ارتباط حرف و معنی بالِ جبریل کے نظمِ معنوی پر ایک نظر خرم علی شفیق اقبال اکادمی پاکستان بروشر سیریز ۔۔۔۔۔۴۲ ناشر محمدسہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان (حکومتِ پاکستان، وزارت ثقافت ) چھٹی منزل ، ایوان اقبال ، لاہور Tel: [+92-42] 6314-510 Fax: [+92-42] 631-4496 Email: director@iap.gov.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 978 - 969 - 416 -397 -0 طبع اوّل : ۲۰۰۸ء تعداد : ۵۰۰ قیمت : ۷۰ روپے مطبع : شرکت پرنٹنگ پریس،لاہور محل فروخت : ۱۱۶ میکلوڈ روڈ ، لاہور، فون نمبر ۷۳۵۷۲۱۴ بالِ جبریل کے بارے میں یہ معروضات میں نے پہلی بار ۱۹۹۳ء میں لکھنا شروع کی تھیں مگر پھر اقبال کی سوانح لکھنے کے کام کی وجہ سے اِنہیں ادھُورا چھوڑ دیا۔ دس سال بعد ڈائرکٹر اقبال اکادمی پاکستان جناب سہیل عمر کی فرمایش پر اکادمی کے مجلّے اقبالیات کے لئے اِنہیں ازسرِ نَو تحریر کیاجو ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۵ء میں تین اقساط میں شائع ہوئیں۔اب نظر ثانی کے بعد کتابچے کی صورت میں پیش کی جا رہی ہیں۔ میں جناب رفیع الدین ہاشمی اور جناب احمد جاوید کا شکرگزار بھی ہوں جنہوں نے میری رہنمائی کی۔ بالِ جبریل اقبال کی دُوسری اُردو شعری تصنیف تھی۔ یہ پہلی بار ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ اِس میں شامل منظومات پچھلے نو دس برس میں لکھی جاتی رہیں مگر اُن میں سے زیادہ تر آخری دو تین برس میں لکھی گئیں جب اقبال اپنی دو عظیم فارسی شعری تصانیف زبورِعجم(۱۹۲۷) اور جاویدنامہ (۱۹۳۲)، اسلامی فکر کی تشکیلِ جدید پر انگریزی خطبات (۱۹۳۰) اور مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس کے خطبۂ صدارت (۱۹۳۰) کی تحریر سے فراغت پا چکے تھے۔ بالِ جبریل کو اِن تحریروں کی روشنی میں پڑھنا چاہیے کیونکہ اِس میں اُن کی طرف خفی اور جلی اشارے موجود ہیں۔ اقبال نے بالِ جبریلکی نظمیں پہلے ایک بڑے سائز کی بیاض میں لکھیں اور پھر وہاں سے اُنہیں صاف مسودے کی شکل میں دوبارہ لکھا۔ یہ دونوں دوستاویزات علامہ اقبال میوزیم (جاویدمنزل) لاہور میں اور ان کی نقول اقبال اکادمی پاکستان میں موجود ہیں۔اقبال کی زندگی میں شائع ہونے والا اس کتاب کا واحد اڈیشن اِسی مسودے کے مطابق تھا۔ اِس کے لیے اُنہوں نے کاتب کو واضح ہدایات دی تھیں یہاں تک کہ خود طے کیا تھا کہ کون سی نظم میں اشعار کے دونوں مصرعے ایک دوسرے کے مقابل اور کون سی نظم میں اوپر نیچے لکھے جائیں گے۔ بالِ جبریل کی ترتیب اُس کی معنوی شکل کا حصہ ہے۔ اُسے نظرانداز کر کے ہم اصل مطلب سے دُور ہو جاتے ہیں۔ عنوان اگرچہ ’’بالِ جبریل‘‘ کی ترکیب اقبال نے جاویدنامہ میں فلکِ قمر پر استعمال کی تھی مگر وہاں کسی اور معنی میں تھی کہ نبوت وہ حقیقت ہے جس سے جبریل کے پروں کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معراج سے متعلق اُس حدیث کی طرف اشارہ تھا جب ایک مقام پر جبرئیل علیہ السلام بھی رُک گئے تھے جہاں سے آگے رسولؐ اللہ کو تنہا جانا تھا۔ البتہ بالِ جبریل کی ترکیب جب کتاب کا عنوان بنتی ہے تو اُس پرغور کرنا ضروری ہے۔ یہ اُس فرشتے کا نام ہے جس کے ذمے پیغمبروں کے پاس وحی لانے کا فریضہ تھا مگر اسلامی تصوف میں جبرئیل کے پَروں کی علامت سے کچھ اور راز بھی وابستہ ہیں۔ اشراقی فلسفے کے بانی شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول جنہیں۱۱۹۱ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی فارسی میں اُن کی ایک تصنیف آوازِ پرِ جبرئیل ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ جبرئیل کے دو پَر ہیں جن میں سے دایاں خدا کی روشنی سے منور ہے اور اِسے دنیا سے کوئی کام نہیں۔ سچائی کی روشنی اِسی کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ بایاں پَر جبرئیل کی اپنی ہستی کا نمائندہ ہے لہٰذا اِس کی روشنی پر عدم کے اندھیرے کے دھبے ہیں جیسے چاند کے پُرنوُر چہرے پر داغ۔ اِس بائیں پر کا سایہ پڑتا ہے تو دنیائے وہم و فریب جنم لیتی ہے۔ آوازِ پرِ جبرئیل اقبال کی نظر سے گزری ہو یا نہیںمگر وہ شیخِ مقتول کے فلسفے سے اِتنے واقف ضرور تھے کہ۱۹۰۷ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اُن کی فکر پر تفصیل سے لکھا تھا اور ۱۹۲۹ء میں تشکیلِ جدید والے خطبات میں بھی اُن کا ذکر کیا تھا۔ بالِ جبریل کے عنوان پر غور کرتے ہوئے ہمیں یہ حوالہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جب کبھی اِس موضوع پر تحقیق ہوئی کہ کب کون سی کتب اقبال کے مطالعے میں آئیں تو شائد اِس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ اپنی کتاب کا عنوان تجویز کرتے ہوئے اقبال کے سامنے کون کون سے صوفیانہ خیالات موجود تھے۔ اِس تاریخی معلومات کے بغیر بھی یہ حوالہ دلچسپ اورغورطلب ہے۔ ابتدائی صفحات اقبال نے فہرستِ مضامین شامل کرنا مناسب نہیں سمجھی۔ اِس سے پہلے شائع ہونے والی شعری کتابوں میں سے پیامِ مشرق، بانگِ درا اورجاویدنامہ کے شروع میں فہرستیں موجود ہیں جبکہ اسرارورموز اور زبورِعجم میںنہیں ہیں۔ مؤخرالذکر دراصل مجموعے نہیں بلکہ مسلسل بیانات ہیں۔ بالِ جبریل میں بھی فہرست موجود نہ ہونااِس کتاب کو شروع سے آخر تک ایک ساتھ پڑھنے کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے۔ مثال کے طور پر ناولوں کے شروع میں ابواب کی فہرست عام طور پر نہیں ہوتی مگر افسانوں کے مجموعے میں ضرور ہوتی ہے تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ ناول شروع سے آخر تک مستقل پڑھا جاتا ہے جبکہ افسانوں کے مجموعے میں سے اپنی پسند کا افسانہ نکال کر اُسے پہلے پڑھ لیتے ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ جاوید نامہ بھی ایک مسلسل کتاب ہے تو پھر اُس کی ابتدا میں اُنہوں نے فہرست کیوں شامل کی؟ شائد وہاں موضوعات کی ندرت کا تقاضا تھا کہ قارئین کو شروع ہی میں اُن کی ایک جھلک دکھا کر بتا دیا جائے کہ یہ کتاب کسی دوسرے جہان سے تعلق رکھتی ہے۔ بالِ جبریل کے اصل معانی تک پہنچنے کے لیے کتنی نزاکتوں پر نظر رکھنی ضروری ہے اِس کا اندازہ سنسکرت شاعر بھرتری ہری کے اُس شعر سے لگانا چاہیے جس کا ترجمہ اقبال نے کتاب کے شروع میں یوں کیا ہے: پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر ۱ سے ۱۶ تک بالِ جبریلکے شروع میں منظومات ہیں (جنہیں عام طور پر غزل سمجھا جاتا ہے) جن کے نمبرشمار سولہ تک پہنچ کر دوبارہ ایک سے شروع ہو جاتے ہیں۔ جب سے کلامِ اقبال پر کاپی رائٹ ختم ہوئے ہیں ناشروں نے اپنی مرضی سے اِن منظومات پر غزلیات کا عنوان دے دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ غلط ہے۔ زبورِ عجم کی منظومات کی طرح اِن میں سے بھی بعض غزل کے مروجہ سانچے پر پوری نہیں اُترتی ہیں اور اقبال کی زندگی میں اُن کے دوستوں مثلاً سید سلیمان ندوی نے اِقبال کی اِس قسم کی چیزوں کو غزل نما ٹکڑے کہا تھا۔ اقبال نے مسودے کی بعض ہدایات میں کاتب کی سہولت کے لیے انہیں غزل بھی لکھا مگر وہ ہدایات اشاعت کے لیے نہیں تھیں۔ اشاعت میں اِنہیں غزل نہیں کہا۔ وضاحتی نوٹ بھی اس قسم کے ہیں مثلاً ’’لندن میں لکھے گئے،‘‘ گویا مذّکر کے استعمال سے انہیں اشعار قرار دیا ہے غزل نہیں۔ تاہم اِنہیں غزل کَہ سکتے ہیں یا نہیں، میں یہ لسانی بحث دُوسرے ماہرین کے لیے چھوڑنا چاہوں گا۔ مجھے دو باتوں پر اِصرار ہے: ۱۔ بالِ جبریلکے مطبوعہ نسخوں میں یہاں غزل کا عنوان ڈالنا مصنف کے منشا کے خلاف ہے۔ ۲۔ منظومات نمبر ۱ سے ۱۶ کے اشعار کو غزل کے اجزأ کی طرح فرداً فرداً پڑھنے سے معانی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ اِن سولہ ٹکڑوں میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ نمبر ڈالے گئے ہیں (بانگِ درا اور پیامِ مشرق کی غزلوں پر نمبر نہیں ہیں)۔ چنانچہ یہ نمبر ۱۶ کے بعد دوبارہ ایک سے شروع ہوتے ہیں جب نیا مضمون شروع ہوتا ہے۔ یہ بات عام طور پر جلدی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ پہلی منظومات میں خدا سے اور اگلی میں انسان سے خطاب ہے (زبورِ عجم میں بھی ایسا ہی ہے)۔ نیز مسودے میں کاتب کے لیے واضح ہدایت موجود تھی کہ بعض رباعیات کو پہلے حصے میں شامل کیا جائے۔ اِن میں بھی خدا سے خطاب ہے۔ بالِ جبریلکا پہلا شعر بہت مشہور ہے اور عجیب و غریب غنائی تاثر رکھتا ہے: میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں اگرہم یہاں ایک لمحہ رک کر پوچھیں کہ یہ بات کون کہہ رہا ہے اور کس موقع پر کہہ رہا ہے اور کسی وجہ سے یہ جواب تسلیم کر لیں کہ یہ بات کہنے والا آدم یا پہلا انسان ہے اور یہ بات وہ ابتدائے آفرینش یعنی اپنی تخلیق کے موقع پر کہہ رہا ہے تو نہ صرف اس ٹکرے کے معانی آپس میں مربوط ہو جاتے ہیں بلکہ اس حصے کے تمام سولہ ٹکڑے ایک مسلسل کہانی بن جاتے ہیں، یعنی ابتدائے آفرینش سے لے کر آخری زمانے تک (جسے آپ چاہیں تو کل جگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ویدانتی اصطلاح ہے مگراقبال نے بالِ جبریلکی تمہید بھی بھرتری ہری سے لی ہے)۔ شرحوں میں حریمِ ذات اور بت کدۂ صفات کے معانی خوب بیان کیے گئے ہیں۔ یہ بالترتیب لاہوت اور جبروت کی دنیائیں ہیں۔ قدیم فارسی شاعر نظامی گنجوی نے بھی خمسہ یعنی پانچ مثنویوں کے مجموعے میں اِنہیں پہلی دو مثنویوں مخزن الاسرار اور خسرو و شیریں کا موضوع بنایا تھا۔ حریمِ ذات میں خدا کے سوا کسی کی موجودگی نہیں اور وہاں وہ اپنی ذاتِ واحد میں موجود ہے۔ صفات سے مراد خدا کے جلوے ہیں جو ہمیں دنیا میں عام طور پر نظر آتے ہیں۔ انسان کے پیدا ہونے سے حریمِ ذات میں شور ہوا ہے (پیدایش پر شور ہوتا ہی ہے) اور بتکدۂ صفات میں غلغلہ مچ گیا ہے کیونکہ اس بتکدے کو درہم برہم کرنے والا پیدا ہو گیا ہے - یاد رہے کہ’’علم الاسمأ‘‘ ایک طرح سے آدم کی سرشت میں تھا! یہ ذرا عجیب معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پیدایش خدا کے حکم سے ہوئی ہے مگر یہ نوائے شوق کو اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔ اِس کی وضاحت جاویدنامہ سے ہوتی ہے۔ وہاں بھی ابتدائے آفرینش سے کتاب کا آغاز ہوتا ہے اور چیزوں کے وجود میں آتے ہی یہ عالم ہوتا ہے کہ: ہر کجا از ذوق و شوقِ خودگری نعرۂ ’من دیگرم، تو دیگری‘ یہ خودگری کا ذوق و شوق ہی ہے جسے آدم اپنی طرف منسوب کر رہا ہے۔ وہ نوائے شوق بھی اِسی سے ہے۔ حقیقت میں یہ آواز اگر اُس ساز کی ہے جو حریمِ ذات میں براجمان ہے تو رومی کی بانسری میں اور اقبال کی بانسری میں اتنا فرق ضرور ہے کہ یہاں ’من دیگرم، تو دیگری‘ کا نشہ ایک بے خودی کے طور پر ہی سہی، ایک خودفریبی کے طور پر ہی سہی، مگر موجود ضرور ہے اور جو لوگ دُوری کا رونا رونے والے کی فریادسے موسیقی کی طرح لطف اندوز ہوتے ہیں اُن میں خود فریاد کرنے والا بھی شامل ہے (اِس فرق سے رومی کے مقام میں کمی واقع نہیں ہوتی، شائد اقبال کے مقام میں کمی آتی ہو)۔ خدا سے دُوری اور قربت کا یہ تضاد، اُس کے وجود سے متعلق ہونے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کی کشمکش اور ِاِس پیچ و تاب کا حقیقت کے سامنے کوئی معانی نہ رکھنا یہ تمام کیفیات گیسوئے تابدار والے تیسرے ٹکڑے میں خوب کھل کر بیان ہوں گی : تُو ہے محیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بیکنار کر! پہلے ٹکڑے کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہ بات تسلیم کرنے سے کہ جاویدنامہ کی طرح بالِ جبریل کا آغاز بھی ابتدائے آفرینش سے ہو رہا ہے، اس ٹکڑے کے بقیہ اشعار کے معانی وسیع ہو جاتے ہیں۔ مثلاً : حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں یہ بات کسی ان دیکھی چیز کے بارے میں دعویٰ نہیں ہے بلکہ حور و فرشتہ اُس جنّتِ ماویٰ میں شاعر کے اردگرد چل پھر رہے ہیں۔ شاعربیانِ واقعہ کر رہا ہے کہ یہ نورانی صورتیں جو نظر آرہی ہیں یہ ُاس کے تخیل میں اسیر ہو گئی ہیں۔ اِسی طرح جن تجلیات کا وہ ذکر کر رہا ہے جن میں اس کی نگاہ سے خلل آ رہا ہے وہ بھی سامنے موجود ہیں۔ گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں یہ پیشین گوئی ہے۔انسان کی جستجو نے ابھی کعبہ اور سومنات کی تصویریں بنانا شروع نہیں کی ہیں اور یہ نہیں کہا جا رہا کہ ایسا ہوا ہے بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ایسا ہے - گویا اِمکان کو حقیقت کے انداز میں بیان کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہجاویدنامہ میں بھی جہاں انسان کی تخلیق کی پیشین گوئی ہو رہی ہے وہاں اس کے معجزات کے لیے بعض اوقات اسی طرح کے صیغے استعمال کیے گئے ہیں! اگلے شعر سے ذہن اُن واقعات کی طرف جاتا ہے کہ ایک طرف تو انسان نے کائنات کی ہر چیز کے درست نام بتا دئیے جس پر خدا نے فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور دوسری طرف اس کے بعد انسان اُسی ابلیس کے بہکاوے میں آگیا جس نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا: گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں یہاں اُن توہمات کی طرف ذہن جاتا ہے جنہیں ابلیس نے آدم کی فطرت میں تلاش کر کے فائدہ اٹھایا تھا یعنی یہ کہ شجرِ ممنوعہ کا پھل کھانے سے ہمیشہ زندہ رہو گے، فرشتے بن جاؤ گے، وغیرہ وغیرہ۔ آخری شعر ہبوط کے حکم پر انسان کا تبصرہ ہے: تُو نے یہ کیا غضب کیا، مجکو بھی فاش کر دیا میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں خدا نے انسان کو زمین پر بھیج کر سزا نہیں دی بلکہ اپنا راز فاش کرنے کا سامان کر لیا۔صرف انسان اِس کائنات کے سینے میں ایک راز تھا۔مثلاً انسان کی تخلیق سے پہلے فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان بڑا خونزیز ہوگا تو خدا نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ انسان کہہ رہا ہے کہ اب وہ بات ظاہر ہو جائے گی جو پہلے صرف خدا جانتا تھا اور فرشتے نہیں جانتے تھے۔ وہ بات کیا ہے؟ انسان کے وہ کون سے مضمرات ہیں جو صرف علمِ الٰہی میں تھے اور ایسے عظیم الشان کہ فرشتوں کو بھی ان کا پہلے سے علم نہیں تھا؟ اِس کا جواب اگلے ٹکڑوں میں بتدریج سامنے آئے گا۔بالِ جبریل کا ادبی حسن یہی ہے کہ اس میںموضوع کے لوازمات خود متن میں سے آتے ہیں مگر اُسے مربوط کر کے پڑھنا لازمی ہے۔ اب دوسرے ٹکڑے پر آئیے: اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا؟ مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو، جہاں تیرا ہے یا میرا؟ پورے ٹکڑے کا مضمون وہی ہے جو ایک اور نظم ’روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ وہاں نظم کی آزادی ہے یہاں تغزل کا انجذاب ہے۔اس کے علاوہ اگرچہ موضوع ایک ہے مگر معرضِ بحث الگ الگ ہیں۔ انسان زمین پر آ کر آسمان کی طرف دیکھتا ہے تو شائد خالق کا یہ بھید اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ آسمان جس کی روشنیوں کی بڑی دھوم دھام تھی درحقیقت اس کے چاند ستارے سب ٹیڑھے میڑھے ہیں اگر انسان کی نظر سے دیکھا جائے (جو اُس دیکھنے والے کی نظر ہے جو اپنے آپ کو نورِ حق سے دیکھ چکا ہے)۔ دُنیا میں ہر چیز ناتراشیدہ ہے جس کے پتھروں میں سے انسان کو شیشہ بنانا ہے اور جس کے زہر میں سے نوشینہ نکالنا ہے مگر ایک ضدی بچے کی طرح جسے اسکول جانا اِس لیے ناگوار گزرتا ہے کیونکہ والدین سے دُور نہیں ہونا چاہتا اور شائد ماں باپ کے سرزنش کرنے پر ذرا سا ناراض بھی ہے، انسان بھی ابھی یہ ذمہ داری اٹھانے میں پس و پیش کر رہا ہے۔ شائد انسان کو لامکاں سے مکاں میں بھیج کر خدا مطالبہ کر رہا ہے کہ اپنی ریاضت سے درجے بلند کر کے دوبارہ لامکاں میں آنے کی فکر کرے جس پر انسان آمادہ نہیں: اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لامکاں خالی خطا کس کی ہے یارب! لامکاں تیرا ہے یا میرا؟ اِس سے اگلا شعر ایک قسم کا لطیف طنز ہے جس کی ایمائیت واضح ہے۔ اُس کے بعد والے شعر کی عام طور پر جو تشریح کی جاتی ہے مجھے اُس سے اختلاف ہے: محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا مگر یہ حرفِ شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟ عام طور پر شارحین نے کہا ہے کہ حرفِ شیریںسے اقبال کی مراد اُن کا اپنا کلام ہے یا پھر جذبۂ عشق وغیرہ۔ میرے خیال میںاس شعرمیں ادبی حسن اُسی وقت پیدا ہوتاہے جب ہم یہ مراد لیں کہ حرفِ شیریں سے بھی قرآن ہی کی طرف اشارہ ہے ۔ کم سے کم ایک شارح نے پچاس ساٹھ برس پہلے یہ مفہوم لیا تھا مگر اکثر نے اُن سے اتفاق نہیں کیا۔ قرآن خدا کا کلام ہے جسے اُس کا معتبر فرشتہ خدا کے ایسے محبوب بندے پر لایا ہے جو معصوم ہے اور گناہگاروں خطاکاروں کو جس قسم کی کشمکش اور ٹوٹ پھوٹ کا ہر روز سامنا رہتا ہے اُس سے بلند ہے۔ پھر بھی یہ کلام ہم جیسوں کے دل کو سکون پہنچاتا ہے جیسے ہماری ہی آواز ہو تو پھر از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟ اس طرح گویا یہ کہنا مقصود ہے کہ خدا چاہے انسان کو ظلوماً جہولاً کہہ کر معتوب کرے اور لامکاں سے دُور کسی بنجر سیارے پر چھوڑ دے مگر انسان کی اصل تو خدا کی ذات ہی ہے چنانچہ جب صدیوں بعد خدا اپنا خاص کلام نازل کرتا ہے تو اُس کلام سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو آسمانوں کے اُس طرف بیٹھا ہے شہ رگ سے بھی زیادہ قریب کس طرح ہے۔ اِس پورے ٹکڑے میں انسان اپنے زمین پر بھیجے جانے پر ناخوشی کا اظہار کر رہا ہے اور ایک ایسے عاشق کی طرح جسے محبوب نے بزم سے اٹھا دیا ہو وہ محبوبِ حقیقی سے اُس قسم کی باتیں کر رہا ہے جنہیں ہمارے روایتی شعرأ عام طور پر محبوبِ مجازی سے ’’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘ قسم کے مضامین میں کیا کرتے تھے۔ اقبال کے بعد اور شاعروں نے بھی خدا سے بے تکلف ہونے کی کوشش کی ہے مگر اُس میں فرق یہ ہے کہ اقبال کہیں بھی پندارِ عاشقانہ سے آگے نہیں گزرتے بلکہ اکثر اُن کے ناز میں بھی نیاز شامل رہتا ہے۔ اِس ٹکڑے کے آخری شعر میںمجھے صرف ایک لفظ کی تشریح کرنی ہے: اِسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا؟ یہاں زوال سے مراد ہبوطِ آدم ہے۔ لفظ زوال اُن معانی میں استعمال ہوا ہے جیسے ہم زوالِ آفتاب وغیرہ کہتے ہیں۔کوکب یعنی ستارے سے مراد آدمِ خاکی ہے اور اِسی استعارے کی رعایت سے آدمِ خاکی کے ہبوط کو زوال کہہ دیا ہے کیونکہ سب سے بڑے ستارے یعنی سورج کے نیچے آنے کو عام طور پر زوال کہتے ہیں۔ اِس پورے ٹکڑے کے مزاج اور معانی سے مطابقت رکھنے والا مفہوم اِس شعر کا یہی ہے کہ اصل روشنی روح کی روشنی ہے نہ کہ چاندستاروں اور سورج کی تو پھر جس وجود میں یہ روشنی تھی یعنی انسان، اُسے زمین پر بھیجنے سے زمین روشن ہو گئی اور آسمانوں کا نقصان ہوا۔ خدا ہی جانے کہ ُاس نے اپنے آسمانوں کا نقصان کیوں گوارا کیا! اِس کے بعد ہم تیسرے ٹکرے پر آتے ہیں تو اچانک یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ وقت گزر چکا ہے، انسان کے ابتدائی ردِ عمل کا زور و شور اور اُس کے وہ بڑے بڑے دعوے جو اُس نے ابھی کیے تھے وہ سب ماند پڑ چکے ہیں اور ایک انتہائی مقربِ راز عاشق کی طرح جسے اپنے محبوب سے اپنے خاص تعلق پر ناز ہے وہ یہ بات یک سر بھلا کر کہ ابھی ابھی اُس نے کیا کہا تھا اب براہِ راست نیازمندی پر اتر آیا ہے: گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر! انسان اور خدا کا تعلق اتنا گہرا ہے کہ مزاج کی اِس تبدیلی کے لیے تمہید کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی اظہارِ عشق کرنے سے پہلے اپنی پچھلی لاف و گزاف پر معذرت پیش کرنا لازم ہے۔ جب گلہ تھا بے تکلف گلہ کر دیا، اب ہجر کا درد محسوس ہوا ہے تو گھماؤ پھراؤ کے بغیر وصل کی خواہش پیش کر دی: عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں! یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر! یہ بات لائقِ توجہ ہے کہ پہلے شوق کا لفظ استعمال ہوا تھا۔عشق کا لفظ پہلی بار آ رہا ہے۔ گویا پہلا اظہارِ عشق ہے اور اگر آپ بالِ جبریل کو تسلسل سے پڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچیں تو یہ اظہارِ عشق اُسی طرح کا تاثر دیتا ہے جیسے کوئی مدتوں کسی کے ساتھ رہنے اور تعلقات میں بڑے اتار چڑھاؤ کے بعد اچانک یہ محسوس کرے کہ اُسے ہمیشہ سے اسی شخص سے محبت تھی مگر شدّت سے احساس اب ہوا ہے۔ پورا ٹکڑا عشق اور نیازمندی میں ڈوبا ہوا ہے مگر آخری دو اشعار میں اقبال پھر اقبال بن جاتے ہیں: باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ کارِ جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر! روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر! اِن شعروں کے بارے میں دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ جب کہانی میں کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو کچھ دیر پہلے اُسی کہانی میں پیش آیا ہو تو اُس میں ایک خاص لطف پیدا ہوجاتا ہے جو اُس صورت میں پیدا نہیں ہوتا اگر مصنف کسی ایسے واقعے کی طرف اشارہ کرے جو عام طور پر دنیا میں کہیں ہوا تھا مگر جس کا کہانی سے تعلق نہ ہو۔ مثلاً اگر کہانی کے کسی باب میں کوئی کسی سے کہے کہ میں تمہارے ساتھ یہ سلوک اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ تم نے بھی میرے ساتھ فلاں معاملہ کیا تھا، تو اس میں قارئین کی دلچسپی بڑھ جائے گی اگر وہ معاملہ کہانی ہی کا ایک حصہ تھا اور پہلے بیان کیا گیا تھا۔ اس طرح کہانی سمٹتی ہے اور ُاس میں شدّت آجاتی ہے ۔ یہاں اقبال نے باغِ بہشت سے حکمِ سفر ملنے کے جس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اگر ہم بالِ جبریل کو ابتدائے آفرینش اور ہبوطِ آدم کے معانی میں پڑھتے ہوئے آ رہے ہوں تو انسان کا خدا سے یہ بات کہنا ادبی پہلو سے زیادہ معنی خیز ہو جاتا ہے کیونکہ کردار اپنی جو کیفیات بیان کر رہا ہے وہ ہمارے سامنے درجہ بدرجہ تشکیل ہوئی ہیں۔ پہلے انسان پیدا ہوا تھا اور اپنے وجود کی لذت سے سرشار تھا، اُسے خداسے تقرب پر ناز بھی تھا کہ حور و فرشتہ اس کے تخیل میں اسیر تھے، پھر ہبوط کا صدمہ اٹھانا پڑا اور دل شکستگی سے دوچار ہوا، نیازمندی قائم رکھتے ہوئے تھوڑا گلہ شکوہ بھی کیا۔ اب عشق غالب آیا ہے اور اظہارِ عشق ہو رہا ہے مگر دنیا دامن کھینچ رہی ہے اور اُس کی اِس کشمکش پر ہم اُس سے ہمدردی محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ ہم اِس کیفیت کی تشکیل کے مرحلوں میں اُس کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں جو روزِ حساب انسان کا دفترِ عمل پیش ہونے پر انسان کے ساتھ ساتھ خدا کے شرمسار ہونے کی بات آئی ہے اُس کی دلیل اور توجیہہ بھی پچھلے ٹکڑوں میں پیش کی جا چکی ہے۔ چنانچہ اگر اُس قسم کے اشعار کو سامنے رکھیں مثلاً ’’میں ہی تو ایک راز تھا۔۔۔ الخ‘‘ اور ’’مگر یہ حرفِ شیریں ۔۔۔ الخ‘‘ وغیرہ تویہ بات پہلے ہی واضح ہو چکی ہے کہ جب روزِ حساب انسان کا دفترِ عمل پیش ہو گا تو اُس میں انسان اور خدا دونوں کے شرمندہ ہونے کی گنجایش کیونکر ہو گی۔ اِس شعرکی تشریح اِس کے سیاق و سباق میں کرنے سے اِس کی ادبی حیثیت سامنے آتی ہے جو مثال کے طور پر اُس صورت میں سامنے نہیں آتی اگر ہم اپنی مرضی سے تشریح کرنے کی آزادی حاصل کر لیں۔ چوتھا ٹکڑا تیسرے کا تتمہ ہے اور اس میں ایک ایسے عاشق کی جھلاہٹ موجود ہے جو مدتوں محبوب کے دروازے پر آہ و زاری کرنے کے بعد تنگ آجائے: اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد یہ تند و تیز لہجہ اب تک کے تینوں ٹکروں سے مختلف ہے اور اگر ہم اس منظوم سلسلے کو انسان کی روحانی تاریخ کے طور پر بھی دیکھ رہے ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب انسان ایک مابعدالطبیعاتی اور آسمانی قسم کی ذہنی فضا سے نکل کر اچانک اپنے زمینی ماحول سے منسلک ہو گیا ہے۔ پورے ٹکڑے کی محاکات کا مجموعی تاثر بھی یہی ہے یعنی یہ مشتِ خاک، صرصر،وسعتِ افلاک (جسے زمین پر کھڑے ہو کر دیکھا جا رہا ہے)، لذتِ ایجاد، خیمۂ گل، جفا طلبی، دشتِ سادہ، وغیرہ وغیرہ۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ محاکات کی یکسانیت بالِ جبریل کے ہر ٹکڑے میں نمایاں ہے اور اُس ٹکڑے کا مجموعی تاثر قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ِاس مضمون میں اِس کی اور مثالیں بھی آئیں گی۔ پانچویں ٹکڑے میں یہی شکایت ایک نئے مرحلے تک جا پہنچتی ہے یعنی انسان یہ مطالبہ کر بیٹھتا ہے کہ اُس کے دل میں جو خدا کا عشق ہے وہ تقاضا کرتا ہے کہ ُاسے بھی خدا کی طرح ہمیشہ قائم رہنا نصیب ہو۔ اسے ہمیشہ کی زندگی چاہیے کیونکہ اُس کا محبوب بھی ہمیشہ رہنے والا ہے اور: کیا عشق ایک زندگیٔ مستعار کا کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا یاد رہے کہجاویدنامہ کی تمہیدِ زمینی بھی اِسی خیال سے شروع ہوتی ہے اور بقیہ کتاب اِسی کا جواب ہے۔ اگلے ٹکڑے میں موت کے بعد کے حالات کے بارے میں کچھ اندیشے طاہر کیے گئے ہیں یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا اور انسان کے تعلق سے جو مغالطے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ ذات تک پہنچنے کے راستے میں جو صفات کے حجابات ہیں وہ مرنے کے بعد بھی قائم رہیں۔ انسان کو خدا کے نظام سے اس قدر اندیشہ نہیں ہے جتنا خود اپنی کمزوریوں سے ڈر لگتا ہے کہ: پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے! جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے! مرنے کے بعد مٹی کا بکھر کر کوئی اور صورت اختیار کر لینا شیکسپئر کے ہیملٹ میں بھی آیا ہے جس سے اقبال یقینا واقف رہے ہوں مگر انہوں نے شعوری طور پر یہ خیال غالب سے لیا ہوگا کیونکہ کئی برس قبل جب پہلی بار غالب کے مزار پر گئے تھے اور وہاں قوال نے غالب کی غزل گائی تھی تو اس شعر پر اُن کی حالت غیر ہو گئی تھی: اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی مضمون وہی ہے مگر خیال بہت مختلف ہے۔ غالب کے یہاں سکون ہے اور انجام بخیر ہے۔ اقبال کے یہاں تشویش ہے، اندیشہ ہے اور فکرمندی ہے۔ اِس ٹکڑے کا آخری شعر قابلِ غور ہے۔ جس طرح پہلے ’’زوالِ آدمِ خاکی‘‘ ہبوط کے معنوں میں آیا تھا اور زوال کے وہ معنی تھے جو زوالِ آفتاب وغیرہ کے ہوتے ہیں اب بالکل اُس کے وزن پر’’عروجِ آدمِ خاکی‘‘ کی ترکیب آتی ہے : عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے! عروج اُسی لفظ سے مشتق ہے جس سے معراج نکلا ہے اور بالِ جبریلکے پہلے حصے کی اِس کہانی میں یہ انسان کے روحانی عروج کا مرحلہ ہے۔ اِسے معراج کے تاریخی واقعے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور انسان کی روحانی ترقی کے ایک عام امکان سے بھی مگر یہ بہرحال انسان کی مادی ترقی کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ اِسی طرح مہِ کامل بننے سے مراد اُلوہیت کا مرتبہ حاصل کرنا یا خدا بن جانا ہے۔ کوئی چاہے تو اِسے وُجودی طور پر انسان کا اپنے اصل میں دوبارہ لوٹ جانا بھی سمجھ لے اگرچہ اقبال کے عام خیالات اور بالِ جبریلکہی کے دوسرے مقامات کی روشنی میں یہ معانی بعید ازکار ہوں گے۔ زیادہ قرینِ قیاس یہ ہے کہ یہاں ستاروں کا خوف اور اُن کا وہم بیان کیا جا رہا ہے چنانچہ یہ بحث نہیں ہے کہ انسان واقعی خدا بن سکتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ انسان خاص طور پر صاحبِ معراج محمدِ عربیؐ ہے توپھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اقبال اپنی اولین غزلوں میں اکثر کہا کرتے تھے کہ خدا خود محمدؐ کے لباس میں یثرب میں آیا اور اگرچہ اپنے بعد کے کلام میں سے ایسے اشعار نکال دئیے مگر جاویدنامہ میں منصور حلاج کی زبان سے عبدہٗ کی تشریح میں جو نکات کہلوائے ہیں وہ پھر اِس مفہوم سے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ ممکن ہے یہاں بھی شاعرانہ لطافت میں بات کو اُس مقام سے قریب پہنچا کر دانستہ رک گئے ہوں۔ شاعرستاروں کی بات کر رہا ہے جو اِس شعر میں ویسے بھی بیچارے بڑے سہمے ہوئے ہیں چنانچہ یہ بحث نہیں کی جا سکتی کہ شاعر کا اپنا نظریہ بھی یہی ہے یا نہیں ہے۔ شعر کی حد تک یہ سہمے ہوئے ستاروں کا وہم ہے۔ ہبوط کی رعایت سے انسان کو ٹوٹا ہوا تارا کہا ہے کیونکہ وہ ایک طرح سے ٹوٹ کر زمین پر گرا تھا - اور ضرورتِ شعری کی حد تک اِس سے بحث نہیں ہے کہ جنتِ ماویٰ زمین پر تھی یا آسمان پر تھی۔ ساتویں اور آٹھویں ٹکڑوں میں پہلی بار کچھ تاریخی استعارے آتے ہیں۔ ساتویں ٹکڑے میں کہا ہے کہ عجم کے لالہ زاروں سے دوبارہ کوئی رومی نہیں اٹھا۔ یہاں ایران اور تبریز کا ذکر ہے۔ اُس سے اگلے ٹکڑے میں ایک خاص ترکیب نظر آتی ہے جو کم سے کم تغزل کی شاعری میں بہت ہی عجیب اور بے ڈھب محسوس ہوتی ہے یعنی ’’تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند۔۔۔‘‘ تین سو سال سے کیوں؟ اور اگر ساڑھے تین سو یا پونے چار سو سال سے بند ہوتے تو اُسے کس طرح نظم کیا جاتا؟ یہ شعر پڑھ کر ایک عقیدت مند نے اقبال سے پوچھا بھی تھا کہ تین سو سال پہلے تو جہانگیر کا دورِ حکومت تھا کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب اُس طرح شراب نہیں پی جاتی جس طرح جہانگیر پیا کرتا تھا؟ اقبال نے جواب میں وضاحت کی تھی کہ یہاں مجدد الف ثانی کی طرف اشارہ ہے۔ یہ تین سو سال والی بظاہر غیرشاعرانہ ترکیب شائد اسی لیے یہاں رکھی گئی ہے کہ پڑھنے والے ذرا رُک جائیں اور محسوس کریں کہ اب ایک خاص زمانے کا ذکر ہو رہا ہے۔ پھر یہاں پہلی بار اقبال نے اپنا نام بھی لیا ہے اور یہ تخلص کا روائتی استعمال نہیں ہے جیسا کہ ہم ابھی دیکھیں گے۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ خاص اپنے زمانے کا ذکر کر رہے ہیں۔ ساتویں ٹکڑے سے متعلق صرف چند تصریحات پیش کرنا چاہوں گا۔اس شعر پر نظر ڈالی جائے: حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی! ’’اب تک‘‘ کی معنویت یہ ہے کہ پہلے بھی خدا سے فرمایش کی تھی: عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر! اب پھر یاد دلا رہے ہیں کہ اگر کچھ حجاب اٹھے بھی تھے تو کچھ باقی رہ گئے۔ ساتویں ہی ٹکڑے کے دو شعر ہیں : نہ اٹھا پھر کوئی رومیؔ عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گِلِ ایراں، وہی تبریز ہے ساقی نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی اِن میں سے دوسرا شعر بے حد مشہور ہے اور عام طور پر اس کے معانی یوں لیے جاتے ہیں کہ اقبال نئی نسل سے مایوس نہیں ہیںبلکہ اگر نوجوانوں کے دل میں تھوڑا سا درد وغیرہ پیدا ہوجائے تو اِن کے کلام پر توجہ دے کراپنی کشتی پار لگا سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر اِس شعر کو ذرا سوچ سمجھ کر پڑھا جائے تو اِس کے معنی بدل جاتے ہیں۔ یہاں ’’کشتِ ویراں‘‘ سے مراد نئی نسل نہیں ہے بلکہ اقبال نے اپنی شاعری کو کشتِ ویراں کہا ہے جس پر ساقی کا کرم ہو جائے تو اُس میں بھی رومی کے لالہ زاروں کے پھول اگ سکتے ہیں (یہ مضمون اگلے ٹکڑوں میں بار بار ادا ہوا ہے)۔ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں اپنی شاعری کو ہمیشہ کِشت یعنی کھیتی سے تشبیہ دی ہے۔ اسرارِ خودی کے شروع میں بھی یہی کہا ہے اور پیامِ مشرق کے اِس قسم کے شعروں میں بھی کہ میرے خیال کی کھیتی سے سو جہاں پھول کی طرح اُگے مگر آپ نے ایک ہی جہان بنایا اور وہ بھی تمّنا کے خون سے: صد جہاں میروید از کِشتِ خیالِ ما چوں گُل یک جہان و آں ہم از خونِ تمّنا ساختی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ بالِ جبریل سے پہلے جب وہ اپنے بڑے شاہکار لکھ چکے تھے تو اپنی شاعری کو کشتِ ویراں کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ٹکڑا اقبال کی ذہنی زندگی کے کسی ابتدائی دور کی طرف اشارہ کر رہا ہے ،بالکل اُسی طرح جیسے کتاب کے آغاز میں ابتدائے آفرینش کا ذکر یوں نہیں ہوا تھا کہ ’’ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔۔۔‘‘ اس پورے سلسلے میں مختلف ادوار اور حالات میں ایک انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے خیالات کو براہِ راست بیان کیا گیا ہے (شعور کی رَو کی مثال فوراً سامنے آتی ہے مگر اُس کا تعلق نثری افسانے سے ہے لہٰذا اس کے ساتھ تفصیلی موازنہ لاحاصل ہوگا)۔ اقبال نے یہ خواہش کیوں کی کہ ان کی شاعری کی کھیتی ہری بھری ہو جائے؟ کیونکہ اُن کے پاس ایسا پیغام تھا جو اُن کی غلام قوم کو دوبارہ قوت و شوکت عطا کرسکے۔ یہ وضاحت اگلے شعر میں موجود ہے: فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سلطانی بہامیری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی! اگلے ٹکڑے میں اور بھی کھل کر کہتے ہیں: لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی! گویا اقبال کی مینائے غزل میں مجدد الفِ ثانی کی بچی ہوئی تھوڑی سی مے باقی تھی مگر شیخ نے اُسے نھی حرام قرار دے دیا ہے۔ شیخ صاحب کو ایسی پاکیزہ چیز سے دشمنی کیوں ہے؟ اِس کی وضاحت بالکل اگلے اشعار میں ہو جاتی ہے یعنی تحقیق کا جنگل شیرمردوں سے خالی ہو گیا ہے اور اب صوفی و ملّا کے غلام رہ گئے ہیں۔ عشق کی تیغِ جگرداراڑالی گئی ہے، علم کے ہاتھ میں خالی نیام ہے۔ اگلے دونوں اشعار کو اکٹھا پڑھنا چاہیے: سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی! تُو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی! یہاں ’’مری رات‘‘ سے شاعر نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا ہے نہ کہ باہر پھیلی ہوئی رات کی طرف (عیسائی تصوف سے شغف رکھنے والوں کا ذہن سینٹ جان آف دی کراس کی تصنیف ’’ڈارک نائٹ آف دی سول‘‘ کی طرف جائے گا۔ یہ معلوم نہیں کہ اقبال اس سے واقف تھے یا نہیں مگراِس تصنیف نے بہت لوگوں کو متاثر کیا ہے اور اب نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے مصنف پر اسلامی اثرات بھی تھے)۔ اِن چار مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ میرے سینے میں رات ہے جسے تو اپنے شراب سے روشن کر سکتا ہے اور ایسا کر دے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو میری شاعری مرگِ دوام بن جائے گی جبکہ سینہ روشن ہونے کی صورت میں عینِ حیات ہو گی۔ دیکھیے اگلا ٹکرا کس طرح شروع ہوتا ہے: مٹا دیا مرے ساقی نے عالمِ من و تو پلا کے مجھ کو مئے لا الٰہ الّا ھُو درخواست مقبول ہوئی، شرابِ توحید جو پچھلے ٹکڑے میں مانگی گئی تھی وہ مل گئی، اور اس کا اثر سوزِ سخن پر کیا ہوا؟ وہ مرگِ دوام بنا یا عینِ حیات ؟ ملاحظہ کیجیے: جمیل تر ہیں گل و لالہ فیض سے اس کے نگاہِ شاعرِ رنگیں نوا میں ہے جادو! پورا ٹکڑا شعورِ ذات کی مستی سے سرشار ہے۔ پہلے ہمیشہ کی زندگی مانگی گئی تھی اور کچھ اندیشے ظاہر کیے تھے۔ اب اگلے ٹکڑے میں بات ہی کچھ اور ہے: متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزومندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی! اقبال کے ذہنی ارتقا سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیںکہ اقبال کی شاعری کے پیامبرانہ دور کی باقاعدہ ابتدا اُس زمانے میں ہوئی جہاں وہ ہجر اور فراق کووصل اور سکون سے بہتر سمجھنے لگے اور اِسی شعور سے گویا مثنوی اسرارِ خودی کا مسالہ تیار ہوا جو اُن کے پیغام کا نقطۂ آغاز تھی۔ اِسی ٹکڑے میں یہ شعر اِس منظوم سلسلے کو ایک مسلسل نظم کی طرح پڑھنے والوں کو اچانک چونکا دے گا: زیارت گاہِ اہلِ عزم و ہمّت ہے لحد میری کہ خاکِ راہ کو میں نے سکھایا ذوقِ الوندی کیا اقبال اس سلسلے میں اپنی موت کے تجربے کی پیش بینی کر رہے ہیں؟ یہ درست ہے کہ اگلے چار ٹکڑوں (یعنی نمبر ۱۱، ۱۲، ۱۳ اور ۱۴) میں جابجا ایک ایسی فضا دکھائی دیتی ہے جو بظاہر اِس دنیا کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اقبال اپنی زندگی پر اس طرح نظر ڈال رہے ہیں جیسے وہ گزر چکی ہو: تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ وہ ادب گہِ محبت، وہ نگہ کا تازیانہ یہ بتانِ عصرِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں نہ ادائے کافرانہ! نہ تراشِ آذرانہ! اِن دونوں اشعار کو بھی اکٹھا پڑھنا چاہیے۔ اپنے دل کے اُس زمانے کا ذکر کرنے سے، جس میں محبت کی ادب گاہ تھی اور نگاہ کے تازیانے نے دل کو سبق سکھائے تھے، اقبال یہی کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ نئے زمانے کے بت اُس ادب گاہ کی بجائے مدرسے میں تیار ہوئے ہیں اس لیے اُن میں بہت کمی رہ گئی ہے۔ مگر اگلے شعر میں جس فضا کا ذکر ہے کیا وہ جدید دنیا کے ماحول کی نشاندہی کرتی ہے یااس دنیا سے باہر کسی ماورائی فضا کا ذکر کیا جا رہا ہے، مثلاً عالم ارواح یا جاویدنامہکی رعایت سے یوں کہیے کہ وہ فردوس جسے حلاج، غالب اور قرۃ العین طاہرہ جیسے مجذوب ٹھکرا دیا کرتے ہیں: نہیں اِس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت یہ جہاں عجب جہاں ہے، نہ قفس نہ آشیانہ اگرچہ اقبال دُنیا کا ذکر بھی کر رہے ہیں (مثلاً عجم کے میکدوں میں نہ رہی مئے مغانہ) مگر معلوم یوں ہوتا ہے کہ اِس قسم کے واقعات کو وہ عالمِ ارواح سے دنیا پر نظر ڈالتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ اُن کے ہم صفیر اُن کی نوائے عاشقانہ کی سطحی تفسیریں کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے باوجود شاید اقبال کے خاک و خون سے کوئی نیا جہاں بھی پیدا ہو رہا ہے جس کے لیے وہ کہتے ہیں: مرے خاک و خوں سے تُو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا صلۂ شہید کیا ہے؟ تب و تابِ جاوِدانہ اس شعر کے بارے میں یہ وضاحت کرنا بہت ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر یہ شعر شہادت کے بارے میں نہیں ہے جیسا کہ ہمارے اخبار ات، رسائل اور ٹیلی وژن اِسے بے تکلفی سے نشانِ حیدر کے شہدأ وغیرہ پر منطبق کر دیتے ہیں۔ شاعر یہاں اپنی بات کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ محض ایک دنیا پیدا کرنے کے لیے خدا نے اُسے ایسی ایسی تکلیفیں سہنے پر مجبور کیا تھا چنانچہ شاعر کو کم سے کم شہادت کا رتبہ تو ضرور ہی ملنا چاہئیے اور جس طرح شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے اُسی طرح شاعر کو بھی تب و تابِ جاودانہ عطا ہونی چاہیے۔ اب رہا یہ سوال کہ دنیا کی تخلیق کے لیے شاعر کو کیا تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور کس طرح وہ خدا کو اپنا قرض دار بنا رہا ہے تو یہ اقبال کے یہاں ایک مستقل خیال ہے جس کا ایک فارسی حوالہ اوپر پیش کیا گیا ہے۔ اِشارہ کرنا مناسب ہو گا کہ حضرت علی کا وہ قول کہ انہوں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا، اقبال کے مستقل ذہنی اثاثے کا حصہ تھا۔ چنانچہ بے تکلف دوست گرامی جن کی کاہلی اور ارادہ کر کے چیزوں کو ادھورا چھوڑ دینے کی عادت مشہور تھی، انہیں ایک خط میں اقبال نے بڑے سے کہا تھا کہ اگر ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا جاتا ہے تو اس زمانے میں آپ سے بڑا عارفِ کامل کوئی نہیں ہو گا۔ مختصر یہ کہ اقبال کے ذہنی پس منظر میں خدا سے یہ شکایتِ رنگیں بار بار دکھائی دیتی ہے کہ یا خدا، یہ آپ نے کیسی دنیا بنائی ہے جس میں ناکامیوں اور صدموں کے بغیر درجات بلند ہوتے نظر نہیں آتے، کیا اپنے آپ کو پہچاننے اور آپ کو پہچاننے کی کوئی آسان صورت نہیں ہو سکتی تھی؟یہ شعر بھی اِسی شکایتِ رنگیں کی ایک صورت ہے۔ اگلے ٹکڑے یعنی نمبر ۱۲ کے اشعار کچھ ایسے ہیں جنہیں دنیوی زندگی پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے اور موت کے بعد کی زندگی کا شاعرانہ بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے: ضمیرِ لالہ مئے لعل سے ہوا لبریز اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی کیا ہے اس نے فقیروں کو وارثِ پرویز اگر انہیں موت کے بعد کی زندگی سے منطبق کریں تو اُس صورت میں جس لالے کا ذکر ہے وہ اپنی روح ہو گی اور مئے لعل خدا کی معرفت ہے جو حجابات اٹھنے کے بعد ملی ہے۔ چنانچہ اب پرہیز کی ضرورت نہیں رہی۔ عشق نے انسان کو بالآخر اس جنت میں پہنچا دیا ہے جہاں بقول حضرت عیسیٰ مساکین ہی وارث بن جائیں گے۔ اسلامی اصطلاح میں جہاں اُن لوگوں کو عیش میسر ہو گا جنہوں نے دنیا میں خدا کا راستہ اختیار کیا تھا اور وہ بادشاہ بے بس اور مسکین ہوں گے جنہوں نے خدا کے حکم سے روگردانی کی تھی۔ اگلا شعراُسی قسم کی بحث و حجت پر مشتمل ہے جو اقبال نے جاویدنامہ میں حلاج، غالب اور طاہرہ سے خدا کے ساتھ کروائی ہے یعنی: پرانے ہیں یہ ستارے، فلک بھی فرسودہ جہاں وہ چاہیے مجھ کو کہ ہو ابھی نوخیز اس کے بعد کے دونوں اشعار بظاہر دنیاوی زندگی سے متعلق ہونے کی بجائے موت کے بعدعالمِ برزخ میں قیامت کا انتظار کرنے یا یا خدا سے سامنا ہونے کے احوال پر زیادہ بہتر منطبق ہوتے نظر آتے ہیں: کسے خبر ہے کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا؟ تری نگاہ کی گردش ہے میری رستاخیز! نہ چھین لذّتِ آہِ سحرگہی مجھ سے نہ کر نگہ سے تغافل کو التفات آمیز اِن میں سے دوسرے شعر کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ اقبال موت کے بعد خدا سے وصال نہیں چاہتے کیونکہ اس طرح جدائی کی تڑپ اور اس میں پیدا ہونے والی خواہش، جستجو، آرزو وغیرہ سب ختم ہو جائیں گی اور خدا کے عشق میں جدائی کے مراحل انہیں اتنے عزیز ہو گئے ہیں کہ اب شامِ وصال گوارا نہیں۔ دشواری یہ ہے کہ اِسی ٹکڑے کے شروع میں بہار کا ذکر بھی ہے جس کی وجہ سے ہم اِسی شعر کی یہ تشریح بھی کر سکتے ہیں کہ اقبال خدا کے جس التفات کی بات کر رہے ہیں وہ فردوسِ بریں میں خدا کی نگاہ سے پیدا نہیں ہوا بلکہ اسی دنیا میں موسمِ بہار کی اُن نے رنگیوں کابیان ہے جن میں دیکھنے والے خدا کا جلوہ دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ اس ٹکڑے کے پہلے دو اشعار جنہیں ہم نے اوپر درج کیا ہے وہ اِس روشنی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اُس صورت میں لالہ سے مراد روح نہیں ہو گی بلکہ سچ مچ کی بہار میں کھلے ہوئے پھول ہی مراد ہوں گے۔ ’’اشارہ پاتے ہی‘‘ کی ترکیب دل فریب ہے۔ چونکہ شراب پر پابندی صرف اس دنیا تک ہے اور جنت میں یہ پابندی اٹھ جائے گی تو صوفی نے بہار کی آمد سے یہی مطلب لیا ہے کہ وہ جنت جس کا انتظار تھا وہ آگئی ہے۔یہ اس لیے کیونکہ خزاں ایک طرح سے دنیا کی موت ہوتی ہے یعنی قیامت ہوتی ہے۔ بہار کی آمد قیامت کے بعد دنیا کا دوبارہ پیدا ہونا ہے۔ بس یہی وہ ’’اشارہ‘‘ ہے جسے پا کر صوفی نے شراب کو حلال سمجھا ہے۔ یہاں غور کیجیے کہ یہ اشارہ پانے والا زاہد، ناصح اور شیخ بھی ہو سکتا تھا (اور شائد اقبال سے کم تر درجے کا شاعر یہاں اُنہی میں سے کسی کا ذکر کرتا)۔ مگر اقبال صوفی کی بات کر رہے ہیں یعنی وہ جو دنیا کے ظاہر میں حقیقیت کے باطن کو دیکھنے پر مائل رہتاہے۔ بہار کو قدرت کی طرف سے حیات بعدالموت کا اشارہ سمجھنا اور ضمیرِ لالہ میں مئے لعل تلاش کر کے خدا سے راضی ہو جانا کہ یہی جنت کافی ہے، یہ لطیف اشارے صرف صوفی ہی سے تعلق رکھتے تھے اور ملا یا زاہد یا ناصح کے روایتی کردار سے میل نہیں کھاسکتے تھے۔ یہاں پرہیز توڑنے کا ذکر طنز نہیں بلکہ توصیف ہے۔ اگلے ٹکڑے کے پہلے شعر میں یوں لگتا ہے جیسے کسی پچھلے واقعے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہو: وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی! مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی! اِس میں کون سے کم نصیبی کی بات ہو رہی ہے؟ لفظ ’’وہی‘‘ کا اشارہ تو یہ بتاتا ہے کہ پہلے بھی اس کا ذکر ہوا ہوگا۔ میرے خیال میں یہ کم نصیبی وہی ہے جس کے لیے ٹکرے نمبر ۵ میں بڑے زوروشور سے واویلا کیا گیا تھا، یعنی انسان کا فانی ہونا۔ یاد رہے کہ جاویدنامہ جیسی معرکۃالآرا کتاب جس چھوٹے سے واقعے سے شروع ہوتی ہے وہ بھی یہی ہے کہ شاعر دریا کے کنارے جا کر اپنے فانی ہونے کا رونا روتا ہے اور اس زور شور سے فریاد کرتا ہے کہ نظامِ کائنات زیروزبر ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اقبال کو خدا سے اِسی بے نیازی کی شکایت ہے (جیسا کہ بالِ جبریل ہی کی ایک اگلی نظم میں کہا جائے گاکہ:) ’’اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چارسو‘‘۔ یہاں بھی دیکھیے، اگلا ہی شعر ہے: میں کہاں ہوں تو کہاں ہے؟ یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟ یہ جہاں مرا جہاں ہے یا تری کرشمہ سازی؟ یہ شعر اُس صورت میں زیادہ مزہ دیتے ہیں جب ہم اس سلسلے کو مسلسل پڑھ رہے ہوں اور اس مقام پر شاعر کو دنیا کی زندگی گزارنے کے بعد آسمانوں سے گزرتے ہوئے خدا کی جانب بڑھتا ہوا تصور کر رہے ہوں۔ اِس سے اگلے شعر کو ایک گزری ہوئی زندگی کا بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے اور اس میں جس کشمکش کا ذکر ہے وہ شائد اِسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہوتی رہی کہ ’’میں کہاں ہوں، تُوکہاں ہے؟‘‘: اِسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و سازِ رومیؔ، کبھی پیچ و تابِ رازیؔ! اِس ٹکڑے اور اِس سے اگلے ٹکڑے کا یہی مزاج ہے کہ اِنہیں بعد الموت کی دنیا یا جاویدنامہ کی دنیا کا بیان بھی سمجھا جا سکتا ہے اور دنیوی زندگی کے حوالے سے بھی دیکھا جا سکتاہے۔ اگلا ٹکڑا بہت مشہور ہے اور کم سے کم پہلے چار اشعار میں سے دو دو اشعار کو ساتھ ملا کر پڑھا جائے تب ہی مطلب واضح ہوتا ہے۔ عام غزل کی طرح انہیں الگ الگ پڑھنے سے پورے معانی سامنے نہیں آتے: اپنی جولاں گاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم اِک رِدائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں اپنی جولاں گاہ کو زیرِ آسماں سمجھنے اور آب و گِل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھنے کی غلط فہمی اُس وقت ختم ہوئی جب محبوب کی بے حجابی سے نگاہوں کا طلسم ٹوٹا اور معلوم ہوا کہ یہ نیلی چادر جو زمین پر چھائی ہوئی ہے یہ پرواز کی حد نہیں ہے بلکہ اس کے دوسری طرف بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ اگلے دو اشعار کو بھی ایک ساتھ پڑھنا چاہیے: کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا مہر و ماہ و مشتری و ہم عناں سمجھا تھا میں عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصہ تمام اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں پہلے مہروماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھامگر پھر معلوم ہوا کہ یہ کارواں توفضا میں گردش کرتا رہتا ہے اوراُن کے ساتھ چلنے میں صرف تھکن ملے گی، منزل نہیں ملے گی کیونکہ جو منزل شاعر کی ہے وہاں یہ ستارے سیارے وغیرہ نہیں پہنچتے۔ اِن اجرامِ فلکی کے حوالے سے دنیا کو دیکھتے ہوئے کائنات کو عبور کرنا مشکل دکھائی دیا یعنی یہ بیکراں معلوم ہوئی مگر پھر عشق کی ایک جست نے تمام قصہ طے کر دیا۔ یہ گویا وہی عقل کو چھوڑ کر عشق کو راہنما بنانے یا رازی کے مکتب سے نکل کر رومی کا مرید ہونے کی بات ہے جسے اقبال نے جابجا کہا ہے۔ مہروماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھنے سے مراد سائنس اور ظاہری علوم کے ذریعے خدا تک پہنچنے کی کوشش ہے جو کامیاب نہیں ہوتی۔ عشق سے مراد وجدان اور روحانیت کی مدد لینا ہے جس میں انسان کا ادراک کائنات کی حدود سے نکل کر معرفت کی منزل پر پہنچتا ہے۔ اگلے ٹکڑے یعنی نمبر ۱۵ کا موضوع یہی ہے: اِک دانشِ نورانی، اِک دانشِ بُرہانی ہے دانشِ بُرہانی، حیرت کی فراوانی! یہ حیرت کی فراوانی وہی کیفیت ہے جس کے لیے اوپر کہا گیا کہ ستاروں سیاروں کے قافلے میں شامل ہو کر محض ایک دائرے میں گردش رہے گی، کائنات کو مسخر کرنے کی کوئی صورت نہیں ملے گی اور بالآخر تھکن محسوس ہو گی۔یاد رہے کہ شیخ فریدالدین عطار کی منطق الطیر میں خدا کی تلاش کے سفر میں سات دشوار وادیوں میں سے چھٹی وادی حیرت کی وادی ہے۔ وہاں یقین کی دولت ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور بے یقینی ایسی کہ اپنے شبہات پر بھی شبہات محسوس ہوتے ہیں۔ اگر ہم اِس سلسلے کو یوں پڑھ رہے ہوں جیسے ٹکڑے نمبر ۱۰ میں اقبال اپنی موت کے تجربے کا ذکر کر کے اُس کے بعد حیات بعدالموت سے گزر رہے تھے تو اس ٹکڑے کا اگلا شعر ذرا مشکل پیدا کرتا ہے کیونکہ شاعر ابھی تک جسم کی قید میں دکھائی دیتا ہے: اِس پیکرِ خاکی میں اِک شے ہے، سو وہ تیری میرے لیے مشکل ہے اس شے کی نگہبانی! اس شعر کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے۔ یعنی یہ بھی موت کا بیان ہے۔ عطار کی مَنطِقُ الطَّیر میں حیرت کی وادی کے بعد آخری امتحان فقر اورفنا کی وادی سے گزرنے کا ہوتا ہے۔ کیا یہی منزل ہے جسے اقبال کہہ رہے ہیں کہ اس پیکرِ خاکی میں جو چیز خدا کی تھی وہ اُسے لوٹا رہے ہیں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے بعد کے باقی تمام اشعار اور اگلا ٹکڑا (جو اس سلسلے کا آخری ٹکڑا ہے) کچھ اس طرح ہے جیسے اقبال اپنی زندگی کا حساب دے رہے ہوں۔ نکیرین کی طرف سے لگائے ہوئے الزامات پر وہ بڑے جارحانہ انداز میں اپنا دفاع کر رہے ہوں اور براہِ راست خدا کے سامنے سوال اٹھا رہے ہوں: اب کیا جو فغاں میری پہنچی ہے ستاروں تک تُو نے ہی سکھائی تھی مجھ کو یہ غزل خوانی ہو نقش اگر باطل تکرار سے کیا حاصل کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟ مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دَور کے ملّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی! تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی! الحاد، کفر، بدعت یا اسی قسم کے کسی اور لفظ کی بجائے ’’زندیقی‘‘ کے الزام سے ایک خاص لطف پیدا ہوتا ہے اگر یاد رکھا جائے کہ زندیق قدیم ایران کا ایک مکتبِ فکر تھا جس پر غلط قسم کے مذہبی عقائد رکھنے کا الزام تھا۔ اقبال کہہ رہے ہیں کہ اُن پرافرنگ یعنی یورپ سے زندیقی سیکھنے کا الزام ہے۔ اُنہوں نے یورپ میں تعلیم کے دوران جس موضوع پرمقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی تھی وہ موضوع ہی قدیم ایران میں الٰہیات پر تحقیق تھا اور مقالے کا عنوان تھا: The Development of Metaphysics in Persia اس لحاظ سے اقبال نے اپنے اوپر جو افرنگ سے زندیقی سیکھنے کی پھبتی کسی ہے اس کی برجستگی کی داد دینی چاہیے۔ البتہ اس الزام کے جواب میں وہ اپنا دفاع بالکل اُسی طرح کرتے ہیں جس طرح کچھ عرصہ بعد ضربِ کلیم کی ایک نظم میں انہوں نے مسولینی سے اُس کا دفاع کروایا تھا یعنی مخالفین مجھ پر جو الزام لگا رہے ہیں انہیں دیکھنے کی بجائے اِس پر غور کیجیے کہ اُن مخالفین کا دامن بھی انہی غلطیوں سے داغدار ہے۔ افرنگ سے زندیقی سیکھنے پر خدا کے سامنے جواب دِہ ہونا یوں بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اقبال کو کبھی کبھی اِس بات کا افسوس ہوتا تھا کہ اُنہوں نے اپنی عمر مغربی فلسفہ سیکھنے میں صرف کردی جبکہ اُن کے والد شروع ہی سے انہیں مذہبی تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ اگر اقبال خود اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتے تو شائد یہ سوچ سکتے تھے کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کا حال زیادہ گیاگزرا ہے اور اِس دور کے ملّا ننگِ مسلمانی ہیں۔ اب سوال اُٹھتا ہے کہ ملّاؤں سے وہ کون سی غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اقبال اُنہیں ننگِ مسلمانی کہہ رہے ہیں۔ اِس کے جواب میں ملّاؤں پر لگائے گئے عوامی اعتراضات اوراُن کے خلاف اپنے اپنے دل کی بھڑاس کی نکالنے سے زیادہ متین طریقہ مطالعہ کرنے کا یہ ہے کہ قارئین اگلے شعر پر نظر ڈالیں اور اُسی کو وضاحت سمجھیں۔وہاں ’’نادان‘‘ کا اشارہ مُلّاؤں ہی کی طرف ہے یعنی ملاّ ننگِ مسلمانی ہیں، یہ نادان ہمیں تقدیر کا زندانی کہتے ہیں۔ چنانچہ یہاں ملّاؤں پر غصہ اسی لیے ہے کہ وہ انسان کو تقدیر کا زندانی کہہ رہے ہیں جبکہ انسان میں ایسی قوت چھپی ہوئی ہے جو تقدیر کو شکست دے سکتی ہے۔ تقدیر کو شکست دینا کیوں ضروری ہے؟ کیا جبروقدر کا یہ خالص علمی مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اِس میں مخالف نقطہ نظر رکھنے والے کو ننگِ مسلمانی کا خطاب دیا جائے؟ اِس کا جواب واضح ہوجاتا ہے اگر ہم جاویدنامہ میں زندہ رُود اور مریخی ستارہ شناس کی گفتگو کا وہ حصہ یاد کریں جہاں بالکل یہی موضوع بہت وضاحت کے ساتھ پیش آیا ہے۔ وہاں اقبال نے مریخ پر ایک ایسی دنیا کا نقشہ پیش کیا ہے جہاں کوئی بادشاہ یا زمیندار نہیں، افلاس اور غربت موجود نہیں، ظلم نہیں اور ہر شخص خوشی اور آسودگی کی زندگی گزار رہا ہے۔ یہ نظارہ دیکھ کر زندہ رُود (یعنی خود شاعر) جو وہاں مہمان ہے وہاں کے ایک داناسے کہتا ہے کہ یہ تو خدا کی تقدیر سے بغاوت ہے کیونکہ غربت اور بادشاہوں کا استبدادخدا کی طرف سے انسان کے امتحان وغیرہ کے لیے ہیں۔ مریخی بزرگ اِس پر چراغ پا ہوکر طویل تقریر کرتا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ جو مذہب ایسی تعلیم دے وہ مذہب نہیں ہے افیون اور زہر ہے۔اگر ایک تقدیر تمہیں دُکھ دے تو خدا سے اُس کی بجائے کوئی دوسری تقدیر مانگنے میں کوئی حرج نہیں اور پھر جیسے تم خود ہوگے ویسی ہی تمہاری تقدیر ہو گی۔ اگر تم شیشہ ہو تو ٹوٹنا تمہارا مقدر ہے اور اگر تم پتھر ہو تو تمہارا مقدر کچھ اور ہے۔ چنانچہ جیسی تقدیر چاہتے ہو خود کو ویسا ہی بنا لو کیونکہ خدا کے خزانوں میں تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے اور اُس میں بہت اچھی اچھی تقدیریں بھی ہیں (شاید یہ نکتہ حضرت عمر فاروقؓ کے اُس قول سے لیا گیا ہو جسے شبلی نے الفاروق میں بھی لکھا تھا کہ جب ایک وبازدہ علاقے سے نکلنے پر کسی نے حضرت عمرؓ پر اعتراض کیا کہ آپ خدا کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہے ہیں اور وہ بھی خدا ہی کی بنائی ہوئی ہے)۔ سولہویں ٹکڑے میں خدا سے خطاب مکمل ہوتا ہے۔ دنیا کی خرابی کی تفصیل جو پچھلی کچھ نظموں سے شروع ہوئی تھی اب اختتام کو پہنچتی ہے کہ ہنرمند اور جفاکیش لوگوں کی قدر نہیں اور حالات ایسے ہیں جیسے دنیا پر خدا کی بجائے فرنگی کی حکومت ہو۔ اس میں کچھ قصور اُن لوگوں کا بھی ہے جو قرآن کی سچائی ظاہر کر سکتے تھے مگر اپنی تاویلوں سے اُسے عجمی رنگ دے دیتے ہیں ۔ اپنے بارے میں کہتے ہیں : مدّت سے ہے آوارۂ افلاک مرا فکر کر دے اسے اب چاند کی غاروں میں نظربند مجھے حیرت ہے کہ بالِ جبریل کی شرحوں میں وضاحت نہیں کی گئی کہ چاند کے غار ہی کیوں؟ یہ جاویدنامہ کی طرف اتنا واضح اشارہ ہے کہ شارحین کو اِسے نظرانداز کرنا کسی طرح جائز نہیں تھا۔وہاں چاند کی سیر کرتے ہوئے وہ ایک غار میں پہنچتے ہیں جہاں ایک عجیب طرح کی روشنی پھیلی ہوئی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سادھو کے گیان دھیان کی روشنی ہے جس کا نام رومی جہاں دوست بتاتے ہیں جو سنسکرت میں وشوامتررہا ہوگا۔ وشوامتر سے یہ خدا اور تخلیق کی حقیقت کے بارے میں بہت دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ چنانچہ اپنی فکر کو چاند کے غاروں میں نظربند کروانے سے مراد ہے کہ اُن کی کائنات میں جو مختلف روحوں کے مقامات متعین ہوئے ہیںاُس لحاظ سے اپنے لیے چاند کے غار تجویز کرتے ہیں کہ وہاں گیانی دھیانی سادھوؤں کے ساتھ ہمیشہ خوش رہیں گے اور کبھی سیر کو دل چاہے گا تو یرغمید کی وادی میں پیغمبروں کے طواسین دیکھ آیا کریں گے۔ اِس سولہویں ٹکڑے کا آخری شعر اس بات کی یاددہانی ہے کہ نظموں کا یہ سلسلہ خدا سے خطاب تھا: چُپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبالؔ کرتا کوئی اِس بندۂ گستاخ کا منہ بند بالِ جبریل میں رباعی جیسی چار چار مصرعوں کی بعض چیزیں ہیں جنہیں کئی ناشر اکٹھا کر کے درمیان میں ایک باب بنا دیتے ہیں۔ اقبال کے اپنے ہاتھ سے ترتیب دیئے ہوئے مسودے میں صاف لکھا ہوا ہے ان میں سے شروع کی رباعیات پہلے سلسلے کے ساتھ رکھی جائیں اگرچہ جگہ کی تصریح نہیں کی گئی۔ دراصل یہ وہ رباعیات ہیں جن میں خدا سے خطاب ہے اور ان کی تاثیر یہی ہے کہ وہ نکات جو سلسلہ وار نظموں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کے کسی نہ کسی پہلو سے متعلق کوئی ایک دلچسپ اور سوچنے پر مجبور کرنے والی بات ہر رباعی میں کہہ دی گئی ہے۔ ۱ سے ۶۱ تک منظومات کا دوسرا سلسلہ جس میں انسان سے خطاب ہے وہ زیادہ طویل ہے۔ اس کے نمبرشمار دوبارہ ایک سے شروع ہوتے ہیں اور اکسٹھ تک پہنچتے ہیں۔ اِس کی ابتداچند افکارِ پریشاںسے ہوتی ہے جن میں اقبال نے سنائی ؔ کے ایک قصیدے کی پیروی کی ہے۔افغانستان میں وہ سنائیؔ کے مزار پر گئے تھے اور یہ اشعار اُسی دن کی یادگار ہیں۔ حالانکہ یہ بعد میں لکھے گئے اور آگے کی بعض منظومات پہلے لکھی گئیں مگر اِنہیں شروع میں رکھنے میں یہ معنویت بھی ہے کہ سنائیؔاُس شعری روایت کے بانی ہیں جسے بعد میں عطار نے آگے بڑھایا اور پھر رومی نے اُسی تسلسل میں اپنی مثنوی تحریر کی۔ رومی کی پیروی اقبال نے کی۔ چنانچہ اپنے تمہیدی نوٹ کو وہ رومی ہی کے اُس مشہور مصرعہ پر ختم کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے ہم سنائی اور عطار کے پیچھے چلے آ رہے ہیں: ما از پئے سنائی و عطار آمدیم سنائی سے شروع ہونے کی وجہ سے اکسٹھ منظومات کا یہ سلسلہ صرف اقبال کا ترجمان ہی نہیں بلکہ مشرق کے خاص شعری سلسلے کے چاروں ستونوں یعنی سنائی، عطار، رومی اور خود اقبال کی یادگار بن جاتا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جاویدنامہ میں’تمہیدِ آسمانی‘ کے بعد ’تمہیدِ زمینی‘ ہے اور بالِ جبریل کے دوسرے سلسلے کا آغاز بھی بالکل اُسی طرح ہو رہا ہے جس طرح ’تمہیدِ زمینی‘ کا آغاز ہوا تھا۔ وہاں یہ شہروں سے دُور ایک دریا کے کنارے پہنچے تھے۔ اُس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ جنون میں بستیوں کی نسبت ویرانے زیادہ دلکش ہو جاتے ہیں۔ اب یہاں دوسرے سلسلے کا پہلا شعر دیکھیے: سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا غلط تھا اے جنوں شائد ترا اندازۂ صحرا وہاں جس درد سے بیتاب تھے وہ فنا کا غم تھا۔ ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش تھی۔ اُس حالت میں رومی کی غزل گانا شروع کی تھی اور خود رومی کی رُوح نے نمودار ہوکر بتایا تھا کہ اپنے وجود پر تین گواہیاں تلاش کرنی چاہئیں۔ پہلی گواہی اپنے آپ کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے، دوسری اپنے آپ کو دوسرے کی نگاہ کے نُور سے دیکھنا ہے اور تیسری اپنے آپ کو خدا کے نُور سے دیکھنا۔ اگر تیسرے مقام پر باقی رہ گئے تو ہمیشہ باقی رہو گے۔آسمانوں کا پردہ چاک کر کے خدا کے سامنے جا سکتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ معراج کی شب نبیٔ آخرالزماںؐ بھی گئے تھے۔ دُوسرے سلسلے کی پہلی پانچ منظومات میں اِنہی خیالات کی بازگشت ہے۔ گویا یہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو کہانی پڑھ چکے ہیں مگر دل نہیں بھرا تو مرکزی کردار کے ذہن اور دل کے کچھ خیالات خُردہ کے طور پر یہاں پیش کئے جا رہے ہیں: خودی سے اِس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحید تھی جس کو نہ تُو سمجھا نہ میں سمجھا نِگہ پیدا کر اے غافل تجلّی عینِ فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا وہاں مرکزی خیال یہ تھا کہ رُوح اور مادے کے درمیان فرق کرنے کی وجہ سے دنیا میں ساری مصیبتیں ہیں اور اگر اِن دونوں کو ایک سمجھ لیا جائے تو مشکلات حل ہو جائیں گی۔ یہاں بھی یہی مرکزی خیال ہے اور کئی طرح بیان ہوا ہے: رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی کہ وہ حلّاج کی سُولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا اسی ٹکڑے میں ’’دانائے سبل، ختم الرسل‘‘ والے مشہور نعتیہ اشعار ہیں جو ویسے تو بہت مشہور ہیں مگر اُن میں جو بات کہی جا رہی ہے اُس کی تاثیر اور بڑھ جاتی ہے اگر اُن اشعار کو سیاق و سباق میں پڑھا جائے۔ تشکیلِ جدید والے لیکچرز میں اقبال نے کہا تھا کہ رسولِ اکرمؐ کی رسالت کی شان یہ ہے کہ وہ تاریخ میں قدیم اور جدید کے دوراہے پرنئے زمانے کی آمد کا اعلان ہے جس میں انسان اپنی عظمت سے واقف ہو گا، توہمات سے نجات حاصل کر لے گا اور فطرت کے سامنے اپنے آپ کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے قسمت کا جو غلط تصوربن گیا ہے اُس سے نجات حاصل کر کے خود اپنی تقدیر بنانے کا حوصلہ پائے گا۔ ختمِ نبوت کا سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ انسان اپنی روحانیت میں کسی دوسرے انسان کے نئے الہام کا پابند نہیں رہا بلکہ ایک آخری پیغام کا وارث بن کر خدا سے رابطہ کرنے کے لیے آزاد ہے۔ اقبال کے خیال میں اِس دَور کی تکمیل ابھی ہو رہی ہے ۔ یاد رہے کہ وہ مستقبل سے مایوس نہیں تھے بلکہ فلسفیانہ اعتبار سے انہوں نے جس مسلک سے بار بار اپنی وابستگی ظاہر کی وہ meliorism ہے جو pragmatism کا ایک جزو ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا نہ مکمل طور پر اچھی ہے نہ مکمل طور پر بری ہے مگر آنے والے دَور میں اچھائی کی مقدار آج سے زیادہ ہو گی۔ یہ مسلک شائد اقبال اور اُس روائتی مشرقی فکر کے درمیان ایک بنیادی اختلاف کی مثال ہے جس روائتی فکر سے وہ اور ہر طرح منسلک تھے۔ چنانچہ ابھی اُنہوں نے کہا تھا کہ دنیوی زندگی میں بھی دنیا کی قید سے آزاد ہوا جا سکتا ہے یعنی توحید یہی ہے کہ خودی سے اس طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ اگر میں ستاروں کو شکار کرنے کی بات کرتا ہوں تو تعجب نہیں کرنا چاہیے کیونکہ میں نے اپنے آپ کو آقاؐ کے شکارکے تھیلے سے باندھ لیا ہے (اور اس مضمون کے لیے اقبال مرزا صائب کے ایک فارسی مصرعے کو لفظی تغیر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں)۔ یہ وہ آقا ہے جو نبوت کو ختم کرنے والا ہے، تمام راستوں سے واقف ہے اور جس نے راستے میں بکھری ہوئی مٹی کو خدا کے نُور سے منور کر دیا: عجب کیا گر مہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں ’کہ بر فتراکِ صاحب دولتے بستم سرِ خود را‘ وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیںؔ، وہی طاہاؔ! آگے چلیے تو آٹھویں ٹکڑے کا یہ شعر دلچسپ اور وضاحت طلب ہے: حدیثِ بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا! اقبال یہ نہیں کہہ رہے کہ اُن کے یہاں عشقیہ شاعری کی گنجائش نہیں بلکہ اسرارِ خودی میں اُنہوں نے عشقیہ شاعری کے حوالے سے جو بات کی ہے اُسے ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ عشق بے نیازی سکھاتا ہے اور زندگی کی حسیّات کو مضبوط کرتا ہے مگر مشرق میں اِس جذبے کو مسخ کر دیا گیا ہے۔ یہاں عشق کو محبوب کے کوچے میں ذلیل ہونے والا ایسا بھکاری بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس میں عزتِ نفس نہیں ہے۔ عشقیہ شاعری میں اقبال کا ایک محبوب شاعر شہنشاہ اکبر کے زمانے کا ایرانی نووارد عرفیؔ شیرازی تھا جسے اُنہوں نے اسرارِ خودی کے پہلے اڈیشن میں حافظؔ کے مقابل ہیرو بنا کر پیش بھی کیا تھا۔ حافظؔ والے اشعار نکال دیے تو اِس کا نام بھی خارج ہو گیا مگربانگِ درا میں ’عُرفی‘ کے عنوان سے وہ نظم باقی ہے جس میں کہتے ہیں کہ اُس کے تخیل نے جو محل تعمیر کیا اُس پر سینا اور فارابی کے حیرت خانے قربان ہیں کہ اُس نے عشق کی فضا پر ایسی تحریر لکھی ہے جو آج بھی متاثر کرتی ہے۔ چنانچہ اب دیکھیے کہ اِسی ٹکڑے یعنی نمبر۸ کا خاتمہ اس اہم سوال پر ہوتا ہے: کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا! اگلے پورے ٹکڑے کو اِس سوال کا جواب سمجھ کر پڑھیے: عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دمبدم آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق شاخِ گُل میں جس طرح بادِ سحرگاہی کا نَم اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جَم! دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم؟ اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ، مُلّا سے نہ پوچھ ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم؟ آخری سوال کا جواب اگلے ٹکڑے (نمبر ۱۰) میں ملاحظہ کیجیے: دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے پھر اِس میں عجب کیا کہ تُو بیباک نہیں ہے نظموں کے درمیان یہ ربط اور تسلسل جس کا پہلے سلسلے میں ہم نے تفصیل سے جائزہ لیا تھا دوسرے سلسلے میں بھی موجود ہے۔ تمام نظموں کو ترتیب میں پڑھیے تو اُن کے وسیع معانی ہاتھ آتے ہیں۔ آئیے اب اُن اشعار کا جائزہ لیتے ہیں جو سیاق و سباق کے بغیر بہت مشہور ہیں۔ اُن میں سے بعض اشعار سے تو ایسے معانی منسوب کر دئے گئے ہیں جن کی بالکل گنجائش نہیں تھی اور جو اقبال کی سوچ کے خلاف ہیں۔ سیاق و سباق میں اُن کا مطلب بدل جاتا ہے۔ نظم ۱۲ کا وہ شعر جس میں مومن کے بے تیغ سپاہی ہونے کی بات ہے بہت مشہور ہے۔ عام طور پراِس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ غیرمسلم تلوار پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ قرونِ اُولیٰ کے مجاہدین بغیر ہتھیاروں کے جنگ میں شرکت فرماتے تھے۔ یہ بات اقبال کے مفہوم سے دُور ہے۔ اِس سے پچھلے ٹکڑے (نمبر ۱۱) کا آخری شعر دیکھیے: اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق! اب بارھویں کے ابتدائی تین اشعار دیکھیے جن میں سے تیسرا وہ بے تیغ سپاہی والا مشہور شعر ہے: پوچھ اُس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی تُو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی! کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی، نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی یہاں مسلمانوں سے خطاب ہے ۔ فطرت کی گواہی سے مراد یہ ہے کہ محض دوسروں کی ضد میں اپنے مذہب پر ایمان رکھنا کافی نہیں بلکہ زندگی ایک پیچیدہ چیز ہے۔ خدا کا پیغام تو بیشک سچا ہے مگر اُس پیغام کو اپنانے کا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے کیا وہ بھی سچّا ہے؟ آپ کے جوش و خروش یا غصے اور گرمی سے اِس کا اندازہ نہیں ہو گا بلکہ اِس بات سے ہو گا کہ اُس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا ہوا ہے؟ آپ کائنات سے ہم آہنگ ہوئے ہیں یا نہیں؟ زندگی میں کامیابی اور ناکامی جن اصولوں کے تابع ہے اُن پر آپ کی گرفت مضبوط ہوئی ہے یا نہیں؟ یہی فطرت کی گواہی ہے۔ جسے عشق نصیب ہوتا ہے وہی اقبال کی نظر میں مسلمان ہے خواہ ویسے اُس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ جسے یہ عشق نصیب نہیں وہ کافر ہے خواہ کلمہ پڑھتا ہو۔کیا عشق میں سے آپ نے کچھ حصہ پایا ہے؟ اِس کے لیے فطرت کی گواہی کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان عشق سے محروم ہے تو نہ اُس کے پاس دنیادی کامیابی دکھائی دے گی نہ وہ فقر دکھائی دے گا جس میں دنیاوی اسباب سے بے نیازی حاصل ہوتی ہے۔ (ماہرِنفسیات ماسلو کی اصطلاح میں self-actualization کہہ لیجئے ورنہ کوئی اور نام دے لیجئے مگر بہرحال ایک سکون اور اطمینان کی کیفیت ہے)۔ ’’کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ‘‘ میں غیرمسلم کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ پچھلے شعر کے ساتھ رکھ کر دیکھیے کہ گرامر کی رُو سے یہاں حذف ہے جسے شعر میں شامل کریں تو شعر کی مکمل نثر یوں بنتی ہے کہ ’’کافر ہے مسلماں تو شمشیر پر بھروسہ کرتا ہے اور اگر سپاہی مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے۔‘‘ شمشیر کس بات کا اشارہ ہے؟ اقبال کے یہاں تلوار عام طور پر فطرت کی طاقتوں کا اشارہ ہوتا ہے جو انسان کے ہاتھ میں آ گئی ہوں( مثلاً ’’یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں‘‘ وغیرہ)۔ شمشیر کے یہ معانی لیے جائیں تو فطرت کی گواہی والی بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ قدرتی وسائل یعنی تلوار حاصل ہو یا نہ ہو اصل بات یہ سمجھنا ہے کہ جو کچھ قدرت میں ہے وہی ہمارے اندر بھی ہے کہ وہ macrocosm ہے اور ہم microcosm ہیں۔ اگر مادے کے وسائل حاصل نہ ہوں تو انہیں اپنی روح سے پیدا کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کے نزدیک روح اور مادہ مختلف نہیں ہیں: کافر ہے تو ہے تابعِ تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی! میں نے تو کیا پردۂ اسرار کو بھی فاش دیرینہ ہے تیرا مرضِ کورنگاہی یعنی اگر مسلمان کافر ہے تو تابعِ تقدیر ہے لیکن اگر مومن ہے تو آپ تقدیرِ الٰہی ہے۔ نظم نمبر ۱۴ میں پھر یہی استعارے اِس طرح جمع ہوئے ہیںکہ دلِ بیدار پیدا کرو جس کے بغیر ضرب کاری نہیں ہوتی اور صحرا میں مُشک والا ہرن تلاش کرنا ہو تو اُس کے لیے سونگھنے کی حس تیز ہونی چاہیے محض حساب کتاب سے وہ ہرن ہاتھ نہیں آتا! نظم نمبر ۱۷ کا وہ شعر بھی بہت مشہور ہے جس میں دین کو سیاست سے الگ کرنے کے نیتجے میں چنگیزیت کی پیشین گوئی کی گئی ہے: زمامِ کار اگر مزدُور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی! جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی! اشعار کے بارے میں چونکہ یہ نوٹ شامل ہے کہ یورپ میں لکھے گئے چنانچہ زمامِ کار مزدور کے ہاتھوں میں ہونے سے شائد انگلستان کی لیبر پارٹی کی حکومت مراد ہو گی جس نے گول میز کانفرنسوں کا وہ سلسلہ منعقد کیا تھا جس کی آخری دو کانفرنسوں میں شرکت کرنے اقبال یورپ گئے تھے۔ مغربی تہذیب پر اقبال کا اعتراض یہی تھا کہ اِس میں رُوح اور مادّے کو الگ سمجھا جاتا ہے۔ دین اور سیاست کے اکٹھے ہونے کی بات اُنہوں نے خطبۂ الٰہ آباد میں بھی کی تھی اور اُسی حوالے سے اِس شعر کو سمجھنا چاہیے۔وہاں کہتے ہیں، ’’خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست حیاتیاتی طور پر ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ انسان کسی ناپاک دنیا کا شہری نہیں ہے جسے کہیں اور واقع روحانی دنیا کی خاطر ترک کرنا ہو۔‘‘ چنانچہ اُن کے نزدیک دین اور سیاست کا یکجا ہونا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اُن کی علیحدگی سے مذہب اہلِ سیاست کے ہاتھوں میں عوام کے استحصال کے لیے ہتھیار بن جائے گا جس طرح قرونِ اولیٰ کے بعض معاشروں میں ہوتا تھا اور مغرب میں بادشاہت کے خدائی استحقاق یعنی divine right to rule کی صورت دکھائی دیتی تھی اور تیسری دنیا میں ابھی جزوی طور پر موجود ہے۔یا قدرتی وسائل چند لوگوں میں محدود ہو جائیں گے جنہیں خدا کا خوف بھی دوسروں کی گردن میں اپنے استعمار کی زنجیر ڈال نے سے باز نہیں رکھے گا جیسا کہ اقبال کے زمانے میں مغربی استعمار کی صورت تھی۔ اقبال کی شاعری میں دین دراصل رُوح اور مادے کو ایک سمجھنے کا استعارہ بھی ہے۔ اِس طرح انسان اپنی بہترین قوتوں کو پرورش دینے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اِسی کی تشریح اگلے ٹکڑے (نمبر۱۸) میں مزید کھل کر ہوئی ہے جہاں ’’جذبِ مسلمانی ‘‘ کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ آسمانوں کے آسمان کا راز ہے جس کے بغیر نہ راہِ عمل دکھائی دیتی ہے نہ یقین پیدا ہوتا ہے۔ یہ جذبِ مسلمانی محبت کی ایک قسم ہے اور محبت کا شکار ہونے والوں کی کہانی بس اِتنی سی ہے کہ تیرکھانے کا لطف محسوس کیا اور اس کے بعد شکاری کے تھیلے میں پہنچ کر آسودہ ہو گئے۔ گستاخی اور بیباکی بھی اسی محبت کی ادائیں ہیں اور محبت کے ساتھ ہوں تو قابلِ معافی ہیں۔ اِسی تسلسل میں وہ مشہور شعر ہے: فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک اس کے بعد اقبال پہلی دفعہ اپنی اُردو شاعری میں اُس موضوع کو داخل کرتے ہیں جس پر فارسی میں وہ مستقل کتابیں لکھ چکے تھے یعنی خودی۔ اِس کا ذکر سنائی والی نظم میں بھی تھا کہ خودی سے طلسمِ رنگ و بو کو توڑ سکتے ہیںمگر اب تفصیل سے بات ہوتی ہے: خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں تُو آبجو اِسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں! طسلمِ گنبدِ گردُوں کو توڑ سکتے ہیں زجاج کی یہ عمارت ہے سنگِ خارہ نہیں! اسرارِ خودی میں عشق کی سب سے بڑی فضیلت یہی بیان ہوئی تھی کہ یہ خودی کو مضبوط بناتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس کی تشریح اقبال نے یوں کی تھی کہ یہ شعور کا وہ روشن نقطہ ہے جو خدا کے نور سے منور ہے۔ عام الفاظ میں اِسے اَنا، ’’مَیں‘‘ یا اپنے ہونے کا احساس کہہ سکتے ہیں مگر اقبال کی سوچ میں یہ احساس خدا کی ہستی سے براہِ راست روشنی حاصل کر رہا ہے۔ چنانچہ خودی خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی ہے جس پر چلیں تو دنیا کی بہت سی منزلیں بیچ میں آتی ہی نہیں اور بڑی جلدی کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں، جیسا کہ اگلے ٹکڑے (نمبر۲۲) میں کہتے ہیں: یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبحگاہی کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی! تری زندگی اِسی سے تری آبرو اِسی سے جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی! اٹھائیسویں ٹکڑے کا وہ شعر بہت مشہور ہے جس میں کہا ہے کہ اِس نوائے پریشاں کو شاعری مت سمجھو کیونکہ میں میخانے کے رازِ دروں کا محرم ہوں۔ میخانے کا وہ کیا راز ہے جس کے یہ محرم ہیں؟ اِسی ٹکڑے میں وہ راز بھی کھولا گیا ہے مگر اشعار کو اکٹھا نہ پڑھنے کی وجہ سے عام طور پر پڑھنے والوں کی توجہ اُس طرف نہیں گئی: نہ بادہ ہے نہ صراحی، نہ دَورِ پیمانہ فقط نگاہ سے رنگیں ہے بزمِ جانانہ! مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ کہ میں ہوں محرمِ رازِ درونِ میخانہ! گویا میخانے کا وہ اہم راز جس سے یہ واقف ہیں وہ یہی ہے کہ محبوب کی بزم میں اصل کیفیت نگاہ سے ہے۔ اگلے اشعار میں یہی بات ایک اور طرح سمجھاتے ہیں: کلی کو دیکھ کہ ہے تشنۂ نسیمِ سحر اِسی میں ہے مرے دل کا تمام افسانہ! کوئی بتائے مجھے یہ غیاب ہے کہ حضور سب آشنا ہیں یہاں، ایک میں ہوں بیگانہ! کلی اپنے زور سے شاخ سے پھوٹی گویا جو اُس کے اختیار میں تھا وہ کر گزری۔ اب اگلی منزل تنہا اُس کے بس کا روگ نہیں اور نسیمِ سحرکی منتظر ہے۔ گویا اُسی نگاہِ جانانہ کی ضرورت ہے۔ بس اِسی کوشش اور انتظار میں اقبال کے دل کا تمام افسانہ بھی موجود ہے مگر وہ محسوس کرتے ہیں جیسے اُن کے سوا باقی سب آشنا ہوں۔ نہیں معلوم یہ غیاب ہے یا حضور۔ اِس غیاب اور حضور کے اشارے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ اگلا ٹکڑا (نمبر ۲۹) تاریخ میں اس نگاہِ جانانہ یا نسیمِ سحر کے ظہور کی صورتوں کے بارے میں ہے۔ اِسی میں شمشیر و سناں اول والا مشہور شعر ہے جس کے معانی سمجھنے میں لوگ بہت زیادتی کرتے ہیں۔ پچھلی نظم میں جو نگاہ اور نسیمِ سحر کی گفتگو ہوئی تھی اُس کی روشنی میں اِس پوری نظم کو ایک دفعہ پڑھیے: افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر، اٹھتے ہیں حجاب آخر احوالِ محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا سوز و تب و تاب اوّل، سوزو تب و تاب آخر میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر اُمم کیا ہے شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مٔے ناب آخر خلوت کی گھڑی گزری، جلوت کی گھڑی آئی چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر تھا ضبط بہت مشکل اس سیلِ معانی کا کہہ ڈالے قلندر نے اسرارِ کتاب آخر تاریخ وقت کا عمل ہے گویا جاویدنامہ کی رُو سے زُروان کے سپرد ہے جوبیک وقت قاہر اور مہربان ہے، نگاہ سے چھپا ہوا بھی اور ظاہر بھی ہے۔ پیامِ مشرق میں اُسی نے اپنے بارے میں کہا تھا، ’’چوں رُوحِ رواں پاکم از چنگ و چگونِ تو۔‘‘ یہاں بھی اقبال یہ نہیں کہہ رہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو ایسا ہو جائے گا۔ یہاں وہ حادثات بیان ہو رہے ہیں جو انسان کی دسترس سے باہر ہیں اور جنہیں ہمارے چنگ و چگون سے قطعِ نظر ہر حال میں رونما ہونا ہے۔ وہ جب کہتے ہیں کہ تقدیرِ اُمم یہ ہے کہ پہلے شمشیر و سناں اور پھر طاؤس و رباب تو وہ طاؤس و رباب کی تحقیر نہیں کر رہے بلکہ ایک حقیقت بیان کر رہے ہیں کہ ایسا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اِسی بالِ جبریل میں آگے چل کرٹکڑے نمبر ۵۵ میں وہ کہیں گے کہ ایبک و غوری کے معرکے باقی نہیں رہے مگر نغمۂ خسرو ہمیشہ تازہ و شیریں ہے! تقدیر انسانی تدبیر سے ماورا ہے، اس حقیقت کو حافظ نے بھی محسوس کیااور اقبال نے بھی مگر ان دونوں کے ردِ عمل مختلف ہیں۔ اقبال تقدیر کی بے رحمی سے فرار تلاش کرتے ہیں تو اِس حقیقت میں کہ وقت کا وہ بے رحم دھارا جو ہمارے چنگ و چگون سے متاثر نہیں ہوتا وہ خود ہمارے اندر بھی تو ہے۔ ہم اُس کا رازِ دروں ہیں اور وہ ہمارا رازِ دروں ہے۔ طاقت کا سرچشمہ ذات سے باہر تلاش کرنے میں مایوسی ہے مگر ذات میں اِس کی جستجو میں کیف و مستی ہے اور بانسری کے عشق کی آگ ہے۔ اپنے آپ میں اِس دھارے کو تلاش کر کے پھر بیرونی دنیا کے سامنے جم کر کھڑے ہونا ہے۔ اگلی چند نظموں میں یہی کیف و مستی ہے اور کلی کے تشنۂ نسیمِ سحر ہونے کی بات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ ہر شے مسافر ہر چیز راہی اور ہر چیز ہے محوِ خود نمائی، وغیرہ وغیرہ۔ تقدیر کی برق ہمیشہ بیچارے مسلمانوں ہی پر نہیں گرتی بلکہ : اعجاز ہے کسی کا یا گردشِ زمانہ! ٹوٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ! یہ ٹکڑے نمبر ۳۲ کا پہلا شعر ہے۔ آخری شعر ہے: رازِ حرم سے شائد اقبالؔ باخبر ہے ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ! یورپ کا طلسم ٹوٹنے کی پیشین گوئی جس مجذوب نے کی تھی اگلا ٹکڑا اُس کے بارے میں ہے یعنی نیٹشے: خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا کہ میں اِس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے! خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے! بات وہی ہے کہ تقدیر کی سفاکی کا مقابلہ اپنے آپ میں ڈوب کر کیا جا سکتا ہے۔ مادے اور روح کو الگ الگ نہ سمجھیں تو یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ باہر دنیا میں جو کچھ ہے وہ ہمارے اندر ہماری روح میں بھی ہے۔ جاویدنامہ پر مریخی ستارہ شناس نے اقبال سے جو گفتگو کی تھی (اور جو پہلے پیش کی گئی ہے) اُسے سامنے رکھے بغیر خودی کو بلند کرنے والے شعر کا لطف ادھورا رہ جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ اگر ایک تقدیر نے تمہارا جگر خوں کر دیا ہے تو خدا سے کہو کہ وہ تمہیں کوئی اور تقدیر دے دے کیونکہ اُس کے یہاں تقدیروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اقبال اور نیٹشے میں یہ قدرِ مشترک ہے کہ دونوں کیمیاگری کے دعوے دار ہیں، ایک نئے آدم کی تخلیق کی تمنّا رکھتے ہیں اور اپنے سوزِ نفس سے اُس نئی دنیا کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں: مقامِ گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیاگر ہوں یہی سوزِ نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے مگر اُن کے درمیان واضح فرق یہ ہے کہ نیٹشے کے یہاں خودی کے مقابل کسی دوسرے کا تصوّر موجود نہیں ہے۔ عشق مجازی ہو یا حقیقی وہ نیٹشے کے فلسفے میں کوئی خاص گنجایش نہیں پاتا۔ اقبال کے نزدیک اِسی کمزوری نے نیٹشے کو خدا سے منکر کیا ورنہ اپنی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو دوسرے کی نگاہ کے نُور سے دیکھنے کی ضرورت سمجھ لی جائے تو خدا تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھائی دیتا ہے: نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اُس میں نہ پوچھ اے ہمنشیں مجھ سے وہ چشمِ سُرمہ سا کیا ہے اگر ہوتا وہ مجذوبِ فرنگی اِس زمانے میں تو اقبال اُس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے ’’مجذوبِ فرنگی‘‘ پر اقبال کا اپنا نوٹ موجود ہے کہ اِس سے مراد نیٹشے ہے جو اپنے وارداتِ قلبی کا صحیح اندازہ نہ کر سکنے کی وجہ سے گمراہ ہوا۔ اپنا نام اقبال نے بیانِ واقعہ کے طور پر درج کیا ہے محض تخلص کے طور نہیں کیونکہ یہ مقطع نہیں ہے۔ اس کے بعد ایک اور شعر بھی ہے: نوائے صبحگاہی نے جگر خوں کر دیا میرا خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے خودی کو بلند کرنے کے راستے اگلے ٹکڑوں میں پیش کیے گئے ہیں۔ یہ ٹکڑے ایک طرح سے اسرارِ خودی کا خلاصہ ہیں۔ وہاں کہہ چکے تھے کہ عشق خودی کو مضبوط بناتا ہے مگر عشق سے مراد خودترسی نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں بھی اگلے ٹکڑے (نمبر ۳۴) کا آغاز ہے: جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خودآگاہی کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی! عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی! اسرارِ خودی میں عشق کی فضیلت کے ساتھ ہی یاد دلایا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے سے خودی کمزور ہو جاتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی کہتے ہیں: اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اُولیٰ ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی! یہاں تک پہنچ کر سلسلۂ کلام اچانک انتہائی ذاتی اور ادبی اعتبار سے رومانوی لہجہ اختیار کرتا ہے یعنی نمبر ۳۵، مجھے آہ و فغانِ نیم شب کا پھر پیام آیا اور: یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدوں جب وقتِ قیام آیا! چل اے میری غریبی کا تماشا دیکھنے والے وہ محفل اُٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دَورِ جام آیا دیا اقبالؔ نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اِک مردِ تن آساں تھا، تن آسانوں کے کام آیا! اِس مقام پر یہی تاثر ملتا ہے کہ بہت مشکل زندگی کی طرف اشارہ کرنے والا حکیم ُالامت اچانک آہستہ سے اپنی ذاتی زندگی کے دُکھ دَرد کہنے پر اُتر آیا ہے۔ جنہیں شکایت ہے کہ اقبال کے یہاں رومانوی اور ذاتی رنگ نہیں ملتا اُنہوں نے یقینا اِس قسم کے اشعار کو نظراندا ز کر کے اقبال کو صرف اُن اشعار کی روشنی میں دیکھا ہے جو چمٹی سے اٹھا کر سیاق و سباق سے جدا کر کے کیلنڈروں میں شائع کر دئے جاتے ہیں یا ایک زمانے میں ٹیلی وژن پر اشتہارات ختم ہونے کے بعد چلا ئے جاتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ کسی کی گود میں بلّی دیکھ کر نظم لکھنے اور اپنے آپ کو عاشقِ ہرجائی کہہ کر ہنسنے والااقبال بانگِ درا ’حصہ دوم‘ کے بعد فوت نہیں ہو گیا تھا بلکہ اُس سے بالِ جبریل تو کیا ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز میں بھی ملاقات ہوجاتی ہے۔ جو اُس کے مزاج کو سمجھتے ہوں وہ پس چہ بائد کرد میں بھی اُس سے مل سکتے ہیں! اگر کوئی شکایت کرے کہ یہاں ذاتی سطح پر آ کر بھی اقبال صرف اپنے فنی کرب کا ذکر کیوں کرتے ہیں اورزیادہ عامیانہ موضوعات کی طرف کیوں نہیں آتے تو یہ شکایت جائز نہیں۔ جب فن اور فکر کسی کی ذات کا حصہ بن جائیں اور شالامار میں پھول کا تحفہ قبول کرتے ہوئے بھی اُسے صرف اپنی اور پھول دینے والی ہی کی نہیں بلکہ پھول کی دھڑکن بھی سنائی دے رہی ہو تو اُس سے یہ شکایت کرنا غیرمناسب ہے۔ اگلے ٹکڑے (نمبر ۳۶) میں وہ خود اپنی شخصیت سے کچھ پردے ہٹانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی وغیرہ۔ یہ اور اگلے تین ٹکڑے (نمبر ۳۷، ۳۸، ۳۹) ایک فنکار کی انفرادی آواز ہیں جس میں دوستانہ سطح پر کچھ اپنی مشکلات بیان ہو رہی ہیں اور کچھ اپنے فنی مسلک سے وابستہ نظریات کا انتہائی ذاتی اور موضوعی انداز میں ذکرہے یعنی بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت، جو اُس سے نہ ہو سکا وہ تُو کر۔ عشق بیچارہ عقل کی طرح ملا، زاہد اور حکیم کا بھیس نہیں بنا سکتا، وغیرہ۔ نمبر۴۰ وہ مشہور شاہکار ہے جس کے معانی سمجھنے میں بڑی ناانصافیاں کی گئی ہیں۔ ہم سب کو اپنے اسکول اور کالج کے زمانے کے وہ مباحثے یاد ہوں گے جن میں طرار مقرر سائنس اور خلابازی کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہہ دیتے تھے اور ہم نے یومِ اقبال پر بنائی ہوئی ایسی تصویریں بھی دیکھی ہوں گی جن میں کہکشاں کے سامنے ایک راکٹ یا خلائی جہاز کی تصویر بنا کر لکھ دیا جاتا ہے کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ حقیقت میں اقبال اِس کے برعکس بات کر رہے ہیں۔ مادی کائنات کی دریافت تو اقبال کے زمانے میں بھی جاری تھی اورجاویدنامہ میں بعض سیاروں کاحال پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اُنہوں نے خلا کے بارے میں اپنے زمانے کی تحقیق سے استفادہ کیا تھا۔ پلوٹو سیارہ ۱۹۳۰ ہی میں دریافت ہوا تھا اور ممکن ہے یہ اشعار یہی خبر سُن کر ردِ عمل میں لکھی گئے ہوں۔ بہرحال اقبال کے نزدیک کائنات کی مادی تسخیر کافی نہیں تھی۔ ہم خود کائنات کا حصہ ہیں اور جو کچھ باہر نظر آتا ہے وہی ہماری رُوح میں بھی موجود ہے۔ کائنات میں آگے بڑھنے کا راستہ صرف ستاروں سے گزر کر نہیں جاتا بلکہ اپنے اندر سے ہو کر بھی گزرتا ہے: ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں کائنات کی مادی تسخیر تک محدود رہ جانے میں ایک بنیادی غلطی ہے جس کا ذکر اگلے ٹکڑے (نمبر ۴۱) میں ہے یعنی ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیشِ جہاں کا دوام، وائے تمنائے خام!یہ علم اور عشق کے درمیان توازن کا مسئلہ ہے جیسا کہ نمبر ۴۲ سے معلوم ہوتا ہے یعنی خودی ہو علم سے محکم تو غیرتِ جبریل، اگر ہو عشق سے محکم تو صورِ اسرافیل!عشق کے امتحانوں کا ذکر اگلے ٹکڑوں میں جاری رہتا ہے چنانچہ نمبر ۴۲کا اختتام اِس شعر پر ہے جو بہت مشہور ہو گیا ہے: غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم نہایت اِس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل! اگلے کئی ٹکڑوں میں داستانِ حرم کے اِس پہلو یعنی عشق کی طرف اشارے ہیں اور موجودہ زمانے میں اہلِ حرم کی عشق سے دُوری کا گلہ ہے کہ مکتبوں میں کہی رعنائیِ افکار بھی ہے، خانقاہوں میں کہیں لذّتِ اَسرار بھی ہے؟ اگلے ٹکڑوں کو تسلسل میں پڑھیے تو اہلِ حرم کی محرومیوں کی وجہ وہی حقیقت کے امتحان سے گریز کرنا یعنی reality check کے بغیر اپنے عقائد کو کافی سمجھ لینا ہے جس پر اقبال یہ کہتے ہیں کہ کچھ کام نہیں بنتا بے جرأتِ رندانہ۔ قلندری کی بات بھی کرتے ہیں، جنون کی بھی اور پھر یہ کہ: کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد مری نگاہ نہیں سُوئے کوفہ و بغداد! یہ احساس ہمیشہ اقبال کے ساتھ رہا کہ وہ جس قسم کی بات کر رہے ہیں اُسے اُن کے زمانے میں پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔ جس کام کا وہ آغاز کر رہے ہیں وہ ایک نسل کا کام نہیں ہے۔ اسرارِ خودی میں بھی اپنے آپ کو آنے والی کل کا شاعر کہا۔ یہاں بھی پہلے سلسلے میں خدا سے خطاب کا اختتام یوں کیا تھا کہ اقبال خدا کے حضور بھی خاموش نہیں رہا کاش کوئی اِس گستاخ بندے کا منہ بند کرتا۔ اب انسانوں سے خطاب کے اختتام کے قریب نمبر ۶۰ میں بھی اِسی قسم کی بات کرتے ہیں: کمالِ جوشِ جنوں میں رہا میں گرمِ طواف خدا کا شکر سلامت رہا حرم کا غلاف اس میں جس طواف کا ذکر ہے اُس سے مراد یہی اشعار کے ٹکڑے ہیں جن کا ہم نے ابھی جائزہ لیا۔ اِن میں اسلام ہی کا پیغام پیش کیا گیا ہے چنانچہ کمالِ جوشِ جنوں میںحرم کا طواف کرنے کا استعارہ بھی برمحل ہے۔ مگر ان نظموں میں جس طرح کھل کر گفتگو کی ہے اور سخن گسترانہ باتیں جو بیچ میں آ پڑی ہیں اُن پر نظر ڈالیں تو سمجھ میں آ جاتا ہے کہ اقبال کے اِس طواف سے حرم کے غلاف کوکیا خطرہ درپیش تھا۔ یہ اور اگلا ٹکڑا (نمبر۶۱) جو اس سلسلے کا اختتام ہے اِس گفتگو کو لپیٹتے ہیں۔ حقیقت سے تعلق قائم رکھنا اقبال کی نظر میں اِتنا اہم ہے کہ افلاطون پر پھبتی کسنا وہ ایک دفعہ پھر اپنا فرض سمجھتے ہیں (اُس بیچارے کو اسرارِ خودی میں بھی بہت سخت سست کہا تھا)۔ اُن کے خیال میں افلاطون حواسِ خمسہ اور تجربے کی روشنی میں حقیقت کو سمجھنے کی بجائے ذہنی جمع خرچ سے کائنات کی تشریح کرتا ہے اور اِس رویئے نے مسمانوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے (یہ الگ بحث ہے کہ آیا یہ اعتراض افلاطون پر ہونا چاہیے یا صرف اُس کے بعض شارحین تک محدود رہنا چاہیے)۔ اقبال جو بات ہمیں یاد رکھوانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ: تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اَعراف ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کُشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف اُس زمانے کی اسلامی دنیا میں ترکی عام طور پر بیداری کا نمونہ سمجھا جاتا تھا اور اقبال نے خطبات میں بھی اجتہاد اور نشأۃ الثانیہ کی بات کو جدید ترکی پر تبصرے پر ختم کیا تھا۔ اس سلسلۂ بیان کے آخری اشعار اِس گفتگو کو بھی اِسی قسم کے انجام تک پہنچاتے ہیں: سنا ہے میں نے سخن رَس ہے تُرکِ عثمانی سنائے کون اُسے اقبال کا یہ شعرِ غریب! سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہمجوار اپنا ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب! قطعہ اور رباعیات اس کے بعد ایک قطعہ اور وہ رباعیات ہیں جنہیں اِس سلسلے کے موضوع سے مناسبت ہے۔ یہ نظموں کے دو طویل سلسلوں اور آگے آنے والی زیادہ عظیم الشان نظموں کے درمیان حدِ فاصل بھی قائم کرتے ہیں اور اگر قاری دو سلسلوں کے بعد تھک گیا ہو تو اگلی نظموں سے پہلے ذہن کو کسی قدر سکون پہنچا کر تازہ دم ہوسکتا ہے۔ ’دعا‘ سے ’خدا کا فرمان‘ تک ’دُعا‘ اور ’مسجدِ قرطبہ‘ سے وہ نظمیں شروع ہوتی ہیں جن پر الگ الگ عنوان دیے گئے ہیں مگر وہاں بھی ہر نظم پوری کتاب کا حصہ ہے اور ایک خاص ترتیب میں رکھی گئی ہے۔ یہ حصہ’ دُعا‘ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ اور اِس سے اگلی نظمیں ۱۹۳۳ء میں اسپین میں لکھی گئی تھیں۔ پچھلے برس فلسطین کے سفر میں جو عالیشان نعت ’ذوق و شوق‘کہی گئی تھی وہ بعد میں رکھی۔ اقبال سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دعا اور نعت کے بیچ میں دوسری نظموں اور لینن کے تذکرے وغیرہ کو جگہ دیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ دعائیہ مضمون اُس ایک نظم میں ختم نہیں ہوجاتا جو ’مسجدِ قرطبہ‘ میں لکھی گئی تھی بلکہ ’ذوق و شوق‘ تک نو نظموں کے سلسلے میں جا کر پورا دُعائیہ ختم ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح کی تمہیدِ آسمانی بھی ہے: دعا مسجدِ قرطبہ قیدخانے میں معتمد کی فریاد عبدالرحمٰن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت اندلس طارق کی دعا لینن فرشتوں کا گیت خدا کا فرمان تشکیلِ جدید والے خطبات میں انہوں نے کہا تھا کہ تاریخ خدا کی تین نشانیوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ اِن دعائیہ نظموں میں تاریخ کا ذکر حمد بن جاتا ہے۔ بات اِس طرح شروع ہوتی ہے کہ اقبال خدا کے حضور اپنی نوا پیش کر رہے ہیں جس میں اُن کے جگر کا لہو شامل ہے: ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو ایک دفعہ پھرجاویدنامہ کی کہانی سے استعارے لیے گئے ہیںمثلاً وہاں خدا کے حضور جاتے ہوئے کہا تھا کہ حوریں بھی روک رہی تھیں اور محلات بھی تھے مگر عاشق سوائے محبوب کے دیدار کے کسی اور بات پر راضی نہیں ہوتا اور وہاں تنہا ہی جانا پڑتا ہے کہ عشق کی غیرت محبوب کی موجودگی میں کسی تیسرے کو برداشت نہیں کرتی۔ اب : راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق ساتھ مرے رہ گئی ایک مری آرزو! جاویدنامہ کے آخر میں خدا نے اُن پر دنیا کی تقدیر بے حجاب کی تھی تو اپنے سیارے کا آسمان لہو کی سرخی میں ڈوبا دکھائی دیا تھا۔یہاں پہلے حصے میں اپنا سینہ روشن کرنے کی دعا بھی مانگی تھی اور ساقی کی تعریف بھی کی جس نے مئے لا الٰہ الا ھو پلا کر سینہ روشن کر دیا۔ اب پھر وہی مضامین ہیں: تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صبحِ نشور تجھ سے مرے سینے میں آتشِ اللہ ھُو جاویدنامہ میں خدا سے پوچھا تھا کہ آپ لافانی ہیں تو میں کیوں فانی ہوں۔ اُس کے جواب میں خدا نے کہا تھا کہ ہماری قوتِ تخلیق میں سے حصہ تلاش کرو، اگر ہماری دنیا پسند نہیں تو اسے اپنی مرضی کے مطابق بدل ڈالواور ہمارے ساتھ اپنا تعلق سمجھ لو گے تو باقی رہو گے۔ اب ’دُعا‘ کے آخری اشعار دیکھیے: تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ اپنے لیے لامکاں، میرے لیے چار سُو! فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا حرفِ تمّنا جسے کَہ نہ سکیں رُوبرو گویا خدا نے اپنی قوتِ تخلیق میں سے اقبال کو صرف فلسفہ و شعر کی نعمت عطا فرما کر سمندر سے پیاسے کو شبنم دی ہے۔ یہاں یہ شکایت دبی زبان میں ہے مگر آگے چل کر مثلاً لینن والی نظم میں اقبال کا جنون فارغ نہیں بیٹھے گا۔ بہرحال اگر فلسفہ و شعر ہی نماز اور وضو ہے تو اگلی نظم میں عبادت کی یہ صورت ہے کہ الفاظ سے وہی کام لیتے ہیں جو کبھی اندلس کے معاروں نے پتھروں سے لیا تھا۔ اُنہوں نے مسجدِ قرطبہ بنائی تھی اور یہ ایک ایسی نظم پیش کر رہے ہیں جس میں شعری اعتبار سے وہی حسن ہے جو تعمیراتی اعتبار سے مسجدِ قرطبہ میں موجود ہے ۔ اور خیال رہے کہ اِس نظم میں فلسفہ اور شعر دونوں موجود ہیں! نظم ’مسجدِ قرطبہ‘ پر بہت لکھا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح اُس مسجد میں ٹھوس پتھر کی سلیں ایک دوسرے پر مضبوطی سے جمی ہیں اُسی طرح نظم کے شروع میں تقریباً کسی فعل کے بغیر مصرعے بنا کر گویا ٹھوس اسمی تراکیب کو مضبوطی کے ساتھ جما دیا گیا ہے: سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات، اپنی قبائے صفات اِن مصرعوں میں سے کسی لفظ کو اِدھر اُدھرسرکانا مسجدِ قرطبہ کی جنّاتی دیوار میں سے کسی پتھر کو کھینچنے کے برابر مشکل نہ ہو تب بھی کچھ آسان کام نہیں ہے۔ نظم کے بعض مقامات جن کی تشریح سیاق و سباق کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے اُن میں سے ایک مردِ خدا اور مردِ مسلماں کا فرق ہے۔ اقبال کے نزدیک مردِ خدا کوئی بھی ہو سکتا ہے اور اِسی کتاب میں آگے چل کر (مثلاً نپولین کے مزار پر) وہ سکندرِ اعظم، امیر تیمور اور نپولین تک کو مردِ خدا کہہ دیں گے۔ اِسی سکندرکے ہاتھوں بقول اُن کے اِنسانیت کی قبا چاک بھی ہوئی اور تیمور نے جو مظالم ڈھائے وہ بھی واضح تھے۔ اِس لحاظ سے ’مسجدِ قرطبہ‘ میں مردِ خدا کے عمل کو عشق پر قائم اور دیرپا اثر والا بتاتے ہیں تو اِسے عام اخلاقیات کی رُو سے مردِ خدا پر فیصلہ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اِس سے ایک ایسا انسان مراد لینا پڑتا ہے جو خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں جاری قوّتوں کو اپنے عشق کے زورپر تسخیر کر کے اپنی شخصیت کا اثر چھوڑ جائے۔ گویا اپنی محدود شخصیت سے ماورا ہو کر لامحدود امکانات کا حامل بن جائے۔ اِس کے برعکس مردِ مسلماں سے مراد تاریخی طور پر اِسلامی تہذیب سے وابستہ شخصیات ہیں جن کا اثر آج بھی اندلس کی تہذیب پر باقی ہے۔ مندرجہ ذیل شعر میں مذکر اور مؤنث کی بحث عام طور پر شرح لکھنے والوں کے لیے اِتنی مشکل ثابت ہوتی ہے کہ وہ اِسے یوں ہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں: جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اَندلُسی خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں آج بھی اُس دیس میں عام ہے چشمِ غزال اور نگاہوں کے تِیر آج بھی ہیں دلنشیں بظاہر یہاں ’’لہو کے طفیل‘‘ آنا چاہیے مگر یہ کتابت کی غلطی ہرگز نہیں ہے۔ اُن کے اپنے ہاتھ میں نظم کے پہلے نسخے میں بھی یہ شعر اِسی طرح لکھا گیا۔ بالِ جبریل کے صاف شدہ مسودے میں غلطی سے ’’کے‘‘ لکھ بیٹھے تو اُسے کاٹا اور دوبارہ ’’کی‘‘ بنایا۔ میری سمجھ میں یہی آتا ہے کہ مؤنث کا صیغہ یہاں طفیل کی رعائت سے نہیں بلکہ اَندلُسی کی رعائت سے آیا ہے کیونکہ یہاں تمام اندلسیوں کی نہیں بلکہ صرف اَندلُس کی عورتوں کی بات کر رہے ہیں۔ آخر چشمِ غزال اور نگاہوں کے تیر دلنشیں ہونا اسپین کے مردوں کی تصویرکشی تو نہیں ہے۔ اِس کے فوراً بعد تلمیح ہے ایک ایسی حدیث کی طرف جس پر خاص طور پر اہلِ تصوف وجد میں آتے ہیں یعنی اویس قرنیؓ یمن میں رہتے تھے تو رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ یمن کی طرف سے خوشبو آتی ہے۔ اقبال اندلُس کے بارے میں کہتے ہیں : بوئے یمن آج بھی اُس کی ہواؤں میں ہے رنگِ حجاز آج بھی اُس کی نواؤں میں ہے یہ بات یاد کر لیجیے کہ ا ویسِ قرنیؓ کبھی رسول اکرمؐ ؐ کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے اور عشق کی یہ داستان عاشق اور محبوب کے درمیان جدائی کے درد سے لبریز ہی رہی ۔ چنانچہ شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ اندلس کے مسلمان عربوں نے جس دلسوزی کے ساتھ ایک تہذیب کی پرورش کی تھی اب جبکہ اُنہیں اندلس سے نکالا جا چکا ہے تب بھی یہاں عیسائی خواتین کی مشرقیت میںاُنہی مسلمانوں کی نشانی دکھائی دے جاتی ہے۔ جیسے اویسؓ مدینے نہ آ سکیں مگراُن کی خوشبو فضا میں موجود ہو۔ اندلس کی موسیقی کے عربی سُر تال آج بھی اِس جدائی کا احساس دلاتے ہیں۔ عورت کے ساتھ خوشبو کا ذکر کرنے میں اُس حدیث کی طرف لطیف اشارہ بھی ہو سکتا ہے جس میں رسولِ کریمؐ نے فرمایا کہ دنیا میں سے تین چیزیں آپؐ کے لیے محبوب بنائی گئی ہیں۔ عورت اور خوشبو، اور آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ اقبال نے اِس حدیث کے حوالے سے ایک نجی خط میں لکھا بھی تھا کہ عورت کا ذکر نماز اور خوشبو کے ساتھ کرنا کس قدر لطیف استعارہ ہے۔ نظم ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں اقبال یہی کر رہے ہیں۔ اب یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ ابنِ عربی نے فصوص الحِکم میں اِسی حدیث کے حوالے سے نبوتِ محمدیؐ پر ایک باب لکھا ہے اور بچپن ہی میں اِس کتاب کے درس اقبال کے کانوں میں پڑے تھے (خواہ فصوص جیسی کتاب اِس سے زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتی ہو)۔ یوں اِقبال کی سب سے عظیم اُردو نظم پر ابنِ عربی کا جو اثرمحسوس اور غیرمحسوس سطحوں پر موجود ہے وہ سامنے آجاتا ہے۔جملہ معترضہ، کسی زمانے میںمتروک مسودات کا ایک آدھ فقرہ پکڑ کر جس میں ابنِ عربی پر کچھ تنقید کی گئی ہوسمجھا جاتا تھا کہ اقبال نظریات پختہ ہونے کے بعد ہمیشہ ابنِ عربی کے مخالف ہی رہے۔ اِس کے برعکس اتنا کچھ سامنے آ چکا ہے کہ اب یہ مفروضہ اقبالیات کا نہیں بلکہ pseudo-Iqbaliat کا حصہ ہے۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ میں دُخترِ دہقاں کے گیت کا ذکر بھی ہے۔ جس طرح جاویدنامہ کے شروع میں اقبال کسی دریا کے کنارے رومی کی غزل گا رہے ہیں اُسی طرح اِس نظم کے آخر میں بالکل ویسے ہی لینڈاسکیپ میں کسی کسان کی نوجوان لڑکی گیت گا رہی ہے۔ کتنا خوبصورت، متحرک اور مترنم پس منظر ہے جس کے آگے دریائے کبیر کے کنارے کھڑے اقبال دُنیا کی تقدیر کے اُس منظر کو یاد کر رہے ہیں جو اُنہوں نے جاویدنامہ کے مطابق خدا کے حضور دیکھا تھا اور دیکھ کربیہوش ہو گئے تھے: وادیٔ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب سادہ و پرسوز ہے دُخترِ دہقاں کا گیت کشتیٔ دِل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں اُس کی سحر بے حجاب پردہ اُٹھا دُوں اگر چہرۂ افکار سے لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر ’’معتمدؔ اشبیلیہ کا بادشاہ اور عربی شاعر تھا،‘‘ وہ اگلی نظم کے نوٹ میں لکھتے ہیں۔ ’’ہسپانیہ کے ایک حکمراں نے اُس کو شکست دے کر قید میں ڈال دیاتھا، معتمدؔکی نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہو کر ’وزڈم آف دی ایسٹ‘ سیریز میں شائع ہو چکی ہیں۔‘‘ ہسپانیہ کا حکمراں جس نے معتمدؔ کو شکست دی وہ یوسف بن تاشفین تھا جسے اسلامی تاریخ میں ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ معتمدؔ کو عیاش اور نااہل سمجھا جاتا ہے۔ اقبال نے یہاں یہ تفصیل غیرضروری سمجھی۔ ’قیدخانے میں معتمد کی فریاد‘ ’مسجدِ قرطبہ‘ کا اینٹی کلائمکس ہے: اِک فغانِ بے شرر سینے میں باقی رہ گئی سوز بھی رخصت ہوا جاتی رہی تاثیر بھی قوموں کے عروج کی طرح اُن کا زوال بھی خدا کی نشانیوں میں سے ہے: جو مری تیغِ دودم تھی اب مری زنجیر ہے شوخ و بے پروا ہے کتنا خالقِ تقدیر بھی معلوم ہوااقبال کو طاؤس و رباب آخر والوں سے بھی دلچسپی تھی۔ اگلی نظم میںشمشیر وسناں کے ساتھ عبدالرحمٰن اول داخل ہوتا ہے تو وہ بھی اتفاق سے جنگ کا طبل نہیں بجوا رہا بلکہ سرزمینِ اندلس میں بوئے ہوئے کھجور کے پہلے درخت کو دیکھ کر دلسوز ہو رہا ہے۔خطاب درخت سے ہے مگرنظم دعائیہ ہے: غربت کی ہوا میں باروَر ہو ساقی ترا نمِ سحر ہو پچھلی نظم میں معتمد سینے سے سوز رخصت ہونے کی بات کر رہا تھا۔یہاں اُس سے پہلے کے حکمراں سے جو ملک شام کے قریب سے خطرات میں کھیل کر اندلس پہنچا تھا یہ جواب دلوایا ہے کہ زندگی دینے والا سوز اپنے آپ ہی میں سے آتا ہے ورنہ مٹی میں چنگاری پیدا نہیں ہوتی۔ انسانی جسم کے لیے خاک اور زندگی کے لیے چنگاری پرلطف استعارے ہیں: ہے سوزِ دروں سے زندگانی اُٹھتا نہیں خاک سے شرارہ صبحِ غربت میں اور چمکا ٹوٹا ہوا شام کا ستارہ مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے مومن کا مقام ہر کہیں ہے معتمد اور عبدالرحمٰن کی نظمیں گویا مدھم اور پنچم ہیں۔ دونوں میں ذاتی کیفیات کا ذکر ہے۔ اگلی دو نظمیں بھی اِسی طرح مدھم اور پنچم ہیں مگراجتماعی زندگی کی کیفیات کے بارے میں ہیں۔ نظم ’ہسپانیہ‘ میں اقبال اَندلس سے خطاب کر رہے ہیں مگرچہ خاک میں سجدوں کے نشاں اور صبح کی ہوا میں خاموش اذانیں دعاکے تاثر کو قائم رکھتی ہیں۔ اِس نظم میں مسلمان رخصت ہو چکے ہیں مگر اگلی نظم میںبہت پہلے کے زمانے میں طارق بن زیاداندلس کے میدانِ جنگ میں خدا سے فتح کی دعا مانگ رہا ہے۔ اقبال گویا اُس تہذیب کا آخری رازداں ہے جو ہسپانیہ سے رخصت ہو رہا ہے۔ طارق پہلا جوانمرد تھا جو اُس تہذیب کو قائم کرنے آیا تھا۔ چنانچہ اقبال ہسپانیہ سے پوچھ رہے ہیں: پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی؟ باقی ہے ابھی رنگ مرے خونِ جگر میں! کیونکر خس و خاشاک سے دَب جائے مسلماں مانا، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں بہرحال اقبال مسافر ہیں، زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں! دیکھا بھی، دکھایا بھی، مگر دل کی تسلی نہ خبر میں ہے نہ نظر میں۔ دل کی تسلی جس میں ہے وہ اُس قسم کی دعا ہے جسے مانگنے کی اقبال خود ہمت نہیں کر سکتے خاص طور پرکسی لاؤ لشکر کے بغیر۔ چنانچہ اُس دعا کو فلیش بیک میں طارق کی زبانی پیش کرتے ہیں جب خیاباں میں لالہ بے لباس ہے تو اُسے اپنے خون کی قباپہنانے کے لیے وہ عرب صف باندھے کھڑے ہیںجن کی ٹھوکر پر صحرا اور دریا راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور جن کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی ہو جاتے ہیں۔ لالہ، لہو، سوز وغیرہ کے استعارے اِن تمام اسپینی نظموں میں ایک لفظی اشتراک بھی پیدا کرتے ہیں۔ ’طارق کی دُعا‘ کے بعد لینن والی نظم ہے۔ یہ بھی دُعا ہی ہے اگرچہ ایک ایسے کردار کی زبان سے جسے زندگی میں خدا کے وجود سے انکار تھا۔ مرنے کے بعد خدا کے حضور پہنچنے کا تجربہ اُس کے لیے کیسا رہا ہو گا؟جاویدنامہ میں رُومی نے اقبال سے کہا تھا کہ اگر خدا کے حضور پہنچ کر بھی باقی رہو تو ہمیشہ باقی رہو گے اور یہ گویا اپنے وجود پر تیسری گواہی طلب کرنا ہے۔ اِس لحاظ سے لینن کا بیڑہ پار ہوتا نظر آتا ہے۔ غالباً سوال و جواب کے بعد اُسے عطارد کے فلک پر کوئی مقام مل جائے گا جہاں جمال الدین افغانی اُس کے ساتھ رُوس کی سیاست پر گفتگو کریں گے۔ جس طرح جاویدنامہ کی ’تمہیدِ آسمانی‘ میں فرشتوں کا گیت موجود ہے اُسی طرح یہاں بھی اِن نظموں میں جنہیں ہم تمہیدِ آسمانی کہہ سکتے ہیں، لینن والی نظم کے فوراً بعد ’فرشتوں کا گیت‘ آتا ہے اور پھر اِس پورے دعائیہ حصے کا اختتام خدا کے جواب پر ہوتا ہے۔ یہ صرف لینن کی شکایت (یا اُس کی دُعا) کا جواب ہی نہیں ہے بلکہ اپنی دُعا میں اقبال نے جو شکایت کی تھی کہ اُنہیں صرف فلسفہ و شعر عطا کیا گیا ہے اِس میں خدا اُس کا جواب بھی دیتا ہے اوراُسی پر بات ختم ہوتی ہے: تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گری ہے آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو یہ بات دلچسپ ہے کہ اگلے اُردو مجموعے کا عنوان ضربِ کلیم ہوا جو اِس شعر کی تعبیر بنتا ہے۔ ’ذوق و شوق‘ سے دعائیہ حصہ ختم ہونے پر نعتیہ حصہ ’ذوق و شوق‘ سے شروع ہوتا ہے۔ صراحت موجود ہے کہ اِن اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے۔ وہ سفر اسپین کے سفر سے پہلے پیش آیا تھا مگر کتاب میں یہ نظم اسپین والی نظموں کے بعد رکھی۔ اِس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بالِ جبریل میں نظموں کی ترتیب کسی موضوعاتی اہتمام کے تابع ہے۔ ’مسجدِ قرطبہ‘ ایک شام پر ختم ہوئی تھی اور’ذوق و شوق‘ ایک صبح سے شروع ہوتی ہے۔ کسی صحرا میں پچھلی رات ہونے والے بارش کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ سامنے وہ پہاڑ ہے جس کے دوسری طرف مدینہ کا راستہ دکھائی دے گا۔ آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر اُن قافلوں کا پتہ دے رہی ہے جو پہلے اِس مقام سے گزر چکے ہیں۔ اقبال آگے جانا چاہتے ہیں مگر: آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی صدائے جبرئیل کا استعارہ معنی خیز ہے۔ اِس سے مراد اپنا وجدان اور دل کی آواز بھی ہو سکتی ہے مگر ایسی آواز جسے کم سے کم فطرت کی ازلی سچائیوں سے پیوستہ ہونے کے ناتے خدا سے تعلق ضرور ہو۔ ’اہلِ فراق‘ جاویدنامہ کی اصطلاح میں وہ روحیں ہیں جنہیں جنت راس نہیں آتی بلکہ اندرونی خلش اُنہیں دائمی حرکت پر اُکساتی رہتی ہے۔ اقبال کی کاسمالوجی میں ایسی روحیں مشتری کے فلک پر پائی جاتی ہیں۔ حلاج، غالب اور قرۃ ُالعین طاہرہ کو وہ اِنہی میں شمار کرتے ہیں مگر خواجۂ اہلِ فراق یعنی اہلِ فراق کا سردار ابلیس ہے۔بالِ جبریل کے پہلے سولہویں ٹکڑے میں اقبال نے اپنے لیے چاند کے غاروں میں نظربند ہونا پسند کیا تھا جووِ شوامتر کے مسلک سے قریب تھا۔ یہاں وہ دوسرے مسلک کی ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو حلاج کا مسلک ہے: کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات کہنہ ہے بزمِ کائنات، تازہ ہیں میرے واردات! کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات اِس بند کوجاویدنامہ میں اہلِ فراق سے گفتگو کی روشنی میں پڑھنا چاہیے جہاں حلاج کہتے ہیں کہ ُانہیں ایک قوم دکھائی دی جس کے افراد خدا پر یقین رکھتے تھے مگر اپنے آپ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ اہلِ حرم کے یہی سومنات ہیں جن کے سامنے دوسروں کو سر جھکاتے دیکھ کر اقبال کو افسوس ہوتا ہے مگر کوئی نہیں جو تقدیر پرستی سے قوم کو نجات دلائے۔ ذکرِ عرب کا سوز عربی مشاہدات سے خالی ہے جس نے کبھی استقرائی طریقۂ کار کی بنیاد رکھ کر سائنس کو نئی زندگی دی تھی اور فکرِ عجم کے ساز میں وہ عجمی تخیلات نہیں رہے جن سے رومی کے شعر کا لالہ زار کھلا تھا۔ سیاست کا حال یہ ہے کہ یزید یت دوبارہ زندہ ہو چکی ہے مگر قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ عشق کی کمیابی: عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات! صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق صبرِ حسینؑ بھی ہے عشق! معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق! دو باتیں قابلِ غور ہیں۔ پہلی یہ کہ اقبال نے عشق کی جامع تفسیر اسرارِ خودی میں پیش کی تھی اور وہیں مسلمانوں کے حوالے سے عشق کو عشقِ رسول سے لازم و ملزوم کر دیا تھا۔ چنانچہ عشق کی شان میں یہ پورا بند عشقِ رسول کی تمہید ہے جیسا کہ ابھی معلوم ہو جائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک مذہب کی اَساس اُس کے فکری نظام پر نہیں بلکہ پیغمبر کو خدا کی تجلیات کا جو ذاتی تجربہ ہوتا ہے اُس پر ہوتی ہے۔ قوم کی زندگی کی تجدید بھی انہی استعاروں کی تجدید سے ہوتی ہے۔ یہی عشق ہے جو نہ ہو تو شرع و دیں تصورات کا صنم کدہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آقائے بدر و حنینؐ جن کی بعثت کی تمہید صدقِ خلیل اور جن کے فیض کی بازگشت صبرِ حسینؑ تھا، اب تیسرے بند میں اُن کے بارے میں گفتگو شروع ہوتی ہے۔ پہلا ہی مصرع ایسا ہے جس کی تشریح کے لیے اقبال کو اِس نعت کے بعد اور کئی نظموں کی ضرورت پیش آئے گی۔ رسولِ اکرمؐ کی ذات کائنات کی آیت کا وہ معنی ہے جو بہت دیر میں سامنے آئے: آیۂ کائنات کا معنیٔ دیریاب تُو! یہ کائنات خدا کی آیات یعنی نشانیوں میں سے ہے۔ قدرت کے قوانین بھی اُسی کی مرضی کے آئنہ دار ہیں اور تاریخ کے عمل سے بھی خدا کی مشیت ظاہر ہوتی ہے۔ وقت کو برا نہیں کہا جا سکتا کیونکہ خدا کہتا ہے کہ میں ہی وقت ہوں۔ چنانچہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اقبال اُسے خدا کی نشانی قرار دیتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اِس نشانی کا کیا مطلب سمجھا جائے؟ اگر دنیا میں ظلم ہے تو کیا ظالموں کو خدا کی حمایت حاصل ہے؟ اگر دنیا میں غریب اور امیر کے حال میں فرق ہے تو کیا خدا یہی چاہتا ہے ؟ یہ وہ سوال ہیں جو دنیا کو خدا کی نشانی قرار دینے سے پیدا ہوتے ہیں اور اقبال کے خیال میں ان کا بہترین جواب رسولِ اکرمؐ کی ذات میں موجود ہے جس کی ایک جھلک آپؐ کی لائی ہوئی شریعت ہے مگر افسوس کہ اب اس شریعت کے زندہ حقائق کو سمجھنے والے صرف اقبال رہ گئے ہیں۔ باقی سب فروعی بحثوں میں اُلجھے ہوئے ہیں: جلوتیانِ مدرسہ کورنگاہ و مردہ ذوق خلوتیانِ میکدہ کم طلب و تہی کدُو! میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ میری تمام سرگذشت کھوئے ہوؤں کی جستجو! کھوئے ہوؤں کی جستجو سے کیا مراد ہے؟ کیا اقبال یہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کا کلام ماضی پرستی کا آئنہ دار ہے؟ ایسا نہیں ہے بلکہ ’’کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ رومی کی مشہور غزل کے ایک ٹکڑے ’’یافت می نشود آنم آرزوست‘‘ کا آزاد ترجمہ ہے۔ جب اقبال خود اِس غزل کو اپنی دو اہم ترین کتابوں یعنی اسرارِخودی اور جاویدنامہ کے آغاز پر باقاعدہ سَند کے ساتھ نقل کر چکے ہوں تو یقینا اپنے پڑھنے والوں سے اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ اِس حوالے کو پہچانیں گے اور اُن کے شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے رومی کی پوری غزل کو سامنے رکھیں گے: بنمائے رُخ کہ باغ و گلستانم آرزوست بکشائے لب کہ قندِ فراوانم آرزوست یک دست جامِ بادہ و یکدست زلفِ یار رقصِ چنیں بصحنِ گلستانم آرزوست دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر کز دام و دُد ملولم و انسانم آرزوست از ہمرہانِ سست عناصر دلم گرفت شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایمِ ما گفتا کہ یافت می نشود آنم آرزوست ’’کس سے کہوں‘‘ والا بند یعنی نظم کا دوسرا بند خاص طور پر ’’ازہمرہانِ سست عناصر‘‘ والے شعر کا اُکسایا ہوا معلوم ہوتا ہے اورجہاں تک کھوئے ہوؤں کی جستجو کی بات ہے تو رومی کی غزل کو سامنے رکھتے ہوئے اِس میں ماضی پرستی کا استعارہ نہیں بلکہ ایک تخیل کی تلاش اور پرورش کرنے کا ذوق جھلکتا ہے۔ اِس بند کا ٹیپ کا شعر اقبال کا اپنا ہے اور ایسا پسندیدہ کہ پوری فارسی غزل زبورِ عجم کے بعد دوبارہ جاویدنامہ میں استعمال کی اور پھر اُس کے مطلع کا ترجمہ ’’گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر‘‘ کی صورت میں کیا۔ اُس پر بھی دل نہیں بھرا ہو گا کہ اب اصل فارسی مطلع ٹیپ کے شعر کے طور پر دوبارہ لے آئے ہیں۔ اقبال نے شائد اپنے کسی اور شعر کی اپنے کلام میں اِس طرح تکرار نہیں کی ہے: فرصتِ کشمکش مدہ ایں دلِ بے قرار را یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را زبورِ عجم اور بالِ جبریل دونوں جگہ یہ شعر بلکہ پوری غزل خدا کو مخاطب کر کے کہی ہے۔ جاویدنامہ میں یہ غزل گناہگار عورت توبہ کرنے کے بعد مہاتما بدھ سے مخاطب ہو کر پڑھتی ہے اور بدھ مت کے مطابق وہ ایک طرح سے مہاتما بدھ کو اگر الوہیت کا درجہ نہیں دیتی تو یہ مقام ضرور دیتی ہے کہ اُن کا دھیان کرنے سے روح اپنی اصل تک پہنچ سکتی ہے۔ جاویدنامہ میں اقبال نے عبدہ ٗکی بحث میں جو نکات پیش کئے ہیں اُنہیں سامنے رکھیے تو اِس شعر کو حمد سے نکال کر نعت میں رکھنے کی شاعرانہ رمز بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اگلا پورا بند آیۂ کائنات والے مصرع کی تشریح ہے۔ رسولِ اکرمؐ کی بعثت نے ہمیں زندگی کے کون کون سے رموز سکھائے ہیں؟ یہاں اُن کی صرف فہرست ترتیب پا رہی ہے اور آگے چل کر ہر موضوع پر کم سے کم ایک نظم ضرور آپ کو ملے گی۔ پہلی بات یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی رفعت و منزلت کا ادب کرنے کے لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ آپؐ کی بعثت زندگی کے اسرار کو اُن کے اندر سے منکشف کرتی ہے۔ یہ زندگی کا داخلی تجربہ ہے۔ فلسفیانہ طریقِ کار جو زندگی کو خارجی طور پر سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ اِس پیغمبرانہ افہام کے ساتھ اپنا موازنہ نہیں کر سکتا۔ اِس بات کو اقبال نے یہاں اُس لازوال شعر میں ادا کیا ہے کہ لوحِ محفوظ جس پرقرآن لکھا گیا وہ بھی رسولؐ ہی کی ذات ہے، جس قلم نے اُسے لکھا وہ بھی آپؐ ہی ہیں اور وہ قرآن جو لکھا گیا وہ بھی آپ ہی ہیں! لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب! گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے وجود میں حباب! دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ آپؐ وہ سمندر ہیں جو اِتنا وسیع ہو کہ یہ پورا آسمان اُس پر اُلٹا رکھا ہوا ایک بلبلہ دکھائی دے۔ نعتیہ ادب میں یہ شعر اقبال کے تخیل کا ایسا کارنامہ ہے جس پر کچھ دیر کے لیے ذہن محو ہو کر رہ جاتا ہے۔ بہرحال یہ زندگی کو سمجھنے کے لیے اُس داخلی طریقِ کار کی نشاندہی تھی جو نبوت کا امتیاز ہے۔ اب نبوت کے فیض کی چند مثالیں: ۱۔ تہذیبوں کا عروج جیسے ذرّۂ ریگ کو فروغِ آفتاب مل جائے۔ ۲۔ جہاں بانی اور امورِ مملکت کی تدوین گویا شوکتِ سنجر و سلیم آپؐ کے جلال کی نمود تھی۔ ۳۔ تزکیۂ نفس گویا فقرِ جنید و بایزید آپؐ کا جمالِ بے نقاب ہے۔ ۴۔ روح کو دنیاوی سطح سے بلند کر کے خدا تک پہنچانا گویا آپ کا شوق نماز نہ پڑھوایا رہا ہو تو یہ بات قیام سے میسر آ سکتی ہے نہ سجدوں سے۔ ۵۔ انسان کی تمام صلاحیتوں کے درمیان ہم آہنگی جس کی وجہ سے زندگی کو اُس کی کُلیّت میں سمجھا جا سکتا ہے۔ گویا آپؐ کی نگاہِ ناز سے خارجی طور پر زندگی کا تجزیہ کرنے والی عقل بھی اور داخلی طور پر تڑپ تڑپ کر مشاہدہ کرنے والا عشق بھی مراد پا گئے۔ آئندہ کئی نظموں میں ان مقامات کی تشریح آئے گی مگر نظم کا اختتام ایک ذاتی واردات پر ہوتا ہے یعنی ’’مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیلِ بے رطب۔‘‘ رومی کی طرح ہر ایک کو کبھی نہ کبھی اپنی کتابیں کسی تالاب میں پھنکوانی پڑتی ہیں تاکہ بانسری کی آواز کا مطلب سمجھ میں آ سکے۔ ہجر کا بیان نظم کے شروع میں بھی تھا اور آخر میں بھی ہے۔ اگلی نظم ’پروانہ اور جگنو‘ اِسی سے پیوستہ ہے۔ اس کے بعد چند مختصر نظمیں ہمیں ایک بہت بڑی نظم کے لیے تیار کرتی ہیں۔ مختصر نظمیں ’جاوید کے نام‘، ’گدائی‘، ’ملا اور بہشت‘، ’دین و سیاست‘ اور ’الارضُ للہ‘ ایک تسلسل کے ساتھ اِس خیال کا اثبات کرتی ہیں کہ روح اور مادہ ایک ہی حقیقت ہیں اور اِس اندازِ نگاہ کا سب سے گہرا اثر دُنیا وی معاملات پر یہ ہونا چاہیے کہ انسان دُنیا کو قیصر کی جاگیر سمجھ کر اپنا حق چھوڑ نہ دے۔ حقیقی فقر ترکِ دنیا نہیں بلکہ استبداد کا مقابلہ کرناہے۔ طاغوتی قوتوں کے انعام و اکرام سے بے نیاز ہو کر گنبدِ مینائی اور عالمِ تنہائی میں یہ راز سمجھنا ہے کہ ہم شاخ سے کیوں ٹوٹے ہیں۔’ایک نوجوان کے نام‘، ’نصیحت‘ اور ’لالۂ صحرا‘ میں یہ نکتہ بیان ہوا ہے۔ اِس کے بعد وہ طویل نظم جو اُردو میں اُن افکار کا خلاصہ ہے جنہیں اقبال فارسی مثنویوں میں تفصیل سے پیش کر چکے تھے۔ یہ طویل نظم ’ساقی نامہ‘ ہے جو خودی، زندگی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک مثالی روش کے نقوش شاعرانہ اختصار کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ بائیس تئیس برس پہلے جب اقبال نے اپنی طویل مثنوی لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا تو پہلے اردو ہی میں طبع آزمائی کی تھی مگر پھر فارسی کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ ’ساقی نامہ‘ کو اُسی پرانی کوشش کی تکمیل سمجھنا چاہیے۔ اسرار و رموز اور جاویدنامہ سے اِس کا موازنہ کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ اُردو میں فلسفیانہ خیالات اُس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کئے جا سکتے تھے جس طرح وہ اُن کتابوں میں بیان ہوئے۔ اِس طویل نظم کو اُن تینوں مثنویوں کی روشنی ہی میں سمجھنا چاہیے۔ ’ساقی نامہ‘ میں اگر خودی کا فلسفہ ہے تو یہ اُن کے یہاں کبھی وقت کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ اسرارِ خودی کے آخر میں بھی امام شافعی کے ایک قول کی تفسیر میں وقت پر باب لکھا تھا۔ یہاں بھی نظم ’زمانہ‘ موجود ہے۔ انسان اپنی خودی کی تعمیر زمان و مکان کی قید میں آ کر ہی بہتر کر سکتا ہے اور اثرِ آہِ رسا دیکھ سکتا ہے جیسا کہ اِس کے بعد کی دو نظموں میں وضاحت ہے: ’فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘ اور ’رُوحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘۔ یہ تینوں نظمیں پیامِ مشرق کی نظموں ’نوائے وقت‘ اور’ تسخیرِ فطرت‘ سے ماخوذ دکھائی دیتی ہیںاگرچہ شعری اسلوب مختلف ہیں۔ اگلی طویل نظم ’پیر و مرید‘ کو منقبت سمجھنا چاہیے جس میں اقبال اپنے پیر و مرشد رومی سے مکالمے کی صورت میں عہدِ جدید کے مسائل کو اُن کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مشرق میں رواج رہا ہے کہ شعرأ دوسرے بڑے شاعروں کے کلام میں سے اپنی پسند کے اشعار اکٹھے کرتے تھے اور اسے کشکول کہتے تھے۔ رسالہ مخزن، جس میں اقبال کی نظمیں شروع شروع میں شائع ہوتی تھی ’کشکول‘ کے عنوان سے ایسا انتخاب باقاعدہ شائع بھی کیا کرتا تھا۔ نظم ’پیر و مرید‘ ایک طرح سے اقبال کا کشکول بھی ہے جس میں رومی کے پسندیدہ اشعار کو سلیقے سے سجایا گیا ہے اور دلچسپی بڑھانے کے لیے اپنے سوال شامل کر دیے ہیں۔ رومی کے ذکر پر اقبال عام طور پر آسمانی فضا میں پہنچ جایا کرتے ہیں۔ یہاں بھی ’پیر و مرید‘ کے فوراً بعد کی نظمیں مابعد الطیعاتی فضا قائم کرتی ہیں۔ ’جبریل و ابلیس‘، ’اذان‘، ’محبت‘، ’ستارے کا پیغام‘، ’جاوید کے نام‘، ’فلسفہ و مذہب‘، ’یورپ سے ایک خط‘ اور ’جواب‘ معنوی طور پر اُردو میں جاویدنامہ کی باقیات ہیں۔ آج مغرب میں رومی جس طرح مقبول ہو رہے ہیں اُس کی روشنی میں نظم ’یورپ سے ایک خط‘ زیادہ دلچسپ ہو جاتی ہے: ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار اِک بحرِ پُرآشوب و پراسرار ہے رُومیؔ تُو بھی ہے اُسی قافلۂ شوق میں اقبالؔ جس قافلۂ شوق کا سالار ہے رُومیؔ اِس عصر کو بھی اُس نے دیا ہے کوئی پیغام؟ کہتے ہیں چراغِ رہِ احرار ہے رومیؔ اس نظم کو اقبال کے اُس قسم کے اشعار کے ساتھ ملا کر پڑھیں جیسے علاجِ آتشِ رومی کے سوز میں ہے تراوغیرہ تو محسوس ہوتا ہے کہ مغرب میں رومی کی مقبولیت کی پیش گوئی اقبال پہلے سے کر گئے تھے۔ یورپ سے خط کے ’جواب‘ میں رومی سے کہلوایا ہے کہ جو گھاس کھائے گا وہ آخر چھری کے نیچے آئے گا اور جو نورِ حق سے اپنی پرورش کرے گا وہ خدا کی نشانی بن جائے گا۔ اِس لحاظ سے اگلی چند نظمیں یورپ کے ماحول میں ایک پرجوش مسافر کے تجسس کی علامت ہیں۔ وہاں اقبال کو نپولین کا مزار اور مسولینی ماضی اور مستقبل کے استعارے دکھائی دیتے ہیں۔ اِن نظموں کا اسپین والی نظموں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ اقبال نے دل کھول کر مسولینی کی تعریف کی ہے۔ اس نظم کے حوالے سے اقبال کی گرفت کرنا اقبال کے ناقدین اور بالخصوص اُن ناقدین کا محبوب مشغلہ ہے جنہیں کبھی فرصت سے اقبال کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس بحث کا آغاز اقبال کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا مگر بعض دوسرے شاعروں مثلاً ٹیگور کے برخلاف اقبال نے کبھی اپنی نظموں کی سیاسی درستگی کے لیے دور ازکار دلائل لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ‘‘بندۂ خدا! اگر اُس آدمی میں ولی اور شیطان دونوں کی صفات جمع ہو گئی ہوں تو میں کیا کر سکتا ہوں،‘‘ اقبال کا اپنی مسولینی والی نظم کے بارے میں سیدھا سادہ بیان تھا۔ اگلی کتاب میں مسولینی کی ہوسِ ملک گیری کی مذمت کی اور حبشہ پر حملے کے حوالے سے اُسے یورپ کے کرگسوں میں بھی شمار کیا لہٰذا یہ سمجھنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہاں مسولینی کے اچھے یا برے ہونے پر اصرار نہیں ہے بلکہ اٹلی کی ایک مختصر سیاحت میں اقبال نے جو کچھ محسوس کیا اُسے ایک کرشمہ ساز رہنما سے منسوب کر کے بیان کر دیا۔ اُس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ قوموں کی پرورش کسی سحر انگیز شخصیت کی رہنمائی کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ دُوسرے کئی مفکروں کی طرح اقبال بھی اِس خیال کے حامی تھے اگرچہ اُن کے یہاں پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کی توانائیوں کے ایک خودی کی طرح یکجا ہونے کا تصوّر بھی فلسفۂ بیخودی کی شکل میں موجود تھا۔ نظم ’مسولینی‘ کو اِسی تناظر میں دیکھنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دوسری جنگِ عظیم سے کافی پہلے لکھی گئی۔ اِس کے بعد مشرق کی سیاسیات کے حوالے سے کچھ نظمیں ایک سوال کے ساتھ شروع ہوتی ہیں کہ اے خدا کیا فرشتے آپ کی اجازت سے کم ظرف لوگوں کو اقتدار عطا کرتے ہیں؟نظم ’پنجاب کے دہقان سے‘ اس سوال کی وضاحت ہے۔ مشرق میں مزاحمت کی روح اگلی نظموں ’نادر شاہ افغان‘، ’خوشحال خاں کی وصیت‘ اور ’تاتاری کا خواب‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ ’تاتاری کا خواب‘ پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ تیمور کی روح سے یہ کیونکر کہلوایا گیا کہ ترکوں کا ترکوں سے دُور ہونا ٹھیک نہیں۔ اگر تیمور کو ترک سمجھا جائے تو پھر اُس نے ترکی کے عثمانی سلطان کی آبرو خاک میں ملاتے ہوئے خود کون سی مروّت دکھائی تھی۔ مگر نظم میں تیمور کا پیغام ایک تاتار ی کے خواب میں بیان کیا گیا ہے اور خواب میں کچھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگلی نظمیں خودداری اور سخت کوشی کی سلسلہ وار تلقین ہیں: ’حال و مقام‘، ’ابوالعلا معری‘، ’سنیما‘، ’پنجاب کے پیرزادوں سے‘، ’سیاست‘، ’فقر‘، ’خودی‘، ’جدائی‘، ’خانقاہ‘، ’ابلیس کی عرضداشت‘،’لہو‘ اور ’پرواز‘ ایسی نظمیں ہیں جن میں اُس زمانے کے شمالی ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر کچھ تبصرے پیش کئے گئے ہیں۔ اِن نظموں کو آپس میں مربوط کر کے پڑھنے سے معاصر زندگی کی یہ تصویر زیادہ مکمل اور رنگین ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ’شیخِ مکتب سے‘، ’فلسفی‘ اور مشہور نظم ’شاہیں‘ کو ترتیب میں رکھیے تو شاہین کے معانی میں کافی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ پہلے قاآنی کے حوالے سے کہا کہ روح کی عمارت بناتے ہوئے سورج کے سامنے دیوار مت کھینچ دینا ورنہ صحن میں روشنی نہیں آئے گی۔ فلسفی کے ساتھ غالباً یہی ہوا۔ سوچ تو بہت دُور تک پہنچی مگر جسارت اور غیرت کی کمی کی وجہ سے محبت کے راز سے بیخبر رہا ۔ زندگی کا براہِ راست تجربہ نہ کر سکا۔ اُس کی مثال ایسے گدھ سے دیتے ہیں جو فضا میں شاہیں کی طرح پرواز کرے مگر تازہ شکار کی لذت سے بے نصیب رہے۔ اگلی نظم ’شاہیں‘ہے۔ چنانچہ شاہین کو لغوی معنی میں سمجھنے کی بجائے اُس شخص کا استعارہ سمجھنا چاہیے جو زندگی کے حقائق کی دریافت کے لیے فلسفے اور ظن و تخمین سے آگے بڑھ کر اپنی واردات پر بھروسہ کرتا ہے۔ بالِ جبریل کے سیاق و سباق میں شاہین صرف میدانِ عمل میں بہادری، دلیری اور سپاہیانہ شجاعت کا سبق نہیں ہے بلکہ یہ میدانِ فکر و تحقیق میں بھی دوسروں کی رائے (شکارِ مردہ) پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی جسارت اور غیرت سے سرِ محبت دریافت کرنے کی دعوت ہے۔ اِس لحاظ سے نظم کے تمام استعارے علم و تحقیق کی دنیا پر چسپاں کیے جا سکتے ہیں۔ جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا غور و فکر اور تحصیلِ علم کے معانی میں بھی لیا جا سکتا ہے جس کا اصل مقصد لہو گرم رکھنا یعنی اپنے ذہن اور حواس کو تازہ رکھنا ہے نہ کہ حمام و کبوتر یعنی ایسی کتابی بحثیں جن سے آپ کا مقام کسی خاص حلقے میں بہت بلند ہو سکتا ہے مگر زندگی کی روح سے اُن کا تعلق نہیں ہوتا۔ خیابانیوں سے مراد یہی حلقے ہیں جن سے پرہیز لازم ہے۔ پورب، پچھم وہی مشرق اور مغرب کی تفریق ہے جو اچھے بھلے انسان کو کسی ایک جانب جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر سچائی بیکراں آسماں کی طرح ہے جس پر آپ اُسی وقت پہنچ سکتے ہیں جب آپ کی روح گروہ بندیوں سے آزاد ہو جائے۔ گویا یہ وہی درویشِ خدامست کے شرقی یا غربی نہ ہونے کی بات ہے۔ سالک کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرسکتا بلکہ راہِ تحقیق میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے: پرندوں کی دُنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ! اس کے بعد کی چند چھوٹی چھوٹی نظمیں کچھ فکری بحثیں ہیں۔ بالِ جبریل کا یہ حصہ شعری لحاظ سے بھی اور منطقی اعتبار سے بھی قاری کو اگلے مجموعۂ کلام کے لیے تیار کرتا ہے: ضربِ کلیم یعنی اعلانِ جنگ دورِ حاضر کے خلاف!