیر کرنے سے پرہیز کریں گے ۔ دعوت ِ حج : ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب نے بتایا کہ ۱۹۳۶ء یا ۳۷ء میں اٹلی کے آمر مسولینی نے شاعرِ مشرقؒ کو دعوت بھیجی کہ جس سال بھی آپ کی صحت اجازت دے آپ حج بیت اﷲ شریف حکومت اٹلی کے خرچ پر تشریف لے جائیں ۔ ملک صاحب بتاتے ہیں کہ حکیم الامتؒ حج پر جانے کے بے حد مشتاق تھے اور پروگرام بھی بناتے رہے مگر افسوس صحت نے آپ کو اجازت نہ دی ۔ ترنّم: ملک صاحب نے ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دفعہ مجلسِ احرار کے ایک رکن ، جو ان دنوں نئے نئے قید سے رہا ہو کر آئے تھے ، حکیم الامتؒ سے ملنے آئے ۔ باتوں باتوں میں وہ صاحبِ شاعر مشرق ؒ سے کہنے لگے کہ ’ میں نے آپ کا کلام بہت پڑھا ہے اور اس کا بیشتر حصہ مجھے ازبر ہے ، اگر اجازت ہو تو کچھ ترنم سے سناؤں ۔ ‘ علامہ علیہ الرحمہ نے اجازت دے دی ۔ چنانچہ وہ صاحب کافی دیر گا گا کر کلامِ اقبال سناتے رہے اور شاعرِ مشرقؒ آنکھیں بند کیے خاموش بیٹھے رہے ۔ جب وہ آدمی اور باقی سب لوگ بھی چلے گئے تو ملک صاحب نے علامہ مرحوم سے کہا کہ ’ آپ کو تو ان صاحب کا ترنم بہت پسند آیا ۔ ‘ علامہ مرحوم نے جواب میں فرمایا : ’ میں کسی کا دل دکھانے کا روادار نہیں ، ورنہ تم نے بھی سنا ہی ہے ، یوں ہی ٹوں ٹوں کر کے چلا گیا ہے ۔‘ ڈاکٹر عبدالقیوم ملک صاحب فرماتے ہیں کہ : ’’ میںاکثر شام کو شاعرِ مشرقؒ کی محفل میں شریک ہوا کرتا تھا مگر ہمیشہ خاموشی سے سننے والوں میں شامل رہتا اور چند موقعوں کے سوا کبھی کوئی بات پوچھنے کی جرأت نہ کر سکا ۔ ایک روز جب سب لوگ چلے گئے اور میں اکیلا ہی حکیم الامتؒ کے پاس خاموش بیٹھا رہ گیا تو آپ نے بڑی شفقت سے فرمایا : ’ بھائی ! تم جب بھی آتے ہو خاموش ہی بیٹھے رہتے ہو ، کبھی کوئی بات بھی کیا کرو ‘ ملک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے جواب دیا کہ آپ جیسی عظیم شخصیت کے سامنے میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ کچھ بولوں اس لیے مجھے سننے والوں میں ہی شامل رہنے دیں ۔ ملک صاحب بتاتے ہیں کہ میرے اس جواب پر شاعرِ مشرقؒ ہلکے سے مسکرائے اور پھر آنکھیں بند کر کے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ ڈاکٹر عبدالحمید ملک: مجھے اپنے بزرگوں کی زبانی ڈاکٹر حمید صاحب۴؎ کے متعلق ایک واقعہ معلوم ہوا کہ ان کے ہاں نانا جان کی دعا سے بچہ پیدا ہوا تھا ۔ اس واقعے کو کتاب میں شامل کر نے سے قبل میں نے مناسب سمجھا کہ حمید صاحب سے مل کر اس کی تصدیق کرا لی جائے تاکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے ۔ چنانچہ ۱۴ اگست ۱۹۶۹ء کو ان کی خدمت میں حاضر ہو ا ۔ وہ ان دنوں عارضۂ قلب کی وجہ سے خاصے کمزور ہو رہے ہیں اور ڈاکٹروں نے زیادہ باتیں کرنے کی ممانعت کر رکھی ہے ۔ مگر علامہ اقبالؒ کا نام آتے ہی انھوں نے فوراً ملاقات کے لیے رضامندی کا اظہار کیا اور تقریباً ایک گھنٹہ تک اس موضوع پر اظہارِ خیال فرماتے رہے ۔ متذکرہ بالا واقعے کی صحت پر انھوں نے مہرِ تصدیق ثبت فرمائی اور اس کی مزید تفصیلات بھی بیان کیں ۔ اس کے علاوہ انھوں نے شاعرِ مشرقؒ کے متعلق چند ایک اور واقعات بھی بیان کیے جو یہاں پیش کیے جا رہے ہیں ۔ ڈاکٹر حمید صاحب فرماتے ہیں کہ حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کا مقام اس قدر بلند ہے کہ عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آسکتا ۔ انھوں نے وہ خاص واقعات بتانے سے گریز کیا جو مقامِ اقبالؒ کو منظر عام پر لا سکتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ باتیں چونکہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں اس لیے بجائے اس کے کہ لوگ مقامِ اقبال کو پہچانیں ، اُلٹا انھی کو ( ملک صاحب کو) جھوٹا کہنے لگیں گے ۔ ڈاکٹر حمید صاحب کے کہنے کے مطابق ان کا یہ ایمان ہے کہ وہ شاعرِ مشرقؒ کے مزار پر جا کر جب کبھی بھی کوئی التجا کرتے ہیں تو حضرت علامہؒ ان کی ضرور سنتے ہیں اور دربارِ خداوندی میں ان کی سفارش کرتے ہیں ۔ دعا کا اثر: نانا جان قبلہ کی دعا سے ڈاکٹر حمید صاحب کے ہاں بچہ ہونے کے واقعے کی تفصیلات اس طرح ہیں : ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ میری شادی کو تقریباً بارہ تیرہ برس گزر گئے لیکن ہمارے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی جس کی وجہ سے میں اکثر مغموم رہتا ۔ اُن دنوں شاعر مشرقؒ کے ہاں میرا اکثر آنا جانا رہتا تھا اور آپ مجھ پر بڑی شفقت فرماتے تھے ۔ ایک روز میرے دوست میاں محمد شفیع ( م۔ ش) نے علامہ مرحوم سے کہا کہ حمید صاحب کے لیے دعا کیجیے کہ ان کو بھی اﷲتعالیٰ اولاد کی نعمت سے سرفراز فرما دے اور ان کی اداسی ختم ہو ۔ علامہ علیہ الرحمہ نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا : اچھا بھائی! کریں گے ۔‘ دوسرے روز میں حاضر ہو ا تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے تمھارے لیے دعا کر دی ہے ، اور زندگی میں اتنی شدت سے ایک دفعہ پہلے دعا کی تھی یا پھر اب تمھارے لیے کی ہے ، ان شاء اﷲ خدا اپنا فضل کرے گا ۔ اپنی بیوی سے کہنا کہ صبح کی نماز کے بعد روزانہ سورۂ مریم کی تلاوت کیا کرے ۔ چنانچہ میری بیوی حسبِ ہدایت سورۂ مریم کی تلاوت کرتی رہی اور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے نو دس ماہ بعد ہمیں ایک فرزند عطا فرمایا ۔ ‘‘ ڈاکٹر حمید صاحب فرماتے ہیں کہ ’’ میں ان دنوں میو ہسپتال میں ہاؤس سرجن تھا اورمیرا یہ بچہ میو ہسپتال کے ملحقہ کوارٹرز میں پیدا ہوئے ۔ بچے کی پیدائش صبح کے دو اور تین بجے کے درمیان ہوئی ۔ جب بچہ ہوگیا تو میں اس لیڈ ی ڈاکٹر کے ساتھ ہی ، جس نے ڈیلیوری کروائی تھی ، سائیکل اٹھا کر گھر سے باہر نکل آیا ۔ گھر میں میں نے کچھ نہیں بتایا کہ کہاں جا رہا ہوں ، شاید انھوں نے یہ سمجھا ہو کہ کہ میں ڈاکٹر کو چھوڑنے جا رہا ہوں ، لیکن میں سیدھا میو روڈ ( اقبال روڈ ) پر واقع شاعرِ مشرقؒ کی قیام گاہ جاوید منزل پر جاپہنچا ۔ مجھے چونکہ علامہ مرحوم کی طرف سے خصوصی اجازت تھی کی جس وقت چاہوں بلا اجازت ان کے کمرۂ خاص میں چلا جاؤں ، اس لیے میں بے دھڑک سیدھا ان کے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ ابھی میں نے جاوید منزل کے ڈرائنگ روم اور آپ کے کمرۂ خاص کے درمیانی دروازے میں قدم رکھا ہی تھا اور ابھی میں سلام بھی کہنے نہیں پایا تھا کہ حضرت علامہؒ ، جو بستر میں نیم دراز حقے سے شغل فرما رہے تھے ، بولے : مبارک ہو ! بچے کانام مسیح الاسلام رکھنا ۔ اسے ڈاکٹر ی کی تعلیم دلوانا اور سرکاری نوکری ہرگز نہ کرانا اور اسے قرآن شریف ضرور حفظ کروانا ۔ ، وہ تو اپنی دُھن میں مجھے ہدایات دیتے رہے مگر میں وہیں کا وہیں کھڑا حیران سا ان کا منہ دیکھتا رہا اور ان کی عظیم شخصیت کا رعب مجھ پر اس قدر طاری ہوا کہ میرے پسینے چھوٹ گئے اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی نادیدہ طاقت میرا گلا دبا رہی ہے ۔ علامہ مرحوم میری حالت دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا : آؤ بھائی بیٹھو ! ڈرو نہیں !، میں جھجکتے ہوئے ان کے پاس جا بیٹھا اور آپ میری توجہ مبذول کرنے کے لیے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے ۔ ‘‘ حمید صاحب کا بچہ مسیح الاسلام جب پانچ برس کا ہوگیا اور مزید کوئی اور اولاد نہ ہوئی تو انھیں پھر بچے کی خواہش ہوئی ۔ علامہ علیہ الرحمہ سے دعا کرانا تو ممکن نہیں تھا کیونکہ وہ فوت ہو چکے تھے ، البتہ ان کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جاسکتا تھا ۔ چنانچہ حمید صاحب نے یہی کیا اور اﷲتعالیٰ نے ان پر پھر اپنا کرم کیا ۔ حمید صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’ پہلا بچہ جب پانچ برس کا ہوگیا تو ہمیں پھر بچے کی خواہش ہوئی لیکن علامہ اقبالؒ وفات پا چکے تھے ، اس لیے ان سے دعا کرانا ممکن نہ تھا ۔ آخر ہم نے حضرت علامہ ؒ کے بتائے ہوئے ورد کو ایک دفعہ پھر آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ اسی طرح سورۂ مریم کی تلاوت پھر شروع کر دی گئی اور خداوندِ کریم نے واقعی ہمیں پھر نوازا ۔ بچہ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں تھا کہ میری بیوی نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک خضر صورت بزرگ اسے چاندی کی ایک بڑی سی انگوٹھی پہنانا چاہتے ہیں ۔ میری بیوی نے ان سے کہا کہ حضرت! میں اسے پہن کر کیا کروں گی ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حضرت عمر فاروقؓ کی انگوٹھی ہے اور اسے پہنا دی ۔ میں نے اس خواب سے یہ تعبیر نکالی کہ ان شاء اﷲ اس دفعہ بھی ہمارے ہاں لڑکا ہی پیدا ہوگا ، چنانچہ اس کی پیدائش سے پیشتر ہی ہم نے اس کا نام ’ فاروقی ‘ رکھ دیا ، اور واقعی اﷲ تعالیٰ نے ہمیں لڑکا عطا فرمایا ۔ اس کی پیدائش کے بعد مجھے اس کا صحیح نام رکھنے کی فکر ہوئی ۔ میں چاہتا تھا کہ میرے اس بچے کا نام بھی شاعرِ مشرقؒ ہی تجویز فرماتے مگر میری یہ خواہش پوری نہ ہوسکتی تھی کیونکہ حکیم الامتؒ رحلت فرما چکے تھے ۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اس کا حل ڈھونڈھ نکالا اور نومولود کا نام ’’ظفر الاسلام ‘‘ رکھا ، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ علامہ مرحوم نے عزیزی جاوید اقبال کا تاریخی نام ظفر الاسلام ہی نکالا تھا۔ اس طرح میری اس خواہش کی کسی حد تک تکمیل ہو گئی کہ اس بچے کا نام بھی علامہ مرحوم کا تجویز کردہ ہو ۔ البتہ گھر میں ظفر الاسلام کو ہم اب بھی ’فاورقی‘ کے نام ہی سے پکارتے ہیں ۔ میں نے پہلے بچے کی طرح حضرت علامہؒ کے حکم کے تحت اس بچے کو بھی قرآن کریم حفظ کرایا ۔ البتہ مسیح الاسلام کو تو ڈاکٹری کی تعلیم دلوائی مگر ظفر الاسلام کو قانون کی ۔ اس وقت میرے دونوں بچے برسر روزگار ہیں ۔ ہر قدم پر علامہ مرحوم کی دعائیں ان کے شاملِ حال رہی ہیں اور میرا ایمان ہے کہ ان شاء اﷲ آئندہ بھی رہیں گی ۔ ‘‘ ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ تقریباً چھ سات برس کی عمر میں میرا پہلا بچہ مسیح الاسلام شدید بیمار ہوگیا ۔ ان دنوں میں وزیر آباد کے ہسپتال میں متعین تھا۔ جب دعا اور دوا دونوں بے اثر ثابت ہو گئیں اور بچے کی زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو میری بیوی کہنے لگی کہ یہ بچہ ہمیں حضرت علامہؒ کی دعا سے ملا تھا اس لیے اب انھی کے وسیلے سے اس کی جان بچ سکتی ہے ۔ چنانچہ میں اپنی بیوی کے مجبور کرنے پر بیمار بچے کو لے کر شاعرِ مشرقؒ کی آخری آرام گاہ پر حاضر ہوا ۔ میری بیوی حضرت علامہؒ کے مرقد پر رو رو کر اس طرح التجائیں کرتی رہی جیسے اپنے سامنے موجود کسی شخص سے محوِ گفتگو ہو ۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولی کہ حضرت علامہؒ نے کہا ہے کہ ہمارا بیٹا ان شاء اﷲ تندرست ہو جائے گا ۔ اس کے بعد میری بیوی نے حکیم الامتؒ کی قبر سے تھوڑی سے مٹی ۵؎ لی اور پانی میں گھول کر بچے کو پلا دی ۔ ہم نے تھوڑی سی مٹی ساتھ لی اور واپس وزیر آباد روانہ ہو گئے ۔ راستے میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے میری بیوی پانی میں گھول گھول کر بچے کو خاکِ مرقد دیتی رہی اور خدا کے فضل سے وزیر آباد پہنچنے تک ہمارا بچہ کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا ۔ ‘‘ موجود ہ دور کا مجدد: ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب نے بتایا کہ شاعرِ مشرقؒ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص موجودہ دور میں اسلامی فقہ کی تدوین کرے گا ، دراصل وہی اس دور کا مجدد ہوگا ۔ رحمانی اور شیطانی صفات: ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب بتاتے ہیں کہ آخری عمر میں جب نانا جان قبلہ کی نظر بہت کمزور ہو گئی اور وہ خود کچھ لکھنے سے معذور ہو گئے تو اکثر خطوط کے جوابات حمید صاحب سے لکھوایا کرتے تھے ۔ البتہ خط کے نیچے دستخط خود کر دیا کرتے ۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دستخط تک کرنا ممکن نہ رہا ، چنانچہ حمید صاحب ہی کو دستخط کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ۔ آج بھی حمید صاحب کو یاد ہے کہ وہ کس طرح آپ کے دستخط کیا کرتے تھے ۔ انھوں نے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے دستخط کر کے مجھے دکھائے جو شاعرِ مشرقؒ کے دستخطوں سے کافی مشابہت رکھتے تھے ۔ اسی سلسلے میں حمید صاحب نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کہ ایک دفعہ کسی آلِ احمد صاحب کا خط حضرت علامہؒ کے نام آیا جس میں انھوں نے لکھا کہ آپ نے مسولینی کے متعلق دو نظمیں لکھی ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ، آخر کیوں ؟ حمید صاحب بتاتے ہیں کہ اس کے جواب میں آپ نے صرف یہ فقرہ لکھوایا : ’’ اگر اس بندۂ خدا میں رحمانی اور شیطانی دونوں صفات موجود ہوں تو اس کا میرے پاس کیا علاج ہے ؟ ‘‘ ٹیلیفون: ڈاکٹر حمید صاحب بتاتے ہیں کہ نانا جان مرحوم ٹیلیفون کے بہت خلاف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے بیڈ روم میں بغیر اجازت گھس آئے ۔ ‘‘ یعنی آپ کے خیال میں اگرکسی کے بیڈ روم میں رکھے ہوئے فون پر کوئی دوسرا شخص بات کرتا ہے تو یہ اس بیڈ روم میں بلا اجازت گھس آنے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹر حمید صاحب بیان کرتے ہیں کہ وفات سے چند برس پہلے ایک دفعہ دوران گفتگو علامہ مرحوم نے بتایا کہ اس وقت ان کی عمر ۶۱ برس ہے اور اس سے زیادہ زندہ رہنے کی اب خواہش نہیں ۔ اس کے بعد آپ نے انگریزی کا مندرجہ ذیل فقرہ کہا ۔ "Whatever best I had in me I have given to the world." ڈاکٹر عبدالحمید ملک صاحب اپنی علالت اور شدید کمزوری کی وجہ سے صرف اتنی باتیں ہی بیان کر سکے ۔ اس کے بعد انھوں نے معذرت چاہی کہ اب دماغ ساتھ نہیں دے رہا ۔ ورنہ ان کا کہنا ہے کہ واقعات تو بہت ہیں ۔ البتہ انھوں نے اس کا وعدہ مجھ سے کیا ہے کہ بحالیِ صحت کے بعد وہ ان شاء اﷲ ان تمام واقعات کو ، جو ان کے ذہن میں محفوظ ہیں ، ضرور منظرِ عام پر لائیں گے ۔ خداوند کریم ان کو أیفائے وعدہ کے لیے ہمت اور مہلت عطا فرمائے ۔ آمین ! محترمہ حجاب امتیاز علی : والدۂ مکرمہ کی زبانی مجھے یہ معلوم ہوا کہ ۱۹۲۸ء کے موسمِ سرما میں جب نانا جان مرحوم مدراس تشریف لے گئے تھے تو وہاں سے مراجعت پر آپ نے گھر میں خاص طور پر یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ مدراس سے ایک اسٹیشن پہلے کونونٹ کی ایک طالبہ حجاب اسماعیل اپنے والد سید محمد اسماعیل کے ہمراہ آپ سے ملنے آئی تھی اور وہ وہاں سے مدراس تک آپ کی شریکِ سفر رہی تھی ۔ آپ نے یہ بھی بتایا تھا کہ اس بچی کو ان سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا کیونکہ اسے ان کی ملّی نظمیں بہت پسند تھیں اور کئی ایک اس نے ازبر کر رکھی تھیں ۔ وہی مس حجاب اسماعیل اب بیگم حجاب امتیاز علی تاج ہیں ۔ چنانچہ کتاب زیرِ نظر کی اشاعت کے سلسلے میں جب میں سید امتیاز علی تاج صاحب کو ملا تو اس واقعے کا ذکر بھی آیا ۔ سید صاحب قبلہ نے نہ صرف اسے درست قرار دیا بلکہ چند مزید واقعات بھی بیان فرمائے جو انھوں نے اپنی بیگم صاحبہ کی زبانی سن رکھے تھے ۔ میں نے سید صاحب سے گزارش کی کہ اگر وہ بیگم صاحبہ سے ان واقعات کو تفصیلاً لکھوا دیں تو ان کو اس کتاب میں محفوظ کر دیا جائے ۔ انھوں نے میری اس تجویز کی تائید فرمائی ، چنانچہ میں نے ایک مختصر سا سوالنامہ ترتیب دے کر ان کے حوالے کیا کہ وہ اسے اپنی بیگم صاحبہ کی خدمت میں پیش کردیں تاکہ وہ اس کی روشنی میں تفصیلات بیان کر سکیں ۔ چنانچہ میرے اس سوالنامے کے جواب میں محترمہ حجاب امتیاز علی نے جس تفصیلی بیان سے نوازا ہے ، اسے یہاں شکریے کے ساتھ من و عن پیش کیا جا رہا ہے ۔ محترمہ کے بیان میں خاص طور پر وہ واقعہ قابلِ غور ہے جس میں انھوں نے ’’ بساٹو ہوٹل ‘‘ میں شاعر مشرقؒ کی دعوت کا ذکر کیا ہے اور تصدیق فرمائی ہے کہ حکیم الامتؒ شراب بالکل نہیں پیتے تھے ۔ محترمہ کا بیان میری اس تحقیق کے لیے باعثِ تقویت ہے کہ حضرتِ علامہ علیہ الرحمہ نے کبھی شراب سے شغف نہیں رکھا ۔ محترمہ حجاب امتیاز علی نے اپنے اس بیان کا عنوان رکھا ہے : شاعر مشرق ؒ سے میری ملاقات اور آپ یوں رقم طراز ہوتی ہیں : ’’ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ سے میری ملاقات کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ اب اس کی تفصیلات میرے ذہن میں وضاحت سے محفوظ نہیں ۔ وقت کی گرد نے انھیں دھندلا دیا ہے ۔ تاہم چند باتیں آج بھی روزِ روشن کی طرح میری یادوں کو درخشاں کر رہی ہیں ، اس لیے کہ یہ خوش گوار یادیں ہیں اور بچپن کی یادیں ہیں ۔ ایک دفعہ ممتاز حسن صاحب نے بھی فرمایا تھا کہ میں علامہ صاحب سے اپنے بچپن کی ملاقات کے سلسلے میں کچھ لکھوں ، مگر اس کا مجھے موقع نہ ملا ۔ اب آپ نے تاکیداً فرمائش کی ہے تو آپ کے سوالات کو نمبر وار پڑھ کر ان کا جواب لکھتی ہوں ۔ مسلم لیگ ایجوکیشن کانفرنس نے علامہ کو پنجاب سے جنوبی ہند چند اہم لکچرز دینے کے لیے کالے کوسوں بلایا تھا ۔ اس وقت میری عمر چھوٹی تھی ۔ جب میرے والد سید محمد اسماعیل مرحوم نے یہ مژدہ مجھے سنایا کہ علامہ صاحب آر ہے ہیں تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ اس لیے کہ میرا تمام بچپن ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا ‘‘ اور ’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ گاتے گزرا تھا ۔اور میں یہ ترانہ چھ سات سال کی عمر ہی میں بہت جوش اور ولولے سے گایا کرتی تھی اور اپنے لکھنے پڑھنے کے کمرے میں بلیک بورڈ پر یہ ترانہ لکھا بھی کرتی تھی ۔ اب قومی ترانے کے اس عظیم شاعر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا سنہرا موقع نصیب ہو رہا تھا ۔ غرض کچھ نہ پوچھیے شوقِ ملاقات نے مجھے کس درجے بیتاب کر دیاتھا ۔ میں نے اپنے والد سے کہہ دیا تھا کہ میں علامہ کے دورِ قیام میں تمام وقت ان کے ساتھ رہوں گی ۔ میرے والد نے مجھے سمجھایا کہ وہ ایک مقصدی سفر پر آ رہے ہیں ، ان کا قیام بہت مختصر اور مصروف ہو گا ، دعوتی رقعے میرے نام بھی آئے ہیں ، میں تمھیںبھی ساتھ لے جانے کی کوشش کروں گا ۔ اس کے باوجود میں بضد ہوئی اور جس دن علامہ مدراس پہنچ رہے تھے ، میں اپنے والد کے ساتھ مدراس سے ایک اسٹیشن دور ان کے استقبال کے لیے جا پہنچی ، کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ مدراس کے اسٹیشن پر علامہ صاحب کے استقبال کے لیے لوگوں کا ہجوم ہو گا ۔ اسٹیشن جانے سے پہلے مجھے خیال آیا کہ علامہ کے لیے کوئی تحفہ بھی لے جانا چاہیے ۔ بہت سوچا کوئی چیز سمجھ میں نہ آئی ۔ آخر اپنے ڈریسنگ ٹیبل پررکھی ہوئی یوڈی کلون کی چھڑکاؤ کی ایک کٹ گلاس کی خوبصورت صراحی لے لی تاکہ علامہ کو تحفہ دوں ۔ مگر جب میرے والد نے اسے دیکھا تو کہا کہ بھلا انھیں اس صراحی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ؟ وہ ایک سنجیدہ علمی آدمی ہیں، کوئی تحفہ دینا ہی تھا تو پہلے سے سوچ لیا ہوتا ۔ میں بہت مایوس ہوئی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارا ملک ( جو سچ پوچھیے تو ہمارا نہیں بلکہ برٹش حکومت کا تھا ) انگریزیت میں رچا بسا تھا ۔ تعلیم ، معاشرت ، زمین ، آسمان سبھی کچھ انگریزی ہوتا تھا ۔ جب میں شاعرِمشرقؒ کے استقبال کے لیے اپنے والدِ ماجد کے ساتھ مدراس سے ایک اسٹیشن پہلے ’’ بیسن برج ‘‘ پہنچی تو میرا لباس انگریزی تھا اور جنوبی ہند میں یہ کوئی نئی چیز نہ تھی ۔ سبھی یہ لباس پہنتے تھے ۔ میرے والد بھی انگریزی سوٹ میں تھے ۔ پلیٹ فارم پر ابھی ٹرین آئی نہ تھی اور میں شوق و ولولہ کے ساتھ اپنی تصوراتی دنیا میں غرق تھی ۔ خیال تھا ، صبح کا وقت ہے ، علامہ صاحب ایک اعلی ٰ درجے کے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس ہوں گے ،نکٹائی بھی میچ کر کے لگا رکھی ہو گی ، انگلیوں میں موٹا سا سگار سلگ رہا ہوگا ۔ ٹرین پلیٹ فارم پر آ کر رکی ۔ میں اور میرے والد اور والد کے چند اور دوست ، جو وہاں مل گئے تھے ، فرسٹ کلاس کے ڈبوں میں جھانک جھانک کر دیکھتے رہے مگر خلاف توقع علامہ صاحب سیکنڈ کلاس میں تھے ۔ اس وقت مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ اتنا عظیم آدمی اور سیکنڈ کلاس میں سفر ! میں نے اپنے والد سے سرگوشی میں کہا کہ اگر کوئی انجمن مجھے سیکنڈکلاس کا ٹکٹ بھیج کر بلواتی یامیں علامہ اقبالؒ ہوتی تو صاف انکار کر دیتی ۔ میرے والد نے کہا کہ بڑے لوگ چھوٹی باتوں کو خاطرمیں نہیں لاتے ۔ مگر مجھے ذہنی دھچکا لگ چکا تھا ۔ ٹرین کھڑی ہو گئی اور مدراس سے ایک اسٹیشن دور ہونے کے باوجود بہت لوگ استقبال کے لیے پھولوں کے ہار لیے موجود تھے ۔ مگر میں اس ہجوم کو نظر انداز کرتے ہوئے شوقِ دید میں کمپارٹمنٹ میں چلی گئی ۔ استقبال کرنے والے میزبانوں میں شہر کے کئی معززین ایسے تھے جو میرے والد کو جانتے تھے ۔ انھوں نے میرے والد کا تعارف علامہ صاحب سے کروایا ۔ شاعرِ مشرقؒ کھڑے ہو کر ہاتھ ملانے اور رسمی باتیں کرنے لگے ۔ میں ورطۂ حیرت میں غوطہ زن ایک کونے میں کھڑی انھیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی ، یعنی اپنے بچپن کے گیتوں کے ہیرو کو ! کیا یہی علامہ اقبالؒ ہیں جنھوں نے ’’ چین و عرب ہمارا سارا جہاں ہمارا ‘‘ لکھا ؟ وہ نہ اعلیٰ درجے کے ہلکے رنگ کے سوٹ میں ملبوس تھے ، نہ ہی ان کی انگلیوں میں موٹا سگار جل رہا تھا ۔ انھوں نے پنجابی شلوار پہن رکھی تھی اور کرتے پر واسکوٹ اور پاؤں میں دیسی جوتی (گرگابی یا پمپ شو) ، جیسی کہانیوں کی کتابوں میں میں نے جادوگروں کو پہنے ہوئے دیکھا تھا۔ بڑی حیرت ہوئی ۔ میرے تصورات کی جنت پارہ پارہ ہوگئی ۔ وہ تو خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے کے الف لیلوی بغداد کا ایک کردار نکلے ۔ بات یہ تھی کہ میں نے پنجابی لباس کبھی دیکھا نہیں تھا ۔ آنکھیں عاد ی نہ تھی ۔ اس لیے قبول کرنے میں کچھ دقت ہو رہی تھی اور تو اور انگلیوں میں موٹے سگار کی بجائے سامنے حقہ اور اس پر چلم رکھی تھی ۔ ذہن کو دھچکے پر دھچکے لگ رہے تھے ۔ میں انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ اچانک میرے والد نے نہ جانے کیا کہہ کر میرا تعارف کرایا ۔ یہ بھی کہا کہ ان کے قومی ترانے میری گھٹی میں پڑے ہیں ۔ میں حیران اور ذرا شرمندہ سی ہو رہی تھی کہ اب ان سے کیا بات کروں ؟ نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ مجھے ملنے کے لیے کھڑے ہو گئے تھے اور شفقت سے مسکراتے ہوئے مجھے بغور دیکھ رہے تھے ۔ ( کیا معلوم میرا انگریزی لباس ان کو اتنا ہی عجیب لگ رہا تھا جتنا مجھے ان کا پنجابی لباس عجوبہ معلوم ہو رہا تھا ؟ ) پھر مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا ۔ بٹھاتے ہی ایک سگریٹ کا ڈبہ کھول کر مجھے سگریٹ پیش کیا ۔ اس پر میرے والد کے ایک دوست نے ، جو مسلم لیگ کے ممبرتھے اور علامہ کے استقبال کے لیے آئے تھے ، مسکرا کر کہا : ’’ سگریٹ ؟ ابھی تو یہ سینٹ تھامس کانونٹ میں پڑھتی ہیں ۔ ‘‘ میرے والد بھی ہنسنے لگے تھے اور میں گھبرا کر خاموش ہو گئی تھی ۔ کانونٹ کا نام سن کر علامہ میری طرف متوجہ ہو گئے ۔ مسکرا کر فرمانے لگے : ’’بتائیے کانونٹ میں عیسائیت کا آپ نے اب تک کتنا اثر قبول کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ بہت تھوڑا سا ۔ ‘‘ اس پر علامہ صاحب ہنس پڑے ۔ ٹرین چلنے لگی ۔ اب میں نے بھی علامہ صاحب سے کچھ سوالات شروع کیے جن کی تفصیل اس وقت یاد نہیں ، مگر اتنا یاد ہے کہ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ اتنے دلنشین ترانے ، مثلاً ’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ کیسے لکھ لیتے ہیں ؟ اس پر شاعر مشرقؒ نے بے حد شگفتگی سے فرمایا : ’’ اب میں مان گیا کہ عیسائیوں کے کانونٹ کا آپ نے ذرا بھی اثر قبول نہیں کیا ، جبھی تو آپ کا ’’ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا ‘‘ پر ایمان ہے۔ آپ کے عقائد آپ کے طرز و ادا اور آپ کی باتوں کو سن کر میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں کہ آپ کا نام ’شیریں ‘ ہونا چاہیے تھا ۔ ‘‘ پھر میرے والد کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور پوچھا : ’’ کیوں سید صاحب ! آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے ؟ ‘‘ گفتگو یہیں تک پہنچی تھی کہ مدراس کا لمبا چوڑا پُر شور اسٹیشن آ گیا ۔ مجھے بہت صدمہ ہو ا کیونکہ ابھی میری ملاقات تشنہ معلوم ہو رہی تھی اور ان سے دوبارہ ملنے کی مجھے امید نہ تھی ۔ لوگ ان کے استقبال کے لیے چیونٹیوں کی طرح اوپر چڑھ آئے اور علامہ کو پھولوں کے ہاروں سے لاد دیا ۔ علامہ نے بہت سے ہار میرے گلے میں ڈال دیے ، بعض لوگوں کو دھوکا ہوا کہ میں بھی ان کے ساتھ آئی ہوں اور مہمان ہوں۔ میرے والد نے علامہ کو خداحافظ کہا اور جانے کے لیے مڑے مگر عین وقت پر میں نے علامہ سے پوچھ ہی لیا کہ میں دوبارہ کب ملوں؟ اس پر انھوں نے مسکرا کر کہا جس وقت آپ کا دل چاہے ۔ یہ سن کر میرے والد قریب آ گئے ، انھوں نے علامہ سے کہا کہ آج سوا بجے بساٹو ہوٹل (ڈیان جیلیز ہوٹل ) میں آپ کا استقبالیہ لنچ ہے ، میں اور حجاب بھی موجود ہوں گے ۔ یہ کہہ کر وہ علامہ سے ہاتھ ملا کر مڑ گئے ۔ مجھے اس لنچ کی خبر نہ تھی ، نہ میرے والد نے ذکر کیا تھا ۔ بہت ہی خوش خوش گھر پہنچی ۔ اب مجھے شاعرِ مشرقؒ کا لباس اور دیسی جوتیاں بری نہ لگتی تھیں کیونکہ ان کی گفتگو بہت شائستہ اور دلچسپ تھی ۔ سوا بجے میں اپنے والد کے ساتھ لنچ کے لیے بساٹو ہوٹل پہنچی جوشہر کا سب سے بڑا ہوٹل سمجھا جاتا تھا ۔ اس زمانے میں اس کا نام ڈیان جیلیز تھا ۔ ظاہر ہے کہ لنچ بہت بڑا تھا ۔ بیشمار مسلم لیگی ، شہر کے رؤسا اور بہت سے لیڈر اور خدا جانے کون کون شریک تھا ۔ لنچ سے پہلے استقبالی کمرے میں مہمانوں کا ہجوم تھا ۔ مجھے موقع ہی نہ ملا کہ میں علامہ کے قریب جاتی ، لیکن اتفاق کی بات کہ ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی ۔ انھوں نے وہیں سے ہاتھ ہلا کر مجھے سلام کیا ۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ لباس تبدیل کر چکے ہیں ۔ اب وہ ایک کھلے نیلگوں گرے رنگ کے سوٹ اورکالی ٹوپی میں ملبوس تھے ۔ یہ دیکھ کر میں بہت خوش ہوئی کہ وہ نارمل لباس بھی پہنتے ہیں ۔ میرے والد تو دوستوں سے بات چیت میں لگے ہوئے تھے اورمیں ایک کونے میں کھڑی سوچ رہی تھی کہ نہ معلوم مجھے علامہ سے کچھ باتیں کرنے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں ۔ مجھے ابھی کئی باتیں ان سے کرنی تھیں ۔ ایک ارادہ یہ تھاان سے کہوں کہ انگریزی کی مشہور نظم ’’ ہوم سویٹ ہوم ، دیر از نو پلیس لائک ہوم ‘‘ جیسی ایک نظم وہ ضرور لکھیں اور اس پر یہ بھی ضرور لکھیں کہ یہ حجاب اسماعیل کی فرمائش پر لکھی گئی ہے (اس زمانے میں میں مس حجاب اسماعیل کہلاتی تھی )۔ کمرۂ خاص میں داخل ہوئے تو لمبی لمبی میزوں پر شراب کے گلاسوں کے پاس مہمانوں کی نشست کے لیے ان کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ یہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ اب مجھے شاعرِ مشرقؒ سے بات کرنے کا موقع ہرگز نہ ملے گا ۔ ظاہر ہے مہمان خصوصی کے دائیں بائیں سر محمد عثمان یا سر سی۔ حکیم جیسے بزرگ بیٹھیں گے اور نہ جانے میری نشست کا کارڈ شراب کے کس پیالے کے سایہ تلے ہو گا ؟ مہمان کارڈ دیکھ دیکھ کر اپنی نشستوں پر بیٹھنے لگے تو مجھے تشویش سی ہوئی کہ جانے میرا کیا حشر ہو اور کہاں بٹھائی جاؤں ۔ مگر میرے تعجب اور شاید کئی اور لوگوں کے تعجب کی انتہا نہ رہی جب علامہ صاحب نے خود اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف کی کرسی کھینچتے ہوئے میری طرف دیکھ کر فرمایا : ’’ کیا مضائقہ ہے اگر آپ یہاں تشریف رکھیں ؟ ‘‘ مجھے معلوم تھا کہ میرے یہاں بیٹھنے سے نشستوں کی ترتیب میں بے ترتیبی ہو جائے گی اس لیے میں ذرا تامل کر رہی تھی کہ سیٹھ حمید حسن صاحب ، جو منتظموں میں سے تھے ، مجھے کہنے لگے : ’’ چلیے چلیے علامہ صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘ اس خلافِ توقع عزت افزائی پر مجھے دلی خوشی ہوئی ۔ کھانا شروع ہوا ۔ علامہ صاحب میزبانوں اور دوسرے مہمانوں سے مصروفِ گفتگو تھے۔ ادھر موقع دیکھ کر میں بھی ان سے باتیں کر رہی تھی ۔ جب میرے اور علامہ صاحب کے آگے رکھے ہوئے گلاسوں میں مختلف قسم کی شراب بیروں نے ڈالنی شروع کیا تو ایک بیرے سے میں نے آہستہ سے کہا : ’’ میرے لیے لیمونیڈ لے آؤ ۔ ‘‘ تھوڑی دیر علامہ صاحب چپ رہے ، پھر بولے : ’’ آپ صرف لیمونیڈ پئیں گی ؟ ‘‘ میں نے کہا : ’’ ہاں میں شراب نہیں پیتی ۔ آپ پی لیتے ہیں؟ ‘‘ ہنس کر کہنے لگے : ’’ بالکل نہیں ۔ آپ کو شاید معلوم نہیں ، میں نے اپنے قیام انگلستان کے دوران بھی کبھی شراب کا ایک قطرہ نہیں چکھا ۔ ‘‘ یہ فقرہ سن کر آس پاس جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے ، انھوں نے خوشی میں تالیا ں بجائیں ۔ شام کو لالی ہال میں علامہ کی تقریر تھی جس میں میں بھی شریک تھی اور جتنے دنوں ان کی تقاریر ہوتی رہیں ، میں بھی باقاعدگی سے ان میں جاتی رہی ۔ اس کے بعد ایک اور ملاقات میں ، جو علامہ صاحب کے ہوٹل کے کمرے میں ہوئی جہاں ملاقاتیوں کا تانتا لگا رہتا تھا ، انھوں نے میرے پوچھنے پر اپنے کچھ حالات سنائے جس کی تفصیل مجھے یاد نہیں۔ شمس العلماء مولوی سید ممتاز علی مرحوم ، ’ تہذیب ِ نسواں ‘ اور ’ پھول ‘ کا بھی انھوں نے ذکر کیا ۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک لطیفہ بھی سنایا کہ ’تہذیب نسواں ‘ کی ایک تہذیبی بہن نے مجھے خط لکھ کرکوئی سوال کیا اور خواہش ظاہر کی کہ میںاس کا جواب ’ محفل تہذیب ‘ کے ذریعے انھیں دوں ۔ میں یہ بھی کرتا مگر مجبوری یہ تھی کہ ان کے سوال کی نوعیت کچھ ایسی تھی جس کا جواب میں جانتا نہ تھا ۔ جاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ، آپ ایک جوشیلی اور پُرخلوص مسلمان بچی ہیں ۔ ‘‘ محترمہ حجاب امتیاز علی کے مندرجہ بالا بیان سے حکیم الامتؒ کے قیام مدراس کے چند نئے واقعات منظرِ عام پر آئے ہیں ۔ لیکن بعض مقامات پر تفصیل یاد نہ ہونے کا سہارا لے کر محترمہ نے بات کو مختصر کر دیا ہے ۔ میں ان کی خدمت میںگزارش کروں گا کہ وہ ذہن پر زور ڈالیں اور ان تفصیلات کو بھی بیان فرمائیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان تفصیلات میں ، جنھیں محترمہ معمولی نوعیت کا خیال کر رہی ہیں ، ایسے نکتے پوشیدہ ہوں جو شاعرِ مشرقؒ کی شخصیت کے کسی اہم پہلو کو منظر عام پر لانے میں معاون ثابت ہوں ۔ کیا شاعرِ مشرقؒ کی ایک آنکھ مصنوعی تھی ؟ ایک روز میں ’’ مجلس ترقی ادب ‘‘ لاہور کے دفتر میں جناب گوہر نوشاہی کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ سہ ماہی ’’ اقبال ‘‘ کے مدیر جناب محمد سعید شیخ بھی وہاں تشریف لے آئے ۔ موضوع سخن حیات اقبالؒ اور زیادہ تر کتاب زیر نظر رہی جو ان دنوں بزم ِ اقبال کی طرف سے طبع کروائی جا رہی تھی ۔ دورانِ گفتگو سعید صاحب نے یہ انکشاف کر کے مجھے چونکا دیا کہ انھیں با وثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ شاعرِ مشرقؒ کی ایک آنکھ مصنوعی تھی ۔ میں نے اس کی تردید کی کیونکہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ۔ مگر گوہر نوشاہی صاحب نے بتایا کہ انھوں نے بھی بیشتر افراد سے یہ سنا ہے کہ چونکہ حکیم الامتؒ کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی اس لیے انھوں نے اس کی جگہ پتھر کی مصنوعی آنکھ لگوا رکھی تھی ۔ میں یہ سن کر تذبذب میں پڑ گیا ۔ چنانچہ وہاں سے واپس آ کر میں نے اپنی والدہ ماجدہ ، والدِ مکرم اور خاندان کے دیگر بزرگوں سے اس سلسلے میں معلوم کیا تو ان سب نے اس کی تردید کی کہ علامہ مرحوم کی ایک آنکھ مصنوعی تھی ۔ دراصل شاعرِ مشرقؒ کی ایک آنکھ کی بینائی بچپن سے ہی کمزور تھی اور آپ لکھنے پڑھنے کے لیے چشمہ استعمال کیا کرتے تھے ۔ ۱۹۰۱ء میں ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنری کے مقابلے کے امتحان میں بینائی کی اسی کمزوری کی بنا پر آپ کو طبی معائنے میں ناکام قرر دے دیا گیا تھا ۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ آپ کی اس آنکھ کی بینائی کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی ، یہاں تک کہ عمر کے آخری چند برسوں میں آنکھ میں پانی اترنے کی شکایت ہو گئی اور ۱۹۳۷ء کے اوائل میں آنکھ میں موتیا اترنے لگا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ ستمبر ۱۹۳۸ء میں اس کا آپریشن ہو سکے گا مگر مشیّتِ ایزدی نے اس کی نوبت نہ آنے دی ۔ مندرجہ بالا حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاعرِ مشرقؒ کی ایک آنکھ مصنوعی نہیں بلکہ کمزور تھی جو آخر عمر میں موتیا اترنے کی وجہ سے بند ہوگئی تھی ۔ ویسے والدہ مکرمہ بتاتی ہیں کہ ’’ چچا جان کی ہمیشہ سے یہ عادت تھی کہ دور کی چیزیں دیکھتے ہوئے اپنی کمزور آنکھ بند کر لیا کرتے تھے ۔ ‘‘ ہو سکتا ہے کسی نے انھیں اس طرح دیکھ کر یہ فرض کر لیا ہو کہ ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے یا موتیے کی وجہ سے بند آنکھ کو کسی نے موتیے کے سفید پردے کی وجہ سے پتھر کی مصنوعی آنکھ تصور کر لیا ہو ۔ میں اصحاب فہم سے گزارش کروں گا کہ اس قسم کی بے بنیاد افواہوں پر یقین کرنے سے پہلے اگراچھی طرح تحقیق کر لی جایاکرے تو ایسے مضحکہ خیز اور تکلیف دہ حالات پیدا ہونے کے امکانات یقینا ختم ہو سکتے ہیں۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ، سول ہسپتال جہلم ۔ آپ حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں ۔ ۲۔ شیخ عطا محمد مرحوم و مغفور کے منجھلے صاحب زادے شیخ امتیاز احمد مرحوم کی بیگم صاحبہ ۔ ۳۔ Ext.Glycerhiza Liq.یہ عام ملٹھی کا مرکب ہوتا ہے ۔ ۴۔ آپ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج لاہور میں پروفیسر تھے ، جہاں سے حال ہی میں آپ خرابیِ صحت کی بنا پر ریٹائر ہوئے ہیں ۔ آپ علامہ اقبال کے بڑے معتقد ہیں ۔ (مصنف) ۵۔ ان دنوں ابھی مزارِ اقبال پختہ نہیں بنا تھا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔