فکر اقبال ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم بزم اقبال لاہور ٭ فکر من از جلوہ اش مسحور گشت خامہ من شاخ نخل طور گشت اقبال سخنے چند ’’ فکر اقبال‘‘ کا آٹھواں ایڈیشن حاضر خدمت ہے۔ ساتویں ایڈیشن میں گزشتہ اشاعتوں کی اغلاط وغیرہ درست کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی گئی۔ یہ کام ڈاکٹر وحید قریشی ک نگرانی میں ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی نے انجام دیا۔ آخر میں حوالے بھی دے دئیے گئے ہے۔ امید ہے یہ اصلاح اس اشاعت کو زیادہ مفید بنائے گی۔ علامہ اقبال کے کلام کی تفہیم میں اس کتاب کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ کتاب نسخ ٹائپ میں چھپتی رہی ہے اس لیے عام طالب علم اس سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ضرورت تھی کہ اس کا غلطیوں سے پاک نستعلیق ایڈیشن شائع کیا جائے۔ سابق سیکرٹری ڈاکٹر وحید قریشی کے ایماء پر ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی صاحب نے تدوین نو کا کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ اب اس کتاب کے شروع میں خلیفہ صاحب کا تصحیح شدہ متن ہے، دوسرا حصہ آخر میں سخنے چند کے عنوان سے ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی صاحب نے لکھا ہے۔ خلیفہ صاحب کے حالات و تصانیف کا مفصل تذکرہ بھی ہے، پھر حواشی و تعلیقات کا اضافہ کیا گیا ہے۔ خلیفہ صاحب مرحوم نے کتاب میں بہت سے فارسی اور اردو اشعار کے علاوہ آیات قرآنی کے حوالے بھی دیے تھے لیکن یہ حافظے کی بنیاد پر تھے اس لئے بعض جگہ اشعار میں الفاظ کی تبدیلی کے علاوہ مصرعوں کی ترتیب بھی بدل گئی تھی۔ اسی طرح آیات قرآنی کا کلام پاک سے دوبارہ مقابلہ کر کے متن کی تصحیح کر دی گئی ہے۔ حاشیوں میں بعض اشعار کے اصل مآخذ کی نشاندہی بھی ہے۔ امید ہے پہلے کے مقابلے میں یہ کتاب اب زیادہ سود مند ثابت ہو گی۔ (ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار) بسم اللہ الرحمن الرحیم سینہ تھا ترا بام مشرق و مغرب کا خزینہ دل تھا ترا اسرار و معارف کا دفینہ ہر شعر ترا بام ترقی کا ہے زینہ مانند مہ نو تھا فلک سیر سفینہ اس ساز کے پردے میں تھی عرفان کی آواز کیا عرش سے ٹکرائی ہے انسان کی آواز سچ تلخ تھا لیکن اسے شیریں کیا تو نے تلخابہ غم کو شکر آگیں کیا تو نے تعلیم خودی دے کے خدا بیں کیا تو نے کنجشک فرومایہ کو شاہیں کیا تو نے پر ٹوٹے تھے جن کے انہیں پرواز عطا کی گونگے تھے جو انساں انہیں آواز عطا کی دل تیرا مئے عشق سے لبریز تھا ساقی اور درد کی لذت سے طرب خیز تھا ساقی قطرۂ تری مے کا شرر انگیز تھا ساقی ساغر ترا گل بیز و گہر ریز تھا ساقی تف مے پہ جو سنبھلے ہوئے انساں کو گرا لے وہ مے تھی ترے خم میں جو گر توں کو سنبھالے وہ عشق جو انسان کی ہمت کو ابھارے وہ عشق جو دنیا میں بگڑتے کو سنوارے جس عشق سے اغیار بھی بن جاتے ہیں پیارے جس عشق کے اشکوں سے فلک پر بنے تارے وہ عشق تھا تیرے دل و جاں میں رگ و پے میں جس طرح نشہ مے میں ہے، اور نغمہ ہے نے میں ٭٭٭ میں (ر) منزل ہی نہیں جس کی کہیں پر وہ ترا شوق سیارۂ گردوں کو نہ ہے تحت نہ ہے فوق آزادی انسان کا ترے دل میں تھا کیا ذوق زنجیر علائق نہ تو ہم کا کوئی طوق وہ بحر تفکر کہ نہیں جس کا کنارا سیلاب نہیں ڈھونڈتا ساحل کا سہارا حکمت ہمیں دی شعر کی صہبا میں ڈبو کر حق پیش کیا سوز نہانی میں سمو کر جس نخل کا دنیا میں گیا پج تو بو کر اک روز رہے گا وہ فلک بوس ہی ہو کر رس عشق کا اس نخل کی رگ رگ میں چلے گا ہر سمت میں وہ پھولے گا پھیلے گا پھلے گا سمجھایا ہمیں کیا ہے بری چیز غلامی تھے جس سے زبوں ہو کوئی گمنام کہ نامی محکوم ہے تو، تو تری فطرت کی ہے خامی آزادی افکار سے انساں ہے گرامی آزاد ہی دنیا میں ہے اللہ کا شہکار ہر بندۂ آزاد ہے تقدیر کا معمار ہندی تھے غلامی کے نشے میں سبھی مدہوش تھے سر پہ رکھے فخر سے اغیار کی پاپوش حیوانوں کا مقصد تھا فقط خواب و خور و نوش بے عزت و بے غیرت و بے ہمت و بے ہوش رسوائی میں جو مست تھے ہشیار ہوئے ہیں صدیوں سے جو سوتے تھے، وہ بیدار ہوئے ہیں ٭٭٭ (س) ڈھانچا جو غلط تھا تہ و بالا کیا تو نے دنیا کے اندھیرے میں اجالا کیا تو نے اس قوم میں کیا کام نرالا کیا تو نے منہ جھوٹ کا اور مکر کا کالا کیا تو نے تہذیب و سیاست کے طلسمات کو توڑا سچائی سے ہر جھوٹی کرامات کو توڑا اقبال! تو پیغام بر عشق و عمل ہے انساں کی ترقی کا یہ قانون اٹل ہے یہ نغمہ جاوید ہے یہ ساز ازل ہے ہاں زیست کی مشکل کا فقط ایک ہی حل ہے جاں صرف عمل اور ہو دل عشق سے لبریز اٹھتا ہے یونہی جادۂ ہستی میں قدم تیز عاقل تھا مگر عقل کے پیچاک سے آزاد اور حکمت افرنگ کے فتراک سے آزاد دنیا میں تھا دنیا کے غم و باک سے آزاد خاکی تو وہ بے شک تھا مگر خاک سے آزاد ہے دل کی جگہ دور کہیں ارض و سما سے ہوتا ہے جہاں بندہ ہم آغوش خدا سے ہادی ہے وہ انساں کو جو آگے کو بڑھا دے تاریکی میں انساں کے ہاتھوں میں دیا دے جو عقل پہ پردے ہیں پڑے ان کو اٹھا دے صیقل کرے آئینہ دل اس کو جلا دے ہر قلب کو تقدیر حقیقی نظر آئے اور آنکھ کو تصویر حقیقی نظر آئے ٭٭٭ (ش) اقوام ہوں جس بانگ سے بیدار وہ پیغام انساں ہوں مے عشق سے سرشار وہ پیغام ہو بار امانت سے گرانبار وہ پیغام ہر روح، حقیقت سے ہو دو چار وہ پیغام وہ جوش کہ انسان ابھر جاتے ہیں جسے سے کھوٹے بھی کھرے بن کے نکھر جاتے ہیں جس سے کہتے ہیں سخنور کہ تھا شاہ سخن اقبال ظاہر میں فقط شعر میں تھا اہل فن اقبال ہے اصل حقیقت یہ کہ تھا بت شکن اقبال مولا کو وطن کہتا تھا یہ بے وطن اقبال اس جسم میں تھا روح کی معراج کا طالب انساں کے لیے دل کے سواراج کا طالب عارف کی نظر اپنے وطن تک نہیں محدود کیوں اس کی نظر ہو در و دیوار میں مسدود گو حب وطن اس میں تھی اک جذبہ محدود اقبال نے دھرتی کو بنایا نہیں معبود خاکی جو نہیں کرتا ہے افلاک کی پوجا کس طرح سے کر سکتا ہے وہ خاک کی پوجا عارف کی نظر گاہ وہی اس کا وطن ہے پورب ہے نہ پچھم ہے نہ اتر نہ دکن ہے ندی کوئی اس میں ہے نہ پربت ہے نہ بن ہے نہ دیر و حرم کی کوئی تعمیر کہن ہے نہ شوق کا گرویدہ نہ افرنگ کا عاشق کس طرح سے ہو وہ چمن و گنگ کا عاشق ٭٭٭ (ص) کم کوئی ہے اس عمکدۂ دہر میں آیا جس نے وطن اپنا دل انساں میں بنایا انسان کی توقیر کا وہ راگ ہے گایا موسیقی جاں بن کے جو جانوں میں سمایا یہ راگ ہے وہ، کون و مکان ساز ہے جس کا روحوں میں نہاں اور عیاں راز ہے جس کا تھا شیخ سے بیزار برہمن سے بھی بیزار نہ اس کا پرستار تھا نہ اس کا گرفتار دولت کا شکار اور نہ سیاست کا گنہگار افکار سے مستقبل اقوام کا معمار جن ابلہ فریبوں میں ہے مکتی کا اجارہ تعلیم سے تیری ہے بہت ان کو خسارہ ہر شعر سے اٹھتا ہے سدا نعرۂ تکبیر خوں تیری سیاہی ہے قلم تیری ہے شمشیر اشعار ترے کاتب تقدیر کی تحریر آئینہ بکف جس میں ہے اقوام کی تقدیر مضراب ترے شعر ہیں انسان کا دل ساز فطرت ترے نغموں پہ رہی گوش بر آواز یہ شعر ہے، کہتے ہیں جسے جزو نبوت یہ شعر ہے شاگردی رحمان کی آیات یہ شعر بدل دیتا ہے انسان کی حالت اس شعر میں ہے عالم لاہوت کی دولت یہ شعر حقیقت میں ہے پروردۂ الہام نعمت ہے بہت خاص مگر فیض بہت عام ٭٭٭ (ض) جس کا ہو کلام ایسا کلیم اس کو ہیں کہتے حکمت سے ہو لبریز حکیم اس کو ہیں کہتے افکار کی جنت ہے، نعیم اس کو ہیں کہتے اے صاحب دل، طبع سلیم اس کو ہیں کہتے انسان ہے اللہ کا مشعوق اسی سے خاکی یہ ہوا اشرف مخلوق اسی سے اقبال کے ہیں شعر سخنداں کی زباں پر اقبال کے اقوال ہوئے نقش ہیں جاں پر اقبال کے ہیں تیر سیاست کی کماں پر تیغوں کو جلا دیتے ہیں اس سنگ فساں پر اقبال نے رنگ اپنا ادیبوں پہ چڑھایا رنگ اپنی خطابت کا خطیبوں پہ چڑھایا اب دل میں ہے ہر ایک کے پیدا وہی انداز اب قوم کی آواز بنی ہے تری آواز الفاظ میں تیرے ہے کوئی سحر کے اعجاز بجتا ہے ہر اک رنگ کی محفل میں ترا ساز اشعار ترے پیر و جواں سب کو ہیں ازبر محفل کی ہیں رونق تو کہیں گرمی منبر تھے صاحب دل رومی و عطار و سنائی تھی جن کی خودی آئنہ راز خدائی لے عالم ارواح کی انساں کو سنائی کچھ لذت وصل اس میں ہے کچھ درد جدائی ایسے ہی فقیروں کا ہم آہنگ تھا اقبال مردان خدا دوست کا ہم رنگ تھا اقبال ٭٭٭ (ط) انسان کا کیا قحط ہے اس دیر کہن میں اک مرد حق آتا ہے کئی ایک قرن میں سمجھائے انہیں کون جویاں مست ہیں دھن میں دولت جو حقیقی ہے وہ انساں کے ہے من میں اس دولت سرمد کا شہنشاہ تھا اقبال فطرت کی گواہی ہے حق آگاہ تھا اقبال کام ایسا جو کرتا ہے وہ مرتا نہیں ہرگز ایسے جو جیے موت سے ڈرتا نہیں ہرگز دنیا سے گیا، دل سے گزرتا نہیں ہرگز اس صحفے سے یہ نقش اترتا نہیں ہرگز جب تک کہ دل افروز یہ پیغام ہے باقی عالم کے جریدے پہ ترا نام ہے باقی ٭٭٭ ؎یہ نظم علامہ اقبال کی وفات پر کہی گئی۔ خلیفہ عبدالحکیم تمہید اقبال شاعر بھی ہے اور مفکر بھی، وہ حکیم بھی ہے اور کلیم بھی، وہ خودی کا پیغامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی، وہ تہذیب و تمدن کا نقاد بھی ہے اور محی الملت والدین بھی، وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔ اس کے کلام میں فکر و ذکر ہم آغوش ہیں اور خبر و نظر آئینہ یک دگر۔ ایسے ہمہ گیر دل و دماغ کے مالک اور صاحب عرفان و وجدان کے افکار اور تاثرات کا تجزیہ اور اس پر تنقید کوئی آسان کام نہیں۔ اس نے زیادہ تر شعر ہی کو ذریعہ اظہار بنایا، کیوں کہ فطرت نے اس کو اسی حیثیت سے تلمیذ الرحمان بنایا تھا۔ کسی بڑے شاعر کے کلام میں سے ایک مربوط نظریہ حیات و کائنات کو اخذ کرنا ایک دشوار کام ہے۔ شاعری منطق کی پابند نہیں ہوتی اور شاعر کا کام استدلالی حیثیت سے کسی نظام فلسفہ کو پیش کرنا نہیں ہوتا۔ اقبال نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا فکر کبھی جذبے سے خالی نہیں ہوتا تھا اور حقیقت میں وہ اسرار حیات کو نثری استدلال میں پیش کرنے کا قائل ہی نہ تھا۔ وہ رازی اور بو علی کا مداح نہ تھا، اس کے پیش نظر ہمیشہ رومی جیسا عارف رہتا تھا، جس کے فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ اس فرق کو اقبال نے لا تعداد اشعار میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ فقط اس قطعے سے بھی یہ فرق و تضاد واضح ہو جاتا ہے: بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت نثری تنقید و تشریح میں فکر اقبال کو پیش کرنے والا کبھی اس کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر سکتا۔ گوئٹے نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی تو ایک ہرا بھرا درخت ہے لیکن اس کے متعلق نظریات برگ خزاں کی طرح زرد ہوتے ہیں۔ مضمون کو خشکی سے بچانے کی ایک ہی ترکیب ہو سکتی ہے کہ ہر موضوع کے متعلق اقبال کے اشعار بکثرت پیش کر دیے جائیں اور نثر کی تشریح اور تنقید کے رشتے میں ان انمول موتیوں کو پرو دیا جائے۔ مالا میں دھاگا موتیوں کے مقابلے میں بے قیمت اور بے حیثیت ہوتا ہے لیکن ایک بڑی خدمت انجام دیتا ہے، دھاگا نہ ہو تو موتی منتشر رہیں گے۔ دشواریوں کے باوجود اقبال کے افکار کو کسی نظم و ربط میں لانا نہایت ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ مجموعی حیثیت سے اس کا نظریہ حیات واضح ہو سکے مگر شعر جیسی وجدانی اور جذباتی چیز منطقی تنقید و تجزیہ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور شاعر اس سے بے زار ہو کر انوری کی طرح کہہ اٹھتا ہے کہ ’’شعر مرا بمدرسہ کہ برو‘‘ لیکن سمجھنے اور سمجھانے کا اور کوئی طریقہ بھی نہیں۔ اقبال کے کلام کو محض شاعری کی حیثیت سے بھی دیکھ سکتے اور پرکھ سکتے ہیں، اگرچہ وہ کہہ گئے ہیں کہ خدا اس شخص کو نہ بخشے جس نے مجھے شاعر جانا۔ خود فرماتے تھے کہ اس کا امکان ہے کہ مستقبل میں فن شعر کے نقاد مجھے شاعروں کی فہرست میں سے خارج کر دیں لیکن شاعری، شاعری میں فرق ہے۔ اقبال کی شاعری وہ شاعری ہے جو شاعر کے تلمیذ الرحمان ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے اور جسے پیغمبری کا ایک جزو قرار دیا گیا ہے اور جس کی نسبت ایک استاد بلیغ شعر کہہ گیا ہے: مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم وراے شاعری چیزے دگر ہست فرماتے تھے کہ میں نے شاعری پر بحیثیت فن توجہ نہیں کی، اس کے لیے خاص محنت اور فرصت درکار ہے۔ جواب شکوہ پر ایک صاحب نے فنی تنقید کی اور زبان و محاورہ کے لحاظ سے اشعار کو قابل اصلاح قرار دیا۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے مسودے میں اس سے زیادہ اشعار اور الفاظ پر نشان لگا رکھے ہیں جن کے متعلق مجھے خود تسلی نہیں، لیکن تزئین کلام اور اصلاح زبان کے لیے فرصت چاہیے، جو مجھے میسر نہیں۔ تمام ملک میں شاعر غرا مشہور ہو جانے کے بعد بھی وہ بانگ درا کے مجموعے کی طباعت و اشاعت کی تعویق میں ڈالتے رہے کہ اکثر نظموں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس کے باوجود ان کا کلام محض فن کی حیثیت سے بھی ہر قسم کے کمالات کا آئینہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اور بقول غالبـ: خواہش شعر خود آں بود کہ گردد فن ما اردو اور فارسی کے تمام اساتذہ میں سے شاید ہی کوئی دوسرا شاعر اس قماش کامل سکے، جس نے بغیر اپنی باطنی نفسی تحریک کے کبھی شعر نہیں کہا۔ اقبال کا تمام کلام آمد کا نتیجہ ہے، آورد کو اس میں کہیں دخل نہیں، اپنے متعلق بالکل بجا فرماتے ہیں کہ مجھے آرائش بیان مینکوششیں کرنے کی ضرورت نہیں: کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی اقبال کی شاعری میں بغیر کوشش کے سخن نغز کے تمام تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔ انسان کے لیے زبان فطرت بناتی ہے لیکن اس کے بعد صرف و نحو کے قواعد اس میں سے اخذ کر لیے جاتے ہیں جو اس کے اندر مضمر ہوتے ہیں، جس طرح شجر اور شگوفہ و ثمر فطرت کا جذبہ نما و نمود پیدا کرتا ہے، لیکن عالم نباتات آفرینش کے بعد ان قوانین کا سراغ لگاتا ہے جن کی تحقیق کی بدولت برگ درخت سبز معرفت کردگار کا دفتر معلوم ہوتا ہے۔ ایک متشاعر کے کلام میں صنعت مقدم ہوتی ہے اور آفرینش شعر موخر، لیکن تلمیذ الرحمان شاعر کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ شعر اپنی موزونی اور جمال کے ساتھ بے تکلف طبیعت میں ابھرتا ہے، اس کے بعد نقاد شعر دیکھتا ہے کہ اس میں خود بخود لطیف صنعتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ بڑے سے بڑا قادر الکلام شاعر جس کا مجموعہ کلام اقبال کے برابر ہو نہ تو خود اس کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ کوئی نقاد اس کا مدعی ہو سکتا ہے کہ اس کے کلام میں کہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی: گر سخن اعجاز باشد بے بلند و پست نیست در ید بیضا ہمد انگشتہا یک دست نیست غالب بھی اگرچہ فطرت کا بنایا ہوا شاعر تھا لیکن وہ اپنے شعر کو فنی لحاظ سے کامل اور رفتہ و شستہ بنانے کی کوشش کرتا تھا، اس کے باوجود اس کے مختصر مجموعہ اردو میں ناقدوں اور شرح نویسوں نے زبان اور محاورے کی بے شمار خامیوں پر انگشت اعتراض دھری ہے۔ اقبال کے متعلق اتنی بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ فن کی طرف سے بے نیاز ہونے کے باوجود اس کے کلام میں قابل قبول اعتراض کی گنجائش کہیں شاذ و نادر ہی ملے گی۔ علامہ اقبال کے احتجاج کے باوجود یہ نا ممکن ہے کہ بحیثیت شاعر ان پر نظر نہ ڈالی جائے لیکن شعر اقبال بحیثیت فن اقبال کے فلسفہ حیات سے ایک الگ اور مستقل موضوع ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ شعراء میں شاعر کی حیثیت اور اس کے انداز حیات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں تجزیہ کیا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نبی کریم ؐ کو مخالفین کبھی مجنوں کہتے تھے اور کبھی شاعر قرار دیتے تھے اور وہ محض اس لیے کہ قرآن میں اچھی شاعری کی تمام خوبیاں موجود ہیں، تشبیہہ و تمثیل و استعارہ، مسجع اور مقفی سورتیں، دل نشیں انداز کلام، سبھی کچھ اس صحیفے میں بدرجہ کمال موجود ہے۔ اسرار حیات سے نا آشنا اور روح کی گہرائیوں سے بے تعلق ظاہر بینوں کو وہ ایک شاعر کا کلام دکھائی دیا، قرآن کو نازل کرنے والے نے اس کی تردید کی کہ ہم نے اس نبی کو شاعری نہیں سکھائی، پھر کہا ’’ آؤ تمہیں بتائیں کہ شاعر علی العلوم کیا ہوتے ہیں اور انبیاء سے ان کو کس طرح ممتاز کر سکتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ محض شاعر اچھا رہنما نہیں بن سکتا۔ اس کا کوئی مخصوص نظریہ حیات اور مقصود زندگی نہیں ہوتا، اس کی کوئی منزل معین نہیں ہوتی جس کی طرف وہ یقین اور استحکام سے گامزن ہو۔ وہ زندگی کی تمام وادیوں میں ہرذہ گردی کرتا ہے اور جس منظر سے جس طرح ہنگامی طور پر متاثر ہوتا ہے اس کو بیان کے سانچے میں ڈھال لیتا ہے۔ اس کے جذبات اور تاثرات کی لہریں کسی آئین کی پابند نہیں ہوتیں، وہ کسی خاص ضابطہ حیات کا مبلغ نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ خود کسی یقین محکم پر زندگی بسر نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو اس کا پابند نہیں سمجھتا کہ اس کے قول اور فعل میں مطابقت ہو۔ حساس طبیعت رکھنے کی وجہ سے اس کے ہاں فقط تاثر اور اظہار تاثر ہے لیکن چونکہ اس کا تاثر ہنگامی ہوتا ہے اس لیے وہ کسی مستقل ارادے اور عمل میں تبدیل نہیں ہوتا، ایسے شخص کو جس کے مزاج میں تلون اور گوناگونی ہے، اگر کوئی رہنما سمجھ لے تو وہ یقینا گمراہ ہے۔‘‘ اس ضمن میں ایک لطیفہ بیان کیا جاتا ہے کہ کسی مسلمان سلطان کے دربار میں شعراء کو دعوت دی گئی کہ وہ ایک روز حاضر ہو کر اپنا کلام سنائیں۔ چوبداروں نے شاعروں کو ان کے گھروں سے جمع کیا اور ایک جلوس کی صورت میں ان کو ہمراہ لے کر قصر شاہی کی طرف چلے۔ بعض آوارگان بازار بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیے کہ اس طرح قصر شاہی میں داخل ہونے اور دربار میں حاضری کا موقع مل جائے گا۔ ان کا یہ حیلہ کامیاب ہو گیا۔ دربار میں شعراء کی صف کے پیچھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ بادشاہ نے ان کو بھی شاعر سمجھا۔ جب شعراء اپنا کلام سنا چکے تو اس پچھلی صف والوں کو حکم ہوا تم بھی اپنا کلام سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ حضور ہم شاعر نہیں ہیں۔ اس پر بادشاہ کو نہایت غصہ آیا اور پوچھا کہ تم یہاں کس حیثیت سے داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک ظریف نے جواب دیا ’’ ہم غادون یعنی گمراہ لوگ ہیں اور از روئے قرآن شاعروں کے پیچھے پیچھے چلے آئے ہیں۔‘‘ اس پر دربار میں خوف قہقہہ لگا بادشاہ کا غصہ فرو ہوا اور ان کو بھی کچھ انعام اکرام مل گیا۔ قرآن حکیم اگر شاعروں کے متعلق فقط اتنا ہی کہہ کر چھوڑ دیتا تو بات ادھوری رہ جاتی لیکن قرآن کی نظم زندگی کے تمام پہلوؤں پر ہوتی ہے، اسی لیے عام شعراء کی سیرت کا یہ نقشہ کھینچنے کے بعد یہ ارشاد ہے کہ اس گروہ میں کچھ مستثنیات بھی ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں شاعر کا حساس قلب اور حسن بیان عطا کیا جاتا ہے لیکن وہ ہرزہ گر نہیں ہوتے، وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں اور ایک معین نظریہ حیات رکھتے ہیں اور اس ایمان کی بدولت ان سے اعمال صالحہ بھی سرزد ہوتے ہیں جو یقین محکم کا نتیجہ ہوتے ہیں، ان کے اقوال و افعال میں تفاوت نہیں ہوتا، ان کے بیان میں خلوص ہوتا ہے، وہ دروغ بیانی نہیں کرتے، جذبات رذیلہ ان کی طبیعت میں انہیں ابھرتے اور نہ ہی وہ سامعین کی طبیعتوں میں ان کو اکسانا چاہتے ہیں۔قرآن کے بیان کے مطابق ایسے شعراء کی تعداد نہایت قلیل ہو گی کیونکہ اس سورۂ میں ایسوں کو بطور استثناء پیش کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود رسول کریم ؐ اچھے شعر کے قدر دان تھے بشرطیکہ اس سے اچھے افکار پیدا ہوں اور شریفانہ جذبات کی پرورش ہو۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسا سراپا عدل و عمل شخص بھی اچھی شاعری کا قدر دان تھا، وہ مسلمانوں کو تاکید کیا کرتے تھے کہ اپنی اولاد کو اچھے اشعار یاد کرایا کرو۔ امراء القیس کے متعلق رسول کریم ؐ کی تنقید کس قدر حکمت آموز ہے، اسے بشعر الشعراء کہنے کے ساتھ ’’ قانہ ھم الی النار‘‘ بھی کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ کامل فن ہونے کے باوجود ایک شاعر ایمان اور اعمال صالحہ سے معرا ہو سکتا ہے اور اپنے کمال سے یہ کام لے سکتا ہے کہ جذبات رذیلہ کو ابھار کر لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائے۔ شعر کی حیثیت بھی علم کی سی ہے کہ علم ایک زبردست مگر بے طرف قوت ہے: علم کے غلط استعمال سے ایک عالم بہ عمل اپنے آپ کو بھی تباہ کر سکتا ہے اور دوسروں کو بھی، لیکن علم کے صحیح استعمال سے انسانیت عروج حاصل کر سکتی ہے: علم چون بر تن زنی مارے شود علم چون بر جان زنی یارے شود زندگی میں قوت کے ہو اور سرچشمے ہیں ان ک ابھی یہی حال ہے۔ مال کی بھی یہی کیفیت ہے، زندگی بسر کرنے کے لیے مال کی بھی ایسی ہی ضرورت ہے جیسے کشتی چلانے کے لیے پانی لازم ہے: لیکن مال اگر کشتی روح کے اندر جائے تو اس کو ڈبو دے گا: مال را گر بہر دین باشی ممول نعم مال صالح گفتا رسولؐ آب در کشتی ہلاک کشتی است زیر کشتی بہر کشتی پشتی است مسلمانوں میں شعراء بے شمار گزرے ہیں لیکن ایسے شعراء کو شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گن سکیں جو اس معیار پر پورے اتر سکیں، جو قرآن نے اچھے شاعر کے لیے قائم کیا ہے۔ زیادہ تر شعراء ایسے ہی ہیں جنہوں نے اپنے کمال کو ہوس پروری اور ہوس انگیزی ہی میں صرف کیا۔ شعرائے ہند اور شعرائے عجم کے تمام تذکرے دیکھ جاؤ، ان میں رومی، سنائی، عطار اور حالی جیسے شاعر خال خال نظر آئیں گے، باقی سب کا وہی حال ہے جو حالی نے مسدس میں لکھا ہے۔ شعر و قصائد کا دفتر زیادہ تر ناپاک ہی ہے۔ اقبال نے شاعری سے جو کام لیا ہے اس کی نظیر مسلمانوں کی شاعری کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ اقبال کے کلام میں جو ثروت افکار ہے وہ عدیم المثال ہے، شاعری کے عام طور پر لطف طبع کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو اعمال حسنہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر شاعری ہوتی بھی ایسی ہے لیکن شاعری کی ایک وہ بھی قسم ہے جو گرتوں کو ابھارتی ہے اور خستگان حیات کے دل قوی کرتی ہے۔ انگریزی شاعر ٹینی سن نے بجا فرمایا ہے کہ جس شاعری سے ملت کا دل قوی ہو اور اس کی ہمتیں بلند ہوں اس کو اعلیٰ درجے کے اعمال حسنہ میں شمار کرنا چاہیے۔ اقبال کے افکار و تاثرات کی گوناگونی اور بو قلمونی کی کوئی حد نہیں لیکن جس طرح کائنات کی کثرت میں ایک وحدت مضمر ہے اسی طرح اقبال کے افکار بھی اپنے اندر ایک وحدت نظر رکھتے ہیں۔ اس ثروت افکار کو ضبط میں لانے کا بہتر طریقہ یہ ہو گا کہ اس کو خاص عنوانات کے تحت مرتب کیا جائے۔ بعض مضامین اقبال کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ باب قائم کرنا پڑے گا، مثلاً عشق کا موضوع اگرچہ حکماء اور صوفیہ کے ہاں بکثرت ملتا ہے لیکن اقبال نے اس میں جو نکات پیدا کیے ہیں وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتے۔ اسی طرح توقیر نفس اور عرفان نفس کا مضمون اگرچہ قدیم ہے لیکن اقبال نے خودی کا فلسفہ اس زور شور سے پیش کیا ہے اور اتنے پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی ہے کہ وہ اس کا خاص مضمون بن گیا ہے۔ اسلام کے متعلق بھی اس کا جو زاویہ نگاہ ہے وہ صوفی و ملا و حکیم سب سے الگ ہے۔ قومی شاعری کی ابتداء اگرچہ حالی نے کی لیکن اقبال جس طرح قومی مسائل سے دست و گریبان ہوا ہے اس کی مثال بھی کہیں اور نہیں ملتی۔ حدی خوانی حالی نے شروع کی لیکن محمل کو گراں دیکھ کر اقبال نے اس حدی خوانی کو تیز اور وجد آور بنا دیا۔ اقبال شرق و غرب کے بہترین اور بلند ترین افکار کا وارث ہے۔ اقبال نے اس ورثے کو صرف پیش ہی نہیں کیا بلکہ اس میں گراں بہا اور قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے، وہ صحیح معنوں میں آزادانہ اور محققانہ نظر رکھتا ہے، وہ اندھا دھند کسی کی تقلید نہیں کرتا، ہر چیز کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے اس لیے کلیتاً کسی حکیم یا صوفی یا فقیہہ و مفسر سے ہم آہنگ نہیں ہوتا۔ کسی بڑے مفکر کا قلب مومن اور دماغ کافر معلوم ہوتا ہے تو اس کی داد دیتے ہوئے اس پر بصیرت افروز تنقید بھی کرتا ہے۔ آزادانہ تحقیق و تنقید کے شوق میں کہتا ہے کہ کوئی نبی بھی پرانی لکیروں کا فقیر رہ کر پیغمبر نہ ہو سکتا: چہ خوش بودے اگر مرد نکوے ز بند پاستاں آزاد رفتے اگر تقلید بودے شیوۂ خوب پیمبر ہم رہ اجداد رفتے اقبال پر درجنوں کتابیں اور ہزاروں مضامین لکھے گئے ہیں اور بے شمار تقریریں اس پر ہو چکی ہیں لیکن یہ سلسلہ نہ ختم ہوا نہ ہو گا۔ اقبال پر جو کتابیں نہایت عالمانہ، نہایت بلیغ اور نہایت جامع ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خان صاحب کی ’’ روح اقبال‘‘ اور مولانا عبدالسلام صاحب ندوی کی کتاب ’’ اقبال کامل‘‘ ان دو کتابوں کو ملا کر پڑھیں تو اقبال کے کلام اور اس کی تعلیم کا کوئی پہلو ایسا دکھائی نہیں دیتا جو محتاج تشریح اور تشنہ تنقید باقی رہ گیا ہو لیکن اقبال کے افکار میں اتنی گہرائی، اتنی پرواز اور اتنی وسعت ہے کہ ان کتابوں کے جامع ہونے کے باوجود مزید تصنیف کے لیے کسی معذرت کی ضرورت نہیں۔ اقبال کا کلام ایک طرح کا مذہبی صحیفہ ہے اور مذہبی صحیفوں کی شرحوں کی طرح ہر لکھنے اور سوچنے والا اپنے انداز نگاہ اور انداز بیاں ہے خاص خاص پہلوؤں کو اجاگر کر سکتا ہے۔ راقم الحروف نے بھی اقبال پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن وہ بعض مخصوص مضامین پر مشتمل ہے۔ میں پہلے جو کچھ لکھ چکا ہوں اس کتاب میں اس سے قطع نظر کرنا نا ممکن ہے اس لیے یا تو انہی کہی ہوئی باتوں کو دوسرے انداز میں کہنا پڑے گا یا لازماً کچھ اقتباسات دوران شرح میں درج کرنے ہوں گے۔ اقبال کے افکار کا احاطہ کرنا اور اس کے ہر خیال اور ہر تاثر کے مضمرات کو کماحقہ پیش کرنا کسی ایک مصنف کا کام نہیں اور نہ ہی کوئی ایک تصنیف اس کا حق ادا کر سکتی ہے۔ اقبال مسلمانوں کے مذہبی اور تہذیبی شعور کا ایک جزو لاینفک بن گیا ہے۔ اقبال اگر انا الملت کا نعرہ لگاتا تو بجا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ اقبال بھی ابد قرار ہو گیا ہے، اگر اس کے افکار محدود اور ہنگامی ہوتے تو کچھ عرصے کے بعد زمانہ انہیں پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتا، لیکن اقبال کے افکار اور اس کے وجدانات میں ایک لامتناہی صفت پائی جاتی ہے۔ جو نہ صرف زمان و مکان بلکہ اس ملت کے حدود سے بھی وسیع تر ہیجس کا عروج و زوال اس کا خاص موضوع فکر اور جس کا درد اس کے دل و جگر کا سرمایہ تھا۔ مختلف ادوار میں اقبال کے فکر میں ارتقاء کے مدارج کا مطالعہ زیادہ مشکلات پیش نہیں نہیں کرتا، بانگ درا میں جس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا، انہوں نے خود اپنی نظموں کو زمانی لحاظ سے مرتب کیا ہے، بعد میں شائع کردہ مجموعوں کی طباعت کا زمانہ بھی یقینی طورپر معلوم ہے، چنانچہ ابتداء سے انتہا تک اقبال کے فکر کا ارتقاء مطالعہ کرنے والے پر روشن ہو جاتا ہے اور اس زمانی ترتیب کی بدولت اقبال کی شاعری اور کے تفکر کا ارتقاء بھی واضح ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ پہلا باب اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل جس شخص کو ملکہ شاعری ودیعت کیا گیا ہو وہ بچپن ہی میں کچھ نہ کچھ مصرعے موزوں کرنے لگتا ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ پندرہ سولہ برس کی عمر یعنی مدرسے کی تعلیم کے اختتام کے زمانے میں اچھی خاصی نظمیں لکھ سکتا ہے، خود ان کا انداز تقلیدی یا مشقی ہی ہو، لیکن اس زمانے کی ابتدائی شاعرانہ کوششیں نہ اقبال نے محفوظ رکھنے کے قابل سمجھیں اور نہ ان کے قدر دانوں کو اس کے نمونے مل سکے۔ اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا، اس زمانے میں ان کو ایک یگانہ روزگار صاحب بصیرت استاد سے حصول فیضان کا نادر موقع ملا۔ مولانا میر حسن اردو، فارسی اور عربی کے جید عالم تھے اور اسلامیات پر کامل عبور رکھنے کے باوجود خشک ملا نہ تھے، سرسید علیہ الرحمتہ کے مداحوں میں سے تھے، راسخ الاعتقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی وسعت مشرب سے غیر مسلم طلباء بلکہ مشنری پادری اساتذہ بھی متاثر تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں اقبال نے اردو اور فارسی اساتذہ کا کلام کثرت سے مطالعہ کیا اور مولانا میر حسن شعر کا صحیح ذوق پیدا کرنے میں اس نو خیز شاعر کے معاون ہوئے۔ مولانا میر حسن کا تبحر علمی اور ان کے اخلاق کچھ اس انداز کے تھے کہ اقبال آخر عمر تک ان کو علم و اخلاق میں اسوۂ حسنہ اور اپنا محسن گردانتے تھے۔ اس معاملے میں اقبال شروع سے خوش قسمت رہے کہ ان کو اعلیٰ درجے کے استاد تعلیم کی ہر منزل میں میسر آئے۔ ان کی خوش بختی پیدائش ہی سے ان کی ہم عنان تھی۔ ان کے سب سے پہلے اور فطری اساتذہ ان کے والدین تھے۔ راقم الحروف کو ان کے والد ماجد شیخ نور محمد صاحب سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا، جس زمانے میں علامہ اقبال انار کلی میں رہتے تھے۔ وہ در حقیقت اسم با مسمیٰ تھے، نور محمدی ان کے چہرے پر متجلی تھا۔ ایک محمدی کیفیت ا ن میں یہ بھی تھی کہ وہ نبی امی کی طرح نوشت و خواند کے معاملے میں امی تھے، وہ خدا رسیدہ صوفی تھے۔ پاکیزہ اسلامی تصوف کا ذوق اقبال کو باپ سے ورثے میں ملا ۔ مولانا روم نے ایک شعر میں بلند مقامات پر پہنچے ہوئے عارفوں کے متعلق بڑے جوش سے کہا ہے کہ وہ شکاری ہوتے ہیں، اپنی جسمانی ہوا و ہوس کو اسیر فتراک کر چکنے کے بعد بھی ان کا ذوق صیادی تسکین نہیں پاتا۔ اس کے بعد وہ ملائکہ پر اپنا جال ڈالتے ہیں، اس کے بعد پیمبرانہ صفات کے حصول کے لیے انبیاء کا شکار کرتے ہیں اور آخر میں جب تک خدا بھی ان کی لپیٹ میں نہیں آ جاتا تب تک ان کی صیادی باقی رہتی ہے: بزیر کنگرؤ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر اسی مضمون کو اقبال نے ذرا سے تصرف کے ساتھ اپنے شعر میں دہرایا ہے:ـ در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ اب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ اقبال کے عارف باپ کے ذکر میں مولانا روم کا یہ شعر کیوں یاد آ گیا۔ پہلی ہی ملقات میں شیخ نور محمد صاحب نے اقبال کی پیدائش کا ایک دلچسپ قصہ مجھ سے بیان کیا، فرمانے لگے کہ اقبال ابھی ماں کے پیٹ میں تھا کہ میں نے ایک عجیب خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نہایت خوش نما پرندہ سطح زمین سے تھوڑی بلندی پر اڑ رہا ہے اور بہت سے لوگ ہاتھ اٹھا کر اور اچھل کر اس کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ کسی کی گرفت میں نہیں آیا۔ میں بھی ان تماشائیوں میں کھڑا تھا اور خواہش مند تھا کہ غیر معمولی جمال کا یہ پرندہ میرے ہی ہاتھ آ جائے وہ پرندہ یک بیک میری آغوش میں آ گرا، میں بہت خوش ہوا اور دوسرے منہ تکتے رہ گئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس خواب کی تعبیر القا ہوئی کہ پرندہ عالم روحانی میں میرا پیدا ہونے والا بچہ ہے جو صاحب اقبال ہو گا۔ اقبال کے حصول کمال اور اس کی شہرت کے بعد مجھے اپنی تعبیر کے درست ہونے کا یقین ہو گیا۔ عالم مثال میں ارواح پرندوں کی طرح متمشل ہوتی ہیں۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس فاختہ کی صورت میں زمین پر اترتی ہوئی دکھائی دی۔ شیخ نور محمد کو عالم ارواح میں سے ایک نادر روح بطور شکار ہاتھ آئی۔ عارف رومی نے بجا فرمایا تھا کہ روحانی ترقی کے ایک خاص درجے پر پہنچ کر اسی قسم کے شکار عارفوں کے ہاتھ آتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایک روز مجھ سے فرمایا کہ والد مرحوم کو غیر معمولی روحانی مشاہدات بھی ہوتے تھے۔ فرمایا کہ والدہ مرحومہ کا بیان ہے کہ اندھیری رات تھی، کمرے میں بھی چراغ روشن نہیں تھا، آنکھ کھلی تو دیکھا کہ کمرہ تمام روشن ہے حالانکہ نہ باہر چاندنی تھی اور نہ چراغ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے دماغ کی پرورش تو طویل سلسلہ تعلیم میں ہوتی رہتی لیکن غذائے روح ان کو شروع ہی سے جسمانی رزق کے ساتھ باپ سے ملتی رہی۔ والدہ ماجدہ کی اچھی تربیت کا اندازہ اس مرثیے سے ہو سکتا ہے جس میں بڑھاپے کے قریب پہنچے ہوئے اقبال نے کس سوز و گداز سے ماں کو یاد کیا ہے اور اپنے جوہر کمال کو اس کا مرہون منت قرار دیا ہے۔ اقبال آخر عمر میں فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اپنا نظریہ حیات فلسفیانہ جستجو سے حاصل نہیں کیا، زندگی کے متعلق ایک مخصوص زاویہ نگاہ ورثے میں مل گیا تھا، بعد میں میں نے عقل و استدلال کو اسی کے ثبوت میں صرف کیا ہے۔ انسان کے سب سے پہلے اساتذہ اس کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں اور ماں سے شعوری اور غیر شعوری طور پر جو کچھ حاصل کیا جاتا ہے اس کے نقوش نہایت گہرے اور ان مٹ ہوتے ہیں۔ والدین کے ساتھ ساتھ ان کو مولانا میر حسن جیسا علمی، ادبی، اخلاقی استاد ملا اس استاد کی سیرت اور بصیرت کے خط و خال بھی اقبال کی فطرت کا جزو بن گئے۔ شعر فہمی اور سخن میں یقینا مولانا میر حسن سے ان کو غیر معمولی فیض حاصل ہوا۔ سیالکوٹ میں ایف اے کے زمانے میں ضرور اقبال نے بہت کچھ مشق سخن کی ہو گی لیکن اس کو محفوظ رکھنے کے لائق نہ سمجھا بی اے کی تعلیم کے لیے وہ لاہور گورنمنٹ کالج میں آ گئے، یہاں کی صحبتوں میں ان کی شاعری کا نخل شگوفہ و ثمر پیدا کرنے لگا۔ ان کی شاعری کا چرچا ہم جماعتوں سے نکل کر خاص احباب کے حلقوں میں ہونے لگا۔ اس زمانے میں لاہور میں مشاعروں کا رواج ہو گیا تھا، حالی اور آزاد نے لاہور کے ہونہار نوجوانوں میں شعر کا چسکا پیدا کر دیا تھا۔ا رشد گورگانی بھی کچھ عرصہ لاہور میں رہے، وہ پر گو اور بدیہہ گو شاعر تھے مگر ان کی زبان ٹکسالی تھ، خود بھی اچھے شعر برجستہ کہتے تھے اور شعر کے اچھے نقاد بھی تھے۔ لاہور کے کشمیریوں نے بھی ایک مجلس مشاعرہ قائم کی تھی جس کے کرتا دھرتا محمد دین فوق تھے جو اخبار کشمیری کے ایڈیٹر اور کشمیر کے متعلق متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں اقبال پہلے پہل اسی کشمیری مشاعرے میں نظر آتے ہیں۔ اقبال نے کشمیر کے متعلق یہ رباعی اسی مشاعرے کی ایک مجلس میں پڑھی: سو تدابیر کی اے قوم یہ ہے اک تدبیر چشم اغیار میں بڑھتی ہے اسی سے توقیر در مطلب ہے اخوت کے صدف میں پنہاں مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر یہ وہی زمانہ ہے کہ مرزا داغ کے مراسلتی شاگرد تمام ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے اور مرزا داغ نے گھر میں شاعری کا ایک محکمہ کھول رکھا تھا، اصلاح کے لیے غزلیں ڈاک میں پہنچتی تھیں اور اصلاح و تنقید کے بعد واپس کر دی جاتی تھیں۔ اقبال نے داغ کی شاگردی چند ہی روز کی۔ سنا گیا ہے کہ داغ نے ان کو چند غزلوں کی اصلاح کے بعد لکھ بھیجا کہ اب تمہارے کلام کو اصلاح کی ضرورت نہیں۔ داغ کی شاعری کا موضوع تو عشق کی بجائے ہوس ہی تھا، لیکن اردو زبان میں اس سے بہتر استاد ملک میں کوئی نہ تھا، داغ کا یہ دعویٰ ثابت اور مسلم تھا: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے داغ کی وفات پر اس کے سینکڑوں شاگردوں نے مرثیے لکھے جن کا اب کہیں نام و نشان نہیں، لیکن اقبال نے جو مرثیہ لکھا وہ داغ کے کمالات کی صحیح تصویر ہے اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال داغ کے کلام سے کس قدر متاثر تھا۔ اقبال عشق مجازی کا شاعر نہ تھا لیکن محض مشق سخن کے طور پر مصنوعی عاشقی کی کچھ غزلیں اقبال نے کہیں، جنہیں بعد میں انہوں نے خود حرف غلط کی طرح مٹا دیا۔ اس ابتدائی زمانے ہی میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ دلی اور لکھنو کی شاعری کے حدود و قیود سے آزاد ہو کر اپنے مخصوص انداز میں کمال پیدا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے مشاعرے ہی میں اقبال نے جو غزل پڑھی اس کا مقطع یہ تھا: اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر ہیں خم زلف کمال کے اس ابتدائی زمانے کی یادگار کچھ غزلیں بانگ درا میں موجود ہیں۔ ان غزلوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جابجا داغ کی زبان کی مشق کر رہے ہیں، موضوع بھی وہی داغ والے ہیں، کہیں کہیں داغ کے انداز کے شعر نکال لیتے ہیں، زبان کے معاملے میں ایک آدھ جگہ ٹھوکر بھی کھا جاتے ہیں: نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی اہل زبان کے ہاں عار مذکر ہے۔ اس سے آگے تین اشعار ایسے ہیں جو داغ کی غزل میں رکھے جا سکتے ہیں: تمہارے پیامی نے سب راز کھولا خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی لیکن اس دور عشق و تقلید میں بھی اس اقبال کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں جس کا آفتاب کمال بہت جلد افق سے ابھرنے والا تھا اس دور کی شاعری کو اقبال کی شاعری کی صبح کاذب کہنا چاہیے جس کی روشنی طلوع آفتاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے، غزل کے روایتی مضامین میں سر راہ حکمت و فلسفہ کی کرنیں دکھائی دیتی ہیں۔ ایک غزل کے مطلع اور مقطع میں واعظ پر چوٹ کی ہے جو صدیوں سے رند اور صوفی شعراء کا ایک تفریحی مضمون ہے: عجب واعظ کی دینداری ہے یا رب عداوت ہے اسے سارے جہاں سے بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں لرز جاتا ہے آواز اذاں سے لیکن اس مختصر سی غزل میں دو حکیمانہ اشعار بھی ہیںـ: کوئی اب تک نہ یہ سمجھا کہ انساں کہاں جاتا ہے آتا ہے کہاں سے وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے ان چند غزلیات میں بھی جو بانگ درا میں درج ہیں ارتقائے فن کی رفتار خاصی تیز معلوم ہوتی ہے، بعض غزلوں میں فکر کی گہرائی اور فن کی پختگی نمایاں ہے۔ ان میں کچھ عشق مجازی کی آمیزش ہے، کچھ روایتی متصوفانہ مضامین ہیں لیکن ان کے ساتھ ملے جلے حکیمانہ اشعار بھی ہیں۔ انداز بیان میں انوکھا پن ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر روایتی تغزل سے رفتہ رفتہ الگ ہو رہا ہے: کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیوں کر ہوا اور اسیر حلقہ دام ہوا کیوں کر ہوا جاے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا مرغ دل دام تمنا سے رہا کیوں کر ہوا موسیٰ و طور کے قصے کا مندرجہ بالا شعر دیکھئے اور پھر آخر میں پیغمبر خودی اقبال کا یہ شعر پڑھیے: کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثل کلیم اپنی ہستی ہے عیاں شعلہ سینائی کر تو اس کا کچھ اندازہ ہو گا کہ اقبال اپنے ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے: وہی اقبال جو آخر میں نفس انسانی کی بقاء کا قائل اور شدت سے آرزو مند ہے، تصوف کے روایتی نظریہ فنا کے زیر اثر ابتدائی دور میں یہ کہہ جاتا ہے: نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں وہی اقبال جو بعد میں یہ تلقین کرنے لگا کہ آفاق اور اس کے مظاہر کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کیونکہ خدا کا جلوہ جیسا بطون میں ہے ویسا شہود میں بھی ہے ’’ ھو الظاہر ھو الباطن‘‘ وہ شروع میں یہ کہہ رہا تھا: ہو وید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی متصوفین کے فلسفہ فنا کا یہ ایک مسلمہ مضمون تھا کہ نفس کی انفرادیت ایک دھوکا ہے، نمود حق کے بعد یہ فریب ادراک مٹ جاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہی ازلی حقیقت ’’ لا موجود الا اللہ‘‘ رہ جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ متصوفانہ افکار بہت ملتے ہیںـ: نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا اقبال بھی تصوف کے زیر اثر فرماتے ہیں: میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں یا ایک دوسری غزل میں کہتے ہیںـ: میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر اقبال نے اپنے ترقی یافتہ دور میں اسی فلسفہ فنا کے خلاف زور شور سے جہاد کیا، تاہم ابھی غزلوں میں تحقیق کا شائق اور تقلید سے گریز کرنے والا اقبال بھی دکھائی دیتا ہے: تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر یگانہ شے پہ نارش بے جا بھی چھوڑ دے اسی غزل میں ایک اور شعر بھی تھا جو انتخاب کرتے ہوئے اقبال نے نکال دیاـ: مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ یہ انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے یہ شعر غالباً اس لیے نکال دیا کہ مہدی و عیسیٰ کے متعلق مسلمانوں کے عام عقائد کو اس سے ٹھیس لگتی تھی، خواہ مخواہ ہدف تکفیر بننے سے فائدہ؟ لیکن آخر تک اقبال کا عقیدہ یہی تھا کہ کسی نجات دہندہ کا انتظار شکست خوردہ قوموں کا عقیدہ ہے؟ ہر مسلمان کی نجات اور ملت اسلامیہ کی نجات و فلاح عرفان نفس اور خودی کے استحکام میں ہے۔ ۱۹۰۵ء تک اقبال ایک علی الاطلاق شاعر ہے زندگی اور فطرت کے جس منظر اور جن حوادث سے متاثر ہوتا ہے ان کو اپنے حسن بیان کا جامہ پہنا دیتا ہے، تقلیدی اور روایتی شاعری سے اس نے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر لیا، جہاں تک فن کا تعلق ہے اس نے کمال پیدا کر لیا، کہیں داغ سے فیض یاب ہے اور کہیں غالب کے تخیل کا قدر دان: چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں فن کے لحاظ سے اقبال ہر استاد سے کچھ نہ کچھ لیتے گئے، یہاں تک کہ فرماتے تھے کہ میں نے ناسخ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ آزاد، حالی اور شبلی کے ہاں اردو شاعری اگر قدیم ڈگر سے بٹنا شروع ہوئی تو یہ مغربی افکار کا نتیجہ تھا۔ اس کا احساس غالب کو بھی ہو گیا تھا کہ جدید تہذیب اور علوم و فنون ہو انگریزوں کے ساتھ مغرب سے آئے ہیں، ان کی بدولت زندگی کے اقدار اور انسان کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے یا بدل جانا چاہیے۔ چنانچہ سید احمد خاں نے جب ’’ آئین اکبری‘‘ کا تصحیح کردہ ایڈیشن شائع کیا اور غالب کو تقریظ کے لیے بھیجا تو غالب نے اپنے دوست سید احمد کا کچھ لحاظ نہ کیا اور سخت مخالفانہ تنقید اس پر کی جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ قابل غور اب صرف نئے آئین و قوانین ہیں، تہذیب و تمدن کی ترقی نے پرانے قاعدوں کو منسوخ کر دیا ہے، اب ان پر دماغ سوزی کرنا محض مردہ پرستی ہے جو سید جیسے مصلحین قوم کے شایان شان نہیں۔ لیکن غالب کی شاعری پر اس جدت پسندی کا کچھ اثر نہ پڑا اس لیے کہ جب اس کو یہ احساس پیدا ہوا، اس وقت وہ اپنی شاعری ختم کر چکا تھا اور وہ اپنے فن کے عمر بھر کے تیار کردہ اور پختہ سانچوں کو توڑ کر نئے سانچے تیار نہ کر سکتا تھا، پیری، ناداری اور بیماری نے اس کی قوتوں کو مضمحل کر دیا تھا ورنہ وہ آخر ایام میں سید احمد خاں اور ان کے رفقا سے کم تجدید کا تمنائی نہ تھا۔ حالی کو فطری اور قومی شاعری کی طرف سید احمد خاں لائے۔ حالی انگریزی داں نہ تھے اور نہ ہی سید احمد خاں انگریزی داں تھے اگرچہ اکبر نے سید صاحب کے متعلق بہت خوب کہا ہے کہ تم انگریزی داں ہو وہ انگریز داں تھا۔ علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا، مغربی علوم و فنون کا سواد تعلیم میں داخل تھا، انگریز اور انگریزی داں ہندوستانی علی گڑھ میں جمع تھے۔ سید صاحب اور ان کے رفقاء ان سے ہر طرح معلومات حاصل کرتے تھے اور ان کے زیر اثر اپنے افکار میں ثروت پیدا کرتے تھے یا ان کا رخ بدلتے تھے ۔ غدر کے بعد محمد حسین آزاد ہجرت کر کے لاہور آ گئے تھے اور گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے وہ بھی انگریزی داں نہ تھے، علی گڑھ کی تحریک سے انہوں نے بھی مغربی انداز کی جدید شاعری شروع کر دی اور گل و بلبل کی شاعری کو خیر باد کہا۔ اقبال کی گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں یہ نمونے موجود تھے اور جدید اثرات کام کر رہے تھے۔ سید صاحب ہوں یا حالی یا شبلی یا مولانا نذیر احمد افکار کماحقہ ان کی گرفت سے باہر تھے اور وہ اس کی کمی کو تاسف کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ آزاد نے نیرنگ خیال میں یہ پیش گوئی کی کہ آئندہ بلند درجے کا ادب وہی لوگ پیدا کر سکیں گے جن کے ہاتھوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے خزینہ افکار کی کنجیاں ہوں گی۔ یہ سب زبردست عالم او رادیب تھے اور انگریزی دانوں کی اعانت سے بعض اوقات ایسی چیزیں لکھ جاتے تھے جو اب تک مستند شمار ہوتی ہیں چنانچہ مولوی نذیر احمد کا انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند جدید قانون میں اصطلاح سازی کا ایک شاہکار ہے، یہ کام کسی خالی انگریزی داں سے سر انجام نہ پا سکتا۔ اسی طرح دہلی کالج کے سلسلے میں مولوی ذکاء اللہ نے درجنوں علوم و فنون جدیدہ کی کتابوں کو اردو زبان میں منتقل کر دیا۔ اپنے غیر معمولی کمال کے باوجود یہ سب بزرگ جس کمی کو محسوس کر رہے تھے وہ کمی اقبال نے پوری کی اقبال جتنی قدرت اردو اور فارسی پر رکھتے تھے اتنی ہی دسترس ان کو انگریزی زبان پر بھی حاصل تھی، مغربی افکار کا تمام سرمایہ اقبال کو براہ راست ہاتھ آیا اور مشرق و مغرب کا قرآن السعد بن اقبال ہی میں ظہور پذیر ہوا، آزاد کی تمنا اقبال میں مجسم ہو گئی۔بطور نمونہ موجود تھی، اعلیٰ جذبات تو درکنار ادنیٰ شہوات کا انداز بھی غیر فطری ہو گیا تھا، زن و اردو زبان مسلمانوں کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ اردو شاعری کے سامنے جو نمونہ تھا وہ متاخرین کی فارسی شاعری تھی۔ قصیدہ گوئی اور ہوس پرستی کے تغزل دور از کار تخیل اور مضمون آفرینی نے اس کو خلوص اور حقیقت سے کوسوں دور کر دیا تھا اور جذبات عالیہ کا اس میں فقدان تھا، دیرینہ تقلید سے وہ اپنی خامیوں میں پختہ ہو گئی تھی، کوئی داخلی محرکات اصلاح و تجدید کے اس کے اندر سے پیدا نہ ہو سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی سیاسی غلبے نے مشرق کی آنکھیں کھول دیں اور اس کو اپنے احتساب پر مجبور کیا۔ اقبال کے سامنے اردو اور فارسی کی شاعری کے علاوہ انگریزی شاعری کے بہترین نمونے موجود تھے۔ انگریزی شاعری ایک آزاد قوم کی شاعری ہے یہ قوم طرح طرح کے سیاسی انقلابات میں سے گزری اور اس کی تاریخ میں شروع سے آخر تک حریت کی جدوجہد نظر آتی ہے۔ اس میں اچھے اور برے، مطلق العنان اور پابند آئین و دستور ہر طرح کے بادشاہ اور حکمران گزرے ہیں لیکن اس قوم میں کبھی غلامانہ ذہنیت پیدا نہیں ہوئی۔ اگر کوئی بادشاہ دستور شکن اور مستبد معلوم ہوا تو اس کی گردن کاٹ دی گئی۔ کسی نے مذہبی استبداد کی کوشش کی تو اس کے خلاف بھی لوگ جہاد پر آمادہ ہو گئے۔ مسلمانوں کو اسلام نے یہ تعلیم دی تھی کہ حکومت علما و صلحا اور رموز شناس مملکت کے مشورے سے ہونی چاہیے لیکن طلوع اسلام کے چند سال بعد ہی وہ حکمت و حریت کے تمام سبق بھول گئے، اس کا جو نتیجہ ہوا وہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک پہلو ہے۔ عربوں کی اپنی قوی اور طبعی شاعری میں بہت زیادہ تخیل او رمضمون آفرینی تو نہ تھی لیکن حقیقت اور خلوص تھا۔ عجم اسلام کا سیاسی طور پر تو مطیع و مسخر ہو گیا لیکن شاہ پرستی کی عجمی روایات نے اسلامی خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا افراد مملکت، مسلم ہوں یا غیر مسلم حریت و مساوات سے بیگانہ ہو گئے۔ اس کا بہت برا اثر شاعری پر پڑا عجم میں پہنچ کر پہلے عربی زبان میں قصیدہ گوئی شروع ہوئی اور اس کے بعد فارسی میں بادشاہوں اور امراء کی جھوٹی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ شاعروں نے جب دیکھا کہ دروغ ہی سے فروغ ہوتا ہے تو دروغ بافی اور مبالغہ آرائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کی روحانیت اور اخلاقیات شاعری میں سے عنقا ہو گئے، فطری اور سچے جذبات کو خلوص سے بیان کرنے والا کوئی نہ رہا۔ رندی، شراب خواری اور ہوس پرستی شاعری کا موضوع بن گئی، رود کی سے لے کر قاآنی تک اس بد روی میں ترقی ہوتی گئی۔ چند بلند پایہ، صالح الفکر اور صوفی شعراء کو چھوڑ کر باقی سب کا یہ حال ہے ادب کی یہی مسخ شدہ صورت اردو شاعروں کے سامنے مرد کی محبت کی جگہ امرد پرستی نے لے لی۔ اس لغو قسم کی مشق سخن میں زبان میں لطافت اور نکتہ آفرینی نے تو ترقی کی لیکن موضوع سخن زیادہ تر بیہودہ ہی رہا۔ تصوف جس کا حقیقی وظیفہ عرفان نفس سے عرفان الٰہی کی طرف رہنمائی کرنا تھا، وہ بھی غیر اسلامی تخریبی عناصر کی بدولت جادۂ صداقت سے ہٹ گیا۔ کچھ غلامانہ اور عیاشانہ زندگی نے اور کچھ تشکیک آفرین فلسفے نے ایمان و عمل کی بنیادیں متزلزل کر دیں، ہر قسم کے استبداد نے لوگوں میں اختیار کی بجائے جبر کے عقیدے کو استوار کر دیا عوام کو یہ تلقین کی گئی کہ رموز مملکت فقط بادشاہ جانتے ہیں، گدائے گوشہ نشیں کو خواہ مخواہ اعتراض اور احتجاج نہیں کرنا چاہیے، جو کچھ ہوتا ہے وہ خدا کی مرضی سے ہوتا ہے، مومن کا فرض ہے کہ وہ تن بہ تقدیر تسلیم و رضا کا شیوہ اختیار کرے، اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو سننے والا اس کی تائید میں یہ اقرار کرے کہ ہاں مجھے تارے نظر آ رہے ہیں۔ زاہد اور زہد اور عاصی کا عصیان، عابد کی عبادت اور فاسق کا فسق سب مشیت الٰہی ہے جس کے آگے دم مارنا مومن کا کام نہیں، زاہد کے زہد سے اور فاجر کے فجور سے عبادت و کائنات کے لامتناہی کارخانے میں کون سا فرق پڑتا ہے: بیا کہ رونق این کارخانہ کم نشود ز زہد ہمچو توئی، و ز فشق ہمچو منے حافظ بخود نپوشید این خرقہ مے آلود اے شیخ پاک دامن معذور دار مارا در کوے نیک نامی مارا گذر ندادند گر تو نمی پسندی تغیر کن قضا را زندگی بھی کسی کی سمجھ میں آنے کی چیز نہیں: اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی کا ہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا اب جب کچھ سمجھ میں نہیں آ سکتا تو کیا کیا جائے سوائے اس کے کہ گاؤ بجاؤ، پیو پلاؤ اور خوش رہو: حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را متصوفانہ افکار کے ساتھ ان تمام خیالات کی اس طرح آمیزش ہوئی کہ تمام عقائد اور زوایاے نگاہ دین بن گئے حقیقی فلسفہ، آزادی فکر سے حقیقت کی جستجو کا نام ہے اور یہ جستجو اس اذعان و یقین کے ساتھ کی جاتی ہے کہ خدا نے عقل اس لیے دی ہے کہ مشاہدے اور تفکر سے وجود حقیقی کی ذات اور صفات کو حتیٰ الامکان معلوم کیا جائے اور پھر اس دریافت شدہ حکمت کے مطابق اعمال کو ڈھالا جائے۔ تصوف کا کام اس سے بھی زیادہ عرفان اور تزکیہ قلب تھا لیکن مسلمانوں کی شاعری میں حکمت اور تصوف دونوں نے زیادہ تر تعمیر حیات کی بجائے تخریب ہی کا کام کیا، شاعری، نہایت ادنیٰ سطح پر فن برائے فن رہ گئی یا فن برائے زرانہ وزی و جاہ طلبی۔ یہ جو کچھ کہا گیا ہے فارسی کی تمام شاعری پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، آخر سعدی و رومی اور سنائی و عطار بھی شاعر ہیں، اعلیٰ درجے کی حکیمانہ باتیں بھی بعض شعراء میں منتشر طور پر ملتی ہیں، لیکن شاعری کے طوفان بے تمیزی میں یہ گوہر کہیں نایاب اور کہیں کمیاب ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے عجمی شاعری سے فائدہ نہیں اٹھایا یا ساز عجم کے نغمے اس کے اشعار میں نہیں ہیں لیکن ساز کے ہم رنگ و ہم آہنگ ہونے کے باوجود اقبال کے ہاں نغموں کا موضوع اور تاثر بہت کچھ الگ ہو گیا۔ اقبال نے اردو اور فارسی کی تمام شاعری کے طومار کو سامنے رکھ کر ’’ خذما صفا و دع ما کدر‘‘ سے کام لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شروع میں اقبال کی شاعری کا رخ مغرب کے اثرات نے بدلا؟ اردو اور فارسی میں مناظر فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر تھی، فارسی میں گلزار کوہسار کے متعلق جو کچھ ملتا ہے وہ محاکات نہیں بلکہ تخیل ہے، ایران اچھی آب و ہوا اور باغ و بہار کا ملک ہے لیکن انگریزی شاعری کے مقابلے میں اس موضوع پر اس کا سرمایہ شعر عشر عشیر بھی نہیں، وطن اور قوم کی محبت کی شاعری بھی مفقود ہے، اس لیے کہ نہ کسی شاعر میں حب وطن تھی اور نہ جذبہ ملت۔ قدیم عربی شعراء میں قبیلوی عصبیت شدت سے موجود تھی اس لیے وہ جائز یا ناجائز طور پر اپنے قبیلے کے جذبات کو ابھار کر افراد قبیلہ کی ہمت افزائی کر سکتے اور ان کو عمل و ایثار اور جانبازی پر آمادہ کر سکتے تھے۔ یہ جذبہ انگریزی شاعری میں ملتا ہے۔ فارسی شاعری کو گل و بلبل کی شاعری کہا جاتا ہے لیکن ایرانی شعراء نے گل و بلبل کو فقط اپنی جھوٹی عاشقی کے بیان میں تمثیل و استعارہ کے طور پر استعمال کیا۔ پھولوں کی رنگینی اور پرندوں کی خوش نوائی سے جو اثر طبیعت پر ہوتا ہے اس کابیان کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ انگریزی شاعر حقیقت کو نمایاں کرنے کے لیے تخیل سے کام لیتا ہے، اس کے ہاں تخیل ایک پاور ہوا عنکبوت کا تانا بانا نہیں۔ اقبال کی ۱۹۰۵ء تک کی نظموں میں انگریزی شاعری کا اثر غالب ہے کئی نظمیں انگریزی نظموں کا آزاد اور دلکش ترجمہ ہیں، کئی نظمیں ایسی ہیں جو ترجمہ تو نہیں لیکن انداز تاثر و تفکر اور اسلوب بیان انگریزی ہے۔ ہمالیہ جیسا عظیم الشان سلسلہ کوہسار جس کے جلال و جمال کی مثال کرۂ ارض اور کہیں نہیں ملتی، کیا وجہ ہے کہ اقبال سے پہلے کسی شاعر نے اس سے متاثر ہو کر ایک شعر بھی نہ کہا؟ اسی طرح بادل کے مضمون کو لیجئے، اردو اور فارسی میں کوئی نظم ابر پر بحیثیت ابر نہیں ملتی، البتہ محرک شراب نوشی قرار دے کر بادلوں کے متعلق بہت سے اشعار ملتے ہیںـ: بدلی آتی ہے بدل جاتی ہے نیت میری کی فرشتوں کی راہ ابر نے بند جو گنہ کیجئے ثواب ہے آج مکڑے اور مکھی اور پہاڑ اور گلہری پر اردو اور فارسی روایات کا پابند شاعر، کاہے کو کوئی نظم لکھتا۔ مغربی شاعری کا سب سے اچھا اثر اقبال پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی اور بے حقیقت شاعری سے بچ گیا۔ کوئی اچھا انگریزی شاعر بغیر گہرے ذاتی تاثر کے محض صناعی اور اظہار کمال کے لیے نظم نہیں لکھتا۔ اقبال بھی ایسی فطرت کا شاعر ہے اس نے کئی مرتبہ احباب سے بیان کیا کہ میں دوسروں کے تقاضے سے شعر نہیں کہتا جب تک کوئی زبردست داخلی یا خارجی محرک میری طبیعت میں سے نغمہ یا نالہ پیدا نہ کرے۔ غالب کو بھی فطرت نے شاعر بنایا تھا لیکن وہ بہت کچھ غلط روایات شعری کا شکار ہو گیا، ایک خط میں کہتا ہے کہ شاعری قافیہ پیمائی نہیں بلکہ مضمون آفرینی ہے۔ ایک دوسری جگہ اپنے متعلق کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ لیکن اقبال کے ہاں شاعری نہ قافیہ پیمائی ہے اور نہ مضمون آفرینی اور نہ نغز گوئی ہے۔ اچھا شعر شاعر کی فطرت کے باطنی تقاضے سے پیدا ہوتا ہے، یہ تقاضا خود بخود قافیہ پیمائی بھی کرتا ہے اور مضمون آفرینی بھی اور جو شعر اس آمد سے نکلتا ہے وہ نغز بھی ہوتا ہے۔ مولانا روم اپنے متعلق فرماتے ہیں: من نہ دانم فاعلات فاعلات شعر مے گویم بہ از آب حیات ایسی شاعری وہ شخص کر سکتا ہے جس کے اندر آب حیات کا چشمہ ہو اور جو ادھر ادھر کے نالوں یا پرنالوں سے اپنا تالاب نہ بھرتا ہو۔ ۱۹۰۵ء تک کی شاعری کو اقبال اپنی سخن گوئی کا دور اول قرار دیا ہے۔ اس سن کو حد فاضل اس لیے بنایا کہ ۱۹۰۵ء میں اقبال یورپ چلے گئے یورپ مینان کے مطالعے اور مشاہدے اور تفکر نے ان کی طبیعت کا رنگ بہت کچھ بدل گیا فرنگ کی دنیا ایشیا کی دنیا سے بے حد مختلف تھی، اس نئی دنیا نے اقبال کی طبیعت میں نئے تاثرات پیدا کیے جس کا تجزیہ ہم اس کے بعد کریں گے۔ ۱۹۰۵ء میں اقبال کی عمر قریباً تیس سال تھی اس عمر تک کسی ذہین و فطین انسان کے افکار و جذبات کے سانچے میں بہت کچھ بن چکتے ہیں اور اس عمر کے بعد شاذ و نادر ہی کسی شخص میں کوئی بنیادی تبدیلی ہوتی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس عمر تک لگے ہوئے بعض پودے بعد میں مزید نشوونما سے نخل بلند و بالا بن جائیں اور ان میں کثرت سے برگ و بار اور شگوفہ و اثمار نکلیں، یا یہ کہ اس کی عمر تک بعض باتیں طبیعت کی زمین میں ابھی خاک پوش تخم کی طرح موجود ہوں اور آگے چل کر وہ کھلی فضا میں پھلیں اور پھولیں۔ اس سن تک اقبال کا کلام سو سے کچھ زائد صفحات پر بانگ درا میں ملتا ہے، اس میں ہر طرح کی نظمیں ہیں، ان نظموں میں ابھی شاعری جزو پیغمبری نہیں بنی، شاعر جس چیز سے متاثر ہوتا ہے اس پر شعر کہہ دیتا ہے لیکن ان نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع موجود ہے اور وہ افکار اور تاثرات بھی جا بجا موجود ہیں جو آگے چل کر اقبال کا مخصوص پیغام اور اس کی امتیازی خصوصیت بن گئے ان نظموں میں بھی وہ اقبال ملتا ہے جو دل کی بصیرت اور وجدان کو حسی ادراک اور استدلالی عقل پر مرحج سمجھتا ہے۔ جابجا خودی بھی ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے، طبیعت میں وہ اضطراب اور تپش بھی موجود ہے جو بڑھتے بڑھتے بعد میں کوہ آتش فشاں بن جائے گی ذوق انقلاب و ارتقاء بھی ناپید نہیں، وطن کی محبت شدت سے موجود ہے لیکن وہ عالم گیر انسانی ہمدردی اور ہمہ گیر اخوت کے راستے میں حارج نہیں، تصوف کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ اپنا مخصوص حیات پرور عرفان بھی جا بجا جھلکتا ہے، اقبال جو کچھ بعد میں بنا اس کی داغ بیل ان نظموں میں بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر لیجئے۔عقل و دل کا تضاد یا تصادم اور ان کی باہمی موافقت یا مخالفت زندگی کی ادنیٰ سطحوں پر ہر وقت موجود رہتی ہے، ادنیٰ درجے کی ہوس یا اعلیٰ درجے کا عشق، یہ کشمکش کسی نہ کسی صورت میں ضرور پائی جاتی ہے، اس کی ادنیٰ صورت یہ ہے: دل یہ کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا اور اعلیٰ صورت پیکار یہ ہے کہ عقل تشکیک میں گرفتار رہتی ہے اور دل ایمان کا طالب ہوتا ہے، عقل نفع و ضرر اور تنگ و نام کے پیمانوں سے سوچتی اور احتیاط برتنے کی تلقین کرتی ہے اور عشق پروانے کی طرح شمع پر گرتا ہے۔ا گر ہمیشہ عقل ہی کی رہبری تسلیم کریں تو ان میں مہم وری غائب ہو جانے برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز بیان میں کیا خوب کہا ہے کہ انسانی زندگی میں بڑے بڑے انقلابات اور ترقیاں نامعقولوں کی بدولت ظہور میں آئی ہیں، انہوں نے جو کچھ کہنا یا کرنا چاہا، ہر محتاط عاقل نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی۔ عقل و عشق کا تضاد صوفیہ کا خاص مضمون ہے، مولانا روم کے ہاں سینکڑوں اشعار اس مضمون کے ملتے ہیں کہ: عقل در شرحش چو خر در گل بخفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت اقبال نے اپنی پیغمبرانہ شاعری میںآگے چل کر اس کو اس طرح اپنایا اور گرمایا ہے کہ وہ تنوع بیان اور نکتہ آفرینی میں تمام صوفیہ اور عشاق کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اقبال نے ابتدائی نظموں میں ایک مرتبہ تو ذرا جھجک کر اور کسی قدر احتیاط برت کر کہا ہے کہـ: اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے لیکن جو سادہ اور سلیس نظم عقل و دل کے عنوان سے لکھی ہے، اس میں عقل و دل کا مکالمہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہتر چند اشعار میں نہ عقل کی ماہیت کو کوئی پیش کر سکتا ہے اور نہ دل کی مخصوص حیثیت کو بعد میں اقبال نے سینکڑوں اشعار اس مضمون پر لکھے ہیں لیکن وہ سب انہی سادہ اشعار کی شرح ہیں: عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں ہوں زمین پر، گزر فلک پہ مرا دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں کام دنیا میں رہبری ہے مرا مثل خضر خجستہ پا ہوں میں ہوں مفسر کتاب ہستی کی مظہر شان کبریا ہوں میں بوند اک خون کی ہے تو لیکن غیرت لعل بے بہا ہوں میں دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں راز ہستی کی تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں علم تجھ سے، تو معرفت مجھ سے تو خدا جو، خدا نما ہوں میں علم کی انتہا ہے بے تابی اس مرض کی مگر دوا ہوں میں شمع تو محفل صداقت کی حسن کی بزم کا دیا ہوں میں تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا طائر سدرہ آشنا ہوں میں کس بلندی پہ ہے مقام مرا عرش رب جلیل کا ہوں میں اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے اور معاملے میں اردو اور فارسی میں سینکڑوں بلیغ اشعار کہے ہیں۔ یہ مضمون اس کی طبیعت میں بار بار ہزار رنگ میں ابھرتا ہے اور ہر بار اس میں نیا جوش اور طرز بیان میں جدت ہوتی ہے لیکن اس تمام عرفان وجدان اور تمام فلسفے میں اساسی طور پر کوئی ایک نکتہ نہیں جو اس چھوٹی سی نظم میں موجود نہ ہو، اقبال کی نظموں میں یہ نظم سادہ گوئی کا ایک شاہکار ہے۔ فارسی نظموں میں اقبال نے عقل و خرد کی بہت تذلیل و تحقیر کی ہے اور جیسا کہ ایک نقاد نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال عقل کے پیچھے لٹھ لیے پھرتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ایک ضرب رسید کر دے لیکن اس اردو نظم میں بڑا اعتدال اور نہایت منصفانہ توازن ہے۔ عقل نے اپنی فضیلت اور کار گزاری میں جو کچھ کہا وہ سچ ہے، اس لیے دل نے اس کی تردید نہیں کی، دل نے صرف اس کے حدود و قیود کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے تو حق بجانب ہے لیکن ہستی حقیقی یا وجود مطلق صرف اتنا ہی نہیں جتنا کہ تجھ کو ادراک ہوتا ہے۔ عقل کی رسائی میں کس کو شک ہے؟ وہ زمین کے جماد و نبات ہی نہیں بلکہ فلکیات کی بھی محاسب ہے، خدا چونکہ عاقل ہے اس لیے عقل کا یہ دعویٰ کہ میں مظہر شان کبریا ہوں بجا اور درست لیکن سمجھنے اور دیکھنے میں فرق ہے، عین الیقین کا درجہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے، عقل کا کام علم الیقین تک پہنچانا ہے، اس کی رہبری یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے: عقل گو آستان سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں حکمت، سائنس یا فلسفے کا کام مظاہر فطرت کا مطالعہ ہے تاکہ یہ کثرت، آئین کی وحدت میں پروئی جائے لیکن کنہ وجود تک اس کی رسائی نہیں، عقل کی بینائی مظاہر کی سطح تک خوب کام کرتی ہے۔ لیکن عین وجود میں غوطہ زنی اس کا کام نہیں۔ عقلی ادراک ہمیشہ بالواسطہ ہوتا ہے، استدلال کی کئی کڑیاں ایک نتیجے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر استدلال کے زینے میں سے کوئی ایک پایہ ٹوٹ جائے تو نتیجے تک پہنچنا محال ہو جائے۔ عقل میں شک اور گمان کا شائبہ ہمیشہ باقی رہتا ہے لیکن براہ راست مشاہدے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی: راز ہستی کو تو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں عقل و دل کا یہ مکالمہ بو علی سینا اور ابو سعید ابو الخیر کی ملاقات میں بھی ملتا ہے۔ حضرت ابو سعید کے سوانحی حیات میں یہ لکھا ہے کہ حکیم بو علی سینا سے ان کی ملاقات ہوئی اور عالم روحانی کی بابت بو علی نے نہایت عمدہ استدلال سے اس عالم کی کیفیات کا اثبات کیا اور کہا کہ ازروئے حکمت انسان ان نتائج پر پہنچتا ہے۔ حضرت ابو سعید نے سب کچھ سن کر فقط یہ فرمایا کہ ’’ ہر چہ می دانی من می بینم‘‘ جو کچھ تو جانتا ہے میں اس کو چشم دل یا دیدۂ باطن سے دیکھتا ہوں۔ استدلال اور مشاہدے یا دانش و بینش کا فرق ہے۔ حقیقت رسی کے معاملے میں علم کا تذبذب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عقل اپنے نتائج حسی ادراک کے مواد سے اخذ کرتی ہے اور تمام حسی مظاہر زمان و مکان کے سانچوں میں ڈھل کر عقل کے لیے قابل ادراک ہوتے ہیں، اس لیے جو حقیقت نہ زمانی ہے نہ مکانی، وہ عقل کی گرفت سے لازماً باہر رہے گی۔ صوفیہ کشف و وجدان سے اس حقیقت پر پہنچے کہ دل کے مشاہدات اور احوال زمانی او رمکانی نہیں ہوتے اور یورپ کا سب سے بڑا فلسفی کانٹ بڑے طویل اور دقیق استدلال سے اس نتیجے پر پہنچا کہ زمان و مکان کوئی مستقل اور لا محدود حقائق وجود نہیں بلکہ عقل و ادراک کے سانچے میں خدا اور روح کی حقیقت ان سے ماوریٰ ہے عقل کا وظیفہ مطالعہ مظاہر اور علت و معلول کے روابط تلاش کرنا ہے، ہستی کی حقیقت تک اس کی رسائی نا ممکن ہے، عقل بے کار چیز نہیں لیکن جب وہ اپنی حد سے باہر قدم رکھنا چاہتی ہے تو سوخت ہو جاتی ہے: اگر یک سر موے بر تر پرم فروغ تجلی بسوز د پرم اسی دور کی نظموں میں ایک نظم دل کے عنوان سے دل کی ردیف میں لکھی ہے، اس نظم میں بھی خودی اور عشق کے مضامین دلکش انداز میں بیان کیے ہیں، دل کی لامتناہی صلاحیتوں کا ذکر ہے: قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل التجاے ارنی سرخی افسانہ دل یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی جادۂ ملک بقا ہے خط پیمانہ دل ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل مقطع میں کہتے ہیں: عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے اقبال کی شاعری آخری میں دل کی حقیقت کی شاعری بن گئی اسی دل کی حقیقت شناسی نے عشق کا راگ الاپا، اسی نے خودی کے تحقق اور استحکام کو شد و مد کے ساتھ پیش کیا، اسی دل نے عقل پر تنقید کی، اسی نے مقصود حیات متعین کیا، اسی نے اپنے اندر سے خدا کی طرف جانے کا دروازہ کھولا، اسی نے انسان کی موجودہ بے بسی پر آنسو بہائے، اسی نے انسان کو محدود سے لامحدود ہونے کے طریقے سمجھائے۔ اقبال کے نزدیک دل ہی ہے جو لامتناہی قوتوں کا سر چشمہ اور لا محدود بصیرت کا آئینہ ہے جس نے اس کی حقیقت نہیں پہچانی وہ محض جسم ہے، مادہ ہے، غلام عقل و حواس ہے اور بندۂ حرص و ہوا ہے۔ شیخ عبدالقادر مرحوم نے جو ایک بلند پایہ نقاد سخن اور ادب نواز و ادیب پرور ہونے کے علاوہ علامہ اقبال کے عمر بھر کے مخلص دوست بھی تھے، بانگ درا پہ دیبا چہ لکھا، اس دیباچے کی ابتداء میں وہ غالب اور اقبال کی مماثلت پر رقمطراز ہیں: ’’ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہو گا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادب اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔ غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں، دوبارہ جنم لینا اور محمد اقبال نام پایا۔‘‘ ایک مختصر دیباچے میں اس خیال کے ثبوت میں شیخ صاحب دونوں کے کلام کے نمونے پیش نہ کر سکتے تھے جن سے یہ مماثلت واضح ہو جاتی۔ اس کتاب میں بھی زیادہ تفصیلی موازنے اور مقابلے کی گنجائش نہیں لیکن شیخ صاحب کے خیال کی وضاحت کے لیے کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کا صمیم قلب سے جوش و خروش کے ساتھ مداح ہو تو از روئے نفسیات یہ لازم آتا ہے کہ ماوح اور ممدوح میں کوئی گہری مشابہت ضروری ہے۔ ہر انسان اپنے ممدوح کی غیر شعوری طور پر تقلید بھی کرتا ہے اور انداز نگاہ طرز کلام میں خود بخود کم و بیش مماثلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں مرزا غالب پر ایک مستقل نظم ملتی ہے جس کا پہلا بند ہے: فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا تہا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے ایک بند میں غالب کو جرمنی کے یگانہ روزگار مفکر و شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ ایک عرصے بعد پیام مشرق کے تمہیدی اشعار میں خود اپنا اور گوئٹے کا مقابلہ کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح کا مفکر اور صاحب بصیرت و وجدان شاعر ہوں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ: من دمیدم از زمین مردۂ میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا جو فقدان حیات کی وجہ سے میری قدر شناس نہیں اور تو نے ایک زندہ قوم میں جنم لیا۔ اگر غالب اور اقبال دونوں گوئٹے کے مماثل اور اس کے ہم نوا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دونوں بھی باہم ہم رنگ و ہم آہنگ ہوں گے۔ اقبال کی مماثلت غالب سے کس چیز میں ہے، وہ اسی نظم کے ایک بند سے واضح ہو جاتی ہے: لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں آہ! اے نظارہ آموز نگاہ نکتہ بیں گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے اچھی شاعری کے لیے خالی پرواز تخیل کافی نہیں، اس کے ساتھ فکر حقیقت رس بھی ہونا چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں غالب میں ہم آغوش پائی جاتی ہیں اور نہی دو صفات کی دل کش آمیزش نے اقبال کے کلام میں دل رسی پیدا کی ہے۔ انسانی روح کو گرمانے والی ایک تیسری چیز بھی ہے جس کے لیے کبھی درد دل اور کبھی سوز قلب اور کبھی عشق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ کیفیت ترقی کر کے جنون کی ہم رنگ ہو جاتی ہے۔ غالب کے ہاں یہ چیز بہت نمایاں نہیں لیکن اس کے جن اشعار میں یہ ملتی ہے وہ فکر و تخیل کے ساتھ مل کر روح انسانی میں کبھی ہیجان و بے تابی اور کبھی سوز و گداز پیدا کرتے ہیں، عشق حقیقی میں سرمست صوفیہ کے ہاں اس کا بہت غلبہ ہوتا ہے۔ مولانا روم کے دیوان موسوم بہ دیوان شمس تبریز مین جو وجد و حال سے لبریز غزلیں ہیں وہ صاحب حال صوفی ہی کے قلب سے نکل سکتی ہیں۔ اس بارے میں غالب کے ہاں جو کمی ہے وہ اقبال کے کلام میں بہت کچھ پوری ہو جاتی ہے اور بہت سی غزلوں اور قطعات مینوہ سنائی و عطار و رومی کی صف میں دوش بدوش کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے ان صوفیائے کبار نے یا تو اس میں قدم ہی نہیں رکھا یا بقول عارف رومی کردے و گذشتے کے اصول کے مطابق جلد مجاز سے حقیقت کی طرف عبور کر گئے ہیں۔ المجاز قنطرۃ الحقیقتہ غالب کے ہاں آخر تک مجاز و حقیقت کی آمیزش چلی گئی ہے اور جہاں تک عشق حقیقی کا تعلق ہے وہ صوفی نہیں بلکہ متصوف ہے جو بربناے تفکر تصوف کا دلدادہ اور بحیثیت نظریہ حیات وحدت وجود کا قائل ہے۔ اقبال کے شباب میں رندی اور عشق مجازی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس نے کبھی ہوس محبت کو اپنے نفس پر مسلط نہیں ہونے دیا، خود ہی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ دل بکسے نہ باختہ اقبال نے شروع سے آخر تک عشق کے جوگن گائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ادب میں نہ ملے لیکن یہ عشق حیات و کائنات کی ایک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے، یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے جو افراد و اشیاء سب پر پھیلا ہوا ہے، لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمح نظر نہیں۔ اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے، اس کے بعد وہ تمام نوع انسان پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے۔ آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہو جاتی ہے، مجاز سے حقیقت کی طرف ترقی نفوس عالیہ میں اسی اندازکی ہوتی ہے۔ عشق کی اس حالت میں کائنات کی ہر چیز زندہ اور حسن و عشق سے مرتعش معلوم ہوتی ہے، احترام حیات، احترام کائنات بن جاتا ہے۔ میر درد کا یہ شعر اسی لطیف احساس کو بیان کرتا ہے: آہستہ سے چل میان کوہسار ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے آتے ہیں مری نظر میں سب خوب جو عیب ہے پردۂ ہنر ہے غالب کے ہاں بھی بعض اشعار ملتے ہیں جن میں کائنات کے تمام ذرے نفوس اور عشاق کے قلوب دکھائی دیتے ہیں: ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے دیدۂ مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا از مہر تا بہ ذرہ، دل و دل ھے آئنہ طوطی کوشش جہت میں مقابل ہے آئنہ اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز بہ رہ تو روئے نیست در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری کے بعض پہلوؤں میں غالب اور اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے، لیکن اقبال کے کلام میں اور بھی بہت کچھ ہے جو غالب میں نہیں مل سکتا اور اگر کہیں ملتا ہے تو وہ تفکر اور تاثر کی ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو تلاطم خیز نہیں ہو سکتی، یا تخیل کی پرواز ہوتی ہے جو شاخ سدرہ تک نہیں پہنچتی۔ اقبال داغ کی تقلید سے تو بہت جلد گزر گیا لیکن غالب کا اثر زیادہ دیر پا تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کا وہ کلام جس میں غالب کا انداز تخیل تھا بانگ درا میں شامل نہیں کیا گیا، جس طرح کہ غالب نے وہ اشعار اردو دیوان میں شامل نہیں کیے تھے جن میں بیدل کے پیچ در پیچ تخیلات کی بھول بھلیاں تھیں۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں انہوں نے جو نظمیں پڑھیں ان میں جا بجا غالب کا انداز تخیل اور اسلوب بیان پایا جاتا ہے۔ الفاظ، بندشیں، ترکیبیں، اضافتیں غالب سے بہت کچھ مماثل معلوم ہوتی ہیں:ـ نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری یا نالہ یتیم کا یہ بند جو ۱۸۹۹ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی: آمد بوے نسیم گلشن رشک رام ہو نہ مرہون سماعت جس کی آواز قدم لت رقص شعاع آفتاب صبحدم یا صداے نغمہ مرغ سحر کا زیر و بم رنگ کچھ شہر خموشاں میں جما سکتے نہیں خفتگان کنج مرقد کو جگا سکتے نہیں حضرت اقبال آخر تک غالب کے مداح رہے اور وہ اس لیے کہ وہ بھی اقبال کی طرح ایک مفکر شاعر تھا، روایتی اور تقلیدی شاعری کے پیچ میں وہ عرفی کی طرح یا فیضی کی طرح بلند حکیمانہ باتیں کہہ جاتا، اقبال جیسے کائناتی عشق کی تڑپ اس میں بھی کہیں کہیں ملتی ہے، اگرچہ وہ آخر تک سفلی اور علوی جذبات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اپنی آرزوؤں میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکا، اس کی آخر تک یہی کیفیت رہی: ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی عبارت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا اقبال کے لیے بھی حیات، عشق و شوق و آرزو ہے لیکن وہ بہت جلد اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کر گیا اور وحدت نظریہ حیات کی آرزوؤں کی کثرت میں بھی وحدت پیدا کر دی۔ اضطراب تمنا کے باوجود اس کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس قدم جادۂ حقیقت پر ہے۔ غالب کے ہاں بھی آرزو کی نفسیات اور اس کا گہرا فلسفہ جا بجا ملتا ہے۔ ایک شعر جو اس کے منتخب دیوان میں درج نہیں لیکن بھوپال والے نسخے میں موجود ہے، ایسا کہا گیا ہے کہ اقبال بھی اس پر وجد کرنے لگے۔ اقبال نے اپنا یہ خیال کئی اشعار میں بیان کیا ہے کہ عالم آزروئے حیات ہی کی پیداوار اور تمنائے وجود کا مظہر ہے۔ یہ نبات و جماد و نجوم کا جہان کا مخلوقات نہیں او رنہ ہی آخر تک کا کوئی ایک معین عالم ہے۔ خلاق فطرت کے ضمیر میں لامتناہی عالم مضمر ہیں اور انسان کی خودی بھی اسی لامتناہی تمنائے حیات سے بہرہ اندوز ہو کر کئی اور عوالم پیدا کر سکتی اور کئی دیگر عوالم میں قدم رکھ سکتی ہے، جس کا کوئی وہم و گمان انسان کو موجودہ حالت میں نہیں ہو سکتا۔ دیکھیے اسی خیال کو غالب نے کس بلیغ انداز میں پیش کیا ہیـ: ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا غالب کی اسی انداز کیش اعری تھی جس سے اقبال متاثر ہوا، لیکن غالب میں اسی انداز کا جو تفکر و تخیل ہے وہ اقبال میں نہایت درجہ ا رتقا یافتہ صورت میں ملتا ہے۔ پھولوں کے رنگ و بو میں مماثلت ہے لیکن غالب کے ہاں کے گلدستے اقبال کے کلام میں سدا بہار گلزار بن گئے ہیں۔ اقبال کی شاعری میں ابتدائی دور میں جو محرکات و اثرات نظر آتے ہیں وہ گوناگوں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے مغربی انداز فکر نے اچھے نتائج پیدا کیے ہیں، کئی نظمیں انگریزی شعراء کے ترجمے میں لیکن ترجمے ایسے ہیں کہ ترجمے معلوم نہیں ہوتے۔ کسی زبان کی نظم نفسیات میں غوطہ لگا سکے، اس کے خم میں اپنا ساغر ڈبونے اور پھر اس کو اپنے کوثر میں ڈال کر نکالے: راہے ز کنج دیر بہ مینو کشودہ ام از خم کشم پیالہ و در کوثر افگنم انگریزی زبان میں شیلے جیسے شاعر نے بھی گوئٹے کی بعض نظموں کے ترجمے کیے ہیں اور لانگ فیلو کے کلیات میں بھی گوئٹے کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعراء کے بعض شاہکاروں کے ترجمے ملتے ہیں، اور یہ سب ترجمے ایسے ہیں جو شاعری میں ایک مستقل حیثیت بھی رکھتے ہیں، ان میں دو اعلیٰ درجے کے شاعروں کی طبیعتوں کے دو ساز ہم آہنگ ہو کر بجتے ہیں جس سے نغمے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ فٹنر جیرالڈ کا عمر خیام کی رباعیوں کا ترجمہ انگریزی شاعری میں ادب عالیہ میں داخل ہو گیا ہے۔ اقبال کے ہاں ترجمے زیادہ نہیں ملتے لیکن جتنے بھی ہیں نہایت روانا اور سلیس ہیں، جہانصرف فکر کے سانچے لیے ہیں ان کو بھی بڑی خوبی سے اپنایا ہے۔ داغ کے مرثیے کا آغاز بعنیہ و یسا ہے جیسا کہ میتھیو آرنلڈ کے ورڈز ورتھ کے مرثیے کا ہے، جہاں وہ دو تین اور تازہ مرحوم شاعروں کی نوحہ گری کے بعد کہتا ہے کہ آج ہم ورڈز ورتھ کی قبر پر کھڑے ہیںـ: عظمت غالب ہے اک مدت سے پیوند زمیں مہدی مجروح ہے شہر خموشاں کا مکیں توڑ ڈالی موت نے غربت میں میناے امیر چشم محفل میں ہے اب تک کیف صہباے امیر آج لیکن ہم نوا سارا چمن ماتم میں ہے شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے اسی طرح گرے کی مشہور ایلیجی نظم کا ایک بند ہے جس میں زندگی کی گہما گہمی اور ہنگامہ و شورش کو بیان کر کے کہتا ہے کہ شہر خموشاں کے سونے والوں کو اب کسی قسم کا ہنگامہ خواب سے بیدار نہیں کر سکتا۔ اقبال نے اس کو اس طرح ڈھالا ہے: شورش بزم طرب کیا عود کی تقریر کیا درد مندان جہاں کا نالہ شب گیر کیا خون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں مغربی شاعری کے اثر کے علاوہ بہت کچھ روایتی تصوف اور وحدت وجود بھی موجود ہے۔ شمع کے عنوان سے ایک متصوفانہ اور فلسفیانہ نظم لکھی ہے: یک بین تری نظر صفت عاشقان راز میری نگاہ مایہ آشوب امتیاز کعبے میں، بتکدے میں ہے یکساں تری ضیا میں امتیاز دیر و حرم میں پھنسا ہوا ہاں آشناے لب نہ ہو راز کہن کہیں پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں جگنو والی نظم اردو شاعری کا ایک شاہکار ہے، اس کے پہلے بند میں جگنو کے متعلق نادر تشبیہات ملتی ہیں۔ یہ اپنے اندر سے روشنی پیدا کرنے والا چھوٹا سا کرمک شب تاب آخر تک اقبال کے لیے روح انسانی کی نور طلبی اور نور آفرینی کی تمثیل اور علامت بنا رہا۔ فارسی میں بھی جگنو پر اقبال نے بڑے دلکش اشعار لکھے ہیں۔ اردو کی یہی نظم دوسرے بند میں وحدت و کثرت کا مضمون بن گئی ہے اور تیسرے بند میں فطرت کی بو قلمونی میں وحدت وجود نمایاں ہو گئی ہے: جسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انساں میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوے بلبل بو پھول کی چہک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو؟ ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو ۱۹۰۵ء سے پہلے کا اقبال آٹھ دس برس کے قلیل عرصے میں تمام اردو داں ہندوستان میں مقبول خاص و عام ہو گیا۔ اس سریع السیر شہرت کے کئی اسباب تھے، ایک یہ کہ غالب کے بعد سے اردو زبان نے کوئی مفکر شاعر پیدا نہ کیا تھا جس میں ہوس کی غزل سرائی اور محض قافیہ بندی اور دور از حقیقت مضمون آفرینی اور ادنیٰ درجے کے فن برائے فن سے پوری طرح رو گردانی کر کے ایک شاعر قلب انسانی کی آواز اور فطرت کے دل کی دھڑکن بن گیا ہو اور جس کی طبیعت میں وطن و ملت اور انسانی زندگی کے حقیقی اور ابدی مسائل پر سوز اظہار کے لیے بیتاب ہوں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان کے تعلیم یافتہ طبقے میں بیداری، غلامی سے بیزاری اور آزادی کی طلب انگڑائیاں لینے لگی تھی، یہ طلب انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب سے تصادم کا نتیجہ تھی، نئے تعلیم یافتہ گروہ نے دیکھا کہ انگریزوں نے اور مغرب کی دیگر اقوام نے حب الوطنی اور وطن پرستی کے جذبے سے ترقی کی ہے، کیا وجہ ہے کہ یہ قومیں آزاد ہیں اور ہم غلام ہیں؟ آؤ ہم بھی وہی جذبہ پیدا کریں اور ان کی طرح آزاد اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں، لیکن اس مسئلے کا حل اتنا آسان نہیں تھا، ہندوستان ایک وسیع ملک بلکہ ایک بر کبیر تھا جس میں مختلف مذاہب رکھنے والے او رمختلف طریق معاشرت پر زندگی بسر کرنے والے ایک دوسرے سے متغائر گروہ اور ملتیں موجود تھیں، انگلستان کی طرح یہاں ایک قوم ایک مذہب اور ایک زبان سے مربوط و منسلک ملت ناپید تھی اور مغرب کے انداز کا وطن کا تصور اور اس کے ساتھ وابستہ جذبہ یہاں تاریخ کے کسی دور میں بھی موجود نہ تھا، مغربی اقوام نے اپنے لیے جو حل تلاش کیا تھا وہ یہاں قابل اطلاق نہ تھا، یہاں صرف ہندو اور مسلمان ہی دو مختلف العقائد اور مختلف المعاشرت گروہ نہ تھے، ہندوؤں میں سینکڑوں مذہبی فرقے موجود تھے اور کوئی عقیدہ بھی ایسا نہ تھا جو ان سب میں مشترک ہو۔ تمام ہندوستان کا بحیثیت وطن کوئی ایک نام بھی نہ تھا، یہاں تک کہ ہندو مذہب کا بھی کوئی نام نہ تھا۔ ہندوستان اور ہندو کے الفاظ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے وضع کردہ ہیں، دریائے سندھ کو ہند کہہ کر یہ اصطلاحیں وضع ہوئی تھیں، مسلمانوں میں دینی اور لسانی وحدت بہت زیادہ موجود تھی اور اس لحاظ سے تمام ملک کے مسلمان ایک قوم یا ملت کہلا سکتے تھے لیکن مذہبی تنگ نظری نے یہاں بھی فرقے بنا رکھے تھے جو ملت کے اندر کوئی پائدار وحدت پیدا کرنے میں مانع تھے۔ اس قسم کا انتشار غیر ملکی ملوکیت کو بہت راس آتا ہے، ملوکیت ہمیشہ اقوام کے تفرقے سے فائدہ اٹھا کر غلامی کا جو ان کی گردن پر رکھتی رہی ہے۔ انگریزوں کو اس ملک میں تفرقہ اندازی کی ضرورت نہ تھی کیوں کہ یہاں ہزاروں برس سے انسانی گروہوں کے درمیان ناقابل عبور خلیجیں حائل تھیں، ایسی حالت میں غیر ملکی حکومت اور استحصال کرنے والی ملوکیت سے نجات ہو تو کس طرح ہو۔ آزادی طلب نوجوانوں کی سمجھ میں پہلے یہی بات آئی کہ ہم بھی انگریزوں کی طرح ایک قوم بن جائیں اور تمام ملک کو اپنا وطن قرار دے کر اس کے متعلق جذبہ وطنیت کو ابھاریں، مذہبی اختلافات کو غیر اصلی قرار دیا جائے اور وطن کی عظمت کے گیت گائے جائیں تاکہ غیر ملکی حکومت نے جو احساس کمتری پیدا کر دیا ہے اس کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہو، پرانے دیوتاؤں کی پوجا کو باطل قرار دے کر وطن کے بڑے بت کی پوجا کی جائے۔ اسی حال اور اسی جذبے کے ماتحت نوجوان اقبال کا حساس قلب وطن کے ترانے گانے لگا۔ چونکہ ہندو قوم کا وطن اور اس کا مذہب گوناگوئی کے باوجود باہم وابستہ ہیں، اس لیے وطن پرستی کی تحریک ہندوؤں میں مسلمانوں سے قبل پیدا ہوئی، لیکن ہندو قوم کوئی ایسا شاعر پیدا نہ کر سکی جو اس کے اس جذبے کو ابھار سکے اور اس کے قلوب کو گرما سکے۔ ہندو قوم کے پاس وطنیت کا کوئی ترانہ موجود نہیں تھا۔ اقبال نے جب اپنے شاعرانہ کمال کو وطنیت کی خدمت کے لیے وقف کیا تو مسلمانوں کے علاوہ، بلکہ ان سے زیادہ ہندو اس سے متاثر ہوئے:ـ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ملک کے طول و عرض میں گونجنے لگا، بعض ہندو مدارس میں مدرسہ شروع ہونے سے قبل تمام طالب علم اس کو ایک کورس میں گاتے تھے۔ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے وقت آزاد ہندوستان کی تاسیس میں نصف شب کے بعد آزادی کی شراب سے سرشار ہندوؤں نے جناگن کس ساتھ ساتھ یہی ترانہ گایا اور یہ بات بھول گئے کہ یہ ترانہ پاکستان کے نظریاتی بانی کا لکھا ہوا ہے۔ گاندھی جی کی راکھ جب گنگا جی میں ڈالی جا رہی تھی تو دیوان چمن لعل اردو میں ریڈیو پر ’’ رواں بیاں‘‘ کر رہے تھے اور یہ شعر نشرکر رہے تھے: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا یہ ایک جملہ معترضہ تھا، یہاں فقط یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہندوستان میں وطنیت کے جذبے کو جس شاعر نے پہلے گرمایا وہ اقبال باکمال تھے۔ ہندوستان اگر ایک وطن اور ایک قوم بن سکتا تو اقبال کا وطنیت کا کلام اس کے لیے الہامی صحیفہ ہوتا۔ لیکن ملک کے حالات ایسے تھے کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ یورپ سے واپس ہونے کے بعد اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندوستان ایک مختلف الملل بر اعظم ہے، اس کے مسائل کا حل مغربی انداز کی جمہوریت نہیں بلکہ ایک نظام سیاست ہے جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق زندگی بسر کرنے کا موقع حاصل ہو اور ملک کے جس حصے میں جس قوم کی اکثریت ہے اس کو وہاں کامل دینی اور معاشرتی آزادی حاصل ہو۔ کوئی ملت دوسری ملت پر ناجائز غلبہ حاصل نہ کر سکے اور عادلانہ طور پر فیڈریشن کا انتظام ہو سکے۔ پاکستان کا مطالبہ اقبال نے سب سے پہلے اسی انداز میں پیش کیا۔ اس سیاسی ادھیڑ بن سے بہت پہلے ہی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق اقبال کے خیالات میں ایک تغیر عظیم واقع ہوا تھا، اقبال نے مغرب میں جغرافیائی، نسلی اور لسانی قومیت کے تاریک پہلو کا بھی بغور مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی انداز کی نیشنلزم انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان مصنوعی ملتوں کو ایک دوسرے کی جانی دشمن بنا رہی ہے، یہ تنازع للبقا کی بھیانک صورت ہے، علوم و فنون اور جذبہ وطنیت نے ان قوموں میں جو قوتیں پیدا کر دی بینان کا انجام یہی ہو گا کہ کمزور قوموں کو لوٹنے اور مغلوب کرنے میں ان کی سعی مسابقت سب کو ایک عالم گیر جنگ میں جھونک دے۔ جنگ عظیم سے کوئی پچاس سال قبل انگلستان کے ایک دیدہ ور اور عارف ادیب نے پیش گوئی کی تھی کہ اگر انگلستان اسی روش پر گامزن رہا تو کوئی نصف صدی کے عرصے میں اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد میں نے ایک روز علامہ اقبال سے کار لائل کی اس پیش گوئی اور اس کے پورا ہونے کا ذکر کیا تو فرمایا کہ کار لائل بڑی گہری روحانی بصیرت کا شخص تھا، اپنی قوم کی معاشرت اور سیاست کے رخ کو دیکھ کر اس کا یہ پیش گوئی کرنا کوئی تعجب خیز بات نہیں۔ اقبال اس نتیجے پر پہنچے کہ جغرافیائی، نسلی، لسانی معاشیاتی وحدت مصنوعی چیز ہے، اصلی وحدت فکری اور نظریاتی وحدت ہے، اس لحاظ سے تمام دنیا کے مسلمان ایک وحدت ہیں۔ وطن کی محبت ایک فطری اور لازمی چیز ہے، چنانچہ وطنیت کے خلاف جہاد کرنے کے بعد بھی یہ جذبہ ان میں موجود تھا لیکن حب وطن، وطن پرستی سے الگ چیز ہے، اس وطن پرستی سے لوگوں نے وطن کو معبود بنا لیا ہے اور اس جھوٹے معبود کے مذبح پر انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال کہ آخری دور میں وطن کی محبت اقبال کے دل سے نکل گئی تھی بالکل باطل ہے۔ ہندوستان اور اس کے رہنے والوں سے اس کا رشتہ قلبی آخر تک نہیں ٹوٹا، اقبال ہندوستان کی زبوں حالی اور غلامی پر آخر تک آنسو بہاتا رہا اور اس ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کا عالم عقبیٰ میں کیا حشر ہوا، اس کا نقشہ اقبال نے جاوید نامہ میں کس قدر بھیانک کھینچا ہے: ’’ ارواح رذیلہ کہ با ملک و ملت غداری کردہ و دوزخ ایشاں را قبول نکردہ‘‘ ان ارواح خبیثہ کو ایسے سیارے میں پھینکا ہے جس کی عقوبت کا یہ حال ہے کہ: صد ہزار افرشتہ تندر بدست قہر حق را قاسم از روز الست درہ پیہم می زند سیارہ را از مدارش بر کند سیارہ را منزل ارواح بے یوم النشور دوزخ از احراق شاں آمد نفور جعفر از بنگال و صادق از دکن تنگ آدم تنگ دیں تنگ وطن اور دیکھئے ہندوستان کی عرفانی عظمت کس قدر اقبال کے دل میں جا گزیں ہے، فرماتے ہیں: می ندانی خطہ ہندوستان آں عزیز خاطر صاحبدلاں خط ہر جلوہ اش گیتی فروز درمیان خاک و خوں غلطد ہنوز اقبال کشمیری الاصل تھے، ان کے اجداد کشمیر سے ترک وطن کر کے پنجاب میں سیالکوٹ کے شہر میں آباد ہو گئے تھے لیکن عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی کشمیر سے ان کی والہانہ محبت کبھی کبھی ان سے نہایت جذباتی اشعار نکلواتی تھی۔ وہ ابھی تک اپنے کالبد خاکی کو کشمیر ہی کی گلزار آفریں خاک کا پتلا سمجھتے تھے: تم کلے ز خیابان جنت کشمیر دل از حریم حجاز و نوا ز شیراز است زندگی کے تمام ادوار میں کشمیر اور اہل کشمیر سے اقبال کی محبت، اور ان کی غلامی اور کس مپرسی پر اقبال کی جگر کاہی مسلسل قائم رہی۔ ارمغان حجاز میں ملا زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض اقبال کا اپنا بیاض قلب ہے، اس میں کشمیر کے متعلق اقبال کا جذبہ اور اضطراب اس کے فلسفہ حیات کی آمیزش سے نہایت درد و گداز کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ اگرچہ اقبال جاہلانہ اور متعصبانہ وطن پرستی کے خلاف آواز بلند کرتا ہوا کہتا ہے کہ: پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعان تیرا لیکن وہ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو کشمیر ہی کے کنعان کا گم گشتہ یوسف سمجھتا تھا: پانی ترے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بیتاب اے وادی لولاب اقبال کو اس جنت میں چشموں اور مرغان سحر کی نواؤں میں بھی تڑپ محسوس ہوتی ہے، لیکن اس خطے کے جلوہ گران منبر و محراب کے قلوب میں اس کو کوئی ہنگامہ نظر نہیں آتا۔ یہاں کے ملا و صوفی کے لیے دین فقط افیون بن کر رہ گیا ہے: گر صاحب ہنگامہ نہ ہو منبر و محراب دیں بندۂ مومن کے لیے مومن ہے یا خواب اے وادی لولاب ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مے ناب اے وادی لولاب اس کے دل میں یہ تمنا شعلہ فگن ہے کہ یہ خطہ کوئی درویش قائد پیدا کرے جو حضرت موسیٰ ؑ کی طرح اس قوم کو غلامی سے نجات دلوائے: بیدار ہوں دل جس کی فغان سحری سے اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہے نایاب اے وادی لولاب دیکھئے اپنے آبائی وطن کی حالت پر وہ کیسی درد ناک اور حسرت انگیز آہیں کھینچتا ہے: آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امیر کہ رہا ہے داستان بیدردی ایام کی کوہ کے دامن میں وہ غم خانہ دہقان پیر آہ یہ قوم نجیب و چرب دست و تر دماغ ہے کہاں روز مکافات اے خداے دیر گیر ملک خدا اور انسانوں کو مال تجارت سمجھ کر خریدنا بیچنا ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاجرانہ ملوکیت میں جائز تھا، چنانچہ کمپنی کو جب روپے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ایک کروڑ روپے سے کم میں کشمیر اور اہل کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرے کے ہاتھ بیچ دیا: دہقان و کشت و جوے و خیابان فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند کشمیر پر اقبال کی عاشقانہ غزل کیسی وجد انگیز ہے: رخت بہ کاشمر کشا کوہ و تل و دمن نگر سبزہ جہاں جہاں ببیں لالہ چمن چمن نگر باد بہار موج موج مرغ بہار فوج فوج صلصل و صار زوج زوج بر سر نارون نگر ہندوستان کی روحانیت نے جو برگزیدہ انسان پیدا کیے ہیں اقبال نے ان پر نہایت خلوص، فراخ دلی اور وسیع المشربی سے نظمیں لکھی ہیں۔ ہندوستانی بچوں کے قومی گیت مینوہ پہلے ہی شعر کے دو مصرعوں میں چشتی علیہ الرحمتہ اور نانک دونوں کو پیامبران توحید و حق قرار دے کر کہتے ہیں: چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے بابا گرونانک پر اقبال کی یک مستقل نظم بھی ہے جو اس وقت کہی گئی ہے جب وہ زیادہ تر اسلامی نظمیں لکھ رہے تھے۔ اس نظم کے پہلے شعر میں گوتم بدھ کو بھی پیغمبر قرار دیا ہے: قوم نے پیغام گوتم کی ذرا پروا نہ کی قدر پہچانی نہ اپنے گوہر یک دانہ کی بابا گرونانک کی شان میں کہتے ہیں: بتکدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا نور ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے بانگ درا میں نہایت خلوص کے ساتھ شری رام چندر جی کی توصیف میں کچھ اشعار لکھے ہیں۔ ہندو تو مبالغہ کر کے اس برگزیدہ انسان کو اوتار مانتے ہیں، جیسے حضرت مسیح کو بلند پایہ پیغمبر کی بجائے عیسائیوں نے خداے مجسم سمجھ لیا، لیکن اقبال ان کو ہندوستان کا امام یا پیغمبر تسلیم کرتے ہیں۔ ہندوستان نے مختلف زمانوں میں نہایت عمیق الفکر مفکر اور صاف باطن پیدا کیے ہیں۔ اقبال نہایت فراخدلی اور وسیع المشربی سے اس کا اقرار کرتا ہے۔ اس کا دل نہ ہندوستان سے برداشتہ ہے اور نہ وہ ہندو قوم سے نفرت کرتا یا اس کی تحقیر کرتا ہے۔ بلند پایہ نفوس کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کے مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کریں اور اپنی متعصبانہ ملت پرستی میں دوسری ملتوں کے دینی اور تہذیبی کارناموں کی داد نہ دیں: لبریز ہے شراب حقیقت سے جام ہند سب فلسفی ہیں خطہ مغرب کے رام ہند یہ ہندیوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر رفعت میں آسماں سے بھی اونچا ہے بام ہند اس دیس میں ہوئے ہیں ہزاروں ملک سرشت مشہور جن کے دم سے ہے دنیا میں نام ہند ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز اہل نظر سمجھتے ہیں اس کو امام ہند اعجاز اس چراغ ہدایت کا ہے یہی روشن تر از سحر ہے زمانے میں شام ہند تلوار کا دہنی تھا شجاعت میں فرد تھا پاکیزگی میں جوش محبت میں فرد تھا پنجاب کے مشہور ہندو صوفی سوامی رام تیرتھ، اقبال کے ہم عصر اور لاہور کالج میں پروفیسر تھے، انہوں نے تزکیہ قلب سے عالم روحانی میں ایک بلند مقام حاصل کر لیا تھا، پنجاب والے اور تمام اہل ہند ان کی روحانیت سے متاثر ہوئے، وہ اچھے اہل قلم بھی تھے، ان کی وفات دریا میں غرق ہونے سے واقع ہوئی۔ اقبال نے اس اہل دل پر بھی بہت اچھے اشعار کہے جو بانگ درا میں درج ہیں: ہم بغل دریا سے ہے اے قطرۂ بیتاب تو پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا ٭٭٭ دوسرا باب اقبال کی شاعری کی پہلی منزل ۱۹۰۵ء تک کے کلام پر اعادۂ نظر یہ کلام کوئی تیس سال کی عمر تک کا کلام ہے۔ اقبال کی شہرت اس سن تک عام ہو گئی تھی، ادیبوں اور شاعروں کو نظر آنے لگا تھا کہ شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے جس کے انداز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر مہتاب و آفتاب بننے والا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبال نے ایک طویل نظم پڑھی جس کے ہر شعر میں فکر و تخیل کا انوکھا پن تھا۔ مولانا شبلی وہاں موجود تھے، انہوں نے داد دیتے ہوئے فرمایا کہ جب حالی اور آزاد کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبال کو ڈھونڈیں گے۔ آزاد نثر میں سحر نگار تھا مگر شاعری میں اس کا مرتبہ بہت بلند بہ تھا، لیکن حالی اپنی شاعری میں صاحب طرز تھے، سہل ممتع میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ ورڈز ورتھ کی طرح سادگی کو موثر بنانا اسی شاعر کا کام ہے جسے فطرت نے خاص جوہر عطا کیا ہو۔ قومی شاعری کی داغ بیل بھی حالی نے ڈالی لیکن مسلمانوں کی حیات ملی میں وہ زمانہ ہی ایسا تھا کہ قومی شاعری زیادہ تر قوم کا ماتم ہی تھی۔ سلطنت مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکی تھی، ان کے علوم و فنون میں فرسودگی پیدا ہو گئی تھی، حامیان دین، اسلام کے نادان دوست تھے اور عصر حاضر کے تقاضوں سے غافل تھے، مسلمانوں کے پاس نہ دولت دنیا رہی اور نہ دولت دین اس لیے حالی کی اکثر نظموں میں افسردگی زیادہ پائی جاتی ہے: سینہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہا ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا علاج کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا اس لیے حالی کہتا ہے کہ بس اب دعا کرنی چاہیے اور سوچتا ہے کہ ہماری دعا سے بھی کیا ہو گا، رسول کریم رحمتہ للعالمین ؐ سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے: اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے حالی اور آزاد کے علاوہ باقی دلی اور لکھنو، آگرہ اور اودھ کے شعراء ابھی تک تغزل میں پرانی لکیریں پیٹ رہے تھے اور چچوڑی ہوئی ہڈیوں کو برابر چوستے جاتے تھے۔ یہ شاعری کیا تھی؟ قافیہ پیمائی کی بیہودہ مشق اور جھوٹا تفاخر: جناب داغ کے داماد ہیں اور دلی والے ہیں اقبال نے اس وقت زندہ شاعری شروع کی جتب باقی سب غزل گو یوں ہی جگالی کر رہے تھے یہ شعراء حالی پر بھی معترض تھے کیوں کہ اس کی قوی اور فطری شاعری میں ان کو کوئی چٹخارا نظر نہیں آتا تھا۔ اردو زبان کا اجارہ چند شہروں اور ان شہروں میں بھی چند خاندانوں اور چند محلوں کے پاس تھا۔ حالی کو اس لیے مستند نہیں سمجھتے تھے کہ اس کا وطن پانی پت تھا جہاں کی زبان ٹکسالی نہیں۔ حالی نے جل کر کہا: حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو جب حالی کے ساتھ یہ سلوک تھا، لاہور یا سیالکوٹ میں پیدا ہونے والا کس شمار و قطار میں تھا لیکن خدا کی قدرت ہے کہ اردو کے تمام شعراء میں سب سے بڑا شاعر وہاں پیدا ہواں جہاں گھر میں پنجابی بولی جاتی ہے۔ ٹکسالی زبان کے مدعیان نے شروع میں اقبال پر بھی زبان و محاورے کے بارے میں نکتہ چینی شروع کی لیکن اقبال بے پروا ہو کر اپنے مخصوص جادۂ فن پر گامزن رہا۔ جو لوگ شعر کی حیثیت سے واقف تھے ان کے دلوں پر اقبال کا سکہ بیٹھا رہا، داغ اور امیر مینائی کا مقابلہ اور موازنہ ابھی جاری تھا اور وہ اپنے فن میں اظہار کمال کر رہے تھے کہ اقبال کا شہرہ تمام ہندوستان میں سنائی دینے لگا جس کی شاعری کا موضوع اس کے انداز تفکر و تخیل اساتذہ متقدمین و متاخرین سے بھی الگ تھا اور معاصرین میں سے بھی کوئی شاعر اس انداز کی نظمیں نہ کہہ سکتا تھا۔ اقبال میں حالی کی حقیقت شناسی اور خلوص، غالب کے تخیل کے ساتھ ہم آغوش ہو گیا، جذبہ وطنیت اور درد ملت کے ساتھ ساتھ گہرے فلسفیانہ مضامین و حکیمانہ افکار اور صوفیانہ وجدانات، اثر انگیز شاعری کا جامہ پہن کر عالم ادب میں جلوہ افروز ہوئے۔ یہ تمام عناصر اور صفات اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری میں بھی موجود ہیں، فن کے لحاظ سے شروع ہی سے اس صاحب کمال میں ایک پختگی نظر آتی ہے، مصلحانہ اور مبلغانہ انداز کی جھلک اس دور میں بھی موجود ہے لیکن ابھی مدہم ہے، حسن و عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں، ان میں عشق مجازی بھی ہے اور عشق حقیقی بھی لیکن عشق کے متعلق وہ نادر جذبات اور خیالات نہیں جو ارتقاء کی آخری منزل میں بڑے سوز و گداز اور بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ خودی کا مضمون جو اقبال کے خاص نظریہ حیات کی پیداوار ہے۔ اس دور کی شاعری میں بہت کم نظر آتا ہے، حب وطن کے بڑے دل نواز اور دل گداز گیت اس میں موجود ہیں چونکہ ابھی تک اصلاح ملت اور تبلیغ کو اقبال نے اپنا وظیفہ حیات قرار نہیں دیا تھا اس لیے اس کے متعلق بھی نظمیں اور اشعار ڈھونڈے سے ہی ملتے ہیں۔ ان نظموں میں زندگی کے ہر پہلو سے متاثر ہونے والا شاعر ملتا ہے، اس کی شاعری کے موضوع ابھی محدود نہیں ہوئے لیکن بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو فلسفیانہ افکار سے خالی ہوں۔ اقبال کے کلام میں شاعری اور حکمت شروع ہی سے توام نظر آتی ہیں لیکن کہیں بھی خالی فلسفہ شعریت پر غالب نہیں آیا۔ بعد میں آنے والے اقبال کے تمام عناصر اس دور میں بھی موجود ہیں مگر ان کی تکمیل مزید ارتقاء کی طالب تھی، لیکن اس دور کی شاعری کے کچھ موضوع ایسے ہیں جو بعد میں قریباً غائب ہو گئے ہیں او ران کی کہیں کہیں ہلکی جھلکیاں رہ گئی ہیں جغرافیائی وطنیت کا جذبہ جو پہلے دور میں موجود ہے آگے چل کر ساقط ہو جائے گا، عشق مجازی کی لہریں جو اس میں موجود ہیں وہ یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں بھی دکھائی دیں گی، لیکن حکمت و وجدان اور درد ملت کی فراوانی سے بعد میں ناپید ہو جائیں گی، عشق ایک لا محدود جذبہ حیات اور خودی پروردگار بن جائے گا۔ اس دور کی شاعری میں کچھ روایتی تصوف بھی ہے جو بعد میں چل کر اقبال کے اجتہادی تصوف میں بدل جائے گا۔ اسلامیات کا عنصر ابھی نمایاں نہیں، وسیع المشربی کی طرف میلان زیادہ ہے، شاعر ابھی کسی پختہ یقین پر نہیں پہنچا، ابھی راز حیات کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ابھی تک یقین و گمان کی آویزش سے نہیں نکلا، زندوں سے جواب نہیں ملتا تو خفتگان خاک سے استفسار کرتا ہے ایک مولوی صاحب نے جو اس کے متعلق اعتراضات کیے ہیں کہ تو صوفی بھی معلوم ہوتا ہے اور رند بھی، مسلمان ہے مگر ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ کسی قدر شیعہ اور تفضیلی بھی دکھائی دیتا ہے، راگ کو بھی داخل عبادت سمجھتا ہے اور اکثر شعراء کی طرح تجھے حسن فروشوں سے بھی عار نہیں، رات کو محفل رقص و سرود میں شامل ہوتا ہے اور صبح کے وقت خشوع و خضوع سے تلاوت بھی کرتا ہے، مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ اس مجموعہ اضداد کی سیرت ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس سب کے جواب میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس زمانے میں اقبال کی طبیعت کا صحیح نقشہ ہے۔ یہ وہ دور ہے کہ اقبال کے لیے زندگی ایک معما ہے، گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقت کی تہ کو نہیں پہنچتے، کنہ حیات کا انکشاف نہیں ہوتا، وہ ابھی اپنے تئیں دانائے راز نہیں سمجھتا اس لیے کسی صداقت کی تبلیغ کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا:ـ میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا گہرا ہے مرے بحر خیالات کا پانی مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے اس دور میں اقبال کو یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ درجے کا شاعر ہے اور وہ شاعر ہونے پر فخر کرتا ہے، یہ وہ اقبال نہیں جو آخر میں ان لوگوں کو بد دعائیں دینے لگا جو اس کو فقط شاعر سمجھیں، وہ اپنی قسم کے اچھے شاعر کو قوم کی آنکھ سمجھتا ہے جو بینا بھی ہے اور درد ملت سے اشک ریز بھی: قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضاے قوم منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دشت و پاے قوم محفل نظم حکومت چہرۂ زیبائے قوم شاعر رنگین نوا ہے دیدۂ بینائے قوم مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ یورپ کی عمل پیرا زندگی کو دیکھ کر اسے شاعری کی افادیت پر شک پیدا ہو گیا۔ فرنگ کی تہذیب اور تمدنی جدوجہد، علوم و فنون کے فروغ اور سائنس کی تسخیر فطرت میں اسے شاعری کا کوئی مقام دکھائی نہیں دیتا اور اپنے سخن شناس دوست شیخ عبدالقادر سے اس خیال کا اظہار کیا کہ شاعری کو ترک کر دیا جائیـ: مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے ہو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے لیکن کچھ شیخ صاحب کی ترغیب سے اور کچھ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے مشورے سے وہ ترک شعر کے ارادے سے باز آ جاتا ہے اور پھر اس کو احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ فقط شمشیر اور عالم فطرت کی تسخیر ہی سے نہیں بلکہ تقریر اور شعر کی تاثیر سے بھی فتوحات حاصل کی جاتی ہیں، اچھی شاعری سے دلوں کو مسخر کر سکتے اور قوم کے اندھیرے میں اجالا کر سکتے ہیں: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں شیخ صاحب کو دعوت دیتے ہوئے اقبال نے جو کچھ کہا اور جو ارادہ کیا اس کو پورا کر دکھایا: اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں اقبال نے شاعری کا رخ بدل کر قوم کے لیے بیداری اور خود داری کا سامان پیدا کر دیا۔ ٭٭٭ تیسرا باب ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک یہ زمانہ اقبال کے قیام فرنگ کا زمانہ ہے۔ یورپ کا سفر مختلف قسم کے انسان مختلف اغراض اور محرکات کی وجہ سے کرتے ہیں، کوئی سیر و تفریح کی خاطر جاتا ہے، کوئی تجارت کی غرض سے، کوئی علوم و فنون کے حصول کے لیے اور کوئی جدید تہذیب و تمدن کا جلوہ دیکھنا چاہتا ہے۔ بقول اکبر الٰہ آبادی: سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے وہ دیکھیں گے خدا کو ہم خدا کی شان دیکھیں گے اقبال نے روانگی کے وقت فقط اس مقصد کا اظہار کیا کہ وہ حصول علم کی خاطر ادھر کا رخ کر رہا ہے: چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو وہاں ایک عرصہ رہ کر اور اس شراب کے نشے کا تجربہ کر چکنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس نشے میں سوز و گداز کی کیفیت نہیں اور وہ غم عشق نہیں جس سے روح اپنی غذا حاصل کرتی ہے: پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے اقبال اساسی طور پر ایک مشرقی انسان تھا، وہ مشرقی روحانیت کا دلدادہ تھا، تمام مذہب عالیہ مشرق ہی کے مختلف خطوں میں پیدا ہوئے ہیں، مشرق ہمیشہ سے ادیان کا گہوارہ اور روحانیت کا سرچشمہ رہا ہے، مشرق نے دنیاوی تمدن اور تہذیبیں بھی اعلیٰ درجے کی پیدا کیں، اس نے علوم و فنون بھی پیدا کیے، بڑی بڑی ملکی فتوحات بھی کیں، وسیع سلطنتیں بھی یہاں قائم ہوئیں، پیغمبروں، رشیوں اور سنیوں کے ساتھ چنگیز، ہلاکو اور تیمور جیسے سنگ دل شمشیر زن بھی یہیں پیدا ہوئے۔ لیکن ان تمام جلوؤں اور ہنگاموں کے باوجود مشرق کے بلند ترین نفوس مادیت سے روحانیت کی طرف گریز کرتے رہے، بڑے بڑے کشور کشا بھی روحانی انسانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے۔ اکبر اعظیم جیسا کشور کشا اور دنیوی سیاست کا مدبر بھی ننگے پاؤں چل کر سلیم چشتی جیسے درویش کے پاس پہنچا کہ اس سے اولاد نرینہ کے لیے دعا کرائے اور جہانگیر جب بموجب عقیدۂ اکبر اس درویش کی دعا سے عالم وجود میں آیا تو اس کا نام بھی اسی درویش کے نام پر رکھا۔ شاہ جہان قیصر و کسریٰ کی شوکت کو مات کرنے کے لیے نو کروڑ روپے کی لاگت سے جواہرات سے مرصع تخت طاؤس بناتا ہے لیکن اس پر جلوس کرنے سے قبل تخت کے سامنے زمین پر سر بہ سجود ہو کر خدا سے کہتا ہے کہ فرعون آبنوس کے تخت پر بیٹھتا تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا، میں اس مرصع تخت پر بیٹھنے سے قبل عجز و بندگی کا اظہار کرتا ہوں۔ شاید کوئی یہ کہے کہ ایسا تخت بنوانا کہاں کی بندگی اور کہاں کی عاجزی ہے؟ لیکن یہاں صرف یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مشرقی انسان شوق شکوہ کے رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اس خدا سے بھی رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کے سامنے تمام دنیاوی شوکتیں ہیچ ہیں اور جس تک رسائی فقط درویشی ہی کے راستے سے ہو سکتی ہے۔ مشرقی انسان کے لیے شاعری بھی وہی اثر آفرین ہوتی ہے جس میں روحانیت کی چاشنی ہو؟ سنائی اور عطار اور رومی کی گرفت مشرقی انسانوں کے قلوب پر، فردوسی و انوری و خاقانی سے بدرجہا زیادہ ہے۔ اقبال کو یورپ جانے سے قبل بھی انگریزی شاعری کے بہت سے انداز پسند تھے اور اس نے مغربی سانچوں سے بہت کچھ فائدہ بھی اٹھایا لیکن مغربی افکار پر بھی مشرقی روحانیت کا رنگ چڑھتا گیا اور اس طرح شرق و غرب کے امتزاج سے نئے مرکبات پیدا ہوئے لیکن مشرقی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ اقبال کو یورپ میں رہنے، حکمت فرنگ سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور اس کی تہذیب و تمدن کا براہ راست مشاہدہ کرنے سے طرح طرح کے فائدے پہنچے۔ اقبال کی نظر آغاز ہی سے محققانہ تھی، اس لیے اس کی زندگی میں مغرب کی کورانہ تقلید کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ اس نے یورپ کے سطحی جلوؤں کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے باطن پر بھی گہری نظر ڈالتا گیا، اس نے فرنگ میں علم و ہنر کے کمالات اور انسانی زندگی کی بہبود کے لیے ان کے مفادات کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے بھی آگاہ ہو گیا کہ اس تعمیر میں ایک خرابی کی صورت بھی مضمر ہے۔ یورپ میں اس نے عقل کی کرشمہ سازیاں بھی دیکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو نظر آیا کہ اس علم و فن کی نظر زیادہ تر تن کی طرف ہے من کی طرف نہیں، دماغ کی تربیت ہوتی ہے مگر دل تشنہ و گرسنہ رہ جاتا ہے: افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند مگر یہ خلد بس جنت نگاہ اورفردوس کوش ہے جس کے گرویدہ ہونے کا عبرت انگیز انجام غالب نے بھی آخر عمر میں ایک قطعے میں یہاں کیا تھا: اے تازہ وردان بساط ہواے دل زنہار اگر تمہیں ہوس نا و نوش ہے اقبال نے دیکھا کہ فرنگ کی زیرکی مادی مفاداندوزی میں اس عشق سے بے گانہ ہو گئی ہے جو انسانی روح کے اندر زندگی کی لامتناہی اقدار کا خلاق اور حقیقی ارتقائے حیات کا ضامن ہے۔ یورپ میں جو اس کو تجلی نظر آئی اس کی مشرقی بصیرت نے اس کے متعلق فتویٰ دیا: ہنگامہ گرم ہستی ناپائدار کا چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا سید احمد خاں ہوں یا ان کے شرکاء کار، شبلی وحالی، چراغ علی، نذیر یا مولوی ذکاء اللہ، ان سب کو مغربی تہذیب کا روشن پہلو ہی نظر آیا تھا، وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کی تجلی سے مرعوب و مغلوب تھے، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون ہی نہیں بلکہ اخلاق کے معیار بھی مغرب ہی سے حاصل کرنے چاہئیں، ان میں سے ہر شخص اپنی تحریروں میں، نثر یا نظم میں جب شرق و غرب کا موازنہ کرتا ہے تو نہایت درجہ احساس کمتری کے ساتھ مغرب کی برتری کو تسلیم کرتا ہے، دین کے مقابلے میں عیسوی عقائد کو چھوڑ کر باقی ہر چیز میں مغرب کی تقلید کو ترقی کا واحد راستہ سمجھتا ہے۔ اقبال میں یہ مغرب زدگی یورپ جانے سے پہلے بھی نہ تھی لیکن یورپ کے حقائق کے متعلق عین الیقین اور حق الیقین کے پیدا ہونے کے بعد اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف ایک زبردست رد عمل پیدا ہوا۔ یورپ کی ترقی زیادہ تر عقلی ترقی تھی اس لیے اس نے اس طبیعات میں گھری ہوئی عقل کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیا جو اس کے آخری لمحہ حیات تک پورے جوش و خروش کے ساتھ قائم رہا۔ اقبال نے یورپ میں نظمیں بہت کم کہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں فلسفہ کی تعلیم و تحقیق اور تصنیف کے لیے مواد جمع کرنے میں منہمک رہا۔ شاعری کے لیے جس قسم کی فرصت اور فراغ قلب کی ضرورت ہے وہ اس کو میسر نہ تھی اور یورپ کی جدوجہد کو دیکھ کر یہ خیال بھی طبیعت میں گردش کرنے لگا: جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے لیکن اقبال جیسے فطری شاعر کے لیے بالکل سکون بھی ممکن نہ تھا۔ اس زمانے کی نظموں میں بھی جو تعداد میں بہت کم ہیں ہر رنگ کی شاعری ملتی ہے، حسن اور عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں۔ یہ نا ممکن تھا کہ جو ان شاعر فرنگ میں حسن نسوانی سے متاثر نہ ہوا، چنانچہ بعض نظمیں مخصوص محبوبوں کے متعلق ہیں۔ ان نظموں میں ایک لا جواب نظم حسن و عشق کے عنوان سے ہے جس میں حسن و عشق کا فلسفہ نہیں بلکہ کسی ایک حسین کے حسن سے پیدا شدہ تاثر ہے۔ ویسے تو اردو اور فارسی کا تمام تغزل عاشقانہ شاعری میں ہے لیکن اردو اورفارسی کے کسی شاعر کے کلام میں اس قسم کی لطیف عاشقانہ غزل یا نظم نہ ملے گی: جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول جلوہ طور میں جیسے ید بیضائے کلیم موجہ نگہت گلزار میں غنچے کی شمیم ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا اس نظم میں کل تین بند ہیں اور شروع سے آخر تک تشبیہہ و تمثیل اور تخیل کی معراج ہر بند میں نظر آتی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ حسینہ کون تھی اور نہ ہی معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عشق حسینہ کے حسن کی طرح ناپائیدار ہی ہو گا لیکن اس نے اس حساس اور باکمال شاعر کو متاثر کر کے جو اشعار لکھوائے ہیں وہ عشقیہ شاعری میں ہمیشہ لطافت فکر و تاثر اور حسن کلام کا نمونہ پیش کرتے رہیں گے اور اقبال کے متعلق آئندہ نسلوں کو یہ یاد کراتے رہیں گے کہ یہ ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ کہنے والا شاعر کہیں کہیں عشق مجازی کا بھی شکار ہوا ہے۔ ایک جگہ اقبال نے اپنی نسبت کہا ہے: کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ور زید معلوم ہوتا ہے کہ کائناتی عشق کے علاوہ انفرادی عشق کی ورزش بھی کبھی کبھی کی ہے، کسی کی گود میں بلی دیکھ کر جو کچھ کہا ہے وہ بھی اسی راز کا غماز ہے۔ لیکن اقبال کی طبیعت میں ہر جزو اور ہر فرد کے حسن و عشق کے ساتھ ہی حسن کلی اور عشق کلی کا جذبہ بھی ابھرتا ہے اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بغیر اقبال کے نزدیک بات پوری نہیں ہوتی، بات بلی سے شروع ہوتی ہے: تجھ کو دزدیدہ نگاہی یہ سکھا دی کس نے رمز آغاز محبت کی بتا دی کس نے ہر ادا سے تری پیدا ہے محبت کیسی نیلی آنکھوں سے ٹپکتی ہے ذکاوت کیسی لیکن آخری اشعار میں حسن و عشق کا احساس کائنات پر پھیل جاتا ہے: کیا تجسس ہے تجھے؟ کس کی تمنائی ہے آہ! کیا تو بھی اسی چیز کی سودائی ہے خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں صورت دل ہے یہ ہر چیز کے باطن میں مکیں شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی نور یہ وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی کہیں سامان مسرت کہیں ساز غم ہے کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے کلی کی نظم میں بھی جو خورشید ہے وہ بھی کوئی مہ وش ہی ہے: مرے خورشید! کبھی تو بھی اٹھا اپنی نقاب بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بیتاب ترے جلوہ کا نشیمن ہو مرے سینے میں عکس آباد ہو تیرا مرے آئینے میں اپنے خورشید کا نظارہ کروں دور سے میں صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے میں اقبال کی عاشقانہ نظموں کے متعلق یہ بات خاص طور پر ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ کسی محبوب پر اگر اس نے کبھی کوئی نظم لکھی ہے تو وہ حقیقی انسان تھا، اقبال کی شاعری کہیں بھی مصنوعی نہیں۔ اردو اور فارسی کے دیوان کے دیوان ایسی غزلوں سے بھرے پڑے ہیں جو کسی مخصوص محبوب کے متعلق نہیں، زیادہ تر معشوق ایک فرضی معشوق ہوتا ہے اور اس فرضی بت کے متعلق تمام تاثرات و تخیلات آورد سے پیدا کیے جاتے ہیں۔ ایسی شاعری شاعری نہیں بلکہ محض صناعی ہوتی ہے، جیسے خمریات میں ایسے لوگوں نے دیوانوں کے دیوان بھر دیے جنہوں نے مے انگور کو کبھی منہ نہیں لگایا لیکن تخیل میں تمام عمر مے خواری میں اور میخانے ہی میں گزار دی۔ ریاض کے خمریات کو دیکھیے کون شخص یہ یقین کر سکتا ہے کہ اس مرد خدا نے کبھی پی ہی نہیں لیکن اس کی زندگی سے واقف لوگ اس کی پارسائی کے شاہد ہیں۔ امیر مینائی کو دیکھئے تہجد گزار، ہر وقت تسبیح بدست، عابد و زاہد ہوس رانی کے کیا کیا نقشے مزے لے لے کر کھینچتا ہے اور کتنی مضمون آفرینی کرتا ہے، ابتدال سے بھی اس کو گریز نہیں، شراب کے بارے میں بھی جھوم جھوم کر نکتے پیدا کرتا ہے: انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں جس دن سے کھچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے لیکن فرضی معشوق کے مصنوعی عشق آورد اس کے بیان میں آورد کی شاعری سوز و گداز سے معرا ہوتی ہے اور جو بات دل سے نہیں نکلی وہ دلوں میں گھستی بھی نہیں۔ داغ اور امیر مینائی دونوں ہوس پرستی کے تغزل میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے لیکن امیر مینائی زاہد تھا اور داغ کو اس چیز سے حقیقی رابطہ بھی رہا تھا جس کے مختلف پہلوؤں کو بیان کر کے وہ لطف آفرینی کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ امیر مینائی نے داغ کے سامنے ایک روز اقرار کیا کہ ہم نے غزل میں بہت زور مارا لیکن تمہارے تغزل والی بات نہ ہو سکی۔ اس کے جواب میں داغ نے کہا کہ بھائی جورو کے عاشق کی غزل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی تمہاری ہے۔ اقبال کی زندگی سے جو لوگ واقف ہیں وہ اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ رندی اور شباب کے زمانے میں بھی وہ عاشقی کے معاملے میں ’’ کردے و گذشتے‘‘ ہی تھا اور ’’ دل بکسے نہ باختہ‘‘ میں اس نے اپنی نسبت صحیح بات کہی ہے۔ بقول غالب وہ اس معاملے میں مصری کی مکھی تھا، شہد کی مکھی نہ تھا جس کے پاؤں اس میں دھس جائیں: من بجا ماندم و رقیب بدر زد نمہ لبش انگبین و نمہ طبر زد یورپ میں لکھی ہوئی نظموں میں ایک نظم میں کھول کر اپنے عاشق ہرجائی ہونے کا ذکر کیا ہے اور اس نظم کا عنوان ہی عاشق ہرجائی رکھا ہے: ہے عجب مجموعہ اضداد اے اقبال تو رونق ہنگامہ محفل بھی ہے تنہا بھی ہے حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟ ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو اس نظم کے دوسرے بند میں اس تلون اور بے وفائی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ میرے سینے میں جو دل ہے وہ ایک تراشا ہوا ہیرا ہے جس کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو میں نیا رنگ جھلکتا ہے میرے دل میں گیتوں کا ایک محشر ہے، ہر کیفیت میں ایک نئے جلوے کی آرزو ہے میں کسی ایک حسین کے عشق میں کیسے ہمیشہ گرفتار رہ سکتا ہوں، میرا پیمان وفا حسن سے ہے نہ کسی فرد حسین سے میں حسینوں کے نظارے میں حسن کامل کو ڈھونڈتا ہوں: ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ! وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں جستجو کل کی لیے پھرتی ہے اجزاء میں مجھے حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں معشوق کو تمام شعراء بے وفا کہتے ہوئے چلے آئے ہیں لیکن عاشق بے وفا کا مضمون اور وہ بھی عاشق شاعر کی اپنی زبان سے شاید اقبال کے سوا اور کہیں نہ ملے، جو اپنے بے وفائی کو وفا سے کہیں زیادہ قابل قدر چیز سمجھتا ہے۔ اس بے وفائی کو اس نے اعلیٰ درجے کا تصوف اور جزو کل کا فلسفہ بنانے کی ایک دل کش کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ یہ تو تنگی دل اور افلاس تخیل کی بات ہے کہ کوئی شخص کسی ایک محبوب کا گرویدہ ہو کر اور محبوبوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ویسے ہی حسن مطلق کے جزئی مظاہر ہیں: سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں اگر کائنات میں حسن ایسا ہی محدود اور تنگ جلوہ تھا کہ عاشق کو کسی ایک کے حسن ہی میں گرفتار کر کے محو کر دے تو یہ لا انتہا تخیل مجھے عطا کیا گیا جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اس تصوف اور اس جواز بے وفائی کو بھلا کون حسین قبول کرے گا، اور اقبال کے سوا کون سا عاشق ہے جس نے اپنے ہرجائی ہونے پر فخر کیا ہو اور اس عیب کو ایسا حسین کر کے پیش کیا ہو۔ ایک شاعر نے معشوق کے ہرجائی پن سے جل کر انتقاماً یہ ارادہ کیا تھا: تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یتہی طور سہی تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی لیکن اقبال کے ہاں یہ انتقام نہیں بلکہ صوفی مزاج شاعر کی ایک لازمی صفت بن گئی ہے۔ اقبال نے اپنے آپ ہی کو ہرجائی نہیں بنایا بلکہ شکوے میں خدا کو بھی ہرجائی ہونے کا طعنہ دیا ہے: کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں قبل سیاحت فرنگ کا اقبال بھی موجود ہے۔ وہی اقبال جس کے کلام میں تصوف اور فلسفہ مجاز اور حقیقت کی آمیزش نے ایک امتیازی خصوصیت پیدا کر دی تھی، اسلام اور ملت اور وطنیت کا جذبہ یورپ میں بھی برقرار رکھتا ہے۔ بعض نظموں میں شاعر بحیثیت شاعر بھی پایا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ ہلکی سی مبلغانہ جھلک بھی ہے او رپیام رسائی کا جذبہ بھی ابھرتا ہوا نظر آتا ہے، جو اس سے پہلے اقبال کے کلام میں موجود نہ تھا۔ علاوہ متفرق اشعار کے تین نظموں میں پیام کا عنوان بھی ہے ایک پیام طلبہ علی گڑھ کے نام ہے، دوسری نظم پیام عشق اور تیسری کا عنوان فقط پیام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے اقبال میں یہ احساس ترقی کر رہا ہے کہ اچھی شاعری کو پیغمبری کا جزو ہونا چاہیے اور تلمیذ الرحمان کے پاس انسانوں کے لیے کچھ پیام حیات کا ہونا بھی لازمی ہے۔ پیام کے عنوان والی نظم کا مطلع ہے: عشق نے کر دیا تجھے ذوق تپش سے آشنا بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے دوسرے شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی دولت ایک فضل الٰہی ہے جس کے حصول کا مدار محض کوشش پر نہیں ہے، یہ خدا کا کرم ہے اور اس فیض رسائی میں ادیان و ملل کی تفریق حائل نہیں: شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشاے کا دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے یہ مضمون صوفیہ اور متصوفین شعراء کا ایک مسلمہ اور عام عقیدہ ہے، بقول عارف رومی: مذہب عشق از ہمہ دین باجداست عشق والوں کا بیان الفاظ میں خواہ کافرانہ ہی معلوم ہو لیکن اس میں سے بوے دین آتی ہے: گر بگوید کفر آید بوے دیں می تراود از شکش بوے یقیں مرزا غالب کہتے ہیں کہ کافر عشق کو ایک خدا داد دولت ملتی ہے جو محض سعی حاصل نہیں ہو سکتی: دولت بغلط نہ رسد از سعی پشیمان شو کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو ایک اور شاعر کہتا ہے کہ: پروانہ چراغ حرم و دیر ندارد وحدت وجود کے عقیدے کی جھلک بھی اس غزل کے ایک شعر میں موجود ہے: تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے پھر کہتا ہے کہ تزکیہ نفس اور ترقی روح کے لیے طبیعت میں سوز و گداز کا ہونا لازمی ہے: صورت شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے جس کو خدا نہ دہر میں گریہ جان گداز دے غالب پہلے سے کہہ گیا ہے کہ روح پرور سخن وری کے لیے بھی یہ لازمی شرط ہے: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی اقبال کا پیام حقیقت میں آغاز ہی سے عشق کا پیام تھا اس کی شاعری کا بہترین حصہ جو روح میں ارتعاش اور اہتزاز پیدا کرتا ہے وہ آیت عشق ہی کی تفسیر اور اسی خواب کی تعبیر ہے۔ طلبہ علی گڑھ کے نام جو پیام اس کے مطلع میں بھی عشق کی تبلیغ ہے: اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ تمہارے رہبر، واعظ و مصلح اور ناصح سب غلامی میں مبتلا ہیں اور ان کا نالہ و فریاد زیر دام کی چیخ پکار ہے لیکن مجھے خدا نے دام و قفس سے نجات دی ہے اس لیے میرا نالہ طائر بام ہے۔ آزاد کی فریاد کی لے غلام اور گرفتار کی فریاد و لے سے الگ ہوتی ہے: طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تم یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام اور ہے تیسرے شعر میں اقبال کا خاص فلسفہ حیات ہے جس کی شرح وہ تمام عمر کرتا رہے گا کہ حیات و کائنات میں سکون مجازی و اعتباری ہے اور حرکت ماہیت حیات میں داخل ہے اس لحاظ سے کہسار کی بظاہر سکونی عظمت اور وقار کے مقابلے میں کمزور چیونٹی کی حرکت زندگی کا بہتر مظہر ہے: آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے چوتھے شعر میں وطنیت کی جگہ ملت اسلامیہ کی مرکزیت اور اس کی عالمی ہیئت نے لے لی ہے: جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے جب یہ نظم علی گڑھ والوں کو بھیجی گئی تو اس میں ایک اور شعر جس کا مضمون یہ تھا کہ نظام اسلام بے قید مقام ہے یعنی جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں معلوم نہیں کہ بانگ درا کی اشاعت کے وقت اقبال نے اس شعر کو کیوں خارج کر دیا تھا، وہ شعر یہ تھا: جس بزم کی بساط ہو سرحد چیں سے مصر تک ساقی ہے اس کا اور ہی مے اور جام اور ہے ہم نے طالب علمی کے زمانے میں جب یہ شعر پڑھا تو اصل خیال سے تو لطف اٹھایا لیکن یہ بات ذرا کھٹکی کہ اسلامی دنیا کے حدود سرحد چین سے مصر تک ہی تو نہیں جاوا سماٹرا سے لے کر مراکش کے ساحل بحری تک اور ایشیا و افریقہ میں شمال سے لے کر جنوب تک اسلامی دنیا پھیلی ہوئی ہے، اقبال نے اس عالم گیر ملت کی حدود کو اتنا محدود کیوں کر دیا ہے۔ خیال ہوا کہ مصرع کی تنگی سے مجبور ہو کر ایسا کرنا پڑا ہے، ممکن ہے کہ خیال بعد میں اقبال کے دل میں بھی پیدا ہوا ہو اس لیے اس نے اس شعر ہی کو نکال دیا۔ آگے دو اشعار میں اپنے مخصوص عقائد کو دہرایا ہے کہ عیش جاوداں تن کا ہو یا من کا ایک قسم کی موت ہے اگر وہ کامل سکون اور اطمینان پیدا کر کے ذوق طلب کو فنا کر دے۔ زندگی ذوق طلب ہے اور سوز اس کا ساز ہے سوز ختم ہوا تو شمع حیات بھی بجھ جائے گی، جام میں اگر گردش نہ بھی ہو تو وہ جام رہتا ہے لیکن نفس انسانی میں اگر طلب اور تگ و دو ختم ہوئی تو آدمی آدمی نہیں رہ سکتا: موت ہے عیش جاوداں ذوق طلب اگر نہ ہو گردش آدمی ہے اور گردش جام اور ہے شمع سحر یہ کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا ساز غمکدہ نمود میں شرط دوام اور ہے اس پیغام کی شان نزول یہ تھی کہ علی گڑھ کے طلباء نے انگریزی اساتذہ کے خلاف اسٹرائک کر دی تھی۔ اقبال اس سے تو خوش تھا کہ ان میں آزادی، خود داری اور بیداری پیدا ہوئی ہے اور غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا جذبہ ابھرا ہے، لیکن ملت اسلامیہ کی عام حالت اور علی گڑھ کالج کی حیثیت کچھ ایسی تھی کہ ابھی کچھ عرصے تک سید احمد خان کی مصلحت اندیشی پر چلنا قرین صواب تھا۔ مسلمان غدر کے بعد علم اور دولت و اقتدار سے محروم ہو گئے تھے، ایک طرف ہندو اور دوسری طرف انگریز ان سے بدظن تھے اور ان کے مخالف ان کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے تھے، کسی کامیاب کوشش کے لیے مزید علمی جدوجہد اور مزید تنظیم کی ضرورت تھی اس لیے اقبال نے نوجوانوں کو کچھ عرصے تک خاموش اور محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔ اسی لیے مقطع میں کہا کہ: بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی مرور ایام سے جب یہ بادہ نیم رس نہ رہا اور کچھ انقلاب روزگار سے اور کچھ اقبال کی تلقین اور شعلہ نوائی سے شوق رسا ہو گیا تو اقبال سے زیادہ کسی نے زبان و قلم اور دل و دماغ سے یہ جہاد نہیں کیا کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے خم صہباے کہن کے منہ پر سے خشت کلیسیا کو ہٹا دیا جائے تاکہ وہ کیفیت پیدا ہو سکے جسے آتش نے اس مطلع میں بیان کیا ہے: یہ نصیحت مری ساقی نہ فراموش کرے کاسہ سر کو خم بادہ کا سر پوش کرے یورپ سے فرستادہ پیامات کی تیسری نظم کا عنوان پیام عشق ہے جس میں اقبال کے ہاں عشق کے جو مخصوص معنی ہیں وہ بہت کچھ واضع ہو گئے ہیں، اگرچہ یہ مضمون اس قدر اقبال کا جزو طبیعت اور جوہر دین ہے کہ بعد میں ہزار ہا اشعار کہہ کر بھی وہ مطمئن نہ ہو گا کہ بات پوری طرح کہی گئی ہے: سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا یہاں عشق عاشق سے نیاز طلبی کر رہا ہے، بعد میں یہ نیاز درجہ کمال کو پہنچ کر ناز کا رنگ اختیار گا اور جوش و خروش میں ملائکہ، انبیاء اور خدا تک کا شکار کرنے لگے گا لیکن ابتداء نیاز ہی سے کرنی پڑے گی، مگر یہاں بھی دوسرے ہی شعر میں عشق میں خودی کا پہلو نمایاں ہو گیا ہے: نہیں ہے وابستہ زیر گردوں کمال شان سکندری سے تمام ساماں ہیں تیرے سینے میں تو بھی آئینہ ساز ہو جا عشق خالی ناز یا نیاز سے نہیں بلکہ جدوجہد اور پیکار سے کمال پاتا ہے مسلمانوں نے جو ہلال کو نشان علم بنا لیا تو اس میں غیر شعوری طور پر یہ رمز پائی جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد ارتقاء ہے، ہلال اپنی گردش سے روز افزوں ترقی کرتا ہوا بدر کامل بن جاتا ہے، انسان کی تقدیر بھی یہی ہے یا ہونی چاہیے: غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا جہاں کا فرض قدیم ہے تو، ادا مشال نماز ہو جا اکثر مذاہب میں قناعت اور توکل کی بہت تلقین کی گئی ہے، اسی تعلیم پر زیادہ زور دینے اور مبالغہ کرنے سے مذاہب عالیہ میں رہبانیت اور روحانیت کے مرادف بن گئی، مذہبی لوگوں نے تہذیب و تمدن کی طرف سے رخ پھیر لیا، زندگی کی جدوجہد کو ایک لا حاصل مشغلہ قرار دیا اور تقدیر کے غلط معنی لے کر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ گئے کہ ہو گا وہی جو مقدر ہے، ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و طلب سے کیا ہوتا ہے۔ قناعت و توکل کے صحیح معنے نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علماً اور عملاً واضح کیے۔ فقر کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن کی اصلاح میں انتہائی کوشش اسلام کی تعلیم کا طرۂ امتیاز تھا۔ مشرق و مغرب میں ہندومت، بدھ مت اور عیسائیت سب نے ترک آرزو اور ترک دنیا کو مقصود دین بنا لیا، اسلام اسی کے خلاف ایک زبردست احتجاج تھا لیکن خود مسلمان میں غیر اسلامی تعلیمات رفتہ رفتہ سرایت کرتی گئیں اور حیات گریز تصوف میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ: ترک دنیا، ترک عقبیٰ، ترک مولیٰ، ترک ترک عشق الٰہی کو ایک ایسی مجرد اور تذیہی چیز بنا دیا کہ تمام اشیا و افراد کی محبت اور زندگی کے تمام اقدار عالیہ کا عشق اس کے منافی اور اس کے خارج ہو گیا۔ جب انسان کسی چیز کو اچھا سمجھے گا تو اس کے حصول کی آرزو پیدا ہو گی۔ کسی مقصد سے محبت نہ ہو گی تو اس کے لیے جدوجہد کون کرے گا۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ مسلمانوں کے عقائد میں سے اس غیر اسلامی رہبانی عنصر کو خارج کیا جائے اور جس تصوف نے یہ تعلیم دی ہے اس کے خلاف علمی اور عملی جہاد کیا جائے اور مسلمانوں کو فقر اور تسلیم و رضا اور تقدیر کے صحیح معنی سمجھائے جائیں:ـ نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا حقیقی عشق خاروں کی خلوت یا صحرا نوردی کا تقاضا نہیں کرتا، شمع کی طرح سوز و گداز محفل کی خاطر ہونا چاہیے، عشق کے سوز و ساز کو تعمیر ملت میں کام آنا چاہیے: گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا روح ملت روح فرد کے مقابلے میں ایک عمیق تر، وسیع تر حقیقت ہے، ملت کے مقابلے میں انفرادی نفس ایک مجازی حقیقت رکھتا ہے: وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی فدا ہو ملت پہ یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا آخر میں اسلام کی اصلیت اور مرکزیت کی طرف واپس آنے کی تلقین کرتا ہے، اس کے علاوہ جو بھی مقصود ہے وہ جھوٹا معبود ہے: یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا قیام فرنگ کے دوران ہی میں اقبال کا زاویہ نگاہ وطنیت سے ملت کی طرف پھر گیا، اس کے دو وجوہ تھے۔ ایک تو یہ کہ ملت اسلامیہ کا کوئی ایک وطن نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ جغرافیائی اور نسلی و لسانی وطنیت اور قوم پرستی کے انداز جو اس نے مغرب میں دیکھے تو اس کے تاریک پہلو اس کو نہایت بھیانک نظر آئے۔ تنگ نظر اور خود غرض وطنیت کے خلاف بعد میں اقبال عمر بھر کچھ نہ کچھ کہتا رہا لیکن اس نظریے کا آغاز یورپ ہی میں ہوا۔ نیشنلزم نے نہ صرف اقوام فرنگ کو اتحاد دین کے باوجود ٹکڑے ٹکڑے کر رکھا تھا اور جغرافیائی حدود کے اس پاس اور اس پار کے انسان ایک دوسرے کے خلاف صلح میں بھی آمادہ جنگ رہتے تھے۔ بقول حالی: صلح ہے اک مہلت سامان جنگ کرتے ہیں یہ بھرنے کو خالی تفنگ بلکہ ان اقوام کو فرنگ سے باہر ایشیا اور افریقہ میں کمزور اقوام کا شکاری بنا دیا تھا۔ جن اقوام کے پاس فرنگ کے سے ہلاکت آفرین ہتھیار نہ تھے، ان کی جان و مال و ابرو فاتحین کے لیے مال غنیمت تھے۔ بعد میں اس مال غنیمت کی تقسیم پر ڈاکوؤں میں تصادم ہو گیا اور دو عظیم جنگوں میں مشرق و مغرب میں وہ تباہی اور بربادی ہوئی جس کے مقابلے میں چنگیز اور تیمور کی غارت گری بچوں کا کھیل معلوم ہوتی ہے۔ اقبال کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں ملت اسلامیہ فرنگ کی نقالی میں اس قسم کی نیشنلزم کا شکار نہ ہو جائے اسی لیے اقبال نے یہ پکارنا شروع کیا کہ مسلمان کا وطن کہیں نہیں ہے، یا یہ کہ مشرق و مغرب میں تمام روئے زمین مسلمان کا وطن ہے: ہر ملک ملک ماست کہ ملک خداے ماست نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بنا ہمارے حصار ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فریب ہے امتیاز عقبیٰ نمود ہر شے میں ہے ہماری کہیں ہمارا وطن نہیں ہے دوسرے شعر میں اقبال حسب عادت تصوف اور فلسفے میں غوطہ لگا گیا ہے۔ تمام کائنات انسان کا وطن ہے، بلکہ دنیا و عقبیٰ کا امتیاز زمانی و مکانی بھی فریب ادراک ہی ہے۔ یہ جہاں اور وہ جہان یعنی کونین حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ مومن کا وطن کوئی ایک مقام نہیں۔ حقیقت کلی یابہ الفاظ دیگر خدا اس کا وطن ہے۔ وہی اس کا مقام ہے اور وہی اس کی منزل، بقول عارف رومی: منزل ماکبریاست یورپ ہی میں اقبال میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میرے اندر انفرادی اور اجتماعی آرزوؤں کا ایک محشر ہے جو عنقریب ایک رستخیز پیدا کرنے والا ہے۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ اقبال یورپ میں پہنچ کر خاموش ہو گیا ہے۔ وہ ان کو بتا دینا چاہتا ہے کہ ذرا صبر کرو اور دیکھو کہ یہ طوفان آرزو گفتگو کا کیا ہنگامہ پیدا کرتا ہے: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا شیخ عبدالقادر کے نام دعوت شعلہ نوائی بھی اسی زمانے کے احساس کی پیداوار ہے کہ سخن گرم سے شعلے پیدا ہو سکتے ہیں اور اس نار سے ظلمت ربا نور ظہور میں آ سکتا ہے۔ اس دور کی نظموں میں وہ مضامین بھی موجود ہیں جو شروع سے اقبال کے کلام کا جزو تھے۔ کائناتی عشق و حسن بھی ہے لیکن مخصوص محبوبوں کی محبت میں بھی اعلیٰ درجے کی نظمیں ہیں جو نہ پہلے دور میں ملتی ہیں اور نہ بعد میں ملیں گی۔ لیکن فلسفے اور تصوف میں ابھی تک اکثر صوفیہ کی طرح اقبال کی طبیعت پر وحدت وجود کا نظریہ طاری ہے۔ اقبال کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے اسرار خودی کے شائع کرنے کے بعد ایک خط میں اس کی طرف ٹھیک اشارہ کیا تھا کہ کیمبرج میں تم ہمہ اوستی تھے اب کچھ اور ہو گئے ہو۔ اس زمانے کی ایک نظم قریباً پوری وحدت و جود پر ہے: چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تیری پستی روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں وجودی صوفیہ طریقت اور معرفت میں جو کچھ کہہ جاتے ہیں وہ بظاہر شریعت کے منافی معلوم ہوتا ہے، اس سے اہل ظاہر ان پر بہت کچھ رد و قدح کرتے ہیں۔ اگر عابد و معبود اور شاہد و مشہود کو ایک ہی سمجھا جائے تو امتیاز اور فرق مراتب غائب ہو کر خالق و مخلوق میں کوئی حد فاصل نہیں رہتی اور خیر و شیر کی تمیز کو قائم رکھنا بھی دشوار معلوم ہوتا ہے۔ ہمہ اوست اور ہمہ از اوست دونوں نظریات شریعت کے مخالف معلوم ہوتے ہیں اور کہنے والے کی مصلوب ہونے تک نوبت پہنچتی ہے۔ مرزا غالب شدت کے ساتھ ہمہ اوستی تھے ان کا اردو اور فارسی کا کلام جا بجا اس کا شاہد ہے کہیں استعجاب سے پوچھتے ہیں: جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے لیکن کہیں یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن عابد و معبود دراصل ہیں ایک ہی: دیدہ بیرون و درون از خویشتن پر وانگہی پردۂ رسم پرستش درمیان انداختہ خدا نے ظاہر و باطن کے درمیان فریب ادراک سے یوں ہی پرستش کا ایک پردہ حائل کر دیا ہے جو حقیقت میں موجود نہیں۔ اس عقیدے کو بالکل کھلم کھلا بیان کرنے سے فساد کا اندیشہ ہوتا ہے اس لیے صوفیہ نے ان عقائد کو بہت کچھ استعاروں میں چھپانے کی کوشش کی ہے چنانچہ اقبال نے بھی یہی روش اختیار کی ہے: شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں جگنو پر اقبال کی نظم کے دوسرے بند کا ان اشعار سے مقابلہ کر کے دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اقبال پر یورپ جانے سے قبل بھی وحدت وجود کا نظریہ طاری تھا اور یورپ کے قیام کے دوران میں او رمحرکات اور جذبات پیدا ہونے کے بعد بھی یہ عقیدہ قائم رہا۔ وحدت وجود کے عقیدے میں اور کچھ خلل ہو یا نہ ہو لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ نظر انسانی اختیار کے منافی پڑتا ہے۔ اخلاقیات کی تمام بنیاد یہی ہے کہ انسان ایک صاحب اختیار ہستی ہے خدا نے خیر و شر کو اس پر واضح کر دیا ہے، اب وہ چاہے یہ راستہ اختیار کرے اور چاہے وہ، ادھر جائے گا تو اجر و ثواب حاصل کرے گا اور ادھر جائے گا تو جہنم واصل ہو گا۔ لیکن اگر تمام انسانی اعمال بھی خدا ہی کے اعمال ہیں تو پھر خیر و شر میں کیا تمیز رہتی ہے اور ثواب و عذاب مہمل بن جاتے ہیں، اسی خطرے کی وجہ سے اقبال رفتہ رفتہ اس عقیدہ سے لے گئے۔ ان کا نظریہ خودی در حقیقت اس روایتی وجودی فلسفے کی تردید ہے اقبال نے فلسفہ خودی کے ماتحت انسان کو بھی خالق قرار دیا اور اس خیال کو طرح طرح سے بیان کیا کہ کائنات مادی ذات پر نہیں بلکہ نفوس پر مشتمل ہے جو خودی کے لحاظ سے مختلف مدارج میں ہیں اور کسی نہ کسی حیثیت میں کائنات میں بے شمار خالق موجود ہیں جو مختلف ہونے کے باوجود خالق کی صفت خلق سے بھی متصف ہیں۔ ایک گفتگو میں انہوں نے فرمایا کہ قرآن خدا کو احسن الخالقین کہتا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ کائنات میں اور خالق بھی موجود ہیں۔ حضرت آدم کے قصے کے متعلق بھی ان کی تاویل یہ تھی کہ خدا کے حکم کی خلاف ورزی سے آدم نے اپنی خودی کی بیداری کا ثبوت دیا جو انسانیت کا آغاز ہے یہی افتادگی عروج آدم خاکی کا پیش خیمہ بنی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس دور تک خودی اور خدا کا باہمی رابطہ اقبال پر پوری طرح واضح نہیں ہوا، ابھی اس کا تفکر خدا کی وحدت اور نفوس کی کثرت کا تعلق سمجھنے سے قاصر ہے کبھی وحدت وجود میں بہ جاتا ہے اور کبھی عشق اور خودی کی خلاقی کی طرف کھنچا آتا ہے۔ اقبال کی اس دور کی نظموں میں مارچ ۱۹۰۷ء کی لکھی ہوئی نظم کئی حیثیتوں سے قابل غور ہے۔ یہ نظم پیشگوئیوں سے لبریز ہے اس لیے ’’ ہو گا‘‘ کی ردیف استعمال کی ہے۔ پہلے دو اشعار میں کہتا ہے کہ اس سے پہلے ادوار میں زندگی کے بہت سے اسرار سربستہ تھے اب افشاے راز کا زمانہ ہے۔ اس سے قبل اگرکسی کو کچھ معلوم نہ تھا تو وہ کچھ کہنا نہ تھا اس خیال سے کہ: فاش گر گویم جہاں برہم زنم اب زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ نیکی ہو یا بدی، حق ہو یا باطل، سب کچھ ببانگ دہل ظاہر ہو گا: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہاں مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہو گا مطلب یہ ہے کہ آزادی گفتار اور آزادی عمل اس سے پہلے چند افراد اور مخصوص طبقات کو حاصل تھی، اب آنے والے دور میں یہ امتیاز اٹھ جائے گا۔ اس سے قبل خدا کے عاشق بنوں میں مارے مارے پھرتے تھے اب یہ لوگ انسانی جماعتوں میں رہ کر عشق سے کوئی تعمیری کام لیں گے اور عشاق اپنے لیے نئے میدان عمل ڈھونڈیں گے، حیات گریز تصوف ختم ہو جائے گا، اب صوفی جماعتوں کے اندر کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے: کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندۂ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا اس کے بعد دو اشعار ملت اسلامیہ کے متعلق رجائی پیش گوئی ہیں کہ یہ شیر خفتہ جی ہشیار ہو گا اور وہ اسی قوت کا مظاہرہ کرے گا جس نے کسی زمانے میں روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔ دو اشعار میں تہذیب مغرب پر تنقید ہے اور اس کی تخریب کے متعلق وہ پیش گوئی ہے جو چند ہی سال بعد پوری ہو گئی: کہتا ہے کہ مغرب کی ملوکیت کی حقیقت یہ ہے کہ وہ تاجرانہ ملوکیت ہے، مغربی اقوام کمزور اقوام کو اس لیے مطبع و مغلوب کرتی ہیں کہ تجارت کے ذریعے سے ان سے ناجائز فائدے اٹھائے جائیں، غلاموں کو خام پیداوار کی افزائش میں لگایا جائے اور پھر اپنی صناعی سے اسے مصنوعات میں بدل کر من مانی قیمت پر پھر انہیں غلاموں کے ہاتھ فروخت کیا جائے، دونوں بڑی جنگیں دراصل تجارت کی منڈیوں پر قبضہ کرنے کی کوششیں تھیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ان مغربی اقوام نے خدا کی بستیوں کو خرید و فروخت کی دکانیں سمجھ لیا ہے انسانی ہمدردی اور انسانیت کا وقار ان کے زاویہ نگاہ میں نہیں ہر وقت اسی فکر میں ہیں کہ سستا خریدو اور مہنگا بیچو اور اگر چین ہماری افیون خرید کر مدہوش ہونے پر رضا مند نہ ہو تو اس کے خلاف جنگ کر کے زبردستی اس کے پاس افیون بیچو، پس ماندہ اقوام کے پاس شراب بیچ کر ان کی قوتوں میں اضمحلال پیدا کرو۔ اقبال کہتا ہے کہ اب وہ دور قریب ہے کہ تمہارے یہ ہتھکنڈے کام نہیں آئیں گے، قومیں بیدار ہو کر احتجاج میں اٹھ کھڑی ہوں گی اور تم خود آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو تباہ کرو گے اس لیے کہ تمہاری تہذیب کی بنیاد ہی اس لوٹ کھسوٹ پر ہے مگر اب یہ جاری نہ رہ سکے گی۔ دیکھئے کہ ان دو جنگوں کے بعد کتنی قومیں بیدار اور آزاد ہو گئیں اور انگریزوں کو ہندوستان کا وسیع ملک اس لیے چھوڑنا پڑا کہ اب غاصبانہ تجارت کا موقع نہیں رہا تھا کہ لنکا شائر کے کارخانوں کے مالکوں کے تقاضے سے ہندوستانی صنعت پارچہ بافی پر اتنا ٹیکس لگایا جائے کہ وہ انگریزوں کے مقابلے میں کم قیمت پر مال فروخت نہ کر سکیں۔ ایسی تجارت کے متعلق نطشے نے خوب کہا ہے کہ پہلے زمانے میں بحری ڈاکو تمام سمندروں میں اپنے جہاز لیے پھرتے تھے کہ جہاں بھی موقع ملے دوسروں کے جہازوں کا مال لوٹ لیں زمانہ حال کی وسیع تجارتیں بھی حقیقت میں ڈاکاہی ہیں لیکن اس کی صورت ایسی ہے کہ آسانی سے لوگوں کو اس غارت گری کا پتہ نہیں چلتا: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا جس زمانے میں اقبال نے یہ نظم لکھی ہے تمام عالم اسلامی، ایشیا کا معتدبہ حصہ اور پورا ہندوستان احساس کمتری میں مبتلا تھا۔ مغرب کے سیاسی علمی اور تہذیبی غلبے نے عام و خاص سب کی طبائع پر جادو کر رکھا تھا جس کا لب لباب اقبال نے ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے کہ ’’سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادو گری‘‘ اس بپنا ٹزم کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام زندگی کو مغرب کی عینک سے دیکھا اور پرکھا جاتا تھا، اپنی خوبیاں بھی عیب معلوم ہوتی تھیں اور مغربیوں کے عیوب بھی خوشنما معلوم ہوتے تھے: بقول میر درد جو عیب ہے پردۂ ہنر میں مٹھی بھر انگریز تھے جو اس برصغیر پر تھوڑی سی فوج اور شاید ایک ہزار سے کم سول سروس والوں کے بل بوتے پر حکومت کرتے تھے شکاری کو صید افگنی میں کچھ خاص زحمت اٹھانی نہیں پڑتی تھی، صید خود گردن ڈالے، سر تسلیم خم کیے چلے آتے تھے۔ سکھوں کی حکومت کے زمانے میں نشہ اقتدار کے زور میں جب ایک سکھ دوسرے سے سر راہ ملتا تھا تو پوچھتا تھا کہ فوجیں کدھر سے ا رہی ہیں، گویا ہر ایک سکھ فرد اپنے آپ کو ایک لشکر کے برابر سمجھتا تھا سکھوں کے ہاتھ سے حکومت کے نکل جانے کے بعد بھی یہ طرز کلام مدتوں تک باقی رہا۔ انگریزوں کا بھی ہندوستان میں یہ حال تھا، کوئی انگریز یوں کہتا تو نہیں تھا لیکن اپنے آپ کو سمجھتا یوں ہی تھا: مغلوبیت کی ساحری میں ہندوستانی انگریز کو اس سے بھی کہیں زیادہ سمجھتے تھے جتنا کہ وہ تھا یا وہ اپنے آپ کو تصور کرتا تھا۔ یہ ایک نفسیاتی بات ہے کہ بزدلوں کو مخالفوں کی تعداد ہمیشہ اصل سے کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے اور بہادروں کو دشمن اصل سے کم محسوس ہوتے ہیں۔ اس شعر میں اقبال نے ایسی غلامانہ نگاہ کی کیفیت بیان کی ہے: جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا یہی رہی کیفیت جو تیری تو پھر کسے اعتبار ہو گا پہلی جنگ عظیم سے قبل تک برٹش امپریلزم بڑے زوروں پر تھی انگریز صرف ہندوستان ہی کے مطلق العنان حاکم نہیں تھے بلکہ سیاست اور تجارت کے زور پر بالواسطہ یا بلا واسطہ نصف دنیا پر قابض تھے، انگریز کا رعب صرف ایشیا اور افریقہ ہی نہیں بلکہ یورپ کے ممالک پر بھی تھا، ہندوستان کے رئیسوں اور راجوں، نوابوں کی یہ حیثیت تھی کہ وہ اپنی نمائشی حکومتوں کے باوجود انگریزوں کے بے دام غلام تھے۔ جب دیسی حکمرانوں کی یہ حالت تھی تو عام دیسی عہدہ داروں کی ذہنیت کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ یہاں مجھے حضرت اقبال کا بیان کردہ ایک لطیفہ یاد آ گیا جس سے بہت اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستانی عہدہ داروں اور رئیسوں کی کیا نفسیات تھی۔ لاہور کا ایک قدیم امیر خاندان ہے جنہوں نے فقیر کا لقب اختیار کر رکھا ہے۔ اس خاندان کے ایک فرد فقیر افتخار الدین حکومت میں بڑے عہدوں پر سرفراز تھے اور اقبال کے دوست تھے۔ اس زمانے میں تار کے دو پہیوں والی ایک انگریزی گاڑی کا واج تھا۔ جسے گک کہتے تھے۔ گک کا مالک خواہ رئیس و امیر ہی کیوں نہ ہو، اسے خود چلاتا تھا اور نوکر خاموشی سے عقب میں بیٹھتا تھا۔ اقبال کے پاس بھی برسوں تک گک تھی جسے وہ حسب دستور چلاتے تھے مگر ایک روز فقیر صاحب اقبال کو اپنے ساتھ بٹھائے ہوئے اپنی گک میں انہیں مال روڈ کی سیر کرا رہے تھے، سامنے سے ایک انگریز اپنی گک زور و شور سے چلاتا ہوا آ رہا تھا حالانکہ فقیر صاحب کی سواری بائیں ہاتھ قاعدے سے نصف سڑک پر چل رہی تھی لیکن وہ انگریز سیدھا ان کی طرف بڑھا، حسب قاعدہ اسے بھی بائیں ہاتھ پر گاڑی چلانی چاہیے تھی لیکن غرور میں وہ سیدھا ان کی طرف لپکا کہ دیسی آدمیوں کو اپنی گاڑی سامنے سے ہٹانی چاہیے، ہم انگریز ہیں ادھر ادھر ہونا ہمارے لیے ہتک ہے۔ا گر فقیر افتخار الدین گھبراہٹ میں جلدی سے اور بائیں طرف گک کو نہ ہٹاتے تو ٹکر کا اندیشہ تھا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریز کی تک تو سیدھی نکل گئی لیکن فقیر صاحب کی گک کا پہیا پیدل پٹڑی پر چڑھ گیا، خیر بعد میں بہت جلد پھر گک سڑک پر آ گئی۔ اقبال فرماتے تھے کہ میں نے فقیر صاحب سے کہا کہ تم ٹھیک قاعدے سے جا رہے تھے نصف سڑک تمہارا حق تھا، تم نے کیوں گھبرا کر اپنا حق چھوڑ دیا، اگر ٹکر ہوتی تو انگریز کا قصور تھا۔ اس پر فقیر صاحب نے فرمایا کہ بھائی! تمام ملک ان کو دے کر ہم خاموش ہو گئے اور صبر کر لیا، اب کیا اس سے آدھی سڑک پر جھگڑا کرتا۔ اس دو رمیں آزاد کہلانے والے رئیسوں کا یہ حال تھا، یہ شعر اسی ذہنیت کا آئینہ ہے: کہا جو قمری سے میں لے اک دن یہاں کے آزاد پا بگل ہیں تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ راز دار ہو گا غدر کے بعد تو مسلمان بہت ہی خوف زدہ اور دبکے ہوئے تھے۔ سرسید علیہ رحمتہ کی فطرت میں حریت کے غیر معمولی جوہر تھے اور اس وقت کی حکومت کے مقابلے میں تعاون کی ضرورت کو محسوس کرنے کے باوجود انہوں نے حق کوشی اور حق گوئی سے دریغ نہیں کیا لیکن حکمرانی کی ساحری کا یہ حال تھا کہ منشی عنایت اللہ صاحب (مشہور مترجم) پسر مولوی ذکاء اللہ صاحب نے جو سید صاحب کے دار العلوم کے ابتدائی طالب علموں میں سے تھے اور سید صاحب ان کی شرافت اور ذکاوت اور ان کے والد سے دوستی کی وجہ سے ان سے بہت محبت کرتے تھے، ایک روز مجھ سے بیان کیا کہ سید صاحب گھوڑا گاڑی پر ہوا خوری کو نکلا کرتے تھے، راستے میں جو گورا سڑک پر پیدل چلتا ہوا نظر آتا، اس کو ضرور سلام کرتے تھے تاکہ وہ انہیں اپنی قوم کا وفادار دوست سمجھے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی سامراج کے زوروں میں کس طرح یہاں کے آزاد بھی پابگل تھے۔ ایسی حالت میں اقبال کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ آزادی کے لیے جدوجہد کی جائے اور اپنے متعلق یہ اعتماد پیدا ہوا کہ میں اپنے کلام سے قوم کو خود داری کی تعلیم دے کر او راس کی رگ حمیت کو جوش میں لا کر، اسے استبداد کے پنجوں سے رہائی دلا سکتا ہوں: میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا اس زمانے میں اقبال کو لوگ اچھا شاعر سمجھتے تھے، کوئی اس کو مبلغ یا مصلح یا شان پیغمبری سے بہرہ اندوز تصور نہیں کرتا تھا، لوگوں نے یہ نظم پڑھی اور لطف سخن کی داد دی اور اس مقطع کی نسبت یہی خیال کیا کہ یہ ایک شاعر کی تمنا ہے یا محض تعلی ہے جسے شعر میں جائز سمجھا جاتا ہے عرفی اور غالب میں ا س سے دس گنا زیادہ تعلی موجود ہے لیکن اسے شاعری سمجھ کر اس سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ کسے معلوم تھا کہ یہ نوجوان شاعر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ اسے کر کے دکھائے گا اور اس دنیا سے گزرنے سے پہلے اپنی قوم کے لیے ایک آزاد ملت و مملکت کا سامان مہیا کر دے گا۔ یہ اقبال ہی کی قسم کی شاعری ہے جسے جزو پیغمبری کہا گیا ہے۔ اس نظم میں اقبال نے جو پیش گوئیاں کی ہیں ان میں سے کچھ پوری ہو چکی ہیں اور باقی کے متعلق یقین رکھنا چاہیے کہ وہ بھی پوری ہو کر رہیں گی تمام دنیا میں ملت اسلامی کا احیاء شروع ہو گیا ہے، کئی اسلامی ممالک نے مغربی سامراج کا جو اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب ملت اسلامیہ ہر جگہ آزاد اور جادہ ترقی پر گامزن ہو گی۔ ٭٭٭ چوتھا باب ۱۹۰۸ء سے۔۔۔ یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں بہت کم ہیں لیکن انہیں میں سے بعض میں اس کی شاعری کے موضوعات کا رخ بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس تمنا نے اسے بیتاب کرنا شروع کیا ہے کہ اپنی پس ماندہ اور افتادہ ملت کو بیدار اور ہشیار کیا جائے، عظمت دیرینہ اور عروج رفتہ کے نقشے اس کے سامنے رکھے جائیں، موجودہ حالت کی درماندگی اور پستی کو بھی اچھی طرح نمایاں کیا جائے لیکن اس انداز سے نہیں کہ اس میں یاس آفرینی اور ہمت شکنی کی کیفیت پیدا ہو، حالی بہت کچھ قوم کا ماتم کر چکا ہے، اب مزید اشک ریزی اور سینہ زنی سے انفعالی کیفیت کو ترقی دینا نقصان کا باعث ہو گا، مومن کی سیرت کے خط و خال اعلیٰ درجے کی مصوری سے کھینچے جائیں، اسلاف سے اس کے نمونے پیش کئے جائیں، قوم میں خودی اور خود داری کا احساس پیدا کیا جائے، احساس کمتری کو مٹا کر اس میں خودی کے جذبے کو ابھارا جائے، بلبل کو خیر باد کہہ کر شاہین کی سیرت کو اردو اور فارسی شاعری میں پہلی مرتبہ فقر و خود داری، جرأت و ہمت اور بلند پروازی کا نمونہ بنایا جائے قوم کے جمود کو توڑا جائے او راسے یہ تعلیم دی جائے کہ زندگی ذوق ارتقاء ہے، حرکت مسلسل ہے، سوز نیم خام ہے، خوب تر کی تلاش ہے، جذبہ نشوونما ہے قناعت پسندوں اور تقدیر پرستوں کو یہ بتایا جائے کہ سعی پیہم سے جہان نو پیدا کرنا انسان کی تقدیر ہے، عقل اچھی چیز ہے لیکن خالی عقل خنک جرأت اموز او رخلا ق نہیں ہوتی، زیر کی سے زیادہ عشق کی ضرورت ہے، جب تک قوم میں زندگی کے اعلیٰ اقدا رکی تڑپ پیدا نہ ہو گی وہ جمود اور خفتگی میں سے نہیں نکل سکے گی، بقول عارف رومی: کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی شیخ عبدالقادر کے نام جو پیغام ہے اس میں بھی یہ کہیں نہیں ملتا کہ آؤ اپنی قوم کو جدید علوم و فنون اور عقل فرنگ سے آراستہ کر کے ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔ اقبال اس سے قبل حسن و عشق میں بہت سی نظمیں اور بہت سے اچھے اشعار لکھ چکا تھا لیکن وہ عشق یا مجازی تھا یا متصوفانہ انداز کا عشق جس میں انسانوں کواپنے ماحول سے بیگانہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ اب اقبال وضاحت کے ساتھ جس عشق کی تلقین شروع کرتا ہے وہ حیات لامتناہی کا عشق ہے، زندگی کے لامتناہی ممکنات کو معرض وجود میں لانے کا جذبہ ہے یہ عشق وہ ہے جو آئینہ بصیرت کو صیقل کرتا ہے، پتھر کو آئینہ اور قطرے کو گوہر بناتا ہے یہ عشق وہ ہے جو خاک سے گل و ثمر پیدا کرتا ہے اور جس سے قطرے میں بحر آشامی کی تشنگی اضطراب آفرین ہوتی ہے۔ دنیا میں اسلام کو اپنی اصل صورت میں پیش کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے اس عشق کا تجربہ کر چکے ہیں کہ وہ ظاہر و باطن میں کیسا خلاق اور انقلاب زا ہوتا، عہد حاضر میں وہ نمونے نظر نہیں آتے لیکن مسلمانوں کی تاریخ اور روایات میں تو موجود ہیں، ان کا جلوہ مسلمانوں کو پھر دکھایا جائے: جلوۂ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں اسلام کی کیفیت تو شراب کی سی ہے وہ فرسودہ نہیں ہوا، کہنہ ہونے سے تو اس میں اور تیزی پیدا ہوتی ہے: بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں اقبال نے یہ فیصلہ کر لیا کہ باقی عمر میں شاعری سے اب یہی احیائے ملت کا کام لیا جائے گا۔ فرماتے تھے کہ میرے والد نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی اور مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے کمال کو اسلام کی خدمت میں صرف کرنا۔ حالی کی شاعری کا رخ سرسید نے پھیرا اور اس کے جوہر کو ملت کے لیے وقف کرایا۔ سید علیہ الرحمتہ کی صحبت سے پہلے حالی میں یہ چیز بالکل موجود نہ تھی، روایتی تغزل کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھا لیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی، اس کی طبیعت میں یہ آفتاب محشر مغرب میں طلوع ہوا: گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں خود جلیں دیدۂ اغیار کو بینا کر دیں ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع موختن نیست خیالے کہ نہاں دارو شمع اس ذہنی انقلاب سے پہلے کی شاعری میں بھی اقبال کے اندر اسلامی جذبات کا کافی ثبوت ملتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ دبی ہوئی آگ چادر خاکستر کو برطرف کر کے بھڑکنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ کیفیت ہوتی ہے کہ: پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے واپسی میں اقبال کا جہاز ابھی سمندر میں ہی تھا کہ جزیرۂ سسلی دکھائی دیتا ہے جہاں مسلمانوں نے ایک عرصے تک نہ صرف حکومت کی بلکہ علم و فنون اور تہذیب و تمدن کے ایسے اچھے نمونے پیش کیے جس سے بعد میں تہذیب فرنگ نے اپنے چراغ جلائے۔ وہ عظمت رفتہ اقبال کی چشم تصور کے سامنے آ کر درد انگیز ہو گئی اور شاعر بے اختیار اشک افشاں ہو کر اس کا مرثیہ خواں ہو گیا اس کے تخیل نے تصویر کہن میں رنگ بھر دیے: رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے میں ترا تحفہ سوے ہندوستان لے جاؤنگا خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤنگا وہ اس ملت کی مرثیہ خوانی اس لیے نہیں کر رہا کہ کسی زمانے میں اس کی عظیم الشان سلطنت تھی جو انقلاب روزگار سے جاتی رہی، وہ اس ملت کے زوال پر اس لیے افسوس کرتا ہے کہ وہ ایک شاندار نصب العین کی حامل تھی: اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی غالباً سب سے پہلی نظم بلاد اسلامیہ ہے، جو مخزن میں چھپی تھی۔ یہ نظم اس انقلاب کا پتہ دیتی ہے کہ اقبال نے اب اس وطنیت کے دائرے سے باہر قدم رکھا ہے جس کے متعلق وہ پہلے جذبات انگیز شاعری کر چکا تھا۔ اب تمام عالم اسلامی اس کا وطن بن گیا ہے، اسی جذبے نے تھوڑی عرصے کے بعد اس سے ترانہ ہندی کی زمین میں ترانہ ملی لکھوایا: چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا بلاد اسلامیہ کی نظم اس ترانے کا پیش خیمہ تھی، اس نظم میں تاریخ اسلام کا ایک رومانی تصور ملتا ہے۔ دلی اور بغداد اور قرطبہ اور قسطنطنیہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور تہذیب و تمدن کے مراکز تھے۔ مسلمان کہلانے والی اقوام ان اقالیم میں غالب اور حکمران تھیں لیکن ان سلطنتوں کا انداز اور ان کے حکمرانوں کے اسلوب حکمرانی ہر حیثیت سے اسلامی نہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے تو محض قیصر و کسریٰ کی جانشینی ہی کی ہے اور اسلامی زندگی کے کوئی اعلیٰ نمونے پیش نہیں کیے۔ بعد میں تو اقبال علی الاعلان یہ کہنے لگے کہ مسلمان حکمرانوں کی ملوکیت ہی نے اسلام کی صورت کو مسخ کیا ہے، لیکن بلاد اسلامیہ والی نظم میں ابھی تاریخ اسلامیہ کا روشن پہلو ہی ان کے سامنے ہے۔ سوا چند مستثنیٰ صورتوں کے ان سلطنتوں کے حکمرانوں کا طریقہ غیر اسلامی تھا لیکن ان تمام نقائص کے باوجود یہ بات تاریخی حیثیت سے غلط نہیں کہ اچھے ادوار میں اور ان مراکز میں جن کا ذکر اس نظم میں ہے، مسلمانوں نے تہذیب و تمدن کے ایسے نمونے پیش کیے جو دیگر اقوام کی معاصرانہ زندگی سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ سب جگہ محکوم ملتوں کے ساتھ بے حد رواداری کا سلوک کیا گیا، اگرچہ سیاسی لحاظ سے آخر میں یہی رواداری مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث بنی۔ یہ درست ہے کہ مسلمان اپنے عروج و اقتدار کے زمانے میں ہندوستان اور شرقی اور غربی یورپ کے بہت سے حصے کو جبر سے مسلمان کر سکتے تھے اور اگر ایسا کیا ہوتا تو آج وہاں ایک غیر مسلم بھی نظر نہ آتا، لیکن ایسا جبر مسلمان کیسے کر سکتے تھے؟ اسلام میں اس کی قطعاً اجازت نہ تھی؟ اگر ایسا کیا ہوتا تو ان خطوں کی غیر مسلم ملتیں بعد میں قوت حاصل کر کے مسلمانوں کو تباہ نہ کر سکتیں اور آج وہاں کوئی فرد اسلام اور مسلمانوں کو برا کہنے والا نہ ملتا، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسے جبر سے مسلمانوں کو سیاسی فائدہ تو پہنچتا لیکن اسلام کا دعویٰ حریت ضمیر باطل ہو جاتا۔ بلاد اسلامیہ میں آخری بند مدینہ منورہ پر ہے، جس کے ساتھ مسلمانوں کا قلبی اور روحانی تعلق اس اندا زکا ہے جو کسی اور شہر کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ یہ خواب گاہ مصطفی ؐ، ملت اسلامیہ کی عظمت کی ولادت گاہ تھی۔ اس کے متعلق اقبال کہتا ہے کہ قومیت اسلام پابند مقام نہیں، لیکن اگر کسی مقام کے ساتھ اس کو وابستگی ہو سکتی ہے تو مدینہ منورہ ہی ہے۔ عالم اسلامی کا نقطہ جاذب اور مرکز یہی مقام ہے، جو اقوام اسلامیہ کا شیرازہ بند ہے: ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام آہ! یثرب دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو نقطہ جاذب تاثر کی شعاعوں کا ہے تو صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں مسلمانوں کا سب سے زیادہ شاندار اور علوم و فنون کے لحاظ سے قابل فخر تمدن اندلس میں تھا۔ فرنگ نے اس تہذیب و تمدن سے بہت کچھ حاصل کیا اور مغرب کے بعض جدید مورخین نے فراخ دلی سے اس احسان کا اقرار بھی کیا ہے۔ اس لیے قرطبہ کی یاد مسلمانوں کے قلوب میں بہت رنج و الم پیدا کرتی ہے۔ حالی نے بھی مسدس میں قرطبہ ہی کے متعلق حسرت و حرمان سے یہ اشعار لکھے ہیں: کوئی قرطبہ کے کھنڈر جا کے دیکھے مساجد کے محراب و در جا کے دیکھے حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے خلافت کو زیر و زبر جا کے دیکھے جلال ان کا کھنڈروں میں ہے یوں چمکتا کہ ہو خاک میں جیسے کندن دمکتا حالی کے بعد قرطبہ کی یاد میں اقبال ایک المناک تاریخی حقیقت کو بیان کرت اہے: ہے زمین قرطبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے جس سے تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے یورپ سے واپسی کے کچھ عرصے بعد اقبال حیدر آباد دکن غالباً اکبر حیدری کی دعوت پر گئے اور انہیں کے ہاں مہمان بھی رہے۔ حیدر آباد میں سب سے زیادہ حسرت ناک اور عبرت انگیز مقام گورستان شاہی ہے جہاں قطب شاہیوں کے مقابر کے عظیم الشان گنبد ہیں۔ مسلمان بادشاہوں کے اتنے عظیم و رفیع مقبرے شاید دنیائے اسلام میں کہیں اور یکجا نہیں ملتے، ان کو دیکھ کر دنیازی جاہ و جلال کا انجام اور زندگی کی بے ثباتی طبیعت میں ایک گہرا تاثر پیدا کرتی ہے۔ اقبال نے اس تاثر سے جو نظم لکھی ہے وہ اس کی بہترین نظموں میں سے ہے۔ اس کے پہلے بند میں لطیف تاثر کی ایسی مصوری ملتی ہے جو اقبال جیسے قادر الکلام شاعر ہی کا کمال ہے۔ اس میں خارجی فطرت اور شاعر کا باطنی تاثر ایک دوسرے کا آئینہ بن گئے ہیں، فطرت کی نواے خاموش شاعر کے ساز فطرت سے ہم آہنگ ہو گئی ہے: آسماں بادل کا پہنے خرقہ دیرینہ ہے کچھ مکدر سا جبین ماہ کا آئینہ ہے چاندنی پھیکی ہے اس نظارۂ خاموش میں صبح صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی بربط قدرت کی اک دھیمی نوا ہے خامشی باطن ہر ذرہ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے اس بے مثل نظم میں محض صنعت اور فن کے لحاظ سے بھی اقبال کی شاعری کا کمال جھلکتا ہے، پہلے کئی بند زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری پر مشتمل ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ قانون انقلاب اور آئین فنا سے نہ شاہوں کو گریز حاصل ہے اور نہ گداؤں کو: موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے اس تمام مرثیے کی تہ میں دراصل غم ملت ہے جو آخری بندوں میں نمایاں ہونے لگتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ جس طرح موت کی یورش افراد پر ہے اسی طرح اقوام بھی اس کی دستبرد سے نہیں بچ سکتیں۔ ’’ ولکل امتہ اجل‘‘ : زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار رنگ ہاے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار اس زیاں خانے میں کوئی ملت گردوں وقار رہ نہیں سکتی ابد تک بار دوش روزگار اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خوگر جہاں دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں اس کے بعد اقبال سوچتا ہے کہ مصر، بابل اور یونان و روما کی طرح عظمت مسلم بھی ایام نے لوٹ لی ہے، عالم گیر آئین فنا سے یہ کیسے بچ سکتے تھے۔ اس نظم کے بیشتر حصے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال زندگی کی بے ثباتی اور موت کی ہمہ گیری سے مغلوب ہو کر ایک انفعالی کیفیت میں ڈوب گیا ہے، لیکن اقبال کی فطرت کا ناقابل شکست تقاضا تو وہ ہے جسے غالب نے اس شعر میں ادا کیا ہے: ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال حاصل نہ کیجئے دیر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو شروع کے آٹھ نو بندوں میں ایسی حسرت برستی ہے اور ایسی عبرت پیدا ہوتی ہے کہ انسان کا دل زندگی اور اس کے ناپائدار دھوکوں سے سرد ہو جاتا ہے، لیکن یہ کیفیت کبھی اقبال پر طاری بھی ہوتی ہے تو جلد رفع ہو جاتی ہے اور جب تک وہ غم زندگی کو اپنی کیمیائے نظر سے امید اور لطف حیات میں تبدیل نہیں کر لیتا وہ بات کو ختم نہیں کرتا۔ اس کی بعض شاندار نظموں میں آپ یہی دیکھیں گے کہ وہ غم و رنج کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر نہ صرف سطح حیات پر ابھرتا ہے بلکہ اس سے اوپر لامتناہی فضا میں پرواز کرنے لگتا ہے۔ وہ یاس کا مبلغ نہیں، وہ غم کا مصور نہیں، وہ امید کا پیغمبر اور زندگی کا پرستا رہے۔ موت اور فنا کو وہ آنی جانی کیفیتیں سمجھتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں فنا اور موت کی مصوری کر چکنے کے بعد وہ آخر میں زندگی کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس نتیجے پر تان توڑتا ہے کہ موت سے بھی ہر جگہ زندگی ابھرتی دکھائی دیتی ہے۔ موت کوئی مستقل چیز نہیں، وہ زندگی ہی کا ایک مظہر اور اس کے ظہور تازہ بتازہ اور نو بنو کا ذریعہ ہے: زندگی سے یہ پرانا خاکداں معمور ہے موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے پتیاں شاخوں سے گرتی ہیں خزاں میں اس طرح دست طفل خفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح اس نظم کا داخلی ارتقاء اقبال کی فطرت اور اس کے نظریہ حیات کا آئینہ دار ہے۔ نظم کا موضوع اور محرک گورستاں ہے جس سے زیادہ غم و اندوہ کا محل اور خوں گشتہ آرزو کا مدفن اور کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی تاثر وہی ہے جو کسی انسان کے بھی حساس دل میں پیدا ہو سکتا ہے، گو ایک لطیف طبع والے شاعر کی طبیعت میں حسرت و عبرت اور انجام حیات روح کی گہرائیوں کو خاص طور پر متاثر کرتے ہیں اس فوری اور ابتدائی تاثر سے شاعر یہ محسوس کرتا ہے کہ: باطن ہر ذرۂ عالم سراپا درد ہے اور خاموشی لب ہستی پہ آہ سرد ہے یہ تاثر اتنا شدید ہے کہ افراد و اقوام تمام کی زندگی کو ایک المیہ بنا دیتا ہے، لیکن کوئی حقیقت شناس شاعر اور مفکر تمام زندگی کو فنا انجام سمجھ کر یاس کو ہمیشہ اپنی روح پر قابض نہیں ہونے دیتا، کیوں کہ زندگی میں جہاں رات آتی ہے وہاں اس کے بعد لازماً سحر بھی نمودار ہوتی ہے، فنا کے ساتھ ساتھ حیات نباتی و حیوانی کی بقا کوشی بھی ہے اور اکثر چیزیں جو بادی النظر میں شر معلوم ہوتی ہیں وہ مزید تجربے سے اعلیٰ درجے کی بھلائیوں کا مصدر و منبع بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی میں سب کچھ ہے، یاس بھی ہے اور امید بھی، رنج بھی ہے اور مسرت بھی، درد بھی ہے اور دوا بھی۔ اب یہ انسانی فطرتوں کا اختلاف ہے کہ بعض طبائع بہار کو دیکھ کر بھی مسرور ہونے کے بجائے یہ خیال اپنے اوپر طاری کر لیتی ہیں کہ یہ بہار چند روزہ ہے اور یہ سب پھول تھوڑے عرصے میں مرجھا جانے والے ہیں۔ خزاں میں نہ خندہ گل ہو گا اور نہ نغمہ بلبل، اس کے برعکس ایک رجائی زاویہ نگاہ ہے جو غالب جیسے مصیبت زدہ شاعر میں غم و اندوہ کے باوجود برقرار رہتا ہے: نہیں بہار کو فرصت نہ ہو بہار تو ہے طرات چمن و خوبی ہوا کہیے فارسی میں بھی غالب کا ایک نہایت حکیمانہ شعر اس کے رجائی نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ جہاں زندگی ہے، خواہ وہ نباتی ہو یا حیوانی، وہاں اس کے ساتھ روزگار کے آئین کے مطابق کبھی کبھی جادۂ صحت و توازن سے ہٹ کر مرض کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں رنج و درد کے مظاہر کو دیکھ کر بعض لوگ خدائے حکیم و رحیم کی ہستی ہی کے منکر ہو جاتے ہیں۔ غالب کہتا ہے کہ حکیم مطلق کی رحمت کا اس سے اندازہ کرو کہ بیماریوں کے تمام علاج جماد و نبات میں ملتے ہیں او رانہیں کے عناصر سے دوائیں بنتی ہیں، لیکن مخلوقات کی تدریجی تکوین میں جماد و نبات پہلے نمودار ہوئے ہیں اور حیوانات، جو امراض کا شکار ہو سکتے ہیں، بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ رنج و مرض کے وجود سے پہلے فطرت نے علاج کے سامان مہیا کر رکھے تھے: چارہ در سنگ و گیاہ و رنج با جاندار بود پیش ازیں کیں در رسد آن را مہیا ساختی اقبال کا فلسفہ حیات بھی شدت کے ساتھ رجائی ہے۔ وہ دنیا والوں کے لیے امید کا پیغام رساں ہے جیسا کہ ہر اولو العزم نبی بھی ’’ لا تقنطوا من رحمتہ اللہ‘‘ ہی کی بشارت انسانوں تک پہنچانے کے لیے آتا ہے۔ اس نظم میں یاس انگیزی جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو اقبال یک بیک چونک اٹھتا ہے کہ ہیں یہ میں نے اپنے اوپر کیا غلط جذبہ طاری کر لیا ہے۔ فنا تو زندگی کی ماہیت نہیں ہو سکتی، قدیم اقوام کے زوال پر نظر ڈالتے ہوئے ملت مسلمہ کی طرف آتا ہے تو یہ شعر لکھنے کے بعد کہ:ـ آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا آسماں سے ابر آزادی اٹھا برسا گیا یک دم فطر ت کی حیات انگیزی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو کہیں فناے محض نظر نہیں آتی، رگ گل میں شبنم کے موتی پروئے ہوئے ہیں، سینہ دریا شعاعوں کا گہوارہ ہے، پرندوں کی رنگیں نوائی پھولوں کی رنگینی کا جواب ہے، ہر جگہ عشق سے حسن اور حسن سے عشق پیدا ہو رہا ہے، موت میں بھی زندگی کی تڑپ محسوس ہو رہی ہے۔ تمام فطرت نشاط آباد دکھائی دیتی ہے، لیکن پھر ہوک سینے میں اٹھتی ہے کہ فطرت کی نشاط انگیزی اس غم کا علاج تو نہیں ہو سکتی جو زوال ملت سے طبیعت کو غم کدہ بنا رہا ہے: اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے دو چار اشعار میں پھر یہ غم نشاط فطرت پر غالب آ جاتا ہے، لیکن آخری مرحلے میں یاس و حسرت امید کو جنم دیتے ہیں: دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ خواب سے امید دہقان کو جگا سکتا ہے یہ اسلامی تاریخ میں فتوحات ملکی کا دور گزر گای ہے، جاہ و جلال والی سلطنتیں شاید دوبارہ قائم نہ ہو سکیں، لیکن زندگی میں جلال کے علاوہ جمال بھی ہے اور ممکن ہے کہ جلال فی نفسہ مقصود نہ ہو بلکہ جمال آفرینی کے لیے محض ایک شرط مقدم ہو، اخلاقی اور روحانی، علمی اور فنی مقاصد کا حصول عظیم سلطنتوں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ سلاطین کا دور دورہ ختم ہو گیا، کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ باطنی کمالات کا ظہور بھی ختم ہو جائے۔ اسلامی زندگی کے مقاصد لامتناہی ہیں اور چونکہ اسلام ابدی حقائق کی تحقیق کا نام ہے اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا اور ملت اسلامیہ جو اس کی علم بردار ہے اس کے لیے ماضی کی عظمت رفتہ اور حال کی تباہ حالی کے بعد ایک درخشاں مستقبل بھی ہے، نا امیدی کفر ہے: ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور اس آخری شعر میں اس خیال کا اظہار ہے کہ قوت، اقتدار اور حکمرانی کی شان و شوکت اور دبدبہ شاید اب واپس نہیں آ سکتا، لیکن بعد میں اسرار خودی کو پیش کرنے والا اقبال پھر جلال کی طرف واپس آئے گا: لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف اور یہ تلقین شروع کرے گا کہ خالی باطن کی تنویر بھی بغیر شمشیر کوئی اہم نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی، مادی قوت اور زبردست خود مختار حکومت کا ہونا بھی لازمی ہے۔ ملوکیت تو واپس نہیں آ سکتی اور نہ ارتقائے حیات اجتماعی میں اس کا دوبارہ آنا مفید ہے، لیکن سیاسی اور معاشی قوت اور علوم و فنون سے پیدا کردہ تسخیر فطرت کا ملکہ روحانیت اور استحکام خودی کے لیے لازمی ہیں۔ نوع انسان کے آئندہ ارتقاء میں جلال و جمال کا ایک دل کش مرکب تیار ہونا چاہیے۔ اسلام اسی نظریہ حیات کو پیش کرنے والا دین تھا، اس لیے اس نظریہ حیات کے مطابق حیات ملی کو ڈھالنا ملت اسلامیہ ہی کا حق اور اسی کا فرض اولین ہے۔ ۱۹۰۸ء سے لے کر عالم جاودانی کو سدھارنے تک اقبال کی شاعری میں کم از کم تین چوتھائی حصہ اسلامی اور ملی شاعری کا ہے، اس میں بے شمار فلسفیانہ افکار اور حکیمانہ جواہر ریزے بھی ملتے ہیں لیکن سب کا محور تعلیمات اسلامی اور جذبہ احیائے ملت ہے۔ جو لوگ اقبال کو محض شاعر جانتے تھے اور اس کے سخن کی لطافتوں، نادر ترکیبوں اور دل آویزیوں کے شیدائی تھے ان کو اقبال کی شاعری کا یہ انقلاب ایک رجعت قہقری محسوس ہوا اور بعض نقادوں نے کہنا شروع کیا کہ اقبال پہلے اچھا تھا، حسن و عشق اور مناظر فطرت پر نظمیں لکھتا تھا، صبح و شام کے مناظر کو دل کش انداز میں پیش کرتا تھا اور اگر انسانوں کے متعلق کوئی بات کہتا تھا تو اس کی مخاطب تمام نوع انسان ہوتی تھی، اب وہ محدود و محصور ہو کر فقط مسلمانوں کا شاعر رہ گیا ہے، اب وہ مبلغ ہو گیا ہے، واعظ ہو گیا ہے، اسلام اور مسلمانوں کا پروپیگنڈا کرتا ہے، اس کے غیر مسلم قدر دانوں نے مایوس ہو کر اس سے شکایت کرنی شروع کی کہ اب ہم لوگ آپ کے مخاطب نہیں رہے، وطن پرستوں نے کہا ہم تو اقبال کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ وطن پرست تھا، خاک وطن کا ہر ذرہ اس کو دیوتا دکھائی دیتا تھا، وہ مذاہب کی باہمی پیکار و پرخاش کو مٹانا چاہتا تھا،ا ٓوارہ اذان کو ناقوس میں چھپانے اور تسبیح کے دانوں کو رشتہ زنار میں پرونے کا آرزو مند تھا، لیکن اب وہ اسلام کے سوا کسی دین کو سچا نہیں سمجھتا، اب یہ پروانہ فقط چراغ حرم کا طواف کرتا ہے اورچراغ دیر کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا، بھلا مصلحانہ شاعری بھی کوئی شاعری ہوتی ہے؟ فن لطیف کا کام براہ راست وعظ کرنا تو نہیں۔ تبلیغ سے تو فن لطیف آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی فن برائے فن کے دلدادہ کہنے لگے کہ کیا افسوس ہے کہ اقبال جیسے صاحب کمال کو زوال آ گیا ہے۔ ایک مرتبہ لاہور کی ایک نمائش میں جوش ملیح آبادی اور ساغر مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اقبال سے تمہارے دیرینہ تعلقات ہیں اور تم خود ذوق سخن بھی رکھتے ہو، ذرا یہ بتاؤ اقبال اب جو شاعری کرتا ہے یہ کوئی شاعری ہے؟ ذرا اس کو کہو کہ وہ اس روش کو چھوڑ دے اور اپنے کمال کو اس بیہودہ کوشش میں ضائع نہ کرے۔ میں ان کو کیا جواب دیتا، مسکرا کر خاموش ہو گیا، اس بارے میں بحث بالکل بے نتیجہ ہوتی۔ ساغر صاحب فن برائے فن والے شاعر تھے اور اقبال کے نزدیک یہ انحطاط اور بے روحی کی علامت تھی۔ ہوش صاحب کا مضمون خاص رندی اور خمریات تھا جس میں ان کی صناعی اکثر نوجوانوں سے تحسین حاصل کرتی تھی، لوگ انہیں شاعر انقلاب کہنے لگے تھے اس لیے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے علاوہ خدا اور رسول کی حکومت سے بغاوت کا اظہار کرتے تھے اور الحاد کو خوش گوار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے اقبال یا تو ناقابل فہم تھا یا جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو سمجھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ باتیں بے کار ہیں۔ اسلام کسی زمانے میں کچھ کام آیا ہو گا اب: این دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ ملت اسلامیہ کے احیا کا خواب اب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا: آن قدح بشکست و آن ساقی نماند اب یا وطنیت کے راگ گانے چاہئیں یا روسی اشتراکیت کے، جو الحاد کی بنیاد پر ایک نئی عالمگیر برادری پیدا کر رہی ہے، ان کے نزدیک اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مذہب غلامانہ اخلاق کی تلقین کرتا ہے اور دیر و حرم میں یہ افیون لوگوں کو اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کے استبداد کو مشیت ایزدی سمجھ کر برضا و رغبت قبول کر لیں۔ مسلمان پہلے استبداد کے افیون خوردہ تھے، اب حضرت اقبال بھی ان کو یہی افیون اپنی شاعری میں گھول کر پیش کر رہے ہیں۔ یہ کہا گیا کہ اقبال مسلمانوں کے خون کو گرما کر ان کو دوسری ملتوں سے برسر پیکار کرنے میں کوشاں ہے۔ ان اعتراضات کا تفصیلی جواب اقبال کی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے دیا جائے گا، یہاں اس وقت فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ اقبال نے جب شاعری کا رخ بدلا تو بعض طبائع پر اس کا کیا رد عمل ہوا۔ اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں میں ایک دوسری قسم کی مایوسی پیدا ہوئی ان میں کچھ ایسے تھے جو اقبال سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنی ثروت افکار اور پرواز تخیل سے اردو زبان کو سرمایہ افتخار بنائے گا۔ غالب کے متعلق خود اقبال کہہ چکا تھا: گیسوے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے اور اقبال کی قادر الکلامی نے یہ توقع پیدا کر دی تھی کہ اردو شاعری کو اقبال مہی باثروت بنانے کا اب لوگوں کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اقبال نے شاید اردو کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اسرار خودی، بانگ درا کے اردو مجموعے سے بہت پہلے شائع ہوئی۔ اشاعت کے لحاظ سے اقبال ابھی پوری طرح اردو دانوں کے سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ ایک فارسی شاعر کی حیثیت سے نمودار ہو گیا۔ اسرار خودی کو دیکھ کر ایک دوسری شکایت یہ پیدا ہوئی کہ اس میں زیادہ تر درس فلسفہ ہی ہے۔ وہ اقبال اس میں نہیں ہے جو درس فلسفہ کے ساتھ ساتھ عشق و رزی بھی کرتا تھا: کہ درس فلسفہ می داد و عاشقی ورزید اس کتاب میں ما بعد الطبیعیات کو نظم کر دیا ہے، جس میں ماہیت وجود اور زمان و مکان کی ناقبال فہم بحثیں ہیں یا خودی کی تلقین ہے۔ یہ بات بھی کچھ انوکھی معلوم ہوئی کیوں کہ اس سے قبل تمام اردو اور فارسی شاعری میں بے خودی کو سراہا گیا تھا اور بعض متصوفین نے خودی ہی کو سب سے بڑا گناہ کبیرہ قرار دیا تھا۔ صوفیہ کا یہ مقولہ عام ہو گیا تھا کہ (وجودک ذنب) تیرا وجود اور انفرادی ہستی کا احساس ہی سب سے بڑا فریب ہے اور اسی ’’ ہم‘‘ یا’’ میں‘‘ کو فنا کرنا ہی روحانیت کی معراج ہے: گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور اور اس سے پہلے روایتی تصوف کے زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا: میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر زیر اثر اقبال خود بھی کہہ چکا تھا: میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ اٹھ گیا بزم سے میں پردۂ محفل ہو کر غرضیکہ اقبال نے جب اپنی شاعری اور اس کے مضامین کا رخ بدلا تو اس سے دو قسم کے نتائج پیدا ہوئے۔ جن لوگوں میں دینی اور ملی جذبہ تھا وہ تو بہت مسرور ہوئے کہ ایک باکمال شاعر نے محض تفنن طبع کو چھوڑ کراپنی شاعری کو شعور ملی کا ترجمان بنایا ہے، جس نے قوم میں ایک نئی روح پھونکنی شروع کی ہے۔ اقبال نے اب مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات اور ان کی صداقت و عظمت سے آگاہ کر کے ان کے احساس کمتری کو مٹانے اور ان کے احساس خودی کو ابھارنے کی کوشش کی۔ شرق و غرب جہاں جہاں سے حیات آفرینا فکار ملے ان کی پر زور تلقین کی۔ شاعری کو محض چٹخارا سمجھنے والوں کو چھوڑ کر اقبال اب خاص و عام کے لیے ترجمان حقیقت بن گیا۔ مسلمانوں کی شاعری صدیوں کے انحطاط سے ہر قسم کے حقائق سے دور ہو گئی تھی اور غیر شعوری طور پر یہ ایک مسلمہ قائم ہو گیا تھا کہ شاعری کے لیے حقیقت کی ضرورت نہیں، زندگی کی حقیقتیں یا تو پھیکی ہوتی ہیں یا تلخ، شیرینی اور لطف تو حقیقت سے گریز ہی میں پیدا ہوتا ہے۔ قصائد تھے تو سب جھوٹ کا طومار اور عشقیہ شاعری تھی تو فرضی معاملات اور بیان میں دور ازکار صناعی، حالی نے جب سچی شاعری کے لیے حقیقت کو لازمی عنصر قرار دیا اور اسی معیار کے مطابق اپنی شاعری کا رنگ بدلا تو اس کی نئی شاعری قدیم ڈگر پر چلنے والے پیشہ ور شعراء کو بالکل پھیکی معلوم ہوئی، لیکن حالی کو فطرت نے شاعر بنایا تھا اس لیے سادگی اور حقیقت پر استقلال سے قائم رہنے کے بعد اس نے بھی عام و خاص سے اپنا لوہا منوا لیا۔ وہی مسدس جس کو حالی کے معاصر شعراء نے محض اس قابل سمجھا کہ اس پر پھبتیاں کسی جائیں، اسی مسدس سے سید احمد خاں کی روح اس قدر متاثر ہوئی کہ انہوں نے فرمایا کہ اگر آخرت میں خدا نے مجھ سے پوچھا کہ اعمال میں تو کیا چیز اپنی نجات کے لیے لایا ہے تو میں عرض کروں گا کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔ حالی نے اپنی وفات سے قبل ہی تمام جھوٹے شاعروں اور کم نظر نقادوں پر فتح پا لی تھی۔ یہی معاملہ اقبال کے ساتھ بھی پیش آیا، پہلے اس کی اردو شاعری پر مدعیان زباندانی نے اعتراض کرنے شروع کیے اور اس کی شاعری کی جدت اور کمال ان کی نظر سے اوجھل رہا، لیکن کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اقبال کی آواز چاروں طرف گونجنے لگی اور معترضین کی آواز صدا بہ صحرا ہو گی۔ اس بات پر اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اسلام اور فلسفے اور تبلیغ اور وعظ نے اقبال کی شاعری کو نقصان پہنچایا اور کیا یہ صحیح ہے کہ اس نے اپنے شاعرانہ کمال کو اپنے عقائد اور نظریات حیات پر قربان کر دیا؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔ اقبال کو فطرت نے ایسا قادر الکلام باکمال شاعر بنایا تھا کہ وہ موضوع کچھ بھی منتخب کرے اور شعر خواہ آمد سے کہے اور خواہ آورد سے وہ کبھی حسن کلام سے معرا نہیں ہوتا۔ اردو اور شاعری کی عام روایات کو مدنظر رکھ کر عام ادیبوں اور شاعروں اور نقادوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ شاعری کے لیے کچھ مضامین اور موضوع مقرر ہیں اور ان کو ادا کرنے کے لیے خاص اسالیب بیان اور خاص قسم کی زبان بھی لازم ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شاعری کے لیے نہ کوئی موضوع مقرر اور مفید ہیں اور نہ ہی اسالیب بیان کا احصا ممکن ہے۔ زندگی اور کائنات کی ہر چیز، ہر حادثہ اور ہر واقعہ شعر کا موضوع بن سکتا ہے اور اگر شاعر فطری شاعر ہے اور مبدء فیاض سے جوہر سخنوری اس کو ودیعت ہوا ہے تو وہ جو کچھ بھی کہے گا اس کا انداز دل نشین اور اثر آفرین ہو گا۔ ایک زمانہ تھا کہ غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا، پھر غزل قصائد کی تشبیب کے طور پر نمودار ہوئی، اس کے بعد غزل فقط اظہار تعشق یا رندی کے مضامین کے لیے مخصوص ہو گئی، عطار اور سنائی، سعدی اور رومی کے ہاں غزل میں تصوف کے مضامین داخل ہو گئے اور تصوف کی راہ سے فلسفہ بھی آ گیا، عشق مجازی کے ساتھ عشق الٰہی کی آمیزش نے غزل کو نقصان پہنچانے کی بجائے اس کو اور موثر اور دلآویز بنا دیا۔ حافظ کی غزلوں میں یہی آمیزش یا یوں کہیے مجاز و حقیقت کا التباس و اشتباہ سحر آفرین ہو گیا ہے، جو چاہے اپنے مذاق کے موافق مجازی معنی قرار دے کر لطف اٹھائے اور جو چاہے صہبا و ساغر و مینا کو روحانیت کے استعارے سمجھ لے: ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر (غالب) حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن (صائب) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاعری میں تبلیغ نہیں ہونی چاہیے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ رندی و ہوس کی ستائش بھی تو تبلیغ و ترغیب و تحریص ہی ہے۔ اردو اور فارسی کی تمام شاعری اس سے بھری پڑی ہے۔د راصل شعر میں تبلیغ کے مخالف یہ چاہتے ہیں کہ رندی و ہوس ناکی کی تبلیغ ہو، اس کے برعکس اگر روحانیت اور اخلاق حسنہ کی تبلیغ ہو تو وہ شاعری نہیں رہتی۔ اقبال کی شاعری سے صدیوں پہلے تصوف اور فلسفہ شاعری کا ایک جزو بن چکا تھا۔ کلام اقبال میں صرف یہ جدت اور وسعت ہے کہ جو فلسفہ یا تصوف حکمت پسند اور روحانیت پسند شعراء میں ملتا ہے اس کے بہترین عناصر بھی کلام اقبال میں موجود ہیں، مگر حکمت کی ایسی باتیں اس میں اضافہ ہو گئی ہیں جو متقدمین میں ملتی ہیں نہ متاخرین میں اور نہ اقبال کے معاصرین میں۔ خاقانی اپنے قصائد میں فلکیات اور ریاضی اور دیگر علوم و فنون کی اصطلاحیں داخل کر کے ان سے اپنے غیر حقیقی تخیلات اور افکار کو استوار کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری کو استناد کا درجہ حاصل ہے اور بعد میں آنے والے شاعر، خواہ قا آنی کی طرح اس کے مقابلے میں زبان و بیان پر زیادہ قدرت رکھنے والے ہوں، اس کا لوہا مانتے ہیں: شاہا بہ قا آنی نگر خاقانی ثانی نگر لیکن اقبال اگر فلسفہ قدیم کے علاوہ فلسفہ جدید کی بعض اصطلاحیں اور نظریات اپنے کلام میں داخل کرے تو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری کے درجے سے گر گیا ہے۔ اسی طرح یہ اعتراض بھی لغو ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کے بیشتر حصے کو احیاے ملت کے لیے کیوں وقف کر دیا؟ کیا شاعری واقعی اس سے خراب ہو جاتی ہے؟ عربی اور فارسی شاعری کا موازنہ اور مقابلہ کرتے ہوئے مولانا شبلی اور دیگر نقادوں نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ عجم کے تخیلات سے متاثر ہونے کے قبل سر زمین عرب کے اندر شاعری حقیقت نگاری تھی اور عرب شاعر اپنے کلام میں دروغ سے فروغ نہیں پیدا کرتا تھا، وہ حقیقت کو سادگی کے ساتھ اس انداز میں پیش کرتا تھا کہ وہ سننے والے کے دل کے اندر اتر جاتی تھی۔ ہر شاعر اپنے شخصی عشق یا ذاتی تاثرات مسرت و الم کے علاوہ اپنے قبیلے کے نفس کا ترجمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے کارناموں کو دہراتا تھا، ہمت و ایثار کی مثالیں اسی قبیلے کے گزرے ہوئے افراد سے لیتا تھا اور دشمنوں کے مقابلے میں اپنے قبیلے والوں کے دل مضبوط کرتا تھا۔ انہیں صفات کی وجہ سے قدیم عربی شاعری اب تک حقیقت شناسوں سے داد حاصل کرتی ہے۔ وہ عربی شاعری قبیلوی عصبیت کی شاعری تھی، اس کے مقابلے میں اس اقبال کی ملت پرستی کی شاعری غیر معمولی وسعت رکھتی ہے جس میں جذبات عالیہ کی فراوانی ہے اور جذبات اسفل کا فقدان ہے۔ اقبال اپنی ملت کے متعلق بہت کچھ وہی انداز اختیار کرتا ہے جو کسی عرب قبیلے کا اعلیٰ درجے کا شاعر اختیار کرتا تھا۔ اقبال بھی اپنی ملت کے اچھے کارناموں کو دہراتا ہے لیکن اس کی نظر میں وسعت اور اس کے قلب میں زیادہ صداقت پیدا ہو گئی ہے جو تنگ نظر عصبیت پر غالب آ گئی ہے۔ وہ صرف قوم کا قصیدہ نہیں پڑھتا بلکہ اس کے عیوب بھی اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس قوم کا دشمن بھی اس سے زیادہ تلخ گوئی سے کام نہیں لے سکتا۔ اس کا مقصد اپنی قوم میں بلند نظری اور مقاصد حیات کی بلندی پیدا کرنا ہے جو نہ صرف اس مخصوص ملت بلکہ تمام نوع انسان کے لیے باعث خیر ہو۔ شاعری کے متعلق یہ ایک لغو نظریہ ہے کہ شاعر نہ کسی خاص عقیدۂ زندگی کا مبلغ ہو اور نہ کسی خاص ملت کی وابستگی سے شعر کہے، اور یہ کہ شاعر کو تمام نوع انسان کے لیے ایک بے طرف اور غیر جانبدار انسان ہونا چاہیے۔ ہومر خالص یونانی شاعر ہے، اس کے عقائد، اس کے تاثرات، اس کی صنمیات سب یونانی ہیں، اس کے ہیرو یونانی ہیرو ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی صاحب ذوق آدمی اس کی شاعری کو یہ کہہ کر نہیں ٹھکرا دیتا کہ وہ یونانی ماحول کی پیداوار ہے جو تین چار ہزار برس پہلے ایک مخصوص خطہ زمین میں پایا جاتا تھا۔ اس کے دیوتاؤں کا اب کون قائل ہے اور اسکی اخلاقیات بھی اب ہمارے کس کام کی ہے، لیکن عیسویٰ مغرب کو دیکھئے کہ ہومر کے دیوتاؤں کو باطل سمجھنے کے باوجود اب تک اس کی شاعری کو جزو تعلیم ادب عالیہ بنائے ہوئے ہے اور کلیسا کے بڑے پادری بھی اس کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی ملی اور اسلامی شاعری پر ناک بھوں چڑھانے والے اور اسلامیات کی وجہ سے اس کی شاعری کو پست گردانتے والے وہی لوگ ہیں جو دین سے بے بہرہ اور متنفر ہیں اور ملت کے عروج و زوال سے بھی ان کو کوئی واسطہ نہیں، ان کے نزدیک شاعری تفنن طبع کا نام ہے۔ اگر وہ اشتراکی ہیں تو اشتراکیت کی تبلیغ کو تو اچھی شاعری اور اعلیٰ درجے کا فن لطیف سمجھتے ہیں اور اسلام کی شاعری ان کے نزدیک محض ملائی وعظ و تلقین ہے۔ الحاد پر شعر کہو تو لطف اٹھاتے ہیں اور توحید پر اعلیٰ درجے کے اشعار بھی لکھو تو انہیں بے لطف معلوم ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی طبیعت میں اس کا کوئی اذعان یا رحجان نہیں۔ فنون لطیفہ کی بھی وہی کیفیت ہے جو علم کی ہے، علم فی نفسہ نہ مفید ہے اور نہ مضر، نہ معاون حیات ہے اور نہ مزاحم زندگی۔ علم ایک بے طرف قوت ہے اور علوم کے بے شمار اقسام ہیں۔ اسی طرح شعر ہر قسم کا ہو سکتا ہے، مختلف اشعار ہر قسم کے افکار اور تاثرات کے حاصل ہو سکتے ہیں، شاعری ادنیٰ جذبات کو بھی ابھار سکتی ہے، بعض اشعار میں جذبہ غالب ہوتا ہے اور بعض میں تفکر اگرچہ جذبے کی آمیزش سے بالکل معرا شعر بہت ٹھنڈا اور پھیکا ہوتا ہے، وہ کانوں کے راستے سے دماغ سے تو ٹکراتا ہے لیکن دل کا کوئی تار اس سے مرتعش نہیں ہوتا۔ ایک قسم کی شاعری ہے جو محض مسرت کے لیے کی جاتی ہے، اس کے برعکس ایک دوسری قسم کی شاعری ہے جس کا مقصود اندوہ گینی اور اندوہ افزائی ہے، جیسے لکھنو کی مرثیہ گوئی خالی ہوس پرستی اور رندی نے بھی اردو اور فارسی شاعری کے کثیر حصے کو گھیر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاعری بھی ہے جس میں حکمت اور تجربہ حیات کو دلنشیں اور موثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تصوف نے بھی اعلیٰ درجے کی شاعری کو جنم دیا جس میں حکمت بالغہ اور عشق الٰہی کی آمیزش اور تزکیہ نفس کی ترغیب ہے۔ خوشامد کی جھوٹی شاعری نے قصیدوں کا ایک دفتر بے معنی مہیا کر دیا جو اب تک دار العلوموں کے نصاب میں داخل ہے۔ شاعری کے تمام ا قسام آخر ایک ہی جنس کے انواع ہیں۔ بعض نقاد کہتے ہیں کہ فن کو فن ہی کے معیار سے پرکھنا چاہیے۔ علم علمی معیار سے پرکھا جاتا ہے، اخلاق اخلاقیات کی کسوٹی پر جانچا جاتا ہے، دینیات کے لیے دین معیار ہے، اسی طرح فن لطیف کے صرف فن ہی کو معیار ہونا چاہیے۔ فن کی مملکت ایک آ زادمملکت ہے جس کے اپنے آئین ہیں۔ اس مسئلے پر کسی قدر مفصل اظہار خیال اقبال کے نظریات فن کی بحث میں آئے گا، یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ اقبال کی اسلامی اور ملی شاعری اور اس کی فلسفیانہ شاعری، شاعری کے وسیع حدود سے باہر نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی تلقین و تبلیغ خطیبانہ نثر میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ ہونی ہی نثر میں چاہیے، یہ تقاضا لغو اور بے معنی ہے۔ شاعری کا کام بات کو موثر اور دل نشیں بناتا ہے، اگر کوئی شخص خاص عقابر اور خاص نظریات حیات رکھتا ہے اور خدا نے اس کو شاعر بھی بنایا ہے تو وہ کیوں اپنے افکار و تاثرات کو شعر کے سانچے میں نہ ڈھالے، جو نثر کے مقابلے میں زیادہ موثر پیرایہ بیان ہے ۔ میرے نزدیک اقبال نے اسلام اور ملت اسلامیہ کے علاوہ اپنی مخصوص شاعری سے عام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی بے حد خدمت کی ہے، اس کے اشعار بلند افکار اور جذبات عالیہ سے مملو ہیں جو تمام نوع انسان کی روحانی دعوت دیتے ہیں، اس میں کسی مذہب و ملت کی تخصیص نہیں اور اسلام کی تعبیر میں اس نے جو باتیں کہی ہیں وہ بلا تفریق مذہب و ملت تمام دنیا کے لیے پیغام حیات ہیں چونکہ کہنے والا مسلمان ہے، اس کے مخاطبین براہ راست تو مسلمان ہیں لیکن بالواسطہ اس کا خطاب ہر انسان سے ہے خواہ وہ شرقی ہو یا غربی: گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند اقبال کی شاعری کا زیادہ حصہ ایسا ہے جس میں فلسفے اور دینیات اور احیائے ملت کے تقاضے نے شعر کو شعریت کے زاویہ نگاہ سے بھی پست نہیں ہونے دیا۔ اگر اقبال ایک غیر معمولی صاحب کمال شاعر نہ ہوتا تو اس کی نظموں میں فلسفہ خشک ہوتا، وعظ بے اثر ہوتا اور تبلیغ بے نتیجہ ہوتی۔ یہ اس کا کمال ہے کہ وہ فلسفیانہ اشعار کہتا ہے تو بات خالی فلسفے کے مقابلے میں زیادہ دل نشیں اور یقینا آفرین بن جاتی ہے۔ ملت کے عروج و زوال اور مرض و علاج کو بھی جب وہا پنی ساحرانہ شاعری کے سانچے میںڈھالتا ہے تو سننے والوں کے دلوں میں ایک زیر و بم پیدا ہوتا ہے۔ اقبال اعلیٰ درجے کا شاعر ہونے کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی ہے، بعض نظمیں وہ محض بحیثیت شاعر لکھتا ہے، بعض نظموں میں حکیمانہ افکار شعر کے پیرائے میں ڈھل گئے ہیں اور بعض نظموں میں جذبہ اصلاح غالب ہے اس لیے اس کے تمام کلام کو محض شاعری کے نقطہ نظر سے نہیں جانچ سکتے اگرچہ محض فن کی حیثیت سے بھی اس کی اکثر مبلغانہ اور حکیمانہ نظمیں ایک خاص پائے سے نیچے نہیں گرنے پاتیں۔ ٭٭٭ پانچواں باب اسلام۔۔۔۔ اقبال کی نظر میں زہد و رندی کی نظم میں اقبال کے متعلق ایک مولوی صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا تھا: اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھلتی ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی مولوی صاحب کو خدشہ اس سے پیدا ہوا کہ اقبال اپنے مذہبی عقائد کو جس انداز میں بیان کرتا تھا وہ عام راسخ العقیدہ ملاؤں اور فقیہوں کے انداز سے الگ تھا اس انداز کا نرالا پن اقبال کے اندر آخر تک قائم رہا، اس انوکھے پن کی وجہ سے وہ شروع ہی میں کہہ رہا تھا: زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں اقبال کے دینی عقائد کو چند صفحات میں بیان کرنا دشوار ہے لیکن یہ کوشش لازمی ہے۔ اقبال موحد ہے اور توحید میں کسی قسم کے اشتراک کو گوارا نہیں کرتا۔ مسلمانوں میں بعد میں وحدت وجود اور وحدت شہود کی بحثیں چھڑ گئیں، اقبال کے نزدیک یہ بحثیں دینی بحثیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مسائل و مباحث ہیں، اسلام میں توحید کے مقابلے میں فقط شرک ہے، وحدت و کثرت کی بحث اسلامی بحث نہیں اور نہ ہی اشاعرہ اور معتزلہ کے یہ کلامی مباحث اصل اسلام سے کچھ تعلق رکھتے ہیں کہ وحدت ذات کے اندر کثرت صفات الٰہیہ عین ذات ہیں یا غیر ذات۔ اس کے نزدیک خدا ایک نفس کلی یا ایک ’’ انا‘‘ ہے انائے کامل و مطلق فقط خدا ہے، اس کی عینی اور اساسی صفت خلاقی ہے ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ کے معنی اقبال کے نزدیک یہی ہیں کہ اس کی خلاقی مسلسل اور لامتناہی ہے، ’’ کن فیکون‘‘ کی صدا ہر لمحے میں آ رہی ہے۔ انگریزی لیکچروں میں اس نے اس عقیدے کا اظہار کیا ہے کہ خدا اپنی ماہیت میں چونکہ ایک نفس ہے اس لیے وہ نفوس ہی کو خلق کرتا ہے؟ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو قوت و شعور کے لحاظ سے ارتقاء کے مختلف مدارج میں ہیں۔ یہ عقیدہ پہلے مسلمان حکماء و صوفیہ میں بھی ملتا ہے، یہ عقدہ عارف رومی کے اساسی عقائد میں سے ہے چنانچہ مثنوی کے آغاز ہی میں یہ خیال ملتا ہے کہ کائنات ارواح کا ایک نیستان ہے ہر روح خدا ہی میں سے الگ ہوئی ہے اور ا سکے اندر بے تابی اور فریاد کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے اصل کی طرف عود کرنا چاہتی ہے، ’’ کل شی یرجع الی اصلہ‘‘ ہر کسی کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش اسی وجہ سے تمام موجودات میں ایک جذبہ ا رتقاء پایا جاتا ہے۔ ’’ انا‘‘ کی سب سے زیادہ ارتقاء یافتہ صورت انسان میں ملتی ہے لیکن چونکہ خدا تک واپسی کا راستہ لامتناہی ہے اس لیے اناے انسانی کے ممکنات ارتقاء بھی لا محدود ہیں۔ انائے انسانی مخلوق ہے لیکن اس میں ابد قرار ہونے کی صلاحیت موجود ہے۔ اقبال نے عرفان نفس کا نام خودی رکھا ہے جو اس کی اپنی وضع کردہ اصطلاح ہے؟ خودی کا لفظ اقبال سے پہلے انانیت کے معنوں میں نہیں بلکہ انانیت کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا، اور یہ معنی مستحسن نہیں بلکہ مذموم تھے۔ جذبہ تخلیق و ارتقاء کا نام عشق ہے سعی تخلیق و ارتقاء حرکت کے بغیر ناممکن ہے اس لیے زندگی سراپا حرکت و انقلاب ہے۔ مقصود حیات اور غایت دین انسان کی خودی کو بیدار کرنا اور اس کے جذبہ عشق میں اضافہ کرنا ہے، دنیا ہو یا آخرت، یہ عالم ہو یا وہ عالم، ہر جگہ، ہر حالت اور ہر مقام پر جذبہ عشق اور شوق ارتقاء کا پایا جانا لازمی ہے۔ اسلام اسی لیے ایک دین کامل ہے کہ اس کی تعلیم میں انسان پر زندگی کی ماہیت کو واضح کر دیا گیا ہے اور اس کو تکمیل خودی کے سیدھے راستے بتا دیے گئے ہیں، ان طریقوں کا عرفان جدوجہد ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ قلزم حیات کے کنارے پر بیٹھ کر جو حکمت حقیقت تک پہنچنا چاہتی ہے، اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی اس لیے کہ زندگی حرکت ہے اور سکون سے سمجھ میں نہیں آ سکتی، فقط جدوجہد کرنے والوں کو خدا حقیقت حیات سے آشنا کرتا ہے الذین جاھد افینا لنھد پنھم سبلنا ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من کیستم موجے ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت ہستم اگر می روم گرنہ روم نیستم تمام احکام شریعت کا مقصو دیہی ہے کہ انسان اپنے نفس کو پاکیزہ اور قوی بنائے جو طریق عمل اس کی وسعت اور قوت میں خارج ہوتے ہیں ان سے اجتناب کی تلقین کرے۔ اسلام پیش کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خودی تمام انبیاء اور انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بیدار اور استوار تھی، اسی لیے ان کی زندگی نوع انسان کے لیے اسوۂ حسنہ بن گئی۔ اسلام ایک خالص ترین پیغام حیات ہے، نہ نبی کی ترقی کی کوئی انتہا ہے اور نہ عام انسانوں کی ترقی کی کوئی آخری حد ارتقاء جاری ہے اور جاری رہے گا، لیکن نبوت کا مقصد حقیقت حیات کو واضح کر دینے کے بعد پورا ہو گیا، اکملت لکم دینکم کے یہی معنی ہیں۔ اگر قرآن نے واضح طور پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین نہ بھی کہا ہوتا تو بھی وضاحت مقصود دین کے بعد کسی اور نبی کا آنا تحصیل حاصل ہوتا، اقبال بڑی شدت کے ساتھ ختم نبوت کے قائل تھے۔ ایک مغربی مفکر نے اقبال کے عقائد پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ارتقائے لامتناہی کا قائل ختم نبوت کا کس طرح قائل ہو سکتا ہے؟ جب زندگی ابد الآباد تک نئے اقدار نئے انداز حیات پیدا کر سکتی ہے تو کسی ایک شخص کی تعلیم یا زندگی خاتم کیسے ہو سکتی ہے؟ دراصل یہ تناقض ایک ظاہری تناقض ہے، اقبال کے ہاں اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کے لامتناہی ارتقاء اور اس کے لا محدود ممکنات کو واضح کر دینا ہی نبوت کا منتہیٰ تھا۔ یہ کام وپرا ہو گیا تو نبوت بھی لازما ختم ہو گئی خود نبی کے انسان کامل ہونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی اپنی ذات کے لیے کوئی بلند تر درجہ ارتقاء باقی نہیں رہا۔ ارتقاء کی آخری منزل تو خدا ہے مگر کوئی شخص لامتناہی ارتقاء سے بھی خدا نہیں بن سکتا نہ عمل کی کوئی انتہا ہے اور نہ علم کی اسی لیے نبی مسلسل استغفار بھی کرتا ہے اور ’’ رب زدنی علما‘‘ کی دعا بھی مانگتا ہے۔ عرفان کی بھی کوئی انتہا نہیں اس لیے مدارج میں بھی ’’ ماء فناک حق معرفتک‘‘ کہتا ہے۔ اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک صورت میں جامد کرنا نہ تھا بلکہ اسے لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بتانا تھا۔ نبوت کا ایک انداز ختم ہو گیا لیکن ارتقائے حیات ختم نہیں ہوا۔ اسلام کے دین کامل ہونے کے یہ معنی نہیں کہ اس نے انسانی زندگی کی کوئی آخری صورت معین کر دی بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے یہ تلقین کی کہ کوئی صورت قابل پرستش نہیں: ’’ صورت نہ پرستم من‘‘ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے اقبال قرآن کریم کو دین کی ایک مکمل کتاب سمجھتا ہے، اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ فقط قرآن اسلام کے لیے کافی نہیں اور حدیث کے بغیر قرآن کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ صحیح اور مستند احادیث مقاصد قرآن اور مقاصد اسلام کو واضح کرتی ہیں اور خاص حالات پر اسلامی عقائد کا اطلاق ہیں، لیکن جہاں تک اصول اور اساس اسلام کا تعلق ہے، قرآن سے باہر جانے کی ضرورت نہیں، احادیث کی صداقت و صحت کا معیار بھی قرآن ہی ہے: گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن قرآن بھی ماہیت حیات اور نفس انسانی کی طرح اپنے اندر لامتناہی زندگی رکھتا ہے انسانی زندگی کے مزید ارتقاء میں کوئی دور ایسا نہیں آ سکتا جس میں قرآنی حقائق کا نیا انکشاف ترقی حیات میں انسان کی رہبری نہ کر سکے۔ زندگی نو بہ نو صورتیں پیدا ہوتی جائیں گی لیکن قرآن کے اساسی حقائق کبھی دفتر پارینہ نہ بنیں گے۔ اقبال کے ہاں عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کا تصور بھی عام عقائد سے بہت کھ الگ ہو گیا ہے، وہ جنت کو مومن کا مقصود نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے ابدی عشرت کا مقام خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک جنت یا دوزخ مقامی نہیں بلکہ نفسی ہیں: جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر اقبال کا عقیدہ یہ ہے کہ جہاں حرکت و ارتقاء اور مسلسل خلاقی نہیں وہاں زندگی کا فقدان ہے، جنت اگر جز اے اعمال حسنہ ہو تو وہ اس کیفیت نفس کا نام ہونا چاہیے جہاں عرفان خودی، استحکام خودی اور عشق خلاق ترقی یافتہ صورتوں میں پایا جائے، دوزخ خودی کے سوخت ہو جانے کا نام ہے اس لیے نار دوزخ کی ماہیت کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ وہ ایک آگ ہے جس کے شعلے کسی خارجی ایندھن سے نہیں بلکہ قلب انسانی میں سے بلند ہوتے ہیں۔ ’’ تطلع علی ت الافندۃ‘‘ بقاے روح کی نسبت علامہ اقبال کا خیال تھا یہ بقا غیر مشروط نہیں، جسمانی موت کے بعد روح کا باقی رہنا یا نہ رہنا یاس کا کسی ایک مخصوص حالت میں رہنا انسان کی خودی پر موقوف ہے۔ اگر کسی شخص نے صحیح علم و عمل سے اپنی خودی کو استوار نہیں کیا تو اس کا امکان ہے کہ وہ فنا ہو جائے اور اگر اچھی زندگی سے اس نے اپنی روح کو قوی بنا لیا ہے تو وہ باقی رہے گی۔ کچھ اسی قسم کے خیال کی طرف مثنوی مولانا روم میں بھی ایک اشارہ ملتا ہے وہاں بحث یہ ہے کہ ’’ کل شیی ھالک الا وجہہ‘‘ اور کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام اگر درست ہے تو انسانوں کے انفرادی نفوس کا باقی رہنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں۔ ’’ کل شی ھالک‘‘ کے بعد ’’ الا وجہہ‘‘ موجود ہے لہٰذا انسان کی بقا اسی حالت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ وہ وجہ الٰہی یعنی صفات ذات الٰہی میں داخل ہو کر اپنی زندگی کو قائم رکھے صحیح زندگی بسر کرنا وجہ الٰہی میں داخل ہو کر زندہ رہنا ہے، خواہ وہ اس عالم میں ہو یا کسی اور عالم میں۔ خدا سے باہر رہ کر کوئی زندگی نہیں ہو سکتی اور خدا کے اندر رہ کر زندگی ہی زندگی ہے۔ روح انسانی بقائے ذات الٰہی سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے لیکن یہ عشق الٰہی ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ اقبال بھی کہتا ہے کہ عشق سے انسان اپنی روح کو قوی اور پائدار کرتا ہے اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ فنا ہو جائے گا: بمیری گر بہ تن جانے نداری وگر جانے بہ تن داری نہ میری اسی عقیدے کے مطابق مرض الموت کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ میں معالجے سے جسمانی صحت کی درستی میں اس لیے کوشاں ہوں کہ مجھے خدشہ ہے کہ جسمانی اضمحلال اور اختلال میری خودی کو کمزو رنہ کر دے اور اس جسم کو چھوڑتے ہوئے میرا ’’ انا‘‘ ضعیف نہ ہو۔ میں دوسرے عالم میں ایک قوی ’’ انا‘‘ کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہوں۔ یہ بھی فرماتے تھے کہ اس عالم اور دوسرے عالم کے درمیان ایک برزخ ہے لیکن اس برزخ کی وسعت بھی مختلف انسانوں کے لیے مختلف ہوتی ہے شہداء کے لیے کوئی برزخ نہیں وہ براہ راست ایک برتر عالم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جنت کی طرح دوزخ کو بھی اقبال ایک نفسی کیفیت سمجھتا ہے، دوزخ کی آگ نفس ہی کی آگ ہے، اس عقیدے کے بیان میں یہ اشعار ملتے ہیں۔ دور جنت سے آنکھ نے دیکھا ایک تاریک خانہ، سرو و خموش طالع قیس و گیسوے لیلیٰ اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش خنک ایسا کہ جس سے شرما کر کرۂ زمہریر ہو روپوش میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی حیرت انگیز تھا جواب سروش یہ مقام خنک جہنم ہے نار سے نور سے تہی آغوش شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے انکار ساتھ لاتے ہیں اقبال کے نزدیک اسلام کی تعلیم کا ایک اہم حصہ قرآن کریم کے بیان کردہ قصہ آدم میں ملتا ہے۔ اسلام سے قبل ہبوط آدم کی داستان عیسائیوں میں اس انداز سے بیان کی جاتی تھی کہ آدم و حوا جنت میں رہتے تھے، حوا کو شیطان نے بہکایا کہ شجر ممنوعہ کا پھل کھاؤ تو تمہیں خلود حاصل ہو جائے گا۔ حواس کے جھانسے میں آ گئی اور ا سنے آدم کو بھی خدا کی عدول حکمی پر راضی کر لیا،ا س کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدم و حوا گناہ سے ملوث ہو گئے، جنت سے اس عالما رضی میں سزا بھگتنے کے لیے بھیج دیے گئے یہ گناہ ایسا عظیم اور ناقابل عفو تھا کہ تب سے اولاد آدم و حوا میں وراثتاً منتقل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی بچہ معصوم پیدا نہیں ہوتا، اس کی روح پیدائش ہی سے آبائی گناہ سے داغ دار ہوتی ہے، عورتوں کی بچہ جننے کی مصیبت اسی گناہ کا نتیجہ ہے اور عورتوں کو یہ سزا اسی لیے ملتی ہے کہ آدم کو حوا ہی نے اس گناہ کے ارتکاب پر راضی کیا تھا۔ یہ گناہ ایسا شدید تھا کہ اعمال حسنہ سے بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہ ہو سکتا تھا؟آخر خدا کے اکلوتے یسوع مسیح نے اپنے آپ ک وبھینٹ بنا کر بطور کفارۂ پیش کیا۔ حضرت مسیح ناکردہ گناہ مصلوب ہوئے تاکہ ان کو ماننے والے دوزخ سے نجات پا سکیں مگر جو شخص کفارہ مسیح کو نہ مانے اس کی نجات اس قربانی کے بعد بھی ممکن نہیں۔ قرآن نے قصہ آدم کو بالکل دوسرے رنگ میں بیان کیا ہے، خلاف ورزی کی کوئی تصریح نہیں، صرف اشارہ کر کے آگے گزر گیا ہے، کیونکہ خلاف ورزی کا داغ فوراً ہی اقبال گناہ سے دھل گیا۔ یہاں یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ گناہ کوئی ہمیشہ کے لیے انسان کو چمٹ جانے والی چیز نہیں، حسنات سے سینات کا اثر زائل ہو جات اہے اور زندگی کا رخ صحیح طرف پھیرنے یعنی توبہ کے بعد عروج کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ چنانچہ آدم کو عفو و در گزر کے بعد اس عالم ارضی میں خدا کا نائب مقرر کیا گیا عیسائیت کا زوال آدم کا قصہ قرآن میں عروج و کمال آدم کی داستان بن گیا ۔ قرآن کا آدم ایک نصب العینی انسان ہے اور اس کی سیرت انسانیت کی نظر گاہ اور اس کی معراج ہے۔ انسان کی زندگی کا مقصود نیابت الٰہی میں عناصر و ارکان پر حکمرانی یعنی تسخیر فطرت ہے جس کا ذکر قرآن نے وضاحت سے کیا ہے؟ جس طرح فطرت خدا کے ہاں مسخر ہے اسی طرح انسان کی جدوجہد سے بھی اس کو مسخر ہونا چاہیے۔ آدم عشق الٰہی کی بدولت نائب ہوا اور ملائکہ سے زیادہ علم حاصل کرنے سے اس کو ان پر فضیلت حاصل ہوئی؟ ابلیس نے تکبر اور ادنیٰ قسم کی زیرکی سے کام لیا اس لیے وہ مردود و مقہور ہو گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تکبیر اور محدود عقل پر ناز شیوۂ ابلیسی ہے جو انسان کو قعر مذلت میں گرا سکتا ہے۔ اقبال کی تعلیم میں وقار آدم اور عروج آدم کا نظریہ ایک مرکزی عقیدہ ہے۔ اقبال نے اس عقیدے پر افکار و تاثرات کی ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی ہے اور انسانی زندگی کے ممکنات اور تسخیر حیات کو اسلامی تعلیم کی اساس قرار دیا ہے۔ اسلام نے انسان کے اندر اعتماد نفس پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے تئیں نائب الٰہی سمجھ کر فطرت پر حکمرانی کرے اور فطرت کے عناصر اور اس کی قوتوں سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کو بلا استثنا قابل تسخیر سمجھے اس قوت تسخیر میں اضافہ اقبال کے ہاں استحکام خودی کی تلقین بن گیا ہے؟ اسلام میں توحید کا عقیدہ اور وقار انسانی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، نہ کوئی فطرت کی قوت انسان کی معبود ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ایک انسان دوسرے انسانوں کا معبود بن سکتا ہے۔ انسان کے اوپر خدا کے سوا کچھ نہیں، ’’ لا غالب الا اللہ۔‘‘ حدیث نبوی کے متعلق علامہ اقبال کے زاویہ نگاہ کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ احادیث کے بارے میں افراط اور تفریط نے مسلمانوں کے دو گروہ بنا دیے ہیں، ان دونوں گروہوں کے عقائد میں اعتدال مفقود ہے ایک گروہ علی الاعلان اس کا مدعی ہے کہ حدیث قرآن کا ایک لازمی تکملہ ہے تمام اسلامی کو محض قرآن میں سے اخذ نہیں کر سکتے، اس گروہ میں سے بعض افراد نے یہاں تک غلو کیا ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بتاتے ہیں؟ اس لحاظ سے حدیث قرآں کے مقابلے میں زیادہ مستند ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرا گروہ، جو مقابلتاً قلیل ہے اپنے آپ کو اہل قرآن کہتا ہے اور احادیث کے تمام مجموعے کو نہ صرف نا قابل اعتبار سمجھتا ہے بلکہ مخرب اسلام قرار دیتا ہے علامہ اقبال اس بارے میں نہایت معقول رائے رکھتے تھے، ان کے نزدیک اساسی اور ابدی اسلام قرآن میں موجود ہے اور قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ اس میں تمام باتوں کی تبیین اور تفصیل ہے، ان کے نزدیک بالکل برحق ہے؟ اس سے زندگی کی جزئی تفصیلات مراد نہیں ہو سکتیں اس لیے کہ زندگی کی تفصیلات اس کے تغیرات اور تنوع کی وجہ سے لامتناہی اور نا قابل احصا ہیں قرآن کریم جن تفصیلات پر حاوی اور اپنی تعلیمات کے لحاظ سے جامع اور مانع ہے وہ زندگی کے ان بنیادوں اصولوں کی تفصیلات ہیں جو قوانین فطرت کی طرح ناقابل تغیر اور اٹل ہیں۔ قرآن کریم نے خود وضاحت سے اپنے آپ کو قوانین فطرت اور قوانین حیات انسانی کا آئینہ بنایا ہے اور دین قیم اسی دین کو بتایا ہے جس کے متعلق ’’ لا تبدیل للحلق اللہ‘‘ اور’’ لن تجد لسنتہ اللہ تبدیلا‘‘ کہ سکیں۔ علامہ اقبال قرآن کریم کے بارے میں کسی تنسیخ اور تغیر کے قائل نہ تھے لیکن احادیث اور فقہ کے بارے میں از روے تحقیق اپنے آپ کو آزاد سمجھتے تھے، بہت سی حدیثیں جن کو لوگوں نے مسلم اور مستند سمجھ لیا ہے وہ ان کے نزدیک موضوع اور بے بنیاد تھیں اور بعض دیگر احادیث جن کا استناد ضعیف شمار ہوتا ہے وہ انہیں بصیرت نبوی کا اعلیٰ نمونہ تصور کرتے تھے اور اپنے کلام میں جا بجا ان سے استفادہ کرتے تھے۔ بہت سے مسلمان صوفیہ اور حکما کا بھی اس سے قبل یہی رویہ رہا ہے، مثنوی مولانا روم میں بعض اعلیٰ درجے کے اشعار انہی احادیث کی شرح میں ہیں جو محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں۔ یہی حال امام غزالی علیہ الرحمتہ جیسے بالغ نظر عالم اور حکیم صوفی کا ہے۔ احیاء العلوم اور کیمیاے سعادت پر اکثر محدثین نے یہی اعتراض کیا ہے کہ امام صاحب نے ان کتابوں میں ضعیف حدیثیں بھر دی ہیں۔ معاملات کے متعلق علامہ اقبال جن احادیث کو استناد کے لحاظ سے صحیح بھی خیال کرتے تھے ان کی نسبت بھی ان کی رائے یہ تھی کہ ان کا اطلاق مخصوص حالات پر ہوتا ہے، وہ فقہ اسلامی کے بعض عناصر کو تمام نوع انسانی کے لیے قابل عمل خیال کرتے تھے لیکن بعض فروغ میں وہ اجتہاد کے قائل تھے اور ان کی یہ رائے تھی کہ اجتہاد کا دروازہ بند کر دینے اور اجتہاد کی صلاحیت کے ناپید ہو جانے کی وجہ سے ملت اسلامیہ کو زوال آیا ہے۔ ملت اسلامیہ میں حامیان دین کے دو گروہ عرصہ دراز سے چلے آ تے ہیں ایک کو ملا اور دوسرے کو صوفی کہتے ہیں ملا کا گروہ وہی ہے جسے شیخ کا لقب دے کر شعراء اور متصوفین نے بہت کچھ برا بھل اکہا ہے۔ اقبال ان دونوں طبقوں سے بیزار تھے، انہیں تخریب اسلام کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ ملا پر یہ طعن تشنیع وہ اطراف سے شروع ہوئی، ایک تو اہل دل اور اہل باطن کی طرف سے جنہوں نے دیکھا کہ فقہا اور علم برداران دین کا ایک بڑا حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کی زندگی میں دین کے کچھ ظواہر تو ملتے ہیں لیکن کہیں بھی ظاہر کی تہ میں تزکیہ اور بصیرت قلب نظر نہیں آتی یہی طبقہ فروعات کے متعلق ایک دوسرے سے بر سر پیکار اور دست و گریبان رہتا ہے، چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ایک نیا فرقہ بن جاتا ہے جو اس فرقے سے باہر خدا کے نیک بندوں کی تکفیر کو باعث نجات سمجھتا ہے، ایسے اخلاق والے لوگ بھلا عامتہ الناس کی کیا اصلاح کریں گے؟ او خویشتن گم است گرا رہبری کند ان لوگوں کے پاس دین کا چھلکا ہوتا ہے جو ان کی خوراک بن جاتا ہے لیکن اس چھلکے کے اندر کے گودے سے ان کا کام و دہن آشنا نہیں ہوتا: جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند (حافظ) ہفتاد و دو طریق حسد کے عدو سے ہیں اپنا ہے یہ طریق کہ باہر حسد سے ہیں (ذوق) حقیقت شناس اہل دل کے علاوہ ایک دوسرا گروہ بھی موقع دیکھ کر اور صوفیہ کے کلام سے شہ پا کر علمائے ظاہر کے خلاف پھبتیاں کسنے لگا، یہ رندوں کا گروہ تھا جو دین کے ظاہر اور باطن دونوں سے بری ہونا چاہتا تھا اس گروہ نے سلایا شنج کو ہدف ظرافت بنا لیا۔ ان کے علاوہ مسلمانوں میں ایک قلیل تعداد حکماء کی تھی جو ملا سے اس لیے بیزار تھے کہ وہ شعائر اسلام احکام شریعت اور عقائد دینیہ کی حکمت سے نا آشنا ہے اور اسی لیے اس کے اقوال و اعمال تمام تر تقلیدی ہوتے ہیں، حیات و کائنات کے کچھ حقائق کا انکشاف عقل سے ہوتا ہے اور کچھ اسرار حیات ایسے ہیں جو عشق کی بدولت منکشف ہوتے ہیں ملا نے حکمت کو بھی دین سے خارج کر دیا اور محبت خدا و خلق سے بھی بیگانہ رہا۔ تصوف کے سلسلے مسلمانوں میں ظاہر پرستوں کے رد عمل کے طور پر شروع ہوئے تاکہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف متوجہ کیا جائے اور دین کو مرد مومن کے لیے ایک ذاتی تجربہ حیات بنایا جائے تاکہ لوگ محض مقلدانہ طور پر دین کی حقیقت کو تسلیم نہ کریں لیکن جس طرح فقہ میں جمود اور تقلید نے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو جامد اور بے روح بنا دیا تھا، اسی طرح تصوف میں غیر اسلامی عناصر نے دخل پا کر اسلامی زاویہ نگاہ کو خراب کیا اور رفتہ رفتہ تصوف جو تحقیق سے شروع ہوا تھا، خود ایک دوسری قسم کی تقلید بن گیا اور تصوف کے سلسلے بھی جامد ہو گئے دونوں طبقوں نے دین کو دنیاوی منافع اور مفاد حاصل کرنے کے لیے دام تنزویر بنا لیا۔ ملا کہلانے والا طبقہ تو در حقیقت قابل رحم ہے؟ ایک طرف حکومت یا دولت والوں کی طرف سے اس کی کوئی سرپرستی نہیں اور دوسری طرف بے چارے ملا کی تعلیم نہایت محدود ہوتی ہے، مفلسی اور کم علمی کی وجہ سے وہ سوسائٹی میں بے حیثیت ہو گیا ہے، اس سے مسجد کی صفائی اور مردہ شوئی کا کام لیا جاتا ہے، حقوق و فرائض کے متعلق اس کا علم بہت خام ہوتا ہے، کئی اسباب اس کی ذہنی اور اخلاقی پستی کے ذمہ دار ہیں، فیضی اس کے متعلق کہتا ہے: مشاجرات فرائض کہ کس نخوانا دش زمن مجوے کہ ایں علم مردہ شویان است اچھی معیشت اور اچھے گھرانوں کے لوگ اپنے بیٹوں کو ملا بنانا نہیں چاہتے اس لیے کہ ملا کے لیے نہ عزت کی روزی ہے اور نہ سوسائٹی میں وقار؟ یہ لوگ زیادہ تر ایسے ہی طبقوں سے آتے ہیں جن میں تعلیم و تربیت نہیں اور خود داری پیداکرنے والی دنیاوی وجاہت نہیں؟ پھر یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے اور کہ ان بے چاروں سے لوگ بلند خیالی اور بلند حوصلگی کی توقع رکھتے ہیں اور جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی تو ان کو متہم کر کے ان پر فقرے کسنے لگتے ہیں۔ جب تک حکومت اور ملت علوم دینیہ میں زندگی وقف کرنے والوں کے لیے باوقار روزگار اور اجتماعی وقار کا بندوبست نہ کرے تب تک ان کی حالت ایسی ہی ناگفتہ بہ رہے گی۔ کچھ ہوشیار ملا ایسے بھی ہیں جنہوں نے د نیا طلبی کے لیے سیاسی لیڈری شروع کر دی ہے، اس طریقے سے روزگار کا بھی اچھا بندوبست ہو جاتا ہے اور سوسائٹی میں بھی چرچا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے یہ افراد سیاست میں دخل انداز ہوتے ہیں ویسے ویسے رہا سہا دین بھی ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے؟ کسی صحت مندانہ سیاست کی ان سے توقع نہیں ہو سکتی کیونکہ جتنے یہ دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں اس سے زیادہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے نا آشنا ہوتے ہیں صدیوں پہلے ابن خلدون نے ان کے متعلق فتویٰ دیا تھا کہ (العلماء ابعد الناس عن السیاستہ) موجودہ دنیا میں سیاست ایک بڑی پیچدار چیز بن گئی ہے۔ معاشیات کے پیچ در پیچ مسائل اس کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں، اسلامی بنا پرسیاست اور معیشت میں قابل عمل مشورہ دینے کے لیے علوم جدیدہ اور حالات حاضرہ سے گہری واقفیت درکار ہے جو اس گروہ میں نہیں پائی جاتی، ملت اسلامیہ کی خرابی یہ ہے کہ اہل سیاست دین سے بیگانہ ہیں اور مدعیان دین سیاست کی ابجد سے واقف نہیں۔ ملا کے علاوہ ہمارے ہاں کے صوفی ہیں جنہیں لوگ پیر کہتے ہیں۔ پیری کا سلسلہ اکثر کسی اہل دل سے شروع ہوتا ہے جو تزکیہ باطن اور بصیرت روحانی کی بدولت مرجع خلائق بن جاتا ہے؟ ایسے شخص میں شق الٰہی، اصلاح ذات اور فلاح خلق کے سوا اور کوئی جذبہ یا محرک نہیں ہوتا، وہ انبیاء کی طرح لوگوں سے کسی اجرت کا طالب نہیں ہوتا، اس مرد خدا کے گزر جانے کے بعد اس کی اولاد اس کی جانشین ہو جاتی ہے اور سجادہ نشینی ایک قسم کی جاگیرداری بن جاتی ہے، عقیدت مند نقدی اور نذرانے بھی پیش کرتے ہیں، جو رفتہ رفتہ ایک مستقل ٹیکس کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ زمینوں کے عطیے سے اوقاف قائم ہو جاتے ہیں، پھر کسی طرح سے یہ اوقاف پیروں کی ذاتی ملکیت بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ سجادہ نشین صاحب جاگیر ہو جاتا ہے اور سرمایہ داروں کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے، جہالت کی وجہ سے معتقدین کے اعتقاد میں کچھ خلل نہیں آتا، رفتہ رفتہ ہر شخص (الا باستثناے مردے چند) جس کو پیری ورثے میں ملی ہے اس کو زمینداری اور امیری بھی ورثے میں مل جاتی ہے، حکومت کی طرف سے بڑے بڑے خطابات حاصل ہوتے ہیں پھر کونسلوں میں داخل ہو کر پیری کے بعد وزیری کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ اقبال کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ مسلمانوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک طبقہ پیدا ہو لیکن اس اہم فریضے کے لیے اہل دل اور اہل علم ہونے کی ضرورت ہے اور زبردست جذبہ ایثار اس کے لیے لازم ہے۔ جب وہ دیکھتا تھا کہ عوام کو دین کی خبر نہیں (اگرچہ اس بے خبری کے باوجود ان کے اخلاق خواص سے کچھ بہتر ہی ہوتے ہیں) اور حامیان شرع متین ملا اور صوفی کا یہ حال ہے تو بعض اوقات مایوسی میں یہ پکار اٹھتا تھا کہ اے خدا اس ملت کو دنیا سے اٹھا لے اور حسب وعدہ کوئی اور ملت اسلام کی خدمت کے لیے پیدا کر: کہ ایں ملت جہان را بار دوش است اقبال نے ملا کی نسبت عام شاعروں کی طرح فقط لطیفہ بازی نہیں کی، اس نے جو کچھ کہا ہے وہ بربناے بصیرت اور بربناے تجربہ کیا ہے، اس کا انداز ظریفانہ نہیں بلکہ اس کی تہ میں درد و رنج ہے، اکثر اشعار میں ملا پر جو اعتراض کیا ہے اس کی وجہ بھی بتائی ہے۔ ملا میں رواداری نہیں ہوتی: کوئی یہ پوچھے کہ واعظ کا کیا بگڑتا ہے جو بے عمل پہ بھی رحمت وہ بے نیاز کرے ملا کے خدا کا تصور بھی ادنیٰ تشبیہی اور مکانی تصور ہے: بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے بھلا نبھے گی تری ہم سے کیوں کر اے واعظ کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں اسلام کا خدا رب العالمین اور اس کا نبی رحمتہ للعالمینؐ ہے، تنگ نظری نے خدا کو صرف رب المسلمین اور نبی کو صرف رحمتہ للمسلمین بنا دیا اور یہ رحمت بھی تمام مسلموں کے لیے نہیں بلکہ اپنے فرقے کے چند افراد کے لیے ہے بشرطیکہ وہ تمام فروع میں آپ کے ہم خیال اور ہم نوا ہوں۔ اسلام کا تقاضا یہ تھا کہ رسم محبت کو عام کیا جائے اور عدل و رحم کو صرف اپنے گروہ تک محدود نہ رکھا جائے، تنگ نظر علما نے محبت کو عام کرنے کی بجائے نفرت کو عالمگیر بنا دیا اس لیے کہ خلق خدا کی کثیر تعداد تو کسی ایک ملت اور ایک فرقے سے خارج ہی ہوتی ہے، نفرت اور تکفیر کا بازار گرم ہو گیا، جو تم سے پوری طرح متفق نہیں اس کے ساتھ مل کر نماز بھی نہ پڑھو، جو فلاں امام کے پیچھے نماز پڑھے گا اس کی بیوی پر طلاق عائد ہو جائے گی، مسجدوں میں اس مضمون کے بورڈ لگنے شروع ہو گئے کہ مسلمانوں کے فلاں فلاں فرقوں کے افراد کے لیے اس مسجد میں نماز پڑھنا ممنوع ہے (ایک بڑی مسجد میں اس قسم کا بورڈ راقم الحروف نے طالب علمی کے زمانے میں دیکھا ہے) بلند آواز سے آمین کہنے پر لوگ مسجدوں میں ہی پٹ گئے اور اس کے بعد مسجد کو غسل دیا گیا کہ بلندی آمین کی ناپاکی رفع ہو جائے؟ مسلمان غیر مسلموں سے تو کسی قدر رواداری برتنے بھی لگے لیکن اپنی ملت کے اندر تشدد میں اضافہ کرتے گئے، نئے متنبی اور مجدد ایسے نکلے کہ ملت کے اندر اتحاد کو ترقی دینے کی بجائے افتراق کی آگ کو ہوا دینے لگے، جو ان کے دعوؤں کو نہ مانے وہ خداو رسول ؐ کو ماننے کے باوجود کافر یا کم از کم یہ کہ اس سے معاشرتی تعلقات منقطع کر لیے جائیں، رشتہ ناطہ بند، نماز میں شرکت ممنوع اور یہ سب کوشش احیائے ملت اور تجدید دین کے نام پر اگر اسلام دیگر مذہب کے مقابلے میں رسم محبت کو عام کرنے کا نام نہیں ہے تو پھر اس میں اور کونسی فضیلت باقی رہ جاتی ہے۔ ایک شعر میں اقبال نے کہا ہے کہ محبت کی فراوانی اور جہانگیری ہی کا نام اسلام ہے، اسلام نے تو عملاً رواداری کو ترقی دینے کے لیے یہاں تک اجازت دے دی تھی کہ ایک اہل کتاب عورت تمہاری اولاد کی ماں ہو سکتی ہے اور اس کی خدمت مسلمان اولاد کے لیے ویسی ہی فرض ہے جیسی کہ اس ماں کے مسلمان ہونے کی حالت میں ہوتی، لیکن ملائی اسلام نے اس دین کو اتنا تنگ کر دیا کہ فقہی اور فروعی اختلافات کی بناء پر ایک دوسرے کے ہاں کھانا پینا، خدا کی عبادت کرنا اور بیاہ شادی ممنوع و مقطوع ہو گئی۔ جن مکتبوں میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسی تنگ نظری میں رعنائی افکار کہاں سے آئے گی؟ عجیب بات یہ ہے کہ یہ رواداری خانقاہوں سے بھی مفقود ہو گئی ہے حالانکہ یہی خانقاہیں اچھے زمانوں میں کبر و نصاریٰ اور یہود و ہنود کے لیے بھی کشش کا باعث تھیں، کثرت سے غیر مسلم صوفیہ کی رواداری اور حسن سلوک ہی کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے: مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟ خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟ پیروں کے ہاں اب قوالی تو ہوتی ہے لیکن وہاں خود انگیختہ وجد و حالی کی تہ میں کہیں پائدار روحانی عشق کا جذبہ نہیں ابھرتا جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے خانقاہوں میں اب کرامات کا بیان بیچا جاتا ہے اور یہ کرامات جن کا حقیقی روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں روحانیت کا معیار بن گئی ہیں ملا بیچارہ ظاہر پرستی سے بے عرفان اور محروم عشق رہ گیا اور صوفی کی باطنیت فقط ہو حق اور کرامات کا افسانہ بن گئی: رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی فسانہ باے کرامات رہ گئے باقی کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی اقبال صرف صوفی اور ملا ہی سے بیزار نہیں وہ ان فلسفہ سے بھی کچھ توقع نہیں رکھتا جو فقط عقل جزوی اور استدلال کی بناء پر حقیقت رس ہونے کے مدعی ہیں۔ ایسے فلسفے سے دماغ کی ورزش تو ہو جاتی ہے لیکن دل محبت اور بصیرت سے بیگانہ ہو کر مردہ ہو جاتا ہے: نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو یہ دل کی موت وہ اندیشہ و نظر کا فساد اقبال کے نزدیک اسلام سراپا حرکت ہے اور ہمہ سمتی جدوجہد کا نام ہے۔ حفاظت دین اور حمایت حق میں تلوار اٹھانا اس جہاد کا فقط ایک ہنگامی پہلو ہے۔ ہمارے فقہا اور حامیان دین کے لیے کوئی اچھا میدان عمل باقی نہ رہا، نہایت دور از کار باتوں پر معرکہ آرائی شروع کر دی اور مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانا ان کے لیے جہاد کا بدل بن گیا: میں جانتا ہو انجام اس کا جس معرکے میں ملا ہوں غازی دین کے مدعی ایسے ہی لغو معرکوں میں حریفوں کو شکست دے کر غازی بن بیٹھے۔ تصوف کی بابت اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی یہ بات کہی ہے کہ روحانی وجدان حاصل کرنے کے لیے صوفیوں کے قدیم سلسلے کار آمد نہیں رہے:ـ تیری طبیعت ہے اور، تیرا زمانہ ہے اور میرے موافق نہیں خانقہی سلسلہ دور حاضر کے انسانوں کی نفسیات میں بہت کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے اب روحانی ترقی کے حصول کے لیے پرانے طریقوں کے افکار اور صوفیانہ مشقیں کار آمد نہیں رہیں: تھا جہاں مدرسہ شیری و شہنشاہی آج ان خانقہوں میں ہے فقط روباہی اقبال کو یقین تھا کہ اس شمشیر برہنہ تنقید کی وجہ سے تمام فقہا ان کے مخالف ہو جائیں گے لیکن یہ صورت حال پیدا نہ ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ شعر میں کہا اور مسلمانوں کی ذہنی روایات میں عرصہ دراز سے یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ شعر میں جو کچھ کہا جائے وہ معارف ہے۔ رندی و ہوس ناکی ہو یا کفر، یاعناں گسیخنہ آزاد خیالی اور بے راہ روی، اگر اس کا بیان شعر میں ہو تو مسلمان اسے شیر مادر کی طرح پی جاتا ہے لیکن وہی بات اگر نثر میں کہی جائے تو پھر جان و آبرو کی خیریت نہیں، خوش قسمتی سے اقبال کی یہ توقع کہ: یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف پوری نہ ہوئی۔ ہاں اگر فقہ و تفسیر و حدیث پر نثر میں کچھ لکھتے تو سید احمد خاں سے کہیں زیادہ ہدف ملامت بنتدے نثر میں لکھنے کے ارادے ہی کرتے رہے لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا، ملت اسلامی کی تشکیل نو کے متعلق خطبات انگریزی میں لکھے اور وہ بھی ایسے فلسفے کی زبان میں جو ملا تو درکنار اعلیٰ انگریزی داں طبقے کے لیے بھی آسانی سے قابل فہم نہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کو اردو زبان میں منتقل کرے کیوں کہ ان کو خطرہ تھا کہ بغیر تشریح و توضیح ان سے شدید غلط فہمی پیدا ہو گی: میں جانتا ہوں جماعت کا محشر کیا ہو گا مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب اس میں شعر میں یہ شکایت ہے کہ زندگی کے حقیقی مسائل عملی ہوتے ہیں اور خیر و شر کا معیار بھی عمل ہی سے قائم ہوتا ہے لیکن جب کسی قوم کی قوت عمل میں ضعف آ جاتا ہے تو فقہا، خطیب او رحکما نظری بحثوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ملا میں لفظی اور فروعی بحث و تکرار کا شوق اس قدر غالب ہے کہ اگر وہ یہی سیرت لے کر جنت میں بھی داخل ہوا تو اس کو اس دار السلام میں بھی کچھ لطف نہ آئے گا، وہاں صلح و سکون کی فضا میں بحث و تکرار کی گنجائش نہیں اور مذاق فتنہ کے لیے تسکین کا سامان نہیں: ملا اور بہشت میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا حق سے جب حضرت ملا کو ملا حکم بہشت عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت نہیں فردوس مقام جدل و قال و اقول بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت ہے بد آموزی اقوام و ملل کام اس کا اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت اقبال کو اس کا افسوس ہے کہ متصوفین نے تصوف کو خراب کیا، شریعت کے حامیوں نے اس کی وسعت، اس کی حکمت اور اس کے جمال کو مسخ کیا اور متکلمین کے علم کلام مے اسلام کو عجمی اور یونانی افکار کا گورکھ دھندا بنا دیا اب یہ حال ہے کہ ہر ایک سنہ کے لیے پرانی لکیریں ڈھونڈتا ہے: ’’خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر‘‘ علم و عشق دونوں غائب ہیں اور ملت میں فقط روایت پرستی رہ گئی ہے: تمدن تصوف شریعت کلام بتان عجم کے پجاری تمام حقیقت خرافات میں کھو گئی یہ امت روایات میں کھو گئی لبھاتا ہے دل کو کلام خطیب مگر لذت شوق سے بے نصیب بیاں اس کا منطق سے سلجھا ہوا لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد محبت میں یکتا حمیت میں فرد عجم کے خیالات میں کھو گیا یہ سالک مقامات میں کھو گیا بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے اب تسبیح و مناجات میں بھی روح باقی نہیں رہی، تسبیح کی دانہ شماری ایک میکانکی فعل بن گیا؟ ایران، عربی ممالک اور ترکی میں یہ رواج عام ہے کہ ہر کس و ناکس کے ہاتھ میں تسبیح ہوتی ہے، دنیا داری کی لغو باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہاتھ میں سبحہ گردانی جا ری ہے۔ میں نے ان ممالک میں کئی مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ تم اس تسبیح میں کیا ذکر یا ورد کر رہے ہو؟ ہمیشہ جواب یہی ملا کہ یوں ہی عادت ہو گئی ہے، ہم پڑھتے کچھ نہیں، معلوم ہوا کہ جمادات و نباتات کی طرح ایک غیر شعوری حرکت ہے: یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات جن طرہ باز، خطاب یافتہ، جاگیر دار پیروں کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، وہ پنجاب میں کافی تعداد میں ملتے ہیں۔ اگرچہ ان کا جو زور شور سندھ میں ہے وہ شاید کہیں اور نہیں۔ بنگال میں بھی پیروں کا کافی دور دورہ ہے لیکن غالباً وہاں ان کو زیادہ امیری اور جاگیرداری میسر نہیں آئی۔ اقبال کو پنجاب کا تجربہ تھا اس لیے یہاں کی پیری کے متعلق ایک مستقل نظم لکھ دی ہے: پنجاب کے پیرزادوں سے حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس کے نفس گرم میں ہے گرمی احرار وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہبان اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو آنکھیں میری بینا ہیں و لیکن نہیں بیدار آئی یہ صدا سلسلہ فقر ہوا بند ہیں اہل نظر کشور پنجاب سے بیزار عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خطہ کہ جس میں پیدا کلہ فقر سے ہو طرۂ دستار باقی کلہ فقر سے تھا ولولہ حق طروں نے چڑھایا نشہ خدمت سرکار اسلام کی نسبت علامہ اقبال کے افکار حکیمانہ ہیں۔ انگریزی خطبات میں بھی اور اشعار میں بھی جا بجا یہ زاویہ نگاہ ملتا ہے کہ اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے۔ جس طرح طبیعیات کے قوانین بلا امتیاز مذہب و ملت سب پر مساوی عمل کرتے ہیں، اسی طرح اخلاقیات اور روحانیات کے آئین بھی عالم گیر ہیں۔ اسلام کسی ایک قبیلے کسی ایک قوم یا کسی ایک ملک کا مذہب نہیں۔ ریاضیات کی طرح اس کی صداقتیں بھی کائنات کے ہر شعبے پر حاوی ہیں۔ قرآن کریم نے اسلام کے عالمگیر ہونے کو جا بجا بیان کیا ہے۔ جب وہ ’’ فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا‘‘ کہہ کر اس کو دین قیم قرار دیتا ہے تو وہ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کا ذکر نہیں کرتا۔ وہ اسے تمام نوع انسان کا دین قرار دیتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اسلام کائنات بھر کا دین ہے۔ ’’ یسبح للہ ما فی السموات وما فی الارض‘‘ کائنات میں ہر شے کی تسبیح خوانی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان سے باہر لامتناہی کائنات کا بھی ایک دین اور یہ دین بھی مشیت و آئین الٰہی کی پابندی ہے۔ از روئے قرآن اطاعت طوعاً بھی ہوتی ہے اور کرھاً بھی۔ عبادت اختیار سے بھی ہو سکتی ہے اور جبر سے بھی۔ اسلام سے قبل مختلف ادیان نے جنت اور نجات کو اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا اور ہر گروہ میں یہ عقیدہ راسخ ہو گیا تھا کہ وہ گروہ اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے خدا کی مخصوص اور منتخب قوم ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی وہی اجارہ داری ہے۔ ادیان کی تاریخ میں سب سے پہلے قرآن کریم نے اس اجادہ داری کو توڑا اور واضح الفاظ میں اس خیال باطل کا قلع قمع کیا کہ اجر و نجات کسی ایک ملت کا اجارہ ہیں خواہ اس کے اعمال کچھ ہی ہوں۔ قالت الیھود لیست النصاریٰ علی شیی وقالت النصاریٰ لیست الیھود علی شیی وھم یتلون الکتاب کذالک قال الذین لا یعلمون مثل قولھم (۲:۱۱۳) ’’ یہودی کہتے ہیں کہ نصاری کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ یہود کی کوئی مذہبی بنیاد نہیں حالانکہ یہ دونوں ہی فریق کتاب الٰہی پڑھتے ہیں۔‘‘ ان الذین امنو والذین ھادوا والصابئون والنصاریٰ من آمن باللہ والیوم الاخر و عمل صالحاً فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون (۵:۶۹) جو مسلمان ہیں او رجو یہودی ہیں اور صابی اور نصاریٰ ان میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ان پر نہ کوئی خوف ہے نہ یہ غمگیں ہوں گے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اگر اسلام کو اسی طرح کا ایک عالم گیر دین قرار دیتا ہے جو قانون فطرت کی طرح تمام انسانوں کی زندگی پر حاوی ہے تو ملت اسلامیہ میں کیا خصوصیت اور امتیازی شان ہے کہ وہی ہمیشہ تمام نوع انسان پر فائق رہے؟ اس کا جواب قرآن کریم سے بھی مل سکتا ہے اور اقبال کے کلام میں بھی کئی مواقع پر اس کا حل موجود ہے۔ قرآن کریم میں صاف طور پر تنبیہہ موجود ہے کہ اے ملت مومنین! تمہاری فوقیت اور تمہارا شہدا علی الناس ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ تم آئین الٰہی کی پابندی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لائحہ عمل بناؤ۔ جب تم میں یہ بات نہیں رہے گی تو اسلام کسی اور ملت کے حوالے کر دیا جائے گا جس کے عقائد و اعمال خدا کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔ ملت اسلامیہ کی جو موجودہ حالت ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں۔ اس کے اندر مرور ایام سے جو عیوب پیدا ہو گئے ہیں، اس کے عقائد میں اب جو فساد ہے، اس کے اعمال میں اب جو اختلال و انتشار ہے اس کا درد ناک احساس اقبال کے اشعار میں جا بجا ملتا ہے۔ پہلے شکوہ اور جواب شکوہ پر نظر ڈالیے۔ شکوہ اسی ذہنیت کا آئینہ د ار ہے جو عیسائیوں اور یہودیوں اور دوسری امتوں میں پائی جاتی تھی کہ ہم خدا کی منتخب قوم ہیں۔ ہم ہی خدا کے بیٹے ہیں لہٰذا دوسروں کے مقابلے میں ہمیں کسی حالت میں ذلیل اور بے بس نہیں ہونا چاہیے اعمال کا کوئی سوال نہیں ہمارے عقائد تو برقرار ہیں۔ ہم بھی اپنے خدا کو مانتے ہیں۔ اپنے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو برحق سمجھتے ہیں اور اس کی نازل کردہ کتاب کو سراپا صداقت یقین کرتے ہیں۔ خدا کو یہ تو نہیں چاہیے تھا کہ اپنوں کو ذلیل کر دے اور تمام نوازشوں کی بارش اغیار ہی پر کرے۔ اقبال کا شکوہ اس کے اپنے قلب کی گہرائیوں میں سے نکلتی ہوئی آواز نہیں ہے۔ اس شکایت میں اس نے فقط عامتہ المسلمین کی غیر شعوری کیفیت کو بیان کیا ہے کہ مسلمان یوں محسوس کرتے، یوں کہتے اور سمجھتے ہیں۔ اس شکوے میں مسلمانوں نے اپنے اعمال کی کوتاہی کو نظر انداز کیا ہے یا اسے بہت مدھم انداز میں بیان کیا ہے۔ زیادہ تر شکایت کا انداز یہی ہے: ’’ہم نیک ہیں یا بد ہیں پر آخر ہیں تمہارے‘‘ اپنوں کے ساتھ تو ایسی بدسلوکی نہیں ہونی چاہییـ: ’’با بندۂ خود ایں ہمہ سخنی نمی رسد‘‘ اس میں جن کارناموں کو زور شور سے بیان کر کے اپنا حق جتایا ہے وہ سب اسلاف کے کارنامے ہیں۔ تلک امتہ قد خلت اپنی موجودہ زندگی میں سے ایک خوبی کا بھی نشان نہیں دیا۔ برائیوں سے انکار تو نہیں کر سکتے تھے لیکن اپنا بچاؤ وہاں یہ پیدا کیا ہے کہ اگر یہ سب تذلیل گنہگاری کی پاداش ہے تو عصیاں کار صرف ہم ہی نہیں: امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر شکوہ میں اخلاق و ایثار و جہاد فی سبیل اللہ کے جتنے دعوے ہیں وہ اسلاف کے متعلق تو درست ہیں لیکن اخلاف کے متعلق سر بسر بے بنیاد ہیں۔ ایسے دعوے اقبال کی طرف سے تو پیش نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ سب کوتاہ اندیش اور خود شناسی سے محروم مسلمانوں کے بے بنیاد دعوے ہیں۔ یہ کس قدر سفید جھوٹ ہے کہ سلمان، اویس قرنی اور بلال حبشی ہم ہی ہیں اور توحید کے امین ہم ہی چلے آ رہے ہیں، محض اس لیے کہ منہ سے لا الٰہ الااللہ کہتے ہیں: تجھ کو چھوڑا کہ رسولؐ عربی کو چھوڑا؟ بت گری پیشہ کیا بت شکنی کو چھوڑا؟ عشق کو عشق کی آشفتہ تری کو چھوڑا؟ رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟ آگ تکبیر کے سینوں میں دبی رکھتے ہیں زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں مسلمانوں میں ایک جاہل اور ملائی طبقہ ایسا ہے جو یہ کہہ کر طبیعت کو خوش کر لیتا ہے کہ دنیا چند روزہ ہے۔ فرنگیوں اور کافروں کا یہ جاہ و جلال اور ان کی مساعی کی یہ خلد آفرینی اور مسلمانوں کے مصائب سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ ’’ الدنیا سجن المومنین و جنت الکافر‘‘ دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ دوسری قوموں کا یہ عیش و اقتدار کیا ہے: ہنگامہ گرم ہستی نا پائدار کا چشمک ہے برق کی کہ تبسم شرار کا اس کے بعد ابد الا باد تک قائم رہنے والی جنات النعیم اس کا حصہ ہیں۔جو لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوا اس دنیا سے عبور کر گیا ہے، لیکن اقبال کے ہاں دین کا یہ تصور نہیں اور وہ اس ابلہ فریبی کے عقیدے کی لپیٹ میں نہیں آتا۔ اقبال کا عقیدہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتیں مومن کا حق ہیں۔ جو سچے مومن تھے ان کو دنیا میں غلبہ بھی حاصل ہوا اور دنیا کی تمام جائز اور حلال نعمتیں بھی ان کو حاصل ہوئیں، وہ وارث ارض بھی بنے۔ دنیا کی دیگر اقوام جب جھونپڑوں میں رہتی تھیں تو یہ صاف ستھرے مکانوں میں رہتے تھے۔ دوسری قومیں چیتھڑے لٹکائے پھرتی تھیں یا ننگی تھیں تو مسلمان خوش پوش تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ پارچہ بافی کی صنعت کے موجد تھے۔ اسلام رہبانیت کا دین نہیں وہ بے نوائی اور بے سر و سامانی کو روحانیت کا لازمہ قرار نہیں دیتا۔ اسی لیے اقبال کو بجا طور پر اس کا رنج ہے اور وہ زندگی سے لطف اٹھانے والی قوموں پر رشک کرتا ہے: بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے سنتے ہیں جام بکف نغمہ کو کو بیٹھے دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے اپنے ویرانوں کو بھی ذوق خود افروزی دے برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے ایک اور شعر میں بھی اقبال مغرب کی متمدن اور مہذب زندگی پر رشک کرتے ہوئے خدا سے کہتا ہے: فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند مسلمانوں کے اعمال اور ان کی سیرت کا صحیح نقشہ وہی ہے جو جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ خدا نے مسلمانوں کے ایک ایک دعویٰ باطل کو توڑا ہے اور شکایت بے جا کا جواب دیا ہے۔ تم کہتے ہو کہ خدا اغیار پہ کرم کرتا ہے اور ہم پر نہیں کرتا۔ حصول کرم کے لیے کچھ لازمی شرائط ہیں۔ کوئی رستہ چلنے والا ہو تو اس کی منزل کی طرف رہنمائی بھی کی جائے۔ کوئی جوہر قابل ہو تو اس کی تربیت کا سامان بھی خدا کی طرف سے مہیا ہو جائے۔ جن میں قابلیت ہوتی ہے ان کو عظیم الشان سلطنتیں دی جاتی ہیں اور جویندی یابندہ کے اصول عالمگیر کے مطابق ڈھونڈنے والے نئی دنیا بھی تلاش کر لیتے ہیں، جیسے کہ کولمبس نے کیا: کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں تم اس کے مدعی ہو کہ توحید کی امانت کے تم امین ہو اور تکبیر کی آگ تمہارے سینے میں دبی ہوئی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھے عملاً توحید نہیں بلکہ الحاد ہی نظر آتا ہے۔ منہ پر لا الٰہ الا اللہ اور دل میں صنم خانہ حرص و ہوا: ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں تم کو شکایت ہے کہ اغیار اچھے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اچھے گھر تو علم و فن اور ہمت سے بنتے ہیں۔ تم علم و فنون سے بے بہرہ ہو گئے ہو اس لیے تمہارے پاس اچھے گھر بھی نہیں: جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو عقائد و اعمال کا مجموعی نام اسلام ہے۔ مسلمانوں کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ فطرت کی تعلیم تھی۔ یہ تعلیم وحی سے بھی حاصل ہوتی ہے اور از روئے قرآن مشاہدہ فطرت اور تحقیقی تفکر سے بھی۔ اگر وہ وسیع آزاد اور پاکیزہ ہو تو معرفت کا ذریعہ ہے۔ جس کی فطرت سلیم ہو اس میں سے اخلاق حسنہ خود بخود ابھرتے ہیں۔ علم و فنون سے زندگی میں بے شمار بھلائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ خوبیاں انہیں میں پائی جائیں جو محض حادثہ ولادت سے مسلمان کہلانے والے لوگوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہیں۔ اخلاقی خوبیاں اسلام کی تلقین سے پہلے تمام اقوام کے اچھے افراد میں موجود تھیں۔ چنانچہ رسول کریم ؐ نے فرمایا: ’’ اے گروہ مومنین تم میں اسلام لانے کے بعد بھی وہی لوگ اچھے ہیں جو از روے فطرت اس دین میں داخل ہونے سے قبل بھی اچھے تھے‘‘ خیار کم فی الجاھلیتہ خیار کم فی الاسلام حضرت عمر فاروقؓ میں اگر عدل کا جوہر پہلے سے موجود نہ ہوتا تو اسلام میں داخل ہونے کے بعد یک بیک کہاں سے پیدا ہو جاتا؟ اسلام نے اس کو قوی اور منور کر دیا۔ اسی طرح اور صحابہ کرام کی سیرتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو پہلے دروغ گو ہو اور پھر راست گفتاری کا شیوہ بعد از قبول اسلام اختیار کیا ہو۔ اسلام نے لوگوں کی فطری صلاحیتوں کو اچھے اور وسیع اغراض و مقاصد میں لگا دیا۔ اسلام کامل تو کسی مرد کامل ہی میں ہو سکتا ہے لیکن اس کے بہت سے اجزاء میں سے وہ انسان بھی بہرہ اندوز ہو سکتے ہیں جو پیدائشی مسلمان نہیں ہیں، لیکن فطرت اور تجربہ حیات نے ان کو صحیح راستوں کی طرف راہنمائی کر دی ہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ پیدائشی مسلمانوں میں اسلام کا ایک چوتھائی حصہ پایا جائے جو زیادہ تر اقرار باللسان پر مشتمل یا بعض شعائر اسلام کی ظاہری پابندی میں محصور ہو اور تین چوتھائی حصہ کسی ایسے شخص کے اقوال و اعمال میں نمایاں ہو جو اتفاق سے اس امت میں پیدا نہیں ہوا جو اسلام کا نام لیوا ہے۔ صحیح بخاری میں دو تین احادیث ہیں جن میں رسول کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ اعمال صالحہ ایمان کا قریباً تین چوتھائی حصہ ہیں۔ اسی اصول کے مطابق جواب شکوہ میں شاکی مسلمانوں کو خدا نے ڈانٹ کر کہا ہے کہ تو کہتا ہے کہ غیر مسلمان کو اسی دنیا میں حور و قصور ملتے ہیں اور مسلمان کو فقط آخرت کے وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ تیرا یہ خیال باطل ہے۔ خالی مسلمان کہلانے سے کیا ہوتا ہے۔ خدا کے قوانین حیات عادلانہ قوانین ہیں اور عدل اس کا نام ہے کہ یار و اغیار سب پر اس کا مساوی اطلاق ہو۔ جس کو تو کافر سمجھتا ہے وہ عملاً تجھ سے بہتر مسلمان ہے۔ اس لیے کہ تیرے مقابلے میں اس نے اسلام کا بیشتر حصہ اپنا لیا ہے۔ اس کے اجر میں اس کو یہیں حور و قصور مل گئے ہیں۔ خدا کے ہاں اعمال کا ذرہ ذرہ تلتا ہے۔ اب میزان عمل میں تیری خوبیوں کا پلڑا ہلکا ہو گیا ہے اور جسے تو کافر کہتا ہے اس کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔ خدا کے ہاں رعایت کا دخل نہیں۔ خدا یہ نہیں کر سکتا کہ محض تمہارے دعوؤں اور زبانی اقراروں کی وجہ سے تم کو نوازتا جائے اور جو منہ سے تو نہیں کہتے لیکن اچھے عمل کرتے ہیں ان کو نظر انداز کر دے: کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں یہ جو شور مچا ہوا ہے کہ آزاد و مہذب قوم کی حیثیت سے مسلمان نابود ہو گئے ہیں، اس لیے کہ مقتدر اور علم و فنون سے بہرہ ور اقوام میں ان کا شمار نہیں تو اس کا سیدھا جواب حضرت اقبال خدا کی زبان سے یہ دیتے ہیں کہ مسلمان ہوتے ہوئے کوئی ملت کیسے نابود ہو سکتی ہے؟ اسلام تو ہمیشہ باقی رہنے والی چیز ہے اور جو ملت اس پر عامل ہو اس کی بقا کا بھی خدا اور اس کی فطرت ضامن و کفیل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان موجود ہی نہ تھے جو نابود ہو جاتے۔ جو نابود ہوئے ہیں ان میں نام کے سوا اسلام کی کوئی بات نہ تھی۔ عقائد میں، معاشرت میں، تہذیب و تمدن میں وہ دوسری اقوام کے بیہودہ نقال اور مقلد تھے۔عیسائی تو کئی انقلابات کے بعد زندگی کا تجربہ حاصل کر کے اپنی فکر کو آزادانہ تحقیق میں لگا کر، رہبانیت سے ہٹ کے زندگی میں ہمہ سمتی جدوجہد کو اپنا شعار بنا کر، مسلم آئین ہو گئے اور تم رجعت قہقری سے اسلام کو چھوڑ کر انہیں پرانے باطل عقائد پر آ گئے۔ نصاریٰ کی ظاہری وضع کی نقل کی اور تمدن میں ہندوؤں کے ذات پات کے امتیاز کو اختیار کر لیا اور دوسری طرف یہودیوں کی طرح اپنے آپ کو ابناء اللہ اور خدا کی منتخب قوم سمجھ کر نجات کے اجارہ دار بن گئے۔ خود یہودیوں نے اب یہ خیال بہت کچھ ترک کر دیا ہے، لیکن تم جنہیں جو اس ادعا سے منع کیا گیا تھا اس عقیدے پر اڑ گئے ہو۔ اب تو یہودی بھی تم سے زیادہ حکمت پسند ہو گئے ہیں۔ اپنی جدوجہد، حکمت عملی اور ایثار سے وہ تمہیں دھکیل کر فلسطین میں داخل ہو گئے ہیں: شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو تم سبی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟ مسلمان اور فرنگی نصاریٰ کا مقابلہ کرتے ہوئے مفتی محمد عبدہ مفکر و مصلح مصر نے کیا درست بات کہی ہے جو علامہ اقبال ہی کے خیال کے مطابق ہے کہ ’’ اعمالہم کد یننا، واعمالنا کدینھم‘‘ مغربیوں کے اعمال ہمارے دین کے بہت کچھ مطابق ہو گئے ہیں او رہمارے اعمال غلط روی میں بہت کچھ ان کے پورے دینی عقائد کے مماثل ہیں۔ ہاں تو سوال یہ تھا کہ ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت کی نسبت اگر اقبال کے خیالات یہ ہیں کہ دین، ایمان اور عمل سے محروم ہو گئی ہے اور دوسری قومیں اسلام کے زیادہ حصے پر عامل ہو کر دنیا میں معزز اور قوی ہو گئی ہیں، اس کے باوجود اس گری ہوئی حالت میں بھی ملت اسلامیہ سے اسے اس قدر وابستگی کیوں ہے؟ اب وہ کیوں ان قوموں سے رشتہ نہیں جوڑ لیتا جنہیں وہ زیادہ مطابق اسلام پاتا ہے؟ علاوہ ازیں ملت اسلامیہ کے بارے میں اس زبوں حالی کے باوجود اس پر مایوسی کیوں طاری نہیں ہوتی؟ وہ کیوں مستقبل میں اس سے یہ توقع رکھتا ہے کہ دوبارہ اس کا احیاء ہو گا اور پھر نوع انسان کی قیادت اس کے ہاتھ آ جائے گی؟ اس کا جواب دو تین پہلوؤں سے دیا جا سکتا ہے۔ پہلے تو سیدھی اور فطری بات یہ ہے کہ انسان جس ملت میں پیدا ہوا ہے اس کی نالائقی اور بے راہ روی کے باوجود نہ وہ اس سے اپنا رشتہ منقطع کرنا چاہتا ہے اور نہ کر سکتا ہے۔ بلند پایہ نفوس اپنی قوم کی حالت زبوں سے پریشان اور بے زار ہو کر اس کی طرف سے منہ نہیں موڑ لیتے۔ قوم کی حالت جس قدر گری ہوئی ہو اسی قدر ایک حولہ مند اور بلند ہمت مفکر اور مصلح یہ اپنا فرض محسوس کرتا ہے کہ گریز کی بجائے ستیز پر کمر ہمت باندھے۔ مساعد حالات میں تو ہر کہ و مہ عزت و آبرو کی زندگی بسر کر سکتا ہے۔ انسان کا امتحان نامساعد حالات میں ہوتا ہے۔ مساعد حالات میں رہبری کوئی دشوار کام نہیں، لیکن ایسے حالات میں جب کہ قوم نہ صرف تباہ حال ہو بلکہ اس کے دل میں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ہو، صحیح فکر و عمل کی تلقین ایک مجاہدانہ فطرت اورپیمبرانہ سیرت کا تقاضا کرتی ہے: وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا مسلمانوں کی حالت اقبال کے زمانے میں ایسی ہی تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی انتہا ۱۸۵۷ء میں ہوئی جب کہ ایک طرف فرنگی فاتحین اور دوسری طرف برادران وطن نے مسلمانوں کو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پیس ڈالنے کی کوشش کی۔ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں لکھا ہے کہ اس زبوں حالی اور یاس انگیز کیفیت میں جب حالت یہ تھی کہ: کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی سید احمد خاں جیسے مرد عاقل و مجاہد کے دل میں بھی یہ خیال گزرا کہ اس وطن سے ہجرت کر کے کسی اسلامی ملک میں چلے جائیں جہاں مسلمانوں کا کچھ اقتدار و وقار موجود ہو اور عزت و آبرو سے زندگی کے باقی ایام گزر جائیں۔ کچھ عرصے تک یہ خیال دل میں گردش کرتا رہا لیکن پھر ساداتی غیرت نے جوش مارا کہ ملت کو خراب حالت میں چھوڑ کر ذاتی آسائش اور عزت کے لیے ترک وطن کرنا ایک نہایت مذموم قسم کی ہجرت ہو گی۔ حمیت کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں حالات میں پستی اور جہالت پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہو سکے اس قوم کو ذلت کے گڑھے میں سے نکالا جائے۔ اس کے لیے غیر معمولی علمی اور عملی کوشش اور غیر معمولی جان نثاری کی ضرورت تھی۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہوتی ہے کہ جس قوم کو آپ ابھارنا چاہتے ہیں وہی آپ کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ جہالت اور غلامی میں خیر و شر کے معیار الٹ جاتے ہیں۔ بھلائی برائی معلوم ہوتی ہے اور برائی بھلائی۔ چنانچہ سید صاحب کی مخالفت نہ انگریزوں نے کی اور نہ ملک کی غیر مسلم ملتوں نے۔ زیادہ مخالفت علماء جامد کی طرف سے ہوئی جنہیں نہ زوال ملت کے اسباب سمجھ میں آتے تھے اور نہ ان کا کوئی صحیح علاج سوجھ سکتا تھا۔ وہ قدامت کو دین اور جدت کو بدعت سمجھتے تھے۔ وہ یہ نہ جان سکتے تھے کہ جو قوم غالب آ گئی ہے اس کے غلبے کے اسباب کیا ہیں۔ یہ بات ان کے وہم میں بھی نہ آ سکتی تھی کہ ان کے عقائد و اعمال اور ان کے نظریہ حیات میں کچھ خلل ہے۔ سید کی کوششوں سے اقبال کے زمانے تک کچھ نہ کچھ بیداری قوم میں پیدا ہو چکی تھی، لیکن ابھی امراض بہت کچھ باقی تھے۔ منزل کی طرف چند قدم اٹھتے تھے، لیکن ابھی منزل بہت دور تھی اور منزل مقصود کا کوئی معین تصور بھی نہ تھا۔ جو کوئی رہبری کا دم بھرتا تھا مسلمانوں کا ایک گروہ اس کے پیچھے ہو لیتا تھا۔ کثرت سے لوگ بے بصیرت اور بے عمل پیرو ں کے پیرو تھے کہ وہ ان کی دنیا اور آخرت کے ضامن ہو جائیں گے۔ بعض پیروں سے بڑھ کر امام حاضر الوقت اور مہدی و مسیح بن گئے تھے۔ بعضوں نے حصول اقتدار کی خاطر لیڈری شروع کر دی تھی۔ بعض حکمرانوں کے بے دام غلام تھے اور حکمران کے ذریعے سے عوام کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔ ہر قسم کے جھوٹے رہبر کو پیر و مل جاتے تھے اور مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی: چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں قوم کو ابھارنے کے لیے مختلف علاج تجویز ہوتے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مغربی تعلیم حاصل کرو تو دین کے ساتھ دنیا بھی درست ہو جائے گی۔ کوئی روایتی دینی تعلیم کو جدید علوم و فنون کی تعلیم پر مرحج سمجھتا تھا اور اس کے نزدیک یہی راہ نجات تھی۔ اقبال اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب علاج غلط ہیں۔ ملت کا اصل مرض نفسی مرض ہے۔ وہ فقط قرآن کی بتائی ہوئی اس حکمت بالغہ کا قائل تھا کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی نفسی حالت میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ مغرب کے جید عالم نفسیات ولیم جیمز نے لکھا ہے کہ ’’ جدید نفسیات کا سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ زندگی کے متعلق زاویہ نگاہ بدلنے سے تمام زندگی بدل جاتی ہے۔‘‘ دیکھئے علم نفسیات کی ترقی نے انسان کو وہی راز بتایا جو ازروئے وحی مسلمانوں اور تمام انسانوں پر چودہ سو سال پیشتر منکشف کیا گیا تھا۔ اقبال نے جب یہ تہیہ کر لیا کہ اس قوم میں انقلاب پیدا کیا جائے تو نہ وہ سیاست کی طرف مائل ہوا اور نہ مسلمانوں کو نیا علم معیشت سکھانے لگا کہ اقتصادی حالت درست کرو اور اس کے لیے ہر طرح سے دولت کماؤ اور بچاؤ اور نہ اس نے سائنس یا فلسفے یا جدید علوم و فنون کو اس مرض کے لیے اکسیر سمجھا۔ اس نے دیکھا کہ قوم کی نفسیات میں شدید خرابی ہے، اسلامی زندگی کا صحیح تصور اس کے ذہن سے نکل چکا ہے اور اس کی جگہ غلط تصورات نے لے لی ہے ’’ جائے خالی را دیوی گیرد‘‘ کوتاہ اندیش لوگ اقبال کو بھی ایک شاعر اور فلسفی سمجھتے ہیں اور اس پر بے عمل ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک یا دن کے ظواہر کی پابندی عمل کہلاتی ہے یا سیاسی اور معاشی جدوجہد۔ مولویوں کو اقبال اپنے مقابلے میں نماز کا کم پابند نظر آیا اور نہ اس میں سیاسی لیڈروں کی ہیجان آفرینی دکھائی دی۔ ایسے لوگوں کے سامنے اس نے اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا: اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے دل اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا کہیں کتا ہے: میں نے اقبال سے ازراہ نصیحت یہ کہا عامل روزہ ہے تو او رنہ پابند نماز اور کبھی اپنا کارنامہ یہ بیان کرتا ہے: دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا یہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کسر نفسی ہے اور اقبال یہ سب کچھ اپنے متعلق کوتاہ اندیشوں کی مخاصمانہ تنقید کے مدنظر استہزاء سے بیان کر رہا ہے ورنہ اس کو یقین کامل اور قوی اعتماد ہے کہ خدا نے نفوس ملت میں انقلاب آفرینی کا کام اس کے سپرد کیا ہے جس میں پیغمبری کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ جس روز سے اس کو یہ احساس پیدا ہوا اس سے لے کر یوم وفات تک وہ اٹھتے، بیٹھتے، سوتے جاگتے اسی کام میں منہمک رہا۔ خدا نے اس کو ایسا باکمال شاعر بنایا تھا کہ خالی شاعری سے بھی وہ دنیا بھر کے شعرائے عظام کی صف اول میں کھڑا ہو سکتا تھا لیکن اس نے اس کمال کو محض پیام رسائی اور انقلاب نفوس ملت کے لیے وقف کر دیا۔ محض تفنن طبع کی شاعری کرنے والوں نے کہا کہ اب وہ شاعر نہیں رہا، واعظ اور مبلغ اور پیغمبری کا دعویدار ہو گیا ہے۔ آخر میں اس نے بھی ان کی تائید شروع کر دی کہ ہاں میں شاعر نہیں ہوں۔ اسی طرح جیسے صوفیائے کرام نے ظاہر پرستوں کے خلاف کہنا اور عمل کرنا شروع کیا اور یہ تلقین کی کہ دین فقط عشق الٰہی اور محبت خلق خدا کا نام ہے، محض حصول ثواب آخرت کی خاطر شریعت کی پابندی دین نہیں ہے تو ارباب ظاہر نے ان کو کافر قرار دیا۔ جب تکفیر کے فتوے سنتے سنتے تنگ آ گئے تو انہوں نے خود اپنے لیے کفر کی اصطلاح اختیار کر لی اور علی الاعلان کہنے لگے کہ بھائی اگر تم مسلمان ہو تو پھر ہم مسلمان نہیں ہم کافر ہیں۔ تمہیں تمہارا اسلام مبارک اور ہمیں ہمارا کفر مبارک: کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست (خسرو) مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا اقبال نے دیکھا کہ دین اور دنیا دونوں کے متعلق مسلمانوں کا زاویہ نگاہ غلط ہو گیا ہے اور اسی لیے وہ خسران دنیا و آخرت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ حکمت کو سوز عشق سے گرما کر اور شعر کی اثر آفرینی سے کام لے کر ان کے نفوس میں انقلاب پیدا کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کی آرزوئیں غلط ہو گئی ہیں ان کی آرزوؤں کو بدلنا چاہیے۔ اس قوم کا حقیقت میں کوئی نصب العین نہیں رہا، اسی لیے اس کی کوششیں بے نتیجہ ہوتی ہیں، اس کی خواہشیں پست ہو گئی ہیں۔ ایک روز علامہ نے میرے سامنے شمع و شاعر کے اس شعر کی شرح فرمائی: قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا تیرا فرمانے لگے کہ ہماری قوم کے دیندار ہوں یا دنیا دار، ان کا میدان عمل نہایت تنگ ہوتا ہے اور محمل بے لیلیٰ وہ دل ہے جس میں مقصود زندگی اور غایت حیات کا کوئی ایسا تصور نہ ہو جو اپنی کشش سے انسان سے مجنونانہ جدوجہد کرا سکے۔ بڑے بڑے کام عشق یا جنون ہی سے ہوتے ہیں۔ جہاں میدان عمل تنگ ہے اور محمل میں لیلیٰ ہی نہیں وہاں قیس جیسے مجنوں کہاں پیدا ہوں گے؟ افسوس ہے کہ اس قوم کا کوئی نصب العین نہیں، ہر فرد اپنے ادنیٰ مفاد عاجلہ میں لگا ہوا ہے اور اپنی ذات سے باہر اس کے لیے کچھ نہیں۔ اس میں کوئی زندہ تمنا نہیں جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے، لیکن قوم کی ایسی حالت کے باوجود بھی اقبال مایوس نہیں تھا۔ مایوسی اس کے نزدیک کفر کے مرادف تھی۔ وہ اسی امید میں اپنے آنسوؤں سے اس مٹی کو تر کرتا رہا کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی اسلام اقبال کے نزدیک زندگی کے اساسی رحجانات کا حامل اور انسانی زندگی کے ارتقاء لا متناہی کا لائحہ عمل ہے، اس لیے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا۔ مرور ایام اس میں کہنگی پیدا نہیں کر سکتا۔ جس حد تک جس زمانے میں کوئی ملت اس پر کاربند ہو گی، اس حد تک وہ قوت اور بصیرت سے بہرہ اندوز ہو گی۔ ملت اسلامیہ صدیوں کے انحطاط سے جادۂ اسلام سے ہٹ گئی ہے لیکن اس اصول کے مطابق کہ ہر چیز اپنی اصلیت کی طرف عود کرتی ہے (کل شیی یرجع الیٰ اصلہ) یہ ملت دوبارہ اسلام کی طرف لوٹے گی۔ ایک صاحب نے دوران گفتگو میں ان سے سوال کیا کہ کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں ہے کہ ہر قوم کے عروج کا ایک دور ہوتا ہے، ایک نقطہ کمال تک پہنچ چکنے کے بعد اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ قوم نابود ہو جاتی ہے۔ یونان و مصر و روما اور دیگر عظیم الشان قومیں جنہوں نے بڑی بڑی تہذیبیں او ربلند پایہ تمدن پیدا کیے، ان میں سے پھر کس کا اعادہ ہوا کہ ہم ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کی امید رکھیں؟ علامہ نے فرمایا کہ یہ نظر بالکل غلط ہے اور مغرب کی غالب اقوام نے مغلوب اقوام کو مایوس کرنے کے لیے یہ خیال باطل ان کے ذہنوں میں ڈال دیا ہے ۔ ایک ملت کا احیاء خدا کے لیے کیا دشوار ہے۔ اسلامی عقیدہ ہے کہ تمام دنیا مر کر پھر زندہ ہو گی۔ اقبال کا خیال کس قدر درست نکلا، ہمارے دیکھتے دیکھتے اقوام کس کس طرح زندہ ہوئی ہیں۔ ایک چین ہی کی مثال لے لیجئے۔ چین کا تمدن اور اس کی تہذیب بڑے عروج پر پہنچ کر ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے ساکن و جامد تھے اور مغرب والے کہہ رہے تھے کہ یہ افیون خوردہ قوم اب ہمیشہ اسی طرح اونگھتی رہے گی گذشتہ تیس سال کی جدوجہد نے اس کی ایسی کایا پلٹ دی ہے کہ مغربی اقوام اس سے لرزہ بر اندام ہیں۔ اس میں زندگی کی ایسی لہر دوڑ گئی ہے کہ اس کے فکر و عمل کا ہر شعبہ دگرگوں ہو گیا ہے۔ یونان و روما کی تہذیب و تمدن اور زوال کے بعد طلوع عیسویئت سے لے کر از منہ متوسط کی انتہا تک تمام فرنگ کی یہ حالت تھی کہ فرنگ ہی کے مورخ اس دور کو از منہ مظلمہ یا تاریکی کے زمانے کہتے ہیں۔ گبن جیسے مورخ کا نظریہ ہے کہ اس زوال کی ذمہ دار عیسائیت تھی جس نے لوگوں کا نظریہ حیات بگاڑ دیا۔ ٹائن بی اور بعض دوسرے مقتدر مورخ اس سے متفق نہیں ہیں لیکن یہ واقعہ ہے کہ نشاۃ ثانیہ سے قبل کا قریباً ہزار سال فرنگ ارتقائے حیات سے محروم، جامد اور ہر قسم کے دینی، ذہنی اور سیاسی استبداد کا شکار تھا۔ اس دور میں مسلمان تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں موجد و خلاق تھے اور وہ فرنگ کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتے تھے جس سے فرنگ نے سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ایشیا کو دیکھنا شروع کیا۔ ابن خلدون جیسا حکیمانہ نظر رکھنے والا مورخ بھی اس زمانے کے فرنگ کے متعلق یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ قومیں اس قدر غبی کیوں ہیں۔ جس طرح بعض علمائے فرنگ ایشیا اور افریقہ کی پس ماندگی کو گرم آب و ہوا پر محمول کرتے تھے جو ذہنوں میں جودت اور جدت اور بدن میں قوت اور ہمت پیدا نہیں ہونے دیتی، اسی طرح مغرب کے علوم و فنون سے بے بہرہ ہونے کو مسلمان فرنگ کی آب و ہوا پر محمول کرتے تھے کہ ان ملکوں میں سردی ایسی شدید ہوتی ہے کہ دماغ میں افکار بھی منجمد ہو جاتے ہیں۔ یہی فرنگ جس نے ایشیا والوں کو یہ سبق پڑھانا شروع کیا کہ قوموں کا احیاء نہیں ہوتا، اس سے یہ پوچھنا چاہیے کہ خود تمہارا احیاء کیوں کر ہوا؟ اور اپنے احیاء کو وہ خود نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں یعنی جمود اور موت کے بعد زندگی کااز سر نو ابھرنا۔ تمہاری نشاۃ ثانیہ ہو سکتی ہے تو دوسروں کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ تم نے اس نشاۃ ثانیہ کے بعد وہ زور باندھا کہ دنیا پر چھا گئے۔ علوم و فنون اور وسعت مملکت میں ملل ماضیہ میں سے کوئی بھی اہل فرنگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا قصہ غالباً اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کے بعض گروہ صدیوں کی مرگ نما نیند کے بعد دوبارہ زندگی پا سکتے ہیں۔ فرنگ کا عروج اس کی پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کے مقابلے میں بہت عظیم تھا اگر اقبال ملت اسلامیہ کے متعلق اس قسم کی امید رکھتا ہے تو اسے محض ایک سہانا خواب سمجھنا ہو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اقبال کی بعض شاندار نظمیں یاس و حرماں کے تاثر سے شروع ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ امید پر ختم ہوتی ہیں۔ شمع و شاعر کے شروع کے اشعار پڑھیے: قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا اے در تابندہ اے پروردہ آغوش موج لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا بے محل تیرا ترنم نغمہ بے موسم ترا ٭٭٭ آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا ٭٭٭ پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو کارواں بے حس ہے آواز درا ہو یا نہ ہو ٭٭٭ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ایسے کئی اشعار کہہ کر یہ امید کا پیامبر یک بیک چونکتا ہے تو ظلمت شب کے بعد اس کو کچھ روشنی د کھائی دینے لگتی ہے: شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش اب زمانہ قریب آ گیا ہے کہ یہ ملت اپنی خود داری کے عوض بادۂ اغیار نہ خریدے گی، اب ملت کو اپنی خودی اور اپنے مقام کا احساس ہونے والا ہے۔ اقبال اس احساس کو تیز کرنا چاہتا ہے اور مقصود تک پہنچنے کے لیے جو کچھ ضروری ہے اس کی تلقین کرتا ہے۔ اب تن آسانی کو چھوڑو کیوں کہ ذوق تن آسانی ہمت کا رہزن ہے، جوئے گلشن ہونے کی بجائے قلزم متلاطم بن جاؤ، اپنی اصلیت پر قائم ہو جاؤ، قطرے سے اسرار حیات سیکھو کہ وہ شبنم اور آنسو ہونے کے علاوہ گوہر بھی بن سکتا ہے۔ افراد میں قوت تنہا روی سے نہیں بلکہ ربط ملت سے پیدا ہوتی ہے، افراد دریائے ملت کی موجیں ہیں، دریا کے باہر موج کا کوئی مستقل وجود نہیں ہو سکتا، دریا کی حقیقت کے مقابلے میں افراد کا وجود مجازی ہے شرق و غرب ہو یا جدید و قدیم، ان میں سے کسی کی تقلید نہ کرو، حیات تحقیق اور جدت کوشی کا نام ہے: خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر زندگی اپنے انداز بدلتی رہتی ہے، صوفیہ کہتے ہیں کہ تجلی میں تکرار نہیں، زندگی جو مظہر ذات و صفات الٰہیہ ہے وہ بھی ’’ کل یوم ھو فی شان‘‘ ہے، اب اس نشاۃ ثانیہ میں جو قریب آ رہی ہے تم اپنی قدیم تہذیب و تمدن کے ڈھانچوں کو واپس نہ لا سکو گے۔ ہر نئی زندگی نئے قالب کی متقاضی ہوتی ہے: کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہی ہے جنوں تیرا نیا پیدا نیا ویرانہ کر یہ مضمون کسی قدر دوسرے انداز میں اس شعر میں بھی ملتا ہے جو پہلے درج ہو چکا ہے: کبھی جو آوارۂ جنوں تجھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہو گا مسلمانوں کی تقدیر آخر کار وہی ہے جو اسلام کی تقدیر ہے، اگر اسلام کا چراغ حوادث کی پھونکوں سے بجھایا نہیں جا سکتا تو اسلام پر عمل کرنے والی امت کیوں آنی اور فانی ہو: بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے مسلمان کا مستقبل اقبال کو نہایت درخشندہ نظر آتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبال کے نزدیک اسلام نوع انسان کی تقدیر اور اس کے ارتقاء کا جادہ ہے اور منزل بھی۔ شمع و شاعر کے آخری بند میں پیش گوئیاں ہیں، ظالموں کا ظلم ختم ہو کر اس کے نتائج خود اس کی طرف پلٹنے والے ہیں۔ اب پرندے خوشی سے چہچہائیں گے اور صیاد نالہ و زاری کجریں گے، خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہونے والی ہے، قوت کے نشے میں سرمست قومیں آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گی، دنیا کا پہلا نظام تہ و بالا ہونے والا ہے اور اس کی جگہ جو نیا عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ چشم بصیرت کو نظر آ رہا ہے لیکن وہ اس قدر حیرت انگیز ہو گا کہ اس کے بیان کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے۔ یہ انقلاب عالمگیر ہو گا، صرف ملت اسلامیہ ہی اس سے دگرگوں نہ ہو گی بلکہ تمام نوع انسان کا رنگ بدل جائے گا او ریہ انقلاب انسانوں کو اسی مقصود کی طرف لے جائے گا جو اسلام کا منشا تھا۔ لہٰذا سب سے زیادہ مسلمانوں کے لیے باعث مسرت ہو گا، تمام جھوٹے معبودوں کی پرستش ختم ہو جائے گی، لا الٰہ کے بعد الا اللہ کا دور آئے گا: آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے اقبال کے ہاں اسلام اور مسلم اور آدم کے نصب العینی تصورات ملتے ہیں۔ اس کے نزدیک اسلام حیات و کائنات کی ازلی و ابدی صداقتوں کا نام ہے، جہاں تک موجودہ اسلام دور حاضر کے مسلم اور موجودہ انسان کا تعلق ہے یہ سب نصب العین سے بہت دور ہیں، اس وقت اسلام کو پیش کرنے والوں کے جو نظریات یا اعمال ہیں ان سے وہ بے حد بیزار ہے۔ اسلام اور مسلم دونوں کی صورتیں مسخ ہو چکی ہیں، اقبال کا آدم کا تصور قرآنی تصور ہے جس میں انسان کامل نائب الٰہی اور مسخر کائنات ہے۔ موجودہ انسانوں میں یہ صفات کہاں، وہ انسان کی احسن تقویم کا قائل ہے اور پھر یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس وقت تک وہ اسفل السافلین کی ذات سے نہیں نکل سکا۔ از روئے قرآں اکثر انسانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ نہ صرف جانوروں کی طرح ہیں بلکہ درجہ حیات میں اسن سے بھی گرے ہوئے ہیں ’’ کالانعام بل ہم اضل‘‘ خدا سے پوچھتا ہے کہ کیا یہی آدم ہے جو سامنے نظر آتا ہے، خلیفتہ اللہ فی الارض ہے، جسے نہ اپنی سمجھ ہے، نہ خدا کی، نہ کائنات کی؟ یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟ کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا نہ خود بیں نے خدا بیں نے جہاں بیں یہی شہکار ہے تیرے ہنر کا؟ پھر ایک اور جگہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسانوں کو نصب العینی آدم بننے کے لیے ابھی بے شمار مراحل طے کرنے پڑیں گے۔جادۂ ارتقاء پر سفر کرتے ہوئے ابھی اس کو بہت لمبی مسافت طے کرنی ہے: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر مسلم، مومن یا آدم کے متعلق اقبال جو کچھ کہتا ہے اس میں وہ در حقیقت انسان اکمل کے خط و خالکو معین کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا عقیدہ ہے کہ اسلام ایسے انسان پیدا کر چکا ہے اور آئندہ بھی پیدا کرے گا، اگر ایسے لوگ اس وقت اور ملتوں میں پائے جاتے ہیں تو ان کو بھی مسلم ہی کہنا چاہیے اور مسلمان جو اس فکر و عمل سے عاری ہیں وہ اسلام سے خارج ہیں، محض اسلامی نام رکھنے سے کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا: یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا اسی زمین میں غالب کا بھی مطلع ہے، جس میں نصب العینی انسان بننے کی دشواری کو بیان کیا ہے: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا اقبال کے نزدیک کسی قوم کا ملی شعور اس کی تاریخ سے صورت پذیر ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ میں مردان خدا کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ معرفت کوش مسلمان ان نمونوں سے کسب فیض کر کے اپنے آپ کو بلند کر سکتا ہے۔ توحید کو جس خالص طریقے سے اسلام نے پیش کیا ہے اس کی مثال دوسرے ادیان میں نہیں ملتی۔ ملت اسلامیہ اپنی کوتاہیوں کے باوجود ایک روحانی و عرفانی بصیرت کی وارث ہے، یہ بصیرت توحید کو سمجھنے پر مشتمل ہے، اس صداقت پر عمل کرنا سب سے زیادہ مسلمان کا حق اور اس کا فرض ہے۔ جن مسلمانوں نے اس حق کو پہچانا اور اس صداقت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا وہ اسی ملت کے افراد تھے جس ملت کے افراد اس وقت خود فراموشی اور خدا فراموشی سے گہری ظلمتوں میں گھر گئے ہیں، لیکن ہر شب کی آخر سحر ہوتی ہے اور ملتوں کی زندگی میں بھی جزر و مد ہوتا ہے، حالی نے مسدس کے شعر میں ایک بڑی یاس انگیز رباعی لکھی ہے: پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے مانے نہ کوئی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے اقبال کی طبیعت میں بھی کبھی کبھی یاس کی ایک ہلکی سی لہر پیدا ہوتی ہے لیکن بہت جلد امید اس پر غالب آ جاتی ہے۔ اقبال ملت کے انحطاط سے خوب واقف ہے لیکن اس کا مرثیہ گو نہیں، جب کسی لمحہ یاس میں کوئی دوسرا اس سے کہتا ہے یا اس کے اندر سے مسرت و اندوہ کی اس قسم کی صدا نکلتی ہے: ہر نفس اقبال تیرا آہ میں مستور ہے سینہ سوزاں ترا فریاد سے معمور ہے زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں شمع سے روشن شب دو شینہ ہو سکتی نہیں تو فوراً اسلام او رمسلمان کا ابدی نصب العین اس کے جواب میں گویا ہو جاتا ہے کہ آخر کار کیا یہ صداقت نہیں کہ توحید ہی حقیقت حیات و کائنات ہے اور خدا نے مجھے اس کا شاہد بنایا ہے۔ اگر یہ تصور مٹ گیا تو نوع انسان رسوا ہو جائے گی، میری حالت عارضی طور پر خراب ہو گئی ہے لیکن تقدیر عالم و آدم کی تقدیر ہے، میں ماضی کی داستانیں جھوٹے تفاخر کی بناء پر نہیں دہراتا بلکہ اس کے آئینے میں اپنے مستقبل کی تصویر دیکھتا ہوں۔ جس زمانے میں اقبال نے اس مضمون کی نظمیں لکھی ہیں اس دور میں مسلمانوں پر حد درجے کی مایوسی طاری تھی۔ سیاسی بے بسی، افلاس ، علوم و فنون میں پس ماندگی، غالب اقوام کے مقابلے میں بے چارگی غرضیکہ ہر طر ف ہمت شکنی کا سامان تھا، لوگ نہ صرف اپنے آپ سے بلکہ اسلام سے بھی مایود ہو رہے تھے کہ یہ دین بھی شاید اپنا کام ختم کر کے اب دفتر پارینہ ہو گیا ہے۔ اچھے اچھے ادیبوں، شاعروں اور مصلحین کی تحریروں اور تقریروں میں یہی فرومایگی نظر آتی تھی کہ سب اچھائیاں اور قوموں میں آئیں اور ہم کچھ نہیں۔ اس قسم کے احساس کمتری کی شدت سے قومیں فنا ہو جاتی ہیں۔ ہر ملت کی بقا اس کے اس شعور کی رہین منت ہوتی ہے کہ دنیا میں ہم کچھ مخصوص صفات عالیہ کی حامل ہیں، اگر یہ بات جاتی رہے تو قومیں یا فنا ہو جاتی ہیں یا دیگر اقوام میں ضم ہو کر گم ہو جاتی ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے متعلق یہ شدید خطرہ محسوس کیا، اسی لیے اس کے احساس خودی کو ابھارنا اپنی شاعری کا وظیفہ بنا لیا اور مسلمانوں سے پکار پکار کر کہا کہ آؤ میرے ہم نوا ہو کر اس دعوے کا اعلان کرو: ہم نشیں! مسلم ہوں میں توحید کا حامل ہوں میں اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں میں اور جس صداقت کو مجھے دنیا میں پھیلانا ہے وہ شخصی یا ملی چیز نہیں، وہ کسی قوم یا نسل کا تعصب نہیں، یہ صداقت وہ ہے جس کی بدولت کائنات کا وجود قائم ہے اور جو مقصود تکوین عالم ہے: نبض موجودات میں پیدا حرارت اس سے ہے اور مسلم کے تخیل میں جسارت اس سے ہے حق نے عالم اس صداقت کے لیے پیدا کیا اور مجھے اس کی حفاظت کے لیے پیدا کیا دہر میں غارت گر باطل پرستی میں ہوا حق تو یہ ہے حافظ ناموس ہستی میں ہوا میری ہستی پیرہن عریانی عالم کی ہے میرے مٹ جانے سے رسوائی بنی آدم کی ہے قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے جس کی تابانی سے افسون سحر شرمندہ ہے آشکارا ہیں مری آںکھوں پر اسرار حیات کہہ نہیں سکتے مجھے نو مید پیکار حیات کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضی منظر مجھے ہے بھروسا اپنی ملت کے مقدر پر مجھے یاس کے عنصر سے ہے آزاد میرا روزگار فتح کامل کی خبر دیتا ہے ہوش کار زار ٭٭٭ ہاں یہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رکھتا ہوں میں اہل محفل سے پرائی داستاں کہتا ہوں میں یاد عہد رفتہ میری خاک کو اکسیر ہے میرا ماضی میرے استقبال کی تفسیر ہے سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں ٭٭٭ چھٹا باب شاعر انقلاب اقبال ایک انقلابی شاعر ہے۔ ملت اسلامیہ نے اقبال کے لیے کئی القاب و خطابات تجویز کیے، کوئی انہیں حکیم ملت کہتا ہے اور کوئی ترجمان حقیقت، کوئی انہیں شاعر اسلام کہتا ہے۔ یہ تمام القاب بجا اور درست ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرہن ہیں جو اس کے قامت پر راست آتے ہیں۔ وہ پیام بر خودی بھی ہے اور مبلغ ارتقاء بھی اور رمز شناس عشق بھی، لیکن اقبال کی تمام شاعری اور اس کے افکار اور جذبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمنائے انقلاب ہے۔ موجودہ دنیا کی کوئی حیثیت، کوئی شوکت، کوئی حکمت اور کوئی مذہب اس کو اطمینان بخشتا دکھائی نہیں دیتا، وہ مشرق و مغرب دونوں سے بے زار ہے، دونوں طرف زاویہ نگاہ اور نظریہ حیات اس کو غلط معلوم ہوتا ہے، تمام موجودہ زندگی پر اس کی تنقید مخالفانہ ہے، وہ صرف ملت اسلامیہ ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں اور اس کے ہر شعبے میں انقلاب کا آرزو مند ہے۔ عصر حاضر میں یا گذشتہ تین چار صدیوں میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں ہوئیں وہ پسندیدگی سے ان کا ذکر کرتا ہے۔ لوتھر کی اصلاح کلیسیا کی تحریک جس نے مغرب کے دینی تفکر کو بہت کچھ آزاد کر دیا اور حکمت و علم کی ترقی کے لیے راہیں کشادہ کر دیں، انقلاب فرانس جس میں حریت و مساوات و اخوت کا نعرہ بلند ہوا اور مغرب کی تمام زندگی تہ و بالا ہو گئی، مسولینی کی احیائے اطالیہ کی انقلابی کوشش، ان سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ انقلابات نفوس میں ہیجان ہو اضطراب سے پیدا ہوتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کچھ صدیوں سے ساکن و جامد تھی لیکن اب اس کے اندر ایک بیتابی نمایاں ہے، ضرور ہے کہ اس میں بھی انقلاب پیدا ہو۔ انقلابات جس جذبے سے پیدا ہوتے ہیں، اقبال اس جذبے کو عشق کہتا ہے۔ ٹھنڈی حکمت اور مفاد کوشی کبھی نظم حیات میں کوئی بنیادی تغیر پیدا نہیں کر سکتی۔ اقبال پوچھتا ہے کہ یہ کایا پلٹ کرنے والا جذبہ اب کس وادی اور منزل میں ہے؟ آخر ہماری طرف بھی متوجہ ہو گا: کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دین جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا اقبال کی زندگی ہی میں کئی اقوام میں انقلاب آیا اور بعض انقلابات اس کی وفات کے دس پندرہ سال کے اندر ہی واقع ہوئے۔ وائرلو میں نپولین کو شکست فاش ۱۸۱۵ء میں ہوئی۔ اس کے قریبا ً ایک صدی بعد ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم واقع ہوئی۔ اس صدی میں چھوٹی بڑی جنگیں تو دنیا میں ہوتی رہی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کا ہر خطہ ایک خاص نظام کے اندر بغیر کسی بڑے ہیجان کے زندگی بسر کرتا رہا۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ سے لے کر آج تک دنیا میں جو تلاطم بپا ہوا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور دور میں نہیں مل سکتی۔ دنیا کے تمام مغلوب گروہ انسانیت کے بنیادی حقوق طلب کرنے کے لیے آمادہ پیکار ہو گئے، ہر جگہ ملوکیت کے قصر میں زلزلہ آیا اور اس کے در و دیوار پیوند زمین ہو گئے، کاشتکار خون چوسنے والے زمینداروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جہاد کرنے لگے، مزدوروں نے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق چھینے۔ سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ علوم و فنون میں بھی انقلاب آیا، طبعی سائنس نے ذروں کا جگر چیر کر اس کے اندر پنہاں قیامت کو آشکار کیا۔ انیسویں صدی میں اہل فرنگ فقط اپنے آپ کو زندہ اور متحرک اور ترقی پذیر سمجھتے تھے، تمام ایشیا ان کے نزدیک جمود و سکون کا مجسمہ تھا، ترکی کو مغربی سیاستدان مرد بیمار کہتے تھے، جو چراغ سحری تھا اور اس کی وسیع سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے لیے کرگسوں کی طرح اس کے گرد منڈلاتے تھے، چین کو زبردستی افیون کا عادی بنانے کے لیے اس کے خلاف جنگ کر دی۔ ہندوستان کے متعلق انگریزوں کا خیال تھا کہ چند مغربی تعلیم یافتہ غیر مطمئن لوگ سرکاری عہدوں اور اقتدار میں کچھ حصہ لینے کے لیے ہنگامہ بپا کرتے ہیں، باقی رعایا مطمئن اور برکات حکومت برطانیہ کے راگ گاتی ہے، ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے اپنی خفیہ سیاست کی بساط پر تقسیم کر رکھا تھا، فرانسیسی سمجھتے تھے کہ ہند چینی میں ہمیشہ ان کا اقتدار قائم رہے گا۔ انڈونیشیا میں ولندیزی تین سو سال سے تمام ملک کی دولت کو سمیٹ کر اطمینان سے لطف اٹھاتے تھے کہ ان اقوام میں اندرونی ہیجان اور حقوق کا احساس بیدار ہونے میں صدیاں گزر جائیں گی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ ہوا کہ صدیوں کی خفتہ قومیں بیدار اور ہشیار ہو گئیں اور آزادی کی جنگ میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑے، لیکن اس کی طبیعت ایسے ہمہ گیر انقلاب کی آرزو مند تھی جو صرف سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ انسان کی فطرت میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی کرے۔ عالم اسلامی میں اقبال کے سامنے ایران اور ترکی میں انقلابی صورت پیدا ہوئی، وہ اس سے خوش تھے کہ ترکوں نے جہاد اور ایثار سے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا۔ ایران کے انتشار میں رضا شاہ کی آمریت نے جو جمعیت پیدا کی وہ بھی اصلاح و ترقی کی طرف ایکج اہم قدم تھا، لیکن علامہ اقبال اسلامی ممالک میں ایسا انقلاب چاہتے تھے تو ملت کو نہ صرف مغربی سیاست کے پنجہ آہنی سے چھڑانے بلکہ مغربی مادیت، وطنیت اور الحاد سے بھی نجات دلوائے۔ مصطفی کمال اور رضا شاہ نے استحکام وطن کے لیے بہت کچھ کیا، لیکن مغرب سے سیاسی چھٹکارا حاصل کر کے تہذیب و تمدن میں فرنگ کی کورانہ نقالی اور تقلید شروع کر دی، اس بات کی تلقین شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے تمام کارناموں میں نظر آنے لگی کہ قوت و نجات اسی میں ہے کہ ہم بھی ہر حیثیت سے مغربی اقوام کے مشابہ و مماثل ہو جائیں۔ اسلامی زندگی کے مخصوص اقدار ان کی نظر سے اوجھل رہے، مشرق کے شعور میں ہمیشہ روحانی زندگی کو فوقیت حاصل رہی ہے، ہزاروں سال سے مشرق تمام ادیان عالیہ کا مولد اور گہوارہ رہا ہے، اسی لیے اقبال بعض اوقات روح اسلامی کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ جب مصطفی کمال اور رضا شاہ اس کو زیادہ تر مغرب زدگی، نسلی قومیت کی پرستش اور وطنیت ہی نظر آئی تو وہ یہ پکار اٹھا: نہ مصطفیٰ نہ رجا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی پیام مشرق کی ایک نظم میں مصطفی کمال پاشا کو خطاب کیا ہے اور ’’ زایدہ اللہ‘‘ کہہ کر اس کے لیے دعائے ہدایت کی ہے۔ علامہ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ اس مرد غازی نے اپنی قوم کو فرنگ کے پنجے سے تو چھڑایا اور اس میں ملی استحکام پیدا کیا مگر وہ اپنی اصلاحات میں روبہ فرنگ ہو کر اسلامی جذبات اور اسلامی نظریات سے غافل ہو گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں دیوان خاص کی دیواروں پر جو اشعار ثبت ہیں ان میں سے ایک شعر یہاں حسب حال معلوم ہوتا ہے جو غالباً فیضی کا ہے: عزم سفر مشرق و رو در مغرب اے راہرو پشت بہ منزل ہشدار مصطفی کمال کو اس نظم میں اقبال یہ بھولی ہوئی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ مسلمان اقوام ایک امی کی حکمت و بصیرت سے رموز تقدیر سے آشنا ہوئیں اور اسی کی بدولت ان کو دنیا میں تفوق حاصل ہوا۔ وہ اس بارے میں مصطفی کمال سے اتفاق کرتا ہے کہ اسلام کو فقہائے تنگ نظر نے جامد بنا دیا اور اس میں سے وہ عشق ناپید ہو گیا جو افراد و اقوام کی زندگی کا سرچشمہ ہے، لیکن پیر حرم سے بیزار ہو کر اسلام ہی کی طرف سے منہ موڑ لینا ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی فلاح کا باعث نہیں ہو سکتا۔ جس نبی ؐ کی بدولت ہمارے ذرے خورشید جہاں تاب بن گئے اس سے براہ راست کسب فیض دین و دنیا میں حقیقی کامیابی کا باعث ہو سکتا ہے۔ نقل فرنگ کی تدبیر اور کورانہ تقلید سے ملت کو حقیقی فروغ حاصل نہیں ہو سکتا، تقلید میں آخر مات ہی ما ت ہے: امیے بود کہ ما از اثر حکمت او واقف از سر نہاں خانہ تقدیر شدیم اصل مایک شرر باختہ رنگ بودست نظرے کرد کہ خورشید جہاں گیر شدیم نکتہ عشق فروشست ز دل پیر حرم در جہاں خوار باندازۂ تقصیر شدیم ’’ہر کجا راہ وہد اسپ برآں ناز کہ ما بارہا مات دریں عرصہ بتدیر شدریم‘‘ (نظیری) ایک اور شعر میں افسوس کیا ہے کہ ’’ ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب‘‘ ان ترکوں نے اپنے تئیں فرنگ کا ہمسایہ سمجھ رکھا ہے اور اس وہم باطل میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اقوام فرنگ میں ہو۔ مصر اور ہندوستان کے مسلم راہنما بھی قوم کو جو سبق پڑھا رہے تھیا س میں اقبال کو ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی ترقی کی شاہراہیں نظر نہ آتی تھیں، تہذیبی نقطہ نظر سے یہ بھی مغلوب الغرب ہی تھے۔ بانگ درا کی نظموں میں ایک قطعے میں یہ اشعار ملتے ہیں: کلی ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہ رہا تھا کہ مصر و ہندوستان کے ملسم بناے ملت مٹا رہے ہیں یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا ہو جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں ملتوں کے اندر اضطراب و تب و تاب، کشاکش، تراش خراش، شکست و فشار کے بغیر انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا۔ سکونی حالت اور سکونی تصورات حالات میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ تعمیر کہن کی شکست و ریخت سے گھبرانا نہیں چاہیے، بقول عارف رومی: ہر بناے کہنہ کا باداں کنند اول آں تعمیر را ویراں کنند نظام کہن کو برقرار رکھنے کے آرزو مند وہی لوگ ہیں جن میں حرارت حیات باقی نہیں ہوتی۔ اقبال انقلاب چاہتا ہے اور ارتقائی انقلاب جو محض تغیر حال نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نئی وسعتیں اور جدید قوتیں پیدا کرے۔ مسلمان عصر حاضر کے تزلزل سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اس وہم باطل کا شکار ہو رہے ہیں کہ اس تخریب میں کوئی تعمیری صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن رموز حیات سے آشنا اقبال ان کو سر ارتقاء سے واقف کرتا اور تسلی دیتا ہے کہ رسوم کہن کے انہدام سے زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ جادہ ارتقاء پر گامزن ہوتی ہے۔ بانگ درا مینایک لاجواب نظم ہے جس کا عنوان ارتقاء ہے۔ یہ ایک مشہور فارسی شعر کی تضمین ہے: ’’مغان کہ دانہ انگور آب می سازند ستارہ می شکند آفتاب می سازند‘‘ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفویٰؐ سے شرار بو لہبی حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی ہزار مرحلہ ہاے فغان نیم شبی کشا کش زم و گرما تپ و تراش و خراش زخاک تیرہ دروں تا بہ شیشہ حلبی مقام بست و شکست و فشار و سوز و کشید میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی مغان کہ دانہ انگور آب می سازند ستارہ می شکنند آفتاب می سازند تہذیب حاضر کے پرستار نوجوان تقلید فرنگ میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ہم میں نئی روشنی اور علم و فن کی تنویر پیدا ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام نمائشی چہل پہل حیات مستعار ہے، ملت کے اپنے نفوس میں سے کچھ نہیں ابھرا، ایسے غلامانہ ذہنیت والے لوگوں کی بیداری بیداری نہیں او ران کی آزادی غلامی کی پردہ دار ہے۔ یہ تازہ پرواز طیور کی دل کشی مے مسحور ہو کر اپنے آشیانے سے اتنا دور اڑ گئے ہیں کہ بھٹک جانے کی وجہ سے پھر اس پر واپس نہ آ سکیں گے۔ مادی خواہشات کی ہوس اس تہذیب کے مدعی طبقے میں تیز ہو گئی ہے، ایثار کی جگہ خود فروشی اور صبر و استقلال کی جگہ ناشکیبائی کا ظہور ہے۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ان کی زندگیوں میں ایک خوش آئند انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قلب و نظر میں کوئی حیات آفریں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ملت کے اندر سے کسی خلائی جذبے نے کام نہیں کیا۔ اس فروغ مستعار سے ذرے اس فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان میں جگنو کی سی فروزی ہے۔ تہذیب حاضر کے عنوان سے اقبال نے فیضی کے اس شعر کو تضمین کی ہے: تو اے پروانہ ایں گری ز شمع محفلے داری چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری حافظ کا یہ شعر بھی اس مضمون کے قریب ہے: آتش آن نیست کہ ہر شعلہ او خندو شمع آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی کیا ذرے کو جگنو، دے کے تاب مستعمار اس نے کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بیباکی تغیر آ گیا ایسا تدبر میں تخیل میں ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی ’’تو اے پرواز این گرمی ز شمع محفلے داری چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری‘‘ اقبال کو نہ مشرق کی کہنہ خیالی اور فرسودگی پسند ہے اور نہ فرنگ کی جدت طرازی۔ نہ مروجہ اسلام پسند ہے اور نہ سائنس کی پیدا کردہ تہذیب حاضر، نہ مغربی جمہوریت پسند ہے اور نہ روسی اشتراکیت۔ مغرب پر اقبال کی مخاصمانہ تنقید سے اقبال کا کلام لبریز ہے لیکن موجودہ مشرق کے لیے بھی اس کے ہاں کوئی مدح و ستائش نہیں: بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ اس کا یہ جواب کافی ہو گا کہ وہ اصلی اسلام اور اس کے پیدا شدہ علم و فن اور سیاست و معاشرت کا آرزو مند ہے۔ یہ بیان بہت مہمل ہے اور جب تک کسی قدر تفصیل سے اس زندگی کے خدو خال کا خاکہ سامنے نہ آئے تب تک ذہن کو تشفی نہیں ہوتی۔ اقبال کے کلام میں سلبی تنقید بہت غالب معلوم ہوتی ہے لیکن ایجابی پہلو بھی غائب نہیں ہے۔ جس انقلاب کا نقشہ اس کے تخیل میں ہے اس کے تجزیے سے مفصلہ ذیل عناصر حاصل ہوتے ہیں: ۱۔ وہ حیات انسانی کی کسی ایک طرفہ ترقی کو مفید نہیں سمجھتا۔ زندگی نفس اور بدن دونوں پر مشتمل ہے اور حقیقت حیات و کائنات میں انفس بھی ہیں اور آفاق بھی۔ ماحول سے منقطع روحانیت، جسے رہبانیت کہتے ہیں، ایک حیات کش طریق حیات ہے جس میں زندگی کا مادی اور جسمانی پہلو فنا ہو جاتا ہے۔ بغیر اس کے کہ روح کو تقویت یا بصیرت حاصل ہو۔ اسلام کے نظریہ حیات میں ہمہ گیری ہے اور وہ ظاہر و باطن کو ایک ہی حقیقت کے دوپہلو قرار دے کر ان کو الگ الگ نہیں کرتا۔ ۲۔ انسانی زندگی میں دو بڑی قوتیں کار فرما ہیں، ایک عقل ہے اور دوسری کا نام عشق ہے۔ا یک کا تعلق دماغ سے ہے اور دوسری کا دل سے، مگر دل اس مضغہ گوشت کا نام نہیں جو سینے میں بائیں طرف دھڑکتا ہے۔ عقل بے عشق حقیقت رس نہیں ہو سکتی۔ خالی زیرکی سے نہ اقدار حیات کی آفرینش ہوتی ہے اور نہ زندگی کو حقیقی عروج حاصل ہوتا ہے بقول عارف رومی: مں شناسد ہر کہ از سر محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است ہر ایسی تعلیم ناقص ہے جو فقط مادی زندگی کے اغراض کے لیے مظاہر حیات کی پیمائش کرتی رہے اور حقیقت کے پہلو اس کے پیمانوں میں نہ آ سکیں، ان سے انکار کا شیوہ اختیار کر لے۔ ۳۔ انسان کے اندر خدا نے لامتناہی قوتیں مضمر رکھی ہیں۔ ممکنات حیات کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ حیات کا مقصود ان ممکنات کو مسلسل وجود میں لاتے رہنا ہے۔ حیات خود اپنا مقصود ہے اس کا کسی ایک صورت پر قائم ہو جانا اس کی نفی کا باعث ہوتا ہے۔ دین اور حکمت اور ہر قسم کی تعلیم و تربیت کا مقصود یہی ہونا چاہیے کہ انسان اپنی لا محدود خودی کو پہچان کر زندگی میں مسلسل ارتقاء پیدا کرتا رہے۔ خیر و شر کا معیار بھی یہیں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ لذت فی نفسہ غیر ہے اور رنج و الم شر ہے۔ زندگی کو مسرت و کلفت کے پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ ہر وہ فکر یا عمل جو نفس انسانی یا خودی کو استوار کرے، خیر ہے اور ہر وہ فکر یا عمل جو اس میں انتشار یا ضعف پیدا کرے شر ہے۔ انسان کو خدا نے بالقویٰ مسخر کائنات بنایا ہے اس لیے عجز نہیں بلکہ قو ت کے حصول کی طرف قدم اٹھنے چاہئیں۔ ۴۔ چونکہ خدائے خلاق واحد ہے، اس لیے حیات و کائنات میں بھی کثرت و تنوع کے ساتھ ساتھ ایک وحدت پائی جاتی ہے۔ نوع انسان جو خدا کا مظہر عظیم ہے، وہ بھی ایک وحدت ہے۔ از روئے قرآن ایک نقش واحدہ تمام نوع انسان کا ماخذ ہے۔ اس لیے ہر وہ نظریہ حیات فساد انگیز ہے جو نوع انسان کو نسل یا رنگ یا زبان یا جغرافیائی حدود کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ مغرب کی وطن پرستی اور قوم پرستی بت پرستی کے اقسام ہیں۔ وطن اور قوم، دیوتا اور معبود بن گئے ہیں۔ توحید الٰہی اور توحید انسانی کا عقیدہ اور اس پر عمل ہی اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔ ۵۔ وحدت انسانی کو قائم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق مساوی ہوں۔ دولت، انسانیت کے وقار کا معیار نہ ہو۔ نوع انسان کی پیدا کردہ دولت اور قوت میں سے سب انسانوں کو حصہ ملنا چاہیے۔ ۶۔ اسی وجہ سے اقبال اشتراکیت کے اس پہلو کو پسند کرتا ہے کہ اس نے ملکیت زمین اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا، لیکن وہ اس سے بیزار بھی ہے کہ اس نے خواہ مخواہ مادیت اور الحاد کو اپنے نظریہ حیات اور طریق زندگی کا جزو لاینفک بنایا اور مساوات انسانی زیادہ تر مساوات شکم میں محدود ہو گئی۔ مادیت انسان کی لامتناہی روحانی قوتوں کی منکر ہے اور اس کا نقطہ نظر وہی ابلیس کا زاویہ نگاہ ہے، جو آدم کی لا محدود عرفانی قوتوں کے ممکنات کو نہ دیکھ سکا اور یہ کہنے لگا کہ مجھے تو یہ محض مٹی کا پتلا نظر آتا ہے۔ ۷۔ مغربی تہذیب و تمدن کے کار ہائے نمایاں کا اقبال منکر نہیں، لیکن وہ اس ترقی کو یک طرفہ ترقی سمجھتا ہے۔ گزشتہ تین سو سال میں مغرب نے مسلسل مادیت کے نقطہ نظر کو استوار کیا ہے۔ طبعی سائنس کا تعلق ایک جزوی حقیقت سے ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ مغرب کے دل و دماغ پر یہ غلط خیال مسلط ہو گیا کہ زندگی محض مادیت اور محسوسات کا نام ہے۔ وہ اس راز سے بیگانہ ہوگیا کہ حاضر کے مقابلے میں غیب لامتناہی ہے اور جسم و مادہ حیات لامتناہی کے عارضی اور ادنیٰ پہلو ہیں۔ اسی وجہ سے مغرب کی حکمت و حکمت نہ رہی جسے قرآن خضیر کثیر کہتا ہے۔ ۸۔ صحیح تعلیم اور حیات بخش تہذیب وہ ہو گی، جس میں مادیت یا عقلیت روحانیت کے زیر نگیں ہو جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ یہ تعلیم یا تہذیب اس دور میں نہ مشرق میں پائی جاتی ہے اور نہ مغرب میں۔ انسانیت کا مستقبل یہی ہے کہ خارجی فطرت کی تسخیر باطنی قوت اور بصیرت کے دوش بدوش کرتی کرے۔ملت اسلامیہ کی بقا اس لیے ضروری ہے کہ فقط یہی ملت ہے جس کو از روے وحی تعلیم دی گئی تھی اور اسی کی بدولت اس کو آناً فاناً حیرت انگیز عروج حاصل ہوا تھا۔ا سی ملت کے ضمیر میں یہ موجود ہے کہ رنگ اور نسل وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی تقسیم نہ کی جائے۔ قومیت اور وطنیت کے خلاف اسی نے آواز بلند کی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ عربوں کے قوت و اقتدار حاصل کرنے اور ہر طرح غلبہ پانے پر نبی عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عرب ہونے پر فخر نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ کسی عرب کو محض قوم و نسل کی بناء پر کسی عجمی پر فضیلت حاصل نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی تفوق ہے۔ یہ سبق بعد میں مسلمان بہت کچھ بھول گئے لیکن اب بھی دوسری قوموں کے مقابلے میں ان میں یہ شعور بہت کچھ باقی ہے۔ نوع انسان کو وحدت کا عملی سبق دینے کے لیے یہ لازم ہے کہ یہ ملت مساوات انسانی کا اصلی اسلامی نقشہ پھر بطور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ مظہور انگریز مورخ نائن بی نے اس کا اقرار کیا ہے کہ میرے نزدیک ابھی اسلام کا وظیفہ حیات باقی ہے اور مستقبل میں بھی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور وہ اس لیے کہ نسل اور رنگ اور قومیت کے تعصبات پر جس طرح اسلام اور اسلامی معاشرت غالب آئی ہے اس طرح کوئی اور تہذیب غالب نہیں آ سکی۔ مغرب کو اسی مرض نے فنا کیا ہے جو اس کی سیاست اور تمدن میں لا علاج سا معلوم ہوتا ہے۔ جب تک اس مرض کی خاطر خواہ علاج نہ ہو، نوح انسان کی بقا ہی ممکن نہیں ہوتی۔ا سرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے علامہ اقبال کو ایک خط میں لکھا کہ تمہارے مخاطب فقط مسلمان معلوم ہوتے ہیں اور فقط انہیں کی اصلاح و بقا تمہارے مد نظر ہے، تمہارا خطاب نوع انسان سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں علامہ مرحوم نے اس کو لکھا کہ نوع انسان میں خاص نظر اور طریق زندگی پیدا کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ پہلے ایک ملت اس کا نمونہ پیش کرے اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنے عقائد، اپنی تاریخ اور اپنی معاشرت کے مضمرات کی بناء پر اس ملت میں یہ صلاحیت ہے اور مزید پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک عالم گیر اخوت اور مساوات کی مثال پیش کر سکے، یہاں تک کہ اخوت اسلامی اخوت انسانی بن جائے۔ جب اقبال ملت اسلامیہ کا ذکر بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے سامنے اس ملت کا دور حاضر کا نقشہ نہیں بلکہ اس کی نظر اس اسلام اور اسلامی زندگی پر پڑتی ہے۔ جو رسول اکرم ؐ اور صحابہ کرام کی بصیرت اور ہمت سے ظہور میں آئی۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا یہ صورت مسخ ہوتی چلی گئی۔ اسلام خاص بندگان میں رہ گیا اور جماعت کی زندگی اس سے بہت کچھ ہٹ گئی ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسی ہمہ گیر انقلابی اور اسلامی چیز تھی کہ اس کی مدھم صورتوں نے بھی بحیثیت مجموعی صدیوں تک ملت اسلامیہ کو دیگر معاصرانہ ملتوں کے مقابلے میں پیش پیش ہی رکھا یا پھر اقبال کی نظر اس مستقبل پر ہے جس میں اسلام کے حقائق، جو زندگی کے ابدی حقائق ہیں، ارتقائے حیات سے تمام دنیا پر آشکار ہو جائیں گے۔ اقبال کسی خاص قوم یا ملت کا عاشق نہیں، وہ اسلام کا عاشق ہے خواہ وہ کہیں پایا جائے۔ اس وقت اس کو اسلام نہ مشرق میں نظر آتا ہے اور نہ مغرب میں اور مسلمان کہلانے والی ملت تو اس سے خاص طور پر محروم دکھائی دیتی ہے۔ ایک عام قاعدہ ہے کہ اپنی ملتوں کے پرستار ان کی نسبت بڑے کبر و ناز سے بات کرتے ہیں۔ ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے اور ان کی اصلی یا موہوم خوبیوں کو وہ چند کر کے دکھاتے ہیں۔ اقبال کی یہ روش نہیں۔ اس کو تو ایک نصب العین اور زندگی میں اس کو متحقق کرنے والے افراد یا اقوام سے واسطہ ہے۔ دیکھئے اپنی ملت کی موجودہ حالت کے متعلق کس قدر افسوس اور قلب مجروح کے ساتھ کہتا ہے: شوق بے پروا گیا فکر فلک پیما گیا تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے کل تک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے آج ہیں خاموش وہ دشت جنون پرور جہاں رقص میں لیلا رہی لیلا کے دیوانے رہے وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا نگاہیں نا امید نور ایمن، اور بجلیاں آسودہ دامان خرمن ہو گئی ہیں، ملتوں کی آبرو اور ان کا اقتدار ان کی جمعیت کی بدولت ہوتا ہے جس میں کوئی فرد اپنے تئیں محض ایک فرد نہیں بلکہ عضویہ نظام جماعت کا ایک عضو سمجھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں میں سے غائب ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے وہ رسوائے دہر ہیں: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں کبھی ہجوم یاس میں کہہ اٹھتا ہے: زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں شمع سے روشن شب روشینہ ہو سکتی نہیں جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے اس ملت مرحومہ کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔ خدا ایک نصب العینی آدم کی تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ملت کی مٹی اس قابل نہیں معلوم ہوتی: جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں اس ملت کے ہاتھوں میں زور نہیں۔ دل الحاد سے خوگر ہیں۔ نمازوں اور روزوں کی کچھ باطنی یا ظاہری صورت کچھ غریبوں میں نظر آتی ہے۔ دولت و اقتدار والوں کے ہاں یہ شعائر غائب ہیں۔ نئی تعلیم و تہذیب کے دلدادہ مذہب سے روگرداں ہیں۔ علم و فن کی یہ حالت ہے کہ جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو جیسے کفر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ الکفر ملتہ واحدۃ‘‘ اسی طرح اسلام اور ملت اسلامیہ کے متعلق یہ بات صحیح ہونی چاہیے تھی کہ ’’ الاسلام ملتہ واحدۃ‘‘ لیکن موجودہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ ذات پات اور قبائل و اقوام کی غیر اسلامی تقسیم و تفریق میں مسلمان مسلمان کا بھائی نہیں رہا۔ شعائر اغیار بھی وہی آنکھوں میں سمائے ہیں جن کے اختیار کرنے میں کوئی نفع نہیں بلکہ صریح گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ نئی پود کی نگاہ طرز سلف سے بیزار اور ان کے انداز حیات کو فرسودہ سمجھتی ہے۔ کسی کے قالب میں سوز اور روح میں احساس نظر نہیں آتا۔ زبان سے کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن پیغام محمد ؐ کا کسی کو پاس نہیں۔واعظ قوم جاہل اور خام خیال ہے، اس کے وعظ میں نہ حکمت کا ساز ہے اور نہ محبت کا سوز۔ موذن کی اذان میں روح ہلالی نہیں، استدلالی بھول بھلیوں والے فلسفے نظر آتے ہیں، لیکن کوئی غزالی اب ملت میں سے نہیں ابھرتا۔ نہ حیدری فقر ہے اور نہ دولت عثمانی۔ جسے دیکھو وہ ذوق تن آسانی میں مست ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملت نے خود کشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ غیور و خود دار مسلمان نظر نہیں آتے۔ ذرا ذرا سے اختلاف پر شیشہ اخوت پاش پاش ہو جاتا ہے، قوموں کی توقعات اپنے نوجوانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس ملت کے نوجوانوں کا یہ حال ہے: شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا عہد نو کی بجلی تمام اقوام کہن پر گری ہے۔ تمام قدیم انداز و افکار حیات ایندھن کی طرح جل رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے پیراہن میں بھی شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اس آتش نمرود کو ابراہیمی ایمان ہی گلشن بنا سکتا ہے، لیکن اس ملت میں تو وہ ایمان نظر نہیں آتا۔ اصلاح کے آرزو مند کہتے تھے کہ قوم جاہل ہے، جب اس میں تعلیم عام ہو جائے گی تو اس کی حالت درست ہو جائے گی، لیکن تعلیم نے بھی مرض میں اضافہ ہی کیا ہے: ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ ملت اسلامیہ میں اسلامیہ میں اقبال کو نام کے مسلمانوں اور درحقیقت غیر مسلموں کا ایک بے مقصود ہجوم نظر آتا ہے: خوب ہے تجھ کو شعار صاحبؐ یثرب کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں جس سے تیرے حلقہ خاتم میں گردوں تھا اسیر اے سلیماں! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح ہو گئی ہے اس سے اب نا آشنا تیری جبیں دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے ہے وہی باطل ترے کاشانہ دل میں مکیں صائب کا ایک شعر ہے: ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیابان جلوہ گر باشد ندارد تنگ ناے دہر تاب حسن صحرائی بانگ درا میں اس پر تضمین کرتے ہوئے اقبال نے اپنی ملت کے متعلق مایوسانہا شعار کہے ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ تو ایسی ملت کو بیدار کرنے کے لیے کیا نوا گری کر رہا ہے جس میں کوئی احساس ہی باقی نہیں۔ اس کے جوان ہمت خواہ ہیں اور نہ اس کے پیر بیدار دل۔ اس محفل میں کوئی نشوونما کا تقاضا نہیں: کہاں اقبال تو نے آ بنایاں آشیاں اپنا نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمین سے تخم سینائی کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستان کی نہ ہے بیدار دل پیری نہ ہمت خواہ برنائی دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں نواگر کے لیے زہراب ہوتی ہے شکر خائی نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستان سے کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی اقبال نے اپنا تمام کمال اور تمام جذبہ اپنی قوم کو بیدار کرنے میں صرف کیا۔ کبھی اس کو کامیابی کا گماں ہوتا تھا کہ قوم میں کچھ جنبش پیدا ہوئی ہے اور میری بانگ درا سے یہ کاروان خفتہ پھر جادہ پیمائی کے لیے تیار ہوا ہے۔ پھر کسی وقت چاروں طرف نظر دوڑاتا تھا تو عملی تبدیلی کے آثار کہیں نہ دکھائی دیتے تھے۔ ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور ان کے کچھ احباب علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تقاضا کیا کہ آج آپ سے کچھ تازہ اشعار رسالہ ’’ کارواں‘‘ کے لیے لے کر ٹلیں گے۔ حسن اتفاق سے اس تقاضے کے دوران میں طبیعت میں کچھ تحریک پیدا ہوئی اور فی البدیہہ چند لمحات کے وقفوں میں پانچ سات اشعار کی وہ غزل ہو گئی جس کی ردیف اور قافیہ ہے سمجھتا تھا جب مقطع میں یہ شعر نکلا: تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں تو اقبال پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ زار و قطار رونے لگے۔ جاوید نامہ کے آخر میں جاوید اور نژاد نو کو خطاب کرتے ہوئے بہت دل افروز نصیحتیں کی ہیں اور بتایا ہے کہ زندگی کس قسم کے ذوق و شوق کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس زندگی کو اگر مسلمانوں میں تلاش کرو گے تو نہیں ملے گی۔ یہ زندگی قرآن میں سے مل سکتی ہے، مگر قرآن پڑھانے والے روح قرآن سے بے نیاز ہیں۔ نور باطن اور تزکیہ نفس کے لیے اگر صوفیوں کی طرف رجوع کرو گے تو یہ لمبے بالوں والے پیر تجربے سے بھیڑیے ہی ثابت ہوں گے: در مسلماناں مجو آن ذوق و شوق آن یقیں آں رنگ و بو آں ذوق و شوق عالماں از علم قرآں بے نیاز صوفیاں وزندہ گرگ و مو دراز گرچہ اندر خانقاباں ہاے و ہوست کو جواں مردے کہ صۃبا در کدوست ملا اور صوفی سے نا امید ہو کر اگر مغرب زدہ فرنگی مآب لیڈروں اور نوجوانوں کو دیکھو گے تو ان کو بھی دھوکوں میں مبتلا پاؤ گے۔ یہ موج سراب کو چشمہ کوثر سمجھ کر بے تابانہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ اس سراب سے ان کے دل کی پیاس نہیں بجھ سکتی اور نہ ملت کا چمن سیراب ہو سکتا ہے۔ یہ طبقہ دین سے مطلق بیگانہ ہے، اسی بیگانگی کی وجہ سے ان میں محبت اور ایثار کا فقدان ہے۔ ان کے سینوں میں کینہ ہے عشق نہیں: ہم مسلمانان افرنگی مآب چشمہ کوثر بجویند از سراب بے خبر از سر دین اند ایں ہمہ اہل کین اند اہل کین اند ایں ہمہ صوفی، ملا، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کا طبقہ، بے درد زمینداروں کا طبقہ، جھوٹی جمہوریت میں ابھرنے والے لیڈروں کا گروہ، اگر تمام ملت انہی ’’ ظلوماً جہولا‘‘ پر مشتمل ہے تو احیاء نشاۃ ثانیہ اور بیداری کی توقع کس عنصر سے ہو سکتی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ براہ راست علامہ سے عرض کیا کہ یہ ملت اگر ایسی ہی مردہ ہے تو آپ خواہ مخواہ اس کو انجکشن دے کر زندہ کرنے کی سعی لا حاصل کیوں فرما رہے ہیں۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ تمام ملت ایسی نہیں ہے۔ اس ملت میں دین و دنیا کی رہبری کے مدعی تو سب ایسے ہی ہیں جیسا کہ میں نے ان کا نقشہ کھینچا ہے، لیکن اس کے عوام میں بہت اچھی صلاحیتیں مضمر ہیں۔ اگر اس کو کوئی صحیح قسم کے درویش منش، صاحبان بصیرت و ہمت راہبر توفیق الٰہی سے مل گئے تو حیات ملی میں بڑ اانقلاب پیدا ہو جائے گا۔ اسی عقیدے کو انہوں نے کئی جگہ اردو اور فارسی کلام میں پیش کیا ہے۔ خطاب بہ جاوید ہی میں فرماتے ہیں: خیر و خوبی بر خواص آمد حرام دیدہ ام صدق و صفا را ور عوام اردو میں بھی فرماتے ہیں: نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی اقبال نے اپنی ملت کی حالت زبوں کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچا ہے اور اس کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اس کے دل میں ایسی بے زاری پیدا ہوئی ہے کہ اس ملت کے احیاء کی بجائے کبھی کہہ اٹھتا ہے کہ اے خدا اب تو اس کا صفایاہی کر دے تو اچھا ہے: کہ ایں ملت جہاں را بار دوش است اس کی تعمیر کا اب ملبہ بن چکا ہے۔ یہ انسانیت کے راستے سے ہٹ ہی جائے تو اچھا ہے، لیکن اس قسم کی بد دعا اس کے دل سے نہیں نکلتی۔ یہ بد دعا ایسی ہی ہے جیسے غصے میں اپنے پیارے بچے کے لیے اس کی شرارتوں اور بد عنوانیوں سے تنگ آ کر ماں کی زبان سے کبھی کبھی نکلتی ہے کہ جا تیری ٹانگ ٹوٹے یا جا تجھے موت آئے، لیکن بچے کو اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے۔ اقبال کا دل اسلام اور مسلمانوں سے کبھی پوری طرح مایوس نہیں ہوتا۔ اس کا وظیفہ حیات ان یاس انگیز حالات کے باوجود قوم کے دل میں خود اعتمادی اور امید پیدا کرنا ہے۔ وہ یقین کامل رکھتا ہے کہ ملت اسلامیہ کا ایک درخشاں مستقبل ہے کیوں کہ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے اور ہزار ٹھوکریں کھا کر بھی آخر اسی کو اسلام کا حامل اور علم بردار بننا ہے، وہ اس پیغام کو بار بار مختلف اشعار میں دہراتا ہے کہ بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے ’’جہاں کا فرض قدیم ہے تو ادا مثال نماز ہو جا‘‘ ٭٭٭ ساتواں باب مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ اقبال کی تنقید علامہ اقبال کے تبلیغی کلام میں دو چیزیں پہلو بہ پہلو ملتی ہیں، ایک تہذیب جدید پر مخالفانہ تنقید اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کی تعلیم۔ کم و بیش تین سو سال سے ایشیا مسلسل زوال پذیر رہا اور فرنگ میں فکر و عمل کی جدوجہد ترقی کرتی گئی، اسلامی دنیا میں تاتاری غارت گری کے بعد علوم و فنون نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا، تصوف اور صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری میں صاحبان کمال پیدا ہوتے رہے لیکن علمی ترقی بالکل رک گئی۔ مسلمانوں میں آخری بڑا مفکر ابن خلدون ہے جس کا زمانہ چودہویں صدی عیسویں ہے۔ سیاست میں تو خلافت راشدہ کے بعد ہی ملوکیت اور مطلق العنانی شروع ہو گئی تھی، لیکن فقہ چودہویں صدی تک آزادانہ تفکر سے حالات کے تغیرات کے ساتھ ایک معتدل توافق پیدا کرتی رہی، اس کے بعد سے ائمہ مجتہدین بھی ناپیدا ہو گئے، تحقیق ختم ہو گئی اور تقلید کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس وقت سے لے کر آج تک راسخ العقیدہ مسلمان اسی یقین پر قائم ہیں کہ تفقہ فی الدین میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں چونکہ دین اور دنیاوی معاملات میں کوئی حد فاصل نہیں ہے اور زندگی ہر شعبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامی عقائد کے زیر نگیں ہے اس لیے تحقیق و اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے یہی معنی تھے کہ اصول اور فروع دونوں میں اب کسی کو نئے سرے سے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کی فقط توضیح و تشریح اور حاشیہ نویسی علماء دین کا وظیفہ حیات بن گیا۔ حکومتوں میں استبداد اور مطلق العنان سلطانی کی وجہ سے سیاسی زندگی کی اصلاح کے لیے نہ افکار پیدا ہو سکتے تھے اور نہ کوئی انقلاب ممکن تھا، اس لیے مسلمانوں نے یہی شیوہ اختیار کر لیا کہ : رموز مملکت خویش خسرواں دانند گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش سیاسی غلامی کا اثر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے، سیاسی استبداد کے ساتھ ساتھ دینی استبداد کا پیدا ہونا لازمی تھا، مطلق العنان حکومتوں کو اسی میں اپنا استحکام نظر آتا ہے کہ عوام و خواص جامد اور مقلد رہیں اور تقلید و اطاعت کو اپنا شیوہ بنا لیں۔ ارباب سیاست ہر جگہ اور ہمیشہ اس میں کوشاں رہے بینکہ دین کو اپنے استبداد کا آلہ کار بنائیں۔ اس لیے دور استبداد میں علماء سو کی کثرت نظر آتی ہے جو حکمرانوں کی ہم زبانی کی بدولت فتویٰ فروشی سے اقتدار میں حصہ دار بن جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہوتاکہ: ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند بلکہ ہر کامیاب تیغ زن کا خطبہ بھی مساجد کے ممبروں پر پڑھنا لازم ہو جاتا ہے، ہر فاتح خواہ وہ فاسق و فاجر ہی ہو ظل اللہ بن جاتا ہے اور اگر اکبر کی طرح اپنے مجتہد اعظم ہونے کا فتویٰ طلب کرے تو سب علماء اس مضر پر دستخط کر دیتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ پھر کم ہی کوئی خدا کا آزاد بندہ ایسا دکھائی دیتا ہے جو سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کر سکے۔ مسلمانوں کے سلطانی ادوار میں ملت اسلامیہ کی جب یہ حالت تھی اس زمانے میں مغرب کی عیسوی دنیا کا حال اس سے بدتر تھا۔ اسلام اس قدر انقلاب آفریں اور فلاح کوش تحریک تھی کہ کوئی چھ صدیوں تک مسلمان اسلام سے بہت کچھ گریز کرنے کے باوجود اقوام عالم میں پیش پیش رہے۔ اسلامی زاویہ نگاہ کا جو قلیل حصہ بھی حیات اجتماعی میں باقی رہا گیا، اتنا حصہ بھی ملت اسلامیہ کو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود معاصرانہ زندگی میں دوسروں سے کچھ قدم آگے ہی رکھتا تھا۔ اسلام کی پہلی چھد صدیاں علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں تاریخ انسانی کا ایک روشن باب ہیں، یہ زمانہ فرنگ میں مغربی تہذیب و تمدن کے جمود و زوال کا زمانہ ہے اور اس دور کو خود اہل فرنگ ’’ازمنہ مظلمہ‘‘ یعنی تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یونانی تہذیب و تمدن طلوع عیسائیت سے قبل ہی زوال پذیر تھا لیکن عیسائیت کے غلبے کے بعد اس کی تمام شان و شوکت و نحوست و ادبار میں بدل گئی، کلیسا کے استبداد نے تحقیق اور آزادی فکر کا خاتمہ کر دیا علوم و فنون کا چرچا ختم ہو گیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں یورپ کی سیاسی قوت بھی اس قدر ضعیف پذیر ہوئی کہ یورپ کے تمام ملوک اپنے عساکر جمع کر کے بھی فلسطین میں ایک مسلمان مجاہد سلطان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مغربی فرنگ میں اندلس پر مسلمان قابض ہو گئے جہاں انہوں نے ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن پیدا کیا، جو تمام فرنگ کے لیے قابل رشک تھا اور علوم و فنون کے فرنگی شائق یہیں سے کسب فیض کرتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے زوال پر فرنگ خوشیاں منا رہا تھا کہ عثمانی ترک یورپ کے مشرق میں داخل ہو گئے اور قسطنطنیہ کی فتح سے مشرقی روما کی باز نطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ سولھویں بلکہ سترھویں صدی تک یورپ مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا، ترکوں کہ جہانگیری اور جہاں داری سیاسی حیثیت سے شان دار تھی، لیکن ان کے دور عروج میں مسلمانوں نے علوم و فنون میں ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا۔ مذہب میں جمود اور استبداد بدستور قائم رہا اور فقہ میں اجتہاد کا دروازہ بند رہا۔ تو ترکوں کی عسکری قوت کو ابھی زوال نہ آیا تھا کہ مغرب میں بیداری شروع ہوئی ۔ مغرب کی اس بیداری کی ابتداء کو نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں کیونکہ مردہ یورپ میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوئے، ان کی طویل شب تاریک کے بعد افق پر روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں۔ مغرب کے مورخ اس کا سبب زیادہ تر یہ بتاتے ہیں کہ مشرقی یورپ پر ترکوں کے قابض ہو جانے کی وجہ سے یونانی اور رومانی علوم و فنون کے ماہرین ہجرت کر کے اطالیہ اور مغربی فرنگ میں پھیل گئے، یونانی علوم کے ساتھ یونانی آزاد خیالی اور حکیمانہ تفکر بھی ساتھ آیا اور فنون لطیفہ کے اچھے نمونے بھی فن کاروں کے لیے سرمایہ حیات بنے۔ یونانی اور روحانی تہذیب، عیسوی رہبانی تہذیب کے مقابلے میں اس دنیا اور اس کی نعمتوں سے نفور نہ تھی،د نیاوی زندگی میں جمال پسندی اور عظمت پسندی اس کا شیوہ تھا اور مذہبی عقائد کے معاملے میں ہر گروہ کو کامل آزادی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں زندگی کے متعلق یہ تمام زاویہ نگاہ عود کر آیا۔ کلیسا کا اثر و رسوخ ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن فرنگ میں ذوق حیات کی ایک لہر دوڑنے لگی، زمانہ حال میں مغرب کے بعض مورخین نے فراخدلی سے اور آزادانہ تحقیق سے اس کا اقرار کیا ہے کہ فرنگ کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا ایک موثر حصہ ہے۔ یورپ نے اس بیداری کے آغاز میں پہلے یہ کیا کہ علوم و فنون میں عربی کتابوں کے ترجمے لاطینی زبان میں کیے اور ایک عرصے تک یہی ترجمے مغرب کا علمی سرمایہ تھے۔ یونانی علوم کو بہت کچھ مسلمانوں نے محفوظ کیا تھا اور جا بجا اپنے اجتہاد سے ان میں اضافہ کیا تھا۔ یونانیوں کی بہت سی اصلی کتابیں جو اب ناپید ہیں فقط عربی حکماء کی تصانیف میں ان کا کھوج ملتا ہے۔ فقط یونانیوں کی کتابیں یا ان کے عربی ترجمے ہی اس نشاۃ ثانیہ میں نئی زندگی کے محرک نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں سے مغرب نے اس چیز کو بھی حاصل کیا جسے طبعی اور تجربی علم یا سائنس کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے علوم و فنون کا مدار مشاہدے اور تجربے پر رکھا تھا او ریہ بات یونانیوں کے ہاں الشاذ کالمعدوم تھی۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ حقائق عالم محسوسات سے حاصل نہیں ہوتے، ان کا مستقل وجودہ عالم عقلی میں ہے اس لیے خالی تعقل کی ترقی اور منطقی وجود استدلال سے انسان حقیقت رس ہو سکتا ہے۔ ریاضیات جو طبیعیات کی اساس ہے، یونانیوں میں بہت ترقی یافتہ نہ تھی، مسلمان ریاضیات کے بعض اہم شعبوں کے موجد ہیں۔ الجبرا (جبر و مقابلہ) مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ یونانیوں اور مغربیوں کے ہاں ارتھمیٹک ابتدائی صورتوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی، صفر کا علم نہ تھا جس کی بدولت اکائی، دہائی، سینکڑہ ہزار سے لے کر لامتناہی تک رقم لکھ سکتے ہیں۔ اس ایجاد کا سہرا اصل میں ہندوؤں کے سر ہے، مسلمانوں نے اس کو ہندوؤں سے حاصل کر کے مغرب کو سکھایا۔ جس کی بدولت ہر قسم کی جمع تفریق اور تقسیم آسان ہو گئی۔ اہل مغرب اس کو عربی رقم کہتے ہیں لیکن ہندسہ دراصل ہندسے آیا ہے۔ سارٹون نے جو سائنس کی مبسوط تاریخ لکھی ہے اس میں ریاضیات اور تجربی سائنس میں مسلمانوں کے کارناموں کی اچھی طرح داد دی ہے۔ مغرب کو عصر حاضر میں جو عروج اور قوت حاصل ہوئی وہ زیادہ تر تجربی سائنس کی رہین منت ہے جس کی ابتداء مسلمانوں نے کی، لیکن ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد مسلمانوں کی ترقی رک گئی اور علوم کی مشعل فرنگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے: بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ مسلمانوں کے ہاں تمام عالم اسلامی میں کیوں چراغ بجھ گئے اور بجھے بھی ایسے کہ بقول میر: شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا تہذیبوں کی پیدائش اور ان کے عروج و زوال کے اسباب کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ زمانہ حال میں فلسفہ تاریخ کے بڑے بڑے اکابر مفکر اسپنگلر، ٹائن بی وغیرہ منقاد نظریات پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا کہ بعض ادوار میں یک بیک کسی قوم میں ایک غیر معمولی زندگی پیدا ہو جاتی ہے، ہر شعبے میں غیر معمولی عبقری ابھرتے آتے ہیں، جمال اور عظمت و قوت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان پر پہلے خفتگی طاری ہوتی ہے اور پھر موت۔ ایک تہذیب ابھی مرنے نہیں پاتی کہ کسی جگہ غیر متوقع طور پر نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسپنگلر کی عالمانہ کتاب زوال مغرب میں یہی نظریہ متا ہے کہ ملتیں بھی نباتی یا حیوانی وجود کی طرح پیدا ہوتی ہیں اور طفولیت و شباب و شیب کے ادوار سے گزرتی ہیں اور آخر میں مر جاتی ہیں۔ ان کی پیدائش میں جو ایک خاص قسم کی زندگی ان کے اندر سے ابھرتی ہے، اس کے اسباب و علل عقل کی گرفت سے باہر ہیں۔ یہ ایک سر حیات اور لاینحل عقیدہ ہے لیکن جن ادوار سے وہ گزرتی ہیں ان کی کیفیات مخصوص قوانین کے ماتحت ظہور میں آتی ہیں۔ اسپنگلر تاریخ میں ایک خاص قسم کے جبر کا قائل ہے۔ ہر دور میں علوم و فنون کا ایک خاص انداز ہوتا ہے، معاشرت میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہ بھی لگے بندھے قوانین کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بے انتہا تبحر علمی سے اس نے تمام بڑی بڑی گذشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی تہذیب نشوونما کے تمام منازل طے کر کے اب زوال پذیر ہے اور عنقریب یہ بھی اسی طرح مٹ جائے گی جس طرح یونان و روما اور مصر و باطل کی تہذیبیں سپرد فنا ہوئیں۔ اسپنگلر کو پڑھ کر بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن حکیم نے بھی کہی کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل و تاخیر نہیں ہو سکتی: ولکل امتہ اجل۔ فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون لیکن جب علامہ اقبال کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلا دیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی یہ غلط ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام تو ساری دنیا کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہو گئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ و بار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں: نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کی رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے، گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے۔ بعض نظمیں تو خالص اسی مضمون کی ہیں۔ اپنی غزلوں میں بھی حکمت و عرفان، تصوف اور ذوق و شوق کے اشعار کہتے کہتے یوں ہی ایک آدھ ضرب مغرب کو رسید کر دیتے ہیں۔ بال جبریل کی اکثر غزلیں بہت ولولہ انگیز ہیں، اکثر اشعار میں حکمت اور عشق کی دلکش آمیزش ہے لیکن اچھے اشعار کہتے کہتے ایک شعر میں فرنگ کے متعلق غصے اور بے زاری کا اظہار کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے صاحب ذوق انسان کو دھکا سا لگتا ہے کہ فرنگ عیوب سے لبریز سہی لیکن یہاں اس کا ذکر نہ ہی کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصفا آب رواں کا لب جو بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے کہ اس میں یک بیک ایک مردہ جانور کی لاش بھی تیرتی ہوئی سامنے آ گئی۔ اگر کہیں ملا کو برا کہتا ہے جو تہذیب فرنگ کی طرح اقبال کے طعن و طنز کے تیروں کا ایک مستقل ہدف ہے تو اس کے ساتھ ہی فرنگ کو بھی لپیٹ لیتا ہے حالانکہ غزل کے باقی اشعار نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کا مطلع ہے: اک دانش نورانی اک دانش برہانی ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی باقی اشعار بھی اسی طرح کے بلند پایہ ہیں لیکن چلتے چلتے ایک یہ شعر بھی فرما دیا جس میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھی متہم کیا ہے: مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی مگر فرنگ میں جو ظاہری پاکیزگی اور حسن و جمال ہے اقبال اس کا منکر نہیں۔ تمدن فرنگ کے اس پہلو کو جو اس کو ایشیا کی گندگی سے ممتاز کرتا ہے، اقبال بھی قابل رشک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی جنت ارضی کے نمونے نظر آئیں: فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند اسی غزل کے ایک شعر میں پھر تہذیب جدید ارو ملائے پر بیک وقت ایک تازیانہ رسید کیا ہے: کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند افغانستان کے سفر میں حکیم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی اور اس عارف و حکیم کے پر تو فیض سے بہت اچھے اشعار اقبال کی زبان سے نکلے ہیں۔ مشرق کی جھوٹی روحانیت سے بیزاری ظاہر کی ہے لیکن فرنگ کو یہاں بھی نہیں بھولے: یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا؟ بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا پھر ایک شعر میں تہذیب حاضر کے متعلق وہ بات کہتے ہیں جسے انہوں نے اور جگہوں پر بھی دہرایا ہے کہ تہذیب حاضر نے بہت سے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے۔ نفی کا یہ پہلو ضروری تھا لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اٹھ سکا اس لیے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے: لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا اور کئی غزلوں میں بھی یہی کیفیت ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن ضرب لگانے کے لیے فرنگ کا ذکر کرنا لازمی ہے: علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں یہ غزل کس قدر عرفانی اور لا مکانی ہے جس کے شروع کے دو اشعار یہ ہیں: تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزار ایسی اونچی باتیں کہتے ہوئے پھر یک بیک فرنگ کی طرف پلٹتے ہیں: گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر بال جبریل میں ساتویں غزل ایسی ہے جس سے روح وجد کرنے لگتی ہے، نصف غزل میں بڑے موثر انداز میں اپنے من میں غوطہ لگانے کی تلقین کی ہے جو تمام اسرار الٰہیہ کا خزینہ ہے۔ من اور تن کے مقابلے کے یہ اشعار اقبال کے شاہکاروں میں سے ہیں: اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤ ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن مقطع میں خود داری کی ایسی تلقین ہے جو دل میں گھر کر جاتی ہے: پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن لیکن ایسی عرفانی غزل میں بھی مقطع سے پہلے فرنگ پر ایک ٹھوکر مارنا لازمی سمجھتے ہیں، خواہ اس شکریے کے ساتھ ہی سہی کہ خدا کا شکر ہے کہ کم از کم من کی دنیا میں تو افرنگی کا راج نہیں: من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن افرنگی کا راج کچھ ختم ہو گیا اور باقی جاں بلب ہے، آئندہ نسلوں کے لیے افرنگی کا راج تاریخ کا ایک قصہ پارینہ بن جائے گا۔ اس زمانے میں اس شعر سے کون لطف اٹھائے گا؟ پچاس یا سوس سال کے بعد غالباً اس وجد آور غزل کو گانے والے اس شعر کو ساقط کر دیں گے لیکن غلبہ افرنگ نے بے چارے اقبال کو اس قدر بے زار کر رکھا ہے کہ وہ ایسی غزل میں بھی اس کے ذکر سے باز نہیں آ سکتا۔ بال جبریل کی اور غزلوں میں سے اس مضمون کے بعض اور اشعار یہاں یکجا درج کیے جاتے ہیں۔ مختلف اشعار سے اس کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال تہذیب فرنگی کے کس کس پہلو کو قابل اعتراض سمجھتا ہے: وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن پرکار و سخن ساز ہے مناک نہیں ہے یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب بہشت مغربیاں جلوہ ہاے پا برکاب دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا مہ و ستارہ بیں بحر وجود میں گرداب تو اے مولاے یثرب آپ میری چارہ سازی کر مری فطرت ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں مے خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ حکیم نطشہ کے متعلق: اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام واے تمناے خام! وائے تمناے خام عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک یا عقل کی روباہی یا عشق ید اللھی یا حیلہ افرنگی یا حملہ ترکانہ خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش سرور و سوز میں ناپائدار ہے درد مئے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں نا صاف سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ستارے بن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب رہ و رسم حرم نا محرمانہ کلیسا کی ادا سوداگرانہ یقیں مثل خلیل آتش نشینی یقیں اللہ مستی خود گزینی سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بے یقینی کوئی دیکھے تو میری نے نوازی نفس ہندی مقام نغمہ تازی نگہ آلودۂ انداز افرنگ طبیعت غزنوی قسمت ایازی ٭٭٭ اشتراکیت نے مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف جو بغاوت کی اس کے وجودہ زیادہ تر وہی ہیں جن سے اقبال بھی متفق ہے۔ لینن نے خدا کے حضور میں اس تہذیب کا جو خاکہ کھینچا ہے اس میں اقبال لینن سے ہم نوا ہے: مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات رعنائی تعمیر میں، رونق میں صفا میں گرہوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟ وہ قوم کہ فیاض سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندۂ مزور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات ٭٭٭ است نے مذہب سے پیچھا چھڑایا چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی ہوس کی امیری ہوس کی وزیری ہوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی ہوئی چشم تہذیب کی نا بصیری ترے صوفے افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی ٭٭٭ ہوا اس طرح فاش راز فرنگ کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے گیا دور سرمایہ داری گیا تماشا دکھا کر مداری گیا ٭٭٭ وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ ٭٭٭ زہر اب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند ٭٭٭ اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر ٭٭٭ جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک ٭٭٭ تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ (ماخوذ از نطشہ) یہ اشعار فقط بال جبریل کی غزلوں اور نظموں میں سے چنے گئے ہیں۔ اقبال کے کلام کے اور مجموعوں میں بھی مغرب کی تہذیب اور نظریہ حیات پر مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید ملتی ہے۔ یہ مضمون اقبال کے محوری افکار میں سے ہے۔ اگر تمام اعتراضات کا استقراء کیا جائے تو مفصلہ ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں: مغربی تہذیب جس سے مرا زیادہ تر وہ تہذیب و تمدن ہے جو گزشتہ تین سو سال میں پیدا ہوا، زیادہ تر عقلیت، مادیت یا نیچریت کی پیداوار ہے۔ لیکن عقلیت جو اپنے کمال اور کلیت میں بھی پوری طرح حقیقت رس نہیں ہو سکتی اسے مغرب نے اور زیادہ محدود و محصور کر دیا۔ اس نے فقط مادی فطرت کے مظاہر کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور اس کے قوانین کا ادراک کرنے کے بعد اس کو زیادہ تر مادی اور جسمانی اغراض کے لیے مسخر کیا۔ اس تسخیر نے مغرب کو مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخشی۔ اس اقتدار اور تسخیر سے سرشار ہو کر ا س نے علمی اور عملی طور پر نظریہ حیات قائم کر لیا کہ عالم مادی یا عالم محسوسات ہی حیثیت کلی ہے، حاضر کے باہر غائب کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ انسان اپنی روح ہی کے وجود سے منکر ہو گیا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جو عارف رومی کے ارشادات میں ملتا ہے۔ علم ایک بے طرف قوت ہے۔ وہ حکمت روحانی اور عشق الٰہی کے ساتھ یار جان ہو سکتا ہے لیکن خالی علم و ہنر سے وہ زیر کی پیدا ہوتی ہے جو ابلیس کی صفت ہے: می شناسد ہر کہ از سر محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است علم را برتن زنی مارے شود علم را یرجاں زنی یارے شود عشق سے معرا ہو کر تسخیر فطرت ایک قسم کی جادوگری ہے۔ جادو گر بھی غیر معمولی مادی اور نفسی قوتوں پر قابوپا کر ان کو فساد و تخریب میں استعمال کرتا ہے۔ مغرب میں طبعی سائنس نے جو قوتیں پیدا کیں انہوں نے ظاہری قوت اور شان و شوکت تو بہت پیدا کر دی لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان قوتوں کی مالک اقوام نے ایک طرف ان اقوام کو مغلوب کر لیا جو ان رموز تسخیر سے آشنا نہ تھیں اور دوسری طرف یہ جنات اپنی قوت کے بل بوتے پر آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ تمام عالم انسانی میں زلرلہ آ گیا اور خود اس سائنس کا پیدا کردہ تمدن پاش پاش ہو گیا۔ اس طبعی سائنس کی ترقی نے ایسا سامان پیدا کیا کہ ہر ذرے میں جو محشر پنہاں تھا وہ نمودار ہو گیا۔ مغرب کا انسان وہی کچھ بن گیا جس کے متعلق مرزا غالب فرما گئے کہ: قیامت می دمد از پردۂ خاکے کہ انساں شد اس عالم گیر علم کے ساتھ عالم گیر محبت پیدا نہ ہوئی، یہ علم رفتہ رفتہ عشق اور روحانیت سے ایسا بیگانہ ہوا کہ نہ صرف نوع انسان بلکہ تمام کرۂ ارض جماد و نبات و حیوانات سمیت معرض خطر میں پڑ گیا۔ انہیں آثار کو دیکھ کر اقبال نے قیام فرنگ کے دوران ہی میں یہ پیش گوئی کی تھی: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اور فرنگ روحانیت کی طرف لوٹتا نظر نہ آیا تو اقبال تیس برس تک اس پیش گوئی کو دہراتا چلا گیا کہ مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ کی زد میں آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا تمدن سست بنیاد ہے اور اس کی دیواریں شیشے کی ہیں جو ایک دھماکے سے چکنا چور ہو جائیں گی۔ عقل بے عشق کی معموری دل کی خرابی میں اضافہ کرتی گئی، غیب کی منکر دانش حاضر انسان کے لیے عذاب بن گئی، محسوسات کے ادراک کے لیے آنکھیں روشن ہوتی گئیں لیکن درد انسان سے نمناک نہ ہوئیں اس تہذیب کی تجلی نے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو اندھا کر دیا، بجلی کے چراغوں کی روشنی کو نور حیات سمجھ لیا گیا غیب اور مرئی عالم کا منکر ہونے کی وجہ سے فرنگ اس کوشش میں پڑ گیا کہ اسی دنیا کو جنت بنایا جائے اور اس چند روزہ زندگی میں اسی میں عیش کیا جائے۔ وہ اس سے غافل رہا کہ اس فردوس کی تعمیر میں خرابی کی مضمر صورتیں بھی اپنا پنہاں مگر موثر عمل کر رہی ہیں۔ جس فکر گستاخ نے فطرت کی طاقتوں کو عریاں کیا وہ اس سے بے خبر رہا کہ اس سے پیدا کردہ بجلیاں خود اس گلشن اور آشیانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گی اور دنیا جہنم کے کنارے تک پہنچ جائے گی۔ طبعی سائنس کی ترقی اور صنعت میں اس کے اطلاق نے مصنوعات کے عظیم الشان کارخانے بنائے جو بے درد سرمایہ اندوزوں کے ہاتھ میں آگئے، کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی اور خود داری سے محروم ہو گئے۔ صناعوں کی انفرادی جدت اور صناعی ختم ہو گئی۔ کارخانے کا ہر مزدور ایک بے پناہ مشین کا پرزہ بن گیا، اس کی انسانی انفرادیت رفتہ رفتہ سوخت ہوتی گئی۔ پہلے زمانے میں ممالک حکومت کرنے کے لیے فتح کیے جاتے تھے، اب کمزور اقوام پر ہر قسم کی یورش تجارت سے نفع اندوزی کی خاطر ہونے لگی کہ کمزور اقوام کو خام پیداوار کی غلامانہ مشقت میں لگایا جائے اور پھر مصنوعات کو انہیں کے ہاتھوں گراں قیمت میں فروخت کیا جائے۔ خود سرمایہ داروں میں گلا کاٹ مقابلہ اور مسابقت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ایسی دو عظیم جنگیں ہوئیں جن کے سامنے چنگیز، ہلاکو، تیمور اور نپولین کی ترکتاز بازیچہ اطفال معلوم ہوتی ہے۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبعی سائنس سے فروغ حاصل ہوا تھا۔ انسان کی ا پنی تسخیر فطرت کا ساتھ نہ دے سکی۔ الف لیلہٰ کی کہانی کا لوٹے میں مقید دیوآزاد ہو کر فضا میں پھیل گیا اور اسے دوبارہ لوٹے میں بند کرنے کا سحر ہاتھ نہ آیا۔ مغرب کے دین سے بیگانہ ہونے کے دو بڑے اسباب تھے، ایک سبب تو کلیسا کا استبداد تھا، جس نے ہزار سال سے زائد عرصے تک انسانوں کا دینی اور دنیاوی نظریہ حیات غلط کر دیا تھا۔ یہ استبداد کسی قدر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں ٹوٹا لیکن اس پر ایک کاری ضرب لوتھر کی پروٹسٹنٹزم (احتجاج) نے لگائی۔ اس کے بعد اسی اصلاح کے اندر سے ایک نئی آفت پیدا ہوئی اور نئے فرقے کچھ قدیم کلیسا کے خلاف اور کچھ آپس میں ایسے متعصبانہ انداز میں دست و گریبان ہوئے کہ طویل مذہبی جنگوں نے تمام یورپ کو تباہ کر ڈالا۔ یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ اس کے خلاف زور شور کا رد عمل ہوا اور امن کی یہی صورت نظر آئی کہ دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ سب سے زیادہ دینی عقائد کا اختلاف ہی عقل و صلح کا دشمن ہے۔ یورپ دین کے متعلق اسی نتیجے پر پہنچا جسے حالی نے اس شعر میں بیان کیا ہے: فساد مذہب نے ہیں جو ڈالے نہیں وہ تا حشر مٹنے والے یہ جنگ وہ ہے کہ صلح میں بھی یونہی ٹھنی کی ٹھنی رہے گی دین سے اس بیزاری کے ساتھ ساتھ طبعی سائنس ترقی کرتی گئی، یہ ترقی نا ممکن تھی جب تک کہ بر خود غلط حامیان دین سے چھٹکارا حاصل نہ ہو جو تمام طبیعیات اور فلکیات کو بائبل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو فقط روحانیت، الٰہیات اور اخلاقیات ہی از روئے وحی حاصل نہیں ہوئے بلکہ تمام طبعی علوم کے متعلق بھی وہی باتیں قابل یقین ہیں جو صحیفہ آسمانی میںد رج ہیں۔ سائنس کا ہر انکشاف قدم قدم پر اس جامد دین سے ٹکراتا تھا، جب اس قسم کے مذہب کو سائنس سے ٹکرایاگیا تو کلیسا کا جبر اوراس کی تلوار بھی مفکرین کا رخ حقائق کی طرف سے نہ پھیر سکیں ۔ سرگزشت آدم میں اقبال کہتا ہے : ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے دین کی ایک تخریبی اور جامد صورت کو مغرب نے عین دین سمجھ لیا ہے علم کی روشنی میں جب وہ عقائد باطل ثابت ہوئے تو سائنس کی پیدا کردہ تہذیب نے دین ہی سے منہ پھیر لیا‘ حکومتیں غیر دینی اور سیکولر ہو گئیں مغرب اگر بودے دین کو چھوڑ کر دین کی حقیقت کی طرف آ جاتا تو خارجی فطرت کی تسخیر اور علوم و فنون میں اس کی غیر معمولی ترقی انسانیت کے غیر معمولی ارتقا کا باعث ہوتی لیکن مذہب کے بودا ہونے کی وجہ سے مغرب ظاہر کی روشنی کے باوجود باطن کو منور نہ کر سکا۔ سیاست نے دین سے معرا ہو کر ماکیاویلی کا ابلیسانہ مذہب اختیار کر لیا: آن فلارنساوی باطل پرست سرمہ او دیدہ مردم شکست مغرب کے خلاف اقبال نے اس قدر تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ پڑھنے والا اس مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اقبال بڑا مشرق پرست ہے۔ جامد ملا اور رجعت پسند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نہ مشرق پرست ہے اور نہ مغرب پرست اور نہ وہ عقل کا ایسا مخالف ہے کہ اسے دین و دنیا کے لیے بے کار سمجھے۔ وہ اہل مشرق کے جمود ان کی پستی اور دین نما بے دینی سے کچھ کم بیزار نہیں۔ اقبال اسے سے بخوبی واقف ہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں جن کے متعلق وہ کہتاہے کہ: تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند جب مشرق اور جامد اور غافل اور خفتہ رہا مغرب میں طرح طرح کی حرکت پیدا ہوئی اور ا س کی ہر حرکت میں کچھ نہ کچھ برکت بھی تھی۔ نشاۃ ثانیہ سے لے کر آج تک یورپ میں طرح طرح کی ہلچل ہوئی اور رنگا رنگ کے انقلابات ظہور میں آئے۔ ہر انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب کا آرزو مند ہوتا ہے تو پہلے یورپ کے انقلابات پر نظر ڈالتا ہے۔ جن کی بدولت مغرب زندگی کے اسلوب بدلتا گیا اور فکر و عمل کی آزادی کی طرف قدم بڑھاتا گیا۔ لوتھر کی تحریک سے لے کر جس نے کلیسا پر ضرب لگائی انقلاب فرانس سے گزرتا ہوا مسولینی تک کی حرکت کا ذکر کرتا ہے اسی سلسلے میں روس کے زلزلے کا ذکر بھی ہو سکتاتھا لیکن وہ یہاں چھوٹ گیا ہے۔ اور جگہ کا کافی جائزہ لیا ہے اور اس کی داد دی ہے کہ اس اشتراکی اتحادی نے بھی بڑے بڑے بت توڑے ہیں۔ ہر قسم کا انقلاب اسی جذبے اور اسی قوت کی بدولت ہوتا ہے جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ اس کے نزدیک یورپ کی یہ تمام تحریکیں بھی عشق ہی کی بلا خیزی کا نتیجہ تھیںَ جن کی وجہ سے فکر انسان اور روح انسان استبداد کے طوق و زنجیر توڑتی چلی گئی۔ اقبال کا نظریہ حیات ارتقائی ہے اور یہ ارتقا انسان کو مسلسل زنجیر فطرت سے حاصل ہوتا ہے اس کے نزدیک زندگی مسلسل جدوجہد اور تخلیق کا نام ہے۔ فطرت کے جبر پر قابو پا کر خودی کی استواری اس کی تلقین کا اہم جزو ہے کائنات انفس و آفاق پر مشتمل ہے۔ اور اقبال اس کو غلط اندیشی اور غلط روی قرار نہیں دے سکتا۔ اس کو صرف یہ شکایت ہے کہ اس یک طرفہ تسخیر نے اسنان کی روحانی زندگی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ حقیقت ازروئے قرآن بھی ظاہر ہے اور باطن بھی ظاہر و باطن ایک حقیقت کے دو پہلو ہیں اقبال نے یہ فلسفہ قرآن سے اخذ کیا ہے جو اس کائنات کو باطل نہیں سمجھتا اور حقیقت مطلقہ کی بابت ھو الظاہر و ھو الباطن کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مظاہر فطرت کے سللس مطالعے اور اس کی کثرت کو ایک وحدت کی طرف راجع کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات اور اس کی کثرت کو اس نے وضاحت سے لکھا ہے کہ طبیعی اور تجربی سائنس مسلمانوں کی پیداوار ہے۔ جسے یورپ نے اولاً مسلمانوں سے حاصل کیا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کی خفتگی کی صدیوں میں اس کو بے انتہا ترقی دی۔ پہلے ہی خطبے میں کہا ہے کہ زمانہ حال میں مسلمانوں کے تفکر کا رخ مغرب کی طرف ہے اور میرے نزدیک یہ میلان خوش آئند ہے۔ کیوں کہ یہ انداز فکر یورپ نے خود مسلمانوں سے حاصل کیا ہے ۔ اقبال مغرب سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ علم و ہنر میں اپنی تمام ترقیوں کو ؤحرف غلط کی طرح مٹا کر کسی قدیم روش پر آ جائے۔ جب کہ انسان مظاہر فطرت اور اس کی قوتوں کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتا تھا۔ یورپ کے علم و ہنر نے ظاہری ززندگی میں صفائی پیدا کی ہے اور مشرق بدستور گندا ہے۔ اس نے بے شمار امراض کا علاج ڈھونڈا ہے مگر مشرق کی ارواح کی طرح اس کے ابدان میں بھی ضعیف اور طرح طرح کے امراض کے شکار ہیں۔ فرنگ کے ہر قریے کو فردوس کی مانند دیکھ کر اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ ہماری بستیاں بھی جنت کا نمونہ بن جائیں۔۔ یورپ کے کافروں کو وہ اپنے مسلمانوں سے زیادہ عملاً اسلام کا پابند سمجھتا ہے۔ اور یورپ کو اس زندگی کو جو نعمتیں حاصل ہوئی ہیں ان کو وہ اس اسلام کا اجراء شمار کرتا ہے جو ان کی زندگیوں کے بعض پہلوئوں میں پایا جاتا ہے: مسلم آئیں ہوا کافرتو ملے حور و قصور فارسی میںایک جگہ وضاحت سے کہتا ہے ک فرنگ رقص دختراں کا نام نہیں اس کی طاقت کا سرچشمہ اس کے علوم و فنون ہیں۔ مشرقی انسان عام طور پر جب جدید تہذیب کا گرویدہ ہوتا ہے تو مغرب کے ظواہر کی نقالی کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ: چلا جب چال کوا ہنس کی اس کا چلن بگڑا یورپ نے پہلے علم و ہنر سے فراواں سامان حیات پیدا کیا اور پھر وہ فراوانی اس کی رہائش اور خورد و نوش میں جلوہ افروز ہوئی۔ مشرق کا مفلس بغیر کچھ کیے دولت مند قوتوں کی نقالی کر کے اپنے تئیں اس کا مثیل سمجھنے لگتا ہے۔ مشرق صدیوںسے سیاسی استبداد میں آسودہ رسوائی رہا ہے لیکن مغرب میں انسانی حقوق اور مساوات کی جدوجہد نے جمہوریت کے تجربے کرنے شروع کیے۔ ابتدا میں ان جمہوریتوں میں بھی انسان کو مساوات حاصل نہ ہوئی۔ جس کی وہ توقع کرتا تھا اور بقول اقبال دیو استبداد ہی جمہوری قبا میںرقصاں رہا لیکن بقول عارف رومی: کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی یہ نیم کامیاب کوششیں انگلستان میں اس انداز کی سوشلزم تک پہنچ گئیں جو اقبال کے نظریہ حیات کے مطابق اسام سے بہت قریب ہیں۔ اقبال کو مغرب کی تمام کوششوں میں کچھ نہ کچھ خلل نظر آتا ہے۔ خود مغرب کے مفکریں اور مصلحیں بھی ان خرابیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اقبال نے جو تنقید مغرب پر کی ہے اس سے کہیں زیادہ مغربی مفکرین نے اپنے عیوب گنوائے اور ان کے علاج تجویز کیے ہیں۔ اقبال اس کا آرزو مند ہے کہ مغرب نے گزشتہ تین سو سال می سائنس اور علم و ہنر کی جو ترقی ک ہے مسلمان بھی اس سے بہرہ انداز ہوں لیکن دنیا کو سنوارنے میں وہ اپنی خودی اور اپنے خداسے غافل نہ ہو جائیں: ست دنیا از خدا غافل شدن نے قماش و نقرہ و فرزند و زن مغربی مادیت اور حاضر پرستی کی معراج روسی اشتراکیت میں نظر آتی ہے۔ لیکن ابال اس کا بھی مداح ہے کہ اس نے سلبی کام بہت اچھا کیا ہے ۔ اور اس نے کلیسا اور سرمایہ داری اور امتیاز رنگ و نسل اور تفوق طبقات کے بہت سے جھوٹے معبودوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ توحید کے کلمے میں لا الہ جز و ثانی الا اللہ سے پہلے اورمقدم ہے۔ مغرب نے عام طور پر اور روسی اشتراکیت نے خاص طور پر لا الہ کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔ لیکن مغرب اس لا الہ کے دریا میں سے ابھی تک الا اللہ کے موتی نہیںنکال سکا۔ اس کے مقابلے میں مشرق کو ابھی بہت کچھبت شکنی کرنی ہے۔ مغرب نے اپنے دینی جمود کو بہت کچھ رفع کر لیا اوربقول اقبال وہاں فکر کی کشتی نازک رواں ہو گئی لیکن لوتھر کی طرح کوئی تحریک ابھی مسلمانوںمیںپیدا نہیں ہوئی جو ان کو جامد ملائیت اجتہاد دشمن تفقہ اور ٹیکس وصول کرنے والے پیروں سے نجات دلوا سکے۔ ترکوں نے ملائیتت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو تحقیقی کی بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بنا لیا ۔ ترکوں کے بعض لیڈر اس کے مدعی ہیں کہ ہم اسلام کے پروٹسٹنٹ ہیں لیکن ان کا یہ ادعا غلط ہے ۔ لوھتر نے کلیسا کے خلاف بغاوت اس بنا پر کی کہ عیسائیوں نے مسیح اور اس کی انجیل پر ایمانداری اور آزادی سے غور کرنے کی بجائے ارباب کلیسا کے پاس اپنا ذہن اور اپنا ضمیر بیچ رکھا ہے۔ لیکن توکوں نے جو ش تقلید فرنگ میں فقہ کے معاملے میں قراان ہی کو بالائے طاق رکھ دیا۔ رضا شاہ نے مجتہدین ایران سے چھٹکارا حاصل کر کے ایرانیوں کو ایک ترقی پسند اور مہذب ملت بنانا چاہا تو وہ بھی مصطفی کمال کی طرح مغرب کے ظواہر کی تقلید میںپڑ گیا۔ اور یہ کوشش نہیں کہ اسلای اساس پر ایک تہذیب تعمیر کرے۔ جو شرق وغرب کی موجودہ تہذیبوں پر فائق ہو: نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں ںمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی اقبال مغرب کے عیوب کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی بخوبی واقف اوراان کا مداح تھا‘ وہ چاہتا تھا کہ مسلمان وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لیں علم مومن کا گم شدہ مال ہے علم جہاںسے بھی ملے فرنگ میں ہو یا چین میں مسلمان کو اسی طرف لپکنا چاہیے جس طرح انسان بازیافتہ گم شدہ مال کی طرف لپکتا ہے ۔ اقبال نے محڈود عقلیت اور مادیت کے خلاف بہت کچھ لکھاہے۔ کیوں کہ انسان اس کے اندر محصور ہو کر رہ جائے تو اس کا اصلی جوہر گم ہو جاتا ہے۔ لیکن اقبال اس سے بھی آگاہ ہے کہ عقل اور مادی زندگی سے روگردانی کر کے خالی روحانیت میں کوشش کرنا بھی لاحاصل ہے۔ خدا نے جس حکتم کو خیر کثیر کہا ہے اس میں ظاہر اور باطن دونوں کا عرفان شامل ہے۔ اقبال کو شکایت ہے کہ مغر ب مادی ترقی میں بے طرح الجھ گیا ہے اور عقل طبیعی پر اتنا بھروسہ کرنے لگا کہ روح انسانی کے غیر متناہی امکانات اس کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ عقل طبیعی نے عقل ایمانی کی طرف رہبری نہ کی۔ مغر ب اور مشرق کی تہذیبوں اور ان کے انداز حیات کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کے لیے یہ بات ضروری معلوم ہو جاتی ہے کہ اقبال کے کلام پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو عام طور پر مستشرق سے متعلق اور مشرق میں خاص طور پر ملت اسلامیہ کی موجودہ صورت حالت کے متعلق اس مبصر کی کیا رائے ہیے۔ اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اقبال نہ مشرق کا مداح ۃے اورنہ مغرب کا ستائش کرنے والا محقق اور مبلغ ہے ۔ جو انسانی زندگی مین توازن پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ جانبداری سے کام نہیں لے سکتا۔ ہر طرفدار آدمی جادہ صداقت سے ہٹ جاتاہے۔ اسلام اور ملت اسلامیہ کے عشق کے باوجود بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسی عشق کی وجہ سے وہ کسی عیب کو صواب نہیںسمجھ سکتا۔ مرض کی حقیقت سے آنکھیں بند کر نے والا مریض یا طبیب نہ صحیح تشخیص کر سکتا ہے اورنہ موثر علاج تجویز کر سکتا ہے۔ چونکہ زندہ اسلام کی ایک معین تصویر اس کی چشم باطن کے سامنے ہے وہ حیات المسلمین کے ہر پہلو کو بغور سے دیکھ کر اس تصویر سے مقابلہ کر کے دیکھتا ہے کہ کہاں کہاں وہ صورت دگرگوں ہو گئی ہے۔ جس طرح توحیدی مذاہب میں بھی رفتہ رفتہ خدا کا تصور کیا سے کیا ہو جااتاہے۔ اسی طرح تعلیمات اور شعائر کی بھی نہ صرف صورت بدل جاتی ہے بلکہ صورت کے ساتھ ساتھ ہی معنی بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ عرفی نے اس بارے میں حکیمانہ رباعی کہی ہے: حرم جویاں درے را می پرستند فقیہاں دفترے را می پرستند برافگن پردہ تا معلوم گردو کہ یاراں دیگرے را می پرستند اسی مضمون سے ملتا جلتا ایک اور دوسرا شعر ہے: آنانکہ حسن روے تو تفسیر می کنند خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند اقبال محی املت بھی ہے اور محٰ الدین بھی۔ اسے اپنی ملت کی حالت ہر جگہ اور ہر پہلو میں ناگفتہ بہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شرق و غرب دونوں میں دین مسخ ہو گیا ہے۔ وہ ایک صحیح نظریہ حیات پر اپنی ملت کا بھی احیا کرتا ہے اور تمام نوع انسان کا ارتقاء بھی ؤجو اس کے عقیدے کا ایک اساسی عنصر ہے۔ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قدامت پرستی اور تقلید کی راہوں سے ہٹ کر انسان تحقیق اور حریت سے اپنی خودی استوار کرے۔ ملت اسلامیہ کے ماضی خصوصاً آغاز اسلام کا نقشہ اس کی روح میں اہتراز پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ روح اسلام نئے نئے قالب اختیار کرے اور زندگی کی تخلیقی اور جدت آفرین قوتوں سے نئے مظاہر اور نئے عوالم ظہور میں آئیں۔ وہ فردا کو دوش کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ لیکن حیات انفرادی یا حیات اجتماعی کی صورتوں میں اعادے اور تکرار کا قائل ہے۔ کل یوم ہو فی شان کی قرآنی تعلیم کے مطابق صوفیہ کا عقیدہ او رتجربہ ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ حیات ازلی کے لامتناہی مضمرات ہمیشہ امکان سے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اقبال میں مددانہ انداز ہے اور وہ زندگی کے ہر پہلو میں تجدید کا آرزو مند ہے۔ لیکن اصلی تجدید وہ ہے جس میں روح خود ارتقاء کے لیے مناسب قالب اختیار کرے محض جدت آفرینی زندگی کا ثبوت نہیں بقو ل عارف رومی: قالب از ما ہست شد نے ما ازو بادہ از مامست شد نے ما ازو اقبال نے مغرب میں حقیقت حیات سے جو بیگانگی دیکھی وہی محرومی اس کو مشرق میں بھی اور ملت اسلامیہ میں بھی نظر آئی ہے۔ جہاں قیس اس کے لیے پیدا نہیں ہو رہے کہ صحرا میں وسعت نہیں اور محمل لیلیٰ نہیں یعنی دل اور دماغ کے سامنے کو ئی مقصود اور نصب العین نہیں جو قلب کو گرما سکے اور روح کو تڑپا سکے۔ ظاہری خول اور چھلکے نظر آتے ہیں جن کے اندر مغز نابود ہے تیر ترکش کے اندر نہیں یا ہیں تو نیم کش ہیں کیوں کہ صیاد کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس ہدف کی طرف ان کو چلایا جائے۔ دینی زندگی کے کچھ ظواہر ہیں جو بے گوہر صدف ہیں۔ منہ سے توحید کا کلمہ پڑھنے والے طرح طرح کی بت گری اور بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ دیر کے نقش و نگار میں کھؤوئے ہوئے خدا اور خودی سے غافل ہو گئے ہیں۔ جب ملت اسلامیہ کی اپنی یہ حالت ہے تو یہ ملت مغربیوں کی بے دینی پر کس منہ سے معترض ہو سکتی ہے۔ ملا اور صوفی اور سیاسی رہنما اور دولت میں مست افراد سب کا یہی حال ہے۔ مغربیوںنے کم از کم وہ کچھ تو کر دکھایا ہے جو خرد کے بس کی چیز تھی۔ مشرق میں تو روحانیت کے ساتھ عقلیت کا بھی فقدان ہے۔ مغرب کو تو اپن اصلاح کے لیے فقط اپنی عقلیت اور مادیت کی ترقی یافتہ صورتوں کو روحانیت کے زیر نگین لانا ہے لیکن مشرق کو اپنے باطن کے ساتھ ظاہر کرنے کی درستی کا کام بھی کرنا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مشرق مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ مغرب کو جتنی اصلاح کی ضرورت ہے اس سے درجہا زیادہ مشرق اورم لت اسلامیہ اس کی محتاج ہے جس کے عوام و خواص کا یہ حال ہے: میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف مشرق و مغرب دونوںمیں سے کسی کی صفت قابل ترجیح دکھائی نہیں دیتی توکہہ اٹھتاہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی قیمت دو جو کے برابر بھی نہیں: بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو بہت دیکھے ہین میں نے مشرق و مغرب کے میخانے یہاں ساقی نہیں ہے وہاں بے ذوق ہے صہبا مغرب نے غیب کی طرف سے آنکھیں بند کر کے عالم حاضر میں تو کچھ عیش و تنعم پیدا کر لیا ہے اس کی کوتاہی یہ ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الاخرۃ حسنتہ میں پہلے جزو کی تکمیل میں دوسرے حصے سے غافل ہو گیا ہوں۔ لیکن نصف کام تو اس نے مشرق سے بہت بہتر کر ڈالا ہے۔ گو اس کے عرفان حقیقت میں یہ خامی باقی ہے کہ وہ اسی عالم کے عیش کو اپنے لیے اور آئندہ نسلوں کے لے عیش تمام سمجھ کر اس کے دوام کے لیے کوشاں ہے: ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام! مشرق مدت سے فرنگ کے سیل بے پناہ میں بہہ رہا ہے۔ اب اقبال کی پیش گوئی ہے: خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے چلو قصہ تمام ہوا۔ ہم تو ڈوبے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اقبال چاہتا ہے کہ یہ دونوں ڈوب کر پھر ایک تازہ اندا ز حیات میں ابھریں جس میں زندگی کے تمام طاہری اور باطنی قوتیں نشوونما پا سکیں۔ اس موضوع پرایک بات قابل توضیح باقی ہے کہ اقبال کے دل میںفرنگ کے خلاف ایسا شدید جذبہ کیوں ہے جو سینکڑوں غزلوں نظموں قطعوں اور رباعیوں میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کا سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ اس مخالفانہ جذبے کی ایک وجہ سیاسی ہے۔ غلبہ فرنگ نے ایشیا اور افریقہ کی تمام اقوام کہن کو جو کسی زمانے میں مذاہب اور تہذیب و تمد ن کا گہوارہ تھیں مغلوب کر لیا ہے ان اقوام میں پہلے سے انحطاط موجود ھتا جس کی ذمہ دار مغربی اقوام نہ تھیں۔ علوم و فنون مردہ ہو چکے تھے۔ اور مطلق العنان حکومتوں کی وجہ سے رعایا میں اپنے حقوق و فرائض کا کوئی احساس نہتھا۔ نہ دینی جذبہ ایسا قوی تھا کہ جو ملتوں کو متحد کر کے آمادہ ایثا ر کر سکے۔ اورنہ وہ قوم پرستی اور ملت پرستی تھی جس نے مغرب میں دین کی جگہ لے کر مغربی اقوام میں اتحاد اور قوت پیدا کر دی تھی۔ ہر جگہ جمود اور استبداد کا دور دورہ تھا۔ جب تک مغرب کی یورش ان اقوام پر نہیںہوئی تب تک حیات اجتماعی کے پرانے ڈھانچے قائم تھے۔ اگرچہ ان میں ایسی استواری نہ تھی کہ منظم اور قوی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ علم و ہنر نے جو نئی قوتیں پیداکی تھیں ان کا یہاں فقدان تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی ایسی اقوام مٹھی بھر فرنگیوں کی حکمت اور قوت سے مفتوح و مغلوب ہو گئیں۔ ہندوستان کے تیس کروڑ انسانوں نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کی غلامی قبول کر لی ۔ انگریوں کی اجتماعی معاشی اور علمی زندگی ان تمام اقوام پر فائق تھی۔ اچھے دل و دماغ کے افراد ان اقوام میں بھی خال خال موجود تھے۔ لیکن اجتماعی زندگی بحیثیت مجموعی نہایت ضعیف اور غیر منظم تھی۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزوں کی فوقیت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا۔ ملک میں جو مصلحین پیدا ہوئے وہ بھی انگریزوں کی سیاسی قوت سے زیادہ ان کی تہذیب اور علوم و فنون سے مغلوب بلکہ مرعوب تھے۔ مسلمانوں میں احیائے ملت اور اصلاح قوم کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کے دل میں پیدا ہو ا تھا۔ وہ ملت کا دلدادہ اور اسلام کا شیدائی تھا۔ لیکن ان حالات میں مسلمانوں کے احیا کی صورت اس کی سمجھ میں بھی آئی کہ انگریزوں سے علم و فنون حاصل کیے جائیں اور ان کی تہذیب میں سے ان عناصڑ کو اپنایا جائے جو اسلام کے منافی نہیںہیں بلکہ حقیقت میں اسلامی زندگی کا تقاضا ہیں۔ سرسید وار اس کے رفقا محسن الملک‘ چراغ علی‘ حالی‘ شبلی ‘ نذیر احمد‘ مولوی ذکاء اللہ وغیرہ سرسید سے اس معاملے میں متفق تھے۔ وہ اپنی تحریروں میںجا بجا اپنی تہذیب کی پرستی اور فرماویگی اور مغربی تہذیب کے جمال و کمال کا بے دریغ اقرار کرتے ہیں۔ ان کی نیتیں نیک تھیں وہ ملت کے حقیقی خیر خواہ تھے اور بہت حد تک ان کایہ خیا ل درست تھا کہ مشرق کو جمود اور پستی سے نکالنے کے لیے مغربی افکار اورطریقوں کی ضرورت ہے۔ وہ ان چیروں کو اسلام کے منافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ عقیدہ رکھتے تھ کہ ملت اسلامیہ جب زندہ اور ترقی پذیر تھی تو اس میں یہی صفات پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض برکات حکومت انگلشیہ کے راگ گاتے تھے۔ اور بعض ایسے تھے کہ جو شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی انداز تفکر سے علم و ادب میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے یہ لوگ اسلامی تعلیمات اسلامی علم و ادب اور اسلامی تاریخ کے عالم اور ادیب تھے اور غلامانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے لیکن ایک ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی خوبیوں کے منکر نہ ہو سکتے تھ۔ یہ زمانہ مسلمانوں کی ملی خودی کو زور شور سے پیش کرنے کا عہد نہ تھا۔ چنانچہ اقبالنے بھی اسی دور میں علی گڑھ میں کالج کے طلبا کو جو پیغام بھیجا تھا اس میں آخر میں یہ نصیحت تھی: بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نارسا ابھی رہنے دو خم کے سر پرتم خشت کلیسیا ابھی سید احمد خان اسی دور میںراہی ملک بقا ہوئے لیکن ان کے رفقا جو بعد میں تادیر زندہ رہے ان میں غلبہ فرنگ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ حالی اور شبلی آخر ایام میںانگریزوں کی حکومت سے بے زار ہونے لگے اس کے کئی وجو ہ تھے۔ ایک وجہ یہ ھتی کہ انگریزی تعلیم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں وطنیت اورآزادی کے جذبے کی تربیت کی اور میکالے کی وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی کہ انگریزی تعلیم کی بدولت ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے رنگ تو کالے اور سانولے ہوں گے لیکن وہ اپنی ذہنیت میں انگریز ہوں گے۔ اور اپنے ملک کی سیاست اور معاشرت میں ویسے ہی آزاد اداروں کا تقاضا کریں گے جو انگلستان نے اپنے ارتقا میں پیدا کیے ہیںَ سید احمد خان کا مقصد علی الاعلان ایسے ہی مسلمان پیدا کرنا تھا جو ذہنیت میں انگریز ہوں مگر پکے مسلمان بھی ہوں۔ ایک پوچھنے والے نے سید صااحب سے یہ دریافت کیاکہ آپ طلبا کی تعلیم و تربیت کس انداز کی چاہتے ہیں تو انہوںنے جواب دیا کہ میں اس کالج میں سے انگریز مسلمان پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں کی ترقی صدیوں سے رکی ہوئی تھی۔ چودھویں صدی کے بعد سے مسلمانوں نے علوم و فنون میں کوئی اضافہ نہ کیا تھا دینی علوم بھی جامد اور فرسودہ ہو گئے تھے اور ان میں نئے حالات سے توافق کی صلاحیت مفقود تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فقط مغربیوں کے ہاں مل سکتی تھی۔ تعلیم کے شائع جو کچھ تعلیم ہندوستان میں مل سکتی تھی اسے ناکافی سمجھ کر براہ راست علم کی پیاس بجھانے کے لیے یور چلے جاتے تھے۔ سید احمد خان خود اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے جن میں سے ایک کی زندگی نے وفا نہ کی اور دوسرا سید محمود ایک یگانہ روز گار بن گیا۔ جو بڑے بڑے فرنگی علما کاہم پلہ تھا۔ خو دعلامہ اقبال فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور جاتے ہوئے کہتے گئے کہ: چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو اقبال کے ز مانے میں بھی یورپ سے دو قسم کے ہندوستانی واپس لوٹتے تھے۔ ایک وہ جو پہلے سے مغلوب الغرب تھے۔ اور وہاں پہنچ کر اور زیادہ مرعوب ہو جاتے تھے نشست و برخاست‘ رہن زہن‘ طرز تفکر بلکہ بول چال میں بھی انگریزوں کی نقالی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو مغرب میں پہنچ کر مغربیت کے خلاف بغاوت کا جذبہ لے کر واپس آتے تھے۔ اس بغاوب کا سبب زیادہ تر اپنے ملک کی سیاسی غلامی تھی۔ دیکھتے تھے کہ مغرب کی ہر چھویت بڑی قوم آزاد ہے۔ اگرچہ مغبیوں میںکوئی ایسی خاص باتی نہیں تھی جو ہم میں نہیں یا جو ہم پیدا نہیں کرسکتے۔ بشرطیکہ ہم کو بھی آزادی کے مواقع حاصل ہوں۔ اس کے علاوہ مغرب کو بہت قریب سے دیکھنے کی وجہ سے وہاں کی تہذیب کے تاریک پہلو بھی ان پر واضح ہو جاتے تھے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ عیوب ہم میں بھی ہیں لیکن یہ کہاں کے بے عیب ہیں کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں ٰہ لوگ خاص تاریخی اسباب کی وجہ سے ہم سے آگے نکل گئے ہیں مگر بعض صفات ایسے ہیں جن میں ہم ان سے ہٹیے نہیں بلکہ وہ ہم سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کے خلاف بغاوت کے جتنے محرکات و عوامل ہو سکتے تھے۔ وہ اقبال کی طبیعت میں یک وقت جمع ہو گئے۔ انہوںنے مغرب کی تہذیب اور اس کے فکر و عمل کا پورا جائزہ لیا اور انہیں مغرب ی تعمیر میں جو خرابی کی صورتیں مضمر تھیں نظر آنے لگیں اور وہین سے انہوں نے پکارنا شروع کر دیا: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خو د کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے کا ناپائدار ہو گا انہوںنے دیکھا کہ کمزور اقوام کو غلام بنانا اور لوٹنا اس تہذیب کا شیوہ ہے۔ اور ان اقوام کی بہت سی دولت اسی لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہوئی ہے۔ ان کے تمام فلسفے پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب مادی یا استدلالی عقل کا گورکھ دھندا ہے اور اس میں اس جوہر کا فقدان ہے جس کے لیے اقبا ل نے عشق کی اصطلاح اختیار کی: رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست مغر ب نے اپنی تمام عقل عالم محسوسات پر تصرف حاصل کرکے صرف کی ہے لیکن دماغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ دل بے نور ہوتا گیا ہے۔ یہ حسی تہذیب عالم روحانی کی منکر اور الحاد کی طرف مائل ہے۔ اس کی ظاہری ترقی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ لیکن اس میں حقیقت انسانیت کا جو ہر ماند پڑ گیا ہے۔ جس عقلیت نے مغرب کے فکر و عمل میں یہ انداز پیدا کیا اقبال مغرب ہی میں اس کا دشمن ہو گیا اور دل میں یہ ٹھان لی کہ ملت اسلامیہ کا احیاء مغرب کی اندھا دھند تقلید سے نہیں ہو سکتا۔ ملت میں اسلامی جذبے کو ابھارنا لازمی ہے تاکہ اپنے مخصوص جوہر کو ترقی دے سکے۔ مغرب کی تہذیب اور اس کا تمدن زوال آمادہ نظر آتا ہے۔ اور خود مغرب کے اہل نظر کو اس کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ اس قسم کی تہذیب کی نقالی سے مشرق کو کیا فائدہ پہنچے گا جو ظاہر پرست ہے اور جس کے اندر باطن کی پرورش نہیں ہوتی ۔ اقبا ل کی طبیعت میں مغرب کے خلاف غصے اور احتجاج کا دوسرا بڑا سبب نہ صرف اپنے ملک و ملت کی غلامی تھی جو مغرب کے غلبے سے طبائع پر ظاہر ہو گئی تھی بلکہ تمام عالم اسلامی غلبہ فرنگ کی زد میں آ گیا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ترکوں کی حکومت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ترکی کی معاشی سیاسی اور عسکری زندگی بے سکت ہو چکی تھی۔ لیکن آزادی و مملکت کا خارجی ڈھانچا بہت کچھ قائم تھا۔ انیسویں صدی میں دول یورپ نے قوت حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ چھاپہ اسلامی ممالک پر مارا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومتوں کو انگریزوں نے ملیا میٹ کر دیا اور جن ریاستوں کو باقی رکھا ان کو بھی کوئی حقیقی اقتدار حاصل نہ تھا۔ بقول مرزا غالب انگریزوں نے دیسی سیاستوں کو ویساہی اختیار دے رکھا ہے جیسا خدا نے بندوں کو دیا ہے صورت میں اختیار ہے اور حقیقت میں جبر۔ ایران کو روسیوں نے انگریزوں نے خفیہ معاہدوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ ایسی حالت میں شکستہ خاطر مسلمانوں کو اقبال تاریخی حوالے سے تسلی دیتا ہے کہ ایران مٹ جائے تو مٹ جائے لیکن اسلام تو نہیں مٹ سکتا۔ اسلام کو مٹانے والے تاتاریوں نے بہت جلد اسلام ہی کی حلقہ بگوشی اختیار کر لی تھی تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے: تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے لیکن ان تسلیوں کے باوجود اقبال کا دل غلبہ افرنگ سے مجروح تھا۔ وہ اس کی تہذیب کی کیا داد دیتا جس کی بدولت مسلمانوں کی رہی سہی آزادی اور ملت کی خودداری غارت ہو رہی تھی۔ اقبال دیکھتا تھا کہ اسلامی ملتوں کی مغلوبی اور بے بسی کے باوجود جس کا ذمہ دار فرنگ تھا جدید تعلیم یافتہ طبقے کو فرنگ کی تہذیب سے کوئی منافرت نہیں اگر ان کو فرنگ کی طرف سے سیاسی آزادی بھی حاصل ہو جائے تو بھی ان کے قلوب فرنگ سے مغلوب ہی رہیں گے۔ اقبال اس ذہنی غلامی کو سیاسی غلامی سے بھی زیادہ خطرناک اور مضر سمجھتا تھا۔ اس کے دل میں یقین پیدا ہو چکا ھتا کہ اگر مسلمان ذہنی طور پر آزاد ہو جائیں اور اپنے دلوں میں روح اسلام کی پرورش کریں تو وہ سیاسی اور معاشرتی غلامی سے بھی آزاد ہو جائیں گے ایک قسم کی قلید وہ تھی کہ جس نے دین داروں کو جامد کر کے مذہب کو بے معنی اور استخوان بے مغز بنا دیا تھا۔ دوسری طرف جدید تہذیب کے متوالوں کی تقلید شعاری تھی جو ایک بند سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں ایک دوسری قسم کی قید و بند میں گرفتار ہو رہے تھے۔ ایسے لوگوں کو شکار کرنے کے لیے مغرب کو کوئی زیادہ کوشش درکار نہ تھی۔ ان میں خود نخچیر بننے کا ذوق موجود تھا: خود اٹھا لاتے ہیں جو تیر خطا ہوتا ہے ٭٭٭ ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف بخیال ایں کہ روزے بشکار خواہی آمد مغربی تہذیب مخصوص خوبیوں سے معرانہ تھی۔ اس نے بہت کچھ پیدا کیا تھا۔ جس کی ضڑورت ملت اسلامیہ کو بھی تھی۔ لیکن مسلمانوںک جو کیفیت تھی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مغرب کی خوبیوں اور اس کے کمالات کا راگ اپنا ان کی ذہنی معاشی اور تہذٰبی زندگی کے لیے مفید نہ ہو سکتاتھا۔ علم و فن میں یورپ کے کمالات اقبال کی نظر سے اوجھل نہ تھے اور کبھی کبھی ان کی زبان سے اس کی بے اختیار داد بھی نکل جاتی تھی۔ لیکن قدر شناسی کا یہ پہلو اس کے کلام اور پیام ہی میں دبا رہا ۔ مغرب کے حاصل کردہ کمالات کچھ اسی نظریہ حیات کی بدولت تھے جسے اقبال اسلامی سمجھتا تھا لیکن دین بے تعلق ہونے کی بنا پر مغرب ان قوتو ں کا صحیح استعمال نہیں کر رہا تھا۔ اقبال چاہتا تھا کہ مغرب انسانیت کی تکمی میں روحانیت کے عنصر کو بھی ترقی دے اور مسلمان مغرب کی کوارنہ تقلید کی صورت میں صروت پرست ہو کر روح حیات سے بیگانہ نہ ہو جائیں۔ بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ مغرب کی تنقیص میں اقبال کی کیفیت کچھ جنونی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دیوانہ بکار خویش ہشیار۔ اس کا جنون بے مقصد نہ تھا۔ وہ اپنی قوم کو ایک قسم کی تقلید سے نکل کر دوسری قسم کی حیات کش تقلید میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اور ملی خودی کو استوار کرنے کے لیے یہ لازم تھا کہ ملت کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کی طرف راغب کیا جائے تاکہ اغیار کی ستایش گری ان کو اندھے مقلد نہ بنا دے۔ اقبال کی خواہش یہ تھی کہ علم و فن یورپ سے حاصل کرو لیکن روحانیت اور اخلاقیات کا جو سرمایہ تم کو اسلام نے عطا کیا ہے اس بیش بہا وراثت کی قدر کرو تاکہ تم شر ق و غرب دونوں سے افضل اور مکمل تہزیب و تمدن پیدا کر سکو۔ مشرق و مغرب کے متعلق اپنے نظریات کو اپنے کلام میں منتشر کرنے کے علاوہ اقبال نے جاوید نامہ میں اس بارے میں اپنے مخصوص افکار کو ان ا شعار میں جمع کر دیا ہے جو سعید حلیم پاشا نے مفکر و مصلح ترکی کے خیالا ت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہے ہیںَ سعید حلیم پاشا نے ترکوں کو جمود سے کلا کر شاہراہ ترکی پر گامزن کرانے کی کوشش کی مگر سلطانی استبداد اورملائی جمود نے ا س کی کوششوں کو بارور نہ ہونے دیا۔ ترک مشرقی یورپ کے ایک حصے پر عرصے سے حکمرانی کرتے تھے دول یورپ نے قوت پکڑنے کے ساتھ ہی ان کے سیاسی اقتدار کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ایک ایک کر کے مشرقی یورپ کی اقوام کو ترکوں کے خلاف ابھارا اور اپنی امدا د سے ان کو آزاد کرایا۔ ترکوں کے صاحب بصیرت افراد عرصے سے یہ دیکھ رہے تھے کہ ترک رو زبروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی کمزوری اور مملکت کے اختلا ل کے اور بھی بہت سے اسباب تھے لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ اس دو رمیں علم و حکمت اور صنعت کے بغیر کسی قوم میں محض ذاتی اور عسکری شجاعت کی بنا پر قوت پیدا نہ ہو کستی ھتی۔ سعید حلیم پاشا نے اس مرض کی صحیح تشخیص کی اور مجرب علاج تجویز کیا۔ مگر ترکوں کی سلطانی سیاست بصیرت سے بالکل محروم تھی۔ اور ملائیت میں اسلام کی کوئی زندہ صورت نہ تھی۔ مستبد سلطانی اور جامد فقہ نے مل کر سلطنت پر ایسی ضرب کاری لگائی کہ وہ اس سے جانبر نہ ہو سکی۔ سعید حلیم پاشا کی تلقین یہ تھی کہ اسلام کی روحانیت اور اخلاقیات میں کوئی خلل نہیں اور نہ ہی اس کے نظری معیشت و معاشرت میں کوئی خامی اور کوتاہی ہے۔ ترکوں کے زوال کا اصلی سبب یہ ہے کہ جب مغرب جدید علوم و فنون پیدا کر رہا تھا تو ترک یورپ کا ہمسایہ ہونے کے باوجود ا س جدید دور کی اہمیت اور قوت آفرینی سے غافل رہے۔ مسلمانوں کو یورپ کے علوم و فنون حاصل کرنے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر اسلام کی شرعیت ایک صحت مندانہ معاشرت اور سیاست پیدا کر سکتی ہے۔ حقیقی ترقی کی تعمیر اسلام کی بنیادوں پر ہی ہو سکتی ہے مگر اسلام اور اس کی شریعت میں کوئی جامد شے نہیں تغیر حالات کے ساتھ وہ عروج کی نئی راہیں سمجھ اسکتی ہے۔ قرآن کی تعلیم میں کئی کئی تہذیبوں اور تمدنوں کی تعمیر کے اساسی عناصر مل سکتے ہیں۔ اسلام ازمنہ ماضیہ کی کسی صورت کے ہو بہو احیاء کا تقاضانہیں کرتا بلکہ ہر دور میں ایک نیا عالم پیدا کر سکتا ہے۔ روح اسلامی کی کسی ایک قالب کے ساتھ دوامی وابستگی نہیں رہتی۔ ترک اپنی اسلامی اور قومی خصوصیات کو قائم رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون کی بدولت اعلیٰ درجے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پیدا کر سکتے ہیں۔ اقبال اس بات پر متاسف ہے کہ ترک سعید حلیم پاشا کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلے اور محض نقل فرنگ پر قانع ہو گئے۔ اس نظم میں اقبال نے زیرکی اور عشق کی جو اصطلاحیں استعمال ک ہیں وہ عارف رومی کے اس شعر سے اخذ کردہ ہیں: می شناسد ہر کہ از سر محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است وہ روحانیت جو زندگی میں تخلیقی اور انقلابی قوتیں پیدا کرتی ہے اقبال اسے عشق کہتا ہے اور وہ عقلیت جو عشق سے معرا ہواسے محض زیرکی قرار دیتا ہے۔ عقل زندگی کا ایک بیش بہا جوہر ہے لیکن زندگی کے بلند نصب العینوں سے بیگانہ ہو کر ہو بے قیمت رہ جاتاہے۔ بلکہ مفید ہونے کی بجائے مضر ہو جاتاہے۔ تمام ادیان عالیہ مشرق ہی میں پیدا ہوئے اس لیے اقبال مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام اہل مشرق کو روحانیت کا وارث گردانتا ہے اور کہیں کہیں روح اسلام کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ صرف عقل ہی عشق سے بے تعلق ہو کر بے کار نہیں ہو جاتی بلکہ عشق کی بھی یہ حالت ہے کہ اگر وہ عقل کو اپنا معاون اور شریک کار نہ بنائے تو وہ کوئی بھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ خالی عشق میں مست صوفی اور راہب انسانی زندگی کو آگے بڑھانے میں خا ص کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ مشرق نے عشق الٰہی میںغوطے لگائے اور مغرب نے ساری کائنات کے رموز کا انکشاف کیا۔ انسانیت کی تکمیل تبھی ہو سکتی ہے جب عشق و زیرکی کی آمیزش سے اکسیر حیات حاصل ہو: سعید حلیم پاشا شرق و غرب غربیاں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق راز کائنات زیرکی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہم بر شود نقشبند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیز دہ شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست زخمہا خوردند از شمشیر خویش بسمل افتادند چوں نخچیر خویش سوز ومستی را مجو از تاک شاں عصر دیگر نیست در افلاک شاں زندگی را سوز و ساز از نار تست عالم نو آفرین کار تست اس کے بعدافسوس کیا ہے کہ مصطفی کمال جو تجدید کا آرزو مند تھا اور رسوم و قیود کہن سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا ا سنے حقیقی تجدید کی بجائے تقلید فرنگ کو اپنا شیوہ بنا لیا اور وہ باتیں بھی اختیار کرنے لگا جن سے خود فرنگ تلخ تجربوں کے بعد بیزار ہو چکاہے۔ کعبے میں گھسے ہوئے پرانے مشرقی بتوں کو نکال کر مغرب سے آوردہ لات و منات کو اس میں متمکن کرنا کوئی تجدید نہیں محض تبدیلی اصنام سے اتاترک عشق اسلامی کے ساتھ اگر فرنگ عقل کی آمیزش کرتا ہے تو ایک جہان نو پیدا کر سکتا تھا: مصطفی کو از تجدد می سرود گفت نقش کہنہ را باید زدود نو نگردود کعبہ را رخت حیات گر ز افرنگ آیدش لات و منات ترک را آہنگ نو در چنگ نیست تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست سینہ اور را مے دیگر نبود در ضمیرش عالمے دیگر نبود لا جرم با عالم موجود ساخت مثل موم از سوز ایں عالم گداخت طرفگی ہا در نہاد کائنات نیست از تقلید تقویم حیات زندہ دل خلاق اعصار و دہور جانش از تقلید گردد بے حضور چون مسلمانان اگر داری جگر در ضمیر خویش و در قرآں نگر صد جہان تازہ در آیات اوست عصر با پیچیدہ در آنات اوست یک جہانش عصر حاضر را بس است گیر اگر در سینہ دل معنی رس است بندہ مومن ز آیات خداست ہر جہاں بر او چوں قباست چوں کہن گردد جہانے در برش می دہد قرآں جہانے دیگرش اس کے بعد ’’زندہ رود‘‘ پوچھتا ہے کہ وہ جہان دیگر جو قرآن پیدا کر سکتا ہے اس کا نمونہ تو مجھے کہیں مشرق و مغرب میں نظر نہیں آتا۔ اس کا جواب جمال الدین افغانی دیتے ہیں کہ وہ عالم ابھی سینہ مومن میں گم ہے۔ اس عالم میں نوع انسان کے خون و رنگ اور وطنیت کی تفریق فساد انگیز نہ ہو گی۔ ایک عالم گیر اخوت تمام عالم کی شیرازہ بند ہو گی۔ اس میں اس طرف سلاطین اور امرا اور دوسری طرف غلام نظر نہ آئیں گے۔ یہ عالم اسی اندز کا ہو گا جس کا تخم نبی صلعم کی نظر کیمیا اثر نے عمر فاروقؓ جیسے انقلاب آفریں انسان کی جان میں بو دیا تھا۔ یہی تخم اب کسی اور کی جان میں پڑ جائے تو وہ انقلاب سے ایک اور عالم پیدا کر دے۔ قرآن کے پیش نظر جو آدم ہے وہ کسی خاص نسل کاانسان نہیں ہے۔ نور الٰہی کی طرح وہ لاشرقیہ و لا غربیہ ہے۔ یہ وہ آدم ہے جس کے اندر کونین سما جاتے ہیں لیکن وہ کسی عالم کے اندر نہین سما سکتا۔ اس کی رسائی وہاں تک ہے جہاں جبریل بھی بار نہ پا سکے۔ اسی آدم کی آفرینش اور اسی آدم کااحترام مقصود حیات ہے۔ اصل حکمت اور اچھی تعلیم و تہذیب وہی ہے جو اس قسم کے انسان کی آفرینش میں معاون ہو جب اس قسم کی آدمیت ظہور میں آئے گی تو ا س میں مردو زن دونوں کا وقار قائم ہو گا۔ اس عالم میں کوئی شخص عورت کو حقیر اور ادنیٰ نہ سمجھے گا عورت اس معاشرے میں آتش زندگی کی نگہبان اور اسرار حیات کی محافظ ہو گی۔ عورت کی قدسیت یہ ہے کہ وہ نقش بند حیات ہے۔ عشق و حکمت کی آمیزش سے انسان اور زیادہ خلاق ہو جائے گا۔ اس کا علم لذت تحقیق ہے اور اس کا عشق لذت تخلیق سے بہرہ اندوز ہو گا۔ انسان کائنات میں نیابت الٰہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ جب تک انسان میں صفات و اخلاق الہیہ پیدا نہ ہوں تب تک وہ کائنات میں حاکم نہیں بلکہ محکوم رہے گا۔ نصب العینی تہذیب میں وہ جھوٹی مساوات نہیں ہو گی جو مغربی جمہوریت نے پیدا ک ہے۔ نصب العینی تہذیب میں عورتیں مائیں بننے سے گریز نہ کریں گی۔ جو صوت ہ تہذیب فرنگ میں پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کیفیت سرمایہ داری اور ذاتی ملکیت کا اثر مسموم ہے۔ نصب العینی انسان زمین کی ملکیت کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں نہیں کاٹیں گ۔ تمام ارض ملک خدا ہو گی۔ اگر کوئی پوچھے کہ ایسی تہذیب کا کہیں وجود بھی ہے یا اس کا کچھ امکان بھی ہے تو اس کا جواب عارف رومی کی زبان میں یہ ہو سکتا ہے: گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آں کہ یافت مے نشود آنم آرزوست نصب العین کاکام زندگی کی سمت اور ارتقاء کے رخت کو معین کرنا ہے۔ کسی ایک صورت مین اس کا تمام کمال تحقیق لازمی نہیں۔ جس طرح اقبال ایک نصب العینی تہذیب کا نقشہ کھینچتا ہے اسی طرح کوئی اڑھائی ہزار سال قبل سقراط نے جمہوریہ افلاطون میں بڑی بحث و تمحیص کے بعد مملکت اور ملت کا ایک نصبا العینی خاکا پیش کیاتھا۔ آخر میں ایک مخاطب نے سوا ل کی اہے کہ ایسی مملکت کہاں سے ہے یا کیسے معرض وجود میں آ سکتی ہے سقراط نے اس کا جواب یہ دیا کہ خدا کے ہاں عادلانہ مملکت کا یہی خاکا ہے جو لوح محفوظ پر ثبت ہے۔ انسانی مملکتیں اسے سامنے رکھ کر عدل کی کوشش کریں۔ اقبال نے جو مرد مومن کے صفات جا بجا بیان کیے ہیں وہ بھی یکجا تو کسی ایک انسان میں نظر نہیں آتے ۔ وہ بھی ایک نصب العینی نقشہ اور معیار کمال ہے مومن بننے کی کوشش میں ان میں جتنے صفات کو کوئی اپنا سکے اپنا لے۔ نصب العینی تہذیب کے متلعق جمال الدین افغانی کی زبان سے جاوید نامہ میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے اس میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں: عالمے در سینہ ما گم ہنوز عالمے در انتظار قم ہنوز عالمے بے امتیاز خون و رنگ شام اور روشن تر از صبح فرنگ عالمے پاک از سلاطین و عبید چوں دل مومن کرانش ناپدید عالمے رعنا کہ فیض یک نظر تخم او فگند در جان عمرؓ لا یزال و وارداتش نو بنو برگ و بار محکماتش نو بنو باطن او از تغیر بے غمے ظاہر او انقلاب ہر دمے اندرون تست آں عالم نگر می دہم از ممکنات او خبر درد دو عالم ہر کچا آثار عشق ابن آدم سرے از اسرار عشق سر عشقاز عالم ارحام نیست او ز سام و حام و روم و شام نیست کوکب بے شرق و غرب و بے غروب در مدارش نے شمال و نے جنوب آنچہ در آدم بگجند عالم است آنچہ در عالم نگنجد آدم است ٭٭٭ زندگی اے زندہ دل دانی کہ چیست؟ عشق یک بین در تماشائے دوئی است مرد و زن وابستہ یک دیگراند کائنات شوق را صورت گر اند زن نگہ دارندہ نار حیات فطرت او لوح اسرار حیات آتش مارا بجان خود زند جوہر او خاک را آدم کند ارج ما از ارجمندی ہائے او ما ہمہ از نقش بندیہائے او ذوق تخلیق آتشے اندر بدن از فروغ او فروغ انجمن ٭٭٭ عل و ہم شوق از مقامات حیات ہر دومی گیرد نصیب از واردات علم از تحقیق لذت می برد عشق از تخلیق لذت می برد ٭٭٭ بندہ حق بے نیاز از ہر مقام نے غلام و رانہ او کس را غلام بندہ حق مرد آزاد است و بس ملک و آئینش خدا داد ست و بس ٭٭٭ عقل خود بیں غافل از بہبود غیر سود خود بیند نہ بیند سو غیر وحی حق بینندہ سود ہمہ در نگاہش سود و بہبود ہمہ ٭٭٭ وائے بر دستور جمہور فرنگ مردہ تر شد مردہ از صور فرنگ حقہ بازاں چو سپہر گرد گرد از امم بر تختہ خود چیدہ نرد شاطراں ایں گنج ور آں رنج بر ہر زماں اندر کمین یک دگر فاش باید گفت سر دلبراں ما متاع و ایں ہمہ سوداگراں گرچہ دارد شیوہ ہائے رنگ رنگ من بجز عبرت نہ گیرم از فرنگ سر گزشت آدم اندر شرق وغرب بہر خاکے فتنہ ہاے حرب و ضرب حق زمین راجز متاع ما نگفت ایں متاع بے بہا مفت است مفت وہ خدایا! نکتہ ازمن پذیر رزو و گور ازوے بگیر اورامگیر گفت حکمت را خدا خیر کثیر ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر علم و حرف و صوت راشہپر دہد پاکی گوہر بہ ناگوہر دہد نسخہ او نسخہ تفسیر کل بستہ تدبیر او تقدیر کل دل اگر بندد بہ حق پیغمبری است ور زحق بیگانہ گردد کافری است علم را بے سوز دل خوانی شر است نور او تاریکی بحر و بر است ٭٭٭ سینہ افرنگ را نارے ازوست لذب شب خون و یلغارے اوست سیر واژونے دہد ایام را می برد سرمایہ اقوام را قوتش ابلیس را یارے شود نور نار از صحبت نارے شود کشتن ابلیس کارے مشکل است زانکہ او گم اندر اعماق دل است خوشتر آں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر قرآنش کنی آٹھواں باب اشتراکیت جسے جدید مغربی تہذیب و تمدن کہتے ہیں اس کا ارتقاء ازمنہ متوسط کے اختتام پر نشاۃ جدید سے ہوا اس کے بعد سے رفتہ رفتہ مختلف اقسام کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہی معاشی زندگی میں تاجروں نے جاگیرداری کی قوت کو توڑا اور پروٹسٹٹنزم نے مذہبی فکر میں آزادی کو ترقی دی۔ اٹھارویں صدی میں جسے انلائٹن منٹ یا دور تنویر کہتے ہیں مذہب فلسفہ سیاست اور معیشت کے اہم مسائل آزادانہ طورپر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گروٹیس والٹیر‘ روسو‘ ہیوم‘ اور کانٹ کی ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کے بنیادی حقوق کسی قدر وضاحٹ سے معین ہو گئے۔ پہلے امریکہ میں اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد انقلاب فرانس میں عوام نے جابر حکومتوں بے رحم سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے خلاف دستور حکومت اور عدالت کے بارے میں بہت کچھ مساوات حاصل کر لی۔ اسی زمانے میں طبیعی علوم نے غیر معمولی ترقی کی اور صنعت پر ان کے اطلاق نے وسیع کارخانہ داری کو جنم دیا۔ اقوام مغربی میں خاص و عام کے دلوں میںیہ قوی امید پیدا ہو گئی کہ اب شاہی مطلق العنانی نہ رہے گی ہر جگہ دستوری حکومت ہو گی۔ تجارت اور صنعت پر سے رکاوٹیں ہٹ جائیں گی۔ مملکت کو کلیسا سے بے تعلق کرنے کی وجہ سے مذہبی استبداد ختم ہو جائے گا۔ اس ترقی کے دستور کچھ عرصے تک جار ی رہنے کی بدولت امن قائم ہو جائے گا اور زندگی کی نعمتیں وافر اور عام ہو کر غریبوں کے کلبہ احزاان کو بھی جنت ارضی میں بدل دیں گی۔ لیکن یہ سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ جاگیرداروں کے بعد تاجروں کا دور دورہ آیا اور تاجروں کے بعد قومی دولت کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگی۔ وہ کاشتکار جنہوںنے جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے پنجہ آہنیں سے نجات پائی تھی وہ زمینوں کو چھوڑ کر کارخانوں میں مزدور بن کر روز افزوں تعداد میں بھرتی ہوتے گئے۔ ایک قسم کی غلامی کے مقابلے میں بد تر اور انسانیت کش ثابت ہوئی۔ صنعتی انقلاب کی ابتدا انگلستان میں ہوئی۔ کارخانہ داروں کی بے دردی اور ظالمانہ زر اندوزی نے مزدوروں کے ساتھ جو برتائو کیا اس کو پڑھ کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں سے سوا سولہ گھنٹے تک مسلسل کام لیا جاتا تھا۔ ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دھڑا دھڑ بیمار ہوتے اور بے تلاج مرتے تھے۔ کارخانہ داروں کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ بیماروں کو مالکان کارخانہ برخاست کر دیتے تھے۔ اور مرنے والوں کی جگہ لینے والے اور ہزاروں مل جاتے تھے انگلستان کے بعد فرانس اور جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں بھی جدید صنعتوں کی کارخانہ داری آتی گئی اور وہاں بھی وہی صورت حال پیدا ہوئی جو انگلستان میں خلق خدا کے لیے تباہی کا باعث ہوئی تھی۔ انسان دوست مصلحین نے اس کے خلاف شور سے احتجاج بلند کیا لیکن نقار خانوں میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی جابجا سوشلزم اور کہیں کمیونزم کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ لیکن تمام ممالک کی حکومتیں ان میں حصہ لینے والوں کو مسفد اور باغی قرار دے کر ان کی سرکوبی میں کوشاں رہیں۔ پیرس میں اشتراکیوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور لیکن بہت جلد سے فنا کر دیا گیا۔ ایک المانوی یہودی کارل مارکس نے انگلستان میں سکونت اختیار کر کے کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مبسوط تحقیقی تصنیف مرتب کی جس کا نام ہی ڈاس کاپیٹل یعنی سرمایہ ہے۔ اس کتاب کو اشتراکیت کا صحیفہ گردانا جاتاہے۔ اس کتاب کے مضمون کا لب لبا بیہ ہے کہ کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری چوری اور ڈاکے کی قسمیں ہیں۔ ان کامدار مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسنے پر ہے۔ جدید صنعتی سرمایہ داری میں رفتہ رفتہ یہ ہو گا کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکزہو جائے گا اور باقی تمام خلق خدا پر پرولیتار یہ بن جائے گی جو مطلقاً بے گھر اور بے زر ہو گی۔ مزدوروں کا گروہ ان کا محتاج اور بے بس ہو گا۔ جو غلامی اور جاگیرداری کے زمانے میں بھی نہ تھا۔ کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا اجتماع ہو گا جو محتاجی اور بے بسی کے اسفل السافلین میں پہنچ کر متحد ہو کر آمادہ بغاوت ہوں گے۔ شروع میں حکومتیں جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوں گی ان کی سرکوبی کریں گی لیکن یہ سیلات آخر کناروں کو توڑ ڈالے گا۔ مغرب میں حکما اور مصلحین کی کوششوں سے جو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں ان پر بھی عوام کو دھوکا دے کر سرمایہ دار قابض ہو گئے پہلی حکومتوں میں اقتدار سلاطین اور جاگیر داروں کے ہاتھ میں تھا اب سرمایہ دار حکومتوں میں امیر وزیر و مشیر ہو گئے اور کوئی قانون ایسا وضع نہ ہو سکتا تھا جس سے ان کی نفع اندوزی پر زد پڑتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ آواز بلند ہوئی کہ کوئی انقلاب تشدد کے بغیر پیدا نہ ہو سکے گا۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہو کر بغاوت کرنی چاہیے تاکہ وہ تمام جانداروں اور کارخانوں پر قابض ہو جائیں۔ اشتراکیت آغاز میں ایک اقتصادی یا معاشری نظریے اور حصول حقوق کے لیے ایک لائحہ عمل تھا لیکن کارل مارکس اس کے رفیق کار انکل ارو بعض دیگر اہل فکر نے اس کی تعمیر مضبوط کرنے کے لیے حیات و کائنات کی ایک ہمہ گیر نظریاتی اساس قائم کر دی جس نے اشتراکیوں کے نزدیک پہلے تمام ادیان اور ان کے فلسفوں کو منسوخ کر کے ان کی جگہ لی اس نظریہ حیات نے دین اور اخلاق کے متعلق یہ عقیدہ پیش کیا کہ تمام پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کا قیام طبقاتی نفوق کا رہین منت تھا اور اپنی تعلیم کا زیادہ تر مصڑف یہ تھا کہ استحصال بالجبر پر الٰہیاتی مہر لگا کر محتاجوں کو اس پر راضی کر ے کہ وہ خوشی سے اس کو قبو ل کر لیں منعمون سے کچھ رشک و حد نہ برتیں کیوں کہ یہ دنیا نچد روز اور اس کی نعمتیں ناپائدار ہیں۔ آخر ت میں ابدی جنت ااور ا س کی مسرتیں سب ان محتاجوں کے لیے وقف ہیں جنہیں ہم اس دنیائے دوں میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اخلاق میں صبر و قناعت‘ توکل اور تسلیم و رضا کو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار قرار دے کر سلاطین اور امرا کے لیے حفاظت کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ اشتراکیت نے تاریخ عالم پر نظر ڈال کر اس کا ثبوت پیش کیا کہ مذہبی پیشوا ئوں نے معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی بعض قدیم اور جدید مذاہب فلسفہ بھی عوام کو انسانی اور مساواتی حقوق عطار کرنے کے خلاف تھے۔ جمہوریہ افلاطون میں عوام کو امو ر سلطنت میں حصہ لینے کی اجازت نہیںمشرق میں بھی حکمت عملی کا یہی تقاضا بن گیا ھتا کہ رموز مملکت خویش خسروان دانند مگر یہ رموز غریب کشی کے سوا کچھ نہ تھے۔ اشتراکیت کے سر اٹھانے سے قبل ہی مغرب کے سائنسدانوں اور اہل فکر کے نزدیک مذہبی عقائد کے بہت کچھ دفتر پارینہ بن چکے تھے۔ اور عملاً بھی زندگی پر مادیت طاری ہو رہی تھی۔ اشتراکیت انہی میلانات کی پیداوار ہے۔ اشتراکیت نے الحاد واو رمادیت کو یکجا کر دیا اورعوام کی حقوق طلبی میں اور شدت پیدا کر دی۔ اشتراکیت نے پہلی روحانیت قدیم اخلاقیت قدیم معاشرت قدیم سیاست‘ قدیم معاشیات سب کے خلاف بیک وقت بغاوت کا علم بلندکیا۔ اس نے کہا کہ تدریجی اصلاحات کی تلقین بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے۔ ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو حیات اجتماعی کے تمام قدیم ڈھانچوں کا قلع قمع کر دے۔ علامہ اقبال جب تک یورپ میں تھے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے گروہ جابجا مصرو ف کار تھے لیکن ان کو کہیں اقتدا رحاصل نہ تھا۔ اشتراکیوں کو پہلی زبردست کامیابی روس میں ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کا اندرونی معاشی اور سیاسی شیرازہ بکھر گیا تو کمیونسٹوں کے ایک گروہ نے لینن کی قیادت میں حکومت پر قبضہ کر کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا۔ یورپ کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے ان کو کچلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کوکامیابی نہ ہوئی۔ روس کا علاقہ کرہ ارض کا پانچواں حصہ ہے۔ اس وسیع خطے میں جہاں نہ انسانوں کی تعداد قلیل ہے اورنہ فطرت کے مادی ذرائع کی کمی ہے زندگی کے تمام شعبوں میں نئے تجربے ہونے لگے۔ کوئی ادارہ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا۔ دنیا کے ہر سیاستدان اور ہر مفکر کو اس نئے تجربے کا جائزہ لینا پڑا اور تمام دنیا میں ہر سوچنے والا اس پر مجبور ہوگیا کہ وہ اس انقلابی نظریہ حیات اور انداز معیشت کے متعلق موافق یا مخالف خیالات کا اظہار کرے۔ شخصی ملکیت کے طرفداروں اور مذہب کے حامیوں نے اس کو خطرہ عظیم سمجھا کیوں کہ اس کی کامیابی سے ان کا صفایا ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔ اقبال نے مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع سخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے فطری اور عملی پہلوئوں پر غور کر کے اپنے نتائج فکری سے ملت کوآگاہ کرے۔ سب سے پہلے پیام مشرق میں اس نے رائے زنی شروع کی۔ ہم اس سے پہلے للکھ چکے ہیں کہ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس انقلاب عظیم کو اچھی طرح پرکھنے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلواور اس کے ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔ پیام مشرق میں اس موضوع کی تین نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ہے ’’محاورہ بین حکیم فرانسی آگسٹس کومٹ و مرد مزدور‘‘ (فرانسیسی زبان میں اس فلسفی کا تلفظ کونت ہے۔ اقبال نے انگریزی تلفظ کے مطابق اس کو کومٹ لکھا ہے )۔ کونت ‘ جون اسٹیورٹ ‘ ہربرٹ سپنسر اور ڈارون وغیرہ کا معاصر ہے۔ اس کے فلسفے کو پورزیٹوزم یا ایجایبت کہتے ہیں۔ اس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تفکرمذہب اور مابعد الطبیعیات سے گزر کر محسوس کی طرف آ گیا ہے اوری اس کی ترقی کی آخری منزل ہے۔ انسان کو مذہب کی ضرورت ہے اس لیے ان دیوتائوں اور ایک خدا اور آخرت کو چھوڑ کر انسانیت کو دین بنا دینا چاہیے۔ دنیا میں جو عظیم الشان انسان گزرے ہیں ان کی پرستش کے دن مقرر کر لینے چاہیئں۔ چنانچہ اس نے ایک کیلنڈر(جنتری) بھی بنایا تھا جس میں سال کا ہر دن کسی بڑے انسان کی یاد کا دن تھا۔ تمام نوع انسان کو ایک نفس واحد اور مختلف اعضا کا ایک جسم تصور کرنا چاہیے۔ جس طرح جسم انسانی میں ہر عضو کا ایک مخصوص وظیفہ ہے۔ اسی طرح معیشت کے کاروبار میں بھی فطری تقسیم کا ر ہے۔ بعض لو گ کارندے ہیں اور بعض کارفرما کوئی دماغ سے کام لیتا ہے اور کوئی ہاتھ پائوں ہلا کر محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ تعلیم تہذیب و تمدن کے معاصرانہ ڈھانچے کو درست قرار دیتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ محنت کشوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ کونت فلسفی سعدی کا ہم زباں ہوکر کہتا ہے: بنی آدم اعضائے یک دیگر اند ہماں نخل را شاخ و برگ و براند مگر کونت کے نزدیک یہ نوع انسان کسی غیر مرئی خدا کی آفرینش نہیں ہے۔ بلکہ اپنی فطرت کی پیداوار ہے جوہمارے گرد و پیش موجود ہے۔ فطرت نے تقسیم کار میں دماغ کو سوچنے کے لیے اور پائوں کو چلنے کے لیے بنایا ہے۔ انسانوں میں جو تفاوت ہے وہ بھی فطری ہے۔ یہ تفاوت حسد اور کش مکش کا باعث نہیں ہونا چاہیے! دماغ ار خرد زاست از فطرت است اگر پا زمیں ساست از فطرت استر یکے کار فرما یکے کار ساز نیاید ز محمود کار ایاز نہ بینی کہ از قسمت کار زیست سراپا چمن می شود خار زیست اس کے جواب میں مزدور کہتا ہے کہ حضرت کیوں حکمت کے پردے میں ہمیں دھوکا دے رہے ہو کہ یہ تفاوت فطری ہے اس لیے اس کو برقرار رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے کارفرنا ارو سرمایہ اندوز انسانیت کا کوئی صحت مند عضو نہیں یہ تو چور ہیں۔ آپ کی عق پر افسوس ہے کہ آپ نے چوروں کی حمایت کو حکمت کا لباس پہنایا ہے۔ (یہ خیال اقبال کو فرانس کے مشہور سوشلسٹ پرودھون نے سمجھایا جس کا مقولہ مشہور ہے کہ شخصی ملکیت چوری ہے)۔ فریبی بحکمت مرا اے حکیم کہ نتواں شکست ایں طلسم قدیم مس خام را از زر اندودہ مرا خوے تسلیم فرمودہ کوہ کن کو یہ تلقین کرنا کہ پہاڑ کاٹ کر پرویز اور اس کی محبوبہ کے لیے جوئے شیر لائو اور اسے اپنا طری وظیفہ حیات سمجھو یہ کہاں کی حکمت اور عدالت ہے ؟ مزدور حکیم کونت سے شاکی ہے کہ: کند بحر را آبنایم اسیر زخارا برد تیشہ ام جوئے شیر حق کوہ کن دادی اے نکتہ سنج بہ پرویز پرکار و نابردہ رنج یہ سرمایہ دار جنہیں مفت خوری اور خواب خوش کے سوا کوئی کام نہیں یہ تو زمین کا بوجھ ہیں اور چور ہیں: بدوش زمیں بار سرمایہ دار ندارد گزشت از خور و خواب کار جہاں راست بہروزی از دست مزد ندانی کہ ایں ہیچ کار است دزد مرد حکیم ہونے کے باوجود تم نے ایسا دھوکا کھایا ہے کہ ایسے مجرموں کے لیے عذر تراش رہے ہو: پے جرم او پوزش آوردہ بایں عقل و دانش فسوں خوردہ پیام مشرق میں ہی کونت اور مزدور کے مکالمے کے چند صفحات بع دموسس اشتراکیت روسیہ موسیو لینن اور المانوی ملوکیت کے آخری نمائندے قیصر ولیم نے سیاست و معیشت کے اس انقلاب کے بارے میں اپنا اپنا زاویہ نگاہ پیش کیا ہے لینن کہتا ہے کہ عرصہ دراز سے انسان بھاری چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف انسانیت کا خون چوسنے والی اور اس کو غلام بنانے والی ملوکیت ہے اوردوسری طرف کلیسا اور حامیان دین کا استبداد۔ خواجہ کی قبا محنت کشوں کے خون میں رنگی ہوئی ہے۔ بھوکے غلاموںنے آخر تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کر کے اس قبال کو چاک کرکے سرمایہ داروں کو ننگا کر دیا ہے۔ عوام و جمہور کی بھڑکائی ہوئی آگ نے ردائے پیر کلیسا اورقبائے سلطانی کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ قیصر ولیم اس کے جواب میں کہتا ہے کہ غلامی تو سلطانی اور سرمایہ داری کی پیداوار نہیں یہ تو ایک نفسی چیز ہے عوام میں اکثر کی فطرت ہی غلامانہ ہوتی ہے جو مالکوں اور معبودوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس طرح بعض ظالم اقتدار پسند لوگ غلاموں کی جستجو میں ہوتے ہیں اسی طرح بعض بندگی کیش فطری غلام انسانوں میں یا دیوتائوں میں معبودوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے دوں فطرت لوگ پرانے دیوتائوں سے بے نیاز ہوتے ہیں تو نئے دیوتا تراش لیتے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ اب اقتدار اور سلطانی جمہور کے قبضے میں آ گئی ہے۔ دیکھنا یہی لوگ ایک جدید انداز کا ظلم و استبداد پیدا کریں گے۔ اور انسانیت پھر سوخت ہو جائے گی۔ جب تک بعض انسانوں کے سینوںمیں ہوس اور جذبہ اقتدار موجود ہے کوئی انقلاب خواجہ و غلام کے تفاوت کو نہیں مٹا سکتا۔ اگر بادشاہی نہ رہی تو مزدوروں میں سے اپنی نوع پر ظلم و جبر کرنے والے نمودار ہو جائیں گے۔ اسی سے ملتی جگی بات نپولین نے کہی تھی کہ انقلاب فرانس کے نتیجے کے طور پر جاگیرداروں کا تو خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کی جگہ تاجر اور سرمایہ دار بورژوا لے لیں گے۔ یہ بات وہیں کی وہیں رہے گی۔ موسیو لینن بے گذشت کہ آدم دریں سرائے کہن مثال دانہ تہ سنگ آسیا بود است فریب زاری و افسوں قیصری خورد است اسیر حلقہ دام کلیسا بود است غلام گرسنہ دیدی کہ بردرید آخر قمیص خواجہ کہ رنگین ز خون ما بود است شرار آتش جمہور کہنہ سامان سوخت ردائے پیر کلیسا قبائے سلطاں سوخت قیصر ولیم گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست طواف اندر سرشت برہمن ہست دما دم نو خداوندان تراشد کہ یزار از خدایان کہن ہست زجور رہرتاں کم گو کہ رہرو متاع خویش را خود راہزن ہست اگر تاج کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست ہوس اندر دل آدم نہ میرد ہماں آتش میان مرزغن ہست عروس اقتدار سحر فن را ہماںپیچاک زلف پر شکن ہست نماند ناز شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست پیام مشرق کے آخر میں دو اور نظمیں اسی موضوع کی ہیں جن کے اندر سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور امروز کی بے بسی کا نقشہ کھینچا ہے۔ قسمت نامہ سرمایہ دار مزدور پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں وہ اسے فارسی کے اس شعر نے سمجھائے ہیں: از صحن خانہ بہ لب بام ازان من جوز بام تا بہ اوج ثریا ازان تو دو بھائیوں کے مرحوم باپ کی جائداد کا ترکہ فقط ان کا رہائشی مکان تھا۔ اس کو دو مساوی حصوں میںتقسیم کرنا تھا۔ ایک بھائی مکار اور چالاک تھا اور دوسرا صلح پسند۔ مکار نے کہا کہ میں تو قانع آدمی ہوں اور سنگ و خشت کی ہوس نہیںرکھتا۔ صحن خانہ سے لے کر کوٹھے کی چھت تک مکان کا جو حصہ ہے وہ مجھے دے دو اور مکان سے اوپر لب بام سے اوج ثریا تک جو لامتناہی فضا ہے وہ میں کمال ایثار سے برضا و رغبت تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ سب مال و دولت اور اسباب زندگی خود لپیٹ لیے ہیں۔ مگر مزدور کویہ دھوکا دیتا ہے کہ جو کچھ تمہارے لیے چھوڑا ہے و ہ اس متاع ناپائدار سے افضل ہے۔ کارخانوں کا غوغا اور ان کے انتظامات اورفکر نفع و نقصان کی دوسری میرے لیے رہنے دو۔ اس کے مقابلے میں تسکین دین اورارغنون کلیسا کا روح پرور نغمہ لطف اندوزی کیلیے تم لے لو۔ جن باغوں پر سلطنت نے ٹیکس لگا رکھا ہے ا کی ملکیت ایک مصیبت ہے۔ اس بلا کو میرے لیے چھوڑ دو اور آخرت کے باغ بہشت پر کوئی محصول نہیں وہ غریبوں کی عطیاتی جاگیر ہے۔ اسے میں تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ بقول سعدی درویش ہی کو حقیقی فراغ حاصل ہے: کس نیابد بخانہ درویش کہ خراج زمین و باغ بدہ یا بہ تشویش و غصہ راضی شو یا جگر بند پیش زاغ بنہ دنیا کی شرابین خمار آور ہوتی ہیںَ جنت میںآدم و حوا کو جو شراب طہور ملتی تھی اس کی لذت اور سرور کے کیا کہنے؟ دنیا کی یہ خمار والی شراب میرے لیے رہنے دو اور تم اس سے بہتر شراب کے لیی تھوڑا انتظار کر لو۔ صبر تلخ معلوم ہو تو سمجھ لو ک ہاس کا پھل میٹھا ہوتاہے۔ مرغابیاں اور تیتر بٹیر مجھے کھانے دو اور تم ان پرندوں کی تاک میں لگے رہو جو اس دنیا میں نظر نہیں آتے۔ یہاں ایک شاعری کے ساقی نامے کی مطلع یاد آ گیا ہے: امروز ساقیا مجھے عنقا شراب دے شاہانہ ہے مزاج ہما کے کباب دے یہ دنیاے دوں میرے لیے چھوڑ دو باقی عرش معلیٰ تک جو کچھ ہے وہ تمہارا مال ہے۔ اس ساری تنظیم کا مضمون ائمہ اشتراکیت کا یہ مقولہ ہے کہ مذہب محتاجوں کے لیے افیون ہے اور مسجد مندر اور کلیسا میں اسی افیون کے ڈھیر لگے ہیں: قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور غوغائے کار خانہ آہنگری زمن گلبانگ ارغنون کلیسا ازان تو نخلے کہ شہ خراج برومی نہد زمن باغ بہشت و سدرہ و طوطا ازان تو تلخابہ کہ درد سر آرد ازان من صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو مرغانی و تدرو و کبوتر ازان من ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو ایں خاک و آنچہ در شکم و ازان من وز خاک تا بہ عرش معلا ازان تو اسی کے ساتھ ایک دوری نظم نوائے مزدور ہے جو دنیا کے محنت کشوں کے لیے پیام انتقام ہے۔ کھدر پوش مزدور کہتا ہے کہ ہماری محنت کے سرمایے سے ناکردہ کار سرمایہ دار ریشمیں قبا پہنتے ہیں۔ ان کے لعل و گہر ہمارے خون کے قطرے اور ہمارے بچوں کے آنسو ہیں۔ کلیسا بھی ایک جونک ہے جو ہمارا خون چوس کر موٹی ہو رہی ہے۔ سلطنتیں ہمارے قوت بازو سے مضبوط ہوتی ہیںَ لیکن ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں۔ یہ تمام باغ و بہار ہمارے گریہ سحر اور خون جگر کی پیداوار ہے۔ آئو ان تمام اداروں کے ساغروں میں ایک شیشہ گداز شراب انڈیل دیں آئو اس چمن حیا ت میں ہمارے خون جگر سے لالہ و گل پیدا کرنے والوں سے انتقام لیںَبے درد شمعوں کے طواف میں اپنے آ پ کو پروانہ وار سوخت کرنا ختم کر دیں اور اپنی خودی سے آگاہ ہو کر خودداری اور آزادی کی زندگی بسر کریں۔ ز مزد بندہ کرپاس پوش و محنت کش نصیب خواجہ نا کردہ کار رخت حریر ز خوئے فشانی من لعل خاتم والی ز اشک کودک من گوہر ستام امیر ز خون من چو زاد فربہی کلیسا را بزور بازوئے من دست سلطنت ہمہ گیر خرابہ رشک گلستان ز گریہ سحرم شباب لالہ و گل از طراوت جگرم بیا کہ تازہ نوا می تراود از رگ ساز مے کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم مغان و دیر مغاں را نظام تازہ دہیم بناے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم ز رہرتاں چمن انتقام لالہ کشیم بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم بطوف شمع چو پروانہ زیستن تا کے ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تا کے اقبال کی ایک رباعی کا مضمون بھی اسی مقطع کے مضمون سے مماثل ہے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے استحصال ناجائز میں وقف کر دینا تضیع حیات ہے: گل گفت کہ عیش نو بہارے خوشتر یک صبح چمن ز روزگارے خوشتر زاں پیش کہ کس ترا بہ دستار زند مردن بکنار شاخسارے خوشتر اشتراکیت کی تعلیم کا ایک بڑا اہم جزومسئلہ ملکیت زمین ہے۔ اس بارے میں ہر قسم کے سوشلسٹ بھی کمیونسٹوں کے ہم خیال ہیں کہ سرمایہ داری اور محنت کشوںسے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی یہ بدترین صورت ہے جس کے جواب کا از روئے انصاف کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ اقبال جیسے مسلم سوشلسٹ کہنا چاہیے کہ ہر قسم کی سوشلزم اور کمیونزم سے اس مسئلے پر اتفاق رائے رکھتا ہیکہ زمین خا کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی ک سی ہے جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین انسان کی محنت کے بغیر زیادہ رزق پیدا نہیں کرتی مگر از روئے انصاف محض افزائش سے فائدہ اسی کو حاصل ہے جس نے ہل جوتا آبیاری کی اور فصل کی نگہداشت کی۔ زمین کا غیر حاضر مالک اس کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ پھر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے کس کے حق سے اس میں سے ایک کثیر حصے کا طالب ہوتا ہے۔ ملکیت زمین کے بارے میںاسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ کم و بیش اختلاف رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اس بارے میں کچھ اشارے کرتی ہے۔ جن کی تعبیر اپنے اپنے افکار و اغراض کے مطابق مسلمان مفسرین اور مفکرین مختلف کرتے ہیں۔ اس بارے میں اکثر احادیث کو لیی لیتا ہے جو اس کے مخالف معلوم ہوتی ہیں۔ ان کو یا ضعیف الاسناد بتاتا ہے یا ان کی تاویل کرتا ہے۔ زمین کے متعلق قرآن کریم میں جو اشارے ہیں وہ اس قسم کے ہیں الارض اللہ زمین اللہ کی ہے۔ جو شخص زمین میں شخصی ملکیت کو درست نہیں سمجھتا اس کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے معاملے میں ذاتی ملکیت جائز نہیں۔ اس کا مخالف یہ کہتا ہے کہ اس آیت سے اس قسم کا کوئی مطلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ قرآن بار بار کہتا ہے کہ للہ ما فی السموات وما فی الارض زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کا پیدا نہیں کیا اس لیے وہ کسی چیز کا مالک حقیقی نہیں کہلا سکتا۔ لیکن سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود آخر باقی تمام اشیا میں اسی اسلام نے ذاتی ملکیت کوتسلیم کیا ہے ۔ اور فقہ کا ایک کثیر حصہ اس ملکیت کے جھگروں کے چکانے کے لیے ہے۔ لیس للانسان الا ما سعی سے اس تعلیم کو اخذ کرسکتے ہیں بینکہ جس چیز کے متعلق کسی انسان نے کچھ محنت نہیں کی اور اس یچز پر اس کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص بادشاہوں کے عطیہ یا جبر و مکر اور نائاز استعمال سے زمین کے وسیع قطعات پر قابض ہو گیا ہے اور ا س کی کاشت کے متعلق آپ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی محنت سے پیدا کردہ رزق اور دولت میں سے حصہ طلب کرتا ہے تو اس کامطالبہ جائز ہ۔ اس کتا ب میں اس بحث کا فیصلہ کرنا ہمارے احاطہ موضوع سے باہر ہے۔ یہاں فقط یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ علامہ ابال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ملت کا خزانہ عامرہ تو بجا طور پر پیداوار کا کچھ حصہ طلب کر سکتا ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا ا س پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور و شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے چنانچہ الا رض اللہ بال جبریل کی ایک نظم کا عنوان ہی ہے: الارض اللہ پالتا ہے بیج کومٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتاہے سحاب؟ کون لایا کھینچ کر پچھم سے اد سازگار؟ خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھر دی موتیوںسے خوشہ گندم کی جیب؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوے انقلاب؟ وہ خدایا یہ زمین تیری نیہں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں بال جبریل کی ایک دوسری نظم فرشتوں سے فرمان خدا ایسی ہیجان انگیز اور ولولہ انگیز ہے کہ اس کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے اگر روسی زبان میں اس کا موثر ترجمہ ہو سکتا اور وہ لینن کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اسے بین الاقوامی اشتراکیت کا ترانہ بنا دینے پر آمادہ ہو جاتا۔ اس کے کہ ملحد لینن کو اس میں یہ خلل نظر آیا کہ اس میں خدا یہ پیغام اپنے فرشتوں کو دے رہا ہے۔ اور اس کے نزدیک وجود نہ خدا کا ہے نہ فرشتوں کا۔ وہ کہت اہے کہ افسوس ہے کہ خدا دشمن مگر انسان دوست انقلابی تعلیم کو بھی قدیم توہمات کے سانچوں میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ نظم کمیونسٹ مینی فیسٹو(اشتراکی لائحہ عمل) کا لب لاب ہے اور محنت کشوں کے لیے ایک انقلاب بلکہ بغاوت کی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے تمام پہلوئوں سے اتفاق رائے رکھتے تھے سوا اس کے کہ اس تمام تنظیم جدید نے انسان کے دل ودماغ پر یہ غلط ملط عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ تمام زندگی مادی اسباب کی عادلانہ یا مساویانہ تقسیم سے فروغ اور ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال انسانی زندگی کا مقصود جسمانی ترقی نہیں بلکہ روحانی ترقی سمجھتے تھے۔ روح انسانی آب و گل کی پیداوار نہیں اور اس کے لیے آب و گل میں پھنس کر رہ جانا اسے غائت حیات سے بے گانہ کر دیتاہے۔ علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریب کا کام بہت کامیابی سے کیا ہے۔ جس مذہب نے اس کی تنسیخ کی ہے وہ قابل تنسیخ ہی تھا۔ اس نے سلطانی اور امیری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا اور بہت اچھا کی۔ا کیوں کہ ان طریقوں نے مل کر انسانوں کا درجہ حیوانوں سے بھی نیچے گرا دیا تھا۔ لیکن روٹی کپڑے اور رہائش کی آسودگی انسان کا مقصود حیات نہیں انسانی ارتقاء کے مدراج لامتناہی ہیں۔ اشتراکیت نے کچھ کام تعمیر ی کیا ہے اور کچھ تخریبی۔ اس کا ایک پہلو سلبی ہے اور دوسرا ایجابی ۔ اس نے جن اداروں کا قلع قمع کیا ہے اور جن عقائد کو باطل قرار دیا وہ انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں بھی سد راہ تھے لیکن اشتراکیت چونکہ مغرب کی مادی جدوجہد کی پیداوار تھی اور طبیعی سائنس کے اس نظریے سے پیدا ہوء تھی کہ مادی فطرت کے علاوہ ہستی کی اور حقیقت نہیں۔ اس لیے وہ اس تاریخی حادثے کا شکار ہو گئی کہ مادی زندگی میں عادلانہ معیشت کو الحاد کے ساتھ وابستہ کر دیا حالانکہ یہ تمام انقلاب ک امادیت کے فلسفہ الحاد کے ساتھ کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ یہ تمام انقلاب اسلام کے ساتھ وابستہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ معاشی تنظیم اسلام کے منشا کے عین مطابق ہے۔ فرماتے تھے کہ خدا اور روح انسانی کے متعلق جو صحیح عقائد ہیں وہ اگر اس اشتراکیت میں شامل کر دیے جائیں تو وہ اسلام بن جاتی ہے اقبال کو اشتراکیت پر جو اعتراض ہے وہ ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ لیکن جس حد تک اسے اشتراکیت سے اتفاق ہے۔ اس حد تک اس کے افکار اور جذبات ایسے ہیں جو لینن اور کارل مارکس اور انگل کی زبان سے بھی ہو بہو اسی طرح ادا ہو سکتے ہیں۔ خدا فرشتوں کو جو کچھ حکم دے رہا ہے وہی تقاضا ائمہ اشتراکیت کی تمام محنت کشوں سے کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں انسان انسان کو ابھار رہاہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ خدا سے وہ بس اس لیے بیزار ہیں اور اس کے وجود کے منکر ہیں کہ خدا کے نام کو زیادہ تر ہر قسم کے ظلم و استبداد ہی نے اپنے غرض کے لیے استعمال کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک فرشتوں کو خدا جو پیغام دے رہا ہے کہ اسے انسانوں تک پہنچا دو۔ وہ درحقیقت اس اسلامی انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ ہے جس کا اقبال آرزو مند تھا۔ یہ انقلاب ایسی معاشرت پیدا کرے گا جس میں غریبوں کی محنت سے پیدا شدہ ناکردہ کار امیری مفقود ہو جائے گی غلام اپنے ایمان کی قوت سے بڑ ے بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں گے۔ اس میں اس انداز کی سلطانی جمہور پیدا ہوگی جو موجودہ مغربی انداز کی جمہوریت کی طرح سرمایہ داری کا دام فریب نہ ہو گی۔ بلکہ اس میں مساوات حقوق عوام کا وہ انداز ہو گا جو اسلام نے اپنی ابتدا میں رکھا ھتا۔ جہاں امیر سلطنت بھی عوام کا ہم رنگ اور حقوق و فرائض میں ان کے برابر تھا۔ اس میں تمام فرسوہ رسوم و رواج اس طرح ملیا میٹ ہوجائیں گے کہ جس طرح اسلام نے زمانہ جاہلیت کے نقوش مٹا دیے۔ جہاں کاشتکار کی پیدا کردہ روزی کو نکھٹو زمیندار جبر سے حاصل نہ کر سکے گا۔ جہاں خالق اورمخلوق کے درمیان دیر و حرم کے دلال اور کمیشن ایجنٹ وسیلہ نجات بن کر حائل نہ ہوں گے۔ جہاں مذہب کے ظواہر پابندی سے ریاکار دیندار دوسروں پر اپنا سکہ نہ جما سکیں گے۔ اور جہاں ان جدید تہذیب کے پیدا کردہ ڈھونگ کا صفایا ہو جائے گا اور جس نے انسانوں کو ان کی اصلیت سے بے گانہ کر دیا ہے۔ اب اقبال کی اپنی زبان سے یہ پیغام سنیے: فرمان خدا (فرشتوں سے) اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو گرمائو غلاموں کا لہو سوز یقین سے کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو جس کھیت کے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو حق را بسجودے صنماں را بطوافے بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو میں ناخوش ہو بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ۃے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو اقبال نے منکر خدا لینن کو بھی آخرت میں خدا کے سامنے لا کھڑ اکیا ہے۔ عاقبت میں عاضی و عابد و مومن و کافر سب کو خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بقول عارف رومی قیامت کے معنی انکشاف حقیقت کے ہیںخدا کے روبرو ہونے کے معنی حقیقت سے آشنا ہونا ہے کیوں کہ داصل حقیقت خدا ہی ہے: والسما انشقت آخر از چہ بود از یکے چشمے کہ ناگہ بر کشود پس قیامت شو قیامت را بہ بیں دیدن ہر چیز را شرط است این لینن نے خدا کے سامنے کفر کے اسبب بیان کر کے معذرت کی ہے اور جو انقلاب اور ہیجان اس نے پیدا کیا ہے اس کا جواز بھی دلنشین طریقے سے پیش کیاہے۔ اس نے کفر و الحاد کے سوا باقی جو کچھ بھی کیا وہ حسن خدمت ہی تھا۔ جو عقوبت کی بجائے مستحق انعام ہے۔ اقبال بھی یہی چاہتا تھا کہ کوئی مرد مومن و مجاہد اس فرسودہ مشرقی اور جدید مغربی تہذیب کا تختہ الٹ دے؛ یہ کام لینن جیسے مجاہد نے کیا جسے مذہب کے استعمال کی استبداد نے ملحد بنا دیا تھا۔ بہرحال اس نے جو کام کیا ہے وہ اقبال کے نزدیک مستحسن اور ارتقائے انسانی کے لیے ایک لازمی جز تھا مگر اشتراکیت لا سے الا کی طرف قدم نہ بڑھا سکی۔ یہ کام آئندہ مستقبل قریب یا بعید میں ہوجائے گا لیکن قدیم استبدادو ں کا خاتمہ بہت کچھ اشتراکیت ہی نے کیا۔ اقبال کو افسوس ہے کہ توحید اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے یہ اصلاحی کام ادھورا رہ گیا ہے اور اس کی وجہ سے اس میں ایک نئے استبداد کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے محض مادیات کی مساویانہ تقسیم سے روح کے اندر وہ جوہر پیدا نہیں ہو سکتا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ مادیات کی حرص انسان کو مسلسل ایک اسفل سطح پر کشمکش میں مبتلارکھتی ہے ہر قسم کی تعمیر کے لیے پہلے شکست و ریخت ضروری ہوتی ہے۔ پہلا قدم سلبی ہوتا ہے اور دوسرا ایجابی بقول عارف رومی: ہربنائے کہنہ کاباداں کنند اول آں تعمیر را ویراں کنند جس قسم کا انقلاب روس میں ہوا اس سے ملتا جلتا انقلاب اقبا ملت اسلامیہ میں بھی دیکھنا چاتا ہے لیکن اس کا محرک اسلام ہونا چاہیے نہ کہ الحاد تاکہ لا کے بعد آسانی سے الا کی طرف قدم اٹھ سکے۔ بلکہ توحید ہی اس تمام انقلا ب کی محرک ہو۔ اشتراکیت ابھی تک خود اور جفبر سے خلاصی حاصل نہیں کر سکی۔ خالص روحانیت جو خلوص اور محبت انسان میں پیداکرتی ہے وہ اس انقلابی معاشرت میں ابھی نظر نہیںآتی۔ اکابرہوں یا عوام ایک دوسرے سے خائف رہتے ہیں افکار کی آزدادی ناپید ہے ایک نئے جبر و ظلم نے قدیم جبروں کی جگہ لے لی ہے۔ اشتراکیت کے بڑے بڑے امام چشم زدن میں غدار بن جاتے ہیں۔ یا غدار شمار ہوتے ہیں۔ قبال انقلاب مغرب کی تہذیب اگر یک طرفہ تھی تو یہ نئی انقلابی تہذیب بھی ایک طرف سے ترقی اور دوسری طرف سے تنزل کا نقشہ پیش کرتی ہے اقبال نے مغربی تہذیب کی کہیں کم ہی تعریف کی ہے اگرچہ اس میں بھی خیر و شر دونوں طرف سے پہلو موجود ہیں لیکن اشتراکیت کے ذکر میں تعریف کا پہلو مذمت پر کسی قدر بھاری ہی معلوم ہوتاہے۔ جو معاشرت و معیشت کے متلعق اپنے اقبا ل کے عقائد کی غمازی کرتا ہے۔ عام مغربی تہذیب کے ساتھ اس کو اسلام کا اتصال مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن زاویہ نگاہ کی ذر ا سی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکی ہو سکتاہے۔ لینن خداسے یہ کہتا ہیکہ ہم مغرب کی طبیعی عقل کی بنا پر فقط خرد کو ذریعہ علم سمجھتے تھے۔ لیکن فقط خرد سے تجھ تک رسائی نہ ہو سکتی تھی اور ہمارے کفر کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم نے مشرق و مغرب میں کبھی کسی کو بھی عقیدت کے ساتھ تیری پرستش کرتے ہوئے نہیں دیکھا پھر ہمیں کیسے یقین آتا کہ کوئی تو بھی کوئی معبو د ہے۔ ہم نے مشرقیوں کو دیکھا وہ غلبہ فرنگ کی وجہ سے سفیدان فرنگی کی پوجا کر رہے ہیں اورم غرب کو دیکھا تو وہ فقط زر و مال کو قاضی الحاجات سمجھتا ہے۔ تیرا نام تو اکثر لوگوں کی زبان پر تھا لیکن وہ محض خود غرضی اقتدار کوشی اور ریاکاری کاپردہ تھا۔ پہلے زمانوں میں تجھ پر لوگوں کو کچھ واقعی ایمان ہو گا۔ کہ تیری پرستش کے لیے عظیم الشان معبد بناتے تھے۔ اب تو بنکوں کی عمارتوں گرجوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جمیل و جللیل دکھائی دیتی ہیںَ یورپ میں علم و ہنر کی روشنی تو چکاچوند کر دینے والی ہے۔ لیکن روحوں کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس ظلمات میں چشمہ حیوان کہیں بھی نہیںتھا۔ مساوات کی تعلیم دیتے تھے لیکن عملاً تجارت ہو یا زراعت یا سیاست سب میں غریبوں کا لہو پینے کی تدابیر تھیں۔ فرنگی مدنیت کے فتوحات میں بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس ہی تھے۔ مشینوں کی حکومت نے تمام معاشرت اور مام افراد کو مشینیں بنا کر بے درد و بے روح کر دیا تھا۔ لینن خدا سے کہتاہے کہ کسی قدر انقلاب تو پیدا کر آیا ہوں لیکن دنیا کے زیادہ حصے میں بندہ مزدور کے اوقات ابھی بہت تلخ ہیں۔ تیری دنیا روز مکافات کی منتظر ہے۔ تو عامل بھی ہے اور قادر بھی اس سرمایہ پرستی کی کشتی کو غرق کرنے میں کیوں دریغ کر رہا ہے؟ آخر کاہے کا انتظار ہے؟ اشتراکیت انقلاب کی انقلاب آفرینی اور اس کی بہت سی اصطلاحاات کو نظر استحسان سے دیکھنے کے باوجود اور جابجا لینن کا ہم زبان ہو کر بھی اقبال انسانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ اس انقلاب کے بعد اگر لا سے الا کی طرف اور نفی سے اثبا ت کی طرف قدم نہ اٹھ سکے تو یہ تعمیر تخریب ہو کر رہ جائے گی۔ اشتراکیت سے قبل کی مغربی تہذیب اس کے لیے روح سے بے گانہ اور زوال آمادہ ہو گئی کہ وہ محسوسات و مادیات کے آگے نہ بڑھ سکی اور اس نے عالم مادی کی تسخیر کو غایت حیات بنا لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادی اسباب کی تقسیم نے حرص و ہوس کو تیز کر کے ہلاکت کے سامان پیدا کر دیے۔ اس معاملے میں اشتراکیت بھی اگر اسی ڈگر پر پڑ گئی تو اس کی اصلاح بھی فسا د میں تبدیل ہو جائے گی۔ اور پھروہی صورت پیدا ہو گی جو ہمارے سامنے ہے۔ ظہر الفساد فی البر والبحر ضرب کلیم میں لا و الا کے عنوان سے تین اشعار اسی مضمون کے ملتے ہیں: فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا سفر خاکی شبسستان سے نہ کر سکتا اگر دانہ نہاد زندگی میں ابتدا لا انتہا الا پیام موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ وہ ملت روح جس کی لا سے آگے نہیں بڑھ سکتی یقین جانو ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ اقبال نے کئی جگہ اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں دہرایا ہے ۔ کہ لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا مختلف اقوام کے تصوف کا لب لباب بھی یہی ہے۔ کہ حقیقی بقا فنا کے ذریعے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ زندگی خواہ نباتی ہو یا خواہ حیوانی اور انسانی اور خواہ اس سے بڑھ کر انسان روحانی بننا چاہیے کہیں بھی فی نفسہ فنا مقصود نہیں۔ زندگی جس صورت میں ہو وہ اپنی بقا چاہتی ہے لیکن بقا اور ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلی صورت کے افشا سے دوسری صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی زندگی جب جامد صورت ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ معتاد طریقوں کو بدلنا نہیں چاہتی۔ اسے تغیر سے ڈر لگتا ہے۔ مذہب اور معاشرت کے قدیم رسوم و شعائر اور قدیم ادارے جامد ہو کر بے روح ہو جاتے ہیں۔ افکار و جذبات میں کوئی جدت نہیں رہتی زمانہ جب فرسودہ طریقوں سے بیزار ہو جاتا ہے تو مشیت الٰہی ان پر خط تنسیخ کھینچ دیتی ہے۔ اقبال روسی اشتراکیت کے اس پہلو کا مداح ہے کہ ا س نے مال اور سلطنت اور کلیسا کے متعلق قدیم عققائد کے خلاف احتجاج اور جہاد کیا ہے اوریہ اقدام انسانیت کو آزاد کرنے اور اس کی روحانی ترقی کا امکان پیدا کرنے کے لیے لازم ھتا۔ جب تک یہ کام نہ ہو چکے آگے روحانیت کی طرف قدم اٹھانا دشوار ہے۔ روس نے سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور مال کے متعلق اس کے نظریے پر عمل کیا کہ جائز ضڑورت سے زائد مال کسی فرد کی ملکیت نہیںرہ سکتا۔ اسے ملت کی عام احتجاج پر صرف ہونا چاہیے۔ اقبال کہتا ہے کہ مال کے متعلق یہ تعلیم عین قرآنی تعلیم ہے کہ مال کو چند امرا ء کے ہاتھوں میںگردش نہ کرنی چاہیے۔ اس کا فیضان دوران خون کی طرح جسم ملت کے ہر رگ و ریشہ میں پہنچنا چاہیے۔ لوگوں نے جب رسول کریم صلعم سے یہ سوال کیا کہ کس قدر مال خود صرف کرنا چاہیی اور کس قدر ملت کے احتجاج کے لیے ڈال دینا چاہیے تو اس کا جواب قرآن نے ا ن الفاظ میں دیا ہے قل العفو مومنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ بچ جائے وہ ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا کریں۔ جس طرح بند پانی میں بدبو آنے لگتی ہے اور ا س میں زہریلے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں اوراسی طرح انفرادی خود غرضی سے روکی ہوئی دولت بھی صاحب مال کے لیے مسموم ہو جاتی ہے۔ مال کے اس اسلامی نظریے کو عارف رومی نے ایک بلیغ تمثیل کے ساتھ نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ ماچھا مال جو خدمت دین میں اور خدمت خلق میں صرف ہو وہ خدا کی نعمت ہے۔ مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں‘ جس طرح کشتی چلانے کے لیے پانی کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سفینہ حیات کسی قدر آب زر ہی سے روا ں ہو سکتا ہے لیکن پانی کشتی کے نیچے نیچے رہنا چاہیے اگر وہ کشتی کے اندر گھس آئے تو اس کو سنبھالنے کی بجائے غرق کردیتا ہے: مال را گر بہر دیں باشی حمول نعم مال صالح گفتا رسولؐ آب در کشتی ہلاک کشتی است زیر کشتی بہر کشتی پشتی است علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ روس نے قرآن کی قل العفو کی تعلیم کے مطابق ایک معاشرت پیدا کی ہے اس لیے اس حد تک یہ عین اسلامی کام ہے۔ ضرب کلیم میں اشتراکیت کے عنوان سے جو اشعار لکھے ہیں ان کا موضوع یہی ہے: اشتراکیت قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار انساں کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ اور جب کبھی انسان کا فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے ناآشنا ہونے پر بھی وہ اسلام کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے ۔ اور اسلام کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔ کفر و دیں است در رہت پویاں وحدہ لا شریک لہ گویاں انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے مختلف اقوام میں جو جدوجہد ہو رہی ہے۔ اس کا جائزہ لیجیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ اصلاح کر ہر قد م حقیقت میں اسلام کی طرف اٹھتا ہے۔ خواہ اس کے لیے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہلاتے ہوں۔ اقبال نے کارل مارکس کی آوا ز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے: کارل مارکس کی آواز یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوط خمدار کی نمائش! مریزو کجدار کی نمائش جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیسائوں میں مدرسوں میں ہوس کی خوں ریز چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش کارل مارکس بھی جہاں پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی ۔ لیکن جہان نو کی تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونوںمیں اختلاف ہے۔ کارل مارکس نیا معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں۔ کیوںکہ وہ عالم مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں۔ اقبال کے لیے عادلانہ معاشی نظام مقصود آخری نہیں بلکہ اسنان کے لامتناہی روحانی ارتقاء کے راستے میں ایک منزل ہے۔ ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے مقاصد میں ایک بڑامقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اس کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدو د رہی ہے۔ اور صلیب کا کوئی کونی نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا لیکن اقبال کہتا ہے کہ دیکھو قضائے الٰہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام لیا گیا ہے جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے وہ کام کافروں نے کر ڈالا ۔ کلیسا کا استبداد سب سے زیادہ روس میں تھا جو کرہ اارض کے پانچویں حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہب مصلحین کبھی یہ کام نہ کر سکتے: روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات ہوئے ہیں قصر چلیپا کے واسطے مامور وہی کو حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے لات و منات اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق و باطل کی آمیزش ہے۔ اس میں جو دل کشی اور مفاد کا پہلو ہے وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادلانہ تقسیم دین دین ہے اور اس معاملے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے لائق ہے۔ حضرت مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں اسے روحانی غذا کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے علاوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس و بدن کا رابطہ بھی کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق اللہ ادا کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔ اسی لیے اسلام نے معاش و رزق کی عادلانہ تقسیم و تنظیم کو بھی جز و دین قرار دیا ہے۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز روٹی مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا ہے ک بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑ ھ سکتا: شب چو عقد نماز بر بندم چہ خورد بامداد فرزندم خداوند روزی بحق مشتعل پراگندہ روزی پراگندہ دل رسول کریم صلعم نے فرمایاکہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قیرب لے آتی ہے۔ یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ فقر اختیاری دوسری چیز ہے۔ جس پر نبی کریم صلعم نے فخر کیا ہے ار جو عاعلیٰ درجے کی روحانی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہیں لیکن درحقیقت چھ ہیں مریدوں نے پوچھا چھٹا رکن کون سا ہے۔ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہت اہم ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ چیزوں کی بھی خیریت نہیں۔ لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رز ق میں زیادہ انہماک ہو جائے تو وہ بھی اخلایق اور روحانی زندگی معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہیکہ انسانوں کی مادی ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادلانہ نظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر دینا غلط ہے کہ مادی ضڑوریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ تمام جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کے لیے اچھا مکان مل جائے انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔ اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں انسانوں سے بہت میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی خصوصیت اور مقصود کیا ہے۔ حیوانوں کے لیے فطرت نے از روئے جبلت جو سامان اور ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ اگر انسان بصد مشکل عقلی کوششوں سے وہی کچھ کر لے تو اس کو حیوانوں پر کیا تفوق ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انانی زندگی کی تو کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔ یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے لامتناہی ممکنات کو امکان سے وجود میں لانے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔ ازروے قرآن اییمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر اطبیعی و زمان و مکان سے ماوریٰ ہے انسان کی منزل حیات جسمانی نہیں بلکہ خدا ہے منزل ما کبریاست قرالی ربک المنتہی۔ جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے دونوں کو وضاھت سے پیش کیا گیا ہے۔ کارل مارکس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے اور خلق خدا کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلق وجود سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے۔ صاحب سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل زانکہ حق در باطل او مضمر است قلب او مومن دماغش کافر است غریباں گم کفردہ اند افلاک را در شکم جویند جان پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جز بہ تن کارے ندارد اشتراک دین آں پیغمبر حق نا شناس بر مساوات شکم دارد اساس تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است جاوید نامے میں جمال الدین افغانی کا ایک پیغام ملت اروسیہ کے نام ہے۔ اس یغام میں اقبال نے اسلام اور اشتراکیت کے نقطہ ہائے اتصال و افتراق کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اشتراکیت کے پرانے معبودوں اور فرسودہ اداروں کے انہدام میں سعی بلیغ کی ہے۔ اس کافراخ دلی سے ذکر کیا ہے ۔لیکن اس کے بساتھ ہی اس ملت کوان خطرات سے آگاہ کیا ہے کہ جو اس انقلابی تمدن و تہذیب کو پیش آسکتے ہیں۔ انقلابات کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب اسلام تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے ایک وسیع حصے میں قدیم فکر و عمل کے حیات کش نقوش کو مٹا کر ایک جدید عالم گیر تہذٰب ک بنیا د ڈالی ۔ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ نادر اور انقلابی تھا۔ اس ہمہ گیر انقلاب کے لیے انسانی طبائع پوری طرح آمادہ نہ تھیں اس لیے بہت جلد شکست خوردہ رسوم اور ادارے اور انسانی خو د غرضیاں بہت کچھ واپس آ گئیں اور اس انقلاب کے خلاف رفتہ رفتہ رد عمل شروع ہوا۔ اسلام کی اصل صورت بہت کچھ مسخ ہوتی گئی لیکن اسلام کا جتنا حصہ بھی اس رد عمل کے باوجو د ملت اسلامیہ کی زندگی میں باقی رہ گیا اس کی بدولت مسلمان اپنی معاصر دنیا سے کوئی چھ سات صدیوںتک پیش پیش رہے۔ زندگی کا قانون یہ ہے کہ افراد یا اقوام کی زندگی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ مسلسل تغیر پذیری آئین حیات ہے۔ اس لیے ہر لمحے میں انسان یا آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہاہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس انسان کے دو دن ایک جیسے ہوں یعنی اس نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا ہو وہ شخص نہایت گھاٹے میں ہے۔ من ستوا یوما فہو مغبون اس اصول کے مطابق مسلمان صدیوں سے پیچھے ہی ہٹتے گئے اور مغربی اقوام آگے بڑھنا شروع ہوئیں۔ اب اس صدی میں مسلمانوں کو اپنے نقصان سپ ماندگی اور بے بسی کا احسا س شروع ہوا تو اس میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ حرکت پیدا ہوئی۔ اسلام کے انقلاب کے بعد روسی اشتراکیت تک مشرق میں کوئی ایسی حرکت پیدا نہ ہوئی تھی۔ جسے انقلابی کہہ سکیں یعنی جس نے سیاست اور معیشت اور نظریات حیات کو یکسر بدل ڈالا ہو۔ مگرب میں از منہ متوسط کے جمود واستبداد کے بعدنشاۃ الثانیہ نے فکر و عمل میں ہیجان پیدا کیا اور رفتہ رفتہ خاص افراداور خاص طبقات میں زندگی کے انداز بدلنا شرو ع ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اصلاح کلیسا کی لوتھر تحریک سے کیسا میں زلزلہ آیا اور بقول اقبال فرنگ میں ااذادی فکر کی نازک کشتی رواں ہوئی۔ ان تمام تحریکوں کا مجموعی نتیجہ انقلاب فرانس میں نکلا اور اس کے کچھ عرصے بعد انگلستان میں وہ انقلاب آیا جسے صنعتی انقلاب کہتے ہیں اور جس نے انگریزوں کی زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ اچھا یا براتاثر پیدا کیا۔ لیکن یہ تمام تحریکیں مجموعی طور پر بھی اتنی انقلاب آفریں نہ تھیں جتنی کہ اشتراکیت کی زلزلہ انگیز تحریک۔ بقول اقبال: قہر او کوہ گراں را لرزہ سیماب داد اس سے قبل کی تحریکوں سے ملوکیت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری نے لے لی عوام کے حقوق طلبی اور جمہوریت کی کوششیں بھی اتنی بارآور نہ ہوئیں کہ ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو سکتے صحیح معنوں میں انقلاب اسی کو کہتے ہیں کہ جو اشتراکیت نے پیدا کیا۔ اشتراکیت قدیم معاشرت میں محض رخنے بند کرنے اور ٹانکے یا پیوند لگانے کی قائل نہ تھی اس نے قدیم اداروں کی بیماری کا علاج کوئی دوا یا غذا تجویز نہ کیا بلکہ ایسی جراحی جو اعضائے فاسد کی قطع و برید سے دریغ نہ کرے۔ جہاں اشتراکیت کو کامیابی ہوئی وہاں کوئی ادراہ اور کوئی طریقہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہ سکا۔ قیصریت کا صفایا ہو گیا جاگیرداری کا خاتمہ ہوا سرمایہ داری کا نام و نشان مٹ گیا اور کلیسا عضو معطل بن گیا۔ مذہب کے خلاف ایسا شدید رد عمل ہوا کہ دین کی بیخ کنی کو روسی سیاست نے اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لیا۔ پوجا پاٹ کی اجازت رہی مگر دین کی تبلیغ ممنوع ہو گئی۔ اشتراکی ارباب حل و عقدکے لیے یہ شرط لازمی ہو گئی کہ اعتقاداً اور عملا ً متحد ہوں اور مادیت کے قائل ہوں۔ اس طرح سے حق و باطل کی ایک عجیب قسم کی آمیزش ظہور میں آئی۔ سب سے بڑا ظلم جو اقدار حیات کو فنا کر دیتا ہے ۔ اشتراکیت کا جبری نطام ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگ گئیں آزادی فکر آزادی ضمیر اور آزادی بیان جرم بن گئی۔ جمال الدین افغانی کی روح اس تمام انقلاب کا جائزہ لیتی ہے اور اس سلسلے میں وہ اس انقلابی ملت کے سامنے اسلام کی انقلاب آفریں تعلیم کو پیش کرتی ہے جس کا لب لباب ہے کہ تم نے تخریبی اور سلبی کام تو خوب یا لیکن اس کا ایجابی پہلو فقط اسلام پورا کر سکتا ہے۔ بقول غالب: رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم در رقص اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست ناہید را بہ زمزمہ از منظر افگنم افغانی بتاتا ہے کہ یہ نمطے دیگر کیا ہونا چاہیے افغانی کے پیغام کا حاصل مفصلہ ذیل ہے: اے ملت روسیہ تو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر ڈال اور اس سے کچھ سبق اور عبرت حاصل کر۔ مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کا طلسم توڑا لیکن بہت جلد ان کے تخت ملوکیت پر خود متمکن ہو گئے اور قیصریت کے جاہ و جلال کو اپنی شاہانہ شوکت سے مات کر دیا۔ فرعون کے آبنوس کے تخت کی جگہ نوکروڑ روپے کا تخت طائو س شان اسلام کا مظہر بن گیا۔ ملوکیت کے عروج میں افراد کی حریت سوخت ہو گئی۔ تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اس سے عجمی افکار اور غیر اسلامی طرز زندگی نے اسلام کے افکار کی طرف سے غفلت پیداکر دی۔ ملوکیت وہ چیز ہے کہ جو سیاست اور انقلابی معیشت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ عقل و ہوش اور رسم و رہ سب دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اسلام کے انقلاب کو ملوکیت کھا گئی۔ ظالم اور مستبد سلاطین ظل اللہ بن گئے اور علمائے سو فقیہ اور فتویٰ فروش بن کر ان کے آلہ کار بن گئے جس طرح رومتہ الکبریٰ کے شہنشاہ دیوتا بنن گئے تھے۔ جن کی پوجا رعیت کے ہر فرد پر لازم تھی اسی طرح مسلمان سلاطین علماء سے بھی سجدے کرانے لگے اور علماء سے یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے۔ سجدہ عبادت نہیں۔ یہ سلاطین خلفا بن کر اس رسولؐ کی جانشینی کا دعویٰ کرتے تھے۔ جو راستہ چلتے ہوئے بھی اصحاب سے دو قدم آگے نہ چلتے تھے۔ اور محفل میں اپنی آمد کے وقت تعظیماً اصحاب کو کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے۔ خود طلسم قیصرو کسریٰ شکست خود سر تخت ملوکیت نشست تانہال سلطنت قوت گرفت دین او نقش از ملوکیت گرفت از ملوکیت نگہ گردد دگر عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر اے ملت روشیہ کچھ کام تو تو نے وہی کیا ہے جو اسلام کرنا چاہتا تھا اور جس کا نمون کچھ عرصیکے لیے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا گیا تھا۔ تو نے محمد صلعم اور ان کے خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخ اسلام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ کہن یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا دعویٰ کرتے کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہو جائے تو بھی کہیں جبر و ظلم کے ساتھ جہانگیری نہ شروع کر دے۔ خوفناک آلات ہلاکت پیدا کرکے تو نوع انسان کو خوف زدہ نہ کر۔ قوت ضروری چیز ہے لیکن دنیا ایسی ملت کی طالب ہے جو صرف نذیر ہی نہ ہو بلکہ بشیر بھی ہو۔ تمہارے طریق عمل میں انسانوں کے لیے ایک اعلیٰ درجہ تر زندگی کی بشارت ہونی چاہے۔ تمہاری تقدیر اقوام مشرق کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے تمہارا رخ زیادہ تر ایشیا کی طرف ہونا چاہیے۔ جس کی روایات میں روحانیت کا بنیادی عنصر بھی موجود ہے۔ تمہارے سینے میں ایک سوز ہے۔ جونئے شب و روز پیدا کرتاہے افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے۔ اگر تم نے بھی اس کی نقالی شروع کر دی اور ایک طرف بے دینی کو ترقی دی اور دوسری طرف محض سامان حیات اور سامان حرب پیدا کرنے ہی کو مقصود بنا لیاتو تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو فرنگ کا ہوا ہے۔ تم اگر در حقیقت نئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہو تو مغرب کی طرف مت دیکھو۔ اس تقلید اور مطابقت میں تم اسی رنگ میں رنگے جائو گے یہ مغرب الا سے الا کی طرف نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں ُھنس کر رہ گیا ہے ارتقائی زندگی کا ایک قدم نفی کی طرف تو دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے۔ اگر تم جدید نظام عالم پیدا کرنا چاہتے ہو تو اب وقت ہے کہ تم اثبات کی طرف آجائو۔ کہنہ شد افرنگ را آئین و دیں سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں کردہ کار خداونداں تمام بگذر از لا جانب الا خرام در گذر از لا اگر جویندہ تا رہ اثبات گیری زندہ جس انقلاب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو ا س کا سبق دنیا کو سب سے پہلے قرآن نے پڑھایا تھا۔ اسی قرآن پڑھانے والے نبی صلعم نے یہ اعلان کیا تھا کہ لا قیصر و لا کسریٰ۔ اس نے حبشیوں وک روشن ضمیر بنا کر ان کی ظاہری سیاہی کو نور قلب سے بدل دیا تھا۔ اسی نے رنگ نسل کی تمیز کو حرام کیاتھا۔ فرنگی اقوام ابھی تک مساوات اور اخوت کے دعاوی کے باوجود کالوں کو گوروں کے مطابق حقوق دینے کی روادار نہیں۔ مغربیوں کی تمام سیاست ماکیاویلی جیسے ابلیس نے سکھائی ہوئی روباہی ہے۔ اس روباہی کا تمام فن دوسروں کو محتاج کورکھ کر اپنے لیے سامان حیات کی فراوانی پیدا کرنا ہے: گر ز مکر غریباں باشی خیبر روبہی بگذار و شیری پیشہ گہر چیست روباہی تلاش ساز و برگ شیر مولا جوید آزادی و مرگ قرآن نے جس فقر کو سراہا ہے وہ اصل شاہنشاہی ہے۔ جس کی بدولت خود مومن کو کائنات پر حکومت حاصل ہوتی ہے۔ ضعیف اقوام کو مغلوب کر کے ان پر حکومت شاہی نہیں بلکہ نفس دوں کی غلامی ہے مغرب نے محسوسات میں بہت تفکر کیا ہے اور محدود مادی خرد کے احاطے میں جو کچھ آ سکتا ہے اس کو فکر و عمل سے مسخر کر لیا ہے۔ لیکن فکر کے علاوہ ایک دوسری بیش قیمت چیز ہے جسے ذکر کہتے ہیں۔ یہ ذکر زبان سے کچھ کلمات دہراتے رہنے کا نام نیں ہے۔ یہ ایک وجدان حیات ہے جس کا عرفان انسان کو مازکذ حیات و کائنات سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ یہ ذکر حیات لامحدود کے لیے ایک لامتناہی ذوق و شوق ہے۔ یہ انسانی روح کی غذا ور اس کا پر پرواز ہے۔ فکر انسانی زیاہ تر بدن کی زندگی میں الجھا رہتا ہے۔ لیکن ذکر دل کی زندگی ہے۔ اس سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو آتش حیات ہے۔ تم بھی مادی عقلیت میں مغرب کی طرح ابھی تک ایسے الجھیہوئے ہو کہ یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ بامزاج تو نمی سازد ہنوز۔ قرآ ن کی خوبی یہ ہے کہ وہ فکر و ذکر دونوں کی بیک وقت تلقین کرتا ہے۔ فکر بھی معرفت اور قوت تسخیر پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی کا ایک امتیازی جوہر ہے۔ لیکن ذکر کے بغیر اس میں تنویر کامل پیدا نہیں ہوتی۔ رہبانی مذاہب نے فکر کو بالائے طاق رکھ کر خالی ذکر کو شغل بنا لیا ہے ور حکماء طبیعی فکر کے حدود سے باہر قدم نہ رکھا۔ قرآن نے جس شاہنشاہی فقر کی تعلیم دی ہے وہ فکر و عمل کی ہم آغوشی ہے جو انفس و آفاق دونوں کو محیط ہو جاتی ہے۔ فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر فکر را کامل ندیدم جز بذکر ذکر؟ ذوق و شوق را دادن ادب کارجان است ایں نہ کار کام و لب اے ملت روشیہ تجھ کوایک ایسا نظام قائم کرنا چاہیی کہ جس میں خواجگی اور بندگی انسانوں کے اعلیٰ اور اسفل گروہ نہ بنا دے یہ تعلیم بھی قرآنی ہے: چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ دستگیر بندہ بے ساز و برگ یہ خواجگی ظالمانہ زر اندوزی سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کی تمام راہبوں کو اسلام بند کرنا چاہتا تھا۔ اور اس کا معاشی نظام ایسا تھا کہ رہا اور دیگر ناجائز ذرائع سے دولت حاصل نہ ہوسکتی تھی۔ اور زکوۃ ووراثت کے قوانین کی بدولت وہ چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو سکتی تھی۔ اسلام نے دولت کو ملکیت نہیں بلکہ امانت قرار دیا ہے۔ از روئے اسلام ناکردہ کار افرد زمین کے وسیع قطعوں کے مالک نہ بن سکتے تھے۔ زمین کو خدا نے ملک نہیں بلکہ متاع کہا ہے یعنی فائدہ حاصل کرنے کی چیز اور یہ فائدہ بھی تمام خلق خدا کے لیے مساوی ہونا چاہیے۔ سورہ للسائلین مسلمان اس تعلیم کو بھول کر جاگیر دار اور سرمایہ دار بن گئے: منزل و مقصود قرآن دیگر است رسم و آئین مسلمان دیگر است در دل او آتش سوزندہ نیست مصطفیؐ در سینہ او زندہ نیست اسی قران فراموشی کا نتیجہ یہ ہواکہ مسلمان کا ساغر حیات خالی ہے۔ اس میں نہ صاف شراب ہے اور نہ تلچھٹ میں جو پیغام تمہیں دے رہا ہوں وہ اسلام کا پیغام ہے۔ تم اس وقت کے مسلمانوں میں کوئی حیات افزا نمونہ نہ دیکھو گے۔ ان کی زندگی کے اس دور میں دیگر اقوام کو عبرت ہی حاصل ہو سکتی ہے حیات ملی کے اچھے نمونے اب علالم اسلامی میں ناپید ہیں: دہ مومن ز قرآں بر نخورد در ایاغ او نہ مے دیدم نہ درد اے ملت روسیہ ! میں تمہیںاصل اسلام کی طرف بلا رہا ہوں جو تمہارے انقلاب کی تکمیل کر سکتا ہے۔ یہ اسلام عالمگیر حقائق کا نام ہے۔ کسی ایک ملت کے ساتھ اس کا ازلی و ابدی واسطہ نہیں۔ اس وقت جو قومیں مسلمان کہلاتی ہیں۔ اگر وہ اسی طرح خود فراموش اور خدا فراموش رہیں تو اسلام کو ان کی کچھ پروا نہ ہو گی۔ وہ بھی ملل ماضیہ کی طرح محض ایک عبرت انگیز افسانہ بن جائیں گی۔ اے ملت روسیہ! تم نے ہمت کر کے اسلام کے ایک حسے کو آئین حیات بنایا ہے۔ اگرتم باقی ماندہ حصے کو بھی اپنا لو تو اس فرسودہ ملت کی جگہ لے لو گے۔ قرآن جن صداقتوں کو پیش کرتاہے وہ سرمدی حقائق ہیں وہ کسی خاص امت کا اجارہ نہیں۔ امتیں فانی ہیں لیکن اسلام ایک ابدی حقیقت ہے۔ جو امتوں سے بھی ماورایٰ ہے اور زمان و مکان سے بھی خود قرآن نے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم اس آئین کے پابند نہ رہے تو اسے دوسروں کے حوالے کر دیا جائے گا جو اسے جزو حیات بنائیں گے۔ مسلمان میں تو اس وقت ایمان بالقرآن مفقود معلوم ہوتا ہے اس لیے مجھ ڈر لگتا ہے کہ اسے کہیں صفحہ ہستیسے نہ مٹا دیاجائے۔ اے ملت روسیہ! اگرتو اس پر پوری طرح عمل کر کے خیر امتہ اخرجت للناس بن سکتی ہے تو چشم ما روشن دل ما شاد ہماری محفل تو اس وقت بے مے اور بے ساقی ہے۔ لیکن سازقرآن بے نوا نہیں۔ اگر کسی ملت میں گوش حقیقت نیوش ہو تو وہ اس کے روح افزا نغموں سے حیات پیدا کر سکتی ہے۔ کیا معلوم کہ اسلام اب کس کے حوالے ہونے والا ہے۔ موجودہ ملت اسلامیہ تو تقلید کا شکار ہے: محفل ما بے مے و بے ساقی است ساز قرآں را نواہا باقی ست زخمہ ما بے اثر افند اگر آسماں دارد ہزاراں زخمہ ور ذکر حق از امتاں آمد غنی از زمان و از مکاں آمد غنی ذکر حق از ذکر ہر ذاکر جداست احتیاج روم و شام او را کجا است حق اگر از پیش ما برداردش پیش قومے دیگرے بگذاردش از مسلمان دیدہ ام تقلید و ظن ہر زماں جانم بلرزد در بدن ترسم از روزے کہ محرومش کنند آتش خود بر دل دیگر زنند نواں باب جمہوریت جمہوریت کی نسبت کلام اقبال میں موافق اورمخالف دونوں قسم کے تصورات ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت بھی ان مبہم تصورات میں سے ہے جن کے کوئی معنی معین نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر قوم یا جمہوریت کی خواہاں اور اس کے حصول کے لیے کوشاں ۃے یا اس بات کی مدعی ہے کہ صحیح جمہوریت صرف ہمارے پاس ہے ۔ اس کے علاوہ اور اقسام کی جمہورتی کے دعوے سب بے بنیاد ہیں اور محض ابلہ فریبی ہیں۔ جمہوریت کا عام ترین مفہوم جس پر سب متفق معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ہے کہ رعایارپ کوئی فرد یا کوئی طبقہ اس کی مرضی کے خلاف حکومت نہ کرے۔ ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق حکومت عوام کی ہو اور عوام کے لیی ہو اور رفاہ عامہ اس کامقصود ہو۔ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں اقتدار اعلیٰ نہ سلاطین کو حاصل ہو اور نہ امرا کے طبقے کو۔ حکومت کی باگ ڈور نہ جاگیرداروں اور نہ زمینداروں کے ہاتھ میں نہ سرمایہ داروں اور نہ کارخانہ داروں کے ہاتھ میں۔ مجلس آئین ساز میں جو نمائندے ہوں وہ آزاد سے عوام کے منتخب کردہ اہل الرائے ہوں۔ اس قسم کے طرز حکومت قدیم دنیا میں بھی کہیں کہیں رہی ہے یونان کی یک شہری مملکتوں میں بھی جمہوریت کے انداز مختلف تھے۔ اسپارٹا جو ایتھنز کا حریف تھا۔ اس کا تنام نظام عسکری تھا۔ جو جدید زمانے کے فاشطی نظامات کے مماثل تھا۔ رومتہ الکبریٰ میں ابتدائی دور میں ایک ریپبلک تھی لیکن رومہ کی معاشرت میں بہت جلد خواص کا طبقہ وعوام سے الگ ہو گیا۔ اور سینیٹ میں اونچے خاندانوں ہی کے نمائندے قانون ساز تھے۔ اور وہی حکمرانی کرتے تھے۔ سلطنت کی وسعت اور امرا کی باہمی آویزشوں کی وجہ سے آخر کار یہ جمہوریت شاہنشاہی میں تبدیل ہو گئی۔ اور شہنشاہ دیوتا سمجھ کر پوجے جانے لگے۔ ایک زمانہ آیا کہ رومتہ الکبریٰ کے شہری نیرو جیسے دیوانے اور ظالم کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتے تھے۔ اسلام نے جو نظام قائم کیا تھا وہ بھی ایک خاص انداز کی جمہوریت تھی۔ اس کا دستور عوام کی رائے سے مرتب نہ ہوا تھا بلکہ ازروئے وحی آسمانی خدائے علیم و حکیم کا تلقین کردہ تھا یا نبی حکیم کی سنت پر مبنی تھا۔ سیاست و معیشت کے بنیادی اصول واضح وضع ہوتے تھے امیر خلافت مسلمانوں کی رضامندی سے منتخب ہوتا تھا۔ انتظام مملکت میں وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا تھا لیکن اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگرانی تھی۔ وہ شرعی حدود کے باہر قدم نہ رکھ سکتاتھا۔ اسلام نے ششاہی اور امرائی حکومت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اور یہ اصول مقرر کر دیا تھا کہ حکومت مسلمانوں کے مشورے سے ہونی چاہیے۔ تمام رعایا کے بنیادی حقوق مساوی تھے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔ چونکہ حکومت اسلامی تھی اس لیے اتنا امتیاز باقی رکھنا لازمی تھا کہ کوئی غیر مسلم امیر المومنین نہیں ہو سکتا۔ باقی سلطنت اور معیشت کے ہر قسم کے کاروبار اور انتظامات میں خلیفے کو یہ حق حاصل تھا کہ کام کی نوعیت اور فرد ک ی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام یا عہدہ مسلم کے سپرد کرے یا کسی ذمی کے جس پر امیر کو اعبتبار حاصل ہو۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر شخص آزاد تھا غیر مسلموں کے قوانین شریعت اور طریق زندگی میں حکومت مزاحم نہ ہو سکتی تھی۔ رعایا کا غریب سے غیرب فرد امیر المومنین پر نالش کر سکتا اورعدالت میں اسے جواب دہی پر مجبور کر سکتاتھا۔ افسوس ہے کہ یہ نصبا العنی نظام زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکا۔ مملکت کے حدود بیک وسیع ہو گئے عرب کے قبائل کے علاوہ غیر عرب اقوام اسالم کے دائرے میں داخل ہو گئیں افراد کی اقتدار پسندی نے باہمی آویزش پیدا کی جو خانہ جنگی پر منتج ہوئ۔ قبائل اور اقوام کے تعصباب جسے اسلام نے دبا دیا تھا۔ پھر ابھر آئے پرانی خصومتوں نے پھر سراٹھا لیا۔ ایسی حالت میں کسی اتفاق رائے سے امیر کا انتخاب دشوار بلکہ محال ہو گیا ہزارو ں میلوں میں منتشر مسلمانوں کی رائے کس طرح حاصل ہو سکتی تھی۔ مسلمانوں کو ازروئے اسلام عقیدہ یہی تھا کہ امیر المومنین ملت کے مشورے سے منتخب ہو خواہ وہ عربی ہو یا عجمی سفید و سرخ رنگ کا ہو یا سیاہ فام حبشی اس کی اطاعت مسلمانوں ؤپر لازمی تھی۔ لیکن شوری ٰ سے انتخاب کوئی عملی صورت نہ رہی۔ امیر معاویہ نے اس صورت حال کو دیکھ کر خلافت کو سلطنت میں بدل دیا اور اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا کر عام و خاص سب کو ببجر اس پر راضٰ کر لیا کہ سو ان چند نفود قدسی کے جو اسلامی حریت کے جوہر کو کسی قیمت پر بیچنے کو تیار نہ تھے اور جنہوںنے اسلامی اصول کی مخالفت میں جان و مال کی قربانی سے دریغ نہ کیا تھا۔ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی ملوکیت کے انداز شروع ہو گئے اور سیاسی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا لائحہ عمل رفتہ رفتہ گلدستہ طاق نساں بن گیا۔ اس وقت سے زمانہ حال تک اچھے یا برے مطلق العنان سلاطین ہی نظر آتے ہیں۔ ملوکیت کے دبائو نے علماء کی زبانیں بند کر دیں۔ سلطان فاسق و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے والا کوئی نہ رہا۔ علماء دین کا تما م تر تفقہ افراد کے شخصی معاملات میں محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے باوجود صدیوں تک مسلمانوں میں تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں ترقی ہوتی رہی۔ لیکن سیاسیات میں عوام تور برطرف خواص کو بھی کوئی دخل نہ رہا۔ اور عوام کے لیے یہی نصیحت رہ گئی کہ اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو ا س کی تردید نہ کرو۔ بلکہ تائید میںکہو کہ ہاں مجھے بھی ستارے نظر آتے ہیں۔ سعدہ علیہ الرحمتہ بھی لوگوں کو یہی مصلحت اندیشی سکھاتے ہیں کہ: خلاف راے سلطان راے جستن بخون خویش باید دست شستن بادشاہ کے خلاف رائے کا اظہا ر کرنا جان سے ہاتھ دھونا ہے۔ حافظ علیہ الرحمتہ بھی یہ کہتے ہیں کہ: رموز مملکت خویش خسرواں دانند گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش بڑے بڑے مقدس ائمہ دین نے بھی یہی کیاہے کہ سلطانی اگرچہ اسلامی چیز نہیں ہے۔ لیکن بد کردار سلاطین کی بھی اطاعت لازمی ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نظم و نسق قائم تو رہتا ہے۔ سلاطین کے اخلاق کی وجہ سے ان کی اطاعت سے روگردانی کی جائے تو مسلسل فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتاہے خوشامدی دربارویں اور امرا نے بادشاہ کو ظل اللہ قرار دے کر دین کے معاملے میں بھی مجتہد اعظم بنا دیا۔ ایسی مطلق العنانی میں مسلمانوں کی حکومتوں میں تو کسی قسم کی جمہوریت کا تقاضا پیدانہ ہو سکتاتھا۔ البتہ مغرب میں جب زندگی میں حرکت پیدا ہوئی تو شاہی اور جاگیرداری اقتدار کے خلاف پہلے تاجروں اور سرمایہ داروں نے احتجاج شروعکیا۔ آغاز می عوام اس تقاضے میں بھی کہیں نہ تھے۔ انگلستان میں جو پارلیمانی حکومت کاآغاز ہوا وہ بھی جاگیرداروں اور بادشاہ کی کشمکش کا نتیجہ تھا۔ بادشاہی وہاں اس قدر قوی نہ تھی۔ کہ جاگیرداروں کی سرکوبی کر سکے۔ جاگیرداروں نے مل کر بادشاہ کو بے بس کر دیا اور شاہ جون کے حقوق کی وہ دستاویز حاصل کر لی جسے میگنا کارٹٓ کہتے ہیحں انگلستان کی پارلمنٹ یورپ میں قدیم ترین پارلیمنٹ ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے نظام اسی کی تقلید میں ظہور میں آئے اس لیے انگریزی پارلیمنٹ کو تمام مجالس متفقہ کے مقابلے میں ام المجالس کہا جاتا ہے۔ مگر ابتدا میں وہ جمہوریت نہ تھی۔ جو دور حاضر میں عام و خاص کا نصب العین ہے۔ یہ جاگیرداروں اور بادشاہوں کی مجلس شوریٰ تھی جو بادشاہ کے مقابلے میں اپنے حقوق کی حفاظت کرتے تھے۔ عوام کے نمائندوں کو اس میں شامل کرنے کا کوئی تصور یا تقاضا صدیوں میں ظاہر نہ ہوا۔ یورپ میں جاگیرداروں اور بادشاہوں کا زور تاجروں اور سرمایہ داروں نے توڑا۔ انگلستان میں بھی یہی ہوا اور صنعتی انقلاب کے بعد کارخانہ دار بے انتہا امیر ہو گئے۔ تو پارلیمنٹ کا اقتدار بڑھ گیا۔ بادشاہوں کوپہلے جاگیرداروں نے بے بس کر دیا تھا۔ اب تاجروں اور سرمایہ داروں نے جاگیر داروں کو محروم اقتدار کر دیا۔ انگلستان میں بادشاہ موجود رہا لیکن شاہ شطرنج بن کر اور دارالامر بھی قائم رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ قانون سازی میں وہ بے قوت ہوتا گیا‘ یہاں تک کہ جار ج پنجم کے زمانے میں دارالعلوم اور دارالعمراء کی کشاکش کا یہ نتیجہ ہوا کہ قانون سازی کے معاملے میں دارالعمراء کے اظہا ر خیا ل کا اڈا رہ گیا۔ مگر ابھی تک یہ دارالعوام نہ تھا۔ لیبر پارٹی کے غلبے سے بیشتر پارلیمنٹ میں جو نمائندے آتے تھے وہ زیادہ تر آبرور زرا اٹے تھے۔ میکڈونلڈ اور ایٹلے کی قسم کے مفلس اس میں بصد مشکل داخل ہو سکتے تھے۔ لیکنا قتدار میں شریک نہ تھے۔ یورپ میں دیگر ممالک میں جو پارلیمانی حکومتیں قائم ہوئیں ان کا بھی یہی حال ہوا کہ زیادہ تر ان میں سرمایہد اروں کی جنگ زرگری ہوتی تھی۔ امریکہ میں بھی جمہوری حکومت ہے۔ لیکن پریس اور دیگر اقسام کے پروپیگنڈے کے ذرائع سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہں۔ کروڑوں روپے کے فند پارٹی جمع ہوتے ہیں۔ امیدواروں کو منتکب کرنے اور ان کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کے وسائل جائز شمار ہوتے ہیں۔ لوگوں کے پاس معلومات پریس اور ریڈیو کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور ان پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مغربی جمہوریتوں کا عام طور پر یہی انداز ہے۔ محض علمی استعداد یا اخلاقی بلندی اور حق گوئی کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ میں گھسنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ جس پارٹی نے اپنے اغراض کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ اس پر بے چون و چرا دستخط کیے بغیر کوئی منفرد آزاد انسان خواہ وہ امور سلطنت کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو مجالس تواب کا عضو نہیں بن سکتا۔ لطیفہ یہ ہیکہ اس کے باوجود عوام اس سے خوش اور مطمئن ہیںَ کہ حکومت ہماری ہے۔ اور حکمرانوں کے انتخاب میں ایک خاکروب کا بھی ایک ووٹ ہے۔ اور منتخب ہونے والے صدر جمہوریہ کا بھی ایک ووٹ ہے۔ یہ سطحی مساوات ایسی کامیابی سے فریب دہی کرتی ہے کہ کسی کو اس پر بے حقیقتی کا شبہ نہیں ہوتا۔ ایسی جمہوریتوں کے خلاف سوشلسٹوں اور اشتراکیوں نے یہ غوغا بلند کیا کہ یہ سب عوام کو دھوکا دینے کے سامان ہیں اور عوام کی حقیقی بھلائی ایسی جمہوریتیں میں کبھی نہیں ہو سکتی۔ یہ سب بورژوا لوگوں کی حکومتیں ہیں اور ناکردہ کار قومی دولت کا جو محنت کشوں کی پیدا کردہ ہے۔ سب سے زیادہ حصہ لپیٹ لیتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر نے بھی اس نظام کو درہم برہم کر نے کی کوشش کی تاکہ آمریت ا س کی جگہ لے لے جس میں نیچے سے لے کر اوپر تک آمرون ہی کا ایک تدریجی سلسلہ ہو۔ مجلس شوریٰ بھی اس طرح بنائی جائے کہ ان آمروں کا کوئی مخالف اس میں منتخب نہ ہو سکے۔ اس کو فاشطی نظام کہتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر دونوں اس کے مدعی تھے کہ یہ بھی جمہوریت ہی ہے۔ اور جو دوسری قسم کی جمہوریتوں پر فائق ہے۔ فاشطی نظریہ نسلی اور قومی تھا۔ اس کے برخلاف روس کا اشتراکی نظام ہے جو نسلی اور قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہونے کا مدعی ہے۔ مگر انداز وہاں بھی آمرانہ ہے۔ تمام مملکت میں فقط ایک حکمران پارٹی ہے اس کا مخالف کسی پارٹی کا قیام ممنوع ہے۔ یہ پارٹی ایک پروگرام بناتی ہے اور جو شخص کامل اطاعت کا ثبوت نہ دے وہ کسی قسم کی ذہی اقتدار مجسل میں منتخب نہیں ہو سکتا۔ روس میں آزادی ضمیر ایک جرم ہے۔ آزادی گفتار بخون خویش باید دست شستن کے مترادف ہے۔ نقل و حرکت کی بھی آزادی نہں۔ کوئی شخص حکومت کی اجازت کے بغیرا یک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں جا سکتا۔ اور نہ اپنی مرضی سے اپنا پیشہ یا اپنا کام بدل سکتا ہے۔ ملک کے حدود سے باہرجانا ممنوع ہے۔ غرضیکہ نہ آزادی افکار ہے نہ آزادی گفتار نہ آزادی کار ہے اورنہ آزادی رفتار۔ غیر ممالک کے لوگ اس مملکت میں آزادی سے چل پھر نہیں سکتے اور کوئی شخص ڈر کے مارے ان سے اپنے دل کی بات نہیں کہ سکتا۔ کہ جو حکمران طبقے کے عقائد اور اغراض کے خلاف ہو۔ اس پر روس کا دعویٰ ہے کہ حقیقی جمہوریت فقط ہماری ہی مملکت میں پائی جاتی ہے۔ اس تمہید اور پس منظر کے بعد آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اقبال کیوں جمہوریت کا آرزومند بھی ہے اور اس کی تمام موجودہ صورتوں کا مخالف بھی۔ اس کے ذہن میں جمہوریت کا وہ نقشہ ہے جسے اسلام نے کچھ عرصے تک دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس جمہوریت میں حکمرانوں کا کوئی طبقہ نہ تھا ہر طرح کی آزادی ضمیر تھی۔ مملکت رفاہی تھی جس کے اندر عمر فاروقؓ جیسا جلیل القدر انسان راتوں کو گردش کر کے دیکھتاتھا کہ کہیں ظلم تو نہیں ہو رہا ہے یا کسی غریب کے گھر میں فاقہ تو نہیں ہے۔ اگر کوئی غریب گھرانا نان شبینہ کا محتاج دکھائی دیا تو بیت المال سے اپنی پیٹھ پر لاد کر سامان خورد و نوش معذرت کے ساتھ وہاں پہنچا دیا۔ اگر کسی امیر یا گورنر نے کسی ذمی پر بھی ذرہ بھر ظلم کیا تو عمرؓ کے درے اس پر برسر عام بر س گئے ۔ یہ تھی مساوات حقوق اور عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ اقبال کو یہ صورت کہیں نظر نہیں آئی تھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں۔ نہ ممالک اسلامیہ میں اورنہ فرنگ میں۔ وہ جمہوری نظام چاہتا تھا۔ جہان خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی اساسی ضروریات عام ہوں جہاں حکمران علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں خوشامد جبر یا زرپاشی سے عوام سے اپنے علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں خوشامد جبر یا زر پاشی سے عوام سے اپنے حق میں ووٹ کے طالب نہ ہوں۔ اگر یہ صورت نہیں تو حریت اور مساوات سب دھوکا ہی دھوکا ہے۔ سب ملوکیت اور امرائیت کی بھیس بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ اقبال نے اس جمہوریت کے خلاف جو کچھ کہاہے ا س کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتا ہے: سیاسیات حاضرہ می کند بند غلاماں سخت تر حریت می خواندہ او را بے بصر گرمی ہنگامہ جمہور دید پردہ بر روئے ملوکیت کشید سلطنت را جامع اقوام گفت کار خود را پختہ کرد و خام گفت در فضایش بال و پر نتواں کشود با کلیدش ہیچ در نتواں کشود گفت بامرغ قفس سے درد مند آشیاں در خانہ صیاد بند ہر کہ سازد آشیاں در دشت و مرغ او نباشد ایمن از شاین و چرغ از فسونش مرغ زیرک دانہ مست نالہ ہا اندر کلوے خود شکست حریت خواہی بہ پیچاکش میفت تشنہ میر و برنم تاکش میفت الحذر از گرمی گفتار او الحذر از حرف پہلو دار او چشم ہا از سرمہ اش بے نور تر بندہ مجبور ازو مجبور تر از شراب ساتگینش الحذر از قمار بد نشینش الحذر از خودی غافل نگردد مرد حر حفظ خود کن حب افیونش نخور خضر راہ جب مغلوب اقوام میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور وہ حکمران سے اقتدار میں حصہ طلب کرتے ہیں تو حکمران سب سے پہلے یہ چال چلتا ہے کہ بہت اچھا کہہ کر ایک مجلس آئین ساز بنا دیتا ہے۔ لیکن نمائندوں کے انتخاب کے قواعد ایسے بناتا ہے کہ اس میں حکومت کے پروردہ زمیندار یا سرمایہ دار لوگ ہی داخل ہو سکیں جن میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہو ا س طرح جمہوریت کا دھوکا بھی پیدا ہوتا ہے لیکن استبداد میں کوئی فرق نہیں آتا: آ بتائوں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز دیکھتی ہے حلقہ گردن میں سازدلبری ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو ایک زمانہ ایسا آی کہ غلط اندیش مشیروں کے مشورے سے علامہ اقبال بھی پنجاب کی مجلس مقننہ کی رکنیت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس خانہ نشین حکیم ملت اور ترجمان حقیقت کو گلی گلی کوچے کوچے ووٹ کی طلب میں پھرنا پڑا۔ مخالفوں نے اس پرکیچڑ اچھالا طرح طرح کے الزامات تراشے اور ایسی ایسی لغو باتیں کہیں جو ناگفتہ بہ ہیں۔ عوام و خاص کی زیادہ تعداد اقبال کی دلدادہ تھی اس لیے وہ منتخب تو ہو گئے لیکن اور امیدواروں سے بہت کم سہی پھر بھی کوچہ رسائی میں سے گزرنا پڑا اور ان کی خودداری کو بہت ٹھیس لگی۔ اسمبلی کے سب نمائندے کسی نہ کسی پارٹی میں تھے اور پارٹی کے ہاتھوں میں اپنا دل و دماغ اور ضمیر بیچ چکے تھے۔ اقبال جیسا شخص بھلا کسی ایسی پارٹی میں کیسے شرکت کر سکتا ہے۔ مجلس قانون ساز میں انہوںنے اچھی اچھی تجویزیں پیش کیں کچھ منظور ہوئیں اور کچھ نامنظور لیکن بہرحال میدان اس صاحب عرفان اور خلوص کیش مرد حکیم کی جولاں گاہ نہ تھا۔ آخر بیزار ہو کر اور تلخ تجربہ اٹھا کر پرھ اس ابلیسانہ سیاست کی طرف رخ نہ کیا۔ میں نے ان دنوںمیں یہ عرض کیا کہ جناب تو ا ن مجلسوں کو حکومت کی دھوکا بازی اور سرمایہ داروں کے اڈے کہتے تھے پھر آپ کو کیا ہوا کہ ایسے خبائث کے مقام میں جا داخل ہوئے فرمایا کہ میں اس غرض سے گیا تھا کہ شاید وہاں کھڑا ہو کر حق گوئی سے اس خبائث کو کچھ کم کر سکوں اور اس اڈے والوں کو کسی قدر جھنجھوڑوں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام علامہ اقبال کے منصب کے خلاف اور خدا کی طرف سے ان کے مخصوص وظیفہ حیات کے منافی تھا۔ خیر کردے وگذشتے: ایں ہم اندر عاشقی بالاے غم ہاے دگر اوپر بیان ہو چکا ہے کہ مغربی جمہوریت اور مساوات کے مدعیوں نے محنت کشوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اور محنت کشوں کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ان کی اپن متحد انہ جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے ورنہ ملوکیت کا پردہ دار یہ خود غرض جمہوری نظام تو ان کے لیے نان شبینہ کا کفیل بننے کے للے بھی آمادہ نہ تھا۔ خدا نے فرشتوں کو جو پیغام مزدوروں کی خودداری کو ابھارنے کے لیے دیا اور خضر نے جو پیغام شاعر اسلام کو دیا اس کا مضمون ایک ہی ہے۔ مگر طرز بیان میں ذرا فرق ہے ۔حضور فرماتے ہیں کہ اس مغربی جمہوری اور اس کے ساتھ وابستہ تہذیب نے اخوت و مساوات کو انسانی کو ترقی دینے میں کچھ بھی نہیں کیا۔ انقلاب فرانس کا نعرہ‘ آزادی برادری اور برابری‘ سرمایہ داروں نے اور ملوکیت کے حامیوں نے اپنے اغراض کے لیے بلند کیا۔ محنت کش اس دھوکے میں آ گئے کہ یہ تصورات ان کی بپتا کو رفع کریں گے۔ یہ جمہوریت نہ نسلی تعصب مٹا سکی اورنہ قومیت کے تنگ دائرے سے نکال کر انسان کو عالم گیر اخوت کی طرف لا سکی۔ کلیسا کی ابلہ فریبی جوں کی توں قائم رہی ۔ سفید اقوام کے تفوق کا باطل عقیدہ نہ مٹ سکا۔ خود مغربی اقوام کے اندر طبقاتی تفرقی بحال رہی۔ بھلا ایسی جمہوریت کی نقالی کر کے مشرق کو کیا حاصل ہو گا سوا اس کے کہ جاگیرداروں بڑے زمینداروں اور سرمایہ داروں کے طبقے سلطانی جمہور کے پردے میں اپنے اغراض کو مستحکم کریں۔ مشرق نے جہاں کہیں بھی اس طرز حکومت کی نقل کی ہے وہاں کی مجالس آئین ساز کا یہی حال ہے کہ ناکرہ کار زمین کے مالک اور دولت والے گروہوں کے سوا کوء طبقہ یا کوئی فرد حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور نہ کسی ایسے آئین کی تجویز تائید حاصل کر سکتی ہے۔ جس سے ان گروہوں کے اقتدار پر زد پڑتی ہو۔ اشتراکی مذہب کو غربا کے لیے افیون کہتے تھے ۔ اقبال کہتاہے کہ یہ مغربی جمہوریت بھی محتاجوں کے لیے مسکرات ہی کا کام کرتی ہے: اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات نسل قومیت کلیسا سلطنت تہذیب رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات کٹ مرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات مغربی جمہوریت کے ساتھ ساتھ معصبانہ قوم پرستی بھی ترقی کر تی گئی۔ حکمت و صناعی اور تجارت نے ایک قوم کو دوسری اقوام سے قوی تر کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور صناعی اورتجارت میں بھی ایک طرح کی قزاقی ہو کر رہ گئی۔ حکیم المانوی نطشہ نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں سمندروں میں بحری ڈاکو پھرتے تھے جو مال تجارت لے جانے والے جہازوں پر چھاپا مارتے تھے اور جدید تمدن نے جو ملک التجا ر پیداکیے ہیں یہ وہی بھیس بدلے ہوئے ڈاکو ہی ہیں مغربی جمہوریتوں میں یہ ہلاکت انگیز تصادم جس نے دو عظیم جنگوں میں اس تمدن کو متزلزل کر دیا ہے۔ اسی ہوس کا نتیجہ ہے جو اس کے خمیر میں پنہاں تھی۔ اس حکمت نے بعض انسانوں کو سائنس اور صنعت سے ابلیسانہ قوت بخش کر نوع انسا ن کا شکاری بنادیا۔ یہ صناعی محض جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ جو نظر کو خیرہ کرتی مگر قلب کو تاریک بنا دیتی ہے: وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کارزاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے سوال یہ ہے کہ اس مرد فریب جمہوریت کا طلسم مغرب میں جوں کا توں قائم ہے یا کہیں یہ طلسم ٹوٹا بھی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ جمہوریت بھی مغرب کے سیاسی اور معاشرتی ارتقا کی ایک منزل تھی۔ اس کی تعمیر میں خرابی کی ایسی صورتیں تھیں کہ وہ تادیر ایک حالت میں قائم نہ رہ سکتی تھی۔ اپنے ارتقاء میں مغربی جمہوریتیں کہیں آگے بڑھیں اور بہت سی خرابیوں کو پھر رفع کرتی گئیںَ اور کہیں ان کے خلاف رد عمل ہوا گردش ایام کاپہیا الٹا پھر گیا۔ ہٹکر کی نازیت اور مسولینی کی فاشطیط نے نسلی حقوق اور قومیت کے جذبے کو ابھارکر اخوت اور مساوا ت کواز روے عقیدہ بھی ٹھکرا دیا اور جمہوریت نے آمریت کی صورت اختیار کر لی۔ جس نے تھوڑے عرصے تک قوم کو خوب ابھارا اور چمکایا۔ لیکن چونکہ عقیدہ باطل تھا اس لیے انجام کار اس نے یار و اغیار سب کو تباہ کر کے چھوڑا۔ روس نے بھی مغربی جمہوریت کے خلاف بغاوت کی اور محنت کشوں کی حمایت میں ایک آمرانہ نظام قائم کیا۔ اس نے بہت سے بت توڑے لیکن انسانوں کی آزادی کو سلب کرنے اور مادیت کو دین بنانے کی وجہ سے وہ خود ایک مردم خور دیوتا بن گئی۔ گو لاکھ دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور اقبال نے جابجا اشتراکی انقلاب کی ایجابی پہلو کی داد دی ہے اور اسے ارتقائے انسانی کا ایک اقدام قرار دیا ہے۔ اقبال کوافسوس ہے کہ اشتراکیت نے خورش پوشش اور رہائش کے مساویانہ نظم و نسق کو مقصود حیات قرار دیا اور انسانیت و الوہیت کے رموز سے بے گانہ رہ۔ مغربی جمہوریت کے خلاف یہ رد عمل ادھورا رہ گیا ۔ اشتراکیت نے اگر روحانیت کے تمام راستے روک دیے تو یہ بھی نوع انسان کے آخت بن جائے گی۔ بہرحال جو معاشی انقلاب اس کی بدولت ہوا وہ قابل ستائش ہے۔ اور اقبال کے نزدیک اسنان کی مزید ترقی کے راستے سے اس کی بدولت بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ اقبال اس سے بہت خوش نظر آتا ہے۔ کہ محنت کشوں نے شاہی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور کلیسا کے استبداد پر بھی ضرب کاری لگائی۔ اشتراکی کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت ادھوری تھی ہم نے اس کو کمال تک پہنچایا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ تمہاری جمہوریت بھی انسانیت کے امتیازی جوہر کو اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے حاضر پرستی اور مادہ پرستی کے سبب ابھی ادھوری ہی ہے۔ جو کچھ تم کر چکے ہو وہ خوب ہے لیکن اب اس سے آگے بڑھو: افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت یوسفی را ز اسیری بہ عزیی بردند ہمہ افسانہ و افسوں زلیخائی رفت راز ہائے کہ نہاں بود بیازار افتاد آں سخن سازی و آن انجمن آرائی رفت چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پے تعمیر جہان دگر است مغربی جمہوریت نے اپنے بعض عیوب کو رفتہ رفتہ رفع کرکے ارتقا کی طرف جو صحیح قدم اٹھائے ہیں اس کا نمونہ انگریزوں کی موجودہ جمہوریت میں ملتا ہے انگریزوں کی قوم ہمیشہ سے یہ غیر معمولی صلاحیت رہی ہے کہ جو انقلاب کہیں دیگر اقوام میں بڑے ظلم و تشدد سے پیدا ہوتا ہے اور انقلاب کے بعد بھی نتائج حسب توقع نہیں نکلتے وہی انقلاب اعتدال اور خوش اسلوبی کے ساتھ انگریز اپنی سلامت روی سے پیدا کر لیتے ہیں۔ انقلاب فرانس سے فرانس کی سیاسی او ر معاشی زندگی کو اس قدر فائدہ نہ پہنچا جتنا کہ انگریزوں کو جنہوں نے نپولین کو شکست دے کر وہ تمام باتیں اپنے آئین میں داخل کر لیں جن کے لیے عوام دوسری جگہ ہیجان اور تشدد پیدا کر رہے تھے۔ روسی اشتراکی انقلاب کا اثر بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ شرق و غرب کے ہرملک پر پڑا ہے اور اس نے ہر ملک کو اس نئی روشنی میں اور نئے تقاضوں کے مطابق سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ فائدہ انگریزوں نے اٹھایا ہے۔ جنگ کے بعدیہاں بھی محنت کشوں کی حکومت قائم ہو گئی ہے لیکن بغیر اس کے کہ سرمایہ داروں کے خون کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے ۔ انگلستان میں قدیم انداز کی امیری اب ختم ہے ارو جنہیں امیر کہہ سکیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے ارو یہ سب کچھ اس انداز سے ہوا ہے کہ افراد کے بنیادی حقوق برقرار رہے ہیں۔ آزادی ضمیر بدستور قائم ہے کسی کو جبر مذموم کی شکایت نہیں اور مملکت افراد کی بنیادی ضرورتوں کی کفیل ہو گئی ہے۔ جمہوریت کا یہ انداز اس تصور کے قریب پہنچ گیا ہے۔ جو اقبال کے ذہن میں تھا۔ اور جو اس کے نزدیک مقصود اسلام تھا۔ اقبال کو مغربی جمہوریت پر جو اعتراض تھا اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ جمہوریت ملوکیت کی حامی ہے اور اس کو قوت پہنچاتی ہے۔ اس معاملے می بھی انیسویں صدی کی سب سے بڑی علمبردار ملوکیت انگریزوں کی قوم نے غیر اقوام پر استعماری حکمرانی سے دست برداری شروع کی اور ہندوستان جیسی وسیع سلطنت کو اپنی بلیغ حکمت عملی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کی بدولت چھوڑ دیا۔ فرانسیسیوں جیسے سیاسی احمقوں نے جنہوںنے سب سے پہلے یورپ میں آزادی برابری اور برادری کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک نہ انگریزوں سے کچھ سبق حاصل کیا اور نہ زمانے کی بدلتی ہوئی روشنی سے۔ وہ ابھی تک اپنی ملوکیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا اور دوسروں کا خون بہا رہے ہیں۔ بہرحال حقیقت یہ ہے کہ دین کی طرح جمہوریت بھی ایک نصب العین ہے۔ کامل جمہوریت ابھی کہیں بھی نہیں تھوڑا بہت ذوق ملوکیت ابھی انگریزوں میں بھی باقی ہے۔ انگریزوں کے بعد زیادہ کامیب جمہوریت امریکہ کے ممالک متحدہ میں نظر آتی ہے۔ لیکن وہاں بھی کالے اور گورے کا فرق ابھی معاشرت کے اندر ایک مسموم مادے کی طرح باقی ہے۔ امریکہ کے مصلحین اور روشن ضمیر لوگ بتدریج مساوات میں کوشاں ہیں تاہم ابھی اس کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب کہ وہاں کے حبشیوں کو صرف قانوناً نہیں بلکہ عملاً بھ مساوات حاصل ہوجائے۔ علامہ اقبال مغربی جمہوریت کے اس طریق کار کے مخالف تھے جس کی وجہ سے قوم کے صالح اور عاق افرا د مجالس آئین ساز میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بعض مشرقی ممالک نے مغربی طریق انتخاب اعضائے مجلس کا ڈھانچا تقلید میں اختیار کر لیا ہے یا ان کے گزشتہ فرنگی حکمرا ن مصلحتاً اس کو رائج کر گئے ہیں۔ اس میں یہ عجیب و غریب نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و فضل والے اہل الرائے لوگ منتخب نہیں ہو سکتے۔ ووٹ ایسے جاہل زمینداروں کو ملتے ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ کسی شخص کو نہ تو اس کے علم کی بنا پر نہ موجودہ سیاست و معیشت کے فہم کی بنا پر اور نہ اس کے اخلاق حسنہ کی بنا پر منتخب کر کے واضح قوانین بنالیا جاتا ہے بلکہ کہیں ووٹ برادری کی بدولت ملتے ہیں کہین زمینداری اور سرمایہ داری کی بدولت اور کہیں کہیں عوام کی ابلہ فریبی اور بے خلوص خطابت سے بھی مطلب حاصل ہوتا ہے۔ غرضیکہ نہ علم نہ سیرت نہ معاملہ فہمی یا زور زمین سے حکمرانی میں حصہ ملتا ہے۔ یا نہایت ذلیل دروغ بافی او جذبا ت انگیزی سے۔ اسی جمہوریت کے متعلق علامہ فرماتے ہیں کہ اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور تولا نہیں جاتا اوراس قسم کے دو سو گدھے بھی اگر ایک ایوان میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کے لیے جمع ہوج ائیں تو کوئی انسانیت کی آواز تو وہاں سے سنائی نہیں دے سکتی: متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی؟ ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید فکر صالح رکھنے والا ہر شخص سوچتاہے کہ اگر مغرب کا یہ طر ز جمہوری ناقص ہے تو اس کا بدل کس طرح پیدا کیا جائے۔ مغرب تو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا جو بھی بدل ہو گا وہ اس سے ناقص تر اورا س سے زیادہ خطرات سے لبریز ہو گا۔ لہذا اسی ملسسل اصلاح کی جائے تاکہ یہ عیوب سے پاک ہو جائے اور تمام رعایا کے بنیادی حقوق کی حفاظت کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انتظام ہو سکے۔ اس جمہوریت سے مایوسی اور کامل بیزاری نے مغرب میں یا مسولینی اور ہٹلر پیدا کیے یا روسی اشتراکیت۔ اقبال نے ان سب کو نا قص سمجھا اور اپنے ذہن میں اسلامی جمہوریت کا ایک تصور جماتے رہے جس کی عملاًمعین صورت اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آ ئی۔ کوئی قابل عمل جدید اسلامی نظام کا خاکہ پیش کرنے کی بجائے اب وہ کہتے ہیں کہ اس طرز جمہوری سے گھاگ کر کسی پختہ کار کی غلامی اختیار کر لو۔ اس پختہ کار سے ان کی مراد کوئی عاقل و مجاہد درویش منش مرد مومن ہے۔ ایسا مرد کامل ملت اسلامیہ میں تو کہیں نظر نہیں آتا تو پھر کیا کیاجائے۔ سوائے اس کے کہ انتظارکریں: مردے از غیب بروں آید و کارے بکند اقبال ہی کا نظریہ ہے کہ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد اگر کوئی کلیم پیدا بھی ہوا تو اس کے پاس عصا کہاں سے آئے گا۔ عصا تو اب فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اور فوجی قوت سے جو عصا دار پیدا ہوتے ہیں وہ کلیم نہیں ہوتے۔ وہ یا ہٹلر ہوتے ہیں یا مسولینی یا مصطفی کمال یا رضا شاہ پہلوی یا نجیب وناصر یا سوریا میں یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والے ایک اور دوسرے کی گردن مارنے والے آمر۔ ایسوں سے بھی اقبال راضی نہیں ہو سکتا: نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی اب عمر فاروقؓ کہاں سے آئیں گے ارو اگر اس سیر ت کا انسان پیدا بھی ہو تو اس کو وہ قوت کہاں نصیب ہو گی جو صحبت رسول صلعم اور زندہ اسلام کی بدولت اس کو حاصل تھی۔ اقبال کے ذہن میں ابوبکر و عمرؓ کی خلافت کی ابتدائی جمہوریت ہے۔ وہ کچھ اسی قسم کی چیز چاہتا ہے۔ لیکن کیا عصر حاضر میں اس کا اعادہ ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ معلو م نہیں ہوتا کہ وہ جمہوریت سے گریز کر کے ڈکٹیٹروں کی تلاش نہ کریں بلکہ عقل و ہمت اور ایثار سے اسی جمہوری نظام میں رفتہ رفتہ ایسی اصلاحات کریں کہ اس کی خوبیوں کا پلڑااس کے نقائص کے مقالبے میں بھاری ہو جائے۔ انگریزوں نے اپنی جمہوریت میں بتدریج بہت کچھ اسلامی انداز پیدا کر لیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایسا بلکہ اس سے بہتر انداز پیدا نہ کر سکیں؟ روح اسلام میں بہترین جمہوریت کے عناصر موجود ہیں اور بقول اقبال ان کو خاص اداروں میں مجمسم ہونے کی تلاش ہے آخر تمام رعایا کے لیے مساوات حقوق کا سبق اسلام ہی نے تو پڑھایا تھا اور اس پر عمل بھی کر کے دکھایا تھا۔ اسلام ہی نے ریپبلک کو اپنی دینی تعلیم کا لازمی رکن قرار دیا تھا۔ اسلام ہی نے یہ تعلیم دی تھ کہ حکومت مشورت سے ہونی چاہیے۔ اسلامی ہی نے یہ نمونہ پیش کیا تھا کہ امیر المومنین کو رعیت کا معمولی فرد عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضر کر ا سکتا تھا۔ آزادی ضمیر کا اعلان سب سے پہلے اسلام ہی نے کیا تھا۔ اسلام ہی نے سب سے پہلے رفاحی مملکت قائم کی تھی۔ جس کا کام صرف حفاظت مملکت اور نظم و نسق ہی نہ تھا بلکہ رعایا کی بنیادی ضڑورتوں کا پورا کرنا بھی اس کے فرائض میں داخل تھا۔ اس جمہوریت میں رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہ تھی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی۔ ہر شخص دین کے معاملے میں اور طرز بود و باش میں آزاد تھا۔ اسلام ہی نے معاشیات میں یہ تعلیم دی تھی کہ قومی دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہوجانے کی وجہ سے اسلام کا یہ پروگرام بہت کچھ درہم برہم ہو گیا ہے۔ اسلامی معاشرت اور اس کے نصب العین کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے جن اداروں اور جن روایات کی ضرورت تھی۔ وہ قائم اور مستحکم نہ ہو سکیں۔ لیکن قرآن اور اسلام کی تعلیم موجود ہے اور ملت اسلامیہ کا احیا اسی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے جمہوریت حریت اخوت اور مساوات کا سبق حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دوسروں نے جس حد تک اسلام پر عمل کر کے سیاسی او رمعاشی زندگی کو درست کیا ہے اور صدیوں کے تجربے سے جو ادارے قائم کیے ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور خذما صفا و دع ماکدر پر عمل کرنا مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ اسلام کسی ایک ملت کے ساتھ وابستہ نہیں وہ کچھ اصول حیات کا نام ہے۔ جس نے بھی ان کو اپنایا ہے اس نے انسانیت کی خدمت کی۔ روح اسلام نے کئی قالب دوسری ملتوں میں بھی اختیار کیے ہیں جہاں کہیں وہ نظر آئیں وہ اسلام ہی ہیں۔ روح اسلام اب ملت اسلامیہ میں کیا قالب اختیار کرے گی اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ لیکن روح اسلام میں بہترین قسم کی سوشلزم موجود ہے۔ اگر اسلام کو تنگ نظر فقہیوں کے جمود اور ان کی رجعت پسندی سے نجات حاصل ہوجائے اور مسلمان صورت پرستی کی بجائے روح پروری پر آمادہ ہوجائیں تو پھر دنیا کے سامنے انگریزوں اور امریکیوں کے نظام کم قیمت دکھائی دیں ۔ لیکن جہاں حامیان دین کو باہمی تکفیر سے فرصت نہیں اور جہاں اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے وہاں حیات نو کہاں سے پیدا ہو گی زانکہ ملا مومن کافر گراست: دین کافر‘ فکر و تدبیر و جہاد دین ملا فی سبیل اللہ فساد لیکن مومن کو مایو س نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اسلام زندہ جاوید ہے توا س پر عمل کرنے والے بھی دنیا میں ہمیشہ موجو د رہیں گے۔ ہم نہ سہی کوئی اور سہی۔ گلشن راز جدید میںبھی سوال (۷) کے جواب میں فرنگ کی جمہوریت پر کچھ اشعار کہے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ عوام کو عالم محسوسا ت کا گرویدہ بنا کر اور اضافہ فرض سے ان کو حقوق طلب بنا کر فرنگ کی سیاست اور معاشرت نے انسانیت کی باگ جو مادہ پرست جمہور کے ہاتھ میں دے دی ہے اس سے نوع انسان کو کسی خیرکی امید نہ رکھنا چاہیے۔ جب تک زندگی کے متعلق انسانوں کا زاویہ نگاہ درست نہ ہو اور ان کے قلوب اخوب و محبت سے لبریز نہ ہوں۔ تب تک جمہورکی سلطانی ایک دیو بے زنجیر کی تباہ کاری ہے: فرنگ آئین جمہوری نہاد است رسن از گردن دیوے کشاد است چو رہزن کاروانے در تگ و تاز شکم ہا بہر نانے در تگ و تاز گروہے را گروہے در کمین است خدایش یار اگر کارش چنین است ز من وہ اہل مغرب را پیامے کہ جمہور است تیغ بے نیامے چہ شمشیرے کہ جاں ہا می ستاند تمیز مسلم و کافر نداند ٭٭٭ دسواں باب عقل پر اقبال کی تنقید زندگی کے متعلق اقبال کا زاویہ نگاہ جیسے جیسے معین اور پختہ ہوتا گیا ویسے ویسے وہ عقل استدلالی کا نفاذ بنتا گیا۔ اقبال فلسفی بھی ہے اور شاعر بھ اور وہ نادر چیز بھی اپنے سینے میں رکھتا ہے جسے دل کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ شاعر بنانے سے نہیں بنتا جب تک کسی کو فطرت کی طرف سے یہ ملکہ عطا نہ ہو۔ وہ کوشش سے صناع قافیہ پیما اور ناظم تو بن سکتا ہے لیکن شاعرنہیں بن سکتا۔ فطرت کی طرف سے اگر کسی کو یہ جوہر عطا کیا گیا ہے تو مشق اور اصول فن سے اس میں جلا پیداہوتی ہے لیکن ہیرا اگر مبدا فیاض نے نہیں بنایا ت ومحنت اور تراش و خراش سے وہ شعاعوں کا منبع نہیں بن سکتا۔ شاعری میں اقبال کسی کا شاگردنہیں ہے۔ مرزاداغ کو مراستل میں دو چار طالب علمانہ غزلیں بغرض اصلاح بھیجنے سے کوئی خاص تلمذ قابل ذکر پیدا نہیں ہوتا۔ شاگردی کی درخواست کرنے والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ شاعری ایک بے پیرا فن ہے مطلب یہ تھا کہ شاگردی اس میں خدا کی ہی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے شاعر کو تلمیذ الرحمن کہا گیا ہے اور شاعری کو جزو پیغمبری قرار دیا گیا ہے۔ شاعری اقبال کو مبداً فیاض سے عطا ہوئی۔ لیکن فلسفے کی تعلیم اس نے اساتذہ سے حاصل کی گورنمنٹ کالج لاہور میں آرنلڈ جیسے جید فلسفی سے فیض حاصل کیا۔ درسیات کے علاوہ اقبال کا شرق و غرب کے فلسفوں کا مطالعہ نہایت وسیع تھا فلسفیانہ ذوق بھی اقبال میں فطری تھا۔ اقبال کو یگانہ روزگار وجہ کمال اسی دو گونہ عطیہ فطری نے بنایا۔ اس کی شاعری کا بڑا حصہ فلسفیانہ شاعری ہے۔ جہاں کہیں دماغ دل کی تائید کرتا ہے اور کہیں دونوں حریف نظر آتے ہیں۔ اقبال آخر تک اسی کش مکش میں مبتلا رہا کہ کبھی عقل سے اسرار حیات کی گرہ کشائی کرنے میں کوشاںہے اور کہیں اس سے بیزار و مایوس ہو کر عشق و وجدان کی طرف گریز کرتا ہے: اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کچھ پیچ و تاب رازی عمر بھر کر اس پیکار کے انجام میں اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مصاف عقل و دل میں جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی لیکن اقبال کی رفتار افکار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھاڑیں کھا کر بھی رازی بار بار زور آزمائی کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کی توجیہ نثر میں اقبال نے منظم طور پر صرف اپنے مدراس والے انگریزی خطبات میں کی ہے اور وہاں پیشہ ور فلسفی کی طرح فلسفیانہ استدلال کا تانا بانا بنا ہے۔ جس کا اہم حصہ غیر فلسفی کے لیے جہاں فہم بھی نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ آخر تک اقبال کی وہی کیفیت ہے کہ : طور ہوں یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں شاعری کا سرچشمہ وجدانات‘ تاثرات اور جذبات ہیں۔ ا چھی شاعری فلسفیانہ استدلال سے پید ا نہیں ہوتی محض علم کے زور پر جو شاعری کی جاتی ہے اور نہ دل نشین شعر۔ اقبال کو فطرت نے اگرچہ شاعر بھی بنایا تھا اور مفکر بھی لیکن اس کی طبیعت میں شعریت کو تفلسف پر غلبہ حاصل تھا۔ بعض نظموں اور بعض اشعار میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارضی طور پر فلسفہ شعر پر غالب آ گیا ہے لیکن شاعر اقبال بہت جلد شعریت کی طرف عود کر آتا ہے کیوں کہ اس کی طبیعت کا اصل جوہر شعریت ہی ہے۔ کل شی یرجع الی اصلہ۔ فلسفے اور شاعری کے باہمی تعلق میںایک تضاد ہے ۔ کہین باہمی تعاون ہے اور کہیں باہمی تخالف ۔ ان من الشعر حکمتہ وان من البیان سحرا میں اس حقیقت کا اظہار ہے۔ کہ اچھا شعر حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر استدلال سے شعر کی آفرینش نہ بھی ہوئی ہو تو بھی اس میں سے حکمت اخذ کر سکتے ہیں۔ لیکن خشک فلسفہ اور استدلال اگر شعریت پر غالب آ جائے تو شعر کو شاعری کے پائے سے گرا دیتا ہے۔ فلسفے کے متعلق ایک عربی نقاد کا قول کس قدر صحیح ہے کہ فلسفے کی حیثیت کھاد کی سی ہے۔ علو م ہوں یا اشعار اگر ان میں فلسفے کی ایک مناسب مقدار میں آمیزش ہوت تو ان کے نشوونما میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن خالی استدلالی فلسفہ محض کھاد ہی کھاد ہے جس کی کثافت میں ہر کوئی جوہر لطیف مضمر ہے تو وہ محسوس و ظہور پذیر نہیں۔ اقبال نے کالج کی طالب علمی کے زمانے میں شاعری شروع کی اور اسی زمانے میں وہ فلسفے کی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ کچھ اپنی فطرت کے تقاضے سے اور کچھ تعلیم کی بدولت یہ لازمی تھا کہ ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں فکر اور تصرو کا دل کش امتزاج پایا جائے۔ اردو کے شعرا میں اقبال نے غالاب اور داغ دونوں کی مدح سرائی کی ہے۔ داغ کو ہوس کی شاعری میں استاد ماؤنا ہے اگرچہ استاد کے احترام کی وجہ سے ہو س کی بجائے عشق کا لفظ استعمال کیا ہے: ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون اٹھ گیا ناوک فگن مارے کا دل پر تیر کون داغ کے ہاں لفظ آوارہ مجنونے رسوا سر بازارے‘ عشاق اور بازاری ہرجائی معشوقوں کے وصل اور رقابت کی تصویر کشی ہے۔ لیکن غالب کے ہاں اقبال کی طرح فلسفی بھی ہے اور شاعر بھی۔ اس لیے اقبال دل سے غالب ہی کا ستائش گر ہے۔ جسے وہ جرمنی کے مفکر شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیتا ہے اور غالب کی خصوصیت بھی اقبال کے ہاں یہی ہے کہ اس کے کلام میں تصور اور فکر کی آمیزش ہے اور اعری حکمت سے ہم آغوش معلوم ہوتی ہے: آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے لطف گویاء میں تیری ہمسری ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکرکامل ہم نشیں آخری زمانے کے فارسی کلام میں بھی اقبال نے غالب کے فلسفیانہ اشعار کی توضیح میں لطیف نکتے پیدا کیے ہیں اور اسے مشرق اور مغرب کے اکابر شعراکے دوش بدوش کھڑا کیا ہے: شاعری کے اندر فلسفہ سنائی اور عطار میں بھی ہے اور رومی و جامی میں بھی۔ عرفی اور فیضی بھی حکمت پسند شعر اہیں۔ فیضی اپنے حکیم ہونے کو شاعر ہونے سے افضل سمجھتا ہے۔ چنانچہ نل دمن کی تمہید میںفخریہ لکھتاہے: امروز نہ شاعرم حکیمم دانندہ حادث و قدیم بانگ درا کے مجموعے میں بڑی کثرت سے فلسفیانہ اشعار ملتے ہیں۔ اقبال کی طبیعت تصور ور تفکر کے درمیان رقص کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی میزان طبیعت کے دو پلڑو میں ایک طرف فلسفہ ہے اور دوسری طرف شاعری۔ کبھی یہ پلڑا جھک جاتا ہے اورکبھی وہ۔ دل کا وجدان اور بلند پایہ عشق کا میلان جا بجا ابھرتا ہے لیکن عقل اس پر مخالفانہ تنقید کا زور شور نظر نہیںآتا جو بعد کے فارسی کلام اور اردو کلام میں دکھائی دیتا ہے۔ عقل و دل پر ایک نہایت صاف اور سلیس نظم ہے جس میں ڈونوں کا مقام بتایا گیا ہے۔ اس نظم کا حوالہ پہلے ایک اور ضمن میں کتاب میں آ چکا ہے۔ عقل نے اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بھولے بھٹکوں کی رہنما ہوں میں زمین پر ہوتے ہوئے فلک پیما بھی ہوں میں شان کبریا کی مظہر اور کتاب ہستی کی مفسر ہوں۔ دل نے کہا کہ یہ سب دعوے درست ہیں لیکن دانش اور بینش میں فرق ہے عین الیقین علم الیقین سے افضل ہے۔ تیرا کام مظاہر میں علت و معلول کے رشتے تلاش کرنا او رمظاہر کی کثرت کو آئین کی وحدت میں پرونا ہے لیکن میں براہ راست باطن ہستی سے آشنا ہوں۔ تو خدا ہو ہے میں خدا نما ہوں۔ رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست اس کی وجہ سے تو مضطرب ہی رہتی ہے تیری بیتابی کا علاج فقط میرے پاس ہے۔ تو صداقت تلاش کرتی ہے وار میں کائنات کے حسن ظاہر و باطن کی محفل کا چراغ ہوں۔ تو محسوسات کے دائرے سے نہیں نکلتی جو زمان و مکاں سے رشتہ بپا ہیں اور میرا ادراک ان حقائق کا ہے جو نہ زمانی ہیں اور نہ مکانی میں رب جلیل کا عرش ہوں میرے مقام کی تو کہاں پہنچ سکتی ہے۔ اس نظم میں عقل کی نہ کوئی تنقیض ہے اورنہ اس کی کوتاہی اور حقیقت رسی پر وہ برہمی جواقبا کے بعد کے کلام میں آتی ہے عقل و دل کے اس مکالمے میں اعتدال صلح مندی اور توازن ے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے کے مقالبے میں سینکڑوں اشعار لکھ ڈالے اور دل نوا ز نکتے پیدا کیے ہیں لیکن ا ن سب کا لب لباب در حقیقت وہی ہے جو اس سادہ سی نظم میں آ گیا ہے۔ بانگ درا کی بعض نظموں سے اس کا پتا چلتا ہے کہ اقبال اس دور میں بھی ابھی تک زندگی کے متعلق مقام حیرت میں ہے۔ وہ سراپا استفسار معلوم ہوتا ہے وہ زندگی کے عقدوں کو کبھی سوچ بچار سے حل کرنا چاہتا ہے ۔ اور کبھی دل کے وجدان سے اسرار حیات کی گرہ کشائی میں کوشاں ہے۔ اس کا نقش وجود مصور ازلی کی شوخی تحریر کا فریادی معلوم ہوتا ہے۔ وہ حیرت زدہ ہے مگر ابھی تک عقل کی حقیقت رسی سے مایوس نہیں۔ انسان کے عنوان سے جو نظ لکھی ہے وہ حقیقت میں اس کی اپنی کیفیت کا اظہار ہے: قدرت کا عجیب یہ ستم ہے! انسان کو راز جو بنایا راز اس کی نگاہ سے چھپایا بیتاب ہے ذوق آگہی کا کھاتا نہیں بھید زندگی کا حیرت آغاز و انتہا ہے آئینے کے گھر میں اور کیا ہے؟ جس طرح بعد میں اقبال نے عقل کو عشق کاغلام بنایا ہے اس دور میں وہ عقل کو حسن کا غلام سمجھتا ہے۔ لیکن جس حسن مجازی اور حسن حقیقی کی طرف اس کا دل کھنچتا ہے اس کے حقیقی وجود کی نسبت ابھی تک اس کے دل میں یقین پیدا نہیں ہوا۔ تشکیک اور تذبذب بڑی بے تابی کے ساتھ نمایاں ہیں: جلوہ حسن کہ ہے جس سے تمنا بیتاب پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے ایک افسانہ رنگیں ہے جوانی جس سے جو سکھاتا ہے ہمیں سر بگربیاں ہونا منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا دور ہوجاتی ہے ادراک کی خامی جس سے عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے آہ موجود ابھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟ خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟ جب خاک و افلاک سے کوئی جواب نہیں ملتا اور زندہ انسانوں میں سے کوئی اسرار حیت کی گرہ کشائی نہیں کرتا تو قبرستان سے جا کر پوچھتا ہے کہ شاید کیفیت ماورائے حیات سے آشنا ہو کر موت کے ذریعے زندگی کا عقدہ کھل جائے۔ خفتگان خاک سے نہایت دلچسپ سوالات کیے ہیں جن میں اس زندگی کی کش مکش بیتابی اور ناردسائی کا اندوہ انگیز نقشہ ہے پوچھتا ہے کہ وہاں کچھ اطمینان ہے یا کہ یہیں کا ساپیچ و تاب ہے۔ خدا نہ کرے وہاں بھی یہا ں کی سی الجھنیں اور کھکھیڑیں ہوں بقول غالب: زاں نمی ترسم کہ گردد قعر دوزخ جاے من واے گر باشد ہمیں امروز من فرداے من یا ذوق کا وہ واحد شعر جو غالب کو بھی پسند تھا: اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے اس تذبذب اور تشکیک اور اس استفہامی کیفیت کے باوجود بانگ دراہی کی نظموں سے اقبال کی میلان طبع واضح ہوتا ہے۔ ابھی عقل سے بیزاری مایوسی اور بغٓوت نمایاں نہیں لیکن عقل کے مقابلے میں دل کا تاثر وجدان اور عشق کو زیادہ حقیقت رس سمجھنے لگتا ہے۔ فلسفے کا ایک ابدی استفہام یہ ہے کہ اس کائنات کا جوہر ازلی کیا ہے اور اس میں جو نظم و نسق آئین و قوانین دکھائی دیتے ہیں ان کا ماخذ کیا ہے۔ یونانیوں نے جب اس پر غور شروع کیا تو کسی نے کہا کہ اصل پانی ہے جس سے تمام چیزیں بنی ہیں کسی نے کہا کہ پانی نہیں آگ ہے۔ کسی نے کیہا مظاہر فطرت محبت اور نفرت کی باہمی آمیزش ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ فلسفیانہ تفکر لطیف ہوتا گیا اور فیثا غورس نے کہا کہ جوہور وجود ریاضی ہے اوراعداد و ریاضیاتی تناسب ہی سے لامحدود اشیا و اشکلا وجود میں آئے۔ سقراط افلاطون اور ارسطو کے ہاں حقیقی وجود صرف عقل کا ہے اور ہر چیز مختلف مدارج میں عقل ہی کی مظہر ہے۔ بعد میں تمام فلسفے پر یونانی عقلیات کا ہی تسلسل رہا ہے اور اکثر حکما میں ٰیہ عقیدہ واضح ہو گیا ہے کہ عقل ہی ماخذ وجود ہے اور عقل ہی معیار صداقت۔ مسلمانوں میں سے کسی نے یہ حدیث بھی وضع کر لی ہے کہ ابتدائے آفرینش میں خدا نے عقل ہی کو پیدا کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ بھی کہیں کہیں پیدا ہو ا کہ اصل حقیقت عقل نہیں بلکہ عشق ہے یونانیوں کے ہا یہ نظریہ ناپسند تھا لیکن عقلیت کے مقابلے میں اس کو فروغ ؤحاصل نہ ہوا۔ عیسائیت میں عقل کو کوئی مقام حاصل نہ ہوا اورس کی جگہ اس عقیدے کی تلقین کی گئی کہ خدا سراپا محبت ہے۔ اسلام نے عقل کو ایک بلند مقام بخشا اور خدا کی مشیت کو عاقلانہ قرار دیا۔ لیکن صفات ربانی میں سب سے زیادہ اہم صفت رحمت کو بتایا جو تمام مخلوقات پر محیط ہے۔ جس طرح فیثا غورث ریاضی کو اور سقرا ط و افلاطون و ارسطو عقل کو تمام موجودات پر محیط سمجھتے تھے۔ ارسطو کے ہاں خدا تعقل محض ہے اور وہ آپ ہی اپنا معروض ہے فلسفے اور سائنس نے عقل کی مریدی اختیار کر لی اور دوسری طرف دین اپنی بلند اور عمیق صورتوں میں عشق کے مصدر حیات اور جوہر وجود ہونے کا قائل ہو گیا۔ اقبا ل کا میلان مذہبی اور روحانی ہے۔ اس لیے فلسفے کا ذوق رکھنے کے باوجود رفتہ رفتہ عقل طبیعی اور عقل استدلالی سے گریز کرتا ہوا عشق میں غوطہ زن ہو گیا جس کے مقابلے میں اسے عقل کی جدوجہد سطحی اور ہیچ نظر آنے لگی۔ مسلمانوں میں صوفیہ نے اس خیال کو زیادہ ترقی دی کہ محسوسات اور عقل کے علاوہ اور اس سے برتر و فائق ذریعہ معرفت اور وسیلہ انکشا ف حقیقت الٰہی عشق ہے۔ حیات و کائنات کے اسرار عشق ہی کی بدولت روح انسانی پر فاش ہوتے ہیں عدم سے وجود میں آنے کا باعث بھی محبت ہی ہوئی جیسا کہ میر نے کہا ہے: محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور اسلام نے جو رحمت کو وجہ خلقت بتایا تھا اسی سے تصوف کے نظریات پیدا ہوئے۔ رحمت محبت ہی کا دوسرا نام ہے اقبال نے بھی سیکڑوں اشعار میں عشق کو خلاق حیات قرار دیا ہے۔ اس مضحمون کی ایک نظم بانگ درا میں محبت کے عنوان سے درج ہے جس کا مطلع ہے: عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے ابھی دنیا امکان کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی ا س میں مذاق زندگی پوشیدہ تھا۔ لیکن عدم سے وجود میں آنے یا ہیولیٰ کی صورت میں منتقل ہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ عالم بالا میں ایک کیمیا گر تھا اس نے عرش کے پائے پر لکھا ہوا اکسیر کا ایک نسخہ پڑھ لیا۔ وہ محبت کا نسخہ تھا اس نسخے کے بہت سے اجزا تھے جو جگہ جگہ سے جمع کرنے پڑے۔ محبت میں نور بھی ہے اورنار بھی بجلی کی تڑپ بھی ہے اور حور کی پاکیزگی بھی۔ اس میں مسیحائی بھی ہے عاجزی بھی اور افتادگی بھی جب یہ تمام مرکب تیار ہو گیا تو اس کو عالم کے اجزائے پریشان پر چھڑکا۔ جس کے ذروں میں ذوق وصال پیدا ہوا اور موجودات ظہور میں آئے۔ اگر ذروں میں باہمی کشش نہ ہو تو عالم کسی شے کا وجود بھی نہ ہو۔ آسمان کے ستارے اور زمین کے لالہ زار سب محبت ہی کا کرشمہ ہیںَ وجود آفرین بھی ہے اور حسن آفرین بھی: ہوئی جنبش عیاں ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے خرام ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے چٹک غنچوں نے پائی داغ پائے لالہ زاروں نے محبت کے ساتھ ایک خاص انداز کا سوز و ساز اور درد و غم بھی وابستہ ہے جو تاثر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر انسان کو زندگی کی حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے: جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے عقل خنک کے نزیک غم ایک مہمل چیز ہے عقل کے نزدیک تمام قسم کے جذبات مخرب عقل ہیں اس لیے حکما ہمیشہ جذبات کو دبانے کی تعلیم دیتے ہیں لیکن جس شخص نے عقل کی بجائے دل کی راہ ڈھونڈ لی ہو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ غم عشق انسان کو زندگی کی گہرائیوں سے آشنا کرتا ہے۔ میاں فضل حسین کے نام ایک نظم بانگ درا میں موجود ہے۔ اس میںاس مضمون کو بڑی گہرائی اور خوبی سے ادا کیا ہے۔ کہ غم عشق ہی انسان کو رموز فطرت سے ہم آغوش کرتا ہے۔ کشف حقیقت نہ عقل سے ہوتا ہے اور نہ عیش و طرب سے۔ مسرت کوش انسان بھی فلسفی کی طرح زندگی کی سطحوں پر ہی تیرتا پھرتا ہے۔ اس کی گہرائیوںمیں جو معرفت کے گوہر ہیں وہ اس کے ہاتھ میں نہیں آئے: غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے ساز یہ پیدا ہوتا ہے اسی مضراب سے طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے غم نہیں غم روح کا ایک نغمہ خاموش ہے جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے جس کی شام آشنائے نالہ یا رب نہیں جس کی رات میں آنسوئوں کے ستارے نہیں چمکتے جس کا دل شکست غم سے نا آشنا ہے۔ جو سدا مست عیش و عشرت ہے۔ اس کے روز و شب میں کلفت غم نہ ہو گی لیکن زندگی کا را ز ابھی اسکی آنکھ سے مستور رہے گا۔ اسی خیال کو اقبال نے او ر مقامات پر بھی مختلف پیرائوں می ادا کیا ہے: تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں ٭٭٭ محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوںمیں ٭٭٭ لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بیتاب ہوں جن کے جلانے کے لیے ایک طرف علوم و فنون اور قدیم و جدید تفلسف سے اقبال کے دماغ کی نشوونما ور تربیت ہوتی گئی اور دوسری طرف دل وجدان اور رتاثر میں غوطہ زن ہوتا گیا۔ اقبال کا فلسفہ حیات یہ تھا کہ زندگی کے ارتقاء کے لیے تصادم اور پیکار ناگریز ہے ۔ یہ پیکار کبھی خاج میں ہوتی ہے اور کبھی باطن میں۔ کبھی فرد ماحول سے ستیزہ کار ہوتا ہے اور کبھی افکار باہم ٹکراتے ہیں۔ اگر زندگی کی کوئی ایک صورت اطمینان کامل پیدا کر دے تو زندگی جامد ہو جائے۔ خواہ عقل ہو اور خواہ عشق اس کی حیات اورترقی کا مدا ر انفس و آفاق کے مسلسل تصادم پر ہے۔ غازی شمشیر سے کفر کے خلاف جہاد کرتا ہے مگریہ اس جہاد کے مقابلے میں جہاد اصغر ہے۔ جو انسان کو اپنے نفس کے خلاف کرنا پڑتا ہے۔ بقول غالب: با غازیان ز شرح غم کار زار نفس شمشیر را برعشہ ز تن جوہر افگنم یہ نظریہ پیکار اقبا کے لیے کوئی محض علمی نظریہ نہ تھا۔ اس کے اندر بھی عمر بھر کشاکش رہی اور اس کے باہر بھی۔ یہ کشاکش اسے مضطرب بھی رکھتی تھی مگر یہی اس کا سرمایہ حیات بھی تھا: پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے ٭٭٭ یہ شہادت کہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا جدید نفسیات کا ایک مسلمہ نظریہ ہے کہ انسا ن جس چیز کے خلاف زور شور سے احتجاج کرتا ہے اور صبح و شام اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتاہے۔ وہ چیز اس کے اپنے نفس کے اندر تحت الشعور میں ابھی غیر مغلوب ہوتی ہے۔ اس کی قوت اور اس کے خروج سے وہ غیر شعوری طور پرخائف ہوتا ہے۔ اقبا ل جو ہزار جگہ ہزار پیرائوں میں خرد کی تحقیر اور تذلیل کو بڑے لطف اور جوش کے ساتھ بیان کرتا ہے اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے اندر خرد کے غلبے کو محسوس کرتا ہے اور جس کی سرکوبی میں وہ لگاتار کوشش میں مصروف ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے آخری ایام میں بھی وہ سوز و ساز رومی کے باوجود پیچ و تاب رازی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا اور جب اپنے متعلق بے غل و غش سچی بات کہتا ہے تو وہ یہی ہوتی ہے کہ: طور ہوں یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں یا افسوس کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ نگہ آلودہ انداز فرنگ: تو اے مولائے یثرے آپ میری چارہ سازی کر مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری عقلیت کے خلاف جہاد کی دوسری توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ روحانی وجدان کی ایک کیفیت ہے جو تعقل سے ماوریٰ ہے اور مذہب کا سرچشمہ یہ وجدان ہے ج انبیا اور اولیا میں بدرجہ اولیٰ پایا جاتا ہے لیکن عام طورپر لوگ بھی تزکیہ باطن اخلاق محمودہ اور عبادت الٰہی کی بدولت کم و بیش اس سے بہر ہ اندوز ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ نماز کے متعلق ارشاد ہے کہ الصلوۃ المعراج المومنین یہ جنبش اعضا کی نماز نہیں ہے۔ بلکہ حضور قلب کی نماز ہے جو انسان کے لیے رفتہ رفتہ باطن کے دروازے کھول دیتی ہے۔ مغرب میں گزشتہ تین سو سال سے خاص عقل استدلالی اور عقل طبیعی کی ترقی کادور ہیںَ لیکن خارجی فطرت کی تسخیر نے انسان کو باطن کی طرف سے غافل کر دیا ہے اور انسان کی صرف خدا ہی کی نہیں بلکہ اپنے نفس اور تمام مابعد الطبیعیاتی حقائق کا منکر ہو گیا ہے۔ اس دورتعقل نے عالم مادی میں بہت کارہائے نمایاں کیے جن کا اقبال منکر نہ تھا او ر خود مذہب میں سے بھی بہت سے توہمات اس کی بدولت دور ہو گئے۔ اقبال نے سلام کے متعلق جو کہا ہے کہ: جس کے ڈر سے وہم کا قصر کہن آئین گرا گردن انساں سے طوق راہب خود بیں گرا یہ کام مغرب نے بہت کچھ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عقلیت ہی کی بدولت کیا لیکن اصلاحات کے باوجود اس میں خرابی کا یہ پہلو بھی ترقی کرتا گیا کہ مادی عالم اور عقلیت کے سوا اور کوئی چیز حقیقی نہیںملتی۔ اس تنگ نظر حکمت نے اسنان کی مزید ترقی روک دی اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے مادی ترقی بھی فساد انگیز ہو گئی۔ انگریزی مثل ہے کہ نیم صداقت او ر ادھورا ایمان بہت خطرناک چیزیں ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی مقولہ ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان اورنیم ملا خطرہ ایمان ۔ ہمارے ہاں نیم ملا خطرہ ایمان بن گئے اور مغرب میں نیم حکیم خطرہ جان بھی بنے اور خطرہ ایمان بھی۔ اقبلاا کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ سیاست فرنگ اورتہذیب مغرب کے غلبے کی وجہ سے عقلیت کے خلاف جہاد شروع کر دیا تکاہ مسلمانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرے۔ اقبال کے بعض نقادوں نے کہا ہے کہ اقبال نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ کیوں کہ روحانیت تو مشرق کے خمیر میں موجود ہی تھی۔ خواہ وہ خالص حالت میں ہو یا خواہ کم و بیش توہم و تقلید کی آمیزش کے ساتھ مشرق کو خصوصاً ملت اسلامیہ کو بھی عقلیت اور مادیت میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر یہ بھی زندگی کا ایک اہم پہلو اور تکمیل انسانیت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ اقبال کی اس تلیقن سے مسلمان کہیں اپنی بے عقلی انسانیت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ اقبال کی اس تلقین سے مسلمان کہیں اپنی بے عقلی پر ہی نہ مطمئن ہو جائیں اور جو ہمہ طرفی ترقی اقبال چاہتا ہے اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ اقبال کا حقیقی عقیدہ یہ تھا کہ عقل ایک خداداد نعمت ہے اور انسانوں اور حیوانوں میں تمیز و فرق قائم کرتی ہے۔ لیکن اس کی حقیقت کے کچھ حدود ہیں ان حدود سے باہر آ کر دعوے لا حاصل اورلایعنی ہو جاتے ہین لیکن ان حدود تک عقل سے زندگی کا احاطہ کرنا اور فطرت خارجی کی تسخیر سے قوت حاصل کرنا انسان کے لیے لازمی ہے۔ مغرب کی تعلی آمیز اور مائل بہ الحاد عقلیت نے اس کو ایسا پریشان کیا کہ اس نے علی الاطلاق خرد کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور عقل کے نعم البدل یعنی عشق کی حمایت میں نعرے لگانے لگا۔ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ مغرب نے تو دنیا کو جنت بنانے کی کوشش میں عاقبت اور روحانی حقائق کو فراموش کر دیا لیکن مشرق کے ظاہر اور باطن دونوں میں فساد ہی فساد ہے۔ یہاں خسر الدنیا و الاخرۃ کا منظر اہل زکر و فکر کو اندوہ گین بنا دیتا ہے۔ عشق کے متعلق اقبال کے کیا تصورات ہیں ان کو ہم بعد میں پیش کریں گے۔ لیکن عقل کے متعلق اور زیادہ تر اس کی مخالفت میں اس نے جو بے شمار اشعار کہے ہیں ان کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتاہے: عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے؟ علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی ٭٭٭ خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں مرے مولا مجھے صاحب جنوںکر ٭٭٭ خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے خر د بیزار ہے دل خرد سے ٭٭٭ اک دانش نورانی اک دانش برہانی ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی ٭٭٭ حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں ٭٭٭ علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں ضمیر پاک س نگاہ بلند و مستی شوق نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں ٭٭٭ ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے ٭٭٭ علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق ٭٭٭ جہاں صوت و صدا میں سما نہیں سکتی لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ سرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف ٭٭٭ برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری ٭٭٭ عقل کو استاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں ٭٭٭ نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی ٭٭٭ خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں ٭٭٭ خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ اس شعر میں اقبال نے خرد کی افادیت کا بھی اقرار کیا ہے اور اس نے جو کچھ عطاکیا ہے اس کا شکر گزار ہے مگرتکمیل نفس عشق کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ بھی فیضان الٰہی سے حاصل ہو گیا: مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ اقبال اس کا منکر نہیں کہ خارجی فطرت کی تسخیر خرد ہی کی بدولت ہو سکتی ہے۔ اور یہ کام بھی کرنے کا ہے جسے فرنگ نے کیا ہے مگر مشرق سوتا ہی رہا۔ فطرت کی تنظیم اور اس کے آئین بہت دلکش اورنظر افروز ہیں مگر انسان عقل سے اس تنظیم میں بہتری پیدا کر سکتا ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم کے مضمون کے پانچ سات اشعار فطرت خارجی میں انسان کی ترمیم و اصلاح کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں:؛ فطرت کو خرد کے روبرو کر تسخیر مقام رنگ و بو کر بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر ٭٭٭ تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم عقل کی عیاری کا ذکر اقبال نے اور بھی بعض اشعار میں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل بھی علم کی طرح ایک بے طرف قو ت ہے۔ اس کی خوبی یا خرابی ان مقاصد پر منحصر ہے جن کے حصول کے لیے اسے استعمال کیا جائے۔ نفسیات کے بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ عقل میں فی نفسہ اپنی کوئی قوت نہیں۔ انسان کے اندر کچھ خواہشات او رجذبا موروثی اور جبلی ہیں اور انہیں کی بدنظمی اور یا امارگی سے بعض مفید آرزوئین یا معامالت بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ عقل ان جذبات اورجبلتوں کی محض تماشائی ہے۔ جو تمنا دوسروں کو شکست دے کر قوی ہو جاتی ہے وہ عقل کو حصول مقصد کے لیے بطو ر آلہ کار بحیثیت غلام استمعمال کرتی ہے۔ عقل اس جذبے کے خیر و شر پر تنقید نہیں کرتی۔ فقط اپنی عیاری او ر ہوشیاری سے غرض کو پورا کرنے کی راہیں سمجھاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عقل حیوانی سطح اسفل پر جذبات کی غلامی ہی کرتی ہے البتہ تزکیہ نفس سے عقل میں روحانی تنویر پیدا ہوتی ہے تو وہ ا س غلامی اور حیلہ سازی سے نجات حاصل کرتی ہے اور حکمت بالغہ کے حصول میں معاون بن جاتی ہے۔ اقبال جس عقل کی عیاری اور حیلہ گری کی طرف اشاعرہ کر رہا ہے وہ ابھی تک جذبات اسفل سے پابہ زنجیر عقل ہے۔ نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان پہلے اپنی عقل کو آواز کرے اور یہ کام نہایت دشوار ہے۔ جو لوگ تعلی سے اپنے تئیں آزاد خیال سمجھتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر عقل سے یہی کام لے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان میلانات تعصبات اور آرزوئوں کی حمایت کرے۔ امراض نفسیات کی تحقیقات نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ عقل کس کس طرح بھیس بدل کر اور قباحت کو لطافت کے رنگ میں پیش کر کے دھوکے پیدا کرتی ہے۔ یہی باتیں ہیں جنہیں من کی چوریاں کہتے ہیں۔ ذلیل و خبیث و ظالم انسان بھی اپنے عمال کے جواز میں بظاہر محکم دلائل تراش لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بقول یہ ہوتا ہے کہ یہ شریر انسان شہر کو بوقت عمل خیر ہی سمجھ کر کرتا ہے۔ اس عقل کو عارف رومی زیرکی کہتا ہے جو روحانیت اور عشق سے معرا ہو کر امتیازی خصوصیت رہ جاتی ہے: مے شناسد ہر کہ از سر محرم است زیرکی زابلیس و عشق از آدم است اقبال جو خودی کا پیغامبر ہے انسانوں کو تقویت و تکمیل نفس کا پیغام دیتا ہے۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ نفس انسانی کی انفرادی حیثیت کا ایک پہلو عقل کے استعمال اور علم کے حصول سے محکم ہوتا ہے۔ لیکن خالی فہم انسانی محرک عمل نہیں بن سکتی۔ انسان جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی تاثیر اور جذبے کی بدولت کرتاہے۔ اگر اس میں کمی ہو تو عقل زندگی کی تماشائی رہے گی یا اس کی نظری تنقید سے آگے نہ بڑھ سکے گی ۔ مسلمان صوفیہ ور بعض حکماء نے جبرئیل کو عقل کا مظہر قرار دیا جو زندگی کے حقائق سے آشنا ہے اور ان میں سے بعض حقائق کو بحکم ایزدی ابنیاء پر منکشف کرتا ہے جسے وحی کہتے ہیں۔ معراج نبوی کے بارے میں بعض مسلمانوں نے جو تخیل آرائی کی ہے اس میں اس بات کو بطور واقعہ پیش کیا ہے کہ رسول کریمؐ کی ہم رکابی میں وہ فرشتہ ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتاہے اور عرض کیا ہے ہ آپ آگے تشریف لے ائیے بندے کی پرواز کی آخری حد تو یہی تھی‘ اگرمیں اس سے آگے اڑنے کی جرات کروں تو میرے پر جل جائیں گے: اگر یک سر موے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم عارف رومی نے بھی فیہ مافیہ میں بیان کیا ہے کہ ملائکہ عقل کل ہی کی متنوع اورمتمثل صورتیں تھیں۔ جبرئیل ہوں یا اس سے کمتر درجے کے ملائکہ سب اس عقل ہی کی صورتیں ہیں جو نظام عالم میںکارفرما ہے۔ اقبال نے بھی اسی تصور کو قبول کر کے اس شعر میں بیان کیا ہے: خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل جبرئیل کا کام عاقلانہ پیغام پہنچاناہے لیکن اسرافیل کا کام قیامت انگیزی ہے۔ یہ شعر خیزی انسان کی فطرت میں مضمر ہے۔ بقول غالب: قیامت می دمد از پردہ خاکے کہ انسان شد لیکن یہ قیامت جذبہ عشق سے بپا ہوتی ہے۔ عشقہی خلاق و فعال ہے۔ محض عقل کی کیفیت انفعالی ہے۔ انسانی ارتقاء میں جو قدم بھی اٹھتا ہے۔ وہ جذبہ عشق کی بدولت اٹھتاہے۔ عالم علم میں مست رہتا ہے۔ اور عابد عبادت میں لیکن عاشق عشق کے اندر لمحہ بہ لمحہ نئے احوال پیدا کرتا ہے یہ انقلابات و تغیرات صرف نفس تک محدود نہیں رہتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے عالم انسانی کی بھی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ قیامت کے معنی ہیں پہلے عالم کی موت اور ایک دوسرے عالم کا ظہور ۔ قیامت کبریٰ کی حقیقت خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں لیکن دنیا میں جو کبھی کبھی قیامت صغرا سی بپا ہو تی ہے اور کسی مر د مجاہد کی بدولت کوئی بڑا انقلاب ظہور میں آتا ہے۔ اس کا سرچشمہ عقل بلکہ عشق محشر انگیز ہوتا ہے: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی عشق ابراہیمی نے عقل کے سمجھانے ہوئے مادی و جسمانی نفع و ضرر سے قطع نظر کرنے کی بدولت بت پرستوں کے اڈے میں توحید کا علم گاڑ دیا اور تربیت انسان کے لیے ایک ملت موحدہ کی بنیاد ڈالی۔ محمد رسول اللہ صلعم کے عشق نے اور زیادہ زور سے صور پھونکا جس سے صدیوں کی مردہ نفس ملتیں زندہ اور بیدار ہو گئیں: سر مکنون دل او ما بدیم نعرہ بیباکانہ زد افشا شدیم لیکن خودی علم سے محکم اسی حالت میں ہوتی ہے کہ یہ علم عقل جزوی کی پیداوار نہ ہو جو انسان کو عالم مادی میں پا بگل کر دے۔ دانش برہانی روحانی اسی وقت بنتی ہے جب دل و دماغ کے تما م دریچے کھلے رہیں اور انفس و آفاق کے نور کی کرنوں کے سامنے دیواریں حائل نہ ہوں۔ محض مادی علوم کی تعلیم نے خودی کو مستحکم کرنے کی بجائے اس کو ضعیف کر دیا ہے مادی اسباب تو یدا ہو گئے لیکن روح پژمردہ ہو کر رہ گئی۔ اقبال اس محدوددانش کے نتائج سے خوب آگاہ تھا: عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل اسی آگ کے متعلق اقبال کا دوسرا شعر ہے: آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا اقبال نے عالم عقلی کی بہت سیر کی ہے لیکن روحانیت کے بارے میں اس صحرا میں اس کو سراب ہی نظر آیا اگر اسی صحرا میں سرکرداں رہتا تو تشنہ میری کے سوا چارہ نہ تھا۔ مغرب میں وہ فلاسفہ مغرب کی صحبت میں اسرار حیات کو دلائل سے فاش کرنے میں سعی بلی کرتا رہا ہے لیکن آخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہی وہ علم ہے جسے صوفیہ نے حجاب الاکبر کہا ہے: فلسفی خود را ز اندیشہ بکشت ہاں بگو او را سوئے گنج است پست (رومی) استدلال کی تقدیر میں حضور نہیں۔ استدلالیوں کا پائے چوبیں ان کو لنگڑاتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چند قدم تک لے جاتاہے لیکن کسی منزل پر نہیں پہنچاتا۔ دماغی کاوشوں سے دل کے اندر آب حیات کا چشمہ نہیں پھوٹتا۔ اقبال جب اپنے اس دور تفلسف پر ایک نگاہ باز گشت ڈالتا ہے۔ تو محسوس کرتا ہے کہ اس تگ و دو سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا: مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل فلسفے نے اس کو آستانے تک لے جا کر چھوڑ دیا۔ درون خانہ داخل ہونے کا راستہ نہ بتایا: عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضورنہیں ٭٭٭ رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست فکر کی خامی کا علاج ذکر ہے۔ عقل کی کمی کو نالہ شب گیر اور فغان صبح کا ہی ہی پورا کر سکتی ہے خرد زمان و مکان میں محدود ہو کر لازمانی اور لامکانی حقیقت کو تلاش کرتی ہے اوراس میں کامیاب نہیں ہوتی۔ نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی اماں شاید ملے اللہ ہو میں ٭٭٭ ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے ترا دم گرمی محفل نہیں ہے گزر جا عقل سے آگے یہ نور چراغ رہ ہے منزل نہیں ہے دین نے بھی عقل کو چراغ ہی قرار دیا ہے۔ انسان کی آخری منزل تو کبریا ہے اور وہاں تک مسافت دراز ہے بقول اقبال: کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظارکر جب تک انسان منزل تک نہیں پہنچتا۔ تب تک راستے کی ظلمتوں کے لیے چراغ کی ضرورت ہے۔ جو شخص ابھی راستہ ہی طے کر رہا ہے مگر چراغ سے بے نیازی ظاہر کرتا ہے۔ وہ ضرور اندھیرے میں ٹھوکریں کھائے گا لیکن اس نے چراغ ہی کومقصود و منتہا سمجھ لیا ہے وہ چراغ ہی کو معبود بنا لے گا۔ جیسا کہ بعض حکما نے کیا ہے۔ اسلا م نے جو عقل کے استعمال پر زور دیا ہے وہ اسی لیے ہے کہ صرا ط مستقیم پر چلنے کے لیے وہ چراغ کا کام دے گی۔ قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ نجات یافتہ جنتیوں کا نور قلب راہنمائی کے لیے ان کے آگے آگے اور گرد و پیش ہو گا۔ نور کا کام بہرحال راستے کو روشن کرنا ہے۔ نور فی نفسہ مقصود نہیں ہو سکتا۔ مقصود تو خدا ہے جس سے تمام انواار وجود کا اشراق ہوتا ہے: نہ شب نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گویم (رومی) خرد کے چراغ راہ ہونے کے متعلق اقبال کا ایک دوسرا قطعہ بھی بصیرت افروز ہے: خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے چراغ راہ گزرہے درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے عقل اگر جذبات کی غلامی سے کور و تاریک نہ ہو گئی ہو اور جادہ حیات میں مسلسل رہنمائی کرتی رہے تو عقل کی منزل اور عشق کا حاصل ایک ہو جاتاہے۔ علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی اس کا اظہار ککیا ہے اور ویسے گفتگو میں بھی فرمایا ہے کہ عقل اپنے گماں میں وجدان میں مبدل ہو جاتی ہے۔ مرد مومن کے متعلق فرماتے تھے: عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ اندلس کے مسلمان حکماء کی تعریف میں بھی کہتے ہیں: جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں یہ مادیات اور طبیعیات میں محصور خرد بے وحی و وجدان خدا کی ہستی کے متعلق یقین پیدا نہیں کر سکتی۔ اور انسان کو تشکییک اور تذبذب کی بھول بھلیوں سے نہیں نکال سکتی۔ اس عقیدے کو اقبا نے کئی جگہ مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ لینن بھی خدا کے حضور میں یہی معذرت کرتا ہے کہ مغربی سائنس کے پاس خرد کے سوا کوئی ذریعہ وعلم نہ تھا اور خرد کے نظریات متغیر اور باہم متصادم تھے۔ ایسی حالت میں مجھے تیری ہستی کا یقین کہاں سے پیدا ہو سکتا تھا: میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات فرشتوں کا گیت میں ملائکہ کی زبان سے اقبال اس پر افسوس ظاہر کرتا ہے کہ انسان ابھی عشق ہی میں خام نہیں بلکہ اس نے بھی عقل کا بھی صحیح اور پورا استعما ل نہیں کیا۔ جب تک یہ دونوں خامیاں دور نہ ہوں گی اور عشق و عقل اپنے کمال میں ایک دوسرے کے معاون نہ بن جائیں تب تک انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ عقل ابھی تک بے عنان ‘ راہ شناس سواری کے جانور کی طرح ہے اور اس کی وجہ سے انسان کا وہی حال ہے جو غالب نے اس شعر میں بیان کیا ہے: چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں اور کچھ ایساہی حال عشق کا ہے کہ ادھر ادھر آنی جانی اشیا کے ساتھ لگائو پیدا کرتا ہے۔ ایک کوپکڑتا ہے اور دوسرے کو چھوڑتاہے۔ ازیک بگستی بد گر پیوستی کہیں مطمئن نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ اپنی منزل اور اپنے مقام سے آگاہ نہیں ہے۔ عشق خام بھی عقل خام کی طرح ہرزہ گرد اور ہرجائی ہے: عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی کوتاہ کمند خرد کی حکیمی اقبا ل کے نزدیک خودی کینامسلمانی ہے۔ محدود عقلیت کو جو اپنے محدود مشاہدات اور تجربات سے اصول حیات کا استقرا کرنا چاہتی ہے ۔ نہ کسی ولی کی ولایت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اورنہ کسی نبی کی نبوت۔ ابلیس نے اسی محدود خرد سے آدم کو دیکھا تو اس کے اندر پھونکی ہوئی روح الوہیت اور ارتقا انسانی کے لامحدود امکانات اس کی سمجھ میں نہ آ سکے۔ اسے نصب اللعینی آدم محض ایک خاک کا پتلا دکھائی دیا۔ آد م و ابلیس کا یہی قصہ تاریخ نے کئی بار دہرایا ہے۔ مسیح کو بنی اسرائیل نہ سمجھ سکے۔ ان کے نزدیک وہ منکر شریعت اور مخرب ملت ہونے کی وجہ سے سزائے موت کا مستوجب بنا۔ محمد صلعم بھی ابوجہل اور بولہب کے لیے قابل فہم نہ ہوئے۔ ان لوگوں میں محڈود سی دنیاوی عقل تو تھی لیکن عشق الٰہی سے ان کا ضمیر خالی تھا: تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب خارجی فطرت کی تسخیر کی وجہ سے عقل طبیعی میں ایک قسم کا پندار پیداہو جاتاہے۔ جس طرح پندار زہد اور فقہیانہ غرو ر انسان وک روحانیت سے دور کر دتیا ہے۔ اسی طرح پندار عقل بھی انسان کو بیباک اور گستاخ کر دیتا ہے۔ روحانیت کے بغیر حکیم طبیعی میں جتنی قوت پیدا ہوتی ہے وہ ایک ساحر کی قوت کی طرح تخریب حیات میں صڑف ہونے لگتی ہے۔ طبیعی سائنس اور فلسفہ کو س لمن الملک بجانے لگتا ہے اور اناربکم الاعلی کا نعرہ بلند کرنے لگتا ہے۔ یہ عقلیت فرعون کی طرح انا الحق کہہ کر انسانوں کو اپنا پرستار بنا نا چاہتی ہے۔ لیکن اس پرستاری کا انجام غرقابی اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں: وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ روحانیت سے معرا محض عقلیت کی پیدا کردہ تہذیب کے متعلق اقبال کی پیش گوئی پہلے درج ہو چکی ہے جو اس کی زندگی ہی میں پوری ہونی شروع ہو گئی تھی: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا اقبال کے کلام میں کئی جگہ خبر اور نظر کا موازنہ ملتا ہے۔ اس کی کسی قدر توضیح کی ضرورت ہے۔ ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ انسان کے پاس علم اور دو ذریعے ہیں۔ خود دیکھا ہوا اور محسوس کیا ہوا علم کم ہے اور دوسروں سے سنا ہوا کتابوں میں پڑھا ہوا یا روایات سے حاصل کردہ علم کی مقدار نسبتاً بہت زیادہ ہے۔ اکثر لوگوں کا دین بھی تقلیدی ہوتا ہے۔ محسوسات اور عقل کی بجائے اس کا مدار نقل پر زیادہ ہوتا ہے۔ جو خبریں لوگوں تک پہنچی ہیں ا ن میں سے بعض انبیا کی طرف بتحقیق یا بلا تحقیق منسوب ہیں اور بعض دیگر بزرگان دین اور ائمہ فقہ کی طرف۔ بعض اولیا کے روحانی تجربات اور وجدانات ہیں وہ بھی عام لوگوں کے لیے خبر ہی ہیں معقولات اور علوم طبیعی کا جو ذخیرہ ہے وہ بھی بہت حد تک بطور خبر ہی عوام تک پہنچتا ہے۔ حیات و کائنات کے بہت کم حقائق ایسے ہیں جن کا تجربہ کسی ایک انسان کو براہ راست ہو۔ ایک حکیم مغربی نے درست فرمایا ے کہ انسان کا اصلی علم جو جزو حیات پر اس کی زندگی میں موثر ہوا اتنا ہی ہوتا ہے کہ جتنا کہ اس کی اپنی زندگی کے تجربہ میں آ چکاہے۔ باقی معلومات یوں ہی سطح شعور پر تیرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں جو کثرت سے علماء بے عمل ملتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا علم بطور خبر ان تک پہنچتا ہے۔ اور وہ اس خبر کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ چونکہ وہ تلقین ان کے اپنے قلوب کی گہرائیوں میں سے نہیں ابھرتی اور خود ان کا کچھ تجربہ اور مشاہدہ نہیں اس کے لیے ان کا وعظ بھی دوسروں کے قلوب کو مرتعش نہیں کرتا۔ ایک گہری بات خبر ونظر کے متعلق یہ ہے کہ زندگی کے حوادث اور کائنات کے مظاہر انسان کو کسی حقیقت ازلی کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ یہ آیات یا نشانیاں ہیں ان حقائق کی جو نظر سے اوجھل ہیں لیکن بصیرت پر منکشف ہو سکتے ہیں۔ آیات قرآنی کی طرح قرآن نے مظاہر فطرت کو بھی آیات کہا ہے۔ کیوں کہ یہ تمام نشانیاں ہیں جو ایک خلاق حکیم و رحیم کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان میں وہ نظر پیدا ہوجائے کہ جو منظور حقیقی کو براہ راست دیکھ سکے۔ غرضیکہ تقلیدی دین کی طرح سائنس بھی خبر ہی خبر ہے۔ عقل طبیعی دین تقلیدی کی طرح خبر سے نظر کی طرف ترقی نہیںکرتی۔ حالانکہ انسان کا مقصود براہ راست وجدان حقائق ہے دین بھی اسی شخص کا خالص اورکامل ہے جس کے لیے دین ایک شخصی اور روحانی تجربہ اور وجدان ہے۔ تقلید سے تحقیق کی طرف ترقی علم انفس و آفاق کا جادہ ارتقاء اور منزل مقصود ہے جس طرح دین تقلید محض سے ناقص رہ جاتا ہے اور ایمان میں دین عین الیقین والی پختگی پیدا نہیںہوتی اسی طرح حکیم طبیعی اگر مظاہر کی پیش کردہ خبر یا علامات سے آگے نہ بڑھ سکے و وہ بھی مقصود تک نہیں پہنچتا۔ مرید ہندی اورپیر رومی کے سوال و جواب میں اقبا ل نے مرشد سے ایک سوا ل کیا ہے کہ: خاک تیرے نور سے روشن بصر غایت آدم خبر ہے یا نظر اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں کہ: آدمی دید است باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است فلسفہ اور سائنس دانش ہے اور وجدان و عرفان بینش حضرت ابو سعید ابو الخیر اور بو علی سینا کے مکالمے کا حال ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔ جس میں جو کچھ بوعلی سینا نے کہا وہ عقل کی خبر تھی لیکن جو کچھ ابوسعید جانتے تھے وہ چشم بصیرت کا براہ راست مشہود تھا شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ بال جبریل میں ایک نظم فلسفہ و مذہب کے عنوان سے ہے ۔ اس میں فلسفی کے تذبذب کا حال تو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے لیکن مذہب کی نظر بطور تقابل اس میں نہیں۔ صرف انتا کہا گیا ہے کہ بندہ صاحب نظر کہیں نظر نہیں آتا۔ کہ اس کی بدولت یا خود مجھ میں نظر پیدا ہو یا اس کی نظر یقین آفرین ہو: یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا؟ سمجھا نہیں تسلسل شام و سحر کو میں اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار میں ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں کھلتا نہیں مرے سفر زندگی کا راز لائوں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں رومی یہ سوچتا ہے کہ جائوں کدھر کو میں چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں اقبال نے کئی اشعار میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بے یقنی فرد ملت اور دونوں کی موت ہے۔ اقبال نے اسی لیے ملت کو فلسفے سے گریز کی تعلیم دی ۔ کہ عوام و خواص سب کا ایمان پہلے ہی ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ اگر سوچنے والے اس حیرت میں پڑگئے جو فلسفے کا آغاز اور اس کی انتہا ہے تو وہ پوری قوت کے ساتھ کوئی راہ عمل اختیار نہ کر سکیں گے۔ حکمت بے عشق کے متعلق بال جبریل کے آخری حصے میں فلسفی پر دو اشعار ہیں: بلند بال تھا لیکن نہ تھا ؤجسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا پھرا فضائوں میں کرگس اگرچہ شاہین وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا یہ اشعار تھوڑی سی شرح کے محتاج ہیں۔ فلسفی کے بلند بال ہونے میں کیا شک ہے۔ فلسفی خاک سے افلاک تک اور ثریٰ سے ثریا تک مظاہر عالم کی پیمائش کرتا اور ان کو علت و معلول کے عالمگیر قوانین میں منسلک کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جرات رندانہ کی طرح جرات عارفانہ بھی ایک چیز ہے جو کشف حقائق کے لیے بہت ضروری ہے۔ فلسفی زمانی اور مکانی طبیعی اور مادی عالم سے آگے پرواز کرتے ہوئے گھبراتاہے اور سمجھتا ہے کہ جتنا عالم معقولات کے احاطے میں آ گیا ہے اس کے آگے خلا ہی خلا ہے۔ جن لوگوں نے اس سے آگے بھی کچھ دیکھا اور تجربہ کیا ہے ان کے مشاہدات و توہمات سمجھ کر ٹھکرا دیتا ہے۔ وہ خود ا س خوف میں مبتلا ہے کہ اگر محدود عقلیت کی زمین میرے پائوں تلے سے نکل گئی تو میں خلاے لامتناہی میں گر جائوں گا۔ وہ حاضر سے غائب کی طرف جرات کا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ آگے اس کو تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ اور تاریکی سے انسان فطرتاً خائف ہوتا ہے۔ ایک حکی عارف نے عالم مادی کو چمٹنے والے اوراس پر سے اپنی گرفت کو ڈھیلا نہ کرنے والے شخص کا حال ایک تمثیل میں بیان کیا ہے کہ کوئی شخص رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر سے پھسلا نیچے گہری کھڈ تھی جس کے پہلوئو میں جا بجا درخت کھڑے تھے۔ تھوڑی دور لڑھکنے کے بعد ایک درخت کی شاخ پر ا س کا ہاتھ پڑ گیا۔ اس نے اس شاخ کو دونوں ہاتھوں سے بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا۔ زبردست قوت ارادی سے اپنے دونوں پنجوں کو پنجہ آہنیں کر کے تمام رات خوف سے لرزتا رہا اور لٹکتا رہا کہ اگر ہاتھ چھوٹ گئے تو ہزار فٹ نیچے گروں گا اور میرا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی حالت میں وہ صبح تک لٹکا رہا لیکن جب پو پھٹی اور کچھ دکھائی دینے لگا تو اس نے دیکھا کہ تھوڑی سی مسطح زمین اس کے قدموں کی طرف ایک فٹ نیچے تھی۔ خیر ا س کی جان میں جان آئی لیکن اپنی لاعلمی کی بدولت اس نے جو درد و کرب اور خوف میں رات گزاری تھی اس پر افسوس کرنے لگا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ جسارت نہ کر سکا تھا۔ اقبال کے نزدیک معقولات میں محصور حکیم طبیعی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ جسور نہیں۔ اگر جسارت کرے تو فنا نہیں بلکہ بقا کے قریب ہو جائے اور ا س خدا سے اقرب ہو جائے کہ جو کسی قعر عمیق میں نہیں اور نارسا بلندیوں پر عرش نشیں نہیں بلکہ شہ رگ کے قریب ترہے۔ دوسرا اعتراض حکیم طبیعی پر اقبال نے یہ کیا ہے کہ ہو غیور نہیں ۔ یہ اعتراض غور طلب ہے علم میں ـغیر ت کا کیا سوال ہے اس غیرت کا تعلق اقبال کے فلسفہ خودی سے ہے۔ غیور انسان اپنی خودی کا محافظ ہوتا ہے۔ خودی کا گہرا تصور انسان کو دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتا ہے اس سے وقار نفس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وقار نفس اسی حالت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے نفس کو عالم طبیعی کی پیداوار نہ سمجھے اور حوادث کے تھپیڑے نہ کھاتا رہے۔ لیکن اگر نفس کی لامتناہی قوتوں پر ایمان نہ ہو و انسان ہر حادثے سے مرعوب اور مغلوب ہو جائے گا۔ وہ مادی قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اور جابر یا ذی اقتدار انسانوں کے سامنے بھی اس کی گردن جھکی رہے گی۔ ایسے انسان کو غیور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اقبال نے ایک جگہ خوب کہا ہے کہ خدائے کائنات کے سامنے ایک سجدہ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دلواتاہے۔ خدا کا پرستار ہی کسی مادی یا انسانی قوت کے سامنے نہیں جھکتا۔ تخلقوا باخلاق اللہ کی تعلیم کے مطابق خدا کے غیور ہونے کی صفت مرد مومن میں بھی پیدا ہوتی ہے۔ ماسویٰ اللہ کے سامنے جھکنے سے تن اور من دونوں جھوٹے معبودوں کی غلامی میں ذلیل ہو جاتے ہیں۔ پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من خرد کی کوتاہیوں کا ذکر اقبال عام طور پراس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں خلل ہی خلل معلوم ہوتاہے ۔ اور کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے ک عقل خود اپنے حدود کے اندر بھی مسلسل اپنی خامیوں سے آگاہ ہوتی رہتی ہے۔ فلسفے پر عام طور پر اقبال کا اعتراض یہ ہے کہ استدلالی مکانی اور حیوانی عقلیت کے ماوریٰ نہ اس کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہستی کے ان ماورائی پہلوئوں کا وہ قائل ہوتا ہے۔ یہ اعتراض فسفے کے کثیر حصے پر ضرور وارد ہوتا ہے۔ یونان میں فلسفہ ایک قسم کی مادیت سے شروع ہوا اور ترقی کرتا ہوا خالص عقلیت تک پہنچ گیا۔ لیکن سقراط و افلاطون کی عقلیت سے بھی ماورائے عقل کنہ وجود ے تصور سے مطلقاً معرا نہیں ہے۔ خود افلاطون کے ہاں ایروس یعنی عشق ازلی کا ایک بلند تصور ملتا ہے۔ سقراط نے بھی اقرار کیا ہے کہ میں ایک غیر معمولی عقلی الہام سے زندگی کے اہم موقع پر ہدایت حاصل کرتا ہوں۔ میرے اندر ایک دیوتا ہے جو مجھے ایسے اقدام سے ہمیشہ روک دیتا ہے کہ جو نامناسب اور نامعقول ہوں۔ میں اس مصدر ہدایت کے راز سے واقف نہیں ہوں۔ جو ہدایت مجھے ملتی ہے وہ استدلال کا نتیجہ نہیںہوتی۔ اسی لیے کسی استدلال سے میں اس کی صحت کا ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا۔ یہ آواز مجھے کچھ کرنے کا حکم نہیں دیتی۔ اس میں کوئی امر نہیں ہوتا۔ خالص نہی ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے باطنمیں الوہیت کا یہ سرچشمہ میری ایجابی زندگی کو اس مقصد کے موافق سمجھتا ہے جس کو پورا کرنے کا مشن میر ے حوالے کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں غلط روی کا امکان ہووہاں مجھے روک دیتا ہے۔ قدیم اور جدید فلاسفہ میں بڑے بڑے مفکرین ایسے گزرے ہیں جنہوںنے نظریہ علم میں یہی کام کیا ہے کہ عقل استدلالی اور زمان و مکان اور علت و معلول کے حدود کے اندر عمل کرنے والی خرد کی محدودی کو ثابت کیا جائے۔ زمانہ حال میں تنقید نظری کا عظیم الشان کام جرمنی کے امام فلسفہ کانٹ نے شروع کیا ۔ اس کے بعد کے اکابر حکمائے مغرب میں بہت کم ایسے ہیں جنہوںنے محض طبیعی عقلیت کو اسرار حیات و کائنات کا کاشف قرار دیا ہو۔ ہیگل کی منطق بھی ارسطو کی سی جامد منطق نہیں ہے۔ اس کے ہاں فکر و حیات میں ہم آہنگی ہے دونوں کے اندر مسلسل تضادات پیدا ہوتے ہیں اورایک اعلیٰ تر ترکیب کے اندر رفع ہوتے ہیں۔ گویا فکر بھی ایک مسلسل تخلیقی تحقیق ہے۔ جماد و نبات و حیوان و انسان سب کی تعمیر میں ایک خرابی کی صورت یہ پیدا ہوتی ہے کہ جس کو رفع کرنے میں وحدت ترکیبی پیدا کرنا روش حیات و کائنات ہے۔ مغرب میں خدا کے قائل فلسفیوں نے اس منطق سے موافق توحید نتائج اخذ کیے ہیں اگرچہ اس کے بعض پیرو مذہب سے دور ہو گئے المانوی فللاسفہ میں نطشے کا نظریہ حیات اقبا ل کے نظریہ حیات کے بہت مماثل ہے چنانچہ اسرار خودی کے بعض اشعار میں خودی کی بابت نطشے کا استدلال دلنشیں اشعار میں منتقل ہو گیا ہے۔ نطشے نفس الٰہی اور نفس انسانی کوازروئے ماہیت خلاق اور ارتقا کوش سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہستی خور ورشز تکمیل خودی کے لیے مزاحمتیں پیدا کرتی ہے۔ تاکہ ان پر غلب حاصل کر کے وہ قوی تر ہو جائے۔ اقبال کے ہاں بھی شر اور شطیان کا یہی صور ہے جس کی شان میں اس نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کا یہ مقصود واضح کرنا ہے کہ اگر شر یا اس کے مشخص تصور شیطان کا وجود نہ ہوتا تو ہستی جامد اور بے حرکت ہو کر رہ جاتی۔ عقل طبیعی کا سب سے بڑا نقاس فلسفی برگساں ہے۔ جس سے بہتر کبھی کسی حکیم نے عقل اور وجدان کا موازنہ نہیں کیا اور وجدان حیات کو جو طبیعی اور استدلالی نہیں ہے وہ بھی اقبال کی طرح عشق خلاق ہی قرار دیتا ہے۔ امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات اور فلسفی ولیم جیمز بھی طبیعی اور استدلالی عقل کو ہستی کے لامتناہی پہلوئوں کو مدرک نہیںسمجھتا۔ زمانہ حال میں جدید طبیعیات کے ماہرین میں س اڈنگٹن اورجیمز جیسے فلاسفہ پیدا ہو گئے ہیں جو طبیعیات کی ریاضیاتی عقل کو ایک ثانوی چیز قرار دیتے ہیں اور زندگی کو جو اپنا براہ راست وجدان حاصل ہے ان کے نزدیک وہ حقیقت حیات و کائنات سے زیادہ قریب ہے۔ ان تمام فلاسفہ میں کوئی نبی یا ولی نہیں ہے۔ خود عقل کے وسیع تر اطلاق نے اور خود عقل کے تجزیے نے ان کوان حقائق کا قائل کر دیا جو عقل اور محسوسات اور زمان و مکان سے ماوریٰ اور نفس انسانی کی ماہیت سے قریب تر ہیں۔ جس حد تک اقبال عقل کا نقاد ہے وہ بھی ان حکما کی فہرست میں شامل ہے جو بعض اشعار میں اس نے انہی حکما کے افکار کو اپنے شعریت کے خم میں ڈبو کر رنگین کر دیا ہے۔ان نظریات کو اقبال نے ایسے جوش اور ولولے کے ساتھ اورایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ خود ان حکماء کا استدلال طبیعت پر ایسا گہرا اثر نہیں چھوڑتا کہ جتنا کہ اقبا کے شعر سے پیدا ہوتا ہے ۔ اقبال خود فلسفی بھی ہے او ر شاعر بھی۔ اس کی طبیعت میں بو علی اور رازی کا اندا ز بھی ہے اور رومی کا سوز و گداز بھی ۔ اسی آمیزش نے اس کے کلام کو الہامی بنا دیا ہے اقبال فلسفے اور شعر کے فر ق سے خوب واقف تھا لیکن اقبال کے اندر یہ تضا د قائم نہیں رہتا اور فلسفہ شعر بن کر دل رس ہو جاتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے: حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر می کردد چو شوز از دل گرفت بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردہ محمل گرفت عقل کے بھی کئی مدراج ہیں۔ بعض حکماء نے ان مدارج کو مادے سے شروع کر کے خدا تک پہنچایا ہے۔ یہ تدرج بھی یونانیوں نے پیدا کی ہے۔ ان کے ہاں ہیولی ہستی بے صورت کا تصور تھا جو عدم کے مترادف ہے ہستی اسفل ترینج مدراج میں وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے یہ ہیولیٰ یا عدم کسی تصورکے تحقق سے کوئی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ تصور عالم عقلی ہی کا عکس ہوتا ہے جو عدم پر پڑ کر اس کو وجود بخشتا ہے۔ غرضیکہ عقل کا ظہور جمادات سے شروع ہوتا ہے اور نبات میں کچھ ترقی یافتہ ہے اور حیوانات میں کچھ اور برھ گیاہے۔ انسان میں پہنچ کر عقل کی ترقی انفس و آفاق پر محیط ہو جاتی ہے۔ لیکن ہر درجے میں عقل کے ساتھ مادے کی کچھ نہ کچھ آمیزش باقی رہتی ہے۔ سوا خدا کے جو عقل محض ہے۔ اس میں مادے کی کوئی آمیزش نہیں اورنہ مادے سے ملوث کوئی وجود اس کے علم کا معروض ہے۔ وہاں پہنچ کر عالم و معلوم کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ خدا محض اپنا ہی عالم ہے ماسویٰ کا وجود چونکہ حقیقی نہیں اس لیے خدا کو اس کا علم بھی نہیں کیوں کہ اگر علم کا معروض غیر حقیقی ہوتو وہ علم علم ہی نہ رہے گا۔ ارسطو کے نظریہ علم کا لب لباب یہی ہے۔ اکثر حکماء عقل طبیعی اور عقل استدلالی پر آ کر رک گئے اور اس عقیدے کی تلقین کرنے لگے ۔ کہ تمام عالم عقلی ہے اور اس کا ادراک بھی عقل کے سوااور کسی چیز سے نہیں ہو سکتا۔ لیکن امام غزالی جسیے حکماء صوفیا نے عقل جزوی اور عقل کلی میں فرق پیدا کیا ہے اور حکما طبیعین کی عقل کو وہ عقل جزوی کہتے ہیںَ جس سے عقل کلی ہونے کا مغالطہ پیدا ہو گیا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ عقل کے مدارج انسانوں بلکہ حکماء تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ اس سے برتر بھی عقل کا ایک درجہ ہے جسے امام غزالی عقل نبوی کہتے ہیں اور رومی نے کہیں کہیں اسے عقل ایمانی کہا ہے ۔ اقبال اپنے انگریزی خطبات میں روحانی وجدان کی بابت لکھا ہے کہ وہ بھی محض تاثر یا جذبہ نہیں ہے بلکہ حقائق حیات کی بابت اس میں وسیع تر علم اور عمیق تر بصیرت پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی وجدان و عشق و سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عقل و علم کی وسعتیں موجود ہیں۔ اقبال بار بار اس پر زور دیتا ہے کہ استدلالی اور طبیعی عقل ہی کو عقل نہ سمجھ لو اور چونکہ لوگوں نے اسی کو عقل سمجھ رکھا ہے جو اکثر حیوانی جذبات کی غامی کرتی اور اور نزدگی کے متعلق انسان کی نظر میں تنگی پیدا کرتی ہے اور اس لیے وہ عقل کے مدراج کی توضیح کیے بغیر اس کی کوتاہی اور حقیقت نارسی ہی کا زور و شور سے اعلان کرتا ہے۔ جس سے عام پڑھنے والوں کو مغالطہ ہوتا ہ۔ کہ وہ علی الاطلاق ہر قسم کی عقل کو بیکار چیز سمجھجتا ہے۔ اور لوگوں کو اس سے بے راز کر کے بے سمجھے بوجھے ایمان لانے اور جذبہ عشق پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ عقل جزوی وہ ہے جو خود اپنی نقاد اور اپنے حدود و مقام کی شناسانہیں بن سکتی۔ اس کو وہ کبھی الحاد آفریں کہتا ہے اور کبھی بہانہ جو اور فسوں گر مگر اعلیٰ درجے کے حکما اس فسوں گری کا شکار نہیں اور خود فلسفیانہ استدلال ہی سے انہوںنے غیر استدلالی حقائق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ خود اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں ایسا ہی کیا ہے ان خطبات میں جو کچھ ہے وہ بھی فلسفہ ہی ہے۔ جسے اقبال نے الٰہیات کی معاونت میں استعمال کیا ہے ۔ باقی رہے عقل جزوی یا عقل محدود کے فلسفے جو عقل ایمانی یا عقل نبوی کے قائل نہیں ان کی بابت اقبال مخالفانہ تنقید سے نہیں تھکتا۔ کیوں کہ ایسے فلسفے انسان کو حقیقت حیات خدا اور خودی سب سے بیگانہ کر دیتے ہیں: چہ کنم کہ عقل بہانہ جو گرہے بروے گرہ زند نظریے! کہ گردش چشم تو شکند طلسم مجاز من نرسد فسوں گری خرد بہ تپیدن دل زندہ ز نشت فلسفیاں درآ بحریم سوز و گداز من عقل کی تنقید ان دو چار مخصوص مضامین میں سے ہے جو اقبال کی خاص تبلیغ اور نطریہ حیات کے محور ہیں۔ جو اشعار منتخب کر کے پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سا کلام ااسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اس تنقیدکو ختم کرتے ہوئے ہم پیام شرق میں مندرجہ ذیل نظم محاورہ علم و عشق قارئین کی لطف اندوزی اور بصیرت افروزی کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اس کا لب لباب وہی ہے جو اس موضوع کے دوسرے اشعار میں بھی موجو د ہے۔ لیکن اقبال کے انداز شعریت میں ہمیشہ جلوہ تازہ بتازہ اور نو بنو ہوتا ہے۔ موضوع خواہ ایک ہی ہو لیکن انداز بیان کی بوقلمونی میں فرق نہیں آتا: علم نگاہم راز دار ہفت و چار است گرفتار کمندم روزگار است جہاں بینم بایں سو باز کردند مرا با آنسے گردوں چہ کاراست چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم بیازار افگنم رازے کہ دارم عشق ز افسون تو دریا شعلہ زار است ہوا آتش گذار و زہر دار است چو بامن یار بودی نور بودی بریدی از من و نور تو نار است بخلوت خانہ لاہوت زادی ولیکن در نخ شیطاں فتادی بیا ایں خاک داں را گلستاں ساز جہان پیر را دیگر جواں ساز بیا یک ذرہ از درد دلم گیر تہ گردوں بہشت جاوداں ساز ز زور آفرینش ہمدم استیم ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم علم دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہفت افلاک اور چار عناصر یعنی خاک و افلاک کے رموز سے واقف ہوں۔ اور تمام زمانے کے احوال و حوادث میر احاطہ ادراک میں ہیں۔ مجھے بصیرت جہاں بینی کے لیے عطا ہوئی ہے سواس جہان کو سمجھنے کا کام میں نے بخوبی انجام دیا۔ ستاروںسے آگے اگر کوئی جہان ہیں یا کوئی لا زمانی و لا مکانی عوالم کہیں ہیں تو مجھے ان سے کیا واسطہ میں اسرار کو سربستہ رکھنے کا قائل نہیں جو کچھ معلوم ہوتاہے تمام ماننے والوں کے سامنے علی روس الاشہاد بیانگ کو اس کا اعلان کردیتا ہوں۔ عشق اس کے جواب میں کہتا ہے کہ آ پ کی ساحرانہ قدرت کے توہم قائل ہین مگرآپ ہم سے قطع تعلق کر کے دنیا کو نمونہ جہنم بنا لیا ہے۔ دریائوں میں بھی آگ لگائی ہے اور ہوائوں میں کہیں زہر پھیلایا ہے تو کہیں آتش فشاں مادوں سے فضا کو شعلہ زار بنا دیا ہے ۔ جب تک ہم سے یاری قائم تھی تو نور تھا ہم سے الگ ہو کر نار بن گیا۔ میری طرح تو بھی لاہوت ؤکے خلو ت کدے میں پیدا ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے تو شیطان کی لپیٹ میں آ گیا تلبیس ابلیس نے مجھے بھی شیطنیت سکھا دی۔ اب بھی اگر تو باز آ جائے تو پھر ہم اور تم بگڑی کو بنا سکتے ہیں۔ تو محض اپنی قدرت سے دنیا کو جنت بنانے کے وہم باطل میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اب تو نے تجربہ کر لیا ہے کہ بے اعانت عشق خالی علم سے جنت کی بجائے دوزخ وجود میں آتی ہے۔ ابتدائے آفرینش میں خدا نے ہم دونوں کو ہمد م اور ایک دوسرے کا معاون بنایا تھا۔ اب بھی باہمی تعاون سے ہم ا س خاکدان کو جنت بنا سکتے ہیں۔ اور اس فرسودہ جہان میں حیات نو پیدا کر سکتے ہیں۔ علم بے محبت کچھ اھے نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ تھوڑا سا درد دل مجھ سے لے کر پھر عمل کر تو دیکھ کہ اس گردوں کے نیچے بھی بہشت جاوداں کا لطف پیدا ہو جائے گا۔ زندگی میں دو عظیم الشان قوتیں ہیں ایک علم اور دوسری عشق۔ خدا نے ان کو توام پیدا کیا ہے۔ اور ان کا رابطہ اس قسم کا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیربے کار بلکہ ضرر رساں ہو جاتاہے۔ ازروئے عقل اور بواسطہ ایمان و وجدان اقبال موحد ہے اور خداوعالم روحانی کا قائل ہے۔ مذہب کی تلقین اپنے وجدان اور حقائق حیات پر غور کرنے کے عد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی میں دو ہی اقدار اساسی ہیں ایک علم اور دوسرا عشق اور انسانی زندگی کے ہمہ سمتی کا ارتقا کا مدار انہیں اقدار کے تحقق پر ہے۔ لیکن ایک کافر طبیعی فلسفہ برٹ رینڈ رسل بھی اپنے عقائد کے متعلق ایک چھورے رسالے میں یہی لکھتا ہیکہ زندگی کے اساسی اقدار علم اور عشق ہی ہیں اور اگر انسانیت اسی عقیدے کو اپنا دین قرار دے کر عمل کرے تو انسانی زندگی کے آلام و خبائث اور ظلم و جہالت سے پاک ہو سکتی ہے۔ برٹ رینڈ رسل نہ حیات بعد الموت کا قائل ہے نہ خدا کو مانتا ہے ور نہ کسی روحانی عالم کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے ہاں علم کا مفہوم بھی اقبال کے معاملے میں تنگ ہے۔ اور عشق بھی اس کے نزدیک انسانی محبت کے علاوہ اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن آزاد خیالی اور طبیعیاتی فلسفے نے بھی اس کو اقدار حیات کے متعلق روحانیین اور موحدین سے ایک گونہ متفق کر دیا۔ آزادانہ تحقق کی بدولت کفر اور ایمان کے ڈانڈے بھی مل جاتے ہیں: کفر و دین است در رہت پویاں وحدہ لا شریک لہ گویاں ٭٭٭ گیارھواں باب عشق کا تصور اقبال کے ہاں عقل کی تنقید کا مضمون اکچڑ عشق کی توصیف کے دوش بدوش چلتا ہے اور جا بجا بعض اوقات ایک ہی شعر کے دو مصرعوں میں کہیں کہیں مسلسل اشعار میں ان کا موازنہ اور مقابلہ ملتا جلتا ہے عقل کی تنقید تو اکثر پڑھنے والوں کی سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن عشق سے اقبا کی امراد لیتا ہے اس کو سمجھنے کے لیے زیادہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے ہاں صدیوں سے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی اصطلاحیں زبان زد عام ہیں۔ عشق حقیقی سے بعض اوقات انسانوں کی باہمی بے لوث محبت مراد ہوتی ہے۔ جس میں خود غرضی نفسانیت یا جنسیت کا کوئی شائبہ نہ ہو اور بعض اوقات اس کے معنی عشق الٰہی کے ہوتے ہیں۔ یعنی اشخاص و اشیا کی محبت کے ماوریٰ خدا کا عشق اور یہ عشق حقیقی دل میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کا دل ہر قسم کی غرض وہوس سے پاک ہو جائے: سرمد غم عشق بوالہوس را ندہند سوز دل پروانہ مگس را ندہند اقبال نے عشق کے مفہوم میں بڑی گہرائی اور بڑی وسعت پیدا کر تی ہے۔ اور اس بارے میں وہ خاص طورپر عارف رومی کا شاگرد رشید ہے۔ اقبا ل نے حکمت و عرفان کے بیش بہا جواہر اسی مرشد سے حاصل کیے ہیں لیکن عشق کے بارے میں وہ خاص طور پر رومی کا ہم آہنگ ہے۔ رومی کے ہاں حکمت و علم بہت ہے اور عقل کی تعریف میں بھی اس کے نہایت بلیغ اشعار ملیت ہیں۔ لیکن رومی جہاں عقل سے عشق کی طر ف آتا ہے وہاں عجیب ولولہ اور جوش دکھائی دیتا ہے۔ ایک لحاظ سے تمام مثنوی کا موضوع عشق ہی ہے۔ مثنوی کے تمہیدی اشعار میں بھی وہ عشق ہی کو بیان کرتا ہے۔ لیکن فوراً اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یہ کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی: گرچہ تفسیر و بیان روشن گر است لیک عشق بے زباں روشن تر است عقل در شرحش چو خر در گل بخفت شرح عشق و عاشقی ہم عشق گفت عارف رومی کے نزدیک دین کا جوہر بھی عشق ہی ہے۔ ادیان میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اور عقائد و شعائر و اعمال میں بہت کچھ فرق پایا جاتا ہے لیکن جب کسی شخص میں عشق حقیقی پیداہ و جاتا ہے تو وہ ان امتیازات کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھتا اور یہ کہہ اٹھتا ہے کہ : مذہب عشق از ہمہ دیں با جداست چونکہ ظواہر ہی کو لوگ دین سمجھتے ہیں۔ جن کی حقیقت عاشق کے نزدیک ثانوی رہ جاتی ہے۔ اس لیے عوام ہی نہیں بلکہ فقہا بھی عاشقوں کو کافر کہنے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ عشاق خود بھی اپنے کفر کی اصطلاح استعمال کرنے لگتے ہیں: کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست ہر رگ من راگ گشتہ حاجت زنار نیست میر کہتا ہے: سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا عام لوگوں کو جو کچھ دین کے ظواہر و شعائر و عبادات سے حاصل ہوتا ہے عشق الٰہی کے نزدیک وہ سطحی اورناپائدارہوتا ہے۔ عشق تمام امراض ظاہر و باطنی کا علاج ہے: اے دواے جملہ علت ہاے ما اے دواے نخوت و ناموس ما اے تو افلاطون و جالینوس ما جس عشق کی مدح سرائی حکماء اور صوفیہ اورشعرائے متصوفین نے کی ہے اس کے دو پہلو ہیں ایک تاثراتی یا جذباتی اور دوسرا نظریاتی۔ یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے جد ا بھی ہو سکتے ہیں اور باہم مخلوظ بھی ہوتے ہیں۔ جن حکما کامیدان فقط عقلیت ہے ان کے ہاں اس چیز کے متعلق نظریات ملتے ہیں جسے انہوںنے مشاہدی کائنات و حیات سے مدد لے کر استدلال سے مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مقابلے میں ایسے صوفیہ بھی ملتے ہیں جن کے ہاں عشق کی کیفیت بڑے جوش و خروش کے ساتھ موجو دہے لیکن وہ اس کی عقلی توجیہ کی کوشش نہیں کرتے یہ کیفیت ان سے دوسروں کی طرف برکت صحبت اور فیض روحانی سے کم و بیش منتقل ہوتی ہے راہ استدلال تو دراز اور پر پیچ ہے اور تسکین آفرین بھی نہیں لیکن لبریز عشق عاشق کی توجہ ایک لمحے میں مستفیض انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ تصوف کی تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ایک شخص کسی عاشق الٰہی کی نظر کیمیا گر اثر سے ایسا بدلا کہ اس کے عمر بھر کے ساتھی اس کوکوئی دوسرا ہی انسان سمجھنے لگے۔ قبل فیضان کی زندگی میں کوئی مشابہت نہ رہی۔ آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشہ چشمے بما کنند چند لمحوں میں وہ بات حاصل ہو جاتی ہے جو عمر بھر کی ذہنی کاوشوں اور عمر بھر کی بے ریا سطحی عبادتوں سے حاصل نہ ہو: یک زمانے در حضور اولیا بہتر اس صد سالہ طاعت بے ریا (رومی) طے شود جادہ صدد سالہ بہ آہے کاہے (اقبال) بعض اوقات فیضان الٰہی سے جس کے اسباب و علل پر ماہر نفسیات حاوی نہیں ہو سکتا۔ یک بیک خود بخود کسی کے اند ر سے یہ چیز ابھر پڑتی ہے۔ تاثر کا پہلو ایک ذوق چیز ہے۔ نہ استدلال سے پیدا ہوتا ہے نہ استدلال سے دوسرو ں کو سمجھایا جا سکتا ہے: ذوق ایں بادہ ندانی بخدا تانہ چشی صوفیانہ عشق کی مثال حضرت امام غزالی نے بہت عمدہ بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک شخص شراب پیتا ہے اور رگ و پے اور اعضائے جسمانی پر اس کے جوگوناگوں اثرات ہوتے ہیں ان سے وہ ذات تجربے کی بناپرپوری طرح آشنا ہوتا ہے۔ بمقابلہ اس طبیب کے جو شراب نوشی ہر ایک مبسوط کتاب لکھ سکتا ہے۔ لیککن اس نے اگر خود شراب نہیں پی تو وہ اس کے ذوق و سرور سے مطلقاً نا آشنا ہوتا ہے یہی حال نظری اور علمی تصوف کا ہے۔ لیکن کہیں کہیں ایسے بزرگ بھی نظر آتے ہیں جن کے اندر یہ تاثراتی کیفیت بھی ہوتی ہے کہ اور اس کے متعلق وہ حکیمانہ نظریات پیش کرنے کی بھی اہلیت رکھتے ہیں۔ عطار و سنائی و رومی اسی سم کے جامع عقل و عشق ہیں۔ اسی لیے ان کا کلام حکمت پسندوں اور عاشقوں دونوں کے لیے بصیرت افروز اور دل رس ہے۔ اس بارے میں رومی کے کمال کو کوئی نہیں پہنچا۔ اقبال میں بھی یہ دونوں چیزیںموجود ہیں عشق کا حکیمانہ بیان رومی سے بھی کسی قدر بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ تاثراتی پہلو رومی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق کی یہ مستی اور ذوق اس کے متعلق حکیمانہ نظریات مسلمانوں کی زندگی میں کب پیدا ہوئے اور کس راستے سے داخل ہوئے کیا یہ چیز رسول کریم صلعم اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں موجود تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عشق شدت محبت کا نام ہے اور خود قرآن پاک نے مومن کی یہ صفت اشد حباللھ بیان کی ہے۔ مومن کی صفت ظاہر ہے کہ بدرجہ اتم محب و محبوب خدا محمد مصطفی صلعم میں موجو دہونی چاہے۔ تمام مسلمان صوفیہ جو عشق الٰہی میں مستغرق رہے اس کا اقرار کرتے ہیں کہ اس عشق میں ؤان سے کوئی رسول کریم صلعم کے عشق تک نہ پہنچ سکا۔ عش کا کمال یہ ہے کہ عاشق کا اٹھنا‘ بیٹھنا کھانا پینا سونا جاگنا غرضیکہ اس کے تمام افکار و اعمال و جذبات کا محور محبوب کا عشق اور اس کا تصور ہو۔ عاشق الٰہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفت قرآن کریم میں بھی اچھی طرح بیان کی گی ہے۔ عشق و عرفان کا کمال یہ ہے کہ عاشق کی مرضٰ معشوق کی مرضٰ میں ضم ہو جائے ۔ اسلام کے بھی یہی معنی ہیں ۔ خدا کی مشیت کے سامنے انسان کی کامل تسلیم مشیت اس تسلیم و رضا کی بدولت رسول صلعم کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ: تہ او گفتہ اللہ بود گرچہ از حلقوم عبداللہ بود یہ مارمیت اذرمیت کا مقام ہے جس میں کمال فنا کمال بقا سے ہم آغوش ہ۔ جس طرح کا عشق رسولؐ کو خدا کے ساتھ تھا اس سے کچھ مشابہ عشق صحابہ کبارؓ کو رسولؐ کے ساتھ تھا۔ صحابہ کبارؓ می ںخوئی شخص دکھائی نہیں دیتا جو استدلال کی بناپر یا کسی خرق عادت یا معجزے سے رسولؐ پر ایمان لایا ہوان لوگوں میں عشق رسولؐ کی صحبت اورم حبت سے پیدا ہوا اور اس محبت میں یہ شدت تھی کہ زن و فرزند اور والدین کی محبت اس کے مقابلے میں قابل اعتنا نہ تھیں۔ اس کے بعد اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ اسلا م عشق سے پید ا ہوا۔ بلکہ عشق ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔ مغرب کے کوتاہ اندیش مستشرقوں نے یہ الاپنا شروع کیا کہ اصل اسلام میں محبت اور عشق کا کوئی سوال نہ تھا فقط خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت تھی جس کی بدولت دینداروں میں ایک زہد خشک پیدا ہو گیا۔ جس کے اندر کوئی تاثراتی پہلو نہ تھا۔ یہ مغالطہ ان کو اس لیے پید اہو گیا کہ اسلام کی شروع کی زندگی میں عملی اور اخلاقی پہلو غالب تھا۔ اسلام نے ایک نظریہ حیات کی تلقین کی تھی جو مومنوں کا ایمان بن گیا تھا۔ ان کو فلسفیانہ اور حکیمانہ استدلالات اور موشگافیوں کی ضرورت تھی۔ اس لیے ابتدائی دور میں نہ فلسفہ ابھر سکا اور نہ عمل کے مقابلے میں دور اول کے مسلمان عالم تاثرات میں زیادہ غوطہ زن ہوئے۔ نفسیات کا ایک مسلمہ ہے کہ تاثر اور تفکر کی کثرت قوت ارادی اور قوت عمل کوکمزور کر دیتی ہے۔ اور اسلام کا مقصد اس انقلابی اور اصلاحی دور میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح عمل تھا۔ اور تاثر اور تفکر کو کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑا۔ جب تک کہ نئی تہذیب اور تمدن کے سانچے استوار نہ ہو گئے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عربوں کا مزاج بھی زیادہ تر عملی تھا وہ عجمیوں ہندوئوں اور یونانیوں کی طرح غوطہ خوار قلزم بود و عدم نہ تھے۔ ان کے لیے بس یہی بس تھا کہ خدائے واحدو خالق علیم و رحیم حکیم ہم سے اس قسم کے اعمال کا تقاضاکرتا ہے اور اعمال کے حسن و قبح کے ساتھ دنیا وآخرت میں جزا وسزا وابستہ ہے۔ خیر و شر کی ماہیت کے متعلق حکیمانہ استدلال شروع کرو تو ان کے امتیاز فرق اور ان کے حدود کا یقین ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ موجودہ طبیعی سائنس اس کا اقرار کرتی ہے کہ اس کی تحقیقا ت کامطلق کوئی تعلق اقدار حیات کے ساتھ نہیں۔ وہ صرف مظاہر فطرت کے باہمی روابط کا علم حاصل کرتی ہے۔ خیر و شر کے متعلق اسی تذبذب نے یونان میں سقراط و افلاطون و ارسطو کے دور میں سو فسطائین کا ایک سیلاب پید اکر دیا اور وہ سپارٹا سے شکست کھا گئے جہاں کے شہر ی نظام حیات کے متعلق کوئی پیچاک انگیز بحثیںنہ کرتے اور یکے بین و یک دان و یک باش پر عامل تھے۔ محض تاثرات سے لذت اندوزی بھی اخلاقی و عملی زندگی کو ضعیف بنا دیتی ہے۔ اور جب کوئی تہذیب زوال پذیر ہوتی ہے تو ہر شخص اپنے انفرادی تاثرات میں غرق ہو جات اہے اور اس کو معیار زندگی بنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی عشق کا شاعرانہ اور صوفیانہ جوش و خروش ان کے دور انحطاط ہی میں نظر آتا ہے۔ ایسے خطوں میں ایسی ملتوں نے اسلام قبول کر لیا جن کا مزاج عربی نہ تھا ورجہاں پہلے سے فلسفیانہ بحثوں کے اکھاڑے موجود تھے۔ ان میں تخیلات بھی ترقی یافتہ تھے اور تاثرات بھی۔ جب یہ چیزیں حجازی اسلا م میں داخل ہو کر اس کا جزو لاینفک بن گئیں تو اس سے مسلمانوں کو کچھ فوائد کے ستھ ہی لا طائل علم الکلام بھی پیدا ہوا۔ صوفیہ کے یہاں شریعت کے علاوہ عشق کے جذبے کو بھی ترقی ہوئی ظاہر پرستی کے مقابلے میں تزکیہ باطن کی طرف توجہ مبذول ہوئی لیکن باطن میں بہت زیادہ غوطہ زنی نے دین داروں کو اصلاح معاشرت اور امور مملکت سے بیگانہ کر دای۔ آفاق کی طرف سے آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اور عالم نفسی کے احوال مرجع توجہ بن گئے۔ مشاہدہ کائنات جس پر قرآن نے بہت زیادہ زور دیا ہے سپرد تغافل ہو گیا: چشم بند ولب بند و گوش بند گر نہ بینی نور حق برمن بخند روحانین کا لائحہ عمل بن گیا شریعت کی طرف سے بے اعتنائی ظہور میں آئی اور عشق الٰہی میں مست ہونے والے کہنے لگے کہ: با خدا آں چناں مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تا بہ اولوالامر چہ رسد ان لوگوں میں سے جو رومی اور غزالی کی طرح زندگی کا توازن قائم رکھ سکے ان کی حکمت اور معرفت اور عشق نے خلق خدا کو ان سے آگاہ کیا۔ لیکن اس نفسی غوطہ زنی میں تکمیل حیات کے لیے بہت سے خطرات بھی تھے جنہوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو غلط راستوں پرڈال دیا۔ انسان کو اپنے نفس کے مطالعے اور محاسطے کی بھی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آفاق میں آیات الٰہیہ کا مشاہدی بھی اس کا فرض ہے۔ اسلام اسی توازن کا نام تھا۔ لیکن نفسی حالات و مقامات میں الجھنے والوںنے لوگوں کو دنیا کی طرف سے رخ پھیر لینے کی ہدایت کی: ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیر سرو و سمن درآ تو زغنچہ کم ندمیدہ در دل کشا بہ چمن درآ اور کہا کہ نفس کے عالم باطن میں داخل ہو کر وہاں سے پھر باہر نہ آ سکو۔ زدر بروں نہ شدن در آ ا س نظریہ حیات کی بدولت مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی ترقی رک گئی۔ کچھ حکمت پسند افراد اپنا تحقیقی کام کرتے رہے لیکن اس کا اثر عام معاشرت پر نہ پڑا۔ یہاں تک کہ سولھویں صدی اور سترھوین صدی میں اہ مغرب نے مسلمانوں کی حکمت اور علوم و فن کی اساس پر اپنی زندگی کی تعمری شروع کی۔ یہ ترقی بھی یک طرفہ ہوئی اس لیے بہت سے فائدوں کے ساتھ کچھ نقصانات بھی اپنے ساتھ لیتی آئی۔ اقبال نے کئی مقامات پر اس بارے میں شرق و غرب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ تاثرات نفسی یعنی عشق کو عقل یا زیرکی سے الگ کرنے سے مشرق بھی گمراہ ہوا اور مغرب بھی۔ دونوں بیک وقت ترقی کریں اور باہم معاون ہوں تو انسانیت ایک نیا عالم پیدا کر سکتی ہے۔ جس کاانداز حیات مشرق و مغرب دونوں سے افضل ہو: غریباں را زیرکی ساز حیات شرقیاں را عشق راز کائنات زیرکی از عشق گردد حق شناس کار عشق از زیرکی محکم اساس عشق چوں با زیرکی ہم بر شود نقشبند عالم دیگر شود خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیز دہ محاورہ علم و عشق کی نظم کے اشعار اوپر درج ہو چکے ہیں ان میں یہی مضمون ہے کہ علم و عشق کے تعاون سے یہ عالم پیر پھر جوان ہو سکتا ہے۔ اور ایک صالح زندگی پیدا ہو سکتی ہے۔ جسے فردوس ارضی کہہ سکیں۔ آخرت کی جنت کی حقیقت تو آخرت میں پہنچ کر معلوم ہو گی لیکن عقل وعشق دونوں مل کر دنیا کو بھی جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں۔ اسلام کا یہ تقاؤضا تھا کہ اطاعت یا عبادت عشق کے درجے تک پہنچ جائے اور عبد عابد عاشق بن جائے لیکن یہ عشق ایک طرف علم یا معرفت کی بدولت پیدا ہواور دوسری طرف معرفت اس عشق کو صرا ط مستقیم سے نہ ہٹنے دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں تو کہیں عشق کا ذکر نہیں۔ تمام قرآن میں کہں ایک جگہ بھی یہ لفظ نہیں ملتا۔ لیکن ایک اصطلاح کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتاہے۔ عشق سے بعد میں لوگوں نے جو کچھ مراد لیا ہے اس کی صحیح و صالح تشریح و توضیح قرآن میں موجود ہے۔ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ لفظ عشق نہ قرآن میں ملتاہے نہ حدیث میں اور نہ شعرائے جاہلیت کے کلام میں لیکن کیااس سے کوئی سمجھ دار انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہیکہ اس دور کے عرب اس کیفیت سے ناآشنا تھے جسے عشق کہتے ہیں؟ کیا عشقیہ شاعری اور افسانے ان کے ہاں نہ تھے اور کیا امام العشاق قیس عامری حجازینہ تھا؟ البتہ عشق کے متعلق جو نکتہ آفرینیاں او رموشگافیاں عجمیوں نے پیدا کی وہ دور طلوع اسلام بلکہ اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک عربی ادب میں نظر نہیں آتیں۔ اس میں جو لطف پیدا کیا ہے وہ عجمی مذاق نے پیدا کیا ہے۔ مولانا شبلی اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایران کی آب و ہوا حسن و عشق سے لبریز تھی اس لیے عشقیہ شاعری کو یہاں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ روحانیت میں بھی عشق کے عنصر کو ایران میں اس لیے ترقی ہوئی کہ ایرانیوں کی فطرت کے خمیر میں موجود تھا۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کامل میں عشق کی بحث کرتے ہوئے جو یہ خیال ظاہر کیاہے کہ نظریاتی اور فلسیانہ حیثیت سے عشق کے متعلق تصورات فلسفہ اشراق کی بدولت اسلامی ادب میں داخل ہوئے۔ وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔ فلسفہ اشراق کا بہت سا حصہ فلاطینوس سکندری کی جدید فلاطونیت کا رہین منت ہے۔ جس نے یونانی فلسفے کو وحدت الوجود کا نظریہ اور تصوف بنا دیا۔ فلاطینوس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ ذات بحت جو ذات احد ہے وہ تمام صفات اور تعینات سے ورا الورا ہے وہ ایک نور محض ہے جس کا اشعاع یا اشراق تمام ہستی میں ہوتاہے۔ موجودات کا نظام تدریجی ہے۔ جو نفس کلی یا عقل کلی سے شروع ہو کر مادہ محض پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں ہستی کا ہر درجہ اس تنویر سے معین ہوتا ہے کہ جو اس کو آفتاب ہستی سے حاصل ہوتی ہے بلند تر درجے میں نور زیادہ ہوتاہے ۔ اور اس سے پست تر درجے میں مقابلتاً کم۔ ذات احد سے مادے تک تنزلات کا ایک سلسلہ ہے۔ اسی فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے ابن عربی نے کہا ہے کہ رب رب ہی رہتا ہے خواہ اس سے تنزلات سرزد ہوں اور عبد عبد ہی رہتا ہے۔ خواہ وہ درجہ حیات میں کتنی ہی ترقی کر جائے۔ اسی بحث میں مولانا عبدالسلام نے شیخ الاشراق کی مشہور کتاب حکمتہ الاشراق کا ایک اقتبا س دیا ہے جسے ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔ ہر بلند نور کو نیچے کے نور پرغلبہ و اقتدار حاصل ہے اور نیچے کا نور بلند نور سے محبت رکھتا ہے۔ اور اسی قہر و مہر سے نظام عالم کا وجود وابستہ ہے۔ اور جب بہت سے انوار جمع ہو جاتے ہیں تو بلند نور نیچے کے نور پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے اور نیچے کے نور کو بلند نور کا شوق اور عشق ہو جاتا ہے۔ اس لے نور الانوار یعنی خدا کو اپنے ماسوا تمام موجودات پر غلبہ حاصل ہے اور وہ اپنی ذات کے سوا کسی اور کا عشق نہیں کرتا۔ کیوںکہ وہ ہر چیز سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اور مکمل ہیل۔ اور اس کو اپنا کمال نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ عاشق بھی ہے اور معشوق بھی۔ اور چونکہ خدا سے بہتر کوئی چیز حسین او رمکمل نہیں اس لیے کسی چیز کو بھی دوسری چیز کے عشق میں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو عشق الٰہی میں ہوتاہے۔ غرض نظام عالم کا وجود مہر و قہر سے قائم ہے اور انوار مجردہ کی جس قدر کثرت ہوتی ہے اور جس قدر ان میں علت و معلول کا سلسلہ بڑھتاجاتا ہے اسی قدر نظام عالم مکمل ہوتا ہے اور کل عالم مل کرایک عالم بن جاتے ہیں۔ ٭ ٭ (ملحض از شرح حکمتہ الاشراق ص ۳۳۸‘ ۳۳۹‘ ۳۴۰) اسی فلسفے نے وحدت الوجود کی صورت اختیار کر لی جو اکثر صوفیہ اور شعرائے متصوفین کا ایک دلکش مضمون ہے۔ موجودات کے اندر ہستی جس درجے کی بھی ہے وہ نور الٰہی کی کم و بیش تنویر ہے: مشکل حکایتے است کہ ہر ذرہ عین اوست لیکن نمی تواں کہ بشارت بہ او کنند ٭٭٭ ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے پر تجھ سی توکوئی شے نہیں ہے یہی اشراقی اور فلاطینوسی فلسفہ کی قدر تغیر کے ساتھ جلال الدین رومی کا فلسفہ ارتقا بن گیاہے کہ تمام ارواح خدا سے صادر ہوئی ہیں اوران کی جو ماہیت ہے وہ الٰہی ہے۔ ا س لحاظ سے ارواح بھی غیر مخلوق اور قدیم ہیںَ خدا سے لے کر جمادات تک موجودات کا ایک تدریجی نظام ہے۔ ہر روح خدا سے جدا ہو کر پہلے اسفل السافلین میں گرتی ہے لیکن اپنی اصل کی طرف رجعت کا میلان اس میں بدستور باقی رہتا ہے۔ کل شعی برجع الی اصلع: ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش باز جوید روزگار وصل خویش تمام کائنات اس لے مائل بہ ارتقاء ہے کہ وہ خدا کی طرف عود کرنا چاہتی ہے۔ اس تنزلاتی اور تدریجی نظام مین وہ جذبہ جو عالم کے اجزا اور نظم عالم غایت حیات اورکائنات نہیں۔ ہر ذرے کا مقصود و صعود الی اللہ ہے۔ ماید سے خدا تک ایک نردبان ہے اور جس ہستی کو بھی خدا کی طرف واپس جانا ہے اسے پایہ پایہ قدم بہ قدم ترقی کرنا ہے۔ مادہ آب و خاک میںجب ایک بیج ڈال دیا جاتا ہے تو اس کے گرد و پیش کا تما م مادہ جو جامد و بے جان معلوم ہوتا ہے‘ نبات کی محبت میں اپنی ہستی کو بنا کر کے نخل کی صورت میں مبدل ہوجاتاہے۔ اسی طرح نبات کو حیوان کھا جاتے ہیں تو نبات حیوانیت کے عشق کی بدولت حیوان کی ترقی یافتہ صورت میں بدل جاتی ہے۔ نبا ت و حیوان دونوں کو انسان کھا جاتا ہے تو وہ انسان بن جاتے ہیں۔ اب انسان کو آئندہ کسی اعلیٰ تر روحانیت کی محبت میں ہستی کے اعلیٰ تر مدراج میں اپنے آپ کو ختم کرنا ہے۔ اسی طریقے سے عشق اعلیٰ تر اقدار حیات کا خلاق بن جاتاہے۔ اور عشق کی بدولت ہستی کا ہر ذرہ وسیع ترین اتحاد پیدا کرنے اور اوپر کی طرف ترقی کرنے پر مائل ہے۔ ارتقا کے متعلق مولانا روم کے اشعار مشہور ہیں: از جمادی مردم و نامہ شدم وزنما مردم بہ حیوان سر زدم مردم از حیوانی و آدم شدم پس چہ ترسم کے ز مردن کم شدم حملہ دیگر بمیرم از بشر تا بر آرم از ملائک بال و پر بار دیگر از ملک پراں شوم آنچہ اندر وہم ناید آں شوم آخر منزل خدا سے وصال کامل ہے جس پر وجود کو کوئی تصور قابل اطلاق نہیں اس لیے صوفیہ نے اس بقا کا نام عدم رکھ دیا ہے۔ جس کے معنی اثبات کامل ہیں نہ کہ نفی ہستی: پس عدم گردم عدم چوں ارغنوں گویدم کانا الہ راجعون صوفیہ کے ہاں خدا کے پاس واپس لوٹنے کے عام ظاہر ی اورشرعی معنی نہیں بلکہ ذات الٰہی میں واصل اور یک رنگ و یک آہنگ ہونا ہے جو تمام جنتوں اور تمام اجروں سے افضل کیفیت ہے او ر ہر ہستی کی منزل مقصودہے: منزل ما کبریاست اس نظریہ حیات کو مسلمانوں کے بہت سے حکما نے قبول کیا ہے اور اخوان الصفا کے رسائل کے غیر معلوم مصنفین نے اس کو مسلمانوں میں عام کر دیا ہے۔ عشق کے اس فلسفیانہ نظریے کا لب لباب نہایت وضاحٹ کے ساتھ مثنوی مولانا روم کے مندرجہ ذیل اشعار میں ملتا ہے۔ ذرات کی ترکیب کے متعلق طبیعیات اور کیمیا کے نظریات اور اجرام فلکیہ کے باہمی تجاذب سے ان نظامات کا قیام اور جماد سے انسان تک حیات و کائنات کا طریق ارتقاء سب کی توجیہہ مولانا روم نے اسی نظریہ عشق سے کی ہے: جملہ اجزائے جہاں زاں حکم پیش جفت جفت و عاشقاں جفت خویش ہست ہر جزوے ز عالم جفت خواہ راست ہمچو کہربا و برگ کاہ آسماں گوید زمیں را مرحبا با توام چوں آہن و آہن رہا میل ہر جزوے بہ جزوے ہم نہد ز اتحاد ہر دو تولیدے جہد ہر یکے خواہاں دگررا ہمچو خویش از پے تکمیل فعل و کار خویش دور گردوں را ز موج عشق داں گر نبودے عشق بفسردے جہاں کے جماعی محو گشتے در نبات کے فداے روح گشتے نامیات ہر یکے بر جا فسردے ہمچویخ کے بدے پران و جویاں چوں ملخ یہاں پر ایک شک کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ مشرق و مغرب کے بہت سے محققین اور مورخین نے تمام تصوف اور اس کے نظری اور عملی اور جذباتی پہلوئوں کو اسلام میں خارج سے داخل شدہ چیز سمجھ لیا ہے۔ کوئی اس کو فلاطینوسی فلسفے سے اخذ قرار دیتا ہے تو کوئی بدھ مت اور ویدانت سے اس کا رشتہ جوڑتا ہے۔ اس خیال کو زیادہ تر مغرب کے مستشرقین نے عام کیا ہے کہ ور اس سے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ اسلام تو ایک خشک اور سطحی چیز ہے۔ اس میں فکر و تاثیر کی کوئی گہرائی نہ تھی۔ بالفاظ دیگر وہ ایک بے روح سا جسم تھا جس میں حکاء اسلام نے جو یونانی حکمت سے متاثر تھے اور صوفیہ نے جو غیر اسلامی حیات گریز نظریات کی عملی اور فکری تلقین کرتے تھے۔ حکمت اور روحانتی کوداخل کر کے ایک نیا مرکب بنا دیا جسے ہر ایک اکسیر حیات سمجھنے لگا۔ اس خیا ل نے ایک جزئی حقیقت کو کامل تحقیق بن اکر تصوف اور اسلام کے باہمی تعلق کی بابت گمراہ کن افکار کی ایک تعمیر کھڑی کر دی ہے۔ اس کا جواب ہم مختصراً پہلے دے چکے ہیں کہ عشق کا لفظ قرآن و حدیث میں مستعمل نہیںہے۔ کیوں کہ اس تصور کو بیان کرنے کے لیے عربی زبان میں اس دور تک اور الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ لیکن اسلام کی بنیاد عشق خدا اور عشق رسولؐ ہے۔ اسلام میں کائنات کو باطل فریب ادراک یا ویدانت کی طرح مایا نہیں سمجھتا۔ بلکہ اس خیال کو قرآن کئی جگہ دہراتا ہے کہ یہ کائنات حق ہے باطل نہیں۔ ربنا ما خلقت ھذا باطلا اور دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ہم نے اسے یوں ہی کھیل نہیں بنایا یہ ایک معنی خیز اور نہایت سنجیدہ حقیقت ہے۔ جس کامشاہدہ اور جس کے آئین خلاق حیات و کائنات کی صفا ت کی نشاندھی کرتے ہیں۔ قرآن حکمت کو خیر کثیر کہتا ہے اور حکمت اسی چیز کا نام ہے جسے سائنس اور فلسفہ اپنا مقصو دسمجھتا ہے۔ اور مذہبی انسان تزکیہ نفس کو اس کا وسیلہ سمجھتا ہے۔ ارتقائے حیات و کائنات کے اشاروں سے بھی قرآن خالی نہیں وہ مادی کائنات کی ابتدائی حالات وہی بتاتا ہے جس پر آج کل کے طبیعی حکماء متفق ہیں کہ شروع میں ان کے دخان کی سی کیفیت تھی۔ پھر یہ بھی بتاتا ہے کہ ارض و سماوات پہلے ایک مخلوط سی چیز تھے۔ اس کے بعد اجرام فلکیہ اور ارض الگ الگ ہوئے اور پھر جہاں نباتی یا حیوانی زندگی پیدا ہوئی وہ پانی بننے کے بعد ہوتی۔ اولم یرالذین کفروا ان السموات والارض کانتارتقا ففتقنھما وجعلنا من الماء کل شی ء حی افلا یومنون ۲۱:۳۰ کیا منکرین نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں کا ایک بھنڈ ا سا تھا۔ پھر ہم نے اس کو توڑ کر زمین و آسمان کو الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جان دار چیزیں بنائیں تو کیا یہ لوگ پھر بھی یقین نہ کریں گے؟ انسان کے ارتقاء کی ابتدائی منازل کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے کہ اس دہر میں ابتدائی دور میں وہ ایسا بے حیثیت تھا کہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی اس کا اطلاق بھی فرد پر ہوتا ہے اور نوع پر بھی: ھل انی علی الانسان جین من الدھر لم یکن شیئا مذکورا ْپھر عام انسانی نوع تک پہنچ کر یہ ارتقا ختم نہیں ہوتا کیوں کہ قرآن کا نصب العینی آدم جو انسان کامل کا تصور ہے مسجود ملائک ہے اور یہ جبھی ہو سکتاہے کہ تخلقو باخلاق اللہ کی منزلیں طے کرتا ہوا وہ ایسے صفات پیداکرے کہ جو حکمت و مشیت الٰہی سے ہم آہنگی کی بدولت اس کو الوہیت سے بہت قریب کر دیں۔ امریکہ میں راقم الحروف نے فلسفہ اسلام پر بہت سے لیکچر دیے ۔ ایک روز بوسٹن میں سیسل یوینورسٹی کا مشہور پروفسیر ناتھروپ جس نے شرقی اور اسلامی نظریات حیات پر مبسوط کتابیں تصنیف کی ہیں۔ مجھ سے کچھ سوالات پوچھنے کے لیے ساٹھ میل کی مسافت طے کر کے آیا وہ علامہ اقبال کی بالغ النظری کا بہت قائل تھا۔ اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ اقبا ل نے یہ خودی اور عشق کے نظریات قرآن میں سے کہاں سے اخذ کیے ہیں ؟ کیوں کہ اقبال اس تعلیم کا ماخذ قرآن ہی بتاتا ہے۔ میں نے اس کو قرآن کا نظریہ آدم بڑی وؤضاحت سے بتایا اور پھر اس سے دریافت کیا کہ بتائو کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اسی نظریے کی شرح و تفسیر ہے یا نہیں۔ اس نے بے حد شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مدت سے ایک کانٹا میرے دل میں کھٹک رہا تھا۔ آج تم نے وہ کانٹا نکال دیا۔ اسلام یا قرآن کبھی اس کا مدعی نہیں ہوا کہ اس کی تعلیم کے اہم اجزا اس سے قبل کبھی انسانوں پر منکشف نہ ہوئے تھے۔ وہ خواہ مخواہ اوریجنلٹی کا دعویدار نہیں وہ انسانوں کو بھولی ہوئی صداقتیں یاد دلاتاہے جو دنیا کے قریہ قریہ میں مختلف انبیا مختلف زبانوںمیں پیش کر چکے تھے۔ بعض صداقتوں کا انکشاف انبیا پر ہوجاتا ہے اور بعض کا حکماء پر کیوںکہ حکمت بالغہ بھی نبو ت کا ایک جزو یا اس کی ایک قسم ہے۔ اگر قرآنی تعلیمات اور متشابہات کو تقویت پہنچانے کے لیے قبل اسلام کے فلاسفہ یا روحانی انسانوںکے تجربات اور متشابہات کو تقویت پہنچانے کے لیے قبل اسلام کے فلاسفہ یا روحانی انسانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ شرحیں اور تفسریریں غیر اسلامی نہیں بن جاتیں فقط یہ دیکھنا ہے کہ وہ قرآن کی بین اور اساسی تعلیمات سے متناقض نہ ہوں۔ تصوف کی بابت اہم سوال یہ ہے کہ کیا اشراقی نظریہ عشق جو صوفیانہ شاعری کا راس المال بن گیا قرآنی تعلیم کا معاون ہے یا اس کا مخالف؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ دین کی اصلی بنیاد توحید ہے اور جس قدر ا س عقیدے میں گہرائی پیدا ہو گی اسی قدر وہ زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو تا جائے گا۔ اگر تمام کائنات ایک خدائے واحد کا مظہر ہے تو اس کی کثرت میں وحدت کا ہونا لازمی ہے۔ کثرت میں وحدت نظم و آئین سے پیدا ہوتیہے۔ اور مظاہر میں رابطہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ جب تک ان کے درمیان اتصال کامیلان نہ ہو۔ کائنات کے اجزا باہمی تجاذب ہی سے قائم رہ سکتے ہیں۔ اسی تجاذب اور میلان ربط و صل کو حکماء اشراق اور صوفیہ نے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ یہ نظریات اور حقائق تو حید ہی سے اخذ ہو سکتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر خدائے واحد کے علاوہ مختلف اداروں اور خواہشوں والے دیوتا نظم کائنات میں دخیل ہوتے تو کائنات میں تنظیم کی بجائے فساد ہی بپا رہتا۔ تنظیم بھی توحید سے سرزد ہوتی ہے اور ارتقا بھی توحید کا نتیجہ ہے۔ کیوں کہ حد اخلاق ہی نہیں بلکہ رب بھی ہے۔ ربوبیت کا تقاضا نشوونما ہے ۔ یعنی ہر چیز میں جوصلاحیتیں مضمرہیں ان کا امکان سے وجود میں لانا ہے اور اسلام خدا رب المسلمین ہی نہیں بلکہ اپنی لامحدود وسعت ربوبیت میں رب العالمین ہے۔ کائنات میں ہر شے کی ربوبیت رحمت الٰہی نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ اور جو ازروئے قرآن ہر شے پر محٰط ہے۔ حکماء اشراقین نے صرف اس کی توضیح کی کہ کائنات میں وحدت اور ربوبیت کے کیا آئین اور کیا طریق عمل ہیں۔ کائنا ت میں تدریج فرق اور مراتب موجود ہے اور ترقی کے معنی اوپر کے دجے کی محبت پیدا کر کے اپنی صلاحیتوں کو بلند تر مدارج تک پہنچانا ہے۔ جس کی بدولت آب و گل نبا ت بن جاتے ہیں۔ اور نبات حیات حیوانی کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ اگر حجازی اسلام میں ابھی یہ افکار اس اندازمیں موجو دنہ تھے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ افکار غیر اسلامی ہیںَ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی صداقت تھی یا ہے وہ اسلامی چیز ہے۔ جلال الدین رومی یا اقبال نے خودی اور عشق کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ قرآن کی بنیادی تعلیم سے اسی طرح پیدا ہوا ہے۔ جس طرح کہ برگ و ثمر سے لدا ہوا نخل بلند ایک معمولی سے بیج میں سے نکلتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تصوف اور حکمت یونانی کے راستوں سے بہت سی غیر اسلامی تعلیمات بھی اسلام میں داخل ہو گئیں لیکن جو شخص روح اسلام سے واقف ہو وہ ان کو آسانی سے الگ کر سکتا ہے۔ محض ان مخربات سے گھبرا کر تمام حکمت و تصوف کو غیر اسلامی بنا دینا فکر و نظر میں افلاس پید ا کرنا ہے۔ تاریخ اسلام میں اقبا کا حقیقی پیش رو عار ف رومی ہے۔ مولانا روم فلسفے اور تصوف دونوں کے اسرار و رموز سے واقف تھے اس لیے وہ دونوں کے فرق وامتیاز سے آشنا تھے۔ وہ خود ایک قسم کے فلسفی تھے اسی لیے مسلمانوں نے انہیں مولوی معنوی کا لقب عطا کیا۔ وہ روحانی عقائد پر بھی حکیمانہ استدلال کرتے ہیں۔ اگرچہ بار بار پڑھنے والے کو اس سے خبردار کرتے ہیں کہ اگر تم نے خالی استدلال پر بھروسا کیاتو روحانی زندگی کی حقیقت سے پوری طرح آشنا نہ ہو سکو گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے زیادہ عشق پیدا کرو جو کنہ حیات کا کاشف رموز اور وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ رومی کے زمانے میں ایک طرف فلسفہ اور علم کلام زوروں پر تھا۔ اور دوسری طرف صوفیہ نے عشق کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اسی لیے رومی کے کلا م میں عقل و عشق کی آمیزش بھی ہے اور آویزش بھی ۔ یہی حال اقبال کا ہے۔ اس کے ہاں بھی عقل و عشق او ردین و دانش کہیں باہم معاون نظر آتے ہیں تو کہیں ایک دوسرے کے حریف۔ عقلیات نے جو ترقی گزشتہ دو سو سال میں کی وہ رومی کے زمانے کے فلسفے اورسائنس کے مقابلے میں ہزار فرسنگ آگے ہے۔ اسی لیے روحانیت کو جو خطرہ رومی کے زمانے میں فلسفے کی طرف سے محسوس ہوتاہے وہ ا س کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہ تھا۔ جو زمانہ حال کی طبیعی سائنس اور اس سے پیدا شدہ نظریہ حیات کی وجہ سے پیدا ہوا۔ یہ زمانہ تو بقول اقبال آتش زن ہر خرمن ہے اورتمام اقوام کہن اور ان کے مسلمات اس آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ اس الحاد آفرینی کے خلاف اقبال کو اتنے جو ش و خروش سے جہاد کرنا پڑٓ کہ جو رومی کے ہاں بھی نظر نہیں آتا۔ رومی میں عشق و مستی اقبال کے مقابلے میں کہیں زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ لیکن عشق اور عقل کے تقابل میں اقبال نے بعض ایسے نکات پیدا کیے ہیں جو رومی میں کم نظر آتے ہیں مگر اقباال نے عقل و عشق کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ اساسی طور پر رومی میں موجود ہے اورجابجا اقبال ا س سے فیض حاصل کرتا اور مریدی کا اقرار کرتاہے۔ لیکن اقبال نے اس مضمون کو ایسی وسعت دی ہے جو پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ اقبال کو ا س کا قوی احساس پیدا ہو گیا تھا کہ چھٹی صدی ہجری کے قریب جو فتنہ علم کلام اور یونانی فسلفے نے پیدا کیا تھا اسی قسم کا فتنہ زیادہ شر انگیزی کے ساتھ زمانہ حال میں پیدا ہوا ہے۔ اور آج روحانی زندگی کی بقا کے لیے رومی ہی کے قسم کے آدمی کی ضرورت ہے۔ جو عقل اور عشق دونوں کا رمزشناس ہو اور جزوی عقل طبیعی کے لیے مقابلے میں جذبہ عشق کو استوار کرے۔ اقبا ل کہتا ہے کہ دور حاضرمیں خدا نے اس جہاد کے لیے مجھے مامور کیا ہے: چو رومی در حرم دادم اذان من ازو آموختم اسرار جاں من بہ دور فتنہ عصر کہن او بہ دور فتنہ عصر رواں من ہم اس سے پہلے کس قدر شرع و بسط کے ساتھ یہ لکھ چکے ہیں کہ اقبال عقل اور فلسفے کے متعلق کیا کہتا ہے۔ وہ اکثر اس کے مقابلے میں عشق کو پیش کرتا ہے اور ا س تقابل میں دونوں کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عشق کی گرفت اس کے قلب پر ایسی ہے کہ ہزا ر طریقوں سے اس کا ذکر کرتا ہے مگر ہر شعر میں انداز بیان نرالا ہوتا ہے۔ کہیں خالی جذبے کا اظہار ہے اور کہیں یہ واضح کرتا ہے کہ زندگی میں عشق کا مقام اور وظیفہ کیا ہے عششق کے متعلق اس نے جو کچھ کہا ہے اگر سب کو جمع کیاجائے تو ایک دفتر بن جائے ۔ کیوں کہ دور آخر میں یہ مضمون اس کی تمام وجدانی شاعری پر چھایا ہو ا ہے۔ کچھ منتخب اشعار درج ذیل کیے جاتے ہیں جن سے عشق کے متعلق اس کے نظریات کے مختلف پہلو سامنے آ جائیں گے: زماں زماں شکند آنچہ می تراشد عقل بیا کہ عشق مسلمان و عقل زناری ست عشق نہ فقہ ہے نہ زہد اور نہ حکمت اس میں یک بینی یک گیری اورسادگی ہے۔ عقل کے نظریات استدلال سے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ اور کسی ایک یقین پر قائم نہیںہونے دیتے: عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ ملا ہے زاہد نہ حکیم قرآن کی کلامی اورروایتی تفسیریں بھی وہ گہری روحانیت پیدا نہیں کر سکتیں جو عشق سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لیے مفسر اعظم امام رازی کے متعلق جو کچھ رومی نے کہا اقبال بھی اس کو دہراتا ہے: پاے استدلالیاں چوبیں بود پاے چوبیں سخت بے تمکین بود گر باستدلال کار دین بدے فخر رازی رازدار دیں بدے (رومی) علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق (اقبال) بو علی اور فارابی جیسے فلاسفہ کے حقیقت نارس ہونے کے متعلق رومی میں بھی کئی اشعار ملتے ہیح اور اقبال کے کلام میں بھی۔ بو علی سینا اور فارابی کی کتابوں کے اندر جاگزیں کرم کتابی پروانے سے اظہار افسوس کرتا ہے۔ کہ مدتوں سے اس کتاب کو چاٹ رہا ہوں لیکن اس کی حکمت نے مجھے کچھ نہیں سمجھایا۔ پروانہ جواب دیتا ہے کہ اسرار حیات تپش عشق سے فاش ہوتے ہیں جس سے زندگی بھی پیدا ہوتی ہے اور پرواز بھی۔ کتاب میں سے نکلو تو تمہیں کچھ حاصل ہو۔ شنیدم شبے در کتب خانہ من بہ پرواز می گفت کرم کتابی باوراق سینا نشیمن گرفتم بسے دیدم از نسخہ فاریابی نفہمیدہ ام حکمت زندگی را ہمان تیرہ روزم ز بے آفتابی نکو گفت پروانہ نیم سوزے کہ ایں نکتہ را در کتابے نیابی تپش می کند زندہ تر زندگی را تپش می دہد بال و پر زندگی را عشق انسان کے اندر بصیرت اور قوت دونوں کا اضافہ کرتا ہے اوراسے ایسی حقیقت سے آشنا کرتا ہے جو زمانی اورمکانی نہیں۔ عقل عالم مادی کو مسخر کرنے میں ید طولیٰ رکھتاہے۔ عقل خارا شگاف ہے مگر عشق عالم مادی کو پرکاہ کے برابر سمجھتا ہے۔ عشق کی قوت طبیعیات کے علم سے پیدا نہین ہوتی۔ اس کا ماخذ روح انسانی ہے جس کی باطنی قوتیں لامتناہی ہیں: می نداند عشق سال و ماہ را دیر و زود و نزد و دور راہ را عقل در کوہے شگافے می کند یا بگرد او طوافے می کند کوہ پیش عشق چوں کاہے بود دل سریع السیر چوں ماہے بود زور عشق از باد او خاک و آب نیست قوتش از سختی اعصاب نیست مگر اکثر صوفیہ کے ہاں عشق فعال اور خلاق دکھائی نہیںدیتا۔ وہاں زیادہ تر محویت اور استغراق نظر آتاہے۔ یہ استغراق خلوت ہی میں حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن خالی خلوت سے یک طرفہ روحانیت اور رہبانیت پیدا ہوتی ہے جو اسلام میں ممنوع ہے۔ زندگی کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہستی میں نفس بھی ہے اور آفاق بھی۔ اور ازروئے قرآن ظاہر و باطن ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جن کو الگ کرنے کی کوشش ناکامی کا باعث ہوتی ہے۔ اقبال نے خلوت کی تعریف میں بہت کچھ کیا ہے۔ خلوت میں روح اور عشق کی پرورش ہوتی ہے۔ لیکن اس تربیت باطنی کا نتیجہ جلوت میں ظاہر ہونا چاہیے تاکہ شخصی اور اجتماعی زندگی میں انقلاب پیدا ہو رسول اللہ صلعم نے بھی ایک زمانہ خلوت کو کبھی ترک نہ کیا۔ اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریم صلعم کی زندگی ہے جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی طرف لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے۔ عقل او را سوے جلوت می کشد عشق او را سوے خلوت می کشد جلوت او روشن از نور صفات خلوت او مستیز از نور ذات خلوت نشینی کا مقصد نور ذات سے مستیز ہو کر ملتوں کی زندگی اور انسانوں کی سیرتوں میںانقلاب پیدا کرنا ہے۔ مگر خلوت میں عشق کی کیفیات سے لذت اندوزی مقصود حیات نہیں۔ خلوت میں جب انسان اپنی پوری خودی کے اسرار فاش ہوتے ہیں تو وہ جلوت میں ایک نیا عالم پیدا کرتی ہے: مصطفی اندر حرا خلوت گزید مدتے جز خویشتن کس را ندید نقشما را در دل او ریختند ملتے از خلوتش انگیتند اگر کسی فرس کے عشق الٰہی سے کوئی نیا عالم پیدا نہ ہو جو زندگی کے فرسودہ طریقوں کو تقویم پارینہ کر دے اور انفرادی و اجتماعی زندگی کے اقدار کی تقدیر نو کر دے تو ایسا عشق روحانی لذت کا اسیر ہو جاتاہے اور کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا: بیا اے کشت ما اے حاصل ما بیا اے عشق اے رمز دل ما کہن گشتند ایں خاکی نہاداں دگر آدم بنا کن از گل ما یہ ویسی ہی خواہش ہے جورومی ے عشق نے بھی اس کے دل میں پیدا کی تھی۔ رومی اقبال کی طرح ارتقائی صوفی ہے اور آدم جس درجے تک پہنچ سکا ہے اس سے آگے قدم رکھنے کا آرزو مند ہے۔ خواہ اس نئے عالم اور نئے آدم کا تصور پوری طرح ذہن میں نہ آ سکے۔ بہرحال یہ تمنا فطرت حیات میں مضمرہے جسے غالب نے اس بلیغ شعر میں ادا کیا ہے: ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا ٭٭٭ دی شیخ با چراغ ہمی کشت گرد شہر کز دامو دو ملولم و انسانم آرزوست از ہمرہان ست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم یزدانم آرزوست گھتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست مغربی حکما میں مجذوب فرنگی نطشہ بھی انسان کو فوق الانسان ہستی بننے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور موجودہ انسان کے سست عناصر ہونے سے بیزا ر تھا۔ لیکن اس اعلیٰ تر نوع کے جو صفات وہ بیان کرتا ہے اس سے تو وہ محض الحیوان ہستی ایک مطلق العنان قوی تر جوان ہی معلوم ہوتاہے۔ اسی لیے اقبال نے لکھا ہے کہ عظمت انسانی کے تصور میں یہ مرد حکیم بھٹک گیا۔ مشرقی عشق الٰہی میں مستغرق ہو کر دنیا و مافیہا سے غافل ہو گئے۔ او ر مغربی اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ عقلیت اور مادیت ہی سے ایک بہتر قسم کا عالم انسانیت پیدا ہو سکتاہے۔ اقبال نے اس خیال کو کئی جگہ دہرایا ہے کہ عالم نو عشق او رعقل کی آمیزش ہی سے پیدا ہو سکتا ہے یہ کام ابھی نہ شرقیوں نے کیا ہے اور نہ غریبوں نے۔ اس لیے اقبال کہتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑو ان دونوں کی قیمت ایک جو کے برابر نہیں: بگذر از خاور و افسوسنی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو عشق اور زیرکی کی آمیزش سے ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنا اقبال کا خاص مضمو ن ہے۔ جو اس کے مرشد رومی کے کلا میں بھی اس وضاحت سے نہیں ملتا۔ رومی کے ہاں اس مضمون کے نہایت دل کش اشعار ملتے ہیں کہ اس زمانی اور انسانی و حیوانی عالم کے علاوہ وسعت تر عالم موجود ہیں۔ جن کاانکشاف روحانی ترقی سے انسان پر ہوتا ہے۔ وہ کہتاہے کہ اس جہاں کی مثال رحم کی سی ہے جس میں سے نکل کر انسان پر وسیع تر عالم منکشف ہوتے ہیں اس لیے وہ عشق کی اس باطنی بصیرت افروزی اور وسعت آفرینی کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن یہ مضمون اس کے ہاں نہیں ملتا کہ اسی زمانی اور مکانی عالم کے اندر رہتے ہوئے عشق اور عقل کے تعاون سے عالم نو پیدا ہو سکتا ہے۔ مغرب میں کئی انقلابی تحریکیں ہوئی ہیں اور ہر ایک اس کی مدعی ہوئی کہ اس کی بدولت انسان ایک جدید اور دلکش دنیا بنا لے گا جو حسن و جمال علم و کمال اور عدل و محبت سے لبریز ہو گی۔ لیکن ہر انقلاب کے بعد انسانوں کو مایوسی ہوئی کہ انسان کے ظلوما جہولا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ کچھ اضافہ ہی ہو گیا ہے۔ اقبال اب ایک نسخہ تجویز کرتا ہے کہ جس پر کسی تہذیب و تمدن نے ابھی تک پوری طرح عمل نہیں کیا۔ مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فرنگیوں کی طرف نہ دیکھو اور میرا نسخہ استعمال کرو جو طلوع اسلام کے وقت مسلمانوں نے چند روز استعمال کیا تھا: خیز و نقش عالم دیگر بنہ عشق را با زیرکی آمیز دہ ٭٭٭ شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست سوز ومستی را مجو از تاک شاں عصر دیگر نیست در افلاک شاں زندگی را سوزو ساز از نار تست عالم نو آفریدن کار تست عشق کی ہر قوم کی شاعری کا محور و مرکز ہے۔ لیکن جس شاعرمیں حکیمانہ نگاہ کی کمی ہوتی ہے اور تاثر کی زیادتی وہ اپنی شاعری میں اپنے عشق کی کیفیات اور معاملات کو بیان کر دیتا ہے۔ اور اس کے متعلق کوئی نظریہ پیش نہیں کرتا۔ لیکن کہیں کہیں عشق مجازی یا عشق حقیقی سے بہرہ اندوز شاعر ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں کہ جن کی طبیعت میں فکر و تاثر کی آمیزش ہوتی ہے۔ وہ اپنی کیفیات اور نفسیات بھی بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی تمام زندگی میں عشق یا محبت کا جو مقام ہے اس کے تعین کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ رومی کی طرح کے بعض صوفی شعراء ایسے بھی گزرے ہیں جن میں عشق مجازی کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ اگرچہ وہ زبان عشق مجازی ہی کی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ جس قسم کے عشق کو وہ محسوس کرتے ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے کوئی زبان وضع نہیں ہوئی۔ عارف رومی بڑی حسرت کے ساتھ یہ کہتا ہے: کاشکے ہستی زبانے داشتے تا ز مستاں پردہ ہا برداشتے اے خدا بنما تو جان را آں مقام کاندراں بے حرف می روید کلام اور مرزا غالب اس بے بسی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ: ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر جہاں فکر و اندیشہ کا دخل نہیں وہاں زبان کہاں سے آئے گی کیوں کہ انسان کے اندر فکر و زبان ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں اور بعض ماہرین نفسیات کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے اندر کوئی خیال زبان کا جامہ پہنے بغیر ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔ اسی لیے مرزا صاحب یہ نصحت فرماتے ہیں کہ: حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن اکثر صوفیہ و حکماء کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے شہد کی مکھی نہیں جس کے پائوں اس میں دھنس کر رہ جائیں بقول غالب: من بجا ماندم و رقیب بدر زد نیمہ لبش انگبیں و نیمہ طبرزد اصل حقیقت وہی ہے کہ جسے انہوںنے بعد میں ایک مصرعے میں ادا کر دیا ہے کہ دل بکسے نہ باختہ کسی فرد کے عشق میں اقبال کبھی بھی آہین بھرتا یا شب فراق میں اختر شماری کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر بانگ درا کی شبابی نظموں کے ساتھ ساتھ ہی اس کے عشق کے متعلق بھی نظمیں ملتی ہیں۔ جسے عشق حقیقی کہیے یا عشق الٰہی یا عالم گیر حٰات و کائنات کے متعلق ایک گہرا اور وسیع مگر مبہم جذبہ بانگ درا میں درد عشق کے عنوان سے ایک نظم ہے۔ یہ وہ درد ہے جو روح اور فطرت کی گہرائیں میں پایا جاتا ہے۔ اور جسے پنہاں رکھنا اس کی پرور ش کرنا ہے۔ یہاں مجاز سے حقیقت کی طرف گریز ہے۔ ظاہر پرست جسے عشق کہتے ہیں اور جس کی بابت مولانا روم ایں نہ عشق است این کہ در مردم بود ایں فساد از خوردن گندم بود یہ عشق نہیں بلکہ جسمانیت کی پیدا کردہ ہوس ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ایسوں سے عشق کی بات نہ کرنا وہ اسے اپنی قسم کا عشق سمجھ لیں گے۔ اے درد عشق! ہے گہر آبدار تو نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو پنہاں نہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے ظاہر پرست محفل تو کی نگاہ ہے پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو آواز نے میں شکوہ فرقت نہاںنہ ہو یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ اسی نظم کے آخری اشعار میں اقبال نے اپنا وہ نظریہ بھی بیان کر دیا ہے کہ جس میں وہ رومی جیسے صوفیہ کا اہم آہنگ ہے۔ کہ علم و عقل جو حیرت پیدا کرتی ہے وہ اس س یالگ چیز ہے اور خالی حکمت کی رسائی عشق پنہاں تک نہیں ہو سکتی: غافل ہے تجھ سے حٰرت علم آفریدہ دیکھ! جویا نہیں تری نگہ نا رسیدہ دیکھ رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو حیرت میں چھوڑ دیدہ حکمت پسند کو یہ انجمن ہے کشتہ نظارہ مجاز مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز اقبال کے اس دور میں ضمیر فطرت کا یہ پنہاں جذبہ ہے خلوت سے جلوت میں آنے پر مائل معلوم نہیں ہوتا۔ ابھی وہ فعال وخلاق و انقلاب آفرین نہیں بنا۔ اس کے عشق میں یہ ارتقاء رفتہ رفتہ ہو گا اور انجام کار اس کا رنگ اور ٓہنگ ایسا ہو جائے گا کہ جو اس کو خلوت نشیں حیات گریز محض خدا مست صوفیوں سے الگ کر دے گا۔ زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز کا جذبہ ابھی اس میں نظر نہیں آتا۔ ٹینی سن کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ بھی بانگ دار میں ملتا ہے۔ اس کا موضوع یہ ہے کہ عشق کے فرشتے سے موت کے فرشتے کی ملاقات ہو گئی۔ ملک العشق کے سوال کرنے پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میرا کام رخت ہستی کے پرزے اڑا دینا ہے۔ لیکن ایک چیز ہے جو میری فنا کوشی کی گرفت میں نہیں آتی اور میں اس کے مقابل میں آئوں تو خو د اس طرح اڑ جاتاہوں جس طرح آگ سے پارہ ہوا ہو جائے۔ یہ آگ جو انسان کے دل میں شرر بن کر پنہاں رہتی ہے وہ نار بھی ہے اور نور بھی۔ یہی شرر نور مطلق کی آنکھوں کا تارا ہے ملک العشق کے لبوں پر ایک تبسم کی لہر آئی جو بجلی بن کر اجل پر گری اور عشق کے سامنے فضا کو خود موت آ گئی۔ موت کہتی ہے: اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی وہ آتشہے سامنے اس کے پارا شرر بن کے رہتی ہے انسان کے دل میں وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا ٭٭٭ سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا گری اس تبسم کی بجلی اجل پر اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی ہو قضاتھی شکار قضاہو گئی وہ جسمانی زندگی میں حیات و موت عناصر مادی کی ترکیب وتحلیل کا نام ہے۔ لیکن جوہر روح ا س عالم کون و فساد کی چیز نہیں۔ اس کی حقیقت نہ مادی ہے اور نہ زمانی و مکانی۔ اس جوہر روح کی بقا کا ضامن عشق ہے۔ جس کی بدولت انسان ابد پیوند ہو جاتا ہے۔ محض حکمت موت پر غالب نہیں آ سکتی؟ چوں قضا آید طبیب ابلہ شود بقا فقط عشق سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ عشق حقیقی ماخذ حیات بھی ہے اور مقصود حیات بھی۔ وہ جادہ حیات بھی ہے اور منزل حیات بھی: ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق عشق اگر اشیاء افراد کے ساتھ وابستہ ہوجائے تو وہ خود حادث بن جاتا ہے۔ حادث کا عشق بھی حادث ہو گا۔ اس لیے عارف رومی فرماتے ہیں: عشق آں زندہ گزیں کو باقی است و ز شراب جانفرایت ساقی است اپنی شبابی نظموں میں اقبال نے اس تغیر پذیر عشق کا بھی دل کھول کر ذکر کیاہے اور معشوق کے ساتھ بے وفائی اور اپنے ہرجائی ہونے کاجوا ز پیش کیا ہ۔ نظم کا عنوان عاشق ہرجائی ہے: حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟ ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب اے تلون کیش تو مشہور بھی رسوا بھی ہے لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو تیری بیتابی کے صدقے ہے عجب بیتاب تو اس کا جواز پیش کرتے ہوئے افلاطونی تصوف سے مدد لی ہے کہ ہر حسین حسن مطلق کے پرتو سے حسین دکھائی دیتا ہے۔ یہ پرتو مٹا اور حسن حسین غائب ہوا: گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں جستجو کل کے لیے پھرتی ہے اجزا میں مجھے حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری عشق کو آزاد دستور وفا رکھتاہوں میں سچ اگر پوچھیے تو افلاس تخیل ہے وفا دل میں ہر اک دم نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں عشق کو آزا دستور وفا رکھنے کا آخر میں یہ نتیجہ ہوا کہ اقبال کو کسی معشوق سے نہیں بلکہ خود عشق سے عشق ہو گیا۔ وہ عشق جو پکارنے لگا صورت نہ پرستم من وہ عشق جو زمان و مکان اور افراد و اشیا کا خالق ہونے کی وجہ سے خود اپنے پیدا کردہ حدود و قیود سے آزاد ہو گیا۔ اس کو عشق الہی کہیے یا عشق حیات لامتناہی۔ اقبال اسی میں مست ہو گیا اور اسی کی تصریح و تبلیغ کرنے لگا۔ اس عق نے وہ تلاطم پیدا کیا جو بقول غالب: شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے اقبال کی اس نظم کا مقطع عشق اور ماہیت حیات کے متعلق اس کے آئندہ تصورات کا آئنہ دار ہے شعر صد فی صد بیدل کے رنگ کا ہے مگر اقبال کا اپنا ہے: در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما موج بحریم و شکست خویش بر دوشیم ما اس عشق کی نہ ابتدا ہے اور نہ انتہا اور خود اقبال اس کی انتہا کا آرزو مند نہیں کیوں کہ اس کے نزدیک ز ندگی ازل سے ابد تک جستجو ہی جستجو ہے: ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے ابتدائی غزلوں می اقبال کا ایک شعر تھا: ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ایک صاحب نے دریافت کیا کہ عشق کی انتہا بھی ہوتی ہے اور کیا آپ واقعی ا س کی انتہا کے متمنی ہیں؟ اس کا جواب اقبال نے یہ دیا کہ آپ نے دوسرے مصرع پر غور نہیںکیا کہ میں نے خود اس آرو کو سادگی یعنی بے وقوفی کہا ہے۔ یہ جواب کچھ اسی اندا زکا ہے جو غالب کے ایک شعر کے متعلق ایک صاحب نے دیا: غلطیہائے مضامین مت پوچھ لوگ نالے کو رسا کہتے ہیں معترض نے کہا کہ غالب فارسی دانی کے کمال کے باوجود ٹھوکر کھا گیا ہے لفظ غلطیہا غلط ہے صحیح لفظ غلطہا ہے۔ جواب دینے والے نے کہا عجب بے وقوف ہو غالب نے جان بوجھ کر غلط لکھا ہے اس لیے وہ خود کہ رہا ہے کہ غلطیہائے مضامین مت پوچھ اس کے باوجو د تم پوچھنے پر اصرار کرتے ہو۔ بانگ درا میں ایک نظم پیام عشق کے عنوان سے ہے جہاں اقبال کا نظریہ عشق نمایاں ہو گیا ہے ۔ کہ عشق ایک انقلاب آفریں اور ارتقا کوش جذبہ ہے: سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا کسی زمانے میں بھی کسی فرد نے جو کمال پیدا کیا ہے وہ عشق کی بدولت تمام انسان پیدا کر سکتے ہیں: فیض روح القدس ار باز مدد فرماید دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد (حافظ) اقبال کہتا ہے کہ سکندر نے آئینہ بنایا تھا تو بھی بنا سکتا ہے۔ تیرے سینے میں بھی اس کا سامان موجود ہے۔ پیکار حیات کو نافہم لوگ عشق کے منافی سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ مصاف ہستی خود عشق نے پیدا کی ہے تاکہ آویزش و ورزش سے تیری قوتوں میں اضافہ ہو۔ عشق کسی افعالی تاثر کا نام نہیں ہ۔ وہ کمال درجے کی فعلیت کا مصدر و ماخذ ہے۔ عشق کو مسخر حیات و کائنات ہونا چاہیے۔ قناعت کے یہ معنی نہیں کہ تو اپنی آرزوئوں کو محدود کرے ۔ زندگی کی وسعت تو توفیر آرزو سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ آرزو ایسی ہونی چاہیے کہ جو مفاد حاضر پر نظرجمانے کی بجائے موجود و غائب ہستی پر محیط ہو۔ فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر ہو: نہ ہو قناعت شعار گلچیں اسی سے قائم ہے شان تیری وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا اسی خیال کو اقبال نے ایک اور شعر میں ادا کیا ہے: تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے یہاں غالب کا ایک صوفیانہ اور حکیمانہ شعر یاد آ گیا : ہر چہ درمبداء فیاض بود آن من است گل جدا ناشدہ از شاخ بدامان من است غالب کا یہ شعر اقبال کے شعر سے اونچا ہو گیا ہے پھولوں اور کلیوں کو توڑنے اور اپنے پیراہن کے دامن کو دراز کرنے کی ضرورت نہیں کائنات کے متعلق ایسا ذوق اور ایسی نگاہ پیدا کرنی چاہیے جو توڑنے کے بغیر گلشن حیات کے پھول انسان کے تاثر اور شعور کے دامن میں آ جائیں اقبال خود بھی عشق میں اسی قسم کی وسعت چاہتا ہے۔ مگر غالب کا انداز بیان زیادہ لطیف ہے ۔غزل کے آخری اشعار میں اقبال عشق کی طرف سے یہ پیغام دیتاہے کہ اب عشق الٰہی میں راہبانہ صحرا نوردیوں کا زمانہ نہیں اب عشق کی بدولت محفل کومستیز ہونا چاہیے اور اسے ملت میں فروغ و ترقی کا سامان مہیا کرنا چاہیے: گئے وہ ایام اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا جہاں میں مانند شمع سوزاں میاں محفل گداز ہو جا عبدالقادر کے نام پیام میں بھی اقبال یہی کچھ کہہ گیا ہے: شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں خود جلٰں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں ْاقبال کے فارسی کلام میں عشق کا ولولہ بھی ہے اور اس کے بیان میں حکیمانہ کثرت بھی ہے۔ رفتہ رفتہ تمام کائنات پر یہ رنگ چھا گیا ہے ااس کے اشعار سے جو تاثر اور اس کے ساتھ جو بصیرت پیدا ہوتی ہے نثر میں اس کے متعلق کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی حکیم نباتی پھول کو توڑ کر اس کے اجزا کا تجزیہ کرے۔ بہرحال ان کے اندر فکر یا نظریہ حیات کا جو پہلو ہے اس کا افہام و تفہیم کی خاطر الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایسی تنقید بھی برگ درخت سبز کے مقابلے میں ایک زرد و خشک خزاں زدہ پتا معلوم ہوتی ہے۔ شعر ایک ذوق چیز ہے اس میں سے زبان کی صفتوں اور مضمون کو اخذ کر دینا وہی شکایت پیدا کرتا ہے جو کسی مدرس کی تنقید پر انوری کی زبان سے نکلی تھی۔ کہ شعر مرا بمدرسہ کہ برد اقبال بھی یہ شکایت کر سکتا ہے کہ شعر مرا بفلسفی کہ برد۔ اس تنقید کا ایک ہی جواز ہو سکتا ہے کہ حضر ت نے خود بھی شعر میں حکتم کی آمیزش کی ہے اور اس لیے اس میں سے حکمت کو الگ کر کے دیکھنا یا دکھانا کوئی ایسا بڑا جرم نہیں۔ ہم کچھ اشعار پیام مشرق میں سے نقل کرتے ہیں۔ حسب ضرورت کسی قدر شرح بھی بیان ہوتی جائے گی۔ لالہ طور کی پہلی رباعی ہی میں اقبال نے تمام ہستی کو خلاق وجود کا عاشق بتایا ہے اسی لیے ہر ذرہ شبیہہ ناز ہے: شہید ناز او بزم وجود است نیاز اندر نہاد ہست و بود است نمی بینی کہ از مہر فلک تاب بسیمائے سحر داغ سجود است اس کی تشریح میں غالب کے دو اشعار درج کرنے کے قابل ہیں۔ ایک فارسی کا شعر ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر رے کا رخ خدا کی طر ف پھرا ہوا ہے۔ اگر کسی کی چشم بصیرت وا ہو تو اسے خدا کی طرف جانے کے لیے کسی خضر راہ کی ضرورت نہیں۔ صحرا کے ذرے ہی رہنمائی کے سکتے ہیں: اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز برہ تو روے نیست در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری دوسرا شعر اردو کا ہے: ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے دیدہ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا پیام مشرق میں دوسرے قطعے میں اقبال کہتا ہے کہ عشق کو جنون سمجھنے والا رمز حیات سے بے گانہ رہتا ہے۔ تیسرے قطعے میں عشق کا وہی اشراقی اور ارتقائی نظریہ ہے جسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جماد و نبات و حیوان و انسان میں نظم و نسق اوربصیرت اور ترقی عشق کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ عشق ہی پھول کھلاتا اور جماد کو نبات بناتا ہے۔ اورسمندروں کی تہہ میںظلمتوں کے اندر چشم ماہی میں بینائی اسی ذوق حیات کی بدولت پیدا ہوتی ہے جس کا دوسرا نام عشق ہے: بباغاں باد فروردیں دبد عشق براغاں غنچہ چوں پرویں دبد عشق شعاع مہر او قلزم شگاف است بماہی دیدہ رہ بیں دہد عشق ارتقا کا ایک مادیاتی اور میکانکی نظریہ وہ ہے جو ڈارون کے نام کے ساتھ وابستہ ہے۔ کہ ہر جاندار زندہ رہنے کی کوشش میں ماحول سے توافق پیدا کرنے کی سعی کرتاہے اور اتفاق سے بعض جانداروں میں ایسے اعضا پیداہوجاتے ہیں کہ جو پیکار حیات میں مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اور توارث کے وسیلے سے وہ ایک نوع اصلح میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ کسی جاندار کی زندگی اپنے اندر سے کوئی خود ارتقائی قدم نہیں اٹھاتی۔ بہت سے حکماء اس ارتقاء کو صحیح نہیںسمجھتے اور اس کے قائل ہیں کہ افزونی حیات کا ارتقائی جذبہ انواع میں نئے اعضا اور نئے حواس پیدا کرتا ہے۔ اقبال کابھی یہی عقیدہ ہے۔ جسے ا س قطعے میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جگہ بھی کئی اشعار میں اقبال نے اس خیال کو دہرایا ہے چکور کو رقاص پائوں شوخی رفتار کے ذوق نے عطا کیے ہیں اور بلبل میں منقار ذوق نوانے پیدا کی ہے۔ یہاں علت و معلول کا سلسلہ عام تصور کے برعکس ہے۔ اقبال کے نزدیک حقیقت یہ نہیں ہے کہ اتفاق سے خاص قسم کی ٹانگیں کبک کو مل گئیں جن کی بدولت اس کے لیے ناچنا ممکن ہو گیا۔ یا منقار اور گلے کی خاص ساخت کی وجہ سے بلبل نوا گر ہوگئی: بلبل از ذوق نوا منقار یافت کبک پا از شوخی رفتار یافت عشق کا یہ تصور تمام کائنات کو ہم رنگ بنا دیتا ہے۔ جو جذبہ گل و لالہ میں ہے وہی جذبہ ترقی یافتہ صورت میں انسان کے اندر ہے۔ وہاں بھی وہ انقلاب اور ارتقاء پیدا کرتاہے اور نفس انسانی میں بھی۔ غرضیکہ خاک و افلاک سب عشق کی زد میں ہیں: بر برگ لالہ رنگ آمیزی عشق بجان ما بلا انگیزی عشق اگر ایں خاکداں را واشگافی درونش بنگری خوں ریزی عشق شاعرانہ تمثیلیں اورتشبیہیں کبھی استدلال کے مقابلے میں زیادہ یقین آفریں اور دل نشیں ہوتی ہیں اور کبھ ثبوت کو کمزور بھی کر دیتی ہیں۔ ابھی اقبال کہہ چکا ہے کہ ذرے کا بھی دل چیریں تو اس کے اندر بھی زندگی کی تڑپ دکھائی دے گی۔ جسے وہ خون ریزی عشق کہتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ہی کے قطعے میں محبت کے عالم گیر ہونے پر شک پیدا ہو جاتا ہے: نہ ہر کس از محبت مایہ دار است نہ باہر کس محبت ساز گار است بروید لالہ با داغ جگر تاب دل لعل بدخشاں بے شرار است کسی روحانی بصیر ت کے بغیر بھی حکیم طبیعی نے دل لعل بدخشاں کے اندر حکمت کی نظر ڈالی تو اسے وہاں نظام شمسی سے زیادہ جذب وا ضطراب دکھائی دیا اور اس کا اقرا ر کرنے لگا کہ اس سخت اور ٹھوس اور جامد نما لعل کے اندر حرکت کا ایسا محشرستان ہے جو ریاضیات اور طبیعیات کے قوانین کی گرفت میں نہیں آسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی طبیعیاتی چیز نہیں بلکہ ایک شوق عناں گسیختہ ہے۔ غالب کی بصیرت کو طبیعیات نے بھی برحق ثابت کردیاہے: ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے دیدہ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا ساتویں قطعے میں یہ مضمون ہے کہ عشق کااس تذبذب سے رابطہ نہیں کہ آرزو برآئے یا نہ آئے اس کی فطرت ہی شہید سوز و ساز آرزو ہونا ہے۔ یہ وہی بات ہے کہ جو اقبال نے ایک اور جگہ ایک مصرعے میں کہی ہے کہ: صلہ شہید کی اہے تب و تاب جاودانہ کیا عجیب الہامی مصرع ہے تاریخ گوئی کے ایک ماہر کو یہ القا ہوا ہے کہ یہ مصرع شہید ملت لیاقت علی خاں کے سالل وفات کا مادہ ہے۔ اقبال کے نزدیک میلان بقا و ارتقا کانام عشق ہے جو ہر لمحہ احوال نو کا شائق ہے۔ اسے ایک حالت پر قائم رہنا پسندنہیں۔ ہرلمحہ جہان نو پیدا کرنا اس کی فطرت میں داخل ہے: کہن را نو کن و طرح دگر ریز د ما بر تنابد دیر و زودش اقبال کی طبیعت غالب سے زیادہ جدت پسند ہے جو کہتا ہے: رفتم کہ کہنگی ز تماشا برافگنم در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم اقبال کے ابتدائی فارسی کلام میں بھی یہ شعر ملتا ہے: طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی خدا کی صفت کل یوم ہو فی شان ہے۔ چونکہ آدم کے اندر بھی اس نے اپنی ہی روح پھونکی ہے یہی صفت آدم کی فطرت میں بھی ہے۔ اور اس جدت آفرینی میں وہ خدا کا شریک کار ہو گیاہے۔ خدا کی آفرینش کے اندر یہ اپنی صناعی سے کچھ اضافہ کر دیتا ہے: نوائے عشق را ساز است آدم کشاید راز و خود راز است آدم جہاں او آفرید ایں خوب تر ساخت مگر با ایزد انباز است آدم عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور پھر خود حسن آفرینی کرتا ہے۔ حسن و عشق ایک دوسرے کی علت و معلول ہیں۔ اقبال کے کلام میں عشق اور خودی کا مضمون جابجا ایک ہو گیا ہے عشق کو خودی سے اور خودی کو عشق سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس نے اس مضمون کو کئی طرح باندھا ہے کہ عاشقی کوئی تقلیدی چیز نہیں۔ اصل عشق وہی ہے جو اپنے اندر سے ابھرے ۔ دوسرے کی آگ پر کرنا یا دوسروں سے تجلی کا تقاضا کرنا خودی اور عشق دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے: دلا نارائی پروانہ تاکے نگیری شیوہ مردانہ تاکے یکے خودرا بسوز خویشتن سوز طواف آتش بیگانہ تاکے ٭٭٭ کب تلک طور پر دریوزہ گری مثل کلیم اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر یہ مضمون حافظ کے اس شعر میں بھی ملتا ہے کہ: آتش آں نیست کہ بر شعلہ او خندد شمع آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند عشق میں متضاد نما کیفیات پائی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ اس منطق کی گرفت میں نہیںآتا۔ جس کی بنیاد ہی عدم تضاد ہے۔ ایک طرف عشق طبیعت میں ایک ایسی غیر معمولی محکمی اور قوت پیدا کرتا ہے کہ حوادث کے تھپیڑے اس پر کچھ اثر نہیں ڈالتے۔ اور دوسری طر ف اس میں کمال درجے کی رقت اور رافت ہوتی ہے۔ جوبظاہر ایک انفعالی تاثر معلوم ہوتا ہے۔ مگر عشق کے کمال میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ: خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے اس سختی اور نرمی کی یکجائی کہسار اور جوئے کہسار میں ملتی ہے: تنے پیدا کن از مشت غبارے تین محکم تر از سنگیں حصارے درون او درد دل آشنائے چو جوئے درکنار کوہسارے علامہ اقبال ایک روز اپنے شہر کے ایک درویش کا ذکر کیا کہ وہ بازار سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ ایک شخص زور سے ایک گائے کی پیٹھ پر لٹھ ما ررہا ہے۔ درویش پکارا کہ ارے کیا کرتا ہے۔ رکو مت مارو۔ اس نے کہا کہ گائے کو مار رہا ہوں تجھے تو نہیں ما رہا۔ ا س درویش نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹایا اور دکھایا کہ مجھے ہی تو مار رہے ہو۔ اس کی پیٹھ پر ویسے ہی چوٹ کے نشان تھے۔ علماء نفسیات نے بھی اسی قسم کے واقعات لکھے ہیں۔ کہ کمال ہمدردی سے محبت کرنے والے کے جسم پر بھی ضرب اور زخم کے نشانات نمایان ہو جاتے ہیں۔ عیسوی مغرب میں کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ کسی کے دل میں حضر ت مسیح کے مصلوب ہونے کے تصور نے کیسا گہرا اثر پیداکیاتھا کہ ہتھیلیوں سے اسی طرح خون نکلنے لگا جس طرح شخص مصلوب کے ہاتھو ں میں میخیں ٹھونکنے سے نکلتا ہے۔ عشق کی درد آشنائی کی بھی کوئی حد نہیں۔ آگے ایک قطعے میں عشق کے متعلق وہی مضمون ہے جسے اقبال نے سوڈھنگ سے باندھا ہے کہ اگر دل بھی خرد کی طرح محض زیرکی استعمال کرتا ہے اور سامنے نظر آنے والے نفع و ضرر ہی کو تول کر کام کرتا ہے تو زندگی میں نہ سوز و ساز پیدا ہو تا ہے اور نہ کسی قسم کی رونقَ برنارڈ شا نے اپنے مخصوص انداز میں خہا ہے کہ ارتقائے حیات نامعقولوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جو کچھ انقلاب آفرینوں نے کہا ے یا اس کی معقولیت ان کے معاصر دنیا داروں اور عقل مندوں کی سمجھ میں اس وقت نہ آئی۔ اگر زندگی میںکسی اہم اقدام کا مدار عقل مندوں کی رائے شماری پر ہو تو ترقی کا قدم نہ اٹھ سکے ۔ دنیا کے عقل مندوں کی نظر مفاد حاضر ہی پر جمی رہتی ہے۔ اور وہ کمال درجے کی محتاطی کی وجہ سے کوئی جرات کاکام نہیں کر سکتے۔ نبودے عشق و ایں ہنگامہ عشق اگر دل چوں خرد فرزانہ بودے اس اردو شعر میں بھی یہی خیال موجود ہے: بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی بود کو نمود سے ایک لذت حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے ہسی ہر وقت ظہور میں خود افشائی کرتی رہتی ہے۔ ایک حدیث قدسی کا بھی یہی مضمون ہے کہ خدا کاجمال ازلی اور ایک کنز مخفی تھا۔ اس میں ذوق نمود پیدا ہوا جس سے کائنات اور اس کے اندر حسن ازلی کا مشاہدہ کرنے والے معرض شہود میں آئے۔ فاجیت ان اعرف فخلقت الخلق الی اخرہ یہ حسن کی عشق آفرینی اور عشق کی حسن آفرینی کی لذت ہے جس کی بدولت زمین پر پھول اور چرخ پر تارے نمود ہوتے ہیں: چہ لذت یا رب اندر ہست و بود است دل ہر ذرہ در جوش نمود است شگافد شاخ را چوں غنچہ گل تبسم ریز از ذوق وجود است ورڈز ورتھ نے کہا ہے کہ یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں کہ پھول کھنے سے خوش ہوتے ہیںَ ماہر نباتیات ڈاکٹر بوس نے حساس آلات سے تجربہ کر کے یہ ثابت کیا کہ نبات میں بھی رنج و مسرت کی کیفیت ہوتی ہے۔ جس کا اثر ان کے نشوونما پر پڑتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ پھول شاخ سے نکلتے ہوئے حقیقت میں تبسم ریز ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے آفرینش آدم اور اعتراض ملائکہ کا جو قصہ بیان کیا ہے وہ آدم کے مسجود ملائک ہونے پر منتج ہوتا ہے آدم کو وہ علم عطا کیا گیا جو ملائکہ کو حاصل نہ تھا۔ اس وسعت علم کی بدولت آدم ملائکہ سے افضل قرار پایا۔ لیکن علم کے ساتھ ہی آدم کا طالب عفو ہونا اور خدا کی طرف رجوع کرنا عشق کی بدولت تھا۔ اس لیے عارف رومی محض علم کو نہیں بلکہ عشق کو آدم کی امتیازی خصوصیت قرار دیتا ہے۔ خالی علم زیرکی پیدا کرتاہے جو ابلیس کی صفت ہے۔ عشق اس سے الگ چیز ہے۔ عشق سے علم کی تمیل ہوتی ہے۔ لیکن رومی اور اقبال دونوں کے نزدیک آدم فوراً واصل باللہ نہیں ہو گیا بلک عشق کی بدولت اس پر ایک طویل مہجوری طاری ہوگئی۔ اس مہجوری کی وجہ سے از جدائی ہا شکایت مے کند۔ وصول الی اللہ کی منزل بہت دور ہے: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں درازہے اب میرا انتظار کر یہی عشق اور مہجوری کا احساس انسان سے کشاں کشاں ارتقا کی منزلیں طے کرارہا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ملائکہ کے مقابلے میں احساس فراق انسان کی کمتری اور کوتاہی کا ثبوت نہیں۔ یہی مہجوری مصدر حیات ہے۔ یہ مہجوری طلب اور جستجو پیدا کرتی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ میں افشائے راز کا خواہاں نہیں ہوں۔ اگر را ز حیات پوری طرح منکشف ہو جائے تو پھر زندگی میں کوئی لذت نہ رہے مشہور المانوی فلسفی اور ادیب لیسنگ کا قول ہے کہ اگر خدا اپنے ایک ہاتھ میں صداقت کلی اور دوسرے ہاتھ میں تلاش حق رکھ کر مجھ کو اختیار دے کہ ان میں سیجو چاہو منتخب کر لو تو میں عجز و نیاز سے عرض کروں کہ اے خدا حقیقت کلی کو تو اپنے پاس رہنے دے کیوں کہ حقیقت کلی سے آشنا اور عالم الغیب و الشہادہ ہونے کے باوجود تو حی و قیوم رہ سکتا ہے ۔ لیکن میں اس سے واقف ہو کر زندگی سے بے بہرہ ہو جائوں گا۔ انسانی زندگی کا تمام لطف تو طلب اور جستجو ہی ہے۔ اقبال بھی ایسی ہی طبیعت کا مالک اور اسی نظریہ حیات کا قائل ہے: نہ من انجام و نے آغاز جویم ہمہ رازم جہان راز جویم گر از روے حقیقت پردہ گیرند ہماں بوک و مگر را باز گویم ٭٭٭ خیال او درون دیدہ خوشتر غمش افزودہ جاں کاہیدہ خوشتر مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت ز منزل جادہ پیچیدہ خوشتر ٭٭٭ بگو جبریل را از من پیامے مرا آں پکر نوری ندادند ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں بنوری ذوق مہجوری ندادند لہٰذا فرشتوں پر رشک کرنے کی ضرورت نہیں عرش معلیٰ کو اپنے کندھوں پر اٹھائے یا اس کے گرد طواف کرنے یا کائنات کے اندر حکم ایزدی سے نظم و نسق میں خدمت گزری میں وہ لطف کہاں جو عاشق کے اضطراب میں ہے۔ فلک العرش ہجوم خم دوش مزدور: رشک ملک چہ و چرا چون بتو رہ نمی برد بیہدہ در ہوائے تو می پرد از سبک سری (غالب) انسان کو جس چیز کاعشق ہو جاتا ہے اس کے حقیقی ہونے کا یقین بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ یقین بعض اوقات غلط بھی ہوتاہے۔ لیکن عاشق کواس کی غلطی کا یقین دلانا محال ہوتا ہے۔ پوری قوت سے عمل کرنے کے لیے یقین لازم ہے۔ مگر یقین علم سے نہیں بلکہ عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال جو خالی خرد کی مخالفت کرتا ہے جس کے ساتھ عشق کی آمیزش نہ ہو ا س کی وجہ یہی ہے کہ محض خرد سے عمل میں قوت پیدا نہیں ہوتی۔ ترقی کا مدار تشکیک پر ہے۔ علم کی روش یہی ہے کہ: جانا تو یہ جانا کہ نہ جانا کچھ بھی معلوم ہوا ہے کہ نہ معلوم ہا۔ اسی مسلسل جہالت کے احساس سے انسان علم میں ترقی کرتاہے لیکن علمی کوششوں میں بھی تشکیک کے ساتھ کم از کم یہ یقین وابشتہ ہوتا ہے کہ علم کی ترقی پہلی غلطیوں کا ازالہ کر دے گی اور حقیقت کی طرف قدم اٹھتا رہے گا۔ کامل بے یقینی نہ عاقل میں پائی جاتی ہے اور نہ عاشق میں۔ علم و عمل سے یقین کا جو رابطہ ہے ا س کو اقبال نے اس قطعے میں کس خوبی سے ادا کیا ہے: ہماے علم تا افنند بدامت یقین کم کن گرفتار شکے باش عمل خواہی؟ یقیں را پختہ تر کن یکے جوے و یکے و یکے باش ظاہر ہے کہ عمل کی یہ کیفیت عاشق ہی میں پیدا ہو سکتی ہے۔ جو محبوب چیز پر نظر جمانے پھر ادھر ادھر نہیں دیکھتا۔ مازاغ البصر وما طغی۔ یہ با ت کہ عشق کی کیفیت محض ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کے ساتھ ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ہر مذہب و ملت کے کچھ برگزیدہ افراد میں یہ کیفیت ملتی ہے اور رسوم و شعائر و رشرائع کا اختلاف اس میں خلل انداز نہیں ہوتا۔ اکثر صوفیہ کا عقیدہ ہے کہ اسی لیے عارف رومی کہتا ہے کہ: مذہب عشق از ہمہ دین ہاجداست عام انسانوں کے گناہ و ثواب کے معیار کا اطلاق عاشقوں پر نہیں ہوتا۔ عشق تو ایک کار نادر ہے اور بقول اقبال: گر از دست تو کار نادر آید گناہے ہم اگر باشد ثواب است عشق کی عدالت میں گناہ و نامہ اعمال و میزان رسمی عابدوں سے کچھ الگ قسم کے ہوتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ: گر بگوید کفر آید بوے دین می تراود از شکش بوے یقین اسی لیے شریعت کی ظاہری پابندی اور عشق کی طریقت کہیں کہیں طرز عمل میں متغائر دکھائی دیتی ہے۔ اسی خیال کو اقبالنے اس قطعے میں ادا کیا ہے: تو اے شیخ حرم شاید ندانی جہان عشق را ہم محشرے ہست گناہ و نامہ و میزاں ندارد نہ او مسلمے کے کافرے ہست اسی خیال کو اقبال نے اس اردو مصرعے میں بھی ادا کیا ہے کہ: من کی دنیا میں نہ دیکھھے میں نے شیخ و برہمن ہر مذہب میں عاشقان الٰہی صوفی منش لوگ کچھ ہم رنگ و ہم آہنگ ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اقبال کی عام تبلیغ تو یہ ہے کہ عشق عین دین ہے۔ البتہ عقل سے اس کا تصادم ہوجاتاہے۔ لیکن کہیں کہیں وہ عشق کے جذبے میں عقل کے ساتھ دین سے بھی کنارہ کش ہونے پر مائل معلوم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہاں دین کی بے روح صورت ہے جسے ارباب ظاہر نے کل دین سمجھ لیا ہے: دل از منزل تہی کن پا برہ دار نگہ را پاک مثل مہر و مہ دار متاع عقل و دیں با دیگراں بخش غم عشق ار بدست افند نگہ دار عشق اپنے کمال میں تو خرد پر بھی چھا جاتا ہے اور اسے اپنے رنگ میں رنگ لیتاہے۔ لیکن اس کمال پر پہنچنے سے پہلے یہ کیفیت بھی ہو سکتی ہے کہ عقل تو صورت تراشی اور صورت پرستی میں مبتلا ہے۔ اور شکوک پیدا کر رہی ہے۔ لیکن سینے کے اندر عشق کی چنگاری بھی موجود ہے۔ حکیم المانوی نطشہ کے متعلق اقبال کی یہی رائے تھی: قلب او مومن دماغش کافر است اقبال بھی آخر تک عقلیت کی گرفت سے پوری طرح چھٹکارا حاصل نہ کر سکا۔ سوزو ساز رومی کے ساتھ ساتھ پیچ و تاب رازی بھی موجود رہا۔ اسی کیفیت کے متعلق اس قطعے میں تضاد طبیعت کو بیان کیا ہے: دماغم کافر زنار دار است بتاں را بندہ و پروردگار است دلم را بیں کہ نالد از غم عشق ترا با دین و آئینم چہ کار است ٭٭٭ سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے (غالب) اقبال نے اس مصرعے میں اسی تضاد کی شکایت کی ہے اپنے متعلق کی ہے کہ: نگاہ آلودہ انداز افرنگ اب تک جو جماد سے انسان تک ارتقا ہوا ہے وہ عشق ہی کی بدولت ہواہے۔ موجودہ انسان میں اگر عشق ترقی پذیرہوجائے تو کوئی وجہ نہین کہ ایک نیا آدم ظہور میں نہ آئے جو پہلے آدم کے مقابلے میں ایسا ہی بلند تر ہو جیسا کہ موجودہ انسان حیوانوں سے بلند ہے۔ یہ یقین صوفیہ کے علاوہ طبیعی ارتقائی حکما کے ایک طبقے میں بھی پایا جاتاہے۔ کہ موجودہ انسان ارتقائے حیات کی آخری منزل نہیں۔ جو زندگی حشرات الارض سے لے کر انسان تک پہنچتی ہے اس کے اندر ذوق عروج یا قوت ارتقا ختم نہیں ہو گئی۔ حیات کی ممکنات لامتناہی ہیں: بیا اے عشق اے رمز دل ما بیا اے کشت ما اے حاصل ما کہن گشتند ایں خاکی نہاداں دگر آدم بنا کن از کل ما اقبا ل نے کہیں کہیں عشق کی بجائے آرزو کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور ان دونوں کے معنی اس کے نزدیک مرادف ہیں: از شعاع آرزو تابندہ ایم جہان میں بود کی جو نمود بھی ہے وہ آرزو کی بدولت ہے: جہاں یک نغمہ زارے آرزوئے بم و زیرش ز تار آرزوئے بچشمم ہر چہ ہست و بود و باشد دمے از روزگار آرزوئے یہ خیال اقبال کے تصوف کو اس تصوف سے بالکل الگ کر دیتا ہے کہ جو ویدانت اور بدھ مت میں پایا جاتاہے۔ ان دونوں کا فلسفہ یہ ہے کہ جہان اور انسانی زندگی ایک نمود بے بود ہے۔ یہ ایک لحاظ سے فریب ادراک ہے۔ اور دوسری حیثیت سے آرزو کی پیداوار۔ باطل ہونے کی وجہ سے زندگی شر اور دکھ سے لبریز ہے۔ قید حیات و بند غم کا ایک غیر منفک رابطہ ہے۔ اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ انسان اور تمام ہستی بے آرزو ہو جائے۔ اقبال اس فلسفے کے اس پہلو سے متفق ہے کہ زندگی جہاں بھی ہے وہ آرزو کی پیداوار ہے۔ لیکن وہ زندگی کو تمام مصائب کے باوجو دنعمت سمجھتا ہے اور اس کی نمود کو باطل خیال نہیں کرتا۔ وہ ترک آرزو کی بجائے فراوانی آرزو کی تلقین کرتا ہے۔ تاکہ زندگی وسعت اور عروج حاصل کرتی جائے۔ ویدانت اور بدھ مت کا فلسفہ جس نے کہیں کہیں مسلمانوں کے تصوف پر بھی سایہ ڈالاہے حیات گزیر ہے۔ اسی لیے رہبانی زندگی کو معاشرتی زندگی سے افضل سمجھتا ہے۔ اقبال میں تصوف کا ایجابی او ر حیات افزا پہلو موجود ہے لیکن اس کے سلبی پہلو کے خلاف اس نے شدت سے جہاد کیا ہے۔ ویدانت اور بدھ مت جیسے فلسفوں نے جو مذہب بن گئے ہیں زندگی کی جدوجہد سے گھبرا کر فرار کی تعلیم دی ہے اقبال مجاہد ہے اور زندگی کی مزاحمتوں پر عشق اور ہمت سے غالب آنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ غیر اسلامی فلسفوں کا اثر تھا کہ جس کی آواز بازگشت مسلمانوں کے فراری ادت میں سنائی دیتی ہے اور غالب جیسا ذوق حیات رکھنے والا اور ہر قسم کی خواہش کو پورا کرنے کی تمنا رکھنے والا شاعر بھی کبھی کبھی یہ کہہ جاتاہے : گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے مجھے ورنہ یاں سے رونقی سود چراغ کشتہ ہے سود چراغ کشتہ تو موت ہے۔ اس کے مقابلے میں اقبال کی یہ آرزو ہے: شمع کی طرح جبیں بزمگہ عالم میں خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں غالب کا حقیقی میلان تو یہ ہے کہ: نفس نہ انجمن آرزو سے باہر کھینچ اگر شراب نہیں انتظار ساغر کھینچ اگر بہار کو فرصت نہیں بہار تو ہے طراوت چمن و خوبی ہوا کہیے حکیم المانیہ نطشہ نے کہا ہے کہ ادیان کی د و ہی قسمیں ہیں۔ ایک زندگی کو قبول کرنے والے اور دوسرے اسے رد کرنے والے اور کسی دین کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے کہ ا س میں اثبات حیات کی تلقین ہے یا نفی حیات کی۔ عیسائیت اور بدھ مت کو وہ موخر الذکر میں داخل کرتتا تھا۔ اقبال نے جس کیفیت یا جس جذبے کا نام عشق رکھا ہے اس کے مظاہر کی گوناگوئی کی کوئی حد نہیں۔ محبت کے اقسام کا کون شمار کر سکتا ہے۔ ہر رابطے میں محبت کا رنگ الگ ہوتا ہے۔ ماں باپ کی اولاد سے محبت ایک قسم کی ہے۔ زن و شوہر یا مردو زن کی محبت ایک دوسرے اندازکی ہے۔ کہیں وطن کی محبت ہے کہیں نو ع انسان کی محبت کہیں کسی نصب العین سے ور کہیں مصدر حیات و کائنات سے۔ افلاطون یہ کہتا ہے کہ سب محبتیں مجازی اور عکسی ہیں۔ اصل چیز جو سرمدی ہے وہ عشق مطلق ہے۔ جس کا رابطہ حس مطلق سے ہے۔ لیکن معرض شہود میں عشق کی بوقلمونی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ عشق کہیں قوت قلب و جگر پیدا کرتا ہے کہیں عقل کی پشت پناہی کرتا ہے۔ کہیں شم نمناک میں ظہور کرتا ہے کہیں بے خودی کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ اور کہیں خودی کو استوار کرتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ مجھ پر تو اس نے یہی عمل کیا ہے کہ مجھ پر اپنی خودی کو آشکار کر دیا ہے۔ اقبال چشم تر سے بیگانہ نہیں لیکن اپنی زندگی میں رقت کی کیفیت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے: بہر دل عشق رنگ تازہ بر کرد گہے باسنگ گہ با شیشہ سر کرد ترا از خود ربود و چشم تر داد مرا با خویشتن نزدیک تر کرد عشق کی اتنی توضیح کرنے کے بعد بھی اقبال کی حالت وہی ہے جو رومی نے بیان کی ہے کہ: گرچہ تفسیر و بیاں روشن گر است لیکن عشق بے زبان روشن تر است اس ذوقی کیفیت کے لیے کوئی موزوں زبان نہیں۔ جس کے اندر یہ چیز موجود نہیں ہے کہ اسے بیان کی لطافت اور نزاکت بھی اس سے آشنا نہیں کر سکتی۔ تمام عمر بھی روشنی کی کیفیت کسی مادر زاد اندھے کے سامنے بیان کی جائے تو وہ اس کی حقیقت کو کہاں پہنچے گا اور چشم بینا کے لیے روشنی کی کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ بے شمار قطعات میں عشق کی کیفیات اور اس کی نفسیات کو بیان کرنے کے بعد آخر میں عجز بیان کا اقرار ہے: مرا ذوق سخن خوں در جگر کرد غبار راہ مشت شرر کرد بگفتار محبت لب کشودم بیاں ایں راز را پوشیدہ تر کرد عاشقی کی کیفیات کے ساتھ فلسفے کی آمیزش ہر جگہ موجود ہے۔ اگرچہ اقبال ان دونوں کی ہم آہنگی کا قائل نہیں مگر کیا کرے مجبوری ہے کہ وہ بیک وقت فلسفی بھی ہے اور عاشق بھی: ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت کہ درس می داد و عاشقی ورزید پیام مشرق میں عشق پر قطعات کے علاوہ ایک مستقل نظم بھی عشق کے عنوان سے ہے۔ اس میں کیفیت اور معانی وہی ہیں لیکن انداز بیان الگ ہے۔ ان اشعار میں مختصر طورپر اپنی عقلی تگ و دو کا ذکر ہے جس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعدبھی زندگی کا کوئی راز فاش نہ کیا۔ عقل پیچ در پیچ میں بگولے کی طرح چکر کھاتا رہا لیکن اس گرد باد میں گرد اور باد کے سوا کیا رکھا ہے۔ معلوم ہو اکہ عقل ایک شکستہ جام ہے جس کے اندر مے حقیقت تمام ٹپک جاتی ہے۔ جام خالی کا خالی رہتاہے۔ اور تشنہ لبی میں فرق نہیں آتا۔ آخرمیں عشق نے رہبری کی عشق کو عام لوگ اور طبیعی حکم محض ایک جذباتی کیفیت سمجھتے ہیں لیکن وہ محض تاثر نہیں یہ تاثر بصیرت سے ہم آغوش ہے۔ اس کی بدولت انسان رموز وجود سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ عقل کا بت خانہ حرم بن جاتا ہے۔ اس کی مستی اور بے خودی درحقیقت خود آگاہی اور خدا شناسی ہے۔ اس کی بدولت زندگی کی زشتی جمال بہشتی میں مبدل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد بس عشق ہی کی حکایت زبان پر رہ جاتی ہے۔ خواہ دوسرے اس کو سمجھیں یا نہ سمجھیں اور اسے جنون قرار دے کرملامت کرنے لگیں۔ گرچہ بدنامی است نزد عاقلاں ما نمی خواہیم ننگ و نام را فکرم چو بہ جستجو قدم زد در دیر شد و در حرم زد در دشت طلب بسے دویدم دامن چوں گرد باد چیدم پویاں بے خضر سوے منزل بر دوش خیال بستہ محمل جویائے مے و شکستہ جامے چوں صبح بباد چیدہ وامے پیچیدہ بخود چو موج دریا آوارہ چوں گرد باد صحرا عشق تو دلم ربود نا گاہ از کار گرہ کشود نا گاہ آگاہ ز ہستی و عدم ساخت بت خانہ عقل را حرم ساخت چوں برق بخرمنم گزر کرد از لذت لذت شوختن خبر کرد سرمست شدم ز پا فتادم چوں عکس ز خود جدا فتادم خاکم بفراز عرش بردی زاں راز کہ بادلم سپردی واصل بکنار کشتیم شد طوفان جمال زشتیم شد جز عشق حکایتے ندارم پروائے ملامتے ندارم از جلوہ علم بے نیازم سوزم گریم تپم گدازم اس نظم کے علاوہ پیام مشرق میں عشق کے عنوان سے اور بھی چار اشعار ہیں جن کا اندراج اقبال کے نظریہ عشق کی وضاحت کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال کے کلام میں عقل کی توہین و تحقیر تو بہت کچھ ملتی ہے۔ لیکن ان اشعار میں اقبال نے ایک بڑے نکتے کی بات کی ہے جسے اس نے غالباً کسی اور جگہ نہیں دہرایا۔ کہتا ہے کہ عقل کے بھی کارنامے بہت حیرت انگیز ہیںَ اس نے بھی حیات و کائنات کے بعض پہلوئوں کو روشن کیا ہے۔ انسانی زندگی میں جو تنویر ہے اس کا حصہ عقل کی پیداوار ہے۔ جس عقل نے نور پید اکیا ہے اس کو بھی عشق کا تلمذ حاصل کیاتھا۔ آخر عقل و حکمت کی جدوجہد جس کے لیے اعلیٰ درجے کے انسانوں نے زندگیاں وقف کر دیں وہ بھی صداقت کی طللب تھی اگر حکما میں صداقت کا عشق نہ ہوتا تو ان کے لیے بے غرضانہ زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ رومی میں عشق کی فراوانی سہی لیکن بو علی سینا اور فارابی بھی عشق کے سرور سے خالی نہ تھے۔ عقل کی نار اور اس کا نور بھی عشق ہی کا ایک کرشمہ ہے اور اسی کا ایک جلوہ بیباک ہے۔ عقلے کہ جہاں سوزد یک جلوہ بیباکش از عشق بیاموزد آئین جہاں تابی عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی نقش فرنگ میں اقبال کہتا ہے کہ عقل اپنے وظیفہ حیات میں جو نہایت اشرف و افضل ہے تنگی پیدا کر کے انسانوں کو گمراہ مادہ پرس اور حاضر پرست بنا دیتی ہے۔ اگر عقل کے پر پرواز نوچے اور کترے نہ جائیں تو اس کی بھی کوئی حد نہیںَ عقل کا کام انفس و آفاق دونوں کے متعلق دانش و بینش پیدا کرنا تھا لیکن اس نے محض جہاں بینی کا شیوہ اختیار کر لیا اور خود بینی میں مہارت پیدا نہ کی۔ اس مادی کائنات کے ضمیر میں بھی عقل غوطہ زنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن وہ برگ ثمر کے رنگ و بو کا تجزیہ کرتی رہی اور خمیر گل و نسرین میں غوطہ زن نہ ہوئی۔ زندگی کی گہرائیاں اور اس کی بلندیاں اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہ تھیں لیکن اس نے مظاہر کی ریاضیاتی پیمائش تک اپنی نظر کو محدود کرلیا: عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است عقل اگر نفس انسانی کی گہرائیوں کا جائزہ لیتی ہے تو عرفان نفس کے ساتھ عرفان رب بھی اس کو حاصل ہو سکتا تھاـ: دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم آں کہ در شد بہ ضمیر گل و نسریں دگر است دگر است آنسوئے نہ پردہ کشادن نظرے ایں سوے پردہ گمان و ظن و تخمین دگر است اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم با اوست نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست عقل کی تنگ نظری اور غلط روی یا مسخ جوہر کا ذکر اقبال کے کلام کا ایک کثیر حصہ ہے اور عشق کی زیادہ تر توصیف ہی توصیف اور والہانہ مداحی ہے لیکن کیا عشق کی صورت کو انسانوں نے مسخ نہیں کیا؟ انسانوں کو جن جذبات نے تباہ کیا ہے ان میں سے ہوس بھی ہے جو عشق کا بھیس اختیار کر لیتی ہے۔ اور ااس فریب سے عشق کی تمام قوتیں تعمیر حیات کی بجائے تخریب حیات کا باعث ہوتی ہیںَ کبھی ذوق اقتدار عشق کا جامہ پہن لیتا ہے۔ اور کبھی ادئی شہوات اپنا نام عشق رکھ لیتی ہیں۔ کبھی جاہلانہ اور وحشیانہ مذہبی تعصب عشق کے رنگ میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ جو ظلم کو رحمت اور عدل سمجھ لیتا ہے: بے جرات رندانہ ہر عشق ہے روباہی بازو ہے قومی جس کا وہ عشق الٰہی نقش فرنگ میں اقبال نے فرنگ ہی کے عشق پر ہوش پیشہ ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن عشق کی یہ تخریب تو شرق و غرب مسلم و غیر مسلم سب میںدکھائی دیتی ہے۔ اسی عشچق کے متعلق حالی نے کہا ہے کہ: اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا اور اسی مخرب حیات عشق کے متعلق حالی کی یہ رباعی ہے: ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا یا خود ہے وہ گھر ہزار آزاروں کا ہم کچھ نہیں جانتے پر اتنی ہے خبر اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا ہوس ہی نے اپنے آپ کو عشق بنا کر فارسی اور اردو میں شعر و قصائد کا وہ ناپاک دفتر پیداکیا ہے جس نے فن لطیف کو فن کثیف بنا دیا۔ اس بارے میں مشرق مغرب کے مقابلے میں کچھ کم مجرم نہیں ہے۔ لیکن اقبال کی زد میں زیادہ تر فرنگ ہی آتا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ تمام الزامات مشرقیوں پر کچھ زیادہ ہی چسپاں ہوتے ہیں: عشق گردید ہوس یپشہ و ہر بند گست آدم از فتنہ او صورت ماہی در شست رزم بر بزم پسندید و سپاہے آراست تیغ او جز بہ سر و سینہ یاراں نہ نشست رہزنی را کہ بنا کرد جہاں بانی گفت ستم خواجگی او کمر بندہ شکست بے حجابانہ بہ بانگ دف و نے می رقصد جامے از خون عزیزان تنگ مایہ بدست وقت آنست کہ آئین دگر تازہ کنیم لوح دل پاک بشوئیم و زسر تازہ کنیم اس کے ساتھ ہی ملا ہوا جو بند ہے وہ اس ا مر کا ثبوت ہے کہ استبداد شکنی کا کام زمانہ حال میں مغرب نے مشرق کی نسبت زیادہ کیا ہے۔ محنت کشوں کے حقوق مغرب میں مشرق والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ استوار ہو گئے ہیں۔ مطلق العنان بادشاہیاں مغرب نے ختم کی ہیں انسانوں کے اندر مواقع حیات اور آئین میں مساوات فرنگ میں مسلمان کہلانے والی ملتوں کے مقالبے میں بہت زیادہ ہیں۔ اقبال کو جو یہ نظر آ رہا ہے کہ: زندگی درپے تعمیر جہان دگر است اس کے مظاہر مغرب میں مشرق کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں کیوں کہ یہ تمام تحریکیں مغرب ہی میں پیدا ہوئیں اور اسی تہذیب و تمدن میں سے ابھریں جو اقبال کے نزدیک سوز حیات سے خالی اور حیات باختہ ہے: افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت یوسفی را ز اسیری بہ عززی بردند ہمد افسانہ و افسون زلیخائی رفت راز ہائے کہ نہاں بود ببازار افتاد آں سخن سازی و آں انجمن آرائی رفت چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است زندگی در پے تعمیر جہاں دگر است اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دو تین سو سال میں مغرب نے جو ترقی کی وہ عقلی علوم ااو مادی فطرت کی تسخیر میں کی۔ اس ترقی کے مقابلے میں اخلاقی اور روحانی ترقی کی رفتار نہایت سست نظر آتی ہے لیکن اس میں کس کو شک ہو سکتا ہے کہ مغرب میں نایت بلند پایہ اخلاقی اور روحانی رہنما اس دور میں پیدا ہوئے۔ انہی تین صدیوں میںمشرق کی خفتگی اور مسلمانوں کے روحانی جمود کے متعلق اقبال کی رائے تھی کہ: تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند ان تین صدیو ں میں کوئی بلند پایہ روحانی تحریک اسے اس برصغیر میں نظر نہیں آتی۔ باقی اسلامی ممالک کا حال کچھ اس سے بدتر ہی رہا ہے مگر اس دور میں مغرب میں اخلاقی اور روحانی مصلحین کی کوششوں نے انسانی زندگیکو بہت آگے بڑھا دیا۔ شہروں کی گندگی ناپید ہو گئی بہت سے مہلک امراض کا علاج حکماء اور اطبا نے بڑی قربانیوں اور جہدوجہد سے تلاش کیا اور جوکافر گر افلاس مشرق میں ملت اسلامیہ میں نظر آتا تھا وہ مغرب میں ناپید ہو گیا۔ کیا اسے عقل کی غارت گری کہہ سکتے ہیں؟ یہ کہنا سخت ناانصافی کی بات ہے کہ مغرب کی تہذیب میں اخؒق اور روحانیت کا عنصر نہیں۔ انگریز تاجر کو مسلمان بھی اپنوں سے زیادہ راست گو اور قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ کیا اس دیانت میں روحانیت کا کوئی شائبہ نہیں؟ محتاجوں بیماروں اور بیکسوں کی جو دیکھ بھال مغرب میں ہوتی ہے اس کا عشق عشیر بھی روحانیت کے مدعی مشرق میںنظر نہیں آتا۔ یہ درست ہے کہ مغرب مشرق سے زیادہ شراب خوار ہے مگر: تو فخر ہمی کنی کہ مے می نخوری صد کار کنی کہ مے غلام است آں را یہ فتویٰ کیا غلط ہے: کہ مے حرام دلے بہ ز مال اوقاف است مشرق میں ابھی تک فقہا فتوے فروش ہیں اور قاضیوں پر بھی لوگوں کو بھروسا نہیں رشوت کا بازار گرم ہے خیام نے سچ کہا ہے: اے قاضی شہر از تو پرکار تریم با ایں ہمہ مستی از تو ہشیار تریم تو خون کساں خوری و من خون رزاں ز انصاف بگو کدام خوں خوار تریم یہ سب کچھ جانتے ہوئے یہ کہنا کہ مغر ب روحانیت سے بالکل معرا ہے انصاف سے بعید ہے۔ مغرب کے متعلق انصاف پسندوں کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ عیب او جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو۔ مگر فرنگ کے متعلق اقبال کی بیزاری اس کو جادہ اعتدال سے ہٹا دیتی ہے۔ معلوم نہیںکہ روحانی زندگی کی تلقین کرنے والے اور عملاً روحانی زندگی بسر کر نے والے اور خلق خدا کی بھلائی کے لیے زندگیاں وقف کرنے والے لوگ اقبال کو فرنگ میں کیوں نظر نہیںآتے کہ وہ مایوس ہو کر یہ کہنے لگا: یاد ایامے کہ بودم در خمستان فرنگ جام اور روشن تر از آئینہ اسکندر است چشم مست مے فروشش بادہ را پروردگار بادہ خواراں را نکاہ ساقیش پیغمبر است جلوہ او بے کلیم و شعلہ او بے خلیل عقل ناپردا متاع عشق را غارتگر است در ہوایش گرمی یک آہ بیتابانہ نیست رند این میخانہ را یک لغزش مستانہ نیست فرنگ کے مقابلے میں مسلمانوں کی موجودہ روحانیت کا جو حال ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ اس کے نزدیک فرنگ میں عقل کی روشنی ہے مگر دلوں میں اندھیرا ہے مگر ہمارے ہاں تو خسر الدنیا والآخرہ ہے۔ نہ عقل کی روشنی اور نہ عشق کی آگ: بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے عقل و علم اور عشق کا تقابل اقبال کا خاص مضمون ہے۔ یہ مضمون صدیوں سے مسلمانوں کے ادب میں حکیمانہ صوفیانہ اور متصوفانہ شاعری کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے اور اقبا ل سے پہلے لوگوں نے اس مسئلے میں بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں لیکن اس کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ پہلوں نے جو کچھ کہا اس کا بہترین جوہر اور خلاصہ بھی اقبال کے کلام میں موجود ہے۔ نیز اقبال نے اس پر قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے اور ہر نظم بلکہ ہر شعر میں انداز بیان بھی نرالا ہے اقبال نے بہت سے ایسے مسائل پر طبع آزمائی کی ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے محض ایک تاریخی حیثیت سے قابل مطالعہ ہوں گے۔ لیکن عقل و عشق کی موافقت یا مخالفت ایک ایسا مضمون ہے جو فطرت انسانی کے اندر میلانات کی ایک ابدی پیکار کا مظہر ہے۔ اگر انسان کی سیاسی جبلت اپنی صورتیں بدلنے کے لیی بھی باوجو دبھی تغیر پذیر نہیں بلکہ ایک حقیقت ثابتہ ہے تو اقبال کی شاعری کا ییہی حصہ اس کی شاعری کو لازوال بنانے کا ضامن ہے۔ عشق کی جذباتی اور تاثراتی کیفیت کو اس نے اس طرح بیان کیا ہے اس پر اضافہ کرنا کسی آنے والے شاعر حکیم و عاشق کے لیے دشوار ہو گا اور حکیمانہ انداز میں جو نکات اس کے ذہن میں مترشح ہوئے ہیں وہ بھی ایسے جامع ہیں کہ شاید ہی اس کے بعد آنے والا اس سے زیادہ کچھ کہہ سکے۔ حکیم المانوی گوئٹے نے جس کی بصیرت کا اقبال معترف تھا ایک ایسا منظوم ڈرامہ لکھا یہ جس میں بقول اقبال اس نے انسانی زندگی کے متعلق ایسے معارف بیان کیے ہیں کہ انسانی فکر اور تخیل کی پرواز اس سے بلند تر نہیں ہو سکتی۔ اس ڈرامے کا ہیرو فوسٹ تمام علو م سے بہرہ ور ہونے اور تمام فلسفوں کی خاک چھاننے کے بعد حقیقت حیات کے متعلق عقل کی بے بسی س یاسی طرح بیزار ہے جس طرح کہ اقبال خالی علم و عقل کی جدوجہد سے مایوس ہو گیا۔ وہ قوت و اقتدار اور لذت کا آرزو مند تھا۔ ابلیس نے ظاہر ہو کر اس سے کہا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر انپی روح کو میرے پاس بیچ دو تو میں تمہیں کائنات ؤکی سیر کراتا ہوں۔ اور تمہاری ہر آرزو کو پورا کرنے کا ذ مہ لیتا ہوں۔ قصے کا آغاز یہی ہے اس کے بعد شیطان کی ہرکابی میں فوسٹ نے جو کچھ دیکھا اور کیا اس کی داستان بہت طویل ہے مگر اس داستان کے اندر شیطان کی فطرت اور انسان کی فطرت کے تمام مضمرات او ر امکانات نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ عمیق حکیمانہ ڈرامہ مغرب کے کسی ادیب نے نہیں لکھا۔ اقبا کے ہاں فطرت ابلیس کا مضمون بھی ایک خاص مضمون ہے جس کے کچھ پہلو اس کو گوئٹے نے سمجھائے ہیں ابلیس اس ڈرامے میں تخریب اور شر کا مجسمہ ہے لیکن گوئٹے اس تخریبی قوت پر غلبہ پانے والی جس قوت کو پیش کرتا ہے وہ عشق ہے ابلیس کا وظیفہ حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر تعمیر کے اندر تخریب کی صورت پیدا کرے وہ حیات و کائنات کی رگ و پے میں اسی غرض سے دوڑتا رہتا ہے۔ کہ ہر نظم میں اختلال پیدا کرے دیکھیے یہ مرد حکیم ابلیس کے متعلق وہی بات کہہ رہا ہے جو نبی اکرم صلعم نے فرمائی کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں خون کی طرح گرد ش کرتا ہے۔ اس کے مقابلے مین عشق ہر جگہ کارفرما ہے۔ شیطان موت کا فرشتہ ہے اور عشق زندگی کا فرشتہ ۔ چاروں طرف یہی نقشہ نظر ا؟ٓٹا ہے کہ ہر ہستی کا انجام فنا ہے ۔ فنا کو شکست دینے والی قوت عشق ہے موت گل و ثمر پر وارد ہوتی ہے لیکن پھل فنا ہونے سے پہلے اپنی بقا کا انتظام کر لیتا ہے۔ پھلوں اور پھولوں کے بیج فطرت مصرفانہ افراط سے پیدا کرتی ہے۔ والدین کی وفات سے پہلے ان کی جانشین اولاد عشق کی بدولت معرض وجو د میں آتی ہے زندگی کو بقا کوش اور ارتقا کوش قوت عشق ہی ہے جو برگ و ثمر میں بھی کارفرما ہے اور روح بشر میں بھی ۔ فقط عشق ہی اپنی اخلاقی کی قوت کی بدولت موت سے مغلوب نہیں ہوتا۔ ہر جگہ آخر کار تخریبی قوتیں تعمیری قوتوں سے شکست کھا جاتی ہیں۔ فوسٹ کے ڈرامے میں عشق کی اس خلاقی فطرت کو ابلیس اپنا حریف قرا ر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بقا کوشی تمام حیات و کائنات پر اس طرح محیط ہے کہ میں اپنی قوت تخریب کو بڑی کوشش سے بچا کر نہ رکھتا ت ومیرے لیے کہیں گنجائش نظر نہ آتی۔ اس ڈرامے میں ابلیس خدائے قدوس اور خیر مطلق کو اپنا حریف نہیں جتاتا بلکہ اسی حیات آٖرین عشق سے نالاں ہے جو اس کی تمام تخریبی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور اسے پھر از سر نو ہر تعمیر میں تخریب کی کوئی نئی صورت سوچنی پڑتی ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ عشق کی یہ خلاقی ملاحظہ ہو کہ ہوا کے اندر پانی میں زمین میں خشکی میں تری میں گرمی میں سردی میں ہر جگہ اور ہر حالت میں زندگی کے لامحدود جراثیم پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے ہیںَ اس طوفان حیات میں اور زندگی کی فراوانی میں میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچا کر رکھا ہے۔ ہم اوپر لکھ چے ہیں کہ برٹ رینڈ رسل جیسا منکر خدا اپنا عقیدہ یہ بیان کرتا ہے کہ زندگی میں لطف اور قدرت پیدا کرنے والے دو ہی اقدار ہیں ایک علم اور دوسرا عشق۔ اس سے ذر ا ہٹ کر ایک اور منکر خدا فرائڈ جدید تحلیل نفسی کا امام بھی آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ تمام زندگی میں دو قوتیں اساسی معلوم ہوتی ہیں ایک تخریبی قوت جس کو وہ جلبت موت کہتا ہیاور ایک تعمیری قوت جسے وہ عشق کہتاہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مگر نہایت پر معنی کتاب تہذیب اور اس کی بے اطمینانیاں ہے۔ اس نے تہذیب پر ایک گہری نفسیاتی بحث کی ہے۔ اس کا لب بابیہ ہے کہ انسانی زندگی کے اندر دو اساسی جبلتین ہیںایک عشق ہے جو تخلیقی اور تعمیر ی قوت ہے۔ وہ ایک جنسی جذبے سے شروع ہو کر تمام نو ع انسان کی محبت تک ترقی کرتا چلا جاتا ہے انسانی تہذیب و تمدن کے تمام ادارے اور اس کے تمام فنون لطیفہ اسی جذب کے مظاہر ہیں۔ دوسرا جذبہ تخریبی ہے جو جور و جفا پر انسان کو مائل کرتاہے اور ہر تعمیر کی تخریب پر آمادہ رہتا ہے۔ فنا و بقا یا موت و حیات کی پکار زندگی کا لازمہ ہے انسان کی تہذیب اور اس کی ترقی کا مدار جذبہ عشق کو جنسی جذبے سے متجاوز کر کے تمام زندگی پر محیط کرنا ہے انسانی زندگی میں عقل اور عشق حریف اور ازلی دشمن نہیں بلکہ عشق اور میلان ظلم ایک دوسرے پر غالب آنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ رومی نے کہا تھا کہ زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است ۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ابلیس میلان تظلم کا نام ہے اور عشق زندگی میں وحدت آٖرین ہونے کیوجہ سے تہذیب و تمدن کے بہترن عناصر کا خلاق ہے۔ یہ دونوں میلانات انسانوں کے اندر داخ جبلت ہیں ان کی پیکار کہیں پوری طرح ختم نہیں ہوتی۔ ظلم جلی نہیں تو ظلم خفی انسانوں کے برتائو میں موجود رہتا ہے۔ لیکن اس کا حریف عشق کبھی اس کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتا۔ انسان کا مستقبل یہی ہے کہ وہ عشق کی تعمیری اور خلاق قوت میں اضافہ کرتا جائے دیکھیے کہ برٹ رینڈ رسل اور فرائڈ دونوں مذہب اور روحانیت کے دشمن آخر میں وہی بات کہہ رہے ہیں کہ جو اقبال نے ان دونوں سے بہتر انداز میں اور زیادہ جوش و خروش کے ساتھ کہی۔ کفر ودین کے ڈانڈے کس طرح ل گئے ہیں۔ دین بھی اپنے ارتقا میں آخر ذات و صفات الٰہی پر غور کرتا ہوا اور رسوم و شعائر اور عبادات سے گزرتا ہوا اسی عقیدے پر آ گیا ہے کہ اصل حقیقیت عشق ہے خدا عشق ہے اور عشق خدا۔ نجات اور کامیابی کا مدار اسی عقیدے پر عمل کرنا ہے باقی جو کچھ ہے وہ فروعی اور متغیر ہے اور کفر کی ترقی ن بھی اہین آ کر فم لیا اور ادسی کو آخری منزل قرار دیا ہے۔ فرائڈ نے ایک کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے کہ خدا پر عقیدہ رکھنا ایک عالمگیر دھوکا ہے انسانوں کو چاہیے کہ اس دھوکے سے نجات حاصل کریںَ بگذر ز خداہم کہ خدا ہم حرفے ست۔ لیکن یہی ملحد حیات و ممات کی ماہیت پر غور کرتا ہو ا آخر عمر میں اپنا ی راسخ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا کا جود تو نہیں لیکن عشق کا وجود ہے ۔ جو خلاق ہے اور ضامن بقا اور ارتقا ہے انسان کو عشق کی پرستش کرنا اور اسے اپنی رگ و پے میں سمونا چاہیے۔ انسان کو حیوانیت سے عشق ہی کی ترقی نے نکالا ہے۔ زندگی کی تمام لطافتیں اسی نے پیدا کی ہیں اور آئندہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کی ترقی کا مدار بھی عشق پر ہی ہے۔ ایسے کافروں کی نسبت اقبال ہی کا مصرعہ دہرایا جا سکتاہے: قلب او مومن دماغش کافر است جس نظریہ حیات پر کفر اور دین دونوں متفق ہو جائیں اور عقل و وجدان دونوں اس بارے میں ہم آہنگ ہو جائیں اس کے ابدی صداقت ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے۔ اسی ابدی صداقت کو اقبال نے اتنی لطافت اتنی نزاکت اور اتنے جوش کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ اسی کی بدولت ترجمان حقیقت کے لقب کا مستحق ہو گیا ہے۔ اقبال اس کا منکر نہ تھا کہ عل بھی اپنی ترقی میں عشق کا دامن چھو سکتا ہے۔ عشق کے متعلق برٹ رینڈ رسل سے زیادہ فرائڈ کو بصیرت حاصل ہوئی۔ رسل عشق کو کوئی ازلی ابدی حقیقت نہیںسمجھتا۔ فقط انسانی زندگی میںعدل و رحم اور لطف و مسرت پیدا کرنے کے لیے اسے ایک اساسی قدر حیات تسلیم کرتا ہے۔ ا س کے نزدیک وہ ماہیت وجو د میں داخل نہیں فقط انسانی زندگی کے لیے ایک مفید زاویہ نگاہ اوراچھا طرز عمل ہے۔ لیکن فرائڈ تو آخر میں معلوم ہوتا ہے کہ وہیں پہنچ گیا جہاں اہل دین اور صوفیہ پہنچے تھے کہ عشق خلاقی قوت مصدر حیات اور مقصود حیات ہے اگر انسان لفظی تنازع میں نہ پڑے تو یہ اسی خدا کے قائل ہونے کے مترادف ہے جو رحیم و مودود اور رب العالمین ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ ربوبیت اور نبات و حیوان اور انسان میں ایک تعمیری حیثیت سے موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جب وہ یہ کہتا ہے کہ فنا کوش تخریبی قوت بھی ساتھ ساتھ پائی جاتی ہے تو اس کو دین کی زبان میں شیطان کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اپنے عقلی راستے پر چلتا ہوا اور انسانی نفس میں غوطہ زنی کرتا ہوا فرائڈ خدااورشیطان دونوں کا قائل ہو گیا وہ دینی زبان استعمال نہیں کرتا لیکن مفہوم وہی ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے کہ ایروس یعنی عشق تخریبی قوتوں پر غالب آتا ہوا زندگی میں ارتقا پیدا کر رہا ہے تو اسے دینی زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کا شیطان پر غلبہ بھی ایک سرمدی حقیقت ہے۔ وہ اس کی تلقین کرتا ہے کہ میللان ظلم کو عشق کی وسعت اور قوت سے شکست دو۔ اس کے بعد اس کفر ور دین کی اعلیٰ ترین صورتوں میں کیا فرق باقی رہ جائے گا۔ فرائڈ اقبال کی طرح علم و عقل کی تحقیر نہیںکرتا کیوں کہ اسے جو کچھ بصیرت حاصل ہوئی وہ علم و عقل کی بدولت حاصل ہوئی ۔ مگر اس کے نزدیک انسان کے علوم نے جو ترقی کی ہے او ر جس سے تہذیب پیدا ہوئی وہ بھی عشق ہی کی قوتوں نے پیدا کی ۔ فرائڈ بھی اقبال کی طرح کہتا ہے کہ علم نے جو سوالات پیداکیے ہیں اس کا جواب مجھے عشق میں ملا ہے اسی نظریے کو اقبال نے اس خوبصورت مصرعے میں پیش کیا ہے کہ : علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب تمام کتابیں طبیعی علوم کی ہوں یا فنون لطیفہ کی یا مذہبی صحیفے کی۔ سب کا منبع اور ان کی ماں عشق ہے ضرب کلیم میں علم وعشق کے عنوان سے جو نظم ہے وہ اس موضوع پر اقبال کی لاجواب نظمون میں سے ہے۔ اس کو نقل کرنے کے بعد اب اس موضوع پر مزید طو ل بیان تحصیل حاصل ہو گا۔ علم و عشق علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن بندہ تخمین و ظن کرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور علم سراپا حجاب عشق کی گرمی سے ہے معرکہ کائنات علم مقام صفات عشق تماشائے ذات عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات علم ہے پیدا سوال عشق ہے پنہاں جواب عشق کے ہیں معجزات سلطنت و فقر و دیں عشق کے ادنی غلام صاحب تاج و نگیں عشق مکان و مکیں! عشق زمان و زمیں عشق سراپا یقیں اور یقیں فتح یاب شرح محبت میں ہے عشرت منزل حرام شورش طوفان حلال لذت ساحل حرام عشق پہ بجلی حلال عشق پہ حاصل حرام علم ہے ابن الکتاب عشق ہے ام الکتاب ٭٭٭ بارھواں باب تصوف اقبال کے فکر و تاثر پر بحث و تنقید مکمل نہیںہو سکتی جب تک کہ اس کا فیصلہ نہ کیا جائے کہ تصوف کے متعلق اقبال کا کیا رویہ تھا۔ اس سے قبل اس کا تعین لازمی ہے کہ تصوف ہے کیا چیز عشق کے لفظ کی طرح یہ لفظ بھی قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اورنہ اس زمانے کے معاصرانہ ادب میں موجو د ہے۔ طلوع اسلام کے دو سو سال بعد تک بھی کوئی صاحب دل دین دار صوفی کہلاتا ہوا نظر نہیںآتا۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں کسی کے یلے اس سے زیادہ اور کوئی شرف نہ تھا کہ وہ مومن ہو اور لوگ اس کے تقوے اور تزکیہ نفس کو قابل تحسین اور قابل تقلید سمجھیںَ اس کا آج تک کوئی فیصلہہ نہیں ہو سکا کہ صوفی کا لفظ کہاں سے آیا۔ کسی نے اس کو صفا سے مشتق سمجھا اور کسی نے اصحاب صفہ سے اس کا جوڑ ملایا۔ کسی نے کہا کہ یہ یونانی لفظ سوفی سے ماخوذ ہے جس کے معنی عرفان کے ہیںَ لیکن اب مسلم اور غیر مسلم محققین زیادہ تر اس پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ یہ لفظ صوف سے مشتق ہے ۔ درویش خڈا سے لو لگانے والا اور تنعم دنیوی سے گریز کرنے والا زاہد رسول کریمؐ کی طرح کملی والا ہوتا ہے۔ یہ کملی عام طور پر صوف ہی کی ہوتی تھی جو ایک کھردری قسم کی اون کی بافت تھی۔ مسلمانوں میں صوفیہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ وہ طرز فکر و تاثر اور زندگی جسے تصوف کہتے ہیں۔ اسلام میں کہیںخارج سے داخل ہوئی بعض صوفیوں نے اپنے سلسلے کو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے ملایا ہے اور بعض نے ابوبکر صدیقؓ سے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ چیز رسول کریمؐ کے اسوہ حسنہ کا عکس اور اخلاق نبوی کو قلب میں سمونے کا نام ہے۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ رسو ل کریمؐ کی غار حرا کی خلوت تصوف یا ولایت ہی کا دور تھا جو نبوت کا پیش خیمہ بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو تصوف یا انگریزی زبان میں مسٹیسزم کہتے ہیں وہ دین کے ارتقاء اور اس کی گہرائی میں ہر جگہ پیدا ہوئی ہے۔ ا یک خاص انداز کے تصوف میں ہندو قوم کسے زیادہ کسی نے غوطہ زنی نہیں یکی اور ہندو دھرم ویدانت اور بدھ مت پر پہنچ کر اور ویدوں سے اپنشدوں کی طرف عروج فکر و عمل میں تصوف ہی تصوف بن گیا۔ اس یک طرفہ روحانیت اور ذات و صفات ہستی واجب الوجود پر غور کرتے ہوئے اس پر احدیت یا ادویت ویدانت نے ایسا تسلط جمایا کہ حیات و کائنات اورتمام ماسوا مایا یا فریب ادراک رہ گئے اور رفتہ رفتہ دیوتا بھی مایا ہی کا ایک جزو بن گئے۔ نفس انسانی کی انفرادیت شرک بن گئی اور یہ سارا سلسلہ ایک حایت گریز تصور میں منتج ہوا۔ عملی زندگی میں خیر و شر کی پیکار کو باطل ہونے سے بچانے کے لیے بھی بعض اہم کوششیں ہوئیں جن میں کرشن مہاراج کی طرف منسوب بھگوت گیتا کے حقائق کو عمل سے ہم آغوش کرنے کی ایک لاجواب کوشش ہے۔ اس کتاب میں وحدت وجود اور توحید کو جہاد عملی اور جہاد نفسی کے ساتھ اس طرح مربوط کیا ہے کہ حیات گریز تصوف کی بہت سی خامیاں اس میں رفع ہو گئی ہیں۔ اس بنا پر علامہ اقبال اس کتاب کے لیے بے حد مداح تھے اور فرماتے تھے کہ ہندو قوم اس کتاب کی وجہ سے ابل مبارک ہے۔ ہر قوم کے تصوف میں بعض میلانات مشترک طور پر پائے جاتے ہیں۔ صوفی اس مادی زندگی کو اگر بالکل باطل اور بے اصل نہ بھی سمجھے اور اسے خدا ہی کی آفرینش اور اس کی مشیت کا مظہر قرار دے تو بھی روحانی زندگی کے مقابلے میں اس کو ہیچ سمجھتا ہے۔ حتی الوسع دام علائق سے رہائی چاہتا ہے۔ جسمانی آرزوئوں کو اقل قلیل حد تک پورا کرتا ہے اور اسے بھی مقصود نہیں بلکہ روحانیت کا ایک ادنی مگر ضروری وسیلہ سمجھتا ہے۔ صوفی میںخدا کا تصور تجسیم و تشبیہ سے پاک ہوتا ہوا کمال تنزیہ تک جا پہنچتا ہے اور خڈا کے صفات تمثیلی باطنی یا اضافی ر ہ جاتے ہیں کیوںکہ اس کی ذات وراء الوراء ہے سبحان اللہ عما یصفون۔ یہاں پہنچ کر توحید کے ڈانڈے وحدت وجود سے جاملتے ہیں اور دونوں میں امتیاز دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ علماء و فقہا اور عوام کے نزدیک دین رفتہ رفتہ کچھ ظواہر و شعائر میں محصور ہو جاتا ہے تمام توجہ اوامر و نواہی کی طرف مبذول ہو جاتی ہے۔ دین ایک کالید بے روح بن جاتاہے۔ اہل دین متشابہات بلکہ محکمات کی متضاد نما تاویلوں میں الجھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں روح دین کی حفاظت کے لیی یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ لوگوں کو ظاہر سے باطن کی طرف لایا جائے۔ کیا کرنا اور کیا نہ کرنا کے علاوہ بلکہ اس سے زیادہ اس کی تلقین اہم ہو جاتی ہے کہ انسان کو کیا ہونا چاہیے۔ ظواہر پر منحصر دین اور فقط معاملات کو سلجھانے والی فقہ رفتہ رفتہ ا س جذبے سے عاری ہو جاتی ہے جسے صوفیہ اور علامہ اقبال عشق کہتے ہیں۔ عبادت کا مقصود حصول ثواب رہ جاتاہے۔ جس سے آخرت میں نعمت جنت حاصل ہو اور انسان عذاب دوزخ سے بچ جائے۔ نیکی اور بدی کے اندر جو ذاتی اور نفسی نقد سزا اور جزا مضمر ہے اس کی حقیقت سے دیندار ناآشنا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے صوفی کہلانے والوں میں رابعہؒ کا ذکر ملتا ہے جن کو لوگ مجذوب یا مجنوں سمجھتے تھے۔ ایک روز دیکھاگیا کہ وہ بازار سے گزر رہی ہیں ایک ہاتھ میں کسی ظرف میں پانی ہے اور دوسرے میں کسی ظرف میں کچھ دہکتے ہوئے کوئلے ہیںَ لوگوں نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو اور یہ کیا لیے جاتی ہو؟ رابعہؒ نے جواب دیا کہ اس پانی سے دوزخ کی آگ کو بجھانے اور اس آگ سے جنت کو آگ لگانے جا رہی ہوں تاکہ لوگ اعمال کا مدار عشق الٰہی پر رکھیں اور اس جسمانی عذاب و ثواب کے امید و بیم سے نجات حاصل کریں۔ اسی تصور کو غالب نے ذرا انوکھے انداز میں بیان کیا ہے: طاعت میں تا رہے نہ مے و انگیں کی لاگ دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کو تمام اقوام کے تصوف میں ایک بات مشترک ملتی ہے کہ او ر وہ یہ ہے کہ محسوسات اور معقولات کے علاوہ اور ان سے کہیں زیادہ ادراک حقیقت کے ذرائع اور ہیں جو وجدانی ہیں۔ انسان کے ظاہری حواس کچھ باطنی حوس بھی ہیں جو ہستی کے بعض ایسے پہلوئوں کو منکشف کرتے ہیں جن تک عام عقل و احساس کی رسائی نہیں۔ کشف حقیقت کا سب سے بڑا ذریعہ عشق ہے جو محض تاثر یا جذبہ نہیں بلکہ مصدر بصیرت و معرفت ہے۔ زندگی کا مقصد اسی عشق کو ترقی دیتا ہے کہ جس سے ظاہر و باطن کی خامیاں رفع ہو جاتی ہیں اور اس کی بدولت جو عرفان نفس پیدا ہوتا ہے وہ خود شناسی اور جہاں شناسی کے علاوہ خدا شناسی کی راہیں بھی کشادہ کر دیتا ہے۔ تصوف کوئی طریق استدلال اور محض ایک نظریہ حیات نہیںبلکہ ایک طر ز زندگی ہے۔ جس میں ہر چیز کے متعلق زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے اور زندگی کے رسمی اقتدار کی نئی تقدیر ہوتی ہے۔ ان تمام وجوہ اشتراک کے باوجود مختلف ادیان کے تصورات میں تصوف کا رنگ ایک گونہ جدا جدا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی ملت میں مختلف صوفیا کا رنگ مختلف معلوم ہوتا ہے بعض خدا مست اور مجذوب معلوم ہوتے ہیں بعض خلوت پسند اور ہر قسم کے علائق سے گریز کرنے والے ہیں۔ بعض اپنی روحانیت اور معرفت سے دوسرو ں کو متاثر کرنا اور ان کی زندگیوں میں تزکیہ پیداکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ بعض کی طبیعتوں پر بقا کے مقابلے میں فنا کا تصور زیادہ حاوی دکھائی دیتا ہے۔ بعض پر گریہ طاری رہتا ہے اور بعض کے اندر ایک ازلی سرور ان کے چہروں پر بھی تبسم آفرین ہوتاہے بعض اپنے دین کی شریعت پر بھی سختی کے ساتھ پابند ہوتے ہیں اور بعض شریعت کے مقابلے میں طریقت اور معرفت اور عشق کا فضل سمجھتے ہیں اور کہیںدونوں میں تصادم ہو تو وہ شریعت کے ظاہری احکام کی زیادہ پروانہیںکرتے۔ مختلف صوفیہ نے تصوف کی جو تعریفیں کی ہیں وہ بھی اسی وجہ سے مختلف ہیں کہ ان کا طرز فکر اور طرز عمل جدا جدا ہے اور ان کے نفسی احوال میں بھی تفاوت معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ تصوف کے عالم میں اقبال کا کیا مقام ہے اور اقبال کو صوفی کہہ سکتے ہیں یا تصو ف کا مخالف۔ اقبال کا سرسری مطالعہ کرنے والوںنے اس بارے میں عجیب رائیں قائم کر رکھی ہیں۔ اقبال کے تصوف کے موافق یا مخالف ہونے کی بابت بحث اس وقت شروع ہوئی جب انہوںنے اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں حافظ شیرازی ک متعلق بڑی بیباکی سے اشعار لکھ ڈالے ہیں۔ جن میں حافظ کے نظریہ حیات پر سخت اور تلخ تنقید تھی۔ صدیوں سے فارسی پڑھنے والو ں نے حافظ کو صوفیہ کرام میں شمار کر رکھا ہے۔ مسلمان عام طورپر اس کو لسان الغیب کہتے ہیں اور اپنی زندگی کے اہم امو رکے متعلق دیوان حافظ سے فال نکالتے ہیں اس تفاول کے متعلق خاص و عام کے عجیب و غریب تجربات ہیں کہ کس طرح براہ راست ان کو اپنے سوال کاجواب اور مشکل کشائی کے لیے صحیح مشورہ حاصل ہوا۔ بادشاہ بھی امور سلطنت میں حافظ کی طرف رجوع کرتے ہیں جہانگیرنے اپنی توزک میں لکھا ہے کہ مجھے جب باپ کی وفات کی خبر ملی تو میں پایہ تخت سے کوسوں دور تھا اور پایہ تخت میں تخت شاہنشاہی پر بیٹھنے بٹھانے والے حریف موقع پر موجود تھے۔ بعض مصاحبین نے یہ مشورہ دیا کہ اس وقت آگرے کی طرف رخ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ میں بھی کمال اضطراب اور تذبذب میں تھا۔ فوراً خیال آیا کہ لسان الغیب سے پوچھا جائے اور وہ جو مشورہ دیں اس پر عمل کیا جائے۔ دیوان کھولا اور فال نکالی سامنے ہی یہ شعر موجود تھا کہ: بشہر خود رام و شہر یار خود ہاشم حافظ کے کلام میں اس قدر گونا گونی اورمجاز و حقیقت کی ایسی آمیزش ہے کہ جو پڑحنے والوںکے لیے تو نہایت دلکش اور وجد آفرین ہے لیکن سمجھنے والے اس کو حیرت اور تذبذب میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض شارحین نے اس تمام مجاز کو معرفت و عشق الٰہی بنا دیا ہے اور بعض اس کو لذت پرست عاشق مجازی سمجتھے ہیں۔ بعضوں کے نزدیک اس کی شراب شراب معرفت ہے۔ اور عشق الٰہی کی مے طہور ہے لیکن بعضوں کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ وہ افشردہ انگورہے اس کا فیصل ادیب اور نقاد قیامت تک نہ کرسکیں گے کیوں کہ خالی مجاز اور خالص حقیقت دونوں کے متعلق ثبوت میں حافظ کے سیکڑوں اشعا ر ہر حریف پیش کر سکتا ہے۔ اقبال نے حافظ پر تنقید محض اس لیے کی ہے کہ اس کے کلام کا آغاز جو طباع پر اثر ہوتا ہے وہ لذت پرستی اور عل سے گریز ہے اس میں سکون پرستی اور قناعت کوشی کی تعلیم ہے۔ اس کے پڑھنے والے انسان کی خودی میں کوئی قوت اور استواری پیدا نہیںہوتی۔ اس کا عشق خلاق اور فعال نہیں ہے۔ اوراقبال کے ہاں عشق کا زیادہ تر یہی مفہوم ہے۔ اقبال خانقاہی تصوف کا مخالف ہے لیکن حافظ کا تصوف تو خانقاہی بھی نہیں اور وہ اقبال کی طرح فقیہ اور خانقاہی صوفی دونوں کا مخالف ہے۔ اگرچہ وجہ اختلاف مختلف ہے۔ بہرحال اقبال اپنی شاعری سے جو انقلاب پیدا کرنا چاہتا تھا اور جس اصلاح کوشی کا طالب تھا وہ بات حافظ میںنہیں ملتی۔ اور جو کچھ وہاں ملتا ہے وہ اقبال کے نظریہ حیات کے خلاف پڑتاہے۔ اقبال خواجہ حافظ کو صوفی نہ سمجھتے تھے۔ مولانا شبلی کا میلان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ تصوف کی نہایت گہری اور بلند چیزیں بھی نہایت دلکش اور حکیمانہ انداز میں حافظ میں ملتی ہیں۔ اقبال اس کی یہی وجہ سمجھتے تھے کہ تصوف کے افکار اس زمانے میں عام تھے اور علاوہ ازیں بقول شیخ علی حزیں تصوف برائے شعر گفتن خوب است۔ اس کے باوجود بھی کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اقبال حافظ سے بالکل متاثر نہ تھے ۔ خود فرماتے تھ کہ بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حافظ کی روح مجھ میں حلول کر گئی ہے۔ اقبال کی فارسی کی اکثر غزلیں ایسی ہیں ک ہان کو دیوان حافظ میں داخل کر دیا جائے تو پڑھنے والے حافظ کے کلام سے ا س کا امتیاز نہ کر سکیں۔ ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ تصوف اور صوفیہ کی بہت سے قسمیں ہیں۔ اقبا ل ایک قسم کے تصوف کے مخالف تھے اور دوسری قسم کا تصوف ان کی شاعری کا بہترین سرمایہ ہے۔ اقبال نہ کسی فقیہ کے مقلد اور معتقد ہوئے اور نہ کسی حکیم اور فلسفی کے استدلالی فلسفے نے ان کو طمانیت بخشی۔ اسلام کی تمام تاریخ میں سے اقباال نے فقط رومی کو اپنا مرشد قرار دیا مگر رومی نہ فقیہ ہے اور نہ فلسفی۔ اگرچہ اقبال کی طرح فقہ و فلسفہ سے خوب واقف ہے۔ لیکن زیادہ تر عشق ہی کا راگ الاپتا ہے۔ زان طرف کہ عشق می افزاد درد بو حنیفہ و شافعی درسے نکرد اقبال کے والد بھی صاحب دل صوفی تھے اور اقبال اپنے باپ کے بھی مرید تھے۔ اور ایک صوفیانہ سلسلے میں بیعت کا بھی انہوںنے ذکر کیا ہے۔ اقبال کو زندگی کے متعلق ہر اہم سوال کا جواب عارف رومی ہی سے ملتا ہے۔ اور وہ مثنوی کو ہست قرآن در زبان پہلوی سمجھتے ہیں۔ اب کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جلال الدین رومی کو صوفی بلکہ امام صوفیہ نہ سمجھاجائے اور اسے اسلام سے ایک بھٹکا ہوا شخص خیال کیا جائے لیکن اس کیلیے تو مغرب و مشرق میںشاید ہی کوئی صاحب فہم بھی تیار نہ ہو۔ اگرچہ رومی کو کافر سمجھنے والے مناظرہ باز ملا اس زمانے بھی تھوڑے بہت موجود تھے اور بعدمیں کہیں کہیں ؤابھرتے رہے ہیں۔ شیعیت نے زیادہ تر تصوف سے روگردانی کی ہے میر عبا س شوستری کا یہ شعر مشہور ہے جو اس نے اپنی تعریف اور عارف رومی کی مذمت میں کہاہے: ایں کلام صوفیان شوم نیست مثنوی مولوی روم نیست ایک پنجابی شاعر نے بھی کہاہے کہ اگر رومی او رجامی کو کافر نہ کہوں تو اور کسی کو کہوں لیکن رومی کے متعلق یہ فتویٰ مسلمان علما و صلحا اور خاص و عام کے نزدیک مبنی بر جہالت ہے۔ اقبال نے کبھی اپنے آ پ کو صوفی نہیںکہا لیکن رومی بھی تو عام طور پر صوفیوں کی ہی مذمت کرتے ہیں۔جس طرح دین کے مدعی ظاہر پرست ملا حامیان شرع متین کہلانے کے باوجود دین کی روح سے بیگانہ تھے اسی طرح جب تصوف کا چرچاہوا اور اہل دل نے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کیا تو دین کے مقلدوں کی طرح تصوف کے مقلد بھی پیدا ہوگئے۔ جو بولی تو صوفیہ ہی کی بولتے تھے اور ظاہری انداز بھی ویسا ہی بنا لیتے تھے۔ لیکن دراصل توہم پرست اوراقتدار پسندتھے اور کشف و کرامات سے مریدوں پر رعب جماتے تھے۔ اس زمانے میں بعض مدعیان اصلاح او رمفسر قرآن ایسے پیدا ہو گئے ہیں جنہوں نے یکسر تمام احادیث نبوی کا دفتر باطل سمجھ کر سوختنی قرار دیا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت اصلاح معاشرت کی تجویزوں میں دوسری ملتوں کے نقال ہیں اوراس نقال کو اصل اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک صوفی کا خلوت گزینی میں محویت ذات الٰہی کی مشق کرتے ہوئے یہ قول مشہورہے کہ بخدا آنچنان مشغولم کہ از رسول خجالتہا دارم تا بہ اولوالامر چہ رسد۔ اسی قول کو ذرا سی تبدیلی کے ساھت ان لوگوں پر منطبق کر سکتے ہیں کہ باقرآں آنچناں مشولم از حدیث خجالتہا ارم تا بہ صوفیہ چہ رسد۔ لطیفہ یہ ہے کہ اسے بعض علامہ اقبال کے اس قدر معتقد ہیں کہ اسے مجتہد العصر اور محی الملکت و الدین کہتے ہیں لیکن اپنی کوتاہ بینی اور کج اندیشی کی وجہ سے اظہار تاسف کرتے ہیں کہ افسوس اقبال جیسا مجدد بچپن اور شباب ہی میں کچھ باپ کی وجہ سے اور کچھ روایتی تصوف کا شکار ہو کر آخر تک رومی جیسے انسان کو اپنا مرشد اور سیر افلاک میں اپنا رہنما سمجھتا رہا۔ ورنہ کہاں علامہ اقبال جیسا بالغ نظر انسان اور کہاں رومی جیسا صوفی جو اسلام اور قرٓن سے ہٹ کر اناپ شناپ باتیں کرتا ہے۔ ایسے نافہموں کو اپنے تضاد فکر کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور اسی لیے اپنی متضاد بیانی سے کچھ شرم بھی نہیں آتی بھلا ان سے کوئی پوچھے کہ تمام عمر ایسا شدید دھوکا کھانے والا اور زندگی کے ہر مسئلے کو مرشد رومی کے سامنے بغرض حل پیش کرنے والا تمہارے نزدیک واقف رموز قرآن اور ترجمان حقیقت کیسے ہو سکتاہے؟ ان سے سوال کرنا چاہیے کہ اقبال کی گمراہی اور حقیقت ناشناسی کا اس سے زیادہ قوی ثبوت اور یا ہو سکتا ہے کہ تمہارے نزدیک جو تصوف قاطع قرآن ہے اسی کے امام عارف رومی کو اقبال ہر مفسر اور ہر فقیہ سے افضل سمجھتا ہے۔ خود اس سے فیض حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی مریدی کی دعوت دیتا ہے۔ کیا ایسے اقبال کو تصوف کا مخالف کہہ سکتے ہیں۔ وہ تو خدا اوررسول کے عشق کا بہترین حامل سمجھتا ہے۔ رومی کی معتقدی میں اقبال نے بہت کچھ کہا ہے۔ مندرجہ ذیل چند اشعار ملاحظہ ہوں: نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی ٭٭٭ اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی ٭٭٭ علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں ٭٭٭ صحبت پہ روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش لاکھ حکیم سر بجیب ایک کلیم سر بکف ٭٭٭ یا مرد قلندر کے انداز ملوکانہ یا حیرت فارابی یا تاب و تب رومی ٭٭٭ نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی بال جبریل میں مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب زندگی کے اہم مسائل کے متعلق پڑھنے اور غور کرنے کے قابل ہیں۔ مثنوی مولوی معنوی حکمت و عرفان اور عشق کا ایک ایسا بحر زخار ہے کہ دین و دنیا کے متعلق جتنے اہم سوال بھی کسی کے دل میں پیدا ہوں ان کا جواب اس میں کہیں نہ کہیں مل جائے گا یہ ہر تفسیر و تاویل و استدلال سے زیادہ دل نشین اور یقین آفرین ہو گا: ہم خوگر محسوس ہیں ساحل کے خریدار اک بحر پر آشوب و پراسرار ہے رومی ٭٭٭ تو بھی ہے اسی قافلہ شوق میں اقبال جس قافلہ شوق کا سالار ہے رومی ٭٭٭ بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردہ محمل گرفت ایں فرو تر رفت و تا گوہر رسید آں بگردابے چو خس منزل گرفت حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت ٭٭٭ عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی ٭٭٭ مطرب غزلے بیتے از مرشدروم آور تا غوطہ زند جانم در آتش تبریزے ٭٭٭ بیا کہ من ز خم پیر روم آوردم مے سخن کہ جواں تر ز بادہ عنبی است جلال الدین رومی اور جرمنی کے مشہور فلسفی کا مقابلہ کرتے ہوئے اقبال نے جو اشعار پیام مشرق میں لکھے ہیں وہ اس سے بیشتر ایک عنوان کے تحت درج ہو چکے ہیں۔ مغربی فلسفے میں ہیگل کے نظریہ وجود میںمنطقی عقل کا کمال نظر آتا ہے۔ اس نے زندگی کے پیچاک کو سلجھانے کی کوشش میں اس کے تار وجود میں ایسی گرہوں کااضافہ کیا ہے ہ جن کو کھولنے کی کوششوں میں پیشہ ور فلسفی بھی عاجز ہو جاتے ہیں۔ ہیگل کی عقلی کوششوں کی داد دینے کے بعد اقبال کہتا ہے کہ جب اس کے دریائے تفلسف میں میری عقل کی کشتی ڈوبنے اور ڈگمگانے لگی تو ایک پیر یزدانی خضر آسا مجھے بچانے اور سنبھالنے کے لیے غیب سے نمودار ہوا۔ یہ بزرگ عارف رومی تھے۔ انہوںنے مجھ سے کہا کہ عقلیت کے کس گرداب میں خواہ مخواہ چکر کھا رہے ہو۔ حقیقت ازلی کو عقل کی روشنی سے تلاش کرنا ایساہی ہے جیسا کہ کوئی چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے نکلے۔ تو سراب میں کشتی رانی کر رہا ہے۔ تشنہ لب بھی رہے گا اور تیری کشتی بھی کسی ساحل مراد پر نہ پہنچے گی۔ نگہ شوق تیز تر گردید چہرہ بنمود پیر یزدانی آفتابے کہ از تجلی او افق روم و شام نورانی شعلہ اش در جہان تیرہ نہاد بہ بیاباں چراغ رہبانی معنی از حرف او ہمی روید صفت لالہ ہائے نعمانی گفت با من چہ خفتہ برخیز بہ سرابے سفینہ می رانی؟ بہ خرد راہ عشق می پوئی بہ چراغ آفتاب می جوئی اقبال نے جن حکمائے مغرب کو بہت بلند پایہ اور نکتہ رس پایا ہے ان میں س ایک بیگانہ روز گار گوئٹے بھی ہے۔ اپنی شاعری کی ابتدام یں اس ے غالب کو اس کا مثیل قرار دیا تھا: آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشن ویمر میں تیرا ہمنوا خوابیدہ ہے گوئٹے کے شاہکار فوسٹ کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اقبال نے ہیگل کو تو بو علی اور فارابی و رازی کی طح حقیقت نارس ہی کہاہے لیکن گوئٹے سے وہ اپنی طبیعت کی مماثلت محسوس کرتا ہے اور یہ درست ہے کہ غالب سے کہیں زیادہ اقبال اپنی وسعت وپرواز فکر میں گوئٹے کا مثیل ہے۔ پیام مشرق گوئٹے کے شرقی غربی دیوان کے جواب میں ہی لکھا گیا جلال الدین رومی جو اقبال کا مرشدہے اس کے افکار کی ہم رنگی اقبال کو گوئٹے میں بھی نظر آتی ہے۔ جلال و گوئٹے کی نظم کے تحت میںاقبال نے ایک نوٹ لکھا ہے جو درج ذیل ہے: ’’نکتہ دان المنی سے مراد گوئٹے ہے جس کا ڈرامہ فوسٹ مشہور و معروف ہے اس ڈرامے میں شاعر نے حکیم فوسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدراج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن خیال میں نہیں آ سکتا‘‘۔ گوئٹے کی قدر شناسی اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقبال نے اپنے مرشد رومی اور گوئٹے کو ایک جا جنت میں ہم کلام کر دیا اور رموی کی زبان سے گوئٹے کو رمز شناس عشق ہونے کی سند عطا کی۔ اس ڈرامے میں بھی ابلیس کی زیرکی سے آدم کا عشق برسر پیکار ہے۔ اور آخر کار عشق فتح یاب ہوجاتاہے۔ رومی صدیوں پہلے اس پیکار کا لب لباب اس شعر میں کہ گیاتھا: داند آں کہ نیک بخت و محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است نکتہ دان المنی را در ارم صحبتے افتاد با پیر عجم شاعرے کو ہمچو آں عالی جناب نیست پیغمبر والے دارد کتاب خواند بر دانائے اسرار قدیم قصہ پیمان ابلیس و حکیم گفت رومی اے سخن را جاں فکار تو ملک صید استی و یزداں شکار فکر تو در کنج دل خلوت گزید ایں جہان کہنہ را باز آفرید سوز و جاں بہ پیکر دیدہ ای در صدف تعمیر گوہر دیدہ ای ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست داند آں کو نیک بخت و محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است اقبال گوئٹے سے بھی زیادہ برگساں کا مداح اور اسکے عقل و وجدان کے تقابلی فلسفے سے متاثر تھا۔ اپنا نظریہ حیات اقبال نے برگساں سے حاصل نہیں کیا لیکن اس کا استدلالی استحکام برگساں کے ہاں بہت قومی ہے۔ ظاہر ہے کہ اقبال شعر میں اس قسم کا منظم فلسفہ پیش نہ کر سکتا تھا شاعری میں طر ز بیان اور طرز استدلال منطقی نہیںہوتا۔ اگرچہ منطقی استدلال سے زیادہ دلنشیں اور یقین آفریں ہوتا ہے۔ اقبال نے کہیں برگساں اور رومی کی باہمی موافقت کے متعلق اشعار نہیں کہے۔ لیکن برگساں کے ہاں وجدان حیات عقل کی محدود افادیت اورعشق کی خلاقی اسی انداز سے ملتی ہے جو انداز رومی اور اقبال دونوں کا ہے پیغام برگساں کے اشعار رومی اور اقبال ہی کانظریہ حیات اور ا تصوف کی اساس ہیں جو ان تینوں ہم رنگ پایا جاتا ہے: تا بر تو آشکار شود راز زندگی خد را جدا ز شعلہ مثال شرر مکن بہر نظارہ جز نگہ آشنا میار در مرز و بوم خود چو غریباں گزر مکن نقشے کہ بستہ ہمہ اوہام باطل است عقل بہم رساں کہ ادب خوردہ دل است بروننگ بائرن غالب اور رومی کے نظریات حیات ایک ایک شعر میں اس طرح بھر دیے ہیں کہ دریا کوزے میں آ گیا ہے۔ روحی میلان جوش حیات اور تعمری خودی بروننگ کے کلام کا امتیازی جوہر ہے۔طالب علمی کے زمانے میں اپنی ایک نظم میں نے کشمیر سے علا مہ اقبال کو بھیجی تھی اسے پڑھ کر علامہ نے مجھے لکھا کہ تخیل پر قابو رکھنا چاہیے تاکہ وہ عنان گسیختہ نہ ہو جائے۔ اوراس کے علاوہ ایک مشورہ بھی دیا تھا کہ بروننگ کو پڑھا کرو۔ بائرن میں وہ چیز نہ تھی جسے روحانیت کہ سکیں۔ اس کا میلان زیادہ تر لذت پرستی اور قوت پرستی کی طرف معلوم ہوتا تھا۔ گوئٹے نے بھی غالباً ایکٹر مین سے باتیں کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ بائرن کے کلام میں قوت کا غیر معمولی مظاہر ہ ہے۔ اس کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ امر تو حقیقی ہے کہ قوت کائنات کی فطرت کا اساسی عنصر ہے۔ اور اسی لیے انسانی طبیعت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ غالب کے ہاں زندگی کی تلخیوں کے باوجود گوارائی حیات موجود ہے۔ بلکہ وہ زندگی میں تلخی کے اضافے کا خواہش مند معلوم ہوتا ہے۔ فارسی میں غالب کی ایک بلند پایہ غزل ہے جس کا مطلع ہے: رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم اس تمام غزل میں ایک ہی موڈیا کیفیت طبع محسوس ہویت ہے۔ بروننگ بائرن اور رومی تینوں اسی زمین میں ایک ایک شعر کہہ کر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ اقبال کا مقصد یہ ہے کہ ان تینوں پر رومی کا تفوق ثابت کیاجائے: بروننگ بے پشت بود بادہ سر جوش زندگی آب از خضر بگیرم و در ساغر افگنم بائرن(جو روحانی رہنمائوں کا قائل نہیں اور اپنے خون جگر میں سے فیض حاصل کرنا چاہتا ہے)۔ از منت خضر نتواں کرد سینہ داغ آب از جگر بگیرم و در ساغر افگنم غالب تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم رومی آمیزشے کجا گہر پاک او کجا از تاک بادہ گیرم و در ساغ افگنم روحانی قوت اور جوش و مستی نہ خضر سے طلب کرو اور نہ اپنے جگر سے اور نہ مے انگور کے ساغر سے جس کی تیزی اور تلخی میں اضافہ بھی کچھ کام نہ آئے گا۔ الوہیت کے تاکستان سے براہ رات انگور توڑو اور اس کا افشردہ پیو مرشد رومی کی مریدی کے اشعار اقبال کے تمام مجموعوں پر پھیلے ہوئے ہیںَ اور جاوید نامے میں تو شروع سے آخر تک وہی رہبر ہے۔ اقبال کو اپنا نظریہ حیات اورم یلان طبع غیر معمولی بصیرت اور جوش کے ساتھ فقط رومی میں نظر آیا۔ اگر رومی کا نظریہ فکر و عمل اور اس کا عشق تصوف کہلا سکتا ہے تو اقبال کے صوفی ہونے میں کیا شک نہیںہو سکتا ہے؟ اقبال کو رفتہ رفتہ یہ احساس پید اہو گیا تھا کہ اس دور میں میں اس کا خلیفہ ہوں اور مجھے بھی اس کی طر ح دین کی ظاہر پرستی اور فلسفے کی سائنس کی مظاہر پرستی کے خلاف جہاد کرنا ہے اور انسانوں کی زندگی می دوبارہ عشق کوسرچشمہ حیات بنانا ہے۔ جس سے حقیقی بصیرت اور قوت پیدا ہو سکتی ہے اور اگر شرق و غرب دونوں کی تہذیبیں ا س نظریہ زندگی کی طرف نہ آئین تو دونوں کی خیریت نہیں۔فردو س میں سنائی نے رومی سے کہا کہ مشرق میں درویشی کا سہ آش ہی رہ گئی ہے اورصوفی و فقیر کہلانے والوں میں بھی اس خودی کا احساس نہیں جو خدا سے ہم کنار کرتی ہے۔ حلاج جس نے انا الحق کہ کر خودی کی ماہیت کو حق قرار دیا تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ وہ بول اتھا کہ مرد قلدنر مشرق میں پیدا ہوا ہے اس نے پھر راز خودی کو فاش کیا ہے اس لیے وہاں تجدید حیات کی امید ہو سکتی ہے: فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہی وہی کاسہ وہی آش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش آخر میں رومی کی ملت اسلامیہ کے مرض ضعف کی تشخیص اقبال کی زبانی پیش کر کے ہم رومی کی مرشدی اور اقبال کی مریدی سے رخصت ہوتے ہیں: رومی غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک ترا نیاز نہیں آشنائے ناز اب تک کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک گستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک اس انتخاب سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے ہاں رومی کا تصوف بدرجہ اتم بلکہ بیان کی کچھ مزید لطافتوں کے ساتھ موجود ہے۔ اب ذرا اس پر بھی نظر ڈال لیں کہ اقبال جس تصوف کا مخالف ہے وہ کیا چیز ہے۔ مسلمان صوفیہ کے افکار و تاثرات میں بعض ایسے عناصر داخل ہوگئے جو اسلام کی اصل تعلیم کے اندر سے نہ ابھرے تھے۔ بلکہ ان ادیان اور فلسفوں کے راتستے سے داخل ہوئے تھے کہ جن میںر وحانیت تجریدی ہوتے ہوتے حیات گریز ہو گئی تھی۔ عیسائیت بھی ابتدائی صدیوں میں رہبانیت تھی اور بعد میں عملاً تو نہیں لیکن عقیدہ زندگی اور فطرت کو حقیر غیر اصلی اور شیطانی مظہر سمجھ کر اس سے گریز ہ کی تلقین کرتی رہی ہے۔ فرنگ کی زندگی میں یہی زبردست تضاد موجودہے جو اکثر عیسائیوں کے نفوس کے اندر ابھی تک کشاکش پیدا کر رہا ہے کہ ایک طرف کمال درجے کی مادی ترقی اور لذت پرستی ہے اور دوسری طرف دینی عقائد میں وہی رہبانیت کا رنگ موجو د ہے۔ بعض مستشرقین نے یہ لکھا ہے کہ شروع میں مسلمان صوفی عیسائی راہبوں کی تقلید سے پیدا ہوئے اور وہ بھی عیسائی راہبوں کی طرح یا غار و کوہ میں خلوت نشین ہو گئے یا خانقاہوں میں مشاغل حیات کو ترک کر کے روحانی مشقیں کرنے لگے۔ ہندو مت اور بدھ مت دونوں نے زندگی سے فرار ہی سکھایا ہے اور بھکشو اور سادھو کو جو معاشرت کے کسی کاروبار میں حصہ نہ لے اور نہ تاہل کا کاروبار اپنے کندھوں پر ڈالے دوسرے انسانوں سے افضل سمجھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ درویش کی زندگی انسانوں کانصب العین بن گئی۔ ہندوئوں اور بدھوں میں تو احدیت اور تنزیہ نے اس توحید کو فنا کر دیا جس میں ایک خد ا سے انسان کا شخصی رابطہ ہوتا ہے۔ خواہ وہ عابد و معبود کا رشتہ ہو اور خواہ عاشق و معشوق کا۔ عیسائیت میں اس کے برعکس توحید کے اندر اس وقت تجسیم اور تشبیہہ داخل ہو گئی کہ خداے مجسم سمجھ کر انسان کی پوجا دین بن گئی۔ اس دنیا اور انسانی معاشرت سے اس کو بھی کوئی واسطہ نہ رہا۔ ایک طرفپجاری انسان اور دوسری طرف مجسم خدا رہ گیا۔ دنیا اور اس کے مشاغل تلبیس ابلیس بن گئے ۔ یہاں تک کہ از منہ متوسطہ میں راہبوں نے جسمانی طہارت بھی ترک کر دی کہ جسم کی طرف توجہ کرنے سے روحانیت اور توجہ الی اللہ میں خلل آتا ہے۔ یہ غیر اسلامی عناصر جابجا مسلمانوں کے تصوف کے اندر داخل ہو گئے۔ یہاں نفس کشی اور مشق فنا دین بن گئی۔ انسانی خودی گناہ کبیرہ قرار دی گئی اور وجودک ذنب اس غیر اسلامی تصوف کا مسلمہ عقیدہ بن گیا۔ گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور کسی نے کہا کہ منصور کو اس لیے مصلوب کیا گیا ہے کہ وہ حق کے ساتھ انا بھی کہتا ہے اور حق کے ساتھ انا کا احساس ایک ناقابل معافی اور قابل تعزیر جرم تھا۔ تصوف کی تمام شاعری فلسفیانہ ہونے سے زیاد ہ عشقیہ شاعری ہے لیکن عشق کا رنگ اور اس کا تقاضا مختلف صوفیوں میںمختلف نظر آتا ہے۔ اقبال رومی کے عشق کا قائل ہے مگر اور بہت سے صوفیہ ہیں جن کے عشق می اس کو انسان کی خودی اور تمام فطرت سوخت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کے ہاں خدا کا عشق انسانوں کی محبت کے منافی نہیں بلکہ اس کا بہترین مظہر انسانوں کی باہمی محبت ہے۔ وہ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی جہاں بانی چاہتا ہے۔ اس کے خلاف بعض صوفیہ کے عشق کا یہ حال ہے کہ خدا کا عشق مجرد اور الگ ہو کر دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے مثلا ابوسعید ابو الخیر فرماتے ہیں: صحرائے دلم عشق تو شورستاں کرد تا مہر کسے دگر نہ روید ہر گز اقبال کے نزدیک ایسا عشق حیات افزاہونے کے بجائے حیات سوز ہے۔ خدا کے عشق کا تو یہ نتیجہ ہونا چاہیے کہ اس کی آفرینش کے ہر پہلو کے ساتھ محبت ہو اور اس کی توسیع و اضافہ کی کوشش کی جائے۔ محویت اور بے خودی عشق کی ایک کیفیت ہے۔ لیکن اگر اس میں احساس خودی بالکل ہی جاتا رہے تو اقبال اس کو درست نہیں سمجھتا۔ وہ تو عشق سے خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ وہ خدا سے اس قسم کی بے خودی کا طالب نہیں ہے کہ انسان اشیاء و اشخاص و حوادث سے بے خبر ہو جائے جیسا کہ کسی نے کہا ہے: مستم کن آنچناں کہ ندانم ز بے خودی در عرصہ خٰال کہ آمد کدام رفت اقبال تجلیات کے تنوع کا آرزو مند ہے۔ اس میلان کے صوفی اقبال سے بیشتر بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ اقبال کایہ شعر پہلے درج ہو چکا ہے: ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے دیکھیے قدیم زمانے کاعارف بھی اس خواہش کو کس خوبصورتی سے پیش کر رہاہے: اگر او دیدہ دادت کہ دیدارش بہ او بینی طلب کن دیدہ دیگر کہ دیدار دگر دارد اگر ہر ساعتے صد بار رخسارش بصد دیدہ ہمی بینی مشو قانع کہ رخسار دگر دارد متصوفانہ شاعری میں اکثر اس قسم کے افکار اور اشعار ملتے ہیں جن میں عشق الٰہی کو نین سے گریز کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اقبا ل اس کا قائل نہیں وہ تو کونین کو اپنے دامن میں لینا چاہتا ہے بلکہ دیگر نادیدہ اور وجود ناپذیر برفتہ عالم کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے۔ ہر صوفی کے نزدیک عشق شہادت کا طالب ضرورہے۔ لیک اس شہادت کا مقصد تسخیر فطرت ہونا چاہیے نہ کہ عالم کو حقیر سمج کر ا س سے گریز۔ اقبال کو کسی صوفی کے یہ اشعار شاید پسند نہ آتے: دو عالم را بہ یک بار از دل تنگ بروں کردیم تا جاے تو باشد دو عالم باختن نیرنگ عشق است شہادت ابتدائے جنگ عشق است تذکرۃ الاولیا میں غیر اسلامی تصوف کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ ایک صوفی کے متعلق لکھاہے کہ اس کواپنے بیٹے سے بہت محبت تھی۔ اس کے دل میں یہ خلش پیدا ہوئی کہ کسی دوسرے کی محبت خدا کی محبت کے منافی اور اس میں خلل اندا ز ہے۔ اس لیے اس نے خدا سے دعا مانگی کہ یا رب ا س بیٹے کی محبت کو میرے دل سے نکال دے۔ یہی وہ تجریدی روحانیت اور رہبانیت ہے جس سے بچنے سے اسلام نے تلقین کی تھی۔ لیکن ایسی چیزیں غلط تصوف کے راستے سے مسلمانوں میں داخل ہو گئیں۔ اقبال کو بعض صوفیہ کے تصوف کی اس روش سے بھی بیزاری تھی کہ اس نے شریعت کے بعض احکام کو اپنے عشق و مستی کے مقابلے میں بہت ثانوی حیثیت دے دی۔ مثلاً اسلام نے جہاد کو اپنی تعلیم کا جزو اعظم قرار ددے دیا ہے کہ اگر اسلا م یا مسلمان کفر کے غلبے سے خطرہ محسوس کریں تو وہ تلوار سے دین کی مدافعت کریں۔ لیکن صوفیہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ شہید عشق غازی سے افضل ہوتا ہے۔ یہ رباعی بھی ابو الخیر کی ہے۔ رباعی نہایت دلکش ہے اور علامہ اقبال فر ماتے ہیں کہ اس دلکشی کی وجہ سے ہی یہ نہایت خطرناک ہے۔ غازی اگر شہید ہو جائے تو وہ کشتہ دشمن ہوتا ہے اورعاشق الٰہی کی شہادت دوست کے ہاتھوں سے واقع ہوتی ہے۔ اس سے استدلال کیا ہے کہ شہید عشق کو جہاد میں شہادت پانے پر بھی فضیلت ہے: غازی برہ شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہید عشق فاضل تر ازوست در روز قیامت ایں بداں کے ماند کیں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست اقبال کا تصوف صحرا نوردی اور غار نشینی کا قائل نہیں۔ یہ سب زندگی سے گریز کے بہانے ہیں۔ عشق قطع علائق کانام نہیں اور قطع علائق پوری طرح ہو بھی کہاں سکتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے : کہ کرد قطع تعلق کدام شد آزاد بریدہ ز ہمہ با خدا گرفتار است اقبال کا خدا انسان کی خودی کی پرورش چاہتا ہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اس کے وصال میں انسانوں سمیت باقی ساری کائنات گم ہوجائے۔ خدا کے وصل کے یہ معنی ہونے چاہئیں کہ اس کے ہر مظہر سے وصال پیدا ہو۔ خدا کی ذات کے ساتھ اس کے عالم صفات بھی ہے۔ اور خلوت ذات کے ساتھ جلوت صٖفات بھی ہے۔ صحرا نوردی میں تو بس ایک طرف عاشق ہو گا اوردوسری طرف خدا کی ذات۔ عاشق کے نفس کی اندرونی پیچ و تاب باقی رہ جائیں گے اور باقی نہ معرفت عالم اور نہ خدمت خلق۔ یہ نہ اسلام ہے اورنہ تقاضائے فطرت۔ عشق کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دل کو بنجر بنا دے۔ یہ سر بصحرا دادن کا تصوف عیسوی اورویدانتی ہے ۔ اسلامی نہیں: در کوے خودم منزل و ماویٰ دادی در بزم وصال خود مرا جا دادی القصہ بصد کرشمہ و ناز مرا عاشق کردی و سر بصحرا دادی عشق کی تلقین اور اس کاجوش و خروش ہر صوفی میں پایا جاتاہے۔ لیکن اس کے تقاضے ہر اہل دل کے ہاں مختلف ہیںَ اگر اقبا ل نے بہ تکرار اپنے عشق کی توضیح نہ کی ہوتی اور اس کے تقاضوں کو واضح نہ کیا ہوتا تو اس کی عشقیہ شاعری عام صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری کے سلسلے کی ایک کڑی بن جاتی۔ لیکن روایتی صوفیانہ افکار و نظریات اور اقبال کے تصورات میں بعض پہلوئوں میںایک بین فرق نمایاں ہے۔ اقبال کے خودی کے نظریات کے لیے ہم نے ایک الگ باب باندھا ہے۔ لیکن اس کے خودی کے تصور کو اس کے عشق کے تصور سے الگ کرنا دشوار معلوم ہوتا ہے۔ اس کے ہاں عشق اور خودی ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ خودی کی تعلیم کے بعض اہم پہلو پہلے اکابر صوفیا میں بھی ناپید نہیں۔ لیکن خودی کی حقیقت اور اس کا استحکام ان کے ہاں اقبال کے مقابلے میں ذرا دھیما ہے۔ مثلاً سنائی کے حدیقہ میں سے چند اشعار لیجیے۔ ان میں وہ نفس انسانی کو ایک الٰہی جوہر کہتااہے لیکن جو مثال استعمال کرتا ہے اس میں خدا کے نور مطلق کے مقابلے میں عالم و آدم محض ایک سایہ رہ جاتے ہیں ظاہر ہے کہ سایہ بے مایہ ہوتاہے اور اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہوتی۔ اقبال کے ہاں خودی ایک سایہ نہیں بلکہ ایک مستقل حقیقت ہے۔ جو عرفان و قوت اندوزی سے ابدی بن جاتی ہے۔ جام جم میں سنائی (کذا) انسانی نفس یا خودی کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس کے ایک حصے سے اقبال متفق ہو سکتے ہیں لیکن دوسرا پہلو ان کے نظریے کے منافی دکھائی دیتاہے: اصل نزدیک و اصل دور یکے ست ما ہمہ سایہ ایم و نور یکے ست اس شعر سے قطع نظر کر کے باقی اشعار ایسے ہیں جو خودی کے بارے میں کلام اقبال کے ہم رنگ ہیں: چوں نہاد تو آسمانی شد صورتت سربسر معافی شد نامہ ایزدی تو سر بستہ باز کن بند نامہ آہستہ خویشتن را نمی شناسی قدر ورنہ بس محتشم کسی اے صدر صنع را برترین نمونہ توئی خط بے چون و بے چگونہ توئی بیش ازیں گر دو حرف می خوانی ترسمت بر جہی کہ سبحانی مسلمانوں کے تصوف پر زیادہ تر وحدت وجود کا مسئلہ چھایا ہوا ہے۔ اور اسی نے بادہ تصوف میں نشہ بھی پیدا کیا ہے۔ اقبال نے عشق اور خودی کے نظریات اور کیفیات کو بیان کرتے ہوئے حتی الوسع اس سے گریز ہی کیا ہے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ وحدت وجود دینی مسئلہ نہیںبلکہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ اقبال کے بانگ درا کے مجموعے میں کہیں کہیں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ اثڑ کچھ روایتی تصوف کا تھا اور کچھ فلسفے کا‘ جس کا میلان ہمیشہ زیادہ تر وحدت وجود کی طرف رہا ہے۔ اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد ان کے کیمبرج کے استاد فلسفہ میک ٹیگرٹ نے انہیں لکھا کہ طالب علمی کے زمانے میں تو تم زیادہ تر ہمہ اوستی معلوم ہوتے تھے اب معلوم ہوتاہے کہ ادھر سے ہٹ گئے ہو۔ مسلمانوں کی شاعری کا نہایت دلکش حصہ متصوفانہ شاعری کا ہے۔ اس میں بعض صاحب دل صوفی شاعر بھی ہیں جو ذاتی تاثرات کو ادا کرتے ہیں اور بعض تصوف کے نظریہ حیات سے لذت اندوز ہیں جو مسائل تصوف کو بڑی لطافت سے شعر کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ فیضی و عرفی اور غالب اور صف دوم کے بہت سے شعراء اسی موخر الذکر صف میں ہیں اور وہ خو د محسوس کرتے ہیں کہ ہم محض متلذذ بالمسائل ہیں اور اصلی کیفیت کا نقشہ ہم میں نہیںہے۔ یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا ذرا دیکھیں کہ اقبال کے ابتدائی کلام میںکہاں کہاں وحدت وجود کا تصور جھلکتا ہے وحدت وجود کا اعلان کرنے والے منصور شہید کو اقبا نے آکر تک گمراہ خیال نہیںکیا بلکہ اس کے انا الحق سے اپنے نظریہ خودی کو استوار کیا۔ بانگ درا کی شمع کی نظم میں جو فلسفیانہ افکار سے لبریز ہے آخر میں کہتے ہیں: ہاں آشنائے لب نہ ہو راز کہن کہیں پھر چھڑ نہ جائے قصہ دار و رسن کہیں ٭٭٭ قصہ دار و رسن بازی طفلانہ دل التجائے ارنی سرخی افسانہ دل جگنو پر نظم ہے اس کے آخری بندمیں تمام مظاہر کی کثرت کو ایک ہی وحدت کے شون بتایاہ ہے اور یہ وحدت وجود ہی کا ایک پہلو ہے علامہ اقبال ایک روز دوران گفتگو میں وحدت وجود یک خلاف کچھ فرما رہے تھے۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا۔ میں نے عرض کیاجناب بھی تو جگنو والی ن؟ظم میںہمہ اوستی ہی معلوم ہوتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ وہاں میں نے مظاہر فطرت کی اساسی وحدت کو بیان کیاہے یہ فطرت کی وحدت وجود ہے جو صوفیہ کے ہمہ اوست کے نظریے سے الگ چیز ہے اور غالباً ورڈز ورتھ کا بھی ذکر کیا کہ فطرت کے متعلق اس کی نظر اور تاثر بھی اسی انداز کے ہیں: حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے انداز گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ نغمہ ہے بوئے بلبل بو پھول کی چہک ہے کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول میں مہک ہے یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو ہر شے میں جب کہ پنہاں خاموشی ازل ہے سوامی رام تیرتھ ایک ہمہ اوستی ویدانتی صوفی تھے۔ ان کی موت دریا میں ڈوبنے سے واقع ہوئی ا س پر علامہ اقبال لکھتے ہیں: ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بیتاب تو پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو آہ کھولا اس ادا سے تو نے راز رنگ و بو میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا لا کے دریا میں نہاںموتی ہے الا اللہ کا ٭٭٭ تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گہ سحر میں وہ چشم نظارہ میں نہ تو سرمہ امتیاز دے ٭٭٭ کمال وحدت عیاں ہے ایسا نوک نشتر سے تو جو چھیڑے یقیں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا ٭٭٭ چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں بلندی آسمانوں میں زمینوں میں تری پستی روانی بحر میں افتادگی تیری کنارے میں جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے شجر میں پھول میں حیواں میں پتھر میں ستارے میں اس سے بہتر وحدت وجود پر اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ خدا ہی ہے جو کائنات کے بعض مظاہر میں سوتاہے اورشعور انسانی میں آ کر بیدارہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ وحدت وجود کے بعض متصوفانہ نظریات سے وہ بہت متنفر ہو گئے۔ ایک روز مجھ سے فرمایا کہ ان ہمہ اوستیوں نے فرق مراتب ک وملحوظ نہیں رکھا اور حیات و کائنات کو خدا کا ایک خواب بنا دیا۔ اگر خدا تعالیٰ ازلی نیند سے بیدار ہو جائے توتمام مظاہر غائب ہو جائیں اور انسان بھی معدوم ہو جائیں۔ کسی کا ایک شعرسنایا: تا تو ہستی خداے در خواب است تو نہ مانی چو او شود بیدار کسی دریدہ دہن متصوف کا ایک اور نہایت گستاخ شعر سنایا جس کو درج کرنا میں ابنیا کی توہین سمجھتا ہوں۔ مضمون یہ تھا کہ عاشقان یک رنگ کے نزدیک انبیا اور ابلیس ہم سنگ ہوجاتے ہیں خوف طوالت سے ہم اقبال کے اور اشعار نقل نہیں کرتے جو ابتدائی دور کے ہیں اور جن میں جا بجا روایتی تصوف کے نظریات جھلکتے ہیں۔ وحدت وجود کی شاعری فارسی زبان میں جس قدرملتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ اسلام کے باہر ادیان اور مذاہب فلسفہ سب نے آخر میں یہیں تان توڑی تھی۔ یہ ناممکن بات تھی کہ ان کوماننے والی ملتوں کے افراد جب حلقہ اسلا م میں داخل ہوئے تو وہ یہ چیز اپنے ساتھ نہ لیتے آتے۔ قرآن میں کچھ آیات ایسی تھیں جن کی وجودی تاویل ہو سکتی تھی۔ چنانچہ وحدت الوجود کے فلاسفہ اور صوفیہ نے انہیں کا سہارا لیا ۔ لیکن ان سے ایسے نتائج اخذ کیے جو مسلمانوں کو اسلامی توحید سے دور لے گئے۔ کائنات کے تمام مظاہر میں علت ع معلول اور اضافات موجود ہیں۔ اگران سب کو باطل سمجھ کر اور محض ظلی قرار دے کر ساقط کر دیا جائے تو خدا کی ذات محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ خالق کی تمام مخلوق بے اصل ہوجاتی ہے۔ صوفیہ نے اسی احدیت معرا عن الصفات و اضافات کو اصل توحید سمجھ لیا ہے اور توحید کی یوں تعریف کی ہے: نکو گوے نکو گفت است در ذات کہ التوحید اسقاط الاضافات اسلامی توحید محض شرک کو باطل قرار دینے کا نام ہے۔ وجودیوں نے کہا کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کے وجود ہی کا اقرا ر بطلان عظیم ہے۔ اس سے نفس انسانی بھی عدم ہو گیا: صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما چوں حباب آئینہ بر طاق عدیم داریم ما (بیدل) قرآن تو شدت سے موجودات کی حقیقت کی تلقین کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت خدا کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ وحدت الوجود کی نسبت المانوی فلسفی شوپن ہار لکھتا ہے کہ یہ دہریت کی شاعری ہے۔ اور امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات ولیم جیمز کہتاہے کہ اس کے اندر خیرو شر کا امتیاز مٹ جاتا ہے اورانسان کو اخلاقی تعطیل حاصل ہو جاتی ہے۔ سحابی کی یہ رباعی اس تعطیل کی معاون معلوم ہوتی ہے: عالم بخروش لا الٰہ الا ہوست غافل بگماں کہ دشمن است او یا دوست دریا بوجود خویش موجے دارد خس پندارد کہ ایں کشا کش با اوست خواجہ فرید الدین عطار کے ہاں بھی وحدت وجود کا بڑا زور شور ہے۔ کائنات اور خدا کی وحدت کے ساتھ نفس انسانی اور ذات ربی کی وحدت بھی اکثر صوفیہ کا دین بن گیا اور کفر و دین میں یہ فرق رہ گیا کہ وحدت وجود کو ماننے والا مومن اور نہ ماننے والا کافر۔ چنانچہ خواجہ صاحب فرماتے ہیں: ہر کہ از وے نزد انا الحق سر او بود از جماعت کفار محمود شبستری نخل طور پر تجل الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر درست میں سے یہ آواز نکل سکتی ہے کہ میں رب ہوں تو انسان میں سے اس آواز کا نکلنا ناروا کیسے ہو سکتا ہے: روا باشد انا الحق از درختے چرا نبود روا از نیک بختے خواجہ صاحب فرماتے ہیں: گر ہر دو کون موج بر آرند صد ہزار جملہ یکے ست لیک بہ صد بار آمدہ ایں وحدت است لیک بتکرار آمدہ اسی مضمون کو غالب نے، جو بڑی شدت سے وحدت وجود کا قائل تھا، یوں ادا کیا ہے کہ اگر مشعل کو زور سے ایک دائرے میں گھمایا جائے تو وہ ایک مسلسل دائرہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ چیز ایک ہی ہے جس نے سرعت سیر سے یہ دھوکا پیدا کیا ہے: سخن یکے ست ولے در نظر ز سرعت سیر کند چو شعلہ جوالہ نقطہ پرکاری اقبال نے اس انداز کی وحدت وجود کو نظری لحاظ سے غلط اور عملی لحاظ سے مضر سمجھا، لہٰذا مسلمانوں کے روائتی تصوف کا ایک بڑا عنصر اقبال کے ترقی یافتہ تفکر و تاثر میں سے غائب ہو گیا۔ وحدت وجود کے اندر نظری لحاظ سے تو عشق کا بھی کوئی مقام نہ ہونا چاہیے تھا، لیکن نفس انسانی کی منطق کچھ الگ قسم کی ہے۔ وحدت وجود کے زور شور کے ساتھ عشق کا زور شور بھی موجود ہے۔ حالانکہ عاشق و معشوق، شاہد و مشہود اور عابد و معبود اگر حقیقت میں ایک ہی ہوں تو نہ پرستش ہو سکتی ہے اور نہ عشق۔ ذوق وصل کے لیے پہلے فرق و فراق مقدم ہے۔ مرزا غالب نے تو صاف کہہ دیا کہ پرستش بھی ایک دھوکا ہی ہے: دیدہ بیرون و دروں از خویشتن وپر وانگہی پردۂ رسم پرستش درمیاں انداختہ یہ تضاد معلوم ہوتا ہے، لیکن ہے حقیقت کہ دو متضاد نما کیفیتیں صوفیہ میں ملتی ہیں: عشق و اوصاف کردگار یکے ست عاشق و عشق و حسن یار یکے ست لیکن اس کے باوجود یہ کیفیت ہے کہ: از خجالت نمی شکید دل می برد عقل و می فریبد دل عاشقان تو پاک بازانند صید عشق تو شاہ بازانند (دیکھئے اقبال کا شاہین یہاں نمودار ہو گیا ہے): عشق شورے در نہاد ما نہاد جان ما در بوتہ سودا نہاد گفتگوے در زبان ما فگند جستجوے در درون ما نہاد یہ عاشق کون ہے؟ خدا خود ہی ہے: بر مثال خویشتن حرفے نوشت نام آن حرف آدم و حوانہاد ہم بچشم خود جمال خود بدید تہمتے بر چشم نابینا نہاد اقبال کو اس روایتی تصوف پر جو اعتراض ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر صوفیہ کو یہ تصوف جبر کی طرف لے آیا۔ جبر و قدر کی بحث متکلمین نے شروع کی تھی اور جبر یہ و قدریہ دو گروہ بن گئے تھے۔ اشاعرہ اور معتزلہ کے مابہ النزاع مسائل میں سے ایک اختیار انسانی کا مسئلہ تھا۔ا شاعرہ جبری تھے اور معتزلہ قدری۔ قرآن نے زندگی کے دیگر اہم مسائل کی طرح اس میں بھی اعتدال اور توازن عقل سلیم کا راستہ اختیار کیا کہ خدا قادر مطلق ضرور ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کی مشیت کا نتیجہ ہے، لیکن اس کی مشیت عقل و عدل و رحم سے ہم کنا رہے۔ خدا نے اپنی مرضی سے انسان کو ایک گونہ صاحب اختیار بنایا ہے تاکہ وہ جبر سے نہیں بلکہ اپنی آزادانہ رضا سے اپنی مرضی کو خدا کی مرضی سے ہم آہنگ کر دے۔ لیکن انسان کلیتاً مختار بھی نہیں ہے۔ اس کے اختیار کے بھی کچھ حدود ہیں۔ انسان بیک وقت بعض حیثیتوں سے مختار اور دیگر حیثیتوں سے مجبور ہے۔ ’’الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اختیار کو تسلیم نہ کیا جائے تو دین کی تمام تعمیر ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ اقبال کئی وجوہ سے رومی کا مرید ہے، لیکن ایک بڑا سبب یہ ہے کہ صوفیہ کرام میں رومی سے زیادہ کوئی اختیار کا قائل معلوم نہیں ہوتا۔ مثنوی کے اندر اس کی نہایت حکیمانہ بحث ہے، جس میں عارف رومی نے نہایت لطیف نکتے پیدا کیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ فلاسفہ اور متکلمین جبر و اختیار کے مسئلے میں کتے سے بھی زیادہ جاہل معلوم ہوتے ہیں۔ کتے کو اگر کوئی شخص پتھر مارے تو حالانکہ چوٹ اسے پتھر سے لگی ہے لیکن کتا پتھر پر غضب آلود نہیں ہوتا، وہ پتھر مارنے والے پر جوش انتقام میں جھپٹتا ہے کیوں کہ اسے معلوم ہے کہ پتھر بے چارہ تو جماد مجبور ہے اس لیے اس کا کیا قصور ہے۔ قصود اس صاحب اختیار انسان کا ہے جس نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا ہے۔ روایتی تصوف میں جو نفی خودی کا زور و شور ہے اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کو مطلقاً مجبور سمجھا جائے۔ رومی کے سوا تصوف کا تمام لٹریچر زیادہ تر جبر ہی کی تعلیم سے لبریز ہے۔ دیوان حافظ میں بے شمار اشعار اس مضمون کے ملیں گے: در کوے نیک نامی ما را گذر نہ داند گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را حافظ بخود نہ پوشید ایں خرقہ مے آلود اے شیخ پاک دامن معذر دار مارا ’’ گلشن راز‘‘ تصوف کی ایک مشہور منظم کتاب ہے۔ یہ محمود شبستری کی تصنیف ہے جو وجودی بھی ہے اور جبری بھی اور کسی ضعیف حدیث کے حوالے سے یہ شعر کہہ گیا ہے: ہر آں کس را کہ مذہب غیر جبر است نبی فرمود کاں مانند گبر است فرید الدین عطار نے فرمایا تھا کہ وحدت الوجود کا منکر کافر ہے۔ اب محمود شبستری کہتے ہیں کہ جو جبر کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ تصوف اسلام کی عام تعلیم میں زیادہ تر امام غزالی کی بدولت داخل ہوا، لیکن امام غزالی اپنی تمام حکمت اور عرفان کے باوجود بعض اشعری عقائد سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے کسب کا ایک غیر تشفی بخش نظریہ ’’ احیاء العلوم‘‘ میں پیش کیا ہے، جو حقیقت میں جبر ہی کا پردہ ہے کہ ہوتا آخر میں سب کچھ خدا ہی کی مرضی سے ہے لیکن اچھے اور برے اعمال جن انسانوں کی زندگی میں سرزد ہوتے ہیں ان کے ثواب و عذاب کا عمل کرنے والوں نے اکتساب کر لیا۔ کیوں کہ ان اعمال کے مرود و محل وہ بن گئے تھے۔ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس کسب میں اختیار کا کیا شائبہ ہے۔ اقبال نے جس غیر اسلامی تصوف کی بیخ کنی کو اپنا فرض قرار دیا اس کی تعلیم روایتی تصوف میں جا بجا پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے انسان کی خودی بے حقیقت ہو جاتی ہے اور اختیاط مطلقاً سوخت ہو جاتا ہے۔ اس تصوف میں عشق کے اندر کوئی فعالی کیفیت نہیں رہتی۔ وہ سراسر ایک انفعالی تاثر رہ جاتا ہے جس کا مقصد کمالی عجز سے اپنی انفرادیت کو سوخت کر دینا ہے۔ اس تمام تعلیم کا لب لباب بھی یک جا ’’ گلشن راز‘‘ سے زیادہ اور کہیں نہیں ملتا۔ محمد حسین آزاد کا ایک شعر ہے: جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں سوار خاک ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں ’’ گلشن راز‘‘ کے مندرجہ ذیل اشعار میں پہلے شعر میں مضمون کچھ اسی کے مماثل ہے: تو می گوئی مرا ہم اختیار است تن من مرکب و جانم سوار است کدامی اختیار اے مرد جاہل کسے را کو بود بالذات باطل چو بود تست یکسر ہمچو نابود نگوئی اختیارات از کجا بود موثر حق شناس اندر ہمہ جاے منہ بیرون ز حد خویشتن پاے چناں کاں پیش یزداں اہرمن گفت مریں نادان احمق ما و من گفت بما افعال را نسبت مجازی است نسب خود در حقیقت لہو و بازی است آخر میں جو استدلال کیا ہے وہ بالکل مہمل ہے کہ اختیار نہ ہونے پر بھی انسان کو امر و نہی کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس مسکین کو مجبور ہونے پر بھی مختار قرار دیا گیا ہے۔ تکالیف شرعی سے یہ جبری کیسے منکر ہو سکتا تھا؟ اور بقول عارف رومی تکالیف شرعی اختیار کے بغیر مہمل ہو جاتے ہیں لیکن خود شبستری کو اپنی منطق کی لغویت کا کچھ احساس نہیں فرماتے ہیں: ندارد اختیار و گشتہ مامور زہے مسکیں کہ شد مختار و مجبور بہ شرعت زاں سبب تکلیف کردند کہ از ذات خودت تعریف کردند اقبال کے پاس زندگی کی تمام بنیادی صداقتوں کی کسوٹی قرآن ہے اور تصوف میں سے بھی اس نے وہی چیزیں اخذ کی ہیں جن میں قرآنی نظریہ حیات کی وسعت اور گہرائی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کی توحید، توحید قرآنی ہے جو فلسفیانہ اور متصوفانہ وحدت الوجود سے متمائز ہے۔ وہ انسان کو صاحب اختیار ہستی سمجھتا ہے کیوں کہ قرآن اسے اپنے افعال پر ایک گونہ قدرت عطا کرتا ہے۔ اختیار ہی وہی امانت ہے جسے جمادی، نباتی اور حوانی فطرت مجبور نے خطرناک سمجھ رک قبول نہ کیا۔ قرآن دنیا و مافیہا کو مایا فریب ادراک نہیں کہتا وہ ایمان اور عمل سے انسان کی خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ انسان کے اندر عشق الٰہی کو بھی خالق کی طرح آفرید گار ہونا چاہیے۔ اسلام رہبانیت اور خانقاہ نشینی کا مخالف ہے۔ محبت الٰہی کا تقاضہ محض خلوت نہیں بلکہ جلوت بھی ہے۔ اقبال صوفیہ کبار کے ساتھ عقیدت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس کو ان کے فکر و نظر کا کوئی پہلو غیر اسلامی اور منافی حیات دکھائی دیتا ہے وہاں وہ بے باکانہ مخالفت بھی کرتا ہے۔ وہ رومی کا مرید بھی ہے لیکن محی الدین ابن عربی کا مخالف ہے، جس کی کتاب ’’ فصوص الحکم‘‘ میں اس کو توحید سے زیادہ الحاد نظر آتا ہے۔ وہ بڑی عقیدت سے مجد دالف ثانی کے تصوف کا قائل ہے جس نے تصوف کو دوبارہ شریعت اسلامی سے ہم آغوش کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دور اکبریٰ میں ویدانت اور تصوف کی ہم نوائی اسلام کے بنیادی عقائد کی بیخ کنی کر رہی تھی جس سے اسلام کا نظام متزلزل ہو رہا تھا۔ جس زمانے میں تصوف کا بہت زور شور تھا اس زمانے میں بھی غلط اندیش اور غلط کار صوفیوں کے خلاف خود بلند مرتبہ صوفیہ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اقبال نے ماضی کے تصوف پر بھی تنقید کی ہے اور زمانہ حال کے پیشہ ور مدعیان طریقت کا بھی پول کھالا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہ نکالنا چاہیے کہ وہ اس کا قائل ہے کہ تصوف نے اسلام کی کچھ خدمت نہیں کی۔ اگر اس کا یہ عقیدہ ہوتا تو وہ جا بجا اپنے کلام میں صوفیہ کبار سے فیضان کا ثبوت نہ دیتا۔ صوفیہ کبار نے فقہا اور علماء ظاہر کے مقابلے میں عشق اور تزکیہ باطن کی تلقین کی اور اپنی زندگی کے نمونوں سے لوگوں کو متاثر کیا۔ لیکن اب جو زمانہ حال میں صوفی رہ گئے ہیں ان میں معدودے چند کے سوا اقبال کو معرفت و عشق کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ان کے خلاف وہ جو کچھ کہتا ہے وہ تمام تصوف کی تلقیض نہیں بلکہ اس طرز فکر و عمل کی تردید ہے جس نے ادنیٰ درجے کی اقتدار پسندی کو روحانیت کا جامہ پہنا کر عوام کو دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔ سچے درویش کبھی کسی زمانے میں دنیا سے ناپید نہیں ہوتے۔ وہ اب بھی کچھ ظاہر ہیں اور کچھ پنہاں۔ لیکن اقبال چاہتا ہے کہ اب اس درویشی کا رنگ بدل جائے۔ درویش صرف خلوت گزیں نہ ہو بلکہ خارجی اور باطنی فطرت کا رمز آشنا اور فکر و نظر میں انقلاب پیدا کرنے والا ہو۔ ایک روز فرماتے تھے کہ مجھے خانقاہ حضرت نظام الدین میں خواجہ حسن نظامی نے ایک صاحب سے متعارف کرایا اور فرمایا کہ یہ صاحب دل درویش ہیں۔ میں نے اس درویش سے پوچھا کہ ملت اسلامیہ کے عروج و زوال اور اس کی موجودہ تباہ حالی پر بھی آپ نے غور کیا۔ا س کے متعلق آپ کی بصیرت کیا کہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہم درویش ہیں اور اس قسم کی باتوں سے ہم واسطہ نہیں رکھتے۔ یہ کہہ کر فرمانے لگے کہ بتاؤ کہ اس قسم کے تصوف کو ہم کیا کریں۔ علامہ اقبال کو شوق تھا کہ اگر کوئی صاحب کسی صاحب کا دل پتا دیں تو اس سے مل کر کچھ فیض حاصل کیا جائے اور کسی اہم سوال کا حل اس سے پوچھا جائے۔ اہم سوال ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا برا حال کیوں ہے اور اس تباہ حالت سے وہ کب اور کیسے نکلیں گے؟ فقیر نجم الدین صاحب سے علامہ اقبال کے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کے صاحب زادے نے احوال اقبال میں لکھا ہے کہ علامہ کو یہ خبر دی گئی کہ ایک سچا صاحب بصیرت درویش درگاہ علی ہجویری (داتا گنج بخشؒ ) میں آج کل آیا ہوا ہے۔ فقیر صاحب نے علامہ اقبال کو آمادہ کیا کہ مل کر چلیں گے اور اس سے کچھ پوچھیں گے۔ علامہ اس پر راضی ہو گئے۔ لیکن سوانح نگار کا بیان ہے کہ فقیر نجم الدین علامہ کو ہمراہ لے جانے کے لئے گئے تو دیکھا کہ وہ کچھ حیران سے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو علامہ نے فرمایا کہ وہ درویش خود یہاں آ گیا اور مجھ سے کہا کہ تمہارے سوال کا جواب یہ شعر رومی ہے۔ حالانکہ میں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا تھا، مگر میرا ارادہ تھا کہ اگر ملوں تو یہ سوال پوچھوں گا: ہر بناے کہنہ کا باداں کنند اول آں تعمیر را ویراں کنند اقبال اب دریشوں کو خلوت گزینی سے نکالنا چاہتا تھا تاکہ وہ مشاہدہ فطرت بھی کریں اور اصلاح ملت بھیـ: بیا با شاہد فطرت نظر باز چرا در گوشہ خلوت گزینی ترا حق داد چشم پاک بینے کہ از نورش نگاہے آفرینی اقبال اس تصوف کو بے اثر سمجھتا ہے جو حق بینی اور عشق آفرینی کے بعد انسانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا نہ کرے۔ چنانچہ جاوید نامے میں ’’ زندہ رود‘‘ نے حلاج سے جو سوالات کیے ہیں ان کے جواب میں حلاج نے کہا ہے کہ درویشی جو انقلاب آفریں نہیں ہے وہ کسی کام کی نہیں۔ قلب کے اندر جو حق کا نقش پیدا ہو اسے باہر جہاں پر مرقسم ہونا چاہیے تاکہ مرد خدا کا دیدار عام ہو جائے۔ نقش حق اول بجاں انداختن باز او را در جہاں انداختن نقش جاں تا در جہاں گردد تمام می شود دیار حق دیدار عام ٭٭٭ تیرھواں باب اسرار خودی آنریبل مسٹر جسٹس شیخ عبدالرحمن نے اسرار خودی کا منظوم ترجمہ ترجمان اسرار کے نام سے شائع کیا جس پر فکر اقبال کے مصنف نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا۔ اسرار خودی کے معارف پر دوبارہ اس سے بہتر مضمون لکھنا دشوار تھا اس لیے وہ دیباچہ جوں کا توں بہ اجازت و تشکر شیخ صاحب اس کتاب میں شامل کر لیا گیا۔ انسان کی نظر باطن سے پہلے خارج پر پڑتی ہے۔ آنکھ خارج کی ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی۔ کہتے ہیں کہ عرفان کی تین قسمیں یا تین پہلو ہیں۔ دنیا شناسی، خدا شناسی اور خود شناسی! اقبال نے بھی جب انسان کی بے بضاعتی کے متعلق خدا سے شکایت کی تو یہی کہا کہ کیا یہ تیرے ہنر کا شہکار ہے جو نہ خود بیں ہے، نہ خدا بیں ہے اور نہ جہاں بیں؟ انسان مادی اور حیوانی حیثیت میں اپنے ماحول سے دست و گریباں ہوتا ہے۔ گرد و پیش کی اشیاء اور حوادث کی ماہیت کو سمجھنا اس کے لیے تنازع للبقا میں ناگزیر ہوتا ہے۔ خارجی مطابقت اور مخالفت سے فرصت ملے تو سوچے کہ خود میری ماہیت کیا ہے؟ یا میں اور میرا ماحول، میری موافق اور مخالف قوتیں، کہاں سے سرزد ہوتی ہیں؟ زندگی میں ہر جگہ پیکار اضداد نظر آتی ہے۔ کیا یہ کشاکش ازلی متخاصم قوتوں کی مسلسل جنگ ہے یا یہ اضداد کسی ایک اصل وحدت کے متضاد نما پہلو ہیں انسان کے پاس خارج کو سمجھنے کے لیے بھی خود اپنے ہی نفع و ضرر اور اپنے ہی جبلتوں کے سانچے ہیں۔ اس نے فطرت کی قوتوں کو اپنے اوپر قیاس کیا اور اپنی خواہشوں کے دیوتا بنا لیے۔ وہ خود اپنے تصورات کو مشخص کر کے ان کو لامتناہی قوتوں کا حامل بنا کر ان سے مرعوب ہو گیا۔ ان کو راضی رکھنے کے لیے اپنی عزیز ترین چیزوں اور خود اپنے آپ کو ان پر بھینٹ چڑھانا شروع کیا۔ا پنی حقیقی خودی سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے وہ ہستی جس کو تسخیر فطرت کی صلاحیت ودیعت کی گئی تھی، خود فطرت کی قوتوں سے مسخر اور مغلوب ہو گئی۔ ابھی انسان اپنی حقیقی خودی سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ اپنے آپ کو فقط حیوانی جبلتوں کا حامل سمجھا اس لیے اس نے جو دیوتا تراشے وہ بھی انہیں متلون اور عارضی خواہشوں کے مجسمے تھے۔ وہ خارج میں جن دیوتاؤں کی پرستش کرتا رہا وہ اس کی اپنی خودی کے بگڑے ہوئے تصورات تھے۔ ان دیوتاؤں کے بت زبان حال سے پجاری کو کہہ رہے تھے: مرا بر صورت خویش آفریدی بروں از خویشتن آخر چہ دیدی؟ اس تصور حیات اور اس انداز پرستش سے انسان کو نہ وجود مطلق کی ماہیت تک کچھ رسائی ہوئی اور نہ وہ اپنی ذات کا کوئی صحیح اندازہ لگا سکا۔ تکثیر یا کثرت اصنام کا راستہ چھوڑ کر انسان نفس وحدت کا ہویا ہوا لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے اس کا ابتدائی تصور وجود خارجی کائنات ہی کا تصور تھا، اس لیے اس نے خارج ہی کی کثرت اور گونا گوئی کو کسی ایک وحدت میں منسلک کرنے کی کوشش کی۔ یونانیوں کے پہلے مفکر طالیس ملطی نے کہا کہ وجود مطلق فقط پانی ہے۔ پانی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس نے زندہ اور غیر زندہ میں یعنی جمادات، نبادات اور حیوانات میں کوئی بنیادی فرق نہ سمجھا۔ زندگی کے تمام کوائف اور نفس کی تمام حالتیں بھی پانی ہی میں بالقویٰ اور بالفعل پائی جاتی ہیں۔ اس نظریہ وجود کو تاریخ فلسفہ میں بائی لوزو ازم کہتے ہیں، جس میں مادیت، نفسیت اور حیاتیت ابھی ایک دوسرے سے متمیز نہیں ہیں۔ اس نظریے کے مطابق نہ کائنات میں کوئی نفس یا خودی ہو سکتی ہے اور نہ انسان کے اندر زندگانی ہر جگہ آنی جانی اور پانی ہی پانی ہے اور چیزوں کی طرح آدمی بھی پانی کا بلبلا رہ گیا۔ انسانی اقدار، انسانی جذبات اور تمنائیں کوئی مستقل حقیقت نہیں رکھتیں۔ بقول سحابی نجفی: دریا بوجود خویش موجے دارد خس پندارد کہ ایں کشاکش با اوست یونانی مفکرین، ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ تجسم سے تصور کی طرف، جسم سے نفس کی طرف یا خارج سے باطن کی طرف آتے گئے۔ انہوں نے کثیف مظاہر میں لطیف حقائق کا کھوج لگانا شروع کیا۔ فیثا غورس نے دیکھا کہ خارجی عالم میں ہر جگہ تناسب، توازن اور اندازہ پایا جاتا ہے۔ ریاضی کے اصول ہر جگہ غیر متبدل طور پر کار فرما ہیں۔ خاک کے اعمال ہوں یا افلاک کے حرکات، سب کے سب ریاضی کے اٹل اصولوں کے مطابق ہیں۔ دو اور دو چار چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ لیکن مجرد طور پر دو اور دو کے اعداد مل کر چار ہی رہتے ہیں۔ ہر چیز کی تعمیر کی اصل یہی ہے کہ اس میں ریاضی صورت پذیر ہو گئی ہے۔ ریاضی میں نہ کسی کی خواہش کو دخل ہے اور نہ ارادے کو۔ ریاضی ہی وہ حقیقت ہے جسے الان کما کان کہہ سکتے ہیں ریاضی اصول اصلاً اور ازلاً ساکن ہیں۔ اشیاء اور حوادث میں کون و فساد یا حرکت ہو سکتی ہے، لیکن اصول میں کوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ علت و معلول کا سلسلہ حرکیاتی نہیں بلکہ قضایاے اقلیدس کی طرح کا سلسلہ ہے۔ یونانی فلسفہ ترقی کرتا ہوا سقراط، افلاطون اور ارسطو کے مقولات تک جا پہنچا۔ پہلے تغیر اور ثبات کے نظریات میں کشمکش ہوتی رہی۔ کسی نے کہا کہ وجود مطلق بے تغیر و بے حرکت ہونا چاہیے۔ لہٰذا تغیر یا حرکت ادراک کا دھوکا ہیں۔ یونانیوں پر یہ تصور زیادہ تر غالب رہا کہ حقیقت غیر متغیر ہونی چاہیے۔ جہاں تبدل اور تغیر ہے وہاں وجود محض اعتبار یا مجازی ہے اور اصلیت سے دور ہے۔ جو مفکر نفسیت یا روحیت کی طرف گئے۔ جیسے فیثا غورس یا افلاطون۔۔۔۔ وہ بھی وجود مطلق میں حرکت کے قائل نہیں تھے اور جو دیمقراطیس کی طرح مادیت کی طرف آئے، ان کو بھی اس خیال سے چھٹکارا حاصل نہ ہوا کہ کائنات کے حوادث، مادے کے اجزا سے لایتجزے یعنی ایٹموں کا جوڑ توڑ کا کھیل ہیں۔ ایٹم چونکہ تحلیل نہیں ہو سکتا اس لیے اس میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ البتہ ایٹموں کی ترکیب یا قرب و بعد سے چیزیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ اس کون و فساد کے قوانین لاشعوری ہیں۔ ان میں اقدار پروری یا مقصد کوشی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو مادے سے نفس کی طرف آئے۔ نفس نے خارج کی طرف سے منہ پھیر کر باطن کا رخ کیا تو ان کو نفس عقل منطقی کا کرشمہ دکھائی دیا۔ خارج کی کائنات بھی عقل سے وجود میں آتی اور اس کی بدولت قائم رہتی ہے۔ باطن کی نفسی کائنات بھی عقل کی بدولت وجود مطلق کا عرفان حاصل کرتی اور افکار و جذبات کی کثرت کو ایک وحدت میں پرتی ہے، لیکن عقل بھی کوئی انفرادی چیز نہیں۔ عقل کلیت کی مرادف ہے۔ عقل کا عالم کلیات کا عالم ہے۔ اس میں خودی یا شخصیت یا ارادے کا کوئی سوال نہیں۔ عقل کے تمام کلیات از روے منطق ایک دوسرے سے منسلک اور مربوط ہیں۔ اشیاء اور حوادث کی متغیر کثرت غیر متغیر تصورات سے بہرہ اندوز ہونے کی ناکام اور مضطرب کیفیت ہے۔ خدا عاقل نہیں بلکہ خود عقل کل ہے۔ وہ خود ہی اپنے شعور کا معروض ہے۔ا س کو اپنے سوا کسی کا علم نہیں ہو سکتا۔ ماسوا کا حقیقی وجود ہی نہیں اس لیے اس کے علم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انسانی نفوس میں جو خواہشوں اور ارادوں کا عنصر ہے وہ تغیر کے عالم سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا بے حقیقت ہے۔ انفرادی نفس میں حقیقت اتنی ہی ہے جس حد تک کہ وہ عقل کل سے بہرہ اندوز ہے۔ اس کی اپنی کوئی حیثیت مخصوص تقدیر نہیں۔ اس نظریے سے افلاطون اور ارسطو دونوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عقل یا علم اصلی چیز ہے اور عمل اس کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ بہترین زندگی عمل اور مقاصد آفرینی کی زندگی نہیں بلکہ عقل کل کا تماشائی ہونا ہے خدا جو تمام وجود کا ماخذ اور نصب العین ہے وہ بھی غیر متحرک اور غیر فاعل ہے۔ دنیا کی زندگی حقیقت کا سایہ ہے یا ہندوؤں کی اصطلاح میں یوں کہیے کہ مایا ہے یا حقیقت کے مقابلے میں بے مایہ ہے۔ اقبال افلاطون کے اس نظریہ وجود کا شدید مخالف ہے۔ وہ اس کو اساسی طور پر غلط قرار دیتا ہے، اور اس کا خیال ہے کہ اسی نظریہ وجود کے زیر اثر زندگی سے فرار کے نظریات پیدا ہوئے ہیں جن سے انسانی زندگی ارتقاء اور تخلیق سے محروم ہو گئی ہے۔ اقبال کے نزدیک وجود کی حقیقت عقل نہیں بلکہ عمل ہے۔ عقل عمل سے پیدا ہوتی اور اس کا آلہ کار بنتی ہے۔ اصل حیات تسخیر و تخلیق اور مقاصد آفرینی ہے۔ وجود کی حقیقت ایک انائے مطلق ہے جو خلاق ہے اور یہ انا اپنی مسلسل خلاقی میں لا تعداد انا یا نفوس مقاصد کو ش پیدا کرتا ہے۔ زندگی جذبہ آفرینش ہے۔ عمل آفرینش ہی سے اس کو اپنا عرفان حاصل ہوتا ہے اور عمل ہی اس کی لامتناہی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سکون سے زندگی کا تماشا کرنے سے زندگی کی ماہیت معلوم نہیں ہو سکتی کیوں کہ زندگی ایک مسلسل حرکت ہے اور عقل کے تصورات ازلی طور پر ساکن اور جامد ہیں۔ ساحل افتادہ نہ اپنی ماہیت سے آشنا ہو سکتا ہے اور نہ اس دریا کی حقیقت سے جو اس سے آغوش متلاطم ہے۔ اقبال نے اپنا یہ نظریہ کس خوبصورت اور بلاغت سے بیان کیا ہے: ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موج زخود رفتہ اے تیز خرامید و گفت ہستم اگر میردم گر نہ روم نیستم افلاطون کے ہاں موج متحرک ہے، لیکن موج کا عقلی تصور ساکن ہے اور یہ ساکن عقلی تصور متحرک موج کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہے۔ تموج کے مقابلے میں اس کا محض تصور قائم کرنا ایک الٰہی انداز ہے۔ عاقل کا وظیفہ حیات یہی ہونا چاہیے کہ وہ خود تھپیڑے نہ کھائے بلکہ عقل کے ساحل پر بیٹھا ہوا سبکسار ہو کر اس کے متغیر اور غیر متموج تصور میں اپنے تئیں کھو کر اپنی حقیقت کو پائے۔ اقبال کے ہاں زندگی مقدم ہے اور عقل موخر۔ زندگی جو کچھ پیدا کرتی ہے عقل بعد میں اس کا جائزہ لے کر اس میں قواعد و ضوابط کو ڈھونڈتی ہے۔ حریم حیات میں عقل حلقہ بیرون در ہے۔ وہ آستان سے دور نہیں ہے، اس کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔ زندگی آپ اپنا نور پیدا کرتی ہے، لیکن اس کو اگر عقل نار حیات سے الگ کر کے ایک ازلی مجرد حقیقت سمجھ لے تو معقولات ظلمت کدہ بن جاتے ہیں۔ زندگی کا آب حیات تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے اقبال افلاطون کی بابت کہتا ہے کہ: رخش او در ظلمت معقول گم در کہستان وجود افگندہ سم آنچناں افسون نا محسوس خورد اعتبار از دست و چشم و گوش برد اقبال کہتا ہے کہ محسوس کو نامحسوس کے مقابلے میں بے حقیقت قرار دینا انسان کو عالم رنگ و بو سے بے تعلق کر دیتا ہے۔ اسی سے فرار اور گریز پیدا ہوتا ہے اور رہبانیت کو تقویت حاصل ہوتی ہے جس کی نفس کشی کے مرادف ہے اور اسی لیے اسلام نے مرد مومن کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ مظاہر و حوادث انفس و آفاق آیات اللہ ہیں۔ یہ سرا سر حقیقت ہیں۔ نہ باطل ہیں نہ فریب ادراک! اور نہ اس سے گریز کر کے عرفان خدا حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کے ایک اور حصے پر افلاطونی رنگ چڑھ گیا اور صوفی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ: چشم بند و لب بہ بند و گوش بند گر نہ بینی نور حق برمن بخند اقبال اس افلاطونی تصوف کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جو عالم محسوسات کو مایا قرار دے اور خلقت کو باطل ٹھہرائے: بر تخیلہاے ما فرماں رواست جام او خواب آور و گیتی رباست گو سفندے در لباس آدم است حکم او بر جان صوفی محکم است مسلمانوں کے متصوفانہ فلسفے نے افلاطون کے اعیان ثابتہ یا ازلی غیر متغیر معقولات کو اپنے فکر کا جزو لاینفک بنا لیا جس کا نتیجہ اقبال کے نزدیک یہ ہوا کہ صوفی بھی ہنگامہ وجود کا منکر اور اعیان نا مشہود کا پرستار ہو کر بود کو نابود اور نابود کو بود کہنے لگا۔ لیکن اس قسم کا گیتی گریز تصور خود سقراط، افلاطون اور ارسطو کی زندگیوں پر کوئی سلبی اثر نہ ڈال سکا۔ یہ تینوں مفکرین، اخلاقیات اور سیاسیات پر گہری بحثیں کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں کوشاں رہے کہ معاشرے کو زیادہ عاقلانہ اور عادلانہ اصول پر از سر نو تعمیر کیا جائے۔ جماعت کی حکمرانی اور نگرانی سقراط اور افلان ایک ایسے منتخب گروہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو عقل اور ایمان کے کماحقہ تحقق کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ سے تزکیہ نفس کر چکے ہوں۔ اقبال نے اسرار خودی میں افلاطون کے نظریہ حیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ افلاطون کے وسیع عالم فکر کا فقط ایک پہلو ہے۔ جو قارئین افلاطون کی زندگی اور اس کی وسعت فکر سے نا آشنا ہیں ان کو اسرار خودی کے اشعار سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ افلاطون فرد اور جماعت کے مسائل اور معاملات کو بے حقیقت سمجھتا ہے اور عالم انسانی کو اعیان ثابتہ یا مجرد کی افیون کھلا کر بے حس اور بے عمل بنانا چاہتا ہے۔ تاریخی لحاظ سے واقعات اس کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید میں اس کی گنجائش نہیں کہ اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا جائے کہ افلاطون سے لے کر آخری معاشرتی انقلاب، یعنی اشتراکیت تک، سوسائٹی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی جو فکری یا عملی کوششیں ہوئی ہیں وہ کم و بیش افلاطونی افکار سے متاثر ہیں۔ اقبال نے ایام شباب میں اپنے متعلق یہ لکھا تھا : اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان میری اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری بعینہ یہی کچھ افلاطون کے ساتھ ہوا۔ مشرق فلسفے کے متعلق تو یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ تمام کا تمام دنیا سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن مغرب کے عظیم نظامات فکر کے متعلق ھانرش رکٹ جیسے جرمن مفکر اور وہائٹ ہیڈ جیسے انگریزی فلسفی کی رائے ہے کہ یہ سب کے سب افلاطون ہی کی تشریحات ہیں۔ مارکس، لینن، مسولینی اور ہٹلر جیسے معاشرتی انقلاب کے آرزو مند اور اپنے عمل سے دنیا کو تہ و بالا کرنے والے، خواہ اس کا نتیجہ تخریب ہو یا تعمیر، افلاطون ہی کی کتاب سے کچھ کچھ ورق اڑاتے رہے ہیں۔ دوسری طرف رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم بھی بہت کچھ اس کے افکار کا عکس ہے۔ سقراط جس کی زبان سے افلاطون نے اپنا نظریہ حیات بیان کیا ہے، اصلاح معاشرت کی کوشش سے شہید ہو گیا۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطون کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اقبال نے فقط یہ دیکھا کہ افلاطونی افکار کا اثر بعض لوگوں پر اچھا نہیں ہوا او راس کے نظریہ وجود سے فرار عین الحیات کا نتیجہ از روئے منطق حاصل ہوتا ہے۔ جس قسم کے حیات گریز تصوف کو اقبال نے مسلمانوں کے لیے افیون قرار دیا وہ افلاطون سے کہیں زیادہ فلاطینوس اسکندری سے حاصل کردہ ہے، جس کے افکار کا اسلامی فلسفہ اشراق اور عیسوی تصوف پر گہرا نقش نمایاں ہے۔ افلاطون راہب نہیں تھا اور نہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے متوازی اور متناسب طور پر لطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔ وہ خود بھی اپنی مجرد تصورات میں گم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔ اس کا گھر ایتھنیا کی تمام علمی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کر کے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سائرا کیوز کی ریاست سے خارج کیا گیا ہو اور بحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہو، یہ کہنا نا انصافی معلوم ہوتی ہے کہ: ذوق روئیدن ندارد دانہ اش از طپیدن بے خبر پروانہ اش راہب ما چارہ غیر از رم نداشت طاقت غوغاے این عالم نداشت دل بسوز شعلہا فسردہ بست نقش آں دنیاے افیوں خوردہ بست حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندہ قوموں کو ذوق عمل سے محروم نہیں کیا اور نہ تندرست ملتوں کو مسموم کیا بلکہ جو قومیں مختلف اسباب سے زندگی سے محروم اور بے عملی یا بد عملی سے مسموم ہو چکی تھیں، انہوں نے افلاطونی افکار کی انحطاط انگیز تاویل کر لی۔ افلاطونی فلسفے کا بھی اسی قسم کا حشر ہوا جو اسلام میں نظریہ تقدیر کا ہوا۔ جب تک مومنوں میں قوت ایمان، قوت عمل اور تنظیم حیات صالحہ موجود تھی اس وقت تک تقدیر کا تصور ان کی قوت عمل و ایثار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ اس کے بعد عشرت پسندوں اور تن آسانوں نے ترک سعی کو توکل سمجھ لیا اور سب کچھ مقدر ہونے کی وجہ سے سعی کو بے کار جاننے لگے۔ اس میں قرآن کریم کی تعلیم تقدیر کا قصور نہ تھا بے عملی نے اپنی غلط تاویلوں کو اسلام بنا لیا تھا۔ اقبال کے معاصرین میں خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے اور بھی اکابر مفکرین ہیں جن کے افکار سے اقبال پوری طرح آشنا تھا۔ ان میں سے بعض کا مداح اور بعض سے کم و بیش متاثر بھی تھا۔ نطشے، فٹشے، برگساں اور ولیم جیمز کے نظریات ماہیت وجود بہت کچھ رہی ہیں جو اقبال کی تعلیم میں بھی ملتے ہیں اس سے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال ان کا مقلد تھا۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال نے ان مفکرین سے بہت کچھ حاصل کیا لیکن یہ اقبال کے کمال پر کوئی دھبا نہیں۔ اقبال ان سب سے کسی ایک پہلو میں متفق ہے اور کسی دوسرے اساسی پہلو میں شدید اختلاف رائے بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک نطشے کا تعلق ہے، میں اس کے متعلق اپنے مقالے نطشے رومی اور اقبال (مطبوعہ انجمن ترقی اردو) میں مبسوط بحث کر چکا ہوں جسے یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔ اقبال کا ایک مخصوص انداز فکر اور نظریہ حیات تھا۔ اس نخل کی پرورش اس نے مختلف عناصر سے کی ان میں سے کچھ مغرب کے ان مفکرین کے افکار کے جن کا اقبال ہم نوا ہے یا جو اقبال کے ہم صفیر ہیں۔ اقبال کا مغربی فلسفے کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ اس میں سے جو کچھ اس کے خاص فلسفہ حیات کے مطابق تھا اس نے اخذ کیا اور جو کچھ اس سے متخالف تھا اس کو رد کر دیا۔ اقبال جیسے کسی مفکر کا کلام ہو یا مذہبی صحیفہ ہو، اس کی خوبی اور کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس میں وہ باتیں درج ہیں جو دوسروں نے نہ کہی ہوں، پہلی تعلیموں کے بیش بہا عناصر اس میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی ترکیب ایک نئے حیات آفرین انداز سے ہوتی ہے۔ سنگ و چوب و خشت ہر تعمیر میں کم و بیش ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں، لیکن مہندس اور معمار کا کمال اپنے ہنر اور تصور سے اس میں مخصوص قسم کی آسائش اور زیبائش پیدا کر دیتا ہے۔ گوئٹے نے ایکٹرمن سے دوران گفتگو میں ایک مرتبہ کہا کہ ’’ لوگ بڑے بڑے مفکرین کے افکار کا تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں، اور الگ الگ عناصر کا ماخذ بتانا ان کا شیوۂ تحقیق ہوتا ہے، لیکن کیا اس سے ایک بڑے فنکار یا مفکر کی انفرادی شخصیت یا اس کی مخصوص ایج کا اندازہ ہو سکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص گوئٹے کی تحلیل اور تجزیہ اس طرح کرے کہ اس نے اتنے بکرے، اتنی سبزی ترکاری اور اتنی گندم کھائی۔ ان سب کو ملا کر گوئٹے بن گیا۔ لہٰذا گوئٹے کی ماہیت سمجھ میں آ گئی۔‘‘ اسرار خودی میں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے، ان مفکرین مغرب کے افکار کا پر تو نظر آتا ہے جو اقبال کے ہم مزاج ہیں اور جن کے افکار کے کسی پہلو کو اقبال نے اپنے نظریہ حیات کا موید سمجھا ہے۔ مثلاً اس بیان میں کہ اصل نظام عالم خودی ہے اور تعینات وجود کی ذمہ دار بھی خودی ہے، وہ مشہور جرمن فلسفی فشٹے کا ہم نوا ہو کر کہتا ہے کہ کائنات کا وجود یا پیکر ہستی خودی ہی کا نتیجہ ہے۔ عالم ادراک اور عالم آب و گل یا تصوف کی زبان میں یوں کہیے کہ ماسوا کا وجود، خدا کی خودی سے سرزد ہوا ہے خودی کا اثبات نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ خودی اپنا غیر پیدا نہ کرتی۔ خودی کی ماہیت خلاقی اور ورزش ارتقاء ہے۔ نفی اثبات خود اثبات کا تقاضا ہے۔ جس غیر کو خودی نے اپنے ممکنات وجود کو ظہور میں لانے کے لیے خلق کیا ہے وہ ایک لحاظ سے غیر ہے اور دوسرے لحاظ سے خودی ہی کا مظہر ہے: صد جہاں پوشیدہ اندر ذات او غیر او پیدا ست از اثبات او در جہاں تخم خصومت کاشت است خویشتن را غیر خود پنداشت است سازش از خود پیکر اغیار را تا فزاید لذت پیکار را اقبال کہتا ہے کہ یہ ایک طرح کی خودی کی خود فریبی ہے۔ اقبال جس خودی کا ذکر کرتا ہے وہ انسانوں کے انفرادی انا کی خودی ہی نہیں بلکہ خدا کی خودی ہے، جو مصدر خلقت ہے۔ مسلمہ اسلامی عقیدۂ توحید عام طور پر اس انداز سے بیان نہیں ہوتا۔ اسرار خودی کے عام قارئین نے اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی کہ اقبال جس مطلق خودی کا ذکر کر رہا ہے وہ وجود مطلق اور ذات واجب الوجود کی ماہیت ہے، لیکن خدا کی نسبت مومن یہ کس طرح گوارا کرے گا کہ اس قسم کے عقائد بیان ہوں کہ آفرینش حیات و کائنات سے خدا نے ورزش ارتقاء کی خاطر تخم خصومت بویا ہے اور عالم آفرینی ایک طرح کی خود فریبی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے ہاں وجود سرمدی کا تصور عام توحید پرستوں سے بہت کچھ الگ ہو گیا ہے۔ خدا الان کما کان بھی ہے اور کل یوم ھو فی شان بھی اقبال نے خدا کا لا تبدیل سرمدی پہلو نظر انداز کر دیا ہے اور مسلسل تغیر اور ارتقاء اور لامتناہی خلاقی کی صفت اس پر بہت زیادہ منکشف ہوئی ہے۔ وہ صوفیاء کرام کے اس مقولے یا روحانی تجربے کا بھی شیدائی ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ وجود کے یکے بعد دیگرے آنے والے کوئی دو کوائف ہم رنگ نہیں ہوتے۔ خلاقی کا قدم ہر دم آگے ہی کی طرف اٹھتا ہے۔ ذات مطلق کی خودی کو اپنی تکمیل مقصود ہے اپنے اثبات اور ارتقاء کی خاطر وہ ہستیوں کو وجود میں لاتی اور ساتھ ہی ساتھ مٹاتی بھی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل ارتقاء میں لا تعداد اقسام کے پھول معرض وجود میں آ کر نابود ہو گئے ہوں گے، پیشتر اس کے کہ گلاب کا ایک پھول ظہور میں آ سکے۔ حیات و کائنات میں جو درد و کرب، جور و ستم اور شر دکھائی دیتا ہے، اقبال کا نظریہ خودی اس کی ایک توجیہہ ہے: عذر ایں اسراف و ایں سنگیں دلی خلق و تکمیل جمال معنوی صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلاف کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے، اقبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے۔ ہم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے، صدیوں سے اسلامی تصوف میں وحدت وجود کا جو نظریہ کسی قدر فروعی اختلافات کے ساتھ، اکثر اکابر صوفیہ کی تعلیم میں ملتا ہے۔ا قبال اس سے گریز کرتا رہا کیوں کہ اس سے انسان خیر و شر اور تمام حوادث کو ایک ذات کا مظہر سمجھ کر زندگی کی جدوجہد کو بے کار سمجھنے لگتا ہے یا بقول ولیم جیمز وحدت وجود میں خیر و شریک رنگ ہو کر اخلاق کو تعطیل حاصل ہو جاتی ہے، لیکن اقبال کے ذہن میں وحدت وجود کا نظریہ دوسرے رنگ میں ابھرتا ہے۔ ہستی مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ ماسوا اس کے اظہار ذات کے لیے ضروری ہے لیکن ماسوا بھی خدا کے سوا کچھ نہیں، اگرچہ عمل کی خاطر خدا اس کو اپنا غیر سمجھ لیتا ہے کیوں کہ یہ خود فریبی عین حیات اور باعث تکمیل حیات ہے۔و رنہ اصلیت یہ ہے کہ: می شود از بہر اغراض عمل عامل و معمول و اسباب و علل خیزد، انگیزد، پرد، تابد، رمد سوزد، افروزد، کشد، میرد، دمد بظاہر یہ انداز بیان اس سے کچھ زیادہ متمائز معلوم نہیں ہوتا جسے ایک قدیم وحدت الوجودی صوفی وجد و مستی میں آ کر گاتا ہے کہ: خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گل کوزہ خود بر سر آں کوزہ خریدار بر آمد بشکست و رواں شد اقبال کے ہاں ذات مطلق کی ماہیت خودی ہے۔ خودی ایک انا یا ایغو کے بغیر متصور نہیں ہو سکتی۔ اس کے مطلق خودی نے ذوق نمود اور ورزش وجود میں اپنے اندر سے لا تعداد انا یا ایغو یا خودی کے مراکز خلق کیے ہیں یہ تصور مشہور حدیث قدسی کے اس تصور سے کسی قدر مشابہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق یہ انکشاف کرتا ہے کہ کنت کنزا مخفیا فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق (میں ایک خزینہ پنہاں تھا میں نے چاہا کہ میں ظاہر ہوں اور پہچانا جاؤں اس لیے میں نے خلقت کو خلق کیا): وانمودن خویش را خوے خودی است خفتہ در ہر ذرہ نیروے خودی است خودی کی ماہیت کو جاننا عرفان نفس بھی ہے اور عرفان رب بھی اور اس عرفان میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ زور خودی سے حیات عالم وابستہ ہے اور ہر انفرادی نفس کی استواری اس کی زندگی کی ضامن ہے۔ جو قطرۂ شبنم بنتا ہے وہ چند لمحوں میں خودی کے ضعف کی وجہ سے نابود ہو جاتا ہے۔ جو قطرۂ اشک بنتا ہے وہ ٹپک کر ناپید ہو جاتا ہے، لیکن جو قطرہ صدف نشین ہو کر اپنی خودی کو مستحکم کر لیتا ہے وہ گوہر بن جاتا ہے۔ جس کی موج نور تلاطم قلزم میں بھی منشتر نہیں ہوتی۔ اقبال فطرت کے مظاہر میں اپنے اس نظریے کی بہت سی دلکش مثالیں پیش کرتا ہے۔ زمین کا وجود قمر کے مقابلے میں زیادہ قوی ہے، اس لیے زمین اس سے مسحور ہو کر اس کے گرد چکر کاٹتی رہتی ہے۔ اقبال رہبانیت کے خلاف جہاد کرتا ہے اور جتنے رہبانی تصورات عجمی تصوف کے راستے سے اسلامی افکار کا جزو بن گئے ہیں، ان سے وہ ملت کا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ قناعت اور توکل اور تسلیم و رضا کے غلط معنی لے کر مسلمانوں میں بھی یہ تصور عام ہو گیا کہ نفس کشی کے معنی تمام آرزوؤں کا قلع قمع کرنا ہے۔ انسان جتنا بے مدعا ہوتا جائے اتنا ہی خدا کے قریب ہوتا جاتا ہے۔غالب نے یہی متصوفانہ خیال اس شعر میں ظاہر کیا ہے کہ: گر تجھ کو ہے یقین اجابت دعا نہ مانگ یعنی بغیر یک دل بے مدعا نہ مانگ اسی سے ملتا جلتا صائب کا ایک شعر ہے: حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن از شیشہ بے مے مے بے شیشہ طلب کن یہ خیال ہندو مت اور بدھ مت کی الٰہیات میں بھی ایک مسلمہ بن گیا تھا کہ اپنی خودی کو صفر کر دینے سے انسان خدا کا ہم ذات ہو جاتا ہے یا خود خدا بن جاتا ہے۔ بھگوت گیتا میں ارجنا کرشن سے پوچھتا ہے کہ تم خدا کیسے بن گئے؟ وہ جواب دیتا ہے: من از ہر سہ عالم جدا گشتہ ام تہی گشتہ از خود خدا گشتہ ام (ترجمہ: فیضی) اقبال کی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خود خدا کی ماہیت خودی اور خودی کی ماہیت مقصد آفرینی اور مقصد کوشی ’’ تخلقو باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق انسان کو بھی تخلیق مقاصد سے اپنی خودی کو استوار کرنا چاہیے۔ اس تعلیم میں وہ اپنے مرشد رومی کا ہم خیال ہے۔ رومی کہتا ہے کہ زمین و آسمان کی خلقت حاجت کی پیداوار ہے، حاجت ہی سے ہستی کی آفرینش اور اس کا ارتقاء ہوتا ہے۔ اس لیے وہ نصیحت کرتا ہے: پس بیفزا حاجت اے محتاج زود اسی خیال کو اقبال نے طرح طرح کے لطیف پیرایوں میں ادا کیا ہے۔ مثلاً: زندگانی را بقا از مدعا است کاروانش را درا از مدعا است زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے۔ عالم آب و گل اور جہان رنگ و بو سب آرزو کے رہین اور مین ہیں۔ فلسفہ جدید میں ارتقاء کے طرح طرح کے نظریات پیدا ہوئے۔ ان نظریات میں سے برگسان کا نظریہ ارتقاء تخلیقی اقبال کے خیالات کے عین مطابق ہے۔ اعضاء سے وظائف اعضا پیدا نہیں ہوتے بلکہ حیات کی ارتقائی تمنائیں اعضا و آلات میں صورت پذیر ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہ آنکھ ڈاروینی اتفاقات اور میکانیکی توافق سے بن گئی اور اس سے بینائی ممکن ہو گئی۔ اقبال کہتا ہے کہ علت و معلول کا سلسلہ یہاں برعکس ہے۔ لذت دیدار اور شوق بینش نے آنکھ بنائی ہے۔ ذوق رفتار نے پاؤں بنائے اور ذوق نوائے منفقار اقبال نے اسرار خودی میں بھی اور بعد کے کلام میں بھی سینکڑوں دلکش اور بصیرت افروز اشعار عشق اور عقل کے موازنے اور مقابلے میں لکھے ہیں۔ یہ صوفیہ اور بعض حکماء کا قدیم مضمون ہے، لیکن اس مسئلے پر اقبال کے ہاں جس قدر بصیرت اور قدرت پائی جاتی ہے وہ اور کہیں نہیں ملتی۔ یہ اس کا خاص مضمون بن گیا اور اس مضمون کے ہر شعر میں اقبال کے کلام میں حکمت کے ساز کے ساتھ وجد و مستی کا سوز توام ہو گیا ہے۔ میلان حیات اور آرزوئے ارتقاء اس کے ہاں ماہیت وجود ہیں۔ یہی اصل ہیں اور باقی جو کچھ ہے، عقل ہو یا علوم و فنون یا آئین و رسوم، سب کی حیثیت فروعی ہے۔ صحیفہ وحی آسمانی ہو یا صحفہ فطرت، اس کے علم الوجود یا علم الکتاب کے مقابلے میں عشق ام الکتاب ہے۔ اصل ماخذ زندگی اور اس کی سعی تکمیل ہے۔ اجرام فلکیہ ہوں یا اجسام حیوانیہ یا شعوری و ادراک یہ سب زندگی نے اپنی بقا کے لیے آلات بنائے ہیں۔ علوم و فن خود مقصود نہیں اور عقل انسان کا معبود نہیں۔ یہ سب کچھ نمود ہے بود نہیں: علم و فن از پیش خیزان حیات علم و فن از خانہ زادان حیات انسان کا کام صحیفہ کائنات کی تفسیر نہیں بلکہ موجودات کی تسخیر ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ ماسوا کی تسخیر کرے اور خود اپنے آپ کو مسخر ہونے سے بچائے اور ماسوا کی تسخیر سے آگے قدم بڑھاتا ہوا اس وقت تک دم نہ لے جب تک کہ خدا یعنی ذات مطلق کی خودی کو مسخر کر کے اپنا نہ لے۔ اس بارے میں بھی وہ رومی کا ہم آہنگ ہے، جو کہتا ہے: بزیر گنگرۂ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر اسی مضمون کو اقبال نے اپنے ایک شعر میں ڈھالا ہے: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ اقبال کے ہاں خودی اور عشق کے مضامین ہم معنی ہیں۔ ایک ہی چیز ہے جس کو کبھی وہ خودی کہتا ہے اور کبھی عشق۔ا گرچہ اسرار خودی میں اس نے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خودی جس عشق سے استوار ہوتی ہے وہ کس ہستی یا کس چیز کا عشق ہے۔ کیا خودی کو اپنے سے خارج کسی محبوب کو تلاش کرنا ہے یا خودی کے خود اپنے میلانات کے اظہار کا نام عشق ہے۔ اقبال کے نزدیک خودی کے اندر لامتناہی ممکنات مضمر ہیں۔ خودی کو استوار کرنا ان ممکنات کو بطون سے شہود میں لانا ہے۔ عشق خودی کی ماہیت ہے اور اپنی ذات سے باہر کسی محبوب کا گرویدہ ہونا نہیں ہے۔ خودی ارتقاء طلب ہے۔ وہ ہر حاصل شدہ کیفیت سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ اس کو اپنے ارتقاء سے عشق ہے۔ ہست معشوقے نہاں اندر دلت چشم اگر داری بیا بنمایمت عاشقان او ز خوبان خوب تر خوشتر و زیبا تر و محبوب تر ہاں ایک طریق خودی کی استواری کا جس کا اقبال بڑی شدت کے ساتھ قائل ہے، یہ ہے کہ جن ہستیوں نے اپنی خودی کے ممکنات کو وجود پذیر کیا ہے اور اپنی خاک کو رشک افلاک بنایا ہے ان سے عشق پیدا کیا جائے۔ ایسے بزرگوں کے عشق سے انسان کی خودی فرومائگی نہیں بن جاتی بلکہ معشوق کی خودی کا رنگ عاشق پر چڑھ جاتا ہے۔ انبیاء کا کام یہ نہیں ہوتا کہ امت کے افراد کی خودی کو عجز میں تبدیل کر دیں۔ انبیاء خود احرار ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کر ہر قسم کی غلامی سے چھڑا کر مردان حر بنانا چاہتے ہیں۔ اقبال کہتا ہے کہ خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شبستان حرا میں خلوت گزیں ہو کر اپنی خودی کے جوہر کو چمکایا۔ قوم و آئین و حکومت اسی جوہر کی کرنیں ہیں۔ دین کا جوہر ان معنوں میں عشق یا محبت ہے کہ مرد مومن تمام افراد اور اشیاء سے قلبی تعلق پیدا کر کے کائنات کی خودی وحدت کا ثبوت دیتا ہے۔ دوسروں سے محبت کرتا اور دوسروں کو اپنا ہم ذات سمجھتا ہے۔ اس طرح سے محبت کے ذریعے خودی قوی تر اور وسیع تر ہوتی جاتی ہے۔ خودی کا اصل انداز عمل مخاصمانہ یا رقیبانہ نہیں بلکہ عاشقانہ ہے۔ خودی کے ضمن میں اقبال نے یہ تحقیق کی ہے کہ نفی خودی کی تعلیم کہاں سے پیدا ہوئی اور کن اسباب سے وہ بعض اقوام پر چھا گئی۔ اس تحقیق میں اقبال نطشے سے متفق ہے کہ یہ انحطاط یافتہ اور مغلوب اقوام کی ایجاد ہے۔ جن اقوام کے قواے حیات سست پڑ جاتے ہیں، ان سست عناصر اقوام کو قوی اور جلیل اقوام کے مقابلے میں زندہ رہنے کی کوئی ترکیب سوچنی پڑتی ہے۔ زبردست اقوام تسخیر پسند ہوتی ہیں۔ زبردستوں کے ہتھیار اور ہوتے ہیں اور کمزوروں کے ہتھیار اور کمزور کبھی تو فریب اور خوشامد سے کام نکالتا ہے اور کبھی وہ ایسے نظریات کی تبلیغ کرتا ہے جس سے اس کی کمزوری ذلت کی بجائے فضیلت دکھائی دینے لگے۔ اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے وہ فکر کو سراہنے لگتا ہے۔ ہمت کو دنیا طلبی اور عجز کو روحانیت کے رنگ میں پیش کرتا ہے۔ اپنی تعلیم میں وہ ایسی دلکشی اور لطافت پیدا کرتا ہے۔ کہ اہل ہمت بھی یہ افیون کھانے لگتے ہیں۔ یہ مضمون نطشے کا خاص مضمون ہے اور اس نے اس نقطہ نظر سے عیسائیت پر اور اس کے پیدا کردہ اخلاقیات پر بھر پور وار کیا ہے۔ عیسوی رہبانیت کی یہ تعلیم کہ جنت ضعیفوں اور عاجزوں کو ملے گی اور صاحبان ہمت و ثروت و جبورت اس میں داخل نہ ہو سکیں گے، نطشے کے نزدیک نوع انسان کو قعر مذلت میں دھکیل گئی اور مغرب میں شیروں کو بکرا بنا گئی: جنت از بہر ضعیفان است و بس قوت از اسباب خسران است و بس جستجوئے عظمت و سطوت شر است تنگدستی از امارت خوشتر است یہ سازش مغلوب اور کمزور اقوام کی شعوری تدبیر اور تنظیم سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی کمزوری غیر شعوری طور پر ان کے تحفظ کے لیے یہ آلات وضع کرتی ہے۔ اقبال نے کہیں عجمی تصورات کو اور کہیں افلاطونی نظریات کو، ادبیات و حیات اسلامی کو مسموم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلامی سیاست کی تاریخ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور بعض عجمی گروہوں نے اسلام سے مغلوب ہونے اور ظاہر میں اسلام کو قبول کرنے کے بعد، اس کی بیخ کنی کے لیے نہایت پوشیدہ اور لطیف ذرائع اختیار کیے۔ بعض تصورات فلسفے اور تصوف کے انداز میں پیش کئے گئے اور بعض تصورات موضوع احادیث نبوی کے پیرایے میں۔ متحققین حدیث نے ان مخترعات اور موضوعات کو بہت کچھ چھانٹا لیکن اس کے باوجود بعض چیزیں مروجہ طور پر مسلم احادیث میں ایسی ملتی ہیں جن پر شبہ ہوتا ہے کہ یہ غیر اسلامی تصورات کو اسلام میں داخل کرنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ عام ادبیات اسلامیہ میں ایسے ایسے زوایاے نگاہ مسلمات میں داخل ہو گئے، جنہوں نے مسلمانوں کو زندگی کی جدوجہد سے باز رکھا۔ قناعت پرستی، لذت پرستی، سکون پرستی، قطع علائق، انسان کو خود داری سے محروم کرنے والے تصورات عشق، ہوس پرستی، مصنوعی محبت، ادبیات کا تار و پود بن گئے۔ ایسا ادب قوم کے انحطاط کی علت بھی ہے اور اس کا معلول بھی کسی قوم کا ادب اس کی زندگی اور اس کی تمناؤں کا آئینہد ار ہوتا ہے۔ جب قوم پست ہمت اور سست عناصر ہو جائے تو ادب میں زندگی کی گرمی اور عمل کا جوش نظر نہیں آتا عاشق خود دار کی بجائے ’’ آوارہ مجنو نے رسوا سر بازارے‘‘ انسانیت کا دلکش نمونہ بن جاتا ہے۔ فارسی اور اردو کا عام تغزل زیادہ تر اسی انحطاط کا آئینہ دار ہے۔ ایسی شاعری کے خلاف پہلے حالی نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ قیامت کے روز باقی گنہگار تو چھوٹ جائیں گے لیکن ہمارے شعراء کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ حالی نے کسی خاص شاعر کو چن کر ہدف ملامت نہیں بنایا تھا۔ اس کی تنقید زیادہ تر عام تھی۔ لیکن اقبال نے جوش اصلاح میں حافظ پر شدید حملہ کر دیا کہ ا س کا کلام مسلمانوں کے لیے افیون کا کام کرتا ہے۔ مار گلزارے کہ دارو زہر ناب صید را اول ہمی آرد بخواب مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب معنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردہ دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمتہ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کے لیے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔ اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویہ نگاہ کے مشابہ ہے، جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی، اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔ اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔ اس میں صحرا کی گرمی اور باد صر صر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علم برائے علم ایک لا یعنی شغل ہے اسی طرح فن برائے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے۔ اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کیے ہیں۔ پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کے لیے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کی ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار و رزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جبر کو اختیار میں بدلنا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لیے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہم کنار کر کے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے: در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے، لیکن اس میں آئین سے سرگردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرزا غالب: گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگان شو اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکوز کرنے سے کونوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔ اقبال کے ہاں خودی کا تصور در حقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کا تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک، ذرہ و خورشید، سب سر بسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح سے اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمہ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اس طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔ انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قمر شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنہیں ملائکہ کہتے ہیں، سب کے سب اس کے لیے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے اس کی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ، انبیاء اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔ یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ: خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا، جزو و کل سے آگاہ کرتا ہوا، قائم بامر اللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یا خلیفتہ اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔ اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کے لیے بیتاں ہوں گے: فطرتش معمور و می خواہد نمود عالمے دیگر بیارد در وجود صد جہاں مثل جہان جزو و کل روید از کشت خیال او چو گل ایک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الٰہی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آ کر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوہیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں: از قم او خیزد اندر گور تن مردہ جانہا چوں صنوبر در چمن ذات او توجیہہ ذات عالم است از جلال او نجات عالم است جلوہ ہا خیزد ز نقش پاے او صد کلیم آوارۂ سیناے او ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ’’ مارمیت‘‘ کی آیت کے علاوہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرض یہ ہے کہ وہ اخلاق الٰہیہ اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی بلیغ کرے۔ اخلاق الٰہیہ صفات الٰہیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مشد رومی نے ایک تشبیہہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کر سکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر نمن آتشم کہ اٹھے تو غلط نہ ہو گا۔ اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ پر کاملاً عمل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا۔ وہ شکوہ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا، بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کر کے ’’ فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم‘‘ کے لیے بھی آمادہ ہوتا ہے: گر نہ سازد با مزاج او جہاں می شود جنگ آزما با آسماں بر کند بنیاد موجودات را می دبد ترکیب نو ذرات را گردش ایام را برہم زند چرخ نیلی فام را برہم زند مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ، نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم اس کے اقدار حیات کو پلٹ کرانسان کو راضی بہ تذلل اور مائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبیا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔ زندگی سرا سر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعیف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے، جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کے لیے ایجاد کی ہے۔ رحمان و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو منسوخ کر کے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تماما قدار حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیغ بے دریغ ہو گا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا۔بلکہ اس کا مقابلہ کر کے اپنے ممکنات کو معرض شہود میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا مشکل پسند ہو گا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔ نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو اپنی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت یہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو، جس کے دین میں قوت کے سوا اور کوئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے، تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خوری کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔ اسرار خودی لکھنے کے زمانے میں اقبال نطشے کے افکار کے ایک پہلو کا مداح تھا۔ ضعف پسندی اور نفی خودی کا اقبال بھی مخالف تھا اور نطشے بھی۔ تہذیب فرنگی کا نطشے بھی ایسا ہی مخالف تھا جیسا کہ اقبال۔ انحطاط اور پستی اور ضعف خودی کے متعلق اقبال او نطشے کی زبان بہت ملتی جلتی ہے اور اسرار خودی میں بعض افکار اور بعض مثالیں نطشے سے ماخوذ ہیں۔ لیکن دوسرے لحاظ سے اقبال اور نطشے میں بعد المشرقین ہے۔ دونوں میں افکار کے ایک پہلو کی ظاہری مناسبت ہے۔ یہ سرسری اور ظاہری مناسبت تو منصور حلاج اور فرعون میں بھی پائی جاتی تھی۔ منصور نے بھی انالحق کہا اور فرعون نے بھی انا الحق کہا۔ لیکن دونوں کا انا بھی الگ تھا اور دونوں کا حق کا تصور بھی الگ۔ ویسے تو مولانا روم اور نطشے کے افکار میں بھی ظاہری مماثلت مل سکتی ہے۔ مولانا بھی آرزو مند ہیں کہ موجودہ انسان اپنی موجودہ مادہ پسندی اور حیوانیت سے اوپر اٹھ جائے اور ایک نئی مخلوق بن جائے۔ مولانا کی ایک طویل غزل میں سے اقبال نے تین اشعار اس تصور کے منتخب کر کے ان کو مثنوی کا فاتحتہ الکتاب بنایا ہے۔ الفاظ کا ظاہر ایسا ہے کہ نطشے بھی سنتا تو پھڑک اٹھتا اور کہنے لگتا کہ میں بھی تو یہی چاہتا ہوں: دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرو شہر کز دام و دو ملولم و انسانم آرزوست زیں ہمرہان سست عناصر دلم گرفت شیر خدا و رستم دستانم آرزوست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنگہ یافت می نشود آنم آرزوست الفاظ کی ہم آہنگی کے باوجود رومی اور نطشے میں خاک و افلاک کا فرق ہے۔ ایک انسان کو الوہیت کا دامن چھونے کے لیے افلاک پر پہنچانا چاہتا ہے اور دوسرے کے ہاں خاک کے سوا خاک نہیں۔ اقبال کو نطشے میں یہ بات پسند تھی کہ اس سست عناصر انسان کی خودی کو مضبوط کرنا چاہیے، لیکن نطشے کے ہاں خودی کا تصور ہی محدود اور مہمل تھا۔ نطشے قوت اس لیے چاہتا ہے کہ ایک اعلیٰ تر نوع حیوان وجود میں آ سکے۔ رومی اور اقبال قوت تسخیر اس لیے چاہتے ہیں کہ انسان کی خودی مضبوط ہوتے ہوتے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس میں الٰہی صفات کی شان جھلکنے لگے۔ اقبال اور رومی عالمگیر عشق کی طرف انسانی خودی کو گامزن کرنے کے آرزو مند ہیں۔ جلال الدین رومی بھی جلالی ہیں اور اقبال بھی جلالی، لیکن ان کے ہاں جلال جمال سے ہم آغوش ہے۔ نطشے بھی قاہری کی تعلیم دیتا ہے لیکن اس کی قاہری میں دلبری نہیں۔ مومن کا یہ حال ہے کہ : طبع مسلم از محبت قاہر است مسلم ار عاشق نباشد کافر است در رضائش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود اسرار خودی میں اقبال نے وقت یا ماہیت زمان کے مسئلے کو بہت اہمیت دی ہے ۔ یہ مسئلہ ہمیشہ ایک معرکتہ الآراء موضوع رہا ہے۔ عامتہ الناس اور عام دیندار لوگ اس کو کوئی دینی مسئلہ نہیں سمجھتے، لیکن حکمت پسند لوگ اس میں حیران اور سر گردان رہتے ہیں کہ وقت کو کوئی چیز بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں۔ دنیا میں یا تو اشیاء و اشخاص ہیں اور یا افعال و حوادث۔ وقت نہ کوئی شے ہے، نہ کوئی شخص، نہ کوئی فعل اور نہ کوئی حادثہ۔ سب کچھ وقت میں واقع ہوتا ہے لیکن وقت کوئی واقعہ نہیں۔ فلسفیوں کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ نہ تو جوہر ہے اور نہ عرض۔ ہر قسم کا وجود جن صفات سے متصف ہو کر وجود بنتا ہے ان میں سے کوئی صفت وقت میں نہیں پائی جاتی۔ کیا وقت ازلی اور ابدی ہے یا یہ بھی کسی وقت خلق ہوا اگر یہ خود مخلوق ہے تو اس کے خلق ہونے سے قبل بھی تو آخر کوئی زمانہ تھا تو وہ بھی وقت تھا۔ قرآں کریم کے الفاظ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے چھ ایام میں زمین و آسمان کا خلق کیا، لیکن ہمارے ذہن میں شب و روز اور ایام کا جو تصور ہے وہ تو گردش ارض و مہر و ماہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اجرام فلکیہ کے خلق ہونے اور ان کی گردش مقرر ہونے سے قبل ایام کے کچھ معنی نہیں ہو سکتے۔ اقبال مرد مومن بھی تھا اور مرد حکیم بھی۔ یہ ناممکن تھا کہ ایسا اہم مسئلہ اس کے دماغ میں گردش نہ کرتا رہے اور وہ اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مضطرب نہ ہو۔ اپنے انگریزی خطبات میں بھی اقبال نے مسئلہ زمان کو اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کو مسلمانوں اور انسانوں کے لیے موت و حیات کا سوال قرار دیا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا لطیف اور پیچیدہ ہے کہ اس مختصر سے مقدمے میں اس کے چند اہم پہلوؤں کو واضح کرنا بھی نا ممکن ہے۔ کانٹ جیسے حکیم کبیر نے کہا کہ زمان و مکان دونوں فہم انسانی کے سانچے ڈھانچے ہیں۔ یہ دورنگی عینک لگاکر انسان کا فہم آفاق کے مظاہر کو علائق و روابط میں منسلک کرتا ہے۔ زمان و مکان دونوں کا وجود نفسی اور اعتباری ہے ماہیت ہستی میں نہ زمان ہے نہ مکان بالفاظ اقبال نہ ہے زمان نہ مکان لا الٰہ الا اللہ اقبال کا خیال بھی کچھ اسی قسم کا تھا چنانچہ پیام مشرق کے ایک قطعے میں فرماتے ہیں کہ: جہان ما کہ پایانے نہ دارد چو ماہی در یم ایام غرق است یہ ہماری نا پیدا کنار دنیا، یہ لامتناہی عالم، مچھلی کی طرح وقت کے سمندر میں تیر رہا ہے، لیکن یہ وقت کا سمندر ہمارے نفس سے خارج کوئی مستقل حقیقت نہیں بلکہ اس کی یہ کیفیت ہے کہ یم ایام دریگ جام غرق است وقت کا یہ دریائے بے پایاں نفس کے کوڑے میں سمایا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال وقت کے مسئلے کو ایسا اہم کیوں سمجھتا تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ زمان کو ماہیت وجود اور عین خودی سمجھتا ہے، لیکن یہ زمان شب و روز کا زمان نہیں بلکہ تخلیقی ارتقاء کا نام ہے۔ یہ نظریہ زمان وہی ہے جسے برگساں نے بڑے دلنشین انداز میں اپنے نظریہ حیات کا اہم جزو بنایا۔ اقبال خود اس نتیجے پر پہنچے تھے۔ علامہ نے اپنے بعض علم دوست احباب سے بیان کیا کہ برگساں کا مطالعہ کرنے سے قبل میں حقیقت زماں کے متعلق آزادانہ طور پر یہ تصویر قائم کر چکا تھا اور انگلستان میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں میں نے اس پر ایک مختصر سا مضمون بھی لکھا جس کو میرے پروفیسر نے کچھ قابل اعتنا نہ سمجھا، کیوں کہ بات بہت انوکھی تھی۔ برگساں کے زور و فکر اور قوت استدلال نے اس میں بہت وسعت اور گہرائی پیدا کر دی لیکن اقبال کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مسئلے میں برگساں سے کچھ کم نہیں۔ برگساں کا بڑا مداح تھا اور اس کے فلسفے سے اقبال نے فیض بھی حاصل کیا۔ اس سے اقبال کے کلام پر کوئی دھبا نہیں لگتا۔ ایسا بار ہا ہوا کہ بڑے بڑے سائنٹیفک نظریات، فنی ایجادات اور حکیمانہ افکار، ایک ہی زمانے میں، ایک سے زیادہ اشخاص کی طبیعتوں میں سے ابھرے۔ اس کے بعد مورخ اس بات پر جھگڑتے رہتے ہیں کہ اولیت کا سہرا کس کے سر ہے۔ کون موجد ہے اور کون نقال، لیکن اقبال اور برگساں یا اقبال اور نطشے کے متعلق یہ بحث بے کار ہے۔ شعر میں گہرا اور پیچیدہ فلسفیانہ استدلال تو نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہو تو شاعری محض منظوم منطق بن کر رہ جائے اور اپنے فطری تاثر کو کھو بیٹھے۔ اس لیے ’’ الوقت سیف‘‘ کا عنوان قائم کر کے اقبال نے اپنے تصور کے بعض اساسی خطوط کھینچ دیے ہیں۔ ان کی تشریح و تعبیر، سمجھنے والوں اور شارحوں کے لیے چھوڑ دی ہے۔ یہ عنوان اقبال نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک قول سے حاصل کیا ہے۔ اس کے تحت میں اقبال نے جو اشعار لکھے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ زمان یا دہر کوئی مجرد یا ساکن حقیقت نہیں بلکہ ایک تخلیقی حرکت ہے۔ ایک حدیث قدسی ہے:’’ لا تسبو الدھر ھرفانی انا الدھر‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمانے کو گالیاں نہ دو کیوں کہ میں زمانہ ہوں۔ علامہ اقبال فرماتے تھے کہ گول میز کانفرنس کے سفر کے دوران میں میں برگساں سے ملا کہ اپنے اس ہم فکر اور ہم طبع مفکر سے تبادلہ خیالات کروں۔ دوران ملاقات میں حقیقت زمان پر گفتگو ہوئی جو اقبال اور برگساں کا واحد مضمون تھا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میں نے برگساں کو بتایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دہر کے متعلق یہ فرمایا ہے۔ فرماتے تھے کہ برگساں سن کر چھل پڑا اور اس کی روح بے انتہا مسرت سے لبریز ہو گئی کہ ایک نبی عظیم کے قلب پر وہی حقیقت وارد ہوئی جسے وہ استدلال اور ذاتی وجدان کی بناء پر دنیا کے سامنے عمر بھر پیش کرتا رہا۔ غرضیکہ اس نظریے کے مطابق دہر خلاق ایک شمشیر ہے جو خود اپنا راستہ کاٹتی ہوئی اور مزاحمتوں کو راستے سے ہٹاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ دہر کی ارتقائی اور خلاقی قوت کبھی کلیم کے اندر کار فرما ہوتی ہے اور کبھی حیدر کرار کے پنجہ خیبر گیر میں اس زمان حقیقی میں دوش و فردا نہیں ہیں، نہ انقلاب روز و شب ہے۔ لوگوں نے زمان کو مکان پر قیا س کر لیا ہے اور یوں سمجھ لیا ہے کہ ایک لامتناہی لکیر ہے جو ازل سے ابد تک کھنچی ہوئی ہے۔ نافہم انسان وقت کو لیل و نہار کے پیمانوں سے ناپتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا کا وقت ہمارا وقت نہیں، اسی طرح خودی میں ڈوب کر زندگی سے آگاہ ہونے اور زندگی کی قوتوں کو وسعت دینے والے انسان کا وقت بھی ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم شدہ کوئی مکانی انداز کی چیز نہیں۔ خودی کی ماہیت حیات جاوداں ہے: تو کہ از اصل زماں اگہ نہ از حیات جاوداں اگہ نہ زندگی وقت میں نہیں گزرتی بلکہ وقت زندگی کی تخلیقی قوت ہے۔ گردش خورشید سے پیدا ہونے والا وقت مکانی اور مادی وقت ہے۔ حقیقی وقت کا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ لیل و نہار کا شکار غلام ہو جاتا ہے۔ زندگی جب مردہ ہو جاتی ہے تو وہ لیل و نہار کا کفن پہن لیتی ہے اور انسان افسوس کرتا ہے کہ عمر گراں مایہ کے اتنے ایام گزر گئے اور گردش ایام مجھے موت کے قریب لے جا رہی ہے۔ اقبال مسئلہ زمان کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ اس کے ہاں عبد اور حر کی تمیز کا معیار رہی یہی ہے کہ کوئی روح ایام کی زنیر سے پاپجولاں ہے یا مکانی وقت سے آزاد ہو کر اور حقیقی زمان میں غوطہ لگا کر، تسخیر مسلسل اور خلاقی کاشغل رکھتی ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ازل سے ابد تک بنی بنائی تقدیر کا تصور بھی زمان کے غلط تصور کی پیداوار ہے: عبد را ایام زنجیر است و بس بر لب او حرف تقدیر است و بس ہمت حر با قضا گردد مشیر حادثات از دست او صورت پذیر جس انسان کے ہاتھ میں زمانے کی تلوار ہو وہی زندگی کے ممکنات کو نمایاں کر سکتا ہے۔ زمانے کی ایک ظاہری صورت ہے اور ایک اس کا باطن ہے۔ زمانے کی ظاہری صورت سے موافقت پیدا کرنے والا پست ہمت زمانہ ساز ہوتا ہے۔ مرد جو زمانہ ساز نہیں ہوتا بلکہ زمانے کے ساتھ ستیز کے لیے آمادہ ہوتا ہے اور اس پیکار میں اس کو کامیابی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے جب کہ حقیقت زمان کی شمشیر اس کے ہاتھ میں ہو: یاد ایامیکہ سیف روزگار با توانا دستی ما بود یار ٭٭٭ چودھواں باب اقبال اپنی نظر میں اقبال نے حیات و کائنات پر جو وسیع اور گہری نظر ڈالی اس سے پیدا شدہ افکار و تاثرات سے اس کا کلام لبریز ہے لیکن اقبال کی تعلیم و تلقین کا ایک بڑا اہم عنصر چشم بر خویشتن کشادی ہے۔ انسان بدن سے زیادہ ایک نفس ہے اور اس کے ظاہر سے زیادہ اس کا باطن اہم ہے۔ اقبال کے کلام سے شروع سے آخر تک مسلسل ارتقائے فکر پایا جاتا ہے۔ ابتداء میں وہ زیادہ تر ’’ فی کل واد بہیمون‘‘ والا شاعر دکھائی دیتا ہے۔ گرد و پیش کی جس شے سے متاثر ہوتا ہے اس کو فن لطیف کا لباس پہنا دیتا ہے۔ اور خود اپنے اندر جو کیفیت محسوس ہوتی ہے، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، صلحا و حکما و عباد کے نزدیک مستحسن ہو یا مشتبہ، سب کو من و عن بیانگ دہل، یا لطافت کے لحاظ سے یوں کہیے کہ بہ بانگ چنگ نغموں میں منتقل کر دیتا ہے۔ اگرچہ یہ نغمے جا بجا فریاد کی لے سے بھی خالی نہیں ’’ کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس فریاد ہے‘‘ ہر شاعر اپنی شاعری میں متعلق بہت کچھ کہتا ہے کبھی براہ راست اور کبھی ’’ گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ لیکن دنیا عام طور پر شاعروں کے اپنے متعلق بیان کا اعتبار نہیں کرتی۔ نہ صرف اس لیے کہ کبھی وہ کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور ہمارے ہاں کے عام بلکہ بعض خاص غزل نویس تو ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں فکر و تاثر کے تضاد کی پروا نہیں کرتے۔ صدیوں سے ہماری شاعری، جس میں ہم فارسی اور اردو شاعری دونوں کو شامل کرتے ہیں، خلوص اور حقیقت سے عاری رہی ہے۔ قصابر کا دفتر تو دروغ بافی کا ایک طومار ہے۔ ان میں تمام صناعی کے محور خوشامد اور مبالغہ ہیں۔ اس طومار میں کہیں فن برائے فن ہے اور کہیں فن برائے زر۔ ایسی شاعری میں شاذ و نادر ہی اپنی زندگی پر حقیقت طلب نگاہ ڈالی گئی ہے۔ شاعر فقط اپنے انداز بیان اور ندرت صنعت کی داد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نہ اس کو اس سے غرض ہے کہ وہ اپنے یا دوسروں کے متعلق سچ کہہ رہا ہے یا نہیں اور نہ اس سے واسطہ کہ جن جذبات و تاثرات کو وہ فن لطیف کا جامہ پہنا رہا ہے وہ واقعی محسوس کردہ ہیں یا تکلیف و تصنع کا نتیجہ ہیں اس لیے کوئی سخن فہم یا نقاد سنجیدہ طور پر اسے قابل غور نہیں سمجھتا کہ شاعر نے اپنے متعلق کیا کیا کہا ہے۔ کئی شعرا نے تصوف کے افکار و جذبات سے اپنے کلام میں لطف پیدا کیا، لیکن وہ اپنی زندگی میں عشق الٰہی سے کوسوں دور تھے۔ ایسوں ہی کے متعلق شیخ علی حزیں کا قول درست ہے کہ ’’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘ اسی طرح عشق مجازی کے احوال و معاملات سے ہمارے اکثر شعراء کے دیوان بھرے پڑے ہیں، لیکن ان میں بہت سے ایسے ہیں کہ کبھی عشق مجازی کے قریب نہیں پھٹکے۔ ہوس پرستی کی شاعری میں ذوق کی صناعی دیکھئے، لیکن اس کی زندگی میں کہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کبھی جنسی عشق کی گرفت میں آیا ہو۔ اس کی صناعی خود اس کی غماز ہے کہ یہاں محض فن برائے فن ہے اور بیان عشق کی تہ میں کوئی جذبہ کار فرما نہیں۔ا میر مینائی کو دیکھئے کہ تہجد گزار، تسبیح بدست عابد و زاہد، نہ جنس لطیف سے واسطہ اور نہ ہم جنسوں کے کسی قدر غیر فطری عشق سے کوئی تعلق، لیکن محض صناعی کی داد لینے کے لیے برہنہ گوئی اور فحش نگاری سے بھی گریز نہیں۔ شراب کے قطرے سے کبھی زبان آلودہ یا لطف اندوز نہیں ہوئی مگر غزلوں میں پکے شرابی بن رہے ہیں اور شراب بھی وہی افشردۂ انگور، ام الخبائث جس پر کبھی صہبائے عشق الٰہی کا دھوکا نہ ہو سکے۔ بعض شعراء ایسے ہیں کہ ان کا واحد مضمون خمریات ہی ہے۔ جام و مینا و خم کی جزئیات، سکر کی نفسی کیفیات، ان کی تعریف و توصیف، کمال درجے کی نکتہ آفرینی اور ترغیب شراب نوشی، لیکن اصل زندگی میں زاہد و پاکباز انہیں وجودہ سے ہماری شاعری میں یہ ایک روایت پیدا ہو گئی کہ شاعر جو کچھ اپنے متعلق کہتا ہے اس پر نہ اعتبار کرو۔ کیوں کہ اس بیان کا کچھ تعلق ان کے حقائق نفسی سے نہیں ہوتا۔ اقبال کو پھر اگر کوئی شخص اسی قسم کا شاعر سمجھ لے تو اقبال اپنی نظر میں ایک بے حقیقت عنوان بن جاتا ہے۔ لیکن اقبال کی روش شروع سے ہماری روائتی شاعری سے الگ رہی ہے۔ غالب تک بھی محض لطف بیان کو وظیفہ فن لطیف سمجھتا ہے اور شاعری کا کام کبھی مضمون آفرینی قرار دیتا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہار حقیقت نہیں بلکہ محض نغز گوئی اس کا مطمع نظر ہے۔ اقبال کی شاعری میں شروع ہی سے خلوص نظر آتا ہے۔ جو کچھ محسوس کرتا ہے وہی کہتا ہے اور جب تک طبیعت پر کوئی تاثر طاری نہیں ہوتا، وہ نہ دوسروں کے تقاضے سے شعر کہتا ہے اور نہ صناعی کے شوق سے شعر کہنا تو درکنار جب تک طبیعت میں خاص کیفیت موجود نہ ہو وہ کسی کے تقاضے سے شعر سناتا بھی نہیں۔ فن میں خلوص کا یہ کمال ہمارے شعراء میں الشاذ کالمعدوم ہے۔ حیات و کائنات کے متعلق اقبال کے افکار و تاثرات بہت کچھ بیان ہو چکے ہیں لیکن یہ بیان تشنہ رہ جاتا ہے اگر اس کے ساتھ ہی اس کا جائزہ نہ لیں کہ حکیمانہ اور الہامی شاعری کے علاوہ یہ صاحب کمال شخص وقتاً فوقتاً خود اپنے اوپر نظر ڈال کر اپنی کیفیت کس طرح بیان کرتاہے۔ اقبال ان شعراء میں سے نہیں ہے جن کے فن کو ان کی زندگی سے کوئی قریبی رابطہ نہیں ہوتا۔ اس کے کلام کا زیادہ تر حصہ حیات و کائنات کے مظاہر و حوادث پر اس کے اپنے نفس کا رد عمل ہے۔ اس کے نظریات حیات اس کی اپنی نفسی کیفیات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ شعراء کے اپنے بیان ذات و صفات پر لوگ اس لیے اعتبار نہیں کرتے کہ ان میں کچھ ہم آہنگی نہیں ہوتی اور خلوص کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ اگر کوئی کامل یک آہنگی اقبال میں بھی ڈھونڈے، جس کے اندر کوئی داخلی تضاد نظر نہ آئے تو اسے طلب میں مایوسی ہو گی۔ اقبال بھی اپنے متعلق مختلف حالات اور کیفیات میں متضاد باتیں کرتا ہے، لیکن یہ تضاد مصنوعی یا وہمی نہیں ہوتا۔ زندگی میں کامل یک آہنگی تو شاید کسی کو بھی نصیب نہ ہوتی۔ یہ ایک کمالی نصب العین ہے اور جو اس کے حصول کے مدعی ہیں وہ یا دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں یا خود دھوکا کھائے ہوئے ہیں۔ کم و بیش اندرونی پیکار اور مختلف میلانات میں کش مکش، ہمیشہ انسانی زندگی میں موجود رہتی ہے۔ برگزیدہ انسانوں کے متعلق اگر یہ درست ہے کہ: گہے بر طارم اعلیٰ نشینم گہے بر پشت پاے خود نہ بینم تو عام انسانوں کے اندر، جنہیں انبیاء و اولیاء کا مرتبہ حاصل نہیں، یہ کیفیت اور بھی زیادہ تضاد آفرین ہوتی ہے۔ اقبال کو اخیر عمر میں بعض معتقدوں نے عابد و زاہد، عارف و ولی یا مجدد عصر سمجھنا شروع کیا، لیکن اقبال کی طبیعت میں اس قدر شناسی نے کچھ مغالطہ پیدا نہ کیا۔ وہ آخر تک معتقدوں کے اس مغالطے کو رفع کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اس پوجا سے بچنے کے لیے اپنی کمزوریوں کو طشت از بام کرتا رہا۔ اس پر بعض معتقدوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ عارفانہ کسر نفسی کا مظاہرہ ہے اور ایک مشہور شخص نے یہ کہا کہ حضرت اقبال صوفیہ کے فرقہ ملامتیہ میں داخل ہیں، جو ستائش خلق کی آفت سے بچنے کے لیے خواہ مخواہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتے ہیں۔ کہ لوگ انہیں عاصی یا رند سمجھیں۔ اقبال نے اپنے انداز تفکر و تاثر کو کس کس طرح بیان کیا ہے اسے پہلے اس کے ابتدائی کلام میں تلاش کرنا چاہیے۔ بانگ درا میں ’’ گل رنگیں‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی فطرت کا خارجی فطرت سے مقابلہ کیا ہے۔ سوز و ساز آرزو، جو ترقی یافتہ کلام میں اس کا موضوع خاص بن گیا اور جس کے لیے آخر میں اس نے عشق کی اصطلاح کو مخصوص کر لیا، وہ ابتداء میں بھی موجود ہے۔ اس لیے کہ اقبال کی فطرت کا اصلی جوہر یہی تھا جو ارتقاء کی ہر منزل میں نمایاں ہے۔ پھول کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو بڑا مطمئن خود مست اور بے پروا معلوم ہوتا ہے۔ زندگی کی شورش اور کشاکش سے تجھے فراغت حاصل ہے جو میرے لیے باعث رشک ہے: تو شناسائے خراش عقدۂ مشکجل نہیں اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو اور تیری زندگانی بے گداز آرزو اس سے آگے چل کر وہ اس اطمینان کو قابل رشک نہیں سمجھتا اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے، جسے وہ ابھی پورے یقین کے ساتھ پیش نہیں کرتا، کہ تو مطمئن ہے اور میں مثال بو پریشاں اور زخمی شمشیر ذوق جستجو، بظاہر یہ بے اطمینانی تو خواہ مخواہ کی سزا معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کا بھی احتمال ہے کہ انسان کا نصب العین جس انداز کی جمعیت خاطر ہے، وہ اضطراب و جستجو اور سوز و ساز ہی کے وسیلے سے پیدا ہوتی ہے اور شاید حکمت کا سرچشمہ بھی یہی بیتابی ہو: یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو رشک جام جم مرا آئینہ حیرت نہ ہو یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے تو سن ادراک انسان کو خرام آموز ہے دیکھئے کہ آخر میں ایک مخصوص نظریہ حیات کی تلقین کرنے والا اقبال اس ابتدائی نظم میں بھی موجود ہے۔ اقبال کے آخری کلام کے اشجار مثمر کے بیج ان اشعار میں موجود ہیں۔ خفتگان خاک سے جو سوالات پوچھے ہیں وہ اقبال کی اپنی زندگی کا نقشہ ہے۔ انداز استہفام میں اپنی تمام دلی آرزوئیں بھی بیان کر دی ہیں، لیکن یہ دور حیرت و تذبذب ہے۔ ابھی اقبال کو دانائے راز ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ حیات بعد الموت کے متعلق کوئی یقینی تصور نہیں۔ زندوں سے اسرار کی گرہ کشائی نہ ہوئی تو اب اس دنیا کی طرف گئے ہوئے لوگوں سے پوچھتا ہے: تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے اپنے وطن اور اپنی ملت میں اخوت اور وحدت کا فقدان اس کے لیے سوہان روح ہے۔ جب تک اس وطن میں وحدت مقصد اور مودت پیدا نہ ہو یہ غلام ہی رہے گا۔ اس شدت احساس نے اس سے وطنیت پر ولولہ انگیز نظمیں لکھوائیں۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ مذاہب تو نفاق انگیزی ہی پر تلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ مذہب کی حقیقت افزونی محبت ہے، لیکن ہندوستان میں مذاہب اور مذاہب کے فرقوں اور ذات پات نے خلیجیں اور نفرت پیدا کر رکھی ہے۔ اقبال کا حساس دل اس سے جلتا ہے اور مایوسی میں خود کشی کرنے کو آمادہ ہوتا ہے: چل رہا ہوں، کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے وصل کیسا، یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے ایسی قوم میں اس کو اپنی شاعری بھی بے کار معلوم ہوتی ہے اور وہ نغمہ پیرائی سے بھی بیزار ہو جاتا ہے: جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے روح کے اندر گہرائی جلوت میں نہیں بلکہ خلوت میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی ذوق نے بعض اہل دل کو راہب بنا دیا۔ جب مخلوق میں اس ذوق کی پرورش نہیں ہوتی تو طبیعت گریز کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اقبال نے کبھی صحرا و کوہسار کی طرف گریز نہ کیا، لیکن اس آرزو کی جوہر طبیعت میں پیدا ہوئی، اس کو ایک آرزو والی نظم میں بیان کر دیا۔ تخیل میں اس خلوت اور فطرت سے ہم آہنگی کا لطف اٹھایا، اگرچہ یہ خواب کبھی زندگی میں شرمندۂ تعبیر نہ ہوا: دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں دنیا کے غم کا کانٹا دل سے نکل گیا ہو اس دور میں ابھی ملت اسلامیہ اقبال کی نظر گاہ اور اس کا محور فکر نہیں بنی۔ ابھی اس کی طبیعت تمام فطرت اور تمام نوع انسان کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی آرزو مند ہے۔ بعد میں اپنی ملت کو بیدار کرنے میں اپنی تمام قوت صرف کرنے سے اقبال تنگ نظر نہیں ہو گیا۔ یہ وسعت آخر تک اس کے کلام میں جھلکتی ہے، لیکن ملی شاعری میں اس نے اپنی شعاعوں کو شعلہ انگیزی کے لیے جذبہ مل میں مرتکز کر دیا ہے۔ عقل سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اصلاح اپنے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ ’’آفتاب صبح‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی آرزوئیں بیان کر جاتا ہے۔ ملتوں کے متعلق ابھی اس کا زاویہ نگاہ صوفیانہ ہی معلوم ہوتا ہے: جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند (حافظ) ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہو گئیں (غالب) ملتوں کی جنگ نہ ہندوستان کو متحد ہونے دیتی تھی اور نہ آزاد ملتوں کو صلح کی طرف مائل کرتی تھی۔ اس لیے ہر صلح جو انسان کی طرف اقبال کے دل میں بھی یہ جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بینی اور یک بینی کے لیے چشم آفتاب کا طالب ہے اور سورج کو مخاطب کر کے کہتا ہے: شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے زندگی پھر قید زنجیر تعلق میں رہے زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں نوع انسان قوم ہو میری، وطن میرا جہاں دیدۂ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے جس طرح پھول کے اطمینان پر پہلے اظہار رشک کر کے آخر میں کہا کہ نہیں ہماری بیتابی اس اطمینان سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے، اسی طرح آفتاب کو بھی آخر میں کہتا ہے کہ ہماری جستجو کی بدولت ہمیں شاید تیری بصارت سے زیادہ بصیرت حاصل ہو۔ یہ حیرت و استفہام جو تجھ میں نہیں اور مجھ میں ہے، اسی وجہ سے مجھ پر افشاے راز قدرت ہو گا: آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے لیلیٰ ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں آخر تک اقبال نے زندگی کو جستجو اور آرزو ہی سمجھا اور اس کا آرزو مند رہا کہ یہ مرحلہ شوق کبھی طے نہ ہو۔ سید کی لوح تربت کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بھی اقبال اپنا مقصود حیات اور لائحہ عمل سید کی زبان سے بیان کر رہا ہے: مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ اقبال نے جو لائحہ عمل ابتداء میں اپنے لیے تجویز کیا تھا آخر تک اس پر عمل کیا ہے۔ اسلامی فرقوں کی لا طائل بحثوں میں اقبال کبھی نہیں پڑا۔ فقیہانہ مناظرہ اس نے کبھی نہ کیا اور بے شمار لا حاصل پرانی داستانیں، جو مسلمانوں کا سرمہ ادب اور گنجینہ مواعظ بن گئی ہیں ان کو اقبال نے یک سر ترک کر دیا۔ اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا اپنی سیرت اور میلانات کا تجزیہ کیا ہے لیکن کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں عام محاورے کے مطابق اپنا کچا چٹھا پیش کر دیا ہے۔ بانگ درا میں زاہد اور رندی کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بظاہر ایک مولوی صاحب اقبال کے اندر متضاد نما میلانات دیکھ کر اور اس کی سیرت ناقابل فہم سمجھ کر، معترضانہ انداز میں بات کر رہے ہیں، لیکن اقبال نے مولوی صاحب کے بیان میں سے کسی بات کی تردید نہیں کی۔ مولوی صاحب نے جو کچھ کہا وہ نوجوان اقبال کی زندگی میں کلا یا جزا موجود تھا۔ اقبال کے خلوص اور صاف گوئی کی داد دینی چاہیے کہ سب کچھ سن کر مولوی صاحب سے اتفاق ہی کیا کہ واقعی یہ سب باتیں یک جا میری زندگی اور میری طعبیت میں موجود ہیں۔ میں خود بھی ابھی اپنی حقیقت سے شناسا نہیں ہوں: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تسمخیر نہیں واللہ نہیں ہے اقبال نے خود اپنے آپ کو اس نظم میں رند کیا ہے۔ رند کے صفات جو فارسی میں اور اردو ادب میں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ظواہر میں شریعت کا پابند معلوم نہیں ہوتا۔ عاشق مزاج ہے۔ تنگ و نام کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی طبیعت میں مکروہات سے کچھ گریز دکھائی نہیں دیتا۔ اقبال کی زندگی میں دور شباب میں ان تمام صفات کا شائبہ موجود تھا۔ جو باتیں مولوی صاحب نے کہیں وہ یہ ہیں کہ ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ یہ درست بات تھی اس نے موحد اور صوفی منش ہندوؤں کی تعریف میں نظمیں لکھی ہیں اور آخری دور میں بھی برتری ہری کا دل سے مداح تھا اور اسے عارف سمجھتا تھا۔ مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ اقبال کی طبیعت میں تشیع بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا مذہب حضرت علی ؓ کی فضیلت کے بارے میں تفصیلی معلوم ہوتا ہے یہ بات بھی غلط نہ تھی اس دور میں طبیعت کا یہی میلان تھا۔ بعض حضرات نے تو اس کو آخر میں بھی شیعہ ہی سمجھا ہے اور اہل بیت کی محبت میں اس نے جو اشعار کہے ہیں ان کو ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں، لیکن اہل بیت کی محبت تو شیعہ، سنی سب کے دلوں میں برابر ہے خواہ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوں۔ ایام شباب کی ایک نظم میں اقبال کا ایک شعر تھا جو انہوں نے بعد میں ساقط کر دیا، جس میں کمال درجے کا غلو ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرستش خدا کی طرح کی جائے اور حضرت علیؓ کو نبی کا رتبہ دے دیا جائے:ـ نجف میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے مرا کعبہ میں بندہ اور کا ہوں امت شاہ ولایت ہوں بعض اوقات اقبال جیسا محتاط شاعر بھی جوش اور غلو میں کیا کیا کہہ جاتا ہے، جسے بعد میں اس کی عقل سلیم رد کر دیتی ہے، لیکن تمام عمر میں اقبال نے شیعیت کو کسی رنگ میں بھی درست نہیں سمجھا۔ ایام شباب کی یہ ہلکی ہلکی لہریں پھر اس کے دریائے طبیعت میں کبھی ابھرتی ہوئی دکھائی نہیں دیں۔ مولوی صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ اقبال کو موسیقی سے رغبت ہے۔ یہ بھی صحیح بات تھی۔ شعر میں موسیقی سموئی ہوئی ہے۔ کون تلمیذ الرحمن شاعر ایسا ہو سکتا ہے جس کی روح میں موسیقی موجود نہ ہو۔ اقبال اچھا گانا سننے کے شائق تھے اور خود بھی اچھے سروں میں گا سکتے تھے۔ لیکن بقول عارف رومی: بر سماع راست ہر کس چیر نیست طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست ایام شباب میں اقبال کو رقص و سرود کی محفلوں سے گریز نہ تھا اور ان کے ایک دوست جو ابھی تک بقید حیات ہیں، اپنے گھر پر اس کا انتظام کرتے تھے لیکن یہی طوائفوں کا گانا سننے والا اقبال گانا سنتے سنتے کسی اور عالم میں بھی گم ہو جاتا تھا اور علی الصباح بڑے سوز و گداز سے قرآن کی تلاوت کرتا تھا: رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی اقبال کی طبیعت میں اس دور میں رندی، تصوف اور حکمت باہم بر سر پیکار تھے۔ کسی دوسرے ظاہر پرست ملا کی زبانی اقبال نے اس تضاد کا پورا نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ یہ سب باتیں مجھ میں موجود ہیں، اب آپ کا جو جی چاہے میری نسبت رائے قائم کر لیجئے لیکن اقبال ابھی خود اپنے آپ کو نہیں سمجھتا تو دوسرا اسے کیا سمجھے گا۔ اقبال کی شاعری کا شہرہ یک بیک بہت عالم گیر ہو گیا۔ اس کے افکار میں جدت تھی، طرز کلام میں لذت تھی، اعلیٰ درجے کے قوی اور روحانی جذبات اور حکمت کے جواہر ریزے اس کے اشعار میں بکھرے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اشعار ایسے ترنم سے پڑھتے تھے کہ سننے والوں کی روح وجد میں آ جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے ان کی نقالی شروع کر دی، لیکن کہیں بھی نقل اصل کو نہ پہنچ سکی۔ کثرت سے نوجوان اس کی لے میں شعر پڑھنے لگے۔ اس کیفیت کے متعلق اقبال نے تصویر درد میں اشارہ کیا ہے: اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری حسن اور عشق تو شاعر اور شاعری کا خمیر ہیں۔ خواہ وہ عشق الٰہی ہو، خواہ عشق عالم، خواہ عشق آدم۔ یہ جواہر اقبال کی طبیعت اور اس کے کلام میں شروع میں بھی نمایاں ہے وسط میں بھی اور دور آخر میں بھی۔ آخر میں تو شراب دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گئی ہے۔ لیکن ایام شباب میں اقبال کا ذوق سلیم بھی حسن و عشق کی کشش سے کچھ کم نہ تھا۔ مشرقی تہذیب و ادبیات کو وہ ایک مشرقی استاد کامل مولانا میر حسن سے حاصل کرتا ہے اور مغربی فلسفہ آرنلڈ جیسے باکمال مغربی استاد سے۔ مولانا میر حسن کی شان میں اقبال کی کوئی مستقل نظم نہیں، لیکن دل میں اس استاد سے عقیدت ہمیشہ استوار رہی۔ آرنلڈ کے لاہور سے رخصت ہوتے ہوئے کیا حسرت ناک اشعار لکھے ہیں۔ اس دور میں اقبال ابھی تک مغرب اور مغربی فلسفے سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ ابھی تک وہ اس سے حقیقت رسی کی امید رکھتا تھا۔ اولیاء کرام سے اقبال کی عقیدت کچھ اسے ورثے میں ملی تھی اور کچھ اس کی اپنی طبیعت اور نظریہ حیات کی بدولت تھی۔ یورپ جاتے ہوئے درگاہ حضرت محبوب الٰہی پر عقیدت کے جو پھول چڑھائے ہیں وہ التجائے مسافر کی نظم میں موجود ہیں۔ اس دور میں اقبال کو اپنے اندر دو قسم کے احساسات دکھائی دیتے ہیں۔ایک احساس یہ ہے کہ ارباب علم اور اہل دل سے فیض حاصل کرنا چاہیے، خواہ وہ مشرق میں ہوں، خواہ مغرب میں۔ کوئی امتیاز ملت نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی احساس بھی ہے کہ فکر ونظر کے لحاظ سے کچھ تنہا ہی ہوں۔ مجھے اپنا راستہ خود تلاش کرنا پڑے گا: تراش از تیشہ خود جادۂ خویش براہ دیگراں رفتن عذاب است اس احساس نے کبھی کسی دور میں اقبال کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ابتدائی غزلوں میں ایک یہ شعر ملتا ہے: کارواں سے نکل گیا آگے مثل آوازہ درا ہوں میں کسی اور شاعر کا اسی انداز کا شعر ہے: از آنکہ پیروی خلق گمرہی آرو نے رویم بہ راہے کہ کارواں رفتہ است یورپ جاتے ہوئے فرنگ سے حصول علم کی تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ کسی استاد کی شاگردی اور دوسروں سے اکتساب کے باوجود مجھے جو کچھ حاصل ہے یا ہو گا وہ اس مبدء فیاض سے ہو گا جس سے براہ راست فیضان کی توقع ہے: چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو نظر ہے ابر کرم پر، درخت صحرا ہوں کیا خدا نے نہ محتاج باغبان مجھ کو اس کے بعد وہ آرزوئیں ہیں جو اقبال کی سیرت اور اس کے مقصود حیات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ الٰہی! مجھے ایسا نروبان عطا ہو کہ میں خاک سے افلاک کی طرف عروج کر سکوں۔ اپنے ہم سفروں سے اس قدر آگے ہو جاؤں کہ قافلے والے مجھے منزل مقصود سمجھ لیں۔ میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے۔ دلوں کو چاک کرنے والی فغاں مجھے عطا ہو۔ اس کے آگے مادر و پدر کی محبت، جس نے اقبال کی جسمانی اور روحانی پرورش کی، اس کا موثر بیان ہے۔ اپنے برادر بزرگ کے متعلق اظہار تشکر ہے جس کی شفقت اقبال پر مادر و پدر سے کم نہ تھی۔ مولانا میر حسن کے فیضان اور احسان کا بھی اقرار ہے۔ اقبال اپنے تئیں بندہ شاکر سمجھتا تھا اور در حقیقت یہ اس کی طبیعت کا ایک قابل قدر عنصر تھا: وہ شمع بارگہ خاندان مرتضویٰ رہے گا مثرل حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو اقبال خود اپنی سیرت کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے اس کا ثبوت جا بجا اس کی آرزوؤں سے ملتا ہے اور یہ نفسانی حقیقت ہے کہ ہر سیرت کی مخصوص تعمیر مخصوص آرزوؤں سے ہوتی ہے۔ ہر انسان کی اصلیت وہی ہے جو اس کی آرزوؤں کی ماہیت ہے۔ا گرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ خارجی حوادث اور باطنی مزاحمتیں ان میں بعض کو وجود کا جامہ نہ پہنا سکیں۔ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں 1؎ ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں اس دور میں مسلسل خود اپنی حقیقت کی تلاش میں ہے: ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں 1؎ اس شعر کی اقبال کی اپنی شرح ایک صاحب کے سوال کے جواب میں پہلے درج ہو چکی ہے۔ اقبال کو فطرت نے مقلد بنایا تھا اور نہ ظاہر پرست۔ وہ گورانا تقلید سے ہمیشہ گریزاں رہا آخر تک اس کا یہی عقیدہ رہا کہ حقیقت رسی خواہ علم کی بدولت حاصل ہو اور خواہ عشق کا فیضان ہو، تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ جب واعظ اور صوفی کی روایتی اور تقلیدی زندگی پر اعتراض کرتا ہے تو در حقیقت ان کے مقابلے میں اپنی سیرت کو پیش کر رہا ہے جو تقلید سے گریزاں اور تحقیق کی طرف مائل ہے۔ تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے مانند خامہ تیری زبان پر ہے حرف غیر بیگانہ شے پہ نازش بیجا بھی چھوڑ دے ہے عاشقی میں رگم الگ سب سے بیٹھنا بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے مقطع میں واعظ سے بغض للہ کو ایک عجیب شوخ انداز میں پیش کیا ہے: واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے عالم شباب میں جب عشق مجازی اور کسی حسین کی کوشش کو محسوس کرتا ہے تو اس کو چھپاتا نہیں۔ کسی دور میں بھی اپنی طبیعت کے کسی میلان اور کسی جذبے کو چھپانا اقبال کا شیوہ نہ تھا۔ اس نے کبھی لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو زاہد و عابد بنا کر پیش نہیں کیا۔ ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ ریا میری فطرت میں نہیں۔ اگر میں دنیا داری میں ریاکاری کی کوشش بھی کروں تو کبھی کامیابی سے اس کو نبھا نہ سکوں۔ شبابی عشق کی عاشقانہ نظمیں بانگ درا کے مجموعے میں موجود ہیں، جن سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کی فطرت زندگی کے تجربے سے محروم نہیں رہی۔ ’’ در عنفوان جوانی چنانکہ انند دانی‘‘ یہاں بھی موجود ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ایک شعر میں کہا ہے کہ میں اپنی زندگی کی تمام روئداد ’’ افتد دانی کے سوا‘‘ سنانے کو تیار ہوں۔ مگر اقبال ان واقعات کو نظم میں بھی بیان کرتا ہے اور گفتگو میں بھی احباب سے اس کا تذکرہ کرنے میں دریغ نہیں کرتا: جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں ہماری روایتی شاعری میں عاشقوں نے ہمیشہ معشوقوں پر ہرجائی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ حالانکہ ہوس پرستی میں عاشق بھی معشوقوں سے کم ہرجائی نہیں ہوتے۔ لیکن شعر کہنے والے عاشق ہیں اور ’’ قلم در کف دشمن است‘‘ محبوبوں کی بے وفائی کا رونا روتے ہیں، مگر اپنے ہرجائی ہونے کا ذکر نہیں کرتے۔ کبھی کبھار کوئی شاعر صرف واسوخت میں انتقاماً کہہ جاتا ہے کہ: تو جو ہرجائی ہے اپنا بھی یہی طور سہی تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی لیکن اقبال کی راست بیانی کی داد دیجئے کہ اس نے اپنے ’’ عاشق ہرجائی‘‘ ہونے پر ایک مستقل نظم لکھ ڈالی ہے۔ زور شور سے اس کا اقرار کیا ہے۔ اگرچہ اس صفت کے لیے صوفیانہ اور حکیمانہ جوا زپیدا کرنے کی بھی دلکش کوشش کی ہے: حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار تو کبھی ایک آسانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟ جیسے کسی نبی صادق کی صدات کا ایک قاطع ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی کسی کمزوری، یا بتقاضائے بشریت ادنیٰ لغزش کو بھی ہمیشہ کے لیے تمام جہاں پر چشت از بام کر دے، اسی طرح ایسی شاعری کا بھی یہی شیوہ ہے جسے جزو پیغمبری کہتے ہیں کہ ننگ و نام سے بے پروا ہو کر شاعر پر جو واردات گزری ہے، اسے فن لطیف کے سانچے میں ڈھال کر بقائے دوام بخش دے۔ اقبال نے بھی یہی کیا، تاکہ لوگ اسے بعد میں شروع سے آخر تک زاہد و عابد اور صوفی و مجدد ہی نہ سمجھ لیں۔ زندگی کے تمام مراحل سے گزرنے والا حقائق نفس انسانی کے متعلق زیادہ بصیرت حاصل کر سکتا ہے اور بہتر قسم کا مجدد بن سکتا ہے۔ عشرت امروز میں اپنے شباب کی کیفیت اور شباب کے نظریہ حیات: با بر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کو کیا عمدگی سے کھول کر بیان کیا ہے: نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور نہ کھینچ نقشہ کیفیت شراب طہور مجھے فریفتہ ساقی جمیل نہ کر بیان حور نہ کر ذکر سلسبیل نہ کر شباب آہ کہاں تک امیدوار رہے وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے عجب چیز ہے احساس زندگانی کا عقیدہ عشرت امروز ہے جوانی کا یورپ میں عملی زندگی کی گہما گہمی اور ہر سمت میں اہل فرنگ کی جدوجہد کا اقبال نے جب اپنی ملت کی معاشرت سے مقابلہ کیا تو وہ اس کو نہایت خفتہ اور انفعالی نظر آئی۔ پڑھے لکھے مسلمانوں بلکہ ان پڑھوں میں بھی ہمارے ہاں شاعروں، متشاعروں اور تک بندوں کی جو کثرت ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی۔ شاعر مغرب میں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن لاکھوں میں ایک۔ یہاں پر تو یہ صنعت گھر گھر پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب میں اقبال کے دل میں یہ خیال گزرا کہ کام کرنے والی قوموں میں یہ وبا نظر نہیں آتی۔ اگر ملت خفتہ کو عمل پر آمادہ کرنا ہے تو اس شغل بے کاری سے اس کا رخ پھیرنا چاہیے اور مثال قائم کرنے کے لیے خود بھی یہ ارادہ کیا کہ شاعری ترک کر دوں۔ یہ قصہ ان کے دوست سر عبدالقادر مرحوم نے بیان کیا ہے۔ اقبال ایک ہنگامہ جذبے میں یہ بھول گیا کہ ایک قسم کی شاعری قوموں کے انحطاط کا مظہر اور ان کی قوتوں کو سلا دینے والی ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسری قسم کی شاعری جس کی کمال درجے کی اہلیت اس میں موجود تھی، قوموں کے لیے پیام حیات بھی ہو سکتی ہے۔ تھوڑے عرصے تک اقبال اپنے خاص مشن سے غافل ہو گیا، لیکن پھر اس کی فطرت نے اندر سے بڑے زور شور سے پکارا: زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا اب وہ سنبھل گئے اور اس حقیقت کو پا گئے کہ قوموں کو بیدار اور خود دار بنانے کے لئے حکمت و ہمت اور ضمیر فطرت سے ابھرنے والی شاعری ایک زبردست آلہ ہے۔ جس دوست سے شاعری کے ترک کرنے کا ذکر کیا تھا اب اسی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ٹینی سن نے کیا خوب کہا ہے کہ جس شاعری سے ملت کے دل قوی ہوں وہ خود ایک زبردست عمل ہے: شاعر دلنوار بھی بات اگر کہے کھری ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری گلشن دہر میں اگر جوے مے سخن نہ ہو پھول نہ ہو کلی نہ ہو سبزہ نہ ہو چمن نہ ہو رات اور شاعر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں شاعر کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اقبال کی اپنی کیفیت ہے: میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے دیکھنے والی جو ہے آنکھ کہاں سوتی ہے؟ ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں اقبال کو جن لوگوں نے فرقہ ملامتیہ کا ایک فرد قرار دیا ہے ان کو اپنے اس نظریے کا ثبوت سب سے مضبوط اس نظم میں مل سکتا ہے جس کا عنوان ہے نصیحت اس میں ایک ریا کار لیڈر کا نقشہ کھنچا ہے اور اپنے آپ کو تمام بیان کردہ صفات مذمومہ سے ملوث کر دیا ہے۔ مگر اس نظم کا انداز اس قسم کا ہے کہ اقبال کے کہنے کے باوجود کوئی شخص یہ دھوکا نہیں کھا سکتا کہ یہ خود حضرت اقبال کی سیرت اور اعمال کا نقشہ ہے۔ ایک دلکش شاعرانہ انداز بیان ہے اقبال کے زمانے میں بھی سیاسی لیڈر ایسے ہی تھے اور اب بھی قوم کی بد قسمتی سے ایسی ہی سیرت کے مالک قوم کی رہبری کے مدعی ہیں اور انگریز سیاسی لیڈروں کے انتخاب کا جو طریقہ چھوڑ گیا ہے جب تک اس میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہ ہو، قوم کی قسمت کی باگیںاسی قسم کے ریاکاروں اور مجرموں کے ہاتھوں میں رہیں گی۔ الا ماشاء اللہ کچھ اللہ کے مومن، خلوص کیش اور ایثار پیشہ لوگ اب بھی کبھی کبھی صاحب اقتدار اور ارباب حل و عقد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ ان کے نیک ارادے اور مخلصانہ اعمال حسب دل خواہ نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔ اقبال نے ان رہزن رہنماؤں کے صفات جو بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی رہبری کا دعویٰ ہے اور اسلام اسلام پکارتے ہیں لیکن نماز روزہ غائب۔ دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ذکر حجاز، سرکاری کاموں کے سلسلے میں یا جھوٹ موٹ یوں ہی سرکاری کام پیدا کر کے فرنگ اور امریکا کے دس چکر لگاتے ہیں۔ ساحل حجاز کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن کسی کو حج یا عمرہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ اپنے ہر دروغ کو مصلحت اندیشی سمجھ لیتے ہیں۔ خوشامد کا فن لطیف اعجاز کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں حکومت آ جائے اس کی مدح سرائی شروع ہو جاتی ہے اور جہاں اس کا تختہ الٹا، اس کی مذمت میں صاف گوئی کی داد لینا چاہتے ہیں اور نئے آنے والے کی قصیدہ خوانی شروع ہو جاتی ہے۔ در حکام کا طواف ان کا شیوہ ہے۔ ہوس جاہ کو پردۂ خدمت دیں میں چھپاتے ہیں۔ اس میں سیاسی قسم کے علماء دین کہلانے والے بھی داخل ہیں اور دین سے مطلقاً بے بہرہ اقتدار کے طالب بھی۔ عید کے روز یہ سب ریا کار عید گاہ میں نظر آتے ہیں تاکہ عوام ان کی دینداری سے آگاہ ہو جائیں۔ کچھ اخباروں کو اپنے ہاتھ میں رکھنا لازمی ہے تاکہ ان کی ہر حرکت اور ہر تقریر، خواہ دوسروں سے لکھوائی ہوئی ہو مشتہر ہوتی رہے۔ ان تمام صفات کے ساتھ شاعری بھی آتی ہو تو سبحان اللہ۔ اس ساحری کی بدولت تقریر و تحریر میں اور جذبہ آفرینی ہو سکتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ سب اوصاف موجود ہوں جو مجموعی طور پر سیاسی اقتدار کے ضامن ہیں اور پھرایسا شخص حصول اقتدار کی تگ و تاز میں شامل نہ ہو تو نہایت تعجب انگیز بات ہے۔ اس نظم میں بے چارے اقبال نے ریاکاری اور گناہوں کا بھاری پلندہ اپنی گردن پر رکھ لیا ہے۔ جس طرح کوئی مرد معصوم ناکردہ گناہ اپنی قربانی سے گناہ گاروں کے اعمال کا کفارہ بن جائے۔ اس تمام نظم میں حقیقی اقبال کہیں بھی نہیں۔ اقبال کے کلام میں جا بجا یاس کا اندھیرا بھی ہے اور امید کی افق تابی بھی۔ لیکن وہ زندگی کے لامتناہی ممکنات کا معتقد ہے اس لیے حاضر کی تیرہ بخشی اس کو مستقبل سے نا امید نہیں کرتی۔ اس کی یاس انگیز نظموں میں بھی آخری حصے میں امید یاس پر غالب آ جاتی ہے۔ زندگی امید و بیم کی مسلسل کشاکش کا نام ہے۔ کبھی اقبال کو یہ خوشگوار احساس ہوتا تھا کہ میں نے اس خستہ و خفتہ ملت میں نئی روح پھونک دی ہے اور میری نوا سے مردے زندہ ہوگئے ہیں لیکن پھر گرد و پیش نظر ڈالتا تھا تو نفوس میں کہیں حیات انگیز انقلاب دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر مایوسی کی ایک لہر دل میں اٹھتی تھی۔ اس نے اپنے کلام کے ایک مجموعے کا نام بانگ درا تجویز کیا اور قومی ترانے کے مقطع میں کہا: اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا لیکن پھر کسی دوسری کیفیت میں وہ حسرت و یاس سے کہتا ہے کہ جس کو میں آواز رحیل کارواں سمجھتا تھا وہ تو اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک تھی: تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں اور اپنی نوا گری اس کو اسی قسم کی نظر آنے لگتی ہے کہ اجڑے ہوئے گلستاں میں کسی سوکھی ہوئی شاخ پرایک بلبل نالہ گر ہے اور تاثیر کا طالب ہے کہ شاید اس کی نوا سے باغ میں پھر بہار عود کر آئے: میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے ٭٭٭ عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک یاس کی ان ہنگامی لہروں کے باوجود اقبال کا پیام، پیام امید ہے۔ اس کے نزدیک نہ صرف ملت اسلامیہ بلکہ تمام نوع انسان کا مستقبل نہایت درخشندہ ہے اور فطرت ایک نیا آدم تعمیر کرنے میں کوشاں ہے۔ جس کی بدولت علم و عشق کی آمیزش سے ایک نیا عالم ظہور میں آئے گا۔ تقسیم برصغیر سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک ہیجان پیدا ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اب سیاست محض کھیل نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اسی دور میں اقبال نے عملی سیاست میں قدم رکھا ورنہ وہ تمام عمر سیاست کی ابلیسانہ بساط شطرنج سے دور رہے۔ سیاست میں جس قسم کی تگ و دو اور جوڑ توڑ کرنے پڑتے ہیں وہ طبعاً اس کے لیے موزوں نہ تھے۔ سیاسی رہنما اورہیجان آفرین لیڈر ان کو بے عمل کہتے تھے اور کابل ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتے۔ جس زمانے میں اقبال انارکلی میں رہتے تھے ایک روز محمد علی اور شوکت علی ان کے ہاں وارد ہوئے اور کہاں کہ ظالم تو سب کو گرما کر اور جدوجہد پر آمادہ کر کے خود یہاں سکون سے بیٹھا ہے۔ یہ کیسا تساہل ہے۔ اٹھ! تو خود بھی شریک تگ و تاز ہو اس کے جواب میں علامہ نے انہیں ایک نہایت لطیف جواب دیا کہ بھائی تم اس حقیقت سے ناواقف معلوم ہوتے ہو کہ میں قوم کا قوال ہوں۔ قوال گاتا ہے تو محفل میں لوگوں کو وجد آتا ہے اور سروپا کا ہوش نہیں رہتا تم نے کبھی کسی قوال کو بھی دیکھا ہے کہ وہ خود بھی وجد میں آ کر الٹنا پلٹنا شروع کر دے۔ اگر قوال ایسا کرے تو قوالی ہی ختم ہو جائے۔ تم لوگ جاؤ جوش و مستی میں حال کھیلو قوال سے یہ توقع نہ رکھو۔ لوگوں کے طعنے سن سن کر اقبال نے بھی اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا کہ میں گفتار کا غازی ہوں کردار کا غازی نہیں: دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا وہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا اقبال تن آسان ہو تو ہو من آسان نہیں تھا۔ من میں تو وہی سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی اور دل و جگر سے شعلے اٹھنے کے ساتھ آتش نوائیـ: پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے جہاد صرف تلوار ہی سے نہیں ہوتا بلکہ قلم اور زبان اور افکار و جذبات سے بھی ہوتا ہے۔ اور جب تک نفوس میں انقلاب پیدا نہ ہو از روے قرآن کسی قوم کی حالت نہیں بدل سکتی۔ اقبال اس بلند سطح پر مجاہد تھے۔ لیکن عام لوگوںکے نزدیک جسے سیاست کہتے ہیں اس ابلیسانہ بازی کے کھلاڑی نہ تھے۔ ایک صاحب نے خط میں یہی تقاضا کیا کہ آپ عملی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ اس کے جواب میں جو اشعار کہے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال اپنی طبیعت کے انداز اور اپنے وظیفہ حیات سے پوری طرح واقف ہو گیا تھا۔ اب لوگوںکے تقاضے اور طعنے اس کواپنے مخصوص مشن سے ہٹانہ سکتے تھے۔ ایک خط کے جواب میں ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز حصول جاہ ہے وابستہ مذاق تلاش ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش یہ عقدہاے سیاست تجھے مبارک ہوں کہ فرض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش ہواے بزم سلاطین دلیل مردہ دلی کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش گرت ہواست کہ با خضر ہم نشیں باشی نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش میں اور تو کے عنوان سے بانگ درا میں ایک غزل نما نظم ہے، جس میں اقبال اپنی کیفیت کا عام افراد ملت کے فکر و عمل سے مقابلہ کرتا ہے۔ یہ ان چند نظموں میں سے ہے جن میں یاس کا رنگ امید پر کسی قدر غالب معلوم ہوتا ہے۔ ملت کی موجودہ پست حالت کے مدنظر وہ اپنی کوششوں کو بے سود اور بے اثر سمجھتا ہے: نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہق رینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاک جادوے سامری، تو قتیل شیوۂ آزری فرماتے ہیں کہ کلام کا فیضان تو کسی رنگ میں مجھے بھی حاصل ہے مگر موسیٰ عمران کو جو خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور جو باطل شکن جذبہ اور انقلاب آفرین قوت اس میں پیدا ہوئی وہ مجھ میں کہاں ہے میں ابھی تک زندگی کی نمود بے بود پر مٹا ہوا ہوں اور عصر حاضر کے سحر کا اثر مجھ میں موجو ہے۔ اسی لیے میرا کلام موثر نہیں ہوتا۔ دوسری طرف عام مسلمان ہیں جو بت گر اور بت پرست ہیں۔ ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ موجود ہے لیکن عمل میں باطل معبودوں اور ہوے نفس کی پرستش ہے۔ میری خامی کی وجہ سے میرے کلام میں یہ حال ہے کہ نوا گلے اندر ہی راکھ ہو جاتی ہے۔ ادھر تیری زندگی میں کوئی نظر نہیں آتا۔ تیری ظاہری اور باطنی کیفیت برگ خزاں رسیدہ کی طرح رنگ و بو سے محروم ہے۔ کچھ اپنی کیفیت اور کچھ تیری کیفیت دیکھ کر میرا عیش غم میں اور شیرینی حیات زہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تیرے دل کو خدا نے حرم اور اپنا مسکن بنایا تھا۔ لیکن تو اس کو غیر اسلامی شعائر کے ہاتھ گرو رکھ دیا۔ اب تو جسے دین کہتا ہے وہ کافروں کی دکان سے خریدا ہوا مال ہے: میں نواے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو میں حکایت غم آرزو، تو حدیث ماتم دلبری مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفس عدم ترا دل حرم، گرو عجم، ترا دیں خریدۂ کافری اگر میری یاد غلطی نہیں کرتی تو یہ نظم ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء کے لگ بھگ زمانے میں کہی گئی اور انہیں دنوں میں علامہ نے مجھ سے یہ ذکر کیا کہ قاآنی کے قصائد کا ترنم مجھے بہت دلکش معلوم ہوتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہا سی انداز کے کچھ اشعار لکھوں۔ یہ نظم غالباً اس خواہش کا اولیں ثمر تھی۔ بعد میں فارسی کے کلام میں بعض نظموں میں اس ترنم اور صنعت ترصیع میں بہت ترقی ہو گئی اور وہ نظمیں ایسی ہیں کہ قا آنی کے ترنم کی سطح پر پہنچ گئی ہیں، اگرچہ معانی کے لحاظ سے قاآنی کے مقابلے میں اقبال کے اشعار میں بہت زیادہ ثروت افکار، بہت زیادہ گہرائی اور بلندی ہے۔ اقبال کی بعض غزلوںمیں حافظ کا بھی رنگ ہے اور جا بجا بیان کے سانچے بھی بعض فارسی اساتذہ کا فیضان ہیں۔ لیکن معانی نظریات حیات میں اقبال عجمیت سے کوسوں دور ہو گیا ہے۔ ساغر و خم و مینا پرانے ہیں لیکن ان میں شراب ایک دوسرے قسم کی ہے۔ اقبال کو اس کا واضھ احساس تھا کہ میرے ساز پر عجمی مضراب تاروں کو جنبش دیتی ہے، مگر کیا کروں یہ بیان اور طبیعت کی مجبوری ہے۔ اسی لیے کہتا ہے کہ میں اس کا ستم رسیدہ ہوں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس میں سے جو نوا نکلتی ہے وہ اسلامی ہوتی ہے۔ لطافت بیان اقبال کو عجمی یعنی فارسی شاعروں سے جو کچھ حاصل ہوا اس کا اقرار اقبال نے کئی جگہ کیا ہے۔ وہ اس کو اپنی طبیعت کا جزو لاینفک سمجھتا ہے، مگر کلام کی اس ہم آہنگی کے باوجود نئے نظریات حیات اشعار میں ڈال دیتا ہے جن سے فارسی شاعری زیادہ تر عاری تھی: مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ نغمہ ہائے عجم رہا وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی اس کا مقابلہ غالب کی طبیعت سے کیجئے جو کہتا ہے میری نہاد عجمی ہے، اس لیے دین عربی میرے دل و دماغ میں سرایت نہیں کرتا: رموز دین نہ شناسم، عجب مدار زمن کہ دین من عربی و نہاد من عجمی است اقبال اپنی طبیعت میں کئی قسم کے عناصر پاتا ہے عجمی عنصر کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ لیکن اقبال ایرانی تو نہ تھا ہندی نژاد تھا۔ پنجابی ہو یا اردو، ہندوستان ہی کی زبان بولتا اور اردو کا قادر الکلام شاعر تھا۔ ایرانی اثر کے علاوہ ہندی عوامل اور محرکات بھی اس کی طبیعت میں موجود تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ورود اور اس وطن کے باشندوں سے میل جول کی بدولت اردو زبان پیدا ہو گئی۔ جس کے اندر قوت اظہار فارسی سے کچھ کم نہیں۔ یہ زبان فارسی اور عربی سے بھی فیض یاب ہے اور ہندی بھاشا سے بھی۔ زبان کا اثرتہذیب اور نظریہ حیات پر بھی پڑتا ہے، بلکہ وہ انداز حیات کی ترجمان ہوتی ہے، لیکن مسلمان کی طبیعت اس کی معاشرت اور اس کے دینی افکار و شعائر میں لازماً عربی اور اسلامی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں ایک نئی تہذیب، نئی حکمت فرنگی تسلط کی بدولت پیدا ہوئی اور پہلے عناصر سے مل کر اس نے ایک نیا مرکب بنا لیا۔ اس نئے عنصر کا، جو اس معجون مرکب میں داخل ہوا۔ اقبال مداح بہ کم ہے اور مخالفانہ نقاد بہ زیادہ۔ زیادہ تر اس کو مخرب ملت ہی سمجھتا ہے، مگر اقبال کی اپنے متعلق صاف گوئی کی داد دینی چاہیے کہ علی الاعلان اپنی طبیعت کا تجزیہ کرتا ہے اور اچھے برے تمام عناصر کو بیان کر جاتا ہے۔ مغربی تعلیم کی وجہ سے اقبال کے استدلال میں اکثرمغربی فلاسفہ کا اثر نمایاں ہو جاتا تھا۔ نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے جب علمی بحث کرتے تھے تو غیر شعوری طور پر انگریزی زبان استعمال کرنے لگتے تھے۔ ان کے اسلام پر انگریزی خطبات میں بھی مغربی مفکرین کا رنگ موجود ہے، اسی لیے بعض قدامت پسند مسلمانوں کو یہ خطبات پسند نہیں آئے۔ اقبال اس انداز استدلال کا دلدادہ نہ تھا۔ لیکن ان خطبات میں جو گروہ اس کے مخاطب تھے ان کے لیے طرز استدلال اسی انداز کا ہو سکتا تھا۔ ’’ کلمو علی قدر عقولہم‘‘ اقبال کی اپنی فطرت وجدانی تھی، استدلالی نہ تھی۔ اس لیے اس وجدان کے بیان میں استدلال کو وہ آلودگی ہی سمجھتا تھا۔ مگر دیکھئے ان تمام عناصر کو کس اختصار اور خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے: کوئی دیکھے تو میری نے نوازی نفس ہندی، مقام نغمہ تازی نگہ آلودۂ انداز افرنگ طبیعت غزنوی قسمت ایازی اقبال نے جس عشق کی تلقین کی وہ مجاہدانہ اور انقلاب آفرین ہے۔ اس کا عشق جدوجہد کا پیغام ہے، اس لیے اپنی طبیعت کو غزنوی کہتا ہے۔ محمود غزنوی کے مقاصد کے متعلق خواہ کچھ ہی رائے قائم کی جائے، اسے غازی سمجھا جائے یا محض چنگیز خان اور نپولین کی طرح ایک فاتح، لیکن اس کی بے پناہ ہمت کی تو داد دینی پڑتی ہے۔ ایسی طبیعت کے ساتھ اقبال کے لیے ملک و ملت کی سیاسی غلامی سوہان روح تھی۔ اقبال عمر بھر اپنی قوم کو اور اپنے آپ کو اس غلامی سے نجات دلانے میں کوشاں رہا۔ پاکستان کا قیام انہیں کوششوں کا نتیجہ تھا۔ افکار اور جذبات اقبال نے پیدا کیے اور ان کو عملی سیاست کا جامہ ایک دوسرے انداز کے ماجدہ نے پہنایا۔ اقبال کے اکثر نقاد اس پر بحث کرتے ہیں کہ ا س کی نظر ماضی پر جمی ہوئی ہے یا مستقبل پر۔ محض ماضی پر نظر جمانے والے قدامت پرست اور رجعت پسند کہلاتے ہیں اور بعض ترقی پسند کہلانے والوں نے اقبال کو ایسا ہی سمجھا ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے دور اولین کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ لیکن زمانہ تیرہ سو برس کی رجعت قہقری کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن اقبال کے کلام کا ایک بڑا حصہ جدت پسندی اور جدت آفرینی پر مشتمل ہے۔ وہ تقلید کی شدت سے مخالفت کرتا ہے اور مقصد محض کو بے بصر سمجھتا ہے۔ اس کے اندر ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنے کی شدید آرزو ہے۔ اس کا نظریہ حیات ارتقائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی نئے انواع اور نئے انداز پیدا کرتی ہے اور جہاں یہ نو آفرینی نہ ہو وہاں زندگی جامد ہے۔ وہ زندگی میں شب و روز کی تکرار سے بھی بے زار ہے اور خدا سے کہتا ہے: طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی قدامت پسندی اور ارتقاء بظاہر متضاد معلوم ہوتے ہیں لیکن اقبال کو ان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ وہ اسلام کو ایک ترقی پسند دین سمجھتا ہے اور خالص اسلام کے نمونے اس کو طلوع اسلام ہی کے دور میں نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ مسلمان سے کہتا ہے کہ ترقی کرنا چاہتے ہو تو اس دور اولین کے اقدار اور طرز فکر و عمل کا مطالعہ کرو۔ پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھو۔ آگے بڑھنے کے لیے کوئی نصب العین چاہیے۔ لامتناہی ترقی کا نصب العین اسلام نے ہی پیش کیا تھا۔ اس کی بعض ظاہری صورتیں تو واپس نہیں آ سکتیں او رنہ اقبال ان تمام صورتوں کو واپس لانا چاہتا ہے۔ اس کا مقصود روح اسلام ہے، جس نے ایک زمانے میں وہ صورتیں پیدا کی تھیں۔ اگر پھر وہی روح عود کر آئے تو نئی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، اس لیے وہ ایک کھوئی ہوئی چیز کی مسلسل جستجو کرتا رہتا ہے۔ اس کے نزدیک انقلاب کی آرزو اس کے منافی نہیں: میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ میری تمام سرگذشت کھوئے ہووں کی جستجو ایک دوسری نظم میں اپنے مسلک کو ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے: دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں زمانہ حال میں مسلمانوں کے اکابر میں آغا خان بہت ترقی پسند شمار ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اس قدر ترقی پسند ہیں کہ عامتہ المسلمین انہیں یا موقع پرست سمجھتے ہیں یا مغرب زدہ۔ ایک مخصو ص عقائد کی محدود سے جماعت کے امام ہونے کی حیثیت سے علمی اور نظری اعتبار سے، تو ترقی پسندی ان سے کوسوں دور ہونی چاہیے۔ لیکن زندگی کی منطق کچھ اور ہی ہے وہ رسوم و رواج میں تبدیلی اور تنوع چاہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اخبار میں شائع شدہ ایک بیان میں بڑے زور سے اس عقیدے کی تلقین کی اور تمام عالم اسلامی کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر اسلام کی بناء پر تہذیب و تمدن میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو فقط طلوع اسلام کے دور کو دیکھو اور اسی روح کی اساس پر زندگی کی نئی تعمیریں قائم کرو۔ تاریخ اسلام میں بعد کی صدیوں سے اگر کوئی نصب العین حاصل کرنا چاہو گے، تو دگدا میں پڑ جاؤ گے۔ معلوم ہوا کہ کسی انقلاب پسند اور ترقی پسند مسلمان کے لیے بھی ماضی کے آئنے میں مستقبل کو دیکھنا کوئی متضا دبات نہیں۔ اقبال نے اپنی طبیعت کے ایک اور امتیازی عنصر کو بھی کئی جگہ بیان کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آفرینش فکر اور فن لطیف کے لیے خارجی محرکات لازمی ہیں اور جب تک ماحول میں کوئی تقاضا موجود نہ ہو، طبیعتوں کے اندر سے نئی باتیں نہیں ابھرتیں۔ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انقلاب ماحول کے تغیر سے پیدا ہوئے ہیں یا غیر معمولی انسانوں کے نمودار ہونے سے۔ اشتراکی فلسفہ ماحول کو اہم اور مقدم سمجھتا ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ معاشی زندگی میں تبدیلی سے علوم و فنون اور مذہب و اخلاق بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ انبیا ہوں یا مصلحین، سب معاشی تغیرات کی پیداوار ہیں۔ اقبال اس کے برعکس اور کار لائل کا ہم نوا ہو کر، زندگی کو بدلنے والے اور آگے بڑھانے والے عوام میں غیر معمولی انسانوں کو موثر عامل سمجھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اقبال کو ماحول نے پیدا کیا یا اقبال نے ایک نیا ماحول پیدا کیا۔ اقبال کا اپنے متعلق یہ احساس ہے کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ میرے باطن میں ابھرا ہے۔ پنجاب کے یا ہندوستان کے عام ماحول نے، جس سے مسلمان کم و بیش ایک ہی طرح متاثر تھے، نہ اقبال سے پہلے کوئی ایسا شاعر پیدا کیا اور نہ اقبال کے بعد۔ اردو شاعری کو ہندوستان کے اہل زباں او روہاں بھی خاص شہروں کے لوگ اپنا اجارہ سمجھتے تھے اور حالی جیسے شاعر پر بھی طعنہ زنی کرتے تھے کہ وہ دہلی کا نہیں بلکہ پانی پت کا باشندہ ہے۔ اس سے جل کر حالی نے کہا تھا: حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو اہل پنجاب کو تو بھلا یہ لوگ کس شمار میں لاتے، لیکن دہلی اور لکھنو کوئی اقبال پیدا نہ کر سکے۔ سرسید کی تحریک بڑے زور کی اصلاحی تحریک تھی۔ سرسید کے رفقا نے مسلمانوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کے لیے بصیرت افزاء چیزیں چھوڑ گئے۔ اس تحریک نے حالی کی تو معمولی غزل گوئی سے نکال کر قومی اور حکیمانہ شاعری کی طرف رہنمائی کی، لیکن وہاں بھی ادیبوں اور شاعروں کے ہجوم میں سے کوئی اقبال پیدا نہ ہو سکا۔ اس لحاظ سے اقبال کا یہ خیال غلط نہ تھا کہ میرے نظریات اور جذبات اور میرے کلام میں جو امتیازی خصوصیت ہے وہ میرے باطن میں سے ابھری ہے۔ میں اس کے لیے خارجی ماحول کا نہ محتاج تھا اور نہ رہین منت: اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا یہ شعر نشاط آور و پر سوز و طربناک میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک غالب کہتا ہے: چاک مت کر جیب بے ایام گل کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے لیکن حضرت اقبال خارجی بہار کے اشاروں پر نہیں بلکہ باطنی وجدان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ میں دست صبا کا محتاج کیوں ہوں، میری فطرت خود نسیم سحری ہے: فطرت مری مانند نسیم سحری ہے رفتار ہے میری کبھی کبھی تیز پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز اقبال کو طبعاً امارت کے ٹھاٹھ پسند نہ تھے۔ اگر وکالت کے پیشے کی طرف پوری توجہ کرتے تو بہت سی دولت کما لیتے، لیکن زر اندوزی ان کا مقصود نہ تھا۔ رہائش کا طرز نہایت سادہ تھا۔ خورو نوش بھی سادہ، مکان میں آرائش کا سامان مفقود۔ کچھ طالب علمانہ اور قلندرانہ سی زندگی تھی۔ اسے درویشی یا غریبی تو نہیں کہہ سکتے، لیکن سادگی ضرور تھی۔ طبیعت میں اسباب حیات اور ماحول کے متعلق ایک قلندرانہ بے پروائی تھی۔ اقبال نے جا بجا قلندری کا ذکر کیا ہے۔ یہ کوئی بناؤٹ کی بات نہ تھی بلکہ اس کی فطرت کا میلان تھا۔ اپنے فرزند جاوید کو بھی نصیحت کرتے ہیں: مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر آرائش و زیبائش کے سامان اور امیرانہ طرز زندگی کسی حد تک خودی کو بیچ کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ کہیں دروغ، کہیں خوشامد، کہیں دنیا داری کے دام فریب، اخلاق اور روحانیت بلکہ علم و فن میں بھی اپنے کمال کو ملوث ہونے سے بچانے کے لیے قلت احتیاج لازمی چیز ہے۔ احتیاج میں اضافہ کرنا بزدلی اور مکاری پیدا کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی خودی کو اپنی سادہ زندگی کی بدولت بچایا۔ میری میری اور امیری زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کے درمیان نظر آتی ہے جو یا تو دین سے معرا ہیں اور یا دین اور دولت کے درمیان عقل کی حیلہ گری سے ایک سمجھوتا قائم کر لیا ہے۔ر وحانی لحاظ سے تو دنیا کے اکثرت دولت مند مردان فرومایہ ہی نظر آتے ہیں۔ اس لیے تاریخ ادیان پر نظر ڈالو تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر روحانی پیشوا درویش تھا۔ اقبال بھی کہتا ہے: اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے میں کر نہیں سکتا گلہ درد فقیری لیکن یہ بتا تیری اجازت سے فرشتے کرتے ہیں عطا مرد فرو مایہ کو میری؟ ہندوستان میں فرنگی حکومت کے دوران میں کسی شخص کو جاہ و مال حاصل نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ حکام کی خوشامد نہ کرے اور مال کو قرب حکام کا ذریعہ نہ بنائے۔ خوشامد سے عہدے اور خطاب ملتے تھے۔ کسی شخص کے حقیقی کمال کی کچھ پرسش نہ تھی۔ ایسی حالت میں اہل دل کے لیے درویشی اور بھی زیادہ لازم ہو جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو اقبال نے اس قطعے میں بیان کیا ہے: فرنگ آئین رزاقی بداند بایں بخشد ازو وا می ستاند بہ شیطان آنچناں روزی رساند کہ یزداں اندراں حیراں بماند اقبال جو اپنے کلام میں خودی کا پیامبر دکھائی دیتا ہے وہ اپنی زندگی میں بھی نہایت درجہ خود دار تھا۔ اسے اپنی خود داری کا بڑا پاس اور گہرا احساس تھا۔ سر اکبر حیدری نے جو اقبال کی دوستی کا دم بھرتے تھے، لیکن حد درجے کے دنیا دار تھے، یہ دیکھ کر کہ اقبال مفلس ہو گیا ہے، اس کو نظام کے توشہ خانے سے ایک ہزار روپیہ کا چیک بھجوا دیا۔ یہ حقیقت میں ایک خیراتی فنڈ میں سے دیا گیا تھا۔ اقبال کی خود داری کو اس سے نہایت ٹھیس لگی وہ چیک واپس کر کے کچھ اشعار لکھ دیے کہ خدا اگر اپنی خدائی کی زکوٰۃ نکالتے ہوئے مجھے شکوہ پرویز بھی عطا کرے تو میں اس کو ہر گز نہ قبول کروں: غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول جب کہا اس نے، یہ ہے میری خدائی کی زکوٰۃ اقبال رفتہ رفتہ رہین عشق اور مست خودی ہو کر ہر اس چیز سے بے نیاز ہو گیا جس کا ماخذ یا مظہر عشق نہ ہو ۔ اس کیفیت کے متعلق اس نے جو کچھ کہا اور وعدہ کیا ہے، اس میں قطعاً کوئی تعلی یا تصنع نہیں ہے۔ جو اقبال کے خلوص سے پوری طرح آشنا نہ ہو وہ اسے شاعرانہ تعلیٰ سمجھے گا:ـ جہاں از عشق و عشق از سینہ تست سرورش از مے دیرینہ تست جز ایں چیزے نمیدانم ز جبریل کہ او یک جوہر از آئینہ تست ٭٭٭ مرا ایں سوز از فیض دم تست بتاکم موج مے از زمزم تست خجل ملک جم از درویشی من کہ دل در سینہ من محرم تست اقبال نے رومی کی مریدی محض اس لیے اختیار کی کہ وہاں اس کو عشق کی وہ کیفیت نظر آئی، جس کا وہ طالب تھا اس کے عشق میں بصیرت بھی ہے اور حمیت بھی اور اس کا مقصود خدا سے ہم آہنگی پیدا کر کے خودی کو خدا سے ہم کنار کرناہے۔ یہ عشق خدا طلبی میں ارتقاء کوش ہو جاتا ہے۔ اپنی بابت اقبال نے بہت سی باتیں کہی ہیں۔ کہیں اپنی خوبیاں بتائی ہیں اور کہیں خامیاں۔ لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر وہ جو کچھ وہ گیا اور جس کا اعلان اس نے ببانگ دہل کرنا شروع کیا، وہ اس عشق میں غوطہ زنی تھی جس کی طرف عارف رومی نے اس کی رہنمائی کی۔ آخر عمر میں اقبال کو یہ قویٰ احساس تھا کہ میں رومی کا ہم رنگ ہو گیا ہوں اور اس دور میں میر امشن وہی ہے جو اپنے زمانے میں رومی کا مشن تھا: بکام خود دگر آں کہنہ مے ریز کہ با جامش نیرزد ملک پرویز ز اشعار جلال الدین رومی بہ دیوار حریم دل بیاویز ٭٭٭ بگیر از ساغرش آں لالہ رنگے کہ تاثیرش دہد لعلے بہ سنگے غزالے را دل شیرے بہ بخشد بشوید داغ از پشت پلنگے ٭٭٭ سراپا درد و سوز آشنائی وصال او زباں دان جدائی جمال عشق گیرد از نے او نصیبے از جلال کبریائی ٭٭٭ گرہ از کار ایں ناکارہ وا کرد غبار رہگذر را کیمیا کرد نے آں نے نوازے پاکبازے مرا با عشق و مستی آشنا کرد ٭٭٭ ز رومی گیر اسرار فقیری کہ آں فقر است محسود امیری حذر زاں فقر و درویشی کہ از وے رسیدی بر مقام سر بزیری ٭٭٭ مے روشن ز تاک من فرو ریخت خوشا مردے کہ در دامانم آویخت نصیب از آتشے دارم کہ اول سنائی از دل رومی بر انگیخت ٭٭٭ اقبال کے کلام میں اور بھی بے شمار اشعار منتشر ملیں گے جن میں وہ اپنی طبیعت کا جائزہ لیتا ہے۔ اس باب کو ختم کرتے ہوئے ہم اس کے اور اشعار درج کرتے ہیں۔ دیکھئے کہ ایک ہی شعر میں اپنے کتنے صفات بیان کر ڈالے ہیں۔ اقبال کو قریب سے دیکھنے والا کوئی شخص اس کا انکار نہ کر سکے گا کہ جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے: پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند ٭٭٭ پندرھواں باب گلشن راز جدید اس سے قبل محمود شابستری کی کتاب ’’ گلشن راز‘‘ کا ذکر آ چکا ہے۔ اس کتاب میں فلسفے و تصوف سے پیدا شدہ سوال و جواب منظوم ہیں۔ اس کے متعلق روایت یہ ہے کہ محمود سے ایک شخص نے ایک مجلس میں کچھ سوالات پوچھے۔ محمود نے وہیں مختصراً ان کا جواب دیا، لیکن بعد میں ان کو زیادہ تشریح اور توضیح سے نظم میں بیان کیا۔ محمود کے زمانے میں فلسفے اور تصوف اور علم الکلام کے مسائل علماء کے لیے میدان مناظرہ بن گئے تھے۔ ’’ گلشن راز‘‘ میں جو ذات و صفات الٰہیہ اور حیات و کائنات کے متعلق نظریات ہیں ان میں سے اکثر اقبال کے نزدیک روح اسلام کے منافی ہیں اور ان میں غیر اسلامی تصوف اور فلسفے کو اسلام کے رنگ میں پیش کرنے کی کوش کی گئی ہے۔ مگر یہ کتاب ایک گروہ کے نزدیک آج تک مستند شمار کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے متصوفانہ افکار کسی حد تک اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اقبال نے یہ ضروری سمجھا کہ جن سوالوں کے جوابات محمود نے اپنے زاویہ نگاہ سے دیے ہیں، انہیں سوالوں کے جواب اب اس بصیرت سے دیئے جائیں جو اقبال کو قرآن کریم اور حیات نبویؐ سے حاصل ہوئی۔ گلشن راز جدید میں علم اور عشق اور مقصود حیات کو ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ گلشن راز جدید کا مطالعہ کرنے والوں کو چاہیے کہ پہلے محمود شابستری کے ’’ گلشن راز‘‘ پر اچھی طرح نظر ڈال لیں تاکہ اقبال کے افکار اور نظریات کا موازنہ اور مقابلہ ہو سکے۔ تمہید میں اقبال نے مشرق کی عقلی اور روحانی موت پر اظہار تاسف کیا ہے۔ وہی مشرق جو ادیان عالیہ کی جنم بھوم اور اس کا گہوارہ تھا اور جسے اب بھی اپنی روحانیت پر فخر ہے، اس کی کیفیت اب یہ ہے کہ اس کے تن کے اندر من نظر نہیں آتا۔ اس میںکوئی زندگی نہیں۔ زندگی کی ایک تصویر ہے جس میں جان اور حرکت نہیں۔ اب اس مشرق میں محمود کے نظریات نئی روح نہیں پھونک سکتے۔ زمانے کے انداز بدل گئے ہیں، اس کے ساتھ تفکر کے ساز بھی بدلنے چاہئیں: ز جان خاور آں سوز کہن رفت دمشق واماند و جان او زتن رفت چو تصویرے کہ بے تار نفس زیست نمی داند کہ ذوق زندگی چیست دلش از مدعا بیگانہ گردید نے او از نوا بیگانہ گردید بطرز دیگر از مقصود گفتم جواب نامہ محمود گفتم تصوف کا زور شور فتنہ تاتار کے بعد نظر آتا ہے اور بعض مفکرین نے اس کا سبب یہی بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تہذیب، ان کا تمدن، ان کے علوم و فنون ان کی سلطنتوں کا جاہ و جلال، سب اس عالم گیر غارت گری کے سیلاب میں بہہ گئے۔ اہل دل اور اہل فکر دنیا سے مایوس او ربیزار ہو گئے اور مسلمانوں کے اذہان نے عالم کی اس بے ثباتی کو دیکھ کر دل کی دنیا میں پناہ لی اور طبیعتیں اس طرف آ گئیں کہ: گر گریزی با امید راحتے ہم درآں جا پیشت آید آفتے ہیچ کنجے بے دو و بے دام نیست جز بخلوت گاہ حق آرام نیست جلوت سے جب مایوسی ہوئی تو خلوت میں پناہ ڈھونڈی: ستم است اگر ہوست کشد، کہ بہ سیر سرو و سمن در آ تو ز غنچہ کم نہ دمیدۂ در دل کشا بہ چمن در آ یہ تمام تباہی عارف رومی اور شمس تبریزی کی آنکھوں کے سامنے واقع ہوئی۔ محی الدین ابن عربی کا زمانہ بھی یہی ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ ان کی آنکھوں نے جو عالم اسلام کی تباہی دیکھی تھی اور جس کی وجہ سے اس زمانے میں خاص قسم کے نظریات حیات پیدا ہوئے، میرے سامنے اس سے کچھ کم انقلاب پیدا نہیں ہوا۔ گو اس انقلاب کی کیفیت مختلف ہے۔ ہر ظلمت انگیز انقلاب کے بعد ایک نیا آفتاب طلوع ہوتا ہے اور اختلاف احوال سے انسان میں ایک نئی نگاہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ نئی نگاہ خدا نے مجھ میں پیدا کی ہے اور میں اس بصیرت کی بدولت قدیم سوالات کے نئے جوابات پیش کرتا ہوں۔ میں اس بصیرت کو شعر کا جامہ پہناتا ہوں تاکہ بیان دلنشین ہو جائے، لیکن وہ شخص بڑا ظالم اور بدیخت ہو گا جس نے مجھے اس کی وجہ سے فقط شاعر سمجھ لیا۔ شاعری میرا مقصود نہیں ہے۔ اقبال کی قسم کی شاعری کے متعلق ایک اور شاعر کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ: مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم وراے شاعری چیزے دگر ہست ٭٭٭ گذشت از پیش آں دانائے تبریز قیامت ہا کہ رست از کشت چنگیز نگاہم انقلابے دیگرے دید طلوع آفتابے دیگرے دید نہ پنداری کہ من بے بادہ ستم مثال شاعراں افسانہ بستم نہ بینی خیر ازاں مرد فرو دست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ محض فن یا فلسفہ نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں او ردل کی خلوتوں سے نکلی ہوئی نوا ہے: دمے در خویشتن خلوت گزیدم جہانے لا زوالے آفریدم ’’مرا زیں شاعری خود عار ناید کہ در صد قرن یک عطار ناید‘‘ اقبال کہتا ہے کہ محمود شابستری کے جوابات میں تو خودی کی فنا کی تعلیم ہے، میرا جواب اس کے برعکس ہے۔ مجھ کو خدا نے اسرار خودی سے روشناس کیا ہے۔ اسی خودی کی استواری سے حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے۔ انسانی زندگی کا مقصود خدا میں جذب ہو کر فنا نہیں بلکہ خدا کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ میرے پاس فنا کی بجائے بقا کی تعلیم ہے اور یہی تعلیم مشرق کے تن مردہ اور روح افسردہ میں جان پیدا کرے گی: بجانم رزم مرگ و زندگنی است نگاہم بر حیات جاودانی است ز جاں خاک ترا بے گانہ دیدم باندام تو جان خود میدم مرا ذوق خودی چوں انگبیں است چہ گویم واردات من ہمین است نخستیں کیف او را آزمودم دگر بر خاوراں قسمت نمودم خودی کے احساس اور عرفان میں ایسی لذت ہے کہ اگر جبریل بھی اس سے آشنا ہو جائے تو وصال جاوداں کی بجائے اس فراق کو برقرار رکھنے کی آرزو کرے جو ناز و نیاز اور سوز و گداز پیدا کرتا ہے۔ یہی کیفیت آدم کو ملائکہ سے افضل بناتی ہے۔ جبریل پکارنے لگے کہ: تجلی را چناں عریاں نخواہم نخواہم جز غم پنہاں نخواہم گذشتم از وصال جاودانے کہ بینم لذت آۃ و فغانے مرا ناز و نیاز آدمے دہ بجان من گداز آدمے دہ اس تمہید کے بعد پہلا سوال تفکر کے متعلق ہے۔ قرآن نے کبھی تفکر پر بہت زور دیا ہے۔ یہ تفکر یا کائنات و حیات کی حکمت پر غور و خوض کیا چیز ہے۔ بعض لوگ تفکر کو حقیقت نارس اور گمراہ کن تصور کرتے ہیں مگر قرآ ن اس کوطاعت و عبادت قرار دیتا ہے۔ تفکر کی ماہیت میں یہ تضاد تو نہیں ہو سکتا۔ ذرا اس گتھی کو سلجھاؤ کہ کس قسم کا تفکر طاعت اور کس انداز کا تعقل گناہ بن جاتا ہے۔ اقبال نے زیادہ تر اشعار عقل کی تحقیر ہی میں لکھے ہیں، اگرچہ کہیں کہیں اس کی وضاحت بھی کر دی ہے کہ محض محسوسات میں گھری ہوئی عقل جزئی ہوتی ہے اور کلیت وجود تک اس کی رسائی کا دعویٰ باطل ہوتا ہے۔ اگر انسان کی تنگ نظری اس کے عمل کو محدود نہ کر دے تو تفکر اسی حکمت تک پہنچا سکتا ہے جسے قرآن میں خدا نے خیر کثیر کہا ہے۔ غلط قسم کے متصوفانہ عقائد کی وجہ سے بعض لوگوں نے عقل و فکر کو بے کار سمجھ کر برطرف کر دیا اور خالی تاثرات سے اسرار حیات کی گرہ کشائی چاہی۔ اقبال نے اس سوال کے جواب میں صحیح تفکر کی ماہیت، اس کی قوت تسخیر اور حقیقت مطلقہ تک اس کی رسائی کو واضح کیا ہے۔ یہ تفکر وہی ہے جس کے متعلق اقبال اور مقامات پر کئی بار اس خیال کو دہرا چکا ہے کہ انسان کو کمال فقط عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے: نخست از فکر خویشم در تحیر چہ چیز است آنکہ گویندش تفکر کہ امیں فکر مارا شرط راہ است چرا گہ اطاعت و گاہے گناہ است اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہے کہ غور و فکر کی صلاحیت سینہ آدم کا نور ہے۔ اس نور کے اشعاع سے غیب و حضور ایک ہو جاتے ہیں۔ اس کی بدولت حاضر سے غیب پر روشنی پڑتی ہے اور غیب کی روشنی حاضر کو منور کرتی ہے۔ اس میں دلیل و برھان کی نار بھی ہے اور جان جبریل کا نور بھی۔ نار، نور سے الگ ہو کر حقائق کو سوخت کر سکتی ہے، لیکن نور کے ساتھ وہ زندگی کی حرارت بن جاتی ہے۔ عالم محسوس کی وابستگی سے خاک آلود ہونے کے باوجود عقل کو ان حقائق کا عرفان بھی حاصل ہو سکتا ہے جو زمان و مکان کے ماوریٰ ہیں۔ کبھی وہ زندگی کو ساکن و جامد حیثیت سے دیکھتی ہے اور کہیں اس کا دریائے بے پایاں سر بسر حرکت و تموج ہوتا ہے۔ وہ خود دریا بھی ہے اور عصاے کلیم کی طرح دریا شگاف بھی، کیوں کہ تسخیر فطرت علم کی ایک اساسی صفت ہے۔ ’’ صدائے صور و مرگ و جنت و حور‘‘ یہ سب حکمت ہی کے تمثیلی احوال ہیں۔ ابلیس و آدم، خیر و شر دونوں کی نمود اسی سے ہے۔ ایک آنکھ سے عقل باطن کا مشاہدہ کرتی ہے اوردوسری آنکھ سے ظاہر کا۔ انفس و آفاق دونوں اس کے احاطے میں ہیں۔ حقیقی معرفت ظاہر و باطن دونوں کی بیک وقت بینش سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر وہ ایک آنکھ بند کر ے تو گناہ گار ہو جاتی ہے اور اس کی بصیرت گمراہ کن بن جاتی ہے۔ عقل حواس خمسہ کے مشاہدات سے گزر کر براہ راست حقائق سے روشناس ہوتی ہے۔ تمام روزگار اس کے ضمیر اور ممکنات میں مضمر ہے، لیکن اس کا ظہور بتدریج ہوتا ہے۔ معقولات کے اندر محسوسات کی ہیئت بدل جاتی ہے: درو ہنگامہ ہاے بے خروش است درو رنگ و صدا بے چشم و گوش است درون شیشہ او روزگار است ولے بر ما بہ تدریج آشکار است زندگی نے عقل کو شکاری بنایا ہے۔ وہ ہر پست و بلند پر کمند اندازی کرتی رہتی ہے اور خود بھی اپنی مرضی سے گاہے گاہے اس کی زنجیروں میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی ترقی جاری رہے تو کونین اس کی فتراک میں بندھ جائیں۔ جب کونین کی قوتیں اس کی گرفت میں آ جائیں تو اس کی حکمت کے مالک کو موت نہیں آ سکتی۔ کونین کی صیادی کے یہ معنی ہیں کہ تسخیر آفاق کے ساتھ تسخیر نفس بھی ہو، بلکہ تسخیر نفس تسخیر آفاق پر مقدم ہے: اگر ایں ہر دو عالم را بگیری ہمہ آفاق میرد تو نہ میری بہ تسخیر خود افتادی اگر طاق ترا آساں شود تسخیر آفاق انسان حقیقت میں اس وقت آزاد ہو گا، جب وہ ظاہر و باطن او رکونین کی تسخیر کر چکے گا۔ اس دہر کہن میں عقل پھر بھی صورت گری کرے گی، لیکن انسان اپنی بنائی ہوئی صورتوں کی پرستش میں سر بسجود نہ ہو گا: خنک روزے کہ گیری ایں جہاں را شگافی سینہ نہ آسماں را گزارد ماہ پیش تو سجودے برو پیچی کمند از موج دودے دریں دہر کہن آزاد باشی بتاں را بر مراد خود تراشی اقبال کے باقی کلام سے آشنا شخص کو فوراً یہ خیال پیدا ہو گا کہ یہ سب تعریف عقل کی تو معلوم نہیں ہوتی۔ اس میں تو وہی زور شور ہے جو اقبال کے اشعار میں عشق کی توصیف میں ملتا ہے۔ اس قسم کا تفکر جو عرفانی اور مسخر کائنات ہے اس میں اور عشق میں کیا حد فاضل باقی رہ جاتی ہے۔ اس کا جواب اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں مختصراً دیا ہے اور کہیں کہیں اشعار میں بھی اس کا اشارہ ہے کہ تفکر اور اس وجدان میں، جسے اقبال عشق کہتا ہے، کوئی اساسی تضاد نہیں۔ تفکر اپنی ترقی سے عشق و وجدان کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ البتہ محسوساتی، مکانی اور جسمانی تفکر، جو ہستی کے فقط ایک پہلو پر حاوی ہوتا ہے، اس کی رسائی حقیقت مطلقہ تک نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ وجدان کے لیے حجاب اکبر بن جاتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے: چہ بحر است ایں کہ علمش ساحل آمد ز قعر او چہ گوہر حاصل آمد یہ سمندر کیا ہے کہ علم جس کا ساحل ہے اور اس سمندر میں غوطہ زنی سے کس قسم کا موتی ہاتھ آتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں اقبال نے بڑے گہرے فلسفے میں غوطہ لگایا ہے۔ اسے آسان زبان میں بھی بیان کیا جائے تو اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ ہر پڑھنے والے کے لیے قابل فہم ہو۔ بہرحال کوشش کی جاتی ہے۔ جسے ہستی کہتے ہیں اس کی ماہیت یہ ہے کہ وہ زندگی کا ایک قلزم بے پایاں ہے۔ شعور اور آگہی اس کے کنارے ہیں۔ مگر یہ کنارے، جو خود حیات آفریدہ ہیں، اس کو محدود نہیں کر سکتے۔ کوہ و صحرا ہوں یا شعور و آگہی، زندگی ان کو بناتی بھی ہے اور توڑتی بھی ہے۔ جو چیز اس کے سامنے آتی ہے وہ اس کے فیض و شعور سے منور ہو جاتی ہے۔ اس کی کیفیت باہمہ اور بے ہمہ ہے۔ خلوت پرست اور صحبت ناپذیر ہونے کے باوجود جلوت میں ہر چیز اس سے مستفید ہے۔ وہ اپنے پیدا کردہ مظاہر کو آئین میں بھی اسیر کرتی رہی ہے، جس کی بدولت اس کے مظاہر قابل فہم اور قابل تسخیر ہو جاتے ہیں۔شعور زندگی کو جہاں سے قریب تر کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ جہان شناسی زندگی میں خود شناسی پیدا کرتی ہے۔ خود زندگی کی حقیقت سے نقاب اٹھاتی ہے، لیکن نطق، جو خرد ہی کا ایک ہی پہلو ہے، ماہیت حیات کو عریاں کر دیتا ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں اس کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ زندگی کے سیرو سفر کے راستے میں ایک مقام ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ زندگی کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے۔ حیات کی باطنیت اور ماہیت نفس انسانی ہے، جو زندگی کا بھی مرکز و ماخذ ہے اور یہ زمان و مکان کا جہان بھی اس کا مظہر ہے۔ قالب از ما ہست شد نے ما ازو بادہ از ما مست شد نے ما ازو (رومی) تو سمجھتا ہے کہ جہاں مجھ سے باہر کوئی مستقل حیثیت رکھتا ہے اور دشت و یم، صحرا و کان کا وجود میرے ہونے یا نہ ہونے، یا میرے محسوس کرنے یا نہ کرنے سے بے نیاز ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ہستی ایک لحاظ سے مجھ سے آزاد ہے اور دوسری حیثیت سے یہ میری محتاج ہے: بروں از خویش می بینی جہاں را در و دشت و یم و صحرا و کاں را جہان رنگ و بو گلدستہ ما زما آزاد و ہم وابستہ ما جہان کی اپنی حقیقت جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارے احساس و ادرک میں جس طرح آتا ہے، ہمارے شعور کے سانچوں میں ڈھل کر آتا ہے۔ جسے رنگ و بو کہتے ہیں وہ ہمارے محسوسات ہیں۔ ہمارے حواس نہ ہوں تو یہ بھی نہ ہوں۔ انگریزی فلسفی لاک نے پہلے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ عالم مادی کا ایک مستقل وجود ہے جو ہمارے شعور کا رہین منت نہیں۔ لیکن رنگ و بو اور سردی گرمی وغیرہ اس اثر کا نتیجہ ہیں جو عالم مادی ہمارے حواس پر کرتا ہے۔ بعد میں المانوی فلسفی کانٹ نے اس سے بڑھ کر ایک قدم اٹھایا کہ عالم مادی کی اپنی جو ماہیت ہے وہ ہم پر کبھی منکشف نہیں ہو سکتی۔ وہ جو کچھ ہے پہلے ہمارے محسوسات کے سانچوں میں ڈھلتا ہے اور اس کے بعد علت و معلول کے معقولی سانچے میں، جو مظاہر کو آئین میں منسلک کرتے ہیں۔ گویا کائنات میں جو تنظیم دکھائی دیتی ہے وہ ہماری عقل کی آفریدہ ہے۔ نفس انسانی عالم مادی کے وجود مطلق کا تو خلاق نہیں لیکن اس کے مظاہر کا شیرازہ بند ہے۔ یہ آئیڈیلزم کا ایک نظریہ ہے جو قانون تعطیل اور زمان و مکان کو آفاقی نہیں بلکہ نفسی قرار دیتا ہے۔ نظریہ کائنات کے لحاظ سے اقبال بھی آئیڈیلسٹ ہے۔ اس جواب میں اسی نظریے کی ترجمانی ہے۔ جہان رنگ و بو گلدستہ ما زما آزاد و ہم وابستہ ما خودی او را بہ یک تار نگہ بست زمین و آسمان و مہر و مہ بست دل ما را بہ او پوشیدہ راہے ست کہ ہر موجود ممنون نگاہے ست اگر جہان کو کوئی دیکھنے والا نہ ہو تو اس کا اپنا وجود کچھ ہو گا تو سہی لیکن بے حقیقت ہو گا۔ اجرام فلکیہ ہوں یا گل و گلزار، یا قلزم و کہسار، ان کی صورتیں ہمارے شعور اور حسی ادراک نے متعین کی ہیں۔ گویا ایک لحاظ سے انسان کا نفس ان کا آفرید کار ہے: گر او را کس نہ بیند زار گرد داگر بیند یم و کہسار گردد یہ ناظر و منظور یا شاہد و مشہود کا قصہ ایک عجیب راز ہے، جہاں کا ہر ذرہ گویا زبان حال سے کہہ رہا ہے کہ ہے کوئی دیکھنے والا جو مجھے مشہود و موجود کر دے۔ انسان کے فیض نظر کے بغیر ہستی نیستی کے برابر ہے۔ جسے جہان کہتے ہیں وہ نفس انسانی کی ایک تجلی ہے۔ انسان نہ ہو تو رنگ و بو اور نور و صدا معدوم ہو جائیں۔ اقبال کی اصطلاح میں خودی صیاد ہے اور کونین اس کے نخچیر ہیں: خودی کی زد میں ہے ساری خدائی عارف رومی جو ان نظریات میں اقبال کا معلم و مرشد ہے، اس کے نزدیک تو صرف خدائی نہیں بلکہ خدا بھی انسان کی لپیٹ میں آ سکتا ہے: بزیر کنگرۂ کبریاش مردانند فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر اسی تصو رکو اقبال نے اپنے اس شعر میں ڈھالا ہے: در دشت جنون من جبریل زبوں صیدے یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ اس نظریہ علم و شہود کا لب لباب رومی کے اس شعر میں موجود ہے جس کا حوالہ پہلے آ چکا ہیـ: قالب از ما ہست شد نے ما ازو بادہ از ما مست شد نے ما ازو تیسرا سوال یہ ہے: وصال ممکن و واجب بہم چیست حدیث قرب و بعد و بیش و کم چیست امکان و وجوب کا مسئلہ فلسفے اور علم ا لکلام کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہستی باری تعالیٰ کو ذات واجب الوجود کہتے ہیں۔ یعنی اس کا ہونا لازم ہے۔ اس کے ماننے کے بغیر عقل کو چارہ نہیں۔ وہ ہستی مطلق ہے جو واجب بھی ہے اورقدیم بھی۔ اس کے ماسوا جو کچھ ہے وہ حادث ہے، یا ممکن ہے۔ یعنی اس کا ہونا لازمی نہیں۔ اس کی ہستی اور نیستی دونوں کا امکان ہے۔ اس کا جو کچھ وجود ہے وہ ہستی واجب الوجود سے مستعار ہے لیکن اشکال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ ماسوا یا حادث و ممکن کا ظہور بھی آخر ہستی مطلق اور واجب کی بدولت ہوتا ہے۔ خدا اپنی مخلوقات سے جو ممکنات پر مشتمل ہے، بالکل بے تعلق تو نہیں ہو سکتا، لیکن یہ تعلق منطقی عقل کے ادراک میں نہیں آتا۔ ہستی واجب و قدیم، حادث و ممکن سے قریب بھی ہے اور بعید بھی، یہاں وصل بھی ہے اور فراق بھی۔ از روے منطق تو وصل اور فراق میں تضاد ہے، لیکن از روے حقیقت یہ دونوں کیفیتیں بیک وقت موجود ہیں۔ ’’ نخن اقرب الیہ من حبل الورید‘‘ حقیقت مطلقہ یعنی خدا کو انسان کی شہ رگ سے زیادہ نفس انسانی سے قرب بھی ہے اور دوسری طرف خالق و مخلوق میں ناقابل عبور خلیج بھی ہے۔ اس وصل و فراق کے سمجھنے میں عقل عاجز معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے عارف رومی فرماتے ہیں: اتصالے بے تکنیف بے قیاس ہست رب الناس را با جان ناس کیفیت اور قیاس میں تو نہیں آتا لیکن یہ اتصال ایک حقیقت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جس طرح جان یا نفس اور تن میں نہایت ہی قریبی رابطہ بھی ہے، حالانکہ نفس اور بدن کیفیت و صفات کے لحاظ سے نوعیت میں مختلف ہیں: تن ز جان و جان ز تن مستور نیست لیک کس را دید جاں دستور نیست علامہ اقبال نے اپنے جواب میں اس اشکال کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ جواب کے پہلے حصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاںچوند و چندیہ تین پہلو کون سے ہیں، اس کی تشریح اقبال نے نہیں کی۔ لیکن آگے چل کر جو استدلال ہے اس سے یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ایک پہلو مادہ ہے، دوسرا زمان، تیسرا مکان علاقہ فرماتے ہیں یہ کیف و کم کا جہان ہے جسے فارسی میں چون وچند کہتے ہیں۔ خرد کا کام یہی ہے کہ وہ ایک طرف ریاضیات کی مدد سے طبعی مظاہر کو ناپے اور تولے اور دوسری طرف کمیت یا مقدار کے علاوہ کیفیت کی بھی توجیہہ کرے کہ کوئی چیز جیسی ہے، ویسی کیوں ہے؟ رنگ و بو کی کیفیات میں اختلاف کس وجہ سے ہے؟ علامہ کا ارشاد ہے کہ طوسیٰ اور اقلیدس کی عقل اسی ریاضیاتی دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ یہ زمین فرسا عقل ہے جو خاک سے حاصل کردہ آئین کا اطلاق اجرام فلکیہ اور ان کی حرکات پر بھی کرتی ہے۔ اس عقل کے پاس زمان اور مکان کے پیمانے ہیں، لیکن زمان اور مکان کوئی مستقل وجود نہیں رکھتے۔ وہ محض اضافی اور اعتباری ہیں۔ زمان و مکان محض زمین فرسا نظر کی پیداوار نہ ہوتے تو معراج کے تجزیہ نبوی میں دونوں کی نفی نہ ہو سکتی۔ اس تجربے میں لامتناہی دکھائی دینے والا مکان اور افلاک کی بے پایاں وسعتیں آنکھ جھپکنے کے لمحے میں کیسے طے ہو گئیں۔ جن تجربات کے لیے ایک طویل مدت درکار تھی وہ سمٹ کر ایک طرفتہ العین میں کیسے سما گئے۔ معلوم ہوا کہ زمان و مکان مطلق نہیں بلکہ اضافی ہیں۔ حقیقت مطلقہ میں مکان کی لامتناہی نہیں، اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ عالم خارجی بے کراں ہے۔ ہستی کی عینیت میں زیر و بالا نہیں او رہمارے زمان مسلسل کا دیر و زور بھی نہیں۔ عارف رومی نے اس شعر میں معراج کی کیفیت بیان کی ہے: عشق نے بالا نہ پستی رفتن است عشق حق از جنس ہستی رستن است یہاں جنس ہستی سے نجات پانے کے معنی زمان و مکان کے قیود سے ماوریٰ ہونا ہے۔ لامتناہی مکان کا نفس کے اندر ایک وجدانی لمحے میں سما جانا سرمد کے نزدیک بھی حقیقت معراج ہے: آں را کہ سر حقیقتش باور شد خود پہن تر از سپہر پہناور شد ملا گوید کہ برشد احمد بہ فلک سرمد گوید فلک بہ احمد درشد اسی نظریے کو اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے: حقیقت لا زوال و لا مکان است مگو دیگر کہ عالم بے کران است کران او درون است و بروں نیست درونش پست و بالا کم فزوں نیست درونش خالی از بالا و زیر است ولے بیرون او وسعت پذیر است زمان و مکان گویا ممکنات ہیں جنہیں حیات مطلقہ نے اپنے اظہار کے ایک پہلو کی خاطر پیدا کیا ہے۔ ذات واجب نے جو ممکنات اور حوادث کی کثرت پیدا کی ہے ریاضیاتی عقل اس کے شمار اور پیمائشوں میں الجھ جاتی ہے۔ حقیقت مطلقہ کا ادراک اس عقل کی رسائی سے باہر ہے۔ یہ عقل وحدت مطلقہ کو کثرت میں اور حرکت کو سکون میں تبدیل کر کے مظاہر کے باہمی روابط دریافت کرنا چاہتی ہے۔ ہستی کا باطن اس کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔ ابد را عقل ما ناسازگار است یکی از گیر و دار او ہزار است چو لنگ است او سکوں را دوست دارو نہ بیند مغز و دل بر پوست دارو خرد لامکانی حقیقت کو مکانی بنا کر سمجھتے ہے۔ اپنے ضمیر میں غوطہ زنی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نہ مکانیت کے زیر و بالا اور چپ و راست ہیں او رنہ مکان آلودہ زمانیت کے دیر و زود، ماضی و حال و مستقبل۔ اس نظریے کی فلسفیانہ تشریح علامہ اقبال کے انگریزی خطبات میں ملتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن نے بھی زمان کو اعتباری قرار دیا ہے۔ محشر میں کروڑوں برس کے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کر کے جب پوچھا جائے گا کہ تم کو دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ گزرا ہے ’’ کم لبثتم‘‘ تو وہ اس کی مدت ایک آدھ دن ہی کی بتائیں گے۔ مکان کے اضافی ہونے کا ایکا ور ثبوت بھی قرآن میں ملتا ہے، جہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا دن تمہارے ایک ہزار سال کا ہوتا ہے۔ یہ اشارہ توریت میں بھی موجود ہے۔ علامہ اقبال آگے چل کر فرماتے ہیں کہ واجب اور ممکن کا ربط عقل کو اس لیے لاینحل معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی تن اور جان کو دو متضاد ہستیاں سمجھ لیتی ہے۔ ایسا سمجھنا گمراہ کن اور حرام ہے۔ تن، جان کے احوال میں سے ایک حالت کا نام ہے، اس کا کوئی الگ مستقل وجود نہیں ہو سکتا۔ ’’ قالب از ما ہست شد نے ما ازو‘‘ تن و جاں را دو تاگفتن کلام است تن و جان را دو تا دیدن حرام است بجاں پوشیدہ رمز کائنات است بدن حالے ز احوال حیات است جسم یا جہان حقیقت مطلقہ کا خود اپنے چہرے پر ڈالا ہوا پردہ ہے۔ یہ پردہ ذوق حجاب نے نہیں بنایا بلکہ ذوق اظہار و انکشاف نے بنایا ہے: حقیقت روے خود را پردہ ہاف است کہ او را لذتے از انکشاف است واقف نہیں ہے تو ہی نوا ہاے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا (غالب) اقبال کے جواب کا لب لباب یہ ہوا کہ جسے ممکن کہتے ہیں وہ ذات مطلق یا ذات واجب الوجود کے اظہار کی ایک کیفیت ہے۔ واجب اور ممکن دو متضاد الاصل یا متضاد النوع وجود نہیں جن کا رابطہ قابل فہم نہ ہو سکے۔ ریاضیاتی عقل کے لیے تو وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے لیکن وجدانی اور عرفانی بصیرت کے لیے یہ کوئی لاینحل عقدہ نہیں۔ زندگی کی ناقابل تقسیم وحدت میں نفس و بدن کی دوئی کا فلسفہ گزشتہ دو تین سو سال میں فرنگ میں زیادہ ترقی پذیر ہوا اور اسی دوئی نے وہاں مذہب اور سیاست میں خلیج حائل کر دی۔ مذہب نفس کے لیے رہ گیا اور سیاست مادی اغراض کے لیے وقف ہو گئی۔ تن بے جان ہو گیا او رجان بے تن ہو کرنیست ہو گئی۔ ترکوں کے جدید انقلابی مصلحین تقلید فرنگ میں اسلام کے نظریہ حیات کو کھو بیٹھے اور تقلید فرنگ میں یہ روش اختیار کر لی کہ ملکی اور دینی معاملات کے دائرے الگ الگ ہیں: بدن را تا فرنگ از جان جدا دید نگاہش ملک و دیں را ہم دوتا دید خرد را با دل خود ہم سفر کن یکے ہر ملت ترکاں نظر کن بہ تقلید فرنگ از خود رمیدند میان ملک و دیں ربطے ندیدند جسے تم کائنات سمجھتے ہو وہ ذات پاک کی سرگزشت کا ایک لمحہ اور ایک حال ہے۔ اس حال کو ایک مستقل کائنات سمجھ کر اس کا تجزیہ کرنا، مردے کا پوسٹ مارٹم کرنا ہے یا علوم طبعی میںاس کے نقطے بنانا ہے۔ ایسی حکمت میں نہ موسیٰ کا ید بیضا ہے اور نہ عیسیٰ کا دم حیات بخش۔ میں اس حکمت سے اس لیے بیزار ہو گیا کہ اس میں مجھے کہیں حقیقت حیات کا نشان نہ ملا۔ میں نے اس فلسفے اور اس سائنس کو برطرف کر کے اس حکمت کو ڈھونڈا جس کا سرچشمہ وجدان ہے اور جو مادیت میں پا بہ گل یا زمان و مکان میں پا بہ زنجیر نہیںـ: حکیماں مردہ را صورت نگار اند ید موسیٰ دم عیسیٰ ندارد دریں حکمت دلم چیزے ندید است براے حکمت دیگر طپید است مجھے تو جہان کے باطن میں ایک انقلاب انگیز اور احوال خیز حیات ہی حیات نظر آتی ہے۔ ایک مسلسل ارتقاء اور مسلسل خلاقی ہے: من ایں گویم جہاں در انقلاب است درونش زندہ و در پیچ و تاب است تم نے خرد کے دھوکے میں آ کر اپنے نفس کو لامتناہی عالم زمانی و مکانی کی کلیت کا ایک جزو سمجھ لیا ہے، لیکن اپنے ضمیر میں غوطہ لگاؤ تو تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ جزو اس خارجی کل سے افزوں ہے: در جہانی و از جہاں بیشی ہمچو معنی کہ در بیاں باشد (انوری) در آں عالم کہ جزو از کل فزوں است قیاس رازی و طوسیٰ جنون است لیکن یہ مظاہر پیما عقل بھی بالکل بے کار نہیں۔ زندگی نے اس کو بھی خاص ضرورتوں کے لیے پیدا کیا ہے کچھ عرصہ اس سے بھی آشنائی پیدا کرنی چاہیے۔ رازی اور طوسیٰ اور ارسطو اور بیکن کو تھوڑے عرصے کے لیے ہم سفر بنا لیا کرو۔ جس منزل تک وہ رک گئے ہیں انہیں وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ جانے کی کوشش کرو اور اس حقیقت تک پہنچو جو لازمانی او رلامکانی ہے۔ چوتھا سوال یہ ہے: قدیم و محدث از ہم چوں جدا شد کہ ایں عالم شد، آں دیگر خدا شد اگر معروف و عارف ذات پاک است چہ سودا در سر ایں مشت خاک است قدیم او رمحدث کا سوال در حقیقت واجب و ممکن کے مابین ربط کے سوال کا ایک پہلو ہے، لیکن اس سوال کے جواب میں اقبال نے اپنا خودی کا فلسفہ پیش کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہستی قدیم اور ہستی حادث، یعنی خدا اور عالم، ایک دوسرے سے جدا کیوں ہوئے؟ خدا کو کیا ضرورت تھی کہ ماسوا کو بھی اپنے مقابل میں لا کھڑا کرے۔ بالفاظ دیگر وجہ تکوین عالم کیا ہے۔ اگر ناظر و منظور، عارف و معروف، شاہد و مشہود، ایک ہی ذات پاک ہے تو انسان کے سر میں یہ سودا کہاں سے پیدا ہو گیا ہے جو اس کو حیران اور مضطرب رکھتا ہے: جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ (غالب) اقبال نے انگریزی خطبات میں استدلال سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا کی ہستی ایک بے مقصود سیلان و میلان حیات نہیں، بلکہ ایک نفس مطلقہ ہے اور نفس کے لیے مقصد آفرینی اور مقصد کوشی لازمی ہے۔ ایک خودی انسان کی ہے اور ایک خودی وہ ہے جو ذات الٰہی کی ماہیت ہے۔ خودی کو اپنے اظہار اور ارتقاء کے لیے اپنا غیر پیدا کرنا پڑتا ہے۔ بعض صوفیہ کا خیال ہے کہ انسان کی خودی خدا ہی کی خودی میں سے الگ ہو کر معروض شہود میں آئی ہے۔ا رواح کی یہ کثرت خدا کی ازلی وحدت سے کیوں جدا ہوئی؟اس کی کوئی تشفی بخش توجیہہ صوفیانہ فلسفے میں نہیں ملتی۔ عارف رومی، جس کا نظریہ حیات وہی ہے جس کا اقبال بھی قائل ہے، اپنی مثنوی کو اس بیان سے شروع کرتا ہے کہ ارواح ذات الٰہی سے فراق محسوس کر رہی ہیں اور وصال کے لیے کوشاں ہیں۔ کیوں کہ ہر چیز اپنی اصل کی طرف عود کرنے کا امیلان رکھتی ہے۔ درد فراق اور ذوق وصال نہ صرف روح انسانی بلکہ کائنات کے ہر ذرے میں عشق اور اضطراب پیدا کر رہے ہیں۔ حیات و کائنات کے تمام مظاہر کی توجیہہ مولانا روم اسی نظریے سے کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتاتے کہ یہ فراق پیدا ہی کیوں ہوا اور کیسے ہوا۔ علامہ اقبال ایک وجہ تکوین بتاتے ہیں اور آفرینش کو خودی کی ماہیت میں سے اخذ کرتے ہیں۔ خدا خیر مطلق اور خلاق ہے۔ نفس الٰہی کو نفس انسانی پر قیاس کرنے کے بغیر چارہ نہیں۔ نفس انسانی کے لیے اگر اس کا غیر موجود و مشہود نہ ہو تو انسان کی خودی نہ بیدار ہو سکتی ہے اور نہ استوار۔ اسی طرح ذات الٰہی بھی اپنا غیر خود پیدا کرتی ہے۔ انسان کے لیے اس کا غیر خود آفریدہ نہیں، لیکن خدا کے لیے ماسوا خود آفریدہ ہے۔ انسان اور خدا کی خودی میں یہی ایک بین فرق ہے۔ اس پر استدلال بھی انگریزی خطبات میں ملتا ہے۔ خدا کی ذات میں سے عالم خیر آفرینی کے لیے الگ ہوتا ہے۔ خدا سراپا حیات ہے اور یہ ماہیت حیات میں داخل ہے کہ وہ اپنا غیر بھی پیدا کرے: خودی را زندگی ایجاد غیر است فراق عارف و معروف خیر است اگر انسان کی خودی خدا سے الگ ہو کر فراق زدہ نہ ہوتی تو اس میں کوئی زندگی نہ ہوتی۔ کیوں کہ زندگی جستجو اور آرزو کا نام ہے اور آرزو کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں مقصود ایک لحاظ سے موجود ہوتا ہے اور دوسری حیثیت سے مطلوب ہوتا ہے۔ اگر انسان خدا کا عاشق ہو سکتا ہے تو فراق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا کی ذات بھی تو عشق سے معرا نہیں، عشق اس کی ماہیت میں بھی داخل ہے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ ہم خدا کے لیے بے تاب ہیں اور خدا ہمارے لیے بیتاب ہے۔ اگر ہم اس سے الگ نہ ہوئے ہوتے تو وہ ہمارے لیے بے تاب کیسے ہوتا۔ فراق عشق کی فطرت میں داخل ہے اور یہی وجہ آفرینش ہے۔ ’’ خدا ہم در تلاش آدمے ہست‘‘ خدا اور انسان کی محبت دو طرفہ ہے: ازو خود را بریدن فطرت ماست تپیدن نا رسیدن فطرت ماست نہ ما را در فراق او عیارے نہ او را بے وصال ما قرارے نہ او بے ما نہ ما بے او! چہ حال است فراق ما فراق اندر وصال است خدا کا مقصود مخلوق میں عشق پیدا کرنا ہے اور اس عشق کا مقصود خود خدا ہے۔ اس لیے عشق کی بدولت انسان میں بصیرت اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔ جدائی خاک را بخشد نگاہے دبد سرمایہ کوہے بہ کاہے خدا اور انسان کا یہ رشتہ ہی بقائے ذات انسانی کا ضامن ہے۔ نہ اس عشق کی انتہا ہو سکتی ہے اور نہ زندگی ختم ہو سکتی ہے۔ اگر خدا اور انسان کے درمیان عشق کا رابطہ نہ ہوتا تو انسانی نفس بھی مادی مظاہر کی طرح ایک آنی جانی چیز ہوتا: من و او چیست؟ اسرار الٰہی است من و او بر دوام ما گواہی است زندگی خوا ہ خدا کی ہو اور خواہ انسان کی، اس کو خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے۔ ذوق جلوت نے ذات الٰہی کو انجمن آفرین اور انجمن آرا کر دیا: پردہ چہرے سے اٹھا انجمن آرائی کر چشم مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر محبت دیدہ ور بے انجمن نیست محبت خود نگر بے انجمن نیست انگریزی خطبات میں اقبال نے اپنے اس خیال کو بیان کیا ہے کہ خدا نے جامد و بے جان اشیاء پیدا نہیں کیں۔ وہ خود ایک نفس ہے، اس لیے اس سے نفوس ہی صادر ہوئے ہیں۔ جنہیں ہم ذرات کہتے ہیں، وہ بھی دل ہی ہیں یا دلوں کے اجتماعات ہیں۔ یہ نظریہ بھی اسلامی مفکرین اور صوفیہ کے ہاں قدیم سے چلا آتا ہے۔ یہ نظریہ جلال الدین رومی کے ہاں بھی ملتا ہے اور بعض اور صوفی یا متصوف شعراء کے کلام میں بھی: از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ طوطی کوشش بہت سے مقابل ہے آئینہ (غالب) آہستہ سے چل میان کہسار ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے (میر درد) خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ با حق زندہ اند (رومی) قرآن بھی جب ’’ یسبح للہ ما فی السماوات وما فی الارض ‘‘ کہتا ہے تو تسبیح نفوس ہی کا فعل ہو سکتی ہے۔ خواہ ہم کائنات میں دیگر نفوس کے انداز حیات اور ان کی تسبیح کو نہ سمجھ سکیں۔ قرآن نے بھی یہ کہا ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔ بعض کم فہم حکما اور مفسرین نے اس کو جامد کائنات کی زبان حال کی تسبیح قرار دیا ہے۔ جیسے کوئی کھنڈر زبان سے یہ کہہ رہا ہو کہ میں بھی ایک شاندار عمارت تھا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ توجیہہ درست نہیں معلوم ہوتی۔ اقبال کہتا ہے کہ اس عالم میں اور کسی چیز کا وجود نہیں۔ یا نفوس ہیں یا خدا کا نفس کلی: کہ ایں جا ہیچ کس جز ما او نیست خدا اور ہمارے درمیان فراق و وصل کی حالتیں یکے بعد دیگرے آتی رہتی ہیں۔ موجیں ساحل سے ٹکراتی بھی ہیں اور پھر اس سے دور بھی ہو جاتی ہیں: گہے خود را ز ما بیگانہ سازد گہے ما را چو سازے می نوازو ’’ چو سازے می نوازد‘‘ سے غالب کا ایک لطیف شعر یاد آ گیا: شوریست نوا ریزی تار نفسم را پیدا نہ اے جنبش مضراب کجائی خدا ہی کی تلاش اور اس کے عشق میں انسان اپنے تصور سے پتھروں میں اس کی تصویریں بنا کر ان کی پرستش کرتا رہا ہے اور کبھی بن دیکھے بھی سجدہ پاشی کرتا ہے۔ کبھی پردۂ فطرت کو چاک کر کے جمال یار کی بیباکانہ دید کی ایک جھلک بھی اس کو دکھائی دیتی ہے۔ سوال یہ تھا کہ اس مشت خاک میں یہ سودا کیا ہے۔ اس کا جواب اقبال کے ہاں یہ ہے کہ یہ سودا نہیں، بلکہ سرچشمہ حیات ہے۔ اسی عشق سے انسان کو بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے او رنشوونما بھی: چہ سودا سر ایں مشت خاک است ازیں سودا درونش تابناک است چہ خوش سودا کہ نالہ از فراقش و لیکن ہم ببالد از فراقش فراق او چناں صاحب نظر کرد کہ شام خویش را بر خود سحر کرد خدا کی محبت نے عالم اور زندگی کو پیدا کیا اور پھر اس محبت کو مخلوقات کے لیے ذریعہ ارتقاء بنایا: محبت؟ درگرہ بستن مقامات محبت؟ در گزشتن از نہایات عالم کے مظاہر محبت ہی سے پیدا ہوتے اور محبت ہی سے ترقی پاتے ہیں۔ محبت باعث تکوین بھی ہے اور مقصود حیات بھی: عشق ہم را ہست و ہم خود منزل است خدا کی خودی میں گم یا فنا ہو جانے سے عشق کا خاتمہ ہو جائے گا۔ نہ خدا کی محبت کا کوئی محبوب رہے گا اور نہ محبت خدا کے لیے کوئی آرزو باقی رہے گی۔ فنا کے اس روایتی مفہوم سے خدا اور انسان دونوں کی خودی سوخت ہو جاتی ہے۔ خدا کے لیے بھی مشہود و معروف و محبوب مخلوق کی ہستی ضروری ہے اور انسان کے لیے بھی۔ حیات جاودانی کے حصول کا طریقہ یہی ہے کہ خودی کے ارتقاء اور عشق الٰہی میں ہزاروں عالم پیدا کرتا ہوا چلا جائے اور فطرت کی یہ خلاقی کہیں ختم نہ ہو۔ خدا میں گم ہو جانے سے تو انسان فنا ہو جائے گا، لیکن خدا کو اپنے اندر مسلسل جذب کرتے رہنے سے انسان ہمیشہ باقی رہے گا۔ انسان کا مقصود حیات یہ ہے کہ زندگی کی ہر پہلی صورت کو فنا کرتا ہوا ارتقاء یافتہ صورتوں کی آفرینش کرتا چلا جائے: ہزاراں عالما فتد در رہ ما بپایاں کے رسد جولانگہ ما مسافر! جاوداں زی جاوداں میر جہانے را کہ پیش آید فرا گیر یہ بحرش گم شدن انجام ما نیست اگر او را تو درگیری فنا نیست زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے یعنی آگے چلیں گے دم لے کر (میرتقی) بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے (اقبال) اقبال کے تصوف اور اکثر صوفیہ کے تصوف میں یہ ایک بنیادی فرق ہے کہ اقبال کے نزدیک خدا کی بھی خودی ہے اور انسان کی بھی اور انسان کی خودی کا ارتقاء مسلسل صفات الٰہیہ پید اکرنے سے ہوتا ہے۔ اس کا انجام یہ نہیں کہ انسان کی خودی خدا کی خودی میں اس طرح گم ہو جائے جس طرح بارش کا قطرہ سمندر میں اپنی انفرادیت کو فنا کر دیتا ہے۔ اس کے نزدیک خودی کی ماہیت ہی یہی ہے کہ وہ اپنی عینیت کو قائم و دائم رکھنے کی کوشش کرے۔ لہٰذا نہ خدا انسان میں گم ہو سکتا ہے اور نہ انسان خدا کی ذات میں: خودی اندر خودی گنجد محال است خودی را عین خود بودن کمال است پانچواں سوال یہ ہے: کہ من باشم مرا از، من، خبر کن چہ معنی دارد اندر خود سفر کن یہ سوال خودی کی مزید توضیح کے لیے کیا گیا ہے کہ ’’ میں‘‘ ’’ من‘‘ یا’’ انا‘‘ کیا ہے اور خود اپنی ذات کے اندر سفر کرنے کے کیا معنی ہیں؟ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ خودی‘‘ حفظ و بقاے کائنات کی ضامن ہے۔ یہ نہیں کہ حیات میں ارتقاء کے ایک خاص درجے میں خودی پیدا ہوئی ہے، بلکہ ازلی حقیقت خودی ہے اور حیات اس کا پرتو ذات ہے۔ خودی کی وحدت جب مظاہر کی کثرت پیدا کرتی ہے تو اس سے زندگی بیدار ہو جاتی ہے۔ ذوق نمو کے بغیر مظاہر حیات پیدا نہ ہوتے اور نہ کشود حیات کے بغیر خودی کی نمود ہو سکتی تھی۔ زندگی سے اشیاء کی نہیں بلکہ افراد یا خودی کے مالک نفوس کی نمود ہوتی ہے۔ کثرت افزائی، انجمن آرائی، جلوت پسندی، غیر آفرینی اور غیر بینی کے باوجود خودی اپنی ماہیت میں خلوت نشیں ہی رہتی ہے۔ جلوت میں ظہور سے اس کی خلوت مستور میں فرق نہیں آتا۔ ضمیر فطرت جستجو آرزوئے رنگ و بو کے باوجود پوشیدہ رہتا ہے: ز خود نا رفتہ بیروں غیر بیں است میان انجمن خلوت نشین است نہاں از دیدہا در ہائے و ہوئے دما دم جستجوے رنگ و بوئے اس کا باطنی پیچ و تاب پیکار حیات میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی پیکار سے ارتقا اور بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ کف خاک کو اسی ستیز اور جست و خیز نے آئینہ حقیقت بنا دیا ہے۔ پیکر خاکی خودی کا حجاب بن جاتا ہے، لیکن اسی کے اندر سے آفتاب طلوع ہوتا ہے: طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا (ناسخ) خودی را پیکر خاکی حجاب است طلوع او مثال آفتاب است درون سینہ ما خاور او فروغ خاک ما از جوہر او اے سائل تو پوچھتا ہے یہ ’’ من‘‘ کیا ہے اور ’’ اندر خود سفر کردن‘‘ کے کیا معنی ہیں۔ اس کا جواب تو میں ایک انداز سے پہلے بھی دے چکا ہوں کہ ربط جان و تن کس قسم کا ہے ۔ تو اپنے ضمیر میں ڈوب کر دیکھ لے کہ یہ من کیا ہے۔ اس ’’ سفر خویش‘‘ میں جس خودی کا انکشاف ہوتا ہے وہ والدین کے اجتماع سے پیدا نہیں ہوئی، اس کی حقیقت ازلی ہے۔ کسی صوفی کا شعر ہے: ما پرتو نور پادشاہ ازلیم فرزند نہ ایم آدم و حوا را اسی ’’ من‘‘ کے متعلق رومی کہتا ہے: من آں روز بودم کہ اسما نہ بود نشان از وجود مسمیٰ نہ بود اور کسی صوفی نے ایک شوخ انداز میں کہا ہے: می گفت در بیاباں رندے دہن دریدہ صوفی خدا نہ دارو او نیست آفریدہ اقبال کہتا ہے ’’ سفر در خویش؟ زاون بے اب و مام‘‘ یہاں تکوین فی الزمان کا سوال نہیں بلکہ ’’ابد بودن بیک دم اضطرابے‘‘ یا’’ طے شود جادۂ صد سالہ بہ آہے کاہے‘‘ کا مضمون ہے۔ خودی جب لازمانی اور لامکانی حالت سے شہود کی طرف واپس آتی ہے تو عالم مکانی اس کی مٹھی میں ہوتا ہے: چناں باز آمدن از لا مکانش درون سینہ او در کف جہانش یہ مسئلہ دانش کا نہیں بلکہ بینش کا ہے۔ دیدن آئینہ کمال ہے اور اس حال کے مقابلے میں قال محض جام سفال ہے: ولے ایں راز را گفتن محال است کہ دیدن شیشہ و گفتن سفال است اس کی حقیقت فہم قرآنی رکھنے والے انسان پر کسی قدر بے نقاب ہو جاتی ہے۔ وہ امانت کیا تھی جس کی بھاری ذمہ داری اور اضطراب آفرینی کو دیکھ کر موجودات خاک و افلاک نے اس کوقبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ’’ انا عرضنا‘‘ کی معرفت آفرین آیت میں اسی خودی کی ماہیت کی طرف اشارہ ہے: آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند (حافظ) بردہ آدم از امانت ہر چہ گردوں برتنافت ریخت مے بر خاک چوں در جام گنجیدن نہ داشت (غالب) چہ گویم از من و از توش و تابش کند ’’انا عرضنا‘‘ بے نقابش فلک را لرزہ بر تن از فر او زمان و ہم مکان اندر براو یہ خودی ’’ غیر خود‘‘ سے وابستہ بھی ہے اور ماوریٰ بھی ۔ ذرا اپنے خیال پر ہی غور کر لیجئے۔ دیکھئے سیر اندیشہ میں زمان مکان کہاں ہے۔ تفکر میں مکانیت نہیں ہے اور زمانیت کا یہ حال ہے کہ ایک لمحے میں خیال افلاک کو عبور کر جاتا ہے۔ جسم کے زنداں میں محبوس ہونے کے باوجود یہ آزادی، خود ہی کمند، خود ہی صید، خود ہی صیاد ہے۔ اور صیادی بھی ایسی جو یزداں گیر کا حوصلہ رکھتی ہے۔ یہی خودی تیرے باطن کا چراغ ہے جس کا تجھے امین بنایا گیا ہے کہ یہ بجھنے نہ پائے بلکہ اس کے نور میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ چھٹا سوال یہ ہے: چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است طریق جستن آں جزو چون است یہ سوال بھی خودی کی ماہیت کی بابت ہے۔ پہلے جوابات میں خودی کی حقیقت بہت کچھ بیان ہو چکی ہے۔ لیکن علامہ اقبال کا یہ خاص مضمون ہے اس لیے ان کو بیان سے سیری نہیں ہوتی۔ انسان کی خودی کل موجودات کا ایک جزو معلوم ہوتی ہے لیکن اس پر جزو کل کی منطق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لامتناہی زمان و مکان کا عالم اس کے اندر سما جاتا ہے: خودی ز اندازہ ہاے ما فزون است خودی زاں کل کہ تو بینی فزون است شجر و حجر میں وہ بات نہیں جو انسان کے نفس میں ہے ہستی کے اندر خودی ہی خود نگر ہے، کسی اور ہستی کی یہ پرواز کہاں حاصل ہے۔ اس کا کام گر گر کر ابھرنا ہے۔ عالم مادی کے ظلمت کدے میں یہ چراغ منیر و مستیز ہے۔ خودی فطرت کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر معرفت کے موتی نکالتی ہے۔ اس کا ظاہر زمانی لیکن اس کا ضمیر جاودانی ہے۔ تمام ہستی اس کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔ تقدیر کے احکام اس پر خارج سے نازل نہیں ہوتے۔ اس کی تقدیر اس کی اپنی نہاد میں مضمر ہے۔ یہ ظاہر میں مجبور ہے اور باطن میں مختار۔ اسی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اسلام نے یہ تعلیم دی کہ ایمان جبر و اختیار کے مابین ہے۔ اے انسان تو مخلوق کو مجبور دیکھتا اور مجبور سمجھتا ہے، لیکن تیری جان کو اس جاں آفرین نے پیدا کیا ہے جو خلاق و مختار ہے، اور یہی صفت اس نے تیری خودی میں بھی رکھ دی ہے۔ خلق الانسان علی صورتہ۔ جہاں جان کی ماہیت کا ذکر ہو، وہاں جبر کا تذکرہ بے معنی ہے کیوں کہ جان کے معنی ہی یہی ہیں کہ اس کی فطرت آزاد ہو: تو ہر مخلوق را مجبور گوئی اسیر بند نزد و دور گوئی ولے جاں از دم جاں آفرین است بچندیں جلوہ ہا خلوت نشین است ز جبر او حدیثے درمیاں نیست کہ جاں بے فطرت آزاد جاں نیست شبیخون بر جہان کیف و کم زد ز مجبوری بختاری قدم زد زندگی کا مقصود اور اس کی راہ ارتقاء یہ ہے کہ وہ مسلسل گرد مجبوری کو دامن سے جھٹکتی چلی جائے۔ جو ہستی درجہ حیات میں جتنی بلند ہے اتنی ہی صاحب اختیار ہے۔ جب اختیار اور بڑھ جائے گا تو انسان صحیح معنوں میں مسخر کائنات اور مسجود ملائک ہو گا۔ خودی کی ترقی خرد سے عشق کی طرف ہوتی ہے۔ خرد کا کام محسوسات کا فہم ہے اور وہ اجزاء کے اندر روابط تلاش کرتی رہتی ہے۔ عشق کلیت حیات پر محیط ہو جاتا ہے۔خرد مر سکتی ہے لیکن عشق کے لیے موت نہیں: ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق خرد را از حواس آید متاعے فغاں از عشق می گیر شعاعے خرد جز را فغاں کل را بگیرد خرد میرو فغاں ہر گز نہ میرو ٭٭٭ فغان عاشقاں انجام کارے است نہاں در یک دم او روزگارے است خودی پختہ ہونے سے ابد پیوند اور لازوال ہو جاتی ہے: ازاں مرگے کہ می آید چہ باک است خودی چوں پختہ شد از برگ پاک است خودی کی موت عشق کے فقدان سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اصل موت یہی ہے اور اسی موت سے ڈرنا چاہیے: ترا ایں مرگ ہر دم در کمین است بترس از دے کہ مرگ ما ہمین است ساتواں سوال یہ ہے: مسافر چوں بود رہرو کدام است کرا گویم کہ او مرد تمام است سوال یہ ہے کہ مسافر اور رہرو کسے کہتے اور سفر کے کیا معنی ہیں۔ انسان کامل کی کیا نشانی ہے۔ اقبال نے جا بجا زندگی کو ایک لامتناہی سفر قرار دیا ہے اور اسے مرحلہ شوق کہا ہے، جس کو سکون منزل کی آرزو نہیں: ہر شے مسافر ہر چیز راہی کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے لندن میں کہی ہوئی ایک غزل بال جبریل میں درج ہے۔ جس کا موضوع بھی یہی ہے کہ ہر حالت سے گزرتا چلا جا: تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مختلف احوال سے آگے نکلتا جا: جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر اب یہاں اسی سفر کے متعلق سوال ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کوئی خارجی عالم کی مسافت طے کرنا نہیں ہے۔ یہ سفر خودی کا باطنی ارتقائی سفر ہے۔ اس میں انسان خود ہی مسافر ہے، خود ہی راہ ہے اور خود ہی منزل ہے۔ یہ از خود تا بخود سفر ہے۔ یہ خودی کی مسلسل ترقی یافتہ صورتوں تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے: اگر چشمے کشائی بر دل خویش دروں سینہ بینی منزل خویش سفر اندر حضر گردن چنین است سفر از خود بخود کردن ہمین است خودی کسی مکان کے اندر نہیں کہ اس کا کوئی مقام متعین کر سکیں۔ زمانی و مکانی عالم کے لحاظ سے اگر کوئی پوچھے کہ ہم کہاں ہیں تو اس کا جواب محال ہے۔ چشم مہ و اختر جو ہمارے ظاہر کو دیکھتی ہے اسے ہماری حقیقت کا کچھ علم نہیں: کسے ایں جا نداند ما کجانیم کہ در چشم مہ و اختر نیانم اس سفر کی کوئی انتہائی منزل نہیں، کیونکہ اگر کوئی آخری منزل آ جائے تو ہماری جان ہی فنا ہو جائے۔ جان تو جستجو اور آرزو کا نام ہے، اگر کوئی انجام آ گیا تو آرزو ناپید اور اس کے ساتھ زندگی بھی ختم ہو جائے گی: مجو پایاں کہ پایائے نداری بپایاں تا رسی جانے نداری خودی اپنی ترقی میں یقین اور بصیرت میں اضافہ کرتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ تب و تاب محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نہ محبت کو فنا ہے او رنہ یقین و دید کی کوئی انتہا ہے۔ کمال زندگی دیدار ذات ہے، لیکن اگر حسن ذات بے پایاں ہے، تو عشق ذات کی بھی انتہا کہیں نہیں ہے۔ خدا کو دیکھتے ہوئے بھی شوق دیدار کا سفر جاری رہتا ہے: چناں با ذات حق خلوت گزینی ترا او بیند و او را تو بینی لیکن خدا کے اندر گم ہو جانا مقصود نہیں۔ اگر ہم گم ہو گئے تو محب و محبوب کا امتیاز ہی مٹ جائے گا۔ اس لیے اگر تو خدا کے حضور میں بھی گزر رہا ہو تو خودی کو استوار کرتے ہوئے گزر۔ قطرے کی طرح سمندر میں ناپید نہ ہو جا: بخود محکم گزر اندر حضورش مشو ناپید اندر بحر نورش جس شخص میں دید پیدا ہو جائے، یعنی اپنی اور خدات کی ذات کا بیک وقت دیدار، اور یہ دیدار اس کی خوشی کی سوخت نہ کر دے تو اسی شخص کو دنیا کا امام سمجھو۔ مرد کامل کا معیار یہی ہے: کسے کو دید عالم را امام است من و تو نا تمامیم او تمام است آدمی دید است و باقی پوست است دید آں باشد کہ دید دوست است (رومی) اگر ایسا شخص دکھائی نہ دے تو اس کی طلب کو جاری رکھ اور اگر خوش قسمتی سے مل جائے تو پھر اس کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ مرد کامل تجھے فقیہ و شیخ و ملا کے طبقوں میں نہ ملے گا۔ یہ لوگ انسانوں کے شکاری ہیں ان سے غافل نہ رہنا۔ فقیہ و شیخ و ملا را مدہ دست مرد مانند ماہی غافل از شست مرد کامل تو ملک اور دین دونوں میں اچھا رہنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ مرد راہ ہے۔ فرنگ سے بھی خبردار رہنا۔ وہاں جو جمہوریت انسانی اخوت و مساوات کی مدعی بن گئی ہے، یہ سب ابلہ فریبی ہے۔ ہوس پرست عوام کا ہجوم کہاں انسانیت کی ترقی اور بصیرت افزائی کا موجب بن سکتا ہے۔ ایک لاکھ جمہوریت کے ہنگامے بھی ایک مرد راہ کے برابر بصیرت نہیں رکھتے۔ اس جمہوریت میں امام عالم کہاں سے آئیں گے۔ مشرق اپنی جھوٹی روحانیت اور مذہبیت کے دعوے باطل میں مردان راہ سے خالی ہے اور مغرب مادہ پرستی میں اسیر کمند ہوا ہے۔ اب شرق و غرب میں کس کو کہوں کہ وہ ’’ مرد تمام‘‘ ہے: بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیزو بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو کیا یہ مرد راہ کہیں نہیں؟ کیا یہ محض انسانیت کا ملہ کا ایک نصب العین ہے؟ ایک عرصے تک تو یہ عارف رومی کو بھی کہیں دکھائی نہ دیا: گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست آٹھواں سوال یہ ہے: کدامی نکتہ را نطق است انا الحق چہ گوئی ہرزہ بود آں رمز مطلق ایقان ’’ انا الحق‘‘ تمام تصور کا محور ہے۔ اس کے متعلق آج تک بحث چلی آتی ہے۔ کہ منصور نے جو انا الحق کہا وہ کفر کا کلمہ تھا یا راز حیات کا افشا تھا۔ علمائے ظاہر نے اس جرم پر اس کو سولی پر چڑھا دیا، لیکن اکثر صوفی اس کو عارف باللہ اور امام سمجھتے ہیں اور تنگ نظر فقہا کو ایک معصوم کے قتل کا مجرم قرار دیتے ہیں۔ چوں قلم در دست غدارے بود لا جرم منصور بر دارے بود (رومی) محمود شابستری نے بھی ’’ گلشن راز‘‘ میں بڑے زور و شور سے منصور کی حمایت کی ہے: را باشد انالحق از درختے چرا نبود روا از نیک بختے انا الحق کا عقیدہ ہندو تصوف کا بھی لب لباب ہے: اہم برہم آسمی تت توم آسی اقبال نے جو نظریہ خودی پیش کیا اس میں بھی جا بجا خودی اور خدا میں امتیاز کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ خودی کے کثرت سے اشعار ایسے ہیں کہ بادی النظر میں دھوکا ہو سکتا ہے کہ یہ اشعار خدا کی ذات و صفات کے متعلق ہیں۔ اقبال مذکورہ صدر سوال میں انا الحق کے متعلق اپنے موقف کی تشریح کرتے ہیں، چونکہ یہ عقیدہ ہند اور ایران دونوں جگہ عام اور مسلم ہو گیا تھا اسی لیے پہلے شعر میں فرماتے ہیں: من از رمز انا الحق باز گویم دگر با ہند و ایراں راز گویم پہلے یہ بیان کیا ہے کہ ایک ایرانی یہ کہہ گیا ہے کہ زندگی دھوکا کھا کر یہ ’’ من‘‘ کا تصور پیدا کر دیتی ہے مگر حقیقت میں تمام عالم، انسانی نفوس سمیت ایک سوتے ہوئے خدا کا خواب ہے۔ وہ شعر اقبال نے یہاں درج نہیں کیا لیکن اس قسم کی بحث کے دوران میں انہوں نے مجھے سنایا تھا۔ وہ شعر یہ ہے: تا تو ہستی خداے در خواب است تو نمانی چو او شود بیدار مرزا غالب بھی عقلی طور پر وحدت وجود کے قائل تھے، اس لیے اس قسم کے تصورات غالب کے اردو اور فارسی کلام میں کثرت سے ملتے ہیں: ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد عالم تمام حلقہ دام خیال ہے اس فارسی شعر کے تصور کو اقبال نے اپنے جواب میں ذرا پھیلا کر لکھا ہے، کیوں کہ اس کی تردید مقصود ہے: خدا خفت و وجود ما ز خوابش وجود ما نمود ما ز خوابش مقام تحت و فوق و چار سو خواب سکون و سیر و شوق و جستجو خواب دل بیدار وو عقل نکتہ بیں، گمان و فکر، تصدیق و یقیں سب خواب ہی خواب ہے اور یہ خواب خدا دیکھ رہا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ اس زندگی کو اپنی چشم بیدار سے دیکھ رہا ہوں لیکن یہ بیداری بھی سپنا ہے اور ہمارے گفتار و کردار ہندو ویدانت کی اصطلاح میں مایا یا فریب ادراک ہیں۔ یہاں ایک ویدانتی گرو کے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا جو ہم نے اپنے ہندو استاد فلسفہ سے سنا تھا۔ یہ گرو جنگل میں اپنے چیلوں کو حیات و کائنات کے مایا ہونے کی تعلیم دیا کرتا تھا۔ ایک روز ایک مست ہاتھی گرو اور چیلوں کی طرف لپکتا دکھائی دیا۔ چیلے جان بچا کر ادھر ادھر تتر بتر ہو گئے اور گرو جی بھی ایک درخت پر چڑھ گئے۔ ایک چیلے نے جرأت کر کے گرو جی سے پوچھا کہ اگر یہ ہاتھی اور اس سے جان کا خطرہ مایا تھا تو آپ اس طرح دم دبا کر کیوں بھاگے؟ گرو جی اپنی منطق میں طاق تھے۔ انہوں نے جواب دیا عجب احمق ہو کہ وہ میرا بھاگنا اور درخت پر چڑھ جانا بھی تو مایا ہی تھا۔ جیسے ہاتھی کی کچھ حقیقت نہ تھی اسی طرح ہمارے فرار کی بھی کچھ اصلیت نہیں۔ وہ بھی دھوکا یہ بھی دھوکا۔ اقبال کے نظریہ حیات میں خدا بھی حق ہے اور انسانی خودی، جو خدا کی حیات ابدی سے سر زد ہوئی ہے، وہ بھی حق ہے۔ وحدت وجود کا روایتی فلسفہ خدا کو حق قرار دیتا ہے۔ وہی حقیقت مطلقہ ہے، لیکن انسانی نفس یا خواب ہے، یا فریب ادراک، یا خدا کے لامتناہی قلزم ہستی کی ایک لہر۔ لہریں پیدا اور نا پید ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن قلزم ہستی مطلق اپنے تلاطم میں ان سے مستغنی رہتا ہے۔ وحدت وجود کے اکثر قائلوں نے انسانی نفس کو ایک وہمی ہستی قرار دیا ہے: صورت وہمی بہ ہستی متہم داریم ما چوں حباب آئینہ بر طاق عدم داریم ما (غالب) اقبال کہتا ہے کہ تمام عالم کے وجود حقیقی ہونے پر شک ہو سکتا ہے لیکن شک کرنے والا نفس موہوم نہیں ہو سکتا۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری دانش قیاسی ہے اور قیاس کا مدار حواس پر ہے، حواس مختلف ہوں تو عالم بھی اور کا اور ہو جائے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جہان رنگ و بو محض اعتبار ہے، خواب ہے یا حقیقت کا حجاب ہے۔ لیکن اپنے نفس کے وجود کا انکار ناممکن ہے۔ (یہ بعینہ وہی بات ہے جہاں سے فرنگ کا فلسفہ جدید شروع ہوتا ہے۔ ڈیکارٹ کہتا ہے کہ میرا سوچنا یا تمام موجودات کے وجود پر شک کرنا ہی اس امر کی محکم دلیل ہے کہ اور کچھ ہو نہ ہو صاحب فکر نفس تو موجود ہے): تواں گفتن ہمہ نیرنگ ہوش است فریب پردہ ہاے چشم و گوش است خودی از کائنات رنگ و بو نیست حواس ما میلان ما و اس نیست خودی کے حرم اور خلوت گاہ میں حواس و محسوسات کو بار حاصل نہیں ہے۔ سب احساس و ادراک بالواسطہ ہوتا ہے، لیکن انسان کو اپنے نفس کا موجود ہونا براہ راست محسوس ہوتا ہے۔ ظن اور شک کی یہاں کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نفس کو اپنے ’’ حق‘‘ ہونے کا احساس ہے۔ حقیقت مطلقہ تو خدا کی ذات حق ہے، لیکن نفس کے حقیقی ہونے پر بھی کوئی شک نہیں: خودی پنہاں ز حجت بے نیاز است یکے اندیش و در یاب ایں چہ راز است خودی را حق بداں باطل مپندار خودی را کشت بے حاصل مپندار خدا کی خودی اور انسان کی خودی میں یہ فرق ہے کہ خدا کا سرمدی دوام کوئی جزاے کار نہیں، بلکہ اس کی ماہیت میں داخل ہے۔ لیکن انسانی خودی کو لازوال کرنے کے لیے عمل اور عشق سے پائدار کرنا پڑتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ شنکر اچاریہ اور منصور حلاج دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں انا الحق کہا۔ تم ان کے نظریات کو برطرف کر کے عرفان خودی سے خدا کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ انا الحق کہتے ہوئے اپنی خودی کے راستے سے خدا کی مطلق خودی تک پہنچو۔ ’’ من عرف نفسہ، فقد عرف ربہ‘‘ : دگر از شنکر و منصور کم گوے خدا را ہم براہ خویشتن جوے بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گو و صدیق خودی شو یہاں اقبال کے اردو اشعار کا درج کرنا بھی لازمی معلوم ہوتا ہے: فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش نواں سوال یہ ہے: کہ شد بر سر وحدت واقف آخر شناساے چہ آمد عارف آخر راز وحدت سے کون واقف ہوا اور عارف کو کس حقیقت کا عرفان حاصل ہوا، اس کے جواب میں پہلے دنیا کے ہر مظہر کی بے ثبانی پر کچھ اشعار کہتے ہیں۔ شجر و حجر، سنگ و شرر، شبنم و گہر، رنگ و نواے چنگ، کسی کو ثبات حاصل نہیں۔ انسان کا دم بھی آنی جانی چیز ہے: مپرس از من ز عالم گیری مرگ من و تو از نفس زنجیری مرگ عرفان میں پہلا انکشاف ہر شے کی فنا پذیری ہے: فنا را بادۂ ہر جام گردند چہ بیدردانہ او رام عام کرند لیکن خودی کا چراغ صر صر فنا سے نہیں بجھتا: خودی در سینہ چاکے نگہ دار ازیں کوکب چراغ شام کردند جہاں کا کوئی حصہ فنا کی دستبرد سے باہر نہیں۔ ہر صورت فانی اور آفل ہے۔ لیکن خودی آرزو اور جستجو سے قائم و دائم ہو جاتی ہے۔ فنا کا قانون اس پر عائد نہیں ہوتا: نگہ دارند ایں جا آرزو را سرور ذوق و شوق جستجو را خودی را لازوالے می تواں کرد فراقے را وصالے می تواں کرد سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا کو لا تعدادنفوس کی خودی کو برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خداے زندہ دوسرے نفس سے رابطہ رکھنے کا ذوق رکھتا ہے، اسے خود تنہائی پسند نہیں: خدائے زندہ بے ذوق سخن نیست تجلی ہاے او بے انجمن نیست ’’ الست بربکم قالو ابلے‘‘ خود خدا کے ذوق سے سرزد ہوا۔ اسی نے نفوس میں عشق کی چنگاری رکھ دی۔ ’’ چہ آتش عشق در خاکے برا فروخت‘‘ خدا کی گرمی محفل تو ہمیں سے ہے۔ ہمیں فنا کر دے گا تو وہ تنہا رہ جائے گا: اگر مائیم گرداں جام ساقی است بیزمش گرمی ہنگامہ باقی است ہمیں بھی اپنی خودی کو اس لیے لازوال بنانا چاہیے کہ خدا کی بزم آرائی باقی رہے: مرا دل سوخت بر تنہائی او گنم سامان بزم آرائی او مثال دانہ می کارم خودی را براے او نگہ دارم خودی را ٭٭٭ سولہواں باب فنون لطیفہ شروع میں اس امر کی کسی قدر وضاحت درکا ہے کہ کن فنون کو فنون لطیفہ کہتے ہیں اور دیگر فنون سے ان کو کون سے صفت ممتاز کرتی ہے۔ کچھ فنون ایسے ہیں جو انسان نے محض زندہ رہنے کی کوشش میں خاص ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیدا کیے ہیں۔ انسان کو غذا چاہیے۔ شروع میں وہ غذا یا خود رو پھلوں سے حاصل کرتا تھا یا دوسرے جانوروں کا شکار کر کے۔ انسان کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ آلات ساز حیوان ہے۔ دوسرے حیوانوں کو فطرت ان کے اعضا ہی میں آلات مہیا کر دیتی ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فطرت کے عطا کردہ اعضاء کے اعمال میں آلات سے اضافہ کرتا ہے تاکہ ان کی افادیت بڑھ جائے۔ ہزار ہا برس قبل کے تمدن حجری میں پتھر کے نوک دار ٹکڑے ملتے ہیں جو انسان کے اولین آلات جارحہ ہیں۔ غاروں اور درختوں کی پناہوں سے نکل کر انسان کو سر چھپانے اور موسم کی شدت سے اور دام و دد کی حملہ آوری سے محفوظ رہنے کے لیے کاشانے بنانے پڑے۔ جیسے جیسے انسان کی حاجتیں بڑھتی گئیں اور اس کی طبیعت کی لطافتوں میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے حیاتیاتی افادیت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ خالی مادی افادیت کے علاوہ اس کے ذوق جمال کو بھی ترقی ہوئی۔ یہ امر غور طلب ہے کہ یہ ذوق جمال انسان میں کب پیدا ہوا۔ اس کے ماخذ اور اس کی ابتداء پر غور کرنے کے لیے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا ذوق جمال انسان ہی کی خصوصیت ہے یا حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بلکہ حیوانات سے بھی اور آگے جا کر دیکھنا پڑے گا کہ نباتات میں بھی ذوق جمال کے مظاہر موجود ہیں یا نہیں۔ بعض حکماء اس کو اور دور تک لے گئے ہیں۔ ان کے نزدیک جمادات میں بھی حسن آفرینی موجود ہے۔ بعض کیمیائی عناصر یا مرکبات میں جو کرسٹل ہیں ان میں جیومیٹری کے بہت دلکش نقشے دکھائی دیتے ہیں اور ہر کرسٹل کا ایک ڈیزائن مقرر ہے جس سے وہ سر مو تجاویز نہیں کرتا۔ اکثر حکماء طبیعین کا عقیدہ ہے کہ زندگی جمادات کے اندر ہی سے مخصوص تراکیب عناصر کے پیدا ہونے کے بعد ظہور میں آئی ہے۔ زندگی جمادات میں خارج سے داخل نہیں کی گئی۔ بعض مفکرین ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جمادی اور میکانکی مادے میں سے زندگی کا ظہور کسی طرح قابل فہم نہیں۔ اس کا کوئی ماخذ جمادات سے خارج ہی نہیں ہو گا۔ فیثا غورسی کہتے تھے کہ زندگی ہم آہنگی اور توازن کی ایک خاص صورت کا نام ہے اور ہم آہنگی اجرام فلکیہ کی حرکات اور گردشوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان گردشوں سے موسیقی پیدا ہوتی ہے، جسے ہمارے کان نہیں سن سکتے۔ فلسفہ مسلمانوں کے افکار میں بھی داخل ہو گیا تھا۔ اس کے زیر اثر غالب نے یہ شعر کہا ہے: پیکر عشاق ساز طالع ناساز ہے نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے صوفیہ خدا یا ہستی مطلق کو حسن مطلق بھی کہتے ہیں، جس کا موجودات کے تمام مدارج اور تمام مظاہر میں بفرق مراتب ظہور ہوتا ہے۔ ’’ اللہ جمیل ویحب الجمال‘‘ خدا خود جمیل ہے اور جمال سے محبت رکھتا ہے۔ خدا کائنات میں جو صورت گری کرتا ہے اس میں حسن آفرینی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اس سوال کا جواب کہ انسان میں ذوق جمال کب اور کیوں کر پیدا ہوا، تمام فطرت کے مشاہدے سے مل سکتا ہے۔ حسن آفرینی اگر جمادات، نباتات اور حیوانات سب میں پائی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسانیت کا دور اولیں بھی اس سے معرا ہو۔ انسان کے بچے آغاز طفولیت ہی میں اچھی آواز اور دلکش رنگوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ لوریاں، جن میں موسیقی ہوتی ہے ان کے لیے سکون آفرین اور خواب خوش کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ جانوروں پر بھی موسیقی کا اثر ہوت اہے۔ یورپ میں بعض جگہ یہ تجربہ کیا گیا کہ اگر دودھ دوہتے ہوئے ریڈیو لگا دیا جائے جس سے اچھی موسیقی نکل رہی ہو تو گائے دودھ زیادہ دیتی ہے۔ ذوق جمال سے موجودات کا کوئی درجہ اور کوئی پہلو مطلقاً معرا دکھائی نہیں دیتا۔ فرانس میں بعض مقامات پر ایسے غار برآمد ہوئے ہیں جن میں دیواروں پر اعلیٰ درجے کی تصویریں ان جانوروں کی بنی ہوئی ہیں جنہیں ناپید ہوئے کوئی پچاس ہزار برس گزرے ہوں گے۔ یہ زمانہ اس خطے میں سیلاب برف کا دور تھا۔ اور دور وحشت کا انسان ان غاروں میں رہتا تھا۔ تلاش غذا میں بعض جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن میں ان جانوروں کے نقشے مرتسم ہو گئے تھے اور اپنی طویل فرصت میں اس کا یہ شغل تھا کہ جو سامان بھی میسر تھا اور جو آلات بھی وہ بنا سکا تھا، ان کی مدد سے ان جانوروں کی تصویریں بناتا رہتا تھا۔ ان تصویروں میں نقش و نگار اس کمال اتقان سے بنائے گئے ہیں کہ یقین نہیں آ سکتا کہ دور وحشت کا بے تمدن انسان ایسی کاریگری کر سکتا تھا۔ بعض حکماء کا خیال ہے کہ حیوانی زندگی میں جمال جنسی جذبے نے پیدا کیا ہے۔ نر اور مادہ میں جنسی کشش کی شدید ضرورت تھی اس لیے فطرت جانوروں میں اس غرض کو پورا کرنے کے لیے جمال پیدا کرتی تھی۔ یہ نظریہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں بھی ملتا ہے اور اس کی نہایت ترقی یافتہ صورت فرائڈ کی نفسیات ہے۔ جس نے انسانی تہذیب و تمدن، مذاہب اور فنون لطیفہ، تمام کا ماخذ جنسی شہوت ہی کو قرار دیا ہے، جو ان تمام مظاہر میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ فرائڈ کے پاس ہر مظہر حیات کی توجیہہ جنسی جذبہ ہے جسے وہ لبیڈو کہتا ہے۔ ہر قسم کا حسن بھی لبیڈو ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ہر قسم کے عشق کا پروردگار بھی یہی جذبہ ہے: بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش من انداز قدرت را می شناسم فنون لطیفہ شروع سے ہر قسم کے مذہب کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ انسان کا بہترین فن تعمیر، جس میں حسن و عظمت کی آمیزش ہو، جو جمیل بھی ہو اور جلیل بھی، اس کے معبدوں میں نظر آتا ہے۔ سنگ تراشی، صنم تراشی اور مصوری بھی شروع سے مذہب کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ مذہب کے تصورات میں بھی فن لطیف موجود ہے۔ اقبال کا نظریہ حیات اسلامی ہے، اس لیے اقبال کے کلام میں سے ان افکار کا انتخاب کرنا پڑے گا جہاں اس نے فنون لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ان خیالات کو اسلامی نظریہ حیات سے وابستہ کیا ہے۔ اقبال خود ایک فن لطیف میں صاحب کمال تھا۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ حکیم بھی تھا اور فن لطیف کے ماخذ اور مقصود پر حکیمانہ نظر بھی ڈال سکتا تھا۔ اکثر بڑے شعراء ایسے گزرے ہیں جو اپنے فن میں کامل تھے، لیکن اس کی ماہیت کے متعلق انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ خوش قسمتی سے اقبال ان چند باکمالوں میں سے تھا جن کی طبیعت میں شعر اور حکمت کی ایسی لطیف آمیزش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں شاعر کے کلام پر یہ قول صادق آتا ہے کہ: ’’ان من الشعر لحکمتہ و ان من البیان لسحرا‘‘ زاہدان خشک اور فقہائے بے ذوق نے اسلام کے عقائد کو اس انداز سے پیش کیا کہ معترضین کے لیے اس اعتراض کی گنجائش پیدا ہو گئی کہ اسلام میں قریباً تمام فنون لطیفہ حرام ہیں۔ اچھی شاعری کے متعلق تو ان کی زبان بند تھی کیوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اچھے اشعار کی داد دیتے تھے اور اچھے اشعار کہنے پر شاعروں کی انعام و اکرام سے ہمت افزائی کرتے تھے۔ لیکن باقی فنون لطیفہ زہد خشک کی زد میں آ گئے۔ موسیقی جیسی روح پرور چیز مطلقاً حرام ہو گئی یا مکروہ، جس سے اجتناب تقوے کا تقاضا بن گیا۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے صاحب کمال موسیقار گزرے ہیں لیکن یہ شغل ان کا فطری اور ذوقی تھا۔ راسخ الاعتقاد مذہبی طبقہ زیادہ تر اس سے گریز ہی کرتا رہا۔ روحانی طبقے میں بعض صوفیہ کی بدولت سماع حلال ہو گیا، لیکن اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق اب تک بحث جاری ہے۔ ہم نے بعض محفلوں میں دیکھا ہے کہ جہاں موسیقی شروع ہوئی وہاں سے کوئی خشک ملا سر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ موسیقی سے گریز کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک رفیع الشان عمارت میں چھت سے جھاڑ آویزاں تھے جن سے لٹکتے ہوئے بلور کے ٹکڑے جنبش ہوا سے ٹکرا ٹکرا کر دلآویز آواز پیدا کرتے تھے۔ ایک ملا وہاں موجود تھے، وہ لپک کر اس نغمہ زا جھاڑ کی طرف گئے اور اسے دونوں ہاتھوں سے ساکن کرنے کی کوشش کی تاکہ اس نغمے سے ان کی شمع خراشی اور دل خراشی نہ ہو۔ ایک اسی قسم کی محفل عروسی میں سے موسیقی شروع ہوتے ہی ایک شیخ الشیوخ جو ایک بڑی یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر تھے، بیزار ہو کر فرار ہو گئے۔ اسی یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ایک اور پروفیسر جو جید عالم دین ہونے کے باوجود ذوق جمال سے معرا نہ تھے، وہ وہیں بیٹھے رہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مفتی صاحب آپ کو موسیقی سے گریز نہیں؟ اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ان کا نام بھی عبداللطیف تھا اور انہوں نے جواب بھی نہایت لطیف دیا کہ بھائی موسیقی اگر سریلی ہو تو حلال اور اگر بے سری ہو تو حرام ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے علمائے ظاہر میں فنون لطیفہ سے یہ بے تعلقی کیوں پیدا ہوئی؟ اس کا جواب مشکل نہیں۔ جواب کا پہلا حصہ یہ ہے کہ موسیقی ایک قسم کی نہیں ہوتی اور اس کا ذوق رکھنے والے انسان بھی ایک قسم کے نہیں ہیں۔ موسیقی جذبات انگیز چیز ہے۔ ہر قسم کے جذبات موسیقی کے ذریعے سے ابھارے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں اکثر عشرت پسندوں نے اس کو ادنیٰ جذبات کی انگیخت کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ ایک چیز جس کا نہایت عمدہ استعمال بھی ممکن تھا، زیادہ تر شہوائی جذبات کا آلہ بن گئی۔ ادنیٰ انسانوں کی صحبت نے موسیقی کو غذائے روح بنانے کی بجائے غذائے شہوت بنا دیا۔ پرہیز گاروں کا ایسی صحبتوں سے اجتناب لازمی ہو گیا مگر صوفیہ نے جب اس کو روحانیت میں استعمال کیا تو نوائے نے روح کی دمساز بن گئی۔ اخوان الشیاطین کے سازوں میں شیطان مضراب زن تھا، مگر خدا مست انسانوں کو چنگ و رباب میں سے آواز دوست سنائی دینے لگی۔ مولانا روم کا رباب کے متعلق مشہور شعر ہے: خشک تار و خشک چوب و خشک پوست از کجا می آید ایں آواز دوست کسی اور کا صوفیانہ شعر ہے: کسانیکہ یزداں پرستی کنند بر آواز دولاب مستی کنند اقبال کہتا ہے: مہجور جناں حورے نالد بہ رباب اندر اکثر علماء اسلام کی فنون لطیفہ سے گریز کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کی نظر طلوع اسلام کے دور پر تھی۔ اس دور تک عربوں کا یہ حال تھا کہ فنون لطیفہ میں سے ان کے ہاں نہ مصوری تھی اور نہ حسین و جمیل صنم تراشی۔ لات و عزیٰ، ہبل اور دیگر دیوتاؤں کے بت یونانیوں کے بتوں کی طرح جمیل نہ تھے۔ نہایت بھدے قسم کی سنگ تراشی تھی۔ اور یہ تمام فن جو ابھی لطیف ہونے کی بجائے زیادہ تر کثیف ہی تھا، ان کے مشرکانہ عقائد کا مظہر تھا۔ وہاں مصوری یا صنم تراشی نے مشرکانہ مذہب سے الگ ہو کر کوئی مستقل حیثیت اختیار نہ کی تھی۔ مصوری اور بت تراشی کا مشرکانہ مذہب سے ایسا گہرا رابطہ تھا کہ ان دونوں کا الگ کرنا محال تھا۔ا سی وجہ سے توحید کی تلقین کرنے والے انبیاء بنی اسرائیل نے جانداروں کی صورتیں بنانا حرام کر دیا تھا، کیوں کہ بنی اسرائیل کے گردا گرد بڑے زور کی صنم تراشی اور دیوتا پرستی تھی اس کا قلع قمع اسی طرح ہو سکتا تھا کہ صورت گری کو قیا جائے۔ حضرت سلیمان ؑ کو شاید اپنے زمانے میں یہ خطرہ اس شد ت کے ساتھ محسوس نہ ہوا اس لیے انہوں نے تماثیل بنوانے سے پرہیز نہ کیا، جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ دور حاضر میں جب کہ فنون لطیفہ بہت حد تک مشرکانہ عقائد سے آزاد ہو گئے ہیں انسانی فطرت اور اس کی آرزوؤں کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں، فنون لطیفہ کے متعلق مہذب قوموں کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے۔ لیکن آرٹ کے اندر غیر معمولی قوت اظہار کے ساتھ ساتھ ایک یہ آفت لگی رہتی ہے کہ ایک خطرے سے اس کو نجات ہوتی ہے تو کوئی دوسری قسم کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، مگر یہ کیفیت مذہب کی بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً انبیاء اور صلحا و مجددین اس کو آلائشوں سے پاک کر کے خالص بناتے ہیں، لیکن کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پاتا کہ مذہب کے اندر مخرب حیات عناصر دین کا روپ دھار کر ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ جس طرح ادیان کی اس مسلسل تخریب سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان مذہب کو یکسر ترک کر دے، کیوں کہ حقیقی زندگی کے تمام سرچشمے بھی صحیح دینی عقائد ہی کے اندر ہیں، اسی طرح فنون لطیفہ سے بھی انسانیت قطع تعلق نہیں کر سکتی۔ کیوں کہ فنون لطیفہ حسن و عشق کے بہترین مظاہر اور اخلاق عالیہ کے موثر عوامل بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ہر زمانے کا مصلح اعظم، خواہ وہ سقراط و افلاطون کی طرح حکیم ہو یا انبیاء کی طرح گہرے روحانی وجدان سے بہرہ اندوز، اپنے زمانے کے فنون لطیفہ پر نظر ڈال کر دیکھتا ہے کہ آیا فن لطیف روح کی پرورش کر رہا ہے یا قلب و نظر کے لیے سامان موت ہے۔ یونانی علوم عقلیہ کے علاوہ فنون لطیفہ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ لیکن سقراط کے زمانے میں ان کے فنون لطیفہ میں بھی ایسی باتیں پیدا ہو گئی تھیں کہ سقراط و افلاطون نے ’’ جمہوریہ‘‘ میں جو ایک نصب العینی مملکت اور معاشرت کا خاکہ تجویز کیا اس میں سے شعراء کو خارج کر دینے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ ان کے نزدیک شعراء کی شاعری حکمت کش ہو گئی تھی۔ ہومر کی شاعری یونانیوں کے ہاں فن لطیف کا ایک شاہکار تھی، لیکن اس کے اندر بھی صنمیات سموئی ہوئی تھی۔ اس میں جن دیوتاؤں کا ذکر تھا ان میں سے بعض معمولی انسانی شریفانہ اخلاق سے بھی عاری تھے۔ بعض دیوتا چور اور رہزن تھے اور بعض بے پناہ قسم کے زانی۔ لیکن ہومر کے ہاں اچھی باتیں بھی ملتی تھیں، اس لیے سقراط و افلاطون نے یہ تجویز کیا کہ ہومر کے فقط منتخب حصے بچوں کو پڑھائے جائیں اور بد اخلاق دیوتاؤں سے ان کو آشنا نہ کیا جائے۔ حالی کے زمانے تک مسلمانوں کی شاعری کا جو حال تھا اس کے متعلق مسدس میں ان کے اشعار سقراط و افلاطون سے بھی زیادہ غصے سے لبریز ہیں: یہ شعر و قصابر کا ناپاک دفتر عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بدتر عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے گنہگار واں چھوٹ جائیں گے سارے جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے دیکھئے حالی خود شاعر ہے اور شعر ہی میں شاعروں کی مذمت کر رہا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شعر کی اصلاح چاہتا ہے۔ اسے مطلقاً حرام کرنا نہیں چاہتا۔ اسی غرض سے اس نے شعر و شاعری پر ایک بلیغ اور محققانہ مقدمہ لکھا اور خود سید احمد خاں علیہ الرحمتہ کے زیر اثر اپنی شاعری کا رخ بدل دیا۔ اچھی شاعری دین و اخلاق کی بھی ایسی خدمت گزار ہو سکتی ہے کہ سید صاحب نے مسدس حالی کی نسبت فرمایا کہ یہ میری تحریک سے لکھی گئی اور یہ ایسا نادر کارنامہ ہے کہ خدا نے روز قیامت میں اگر مجھ سے پوچھا کہ دنیا سے تو عمل صالح کا کیا تحفہ ہمارے لیے لایا تو یہ عرض کروں گا کہ میرا سب سے بڑھ کر قابل انعام و اجر عمل یہ ہے کہ میں نے حالی سے مسدس لکھوایا۔ حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے، مگر اس کی حکیمانہ نظر حالی سے بہت زیادہ اور وسیع اور گہری ہے۔ غالب کی حکمت پسندی اور پرواز تخیل بھی اقبال کے اندر ترقی یافتہ صورت میں موجود ہے۔ غالب نے فیضان الٰہی کا اپنے کلام میں ہر جگہ استعمال نہیں کیا وہ بہت کچھ قدیم انحطاطی روایات کا شکار رہا۔ لیکن اقبال کے ہاں تفکر و تاثر غلط روایات کے خس و خاشاک سے پاک ہو گئے۔ اقبال بھی ایک مصلح و مبلغ شاعر ہے اور چونکہ فن لطیف کی ماہیت، اس کے حسن و قبح، اس کے صحیح اور غلط استعمال سے خوب واقف ہے اس لیے فنون لطیفہ پر اس کی تنقید بہت حکمت آموز اور اصلاح گوش ہے۔ اقبال کا زاویہ نگاہ دینی ہے، اس لیے وہ ضروری سمجھتا ہے کہ وہ دین اور فنون لطیفہ کے باہمی روابط کو واضح کرے۔ ضرب کلیم میں چار اشعار کی ایک نظم کا عنوان دین و ہنر ہے: سرود و شعر و سیاست کتاب و دین و ہنر گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات نہ کر سکیں تو سراپا فنون و افسانہ ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ اقبال کے پاس زندگی کے ہر شعبے اور ہر شغل کو جانچنے کا ایک ہی معیار ہے۔ اس کے پاس نفس انسانی کی ماہیت اور اس کے ممکنات کا ایک تصور ہے جس کی وضاحت کے لیے اس نے کم و بیش ہزار اشعار کہے ہیں۔ انسان کی خودی ایک لطیفہ ازلی ہے وہ صفات الٰہیہ سے بہرہ اندوز ہو سکتی ہے ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم اسی خودی کی بیداری اور استواری کی تلقین ہے۔ انسان کی خودی میں تسخیر النفس و آفاق کی لامتناہی قوتیں مضمر ہیں اور مقصود حیات ان مضمرا ت کو معرض وجود میں لانا ہے۔ اس کے ارتقاء کی کوئی انتہا نہیں۔ یہی مقصود حیات خیر و شر کا بھی پیمانہ ہے۔ انسان نے اپنے ارتقاء میں جو کچھ پیدا کیا ہے اس کا اصلی مقصد خودی کی ترقی ہی تھی۔ ادیان کا ظہور بھی اسی سے ہوا۔ تمام علوم و فنون اسی سے پیدا ہوئے۔ سیاست اور معاشرت کے تمام ادارے اسی سے ظہور میں آئے۔ انسان کبھی بھٹکا بھی تو اسی کوشش میں غلط روی سے بھٹکا، لیکن ہمیشہ گر کر سنبھلتا رہا۔ کبھی کبھی خودی کی غلط روی اس کو خود کشی کی طرف بھی لے آتی ہے اگرچہ وہ اس خود کشی کو بھی اپنی خودی ہی کا مظہر سمجھ لیتا ہے۔ انساں کے تمام مشاغل، تمام تصورات اور تمام اداروں کی تہ میں خودی کا لعل بے بہا پوشیدہ ہے۔ اسی گوہر کے متعلق اقبال کا ایک شعر ہے: گوہر کو مشت خاک میں رہنا پسند ہے بندش اگرچہ مست ہے مضموں بلند ہے مندرجہ صدر چار اشعار میں اقبال نے فنون لطیفہ کے ساتھ انسان کے تمام دیگر مشاغل کو بھی شامل کر کے سب کے متعلق ایک ہی مختصر فتویٰ دیا ہے کہ اگر ان سے انسان کے نفس کی تمام قوتوں میں اضافہ ہو تو یہ سب عین حیات ہیں۔ اور ادب، دین و سیاست اگر انسان کو تخریب اور پستی کی طرف لائیں تو سب ڈھکوسلا رہ جاتے ہیں اور امتیں اس سے ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں۔ اسی نظم کے ساتھ ایک دوسری نظم ’’ تخلیق‘‘ پر ہے جس کا موضو ع بھی یہی ہے کہ افکار تازہ سے جہان نو پیدا ہوتا ہے اور جب فن و ادب میں تازہ آفرینی نہ رہے اور لوگ اگلے ہوئے نوالوں ہی کو بار بار نگلنا اور چبانا شروع کریں تو سمجھ لیجئے کہ خودی پر موت وارد ہو گئی۔ مشرق کے دین اور فن دونوں میں اقبال کو زندگی کے آثار نظر نہیں آتے: خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا آگے چل کر ہم اقبال کے کئی اشعار اس موضوع پر مشتمل پیش کریں گے کہ فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ نہ علم برائے علم کے قائل تھے اور نہ فن برائے فن کے۔ کوئی مسجد بھی اگر تفاق کی خاطر بنائی جائے تو وہ بقلید اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قابل انہدام ہے۔ فرانسیسیوں نے پیرس میں ایک مسجد بنائی جس کے لیے کچھ رقم شمالی افریقہ کی مسلمان رعایاسے حاصل کی گئی تھی اور کچھ رقم کا اضافہ حکومت نے کیا ہو گا۔ راقم الحروف کو اس مسجد کے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ فرانسیسیوں کا جو سلوک مسلمانوں سے ہے وہ دنیا کو معلوم ہے۔ یہ آزادی و برادری کے علم بردار مسلمانوں کو مغلوب اور مفتوح بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ریاکاری سے اپنی ملوکیت کی استواری کے لیے انہوں نے یہ مسجد بنائی تاکہ مسلمان انہیں اپنا ہمدرد سمجھیں۔ اس مسجد کی بناء نفاق اور ریا تھی اس لیے اس کی صناعی کے باوجود اس کا احساس مسلمان کو روح فرسا محسوس ہوتا ہے۔ خاکسار کی طبیعت پر بھی یہی اثر ہوا۔ اقبال کی روح کو بھی اس سے ٹھیس لگی۔ اس اثر کو بیان کرتے ہوئے وہ ہنر کے متعلق ایک بصیرت افروز بات بھی کہہ گئے ہیں کہ محض کمال ہنر کوئی چیز نہیں جب تک کہ وہ خلوص کی پیداوار نہ ہو: مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ حرم نہیں ہے، فرنگی کرشمہ بازوں نے تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ یہ بت کدۂ انہیں غارت گروں کی ہے تعمیر دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ اس کے مقابلے میں مسجد ’’ قوت الاسلام‘‘ پر ضرب کلیم میں چند اشعار اور ’’ مسجد قرطبہ‘‘ پر اقبال کی وہ لاجواب تاثر خیز اور حیرت انگیز نظم پڑھیے جس کے متعلق ایک صاحب نے جو فنون لطیفہ کی تقلید میں کچھ ورک رکھتے ہیں، لیکن خدا سے مسجود و سجود کے متعلق مائل بہ الحاد ہیں، ایک روز مجھ سے کہا کہ مسجد قرطبہ پر اقبال کی نظم فن شعر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ صاحب فن کی بحیثیت فن داد دے رہے تھے۔ اقبال مسجد قوت الاسلام کو یا مسجد قرطبہ کو محض فن کی نظر سے نہیں دیکھ رہا بلکہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ یہ تعمیریں قوت حیات کے مظاہر ہیں۔ اور اصلی فن وہی ہے جو زندگی کا مظہر ہو، زندگی کے انفعالی اور انقلابی یاس آفرین پہلوؤں کا نہیں، بلکہ اس کی فعال قوتوں کا، جو ارتقائی اور انقلابی ہیں۔ مسجد قرطبہ نے اقبال کے دل میں جو تاثرات اور افکار پیدا کیے لازم تھا کہ ان کے اظہار کے لیے اقبال اپنا نظریہ فن بھی اس ضمن میں بیان کر دے کیونکہ مسجد قرطبہ فن تعمیر کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔ فن لطیف کے متعلق حکماء کے جو بلند پایہ نظریات ہیں ان میں سے ایک نظریہ بھی ہے کہ فن لطیف آنی کو جاودانی بنا دیتا ہے اور دریچہ زمان سے جھانک کر انسان لازمانی حقائق سے روشناس ہوتا ہے۔ ایک اچھے شاعر میں بھی یہ بات ہوتی ہے: مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم وراے شاعری چیزے دگر ہست یہ چیزے دگر انہیں حقائق کا ادراک ہے جو سرمدی ہیں ۔زمانی و مکانی نہیں بلکہ الوہیت مطلقہ کا پرتو ہیں۔ اہل دل کے لیے روحانی موسیقی میں بھی یہی صلاحیت ہوتی ہے۔ کہ نفس کو ہستی کے باطن میں غوطہ دے کر اس حقیقت مطلقہ سے براہ راست ہم آغوش کرتی ہے جس کو اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو بعض کوتاہ بین گمراہ ہو جائیں اور عالم کے تمام لوگوں کا زاویہ نگاہ الٹ پلٹ ہو جائے: سر پنہان است اندر زیر و بم فاش اگر گویم جہاں برہم زنم بعض تصویروں میں بھی یہ اثر ہوتا ہے کہ ان کو دیکھ کر صورت پرستی کی بجائے انسان کسی اور عالم میں گم ہو جاتا ہے اور تصویر حقیقت مطلقہ کی طرف محض ایک اشارے کا کام دیتی ہے۔ عالم رنگ و بو اور جہان آب و گل میں تصویر، مصور اور معمار سے زیادہ پائدار ہوتی ہے لیکن کمال پائداری کے باوجود آخر کار زمانہ اس کو فنا کر دیتاہے۔ فن لطیف کی جاودانی اس کے مظاہر میں نہیں بلکہ اس تاثیر میں ہے جو انسان کو زمان و مکان ا ور حوادث کے عالم سے ماوریٰ لے جاتی ہے۔ اقبال پہلے یہ کہتا ہے کہ: آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر کار جہاں بے ثبات کار جہاں بے ثبات انسانی تاریخ میں بڑے بڑے عظیم الشان معجزہ ہائے ہنر مرور ایام سے ناپید ہو گئے۔ کہیں کھنڈر باقی ہیں اور کہیں نشان بھی نہیں ملتا، لیکن فلاسفہ فن لطیف نے فن کی خوبی اور کمال کو جانچنے کے لیے ایک یہ معیار بھی قائم کیا ہے کہ فن جس قدر حقیقی مظہر حیات ہوتا ہے اسی قدر اس کو ثبات حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں نے ہزار ہا تعمیر کے اعلیٰ نمونے پیدا کیے، اب ان میں سے خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں، لیکن سارا جہان تاج محل کو دیکھنے آتا ہے اور اسے معجزہ فن سمجھتا ہے۔ مادی اور زمانی حیثیت سے لازوال وہ بھی نہیں، لیکن مقابلتاً اس میں ثبات زیادہ ہے۔ دنیا میں ہزار ہا شعراء پیدا ہوئے جن کا اب نہ کوئی نام جانتا ہے اور نہ ان کے کلام کا نمونہ ملتا ہے لیکن ہومر، حافظ، سعدی، شیکسپیئر، گوئٹے پر زمانے کی دستبرد کا کوئی اثر نہیں۔ اس ثبات میں مطلقیت اور ابدیت کا پرتو ہے۔ا قبال کے نزدیک اعجاز فن کے یہ نمونے ان مردان خدا کی خلاقی کا نتیجہ ہیں، جن کے باطن میں زندگی کا وہ سرچشمہ تھا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ عشق کو موت نہیں اس لیے وہ اپنے زمانی و مکانی مظاہر کو بھی ثبات بخشنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام عشق کی بدولت جو اعجاز حسن پیدا ہوتا ہے اس کی بقا میں فطرت کس قدر کوشاں ہے، اس کا ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ پھو ل جو پروردگار حسن و عشق کے رسول ہیں، چند روز اپنی بہار دکھا کر مرجھا کر خاک ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے مصادر حیات تخم فنا نہیں ہوتے۔ روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد کا تسکین بخش جواب فطرت کے پاس یہ ہے کہ اگلی بہار میں ایک مرجھائے ہوئے پھول کے بیج اپنی قسم کے سو پھول پیدا کر دیتے ہیں۔ فطرت بھی اپنے فن لطیف کے مظاہر کو ثبات بخشتی ہے لیکن یہ انداز ثبات ایک خاص نوعیت کا ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ معجزۂ فن کی نمود زندگی کی باطنی بے تابیوں کا اظہار ہے۔ خون جگر سے نمود کے یہی معنی ہیں۔ مرزا غالب کا بھی یہی نظریہ تھا کہ اچھا شعر محض صناعی سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ قلب و جگر کے سوز و گداز کا نتیجہ ہوتا ہے: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی غالب ایک ولولہ انگیز اور بصیرت افروز غزل کے مقطع میں آفرینش شعر کی نفسیات کو بیان کرتا ہے: بینی ام از گداز دل در جگر آتشے چو سیل غالب اگر دم سخن رہ بضمیر من بری اگر ایسے اشعار کہتے ہوئے میرے باطن پر نگاہ ڈال سکو تو تمہیں نظر آئے کہ گداز دل سے آتش سیال جگر کی طرف بہ رہی ہے۔ عرفی نے بھی اسی کیفیت کو بیان کیا ہے: بحفظ گریہ مشغولم اگر بینی درونم را ز دل تا پردۂ چشمم دو شاخ ارغوان بینی اقبال نے کمال فن سے تمام فنون لطیفہ کی حقیقت کو دو شعروں میں سمیٹ لیا ہے: رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صورت معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل خون جگر سے صدا سوز و سرود و سرود مصوری، سنگ تراشی، تماثیل سازی، موسیقی، شاعری سب کو یہاں کس حسن اختصار سے جمع کیا ہے: ’’قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل‘‘ ایسا بلیغ مصرع ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہو سکتا۔ فطرت خارجی ہو یا فن لطیف اس میں یا جلال پایا جاتا ہے یا جمال۔ بے پایاں سمندر اور فلک بوس سلسلہ کہسار میں جلال طبیعت کو متاثر کرتا ہے اور ایک نازک پھول جلال کا نہیں بلکہ جمال کا مظہر ہوتا ہے۔ بعض تعمیریں ایسی ہیں جن میں جلال کو جمال سے ہم آغوش کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ تاج محل کی تعمیر میں بڑی وسعت اور رفعت ہے، لیکن فن کار کا کمال یہ تھا کہ اس نے جلال کو جمال میں چھپا دیا ہے اور پوری تعمیر ایک خوش نما، لطیف اور ہلکی پھلکی چیز معلوم ہوتی ہے کہ اس کو شیشے کے ایک فانوس کے اندر ہونا چاہیے۔ صفات الٰہیہ میں بھی ایک پہلو جمال کا ہے، دوسرا پہلو جلال کا۔ قہاری، جباری اور جبروت جلال کے مظاہر ہیں اور مخلوق سے محبت اور اس پر رحمت از روئے قرآن تمام موجودات پر محیط ہے، جمال ایزدی کا اظہار ہیں۔ خدا کی ذات میں جلال و جمال کی صفات میں کوئی تضاد نہیں۔ اسی طرح فن کا کمال یہ ہے کہ اس میں بھی یہ دونوں پہلو اس طرح ایک دوسرے میں سموئے ہوں کہ ان کا ظاہری تضاد ایک وحدت میں رفع ہو جائے۔ مسجد قرطبہ میں اقبال کو یہی اعجاز فن نظر آیا: تیرا جلال و جمال مرد خدا کی دلیل وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل یہاںپر یہ بات کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خود اقبال کے بہترین کلام میں یہ خوبی موجود ہے۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اقبال کے کلام میں جلال جمال پر غالب ہے۔ یہ غلط خیال اس لیے پیدا ہوا کہ اقبال نے خود کہیں کہیں جوش بیان میں جلال کو جمال پر غالب کر دیا ہے اور جمال کی حیثیت وہاں ثانوی دکھائی دیتی ہے: مرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی ترے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک مری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک نہ ہو جلال تو حسن و جمال بے تاثیر نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بیباک ٭٭٭ گفتند جہان ما آیا بتو می سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن ٭٭٭ چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن ٭٭٭ خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر ٭٭٭ باغباں زور کلامم آزمود مصرعے کارید و شمشیرے درود اس جلالی جذبی کے سینکڑوں اشعار اقبال کے کلام میں ملتے ہیں اور یہ اس کے نظریہ حیات کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، لیکن کون صاحب ذوق سلیم کہہ سکتا ہے اس کے نظریے اور پیرایہ بیان میں جمال نہیں۔ وہ بعض اوقات ایک ہی شعر میں جلال و جمال دونوں کی یکجا تلقین کرتا ہے۔ رزم حیات کے لیے سیل کہسار ہو جا، لیکن بزم میں جوے خیاباں کی طرح نرم رو ہو: نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز ٭٭٭ اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی اس کے ہاں شہسوار کی صفت غارت گری اور چنگیز خانی نہیں۔ شہسوار کو ہمت و قوت کے ساتھ خلق عظیم کا بھی مالک ہونا چاہیے جو ایک جمالی صفت ہے: آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار حامل خلق عظیم صاحب صدق و یقین اس مضمون کے بے شمار آپ کو اقبال کے کلام میں ملیں گے جہاں وہ جمال و جلال کی ہم آہنگی کو زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ جلال اگر بے جمال ہو جائے تو اس میں ابلیس کی صفت پیدا ہو جاتی ہے جس طرح زیرکی اگر عشق سے معرا ہو جائے تو وہ شیطان کی حیلہ گری رہ جاتی ہے: زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ادبیات میں ذوق جمال زیادہ تر انفعالی ہو گیا تھا جس سے ایک ادنیٰ قسم کی لذت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے خلاف رد عمل لازمی تھا تاکہ جلال اور ہستی فعال کے پہلو کو نمایاں کیا جائے۔ انحطاط کی وجہ سے قرآن میں بھی مسلمانوں کو تقدیر کا وہ مفہوم نظر آیا جس سے انسان کا اختیار اور اس کی جدوجہد نفس کا دھوکا بن جاتی ہے۔ یہ عقیدہ کہ زاہد کا زہد اور عاصی کا گناہ سب ازل سے مقدر ہے اور انسان کو تن بہ تقدیر عجز اختیار کرنا چاہیے۔ اشاعرہ کا علم الکلام، صوفیہ کی وحدت وجود، حکماء کی جبر پرستی سب انسان کو بے بس کرنے میں متحد ہو گئے۔ صوفیہ میں فقط عارف رومی نے اس کے خلاف جہاد کیا اور زمانہ حال میں اقبال نے مسلمانوں کو قرآنی تقدیر کا مفہوم بتایا۔ مسلمانوں کی ادبیات میں غلط نظریہ حیات کی بدولت عجز اور قناعت اور رضا و تسلیم کی تعلیم ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھنے کی تلقین بن گئی۔ اقبال اس قسم کے مذہب اور اس قسم کے ادب کو انحطاط کی پیداوار سمجھتا ہے: اسی قرآن میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر ’’تن بہ تقدیر‘‘ ہے آج ان کے عمل کا انداز تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتی ہے قوموں کا ضمیر فن لطیف کا ایک شعبہ ڈراما بھی ہے جس کے لیے تھیٹر قائم کیے جاتے ہیں۔ ہر ڈرامے میں مختلف کردار ہوتے ہیں اور اداکار ان کرداروں کو اس طرح اپنی شخصیت میں سموتے ہیں کہ اگر شیطان کا پاٹ ادا کر رہے ہیں تو مجسم ابلیس نظر آئیں۔ اچھے صاحب کمال اداکار وہ شمار ہوتے ہیں جو نہایت کامیابی سے اپنی شخصیت کسی دوسرے کردار کی نقالی میں ہنگامی طور پر ختم کر دیں۔ اس کمال آفرینی کا رفتہ رفتہ یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اداکار اپنی خو کو کھو بیٹھتا ہے۔ اچھا ڈراما دیکھنے والوں کو نفسی اور اخلاقی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں، لیکن اداکار کی نفسیات خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ مغرب میں بھی بعض نقادان فن نے اس تخریب کا اقرار کیا ہے: حریم تیرا خودی غیر کی معاذ اللہ دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے! رہا نہ تو تو نہ سوز خودی نہ ساز حیات مغربی تہذیب میں ڈرامے کا رواج بہت عام ہے۔ بعض ڈرامے اصلاح معاشرت کی خاطر لکھے جاتے ہیں، جیسے برناؤشا کے ڈرامے اور بعض محض تفریح و تفنن کے لیے۔ لیکن یہ عجب بات ہے کہ مغرب میں بھی کوئی سنجیدہ شخص اداکاروں کے اخلاق کا قائل نہیں بلکہ یہ ایک مسئلہ بن گیا ہے کہ اداکاری کے فن کو اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ ہالی وڈ کے ستاروں کی جو اخلاقی زندگی ہے وہ عوام و خاص کے نزدیک ایک مضحکہ خیز چیز ہے۔ ایک طرف تو اداکاروں کو یہ داد ملتی ہے کہ بے پایاں دولت ان کو اجرت میں دی جاتی ہے اور دوسری طرف یہ مشتہر ہوتا ہے کہ نکاح کے معاملے میں: از یک بگستی بہ دگر پیوستی فارسی شاعر نے تو یوں ہی تفریحاً کہا تھا کہ ہر موسم بہار میں ایک نئی شادی کیا کر، کیوں کہ پچھلے سال کا کیلنڈر بے کار ہو جاتا ہے: زن نو کن اے مرد در ہر بہار کہ تقویم پاریں نیاید بکار لیکن امریکہ کے مشہور اداکار مرد و زن دوسری بہار کی آمد کا بھی انتظار نہیں کرتے۔ کیا اقبال کی تنقید غلط ہے کہ خودی میں جو سرور و سوز و ثبات حیات ہے وہ کاملاً تمثیل میں ناپید ہو جاتا ہے؟ یہ درست ہے کہ ڈراما بعض اوقات اصلاح خلق کے لیے لکھا جاتا ہے، لیکن اس اصلاح کی تمثیلی تلقین کرنے والے اپنی زندگی میں کیا مثالیں پیش کرتے ہیں۔ فن برائے فن کے قائل کہتے ہیں کہ فن لطیف کا کام اصلاح کوشی نہیں ہے اور فن کاروں کو عام اخلاقیات کی کسوٹی پر پرکھنا درست نہیں۔ اقبال نے اہل ہنر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں بھی اچھے ہنر کو خودی کے احساس کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ ادبیات میں فکر و ذکر یا دین و دانش کی جو پیکار نظر آتی ہے وہ خودی کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر خودی بیدار ہو تو فکر و ذکر میں کوئی تضاد نہ ہو۔ یہ چپقلش خودی کا غیاب پیدا کرتی ہے اور خودی کے حضور سے روح پرور شعر و سرود کا عالم پیدا ہوتا ہے، مگر یہ ہمارے غزل گوؤں کی شاعری اور ہمارے پیشہ ور مطربوں اور حسن فروشوں کا سرود نہیں: تیری خودی اک غیاب معرکہ ذکر و فکر تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود ٭٭٭ گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود! اقبال رومی کی طرح ’’ سماع راست‘‘ کا دالدہ ہے، لیکن ان معنوں میں سماع راست کہاں؟ روح انسانی کے جتنے بلند اقدار ہیں وہ پیشہ وروں کی بدولت اپنی روح کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مذہب کو بھی انہیں لوگوں نے خراب کیا جنہوں نے اس کو پیشہ بنا لیا۔ اسلام تو کوئی مذہب پیشہ جماعت پیدا نہ کرنا چاہتا تھا جو برہمنوں کی طرح ملت اسلامیہ پر مسلط ہو جائے، لیکن اب پیشہ ور فقیہ اور ملا کہتے ہیں کہ مذہب کا علم ہمارا اجارہ ہے۔ اسی اجارہ داری نے ہمیشہ روحانیت اور اخلاق حسنہ کو فنا کیا ہے۔ فنون لطیفہ کی بھی یہی حالت ہے کہ پیشہ ور شاعروں نے شاعری کو ہوس پرستی کا سنڈاس اور دروغ بافی کا ایک طومار بنا دیا۔ موسیقی پیشہ بن کر میراثیوں اور ارباب نشاط کے حوالے ہو گئی۔ کرشن کی بانسری اور عارف رومی کی نے، مطرب و مغنی کے ساز بن گئے۔ ایک صوفی نے کیا خوب کہا ہے کہ سڑک کے کنارے قرآن کی آیات پڑھ کر بھیک مانگنے والے گداگر کے دل میں اگر قرآن کا ایک حرف بھی اتر جائے تو وہ گداگری کی بجائے دنیا و مافیہا سے مستغنیٰ ہو جائے۔ا قبال کہتا ہے کہ مغنی بھی اگر دل کے رمز سمجھ جائے تو اس کا ہنر کمال کو پہنچ جائے: جس روز دل کے رمز مغنی سمجھ گیا سمجھو تمام مرحلہ ہاے ہنر ہیں طے آیا کہاں سے نالہ نے میں سرور مے اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے؟ اس سے قبل ثبات ہنر کا تذکرہ ہو چکا ہے اور بعض صوفیہ و حکماء کا یہ نظریہ بھی بحث میں آ چکا ہے کہ ہنر مند انسان اپنی فطرت کو زمانی و مکانی حدود و قیود سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔ فن لطیف کے متعلق ایک ادنیٰ قسم کا نظریہ یہ ہے کہ فن لطیف فطرت کی نقالی کا نام ہے۔ یہ خیال ارسطو میں بھی ملتا ہے جو اپنی خشک حکمت کی وجہ سے ذوق جمال سے محروم تھا۔ اسی لیے وہ فن لطیف کا اصلی مقصود نہ پا سکا۔ اس کے ہاں ابدیت اور حقیقت مطلقہ کا پرتو فقط منطقی تصورات میں پایا جاتا ہے۔ اقبال فن لطیف کی ماہیت سے خوب واقف ہے۔ انسان اپنے فنون میں ہمیشہ فطرت کی نقالی نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا فن ادنیٰ درجے کا ہوتا ہے فن لطیف کا اصل کام فطرت کی کثافتوں میں لطافت پیدا کرنا ہے اور بقول ورڈز ورتھ اس نور کی جھلک دکھانا ہے جو خشکی او رتری میں نظر نہیں آتا مگر روح انسانی کو روشن کرتا ہے۔ انسان کا وظیفہ حیات فطرت کی ترمیم و تزئین ہے:’’ تو شب آفریدی چراغ آفریدم‘‘ اسی عقیدے کا اظہار ہے۔ اہرام مصر پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں ان میں بھی اسی خیال کو واضح کیا ہے کہ دیکھو فطرت نے توریت کے ٹیلے بنائے جو صحرا کی طوفانی ہواؤں سے ہر روز اپنا مقام بدلتے رہتے ہیں، اسی ریگ رواں کے صحرا میں فراعنہ مصر نے وہ اہرام کھڑے کر دیے جو دس ہزار سال سے حوادث فطرت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اس زمانی مکانی عالم میں ابدیت کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ فطرت کا مقابلہ ہے، اس کی نقالی نہیں: اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر؟ فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو صیاد ہیں مردان ہنر منہ کہ نخچیر؟ اچھے اہل ہنر ایسا فردوس نظر تعمیر کرتے ہیں جو نہاں خانہ ذات کو چشم تماشا پر فاش کر دیتا ہے۔ ہنر کا کام نو آفرینی ہے۔ پرانے بتوں کو مندروں یا عجائب خانوں میں رکھ کر ان کی پرستش کرنا اور زندگی کا نئی ہنر مندی میں اظہار نہ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہنر کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اس ہنر کے جنازے سے اورنگ زیب کے سوانح کا ایک مشہور واقعہ یاد آ گیا۔ عالمگیر کے زمانے میں سیاست، معاشرت اور ہنر سب زوال پذیر تھے۔ اس کی مسلسل کوشش بھی زوال کو نہ روک سکی۔ موسیقی عیاشی کا آلہ بن گئی تھی۔ اس نے ارباب نشاط اور مطربوں پر کچھ قدغن لگائی۔ احتجاج میں انہوں نے مرحوم موسیقی کا ایک جنازہ نکالا اور قلعے کے سامنے سے ماتمی جلوس کو گزارا تاکہ بادشاہ کو بھی اطلاع ہو جائے۔ عالمگیر نے دیکھا تو کہا کہ ان سے کہ دو کہ اس کی قبر ذرا گہری کھودیں تاکہ آسان سے اس کا حشر نہ ہو سکے۔ ضرب کلیم میں ایک نظم کا عنوان فنون لطیفہ ہے۔ ان اشعار میں تصورات اور نظریات زیادہ تر وہی ہیں جنہیں اقبال نے بالتکرار مگر انداز بیان کی بوقلمونی کے ساتھ بے شمار اشعار میں بیان کیا ہے: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا فن لطیف کے متعلق یہ نظریہ بعض بڑے بڑے حکمائے فرنگ کے جمالیاتی نظریات کے خلاف ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ فن لطیف کا کام دلکش نفسیاتی دھوکا پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصود زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔ فرائڈ کے نزدیک حقیقت آشنائی صرف طبعی اور فرائڈ کی پیدا کردہ نفسیاتی سائنس میں پائی جاتی ہے۔ فقط انہیں میں حوادث حیات و کائنات کا کماھی مشاہدہ ہوتا ہے۔ سائنس کا کام جذبات اور تمناؤں کی فریب آفرینی سے بچنا ہے، مگر اس کے نزدیک دین اور فن لطیف دونوں فرار کے راستے ہیں۔ خدا کے تصور کے غیر حقیقی اور سیمیائی ہونے پر ا س نے ایک مستقل کتاب لکھی ہے وہ کہتا ہے دین انسان کی عاجزی اور بیکسی کی پیداوار ہے۔ جب حقیقی دنیا میں کوئی سہارا اور جائے پناہ نظر نہیں آتی اور یہاں کوئی ہستی تمام آرزوؤں کو پورا کرنے کی کفیل نہیں ہوتی تو انسان ایک ایسے عالم کا تصور قائم کر لیتا ہے جو مصائب سے پاک ہے او رجہاں اس دنیا کی تمام نا انصافیوں اور تلخیوں کی تلافی کی توقع ہے۔ جہلا کے لیے تو یہ سارا کچھ مفید ہی معلوم ہوتا ہے لیکن کسی حقیقت پسند کے لیے اس دھوکے میں زندگی بسر کرنا حکمت کے شایان شان نہیں۔ مذہب کے مقابلے میں وہ فنون لطیفہ کی مخالفت نہیں کرتا۔ ان کے دلکش دھوکوں کو وہ بے ضرر تفریح خیال کرتا ہے۔ فن لطیف کا کام دلآویز مگر موہوم چیزوں کو ہنگامی طور پر موجود بنا دینا ہے۔ اس کے مقابلے میں رسکن یا ورڈز ورتھ جیسے مفکر اور شاعر فن لطیف کی بابت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ زندگی کے بہت سے حقائق تلخ ہیں۔ لیکن ان کا علاج دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمت اور صبر اور روحانی زاویہ نگاہ سے ان تلخیوں کے نیش کو نوش سے بدلا جائے۔ بروننگ کا نظریہ حیات زیادہ تر یہی ہے، لیکن ورڈز ورتھ صوفی مزاج شاعر ہے وہ اس حقیقت کو محسوس کرتا ہے کہ زمانی و مکانی عالم سے گریز انسان کو ایک موہوم دنیا میں نہیں لے جاتا۔ فن لطیف دھوکوں سے مسرت آفریں نہیں ہوتا بلکہ نفس انسانی کو ضمیر فطرت سے آشنا کرتا ہے۔ کسی بالغ نظر شاعر کی شاعری میں ’’ وراے شاعری چیزے دگر‘‘ جو کچھ ہے وہ حقیقت حیات کا اظہار ہے جو خالی طبعی سائنس کے بس کی چیز نہیں۔ اعلیٰ درجے کی شاعری ہو یا روح پرور نغمہ اس میں اس روحانی گروہ کے لیے وہی کچھ ہے جس کے متعلق رومی کہتا ہے: سر پنہان است اندر زیر و بم فن لطیف کا کا مسرت آفرینی نہیں۔ا گرچہ روح کو اس سے ایک گہری تسکین حاصل ہوتی ہے۔ فن لطیف میں لذت و الم کا تضاد مٹ جاتا ہے۔ سوز ساز بن جاتا ہے اور وہ آفرین نغمے مسرت انگیز ترانوں کے مقابلے میں روح کے تاروں کو زیادہ مرتعش کرتے ہیں۔ یہ محض غم غلط کرنے کا سامان نہیں: اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ ہو جو مے و نغمہ کو اندوہ رہا کہتے ہیں (غالب) اگر فن لطیفہ کا وظیفہ مسرت آفرینی نہیں تو الم آفرینی بھی اس کا مقصود نہیں۔ زندگی میں افسردگی اور یاس پیدا کرنے والا ہنر اپنے مقصد میں ناکام ہے۔ جو سوز حیات مقصود ہنر ہے وہ زندگی کے مصائب پر نالہ فغاں کا نام نہیں۔ سوز حیات زندگی کی ماہیت میں داخل ہے، مگر یہ وہ سوز نہیں جو حوادث سے مغلوب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ محض طبعی حکمت مظاہر کے سطحی روابط سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور وجدان حیات کی زبان طبیعات کی قانونی زبان نہیں۔ استدلالی فلسفہ بھی اگرچہ بعض اوقات سائنس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن وہ بھی طبیعیات میں الجھا رہتا ہے: رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست ایک گتھی کو سلجھاؤ تو دو پیچاک اور پیدا ہو جاتے ہیں۔ وجدان حیات کی زبان فن لطیف ہے، جو محض فن نہیں بلکہ حقیقت رس نظر اور عرفانی تاثر کا اظہار ہے۔ یہ محض ذوق نظر سے پیدا نہیں ہوتا اس کا ماخذ وہ کیفیت ہے جسے اقبال خون جگر کہتا ہے۔ انسان کے نفس کی گہرائیوں میں سے نکلی ہوئی بات کبھی شعر بن جاتی ہے، کبھی نغمہ اور کبھی اس کا اظہار رنگ و سنگ کے واسطے سے ہوتا ہے، مگر وہ ضمیر حیات کا انکشاف ہوتا ہے۔ ضمیر حیات میں امید ہی امید ہے یاس نہیں۔ یاس انسان کے لیے بھی کفر ہے اور عام فطرت کے لیے بھی۔ مشرقی شاعری، ہندی بھاشا کے دوہے ہوں یا اردو اور فارسی شاعری کی یاس انگیز غزلیں، اس قسم کا سب ہنر زندگی کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر شاعر کی غزل گو یا اس کی اپنی زندگی کا مرثیہ ہوتی ہے۔ کربلا کے عظیم الشان مجاہدانہ حوادث کو بھی مسلمانوں نے ماتم میں تبدیل کر دیا، حالانکہ قوم میں اگر زندگی ہوتی تو انہیں واقعات سے انقلاب انگیز اور ہمت خیز شاعری پیدا ہو سکتی تھی۔ حالی اور اقبال سے پہلے اردو شاعری کا کمال انیس و دبیر کے مرثیوں میں ظاہر ہوا۔ لیکن یہ زوال کا کمال تھا یہ قول میرا نہیں بلکہ علامہ اقبال کا ہے۔ اقبال کے کلام پر آپ نظر ڈال کر دیکھئے اس میں کہیں مرثیہ نظر نہ آئے گا۔ والدہ مرحومہ کی یاد میں جو ایک طویل اور حکمت و تاثیر سے لبریز نظم کہی ہے اس میں بھی آہ و زاری کہیں نہیں۔ دنیا میں ہر چیز کی بے ثباتی کا ذکر کر کے فوراً اس حقیقت حیات کی طرف اپنا رخ بدلتا ہے جس میں زندگی موت پر غالب آتی رہتی ہے۔ ہمارے غزل گووں میں میر تقوی بڑا استاد گزرا ہے اور اکثر بڑے بڑے شعرا نے اسے داد دی ہے: نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا ریختے کے تمہیں استاد نہی ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا میر کے نشتر بہتر ہوں یا ہزار، سب میں ایک شکست خوردہ اور انفعالی کیفیت ہے: شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے دل ہوا ہے چراغ مفلس کا ٭٭٭ عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا غالب کے ظلمت کدے میں بھی شب غم ہی کا جوش ہے۔ شمع جو دلیل سحر ہے وہ بھی خاموش ہے۔ اس ظلمت کی وجہ سے دن اور رات یکساں ہو گئے ہیں: چوں صبح من زسیاہی بہ شام مانند است چہ گویمت کہ ز شب چند رفت و تا چند است عصر حاضر میں فانی بدایونی غزل کا استاد تھا۔ اس کی تمام شاعری میں حرمان و حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے دوست جوش ملیح آبادی نے اس کے سامنے ایک روز کہا کہ بھائی تمام دنیا تمہارے لیے ایک امام باڑا ہے جس کے اندر تم ایک تعزیہ معلوم ہوتے ہو۔ ایسے شعراء کے لیے زندگی کی حقیقت دکھ کے سوا کچھ نہیں۔ اس شاعری پر ہندی فلسفے اور مذہب کا گہرا اثر ہے جو تمام زندگی کو ایک سزا یا دھوکا سمجھتا ہے۔ حکمت اور گیان کا کام راہ گریز دریافت کرنا ہے جو راہ عمل نہیں، کیوں کہ نیک و بد دونوں اعمال کی بدولت انسان واگون کے چکر میں سے نہیں نکل سکتا۔ اقبال جیسے شاعر جب سوز حیات ابدی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ میر اور فانی کی نالہ کشی نہیں ہوتی۔ اقبال نے تماما ردو اور فارسی شاعری کا رخ پلٹ دیا اور یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ اگر اس نے حکمت کے اور بیش بہا موتی اپنے کلام میں نہ بھی بکھیرے ہوتے تو بھی یہ اکیلا کارنامہ اپنی ملت اور نوع انسان پر ایک بڑا احسان شمار ہوتا۔ اچھا ہنر وہ ہے جس سے بقول ٹینی سن ملتوں کے قلوب استوار ہوں اور جو قوموں کا رخ انحطاط سے عروج کی طرف پلٹ دے۔ فنون لطیفہ کے عنوان سے جو پانچ اشعار ہیں اسی نظریہ ہنر کا لب لباب پیش کرتے ہیں: اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا اے قطرۂ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا بے معجزۂ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا اردو اور فارسی کا ایسا برا حال کیوں ہوا۔ موضوع سخن کے لحاظ سے شاعری کا زوال ایران سے شروع ہوا۔ وہاں قصیدہ گوئی میں ایک طرف جھوٹ کا طوفان پیدا ہوا۔ اہل ہنر نے اپنا ہنر اور اپنی خودی زر ے عوض بیچ ڈالی۔ اس کے بعد شاعری میں ہوس پرستی اور امرد پرستی کا سیلاب آیا۔ تصوف نے بہت کچھ اس کی اصلاح کی اور صوفیانہ شاعری میں عشق جنسی جذبات سے بلند ہو گیا لیکن اعلیٰ افکار اور جذبات کے ساتھ ساتھ حیات گریز نظریات بھی متصوفانہ شاعری میں داخل ہو گئے، اس لیے وہاں بھی انفعالی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔ اردو شاعری کو یہ سب کچھ ورثے میں ملا اور ادھر ہندی فلسفہ تھا جو تمام زندگی کو دکھ اور دھوکا قرا ردیتا تھا۔ یہ وراثت بھی اردو شاعروں کے حصے میں آئی۔ تمام شاعری اور موسیقی اندوبگینی سے لبریز ہو گئی۔ اکثر شاعر جو زندگی کا ماتم کرتے تھے وہ ان کا کوئی ذاتی تجربہ نہ تھا۔ یہ زیادہ تر شاعرانہ روایات کی تقلید تھی، جیسے شراب کو نہ چھونے پر بھی شاعر خواہ مخواہ شرابی بنتا ہے، اسی طرح عاشق نہ ہونے پر بھی بہ تکلف و تصنع بازاری عشق کا دعویٰ کرتا ہے۔ تصوف کے جو افکار تھے وہ بھی سب روایتی تھے۔ کئی شاعر زندگی کو ابھارنے کی کوشش کرتے تھے لیکن افکار و تاثرات میں کوئی جدت نہ تھی۔ نظیر اکبر آبادی نے روایتی شاعری کو بالائے طاق رکھ کر گرد و پیش کی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھ کر شاعری کی تو تذکرہ نویسوں نے اس کو قابل اعتنا ہی نہ سمجھا۔ اس کی نظر بہت حکیمانہ یا صوفیانہ نہ سہی لیکن جو کچھ کہتا ہے وہ نظر سے دیکھ کر کہتا ہے اور وہی کچھ کہتا ہے جو محسوس کرتا ہے۔ متقدمین اور متاخرین میں سے کوئی شاعر اس کے لیے قابل نظر تقلید نمونہ نہیں۔ دور حاضر میں حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری حالی سے قبل نظر نہیں آتی، مگر اس کو بھی صناع اور مقلد شاعری نے استاد نہ مانا۔ اقبال نے زندگی کو اپنی نظر دیکھ کر شاعری شروع کی تو عرصہ دراز تک روایت پسند اساتذہ اور زبان کے اجارہ داروں کا یہی مشغلہ رہا کہ اس کے کلام میں تذکیر و تانیث اور محاورے کے سقم تلاش کئے جائیں۔ اقبال کہتا ہے کہ ہنر میں جدت زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ مقلد محض، خواہ دین میں ہو اور خواہ ہنر میں، چشمہ حیات سے سیراب نہیں ہوتا، وہ دوسروں کی زندگی میں کی آبیاری کر سکتا ہے: دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے ظاہر تری تقدیر ہو سیماے قمر سے دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟ شاعری کے علاوہ مصوروں کے متعلق بھی اقبال کو یہی شکایت ہے کہ یہ بھی مقلد ہی نظر آتے ہیں۔ یہ خیال درست ہے کہ آرٹ کسی قوم کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی ہماری مصوری کو دیکھے تو اس کی ملت کا زاویہ نگاہ، اس کی تمنائیں اور آرزوئیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ مغرب میں نشاۃ ثانیہ سے قبل کلاسیکی آرٹ موجود تھا جس میں عیسوی تصورات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں جب حیات فرنگ نے ایک نئی کروٹ لی تو ایک نیا آرٹ پیدا ہو گیا۔ مائیکل انجیلو اور ریمبرانٹ وغیرہ اس نئی زندگی کا اظہار رنگ و سنگ میں کرتے ہیں۔ اسلامی تہذیب و تمدن میں مصوری کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہو سکا۔ جس کے اسباب اس سے قبل بیان ہو چکے ہیں۔ عصر حاضر میں جب یہاں مصوری کی طرف توجہ ہوئی تو زیادہ تر اس میں فرنگ کے مختلف اسکولوں کی کورانہ تقلید تھی۔ کچھ ایسے تھے جنہوں نے راجپوت اسکول کی پیروی کی، کچھ قدیم مغل روایات کے مقلد ہو گئے، جن کی ابتداء اکبر و جہاں گیر کے ذوق سے ہوتی ہے۔ اس دور میں بھی کچھ ایرانی اساتذہ کی نقالی نظر آتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی جن مصوروں نے نام پیدا کیا ہے ان کی تصویروں میں بھی اپنے وطن اور اپنی قوم کے جذبات کہیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ گذشتہ نصف صدی میں مغرب میں مصوری کے کچھ انوکھے اسکول پیدا ہوئے، جن میں سے بعض اہل مغرب کے لیے بھی قابل فہم نہ تھے۔ وہ مصوری اپنی جنم بھوم میں بھی معما تھی۔ نقالی سے وہ معما ہمارے ہاں اور مضحکہ خیز بن گیا۔ کسی قنوطی شاعر کا شعر ہے: اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی کیا ہے کوئی خواب ہے دیوانے کا بہت سی تصویریں جواب نمائشوں میں لٹکائی جاتی ہیں دیوانوں کے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن تقلید کی انتہا یہ ہے کہ یہ سپنے بھی یہاں کے دیوانوں کے اپنے سپنے نہیں ہیں، بلکہ مغربی دیوانوں کے خوابوں کے خاکے ہیں۔ انسانوں کے جونقشے ان میں نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ کیفیت ہے کہ ’’ سر لون کا، منہ پیاز کا، امچور کی گردن‘‘ کسی زمانے میں ہمارے ہاں شاعری مہمل گوئی پر اتر آئی تھی اور شعر کو معما یا گورکھ دھندا بنانا استادی کا کمال شمار ہوتا تھا۔ مرزا غالب بھی ایام شباب میں اس بے راہ روی کے شکار ہوئے لیکن پختگی کے بعد سنبھل گئے۔ لوگ ایسے شعر بھی کہتے تھے اور نکتہ آفرین شارح ان کی شرح میں داد ذہانت دیتے تھے: ٹوٹی دیا کی کلائی زلف الجھی بام میں مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں قبر تھی بام فلک پر اور سمندر جام میں ٭٭٭ پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال مغرب کی مصوری پر اب ایسا ہی دور آیا ہے او رہمارے ہاں کے مصوروں نے اس کی نقالی شروع کر دی ہے۔ ایک فرنگی نقاد نے ہمارے مصوروں کی ان تصویروں کو دیکھا اور کہا کہ یہ فرنگ کے فلاں فلاں اسکولوں کی کامیاب یا ناکام نقالی ہے۔ تمہارا پاکستانی آرٹ کہاں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم کو اپنی خودی کا احساس نہ ہو او رہنر اس کی مخصوص تمناؤں اور زوایائے نگاہ کا آئینہ دار نہ ہو، تب تک مصوری زندگی کی ترجمان نہیں بن سکتی۔ اقبال نے ہماری موجودہ مصوری پر پانچ اشعار میں جو تنقید کی ہے اس سے ہمارے مصوروں کو اپنی حقیقت معلوم ہو جانی چاہیے: کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل ہندی بھی فرنگی کا مقلد عجمی بھی مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس دور کے بہزاد کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلیٰ بھی معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی نئی بھی فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی سرود حلال اور سرود حرام کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی اقبال کے پاس معیار وہی خودی کی بیداری اور استواری ہے۔ سرود بھی علم اور فطرت کی دیگر قوتوں کی طرح ایک بے طرف اور غیر جانبدار چیز ہے۔ مختلف قسم کی موسیقی مختلف تاثرات پیدا کرتی ہے اس لیے علی الاطلاق موسیقی کو نہ حلال کہہ سکتے ہیں اور نہ حرام۔ سرود حلال وہ ہے جس سے دل میں محض کوئی عارضی تموج ہی پیدا نہ ہو بلکہ وہ ایک پائدار اثر چھوڑ جائے، جس سے زندگی کا رنگ بدل جائے۔ عارضی طور پر تو ایک جرعہ شراب سے بھی انسان غم و خوف سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ’’ لاخوف علیھم ولاھم یحزنون‘‘ جو اولیاء کی ایک مستقل کیفیت ہے، وہ ایمان ہی کی پختگی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس قسم کے ایمان کو کئی راستوں سے تقویت پہنچتی ہے۔ اس کا ایک راستہ سرود حلال ہے: جس کی تاثیر سے آدم ہو غم و خوف سے پاک بعض صوفیائے کرام نے اسی انداز کے سماع کو حلال قرار دیا ہے: بر سماع راست ہر کس چیر نیست طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست (رومی) اقبال اس کا منظر ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسے نے نواز پیدا ہوں جن کے نغموں سے دل میں ایسی کشود ہو جو زندہ و پائندہ رہے: جس کو مشروع سمجھتے ہیں فقیہان خودی منتظر ہے کسی مطرب کا ابھی تک وہ سرود جو نغمہ زندگی کی قوتوں کو لوریاں دے کر سلا دے یا حسرت و حرماں سے لبریز ہو وہ سرود حرام میں داخل ہے۔ ارباب نشاط کی ہوس انگیز موسیقی بھی مخرب خودی ہی ہے: اگر نوا میں ہے پوشیدہ موت کا پیغام حرام میری نگاہوں میں ناے و چنگ و رباب اقبال نے فکر و تاثر اور فن شعر کے بہت سے سانچے فارسی شاعری سے حاصل کیے اور جا بجا اس نے فراخدلی سے اس کا اقرار بھی کیا ہے۔ فارسی شاعری نے اپنے ہزار سالہ ارتقاء میں انداز بیان میں بڑی لطافتیں اور نزاکتیں پیدا کیں۔ نظریات حیات اور افکار کی ثروت کے لحاظ سے بھی یہ سارا دفتر ایسا نہیں جس کے متعلق کوئی منصف مزاج شخص یہ کہہ سکے کہ ’’ ایں دفتر بے معنی غرق مے ناب اولیٰ‘‘ تصوف کی شاعری جتنی لطیف اور بلند فارسی میں ملتی ہے اتنی دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں، لیکن خاص حالات اور روایات کی وجہ سے اور کچھ عجمی طبیعت کی بدولت اس کے اندر کچھ ایسے تصورات اور تاثرات بھی ظہور پذیر ہوئے جنہوں نے انسان کی فعلی قوتوں کو سلا دیا۔ فارسی شاعری پر کہیں لذتیت طاری ہو گئی اور کہیں سکون طلبی اور کہیں زندگی کے متعلق قنوط پیدا ہو گیا۔ اقبال نے جو اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن میں اپنی قوم کو حافظ کے تغزل سے پرہیز کی تلقین کی اس کی وجہ یہی تھی کہ حافظ میں کہیں جبر کی تعلیم ہے اور کہیں کھلم کھلا ابیقوری قسم کی لذت پرستی۔ وہ کہیں ہمت سے زندگی کا مقابلہ کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ تمام مصائب کا علاج آب طرب ناک سے کرنا چاہتا ہے۔ حافظ کے کلام میں مجاز کا پہلو حقیقت پر غالب دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اگر اس کے سب مجاز کو استعارہ سمجھ لیا جائے تو الگ بات ہے۔ چنانچہ اکثر مسلمان شارحین نے ایسا ہی کیا ہے اور کہا ہے کہ حافظ کی شراب شراب معرفت ہے، لیکن کھینچ تان کر بھی ایسے اشعار کو کوئی کیسے تصوف بنائے گا: مے دو سالہ و معشوق چار دہ سالہ ہمین بس است مرا صحبت صغیر و کبیر آن تلخوش کہ ساقی الم الخبائش خواند اشھی لنا واحلی من قبلتہ العذارا یہاں وہ کھل کر کہتا ہے کہ میں اسی شراب کا ذکر کر رہا ہوں جسے اسلام نے ام الخبائث کہا ہے۔ مجھے تو وہ بوسہ معشوق سے زیادہ شیریں معلوم ہوتی ہے۔ حافظ کے متعلق مولانا شبلی کا بھی یہی خیال ہے کہ اس کے ہاں خیام والی لذت پرستی ہے۔ زندگی کے معمے سمجھ میں نہیں آتے تو انہیں جام شراب میں غرق کر دو۔ تنگ دستی ہو تو اس کو کوشش سے رفع کرنے کی بجائے مستی سے اس کا علاج کرو۔ مفلس بھی ہو گے تو اپنے تئیں قارون سمجھو گے: ایام تنگ دستی در عیش کوش و مستی کایں کیمیاے ہستی قاروں کند گدا را حدیث از مطرب و مے گو و راز دہر کمتر جو کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را سکون طلبی اور لا ادریت کے ساتھ وابستہ ہے کہ زندگی کے اسرار کوئی نہ سمجھا لہٰذا جہاں تک ہو سکے اس چپقلش میں مت پڑو۔ اگر زندگی کے متعلق اس قسم کے تصورات اور اطمینان قلب کی تلاش کے ساتھ ساتھ حوادث حیات پر غلبہ پانے کی مجاہدانہ تلقین بھی ہو تو زندگی میں ایک اعتدال اور توازن پیدا ہو سکتا ہے: اسرار ازل را نہ تو دانی و نہ من ایں حرف معما نہ تو خوانی و نہ من یہاں تک تو انبیاء اور اولیا بھی عجز ادراک میں شریک ہو سکتے ہیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ خیر و شر کی ماہیت بھی واضح نہیں لہٰذا جدوجہد کا ہے کوکی جائے، زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ فن لطیف میں طرب ناکی اور دل آویزی بھی ہوتی ہے، اور اس عنصر کو کون خارج کر سکتا ہے، لیکن زندگی فقط لطف اندوزی کا نام نہیں۔ یہ کوئی نہ کہہ سکے گا کہ اقبال خود عجمی شاعری سے لطف اندوز نہ ہوتا تھا۔ عجم کا حسن طبیعت اس کی فارسی غزلوں میں جھلکتا ہے۔ بہت سی غزلیں اور متفرق اشعار ایسے ہیں کہ انہیں دیوان حافظ میں رکھ دو تو کسی صاحب ذوق سلیم کو بھی مزاج حافظ سے اجنبیت کا احساس نہ ہو، لیکن فرق یہ ہے کہ اقبال نے انہیں الفاظ کو اور معنی پہنا دیے ہیں اور حافظ شیراز کے ساتھ خالد جانباز کا رنگ بھی بعض اوقات ایک ہی غزل میں جھلکتا ہے۔ گورستان شاہی کی نظم میں اقبال نے یہ کہا تھا کہ قوم کی شان جلالی کا ظہور تاریخ اسلام میں ہو چکا ہے، اب شان جمالی کے ظہور کا زمانہ ہے: ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور لیکن فکر و تاثر میں ترقی کرتے ہوئے اور تقدیر امم کا جائزہ لیتے ہوئے بعد میں اس کا زاویہ نگاہ بدل گیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جمال کو جلال سے الگ نہیں کر سکتے۔ جلال موجود نہ ہو تو نبوت بھی بے اثر ہو جائے: عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ طلب طرب کا نتیجہ ہمیشہ مایوس کن ہوتا ہے۔ لذت پرستی خود اپنے محدود مقصود میں بھی کامیاب نہیں ہوتی۔ دنیا میں خود کشی کرنے والے انسانوں کی نفسیات کو اگر ٹٹولا جائے تو اس کی تہ میں یہی حقیقت ملے گی کہ ایک شخص زندگی سے لذت و راحت کا طالب تھا اور جب زندگی اس کو کانٹوں کا بستر محسوس ہونے لگی تو اس نے ناقابل علاج سمجھ کر اس کا خاتمہ کر دیا۔ عجمی شاعری میں اور اس کی تقلید میں اردو شاعری میں، آپ کو دونوں چیزیں بہم ملیں گی۔ ہوس پرستی اور لذت طلبی میں انہماک کے ساتھ ساتھ زندگی کی مرثیہ خوانی بھی ہے۔ لذتیت کے دوش بدوش افسردگی بھی ہے۔ زندگی کی لطافتوں اور خوش باشی کا انجام دیکھ کر انشا جیسے ہنسوڑے لذت پرست اور بذلہ سنج نے جو اپنی آخری کیفیت بیان کی ہے اسے پڑھ کر دل پر کس قدر افسردگی طاری ہوتی ہے: نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں بسان نقش پاے رہرواں کوے تمنا میں نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں یہ شاعر کسی بلند نصب العین کے فقدان کی وجہ سے زندگی کے حوادث کا حریف نہ بن سکا۔ اقبال کی اصطلاح میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی خودی استوار نہ تھی۔ ہمارا تغزل ہوس پرستی کے ساتھ ساتھ افسردگی اور یاس سے لبریز ہے۔ جب فن لطیف میں یہ بات پیدا ہو جائے تو اس کی سرسری طرب ناکی اور دل آویزی سے بھی پرہیز لازم ہو جاتا ہے۔ اقبال کا نصب العین یہ تھا کہ عجم کے حسن طبیعت میں عرب یعنی اسلام کا سوز دروں داخل کر کے زندگی کے لیے اکسیر سعادت تیار کی جائے۔ اس مقصد کے حصول میں اقبال کی شاعری ایک کامیاب تجربہ ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اقبال کے اشعار طرب ناک اور دل آویز نہیں ہیں۔ یہ دل آویزی اس کو عجم سے حاصل ہوئی ہے۔ مگر اقبال کے ہاں یہ دل آویزی شمشیر خودی کو کند نہیں کرتی۔ اس کے ہاں نیام مرصع اور خوبصورت ہے لیکن اس کے اندر تلوار بھی تیغ دو دم ہے ’’مصرعے کارید و شمشیرے درود‘‘ : ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستان بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز فن لطیف کے متعلق ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کو فطرت خارجی اور فطرت انسانی کا آئینہ ہونا چاہیے۔ آئینے کا کام تنقید نہیں، آئینہ سب کچھ دیکھ کر خاموش رہتا ہے۔ وہ مبلغ نہیں ہوتا۔ مدح و ذم سے اس کو واسطہ نہیں۔ اقبال کا کمال دیکھئے کہ شیکسپیئر پر جو اشعار اس نے کہے ہیں ان کی ردیف ہی آئینہ ہے۔ شیکسپیئر کا کمال فن یہ ہے کہ زندگی کا جو پہلو اس کے سامنے آتا ہے اور کسی کردار کے جو خد و خال ہیں ان کو بعینہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ اسی لیے کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ شیکسپیئر کا مذہب کیا تھا۔ وہ مومن کو بحیثیت مومن اور کافر کو بحیثیت کافر پیش کرتا ہے، فتویٰ اور تنقید پڑھنے والے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ شیکسپیئر کے پچاس ڈرامے پڑھ کر انسان خود ایک قسم کا آئینہ بن جاتا ہے کسی خاص نصب العین کے لیے جدوجہد کرنے کا میلان پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ شیکسپیئر کے کلام میں بھی حقیقت کا اظہار ہے لیکن اقبال کا نظریہ حیات حقائق حاضرہ میں انقلاب چاہتا ہے۔ انسان کی اصل حقیقت وہ نہیں جو اب ہے، بلکہ وہ ہے جو اسے ہونا چاہیے اور یہ چاہیے آئینے کی عکاسی میں نہیں آتا، مگر شیکسپیئر کی امتیازی خصوصیت کو کس عمدگی سے بیان کیا ہے: شفق صبح کو دریا کا خرام آئینہ نغمہ شام کو خاموشی شام آئینہ برگ گل آئینہ عارض زیباے بہار شاہد مے کے لیے حجلہ جام آئینہ حسن آئینہ حق اور دل آئینہ حسن دل انساں کو ترا حسن کلام آئینہ اس کے بعد اقبال کی شعر عجم پر تنقید کے آخری شعر کا مطلب اچھی طرح واضح ہو جائے گا: اقبال یہ ہے خارہ تراشی کا زمانہ از ہرچہ بآئینہ نمایند پرہیز عجمی شاعری میں عاشق فقط اپنے سینے پر تیشہ چلاتا رہتا ہے ’’ چھاتی پہ رات ہجر کی کالا پہاڑ ہے‘‘ اور اسی پہاڑ پر کوہ کنی میں مبتلا رہتا ہے۔ کاو کاو سخت جانی ہاے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا غالب (غالب) ہمچو فرہاد بود کوہ گئی پیشہ ما کوہ ما سینہ ما ناخن ما تیشہ ما بہر یک جرعہ مے منت ساقی نہ کشیم اشک ما بادۂ ما دیدۂ ما شیشہ ما اقبال فن لطیف کو جس خارہ تراشی کا آلہ اور وسیلہ بنانا چاہتا ہے وہ ایک الگ قسم کی ہے: زمانہ با ت ونسازد تو با زمانہ ستیز ٭٭٭ چوں پختہ شدی خود را بر سلطنت جم زن ٭٭٭ گفتد جہان ما آیا بت می سازد گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن اقبال کو اپنے وطن کے معاصرانہ فن لطیف میں کہیں خارہ تراشی نظر نہیں آتی۔ زیادہ تر غزلیں کسی اصلی یا تخیل کی پیداوار عورت کے متعلق اظہار ہوس ہوتی ہیں۔ اگرچہ یہ بھی غنیمت ہے کہ ایرانی امرد پرستی رفتہ رفتہ یہاں اردو کی شاعری میں ناپید تو نہیں لیکن کمیاب ہو گئی۔ اردو میں شاعری نے فعل میں جمع کا صیغہ استعمال کرنا شروع کر دیا تاکہ یہ بات گول ہی رہے کہ معشوق مرد ہے یا عورت: نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے زمانہ حال میں عشقیہ شاعری میں کھلم کھلا تانیث کا صیغہ استعمال ہونے لگا ہے۔ فرائڈ کہتا ہے کہ انسانی نفسیات میں ایک عملی تلطیف ہے جس کی بدولت جنسی عشق کی قوتیں غیر جنسی مقاصد عالیہ کا روپ اختیار کر لیتی ہیں، لیکن ہمارے غزل نویسوں کا عشق جنسی میلان سے آگے قدم ہی نہیں رکھتا۔ ان کا دل زلف پیچاں کے پیچاک سے نکلتا ہی نہیں، کیوں کہ نکلنا چاہتا ہی نہیں: زلف پر پیچ میں دل ایسا گرفتار ہوا، چھٹنا دشوار ہوا کچھ افسانے اخلاقی اور معاشرتی بھی ملتے ہیں، لیکن زیادہ تر افسانوں میں عورت کا عشق ہی محور داستان ہوتا ہے اور یہی افسانے زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ جنسی عشق کی تخریبی کارروائیاں، بہت کچھ جدید نفسیات تحت الشعور سے اخذ کردہ اکثر افسانہ نویسوں کا کل سرمایہ ہیں۔ جس قدر عریاں نویسی ہو اسی قدر افسانہ نویس، صاحب کمال شمار ہوتا ہے اور اسی قدر اس کو قوم سے داد ملتی ہے۔ اگر شراب نوشی کا شکار ہو کر جوانا مرگ ہو جائے تو سارے ادیب اور پڑھنے والے اس کا ایسا ماتم کرتے ہیں کہ گویا حالی یا شبلی یا سرسید یا اقبال ثانی جہان فانی سے گزر گیا۔ مصوروں کی تصویروں میں بھی زیادہ تر عورتیں ہی نظر آئیں گی۔ برہنگی کو تو فرنگ کی مصوری اور سنگ تراشی نے فن کا لازمہ بنا دیا ہے۔ مصوروں اور بت تراشوں کے سامنے متناسب اعضا اور حسین چہروں والی عورتیں برہنہ ہو کر بطور موڈل کئی روز تک مادر زاد برہنگی میں فن کار کے بتائے ہوئے انداز میں روبرو موجود رہتی ہیں اور اس کی اجرت وصول کرتی ہیں۔ پاکستان میں نیوڈ آرٹ کا زیادہ رواج نہیں ہوا کیوں کہ مشرق میں نسوانی شرم و حیا ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ لیکن اکثر باکمال ہندی اور پاکستانی مصوروں کی تصویروں میں بھی متنوع لباس میں ملبوس عورتیں ہی نظر آتی ہیں۔ اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ان کو عورتیں سمجھ کر دیکھنے والے نقاد ذوق فن سے محروم ہیں۔ یہ عورتیں نہیں بلکہ اعلیٰ تصورات کی آیات یا علامات ہیں۔ ایسی تصویروں میں عورت عورت نہیں بلکہ ایک رمز ہے اور یہ رمز شناس یا خود مصور ہے یا معدودے چند نقادان فن۔ راقم الحروف نے ایک نقاد فن کے شبستان میں ایک برہنہ عورت کی تصویر آویزاں دیکھی اور اس سے کہا کہ میں فن مصوری کے رمز کو سمجھنا چاہتا ہوں، مجھے اس تصویر میں جن تصورات کا اشارہ ہے ذرا سمجھا دیجئے۔ آخر میں ذوق جمال سے ایسا محروم نہیں ہوں اور نفسیات سے بھی اتنا بے بہرہ نہیں ہوں کہ آپ کے سمجھانے سے بھی کچھ نہ سمجھ سکوں۔ اس نقاد کی قوت بیان بھی غیر معمولی تھی، لیکن اس کے باوجود اس نے کہا کہ میں کیا سمجھاؤں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ میں اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکالتا کہ یہ تصویر جذبہ جنسی نے شبستان میں آویزاں کر رکھی ہے۔ اس کے سوا کچھ معنی ہوتے ہیں تو سمجھانے کی کچھ تو کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے ہی ہنوروں کے متعلق اقبال نے کہا ہے: عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا ان کے اندیشہ تاریک میں قوموں کے مزار چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار لیکن اب کچھ اشتراکی صاحبان فن ایسے بھی پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے اعصاب پر مزدور و کسان سوار ہو گئے ہیں اور یہ بوجھ اس پہلے بوجھ کے مقابلے میں زیادہ وزنی اور زیادہ کثیف ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کسی کامل الفن فنکار میں فن لطیف وہبی ہوتا ہے یا کسبی، انگریزی میں ایک مثل ہے کہ بننے سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ شاعر بطن مادر ہی سے شاعر پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تلمیذ الرحمان ہونے کا بھی یہی مفہوم ہے اور شاعری کے جزو پیغمبری ہونے کے بھی یہی معنی ہیں۔ اس کا جواب اقبال نے مختصراً تینا شعار میں دیا ہے کہ ایجاد معانی کی غیر معمولی صلاحیت خدا داد ہوتی ہے لیکن فن کا کمال بے حساب محنت طلب بھی ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ قیمتی پتھر تو کانوں میں فطرت ہی پیدا کرتی ہے لیکن کوئی ہیرا تراشنے کے بغیر پوری طرح حسین اور نور افشاں نہیں بنتا: نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا نابغہ یا جینیس کے متعلق کسی انگریز مفکر کا قول ہے کہ جینیس کے کمال میں ایک قلیل اساس فطری ہوتی ہے، جو مصدر الہام ہوتی ہے لیکن اس گنجینہ سینہ سے زیادہ محنت کا پسینہ کمال پیدا کرتا ہے۔ بعض لوگوں نے نبوت کے متعلق بھی اس قسم کی بحث کی ہے کہ وہ وہبی ہوتی ہے یا کسبی۔ خدا جس کو چاہے بغیر کسی استحقاق کے نبی بنا دیتا ہے یا کسی شخص کی روحانی ترقی اس کو اس درجے تک پہنچا دیتی ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ اس کی اساس وہبی ہے لیکن نبی کو اپنا وظیفہ نبوت ادا کرنے کے لیے دوسرے انسانوں سے زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے یہ جدوجہد نبوت سے قبل بھی ہوتی ہے اور بعثت کے بعد بھی مسلسل جاری رہتی ہے۔ حافظ نے اپنی استعداد کے وہبی ہونے کے متعلق کہا ہے: چہ رشک می بری اے سست نظم بر حافظ قبول خاطر و لطف سخن خدا داد است لیکن خالی خدا داد صلاحیت سے حافظ حافظ نہ بن سکتا۔ اس کے کلام سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ فن تغزل میں اس نے فطری کے علاوہ مسلسل محنت اور مشق سے کام لیا ہے۔ فن میں باریکیاں مطالعے، مشاہدے اور محنت سے پیدا ہوتی ہیں۔ خود اقبال کو دیکھئے۔ اس کی شاعری کے ابتدائی دور میں بعض لوگوں نے زبان او رمحاورے پر اعتراضات کیے، ان اعتراضات کا ایسا تفصیلی اور مسکت جواب حوالوں اور مثالوں سے دیا گیا کہ معترض حیرت زدہ ہو گئے کہ اس شخص کو فن کے تمام پہلوؤں پر کتنا عبور ہے۔ یہ معلومات آسمان سے تو نازل نہیں ہوتیں، یہ علم مطالعے اور تفکر اور محنت کا نتیجہ تھا۔ یہ درست ہے کہ خالی محنت اقبال کو اقبال نہ بنا سکتی، اگر فطرت کی طرف سے غیر معمولی بصیرت ودیعت نہ ہوتی۔ خالی محنت سے صناعی میں ترقی ہو سکتی ہے لیکن صناعی اور قافیہ پیمائی شاعری نہیں۔ مانی ہو یا بہزاد ان کی محنتوں اور کاوشوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ فن کی طرف سے غفلت برتتے تو خام رہ جاتے۔ اقبال کا فیصلہ اس کے متعلق یہ ہے: ہر چند کہ ایجاد معانی ہے خدا داد کوشش سے کہاں مرد ہنر مند ہے آزاد خون رگ معمار کی گرمی سے ہے تعمیر مے خانہ حافظ ہو کہ بت خانہ بہزاد بے محنت پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا روشن شرر تیشہ سے ہے خانہ فرہاد جس شاعری کو اقبال حیات افروز سمجھتا ہے اس کی وہ دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ ایک کو نغمہ جبریل کہتا ہے اور دوسری کو بانگ اسرافیل۔ یہ تقسیم قابل غور ہے۔ حکیم المانوی نطشے نے آرٹ کو اسی طرح دو انواع میں تقسیم کیا ہے اور یونانی صنمیات کی اصطلاحوں میں ایک کو وہ دیوتا اپولو سے وابستہ کرتا ہے اور دوسری نوع کو ڈیوانیسیس سے۔ یہ تقسیم اقبال کی تقسیم سے بہت مماثل ہے۔ اپولو عقلی اور جمالی پہلو کا نمائندہ ہے اور ڈایونیسیس میں حرکت و ہیجان اور جوش و مستی ہے۔ جبریل کو بھی بعض مسلمان شعرائ، حکما و صوفیہ نے خدا کی طرف سے انکشاف حقائق پر مامور تصور کیا، مگر اس میں عشق کی گرمی اور فراق کی تپش نہیں۔ جبریل و ابلیس کے مقابلے میں بھی ابلیس نے جبریل کو یہی طعنہ دیا کہ تجھ میں اضطراب حیات نہیں۔ معراج شریف کے قصوں میں بھی جو بہت کچھ تمثیلی ہیں جبریل ایک حد پر پہنچ کر رک جاتا ہے کہ اگر آگے پرواز کی جرأت کروں تو میرے پر چل جائیں۔ جس کی یہ تعبیر کی گئی ہے کہ جبریل عقل کا نمائندہ ہے اور عقل آستانے تک تو پہنچا دیتی ہے لیکن اس کی تقدیر میں حضور نہیں: اگر یک سر موے بر تر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم اپولو والا آرٹ ہم آہنگی، توازن اور جمال پیدا کرتا ہے لیکن ڈایونیسیس والا آرٹ زندگی کی جامد صورتوں کو درہم برہم کر کے اضطراب اور پیچ و تاب سے جدید مقاصد کی طرف بڑھتا ہے جو ابھی وجود پذیر نہیں ہوئے۔ جبریل کے مقابلے میں اسرافیل کا کام ایسا صور پھونکنا ہے جس سے پہلا تمام نظام عالم درہم برہم ہو جائے، تمام زندہ ہستیاں موت سے لرزاں ہوں اور تمام مردے قبروں سے نکل پڑیں۔قیامت سے بڑھ کر انقلاب عظیم اور کیا ہو سکتا ہے۔ قیامت کی ماہیت خدا ہی کو معلوم ہے، لیکن بہر حال وہ حیات و موت کا ایک انقلابی تصور ہے۔ افلاطون اور ارسطو دونوں جدوجہد کی زندگی کو جس میں اخلاقی کوششیں بھی داخل ہیں، تفکر محض کی زندگی سے ادنیٰ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں تغیر ثبات کے مقابلے مینا ور سکون و شکوت ازلی حرکت کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہیں۔ وہ ’’الان کما کان‘‘ بھی ہے اور ’’ کل یوم ہو فی شان‘‘ بھی۔ آفرینش میں افزائش بھی حیات ابدی کا وظیفہ ہے۔ شعر میں کبھی یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی وہ یہ تفریق بھی کسی حد تک جمال و جلال کے امتیاز سے مماثلت رکھتی ہے۔ اقبال نے پہلے مصرع میں تجاہل عارفانہ سے کام لیا ہے مگر اس کے بعد فوراً اپنا نظریہ فن پیش کر دیا ہے: میں شعر کے اسرار سے محرم نہیں لیکن یہ نکتہ ہے تاریخ امم جس کی ہے تفصیل وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے یا نغمہ جبریل ہے یا بانگ سرافیل تاریخ امم اس نکتے کی تفصیل کیوں کر ہے اس کا صاف جواب یہ ہے کہ ملتوں کے فنون لطیفہ میں کبھی یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے اور کبھی وہ، لیکن اپنی ملت کے لیے اس وقت اقبال کو نغمہ جبریلس ے زیادہ صور اسرافیل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جس سے ایک محشر بپا ہو کر نیا عالم ظہور میں آئے۔ رقص بھی فنون لطیفہ میں داخل ہے اور یہ بھی موسیقی کی طرح ایک فطری چیز ہے۔ رقص تو بعض جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ طاؤس کے رقص کی دل آویزی مشہور ہے۔ بغیر سیکھنے سکھانے کے بچے بھی رقص کرتے ہیں ذرا سا موسیقی کا اشارہ کافی ہوتا ہے۔ موسیقی کی طرح رقص کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ جلال الدین رومی بھی بے اختیار ہو کر رقص کرنے لگتے تھے۔ ان کی تقلید میں ان کے نام لیوا مریدوں نے اس کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ وہ دف ونے کے ساتھ بے اختیار ہو کر زور زور سے گھومنے لگتے ہیں۔ اقبال نے کسی چینی حکیم کا قول نقل کیا ہے: شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرور انجمن فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن شعر گویا روح موسیقی ہے رقص اس کا بدن مگر اہل فرنگ نے رقص کو جنسی تسکین کا سامان بنا لیا ہے۔ یہ رقص اقبال کو پسند نہیں، جس میں زیادہ تر مرد و زن کی آہم آغوشی ہوتی ہے۔ اس میں جنسی جذبے کی آمیزش ہوتی ہے۔ اقبال وہ رقص چاہتا ہے جس میں روح کا ارتعاش بدن کی حرکات میں ظاہر ہو۔ فنون لطیفہ کا باہمی تعلق کس قسم کا ہے ؟ یہ بھی جمالیات کا ایک دلچسپ مسئلہ ہے۔ بعض حکما نے فنون لطیفہ میں فرق مراتب پیدا کیا ہے لیکن اس مینوہ متفق الرائے نہیں۔ کسی کے نزدیک موسیقی شعر سے افضل ہے اور کسی کے ہاں شعر کو موسیقی پر فضیلت حاصل ہے۔ ٭٭٭ سترہواں باب ابلیس ابلیس یا شیطان کی ماہیت کیا ہے؟ یہ بھی اسرار حیات میں سے ایک سر بستہ راز ہے۔ صوفیہ، حکما اور مفکر شعراء نے طرح طرح سے اس کی گرہ کشائی کی کوشش کی ہے۔ کیا ابلیس زندگی کے کسی مظہر کا نام ہے یا وہ کوئی آمادہ بہ شر شخصیت ہے؟ کیا وہ کوئی زوال یافتہ باغی فرشتہ ہے یا اس جناتی مخلوق کا امام ہے جسے قرآن نے ناری قرار دیا ہے؟ لیکن خود نار کیا ایک استعارہ ہے یا دنیا کی آگ کی طرح جلانے اور بھسم کرنے کا ایک عنصر ہے۔ اسی طرح ملائکہ کی ماہیت کے متعلق بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پروں والی، مابین السماء والارض پروز کرنے والی اور احکام الٰہی بجا لانے والی مخلوق ہے یا وہ بھی حیات و کائنات میں مخصوص قسم کی قوتوں کا نام ہے؟ ملائکہ اشخاص ہیں یا قواے حیات، جو فطرت کو خیر کی طرف مائل کرتے ہیں؟ یہ سب باتیں متشابہات میں سے ہیں، جن کا علم اللہ ہی کو ہے۔ راسخون فی العلم، ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی تاویل خلاق فطرت ہی کو معلوم ہے۔ متصوفانہ ادب میں ابلیس کے متعلق طرح طرح کے تصورات ملتے ہیں۔ کسی نے اس کو ملعون ہونے کی بجائے سب سے بڑا موحد قرار دیا ہے، جس نے حکم الٰہی کے باوجود غیر خدا کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ کسی نے اس کو مادیت کا امام گردانا ہے کہ آدم کا خاکی عنصر تو اس کو نظر آیا اور اس کے عرفان اور روحانی ممکنات اس کو نظر نہ آ سکے۔ آج بھی فلسفیانہ مادیت انسان کے متعلق وہی زاویہ نگاہ رکھتی ہے جسے قرآن نے ابلیس کی طرف منسوب کیا ہے۔ بعض فرنگی محققین کی یہ رائے ہے کہ شیطان کا تصور وہی ایرانی ثنویت میں اہرمن کا تصور ہے اور بنی اسرائیل نے جلا وطنی کے زمانے میں جو ایرانی تصورات قبول کر کے ان کو مذہب میں داخل کر لیا، شیطان کا تصور بھی انہیں تصورات میں سے ہے، کیونکہ بنی اسرائیل کے قدیم انبیاء میں یہ عقیدہ کہیں نہیں ملتا۔ قرآن و حدیث میں شیطان کے متعلق جو تصورات ملتے ہیں ان کا مطالعہ دلچسپ بھی ہے اور حکمت آموز بھی۔ ابلیس کی اگر کوئی ایک شخصیت ہو تو وہ ایک وقت میں ایک جگہ عمل کرتی ہوئی نظر آئے، لیکن حدیث شریف میں ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس کا شیطان لگا ہوا ہے۔ اس پر ایک صحابی نے ذرا جرأت سے پوچھا کہ کیا حضور کے ساتھ بھی ؟ فرمایا کہ ہاں، میرے ساتھ بھی ہے مگر میں نے اسے مومن بنا رکھا ہے۔ حضور کا شیطان تو مومن ہو گیا لیکن کفار کے ساتھ لگا ہوا شیطان کافر ہی رہا۔ اور پھر شیطان ایک تو نہ ہوا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان انسان کی رگ و پے میں اور اس کی روح کی گہرائیوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے۔ اس بیان میں شیطان کوئی شخصیت معلوم نہیں ہوتا بلکہ زندگی میں ایک تخریب انگیز میلان کا نام ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا جو خیر مطلق ہے اس نے ایسی ہستی کو پیدا ہی کیوں کیا اور انسانوں کو ورغلانے کے لیے اس کو ایسی کھلی اجازت کیوں دی؟ ازروئے قرآن حیات اور کائنات کی کوئی قوت خدا کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی۔ سب جگہ آئین الٰہی کار فرما ہیں اور مخلوقات میں سے ہر شے خدا کی مطیع ہے۔ یہ اطاعت طوعاً ہو یا کرہاً، اختیار سے ہو یا جبر سے۔ عارف رومی کے نزدیک شیطان اس زیرکی کا نام ہے جو عشق سے معرا ہو کر ادنیٰ مقاصد کے حصول میں حیلہ گری کرتی ہے: می شناسد ہر کہ از سر محرم است زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است قرآں کریم نے استکبار کی وجہ سے انکار کو اس کی امتیازی صفت قرار دیا ہے۔ دراصل ابلیس کی ماہیت کا مسئلہ خیر و شر کا مسئلہ ہے۔ حیات و کائنات میں شر کے وجود سے کون انکار کر سکتا ہے۔ حکماء نے شر کے دو بڑے اقسام قرار دیے ہیں۔ ایک شر طبعی ہے جیسے آندھیاں، طوفان، زلزلے، اور ہزاروں قسم کی بیماریاں جن سے انسانوں کو ضرر پہنچتا ہے لیکن وہ انسانی ارادوں کی پیداوار نہیں۔ دوسری قسم نفسی یا اخلاقی شر ہے، جو انسان کے اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ المانی حکیم لائبنیز کے نزدیک شر کی ایک قسم ما بعد الطبعی بھی ہے۔ اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ خدا ہی ہستی لامحدود ہے جو خیر مطلق ہے۔ خدا کے سوا ہر مخلوق میں کچھ نہ کچھ کمی ہونا لازمی ہے۔ یہ کمی یا نقص خیر کا ایک گونہ فقدان ہے۔ چونکہ کوئی مخلوق، خدا نہیں بن سکتی اس لئے ہر ہستی میں کم و بیش نقص کا ہونا لازمی ہے اور ہر نقص ایک قسم کا شر ہے، قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ خیر و شر سب خدا کی طرف سے ہے، لیکن بایں ہمہ سب کچھ خدا کے دست خیر سے صادر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے شر کی ماہیت کا سمجھنا اور ہستی میں اس کا مقام متعین کرنا ایسا ہی ضروری ہے جیسا کہ خیر کی ماہیت کو سمجھنا۔ کیونکہ خیر و شر باہمی تقابل ہی سے سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ شرق و غرب میں بعض اکابر صوفیہ، حکما اور شعر نے ابلیس کو المیہ (ٹریجڈی) کا ایک زبردست کردار بنا دیا۔ ملٹن کے فردوس گم شدہ کی دینی نظم میں شیطان ایک زبردست کریکٹر ہے اور اس کی تشکیل میں ملٹن نے اپنی قوت تخیل کو پورے زوروں پر استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے بعض نقادوں کے رائے ہے کہ ملٹن کا شیطان اس کے خدا کے مقابلے میں زیادہ قوی اور لبریز حیات معلوم ہوتا ہے۔ گوئٹے کے حکیمانہ ڈرامے فوسٹ میں زندگی کے گہرے اسرار اور اس کی باطنی قوتوں کی گرہ کشائی کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس ڈرامے کا ہمپایہ اور روحانی بصیرت والا مفکر شاعر ہے، اس نے بھی ابلیس کی حقیقت کو کئی جگہ بیان کر کے اس تصور کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور اس کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے۔ خودی کی ماہیت میں ذات الٰہی سے فراق اور سعی قرب و وصال دونوں داخل ہیں۔ اقبال کے فلسفہ خودی کی جان اس کا نظر عشق ہے۔ عشق کی ماہیت آرزو، جستجو اور اضطراب ہے۔ اگر زندگی میں موانع موجود نہ ہوں تو وہ خیر کوشی بھی ختم ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور استواری پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان کے اندر باطنی کشاکش نہ ہو تو زندگی کی جامد ہو کر رہ جائے۔ اقبال نے شیطان کی خودی کو بھی زور و شور سے پیش کیا ہے اور کئی اشعار میں تو شیطان کی تذلیل کی بجائے اس کی تکریم کا پہلو نظرآتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال جدوجہد کا مبلغ ہے، اور جدوجہد باطنی اور خارجی مزاحمتوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ خودی اپنے ارتقاء کے لئے خود اپنا غیر پیدا کرتی ہے۔ تاکہ اس کو جذب کرنے اور اس پر غالب آنے سے انسان روحانی ترقی کر سکے۔ زندگی کی مزاحمتوں کے اندر تو کوئی روح محبت نہیں، لیکن روح محبت ان کی بدولت قوت حاصل کرتی ہے۔ قرآنی ابلیس انکار مجسم ہے جسے نفی حیات سمجھنا چاہیے، لیکن زندگی ہر قدم پر اپنی نفی کر کے بہتر اثبات کی طرف قدم اٹھاتی ہے۔ اثبات کے لیے نفی مقدم ہے: لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا شیطان زندگی کے مراحل میں اس وقت غالب معلوم ہوتا ہے جب انسان نفی کی منزل میں رک جانے اور آگے اثبات کی طرف اس کے قدم نہ اٹھ سکیں۔ اگر نفی کا عنصر بھی انسان کے لیے اثبات سے کم اہمیت نہیں رکھتا تو اس سے گریز ناممکن بلکہ ناواجب ہے۔ جذبات اگر عقل و عشق کے کنارہ کش ہو کر عنان گسیختہ مصروف عمل ہوں تو ان میں وہی انداز پیدا ہوتا ہے جسے قران نفس امارہ کہتا ہے، لیکن زندگی میں کوئی اچھا کام بھی جذبات کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ افلاطون نے نفس انسانی کو ایک رتھ سے تشبیہہ دی ہے جس میں جذبات کے گھوڑے لگے ہوتے ہیں۔ ان کی عناس نفس عاقلہ کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ اگر عقل کی گرفت ڈھیلی ہو جائے تو یہ گھوڑے رتھ کو ٹکرا کر تباہی پیدا کر دیں۔ لیکن اگر گھوڑے نہ ہوں تو رتھ اپنی جگہ سے جنبش ہی نہ کر سکے۔ غرضیکہ مقصود حیات جذبات کشی نہیں بلکہ ان جذبات کو عقل و عشق و ایمان کے زیر عنان رکھنا ہے۔ مندرجہ صدر حدیث کا بھی یہی مفہوم ہے کہ اسوہ نبوت یہ ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی بجائے اس کو مومن بنا کر اس سے مومنوں والے کام لیے جائیں۔ خارجی اور باطنی زندگی کی قوتیں اور کائنات میں کام کرنے والی طاقتیں جیسے برق و طوفان، تخریب و تعمیر دونوں میں کام آ سکتی ہیں۔ ان قوتوں کی تخریب کو دیکھ کر انہیں خیر مطلق کا منافی سمجھنا بے بصری کا نتیجہ ہے۔ انہیں قوتوں کی تسخیر انسان کا مقصود حیات ہے۔ لیکن تسخیر کے لیے زبردست مزاحم قوتوں کا وجود لازم ہے۔ اگر یہ مزاہم قوتیں نہ ہوتیں تو ارتقائے حیات نا ممکن تھا۔ اس تصور کے مطابق شیطان کائنات میں بھی کار فرما ہے اور ہر شعبہ حیات میں بھی وہی انسان کے جسم میں بھی ہے، اس کے شعور میں بھی اور اس کے تحت الشعور میں بھی۔ وہ حرکت اور تخلیق کا مصدر ہے۔ لیکن اگر عقل و عشق کی قوتیں اس پر قابو نہ پا سکیں تو زندگی میں کوئی نظم و ضبط پیدا نہ ہو سکے۔ اقبال کی نظم، تسخیر فطرت میں ابلیس سجدۂ آدم سے انکار کی وجہ بڑے زور شور سے بیان کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو حرکت کا سرچشمہ بناتا ہے، زندگی میں جو برکت ہے وہ حرکت کی وجہ سے ہے، اس لیے وہ زندگی کی برکتوں کو بھی اپنی طرف منسوب کر لیتا ہے۔ وہ ذات باری کو کہتا ہے کہ سب ہنگامہ حیات اور زندگی کی تمام ہماہمی اور گہما گہمی میری وجہ سے ہے۔ میں نہ ہوتا تو نہ کائنات میں جنبش نظر آتی اور نہ زندگی میں سوز و ساز ہوتا۔ وہ تخریبی حرکات کے ساتھ ترکیبی عناصر اور مظاہر کو بھی اپنا رہین منت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے خواہ مخواہ بدنام کرتے ہو کہ میں نفی و تخریب ہی کے درپے رہتا ہوں۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہر نئی تعمیر پہلی تعمیر کو ڈھانے کے بعد ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ تخریب کو مجھ سے منسوب کرتے ہو تو تعمیر کو بھی میری طرف منسوب کرو، جو تخریب کے بغیر نہ ہو سکتی تھی: ہر بناے کہنہ کا باداں کنند اول آں تعمیر را ویراں کنند شیطان کے آتش نژاد ہونے کے بھی یہی معنی ہیں کہ موجودات کا وجود حرارت سے ہے۔ اس سلسلے میں ابن عربی نے ایک نہایت حکیمانہ اور عارفانہ بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی حرارت سے پکتے ہیں۔ بات ایسی گہری سے کہ ایک طویل مضمون اس کی شرح کے لیے درکار ہے۔ اس سے جنت اور دوزخ کی ماہیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ فرشتوں کو نوری کہتے ہیں اور شیاطین و جنات کو ناری۔ شیطان کہتا ہے کہ ناری کو نوری پر ترجیح ہے، کیونکہ نار میں حیات آفرینی اور نور، نار ہی کا ایک مظہر ہے۔ نور بحیثیت نور کوئی حرکت پیدا نہیں کر سکتا: نوری ناداں نیم سجدہ بہ آدم برم او بہ نہاد است خاک من بہ نژاد آذرم می تپد از سوز من، خون رگ کائنات من بہ دو صرصرم، من بہ غور تندرم رابطہ سالمات، ضابطہ امہات سوزم و سازے دہم آتش مینا گرم ساختہ خویش را در شکنم ریز ریز تا ز غبار کہن پیکر نو آورم پیکر انجم ز تو، گردش انجم ز من جاں بہ جہاں اندرم زندگی مضمرم تو بہ بدن جاں وہی شور بہ جان من دہم تو بہ سکوں رہ زنی، من بہ تپش رہبرم آدم خاکی نہاد دوں نظر و کم سواد زاد در آغوش تو، پیر شود در برم خدا کے سامنے اپنی مدح سرائی کرنے کے بعد وہ آدم کو بہکاتا ہے کہ تیری اس جنت میں کیا مزہ ہے۔ ایک مسلسل سکون و نشاط و سرور کی یک آہنگی۔ نہ ضرورت عمل، نہ نشاط کار، نہ مقصد کوشی، ایسی جنت میں تیرا ساز بے سوز ہے۔ بقول مرزا غالب: دراں پاک مے خانہ بے خروش چے گنجائی شورش نا و نوش سیہ مستی ابر و باراں کجا خزاں چوں نباشد بہاراں کجا شیطان آدم کو کہتا ہے کہ تو یہاں کیا فاتختہ بن کر شاخ طوبیٰ پر بیٹھا ہے۔ انجیل میں ہے کہ روح القدس حضرت مسیح کو فاختہ کی صورت میں نازل ہوتی دکھائی دی۔ابلیس کہتا ہے کہ اس عالم قدس میں روحیں فاختہ بن جاتی ہیں۔ نہایت معصوم، بے ضرر، لیکن لیکن مزہ شاہین بننے میں ہے۔ اس کے لیے شکار کا شوق اور جذبہ چاہیے۔ جنت میں جھپٹنے کی کیا گنجائش ہے۔ سجود و نیاز میں عجز کے سوا کیا رکھا ہے۔ کوثر و تسنیم کے کنارے شراب طہور پیتے رہنا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ جنت اگر تمام آرزوؤں کے حصول کانام ہے تو ایسی زندگی موت کے برابر ہے۔ وصل کے بعد شوق مر جاتا ہے، حیات دوام تو فراق و وصل کی کشمکش ہی سے پیدا ہو سکتی ہے۔ اٹھ یہاں سے نکل۔ تجھے ایک ایسے عالم کی سیر کرتا ہوں جہاں زندگی سوختن ناتمام ہے۔ زندگی کا تیر جگر میں نیم کش ہی رہے تو خلش کا لذت باقی رہ سکتی ہے: کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا سکونی جنت میں تو جمادی اور نباتی کیفیت ہے۔ چل تجھے آرزو اور جستجو کے عالم میں سرگرم عمل کرتا ہوں: زندگی سوز و ساز بہ ز سکون دوام فاختہ شاہین شود از تپش زیر دام ہیچ نیامد ز تو غیر سجود نیاز خیز چوں سرو بلند اے بعمل نرم گام کوثر و تسنیم برد از تو نشاط عمل گیر ز میناے تاک بادۂ آئینہ فام خیز کہ بنایمت مملکت تازۂ چشم جہاں بیں کشا بہر تماشا خرام تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیروز وصل چیست حیات دوام سوختن نا تمام قرآن نے بھی بعض آیات میں آدم کو نوع انسان کے مترادف قرار دیا ہے۔ ’’ فتلقی آدم من ربہ کلمت فتاب علیہ۔۔۔۔۔ قلنا اھبطو منہا جمیعاً فاما یاتینکم من ھدی‘‘ آدم نے اپنے رب سے چند کلمے اخذ کیے اور اس نے اس کی توبہ قبول کر لی۔۔۔ ہم نے کہا تم یہاں سے کھسک جاؤ۔ اسکے بعد تمہارے پاس اگر میری طرف سے ہدایت آ جائے۔۔۔۔ یہاں آدم کے ذکر کے بعد ہی پوری نوع بشر سے یہ صیغہ جمع خطاب کیا گیا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قرآن نے آدم کے متعلق جو کچھ کہا ہے وہ کسی ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ نوع انسان کی نفسیات اور اس کے ممکنات کا بیان ہے۔ علامہ اقبال نظریہ ارتقاء کے قائل تھے۔ لیکن یہ نظریہ ڈاروینی نہیں تھا بلکہ عارف رومی اور حکیم برگسان کے نظریات کے مماثل تھا۔ ان کا خیال تھا کہ نوع انسان ایک درجہ ارتقاء میں حیات کی ایک خاص منزل میں تھی جس سے اس کا نکلنا مزید ترقی کے لیے لازمی تھا۔ اور متیقوں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ اس جنت کی طرف عود نہیں ہے جسے نوع انسان بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ آئندہ زندگی کی پیکار اور تسخیر سے جو جنت حاصل ہو گی وہ پہلی جنت سے افضل ہو گی اور اسی طرح آگے جو جنتیں آئیں گی ان میں کہیں ایک حالت پر قیام نہ ہو گا۔ ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی سعی مسلسل ہر مرحلے میں جاری رہے گی۔ ہر جنت ایک نئے انداز کا دار العمل ہو گی۔ عمل اور زندگی ایک ہی چیز ہے۔ از روئے قرآن بھی تکریم آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی ظہور میں آئی۔ آدم پہلی جنت سے نکلنے کے بعد ہی خلیفتہ اللہ فی الارض بنا۔ قرآن نے ہبوط آدم کے تصور کو عروج آدم کا نظریہ بنا دیا۔ آدم کے متعلق عیسوی اور اسلامی نظریے میں یہ ایک بنیادی فرق ہے۔ عیسائیت کے مطابق آدم کی نافرمانی کا گناہ اس کی فطرت میں پیوست ہو گیا۔ خدا نے اسے معاف نہ کیا بلکہ سزا کے لیے پہلے دنیا میں بھیج دیا اور قیامت تک اس کی تمام ذریت ناکردہ گناہ میں ملوث ہی پیدا ہوتی رہے گی اور ملوث ہی مرتی رہے گی۔ یہ سزا کا لامتناہی سلسلہ حضرت مسیح کے کفارے پر ختم ہوا جس نے تمام نوع انسان کے گناہ اپنی گردن پر لے لیے اور لعنت کی موت قبول کی۔ اب بھی فقط ان انسانوں کی نجات ہو سکتی ہے جو اس کفارے کے قائل ہوں، ورنہ ناکردہ گناہ پیدائش، آدم کی عصیانی وراثت کی وجہ سے جاری رہے گی۔ قرآن نے آدم کی ایک سرسری لغزش کو صاف کر کے اسے انعام و اکرام کا مستحق بنادیا۔ جس کے بعد آدم کی اولاد میں سے ہر ایک معصوم پیدا ہوتا ہے اور زندگی اور اس کے بعد اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ کسی ایک فرد کا گناہ دوسرے کے ذمے نہیں لگ سکتا۔ لا تزرر وازرۃ وزراء اخری آدم اس نئے عالم میں آکر حسرت و حرمان کا شکار نہیں ہوا۔ خلافت ارضی کے عطا ہونے کے بعد وہ کیوں پریشان ہوتا۔ لیکن یہ نیا بار امانت خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس امانت میں خیانت سے ظلوماً جہولا ہونے کا بھی کھٹکا تھا۔ اس امانت اور خلافت کو نبھانے کے لیے اسے بڑی دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن تگ و دو میں ایک لذت ہے، آرزو و جستجو میں زندگی ہے۔ پہلی زندگی میں زندگی کے حقائق کے متعلق ایک غیر شعوری یقین تھا، اب گمان و یقین کی کشمکش پیدا ہو گئی، لیکن اس تمام کشاکش کو آدم نے اپنے پہلے سکون پر قابل ترجیح سمجھا اور پھر پہلی جنت میں واپس جانے کی آرزو دل سے نکل گئی۔ شیطان کے بہکانے اور آدم کے دنیا میں بھیجے جانے سے کچھ فائدہ ہی ہوا۔ اپنے آپ کو اور کائنات کو مسخر کرنے کا ایک شغل ہاتھ آ گیا: چہ خوش است زندگی را ہمہ سوز و ساز کردن دل کوہ و دشت و صحرا بہ دمے گداز گردن ز قفس درے کشادن بہ فضاے گلستانے رہ آسماں نودن، بہ ستارہ راز کردن بہ گدازہاے پنہاں، بہ نیازہاے پیدا نظرے ادا شناسے بہ حریم ناز کردن ہمہ سوز ناتمامم ہمہ درد آرزویم بگماں وہم یقیں را کہ شہید جستجویم بال جبریل میں بھی جبریل و ابلیس کے مکالمے میں ابلیس اپنی کار گزاری پر فخر کرتا ہے۔ ابلیس جبریل کو محض طاعت گزار اور بے چون و چرا فرمانبردار ہونے کی وجہ سے لذت آرزو سے محروم سمجھتا ہے۔ جبریل پوچھتا ہے کہ عالم رنگ و بو کی کیا حالت ہے۔ ابلیس جواب دیتا ہے سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو جبریل پوچھتا ہے کہ کہو اب بھی توبہ کرتے ہو یا نہیں؟ ابلیس کہتا ہے کہ ہرگز تائب ہونے کو تیار نہیں۔ مجھے معلوم نہیں مردود و مطرود ہونے میں مجھ کو کیا مزہ آیا۔ میں کائنات کا سوز دروں بن گیا۔ اس کے مقابلے میں افلاک کی خاموشی کی کیا وقعت ہے۔ زندگی میں فراق کی بناء میرے انکار نے ڈالی اور اس وجہ سے کائنات کا ہر ذرہ طلب وصال میں ارتقا گوش ہوا۔ اور انسان جو محض ایک مشت خاک تھا اس میں ذوق نمو پیدا ہو گیا۔ ملائکہ کی اطاعت غیر مشروط اور جنت کی بے پیکار زندگی میں عقل کی کیا ضرورت تھی۔ (اکثر اہل الجنتہ ہلہ) میرے فتنے کی وجہ ہی سے عقل کی ضرورت پیش آئی۔ تم ملائکہ تو سبک ساران ساحل ہو، تمہیں پتا نہیں کہ طوفان میں تھپیڑے کھانے میں کیا لذت ہے۔ اگر کبھی خدا سے خلوت میں کچھ پوچھنے کا موقع ملے تو ذرا دریافت کرنا کہ آیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ قصہ آدم کی تمام رنگینی اسی مردود کی رہین منت ہے۔ استکبار میں یہ تعلیٰ ملاحظہ ہو: میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو شیطان نے کہا کہ آدم کو مسجود ملائک بنا کر اس کی فضیلت کا ڈنکا خدا نے بجا دیا، ہماری تعریف کسی نے نہ کی اس لیے ہم خود ہی اپنے صفات بیان کرنے پر مجبور ہو گئے: لائق مدح در زمانہ چو نیست خویشتن را ہمی سپاس کنم (غالب) آدم کا کمال اس کی سعی پیہم سے وابستہ ہے۔ اگر شیطان اس کو پہلی سکونی جنت سے نہ نکالتا تو اس کو یہ تگ و دو کہاں سے نصیب ہوتی۔ پہلی جنت جس سے شیطان نے نکلوایا وہ بے کوشش یونہی بخشی ہوئی جنت تھی۔ اب آدم اپنی مساعی سے جو جنت بنائے گا وہ اس کے خون جگر کی پیداوار ہو گی۔ وہ اس کی اپنی کمائی ہو گی: خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں ہے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں جنت تری پنہاں ہے ترے خون جگر میں اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ مفت میں بخشی ہوئی جنت کے متعلق یہاں اقبال کا ایک قطعہ یاد آ گیا: بہشتے بہر پاکان حرم ہست بہشتے بہر ارباب ہمم ہست بگو ہندی مسلمان را کہ خوش باش بہشت فی سبیل اللہ ہم ہست جاوید نامہ میں سیر افلاک کے دوران میں اقبال کی ملاقات ہر اس انسان سے ہوئی جو انسانیت کی کسی صفت کا ممتاز نمائندہ تھا۔ خواہ وہ صفت علوی ہو یا سفلی۔ اگر اس سیر کائنات میں کہیں ابلیس نظر نہ آتا تو ایک بڑا اہم نمائندہ حیات اور زندگی کے ڈرامے کا ایک اہم کردار نظر سے اوجھل رہتا۔ حقیقت حیات کا اہم پہلو تشنہ تعبیر رہ جاتا۔ ابلیس کا تصور اقبال اور نظموں میں بھی بلیغ اور دلکش انداز میں پیش کر چکا تھا لیکن یہ تصور اس کے ہاں اس قدر حکیمانہ اور دلآویز ہے کہ جاوید نامہ میں اس کی مزید تشریح کی کوشش کی گئی ہے۔ ابلیس اس سے پہلی نظموں میں بھی اپنی بابت جو کچھ کہہ گیا ہے اس میں تعلی اور تفاخر اور تکبر کے باوجود وہ ایسے صفات بیان کر گیا ہے جنہیں اقبال ارتقائے حیات کا لازمہ سمجھتا ہے اسی لیے بعض اشعار میں ستائش کا پہلو مذمت پر غالب نظر آتا ہے۔ جاوید نامہ میں ابلیس کے متعلق دو نظمیں ہیں۔ ایک عنوان ہے ’’ نمودار شدن خواجہ اہل فراق ابلیس‘‘ اور دوسری نظم کا عنوان ’’ نالہ ابلیس‘‘ ہے۔ ان دونوں نظموں میں بھی کہیں ابلیس کی تحقیر نظر نہیں آتی اور اس میں اکثر باتیں اس نے ایسی کہی ہیں جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقاء کا اہم جزو ہیں۔ اقبال نے کئی جگہ متفرق اور منتشر اشعار میں اپنے اس نظریے کو بیان کیا ہے کہ زندگی اضطراب مسلسل، جستجوے پیہم اور منزل کی خواہش سے بیگانہ ذوق سفر ہے۔ وہ خدا کے ساتھ بھی وصال کامل کا خواہش مند معلوم نہیں ہوتا جو عام طور پر صوفیہ کا مقصود ہے۔ اقبال اس عقیدے میں نہایت پختہ ہے کہ ’’ شوز بمیرد ز وصل‘‘ اور اگر انسان خدا میں اس طرح گم اور ضم ہو جائے جس طرح قطرۂ باراں دریا میں ٹپک کر اپنی خودی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، تو اس قسم کی فنا حیات ابدی کا حصول نہیں بلکہ عدم ہے۔ بالفاظ دیگر خدا کی ذات سے انسان کی خودی کا فراق ابداً قائم و دائم رہنا چاہیے۔یہ فلسفہ فراق اقبال کا ایک امتیازی نظریہ ہے جاوید نامہ میں اقبال نے ابلیس کو اس نظریہ حیات کا مبلغ بنا دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے ہم نوا ہو گیا ہے۔ ہم ذرا آگے چل کر اقبال اور ابلیس کے زاویہ نگاہ کا ایک اساسی فرق بیان کریں گے، مگر پہلے ابلیس کا نظریہ اس کی اپنی زبانی سن لیں کہ وہ اپنے لیے کیا جوا ز پیش کرتا ہے۔ عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو اس بیان میں ابلیس کی مذمت مقصود نہیں۔ ’’ خواجہ اہل فراق‘‘ کوئی طنزی و تحقیری لقب نہیں ہے۔ بہرحال چونکہ شیطان کا عالم عالم ظلمت ہے اس لیے اس کے نمودار ہوتے ہوئے پہلے تمام جہان میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ابلیس اس میں ایک شعلے کی طرح ابھرتا ہے لیکن یہ شعلہ بھی دھوئیں سے سیاہ پوش ہے۔ اقبال بادی راہ رومی سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے؟ مرشد نے کہا کہ یہ خواجہ اہل فراق ہے جو سراپا سوز ہے۔د یکھنے میں بہت سنجیدہ معلوم ہوتا ہے، مرد حکیم کی طرح کم خندہ و کم گو ہے؟ بہت باریک بیں ہے۔ عارف رومی نے مثنوی میں کہا تھا کہ: تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست لیک کس را دید جاں دستور نیست لیکن اس معاملے میں شیطان باطن بینی میں عارفوں سے بھی بڑھ کر ہے کہ بدن کے اندر جو غیر مرئی جان ہے اسے بھی دیکھ لیتا ہے اس کے اہل نظر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ کہنہ کم خندہ اندک سخن چشم او بینندہ جاں در بدن لیکن اس میں کئی متضاد قسم کے صفات بھی جمع ہیں۔ وہ رند بھی دکھائی دیتا ہے اور ملا بھی! حکیم نکتہ رس بھی اور صوفی خرقہ پوش بھی۔ وہ زاہدوں کی طرح عمل میں بھی سخت کوش ہے۔ اس نے جو نظریہ حیات اختیار کر لیا ہے اس کے مطابق بڑی جانفشانی سے مصروف عمل رہتا ہے۔ لیکن ابلیس اور زہاد و صوفیہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ زاہد تو عاقبت کی خاطر دنیا کو ترک کرتے ہیں، تاکہ آخرت میں جنت اور رویت الٰہی نصیب ہو لیکن ابلیس کے ترک و ایثار کا کمال یہ ہے کہ وہ جمال لایزال کا بھی آرزو مند نہیں۔ اقبال نے ترک کے متعلق ابتدائی اردو غزلوں میں ایک شعر کہا تھا: واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے اور کسی متصوف شاعر نے کمال ترک کو زندگی کا نصب العین بنا کر کہا ہے کہ دنیا اور عقبیٰ اور خدا کو ترک کر کے اس جہان کو بھی دل سے نکال دو کہ ہم نے سب کچھ ترک کر دیا ہے: ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولیٰ ترک ترک ابلیسکی کیفیت بھی کچھ اس کے مماثل ہی معلوم ہوتی ہے: فطرتش بیگانہ ذوق وصال زہد او ترک جمال لایزال ترک جمال لایزال کمال درجے کے ایثار اور نفس کشی کا طالب تھا۔ ابلیس نے اس کٹھن مرحلے کو طے کرنے کے لیے سوچا کہ حکم سجود آدم کو ماننے سے انکار کر دوں، خدا سے ایسا ناراض ہو گا کہ ہمیشہ کے لیے اطاعت و محبت کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ اس کے اس ثبات کی داد دیجئے کہ اس ارادے میں آج تک متزلزل نہیں ہوا۔ اس نے اس انکار سے تمام کائنات میں خیر و شر کی پیکار شروع کر دی۔ اس جنگ میں یکہ و تنہا چومکھیا لڑ رہا ہے۔ مجروح ہوتا ہے لیکن ہمت نہیں ہارتا۔ سینکڑوں پیغمبروں کو دیکھ چکا ہے لیکن ابھی تک کافر کا کافر ہے۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں کے دربار میں ایک برہمن نے فخر سے یہ شعر پڑھا: مرا دلیست بہ کفر آشنا کہ چندیں بار بہ کعبہ بردم و بازش برہمن آوردم شاہ جہاں کی رگ حمیت جوش میں آئی اور سر دربار کہا ’’ کسے ہست کہ جوابش دبد‘‘ ایک درباری نے کہا کہ اس کا جواب بہت پہلے سے ایک شاعر دے چکا ہے: خر عیسیٰ اگر بمکہ رود چوں بیاید ہنوز خر باشد شیطان کی بھی یہی حالت ہے: غرق اندر رزم خیر و شر ہنوز صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز اقبال کے دل میں اس کافر ثابت قدم اور شائق سوز و فراق سے بہت ہمدردی ہے، کیونکہ اقبال خود بھی سوز و گداز کا دلدادہ ہے اور عمل کا مبلغ ہے۔ یہ دونوں باتیں ابلیس میں بھی موجود ہیں، اگرچہ ان کا مصدر و مقصود جداگانہ ہے: جانم اندر تن ز سوز او تپید برلبش آہے غم آلودے رسید گفت و چشم نیم وا بر من کشود در عمل جز ما کہ برخوردار بود مومنون کو ہفتے میں ایک دن جمعے کے روز تو کچھ فراغت اور فرصت حاصل ہوتی ہے، ابلیس کہتا ہے کہ مجھے آج تک کبھی چھٹی نہ ملی: آن چناں بر کارہا پیچیدہ ام فرصت آدینہ را کم دیدہ ام خدا کے پاس کاروبار کائنات میں مدد کے لیے فرشتے ہوتے ہیں اور بعض انسانوں کے پاس بھی نوکر چاکر ہیں۔ پیغمبروں کو وحی سے ہدایت مل جاتی ہے، لیکن یہ خاکسار بے یار و مددگار تنہا سب کچھ کرتا ہے۔ حدیث و کتاب تو میرے پاس کوئی نہیں ہوتی لیکن میری کار گزاری کا کمال دیکھئے کہ حدیث و کتاب والے فقیہوں کے اندر سے روح دین کو سلب کر لیتا ہوں۔ فقیہ یا ملا جو پیراہن دین بننے کے لیے سوت کاتتے ہیں، اس کو تار عنکبوت سے زیادہ بودا کر دیتا ہوں اور کعبے کے اندر بھی فرقوں کے مختلف مصلے بچھوا دیتا ہوں: رشتہ دیں چو فقیہاں کس نرشت کعبہ را گردند آکر خشت خشت میرے مذہب میں فرقہ سازی اور تفرقہ بازی نہیں (الکفر ملتہ واحدہ) انسانیت میں تفرقہ پیدا کرنے والے جہاں بھی ہیں اورجس رنگ میں بھی ہیں وہ سب میرے مرید ہیں۔ اس کے بعد اپنے جواز میں ابلیس کچھ اس انداز کی باتیں کہنے لگتا ہے جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقاء کے اندر بھی پائی جاتی ہیں۔ کہتا ہے کہ میں وجود حق کا منکر تو نہیں۔ دیکھے ہوئے خدا کا انکار میں کیسے کر سکتا ہوں۔ اس لیے اور کافروں کی طرح کوئی مجھے منکر خدا تو نہیں کہہ سکتا۔ میرے انکار میں اقرار کا پہلو پوشیدہ ہے۔ اس کے بعد اقبال ہی کا نظریہ ارتقائے آدم ابلیس کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ کہتا ہے کہ میں نے آدم کو بہکا اور بھڑکا کر مجبوری سے مختاری تک پہنچا دیا۔جس جنت میں وہ پہلے تھا اور جہاں سے میں نے اسے نکلوایا، اس میں سکون اور راحت تو تھی لیکن اختیار ناپید تھا۔ میں نے اختیار برت کر انکار کیا اور آدم نے بھی میری تلقین سے نافرمانی کا ایک قدم اٹھایا۔ اس کو لغزش مت کہو۔ اسی نافرمانی نے اس کے اختیار کا ثبوت مہیا کیا۔ ملائکہ کی قسم کی بے چون و چرا اطاعت اور جبر میں کیا فرق ہے۔و ہاں اختیار کا نام و نشان نہیں۔ اختیار تو لغزش آدم سے پیدا ہوا جو اس کے طویل ارتقاء کے لیے ایک لازمہ تھا: شعلہ با از کشت زار من دمید او ز مجبوری بہ مختاری رسید زشتی خود را نمودم آشکار با تو دادم ذوق ترک و اختیار اب آدم سے کہتا ہے کہ میں نے تیرے لیے اتنا عظیم الشان کام کیا اور اتنی قربانی کی، اب تو میری خلاصی کر۔ جب تک تو ایسا بے وقوف رہے گا اور اندھا دھند میرے دام عصیاں میں گرفتار ہونے پر ہر دم آمادہ رہے گا، مجھے بھی خواہ مخواہ تیرا شکاری بننا پڑے گا۔ میرے لیے بھی یہ ایک مصیبت ہی ہے میں چاہتا ہوں کہ تو از راہ کرم میری غم گساری اور یاری کو ترک کر دے۔ تو خواہ مخواہ اپنے اعمالکے ساتھ میرا نامہ اعمال بھی اور زیادہ تاریک کرتا ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میں انسانوں کا شکاری ہوں، لیکن جب تک نخچیر شکار ہونے پر خود آمادہ رہیں گے، صیادی بھی باقی رہے گی اور مجھے تجھ پر تیرا فگنی کرنی پڑے گی۔ اگر تو زیرک ہو جائے اور تجھ میں پرواز کی قوت ترقی کر جائے تو نہ تو صید رہے اور نہ میں صیاد رہوں۔ تیری بھی خلاصی ہو اور میری بھی خلاصی: در جہاں صیاد ہا نخچیر ہاست تا تو نخچیری بکیشم تیر ہاست صاحب پرواز را افتاد نیست صید اگر زیرک شود صیاد نیست اقبال اس سے کہتا ہے کہ چھوڑ اس مسلک فراق کو جو پیچ و تاب اور اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اب یہاں پھر لطیفہ یہی ہے کہ ابلیس کا جواب بھی وہی ہے جو خود اقبال کا فلسفہ ہے اور جسے اس نے سینکڑوں اشعار میں دہرایا ہے کہ فراق ہی سے آرزو اور جستجو اور سوز و گداز ہے۔ خود حیات الٰہی بھی مبتلائے فراق نفوس کے ساتھ وابستہ ہے۔ خالق اور مخلوق میں وصل کامل کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ یہ رہے نہ وہ۔ من و تو کا فرق ہی تو زندگی کی اساس ہے: گفت، ساز زندگی سوز فراق اے خوشا سر مستی روز فراق بر لبم از وصل می ناید سخن وصل اگر خواہم نہ او ماند نہ من حرف وصل او را ز خود بیگانہ کرد تازۂ شد اندر دل او سوز و درد اندکے غلطید اندر دود خویش باز گم گردید اندر دود خویش نالہ زاں دود پیچاں شد بلند اے خنک جانے کہ گردد درد مند دیکھئے اس آخری میں پھر ستائش ہی کا پہلو ہے اور ابلیس کے اس زاویہ نگاہ سے ہم نگاہی اور ہم دروی ہے۔ نالہ ابلیس، میں ابلیس کی آہ و فغاں ہے۔ یہ بھی اقبال کا ایک انوکھا مضمون ہے۔ عام مومنوں کا یہ حال ہے کہ وہ شیطان سے پناہ مانگتے ہیں، لیکن یہاں شیطان انسان سے بیزاری کا اظہار کرتاہے اور چاہتا ہے کہ ایسے صید زبوں کی صیادی سے مجھے نجات مل جائے۔ ایسے انسانوں کا شکار کرنا یوں ہی جھک مارنا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے کہ آدمی کو شیطان نے خراب کیا مگر یہاں شیطان ’’اعوذ باللہ من الانسان‘‘ کہہ رہا ہے کہ یہ خودی ناشناس انسان بے چون و چرا میری حکم برداری پر تیار رہتا ہے ذرا مقابلہ کرے تو مجھے بھی زور آزمائی کا موقع ملے: اے خداوند صواب و ناصواب من شدم از صحبت آدم خراب ہیچ کہ از حکم من سر برتنافت چشم از خود بست و خود رادر نیافت میں ملعون و مردہ اس لیے ہوا کہ میں نے قادر مطلق کے سامنے بی ابا یا انکار کی جرأت کی۔ میری خودی میں استکبار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اگر میری مریدی میں وہ بھی یہ سیکھ لیتا کہ میری نافرمانی کی جرأت پیدا کرے اور ذوق کبریائی میں کسی کا مطیع و منقاد نہہو تو میں بھی ایسے مرید کی داد دیتا، لیکن یہ نالائق تو بہت بودا نکلا۔ یہ کیسا صید ہے کہ خود چلا آتا ہے گردن ڈالے: ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف باصید این کہ روزے بہ شکار خواہی آمد (حافظ) خدا سے یہ کہتا ہے کہ اس ذلیل شکار سے میری خلاصی کرا: خاکش از ذوق ابا بیگانہ از شرار کبریا بیگانہ صید خود صیاد را گوید بگیر الاماں از بندۂ فرمان پذیر شکار کی پست ہمتی اور زود گرفتاری سے خود شکاری بھی سست عمل ہو جاتا ہے۔ ایسے سست عناصر انسانوں کی بدولت میرا بھی یہی حال ہوا ہے۔ اے خدا میری طاعت دیرینہ کو یاد کر کے مجھے اس عذاب سے نجات دلوا: از چنیں صیدے مرا آزاد کن طاعت دیروزۂ من یاد کن پست ازو آں ہمت والاے من وائے من، اے وائے من، اے وائے من کوئی صاحب نظر حریف پختہ ہو تو اس سے کشتی لڑنے میں مزہ بھی آئے۔ یہ موجودہ انسان کیا ہیں؟ مٹی کے کھلونے ہیں اور میں ہوں مرد پیر۔ بھلا کسی بڈھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ مٹی کے کھلونوں سے کھیلا کرے۔ یہ آدم تو ایک مشت خس رہ گیا ہے جس کے لیے ایک چنگاری کافی ہے۔ میرے اندر جو عالم سوز آگ ہے، مجھے اتنی آگ تو نے کاہے کو دے رکھی ہے۔ اس کا تو کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ کوئی ایسا پہلوان نکال جو میری گردن مروڑ سکے اور جس کی ایک نگاہ ہی سے میں لرزہ بر اندام ہو جاؤں۔ جو مجھے دیکھتے ہی سر تسلیم خم کرنے کی بجائے پکار اٹھے کہ ’’ دور ہو یہاں سے‘‘ اور جس کے نزدیک میری قیمت دو جو کے برابر نہ ہو۔ ایسا مرد حق اگر مجھے پچھاڑ دے تو اس شکست میں وہ لذت محسوس ہو جو میرے بندۂ فرمان کی اطاعت گزاری سے مجھے حاصل نہیں ہوتی: اے خدا یک زندہ مرد حق پرست لذتے شاید کہ یابم در شکست نالہ ابلیس میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس کے اپنے خیالات ہیں۔ انسان کی تاریخ اصلاح کا بغور مطالعہ کیجئے تو اس میں شروع سے آکر تک ایک کیفیت یکساں نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ہر بلند نظر مصلح، نبی ہو یا حکیم اپنے گرد و پیش کے انسانوں سے ہمیشہ بیزار رہا ہے۔ ہر مصلح کایہ عقیدہ رہا ہے کہ میرے زمانے کے انسان نہایت ذلیل ہیں۔ حافظ شیرازی کو تو مصلح ہونے کا دعویٰ نہیں ہے لیکن اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت کہتا ہے : ایں چہ شوریست کہ در دور قمر می بینم ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم دختراں را ہمہ جنگ است و جدل با مادر پسران را ہمہ بد خواہ پدر می بینم امام غزالی نے اپنے زمانے کے عوام کے علاوہ علماء کا جو حال لکھا ہے وہ پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صورت بالکل مسخ ہو چکی ہے۔ دین دار اور دنیا دار سب ادنیٰ اغراض میں مبتلا ہیں۔ یونان کی تہذیب میں سقراط و افلاطون کا زمانہ علوم و فنون کے لحاظ سے تاریخ انسانی کا ایک زریں ورق ہے، لیکن اسی عہد میں سوفسطائی بھی تھے جو حقیقت و صداقت کے منکر تھے۔ وہ دین و اخلاق کو توہمات سمجھتے اور لوگوں میں تشکیک پھیلا تے تھے۔ اسی حکمت پسند قوم نے سقراط جیسے حکیم ناصح کو زہر پلا دیا۔ جمہوریہ افلاطون اسی دور کے عوام و خواص کی کم عقلی پر ایک مفصل تنقید ہے۔ عارف رومی کا زمانہ ہمارے نزدیک تو صوفیہ کرام اور صلحا کا عہد تھا لیکن مولانا اپنے معاصر انسانوں کو سست عناصر اور دام و دو سمجھتے ہیں اور مردان خدا کو ڈھونڈتے ہیں جو کہیں نظر نہیں آتے: گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست ہر دور میں انسانوں کے متلعق ایسی خراب رائے حکما اور صلحا کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہر بلند نظر انسان میں انسانیت کا نصب العین بہت بلند ہوتا ہے اور اکثر انسان اس معیار پر کم عیار ثابت ہوتے ہیں۔ مشہور انگریزی ادیب ڈاکٹر جونسن نے بوس ول سے کہا کہ میری رائے انسانوں کی نسبت بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے عام طور پر لوگ اچھا سمجھتے ہیں لیکن میں خود اپنی نسبت جانتا ہوں کہ میں کیسا ذلیل ہوں۔ ایسے ذلیل آدمی کو اچھا سمجھنے والوں کی اپنی کیا حالت ہو گی۔ وہ مجھ سے کچھ بدتر ہی ہوں گے۔ اقبال کے ذہن میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی سیرت کا نقشہ تھا۔ اس نے انسانی خودی، انسانی بصیرت اور ہمت کا ایک نصب العین قائم کر لیا تھا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر اب جو وہ گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کی نسبت خدا سے شکایت کرتا ہے: یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟ کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا نہ خود بین، نے خدا بیں نے جہاں بیں یہی شہ کار ہے تیرے ہنر کا؟ اوروں کو چھوڑیے خود اپنے آپ سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔ اپنے تئیں تن آسان اور سست عمل کہتا ہے اور اپنی سیرت کا تجزیہ کرتے ہوئے بیباکی سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ اس کے بعض معتقدین اس کو فرقہ ملامتیہ کا ایک ممتاز فرد گردانتے ہیں۔ نالہ ابلیس میں شیطان نے جو انسانوں کے متعلق رائے قائم کی ہے وہ اقبال کی اپنی رائے ہے اور یہ رائے اس کے نصب العین کی بلندی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ انسان ہمیشہ زیادہ تر ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔ مختلف ادوار میں اچھوں اور بروں کے تناسب میں فرق پڑتا رہتا ہے۔ کبھی اچھوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور کبھی بروں کی کثرت ہو جاتی ہے اور قوموں کا عروج و زوال اسی سے متعین ہوتا ہے لیکن نصب العینی انسان دنیامیں کتنے ہوئے اور کتنے ہو سکتے ہیں۔ اقبال کے ابلیس کے تصور میں ایک اشتباہ کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اکثر نظریات حیات ابلیس نے بھی وہی پیش کیے ہیں جو اقبال کی تعلیم میں نمایاں طگور پر موجود ہیں۔ اقبال کے نزدیک زندگی نفی و اثبات دونوں پر مشتمل ہے۔ ارتقائے حیات میں ایک حالت کی نفی سے دوسری حالت کا اثبات ہوتا ہے اور آگے بڑھتے ہوئے بھی اس اثبات کی نفی ہو جاتی ہے۔ ابلیس کو اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے کہ وہ فراق کو آرزو و جستجو اور ترقی نفس انسانی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے: بگو جبریل را از من پیامے مرا آں پیکر نوری نداند ولے تاب و تب ما خاکیاں بیں بنوری ذوق مہجوری نداند نفس کے اندر اگر پیکار نہ ہو تو اس کی ترقی ممکن نہیں۔ زندگی خیر و شر کی پیکار کا نام ہے۔ شر نفی اور انکار کے مترادف ہے اور یہی صفت ابلیس کے تصور میں مشخص ہو گئی ہے۔ لیکن خالی نفی اور انکار سے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک نفی و انکار کے لزوم کا تعلق ہے، اور جس حد تک اقبال اس کو معاون حیات سمجھتا ہے، اس حد تک انکار مجسم ابلیس کی زبان سے بھی حکیمانہ کلمات نکلواتا ہے۔ لیکن ابلیس کی خودی محض ایک سلبی خودی ہے۔ اس میں ایجابی پہلو کا فقدان ہے۔ ابلیس کے تصور میں بھی ایسے صفات موجود ہیں جو قلب ماہیت سے خودی کی تکمیل میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اور ابلیس کی ستائش گری انہی صفات کی وجہ سے جن میں زندگی کا ارتقاء مضمر ہے اور ان صفات کے فقدان سے زندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث شریف میں کہی گئی ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی ضرورت نہیں، اسے مسلمان کرنے کی ضرورت ہے، اور یہی تصور ابن عربی کا بھی ہے جو اوپر درج ہو چکا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی گرمی سے پکتے ہیں۔ ابلیس کے آتش نژاد ہونے کے یہی معنی ہیں اقبال اس کو آتش حیات کہتا ہے۔ لیکن اس نار کو دور آفریں نہیں بلکہ نور آفریں ہونا چاہیے۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقاء نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہو سکتا، لیکن نفی فی نفسہ قصور نہیں ہو سکتی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کے طرف یا اقبال کی اصطلاح میں استحکام خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھنا چاہیے۔ اثبات مسلسل نفی مسلسل کے بغیر نہیں ہو سکتا، لہٰذا نفسی بھی خیر مطلق کے حصول کے لیے لازمی ہے۔ ٭٭٭ اٹھارواں باب رموز بے خودی اقبال کی کتاب اسرار خودی کے بعض نظریات کو سطحی فم رکھنے والے نقادوں نے نظر تحسین سے نہ دیکھا۔ روایتی تصوف کے دل داد گان کو اس سے جا بجا ٹھوکر لگی۔ ہمارے ادب میں تو خودی ایک مذموم چیز تھی اور تصوف و اخلاق اس کو ابلیسانہ چیز سمجھتے تھے۔ فارسی اور اردو ادب میں نفس انسانی کے ایزدی جوہر کے متعلق تو بہت کچھ ملتا ہے لیکن ہر جگہ تلقین یہی ہے کہ انسان اپنی خودی کو سوخت کر کے ہی اس جوہر کو اجاگر کر سکتا ہے۔ خودی کی پرستش گناہ ہے اور خدا پرستی کے مخالف ہے: تجھ کو خودی پسند ہے مجھ کو خدا پسند تیری جدا پسند ہے میری جدا پسند اس تصور میں یہ انا یا نہیں یا ہم پندار کا ایک بت ہے اور تمام بتوں کا قلع قمع کرنے کے بعد آخر میں یہی سنگ گراں معرفت میں سنگ راہ بن جاتا ہے۔ گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور وحدت وجود کا فلسفہ، جو اسلامی شاعری اور تصوف کا مرکز و محور بن گیا، زیادہ تر خودی سوز ہی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر مخلوقات کی حیثیت محض ظلی ہے۔ اقبال نے روایتی تصوف کے خلاف جہاد اسرار خودی ہی سے کیا اور عمر کے آخری لمحوں تک یہ جہاد جاری رہا۔ مابہ النزاع خودی ہی کا مسئلہ تھا۔ا قبال خدا کو خودی میں جذب کرنے کی تلقین کرتا تھا اور تصوف خودی کو خدا میں گم کرنے کی تعلیم دیتا تھا۔ اسرار خودی سے بہت سے قارئین نے دھوکا کھایا اور سمجھا کہ یہ قوت اور تکبر کی تعلیم ہے اور اس میں انسان کی خودی کو خدا بنا دیا گیا ہے۔ اسرار خودی میں خدا کہیں نمایاں معلوم نہیں ہوتا، انسانی خودی وہاں خلاق بن گئی ہے۔ ان نقادوں کو یہ علم نہ تھا کہ اقبال اس سے اچھی طرح آشنا تھا کہ بے خودی بھی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگرچہ بے خودی کا مفہوم فقط ایک پہلو اسرار خودی میں پیش ہوا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے دوسرے پہلو کو پیش کرنا لازمی تھا۔ رموز بے خودی، اسرار خودی کا تکملہ ہے۔ اقبال کے نظریات حیات میں بحیثیت مجموعی ایک توازن موجود ہے۔ اگرچہ کلام کے بعض حصوں کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو بعض اوقات فقط ایک پہلو کسی قدر شدت اور مبالغے کے ساتھ نظر کے سامنے آتا ہے۔ رموز بے خودی کی تمہید میں ربط فرد و ملت کے متعلق اقبال اپنا زاویہ نگاہ پیش کرتا ہے۔ یہ مسئلہ نفسیات، اخلاقیات، سیاسیات اور معاشیات کا اہم ترین مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے متعلق اختلاف زندگی کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فرد کو ایک ایٹم سمجھ کر جو نفسیات لکھی گئی وہ حقیقت حیات سے بہت دور ہو گئی۔سادہ اخلاقی تصورات بھی اس کے لیے ناقبال فہم ہو گئے اور سجوک جیسے اخلاقیات پر ضخیم تصنیف کرنے والے فلسفی آخر میں یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں ایک فرد اپنی ذاتی مسرت کو دوسروں کے لیے قربان کرے۔ کانٹ کی اخلاقیات بھی آخر میں بے بنیاد ہو گئی اور اس نے اس عقیدے کا سہارا لیا کہ اگر تلافی کرنے والے خدا اور بع دالموت کا عقیدہ نہ ہو تو فرد کی فرض شناسی اور جماعت کے اغراض کے لیے اس کی ذاتی سعادت و مسرت کی قربانی کی کوئی عقلی تاسیس ممکن نہیں۔ جرمن فلسفی شٹیرنر اور نطشے کی طرح بعض حکما نے فرد کو مطلق العنان کرنے کی تلقین کی تاکہ جماعت کے حدود و قیود اور اوامر و نواہی اس کی شخصیت کے بے روک ارتقاء میں خلل انداز نہ ہوں۔ دوسری طرف ہیکل جیسے فلاسفہ نے جماعت اور مملکت کو معبود بنا دیا اور فرد کی انفرادیت وہاں ایک بے حقیقت سا مظہر رہ گئی۔ اس کا اثر معاشیات و سیاسیات پر بہت گہرا پڑا۔ کارل مارکس نے اپنے فلسفے کا ڈھانچا ہیگل سے اخذ کیا اور اس کا عملی نتیجہ وہ اشتراکیت ہے جہاں فرد کی آزادی ضمیر اور آزادی عمل ایک گناہ کبیرہ ہے مغرب میں حقوق طلبی کے جوش و خروش میں فرد نے جماعت کو اپنا حریف سمجھا رفتہ رفتہ وہ مذہب سے بھی برگشتہ ہو گیا جو فرد کو جماعت کے ساتھ وابستہ رکھنا چاہتا تھا۔ یہ تمام کشاکش افراط و تفریط کا نتیجہ تھی۔ اسلام اعتدال اور توازن کا نام ہے۔ ادیان میں فرد و ملت کے ربط کا مسئلہ عمدہ طور پر اسلام نے حل کیا تھا۔ اسلام فرد کے نفسیات کے کسی پہلو کو جماعت کے مفاد سے الگ نہیں کرتا۔ اس کی تمام عبادات میں اجتماعی عنصر بہ نمایاں ہے۔ نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا زکوٰۃ، سب میں فرد جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کے باوجود اسلام نے بڑے زور و شور سے آزادی ضمیر کی تلقین کی اور کہا کہ دین، جس میں عقیدہ اور طریق زندگی شامل ہے، کسی جبر کو گوارا نہیں کرتا۔ جو چیز اختیار سے قبول نہیں کی گئی اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں۔ رہبانی مذاہب میں اخلاق اور روحانیت انفرادی رہ گئے تھے۔ ایک طرف خدا اور دوسری طرف فرد جو غار میں یا صحرا میں جماعت سے بے نیاز ہو کر خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال کے ہاں ربط فرد و ملت کا نظریہ اسی اسلامی زاویہ نگاہ سے اخذ کردہ ہے۔ جماعت کے ساتھ تمام نفسیاتی روابط کو ساقط کر کے اگر نفس انسانی کی باقی ماندہ حیثیت کو دیکھیں تو وہ صفر رہ جاتی ہے۔ اسی وجہ سے اقبال نے بہت پہلے کہا تھا کہ ’’ وجود افراد کا مجازی‘‘ ہے یعنی فرد کی جماعت سے ربط کے بغیر کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جماعت کا یہ ہمہ گیر رابطہ انسان کی انفرادی خودی کو سوخت نہیں کرتا، بلکہ اس کی پرورش کرتا ہے۔ ہر شاخ اور ہر پتے کی اپنی بھی ایک مخصوص حیثیت ہے، لیکن شجر سے منقطع ہو کر نہ شاخ میں روئیدگی رہ سکتی ہے اور نہ پتا سرسبز رہ سکتا ہے: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ تمام نوع انسان کی وحدت کی تعلیم قرآن میں موجود تھی کہ سب انسان ایک نفس واحدہ سے سر زد ہوئے ہیں۔ گویا تمام نوع انسان ایک جسم ہے اور مختلف افراد اس کے اعضا ہیں۔ اسی قرآنی تصور کو ان اشعار میں ادا کیا گیا ہے: بنی آدم اعضاے یک دیگر اند کہ در آفرینش زیک جوہر اند چو عضوے بدرد آورد روزگار دگر عضو ہا را نہ ماند قرار اگر کسی عضو میں ایسی انانیت پیدا ہو جائے کہ وہ دوسرے اعضاء سے تعاون کو لا حاصل ایثار سمجھے تو خود وہ عضو معطل ہو جائے گا۔ یہ تمثیلی حکایت نہایت حکمت آموز ہے کہ انسانی جسم کے اعضا میں بے بصری سے ایک مرتبہ یہ خیال پیدا ہو گیا کہ ہم تو سب جدوجہد کرتے رہتے ہیں لیکن یہ پیٹ نکھٹو، ناکردہ کار ہماری محنت سے پیدا شدہ رزق کو اپنے اندر ڈال کر خود لطف اٹھاتا ہے۔ اس نکھٹو کا کامل مقاطعہ کرنا چاہیے۔ تمام اعضا نے رزق کی کوشش چھوڑ دی پیٹ میں کچھ نہ گیا تو سب کی حالت زار و نزار ہو گئی۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ ہم بیجان کیوں ہو رہے ہیں۔ آخر دماغ نے ان بے وقوفوں کو سمجھایا کہ شکم سمیت تم سب ایک ہی جان کے مظاہر اور اس کے خدمت گزار ہو۔ ہر ایک کا کام اسے خود بھی نفع پہنچاتا ہے اور کل جسم کو بھی۔جماعت کے ساتھ ہی ربط رکھنے سے عضو میں زندگی اور قوت ہے۔ فرد و جماعت کے ربط کی اس سے بہتر مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ علامہ اقبال بھی اسی تصور سے آغاز کرتے ہیں: فرد را ربط جماعت رحمت است جوہر او را کمال از ملت است تا توانی با جماعت یار باش رونق ہنگامہ احرار باش اس کے بعد ایک حدیث نبوی کے حوالے سے کہا ہے کہ شیطان جماعت سے دور رہتا ہے فرد و قوم ایک دوسرے کا آئینہ ہیں۔فرد و ملت کا احترام و نظام ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ فرد کا جماعت میں گم ہونا خودی کو سوخت کرنا نہیں بلکہ قطرے کا قلزم بننا ہے۔ زندگی کے اقدار کا سرمایہ ملت ہی کے گنجینے میں ہوتا ہے۔ نوع انسان جو کچھ قرون میں یہ دوران ارتقاء پیدا کرتی رہی ہے، فرد اس تمام ثروت کا مالک بن جاتا ہے اور انسانیت کے مستقبل کی طرف بھی جماعت ہی قدم بڑھاتی ہے۔ ماضی اور مستقبل اس کی ذات میں ہم آغوش ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ لیکن جماعت باقی رہتی ہے۔ فرد کے اندر ترقی کی خواہش بھی جذبہ ملی سے پیدا ہوتی ہے اور خیر و شر کا معیار بھی حیات ملی کی پیداوار ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہتے ہیں لیکن فرد بے جماعت ناطق نہیں ہو سکتا۔ زبان جو ہزار ہا سال کے انسانی تجربات کی سرمایہ دار ہے، کسی ایک فرد کی پیدا کردہ چیز نہیں۔ یہ قیمتی ورثہ جماعت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ گرمی صحبت سے فرد میں ملت کی وسعت آ جاتی ہے۔ تمام کثرت وحدت میں منسلک ہو جاتی ہے۔ لفظ کے اندر معنی کی ثروت جملے یا مصرعے کے دوسرے الفاظ سے متحد ہو کر اظہار پذیر ہوتی ہے۔ تنہا فرد کے مقاصد خور و نوش کے علاوہ اور کیا ہو سکتے ہیں۔ فرد کے مضمرات و ممکنات اگر معرض شہود میں آتے ہیں تو محض ملت کے ربط سے ضبط و نظم سے زندگی کو نشوونما حاصل ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی جو معاون حیات و ارتقاء ہے، وہ جماعتی پابندیوں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح کہ ندی کے اگر کنارے نہ ہوں، جو اس کی روانی کو حدود کے اندر رکھتے ہیں، تو وہ ندی ہی نہیں بن سکتی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ تو نے خودی اور بے خودی کے باہمی ربط کو نہیں پہچانا، اس لیے وہم و گمان میں مبتلا ہو گیا ہے اور ان کو باہم متضاد سمجھنے لگا ہے۔ تیری ذات کے اندر ایک جوہر نور ہے۔ اس نفس واحدہ میں دوئی نہیں۔ لیکن مظاہر حیات میں یہ وحدت من و تو کا امتیاز پیدا کر لیتی ہے۔ اس کی فطرت آزاد خود اپنی تکمیل کے لیے آئین کی زنجیریں بناتی ہے۔ اس جزو کے اندر ہمہ گیر قوت ہے۔ پیکار حیات ا س شمشیر کے لیے سنگ فساں ہے: غرض ہے پیکار زندگی سے کمال پائے ہلال تیرا اسی کو خودی کہتے ہیں اور اسی کا نام زندگی ہے۔ جماعت کے اندر گم ہو کر، یعنی بے خودی ہے، یہ خودی اپنے آپ کو استوار کرتی ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئین کے جبر نے اختیار فرد کو سوخت کر دیا ہے، لیکن محبت اسی کا نام ہے کہ محبت محبوب کی ذات سے ہم آہنگ ہو جائے۔ خود شکنی سے کس طرح خودی مضبوط ہوتی ہے؟ استدلال کے لیے یہ نکتہ آسانی سے قابل فہم نہیں، اس میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے: نکتہ ہا چوں تیغ پولاد است تیز گر نمی فہمی ز پیش ما گریز اس تمہید کے بعد اقبال نے اس نکتے کی وضاحت کی ہے کہ انسان کی فطرت میں یکتائی کا جوہر بھی ہے لیکن اس کی حفاظت انجمن آرائی سے ہی ہوتی ہے۔ افراد خود اپنی تکمیل ذات کے لئے اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو لیتے ہیں۔ پیکار حیات میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت پیش آتی ہے۔ا فلاک پر نظام انجم بھی جذب باہم سے قائم ہے۔ انسانی افراد بھی اسی آئین سے قیام و ثبات حاصل کرتے ہیں۔ ابتدائی حالت میں انسان جب دشت و جبل میں آوارہ تھے تو زندگی کی قوتیں خوابیدہ تھیں،آرزوئیں محدود تھیں: گو شمال جستجو ناخوردہ زخمہ ہاے آرزو نا خوردہ خون میں گرمی نہیں تھی۔ دیو و پری کے اندیشے سے لرزاں تھے۔ عقل و فکر نے بھی ماحول پر غلبہ حاصل نہ کیا تھا۔ برق و رعد سے خائف تھے۔ خود رو چیزیں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے۔ اپنی کوشش سے فطرت سے کچھ نہ حاصل کر سکتے تھے۔ ایک انفعالی کیفیت تھی۔ جو کچھ میسر آ گیا اس پر قناعت کر لی۔ اس حالت میں سے انسان اس وقت نکلا جب کسی جماعت میں ایک مرد صاحب دل پیدا ہوا۔ یہ قرآنی تصور ہے کہ آدمیت کا آغاز نبوت سے ہوا ہے۔ بعض حکماء نے کہا ہے کہ ہر علم و فن کا آغاز بھی وحی ہی کی بدولت ہوا۔ ایسا شخص انسانوں کو انتشار سے نکال کر ان میں وحدت پیدا کرتا ہے۔ ’’ تا دوئی میردیکی پیدا شود‘‘ ایسے مرد صاحب دل کا انداز نظر بالکل تازہ ہوتا ہے۔ وہ ہر شے کو ایک نئی بصیرت سے دیکھتا ہے اور اس سے نئے نتائج اخذ کرتا ہے۔ اس کے اندر زندگی کی حرارت ہوتی ہے جس کی چنگاریاں بے شمار قلوب میں شعلے پیدا کرتی ہیں۔ اس کی بدولت عقل کو بھی ایک نیا پیرایہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنا سکھاتا ہے۔ وہ زندگی کے اقدار کی نئی تقدیر کرتا ہے۔ وہمی معبودوں کی پرستش سے انسان کو نجات دلاتا ہے۔ مادی فطرت کی قوتوں کا خوف دلوں سے زائل کرتا ہے اور انسان میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ تو خداے خلاق واحد کے سوا کسی کا بندہ نہیں۔ اس کے طفیل میں انسان ایک جماعت بن جاتے ہیں اور توحید الٰہی وحدت انسانی میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ تاہم زندگی کے لیے ایک مقصود معین ہو جاتا ہیـ: تا سوے یک مدعایش می کشد حلقہ آئیں بپایش می کشد نکتہ توحید باز آموزدش رسم و آئین نیاز آموزدش اس قسم کے توحید آموز اور وحدت آفریں تلمیذ الرحمان کو اسلامی اصطلاح میں نبی کہتے ہیں۔ از آدم تا ایں دم نوع انسان نے جو ترقی کی ہے اور انسان کی بصیرت اور قوت میں جو اضافے ہوئے ہیں، سب کا سرچشمہ نبوت ہی ہے۔ اس کے بعد ارکان اساسی ملیہ اسلامیہ کے عنوان کے تحت رکن اول توحید کی شرح ہے۔ انسانی عقل ابتدائی کوششوں میں اپنے ماحول میں اشیاء و حوادث کا فرداً فرداً ادراک کر کے ان کے ساتھ کوئی ہنگامی توافق پیدا کرتی رہی۔ ابھی تک ایسا شعو رپیدا نہ ہوا تھا جو مظاہر کی گوناگوئی اور کثرت کو کسی وحدت میں منسلک کر سکے۔ عقل کا پہلا ارتقائی قدم توحید کی بدولت اٹھا، ورنہ عقل کے لیے خود اپنا مقصود واضح نہ تھا۔ فطرت کی تسخیر فہم فطرت کے ساتھ وابستہ ہے اور اس فہم کا کام حوادث کی کثرت میں آئین کی وحدت تلاش کرنا ہے: در جہان کیف و کم گردید عقل پے بہ منزل برو از توحید عقل ورنہ این بے چارہ را منزل کجاست کشتی ادراک را ساحل کجاست کم فہم لوگ دین اور دانش کو الگ الگ بلکہ متضاد چیزیں سمجھتے ہیں۔ اگر نکتہ توحید ان کی سمجھ میں آ جائے تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو کہ توحید کی پیدا کردہ وحدت کوشی ہی دین اور حکمت دونوں کا سرچشمہ ہے اور تمام قسم کی قوتیں اسی سے پیدا ہوتی ہیں: دین ازو، حکمت ازو، آئیں ازو زور ازو، قوت ازو، تمکیں او عالموں کی حیرت اور عاشقوں کی قوت عمل اسی زاویہ نگاہ کا نتیجہ ہیں۔ یہی عقیدۂ خاک کو اکسیر بناتا ہے۔ اس سے انسان کی نوعیت ہی بدل جاتی ہے۔ انسان راہ حق میں گرم رو ہو جاتا ہے۔ شک اور خوف کی جگہ یقین محکم پیدا ہوتا ہے، چشم بصیرت پر ضمیر کائنات کا انکشاف ہوتا ہے۔ کلمہ توحید ہی ملت بیضا کے تن میں بطور جان ہے۔ یہی عقیدہ ملت کا شیرازہ بند ہے۔ اسی سے زندگی میں قوت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی سے تودۂ گل دل بن جاتا ہے اور دل میں سے اگر یہ نکل جائے تو دل مٹی ہو جاتا ہے۔ مسلمان کی اصلی دولت یہی ہے کہاسی توحید نے اسود و احمر کی تمیز مٹائی اور بلال حبشی (رضی اللہ عنہ) فاروق (رضی اللہ عنہ) اور ابو ذر (رضی اللہ عنہ) کا ہمسر ہو گیا۔ ملت نہ جغرافیائی چیز ہے اور نہ نسلی یا لسانی۔ بقول شاعر ’’ نیم دلی از ہم زبانی بہتر است‘‘ ملت دلوں کی یک رنگی اور ہم آہنگی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بات توحید ہی کی برکت سے ظاہر ہوتی ہے: ملت از یک رنگی دلہاستے روشن از یک جلوۂ سیناستے قوم را اندیشہ ہا باید یکے در ضمیرش مدعا باید یکے ملت اسے کہتے ہیں جس میں خیر و شر اور خوب و زشت کا معیار یکساں ہو۔ یہ اتحاد خدائے واحد ہی کی بخشی ہوئی بصیرت کا نتیجہ ہو سکتاہے، ورنہ ہر شخص خود اپنے لیے معیار بن جائے اور انسانی وحدت کا شیرازہ بکھر جائے۔ بعض ملتوں نے اپنی تقدیر کو وطن کے ساتھ وابستہ کر رکھا ہے۔ بعض نے اتحاد ملت کی تعمیر نسل و نسب کی بنیادوں پر قائم کی ہے۔ لیکن وطن پرستی خدا پرستی نہیں۔ وہ ایک خطہ ارض کی پرستش ہے، اسی طرح نسب کا مدار جسمانی توارث پر ہے، لیکن انسان کی ماہیت جسم نہیں بلکہ روح ہے۔ ملت اسلامیہ کی اساس نفسی ہے۔ یہ ایک غیر مرئی رشتہ ہے۔ جس طرح تجاذب انجم کے تار کسی کو نظر نہیں آتے مگر وہی نظام انجم کے قوام ہیں۔ اس قسم کی وحدت نفسی توحید پرستوں کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی۔ قرآن نے جہاں نفس مطمئنہ اور نجارت یافتہ، خدا رس انسان کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے دو ہی صفات بالتکرار بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسا انسان یاس و حزن و غم سے پاک ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ کسی قسم کا خوف اس کے دل میں نہیں رہتا۔ اسی صفت کا نام حریت ہے اور یہ توحید ہی کا ثمر ہے۔ مرد موحد کبھی نا امید نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کے نزدیک نا امیدی کفر ہے۔ امید سے زندگی کی قوتیں بیدار اور استوار ہوتی ہیں اور یاس سم قاتل کا کام کرتی ہے۔قطع امید سے انسان خود کشی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مایوس انسان کے عناصر سست ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے چشمے خشک ہو جاتے ہیں۔ غم انسان کی جان کو کھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا تحزن کی تعلیم دی ہے اور نصب العین لا خوف علھم ولاہم یحزنون قرار دیا ہے: گر خدا داری ز غم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو اسی قوت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے مقابل میں کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کو غرقاب کرتا ہے۔ غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن ہے لیکن خدا پر یقین ہمت عالی کا منبع ہے۔ خوف سے فکر و عمل کی تمام قوتیں بے کار ہو جاتی ہیں اور انسان خود مسخر و مغلوب ہو جاتا ہے۔ جس شخص کو سست عمل دیکھو سمجھ لو کہ اس کے دل میں خوف نے جگہ کر لی ہے۔ جدید نفسیات نے کوئی پچاس قسم کے فوبیا یعنی خوف کی قسمیں دریافت کی ہیں جو انسان کے تحت الشور میں داخل ہو کر اس کے نفس میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ نفسیات تحلیلی، ان چوروں کو قلب کے تہ خانوں سے نکالنے کی تجویزیں کرتی رہتی ہیں۔ لیکن خود ایک بڑا ماہر نفسیات جدید، ینگ اس کا اقرار کرتا ہے کہ خدا پر راسخ عقیدہ رکھنے والے ان خوفوں اور نفسی پیچیدگیوں سے بری ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا علاج عقیدۂ توحید ہے: ہر شر پنہاں کہ اندر قلب تست اصل او بیم است اگر بینی درست لابہ و مکاری و کین و دروغ ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ موحد کے دل بے ہراس کے متعلق ایک تمثیل پیش کی ہے کہ حزن و خوف سے بری انسان میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ حوادث کے تیر اس پر بے اثر ہو جاتے ہیں۔ تیر شمشیر سے کہتا ہے کہ میں کسی کے سینے میں داخل ہونے سے پہلے یہ دیکھ لیتا ہوں کہ اس کے اندر دل یاس و بیم میں مبتلا ہے یا نہیں۔ جہاں میں نے دیکھا کہ یہ شخص مایوس اور ڈرپوک معلوم ہوتا ہے، وہاں میں دھڑلے سے اس کی خوں ریزی کرتا ہوں۔ لیکن اگر سینے کے اندر قلب مومن نظر آئے تو میں اس کی حرارت سے پگھل کر پانی ہو جاتا ہوں: در صفاے او ز قلب مومن است ظاہرش روشن ز نور باطن است از تف او آب گردد جان من ہمچو شبنم می چکد پیکان من اس نظم میں بے خودی کا مفہوم اس لحاظ سے داخل ہے کہ جب خودی میں سے خوف و حزن کے عناصر ناپید ہو جائیں تو اس قسم کی بے خودی کی حالت مستی و مدہوشی کے مماثل نہیں ہوتی بلکہ حوادث کے مقابلے میں ناقابل شکست حصن مدافعت بن جاتی ہے۔ خودی اور بے خودی میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اسی خیال کو حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر میں ایک تاریخی واقعے سے استوار کیا ہے۔ نماز عاشقاں میں ایک بے خودی کی کیفیت ہوتی ہے کیوں کہ نفس انسانی اپنے تئیں کلیتاً خدا کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس سپردگی کی بدولت اس میں بے حد قوت اور بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ شیر نے عالمگیر پر دوران نماز میں حملہ کیا۔ کوئی معمولی انسان خوف زدگی میں شیر کا شکار ہو جاتا یا بے اختیار فرار کی کوشش کرتا لیکن عالمگیر کی بے خودی میں خودی کی طاقت دیکھئے: دست شہ نادیدہ خنجر برکشید شرزہ شیرے را شکم از ہم درید دل بخود را ہے نداد اندیشہ را شیر قالیں کرد شیر بیشہ را ایسے نفس میں خود نمائی کے ساتھ خود شکنی ہوتی ہے، لیکن یہی خود شکنی الٰہی قوتوں کی جاذب بن جاتی ہے: ایں چنیں دل خود نما و خود شکن دارد اندر سینہ مومن وطن بعض اوقات لوگوں کو لا خوف علیھم ولاہم یحزنون کی صفت پڑھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ ماسوا کا خوف معدوم ہونے پر بھی خداکا خوف تو باقی رہتا ہے، اس لیے بندۂ مومن مطلقاً لا خوف تو نہ ہوا۔ لیکن یہ دھوکا انسانی زبان کی کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا کے خوف کے وہ معنی نہیں جو ماسوا کے خوف کے معنی ہیں۔ خدا کوئی ڈراؤنی چیز نہیں ہے جسے دیکھ کر انسان کانپنے لگے۔ وہ تو سراپا رحمت و شفقت ہے۔ خوف خدا کے معنی ہیں حکم خداوندی اور آئین الٰہی کی خلاف ورزی کے درد ناک نتائج فطری ہیں۔ انہیں معنوں میں خوف خدا کو حکمت کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔ ماسوا کا خوف تو انسان کو حواس باختہ اور عقل سوختہ کر دیتا ہے۔ خوف خدا کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ایک فرمان بردار بچہ سراپا شفقت ماں باپ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے تاکہ محبت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ یہاں سزا کا خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کے فقدان کا خوف ہوتا ہے۔ ان معنوں میں خدا ہی کا خوف انسان کو ہر قسم کے خوف حوادث سے نجات دلوا سکتا ہے: عشق را آتش زن اندیشہ کن روبہ حق باش و شیری پیشہ کن خوف حق عنوان ایمان است و بس خوف غیر از شرک پنہاں است و بس خدا کے سوا کسی چیز سے خائف انسان کلمہ لا الٰہ الا اللہ زبان سے پڑھنے کے باوجود اندر سے شرک خفی میں مبتلا ہوتا ہے۔ رموز بے خودی میں اقبال پہلے اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ انسانوں میں ملت آفریں وحدت ان مردان حق کی بدولت پیدا ہوئی ہے جنہیں اصطلاحاً نبی کہتے ہیں۔ اس سے قبل اس عنوان کے تحت اشعار درج ہو چکے ہیں کہ ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است، اسلام کا ’’ رکن دوم‘‘ رسالت ’’ ایک مخصوص تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ انبیاء تو آدم سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک لا تعداد ہوئے ہیں لیکن قرآن کریم نے مسلمانوں کو ملت ابراہیم ؑ کہا، اس لیے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا توحید کی تعمیر اور شرک کی بیخ کنی میں جہاد تاریخ دین کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کا زمانہ توریت و انجیل سے پہلے کا زمانہ ہے، اس لیے توحید رموزی میں ان کو تمام انبیائے بنی اسرائیل پر زمانی سبقت حاصل ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے توحید کی بنیادیں قائم کیں تو اس وقت نہ کوئی یہودی تھا اور نہ کوئی نصرانی۔ یہ سب بعد کے کم و بیش بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ اس لیے توحید کو بھی خالص کرنے کے لیے موحد قدیم حضرت ابراہیم ؑ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ پہاڑ میں سے نکلتے ہوئے چشمے کا پانی صاف ہوتا ہے، بعد میں بہتی ہوئی ندیوں میں خس و خاشاک اور کثافت کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ رسالت کی توضیح میں علامہ اقبال، ابراہیم ؑ خلیل اللہ ہی سے آغاز کرتے ہیں: تارک آفل براہیم خلیل انبیاء را نقش پاے او دلیل جس طرح توحید وحدت آفریں ہے، اسی طرح رسالت کا بھی یہی وظیفہ ہے کہ ہزار با انسان ایک عدل عام اور رحمت عامہ کی سلک میں منسلک ہو جائیں: از رسالت در جہاں تکوین ما از رسالت دین ما آئین ما از رسالت صد ہزار ما یک است جزو ما از جزو ما لا ینفک است ابراہیمی رسالت نے جن بنیادوں کو استوار کیا اور رسالت محمودی نے ان پر جو عظیم الشان تعمیر انسانیت کھڑی کی، اسی کی بدولت توحید پرستوں کی ایک ملت بن گئی جو اہل عالم کے لیے پیام رحمت ہے۔ رسول کی محبت خدا کی محبت کا وسیلہ ہے۔ کوئی فرد شاید براہ راست بھی راہبوں کی طرح خدا سے رابطہ پیدا کرے، لیکن ملت کی شیرازہ بند تو رسالت ہی ہے: فرد از حق، ملت از وے زندہ است از شعاع مہر او تابندہ است رسالت کی بدولت لاتعداد انسان ہم نوا اور ہم مدعا ہو جاتے ہیں۔ کثرت اس وحدت میں آ کر زندہ تر ہو جاتی ہے۔ دین فطر ت کا تقاضا اسی قسم کی وحدت آفرینی ہے۔ رسالت محمدی کی پیدا کردہ وحدت اگر ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے تو ہم ابد پیوند ہو سکتے ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں لیکن ایسی عالمگیر ملت قائم و دائم رہ سکتی ہے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کے مقصد کی تکمیل ہو گئی۔ اس پر اب کوئی انسان بنیادی حقائق کا اضافہ نہیں کر سکتا۔ جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیین ہیں اسی طرح ان کی امت خاتم الامم ہے۔ اس کے علاوہ جو ملتیں قائم ہوں گی وہ آئین فطرت کے خلاف ہوں گی یا جغرافیائی ہوں گی، یا نسلی، یا لسانی۔ ان میں سے کسی کو بقا حاصل نہیں ہو سکتی۔ حق کے مقابل میں باطل کی عمر نہایت قلیل ہوتی ہے۔ اب کوئی نئی نبوت اس سے وسیع تر وحدت پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی جدید دعواے نبوت سے انسانوں میں مزید تفریق و تفرقہ پیدا ہو سکتا ہے : لا نبی بعدی ز احسان خدا است پردۂ ناموس دین مصطفی است قوم را سرمایہ قوت ازو حفظ سر وحدت ملت ازو دل ز غیر اللہ مسلمان می کند نعرۂ لا قوم بعدی، می زند اس عقیدے کی نسبت یہ اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ مسلمان تمام نوع انسان تو نہیں۔ مسلمانوں کی باہمی اخوت رنگ و نسل و وطن سے بالاتر سہی، لیکن دنیا کی کثیر آبادی تو ان سے باہر ہے، اس لیے اسلام کی اخوت عالم گیر اخوت تو نہ ہوئی۔ یہی اعتراض اسرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے کیا تھا۔ اس کا جواب اقبال نے نہایت مدلل اور مسکت دیا تھا کہ اسلام کا مقصود عالم گیر محبت و اخوت ہے لیکن جب تک ایک ملت اس کی مثال قائم نہ کرے اور دوسروں کے لیے نمونہ نہ بنے، تب تک اخوت کی حدیں وسیع نہیں ہو سکتیں۔ اقبال نے اس جواب میں اپنا پختہ یقیں بیان کیا کہ میرے نزدیک امت محمدیہ کا خاص مشن یہی ہے کہ وہ عالم گیر اخوت کے اصول کو عملی جامہ پہنائے۔ چنانچہ رموز بے خودی میں اس مضمون کے لیے ایک خاص عنوان قائم کیا ہے، در معنی ایں کہ مقصود رسالت محمدیہ تشکیل و تاسیس حریت و مساوات و اخوت بنی نوع آدم است۔ اس عنوان کے تحت یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام کا پیغام تمام نوع انسان کے لیے آزادی، برابری اور برادری کا پیغام ہے۔ اسلام نے جو کچھ تلقین کی اور اپنی خالص حالت میں جو معاشرت، معیشت اور سیاست پیدا کی اس نے تمام انسانوں کی گردنوں میں سے طوق اور دست و پا سے غلامی اور استبداد کی زنجیریں توڑ دیں۔ انسان انسانوں کی پوجا کرتے تھے۔ ارباب من دون اللہ معبود بنے ہوئے تھے۔ لا قیصر و کسریٰ کا اعلان اسلام نے کیا۔ کاہن و پایا و سلطان و امیر سب مل کر انسانوں کا شکار کرتے۔ کلیسا جنت کے پروانے ابلہان فریب خوردہ کے ہاتھ بیچتا تھا۔ برہمن نجات کے کمیشن ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ مذہب استحصال جاہ و مال کا آلہ بن گیا تھا۔ فطرت انسانوں کو آزاد پیدا کرتی تھی، لیکن وہ مہد سے لحد تک طرح طرح کے توہمات اور استبداد کی زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ خدا نے جو امانت آدم کے سپرد کی تھی وہ اس سے چھن چکی تھی۔ جب زبونی حال اس درجے کو پہنچی تو رحمت حق جوش میں آئی اور حق بحق دار سپردن کا دور شروع ہوا۔ یہ اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہوا جس کو اس کے ہم وطن لوگ نبوت سے قبل بھی امین کہتے تھے: تا امینے حق بہ حق داراں سپرد بندگان را مسند خاقان سپرد اب مکرم و معظم ہونے کا ایک ہی معیار رہ گیا، ان اکرمکم عندا للہ اتقاکم، جو سیرت میں افضل ہے وہی سردار ہے، خواہ وہ ایک نادار حبشی ہی ہو۔ انسانیت کے لیے یہ کام اور کس نے کیا؟ فقط حریت و اخوت و مساوات کے نعرے لگاتے رہے تاکہ اس دھوکے سے عوام کا شکار کرتے رہیں۔ محنت کش کسان اور مزدور کے لیے الکاسب حبیب اللہ کس نے کہا؟ یہ تمام اصنام کہن اسلام نے توڑے۔ یہ کسی ایک ملت پر احسان نہ تھا بلکہ تمام انسانیت میں ایک تازہ جان آفرینی تھی: تازہ جان اندر تن آدم دمید بندہ را باز از خداونداں خرید اسلام صحیح معنوں میں انقلاب تھا، وہ دنیائے کہن کی موت او رعالم جدید کی تکوین تھی۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر قسم کا جبر ممنوع ہو گیا۔ حریت و مساوات کی تحریکیں عصر نو میں بھی پیدا ہوئی ہیں، لیکن تاریخ انسانی میں یہ تمام تقاضے اسلام کے منشور میں داخل ہو کر پہلے پہل منصہ شہود پر آئے: حریت زاد از ضمیر پاک او ایں مے نوشیں چکید از تاک او عصر نو کایں صد چراغ آوردہ است چشم در آغوش او وا کردہ است جس اسلام نے کل مومن اخوۃ کہا، اسی نے تمام نوع انسان کی وحدت کی حقیقت کا بھی انکشاف کیا کہ تمام انسان، مرد و زن گورے کالے، امیر و غریب ایک نفس واحد کے اعضا ہیں۔ اخوت اور مساوات اسلام کی نہاد میں ہیں۔ جو کوئی جس حد تک اخوت، مساوات اور حریت کو لائحہ عمل بناتا ہے اسی قدر وہ مسلم و مومن ہے۔ اس کے بعد تاریخ اسلام سے مساوات ورزی کی کچھ مثالیں بیان کی ہیں۔ ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کا سپہ سالار جابان گرفتار ہو گیا۔ اس نے یہ نہ بتایا کہ میں کون ہوں اور ایک معمولی سپاہی سے امان طلبی کی۔ اس نے اسے امان دی اور وعدہ کیا کہ تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ جنگ کے ختم ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ اول نمبر کا جنگی مجرم ہے۔ سب نے ابوعبیدہ سپہ سالار سے کہا کہ اس کو قتل کرنا لازمی ہے۔ ابوعبیدہ سپہ سالار عسکر اسلامی نے کہا کہ اے مسلمانو! ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک کا وعدہ سب کا وعدہ ہے۔ امان دینے والا معمولی سپاہی سہی لیکن ہماری ملت کا فرد ہے۔ ہمیں اس کا پاس ہونا چاہیے۔ ملت کی یک آہنگی بڑے سے بڑے جبار قاتل کے قتل کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے: نعرۂ حیدر نواے بوذر است گرچہ از حلق بلال و قنبر است ہر یکے از ما امین ملت است صلح و کینش صلح و کین ملت است اس کے بعد سلطان مراد اور معمار کا قصہ بیان کیا ہے۔ ایک معمار کی تعمیر سلطان کو پسند نہ آئی اور خشم گین ہو کر اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ اس نے قاضی کے ہاں نالش کی۔ قاضی نے سلطان کو عدالت میں طلب کیا۔ ایک طرف معمار دست بریدہ و ستم رسیدہ فریادی ہے اور دوسری طرف ایک وسیع مملکت کا شہنشاہ شرمندہ کھڑا ہے۔ سلطان نے جرم کا اقبال کیا۔ قاضی نے کہا کہ از روے قرآن قصاص واجب ہے۔ شریعت سلطان اور معمولی انسان کے حقوق و فرائض میں فرق روا نہیں رکھتی: عہد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگیں تر از معمار نیست سلطان نے اپنا ہاتھ پیش کیا کہ قصاص میں اس کو کاٹ دیا جائے۔ مدعی نے کہا کہ خدا نے قصاص کا حکم بھی دیا ہے لیکن عدل و احسان کو افضل قرار دیا ہے: گفت از بہر خدا بخشیدمش از براے مصطفیؐ بخشیدمش یافت مورے رب سلیمانے ظفر سطوت آئین پیغمبر نگر پیش قرآن بندہ و مولا یکے ست بوریا و مسند دیبا یکے ست حریت کی مثال میں اقبال نے امام الشہداء حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے جگر گداز واقعے کو نظم کیا ہے۔ اسلام نے شہنشاہی اور سلطانی کا خاتمہ کر کے انسانوں کی حریت کو محفوظ کیا تھا، کیوں کہ مطلق العنان سلطانی جو عادل و ظالم، عاقل و احمق کو ورثے میں ملتی رہے ہر قسم کے استبداد کا مسموم سرچشمہ ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ تک حریت کا یہ عالم تھا کہ معمولی فرد بھی خلیفہ پر نالش کر کے اس کو عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کر سکتا تھا اور عورتیں مجمع عام میں امیر المومنین سے معمولی باتوں میں بھی باز پرس کرتی تھیں اور اس کے کسی غیر قرآنی فتوے کے خلاف احتجاج کرتی تھیں۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) جیسے بارعب خلیفہ سے بھی کوئی مرعوب نہ ہوتا تھا بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھے۔ مساوات و حریت کا یہ نمونہ چشم آفتاب نے اس دنیا کی سطح پر پھر کبھی نہ دیکھا۔ اس نظام حریت پر سب سے کاری ضرب امیر معاویہ نے لگائی اور یہ ضرب ایسی تھی کہ آج تک مسلمانوں کی سیاست اس سے مجروح ہے۔ امیر معاویہ اپنے سے یزید کو جس کے عاقل و عادل یا منطقی ہونے کی ملت قائل نہ تھی اور جسے اکابر ملت کبھی اس کی سیرت کی وجہ سے امیر المومنین منتخب نہ کرتے، ولی عہد مقرر کر دیا اور جبر و زجر سے اس کی جانشینی کو تسلیم کرایا۔ خلافت سلطنت میں تبدیل ہو گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہی قیصریت واپس آ گئی جس کی بیخ کنی اسلام کا فرض اولین تھا۔ ایک مرد مجاہد و حق پرست، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) و بتول کا پروردہ آغوش اور حیدر کرار کا فرزند ارجمند، اس حریت کشی اور اسلام سوزی کو برداشت نہ کر سکا۔حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے استبدادی سیاست کے خلاف حق کا علم بلند کیا اور حریت کی حفاظت میں اپنی اور اہل و عیال کی جانیں قربان کر دیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ آج تک اس پر ماتم کرتا ہے۔ لیکن اس امام احرار کی حریت پروری اور استبداد کشی کو کسی نے اپنا مسلک نہ بنایا۔ حریت کی حفاظت کے لیے سینہ زنی نہیں بلکہ سینہ سپر ہونے کی ضرورت ہے۔ عقل و عشق کا موازنہ اقبال کا ایک خاص مضمون ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے ذکر میں بھی شروع میں پندرہ اشعار عقل حیلہ جو کی تحقیر اور عشق کی مدح میں ہیں۔ اس موازنے میں نہایت لطیف نکات پیدا کیے ہیں۔ اقبال کا مقصود یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کے اندر عشق کی جذبہ انگیزی اور قوت ایثار کا نقشہ کھینچا جائے۔ اگر حضرت امام حسینؓ میں صرف عقل مصلحت اندیش ہوتی تو کمزور ایمان والے مسلمانوں کی طرح وہ بھی خاموشی سے یزید کی ولی عہدی کو تسلیم کر لیتے۔ حریت اور عشق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ حضرت سید الشہداء حریت کی حمایت میں انتہائی قربانی پر آمادہ ہوئے۔ یہ جذبہ بھی زندگی کے اعلیٰ اقدار کے عشق ہی کا مظہر ہے: عشق را آرام جاں حریت است ناقہ اش را سارباں حریت است دنیا ہمیشہ خیر و شر کی قوتوں کا میدان کار زار رہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام و فرعون اور حسین (رضی اللہ عنہ) و یزید زندگی کی دو مختلف قوتوں کے نمائندے ہیں۔ خلافت کو سلطنت بنا دینا گویا موسیٰ علیہ السلام کے خلاف فرعون کی حمایت کے مترادف تھا: چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت را زہر اندر کام ریخت حریت کا علم بردار سربکف اٹھا: وہ انسانیت کے لیے ایک سحاب رحمت تھا: بر زمین کربلا بارید و رفت لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت تا قیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد ماسوا اللہ را مسلمان بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست علامہ اقبال اپنی شاعری کی ابتداء میں وطنیت کے ترانے الاپ کر بصیرت اندوزی کے بعد اس بت پرستی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔ اس انقلاب نظر کے بعد انہوں نے فارسی اور اردو میں وطن پرستی کے خلاف ایک مسلسل جہاد کیا۔ رموزبے خودی میں بھی یہ مضمون ایک خاص انداز میں موجود ہے۔ اس سے پہلے وہ کہہ چکے ہیںکہ ملت اسلامیہ ایک ابد قرار ملت ہے کیونکہ اس کی تعلیم حیات ابدی کی تعلیم ہے اور اس کے اصول فطرت کے اصول ہیں جن کی نسبت قرآن میں ارشاد ہے: ’’ فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا۔ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘ اس سے لازم آتا ہے کہ اس ملت کی کوئی نہایت زمانی نہ ہو۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں کہ لازمانی ہونے کی طرح یہ ملت لامکانی بھی ہے یہ کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ نہیںـ: پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا یہ بانگ درا وہی ’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ ہے جس سے ماوریٰ کوئی حقیقت نہیں۔ مسلمان کا وطن اسلام ہے جس طرح ایک مقتدر اصحابی نے اپنا نسب اسلام بتایا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی نظریہ ہے اور اس خاک دان سے اس کا کوئی لازمی رشتہ نہیں : قلب ما از ہند و روم و شام نیست مرزبوم او بجز اسلام نیست رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حضرت کعب نے قصیدے میں سیف الہند کہا جو فولاد کی خوبی اور تیزی کے لیے مشہور تھی۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا کہ سیف الہند نہیں سیف اللہ کہو۔ اس سے اقبال نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور اسلام کو کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ کرنا پسند نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح اس دنیائے ارض کو ایک مشہور حدیث میں دنیا کم یعنی دنیا کہا ہے۔ جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں اس عالم خاکی کا باشندہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ یہاں چند روزہ مہمان اور مسافر تھے۔ ہجرت میں بھی یہ تعلیم مضمر تھی کہ اسلام کے مقابلے میں وطن کوئی چیز نہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام روے زمین کو مسجد کہا۔ زمین کا کوئی مخصوص ٹکرا یا مخصوص معبد ہی خدا کا گھر نہیں ۔ جس طرح خدا کسی خطے میں محصور نہیں اسی طرح بندۂ خدا کے لیے شرق و غرب برابر ہیں۔ ’’ للہ المشرق والمغرب‘‘ فاینما تولو افثم وجہ اللہ خدا نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا اس کو مکے سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ مکے میں رہتے ہوئے بھی خدا دشمنوں کا قلع قمع کر سکتا تھا۔ ہجرت فقط وطن پرستی کے خلاف ایک موثر تلقین تھی: صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید مقام آزاد شو ہر کہ از قید جہات آزاد شد چوں فلک درشش جہت آباد شد اسلام کا مقصود نوع انسان کی وحدت ہے۔ مغرب کی قومیت پروری اور وطن پرستی نے جغرافیائی حدود کے ادھر اور ادھر رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔ اب مجلس اقوام بنا کر اس مہلک بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل علاج تب ہو گا جب مجلس اقوام کی جگہ مجلس انسان بنے گی۔ موجودہ مجلس میں تو اقوام ہی کی رسہ کشی اور حیلہ سازی نظر آتی ہے اور ظاہری کوشش صلح گرگ آشتی ہے۔ اصل خلل زاویہ نظر میں ہے: آں چناں قطع اخوت کردہ اند بر وطن تعمیر ملت کردہ اند مردی اندر جہان افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد روح از تن رفت و ہفت اندام ماند آدمیت گم شد و اقوام ماند مغرب میں دین کو کچھ مادیت نے سوخت کیا او رکچھ وطنیت نے جو مادیت ہی کی ایک صورت ہے۔ وطن پرستی اور مملکت پرستی نے مغرب میں شیطان کا ایک مرسل بھیج دیا۔ جس کا نام میکیا ویلی ہے۔ اس نے یہ تلقین کی کہ وطن اور مملکت کی حمایت اور قوت افزائی کے لیے عدل و اخلاق کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ فرنگ اسی مرسل شیطان کے صحیفے کا معتقد اور اسی پر عامل ہے۔ فرنگیوں کے ہاں مملکت معبود بن گئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اس کی تقلید کی تو وہ بھی دین سے بیگانہ ہو جائیں گے۔ اس کے بعد اقبال پھر اس خیال کی طرف عود کرتا ہے کہ ملت اسلامیہ کبھی زمانے کی دستبرد سے کالعدم نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم نے امتوں کے متعلق ایک کلیہ بیان کیاہے ’’ ولکل امتہ اجل۔ اذا اجلھم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقد مون‘‘ اقبال کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔ جن امتوں کو از منہ ماضیہ میں اجل آئی یا آئندہ اجل کا شکار ہونگی ان کی اساس ابدی حقائق پر نہ تھی۔ اگر اسلام کا چراغ کفر کی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا تو لازم ہے کہ اس پر کاربند امت کا چراغ حیات بھی ہمیشہ روشن رہے: گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد از اجل فرماں پذیرد مثل فرد امت مسلم ز آیات خداست اصلش از ہنگامہ قالو بلی است از اجل ایں قوم بے پرواستے استوار از نحن نزلناستے تیرہ چودہ صدیوں میں ملت اسلامیہ پر قیامت خیز آفتیں آئیں، کبھی اپنے اعمال کی پاداش میں اور کبھی حوادث روزگار سے، لیکن اس کی راکھ میں جو چنگاریاں تھیں ان کی بدولت پھر نئے سرے سے حرارت حیات پیدا ہوتی رہی۔ یورش تاتار سے نہ صرف بغداد بلکہ عالم اسلامی کے بیشتر حصے میں ایسی قیامت نازل ہوئی جو روما پر وحشی اقوام کے حملوں سے بھی طاری نہ ہوئی تھی۔ کفار، خلافت کے جذے اور روح کو ٹھکرا کر مسند نشین ہو گئے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کا چراغ بجھ گیا ہے، لیکن دیکھتے دیکھتے یہی آتش تاتار گلزار ابراہیم بن گئی: آتش تاتاریاں گلزار کیست شعلہ ہاے او گل دستار کیست تاریخ اسلام میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ مسلمان ایک طرف کمزور اور بے بس ہوئے تو دوسری طرف ان کا غلبہ ہو گیا۔ اندلس میں ان کا دور دورہ ختم ہو گیا تو مشرقی فرنگ میں ترکوں نے اسلام کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ادھر ترک مشرقی یورپ میں سے نکلے تو دور حاضر میں ایک طرف پاکستان جیسی عظیم الشان اسلامی مملکت قائم ہو گئی، دوسری طرف مشرق اقصیٰ میں انڈونیشیا میں ایک کثیر التعداد اسلامی ملت آزاد ہو گئی: شعلہ ہاے انقلاب روزگار چوں بباغ ما رسد گردد بہار تاریخ عالم نے کئی عظیم القوت ملتوں کو صفحہ ہستی سے مٹایا لیکن: در جہاں بانگ اذاں بود است و ہست ملت اسلامیاں بود است و ہست ہر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما (حافظ) اس کے بعد یہ مضمون ہے کہ ملت کی صورت بندی آئین سے ہوتی ہے اور ملت اسلامیہ کے آئین کا مخزن قرآن حکیم ہے: دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں ٭٭٭ ملتے را رفت چوں آئین ز دست مثل خاک اجزاے او از ہم شکست قرآن نے اسلام کو دین فطرت قرار دے کر ’’ لا تبدیل لخلق اللہ‘‘کے اصولوں کے مطابق جو سرمدی حقائق حیات بیان کیے ہیں وہ زمانے کے تغیرات کی پیداوار نہیں اور نہ مرور ایام سے ان میں کہنگی پیدا ہو سکتی ہے اسی آئین کو قرآن حکمت بھی کہتا ہے، اور حکمت کے مفہوم میں کلیت اور زمان و مکان سے ماورائیت داخل ہے: آں کتاب زندہ قرآن حکیم حکمت او لا یزال است و قدیم اس کی تعلیم غلاموں کو احرار بنا دیتی ہے اور ضعیفوں کو قوت بخشتی ہے۔ اس نے ارتقاء کی راہیں کشادہ کر دی ہیں۔ اسی کی بدولت ان پڑھ صحرائیوں نے دنیا میں علوم و فنون کا چراغاں کر دیا۔ موحد بچوں کے سینے بھی اس امانت کے امین ہیں جسے دست و جبل نے زہرہ گداز سمجھ کر قبول نہ کیا تھا۔ تاریخ عالم میں صحرائی اور کوہستانی وحشیوں کے ٹڈی دل کئی مرتبہ متمدن دنیا پر نازل ہوئے۔ مگر پرانی تہذیبوں کے تاخت و تاراج کے بعد حیات انسانی میں کوئی وسعت اور ثروت افکار و اقدار پیدا نہ کر سکے۔ لیکن ان صحرائیوں نے قرآن سے فیض اور قوت حاصل کر کے قیصر و کسریٰ کے تخت ہی نہیں الٹے بلکہ انسانوں کو غلامی کی زنجیروں اور توہمات کے طوق سے آزاد کیا۔ اس وقت جو ملت اسلامیہ میں ضعف نظر آتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے تغافل ہے۔ اب قرآن سے کسی کو وجد نہیں آتا لیکن جامی اور عراقی کی غزلیں قوامی میں چنگ و رباب کے ساتھ گائی جائیں تو ایک جھوٹا جوش اور مستی پیدا ہو جاتی ہے: گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن صوفی پشمینہ پوش حال مست از شراب نغمہ قوال مست آتش از شعر عراقی دل دلش در نمی سازد بقرآن محفلش خطیب کا کام اب فروعات کی جنگ ہے۔ ضعیف و شاذ و مرسل حدیثوں کی بحث میں قرآن طاق نسیاں پر دھرا رہتا ہے۔ احادیث میں غلو نے یہاں تک نوبت پہنچائی ہے کہ بعض احادیث کو نصوص قرآنی کا ناسخ بنا دیا ہے۔ نعوذ باللہ من ذالک: از خطیب و دیلمی گفتار او با ضعیف و شاذ و مرسل کار او قرآن اب یابے سمجھے طوطے کی طرح رٹا جاتا ہے یا کسی مسلمان کی وفات پر ملا حلوا مانڈا اجرت میں لے کر اس کے دو ایک سپارے بڑی سرعت سے پڑھ جاتا ہے یا پھرل فال کے لیے استعمال ہوتا ہے یا تبر کا بیمار کو اس کے اوراق کی ہوا دی جاتی ہے۔’’ فاعتبرو یا اولیٰ الابصار‘‘ اس کے بعد ایک مضمون ہے جو بظاہر اقبال کی عام تلقین کے منافی معلوم ہوتا ہے، لیکن در حقیقت اس میں کوئی تضاد نہیں۔ اقبال نے بالتکرار سینکڑوں اشعار میں تقلید کی مذمت کی ہے اور تحقیق کی رغبت دلائی ہے۔ اجتہاد کے متعلق اقبال کے تصورات خطبات اور اشعار میں ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھ کر مقلدوں کو اس کی جرأت پر حیرت ہوتی ہے۔ لیکن اقبال جب ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر ڈالتا ہے تو اسے کوئی گروہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اسلامی روح کے مطابق اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو، او رجو لوگ اجتہاد کی جرأت کرتے ہیں وہ آزاد خیالی میں یا تقلید فرنگ میں اسلام سے دور جا پڑتے ہیں۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں ایسے خام مدعیان اجتہاد کی بجائے اسلاف کی تقلید بہتر ہے۔ بچوں کی عقل جب تک علم اور تجربے سے پختہ نہیں ہوتی تب تک ان کی تربیت کا مدار تقلید پر ہوتا ہے۔ اس انحطاط کے دور میں بھی اقوام عقل و حکمت کے بارے میں طفل نابالغ بن جاتی ہیں یا پیر فرتوت کی طرح جدت افکار و اعمال کے ناقابل ہو جاتی ہیں۔ جب قوم میں زندگی کے چشمے خشک ہو جائیں تو وہ روایت پرست اور مقلد ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ تقلید اور روایت پرستی میں کسی ہمت اور جرأت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں میں اس وقت ایک طبقہ جامد اور کورانہ تقلید اسلاف میں زندگی کی ارتقائی کوششوں کے لیے نااہل ہو گیا ہے اور دوسرا طبقہ مغرب زدہ روشن خیالوں کا ہے، جن کے لیے تہذیب جدید کا ہر نظریہ اور ہر طرز عمل سند ہے۔ یہ آزاد خیالی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن در حقیقت یہ بھی مقلد ہی ہیں۔ جب تک قوم میں نئی زندگی ابھرنے کے سامان پیدا نہ ہوں تب تک ہر طرف مقلد ہی مقلد نظر آئیں گے۔ اگر تقلید ہی کو شیوہ بنانا ہے تو پھر اپنے اسلاف کی تقلید اغیار کی تقلید سے بہتر ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عہد حاضر کے فتنوں نے ہماری ملت کو اپنے جلوؤں سے چند ھیا دیا ہے اور ہمارے باطن کی آگ ٹھنڈی ہو گئی ہے: جلوہ اش ما را ز ما بیگانہ کرد ساز ما را از نواپیگانہ کرد ازل دل ما آتش دیرینہ برو نور و نار لا الٰہ از سینہ برو مضمحل گردد چو تقویم حیات ملت از تقدیر می گیرد ثبات ماضی کی معتقدانہ تقلید سے جوے کم آب ہی ملے گی جو ہماری زندگی کو پوری طرح سیراب نہیں کر سکتی لیکن جب دریا ریگستان میں گم ہو گیا تو بچی کھچی چھوٹی سی نہر ہی کی حفاظت کریں: بحر گم کردی زیاں اندیش باش حافظ جوے کم آب خویش باش تقلید کی یہ تلقین ایک مردہ قوم کے لیے ہے۔ اقبال ملت اسلامیہ کو دور حاضر میں مردہ ہی سمجھتا ہے، اگرچہ اس کے احیا سے نا امید نہیں۔ اب یہی بہتر ہے کہ اللہ اللہ کرو اور طرز فکر و عمل میں کسی گذشتہ امام کی تقلید ہی کر لو، لیکن یہ تقلید خدائے روح نہیں بلکہ مریض میں جو جان کی رمق باقی دکھائی دیتی ہے، اس کو سنبھالنے کے لیے ایک دوا ہے: اے پریشان محفل دیرینہ ات مرد شمع زندگی در سینہ ات نقش بر دل معنی توحید کن چارۂ کار خود از تقلید کن یہ نصیحت عوام کے لیے ہے جن میں ہمارے کم علم اور بے بصیرت علماء کا ایک طبقہ بھی داخل ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ اس نصیحت کو اقبال اپنے لیے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا اپنا ذوق تو یہ ہے کہ اجتہاد اور جدت و قدرت میں اگر غلطی بھی سر زد ہو تو وہ اس کی مقلدانہ نیکی پر ترجیح دیتاہے: تراش از تیشہ خود جادۂ خویش براہ دیگراں رفتن عذاب است گر از دست تو کار نادر آید گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است ٭٭٭ چہ خوش بودے اگر مرد نکو پے ز بند پاستان آزاد رفتے اگر تقلید بودے شیوۂ خوب پیمبرؐ ہم رہ اجداد رفتے اتباع آئن کی تلقین پر ایک او رنظم ہے جس میں شریعت اسلام کی ماہیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ شریعت اور عشق دونوں کی ماہیت سے ناواقف لوگوں نے ان کو باہم بر سر پیکار سمجھ رکھا ہے۔ درکفے جام شریعت درکفے سندان عشق یہ بحث اسلام سے زیادہ قدیم ہے۔ موسوی شریعت رفتہ رفتہ اس قدر پیچ در پیچ اور زندگی کے لیے جنجال بن گئی کہ اس کی تفصیل پابندیوں میں روح دین غائب ہو گئی۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اس ظاہر پرستی اور شعائر پرستی کی شدت کے اخلاف احتجاج کیا۔ یہودی علماء نے ان پر مخالف شروع ہونے کا الزام لگایا اور ان کو مصلوب کرانے کے درپے ہو گئے۔ ہرچند کہ حضرت مسیح ؑ کہتے رہے کہ میں شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا بلکہ اس کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ میں تمہیں شریعت کے ظاہر کی نسبت اس کے باطن کی طرف متوجہ ہونے کی تعلیم دیتا ہوں۔ حضرت مسیح ؑ کے بعد پولوس نے شریعت موسوی سے تنگ آ کر یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ مسیح ؑ کی آمد سے محبت نے شریعت کو منسوخ کر دیا ہے۔ عیسوی تاریخ میں اس کے اچھے نتائج نہ نکلے۔ کسی نہ کسی شریعت کی ضرورت تو زندگی کے لیے لابدی ہے۔ جب قسطنطین کے عیسائی ہونے سے مملکت غار نشیں راہبوں کے ہاتھ آ گئی تو ان کو آئین و قوانین وضع کرنے پڑے اور مسیح (علیہ السلام) کی بجائے کلیسا شریعت گر ہو گیا۔ اسلامی شریعت کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص اسلامی شریعت کے حقائق سے اچھی طرح آشنا ہو تو اس پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ یہاں شریعت اور محبت میں کوئی تضاد نہیں اور شریعت کے ہر حکم کی تہ میں محبت ہی کا جذبہ ہے: علم حق غیر از شریعت ہیچ نیست اصل سنت جز محبت ہیچ نیست اب ہمارے ہاں شریعت کے علم بردار اور مدعی ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ ان کے فروعی مناقشات میں محبت کا نام و نشان نہیں ہوتا۔ غیر مسلموں اور عام انسانوں سے محبت تو درکنار اپنوں میں تفرقہ اندازی حامیان شریعت کا شیوہ بن گیا ہے۔ لعن و طعن اور تشنع کا بازار گرم رہتا ہے۔ شریعت اسلامی کی اساس حکمت بھی ہے اور محبت بھی اور اس کا مقصد انسانوں کی قوتوں میں اضافہ کرنا ہے: قدرت اندر علم او پیداستے ہم عصا و ہم ید بیضاستے اگر مستحب کی ادائیگی میں کوئی شخص یا گروہ مزاحم ہو تو اس کو ادا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ دشمن اگر مطمئن اور جنگ کے لیے تیار نہ ہو تو اس کو بے خبر اور کمزور پا کر اس پر حملہ آور ہونا حرام ہے۔ چنانچہ سلطان صلاح الدین نے یروشلم پر حملہ کرنے سے پیشتر دشمن کو پیغام بھیجا کہ اگر تم جنگ چاہو تو م؁ں تم کو اپنی قوتوں کو مستحکم اور منظم کرنے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں مہیا کروں گا، لیکن میں صلح کو اپنے لیے اور تمہارے لیے جنگ کے مقابلے میں بہتر سمجھتا ہوں۔ کمزور جانوروں کے شکار سے شکاری خود سست اور پست ہمت ہو جاتا ہے۔ دشمن کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا اصول شجاعت کے خلاف ہے: نیست میشے ناتوانے لاغرے در خور سر پنجہ شیر نرے باز چوں با صعود خوگر می شود از شکار خود زبوں تری شود اسلامی شریعت نے رہبانیات کو اس لیے مزموم قرار دیا کہ اسلام سراپاپیغام عمل ہے : ہست دین مصطفیؐ دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات صیقلش آئینہ سازد سنگ را از دل آہن رباید زنگ را مسلمان جب عجم میں پہنچے تو ذوق قوت نزاکت اور لطافت میں منتقل ہو گیا۔ شیرافگن مسلمان نواے عندلیب سے بیتاب ہونے لگے، یارگ گل سے بلبل کے پر باندھنے لگے: آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل آنکہ کشتے شیر را چوں گو سفند گشت از پامال مورے درد مند آنکہ از تکبیر او سنگ آب کشت از صفیر بلبلے بیتاب کشت عجمی تصورات میں لطافت افکار بھی ہے اور پرواز تخیل بھی اور اس کے فن میں ذوق جمال بھی ہے، لیکن اسلام کی شریعت، بصیرت اور قوت سے اس کو لگاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ بیچارے مرزا غالب نے صاف طور پر اقبال کیا کہ میں عجمی نہاد ہوں اس لیے دین عربی میرے دل و دماغ میں نہیں گھستا: رموز دیں نشناسم عجب مدار ز من کہ دین من عربی نہاد من عجمی است علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد رفاعی (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنے ایک مرید کونصیحت کی کہ عجمی افکار سے پرہیز کرنا: با مریدے گفت اے جان پدر از خیالات عجم باید حذر زانکہ فکرش گرچہ از گردوں گذشت از حد دین نبی بیروں گذشت ایک نظم میں اپنے بچپن کے ایک واقعے کو نظم کیا ہے کہ میں نے ایک سائل کو تنگ آ کر زد و کوب کی۔ والد صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے عجیب موثر انداز میں مجھے تنبیہہ کی کہ اسلام تو شفقت بر خلق کا نام ہے اور اس کا نبی رحمتہ للعالمین ہے۔ جب روز محشر میں سب کے سامنے مجھ سے پوچھا جائے گا کہ اپنے بیٹے کی تو نے یہی تربیت کی تھی کہ وہ ایک سائل بے نوا کو مارے پیٹے تو میں کس قدر شرمندہ ہوں گا۔ قرآن و سنت رحمت و شفقت کی تعلیم ہے: فطرت مسلم سراپا شفقت است در جہاں دست و زبانش رحمت است اقبال نے شمع و شاعر میں ایک شعر کہا تھا: زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات یہ کبھی شبنم کبھی گوہر کبھی آنسو ہوا اب اقبال یہ کہتا ہے کہ شبنم اور آنسو بننے سے بہتر ہے کہ قطرہ گوہر بن جائے، لیکن قطرہ آغوش تلاطم میں گوہر بنتا تھا، اس لیے شریعت اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ مزاحمتوں اور خطروں پر غالب آ کر انسان اپنے نفس کو قوی بنائے: قطرۂ نیساں کہ مہجور از یم ست نذر خاشاکے مثال شبنم است طینت پاک مسلماں گوہر است آب و تابش از یم پیغمبرؐ است اس کے بعد ایک نظم میں اس خیال کی توضیح کی ہے کہ حیات ملیہ کے لیے کوئی مرکز محسوس بھی ہونا چاہیے۔ مسلمان کعبے کے سنگ و خشت کی پرستش نہیں کرتا، لیکن یہ مرکز محسوس شرق و غرب اور شمال و جنوب کے لاتعداد مسلمانوں کے لیے ایک نقطہ جاذب ہے جو حیات ملت میں ہم آہنگی اور وحدت کو ترقی دیتا ہے۔ پہلے زندگی کی ماہیت کے متعلق نہایت حکیمانہ اشعار کہے ہیں کہ حیات رم پیہم ہے مادہ ہو یا نفس اس میں مسلسل روانی اور تغیر احوال ہے۔ زندگی سراپا پرواز ہے، لیکن نشیمن بھی خود ہی بناتی ہے۔عارضی طور پر سکون و جمود کی آفرینش کا مقصد بھی یہی ہے کہ ذوق خرام میں افزائش ہو: پا بگل گردد حیات تیز گام تا دو بالا گردوش ذوق خرام زندگی دو گھڑی کا وقفہ ہے یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر (میر) زندگی خود اپنے رشتے میں گرہیں ڈالتی ہے تاکہ گرہ کشائی کی لذت حاصل ہو: دمبدم مشکل گر و آشان گزار دمبدم نو آفرین و تازہ کار جس طرح حیات رواں کچھ عرصے کے لیے بدن میں اپنے آپ کو محدود کرتی ہے اسی طرح روح ملت کے لیے بھی ایک بدن کی ضرورت ہے۔ بیت الحرام اسی روح کا ایک مادی مرکز و مسکن ہے۔ مختلف قومیں اپنے جھنڈوں کو اقتدار و وقار کا مرئی مرکز بنا لیتی ہیں اور جنگ و صلح میں جھنڈے کے وقار کو قومی وقار کی علامت سمجھتی ہیں، حالانکہ مادی حیثیت میںجھنڈا محض ایک لکڑی کا ٹکڑا اور دو چار گز کپڑا ہوتا ہے۔ بیت الحرام اپنی روایات کے لحاظ سے ان جھنڈوں سے بہتر مرکز عقیدت ہے: قوم را ربط و نظام از مرکزے روزگارش را دوام از مرکزے راز دار و راز ما بیت الحرام سوز ما ہم ساز ما بیت الحرام امتیں جمعیت ہی سے قائم و استوار رہتی ہیں۔ بیت الحرام جمعیت میں ایک قوی معاون ہے۔ امت موسوی کی جمعیت اس لیے پریشان ہوئی کہ اس کا مرکز اس کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس کا معبد منہدم ہو گیا جس کی باقی ماندہ ایک دیوار پر اس تمام دنیا کے زائر یہودی سر ٹکرا کر گریہ و زاری کرتے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ سے ملت مسلمہ کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ اپنی جان سے زیادہ اس مرکز کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ صلوٰۃ کا لفظ نماز کے علاوہ معبد کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور قرآن جو صلوٰۃ وسطیٰ کی خاص حفاظت پر زور دیتا ہے میرے نزدیک اس کے معنی بیت الحرام کی حفاظت ہیں۔ معلوم نہیں کہ دیگر مفسرین کہاں تک علامہ کی اس تاویل سے متفق الرائے ہوں گے۔ لیکن کعبہ مسلمانوں کی نظر گاہ نہیں۔ مسلمانوں کا حقیقی نصب العین حفظ و نشر توحید ہے۔ تمام دین توحید کی تشریح ہے اور تمام عبادات و شعائر اسی کو قائم رکھنے کے ذرائع ہیں۔ توحید ہی ملت اسلامیہ کا امتیازی جوہر ہے اور توحید ہی اس کی جمعیت کی شیرازہ بند ہو سکتی ہے۔ زندگی کی حقیقت مقصد کوشی ہے۔ توحید و وحدت آفرینی سے زیادہ بلند اور کوئی مقصود نہیں ہو سکتا۔ تمام مقاصد اسی کے زیر نگیں ہونے چاہیں۔ ادنیٰ مقاصد ادنیٰ وحدتیں پیدا کرتے ہیں، اعلیٰ ترین مقصد وسیع ترین وحدت حیات پیدا کر سکتا ہے: چوں حیات از مقصدے محرم شود ضابط اسباب ایں عالم شود راہ پیمائی کسی منزل ہی کی طرف ہو سکتی ہے۔ اگر منزل معین نہ ہو تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان جامد و ساکن ہو کر رہ جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ ہرزہ گرد ہو جائے۔ ’’بسکہ دراز او فتد جادہ ز گمراہیم‘‘ (غالب)۔ قیس صحرا میں آوارہ دکھائی دیتا ہے لیکن وہ محمل لیلیٰ کی تلاش میں گرم رو ہے۔ جسم انسانی کے اندر بھی بے انتہا اور گوناگوں اعمال و وظائف بقاے حیات کے واحد مقصود سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں: گردش خونے کہ در رگ ہاے ماست تیز از سعی حصول مدعا ست جس قدر کسی کا مقصد بلند ہوتا ہے، اسی قدر اس کی ہمت اور قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بقول شاعر: ہمت بلند دار کہ نزد خدا و خلق باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو جب کسی قوم میں شدید جدوجہد دکھائی دیتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی شاہد مقصود کی طرف دیوانہ وار بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقصود کو ہر دم پیش نظر رکھنا چاہیے۔ ایک قدیم صوفیانہ محاورہ ہے کہ جو دم غافل سو دم کافر۔ پاؤں کا کانٹا نکالنے کے لیے ایک مسافر کارواں سے ذرا الگ ہوا اتنے میں محمل نظر سے اوجھل ہو گیا اور وہ سو سال تک صحرا میں اس کی تلاش میں حیران و سرگرداں رہا: رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شد از نظر یک لحظہ غافل گستم و صد سالہ راہم دور شد زندگی مقاصد کی جستجو اور تگ و دو میں قرنہا سے تجربے کرتی چلی آ رہی ہے۔ کئی معبود ان باطل بنائے اور پھر ان کو توڑ ڈالا، آخر کار اس پیکار حیات نے ارتقاء کی آخری منزل میں انسان کو توحید سے آشنا کیا جو منتہائے حیات ہے۔ ’’ والیٰ ربک المنتہیٰ‘‘ : مدتے پیکار با احرار داشت با خداوندان باطل کار داشت تخم ایماں آخر اندر گل نشاند با زہانت کلمہ توحید خواند توحید کے عرفان ہی سے زندگی میں تمام جمال و جلال پیدا ہوتا ہے۔ اس سرچشمہ حیات کی حفاظت مقصود حیات ہے۔ جب تک عالم پر یہ راز افشا نہ ہو تب تک مسلمان کو دم نہ لینا چاہیے: زانکہ در تکبیر راز بود تست حفظ و نشر لا الٰہ مقصود تست تا نہ خیزد بانگ حق از عالمے گر مسلمانی نیاسائی دمے اسی عقیدے نے انسانوں کو توہمات سے پاک کیا ہے اور ہر قسم کے خوف کو اس کے دل سے دور کیا ہے۔ فکر انسانی بار بار بت گری اور بت پرستی کی طرف عود کرتا ہے۔ پہلے اصنام کو توڑتا ہے تو دوسرے اصنام تراش لیتا ہے۔ عصر حاضر میں فرنگ کی بدولت رنگ و ملک و نسب کی پرستش ہو رہی ہے اور خدا پر عقیدہ توہم پرستی شمار ہوتا ہے۔ ان بتوں کو توڑنے کے لیے پر ایمان ابراہیمی اور توحید محمدیؐ کی ضرورت ہے۔ اگر مسلمان نے یہ کام نہ کیا تو اور کون کرے گا؟ اس عرفان کا جائز وارث تو وہی ہے، لیکن میراث پدر خواہی علم پدر آموز۔ علامہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس خیال سے لرزہ آتا ہے کہ روز شمار میں جب خدا تم سے پوچھے گا کہ تمہیں پیغام حق دیا تھا کہ اسے دوسروں تک پہنچا دو، یہ کام تم لوگوں نے کیوں نہ کیا، تو مسلمان کس قدر شرمندہ اور ذلیل ہو گا۔ دوسروں تک پہنچانا تو درکنار یہاں اپنے اندر ہی سے توحید غالب ہو گئی ہے، کلمہ لا الٰہ زبان پر رہ گیا ہے، باقی سب کچھ یا شرک جلی ہے یا شرک نفی: او خویشتن گم است کرا رہبری کنہ اس کے بعد اقبال کا خاص موضوع آتا ہے کہ عالم کی قوتوں کی تسخیر کے بغیر حیات ملی میں وسعت اور قوت پیدا نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے آدم کو مسجود ملائک اور مسخر کائنات بنایا تاکہ تمام ارضی اور سمادی، مادی اور روحانی قوتوں کی تسخیر سے وہ نائب الٰہی بن سکے۔ رہبانیت نفسی احوال میں مبتلا ہو گئی اور حکمت فرنگ نے تمام قوتیں تسخیر عالم محسوس میں صرف کر دیں۔د ونوں طریقوں سے زندگی کی تکمیل نہ ہو سکی۔ ہستی کا ظاہر اور باطن دونوں حیات الٰہی کا انکشاف ہیں۔ ’’ ہو الظاہر ہو الباطن‘‘ حاضر کو غیب کے حقائق کے مطابق ڈھالنا اور دنیا کو دین بنانا مقصود اسلام اور غایت حیات ہے۔ با آسمان پرواختن کے ساتھ ساتھ کار زمین رانکو ساختن کا عمل بھی جاری رہنا چاہیے۔ فقط بانادیدہ پیمان بستن سے حیات گریز رہبانیت ہی پیدا ہو سکتی ہے۔ ہندو مت، بدھ مت اور عیسائیت کی ابتداء میں ایسا ہی ہوا۔ اسلام نے حاضر کا پیوند غیب سے لگایا اور انفس و آفاق کو ہم آغوش کرنے کی تلقین کی۔ ماسوا نہ فریب ادراک ہے اور نہ حقیقت ابدی ہے۔ اس کی آفرینش کا مقصود ہی یہی ہے کہ اس کی تسخیر سے نفس ترقی کریں: اے کہ با نادیدہ پیمان بستہ ای ہمچو سیل از قید ساحل رستہ ای چون نہال از خاک ایں گلزار خیز دل بغائب ہند و با حاضر ستیز ہستی حاضر کند تفسیر غیب می شود دیباچہ تسخیر غیب ماسوا از بہر تسخیر است و بس سینہ او عرصہ تیر است و بس ملت اسلامیہ کے انحطاط کا ایک بڑا سبب یہی ہے کہ فرنگ تسخیر آفاق میں لگا رہا اور اس کی بدولت غیر معمولی قوتیں پیدا کر لیں، مگر مسلمان فقط بے حضور نمازیں پڑھتے رہے۔ یا ظواہر و شعائر کی پابندی میں لگے رہے۔ قرآن نے مشاہدہ کائنات کو عبادت قرار دیا تھا، مسلمان قرآنی آیات کی تلاوت کرتے رہے لیکن عمل دوسروں نے کیا۔ جن قوموں نے خارجی فطرت کی قوتوں کو مسخر کیا انہوں نے مسلمانوں کو بھی آ دبوچا۔ مسلمان بے بس اور مغلوب ہو کر خدا سے شکوہ کرنے لگے کہ یہ کیا بات ہے کہ دوسری امتیں تیرا نام بھی نہیں لیتیں اور با وقار ہیں۔ توحید کی امامت ہمارے سینوں میں ہے لیکن ہم ہی ذلیل ہیں: ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں (غالب) امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست مے پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں سینکڑوں ہیں جو ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر اس کا جواب خدا نے یہی دیا کہ تمہاری شکایت بے بنیاد ہے۔ کافر کو جو کچھ ملا وہ کفر کا اجر نہیں ہے بلکہ کافر کی زندگی میں اسلامی عناصر کی جزا ہے: مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور ابھی تک کثرت سے مسلمان اس وہم میں مبتلا ہیں کہ فرنگ مادہ پرست ہے اور اس کی تمام ترقی مادی ہے۔ روحانیت اور نجات کے اجارہ دار ہم ہی ہیں۔ یہ چند روزہ دنیا کا عیش کافروں کے لیے ہے، ابد الاباد تک رہنے والی جنت کے ہم حقدار ہیں۔ قرآن نے کیا خوب کہا ہے کہ یہود و نصاریٰ بھی روحانی اور اخلاقی تنگ نظری سے اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے:ـ ہر کہ محسوسات را تسخیر کرد عالمے از ذرہ تعمیر کرد عقدۂ محسوس را اول کشود ہمت از تسخیر موجود آزمود کوہ و صحرا دست و دریا بحر و بر تختہ تعلیم ارباب نظر لیکن مسلمانوں کے لیے مذہب افیون بن گیا، دنیا اعتنا کے قابل نہ رہی۔ خدا نے ’’ فی الدنیا حنستہ و فی الاخرۃ حسنتہ ‘‘ کی سکھائی تھی اور اس دعا میں دنیا کو درست کرنا آخرت پر مقدم رکھا تھا اس لیے کہ دنیا ہی مزرعہ آخرت ہے۔ اگر کوئی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے تو اس فردا میںناکردہ کار کو کیا ثمر ملے گا؟ مسلمان نے آخرت پر نظر جمائے ہوئے دنیا کو کفار کے حوالے کر دیا: اے کہ از تاثیر افیون خفتہ عالم اسباب را دوں گفتہ خیز و واکن دیدۂ مخمور را دوں مخواں ایں عالم مجبور را غایتش توسیع ذات مسلم است امتحان ممکنات مسلم است اگر ملت اسلامیہ آفاقی قوتوں کو مسخر نہ کر سکے گی تو آفاقی قوتوں کی تسخیر سے غیر مسلم اقوام اس کو مغلوب کر لیں گی: گیر او را تا نہ او گیرد ترا ہمچو مے اندر سبو گیرد ترا زندگی میں حاجات اندیشہ و عمل کے توسن کے لیے تازیانہ ہیں۔ آد م کو عناصر پر حاکم بنایا گیا تھا۔ اگر وہ عناصر کی ماہیت سے آشنا نہ ہو اور ان سے کام نہ لے سکے، تو وہ نیابت الٰہی کا کیا حق ادا کرے گا؟ تا ز تسخیر قواے ایں نظام ذو فنونیہاے تو گردد تمام نائب حق در جہاں آدم شود ہر عناصر حکم او محکم شود اسی ظاہری فضا میں کئی عالم پوشیدہ ہیں۔ ہر ذرے کے اندر ایک خورشید کی قوت پنہاں ہے۔ اسرار موجودات کی گرہ کشائی سے بصیرت بھی حاصل ہوتی ہے اور قوت بھی۔ باد و باراں اور برق و رعد مطیع و فرماں بردار ہوتے ہیں۔ سیلابوں میں بجلیاں ظہور کے لیے بیتاب ہیں۔اقوام کہن ستاروں کی پرستش کرتی تھیں لیکن حکمت کی ترقی نے انسان کے ادراک کو ان پر محیط کر دیا: جستجو را محکم از تدبیر کن انفس و آفاق را تسخیر کن عرفان حکمت اشیاء کی بدولت ناتواں قومیں غیر معمولی قوت حاصل کر کے بڑی بڑی جابر قوموں کی گردن مروڑ دیتی ہیں۔ شجاعت بے حکمت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور اقوام حکیم کی باج گزار ہو جاتی ہیں: تا نصیب از حکمت اشیا برو ناتواں باج از توانایاں خورد خدا نے مجھے بار بار تاکید کی کہ فطرت کو غور سے دیکھ۔ نباتات، حیوانات، جمادات سب میں آئین الٰہی تلاش کر۔ تو فقط ’’ انظر‘‘ والی آیات ہی دہراتا رہا۔ دیکھا دکھایا کچھ نہیں۔ قرآن حکیم فقط تلاوت کے لیے تو نہ تھا، اس کا اصل مقصود صحیفہ فطرت کے مطالعے سے حقائق الٰہیہ کا اخذ کرنا تھا۔ تو نے مشاہدۂ کائنات کو کوئی عبادت ہی نہ سمجھا اور اسے دنیاے دوں کا ایک شغل قرار دیا۔ اب اس کی سزا بھگت رہا ہے: تو کہ مقصود خطاب ’’انظری‘‘ پس چرا ایں راہ چوں کوران بری سید احمد خان اور مرزا غالب جن کے انداز فکر، طرز زندگی اور مقصود حیات میں بے حد تفاوت نظر آتا ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کو محض ایک عسکری کامیابی کا نتیجہ نہ سمجھتے تھے۔ ان دونوں کی بالغ نظری پر یہ منکشف ہو گیا تھا کہ یہ نئی حکمران قوم محض تاجر اور کشور کشا نہیں بلکہ طبعی سائنس کی بدولت فطرت کی قوتوں کو مسخر کر کے بے بصر اقوام پر غالب آ گئی ہے۔ اب مشرقیوں کو ان سے کچھ سیکھنا ہے۔ سید احمد خان کو لوگ قابل اعتراض حد تک مداح و مقلد فرنگ سمجھتے تھے لیکن مرزا غالب کی ترقی پسندی کی یہ کیفیت تھی کہ جب سید صاحب نے آئین اکبریٰ کی تضحیح اور حواشی کے ساتھ پسندیدہ انداز میں شائع کیا اور مرزا غالب کو تقریظ کے لیے یہ کتاب بھیجی تو مرزا صاحب اس قدر برہم ہوئے کہ سید صاحب سے قدیم دوستی بھی مخالفانہ تنقید پر غالب نہ آ سکی۔ تعریف کی بجائے اس تقر یظ میں جو غالب کے کلیات فارسی میں شامل ہے، وہ سید صاحب کے اس کارنامے پر افسوس کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ مردہ پروری تو عقلمندوں کا کام نہیں۔ یہ پرانے آئین اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ ’’ زمانہ دگر گونہ آئین نہاد، اب اس حکمت اور اس قانون پر غور کرو جو حکمت پسند ملت فرنگ اپنے ساتھ لائی ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ اس قوم نے فہم فطرت سے تسخیر فطرت کا کام کیا ہے۔ الفاظ ہوا میں اڑ کر دور دراز مقامات تک پہغام پہنچا دیتے ہیں۔ اس قوم نے حروف کو پیامبر کبوتر بنا دیا ہے اور ان کے ساز دیکھو کہ بے زخمہ و مضراب بجتے ہیں۔‘‘ تسخیر فطرت کے مضمون میں علامہ اقبال نے مرزا غالب کے حوالے سے دو چار اشعار لکھے ہیں۔ غالب کے اشعار میں ایک یہ شعر تھا: حرف چوں طائر بہ پرواز آورند نغمہ را بے زخمہ از ساز آورند علامہ فرماتے ہیں: آنگہ بر اشیا کمند انداخت است مرکب از برق و حرارت ساخت است حرف چوں طائر بہ پرواز آورد نغمہ را بے زخمہ از ساز آورد سید صاحب جب اپنے دو بیٹوں حامد و محمود کو ہمراہ لے کر انگلستان گئے تو وہاں ہر طبقے میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر نے بھی ان کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں زیادہ تر ماہر انجینئرز ہی مدعو تھے۔ سید صاحب کو وہاں کچھ تقریر کرنا پڑی اس تقریر میں سید صاحب نے کہا کہ تمہاری قوم کو اپلائڈ سائنس اور انجینئرنگ کی بدولت عروج اور غلبہ حاصل ہوا ہے۔ برق اور بھاپ سے کام لینے والے اور ریلیں، تلغراف اور پل بنانے والوں نے تمہاری سلطنت کو قوت بخشی ہے۔ اپنے وطن میں سید صاحب کی کوششوں کا محور بھی یہی تصور تھا کہ اسلام بھی مسلمانوں سے یہی تقاضا کرتا تھا لیکن افسوس ہے کہ وہ اس سے غافل ہو کر ضعیف اور مغلوب ہو گئے۔ عقائد و اخلاق کو تو مغرب سے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں، اس کا قیمتی سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن تسخیر فطرت سے رو گردانی کی وجہ سے یہ کیفیت ہو گئی ہے کہ زندگی کی دوڑ میں ہم لنگڑے بن گئے ہیں۔ حکمت اشیاء سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے ہم اس آدم کے وارث نہیں رہے جس کی نسبت قرآن نے ’’ علم آدم الاسمائ‘‘ کہا تھا۔ یہ اسما محض نام اور الفاظ نہ تھے بلکہ صفات اشیا و حوادث کا علم تھے۔ جن اقوام نے اس حقیقت کو پا لیا وہ ہم سے آگے نکل گئیں اور ہم پس ماندہ قوم رہ گئے: اے خرت لنگ از رہ دشوار زیست غافل از ہنگامہ پیکار زیست ہمر ہانت پے بہ منزل بردہ اند لیلیٰ معنی ز محمل بردہ اند تو بصحرا مثل قیس آوارۂ خستہ داماندہ بیچارہ علم اسماء اعتبار آدم است حکمت اشیاء حصار آدم است اقبال فرنگ کی سائنس اور ا س سے پیدا شدہ تسخیر فطرت کا مخالف نہیں، وہ جس حکمت فرنگ کے خلاف احتجاج کرتا ہے وہ مادیت کا نظریہ حیات ہے جو خارجی فطرت کے ایک غلط تصور سے پیدا ہوا۔ خود فرنگ کے اکابر حکما اور سائنس دان اس فلسفے پر ویسی ہی تنقید کرتے ہیں جو اقبال کے کلام میں ملتی ہے اور اپنے انگریزی خطبات میں اقبال نے زیادہ تر انہیں حکماے فرنگ کی بالغ نظری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ اس کے بعد رموز بے خودی میں یہ مضمون ملتا ہے کہ جس طرح تکمیل ذات کے لیے فرد کو احساس خودی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح ملت کی بھی ایک خودی ہے جو افراد کی خودی سے وسیع تر اور قوی تر ہے۔ اس کی تکمیل بھی لازمی ہے اور یہ تکمیل تسخیر فطرت کے علاوہ ضبط روایات ملیہ ہی سے ہو سکتی ہے۔ پہلے کچھ اشعار میں یہ بتایا ہے کہ فرد کی خودی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ بچہ اپنی حقیقت سے کچھ واقف نہیں ہوتا، اس کا کام کھانا سونا اور بات کرنا سیکھنے کے بعد ہر چیز کے متعلق سوالات کرنا ہے: یہ کیا ہے؟ یہ کیوں ہے؟ اور یہ کیسے ہے؟ ان سوالات کی کثرت سے ماں باپ زچ آ جاتے ہیں۔ زندگی کا یہی آئین ہے۔ پہلے تمام توجہ غیر خود پر مبذول ہوتی ہے اور اپنے من کا کوئی احساس نہیں ہوتا کسی قدر فہم ماسوا کے بعد بچے میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں میں ہوں۔ تمام دیگر نفوس اور اشیاء سے الگ ایک ہستی رکھتا ہوں، ماضی حال اور مستقبل سب اس میں کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں۔ مسلسل جسمانی تغیرات اور بدنی نشوونما کے باوجود وہ اپنی خودی کو ایک غیر متغیر اور مستقل چیز سمجھتا ہے: یاد او با خود شناسایش کند حفظ ربط دوش و فردایش کند گرچہ ہر دم کاہد افزاید گلش نمن ہما نستم کہ بودم در دلش ایں نمن، نوزادہ آغاز حیات نغمہ بیداری ساز حیات ملت نوزائیدہ بھی کمسن بچے کی طرح ہوتی ہے اس کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ اسے مستقبل کا کوئی واضح احساس ہوتا ہے۔ ویروز و امروز و فردا کا شیرازہ بند انا ابھی اس میں نہیں ہوتا، بستہ با امروز او فرداش نیست اس کی ہستی جسمانی آنکھ کے مماثل ہوتی ہے جو ہر شے کو دیکھتی ہے لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتی: چشتم ہستی را مثال مردم است غیر را بینندہ و او خود گم است جب کوئی ملت حوادث و افکار کی پیکار میں کچھ عرصہ بسر کر چکتی ہے تو اس کے اندر ایک ملی انا کا شعور ترقی کرتا ہے۔ قوم اپنی سرگزشت سے افکار و تاثرات کی ثروت حاصل کرتی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنے ماضی کو فراموش کر دے یا کوتاہ بینی سے عملاً اپنا رشتہ اس سے منقطع کر لے تو وہ نابود ہو جاتی ہے: سر گزشت او گر از یادش رود باز اندر نیستی گم می شود حفظ روایت کی سوزن سے ربط ایام کا پیرہن تیار ہوتا ہے جو ناموس ملت کا محافظ بھی ہوتا ہے اور اس کے لیے باعث تزئین بھی۔ نافہم لوگ تاریخ کو محض پرانی داستانیں سمجھتے ہیں اور ’’ ہذا اساطیر الاولین‘‘ کہہ کر اس کی حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ تاریخ تو ایک ملت کا حافظہ ہے؟ فرد میں سے حافظہ غائب ہو جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔ قوم بھی اگر اپنی تاریخ سے غافل ہو جائے تو اس کا بھی یہی حال ہو گا۔ تاریخ ایک ساز ہے جس کے تاروں میں تمام نغمہ ہاے رفتہ اسیر ہوتے ہیں۔ صدیوں کی پرانی شراب اس کے خم و مینا میں ہوتی ہے، اس کی کہنگی مستی میں اضافہ کرتی ہے: بادۂ صد سالہ در میناے او مستی پارینہ در صہباے او زندہ قوموں کو دیکھو کہ کمال جدت پسندی کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کے متعلق کس قدر قدامت پرست ہوتی ہیں۔ دوش و امروز کا پیوند نفس ملت میں لذت اور قوت پیدا کرتا ہے۔ ہر قوم کا حال اس کے ماضی کی پیداوار ہے اور اس کا مستقبل اس کے ماضی و حال کا نتیجہ ہو گا ۔ یہ وسعت زمانی اور ہزار سالہ حوادث کی حافظے میں یکجائی حیات ملی کی کفیل ہوتی ہے: سر زند از ماضی تو حال تو خیزد از حال تو استقبال تو مشکن از خواہی حیات لازوال رشتہ ماضی ز استقبال و حال لیکن قوی روایات کی حفاظت اس انداز کی نہیں ہونی چاہیے کہ ملت ماضی پرست ہو کر جامد ہو جائے اور زندگی کے ہر نئے اقدام کو یہ کہہ کر ٹھکرا دے کہ ہمارے قدیم عقائد و اعمال ہمارے لیے کافی ہیں۔ ’’ ما وجد نا علیہ آبا ننا‘‘ ہر نبی کے مخالفوں نے یہی راگ الاپا۔ قرآن نے اس روایت پرستی کی شدید مذمت کی ہے اور تاریخ سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ اقبال جیسے جدت پسند اور انقلاب آفریں انسان کے ہاں حفظ روایات کا کوئی جامد مفہوم نہیں ہے۔ زندگی اپنے کسی انداز کو جوں کا توں نہیں دہراتی۔ ماضی سے صحت مندانہ ربط حیات آفرین ہوتا ہے لیکن ماضی کی مقلدانہ پرستش حیات ملی کو جامد کر دیتی ہے۔ غیر مسلم اور متعصب مخالفین اسلام نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ اسلام نے عورت کو بہت ادنیٰ مرتبہ دیا ہے۔ اس اعتراض کا نشانہ مسلمان اس لیے بنے کہ انہوں نے اپنی معاشرت میں اسلام سے بیگانہ ہوتے ہوئے عورتوں کو رسوم و رواج اور مردانہ خود غرضی کے پیدا کردہ غلط آئین کی بدولت بہت کچھ بے بس بنا دیا۔ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو عطا کیے تھے۔ مسلمانوں نے رفتہ رفتہ ان کو سلب کر لیا اور ان نادانوں اور ہوس پرستوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہو گیا۔ اسلام میں عورت اور ماں کا جو رتبہ ہے اس پر اقبال نے رموز بے خودی میں ایک بلیغ نظم لکھی ہے۔ خدا نے مرد و زن کو ایک دوسرے کا لباس بنایا، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بغیر اقدار حیات کے لباس سے عریاں ہو جاتا ہے۔ عشق حق کا آغاز ماں کی محبت سے ہوتا ہے: عشق حق پروردۂ آغوش او رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خوشبو، نماز اور عورت کی مثلث مقدس کو اس دنیا کی پسندیدہ چیزیں قرار دیاہے۔ یہ تینوں جسمانیا ور روحانی لطافتوں کا جوہر ہیں۔ جس مسلمان نے عورت کو محض اپنا پرستار اور اپنے ادنیٰ اغراض کا تختہ مشق سمجھ لیا وہ قرآن کی حکمت سے بے بہرہ رہا : مسلمے کو را پرستارے شمرد بہرۂ از حکمت قرآن نہ برو اسلام نے جنت کا مقام ماں کے قدموں کے نیچے قرار دیا۔ امت اور امومت میں گہرا معنوی ربط ہے۔ نبی کی شفقت اپنی امت پر بھی مادرانہ شفقت ہوتی ہے۔ سیرت اقوام انبیاء کی تعلیم اور مثال سے بنی ہے یا اچھی ماؤں کی شفقت اور تربیت سے: شفقت او شفقت پیغمبر است سیرت اقوام را صورتگر است ہست اگر فرہنگ تو معنی رسے حرف امت رازبا دارو بسے انسانی روابط میں محبت کا رشتہ قائم کرنے کے لیے قرآن تکریم ارحام کی تعلیم دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں امومت کا یہ مقام ہے کہ اگر کوئی بے علم ماں جو ظاہری حسن و جمال نہ رکھتی ہو، سادہ اور کم زبان ہو لیکن ایک غیور مسلمان حق پرست اس کے بطن سے پیدا ہو اور اس کی آغوش میں پرورش پائے تو بقا و احیاے ملت کے لیے ایک اتنا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ بڑے بڑے تعمیری کام اس کے مقابلے میں ہیچ ہیں جن پر مرد فخر کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اگر کوئی نازک اندام، پری وش بعض مغربی عورتوں کی تقلید میں تہی آغوش رہے اور بار امومت کو اپنے لیے بار خاطر سمجھے تو اسے عورت نہیں کہنا چاہیے؟ ایسی عورت انسانیت کے لیے باعث شرم ہے۔ حیا نا آشنا آزادی ملت کشی کا سامان ہے۔ بے شمار ارواح جو وجود پذیر ہونے کے لیے مضطرب ہیں وہ امہات کی بدولت عالم ممکنات سے عالم وجود میں آتی ہیں۔ کسی قوم کا سرمایہ نقد و قماش و سیم و زر نہیں بلکہ اچھے انسان ہیں جو خیابان ریاض مادر سے گل و لالہ کی طرح چمن افروز ہستی ہوتے ہیں۔ جس قوم میں عورتوں کی زندگی احترام سے محروم ہے وہاں مردوں کو بھی حیات صالح نصیب نہیں ہو سکتی۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ کسی قوم کی تہذیب کو جانچنے کا صحیح معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ اس میں عورت کا کیا مقام ہے اگر عورت ذلیل ہے تو قوم بھی ذلیل اور تہذیب سے عاری ہے: بردمد ایں لالہ زار ممکنات از خیابان ریاض امہلات قوم را سرمایہ اے صاحب نظر نیست از نقد و قماش و سیم و زر مال او فرزند ہاے تندرست تر دماغ و سخت کوش و چاق و چست حافظ رمز اخوت مادراں قوت قرآن و ملت مادراں مسلمان عورتوں کے لیے اسوۂ کاملہ سیرۃ النساء فاطمتہ الزہرا (رضی اللہ عنہا) ہیں۔ عیسوی دنیا مریم طاہرہ و صدیقہ کی پرستش کرتی ہے، مسلمانوں کے دلوں میں بھی حضرت مریم کا بڑا احترام ہے اور یہ فقط اس نسبت سے ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ماں ہیں اور ان کی عفت کا خدا شاہد ہے۔ لیکن فاطمتہ الزہرا تین بلند پایہ نسبتوں کا مرکز ہیں: ایک عظیم المرتبت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی، علی (رضی اللہ عنہ) جیسے جلیل القدر انسان کی بیوی اور امام الشہداء حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی ماں۔ تمام دنیا کی تاریخ کو ٹٹولیے اس قسم کی تین نسبتیں ایک عورت میں کبھی جمع نہ پاؤ گے۔ حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی حریت آموز سیرت کا سرچشمہ اخلاق پدر بھی ہے اور اخلاق مادر بھی لیکن ماں کی سیرت فرزند میں زیادہ موثر ہوتی ہے اس لیے کہ بیداری شعور سے پہلے اس کے اثرات تحت الشعور میں مرتسم ہو جاتے ہیں: سیرت فرزند ہا از امہات جوہر صدق و صفا از امہات فاطمتہ الزہرا ایک یہودی محتاج کی مدد کے لیے اپنی چادر فروخت کر ڈالتی ہیں، عرب کے بادشاہ کی بیٹی ہیں لیکن کوئی خدمت گار نہیں۔ قرآن کی آیات دہرتی ہوئی چکی پیستی رہتی ہیں: آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآن سرا رشتہ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جناب مصطفیؐ ست ورنہ گرد تربتش گردیدمے سجدہ ہا بر خاک او پاشیدمے اس کے بعد مسلمان عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال ان کو دور حاضر کے فتنوں سے آگاہ کرتا ہے جو عورت کی طینت پاک کی تخریب کے درپے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تقلید فرنگ پر مسلمان عورت دین و اخلاق سے کنارہ کش ہو کر جھوٹی آزادی کے چسکے میں اپنی پاکیزہ فطرت کو خیر باد کہہ دے: دور حاضر تر فروش و پرفن است کاروانش نقد دیں را رہزن است کور و یزداں ناشناس ادراک او ناکساں زنجیری پیچاک او ہوشیار از دستبرد روزگار گیر فرزندان خود را در کنار نسوانی فطرت میں خدا نے بلند جذبات رکھے ہیں، ان کی حفاظت فاطمتہ الزہرا کے نمونے پر زندگی بسر کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔ اگر اس فطرت کو پاک رکھا گیا تو حسین (رضی اللہ عنہ) منش انسان آغوش مادر میں تربیت حاصل کر سکتے ہیں: تا حسینے شاخ تو بار آورد موسم پیشیں بگلزار آورد سورۂ اخلاص توحید کی تعلیم کا لب لباب ہے۔ قرآنی فصاحت کا کمال ہے کہ چار مختصر جملوں نے توحید کے قلزم زخار کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ تمام قرآن مجید ہی کی تشریح ہے اور تمام حکمت بھی توحید ہی کے اندر پنہاں ہے۔ دین کی اصل توحید ہے باقی جو کچھ ہے وہ اس کی فرع ہے اس لیے مثنوی رموز بیخودی کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے سورۂ اخلاق ہی کی مختصر مگر بلیغ شرح لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کا دیدار نصیب ہوا، میں نے عرض کیا کہ آپ نے اسلام کی اساس کو پختہ کرنے میں غیر معمولی بصیرت و ہمت و ایثار سے کام لیا، اب اس ملت کی بنیادیں متزلزل ہو رہی ہیں، اس تعمیر کو سنبھالنے کے لیے کوئی علاج تجویز فرمائیے: پختہ از دستت اساس کار ما چارۂ فرما پے آزار ما اس کا جواب یہ ملا کہ مسلمان اس توحید سے بیگانہ ہو گئے جو وحدت آفرین تھی۔ اسلام نے نسلی اور قبائلی امتیازات کو مٹا کر ایک ملت بنائی تھی لیکن اب تمہارا یہ حال ہے کہ تم پھر قبائل پرستی پر اتر آئے ہو۔ گویا اسلام سے قبل کے زمانہ جاہلیت کی طرف عود کر آئے ہو جس میں سب سے زیادہ موثر جذبہ قبیلوی عصبیت تھا: خویشتن را ترک و افغان خواندہ واے بر تو آنچہ بودی ماندہ با یکی ساز از دوئی بردار رخت وحدت خود را مگرداں لخت لخت زبان سے وحدت کا کلمہ پڑھتے ہو اور عمل سے ملتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو۔ توحید اگر وحدت ملت میں مشہود نہ ہوئی تو وہ محض ایک لفظ بے معنی رہ گئی۔ جو ایمان عمل میں منعکس نہ ہو وہ ایمان ہی مردہ ہے: صد ملل از ملتے انگیختی بر حصار خود شبیخون ریختی یک شو و توحید را مشہود کن غائبش را از عمل موجود کن لذت ایمان فزاید در عمل مردہ آں ایمان کہ ناید در عمل اللہ الصمد صمد کے معنی ہیں وہ ہستی جو کسی غیر اور ماسوا کی محتاج نہ ہو مگر تمام مخلوقات و موجودات اپنے وجود کے لیے اس کے محتاج ہوں۔ ’’ تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کی تعلیم کے مطابق مسلمان کو بھی اپنے اندر یہ بے نیازی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انسان کو حاجات کا شکار نہیں ہونا چاہیے، احتیاج انسان کے نفس کو کمزور کر دیتی ہے اور تمام قوت و محبت اور ایثار کو سلب کر لیتی ہے۔ بے نیازی مال و جاہ سے حاصل نہیں ہوتی ’’ آنانکہ غنی تراند محتاج تراند‘‘ یہ طبیعت کا ایک انداز ہے جو نادار کو قارون پر فضیلت بخشتا ہے۔ اسی بے نیازی کی بدولت انسان راست باز ہوتا ہے، خود دار ہوتا ہے اور نشتر لا و نعم اس کے سینے میں نہیں چبھتا۔ دنیا عالم اسباب ہے لیکن انسان کو بندۂ اسباب نہیں بننا چاہیے: بندۂ حق بندۂ اسباب نیست زندگانی گردش دولاب نیست مسلم استی بے نیاز از غیر شو اہل عالم را سراپا خیر شو رزق کے لیے دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا خودی کو سوخت کر دیتا ہے۔ دانا مسافر کو جب دشوار گزار راستوں سے دور دراز کا سفر درپیش ہوتا ہے تو اشد ضروری چیزوں کے علاوہ فالتو سامان اپنے اوپر نہیں لادتا۔ سفر زندگی میں بھی فراوانی سامان سے آسائش کی کوشش نہ کرو یہ سامان تمہارے لیے گلے کا طوق اور زنجیر پا ہو جائے گا۔ فراوانی کی کوشش تم کو حقیر انسانوں کے سامنے نیاز مند بنا دے گی: گرچہ باشی مور و ہم بے بال و پر حاجتے پیش سلیمانے مبر راہ دشوار است سامان کم بگیر در جہاں آزاد زی آزاد میر حکیم سقراط کا بھی ایک قول مشہور ہے کہ کم احتجا انسان الوہیت کے صفات سے بہرہ اندوز ہوتا ہے کیونکہ خدا بھی بے احتیاج ہونے کی وجہ سے بے نیاز ہے۔ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) بھی یہی نصیحت فرماتے تھے اور اس کا بہترین نمونہ خود تھے:’’ اقل من الدنیا تعش حرا‘‘ دنیاوی حاجتوں کو کم سے کم کرو، آزادی اور حریت کی زندگی اسی طرز عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ مرد حر کو فقط اتنے ہی مال کی ضرورت ہے جو اس کو سائل اور گداگر ہونے سے محفوظ رکھے۔ مال کا مصرف یا خدمت خلق ہے یا اپنی خود داری کی حفاظت مگر مال کی محبت کے بغیر منعم ہونا سائل ہونے سے بہتر ہے: تا توانی کیمیا شو گل مشو در جہاں منعم شو و سائل مشو بے نیاروں کی جائز ضرورتیں پورا کرنے کا مشیت الٰہی میں ایک پنہاں قانون موجود ہے: خود بخود گردد در میخانہ باز برتہی پیمانگان بے نیاز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ مال سے بے نیاز شخص کون ہو گا لیکن خدا نے ان کی ہر ضرورت بڑی ہو یا چھوٹی، بے منت غیرے ہمیشہ پوری کی۔ جو شخص چاہے کاہلانہ بے پروائی نہیں بلکہ عارفانہ بے نیازی کو شیوہ بنا کر اس کو اپنی زندگی میں آزما کر دیکھ لے۔ یہاں بو علی قلندر کا ایک شعر علامہ اقبال نے نقل کیا ہے: پشت پا زن تخت کیکاؤس را سربدہ از کف مدہ ناموس را اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی خلیفہ ہارون الرشید کے سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اس نے امام مالک سے درخواست کی کہ دار الخلافت بغداد میں آ کر اپنی مسند بچھائیے، یہاں بڑی رونق اور زندگی کی گہما گہمی ہے۔ یہاں ہر قسم کی قدر دانی ہو گی۔ اس مرد خود دار اور عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مدینے سے ہلنا گوارا نہ کیا۔ فرمایا کہ میں یہاں بندۂ آزاد ہوں اور میرا سر آستانہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ہے۔ عشق خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہتا ہے کہ تو بادشاہوں کو اپنا خدمت گزار بھی نہ بنا، چہ جائیکہ میں بادشاہوں کا ملازم ہو جاؤں۔ اگر علم دین کا شوق ہے تو یہیں مدینے میں تشریف لائیے: پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا: تو ہمہ خواہی مرا آقا شوی بندۂ آزاد را مولا شوی بہر تعلیم تو آیم بر درت خادم ملت نگردد چا کرت بہرۂ خواہی اگر از علم دیں درمیاں حلقہ درسم نشیں ٭٭٭ بے نیازی رنگ حق پوشیدان است رنگ غیر ازپیرہن شوئیدن است اے مسلمان تیری ذات کا سبب یہی ہے کہ تجھ میں خود داری کا فقدان ہے۔ اغیار کے علوم پڑھتے ہو اور مقلدانہ فطرت کی وجہ سے ہر خیال کو بے چون و چرا قبول کر لیتے ہو۔ اغیار کے شعار سے ارجمند ہونا چاہتے ہو۔ تمہاری عقل افکار غیر سے پا بزنجیر ہے تمہاری زبان پر جو باتیں ہیں وہ تمہارے اپنے دل و دماغ کی پیداوار نہیں؟ تمہاری آرزوئیں بھی دوسروں سے متعار لی ہوئی ہیں۔ بر زبانت گفتگوہا مستعار در دل تو آرزو ہا مستعار اے مسلمان تو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا فرمان بھول گیا ہے جو شخص دوسری اقوام سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہو جاتا ہے۔ اور ملت اسلامیہ کا فرد نہیں رہتا۔ لست منی گویدت مولاے ما واے ما اے واے ما اے واے ما تو نے اپنی حقیقت سے غافل ہو کر کیمیا کے بدلے مٹی خریدی ہے: بر دل خود نقش غیر انداختی خاک بردی کیمیا در باختی فرد فرد آمد کہ خود را وا شناخت قوم قوم آمد کہ جز با خود نساخت لم یلد و لم یولد خدا کے ہاں صلبی پیدائش کا کوئی سوال نہیں، علامہ فرماتے ہیں کہ مرد موحد خدا کی اس صفت سے بھی ایک سبق حاصل کر سکتا ہے۔ جسمانی لحاظ سے تو ہر انسان کسی کا بیٹا اور کسی کا باپ ہے لیکن یہ جسمانی ولدیت بہت ثانوی چیز ہے۔ حضرت سلمان فارسی سے لوگوں نے ان کا شجرۂ نسب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ’’ سلمان ابن اسلام‘‘ مسلمان کی اصل نسبت اسلام سے ہے، اب دام سے نہیں۔ توحید پر ایمان لانے سے ایمان کی کیفیت شہد کی سی ہو جاتی ہے جس میں ہزاروں پھولوں کا رس اس طرح آمیختہ ہے کہ کوئی قطرہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری اصل لالہ ہے یا گلاب یا نگرس۔ لم یلد و لم یولد کا پر تو اگر مومن کی زندگی پر پڑے تو اس کے احساس ملی میں نسب کو کوئی مقام نہ ہو: قوم تو از رنگ و خوں بالاتر است قیمت یک اسودش صد احمر است قطرۂ آب وضوے قنبرے در بہا بر تر ز خون قیصرے گر نسب را جزو ملت کردۂ رخنہ درکار اخوت کردہ مسلمان کا نہ کوئی وطن ہے اور نہ کوئی رشتہ نسب اس کے لیے کوئی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا وطن بھی اسلام اور اس کا نصب بھی اسلام۔ عشق محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس تمام ملت کا شیرازہ بند ہے جو اطراف و اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں عقائد اور فقہ میں بہت سے اختلاف پائے جاتے ہیں اور ہر فرقہ وجہ اختلاف کو اس قدر اساسی تصور کر لیتا ہے کہ اس کو کفر و اسلام کا معیار بنا لیتا ہے۔ خدا کی ذات و صفات کے متعلق بھی تصورات میں بے حد تفاوت پایا جاتا ہے۔ لیکن شاید ہی کوئی شخص اسلامی دنیا میں ایسا مل سکے جو مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا دل بالکل خالی ہو۔ راقم الحروف کو ایسے مسلمانوں سے ملنے کا بھی اتفاق ہوا ہے جو جدید الحادی تعلیم کی بدولت دین کے بنیادی عقائد سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے لیکن ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے کو تیار تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ نفسیات اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ بے دین ہونے کے باوجود ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ عقائد سے معرا ہونے کے باوجود یہ شخص ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے سراپا ایثار تھا۔ مسلمان کی اسی نفسیات کو، جسے الحاد بھی بدل نہ سکا۔ اقبال نے ان اشعار میں پیش کیا ہے: دل بہ محبوب حجازی بستہ ایم زین جہت بایک دگر پیوستہ ایم عشق او سرمایہ جمعیت است ہمچو خون اندر عروق ملت است ترک فرنگ آلودہ ہو جائے یا چینی اشتراکیت کی لپیٹ میں آ جائے لیکن جب کبھی نسل و نسب میں مختلف کسی مسلمان سے ملتا ہے تو اس کے دینے میں اخوت کے جذبے کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب اس رشتے کی بدولت ہے جو عشق محمدی نے پیدا کیا: باشیر اندرون شد و با جاں بدر شود (حافظ) عشق در جان و نسب در پیکر است رشتہ عشق از نسب محکم تر است عشق و رزمی از نسب باید گذشت ہم ز ایران و عرب باید گذشت ہر کہ پا در بند اقلیم و جد است بے خبر از لم یلد لم یولد است ولم یکن لہ کفواً احد تمام موجودات میں خدا کا کوئی ہمسر نہیں۔ یہ صفت بھی مرد مومن میں پیدا ہو جاتی ہے۔ لالہ سر کوہسار کی طرح وہ کسی گلچیں کے دامن میں نہیں پڑتا۔ وہ جہاں کے اندر ہے لیکن جہاں سے الگ اور بالاتر ہے۔ مومنوں کی ملت اسی طرح بے ہمتا ہو سکتی ہے کہ اس انداز کی کوئی اور ملت نہ ہو: رشتہ با لم یکن باوید قوی تا تو در اقوام بے ہمتا شوی آنکہ ذاتش واحد است ولا شریک بندہ اش ہم در نسازد با شریک مومنوں کے متعلق جو ’’ انتم الاعلون‘‘ کی بشارت دی گئی ہے، اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ نہ صرف دوسری ملتوں بلکہ فطرت کی تمام قوتوں سے بالاتر ہے۔ جس مومن اور جس مومت کے یہ صفات بیان کئے گئے ہیں وہ اس وقت تو پردہ عالم پر کہیں نظر نہیں آ رہی۔ مرد مومن کی پرواز تو ایسی فلک رس ہونی چاہیے کہ اس کا طائر روح ستاروں میں دانہ چینی کرے بلکہ اپنی بلند پروازی میں افلاک کو پیچھے چھوڑ جائے۔ لیکن اس وقت مسلمان کا یہ حال ہے جیسے مٹی کے اندر بسنے والا کیڑا ہو جو فضائے ارضی سے بھی نا آشنا ہے۔ اپنے آپ کو پسماندہ اور ذلیل پا کر گردش ایام کا شکوہ کرتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ قرآن کو ترک کرنے کی وجہ سے اس کی یہ گت بنی ہے۔ مردمومن کی پرواز کا تو یہ حال ہے کہ: طائرش منقار بر اختر زند آنسوے ایں کہنہ چنبر پر زند تو بہ پروازے پرے نکشودۂ کرمک استی زیر خاک آسودہ خوار از مہجوری قرآں شدی شکوہ سنج گردش دوراں شدی مثنوی کے اختتام میں بحضور سرور کائنات مصنف کی عرض حال ہے۔ ویسے تو اقبال کا کلام خلوص سے لبریز ہے اور اس کی دلدوز تاثیر اسی خلوص کی بدولت ہے۔ محض فن اور صناعی سے یہ دل رسی پیدا نہیں ہو سکتی لیکن اس عرض حال میں خلوص اور عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک ایسا ولولہ ہے کہ پڑھنے والے حساس انسان کی آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں۔ اقبال کی صحبت سے فیض یاب احباب سب نے یہ دیکھا کہ شباب غفلت انگیز کے دور سے لے کر شیب عرفان اندوز تک اس عاشقی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہی کیفیت رہی کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام سنتے ہی طبیعت پر رقت طاری ہو گئی۔ خواہ اقبال اس وقت رندوں کی محفل ہی میں ان کا ہم مشرب بن کر بیٹھا ہو۔ا س عرض نیاز میں پہلے لبریز عشق کچھ اشعار کہے ہیں، اس کے بعد اپنی داستان درد بیان کی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ اقبال کے معتقدین اس کو عارف باللہ اور مجدد عصر سمجھنے لگے تھے اور اس کی خامیوں کا ذکر اس کی توہین شمار ہوتا تھا لیکن لوگوں کی عقیدت سے ناجائز فائدہ اٹھانا کبھی اقبال کا شیوہ نہ تھا دام واپسیں میں وہ اپنی تمام حالت کو طشت از بام کرتا ہے اور اپنی تمام عمر پر ایک نظر ڈالتا ہے۔ اپنا نامہ اعمال اس ہستی کے سامنے رکھتا ہے جو ناگفتہ بھی اس کے حال سے آشنا ہے۔ اپنی حالت کے ساتھ ساتھ ملت کی خستہ حالت کو بھی پیش کرتا ہے۔ نہ اپنے متعلق کسی غلط تفاخر سے کام لیتا ہے اور نہ ملت اسلامیہ کو اس کی موجودہ حالت میں وہ اسلام پر عمل پیرا سمجھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک ملت کا حال اس زمانے میں ایک جسد بے روح کی طرح ہے۔ شروع یہاں سے کرتا ہے کہ جب سے میری نظر کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہستی آئی ہے تب سے میری یہی کیفیت ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے ماں باپ سے زیادہ محبوب ہو گئے: عقل در من آتشے افروخت است فرصتش باوا کہ جانم سوخت است میری یہ کیفیت اس زمانے میں بھی تھی جب میں حسینوں سے عشق بازی کرتا تھا، ان کی صحبت میں شراب پیتا تھا: مدتے با لالہ رویاں ساختم عشق با مرغولہ مویاں باختم بادہ ہا ہا ماہ سیمایاں زدم بر چراغ عافیت داماں زدم شباب کی ان ہوس رانیوں کے ساتھ ساتھ میرے تفکر اور عقائد کی یہ حالت تھی کہ عقل صنم تراش نے مجھے پجاری بنا لیا تھا۔ مگر خالی عقل و ظن انسان کو کسی یقین تک تو نہیں پہنچاتے، چنانچہ میں بھی یقین و ایمان سے خالی حقائق حیات کے بارے میں شک میں گرفتار تھا اور یہ تشکیک میرے تفکر کا جزو لاینفک بن گئی تھی۔ ظن و گمان کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا۔ ایک طرف حسینوں کا عشق ہوس پرور اور دوسری طرف عقل آزر پیشہ، ان دو بجلیوں نے میرا حاصل سوخت کر دیا تھا، میرا متاع خیال و دماغ ان دو ڈاکوؤں کی دست برد سے نہ بچا: برق با رقصید گرد حاصلم رہزتاں بردند کالاے دلم عقل آزر پیشہ ام زنار بست نقش او در کشور جانم نشست سالہا بودم گرفتار شکے از دماغ خشک من لا ینفکے ترفے از علم الیقین ناخواندہ در گمان آباد حکمت باندہ ایک عرصے تک اس ظلمت عقل و ہوس میں گمراہ رہنے کے بعد مجھے توفیق الٰہی سے ایمان و یقین حاصل ہوا اور اسرار قرآن مجھ پر منکشف ہونے لگے۔ مجھے جو بصیرت حاصل ہوئی میں نے اسے آب حیواں سمجھ کر اس مردہ قوم کے حق میں ٹپکایا، مبدء فیاض نے نواگری عطا کی تھی، میں نے شمع نوا سے محفل میں روشنی پیدا کی: مردہ بود، از آب حیواں گفتمش سرے از اسرار قراں گفتمش محفل از شمع نوا افروختم قوم را رمز حیات آموختم لیکن افسوس کہ اس مردہ قوم کو زندہ نہ کر سکا، اب اس کی نعش کو میں حضور کے سامنے لایا ہوں کہ آپ ؐ ہی اس کے احیاء کا کوئی سامان پیدا کریں۔ مجھے اسرار قرآنی پیش کرنے کا اس مردہ قوم سے یہ صلہ ملا کہ لوگ کہنے لگے کہ یہ شخص فرنگستان سے کچھ باتیں سیکھ آیا ہے، اپنی شاعری سے وہی جادو ہم پر کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ساز میں سے جو آواز نکلتی ہے وہ حکمت قرآنی نہیں بلکہ ساز فرنگ کی غوغا آرائی ہے: گفت برما بندد افسون فرنگ ہست غوغایش بہ قانون فرنگ جس قوم کا یہ حال ہو اس کو میرے جیسا نوا گر بے عمل کیا زندگی بخشے گا۔ مسلمان توحید و نبوت کے اسرار سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ اس نے بیت الحرام کو بت خانہ بنا دیا ہے آپ کو موجد اور برہمن کو مشترک اور بت پرست کہتا ہے لیکن ہمارا شیخ، برہمن سے زیادہ کافر ہے۔ ایک پورا سومنات اس کے مغز کے اندر موجود ہے۔ کچھ عجمی تصورات کو اسلام سمجھ کر اپنے فکر و عمل کو انہیں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ اس کے اند قلب زندہ نہیں رہا، وہ کافر کی طرح موت سے ترسان و لرزاں ہے۔ یہ کافر مسلم نما مجھ پر یہ الزام لگاتا ہے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ قرآن کی تعلیم کا ثمرہ نہیں ہے۔ اگر اس بارے میں میں نے اپنے آپ کو اور قوم کو دھوکا دیا ہے تو اسے محبوب خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی سزا یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں سب کے سامنے رسوا کیا جاؤں: گر دلم آئینہ بے جوہر است در بجرفم غیر قرآں مضمر است پردۂ ناموش فکرم چاک کن ایں خیاباں را ز خارم پاک کن روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پا کن مرا ملت کی اس خستہ حالت کو بیان کرنے کے ساتھ ہی اپنی اس کوتاہی کو بھی حضور سرور کائنات ؐ میں پیش کیا ہے۔ کہ میری زندگی میں میرا عمل اس عشق و عرفان کا مظہر نہیں جو مجھے عطا ہوا اور جس سے میں نے دوسروں کو بھی زندہ کرنے کی کوشش کی۔ میری یہ عرض خداے عز وجل کے سامنے پیش کر دیجئے کہ عشق اور علم کی دولت دی ہے تو عمل کی توفیق بھی عطا ہو: عرضن کن پیش خداے عزوجل عشق من گردد ہم آغوش عمل دولت جان حزیں بخشندہ ای بہرۂ از علم دیں بخشندہ ای در عمل پایندہ تر گرداں مرا آب نیسانم گہر گرداں مرا ایک آرزو میرے دل میں ہمیشہ چٹکی لیتی رہی، لیکن میں شرم کے مارے اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میرے اعمال میرے علم و عشق کے مقابلے میں نہایت پست تھے: زندگی را از عمل ساماں نبود پس مرا ایں آرزو شایاں نبود شرم از اظہار او آید مرا شفقت تو جرأت افزاید مرا آرزو یہ تھی اور ہے کہ میری موت حجاز میں واقع ہو۔ تیرے دیار کے باہر تو مجھے دیر ہی نظر آتا ہے۔ بہت افسوس ہو گا کہ اگر میرے جسم کو بت خانے میں گاڑا جائے۔ اگر میں جوار روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں مدفون ہوں اور قیامت کے روز میرا حشر وہیں سے ہو تو میں اسے کمال سعادت سمجھوں گا: حیف چوں او را سر آید روزگار پیکرش را دیر گیرد در کنار از درت خیزد اگر اجزاے من واے امروزم خوشا فرداے من کوکبم را دیدۂ بیدار بخش مرقدے در سایہ دیوار بخش افسوس ہے کہ اقبال کی اس آرزو کا اس انداز میں پورا ہونا تقدیر الٰہی میں نہ تھا، لیکن اس ہمچدان کے نزدیک اس کی آرزو پوری ہوئی۔ اقبال کی تعلیم یہ تھی کہ مومن کا پیوند کسی خاک سے نہیں ہوتا۔ مومن کے تمام روابط روحانی ہوتے ہیں۔ اقبال کو عالم گیر کی عظیم الشان شاہی مسجد کے سایہ دیوار میں مرقد نصیب ہوا۔ ہر مسجد خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا گھر ہے۔ یہ مسجد لاتعداد مسلمانوں کے درود و سجود کا محل ہے۔ روحانی لحاظ سے یہ بھی روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا قرب ہے۔ اقبال جو اپنی بے عملی کا مسلسل اعلان کرتے رہے راقم الحروف اس سے متفق نہیں۔ کیا انسانوں کی بصیرت افروزی، ملت کی ہمت افزائی، عشق کی فراوانی اور ارزنی، تفکر کی وسعت اور ثروت، اعمال صالحہ میں داخل نہیں؟ میرے نزدیک یہ عمل ہزار عالموں، عابدوں، زاہدوں اور صوفیہ کی ریاضتوں سے زیادہ با قیمت ہے۔ معلوم نہیں کہ علامہ اقبال اس کو کیوں عمل شمار نہ کرتے تھے۔ میرے نزدیک اقبال کے عارفانہ اور عاشقانہ کلام کا ہر شعر عبادت میں داخل ہے۔ اس سے زیادہ خدمت خلق اور کیا ہو سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ اس کے کلام سے بلند ترین افکار اور تاثرات حاصل کرتے رہیں گے۔ یہ صدقہ جاریہ ہے۔ مومن کی زندگی کا نصب العین علامہ اقبال کے نزدیک اتنا بلند تھا کہ وہ اس عرش بوس بلندی کے مقابلے میں اپنے تئیں پستی میں محسوس کرتے تھے۔ مقصود کی بلندی کسی اعلیٰ درجے کے محسن انسان کو بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں رہنے دیتی۔ خوب تر کے مقابلے میں خوب بھی ناخوب دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے کلام سے بعض افراد کی زندگی میں ایک انقلاب آفریں ہیجان پیدا ہوا۔ آئندہ بھی ملت اسلامیہ کے ہر انقلاب میں اقبال موجود ہو گا۔ جس شخص کا پیغام سراپا پیغام عمل ہو، کیا وہ سرچشمہ عمل خود عمل سے محروم ہے؟ لوگوں نے جس چیز کو عمل سمجھ رکھا ہے وہ اس حیات افزا پیغام و تلقین کے مقابلے میں اکثر پست ہی ہوتا ہے۔ اقبال کو اپنی بے عملی پر جو افسوس ہے وہ اس کی علو ہمت اوررفعت مقاصد کا نتیجہ ہے۔ جن لوگوں کے مقاصد پست ہوتے ہیں وہ ان مقاصد کے حصول میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور جو کچھ حاصل ہو جائے اس سے مطمئن بھی ہو جاتے ہیں لیکن گناہوں سے پاک اور اگلی پچھلی خطائیں بخشا ہوا نبی اپنی روحانی ترقی میں کسی موجودہ حالت پر قانع نہیں ہوتا اور گنہگاروں سے زیادہ استغفار اس کا صبح و شام کا وظیفہ ہوتا ہے۔ عمل میں کوتاہی کا احساس ایمان کی قوت اور مقصد کی بلندی کا شاہد ہے۔ ادنیٰ درجے کے لوگ جن اعمال کو حسنات شمار کرتے ہیں، بلند مقصد اور بلند حوصلہ انسانوں کو ان میں سیئات کا رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ ٭٭٭ انیسواں باب اقبال پر تین اعتراضات کا جواب علامہ اقبال کے کلام اور پیام کی ایک امتیازی خصوصیت ہے، جو اس سے قبل نہ شعراء میں ملتی ہے اور نہ صوفیہ میں باستثناے چند نظر آتی ہے۔ مسلمان فقہا کی مرتب کردہ فقہ میں بھی یہ پہلو نمایاں نہیں۔ اقبال کی سب سے پہلی شائع شدہ مثنوی اسرار خودی ہے جو بانگ درا کے مجموعے سے بھی پیشتر شائع ہوئی۔ ان کے فلسفیانہ تفکر کا آغاز بھی خودی ہے، وسط بھی خودی اور انجام بھی خودی۔ سوال یہ ہے کہ اقبال نے زندگی کے اس پہلو اور اس نظریے کو مرکزی مقام کیوں دیا اور اسے اپنی تبلیغ کا محور کیوں بنایا؟ اس کے کئی وجودہ تھے۔ ایک یہ کہ اقبال کو نفس انسانی میں ایک زوال ناپذیر اور ابد کوش حقیقت محسوس ہوتی تھی۔ اکثر فلسفیوں اور مذاہب نے تکریم آدم کی بجائے ابطال ہستی انسانی کو عقائد کا محور و مقصود بنا لیا تھا۔ تکریم آدم کی تعلیم مخصوص اسلامی اور قرآنی تعلیم تھی انسان کو قرآن ہی نے نائب الٰہی اور خلیفتہ اللہ، مسخر کائنات اور مسجود ملائکہ قرار دیا تھا۔ اس تعلیم میں انسانی ممکنات حیات کی لامتناہی مضمر تھی اور مقصود حیات ممکن کو موجود بنانا تھا۔ اسی میں لا محدود ارتقاء کا راز پوشیدہ تھا۔ چونکہ انسان کبھی خدا یا ہستی مطلق نہیں بن سکتا اس لیے اس کی ترقی کی رفتار رک نہیں سکتی۔ خواہ وہ کسی عالم میں ہو۔ اس تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی پس پشت ڈال دیا تھا اور زندگی کا مقصود رسمی عبادت کے ذریعے سے جنت کا حصول رہ گیا تھا جو ایک محدود زندگی کے اعمال کا اجر ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی عمل ہے، نہ ترقی، نہ آرزو، نہ جستجو، اقبال اس سکونی اور عشرتی تصور کو ایک جامد تصور سمجھتا تھا۔ اس تصور سے اخلاقی زندگی پر بھی اچھا اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس نظریے میں اعمال کے نتائج ان کی ماہیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ثواب و عذاب اعمال پر خارج سے عائد ہوتے ہیں۔ نیکی آپ اپنا اجر اور بدی آپ اپنی سزا نہیں رہتی اور خیر و شر کے لیے کوئی داخلی معیار بھی قائم نہیں ہو سکتا۔ اقبال نے دیکھا کہ کچھ رہبانی نظریات کی بدولت جو مسلمانوں کی روحانی زندگی کا ایک جزو بن گئے تھے اور کچھ تکریم آدم کی تعلیم سے غافل ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی دینی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی حالت میں شدید انحطاط پیدا ہو گیا ہے جہاں کہیں اخلاق کی تعلیم ہے وہاں ایجابی پہلو کی نسبت سلبی پہلو غالب ہے۔ تقدیر کا غلط مفہوم انسانوں کو جری ہونے کی بجائے اپاہج بنا دیتا ہے۔ جبر و اختیار کے مسئلے میں مسلمانوں کی تعلیم میں جبر کا عنصر غالب ہو گیا تھا اور انسانی اختیار محض دھوکا رہ گیا تھا۔ لیکن جبر و اختیار اور خودی و بے خودی زندگی کے دو پہلو ہیں: ماہیت حیات کے اندر ان میں کوئی تضاد نہیں یہ تضاد استدلالی منطق کی پیداوار ہے۔ اقبال نے دیکھا کہ دین اور بے دینی دونوں انسان کی خودی کو سوخت کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ مادیت کے فلسفے نے نفس انسانی کی مستقل حیثیت ہی سے انکار کر دیا اور اسے مادی مظاہر میں سے ایک بے ثبات مظہر قرار دیا۔ خدا کے طالبوں کی نظر سے بھی انسان کی حقیقت اوجھل ہو گئی۔ عارفوں نے عرفان نفس کو عرفان الٰہی کا وسیلہ بنایا تھا لیکن اکثر صوفیہ اپنے نفس کو بے حقیقت بنا کر خدا کو تلاش کرنے لگے۔ ہستی مطلق کے تصور اور اس کی تلاش میں انسان کی ہستی گم ہو گئی۔ اقبال نے دیکھا کہ خودی کی موت سے فرد اور ملت دونوں پر موت طاری ہوتی ہے۔ اس لیے اقبال نے خدا پر کم لکھا ہے اور خودی پر بہت زیادہ، کیوں کہ اس کے نزدیک خودی ہی کی استواری سے خدا کے ساتھ رابطہ مستحکم ہوتا ہے۔ خودی کا لفظ ہماری ادبیات میں ایک بدنام لفظ تھا۔ اب یک بیک اس کی ستائش گری سے اکثر مسلمانوں کے اذہان کو ٹھوکر لگی۔ خودی کے قدیم مذموم مفہوم کو دماغوں سے نکالنا آسان نہ تھا اس لیے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال فرد اور ملت کے لیے ایک بے عنان آزادی اور جارحانہ زندگی کی تلقین کرتا ہے۔ قدیم تعلیم یہ تھی کہ تو خاک ہو کر اکسیر بن سکتا ہے: نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا اگر پارے کو اے اکثیر گر مارا تو کیا مارا (ذوق) اس لیے عجز اختیار کر، تن بہ تقدیر ہو کر زندگی بسر کی، جو کچھ ہے وہ ازل سے مقرر ہے۔ اقبال نے کہا کہ انسان آپ اپنی تقدیر کو بناتا یا بگاڑتا ہے۔ کافر ہو تو انسان تابع تقدیر ہوتا ہے اور مومن ہو تو وہ خود تقدیر الٰہی بن جاتا ہے۔ مشیت الٰہی یہی ہے کہ انسان بھی خلاق قدرت کی طرح دوسرے درجے پر خالق بننے کی کوشش کرے۔ اقبال نے کہا کہ ہر طرح سے خودی کو استوار کرنے کی کوشش کرو۔ کہیں جلال سے کہیں جمال سے، جدوجہد سے، تسخیر نفس سے، تسخیر فطرت سے۔ خیر و شر کا معیار یہی ہے جو طرز نگاہا ور طریق عمل انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں میں اضافہ کرے وہ خیر ہے، جو ان کو کمزور کرے وہ شر ہے۔ اقبال کو عجمی شاعری، صوفیانہ شاعری اور مسلمانوں کی عام شاعری میں زیادہ تر انفعال ہی نظر آیا اور انفعال کی نسبت اقبال غالب کا ہم نوا تھا جو کہہ گیا تھا کہ انفعال سے زبونی ہمت پیدا ہوتی ہے اور زمانے سے عبرت حاصل کر کے زندگی کے متعلق قنوطی نظر پیدا کر لینا نفس کو کمزور کر دیتا ہے: ہنگامہ زبونی ہمت ہے انفعال حاصل نہ کیجئے دہر سے عبرت ہی کیوں نہ ہو (غالب) اسلامی روحانیت کی حیات افزا تعلیم یہ تھی کہ آرزوؤں کو فنا نہ کرو بلکہ ان کا مقصود بدل دو، دنیا کو ترک نہ کرو بلکہ دنیا کو دین بناؤ۔ مگر رفتہ رفتہ روحانیت نفس کشی کا نام ہو گیا۔ اسلام نے محنت مزدوری سے رزق حاصل کرنے والے کو محض رسمی عبادت گزار سے افضل قرار دیا تھا اور ’’ الکاسب حبیب اللہ‘‘ کہہ کر محنت کشوں کی ہمت افزائی کی تھی مگر اب اہل ظاہر کے لیے دین ظواہر کی پابندی اور اہل باطن کے لیے دین محض روحانی مشقوں اور اذکار کا نام رہ گیا تھا۔ اقبال نے جب اس نظریہ حیات کے خلاف جہاد کیا تو صوفی بھی اس کے خلاف ہو گئے اور ملا بھی اور دوسری طرف، مادہ پرستوں نے بھی اس کو رجعت پسند سمجھا۔ کسی صاحب کے ایک مضمون کا اقتباس مولانا عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب اقبال کامل میں نظام اخلاق کے باب میں دیا ہے جو کسی کوتاہ فہم نقاد کی تنقید ہے جسے ہم یہاں نقل کرتے ہیں: ’’ صوفی کہتے ہیں کہ چیونٹی بنو تاکہ لوگ تمہیں پاؤں کے نیچے روند کر زندان ہست و بود سے نجات دلوائیں۔ بھڑ نہ بنو کیوں کہ اگر بھڑ بنو گے تو خواہ مخواہ کسی کو ڈنگ مارو گے اور وہ بے چارہ درد سے چیخنے چلانے لگے گا اور ممکن ہے کہ تم قہر الٰہی کا مستوجب بن جاؤ۔ بھیڑ بنو تاکہ تمہارے بالوں سے لوگ گرم کپڑے بنائیں اور تمہارے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں۔ بھیڑیا نہ بنو کہ ناچار کئی جانوروں کو ہلاک کرو گے اور ان کی بد دعائیں لو گے۔ مچھلی بنو تاکہ لوگ تمہیں کھائیں نہنگ نہ بنو جو مچھلیوں کی ہلاکت کے درپے ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اس کے برعکس علامہ اقبال کہتے ہیں کہ چیونٹی نہ بنو ورنہ لوگ تجھے رونڈ ڈالیں گے۔ بھڑ بنو اور جو سامنے آئے اسے ڈنک مارو۔ بھیڑ نہ بنو بھیڑیا بنو۔ شبنم کا قطرہ نہ بنو، شیر کا چیتا بنو، سانپ بنو، اژدہا بنو، عقاب بنو، شہباز بنو ، اگر جمادی زندگی پسند ہو تو پتھر بنو تاکہ کسی کا سر توڑ سکو۔ حواین جامے میں رہنا چاہتو تو کسی قسم کا درندہ بنو۔ سست عناصر صوفیوں کی باتیں نہ سنو۔ وہ اپنی جان کے بھی دشمن ہیں اور تمہاری جان کے بھی۔ اس اقتباس کو پڑھ کر ’’ یھدی بہ کثیر و یضل بہ کثیرا‘‘ کی آیت یاد آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی غلط فہمی کم فہم نقادوں کے ذہن میں کیوں پیدا ہوئی؟اس کی وجہ یہ ہے کہ قوت اندوزی کی تعلیم پر اقبال نے بہت زور دیا ہے۔ زندگی بقاے قوت اور ارتقائے قوت کا نام ہے۔ قوت کی بقا کے لیے مزاحم قوتوں پر غالب آنا لازمی ہے۔ زندگی ہر جگہ خیر و شر کی پیکار ہے یا ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت میں جانے کی کوشش ہے۔ زندگی نہ فکر محض کا نام ہے اور نہ لطیف تاثرات سے لطف اندوزی مقصود حیات ہے اور نہ ہی خدا کے ساتھ لو لگا کر گوشہ نشین ہونے سے نفس انسانی کا ارتقاء ہو سکتا ہے۔ مذہب، تہذیب، تمدن سب مسلسل پیکار کی بدولت پیدا ہوئے ہیں۔ اضداد کا تضاد رفع کر کے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش زندگی کی قوتوں میں نشوونما پیدا کرتی ہے۔ اقبال توسیع مملکت، نفع اندوزی یا غارت گری کے جذبے سے جنگ کرنے کا شدید مخالف ہے۔ وہ نوع انسان کی وحدت کا طالب ہے اور کہتا ہے یہ وحدت محبت کی جہانگیری اور اخوت کی وسعت سے پیدا ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی اقتصادی جنگوں، جوع الارض کی جنگوں اور ضعیف اقوام کو مغلوب کرنے کی جگنوں کے خلاف اقبال نے جا بجا نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اسلام صلح جوئی کا نام ہے مگر صلح جوئی شدید مجاہدانہ جدوجہد کی طالب ہے۔ ایک خط کے جواب میں اقبال نے اپنا نظریہ جنگ بہت صفائی سے واضح کیا ہے (اقبال نامہ صفحہ ۲۰۳) اس کو پڑھنے کے بعد کوئی شخص اقبال کو مسولینی اور ہٹلر کا ہم نوا نہیں سمجھ سکتا۔ معترض کا یہ کہنا کہ اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے غلط ہے۔ ’’ میں جنگ کا حامی نہیں ہوں او رنہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے جنگ کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جنگ یا جہاد سیفی کی صرف دو صورتیں ہیں، محافظانہ اور مصلحانہ پہلی صورت میں یعنی اس وقت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے، مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) اور دوسری صورت جس میں قتال کا حکم ہے آیات ۴۹:۹ میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کو غور سے پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں اجتماعی سلامتی کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوا میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا (جسے اسلام نے جائز سمجھا ہو) جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دین کی اشاعت کے لیے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔ جنگ ایک ناخوش آئند، زندگی کی مجبوری ہے۔ تشدد کے بغیر تو کوئی جنگ نہیں ہو سکتی، لیکن اسلام نے ایسی صورتوں میں بھی تاکید کی ہے کہ عدل اور رحم کو فراموش نہ کرو۔ جنگ اسلام کے نزدیک امراض اقوام کے لیے ایک عمل جراحی ہے، الم آفرینی اس کا مقصود نہیں۔ قرآن جہاد کی تعلیم کے ساتھ ساتھ نرمی کی تلقین کرتا ہے۔ کسی قوم کے خلاف جنگ کرتے ہوئے بھی محاربین کے سوا اور کسی پر تلوار نہ اٹھاؤ، بوڑھوں بچوں اور عورتوں کو کوئی ضرر نہ پہنچے، مذہبی پیشواؤں کو کچھ نہ کہو، دیگر مذاہب کے معبدوں کو محفوظ رکھو، دشمن کی فصلوں کو مت جلاؤ ایسا نہ ہو کہ صلح کے بعد خلق خدا بھوکی مرنے لگے۔‘‘ عصر حاضر میں مسلمانوں میں ہر قسم کی جدوجہت غائب ہو گئی تھی۔ امیر ہو یا غریب کوئی حال مست، کوئی قال مست، کوئی مال مست، اور کثیر گروہ مصائب کا مقابلہ کرنے کی بجائے آفات ارضی و سماوی اور دستبرد حکام ظلام کو مشیت الٰہی سمجھ کر صابر یا آسودہ رسوائی۔ ایسی حالت میں سلبی اور انفعالی اخلاق کی بجائے ایجابی اور فعالی اخلاق کی ضرورت تھی۔ اقبال نے اس ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور بڑے زور و شور سے ایجابی نفسیات و اخلاقیات کی تلقین کی۔ اخلاق کا انفعالی پہلو اگر خاص حدود کے اندر رہے اور حیات فعال کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھے تو اس سے بھی زندگی میں خصائل محمودہ پیدا ہوتے ہیں۔ توکل، قناعت، تواضع، خاکساری، عفو و در گذر، تسلیم و رضا، حلم، بردباری یہ بھی اخلاقی زندگی کے لیے لازمی اور پاکیزہ عناصر ہیں۔ لیکن افراد اور اقوام کی خاص حالتوں میں ان کے مقابلے میں ایجادبی اخلاقیات کی تلقین ضروری ہو جاتی ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے کہ تواضح اچھی چیز ہے مگر عاجزوں کے مقابلے میں گردن کشوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے: تواضع ز گردن فرازان نکوست گدا گر تواضع کند خوے اوست چپ چاپ ظلم سہنے والا ہی ظالم کو ظالم بناتا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی مظلوم بننے پر تیار نہ ہو تو ظالموں کا وجود بھی نہ رہے۔ ہماری قوم میں لوگ اپنے مظلوم ہونے اور بدطینت امرا یا حکام کے ظالم ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ عام شکایت لوگوں کو ظالموں کے خلاف جہاد کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ یہ خودی کے ضعف کا نتیجہ ہے اگر مظلوموں کی خودی بیدار اور آمادہ بہ ایثار ہو جائے توچشم زدن میں ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اقبال مغلوب و مظلوم و مفتوح و مایوس کو خود داری کا پیغام دیتا ہے جو افراد کے اخلاقی ضعف اور تمام امراض ملی کا علاج ہے۔ ایسی حالت میں مسکینی کی تلقین مرض میں اور اضافہ کر دے گی۔ اقبال مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کی تسخیر سے اسباب حیات میں فراوانی پیدا کرو۔ حدیث شریف میں ہے کہ منعم محتاج سے افضل ہے اور اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والا لینے والے کے ہاتھ سے اشرف ہے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے لیے او راپنی امت کے لیے محتاجی سے پناہ مانگی ہے اور فرمایا ہے کہ محتاجی انسان کو کفر سے بہت زیادہ قریب لے آتی ہے۔ قرآن پوچھتا ہے کہ خدا کی نعمتوں اور آرائشوں کو نے حرام کیا ہے۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ زمین کے نہاں خانوں میں سے رزق نکالنے کی کوشش کرو۔ اہل فرنگ کی یہ ہمت کی تو اس کی بدولت وہاں ہماری طرح کے بھوکے اور ننگے ناپید ہو گئے۔ بہت سی بیماریاں ناپید ہو گئیں۔ ہمارے ہاں کے سست عناصر مذہبی پیشوا اس کو محض مادی ترقی کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو روحانیت اور نجات کا اجارہ دار سمجھتے ہیں۔ خدا نے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو سنوارنے کی تلقین کی کیوں کہ انسان آخر اس دنیا میں رہتا ہے۔ ایک مادی جسم رکھتا ہے اور مادی ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان خالی روح کا نام نہیں جو جسم اور عالم سے بے تعلق ہو کر بھی تزکیہ اور قوت پیدا کر سکے۔ مسلمانوں میں غیر اسلامی راہبانہ تصوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ جدوجہد غائب ہو کر خالی انفعال رہ گیا اور اس عقیدے کی تعلیم دل نشین بن گئی کہ احتیاج دولتمندی سے اور بھوک پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ بھوکے سے نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ خدمت خلق: خداوند روزی بحق مشتغل پرا گندہ روزی پرا گندہ دل ٭٭٭ شب چو عقد نماز بر بندم چہ خورد بدامداد فرزندم (سعدی) خدا نے مومن کی معراج ’’ لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون‘‘ بتائی تھی کہ مومن اپنے کمال میں خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے، لیکن ہمارے ہا ں غم کی مدح سرائی سے تمام شاعری بھر گئی اور اردو شاعری کے کمال میں مرثیہ پیدا ہوا۔ اکثر شاعروں کا تغزل بھی اپنی اپنی زندگی کا مرثیہ ہی ہے۔ غم روزگار نہیں تو غم عشق ہی سہی۔ تمام زندگی غم کدہ بن گئی۔ ایسے ماتم کدوں میں خودی کا کیا احساس باقی رہ سکتا ہے؟ ہماری شاعری میںاقبال سے قبل زیادہ تر یا غم ہے یا غلامی، خواہ امراء کی غلامی ہو اور خواہ ہوس کی غلامی۔ اور عشق ہیں کہ ’’ آوارہ و مجنونے رسوا سر بازارے‘‘ ہونا قابل فخر سمجھ رہے ہیں۔ کوئی مصلح جو احیاے ملت کا خواہاں ہو اس کے لیے لازم ہو گیا کہ اس تمام حیات کش میلان کے خلاف شدید رد عمل پیدا کرے۔ اسی رد عمل نے اقبال کو خودی کا مبلغ بنا دیا۔ اس کی خودی میں نہ تکبر ہے اور نہ نخوت اور نہ ہی وہ محبت کے منافی ہے۔ اقبال کے ہاں خودی زندگی کا سرچشمہ ہے اور اس کی ماہیت وہ عشق ہے جو انسان کو رسوا نہیں کرتا بلکہ خود دار بناتا ہے اور اپنے نور و نار سے تمام زندگی کو حرارت اور فروغ بخشتا ہے۔ اقبال زندگی کی ہمہ سمتی جدوجہد کے لیے قوت کا طالب ہے مگر اس جدوجہد کا مقصود عشق کی فراوانی ہے۔ عجمی شاعری کا اثر اردو شاعری پر پڑا تو اس میں بھی وہی غلامانہ اور قنوطی تصورات پیدا ہو گئے، اسی لیے اقبال اس سے گریز کی تلقین کرتا ہے: تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے مولانا شبلی نے شعر العجم کی چوتھی جلد میں لکھا ہے:’’ عرب میں قوم کی باگ شعراء کے ہاتھ میں تھی وہ قوم کو جدھر چاہتے تھے جھونک دیتے تھے، جدھر سے چاہتے تھے روک لیتے تھے۔ افسوس ہے کہ ایران نے کبھی یہ خواب نہیں دیکھا۔ یہاں شعراء ابتدا سے غلامی میں پلے اور ہمیشہ غلام رہے۔ وہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے پیدا ہوئے تھے۔‘‘ اقبال نے فارسی اور اردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس سے وہی کام لیا جو عربی شاعر لیا کرتے تھے۔ اسی لیے وہ کہتا ہے کہ نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری۔ ایک دوسرا اعتراض اقبال پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کا پیغام تمام بنی نوع انسان کے لیے نہیں بلکہ محض ملت اسلامیہ تک محدود ہے۔ کہ وہ مغربی قومیت پر معترض ہے لیکن خود بھی ملت پرست ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسلامی قومیت کوجغرافیائی، لسانی اور نسلی حدود و قیود میں مقید کرنا نہیں چاہتا۔ وہ دوسروں کو برطرف کر کے فقط اپنی قوم کو ابھارنا چاہتا ہے۔ بعض ہندوؤں اور بعض فرنگیوں نے اس پر یہی اعتراض کیا، لیکن یہ اعتراض بھی کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔ اقبال تو خیر ایک مفکر اور صاحب بصیرت شاعر ہی ہے، اگر کوئی نبی بھی ہو تو اس کی براہ راست اور اولین مخاطب اس کی اپنی قوم ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی قوم کی اصلاح کو فرض اولین اس لیے قرار دیتا ہے کہ اس قسم سے اس کا گہرا نفسی رابطہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے مزاج کو خوب سمجھتا ہے، اس کے جذبات سے آشنا ہوتا ہے، اس کے امراض کا داخلی علم رکھتا ہے۔ اس لیے ان کی حکیمانہ تشخیص کر کے ان کا محبوب علاج تجویز کر سکتا ہے۔ وہ ایک گروہ کو صالح بنا کر تمام انسانوں کے لیے اس کو نمونہ بنانے میں کوشاں ہوتا ہے۔ جو مصلح مسلمانوں کی جماعت میں پیدا ہوا ہے۔ اس کا فطری وظیفہ یہی ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ مسلمانوں کی زندگی کو صالح بنانے کی کوشش کرے۔ ’’ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘ فقط کہنے کی بات ہے ورنہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ان افراد سے انسان کو جتنا قرب ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہر مصلح کی مخاطب پہلے اس کی اپنی قوم ہوتی ہے لیکن اس کی اصلاح میں عالمگیر عناصر ہوتے ہیں جو زمان و مکان اور حدود ملل سے ماوریٰ ہوتے ہیں۔ سقراط کو اخلاقی حکمت کا نبی کہتے ہیں مگر وہ ایشیا کا شہری تھا اس لیے تمام عمر اپنے شہر والوں کی عقلی اور اخلاقی اصلاح میں کوشاں رہا لیکن اصلاح کے جو اصول بیان کرتا تھا وہ انسان کی عام نفسیات پر حاوی تھے، اسی لیے آج تک فلسفہ اخلاق میں تمام دنیا اس کو امام سمجھتی ہے۔ وہ ایشیا سے باہر جانا نہ چاہتا تھا۔ جب خود غرض اقتدار پسندوں نے عوام کو بھڑکا کر اس کے لیے موت کا فتویٰ صدر کیا تو اس کے معتقدوں نے اس کو زندان سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم نے انتظام کر لیا ہے کہ تم بے روک ٹوک کسی اور شہر میں جا سکو گے۔ اس نے فرار سے انکار کر دیا کہ میرا مشن اپنے شہر والوں سے وابستہ تھا میں غیر اقوام میں رہ کر کیا کروں گا؟ یہی حال اقبال کی تعلیم کا ہے وہ توحید اور عشق اور خودی کی تعلیم اپنی قوم کو دیتا ہے اور اسے اپنے دین کی فراموش شدہ حقیقت یاد دلاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ قوم اصلاح یافتہ ہو کر تمام نوع انسان کو توحید اور عالمگیر اخوت کا سبق دے۔ وہ اپنی قوم کو دوسری اقوام کے خلاف ابھرتا نہیں، نہ ہی دوسروں سے نفرت برتنے کو کہتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک نظریہ حیات کا مبلغ ہے۔ جو قوم اس پر جتنی کاربند ہے اتنا ہی وہ اسے اسلام سے قریب سمجھتا ہے۔ ایسے شخص کو کسی تنگ معنوں میں ملت پرست نہیں کہہ سکتے۔ جس ملت کے وہ راگ الاپتا ہے، وہ اس کو اس وقت تو کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ نوع انسان کے لیے ایک نصبا لعین پیش کرتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ آئندہ وہ اس کو اپنا لائحہ عمل بنا کر دنیا کے سامنے انسانیت کا اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ اخوت و محبت کو عالمگیر بنا دیں۔ محض اسلام کے نام لیواؤں کی ملت اس کے نزدیک وہ نصب العینی ملت نہیں۔ اسلام ایک زاویہ نگاہ ہے جس میں بھی وہ پیدا ہو جائے وہ مسلم ہے۔ ملتوں میں تفریق محض نظریہ حیات سے پیدا ہو سکتی ہے باقی تمام تفریقیں یوں ہی تفرقہ ہیں۔ تیسرا اعتراض اقبال کے کلام پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کے اندر ہم آہنگی نہیں۔ زندگی کے اہم مسائل میں دو یا اس سے زیادہ باہم متخالف پہلوؤں میں سے ہر پہلو کی حمایت میں اقبال کے کلام کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کا اعتراض ہر بڑے مفکر کی نسبت ہو سکتا ہے۔ جس کے نظریات حیات میں مزید غور و فکر یا نئے حالات نے وقتاً فوقتاً تبدیلی پیدا کی ہو۔ وطن پرستی پر ولولہ انگیز نظمیں اقبال کے ابتدائی کلام میں موجود ہیں۔ لیکن وسعت فکر اور ترقی عرفان نے بعد میں اقبال کو اس کا شدید مخالف بنا دیا۔ یہ تو کوئی خوبی کی بات نہیں کہ انسان کے افکار میں تغیر اور ترقی دکھائی نہ دے۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اقبال نبی نہیں ہے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر ہے اور شاعر کی طبیعت میں جس وقت جو تاثر پیدا ہوتا ہے وہ اس کو موثر انداز میں پیش کر دیتا ہے، لیکن تاثرات میں ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ انسان پر کبھی غم طاری ہوتا ہے اور کبھی مسرت موجزن ہوتی ہے۔ کبھی یاس کا اندھیرا ہوتا ہے اور کبھی آس کی روشنی۔ ایک بلند پایہ شاعر یا وسیع النظر مفکر میں یہ امتیازی خصوصیت پائی جاتی ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو اس سے اوجھل نہیں ہوتا۔ اقبال نے جن اہم مسائل حیات کو اپنا موضوع سخن بنایا کم نظر لوگ ان کے متعلق تعصب اور طرف داری سے کام لیتے ہیں۔ یہ جاہلوں کا شیوہ ہے کہ ان کے رد و قبول میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہوتا۔ اقبال سے یہ توقع کرنا بے جا ہے کہ وہ کسی ایک مشرب کی موافقت اور دوسرے مشرب کی مخالفت میں ایسا غلو کرے کہ ایک طرف سفیدی ہی سفیدی نظر آئے اور دوسری طرف سیاہی ہی سیاہی۔ اقبال وطن سے محبت رکھتا ہے جو ایک فطری چیز ہے لیکن وطن پرستی کا مخالف ہے۔ وہ عشق کا ثنا خواں ہے لیکن عقل کا دشمن نہیں۔ وہ اسلام اک راسخ العقیدہ معتقد ہے لیکن ملت اسلامیہ سے باہر خدا کے موحد اور نیک بندوں کو کافر نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت اسلامیہ کے اساسی حقائق کو حقائق ازلی سمجھتا ہے لیکن فقط ظواہر کی پابندی کو اسلام نہیں سمجھتا۔ وہ شریعت کا حامی ہے لیکن اس کے نزدیک اکثر مدعیان حمایت شریعت روح دین سے بیگانہ ہیں۔ وہ ایک نصب العینی جمہوریت کا حامی ہے لیکن اس کی موجودہ صورتوں کو ابلہ فریبی تصور کرتا ہے۔ وہ اشتراکیت کے بہت سے کارناموں کا مداح ہے لیکن اس کے ساتھ جو الحاد اور مادیت وابستہ ہے، اس کا شدید مخالف ہے وہ کورانہ تقلید کو خود کشی کے مرادف خیال کرتا ہے اور بڑی شدت سے تحقیق کی تلقین کرتا ہے لیکن قوم کی موجودہ حالت میں اس کو اچھے اجتہاد کی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی تو مشورہ دیتا ہے کہ ایسی حالت میں بے بصر مجتہدوں کے اجتہاد سے یہی بہتر ہے کہ مسلمان ائمہ قدیم ہی کی تقلید کریں۔ وہ صلح جو انسان ہے لیکن پست بینی اور رسوائی میں آسودہ رہنے کا قائل نہیں۔ وہ رزم میں گرمی اور بزم میں نرمی دونوں کی تلقین کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے ارتقاء کے لیے خلوت و جلوت دونوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ کبھی تنہائی سے لطف اٹھاتا ہے اور کبھی انجمن آرائی سے وہ خودی اور بے خودی دونوں کا مبلغ ہے وہ ان کے ظاہری تضاد کو رفع کر کے ان میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن جب وہ ایک پہلو کو نمایاں کرنا چاہتا ہے تو دوسرا پہلو اس وقت پس پشت اور نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ اقبال جیسے وسیع النظر، وسیع التجربہ اور زندگی کے تمام پہلوؤں کو دیکھنے اور ان کا حق ادا کرنے والے شاعر کے کلام کا بھی وہی حال ہے جو مذہبی صحیفوں کا ہے ایک ہی مذہبی صحیفے میں سے فرقہ ساز اور تفرقہ انداز ہفتاد و دو ملت پیدا کر لیتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ کسی ایک جزو کو لے کر کل بنا دیتے ہیں اور اس کو دوسرے اجزاء کے ساتھ ملا کر کوئی متوازن رائے قائم نہیں کرتے۔ انگریزی زبان میں ایک مقولہ ہے کہ شیطان بھی اپنی حمایت میں مذہبی صحیفے کی کچھ آیات پیش کر سکتا ہے۔ زندگی میں جبر و اختیار دونوں موجود ہیں لیکن فقط ایک طرف دیکھنے والے یا جبری ہو جاتے ہیں یا قدری اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ’’ الایمان بین الجبر والاختیار‘‘ اگر اقبال کے کلام کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے اور ایک حصے کو دوسرے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو بظاہر نظر آنے والا تضاد رفع ہو جائے۔ یہ اقبال کے کلام اور اس کے انداز فکر کی خوبی اور وسعت ہے کہ اس میں یک طرفگی نہیں۔ انسانی زندگی کے خواہ وہ انفرادی ہو اور خواہ اجتماعی، کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اقبال نے خود اپنی بابت کہا ہے کہ میں ایک ترشا ہوا ہیرا ہوں جس کے مختلف پہلوؤں میں شعائیں مختلف انداز سے منعکس ہوتی ہیں۔ ایک روز علامہ مجھ سے فرمانے لگے کہ ذہنی لحاظ سے ایک شخص پر اس وقت موت طاری ہوتی ہے جب نئے افکار کو قبول کرنے کی صلاحیت اس میں نہ رہے۔ آج کل اکثر تحریروں اور تقریروں میں اقبال کے کلام کے حوالے نظر آتے ہیں لیکن کہنے والا اپنی حمایت میں کچھ اشعار چن لیتا ہے اور اقبال کو اپنا ہم نوا بنا لیتا ہے: متفق گردید راے بو علی با راے من اقبال میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے وہ یا ارتقائے فکر کا نتیجہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف عبور کر گیا ہے، جس طرح انسان طفولیت سے شباب اور شباب سے شیب کی جانب بڑھتا ہے۔ علامہ خود فرماتے ہیں کہ میں تشکیک اور تفلسف کی ظلمات میں سے ہوتا ہوا ایمان و یقین کے آب حیات تک پہنچا ہوں۔ اسے تضاد نہیں کہہ سکتے، یہ ارتقاء کوش زندگی ہے۔ اقبال نے زندگی کے کسی پہلو کو چھوڑا نہیں اس لیے ہر شخص کے لیے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی باتیں اس سے اخذ کر کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کردے۔ مثلاً تصوف کوئی ایک ہی چیز نہیں ہے۔ جس کی وہ بیک وقت موافقت بھی کر رہا ہو اور مخالفت بھی۔ حیات و کائنات میں گوناگوئی اور کثرت بھی ہے لیکن اس تنوع کی تہ میں وحدت بھ پائی جاتی ہے ۔ بظاہر مظاہر میں تضاد نظر آتا ہے لیکن علم و بصیرت کے مسلسل اضافے سے وحدت پنہاں کا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔ جس شخص کا کلام حیات و کائنات کے حقائق کا مظہر ہو اس کے سطحی اور سرسری مطالعے سے جا بجا تضاد بیانی کا شبہ پیدا ہو گا لیکن صحیح جائزہ لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی وسیع الفکر انسان کے افکار اور نظریات پر ایک ہمہ گیر نظر ڈالی جائے۔ جوں جوں اقبال کے افکار میں پختگی پیدا ہوتی گئی ویسے ویسے وحدت فکر نمایاں ہوتی گئی۔ کسی شاعر نے اپنے متعلق یہ دعویٰ کیا ہے: من نہ آنم کہ دو صد مصرع رنگین گویم مثل فرہاد یکے گویم و شیریں گویم لیکن اس سے بہتر دعویٰ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک قادر الکلام شاعر دو صد مصرع رنگین کہے لیکن اس تمام بو قلمونی میں وحدت فکر، وحدت نظر اور تاثر ناپید نہ ہو۔ اقبال کی متضاد بیانی پر جو اعتراض بعض سطحی مطالعہ کرنے والوں کو سوجھتا ہے اس کے بالکل برعکس ایک دوسرا گروہ اس پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ حضرت اقبال اپنی شاعری کے آخری اور تبلیغی دور میں فقط ایک ہی راگ الاپتے ہیں۔ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کا محور ان کا نظریہ خودی یا نظریہ عشق ہی ہوتا ہے جس کے ساتھ احیاء سے ملت کا جذبہ موجود رہتا ہے۔ اس خیال میں بہت کچھ حقیقت ہے لیکن بطور اعتراض ایسی تنقید وہی لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک شاعر کو علی الاطلاق ہمیشہ ایک فنکار ہی رہنا چاہیے جو آخر تک نہ کسی پختہ یقین اور زاویہ نگاہ تک پہنچے اور نہ اس کی تبلیغ کو اپنا فرض جانے۔ ہمارے نزدیک یہ ایک نامعقول تقاضا ہے۔ ٭٭٭ بیسواں باب خلاصہ افکار اقبال کے افکار میں اتنا تنوع اور اتنی ثروت ہے کہ اگر اس کے تفکر و تاثر کے ہر پہلو کی توضیح و تشریح اختصار سے بھی کی جائے تو ہزار ہا صفحات بھی اس کے لیے کافی نہیں۔ وہ مشرق و مغرب کے کم از کم سہ ہزار سالہ ارتقاے فکر کا وارث ہے۔ اقبال سے کئی صدیاں پیشتر، مسلمان حکما، صوفیائ، شعراء اور مفکرین نے انسان کے ماضی کی تمام دولت علم و ہنر کو سمیٹ کر اس کو کیمیائے اسلام سے اکسیر حیات بنا دیا تھا۔ اسلام ادیان عالیہ کی آخری ارتقائی شکل تھی۔ اسلام کے بعد مذاہب تو ابھرتے رہتے تھے اور ابھرتے رہیں گے لیکن اسلام کے بعد کوئی دین اپنی وسعت زمانی او رمکانی میں عالمگیر نہیں ہو سکا۔ تاریخ ادیان خود ختم نبوت کی سب سے قوی شہادت ہے۔ شانتی نکیتن میں ٹیگور کے کتب خانہ دار نے راقم الحروف سے کہا کہ اسلام کی توحید اور اخلاقیات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ختم نبوت کا عقیدۂ سمجھ میں نہیں آتا۔ نبوت کی ضرورت جیسے پہلے تھی ویسے اب بھی ہے اور ہمیشہ انسانوں کو خدا سیہدایت یافتہ انسانوں کی ہدایت کی ضرورت رہے گی۔ اس فیضان الٰہی کے کسی ایک انسان پر ایک زمانے میں ختم ہو جانے کے کیا معنی؟ میں نے اسے اپنے فہم کے مطابق کچھ سمجھانے کی کوشش کی؟ معلوم نہیں میرے دلائل اس کے لیے دل نشین ہوئے یا نہیں لیکن وہ خود ہی بول اٹھا کہ تاریخ نے تو اس عقیدے کو سچ ہی کر دکھایا ہے کیوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد نوع انسان پر اتنا اثر انداز نبی تو کہیں پیدا نہیں ہوا۔ اسلام نے جامع حقائق ہونے کے باوجود مسلمانوں کو تلقین کی کہ مسلسل مشاہدۂ فطرت کرتے رہو تاکہ تم پر انفس و آفاق کے لامتناہی حقائق بتدریج منکشف ہوتے رہیں۔ کلمات الٰہی جو اعیان مظاہر ہستی ہیں، از روے قرآن لامتناہی ہیں، ان کو لکھتے لکھتے تمام سمندروں کی روشنائی ختم ہو جائے پیشتر اس کے کہ ان کا شمار انجام کو پہنچے۔ مسلمانوں نے ترقی کے دور میں ’’ اطلب العلم و لو کان بالصین‘‘ پر عمل کرتے ہوئے او رہر قسم کے علم کو اپنا گم شدہ مال سمجھتے ہوئے، ہر قوم کے علوم و فنون کو سمیٹ لیا اور پھر اس ورثے میں گراں بہا اضافہ کیا لیکن تیرہویں صدی عیسوی کے قریب ان قوموں میں انحطاط آ گیا اور اس کے بعد وہ یا ساکن و جامد ہو گئیں اور یا گرتی چلی گئیں کیوں کہ زندگی کا عالم گیر قانون یہی ہے کہ اگر آگے نہ بڑھو تو ضرور پیچھے ہٹو گے رفعت کی طرف نہ اٹھو گے تو پستی میں گرو گے۔ یہ کہنا دشوار ہے کہ یہ زوال پذیری کا دور ابھی ختم ہوا یا نہیں، بہرحال بیداری کے کچھ آثار نمایاں ہیں۔ جب مسلمان بیدار تھے تو مغربی اقوام خفتہ تھیں۔ جب مسلمانوں پر خفتگی طاری ہوئی تو مغربی اقوام صدیوں کی نیند سے چونکیں اور تب سے اب تک مسلسل ترقی کی راہوں پر تیزی سے گامزن ہیں۔ بیداری کے آغاز میں بہت سا فیض ان اقوام نے مسلمانوں کے سرمایہ افکار سے حاصل کیا لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ کرتی چلی گئیں، بقول اکبر الٰہ آبادی:ـ رہی رات ایشیا غفلت میں سوتی نظر یورپ کی کام اپنا کیا کی دور انحطاط میں مسلمانوں کی تعلیم کا یہ حال ہو گیا کہ پرانے قیمتی سرمائے میں سے بھی فقط جامد چیزوں کا الٹ پھیر کرتے رہے۔ تفکر میں اجتہاد ختم ہو گیا اور فقہا نے کہنا شروع کر دیا کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے: دروازہ میکدے کا نہ کر بند محتسب ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے (ذوق) در توبہ تو باز رہا لیکن در اجتہاد بن ہو گیا۔ فکر و عمل سے تسخیر کائنات عبادت کا جزو نہ رہی۔ طبعی علوم ، فلسفہ، دینیات، سب ایک مقام پر پہنچ کر رک گئے۔ علم کلام کی فرسودہ اور دور از کار موشگافیاں در سیات کا جزو بن گئیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس میں سے حیات افزاء عناصر کو حیات کش عناصر سے الگ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مغربی علوم کا بھی ماہر تھا جس سے نہ ہمارے فقہا آشنا تھے اور نہ ہمارے شعراء کو ان کی ہوا لگی تھی۔ مغربی علوم اور تہذیب و تمدن کو بھی اس نے حکیمانہ اور مجددانہ نظر سے دیکھا۔ اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور مسلمانوں کو ان کے حصول کی تلقین کی لیکن اس تعمیر میں جو خرابی کی صورت مضمر تھی وہ بھی اس کی چشم بصیرت سے اوجھل نہ رہی۔ حکمت فرنگ میں جو مادہ پرستی اور محسوسات پرستی پیدا ہو گئی تھی، اس نے انسانی ترقی کو یک طرفہ کر کے انسانیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اقبال نے ان میلانات کا تجزیہ کیا اور اس کے مسموم عناصر سے گریز و پرہیز کا مشورہ دیا۔ تمام ملت اسلامیہ میں دور حاضر میں کوئی مفکر ایسا نہیں گزرا جو ماضی و حال اور شرق و غرب کے افکار کا جامع ہو ۔ اس جامعیت کے ساتھ وہ ایک تلمیذ الرحمن شاعر بھی تھا۔ اس تمام دولت کو اس نے اپنی شاعری میں بھر دیا۔ وہ خالی مرد حکیم ہوتا تو ملت کے نفوس میں اثر انداز نہ ہو سکتا۔ ایک باکمال شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے حکمت میں سوز دل کو سمو دیا اور عقل و عشق کی آمیزش نے اس کو عارف رومی کا مرید اور جانشین بنا دیا۔ کیونکہ جلال الدین رومی میں بھی یہی کمالات اور محاسن جمع ہو گئے تھے۔ مگر تفکر اور تاثر کی جو وسعت اور گہرائی اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے، وہ اس سے قبل کہیں نہیں ملتی: حق اگر سوزے ندارد حکمت است شعر می گردد چو سوز از دل گرفت بو علی اندر غبار ناقہ گم دست رومی پردۂ محمل گرفت معارف کے بیان میں اقبال جابجا اپنے مرشد سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ یہ ایک پڑھنے والے کا تاثر ہے اگرچہ اقبال خود اپنے تئیں رومی سے فیض یافتہ اور مرشد سے کسی قدر کم ہی سمجھتا تھا۔ اقبال جہاں آگے نکل گیا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ زمانہ بھی رومی کے بعد چھ سو برس آگے بڑھ چکا تھا۔ا س دوران میں زندگی نے نئے اطوار اور نئے مسائل پیدا کیے اور انسان اپنے فکر و عمل سے ان کے نئے نئے حل تلاش کرتا گیا۔ اقبال اگر کہیں رومی سے اونچا دکھائی دے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ رومی اس سے پہلے عقل و عشق کی بہت سی گتھیاں سلجھا چکا تھا۔ برناڈشا نے ایک مرتبہ کسی قدر تعلیٰ سے کہا کہ میں اپنے تئیں شیکسپیئر سے اونچا سمجھتا ہوں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے کندھوں پر سوار ہوں۔ اقبال نہ صرف رومی کے کندھوں پر سوار ہے بلکہ شرق و غرب کے تمام حکما و صوفیہ کے افکار پر قدم رکھ کر ان سے اونچا ہو گیا ہے۔ ایران کے ملک الشعراء بہار نے فراخ دلی سے اقبال کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی فکر و نظر کا ثمر ہے۔ لیکن مغربی حکماء کے بھی بہترین افکار سے اقبال نے فائدہ اٹھایا ہے۔ کہیں ان کا نام لیا ہے اور کہیں ان کے انداز تفکر کو اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ مگر وہ کسی کا مقلد اور خوشہ چین نہیں، اس نے جس کو بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جادۂ حقیقت سے ہٹا ہوا دکھائی دیا اس کی تردید کر دی۔ کتاب کو ختم کرتے ہوئے اس مختصر تلخیص میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ دیکھیں کہ یہ محقق و مفکر اور اہل دل مبصر آخر میں کس یقین و ایمان اور کس زاویہ نظر کو پہنچا اور سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی کا ثمرہ اس کو کیا ملا جس میں اس نے بقول خود زندگی کی راتیں بسر کیں۔ آئیے اقبال کے افکار و تاثرات کے بحر بے پایاں کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کریں۔ اقبال کے نظریہ حیات کا لب لباب ہمارے نزدیک مفصلہ ذیل ہے: ۱۔ تمام حیات و کائنات توحید کا مظہر ہے۔ اس کی ماہیت نہ مادی ہے اور نہ نفسی۔ اس کی کنہ حیات ابدی ہے۔ جو خلاق اور ارتقاء کوش ہے۔ مادہ اور نفس حیات کے مظاہر ہیں۔ ۲۔ حقیقت مطلقہ خدا ہے جو حی و قیوم اور ازلیٰ اور ابدی طور پر خلاق ہے۔ اس کی خلقت اور تجلی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ اضافہ نقص سے کمال کی طرف نہیں ہے بلکہ لامتناہی اور مسلسل خلاقی کمال ہی کمال ہے۔ تجلی میں تکرار نہیں اور خدا اپنی آفرینش میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ ۳۔ مادی عالم خود حیات سرمدی کی پیداوار ہے۔ مادی عالم کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ فقط ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ زندگی کا ایک مظہر ہے۔ وہ باطل نہیں بلکہ حق کا ایک پہلو ہے۔ ۴۔ زمان و مکان کی بھی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ یہ خاص مراحل میں زندگی کے اپنے پیدا کردہ زاویہ نگاہ ہیں اور اس عالم میں ادراک ان سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔ ۵۔ خدا فرد مطلق ہے اسے ایک مقصد کوش نفس تصور کر سکتے ہیں۔ اگرچہ فرد مطلق اور نفس مطلق کی ماہیت ادراک میں نہیں آ سکتی۔ خدا انائے مطلق ہے۔ ۶۔ تمام مخلوقات خدا کی ہستی مطلق میں سے سرزد ہوئی ہے لیکن خدا چونکہ خود ایک ’’ انا‘‘ ہے اس لیے وہ اناؤں ہی کا خالق ہے۔ تمام کائنات نفوس ہی پر مشتمل ہے جو مختلف مدارج ارتقاء میں ہیں۔ ۷۔ نفوس کے عالم میں انسانی نفس درجہ ارتقاء میں سب سے افضل ہیں۔ سب سے زیادہ انسان کی خودی خدا سے ہم آغوش ہے۔ ۸۔ قرآن میں آدم کا تصور اس حقیقت کا انکشاف ہے کہ حیات ابدی کے تمام ممکنات انسان میں مضمر ہیں۔ انسانی زندگی کا مقصد ان ممکنات کو مسلسل مرض وجود میں لانا ہے۔ ۹۔ تمام ارتقاء کا مدار آرزو اور جستجو پر ہے۔ آرزو کی شدت کا نام عشق ہے۔ ۱۰۔ خدا کی ذات اور انسان کی خودی نت نئے عوالم پیدا کرتی ہے۔ انسان اسی لحاظ سے خدا کا نائب یا خلیقہ ہے کہ اس کا وظیفہ حیات بھی عوالم کو پیدا کرنا اور ان کو مسخر کرنا ہے۔ ۱۱۔ تکمیل و ارتقائے حیات کے لیے عقل ایک اعلیٰ درجے کا وسیلہ ہے۔ عقل کا مقصود کلیت حیات کا احاطہ کرنا ہے مگر استدلالی عقل جزوی حقائق میں الجھ جاتی ہے اور جزو کو کل سمجھنے لگتی ہے۔ عقل جزوی محسوس پرست اور ہوس پرست ہو جاتی ہے لیکن عقل اگر اپنی پوری قوت و وسعت سے کام لے تو وہ بھی حقیقت رس ہو سکتی ہے۔ عقل اجزائے حیات کا تجزیہ کر کے ان کے روابط تلاش کرتی رہتی ہے اور جزئیات کو استقراء اور استخراج سے کلیات کے تحت لانے میں کوشاں رہتی ہے۔ ۱۲۔ عقل کے مقابلے میں انسان کے اندر براہ راست بھی ماہیت حیات کا وجدان ہے، جس میں نہ زمان و مکان کو دخل ہے اور نہ منطقی استدلال کو۔ اسی وجدان سے عشق پیدا ہوتا ہے جو عقل سے زیادہ منکشف ماہیت حیات ہے۔ زمان و مکان کی لامتناہی اس میں غرق ہے۔ اس کی وحدت اجزا سے مرکب نہیں۔ ایک دوسرے سے خارج اجسام و اجزاء مکانیت کے تصور کی پیداوار ہیں۔ ۱۳۔ عشق اور وجدان اگرچہ باطن حیات کے چشمے ہیں لیکن عقل کو برطرف کر کے وہ بھی تکمیل حیات کا باعث نہیں بن سکتے۔ زندگی کا تقاضا عقل اور عشق کی ہم آغوشی ہے۔ ۱۴۔ جسم اور نفس کی کوئی الگ الگ مستقل حیثیت نہیں۔ روح جسم کے اندر اس طرح نہیں جس طرح کہ کوئی طائر قفس عنصری میں بند ہو۔ جسم اور نفس دونوں حیات کے توام مظاہر ہیں۔ خودی کا مقام ان دونوں سے عمیق تر ہے۔ حیات ابدی کی ماہیت خودی کے اندر ہے۔ ۱۵۔ خدا کے سامنے ازل سے ابد تک کی حیات و کائنات کا کوئی تفصیلی نقطہ نہیں۔ حقیقت یہ نہیں ہے کہ سرمدیت میں تمام حوادث لوح محفوظ پر مثبت ہیں اور وہ مرور ایام میں یکے بعد دیگرے معرض شہود میں آتے ہیں۔ خدا کی خلاقی آزاد ہے وہ فعال لما یرید ہے۔ وہ پہلے سے بنے بنائے خاکوں کے مطابق عمل نہیں کرتا اگر ایسا ہوتا تو خدا آزاد نہ ہوتا بلکہ پابند ہوتا۔ ۱۶۔ مسلمانوں نے عام طور پر تقدیر کا مفہوم غلط سمجھا۔ خدا صاحب اختیار ہستی ہے۔ انسان جو حیات الٰہی کا بہترین مظہر ہے وہ بھی اختیار سے بہرہ اندوز ہے۔ اختیار کے بغیر زندگی ایک میکانکی چیز ہے۔ جبر کا تصور مادیت کی پیداوار ہے۔ انسان کے ممکنت کے آئندہ مظاہر انسان کی خودی کے ارتقاء میں سرزد ہوں گے، جب تک وہ وجود میں نہ آ جائیں تب تک نہ وہ انسان کے علم میں آ سکتے ہیں اور نہ خدا کے علم میں۔ ۱۷۔ حیات ابدی خود اپنے ارتقاء کے لیے مزاحم قوتیں پیدا کرتی ہے کیوں کہ رکاوٹوں پر غالب آنے اور عمل تسخیر ہی سے زندگی ترقی کر سکتی ہے۔ اس لحاظ سے ابلیس جو نفی و افکار کا ایک تمثیلی تصور ہے، تکمیل حیات کے لیے ایک لابدی حقیقت ہے۔ ترقی کا ہر قدم نفسی سے اثبات کی طرف اٹھتا ہے اور پھر آگے بڑھنے کے لیے اس بات کی نفی کرنا لازم ہوتا ہے۔ مسلسل فنا کے بغیر زندگی بقا کوش نہیں ہو سکتی۔ مقصود و منزل سے فراق ہی زندگی کا تازیانہ ہے قوت نفی کا ابلیس جسے اقبا خواجہ اہل فراق کہتا ہے، ارتقاے حیات کے لیے معاون ہے۔ لیکن اگر نفی و افکار کا پہلو غائب ہو جائے تو زندگی جامد ہو کر رہ جائے۔ ۱۸۔ سکونی جنت جس میں عشرت دوام ہو اور جس میں تمام جستجو و آرزو ختم ہو جائے، مقصود حیات نہیں ہو سکتی۔ عروج کوش زندگی کو بادہ و جام اور حور و خیام سے گزر جانا چاہیے: مزی اندر جہان کور ذوقے کہ یزداں وارد و شیطان ندارد ٭٭٭ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے اس مرحلہ شوق میں جستجو اور آرزو اور نفی و افکار کے بغیر کوئی تگ و دو نہیں ہو سکتی۔ فقط دنیا ہی دار العمل نہیں، بلکہ آخرت بھی دار العمل ہے۔ زندگی اور عمل ایک ہی چیز ہیں۔ زندگی کا مقصود ہر درجہ حیات سے آگے گزرتے رہنا ہے۔ ۱۹۔فرد کی خودی کے علاوہ ملت کی بھی ایک خودی ہے۔ فرد کی خودی رہبانی تنہائی میں محض خدائے واحد کی طرف رجوع کر کے ترقی نہیں کر سکتی، اس لیے اسلام نے رہبانیت کو ممنوع قرار دیا۔ ۲۰۔ خدا اسلام کی تلقین سے ایک نصب العینی ملت کو وجود میں لانا چاہتا ہے جو مذکورہ صدر حقائق حیات سے آشنا ہو کر تمام نوع انسان کے لیے نمونہ بن سکے۔ ۲۱۔ اس ملت کی امتیازی خصوصیت یہ ہو گی کہ وہ رموز توحید کی عارف ہو کر زندگی کی کثرت کو وحدت میں منسلک کرے گی۔ ۲۲۔ تمام نوع انسان از روے قرآن ایک نفس واحدہ کے شجر کی شاخوں پر مشتمل ہے۔ انسانوں نے جغرافیائی، نسلی، لسانی اور قبائلی قومیتوں کو معبود بنا کر نوع انسان کی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، اس کی وجہ سے اخوت و محبت عالم گیر نہیں بن سکی۔ اس وحدت آفرینی کی واضح تعلیم اسلام میں ملتی ہے جس کو معروض وجود میں لانے کی ایک جھلک طلوع اسلام کے زمانے میں ملتی ہے۔ رفتہ رفتہ مسلمان خود اس حقیقت سے غافل ہو گئے، قوموں اور فرقوں میں بٹ گئے اور فرنگ کی تقلید میں نسلی اور لسانی قومیتوں کے شعائر اختیار کرنے لگے۔ ۲۳۔ مومنوں کی جو ملت خدا کا مقصود تھی وہ اس وقت نظر نہیں آتی لیکن اگر اسلام کی تعلیم صفحہ ہستی سے مٹ نہ جائے تو اسی تعلیم کی بدولت ایک نصب العینی ملت وجود میں آ سکتی ہے۔ خدا خود اسلام کا کفیل و محافظ ہے اس لیے اس گری ہوئی ملت اسلامیہ پر موجودہ حالت کی وجہ سے مایوسی طاری نہیں ہونی چاہیے۔ تمام اقوام کے صالح مفکرین اور مفسرین کا رخ اس وقت انہیں حقائق کی طرف پھر رہا ہے جو تعلیم اسلامی کا اہم جزو تھے۔ ۲۴۔ اس وقت مسلمانوں کو خالص قرآنی اسلام اور سنت نبویؐ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی تہذیب و تمدن کی کورانہ تقلید اور کسی انداز فکر و عمل کی نقل سے وہ دوبارہ زندگی حاصل نہیں کر سکتے۔ روحانیت کے لحاظ سے مشرق بھی مردہ اور مغرب بھی مردہ۔ اس وقت امت وسطیٰ اور ملت بیضا نہ شرق کی جامد زندگی کی تقلید سے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ فرنگ کی نقالی سے: بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ابن ہمہ دیرینہ و نو ۲۵۔ اقبال اسلامی شریعت کی اساسی چیزوں کو لازوال حقائق سمجھتا ہے جو ہر دور میں تمام انسانوں کے لیے سرچشمہ حیات بن سکتی ہیں۔ لیکن اس کے نزدیک فقہ کا تمام دفتر نظر ثانی کا محتاج ہے، زندگی کے سانچے بہت بدل گئے ہیں، فقہی مسائل میں سے بعض مسائل اب بھی دیگر اقوام کی شریعتوں اور قوانین سے افضل ہیں، لیکن ایک حصہ ایسا بھی ہے جسے کچھ بدلتی ہوئی زندگی نے منسوخ کر دیا ہے۔ تشکیل فقہ جدید کا کام بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے ایسے مجتہدوں کی ضرورت ہے جو اسلامی شریعت کی روح سے بخوبی آشنا ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ تہذیب و تمدن، سیاست و معاشرت سے بھی اچھی طرح واقف ہوں۔ افسوس ہے کہ اس کام کے اہل لوگ کہیں نظر نہیں آتے۔ ۲۶۔ فقہ کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد اور نظریات حیات کو بھی قدیم فلسفے اور علم الکلام کے انداز میں پیش کرنا کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ زمانے کا عقلی مزاج بدل گیا ہے ۔ فرنگ کے طبعی علوم اور فلسفے نے مسائل کا رخ بدل دیا ہے۔ خود اہل مغرب میں بعض مفکرین میں گہری بصیرت پیدا ہو گئی ہے۔ جس سے مسلمان بھی استدلال میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مغرب کی ہر چیز سے گریز کرنے کی ضرورت نہیں کیوں کہ خود اس کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی افکار کے محرکات موجود تھے۔ تجربی سائنس کی ابتداء مسلمانوں نے کی اور جس عادلانہ معیشت کے لیے مغرب میں جمہور جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے بہت سے عناصر اسلامی ہیں۔ کورانہ تقلید فرنگ تو یقینا نفع سے زیادہ نقصان رساں ہو گی لیکن علم کے معاملے میں مسلمان کا رویہ ’’ خذ ما صفا ودع ماکدر‘‘ ہونا چاہیے۔ خود فرنگ کی زندگی میں اسلامی محرکات بھی موجود ہیں۔ ۲۷۔ محض نقالی سے فرد اور ملت دونوں کی زندگی بے روح ہو جاتی ہے۔ اسلام کا ایک مخصوص اور جامع نظریہ حیات ہے۔ وہی مومن کی خودی اور خود داری کو استوار کر سکتا ہے، آج تک کوئی بلند پایہ ملت محض نقالی کی بدولت پیدا نہیں ہوئی۔ ملت اسلامی کا احیاء اسی سے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی خودی میں غوطہ زن ہو اور زندگی کو دوسروں کی نگاہ سے نہ پرکھے۔ اس وقت اسلامی ملتیں نقل فرنگ پر آمادہ معلوم ہوتی ہیں اور اسی کو ترقی سمجھتی ہیں لیکن: نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی ٭٭٭ سخنے چند استاد مکرم جناب ڈاکٹر وحید قریشی مدظلہ العالی کی خواہش تھی کہ مرحوم ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم وقیع کتاب فکر اقبال کی اشاعت نو کے ساتھ حواشی و تعلیقات کا بھی اضافہ کر دیا جائے تو کتاب کی اہمیت دو چند ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں قرعہ فال خاکسار کے نام پڑا۔ بلاشبہ یہ استاد مکرم کی محبت و شفقت اور میری خوش بختی ہے کہ انہوں نے مجھے اس لائق جانا۔ راقم نے طالبعلمی کے زمانے میں فکر اقبال کا مطالعہ کیا تھا۔ اب مذکورہ کام کے لیے دوبارہ اس کا مطالعہ کرنا پڑا تو کتاب میں بعض ایسی باتیں نظر آئیں جن کی طرف توجہ، اس کی صحت کے ساتھ طباعت و اشاعت کے لیے از بس ضروری تھی۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کتاب میں طباعت کی بعض فاحش غلطیاں رہ گئی تھیں، کہیں کہیں جملے بے ربط تھے، ظاہر ہے یہ بھی طباعت ہی کا نقص تھا کہ کوئی ایک آدھ لفظ ویسے ہی رہ گیا یا پوری ایک سطر غتر بود ہو گئی۔ راقم نے کوشش کی ہے کہ اب اس قسم کی اغلاط کتاب میں رہنے نہ پائیں، اس کے لئے کتاب کو لفظاً لفظاً پڑھنا ضروری تھا اور راقم نے ایسا ہی کیا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے اس کتاب میں بہت سے فارسی و اردو اشعار کے علاوہ آیات قرآنی کے بھی حوالے دئیے ہیں۔ جیسا کہ حواشی کے شروع میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے صحیح حوالہ (شعر یا آیت کی صورت میں) دینے کے لیے متعلقہ کتاب یا مجموعہ کلام سے براہ راست استفادہ کرنے کی بجائے حافظے سے کام لیا اور یہی امر استناد کے معاملے میں رکاوٹ بن گیا۔ مرحوم نے اشعار میں الفاظ بدلنے کے علاوہ مصرعوں کی ترتیب بھی بدل دی، اور ایسا کئی ایک اشعار میں ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ چند ایک آیات میں بھی، اسی حافظے کی بناء پرانہوں نے الفاظ آگے پیچھے کر دیے۔ ان تمام کوتاہیوں کو بفضلہ تعالیٰ دور کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حواشی وغیرہ کے سلسلے میں ’’فکر اقبال‘‘ کا پانچواں ایڈیشن راقم کے پیش نظر رہا ہے۔ فکر اقبال میں حضرت علامہ کے جو جو اشعار بطور مثال آئے ہیں، حواشی میں ان کے متعلقہ مجموعہ کلام کا نام دے دیا گیا ہے (اور متن میں شعر کی صور ت متعلقہ مجموعہ کلام ہی کے حوالے سے درست کر دی ہے) تاکہ قاری مزید تفصیل و مطالعہ کے لیے وہاں سے رجوع کر سکے۔ دیگر شعراء کے جو اشعار متن میں آ گئے ہیں ان کی صحیح صورت حواشی میں دینے کے علاوہ متعلقہ شاعر کا نام دے دیا ہے اس سلسلے میں راقم کو اس بات کا اعتراف ہے کہ پوری کوشش کے باوجود چند ایک اشعار کا حوالہ معلوم نہ ہو سکا، تاہم یہ کوشش ہنوز جاری ہے، ممکن ہے آئندہ ایسے اشعار کا حوالہ بھی دستیاب ہو جائے۔ کتاب کے آغاز میں خلیفہ مرحوم کے مختصر حالات زندگی دے دیے ہیں کہ کسی بھی کتاب کے مصنف کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش ہر قاری کو ہوتی ہے۔ نیز اس پس منظر کے ساتھ متعلقہ کتاب کو اور خود مصنف کے ذہن کو سمجھنے میں کسی حد تک مدد ملتی ہے۔ راقم کو اپنے اس کام کے بارے میں کوئی دعویٰ نہیں ہے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ راقم نے پورے خلوص اور کمال لگن کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہے، اور امید ہے قارئین کرام میرے اس خلوص اور لگن سے ضرور اعتنا فرمائیں گے۔ آخر میں راقم اپنے استاد گرامی کا بے حد ممنون و متشکر ہے کہ انہوں نے اس اہم خدمت کے لیے راقم کو منتخب فرما کر راقم کی بیحد حوصلہ افزائی فرمائی۔ خواجہ حمید یزدانی لاہور نومبر ۱۹۸۸ء ٭٭٭ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم (مختصر سوانح) ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کا تعلق کشمیریوں کی مشہور گوت ’’ ڈار‘‘ سے تھا۔ ان کے بزرگ ہندو راجوں کی افواج میں نمایاں مقام کے حامل تھے۔ سکھوں کے عہد میں ان کے دادا کشمیر سے ہجرت کر کے لاہور (پنجاب) میں سکونت پذیر ہوئے۔ لاہور میں ان کی رہائش محلہ چہل بیبیاں اندرون اکبری دروازہ میں تھی۔ کشمیر میں حکیم صاحب کے بزرگ پشمینے وغیرہ کا کام کرتے تھے اور اکثر لوگ اس ضمن میں ان سے اکتساب فن کی بناء پر انہیں ’’ خلیفہ‘‘ (استاد) کے لفظ سے پکارتے۔ یوں یہ لفظ اس خاندان کے افراد کے ناموں کا پہلا جزء ٹھہرا۔ حکیم صاحب کے والد خلیفہ عبدالرحمن ایک نیک دل اور متقی شخص تھے، انہیں گلستان و بوستان سعدی ایسی اخلاقی کتب سے دلی شغف تھا اور اپنے بچوں کی تربیت میں وہ ان سے کام لیتے۔ ان کی دو بیویاں تھیں۔ حکیم مرحوم کی والدہ رحیم بی بی دوسری بیوی تھیں۔ حکیم مرحوم کی ولادت ان کے آبائی مکان (محلہ چہل بیبیاں) میں ۱۸۹۳ یا ۱۸۹۴ء میں ہوئی۔ بارہ برس کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ چار برس کی عمر میں قریبی مسجد میں پڑھنے بیٹھے۔ پھر اندرون موچی دروازہ کے کوچہ لال کھوہ کے سکول میں داخل ہوئے۔ تیسری جماعت سے اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ جانے لگے اور وہیں سے انہوں نے ۱۹۱۰ء یا ۱۹۱۱ء میں میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے چچاؤں نے جائیداد میں سے انہیں کچھ نہ دیا۔ جس کے سبب ان کی زندگی عسرت میں بسر ہونے لگی۔ ان کی والدہ کو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے خاصی دقت کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے ہر طرح کی مصیبت جھیلی۔ خلیفہ مرحوم نے بھی دل لگا کر محنت کی اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا۔ سکول ہی کے زمانے میں انہوں نے شاعری شروع کی اور سکول کی ادبی مجالس میں حصہ لیا جس سے اساتذہ کی نظروں میں ہر دلعزیز ہوئے۔ سکول سے فراغت پائی تو ایف سی کالج میں ایف ایس سی میں داخلہ لیا لیکن سائنس سے رغبت نہ ہونے کے سبب سلسلہ تعلیم منقطع کر کے علی گڑھ میں سال اول (آرٹس) میں داخل ہو گئے۔ یہاں بھی ان کی قابلیت کے جوہر نمایاں ہوئے یہ ۱۹۱۲ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۱۵ء میں بی اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں آ کر فلسفہ میں ریکارڈ قائم کیا۔ میاں فضل حسین نے (جو اس وقت انجمن حمایت اسلام اسلامیہ کالج کے سیکرٹری تھے) انہیں لیکچر شپ پیش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ ۱۹۱۷ء میں سینٹ اسٹیفن کالج دہلی سے فلسفہ میں ایم اے کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ان کے ممتحین میں علامہ اقبال بھی تھے۔ ان کا ایم اے میں مقالہ مولانا جلال الدین رومی پر تھا۔ اس دوران میں وہ شعر و شاعری بھی اور مشاعروں میں شرکت بھی کرتے رہے۔ کچھ عرصہ انگریزی اخبار ’’ آبزرور‘‘ کی ادارت کی، جس میں انہوں نے بڑے تند لہجے میں مسلمانوں سے متعلق انگریز حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی، جس کے نتیجے میں اخبا رکی ضمانت ضبط ہوئی اور وہ بند کر دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں حکیم مرحوم، حضرت علامہ کی سفارش پر، عثمانیہ یونیورسٹی میں فلسفے اور منطق کے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ء میں ان کی شادی خدیجہ بیگم سے ہوئی اور ۱۹۲۲ء میں وہ جامعہ عثمانیہ کے وظیفے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی (جرمنی) میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے ’’ ما بعد الطبیعیات رومی‘‘ پر مقالہ لکھا۔(یہ مقالہ ۱۹۳۳ء میں شائع ہو گیا۔) ۱۹۲۵ء میں وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر وطن لوٹے۔ ۱۹۲۵ء سے ان کی ملازمت کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے اور اب وہ صدر شعبہ فلسفہ بنا دیے گئے، حیدر آباد میں ان کی زیادہ تر سرگرمیاں علمی اور تدریسی حد تک ہی رہیں۔ اس عرصے میں وہ یونیورسٹی کے جریدے ’’ مجلہ عثمانیہ‘‘ میں وقیع مقالے لکھتے رہے۔ انہوں نے فلسفے کی بعض کتب کے اردو تراجم بھی کیے۔ اپنی انہی علمی، ادبی اور تدریسی سرگرمیوں کی بناء پر وہ یونیورسٹی کے چوٹی کے اساتذہ میں شمار ہونے لگے۔ ۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۷ء تک خلیفہ مرحوم نے کشمیر میں ملازمت کی۔ دراصل ۱۹۴۳ء میں وہاں کے امر سنگھ کالج میں پرنسپل کی اسامی خالی ہوئی اور خلیفہ مرحوم کی خدمات حکومت کشمیر نے نظام دکن سے مستعار لے لیں۔ یہاں کچھ عرصہ وہ ناظم تعلیمات بھی رہے۔ خلیفہ مرحوم کی ملازمت کا تیسرا دور ۱۹۴۷ء یا ۱۹۴۹ء کا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں کشمیر چھوڑنے کے بعد خلیفہ مرحوم دوبارہ عثمانیہ یونیورسٹی (حیدر آباد) پہنچے، جہاں انہیں ڈین آف آرٹس بنا دیا گیا۔ دو سال بعد وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور میں اقامت گزیں ہو گئے۔ ۱۹۵۰ء میں انہوں نے اپنے پرانے رفیق اور دوست اور اس وقت کے گورنر جنرل پاکستان 1؎ یہ مختصر سوانح ڈاکٹر وحید عشرت صاحب (نائب ناظم اقبال اکادمی پاکستان لاہور) کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ سے ماخوذ ہیں۔ ملک غلام محمد کی مدد سے ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کی بنیاد رکھی جو آج بھی کلب روڈ کی ایک عمدہ عمارت میں کام کر رہا ہے۔ خلیفہ مرحوم دس برس تک اس ادارے سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اقبال اور اسلام کے موضوعات پر کئی لیکچر بھی دیے۔ پھر بیرون ملک بھی سفر کیے، بالخصوص ایران کے سفر میں انہوں نے حضرت علامہ سے متعلق لیکچر دے کر ایرانیوں کو متاثر کیا۔ ۱۹۵۴ء میں لبنان میں ایک بین الاقوامی مجلس مذاکرہ میں شریک ہوئے۔ ۱۹۵۶ء میں امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی نے انہیں کانووکیشن ایڈریس پڑھنے کی دعوت دی۔ اس ایڈریس کو امریکہ کے علمی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ ۱۹۵۷ء کے کانووکیشن میں یونیورسٹی نے انہیں ایم ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ ان کے ایسے علمی سفروں کی فہرست کسی حد تک طویل ہے۔ گوناگوں علمی صفات اور ہمہ پہلو خصائص کی حامل اس شخصیت نے اپنی زندگی کے آخری سال انتہائی مصروفیت میں گزار کر ۳۰ جنوری ۱۹۵۹ء کو دل کے دورے کے باعث اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ اس وقت وہ کراچی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں اپنے دوست ڈاکٹر ممتاز حسن کے یہاں مقیم تھے۔ دل کے دورے نے اتنی بھی مہلت نہ دی کہ ڈاکٹر ان کا کوئی علاج کر سکتا۔ آخری وقت جب ان کی سانس پھولی ہوئی تھی، دایاں ہاتھ دل پر رکھ کر کہہ رہے تھے: Oh my heart, this has never happened before. انا للہ وانا الیہ راجعوان حکیم مرحوم کی تصنیفات: حکمت رومی، فکر اقبال، افکار غالب، تشبیہات رومی علاوہ ازیں بہت سے خطبات جو انہوں نے مختلف تقاریب میں پڑھے، یا ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے۔ بیسیوں مقالات جو ملک کے موقر مجلات میں شائع ہوئے اور اب ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے انہیں کتابی صورت میں مقالات حکیم (تین جلدیں) کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ خلیفہ مرحوم نے کئی ایک انگریزی کتب و مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا، جن میں دیبر کی کتاب History of Philosophy کو تاریخ فلسفہ کے نام سے اور ہیرلڈ ہونڈنگ کی کتاب ہسٹری آف ماڈرن فلاسفی کو تاریخ فلسفہ جدید کے نام سے اردو کا روپ دیا۔ ان کے علاو ہ ان دو کتابوں کا بھی انہوں نے ترجمہ کیا: Outline of Greak Philosophy کا ترجمہ مختصر تاریخ فلسفہ یونان کے نام سے کیا۔ Varieties of Religious Experience از ولیم جیمز کا اردو نام: نفسیات واردات روحانی رکھا۔ کئی مقالات کو بھی اردو میں ڈھالا۔ پھر بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ کیا اور اردو منظومات کا ایک مجموعہ کلام حکیم کے نام سے بھی ان سے یادگار ہے۔ حواشی و تعلیقات ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے فکر اقبال میں بہت سے حوالوں سے کام لیا ہے جو ان کی وسعت مطالعہ پر دال ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے یہاں متعلقہ حوالے کی کتاب کو سامنے رکھا ہے وہاں تو وہ حوالہ (شعر کی صورت میں ہو یا نثر کی صورت میں) درست ہے لیکن جہاں انہوں نے یادداشت سے کام لینے کی کوشش کی ہے وہاں غلط ملط ہو گیا ہے اور غلط ملط والے مقامات کئی ہیں، جس کے نتیجے میں راقم کو متعلقہ شعر یا حوالہ ڈھونڈنے میں بہت زیادہ محنت کرنا پڑی۔ اکثر اشعار غلط، پہلا مصرع دوسرے مصرع کی جگہ اور دوسرا مصرع پہلے کی جگہ پر پھر بعض اشعار کا آغاز انہوں نے کچھ اور الفاظ سے کیا ہے جب کہ اصل شعر کسی اور لفظ سے شروع ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مثنوی رومی کی مثال دی جاسکتی ہے یا مثلاً گہ از دست تو کار نادر آید ہے لیکن فکر اقبال میں چو از دست۔ الخ ہے اسی طرح بعض اشعار کی نسبت بھی غلط ہے۔ امیر خسرو کا ایک مشہور شعر حافظ منسوب کیا ہے۔ یہاں تک کہ حافظے سے کام لینے کے باعث وہ دو ایک آیات قرآنی میں تھوڑی سی تاخیر و تقدیم کر گئے ہیں، بہرحال یہ غلطی درست کر دی گئی ہے۔ جو حوالے میسر آ سکے انہیں حواشی و تعلیقات میں جگہ دی گئی ہے اور جو اس کام کی تکمیل کے بعد ملے انہیں ’’ ضمیمہ‘‘ میں درج کر دیا گیا ہے۔ اشعار کے معاملے میں حاشیے کا انداز یہ ہے کہ صفحہ کے ساتھ پہلے مصرعے والی سطر کا نمبر دیا گیا ہے اس کے ساتھ جتنے بھی اشعار ہیں سبھی اسی حوالے سے متعلق ہیں۔ جہاں کہیں مسلسل دو صفحوں پر اشعار آئے ہیں۔ وہاں حوالہ اس طرح دیا گیا ہے : ۱۱۷/۲۔ بعض حوالے کئی جگہ آ گئے ہیں۔ ایسے حوالے میں تفصیل صرف ایک جگہ دی گئی ہے۔ آیات قرآنی کے ترجمے کے لیے مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے ترجمے سے استفادہ کیا گیا ہے۔ عنوان تمہید: ۲۲/۱۷ پیام مشرق میں دوسرا شعر پہلے ہے۔ کلیات اقبال فارسی مطبوعہ شیخ غلام علی۔۔۔۔ لاہور صفحہ ۲۷۶ ۲۲/۲۰: ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم مرحوم نے یاد داشت کے بھروسے پر یہ مصرع اس طرح بدل کر لکھا ہے۔ پورا شعر اس طرح ہے: ما نبودیم بدین مرتبہ راضی غالب شعر خود خواہش آن گرد کہ گردوفن ما کلیات غالب (مطبوعہ نولکشور) ص ۲۲۵ ۲۲آخر سے تیسری: پہلا مصرع یوں ہے: مری مشاطلگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو۔۔۔۔ الخ کلیات اقبال اردو مطبوعہ شیخ غلام علی۔۔۔۔ لاہور ص۲۰۶ ۲۶/۱۰ ایرانی نسخوں میں یہ شعر اس طرح ہے: علم چون بر دل زند یارے شود علم چون بر تن زند بارے شود ملاحظہ ہو: کتاب مثنوی مولانا جلال الدین محمد بلخی رومی۔ مطبوعہ موسس نشر کتب اخلاق۔ تہران ص ۹۰ دورہ کامل مثنوی معنوی بسعی و اہتمام و تصحیح رینوامد الین ینکلسون از روی نسخہ طبع ۱۹۲۵۔ ۱۹۳۲ء م ورلیدن۔ تہران ص ۱۷۰ ۲۶/۱۵ دوسرے مصرعے میں ’’ گفتا‘‘ کی بجائے ’’ گفت آن‘‘ اور چوتھے مصرعے کا پہلا ٹکڑا اس طرح ہے:ـ ’’ آب در بیرون کشتی۔۔۔۔ الخ کتاب مثنوی۔۔۔۔ ص۲۷‘‘ ۲۷ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۹۲ پہلا باب اقبال کی شاعری کے ارتقائی منازل: ۳۰/۱ حوالہ آگے آئے گا۔ یہ شعر ص ۲۰۶، ۳۸۰ اور ۴۳۴ پر بھی آیا ہے۔ ۳۰/۴ کلیات اقبال فارسی ص ۳۳۶ ۳۱/۱۸۔ ۲۱: سرود رفتہ ترتیب و تحشیہ غلام رسول مہر، صادق علی دلاوری، مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز۔۔۔۔ لاہور ص ۲۲۵ ۳۲/۱ منتخب داغ مرتبہ احسن مارہروی مطبوعہ الٰہ آباد ص۲۲۷ ۳۲/۱۰ سرود رفتہ ص۱۴۶ ۳۲/۱۵ کلیات اقبال اردو ص۹۸ ۳۲/۱۸ ببعد ایضاً ص ۹۸، ۹۹ ۳۳/۳ ایضاً ۳۳/۸ ببعد ایضاً ۳۳/۱۷ ببعد ایضاً ص ۱۰۰ ۳۴/۱ ایضاً ص ۲۷۹ ۳۴/۶ ایضاً ص ۱۰۱ ۳۴/۹ وہی ظاہر ہے وہی مخفی ہے۔ سورۂ الحدید آیہ ۲۔ پوری آیت یوں ہے: وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے اور وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ہے اور ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔ ۲۴/۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۱۰۲ ۳۴/۱۶ دیوان غالب مطبوعہ تاج کمپنی لاہور ص ۲۳ ۳۴/۱۹ کلیات اقبال اردو ص ۱۰۷ ۲۴/۲۱ سرود رفتہ ص ۴۵ ۳۴/آخری کلیات اقبال اردو ص ۱۰۷ ۳۵/۲ سرود رفتہ ص ۱۶۰ ۲۵/۱۵ ہر اک راہرو کی بجائے ہر اک تیز رو ہے۔ دیوان غالب ص ۱۰۰ ۳۸/۱۳ دوسرا مصرع اس طرح ہے: بزید ہمچو توئی یا بفسق ہمچو منی دیوان حافظ مرتبہ محمد قزوینی و دکتر قاسم غنی۔ تہران ص ۳۲۸ ۲۸/۱۵ ایضاً ص۵، حافظ کی غزل میں دوسرا شعر پہلے ہے ۳۸/۲۰ کلیات فانی مطبوعہ عبدالحق اکیڈیمی۔ حیدر آباد دکن اپریل ۱۹۳۶ئ۔ ص۲۸۔ دوسرا مصرع یوں ہے: زندگی کاہے کو ہے ۔۔۔ الخ ۴۰/۱۹ یہ شعر یوں ہے: شعری گویم بہ از آب حیات من ندانم فاعلاتن فاعلات (آب حیات ص ۲۰۶) ۴۱/۲۰ دیوان میں پہلا ٹکڑا یوں ہے:’’ رشک کہتا ہے‘‘ ۔۔۔ الخ دیوان غالب ص ۴۳ ۴۲/۳ کتاب مثنوی ص ۴ ۴۲/۸ کلیات اقبال اردو ص ۱۰۸ ۴۲/۱۴ ببعد ایضاً ص ۴۱، ۴۲ ۴۳/۱۵ ایضاً ص ۲۳۵ ۴۳/۲۲ ایضاً ص ۴۱ ۴۴/۱۴ ایضاً ص ۶۱ ۴۴/۲۳ ایضاًص ۶۲ ۴۶/۲ ببعد ایضاً ۳۶ ۴۶/۱۲ پہلا مصرع ہے: چمن زادے، چمن پروردۂ کلیات اقبال فارسی ص ۱۸۶ ۴۶/۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۲۶، ۲۷ ۴۷/۲۲ دیوان میر درد مرتبہ عبدالباری آسی (اردو اکیڈمی سندھ کراچی ) ص ۱۱۰ دیوان درد مطبوعہ لاہور ص ۷۸ ۴۷/آخری۔ دوسرے مصرعے میں دیدہ کی بجائے ’’ گردش‘‘ مجنوں الخ ہے۔ دیوان غالب ص ۴۳ ۴۸/۱ دوسرے مصرعے میں ’’ میں‘‘ کی بجائے ’’ سے‘‘ ہے۔ دیوان غالب ص ۱۳۵ ۴۸/۳ کلیات غالب فارسی مطبوعہ نولکشور ص ۴۹۹ ۴۸/۱۴ کلیات اقبال اردو ص ۶۸ ۴۸/۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۶۸ ۴۸/۱۷ سرود رفتہ ص ۱۲، ۱۳ ۴۹/۱ دیوان غالب ۲۱۳۔ پہلے مصرعے میں ’’ نو‘‘ کی بجائے’’ جو‘‘ ہے۔ ۴۹/۳ ایضاً ص ۲۲۳ ۴۹/۵ ایضاً ص ۱۰ ۴۹/۱۷ مکمل شرح کلام غالب از مولوی عبدالباری آسی۔ مطبوعہ اشاعت العلم پریس لکھنو ص ۵۳ ۵۰/۱ کلیات غالب (فارسی) ص ۴۵۳۔ متن میں کشادہ کی بجائے ’’ کشودہ‘‘ ہے ۵۰/۱۲ کلیات اقبال اردو ص ۸۹ ۵۰/۱۲ کلیات اقبال اردو ص ۸۹ ۵۰/۲۱ ایضاً ص ۱۵۰۔ دوسرے شعر میں دوسرا مصرع پہلے آ گیا ہے۔ اصل یوں ہے۔ عرصہ پیکار۔۔۔۔ الخ خون کو گرمانے۔۔۔۔ الخ ۵۱/۲ ۔ کلیات اقبال اردو ص ۴۴، ۴۶ ۵۱/۱۲ ایضاً ص ۸۵ ۵۳/۱۲ ایضاً ص ۲۶۸ ۵۴/۲۱ کلیات اقبال فارسی ص ۷۶۹، ۷۳۰ ۵۴/آخری ایضاً ص ۷۳۰ ۵۵/۵ ایضاً ۳۴۸ ۵۵/۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۲۰۵ ۵۵/۱۵ ایضاً ص ۶۷۶ ۵۵/۲۰ ایضاً ص ۶۷۶، ۶۷۷ ۵۵/آخر ایضاً ۵۶/۲ ببعد ایضاً ص ۶۷۸ ۵۶/۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۷۵۰ ۵۶/۱۵ ایضاً ص ۳۰۲ ۵۶/۲۲کلیات اقبال اردو ص ۸۷ ۵۶/آخر ایضاً ص ۲۳۹ ۵۷/۲ ایضاً ص ۲۴۰ ۵۷/۱۴ ببعد ایضاً ص ۱۷۷ ۵۸/آخر ایضاً ص ۱۱۱۴ دوسرا باب: اقبال کی شاعری کی پہلی منزل ۵۹/۱۷۔ دیوان حالی مرتبہ پریم چند ص ۱۹۸ ۵۹/آخر ۶۰/۹ ۔ دیوان حالی مرتبہ پریم چند۔ لاہور ص ۴۷ ’’ حالی کو‘‘ کے بعد ’’ تو‘‘ ہے، حالی کو تو بدنام ۔۔۔۔۔ الخ ۶۱ /آخری۔ کلیات اقبال اردو ص ۶۰ ۶۲/۹ ایضاً ص ۶۱ ۶۲/۱۹۔ ایضاً ص ۱۳۶ ۲۶/آخر ایضاً ص ۱۲۲ ۶۲/۱ ایضاً تیسرا باب: ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک ۶۴/۷ کلیات اکبر الٰہ آبادی حصہ اول۔ مطبوعہ جونپور ص ۷۲ دوسرا مصرع یوں ہے: وہ دیکھیں گھر خدا کا۔۔۔۔۔ الخ ۶۴/۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۹۶ ۶۴/۱۶ ایضاً ص ۱۱۳ ۶۵/آخر ایضاً ۲۱۲۔ پہلا مصرع یوں ہے: فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا ۶۶/۱ دیوان غالب ص ۱۷۳ ۶۶/آخر سے چوتھی کلیات اقبال اردو ص ۱۳۶۔ پہلا مصرع ہے : مدیر مخزن سے کوئی اقبال جا کے میرا پیام کہہ دے ۶۷/۵ ببعد ایضاً ص ۱۱۶ ۶۷/۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۶۔ پہلا مصرع ہے: ز شعر دلکش اقبال می تواں دریافت ۶۷/آخر کلیات اقبال اردو ص ۱۱۷ ۶۸/۴ ۔ایضاً ۶۸/۱۵ ایضاً ص ۱۱۸ ۶۹/۶ ضمخانہ عشق (مجموعہ کلام امیر مینائی) مطبع محمد تیغ بہادر لکھنو ۱۳۴۶ھ۔ ص ۲۲۵ ۶۹/۱۹ کلیات غالب فارسی ص ۴۲۰ صحیح شعر اس طرح ہے: من بوفا مردم و رقیب بدر زد نیمہ لبش انگبین و نیمہ تبرزد ۶۹/آخر کلیات اقبال اردو ص ۱۲۲ ۷۰/۱۱ ایضاً ص ۱۲۲ ۷۰/۲۴ ایضاً ۷۱/۲۳ ایضاً ص ۱۱۳ ۷۲/۱ ایضاً ۷۱/۵ کلیات غالب فارسی میں یہ شعر نہیں ملا۔ ۷۱/۱۰ کلیات اقبال اردو ص ۱۶۸ ۷۲/۶ حوالہ آگے آئے گا ۷۲/۹ کلیات غالب ص ۴۸۳۔ پہلے مصرع میں لفظ نہ رسد کی بجائے ’’ بہ غلط نبود‘‘ ہے ۷۲/۱۲ یہ مصرع عرفی کا اور آخر میں ندارد کی بجائے نداند ہے۔ پہلا مصرع ہے: عارف ہم از اسلام خرابست ہم از کفر دیوان عرفی مطبوعہ لکھنو ص ۱۰۰ ۷۲/۱۴ کلیات اقبال اردو ص ۱۱۳ ۷۳/۱۷ ایضاً ۷۲/۲۰ دیوان غالب ص ۲۲۰ ۷۲/۲۵ کلیات اقبال اردو ص ۱۱۴ ۷۳/۴ ایضاً ۷۳/۱۰ ایضاً ص ۱۱۵ ۷۳/۱۴ ایضاً ۷۲/۲۰ سرود رفتہ میں یہ شعر نہیں ملا ۷۴/۶ کلیات اقبال اردو ص ۱۱۵ ۷۴/۲۲ ایضاً ۷۵/۱ کلیات آتش مطبوعہ لکھنو ص ۲۷۵ میں نصیحت کی بجائے وصیت ہے۔ ۷۵/۷ کلیات اقبال اردو ص ۱۴۹ ۷۵؍۱۲ ایضاً ص ۱۳۰ ۷۵؍۱۸ ایضاً ۷۶؍۱۰ ایضاً ۷۶؍۱۴ ایضاً ۷۶؍۱۸ ایضاً ۷۶؍۲۲ایضاً ۷۷؍۴ دیوان حالی ص ۱۱۱ ۷۷؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۹۹۔ قطع ’’الملک اللہ‘‘ کا آخر ی مصرع ہے۔ ۷۷؍۱۴ کلیات اقبال اردو ص ۱۳۶ ۷۸؍۲ ایضاً ۷۸؍۱۳ ایضاً ص ۱۳۸ ۷۸؍ آخر دیوان غالب فارسی ص ۱۶۵ ۷۹؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۱۶۱ ۷۹؍۹ کلیات اقبال اردو ص ۱۳۸ ۸۰؍۱۰ کتاب مثنوی ص ۲ پہلا مصرع سر پنہا نست اندر زیرو بم ۸۰؍۱۲ کلیات اقبال اردو ص ۱۴۰ ۸۰؍۲۲ ایضاً ص ۱۴۰‘۱۴۱ ۸۱؍ آخر ایضاً ۸۲؍۵ دیوان میرد رد عبدالباری آسی اردو مرکز لاہور ص ۱۱۰ دیوان میر درد مطبوعہ شیخ مبارک علی لاہور ص ۷۸ ۔ یہ مخمس کے ایک بندیا مصرع ہے اور ’’جو‘‘ کی بجائے ’’اگر ‘‘ ہے پور ا بند یوں ہے: ہر عجز میں کبریا ہے محجوب ہر نقص میں ہے کمال مطلوب کوئی بھی نہیں جہاں میں معیوب آتے ہیں مری نظر میں سب خوب گر عیب ہے پردہ ہنر ہے شیخ مبارک علی والے نسخے میں چوتھا مصرع تھوڑا سا بدل کر لکھا ہے۔ ۸۲؍۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۱۴۱ ۸۳؍۱۷ ایضاً ۸۴؍۵ ایضاً ص ۱۴۲ چوتھا باب ۱۹۰۸ سے… ۸۶؍۶ کلیات اقبال اردو ص ۱۳۲ ۸۶؍۱۱ ایضاً ۸۶؍۱۹ ایضاً ۸۶؍ ۱ ایضاً ص ۱۹۳ ۸۶؍۸ ایضاً ص ۱۳۴ ۸۷؍۱۵ ایضاً ص ۱۳۳ ۸۷؍آخر ایضاً ص ۱۵۹ ۸۸؍ آخر ۸۹؍۱ ایضاً ص ۱۴۷ ۸۹؍۸ مسدس حالی مرتبہ سید عابد حسین ص ۳۴ ۸۹؍۱۵ کلیات اقبال اردو ص ۱۴۶ ۹۰؍۳ ایضاً ص ۱۴۹ ۹۰؍۱۴ ایضاً ص ۱۵۱ ۹۰؍۱۹ ایضاً ۹۱؍۳ دیوان غالب ص ۱۲۳ ۹۱؍۱۶ کلیات اقبال اردو ص ۱۵۲ ۹۱؍ آخر ایضاً ص ۱۴۹ ۹۲؍۱۲ دیوان صغالب ص ۲۱۶ ۹۳؍۳ کلیات اقبال اردو ص ۱۵۲ ۹۳؍۱۱ ایضاً ص ۱۵۲ ۹۳؍۱۵ ایضاً ص ۱۵۳ ۹۴؍۲ ایضاً ۹۴؍۷ ایضاً ص ۳۳۱ پہلا مصرع اس طرح ہے: صحبت پیر روم سے مجھ پہ ہوا یہ راز فاش ۹۶؍۴ ایضاً ص ۲۷ ۹۶؍۱۹ دیوان غالب ص ۶۶ دیوان میں گو لاکھ کی بجائے ’’ہرچند‘‘ ہے۔ ۹۶؍۲۲ سرور رفتہ ص ۴۵ پہلا مصرع یوں ہے : میری ہستی ہی جو تھی… الخ ۹۸؍۱۵ دیوان غالب ص ۶۲ ۹۸؍۱۸ کلیات صائب مطبوعہ نولکشور لکھنو میں یہ شعر نہیں ہے۔ شبلی نے شعر العجم جلد سوم (ظفر بک ڈپو لاہور) ص ۱۶۱‘۱۶۲ میں ایک مصرع (مصرع ثانی) اس کے ایک شاگرد سے منسوب کیا ہے اور دوسرا خود صائب سے۔ ۹۹؍۷ یہ ایک ہی مصرع ہے دوسرا مصرع ہے : نی روح خاقانی نگر اینک بگفتار آمدہ یہ قآنی کے قصیدہ ’’در مدح حسن عیل میرزا شجاع السلطنہ‘‘ سے ماخوذ ہے کلیات قاآنی مطبوعہ بمبئی ص ۳۲۱ ۱۰۱؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۳۱۳ پہلا مصرع ہے درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی پانچواں باب اسلام: اقبال کی نظر میں ۱۰۳؍۴ کلیات اقبال اردو مطبوعہ اقبال اکادمی ۱۹۹۰ ص ۹۲ ۱۰۳؍۹ سرور رفتہ ص ۴۳ ۱۰۳؍۱۸ الرحمن۔ ۲۹ ۔ اسی سے سب آسمان اور زمین والے مانگتے ہیں۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں رہتا ہے۔ ۱۰۳؍ آخر ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ ۱۰۴؍۱ کتاب مثنوی ص ۱ ۱۰۴؍۱۹ الروم آخری۔ اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم ان کو اپنے (جنت) کے راستے ضرور دکھائیں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ ایسے خلوص والوں کے ساتھ ہے۔ ۱۰۴؍۲۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۹۸ ۱۰۵؍۴ المائدہ۔ ۳… آج کے دن میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے کامل کر دیا… ۱۰۵؍۱۴ طہ۔ ۱۱۴… اے میرے پروردگارمیرے علم میں اضافہ فرما۔ ۱۰۵؍۱۵ ہم تجھے تیری معرفت کے حق کے مطابق نہیں پہچان پائے۔ ۱۰۵؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۵۳ ۱۰۵؍۲۱ کلیات اقبا ل فارسی ص ۳۲۲ پورا شعر یوں ہے : صورت نہ پرستم من بتخانہ شکستم من آن سیل سبک سیرم ہر بند گستم من ۱۰۵؍۲۲ کلیات اقبال اردو (غلام علی) ص ۳۵۳ ۱۰۵؍۲۵ ایضاً ص ۵۸۹ ۱۰۶؍۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۲۳ ۱۰۶؍۱۳ کلیات اقبال اردو ص ۳۲۱ ۱۰۶؍۲۰ الھمزۃ ۔ ۷ (وہ آگ ہے جو) بدن کو لگتے ہی دلوں تک جا پہنچے گی۔ ۱۰۶؍۲۶ القصص۔ آخری… اور ہو چیز فنا ہونے والی ہے بجز اس کی ذات کے … ۱۰۶؍۲۶ الرحمن۔ ۲۶‘۲۷ جو کوئی زمین پر ہے سب فنا ہو جائے گا اور آپؐ کے پروردگار کی ذات جو کہ عظمت اور احسان والی ہے باقی رہ جائے گی۔ ۱۰۷؍۸ کلیات اقبال فارسی ص ۲۰۳ ۱۰۷؍۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۱۷۵‘۱۷۶ ۱۰۹؍۲۰ الاحزاب ۔ فاطر۔ ۴۳ اور الفتح ۲۳ (تین مقامات پر)… اورآپؐ خدا کے دستور میں کسی شخص کی طرف سے ردوبدل نہ پاویں گے۔ لا تبدیل لخلق اللہ… سورہ الروم۔ آیہ ۳۰ اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پر اس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ ۱۱۰؍۱۹ دیوان حافظ ص ۱۲۵ ۱۱۰؍۲۲ دیوان ذوق مرتبہ پروفیسر کے ایم سردار لاہور ص ۱۷۹ ۱۱۱؍۱۸ شبلی نے دوسرا مصرع یوں لکھا ہے۔ از و مپرس کہ اوعلم مردہ شویان ست (شعر العجم جلد ۳ مطبوعہ ظفر بک ڈپو لاہور ص ۴۰) ۱۱۳؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۸۹۷ رباعی کے پہلے تین مصرعے اس طرح ہیں: مسلمان فاقہ مست و زندہ پوش است ز کارش جبرئیل اندر خروش است بیا نقش دگر بہ ریزم…الخ ۱۱۳؍۸ کلیات اقبال اردو ص ۱۰۶ ۱۱۳؍۱۱ ایضاً ۱۱۳؍۱۳ ایضاً ص ۱۲۹ ۱۱۳؍۱۶ ایضاً ص ۳۵۶ ۱۱۴؍۱۶ ایضاً ص ۳۵۶ ۱۱۴؍۲۳ ایضاً ص ۳۸۷ ۱۱۵؍۳ ایضاً ص ۳۶۲ ۱۱۵؍۹ ایضاً ص ۳۶۳ ۱۱۵؍۱۳ ایضاً ص ۳۶۴ ۱۱۵؍۱۷ ایضاً ص ۳۶۷ ۱۱۵؍۲۵ ایضاً ص ۳۷۰ ۱۱۶؍۶ ایضاً ۳۷۱ ۱۱۶؍۱۴ ایضاً ص ۴۰۹‘۴۱۰ ۱۱۷؍۱ شاہ نصیر کا شعر ہے: ’’بتاں‘‘ کی بجائے ’’دوتا‘‘ ہے آب حیات ص ۳۵۹ ۱۱۷؍۴ ببعد کلیات اقبال اردو ص ۴۱۶ ۱۱۷؍۲۴ ایضاً ص ۳۷۱ ۱۱۸؍۵ ایضاً ص ۴۵۰‘۴۵۱ ۱۱۹؍۳ الروم ۳۰ … اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اطباع کرو جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔ ۱۱۹؍۴ الجمعہ ۔ ۱۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سبھی اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں… ۱۲۰؍۲۱ البقرہ۔ ۱۳۴ ۔ یہ ان (بزرگوں) کی ایک جماعت تھی جو گزر چکی… ۱۲۰؍۲۴ کلیات اقبال اردو ص ۱۶۶ ۱۲۱؍۱ ایضاً ص ۱۶۸ ۱۲۱؍۱۶ دنیا مومنوں کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ ۱۲۱؍۱۸ اس زمین میں بال جبریل میں ایک غزل ہے لیکن نہ تو یہ شعر اس غزل میں ملا ہے اور نہ سرور رفتہ میں غزل کے لیے ملاحظہ ہو کلیات اقبال اردو صفحہ ۲۰۱ ۱۲۲؍۳ ایضاً ص ۱۶۹ ۱۲۲؍۱۱ ایضاً ص ۳۱۲ ۱۲۲؍ ۲۰ ایضاً ص ۲۰۰ ۱۲۲؍۲۶ ایضاً ۱۲۳؍۵ ایضا ً ص ۲۰۱ ۱۲۴؍۱۰ ایضاً ص ۲۰۱‘۲۰۲ ۱۲۵؍۴ ایضاً ص ۲۰۳ ۱۲۵؍۱۱ ان کے اعمال ہمارے دین کی طرح اور ہمارے اعمال ان کے دین کی طرح ہیں۔ ۱۲۶؍۱ کلیات اقبال اردو ص ۱۸۷ ۱۲۶؍۷ دیوان غالب ص ۱۶۳ ۱۲۷؍۱ ایضاً ص ۱۰۰۔ دیوان میں ’’راہرو‘‘ کی بجائے ’’تیز رو‘‘ ہے۔ ۱۲۷؍۶ اس قرآنی آیت کی طرف اشارہ ہے واقعی اللہ تعالیٰ کسی قوم کی (اچھی) حالت میں تغیر نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی (صلاحیت کی) حالت کو نہیں بدلتے (الرعد۔ ۱۱) غالبا ً حالی یا ظفر علی خاں نے اس آیت کو اردو میں اس طرح ڈھالا ہے: خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہوجس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا ۱۲۷؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۲۹۱ ۱۲۷؍۲۵ ایضاً ص ۱۷۶ ۱۲۸؍۱ ایضاً ص ۳۴۹ ۱۲۸؍ ۱۷ کلیات غزلیات خسرو و مرتبہ اقبال صلاح الدین(پیکجز) لاہور اور کلیات عناصر دواوین خسرو مطبوعہ نولکشور لکھنو میں اس زمین میں غزلیں تو ہیں لیکن یہ مطلع نہیں ہے۔ ۱۲۸؍۲۱ کلیات میر مرتبہ عبدالباری آسی لکھنو (نولکشور) ص ۲۴ ۔ ’’جس نے ‘‘ کی بجائے ’’جن نے‘‘ ہے۔ ۱۲۹؍۳ کلیات اقبال اردو ص ۱۸۵ ۱۲۹؍۱۳ ایضاً ص ۳۰۳ پہلا مصرع ہے: نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ۱۳۱؍۲ کلیات اقبال اردو ص ۱۸۵ ۱۳۱؍۸ ایضاً ص ۱۸۵‘۱۸۶ ۱۳۱؍۱۲ ایضاً ص ۱۸۶ ۱۳۱؍۱۴ ایضاً ص ۱۸۷ ۱۳۱؍۱۸ ایضاً ص ۱۸۸ ۱۳۱؍۲۰۱ ایضاً ۱۳۲؍۷ ایضاً ص ۱۹۰ ۱۳۲؍۹ حوالہ پہلے گزر چکا ہے ۱۳۲؍۱۲ کلیات اقبال اردو ص ۱۹۱ ۱۳۲؍۱۴ ایضاً ص ۱۴۰ ۱۳۲؍۱۸ ایضاً ص ۱۹۲ ۱۳۳؍۷ ایضاًص ۱۹۵ ۱۳۳؍۹ ایضاً ص ۱۹۵ ۱۳۳؍۱۹ الاعراف ۔ ۱۷۹: یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ لوگ زیادہ بے راہ ہیں۔ ۱۳۳؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۲۸۰ ۱۳۴؍۲ ایضاً ص ۲۹۹ ۱۳۴؍۹ حوالہ آگے آئے گا۔ ۱۳۴؍۱۳ دیوان صالب ص ۱۶ ۳۴؍آخر مسدس حالی ۱۳۔ تیسرے مصرعے میں ’’کوئی‘‘ کی بجائے ’’کبھی‘‘ ہے۔ ۱۳۵؍ ۵ کلیات اقبال اردو ص ۱۹۵‘ ۱۹۶ ۱۳۵؍۲۵ ایضاً ص ۱۹۶ ۱۳۶؍۲۱ ایضاً شاعر انقلاب ۱۳۷؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۹۱‘ ۳۹۲ ۱۳۹؍۲۲ ایضاً ص ۶۰۴ ۱۴۰؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۳۰۸ ۱۴۰؍۱۹ دیوان نظیری مرتبہ مولوی نصیر الدین لاہور ص ۱۹۸ ۱۴۰؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۷۱ پہلا مصرع ہے: سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا ۱۴۱؍۱ ایضا ۱۶۲ ۱۴۱؍۸ کتاب مثنوی ص ۳۸۳ دوسرا مصرع اس طرح ہے: نی کہ اول کہنہ را ویران کنند۔ ۱۴۱؍۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۲۲۳ ۱۴۲؍۱۷ کلیات فیضی جلد اول مرتبہ اے ڈی ارشد لاہور ص ۵۱۴ ۱۴۲؍۲۰ دیوان حافظ ص ۱۲۵ پہلے مصرعے میں ’’بر‘‘ کی بجائے ’’ار‘‘ اوردوسرے مصرع میں ’’اندر دل‘ کی بجائے ’’خرمن‘‘ ہے۔ ۱۴۲؍۲۱ کلیات اقبال اردو ص ۲۲۵ ۱۴۳؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۷۸۳ ۱۴۴؍۶ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ پہلا مصرع اس طرح ہے داند آن کو نیک بخت و …الخ ۱۴۷؍۱۸ کلیات اقبال اردو ص ۱۸۶‘۱۸۷ ۱۴۸؍۵ ایضاً ص ۱۰ ۱۴۸؍۸ ایضاً ص ۱۹۶ ۴۸ ۱؍ ۱۲ ایضاً ص ۲۰۰ (جواب شکوہ) ۱۴۸؍۱۶ ایضاً ۱۴۹؍۳ ایضاً ص ۲۰۴ ۱۴۹؍۱۲ ایضاً ص ۲۰۹ ۱۴۹؍۱۸ ایضاً ص ۲۲۱ ۱۵۰؍۲ کلیات صائب (نولکشور) ص ۶۶۸ ۔ دوسرے مصرع میں ’’دہر ‘‘ کی بجائے ’’شہر ‘‘ ہے۔ ۱۵۰؍۸ کلیات اقبال اردو ص ۲۴۴ ۱۵۱؍۱ ایضاً ص ۳۱۰ ۱۵۱؍۹ کلیات اقبال فارسی ص ۷۹۴ ۱۵۱؍۲۰ ایضاً ص ۷۹۴‘۷۹۵ ۱۵۲؍۷ ایضاً ۷۹۵ ۱۵۲؍۱۰ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۳ ۱۵۲؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۸۹۷ (یہ رباعی ایک گزشتہ حاشیے میں دی جا چکی ہے) ۱۵۲؍۵ ۲ کلیات اقبال اردو ص ۱۹۲ ۱۵۲؍آخر ایضاً ص ۱۳۰ ۔ پہلا مصرع: غرض ہے پیکار زندگی سے مال پائے ہلال تیرا ساتواں باب مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ اقبال کی تنقید ۱۵۳؍۲۰ دیوان حافظ ص ۱۹۲۔ پہلا مصرع ہے رموز مصلحت ملک … الخ ۱۵۶؍۶ کلیات اقبال اردو ص ۱۴۶ ۱۵۶؍۱۰ کلیات میر ص ۶ پہلا مصرع یوں ہے: شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں ۱۵۷؍۵ الاعراف ۔ ۳۴ نیز یونس۔ ۴۹ اور ہر گروہ کے لیے ایک میعاد معین ہے اور سو جس وقت ان کی میعاد معین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت پیچھے نہ ہٹ سکیں گے اورنہ آگے بڑھ سکیں گے (خلیفہ مرحوم نے یادداشت سے کام لے کر عبارت آگے پیچھے کر دی ہے)۔ ۱۵۷؍۱۴ کلیات اقبال ادو ص ۳۰۳ ۱۵۸؍۳ ایضاً ص ۳۱۱ ۱۵۸؍۷ ایضاً ۱۵۸؍۱۲ ایضاً ص ۳۱۲ ۱۵۸؍۱۵ ایضاً ص ۳۱۳ ۱۵۸؍۲۰ ایضاً ص ۳۱۵ کتاب میں دوسرا شعر پہلے ہے۔ ۱۵۹؍۱ ایضاً ص ۳۱۶ ۱۵۹؍۷ ایضاً ص ۳۲۰ ۱۵۹؍۱۰ ایضاً ص ۳۲۱ ۱۵۹؍۱۵ ایضاً ۱۵۹؍۲۰ ایضاً ۳۲۳ ۱۶۰؍۱ ایضاً ۱۶۰؍۵ ایضاً ۱۶۰؍۱۵ ایضاً ص ۳۲۵ ۱۶۰؍ ۱۷‘۱۹ ایضاً ص ۳۲۸ ۱۶۰؍آخر ایضاً ص ۳۳۰ ۱۶۱؍۱ ایضاً ۱۶۱؍۳ ایضاً ص ۲۳۲ ۱۶۱؍۵ ایضا ص ۳۳۵ ۱۶۱؍۷ ایضاً ص ۳۳۹ ۱۶۱؍۹ ایضاً ص ۳۴۴ ۱۶۱؍۱۱ ایضاً ص ۳۶۴ ۱۶۱؍۱۴ ایضاً ص ۳۴۸ ۱۶۱؍۱۶ ایضاً ص ۳۵۰ ۱۶۱؍آخر ایضاً ص ۳۵۱ ۱۶۲؍۱ ایضاً ص ۳۵۴ ۱۶۲؍۳ ایضاً ص ۵۵ ۱۶۲؍۷ ایضاً ص ۳۵۶ ۱۶۲؍۹ ایضاًص ۳۵۸ ۱۶۲؍۱۱ ایضاً ص ۳۶۰ ۱۶۲؍۱۳ ایضاً ص ۳۶۱ ۱۶۲ ؍ ۱۵ایضاً ص ۳۶۲ ۱۶۲؍۱۷ ایضاً ص ۳۶۷ ۱۶۳؍۱ ایضاً ص ۳۷۰ ۱۶۳؍۳ ایضاً ص ۳۷۲ ۱۶۳؍ ۵ ایضاً ص ۳۷۳۳ ۱۶۳؍۷‘۹ ایضاً ص ۳۷۳ ۱۶۳؍ ۱۱‘۱۳ ایضاً ص ۳۷۴ ۱۶۳؍آخر ایضاً ص ۳۹۹‘۴۰۰ ۱۶۴؍آخر ایضاً ص ۴۱۰ ۱۶۵؍۱ایجاً ص ۴۱۱‘۴۱۲ ۱۶۵؍۵ ایضا ۴۱۵ ۱۶۵؍۸ ایضاً ص ۴۲۲ ۱۶۵؍۱۲ ایضاً ص ۴۶۲ ۱۶۵؍۱۴ ایضاً ص ۴۳۹ ۱۶۵؍۱۶ ایضاً ص ۴۵۴ ۱۶۵؍آخر ایضاً ص ۴۵۹ ۱۶۶؍۲۰ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ ایک گذشتہ حاشیے میں صحیح شعر دے دیا گیا ہے۔ ۱۶۶؍ ۲۲ ایضاً ص ۱۹۰ یرانی نسخوں میں یہ شعر اس طرح ہے: علم چون بر دل زند یارے شود علم چون برتن زند بارے شود نیز ملاحظہ ہو (دورہ کامل) مثنوی معنوی بسعی و اہتمام رینولد الین نیکلسون از رومی نسخہ طبع … درلیدن ص ۱۷۰ ۱۶۷؍۶ کلیات غالب (فارسی) ص ۳۹۰ پہلا مصرع ہے: زما گر مست این ہنگامہ بنگر شور ہستی را۔ ۱۶۷؍۱۱ کلیا ت اقبال اردو ص ۱۴۱ ۱۶۷؍۱۴ اشارہ ہے علامہ اقبل کے اس شعر کی طرف : خبر ملی ہے خدایاں بحر و بر سے مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے(کلیات اقبال اردو ص ۳۶۱) ۱۶۹؍ ۳ ایضاً ص ۸۳ ۱۶۹؍۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۱۱۶ ۱۶۹؍۱۹ کلیات اقبال اردو ص ۳۹۴ دوسرا مصرع ہے : اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی ۱۷۰؍۱۲ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۱۷۱؍۱ کلیات اقبال اردو ص ۲۰۲ ۱۷۱؍۲۲ کتاب مثنوی ص ۲۷ پہلے مصرعے میں شدن کی بجائے بدن ہے۔ ۱۷۲؍۴ ۱ کلیات اقبل اردو ص ۶۰۴ ۱۷۳؍۱۴ دیوان عرفی مطبوعہ لکھنو میںیہ رباعی نہیں ہے ۔ شعرالعجم جلد ۳ میں پہلے دو مصرعے کسی قدر تغیر کے ساتھ آئے ہیں ص ۱۰۰ ۱۷۴؍۵ کتاب مثنوی ص ۱۔ دوسرا مصرع پہلے ہے۔ ۱۷۴؍۲۱کلیات اقبال اردو ص ۲۳۱ ۱۷۵؍۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۲۲ ۱۷۵؍۴ کلیات اقبال اردو ص ۳۱۵ ۱۷۵؍۷ البقرہ ۔ ۲۰۱۔ ہمارے پروردگار ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجیے اور آخرت میں بھی بہتری دیجیے (اور ہم کو عذاب سے بچایے) ۱۷۵؍۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۳۵۴ ۱۷۵؍۱۴ایضاً ص ۳۶۱ ۱۷۷؍۱ ایضاً ص ۱۱۵ ۱۷۷؍۲۲ ایضاً ص ۹۶ ۱۷۸؍۱۲ ایضاً ص ۱۴۱ ۱۷۹؍۱۲ ایضاً ص ۱۸۲ ۱۸۰؍۷ دیوان غالب ص ۱۷۷ ۔ پورا شعر : کیوں نہ ٹھہریں ہدف ناوک بیداد کہ ہم آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے ۱۷۹؍۱۷ ایضاً ص ۲۰۶ ۱۸۰؍۹ کلیات غزلیات خسرو جلد دوم ص ۴۸۳ پہلے مصرعے میں بخیال کی بجائے بہ امید ہے۔ ۱۸۲؍۲ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ ۔ صحیح شعر کسی گزشتہ حاشیے میں ملاحظہ ہو۔ ۱۸۲؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۳‘۶۵۴ ۱۸۳؍۱۳ ایضاً ص ۶۵۴ ۱۸۵؍۷ کلیات دیوان شمس تبریزی بہ تصحیح محمد عباسی تہران ص ۱۶۶ گفتم کہ کی بجائے گفتند ہے۔ ۱۸۵؍۲۰ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۵ ۱۸۶؍۱ ایضاً ص ۶۵۶ ۱۸۶؍ ۵ ایضاً ص ۶۵۷ ۱۸۶؍۱۱ ایضاً ص ۶۵۸ ۱۸۶؍۱۳ ایضاً ص ۶۵۹ ۱۸۶؍۱۵ ایضاً ۱۸۶؍۱۷ ایضاً ص ۶۶۰ ۱۸۷؍۱ ایضاً ص ۶۶۱‘۶۶۲ ۱۸۷؍۹ ایضاً ۶۶۲‘۶۶۳ آٹھواں باب اشتراکیت ۱۹۱؍آخر پہلا مصرع گلسان سعدی سے ماخوذ ہے جس کا دوسرا مصرع ہے: کہ در آفرینش زیک گوہر ند (کلیات سعدی از روی نسخہ تصحیح شدہ مرحوم محمد علی فروغی تہران۔ ص ۸۷۔ نیز کلیالت اقبال فارسی ص ۳۷۴ ۱۹۲؍۵ کلیات اقبال فارسی ص ۳۷۴ ۱۹۲؍۱۴ ایضاً ص ۳۷۵ ۱۹۲؍۱۸ ایضاً ۱۹۲؍آخر ایضاً ۱۹۳؍۲ ایضاً ۱۹۳؍۸ ایضاً ص ۳۷۹ ۱۹۴؍۷ ایضاً ص ۳۸۰ ۱۹۵؍۱۴ کلیات سعدی ص ۹۱ (گلستان) تیسرے مصرعے میں ’’شو‘‘ کی بجائے ’’باش‘‘ ہے۔ ۱۹۵؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۸۵ ۱۹۶؍۱۵ایضاً ص ۳۸۶‘۳۸۷ ۱۹۷؍۶ ایضاً ص ۳۸۹ ۱۹۷؍آخر جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سبھی اللہ کے لیے ہے یہ آیت قرآن کریم میں کئی جگہ آئی ہے۔ ۱۹۸؍ ۴ النجم۔ ۳۹۔ (اور یہ کہ) انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملے گی۔ ۱۹۸؍۱۴ کلیات اقبال اردو ص ۲۰۷ ۲۰۰؍۱۴ ایضاً ص ۴۰۱‘۴۰۲ ۲۰۱؍۱۱ کتاب مثنوی ص ۵۵۰ ۲۰۲؍۱ ایضاً ص ۳۸۲ دوسرے مصرع میں ’’نے کہ اول کہنہ… الخ‘‘ ہے۔ ۲۰۲؍۱۵ کلیات اقبال اردو ص ۵۲۵ ۲۰۳؍۲۱ ایضاً ص ۱۱۴ پہلا مصرع ہے نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا ۲۰۴؍۲۱ کتاب مثنوی ص ۲۷ پہلے مصرع میں گر کی بجائے گز اور چوتھے مصرع میں آب در بیرون کشتی …الخ ہے ۲۰۵؍۱ کلیات اقبال اردو ص ۵۹۸ ۲۰۵؍ آخر ایضاً ص ۵۹۹ ۲۰۶؍ ۱۵ ایضاً ص ۶۰۳ ۲۰۷؍۲ کلیات سعدی (گلستان) ص ۱۲۴ بربندم کی بجائے می بندم ہے ۲۰۷؍۳ ایضاً ص ۱۹۰ (گلستان) پہلے مصرعے میں ’’روزی‘‘ کی بجائے ’’مکنت‘‘ ہے۔ ۲۰۷؍۲۴ یہ ٹکڑا رومی کے اس شعر سے ماخوز ہے: خود ز فلک بر تریم و ز ملک افزون تریم زین دو چرانگزریم منزل ما کبریاست کلیات دیوان شمس تبریزی ص ۱۷۶ ۲۰۷؍۲۵ النجم ۔ ۴۲۔ (اور یہ کہ) سب کو آپ کے پروردگار کے پاس پہنچنا ہے۔ ۲۰۸؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۲ ۲۱۰؍۸ کلیات غالب فارسی ص ۴۵۳ ۲۱۱؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۶۶۶’۶۶۷ ۲۱۱؍۲۴ ایضاً ص ۶۶۷ ۲۱۲؍۷ ایضاً ص ۶۶۸ ۲۱۲؍آخر ایضاً ۲۱۳؍۳ ایضاً ۲۱۳؍۱۲ ایضاً ص ۶۶۶ ۲۱۳؍۲۰ ایضاً ۲۱۴؍۵ آل عمران۔ ۱۱۰۔ (تم لوگ) اچھی جماعت ہو کہ وہ جماعت لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے۔ ۲۱۴؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۶۶۹‘۶۷۰ نواں باب جمہوریت ۲۱۷؍۴ کلیات سعدی (گلستان) ص ۱۰۳ ’’باید کی بجائے ’’باشد‘‘ ہے۔ ۲۱۷؍۶ دیوان حافظ ص ۱۹۲۔ کسی گزشتہ حاشیے میں پہلے مصرعے میں فرق کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ ۲۲۰؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۸۳۱‘۸۳۲ ۲۲۱؍۷ کلیا ت اقبال اردو ص ۲۶۰۔۲۶۲ ۲۲۳؍۶ ایضاً ص ۲۶۲‘۲۶۳ ۲۲۳ ؍ آخر ایضاً ص ۲۷۴ ۲۲۴؍ ۱۴ دیوان غالب ص ۶۶ گو لاکھ کی بجائے ہرچند ہے۔ ۲۲۴؍ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۶۱‘۳۶۲ ۲۲۶؍ آخر ایضاً ص ۳۰۵ ۲۲۷؍۱۵ کلیات اقبال اردو ص ۳۶۲ ۔ پہلا مصرع ہے: رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم۔ ۲۲۷؍۲۰ ایضاً ص ۶۰۴ ۲۲۹؍۲ کلیات اقباال فارسی ص ۶۶۴ پہلا مصرع ہے: دین حق از کافری رسوا تر است ۲۲۹؍۳ ایضاً ص ۶۶۴ ۲۲۹؍آخر ایضاً ص ۵۵۹‘۵۶۰ دسواں باب عقل پر اقبال کی تنقید ۲۳۰؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۹ ۲۳۰؍۲۳ ایضاً ص ۳۶۳ پہلا مصرع ہے: نے مہرہ باقی نے مہرہ بازی ۳۳۱؍۹ حوالہ پہلے آ چکاہے۔ ۳۳۱؍۱۰ بے شک بعض اشعارمیں حکمت ہوتی ہے اوربعض بیان سحر کے حامل ہوتے ہیں۔ حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۲۲۱؍۲۲کلیات اقبلا اردو ص ۹۰ ۲۳۲؍۲ ایضاً ص ۲۶ ۲۳۲؍۱۱ مثنوی نلد من فارسی ا ز علامہ ابو الفیض فیضی مطبع نولکشور لکھنو ص ۵۲ ۲۳۳؍۱۲ کلیات اقبا ل اردو ص ۱۲۶ ۲۳۳؍۲۰ ایضاً ص ۱۲۷ ۲۳۴؍۹ کلیات غالب فارسی ص ۳۲۰ ۲۳۴؍۱۲ دیوان ذوق ص ۲۴۹ ۔ اصل متن میں دوسرا مصرع یوں ہے مر گئے پر نہ لگا جی تو کدھر جائیں گے۔ حاشیے میں دوسرا مشہور مصرع بھی دیا ہے۔ ۲۳۵؍۱۵ مثنوی شعلہ عشق کے اولین شعر کا پہلا مصرع ہے۔ دوسرا مصرع نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہورکلیات میر ص ۸۹۰ ۲۳۵؍۱۹ کلیات اقبال اردو ص ۱۱۱ ۲۳۶؍۳ ایضا ً ص ۱۱۲ ۲۳۶؍۹ ایضاً ص ۱۲۵ ۲۳۶؍ ۱۹ ایضاً ص ۱۵۵‘۱۵۶ ۲۳۷؍۲ ایضاً ص ۲۸۱ ۲۳۷؍۴ ایضاً ص ۱۰۴ ۲۳۷؍۶ ایضاً ص ۹۹ ۲۳۷ ؍۱۶ کلیات غالب فارسی ص ۴۵۳ ۲۳۷؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۱۹۳ ۲۳۷؍۲۲ سرور رفتہ ص ۶۴ ۲۳۸؍۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۳۳۰ ۲۳۸؍۲۳ سرود رفتہ ص ۱۳۱ ۲۳۹؍۲۳ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۴ ۲۳۹؍۲۵ ایضاً ص ۳۷۹ ۲۴۰؍۱ ایضاً ص ۳۸۰ ۲۴۰؍۵ ایضاً ص ۳۱۱ ۲۴۰؍۷ ایضاً ص ۳۱۹ ۲۴۰؍۹ ایضاً ص ۳۱۹‘۳۲۰ ۲۴۰؍۱۳ ایضاً ص ۳۲۵ ۲۴۰؍۱۷ ایضاً ص ۳۲۶ ۲۴۰؍ آخر ایضاً ص ۳۲۸ ۲۴۱؍۱ ایضاً ص ۳۳۵ ۲۴۱؍۵ ایضاً ۲۴۱؍۹ ایضاً ص ۳۳۷ ۲۴۱؍۱۱ ایضاً ص ۳۳۹ ۲۴۱؍۱۳ ایضا ً ص ۳۴۳ ۲۴۱؍۱۸ ایضاً ۲۴۲؍۱ پیام مشرق کی نظم محاورہ مابین خدا و انسان سے ماخوذ اور انسان کا قول ہے کلیات اقبال فارسی ص ۲۸۴ ۲۴۲؍۳ کلیات اقبال اردو ص ۳۵۱ ۲۴۲؍۷ ایضاً ۲۴۲؍۵ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ صحیح شعر کسی گزشتہ حاشیے میں ملاحظہ ہو ۲۴۳؍۲۴ کلیات اقبال اردو ص ۳۵۵ ۲۴۴؍۱ کلیات غالب فارسی ص ۲۶۱ پہلا مصرع ہے: زما گر مست این ہنگامہ بنگر شور ہستی را ۲۴۴؍۱۰ کلیات اقبال اردو ص ۲۷۸ ۲۴۴؍۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱ ۲۴۴؍۲۴ کلیات اقبال اردو ص ۳۵۵ ۲۴۵؍۱ ایضاً ص ۲۰۵ ۲۴۵؍۷ کتاب مثنوی ص ۵۸۸ دوسرا مصرع اس طرح شروع ہوتا ہے۔ کو بدو کورا…الخ ۲۴۵؍۱۴کلیات اقبال اردو ص ۳۵۵ ۲۴۵؍۱۷ ایضاً ص ۳۳۵ ۲۴۵؍آخر ایضاً ص ۳۷۵ ایضاً ص ۳۷۶ ۲۴۶؍۹ ایضاً ص ۲۹۹ پہلا مصرع ہے: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں؟ ۲۴۶؍۱۸ کلیات دیوان شمس تبریز ص ۶۰۲ اصل شعر یوں ہے: نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم غزلیات شمس تبریزی با مقدمہ استاد جلال الدین ھمائی و علی دشتی تہران ص ۳۷۲ میں ’’ہم از‘‘ کی بجائے ہمہ ز‘‘ ہے نیز ملاحظہ ہو دیوان حضرت شمس تبریز (نولکشور) ص ۲۵۲ ۲۴۶؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۷۷ ۲۴۷؍۲ ایضاً ص ۳۹۰ ۲۴۷؍۵ ایضاً ۲۴۷؍۱۱ ایضاً ص ۳۹۸ ۲۴۷؍۱۹ دیوان غالب ص ۱۰۰ ایک راھرو کی بجائے اک تیز رو ہے۔ ۲۴۷؍ آکر کلیات اقبال اردو ص ۴۰۱ ۲۴۸؍۱۰ ایجاً ص ۴۰۶ ۲۴۷؍۱۶ النراعت ۲۴ (پس فرعون نے کہا) میں تمہارا ر ب اعلیٰ ہوں۔ ۲۴۷؍۱۹ کلیات اقبال اردو ص ۴۲۲ ۲۴۷؍۲۳ ایضاً ص ۱۴۱ ۲۴۹؍آخر ایضاً ص ۴۲۹ ۲۵۰؍۲ کتاب مثنوی ص ۳۸ کلیات اقبال اردو ص ۴۲۹ مثنوی میں ’دید‘‘ کی بجائے ’’دیدہ‘‘ اور دوسرا مصرع یوں ہے : دیدہ آنست آنکہ… الخ ۲۵۰؍۱۰ کلیات اقبال اردو ص ۲۴۰ ۔ آخر ی شعر بادئی تغیر غالب کا ہے ملاحظہ ہو۔ دیوان غالب ص ۱۰۰۔ ۲۵۰؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۴۵۶ ۲۵۲؍۷ اللہ کے اخلاق کو اپنائو حدیث ۲۵۲؍۱۰ کلیات اقبال اردو ص ۳۲۳ ۲۵۴؍۷ کلیات اقبال فارسی ص ۲۷۶ دوسرا شعر پہلے ہے۔ ۲۵۵؍۱۶ ایضاً ص ۳۴۴ ۲۵۶؍۱ ایضاً ص ۲۶۷ ۲۵۶؍۵ ایضاً ص ۲۶۷‘۲۶۸ گیارہواں باب عشق کا تصور ۲۵۸؍۱۲ سرمد شہید مرتبہ ابوالکلام آزاد مطبوعہ (ادبستان ۔ ۱۹۷۳ئ) ص۹۱ رباعی کا دوسرا شعر یہ ہے: عمرے باید کہ یار آید بکنار این دولت سرمد ہمہ کس راہدہند ۲۵۸؍۲۲ کتاب مثنوی ص ۴ پہلے مصرع میں تفسیر و بیان کی بجائے تفسیر زبان ہے۔ ۲۵۹؍۱۰ حوالہ کی گزشتہ حاشیے میں دیا گیا ہے۔ ۲۵۹؍۱۴ کتاب مثنوی ص ۲ پہلے مصرع میں اے دوائے کے بجائے اے طبیب ہے اور اس مصرع سے پہلے یہ مصرع ہے: شادباش ای عشق خوش سودامی ما ۲۶۰؍۲ دیوان حافظ ص ۱۳۲ ۲۶۰؍۶ کتاب مثنوی ص ۲۰ پہلے مصرع میں در حضور کی بجائے صحبت با ہے۔ ۲۶۰؍۸ کلیات اقبال فارسی ص ۳۹۴ پہلا مصرع ہے وادی عشق بسے دور و دراز است ولے ۲۶۱؍۱ البقرہ۔ ۱۶۵… (اور جو مومن ہیں) ان کو (صرف) اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبت ہے۔ ۲۶۱؍۱۱ الانفعال ۔ ۱۷ … اور آپ نے وہ خاک کی مٹھی نہیںپھینکی لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ پھینکی۔ ۲۶۲؍۲۱ مثنوی شاہ بو علی قلندر ص ۔ ’’نور حق‘‘ کی بجائے ’’سر حق‘‘ ہے۔ ۲۶۳؍۴ کلیات میر زا عبدالقادر بیدل (مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان لاہور) ص ۴۲ پہلے مصرع میں گر کی بجائے اگر ہے۔ کلیات میں پہلے مصرع میں سمن کی بجائے ’’چمن‘‘ ہے جو کتابت کی غلطی ہے۔ ۲۶۳؍۶ یہ اقتباس بیدل ہی کی مذکورہ غزل کے ا س شعر سے ماخوذ ہے: ز سروش عالم کبریا ہمہ وقت می رسداین ندا کہ بخلوت ادبو وفا ز در برون نشدن درآ ۲۶۳؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۳ ۲۶۵؍۱۶ یہ شعر مغربی کا ہے۔ شعر العجم جلد پنجم (مطبوعہ کشمیری بازار لاہور ص ۱۰۰) میں لیکن کی بجائے اما ہے۔ ۲۶۵؍۱۸ دیوان غالب ص ۱۹۵ ۲۶۶؍۱ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۲۶۶؍۲ کتاب مثنوی ص ۱ ۲۶۶؍۱۶ ایضاً ص ۲۰۰ آخری شعر میں پرآں کی بجائے قربان ہے۔ ۲۶۶؍ آخر ایضاً ۲۶۷؍۴ حوالہ پہلے گزر چکاہے۔ ۲۶۷؍۵ اخوان الصفا و خلان الوفا چوتھی صدی ہجری دسویں صدی کے ایرانی فلاسفہ کا ایک گروہ ہے جنہوںنے یونانی فلسفہ اور دین اسلام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے ٹھوس اقدام کیے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تاریخ ادبیات در ایران جلد اول تالیف و کتر ذبیح اللہ صفا مطبوعہ تہران ص ۳۱۹ ببعد ۲۶۷؍۱۱ کتاب مثنوی ص ۳۱۲‘۳۱۳ بادئی تغیر ۲۶۷؍۲۲ ایضاً ص ۵۲۰ ۲۶۸؍۱۵ آل عمران۔ ۱۹۱… (اہل عقل… آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پید ا نہیں کیا۔ ۲۶۹؍۴ الدھر۔ ۱۔ بے شک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آ چکا ہے کہ جس میں وہ کوئی چیز قابل تذکرہ نہ تھا (یعنی انسان نہ تھا بلکہ نطفہ تھا)۔ ۲۷۱؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۹۳۸ ۲۷۲؍۸ ایضاً ص ۴۶۸ ۲۷۲؍۱۲ کلیات اقبال اردو ص ۲۵۲ ۲۷۲؍۱۷ کتاب مثنوی ص ۵۶ ۲۷۲؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۲۶ ۲۷۲؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۷۳‘۲۷۴ ۲۷۲؍۱۷ ایضاً ص ۶۱۰ ۴۷۲؍۱۰ ایضا ً ص ۴۰۹ ۲۷۴؍۱۷ ایضاً ص ۶۵۷‘۶۵۸ ۲۷۴؍۲۲ ایضاً ص ۲۲۵‘ اس سے پہلے شعر کا دوسرا مصرع پہلا مصرع ہے۔ ۲۷۵؍۱ مکمل شرح کلام غالب از عبدالباری آسی (صدیق بک ڈپو لکھنو ص ۵۳) ۲۷۵؍۳ کلیات دیوان شمس تبریزی(تہران) ص ۱۶۶۔ پہلا شعر غزل کا چودھواں شعر ہے جبکہ دوسرا غزل میں دسواں شعر ہے۔ دوسرے مصرع میں ’’دام‘‘ کی باجائے ’دیو‘‘ تیسرے مصرع میں از کی بجائے ’’زیں‘‘ چوتھے میں ’’یزدانم‘‘ کی بجائے ’’داستانم‘‘ پانچویں میں ’’گفتم‘‘ خ بجائے ’’گفتہ‘‘ اور ’’گفتند‘‘ کی بجائے ’’جستہ‘‘ ہے۔ ۲۷۵؍۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۵۲۲ ۲۷۶؍۴ احزاب ۔ ۷۲… (تحقیق انسان ) ظالم ہے جاہل ہے۔ ۲۷۶؍۹ کلیات اقبال فارسی ص ۶۵۳ ۲۷۶؍۱۱ ایضاً ص ۶۵۳‘۶۵۴ ۲۷۷؍۱ کتاب مثنوی ص ۳۲۰ ’’مستان ‘‘ کی بجائے ’’ہستان‘‘ ہے ۲۷۷؍۳ ایضاً ص ۱۸ کاندراں کی بجائے کاندرو ہے ۲۷۷؍۶ دیوان غالب ص ۶۲ ۲۷۷؍۱۲ ملاحظہ ہو حاشیہ ۹۸؍۱۸ ۔ خلیفہ مرحوم نے یہاں صرف ’’مرزا صاحب‘‘ لکھا ہے اور چونکہ اس سے پہلے مرزا غالب کا ذکر اور شعر میں آ چکا ہے اس لیے یہ شعر غالب سے منسوب سمجھا جانے لگا لیکن یہاں خلیفہ مرحوم کو سہو ہوا ے ۔ یہ شعر مرزا صائب سے منسوب ہے۔ ۲۷۷؍۱۸ کلیات غالب فارسی ص ۴۲۰ ’’بجاماندم‘‘ کی بجائے بوفا مردم ہے۔ ۲۷۸؍۵ کلیات اقبال اردو ص ۵۰ ۲۷۸؍۱۸ایضاً ص ۵۱ ۲۷۹؍۱۰ ایضاً ص ۵۸ ۲۷۹؍۱۶ ایضاً ۲۷۹؍۲۵ کتاب مثنوی ص ۴۶۵ دوسرا مصرع ہے و آن دوا اور در نفع ہم گرہ شود ۲۸۰؍۱ کللیات اقبال اردو ص ۱۵۶ ۲۸۰؍۵ کتاب مثنوی ص ۷ ۲۸۰؍۱۰ کلیات اقبل اردو ص ۱۲۲ ۲۸۰؍۲۰ ایضاً ص ۱۲۳ ۲۸۱؍۸ دیوان غالب ص ۲۳۱ پہلا مصرع ہے : ہے چشم تر میں حسرت دیدار سے نہاں ۲۸۱؍۱۱ یہ شعر نہ تو کلیات اقبال فارسی میں کہیں نظر آیاہے اور نہ سرود رفتہ ہی میں ۲۸۱؍۱۵ کلیات اقبال اردو ص ۵۸۹ ۲۹۱؍۱۸ ایضاً ص ۱۰۵ ۲۸۱؍۲۳ دیوان غالب ۱۰۸ ۔ کہتے ہیں کی بجائے باندھتے ہیں ہے۔ ۲۸۲؍۵ کلیات اقبال اردو ص ۱۲۹ ۲۸۲؍۹ دیوان حافظ ص ۹۷ ۲۸۲؍۱۷ پہلا مصرع بزیر کنگرہ کبریاش مردانند سوانح مولانا روم از علامہ شبلی مرتبہ سید عابد علی عابد لاہور ص ۷۲۔ بقول شبلی مرزا غالب اس شعر پر سر دھنا کرتے تھے۔ نیز ملاحظہ ہو کہ حکمت رومی از خلیفہ عبدالحکیم لاہور ص ۱۴۰‘۲۴۱ ۲۲۸۲؍۱۸ کلیلات اقبال اردو ص ۱۲۰ ۲۸۲؍۲۱ ایضاً ص ۱۹۳ ۲۸۲؍۲۴ کلیات غالب فارسی ص ۲۶۲ ۲۸۲؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۱۳۰ ۲۸۲؍۱۰ ایضاً ص ۱۳۲ ۲۸۴؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۵ ۲۸۴؍۹ کلیات غالب فارسی ص ۴۹۹ ۲۸۴؍۱۲ دیوان غالب ص ۴۳ ۲۸۴؍۲۰ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۶ ۲۸۵؍۱۴ ایضاً ۲۸۵؍۲۲ ایضاً ص ۱۹۷ ۲۸۶؍۴ دیوان غالب ص ۴۳ ۲۸۶؍۹ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۷۔ پہلا مصرع ہے مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا اردو کے مشہور شاعر حفیظ ہوشیار پوری مرحوم نے لیاقت علی خان مرحوم کے قتل کی تاریخ اسی مصرع صلہ شہید… الخ سے نکالی تھی۔ ۲۸۶؍۱۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۸ ۲۸۶؍۱۷ کلیات غالب فارسی ص ۴۵۳ ۲۸۶؍۲۰ کلیات اقبال فارسی ص ۳۲۵ ۲۸۶؍ ۲۲ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۲۸۶؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۸ ۲۸۷؍۹ ایضاً ص ۱۹۹ ۲۸۷؍۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۲۷۹ ۲۸۷؍ ۱۴ دیوان حافظ ص ۱۲۵ بادئی تغیر ۲۸۷؍۲۱ صنمخانہ عشق (امیر مینائی) مطبوعہ محمد تیغ بہادر لکھنو ۱۳۴۶ھ ص ۲۲۷ ۲۸۷؍۱۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۹ ۲۸۸؍۱۷ ایضاً ص ۲۰۱ ۲۸۸؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۲۷۸ ۲۸۸؍۲۵ حدیث قدسی۔ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جائوں سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا ۲۸۹؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۰۱ ۲۸۹؍۱۶ کتاب مثنوی (رومی) کے اولین شعر کا دوسر ا مصرع ص ۱۔ پہلا مصرع ہے: بشنو ازنی چون حکایت می کند۔ دوسرے مصرع میں ’’از ‘‘ کی بجائے ’’وز‘‘ ہے۔ ۲۸۹؍۱۸ کلیات اقبال اردو ص ۲۹۹ ۲۹۰؍۳کلیات اقبال فارسی ص ۱۹۹ ۲۹۰؍۷ ایضاً ص ۲۱۹ ۲۹۰؍۱۱ ایجاً ص ۲۱۰ ۲۹۰؍۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۴۹۹ ۲۹۱؍۷ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۱ ۲۹۱؍۱۲ النجم۔ ۱۷ نگاہ تو ہ ہٹی اور نہ بڑھی۔ ۲۹۱؍۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۹۔ چو کی بجائے گر ہے۔ ۲۹۱؍۲۲ کتاب مثنوی ص ۷۶۔ پہلے مصرع میں ’’گر‘‘ کی بجائے ’’ور‘‘ ہے اوردوسرے میں ’’تراوداز‘‘ کی بجائے ’’آیداز گفت ‘‘۔ ۲۹۲؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۴ ۲۹۲؍۶ کلیات اقبال اردو ص ۳۲۳ ۔ پہلا مصرع۔ من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج ۲۹۲؍۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۵ ۲۹۲؍۲۰ ایضاً ص ۶۵۲ پہلا مصرع غلط چھپا ہے اصل یوں ہے زانکہ حق در باطل او مضمراست ملاحظہ ہو جاوید نامہ ۱۹۴۷ء ص ۶۹ ۲۹۲؍آخر ایضاً ص ۲۱۹ ۲۹۳؍۱ دیوان غالب ص ۱۰ ۲۹۳؍۳ ایضاً ص ۲۱۲ ۲۹۳؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۵ ۲۹۳؍۱۸ ایضاً ص ۱۷ پہلا مصرع: ماز تخلیق مقاصد زندہ ایم ۲۹۳؍۲۰ ایضاً ص ۲۳۴ ۲۹۴؍۱ غالب کے اس شعر سے ماخوذ ہے: (دیوان غالب ص ۱۱۸): قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں ۲۹۴؍۱۴ دیوان غالب ص ۸۰ ۲۹۴؍۱۶ ایضاً ص ۱۵۰ مجھے کی بجائے ہمیں ہے۔ ۲۹۴؍۱۹ کلیات اقبا ل اردو ص ۱۳۲ ۲۹۴؍۲۲ دیوان غالب ص ۵۶ ۲۹۴ی؍۲۴ ایضاً ص ۲۱۵ پہلے مصرع میں اگر کی بجائے نہیں اور نہیں کی بجائے نہ ہو ہے۔ ۲۹۵؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۴۸ ۲۹۵؍۱۹ کتاب مثنوی ص ۴ و بیان کی بجائے زبان ہے۔ ۲۹۵؍۲۴ مثنوی رومی سے ماخوذ ہے دوسرا مصرع ہے: گرد لیلت باید از وی رومتاب (کتاب مثنوی ص ۴) ۲۹۵؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۲۴۹ ۲۹۶؍۵ ایضاً ص ۳۲۶ ۲۹۶؍۱۹ دیوان حافظ ص ۷ ۲۹۶؍۲۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۹۲ ۲۹۸؍۴ ایضاً ص ۳۰۳ ۲۹۸؍۱۶ ایضاً ص ۳۵۹ بال بلبل دگر و بازوے اہین دگر است ۲۹۸؍۱۹ ایضاً ص ۳۵۹‘۳۶۰ ۲۹۹؍۵ کیلات اقبال اردو ص ۶۳۶ ۲۹۹؍۱۰ دیوان حالی ص ۷۲ ۲۹۹؍۱۳ ایضاً ص ۱۴۴۔ دوسرامصرع یوں ہے۔ یا گھر ہے وہ خود …الخ تیسرے مصرع میں ’’پر‘‘ کی بجائے ’’پہ‘‘ ہے۔ ۲۹۹؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۶۰‘۳۶۱ ۳۰۰؍۱۰ ایضاً ص ۳۶۲ پہلا مصرع چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است ۳۰۰؍۱۴ ایضاً ص ۳۶۱‘۳۶۲ ۳۰۱؍۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۴ ۔ دوسرا مصرع : اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی ۳۰۱؍۱۳ یہ شعر عمر خیام کی رباعی سے ماخو ذ ہے جس کا صحیح متن یوں ہے: گرمی نخوری طعنہ مزن مستان را بنیاد مکن تو حیلہ و دستان را تو غزہ بدان مشوکہ می می نخوری صد لقمہ خوری کہ می غلام است آن را (رباعیات خیام باتصویر رنگین تصحیح مرحوم محمد علی فروغی تہران ۱۳۳۳ شمسی ص ۳) ۳۰۱؍۱۶ پہلا مصرع: فقیہ مدرسہ دی مست بود و فتویٰ داد (دیوان حافظ ص ۳۱ ۳۰۱؍۱۹ خیام کی یہ رباعی مذکورہ ایرانی ایڈیشن میں نہیں ہے۔ البتہ نولکشوری ایڈیشن میں بادئی تغیر ملتی ہے۔ (مجموعہ رباعیات عمر خیام۔نولکشور لکھنو ص ۷۱) قاضی کی بجائے مفتی تیسرے مصرع میں ’’من‘‘ کی بجائے ’’ما‘‘ اور چوتھے میں ’زانصاف بگو‘‘ کی بجائے ’’انصاف بدہ ‘‘ ہے۔ ۳۰۲؍۲۰ کلیات فارسی س ۳۷۸ ۳۰۲؍۱۳ کلیات اقبال اردو ص ۴۱۶ ۳۰۶؍۱۶ ایضاً ص ۴۸۲‘۴۸۳ بارھواں باب تصوف ۳۰۹؍۱۴ یہ آیت قرآن کریم میں کئی مقامات پر آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس سے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ ۳۱۰؍۵ دیوان غالب ص ۱۲۱ ’’دے ‘‘ کی بجائے ’’دو‘‘ ہے۔ ۳۱۱؍۵ ان اشعار کے لیے ملاحظہ ہو سرو د رفتہ ص ۷۰ ببعد ۳۱۱؍۱۶ دیوان حافظ ص ۲۳۱ پہلا مصرع غم غریبی و غربت چو برنمی تابم ۳۱۴؍۸ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۳ ۳۱۴؍۱۰ ایضاً ص ۳۰۹ ۳۱۴؍۱۲ ایضاً ص ۳۲۰ ۳۱۴؍۱۴ ایضاً ص ۳۵۹ ۳۱۴؍۱۶ ایضاً ص ۳۵۹ ۳۱۴؍۱۸ ایضاً ص ۳۶۳ ۳۱۵؍۳ ایضاً ص ۴۴۰ ۳۱۵؍۵ ایضاً ص ۴۴۱ ۳۱۵؍۷ کلیات اقبال فارسی ص ۲۷۶ ۳۱۵؍۱۳ ایضاً ص ۳۰۳ ۳۱۵؍۱۵ ایضاً ص ۳۳۱ ۳۱۵؍۱۷ ایضاً ص ۳۳۵ ۳۱۶؍۸ ایضاً ص ۳۷۲ ۳۱۶؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۲۶ ۳۱۷؍۳ کلیات اقبال فارسی حاشیہ ص ۳۷۶ ۳۱۷؍۱۱ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ ۔ یہاں خلیفہ مرحوم نے صحیح شعر درج کیا ہے۔ ۳۱۷؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۳۷۶‘۳۷۷ ۳۱۸؍۱۱ ایضاً ص ۳۷۷ ۳۱۹؍۳ کلیات غالب فارسی ص ۴۵۳ ۳۱۹؍۷ کلیات اقبال فارسی ص ۳۸۲ ۳۱۹؍۱۲ ایضاً ۳۱۹؍ ۱۵ ایضاً نیز کلیات غالب فارسی ص ۴۵۳ ۳۱۹؍۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۳۸۲ ۲۲۰؍۹ کلیات اقبال ارو ص ۵۸۰ ۲۲۰؍۱۵ ایضاً ص ۵۸۳ ۲۲۱؍۲۰ تیرا وجو د گناہ ہے۔ ۲۲۱؍۲۲ دیوان غالب ص ۶۶ بادئی تغیر ۲۲۲؍۶ رباعیات… شیخ ابو سعید ابوالخیر مطبوعہ کشمیری بازار لاہور ۱۹۳۵ ص ۷۱ ۔ ا س رباعی کا یہ شعر ہے: دل جز رہ عشق تو پیوند ہر گز جز محنت و درد تو نجوید ہرگز ۲۲۲؍۱۸ اکلیات اقبال اردو ص ۵۸۹ ۳۲۲؍۲۱ رباعیات شیخ ابو سعید ابو الخیر ص ۴۸ بادئی تغیر ۳۲۴؍۱۰ ایضاً ص ۱۰۸ منزل کی بجائے مسکن ہے۔ ۳۲۵؍۲ ؟ ۳۲۶؍۲ دیوان غالب ص ۲۲ ۳۲۶؍۸ کلیات اقبال اردو ص ۴۶ ۳۲۶؍۱۰ ایضاً ص ۶۱ ۳۲۶؍۱۹ ایضاً ص ۸۵ ۳۲۷؍۵ ایضاً ص ۱۱۴ ۳۲۷؍۱۱ ایضاً ص ۱۱۳ ۳۲۷؍۱۳ ایضاً ص ۱۳۷ ۳۲۷؍۱۵ ایضاً ص ۱۳۸ ۳۲۸؍۲۲ کلیات میرزا عبدالقادر بیدل ص ۲۰ ’’طاق کی بجائے’’دوش ‘‘ ہے۔ ۳۲۹؍۲ رباعیات سحابی مرتبہ کے ایم میترا لاہور ۱۹۲۰ء ص ۲ ’’بخروش ‘‘ کی بجائے ’’بہ فغاں‘‘ اور ’’غافل‘ ‘ کی بجائے ’’جاہل ‘‘ ہے۔ ۳۲۹؍۱۰ دیوان قصاید و ترجیعات و غزلیات… عطا ر نیشا پوری تصحیح سعید نفیسی تہران ’’سر‘‘ کی بجائے ’’نیز‘‘ اور ’’اوبود ‘‘ کی بجائے ’’بوداو‘‘ ہے۔ ۳۲۹؍۱۵ گلشن راز شیخ محمود شبستری۔ مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان۔ ص ۲۷ ’’انا الحق ‘‘ کی بجائے ’’انا اللہ‘‘ ہے ۳۲۹؍۱۷ یہ تین مصرعے عطار کے ایک قصیدے سے ماخوذ ہیں۔ دیوان عطار… ص ۷۳ پہلا مصرع یوں ہے: گر بحر کون موج بر آوردہ صد ہزار تیسرے مصرع سے پہلے یہ مصرع ہے: آنجا حلول کفر بود اتحاد ہم اور ’’این‘‘ کی بجائے ’’کین‘ ‘ ہے۔ ۳۲۹؍۲۲ کلیات اقبال غالب فارسی ص ۱۶۵ ۳۲۰؍۴ ایضاً ص ۱۶۱ ۳۳۰؍۱۵ کلیات … عراقی مرتبہ سعید نفیسی ۔ تہران (چاپ چہارم) ص ۱۶۳ ۳۳۰ی؍۳۰ ایضاً ۳۳۱؍۱۶ دیوان حافظ ص ۵ ۳۳۱؍۲۲ گلشن راز ص ۳۲ ۔ ’’کان ‘‘ کی بجائے ’’کو‘‘ ہے۔ ۳۳۲؍۱۱ خمکدہ آزاد مرتبہ طاہر دہلی ص ۴۷ ۳۳۲؍۱۴ گلشن راز ص ۳۲ اشعار میں کئی جگہ تغیر ہے۔ ۳۳۳؍۳ ایضاً ص ۳۳ ۳۳۴؍۲۳ کتاب مثنوی ص ۸۲ دوسرا مصرع بادئی تغیر ۳۳۵؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۳۰ ۳۳۵؍۱۰ ایضاً ص ۷۱۸ تیرھواں باب اسرار خودی ۳۳۷؍۱۶ رباعیات سحابی… ص ۲ ۳۳۹؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۹۸ ۳۴۰؍۱ ایضاً ص ۳۲ ۳۴۰؍۱۵ ایضاً ص ۳۲‘۳۳ ۳۴۱؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۶۸ ۳۴۲؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۳۴ ۳۴۳؍۲۲ ایضاً ص ۱۳ ۳۴۴؍۱۵ ایضاً ۳۴۵؍۱ ایضاً ۳۴۵؍۱۴ ایضاً ص ۱۴ ۳۴۶؍۲ دیوان غالب ص ۸۰ ۳۴۶؍۵ حوالہ پہلے گزر چکا ہے ۳۴۶؍۱۲ حوالہ پہلے گزر چکا ہے ۳۴۶؍۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۱۵ ۳۴۷؍۱۰ ایضاً ص ۱۷ ۳۴۷؍۱۹ ایضاً ص ۳۳۶ ۳۴۸؍۳ ایضاً ص ۱۹ ۳۴۹؍۶ ایضاً ص ۳۰ ۳۵۱؍۱ ایضاً ص ۴۱ ۳۵۱؍۷ کلیات غالب فارسی ص ۴۸۳ ۳۵۱؍آخر کلیلات اقبال اردو ص ۳۴۷ ۳۵۲؍۴ کلیات اقبال فارسی ص ۴۴ ۳۵۲؍۹ ایضاً ص ۴۵ ۳۵۲؍۱۷ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۳۵۲؍۲۴ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۳۵۲؍آخر دیوان حافظ ص ۳۵۸ طرح دیگر کی بجائے ’’طرحی نو در‘‘ ہے پہلا مصرع یوں ہے: بیاتا گل برافشانیم و می در ساغر اندازیم ۳۵۳؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۴۹ ۳۵۴؍۹ ایضاً ص ۴ ان اشعار سے متعلق کلیات دیوان شمس تبریزی کا حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۳۵۴؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۶۲ ۳۵۵؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۴۷۷۔ پہلا مصرع ہے : خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری ۳۵۵؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۷ ۳۵۵؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۷ رباعی نمبر ۶۸ ۳۵۷؍۱۱ ایضاً ص ۷۲ ۳۵۷؍۲۲ ایضاً ص ۷۳ ۳۵۸؍آخر ایضاً ص ۷۴ چودہواں باب اقبال اپنی نظر میں ۳۵۹؍۷ الشعرا۔ ۲۲۵۔ (اے مخاطب کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ (شاعر) لوگ (خیالی مضامین کے ) ہر میدان میں حیران پھرا کرتے ہیں۔ ۳۵۹؍۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۱۵۱ ۔ پہلا مصرع ہے: روح مشیت خاک میں زحمت کی بیدا ہے۔ ۳۵۹؍۱۲ مثنوی رومی سے ماخوذ ہے۔ پہلامصرع ہے: خوشتر آن باشد کہ سر دلبران کتاب مثنوی ص ۵ ۳۶۱؍۱۰ کلیات سعدی تہران ص ۱۱۲ (گلستان باب دوم) ۳۶۱؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۲۴ ۳۶۲؍۱۱ ایضا ص ۲۴‘۲۵ ۳۶۲؍۲۴ ایضاً ص ۴۰ ۳۶۳؍۴ ایضاً ص ۴۲ ۳۶۳؍۱۰ ایضاً ص ۴۲‘۴۳ ۳۶۳؍۲۱ ایضاً ص ۴۷‘۴۸ ۳۶۴؍۶ دیوان حافظ ص ۱۲۵ ۳۶۴؍۸ دیوان غالب ص ۱۱۲ ۳۶۴؍۱۴ کلیات اقبال اردو ص ۴۸‘۴۹ ۳۶۵؍۲ ایضاً ص ۴۹‘۵۰ ۳۶۵؍۱۱ ایضاً ص ۵۲ ۳۶۶؍۳ ایضاً ص ۶۰ ۳۶۶؍۱۹ سرود رفتہ ص ۱۱۶ (تصویر درد‘ دوسرا بند) ۳۶۷؍۱ کتاب مثنوی ص ۱ ۳۶۷؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۶۰ ۳۶۷؍۱۹ ایضاً ص ۶۸ ۳۶۸؍۱۰ کلیات اقبال فارسی ص ۲۲۹ ۳۶۸؍۱۴ سرود رفتہ ص ۱۰۳ ۳۶۸؍۲۱ کلیات اقبال اردو ص ۹۶ ۳۶۹؍۶ ایضاً ص ۹۷ ۳۶۹؍۱۴ ایضاً ص ۱۰۵ ۳۶۹؍۲۱ ایضا ً ص ۱۰۷ ۳۷۰؍۱۳ ایضاً ص ۱۰۸ ۳۷۰؍۲۱ کلیات سعدی تہران ص ۱۶۳ (گلستان باب پنجم) ۳۷۰؍۲۲ اس شعر سے ماخوذ ہے میر ی لائف لکھو ایام جوانی کے سوا سب بتا دوں گا تمہیں ’’افند و دانی‘‘ کے سوا ۳۷۰؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۱۲۰ ۳۷۱؍۱۲ ایضاً ۱۲۲ ۳۷۱؍۲۳ یہ مصرع سلطان ابو القاسم بابر میرزا بن با یسغر میرزا کا ہے۔ مغلیہ خاندان کے بانی ظہیر الدین بابر کا نہیں اول الذکر کی وفات ۸۰۱؍ ۹۔ ۱۳۹۸ میں ہوئی پہلا مصرع ہے: نو روز و نو بہار و می دلبران خوشست ملاحظہ ہو تذکرہ حسینی از میر حسین دوست سنبھلی مطبوعہ نولکشور ۱۸۷۵ء ص ۶۴ ۳۷۱؍آکر کلیات اقبال اردو ص ۱۲۵‘۱۲۶ ۳۷۲؍۱۸ ایضاً ص ۱۳۶ ۳۷۲؍۲۳ ایضاً ص ۱۳۲ ۳۷۲؍آخر ایضاً ص ۲۱۱ ۳۷۳؍۷ ایجاً ص ۱۷۳ ۳۷۴؍آخر ایضاً ص ۱۵۹ ۳۷۵؍۳ ایضاً ص ۳۱۰ ۳۷۵؍۸ ایضاً ص ۲۱۳ ۳۷۵؍۱۰ ایضاً ص ۱۷۰ ۳۷۶؍۵ ایضاً ص ۳۴۹ ۳۷۶؍۹ ایضاً ص ۱۹۳ ۳۷۶؍آخرایضاً ص ۲۳۸‘۲۳۹ نیز دیوان حافظ ص ۱۸۵ ۳۷۷؍۹ کلیات اقبال اردو ص ۲۵۲ ۳۷۷؍۲۲ اایضاً ص ۲۵۲ ۳۷۸؍۱۵ ایضاً ص ۲۸۲ ۳۷۸؍۱۹ کلیات غالب فارسی ص ۳۸۱ صحیح شعر یوں ہے: رموز دین نہ شناسم درست و معذورم نہاد من عجمی و طریق من عربیست ۳۷۹؍۱۰ لوگوں کے ساتھ ان کی عقلوں کے مطابق کرو۔ ۳۷۹؍۱۳ کلیات اقبال اردو ص ۳۷۴ ۳۸۰؍۶ کلیات اقبال فارسی ص ۳۲۵ ۳۸۰؍۱۸ کلیات اقبال اردو ص ۴۰۵ ۳۸۰؍ ۲۱ ایضاً ص ۱۹۶۔ پہلا مصرع یوں ہے: سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو میں۔ ۳۸۱؍۲۰ دیوان حالی ص ۴۷ ۳۸۲؍۲ کلیات اقبال اردو ص ۳۸۲ ۳۸۲؍۷ دیوان غالب ص ۱۹۳ ۳۸۲؍۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۴۶۲ ۳۸۲؍۲۲ ایضاً ص ۴۳۹ ۳۸۳؍۳ ایضاً ص ۴۴۳ ۳۸۳؍۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۱۰۲۷ دوسرا شعر سعدی کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔ بنادانان چنان روزی رساند کہ دانا اندر آن عاجز بماند کلیات سعدی (گلستان باب اول) ص ۱۰۴ ۳۸۳؍۲۱ کلیات اقبال اردو ص ۶۹۰ ۳۸۳؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۹۳۶ ۳۸۴؍۳ ایضاً ۳۸۴؍۱۵ ایضاً ص ۹۵۷ ۳۸۴؍۱۹ ایضاً ۳۸۴؍ آخر ایجاً ۹۵۸ ۳۸۵؍۳ ایضاً ۳۸۵؍۷ ایضاً ص ۹۵۹ ۳۵۸؍۱۱ ایضاً ص ۹۶۰ ۳۸۵؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۳۱۳ پندرھواں باب گلشن راز جدید ۳۸۶؍۳ صحیح لفظ شبستری ہے۔ ملاحظہ ہو گلشن راز جدید(مطبوعہ مرکز تحقیقات فارسی و پاکستان۔ اسلام آباد و موسسہ انتشارات اسلامی لاہور ۱۳۹۸؍۱۹۷۸ نیز تاریخ ادبیات اور ایران تالیف و کتر ذبیح اللہ صفاء تہران ۱۳۵۳ شمسی جلد سوم ص ۷۶۳ ۳۸۶؍۳ گلشن راز ۷۱۷؍۱۳۱۷ میں تحریر ہوئی ۔ ۹۹۳ اشعار پر مشتمل ہے۔ شاعر کا نام شیخ سعد الدین محمود بن امین الدین عبدالحکیم… شبستری تبریزی ہے۔ آٹھویں صدی ہجری چودھویں صدی عیسوی کے مشہور صوفیا اور درمیانے درجے کے شعرا میں سے ہے۔ ولادت ۶۸۷؍۱۲۸۸ وفات بعمر ۳۳ سال ۷۲۰؍۱۳۲۰ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو گلشن راز جدید مقدمہ نیز تاریخ ادبیات در ایران جلد سوم ص ۷۶۳ ببعد ۳۸۶؍۲۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۳۷ ۳۸۷؍۱۳ کلیات بیدل ص ۴۲ بادئی تغیر ۳۸۷؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۵۳۸ ۳۸۸؍۱۰ ایضاً ۳۸۸؍۱۹ ایضاً ص ۵۳۹ ۳۸۹؍۲ ایضاً ۳۸۹؍۲۲ ایضاً گلشن راز ص ۸ ۳۹۰؍۱۴ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۱ ۳۹۰؍۲۳ ایضا ً ص ۵۴۲ ۳۹۱؍۲ ایضاً ۳۹۱؍۱۷ ایضاً ص ۵۴۳ نیز گلشن راز ص ۳۳ باین تغیر : چہ بحر است آنکہ نطقش…الخ ۳۹۲؍۱۰ کتاب مثنوی ص ۴۸ دوسرا مصرع پہلے ہے۔ ۳۹۲؍۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۴ ۳۹۳؍۴ ایضاً ۳۹۳؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۳۷۵ اس رباعی کے پہلے تین مصرعے یہ ہیں: خودی کی جلوتوں میں مصطفائی خودی کی خلوتوں میں کبریائی زمین و آسمان و کرسی و عرش … ۳۹۳؍ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۳۳۶ ۱۹۴؍۱ کتاب مثنوی ص ۴۸ نیز حاشیہ ۱۴ دیکھیں ۳۹۴؍۴ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۶ نیز گلشن راز ص ۳۱ ۳۹۴؍۱۵ اور ہم انسان کے اس قدر قریب ہیں کہ اس کی گردن سے بھی زیادہ۔ ۳۹۴؍۱۹ کتاب مثنوی ص ۳۴۳ ۳۹۴؍۲۴ ایضاً ص ۱ ۳۹۵؍۲۰ یہ رباعی رباعیات سرمد (مرغوب ایجنسی لاہور) اور سرمد شہید۔ سوانح۔رباعیات (ادبستان لاہور) میں نہیں ہے۔ البتہ کلمات الشعراء تالیف محمد افضل سرخو ش مرتبہ دلاوری لاہور (ص ۵۱) میں بادئی تغیر ہے ۔پہلامصرع آن را کی بجائے ہر کس دوسرا خود کی بجائے او اور تیسرا مصرع برشد احمد کی بجائے برفلک شد احمد ہے۔ ۳۹۶؍۸ ایضا ً ص ۵۴۶‘۵۴۷ ۳۹۶؍۲۴ ایضاً ص ۵۴۷ ۳۹۷؍۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۷ ۳۹۷؍۴ دیوان غالب ص ۱۱ ۔ واقف کی بجائے محرم ہے۔ ۳۹۷؍۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۷‘۵۴۸ ۳۹۸؍۱ ایضاً ص ۵۴۸ ۳۹۸؍۷ ایضاً ۳۹۸؍۱۱ کلیات انوری مطبوعہ لکھنو ۱۸۸۹ ص ۱۲۵ ۳۹۸؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۸ ۳۹۸؍۲۱ ایضاً ص ۵۴۹ نیز گلشن راز ص ۲۵ ۳۹۹؍۴ دیوان غالب ص ۱۶۵ ۳۹۹؍۱۳ مشہور ایرانی محقق و دانشور اور متحصص رومی بدیع الزمان فروز انفز نے رومی کے اس شعر کی معروف تشریح سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’نے‘‘ سے مراد خود مولانا روم ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : خلاصہ مثنوی مطبوعہ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور بورڈ ص ۶۹ ۳۹۹؍۲۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۴۹ ۴۰۰ی؍۷ ایضاً ۴۰۰؍۱۵ ایضاً ص ۵۰۰ ۴۰۰؍ ۲۰ ایضاً ۴۰۰؍۲۴ کلیات اقبال اردو ص ۲۷۹ ۴۰۰؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۰ ۴۰۱؍۶ دیوان غالب ص ۱۳۵ ۴۰۱؍۸ یہ مخمس کے ایک بند کے آخر دو مصرعے ہیں۔ دیوان میر درد مرتبہ عبدالباری آسی ص ۱۱۰ اور دیوان میر درد (شیخ مبارک علی لاہور) ص ۷۸ میں ’’آہستہ سے چل‘‘ کی بجائے ’’آہستہ گزر‘‘ ہے ۔ میرتقی میر کہتے ہیں: ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں یہ کارگاہ ساری دکان شیشہ گر ہے (کلیات میر ص ۱۷۶) ۴۰۱؍۱۰ کتاب مثنوی ص ۲۳ ’’خاک و باد‘‘ کی بجائے ’’بادوخاک‘‘ ہے۔ ۴۰۱؍۱۲ التغابن۔ ۱۔ سب چیزیں جو کچھ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں۔ ۴۰۱؍۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۰ دوسرا مصرع ہے: درودیوار و شہر و کاخ و کونیست ۴۰۱؍۲۱ ایضاً ۴۰۱؍۲۴ کلیات غالب فارسی ص ۴۹۸ ۴۰۲؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۰ ۴۰۲؍۱۰ ایضاً ص ۵۵۱ ۴۰۲؍آخر ایضاً ص ۵۵۱ ۴۰۳؍۱ کلیات میر ص ۷۳ پہلا مصرع یوں ۃے۔ مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے۔ اسی موضوع پر میر ہی کا یہ شعر ملاحظہ ہو: اس منزل دل کش کو منزل نہ سمجھیے گا خاطر میں رہے یاں سے درپیش سفر بھی ہے (کلیات میر ص ۳۶۳) ۴۰۳؍۴ کلیات اقبال اردو ص ۵۸۹ ۴۰۳؍۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۱ ۴۰۳؍۱۵ ایضاً ص ۵۵۲۔ نیز گلشن راز ص ۱۸ بادئی تغیر ۴۰۴؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۳ ۴۰۲؍۸ دیوان ناسخ۔ مطبوعہ نولکشور لکھنو ص ۳۔ پہلا مصرع مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا ۴۰۴؍۹ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۳ ۴۰۴؍۲۱ یہ شعر نہ تو کلیات شمس تبریزی (تہران) میں ہے اور نہ دیوان حضرت شمس تبریز مطبوعہ نولکشور ۱۹۲۴میں۔ ۴۰۴؍۲۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۳۔ دوسرا مصرع ہے : ثریا را گرفتن از لب بام ۴۰۴؍۲۷ ایضاً دوسرا مصرع تماشا بے شعا ع آفتابے ۴۰۴؍۲۸ ایضاً ص ۳۹۴ ۔ پہلا مصرع ہے۔ وادی عشق بسے دور و دراز است ولے ۴۰۵؍۲ ایضاً ص ۵۵۳ ۴۰۵؍۵ ایضاً ۴۰۵؍۱۱ دیوان حافظ ص ۱۲۵ ’’فال ‘‘ کی بجائے ’’کار ‘‘ ہے۔ ۴۰۵؍۱۳ کلیات غالب فارسی میں یہ شعر نہیں ہے اور نہ یادگار غالب مرتبہ حالی ہی میں کہیں نظر آیا ہے۔ سعدی اور میر تقی میر نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ مرا گناہ خودست ار ملامت تو برم کہ عشق بار گران بود و من مظلوم و جہول کلیات سعدی ص ۶۲۷ کی عرض جو متاع امانت ازل کے بیچ جب اور لے سکے نہ خریدار ہم ہوئے کلیات میر ص ۴۴۲ ۴۰۵؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۴ ۴۰۵؍۲۶ ایضاً ۵۵۵ نیز گلشن راز ص ۳۸ ۴۰۶ ؍ ۴ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۵ ۴۰۶؍ ۱۴ انسان اس کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔ ۴۰۶؍۱۷ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۶ ۴۰۷؍۳ کلیات اقبال اردو ص ۱۵۶ ۴۰۷؍۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۷ ۴۰۷؍۹ ایضاً ۴۰۷؍۱۲ ایضاً ص ۵۵۷ ۴۰۷؍۱۵ ایضاً ۴۰۷؍۱۸ ایضاً ص ۵۵۹ گلشن راز ص ۱۹ ۴۰۷؍۲۳ کلیات اقبال اردو ص ۳۴۵ ۴۰۸؍۳ ایضاً ص ۳۲۱ ۴۰۸؍۶ ایضاً ۴۰۸؍۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۸ ۴۰۸؍۲۳ ایضاً ۴۰۹؍۱ ایضاً ۴۰۹؍۷ ایضاً ص ۵۵۹ ۴۰۹؍۱۱ ایضاً ۴۰۹؍۱۵ ایضاً ۴۰۹؍۱۷ کتاب مثنوی ص ۳۸ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۴۰۹؍۲۲ کلیات اقبال فارسی ص ۵۵۹ دیوان غالب ص ۱۱۔ ’’واقف‘‘ کی بجائے ’’محرم‘‘ ہے۔ ۴۱۰؍۴ ایضاً ص ۵۲۲ ۴۱۰؍۸ کلیات دیوان شمس ص ۱۶۶ ’’گفتم ‘‘ کی بجائے ’’گفتند‘‘ ہے۔ ۴۱۰؍۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۱ ۔ گلشن راز ص ۲۶ ۔ ’’نکتہ‘‘ کی بجائے ’’نقطہ‘‘ اور ’’رمز مطلق‘‘ کی بجائے ’’مزبق‘‘ ہے۔ ۴۱۰؍۱۷ کتاب مثنوی ص ۱۴۰ ۔ ’’رسید ‘‘ کی بجائے ’’بود ‘ ‘ ہے۔ ۴۱۰؍۲۰ گلشن راز ص ۲۷ ۔ ’’انا الحق‘‘ کی بجائے ’’انا الحق‘‘ ہے۔ ۴۱۱؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۱ ۴۱۱؍۱۱ دیوان غالب ص ۱۴۷ ۴۱۱؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۱ ۴۱۱؍۱۷ ایضاً ۴۱۲؍۱۰ کلیات غالب فارسی (نولکشور) میں یہ شعر نہیں ملاخلیفہ مرحوم نے حکمت رومی (ص۱۳۴) میں بھی اس کا حوالہ دیا ہے۔ ۴۱۳؍۱۹ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۲ ۴۱۲؍آخر ایضاً ص ۵۶۲‘۵۶۳ ۴۱۳؍۱۱ ایضاً ص ۵۶۳ ۴۱۳؍۱۶ کلیات اقبال اردو ص ۵۸۰ ۴۱۳؍۲۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۴ گلشن راز ص ۲۴ ۴۱۳؍ آخر کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۴ ۴۱۴؍۲ ایضاً ص ۵۶۵ ۴۱۴؍۵ ایضاً ۴۱۴؍۹ ایضاً ۴۱۴؍۱۶ ایضاً ۴۱۴؍۱۸ لاعراف۔ ۱۷۲… کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو سب (اولاد آدم) نے جواب دیا : کیوں نہیں۔ ۴۱۴؍۱۹کلیات اقبال فارسی ص ۵۶۶ ۔ دوسرا مصرع ہے : ہزاران پردہ یک آوا ز ما سوخت ۴۱۴؍۲۱ ایضاً ۴۱۴؍۲۴ ایضاً ۴۱۴؍۲۶ ایضاً سترھواں باب ابلیس ۴۴۹؍۹ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ ۔ صحیح شعر نقل کیا جا چکا ہے۔ ۴۵۰؍۱۶ کلیات اقبال اردو ص ۱۱۴۔ پہلا مصرع نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا ۴۵۱؍۱۸ کتاب مثنوی ص ۳۸۲ ۔ بادئی تغیر ۴۵۱؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۲۵۵‘۲۵۶ ۴۵۲؍۱۶ کلیات غالب فارسی ص ۱۲۵ (مثنوی ابر گہر بار) ۴۵۳؍۱ دیوان غالب ص ۲۰ ۴۵۳؍۵ کلیات اقبال فارسی ص ۲۵۶‘ ۲۵۷ ۴۵۳؍۱۰ البقرہ۔ ۳۷ ۔ ۳۸۔ بعد ازاں حاصل کر لیے آدمؑ نے اپنے رب سے چند الفاظ تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی… ہم نے حکم فرمایا نیچے جائو اس بہشت سے سب کے سب۔ پھر کر آوے تمہارے پاس میر ی طرف سے کوئی ہدایت… ۴۵۴؍۸ الزم۔ ۷ ۔ کوئی شخص کسی کے (گناہ کا) بوجھ نہیں اٹھاتا۔ یہ آیت اور بھی چند مقامات پر آئی ہے مثلاً النجم ۳۸۔ ۴۵۴؍۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۲۵۷ ۴۵۵؍۲ کلیات اقبال اردو ص ۴۳۵۔ جبریل پوچھتے ہیں : ہمدم دیرینہ ! کیسا ہے جہان رنگ و بو ۴۵۵؍۱۲ ایضاً ص ۴۳۶ ۴۵۵؍۱۶ کلیات غالب فارسی ص ۷ ۴۵۵؍۲۲ کلیات اقبال اردو ص ۴۲۵ ۴۵۶؍۱ کلیات اقبال فارسی ص ۱۰۲۸ ۴۵۶؍۱۲ ایضاً ص ۷۲۲ ۴۵۶؍۱۲ ایضاً ص ۷۲۵ ۴۵۷؍۵ کتاب مثنوی ص ۱ ۴۵۷؍۹ کلیات اقبال فارسی ص ۷۲۲ ۴۵۷؍۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۱۰۷ ۴۵۷؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۷۲۳ یہ شعر رائے چند بھان برہمن (م ۱۰۷۳؍۳۔۱۶۶۲)کا ہے۔ اور اس واقعے اور شعر کے لیے ملاحظہ ہو تذکرہ گل رعنا (فصل دوم) از لچھمن نرائن شفیق (مطبوعہ حیدر آباد دکن) ص ۱۱ و کلمات الشعراء ص ۱۸ ۴۵۸؍۸ کلیات سعدی (گلستان) ص ۱۸۰ ۔ اگر بمکہ رود کی بجائے گرش بمکہ برند ہے۔ ۴۵۸؍۱۰ کلیات اقبال فارسی ص ۷۲۳ ۴۵۸؍۱۴ ایضاً ۴۵۸؍۱۸ ایضاً ۴۵۸؍۲۵ ایضاً ۴۵۸؍۲۶ کفر ایک واحد قوم ہے ۴۵۹؍۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۷۲۴ ۴۵۹؍۲۲ ایضاً ۴۶۰؍۲ ایضاً ص ۷۲۴‘۷۲۵ ۴۶۰؍۱۵ ایضاً ص ۷۲۵ ۴۶۰؍۲۱ یہ شعر امیر خسرو کا ہے۔ مرحوم ڈاکٹر خلیفہ کو یہاں سہو ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو کلیات غزلیات خسرو جلد دوم مرتبہ اقبال صلاح الدین (پیکجز لاہور) ص ۴۸۳ ۔ ’’این ‘‘ کی بجائے ’’آن‘‘ ہے۔ ۴۶۰؍۲۴ کلیات اقبال فارسی ص ۷۲۵ ۴۶۱؍۲ ایضاً ۴۶۱؍۱۳ ایضاً ص ۷۶۲ ۴۶۱؍۱۹ یہ اشعار حافظ سے منسوب ہیںلیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ایران میں اب تک جتنے دیوان حافظ کے مستند نسخے چھپے ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ غزل نہیںہے۔ البتہ برصغیر میں شائع شدہ نسخوں میں ان اشعار والی غزل موجود ہے۔ مثلاً نسخہ نولکشور میں ص ۲۵۶ مطبوعہ کشمیری بازار لاہور(دیوان صدر العرفا و فخر الشعرا الاستاد…حافظ شیرازی) ص ۲۱۶ ۔ حسین پژمان نے اسے مشکوک غزلوں میں شما ر کیا ہے۔ (دیوان …حافظ شیرازی تہران ۱۳۱۸ شمسی ص ۲۴۰) ۴۶۲؍۵ حوالہ پہلے گزر چکاہے۔ ۴۶۲؍۱۸ کلیات اقبال اردو ص ۳۸۰ ۴۶۳؍۹ کلیات اقبال فارسی ص ۲۱۰ سولھواں باب فنون لطیفہ ۴۱۶؍۲ دیوان غالب ص ۱۵ ’’زندگی میری‘‘ کی بجائے ’’پیکر عشاق‘‘ ہے۔ ۴۱۶؍۵ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ ۴۱۸؍۲۲ مثنوی رومی کے ایرانی مطبوعہ نسخوں میں یہ شعر نہیں ہے۔ اورنہ کلیات دیوان شمس ہی میں نظر آیا ہے ۔ ۴۱۹؍۲ کلیات اقبال فارسی ص ۶۲۱ پہلا مصرع ہے: این صوت دل آویزے از زخمہ مطرب نیست ۴۲۰؍۱۰ مسدس حالی مرتبہ سید عابد حسین ص ۷۵۔ ’’و‘‘ کی بجائے ’’اور‘‘ اور ’’ہے جو‘‘ کی بجائے ’’جو ہے ‘‘ ہے ۴۲۰؍۱۲ ایضاً ص ۷۶۔ اس بند کاپہلا مصرع یوں ہے : برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے اور چوتھے مصرع یعنی ’’تو وہ محکمہ الخ‘‘ کے بعد یہ ہے: مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے ۴۲۱؍۸ کلیات اقبال اردو ص ۵۶۲ ۴۲۲؍۲ ایضاً ص ۴۶ ۴۲۲؍۱۳ ایضاً ص ۵۶۳ ۴۲۲؍آخر ایضاً ص ۵۶۴‘۵۶۵ ۴۲۳؍۲۵ کتاب مثنوی ص ۲ ۴۲۴؍۶ کلیات اقبال اردو ص ۳۸۶ ۴۲۴؍۲۰ ایضاً ۴۲۵؍۶ دیوان غالب ص ۲۲۰ ۴۲۵؍۱۴ قصائد عرفی (نولکشور لکھنو ۱۹۴۴ئ) ص ۷۶ ۴۲۵؍۱۷ کلیات اقبال اردو ص ۳۸۷ ۴۲۵؍۲۳ ایضاً ۴۲۶؍۹ ایضاً ص ۳۳۸ ۴۲۶؍۱۵ ایضاً ص ۵۸۵‘۵۸۶ ۴۲۶؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۴۶۷ ۴۲۶؍آخر ایضاً پہلا مصرع: بانشہ درویشی در ساز و دما دم زن ۴۲۷؍۱ کلیات اقبال اردو ص ۱۹۱ ۴۲۷؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۵ ۴۲۷؍۹ کلیات اقبال اردو ص ۳۸۹ ۴۲۷؍۱۱ ایضاً ص ۵۷۳ ۴۲۷؍۱۵ ایضاً ص ۳۹۰ ۴۲۷؍۲۱ کتاب مثنوی ص ۳۵۸ پہلا مصرع ہے: داند آن کو نیک بخت و محرم است ۴۲۸؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۴۷۸ ۴۲۸؍۲۰ ایضاً ص ۵۶۸ ۴۲۹؍۷ کلیا ت سعدی (بوستان باب ہفتم) ص ۳۶۲۔ اے مرد در ہر بہار۔ کی بجائے ’’دوست ہر نو بہار‘‘ اور ’’پاریں‘‘ کی بجائے ’’پاری‘‘ ہے۔ ۴۲۹؍۲۱ کلیات اقبال اردو ص ۵۷۴ ۴۲۹؍۲۳ ایضاً ص ۵۷۶ ۴۲۹؍۲۵ رومی کی مثنوی کے اس شعر سے ماخوذ ہے: برسماع راست ہر کس چیز نیست طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست کتاب مثنوی ص ۱ ۴۳۰؍۱۱ کلیات اقبال اردو ص ۵۷۷دوسرا شعر ص ۵۷۶ ۴۳۰؍۲۴ پیام مشرق کی نظم محاورہ بین خدا و انسان سے ماخوذ ہے۔ ۴۳۱؍۳ کلیات اقبال اردو ص ۵۷۸’۵۷۹ ۴۳۱؍۲۱ ایضاً ص ۵۸۰ ۴۳۲؍۲۰ کتاب مثنوی ص ۲ دوسرا مصرعہ فاش اگر گویم جہن برہم زنم ۴۳۲؍۲۵ دیوان غالب ص ۸۶ ۴۳۲؍آخر دیوان ذوق ص ۱۴۱ ۴۳۴؍۱ دیوان غالب ص ۳۸ ۴۳۴؍۴ کلیات میر ص ۶ پہلا مصرع یوں ہے شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں ۴۳۴؍۶ ایضاً ص ۴ ۴۳۴؍۱۰ کلیات غالب فارسی ص ۳۷۰ گوئمت کی بجائے گوئییم ہے۔ ۴۳۴؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۵۸۰‘۵۸۱ ۴۳۶؍۳ ایضاً ص ۵۸۴ ۴۳۶؍آخر کلیات فانی ص ۲۸ ’’زندگی کیا ہے کوئی‘‘ کی بجائے ’’زندگی کاہے کو ہے‘‘۔ ۴۳۷؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۵۸۶ ۴۳۸؍۶یہ آیت کئی مقامات پر آئی ہے۔ مثلا البقرہ۔ ۳۸ (جو شخص میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا تو) نہ کچھ اندیشہ ہو گا ان پر اور نہ ایسے لوگ غمگین ہوں گے۔ ۴۳۸؍۱۰ کللیات اقبال اردو ص ۵۸۷ ۔ دوسرا مصرع ہے: اور پیداہوا ایازی سے مقام محمود ۴۳۸؍۱۲ کتاب مثنوی ص ۱۔ کس کی بجائے تن ہے۔ ۴۳۸؍۱۶ کلیات اقبال اردو ص ۵۸۷ ۴۳۸؍۲۰ ایضاً ص ۵۸۸ ۴۳۸؍۲۵ ملاحظہ ہو دیوان حافظ ص ۳۲۷ ۔ ’’این‘‘ کی بجائے ’’وین‘‘ اور پہلا مصرع اس طرح ہے : این خرقہ کہ من دارم در رہن شراب اولیٰ ۴۳۹؍۱۰ ایضاً ص ۱۷۴ ’’معشوق ‘‘ کی بجائے ’’محبوب ‘‘ ہے ۴۳۹؍۱۲ ایضاً ص ۵ ’’ساقی ‘‘ کی بجائے ’’صوفی ‘‘ ہے۔ ۴۳۹؍۱۹ ایضاً ۵ ’’ایام ‘‘ کی بجائے ’’ہنگام‘‘ ہے۔ ۴۳۹؍۲۱ ایضاً ص ۶ ۴۴۰؍۱ خیام سے منسوب رباعی کا پہلا شعر رباعیات خیام مرتبہ محمد علی فروغی میں یہ رباعی نیہں ہے۔ رباعیات عمر خیام (نولکشور ص ۷۸ اور مطبوعہ لاہور (ص ۵۴) میں ’’این ‘‘ کی بجائے ’’وین‘‘ او ردوسرے دومصرعے یہ ہیں: ہست از پس پردہ گفتگوئی من و تو چون پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من ۴۴۰؍۳ ۱ کلیات اقبال اردو ص ۱۵۳ ۴۴۰؍۱۸ ص ۳۶۲ حوالہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ ۴۴۱؍۱ یہ اشعار انشاء اللہ خان انشاء کے ہیں آب حیات از مولانا محمد حسین آزاد لاہور ص ۲۹۱۔ ۴۴۱؍۱۵ کللیات اقبال اردو ص ۵۹۰ ۴۴۲؍۴ ایضاً ص ۲۵۱ ۴۴۲؍۱۱ ایضاً ص ۵۹۰ ۴۴۲؍۱۵ دیوان غالب ص ۱ ۴۴۲؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۴۶۷ ۴۴۲؍آخر ایضاً ص ۴۶۷ ۴۴۳؍۶ حسرت موہانی نے نکات سخن (مطبوعہ حیدرآباد دکن ص ۱۴۰) میں ’’شوخی کلام و رندی مضمون‘‘ کے تحت انور دہلوی کا یہ شعر اس طرح دیا ہے: نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے الخ۔ ۴۴۴؍۱۰ کلیات اقبال اردو ص ۵۹۰‘۵۹۱ ۴۴۵؍۸ دیوان حافظ ص ۲۷ ’’چہ رشک‘‘ کی بجائے ’’حسد چہ‘‘ ہے۔ ۴۴۵؍۲۱ کلیات اقبال اردو ص ۵۹۳۔ ۴۴۶؍آخر ایضاً ص ۵۹۴‘۵۹۵ ۴۴۷؍۳ ۱ ایضاً ص ۵۹۵ اٹھارہواں باب رموز بے خودی ۴۶۴؍۱۳ دیوان غالب ص ۶۶۔ بادئی تغیر ۴۶۶؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۲۴۹ پہلا مصرع ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ ۴۶۶؍۱۱ کلیات سعدی (گلستان باب اول) ص ۸۷ ’’جوہر‘‘ کی بجائے ’’گوہر‘‘ ہے۔ ۴۶۶؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۸۵ ۴۶۷؍۱۹ کلیات اقبا ل اردو ص ۱۳۰ ۔ دوسرا مصرع: جہاں کا فرض قدیم ہے تو ادا مثال نماز ہو جا۔ ۴۶۷؍۲۵ کلیات اقبال فارسی ص ۸۸ نیز کتاب مثنوی ص ۱۹ ۔ دوسرا مصرع یوں ہے: گرنداری تو سپر واپس گریز ۴۶۸ی؍۶ کلیات اقبال فارسی ص ۸۹ ۴۶۸؍۲۴ ایضاً ص ۹۰ ۴۶۹؍۷ ایضاً ص ۹۱ ۴۶۹؍۱۴ ایضاً ۴۶۹؍۲۳ یہ مصرع مثنوی رومی سے ماخوذ ہے۔ ’’نیم ‘‘ کی بجائے ’’ہم‘‘ ہے پہلا مصرع ہے پس زبان محرمی خو د دیگر است کتاب مثنوی ص ۳۳ ۴۶۹؍۲۶ کلیات اقبال فارسی ص ۹۲ ۴۷۰؍۱۶ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۴۷۰؍۱۸ کلیات اقبال فارسی ص ۹۵ ۴۷۱؍۱ ایضاً ص ۹۶ ۴۷۱؍۹ ایضاً ص ۹۷ ۴۷۱؍۱۹ ایضاً ص ۹۹ ۴۷۱؍۲۳ ایضاً ۴۷۲؍۸ ایضاً ۴۷۲؍آخر ایضاً ص ۱۰۰ ۴۷۳؍۳ ایضاً ۴۷۳؍۳ ایضاً ۴۷۳؍۹ ایضاً ص ۱۰۱ ۴۷۳؍۲۰ لانبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ ۴۷۳؍۲۰ کلیات اقبال فارسی ص ۱۰۲ ۴۷۴؍۱۷ ایضاً ص ۱۰۳ ۴۷۴؍۱۸ الحجرات۔ ۱۳ … اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو… ۴۷۴؍۲۱ کام کرنے والا (محنت کش) اللہ کو پسند ہے حدیث رسول مقبولؐ ۴۷۳؍۲۳ کلیات اقبال فارسی ص ۱۰۴ ۴۷۵؍۱ ایضاً ۴۷۵؍ ۳ الحجرات ۱۰ میں آیت یوں ہے : انما المومنون اخوۃ… مسلمان تو سب بھائی ہیں۔ ۴۷۵؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۱۰۶ ۴۷۵؍آخر ایضاً ص ۱۰۸ ۴۷۶؍۲ ایضاً ۴۷۷؍۵ ایضاً ص ۱۰۹ ۴۷۷؍۹ ایضاً ۱۱۰ ۴۷۷؍۱۱ ایضاً ص ۱۱۰‘۱۱۱ ۴۷۷؍۱۸ حوالہ پہلے گزر چکا ہے ۔ الروم ۔ ۳۰ ۴۷۷؍۳۱ کلیات اقبال فارسی ص ۲۰۵‘۲۰۶ ۴۷۸؍۳ ایضاً ص ۱۱۲ ۴۷۸؍۱۲ البقرہ۔ ۱۱۵ اللہ کی مملوک ہے مشرق بھی اور مغرب بھی۔ کیونکہ تم لو گ جس طرف منہ کر لو ادھر ہی اللہ تعالیٰ کا رخ ہے۔ ۴۷۸؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۱۱۴ ‘۱۱۵ ۴۷۸؍۲۲ ایضاً ص ۱۱۵‘‘۱۱۶ ۴۷۹؍۷ حوالہ پہلے گزر چکا ہے ۔ ساتواں باب حاشیہ ۴ ۴۷۹؍۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۱۱۸‘۱۱۹ ۴۷۹؍۲۰ ایضاً ص ۱۲۰ ۴۷۹؍۲۶ ایضاً ۴۸۰؍۱ ایضاً ۴۸۰؍۳ ادیوان حافظ ص ۹ ۴۸۰؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۱۸۷ ۴۸۰؍۹ کلیات اقبال فارسی ص ۱۲۱ ۴۸۰؍۱۱حوالہ پہلے گز ر چکا ہے۔ ۴۸۰؍۱۵کلیات اقبال فارسی ص ۱۲۱ ۴۸۱؍۱ ایضاً ص ۱۲۳ ۴۸۱؍۷ ایضاً ۴۸۱؍۱۰ الحشر ۔ ۲ ۔ سو اے دانشمندو! (اس حالت کو دیکھ کر) عبرت حاصل کرو۔ ۴۸۲؍۳ کلیات اقبال فارسی ص ۱۲۴ ۴۸۲؍۸ ایضاً ۴۸۲؍۱۳ ایضاً ص ۱۲۵ ۴۸۲؍۱۹ ایضاً ص ۲۲۹ ۴۸۲؍۲۱ ایضاً ص ۳۹۲ ۴۸۳؍۱۶ ایضاً ص ۱۲۶ ۴۸۳؍۲۲ ایضاً ۴۸۴؍۳ ایضاً ص ۱۲۷ ۴۸۴؍۶ ایضاً ص ۱۲۸ ۴۸۴؍۱۰ دیوان رند معروف بہ گلدستہ عشق (مطبوعہ نولکشور لکھنو ۱۹۳۱ ) ص ۲۶۱ ۴۸۴؍۱۲ کلیات اقبال فارسی ص ۱۲۸ ۴۸۴؍۲۰ کلیات غالب فارسی ص ۳۸۱ صحیح شعر کسی گزشتہ حاشیے میں ملاحظہ ہو ۴۸۴؍۲۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۲۹ ۴۸۵؍۴ ایضاً ص ۱۳۲ ۴۸۵؍۲۱ کلیات اقبال اردو ص ۱۹۰ ۴۸۵؍۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۱۳۳ ۴۸۵؍۲۱ ایضاً ص ۱۳۴ ۴۸۵؍۲۲ صحیح شعر اور حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۴۸۵؍۲۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۳۴ ۴۸۴؍۴ ایضاً ص ۱۳۵ ۴۸۶ ؍ ۳۰ ایضاً ص ۱۳۷ ۴۸۶؍۲۳ کلیات غالب فارسی ص ۴۵۴ پورا شعر یوں ہے: بسکہ بہ پیچد بخویش جادہ ز گمراہیم رہ بد رازی دہد عشوہ کوتاہیم ۴۸۶؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۱۳۸ ۴۸۷؍۱۰ ملاملک قمی (م ۱۰۲۴؍۱۶۱۵) کا شعر ہے جو ملا بدایونی کو بہت پسند تھا۔ ملاحظہ ہو انتخاب التواریخ از عبدالقادر بدایونی اردو ترجمہ از محمود احمد فاروقی (لاہور) ص ۷۴۷ نیز مآثر الکرام موسوم بہ سرو آزاد از میر غلام علی آزاد بلگرامی (۱۹۱۳) ص ۳۲ ۴۸۷؍۱۴ النجم ۴۲ اور یہ کہ سب کو آپ کے پروردگر ہی کے پاس پہنچنا ہے۔ ۴۸۷؍۱۵ کلیات اقبال فارسی ص ۱۳۸‘۱۳۹ ۴۸۷؍۱۹ ایضاً ص ۱۳۹ ۴۸۸؍۴ کلیات سعدی (گلستان) ص ۱۲۷۔ پہلا مصرع عالم کہ کامرانی و تن پروری کند ۴۸۸؍۱۱ سعدی سے منسوب اس شعر سے ماخوذ ہے۔ تو کار زمین رانکو ساختی کہ با آسمان نیز پرداختی یہ شعر علامہ اقبال نے پیام مشرق کی ایک نظم’’طیارہ‘‘ میں سعدی سے منسوب کیا ہے۔ لیکن راقم کو کلیات سعدی مرتبہ محمد علی فروغی (تہران) میں پوری تلاش کے باوجود یہ شعر نہیں ملا ممکن ہے برصغیر میں شائع شدہ کسی نسخے میں یہ شعر ہو۔ جو اس وقت علامہ کے زیر مطالعہ تھا۔ ویسے یہ شعر بوستان کی بحر میں ہے۔ ۴۸۸؍۱۷ کلیات اقبال فارسی ص ۱۴۱ ۴۸۹؍۱ دیوان غالب ص ۹۸ ۴۸۹؍۳ کلیات اقبال اردو ص ۱۶۶ ۴۸۹؍۱۱ ایضاً ص ۲۰۲ (جواب شکوہ) اس سے پہلا مصرع عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور ۴۸۹؍۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۱۴۱‘۱۴۲ ۴۸۹؍۲۰ حوالہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۴۸۹؍۲۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۴۲ ۴۹۰؍۲ ایضاً ۴۹۰؍۶ ایضاً ۴۹۰؍۱۲ ایضاً ص ۱۴۳ ۴۹۰؍۱۶ ایضاً ۴۹۰؍۲۲ ایضاً ۴۹۱؍۱۲ کلیات غالب فارسی ص ۱۱۰ دوسرا مصرعہ پہلے ہے۔ نغمہ را کی بجائے نغمہ ہا ہے۔ ۴۹۱؍۱۴ کلیا ت اقبال فارسی ص ۱۴۴ ۴۹۲؍۱ البقرہ ۔ ۲۶ ۔ (اللہ تعالیٰ نے) آدمؑ کو سب چیزوں کا علم دے دیا۔ ۴۹۲؍۴ کلیات اقبال فارسی ص ۱۴۴ ۴۹۲؍۲۴ ایضاً ص ۱۴۶ ۴۹۳؍۴ ایضاً ۴۹۳؍۹ ایضاً ص ۱۴۷ ۴۹۳؍۱۲ یہ پرانے لوگوں کے قصے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ اقتباس کئی مقامات پرآیا ہے۔ مثلاً الانعام ۔ ۲۵ ۴۹۳؍۱۷ کلیات اقبال فارسی ص ۱۴۷ ۴۹۳؍۲۲ ایضاً ص ۱۴۸ ۴۹۳؍۲۶ جس پر ہم نے اپنے آبا کو پایا۔ یہ اقتباس قرآن کریم میں کئی مقامات پر آیا ہے مثلاً المائدہ ۱۰۴ ۴۹۴؍۱۳ کلیات اقبال فارسی ص ۱۴۹ دوسرا مصرع این نواززخمہ خاموش او ۴۹۴؍۱۷ ایضاً ۴۹۴؍۲۱ ایضاً ۴۹۵؍۱۱ ایضاً ص ۱۵۱۱ ۴۹۶؍۱ ایضاً ص ۱۵۳ ۴۹۶؍۴ ایضاً ۴۹۶؍۱۱ ایضاً ص ۱۵۴ ۴۹۶؍۱۳ ایضاً ص ۱۵۵ ۴۹۶؍۱۷ ایضاً ۴۹۶؍آخر ایضاً ص ۱۵۶ ۴۹۷؍۵ ایضاً ص ۱۵۷ ۴۹۷؍۱۰ ایضاً ۴۹۷؍۱۸ کلیات سعدی (گلستان باب اول) ص ۸۶ پہلا مصرع درویش و غنی بندہ این خاک درند ۴۹۷؍۲۰ عرفی کے مشہور نعتیہ قصیدے کے مطلع سے ماخوذ ہے: اقبال کرم می گزد ارباب ہمم را ہمت نخورد نیشتر لا ونعم را قصائد عرفی (نولکشور) ص ۳ ۴۹۷؍۲۲ کلیا ت اقبال فارسی ص ۱۵۸ ۴۹۸؍۳ ایضاً ۴۹۸؍۱۲ ایضاً ۴۹۸؍۱۴ ایضاً ص ۱۵۹ ۴۹۸؍۱۹ ایضاً نیز مثنوی شاہ بو علی قلندر (نولکشورٰ ص ۳ ۴۹۸؍۲۰ کلیات اقبال اردو ص ۳۴۸ ۴۹۹؍۲ کلیات اقبال فارسی ص ۱۵۹‘۱۶۰ ۴۹۹؍۵ ایضاً ص ۱۶۰ ۴۹۹؍۱۱ ایضاً ص ۱۶۰ ۴۹۹؍۱۴ایضاً ص ۱۶۱ ۴۹۹؍۱۶ ایضاً ۴۹۹؍۱۷ ایضاً ۵۰۰؍۳ ایضاً ص ۱۶۲ ۵۰۰؍۵ ایضاً ۵۰۰؍۱۹ ایضاً ص ۱۶۳ ۵۰۰؍۲۴ دیوان حافظ کے مستند مطبوعہ ایرانی نسخوں میںیہ مصرع اور اس سے متعلق پوری غزل نہیںہے۔ البتہ نسخہ نولکشور میں ص ۱۳۲ اور دیوان صدر العرفا… حافظ لاہور ص ۱۱۵ میں اسی زمین کی جو دوسری غزل ہے اس میں پہلا مصرع یوں ہے عشق تو در وجودم و مہر تو در دلم حسین پژمان نے یہ غزل جس کا مطلع ہے: عشقت نہ سرسریست کہ از سر بدر شود مہرت نہ عارضیت کہ جامی دگر شود سعید یا سعید اے ہروی کی بتائی ہے۔ ص ۳۶۰ ۵۰۰؍آخر کلیات اقبال فارسی ص ۱۶۳ ۵۰۱؍۶ ایضاً ص ۱۶۴ ۵۰۱؍۸ آل عمران۔ ۱۳۹ اور تم ہی غالب رہو گے۔ ۵۰۱؍۱۶ کلیات اقبال فارسی ص ۱۶۵ ۵۰۲؍۱۲ ایضاً ص ۱۶۶ ۵۰۲؍۱۵ ایضاً ص ۱۲۹ ۵۰۲؍۲۳ ایضاً ۵۰۳ی؍۴ ایضاً ص ۱۶۷ ۵۰۳؍۱۱ ایضاً ۵۰۳؍۲۱ ایضاً ص ۱۶۸ ۵۰۴؍۱ ایضاً ۵۰۴؍۶ ایضاً ص ۱۶۹‘۱۷۰ ۵۰۴؍۱۲ ایضاً ص ۱۷۰ انیسواں باب اقبال پر تین اعتراضات کا جواب ۵۰۷؍۱۵ دیوان ذوق ص ۱۴۱ ۵۰۸؍۱ دیوان غالب ص ۱۲۳ ۵۰۸؍۲۴ البقرہ ۔ ۲۶۔ یضل بہ کثیر آو یھدی بہ کثیرا۔ (اس حقیر مثال سے اللہ تعالیٰ) بہتوں کو گمراہ کرتا اور ہدایت کرتا ہے بہتوں کو اس کی وجہ سے ۵۱۰؍۱۵ کلیات سعدی (کریما۔ سعدی سے منسوب ہے) مرتبہ محمد حسین رکن زادہ تہران ص ۲۶۸ ۵۱۱؍۱۱ ایضاً ص ۱۹۰ (گلستان) ’’روزی‘‘ کی بجائے ’’مکنت‘‘ ہے ۵۱۱؍۱۲ ایضاً ص ۱۲۴(گلستان) ’’بربندم‘‘ کی بجائے ’’می بندم‘‘ ہے ۵۱۱؍۱۴ حوالہ پہلے گزر چکاہے۔ ۵۱۳؍۲ کلیات اقبال اردو ص ۵۸۹ ۵۱۲؍۴ شعر العجم جلد چہارم (مطبوعہ لاہور) ص ۹۴‘۹۵ ۵۱۲؍۲۲ امیر مینائی کا مصرع ہے: پہلام مصرع: خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر (صنمخانہ عشق ۱۳۴۶ء لکھنو ص ۲۲۷) بیسواں باب خلاصہ افکار ۵۱۷؍۲۲ حدیث رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم علم حاصل کرو اگرچہ وہ چین میں ہو۔ ۵۱۸؍۷ کلیات اکبر الہ آبادی جلد اول (مطبوعہ جونپور ۱۹۲۳ٰ ص ۲۵۱ ۵۱۸؍۱۱ دیوان ذوق ص ۲۱۶ ۵۱۹؍۴ کلیات اقبال فارسی ص ۲۷۶ ۵۱۹؍۲۱ اشارہ ہے علامہ اقبال کے اس شعر کی طرف اسی کشمکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی (کلیات اقبال اردو ص ۳۰۹) ۵۲۱؍۱۴ یہ آیت دو جگہ آئی ہے۔ سورہ ھود آیہ ۱۰۷ اور البروج ۱۶ وہ جو چاہے سب کچھ کر گزرتا ہے ۔ ۵۲۲؍۵ کلیات اقبال فارسی ص ۳۰۲ ۵۲۲؍۷ کلیات اقبال اردو ص ۵۸۹ ۵۲۲؍۱۱ کلیات اقبال فارسی ص ۵۲۲ ۵۲۴ ؍آخر کلیات اقبال اردو ص ۶۰۴ ضمیمہ حواشی و تعلیقات صفحہ کتاب فارسی اشعار ۴۴۶؍۱۱ اگر ایک سرموی … ملاحظہ ہو حکمت رومی مطبوعہ لاہور ص ۱۲۴ ۶۰‘۱۲۶‘۲۷۹‘۲۱۶ مذہب عشق ازہمہ دینہا جداست (رومی) حکمت رومی ص ۱۲۴ ۳۸۷؍آخر مشومنکر کہ در اشعار این قوم الخ ملاحظہ ہو حکمت رومی ص ۸۸ ۷۹‘۱۷۵ کوشش بیہودہ بہ از خفتگی (رومی) مولانا رومی حیات و افکار از ڈاکٹر افضل اقبال (ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور) ص ۱۸۷‘۲۲۵ حکمت رومی ص ۲۳۴ ۱۳۹ عزم سفر مشرق رو در مغرب … الخ (فیضی حکمت رومی ص ۷۵ ۱۷۸ آنانکہ حسن روے تو تفسیر میکنند…الخ شعر العجم میں ’’حسن روی‘‘ کی بجائے ’وصف حسن‘‘ ہے جلد ۵ ص ۱۱۰ نیز حکمت رومی میں ص ۱۱۲ ۴۳۳ ؍۷ رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست… الخ… حکمت رومی ص ۱۱۰ ۲۷۹ کافر عشقم مسلمانی مرادرکار نیست… الخ(خسرو) حکمت رومی ص ۱۸۵ ۲۸۰ ذوق این بادہ ندانی …الخ سوانح مولانا روم ص ۲۱۲ ۲۸۲ گفتہ او گفتہ اللہ بود …الخ (رومی) حکمت رومی ص ۱۲۱ ۲۹۵ گر باستدلال کار دین ہدے… الخ (رومی) شعر العجم جلد ۵ ص ۱۰۷ سوانح مولانا روم ص ۹۹ ۳۰۱ این نہ عشق است این کہ در مردم بود…الخ (رومی) … حکمت رومی ص ۲۳ ۳۰۲؍۲ شعر یوں ہے حدیث بے خبراں ہے کہ بازمانہ بساز زمانہ با تو …الخ کلیات اقبال اردو ص ۳۰۸ فارسی مصرع بادئی تغیر مسعود سعد سلمان کا ہے۔ ۳۳۹ زان طرف کہ عشق می افزود درد… الخ (رومی) بحوالہ حکمت رومی ص ۱۸۴ ۳۴۰ این کلام صوفیان شوم نیست… الخ سوانح مولانا روم ص ۸۸ ۔ شعر العجم جلد ۵ ص ۴۱ ۳۵۰ مستم کن آنچناں کہ ندانم ز بیخودی… الخ شعر العجم جلد ۵ ص ۵۹ اگراو دیدہ داددت کہ دیدارش بہ اوبینی… الخ شعر العجم جلد ۵ صفحہ ۶۰ ۳۵۱ دو عالم را ہ یک بار از دل تنگ…الخ ایضاً ص ۶۳ ۳۵۱ دو عالم باختن نیرنگ عشق است… الخ ایضاً ص ۶۲ ۳۵۹ از خجالت نمی شکید دل… الخ شعرا العجم جلد ۵ ص ۸۶ ۳۵۹ عشق و اوصاف کردگار یکے ست ایضاً ۳۴۵ ۔۵ خود کوزہ و خو د کوزہ گرو خود گل کوزہ…الخ (رومی) مولانا رومی۔ حیات و افکار ص ۱۵۱۔ ۳۶۸ ۔ ۱۶ از آنکہ پیروی خلق گمرہی آرد… الخ راقم مشہدی ۔ شعر العجم جلد ۵ ص ۴۷’’از آنکہ‘‘ کی بجائے زبسکہ ہے۔ ۳۹۵۔۱۶ عشق نے بالا نہ پستی رفتن است… الخ حکمت رومی ص ۱۷۶‘ ۱۸۳ ۴۰۲ ۔۱۴ عشق ہم راہست و ہم خود منزل است پہلا مصرع یوں ہے: رہروان راخستگی راہ نیست شعر العجم جلد ۵ ص ۶۱ ۴۰۴۔۱۸ ما پر تو نور پادشاہ ازلم… الخ شعر العجم جلد ۵ ص ۹۳ ‘ ۱۱۷ ۴۱۸۔۲۲ خشک تار و خشک چوب و خشک پوست… الخ (رومی) حکمت رومی ص ۹۸ (ایران میں مطبوعہ نسخہ مثنوی میں یہ شعر نہیں ملتا) اردو اشعار ۱۷۵ چلا جب چال کوا ہنس کی اس کا چلن بگڑا آتش لکھنوی پورا شعر یوں ہے: تری تقلید سے کبک دری نے ٹھوکریں کھائیں چلا جب جانور انساں کی چال اس کا چلن بگڑا (کلیات آتش۔ مطبوعہ نولکشور ۔ ص ۴۹ آبجیات ص ۳۹۳) ۴۳۷ ٹوٹی دریا کا کلائی… الخ صحیح شعر یوں ہے: آدمی مخمل میں دیکھے مورچے بادام میں ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں ناسخ (آب جیات ص ۳۴۸) اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End