نذر اقبال (سر عبدالقادر کے مضامین ، مقالات ، مقدمات اور مکاتیب کا مجموعہ) مرتبہ محمد حنیف شاہد عبدالقادر کے نام ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال اور سر شیخ عبدالقادر کے درمیان قلب و روح کے جو تعلقات تھے ان سے ’’سیخین پنجاب‘‘ شناس بخوبی واقف ہیں۔ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال نے انگلستان سے واپسی پر ’’عبدالقادر کے نام‘‘ ایک نظم لکھی جو دسمبر 1908ء کے ’’مخزن‘‘ کی زینت بنی۔ نظم کی اشاعت کے ساتھ سر شیخ عبدالقادر نے درج ذیل نوٹ تحریر فرمایا: ’’اس نظم کو ہدیہ ناظرین کرتے ہوئے مجھے اس بات سے شرم آتی ہے کہ ایسی نظم اور ایسے خیالات کا انتخاب مجھے بنایا گیا ہے اور ایسے بلند ارادوں میں مجھے شریک کیا گیا ہے۔ سوائے اس کے کہ دل اپنے دلنواز کی محبت کا شکریہ ادا کرے اور میں یہ دعا مانگوں کہ خدا حضرت اقبال کے ارادوں میں برکت دے اور اگر میرے نصیب میںکوئی خدمت ملک کی لکھی ہے تو مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔ کوئی جواب اس خط کا مجھ سے بن نہیں پڑتا۔ خصوصاً جب جناب اقبال کے اشعار آبدار کے مقابل اپنی نثر کی خشکی اور بے مایگی پر نظر کرتا ہوں‘‘۔ اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں ایک فریاد ہے مانند سپند اپنی بساط اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کردیں پھونک ڈالا تھا کبھی دفتر باطل جس نے حدت دم سے اسی شعلے کو پیدا کر دیں اہل محفل کو دکھا دیں اثر صقیل عشق سنگ امروز کو آئینہ فردا کر دیں جلوہ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں تن آتش زدہ شوق کو مانند سرشک قطع منزل کے لیے آبلہ پا کر دیں اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں رخت جاں بتکدہ چیں سے اٹھا لیں اپنا سب کو محو رخ سعدیٰ و سلیمی کر دیں درد ہے سارے زمانے کا ہمارے دل میں جنس کمیاب ہے آ نرخ کو بالا کر دیں دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بے کار قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں زاہد شہر کہ ہے سوختہ طبعی میں مثال خشک ہے اس کو غریق نم صہبا کر دیں بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز جگر شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں سنگ رس شاخ چنی ہم نے نشیمن کے لیے اپنے بے دردوں کو آمادہ ایذا کر دیں گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں شمع کی طرح جئیں بزم گہ عالم میں خود جلیں‘ دیدہ اغیار کو بینا کر دیں ہرچہ در دل گزرد وقف زباں دارد شمع سوختن نیست خیالے کہ نہاں وارد شمع یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ڈاکٹر سر شیخ محمد اقبال اور سر عبدالقادر جیسی ہستیوں کا جس وقت ظہور ہوا تو اس وقت ’’افق خاور‘‘ پر ظلمت چھائی ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے ان کے دل میں قوم کا درد تھا۔ اور یہی ’’درد‘‘ انہیں بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کرنے پر آمادہ اور سرگرم عمل رکھتا تھا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ وہ ’’بزم گہ عالم‘‘ میں شمع کی طرح جیے خود جلے اور اپنی لو سے ’’دیدہ اغیار‘‘ کو بینا کردیا۔ ’’شیخین پنجاب‘‘ کی علمی ‘ ادبی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور ملکی خدمات سب پر سور ج کی طرح روشن ہیں۔ زیر نظر مجموعہ ایک دوست کا دوسرے دوست کی خدمت میںہدیہ عقیدت ہے اور مندرجہ بالا نظم کا جواب بھی۔ مرتب ٭٭٭ عرض ناشر شیخ عبدالقادر حضرت علامہ شیخ محمد اقبال کے خاص احباب میںسے تھے اقبال کی نظم ’’عبدالقادر کے نام‘‘ (بانگ درا) کو پڑھیںاور بانگ درا کے مقدمے کو دیکھیں تو بقول حنیف شاہد ’’شیخیں لاہور‘‘ کے قرب کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ حنیف شاہد نے ’’نذر اقبال‘‘ میں شیخ عبدالقادر کی ان تحریروں کو یکجا کر دیا ہے جو رسائل و اخبارات میںبکھری ہوئی تھیں۔ اس لحاظ سے یہ مجموعہ مضامین اہم تھا جسے حنیف شاہد نے لائبریری کے اپنے تجربے سے کام لیتے ہوئے مرتب کر دیا۔ بزم اقبال نے ا کی اس تالیف کاپہلا ایڈیشن 1973ء میں ٹائپ کے حروف میں شائع کیا تھا جو اب نایاب ہو چکا ہے۔ دوسرا ایڈیشن اب بزم اقبال کی گولڈن جوبلی کے موقع پر نستعلیق کمپیوٹر میں شائع کیا جا رہا ہے۔ ہمارے دوست ڈاکٹر عبدالحمید یزدانی نے اس کے پروف دیکھے تاکہ متن کی اس منتقلی میں کوئی خلا نہ رہ جائے۔ بلکہ انہوںنے جابہ جامتن کی تصحیح کر کے اس ایڈیشن کو مستند بنا دیا ہے۔ میں اس کارگزاری کے لیے ان کا ممنون ہوں۔ طبع ثانی کی ترتیب میں بھی کچھ تبدیلی کی گئی ہے۔ مثلاً ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ والا مضمون طباعت اول میں ضمیمے کے طور پر آخر میں درج تھا‘ اب باقی مضامین کے ساتھ کر دیا گیا ہے۔ مختلف اوقات میں لکھی گئی بعض تحریروں میںکہیں کہیں تکرار بھی ملے گا۔ تاہم امید ہے قارئین طباعت ثانی کو پہلے سے بہتر پائیں گے۔ (ناشر) ٭٭٭ دیباچہ ’’نذر اقبال ‘‘ شیخ عبدالقادر کے ان مضامین‘ تقاریظ دیباچوں اور مکاتیب کا مجموعہ ہے جو انہوںنے شیخ محمد اقبال کی سیرت و کردار اور شخصیت و فن کے بارے میں تحریر کیے تھے۔ یہ مجموعہ کئی لحاظ سے قابل قدر ہے۔ اول یہ کہ شیخ عبدالقادر بذات خود ایک صاحب طرز ادیب نقاد ادیبوں کے مربی اور شاعرگر تھے۔ وہ ایک خوش بیان مقرر فصیح و بلیغ لیکچرر اور اعلیٰ پائے کے انشا پرداز تھے۔ انہوںنے ’’مخزن‘‘ کے ذریعے نوخیز شاعروں اور ادیبوں کو چمکنے اور ابھرنے کا موقع فراہم کیا۔ چنانچہ جہاں ’’مخزن‘‘ کے مضمون نگاروں کی صف میں اعلیٰ پایے کے نثار اور ناظم شامل تھے مثلاً شیخ محمد اقبال چودھری خوشی محمد ناظر‘ جسٹس شاہ دین ہمایوں‘ سید غلام بھیک نیرنگ‘ مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولانا الطاف حسین حالی‘ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی‘ مولانا ظفر علی خان‘ سید سجادحیدر یلدرم‘ مولانا حسرت موہانی‘ مرزا سلطان احمد وغیرہ‘ وہاں نوخیز اور حنو آموز شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات بھی ’’مخزن ‘‘ کی زینت بنتی تھیں۔ مثال کے طور پر غلام محمد طور‘ احسن لکھنوی ‘ حفیظ جونپوری‘ عزیز لکھنوی‘ منشی دیا نرائن نگم‘ درگا سہائے سرور‘ جگن ناتھ آزاد‘ بسمل الہ آبادی‘ غلام سرور فگار‘ تلوک چند محروم ‘ عبدالرشید چشتی وغیرہ۔ شیخ عبدالقادر نے ’’مخزن‘‘ کے ذریعے برصغیر پاک و ہند کے ادیبوں اور شاعروں کو روشناس کرانے کی جو ہمہ گیر مہم شروع کی تھی اس میں وہ بہت زیادہ کامیاب و کامران رہے۔ اسی تحریک کی بدولت شیخ محمد اقبال جیسے عظیم فلسفی‘ مفکر اور شاعر ہمیں ملے۔ شیخ عبدالقادر کے مضامین کا یہ مجموعہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہے کہ انہوںنے ’’ستارہ اقبال کا طلوع‘‘ دیکھا تھا۔ انہوںنے جو کچھ دیکھا قلم بند کیا۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر ’’طلوع اقبال‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’جب شیخ محمد اقبال کے والد بزرگوار اور ان کی پیاری ماں ان کا نام تجویز کر رہے ہوں گے تو قبولیت دعا کا وقت ہو گا۔ چنانچہ ان کا دیا ہوا نام اپنے پورے معنوں میں صحیح ثابت ہوا… میں نے ستارہ اقبال کا طلوع دیکھا ہے اور چند ابتدائی منازل ترقی اقبال کا ہم نشین اور ہم سفر تھا۔ لاہور میں ایک بزم مشاعرہ بازار حکیماں میں امین الدین صاحب کے مکان پر ہوا کرتی تھی ۔ ایک شب اسی بزم میں ایک نوجوان طالب علم اپنے چند ہم عصروں کے ساتھ آ کر شریک ہوا اور ا س نے ایک سادہ سی غزل پڑھی جس کا مقطع یہ تھا: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا لیکن آپ کہتے ہیں سخن ور تو سخن ور ہی سہی‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیخ عبدالقادر او ر شیخ محمد اقبال کے تعلقات بہت زیادہ استوار ہو گئے۔ انہوںنے شیخ محمد اقبال کا ستارہ طلو ع دیکھا جوانی دیکھی اور پھر عالم شباب کے علاوہ تادم واپسیں ان سے موصوف کے گہرے مراسم رہے۔ انہوںنے جو دیکھا اور محسوس کیا اسے خوب اچھی طرح لکھا۔ شیخ عبدالقادر شیخ محمد اقبال کے ساتھ اپنی دوستی کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں (1): ’’جوانی کی دلچسپیوں میں ایک نہایت قابل یاد دلچسپی اقبال مرحوم کی دوستی سے پیدا ہوئی جس نے دور تک ساتھ دیا وہ اس وقت کالج میں پروفیسر تھے۔ انہوںنے شہر میں میرے پرانے مکان کے قریب ایک چھوٹا سا مکان کرایے پر لے لیا۔ ہماری ملاقات تو پہلے ہی ہو چکی تھی‘ شہر کی ہمسایگی نے ہم نشینی کے مزید مواقع پیدا کر دیے ۔ میں شام کو ان کے ہاں بیٹھتا ۔ ان کے دو تین اور دوست عموماً وہاں موجود ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک تو ان کے استاد مولانا کے فرزند سید ؤمحمد تقی تھے۔ ان کی دوستی پرانے تعلقات پر مبنی تھی۔ سیالکوٹ کے ایک اور صاحب سید بشیر حیدر بھی تھے جو اس وقت طالب علم تھے بعد ازاں ڈپٹی ہو گئے۔ ایک اور طالب علم سردار عبدالغفور تھے جو ابوصاحب کہلاتے تھے۔ یہ سب اقبال کی شاعری کے مداح تھے۔ میں جاتا تو سلسلہ شعر و سخن شروع ہو جاتا۔ میں کوئی شعر یا مصرع اقبال کو سنانے کے لیے ڈھونڈ رکھتا جو طرح کا کام دیتا۔ وہ حقے پیتے جاتے اور شعر کہتے جاتے۔ ابو صاحب کاغذ اور پنسل لے کر لکھنا شروع کر دیتے۔ اقبال کے ابتدائی کلام کا بیشتر حصہ اسی طرح لکھا گیا۔ ابو صاحب نے ایک مجلد بیاض میں اپنی پنسلی یادداشتیں صاف کر کے لکھ لیتے تھے۔ اگر ابو صاحب کا تیار کیا ہوا مسالہ موجود نہ ہوتا تو ہمارے مرحوم دوست کا بہت سا کلام چھپنے سے رہ جاتا کیونکہ وہ اس زمانے میں اپنے پاس کوئی مسودہ نہیں رکھتے تھے… اب زیادہ شامیں اقبال کے ہاں صرف ہونے لگیں‘‘۔ اسی زمانے میں ادب ارد وکی خدمت کا شوق دل میں پیدا ہوا اور خوب جوانی کی تعبیر نے ادبی رسالے کی صورت میں جنم لیا اور ’’مخزن‘‘ نام پایا۔ انگریزی اخبار کے ساتھ ساتھ اردو مضامین ک فکر ہونے لگی۔ سارے ہندوستان میں ادیبوں اور شعرا سے خط و کتابت ہونے لگی۔ سب نے اس تجویز کا محبت اور جوش سے خیر مقدم کیا اور نظم و نثر کے اچھے نمونے بھیجے۔ شیخ محمد اقبال کی تخلیقات بھی ’’مخزن‘‘ کی زینت بننے لگیں۔ اس سے پہلے (تقریباً 1900ء تک) لاہور میں لوگ اقبال سے واقف نہ تھے۔ ان کی اردو شاعری کا عوامی طور پر آغاز ’’مخزن‘‘ کے ذریعے ہوا۔ اس سلسلے میں شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں: ’’میں نے ادب اردو کی ترقی کے لیے رسالہ ’’مخزن‘‘ جاری کرنے کا ارادہ کیا اس اثنا میں محمد اقبال سے میری دوستانہ ملاقات پیدا ہو چکی تھی۔ میں نے ان سے وعدہ لیا کہ اس رسالے کے حصہ نظم کے لیے وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں۔ پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا کہ میں نے ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کوئی نظم مانگی۔ انہوں نے کہا ابھی کوئی نظم تیار نہیں۔ میں نے کہا ہمالہ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہینے کے لیے کوئی اور لکھیے۔ انہوںنے نظم دینے میں تامل کیا کیونکہ انہیںخیال تھا کہ اس میں کچھ خا میاں ہیں مگر میں دیکھ چکا تھا کہ وہ نظم بہت مقبول ہوئی ہے اس لیے میں نے وہ نظم زبردستی ان سے لے لی اور ’’مخزن‘‘ کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل 1901ء میں نکلا شائع کر دی۔ یہاں سے گویا اقبال کی اردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا‘‘۔ شیخ عبدالقادر کی دور بین نگاہوں نے شیخ محمد اقبال کی شخصیت میںپنہاںجوہر دیکھ لیے تھے۔ وہ شیخ محمد اقبال کے خاص دوست تھے اور سب سے بڑے اقبال شناس۔ شیخ عبدالقادر ہی کی جوہر شناسی اول اول شیخ محمد اقبال کو بھی کشاں کشاں منظر عام پر لائی۔ شیخ صاحب شیخ محمد اقبال سے کہہ سکتے تھے: اول آں کس کہ خریدار شدت من بودم باعث گرمی بازار شدت من بودم (3) شیخ محمد اقبال کے بارے میں شیخ عبدالقادر نے ابھی ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شیخ محمد اقبال کی وجہ سے ’’مخزن‘‘ کو چار چاند لگ گئے اور ’’مخزن‘‘ کی وجہ سے اقبال کا جوہر روز بروز زیادہ چمکتا گیا۔ شیخ محمد اقبال‘ شیخ عبدالقادر کو شیخ عالم گنڈھ کہا کرتے تھے۔ یعنی دنیا بھر کو گانٹھ لینے والے‘ گرہ میں باندھ لینے والے‘ اپنا بنا لینے والے۔ اقبال نے عربی لفظ ’’عالم‘‘ کو پنجابی لفظ ’’گنڈھ‘‘ سے ملا کرباقاعدہ ای ک فارسی میں ایک اسم فاعل ترکیبی بنایا اور اس طرح اس لقب میں ایک رنگ ظرافت پیدا کر دیا۔ مگر ظرافت کے باوجود یہ لقب پھبتی یا تمسخر نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ تمسخر کا تو خیال بھی نہیں ہو سکتا۔ اقبال تو عبدالقادر کو وہ سمجھتے تھے جو ’’بانگ درا‘‘ میں ان کی نظم ’’عبدالقادر کے نام‘‘ سے ظاہر ہے۔ (4) خواجہ حسن نظامی شیخ عبدالقادر اور شیخ محمد اقبال کو ’’شیخین پنجاب‘‘ کہاکرتے تھے (5)۔ شیخ عبدالقادر کی دور رس نگاہوں ے شیخ محمد اقبال کے اندر چھپے ہوئے جوہر پا لیے تھے ارو ان کی شیخ محمد اقبال سے اتنی بے تکلفی ہو چکی تھی کہ وہ نظم یا نثری مضمون ان سے زبردستی حاصل کر لیتے تھے اور ’’مخزن‘‘ میں شایع کر دیتے تھے۔ چنانچہ دوسرے شعراء کی نسبت شیخ محمد اقبال کے ’’مخزن‘‘ میں سب سے زیادہ مضامین…منظوم اور منثور… شایع ہوئے۔ شیخ عبدالقادر تقریباً ہر مضمون کے ساتھ اپنی جانب سے ایک تعارفی نوٹ بھی لکھ دیتے تھے۔ شیخ محمد اقبال کی تخلیقات اپریل 1901ء سے لے کر اپریل 1912ء تک قریباً ہر ماہ ’’مخزن‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ شیخ محمد اقبال نہ صر ف لاہور میں قیام کے دوران میں ’’مخزن‘‘ کے لیے اپنے رشحات قلم بھیجتے رہے بلکہ جب لندن اور کیمبرج میں مقیم تھے تو اس زمانے میں بھی وہاں سے آپ اپنا کلام افادہ عام کے لیے ’’مخزن‘‘ کے لیے ارسال فرماتے رہے۔ شیخ عبدالقادر 1904ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن تشریف لے گئے اور شیخ محمد اقبال ان سے ایک سال بعد یعنی 1905ء میں یورپ گئے اور 1908ء تک قیام کیا۔ دونوں حضرات نے کچھ عرصہ اکٹھا گزارا اور کئی تغیرات قیام یورپ کے دوران رونما ہوئے۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں (6): ’’انگلستان میں جو زمانہ گزرا اس کے سلسلے میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اقبال مرحوم بھی مجھ سے ایک سال بعد وہاں پہنچے او ر دو سال کے مشاغل میں میری اور ان کی معیت رہی۔ وہ کیمبرج میں رہتے تھے اور میں لند ن میں۔ مگر وہ جب بھی لندن آتے تو میرے یہاں ٹھہرتے یا میرے قریب کسی مکان میں کمرہ لیتے تھے اور میں کبھی کبھی ان سے ملنے کیمبرج جاتا تھا۔ ان کی نشست ان دنوں زیادہ تر مولوی سید علی بلگرامی مرحوم کے ہاں رہتی تھی جو ہندوستانی طلبہ کی علمی و ادبی صحبتوں کا مرکز تھے‘‘۔ یورپ میں قیام کے دوران میں شیخ محمد اقبال کے خیالات میں تغیرات پیدا ہوئے شیخ عبدالقادر کا بیان ہے (7) کہ ’’ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ ہو شاعری کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیںکہیں گے میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی نہیںہے جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے۔ اسی لیے ایسی مفید‘ خڈاداد طاقت کو بے کار کرنا درست نہ ہو گا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے اور کچھ نہ ہوئے اور یہ قرا ر پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفا ق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادہ ترک شعر کو بدل دیں اور اگر وہ شیخ صاحب سے اتفاق کریں تو ترک شعر اختیار کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہٰں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے ۔ ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا۔ اس کا تو یوں خاتمہ ہوا مگر دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا یعنی اقبال کی شاعری نے فارسی کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعہ اظہار خیال بنا لیا… بظاہر جس چھوٹے سے واقعے سے ان کی فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان کے فارسی اشعار سنانے کی فرمایش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسی شعر بھی کہتے ہیں یا نہیں انہیںاعتراف کرنا پڑا کیونکہ انہوںنے سوائے ایک آدھ شعرکے فارسی میں کہنے کی کوشش نہیںکی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اسی فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بسر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں مجھے سنائیں۔ ان غزلوں کے کہنے سے انہیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلوم ہوا جس کا پہلے انہوںنے اس طرح امتحان نہیںکیا تھا۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اردو کی نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا‘‘۔ شیخ عبدالقادر اور شیخ محمد اقبال جب تک یورپ میں رہے ان کی ملاقاتیں اکثر ہوتی رہیں۔ اس سلسلے میں مس عطیہ بیگم کی ڈائری میں بیشتر حوالہ جات ملتے ہیں۔ مثلاً مورخہ 22اپریل 1907ء کے تحت لکھتی ہیں (8): ’’آج اقبال مجھے لینے کے لیے آئے۔ میں ان کے اور عبدالقادر کے ہمراہ کیمبرج گئی۔ ماشاء اللہ ان دونوں کی فصاحب اور بلاغت کا کیا کہنا! سارے راستے ظریفانہ اور عالمانہ باتیں ہوتی رہیں‘‘۔ شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں: ’’جو دو سال میرے اور اقبال کے انگلستان میں مشترک گزرے وہ بہت دلچسپ تھے۔ گو وہ کیمبرج میں رہے اور میں لندن میں تھا مگر ان سے ملنے کے بہت سے موقعے ملتے رہے… جب اقبال لندن آتے تو بیرسٹری کے لکچروں یا کھانوں کے لیے ہم سے مل جاتے بعض علمی مجالس میں بھی اکٹھے شریک ہوتے اور ہمارے بعض احباب بھی مشترک تھے… میں جب آخری مرتبہ وہاں (کیمبرج) گیا تو میرے ایک دوست نے میری چائے کی دعوت کی۔ ہم سب دریائے کیم کے کنارے‘ جس سے کیمبرج کا نام بنا ہے‘ سیر کے لیے گئے۔ ایک خاتون کے پاس (فوٹو کا) کیمرہ تھا۔ وہ ہمارے مجمع کی تصویر لینے لگیں۔ مجمع کیمرہ کے سامنے ترتیب پا رہا تھا کہ روشنی نے دھوکا دیا اور آفتاب نے بادل کا نقاب منہ پر ڈال لیا۔ یوتو تو دھوپ اور چھائوں بدلتے رہتے ہیں لیکن مشرقی ملکوںمٰں تو پھر بھی برسات کے سوا ان کا کچھ ٹھکانا ہوتا ہے اور ان کے وقتوں پر انحصار ہوسکتا ہے مگر انگلستان میںآفتاب اکثرنایاب ہوتا ہے۔ کسی دن صبح کو شکل دکھاتا ہے تو شام کو ندارد اور کسی دن شام کے قریب ذر ا سی جھلک دکھاتا ہے تو صبح کو غائب۔ جس دن پورا وقت حاضر ہے وہ دن گویا ایک جشن کا دن ہے آفتا ب کو منہ چھپاتے دیکھ کر اقبال نے فی البدیہہ یہ دو مصرعے موزوں کیے: ماہ روئے برلب جو مے شد تصویر ما منتظر باشیم ما تا آفتاب آید بروں یہ مجھے اب یاد نہیں کہ آفتاب پھر نکلا اوروہ خاتون تصویر کھینچ سکی یا نہیں ۔ مجھے اپنے پروگرام کے مطابق اقبال سے ایک سال پہلے ہی انگلستان چھوڑنا تھا وہ میرے بعد آئے‘‘۔ مندرجہ بالا اقتباس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ شیخ محمداقبال کے شیخ عبدالقادر سے نہایت مخلصانہ تعلقات رہے ہیں اور شیخ محمد اقبال نے شیخ عبدالقادر ہی کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں اور اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں شیخ عبدالقادر اور شیخ محمد اقبال کے تعلق کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دونوں کا تعلق انجمن حمایت اسلام لاہور سے برس ہا برس رہا۔ دونوں حضرات … ’’شیخین لاہور‘‘ … انجمن کے جلسوںمیں شرکت فرماتے اور تقاریر و خطبات دیتے رہے۔ دونوںنے لا تعداد جلسوںکی صدارت فرمائی اور دونوں دوست نہ صرف انجمن کے قلمی معاونین رہے بلکہ انہوںنے یکے بعد دیگرے انجمن کے صدر کی حیثیت سے بھی شاندار خدمات انجام دیں۔ شیخ عبدالقادر کا انجمن سے تعلق 1893ء میںہوا جب انہوںنے اس کے سالانہ جلسے کے موقع پر کلمہ طیبہ پر ایک مضمون پڑھا (9)۔ شیخ محمد اقبال کا اؤنجمن کی سٹیج پر 24فروری 1900ء کو طلوع ہوا۔ جب آپ نے اپنی نہایت رقت آمیز نظم موسومہ نالہ یتیم اپنے مخصوص رنگ اور درد انگیز آواز میں پڑھی (10)۔ 28مارچ 1900ء کو خلیفہ عماد الدین کہ جگہ آپ انسپکٹر اسلامیہ کالج مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہر سال نظمیںیا لیکچر دیتے رہے۔ شیخ عبدالقادر نے ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے: ’’1901ء سے غالباً د و تین سال پہلے میں نے انہیں (اقبال) کو پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا۔ اس بزم میں ان کے چند اہم جماعت کھینچ کر لے آئے اور انہوںنے کہہ سنکر ایک غزل بھی ان سے پڑھوائی۔ ا س وقت تک لاہور کے لوگ اقبا ل سے واقف نہ تھے‘‘۔ بالکل اسی قسم کا ایک واقعہ ڈاکٹر شجا ع الدین نے تحریر کیا ہے وہ رقم طراز ہیں (11) کہ انجمن حمایت اسلام کے ساتھ اقبال کا تعلق محض حسن اتفاق یا حادثہ نہیں یہ ایک باشعور اور ذی حس فرد کا ایک فعال قومی ادارے کے ساتھ ایسا تعلق ہے جسے ہم: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں کی عملی تفسیر کہہ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ قابل ذکر ہے جو میںنے والد ماجد مرحوم سے سنا۔ ان دنوں ایک انگریزی لیکچر انجمن کے جلسوں کا مستقل فیچر ہوا کرتا تھا۔ شیخ محمد اقبال ایم ۔ اے کا نام پروگرام کمیٹی میں پیش ہوا اور یہ طے پایا کہ ان کو نظم کے لیے وقت دیا جائے۔ مولوی علی محمد صاحب مرحوم‘ جو انجمن کے ایک نہایت مخلص کارکن تھے اور سالانہ اجلاس کے متعلق لکھنے پڑھنے کا کام سرانجام دیا کرتے تھے‘ جب کمیٹی کے فیصلوں کے مطابق پروگرام مرتب کرنے لگے تو یہ خیال کرتے ہوئے کہ انگریزی خواں نوجوان انگریزی میںکوئی نظم پڑھے گا انہوںنے شیخ محمد اقبال صاحب کے نام کے آگے ’’انگلش پوئٹری‘‘ لکھ دیا۔ یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ ان دنوں کارپردازان انجمن میں سے بھی بعض اصحاب کو یہ گمان تک نہ تھاکہ جو شخص اپنی عمر میں پہلی مرتبہ انجمن کے سٹیج کے ذریعے پبلک کے سامنے آ رہا ہے وہ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے لیے ایک بلند مقام پیدا کر لے گا۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ محمد اقبال نے بہت جلد پبلک میںاپنا مقام پیدا کر لیا۔ اسی جلسے میں نظم کے بعد صدر جلسہ شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ صاحبان نے یہ نظم سنی ہے۔ اگرچہ میں نے انیس و ددبیر کی بہت سی نظمیں سنی ہیں مگر واقعی ایسی دل شگاف نظم کبھی نہیںسنی۔ اس میں ذرہ مبالغہ نہ تھا اور ناموس دین کے طور پر اچھی طرح سے ادا کیا گیا‘‘۔ 1900ء میں اسلامیہ کالج کو ڈگری کالج تو بنا دیا گیا مگر انجمن کو قلیل تنخواہ پر حسب منشا قابل پروفیسر صاحبان دستیاب نہ ہوتے تھے۔ شیخ عبدالقادر نے اس وقت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی خدمات بطور اعزازی پروفیسر کی انگریزی ادبیات پیش کیں۔ اسی طرح شیخ محمد اقبال بھی اسلامیہ کالج سے وابستہ رہے۔ ایک تو اس وقت جب شیخ عبدالقادر چن روز کی رخصت پر گئے تو شیخ محمد اقبال ان کی جگہ یہ فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر بیگ کے انتقال کے بعد شیخ محمد اقبال فلسفہ پڑھاتے رہے۔ شیخ محمد اقبال اکبر الہ آبادی کے نام اپنے ایک خط محررہ 28نومبر 1918ء میں رقم طراز ہیں (12): ’’اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر بیگ چیچک کی بیماری سے دفعتاً انتقال کر گئے اور انجمن حمایت اسلام کے اصرار پر دو ماہ کے لیے کالج کی ایم ۔ اے کی کلاس مجھ کو لینی پڑی‘‘۔ شیخ محمد اقبال اور شیخ عبدالقادر کے تعلقات کا یہ ایک ذریعہ تھا۔ 1904ء میں مشاہیر علم و دانش کا ایک تاریخٰ اجتماع دہلی میں منعقد ہوا جس میں ممتاز شخصیات نے شرکت فرمائی۔ شرکاء میں شیخ محمد اقبال کے علاوہ شیخ عبدالقادر‘ سر اکبر حیدری‘ نواب وقار الملک‘ حکیم اجمل خان‘ مولانا الطاف حسین حالی‘ نواب محسن الملک ‘ منشی محبوب عالم ‘ مولانا شبلی نعمانی‘ پروفیسر آرنلڈ‘ مولانا ظفر علی خان اور حبیب الرحمن شیروانی شامل تھے (13)۔ 29دسمبر 1926ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کااجلاس دہلی میں منعقد ہوا جس میں صدارت سر عبدالقادر نے فرمائی۔ دیگر قابل ذکر اور قابل قدر شخصیات کے علاوہ سر محمد اقبال نے بھی اس میں شرکت فرمائی۔ یہ اجلاس بھی دونوں لیڈروں کے ملنے کا ایک ذریعہ تھا اس کے بعد دسمبر 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلا س الہ آباد میں منعقد ہوا جس کے صدر سر محمد اقبال مقرر ہوئے۔ سر عبدالقادر بھی شریک ہونے کے لیے الہ آباد تشریف لے گئے۔ اسی تاریخی اجلاس میںسر محمد اقبال نے ’’نظریہ پاکستان‘‘ پیش کیا۔ ازاں بعد 7ستمبر 1931ء کو لندن میںدوسری گول میز کانفرنس منعقد ہوئی اور یکم دسمبر 1931ء کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر محمد اقبال مسلمانان ہند کے نمائندے کی حیثیت سے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس میں دیگر شرکاء میں سر عبدالقادر‘ سید امجد علی اور مولانا شوکت علی قابل ذکر ہیں۔ 1933 ء میں ادارہ معارف اسلامیہ لاہور کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ اس میںصدر مجلس استقبالیہ سر محمد اقبال تھے اور دیگر عہدے داران میں سر عبدالقادر‘ حبیب الرحمن شروانی ارو علامہ محمد عبداللہ یوسف علی شامل تھے۔ یہ ایسے مواقع تھے جب سرمحمد اقبال اور سر عبدالقادر باہم دیگر ملتے رہے۔ اور ملک و ملت کے مسائل پر تبادلہ خیالات کے علاوہ علمی و ادبی موضوعات پر بات چیت کرتے رہے۔ سر عبدالقادر کی سر محمد اقبال سے آخری ملاقات بقول ان کے 1937ء کے اواخر میں ہوئی۔ موصوف شاعر مشرق سے میری آخری ملاقات کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: ’’میں جب 1934ء میں ہائی کورٹ کے کام سے سبک دوش ہو کر پانچ سال کے لیے اس وقت کے وزیر ہند کے محکمے میں لندن گیا تو میرے دوست سر محمد اقبال بحیثیت مجموعی بخیریت تھے۔ ان کی علالتوں کا دور میری غیر حاضری میںشروع ہوا جب اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب پر رخصت لے کر 1937ء کے اواخر میں ہندوستان آیا تو میں یہاں آنے کے جلد بعد ان سے ملنے گیا۔ جب میں پہنچا تو وہ ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے… مرحوم مجھ سے بہت محبت سے ملے اور لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اور اپنی چارپائی پر ہی بٹھا لیا‘‘۔ سر محمد اقبال سے سر عبدالقادر کی یہ آخری ملاقات تھی۔ وہ 1938ء کے شروع میں واپس لندن تشریف لے گئے اور ان کی عدم موجودگی میں وہ تاریخ آ گئی جس دن دست اجل نے انہیں سب دوستوں اور عزیزوں سے چھین لیا۔ سر عبدالقادر نے سر محمد اقبال کے صاحب زادے کے نام ایک تعزیتی خط لکھا جس میں شدید رنج و غم کا اظہار کیا اور بتایا کہ سر محمد اقبال کی وفات انہیں ذاتی طور پر سخت صدمہ پہنچا ہے۔ مندرجہ بالا حالات و واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سر عبدالقادر اور سر محمد اقبال کے تعلقات اتنے گہرے تھے کہ اور کتنے مخلصانہ تھے۔ سر عبدالقادر سر محمد اقبال کے خاص دوست اور سب سے بڑے اقبال شناس ان کے کلام کی اشاعت کے محرک اور ’’بانگ درا‘‘…سب سے پہلے ’’اردو مجموعہ کلام‘‘ … کے مقدمہ نگار تھے۔ سر عبدالقادر اور سر محمد اقبال کے تعلقات کے بارے میں ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی تصنیف چند یادیں چند تاثرات میں خوب لکھا ہے۔ ان کے بیان سے پتا چلتا ہے کہ شیخین پنجاب کے کتنے گہرے مراسم تھے۔ موصوف لکھتے ہیں: ’’علامہ اقبال سے شیخ صاحب کے دوستانہ تعلقات کا علم سب کو ہے۔ خود ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچے میں انہوںنے تفصیل سے ان تعلقات کا ذکر کیاہے۔ جب ’’بانگ درا‘‘ مرتب ہوئی تو سوال پیدا ہوا کہ اس کا دیباچہ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے ۔ بعض لوگ دیباچے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ کلام اقبال اب کسی تمہید و تعارف کا محتاج نہیں لیکن آخر فیصلہ دیباچے کے حق میں ہوا تو دوسرا سوا ل یہ اٹھا کہ دیباچہ کون لکھے؟ مختلف نام سامنے آتے رہے۔ ایک صاحب جو حضرت علامہ کے ہاں اکثر حاضر ہوا کرتے تھے ایک روز کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب جو شخص ’’بانگ درا‘‘ پر دیباچہ لکھنے کا مستحق تھا وہ مدت ہوئی مر گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے تعجب سے پوچھا ’’کون‘‘؟ تو انہوںنے جواب دیا ’’عبدالرحمن بجنوری‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے میں عبدالرحمن بجنوری کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا بڑا معترف ہوں بلکہ ایک اعتبار سے ممنون بھی ہوں۔ وہ یوں کہ جب ’’اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی تو بجنوری نے ایک تنقیدی مضمون لکھا جس میں خودی کے مختلف پہلوئوں پر بحث کرنے کے بعد یہ کہا کہ اقبال فرد کی خودی پر اتنا زور دے رہا ہے کہ اس سے یہ خوف پیدا ہو چلا ہے کہ شاید اس کے پیش نظر ملت کا وجود نہیں بلکہ انفرادی خودی کی تکمیل بھی ملت ہی میںگم ہو کر ہوتی ہے۔ بجنوری کے اس مضمون کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ ’’رموز بے خودی‘‘ لکھ کر اس قسم کے اندیشو ں کا ازالہ کر دوں۔ میں نہیںکہہ سکتا کہ اگر بجنوری کا مضمون نہ چھپتا تو ’’رموز بے خودی‘‘ لکھی جاتی یا نہ لکھی جاتی لیکن یہ واقعہ ہے کہ بجنوری کا مضمون پڑ ھ کر مجھے احساس ہوا کہ ’’رموز بے خودی‘‘ کا لکھا جانا بے حد ضروری ہے‘‘۔ یہ واقعہ بیان کر کے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ’’اگر آج عبدالرحمن بجنوری زندہ ہوتے تو بھی ’’بانگ درا‘‘ پر دیباچہ لکھنے کا سب سے زیادہ حق شیخ عبدالقاد ر کا تھا اور وہی میری کتاب کادیباچہ لکھیں گے‘‘۔ چنانچہ ’’بانگ درا کا دیباچہ شیخ صاحب نے لکھا (14)۔ مذکورہ واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ سر محمد اقبال کے دل میں سر عبدالقادر کا کتنا احترام تھا اور وہ دوسرے ادبا پر انہیں ترجیح دیتے تھے۔ ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچے کی حیثیت بنیادی ہے جس سے نہ صرف اقبال کی سیرت و شخصیت کے بارے میں مستند اور موقر معلومات حاصل ہوتی ہیں بلکہ سر محمد اقبال کی اردو شاعری کے مختلف ادوار کا تعین ہوتا ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اردو شاعری کو ترک کرنے کی کیا وجوہ تھیں اور سر محمد اقبال اسے ترک کرنے سے کیسے باز رہے۔ نیز انہوںنے کن وجود کی بنا پر فارسی شاعری کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ بہرحال یہ مجموعہ قارئین کی خدمت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک دوست کا دوسرے دوست کی خدمت میں نذرانہ عقیدت ہے جس کاتعلق تقربیاً اڑتیس سال رہا۔ اس نے جو کچھ دیکھا جو کچھ سنا اور جو کچھ محسوس کیا اسے قلم بند کر دیا تاکہ اقبال کے شیدائی اس سے مستفید ہو سکیں۔ اس مجموعے میںبہت سی نئی باتیں ہیں جو پہلی بار کتابی صورتک میں منظر عام پر آ رہی ہیں۔ کچھ نئے چھپے ہوئے گوشوں پر سے پردہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس مجموعے کے مطالعے سے اگر ناظرین کو سر محمد اقبال کے بارے میں کچھ نئی باتیں معلوم ہو گئیں اور یقینا ہوں گی تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت ٹھکانے لگی اور مجھے میری کوششوں کا صلہ مل گیا۔ میں اپنے عزیز دوست اور بھائی جناب گوہر نوشاہی صاحب کا بے حد ممنون ہوںکہ ان کی تحریک اور مساعی سے یہ مجموعہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ گر قبول افند زہے عز و شرف 12 فروری 1972ئ محمد حنیف شاہد لائبریرین شعبہ مشرقیات‘ پنجاب پبلک لائبریری‘ لاہور ٭٭٭ حواشی 1۔ ’’جب آتش جواں تھا‘‘ (قلمی) از سر عبدالقادر۔ یہ مقالہ جناب منظور قادر نے مرحمت فرمایا تھا۔ 2۔ دیباچہ ’’بانگ درا‘‘ مصنفہ شیخ محمد اقبال۔ 3۔ اقبال کے بعض حالات ’’از غلام بھیک نیرنگ‘ منقول از رسالہ ’’اقبال‘‘ اکتوبر 1957ء ص 10۔ 4۔ اقبال کے بعض حالات از غلام بھیک نیرنگ منقول از رسالہ ’’اقبال‘‘ اکتوبر 1957ء ص 11۔ 5۔ ’’میرا افسانہ ‘‘ از ملا واحدی ‘ ص 75۔ 6۔ ’’جب آتش جواں تھا‘‘ (غیر مطبوعہ مضمون) از شیخ عبدالقادر۔ 7۔ دیباچہ ’’بانگ درا‘‘ از شیخ محمد اقبال۔ 8۔ ’’اقبال ‘‘ از عطیہ بیگم اقبال اکیڈمی 1969ئ۔ 9۔ ’’مختصر تاریخ انجمن حمایت اسلام‘‘ از خواجہ محمد حیات‘ ص 24۔ 10۔ ’’مختصر تاریخ انجمن حمایت اسلام‘‘ از خواجہ محمد حیات‘ ص 25۔ 11 ۔ ’’حمایت اسلام‘ ‘ (شجاع الدین نمبر) 4مئی 1956ء ص 13,14۔ 12۔ ’’اقبال نامہ ‘‘ (جلد دوم) از شیخ عطاء اللہ ‘ ص 74۔ 13۔ ’’روزگار فقیر‘‘ (جلد دوم) از فقیر سید وحید الدین ‘ ص 402۔ 14۔ ’’چند یادیں چند تاثرات‘‘ مصنفہ عاشق حسین بٹالوی ‘ لاہور ‘ آئینہ ادب ‘ 1969ئ۔ ٭٭٭ فہرست 1۔ مثنوی رموز بے خودی۔ تنقیدی نظری 21 2۔ بانگ درا 32 3۔ دانائے راز 45 4۔ یاد اقبال 51 5۔ اقبال … اس کی شاعری اور پیغام 54 6۔ اقبال اور فلسفہ حیات و موت 60 7۔ اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور٭ 66 8۔ شاعر مشرق سے میری آخری ملاقات 70 9۔ چند پیش گوئیاں 73 10۔ فکر اقبال کا ارتقائ 76 11۔ کیف غم 82 12۔ اقبال فلسفی ‘ شاعر اور مال اندیش کی حیثیت سے 88 13۔ ہم عصر شعرا پر اقبال کا اثر 98 14۔ طلوع اقبال٭ 104 15۔ میر کی واسوخت اور اقبال کا شکوہ 109 16۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ 118 17۔ مکاتیب 125 18۔ کتابیات 139 19۔ اشاریہ 141 (٭٭ یہ دونوں مضامین یکساں ہیں… صرف عنوان کا فرق ہے یا دوسرے مضمون میں تمہید کا اضافہ ہے فاضل مرتب نے اس تکرار کو ملحوظ نہیںرکھا ناشر) مثنوی رموز بے خودی(1)…تنقیدی نظر (مثنوی ’’رموز بے خودی‘‘ یعنی ’’اسرار حیات ملت اسلامیہ‘ ‘ حکیم فقیر محمد چشتی نظامی کے اہتمام سے یونین سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوئی۔ ابتدامیں علامہ سر محمد اقبال کا دو صفحات پر مشتمل دیباچہ ہے اور چھوٹے سائز کے 139 صفحات پر مشتمل متن۔ یہ کتاب پہلی بار چودہ سو کی تعداد میں چھپی۔ اس کا پہلا ایڈیشن پنجاب پبلک لائبریر ی میں موجود ہے)۔ مثنویاںتو بہت لکھی گئی ہیں اور لکھی جائیں گی لیکن یہ امتیاز شاید کسی کو حاصل ہو کہ ملک و قوم تک کوئی ضروری پیغام پہنچانے کے لیے مثنوی کو ذریعہ اظہار خیال بنایا جائے۔ خدا جزائے خیر دے شیخ محمد اقبال کو جنہوںںے اس زمانہ انحطاب میں ملت اسلامیہ کو مثنوی ’’اسرا ر خودی‘‘ کے ذریعے پیغام عمل دیا ہے اور ’’رموز بے خودی‘‘ میںمژدہ حیات سنایا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑی مثنوی مولانا روم (علیہ الرحمتہ) کی ہے جس کو اسلامی ممالک میں اکثر لوگ قرآن مجید کے بعد اعلیٰ درجے کی مذہبی کتاب سمجھتے ہیں اور ’’قرآن در زبان پہلوی‘‘ کا خطاب دیتے ہیں۔ اس کی زبان ایسی سلیس اور اندا ز بیان ایسا دل نشین ہے کہ خاص و عام میںمقبول ہے۔ یہ عالی شان مثنوی ایک دریائے ناپید کنار ہے۔ ا س کی کئی ضخیم جلدیں ہیں جن میں احکام الٰہی کے ضروری مسئلے جا بجا عام فہم پیرایے میں اور مثالوں اور حکایتوں کے ذریع لوگوں کو سمجھائے گئے ہیں۔ اس کتاب کا مقصد مذہب اسلام کی خدمت ہے۔ تصوف کا عنصر اس میں غالب ہے اور اس لیے یہ کتاب علماء اور صوفیا دونوں میں مقبول ہے اور فلسفی بھی اسے شوق سے پڑھتے ہیں۔ ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ میں طرز مثنوی مولوی معنوں کا تتبع کیا گیا ہے۔ ہمارا مطلب یہ نہیں کہ ہم ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کی ان د ومختصر مثنویوں کا مولانا روم کی عظیم الشان کتاب سے مقابلہ کیا چاہتے ہیں۔ ہاں یہ نسبت ضرور ہے کہ اقبال نے مثنوی شریف کی شیریں زبان اپنی مثنویوں کے لیے اختیار کی ہے اور مثنوی کے مقبول بحر کا تبرکاً اپنے لیے انتخاب کیا ہے۔ جناب مولانا علیہ الرحمتہ کا فیض معنوی سمجھیے کہ ان دونوں مثنویوں میں ایک خاص تاثیر موجود ہے ۔ ذیل کے اشعار ’’اسرار خودی‘‘ کی تمہید میں اقبال نے خود اس فیض کا اعتراف کیا ہے : ایں قدر نظارہ ام بے تاب شد بال و پر شکست و آخر خواب شد روئے خود بنمود پیر حق سرشت کہ بحرف پہلوی قرآن نوشت گفت: ’’اے دیوانہ ارباب عشق جرعہ گیر از شراب ناب عشق (ص8) بر جگر ہنگامہ محشر بزن شیشہ بر سر‘ دیدہ بر نشتر بزن آشنائے لذت گفتار شو اے درائے کارواں بیدار شو (ص9) ’’درائے کارواں‘‘ یعنی اقبال نے بیدا ر ہو کر اس ارشاد کی تعمیل کی ہے۔ سوز و گداز خدا نے فطرت میں ودیعت کیا تھا‘ ملت اسلامیہ کی موجودہ حالت پر نظر پڑتے ہی وہ سوز و گداز نالہ نے کی طرح فریاد بن کر سینے سے نکلا اور پکارا کہ دنیا میں وہی افراد زندگی کا کماحقہ ادا کرتے ہیں جو لذت عمل سے بہریاب ہیں۔ اور جو قوت عمل کھو بیٹھے یا محو خیا ہو بیٹھے ہوں ان کا شمار زندوں میں نہیں۔ اس ایک مضمون کوکئی پیرایوں میں ادا کیا گیا ہے اورکئی تشبیہوں اور کئی موثر مثالوں سے واضح کیا گیا ہے ۔ ’’اسرار خودی‘‘ کے لیے ایک بسیط ریویو جداگانہ درکار ہے جو پھر کبھی (اگر حالات مساعد ہوئے) لکھا جائے گا۔ اخبارات میں ا س پر بہت لے دے ہو چکی ہے اور بہت کچھ اس کی تعریف میں لکھاجا چکا ہے۔ اس وقت تو مثنوی کے دوسرے حصے سے بحث ہے جو حال میں شائع ہوا اور جس کا نام ’’رموز بے خودی‘‘ رکھا گیا ہے۔ اگر صرف دونوں مثنویوں کے ناموں کو سرسری طور سے دیکھا جائے تو خیال ہوتا ہے کہ حضرت اقبال نے اضداد کے جمع کر نے کی کوشش کی ہے اور یہ نکتہ چینی زبان قلم سے بے اختیار نکلنے کو ہوتی ہے کہ پہلے تو ملت اسلامی کو پیغام دیا کہ اس کا ہر فرد خود داری سیکھے اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لیے جدوجہد زیست کے میدان میں مردانہ کارزار کے لیے تیار ہو‘ اورپھر دوسری کتاب میں خود ہی خودی سے بیگانہ بن کر وہی بے خودی کا جادہ فرسودہ اختیار کیا۔ لیکن جب ’’رموز بے خودی‘‘ کو غور سے پڑھیں تو یہ اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ اول تو یہ صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مصنف نے ’’رموز بے خودی‘‘ میں ان اصول سے بالکل انحراف نہیںکیا جو ’’اسرار خودی‘‘ میں اصول زندگی قرار دیے گئے تھے۔ اور دوسرے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں افراد کے لیے خودی اور خود داری ذریعہ استواری ہے وہیں افراد کا اپنی ہستی ہستی قومی ترقی کے لیے لازم ہے اور اس کو بے خودی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا وہ بے خودی ہے جو خود داری اور خود شناسی کے بعد پیدا ہوتی ہے اور جو فرد و قوم دونوں کے لیے عین نفع ہے۔ اس مثنوی میں یہ مضمون کس خوبی سے ادا ہوتا ہے: تو خودی از بے خودی نشناختی خویش را اندر گماں انداختی جوہر نوریت اندر خاک تو یک شعاعش جلوہ ادراک تو خوگر پیکار پیہم دید مش ہم خودی ہم زندگی نامید مش چوں ز خلوت خویش را بیروں کشد (2) پاے در ہنگامہ جلوت نہد ٭٭٭ در جماعت خود شکن گردو خودی تا ز کل برگ چمن گردو خودی (رموز بے خودی ص 4,5) یہ اصول ذہن نشین کرتے ہوئے شاعر مطلب کی طرف آتا ہے اور یہ بتلاتا ہے کہ ربط افراد کا نام ہی ملت ہے اور افراد کی ہستی کے قیام کا مدار اسی ارتباط پر ہے اور اس دعوے کی زبردست دلیل نیچر کا مشاہدہ ہے: مدعائے ما مآل ما یکسیت طرز و انداز خیال ما یکسیت ما ز نعمت ہاے او اخواں شدیم یک زبان و یک دل و یک جاں شدیم (ص16) قومی زندگی کی بنیاد یک دلی پر رکھ کر قومی خیالات کی تدبیروں کا ذکر شروع کای گیا ہے ۔ پہلے تنبیہہ کی ہے کہ یا س و ناامیدی‘ قومی زندگی کے لیے زہر کا حکم رکھتی ہے۔ ترقی چاہنے والی قوموں کو چاہیے کہ ناامیدی کو پاس نہ آنے دیں‘ حوصلے بلند رکھیں اور سرگرم جستجو رہیں ناامیدی عموماً خوف سے پیدا ہوتی ہے یا غم سے اس لیے خو ف اور غم سے بھی الگ رہنا چاہیے۔ اس ہدایت پر عمل کی تاکید کرتے ہوئے مثنوی میں آیات و احکام قرآنی کے حوالے پیش کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ سوائے خدا کے کسی سے ڈرنا ایما ن کے خلاف ہے۔ اور جب بیم غیر اللہ سے نجات ہو تو کوئی کام ایسے آدمی کے لیے دشوار نہیں ہوتا: بیم چوں بند است اندر پاے ما ورنہ صد سیل است در دریائے ما (ص20) اس سلسلے میں ایک حکایت اورنگ زیب عالمگیر کی درج کی ہے جس پر جنگل میں نماز پڑھتے ہوئے شیر نے حملہ کیا مگر بادشاہ اس سے نہ ڈرا اور بغیر تاک کر ضرب لگانے سے اس نے خنجر کا ایسا وار کیا کہ شیر ہلاک کر دیا اور پھر نماز میںمصروف ہو گیا۔ اس حکایت کو نظم کرتے ہوئے اورنگزیب کی خدمات مذہبی کی تعریف کی ہے او ر اس ساری تعریف کی جان یہ شعر ہے جو عالم گیر کی شان میں کہا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے کی بلاغت خصوصاً قابل دادہے: درمیان کار زار کفر و دیں ترکش ما را خدنگ آخریں (ص23) اس کے بعد ملت اسلامی کو بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو باہمی رشتہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کی بدولت مضبوط ہے: از رسالت ہم نوا گشتیم ما ہ نفس‘ ہم مدعا گشتیم ما کثرت ہم مدعا وحدت شود پختہ چوں وحدت شود ملت شود (ص30) پھر ملت اسلامیہ کی خصوصیات چند پر مبنی شعروں میںبیان کی ہیں اور بتایا ہے کہ حریت اور مساوات اس ملت کی سرشت میں داخل ہے۔ اسلامی مساوات کی تمثیل کے طورپر ایک درد انگیز تاریخی روایت نظم کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں کہ سلطان مراد نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ جو ملک خجند کے رہنے والے ایک پردیسی معمار نے بنائی تھی۔ بادشاہ کو اس کی عمارت کچھ ناپسند ہوئی اوراس نے معمار کاہاتھ کاٹ دیا۔ اس معمار نے قاضی کی عدالت میں بادشاہ کے خلاف استغاثہ کیا۔ بادشاہ عدالت میں طلب کیا گیا قاضی نے مقدمہ سننے کے بعد فتویٰ دیا: ’’عبد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگیں تر از معمار نیست‘‘ یہ فتویٰ سن کربادشاہ نے اپنا ہاتھ کاٹ جانے کے لیے پیش کیا: چوں مراد ایں آیہ محکم شنید دست خویش از آستیں بیروں کشید مدعی را تاب خاموشی نماند (3) آیہ ’’بالعدل و الاحسان‘‘ خواند گفت از بہر خدا بخشید مش از برائے مصطفیؐ بخشیدمش (ص38) یعنی قانون نے ہاتھ کاٹنے کے عوض میں ہاتھ کاٹنے کا فتویٰ دے دیا مگر خود مستغیث کو رحم آ گیا اوراس نے بدلہ نہیںلیا اور بادشاہ کو معاف کر دیا۔ آگے چل کر میدان کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے متعلق ایک پر درد باب لکھا ہے جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت حریت کی بنیاد رکھنے کے لیے اور ضمیر انسانی کا حق آزادی قایم کرنے کے لیے تھی: ماسوی اللہ را مسلماں بندہ نیست پیش فرعونے سرش افگندہ نیست خون او تفسیر ایں اسرار کرد ملت خوابیدہ را بیدار کرد (ص43) اقبا ل نے ایک باب ہجرت پر لکھا ہے اور سچ یہ ہے کہ اس میں معنی آفرینی کی داد دی ہے۔ مقصود تو اس باب سے وہی ہے جو پہلے بھی بیان ہو چکا ہے کہ ملت اسلام کی بنیاد مذہبی یگانگت ہے اور یہ کسی خاص ملک یا وطن کی پابند نہیں‘ مگر اس باب میں مصنف نے اس دعوے پر ایک زبردست دلیل ہجرت نبوی کے مسلمہ واقعے سے پیدا کی ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا بسے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ فی الحقیقت دشمنوں سے عاجز آ کر بھاگ گئے تھے بلکہ اس میں یہی حکمت چھپی ہوئی تھی کہ اسلام کی عالم گیری کی بنیاد پڑے اور اسلام کے نام لیو ا ہر جگہ اپنا وطن بنائیں اور وہاںنور اسلام پھیلائیں: آنکہ در قرآن خدا ا را ستود (4) آن کہ حفظ جا او موعود بود دشمناں بے دست و پا از بیبتش لرزہ پر تن از شکوہ فطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت؟ تو گماں داری کہ از اعدا گریخت؟ قصہ گویاں حق ز ما پوشیدہ اند معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئین حیات مسلم است ایں ز اسباب ثبات مسلم است (ص46) اس کے مقابل میں ملت کی بنا وطن پر رکھنے کا جو خیال ہے اور جس کے خلاف دلایل چند اشعار میں اس سے پہلے بیان ہو چکی ہیں ان پر اس باب میں اقبال نے ایک اور دلیل کا اضافہ کیا ہے اور وہ تمام انسانی اغراض کے لحاظ سے ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف جغرافی قطعات میں سے ایک قطعہ بنائے ملت قرار پانے سے دنیا میں تنگ خیالی ایسی پھیلی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کی دشمن بن گئی ہے اوردنیا میں جنگ و جدال کی کثرت ہو گئی ہے۔ گہری فلسفیانہ نگاہ سے اگر دیکھیں تو عام بنی نو ع انسان کو اس اصول سے ضرور نقصان پہنچتا ہے۔ گو وہ محدود جماعتیں جو علیحدہ علیحدہ قومیں بنی ہوئی ہیں اس اصول کی بدولت جلد ترقی کر جائیں۔ ان خیالات کو نظم میں یوں بیان کیا گیا ہے : آں چناں قطع اخوت کردہ اند بر وطن تعمیر ملت کردہ اند (ص48) ٭٭٭ اس شجر جنت ز عالم بردہ است تلخی پیکار بار آوردہ است مردی اندر جہاں افسانہ شد آدمی از آدمی بیگانہ شد روح از تن رفت و ہفت اندام (5) ماند آدمیت گم شد و اقوام ماند (ص49) اس مسئلے سے کہ ملت اسلامی حدود مکانی کی پابندنہیں قدرتی طور پر حدود زمانی کی طرف خیال منتقل ہوتا ہے اور اس کے متعلق شاعر نے ایک باب میں یہ بیان کیا ہے کہ ملت اسلامی کا دوام جریدہ عالم پر ثبت ہے ذیل کے اشعار ملاحظہ ہوں: رومیاں را گرم بازاری نماند آں جہاں گیری جہاں داری نماند شیشہ ساسانیاں در خوں نشست رونق غمخانہ یوناں شکست مصر ہم در امتحاں ناکام ماند استخوان او تہ اہرام ماند در جہاں بانگ اذاں بودست و ہست ملت اسلامیاں بودست و ہست (ص56,57) گرچہ مثل غنچہ دل گیریم ما گلستاں میرد اگر میریم ما (ص57) اسلامیوں کو یہ بتانے کے بعد کہ ان کی ملت ان کے مذہب پر مبنی ہے اور اس کے دوام کا وعدہ ہو چکا ہے ان کویہ یاد دلایا گیا ہے کہ یہ سب جبھی ہو گا کہ وہ اپنے آئین کے پابند ہوں جو ان کی آسمانی کتاب یعنی قرآن شریف میں مندرج ہیں۔ اس باب میںقرآن شریف کی تعریف خوب اشعار میں کی گئی ہے جن میں سے صرف دو یہاں درج کیے جاتے ہیں: نوع انساں را پیام آخریں حامل او رحمتہ اللعالمین (ص59) گر تو می خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن (ص62) آگے چل کر مسلمانوں کو شرع کی پابندی کی تاکید کی گئی ہے: ہست دیں مصطفیؐ دین حیات شرع او تفسیر آئین حیات گر زمینی آسماں سازد ترا آں چہ حق می خواہد آں سازد ترا (ص68) اگر اس طرح باقی سب بابوں کا خلاصہ اس مختصر تبصرے میں درج کیا جائے تو شاید باعث طوالت ہو گا شایقین اصل کتاب کو پڑھیں اور مستفید ہوں مگر دو تین بابوں کو خاص خاص اشعار کاا ذکر کیے بغیر پھر بھی رہا نہیں جا سکتا۔ ان میں ایک تو وہ با ب ہے جس میں علم تاریخ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ ترقی قومی کے لیے تاریخ دانی لازم ہے۔ یہ مضمون کیسے خوب صورت اور سلیس لفظوں میں ادا ہوا ہے : ربط ایام است ما را پیرہن سوزنش حفظ روایات کہن چیست تاریخ اے ز خود بیگانہ داستانے قصہ افسانہ ئ؟ ایں ترا از خویشتن آکہ کند آشنائے کار و مرد رہ کند (ص100) اس باب کا اگلا باب بھی توجہ کے قابل ہے۔ اس میں عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ جتایا گیاہے کہ اچھے بیٹوں بیٹیوں کی ماں بننا بڑے فخر کی بات ہے اور نوع انسان کے صنف نازک کا یہ سب سے بڑا فرض ہے۔ جدید زمانے میں اس فر ض کی طرف جو بے توجہی کا میلان ہے وہ بہت نقصا ن دہ ہے۔ ایک گنوار اور بد وضع لڑکی‘ جو کسی نیک اور کارآمد شخص کی ما ں بنتی ہے اس نازنین گل اندام سے بہتر ہے جو اپنے اس اہم فرض سے بے پروا ہو یا اس ذمے دار ی کی متحمل ہونے کے ناقابل ۔ اس پیغا م کو تو حضرت اقبا ل نے انہی کے الفاظ سے سنیے: آں دخ (6) رستاق (7) زادے جاہلے پست بالائے مطبرے (8)بد گلے (9) نا تراشے‘ پرورش نادادہ کم نگاہے‘ کم زبانے‘ سادہ دل ز آلام امومت (10) کردہ خوں گرد چشمش حلقہ ہائے نیل گوں ملت ار گیرد ز آغوشش بدست یک مسلمان غیور و حق پرست ہستی ما محکم از آلام اوست صبح ما عالم فروز از شام اوست (ص105) رسول عربیؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراؓ کا نام مبارک اس سلسلے میں مسلمان عورتوں کے لیے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ وہ اپنی خوبیوں اور نیکی کے لحاظ سے رسول کریمؐ جیسے باپ کی پیاری بیٹی‘ حضرت علیؓ جیسے شوہر کی چہیتی بیوی اور حضرت امام حسنؓ و حضرت امام حسینؓ جیسے بیٹوں کی واجب التعظیم ماں بنیں اور انہوںنے اپنی زندگی میں مثال قایم کی کہ عورت ذات کس طرح اپنی زندگی کے ان تینوں مرحلوں پر اپنے فرائض کو ادا کرے۔ کہ ساری ملت کے لیے بہتری کا باعث ہو۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کی شان میں جو اشعار اقبال کے قلم سے نکلے ہیں وہ اس دلی ارادت کے ترجمان ہیں جو اقبال کو رسول ؐ اور آل رسولؐ سے ہے اور ان میں یہ دو شعر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ صفات کا ایک دریا ہے جو ایک ایک شعر کے کوزے میں بند کیا گیا ہے۔ اہل نظر داد دیں گے اور جنہیں تفصیل نہ معلوم ہو وہ صفحات تاریخ و سیر ملاحظہ فرمائیں: آں ادب پروردۂ صبر و رضا آسیا گردان و لب قرآن سرا گریہ ہائے او ز بالیں بے نیاز گوہر افشاندے بدامان نماز (ص110) آخری باب جس میں مثنوی کے مطالب کا خلاصہ اور سورہ قل ھو اللہ احد کی تفسیر ہے ۔ خاص طورپر پڑھنے کے لائق ہے کتاب کا خاتمہ عرض حال مصنف پر ہوتا ہے جو بارگاہ رسالت مآب میں کی گئی ہے۔ ا س میں مسلمانوں کی موجود ہ حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ راستے سے دور جا پڑے ہیں۔ ان کے شیخ ’’برہمن‘‘ سے زیادہ بت پرست ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے دماغوں میں بت چھوڑ مندر بھر گئے ہیں۔ جو صفات پہلے غیر مسلموں سے مخصوص تھیں وہ انہوںنے سیکھ لی ہیں۔ موت سے نہ ڈرنے کے بجائے ڈرنے لگے ہیں۔ عرب کی بجائے عجم کی تقلید میں مبتلا ہیں۔ دعا ہے کہ ان کو جو پیغام اس مثنوی کے ذریعے رہ حق کی طرف پھر آنے کے لیے دیا گیا ہے وہ بااثر ثابت ہو ا اور مقبول ہو۔ اخیر میں چند شعر شاعر نے اپنی ایک دلی آرزو کے اظہر میں لکھے ہیں اور ان میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ ان شعروں کا مزا اہل دل اور فدائیان نبیؐ لیں گے: ہست شان رحمتت گیتی نواز آرزو دارم کہ میرم در حجاز مسلمے از ماسوا بیگانہ ء تا کجا زنجیری (11) بت خانہ ء حیف چوں او را سر آید روزگار پیکرش را دیر گیرد در کنار از درت خیزد اگر اجزائے من واے امروزم خوشا فرداے من (ص138) ٭٭٭ حواشی 1۔ ماہنامہ ’’مخزن‘‘ لاہور بابت ستمبر 1918ء جلد نمبر 36شمارہ نمبر 9 ص 3تا 16۔ 2۔ ’’اسرار و رموز ‘‘ شایع کرد شیخ مبار ک علی میں ’’دہد‘‘ (ص 100) لکھا ہے ۔ پہلے ایڈیشن مطبوعہ 1918ء میں ’’کشد ہی لکھا ہے۔ 3۔ ان اللہ یا مر کم بالعدل والاحسان (آیہ شریفہ)۔ 4۔ واللہ یعصمک من الناس (آیہ شریفہ)۔ 5۔ ’’ہفت اندام‘‘ اعضائے جسمانی۔ 6۔ ’’دخ مخفف دختر‘‘۔ 7۔ گنوار 8۔ فربہ ‘ موٹی 9۔ سیدھی شکل کی 10۔ ’’اسرار و رموز ‘‘ شایع کردہ شیخ مبارک علی میں ابھی ’’امومت‘‘ (ص 175) تحریر ہے ۔ پہلے ایڈیشن (1918) میں بھی یہی لفظ لکھا ہے بمعنی ماں بننا۔ 11۔ ’’اسرار و رموز ‘‘شایع کردہ شیخ مبارک علی میں ’’زناری‘‘ (ص 198) چھپا ہوا ہے۔ پہلے ایڈیشن (1918) میں ’’زنجیری ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ ٭٭٭ بانگ درا دیباچہ (یہ دیباچہ سر ڈاکٹر محمداقبال کی مشہور و معروف تصنیف ’’بانگ درا‘‘ کا ہے جو سر عبدالقادر نے تحریر فرمایا۔ یہ کتاب پہلی بار ستمبر 1924ء میں تین ہزار کی تعدا د میں شائع ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ ا ب تک (مئی 1969ء تک) اس کے 26 ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں)۔ کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم (1)کے بعد ہندوستان میں کوی ایسا شخص پیدا ہو گا جو اردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا ۔ اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجودمیں آئیں گے اور ادب اردو کے فروغ کا باعث ہوں گے۔ مگر زبان اردو کی خوش اقبال دیکھیے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعراسے نصیب ہوا جس کا کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے ۔ اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔ غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خان غالب کو اردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے۔ اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں دوبارہ جنم لیا ار محمد اقبال نام پایا۔ جب شیخ محمد اقبال کے والد بزرگوار اور ان کی پیاری ما ںان کا نام تجویز کر رہے تھے تو قبول دعا کا وقت ہو گا کہ ان کا دیا ہوا نام اپنے پورے معنوں میں صحیح ثابت ہو اور ان کی اقبال مند بیٹا ہندوستان میں تحصیل علم سے فارغ ہو کر انگلستان پہنچا۔ وہاں کیمبرج میں کامیابی سے وقت ختم کر کے جرمنی گیا اور علمی دنیا کے اعلیٰ مدارج طے کر کے واپس آیا۔ شیخ محمد اقبال نے یورپ کے قیام کے زمانے میں بہت سی فارسی کتابوں کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کا خلاصہ ایک محققانہ کتاب کی صورت میں شائع کیا جسے فلسفہ ایران کی مختصر تاریخ کہنا چاہیے۔ اس کتاب کو دیکھ کر جرمنی والوں نے شیخ محمد اقبال کو ڈاکٹر کا علمی درجہ دیا۔ سرکار انگریزی کو جس کے پاس مشرقی زبانوں اور علوم کی نسبت براہ راست اطلاع کے ذرائع کافی نہیں‘ جب ایک عرسے بعد م علوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب کی شاعری نے عالم گیر شہرت حاصل کر لی ہے تو اس نے بھی از راہ قدردانی ’’سر‘‘ کا خطاب انہیں عطا کیا (2)۔ اب وہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے نام سے مشہور ہیں لیکن ان کانام جس میں یہ لطف خداداد ہ کہ نام کا نام اور تخلص یا تخلص ان کی ’’ڈاکٹری‘‘ اور ’’سری‘‘ سے زیادہ مشہور اور مقبول ہے۔ سیالکوٹ میں ایک کالج ہے جس میں علمائے سلف کی یادگار اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے ایک بزرگ مولوی سید میر حسن (3)صاحب علوم مشرقی کا درس دیتے ہیں ۔ حال میں انہیں گورنمنٹ سے خطاب شمس العلماء بھی ملا ہے۔ ان کی تعلیم کا یہ خاصہ ہے کہ جو کوئی ان سے عربی یا فارسی سیکھے اس کی طبیعت میں اس زبان کا صحیح مذاق پیدا کر دیتے ہیں۔ اقبال کو بھی اپنی ابتدائی عمر میں مولوی سید امیر حسن سا استاد ملا۔ طبیعت میں علم ادب سے مناسبت قدرتی طور پر موجود تھی۔ فارسی اور عربی کی تحصیل مولوی صاحب موصوف نے کی‘ سونے پر سہاگا ہو گیا۔ ابھی سکول ہی میں پڑھتے تھے کہ کلام موزوں زبان سے نکلنے لگا۔ پنجاب میں اردو کا رواج اس قدر ہو گیا کہ ہر شہر میں زبان دانی اور شعر و شاعری کا چرچا کم و بیش موجود تھا۔ سیالکوٹ میں بھی شیخ محمد اقبال کی طالب علمی کے دنوں میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوتا تھا اس کے لیے اقبال نے کبھی کبھی غزلیں لکھنی شروع کر دیں۔ شعرائے اردو میں ان دنوں نواب مرزا خان صاحب داغ دہلوی (4) کا بہت شہرہ تھا اور نظام دکن کے استاد ہونے کی وجہ سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لوگ جو ان کے پاس نہیں جا سکتے تھے خط و کتابت کے ذریعے دور ہی سے ان کی شاگردی کی نسبت پیدا کر لیتے تھے۔ غزلیں ڈاک میں ان کے پاس جاتی تھیں اور وہ اصلاح کے بعد واپس بھیج دیتے تھے۔ پچھلے زمانے میں ڈاک کا انتظام یہ تھاکہ کسی شاعر کو اتنے شاگرد میسر آ سکتے تھے۔ اب اس سہولت کی وجہ سے یہ حال تھا کہ سینکڑوں آدمی ان سے غائبانہ تلمذ رکھتے تھے اور انہیں اس کام کے لیے ایک عملہ اور محکمہ رکھنا پڑتا تھا۔ شیخ محمد اقبال نے بھی انہیں خط لکھا اور چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں۔ اس طرح اقبال کو اردو زبان دانی کے لیے بھی ایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے فن غزل میںیکتا سمجھا جاتا تھا۔ گو اس ابتدائی غزل گوئی میں وہ باتیں تو موجود نہ تھیںجن سے بعد ازاں کلام اقبال نے شہرت پائی مگر جناب داغ پہچان گئے کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلعے کا یہ طالب علم کوئی معمولی غزل گو نہیں۔ انہوںنے جلد کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ اور یہ سلسلہ تلمز کا بہت دیر قائم نہیں رہا۔ البتہ اس کی یاد دونوں طرف رہ گئی داغ کا نام اردو شاعری میں ایسا پایہ رکھتا ہے کہ اقبال کے دل میں داغ سے اس مختصر اور غائبانہ تعارف کی بھی قدر ہے اور اقبا ل نے داغ کی زندگی ہی میں قبول عام کا درجہ حاصل کر لیا تھا کہ داغ مرحوم اس پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کی انہوںنے اصلاح کی۔ مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں نے خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے۔ سیالکوٹ کالج میں ایف اے کے درجے تک تعلیم تھی بی اے کے لیے شیخ محمد اقبا ل کو لاہور آنا پڑا۔ انہیں علم فلسفہ کی تحصیل کا بڑا شعوق تھا اور انہیں لاہور کے اساتذہ میں سے ایک نہایت شفیق استا د ملا جس نے فلسفے کے ساتھ ان کی مناسبت دیکھ کر انہیںخاص توجہ سے پڑھانا شروع کیا۔ پروفیسر آرنلڈ (5)صاحب جو اب سر ٹامس آرنلڈ ہو گئے ہیں اور انگلستان میں مقیم ہیں‘ غیر معمولی قابلیت کے شخص ہیں۔ قوت تقریر ان میں بہت اچھی ہے اوروہ علمی جستجو اور تلاش کے طریق جدید سے خوب واقف ہیں انہوںنے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اس مذاق اور اپنے طرز عمل سے حصہ دیں اور وہ اس ارادے میں کچھ کامیاب ہوئے۔ پہلے انہوں نے علی گڑھ کالج کی پروفیسری کے زمانے میں اپنے دوست مولانا شبلی (6) مرحوم کے مذاق علمی کے پختہ کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اب انہیںیہاں ایک اور جوہر قابل نظر آیا جس کے چمکانے میں آرزو ان کے د ل میں پیدا ہوئی ۔ اور جو دوستی اور محبت استاد اور شاگرد میں پہلے دن سے پیدا ہوئی وہ آخرش استد کے پیچھے پیچھے انگلستان لے گئی اوروہاں یہ رشتہ اور بھی مضبو ط ہو گیا اور آج تک قائم ہے۔ آرنلڈ خوش ہے کہ میری محنت ٹھکانے لگی اورمیرا شاگرد علمی دنیا میں میرے لیے بھی باعث شہرت افزائی ہوا‘ اور اقبال معترف ہے کہ جس مذاق کی بنیاد سید میر حسن نے ڈالی تھی اور جسے درمیان میں داغ کے غائبانہ تعارف نے بڑھایا تھا اس کے آخری مرحلے میں آرنلڈ کی شفیقانہ رہبری سے طے ہوئے۔ اقبال کو اپنی علمی منازل طے کرنے میں اچھے اچھے رہبر ملے اور بڑے بڑے علما سے سابقہ پڑا۔ ان لوگوں میںکیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر میگ ٹیگریٹ (7)برائون (8) نکلسن (9)او ر سارلے (10)قابل ذکر ہیںَ پروفیسر نکلنسن تو ہمارے شکریے کے خا ص طور پر مستحق ہیںکیونکہ انہوں نے اقبال کی مشہور فارسی نظم ’’اسرار خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ (11)کر کے اور اس پر دیباچہ اور حواشی لکھ کر یورپ اور امریکہ میں اقبال سے روشناس کرایا۔ اسی طرح ہندوستان کی علمی دنیا میں جتنے نامور اس زمانے میں موجود تھے مثلا مولانا شبلی مرحوم مولانا حالی (12)مرحوم اکبر (13)مرحوم سب سے اقبال کی ملاقات اور خط و کتابت رہی اور ان کے اثرات اقبال کے کلام پر اور اقبال کا اثر ان کی طبائع پر پڑتا رہا۔ مولانا شبلی نے بہت سے خطوط میں اور حضرت اکبر نے نہ صرف خطوں میں بلکہ بہت سے اشعار میں اقبال کے کمال کا اعتراف کیا ہے اور اقبال نے اپنی نظم میں ان باکمالوں کی جابجا تعریف کی ہے۔ ابتدائی مشق کے دنوں کو چھوڑ کر اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوا۔ 1901ء سے غالباً دو تین سال پہلے میں نے انہیں پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے (14)میں دیکھا۔ اس بزم مین ان کو ان کے چندہم جماعت کھینچ کر لے آئے اور انہوںنے کہہ سن کر ایک غزل بھی ان سے پڑھوائی۔ اس وقت تک لاہور میں صرف لوگ اقبال سے واقف نہ تھے۔ چھوٹی سی غزل تھی ساد ہ سے الفاظ زمین بھی مشکل نہ تھی مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن تھا۔ بہت پسند کی گئی۔ اس کے بعد دو تین مرتبہ پھر اس مشاعرے میں انہوںنے غزلیںپڑھیں اور لوگوں کو معلوم ہوا کہ ایک ہونہار شاعر میدان میں آیا ہے مگر یہ شہرت پہلے پہلے لاہور کے کالجوں اور طلبہ اور بعض ایسے لوگوں تک محدود رہی جو تعلیمی مشاغل سے تعلق رکھتے تھے۔ اتنے میں ایک ادبی مجلس قائم ہوئی جس میں مشاہیر شریک ہونے لگے اور نظم و نثر کے مضامین کی اس میںمانگ ہوئی۔ شیخ محمد اقبال نے اس کے ایک جلسے میں اپنی وہ نظم جس میں ’’کوہ ہمالیہ‘‘ سے خطاب ہے پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی مذاق زمانہ میں اور ضروریات کے موافق ہونے کے سبب بہت مقبول ہوئی اور کئی طرف سے فرمائشیں ہونے لگیں کہ اسے شائع کیا جائے۔ مگر شیخ صاحب یہ عذر کر کے کہ ابھی نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اس وقت چھپنے نہ پائی۔ اس بات کو تھوڑاہی عرصہ گزرا تھا کہ مین نے ادب اردو کی ترقی کے لیے رسالہ ’’مخزن‘‘ جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ اسی اثنا میں شیخ محمد اقبال سے میری دوستانہ ملاقات ہو چکی تھی۔ میں نے ان سے وعدہ لیا کہ اس رسالے کے حصہ نظم کے لیے وہ رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں گے ۔ پہلا رسالہ شائع ہونے کو تھا کہ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے کوئی نظ مانگی۔ انہوںنے کہا ابھی کوئی نظم تیار نہیںَ میں نے کہا ہمالہ والی نظم دے دیجیے اور دوسرے مہنے کے لیے کوئی اور لکھیے۔ انہوں نے اس نظم کو دینے میں پس وپیش کی کیونکہ انہیںیہی خیال تھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں۔ مگر میں دیکھ چکا تھا کہ وہ بہت مقبول ہوئی اس لیے میں نے زبردستی وہ نظم ان سے لے لی اور ’’مخزن‘‘ کی پہلی جلد کے پہلے نمبر میں جو اپریل 1901ء میں نکلا شایع کر دی۔ یہاں سے گویا اقبال کی اردو شاعری کا پبلک طور پر آغاز ہوا اور 1905ء تک جب وہ ولایت گئے یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس عرسے میں وہ عموماً ’’مخزن‘‘ کے ہر نمبر کے لیے کوئی نہ کوئی نظم لکھتے تھے اور جوں جوں لوگوں کو ان کی شاعری کا حال معلوم ہوتا گیا جا بجا مختلف رسالوں اور اخباروں سے فرمایشیں آنے لگیں اور انجمنیں اور مجالس درخواستیں کرنے لگے کہ ان کے سالانہ جلسوں میں وہ لوگوں کواپنے کلام سے محظوظ کریں شیخ صاحب اس وقت طالب علمی سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے اور دن رات علمی صحبتوں اور مشاغل میں بسر کرتے تھے۔ طبیعت زوروں پر تھی شعر کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمد ہوتی تھی۔ ایک اییک نشست میں بے شمار شعر ہو جاتے تھے۔ ان کے دوست اور بعض علم جو پاس ہوتے پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے تھے اور وہ اپنی دھن میں کہتے جاتے میں نے ا س زمانے میں انہیں کبھی کاغذ قلم لے کر فکر سخن کرتے نہیں دیکھا تھا۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتاایک چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص کیفیت رقت کی عموماً ان پر طاری ہوتی تھی۔ اپنے اشعار سریلی اوازمیں ترھم سے پڑھتے تھے۔ خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایسا حافظہ پایا تھا کہ جتے شعر اس زبان سے نکلیں اگر وہ ایک مسلسل نظم کے ہوں و سب کے سب دوسرے وقت اور دوسرے دن اسی ترتیب سے حافظے میں محفوظ ہوتے ہیںجس ترتیب سے وہ کہے گئے ہیں اور درمیان میں خود وہ انہیں قلم بند بھی نہیںکرتے۔ مجھے بہت سے شعراء کی ہم نشینی کا موقع ملا ہے اور بعض کو میں نے شعر کہتے بھی دیکھا ہے اور سنا ہے امگر یہ رنگ کسی اور میں نہیں دیکھا۔ اقبال کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بایں ہمہ موزونی طبع وہ حسب فرمایش شعر کہنے سے قاصرہے۔ جب طبیعت خود مایل نظم ہو تو جتنے شعر چاہے کہہ دے مگر یہ کہ ہر وقت اور ہر موقعے پر حسب فرمایش وہ کچھ لکھ سکے یہ قریب قریب ناممکن ہے اس لیے جب ان کا نام نکلا اور فرمایشوں کی بھرمار ہوئی تو انہیں اکثر فرمائشوں کی تعمیل سے انکار ہی کرنا پڑا۔ اسی طرح انجمنوں اور مجالس کو بھی وہ عموماً جواب ہی دیتے ہیں فقط لاہور کی انجمن حمایت اسلام کو بعض وجوہ کے سبب یہ موقع ملا کہ اس کے سالانہ جلسوں میںکئی سال متواتر اقبال نے اپنی نظم سنائی جو خاص اسی جلسے کے لیے لکھی جاتی تھی اور جس کی فکر وہ پہلے سے کرتے رہتے تھے۔ اول اول جو نظمیں جلسہ عام میں پڑھی جاتی تھیں تحت اللفظ پڑھی جاتی تھیں اور اس فطرط مٰں بھی ایک لطف تھا مگر بعض دوستوں نے ایک مرتبہ جلسہ عام میں شیخ محمد اقبال سے اصرار کیا کہ وہ نظم ترنم سے پڑھیں۔ ان کی آواز قدرتاً زبلند اور خوش آیند ہے طرز ترنم سے بھی خاصے واقف ہیں۔ ایسا سماں بندھا کہ سکوت کا عالم چھا گیا اور لوگ جھومنے لگے۔ اس کے دو نتیجے ہوئے ایک تویہ کہ اب ان کے لیے تحت اللفظ پڑھنا مشکل ہو گیا اور دوسرا یہ کہ پہلے تو خواص ہی ان کے کلام کے قدر دان تھے اور اس کو سمجھ سکتے تھے اس کشش کے باعث سب عوام بھی کھنچ آئے۔ لاہور میں جلسہ حمایت اسلام میں جب اقبال کی نظم پڑھی جاتی تو دس دس ہزار آدمی ایک وقت میں جمع ہو تے ہیں اور جب تک نظم پڑھی جائے لوگ دم بخود بیٹھے رہتے ہیں۔ جو سمجھتے ہیں وہ بھی محو اور جو نہیںسمجھتے وہ بھی محو ہوتے ہیں۔ 1905ء سے 1908ء تک اقبا ل کی شاعر ی کا ایک دوسرا دورشروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جو انہوںنے یور پ میں بسر کیا۔ گوو ہاں انہیں شاعری کے لیے نسبتاً کم وقت ملا اور ان کی نظموں کی تعداد جو وہاں یور پ میںلکھی گئیں تھوڑی ہے لیکن ان میں ایک خاص رنگ وہاں کے مشاہدات کا نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں دو بڑے تغیر ان کے خیالات میں آئے ان تین سالوں میں سے دو سال ایسے تھے جن میں میرا بھی وہیں قیام تھا اور اکثر ملاقات ک موقعے ملتے رہتے تھے۔ ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہو گیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیںکہیں گے اور جو وقت شاعری میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کرین گ ۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیںہے جسے ترک کرنا چاہیے بلکہ ان کے کلام میں وہ تاثیر ہے جس سے ممکن ہے کہ ہماری درماندہ قوم اور ہمارے کم نصیب ملک کے امراض کا علاج ہو سکے۔ اس لیے ایسی مفید خداداد طاقت کو بے کار کرنا درست نہ ہو گا۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے اور یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑا جائے۔ اگر وہ مجھ سے اتفاق کریں تو شیخ صاحب اپنے ارادہ ترک شعر کو بدل دیں۔ اور اگر وہ شیخ صاحب مذاق کریں تو ترک شعر اختیا ر کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفا ق کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کی شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو قت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک اور قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ ایک تغیر جو ہمارے شاعر کی طبیعت میں آیا تھا ا س کا تو یوں خاتمہ ہوا مگر دوسرا تغیر ایک چھوٹے سے آغاز سے ایک بڑے انجام تک پہنچا۔ یعنی اقبال کی شاری نے فارسی زبان کو اردو زبان کی جگہ اپنا ذریعہ اظہار بنالیا۔ فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوںنے اپنی کتاب حالات تصوف کے متعلق لکھنے کے لیے جو کتب بینی کی اور اس کو بھی ضڑور اس تغیر مذاق میں شامل کیا ہو گا۔ اس کے علاوہ جوں جوں ان کا مطالعہ علم فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کو جی چاہا تو انہوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلے میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی فقرے جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں جن کے مطابق اردو میں فقرے ڈھالنا آسان نہیں۔ اس لے وہ فارسی کی طرف مائل ہو گئے۔ مگر بظاہر چھوٹے سے واقعے سے ان کی فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمایش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فارسہ میں شعر بھی کہتے ہیںیا نہیں۔ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ انوہںنے سوائے ایک آدھ شعر کہنے کے کبھی فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید فارسی اشعار کہتے رہے او ر صبح اٹھتے ہی جو مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں تیار تھیں جو انہوںنے زبانی مجھے سنائیں۔ ان غزلوں کے کہنے سے انہیں اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلو م ہوا۔ جس کا پہلے انہوں نے اس طرح امتحان نہیں لیا تھا۔ اس کے بعد ولایت سے واپس آنے پر گو کبھی کبھی اردو کی نظمیں بھی کہتے تھے مگر طبیعت کا رخ فارسی کی طرف ہو گیا۔ یہ ان کی شاعری کا تیسرادور ہے جو 1908ء کے بعد سے شروع ہوا۔ او اچھی اچھی جن کی دھوم مچ گئی مگر اصل کام جس کی طرف وہ متوجہ ہوئے وہ ان کی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ تھی اس کا خیال دیر تک ان کے دماغ میں رہا اور رفتہ رفتہ دماغ سے صفحہ قرطاس پر اترنے لگا اور آخر ایک مستقل کتاب کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔ جس سے اقبال کا نام ہندوستان سے باہر بھی مشہور ہو گیا۔ فارسی میں اقبال کے قلم سے تین کتابیں اس وقت نکلی ہیں ’’اسرار خودی‘‘ (15)’’رموز بے خودی (16)‘‘ اور ’’پیام مشرق (17)‘‘ ۔ ایک سے ایک بہتر۔ پہلی کتاب سے دوسری میں زبان زیادہ سادہ او ر عام فہم ہو گئی ہے اور تیسری دوسری سے زیادہ سلیس ہے۔ جو لوگ اقبال کے اردو کلام کے دل دادہ ہیں وہ فارسی نظموں کو دیکھ کر مایوس ہوئے ہوں گے مگر انہیںیاد رکھنا چاہیے کہ فارسی نے وہ کام کیا جو اردو سے نہیں ہو سکتا تھا۔ تمام اسلامی دنیامیں جہاں فارسی کم و بیش متداول ہے اقبال کا کلام اس ذریعے سے پہنچ گیا اور اس میں ایسے خیالات تھے کہ جن کی ایسی وسیع اشاعت ضروری تھی ‘ اور اسی وسیلے سے یورپ اور امریکہ والوں کو ہمارے ایسے قابل قدر مصنف کا حال معلوم ہوا۔ ’’پیام مشرق‘‘ میں ہمارے مصنف نے یورپ کے ایک نہایت بلند پایہ شاعر گوئٹے (18)کے ’’سلام مغرب‘‘ کا جواب لکھا ہے او ر اس میں نہات حکیمانہ خیالات کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے ۔ اس کے اشعار میں بعض بڑے بڑے عقدے حل ہوئے ہیں ۔ جو پہلے آسان طریق سے بیان نہیں ۃوئے تھے۔ مدت سے بعض رسائل اور اخبارات میں ڈاکٹراقبا ل کو ’’ترجمان حقیقت‘‘ کے لقب سے یاد کیا جاتاہے اور ان کتابوں کے خاص خاص اشعار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ا س لقب سے ملقب ہونے کے مستحق ہیں۔ اور جس کسی نے یہ لقب ان کے لیے وضع کیا ہے اسنے کوئی مبالغہ نہیں کیا۔ فارسی گوئی کا ایک اثر اقبال کے اردوکلام پر یہ ہوا کہ جو نظمیں اردو میں دور سوم میں لکھی گئی ہیں ان میں سے اکثر میں فارسی ترکیبیں اور فارسی بندشیں پہلے سے بھی زیادہ ہیں اور بعض جگہ فارسی اشعارپر تضمین کی گئی ہے گویا یہ معلو م ہوتا ہے ک اشب قلم جو فارسی کے میدان میں گام زن ہے اس کی باگ کسی قدر تکلف کے ساتھ اردوکی طرف موڑی جا رہی ہے۔ اقبال کا اردو کلام جو وقتاً فوقتاً 1901ء سے لے کر آج تک رسالوں اور اخباروں میں شائعہوتااور انجمنوں میںپڑھا گیا ہ ا سکے مجموعے کی اشاعت کے بہت سے لوگ خواہاں تھے ڈاکٹر صاحب کے احباب بار بار تقاضا کتے تھے کہ اردو کلام کا مجموعہ شائع کیا جائے مگر کوئی وجوہات سے آج تک مجموعہ اردو شائع نہیں ہو سکا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ آخر اب شائقین کلام اردو کی یہ دیرینہ آرزو بن آتی اور اقبال کی اردو نظموں کا مجموعہ شائع ہوا ہے (19) جو تین سو چھتیس صفحوں پر مشتمل ہے اور تین حصوں پر منقسم حصہ اول میں 1905ء تک کی نظمیں ہیں حصہ دوم میں 1905ء سے 1908ء تک کی اور حصہ سوم میں 1908ء سے لے کر آج تک کا اردو کلام ہے۔ یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں آ ج تک کوئی ایسی کتاب اشعار کی موجود نہیں ہے جس میں خیالات کی فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہوں۔ اور کیوںنہ ہو ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔ بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ یہ مختصر سا مضمون جو بطور دیباچہ لکھاگیا ہے ا س میں مختلف نظموں کی تنقید یا مختلف اوقات کی نظموں کے باہم مقابلے کی گنجائش نہیں ا س کے لیے اگر ہو سکا تو میں کوئی اور موقع تلاش کروں گا۔ سردست میں صاحبان ذوق کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اردو کلیات اقبال ان کے سامنے رسالوں اور گل دستوں کے اوراق پریشاں سے نکل کر ایک مجموعہ دل پذیر کی شکل میں جلوہ گر ہے‘ اور امید ہے کہ جو لوگ مدت سے اس کلام کو یکجا دیکھنے کے مشتاق تھے وہ اس مجموعے کو شوق کی نگاہوں سے دیکھیں گے اور دل سے اس کی قدر کریں گے۔ آخر میں اردو شاعری کی طرف سے میں یہ درخواست قابل مصنف سے کرتا ہوں کہ وہ اپنے دل و دماغ سے اردو کو وہ حصہ دیں جس کی وہ مستحق اور محتاج ہے۔ خود انہوںنے غالب کی تعیف میں چند بند لکھے ہیں جن میں ایک شعر میں اردو کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچا ہے: گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے (20) شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے ہم ان کا یہ شعر پڑھ کر ان سے یہ کہتے ہیں کہ جس احسا س نے یہ شعر ان سے نکلوایا تھاا س سے کام لے کر اب وہ پھر کچھ عرصے کے لیے گیسوئے اردو کو سنوارنے کی طرف متوجہ ہوں اورہمیں موقع دیں کہ ہم اس مجموعہ اردو کو جو اس قدر دیر کے بعد چھپا ہے ایک دوسرے کلیات اردوکا پیش خیمہ سمجھیں۔ حواشی 1۔ ولادت: 27دسمبر 1797 وفات: 22فروری 1869 2۔ یکم جنوری 1923ئ۔ 3۔ ولادت: 18اپریل 1844ء وفات: 25ستمبر 1929ء 4۔ ولادت: 25مئی 1831ء وفات: 3اکتوبر 1905ء فصیح الملک دبیر الدولہ مصنف گلزار داغ ’’مہتاب داغ‘‘ ’’یادگار داغ‘‘۔ 5۔ ولادت: 19اپریل 1864ء وفات: 9جون 1930ء ۔ علامہ اقبال کے استاد گرامی ۔ ان کے لاہور سے رخصت ہونے پر اقبال نے ’’نالہ فراق‘‘ الوداعی نظم لکھی۔ 6۔ ولادت: 8مئی 1857ء وفات : 18نومبر 1914ء 7۔ کیمبرج یونیورسٹی کے مشہور فلسفی ہیگل کے متبع تھے۔ ولادت 3ستمبر 1866وفات : 8جنوری 1925ئ۔ 8۔ ادب فارسی کے فاضل استاد اور مشہور مورخ۔ قیام یورپ کے دوران میں علامہ اقبال کا ان سے زیادہ تعلق رہا۔ 9۔ ڈاکٹر رینالڈ نکلسن کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ’’اسرار خودی‘‘ کے مترجم انہوںنے سب سے پہلے اس کتاب کا انگریزی میں منظوم ترجمہ کیا تھا جو 1920ء میں شائع ہوا۔ 10۔ پرفیسر وارڈ سارلے کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ علامہ اقبال کے ان سے دوستانہ مراسم تھے ۔ یہ علامہ اقبال کے استاد بھی تھے۔ 11۔ انگریزی منظوم ترجمہ 1920ء میں شائع ہوا تھا۔ 12۔ ولادت : 1837ء وفات 31دسمبر 1914ء ’’مسدس حالی‘‘ اور ’’دیوان حالی‘‘ وغیرہ آپ کی یادگار تصانیف ہیں۔ 13۔ ولادت: 16 نومبر 1946ء وفات 9 ستمبر 1921ء لسان العصر سید اکبر حسین…علامہ اقبال سے آپ کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ 14۔ یہ مشاعرے بازار حکیماں (لاہور) میں حکیم امین الدین کے مکان پر ہوا کرتے تھے۔ حکیم شجاع الدین محمد نے اردو بزم مشاعرہ کی بنیاد ڈالی تھی۔ شور محشر انجمن کا ترجمان تھا۔ 15 ۔ پہلا ایڈیشن 1915ء 16۔ پہلا ایڈیشن 1918ء 17۔ پہلا ایڈیشن 1923ء 18۔ جرمن ادیبات میں قابل ذکر و قابل قدر شخصیت ولادت: 14 اگست 1749ء وفات: 22 مارچ 1832ء ’’فائوسٹ‘‘ و ’’ورتھر کی داستان غم‘‘ کے مصنف۔ 19۔ پہلا ایڈیشن 1924ء ۔ 20 ۔ ’’بانگ درا ‘‘ ص 10۔ ٭٭٭ نذر اقبال (ذیل کی سطور درحقیقت ایک مختصر سے مجموعہ کلام ’’نذر اقبال‘‘ کی تمہید میں جو سر عبدالقاد ر نے تحریر فرمائی تھیں۔ یہ مجموعہ کلام 1947ء کے ہنگاموں کے باعث شائع نہ ہو سکا لیکن اس کی بعض نظمیں ’’بیکراں‘‘ میں شامل کر لی گئیں ہیں۔ یہ مضمون محترمہ حمیدہ سلطان احمد صاحبہ کی تصنیف ’’جگن ناتھ آزاد اور اس کی شاعری‘‘ مطبوعہ مکتبہ شاہراہ دہلی (1964ء ص 192 تا 194) سے لیا گیا ہے ۔ مرتب) جگن ناتھ آزاد (1)ہمارے نوجوان ادیبوں میں بہ اعتبار قابلیت و خوبی فکر ایک امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور کیوں نہ ہو‘ ذوق شعر ان ہیں اپنے والد بزرگوار منشی تلوک چندمتخلص بہ محروم (2)سے وراثتہً ملا ہے ۔ جن کی عمر اردو نظم کی خدمت میں گزری ہے۔ آزاد کو چونہ انگریزی ادبیات سے بھی براہ راست واقفیت ہے اس لیے ایک مزید خوبی ان کے طرز تخیل میں پیداہو گئی ہے۔ اس پر وہ سر اقبال مرحوم کے طرز کلام کے مقلد اور دل دادہ ہیں۔ جگن ناتھ آزاد نثر بھی خوب لکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا کہ راولپنڈی کے ایک بڑے جلسے (3)میں جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا انہوںنے اقبال کے کلام پر ایک ناقدانہ مقالہ پڑھا تھا جو بہت پسند کیا گیا تھا اور رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ اور ’’ہمایوں‘‘ میں شایع ہو چکا ہے۔ اب جناب آزاد چند نظمیں لکھ کر شائع کر رہے ہیں جن کا موضوع خود اقبال اور کلام اقبال پر ہے۔ یہ گویا عقیدت کے چند پھول ہیں جو انہوںنے اقبال پر نچھاور کیے ہٰں ۔ اسی لحاظ سے اس مجموعے کو اقبال کی نذر کیا گیا ہے۔ جو بے ساختہ تعریفیں ان اشعار میں آزاد کے قلم سے نکلی ہیں‘ ان میں ان کا دلی جذبہ محبت نظر آ رہا ہے اوران میں یہ خوبی ہے کہ مبالغے سے کام نہیںلیا گیا محض اظہار عقیدت ہے مثلاً یہ تعریف ملاحظہ ہو: تری نگاہ کئی بزم کہکشاں سے پرے وجود اگرچہ رہا بزم خاک کا پابند مہ و ستارہ و برق طپان و مہر مبیں تری نگاہ نے ڈالی کہاں کہاں نہ کمند اس مجموعے میں چند تضمینیں بھی ہیں جن میں آزاد اپنے معنوی استاد کے مصرعوں پر مصرعے لگاتے گئے ہیں۔ یہ گرہ دیکھیے کہ کس خوبی سے پیوست ہوئی ہے: ہر لب پہ ہے آزادی کامل کا ترانہ اس دور میں شاہوں کی حکومت ہے فسانہ درکار ہے اس قصر کے گرنے کو بہانہ ’’سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو‘‘ امید ہے کہ یہ چھوٹا سا مجموعہ بڑے مجموعوں کی اشاعت کا پیش خیمہ ہو گا اور آزاد اپنی ادبی خدمات کو جاری رکھیںگے جس کا بیج ان کے دل میں ان کے باپ کے فیض صحبت سے جما اور جس کی آبیاری کلام اقبال کے اثر نے کی ہے۔ بہاولپور جنوری 1937ء ٭٭٭ حواشی 1۔ ولادت : 5دسمبر 1918ء تصانیف ’’بیکراں‘‘ ’’ستاروں کے ذروں تک‘‘ ’’وطن میں اجنبی‘‘ ’’جنوبی ہند میں دو ہفتے‘‘ وغیرہ۔ 2۔ ولادت : یکم جولائی 1887 ء تصانیف: ’’گنج معانی‘‘ ’’رباعیات محروم‘‘ ’’کاروان وطن‘‘ ’’شعلہ نوا‘‘ وغیرہ ۔ 3۔ یوم اقبال 1936ء ٭٭٭ دانائے راز (1) سر اقبال مرحوم کا یہ شعر آپ نے سنا ہو گا جو انہوںنے اپنی وفات سے چند دن پہلے کہا تھا اور جو رحلت کے قریب ان کی زبان پر تھا: سر آمد روزگار ایں فقیرے دگر دانائے راز آید کہ ناید انگریزی میں صاحب نظر کو سیر (Seer)کہتے ہیںَ یہ سادہ سا لفظ لغوی معنوںمیں تو صر ف ’’دیکھنے والا‘‘ ہے مگر اصطلاحی طور پر اس کا مفہوم بہت وسیع ہے اور دانائے راز کے قریب قریب یعنی ایسا دیکھنے والا کہ اس کی نگاہ دور رس مستقبل کے پردے پر چا ک کر کے تاریکی میں چھپے ہوئے امکانات کو دیکھ لے۔ مجھ سے یہ فرمائش کی گئی ہیکہ میں سر اقبال کے کلام پر ان کی حیثیت کو ملحوظ رکھ کر تبصرہ کروں کہ وہ فطرت کے رازوں کو جانتے اور آئندہ خطرات اور حالات کو اوروں سے پہلے دیکھ لیتے تھے۔ ہمارے اس نام ور شاعر کی قوت مشاہدہ شروع ہی سے بہت نمایاں تھی۔ اس کی آنکھ نے اول اپنے گرد و پیش کی چیزوں کو بغور دیکھا اور ہر مشاہدے سے دلچسپ نتائج پیدا کیے۔ اقبال کی اپنی نظم جو شائع ہوئی ’’کوہ ہمالہ‘‘ کی شان میں تھی۔ چھوٹتے ہی ہمارے شاعر کی نظر دنیا کے اس بلند ترین پہاڑ پر پـڑی اور اس نے اسے ’’فصیل کشور ہندوستان‘ ‘ کا لقب دیا۔ اس کو مخاطب کر کے کہا: ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے یہاں جس ’’چشم بینا‘‘ کا ذکر ہے اس سے ’’ظاہر کی آنکھ‘‘ مراد نہیں۔ اقبال ’’ظاہر کی آنکھ‘‘ کا قائل نہ تھا۔ ا سکی ایک غزل کا یہ مطلع بہت مقبول ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی اس سلسلے میں یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اقبال کی ظاہر کی آنکھ کمزور واقع ہوئی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ آنکھ کی کمزوری ہی ان کی جوانی میں انہیں حکومت کی ملازمت میں داخل ہونے سے مانع ہوئی اور ان کی آئندہ بڑائی کا ذریعہ بنی۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد وہ امتحان مقابلہ میں شریک ہوئے تھے۔ ذہین بھی تھے اور محنتی بھی ۔ مقابلے میں کامیاب ہوئے اور ڈپٹی مقرر ہونے کو ھتے مگر جب ڈاکٹری امتحان ہوا تو آنکھ کمزور پائی گئی اور وہ ملازمت سے رہ گئے۔ اس وقت تو انہیں اور ان کے دوستوں کو ناکامی پر افسوس ہوا ہو گا۔ مگر کسے خبر تھی کہ یہ ناکامی بہت بڑی کامیابی کاپیش خیمہ تھی۔ وہ شخص جسے علم و ادب کی خدمت سے زندہ و جاوید ہونا تھا۔ ڈپٹی بن کر کیا کرتا۔ جو عزت اس نے پائی اس کے مقابلے میں ڈپٹی کمشنری اور کمشنری سب ہیچ تھیں۔ وہ ایک جگہ اپنی مشہورنظم ’’تصویر درد‘‘ میں فرماتے ہیں: مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے اقبال کی شاعری تدریجی ترقی بتار رہی ہے کہ ی بینائی روز بروز ترقی کرتی گئی اور رفتہ رفتہ انہیں ایسی چیزیں نظر آنے لگیں جو ان کے ساتھیوں کو نظر نہیں آتی تھیں یا کم سے کم اس صفائی سے نظر نہیں آتی تھیں۔ جب وہ انگلستان گئے میں ان سے ایک برس پہلے وہاں آ چکا تھا ۔ 1907ء کے مارچ میں وہ بھی وہیں تھے اور میں بھی وہیں تھا جب انہوں نے وہ غزل لکھی اور ہمیں سنائی جس کا مطلع یہ ہے: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا‘ عام دیدار یار ہو گا سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا یہ غزل طرح طرح کے اشاروںسے پر تھی جو زمانہ آئندہ سے تعلق رکھتے تھے۔ سننے والوں کو حیرت ہوتی تھی کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ مگر یہ عجیب و غریب بات جو ان کے منہ سے نکلی تھی ا س سے سات برس بعد جنگ عظیم کی صورت میں پوری ہو کر رہی اور اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے پھر پوری ہو رہی ہے۔ اقبال نے مغربی دنیا سے خطاب کر کے یہ کہا تھا: دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی ہستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا‘ ناپایدار ہو گا 1907ء میں کوئی نہیں کہہ سکتاتھا کہ چند برس بعد جنگ عظیم جیسے ہولناک ہنگامے سے یورپ کو سابقہ پڑے گا اور وہا ں کے لوگوں پر ایسی تباہی آئے گی کہ جو اپنے گلے پر آپ چھری پھیرنے کے مصداق ہو گی۔ مگر 1914ء میں جنگ چھڑ گئی اور چار سال تک رہی۔ اس نے تہذیب و تمدن مغربی کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں۔ اس جنگ کے بعد دنیا ذرا سنبھلنے لگی تھی کہ اب پھر لڑائی شروع ہے اور معلو م نہیں کہ یہ سیلاب کب تک رہے گا اور کہا ں جا کر تھمے گا۔ اسی غزل میں دو اور شعر ایسے آتے ہیں جن میں صحرائیان عرب کے حق میں پیشین گوئی ہے۔ البتہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ مستقبل اس سلسلے میں کیا دکھاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیارہو گا اسی طرح ایک اور نظم ہے جس کا عنوان ہے ’’خضر راہ‘‘ اس میں مستقبل کے بارے میں نہایت دلیرانہ اشارے کیے گئے ہیں۔ اس نظم میں شاعرنے خضر سے کچھ سوالات کرتاہے اور حضرت خضر ان سوالوں کا جواب دیتے ہیں۔ ان جوابوں میں ایک پرمعنی جواب ہے جو سرمایہ دار کے خلاف اور مزدور کی ہدایت کے لیے ہے۔ فرماتے ہیں: مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے اس نظم میں اسلام کے اس اصول کا ذکر کرتے ہوئے کہ قومیت کی بنا رنگ اور نسل پر نہیں ہونی چاہیے اقبال نے یہ زور مصرع لکھا ہے: جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا گو اس وقت تک تو امتیاز رنگ و خون دنیا میںپہلے سے بھی زوروں پر ہے مگر ممکن ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جب لوگ تسلیم کرنے لگیں کہ یہ امتیازات ہی فسادات کی جڑ ہیں اور ان سے دنیامیں بہت خرابی آئی ہے۔ جس کا علاج اس کے مٹانے سے ہی ممکن ہے۔ یہ چندمثالیں جو میں نے اقبال کی اردونظموں سے پیش کی ہیں ا ن کی نگاہ دور رس کا پتا دیتی ہیں مگرنہ اس قدر جتنا کہ ان کے بعد کے کلام میں نظر آتا ہے جب انہوںنے اردو کی جگہ فارسی نظم لکھنی شروع کی۔ دعوی دانائے راز کا پورے زور کے ساتھ فارسی نظموں سے ہی ہوتا ہے۔ اقبال کی پہلی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا نام ہی بتا رہا ہے کہ شاعر کچھ بھید کھول رہا ہے اور یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے امکانات سے بے خبر ہے اور اپنے خداداد جوہروں کا صحیح استعمال نہیں جانتا ورنہ جہاں تک اس نے ترقی کی ہے اس سے بدرجہا آگے جا سکتا ہے۔ اس لیے شاعر اسے اپنے آپ کو پہچاننے اپنی خودی کو قوت دینے اور اس قوت سے کام لینے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسر ی مثنوی ’’رموز بے خودی‘‘ میں افراد کو تاکید کرتا ہے کہ کہ اپنی قوت یاجمعیت کی خدمت میں صرف کر دیں۔ ان کتابوں میں ضمناً مغربی تہذیب کی خامیاں بھی جابجا دکھائی گئی ہیں۔ مغربی تہذیب کی نکتہ چینی تو اقبال کی اردو نظموں میں بھی تھی۔ اور فارسی نظموں میں بھی جاری رہی خاص کر ’’پیام مشرق‘‘ میں وہ مشرقی تہذیب کی بھولی ہوئی خوبیاں بہت سی بتا گئے اور مغربی تہذیب کی کمزوریاں دکھا گئے‘ مگر جب ’’زبور عجم‘‘ اور ’’ضرب کلیم‘‘ لکھی گئیں اور اخیر میں جب ’’ارمغان حجاز‘‘ کے اشعار لکھے جا رہے تھے تو مغربی تہذیب سے ان کی مخالفت بہت بڑھ گئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ عہد حاضر نے لوگوں کو پھانسنے کے لیے طرح طرح کے جال بچھا رکھے ہیں جن سے نکلنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ انہوںنے ’’خضر راہ‘‘ میں کہا تھا: اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو اپنے آخر ی دور میں اقبال اپنے مسلمان بھائیوں کو بالخصوص اور سب اہل مشرق کو بالعموم یہ سکھاتا ہے کہ وہ مغرب کے اثر میں آ کر خدا کو نہ بھول جائیں اور جب اپنی قوت کو ترقی دے کر اور خدائی قانون کے تابع ہو کر وہ کام کریں گے تو دوسروں سے کم تر نہیںرہیں گے بلکہ بہتر ہو جائیں گے۔ اس زمانے میں اقبال اپنی آنکھوں کے سامنے ایک نیا جہان دیکھ رہا تھا جو موجودہ جہان سے بہتر ہو گا اور وہ بے تابانہ اس نئے جہان کو عالم وجود میں لانے کا خواہش ؤمند تھا۔ اس رباعی میں اپنی اندرونی کشمکش کا نقشہ کس خوبی سے کھینچا ہے: گہے افتم‘ گہے مستانہ خیزم چہ خوں بے تیغ و شمشیرے بریزم نگاہ التفاتے بر سر بام کہ من با عصر خویش اندر ستیزم اقبال کو دل سے یقین تھا کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی اور جس رفتار سے آج کل دنیا کے حالات ہیں‘ خیالات میں اور قوموں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں‘ انہیں دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سا معلوم ہوتا کہ ایسا ہی ہو‘ مگر معلوم ہوتاہے کہ انہیں ساتھ ساتھ یہ احساس تھا کہ وہ ان تغیرات کی تکمیل خود نہیں دیکھ سکیں گے۔ اس خیال کا اظہار ایک مقام پر ’’زبو ر عجم‘‘ میں کیسے پر تاثیر الفاظ میں ہوا ہے: پس از من شعر من خوانند و دریا بند و می گویند جہانے را دگرگوں کرد یک مرد خود آگاہے ایک اور جگہ اسی کتاب میں اسی خیال کو ایک مصرع میں یوں لکھا ہے: کہ من شاید نخستین آدمم از عالمے دیگر اقبال کا یہ نظریہ ہے کہ اس ’’عالم نو‘‘ کی تعمیر‘‘ جس کا وہ متمنی ہے ‘ پہلے انسانوں کے دل میں ہو گی۔ یہ نظریہ اس شعر میں بڑی خوبی سے بیان ہو ا ہے: اگر در دل جہانے تازہ داری بروں آور کہ افرنگ از جراحت ہائے پنہاں بسمل افتاد است اس شعر کے دوسرے مصرعے میں جو مضمون ہے اس کی طرف ’’بال جبریل‘‘ میں بھی ایک پر معنی اشارہ ہے۔ لکھتے ہیں: خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ رہ گذر سیل بے پناہ میں ہے یہی باتیں ہیں جن کے سبب انہوںنے اپنے آپ کو درویش اور قلندر اور دانائے راز کے ناموں سے یاد کیا ہے۔ اور اسی سبب سے وہ قلندر ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ اور شاعری کو مایہ ناز نہیں سمجھتے ۔ وہ فرماتے ہیں: خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری وگرنہ شعر مرا کیا ہے ‘ شاعری کیا ہے؟ (باجازت آل انڈیا ریڈیو ‘ لکھنو) ٭٭٭ حواشی 1۔ مطبوعہ رسالہ ’’انیس نسواں‘‘ (دہلی) بابت جون 1940ء ‘ جلد 3 ‘ نمبر 6‘ ص 11تا 15 نشریہ آل انڈیا ریڈیو لکھنو۔ ٭٭٭ یاد اقبال (یہ مضمون دراصل ایک تقریظ ہے جو سر عبدالقادر نے چودھری غلام سرور صاحب فگار (1)سابق ایڈیٹر رسالہ ’’پیغام حق‘ ‘ لاہور کی تالیف ’’یاد اقبال‘‘ (ترجمان حقیقت ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبا ل کی وفات پر ہندوستان کے مقتدر شعرا کا اظہار عقیدت مندی) کے لیے تحریر فرمائی ہے اور جو اقبال اکیڈمی کراچی کی طرف سے 1944ء میں دوسری بار شائع ہوئی۔ اس کاپہلا ایڈیشن 1940ء کے شروع میں چھپا تھا ۔ مرتب) کلام اقبال کو جو عالم گیر مقبولیت سر محمد اقبال کی زندگی میں ہوئی اس کی مثال ادبیات کی تاریخ میں کم یاب ہے اور جس فراخ دلی کے ساتھ ان کے ہم عصر شعراء نے ان کی وفات کے بعد ان کے کمال کا اعتراف کیا وہ بالکل بے مثل ہے۔ مجھے کوئی اور نظیر معلوم نہیں کہ اتنے شاعروں نے اپنے ہم عصر کے کلام کی داد ایسی بے ساختگی سے دی ہو جیسی ابال کے عہد کے شعرا نے دی ہے۔ ان میں بعض ایسے ہیں جو ابتدا میں اقبال کی بڑھتی ہوئی شہرت پر رشک کرتے تھے‘ مگر آخر مان گئے اور قسام ازل نے جو بلندی سر اقبال کودی تھی وہ ہر ایک کے نصیب میں نہیںہوتی۔ اقبا ل کے ہم عصروں کو چھوڑ کر نوجوان شعراء تو اس حد تک مداح ہیں کہ تقریباً سب ان کے رنگ سخن کے مقلد ہیں۔ انہوںنے اقبال کے انتقال کو اس قدر محسوس کیا کہ ان کے آنسو اب تک نہیں تھمتے ۔ انہی ارادت مندوں میںجناب غلام سرور فگار بھی ہیں۔ انہوںنے’’یاد اقبال‘‘ نامی ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں وہ چیدہ چیدہ نظمیں جمع کی ہیں جو اقبال کی وفات پر لکھی گئی ہیں۔ ان کاحصہ اول شایع ہوا ہے۔ شروع میں کچھ درد بھری نظمیں ہیں جن میں فگار صاحب نے اپنے جذبات کا اظہارکیا ہے اور اس کے بعد دیگر معاصرین کی نظمیں ہیں۔ فگار صاحب ایک مشتاق اخبار نویس ہیں۔ کچھ عرصہ آپ لکھنو کے اخبا ر ’’ہمدم‘‘ کی ادارت میں حضرت جالب (2)مرحوم کے ساتھ شریک رہے۔ سیالکوٹ سے ان کا ایک رسالہ ’’دبستان‘‘ کئی سال تک شائع ہوتا رہا اور اب اس کی جگہ رسالہ ’’پیغام حق‘‘ نے لی ہے جو لاہور سے نکلتا ہے۔ کلام اقبال کی اشاعت اس رسالے کا خاص مقصد ہے۔ اس لیے ’’یاد اقبال‘‘ جیسی کتاب کی ترتیب کے لیے فگار صاحب خاص طور پر موزوں ہیں۔ فگار صاحب کی اپنی نظموں کے بعد دوسرے شعراء کے منتخب مرثیے ہیں۔ سب سے پہلے جناب حسرت موہانی (3)کی ایک نظم ہے جس کا یہ مصرع ان کے احسا س کی ترجمانی کے لیے کافی ہے۔ فرماتے ہیں: دل پہ ذوق شاعری اک بار ہے تیرے بغیر حضرت حفیظ جالندھری (4) نے اپنی مختصر سی نظم کو ا س قدر بلیغ شعر پر ختم کیا ہے: اقبال بلند تھا ہمارا اب اور بلند ہو گیا ہے جناب حفیظ ہوشیار پوری (5)کے مرثیے کا یہ ایک آخری شعر قابل ملاحظہ ہے: کدھر کو جائیں اہل کارواں ’’بانگ درا‘‘ گم ہے درا کا ذکر کیا‘ اس کارواں کا رہنما گم ہے خواجہ دل محمد (6)صاحب ایم ۔ اے پرنسپل اسلامیہ کالج‘ لاہور نے کئی قطعات لکھے ہیں جن میں یہ قطعہ خاص طورپر داد کے قابل ہے: کون لائے گا اب پیام سروش اے دل اقبال ہوگیا خاموش ’’شمع خاموش‘‘ سال ہجری ہے 1357ھ عیسوی ’’شمع شاعری خاموش‘‘ 1938ء جو مراثی اس مجموعے میں انتخاب کیے گئے ہیں یہ سب اپنی اپنی جگہ قابل تعریف ہیں اوراس بے نظیر اثر کا ثبوت دیتے ہیں کہ جو اقبال اور کلام اقبال نے شعرائے وقت پر کیا۔ امید ہے کہ ’’یاد اقبال‘‘ کے پڑھنے والے اس انتخاب کوپسند کریں گے اور فگار صاحب کی تلاش اور محنت کی داد دیں گے۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ مصنف ’’یاد اقبال‘‘ و ’’نوائے کشمیر‘ ‘ وغیرہ۔ 2۔ سید بشارت علی نام مشہور انشا پرداز و اخبار نویس۔ ولادت : 1874ء وفات : 25جولائی 1930ء 3۔ رئیس المعغزلین : ولادت : 1875ء وفات 13 مئی 1951۔ 4۔ ولادت یکم جنوری 1900ء تصانیف ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ’’سوز و ساز‘‘ ’’نغمہ زار‘ ‘ ’’ہفت پیکر‘‘ ’تلخابہ شیریں‘‘ ’’تصور کشمیر‘‘ ’’معیاری افسانے‘‘۔ 5۔ شیخ عبدالحفیظ سلیم ولادت 5جنوری 1912ئ۔ تصانیف: ’’مشرقی پاکستان کے اردو ادیب ‘‘ اور ’’پاکستان کے خوش فکر شاعر‘‘۔ 6 ۔ ولادت : 1884ء وفات : 27مئی 1961‘تصانیف: ’’روح قرآن‘‘ ’’حیات نو‘‘ ’’بوستان دل‘‘ ’’درد دل‘‘ ’’صد پارہ دل‘‘ ’’پیت کی ریت‘‘۔ ٭٭٭ اقبال… اس کی شاعری اور پیغام (مندرجہ ذیل دیباچہ شیخ سر عبدالقادر نے 20جولائی 1946 کو شیخ اکبر علی بی ۔ اے (علیگ) ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ‘ لاہور کی تالیف ’’اقبال … اس کی شاعری اور پیغام‘‘ کے لیے تحریر فرما یا تھا۔ شیخ اکبرعلی نے علامہ اقبال پر انگریزی میں چھ لیکچر دیے اور 1932ء میں بعنوان ’’اقبال… اس کی شاعری اور پیغام‘‘ انگریزی میں کتابی صورت میں شائع کیے (1)۔ اسی عنوان کے تحت اردو میںجولائی 1946ء میں کمال پبلشرز لاہور کی طرف سے یہ کتاب شایع ہوئی۔ شیخ صاحب موصوف ’’عرض حال‘‘ کے تحت رقم طراز ہیں: ’’انگریزی اور اردو ایڈیشنوں میں فرق یہ ہے کہ کتاب کا ڈھانچا وہی ہے جو انگریزی تبصرے کا ہے ‘ ابواب کی تقسیم بھی وہی ہے‘ کم و بیش عنوانات بھی وہی ہیں لیکن پھر بھی یہ کتاب ترجمہ نہیں بلکہ اپنے انداز میں بالکل قایم بالذات ہے اور انگریزی انداز خیال کو چھوڑ کر مافی الضمیر کو خالص مشرقی ڈھانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔ آخر میں اپنے بزرگ سر شیخ عبدالقادر بالقابہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ باوجود عدیم الفرصتی کے انہوںنے اس کتاب کے مسودے کو دیکھا اور بہت سے مفید مشورے دیے‘‘۔ ) ہمارے ملک کے بلند پایہ شاعر سر محمد اقبال مرحوم و مغفور کا پیغام عمل عالم گیر شہرت حاصل کر چکا ہے اور جو صاحبان تصنیف و تالیف کلام اقبال کے گرویدہ ہیں انہوںنے طرح طرح سے پیغام اقبال کی اشاعت کی راہیں نکالی ہیں کیونکہ اس کی مزید اشاعت کی بہت ضرورت ہے۔ ایسے مصنفین میں میرے عزیز شیخ اکبر علی صاحب بی اے ‘ ایل ایل بی ہیں جو فن وکالت کی مصروفیتوں کے باوجود علمی اور ادبی مشاغل ک ہمیشہ نبھاتے رہے ہیں اور ان مشاغل کے زریعے ملک و قوم کی خدمت کو زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ ان کو اپنے زمانہ طالب علمی سے لے کر آج تک کلام اقبال کو پڑھنے کا شوق رہا ہے اور بعد میں انہیں حضرت اقبال سے ذاتی ملاقات اور گاہے گاہے ان کے فیض صحبت سے مستفید ہونے کے مواقع حاصل ہوئے۔ اور جب ان کی دلی عقیدت کا یہ تقاضا ہوا کہ جو فائدہ اقبال کی تصانیف سے انہیںپہنچا ہے وہ فائدہ اور تعلیم کا بھائیوں کو بھی پہنچے انہوںے پہلے ایک ادبی مجلس کے لیے چند لیکچر انگریزی میں لکھے جن میں اقبال کے کلام کے مختلف پہلوئوں پر بحث کی گئی ہے۔ ان لیکچروں کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی خواں طبقے کو جس کا اردو اور فارسی کی طر ف زیادہ میلان نہیں‘ توجہ دلائی جائے کہ وہ مغربی اور مشرقی علوم کے اس بیش بہا مجموعے سے فائدہ اٹھائیں جو اقبال کی تصانیف میں موجود ہے۔ وہ لیکچر بہت پسند کیے گئے اور کتاب کی صورت میں جمع کر کے چھاپ دیے گئے۔ انگریزی کتاب کو شائع ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں مگر اس کی مانگ جاری ہے۔ بعض احباب نے فاضل لیکچرار کو یہ خیال دلایاکہ ان لیکچروںکو اردوکا جامہ پہنایا جائے تاکہ اردو خواں اصحاب بھی شیخ اکبر علی جیسے نقاد کی رہبری میں تصنیف اقبال سے مستفید ہوں۔ اس لیے شائقین کلام اقبال کے لیے یہ مقام مسرت ہے کہ شیخ صاحب نے بجائے اپنے انگریزی لیکچروںکا ترجمہ کرنے کے اردو میں چار سو سے زائد صفحوں کی کتاب تصنیف کی ہے جس میں اقبال کی سب اردو اور فارسی تصانیف پر تبصرہ کیا ہے اور مختلف عنوان مایم کر کے ہر عنوان کے تحت میں موزوں اشعار اپنے مطلب کی وضاحت کے لیے پیش کیے ہیں۔ فاضل مصنف کی طرف سے جو ’’عرض حال‘کتاب کے شروع میں درج ہے اس میں انہوںںے بیان کیا ہے کہ انہیںپہلے شعر و شاعری سے بہت کم رغبت تھی مگر کلام اقبال نے انہیں اس درجہ متاثر کیا کہ وہ اقبال کے کلام کے دلدادہ ہو گئے۔ جب ان کے انگریزی لیکچر شائع ہوئے تو ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘‘ کے سوا اقبال کا فارسی کلام شایع نہیںہوا تھا اس لیے وہ لیکچر تین کتابوں یعنی ’’بانگ درا‘‘ (پہلا اردو مجموعہ کلام) اور دونوں فارسی مثنویوں کے متعلق تھے۔ اس کے بعد اقبال کی اور کتابیں شایع ہوئیں ۔ موجودہ کتاب سب کتابوں پر پورے عبو ر کے بعدلکھی گئی ہے۔ پہلے باب میں سر محمد اقبال کے حالات زندگی مختصراً بیان کیے گئے ہیں جن میں ان کی اوائل عمر کی تعلیم و تربیت ان کی ابتدائی شاعری اور روانگی یورپ اور وہاں سے ان کے واپس آنے کے بعد کی شاعری کا تذکرہ ہے۔ بہت دیر بعدسر محمد اقبال دوسری بار یورپ گئے ارو اس سلسلے میں انہوںنے دوسرے ممالک کی بھی سیر کی۔ اس سیاحت کا بھی ذکر ہے جو خاص کر اندلس میں عربی تہذیب کے آثار قدیمہ دیکھنے کا جو اثر اقبال پر ہوا اور جو اشعار اس سفر کے زیر اثر لکھے گئے وہ خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ پہلے باب کو ختم کرنے سے پیشتر بہت سے ضڑوری موضوع زیر بحث لائے گئے ہں مثلا اقبال سے دنیا کو کیا حاصل ہوا؟ حالی اکبر اور اقبال کے کلام کا موازنہ اور ’’اقبال اپنے متعلق کیا کہتے ہیں؟‘‘ دوسرا باب ’بانگ درا‘‘ کے ذکر سے شروع ہوا ہے اور پھر اس میں اقبال کی دیگر تصانیف پر علیحدہ علیحدہ تبصرہ ہے۔ تیسرا باب خصوصیت سے دلچسپ ہے اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ آرٹ کے متعلق اقبال کا نظریہ کیا تھا۔ اسی مسئلے پر ان دنوں اختلاف آراء ہے ادیبوں میںکئی اصحاب کہتے ہیں کہ آرٹ بجائے خود ایک مقصود ہے۔ کوئی اور مقصد اس کے پیش نظر نہیں ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس بہت سے ادیب یہ مسلک رکھتے ہیں کہ ملک یا ملت کے لیے کوئی فائدہ صاحبان فن کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ اقبال اسی مسلک پر کاربند ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ اقبال فن کاری سے بے نیاز تھا۔ اس کا یہ کمال ہے کہ مشک سے مشکل مطالب کو بیان کرتے ہوئے بھی وہ خوبی الفاظ و محاورات سے بے پروائی نہیں کرتا۔ مگر یہ صفت اس کے ہاں بے ساختہ پن کے ساتھ پائی جاتی ہے ۔ وہ خواہ مخواہ لفظی صنعتوں کی جستجو نہیں کرتا۔ شاعر کی اس خصوصیت پر مصنف نے بہت اچھی طرح روشنی ڈالی ہے۔ چوتھے باب کو ’’جام سخن‘‘ اور پانچویں باب کو ’’مئے سخن‘‘ کا نام دیا گیاہے۔ شیخ اکبر علی نے چوتھے باب میں طرز بیان تشبیہ و استعارہ شاعری کے اسلوب و قواعد کے متعلق اپنی رائے ظاہر کی ہے اور اس کے لیے کلام اقبال سے استناد کیا ہے اور یہ دکھایا ہے کہ اقبال ان کے قواعد و ضوابط کی سختی سے پابندی کا قائل نہ تھا۔ ان کے چند فارسی اشعار مصنف نے درج کیے ہیں۔ جن میںیہ مصرع خاص طور پر یاد رکھنے کے لایق ہے: حسن انداز بیاں از من مجو اسی طرح ایک اور مصرع میں اقبال یہ شکایت کرتا ہے: مرا یاراں غزل خوانے شمردند میرے خیال میں پہلا مصرع مرحو م کی کسر نفسی ہے‘ ورنہ انکا کلام سراپا حسن انداز بیان سے آراستہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ذہن پر یہ بات نقش کر دیں کہ لوگ حسن انداز بیان کے خیال سے ان کی کتابیں نہ دیکھیں بلکہ ان کے مطالب و معانی کو سمجھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ دوسرے مصرعے میں جو شکایت اقبا ل نے کی ہے وہ بھی یہی معنی رکھتی ہے کہ جو لوگ ان کے کلام کی خوب کو کماحقہ نہیںپہچان سکے انہوںنے اسے محض شاعر سمجھااور ان کے اشعار کی حکمت سے پوری طرح آگاہ نہ ہوئے۔ مصنف نے پانچویں باب میں اور باتوں کے علاوہ یہ ضروری بحث چھیڑی ہے اور اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو بہت سے غیر مسلم نقادوں کی بعض تحریروں میںظاہر کی گئی ہے کہ حب وطن کے جذبات‘ جو اقبال کے ابتدائی دور کے کلام میں نمایاںتھے بعد میں بدل گئے اورملت اسلام کی محبت نے ان کے جذبات کی جگہ لے لی۔ شیخ اکبر علی کی رائے یہ ہے کہ جو رنگ ان کے کلام نے آخر میںاختیار کیا وہ ان سے پہلے رنگ کا تدریجی ارتقاء تھا مگر پہلے رنگ کا متضاد نہ تھا۔ ہمارے شاعری کی نظرمیں جوں جوں وسعت آتی گئی اس کی نگاہ دور تک پہنچنے لگی۔ یعنی گھر کی محبت سیشہر کی محبت اور شہر سے ملک کی اور وطن کے بعد وطن یک قریب ترین ممالک کی اور ان قریبی ملکوں کے بعد دور کے ملکوں کی اور رفتہ رفتہ دنیا بھر کی محبت پیدا ہوئی اور قومی ہمدردی بین الاقوامی ہمدردی بن گئی اور سیالکوٹ کا مشہور شاعر پنجاب کا مشہور ترین شاعر بنا اور اس کے بعد ہندوستان بھر کے مشاہیر میں آ گیا اور پھر دنیا بھر کے مشاہیر کی صف میں جاگزیں ہو گیا۔ اقبال کے آخری دور کا کلا م بین الاقوامی ہے۔ اور اس میں بنی نو ع انسان کے لیے نصائح ہیں۔ مگرجو نصیحتیں ا س نے کی ہیںان کی توضیح کے لیے اس نے وہ اصطلاحیں۔ استعمال کی ہیں جو اسلامی تصوف اور فلسفے کی اصطلاحیں ہیں جن سے وہ آشنا تھا۔ اس کے علاوہ چونکہ اس دور میں اس نے فارسی زبان میں زیادہ شعر لکھے اس لیے قدرتی طورپر وہی اصطلاحیں زبان پر آئیں۔ اس نے کسی وقت بھی اپنے اس عقیدے کو نہیںچھپایا کہ وہ مذہب اسلام کا ماننے والا ہے اور اس کو صحیح مذہب سمجھتا ہے۔ اس کا یہ خیال تھا کہ باقی دنیا خواہ مذاہب اسلام کو اختیار کرے یا نہ کرے‘ مگر دنیا کے بہت سے امراض کا علاج وہ صداقتیںہیں (2)جو اسلامی کتابوں کے خزینے میں موجود ہیں۔ اس بات کے ثبوت کے لیے کہ حب وطن کا جذبہ اقبا ل کے دل میںاس کی شاعری کے ہردور میں موجود رہا فاضل مصنف نے اقبال کا وہ مشہور شعر درج کیا ہے جو اس نے اپنے فرزند جاوید کے لیے لکھا تھا: اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احسان (3) سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر اسی ضمن میں اقبال کے چند فارسی اشعار جو اس نے مثنوی میں جو اقوام مشرق کو بیدار کرنے کے لیے لکھی گئی تھی‘ اس کتاب میں درج کیے ہیں جن میں ایک ایک ہندوستان کی سودیشی تحریک کا زور سے حامی ہے۔ میں ان میں سے صرف ایک شعر درج کرتاہوں۔ اس کی بلاغت اور جامعیت ملاحظہ ہو: آنچہ رست از خاک تو اے مرد حر آں فروش و آن بپوش و آں بخور یعنی اے آزاد آدمی! وہ بیچ وہی پہن اوروہی کھا جو تیرے ملک کی زمین سے پیدا ہو۔ اسی نظم کے دواور شعروں میںاس خیال کی توضیع کی گئی ہے کہ ان کا ترجمہ یہ ہے: اس کے کارخانے کے پا س سے بے پروائی سے گزر جا اور جاڑے میں بھی اس کی بنائی ہوئی پوستین نہ لے کیونکہ اسے لڑائی اور ظاہری کرب کے بغیر بھی مارنے کے ڈھب آتے ہیں اور اس کی مشینوں اور کلوں میں موتیں چھپی ہوئی ہیں۔ ’’اقبال کا نظریہ عقل و عشق‘‘ چھٹے باب کا عنوان ہے۔ ہمارا شاعر عشق کو عقل پر ترجیح دیتے وقت رسمی عشق کی مدح سرائی نہیںکرتا ہے جس سے کہانیاں اور افسانے پر ہیں بلکہ انسان کے اسی جذبے کی تعریف کرتاہے جو کسی بلند ارادے کی تکمیل کے لیے یا کسی عالی شان آرزو کے پورا کرنے کے لیے کسی اولوالعزم (4)انسان کے دل میں موجزن ہوتا ہے ۔ اور جس کی خاطر وہ انسان ہر خطرے اور ہر مصیبت کے جھیلنے کو تیار ہوتا ہے۔ میںنے کتاب کے چندبابوں کا ذکر اس لیے کر دیا ہے کہ قارئین کو یہ اندازہ ہو جائے کہ اقبال کے کلام پر کتاب کے فاضل مصنف نے ہر پہلو سے نظر ڈالی ہے۔ قارئین کرام خود ان کو پڑھیں اور مستفید ہوںَ البتہ باب نہم کا تھوڑا سا ذکر ہے کیونکہ اس میں لفظ ’’خودی‘‘ کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اقبال نے یہ جامع اصطلاح خاص معنوںمیں استعمال کی ہے اور یہی وہ مرکز ہے کہ جس کے گرد اقبال کے پیام کا بیشتر حصہ گردش کرتا ہے۔ جو اصحاب فارسی زبان میں اصل کلام کو پوری طرح نہیںسمجھ سکتے ان کو مصنف کی تشریح سے بہت مدد ملے گی اور جواقبال کی شیریں کلامی کا لطف ان کے فارسی اشعار سے حاصل کر سکتے ہیں وہ ان انتخابات کو‘ جو شیخ اکبر علی صاحب نے بطور نمونہ پیش کیے ہیں قندر مکرر سمجھ کران سے بہرہ اندوز ہوں گے۔ میں امید کرتا ہوںکہ اس کتاب کی خوبی قارئین کی توجہ کو خود اپنی طرف کھینچے گی اور وہ مصنف کی محنت کی داد دیں گے اور مصنف کے فرزند شیخ وارث اکبر علی بی اے بی ٹی مالک کمال پبلشرز کی ہمت افزائی کریں گے جنہوںنے اس کارآمد کتاب کی اشاعت اپنے ذمے لی۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ ’’اقبال …ہز پوئٹری ایند مسیج‘‘ مطبوعہ 1932ئ۔ 2۔ دیباچے میں ’’ہی‘‘ چھپا ہے ۔ 3۔ ’’بال جبریل‘‘ ص 118۔ 4۔ دیباچے میں لفظ ’’اولعزم ‘‘ چھپا ہے۔ ٭٭٭ اقبا ل کا فلسفہ حیات و موت (مندرجہ ذیل مضمون درحقیقت سر عبدالقادر نے محمد حسن الاعظمی صاحب کی تالیف ’’الیاۃ والموت فی فلسفہ اقبال‘‘ کے تعارف کے طور پر تحریر فرمایا تھا۔ یہ کتاب مرکزی بز م اقبال (حیدر آباد دکن) نے 1946ء میں شائع کی تھی جو دراصل عربی میں ہے۔ لیکن عربی کے ساتھ اردو ترجمہ بھی موجود ہے۔ یہ کتاب بڑی تقطیع کے 224صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے پیش نظر لفظ میں جو نواب حسن یار جنگ بہادر صدر مرکزی بزم اقبال دکن نے تحریر فرمایا ہے موصوف رقم طراز ہیں: ’’پروفیسر حسن الاعظمی صاحب نے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے ’’فلسفہ موت و حیات‘‘ پر عربی می جو کتاب تصنیف کی ہے اس کے ’’مقدمے‘‘ میں میرے دوست سر عبدالقادر صاحب نے اس تصنیف اور اس کے مقاصد کا اچھی طرح تعارف کرایا ہے جس کے بعد اس کی افادیت پر زیادہ روشنی ڈالنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی‘‘۔ سر عبدالقادر نے جس زمانے میں یہ ’’تعارف‘‘ تحریر کیا‘ اس زمانے میں آپ بہاول پور میں چیف جسٹس تھے)۔ پروفیسر محمد حسن الاعظمی صاحب (عالم ازہر یونیورسٹی قاہرہ) ہمارے ملک کے ان چیدہ اصحاب میں سے ہیں جن کی شہرت وطن کی حدود سے بڑھ کر دور دراز بیرونی ملکوں تک پہنچی ہوئی ہے۔ آپ اعظم گڑھ (یو۔ پی) کے رہنے والے ہیں‘ ہندوستان میں علوم مشرقی کی تحصیل کے بعد شوق علم انہیں کشاں کشاں مصر کو لے گیا۔ وہاں وہ جامعہ ازہرمیں مدارج علمی طے کرتے ہوئے قاہرہ کی مشہور مصری یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے اور انہوںنے عربی زبان میں یہاں تک دسترس حاصل کر لی کہ ان کی تحریریں وہاں کے اخباروں اور ادبی رسائل میں مقبول ہونے لگیں۔ اس کے بعد انہوںنے بہت سی کتابیں عربی (1)میں تصنیف کیںجو نگاہ پسندیدگی سے دیکھی گئیں۔ ان کتابوں میں ’’شرح دیوان الامیر تمیم الفاطمی‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ اس کتاب کو حکومت مصر نے قاہرہ کی ہزار سالہ جوبلی کے جشن کے لیے شائع کیا ہے۔ بعض کتابوں کے ذریعے آپ نے اہل مصر کو ہندوستان کے تاریخی اور دیگر حالات سے آگاہ کیا۔ پھر مصر کے حالات پر آپ نے اردو (2)میں کتابیں لکھیں تاکہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے دلچسپی ہو اوریہ دلچسپی ادبی اور تجارتی تعلقات کی ترقی کا زینہ بنے۔ لغت عربی کے متعلق بھی آپ چند کتابیں لکھ رہے ہیں جن میں ’’المعجم الاعظم‘‘ یا عربی اردو لغٓت چا ر جلدوںمیں ہوں گی اور دوسری اردو عربی لغات اس کی بھی چار جلدیں ہوں گی۔ ایک کتاب فلسفہ اقبا ل پر عربی میں لکھی ہے جس کے ذریعے انہوںنے مصر کے ذی علم طبقے کو اقبال سے روشناس کیا۔ ہندوستانی مدارس میں عربی کو ہر دل عزیز کرنے کے لیے ’’القراۃ الاعظمیہ‘‘ ’’المکالمتہ الاعظمیہ‘‘ اور’’مدرس العربیہ‘‘ کے نام سے متعدد کتابیں شائع کی جاچکی ہیں۔ یہ کتابیں کلیتہ اللغتہ العربیۃ کے نصاب میں داخل کی گئی ہیں۔ ان علمی خدمات کے علاوہ ایک بڑا کام جو اعظمی صاحب نے انجام دیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوںنے مصر اور دیگر اسلامی ممالک کے علماء او رادیبوں کے تعاون سے ایک عالم گیر جماعت مصڑ میں قائم کی ہے جس کانام الاخوۃ الاسلامیہ ہے ۔ س جماعت کے سابق صد ر مرحوم علامہ طنطاوی جوہری مفسر قرآن اورموجودہ رئیس جناب ڈاکٹر عبدالوہاب عزام ایک مصری فاضل ہیں جو مصری یونیورسٹی میں علوم شرقیہ کے صدر شعبہ ہیں اور س عالم گیر جماعت کے جنرل سیکرٹری اعظمی صاحب ہیں۔ اس جماعت کے اکثر اراکین ہمارے ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم کے کلام کے مداح ہیں۔ اس جماعت کے صدر دفتر قتہ الغوری قاہرہ میں ہر ہفتہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے فلسفہ و خیالات کی تشریح و توضیح پر مصری ادباء و علماء لیکچر دیتے ہیں۔ ان مجالس میں قابل رشک دلچسپی لینے والے ایک مصری ادیب الشیخ الصاوی شعلان (3)ہیں ۔ وہ عربی نظم خوب لکھتے ہیں انہوںنے اقبال کے بہت سے اشعار کو عربی نظم کاجامہ پہنایا ہے۔ اقبال ہندی نژاد ہوتے ہوئے اور فارسی اور اردو میں شعر کہنے کے باوجود عربی زبان اور عربی تہذیب و تمدن کادلدادہ تھا جیسا کہ اس کے اس مصرع سے ظاہر ہوتا ہے: عجمی خم ہے تو کیا‘ مے تو حجازی ہے مری وہ اگر آج زندہ ہوتا تویہ دیکھ کر اس کا کلام عربی کی وساطت سے عربوں میںپھیل رہا ہے بہت خوش ہوتا۔ اعظمی صاحب اپنی یونیورسٹی سے رخصت لے کر لیبیا کی جنگ سے کچھ عرصہ پہلے اس غرض سے ہندوستان آئے تھے کہ اپنی سوسائٹی کی شاخیں ہندوستان میں قائم کریں اور اہل ہند سے دوستی پیدا کرنے کا جو شوق انہوںنے مصریوں میںپیدا کیا ہے اس کاجواب ادھر سے بھی شروع ہو تاک یہ رابطہ دونوں ملکوں کو نفع بخشے۔ مگر اتفاق یہ ہوا کہ ان کے آنے کے بعد جلد ہی جنگ کی شدت زیادہ ہو گئی اور بحری راستے بڑی حد تک مسدود ہو گئے۔ اس طرح انہیں دیر تک یہاں ٹھہرنا پڑا۔ ممکن ہے کہ انہیںاپنے وہاں کے فرائض کی زیادہ کشش ہو لیکن ان کا یہاں رہنا ان مقاصد کے لیے جو اعظمی صاحب کے پیش نظر ہیں مفید ثابت ہو رہاہے۔ انہوںنے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جو ہے تو چھوٹی سی مگر نہایت قدر کے قابل ہے۔ اس میں تھوڑی سی جگہ میں اقبال مرحوم کا فلسفہ حیات و موت وضاحت سے اور بہت موثر پیرائے میں بیان کیاگیا ہے۔ اس کتاب کی یہ عجیب و غریب صفت ہے کہ یہ اردو میں بھیہے اورعربی میں بھی نظم میں بھی ہے اورنثر میںبھی۔ اس کی بنیاد تو ایک تقریر ہے جو ڈاکٹر رضی الدین صدیقی صاحب نے ’’یوم اقبال‘‘ حیدر آباد کے موقع پر اردو میں کی۔ ڈاکٹر صدیقی صاحب (4)آج کل عثمانیہ یونیورسٹی کے پروفیسر ریاضی ہیںان کی یہ تقریر اعظمی صاحب کو پسند آئی۔ انہوںنے چاہا کہ عرب ممالک کے مسلما ن بھی اقبال کے فلسفہ حیات و موت سے مستفید ہوں۔ انہوںنے اس تقریر کو عربی نثر میںاد ا کیا اور شیخ الصاوی شعامان صاحب مصری کی مدد سے اقبال کے ان اشعار کا جو صدیقیصاحب کے مضمون میں تھے عربی نظم میں ترجمہ کرا دیا۔ اس عربی حصہ نظم و نثر کی داد تو اہل زبان دے سکیں گے مگر اس کی سلاست کی بابت اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہم کم علموں کو بھی عربی حصے کا مطلب سمجھنے میںزیادہ دشواری نہیں ہوتی۔ ایک اور چیز جو اس ترجمے کو دیکھ کر نظر آئی‘ وہ یہ ہے کہ کئی جگہ اردو میں جو مطلب ہمارے اقبال نے ایک شعر میں اد ا کیا ہے اس کو پوری طرح ادا کرنے میں عربی کے ناظم کو دو شعر لکھنے پڑے ہیں۔ یہ تو میرا ہمیشہ سے عقیدہ تھا کہ اردومیں دقیق مطالب کو عمدگی سے ادا کرنے کی صلاحیت ہے او ر وہ قدیم اور زیادہ ترقی یافتہ زبانوں کی خوبیاں پیدا کر رہی ہے مگر یہ نہیںمعلوم تھا کہ بعض اوقات اختصار کے لحاظ سے وہ ان سے بازی لے جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ لکھنے والا ایسا باکمال ہو کہ جیسے اقبال تھا۔ شیخ الصاوی شعلان کے اشعار کے متعلق یہ اعتراف واجب ہے کہ ہ اردو اور فارسی اشعار کے مطالب کو صحیح طور پر ادا کرنے میں اچھی طرح کامیاب ہوئے ہیںَ کلام اقبال کے کئی حصے فرانسیسی انگریزی جرمنی اور اطالوی زبانوں میں ترجمہ کر چکے ہیں لیکن دنیائے اسلام کے اہم ترین حصص عربی بولنے والی قوموں سے پر ہیں اس لیے ان تک اقبال کے پیغام حیات کا پہنچنا بہت امید افزا ہے۔ اقبال کے ترانہ ملی کا منظوم ترجمہ بھی اس کتاب میں درج کیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ نہایت دل کش ہے۔ اس کا ملکی ترانہ اور ملی ترانہ دونوں اپنی جگہ لاجواب ہیں۔ ملکی ترانے لکھنے کا خیال میں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا او ر ان سے یہ کہا تھا کہ انگریزی کا نیشنل گیت ہر جگہ گایا جاتاہے اور فوجی باجے کے ساتھ بجایا جاتا ہے ایسی کوئی نظم ہمارے ہندوستان کے لیے ہونی چاہیے وہ سنتے ہی سوچنے لگ گئے اور ان کی زبان سے یہ مصرع نکلا: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا میںنے کہا بہت خوب ہے اب اس نظم کو مکمل کر دیجیے۔ ایک دو دن بعد وہ نظم مکمل ہو گئی اور اس قدر مقبول ہوئی کہ کوئی نیشنل مجمع ایسا نہ تھا جس میں وہ گائی نہ گئی ہو۔ اس کی قبولیت کو دیکھ کر بعض او ر دوستوںکو یہ خیال آیا کہ اقبا ل سے کہیں کہ جیسا گیت ہندوستان کے لیے لکھا ہے ویسا ہی دنیائے اسلام کے لیے لکھا جائے۔ اقبال کے لیے یہ تجویز اور بھی دلپذیر ثابت ہوئی اور ترانہ ملی نظم کیا جس کامطلع ہے: چین و عرب ہمارا‘ ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا معلوم نہیں ان دومصرعوں میں کتنی تاثیر ہے کہ یہ شعر اب بیرونی ملکوں میں جہاں کہیں مسلمان ہیںمقبو ل ہو گیا ہے۔ دیکھیے یہ شعر عربی لباس میں کیسا سجا ہے: الصین لنا‘ والعرب لنا والھند لنا‘ والکل لنا اضحی الاسلام لنا دیناً و جمیع الکون لنا وطنا عربی کے استاد نے بھی بحر خوب چنی ہے۔ جو فوجی باجے کے ساتھ بہت بھلی معلوم ہو گی۔ اعظمی صاحب بتاتے ہیں کہ مصر اور عراق کے بعض مدارس کے لڑکے جھوم جھوم کریہ ترانہ پڑھتے ہیں اور عالم گیر جماعت الاخوۃ الاسلامیہ قاہرہ کاخاص ترانہ مقرر کیا گیا ہے جو تقریباً تمام دنیائے اسلام میں منتشر ہو چکا ہے۔ ان چار مصرعوں میں جو میں نے عربی ترجمے سے نقل کیے ہیں میرے اس قول کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ اردو کے دو مصرعوں کا مطلب چار مصرعوںمیںسمایا ہے لیکن اب راہ انصاف ہمیںیہ بھی تسلیم کرناچاہیے کہ چھوٹی بحر کی وجہ سے دو مصرعوں سے کام نہیں نکلتا تھا۔ اور ساتھ ہی اس آزاد ترجمے میںایک دو خوبیاں اردو سے بڑھ کر پیداہو گئی ہیں۔ مثلا والکل لنا نے اس مصرعے کے مضمون کو بلند تر کر دیا ہے اوراضحی الاسلام لنا دیناً میں بھی ایک شان ہے جو اردو میں اس قدر خوبصورتی سے نہیں ادا ہوئی تھی۔ گو ہندوستان کے شاعر نے مسلم ہیں ہم کہتے ہوئے بہت کچھ کہہ دیاتھا۔ کتاب کے اخیر میں فاضل نے ترجموں نے الاخوۃ الاسلامیہ کی طرف سے اسلامی برادری پر ایک نظم لکھی ہے جو روح اخوت سے مملو ہے۔ اگر اردو نظم میںاس کا ترجمہ ساتھ ہوتا تو بہت موزوں ہوتا۔ یہ کتاب اپنی طرز کی ایک نرالی چیز ہے۔ اورامید قوی ہے کہ یہ ہندوستان اور مصردونوں ملکوں میں مقبول ہو گی بلکہ جہاں کہیں عربی بولی یا سمجھی جاتی ہے وہاں اقبال کے پیام کا یہ حصہ اس کے ذریعے پھیل جائے گا کہ مسلمان کا خاصہ ہے کہ موت سے نہ ڈرے اور موت کو زندگی کی ایک آئندہ منزل کا راستہ سمجھے اور اس کا عمل یہ ہو کہ موت زیست اور زیادہ پائیدار زیست کا ذریعہ ہے۔ اقبال نے اپنی جوانی کے اردو کلام میںیہی بلند خیال ایک سہل ممتنع مصرع میں یوں ادا کیا تھا: جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا ٭٭٭ حواشی 1۔ مثلا ’’بحث فی الشیعہ‘‘ ’’فلسفہ اقبال‘‘ ’’من روائح قصص ہند‘‘ ’’محاضرات عن مصر‘‘ ۔ 2۔ مثلاً ’’آج کا مصر‘‘ ’’آزاد مصر‘‘ وغیرہ۔ 3۔ موصوف نے محمد حسن الاعظمی کے اشتراک سے ’’فلسفہ اقبال‘‘ (عربی ) لکھی۔ 4۔ اسلام آباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں ۔ ’’موت و حیات اقبال کے کلام میں‘‘ ان کی تصنیف ہے۔ ٭٭٭ اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور (مندرجہ ذیل مضمون روزنامہ ’’امروز‘‘ (اقبال نمبر) لاہور بابت 26اپریل 1948ء (ص 4) سے لیا گیا ہے۔) میںنے ستارہ اقبال کا طلوع دیکھا اور چند ابتدائی منازل ترقی میں اقبال کا ہم نشین اور ہم سفر تھا۔ دو چار تصویریں اس ابتدائی دور کی پیش کرتا ہوں۔ لاہور میںایک ’’بزم مشاعرہ‘‘ بازار حکیماں میں حکیم امین الدین صاحب مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی۔ ایک شب اس بزم میں ایک نوجوان طالب علم اپنے چند ہم عصروںکے ساتھ شریک ہوا۔ اس نے ایک سادہ سی غزل پڑھی جس کا مقطع یہ تھا: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا لیکن آپ کہتے ہیں سخنور تو سخنور ہی سہی اس ’’سخنور ہی سہی‘‘ کی بے ساختگی اورپڑھنے کے بے ساختہ انداز سے سخن فہم سمجھ گئے اردو شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ نمودار ہوا ہے ۔ اسی غزل میں ایک شعر اور تھا جس کی سامعین نے بہت داد دی اور تقاضا کیا کہ اقبال صاحب اگلے مشاعرے میں بھی ضرور شامل ہوںَ وہ شعر یہ تھا: خوب سوجھی ہے‘ تہہ دام پھڑک جائوں گا میں چمن میں نہ رہوں گا تو مرے پر ہی سہی جب اقبال صاحب دوسرے مشاعرے میں آئے تو انہوںنے ایک اور غزل پڑھی جس کا یہ شعر بہت پسند کیا گیا: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے یہ تھا آغاز اس تدریجی ارتقا کا جو غزل گوئی سے ’’تصویر درد‘‘ اور ’’شکوہ‘‘ جیسی نظموں تک پہنچا اور ’’بانگ درا‘‘ کی منزلیں طے کرتا ہوں ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ وغیرہ غیر فانی نظموں کے عروج پر پہنچا۔ اقبال کی پہلی نظمیں جس کارگاہ میں لکھی جاتی تھیں وہ اسی ’’بازار حکیماں‘‘ کے اختتام پر شہر کے بھاٹی دروازہ میں داخل ہوتے ہوئے دائیں ہاتھ کی دکانوں پر ایک چھوٹا سا بالاخانہ تھا جو سفر ولایت سے پہلے اقبال کا مسکن رہا۔ یہ مکان اب تک موجود ہے۔ گو افسوس ہے کہ اقبال کے مداحوں کی اتنی جماعتوں اور گروہوں میں سے کسی کو آج تک یہ توفیق نہیںہوئی کہ اس مکان کی ملکیت حاصل کر کے اسے آئندہ کے لیے قوم کے لیے محفوظ کر لیں تاکہ ہماری نئی پود جب اس عظیم الشان شاعر کی کتابوں کا مطالعہ کر کے اس کی زندگی کے حالات جاننے کی خواہش مند ہو تو اس مسکن کو بھی دیکھ سکے جہاں میں بیٹھ کر اقبال نے اپنے ادبی کام کا ایک معقول حصہ تصنیف کیا اور جس کے ساتھ اس کے متعلق کئی روایات و حکایات وابستہ ہیں۔ یہی وہ مکان ہیجس میں بیٹھ کر ’’اک مولوی صاحب کی کہانی سناتا ہوں(1)‘‘ والی نظم لکھی گئی۔ وہ ایک صحیح واقعے کا صاف صاف بیان تھا جس سے شاعر کی عجیب اور پیچیدہ شخصیت پر بہت سی روشنی پڑتی ہے۔ جن دکانوں پر اقبال کا یہ مسکن تھاانہی پر ان کے مکان کی دوسری طرف ایک مولوی صاحب رہتے تھے جو ایک مقامی کالج میں پڑھاتے تھے انہیں حق مغفرت کرے‘ بہت نیک آدمی تھے اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے وہ خود بھی بوڑھے نہ تھے‘ ادھیڑ عمر کے تھے مگر اقبا ل جوان تھا ۔ انہیں اقبال کی وہ متضاد صفات جن کا اس نظم میں تذکرہ ہے سمجھ میںنہیں آتی تھیں۔ انہوںںے کسی کے روبر و اظہار تعجب کیا۔ اس نے وہ بات اقبال کو سنا دی اور یہ اچھی خاصی تاریخی نظم ہو گئی۔ اقبال نے اسی تضاد کا ذکر اس شعر میں کیا ہے: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں‘ واللہ نہیں ہے یہ کچھ بناوٹ نہ تھی کہ یہ کہا گیا کہ بات بطور تمسخر نہیںکی گئی تھی۔ وہ وقت بہت دیر سے آیا جب اقبال نے خودی کی حقیقت سمجھی اور بیان کی اور اپنی خودی کا احساس ہوا اور جس نے درویشی اور قلندری کا درجہ عطا کر دیا۔ یہی وہ چھوٹا سا مکان جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔ میری اور اقبال کی بیشتر ملاقاتوں اور نشستوں کا مرکز تھا۔ وہ تین اور دوست بھی وہیں شام کو جمع ہو جاتے تھے جن میں دو ایک طالب علم تھے جو اس امید پر تھے ک اقبال سے کوئی نیا شعر سنیں گے اور نوٹ کر لیں گے۔ پنسل اور کاغذ تیار رہتا تھا اوروہ کہنے پر کمر باندھے ہوئے ہوتے تھے۔ اقبال کاایک ملازم علی بخش (2) اوپر کی منزل میںچولھا گرم رکھتا تھا تاکہ اپنے مالک کا حقہ ساعت بہ ساعت تیار کر تا رہے۔ جب طبیعت شعرپر مائل ہوتی تو اقبال حقہ پیتے جاتے تھے اور شعر کہتے جاتے تھے۔ یہ دلچسپ صحبتیں بہت دیر تک رہیں ۔میں ان دنوں میں انگریزی اخبار نویسی کرتا تھا۔ کچھ عرصے سے رسالہ ’’مخزن‘‘ بھی جاری تھا جس میں اقبال کا تازہ کلام درج ہو جاتاتھا۔ اتنے میں سفر انگلستان کی ضرورت پیش آئی۔ میںنے اقبال سے ذکر کیا کہ میں انتظام سفر کر رہا ہوں اور عنقریب جائوں گا۔ اس سے اقبال کو بھی تحریک ہوئی اور وہ بھی وہاں پہنچیں۔ کہنے لگے: ’’میں بھی بھائی کو لکھتا ہوں اگر وہ بندوبست کر سکے تو تمہارے جانے کے بعد ایک سال کے اندر بھی وہاں پہنچوں گا‘‘۔ مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ۔ اتفاق حسنہ دیکھیے کہ ہم دونوںاپنے اس ارادے کی تکمیل کر سکے۔ جس سال میں وہاں گیا اس سے ٹھیک ایک سال بعد اقبال بھی پہنچے۔ پروفیسر آرنلڈ کی وہاں موجودگی اقبال کے لیے ایک خاص کشش رکھتی تھی۔ آرنلڈ صاحب ایک متبحر فلسفی اور اقبال کے شفیق استاد تھے۔ جو دو سال میرے اور اقبا ل کے انگلستان میں مشترک گزرے وہ بہت دلچسپ تھے۔ گو وہ کیمبرج میں رہے اور میںلندن میں تھا مگر ان سے ملنے کے موقعے بہت کم ملتے تھے ۔ وہ وقتاً فوقتاً لندن میں آتے رہے یا میرے مکان میںانہیںکمرہ مل جاتا تھا یا کسی پا س کے مکان میں۔ کبھی کبھی کیمبرج جا کر ان سے ملتا تھا۔ وہاں ان دنوں حیدر آباد کے مشہور عالم سید علی بلگرامی (3) ملازمت سے پنشن پا کر یونیورسٹی میں مرہٹی زبان پر لیکچرار مقرر تھے اور مع اہل و اعیال بیٹھے رہتے تھے۔ اقبال اوقات فرصت میں وہاں جا بیٹھتے تھے۔ وہاں ہر وقت علم و فضل کا ہی چرچا تھا اور اقبال وہاں گھر کی طرح بے تکلف تھے۔ جب اقبال لندن میں آتے توبیرسٹری کے لیکچروں یا کھانوں کے لیے ہم دونوں مل کر جاتے۔ بعض علمی مجالس میں بھی اکٹھے شریک ہوتے تھے۔ ہمارے بعض احباب سانجھے تھے مگر اقبال کی طبیعت کی دو عادتیں وہاں زیادہ نمایاں ہوتی تھیں ۔ ایک تو ان کی کم آمیزی جس کااشارہ انہوں نے اپنے اشعار میں بھ کیا ہے ۔ بہت سے دوست نہیں بناتے تھے۔ دوسری عادت نقل و حرکت میں تساہل و تکاہل تھی۔ وہ کئی دفعہ کسی جگہ جانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر کہتے تھے بھئی کون جانے اس وقت تو کپڑے پہننے یا باہر جانے کو جی نہیںچاہتا۔ ہم انہیں ہنسی سے قطب از جا نہ جنبد کی کہاوت سنایا کرتے تھے۔ مگر لندن ایسی جگہ ہے جہاں کم آمیزوں کو بھی کسی سے ملنے کا وقت دینا پڑتاہے اور ملاقات کا وعدہ لے کر کہیںمنتظر ہونا پڑتا ہے کسی ایسی ہی ملاقات کا اشارہ اس شعر میں ہے: نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا‘ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا مجھے ایسے پروگرام کے مطابق اقبال سے ایک سا ل پہلے انگلستان چھوڑنا پڑا وہ میرے بعد آئے انہوںنے لاہور میں وکالت شروع کی میںنے دہلی میںَ دہلی سے آ کر میں لائل پور چلا گیا ۔ وہ لاہور میں ہی رہے کسی نے سچ کہا ہے: کہ روزی مے کند از ہم جدا یاران ہم دم را ٭٭٭ حواشی 1۔ بعنوان ’’دین و دنیا‘‘ ملاحظہ ہو ’’باقیات اقبال‘‘ از عبداللہ قریشی ‘ آئینہ ادب‘ لاہور۔ 1966ئ۔ 2۔ علامہ اقبال کے دیرینہ خادم جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے ۔ انہوںنے 39سال تک علامہ اقبال کی خدمت کی ۔ 3۔ ولادت: 1851ء ‘ وفات: 2 مئی 1911ء مترجم ’’تمدن عرب‘‘ و ’’تمدن ہند‘‘۔ ٭٭٭ شاعر مشرق سے میری آخری ملاقات (مندرجہ ذیل مضمون ہفت روزہ ’’قندیل‘‘ لاہور کی 19اپریل 1949ء کی اشاعت اور اپریل 1950ء کے ’’مخزن‘‘ کی زینت بنا)۔ ڈاکٹر اقبا ل مرحوم کو ادبی حلقوںمیں بہت سے خطاب قوم کی طرف سے اور یا ان کے ہم عصر عزیزوں کی طرف سے دیے گئے ہیں جو سب اپنی اپنی جگہ موزوں ہیں مگر میں ان کے لیے ’’شاعر مشرق‘ کا خطاب خاص طور پر موزوں سمجھتا ہوں کیوں کہ انہوںنے تہذیب مغرب کا پول کھول کر اہل مشرق والوں کے دلوں سے اس رعب کو مٹانے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے جو اکثر مشرقی ممالک میںلوگوں کے دلوں پرمسلط تھا‘ اور مشرق میں یہ احساس پیداکیا ہے کہ مشرق ہر اس بلندی پر پہنچ سکتا ہے جس پر مغرب پہنچ کر اتر رہا ہے۔ میں جب 1934ء میں ہائی کورٹ کے کام سے سبکدوش ہو کر پانچ سال کے لیے اس وقت کے وزیر ہند کے محکمے میں لندن گیا تو میرے محترم دوست سر محمد اقبال بحیثیت مجموعی بخیریت تھے۔ ان کی علالتوںکا دور میری غیر حاضری میں شروع ہوا۔ اور جب میں اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب سے رخصت لے کر 1937ء کے اواخرمیں ہندوستان آیا تو میں یہاں آنے کے جلد بعد ان سے ملنے گیا۔ جب میں پہنچا تو وہ ایک پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے اور لحاف اوڑھے ہوئے تھے مگر ان کی وسعت اخلاق کی وجہ سے اس حالت میں بھی مختلف ملنے والوںکا ایک گروہ ان کے کمرے میں کرسیوں پر ان کے قریب بیٹھا تھا۔ اس گروہ میں ایک معزز سرکاری عہدے دار اور ایک مالک اخبار ارو ایک ایڈیٹر موجود تھے اور چند نوجوان طالب علم ۔ مرحوم مجھ سے بہت محبت سے ملے اور لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اوراپنی چارپائی پر ہی بٹھا لیا۔ جو ملاقاتی بیٹھے تھے وہ چند منٹ ٹھہرے اور یہ سمجھے کہ شاید مجھے مرحوم سے بحیثیت ایک پرانے دوست بہت سی باتیںکرنی ہوں گی۔ یکے بعد دیگر اجازت لے کر رخصت ہوتے گئے اور ہمیں آپس میں باتیں کرنے کا موقع دیا ۔ ہم اچھی خاصی دیر تک باتیںکرتے رہے۔ میں نے اس کی صحت کا پوچھا اور انہوں نے بتایا کہ اب پہلے سے بہتر ہے۔ وہ مجھ سے انگلستان کے قیا م کے حالات سنتے رہے اور بعض دوستوں کی بابت پوچھتے رہے اورمیرے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے بھی دعوت دی کہ میں دوسرے دن دوپہر کا کھانا ان کے ہاں کھائوں ۔ میں نے بخوشی یہ دعوت قبول کر لی۔ اور دوسرے دن پھر ان کے ہاں گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس وقت وہ لیٹے ہوئے نہ تھے بلکہ اٹح کر کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور دو دوست بھی موجود تھے جو کھانے میں شرکت کے لیے مدعو تھے۔ ایک تو چودھری محمد حسین صاحب ایم اے (1)جو اس زمانے میں ان کے معتمد رفیق تھے اور ان کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے اور صاحب زادی کی نگرانی کے فرایض ادا کرتے ہیں اور جنہوںنے ان کی تصانیف کی اشاعت سے بھی مسلسل دلچسپی رکھی ہے ۔ دوسرے صاحب ریاست بہاول پور کے ایک مشہور خاندان سادات کے رکن اور بڑے زمیندار رئیس تھے جن کا نام مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ سٓحب ہے۔ ان سے میری ملاقات پہلے معمولی تھی مگر اس دن یہ دیکھ کر کہ اقبال انہیں بہت پسند کرتے تھے اور وہ اقبال کے دلی مداح تھے۔ میری انسے ملاقات بڑھ گئی جو بعد ازاں میرے دوران قیام بہاول پور اور بھی زیادہ ہو گئی۔ تھوڑی دیر میں کھانا آیا اور جس میں اقبال صاحب خود بھی شری ہوئے اور کم از کم اس وقت ایسی اچھی حالت میں تھے کہ کھانا بھی انہوںنے رغبت سے کھایا اور گفتگو میں بھی دوران طعا م بہت دلچسپ ہوتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یا تو ان کی طبیعت دفعتاً تندرست ہو گئی ہے یا انہوںنے میری خاطر اس دن کمزریاور بیماری کا لباس اتار پھینکا ہے اور پورے صحت مند ہو کر بیٹھ گئے ہیں طرح طرح باتیں ہوئیں۔ مخدوم الملک صاحب چو نکہ پیرزادہ تھے اور اقبال مرحوم سے بہت عقیدت رکھتے تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ شیخ صاحب کچھ بتا سکتے ہیں کہ اس زمانے میں پنجاب کا قطب کون ہے؟ میںنے کہا: مخدوم صاحب یہ تو محکمہ آپ کی معلومات کا ہے ۔ آ پ ہی بتائیں۔ انہوںنے کہا کہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اقبال صاحب ہی قطب پنجاب ہیں۔ میں ںے کہا کہ آپ چونکہ اس راہ سے واقف ہیں میں آپ کی با ت مان لوں گا ورنہ میں اس راہ سے بے خبر ہوں البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ اقبال کے ہم نشین جن میںمیں بھی شامل ہوں کبھی کبھی ان کو قطب از جانمی جنبد کہہ کر چھیڑا کرتے تھے کیوںکہ وہ نقل و حرکت کے معاملے میں بہت تساہل برتا کرتے تھے۔ غرض اس قسم کے مزاح اور تفریح کے بعد ہو بزم مختصر برخاست ہوئی مگر ان سے رخصت ہوتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ میں ان کو اور وہ مجھے آخری مرتبہ دیکھ رہے ہیں اس کے بعد میں بیٹے کی شادی کے کاموں میں مصروف ہو گیا اران سے پھر ملنے نہ جا سکا۔ اور یہ قلق دل میں رہ گیاکہ یہ خبر ہوتی تو باوجود مصروفیت کے وقت نکال کر دو چار مرتبہ ان سے مل لیتا۔ میں 1938ء کے شروع ہی میں اپنی ملازمت پر چلا گیا اور وہاں پہنچنے کے جلد بعد اپریل کی وہ تاریخ آ گئی جس دن دست اجل نے مرحوم کے سب دوستو ں اور عزیزوں سے ان کو چھین لیا۔ خدا ان کو فردوس برسمیں جگہ دے اور ملت اسلام کو ان کے بیش بہا کلام سے مستفید ہونے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ اب ہم ہر برس ان کی یادگار منانے کے جلسے کرتے ہیں اورجمع ہوتے ہیں۔ یہ تحریک بہت مفید ہے بشرطیکہ اس کے عملی پہلو پر بھی توجہ رہے اور مرحوم کے سب مداح ان کے پیغام پر عمل کریں: دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا وہ اک مرد تن آساں تھا‘ تن آسانوں کے کام آیا حواشی 1۔ ولادت: 8مارچ 1894ء ‘ وفات: 16جولائی 1950ئ۔ ٭٭٭ چند پیش گوئیاں (یہ مضمون روزنامہ ’’امروز ‘‘ (اقبال نمبر) 22اپریل 1949ء ص 13سے لیا گیا ہے ۔ مرتب) ڈاکٹر اقبال مرحوم کے کلام کی خصوصیت میں ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ کبھی کبھی کچھ ایسے اشعار ان کے دل سے اٹھتے تھے جن میں کوئی کوئی نہ کوئی غیر معمولی پیش گوئی ہوتی۔ اس کے الفاظ بھی پیش گوئی کے رنگ میں ہوتے تھے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں بعد کو پوری ہوتی تھی اور لطف یہ ہے کہ یہ رنگ ان کی شاعری کی ابتدا میں بھی موجود ہوتا اور آخری دور میں زیادہ نمایاںاور زیادہ حیرت انگیز ہو گیا تھا۔ آخری دور کے متعلق تو ان کے کلام کے پڑھنے والے جانتے ہیںکہ ان میںرنگ درویشی اور قلندری کا پیدا ہو گیا تھا جس کا دعویٰ ان کے کئی فارسی اور اردو اشعار میں بھی موجود ہے۔ لیکن تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں بھی اس قسم کے اشعار جابجا موجود ہیں جبکہ درویشی اور قلندری ابھی نہاں خانہ دل میں چھپی ہوئی تھی اور ا س کی علامات آسانی سے نظر نہیں آتی تھیں۔ مثلاً ان کی وہ غزل جو ان کے کلا م کے پہلے مجموعے’’بانگ درا‘‘ میں چھپی ہوئی ہے اور جو اس شعر سے شروع ہوتی ہے: زمانہ آیا ہے بے حجابی کا ‘ عام دیدار یار ہو گا (1) سکوت تھا پردہ دار جس کا ‘ وہ راز اب آشکار ہو گا اس غزل کا ہر شعر بتارہا ہے کہ شاعر اسلام میں کسی نئی زندگی کے آثار دیکھ رہا ہے اور جس مقدس سرزمین سے اسلام پہلے ابھرا اور جس میں پیغمبر اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معبوث ہوئے‘ یہ غزل اس کے جمود کے بدلنے کے لیے اور اس میں جوش اور ولولہ کے نمودار ہونے کی خوش خبری ہے جیسا کہ اس شعر سے ظاہر ہے: نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا(2) سنا ہے کروبیوں (3)سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا جس وقت یہ شعر کہا گیا تھا اس وقت عرب کی بیداری بہت دور کی بات معلوم ہوتی تھی مگر اس کے بعد انہوںے خود ااور ان کے بعض ہم عصروںنے اس بیداری کا آغاز دیکھ لیا تھا اور جو طلسم جادوگران فرنگ نے عربوں اور ترکوںمیں مغایرت پیدا کر کے بنایا تھا اور وہ رفتہ رفتہ شکستہ ہوتا نظر آنے لگا۔ جس جوش اور یک جہتی کے ساتھ کچھ وقت کے لیے عربوں نے یہودیوں اور ان کی پشتی بان مغربی حکومتوں کی مجموعی طاقت کا مقابلہ کیا وہ خلاف امید اور حیرت انگیز تھی مگر افسوس ہے کہ ان کی وہ یک جہتی دیر تک قائم نہیں رہ سکی اور اس وقت عرب ممالک کے نمائندے نوساختہ اسرائیلی حکومت سے علیحدہ علیحدہ سمجھوتے کر رہے ہیں‘ تاہم ان کے ابتدائی اتفاق کا کچھ اثر ان سمجھوتوں پر بھی پڑ رہا ہے اور ان میں جا بجا زندگی کے احساسات نمایاں ہیں میںان لوگوں میں ہوں جو ان کی اس جھڑپ کو جو یہودیوں کے ساتھ ہوئی ہے‘ پہلی جھڑپ سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جس شیر کے پھر ہوشیار ہونے کی امید ہمارے شاعر اعظم نے ظاہر کی ہے اس کا بھی کوئی وقت آنے والا ہے: حضرت اکبر الہ آبادی نے کیا خوب اور نہایت پر زور اور پر امید شعر لکھا ہے: اور بھی دور فلک ہیں ابھی آنے والے (4) ناز اتنا نہ کریں ہم کو مٹانے والے اس کے بعد حضرت اقبال کی شاعری کا دوسرا دور آیا جب وہ 1905ء میں یورپ میں مزید تعلیم پانے گئے اور کیمبرج کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے یہ کتاب لکھنے لگے اور بارمیں داخل ہوئے۔ اس زمانے میں ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ مغربی تمدن اور تہذیب کی ظاہری چمک گو بہت لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے مگر وہ درحقیقت اتنی بڑی چیز نہیں جتنی کہ وہ اپنے آ پ کو ظاہر کرتی ہے اور سمجھتی ہے۔ اس وقت ان کی وہ مشہور غزل انگلستان کے قیام کے دوران میں لکھی گئی جس میںاہل یورپ سے خطاب کر کے انہوںنے یہ شعر لکھا: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی (5) جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ‘ ناپائیدار ہو گا اس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم سے کئی سال پہلے یہ شعر صادر ہوا جس وقت وہاں کے اچھے اچھے سوچنے والوں کے ذہن میں یہ بات نہ تھی کہ جنگ عظیم جیسی تباہ کن لڑائی قریب ہے۔ یہ پیش گوئی نہایت صاف ہے او راس میں کسی طرح کا ابہا م نہ تھا۔ اور شاعر کی زندگی میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ پھر زمانہ گزرتا گیا مگر جلد نظر آنے لگا کہ کوئی دوسری بڑی لڑائی جو ساری دنیا پر اثر ڈالے گی جلد آنے کو ہے مگر اس کے واقعی طور پر آنے سے پہلے اقبال مرحوم نے نہ صرف اس کے متعلق پیش گوئیاں کیںبلکہ ایسے اندا ز سے کیں کہ جیسے وہ اپنی آنکھوں سے دنیا کے اس انقلاب کے جو اس دوسری جنگ نے پیدا کیا دیکھ رہا ہے ۔ چنانچہ انہوںنے فرمایا: خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے فرنگ کش مکش سیل بے پناہ میں ہے اس مضمون کا ایک اور شعر اردو غزل میںآتاہے جس میں اہل یورپ کی بیرونی طاقت کا اعتراف بھی موجود ہے‘ اور اس کے باوجود یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ان کا یہ پیچ آسانی سے کھلنے والا نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ہوائیں ان کی فضائیں ان کی سمندروں کے جہاز ان کے گرہ بھنور کی کھلے تو کیوں کر بھنور ہے تقدیر کا بہانہ اسی غزل میں دوسرا شعر بھی قابل غور ہے: شفق نہیں مغربی افق پر یہ جوئے خوں ہے‘ یہ جوئے خوں ہے طلوع فردا کا منتظر رہ کر دوش و امروز ہے فسانہ ! اس دور کی شاعری میں ایسی مثالیں اور بھی بہت سی ملتی ہیں مگر اس مختصر مضمون میں ان سب کا ذکر نہیںکیا جا سکتا۔ حواشی 1 ۔ ’’بانگ درا‘‘ ص 149۔ 2۔ ’’بانگ درا‘‘ ص 150۔ 3۔ ’’بانگ درا‘‘ میں ‘’’یہ قدسیوں‘‘ لکھا ہے۔ 4۔ ’’انتخاب کلام اکبر‘‘ مرتبہ : ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ‘ ص 54۔ 5۔ ’’بانگ درا‘‘ ص 150 ٭٭٭ فکر اقبال کا ارتقا (1) ہمیں اقبال کے کلام میں خیالات کی جو بوقلمونی نظر آتی ہے ۔ وہ تضاد نہیں ہے۔ بلکہ اقبال کی نظر و فکر کا ارتقا ہے۔ اور کچھ وہی لوگ اقبال کے افکار کو تضاد کا الزام دے سکتے ہیں جنہیں اقبال کے اسلوب نظر و فکر کی عہدبعہد تبدیلیوں کاعلم نہیں اور جو اس سے ناواقف محض ہیں کہ ہر عبقری اپنے معاشرے کے عصری اتار چڑھائو سے متاثر ہوتا اور وقت کے ساتھ اپنے مطالعہ و مشاہدہ اور تجربہ و تجزیہ سے ایک ایسی دولت سمیٹ لیتا ہے جو اس کے ذہنی نشو و ارتقا کا سبب بن کر ایک اجتماعی فکر اور بے لوث تخیل کی صورت اختیار کرتی ہے۔ اقبال بھی اسی قسم کا ایک انسان تھا اور واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان بھر میں اقبال اس اعتبار سے منفرد ہے ۔ کہ اس نے ایسی قوم کی رفتار فکر معین کرنی جس کا طنطنہ اقتدار پیوند زمین ہو چکا تھا اور جس کی فاتحیت کے نقش و نگار یا تو تاریخ کے صفحوں میں چند بے ربط افسانوں کا نشان ہو کر رہ گئے تھے اور یا اس کے کچھ آثار آثار سنگ وخشت کی ان عمارتوں میں منعکس دکھائی دیتے تھے جنہیں عرف عام میںکسی قوم کا تہذیبی ورثہ کہا جاتا ہے۔ اقبال نے سنگ و خشت کے ان مظاہر پر اسی حد تک غور کیا جس حد تک کہ حالات متقاضی تھے۔ اس کا اصل مدار قوم کے عل و عمل پر تھا اور یہ ایک بنیادی نکتہ ہے جس کا خارج کرنے سے اقبال کے ذہنی ارتقاء پر حقیقی نظر ڈالی نہیںجا سکتی: جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا اقبال جس زمانے میں پیدا ہوئے اور پھر جن حالات و واقعت کے پہلو بہ پلو بلکہ قدم بہ قدم انہوںنے اپنی زندگی کے سفر کو پورا کیا وہ بلاشبہ تاریخ انسانی کا ایک عظیم دور ہے۔ یوں کہہ لیجے کہ اقبال نے جب آنکھیںکھولیں تو ان کے سامنے اجڑی پجڑی بہار کے برگ و بار تھے اور جو کچھ بچ رہا تھا اور وہ بھی امتداد زمانہ کے ہاتھوں ختم ہو رہا تھا۔ دوسری طرف ان کی نظریں ایک ایسے علم و عمل پر تھیں جو یورپ کے سائنسی اور صنعتی سانچے میں ڈھل کر نشو پاتا رہا اور اس سرعت سے اپنے نتائج پیدا کرنے میں منہمک تھا کہ فکر اقبا ل کے وہ مقامات‘ جو ہمیں بہ طور تضاد کے نظر آتے ہیں اصل میں انہی حالات و واقعات کی تصویر آرائی سے متعلق ہیں۔ اقبال کے کلام کو پڑھنے اور پھر اس پر سوچنے سے پہلے کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جنہیںسمجھے بغیر ہم اس کا اصل کا پتانہیںلگا سکتے جس پر اقبال کی فکر و نظر کا انحصار ہے وہ یہ ہیں: 1۔ اقبال ایک ایسا عبقری (Intelligent) تھا جس کا آغا ز شعر سے ہوا لیکن جس کی انتہا فکر پر ہوئی۔ 2 اس کو اپنی دماغی مسافت میں وہ تمام مدارج پیش آئے جو ایک ایسے انسان کو پیش آتے ہیں جس کا کارگہ عمل خود اس کا دماغ ہوتا ہے اور آخر وہ اپنی ذہنی فتح مندیوں کی ایک ایسی اقلیم چھوڑ جاتا ہے جو تلوار کی کشور کشائیوں سے کہیں بڑھ کر دیرپا ہوتی ہے۔ 3 ۔ اقبال عام انسانوں کی طرح ایک ناظر نہ تھا بلکہ اس سے کہیںمختلف تھا۔ اس نے زمانے پر ناقدانہ نظر ڈالی اور پھر اس سے جو کچھ سمیٹا اس کو اپنے نظر و فکر کا وہ رنگ دے کر پیش کیا جس کا ماخذ توحید و رسالت تھا۔ 4۔ اقبال کے نظریات کی ترتیب میں وقت کی بعض تصوراتی تحریکوں کے عملی نقشوں کا عظیم حصہ ہے۔ پہلے وہ ان تحریکوںمیںسے بعض کے قبول عامہ سے متاثر ہوا اور بہ طور شاعر ان کے حق میں فضا پیدا کی‘ لیکن جب وہ عمر کے ساتھ جذبات کی دیواریں پھاند کر علم و نظر کے حقیقی سکون میں آگیا تو اس نے ایک مبصر کی حیثیت اختیار کر لی۔ چنانچہ ’’بانگ درا‘‘ اور ’’ضرب کلیم‘ ‘ ان دو اردو مجموعوں ہی کو لے لیجیے۔ ایک میں محض شعر کی نقش آرائی ہے اور دوسرے میں معاشرہ حیات کی تصوری تحریکوں اور عصری تصویروں پر تبصرہ۔ 5۔ اقبال کی تاریخ کے ایک عظیم الشان دور میںسے گزرا ہے وہ پہلے تاریخ کی پر جہد آواز کے ساتھ چلتا رہا لیکن جب اس نے دیکھا محض شعر کوئی شے نہیں ور منزل بغیر جادہ پیمائی لا حاصل ہے تو اس نے اپنے علم و تجربہ کی بنیادوں پر سب سے پہلے منزل کا تعین کیا پھر راستے معین کیے اور بالآخر ان قافلوں کو دعوت قدم فرسائی دی جو تھک کر اس سے عادی ہو گئے تھے: بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے ان توضیحات کو ملحوظ رکھیے تو اقبال کے سمجھنے میں ٹھوکر لگنے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا بلکہ ان کے ؟ذہنی عمل کی پوری سرگزشت سامنے آ جاتی ہے۔ یہ تبدیلیاں ان کے ذہن میں کیسے آئیں اور انہوں نے جلد سے جلد شعر سے فکر کی صورت کیوں کر اختیار کر لی؟ ظاہر ہے کہ انیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا نصف کچھ سے تیزی سے گزر ے ہیں جیسے صدیوں کی سرگزشت ہفتوں میںکٹی ہو۔ اس عرصے میں اس شدت سے گزرے ہیں جیسے صدیوں کی سرگزشت ہفتوں میں کٹی ہو۔ ا س عرصے میں اس شدت سے بساط عالم کے افق پر نو بہ نو خیالات کے ستارے جگمگائے اور اس سرعت سے رنگ برنگ تصورات کے آفتاب ابھر کر ڈوبے کہ شاعرانہ استعارے مستعار لیں تو ہم تاریخ کی اس عظیم الشان بادیہ پیمائی کو صبا رفتاری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ اقبال بھی جیساکہ معلوم ہے اس صبا رفتار زمانے کا ہم سفر تھا اس میں دو ایک عام انسان میں بس اتنا فرق ہے ک عام انسان حالات کے ساتھ بہے چلا جاتا ہے اور اقبال جس مقام پر کھڑا تھا وہاں پہنچ کر انسان حالات کا بہائو بدل دیتا ہے۔ اقبال خواص میں سے تھے اوریہ خواص ان معنوں میں نہیں جو ہمارے ہاں مستعمل ہیں یا جنہیں دنیوی اعزازات کی پچ لگی ہوتی ہے‘ بلکہ خواص سے مراد یہاں وہ داعی الی الحق ہیںجنہیں قدرت کا بے ساختہ ہاتھ صدیوں کی کشاکش کے بعد تراشتا ہے اور یوں تو سب کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میںوہ سب ک لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اور ان کی مثال اس چاند کی سی ہوتی ہے جو ستاروں کے جھرمٹ میں کائنات کی پیشانی کو جگمگا دیتا ہے: عمر ھا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تاز بزم عشق ایک دانائے راز آید بروں اقبال کے بارے میں دو باتیں خاص طور پر توجہ کی مستحق ہی ۔جو عموماً کبھی اعتراض کے طور پر اور کبھی سوال کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہیں: 1 اول یہ کہ اقبال نے اس فضا میں اس ادا کے ساتھ اسلام کیوں پیش کیا؟ 2 دوم یہ کہ ان کے علم کو ان کے عمل سے کس حد تک تعلق رہا ہے؟ یہ دونوں سوال یا اعتراض کسی حد تک اہم بھی ہیں۔ اور اساسی بھی۔ جہاں تک بحث و نظر کا تعلق ہے ان پر تشریحی خطوط کی ایک خاصی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ لیکن اجمال یہ ہے کہ اقبال کی اسلام سے شیفتگی کا باعث یوں تو کئی وجوہ تھے لیکن نظرمیں تبدیلی کا باعث خود معاشرہ انسانی کا ہمہ گیر کرب تھا۔ یورپ سے براہ راست مشاہدے نے ان کی کائنات ذہنی کے ہر گوشے کو جھنجھوڑا۔ اور یورپی تہذیب کا وہ طنطنہ جو غیر ملکی حاکمیت کے باعث ہمارے ملک میں قائم ہو چکا تھا‘ اسے ذاتی مشاہدے میں محض غازہ و رخسار نظر آیا۔ جہا ں تک روح دل اور دماغ کا تعلق تھا اقبال نے محسوس کیا کہ یورپ کا تہذیبی رعب اٹھ گیا اور وہ سمجھ گئے کہ اس کی ہما ہمی واضح اخلاقی اساس نہ ہونے کے باعث قریب الختم ہے۔ چنانچہ ان کے بیشتر شعر ایسے ہیں جن میں یورپ کو ایک ویرانہ غیر آباد کہا گیا ہے ۔ ع فرنگ دل کی خرابی ‘ نظر کی رنجوری یہی مغربی مشاہدات تھے جن کی تلخیوں نے اقبال کو اسلام سے قریب تر کر دیا بلکہ اسلام میں ڈبو دیا‘ اور جب انہوںنے سمجھا کی فی زمانا جس قدر بھی تصورات حیات درپیش ہیں ان کی اصل نفی پر ہے ثبات پر نہیں‘ اور اسلام اوامر و نواہی کا ایک ایسا ضابطہ ہے جس کی اثباتی قدریں سب کی ہمہ گیر اور سب سے اعلیٰ تر ہیں تو انہیں یقین ہو گیا کہ معاشرہ انسانی کے لیے بہترین نصب العین اسلام ہی ہو سکتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ ماضی میں مسلمان بادشاہتوں سے اسلام کو شدید خسارہ پہنچا ہے اور اب تک ان کے گہرے گھائو باقی ہیں۔ پھر جس ماحول میں انہوںنے اسلام پیش کرنا چاہا اور جن لوگوں کو خطاب کیا وہ حقیقت میں انتہائی سنگین مرحلہ جہد تھا۔ دوسری قوموں کو تو خیر اس کی بنا پر ان کا پیام مذہبی نظر آیا کہ وہ غیر مذاہب سے تھیں‘ اور پھر مذہب کا جو تصور یورپی سیاست کے باعث رواج پا چکا تھا ۔ وہ بدرجہ آخر مذموم تھا۔ مگر خود اپنوں نے بھی ان کے تصور حیات پر شروع شرو ع میں ماتھے پر شکن ڈال لی یا زیادہ سے زیادہ نغمہ و شعر کی جمالیاتی دلچسپی کا محور بنایا‘ لیکن جو کچھ اقبال پیش کر رہے تھے وہ عوام کی عقیدت کا مرجع تھا۔ مسلمانوں میں گو جذباتی لحاظ سے ہی سہی لیکن اسلام سے شغف ضرور تھا۔ وہ فکر اقبال کے گرد غیر شعوری طورپر جمع ہو گئے اور رفتہ رفتہ یہ ہو گیا کہ سب ان کے تخیل کی رو میں بہہ گئے۔ اب یہ حالت ہے کہ ہم اقبال کے کلام پر شعر کی حیثیت سے نظر نہیں ڈالتے بلکہ اس پر فکر کے لحاظ سے سوچتے ہیں۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنا مقام ترک نہیںکیا۔ اگر وہ یورپ کے دوسرے فلسفیوں کی طرح نئے نظریوں کی بنیادیں قائم کرنا چاہتا اورکچھ تصورات پیش کر کے اس کو مستقبل کی کارگہ علم کے سپرد کر دیتا تو ممکن ہے کہ فلسفے کی کتابوں میں اس کا کہیںنہ کہیں ذکر آ جاتا اور کچھ پیروئوں کی جماعت بھی فراہم ہو جاتی‘ لیکن اس نے اپنی عبقریت کو ایک آزمودہ فلسفے میں مدغم کر دیا: ایک جمات کو چن لیا اور ایک تحریک کو اپنا لیا۔ اس کا عمل صرف یہ ہے کہ اس نے ا س جماعت اور اس تحریک کی راہنمائی کی اور جان ہار قافلے کی ڈھارس بندھائی جو خود ا س کے الفاظ میں: ترس گئے تھے کسی مرد راہ داں کے لیے رہا یہ سوال کہ اس کے علم اور اس کے عمل میں تضاد کیوں ہے‘ تو یہ ایک ایسا سوال یہ ہے کہ جس کو سطحی نظرسے دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے ۔ یا تو ایسا کہنے والوں کے نزدیک عمل کے متعین معنی نہیں ہیں اور یا وہ عمل کو محض حرب و ضرب کی شعبدہ بازی سمجھتے ہیں حالانکہ عمل ہر زندگی میں ہوتا ہے سپاہی تلوار اٹھا کر عمل کرتا ہے۔ اور پیمبر قدم بڑھا کر عمل نے تا ر و پود بنتا ہے۔ اقبال کا عمل ا س کا علم تھا۔ اس نے ایک قوم کے لیے عمل کا بنیادی خط پیش کیا اور یہ بنیادی خط اس کا ایک عمل ہے جس کی آرایش و نمائش کے لیے عمر بھر اس کی روح‘ دل اور دماغ گھلتے رہے ہیں۔ پیر رومی کے ایک شعر کا خلاصہ ہے کہ درویش ریاضت نفس سے اپنی گودڑی بچاتا ہے اور عالم ریاضت دماغ سے زمانے کو بچاتا ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ ہماری آزادی کے قریب تر لانے اور اس جدوجہد کے جیتنے میں کس فرد نے کتنا حصہ لیا‘ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اقبال نے ہمارے اذہان بدل ڈالے اور ہمیں فکر کی اس شاہراہ پر لا کھڑا کیا جہاں سے عمل کی سوتیں پھوٹتی ہیں؟ اور یہ عمل ایک ایسا عمل ہے جو اس دورمیں تنہا اقبا ل کے علم میں نظر آتا ہے: خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے تب نظر آتی ہے اک مصرع تر کی صورت یہ تھے وہ الفاظ جو سر عبدالقادر نے مدیر ’’چٹان‘‘ سے اقبال کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہے۔ اس امر کے باوجود کہ وہ بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان کا کہن سال وجود مرحوم قاضی کی دل کا تصویر دکھائی دیتا ہے‘ ان کی زبان میں لٹک اور کھٹک کاکمال یہ اور جب وہ اقبا ل کا ذکر کر رہے تھے تو ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے اور بھی ان کی صحبت سے اٹھ کے آئے ہیں۔ جب راقم نے ان سے دریافت کیا کہ اقبال کی روح میں اسلام کے لیے اتنا گداز کیوں تھا؟ تو ماتھے پر ایک خوشگوار سی لہر دوڑ گئی اور بوڑھی آواز میں جوانی کا رس ملا کر فرمایا: ’’اس لیے کہ انہوں نے ماں کے دودھ ہی سے اسلام پیا تھا‘‘۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ ہفت روزہ ’’چٹان ‘‘ لاہور (اقبال نمبر) ‘ جلد نمبر 2‘ نمبر 15‘ 25اپریل 1949ء ص 11 ‘ 12۔ ’’اے ببلیو گرافی آف اقبال‘‘ مرتبہ کے ۔ اے ۔ وحید میں ص 4,12,14,16درج ہے جو بالکل غلط ہے ۔ ٭٭٭ کیف غم (یہ مضمون محمود نظامی (1) صاحب کی کتاب ’’ملفوظات اقبال ‘‘ سے لیا گیا ہے جو اشاعت منزل لاہور سے 1949ء میں شائع ہوئی) اقبال کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت اس کی ’’کیف غم‘‘ ہے اور یہی کیفیت مرحوم کے ذاتی خصائل میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی تھی۔ جو لوگ ان سے ملتے رہے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کی ظرافت اورہنسنے ہنسانے کی عادت کے ساتھ ان میں یہ عجیب وصف تھا کہ سنجیدگی اور متانت بیٹھے بیٹھے ظرافت پر غالب آ جاتی تھی اور چہرے پر یکایک غم آمیز اثرات نظر آتے تھے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے جیسے کوئی درد انگیز خیال دفعتہ دل میں آ گیا ہے۔ یہ رنگ ان کے اشعار میں بہ کثرت پایا جاتا ہے ار حقیقت یہ ہے کہ شارع کے کلام میں اثر گداز دل ہی سے پیدا ہوتا ہے غالب کا یہ شعر اس خیال کی ترجمانی کرتا ہے: حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی یہ نظریہ اقبال کے اس مصرع میں اس سے بھی بلند مقام پر پہنچ گیا ہے: ع عبادت چشم شاعر کی ہے ہر دم باوضو رہنا اقبال کے نزدیک شاعری میں غم کا عنصر شامل ہونا مشرقی شاعری کو مغربی شاعری سے ممیز کرنے والی صفت ہے ۔ انہوںنے کیا خوب کہا ہے: پیر مغاں فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں وہ ’’کیف غم‘‘ نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے یہی فرق مشرق اور مغرب کے اور فنون کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے اور خاص کو دونوں کی موسیقی میں زیادہ واضح ہے۔ مغربی موسیقی جذبات طرب کو ابھارنے کے لیے زیادہ موثر ہے اور مشرقی موسیقی میں عموماً جذبات غم کی تحریک زیادہ ہے۔ شعر سے رغبت کے ساتھ اقبال کو موسیقی کا بھی بہت شوق تھا۔ ان کو علم موسیقی سے گہری واقفیت پیدا کرنے کا تو موقع نہیںملا مگر ان کے موسیقی کی اچھی شناخت رکھتے تھے اور کوئی گاا ہو تو وہ اس سے ایسا لطف اٹھاتے تھے جیسے کوئی ماہر فن اٹھائے۔ قدرت نے خود کو انہیں بھی اچھا گلا عطا کیا ھتا اس لیے کبھی کبھی بے تکلف دوستوں کی محفل میں اپنا کلام ترنم سے پڑھتے تھے۔ جس سے اشعار کا لطف دوبالا ہو جاتا تھا وہ ہر بحر کے لے ایسی موزوں لے چن لیتے تھے کہ سنے والے مسحور ہو جاتے ۔ اس ترنم کے وقت ان پر اکثر غم کی حالت طاری ہوتی تھی اورسننے والے بھی اس سے اثر پذیر ہونے سے بچ نہیں سکتے تھے۔ جب انہوںنے بڑے مجمعوں اور قومی جلسوںمیں شریک ہونا شروع ہو گیا تو پہلے اپنا کلام تحت اللفظ سناتے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ لوگوں کو خبر ہو گئی کہ وہ خوش آہنگ بھی ہیں تو فرمائشیں ہونے لگیں کہ لے سے پڑھیں۔ دوستوں کے کہنے سننے سے وہ مان گئے پھر تو یہی چرچا ہو گیا۔ جب کبھی وہ تحت اللفظ پڑھنا لوگ انہیں ترنم پر مجبور کر دیں۔ لاہور کی مشہور تعلیمی انجمن ’’حمایت اسلام‘‘ کے سالانہ اجلاس اکثر ان کے کلام سے مستفید ہوتے تھے۔ پہلے پہل جب ان کا کلام ترنم سے وہاں سنا گیا تو کئی موزوں طبع طلبا او ربعض دوسرے شعرا کو شوق ہوا کہ ان کے ترنم کا تتبع کریں۔ اب جسے دیکھو وہ اپنا کلام اسی طرز ترنم سے پڑھ رہاہے۔ خواجہ دل محمد ایم اے جو اب اسلامیہ کالج میں ریاضیات کے پروفیسر ہیں اور شاعری میں بھی نام پیدا کر چکے ہیں‘ اس وقت طالب علم تھے اور اقبال کی آواز کا نمونہ پیش کرنے میںبہت کامیاب سمجھے جاتے تھے۔ اب بھی اکثر مجالس میں ان کی لے سننے میں آتی ہے مگر اس میں وہ ابتدائی رنگ باقی نہیں۔ ان دنوں دہلی کے شاہی خاندان کے ایک نامور فرد مرزا ارشد گورگانی (2)مرحوم زندہ تھے اور فیروز پور کے سرکاری مدرس میں فارسی پڑھانے پر مامو ر تھے۔ وہ بھی انجمن کے سالانہ جلسوں میں اپنی قومی نظمیں سنایا کرتے تھے جب بہت مقبول ہوتی تھیں۔ مرزاصاحب ہمیشہ تحت اللفظ پڑھتے تھے۔ انہوںنے اقبال کی روز افزوں مقبولیت کو دیکھ کر محسوس کیا کہ اقبال کی خوش آہنگی اس کی نظم کو پھر لگا رہی ہے اور اپنی نظم میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مصرع لکھا: نظم اقبالی نے ہر اک کو گویا کر دیا یہ بات تو درست تھی کہ بہت سے لوگ اقبال کو دیکھ کر ترنم پر آمادہ ہو گئے تھے مگر اس کی مقبولیت کی اصلی وجوہ اور تھیں جو اس وقت کے کلام میں بھی موجو د تھیں اور بعد کو زیادہ پختہ ہو گئیں۔ انجمن کا ایک اجلاس (3)جس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’شکوہ ‘‘ اپنے انداز خاص میں پڑھی‘ بہت لوگوں کو یاد ہو گاجب ’’کیف غم‘‘ کا سماں جلسے پر چھا گیا تھا۔ ان کے بہت سے مداح پھولوں سے جھولیاں بھر کر لائے تھے۔ اور جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان پر پھول برسا رہے تھے۔ اس وقت کی ایک اور بات خاص طور پر قابل دید تھی کہ اقبال کا معمر باپ اس کے سننے والوں میں موجود تھا۔ باپ کی آنکھوں میں بیٹے کی کامیابی دیکھ کر خوشی کے آنسو تھے مگر لبوں پر تاثیر کلام سے وہی علامات غم تھیں جو بیٹے نے باپ سے ورثے میں پائی تھی۔ اقبال کے والد ایک صوفی منش بزرگ ھتے مگر ان کا رنگ تصوف ایسا نہ تھا کہ ان کو زندگی کے روز مرہ فرائض بے بے پروا کر دے۔ ساری عمر اپنی دس انگلیوں کی محنت سے روزی کمائی۔ دل بہ یار دست بکار پر ان کا عمل تھا۔ دل خدا کی طرف اور ہاتھ کام پر لگے رہتے تھے۔ ایک عرصے تک اقبال اپنی نظمیں ترنم سے پڑھنے کے بعد فرمایشوں کی کثرت سے تنگ آ گئے اور انہوںنے یہ اصول اپنا لیا کہ کسی بڑے مجمعے میں ترنم سے نہیں پڑھیں گے۔ بہت سے شایقین کو سخت مایوسی ہوئی مگر مرحوم جب کوئی ایسا فیصلہ کر لیتے تھے تو اس پر قائم رہتے تھے۔ اس لیے ان کی وفات سے برسوں پہلے یہ معمول ہو گیا تھا کہ کسی جلسے میں اگر کسی جلسے میں وہ اپنا کلام پڑھیں تو تحت اللفظ پڑھتے تھے اوردوستوں میں بیٹھے ہوئے بھی ترنم پر بہ مشکل مایل ہوتے تھے۔ اخیر میں انہوں نے خاص صحبتوں میں بھی ترنم سے پڑھنا بند کر دیا تھا۔ اس عرصے میں ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے اور دو اور دوستوں کو ان کی نوائے درد انگیز سننے کا موقع ملا۔ وہ آواز اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ مجھے رہ رہ کر افسوس آتاہے کہ جس زمانے میں اقبال لے سے پڑھنے تھے اس وقت آواز کے ریکارڈ بنانے کا عام رواج نہ تھا اور کسی کو خیال نہ آیا کہ ان کے پڑھنے کی بے نظیر طرزکو مستقل طور پر مقید کر لیا جاتا‘ کیونکہ ایک خاص اثر ان کی آواز میں تھا جو سننے سے تعلق رکھتا تھا اور لفظوں میں بیان نہیںہو سکتا۔ جس موقعے کا میں نے ذکر کیا ہے اس کی تفصیل دلچسپ ہے۔ میں نے دیرینہ اور بے تکلف دوستی کی بنا پر وہ جسارت کی جس سے اقبال اپنا کلام اپنے خاص انداز میں سنانے پر مجبور ہو گئے۔ 1933ء میں سید سر عبدالرئوف (4)صاحب جو لاہور ک ہائی کورٹ کی ججی سے پنشن پا کر الہ آباد چلے گئے تھے‘ احباب سے ملنے کے لیی لاہو آئے اور جسٹس سید آغا حیدر (5)صاحب کے ہاں ٹھہرے۔ جب وہ لاہور میں تھے تو میرے او ر اقبال کے ان سے بہت مراسم تھے۔ ایک دن سید آغا حیدر صاحب نے مجھے اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کھانے کے بعد اقبال کی باتیں شرو ع ہوئیں تو سر عبدالرئوف نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ اقبال اپنی نظموں کو بڑے موثر انداز سے پڑھتا ہے۔ مگر افسوس کہ میں نے اتنے برس لاہور میں رہا اور اقبال سے ملاقات بھی رہی مگر مجھے ہمت نہ ہو ئی کہ میں فرمایش کرتا کہ اپنا کلام لے سے پڑ کر مجھے سنائیں۔ آغا صاحب نے کہا کہ میں اقبا ل سے ملنے جاتا ہوں تو مگر افسوس کہ آپ ایسے وقت میں لاہور آئے جب اقبال نے ترنم سے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ تم اقبال کے پرانے دوست ہو ‘ کوئی طریق بتائو جس سے ہم ان کا کلام ان کے پرانے انداز سے سن لیں۔۔ میں نے کہا کوشش کروں گا گو کامیابی یقینی کہی جاسکتی۔ تجویز ہی ہوئی کہ اقبال کو اور مجھے پھر کسی دن کھانے پر بلائیں گے مگر کسی اور کو نہ بلائیں اورکھانے کے بعد سید عبدالرئوف اقبال سے کہیں۔ اقبال ان کا ادب کرتے ہیں‘ شاید ان کی فرمائش کو نہ ٹالیں۔ اس قرارداد ک مطابق ہم چاروں ایک شب جمع ہوئے ۔ میں جانتا تھا کہ سید عبدالروف کے کہنے پر اقبال صا ف انکار تو نہیں کریں گے مگر غالباً یہ کہیں گے کہ مجھے اب اپنا کلام یاد نہیں ہے اور کوئی اشعا ر یاد بھی ہوں تو مسلسل یاد نہیں۔ ا س کا علاج میں نے پہلے ہی سو چ لیا تھا۔ میں گھر سے چلتے وقت ان کی اردو فارسی کتابیں اپنے ساتھ ایک کاغذ میں لپیٹ کر لے گیا تھا تاکہ اگر یہ عذر پیش ہو تو میں کتابیں پیش کر دوں۔ جب ہم سب کھانے سے فارغ ہوئے اور دوسرے کمرے میں جا کر بیٹھے تو سید عبدالرئوف نے بہت اچھے لفظوں میں اپنی آرزو بیان کی اور کہا کہ مجھے اس لطف سے محروم نہ رکھیے جو آپ کے اور دوست پہلے اٹھا چکے ہیں۔ اور یہ بھی کہا کہ میں بوڑھا آدمی ہوں معلوم نہیں پھر یہاں آئوں یا نہ آئوں۔ آپ سے یہ میری آخری درخواست ہے ۔ اس کا اقبال پر اچھا اثر ہوا مگر انہوںنے وہی عذر پیش کیا جس کی مجھے توقع تھی۔ میں اٹھ کر وہ کتابیں لے آیا اور ان ک یسامنے رکھ دیں۔ اب انہیں انکار کا راستہ نہ رہا اور طبیعت بھی کچھ مائل ہو گئی۔ انہوںنے پڑھنا شروع کیا۔ ان دونوں ججوں ک لیے تو خوش نوائی ایک نئی چیز تھی‘ میں جو پہلے سن چکا تھا میرے لیے بھی ایک گئی ہوئی نعمت واپس اائی ہم اس طرح جھوم جھوم کر سننے لگے کہ اقبال کو بھی مدت بعد اس طرح پڑھنے کا مزا آ گیا او ر ان کی طبیعت کی وہ خصوصیت بھی اپنا رنگ لائی ان کی آنکھوں میں آنسو تھے پڑھتے پڑھتے ان کے آنسو بہہ نکلے‘ پھر ہم کیا پتھر تھے کہ ہمارے آنسو تھمے رہتے۔ رات کو کوئی دس بجے جب اقبال نے پڑھنا شروع کیا۔ آدھی رات ہوئی تو ہم سب کو پتا چلا کہ اتنی دیر ہو چکی ہ۔۔ بادل نخواسہ پر کیف صحبت ختم کرنی پڑی۔ دونوں سید بہت ممنون ہوئے۔ اقبال کو ان کی دوستی کا بھی پاس تھا اورسادت کا بھی ۔ اقبال کو بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عقیدت تھی کہ وہ ہر سید کا احترام کرتے تھے جب ہم دونوں وہاں سے چلے تو اقبال نے شکایت کی کہ تم نے آج بری طرح مدت کا بندھا ہو ا معمول مجھ سے ترک کروا دیا۔ میں نے کہا کہ سید عبدالرئوف کا دلی شوق ایسا تھا کہ انہیںمحروم رکھنا ظلم تھا۔ اگر یہ بات آپ کے خلاف طبع ہوئی تو مجھے معاف کریں ۔ اقبال نے کہا میں بھی اسی خیال سے پڑھنے پر آمادہ ہو گیا مگر تمہیں اس شرط سے معافی ملتی ہے کہ کل پھر یا آئندہ مجھ سے ایسی فرمائش نہ ہو۔ کل کی تاکید اس لیے کی کہ یہ قرار پایا تھا کہ دوسرے دن شام کو ہم پھر ملیں گے۔ اور جب دونوں سید صاحبان نے پھر فرمائش کی تو مجھے ان کو بتانا پڑا کہ میرے او ر اقبال کے درمیان جو معاہدہ ہوچکا ہے اس کا پابند ہوں اور درخواست میں شریک نہیںہو سکتا۔ حیف کہ کچھ عرصے کے بعد گلے کی بیماری کی وجہ سے اس آوا ز کو ایسا صدمہ پہنچا کہ مرحوم اپنی آخری عمر کے سالوں میں معمولی بات چیت بھی بہت دھیمی آوازمیں کرت یتھے ۔ 1934ء میں جب میں لاہور سے روانہ انگلستان ہوا تو اقبال بیمار تھے۔ اسی بیماری کی وجہ سے وہ آکسفورڈ نہ آ سکے جہاں انہیں لیکچر کے لیے بلایا گیا تھا۔ اسی زمانے میں ہز ہائی نس نواب صاحب (6)بھوپال کو جو ان کے خاص قدردانوں میں سے تھے خیال آیا کہ ان کاعلاج معالجہ ہونا چاہیے انہیں اپنے ہاں بلا کر مہمان رکھا اور علاج بھی کرایا جس سے قدرے افاقہ ہوا او رگفتگو میں کچھ آسانی پیدا ہو گئی مگر گلا پورا درست نہ ہو سکا۔ میں 1937ء میں چند ماہ کی رخصت لے کر لاہور گیا تھا۔ غنیمت ہے کہ مرحوم سے دو آخری ملاقاتیں نصیب ہوئیں۔ ایک دن گیا تو وہ علیل تھے اور پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پاس چند جوان طلبا اور دو ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ لیٹے لیٹے مجھے گلے لگایا اور دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس کے چند روز بعد صحت کچھ بہتر ہوئی تو مجھے دوپہر کے کھانے پر بلایا اور میرے ساتھ کھانا کھایا۔ دو اور دوست بھی اس دعوت میں شریک تھے ۔ اس دن مزاج شگفتہ تھا۔ اور کئی باتوں میں پرانے زمانے کی جھلک نظر آتی تھی۔ مگر کیا معلوم تھا کہ میں انہیں آخری دفعہ دیکھ رہا ہوں او ر ان کی دلچسپ باتیں آخری دفعہ سن رہا ہوں ۔ ہم ’’کیف غم‘‘ کے لے ان کی آواز تو اب نہیں سن سکتے مگر ان کا کلام اس سے لبریز ہے اور اس کیف میں جوش زندگی ملا ہوا ہے۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ محمود نظامی‘ علامہ اقبال کے زبردست مداح تھے۔ ’’ملفوظات اقبال‘‘ علامہ اقبال کی خدمت میںموصوف کا نذرانہ عقید ت ہے۔ 2۔ مرزا عبدالغنی (ولادت : 1850ء وفات : 21فروری 1906ئ) بہت اچھے ادیب اور اعلیٰ پایے کے شاعر تھے۔ 3۔ ستائیسواں سالانہ جلسہ اپریل 1911ء ۔ 4۔ سید عبدالرئوف ہائی کورٹ کے جج تھے۔ ۔ آپ علامہ اقبال کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ 5۔ سید آغا حیدر مرحوم ہائی کورٹ کے جج تھے اور علامہ اقبال کے زبردست مداح۔ 6۔ جناب حمید اللہ خان۔ موصوف علامہ اقبال کے بڑے گہرے مراسم تھے۔ آپ نے علامہ اقبال کا پانچ سو روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر فرمایاتھا۔ ٭٭٭ اقبال فلسفی ‘ شاعراور مآل اندیش کی حیثیت سے (1) (آج سے چند ماہ پیشترپاکستان کے وزیر تعلیم آنریبل فضل الرحمن نے شیخ عبدالقاد ر سے اقبال کی شاعری کے چھ اہم پہلوئوں پر ایک لیکچروں کا سلسلہ مرتب کرنے کی فرمائش کی تھی۔ ابھی شیخ صاحب نے چند ہی لیکچروں کو مکمل کیا تھا کہ ان کی صحت پہلے سے بھی خرابہو گئی۔ ذیل کا مضمون ان کے ایک انگریزی لیکچر سے ترجمہ کیا گیا ہے جو ان کی آخری تحریروں میں سے ہے او ر اس لحاظ سے ایک تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ شیخ صاحب کے انتقال سے جہاں اور ناقابل تلافی نقصانات ہوئے ہیں ان میں سے ایک نقصان کسی طرح کم نہیں۔ شخ صاحب مرحوم علامہ اقبا کے سب سے پرانے احباب میں سے تھے اورانہوںنے بقول خود ستارہ اقبال کا طلوع دیکھا تھا۔ اگر وہ ان تمام لیکچروں کی تکمیل کر سکتے تو ہمارے ادب میں ہمارے قومی شاعر کی شاعری اور فکر کے بارے میں ایک گہرا اور سویع اندا زنظر شامل ہو جاتا جو ہماری آنے والے نسلوں کے لے مشعل راہ کاکام دیت‘ ذیل کے مضمون میںعلامہ اقبال کے بعض اشعار جو بطور حوالہ شیخ صاحب نے درج کیے تھے نہیںشامل کیے جا سکے کیونکہ مضمون کی جو نقل ہمارے پا س تھی اس میں وہ اشعار نہیں تھے۔ فطرت کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں ان کی موت کی اطلاع اسی دن موصول ہو ئی جس وقت بنیادی کمیٹی کو اقبال میموریل لیکچرار کی حیثیت سے ان کی نفسیاتی تعلیم کی توثیق کرنا تھی‘‘۔ (فضل الرحمان) اقبال اور ٹیگور (2) برصغیر ہند کے (جو اب پاکستان و ہندوستان کی دو سلطنتوں پر منقسم ہے) دو بڑے شعرا ہیں جن کی تاریخ کی شہرت دنیا میں گونج رہی ہے۔ دونوں نے اپنا مدعائے حیات پورا کیا اور مادر وطن کو اغیار کی نظروں میں ممتاز کیا دونوں کے دلوں میں محبت کے چشمے پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہے تھے جن کا وجود حسن فطرت کی محبت آرٹ کی محبت مادر وطن کی محبت اور سب سے بڑھ کر انسانیت کی محبت میں ظاہر ہوا۔ دونوں نے انسانیت کی خدمت ادب کے ذریعے سے کی اور اپنے ناظرین کے دلوں پر ہمیشہ قائم رہنے والے اثرات چھوڑے لیکن دونوں کا انداز بیان بالکل مختلف تھا۔ ٹیگور زمانہ قدیم کے رشیوں کی طرح عالم تفکر میں محو تھے اور اقبال اسلام کے فلسفے کے ترجمان کی حیثیت سے عمل کی تبلیغ میں مصروف تھے اس وقت ہمارا مقصد ان دونوں کا موازنہ نہیں بلکہ اقبال کو ایک شاعر فلسفی اور مآل اندیش کی حیثیت سے رکھنا ہے۔ اقبال کی غزل نگاری کا آغاز ان کی جائے پیدائش سیالکوٹ میں ہوا جہاں وہ طالب علم بھی رہے۔ وہ اپنی غزلیں حضرت داغ کے پاس بغرض اصلاح بھیجا کرتے تھے جو ااس وقت نظام دکن کے دربار میں ملک الشعرا تھے۔ داغ نے چند غزلیں دیکھتے ہی اقبال کے ہونہار مستقبل کی پیش گوئی کی اور ان کی و عظیم المرتبت شعرا میں یہ مختصڑ سی واقفیت دونوں کے لیے ہمیشہ باعث افتخار رہی۔ ایک مرتبہ جب حیدر آبا د میں مجھے داغ سے ملنے کا اتفاق ہوا تو انہوںنے مجھ سے کہا کہ انہیں اس بات پر ہمیشہ نا ز رہا کہ اقبال کو ہم اپنے شاگردوں میں شمار کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف جس قدر عقیدت اقبا ل کو داغ سے تھی اس کا اظہار انہوںنے داغ کی وفات پر اس پر درد طریق سے کیا: لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی ! تیری تفسیریں بہت (3) ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟ اٹھ گیا ناوک فگن ‘ مارے گا دل پر تیر کون؟ اقبا ل کی ابتدائی شاعری اسی روایتی اندا ز میں شروع ہوئی اور حسن و عشق کی کیفیات کے تذکرے انہی تسلیم شدہ اصطلاحوں اور استعاروں کے ذریعے ہوئے۔ جوںجوں ہمارے شاعر کی فطانت کامل تر ہوتی گئی ۔ روایت اصطلاحوں کے دائرہ معانی میں وسعت پیدا ہوتی گئی۔ لاہور آنے پر اقبال کے اردو شاعری کے متعلق خیالات بدلنے لگے ارو ان کی آرٹ ایک متعین مقصد اور پیغام سے لبریز ہوتا گیا۔ حسن فطرت کی عظمت ان کی نظم ’’ہمالہ‘‘ کی صورت میں رونما ہوئی۔ حسن فطرت کے مشاہدے سے قلب و نظر کے حسن تک پہنچنا ایک ہی جست کا کام تھا۔ اپنی نظم ’’وطن‘‘ میں شاعر کہتا ہے: پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے (4) اور پھر : ع سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا بھی تقریباً اسی وقت لکھی گئی اور وطن پرستی کے جذبات کی بناپر اسے جو ہر دل عزیزی حاصل ہوئی اس کی وہ یقینا مستحق ہے۔ غالباً یہ نظم ایک جرمن قوی گیت سے متاثر ہونے کے بعد لکھی گئی۔ اور اس میں کچھ حد تک میری اس استدعا کو بھی دخل تھا جو میں نے ان سے کی کہ اپنے ناظرین کو ایک ایسی چیز بھی دیجیے جسے قومی گیت بنایا جا سکے۔ دوسری نظم مسلمانان ہند کے التماس اور پیہم تقاضوں کی بناپر لکھی گء ہے جن کی خواہش یہ تھی کہ قومی گیت اسلام کے ہمہ گیر نصب العین کا ترجمان ہو۔ چنانچہ علامہ نے یہ گیت: چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا مسلم ہیں ہم‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا (5) لکھا اس سے یہ مراد نہ تھی کہ شاعر اپنے پہلے گیت کے عقیدے سے ہٹ چکاہے‘ بلکہ اپنے وطن پر جائز فخر کرتے ہوئے اس حقیقت کا بھی معترف ہے کہ مسلمان مشرق میں چین اور مغرب سے عرب سے اسلام کی ہمہ گیربرادری کے باوصف ایک گہرا تعلق محسوس کرتے ہیں۔ یہ دوسرا گیت ہندوستان ہمارا کی حدود سے بھی آگے جا چکاہے۔ میں نے اس کا ایک مصری ترجمہ دیکھا اور سننے میں آیاہے کہ مصری بچے اسے سکولو میں بھی گاتے ہیں۔ اقبال کی تصنیفات کو تین حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے اور پہلا دور 1895-1905تک تھا جب کہ انہوں نے فلسفے کے طالب علم کی حیثیت میں انگلستان جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کیمبرج گئے اور وہاں تصوف پر مقالہ لکھا۔ اور کیمبرج سے ڈگری حاصل کی۔ اس مقالے کا جرمن ترجمہ میونخ یونیورسٹی میں بھیجا گیا اور انہیں وہاں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی جرمنی سے ڈگری لینے کے یلے انہیں جرمن زبان سیکھنا پڑی اور وہاں چند ماہ کے قیام نے وسیع النظری اور افزائش علم میں مدد دی۔ پہلے دس سال کے کلام کو ’’بانگ درا‘‘ سے اس لیے تشبیہ دی کہ انہیںخوبیدہ قوم کو جگا کر تقی کے راستے پراپنے احسا کے ہمراہ گامزن کرنا مقصود تھا۔ ان نظموں میں زندگی کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور فارسی تراکیب کے استعمال میں کہیں کہیں غالب کا سا انداز ہے۔ ان میں سے ’’تصویر درد‘‘ اپنے سوز اور ’’شکوہ‘‘ خدا کی اپنی مخولق سے بے نیازی پر بے باک نکتہ چینی ’’خضر راہ‘‘ اپنے اشتراک رجحان خستہ حال مزدوروں کی حمایت اور سرمایہ پرستی کی مذمت کے سبب مشہور ہیں۔ والدہ محترمہ کی یادمیں شاعر کے اس عقیدے کی ترجمانی کرتی ہے کہ موت وحیات کی ایک منزل سے دوسری منزل کو جانا ہے یہ ممکن نہیں کہ ایک مختصر مضمون میں ان تمام نظموں کے اوصاف اور چیدہ چیدہ حصے پیش کیے جائیں ایک سرسری مطالعے کے بعد بھی اقبال کے پہلے دور کی شاعری کی وسعت اور حسن کا پتا چلتا ہے۔ یہاں تو بس اتنا کہہ دینا کافی ہے ک ان نظمو ں میں آندہ پختگی اور تنوع کی جھلک نظر آتی ہے۔ اقبا ل کا یورپ میں پہلا قیام تین برس رہا جب کہ انہوںنے بیرسٹری پاس کی اور کیمبرج کے اس وقت کے سالکان علم و ادب سے فیض حاصل کیا۔ ایک عجیب اتفا ق یہ ہے کہ ان کے قیام کے پہلے دو سال وہی تھے جب میں وہاں مقیم تھا۔ ہمیں ہندوستان میں بھی ایک دوسرے کی رفاقت میسر آ چکی تھی جب کہ میں ایک اخبار نویس تھا اور وہ ایک لیکچرار۔ اس زمانے میں ’’مخزن‘‘ نکال رہا تھا جس کے لے میں نثر لکھتا اور وہ نظمیں کہتے۔ انہیں یورپ جانے کا خیال بھی میرے وہاں جانے سے ہوا۔ جب میں نے انہیں اپنے ارادے سے مطلع کیاتوکہنے لگے کہ آ پ چلیے میں اپنے بڑے بھائی کو خط لکھ کر غیر ممالک میں تعلیم کے اخراجات کا بندوبست کروانے کے لیے کہوں گا۔ اس میں کچھ وقت لگ گیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مجھ سے ایک سال بعد ولایت گئے وہاں پروفیسر آرنلڈ بھی مقیم تھے جو بعد میں سر ٹامس آرنلڈ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ وہ لاہور میں بھی ان کے ’’فلاسر رہنما‘‘ اور ’’دوست‘‘ تھے اور ان سے انگلستان اور جرمنی میں بھی اسی طرح محبت اور ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ پروفیسر آرنلڈ کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا کہ اقبال ان کے شاگرد تھے۔ اقبال کا دو تین سالہ قیام ان کی زندگی اور ادب میں ایک موڑ ثابت ہوا۔ چنگاری بھڑک کر شعلہ بن گئی اور کیمبرج میں مشرقی گیتوں کے اس مطالعے نے ان کے دماغ پر یہ ثبت کر دیا کہ ان میں ہمیشہ رہنے والا جوہر ہے جسے صقیل کرنا مفید ہو گا‘ لیکن اس وقت انہوںنے یہ بھی بھانپ لیا کہ مشرقی افکار کو زمانے کی ضرورت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ان کی تشکیل از سر نو کرنا پڑے گی۔ اسی دوران میں مغربی معاشرت کے نقائص دیکھنے کا موقع ملا اور اس تہذیب کی زر پسندی اور کم ظرفی نے ا کی طبیعت کو متنفر کر دیا۔ ان خیالات کا اظہار قیام یور پ اور وہاں سے واپسی کے دوران میں لکھی ہوئی نظموں میں ہوا۔ یہاں سے ان کی شاعری کاتیسرا دور شروع ہوتاہے جن میں ان کی شہرہ آفاق مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ لکھی گئی۔ یہاں یہ بیا ن کرنا جملہ معترضہ ہو گا کہ اقبال نے اردو لکھتے لکھتے فارسی کی جانب کس طرح رجوع کیا۔ بظاہر ان کے فارسی کلام کا آغاز حسن اتفاق پر مبنی ہے۔ لندن میں ایک مرتبہ چند دوستوں کے ہاں اقبال ڈنر پر مدعو تھے ۔ یہاں ان سے یہ استفسار ہوا کہ کبھی انہوںے فارسی میں بھی کہا ہے؟ اور یہ سمجھایا گیا کہ فارسی زبان کے اس عبور اور کمال کے ہوتے ہوئے وہ فارسی میں نہایت عمدگی سے کہہ سکیں گے۔ اس سرسری گفتگو کا نتیجہ دو فارسی غزلوں کی صورت میںنمودار ہوا جو دوسرے روز اقبال نے مجھے دکھائیں۔ اس وقت ہم دونوںمیںکوئی قیاس نہ کر سکا کہ یہ دو چھوٹی سی غزلیں ’’اسرار خودی‘‘ کی تصنیف کا پیش خیمہ ہوں گی ۔ فارسی میں خودی کے معنی ذات کے ہوتے ہیں اور اقبال انسان کی علوی صلاحیتوں میں یقین واثق رکھتا ہے۔ اس کی نظر نے انسان کی ذات میں ارتقا کے ایسے ایسے امکانات مضمر پائے کہ ان کو عیاں کرنا اسے اپنا فرض محسوس ہونے لگا ۔ اقبال خودی اور ذات کو ان کے محدود تصور سے آزاد کرتاہے اور نہیں چاہتا کہ لوگ کم ظرفی اور تنگ نظری میں گرفتار ہوں اور محض اپنے ہی لیے جئیں۔ اس کی خواہش ہے کہ زن ومرد اپنی صلاحیتوں کے مطابق روحانی اورجسمانی طور پر اپنے کردار کے ارتقاکی تکمیل کر سکیں اور اس قوت کو سوسائٹی کے لیے استعمال کر یں تاکہ ان کی دنیا کمزوروں اور بے بسوں کی دنیا نہ رہے ۔ دوسرا نکتہ ’’رموز بے خودی‘‘ میں بیان ہواہے جس میں فرد کی تکمیل شخصیت کو رفاہ عام کے لیے استعمال کیے جانے کی تلقین ہے ان دو کتابوں کے چھپتے ہی اقبال کا نام مغربی دنیا میں جانا گیا۔ ٹیگو ر نے امریکہ‘ جاپان اور ایران کے طویل سفروں پر اور اپنی بنگالی نظموں کا خود نہایت خوب صورت انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بعد جو شہرت حاصل کی تھی اقبال نے وہ شہرت اردو نہ جاننے والی دنیا کو اپنے کلام سے روشناس کروانے کی کسی کوشش کے بغیر حاصل کی۔ یہ کام اس کے مداحوں کی محبت اور ہمت کامنتظر رہا۔ ڈاکٹر نکلسن نے ’’اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ کیا جس کا تعارف خود اقبال نے لکھا۔ یہ ترجمہ مغربی علماء میں بہت پسند کیا گیا۔ اقبال کے کلام میں سے چند اور ٹکڑے بھی ترجمہ کیے گئے ہیں لیکن اس کا پیغام ابھی بہتر اور کامل تر ترجمے کا منتظر ہے جو اسے ایسی دنیامیں جہاں اردو بولی یا سمجھی نہیں جاتی انگریزی یا دوسری زبانوں کے ذریعے متعارف کروائے۔ اقبال کی ایک اور فارسی تصنیف ’’پیام مشرق‘‘ ہے جس کی چند نظمیں انگریزی میں ترجمہ کی گئی ہیں یہ مشہور المانوی شاعر گوئٹے کے دیوان کا جواب ہے جو مشرقی شاعری کا مداح اور جس نے اپنے دیوان میں مشرقی تفکر اور اس کے طرز بیان کی تعریف کی ہے۔ اس کتاب کے پیش نظر لفظ میں اقبال نے اپنا اور گوئٹے کا موازنہ کرتے ہوئے کہا: او چمن زادے‘ چمن پروردہ من دمیدم از زمین مردہ اس تشبیہ نے ان دونوں کے ماحول میں میسر آنے والے مواقع کی تفاوت بین طور پر پیش کی ہے۔ گوئٹے کی فطانت کو پھولنے پھلنے کے موافق موقعے حاصل ہوئے۔ اقبال کا فن ہندوستان میں ایسے حالات کے نہ ہونے سے تشنہ رہا۔ اس کے باوجود بھی ’’پیام مشرق‘‘ سی کتاب کا معرض وجود میں آنا اقبال کی صلاحیتوں کو اور بھی نمایاں کرتا ہے۔ علامہ کی کتاب ’’زبور عجم‘‘ پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہودیوں کی کتا ب ’’زبور‘‘ سے اس کا مقابلہ بجا طور پر کیا گیا ہے‘ کیونکہ اس میں وہی سارا حسن اور روح افزا ترنم موجو دہے۔ یہ اقبا ل کی بہترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے ۔ ’’جاوید نامہ‘‘ ایک اور قابل ذکر کتاب ہے جو اول الذکر کتابوں کا پیغام زیادہ فصاحت سے دیتی ہے۔ یہ اس وقت لکھی گئی جب کہ قدرت نے شاعر کو ایک ہونہار بچہ عطا کیا جس کا نام جاوید (بمعنی ہمیشہ زندہ رہنے والا) رکھا گیا تھا۔ کتاب میں یوں تو عام پڑھنے والوں سے خطاب ہے لیکن چند ایک نظموں کا تخاطب اس ننھے بچے سے ہے۔ فارسی کی ایک اور نظم کا ذکر لازمی ہے جس کا عنوان قدرے ثقیل ہے : ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ اس مختصر نظم میں مشرقی اقوام کی مغربی استحکام کے تحت کمزور حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کا مقصد ان اقوام کو جھنجھوڑنا تھا اور اس کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نظم سے اقبال کی امتیازی وسعت نظر ظاہر ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے اقبال کو ’’شاعر مشرق‘‘ کہا جاتا ہے۔ جب اقبال نے اپنی توجہ فارسی شاعری کی طرف مبذول کی تو اس کے بہت سے مداحوں اور اردو کے دلدادگان کو افسوس ہوا۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس طرح اس کا پیغام بہت سے دوسرے ملکوں میں پہنچ جائے گا۔ اس سے التماس کیا گیا کہ وہ اردومیں چند اور نظمیں بھی لکھے جس کا خوش گوار نتیجہ یہ ہوا کہ آخری دنوں میں اقبال نے پھر اردو کی طرف توجہ دی ۔ ’’ضر ب کلیم‘‘ اور ’’بال جبریل‘‘ اسی دور کی تخلیق ہیں جن پر اردو بجا ناز کرتی ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ اقبال کی زندگی ہی میں مرتب ہو چکی تھی۔ 1938ء میں اس کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ عنوان کا مطلب ’’حجاز کا تحفہ‘‘ اور ’’حجاز کے لیے تحفہ‘‘ دونو ں ہی ہو سکتے ہیں۔ آخر الذکر اس طرح درست ہے کہ اقبال مزار نبویؐ کی زیارت کی دلی خواہش رکھتے تھے۔ لیکن طویل بیماری نے عمر کے باقی دن غضب کر لیے اور دل کی دل میں رہ گئی۔ یہ کتاب وہ تحفہ تھا جو شاعر حجاز کو پیش کرنا چاہتا تھا۔ پہلے معنی یوں ٹھیک معلوم ہوتے ہیں کہ ماضی کے مذہب کی طرف رجحانات اور حجاز کو مذہب کا مآخذ سمجھ کر اس کے متعلق احساسات اس کتاب میں خصوصیت سے قلم بند کیے گئے ہیں جس کا کچھ حصہ اردو میں ہے اور کچھ فارسی میں۔ اقبال کی تصنیفات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد جس میں اس کے فلسفہ حیات پر بھی طائرانہ نگاہ ڈالی گئی ہے۔ اب اس کے پیغام کو ذرا تفصیل سے دیکھنا چاہیے۔ اقبال قوت عمل کی تخلیق کی حمایت اور بے چارگی وبے بسی کی مذمت کرتا ہے۔ اس سلسلے میں کہا ہے (6)۔ بعض نقادوں کا خیال ہے کہ اقبال کے فلسفے کا یہ دور مشہور جرمن فلسفی نطشے (7)کے مطالعے سے شروع ہوا۔ بلاشبہ اقبال کی قوت و عمل کی تبلیغ اور کم ہمتی کی مذمت نطشے کے افکار سے ظاہری مشابہت رکھتی ہے بہت ممکن ہے کہ نطشے کے مطالعے کے دوران میں اقبال کو یہ خیال آیا ہو کہ مشرق کو قناعت کی خواب اور افیم اس مقدار میں دی جا چکی ہے کہ اب خواب غفلت سے جگانے کے لیے انہیں ایک تیر بہدف تریاق کی ضروریات ہے۔ لیکن یہ سوچنے کا کافی جواز ہے کہ وہ جرمن فلسفی سے کسی طرح مسحور نہیں ہو گیا۔ جہاں نطشے خدا سے منکر تھا وہاں اقبال کے فلسفہ حیات کا محرک ہی مذہب تھا۔ جس قوت کی وہ تبلیغ کرتا ہے اس کامصرف انسانیت کی خدمت سے خود نمائی اور جاہ پرستی نہیں۔ ایک فارسی شعر میںنطشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے: قلب او مومن‘ دماغش کافر است اس کی نظر میں نطشے کا مسلک ناکام ہے۔ جرمنی کے مصائب و مشکلات اس کے شاہد ہیں۔ اقبال جس قوت اور شعور کو عام کرنا چاہتا ہے اس کی وہ افادیت جو اس کی نظر میں تھی… ظاہر ہے کہ جس عشق کے گیت اقبا ل نے گائے وہی عظیم اور احسن جذبہ ہے جو تمام رہبران کامل کے سینوں میں موجزن رہا اور جس پر عمل کے لیے ایوبؑ کا صبر اور نوحؑ کی چشم دور بین چاہیے۔ اقبال چاہتا ہے کہ انسان نطشے کا فوق الانسان بننے کی بجائے کمال کو مہتائے نظر بنائے اور پھربنی نوع انسان کو صراط مستقیم پر گام زن کر دے۔ اقبال نے اپنے فلسفے کے اظہار کے لیے صوفیاکی اصطلاحیں استعمال کی ہیں گو اس کا اپنا تصوف مروجہ تصوف سے مختلف ہے۔ ’’اسرار خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے شایع ہونے پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ کیونکہ اقبال نے عوام کو حافظ شیراز کی شراب نغمہ سے خبردار رہنے کی تلقین کی تھی جس کے تار سے قوت عمل ضائع ہو جاتیہے ۔ ایک دوسرے ایڈیشن میں اقبال نے اصل کے بدلے بغیر نکتہ چینی کا انداز بدل دیا ۔ صوفیائے قدیم میں سے اقبال صرف جلال الدین رومی (8) مشہور نثنوی نویس کا معترف اور دلدادہ ہے ۔ اور اپنی فارسی تحریروں میں بھی اقبال نے رومی کا سا رنگ اختیار کیا ہے۔ رومی کو اقبال کا روحانی استاد کہا جاتا ہے گو وہ ہمارے وقت سے صدیوں پہلے گزرے ہیں۔ ایک نظم میں اقبال قیاس کے پر لگا کر پیر رومی کی رہبری میں جنت کی سیر کرتا ہوا بہت سے بزرگوں سے ملتا ہے اور استفسارات کرتا ہے جن کاوہ جواب بھی دیتے ہیں۔ یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ اس سفر کے آغاز میں پہلی روح جس سے اقبال دوچار ہوتا ہے ایک ہندو رشی ہے جس نے گلے میں مار سیاہ لپیٹ رکھا ہے اور سر پر سپید براق بالوں کا ہالہ ہے جس کی چمک رشی کی ہزار سالہ زندگی کی عقیدت اور اسرار حیات سے آشنا ہونے کی آئینہ دار ہے۔ وہ وشوامتر یا دنیا کادوست ہے اور رومی سے اس کے نوخیز دوست کے متعلق پوچھتا ہے ۔ جس کی آنکھوں میں حقیقی معنوں میں جینے کا شوق چمکتا ہے۔ تاہم ا س کا عزم محکم ہے اور شاہین کی مانند ہفت آسمان کے گر د اڑنا چاہتا ہے ۔ وشوامتر اس نوجوان مسافر کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اس سے اہل مشرق کا احوال پوچھتا ہے۔ اقبال جواب دیتا ہے کہ ان میں بیداری کے آثار ہویدا ہیں جس کے سبب وہ اس قدر لاچار اور بے بس ؤنہیں محسوس کرتے او ر نہ ہی اس قدر کاہلی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں نے ان کے موروثی حقوق ان پر عیاں کر دیے ہیں اور اس انکشادف سے ان کے دلوں میں ایک ولولہ پیدا کر دیا ہے۔ اب وہ مغربی بتوں کو پوجنے کے لیے تیار نہیں۔ اقبال پھر استدعا کرتے ہیں کہ وشوامتر کوئی پیغام دیں جس پر وہ پیغام عمل دیتے ہیں یعنی عمل اور حقیقت کا عشق۔ اس کے بعد دونوں ساتھی ایک اور بزرگ بھرتری ہری کو ملتے ہیں جس سے گزر کر وہ زرتشت سے جا ملتے ہیں جو اس وقت اہرمن کے ساتھ ایک اخلاقیاتی جنگ میں مصروف ہے اور کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔ اس کے بعد وہ ابلیس اور جبریل بدترین اور بہترین فرشتوں کا مکالمہ سنتے ہیں۔ دوسرا مشہور آدمی جو انہیں ملتا ہے نطشے ہے نطشے پوچھتا ہے کہ اقبال کس ملک و ملت سے ہے؟ اقبال کے جواب ’’ہندی‘‘ پر وہ ایک حقارت بھری نظر سے دیکھ کر کہتا ہے کہ تم ایک آرام طلب قوم ہو اور مزید کہتا ہے کہ جو قوم ایک عقاب کی مانند جفاکش نہیںوہ ختم ہو جاتی ہے۔ جس قوم کے امیر راتیں عشرت میں بسر کرتے ہیں جب ان کے غریب بھوکوں مر رہے ہوں وہ قوم کبھی زندہ نہیںرہ سکتی۔ قومیں حصول عزم اور اس تگ و دو میں مصروف رہ کر اور عیش و عشرت کو ترک کر کے ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ اس کے بعد ان کی ملاقات لینن (9)سے ہوتی ہے جو لوگوں کو مذہب کے آسرے سے محروم کر دینے کی غلطی پہچان کر اس پر متاسف ہے اور اس کے لبوں سے یہ پیش گوئی سنائی دیتی ہے کہ: شفق نہیں مغربی افق پر ‘ یہ جوئے خوں ہے‘ یہ جوئے خوں ہے طلوع فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہے فسانہ یہ شعر دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے سے پہلے لکھا گیا تھا لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان چھ برسوں میں بہنے والے خون کی ندی اقبال کی نظر کے سامنے تھی اور یہ اس کی نظموں میں کی ہوئی غیر مبہم پیش گوئیوں میں سے ایک ہے جیسے کہ آنے والے واقعات اسے مستقبل کی چلمن میں سے صاف نظر آ رہے ہوں۔ یوںہم اس کی زندگی کی اس منزل پر پہنچتے ہیں جہاں وہ فلسفی اور شاعر سے گزر کر ایک مآل اندیش بن گیا۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ ’’اوراق نو‘‘ عبدالقادر نمبر‘ ص 39 ‘ مارچ 1950ء 2۔ رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941)بنگلہ زبان کے شہرہ آفاق شاعر ‘ افسانہ نویس اور نوبل انعام یافتہ۔ 3۔ ’’بانگ درا ‘‘ ص 90۔ 4۔ ’’بانگ درا ‘‘ ص 88۔ 5۔ ’’بانگ درا‘‘ ص 172۔ 6۔ مضمون کی اس نقل میں جو ہمارے سامنے تھی ‘ اشعار کے لیے جگہ خالی چھوڑ دی گئی تھی اشعار نہیں تھے۔ 7۔ مشہور جرمن فلسفی (1844-1900)۔ ’’زرتشت‘‘ آپ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے ۔ 8۔ علامہ اقبال کے معنوی باپ اورپیرو مرشد۔ علامہ اقبال انہیں ’’پیررومی‘‘ کے خطاب سے یاد کرتے ہیں (1207-1273)۔ ’’مثنوی معنوی‘‘ آپ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے۔ 9۔ انقلاب روس کا بانی (ولادت : 22اپریل 1870ء ‘ وفات : 21 جنوری 1924ئ) ٭٭٭ ہم عصر شعرا پر اقبال کا اثر (شیخ عبدالقادر مرحوم نے مرض الموت سے کچھ عرصہ پہلے علامہ اقبال کے متعلق ایک کتاب لکھنی شروع کی تھی۔ جو ان کی طویل علالت کے باعث ناتمام رہ گئی۔ اصل کتاب انگریزی میں ہے اور اس میں علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف پہلوئوں پربحث کی گئی ہے)۔ 1940ء میں یوم اقبال کے سلسلے میں ایک جلسے کی صدارت قائد اعظم نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں قائد اعظم نے کہا: ’’اگر میری ؤزندگی میں ہندوستان میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی اور مجھے اپنے اعزاز کے انتخاب کا حق دیا گیا تو میں اسلامی ریاست کے نگران اعلیٰ بننے پر کلام اقبال کا مصنف بننے کو ترجیح دوں گا‘‘۔ ادیبوں اور شاعروں میں سے شاید ہی کسی نے اپنے زمانے کے ادیبوں کو اتنا زیادہ متاثر کیا ہو جتنا علامہ اقبال نے خصوصیت کے ساتھ ان لوگوں نے سب سے زیادہ اثر قبول کیا۔ جنہوں نے اردویا فارسی کو اپنے شاعرانہ خیالات کا اظہار بنایا۔ اردو ادب کو اقبال نے چند نئے نظریے دیے جو انہوںنے پہلی مرتبہ شعر کے لباس میں پیش کیے تھے ۔مثلاً خودی اس کا احساس اور ادراک اور احساس خودی کی تربیت و ترقی کی اہمیت چنانچہ اس دور کے نوجوان شعار نے اپنے شعر کی بنیاد انہی تصورات پر رکھی۔ اقبال کے زمانے میں ہندی شعرا بھی ان کے نظریات اور خیالات کے رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چونکہ مجھے رائج الوقت ہندوستانی زبانوں پر عبور حاصل نہیں اس لیے میں اس اثر کے حدود کا صحیح اندازہ کرنے سے قاصر ہوں۔ اگر یہ اثر محدود ہے تو اس کی ذمہ داری حقیقتاً اقبال کے ان مداحوں پر ہے جنہوںنے اپنے فرض کو اس حد تک پورانہیں کیا۔ وہ اقبال کے پیام کو کسی بین الاقوامی زبان میں منتقل کر کے بہت بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں اور اس طرح اقبال کا کلام ان طلبہ تک بھی پہنچ جاتا ہے جو اردو یافارسی سے واقف نہیں۔ اقبا ل کے ہمعصر ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی تصنیفات کا انگریزی میں ترجمہ کر کے نہ صرف اپنی نظموں کا صحیح حق ادا کر دیا بلکہ اپنے وطن کی شہرت کو بھی چار چاند لگا دیے اس طرح دنیا کے ہر گوشے میں طالب علموں تک ٹیگور کی نظمیں پہنچ گئیںَ اقبال کے اکثر احباب نے انہیںاس سلسلے میں رابندر ناتھ ٹیگور کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور کرنا چاہا مگر اقبال کو اس پر آمادہ کرنا آسان نہ تھا۔ خوش قسمتی سے ان کی بعض کتابوں کو نہایت ممتاز مترجم مل گئے۔ ان میں سے ان کی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا ترجمہ بھی ہے جو ان کے استاد اور کیمبرج یونیورسٹی کے سابق پروفیسر نکلسن نے کیا ہے۔ اس کے مقدمے میں ڈاکٹر نکلسن نے اس طویل نظم کی تعریف کی ہے اور اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار نہایت خلوص نیت کے ساتھ کیا ہے۔ ڈاکٹر نکلسن کے اس ترجمے نے امریکہ اور انگلستان کے لوگوں کو اقبال سے روشنا س کرایا۔ اقبال نے اپنے خیالات اور محسوسات کے اظہار کے لیے فارسی زبان کو منتخب کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایران عراق افغانستان ارو روس کے بعض علاقوں میں جہاں جہاں بھی فارسی بولی جاتی تھی وہاں کے ادبی حلقے اور ادیب اقبال سے واقف اور متعارف ہوئے اقبال کی بعض نظموں کا ترجمہ عربی زبان میں بھی ہوا۔ ان نظموں نے عربی بولنے والے مملالک مثلاً عرب‘ فلسطین ‘ مصر ‘ شام اور شمالی افریقہ کے ذہین اور صاحب ذوق حضرات کو متاثر کیا اور اس طرح ہمارے قومی شاعر کونمایاں اور ممتاز بین الاقوامی حیثیت حاصل ہو گئی۔ علامہ اقبال کے کلام کی یہ قدر اور ان کی عظمت کا یہ عالم گیر اعتراف خود ان کے لیے وجہ نازش ہے اور ان کے وطن اور قوم کے لیے مایہ صد افتخار ہے لیکن ان کی عظمت اور افضلیت دراصل اس اثر اور گہرے نقش میں مضمر ہے جو انہوںنے اپنے زمانے کے اردو ادیبوں اور شعرا کے ذہنوں پر چھوڑا ہے اس سلسلے میں ان کے دو چار ہم عصروں کا ذکر بے جا نہ ہو گا۔ ان کی شہرت اور ترقی کے ابتدائی دور میں ان کے دو ہم عصر نادر کاکوروی (2)اور سرور جہاں آبادی (3)بدقسمتی سے وہ معراج کمال تک پہنچنے سے قبل ہی ا س جہان کو چھوڑ گئے۔ ان کا کلام شایع ہو چکا ہے اور کافی مقبول بھی ہے ان دونوں کے کلام میں اقبال کے ابتدائی رنگ اور انداز کلام کی جھلک ملتی ہے۔ اقبال کے ایک اور ممتاز ہم عصر پنڈت چکبست لکھنوی (4)نے جو اقبال کے شعر کے بڑے مداحوں میں سے تھے لیکن ان کے کلام میں لکھنو کے مرثیہ گو شعرا کا رنگ ہے اور انہوںنے خصوصیت کے ساتھ انیس (6)کا تتبع کیا ہے۔ یوپی کے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی (7)نے ابتدا میں اقبال کا تتبع کیا اور ان کی ابتدائی نظموں میں بھی وہی طرز بیان اور انداز فکر ملتا ہے یہ چیز جوش کی مقبولیت اور کامیابی کی ضامن ثابت ہوئی لیکن بعد میں جوش کا اپنا انداز قائم ہو گیا جو رفتہ رفتہ مستحکم ہوتا چلا گیا۔ اب ان کا ایک مخصوص انداز ہے جس میں مادہ پرستی اور خلاف مذہب عناصر غالب ہیں۔ جنوبی ہند کے ادیبوں میں دو قابل ذکر ہیں ان میں ایک ممتاز شاعرہ بشیر النسا بشیر (8)ہیں چند سا ل پہلے مجھے حیدر آباد دکن میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ وہ اور ان کے شہور مجھ سے اور میری بیوی سے ملنے کے لیے آئے تھے اور ہم لوگوں کو اپنے ہاں کھانے چائے پر بھی مدعو کیا تھا۔ اقبال سے جو عقیدت اور ان کے کلام کی جو قدرو منزلت بشیر النساء کے دل میں ہے ا س کا اظہار انہوںنے اپنی چند نظموں میں کیا ہے۔ اس عقیدت اور محبت کا اظہار انہوںنے ایک نہایت دل کش اور لطیف انداز میں کیا ہے۔ یعنی جب ہم لوگ چائے پی کر واپس لوٹنے لگے تو انہوںنے چنبیلی کی نازک نازک کلیوں کے دو ہار ہمیں پیش کیے جن کی خوشبو نے ہمیں حیدر آباد سے لے کر لاہور تک مسرور اور مسحور رکھا۔ ایک اور شاعر ڈاکٹر عباس علی (9) ہیں۔ ان کا تعلق بھی دکن سے ہے۔ ان کا پیشہ طبابت ہے لیکن انہوںنے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو اقبال کے ا ن نظریوں کی تبلیغ کی خاطر وقف کر دیا ہے جو ’’اسرار خودی‘‘ میں پیش کیے گئے ہیں۔ عباس علی بڑی دلکش اردو اور فارسی لکھتے ہیں۔ ان کی ایک نظم ’’تقدیر امم‘‘ طباعت کے لیے بالکل تیار ہے کتاب کا نام اقبال کے اس مشہور شعر سے اخذ کیا گیا ہے: میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول‘ طائوس و رباب آخر دور جدیدکے ایک اور ادیب آغاصادق حسین ہیں جن کی نظموں کے انتخاب کا مسودہ اس وقت میرے سامنے ہے۔ یہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں مشرقی زبانوں کے پروفیسر ہیں ۔ انہیں اقبال سے والہانہ عقیدت ہے یہ بھی شاعر اعظم کے نظریوں کی تبلیغ کرتے ہیں لیکن اقبال کے انداز سے ذرا ہٹ کر۔ اقبال اور ٹیگور کا میدان ایک دوسرے سے کئی لحاظ سے مختلف تھا لیکن ان دونوں کے درمیان ایک رابطہ تھا۔ وہ ایک دوسرے کو بے حد قدر کی نگا ہ سے دیکھتے تھے اقبال کی وفات پر ٹیگور نے ان الفاظ میں اظہار کیا: ’’سر محمد اقبال کی وفات نے ہمارے ملک میں ادب میں ایک ایسا خلا پید ا کر دیا ہے جس کی تشبیہہ ہم ایک خوف ناک زخم سے دے سکتے ہیں اس کے اندمال کے لیے ایک مدت مدید چاہیے۔ اس دنیا میں ہندوستان کا مقام نہات محدود و مختصر ہے کہ اس کی ادبی ؤزندگی میںہمیشہ ایک ایسے شاعر کی کمی جو بین الاقوامی شہرت کا مالک تھا ‘ ملک کا ناقابل تلافی نقصان ہے‘‘۔ اقبال نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام نامور اور مشور شعرا سے خراج تحسین حاصل کیاہے۔ ان میں خود اقبال کے استاد داغ دہلوی بھی شامل ہیں۔ جو حیدر آباد کے شاہی دربار کے شاعر اور نظام دکن کے استاد تھے ان کے علاوہ حضرت اکبر الہ آبادی اوربیسیوں دوسرے ممتاز ادیبوں اور شاعروںنے اقبال کا خراج تحسین پیش کیا۔ جوں جوں اقبال کی نظمیںعام ہوتی جاتی تھیں ان کی شہرت اور ہر دلعزیزی میںاضافہ ہوتا جاتا تھا مولانا شبلی نعمانی بھی اقبال کے مداحوں میں سے تھے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی (10)کو اقبال سے بڑی محبت تھی۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ مولانا گیلانی نے اقبال کے متعلق جو الفاظ کہے ان سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی نگاہ میں اقبال کا کیا مقام تھا: ’’اہل دل کی نظر میں اقبال پیغام بر ہے۔ جو کائنات کے لیے خصوصی پیغام لے کر آیا لیکن اسے پیغمبر نہیںکہا جا سکتا‘‘۔ اقبال کے دوسرے مداحوں میں قابل ذکر شخصیت سر راس مسعود کی ہے۔ سر سید احمد (11)کے پوتے (12)تھے ۔ اقبال کی بہت سی نظمیںاس زمانے کی تصنیف ہیں جب وہ بھوپال میں سر راس مسعود کے ہاں مقیم تھے ۔ راس مسعود نے اقبال کی بہت سی نظموں کو ترجمہ نہایت دل کش انگریزی زبان میں کیا تھا۔ دو معروف سکھ ادیب سر جوگندر سنگھ آنجہانی ار سردار امرائو سنگھ مجیٹھوی ہیںجو اقبال سے متاثر ہیں۔ سر جوگندر سنگھ ادبی حلقوں میں اپنے تخلص ’’جوگی‘‘ سے مشہور ہیں۔ امرائو سنگھ مجیٹھوی آج کل شملے میںمقیم ہیں۔ انہوںنے بھی اقبال کی کئی نظموں کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ اقبا ل کی بیسیوں تصویریں ان کی البم کی زینت ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے کسی اور شاعر کا کلام اتنا نشر نہیں ہوتا جتنا اقبال کا۔ اس سے یہ انداز ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام اقبال اور اس کے کلام سے کتنی وابستگی رکھتے ہیں۔ اور عوام میں ا ن کا کلام کتنا مقبول ہے ۔ پاکستان کے عوام اقبال کو نظریہ پاکستان کا بانی سمجھتے ہیں جس کو دس سال کے بعد قائد اعظم نے اپنایا۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اقبال نے اپنے خطبہ صدارت میں اس نظریے کا اعلان کیا تھا۔ 1940ء میں یوم اقبال کے سلسلے میں ایک جلسے کی صدارت قائد اعظم نے کی۔ اپنی صدارتی تقریر میں قائد اعظم نے کہا تھا: ’’اگر میری زندگی میں ہندوستان میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی اور مجھے اپنے اعزاز کے انتخاب کا حق دیا گیا تومیں اسلامی ریاست کے نگران اعلیٰ بننے پر کلام اقبال کا مصنف بننے کو ترجیح دوں گا‘‘۔ کسی شاعر کی اس سے زیادہ تعریف و توصیف و تحسین ممکن نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اقبال اس تحسین کے مستحق بھی تھے۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ ماخوذ روزنامہ’’امروز‘‘ (اقبال نمبر) ‘ 22اپریل 1950ء ص 7۔ مرتب۔ 2۔ منشی نادر علی خان (1887ء ۔ 20اکتوبر 1912ئ)۔ رسالہ ’’ادیب‘‘ و ’’مخزن‘‘ کے محبوب قلمی معاون تھے۔ 3 ۔ درگا سہائے سرور (دسمبر 1873ء ۔ 3دسمبر 1910ء مشہور و معروف شاعر۔ 4۔ برج نارائج (1881ء ۔ 12 فروری 1926ئ) 5۔ میر ببر علی انیس (1801ء ۔ 1874ئ) بے نظیر مرثیہ گو۔ 6۔ مرزا سلامت علی دبیر (1803-1875)صاحب طرز مرثیہ گو۔ 7۔ شبیر حسین خان (ولادت 1894ئ) شاعر انقلاب ‘ صاحب طرز شاعر۔ ’’روح ادب‘‘ ’’نقش و نگار‘ ‘ ’’شعلہ و شبنم‘‘ ’’فکر و نشاط‘‘ ’’حرف و حکایت‘ ‘ اور’’یادوں کی برات‘‘ کے مصنف۔ 8۔ دکن کی کہنہ مشق اور واحد خاتون شاعرہ (ولادت 1915ئ) آپ کے مجموعہ کلام ’’آبگینہ گوہر‘‘ نے خاصی شہرت پائی۔ 9۔ حیدر آباد دکن کے مشہور طبیب ‘ معروف اردو و فارسی شاعر‘ علامہ اقبال کے زبردست مداح ہیں۔ 10۔ مشہور و معروف عالم دین (ولادت: 1894ء وفات : 5جون 1956) ۔ مصنف ’’تذکرہ ولی اللہ شاہ‘‘ وغیرہ۔ 11۔ ولادت : 17اکتوبر 1817ء وفات: 27مارچ 1898ئ۔ 12۔ جسٹس سید محمود کے صاحب زادے۔ وفات : 30جولائی 1937ئ۔ طلوع اقبال ( یہ مضمون مخزن شمارہ نمبر 4 اپریل 1950ء ص 219 تا 221میں شائع ہوا تھا اور اس سے پیشتر ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا)۔ شیخ عبدالقادر نے اقبال کی زندگی میں ان کے متعلق یہ الفاظ کہے تھے: ’’جب شیخ محمد اقبال کے والد بزرگوار اور ان کی پیاری ماں ان کا نام تجویزکر رہے ہوں گے تو قبولیت دعا کا وقت ہو گا اور ان کا دیا ہوا نام اپنے پورے معنوںمیںصحیح ثابت ہوا۔ جناب داغ اس بات پر فخرکرتے تھے کہ اقبا ل بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن کے کلام کی انہو ںنے اصلاح کی۔ مجھے دکن مین ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میں خود ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے ابتدائی مق کو چھوڑ کر اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ عرصہ پہلے شرو ع ہوتا ہے۔ شیخ محمد اقبال نے اپنی وہ نظم جس میں ہمالہ سے خطاب ہے ایک جلسے میں پڑھ کر سنائی۔ اس میں انگریزی خیالات تھے اور فارسی بندشیں۔ اس پر خوبی یہ کہ وطن پرستی کی چاشنی اس میں موجود تھی اس بات کو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میں نے رسالہ’’ مخزن‘‘ جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ میں نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ نئے رنگ کی نظمیں مجھے دیا کریں۔ (جب ) پہلا پرچہ شائع ہونے کو تھا تو میں نے کہا ’’وہ ہمالہ والی نظم دے دیجیے‘‘ انہیں خیال تھا کہ اس میں کچھ خامیاں ہیں مگر میں دیکھ چکا تھا کہ وہ نظم بہت مقبول ہوئی تھی اس لیے میں نے زبردستی وہ نظم ان سے (مخزن کے پہلے نمبر کے لیے) لے لی۔ اول اول جو نظمیں پڑھی جاتی تھیں وہ تحت اللفظ پڑھی جاتی تھیں اور اس طرز میں ایک بھی لطف تھا۔ مگر بعض دوستوں نے ایک مرتبہ جلسہ عام میںشیخ محمد اقبال سے بہ اصرار ترنم میں پڑھنے کو کہا۔ ان کی آواز قدرتاً بلند اور خوش آیند ہے ایسا سماں بندھا کہ سکوت کا عالم چھا گیا۔ پہلے تو صر ف خواص ہی ان کے کلام کے قدر دان تھے اب عوام بھی کھنچ آئے۔ (اب) جو سمھتے ہیں وہ بھی محو اور جو نہیں سمجھتے وہ بھی محو ہوتے ہیں‘‘۔ اقبال کے مرنے کے بعد شیخ صاحب نے انہیں یاد کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے: ’’میںنے ستارہ اقبال کا طلوع دیکھا اور چند ابتدائی منازل ترقی میں اقبال کا ہم نشین اور ہم سفر تھا۔ دو چار تصویریں اس ابتدائی دور کی پیش کرتا ہوں۔ لاہور میںایک ’’بزم مشاعرہ‘‘ بازار حکیماں میں حکیم امین الدین صاحب مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی۔ ایک شب اس بزم میں ایک نوجوان طالب علم اپنے چند ہم عصروںکے ساتھ شریک ہوا۔ اس نے ایک سادہ سی غزل پڑھی جس کا مقطع یہ تھا: شعر کہنا نہیں اقبال کو آتا لیکن آپ کہتے ہیں سخنور تو سخنور ہی سہی اس ’’سخنور ہی سہی‘‘ کی بے ساختگی اورپڑھنے کے بے ساختہ انداز سے سخن فہم سمجھ گئے اردو شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ نمودار ہوا ہے ۔ اسی غزل میں ایک شعر اور تھا جس کی سامعین نے بہت داد دی اور تقاضا کیا کہ اقبال صاحب اگلے مشاعرے میں بھی ضرور شامل ہوںَ وہ شعر یہ تھا: خوب سوجھی ہے‘ تہہ دام پھڑک جائوں گا میں چمن میں نہ رہوں گا تو مرے پر ہی سہی جب اقبال صاحب دوسرے مشاعرے میں آئے تو انہوںنے ایک اور غزل پڑھی جس کا یہ شعر بہت پسند کیا گیا: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے یہ تھا آغاز اس تدریجی ارتقا کا جو غزل گوئی سے ’’تصویر درد‘‘ اور ’’شکوہ‘‘ جیسی نظموں تک پہنچا اور ’’بانگ درا‘‘ کی منزلیں طے کرتا ہوں ’’اسرار خودی‘‘ اور ’’رموز بے خودی‘ اور ’’پیام مشرق‘‘ وغیرہ غیر فانی نظموں کے عروج پر پہنچا۔ اقبال کی پہلی نظمیں جس کارگاہ میں لکھی جاتی تھیں وہ اسی ’’بازار حکیماں‘‘ کے اختتام پر شہر کے بھاٹی دروازہ میں داخل ہوتے ہوئے دائیں ہاتھ کی دکانوں پر ایک چھوٹا سا بالاخانہ تھا جو سفر ولایت سے پہلے اقبال کا مسکن رہا۔ یہ مکان اب تک موجود ہے۔ گو افسوس ہے کہ اقبال کے مداحوں کی اتنی جماعتوں اور گروہوں میں سے کسی کو آج تک یہ توفیق نہیںہوئی کہ اس مکان کی ملکیت حاصل کر کے اسے آئندہ کے لیے قوم کے لیے محفوظ کر لیں تاکہ ہماری نئی پود جب اس عظیم الشان شاعر کی کتابوں کا مطالعہ کر کے اس کی زندگی کے حالات جاننے کی خواہش مند ہو تو اس مسکن کو بھی دیکھ سکے جہاں میں بیٹھ کر اقبال نے اپنے ادبی کام کا ایک معقول حصہ تصنیف کیا اور جس کے ساتھ اس کے متعلق کئی روایات و حکایات وابستہ ہیں۔ یہی وہ مکان ہے جس میں بیٹھ کر ’’اک مولوی صاحب کی کہانی سناتا ہوں‘‘ والی نظم لکھی گئی۔ وہ ایک صحیح واقعے کا صاف صاف بیان تھا جس سے شاعر کی عجیب اور پیچیدہ شخصیت پر بہت سی روشنی پڑتی ہے۔ جن دکانوں پر اقبال کا یہ مسکن تھاانہی پر ان کے مکان کی دوسری طرف ایک مولوی صاحب رہتے تھے جو ایک مقامی کالج میں پڑھاتے تھے انہیں حق مغفرت کرے‘ بہت نیک آدمی تھے اور درویشانہ زندگی بسر کرتے تھے وہ خود بھی بوڑھے نہ تھے‘ ادھیڑ عمر کے تھے مگر اقبا ل جوان تھا ۔ انہیں اقبال کی وہ متضاد صفات جن کا اس نظم میں تذکرہ ہے سمجھ میںنہیں آتی تھیں۔ انہوںںے کسی کے روبر و اظہار تعجب کیا۔ اس نے وہ بات اقبال کو سنا دی اور یہ اچھی خاصی تاریخی نظم ہو گئی۔ اقبال نے اسی تضاد کا ذکر اس شعر میں کیا ہے: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر نہیں‘ واللہ نہیں ہے یہ کچھ بناوٹ نہ تھی کہ یہ کہا گیا کہ بات بطور تمسخر نہیںکی گئی تھی۔ وہ وقت بہت دیر سے آیا جب اقبال نے خودی کی حقیقت سمجھی اور بیان کی اور اپنی خودی کا احساس ہوا اور جس نے درویشی اور قلندری کا درجہ عطا کر دیا۔ یہی وہ چھوٹا سا مکان جس کا میں نے ذکر کیا ہے ۔ میری اور اقبال کی بیشتر ملاقاتوں اور نشستوں کا مرکز تھا۔ وہ تین اور دوست بھی وہیں شام کو جمع ہو جاتے تھے جن میں دو ایک طالب علم تھے جو اس امید پر تھے ک اقبال سے کوئی نیا شعر سنیں گے اور نوٹ کر لیں گے۔ پنسل اور کاغذ تیار رہتا تھا اوروہ کہنے پر کمر باندھے ہوئے ہوتے تھے۔ اقبال کاایک ملازم علی بخش اوپر کی منزل میںچولھا گرم رکھتا تھا تاکہ اپنے مالک کا حقہ ساعت بہ ساعت تیار کر تا رہے۔ جب طبیعت شعرپر مائل ہوتی تو اقبال حقہ پیتے جاتے تھے اور شعر کہتے جاتے تھے۔ یہ دلچسپ صحبتیں بہت دیر تک رہیں ۔میں ان دنوں میں انگریزی اخبار نویسی کرتا تھا۔ کچھ عرصے سے رسالہ ’’مخزن‘‘ بھی جاری تھا جس میں اقبال کا تازہ کلام درج ہو جاتاتھا۔ اتنے میں سفر انگلستان کی ضرورت پیش آئی۔ میںنے اقبال سے ذکر کیا کہ میں انتظام سفر کر رہا ہوں اور عنقریب جائوں گا۔ اس سے اقبال کو بھی تحریک ہوئی اور وہ بھی وہاں پہنچیں۔ کہنے لگے:’’میں بھی بھائی کو لکھتا ہوں اگر وہ بندوبست کر سکے تو تمہارے جانے کے بعد ایک سال کے اندر بھی وہاں پہنچوں گا‘‘۔مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ۔ اتفاق حسنہ دیکھیے کہ ہم دونوںاپنے اس ارادے کی تکمیل کر سکے۔ جس سال میں وہاں گیا اس سے ٹھیک ایک سال بعد اقبال بھی پہنچے۔ پروفیسر آرنلڈ کی وہاں موجودگی اقبال کے لیے ایک خاص کشش رکھتی تھی۔ آرنلڈ صاحب ایک متبحر فلسفی اور اقبال کے شفیق استاد تھے۔ جو دو سال میرے اور اقبا ل کے انگلستان میں مشترک گزرے وہ بہت دلچسپ تھے۔ گو وہ کیمبرج میں رہے اور میںلندن میں تھا مگر ان سے ملنے کے موقعے بہت کم ملتے تھے ۔ وہ وقتاً فوقتاً لندن میں آتے رہے یا میرے مکان میںانہیںکمرہ مل جاتا تھا یا کسی پا س کے مکان میں۔ کبھی کبھی کیمبرج جا کر ان سے ملتا تھا۔ وہاں ان دنوں حیدر آباد کے مشہور عالم سید علی بلگرامی ملازمت سے پنشن پا کر یونیورسٹی میں مرہٹی زبان پر لیکچرار مقرر تھے اور مع اہل و اعیال بیٹھے رہتے تھے۔ اقبال اوقات فرصت میں وہاں جا بیٹھتے تھے۔ وہاں ہر وقت علم و فضل کا ہی چرچا تھا اور اقبال وہاں گھر کی طرح بے تکلف تھے۔ جب اقبال لندن میں آتے توبیرسٹری کے لیکچروں یا کھانوں کے لیے ہم دونوں مل کر جاتے۔ بعض علمی مجالس میں بھی اکٹھے شریک ہوتے تھے۔ ہمارے بعض احباب سانجھے تھے مگر اقبال کی طبیعت کی دو عادتیں وہاں زیادہ نمایاں ہوتی تھیں ۔ ایک تو ان کی کم آمیزی جس کااشارہ انہوں نے اپنے اشعار میں بھ کیا ہے ۔ بہت سے دوست نہیں بناتے تھے۔ دوسری عادت نقل و حرکت میں تساہل و تکاہل تھی۔ وہ کئی دفعہ کسی جگہ جانے کا وعدہ کرتے تھے اور پھر کہتے تھے بھئی کون جانے اس وقت تو کپڑے پہننے یا باہر جانے کو جی نہیںچاہتا۔ ہم انہیں ہنسی سے قطب از جا نہ جنبد کی کہاوت سنایا کرتے تھے۔ مگر لندن ایسی جگہ ہے جہاں کم آمیزوں کو بھی کسی سے ملنے کا وقت دینا پڑتاہے اور ملاقات کا وعدہ لے کر کہیںمنتظر ہونا پڑتا ہے کسی ایسی ہی ملاقات کا اشارہ اس شعر میں ہے: نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانا‘ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہو گا مجھے ایسے پروگرام کے مطابق اقبال سے ایک سا ل پہلے انگلستان چھوڑنا پڑا وہ میرے بعد آئے انہوںنے لاہور میں وکالت شروع کی میںنے دہلی میںَ دہلی سے آ کر میں لائل پور چلا گیا ۔ وہ لاہور میں ہی رہے کسی نے سچ کہا ہے: کہ روزی مے کند از ہم جدا یاران ہم دم را ٭٭٭ میر (1)کی واسواخت اور اقبال کا شکوہ (2) واسواخت کی تعریف ’’تاریخ ادب اردو ‘‘ میں یوں درج ہے کہ ’’واسواخت نظم کی وہ قسم ہے جس میں عاشق اپنے معشوق کی بے وفائی ظلم و ستم ‘ رقیب کے ساتھ بے جا محبت اور جدائی کی مصیبت و تکلیف کی شکایتیںکرتاہے۔ گویا معشوق کو دھمکاتا ہے کہ اگر ا س کا طرز تغافل اورستم شعاریاں اسی طرح باقی رہیں تو پھر اس کے ہاتھ سے عنان صبر چھوٹ جائے گی اور وہ معشوق سے علیحدگی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا‘‘۔ اس صورت میں ہم شکوہ اقبال کو واسواخت ہی قرار دے سکتے ہیں۔ ہرچند کہ اقبال کا مخاطب محبوب حقیقی ہے اوران کی شکوہ سنجی حدود و قیود سے بہت ہی کم آگے بڑھتی ہے لیکن نظم بنائو سنگار کے اعتبار سے واسواخت کے قریب ہے ۔ اسلوب اور لب و لہجہ بھی واسوخت نما ہے۔ جوش و خروش اور غیظ و غضب کا نقطہ عروج پر محسوس ہونے ہی نہیں دیتا کہ اقبال کا مخاطب کون ہے۔ من و تو کا حجاب اٹھ چکا ہے۔ وہ محبوب حقیقی کے حضور میں یوں بڑھ کر بات کرتے ہیں جیسے میر تقی میر اپنے گوشت پوست کے محبوب سے برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔ میر صاحب اردو واسوخت کے موجد تسلیم کیے جاتے ہیں یہ صنف بھی دوسری اصناف شاعری کی طرح فارسی سے اردومیں آئی ہے۔ اردو میںمیر میرا مانت علی اور جرات کی واسوختیں خاصے کی چیز سمجھی جاتی ہیں۔ کچھ غزل نما واسوختیں میر سوز اور قایم چاند پوری میں ملتی ہیں۔ میر کی واسوختیں بڑے پائے کی چیز ہیں اور ان کے مطالعے سے محسوس ہوتے ہے کہ دل کے پھپھولے پھوٹ کر بہہ نکلے ہیں۔ نیز میر تقی میر بحیثیت نظم گو بھی اسی قدر عظیم شاعر ہیں جس پائے کااظہار انہیں غزل گو مانا جاتا ہے۔ ہمارے نقادوں کی نگاہیںمیر کی غزلوں کے جلوئوں میں اس قدر الجھی رہیں کہ میر صاحب کی نظموں کی طرف کماحقہ نہ اٹھ سکیں۔ چنانچہ ان کی نظموں کی حقیقی قدر و منزلت کا جائزہ اب تک نہیںلیا جا سکتا ہے ۔ تھوڑے بہت جو اشارات ان کے قصاید اور مثنویوں کے متعلق ملتے ہیں وہ تنقیدی سے زیادہ تشریحی ہیں۔ کلیات میر میں ترکیب بند‘ نعت و منقبت‘ مدحیات و ستایشہائے گوناگوں ہجویات‘ واسوخت مثنویات ‘ شکار نامہ‘ مژنیویات جذبات عشق کے عنوانات کے تحت جو نظمیںدرج ہیں ان کا حجم غزلوں کے لگ بھگ ہے۔ مواد و اسلوب کے لحاظ سے خاصے کی چیز ہیں او ر ان کے مطالعے اور چھان چھٹک سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح میر کی غزلیں قدیم و جدید شعرا کی ذہنی تربیت کرتی رہی ہیں اسی طرح میر کی نظمیں بھی رسم و رہ منزل کی جانب اشارہ کرتی رہی ہیں اور قدیم و جدید شعرا میر صاحب کی غزل و نظم سے یکساں استفادہ کرتے رہے ہیں۔ میر صاحب کی نظموں سے استفادہ کرنے والوں میں علامہ اقبال کا نام بھی آتا ہے ۔ یہ دعویٰ ممکن ہے بادی النظر میں مضحکہ خیز نظر آئے لیکن شواہد اس امر کی غمازی کرتے ہیںکہ علامہ اقبال نے میر صاحب سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ خصوصاً واسوخت میر اور شکوہ اقبال میں حیرت انگیز یکسانیت پائی جاتی ہے۔ الفاظ کے در و بست کے ساتھ ہی خیال کی مناسبت تقابلی مطالعہ کرنے والوں کو یہ باور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ’’شکوہ‘‘ اور’’جواب شکوہ‘‘ لکھتے وقت اقبال کے پیش نظر میر کی واسوختیں رہی ہوں گی۔ واسوخت اور شکوہ فن اعتبار سے ایک ہی صنف ہے۔ میر صاحب نے خود بھی ایک جگہ واسوخت کو شکوے سے تعبیر کیاہے۔ میر نے چا ر واسوختیں لھی ہیں جو 72بندوں پر مشتمل ہیں ۔ شکوہ اقبال میں مخاطب کے اختلاف کے علاوہ فنی لحاظ سے دونوں کا تال سر یکساں ہے تمہید‘ بتدریج ارتقائ‘ اپنی وفاداری اور محبوب کی بے وفائی کا رونا غیظ و غضب کسی اور اسے لو لگانے کی دھمکی اور آخر میں سپر اداختن۔ شکوہ میں التزام کو اقبال نے قائم رکھا لیکن چونکہ محبوب مجازی کے بجائے محبوب حقیقی یا ذات باری تعالیٰ سے وہ مخاطب ہوئے ہیں اس لیے بجا طو ر پر احترام و تقدس اور آداب و القاب کو ملحوظ رکھا ہے۔ آپے سے باہر کم ہوئے ہیں اور کسی دوسرے معبود کی پرستش کے اظہار سے اغماز کیا ہے ک مبادا کفر و الحاد سے دامن آلودہ ہو جائے لیکن ہئیت کی گرفت اس قدر سخت تھی کہ کمال احتیاط کے باوجود دل کی بات زبان پر آتی ہی رہی اور فتوے لگ کر ہی رہے: رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر ٭٭٭ اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں ٭٭٭ پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی اپنے شیدائوں پہ یہ چشم غضب کیا معنی ٭٭٭ کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں‘ تو بھی تو ہرجائی ہے ٭٭٭ آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر (3) اقبال کے مذکورہ بالا اشعار کے تیور میں جارحانہ عشق کی جھلکیاں نمایاں ہیں۔ معشوق سے برہمی و بے زاری کا جذبہ شعلہ مستعجل بن کر رقص کرتا ہے۔ اقبال کے اس انداز تخاطب کے ساتھ ہی میر صاحب کے مندرجہ ذیل اشعار پڑھیے: روئے حرف اس کی طرف ‘ چشم حمایت اودھر ابرو اودھر کو جھکے‘ لطف و عنایت اودھر ٭٭٭ پرسش حال کا بھی مجھ کو نہ ممنوں رکھا ہے یہ خاطر کہ حزیں دل کے تئیں خوں رکھا ٭٭٭ چوٹ مجھ کو بھی تو غیروں کی ملاقات کی ہے چھوڑے یہ تو تو پھر آزردتی کس بات کی ہے ٭٭٭ آشنا جتنے ہیں بیگانے نکل جاویں گے سر جھکائے اسی کے اور چلے جاویں گے ٭٭٭ مجازی اور حقیقی محبوب کے اختلاف کے باوجود مذکورہ بالا اشعار میں میرو اقبال کی لے مل جاتی ہے۔ معنوی اعتبار سے وہ ایک دوسرے کے ضمیمے نظر آتے ہیں۔ مناسبت اور یکسانیت مضامین کی بہتر مثال میر و اقبال کے تمہیدی بند ہیں۔ میر کی واسوخت کے ابتدائی بند ملاحظہ کیجیے: طرز اے رشک چمن اب تری کچھ تازی ہے ساتھ غیروں کے مرے حق میں سخن بازی ہے داغ رکھنے کو مرے ا نہی سے گل بازی ہے ہمدمی ان سے انہی سب سے ہم آوازی ہے گوش کر میرے بھی شکوے کی طرف گل کے رنگ رکتے رکتے روش غنچہ ہوا ہوں دل تنگ ایک مدت ہوئی بدنامی و رسوائی ہے بے کسی‘ بے دلی‘ درویشی و تنہائی ہے صبح جب دی ہے دعا‘ گالی تری کھائی ہے ابتدا سے مری ذلت تجھے خوش آئی ہے خلق کیا کیا تری بے طوریوں سے کہتی نہیں میں بھی ناچار ہوں‘ اب منہ میں زباں رہتی نہیں علامہ اقبال شکوہ کی تمہید اس طرح باندھتے ہیں: کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں فکر فردا نہ کروں‘ محو غم دوش رہوں نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ہم نوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں جرات آموز مری تاب شخن ہے مجھ کو شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو ہے بجا شیوہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم ساز خاموش ہیں‘ فریاد سے معمور ہیں ہم نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم اے خدا! شکوہ ارباب وفا بھی سن لے خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے (4) معنوی اعتبار سے اقبال‘ میر صاحب سے جدا ہوتے ہوئے بھی لب و لہجہ کے سحر میں مسخرنظر آتے ہیں۔ الفاظ کے دروبست کا ہنر‘ جو میر کو آتا ہے‘ اقبا ل اس سے کماحقہ استفادہ کرتے ہیں۔ کیا مذکورہ بندوں کے مندرجہ ذیل مصرعے ایک ہی خیال کا ابلاغ نہیں کرتے؟ کیا اقبال میر کی پیروی کرتے نظر نہیںآتے: میر: میں بھی ناچار ہوں اب منہ میں زباں رہتی نہیں اقبال: قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبورہیں ہم نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم (ص 177) میر: گوش کر میرے بھی شکوے کی طرف گل کے رنگ اقبال: اے خدا شکوہ ارباب وفا بھی سن لے (ص 177) میر: ساتھ غیروں کے مرے حق میں سخن سازی ہے اقبال: جرات آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو (ص 177) میر صاحب مجبوب مجازی کو اس حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں اور ناز فرماتے ہوئے اس پر یہ جتاتے ہیں کہ یہ ان کے ذوق پرستش کا ہی کرشمہ ہے جس نے محبوب کی تخلیق کی ہے‘ اس میںادا و ناز پیدا کیا ہے۔ اس سے پہلے محبوبیت کے مفاہیم سے دنیا آشنا نہیںتھی اور نہ تیرے وجود میں کشش اور بانکپن کا ہی کسی نے یہ اندازہ لگایا تھا۔ ہرچند تیرا وجود تھا لیکن ابھی دنیا تیرے حسن پر شیدا ہونے کے طور طریقے سے ناواقف تھی۔ لہٰذا یہ میرا عظیم کارنامہ ہے کہ تجھے میں نے اس قدر پوجا کہ قابل عبادت بنایا۔ یہ تقدس‘ یہ بزرگی‘ یہ عظمت دراصل میرے دم سے ہے اور جملہ زیبائی اور جلوے کا خالق میں ہوں‘ مجھ سے پہلے کچھ نہ تھا اور نہ میرے بعد ہی کچھ ہو گا۔ ملاحظہ کیجیے: پیشتر ہم سے کوئی تیرا طلب گار نہ تھا ایک بھی نرگس بیمار کا بیمار نہ تھا جنس اچھی تھی‘ لیک خریدار نہ تھا ہم سوا کوئی تیرا رونق بازار نہ تھا کتنے سودائی جو تھے دل نہ لگا سکتے تھے آنکھیں یوں موند کے وے جی نہ جلا سکتے تھے علامہ اقبال کے ا س اچھوتے موضوع کو انتہائی حسین پیرائے میں بیان کرتے ہیںَ اس بند میں مضامین کی مناسبت کے ساتھ ساتھ طرز ادا میر سے مستعار لی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اور یہ بات ہے کہ تصور محبوت مابعدالطبیعیاتی ہونے کی وجہ سے تاثیر اور ذہنی تلمذات بدل جاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر کہیں مسجود تھے پتھر‘ کہیں معبود شجر خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟ قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا اور اس کے ساتھ کا یہ بند بھی ملاحظہ کیجیے اور میر کے مندرجہ بالا بند کے ساتھ ساتھ پڑھیے‘ میرکی آواز کی بازگشت صاف سنائی دے گی: کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی کس کی شمشیر جہانگیر و جہانداد ہوئی کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے اب دفتر شکایت کی یکسانیت ملاحظہ کیجیے۔ میر صاحب کو اپنی حرماں نصیبی و نارسائی کا اس قدر رنج نہیںکہ جس قدر محبوب کی بے وفائی اور اغیار آشنائی کا ہے۔ لہٰذا میر صاحب سرگوشیانہ لہجے میں کہتے ہیں لیکن انداز میں تیکھا پن اور ہلکا طنز ہے: تم کو بھی آٹھ پہر حرف و حکایت ان سے بازو جانو ہو انہیں‘ چشم حمایت ان سے شکر ان کا ہے‘ جو ہے بھی تو شکایت ان سے ہر طرح کوئی چلی جا ہے رعایت ان سے ہاتھ کاندھے پہ کبھو رکھ کے کھڑے ہوتے ہو کبھی منت کرو ٹک جو کڑے ہوتے ہو پاس ان کا ہے تمہیں‘ خاطر انہی کی منظور ان سے ملنے میں نہیں کرتے کسی طور قصور ان سے اک دن میں کئی بار ملاقات ضرور ان سے الگ بیٹھتے ہو بھاگتے ہو ہم سے دور جن کا شیوہ ہے حرمزدگی انہی سے صحبت بندگی کیشوں سے پرخاش‘ خدا کی قدرت! علامہ اقبال اپنی وفا کیشی اور محبوب حقیقی کی بے توجہی کا گلہ ادب و احترام سے کرتے ہیں‘ لیکن مضامین شکایت اور انداز بیان میر صاحب سے مختلف نہیں ہے۔ نیز اقبال کا یہ شکوہ چونکہ قومی اور اجتماعی واسوخت ہے۔ اس لیے میر جیسی تعمیم نہیں ہے: امتیں اور بھی ہیں ان میں گنہگار بھی ہیں عجز والے بھی ہیں مست مئے پندار بھی ہیں ان میں کاہل بھی ہیں غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر یہ شکایت نہیں‘ ہیں ان کے خزانے معمور نہیں محفل میں جنہیں بات بھی کرنے کا شعور قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں اور: طعن اغیار ہے ‘ رسوائی ہے‘ ناداری ہے کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے ؟ (5) خلاصہ تحریر یہ ہے کہ واسوخت اور شکوہ کی ہئیت میں تضاد نہیں ہے اور چونکہ ہیئت ‘ طرز ادا اور اسلوب ابلاغ کو بھی متعین کرتی ہے۔ اس لیے عام طور پر تمام شعرا کی واسوخت یکساں نظر آتی ہے۔ اور اگر وحدت خیال اور جذبات سوختہ کو دیکھا جائے تو درحقیقت ہر دل کی دہکتی ہوئی آگ کا رنگ یکساں ہوتا ہے۔ لہٰذا میر اور اقبال کے کلام کی مناسبت حیرت انگیز نہیںہے۔ دونوں بڑے شاعر ہیں اور ان کی واسوخت یا شکوہ میں جارحانہ عشق نقطہ عروج پر نظر آتاہے‘ حالانکہ اس مخصوص صنف سخن کے علاوہ یہ دونوں شاعر اپنی عشقیہ شاعری میں مرنجاں مرنج نظر آتے ہیں اور تسلیم و رضا‘ بندگی و اطاعت اور اددب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ بہرکیف اس حقیقت کا اعتراف بھی کر لیا جائے تو چنداں مضایقہ نہیں کہ علامہ اقبال نے میر صاحب کی واسوخت سے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے اور شکوہ اقبال اور جواب شکوہ میں آواز میر کی بازگشت ملتی ہے۔ ٭٭٭ حواشی 1۔ محمد تقی‘ نام میر تخلص (1722-1810) ۔ اردو کے سب سے بڑے شاعر۔ اردو شعرا کا سب سے پہلا تذکرہ ’’نکات الشعرا‘‘ آپ نے مرتب کیا۔ ’’کلیات میر‘‘ اور ’’ذکر میر‘‘ آپ کی قابل ذکر تصانیف ہیں۔ 2۔ روزنامہ ’’امروز ‘‘ (لاہور 4فروری 1957ء ص 4‘ ’’اے ببلیو گرافی آف اقبال ‘‘ مرتبہ کے ۔ اے ۔ وحید میں 24 فروری کی بجائے 11 فروری لکھا ہے جو غلط ہے۔ 3۔ ’’بانگ درا ‘ ‘ ص 181تا 184۔ 4۔ ’’بانگ درا ‘‘ ص 177۔ 5۔ ’’بانگ درا‘‘ ص 181‘ 182۔ ٭٭٭ ابلیس کی مجلس شوریٰ (سر شیخ عبدالقادر نے جناب محمد اشرف کی انگریزی تالیف "The Devil's Conference"(ابلیس کی مجلس شوریٰ) کا دیباچہ تحریر فرمایا ۔ یہ کتاب اردو ہائوس گجرات سے نومبر 1946ء میں شائع ہوئی ۔ مولف نے سر عبدالقادر کی اس ادیب اور ادب پروری کا اظہار یوں کیا: ’’ہز میجسٹی کی انڈیا کونسل کے سابق رکن سر شیخ عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لاء (جو کچھ عرصہ سے بے عمل اور بغیر روح جمعیت اقوام‘ جنیوا میں ہندوستان کے نمائندہ بھی رہے ہیں) نے میرے ترجمے پر شان دار تعارفی نوٹ لکھ کر جو گران بہا خدمت کی ہے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اپنے گہرے احساسات تشکر کا صحیح اظہار کر سکوں۔ عظیم فلسفی شاعر کے کلام پر سند اور خداداد قابلیت کے حامل مصنف سر شیخ عبدالقادر نے اپنا عالمانہ تعارفی نوٹ لکھ کر شاگردان تصورات اقبال پر عظیم احسان فرمایا ہے ۔ اس میں انہوں نے اقبال کی شاعری اور فلسفے کے اہم پہلوئوں پر تبصرہ فرما کر اقبال کے زندہ پیغام کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ فلسفی شاعر کی شاعری کی روح تک پہنچنے اور اس سے پوری طرح آشنا ہونے میں ان کا یہ تعارفی نوٹ اقبالیات کے شیدائیوں کے لیے بڑا ممد ثابت ہو گا‘‘۔ شیخ عبدالقادر کا یہ دیباچہ زیر نظر مجموعے کی اشاعت کے بعد مجھے دستیاب ہوا۔ اس کی افادیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوا کہ اسے ضمیمے کے طورپر آخرمیں شامل کر لیا جائے۔ (مرتب) ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم کی ایک نہایت سبق آموز اردو نظم کو ملک محمد اشرف نے "The Devil's Conference" کے عنوان سے بڑی کامیابی بے انگریزی میں منتقل کیا ہے۔ اردو میں نظم کا نام ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ ہے۔ لفظ ابلیس کا اطلاق قرآن حکیم میں خاص طور پر (عیار ترین Arch-Devil) شیطان پر ہوتا ہے۔ عربی میں اس کے لیے لفظ شیطان بھی مستعمل ہے جو انگریزی لفظ Satan کا متبادل ہے۔ نظم مین ابلیس کو اپنے پیروئوں کی مجلس شوریٰ منعقد کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ لوگ نیکی کی راہ سے ہٹانے اور بدی کی راہ پر لگانے کے لیے انسانوں کے ذہن پر اثر انداز ہونے کے سلسلے میں اپنی کامرانیوں یا ناکامیوں کی روداد سنانے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ابلیس کا آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کی داستان قرآن اور بائبل میں مشترک ہے اور اس نے بہت ساری قوموں اور خطوں کے ادب پر اپنا اثر چھوڑا ہے۔ انگریزی زبان میں ملٹن کی غیر معمولی استعداد نے اسے "Paradise Lost" کی صورت میںزندہ جاوید بنا دیا ہے۔ اقبال نے اسے اپنی اس چھوٹی سی خوب صورت نظم کی بنیاد قرآنی حکایت پر رکھی ہے۔ ملٹن کی نظم اور اس نظم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ "Paradise Lost"میں شیطان کا حوا کو ترغیب دلانا اور پھر آدم و حوا کا بہشت سے گرنے کے قصے کا ذکر ہے جب کہ اقبال کی نظم نیکی اور بدی کی قوتوں کے درمیان جدوجہد کے متعلق ہے جو از ل سے شروع ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ فاضل مترجم نے اقبال کی تحریروں کا گہرامطالعہ کیا ہے اور ان کے تخیل کو کافی سمویا ہوا ہے۔ ترجمے کے ساتھ قابل قدر ذاتی خیالات کا اضافہ کر کے انہوںنے قارئین تک اقبال کے پیغام کو پہنچانے کی سعی کی ہے۔ اپنے تحریر کردہ تعارفی نوٹ میں انہوںنے عظیم شاعر مشرق کو ذاتی خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اگرچہ مترجم ا س امر سے باخبر ہیں کہ اقبال کا پیغام دنیا اور خصوصاً مشرقی اقوام کے لیے ہے تاہم وہ بار بار ان کا نام ’’اسلام کے فلسفی شاعر‘‘ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ یہ بات یوں صحیح ہے کہ اقبال شاعر بھی ہیں اور فلسفی بھی۔ مزید برآں ان کے فلسفے کی بنیاد قرآن پر ہے اور ان کے ہاں اسلامی کتابوں کی بہت سی اصطلاحیں کئی جگہ استعمال کی گئی ہیں ۔ تاہم یہ خوبی ہمارے عظیم شاعر کی نگارشا ت سے ان کی آفاقیت جو ان کا طرہ امتیاز ہے نہیں چھینتی ۔ اقبا ل انسان کو عقیدتاً اشرف المخلوقات سمجھتے ہیںَ اس سچائی کو کسی طریق سے منظر عام پر لانے کے شائق ہیںَ اس نظم میں بھی مرکزی خیال یہی ہے۔ نظم اس نکتے پر ختم ہوتی ہے کہ شیطان کے ذہن میں خدشہ ہے کہ عالی مرتبت پیغمبر اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بالآخر اسے اور اس کے حواریوں کو شکست دیں گے۔ اقبال جیسی ہمہ گیر و ذہین و فطین شخصیت کو کسی ایک لقب سے یاد کرنا نہایت مشکل ہے تاہم ان تمام القاب سے جن سے ان کی شاعری کے مداح انہیںیاد کرتے ہیں میں شاعر مشرق کے لقب کو ترجیح دوں گا۔ اقبال جیسی مرق سے گہری شیفتگی اور مغریب کی مادیاتی تہذیب سے لاتعلقی‘ جو نفرت کی حد تک پہنچی ہوئی تھی اقبال کے پیش روئوں میں سے کوئی بھی نہیںرکھتا۔ وہ مغربی تہذیب کی مصنوعی کشش اوربیرونی نظر فریب حسن سے متاثر نہ تھے۔ اقبال کے مداحین میں اکثر یہ بحث رہی ہے کہ کیا وہ لازماً شاعر تھے یا فلسفی۔ ان میں سے کچھ اس خیال کے حامی ہیں کہ اقبال شاعر سے زیادہ مفکر اور فلسفی ہیںَ اور انہوںنے شعر کو اپنے تخیل کے اظہار کے لیے آسان ذریعہ تصور کیا ہے۔ یہ امر کافی دلچسپی کا حامل ہے کہ وہ خود بھی کچھ حد تک یہی رائے رکھتے تھے۔ انہوںنے بہت سے مواقع پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ انہوںنے خصوصی طور پر فن شاعری کا مطالعہ نہیںکیا۔ اور طریق اظہار سے زیادہ خیالات نے ان کی نظموں میں ان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ یہ اعلان اپنی حد تک صحیح ہے لیکن یہ اس حقیقت کا جھٹلا نہیںسکتا کہ قدرت اقبا ل کو ایک عظیم شاعر بنانا چاہتی تھی اور شاعری ہی ان کا اصل امتیاز ہے۔ اردو اور فارسی دونوں نظموں میں بحر کی روانی موسیقیت کی مخصوص خوبی اور اظہار تخیل کے لیے مناسب الفاظ کا انتخاب ان کی شاعرانہ فطانت کا مکمل ثبوت ہیں۔ ان کی نظموں میں جاری و ساری فلسفیانہ انداز و گہری مذہبی شیفتگی جو زندی کے پختہ ادوار کی شاعری کا طرہ امتیاز ہیں۔ اان کی خداداد طبع کی محض اضافی خصوصیات ہیں وہ فن برائے فن کے مسلک کے قائل نہ تھے بلکہ اپنے فن کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنی زور دار شاعری کے ذریعے اپنے زمانے کے نوجوانوں کے تخیل کو اعلیٰ تصورات اور بلند خیالات سے رفعت دینے میں کامیاب ہوئے۔ اس نظم میں ابلیس اور اس کے حواریوںکا ذکر ہے جو مردوںاور عورتوں کو نیکی کی راہ سے ہٹا کر بدی پر لگانے کے سلسلے میں بنی نوع انسان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا نے کی تجاویز سوچ رہے ہیں۔ شیطان اور اس کے ساتھی اپنی سرگرمیوں کی کامیابی یا ناکامی پر غور کرتے ہوئے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ افتتاحی تقریر میں ابلیس اپنے پیروئوں کو ان چالوں کے بارے میں بتاتا ہے جو اس نے خالق کائنات کے انسان کو پیدا کرنے اور اسے جنت کے فرشتوں میں اعلیٰ مقام دینے کے مقصد کو شکست دینے کے لیے بنائی ہیںَ نظم کے پہلے مصرع میں دنیا کو ’’عناصر کا قدیم کھیل‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ اہم الفاظ اقبال کے فن کے مخصوص رجحان کی خوب دلالت کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد ان نظم کے ذریعے اس دنیا کے وجود کے بارے میں مادی اور روحانی تصورات میں فرق واضح کرنا ہے۔ اقبال ابلیس کے منہ سے پرانے نظام ترتیبی کے خلاف نفرت آمیز الفاظ نکلو ا کر اور خالق کی مرضی سے اس کے وجود میں آنے کے عقیدے کی تضحیک سے یہ مقصد حاصل کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں اگر دوسرا نظریہ قبول کر لیا جائے تو ابلیس کے مقصد کے لیے مفید ہو گا۔ وہ یہ ہے کہ دنیا جواہر کے اتفاقیہ اجتماع سے وجود میں آئی اورعناصر کے لیے اپنے عمل ہی سے متشکل ہوئی۔ ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں رہنما اس دینی نظریے کو کہ کائنات رضائے الٰہی کا مظہر ہے اور اس نظام کی پیچیدگی وجود خالق کی نشاندہی کرتی ہے‘ رد کرتا ہے اور دنیا کو ’’عناصر کا کھیل‘‘ قرار دیتا ہے۔ وہ ’’کن فیکون‘‘ کے مسئلے کا طنزیہ ذکر کرتا ہے ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اقبال اسلامی بیانات کو خدائی احکام تصور کرتے ہوئے اپناتا ہے مندرجہ بالا نظریہ بہت سے مذاہب میں مشترک ہے ۔ خصوصی طورپر اسلامی اور عیسوی و حیوں (قرآن و انجیل) میں اس کا تذکرہ موجود ہے۔ قرٓان کی رو سے صحیح حکم کن فیکون تھا۔ حکم کا پہلا لفظ دو حروف ک اور ن پر مشتمل ہے جونظم کے پہلے بند کے آخرمیں آت ہیںَ اور اس حکم کی وضاحت کرتے ہیں جس نے اس نظام کائنات کو چلایا ۔ شیطان اس نظریے کا تمسخر اڑاتا ہے۔ اور کہتاہے کہ جس نے اس نظام کائنات کو چلایا شیطان اس نظریے کا تمسخر اڑاتا ہے ارو کہتا ہے کہ ک اور ن کی دنیا قرار دیا ہے۔ عنقریب اس کے ہاتھوں سے تباہ ہونے والی ہے۔ کیونہ اس کے کارندوں کی سازشو ں کے ذریعے دنیا اس نوبت پر آپہنچی ہے کہ کرہ ارض کے باسیوں میںزبردست تصادم اور آویزش ہے۔ نظم کے اگلے بند میں ابلیس انسانیت کو تباہ کرنے کی خاطر اپنے ان تمام طریقوں کا ذکر کرتا ہے جن سے وہ بے چینی اور تکالیف کو جنم دے رہا ہے۔ اس حقیقت کا ذہن میں رکھنا چاہیے کہ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کے بعد اور 1939ء کی جنگ سے پلے لکھی گئی ۔ اقبال نے 1914-1918 کی جنگ عظیم سے کئی سال پہلے یہ پیش گوئی کی تھی کہ جدید تہذیب خود کشی کرے گی۔ انہوں نے جو الفاظ استعمال کیے ا ن کا ترجمہ یہ ہے: تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی یہ بات پہلی جنگ عظیم میں سچ ثابت ہوئی اور اس جنگ نے جو ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اسے زیادہ شدت سے واضح کیا۔ مطلوب نتیجہ کے حصول کے لیے اپنے ان چار ذرائع کا ذکر کرتا ہے: (1) استعماریت (2) بے دینی (3) غربا میں تقدیر پر اندھا یقین (4) سرمایہ داریت شیطان کے لیے یہ بات مایہ فخر ہے کہ اس کی لگائی ہوئی آگ کو بجھانا ناممکن ہے ابلیس کی تقریر کے بعد پہلے رکن مجلس کی تقریر ہوتی ہے جس کا خلاصہ اگلے دو بندوں میں موجو د ہے۔ وہ اس تدبیر پر زور دیتا ہے کہ جس کے ذریعے شیطان کی جماعت غریبوں کو مسکنت کا اتنا درس دیتی ہے کہ وہ امتیاز انسانیت کھو دیتے ہیں۔ اس خیال کا اظہار شاعر نے مخصوص مصرع میں یوں کیا ہے: ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام شعر کے صحیح مفہوم سے آشنا ہونے کے لیے ’’دعا‘‘ (Prayer)اور ’’سیدھا کھڑ ا ہونا‘‘ کے بجائے اصل الفاظ نماز و قیام کا استعمال مفید ہو گا۔ جہاں "Prayer"کا لفظ عام طور پر اللہ تعالیٰ سے مخاطب التجائوں اور تعریفوں کے لیے استعمال ہوتا ہے وہاں اسلامی ادب میں نماز کا لفظ ان تمام حرکات (رکوع و سجود وغیرہ) پر بھی لاگو ہوتا ہے جو جزو نماز ہیں نماز قیام سے (جس کا مطلب سیدھا کھڑا ہوناہے) شرو ع ہوتی ہے۔ دوسرا مرحلہ رکوع کا ہے جس سے مراد گھٹنوں کے بل جھکنا ہے۔ اس کے بعد سجدہ ہوتا ہے جس میں پیشانی کو زمین پرلگایا جا سکتا ہے۔ اس عمل کو بار بار دہرانے سے ہی نماز وجود میں آتی ہے۔ ندادار کی نماز کو مستقلاً سجودی اور بے قیام قرار دے کر اقبا ل اپنے محبوب فلسفہ احتارم آدمی کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ صحیح اسلام کی رو سے وہ نماز صحیح نماز نہیں جس میں مستقلاً سجود ہی ہو اور قیام نہ ہو۔ دوسرا مشیر مداخلت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جدید جمہوریت کی افادیت مشکوک ہے وہ اسے تازہ فتنہ قرار دیتا ہے۔ پہلامشیر جواب دیتا ہے کہ یہ بھی در پردہ ملوکیت کی ایک صورت ہے۔ مشیر کی زبان سے شاعر ملوکیت کی بڑی صحیح تصریح کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ملوکیت کے لیے میر یا سلطان کی سرداری ضروری نہیں بلکہ ملوکیت (سامراجیت ) دوسرے کو اس کی مزدوری کے صلے سے محروم کرنے کا نام ہے۔ ٭٭٭ مکاتیب 1 جہاز مالدیویہ 17مئی 1904ء (1) پیارے اقبال… السلام علیکم! یاد تو آپ ضرور آتے ہی تھے مگر جہا ز پربہت یاد آئے۔ اس لیے کہ ایک عرصے سے یہ امید ہو گئی تھی کہ ہم دونوں اکٹھے سفر کریں گے۔ مگر میری اس عجلت کی تیار ی اور آ ک عزم کی تعویق دونں نے مل کر اس امید کا بے رحمی سے خون کر دیا۔ اب میں ہوں ور جہاز کوء رفیق نام کو نہیںَ یوں تو جہاز اب کے اس قدر پر ہے کہ بہت کم اتنا ہوا کرتاہے مگر اجنبیوں کا ایک مجمع ہے جن میں نہ کوئی مجھے پہچانتاہے نہ میں کسی کو۔ بمبئی کے دو دیسی جنٹلمین ہیں مگر ان میں ہم میں کیامناسبت فرماتے ہیں: یہ باجو بیٹھو باجو(یعنی اس طرف تشریف رکھیے) آج پون ذر ا جاستی ہے (یعنی آج ہوا ذر ا زیاد ہ ہے) کھدا عالم ٹھنڈی کہاں سے سرو ہو گی( یعنی خدا جانے ٹھنڈک کہاں سے شرو ع ہو) خیر کٹ رہی ہے۔ ہاں ہم تم دو ہوتے تو پھر سارا مجمع زیر قلم ہوتا۔ ایک ایک کے ریمارک ہوتے۔ کسی کی حالت پر تمہٰں رشک کرتے (ایسے بہت ہیں جن پر رشک ہو سکتا ہے) کسی پر بے اختیار ہنستے(کئی ایسی صورتیں ہیں جنہیںدیکھکر ہنسی آئی ہے) کسی غریب پر رو بھی دیتے۔ غرض مدتوں کی دلچسپی کا سرمایہاسی جہاز میں پیدا ہو جاتا اچھا اب یہ و ہو گیا جس طرح ہونا تھا۔ کوشش یہ چاہیے کہ آپ وہاں میرے ہوتے ضرور پہنچیں۔ ا س سے قیام انگلستان کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔ لیکن سست نہ ہو جانا۔ میں وہاں پہنچتے ہی پروفیسر آرنلڈ صاحب سے مشورہ کر کے آپ کو خط لکھوں گا۔ اگر اس ستمبر میں کسی صورت میں تیاری نہ ہو سکے تو آئندہ مئی میں ضرور چل دینا۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ موسم سب سے زیادہ اچھا اس سفر کے لیے ہے۔ وہاں بھی یہی زمانہ مزے کا ہوتا ہے او ر جہاز میں بھی اسی میں آرام رہتا ہے۔ اسی لیے مسافروں کی کثرت ہے۔ چنانچہ ایک اثر ایہ دیکھ لیجیے کہ مجھے اور دوسرے ہندوستانیوں کو باوجود سمندر سے ناآشنا ہونے کے اس وقت تک کسی قسم کی بیماری کا‘ جو سمندر سے مخصوص ہو احسا س نہیںَ برابر تین چار وقت کھاتے پیتے ہیں اور خوب ہضم کرتے ہیں۔ سمندرمیں سکو ن ہے جہاز اب تک نہایت مزے سے جا رہا ہے۔ رفتار میں اتنی حرکت معلوم نہیںہوتی جتنی ریل میں اسی سے دیکھ لو کہ یہ خطوط چلتے جہاز سے لکھتا رہتا ہوں اور جہاز ہے کہ ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ میری رائے میں طوفان وغیرہ کے زمانے میں یہ سفر ریل سے بدرجہا بہتر ہے۔ لوگ ا س سے خواہ مخواہ گھبراتے ہیں۔ ہاں چلتے وقت کی سنیے۔ اس وقت جو صدمہ گھر سے رخصت ہونے اور دوستوں سے بچھڑنے کا تھا اسے تو خیر ضبط کر لیا۔ مگر راستے میں میر صاحب نے (میر غلام بھیک صاحب نیرنگ (2)بی اے وکیل انبالہ ایڈیٹر) ایک غزل کے چند اشعار پڑھے جو یوں شرو ع ہوتی تھی: اللہ ترا نگہبان‘ پردیس جانے والے شیدائیوں سے اپنی آنکھیں چرانے والے اس سے رقت ہو گئی۔ محمد اکرام (3)(نائب مدیر مخزن) کو کہیے گا کہ یہ غزل جب آئے آپ کو دکھائے اور اگر آپ کا جی چاہے تو آپ بھی اس زمین میں کچھ لکھیے۔ اس وقت ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس کا نام ’’ابراہیم کی قربانی‘‘ ہے مگر اس کو پرانے واقعے سے کچھ واسطہ نہیں۔ یہ ابراہام کوئی بوٹر ہے مگر اس سے مجھے آپ کی وہ نظم یاد آئی جس میں آپ نے حضرت ابراہیمؑ کی تصویر الفا ظ میں کھینچی ہے۔ اللہ اسے جلد مکمل کر کے مجھے بھجوائیے۔ اب میں انگلستان میںآ بیٹھا آپ کی نظم کا ہر وقت بھوکا رہوں گا۔ اب جو کچھ تیار ہو ا س کی ایک کاپی مجھے بھجواتے رہیے۔ جوایسی چیزیں ہوں کہ مخخزن میںنہ جانے والی ہوں مثلاً کسی اور رسالے کے لیے ہوں ان کی بھی نقل مجھے پہنچ جائے میںآپ کی نظموں کے لیے مخزن کا دست نگر نہیںرہنا چاہتا۔ابوصاحب کو میرا سلام کہیے اور کہیے ک میری خاطر اتنی تکلیف کرنا وہ اپنے فرائض میں داخل کر لیں ۔ اس کا شکریہ میں یوں ادا کروں گا کہ جب اقبال ولایت میں میرے قبضے میں ہو گا اور ابو اس کے کلام کا منتظر ہو گا تو میں نقل بھیجاکروں گا۔ ابو صاحب کا سب سے آگے جا کے کھڑے رہنا اور چلتی گاڑی میں مجھ سے ہاتھ ملانا تادیر یاد رہے گا تقی شاہ (4)سے چلتی دفعہ ملنانہیںہوا مگر وہ کہیںبھول سکتے ہیںَ اگر کہیںموقع ہو تو انہیںسلام شوق پہنچا دیجیے۔ کل شام تک جہاز عدن پہنچے گا۔ وہاں سے یہ چٹھی روانہ ہو گی۔ عبدالقادر ٭٭٭ حواشی 1۔ خط مطبوعہ’’اخبار وطن‘‘ لاہور مورخہ 10 جون 1904ء ۔ نیز آج کل (دہلی ) مئی 1958ء ص 47-48۔ 2 ۔ سید غلام بھیک نیرنگ (ستمبر 1876ء اکتوبر 1952ء ’’مخزن‘‘ کے اولین قلمی معاون۔ آپ کی یادگار تصانیف ’’کلام نیرنگ‘‘ اور ’’غبار افق ‘‘ ہیں۔ 3۔ سابق ایڈیٹر ماہنامہ ’’انیس نسواں‘‘ دہلی و نائب مدیر ’’مخزن‘‘۔ 4۔ شمس العلما سید میر حسن کے صاحب زادے۔ ٭٭٭ 2 یکے دریا‘ نہ وے رابن پدید و نے کراں پیدا (1) درو اندیشہ حیراں‘ وہ سرگرداں خرد شیدا پیارے اقبال! آپ گزشتہ خط میں مجھے سمندر کی کیفیت پوچھتے ہیں۔ متحیر ہوں کہ کیا لکھوں۔ ہم لووں کو خدا نے ہندوستان جیسے وسیع براعظم کے اندرونی حصے میں سمندر کے صدہا میل کے فاصلے پر پیدا کیا ہے اور ہمیں عموماً ساحل سمندر کی سیر کے بھی مواقع کم ملتے ہیں۔ پس خدا کی مخلوقات کے ا س عجیب اور نہایت زبردست حصے کی کیفیت کا ذہن نشین ہونا جسے ہم لفظ بحر سے تعبیر کرتے ہیں بغیر جناب بحر کی زیارت کے ہمارے لیے ناممکن ہے۔ جب میں جہاز پر سوار ہوا تو ایک خاص کیفیت میرے قلب پر طاری تھی اور جوں جوں سمندر سے دور نکلتے گئے وہ زیادہ ہوتی گئی۔ سمندر کی ناپیداکنار سطح کا نظارہ طرح طرح کے خیالات دل میں پیدا کرتا تھا۔ الفاظ ان خیالات کی تصویر کیا کھینچ سکیں گے مگر خیر کوشش کرتا ہوں کہ ان جذبات دلی کو آپ کے روبرو کھول کے رکھ دوں اور آپ اپنی بے نظیر قوت متخیلہ سے کام لے کر وہ کیفیت اپنے اوپر وارد کر لیں۔ جن لوگوں کو علم سمندر کے متعلق جغرافیے کی کتابوں کی اصطلاحی تعریف اور نقشے کے نیلگوں رنگ سے لیا گیا ہے انہیں کیا معلوم کہ صانع حقیقی نے اپنی صنعت کاملہ کا کتنا پرزور نمونہ دن رات سائیں سائیں کرنے والے سمندر میں رکھ دیا ہے۔ دنیا میں کون سی طاقت ہے کہ جو اندازہ لگا سکتی ہے کہ صدہا میل کی لمبائی اور صدہامیل کی چوڑائی میں جو پانی پھیلا ہوا ہے اور جس کے عمق کا اندازہ عقل انساانی کے احاطے سے باہر ہے حم میں یا وزن میں کتنا ہے؟ کسے خبر ہے کہ اس کی گہرائیوں میں کیا کیا چھپا ہے اورکون کون سے اغراض اس کے وجود وابستہ ہیں۔ خشکی پر آپ ایک وسیع سے وسیع میدان میں کھڑے ہو کر دیکھیں کہیں نہ کہٰں آپ کی نظر رکے گی۔ اور کچھ نہیںتو کہیں کوئی ٹیلہ کہیں کوئی تعمیر کہیں کوئی درختوں کا جھنڈ‘ کہیں سبزہ ہیں ویرانہ نظارے کی یک رگی میں خلل انداز ہوں گے۔ مگر واہ رے سمندر‘ کنارے سے تھوڑی دور نکل جانے کے بعد جس وقت نظر دوڑائو جدھر نگاہ ڈالو جس طرف آنکھ پھیرو پانی کی ایک مسلسل سطح دکھائی دیتی ہے جہاز ہے کہ دن کوبھی چلتا ہے اور رات کو بھی ۔ اہل جہاز تھک کر سو جائیں مزدور باری باری آرام کر لیں مگر انجن ہے کہ چل رہا ہے اور راستہ طے ہوتا جاتاہے لیکن اگراس کا ثبوت چاہو اور کوئی نشان ڈھونڈو تو ندارد۔ وہی پانی کا ایک احاطہ جہاز کے گر د جو کل تھا وہی آج ہے جہاں تک حد نگاہ جاتی ہے خشکی کا نام و نشان نہیں ۔ بہت ہوا تو کبھی دور سے دوسرے جہاز کی دھندلی سی تصویر نظرآ گئی جیسے ایک بڑی تقطیع پر ایک باریک سا نقطہ ہو مگر یہ نسبت سمندر کے اس جزو سے کہی جا سکتی ہے۔ جو ایک وقت میں پیش نظر ہوتاہے کل کا تو کیا کہنا اس کا تو حساب ہی نہیں۔ میں نے جب پہلی مرتبہ سامنے سے ایک جہاز آتا ہوا دیکھا تو اور اس کی چھوٹائی پر اظہار تجعب یاتو ایک رفیق سفر جو پاس بیٹھا تھا کہنے لگا یہ آپ کا جہاز بھی تو انہیں اسی طرح چھوٹا نظر آتا ہو گا۔ بات تو اس نے ٹھیک کہی مگر ہم تو اپنے جہاز کو چھوٹے پیمانے پر ایک دنیا مانے ہوئے تھے۔ اس کا قول فوراً خاطر نشین نہیںہوا۔ خیال آیا کہ شاید وہ جہاز چھوٹا ہی ہو۔ اپنے جہاس کے افسر سے جو دوربین کے دوسرے سٹیمر کو دیکھ رہا تھا جا کر پوچھا کہ وہ جہاز کتنا بڑا ہے؟ اس نے کہا اسی کمپنی کا جہاز ہے دونوں قریب قریب یکساں ہیںَ اب تو یقین کرنا پڑا اور اس یقین کا نتیجہ تھا کہ یہ سلسلہ خیالات کہ کیا ہم سب مل کر فی الحقیقت اس دریائے ناپیدا کنار کی ہستی کے مقابلے میں ایک نقطے کی حیثیت رکھتے ہیں یا اس سے بھی کم؟ عقل سلیم نے آوا ز دی بیشک کیا ہندوستان کے گردن کش اور بالا دست حکمرانوں کا ایک گروہ کثیر بھی اسی نقطے میں آ گیا ؟ بلاشبہ۔ کیا ان کی سچی غم گسار بیبیاں جو حسن و جمال میں چندے آفتا ب ماہتاب تھیں اور جن کے باریک ریشمی کپڑے اپنی لپیٹ میں دم رفتار کء دلوں کو لے جاتے ہیں۔ وہ بھی اسی نقطے کا ایک جزو ہیں (اگر ریاضی دانوں کے مذہب کے خلاف ہم نقطے کا جزو کہنے کے مجاز ہیں) ہاں وہ بھی اسی میں شامل ہیں کیا ہندوستان کے وہ چیدہ چیدہ آدمی جن میں ہر ایک اپنی اپنی قوم میں یا باعتبار تجارت یا ثروت یا علم یا مرتبت امتیاز رکھتاہے اور جو اپنے خیال میں بڑی اونچی ہوا میں اڑتے ہیں ان کاشمار بھی اسی میں ہے؟ عقل نے خیال کی گو شمالی کی اور کہا کہ باولا ہو گیا ہے۔ جب ایک دفعہ کہہ دیا کہ یہ تمہار ا جہاز مع مسافروں اور مال و اسباب او رزر و جواہر کے سمندر کے مقابلے میں ایک نقطے سے بھی کم ہے جو تو تو ایک ایک جزو کا کیوں نام لیتا ہے؟ خیال (بے صبری سے) : تو گویا حضرت انسان خشکی پر بیٹھے یونہی اترایا کرتے ہیں۔ ان کی اصل ہستی اتنی ہی ہے۔ یہ تو غنیمت ہے کہ سمندر سکون میں ہے اور ہم مزے سے جا رہے ہیں لیکن اگر ذرا غصہ آ جائے اور جوش منہ کھول دے تو ہم سب ایک نوالہ بھی نہیں‘‘۔ عقل : اسمیں کیا کلام ہے ۔ ابھی تو وسط بحر میں ہو۔ کیامعلوم انجام سفر تک کیا پیش آئے‘‘۔ دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک اس شعر میں جو گہرے معنی غالب مرحوم نے بھر دیے ہیں ان کی حقیقت بھی پورے طور پر یہیں کھلتی ہے۔ موج کے دام کا تو یہیں مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور اس کے بیان کے لیے ’’صد کام نہنگ‘‘ سے بہتر الفاظ خیال میں نہیں آ سکتے ہم نے تو موج کو منہ کھولے دیکھا مگر ان لوگوں کو اکثر بحری سفر کا اتفاق ہوا ہے وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات ایک ایک لہر ایسی پر شور اور تند آتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑا نہنگ منہ کھولے ہوئے آ رہا ہے جو جہاز کو نگل جائے گا۔ پانی جہاز کے تختے سے بلند ہو کر اس کے دوسرے پار جا گرتا ہے۔ اور جہاز سے ٹکراجائے تو اس پر ایک شدید زلزلہ آ جاتا ہے ہمیں تو حسن اتفاق سے سمندر کی حالت سکون میںملا اور اسی لیے خیالات کی گنجائش تھی ورنہ گھبراہٹ میں سوائے خوف کے اور کیا خیال رہتا ہے۔ قطرے کا لفظ زبان سے نکلنا تھا کہ مجھے سعدی شیرازی کے دو شعر یاد آگئے۔ ہائے کیا لوگ تھے فرماتے ہیں: یکے قطرہ باراں ز ابرے چکید خجل شد چو پہنائے دریا بدید کہ جاے کہ دریاست من کیستم گر او ہست حقا کہ من نیستم کس طرح روز مرہ کے واقعات سے سبق حاصل کرتے تھے اور معمولی مشاہدات میں کیسے دفتر حکمت اور معرفت کے بند کر گئے ہیںَ لفظ دریا سے یہی سمندر تو مرا دہے ہمارے ہاں ندی نالوں کو تو دریا نہیںکہنا چاہیے قطرے پر واقعی دریا کے مشاہدے یا بھی اثر ہونا چاہیے کہ وہ اپنی ہستی کے ناچیز ہونے سے آگاہ ہو جائے۔ سمندر کا اثر انسان کے دل پر اگر اتنا بھی نہ ہو تو حیف ہے۔ سمندر کی وسعت سے موجودات کی وسعت کی طرف خیال دوڑتا ہے۔ اور جہاز اور اہل جہاز کی مجموعی ہستی کا پہنائے دریا کے مقابلے میں ہیچ ہونا یہ یقین دلاتا ہے کہ انسان باوجود اپنی ساری لن ترانیوں کے ہیچ ہے۔ یہ انکسار طبع انسانی کے لے اکسیرکا حکم رکھتا ہے اور غرو ر و تکبر کے مرض کا علاج ہے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہمت اور تدبیر میں کمی آ جائے ہمت اور تدبیر ہی انسان کو یہ قوت عطا کرتی ہیں۔ کہ وہ اس طرح ہوا اور لہردونوں سے بے پروا ہو کر خدا کی توکل پر پانی میں کود پڑتاہے۔ اور ننانوے فی صد سے زیادہ مواقع ایسے ہیں جن میں وہ پار جا لگتا ہے۔ سکون کے وقت سمندر کا یہ دیدار آنکھوں کو فرحت بخشنے والی چیز ہے۔ تختہ جہاز پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو لہروں کا ایک لاتعداد سلسلہ نطر آتاہے جو ہوا کے نرم نرم جھونکوں کے اثر سے جو سمندر پر قریب قریب ہر وقت آتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے حلقہ بناتا ہوا چلا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لہریں ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہی ہیں۔ صبح کے وقت جب آفتاب نکلتا ہے اور اچھلتی ہوئی لہروں کی سفید جھاگ پر اس کی کرنیں پڑتی ہیں تو قوس قزح کے سارے رنگ دفعتاً شفاف پانی کے تختوں میں چمک جاتے ہیں اور دور افق کے قریب تو سنہری رپہری فرش بچھتا ہوا نظر آتا ہے۔ گویا شاہ خاور کے خیر مقدم کے لیے سامان ہے۔ جوں جوں آفتاب اونچا ہوتا آتا ہے سمندر کا قدرتی اور مستقل نیلگوں رنگ اپنی اصلی آب دکھاتا ہ۔ ہوا میں کچھ دیر کے لیے نہایت خفیف سی حدت پیدا ہو جاتی ہے اور لہریں ذرا غیر معمولی طور پر ساکن رہنے کی طرف مائل ہوتی ہیںَ گویا قدرت بھی دوپہر اور قیلولے کو جمع کرنا چاہتی ہے۔ سورج ڈھلا اور لہروں نے ہاتھ پائوں مارنے شروع کیے۔ شام کا وقت ان کی بھی سیر و تفریح کا ہوتا ہے۔ سکون کے دنوں میںبھی ذرا سی حرکت شام کے قریب ان میں آتی ہے شاید اس وق ورزش کے طور پر مشق ستم کرتی ہیں۔ ہنستی ہنستی جہا زکی طرف دوڑتی ہیں اور بہت سے ناواقف حال چہروں کے رنگ متغیر کر دیتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جہاز کی گستاخانہ رفتار سے ناراض ہو کر اسے تھپیڑے مارنا چاہتی ہیں مگر پھر ہنس کے پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ ان کے رمز شناس مسکرا تے ہوئے ان تھپیڑوں کے مزے لیتے ہیں۔ شام ہوئی اور مسافروں نے بسیرے لیے۔ رات کو ستارے ہوتے ہیں اور موجیں۔ ان کے راز و نیاز میں ہم کو کیا دخل ہاں کہیں اتفاق سے شب ماہ ہو جیسا کہ ہمیں چند دن نصیب ہوئی تو سبحان اللہ یہ سماں سمندر پر عین شباب کی مستی کا ہوتا ہے پانی کیا اچھلتاہے پگھلی ہوئی چاندنی کی لہریں ہیں جو ماہتاب کی طرف دست شوق بڑھاتی ہیں اور اس سے ہم آغوش ہونا چاہتی ہیں۔ اور ماہتا ب ہے کہ ان کی جسارت کو چشم محبت سے دیکھتا ہے اور ان کی طرف کھنچتا ہوا معلو م ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خیال ہی خیال ہو مگر انتا ضڑور ہے کہ اس کی روشن میں اس وقت ایک عجیب سرور کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جس کی تاثیر محبت ہوتی ہے۔ مہجوروں کو بھولے ہوئے یاران وطن یاد آت ہیں۔ جن کے دوست عزیز ساتھ ہیں وہ ان سے گھل مل کر باتیں کر رہے ہیں اور جو چاہنے والے شوہر اور چہیتی ببیبیاں جہاز پر ہیں ان کی تو اس وقت کچھ نہ پوچھیے۔ دست شوق بے خبری میں کمر کے گر د خم کمندر بنا رہا ہے اور لب اظہار فصاحت کے دریا بہہ رہے ہیں جن کا ماحصل اس فقرے میں ہے کہ ’’سمندر کا سفر اس خوشگوار موسم میں اور خصوصاً ایسی چاندنی کے وقت کتنا پیارا سفر ہے‘‘ خیر یہ تو بااقبال لوگوں کی کیفیتیںہیں۔ ہمیں ان سے کیا میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتاہوں کہ اقبال کو بلائوں کہ ’’آ اور دیکھ‘‘۔ عبدالقادر ٭٭٭ 1۔ اس خط پر تاریخ وغیرہ نہیں البتہ انتا معلوم ہے کہ یہ رسالہ ’’مخزن‘‘ بابت اگست 1904ء جلد 7شمارہ 5میں شائع ہوا تھا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خط مذکور اگست 1904ء سے قبل ارسال کیا گیا ہوگا۔ یہ خط غالباً ’’جہاز مال دیویہ‘‘ میں بیٹھ کر لکھا گیا ۔ (مرتب)۔ ٭٭٭ 3 لندن ۲ستمبر 1904ء پیارے اقبال السلام علیکم! آپ کا محبت نامہ مرقومہ 10اگست (ایبٹ آباد) 29اگست کو ملا ۔ میں دو خط سیالکوٹ کے پتے پر لکھ چکا ہوں امید ہے کہ وہ آپ کو مل گئے ہوں گے ۔ اگر آ پ کی نقل و حرکت مکانی میںکوئی گم ہو گیا تو افسوس ہو گا۔ اب یہ پھر سیالکوٹ کو ہی بھیجتا ہو ں کیوں کہ آ پ نے لکھا ہے کہ آپ 5ستمبر کو سیالکوٹ جاویں گے۔ گو ڈاک مس ہون کی جو معذوریاں آپ نے لکھی ہیں وہ معقول ہیں مگر پھر بھی میں چاہتا یہی ہوںکہ آپ معذوری ہی میں کچھ لکھ دیاکریں خواہ دو سطریںہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے دو فائدے ہیں ایک تو سلسلہ نہیں ٹوٹتا دوسرے تسلی ہو جاتی ہے۔ اب دیکھیے پچھلے دنوں آپ کا خط نہ آیا تو مجھ سے بھی ایک آڈھ ناغہ ہو گیا۔ آپ تکلیف تحریر کو نہ دیکھا کیجیے بلکہ یہ خیال کیا کیجیے کہ کس طرح ہم منتظر رہتے ہیں۔ ع تو میرا شوق دیکھ‘ مرا انتظار دیکھ مشرق کے مضمون کی تعریف کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جیسا کہ آگے لکھ چکا ہوں‘ میرے لیے تو بس یہ ہے کہ آپ نے پسند کیا۔ اس میں کئی اوروں کی تعریف آ گئی۔ ہاں! اگلے ستمبر کے صرف آپ ہی منتظر نہیں (1)یہاں بھی کئی لوگ منتظر ہیںَ ان میں سب سے بڑ کر میں ہوں اور پھر وہ جو میرے ذریعے مشتاق بنے جاتے ہیں۔ آرنلڈ صاحب (2)سے اب میں اکثر ملتا رہتا ہوں کیوں کہ میری طبیعت نے اجازت نہ دی کہ ان کی شاگردی سے محروم رہوںَ اور نہیں تو فرنچ ہی شروع کر دی ہے کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ہے آپ کے آنے تک خوب واقف ہو جائوں گا۔ اگر ایبٹ آباد میں لیکچر دیا ہے تو ا س کا حال (3)لکھیے گا اور جہل اگر اترے تو پوری کیفیت سے مشکور فرمائیے گا۔ مفصل خط اگلے ہفتے انشاء اللہ لکھوں گا۔ اب ڈاک کا وقت قریب ہے اور ایک دو دوست ملاقات کے لیے تشریف لے آئے ہیں اور اس لیے اسے مختصر کردینا پڑا۔ بندہ عبدالقادر ٭٭٭ حواشی 1۔ یہ اس دور کا مکتوب ہے جب سر عبدالقادر مرحوم ولایت جا چکے تھے اور حضرت علامہ اقبال جانے کی تیاریان کر رہے تھے ۔ چنانچہ وہ اگست 1905 ء میں ولایت روانہ ہو گئے او ر ستمبر میں وہاں پہنچے۔ 2۔ حضرت علامہ اقبال مرحوم کے محبوب استاد جن کے متعلق ایک نظم بعنوان ’’نالہ فراق‘‘ ’’بانگ درا‘‘ میں موجود ہے (ص 74)۔ 3۔ یہ لیکچر انگریزی میں تھا اور اسی زمانے میں چھپ گیا تھا بعد ازاں اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا تھا جس کا عنوان تھا ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘۔ ٭٭٭ 3 علامہ اقبا ل کے عظیم دوست سر عبدالقادر بیرسٹر ایٹ لاء ایڈیٹر ’’مخزن‘‘ لاہور کا خط بنام آفتاب اقبال (1) C/O India Office White Hall, S.W.I. London. 5-5-38 Dear Aftab Iqbal The sad news of the death of your father came as a personal shock to me, as we were such old and Intimate friends. I have been receiving letters from some people sympathising with me in this national loss. I was asked by the B.B.C to give a short broad cast about ham for countries oversies and I did not so on the 28th inst. We are now going to have a meeting in his memory on the 14th instant. I have been thinking of writing to you these ...... days to express my sympathy with you. Please accept my deep condolence. Inspite of the regrettable estrangement that exited between the deceased and yourself I know that admiration you as his intellectual heir had for his poetical genuis and this sad event must have been felt by you profoundly. I see from the Lahore papers that tributes were paid to him from all classes and communities and that his funeral was followed by thousands of grief stricken friends and admirers. When I was in Lahore and people were celebrating the Iqbal Day nobody had any idea that he would leave us so soon It is an irreparable loss. May his soul rest in peace and may the bereaved family be given strength to bear his bereavement. with kind regards, Yours sincerely, Abdul Qadir (1) ٭٭٭ حواشی 1۔ آفتاب اقبال ایم ۔ اے بار ایٹ لا خلف اکبر علامہ اقبال ولادت 1899ء حال مقیم کراچی ۔ 2۔ ’’علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی‘‘ از حافظ سید حامد جلالی ‘ کراچی انجمن پریس 1967ء ص 143-144۔ ٭٭٭ 4 معرفت انڈیا آفس وائٹ ہال‘ ایس ۔ ڈبلیو۔ ۱ ‘ لندن ۵۔ ۵۔ ۱۹۳۸ء پیارے آفتاب اقبال (1)! آپ کے والد گرامی کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر مجھے دلی صدمہ پہنچا ہے۔ ہم بڑے گہرے اور دیرینہ دوست تھے۔ اس قومی نقصان کے سلسلے میں اکثر لوگوں کی طرف سے مجھے تعزیت نامے موصول ہو رہے ہیں بی ۔ بی ۔ سی ۔ ریڈیو کی طرف سے مجھے ان کے ’’سمندر پار ممالک‘‘ کے پروگرام میں علامہ اقبال مرحوم ومغفور کی شخصیت پر کچھ کہنے کی دعو ت دی گئی ہے جسے میں نے قبول کر لیا اور 28اپریل کو اس سلسلے میں ایک تقریر نشر کی۔ اب ان کی یاد ہم 14مئی کو ایک تعزیتی جلسہ منعقد کر رہے ہیں ۔ ان دنوں میں آ پ کو تعزیتی خط لکھنے کے لے سوچ رہا تھا۔ میری دلی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔ باوجود اس تکدر کے جو تمہارے اور ان کے درمیان تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کے اور مرحوم کے درمیان بدقسمتی سے تعلقات استوار نہ تھے لیکن میں اس امر سے بھی بخوبی واقف ہوں کہ آپ ان کی علمی وارث ہونے کی حیثیت سے ان کے شاعرانہ کمالات کے کتنے معترف ہیں‘ اس لیے آپ پر اس سانحہ ارتحا کا شدید اثر بالکل قدرتی چیز ہے۔ لاہور کے اخباروں میں میں نے پڑھا کہ عوام کے ہر طبقے کی طرف سے علامہ اقبا ل مرحوم کوخراج تحسین پیش کیا گیا ہے اور ان کے جنازے میں ہزاروں سوگوار دوست احباب او ر قدردان شریک تھے۔ میرے قیام لاہور کے دنوں میں لوگ یوم اقبال منا رہے تھے۔ اس وقت کسی کو اس بات کا خیال تک بھی نہ تھا کہ وہ ہمیں اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے۔ خدا انہیںکروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور سوگوار خاندان کو اس المیے کو برداشت کرنے کی قوت اور صبر عطافرمائے۔ آمین! والسلام مخلص عبدالقادر ٭٭٭ حواشی 1۔ اصل خط انگریزی میں ہے جو قبل ازیں درج کیا جا چکاہے۔ آفتاب اقبال علامہ اقبال مرحوم کی پہلی رفیقہ حیات میں سے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی عمر اس وقت تیرہ چودہ برس کی تھی جب کہ آفتاب اقبال بار ایٹ لاء علامہ اقبال کی وفات کے وقت انتالیس چالیس برس کے تھے۔ ٭٭٭ کتابیات 1۔ کتابیں 1۔ احمد شجاع حکیم : خوں بہا (حصہ اول) لاہور ‘ تاج کمپنی ‘ 1943ئ۔ 2 اختر احمد میاں: اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ۔ کراچی‘ اقبال اکیڈمی۔ 1965ئ۔ 3۔ اکبر علی شیخ : اقبال …اس کی شاعری اور پیغام ۔ لاہور ‘ کمال پبلشرز 1946ئ۔ 4 حالی ‘ الطاف حسین : حیات جاوید…لاہور اکادمی پنجاب 1957ئ۔ 5۔ حامد جلالی سید: علامہ اقبال اور ان کی پہلی بیوی۔ کراچی انجمن پریس 1967ء ۔ 6۔ حمیدہ سلطان احمد: جگن ناتھ آزاد اور اس کی شاعری دہلی مکتبہ شاہراہ 1964ئ۔ 7۔ ذوالفقار غلام حسین انتخاب کلام اکبر لاہور اردو ڈائجسٹ 1969ئ۔ 8۔ زوار زیدہ دہلوی: اردو شاعری کا البم۔ لاہور غالب بک ڈپو 1952ئ۔ 9۔ شاہد حمید الدین: حیدر آباد کے شاعر…حیدر آباد آندھرا پردیش ساہتیہ اکادمی 1958ئ۔ 10۔ عاشق حسین بٹالوی: چند یادیں چند تاثرات: لاہور آئینہ ادب 1969۔ 11۔ عبدالسلام ندوی: اقبال کامل ۔ اعظم گڑھ مطبع معارف 1964ئ۔ 12 ۔ عبدالقادر: جب آتش جواں تھا(قلمی) 13۔ عبداللہ قریشی : آئینہ اقبال لاہور آئینہ ادب 1967ء 14۔ عبداللہ قریشی : باقیات اقبال۔ لاہور آئینہ ادب 1966ئ۔ 15 عبدالوحید: جدید شعرائے اردو لاہور فیروز سنز 1969ئ۔ 16۔ عطاء اللہ شیخ: اقبال نامہ… مجموعہ مکاتیب اقبال (حصہ اول )لاہور شیخ محمد اشرف سنہ ندارد۔ 17۔ عطاء اللہ شیخ: اقبال نامہ (حصہ دوم) 18۔ عطیہ بیگم: اقبال ۔ کراچی۔ اقبال اکیڈمی 1969ئ۔ 19۔ فگار غلا م سرور: یاد اقبال ۔ کراچی اقبال اکیڈمی 1944ئ۔ 20۔ محمد اقبال: اسرار خودی۔ لاہور شیخ مبارک علی۔ 21۔ محمد اقبال: بال جبریل۔ لاہور شیخ مبارک علی‘ 1970ئ۔ 22۔ محمد اقبال: بانگ درا۔ لاہور شیخ مبارک علی۔ 1965ئ۔ 23۔ محمد اقبال: رموز بے خودی۔ لاہور یونین سٹیم پریس سنہ ندارد 24۔ محمد حسین: الحیات و الموت فی فلسفتہ اقبال: حیدر آباد دکن مرکزی بزم اقبال ‘ 1946ئ۔ 25۔ محمد حیات خواجہ: مختصر تاریخ انجمن حمایت اسلام۔ 26۔ محمود نظامی: ملفوظات اقبال : لاہور اشاعت منزل 1949ئ۔ 27۔ ملاواحدی: میرا افسانہ (خو د نوشت) 28۔ مناظر احسن گیلانی : تذکرہ شاہ ولی اللہ لاہور بساط ادب 1965ئ۔ 29۔ نیرنگ غلام بھیک: اقبال کے بعض حالات (رسالہ اقبال اکتوبر 1957ئ)۔ 30۔ وحید الدین فقیر: روزگار فقیر (جلد اول )لاہور لائن آرٹ پریس 1964ئ۔ 31۔ وحید الدین فقیر: روزگار فقیر جلد دوم لاہور لائن آرٹ پریس 1964ئ۔ 2۔ رسالے او ر اخبارات 32۔ آ ج کل ۔ (دہلی) مئی 1958ء 33۔ اخبار وطن۔ 10جون1904ء 34۔ اردو انسائکلو پیڈیا۔ لاہور فیروز سنز 1962ء 35۔ اوراق نو (عبدالقادر نمبر)مارچ 1950ء 36۔ چٹان۔ (اقبال نمبر) 25اپریل 1949ء 37۔ انیس نسواں جون 1940ء 38۔ امروز (اقبال نمبر) 26اپریل 1948ء 39۔ امروز (اقبال نمبر ) 22اپریل 1949ء 40۔ امروز (اقبال نمبر ) 22اپریل 1950ء 41۔ امروز (اقبال نمبر) 24 فروری 1957ء 42۔ حمایت اسلام (شجاع نمبر) 4مئی1956ء 43۔ قندیل 9اپریل 1949ء 44۔ مخزن متفرق شمارے 45۔ نقوش (شخصیات نمبر) اکتوبر 1956ء 46۔ نقوش ۔ (لاہور نمبر) فروری 1962ء ٭٭٭ اشاریہ (صفحہ 21تا صفحہ 138 دیباچہ وغیرہ اشاریے میں شامل نہیں) آرنلڈ پروفیسر سر ٹامس: 33,34,37,68,91,125,133 آزاد‘ جگن ناتھ: 43 آغا حیدر سید: 85,87 آفتاب اقبال: 135,136,137 ابراہیم علیہ السلام‘حضرت : 126 ابوصاحب: 127 ارشد گورگانی ‘ مرزا: 83 الاعظمی‘ محمد حسن پروفیسر: 60,64,65 اقبال سرمحمد: اکثر صفحات پر اکبر الہ آبادی: 34,41,56,74,101 اکبر علی‘ شیخ: 54,55,56,57 امرائو سنگھ مجیٹھوی: 102 امین الدین ‘حکیم:41,66,105 انیس ‘ میر ببر علی: 100,103 اورنگ زیب عالم گیر : 24 برائون ‘پروفیسر: 34 بشارت علی سید: 53 بشیر ‘ بشیر النسائ: 100 بلگرامی‘ مولوی سید علی: دیکھیے علی بلگرامی‘ سید بھرتری ہری: 96 تقی شاہ: 127 ٹیگور‘رابندر ناتھ: 88,89,92,97,99,101 جالب ‘ سید بشارت علی: 52 جاوید اقبال: ڈاکٹر جسٹس:93,138 جرات قلندر بخش: 109 جلالی‘ حافظ سید حامد: 136 جوش ملیح آبادی ‘ شبیر حسن خاں: 100,103 جوگی‘ سر جوگندر سنگھ:102 چشتی‘ فقیرمحمد: 21 چکبست لکھنوی ‘برج نرائن : 100 حافظ شیرازی: 95 حالی‘ مولانا الطاف حسین: 34,41,56 حسرت موہانی‘مولانا: 52 حسن‘ امام: 29 حسن یار جنگ‘ نواب بہادر: 60 حسینؓ امام: 26,29 حفیظ جالندھری: 52 حفیظ ہوشیار پوری: 52 حمیداللہ خان ہز ہائی نس نواب : 86,87 حمیدہ سلطان احمد: 43 خضرؑ ‘ حضرت: 47 داغ ‘ نواب مرزا: 32,33,40,89,101 دبیر‘ مرزا سلامت علی: 100 دل محمد‘ خواجہ: 52,83 ذوالفقار ‘ ڈاکٹر غلام حسین: 75 راس مسعود‘ سر سید: 101,102 روم‘ مولانا جلال الدین: 21,22.80, 95,96,97 زرتشت: 96,97 سارلے‘ پروفیسر: 34,41 سرور‘ درگا سہائے: 99,102 سعدی شیرازیؒ:130 سید احمد خان‘ سر: 101 سید محمود ‘ جسٹس: 103 شبلی نعمانی‘ مولانا: 33,34,101 شجاع الدین‘ محمد حکیم: 41 شعامان ‘ شیخ الصاوی: 61,62,63 صادق حسین آغا: 101 صدیقی‘ ڈاکٹر رضی الدین: 62 طنطناوی جوہری‘ علامہ: عباس علی‘ ڈاکٹر: 100 عبدالحفیظ سلیم ‘ شیخ: 53 عبدالرئوف ‘ سید: 85,87 عبدالغنی ‘مرزا: 87 عبدالقادر‘ سر شیخ: 31,43,51,54,60,81,88,97,98,104,118,132,134,135 عبداللہ قریشی: 69 عزام‘ عبدالوہاب ڈاکٹر: 61 علی بلگرامی ‘ سید : 68,107 علیؓ ،حضرت: 29 علی بخش: 68,107 غالب اسد اللہ خان: 31,40,130 غلام میراں شاہ ‘ مخدو م الملک: 71 فاطمۃ الزہراؓ، حضرت: 29 فضل الرحمان‘ آنریبل: 88 فگار‘ غلام سرور: 51,52 قائد اعظم محمد علی جناح: 98,102 قائم چاند پوری: 109 گوئٹے: 39,93 گیلانی‘ مولانا مناظر احسن: 101 لینن:96 مبارک علی شیخ: 30 محروم‘ تلوک چند: 43 محمد اشرف ملک: 118 محمد اکرام: 126 محمد حسین چودھری: 71 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:25,26,27,29,73,86,94 مراد‘سلطان: 25 ملٹن: 119 میر‘امانت علی:109 میر‘تقی میر:109-117 میر سوز:109 میر حسن ‘ سید شمس العلمائ: 32,34,127 میگ ٹیگرٹ‘ ڈاکٹر: ۴۳ نادر کاکوروی‘منشی نادر علی خان: 99,102 نظامی‘ محمود: 82,87 نکلسن رینالڈ‘ پروفیسر ڈاکٹر: 34,41,93,99 نگم ‘ منشی دیا نرائن: 103 نوح علیہ السلام ‘ حضرت: 95 نطشے: 94,95,96 نیرنگ‘ سید غلام بھیک: 126,127 وارث ‘اکبر علی شیخ: 59 وحید کے ۔ اے: 81,117 وشوامتر: 96 ہیگل:40 اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End