علم الاقتصاد جس کا معروف نام علمِ سیاست مدن ہے شیخ محمد اقبال اقبال اکادمی پاکستان ، لاہور فہرست ۱۔ پیش لفظ ۲۔ مقدمہ ۳۔ حوالہ جات مقدمہ ۴۔ پیش کش ۵۔ دیباچہ مصنف ۶۔ حوالہ جات پیش کش و دیباچہ مصنف حصہ اوّل ۷۔ علم الاقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق ۸۔ حوالہ جات حصہ اوّل حصہ دوم۔ پیدائش دولت ۹۔ زمین ۱۰۔ محنت ۱۱۔ سرمایہ ۱۲۔ کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے ۱۳۔ حوالہ جات حصہ دوم حصہ سوم۔ تبادلہ دولت ۱۴۔ مسئلہ قدر ۱۵۔ تجارت بین الاقوام ۱۶۔ زر نقد کی ماہیت اور اس کی قدر ۱۷۔ حق الضرب ۱۸۔ زر کاغذی ۱۹۔ اعتبار کی ماہیت و مقاصد اور اس کا اثر اشیاء کی قیمتوں پر ۲۰۔ حوالہ جات حصہ سوم حصہ چہارم۔ پیدوارِ دولت کے حصہ دار ۲۱۔ لگان ۲۲۔ ساہوکار کا حصہ یا سود ۲۳۔ مالک یا کارخانہ دار کا حصہ یا منافع ۲۴۔ محنتی کا حصہ یا اجرت ۲۵۔ مقابلہ ناکامل دستکاروں کی حالت پر کیا اثر کرتا ہے ۲۶۔ سرکار کا حصہ یا مالگذاری ۲۷۔ حوالہ جات حصہ چہارم حصہ پنجم ۲۸۔ آبادی۔ وجہ معیشت ۲۹۔ جدید ضروریات کا پیدا ہونا ۳۰۔ صرف دولت ۳۱۔ حوالہ جات حصہ پنجم ۳۲۔ کتابیات (اردو) ۳۳۔ کتابیات (انگریزی) پیش کش اس دلی ارادت کے سبب جو مختصر سے زمانہ تلمذ میں مجھے عالی جناب ڈبلیو بل اسکوئر ڈائریکٹر محکمہ تعلیم پنجاب کی خدمت میں پیدا ہوئی جب وہ گورنمنٹ کالج لاہورکی کرسی صدارت پر رونق افروز تھے اور اس عالم گیر شہرت کے باعث جو صاحب ممدوح کو بحیثیت مربی علوم و فنون حاصل ہے، میں اس ناچیز کتاب کو جو میری علمی کوششوں کا پہلا ثمر ہے صاحب موصوف کے نام نامی سے منسوب کرنا چاہتا ہوں اور اس امید پر کہ یہ ہدیہ محقر شرف قبول پائے گا ، نہایت ادب سے اسے پیش کش کو تا ہوں۔ (مصنف) دیباچہ مصنف علم الاقتصاد انسانی زندگی کے معمولی کاروبار پر بحث کرتا ہے اور اُس کا مقصد اس امر کا تحقیق کرنا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کس طرح حاصل کرتے ہیں اور اس کااستعمال کس طرح کرتے ہیں۔ پس ایک اعتبار سے تواُس کا موضوع دولت ہے اور دوسرے اعتبار سے یہ اس وسیع علم کی ایک شاخ ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔ یہ امر مسلم ہے کہ انسان کا معمولی کام کاج، اس کے اوضاع و اطوار اور اس کے طرز پر زندگی پر بڑا اثر رکھتا ہے۔ بلکہ اُس کے دماغی قویٰ بھی اس اثر سے کامل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تاریخ انسانی کے سیل رواں میں اصول مذہب بھی انتہا مؤثر ثابت ہوا ہے۔۔ مگر یہ بات بھی روز مرہ کے تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہوتی ہے کہ روزی کمانے کا دھندا ہر وقت انسان کے ساتھ ساتھ ہے اور چپکے چپکے اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ کو اپنے سانچے میں ڈھالتا رہتا ہے ذرا خیال کرو کہ غریبی یا یوں کہو کہ ضروریات زندگی کے کاملی طور پر پورا نہ ہونے سے انسانی طرزِ عمل کہا تک متاثر ہوتا ہے۔ غریبی قویٰ انسانی پر بہت بڑا اثر ڈالتی ہے، بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلا آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود وعدم برابر ہو جاتا ہے۔ معلم اوّل یعنی حکیم ارسطو سمجھتا تھا کہ غلامی تمدن انسانی کے قیام کے لیے ایک ضروری جزو ہے، مگر مذہب اور زمانۂ حال کی تعلیم نے انسان کی جبلی آزادی پر زور دیا اور رفتہ رفتہ مہذب قومیں محسوس کرنے لگیں کہ یہ وحشیانہ تفاوتِ مدارج بجائے اس کے کہ قیام تمدن کی لیے ایک ضروری جزو ہو، اس کی تخریب کرتا ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو پر نہایت مذموم اثر ڈالتا ہے۔ اس طرح اس زمانے میں یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا مفلسی بھی نظم عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جائیں اور ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے؟ اس سوال کا شافی جواب دنیا علم الاقتصاد کا کام نہیں۔ کیونکہ کسی حد تک اس کے جواب کا انحصار انسانی فطرت کی اخلاقی قابلیتوں پر ہے جن کو معلوم کرنے کے لیے اس علم کے ماہرین کوئی خاص ذریعہ اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے۔ مگر چونکہ اس جواب کا انحصار زیادہ تر ان واقعات اور نتائج پر بھی ہے جو علم الاقتصاد کے دائرہ تحقیق میں داخل ہیں اس واسطے یہ علم انسان کے لیے انتہا درجہ کی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا مطالعہ قریباً قریباً ضروریات زندگی میں سے ہے۔ بالخصوص اہل ہندوستان کے لیے تو اس علم کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں مفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے۔ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل ناواقف ہے جن کا جاننا قومی فلاح اور بہبودی کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ انسان کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں اُن کا حشر کیا ہوا ہے۔ ابھی حال میں مہاراجہ بڑودہ نے اپنی ایک گراں بہا تقریر میں فرمایا تھا کہ اپنی موجودہ اقتصادی حالت کو سنوارنا ہماری تمام بیماریوں کا آخری نسخہ ہے اور اگر یہ نسخہ استعمال نہ کیا گیا تو ہماری بربادی یقینی ہے۔ پس اگر اہل ہندوستان دفتر اقوام میں اپنا نام قائم رکھنا چاہتے ہوں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس اہم علم کے اصولوں سے آگاہی حاصل کر کے معلوم کریں کہ وہ کون سے اسباب ہیں جو ملکی عروج کے مانع ہو رہے ہیں۔ میری غرض ان اوراق کی تحریر سے یہ ہے کہ عام فہم طور پر اس علم کے نہایت ضروری اصول واضح کروں اور نیز بعض جگہ اس بات پر بھی بحث کروں کہ یہ عام اصول کہاں تک ہندوستان کی موجودہ حالت پر صادق آتے ہیں۔ اگر ان سطور سے کسی فردِ واحد کو بھی ان معاملات پر غور کرنے کی تحریک ہو گئی تو میں سمجھوں گا کہ میری دماغ سوزی اکارت نہیں گئی۔ اس دیباچے میں یہ واضح کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کسی خاص انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیںہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کئے گئے ہیں اور بعض جگہ میں نے ذاتی رائے کا بھی اظہار کیا ہے۔ مگر صرف اسی صورت میں جہاں مجھے اپنی رائے کی صحت پر پورا اعتماد تھا۔ زبان اور طرز عبارت کے متعلق صرف اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ میں اہل زبان نہیں ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا ہے میں نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور اردو زبان میں اس متین طرز عبارت کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو انگریزی علمی کتابوں میں عام ہے نئی علمی اصطلاحات کے وضع کرنے کی دقت کو ہر با مذاق آدمی جانتا ہے۔ میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور بعض مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں جو زمانۂ حال کی عربی زبان میں آج کل متداول ہیں۔ جہاں جہاں کسی اردو لفظ کو اپنی طرف سے کوئی نیا مفہوم دیا ہے ساتھ ہی اس کو تصریح بھی کر دی ہے۔ اس کتاب میں ایک آدھ جگہ انگریزی محاورہ کی تقلید میں میں نے اسم ذات کو اسم صفت کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سرمایہ داروں کے معنوں میں یا محنت محنتیوں کے معنوں میں۔ اگرچہ محاورہ اردو پڑھنے والوں کو غیر مانوس معلوم ہوگا تاہم اس کے استعمال میں ایسی سہولت ہے جس کو با مذاق لوگ خوب محسوس کی سکتے ہیں۔ جہاں کئی فارسی محاورات کے لفظی تراجم اردو زبان میں مستعمل ہیں اگر اس لطیف محاورہ انگریزی کا ترجمہ بھی مستعمل کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔ اصطلاحات کی نسبت ایک اور عرض یہ ہے کہ میں نے مانگ اور طلب ، دستکاری اور محنت، دستکار اور محنتی ، نفع اور منافع ، ساہوکار اور سرمایہ دار، مالک و کارخانہ سار مرادف استعمال کئے ہیں۔ پیدائش اور پیدا وار کا استعمال ایک باریک فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی پیدائش سے مراد فعل کی ہے اور پیداوار سے مراد نتیجہ فعل کی۔ علیٰ ہذاالقیاس لفظ تبادلہ اس جگہ استعمال کیا ہے جہاں ایک شئے دوسری شے کے عوض میں دی جائے۔ عربی زبان میں مبادلے کا یہ مفہوم لفظ مقائفہ سے ظاہر کیا جاتا ہے ، مگر چونکہ یہ لفظ عام فہم نہیں ہے ، اس واسطے میں نے اس کے استعمال سے احتراز کیا ہے۔ اس دیباچے کو ختم کرنے سے پیشتر میں استاذی المعظم حضرت قبلہ آرنلڈ صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس کتاب کے لکھنے کی تحریک کی اور جن کے فیضان صحبت کا نتیجہ یہ اوراق ہیں۔ میں استاذی جناب قبلہ لالہ جیا رام صاحب ایم اے پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور اپنے عزیز دوست اور ہم جماعت دوست اور ہم جماعت مسٹر فضل حسین بی اے کینٹب بیرسٹر ایٹ لا کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے مجھے نہ صرف اپنے بیش قیمت کتب خانوں کی کتابیں ہی عنایت فرمائیں بلکہ بعض مسائل کے متعلق نہایت قابل قدر مشورات بھی دئیے۔ اس کے علاوہ مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولانا شبلی نعمانی مدظلہ بھی میرے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی۔ محمد اقبال   حصہ اول  علم الاقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق علم الاقتصاد علم انسانی کے اس خاص حصّے کا نام جس کا موضوع دولت ہے اور جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ دولت کی پیدائش، تقیسم، تبادلے اور استعمال کے اصول و اسباب و طریق کیا گیا ہیں۔ لہٰذا اس علم کے طالب کا یہ فرض ہے کہ اپنی تحقیق و تدقیق کو دیگر علوم کی تحقیق سے مخلوط نہ کرے۔ کیونکہ کسی علم کی ترقی اس امر پر منحصر ہے کہ اسے دیگر علوم کے سلسلہ سے منفرد سمجھ کر مطالعہ کیا جائے۔ بعض حکماء کی یہ رائے ہے کہ علم الاقتصاد وسیع علم تمدن کا ایک جزو ہے اور چونکہ تمدنی زندگی کی عام صورتیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس واسطے ان میں سے کسی ایک کا منفرد مطالعہ کرنا کچھ نتیجہ خیز نہ ہوگا۔ مگر یہ رائے قرین صواب نہیں معلوم ہوتی۔ کیونکہ انسانی افعال کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ عملی نظر کا مل طور سے اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کسی علم کے علم بننے کے لیے اس کی تخصیص ضروری ہے۔ کیا علم الاقتصاد کا مطالعہ دولت کی محبت پیدا کرتا ہے؟ بعض لوگ اس بات پر مصر ہیں کہ اس علم کا مطالعہ اخلاقی لحاظ سے مفید نہیں ہے کیونکہ اس سے دولت کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ جو انسان کو تمام اخلاقی نیکیوں کے ناقابل کردیتی ہے اور اسے ایک سنگ دل دنیا دار بنا دیتی ہے۔ اس لغو اعتراض کے جواب میں اول تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ انسان کی غرض صرف دولت ہی نہیں ہے تاہم یہ بڑی ضروری اغراض میں سے تو ہے۔ اور اس وجہ سے لازم ہے ہ اس کا مطالعہ کیا جاوے۔ اور اس کی پیدائش و تقسیم وغیرہ کے اسباب و طریق معلوم کئے جائیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سرے سے یہ اعتراض ہی صحیح نہیں ہے۔ علم الاقتصاد کے مطالعہ سے دولت کی محبت نہیں پیدا ہوتی۔ کیونکہ اس کا مقصد تو صرف یہ معلوم کرنا ہے کہ حصول دولت کی خواہش جیسا کہ انسانی فطرت میں موجود ہے، انسانی افعال پر کس طرح اثر کرتی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض میلان طبائع ایسے توی ہوں کہ حصول دولت کی خواہش کو دبائے رکھیں۔ مگر علم اقتصاد کو ان سے تعلق نہیں ہے۔ اس کا کام یہ نہیں ہے کہ انسانوں کے چال چلن پر رائے زنی کرے یا یہ فیصلہ کرے کہ کون کون سے محرکات افعال اخلاقی لحاظ سے اچھے ہیں اور کون کون سے بُرے۔ یہ علم انسانی افعال کے وسیع دائرہ کے صرف اس حصہ پر غور کرتا ہے جس کا تعلق حصول دولت سے ہے۔ مزید برآں اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ علم اقتصاد حرص کی تعلیم نہیں دیتا۔ بلکہ حصول دولت کے صحیح اور مسلم اصولوں پر روشنی ڈالنے سے انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ اس قوی خواہش کو ان اصولو ںکے تحت میں رکھے اور جنگ و جدل لوٹ مار وغیرہ سے جو اس زبردست خواہش کا ضروری نتیجہ ہوا کرتے ہیں، ۴؎ احتراز کرکے امن و صلح کا ری کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ ہم نے لفظ “دولت” کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ مگر ابھی تک یہ بیان نہیں کیا کہ اس کی ماہیت اور تعریف کیا ہے۔ دولت میں یہ ممکن الحصول اشیاء شامل ہیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانی ضروریات کو پورا کریں اور جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے۔ مگر ظاہر ہے کہ ہر ممکن الحصول شے جس کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جائے دولت نہیں ہے۔ پس اجزائے دولت کو معلوم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اشیا مطلوب کو معلوم کیا جائے۔ مطلوب اشیاء یا وہ تمام اشیاء جن کی ہر انسان جائز اور مناسب طور پر خواہش کرسکتا ہے ، دوقسم کی ہوتی ہیں۔ ۱۔ وہ ممکن الحصول اشیاء ماّدی جن میں تمام مفید اشیاء اور ان کے حقوق استعمال شامل ہیں۔ مثلا زمین، پانی، آب و ہوا، زرعی پیداوار، معدنی پیداوار، مصنوعات، تعمیرات، کلیں، اوزار، رہن نامجات، پٹے وغیرہ۔ ۲۔ اشیا ممکن الحصول غیر مادّی یا ذاتی۔ اس ضمن میں دو قسم کی اشیاء شامل ہیں۔ اوّل تو وہ فوائد جو انسان اوروں سے حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے۔ مثلا حق خدمت ملازمین۔ دوئم اس کے ذاتی اوصاف یا قابلیتیں جن کی وجہ سے وہ اپنے کاموں کو سرانجام دیتا ہے۔ مقدم الذکر کو اشیاء غیر ما دّی اندرونی، روشنی ہوا یا وہ حق جو اس کو بحیثیت ایک خاص ملک کا باشندہ ہونے کے حاصل ہیں۔ اشیاء مطلوب کی تقسیم اور طرح سے بھی ہوسکتی ہے یعنی اشیاء آزاد اور اشیاء قابل تبادلہ۔ اشیاء آزاد سے مراد ان اشیاء کی ہے جو نظام قدرت خود بخود مہیا کرتا ہے اور انسان کو ان کے حاصل کرنے کے واسطے کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ اشیاء قابل تبادلہ میں وہ تمام اشیاء قابل انتقال شامل ہیں جن کی مقدار محدود ہو مگر یہ امتیاز عملی لحاظ سے کچھ بڑی وقعت نہیں رکھتا۔ اب اصطلاح “دولت” کا مفہوم بالصراحت واضح ہوجائے گا۔ جب ہم کسی شخص کی نسبت لفظ دولت کا اطلاق کرتے ہیں تو اس کے معنوں میں دو قسم کی اشیاء مطلوب شامل سمجھی جاتی ہیں۔ اوّل وہ ممکن الحصول اشیاء مادّی و خارجی جن پر اس کو قانونا یارواجا حق ملکیت حاصل ہے اور جو اس وجہ سے قابل انتقال اور قابل تبادلہ ہیں۔ دوم وہ ممکن الحصول اشیاء غیر مادّی و خارجی جو اس کی ملکیت میں ہوں ار جن کی وساطت سے اشیاء مادّی حاصل کی جاسکیں۔ مثلا کسی شخص کے تجارتی تعلقات وغیرہ ظاہر ہے کہ “دولت” کے مندرجہ بالامفہوم میں انسان کے فطری قویٰ شامل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ اس کی ذات سے خارج نہیں ہیں بلکہ اس کی ذات میں داخل ہیں۔ یا یوں کہو کہ یہ اشیاء غیر مادّی اندرونی ہیں۔ جو محاورہ متعارف کی روسے دولت میں شامل نہیں۔ پس دولت سے مراد ان خارجی اشیاء کی ہے جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے ار جو انسان کی ذاتی ملک ہوں۔ اور جن کی قدر تبادلے میں زرنقد کے پیمانے سے متعین ہوسکتی ہو۔ یہ پیمانہ ایک طرف تو اس سعی و کوشش کو ظاہر کرتاہے۔ جس کی وساطت سے یہ اشیاء پیدا ہوئی ہوں۔ اور دوسری طرف ان انسانی ضروریات کو جن کو یہ پورا کرتی ہیں۔ مختصر طور پر یوں کہہ دو کہ “دولت” میں انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے وہ تمام جائز و مناسب اور ممکن الحصول وسائل داخل ہیں جو بالفعل یا بالقوۃ قابل انتقال ہوں۔ اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہی شس دولت کہلاسکتی ہے۔ ۱۔ جو کوئی خاص شے ہو، خواہ مادّی خارجی ہو، خواہ غیر مادّی خارجی۔ ۲۔ جس کی خواہش انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے خیال سے جائز اور مناسب طور پر کی جاسکتی ہو۔ افریقہ کا ایک وحشی اپنے دشمن کے سر کی خواہش کرسکتاہے ، مگر یہ خواہش اخلاقی لحاظ سے جائز اور مناسب نہیں ہے۔ ۳۔ جو ممکن الحصول ہو۔ ۴۔ جس پر انسان کو حق ملکیت حاصل ہو۔ ۵۔جس میں قابلیت انتقال ہو۔ یا یوں کہو کہ جس کی قدر تبادلے میں زرنقد کے پیمانے سے متعین ہوسکتی ہو۔ دولت کی مندرجہ بالا تعریف میں ہم نے لفظ “قدر”کو استعمال کیا ہے، جو علم اقتصاد کی ایک ضروری اصطلاح ہے۔ دولت کی تعریف کما حصہ سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس اصطلاح کا مفہوم ذہن نشین ہو۔ فرض کرو کہ میرے پاس ایک گھڑی ہے۔ میں اسے بیچ کر اپنی ضروریات پورا کرنے یا اوروں سے خدمت لینے کی قدرت رکھتا ہوں۔ یہ قدرت مجھے کہاں سے حاصل ہوئی؟ پس “قدر” اس قدرت یا قوت کا نام ہے جو کسی شے کی وساطت سے اس شے کے قابض کو حاصل ہوتی ہے اور جس کو تبادلے میں دے کر وہ شخص بلا لحاظ جبرواکراہ یا تاثرات ذاتی اوروں کی پیداوار محنت کو حاصل کرسکتا ہے۔ مختصر طور پر یو ںکہہ دو کہ قدر قوت تبادلہ کا نام ہے۔ اس تعریف کے الفاظ پر غور کرو۔ ہم نے کہا ہے بلا جبر و اکراہ یا تاثرات ذاتی-کوئی مطلق العنان بادشاہ اپنی رعایا کو جہاں چاہے لڑنے مرنے کے لیے بھیج سکتا ہے۔ مگر یہ خدمات علم اقتصاد کے دائرہ میں نہ آئیں گی۔ کیونکہ ان کی بنا جبرو اکراہ پر ہے۔ برخلاف ان کے انگریزی سپاہی کی خدمات دائرہ علم اقتصاد میں داخل ہیں کیونکہ وہ اپنی مرضی سے ایک خاص تنخواہ کے عوض فوجی خدمت قبول کرتا ہے۔ اسی طرح اس ماں کی خدمات بھی دائرہ علم اقتصاد سے خارج ہیں جو اپنے بیمار بچے کی حفاظت میں بعض دفعہ جان بھی دے دیتی ہے۔ کیونکہ اس کی بنا ذاتی تاثرات یا محبت پر ہے۔ اس تعریف کو مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے ہم نے کہا ہے کہ “قدر” قوت تبادلہ کا نام ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کے تعین کے لیے تبادلہ ضروری ہے۔ مگر تبادلے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی اور فرد بھی ہو جس کے ساتھ تبادلۂ اشیاء کیا جائے۔ اب اس تعریف کے لحاظ سے دیکھو کہ آیا عقل، ہنر اور فطری قویٰ کو جنہیں انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ اشیاء ناقابل انتقال ہیں۔ یا بالفاظ دیگر ان کا تبادلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ انسان کی ذات سے منفک نہیں ہوسکتے۔ بعض حکماء کاقول ہے کہ چونکہ قدر کے لیے اشیا میں قابلیت انتقال کا ہونا ضروری ہے۔ اس واسطے ذاتی اوصاف قدر سے معر ّا ہیں اور دولت میں شامل نہیں ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اگرچہ انسان کے ذاتی اوصاف یا فطری قویٰ میں قابلیت انتقال نہیں ہے تاہم ان کے استعمال میں یہ قابلیت موجود ہے۔ ہم اپنے فطری قویٰ کو کسی اور شخص کی خاطر استعمال کرکے اس سے حق الخدمت حاصل کرسکتے ہیں۔ بڑھئی کا ہنر نہ صرف اوروں کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے بلکہ بالواسطہ اس کی اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لیے بھی ایسا ہی لازمی ہے جیسا کہ اس کے اوزار وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض محققین نے محاورہ متعارف کی رو سے اگرچہ لفظ “دولت” کا اطلاق اشیاء خارجی پر کیا ہے۔ تاہم انسان کے فطری قویٰ کو اس کی ذاتی دولت کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس رائے کے لحاظ سے کسی ملک کے لوگوں کا ہنر، دیانت داری وغیرہ بھی اس ملک کی دولت میں شامل ہیں۔ مگر بعض اہل الرائے نے بغیر کسی امتیاز کے ذاتی دولت کو بھی متعارف میں داخل سمجھا ہے۔ ان کے نزدیک دولت میں تین قسم کی اشیاء داخل ہیں۔ ۱۔ وہ ممکن الحصول اشیاء مادی خارجی جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے اور جن پر انسان کو قانونا یا رواجا حق ملکیت حاصل ہو۔ ۲۔ وہ ممکن الحصول اشیاء غیر مادی خارجی جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے اور جو اس کی ملکیت میں ہوں۔ اور جن کی وساطت سے اشیاء مادی حاصل کی جاسکیں۔ مثلا حقوق خدمت ملازمین اور تجارتی تعلقات وغیرہ۔ ۳۔ وہ ممکن الحصول اشیاء غیر مادّی اندرونی جن کی جائز اور مناسب طور پر خواہش کی جاسکے۔ مثلا انسان کے فطری قویٰ۔ ہمارے نزدیک پہلی رائے زیادہ قرین صواب معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ دونوں میں صرف ایک لفظی فرق ہے، معنوی فرق کوئی نہیں۔ قدر کے بیان سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ دولت اور بہبودی مرادف الفاظ نہیں ہیں۔ اکثر اشیاء ہماری بہبودی کے لیے ضروری ہیں۔ تاہم دولت کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں۔ مثلا اگر آزاد دستکاروں کو غلام تصور کیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت کی مقدار میں اضافہ ہوگا مگر انسان کی بہبودی کے لیے یہ امر مضرت رساں ہوگا۔ اسی طرح دولت کی مقدار کا مسئلہ ہے۔ بعض دفعہ کچھ عرصہ کے لیے ایسے اسباب فراہم ہوجاتے ہیں جو ملکی ترقی کے لیے ممد ہوں۔ مثلا گلوں کی ایجاد چھوٹے چھوٹے اوزار استعمال کے دائرہ سے خارج ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ملکی ترقی کا انحصار بہت کچھ اس قسم کی ایجادات پر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ تہذیب و تمدّن کی ترقی کے ساتھ ساتھ دولت کی مقدار دن بدن کم ہونے کی طرف میلان رکھتی ہے۔ اگر آبادی بڑھتی نہ جاتی اور انسانی ضروریات اور حاجات کا دائرہ دن بدن کم ہونے کی طرف میلان رکھتی ہے۔ اگر آبادی بڑھتی نہ جاتی اور انسانی ضروریات اور حاجات کا دائرہ دن بدن وسیع نہ ہوجاتا تو علم الاقتصاد کے موضوعات کا احاطہ بھی تنگ ہوتا جاتا۔ یہاں تک کہ اس علم کی ضرورت ہی نہ رہتی۔ اس ضمن میں یہ واضح کر دینا بھی لازم معلوم ہوتا ہے کہ دولت اور جائیداد بھی ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ کیونکہ اس امتیاز کا علم محصول آمدنی کی بحث میں کام آئے گا۔ فرض کرو کہ ایک قطعہ زمین ایک شخص کے لیے تو دولت ہوگی، جو اس کا لگان وصول کرتا ہے اور جو اپنے قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں اسے بیچ کر اپنی رقم وصول کرسکتا ہے مگر ملک کے لیے یہ زمین دولت نہ ہوگی۔ کیونکہ اگر فک الرہن ہوجائے تو ملک کی دولت میں کوئی تغیر نہ ہوگا۔ اس امتیاز کو زیادہ وضاحت سے یوں بیان کرسکتے ہیں کہ زمین مذکورہ تو دولت ہے کیونکہ ایک خاص متعین قدر رکھتی ہے مگر رہن دولت نہیں۔ بلکہ جائیداد یا دولت کی ایک خاص مقدارکو حاصل کرسکنے یا استعمال میں لاسکنے کا حق ہے۔ جو مرتہن کو حاصل ہے۔ یعنی مالک زمین کی جائیداد کی مقدار اس زمین کی قدر منفی حق مرتہن کے برابر ہے۔ اس مثال میں دولت تو ایک ہی ہے مگر جائیدادیں دوہیں۔ ایک تو اصل مالک کی جائیداد، دوسری مرتہن کی۔ زمین کی ملکیت خواہ ایک ہو خواہ کئی جائیدادوں پر منقسم ہو، ملک کی دولت میں کوئی تغیر واقع نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ علم الاقتصاد کو لفظ جائیداد سے سروکار نہیں ہے۔ کیونکہ اس لفظ کا مفہوم اقتصادی نہیں، بلکہ قانونی ہے۔ علم الاقتصاد کی ماہیت کو واضح کرنے کے لیے اصطلاحات “دولت” و “قدر” کے معنی کا بالصراحت بیان کرنا ضروری تھا۔ اس واسطے مندرجہ بالاسطور ہم کو لکھنی پڑیں۔ اب ہم پھر اصل مضمون کی طرف عود کرتے ہیں اور یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ علم الاقتصاد کے ابتدائی اصول کیا کیا ہیں۔ اس ضمن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاوہ اصول اولیہ اور واقعات کیا ہیں جن کی بنا پر علم الاقتصاد کا ماہر اپنے استدلال کو قائم کرتا ہے؟ کیا اس استدالال میں ان تمام واقعات کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، جو دولت پر اثر کرتے ہیںیا صرف چند ضروری واقعات پر قناعت کرنی چاہئے؟ کیا نتائج کلیہ پر پہنچنے کے لیے انسان کی حقیقی فطرت کا مطالعہ لازم ہے؟ یا اس غرض کے لیے ہمیں ایک خیالی انسانی فطرت کا تصور کرنا چاہئے جس کا ہر فعل اوروں کے لیے نمونہ ہو؟ کیا مختلف ممالک کے حالات زمین و آب و ہوا اور زرعی قابلیت اور لوگوں کے عادات اور ان کے اوضاع و اطوار کا معلوم کرنا ضروری ہے یا صرف انہی حالات و اوصاف کا علم ضروری ہے جو بالاشتراک ہر قوم میں پائے جاتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب پر علم اقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق منحصر ہے۔ مگر اس بارے میں حکما کے درمیان بڑا اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک اس علم کے ابتدائی اصول صرف چند واقعات ہیں جن کا تعلق انسانی فطرت، انسانی تمدن اور کر ّہ ارض کی طبعی بناوٹ کے ساتھ ہے۔ اور بعض کے نزدیک علم الاقتصاد کے ماہر کا یہ فرض منصبی ہے کہ انسانی فطرت کے کسی ایسے واقعہ کو نظر انداز نہ کرے جس کا تعلق دولت یا دولت کی تقسیم اور پیدائش کے ساتھ ہو۔ لہٰذا ان حکماء کی رائے میں جوں جوں انسانی فطرت کا علم وسیع ہوجاتا ہے توں توں علم الاقتصاد بھی وسعت حاصل کرتا جاتا ہے۔ ایک محقق جو ان حکماء کے طبقہ مؤخر الذکر میں داخل ہے کہتا ہے کہ ماہرین علم الاقتصاد کے فرائض مندرجہ ذیل ہیں۔ ِ۱۔ ان بڑے بڑے اصولوں کا معلوم کرنا جو حصول دولت پر اثر کرتے ہیں۔ ۲۔ انسان کی دماغی بناوٹ کے بعض ضروری واقعات کا معلوم کرنا جن کا تعلق انسانی فطرت کے ساتھ ہے۔ ۳۔ پیدائش دولت کے قدرتی اسباب کے بڑے بڑے طبعی خواص معلوم کرنا۔ ۴۔ دیگر اسباب کا تحقیق کرنا جو انسانی افعال پر اثر کرتے ہیں جن کا مقصود حصول دولت ہو۔ مثلا ملکی اور تمدنی رسوم، جدید ضروریات کا پیدا ہونا یا قوانین متعلقہ زمین وغیرہ۔ مگر ہماری رائے میں دونوں فریق راستی پر ہیں۔ علم الاقتصاد کے لیے ضروری ہے کہ اوّل چند خاص اصول بطور بناء کے قائم کئے جائیں اور پھر یہ معلوم کیا جائے کہ انسانی زندگی کے موجودہ حالات و واقعات سے ان ابتدائی اصولوں میں عملا کیا تغیر پیدا ہوتا ہے۔ بہرحال علاوہ اور باتوں کے ماہرین علم الاقتصاد کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ علم کی بنیاد انسانی فطرت کے صحیح اصولوں پر قائم کریں، ورنہ ان کو صحیح اور کلی نتائج کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ فرضاً اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ انسان بالطبع خود غرض ہے یا اس کی فطرت قدرتاً وصف ایثار سے کلی طور پر معر ّا ہے۔ اور اس ابتدائی اصول کو اقتصادی استدلال کی بنیاد قرار دیا جائے تو ظاہر ہے کہ وہ تمام استدلالات جو اس اصول پر مبنی ہوں گے، غلط سمجھے جائیں گے۔ کیونکہ حقیقتا انسانی فطرت اس قسم کی نہیں ہے، بلکہ خود غرضی اور ایثار دونوں سے مرکّب ہے۔ اگر کسی قوم میں علم الاقتصاد کے ایسے اصول مر وّج ہو جائیں جو اس قسم کے غلط مشاہدے پر مبنی ہوں تو وہ قوم ایک دو صدیوں کے عرصہ میں ہی ایک حیرت ناک اخلاقی تنزل کرے گی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس قوم کے ہر فعل میں بے جا خود غرضی اور زرپرستی کی بو آئے گی، جو اس کو کسی نہ کسی دن حضیض ذلّت میں گرا کر چھوڑے گی۔ لہٰذا بعض مصنّفین نے فطرت انسانی اور دیگر حالات طبعیہ کو ملحوظ رکھ کر علم الاقتصاد کے لیے چند ابتدائی مفروضات یا علوم متعارہ قائم کئے ہیں جن پر تمام استدلالات اقتصادیہ مبنی ہیں۔ ان میں سے بڑے بڑے اصول مندرجہ ہیں:- ۱۔ بالعموم ہر انسان کم و بیش دولت کی خواہش رکھتاہے۔ ۲۔ سرمایہ دار اور محنتی قدرتاً ان مشاغل کو ترک کر دیتے ہیں، جن میں نفع یا اجرت کم ہو اور ایسے مشاغل کی طرف رجوع کرتے ہیں جن میں منافع یا اجرت زیادہ ہو لیکن یادرکھنا چاہئے کہ یہ ابتدائی اصول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب کہ ملک میں ہر طرح سے امن ہو، غلامی کا دستور نہ ہو اور وہ تمام اسباب معدوم ہوں جو سرمایہ داروں اور محنتیوں کو تجارت کی ایک شاخ سے دوسری شاخ میں منتقل ہونے سے روکتے ہوں۔ ناظرین خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ اب سے ایک صدی پہلے ہندوستان میں یہ بات مشکل تھی کہ کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر میں جاکر کاروبار کرے۔ ۳۔ زمین کمیت یا مقدار میں محدود ہے۔ لیکن کیفیت یا خواص میں بالعموم ایک ملک کی زمین دوسرے ملک کی زمین سے مختلف ہوتی ہے۔ ۴۔ دنیا کی زمین بالعموم اس قدر زرخیز ہے کہ معمولی علم و ہنر کے کاشتکار کا حاصل محنت اس مقدار سے زیادہ ہوتا ہے جو صرف اس کے ذاتی گزارے کے لیے کافی ہو۔ مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوگیا ہو گا کہ علم الاقتصاد منفرد واقعات کے مطالعہ سے قوانین کلیّہ بھی قائم کرتا ہے اور اپنے ابتدائی مسلّمہ اصولوں سے نتائج بھی پیدا کرتا ہے جن کی صحت یا عدم صحت واقعات کے ساتھ مقابلہ کرنے سے معلوم کی جاتی ہے یا بالفاظ اصطلاحی یوں کہو کہ یہ علم دیگر علوم کی طرح عمل استقرائ اور عمل استخراج دونوں کے استعمال سے مستفید ہوتا ہے۔ اس مقام پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ تمام کلیہ قوانین واقعات پر مبنی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے ان کا عمل محدود ہوتا ہے۔ مگر علم الاقتصاد کے قوانین کلیہ خصوصیت کے ساتھ محدود ہیں۔ کیونکہ مختلف ممالک و اقوام کے اقتصادی اور تمدّنی حالات و واقعات بعض صورتوں میں کم وبیش مختلف ہیں۔ مثلا اس علم کے بعض قوانین مغرب کے ممالک کی نسبت توصحیح ہیں، مگر ہندوستان کی صورت میں اختلاف حالات کی وجہ سے صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض حکماء علم الاقتصاد کو ریاضی اور دیگر علوم کا ہم پایہ تصو ّر نہیں کرتے۔ اوراس کو اقوام اور ممالک کے ساتھ مختص سمجھتے ہیں۔ ایک مصنّف نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کو اس نے “اقتصاد ہندی” کے نام سے موسوم کیا ہے۔ مگر ہماری رائے میں یہ غلطی علم کو فن سے متمیز نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ علم کا کام صرف واقعات کے علل و اسباب معلوم کرنا ہے۔ یہ کسی طریق عمل پر مستحسن یا مذموم ہونے کا حکم نہیں لگاتا۔ برخلاف فن کے کہ اس کا فرض منصبی خاص واقعات کو ملحوظ رکھ کر کسی مقصد کے حصول کے لیے خاص خاص قواعد اور طریق عمل پیش کرے یا کسی طریق پر حکم لگائے۔ لہٰذا ہم اس کو دیگر نظری علوم کی طرح ایک علم سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ تسلیم کرنے میں عذر نہیں ہے کہ اس کے کلیہ اصولوں میں جدید واقعات کے لحاظ سے ایسا تغیر ّ آنا ممکن ہے۔ جس سے ان کی وسعت زیادہ ہوجائے۔ اور ان کے نئے نئے واقعات پر حاوی کردے۔ علم الاقتصاد کا تعلق دیگر علوم سے علم اقتصاد اپنی تحقیق میں دیگر علوم سے بہت مدد لیتا ہے۔ مثلا علم الابدان سے اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقائے زندگی کے لیے ایک معین خوارک کی ضرورت ہے یا انسان کے شہوانی قویٰ آبادی کو زیادہ کرنے کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ ان ہر دو مسلّمات سے مسئلہ اجرت و آبادیٔ انسان کی بحث پر بہت کچھ روشنی پڑتی ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس علم کیمیا سے اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی قابلیت پیداوار کی ایک خاص حد ہے جس کو لگان کی بحث میں ملحوظ رکھنا چاہئے۔ مگر یادرہے کہ اگرچہ اس علم کے محقق کو دیگر علوم کی تحقیقات سے مدد لینی چاہئے۔ تاہم یہ بھی لازم ہے کہ وہ علم اقتصاد کی ذاتی حدود کو مد نظر رکھے اور ان بحثوں میں نہ پڑ جائے۔ جن کا تعلق دولت کی تقسیم و تبادلہ وغیرہ سے نہیں ہے۔ علم الاقتصاد اور علم اخلاق اگرچہ علم الاقتصاد دیگر علوم میں سے بعض کے ساتھ ایک ضروری تعلق رکھتا ہے۔ مگر علم اخلاق کے ساتھ اس کا تعلق بہت گہرا ہے۔ اس علم کی طرح علم اخلاق کا موضوع بھی وہی اشیاء ہیں جو بعض انسانی مقاصد کے حصول سے وابستہ ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ علم اخلاق کا موضوع وہ افعال ہیں جو زندگی کے افضل ترین مقصد کے حصول کی شرائط ہیں اور علم الاقتصاد کا موضوع وہ اشیاء ہیں جو انسان کے معمولی مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کے معمولی مقاصد کی پوری قدر سمجھنے کے لیے ان پر اخلاقی مقاصد کے لحاظ سے نگاہ ڈالنی چاہئے۔ مثلاً خوراک، لباس، مکان، ہماری زندگی کے لیے ضروری ہیں اور ان کی قدر ان مقاصد کی قدر پر منحصر ہے جن کو یہ پورا کرتے ہیں۔ مگر زندگی کے ان معمولی مقاصد کی اصل وقعت صرف اس صورت میں معلوم ہوسکتی ہے جب ہم ان پر زندگی کے افضل ترین مقصد کے لحاظ سے غور کریں۔ اس لیے علم الاقتصاد کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے کسی قدر مطالعہ علم اخلاق کا بھی ضروری ہے۔ اکثر مصنفین نے اس صداقت کو محسوس نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دولت بلا لحاظ زندگی کے افضل ترین مقصد کے بجائے خود ایک تصو ّر کی گئی جس سے بعض تمدّنی اصلاحوں کے ظہور پذیر ہونے میں بے جا تعویق ہوئی اور دولت کے پیار کرنے والوں کی حرص و آز پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی۔ علم الاقتصاد کا تعلق علم تمدّن سے علم تمدّن وہ علم ہے جو انسانی زندگی کا افضل ترین مقصد اور اس کے حصول کے طریق معلوم کرتا ہے۔ اس علم کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ تمام دیگر علوم اس کی تحقیقات سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ بلاواسطہ یا بالواسطہ تمام علوم کا موضوع ذات انسان ہے، جو خصوصیت کے ساتھ علم تمدّن کا موضوع ہے۔ کسی شے کی حقیقی قدرو منزلت اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک ہماری زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول میں ہم کو مدد دیتی ہے یا یوں کہو کہ ہر شے کی اصلی وقعت کا فیصلہ تمدّنی لحاظ سے ہوتا ہے۔ دولت ہی کو لے لو۔ اگر یہ شے ہمارے افضل ترین مقاصد کے حصول میں ہم کو مدد نہیں دے سکتی، تو پھر اس کا کیافائدہ؟ لہٰذا علم اقتصاد جس کا موضوع دولت ہے وسیع علم تمدّن پر مبنی ہے۔ جس کا منشاء ہر شے کی اصلی وقعت کا فیصلہ کرنا ہے۔ انسان کی زندگی کا اصلی مقصد کچھ اور ہے۔ اور یہ تمام اشیاء دولت، صحت اور فرائض کی انجام دہی وغیرہ اس مقصد کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ چونکہ علم تمدّن کا منشاء ہمارے اعلیٰ ترین مقصد کی حقیقت کا معلوم کرنا ہے۔ اور ہماری روزمرہ کی ضرورت کی چیزوں کی حقیقی قدر اس علم کے لحاظ سے فیصلہ پاتی ہے۔ اس واسطے علم اقتصاد اور دیگر انسانی علوم علم تمدّن سے ایک نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ بلکہ ایک معنی میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس پر مبنی ہیں۔ علم اقتصادکے مختلف حصص علم اقتصاد کی ماہیت اور اس کا طریق تحقیق بیان کرچکنے کے بعد اب ہم اس علم کے چار بڑے حصص بیان کرتے ہیں، جو تمام اقتصادی مسائل پر حاوی ہیں۔ ۱۔ دولت کی پیدائش ۲۔ دولت کا تبادلہ ۳۔ دولت کی تقسیم ۴۔ دولت کا صرف یا استعمال اس کتاب کے آئندہ حصص میں علی الترتیب ان کا ذکر ہوگا مگر یادرکھنا چاہئے کہ علم الاقتصاد کے حصص کی مندرجہ بالا تقسیم ہم نے منطقی وضاحت کی غرض سے کی ہے۔ ورنہ جیسا کہ تمھیں آگے چل کر معلوم ہوگا۔ یہ سب حصص آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ مثلا اشیاء کے صرف یا استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی اشیاء ملک میں تیار کی جانی چاہئیں۔ اسی طرح پیدائش دولت کی کیفیت اور کمیت اس کی تقسیم سے متاثر ہوتی ہے اور اگر انقسام محنت کا اصول پورے طور پر مروج ہو جائے تو پیدائش دولت سے تبادلہ لازم آتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دولت کی تقسیم تبادلے سے متاثر ہوتی ہے۔ حصہ دوئم: پیدائش دولت زمین محنت سرمایہ قابلیت باب۔۔ ۱ زمین جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان دولت پیدا کرتا ہے تو ہمارا مفہوم یہ نہیں ہوتا کہ انسان کسی شے کا خالق ہے یا اُسے عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ دولت پیدا کرنے سے مراد محنت اور سرمائے کی مدد سے اشیاء میں صرف ایک خاص قدر کا پیدا کرنا ہے، جو اپنی اصلیت کے لحاظ سے مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم کی گئی ہے۔ (الف)۔ قدر مختص بالمکان یعنی وہ قدر جو کسی شے کو ایک مقام سے جہاں وہ پیدا ہوتی ہے دوسرے مقامات میں جہاں اس کی ضرورت ہے، منتقل کرنے سے اُس شے میں پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً کشمیر میں برف کی کوئی قدر نہیں لیکن اگر پنجاب میں منتقل کی جائے تو اس میں قدر پیدا ہو جائے گی۔ (ب)۔ قدر مختص بالزمان یعنی وہ قدر جو کسی شے کو ایک خاص میعاد تک مخصوص رکھنے اے اُس شے میں پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً سردی میں برف کا ایک ٹکڑا کچھ قدر نہیں رکھتا۔ لیکن اگر موسم گرما کی آمد تک اس کو کہیں دبا کر محفوظ رکھ دیا جائے تو اس میں ایک خاص قدر کا پیدا ہو جانا ممکن ہے۔ ج۔ قدر مختص بالہیتہ۔ یعنی وہ قدر جو کسی شے میں ایک خاص ہیئت پیدا کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً لوہے کی تلوار جو کسی مشین کی مدد سے تیار کی جائے۔ اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اصل مطلب شروع کرتے ہیں۔ دولت کی پیدائش کے تین بڑے وسائل ہیں۔ یعنی زمین، محنت اور سرمایہ۔ مگر بعض کی رائے میں تنظیم محنت بھی پیدائش دولت کی بڑی ممد ہے۔ لہٰذا بعض محققین نے اس کو بھی وسائل پیدائش میں شمار کیا ہے۔ اس باب میں ہم صرف زمین کے متعلق کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔ زمین انسان کے لیے ایک قدرتی عطیہ ہے جس کے استعمال پر نہ صرف اس کی موجودہ زندگی اور آسائش کا انحصار ہے بلکہ اس کی وسعت نسل انسانی کی زیادہ سے زیادہ آبادی اور اس کی مدت بقا کو بھی متعین کرتی ہے۔ چونکہ زمین کی مختلف قسموں کی قابلیت پیداوار مختلف ہے۔ اس واسطے مختلف مقامات میں انسانی محنت کا معاوضہ بھی مختلف ہے۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر انسانی ضرورت بلا واسطہ یا بالواسطہ اس قدرتی عطیئے کے مناسب استعمال سے پوری ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان دولت کے اس وسیع سرچشمہ کو زیادہ زرخیز کرنے یا اپنی ضرورت کے مطابق اُس کی قابلیتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے نئے نئے وسائل دریافت کرتا ہے۔ پیداوار زمین کی کمی بیشی ، اس کی زرخیزی اور دیگر مقامی خصوصیات مثلاً آب و ہوا، پانی کی افراط وغیرہ پر منحصر ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک اہم اور نہایت ضروری قانون کے ساتھ وابستہ ہے جس کا اچھی طرح زہن نشین کر لینا طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ اس قانون کو علم الاقتصاد کی اصطلاح میں قانون تقلیل حاصل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہر زمین کی قابلیت پیداوار کی ایک خاص حد مقرر ہے یا یوں کہو کہ پیداوار کی زیادہ سے زیادہ مقدار جو سرمائے اور محنت کے عوض میں کسی خاص زمین سے حاصل ہو سکتی ہے، ایک خاص معین اندازہ رکھتی ہے۔ جب کوئی زمین ہمارے سرمائے اور محنت کے عوض میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دے تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی پیداوار نقطہ تقلیل پر پہنچ گئی ہے۔ یعنی اس معین مقدار کے حاصل کر چکنے کے بعد سرمائے اور محنت کے دُگنا کر دینے سے یہ ضروری نہیں کہ زمین مذکور کی پیداوار بھی دُگنی ہو جائے۔ بلکہ دُگنی پیداوار حاصل کرنے کے لیے دُگنے سے زیادہ سرمائے اور محنت کی ضرورت ہو گی۔ اگر محنتیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے تو ہر محنتی کا حصہ پیداوار کم ہو جائے گااور اس کی کم تر معاوضے پر قناعت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح اگر سرمائے میں اضافہ کر دیا جائے تو پیداوار کی زیادتی اس زیادتی سے کم ہو گی جو کاشت کے نقطۂ تقلیل تک پہنچنے سے پیشتر اس اضافہ سے حاصل ہوتی۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک قطعۂ زمین پر جس کی وسعت سو ایکڑ ہے اور جس کی سالانہ پیداوار دو ہزار من غلہ ہے، دس آدمی مشترک طور پر کام کرتے ہیں۔ اس حساب سے ایک ایکڑ کی پیداوار بیس من ہوئی اور فی کس دو سو من آئے۔ لیکن محنتیوں کی مذکورہ جماعت میں دو آدمی اور شامل ہو جائیں اور فن زراعت کی ترقی سے زمین کی زرخیزی کی کوئی نئی راہ نکل آئے تو کیا اس زمین کی پیداوار مندرجہ بالا حساب سے دوہزار چار سو من ہو گی یا اس سے کم و بیش اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے اس امر کا دیکھنا ضروری ہے کہ ایا پہلے دس آدمیوں کی محنت اور سرمائے سے زمین مذکور کی کاشت نقطۂ تقلیل تک پہنچ گئی تھی۔ اگر کاشت اس نقطہ تک نہیں پہنچی تو آیندہ سال کی پیداوار دو ہزار چار سو من سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ انقسام محنت کی وجہ سے جس کے فوائد کا ذکر باب چہارم میں آئے گا۔ دس آدمیوں کی نسبت بارہ آدمی زیادہ غلہ پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کاشت نقطہ تقلیل تک پہنچ چکی ہے تو دو آدمیوں کی زیادتی سے پیداوار دو ہزار چار سو من سے کم ہو جائے گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا بارہ آدمیوں میں ہر آدمی کو دو سو من سے کم پر قناعت کرنی پڑے گی۔ اس طرح سرمائے اور محنت کی زیادتی سے پیداوار ہر سال زیادہ ہوتی جائے گی اور حصہ فی کس کم ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ زمین کی کاشت کے نقطہ تقلیل تک پہنچ جانے سے پیداوار پھر کم ہونی شروع ہو جائے گی اور حصہ فی کس پہلے سے بھی کم ہوتا جائے گا۔ یہ کمی اوّل اوّل تو بتدریج ہوگی، مگر بعد میں اس کی سُرعت میں یہاں تک ترقی ہوگی کہ زمین مذکورہ کا قطعہ موجودہ محنتیوں کے گزارے کے لیے بالکل ناکافی ہوگا۔ غالباً اس قانون کے عمل نے آریہ ہندئووں سے وسط ایشیا کے میدان چھڑوائے اور حضرت لوط علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جدا کیا جیسا کہ تورات میں مذکور ہے۔ اگر زمین کی کاشت میں سرمائے اور محنت کے بڑھتے جانے سے بالآخر نقطہ تقلیل تک پہنچ جانے کا میلان نہ ہوتا، تو ہر مزارع تھوڑے سے قطعہ زمین کی کاشت پر قناعت کرتا اور اس پر اپنا سرمایہ اور محنت صرف کرکے بہت سی پیداوار حاصل کر لیا کرتا اور لگان کے ایک بہت بڑے حصے کی ادائیگی سے بچ رہتا جو اب وسیع قطعات کی کاشت سے اس کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس قانون کی مزید وضاحت کے لیے ایک محقق سرمائے اور محنت کی زیادتی کو دوا کی خوراک سے تعبیر کرتا ہے اور زمین کو مریض قرار دیتا ہے ہے۔ اگر کسی زمین کے ایک قطعہ پر کچھ سرمایہ اور محنت صرف کی جائے اور اس کی پیداوار صرف خرچ ہی کے برابر ہو تو اس محقق کی اصطلاح میں ایسی زمین کی نسبت یہ کہا جائے گا کہ وہ کنارہ زراعت پر ہے۔ رفتہ رفتہ زیادہ سرمائے اور محنت کے صرف سے پیدا وار زیادہ ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ کاشت نقطۂ تقلیل تک پہنچ جائے گی اور مزید سرمائے اور محنت سے پیداوار میں کوئی متناسب زیادتی نہ ہو گی۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ سرمائے اور محنت کا حاصل جو مندرجہ بالا قانون کی تحت میں ہے، پیداوار کی مقدار سے متعین ہوتا ہے۔ جو اس سرمائے اور محنت کے عوض میں دستیاب ہوتی ہے۔ پیداوار مذکور کی قیمت کے گھٹنے بڑھنے کو اس حاصل کی تعیین میں دخل نہیں ہے۔ ہاںجب ہم اس قانون سے نتائج استخراج کریں گے اور بالخصوص اس اثر پر بحث کریں گے جو آبادی کی زیادتی سے وسائل زندگی پر ہوتا ہے۔ اس وقت قیمت کے تغیرات پر بھی بحث کرنا لازم ہوگا۔ ان تغیرات کو نفس قانون سے واسطہ نہیں۔ کیونکہ اس کا تعلق پیداوار کی قدر سے نہیں ہے بلکہ اس کی مقدار سے ہے۔ اس قانون کا عمل عام ہے اور یہ ہر ملک کے حالات پر صادق آتا ہے۔ اس کا اثر صرف مزر و عہ زمین تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ چراگاہوں ، جنگلوں اور سمندروں کی پیداوار بھی اس قانون کے احاطہ عمل میں ہے۔ اگرچہ بعض حالات میں کلوں اور دیگر ایجادات کی وجہ سے اس کا اثر چنداں ظاہر نہیں ہوتا۔ مصنوعی اشیاء بھی اس کے اثر سے آزاد نہیںہیں۔کیونکہ اُن کاہیولیٰ یا مصالح جس سے وہ تیار ہوتی ہیں زمین یا سمندر ہی سے برآمد ہوتا ہے۔ مگر مصنوعات کی مختلف اقسام پر اس کا اثر اس محنت کی مقدار کے لحاظ سے ہوتا ہے جو ان کی تیاری میں صرف کی جائے۔ قینچی کو ہی دیکھ لو۔ لوہے کو زمین سے نکالنے کا خرچ اس محنت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو اس کی تیاری میں صرف کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کان کی مشکلات بڑھ جانے کی وجہ سے لوہے کی قیمت دُگنی بھی ہو جائے تو قینچیوں کی قیمت پر زیادہ اثر نہ ہوگا۔ کیونکہ ان کی قیمت کے تعین میں اس محنت کو دخل ہے جو ان کی تیاری میں صرف ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ جو قومیں اس قسم کی دستکاری میں مصروف ہیںجو مصالح پر اپنا عمل کرتی ہیں، اُن کو اس قانون سے متاثر ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ کیونکہ اُن کی مصنوعات کی قیمت کم و بیش ان کی دستکاری اور محنت سے متعین ہوتی ہے۔ جس میں مصالح کے خرچ پیداوار کو بہت کم دخل ہے۔ مگر جو ملک زیادہ تر مصالح پیدا کرتے ہیں اور مضوعات کی تیاری عاری ہیں، اُن کی اس قانون کے نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ بالخصوص ہندوستان کے لوگوں کو۔ کیونکہ ابھی اس ملک کو صنعتی ملک کے نام سے موسوم نہیں کر سکتے۔ اگر اس ملک کے لوگ زیادہ تر صنعت کی طرف توجہ کریں، تو ان کی مالی حالت روز افزوں ترقی کرے گی اور مفلسی کے عذاب اور دیگر مصائب سے نجات ملنے کی صورت نظر آئے گی۔ کیونکہ اور ملکوں کی طرح اس ملک کو مصالح باہر سے منگوانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے اوپر بیان کیا ہے جب کہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک پہنچ جاتی ہے تو اس کی قابلیت پیداوار کم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں کہ معمولی کاشت ہی اُس کے اندرونی خواص کو زائل کرتی ہے بلکہ بعض چند ایسے قدرتی اسباب بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو اس کی زرخیزی کو انتہا درجہ کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ علم طبعی کے نتائج کی رو سے کوئی شے عدم محض نہیں ہو سکتی بلکہ صرف اُس کی ماہیت تبدیل ہو جاتی ہے تو اس کاجواب یہ ہے کہ اگرچہ عدم محض محال ہے تاہم کوئی مفید شے بدل کر ایسی ہیئت یا صورت اختیار کر سکتی ہے جو انسان کے لیے بالکل کار آمد نہ ہو۔ مثلاً جب کوئی مکان جل کر خاک ہو جاتا ہے تو بالکل معدوم نہیںہوتا بلکہ ایک مفید ہیئت سے ایک غیر مفید ہیئت اختیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح زمین کے مفید اندرونی خواص انسان کے معمولی کاشت یا دیگر مضرت رساں قدرتی اسباب سے حقیقی طور پر فنا نہیں ہو جاتے بلکہ ایسی صورت اختیار کر لیتے ہیںجو ہماری ضروریات کے لحاظ سے غیر مفید ہوتی ہے۔ زمین کے اس خاصے کی بنا پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہندوستان چونکہ صنعتی ملک نہیں ہے، اس واسطے یہ دیگر ممالک کے لیے ایک طرح کا ذخیرہ بن گیا ہے، جہاں سے وہ اپنے صنعتی کارخانوں کے لیے مصالح حاصل کرتے ہیں اور پھر اُس مصالح کو اپنی دستکاری کے عمل سے نئی نئی مصنوعات کی صورت میں تبدیل کر کے دیگر ممالک اور ہندوستان میں بھیج کر بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہمارے ملک میں چونکہ قانون تقابل حاصل کے عمل کو روکنے کے اسباب قلیل ہیں۔ لہٰذا جو اشیاء ہندوستان میں دیگر ممالک سے آتی ہیں ان پر قانوناً بہت سا محصول لگنا چاہیے۔ جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ دیگر ممالک کے تاجر اپنی صنعتی اشیاء اس ملک میں نہ بیچ سکیں گے۔ اگر بیچیں گے تو اُن کو کچھ فائدہ کی توقع نہ ہو گی۔ کیونکہ زیادہ محصول کی وجہ سے اُن اشیا کی قیمت گراں ہو جائے گی اور یہاں کے لوگ اُن کو خریدنے سے باز رہیں گے۔ اس طرح ہمیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود اپنا محتاج ہونا پڑے گا اور ہماری صنعت کو ترقی ہوگی۔ اس طریق عمل کو “حفاظت تجارت” یا “تامین تجارت” کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام ممالک باہمی ایک دوسرے کے دست نگر نہ ہوں۔ بلکہ اپنی ضرورت کی چیزیں اپنے اپنے ملک کے پیدا کردہ مصالح سے خود تیار کریں۔ اس دلیل سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مندرجہ بالا طریق عمل کا مقصد قوموں کے باہمی تعلقات کو قطع کرنا ہے۔ یہ نتیجہ صحیح نہیں ہے۔کیونکہ تامین تجارت کے مویدوں کا مقصد ہر ملک کے لوگوں کو صنعت کی طرف مائل کرنا ہے نہ کہ اُن کے باہمی تعلقات کو زائل کرنا۔ جو شے کسی ملک میں سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی وہ بمجبوری دیگر ممالک سے حاصل کی جائے گی اور اس طرح تجارتی تعلقات بدستور قائم رہیں گے۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مصالح پیدا کرنے والوں کو باہمی خرید و فروخت کرنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔ اس واسطے کسی قسم کا محصول لگانا گویا انسان کی آزادی پر حملہ کرنا ہے۔ مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ بسا اوقات کسی خاص فرد کا فائدہ عام افراد قوم کے فوائد سے متناقص ہوتا ہے تاہم مذکورہ بالا دلیل میں دو امور نظر انداز کئے گئے ہیں۔ جن پر غور کرنا نہایت ضروری ہے۔ ۱۔ اوّل تو یہ کہ نظام قدرت خود بخود اس کمی کو پورا کرتا ہے جو زمین کی قابلیت پیداوار کے رفتہ رفتہ کم ہوتے جانے سے لاحق ہوتی ہے۔ مثلاً بڑی بڑی چٹانوں کا تحلیل ہو کر وسیع قطعاتِ زمین کی صورت میں متبدل ہوتے جانا۔ ۲۔ دوئم زمین کے انسانی استعمال میں اس کے کچھ نہ کچھ حصے کا ضائع ہونا ضروری ہے۔ بلکہ بڑے بڑے تجارتی قصبوں کی تعمیر سے بھی یہ بات رُک نہیں سکتی اور کچھ نہیں تو ایسے قصبوں میں کچھ حصہ زمین ان نہروں کی تیاری ہی میں صرف کرنا پڑے گا جن کی وساطت سے کوڑا کرکٹ وغیرہ سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ قصہ کوتاہ یہ بحث بڑی دلچسپ ہے اور اس کے نتائج مختلف ممالک کے حالات پر منحصر ہیں۔ ہم اس پر زیادہ خامہ فرسائی نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کا فیصلہ ناظرین کی رائے پر چھوڑتے ہیں۔ باب۔ ۲ محنت دولت کی پیدائش کا دوسرا وسیلہ محنت ہے جس سے مراد وہ جسمانی یا غیر جسمانی (دماغی) سعی ہے جو کسی مقصد کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ قطع نظر اس خوشی یا لذت کے جو اس سعی کے دوران میں حاصل ہو۔ قدرت مصالح یا ہیولیٰ مہیا کرتی ہے۔ مگر محنت اس کی مختلف اقسام پر اپنا عمل کرنے سے یا ان کو مطلوبہ ہیئت میں تبدیل کرنے سے اس ہیولیٰ کو انسانی ضروریات کے پورا کرنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ اس قمیص کو ہی لو جو تم پہنتے ہو۔ اس کو موجودہ مفید ضورت میں لانے کے لیے محنت کے مختلف اعمال کا کس قدر طویل سلسلہ درکار ہے۔ اعلیٰ ہذا لقیاس مصنفین اور علماء کی تصانیف جن کا منشاء قوم کی اصلاح کرنا یا علوم کی اشاعت وغیرہ ہو، خالص دماغی محنت کی مثالیں ہیں۔ تہذیب و تمدن کے اقل درجہ کی حالت میں انسان کی ضروریات قدرت کی فیاضی سے خود بخود پوری ہو جاتی ہیں۔ محنت کی احتیاج نہیں ہوتی اور جب تک یہ حالت قائم رہتی ہے، اشیاء میں وہ خاصیت بھی پیدا نہیں ہوتی جس کی قدر کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ انسان دیگر حیوانات کی طرح خود رو پھلوں پر یا شکار پر گزران کرتا ہے۔ اس حالت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آبادی کم ہو، قحطوں کا تواتر ہو اور زندگی کو قائم رکھنے کے لیے قبائل انسانی میں باہمی جنگ وجدل کا سلسلہ قائم رہے۔ مگر جب انسان اس وحشیانہ حالت سے ترقی کر کے حالت شبانی تک پہنچتا ہے ، تو اقتصادی معنوں میں محنت کا ظہور ہوتا ہے۔ اس حالت میں بنی آدم قدرت کی فیاضی کے بھروسے ہی نہیں رہتے، بلکہ مختلف جنگلی حیوانوں کو اپنے قبضے میں لاتے ہیں۔ پانی کے غیر مستقل ذخیرے کے لیے نہریں کھودتے ہیں۔ بلکہ آیندہ خشک سالی کی فکر سے خورد و نوش کا سامان جمع کرنا اور اپنے حیوانوں کی حفاظت کرنا بھی سیکھتے ہیں۔ غرض کہ محنت کی مندرجہ بالا صورتوں کی وساطت سے وہ تمام اشیاء دولت بن جاتی ہیں، جو انسان کی وحشیانہ حالت میں اس خاصیت سے معّرا تھیں۔ تمدن کی اس حالت میں آبادی دن بدن زیادہ ہوتی ہے اور خورد و نوش کا سامان صرف کثیر ہی نہیں ہوتا بلکہ بیرونی خطرات سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کی ذاتی محنت سے قحطوں کا تواتر رُک جاتا ہے اور ان کے گزارے کی سبیل یقینی ہو جاتی ہے۔ آخر کار یہ مرحلہ بھی طے ہو جاتا ہے اور انسان ترقی کر کے اس حالت تک پہنچتا ہے جس کو حالت زراعتی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ خانہ بدوشی چھوٹ جاتی ہے۔ آبادی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ اور محنت کا ہاتھ زمین کے مخفی خزانوں کو غلہ اور دیگر اجناس کی صورت میں نکالنا شروع کرتا ہے۔ اوپر کی سطور سے واضح ہو گیا ہو گا کہ پیدائش دولت کے لیے محنت لازم ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہر محنت دولت آفریں نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کی دو بڑی اصناف قرار دی گئی ہیں۔ یعنی ۱۔ محنت بار آور ۲۔ محنت غیر بار آور مقدم الذکر سے مراد وہ محنت ہے جو بالواسطہ یا بالا واسطہ مسلسل طور پر مزید دولت پیدا کرتی رہے اور آخر الذکر سے مراد اُس محنت کی ہے جو مسلسل طور پر مزید دولت پیدا نہ کر سکے۔ مثلاً مفید اور ضروری اشیاء تیار کرنے والے معماروں ، آہن گروں یا سپاہیوں اور استادوں کی محنت بار آور ہے۔ برخلاف اس کے آتش بازی بنانے والے کی محنت غیر بار آور ہے۔ کیونکہ آتش بازی کا دستکاری بجائے اس کے کہ مسلسل طور پر مزید دولت پیدا کرے قومی دولت کو کم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر فرض کرو کہ کسی جگہ صرف دو آدمی آباد ہیں۔ ایک کے پاس دس روپے ہیں اور دوسرے کے پاس پانچ۔ یعنی اُن کا کل سرمایہ پندرہ روپے ہے۔ فرض کرو کہ جس شخص کے پاس پانچ روپے ہیں وہ اپنا سرمایہ آتش بازی کی تیاری میں صرف کرتا ہے اور شے مذکور کے تیار ہونے پر اُسے اپنے تماشہ پسند ساتھی کے پاس لے جاتا ہے جو آتش بازی کو دس روپیہ پر خرید لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کا سرمایہ جو پہلے پندرہ روپے تھا، اب صرف دس روپے رہ گیا ہے۔ جو آتش باز کے قبضہ میں ہے۔ کیونکہ آتش بازی اپنے مالک کو ایک عارضی خوشی دے کر تھوڑی دیر کے بعد بالکل معدوم ہو جائے گی۔ لہٰذا تمام غیر بار آور محنت جو اسباب تن آسانی پر صرف ہوتی ہے۔ اگرچہ بادی النظر میں سرمایہ داروں کو محنت بار آور کے مانند منافع غیر معلوم ہو تی ہے (جیسا کہ مثال بالا میں ہمارے آتش باز کو اپنی تجارت سے پانچ روپیہ منافع معلوم ہوتا ہے) تاہم انجام کار قومی دولت کی مقدار کو کم کرتی ہے۔ کیونکہ یہ محنت اور سرمایہ جو اس پر صرف ہوتا ہے گویا ایسی اشیاء کی تیاری میں صرف ہوتا ہے جو کچھ عرصہ بعد قدرے معرا ہو کر بالکل معدوم ہو جاتی ہیںاور اس وجہ سے مسلسل طور پر مزید دولت کے پیدا کرنے کا ذریعہ نہیںبن سکتیں۔ اگر غور سے دیکھو گے تو تمھیں معلوم ہوگا کہ نجیلوں اور عشرت پسندوں کا وجود قومی دولت کے لیے یکساں مضرت رساں ہے نہ بخیل بھی عشرت پسندوں کی طرح دولت کو ایک طرح سے فنا ہی کرتا ہے کیونکہ جو دولت صندوق میں بند رہے اور مزید دولت کے پیدا کرنے میں صرف نہ ہو اُس کا عدم اور وجود برابر ہے۔ غرض کہ محنت کا بار آور غیر بار آور ہونا اور سرمایہ کا بار آور یا غیر بار آور طور پر استعمال ہونا مزید دولت پیدا کر سکنے یا نہ کر سکنے کی قابلیت پر منحصر ہے۔ معلم کی محنت بار آور ہے کیونکہ وہ اوروں کو اس قابل بناتا ہے کہ مزید دولت پیدا کریں۔ علیٰ ہذاالقیاس سپاہی کی محنت بھی بالواسطہ بار آور ہے کیونکہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کرتا ہے جو مزید دولت پیدا ہونے کی ایک ضروری شرط ہے۔ اسی طرح دیگر دستکاروں یعنی معماروں ، آہنگروں وغیرہ کی محنت بھی بشرطیکہ اسباب تن آسانی پر صرف نہ ہو بار آور ہے۔ کیونکہ اُن کی محنت سے ایسی اشیاء تیار ہوتی ہیں ، جن سے سلسلہ وار مزید دولت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ برخلاف گوٹا بنانے والے کی محنت کے کہ اُس کا نتیجہ ایک ایسی شے ہے جو خریدنے والے کو ایک عارضی خوشی یا آسائش تو دیتی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد فنا ہو کر دولت کی آیندہ پیدائش کے سلسلہ کو یک قلم منقطع کر دیتی ہے۔ مندرجہ بالا امتیاز کی بناء اس امر پر ہے کہ ہر ملک میں بعض دستکار اور سرمایہ دار تو ایسے ہوتے ہیںجو اپنی محنت اور سرمائے کو ضروریات زندگی کے پیدا کرنے میں صرف کرتے ہیں اور بعض صرف اسباب عشرت و تن آسانی ہی کو پیدا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے حالات زندگی، اس کے خیالات و قویٰ میں ایک قسم کا تغیر آتا رہتا ہے جس سے یہ امکان ہو جاتاہے کہ جو چیز سو سال پہلے اسباب تن آسانی میں سے تصور کی جاتی تھی اب اخلاقی حالات کی وجہ سے ضرورت زندگی میں شمار کی جائے لہٰذا تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مدارج میں ضروریات زندگی اور اسباب تن آسانی یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ محنت بار آور اور غیر بار آور میں تمیز کرنا ذرا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا توضیح پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں:۔ ۱۔ فرض کرو کہ ایک استاد بیس لڑکوں کو تعلیم دیتا ہے جن میں سے آخر کار دس طلبا معزز عہدوں پر ممتاز ہوئے مگر باقیوں نے مرنوالحال ہونے کی وجہ سے کوئی ملازمت یا تجارت وغیرہ کی۔ ظاہر ہے کہ محنت بار آور کی تعریف کی رو سے استاد کی محنت کا وہ حصہ جو پہلے دس کی تعلیم پر صرف ہوا ہے، بار آور ہے۔ کیونکہ اُس سے مسلسل طور پر مزید دولت پیدا ہو رہی ہے لیکن وہ حصہ جو باقی دس کی تعلیم پر صرف ہوا ہے، غیر بارآور ہے کیونکہ اس سے مسلسل طور پر مزید دولت پیدا نہیں ہوتی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک ہی قسم کی محنت ایک حالت میں بار آور اور دوسری حالت میں غیر بار آور ہو؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ کم علم اقتصاد واقعات کے اسباب و علل معلوم کرتا ہے اور اس بات پر بحث کرتا ہے کہ اگر بعض مانع اسباب نہ پیش آئیں تو فلاں واقعہ اس طرح پر ظہور پذیر ہوگا۔ استاد کی محنت دونوں صورتوں میں بارآور ہونے کا میلان رکھتی ہے لیکن چونکہ دوسری صورت میں طلبا کی بے پروائی یاد مگر موانع پیش آ گئے ہیں ، اس واسطے غیر بار آور ہو گئی ہے۔ ۲۔ تم شاید یہ کہو گے کہ اگر کسی شے کے بار آور اور استعمال سے یہی مراد ہے کہ اس سے مسلسل طور پر مزید دولت پیدا ہوتی جائے تو جو روپیہ ہم لنگڑوں ، اپاہجوں اور معذوروں کو بطور خیرات کے دیتے ہیں ، وہ بھی غیر بار آور طور پر صرف ہوتا ہے کیونکہ اس سے کوئی مزید دولت پیدا نہیں ہوتی۔ بے شک یہ خیال صحیح ہے اور اسی خیال سے ایک مشہور انگریزی مصنف لکھتا ہے کہ علم الاقتصاد کے اصول اورنتائج انسان کے ذاتی تاثرات کے صریح مخالف ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اگر اس علم کے اصول کی رو سے خیرات کا روپیہ غیر بار آور طور پر صرف ہوتا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ خیرات دینی ہی نہیں چاہیے علم الاقتصاد واقعات پر بحث کرتا ہے نہ کہ فرائض انسان پر۔ نظری طور پر کسی امر کا صحیح ہونا اس بات کا مستلزم نہیں ہے کہ وہ امر اس وجہ سے ہمارے فرائض سے ہی خارج ہے۔ فرائض انسان کی تعیین علم الاقتصاد کا کام نہیں ہے۔بلکہ ان کا فیصلہ علم اخلاق کے اصول پر ہوتا ہے۔جو بحیثیت ایک علم ہونے کے علم الاقتصاد سے الگ ہے بلکہ اگر تم غور کر کے دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ نظام تمدن کے بقاء اور اس کے استحکام کے لیے یہ ضروری ہے کہ قومی دولت کا کچھ حصہ فنا بھی ہوتا رہے۔ اس امتیاز کا اصلی مفہوم ذہن نشین کر لینے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ کسی ملک میں محنت کی پیداوار کا کم و بیش ہونا مندرجہ ذیل اسباب پر منحصر ہے۔ خواہ وہ ملک حالت شبانی میں، خواہ زراعتی حالت میں، خواہ تہذیب و تمدن کے اس درجہ پر موجب کہ صنعت و تجارت انتہائے عروج پر ہوتی ہیں۔ ۱۔ دستکاروں یا محنتیوں کی کارکردگی۔ ۲۔ انقسام محنت یا محنت کے مختلف اعمال اور حصص کا مختلف افراد پر تقسیم کرنا اور اس طریق سے اُن کی تخصیص و تنظیم کرنا۔ محنت کی کارکردگی محنتی کی کارکردگی کئی اسباب پر منحصر ہے۔ اوّل اس کی موروثی ہمت یا قویٰ جو فطرت نے اُسے عطا کئے ہوں۔ قدرت کا عطیہ مختلف اقوام کی حالت میں مختلف ہے۔ بعض قومیں قدرتاً قوی اور مضبوط ہوتی ہیں بعض قدرتاً دُبلی پتلی اور مقابلتاً ضعیف۔ یہی حال افراد کا ہے مگر اس اختلاف کی علت پر بحث کرنا علم الاقتصاد کا کام نہیں ہے۔ دوم۔ محنتی کی غذا کی کیفیت اور کمیت۔ سوم۔ محنتی کا سامان حفظ صحت ، صاف اور ہوا دار مکانوں میں رہنے سے اس کی صحت پر ایک نمایاں اثر ہوگا۔ جس سے اس کی ہنر مندی ترقی کرے گی۔ چہارم۔ محنتی کی فطرتی ذہانت۔ ذہن محنتی بہ نسبت غبی محنتی کے کئی وجوہ سے زیادہ اچھا کارکن ہوتا ہے۔ ۱۔ تو اسے اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اُس کی شاگردی کی مدت طویل ہو۔ ۲۔ اس پر نگرانی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی۔ ۳۔ وہ اشیاء کی تیاری میں کم نقصان کرتا ہے۔ ۴۔ وہ کل کا استعمال جلد سیکھ جاتا ہے۔ ۵۔ زندگی کی دوڑ میں بڑھنے کی آرزو ، جو سچی خود داری اور غیرت سے پیدا ہوتی ہے اور اس امر کا یقین کہ پیداوار محنت کی افزائش کے ساتھ ساتھ اس کا حصہ بھی بڑھتا جائے گا۔ مندرجہ بالا اسباب میں سے پہلے تین اسباب طبعی ہیں۔چوتھا عقلی اور پانچواں اخلاقی ہے۔ تم کو معلوم ہے غلاموں کی محنت آزاد محنتیوں کی محنت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ غلاموں کی محنت کارکردگی کی وقعت سے کیوں معرا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ آزاد محنتیوں کی طرح اسے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے اور اپنے ہمراہیوں پر فوقیت لے جانے کی کوئی خواہش ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے۔ تازیانہ کا خوف ان قویٰ کو حرکت میں نہیں لا سکتا جن کی تحریک صرف تمنائے دولت اور خود داری کی خلش سے ہوتی ہے۔ آزاد محنتیوں کی صورت میں بھی اُجرت کا قطعی اور یقینی ہونا ان کے لیے انتہا درجہ کا قوی محرک ہوتا ہے اور اگر کسی مالک کا نہیں بلکہ اپنا کام کر رہے ہوں تو اپنی محنت کی کارکردگی کے زیادہ کرنے میں اور بھی کوشش کرتے ہیں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی محنت کی پیداوار کاپورا مالک تصور کرتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:۔ “حقِ ملکیت ایک اکسیر ہے جو تانبے کو سونا بنا دیتا ہے”۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بعض ممالک میں قانون ہی اس ڈھب کے وضع کئے جاتے ہیں کہ قوم کے دستکار اُن کے اثر سے دن بدن سُست ہوتے جاتے ہیں۔ کیونکہ بسا اوقات یہ قانون اُن کی اپنی محنت کا پورا فائدہ اٹھانے سے روکتے ہیں۔ کچھ عرصہ گزرا ہے ملک سکاٹ لینڈ میں قوانین متعلقہ مزارعین اس طرح سے وضع کئے گئے تھے کہ ان بے چاروں کی جانکاہی کوہ کندن و کاہ برآوردن کی مصداق تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اُن لوگوں کے مزاج میں دن بدن کاہلی ترقی کرتی گئی۔ مگر جب اس قسم کے بیہودہ قوانین منسوخ کر دیئے گئے تو انھوں نے اپنی جبلی چستی اور استقلال کو پھر حاصل کر لیا۔ پس یہ تمام اسباب ہیں جو محنت کی کارکردگی میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ انقسامِ محنت کسی قوم کی قوتِ محنت کا دوسرا جزو انقسامِ محنت ہے۔ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراحل میں ہر انسان اپنی ذاتی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے سارا کام خود کرتا ہے۔ اپنی جھونپڑی کا معمار بھی آپ ہی ہوتا ہے اور اپنے شکار کے لیے تیر و کمان اور دیگر اوزار بھی آپ ہی تیار کر لیتا ہے۔ مگر اس حالت میں بھی کسی نہ کسی حد تک انقسامِ محنت کا اصول عمل میں ضرور آتا ہے۔ عورت سوت کاتتی ہے۔ پہننے کے لیے کپڑے تیار کرتی ہے کھانا پکاتی ہے۔ لیکن مرد اور کام کرتا ہے جن میں قوت اور چستی کی زیادہ ضرورت ہے رفتہ رفتہ محنت کا انقسام جنسیت کے امتیاز پر مبنی نہیں رہتا۔ بلکہ ذاتی قابلیت کے اختلاف پر مبنی ہو جاتا ہے۔ افراد میں سے کوئی لوہار ، کوئی زرگر، کوئی بڑھئی بن جاتا ہے اور اس طرح آخر کار ہر پیشہ کے مختلف حصے مختلف محنتیوں کے ساتھ مختص ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر ممالک میں ذات پیشہ کے لحاظ سے قرار دی جاتی ہے۔ ہندوستان کو ہی لو ہمارے ہاں اصول انقسام محنت کا اثر اس درجہ تک ہوا کہ درزی ، لوہار ، بڑھئی وغیرہ ذاتیں قرار پا گئیں اور اس امتیاز پر اس قدر بے جا زور دیا گیا کہ اس کے مضرت رساں نتائج بالکل نظر انداز کر دئیے گئے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراحل میں یہ امتیاز قوموں کے لیے مفید ہو سکتا ہے لیکن کسی شے کے ایک خاص صورت میں مفید ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ شے ہر حالت میں مفید ہے۔ انقسامِ محنت سے دولت کی پیدا وار روز افزوں ترقی کرتی ہے۔ ۱۔ اس کی وجہ سے شاگردی کی مدت کم ہو جاتی ہے کیونکہ جب محنتی کو کسی پیشے کا صرف ایک خاص حصہ ہی سیکھنا ہو گا تو ظاہر ہے کہ اس کے سیکھنے کی مدت اس مدت سے بہت کم ہوگی جو اس پیشہ کی تمام شاخوں کے سیکھنے میں صرف ہوتی۔ ۲۔ ایک خاص شاخ کی مزادلت سے اس کے ہاتھ کی صفائی بڑھ جائے گی۔ ۳۔ جب ایک محنتی کسی پیشے کی ایک خاص شاخ کے لیے مختص ہو جائے گا تو اُس کو اس پیشے کی دیگر شاخوں سے کوئی سروکار نہ ہوگا اور عدم انقسام کی صورت میں جو وقت ایک شاخ سے دوسری شاخ کی طرف جانے اور پیشے کے مختلف اعمال کی ادل بدل میں صرف ہوتا تھا، انقسام محنت کی صورت میں بچ جائے گا۔ ۴۔ چونکہ ہر محنتی کی توجہ پیشے کی کسی خاص شاخ یا عمل پر مبذول رہا کرے گی ، اس واسطے وہ اپنے مقررہ کام کو سہولت ، آسانی اور صفائی کے ساتھ سر انجام دینے کی راہیں ایجاد کر نے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ دنیا کی بڑی بڑی ایجادات علمی ترقی کا نتیجہ ہیں۔ تاہم اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ ان کا بہت سا حصہ اصول انقسام محنت کے اثر سے ظہور میں آیا ہے۔ ۵۔ انقسامِ محنت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ کام محنتیوں کی قابلیت کے مطابق تقسیم ہوگا لہٰذا بچے اور عورتیں بھی اپنی اپنی قابلیت کے مطابق ملک کی دستکاری سے بہرہ ور ہوں گی۔ مندرجہ بالا سطور سے یہ تو تمھیں معلوم ہوگیا ہو گا کہ انقسامِ محنت کسی ملک کی صنعت کے لیے کہاں تک مفید ہے۔ لیکن اگر اسی اصول کو دنیا کی تمام اقوام و ممالک پر وسعت دی جائے تو یا یوں کہو کہ محنت کی مقامی تقسیم کی جائے تو اس کے فوائد اور بھی نمایاں معلوم ہوں گے۔ ہر ملک وہی شے پیدا کرنے کی قابلیت اسے حصوصیت کے ساتھ حاصل ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ وہ ملک اس خاص شے کے پیدا کرنے میں کمال حاصل کرتا جائے گا۔ جو لوگ اصول “تامین تجارت “ کے مخالف ہیں۔ اُن کی بڑی دلیل یہی ہے کہ قوموں کے تجارتی تعلقات پر کسی قسم کی روک پیدا کرنا گوپا لوگوں کو اُن بڑے بڑے فوائد سے محروم کرنا ہے جو محنت کی مقامی تقسیم کا نتیجہ ہیں۔ کیونکہ ہر شخص یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی ضرورت کی چیزیں اسی ملک یا بازار سے خرید لے ، جہاں وہ کم سے کم قیمت پر دستیاب ہو سکتی ہیں۔ تم جانتے ہو کہ ہر قوم کے تمدنی اور ملکی حالات کم و بیش مختلف ہیں۔ لہٰذا اُن کی دستکاری میں بھی کم و بیش اختلاف ہے۔ کسی کو کسی شے کی تیاری میں کمال حاصل ہے۔ یا ملکی اور قومی حالات کی وجہ سے ہو سکتا ہے اور کسی کو کسی اور شے کی تیاری میں۔ اگر اس قدرتی امر کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا کی محنت کو اس طور پر مرتب و منظم کریں کہ ہر ملک انہیں اشیا کے پیدا کرنے میں مصروف رہے جن کے تیار کرنے میں اُسے خاص طور پر قابلیت حاصل ہے یا یوں کہو کہ دستکاری کی مختلف شاخیں ایک نہ ایک قوم یا مقام کے ساتھ مختص سمجھی جائیں ، تو ظاہر ہے کہ اس تنظیم سے بے انتہا فوائد منتج ہوں گے۔ محنت کی کارکردگی پر ایک نمایاں اثر ہوگا۔ بنی نوع انسان ایک بڑے جسم کی طرح ہیںکہ مختلف ممالک یا اقوام اس کے اعضا ہیں، جو اپنے اپنے مقررہ فرائض کی انجام دہی سے “بنی آدم اعضائے یک دیگر اند” کا پورا مفہوم ظاہر کرتے ہیں۔ اور اس طرح جسم کی پرورش اور ترتیب کرے ہیں۔ پس قطع نظر ان فوائد کے جو انقسام محنت سے پیدا ہوتے ہیں اور جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے۔ تنظیم محنت کا اوّل تو یہ فائدہ ہو گا کہ دستکاری کی مختلف شاخوں کی تقسیم سے مختلف پیشہ وروں کے کام کی خوبی کا مقابلہ ہو سکے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے درمیان ایک قسم کا رشک پیدا ہو جائے گا اور پیشہ ور اس رشک کے جوش میں سعی کرے گا کہ اس کاکام خوبی میں اوروں کے کام سے بہتر ہو۔ علاوہ اس کے تنظیم محنت کی وجہ سے مالکوں یا کارخانہ داروں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو جائے گی، جو اپنی ذاتی منفعت کی خاطر ہمیشہ یہ سوچتے رہیں گے کہ ملک کی دستکاری مفید ترین راہوں میں صرف ہو۔ اگرچہ مالکوں کی ایک علیحدہ جماعت کے قائم ہو جانے سے اوّل اوّل کسی قدر نقصان ہو گا۔ کیونکہ دستکار کو اپنے کام میں وہ ذاتی دلچسپی نہ رہے گی، تاہم مجموعی طور پر اس جماعت کا اثر مفید ہوگا۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ تنظیم محنت کے لیے یہ ضروری ہے کہ دستکاری کے مختلف مرکزوں کے درمیان پیام رسانی اور ارتباط کے دیگر ذرائع کاپورا انتظام ہو، ورنہ بیگانگی اور عدم تعلق سے بعض اوقات خوفناک نتائج پیدا ہونے کا اندیشہ ہو گا۔ ۱۸۶۰ء میں جب کہ ممالک مغربی و شمالی ایک ہیبت ناک قحط کی مصیبت سے پامال ہو رہے تھے، بعض اضلاع میں چاول کا نرخ چار روپیہ فی من تھا مگر بعض اضلاع میں دو روپیہ من سے بھی کم تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف اضلاع کے درمیان تجارتی تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے کافی سڑکیں موجود نہ تھیں ، جن کی وجہ سے قحط زدہ اضلاع اُن اضلاع کی پیداوار سے فائدہ اٹھا سکتے جن میں مقابلتاً ارزانی تھی۔ موجودہ حکام ہندوستان کی دور اندیشی سے اب اس ملک کے مختلف حصص میں تجارتی تعلقات پیدا ہونے کا سامان دن بدن زیادہ ہوتا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آیندہ اس قسم کے دردناک مصائب کا تواتر نہ ہوگا۔ اس ضرورت کے لحاظ سے ایک محقق اس بات پر زور دیتا ہے کہ بستیاں آباد کرنے والوں کے قطعاتِ زمین قریب قریب ہونے چاہئیں ورنہ ہر جماعت صرف وہی اشیاء پیدا کرے گی، جو اُن کی ذاتی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے کافی ہوگی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اُن کے درمیان تجارتی تعلقات پیدا نہ ہوں گے اور اُن کو ان تمام خطرات کا اندیشہ رہے گا جو عدم سلسلہ آمدو رفت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب تمام مختصر طور پر گزشتہ دو باتوں کی بحث کا نتیجہ تحریر کرتے ہیں تاکہ مندرجہ بالا امور وضاحت کے ساتھ ذہن نشین ہو جائیں۔ باب دوئم میں تمھیں معلوم ہو چکا ہے کہ پیدائش دولت کے قدرتی اسباب ایک بڑے قانون کے تابع ہیںجس کو قانون تقلیل حاصل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مگر باب سوم میں ہم نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ یہ واضح کریں کہ تنظیم محنت سے پیدائش دولت انتہا درجہ کی ترقی کرتی ہے۔ اگر قانون تقلیل حاصل کی رو سے پیدا وار دولت میں نقطہ تقلیل تک پہنچ کر دن بدن کم ہوتے جانے کا میلان ہے، تو تنظیم محنت فن زراعت کی ترقی اور اس فن کی دیگر متعلقہ ایجادات اور سرمایہ کا زیادہ دور اندیشی سے استعمال کرنا اس کی افزائش کے اسباب ہیں۔ انسان کی آبادی دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھتی جاتی ہیں۔ لہٰذا اگر وہ صرف قدرتی اسباب کی پیدائش کے بھروسہ پر رہتا اور اپنی روز افزوں ضروریات کے پورا کرنے کی نئی نئی راہیں نہ نکالتا۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اپنی عقل کے زور سے قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ نہ کرتا، تو اس امن و آسائش میں انتہا درجہ کا خلل پیدا ہوتا، بلکہ اس کی نسل کا بقا ہی محال ہو جاتا۔ پس ظاہر ہے کہ اصول تنظیم محنت اور اصول تقلیل حاصل ایک دوسرے کے حریف ہیں جن میں ایک قسم کی جنگ چلی جاتی ہے۔ جس سے پیدائش دولت میںاعتدال قائم رہتا ہے اور اعتدال ہی ہر شے کی جان ہے۔ باب۔ ۳ سرمایہ نوع انسان کے ابتدائی مراحل تہذیب میں سرمایہ کا وجود مطلق نہ تھا۔ پیداوار دولت کے صرف دو وسائل تھے۔ یعنی محنت اور زمین۔ مگر موجودہ نظام تمدن میں سرمایہ دولت کی پیدائش کے لیے ایسا ہی ضروری ہو گیا ہے۔ جیسا کہ محنت اور دیگر قدرتی اسباب۔ اس لیے دولت کی پیدائش ناممکن ہے، جب تک کہ موجودہ صرف میں سے کچھ حصہ بچا کر مزید دولت کے پیدا کرنے میں استعمال نہ کیا جائے۔ لہٰذا نظام تمدن کی موجودہ صورت میں کسی ملک کا سرمایہ اس ملک کی دولت کا وہ حصہ ہے جو دولت کی آیندہ پیدائش کے لیے الگ رکھا جائے۔ کسی ملک کی دولت کا وہ حصہ جو اسباب تن آسانی پر صرف کیا جاتا ہے یا اسباب تن آسانی کی تیاری میں لگایا جاتا ہے، بادی النظر میں تو سرمایہ دار کو نفع دیتا ہے لیکن چونکہ انجام کار قومی دولت پر اس کا اثر اچھا نہیں ہوتا، اس واسطے علم اقتصاد کے اصول کی رو سے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ حصہ بطور سرمایہ صرف ہوا ہے بلکہ اس کے استعمال کو غیر بار آور ہی کہا جائے گا۔ بشرطیکہ یقینی اور قطعی طور پر یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اشیا جو اس حصہ دولت کی وساطت سے تیار ہوئی ہیں یا خریدی جاتی ہیں، واقعی اسباب تن آسانی میں داخل ہیں۔ غرض کہ سرمایہ بچت کا نتیجہ ہے اور سرمایہ دار کے کم خرچ اور کفایت شعار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ بعض مصنفین کہتے ہیں کہ کسی ملک کی آب و ہوا بھی جہاں تک کہ مزید دولت کی پیدا وار میں مدد دیتی ہے، اس ملک کے سرمائے کا حصہ ہے۔ لیکن چونکہ دولت وہ شے ہے، جو تبادلے میں کوئی معین قدر رکھتی ہو۔ اس واسطے کسی ملک کے مفید قدرتی اسباب مثلاً آب و ہوا یا اس کا جغرافی مقام وغیرہ، اس ملک کے سرمائے میں داخل نہیںتصور کئے جا سکتے، اگرچہ یہ پیدائش دولت کے ممد ضرور ہیں۔ سرمائے کی اصلیت مندرجہ ذیل مثال سے واضح ہو سکتی ہے۔ فرض کرو کہ انسانوں کا ایک قبیلہ سمندر کے کنارے پر آباد ہے اور مچھلی پر گزارا کر تا ہے۔جب مچھلی کثرت سے پیدا ہوتی ہے تو ان کے دن بھی اچھے گزر جاتے ہیں۔ مگر برعکس حالات میں ان لوگوں کو قحط کی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے۔ اب فرض کرو کہ ان میں سے ایک آدمی اپنے ہم جنسوں کی نسبت امیرانہ گزارہ کرنے کی خاطر مچھلی کا ایک ذخیرہ جمع کرتا ہے۔ یہ ذخیرہ دولت تو ضرور ہے مگر اس کا سرمایہ ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔اگر غیر بارآور طور پر استعمال ہوگا تو بطور سرمایہ صرف نہ ہوگا۔ لیکن اگر مزید دولت کی پیدائش میں صرف ہو گاتو سرمایہ کہلائے گا۔ بالفرض قحط کے موسم میں یہ شخص اپنے ذخیرے کو ساتھ لے کر کسی جنگل کی طرف نکل جاتا ہے اور وہاں جا کر فراغت سے ایک کشتی تیار کرتا ہے جس کی وساطت سے سمندر کے دور و درازحصوں میں اس کی رسائی ہو سکتی ہے، جہاں ساحل کی نسبت زیادہ مچھلی مل سکتی ہے۔ اس صورت میں کشتی مذکور سرمایہ کہلائے گی اور یہ شخص سرمایہ دار ہوگا۔ اب اس شخص کے لیے تین راہیں کھلی ہیں:۔ اوّل۔۔ تو یہ کہ اپنی کشتی خود استعمال کرے اور ماہی گیری کی آمدنی سے اپنے ہم جنسوں کی محنت ایک خاص معاوضے کے بدلے خریدے اور اس طرح آرام میں بسر کرے۔ دوم۔۔ یا اپنی کشتی کسی اور کو اجارے پر دے دے اور خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھر میں بیٹھا رہے۔ سوم۔۔ یا اپنی کشتی کسی اور کو اجارے پر دے دے اور خود اور کشتیاں تیار کرنے میں مصروف رہے۔ فرض کرو کہ کشتی بنانے والا تیسری راہ اختیار کرتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی صنعت کے گاہک بہت ہیں۔ جوں جوں وہ زیادہ کشتیاں تیار کرے گا توں توں اُس کا ہاتھ بھی صاف ہوتا جائے گا اور وہ دن بدن اس قابل ہوتا جائے گا کہ اُجرت کے معاہدے پر اپنے دیگر ہم جنسوں کو بھی اپنے ساتھ کام میں لگائے۔ کیونکہ خریداروں کی کثرت کی وجہ سے وہ اکیلا اتنی کشتیاں نہیں تیار کر سکے گا۔ اب اس کی روز افزوں ترقی دیکھ کر اوروں کو بھی کشتیاں بنانے کے تحریک ہوگی اور کشتی گروں میں ایک قسم کی تجارتی رقابت ہوجائے گی اور منافع کی شرح کم ہوتی جائے گی۔ آخر کار یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ کشتیوں کی مزید مانگ نہ رہے گی اور اس وجہ سے سرمایہ دار کمی منافع کے خیال سے کشتی گری کو چھوڑ کر معماری کے کام پر اپنا سرمایہ صرف کرنے لگیں گے یا قبیلے کی دیگر ضروریات کا سامان مہیا کریں گے۔ اس طرح جوں جوں قبیلے کی ضروریات بڑھتی جائیں گی یا یوں کہو کہ جوں جوں قبیلہ مذکور تہذیب و تمدن میں ترقی کرتا جائے گا توں توں اس کا سرمایہ بھی مختلف صورتیں اختیار کرتا جائے گا۔ مثال مندرجہ بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ اول اول ذخیرے کی صورت میں ظاہر ہوا کیونکہ کشتی بنانے والے کے لیے یہ ضروری تھا کہ پہلے ایام کشتی گری کے لیے اپنی خوردو نوش کا سامان مہیا کرے۔ اس کے بعد سرمایہ کشتی گری کے اوزاروں کی صورت اور بالآخر اس مصالح کی صورت میں جس سے کشتیاں تیار ہوتی ہیں ، منتقل ہو گیا۔ غرض کہ ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی قوم کا سرمایہ اس قوم کی دولت کا وہ حصہ ہے جو دولت کی نئی نئی صورتیں پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور جس کی تقسیم مندرجہ ذیل طریقہ پر ہو سکتی ہے۔ ۱۔ وہ سرمایہ جو مزید دولت کی پیدائش کے ایام میں سرمایہ داروں اور محنتیوں کی خوردو نوش میں صرف ہو۔ ۲۔ اوزار یعنی مختلف پیشوں کے ہتھیار۔ آلات اور کلیں وغیرہ ۳۔ مصالح۔ جس میں دولت کی وہ تمام صورتیں شامل ہیں جو سامان معاش اور اوزاروں کے علاوہ ہوں۔ مقدم الذکر صورت میں اسے سرمایہ دائر کہتے ہیں کیونکہ یہ ایک ہیئت سے منتقل ہو کر دوسری ہیئت اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً محنتیوں کی اُجرت ان کی اشیاء خورد ونوش کی چیزیں قویٰ حیات کی صورت میںتبدیل ہو جاتی ہیں۔ موخر الذکر دو صورتوں میں اسے سرمایہ قائم کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ مذکور ایک مستقل اور غیر متبدل ہیئت اختیار کر لیتا ہے جس سے رفتہ رفتہ مزید دولت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ اگرچہ تہذیب و تمدن کی عام حالتوں میں سرمایہ انہی تین صورتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔لیکن زمانہ حال کے مہذب ممالک میں اشیاء مادیہ کے علاوہ اعتبار اور حقوق مجردہ مثلاً حق نالش وغیرہ بھی سرمایہ کے طور پر مستعمل ہوتے ہیں۔ زمانہ حال میں ہزار ہا سوداگر اپنے ذاتی اعتبار پر تجارتی اشیا خرید کرتے اور ان کی فروخت سے نفع اٹھاتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس زمانہ حال کی تجارت کا بہت بڑا حصہ حقوق نالش اور دیگر حقوق مثلاً حق تصنیف وغیرہ کی خریدو فروخت کے متعلق ہے۔ دنیا میں بہت سے ملک ہیں جن کی قدرت نے صنعت و حرفت اور دستکاری کے دیگر اقسام کے لیے نہایت موزوں پیدا کیا ہے۔ لیکن سرمائے کی کمی یا عدم موجودگی کے باعث ان کی تجارت چمک نہیں سکتی۔ ہمارے ہندوستان کو بھی اس مصیبت کا سامنا ہے۔ یہاں کی تجارت بیشتر مغربی سوداگروں کے ہاتھوں میں ہے جو اپنے سرمایہ کو ہندوستانی تجارت کی مختلف شاخوں میں لگا کر نفع عظیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ غیر ملکی سوداگروں کا ہمارے ملک میں سرمایہ لگانا ہمارے لیے مضر ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر سرمایہ ہمارا اپنا ہوتا تو نفع جو اس سے پیدا ہوتا ہے اور جو موجودہ صورت میں غیر ملکی سوداگروں کے ہاتھوں میں جاتا ہے، ہمارے ملک میں ہی رہتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان مغربی سوداگروں کے سرمائے کی وساطت سے بالخصوص نیل، غلہ، شکر ، کافی اور سونے کی پیدائش کے وسائل پہلے کی نسبت بہت ترقی کر گئے ہیں۔ یا یوں کہو کہ ان لوگوں نے اپنی سرگرمی اور ہمت سے ہماری سرزمین کے مخفی خزائن کے دروازے کھول کر ہمارے لیے آیندہ تجارت کی راہیں کھول دی ہیں۔ بشرطیکہ ہمارے پاس سرمایہ موجود ہو۔ اس بیان سے ظاہر ہے کہ سرمایہ کسی ملک کے وسائل پیدائش کی ترقی ، دستکاری اور تجارت کی مختلف شاخوں کے قیام کے لیے کہاں تک ضروری ہے۔ لہٰذا ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ وہ کون کون سے اسباب ہیں جن سے یہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ ۱۔ یہ بیان ہوچکا ہے کہ سرمایہ بچت کو نتیجہ ہے اور سرمایہ دار کی کفایت شعاری پر دلالت کرتا ہے۔ لہٰذا تعلیم یا دیگر حالات جو کسی ملک کے لوگوں کو کفایت شعار بنانے کے ممد ہیں، سرمائے کی زیادتی کاپہلا سبب ہیں۔ دولت بچانے کی خواہش لوگو ں کے حقوق کی حفاظت اور شرح سود کی کمی بیشی پر منحصر ہے۔ البتہ جو قومیں سود لینا خلاف مذہب تصور کرتی ہیں، ان پر یہ محرک اثر نہیں کر سکتا۔ ۲۔ پیداوار دولت کی مقدار کے زیادہ ہونے سے بھی سرمایہ کی مقدار بڑھتی ہے۔ اگر کسی ملک میں چالیس ہزار من غلہ پیدا ہوتا ہے اور اس میں سے دس ہزار من بطور سرمایہ جمع کر لیا جاتا ہے، تو ظاہر ہے کہ ساٹھ ہزار من غلہ پیدا ہونے کی صورت میں زیادہ مقدار بطور سرمایہ جمع ہونی ممکن ہو سکے گی۔ ۳۔ تجارت اور تبادلہ سے بھی سرمائے کی مقدار بڑھتی ہے کیونکہ ان دونوں صورتوں میں پیدا وار دولت کی مقدار بڑھتی ہے جس سے (دیکھو مسئلہ نمبر ۲) سرمائے کی مقدار میں زیادتی ہوتی ہے۔ باب۔۴ کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے اس قوم کی زمین ، محنت اور سرمائے کے حسن استعمال اور ان کے مفید طریقوں میں صرف ہونے پر انحصار رکھتی ہے۔خواہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک نہ پہنچی ہو، خواہ پہنچ گئی ہو۔ محنتی کی ہنر مندی ،ذہانت، فن زراعت کی ترقی ، تنظیم محنت ، سرمائے کو زیادہ دور اندیشی سے نئی نئی مفید صورتوں میں صرف کرنے اور اسی قسم کے دیگر اسباب سے دولت کی پیداوار انتہا درجے کی ترقی کرتی ہے یہاں ایک بڑا ضروری اور اہم اقتصادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ پیداوار دولت زمین، محنت اور سرمائے کی قوت پیداوار سے متعین ہوتی ہے، تو کیا وجہ ہے کہ کوئی قوم اس قدر دولت پیدا نہیں کر سکتی جو اُس کے وسائل پیدائش کے مطابق ہو؟ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ وسائل پیدائش میں خواہ کسی قدر قوت ہو دولت کی پیداوار اس قوت کے لحاظ سے کم رہتی ہے۔ یعنی اس قدر پیدا نہیں ہوتی جس قدر کہ ہونی چاہیے۔ اس اختلاف کا باعث کیا ہے۔ اس سوال کا جواب علم الاقتصاد کے تمام حصص کے مطالعہ کے بغیر محال ہے۔ دولت کے صرف یا استعمال کے بیان میں تمھیں معلوم ہوگا۔ بعض دفعہ دولت کا استعمال قوم کی قوت سرمایہ اور محنت کو انتہا درجے کا نقصان پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح تقسیم دولت کے بیان میں تم معلوم کرو گے کہ بعض دفعہ دولت اپنے پیدا کنندوں کے درمیان ایسے بے اصول طور پر تقسیم ہوتی ہے کہ بعض افراد کو ایک مستقل نقصان پہنچ جاتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس تبادلے کے باب میں اس امر کے اسباب واضح ہوں گے کہ بعض دفعہ پیدائش دولت کیوں رُک جاتی ہے یا دستکاری کی چلتی گاڑی میں کیوں روڑا اٹک جاتا ہے جس سے پچھلے سالوں کی پیدا کردہ دولت ان بے کاری کے دنوں میں صرف ہو جاتی ہے۔ لہٰذا مندرجہ بالا سوال کا شافی جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک علم الاقتصاد کے تمام حصص کا غور سے مطالعہ نہ کر لو۔ یہاں ہم صرف اُن اسباب کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ، جو پیدائش دولت کے سدراہ ہیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ اس امر کا ایک سبب تو یہ ہے کہ قدرتی طور پر زمین کی زرخیزی (بشرطیکہ انسان اپنی عقلمندی کے زور سے قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ نہ کرتا رہے) دن بدن کمی کی طرف میلان رکھتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جو ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:۔ ۱۔ محنت اور سرمایہ کسی حد تک ناقابل انتقال ہیں۔ تمام مہذب قوموں میں محنت اور سرمایہ دونوں کچھ اس طرح خاص خاص صورتیں اختیار کر لیتے ہیں کہ اگر اُن کو ایک صورت سے دوسری صورت میں منتقل کرنا چاہیں تو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ مثلاً جس تاجر نے لاکھوں روپیہ کی رقم کلوں پر صرف کر دی اُس کے واسطے یہ امر کس طرح ممکن ہے کہ اپنا کثیر سرمایہ بغیر خرچ اور دیگر نقصان کے کسی اور صورت میں منتقل کر دے یا جس دستکار نے ایک خاص پیشہ بڑی جانفشانی سے اور روپیہ خرچ کر کے سیکھا ہے۔ اس کے واسطے کس طرح ممکن ہے کہ اُس پیشے کو چھوڑ کر کسی اور پیشے کو اپنا ذریعہ معاش بنائے؟ ۲۔ محنت اور سرمائے کا ناعاقبت اندیشی سے استعمال کیا جانا۔ اگر ان ہر دو وسائل کو دور اندیشی سے استعمال نہ کیا جائے تو ان کی قوت پیدائش میں ایک نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی کارخانے کے مالک کی وفات پر اس کا جانشین اپنی خامی اور ناتجربہ کاری کے باعث دور اندیشی سے کام نہ لے اور اس طرح اس کی بد انتظامی کی وجہ سے وسائل مذکور کی قوت پیدائش میں ایک معتدبہ کمی پیدا ہو جائے۔ تم کو معلوم ہے کہ موجودہ زمانے میں ضروریات کے تقاضے سے تمام مہذب ملکوں میں محنت اور سرمائے کا انتظام افراد کی ایک خاص جماعت کے ہاتھوں میں ہے جس کو جماعت مالکان یا کارخانہ داراں کہتے ہیں۔ اس جماعت کا وجود سرمائے اور محنت کے مفید انتظام کے لیے ایسا ہی ضروری ہے جیسے فوج کے لیے اعلیٰ افسروں کا وجود۔ جس قدر اصول انقسام پر زیادہ عمل ہوتا جاتا ہے اسی قدر مالک یا کارخانہ دار کا وجود نہ صرف تنظیم، محنت اور دستکاری کو مفید راہوں میں لگانے کے لیے بلکہ دستکاروں کے درمیان حسن انتظام قائم رکھنے کے لیے زیادہ ضروری ہوتا جاتا ہے۔ مالک کے سوا اس امر کا فیصلہ کون کر سکتا ہے کہ کون سی شے تیار کی جائے گی۔ اور کس قیمت پر فروخت کی جائے گی؟ غرض کہ دنیا کی موجودہ دستکاری اس بات کی طرف میلان رکھتی ہے کہ اس کا انتظام دن بدن ایک خاص جماعت افراد کے ہاتھوں میں آتا جائے۔ بعض ماہرین علم الاقتصاد کی رائے ہے کہ پیدائش دولت کے نظام میں مالک یا کارخانہ دار کا وجود ضروری نہیں ہے، بلکہ ان حکما کے خیال میں اس کی موجودگی دستکاروں اور کارخانہ داروں کے درمیان ایک قسم کی بے جا تجارتی رقابت پیدا کر دیتی ہے جس کے نتائج پیدائش دولت کے حق میں مضرت رساں ہوتے ہیں۔ اس وقت کے رفع کرنے کی کئی راہیں بتائی گئی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک ہی پیشے کے دستکار مشترک سرمائے سے مل کر کام کیا کریں۔اس میں کچھ شک نہیں کہ اس قسم کی باہمی معاونت کئی حیثیتوں سے مفید ہے۔ مثلاً اگر یہ معرض عمل میں آجائے تو ۱۔ دولت کی وہ مقدار جو موجودہ اقتصادی حالات میں مالک کی جیب میں جاتی ہے، دستکاروں کے قبضے میں آئے گی۔ ۲۔ دستکار ہر طرح سے خود مختار ہوگا اور دولت کی جو صورت چاہے گا پیدا کرے گا۔ ۳۔موجودہ حالات تمدن میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دستکار مالکوں سے زیادہ اجرت لینے پر ضد کرتے ہیں اور اگر ان کو اجرت کی مطلوبہ مقدر نہ ملے تو کام کاج چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن اگر اس طریق کو عمل میں لایا جائے تو ایسا ہر گز نہ ہو گا۔ کیونکہ جس فریق سے ضد پیدا ہو جانے کا امکان ہے وہ فریق ہی نہ رہے گا۔ ۴۔ دستکار کو کفایت شعار کی تحریک ہو گی اور اپنا کام تندہی سے کرے گا۔یہ طریق معاونت عملاً دو صورتیں اختیار کر سکتا ہے:۔ اول۔ وہ صورت جس میں دستکار متحد ہو کر کسی خاص تجارتی شاخ میں آمدنی پیدا کرنے کی غرض سے کام کریں۔ دوم۔ وہ صورت جس میں دستکار اپنی حاصل کردہ دولت باحسن وجود صرف کر سکیں۔مثلاً چند دستکار مل کر کھانے پینے کی چیزوں کی ایک دکان کھولیں اور آپس میں یہ عہد کر لیں کہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں معمولی منافع پر اسی دکان سے خرید کیا کریں گے۔ اس طریق سے ایک تو یہ فائدہ ہوگا کہ کہ ضرورت کی چیزیں کسی قدر سستی مل جایا کریں گی اور علاوہ اس کے مصارف دکان وغیرہ نکال کر جو سال بھر کے بعد منافع ہوگا، وہ سب دستکاروں پر ہر ایک کے حصے کے مطابق تقسیم ہو جایا کرے گا۔ مقدم الذکر صورت میں کچھ بہت بڑی کامیابی کی امید نہیں ہو سکتی، کیونکہ دستکار متحد ہو کر وہ تجارتی قابلیت نہیں دکھاتے ، جو کارخانہ داروں میں بالخصوص پائی جاتی ہے۔ اُن میں سے اکثر صرف کل کی طرح کام کرنا جانتے ہیں اور اس تجارتی مذاق سے قطعاً معرا ہوتے ہیں ، جس کے ذریعے سے کارخانہ دار تجارت کے جذر و مد کو ایک نگاہ سے معلوم کر لیتے ہیں، البتہ مؤخر الذکر میں کامیابی کی امید ہو سکتی ہے۔ خصوصاً ہندوستان میں جہاں اس قسم کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ سوم۔ اس مختصر سی گریز کے بعد جاننا چاہیے کہ پیدائش دولت کا تیسرا مانع بعض قدرتی حوادث سے دولت کا برباد ہو جانا ہے۔ مثلاً آندھی کے طوفان سے جہازوں کی تباہی ، آتش زدگی اور ریلی کے دیگر حادثات وغیرہ اس باب کے ضمن میں ایک اور ضروری مسئلے کی تحقیق بھی لازم ہے۔ تم جانتے ہو کہ مختلف ممالک میں پیدا وار دولت کی مقدار مختلف ہوتی ہے بلکہ اگر ایک ہی ملک کی تاریخ پر نظر ڈالو تو معلوم ہوگا کہ مختلف زمانوں میں اس ملک کی پیداوار دولت کی مقدار مختلف رہی ہے۔ بسا اوقات دو ملک تہذیب و تمدن کے ایک ہی درجے پر ہوتے ہیں اور ان کے دیگر حالات بھی قریباً قریباً یکساں ہوتے ہیں۔ تاہم مذکورہ بالا اختلاف اس صورت میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اس واقعہ پر غور کرنے سے دو ضروری سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ۱۔ وہ کون سے اسباب ہیں جن سے یہ اختلاف پیدا ہوتا ہے؟ ۲۔ یہ اسباب کون سے اقتصادی قوانین کے تابع ہو کر عمل کرتے ہیں؟ پیدائش دولت ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے بالعموم تین مدارج ہو سکتے ہیں:۔ الف۔ وہ محنت جو کسی مادی شے پر قبضہ حاصل کرنے میں عارض ہوتی ہے۔ مثلاً جنگل سے درختوں کا کاٹنا۔ ب۔ وہ محنت جو اُس قدرتی شے میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پر صرف ہوتی ہے جو اس کو انسانی استعمال کے قابل کر دیتے ہیں۔ مثلاً لکڑی کی چوکیاں تیار کرنا۔ ج۔ وہ محنت جو مصنوعات کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جانے میں صرف ہوتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس ملک میں محنت نسبتاًزیادہ مساعد حالات میں صرف کی جائے گی یا جہاں محنتیوں کی تعداد یا ان کی محنت کی کارکردگی زیادہ ہوگی وہاں پیدائش دولت کا عمل نہایت نتیجہ خیز ہوگا۔ مختلف ممالک کا مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۔ بعض ممالک میں محنت کے واسطے حالات نسبتاً زیادہ مساعد ہوتے ہیں۔ مثلاً کہیں قدرت نے اپنی فیاضی سے کوئلے کی وسیع کانیں رکھ دی ہیں اور کہیں مفید دھاتوں کے بیش بہا خزانے زمین کے اندر پوشیدہ کر دئیے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس بعض ممالک میں کئی اشیا قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہیں۔ حالانکہ دیگر ممالک انہی اشیا کو محنت شاقہ سے حاصل کرتے ہیں۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس قسم کے فوائد ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ مغلوں کے زمانے میں دریائوں کا ایک فائدہ اور فائدوں کے علاوہ یہ بھی تھا کہ مختلف شہروں اور قصبوں میں تجارتی اور دیگر تعلقات کا سلسلہ انہی کی وساطت سے جاری تھا۔ ہمارے زمانے میں یہ سب کام ریل گاڑی کی وساطت سے سر انجام پاتے ہیں۔ مزید برآں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ قدرت کے مختصر خزائن سے ہم صرف اسی صورت میں مستفید ہو سکتے ہیں، جب کہ ہم کو ان کا علم ہو۔ تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ اشیا مادیہ کے مخفی خواص اور زمین کے پوشیدہ اسرار روز بروز زیادہ معلوم ہوتے جاتے ہیں اور انسان اُن سے مستفید ہو کر بے انتہا فائدہ اٹھاتا جاتا ہے۔ جن قوموں کو یہ علم نہیں، ضرور ہے کہ وہ پیدائش دولت میں اُن اقوام سے پیچھے ہوں جن کو ان اسرار کا علم ہے۔ معدنیات کو ہی لو۔ جس ملک کے لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ معدنیات کس طرح دریافت ہوا کرتی ہیں ان کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا، خواہ ان کے ملک کی زمین قیمتی دھاتوں کے خزانوں سے معمور ہو۔ ۲۔ بعض ممالک میں دستکاروں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو پیدائش دولت پر ایک نمایاں اثر ڈالتی ہے۔ ہمارے ہندوستان میں دستکاروں کی تعداد کثیر ہے۔ صرف سرمائے کی کسر ہے ورنہ پیدائش دولت میں ہم اور قوموں سے اس قدر پیچھے نہ ہوتے۔ کمیت کے علاوہ مختلف ممالک کے دستکاروں کی عادات جبلی طور پر قوانین صحت کے خلاف ہوتی ہیں۔ کہیں پانی اور صاف ہوا دستیاب نہیں ہو سکتی۔ کہیں اور اس قسم کے طبعی اسباب ہوتے ہیں جن سے دستکاری کی کیفیت پر اثر پڑتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جسمانی قوت کے اختلاف کے علاوہ مختلف مقامات کے دستکاروں کی ہنر مندی ، سمجھ اور دور اندیشی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ بعض اقوام قدرتاً دیگر اقوام کی نسبت زیادہ ذکی اور چُست ہوتی ہیں۔ بعض قدرتاً سُست اور آرام طلب۔ اس قسم کے نقائص کا دور کرنا ملک کے مصلحوں اور معلموں کا فرض ہے۔ ۳۔ محنت کے محرکات میں بھی بالعموم اختلاف ہوتا ہے۔ فطرتاً ہر انسان دولت کا خواہشمند ہے اور یہ فطری خواہش محنت کا سب سے بڑا محرک ہے۔ لیکن بعض اوقات دیگر محرکات زیادہ زبردست ثابت ہوتے ہیں اور دولت کی خواہش کو انسان کی زندگی پر پورا پورا اثر کرنے سے روکتے ہیں۔ بعض مذاہب میں دولت کی تحقیر ایک مسلم اصول ہے، جو ضرور ہے کہ ان مذاہب کے مخلص پیرئوں پر اپنا اثر کرے۔ بالعموم مشرقی اقوام کے لوگ تقدیر کے اس قدر قائل ہیں کہ کل کی فکر کرنا جانتے ہی نہیں اور توکل کے بھروسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ دولت کی خواہش ایک خاص حد تک ہی محرک محنت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ محنت سے اصل مدعا یہی ہوتا ہے کہ تمام ضروریات پوری ہو جائیں۔ جب تمام ضروریات پوری ہو گئیں تو پھر یہ محرک اپنا عمل نہیں کر سکتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان کی ضروری حاجات پوری ہو جاتی ہیں، تو قدرتاً جدید ضروریات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مثلاً مکان کو آراستہ کرنے اور دیگر آسائش کے سامان کی خواہش۔ علم و ادب اور دیگر علمی مشاغل سے لذت اٹھانے کی خواہش بھی اسی ضمن میں شامل ہے۔ یہ محرکات ثانی ہیںجو مختلف اقوام کی حالت میں اور تہذیب و تمدن کے مختلف مدارج میں مختلف طور پر اپنا اثر کرتے ہیں۔ اسی طرح ذاتی ضروریات کے پورا ہونے پر قدرتاً ہر انسان کو اولاد کے لیے کچھ نہ کچھ پیچھے چھوڑ جانے کا بھی خیال پیدا ہوتا ہے جو محنت کا ایک مزید محرک ہے۔ ۴۔ مختلف ممالک کے دستکاروں کے اخلاقی حالات مختلف ہوتے ہیں۔ دستکار کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ دیانت دار ہو۔ کام چور نہ ہو اور اپنی طبیعت کے غیر نافع جذبات پر قدرت رکھتا ہو۔ جس قدر عاقبت اندیشی اور دیانت داری اس میں ہوگی۔۔۔۔ جس قدر اپنے مقررہ فرض کی انجام دہی کا خیال اس میں ہوگا۔ اس قدر اس کی محنت قومی دولت کو زیادہ کرے گی۔ سُست اور آرام طلب دستکار اپنے ملک اور قوم کے لیے ایک مضرت رساں وجود ہے۔کیونکہ اس کا وجود قوم کی دولت کو دن بدن گھٹاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا سب سے ضروری فرض یہی ہے کہ عوام میں دیانت داری چستی، عاقبت اندیشی اور دیگر ضروری اوصاف پیدا ہوں اور ان کے دلوں پر یہ بات نقش ہو جائے کہ تمام قوم کا فائدہ بحیثیت مجموعی اور کسی خاص فرد قوم کا فائدہ متغائر چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور جو دستکار اپنے حیوانی جذبات کی پیروی کر کے اپنے جسمانی اور روحانی قویٰ کو نقصان پہنچاتا ہے ، وہ نہ صرف اپنی ذات پر بلکہ اپنے ملک اور قوم پر بھی ظلم کرتا ہے۔ ۵۔ مختلف ممالک میں دستکاروں کی محنت کی کارکردگی مختلف ہوتی ہے اور اکثر ممالک میں اس کارکردگی کو زیادہ کرنے اور سرمائے کے زیادہ دور اندیشی سے استعمال کئے جانے کے وسائل اختیار رکئے گئے ہیں۔ کہیں طریق اشتراک مروج ہے کہیں طریق معاونت (جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے) سے کام لیا جاتا ہے اور کہیں دیگر اقسام کے تجارتی اتحاد پر عمل کیا جاتاہے۔ ہمارے ہندوستان میں بھی طریق اشتراک یعنی مشترک سرمائے سے کام کرنا اب مروج ہوتا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ طریق ان ممالک کے لیے نہایت مفید ہے جہاں مجموعی طور پر سرمائے کی مقدار کم ہو۔ اگر کوئی شخص سو روپیہ سرمائے کے ساتھ کوئی تجارت شروع کرے تو اس کو کچھ منافع کی توقع نہ ہو گی۔ لیکن سو سو روپیہ سرمائے والے ہیں آدمی مل کر کام شروع کریں تو بہت زیادہ منافع کی امید ہو گی۔ یہ اسباب اختلاف مختلف ممالک میں حقیقتاً موجود تو ہیں لیکن ان کا اثر دیگر اسباب کی عمل سے زائل ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنے پہلے سوال کاجواب دے دیا ہے۔ اب ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالا اسباب اختلاف کون سے اقتصادی قوانین کے تابع ہو کر عمل کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اسباب میں سے بعض مثلاً سبب نمبر ۱ کا عمل کسی قانون کلیہ کے تابع نہیں ہے تاہم بعض کا عمل قوانین کے تابع ہے۔ مثلاً دستکاروں کی تعداد اور اُس کے متعلقہ اسباب کا عمل قانون کلیہ آبادی کی تحت میں ہے اور علیٰ ہذا القیاس محنت کی کارکردگی وغیرہ کا عمل قانون سرمایہ کے احاطہ اثر میں داخل ہے۔ ماہرین علم الاقتصاد نے اس بارے میں تین کلیہ قوانین دریافت کئے ہیں جن کو ہم سلسلہ وار بیان کرتے ہیں۔ قانون آبادی اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قوم کے افراد کے زیادہ ہونے سے اس قوم کے دستکاروں کی تعداد بڑہتی ہے۔ مگر اس وقت یہ امر محل بحث نہیں ہے۔ ہم قانون آبادی پر اس تعلق کے لحاظ سے نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں جو افزائش افراد اور پیداوار دولت کے درمیان ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ یہ قانون تین قضایا پر منقسم ہو سکتا ہے۔ اوّل۔ یہ کہ آبادی ہمیشہ بڑھنے کا میلان رکھتی ہے اور اس کی افزائش اس امر کا خیال نہیں کرتی کہ آیا مزید آبادی کے گزارے کے لیے کافی سامان معیشت موجود ہوگا یا نہیں۔ حکماء نے تخمینہ لگایا ہے کہ بڑے بڑے قحط اور وبائیں نہ آئیں تو آبادی تیس سال میں دوگنی ہو جائے گی۔ دوم۔ اگر زمین کے کسی قطعہ میں آبادی اس طرح دُگنی ، تگنی ہوتی جائے اور دیگر اسباب اس کی افزائش کی سدراہ نہ ہوں(مثلاً وبا، قحط، جنگ اور شادیوں ک کمی وغیرہ) تو ایک خاص میعاد کے بعد قطعہ مذکور کی پیداوار وہاں کے آدمیوں کے لیے مشکل سے کافی ہوگی اور بالآخر مطلق کفایت نہ کرے گی یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ آبادی کی مفروضہ افزائش کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکے گا۔ سوم۔ ہمارا گزشتہ تجربہ جو ہم کو صنعت و حرفت کی ترقی کا مشاہدہ کرنے سے حاصل ہوا ہے، اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ فن زراعت کی آئندہ ترقی سے ہم اپنی آبادی کی مفروضہ افزائش کے مطابق خوراک کی زیادہ مقدار پیدا کر سکیں گے۔ قضیہ نمبر ۲ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون تقلیل حاصل بھی جس کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں قانون آبادی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے اور ان دونوں کے اجتماع سے یہ نتیجہ قائم ہوتا ہے کہ آبادی کے ایک خاص حد بڑھ جانے کے بعد زرعی دستکاروں کی مزید آبادی سے محنت کی قابلیت پیداوار کم ہوتے جانے کا میلان رکھتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر آبادی زیادہ ہو گی اور ایک حد معین سے بڑھتی جائے گی (یہ حد معین مختلف ممالک کی صورت میں مختلف ہو سکتی ہے کیونکہ مختلف اقوام و ممالک میں صنعت و حرفت و فن زراعت اور دیگر ایجادات کی ترقی کے مدارج مختلف ہیں۔ مثلاً ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک اپنے ایجادات زرعی کے بل پر ۲۰ کروڑ آبادی کا متحمل ہو سکے اور ایک ملک جو اس سے وسعت میں بہت زیادہ ہو لیکن ایجادات میں کم ہو اُس سے آدھی آبادی کا بھی متحمل نہ ہو سکے) اسی قدر زمین مزروعہ کی کاشت نقطۂ تقلیل تک جلد پہنچے گی جس کا نتیجہ جو کچھ پیداوار دولت پر ہوگا ظاہر ہے۔ محنت کی کارکردگی محنت کی کارکردگی کے اختلافات اور ان کے اثر کے متعلق کوئی کلیہ قانون وضع نہیں ہو سکتا کیونکہ دستکاروں کے طبعی ، عقلی اور اخلاقی اوصاف کے فرق بیان کرنے اور ان کے محرکات محنت کی تشریح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کو تہذیب و تمدن کے خفی در خفی اسباب کا پورا پورا علم ہو، جو موجودہ صورت میں نا ممکن ہے۔ لہٰذا ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف ممالک کے درمیان مختلف افراد کے ذاتی سرمائے کی افزائش جس پر پیداوار دولت کا ایک حد تک انحصار ہے کس قانون کے تحت میں ہے۔ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ قانون افزائش سرمایہ شخصی کیا ہے؟ اس امر کے متعلق محقق مل ایک قانون وضع کرتا ہے کہ سرمایہ جمع کرنے کی خواہش شرح سود کے ساتھ نسبت مستقیم رکھتی ہے۔ جس ملک میں شرح سود زیادہ ہو گی وہاں کے لوگوں کو روپیہ جمع کرنے کی تحریک زیادہ ہو گی اور جہاں شرح سود کم ہو گی وہاں جمع کی تحریک مطلق نہ ہو گی یا نہایت کم ہو گی۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ مل کا یہ قانون کامل طور پر صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ جمع کرنے کی تحریک صرف شرح سود کی مقدار سے ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے اور بھی کئی ایک اسباب ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ شرح سود کے کم ہو جانے سے جمع کرنے کی تحریک زیادہ ہو جاتی ہے۔ کیونکہ شرح مذکور کی کمی کی صورت میں ضروری ہے کہ زیادہ رقم بطور سود لینے کی غرض سے زیادہ سرمایہ دیا جائے جس کا پہلے جمع ہونا لازم ہے۔ ۳۔ قانون سرمایہ شخصی تو کسی قدر وضاحت سے بیان ہو سکتا ہے لیکن قانون سرمایہ قومی (سرمایہ قومی سے مراد پیدائش دولت کے وہ وسائل ہیں جو کسی قوم کی گزشتہ محنت سے پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً پرانے تعمیر شدہ مکانات ، سٹرکیں وغیرہ) کا وضاحت کے ساتھ بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کسی فرد واحد کی نسبت تو ہم کسی قدر رائے لگا سکتے ہیں کہ اس کاسرمایہ کس اصول کے مطابق کم و بیش ہوتا ہے مگر کسی قوم کے سرمائے کی نسبت بحیثیت مجموعی اس قسم کا قانون وضع کرنا نہایت دشوار ہے۔ ظاہر ہے کہ سرمایہ قومی کی زیادتی سے محنت کی مانگ یا یوں کہو کہ اجرت کی مقدار بڑھتی ہے اور اس طرح مختلف ممالک کی پیداوار دولت میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ معلوم کرنا دشوار ہے کہ سرمایہ مذکور کا اصلی اصول کیا ہے۔ اگر کسی طرح سے کوئی اصول معلوم بھی ہو جائے تو اس سے صحیح مستخرج نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ بسا اوقات اور بالخصوص زمانہ حال میں اکثر قومیں اتنا سرمایہ خود نہیں استعمال کرتیں بلکہ دیگر اقوام کو مستعار دے دیتی ہیں۔ اگرچہ سرمائے کو اس طرح پر مستعار دے دینے سے اُن اقوام کو دنیا کی پیداوار محنت میں زیادہ حصہ ملتا ہے۔ لیکن اس سے اُن قوموں کی ذاتی محنت کی قابلیت پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ ان کی خارجی تجارت کے فوائد میں کسی قدر زیادتی ضرور ہو جاتی ہے۔ مزید برآں اکثر اوقات بعض ممالک کے ارکانِ سلطنت جنگ وغیرہ کے اغراض کے لیے قوم سے قرض لیتے ہیں، جس سے قومی سرمائے میں کمی عارض ہوتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس رفاہ عام مثلاً تعلیم و حفظان صحت وغیرہ کے کاموں پر جو محنت صرف ہوتی ہے اُس سے کسی خاص فرد کو کوئی نفع نہیں ہوتا بلکہ اُن کا فائدہ عام بلا خصوصیت ہوتا ہے۔ نیز وہ محنت جو اکثر افراد حب وطن کے خیال سے نظام سلطنت کی حفاظت اور اس کی اندرونی قوت کو برقرار رکھنے کے لیے کرتے ہیں اکثر مالی فائدہ کی آمیزش سے معرا ہوتی ہے۔ غرض کہ ان وجود سے کسی ملک کے سرمایہ قومی کی کمی بیشی کا کوئی وسیع اور کامل اصول قائم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ حصہ سوئم تبادلہ دولت مسئلہ قدر تجارت بین الاقوام زر نقد کی ماہیت اور اس کی قدر حق الضرب زر کاغذی اعتبار اور اُس کی ماہیت با ب اوّل مسئلہ قدر بعض مصنفین کہتے ہیں کہ تبادلہ دولت علم الاقتصاد کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے۔ مگر یہ رائے تجارت اور تبادلے میں امتیاز نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ اس کے منطقی وضاحت اس امر کی مقتضی ہے کہ اس مضمون کو علم الاقتصاد کا ایک علیحدہ حصہ سمجھا جائے تاکہ مختلف اقتصادی مسائل آپس میں مخلوط نہ ہو جائیں۔ اس حصے کا مقصد تناسب تبادلہ یا ان شرائط پر بحث کرنا ہے جن کی رو سے اشیاء کا باہمی تبادلہ ہوتا ہے جو ایک معین قدر کھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب وہ چیزوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو ایک شے کی ایک خاص معین مقدار دوسری شے کی ایک خاص معین مقدار کے عوض میں دی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مقدار معین کیوں ہوتی ہے۔ کم و بیش کیوں نہیں ہوتی؟ علم الاقتصاد کے اس حصے کا مقصد اسی سوال کا جواب دینا ہے۔ تبادلہ انقسام محنت سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہر شخص اپنی اپنی ضروریات کی چیزیں پیدا کرنے میں مصروف ہوتا تو تبادلے کی ضرورت کبھی لاحق نہ ہوتی۔ لیکن جب ان کے مشاغل میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا یوں کہو کہ مختلف انسان یا اقوام دولت کی مختلف صورتوں کے پیدا کرنے میں مصروف ہوتی ہیں، تو تبادلے کا دستور خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔مختصر طور پر یوں کہو کہ تبادلہ اتحاد کی ایک صورت ہے جو اختلاف مشاغل سے پیدا ہوتی ہے جب ایک شخص غلہ پیدا کرتا ہے ، دوسرا مکی یا آلو اور تیسرا کپڑا تیار کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ ضرورت ان سب کو باہمی تبادلے پرمجبور کرے گی۔ اس وقت یہ سوال پیدا ہوگا کہ غلہ کی کسی قدر مقدار دس گز کپڑے یا دومن آلو کے عوض دی جائے گی؟ جس قدر اصول انقسام محنت کا عمل وسیع ہوتا جائے گا اسی قدر تبادلے کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جائے گا۔ لیکن چونکہ ایسی صورت میں افراد کو اپنی اپنی ضرورت کی اشیاء کا باہمی تبادلہ کرنے میں دقت ہوگی یا کم از کم ان کے وقت کا کچھ حصہ اس تبادلے میں ضائع ہوگا، اس واسطے قدرتاً تبادلے کا کام افراد کی ایک خاص جماعت کے زیر اہتمام آتا جائے گا۔ جس کو علم الاقتصاد کی اصطلاح میں افراد تبادلہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیںجن کی وساطت سے تجارت کی گاڑی چلتی ہے اور دور دراز ممالک کے باشندوں کے درمیان رابطہ اتحاد پیدا ہوتا ہے اور تبادلہ اشیاء کے ساتھ تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہتا ہے۔ غرض ہمارا مقصد اس حصے میں یہ معلوم کرنا ہے کہ تبادلے میں اشیاء کی خاص خاص مقدار کن اصولوں کے لحاظ سے متعین ہوتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہندوستانی غلے کی ایک خاص مقدار کے عوض میں چینی چائے کی ایک خاص مقدار یا جاپانی چھاتوں کی ایک خاص تعداد دی جائے؟ یہ مقدار یا یہ تعداد کم و بیش کیوں نہ ہو؟ مختصراً اشیاء میں قوت تبادلہ کن کن شرائط سے پیدا ہوتی ہے؟ اور اس کے اسباب و وجود کیا کیا ہیں؟ قدر کی تعریف اس کتاب کے پہلے حصہ میں لکھی جا چکی ہے۔ یعنی قدر قوت تبادلہ کا نام ہے یا اس قدر و قوت کا نام ہے جو کسی شے کی وساطت سے اس شے کے قابض کو حاصل ہوتی ہے اور جس کو تبادلے میں دے کر وہ شخص بلا لحاظ جبرو اکراہ یا تاثرات ذاتی اوروں کی پیدا وار محنت کو حاصل کر سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کیوں ایک شے اپنے قابض کو یہ قدرت یا قوت دیتی ہے اور دوسری نہیں دیتی ؟ کیوں ایک شے کے قبضے سے اوروں کی پیدا وار محنت پر ہفتوں مہینوں بلکہ سالوں تک یہ قدرت حاصل رہتی ہے اور دوسری شے کے قبضے سے یہ قدرت مطلق حاصل نہیں ہوتی یا اگر ہوتی ہے تو نہایت قلیل عرصے کے لیے؟ یہ سوال علم الاقتصاد کے نہایت ضروری سوالوں میں سے ہے۔ لہٰذا طالب علم کا فرض ہے کہ ا س کے ہر پہلو پر غور کر کے اس کو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لے۔ ظاہر ہے کہ تبادلے کے لیے کم از کم دو اشیاء کا ہونا لازم ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کسی شے کا تبادلہ ہو سکتا ہے تو ہمارا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اس کا تبادلہ کسی اور شے کے ساتھ ہو سکتا ہے اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں شے کی قدر تبادلے میں اتنی ہے تو بالواسطہ یا بلاواسطہ ہم کسی اور شے یا اشیاء کی قدر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جن کے عوض میں شے مذکور دی جا سکتی ہے۔ عام طور پر یہ دوسری شے جس کے عوض میں کوئی شے دی جا سکے زر نقد ہے، جس کو دنیا کی مہذب اقوام نے اشیاء کی قدر کا پیمانہ قرار دیا ہے۔ پس کسی شے کی قدر سے حقیقت میں مراد اس کی قیمت سے یا زر نقد کی اس مقدار سے ہے جو اس شے کے عوض میں دی جائے۔ اس مقام پر قدر اور قیمت کا ذہن نشین کر لینا نہایت ضروری ہے۔ لہٰذا ہم اسے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ ایک شخص کے پاس چار من غلہ ہے جس کے عوض میں اسے ۲۷ من کوئلہ مل سکتا ہے۔ اس صورت میں یہ سمجھا جائے گا کہ ۴ من غلے کی قدر ۲۷ من کوئلے کی قدر کے برابر ہے۔ اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کے مفہوم میں اشیاء کامقابلہ داخل ہے اور قدر ایک اضافی اصطلاح ہے۔ ایک شے کی قدر دو طرح سے کم و بیش ہو سکتی ہے۔ یا تو اس کی ذاتی قدر میں کمی بیشی ہونے سے یا دیگر اشیاء کی قدر میں تغیر پیدا ہو جانے سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمام اشیاء کی قدر ایک ہی وقت میں نہیں بڑھ سکتی۔کیونکہ ایک شے کی قدر کی زیادتی اور دوسری کی قدر کی کمی لازم و ملزوم ہیں۔ یہ کہنا کہ ایک ہی وقت میں اشیاء کی قدر کم و بیش ہو سکتی ہے ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہہ دے کہ چھ اشخاص میں سے ہر ایک اپنے باقی پانچ ہمراہیوں کی نسبت زیادہ تیز رفتار ہے۔ الغرض کسی شے کی قیمت اس کی قدر کی ایک خاص صورت کانام ہے جب کسی شے کی قدر کا تخمینہ ان قیمتی دھاتوں کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے سے کیا جائے جو شائستہ اقوام میں بطور معیار قدر مستعمل ہوں، تو کہا جاتا ہے کہ اس شے کی قیمت معلوم ہو گئی ہے۔ گو تمام اشیاء کی قدر ایک ہی وقت میں کم و بیش نہیں ہو سکتی تاہم نہ اُن کی قیمت کا گھٹنا بڑھنا ممکن ہے۔ مندرجہ توضیع سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ مسئلہ قدر حقیقت میں ان اسباب کا دریافت کرنا ہے جن پر اشیا کی قدر ایک معین معیار کے لحاظ سے منحصر ہوتی ہے۔ ان معنوں میں کوئی شے قدر نہیں رکھ سکتی جب تک اس میں دو خواص نہ ہوں۔ اوّل افادت دوئم وقت حصول۔ افادت سے مراد یہ ہے کہ اس شے میں کسی انسانی ضرورت یا خواہش کو پورا کر سکنے کی خاصیت موجود ہے۔ یہ گویا ایک قسم کا امتحان ہے کہ جب تک کوئی شے پہلے اس امتحان میں کامیاب نہ ہو لے قدر رکھنے والی اشیاء کی فہرست میں داخل نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس فہرست میں کوئی خاص درجہ یا مقام حاصل کرنا اس شے کی وقت حصول پر موقوف ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جس قدر کسی شے میں انسانی ضروریات کو پورا کر سکنے کی خاصیت ہو گی اسی قدر اس شے کی قدر بھی زیادہ ہوگی۔ اسی افادت کی کمی بیشی کی وجہ سے اشیاء کی طلب یعنی مانگ میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ جس قدر کسی شے میں افادت زیادہ ہوگی اسی قدر اس کی مانگ بھی زیادہ ہوگی اور جس قدر افادت کم ہو گی اُسی قدر اُس کی مانگ بھی کم ہوگی۔ خریداران اشیاء کا معاوضہ زیادہ دیں گے جن کی ان کو ضرورت ہے۔ مگر جن اشیاء کی ان کو ضرورت نہیں ہے ،ان کا معاوضہ اوّل تو دیں گے ہی نہیں یا اگر دیں گے تو بہت کم دینے پر راضی ہوں گے۔ بعض محققین علم اقتصاد نے انسانی فطرت کے اس میلان کو ظاہر کرنے کے لیے اصطلاح افادت انتہائی استعمال کی ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اصطلاح مذکور نہایت مفید ہے کیونکہ اس کے استعمال سے تبادلے کی تحریک اور اس کے فوائد کی توضیح ہوتی ہے۔ اس کا مفہوم واضح کرنے کی غرض سے ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں۔ فرض کرو کہ آٹے کا ایک سیر ایک آدمی کی بقائے حیات کے لیے ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ایک سیر میں زیادہ افادت ہوگی۔ لیکن اس شخص کے نزدیک آٹے کے دوسرے اور تیسرے سیر میں وہ افادت نہ ہوگی۔ جو پہلے سیر میں تھی۔ کیونکہ وہ مقدار اس کی بقائے حیات کے لیے لازم تھی۔ اس مثال میں مقدار تو وہی ایک سیر ہے۔ لیکن ہر سیر کی افادت آٹے کو استعمال کرنے والے کے لحاظ سے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شخص آٹے کے تیسرے سیر کو اس قیمت پر خریدنا پسند نہیں کرے گا، جس قیمت پر کہ اُس نے پہلے سیر کو خریدا تھا۔ پس کسی کی افادت انتہائی سے مراد اس شے کی آخری یا اختتامی حصے کی افادت ہے جس کو مشتری قیمت کی اس کم سے کم مقدار کے عوض میں خرید کرتا ہے، جو اُس شے کا بائع منظور کر سکتا ہے۔ مثال بالا میں آٹے کے تیسرے سیر یعنی اختتامی یا انتہائی حصے کی قیمت اس کی افادت سے متعین ہو گی۔ چونکہ مثال مذکور میں خریدار کو آٹے کے تیسرے سیر کی ضرورت نہیں ہے اس واسطے اوّل تو وہ خریدے گا ہی نہیں اور اگر خریدے گا بھی تو اس بات پر مصر ہوگا کہ قیمت کی کم سے کم مقدار ادا کرے۔ آخر کار قیمت کی اس کمتر مقدار پر سودا ہو گا جس کو بائع شے منظور کر سکتا ہے۔ اس توضیح سے ظاہر ہے کہ خریداروں کے لحاظ سے اشیاء کی معمولی قیمت ان کی افادت انتہائی سے متعین ہوتی ہے۔ بعض محققین کے نزدیک یہی افادت قدر اشیاء کا اصل اصول ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ہر شے کی قدر اس شے کی افادت پر منحصر نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شے میں قدر ہوگی اس میں افادت بھی ضرور ہو گی لیکن برعکس صحیح نہیں ہے۔ یہ کچھ ضرور نہیں ہے کہ ہر مفید شے کوئی خاص قدر بھی رکھتی ہو۔ ہوا پانی وغیرہ مفید اشیاء ہیں، مگر ان کی قدر کچھ نہیں ہے کیونکہ قدرت خود بخود بغیر انسانی کوشش کے ان کو کثرت سے مہیا کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی شے بعض اشخاص کے لیے مفید ہوتی ہے اور بعض کے لیے کچھ فائدہ نہیں رکھتی۔ علیٰ ہذا القیاس بعض اشیاء خاص خاص مقامات میں افادت رکھتی ہیں بعض میںنہیں۔ مزید برآں بعض اشیاء میں مطلق افادت نہیں ہوتی ، لیکن ان کی قدر بڑی ہوتی ہے مثلاً ہیرے جو اہرات وغیرہ۔ غرض کہ افادت قدر کا ماخذ نہیں قرار دی جا سکتی اس کے لیے ہمیں کوئی اور کلیہ اصول معلوم کرنا چاہیے۔ بعض محققین کی رائے ہے کہ افادت کے علاوہ قدر کے لیے وقت حصول بھی ضروری ہے۔ یعنی ان کے نزدیک کسی شے کا مفید ہونا اور نیز مشکل سے ہاتھ آنا اس کی قدر کا باعث ہوتاہے۔ اس رائے کو صحیح تسلیم کرنے والے وقت حصول کی تین صورتیں بیان کرتے ہیں۔ ۱۔ اوّل یہ کہ اشیاء کی رسد محدود ہو۔ مثلاً گزشتہ مصوروں کی بنائی ہوئی تصویر یں یا دیگر کمیاب چیزیں۔ کیا اس صورت میں اشیاء کی قدر اس محنت پر منحصر ہوگی، جو ابتداً ان پر صرف ہوئی تھی؟ نہیں؛ اگر یہ صحیح ہے کہ انسان بالعموم اپنی محنت ایسی اشیاء کے معاوضے میں نہیں دیتا جن پر کچھ محنت نہ صرف ہوئی ہو اور نیز بالآخر مجموعی طور پر اشیاء کی قدر قریباً قریباً اس محنت کے مطابق ہوگی جو ان پر ابتداً ء صرف ہوئی تھی۔ تاہم حق یہ ہے کہ کسی شے کی قدر اس امر پر منحصر نہیں ہے کہ اس شے کی تیاری میں ابتداً کتنی محنت صرف ہوئی تھی بلکہ یہ اس امر پر منحصر ہے کہ وہ شے اب بغیر محنت کے حاصل نہیںہو سکتی۔ اگر کوئی شاہ نامہ فردوسی کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا مل جائے تو اس کی قدر اس محنت کانتیجہ نہ تصور کرنی چاہیے جو ابتداً اس کی تحریر میں صرف ہوئی تھی بلکہ اس کا انحصار اس امر پر ہوگا کہ اکثر لوگوں کو اس نسخہ کی ضرورت ہے اور اب ایسا تیا ر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ابتدائی محنت بھی کسی شے کی قدر کا ملخذ نہیں قرار دی جا سکتی۔ مندرجہ بالا دلیل کے علاوہ اس دعویٰ کے ثبوت میں ذیل کے دلائل بھی دیئے جا سکتے ہیں:۔ الف۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا اصل باعث سمجھا جائے، تو قدر کی کمی بیشی محنت کی کمی بیشی پر منحصر سمجھنی چاہیے۔ مگر یہ بات صریحاً تجربے کے خلاف ہے۔ جس وسیع زمین پر لاہور جیسا عظیم الشان شہر آباد ہے۔ اس کی قدر اندازے سے زیادہ ہے لیکن یہ زمین کسی طرح محنت کا نتیجہ نہیں ہے۔ ب۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا اصل باعث سمجھا جائے تو جن دو چیزوں پر مساوی محنت صرف ہوئی ہے، اُن کی قدر بھی مساوی ہونی چاہیے۔ مگر تجربہ اس کے خلاف ہے۔ اگر ایک ٹکڑا سونے اور ایک ٹکڑا لوہے کا، دونوں مساوی محنت سے حاصل ہوں، تو کیا ان کی قدر بھی مساوی ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ ج۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا اصل باعث سمجھا جائے، تو ہر شے کی قدر اس محنت سے متناسب ہوگی، جو اس شے کے حاصل کرنے میں صرف ہوئی ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ فرض کرو کہ ایک شخص کو خوش قسمتی سے زمین کی سطح پر پڑا ہوا سونے کا ایک ٹکڑا مل جاتا ہے۔ ایک اور شخص کو ایسا ہی ٹکڑا ہفتہ بھی زمین کھود کھود کر ملتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ایک اور شخص ہے جس کو اس قسم کا ٹکڑا مہینے کی محنت کے بعد ملتا ہے۔ اس اصول کی رو سے چاہیے کہ جس شخص کو مہینے کی محنت کے بعد سونے کا ٹکڑا ملا ہے اس شخص کا سونا اس شخص کے سونے سے بہت زیادہ بیش قیمت ہو جس کو بغیر محنت کے زمین پر پڑا ہوا مل گیا تھا۔ د۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا باعث سمجھا جائے تو جس شے پر محنت صرف کی گئی ہے چاہیے کہ اُس کی قدر دوامی اور مساوی ہو۔ مگر یہ صریحاً غلط ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ ایک ہی شے کی قدر مختلف مقامات میں مختلف ہوتی ہے۔ بلکہ بعض جگہ کئی اشیاء کی قدر کچھ بھی نہیں ہوتی، حالانکہ ان پر محنت بھی صرف کی گئی ہو۔ افریقہ کے وحشیوں کے درمیان ایک سنسکرت پڑھانے والے پنڈت یا عربی کی تعلیم دینے والے مولوی کا علم کیا قدر رکھ سکتا ہے؟ اگر ہندوستان کے مسلمان ترکی ٹوپیاں پہننا یک قلم ترک کردیں تو اس اصول کی رو سے ضرور ہے کہ اُن کی قدر بدستور قائم رہے اگرچہ اُن کی مانگ مطلق نہ ہو۔ ر۔۔۔ اگر محنت کو قدر کا ماخذ سمجھا جائے تو محنت کی قدر کا کیا ماخذ ہوگا؟ ۲۔ دوسری صورت وقت حصول کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ کسی شے کی تیاری میں محنت اور سرمائے کی ضرورت ہو۔ اس ضمن میں جو اشیاء داخل ہیں ان کی قدر یا قیمت ان اشیاء کے مصارف پیدائش سے متعین ہوگی۔ یہ غلطی بھی اسی غلطی کا ایک نتیجہ ہے کہ اشیاء کی قدر کا ماخذ محنت ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپربیان کیا ہے۔ قدر کا انحصار ابتدائی محنت پر نہیں ہوتا بلکہ یہ اس بات پر موقوف ہے کہ موجودہ حالت میں وہ شے بغیر محنت اور سرمائے کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ بعض کوئلے کی کانوں میں اوپر کی تہوں کاکوئلہ نہایت عمدہ ہوتا ہے اور نیچے کی تہوں کا کوئلہ اچھا نہیں ہوتا، بلکہ اس میں مٹی اور راکھ وغیرہ ملی ہوئی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کا کوئلہ نکالنے میں مصارف کی مقدار کم ہوگی اور نیچے کا کوئلہ نکالنے میں چونکہ محنت زیادہ صرف ہوئی ہے ،اس واسطے مصارف کی مقدار بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن اگرچہ اشیاء کی قدر مصارف پیدائش پر منحصر ہے تو چاہیے کہ کوئلے کی قیمت اوپر کے کوئلے کی قیمت سے زیادہ ہو۔ ۳۔ تیسری صورت وقت حصول کی یہ ہے کہ بعض اشیاء اس قسم کی ہوتی ہیں جن کو ایک معین میعاد کے اندر تیار کیا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ جن لوگوں کو ان کی ضرورت ہے ، وہ اس عرصہ تک انتظار کریں۔ اس صورت میں اشیاء کی قیمت ان مصارف سے متعین ہوتی سمجھی جائے گی جو ان کے از سر نو تیار کرنے میں عائد ہوتے ہوں۔ مگر یہ بات ہمیشہ صحیح نہیں ہوتی کیونکہ ایک نہایت قدیم زمانے کی کل کو ان مصارف سے کوئی نسبت نہیںہے جو اس کے نئے سرے سے تیار کرنے میں عائد ہوتے ہیں۔ کل تو ویسی تیار ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ پرانی کل آثار قدیمہ میں سے تصور کی جائے گی، اس واسطے اس کی قدر یا قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ پس معلوم ہوا کہ اشیا کی قدر یا قیمت (کیونکہ قیمت بھی قدر ہی کی ایک صورت ہے) افادت محنت ابتدائی یا اُن مصارف پر جو اُن کی از سر نو تیار کرنے میں عائد ہوں، منحصر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ تینوں قدر کی عوارضات ضرور ہیں تاہم اس کی ماخذ نہیں قرار دی جا سکتی۔ پھر وہ کون سا کلیہ اصول ہے جس پر اشیا کی قدر کا دارومدار ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قدر اشیا قانون طلب و رسد کے عمل پر انحصار رکھتی ہے جس کی توضیح ذیل میںدرج کی جاتی ہے۔ سہولت کے لیے ہم پہلے قانون طلب کا مفہوم واضح کریں گے، بعد میں قانون رسد کا اور پھر دونوں توضیحات کو یکجا کرکے ایک وسیع قانون قائم کریں گے۔ طلب سے مراد کسی شے کی اس خاص مقدار ہے جو کسی خاص قیمت پر خرید کی جائے۔ اس تعریف میںہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ اس مقدار کی قیمت کا ادا کرنے والا حقیقی طور پر اس قیمت کو ادا کر سکنے کی قوت رکھتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ طلب اور خواہش حصول مرادف نہیں تصور کئے جا سکتے۔ کیونکہ ہر شخص ہر شے کے حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے؛ اگرچہ اشیاء مذکورہ کے خرید کر سکنے کی قوت اس میں نہ ہو۔ اس کے علاوہ تعریف مندرجہ بالا میں الفاظ “خاص قیمت” بھی ضروری ہیں۔ کیونکہ قیمت کے تغیر سے شے طلوب کی مقدار میں بھی تغیر مطلوب ہو گا۔ قانون طلب کے ذریعہ تغیر قیمت سے وابستہ مقدار مطلوب کے تغیر کی توضیح ہوتی ہے۔ یعنی جب کسی شے کی قیمت کم ہو جاتی ہے تو (بشرطیکہ زر نقد کی قوت خریدار اس کی وہ رقم جو خریداروں کے قبضے میں ہے مساوی رہے)اس کی مقدار مطلوب بڑھ جاتی ہے اور برعکس اس کے جب قیمت زیادہ ہو جاتی ہے تو مقدار مطلوب کم ہو جاتی ہے۔ ہم نے کہا ہے “بشرطیکہ زر نقد کی قیمت خرید اور اس کی وہ رقم جو خریداروں کے قبضے میں ہے مساوی رہے”۔ اس قید کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جوں جوں کسی شخص کے وسائل آمدنی ترقی کریں گے یا یوں کہو کہ جس قدر کوئی شخص زیادہ دولت مند ہوتا جائے گا، اسی قدر اس میں اشیاء کو زیادہ قیمت کے عوض میں خرید کر سکنے کی قوت بڑھتی جائے گی اور جس قدر اس کے وسائل آمدنی کم ہوتے جائیں گے یا جوں جوں وہ رقم جو اُس کے پاس ہے کم ہوتی جائے گی ، اسی قدر اس کی قوت خرید بھی کم ہوتی جائے گی۔ اگر پہلی صورت میں وہ ایک شے کو دس روپیہ کے عوض میں خرید کر سکتا تھا تو دوسری صورت میں پانچ روپیہ کو بھی نہ خرید کر سکے گا۔ اگرچہ ضرورت دونوں صورتوں میں ایک سی ہی کیوں نہ ہو۔ پس اس قانون کو مختصراً یوں بیان کر سکتے ہیں کہ اشیاء کی مقدار مطلوب کمی قیمت سے بڑھتی ہے اور زیادتی قیمت سے کم ہوتی ہے۔ مثلا ً اگرچھاتوں کی قیمت بڑھ جائے تو بہت سے خریدار جو پہلے چھاتے استعمال کیا کرتے تھے اب ان کا استعمال ترک کر دیں گے۔ اور صرف وہی لوگ اُن کو خرید کریں گے جو زیادہ قیمت کے متحمل ہو سکتے۔ لہٰذا چھاتوں کی مقدار مطلوب کم ہو جائے گی۔ اگر قیمت کم ہو جائے تو بہت سے لوگ جو پہلے چھاتوں کو استعمال کرتے تھے۔ اب کمی قیمت کی وجہ سے استعمال کرنے لگ جائیں گے۔ لہٰذا ان کی مقدار مطلوب میں زیادتی ہو جائے گی۔ علیٰ ہذالقیاس رسد سے مراد کسی شے کی اس خاص مقدار سے ہے جو کسی خاص قیمت کے عوض میں فروخت کئے جانے کے لیے پیش کی جائے اور قانون رسد کو عام الفاظ میں اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ جس قدر قیمت بڑھتی جاتی ہے اسی قدر (بشرطیکہ زر نقد کی قوت خرید اور اس کی وہ رقم جو خریداروں کے قبضہ میں ہو مساوی رہے) مقدار اشیاء فرد ختنی بڑھتے جانے کا میلان رکھتی ہے۔ جب کسی شے کی قیمت زیادہ ملے گی تو ہر تاجر اُسی کی تیاری پر سرمایہ صرف کرے گا اور اگرکم ملے گی تو کوئی شخص اُس شے کی تیاری پر سرمایہ صرف نہ کرے گا۔ لہٰذا مقدار مطلوب پہلی صورت میں بڑھے گی اور دوسری صورت میں کم ہو گی۔ اب ہر دو قوانین مذکورہ پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا اختلاف ہے اس واسطے تبادلہ اشیاء کے لیے ضروری ہے کہ ان کی طلب و رسد میں ایک مساوات پیدا ہو ورنہ تبادلہ محال ہوگا اور جب تبادلہ محال ہوگا تو قدر کی تعیین کس طرح ہو گی۔ لہٰذا مختلف اقتصادی اسباب کے اثر سے اشیاء کی طلب اور رسد میں خود بخود ایک مساوات پیدا ہو جاتی ہے۔ جس کو بطور قانون کے اس طرح قائم کیا جا سکتا ہے کہ ہر منڈی میں اشیاء کی قیمت ان کی مقدار مطلوب اور مقدار فروختنی کی مساوات سے متعین ہوگی۔ اگر مانگ زیادہ ہوگی اور رسد کم ، تو اشیاء کی قیمت معمول سے زیادہ بڑھ جائے گی۔ علیٰ ہذا القیاس اگر مانگ کم ہو گی اور رسد زیادہ تو قیمت مذکور معمول سے کم ہو جائے گی۔ پس اشیاء کی قیمت صحیحہ (اس اصطلاح کا مفہوم ابھی واضح ہو جائے گا) کی تعیین کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلب اور رسد میں مساوات پیدا ہو۔۔۔۔ یعنی اشیاء کی طلب ان کی رسد کے مساوی ہو۔ اس قانون کے معانی کو زیادہ وضاحت سے بیان کرنے کی خاطر ہم مثال کے طور پر ایک جزیرہ فرض کرتے ہیں جہاں ایک ہزار کسان آباد ہیں۔ فرض کرو کہ ان لوگوں کو اپنے کھیتوں کے لیے کھاد کی ضرورت ہے اور ہر کسان کھاد کے پانچ چھکڑوں کے عوض میں غلے کے دس پیمانے دینے کو تیار ہے۔ اس حساب سے گویا کھاد کے پانچ ہزار چھکڑے مطلوب ہیں جن کی قیمت فی چھکڑا دو پیمانے غلہ ہو۔ مگر ممکن ہے کہ قیمت مذکور پر کھاد کی رسد پانچ ہزار چھکڑوں سے زیادہ ہو یا کم۔ بعض آدمی شاید اس قیمت پر کھاد فروخت کرنے کی نسبت ماہی گیری پر گزارا کرنا زیادہ فائدہ مند تصور کریں۔ اس طرح اگر کسان زیادہ قیمت نہ دیں گے تو کھاد کی رسد مطلق نہ ہو گی اور اگر ہو گی تو بہت کم ، جو ان سب کے درمیان تقسیم ہو گی۔ لیکن اگر بعض کسان زیادہ قیمت دینے پر راضی ہو جائیں گے ، تو قیمت کی زیادتی کی وجہ سے وہ لوگ ماہی گیری ترک کر دیں گے جو پہلے کھاد مہیا کرتے تھے اور کھاد کی رسد پھر زیادہ ہو جائے گی۔ برخلاف اس کے اگر کسی قدرتی سبب سے کھاد کی رسد زیادہ ہو جائے تو ، تو جب تک اس کی طلب میں اس قدر زیادتی نہ ہو گی، تمام کھاد بیچنے والے ایک دوسرے کی نسبت مقابلتاً قیمت کو کم کرتے جائیں گے۔ کیونکہ ہر ایک کی خواہش یہی ہو گی کہ میرا ذخیرہ جلد بک جائے۔ قدرتاً ہر شخص کو اپنا فائدہ متصور ہوگا، خواہ دوسرے کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ مثال بالا سے قانون طلب و رسد کا مفہوم تو واضح ہو گیا۔ لیکن ابھی اس سوال کا جواب دینا باقی ہے کہ طلب و رسد میں مساوات کی طرح پیدا ہوتی ہے۔ ہم نے ابھی اصطلاح مقابلہ کا استعمال کیا ہے جس کے مفہوم کا ذہن نشین کر لینا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ اس مقابلے کے اثر سے ہی طلب و رسد کے درمیان مساوات قائم ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بیان کرنے سے پیشتر کہ مساوات مذکورہ مقابلہ کے عمل سے کس طرح قائم ہوتی ہے۔ پہلے اس کا مفہوم واضح کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد اس مقابلے یا تجارتی رشک سے ہے جو کسی شے کے خریداروں اور بیچنے والوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ کم سے کم مقدار دے اور اس کے عوض میں زیادہ سے زیادہ مقدار حاصل کرے۔ مقابلہ کا عمل باہمی اتحاد، رواج اور انسانی اثرات کے منافی ہے۔ کیونکہ ہر شخص قدرتاً اپنی ذات کے لیے کام کاج کرتا ہے۔ جہاں چاہے اپنے مال کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ رواج کی پابندی اس کو کسی خاص مقام میں بیچنے پر مجبور نہیں کر سکتی اور نیز قدرتاً ہر شخص کو اپنی ذاتی منفعت متصور ہوتی ہے۔ کسی دوسرے کے نقصان وغیرہ کی اسے کچھ پروا نہیں ہوتی۔ یہ ہے مقابلے کا اقتصادی مفہوم۔ اب اس کا اثر سمجھنے کے لیے ذرا مثا مندرجہ بالا پر غور کرو۔ ہم نے اُوپر بیان کیا ہے کہ کھاد بیچنے والا مقابلے کی وجہ سے قیمت کم کرتے جائیں گے۔ اگر فی چھکڑا غلے کے دو پیمانے دئیے جائیں، تو صاف ظاہر ہے کہ طلب اور رسد غیر مساوی ہوںگے۔ کیونکہ کھاد فروختنی کی مقدار تو دس ہزار چھکڑا ہے لیکن مانگ صرف پانچ ہزار چھکڑوں کی ہے۔ اگر قیمت اس سے بھی کم ہو جائے تو رسد شاید ۹ ہزار چھکڑے رہ جائے گی۔ کیونکہ بہت سے کھاد بیچنے والے کھاد مہیا کرنے کا کام چھوڑ کر کسی اور کام میں لگ جائیں گے۔ فرضاً اگر کسان یہ سمجھ کر کہ مقررہ مقدار کی نسبت زیادہ کھاد ڈالنے سے زمین کے محاصل یا پیداوار میں سے کھاد کی اس زیادہ مقدار کی قیمت نکل آئے گی اور اس خیال سے اور کھاد خریدنا شروع کر دیں، تو کھاد کی طلب جہاں پہلے پانچ ہزار چھکڑا تھی ، اب شاید چھ ہزار چھکڑا ہو جائے گی۔ علیٰ ہذاالقیاس اگر قیمت اور کم ہو جائے تو رسد اور بھی کم ہو جائے گی۔ پہلے رسد ۱۰ تھی اور طلب ۵۔ پھر رسد ۹ ہو گئی اور طلب ۶۔ اسی طرح طلب شاید ۷ ہو جائے اور رسد ۸۔ غرض کہ دونوں مقداریں مقابلے کے اثر سے ایک دوسرے سے قریب ہوتی جائیں گی۔ فرض کرو کہ اس وقت جب کہ طلب اور رسد کی درمیانی نسبت ۷:۸ کی ہے۔ کھاد کی قیمت فی چھکڑا ۲؍۱ پیمانہ گیہوں پر ٹھہر گئی۔ اب یہ بات کہ طلب اور رسد کے درمیان پوری مساوات کسی ایسی قیمت پر ہو گی جو قیمت مذکورہ سے بہت کم یا کسی قدر کم ہو، دو امور پر منحصر ہے۔ ۱۔ کھاد کی اس مقدار کی افادت انتہائی پر جو سات ہزار چھکڑوں سے زائد ہوگی۔ ۲۔ کھاد بیچنے والوں کی کوئی اور فائدہ مند پیشہ اختیار کر سکنے کی استطاعت پر۔ فرضاً اگر کوئی کسان ۲؍۱ ۲پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے ۱۰ چھکڑے خرید کرے تو یہی قیمت مقرر ہو جائے گی، بشرطیکہ کوئی کھاد بیچنے والا قیمت مذکور سے کم قیمت پر کھاد مہیا کرنے پر راضی نہ ہو۔ لیکن اگر اس کسان کو ۴؍۱ ۲پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے کھاد مل جائے تو وہ شاید پانچ چھکڑے اور خرید کر لے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو۴؍۱ ۲ پیمانہ گیہوں سے ہی کھاد کی افادت انتہائی متعین ہو گی اور یہی اس کی قیمت فی چھکڑا قرار پا جائے گی۔ اسی طرح اگر اس کو ۲ پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے اور کھاد مل سکے تو افادت انتہائی اسی نرخ سے متعین ہو گی۔ علیٰ ہذاالقیاس ۲؍۱ ۱ پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے اور کھاد مل سکے تو یہی قیمت قرار پائے گی۔ الغرض ممکن ہے کہ کسان اس طرح کھاد کے بیس چھکڑے خریدلیوے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کھاد کے مختلف حصص کی افادت مختلف ہے۔ اگر یہ کسان بیس چھکڑے کھاد کے ایک ہی دفعہ لیتا تو ہر چھکڑے کے لیے اسے مساوی قیمت ادا کرنی پڑتی اور یہ قیمت ۲؍۱ ۱ پیمانہ گیہوں فی چھکڑا کے حساب سے ہوتی۔کیونکہ منڈی میں(بشرطیکہ مقابلہ پورے طور پر اپنا عمل کر رہا ہو) ایک ہی قسم کی اشیاء کی قیمت ان کی افادت انتہائی سے متعین ہوتی ہے اور بالعموم مساوی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اسباب اشیا کی قیمت میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ لیکن ان بواعث پر ہم آگے چل کر غور کریں گے۔ فی الحال ہم یہ معلوم کرناچاہتے ہیں کہ کسی شے کی قیمت صحیحہ اس قیمت سے کیوں مختلف ہوتی ہے جس پر وہی شے تجارت کی منڈی میں فروخت ہوتی ہے؟ لفظ منڈی کی کئی تشریحات کی گئی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ہر تجارتی شے کی ایک نہ ایک منڈی ضرور ہوتی ہے۔ مثلاً لوہے کی منڈی ، چائے کی منڈی وغیرہ۔۔؟ علیٰ ہذاالقیاس ایک ہی قصبے میں اشیا کا تبادلہ کرنے والوں کے مختلف فریق ہوتے ہیں۔ جن کے درمیان ممکن ہے کہ ایک ہی قسم کی اشیاء کی قیمت مختلف ہو۔ پس لفظ منڈی سے مراد وہ تمام افراد ہیں جن کی طلب یا رسد کسی خاص مقام میں کسی خاص شے کی قیمت پر اثر کرے۔ اگر مقابلہ پورے طور پر اپنا عمل کر رہا ہو تو کسی شے کی قیمت ہمیشہ اس کے مصارف پیدائش کے قریب ہو گی۔ یعنی شے مذکور کی رسد اس حصہ کے مصارف پیدائش پر جو نہایت نامساعد حالات میں پیدا کیا گیا ہے اور یہ قیمت گویا اس شے کی افادت انتہائی کا پیمانہ ہو گی یعنی اس حصے کی افادیت انتہائی کا جس کو خریدار اس خاص قیمت پر بغیر اندیشہ نقصان کے خریدنا قبول کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ قیمت ان مساعی اور تکالیف کا معاوضہ ہوگی جو اس کے پیدا کرنے والوں کو نہایت نامساعد حالات میں کام کرنے کی وجہ سے لاحق ہوئی ہیں۔ لیکن چونکہ تمام خریدار اس شے کی مساوی قیمت ادا کریں گے، اس واسطے ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے اسے نامساعد حالات میں پیدا کیا ہے ان کو فائدہ ہو گا۔ یعنی ان کا اجران تکالیف و مساعی سے زیادہ ہوگا جو اس کی تیاری کے ساتھ وابستہ ہیںاور جن لوگوں نے اسے نامساعد حالات میں پیدا کیا ہے ان کا اجر بمشکل ان کی مساعی اور تکالیف کے برابر ہوگا۔ مثلاً فرض کرو کہ چند شخص نہایت مساعد حالات میں کام کرتے ہیں۔یا یوں کہو کہ ایک ایسی کان کھودتے ہیں جس پر معمولی محنت اور سرمایہ صرف کرنے سے عمدہ لوہا بافراط نکل آتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کی نسبت بدر جہا فائدے میں رہیں گے جو اسی کام کو نامساعد حالات میں کرتے ہیں یا بالفاظ دیگر ایسی کان کھودتے ہیں جس سے لوہا نکالنے میں بہت سی محنت اور کثیرسرمایہ درکار ہے۔ مقدم الذکر فریق کے فائدے کی وجہ یہ ہے کہ خریدار دونوں کانوں کے لوہے کو مساوی قیمت پر ہی خریدنا قبول کریں گے جس سے پہلا فریق فائدہ میں رہے گا اور دوسرے فریق کو بمشکل اپنے اصل مصارف ہی پلے پڑیں گے۔ اگر لوہا بیچنے والوں کے درمیان مقابلہ پورے طور پر اپنا عمل کر رہا ہو تو لوہے کی قیمت رفتہ رفتہ اس کے مصارف پیدائش کے قریب آ جائیں گے۔ یہی قیمت جو مقابلے کی وجہ سے مصارف پیدائش کے قریب ہو جاتی ہے علم الاقتصاد کی اصطلاح میںقیمت صحیحہ کہلاتی ہے۔ لیکن چونکہ مقابلہ کبھی پورے طور پر عمل نہیں کرتا۔ اس واسطے منڈی میں ہر تجارتی شے کی ایک خاص قیمت ہوتی ہے جس کو اصطلاح میں قیمت متعارف کہتے ہیںاور یہ قیمت قیمت صحیحہ سے کم و بیش مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس سے بالعموم کسی شے کے مصارف پیدائش کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ خریدار کے لیے اس شے کی افادت انتہائی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے۔ قیمت متعارف اور قیمت صحیحہ کا یہ اختلاف مندرجہ ذیل وجود پر مبنی ہے۔ ۱۔ کسی شے کے ذخیرے کی مقدار پر جو منڈی میں موجود ہو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ذخیرہ اور رسد مرادف الفاظ نہیں ہیں۔ ذخیرے سے مراد کسی شے کی اس تمام مقدار سے ہے، جو ایک خاص وقت پر منڈی میں موجود ہواور رسد سے مراد کسی شے کی اس مقدار سے ہے جو فروخت کے لیے پیش کی جا سکتی ہو۔ اگرچہ منڈی میں حقیقتہً موجود نہ ہو۔ لہٰذا ممکن ہے کہ رسد ذخیرے کا ایک تھوڑا سا حصہ ہو۔ مثلاً جب کسی شے کی قیمت کم ہو تو دکاندار قدرتاً اس شے کا سارا ذخیرہ نہیں بلکہ اس کا تھوڑا سا حصہ فروخت کے لیے پیش کریںگے، جو اس صورت میں رسد کہلائے گا۔ جب قیمت برھے گی وہ پہلے کی نسبت ذخیرے کی زیادہ مقدار فروخت کے لیے پیش کریں گے۔ غرض کہ قیمت کی زیادتی کے ساتھ ذخیرہ رسد کی صورت میںمنتقل ہوتا جائے گا۔ برخلاف اس کے یہ بھی ممکن ہے کہ کسی منڈی میں رسد کی مقدار ذخیرے کی مقدار سے زیادہ ہو۔ مثلاً تجارتی دلال عموماً اشیاء کی ایک کثیر مقدار غلہ ، روٹی وغیرہ مہیا کرنے کا خریداروں سے معاہدہ کرتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں مقدار معہودہ اس وقت اوّل تو ہوتی ہی نہیں یا اگر ہوتی ہے تو بہت کم۔ چونکہ خریداروں کی طلب اشیاء کی روزانہ پیداوار سے نہیں بلکہ ان کے ذخیرے سے پوری ہوتی ہے، اس واسطے ممکن ہے کہ اس ذخیرے کی کمی بیشی اشیاء کی قیمت متعارف اور قیمت صحیحہ کے درمیان اختلاف پیدا کردے۔ مثلاً اگر کسی سال کمی رسد کی وجہ سے غلے کی قیمت زیادہ ہی ہے، تو دوسرے سال اس کی کاشت زیادہ ہوگی اور اس مزید ذخیرے کی وجہ سے جو اس طرح پیدا ہوگا ممکن ہے کہ قیمت معمول سے بھی کم ہو جائے۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر غلے کی رسد کم ہے تو اس کی جگہ مکی بکنی شروع ہو جائے۔ اس صورت میں غلے کے ذخیرے کی کمی بیشی اس کی قیمت متعارف پر کچھ اثر نہیں کر سکتی۔ علیٰ ہذاالقیاس بعض اشیاء ذخیرہ کھا سکتی ہیں۔ بعض میں ذخیرہ کئے جانے کی قابلیت نہیں ہوتی۔ یہ سبب بھی ذخیرے کی قیمت متعارف پر اثر کرتا ہے۔مثلاً بعض اشیاء مچھلی وغیرہ (جو ذخیرہ نہیں کھا سکتی) کی قیمت منڈی میں صبح کچھ ہوتی ہے شام کچھ۔ ۲۔ محنت کی تنظیم اور کلوںکا استعمال جس کی وجہ سے محنت کے لیے کسی اور پیشے اور سرمائے کے لیے کسی اور صورت میں منتقل ہو جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ قیمت صحیحہ اور قیمت متعارف کے اختلاف کا دوسرا سبب ہے۔ محقق مارشل فرماتے ہیں کہ : جن پیشوں میں سرمایہ قائم کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ان میں اشیاء کی قیمتیں بہت تغیر پذیر ہوتی ہیں۔ تمھیں یاد ہوگا کہ طلب و رسد کی توضیح کرتے ہوئے ہم نے کھاد مہیا کرنے والوں کی مثال لی تھی۔ ایسی مثال لینے سے ہماری غرض یہ تھی کہ پیشہ مذکور میں قیمت صحیحہ اور قیمت متعارف کے اختلاف کا یہ دوسرا سبب کچھ اثر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہاں نہ بڑی کلوں کی ضرورت ہے نہ بڑے ہنر مند پیشہ وروں کی، جن کی محنت کسی دوسرے پیشے میں منتقل ہو سکتی ہو۔ ۳۔ بسا اوقات رسم و رواج اور قانون سے بھی اشیاء کی قیمت متعارف متعین ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پیشہ وروں کے عادات اور ان کے طبائع بھی بعض دفعہ قیمت کی کمی بیشی پر بہت بڑا اثر رکھتی ہیں۔ جب کسی پیشے کے دستکاروں کی یومیہ اُجرت ایک دفعہ مقرر ہو گئی، پھر سالوں تک بالعموم وہی اُجرت مقرر رہتی ہے۔ خواہ دستکاروں کی تعداد پہلے کی نسبت زیادہ ہی کیوں نہ ہو جائے۔ تم نے سنا ہوگا نکاح پڑھانے والے مولوی اپنی خدمت کے عوض بالعموم ۴؍۱ ۱روپیہ ہی لیا کرتے ہیں۔ ایسی صورتوں میں افادت انتہائی کا اصول معطل ہو جاتا ہے اور قیمت رواج سے متعین ہوتی ہے۔ باپ اپنے مریض بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے کئی ہزار روپے دینے کے لیے بھی تیار ہوگا۔ مگر رواج کے اثر سے اسے حکیم کو وہی دو روپے نذرانہ دینے ہوتے ہیں۔ قیمت متعارف اور قیمت صحیحہ کے درمیان جو اختلاف ہوتا ہے اس کے بعض اخلاقی وجوہ بھی ہیں۔ مثلاًبعض دفعہ دکاندار افزائش قیمت کی توقع میں اپنا ذخیرہ اشیاء فروخت کے لیے منڈی میں لاتے ہی نہیں۔ اگرچہ نفع کی امید میں ان کو بسا اوقات نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے۔ خوردہ فروشی کی صورت میں ان اخلاقی وجوہ پر غور کرنا اور بھی ضروری ہے۔ ہم نے اُوپر بیان کیا تھا کہ اگرچہ ایک ہی منڈی میں ایک ہی قسم کی اشیاء کی قیمت مساوی ہوتی ہے، تاہم بعض اسباب اس مساوات کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ بالعموم خریدار ایسے ہوشیار نہیں ہوتے کہ اشیاء خریدنے کی اصل وقعت کو سمجھتے بوجھتے ہوں۔ اس واسطے دکاندار انہیں سادہ لوح سمجھ کر وصو کا بھی دے دیا کرتے ہیں اور اس طرح اپنی اشیاء کو دُگنی چوگنی قیمت پر بیچ لیتے ہیں۔ چونکہ ہر دکاندار اس طرح نہیں کرتا، اس لیے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی منڈی میں ایک ہی قسم کی قیمت میں مساوات قائم نہیںرہتی اس لحاظ سے بعض مصنفین کی رائے ہے کہ خوردہ فروشی کی صورت میں اشیاء کی قیمت مقابلے سے نہیں بلکہ رواج سے متعین ہوتی ہے اور اس وجہ سے یہ امر معمولاً مسلم ہے کہ خوردہ فروشوں کو اصول عدل و اخلاق کی رو سے اپنی اشیا کی قیمت اس قدر لینی چاہیے کہ تجارتی لحاظ سے کم قیمت نہ کی جا سکتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل الرائے کے نزدیک خوردہ فروشی اقتصادی اصول پر نہیں بلکہ اخلاقی اصول پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خاص خاص حدود کے اندر یہ بات صحیح ہے۔ لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ تجارت کا یہ حصہ بھی مقابلے کے اثر سے معرا نہیں ہے۔ باب دوم تجارت بین الاقوام گزشتہ باب میں ہم نے تعین قدر پر بحث کی ہے۔ اور اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اشیاء تجارتی کی قدر قانون طلب و رسد کے عمل پر منحصر ہے۔ مگر اس باب میں ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ قانون تجارت کی ہر صورت میں صادق ہے؟ ممکن ہے کہ جب تبادلہ اشیاء ایک ہی ملک کے مختلف حصوں کے درمیان ہوتا ہو تو تعیین قدر اسی قانون کے تابع ہو۔ مگر جب یہ تبادلہ مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان ہوتا ہو تو اختلاف حالات کی وجہ سے تعیین قدر کا کوئی اور قانون ہو۔ اس کتاب کے حصہ اوّل میں ہم نے بیان کیا تھا کہ اختلاف حالات کی وجہ سے علمی اصول میں تغیر آ جانا ممکن ہے۔ لہٰذا اب ہمارا مقصد اس امر کی تحقیق کرنا ہے کہ آیا تجارت کی ہر دو مندرجہ بالا قورتوں میں قدر اشیاء کی تعیین ایک ہی اصول کے تابع ہے یا مختلف اصولوں کے تحت۔ مگر پیشتر اس کے کہ اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی جائے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تجارت بین الاقوام کی عام خصوصیات اور اس کے فوائد سے تمھیں آگاہ کیا جائے۔ بعض محققین کی رائے میں تجارت بین الاقوام اس تجارت سے مختلف نہیں ہے جو ایک ہی ملک کے مختلف حصوں کے درمیان ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے لیے کسی نئے اصول کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ وہی پہلا قانون طلب و رسد یہاں بھی صادق آئے گا۔ یہ حکماء تجارت بین الاقوام پر مختلف اعتراض پیش کرتے ہیں جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:۔ ۱۔ تجارت کبھی مختلف اقوام کے درمیان ہوتی ہی نہیں بلکہ افراد کے درمیان ہوتی ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان باہم تجارت کرتے ہیں، تو اس کا مفہوم یہ ہوا کرتا ہے کہ ہر دو اقوام میں سے خاص خاص افراد ہیں جو آپس میں تبادلہ اشیاء کرتے ہیں۔ لہٰذا تعیین قدر کا جو قانون تجارت بین الافراد کی صورت میں صحیح ہے وہی تجارت بین المالک کی صورت میں بھی صحیح ہوگا۔ ۲۔ تجارت کی ہر صورت کے لیے تعیین قدرکا ایک منفرد اصول ہونا چاہیے ، جو تمام حالات پر حاوی ہو۔ یہ بات علمی اصول کے خلاف ہے کہ ایک ہی قسم کے واقعات کی توجیہ کے لیے مختلف قوانین وضع کئے جائیں۔ ۳۔ زمانہ حال میں ایجادات کی وجہ سے فاصلہ اور بُعد موانع تجارت نہیں رہے۔ اس واسطے تجارت بین الاقوام یا بین الممالک کو تجارت کی دیگر صورتوں سے متمیّز کرنا صحیح نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مختلف ممالک کی تجارتی اغراض میں ایک قسم کی یگانگت ضرور ہے۔ تاہم اقوام و ممالک کا اختلاف ایک ایسا صریح واقعہ ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ایک ملک کی صورت میں یہ صحیح ہے کہ اس کے مختلف حصص کے درمیان محنت اور سرمایہ یا یوں کہو کہ دستکار اور سرمایہ یایوں کہو کہ دستکار اور سرمایہ دار بلا روک ٹوک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکتے ہیں۔ بلکہ اقتصادی لحاظ سے لفظ قوم کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے کہ یہ تجارتی اشیاء کے پیدا کرنے والوں کو ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے مختلف اجزا کے درمیان محنت اور سرمایہ بلا روک ٹوک حرکت کر سکتے ہوں۔ اس تعریف کی رو سے لفظ قوم کے مفہوم میں دو شرائط داخل ہیں۔ ۱۔ ہر ایک مجموعہ کے افراد کے درمیان سرمایہ اور محنت ایک مقام سے دوسرے مقام میں بلا قید منتقل ہو سکنا۔ ۲۔ ایک مجموعے کے دستکاروں یا کارکنوں کا دوسرے مجموعے کی طرف منتقل نہ ہو سکنا۔ یعنی ایک ملک کے دستکاروں یا سرمایہ داروں کا دوسرے ملک میں جا سکنا۔ مندرجہ بالا اعتراضات کا اصل منشاء زیادہ تر یہی ثابت کرنا ہے کہ خصوصاً زمانۂ حال میں ایک ملک کے دستکار اور سرمایہ دار دوسرے ممالک میں آسانی سے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ فاصلے کی دقتیں جو زمانہ قدیم میں حائل تھیں، اب مختلف اقسام کی ایجادات و تسہیل سفر کی وجہ سے مفقود ہو گئی ہیں۔ ہم اس بات کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن باوجود اس بات کے یہ بھی صحیح ہے کہ سرمائے اور محنت کے ایک مجموعہ افراد یا قوم کی طرف جا سکنے میں چند ایسی مشکلات ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ اوّل۔ جغرافی اعتبار سے مختلف ممالک کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے جس کی مقدار بعض دفعہ بہت بڑی ہوتی ہے۔ دوم۔ مختلف ممالک کی طرز حکومت مختلف ہوتی ہے۔ کہیں مطلق العنان حکومت ہے کہیں جمہوری۔ سوم۔ مختلف ممالک و اقوام کے مذاہب ، اصول معاشرت و رسوم وغیرہ مختلف ہوتے ہیں۔ غرض کہ اگرچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مختلف اقوام کے درمیان سرمایہ اور محنت حرکت کر ہی نہیں سکتے۔ تاہم یہ صاف ظاہر ہے اس حرکت میں دقت ضرور ہے۔ اور یہی دقت تجارت بین الاقوام کو تجارت کی دیگر صورتوں سے متمیّز کرتی ہے۔ تم جانتے ہو کہ اگر کسی ملک کے مختلف حصص کے درمیان سرمایہ اور محنت بلا روک ٹوک حرکت نہ کر سکتے ہوں تو اس ملک میں تجارتی مقابلہ مفقود ہوگا۔ اوریہ ظاہر ہے کہ مقابلے کی موجودگی یا عدم موجودگی سے تجارتی اشیاء کی قدر میں تغیر آ جاتا ہے۔جس سے اگرچہ قانون طلب و رسد باطل نہیں ہو جاتا ، تاہم متاثر ضرورہوتا ہے۔ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان سرمایہ اور محنت ازادانہ حرکت نہیں کر سکتے۔ پس مندرجہ بالا اصول کے مطابق تجارت بین الاقوام کی صورت میں مقابلے کی عدم موجودگی کی وجہ سے قانون طلب و رسد کو متاثر ہونا چاہیے۔ موجودہ تحقیقات سے ہمارا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ مندرجہ بالا سبب سے یہ قانون کس طرح اور کہاں تک متاثر ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب آگے چل کر دیا جائے گافی الحال ہم تجارت خارجی کے چند فوائد بیان کرنا چاہتے ہیں۔ تجارت بیرونی یا تجارت بین الاقوام کے ذریعہ سے ہم وہ اشیاء حاصل کر سکتے ہیں، جو ہمارے ملک میں پیدا نہ ہوتی ہوں۔ یا تو اس وجہ سے کہ ہمارے ملک کی آب و ہوا ان اشیاء کی پیدائش کے لیے ناموافق ہے یا لوگوں میں صنعت و حرفت کی قابلیت ہی نہیں ہے کہ ان اشیاء کو تیار کر سکیں۔ غرض کہ تجارت خارجی سے ہر ملک دیگر ممالک کی پیدا کردہ اشیاء سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ علاوہ اس کے اس طریق عمل سے محنت اور سرمائے کی کارکردگی بہت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً انگلستان میں لوہا اور کوئلہ اس کثرت سے پایا جاتا ہے کہ وہاں اس کی پیدائش کے لیے دیگر ممالک کی نسبت محنت اور سرمایہ کم صرف ہوتا ہے۔لیکن اس ملک میں ایسی زمین بہت کم ہے جو قابل زراعت ہو۔ وہاں کا غلہ وہاں کے باشندوں کے لیے بھی کافی نہیں ہے اور اگر غلے کی پیدا وار کو زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے، تو بہت سی ناقص زمینیں کاشت کرنی پڑیں گی، جس سے غلے کی قیمت بہت گراں ہو جائے گی۔ دیگر ممالک مثلاً فرانس و ہندوستان وغیرہ میں غلہ بافراط پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر انگلستان اپنی اشیاء کا مبادلہ اُن ممالک کے غلہ سے کرے تو سب کو فائدہ ہوگا۔ ایک زمانے میں یہ خیال مروج تھا کہ بیرونی تجارت سے جو فوائد ہوتے ہیں ان کا تخمینہ اس زر نقد سے لگایا جاتا ہے جو ایک ملک سے دیگر ممالک کی طرف منتقل کیا جائے۔ اس بنا پر ہر ملک کے لوگ یہی تقاضا کرتے تھے کہ اشیاء برآمد میں زیادتی ہو اور اشیاء درآمد میں کمی کی جائے۔ کیونکہ اوّل الذکر کی زیادتی سے زر نقد ہاتھ آتا ہے اور موخرالذکر کی زیادتی سے ہاتھ سے جاتا ہے۔ اس غرض کے حصول کے لیے بہت سی تجاویز عمل میں لائی جاتی تھیں۔ برآمد کی مقدار بڑھانے کے لیے انعام دئیے جاتے تھے اور درآمد کی مقدار کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے محصول لگائے جاتے تھے۔ اس طرح مختلف ممالک کے درمیان بجائے اتحاد کے اختلاف پیدا ہوتا تھا۔ اس طریق عمل کو نظام تجارت کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ایک مدت سے اس کا اصل مغالطہ کھل گیا ہے۔ جس کی توضیح ذیل کی مثال سے ہو سکتی ہے۔ فرض کرو کہ انگلستان اور فرانس کی باہمی تجارت سے صرف یہی مراد ہے کہ انگلستانی لوہے کا مبادلہ فرانس کے غلے سے ہوتا رہے۔ نیز فرض کرو کہ فرانس میں ۲۷ من لوہا پیدا کرنے کے لیے اس قدر محنت اور سرمایہ درکار ہے جس قدر بیس من غلے کے لیے۔ مگر ولایت میں اس قدر سرمایہ اور محنت درکا ر ہے جس قدر دس من غلہ کے لیے۔ اس لیے لوہے کی قدر بلحاظ غلے کے فرانس میں انگلستان کی نسبت دگنی ہے۔ اب اگر انگلستان اور فرانس اور دونوں اشیاء کا باہمی مبادلہ کریں تو دونوں کے حق میں مفید ہوگا۔ اگر فرانس ولایت کے ہر ۲۷ من لوہے کے واسطے ۱۵ من غلہ مبادلے میں دے تو انگلستان کو ۵ من غلہ منافع میں رہے گا۔ علیٰ ہذا القیاس فرانس کو بھی فائدہ ہوگا۔ کیونکہ فرانس ۲۷ من لوہا خود پیدا کرے تو اسے اسی قدر محنت اور سرمایہ صرف کرنا پڑے گا جس قدر ۲۰ من غلے کے پیدا کرنے کے لیے درکار ہے۔ مفروضہ صورت میں اس کو صرف ۵ من غلہ دینا پڑے گا۔ اس لیے دونوں فائدے میں رہیں گے اور کسی کا بھی نقصان نہ ہوگا۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خارجی تجارت کے فوائد حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری شرط ہے کہ اشیاء متبادلہ کی قدر اضافی ہر دو ممالک میں مختلف ہو، ورنہ تجارت مذکور کا کچھ فائدہ نہ ہوگا، بلکہ اخراجات بار برداری ضائع ہوں گے۔ مذکورہ اختلاف خارجی تجارت کی مقام شرط ہے اور اصطلاحاً اختلاف مصارف متقابلہ کہلاتا ہے۔ لیکن بعض اہل الرائے کہتے ہیںکہ خارجی تجارت کی اس مقدم شرط سے دو مفرت رساں نتیجے پیدا ہوتے ہیں جن سے گریز نہیںکیا جاسکتا۔ ۱۔ اگر خارجی تجارت اختلاف مصارف متقابلہ پرمبنی ہے تو ممکن ہے کہ بعض ممالک کو دیگر ممالک سے ایسی اشیاء حاصل کرنے میں فائدہ ہو جن کو وہ خود نسبتاً کم مصارف پرپیداکرسکتے ہیں۔ ۲۔ ممکن ہے کہ بعض ممالک خاص خاص اشیاء کا پیدا کرنا ترک کر دیں جن کے لیے وہ قدرتاً یا دیگر اسباب کی وجہ سے نسبتاً زیادہ موزوں ہیں اور یہ سمجھیں کہ ان خاص اشیاء کو دیگر ممالک سے تبادلے میں حاصل کرنا زیادہ مفید ہے۔ ان ہر دو نتائج کا مفہوم ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ فرض کرو کہ الف اور ب دو مختلف ممالک ہیں اور ن اور ق دو اشیاء ہیں جن کے پیدا کرنے کے لیے ہر ملک بجائے خود ایک خاص قابلیت رکھتا ہے نیز فرض کرو کہ الف کی قوت پیداوار ۲ ن یا ۳ ق ہے اور ب کی ۱ ن یا ۲ ق ہے ظاہر ہے کہ اگر دونوں کے درمیان کوئی تبادلہ نہ ہو تو کل پیداوار ۳ن+ ۵ ق ہو گی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ن ق سے قدر میں زیادہ ہے۔ کیوں کہ ملک الف میں دونوں کے پیدا کرنے کے لیے اس قدر محنت اور سرمایہ درکار ہے جس قدر ۳ ق کی پیدائش کے لیے اور ملک ب میں ایک ن کی پیدائش کے لیے اس قدر سرمایہ درکار ہے جس قدر ۲ ق کے لیے۔ لہٰذا ملک الف کے لیے تجارتی لحاظ سے بھی مناسب ہے کہ وہ صرف ن ہی پیدا کرے اور ب کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ صرف ق ہی پیدا کرے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ظاہر ہے کہ ملک الف کو دونوں اقسام کی اشیاء کی پیدائش میں سہولت ہے اور نیز ق کی پیدائش میں بہ نسبت ن کے اس کو زیادہ سہولت ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان نتائج کو کسی حد تک تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام خارجی تجارت اس قسم کی نہیں ہوتی جیسی کہ مثال بالا میں فرض کی گئی ہیں۔ بالعموم ہر ملک ایسی اشیاء ہی تبادلے میں لیتا ہے جن کا پیدا کرنا قدرتی طور پر یاد یگر اسباب کی وجہ سے اس ملک کے لیے مشکل ہو۔ پس خارجی تجارت کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہر ملک مستفید ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے کئی دیگر فوائد بھی اس سے پیدا ہوتے ہیں جو مختصراً مندرجہ ذیل ہیں:۔ ۱۔ خارجی تجارت کی وساطت سے ہر ملک کو بغیر کاوش کے ایسی اشیاء دستیاب ہو سکتی ہیں جن کو یہ بغیر دقت کے پیدا نہ کر سکتا۔ ۲۔ خارجی تجارت انقسام محنت کی ایک صورت ہے جس سے ہر ملک ان اشیاء کی تیاری میں اپنا سرمایہ صرف کرتا ہے جن کے پیدا کرنے کے لیے وہ خصوصیت سے موزوں ہے اور جن کی تیاری سے فائدہ کی زیادہ سے زیادہ مقدار حاصل ہو۔ ۳۔ خارجی تجارت کی وساطت سے اشیاء کی فروخت کے لیے منڈیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ۴۔ خارجی تجارت کی وساطت سے مختلف اقوام کے دستکار اپنی اپنی ہنر مندی میں بے انتہا ترقی کر سکتے ہیں۔ ۵۔ خارجی تجارت سے مختلف اقوام کا میل جول ہوتا ہے جس سے کئی ایک تمدنی اور اخلاقی فوائد پیدا ہوتے ہیں۔ خارجی تجارتی کی عام خصوصیات اور فوائد بیان کرنے کے بعد اب ہم اصل سوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یعنی وہ کون سے شرائط ہیں جن کے لحاظ سے خارجی تجارت کا منافع تبادلے کے مختلف فریقوں کے درمیان تقسیم ہوتا ہے؟ یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ خارجی تجارت کی خصوصیات ان اشیاء کی قدر پر کس طرح اثر کرتی ہیں جو اس تجارت کا مقصود ہیں؟ یا مختصراً شرح تبادلہ کن اسباب سے متعین ہوتی ہے؟ تجارت بین الافراد کی صورت میں یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ فریقین تبادلہ کے درمیان شرح تبادلہ کیا ہو گی۔ اس مشکل کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں پورے حالات معلوم نہیںہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ بھلا ہمیں کس طرح علم ہو سکتا ہے کہ ایک خاص فرد کو کسی خاص شے کی کس قدر شدید ضرورت ہے۔ لیکن تجارت بین الاقوام کی صورت میں اقوام کی ضروریات کا اندازہ کس قدر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا تجارت کی اس خاص صورت میں بھی بشرطیکہ مختلف ممالک کے درمیان سرمایہ ، محنت اور تجارتی اشیاء بلا روک ٹوک آ جا سکتی ہوں۔ تعین قدر کا وہی پہلا اصول صحیح معلوم ہوتا ہے یعنی شرح تبادلہ تجارت بین الاقوام کی صورت میں بھی اس مساوات پر منحصر ہے جو مختلف اقوام کی طلب و رسد اشیاء کے درمیان ہو۔ مثلاً وہ ملک ہیں الف اور ب۔ مقدم الذکر لوہا پیدا کرتا ہے اور موخرالذکر شراب۔ ظاہر ہے کہ اگر الف کو شراب کی زیادہ ضرورت ہے اور ب کولوہے کی اس قدر ضرورت نہیں ہے، تو شراب کی تھوڑی سی مقدار کے عوض میں ب کو بہت سی مقدار لوہے کی دینی ہوگی۔ اس واسطے یہ ممکن ہے کہ کوئی ملک دیگر ممالک سے ایسی اشیاء حاصل کرتا رہے جن کو یہ خود نسبتاً کم مصارف پر پیدا کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس کا اپنا سرمایہ اور محنت ایسی اشیاء کے پیدا کرنے میں صرف ہوتے رہیں۔ جن کے پیدا کرنے کے لیے یہ خصوصیت سے موزوں ہے۔ پس ایسی اشیاء کی قدر جن کو ہم دوسرے ملک سے تبادلے میں حاصل کرتے ہیں ان مصارف پرمنحصر نہیں ہے، جو ان اشیاء کو اپنے ملک میں پیدا کرنے سے ہمیں ادا کرنے پڑتے اور نہ یہ ان مصارف پر منحصر ہے جو اس ملک کو ادا کرنے پڑتے ہیں جہاں یہ پیدا کی جاتی ہیں۔ بلکہ یہ قدر ان اشیاء کے مصارف پیدائش پر منحصر ہے جو ہمیں ان کے عوض میں (کرایہ بار برداری کو ملحوظ رکھ کر) دیگر ممالک کو تبادلے میں دینے پڑتے ہیں۔ مثلاً اُوپر کی مثال میں ملک الف میں شراب کی قدر اس لوہے کے مصارف پیدائش پر منحصر ہے جو شراب مذکور حاصل کرنے کی غرض سے تبادلے میں دیا جاتاہے۔ عام صورتوں میں تو یہ صحیح ہے کہ شرح تبادلہ قانون طلب و رسد کی رو سے ہی متعین ہوتی ہے مگر جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ تجارت بین الاقوام میں چند ایک ایسی خصوصیات ہیں جن سے یہ قانون متاثر ہوتا ہے۔ اوّل یہ کہ بعض اوقات فریقین تبادلہ آپس میں اتفاق کر کے ایک خاص شرح تبادلہ مقرر کر لیتے ہیں۔ دوم۔ اگر اشیاء متبادلہ کی پیداوار قانون تقلیل حاصل کے تابع ہو، تو جب ان کی پیدا وار ایک ملک میں نقطہ تقلیل تک پہنچ جائے گی تو دیگر ممالک ضرورت سے مجبور ہو کر اسی شے کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ تجارت بین الاقوام کا دائرہ دن بدن تنگ ہوتا جائے گا۔ جس سے شرح تبادلہ پر ایک نمایاں اثر ہوگا۔ سوم، بعض حالات یعنی بُعد مسافت اور کثرت مصارف بار برداری وغیرہ کی وجہ سے مختلف اقوام کے درمیان تجارتی مقابلہ مفقود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی موجودگی یا عدم موجودگی سے اشیاء تجارتی کی قدر میں تغیر آ جاتا ہے۔ مثال کے لیے فرض کرو کہ فرانس میں نہایت عمدہ کاغذ تیار ہوتا ہے جو ہندوستان اپنی اشیاء کے تبادلے میں اس سے لیتا ہے۔ نیز فرض کرو کہ دیگر ممالک بعض وجوہ سے اس صنعت میں فرانس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس صنعت سے فرانس خاصتہً فائدہ اٹھائے گا۔ مگر جب اور قومیں فرانس کا مقابلہ کرنے کو آمادہ ہو جائیں گی اور کاغذ تیار کریں گی، تو ظاہر ہے کہ کاغذ کی قدر میں فرق آجائے گا اور ہندوستان کو اس مقابلے کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔ چہارم۔ بعض اوقات ایسے موانع پیش آ جاتے ہیں کہ دو مختلف ممالک کے تجار کو تبادلہ اشیاء میں مشکلات ہوتی ہیں مثلاً کثرت مصارف باربرداری ، دلالوں کی دلالی اور محصول درآمد و برآمد۔ ان اسباب سے اشیاء کی قدر میں تغیر آ جاتا ہے اور تجار کے فائدے میں کمی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہ اسباب بھی شرح تبادلہ پر اپنا اثر کئے بغیر نہ رہیں گے۔ غرض کہ اس قسم کے بعض اسباب اور بھی ہیں جو شرح تبادلہ پر اثر کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ قانونِ کلیہ طلب و رسد ان اباب کے اثر سے باطل نہیں ہو جاتا۔ ہاں اس کا عمل ان کے اثر سے متاثر ضرور ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی کا ذکر ہے ولایتی شکر ہمارے ملک میں اس کثرت سے آنی شروع ہو گئی کہ ایک روپے کی پانچ سیر بکنے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں لوگوں نے گنوں کی کاشت ہی چھوڑ دی۔ کیونکہ ولایتی شکر دیسی شکر سے مقابلتاً سستی ملتی تھی۔ یہ حالت دیکھ کر سرکار ہند نے ولایتی شکر پر اب اس قدر محصول درآمد لگا دیا ہے کہ یہ ہماری دیسی شکر سے سستی نہ بک سکے گی۔ اس مثال سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں ولایتی شکر کی تعیین قیمت قانون طلب و رسد کا اس قدر دخل نہیں ہے جس قدر کہ سرکار دولت مدار کے حاکمانہ فعل کا۔ اس ضمن میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جب دو ممالک آپس میں تجارت کرتے ہیں تو بسا اوقات ایک ملک دوسرے ملک کا زیر بار ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیر بار شدہ ملک کی اشیاء برآمد و درآمد کے درمیان مساوات قائم نہیں رہتی۔ کیونکہ اس کو نہ صرف اپنی درآمد کے عوض میں اشیاء بھیجنی پڑتی ہیں۔ بلکہ اپنے قرض کی ادائیگی میں یا تو اپنی اشیاء برآمد میں زیادتی کرنی پڑتی ہے یا مزید روپیہ ادا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے ایک ملک میں روپیہ کی مقدار بڑھتی جاتی ہے اور دوسرے میں کم ہوتی جاتی ہے۔ جہاں روپے کی مقدار بڑھتی ہے وہاں اس کی قدر کم ہوتی ہے اور اشیاء کی قیمت بڑھتی ہے۔ لہٰذا وہاں اشیاء کی فروخت سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی برآمد اس کی درآمد سے بہت زیادہ ہے۔ چونکہ ہم اپنی ضروریات کے لیے انگلستان کے محتاج ہیں اس واسطے ہم زیر بار ہیں۔ علاوہ اس کے ہم کو سلطنت ہند کے مصارف، حکام کی تنخواہیں اور فوجی اخراجات وغیرہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا ملک دن بدن زیادہ سے زیادہ زیر بار ہوتا جاتا ہے۔ مزید برآں ہمارے ملک میں کئی وجوہ کے باعث (مثلاً خارجی حملہ آوروں کا ہندوستان کی قدیم جمع کردہ دولت کو لوٹ کر لے جانا، اخیر کے مغلیہ بادشاہوں کی عیاشی ، عوام کی ناعاقبت اندیشی اور کمی تعلیم کی وجہ سے روپیہ کی اصل حقیقت سے بے خبری وغیرہ) سرمائے کی مقدار کم ہے۔ انگلستان کے قبضے میں سرمائے کی بے انتہا مقدارہے، اس واسطے ہمارے مالک میں رفاہ عام کے کاموں مثلاً آب باشی وغیرہ میں بھی اس ملک کا سرمایہ صرف ہوتا ہے جس سے انگلستان فائدہ عظیم اٹھاتا ہے۔ اگرچہ ہم کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے، جس کی تشریح اس کتاب کے کسی اور باب میں کی گئی ہے۔ چونکہ انگلستان کے مصارف ہمیں پونڈوں میں ادا کرنے پڑتے ہیں، اس واسطے چاندی کی قدر میں تنزل آ جانے کی وجہ سے ہمیں اور بھی نقصان ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب اجرائے سکہ طلائی کے باعث اس مشکل کا اندیشہ نہیں رہا۔ مگر ہمارے نقصان کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملک صنعت و حرفت کے میدان میں بہت پیچھے ہے اور اہل ملک بسبب کمی تعلیم کے اس ضرورت کو محسوس نہیں کر سکتے۔ ہم صرف وہی اشیاء پیدا کرتے ہیں جو قانون تقلیل حاصل کے زیر اثر ہیں اور صنعتی اشیاء کے لیے دیگر ممالک کے مختاج ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے ہم نے جاپان کی تقلید کر کے صنعت کی طرف کچھ توجہ کی ہے۔ امید ہے کہ یہ تحریک مفید ثابت ہوگی اور اہل ملک کے لیے ہر پہلو سے نتیجہ خیز ہوگی۔ اگرچہ ہم فی الحال اس قابل تو نہیں کہ ہمارے ملک کی تیار کردہ اشیاء یورپ کے بازاروں میں بک سکیں۔ تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ہندوستانی بھائی بارہ لاکھ کے قریب مختلف بیرونی جزائر مثلاً ماریشس ، گائینا، فجی ، ٹرینیڈاڈ وغیرہ میں آباد ہیں، جن کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے سے ہمارے ملک کے تاجر بے انتہا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ باب ۳ زر نقد کی ماہیت اور اس کی قدر تبادلہ اشیاء انقسام محنت کا لازمی نتیجہ ہے۔ مختلف ممالک بالعموم دہی اشیاء پیدا کرتے ہیں جن کی پیدائش کے لیے ان کی آب و ہوا اور دیگر حالات بالاختصاص موزوں ہوتے ہیں اور اپنی ذاتی ضرورت کی چیزیں ان اشیاء کے تبادلے میں دیگر ممالک سے حاصل کر لیتے ہیں۔ اس قسم کے تبادلے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اشیاء کی قدر کا ایک خاص معیار معین کیا جائے۔ کیونکہ محض مبادلے سے کام نہیں چل سکتا۔ اگر کسی کفش ساز کو ٹوپی کی ضرورت ہو تو ظاہر ہے کہ اسے کسی ایسے کلاہ ساز کی تلاش کرنی چاہیے جس کو جوتی کی ضرورت ہو ورنہ اس کی ضرورت کاپورا ہونا ممکن ہے۔ لہٰذا کسی خاص شے کا تعین بطور معیار قدر ضروری ہے، جس کو ہر فرد تبادلے میں قبول کر سکے۔ مختلف زمانوں اور مختلف قوموں میں اس غرض کے لیے مختلف اشیاء استعمال کی گئی ہیں۔ مثلاً نمک، چاول ، چائے وغیرہ۔ مگر چونکہ ان کے استعمال میں صدہا دقتیں تھیں، اس واسطے ضرورت نے خود بخود ایک ایسی شے دریافت کر لی جو اس غرض کو بوجھ احسن پورا کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس غرض کو پورا کر سکنے کے لیے کوئی اس قسم کی شے ہونی چاہیے جو ۱۔ ذاتی قدر رکھتی ہو۔ ۲۔ آسانی سے منتقل ہو سکتی ہو۔ ۳۔ پرانی ہو جانے سے اس کی قدر میں تغیر نہ آ سکتا ہو۔ ۴۔ چھوٹے چھوٹے حصوں میں منقسم ہو سکتی ہو۔ ۵۔ تھوڑی مقدار میں قدر زیادہ رکھتی ہو۔ ۶۔ اس کی قدر بالعموم یکساں رہتی ہو۔ ۷۔ اس کا کھرا کھوٹا ہونا جلدی پرکھا جا سکتا ہو۔ ۸۔ اس کے سکے آسانی سے بن سکتے ہوں۔ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ تمام اوصاف بطریق احسن چاندی اور سونے میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا دنیا کی مہذب قوموں نے انہی دودھاتوں کو بطور معیار قدر اختیار کر لیا ، جس سے تبادلے کی دقتیں مفقود ہو گئیں۔ ذرا خیال تو کرو اگر حروف نہ ہوتے، تو خیالات انسانی کے اظہار میں کس قدر دقت ہوتی۔ سونے چاندی کو اشیاء سے وہی علاقہ ہے جو حروف کو ہمارے خیالات سے ہے۔ لہٰذا اس معیار کا دریافت ہونا تمدن انسانی کی تاریخ میں ایجاد حروف سے کم وقعت نہیں رکھتا۔ فرض کرو کسی شراب فروش کو روٹی کی ضرورت ہے اور وہ ایک نان فروش سے کہتا ہے کہ مجھ سے شراب لے لو اور مبادلے میں مجھے روٹی دے دو۔ مگر ممکن ہے کہ نان فروش کو یا تو شراب کی ضرورت ہی نہ ہو یا اگر ہو تو اتنی شراب کی ضرورت نہ ہو جس کی قدر روٹی کی قدر کے مساوی ہو۔ شراب فروش روٹی لے لیتا ہے اور مبادلے میں نان فروش کو اس قدر شراب دے دیتا ہے جس قدر کہ اس کو ضرورت ہے اور بقایا حساب کو بے باق کرنے کے لیے مذکورہ بالا معیار قدر کی کچھ مقدار ادا کر دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر نان فروش کو شراب کی مطلق ضرورت نہ ہوتی تو شراب فروش کو معیار قدر کی زیادہ مقدار ادا کرنی پڑتی۔ اب فرض کرو کہ نان فروش کو شراب کی مطلق ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے کپڑے کی ضرورت ہے۔ معیار قدر کی وہ مقدار جو اس نے شراب فروش سے حاصل کی ہے جیب میں ڈال کر بزازکی دکان پر جاتا ہے اور وہاں سے وہ شے حاصل کرتا ہے جس کی قدر اس روٹی کی قدر کے مساوی ہے جو اُس نے شراب فروش کے پاس فروخت کی تھی یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ جو شے اس کو شراب فروش کی طرف سے واجب الادا تھی وہ بزاز نے مہیا کر دی۔ لفظ واجب الادا پر غور کرو کیونکہ اس لفظ میں زر نقد کی پوری حقیقت یا ماہیت مخفی ہے۔ مثال بالا سے واضح ہوتا ہے کہ جب مبادلہ غیر مساوی ہو تو معیار قدر یا زر نقد کی ضرورت پڑتی ہے۔ گویا زر نقد یا معیار قدر اس حق کو علامت ہے جو مبادلہ غیر مساوی کی صورت میں ایک فریق کو دوسرے فریق پر حاصل ہے۔ زمانہ حال میں اس معیا قدر کو زر نقد سے تعبیر کرتے ہیں اور دنیا کی تمام مہذب اقوام نے اس کو اس قسم کے حقوق کی علامت قرار دیا ہے۔ پس زر نقد اس حق کی علامت ہے جو اس شخص کو حاصل ہے جس نے کسی اور شخص کو کوئی شے دی ہے یا اس کی کوئی خدمت کی ہے اور اپنی خدمت یا شے کے مبادلے میں شخص مذکور سے کوئی مساوی القدر شے حاصل نہیں کی یا کوئی مساوی القدر خدمت نہیں لی۔ اس تعریف سے یہ اصول قائم ہوتا ہے کہ زر نقد کی وہ مقدار جو کسی ملک میں متداول ہو حقوق کی اس مقدار کی علامت ہے جو زر نقد کی عدم موجودگی کی صورت میں اس ملک کے درمیان واجب الادا ہوتی یا بطور نتیجہ یوں کہو کہ جس ملک میں یہ حقوق نہیں ہیں وہاں کسی معیار قدر کے تداول کی ضرورت نہیں ہے۔ زر نقد کی ماہیت کی مزید توضیح کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اعتبار یا ساکھ کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں۔ ساکھ کیا ہے؟ فرض کرو کہ مجھے ایک شے کی ضرورت ہے، لیکن اس کی خرید کے لیے میرے پاس روپیہ موجود نہیں ہے۔ اگر اس شے کے بیچنے والوں کی نگاہوں میں میں ایک معتبر آدمی ہوں تو وہ لوگ میرے اعتبار پر مجھ کو میری ضرورت کی چیز دے دیں گے۔ گویا میں اپنے اعتبار کی وساطت سے وہ شے حاصل کر لوں گاجو زر نقد کی وساطت سے حاصل ہوتی۔ بالفاظ دیگر یوں کہہ کہ وعدہ ادائیگی بھی وہی کام دے سکتا ہے جو زر نقد دتیا ہے جس طرح زر نقد کی ادائیگی ایک قسم کے حق کا تحویل کرنا ہے اس طرح اعتبار کی وساطت سے اشیاء ضرورت کا حاصل کرنا بھی ایک حق کا تحویل کرنا ہے۔ یعنی جس شخص سے میں نے کوئی شے اعتبار پر لی ہے۔ اگر عندالطلب یا کسی مقررہ معیاد کے بعد اس کو کوئی مساوی القدر شے اس شے کے تبادلے یا مبادلے میں نہ دوں گا تو اس شخص کو یہ حق ہو گا کہ وہ قانونی چارہ جوئی کرکے مجھ سے وہ رقم یا شے وصول کرلے۔ مختصراً یوں کہو کہ زر نقد کی طرح اعتبار بھی قوت خرید کا نام ہے اور دونوں ایک قسم کے حقوق ہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ زر نقد اور اعتبار کی ماہیت ایک ہی ہے اور زر نقد اعتبار ہی کی ایک وسیع اور عام تر صورت کا نام ہے۔ لیکن باوجود اس امر کے ان کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس کا سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ علم الاقتصاد میں تمام زر نقد اعتبار ہے۔ لیکن اس قضیے کا عکس سادہ یعنی تمام زرنقد ہے صحیح نہیں ہے۔ کوئی شخص کسی دکاندار کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ کسی شے کو زر نقد کے عوض میں یا اعتبار پر فروخت کر ے۔ پس جب کوئی شخص کسی شے کے عوض میں زرنقد یا روپے کی کوئی مقدار لیتا ہے تو حقیقت میں یہ اعتبار ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ اگر اسے یقین نہ ہو کہ میں اس زرنقد کے عوض میں اور اشیاء لے سکوں گا۔ تو وہ اس زرنقد کو کبھی قبول نہ کرے۔ مگر فرض کرو کہ ایک سودا ہوا ہے۔ یعنی ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے کوئی شے قرض خریدی ہے۔ عدل اس امر کا متقاضی ہے کہ مقروض کو اس بات کی اجازت ہو کہ وہ اپنے قرض خواہ کو اپنے قرض کی ادائیگی میں کوئی شے قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔ اگر قرض خواہوں کو یہ اختیار ہوتا کہ اپنے قرضوں کی ادائیگی میں جو شے چاہیں قبول کریںتو خیال کرو کسی قدر دقت کا سامنا ہوتا۔ پس ہر ملک کا قانون یہ اصول وضع کرتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ قرض لیا ہو تو مقروض اپنے قرض کی ادائیگی میں اپنے قرض خواہ کو کوئی خاص شے قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ یہ خاص شے جس کو ادائیگی قرض کی صورت میں مقروض قرض خواہ کو قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے،اصطلاحاً نقد قانونی کہلاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ ظاہر ہے کہ بعض صورتوں میں بعض اشیاء نقد قانونی ہیں اور بعض میں نہیں۔ انگلستان میں سکہ طلائی ہر صورت میں نقد قانونی ہے۔ لیکن چاندی کا سکہ صرف ۴۰ شلنگ تک ہی نقد قانونی ہے یعنی اگر قرض ۴۰ شلنگ سے زیادہ ہو تو قرض خواہ کو اختیار ہے کہاس سکے کو قبول نہ کرے۔ اگر اس سے کم ہو تو مقروض اسے قانوناً مجبور کر سکتا ہے کہ وہ سکہ سیمیں کو اپنے قرض کی ادائیگی میں قبول کرے۔ مندرجہ بالا تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ زر نقد تجارت اقوام میںتین ضروری مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ ۱۔ تبادلہ اشیاء کا ایک وسیلہ ہے۔ جوں جوں تجارت اقوام زیادہ پیچیدہ صورتیں اختیار کرتی جاتی ہے توں توں زر نقد کے استعمال کا یہ مقصد زیادہ واضع اور نمایاں ہوتا جاتا ہے جیسا کہ ہم اُوپر لکھ آئے ہیں تبادلہ اشیاء کے لیے اس کا وجود ایسا ہی ضروری ہے جیسا اظہار خیالات کے لیے زبان کا استعمال۔ تمام ملکوں میں ٹکسالیں قائم ہیں جہاں ارکانِ سلطنت کے اہتمام سے سونے چاندی کے سکے بنائے جاتے ہیں اور ان کی ہر دو طرف وہاں کے شاہی نشانات وغیرہ لگائے جاتے ہیں اور ان سکوں کے بل پر دنیا کی تجارت کا دھندا چلتا ہے۔ ۲۔ زرنقد کا دوسرا مقصد پہلے مقصد سے بطور نتیجے کے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی یہ اشیاء کی قدر کا معیار ہے۔ لیکن یہاں ایک اور ضروری سوال پیدا ہوتا ہے۔یعنی زرنقد کی ذاتی قدر کس امر پر منحصر ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ ضروری ہے کہ ہم اصطلاح “زرنقد کی قدر” کا مفہوم ذہن نشین کر لیں۔ کیونکہ مل صاحب نے اس اصطلاح کے سمجھنے میں ایک غلطی کھائی ہے، جو اوروں کو بھی دھوکے میں ڈال سکتی ہے۔ تم کو معلوم ہے کسی شے کی قیمت سے مراد اس شے سے ہے جس کا اندازہ زرنقد یا اعتبار سے کیا جاتاہے پر زرنقد کی قدر سے مراد کسی اور شے سے ہے جو اس زرنقد کے عوض میں دی جائے۔ مثلاً کوئی مادی شے یا خدمت ملازمین یا کوئی اور حق ملکیت کا یا کوئی قرضہ وصول کرنے کا۔ اگر زرنقد کی ایک خاص مقدار کے عوض میں کسی شے کی بہت سی مقدار ملے توظاہر ہے کہ زرنقد کی قدر زیادہ ہے۔کیونکہ اس کے عوض میں دیگر اشیاء کی زیادہ مقدار حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کے عوض میں دیگر اشیاء کی کم مقدار حاصل ہوتو ظاہر ہے کہ زرنقد کی قدر کم ہے۔ پس معلوم ہوا کہ زرنقد کی قدر اور قیمت اشیاء کے درمیان نسبت معکوس ہے یعنی اگر زرنقد کی قدر زیادہ ہو تو قیمت اشیا کم ہوتی ہے اور اگر قیمت اشیاء زیادہ ہو تو زرنقد کی قدر کم ہوتی ہے۔ لیکن مادی اشیاء کی طرح حقوق (مثلاً کسی شخص سے کوئی خاص رقم وصول کرنے کا حق وغیرہ) قرضے اوراعتبارات بھی تجارت کے دائرہ میں لائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً فرض کرو کہ الف نے ب سے پانچ سو روپے قرض لیے ہیں۔ ممکن ہے کہ ج الف کو پانچ سو روپے سے کچھ کم رقم ادا کر کے اس سے حق وصولی قرضہ خرید لیوے اور میعاد مقررہ کے بعد یا عندالطلب ب سے پانچ سو روپے وصول کر لیوے۔ لہٰذا ان حقوق اور اعتبارات کی خرید و فروخت کے لیے بھی ویسا ہی پیمانہ مقرر ہے جیسا مادی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے جیسے غلہ کے لیے من کا پیمانہ ، کپڑے کے لیے گز کا۔ اسی طرح سہولت کے لیے زر نا مسکوک کو بھی مختلف پیمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کو سکے کہتے ہیں۔ علیٰ ہذاالقیاس قرضوں اور اعتبارات کی خرید و فروخت کے لیے بھی ایک پیمانہ مقرر ہے۔ یعنی مبلغ سو روپے وصول کرنے کا حق جواب سے ایک سال بعد واجب الادا ہوگا۔ زر نقد کی وہ مقدار جو کسی قرض کا ایک پیمانہ خریدنے کے لیے ادا کی جائے۔ اس پیمانے کی قیمت نقد کہلاتی ہے اور اس کی خرید و فروخت کا بھی وہی حال ہے جو اور اشیاء کا۔ یعنی ایک پیمانہ قرض خرید کرنے کے لیے زر نقد کی مقدار یا قیمت نقد جس قدر کم ادا کرنی پڑے گی اسی قدر زرنقد کی قدر زیادہ ہوگی اور جس قدر زیادہ دینی پڑے گی اسی قدر اس کی قدر کم ہو گی۔ غرض کہ قرضوں اور دیگر حقوق کی خریدو فروخت میں بھی مندرجہ بالا اصول ہی صحیح ہے۔ یعنی زرنقد کی قدر اور قیمت اشیاء کے درمیان نسبت معکوس ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ قرضوں کی خرید و فروخت کی صورت میں معمولاً زرنقد کی قدر کا اندازہ قرضے کی اس مقدار سے نہیں کیا جاتا جو اس کے عوض میں خریدی جا سکے۔ چونکہ زرنقد قدرتاً منافع پیدا کرتا ہے۔ اس واسطے ظاہر ہے کہ کسی ایسے قرضے کی قیمت نقد جو اب سے ایک سال بعد واجب الادا ہوگا، اس قرضے کی اصل مقدار سے کم ہونی چاہیے ورنہ خریدنے والے کو فائدہ ہی کیا ہوگا۔ پس زرنقد کی قدر موجودہ یا قیمت نقد منفی اصل زر یا مقدار قرضہ برابر اس منافع کے ہے جو اس قرضے کے خرید نے سے ہوتا ہے۔ اس فرق کو متی کاٹا کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اب صاف ظاہر ہے کہ جس قدر کسی قرضے کی قیمت نقد بڑھتی یا کم ہوتی ہے اسی قدر متی کاٹا بھی کم ہوتا یا بڑھتا ہے۔ لہٰذا قرضوں کی خرید وفروخت کے متعلق یہ اصول قائم ہوا کہ زرنقد کی قدر اور متی کاٹا کے درمیان نسبت مستقیم ہے، یعنی قیمت نقد کم ہو تو متی کاٹا زیادہ ہوگا اور قیمت نقد زیادہ ہو تو متی کاٹا کم ہوگا۔ مندرجہ ذیل اصول تجارت کی سب شاخوں یعنی قرضوں اور دیگر حقوق کی خرید و فروخت اور اشیاء مادیہ کی خرید و فروخت پر حاوی ہے۔ زرنقد کی قدر قیمت اشیاء کے ساتھ نسبت معکوس رکھتی ہے اور متی کاٹا کے ساتھ نسبت مستقیم۔ اب تمہاری سمجھ میں آگیا ہوگا کہ اصطلاح زرنقد کی قدر کے دو مفہوم ہیں۔ اشیاء مادیہ اور حقوق وغیرہ کی خرید و فروخت میں تو اس سے مراد قیمت شے یا حق وغیرہ کی اس مقدار سے ہے جو اس کے عوض میں حاصل کی جا سکے اور قرضوں کی خرید وفروخت میں اس کا مفہوم وہ متی کاٹا یا منافع ہے جو کسی شخص کو کوئی قرضہ خریدنے سے حاصل ہو۔ اس توضیح کے بعد ہم اپنے اصل سوال کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اسی سوال کی وجہ سے زرنقد کی بحث تبادلے کی ذیل میں آتی ہے، ورنہ دیگر اشیا کی طرح اس کا ذکر بھی باب پیدائش دولت میں کیا جاتا۔ صاف ظاہر ہے کہ زرنقد کی قدر دیگر اشیاء کی قدر کی طرح قانون طلب و رسد کے عمل سے متعین ہوتی ہے۔ تم جانتے ہو دنیا کی تجارت زرنقد کے بل پر ہی چلتی ہے۔ پس جس قدر استعمال زرنقد کے مواقع زیادہ ہوں گے، اسی قدر اس کی مانگ یا طلب بھی زیادہ ہوگی۔ ہاں جب زرنقد کا کام اور وسائل سے لیا جائے مثلاً چکوں وغیرہ سے، تو اس کی طلب کم ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زرکاغذی کا استعمال زر نقد کے مواقع استعمال کو کم کرتا ہے۔ کہیں اس غلطی میںنہ پڑ جانا کہ زرنقد کی مانگ یا طلب کا انحصار کسی قوم کی دولت یا اس کی سالانہ پیداوار دولت کی مقدار پر ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر قسم کی دولت تجارت کے دائرے میں آئے۔ علیٰ ہذاالقیاس اشیاء متبادلہ کی مقدار کو بھی اس مانگ سے کچھ واسطہ نہیں۔ کیونکہ بعض اشیاء کا تبادلہ صرف ایک ہی دفعہ ہوتا ہے اور بعض کا کئی کئی دفعہ ہوتا ہے۔ مزید برآں خصوصاً زراعتی ملکوں میں بسا اوقات افراد اپنا کام زرنقد کی وساطت کے بغیر مبادلہ اشیاء سے ہی چلا لیتے ہیں۔ تم شاید یہ کہو گے کہ جب کسی ملک کا سکہ کھوٹا ہو کر یا کسی اور وجہ سے کم حیثیت ہو کر اپنا اعتبار کھو بیٹھتا ہے، تو وہاں کے لوگ اس سکے سے احتراز کرنے کی خاطر مبادلہ اشیاء سے کام چلا لیتے ہیں یا ضرورت کی اشیاء ایک دوسرے سے بدل کر سکوں کے استعمال سے بچ جاتے ہیں۔ یہ خیال صحیح ہے مگر کسی ملک میں یہاں تک نوبت نہیں پہنچ سکتی کہ زرنقد کا استعمال بالکل جاتا رہے۔ ہر ملک میں بشرطیکہ وہاں کے لوگ وحشی ہ ہوں ، کچھ نہ کچھ بطور زرنقد کے ضرور مستعمل ہوتاہے۔ پس زرنقد کی طلب کسی قوم کی دولت یا اس کی پیداوار اور دولت یا اشیاء متبادلہ کی مقدار سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کا انحصار زرنقد کے مواقع استعمال پرہے، جو خود مختلف ممالک کی تنظیم ، محنت اور دیگر حالات پر منحصر ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ زرنقد کی مانگ یا طلب محض خیالی امر ہی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ تم دیکھتے ہو، لوگ روپے کے عوض میں اپنی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ چیزیں دیتے ہیں اور ان کے عوض زرنقد قبول کرتے ہیں۔ رسد اشیاء کی ایک معین مقدار کی صورت میں جس قدر زیادہ اشیاء زرنقد کے عوض میں ملیں گی، اسی قدر زرنقد کی قدر زیادہ ہو گی یا یوں کہو کہ اشیاء کی قیمتیں کم ہوگی اور جس قدر کم اشیاء زرنقد کے عوض میں ملیں گی،اسی قدر زرنقد کی قدر کم ہوگی۔ یا یوں کہو کہ اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی۔ زرنقد کی رسد گویا ایک قسم کی قوت ہے جو زرنقد کے تجارتی مقاصد کو پورا کرتی ہے اور جو اس کی مقدار اور سرعت انتقال سے متاثر ہوتی ہے۔ جس قدر زرنقد کی مقدار زیادہ ہوگی اور جس قدر عجلت سے یہ مقدار دست بدست پھر سکے گی، اسی قدر تجارتی مقاصد باحسن وجوہ اتمام پائیں گے۔ اگر زرنقد کی رسد کم ہو جائے تواشیاء کی قیمتیں کم ہو جائیں گی کیونکہ رسد کی کمی سے زرنقد کی قدر بڑھ جائے گی۔ علیٰ ہذاالقیاس اگر رسد زیادہ ہو جائے تو اشیاء کی قیمتیں زیادہ ہو جائیں گی کیونکہ اس صورت میں زرنقد کی قدر کم ہو جائے گی اور اس کے عوض میں اشیاء کی زیادہ مقدار ہاتھ لگے گی۔ اب زرنقد کے متعلق ایک اور ضروری امر دریافت کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی مختلف ممالک اور اقوام کے درمیان زرنقد کی مساوی تقسیم کس طرح ہوتی ہے؟ زرنقد خود بخود ایک ملک سے دیگر ممالک میں منتقل ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس کی تقسیم مساوی طور پر ہو جاتی ہے۔ فرض کرو کہ کسی ملک (الف) میں زرنقد کی مقدار وہاں کے لوگوں کی ضرورتوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہاں اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ کیونکہ زرنقد کی زیادتی سے اس کی قدر کم ہو جائے گی۔ اس صورت میں ب اپنی اشیاء ملک الف میں بھیجے گا۔ کیونکہ وہاں قیمتوں کی زیادتی کی وجہ سے فائدے کی توقع ہے۔ اس طریق سے زرنقد ملک الف سے ملک ب کی طرف منتقل ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ دونوں ملکوں میں اس کی مقدار مساوی ہوجائے گی۔ لیکن ملک الف میں زرنقد کی افراط کی وجہ سے ایک اور نتیجہ بھی پیدا ہوگا۔ یعنی چونکہ اس کی قدر افراط کے سبب سے کم ہوگی ، اس واسطے عام لوگوں کو زرنقد کے جمع کرنے کی تحریک ہوگی۔ مختلف اقسام کی صنعتوں میں چاندی یا سونے کا استعمال (جیسی صورت ہو) بڑھتا جائے گا۔ چاندی کے گلاس، حقوں کی منہا لیں وغیرہ عام ہو جائیں گی۔ مزید برآں وہاں کے لوگ سکوں کو پگھلا کر زر نامسکوک کی صورت میں ان ممالک کی طرف بھیجنا شروع کر دیں گے جہاں سونے چاندی کی قدر زیادہ ہے۔ ایسے حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرضاً ملک الف میںکھرے سکے کے ساتھ ایک کھوٹا یا کم وزن کا سکہ بھی جاری ہو (تم جانتے ہو مختلف ممالک کے سکوں میں کم و بیش اختلاف ہوتا ہے۔ اکثر سکے استعمال سے ہلکے ہو جاتے ہیں) تو ان دونوں میں سے کسی سکے کو جمع کرنے یا پگھلانے یا دیگر ممالک میں بھیجنے کی تحریک ہوگی؟ چونکہ اس ملک میں زرنقد کی افراط ہم نے فرض کر لی ہے ، اس واسطے ظاہر ہے کہ جو سکہ کھرا یا پورے وزن کا ہوگا لوگ اسی کو جمع کریں گے یا پگھلا کر دیگر ممالک میں بھیجیں گے۔ کھوٹے یا کم وزن سکوں کی نسبت خالص اور پورے وزن کے سکوں کا جمع کرنا یا دیگر ممالک کو بھیجنا زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ کیونکہ دیگر ممالک میں سکوں کی قدر دھات کی اس مقدار سے متعین ہوتی ہے جو ان میں شامل ہو۔ اسی صداقت کو گریشم صاحب ایک اقتصادی اصول کی صورت میں یوں پیش کرتے ہیں کہ کھوٹا یا ہلکا سکہ کھرے سکے کو دائرہ استعمال سے خارج کر دیتا ہے اور خود اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اصول اسی صورت میں صادق آئے گا، جب کہ کسی ملک میں زرنقد کی مقدار لوگوں کی ضرورت سے زیادہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہلکے یا کھوٹے سکوں اور کھرے سکوں کی قوت خرید میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ یہ کلیہ مندرجہ ذیل حالات پر صادق آتا ہے۔ الف۔ اگر کسی ملک میں صرف ایک دھات سونے یا چاندی کا کھرا سکہ متداول ہو اور اُس کے ساتھ کوئی مغشوس کھوٹا یا ہلکا سکہ بھی متداول رہنے دیا جائے تو کچھ عرصے میں کھرے سکے کی تمام مقدار دائرہ استعمال سے خارج ہو جائے گی اور اور صرف کھوٹا سکہ ہی استعمال میں رہے گا۔ کھرے سکے کا یا تو لوگ جمع کرتے جائیں گے یا پگھلا کر رکھتے جائیں گے یا دیگر ممالک سے اشیاء ضرورت کے خرید نے میں صرف کرتے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی ملک میں گز کے دو پیمانے جاری ہوں ایک تین فٹ اور ایک دو فٹ کا تو کپڑے کے دکاندار قدرتاً دو فٹ والے پیمانے کے حساب سے اپنا کپڑا فروخت کریں گے۔ یعنی دو فٹ والا گز تین فٹ والے گز کو دائرہ استعمال سے خارج کر دے گا۔ ب۔ اگر کسی ایک ملک میں دو مختلف دھاتوں مثلاً سونے اور چاندی کے سکے ایک غیر محدود مقدار میں اکٹھے متداول ہوں اور قانونی طور پر ان کے درمیان ایک ایسی نسبت مقرر کر دی جائے جو ان کی حقیقی قدروں کی درمیانی نسبت سے مختلف ہو(یعنی کم یا زیادہ ہو) تو جس سکے کی قدر اس کی حقیقی قدر سے کم ہو گی وہ دائرہ استعمال سے خارج ہو جائے گا اور جس کی زیادہ ہوگی وہی متداول رہے گا۔ مثال کے طور پر فرض کرو کہ ایک ملک میں دو سکے غیر محدود مقدار میں متداول ہیں۔ ایک سونے کی مہر اور دوسرا چاندی کا روپیہ اور ان کی اضافی قدر اس طرح پر ہے کہ ایک مہر مساوی بیس روپے کے ہے۔ نیز فرض کرو کہ مہر کی قانونی قدر بیس روپیہ ہے یا بالفاظ دیگر بیس روپے کو چلتی ہے لیکن اس میں سونا اٹھارہ روپے کا ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس چاندی کے روپے کی قانونی قدر اس کی حقیقی قدر سے کم ہے تو اس صورت میں اصول مندرجہ بالا کی رو سے روپیہ کا سکہ دائرہ استعمال سے خارج ہو جائے گا اور صرف مہر متداول رہے گی۔ لوگ اپنی خرید و فروخت اور قرضوں کی ادائیگی قدرتاً مہر کی وساطت سے کریں گے۔ کیونکہ اس کی اصل قدر تو اٹھارہ روپے ہے اور کام بیس روپے کا دیتی ہے۔ چاندی کے سکوں کو لوگ پگھلا کر زر نامسکوک کی صورت میں جمع کریں گے یا دیگر ممالک میں بھیجیں گے۔ کیونکہ ان کی قدر دھات کی اس مقدار سے متعین ہوگی جو ان میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ۱۷۶۶ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں چاندی کے سکے کے ساتھ سونے کا سکہ بھی جاری کیا، تو اس کارروائی میں ناکامیابی ہوئی اور سکہ مذکور چل نہ سکا۔کیونکہ کمپنی کی مہر کی قانونی قدر چودہ روپیہ کے برابر مقرر کی گئی تھی، جو اس کی حقیقی قدر سے بہت کم تھی۔ ۱۷۶۹ء میں کمپنی مذکور نے پھر ایک طلائی مہر جاری کی لیکن پھر ناکامی ہوئی۔ آخر کار یہ فیصلہ ہوا کہ بنگال میں صرف ایک ہی دھات کا سکہ متداول رہنا چاہیے اور اس غرض کے لیے چاندی انتخاب کی گئی۔ اب کچھ عرصہ سے سرکار ہند نے اس ملک میں سونے کا سکہ بھی متداول کر دیا ہے جس کی وجہ ابھی معلوم ہوگی۔ ج۔ مندرجہ بالا دو مقدمات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ایک ملک میں سونے کا سکہ متداول ہو اور دوسرے میں چاندی کا، تو ان کے درمیان ایک ہی نسبت تبادلہ قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ چاندی اور سونے کی قیمت کے تغیر کے ساتھ ساتھ متغیر ہوتی رہتی ہے وجہ یہ ہے کہ سکے خواہ سونے کے ہوں خواہ چاندی کے ہوں، خارجی ممالک میں اپنی حقیقی قدر کے لحاظ سے قبول کئے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے روپے کی حقیقی قدر صرف گیارہ آنے کے برابر ہے۔ اگرچہ قانوناً اس کی قدر سولہ آنے کے برابر مقرر کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں تو ہر شخص اسے سولہ آنے کے عوض میں قبول کرے گا۔لیکن کوئی وجہ نہیں کہ دیگر ممالک کے لوگ بھی اس کے عوض میں سولہ آنے ہی دیں۔ وہ اس کے بدلے اس کی حقیقی قدر یعنی گیارہ آنے ہی ادا کریں گے۔ یہ کلیہ اصول جو ہم نے بیان کیا ہے علم الاقتصاد کی کتابوں میں قانون گریشم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کے نتائج بڑے اہم ہیں اور یہ ایک بڑی ضروری اقتصادی بحث میں کام آتا ہے۔ محققین کے درمیان یہ بحث مدت سے چلی آتی ہے کہ آیا تمام دنیا کے ممالک کو یا کسی ایک ملک کو ایک ہی دھات کا سکہ بطور معیار قدر کے متداول رکھنا چاہیے یا اقتصادی لحاظ سے دو مختلف دھاتوں کے سکے بطور معیار قدرکے اکٹھے متداول رہ سکتے ہیں۔ ایک فریق تو یہ کہتا ہے کہ تمام ملک یا کسی ایک ملک میں اصل معیار قدر تو ایک ہی رہنا چاہیے جس سے سرکار اور تجارت کے بڑے بڑے معاملے طے ہوا کریں لیکن روز کی معمولی چھوٹی چھوٹی خرید و فروخت کے لیے اور دھاتوں کے سکے متداول رہنے چاہئیں۔ دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ دو مختلف دھاتوں کے سکے بطور معیار قدر کے متداول رہ سکتے ہیں اور رہنے چاہئیں۔ اس طریق عمل میں اقتصادی لحاظ سے کوئی نقصان نہیں ہے۔ بشرطیکہ مختلف ممالک اتفاق کر کے دونوں دھاتوں کی اضافی قدروں کے درمیان ایک خاص نسبت مقرر کر دیں۔ اس طویل مگر ضروری بحث کو ہم یہاں چھیڑنا نہیں چاہتے، لیکن اس قدر ظاہر ہے کہ قانون مذکورہ بالا کی رو سے دونوں دھاتوں کی اضافی قدروں کے درمیان کوئی نسبت مقرر نہیں رہ سکتی بلکہ چاندی اور سونے کی قدروں کے تغیر کے ساتھ ساتھ متغیر ہوتی رہتی ہے۔ تم شاید یہ کہو گے کہ سرکار ہند نے اس صحیح اصول کے خلاف کیوں عمل کیا ہے؟ یعنی ہندوستان میں کیوں دو معیار قدر جاری ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سونے کا سکہ عام استعمال کے لیے نہیں ہے۔ ہم پہلے اشارۃً ذکر کر آئے ہیں کہ ہمیں انگلستان کو جو رقم سالانہ ادا کرنی پڑتی ہے،وہ پونڈوں کے حساب سے دینی ہوتی ہے۔ اس واسطے جب چاندی کی قدر میں کسی باعث سے کمی ہو جاتی تھی (بالعموم سونے کی نسبت چاندی کی قدر میں زیادہ تغیر آتے ہیں) تو ہمارے ملک کی مالگذاری کو نقصان پہنچتا تھا۔ کیونکہ جہاں پہلے ایک پونڈ کے عوض دس روپے دینے پڑتے تھے، چاندی کی قدر کم ہو جانے کی وجہ سے ایک پونڈ کے عوض میں ۱۵ روپے دینے پڑتے تھے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے تاجروں کو بھی نقصان پہنچتا تھا۔ اسی دقت کو محسوس کر کے ہماری سرکار نے یہاں بھی سونے کا سکہ جاری کر دیا۔ چونکہ یہ سکہ عام طور پر مستعمل نہیں ہے اور ہو ہی کس طرح سکتا ہے؟ کیونکہ اس ملک کے لوگ اس قدر غریب ہیں کہ یہاں کوڑیاں بھی بطور سکے کے مستعمل ہوتی ہیں۔ اس واسطے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک ہی معیار قدر یعنی چاندی کا روپیہ جاری ہے۔ اس طریق عمل سے ہم ان نقصانات سے جو ایک ہی معیار قدر کے تداول سے پیدا ہوتے ہیں مامون ہیں۔ لیکن وہ بڑے بڑے فوائد جو دو معیار قدرکے تداول سے پیدا ہوتے ہیں ہمیں حاصل ہیں۔ ۳۔ تیسرا مقصد زر نقد کا یہ ہے کہ نقد مذکور ادائیگی غیر موجل کا معیار ہے۔ فرض کرو کہ الف اور ب نے آپس میں ایک معاہدہ کیا ہے۔ الف نے ب کو کسی قسم کا سامان دیا ہے اور ب اس کے عوض میں معاہدہ کرتا ہے کہ بیس سال کے بعد دس ہزار روپیہ اس سامان کے عوض میں ادا کرے گا۔ فرض کرو کہ اس عرصہ میں روپیہ کی قدر میں ایک بہت بڑا تغیر آ گیا ہے، یعنی جو چیز معاہدہ کے وقت آٹھ آنے کی بکتی تھی، اب ایک روپیہ کو ملتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قرض کی ادائیگی میں الف گھاٹے میں رہے گا اور ب بہت فائدہ میں۔ اس قسم کی اور صورتوں کے لحاظ سے یہ ضروری ہے کہ معیار قدر کوئی ایسی شے ہونی چاہیے جس کی قدر میں تغیر نہ آتا ہو یا کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔ ایسی شے تو شاید دنیا بھر میں کوئی نہ ملے۔ ہاں بعض اشیاء کی قدر میں دیگر اشیاء کی نسبت کم تغیر آتا ہے انہی میں سے سونا اور چاندی دو دھاتیں ہیں، جو بالعموم اپنی قدر میں یکساں رہتی ہیں۔ اگرچہ بعض دفعہ ان کی قدر میں بھی تغیر ہو جانے سے دقتوں کا سامنا ہوا ہے۔ تاہم نسبتاً ان کی قدر تغیر سے آزاد رہتی ہے۔ لہٰذا یہ ان قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں بھی کام دے سکتی ہیں جن میں مدت کو دخل ہے۔ بعض محققین ان مشکلات سے بچنے کے لیے جو زرنقد کی قدر کے تغیر سے پیدا ہوتی ہیں یہ تجویز کرتے ہیں کہ ادائیگی غیر معجل یا ایسی ادائیگی کی صورت میں جس میںمدت کو دخل ہے، معیار قدر غلہ کو قرار دینا چاہیے۔ مگر یہ رائے قرین صواب نہیں معلوم ہوتی۔ کیونکہ عام لوگوں کو سونے چاندی کے ساتھ ایک خاص قسم کا انس اور دل بستگی پیدا ہو گئی ہے، جس کا دور کرنا مشکلات سے ہے۔ بعضوں نے ان مشکلات سے بچنے کی اور تجاویز بھی پیش کی ہیں، جن کا اس کتاب میںبیان کرنا کچھ ضروری معلوم نہیں ہوتا۔ باب ۴ حق الضرب اس باب میں ہم ایک سوال پر بحث کرنا چاہتے ہیں جس کا فیصلہ گزشتہ اقتصادی اصولوں پر انحصار رکھتا ہے لیکن مبتدی کو خبردار رہنا چاہیے کہ یہ سوال نہایت پیچیدہ ہے اور اس کا پورا مفہوم سمجھنے میں بڑے بڑے غلط استدلالات سے کام لیا گیاہے۔ لہٰذا اس خارستان میں قدیم رکھنے سے پیشتر اپنا دامن سنبھال لینا چاہیے اور ان تمام گڑھوں سے واقف ہو جانا چاہیے، جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے تجربہ کار منطقیوں اور مصنفوں کو منہ کے بل گرا دیا ہے۔ ایک محقق تحریر فرماتے ہیں کہ جو مصنف زر نقد کے خطرناک مضمون کو چھوتا ہے، وہ ہر لحظہ معرض خطر میں ہے کیونکہ استدلال اغلاط شیر اور چیتوں کی طرح اس کے گھات میں لگے رہتے ہیں۔ اس اندیشہ کو مد نظر رکھ کر ہم اس بحث کو ایک اقتصادی اصطلاح کی تشریح سے شروع کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس دقیق مضمون کی تفہیم کے لیے یہی راہ آسان اور محفوظ معلوم ہوتی ہے۔ مبتدی کو لازم ہے کہ ہر جملے اور اصطلاح کے معانی کا مل طور پر ذہن نشین کرتا جائے، ورنہ وہ اس اہم اقتصادی بحث کی غرض و غایت اور اس کے نتائج سے پوری آگاہی حاصل نہ کر سکے گا۔ ہر ملک میں یہ امر قانونی طور پر فیصلہ پاتا ہے کہ زر نامسکوک یا سونے چاندی کی کسی خاص مقدار کے کس قدر سکّے گھڑے جائیں۔ مثلاً انگلستان کے موجود وہ قانون کی رُو سے ۴۰ پونڈ سونے کے ۱۸۶۹ سکّے بنائے جاتے ہیں، جو ساورن کے نام سے موسوم کئے جاتے ہیں۔ سکّوں کی یہ تعداد جن میں زرنا مسکوک کی کوئی مقدار قانوناً منقسم کی جاتی ہے اس مقدار کی قیمت ضربی کہلاتی ہے۔ اس تعریف سے ظاہر ہے کہ جب تک کوئی سکّہ قانونی لحاظ سے پورے وزن کا ہو اس کی قدر ہمیشہ اپنے وزن زرنامسکوک کی قدر کے مساوی ہوتی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کچھ عرصہ کے روز مرّہ استعمال سے سکوں کا وزن قانونی سے کم ہو جاتاہے۔ بالعموم خرید و فروخت میں لو گوں کواس کی پروا نہیں ہوتی کہ کوئی سکہ وزن کا پورا ہے یا کم ہے۔ اس واسطے ممکن ہے کہ بہت عرصہ تک متداول رہنے سے بعض سکّوں کا وزن سے کم ہو جائے اور بیع و شریٰ میں ان کی قدر وہی تصور کی جائے جو قانوناً مقرر ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ کسی سکّے میں سولہ آنے کی چاندی ہے اور سولہ آنے کو ہی چلتا ہے۔ ممکن ہے کہ کثرت استعمال سے اس کا وزن کم ہو جائے یعنی اس کی چاندی پندرہ آنے کی رہ جائے لیکن بیع و شریٰ میں سولہ آنے کو ہی چلتا رہے۔ عام خرید و فروخت میں سکوں کے وزن کی کمی کچھ اثر نہیں کرتی۔ لیکن جب ان کا تبادلہ زرنامسکوک سے کیا جائے تو یہ اثر ظاہر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں زر نامسکوک اس قدر ملے گی جس قدر سکوں کا موجودہ وزن ہے۔ اگر کثرت استعمال سے ان کا وزن قانونی وزن سے کم ہو گیا ہے تو ظاہر ہے کہ زر نامسکوک کی کوئی خاص مقدار تبادلے میں لینے کے لیے سکوں کی زیادہ تعداد دینی پڑے گی۔ پس متداول سکوں کی وہ تعداد جو حقیقی طور پر زر نامسکوک کی کسی مقدار کی ہم وزن ہے۔ مقدار مذکور کی قیمت متعارف کہلاتی ہے اور چونکہ کمی وزن کی صورت میں زر نامسکوک کی کسی مقدار کے عوض میں متداول سکوں کی زیادہ تعداد دینی پڑتی ہے۔ اس واسطے ظاہر ہے کہ قیمت متعارف قیمت ضربی سے زیادہ ہوگی۔ مثلاً فرض کرو کہ چاندی کی قیمت ضربی پانچ شلنگ دو پنس اونس ہے اور قیمت متعارف چھ شلنگ ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ سکّہ متداول کے چھ شلنگ زر نامسکوک کی مقدار کے ہم وزن ہیں، جس کاہم وزن پانچ شلنگ دو پنس کو ہونا چاہیے تھا۔ اگر ان کا وزن کثرت استعمال کے باعث قانونی وزن سے کم نہ ہو جاتا۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ زر نامسکوک کی قیمت متعارف کا اس کی قیمت ضربی سے بڑھ جانا سکّے کی کم قدر ہو جانے پر دلالت کرتا ہے۔ اس توضیح سے سکّہ زنی کے متعلق دو ضروری اصول پیدا ہوتے ہیں۔ الف۔ جب زر نامسکوک کی قیمت متعارف اس کی قیمت ضربی سے بڑھ جاتی ہے، تو اس سے صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ سکّے کی قدر کم ہو گئی ہے، بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سکّہ مذکور کی قدر کہاں تک کم ہوتی ہے۔ بالفاظ دیگر یوں کہو کہ (زر نامسکوک کی قیمت متعارف۔ زر نامسکوک کی قیمت ضربی) = اس وزن کے ہے جو سکّہ متداول کی کثرت استعمال سے زائل ہو گیا ہے۔ ب۔ قیمت ضربی کی تعریف سے مندرجہ ذیل اصول بطور نتیجے کے پیدا ہوتا ہے۔ زر نامسکوک کی قیمت ضربی کا بدلنا حقیقت میں سکوں کے قانونی وزن کا بدلنا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ زر نامسکوک کی قیمت ضربی مختلف حالات میں مختلف ہو سکتی ہے، تو یہ صریحاً غلط ہے۔ کیا اگر ایک من شراب کو جو کسی مٹکی میں رکھی ہو، بہت سے بوتلوں میں ڈال دیا جائے تو شراب کی مقدار بدل جائے گی؟ ہر گز نہیں۔ بہت سے حصوں میں منقسم ہو جانے سے اس کی مقدار میں فرق نہیں آ سکتا۔ اس تشریح کے بعد اب ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ تم کو شاید معلوم ہے کہ سرکار سکّہ زنی کے متعلق ایک خاص قسم کا حق رکھتی ہے جس کو حق الضرب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس حق سے مراد زر نامسکوک کی اس مقدار سے ہے جو سرکار بطور مصارف سکہ زنی کے لیتی ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک روپے کے مصارف سکّہ زنی دو آنے ہیں۔ سرکاری ٹکسال دو آنے وضع کرنے کی خاطر روپے میں چودہ آنے کی چاندی ڈال کر اپنے مصارف سکّہ زنی نکال لے گی۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حق الضرب دو قسم کا ہوتا ہے۔ ۱۔ جب کہ حق الضرب مصارف سکّہ زنی کے برابر ہو۔ اس صورت میں سرکار کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس قدر سرکار کا خرچ ہوتا ہے اسی قدراسے ملتا ہے۔ بعض ممالک میں حق الضرب بالکل نہیں لیا جاتا۔ مثلاً انگلستان کی ٹکسال پونڈ میں پورے بیس شلنگ کی قیمت کا سونا ڈالتی ہے۔ بعض ممالک میں رعایا کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ حق الضرب ادا کرکے یا اس کے بغیر جیسا قانون ہو سرکاری ٹکسال سے اپنے سونے یا چاندی کے ٹکڑے سکوں کی صورت میں منتقل کروا لے۔ چنانچہ انگلستان میں سونے کے سکوں کے متعلق رعایا کو یہ حق حاصل ہے کہ بغیر حق الضرب ادا کرنے کے سونے کے ٹکڑوں کو ٹکسال سے پونڈوں کی صورت میں منتقل کروالیں۔ ۱۸۹۴ء سے پہلے ہندوستان کی رعایا کو بھی یہ حق حاصل تھا۔ اب کسی خاص مصلحت کی وجہ سے جس کا ذکر ابھی آئے گا۔ اس ملک کی ٹکسال رعایا کے لیے بند ہے اور سرکار صرف اسی قدر سکے بناتی ہے جس قدر اس ملک کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ ۲۔ جب کہ حق الضرب مصارف سکہ زنی سے زیادہ ہو۔ اس صورت میں سرکار سکہ زنی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ مثلاً ہمارے ہندوستان میں روپیہ سولہ آنے پر چلتا ہے۔ حالانکہ اس میں چاندی صرف گیارہ آنے کی ہوتی ہے۔ گویا سرکار کو فی روپیہ پانچ آنے فائدہ ہوتا ہے۔ علیٰ ہذالقیاس ایک پیسے میں تانبا شاید سات کوڑی کا بھی نہ ہوتا ہو۔ ہم ان دونوں طریقوں پر بالترتیب بحث کریں گے۔ اوّل صور ت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کسی سکے کی قدر زر نامسکوک کی اس مقدار کی قدر کے مساوی ہونی چاہیے جو اس سکے میں شامل ہے۔ یا مقدار مذکور کی قدر میں مصارف سکہ زنی بھی شامل ہونے چاہئیں۔ بالفاظ دیگر یوں کہوںکہ اگر ایک روپیہ کے مصارف سکہ زنی دو آنے ہوں۔ تو کیا روپے میں ۱۴ آنے کی چاندی ڈال کر اس کی قدر ۱۶ آنے کی برابر ہی مقرر کرنی چاہیے یا ۱۶ آنے کی چاندی ڈال کر اس کی قدر ۱۶ آنے کے برابر ہی مقرر کرنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ پہلی صورت میں سرکار کو اپنے مصارف سکّہ زنی کا بابت ۲ آنے مل جائیں گے۔ مگر دوسری صورت میں یعنی جب کہ روپے میں ۱۶ آنے کی چاندی ہو سرکار کو بطور مصارف سکّہ زنی کچھ ملے گا۔ یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ بعض حکماء کہتے ہیں کہ سرکار کو کچھ حق ضرب نہ لینا چاہیے۔ یا یوں کہو کہ ن کی نزدیک مصارف سکّہ زنی کی خاطر اس کی حقیقی قدر سے زیادہ قدر پر چلانا اقتصادی لحاظ سے مضر ہے۔ مگر بعض حکماء کے نزدیک مصارف سکّہ زنی کے برابر حق ضرب لے لینے میں کوئی ہرج نہیں۔ ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں۔ ۱۔ ایک قینچی کی قیمت اس کے ہم وزن لوہے کی قیمت سے زیادہ ہوتی ہے، اس واسطے کوئی وجہ نہیں کہ کسی سکّے کی قدر اپنے ہم وزن زر نامسکوک کی قدر سے زیادہ نہ ہو۔ سونا یا چاندی اپنی نامسکوک حالت میں اس قدر مفید نہیں ہوتے، جس قدر کہ سکوں کی صورت میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا عقلاس امر کی متقضی ہے کہ جب زر نامسکوک سکوں کی صورت میں منتقل کر دیا جائے، تو اس کی قدر بھی بڑھ جائے گی، جیسا کہ لوہے کے ٹکڑے کی قدر ایک زنجیر یا تلوار کی صورت میں منتقل ہو جانے سے بڑھ جاتی ہے۔ ۲۔ اگر کوئی حق ضرب نہ لیا جائے یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اگر سکّے کی قدر زر نامسکوک کی قدر کے برابر ہو جو اس میں شامل ہے، تو عوام کو جب زر نامسکوک کی ضرورت لاحق ہو گی سکوں کو پگھلا لیا کریں گے اور جب سکوں کی ضرورت ہو گی اسی زر نامسکوک کو سرکاری ٹکسال سے پھر سکوں کی صورت میں منتقل کرا لیا کریں گے۔ یہ عمل بار بار ہوتا رہے گا۔ جس سے سرکار کو بے جا نقصان ہوگا۔ کیونکہ سرکار کو بغیر مصارف سکّہ زنی لیے سکے بنانے پڑیں گے۔ یہ دلیل واقعی زبر دست ہے مگر باوجود اس بات کے دنیا کے بعض بڑے بڑے تجارتی ملک مثلاً انگلستان وغیرہ حق ضرب نہیں لیتے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں بھی ایک فائدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب انگلستان میں سکّے کی مقدار تجارتی ضرورتوں سے زیادہ ہو جاتی ہے(تجارتی ملکوں میں اکثر ایسا ہو جاتا ہے) تو اس افراط کے باعث ان کی قدر کم ہونے نہیں پاتی۔ یا یوں کہو کہ انگلستان میں اشیاء کی قیمتیں زیادہ نہیں ہونے پاتیں کیونکہ سکوں کی یہ غیر ضروری مقدار فوراً دیگر ممالک کی طرف خود بخود منتقل ہو جاتی ہے اور دیگر ممالک کے لوگوں کو اس کے قبول کرنے میں کوئی عذر نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عذر تو اس صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ اس کی قدر اپنے ہم وزن زر نامسکوک کی قدر سے زیادہ ہو۔ دیگر ممالک کے نزدیک جیسا زر نامسکوک ویسا انگلستان کا زر مسکوک۔ مثلاً اگر کابل کے سکے میں دس آنے کی چاندی ہو اور وہ دس آنے پر ہی چلتا ہو۔ یا یوں کہو کہ کابل حق ضرب نہ لیتا ہو، تو ہندوستان کے لوگوں کو بشرطیکہ ان کی چاندی کی ضرورت ہو، اُسے دس آنے پر خریدنے میں کیا عذر ہو سکتا ہے؟ غرض کہ انگلستان حق ضرب نہ لینے سے زر نقد کی افراط کے برے نتائج سے بچ جاتا ہے۔ دوسری صورت میں حق ضرب چونکہ مصارف سکہ زنی سے زیادہ ہوتا ہے اس واسطے سرکار ٹکسال کے اجرا سے فائدہ اٹھاتی ہے اکثر ممالک کے بادشاہوں نے اس طریق عمل سے بے انتہا فائدہ اٹھایا ہے مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس پر کوئی رائے زنی کریں ایک نہایت ضروری اقتصادی اصول کا ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ اشیا کی قیمت طلب و رسد کی مساوات سے متعین ہوتی ہے۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ سونا اور چاندی جو اشیاء میں داخل ہیں اس کلیہ قانون کے دائرہ عمل سے خارج ہوں۔ جب سونے چاندی کی مقدار ضرورت سے بڑھ جائے گی تو ان کی قدر ضرور کم ہو گی اور جب ان کی مقدار ضرورت سے کم ہو جائے گی، تو ظاہر ہے کہ ان کی قدر زیادہ ہوگی۔ سکے جو سونے اور چاندی سے بنائے جاتے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے کہ افراط کی صورت میں ان کی قدر کم ہوتی ہے اور کمی کی صورت میں ان کی قدر بڑھتی ہے۔ فرض کرو کہ کسی ملک میں زر نقد کی مقدار اس ملک کی تجارتی ضروریات سے بہت کم ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں زر نقد کی قدر بسبب کمی رسد کے بڑھ جائے گی یا بالفاظ دیگر اشیا کی قیمت کم ہو جائے گی اور تجارتی کاروبار نہ چل سکے گا۔ لیکن اگر کسی تدبیر سے زر نقد کی موجودہ مقدار نہایت تیزی اور سُرعت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہو سکے، تو تجارتی کاروبار بلا روک ٹوک چلتے جائیں گے اشیاء کی قیمت اصلی حالت پر عود کر آئے گی اور مزید زر نقد کی ضرورت لاحق نہ ہو گی پس ایسے ملک کے تجارتی مقاصد آسانی کے ساتھ پورے نہیں ہو سکتے، جب تک اس ملک میں زر نقد کی مقدار زیادہ نہ ہو۔ یا کوئی صورت اختیار کی نہ استعمال کی جائے یا اگر ایسا نہ ہو سکتا ہو تو کسی طرح مقدار موجودہ میں سرعت انتقال نہ پیدا ہو۔ کیونکہ سرعت انتقال بھی ایک طرح کی ازدیادی زر نقد ہے۔ جو سکہ پہلے ایک دفعہ استعمال ہوتا تھا ممکن ہے کہ سرعت انتقال کی صورت میں دس دفعہ استعمال ہو یا یوں کہو کہ اس طریق سے ایک سکہ وہی کام کر سکتا ہے جو ازدیادی زر نقد کی صورت میں دس سکوں کی وساطت سے پورا ہوتا۔ گویا زر نقد کی سرعت انتقال کا زیادہ ہونا ایک طرح سے زر نقد کی مقدار کا زیادہ ہونا یا بالفاظ دیگر زر نقد کی قدر کا کم ہونا ہے اور اشیا کی قیمت کا بڑھنا ہے علیٰ ہذالقیاس زر نقد کی قدر کی زیادتی اس کی مقدار اور سرعت انتقال اور قیمت اشیاء کی کمی پر دلالت کرتی ہے۔ لہٰذا جب کسی ملک میں زر نقد کی مقدار تجارتی ضروریات سے کم ہو تو اس کا اعلاج یہی ہو سکتا ہے کہ مقدار کو زیادہ کیا جائے یا کسی تدبیر سے زر نقد کی سرعت انتقال زیادہ ہو جائے۔ لیکن جب کسی ملک میں زر نقد کی مقدار تجارتی ضروریات سے بہت بڑھ جائے یا یوں کہو کہ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جائیں، تو اس کا کیا علاج؟ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ زر نقد کی رسد کو محدود کر دیا جائے۔ ۱۸۹۴ء میں پہلے ہمارے ملک میں نئی کانوں کے دریافت ہونے اور ٹکسال کے عام طور پر کھلا ہونے سے روپے کی قدر بہت کم ہو کر ۱۳ پنس کے برابر رہ گئی تھی، جس سے ملک میں اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں اور سرکار کی مالگذاری کو نقصان ہونے لگا۔ کیوں کہ جو روپیہ ہمیں انگلستان کی پنشنوں ، تنخواہوں اور دیگر مصارف حکومت کی بابت دینا پڑتا ہے وہ مالگزاری میںسے ہی ادا کیا جاتا ہے۔ ایک پونڈ کے لیے جہاں پہلے دس روپے پرتے تھے چاندی کی قدر کم ہو جانے کی وجہ سے سولہ روپے دینے پڑے۔ کیونکہ ہم کو یہ روپیہ سونے کے سکّے میں ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا علاج سرکار ہند نے یہ کیا کہ زر نقد کی رسد محدود کر دی یعنی ٹکسالیں بند کرد یں۔ آج کل رعایا کو یہ حق حاصل نہیں کہ چاندی کے ٹکڑے دے کر سرکاری ٹکسال سے روپیہ بنوالے۔ بلکہ سرکار ملک کی تجارتی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر خود روپیہ بناتی ہے۔ اس تجویز کی اگرچہ اس وقت مخالفت کی گئی تھی، لیکن اس کی عمدگی اس کے اثر سے ظاہر ہے۔ یعنی ہمارا روپیہ اب ۱۳ پنس کی جگہ ۱۶ پنس کے برابر ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شے معیار قدر مقرر کی جائے اس کی قدر کا متغیر ہو جانا تمام تجارتی انتظام کو درہم برہم کر دیتا ہے۔   مقدمہ کسی مصنف کی تصنیف کو تدوین و ترتیب دینا، کسی کتاب کے پرانے ایڈیشن کو حواشی کے ساتھ نئی شکل دینا، کسی اہم مخطوطے کو مرتب کر کے عام استفادے کے لیے پیش کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ متن کی ترتیب و تدوین کوئی آسان کام نہیں۔ اس مقصد کے لیے پہلے اصل متن کو تلاش کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے مختلف ایڈیشنوں میں متن کے بہت سے اختلافات ہو سکتے ہیں۔ ان تمام نسخوں کا تقابلی موازنہ کر کے دیکھنا پڑتا ہے کہ متن میں کہاں کوئی تبدیلی کی گئی ہے۔ نیز متن میں موجود ظاہری اور مکانی اغلاط اور طباعت کی غلطیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ مصنف کی اصطلاحات تلمیحات و اشارات کی توضیح حواشی میں کی جاتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات تدوین متن کے ساتھ ترجمہ بھی کرنا پڑتا ہے تب جا کر تدوین و ترتیب کا حق ادا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقالہ کا موضوع پہلے پہل بہت مشکل محسوس ہوا لیکن چونکہ ہر مشکل کام کو چیلنج سمجھ کر قبول کرنا ہی ایک محقق کی شان ہے سو کمر ہمت باندھ کر آغاز کر دیا اور جوں جوں آگے بڑھنے کا موقع ملا موضوع سے دلچسپی سوا ہوتی گئی اور پہلے ولا تاثر عنقا ہو گیا۔ ہمیت موضوع : تحقیق کسی فکر اور نظریہ کو از سر نو زندہ کرنے اور اسے نئے علمی تناظر میں جدید تحقیق و تدوین کے اصولوں پر یمیر الفہم بنانا ہے۔ پر محقق مسائل کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھتا ہے۔کچھ کے لیے مسئلے کی ایک جہت اور دوسرے کے لیے دوسری جہت دلچسپی کا باعث ہوتی ہے۔ زیر نظر مقالہ استاد محترم جناب ڈاکٹر رحیم بخش شاہین کی رہنمائی کا نتیجہ ہے لیکن “علم الاقتصاد” کے بارے میں محترم مشفق خواجہ کے چند الفاظ نے اس موضوع پر کام کرنے کے جذبے کو مزید تقویت بخشی اور اہمیت موضوع کا اندازہ ہو جانے کے بعد جذبہ شوق فزوں تر ہو گیا۔ مشفق خواجہ کہتے ہیں۔۔۔” حیرت ہے کہ اقبال کے نام پر اتنی اکیڈمیاں اور ادارے قائم ہیں لیکن کسی کو اس کتاب کی طرف توجہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور یہ آج بھی پردئہ گمنامی میں ہے۔ مشرق کے ایک عظیم شاعر کے اوّلین علمی کارنامے کی طرف سے یہ تغافل ایک سمجھ میں نہ آنے والی ات ہے ۱ “۔مذکورہ تحریر نے جہاں موضوع کی اہمیت کا احساس دلایا وہاں سائنٹیفک انداز میں اصول تحقیق کی روشنی میں یہ بھی پرکھنے کا موقع ملا کہ مقالہ زیر نظر پر تحقیق کی گنجائش موجود ہے۔ انتخاب موضوع: “علم الاقتصاد “ پر تحقیقی کام کا آغاز کرنے کی وجہ حقائق کی منظم جمد آوری اور ازالہ اشتباھات کی ضرورت کا احساس ہے۔اقبال کی اس نثری تصنیف کی تدوین نو اور ایسے جدید ایڈیشن کی اشاعت کی اشد ضرورت ہے جو تدوین ، طباعت اور صحت و استناد کے لحاظ سے بہترین اور معیاری ہو کیونکہ علم الاقتصاد میں اغلاط کی تعداد بہت زیادہ ہے اگرچہ بعد کے ایڈیشنوں میں تصحیح متن پر کام کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اغلاط کی تعداد بہت کافی ہے طبع چہارم ۱۹۹۱ء صفحہ ۸۵ پر۔ “اس کی نسل کا بقا ہی محال ہو جاتا “ صفحہ نمبر ۱۱۸ پر۔۔ “ ان کی از سر نو تیار کرنے میں عائید ہوں”۔ صفحہ نمبر ۱۳۴ پر۔۔ “تجارت بین الممالک کو بین المالک لکھا گیا ہے۔ صفحہ نمبر ۲۵۶ پر نوع انسان کی بجائے نوحِ انسان لکھا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری تحقیق کے بعد متن میں قواعد زبان کے مطابق ضروری تبدیلی کی صراحت حاشیے میں کر دی جائے۔ اقبال نے جن مصنفین اور کتابوں سے استفادہ کیا ہے مکمل تحقیق کے بعد ان کی نشاندہی کی جائے مثلاً مارشل کی کتاب Principls of Economics واکر کی Political Economy اور مالتھس کی An Essay on Principles of Population ، میں سے لیے گئے اقتباسات کا اصل متن بھی حاشیے میں درج کر دیا جائے۔ علم الاقتصاد کا املا قدیم ہونے کی بنا پر متروک ہو چکا ہے اس لیے جدید ایڈیشن میں متروک الفاظ اور دور حاضر میں مستعمل الفاظ کا ایک تقابلی گوشوارہ مرتب کر دیا جائے۔ اصطلاحات معاشیات کی توضیح کے لیے جامع مگر مختصر تعلیمات کا اضافہ کیا جائے۔ اس امر کی تصریح بھی ضروری ہے کہ علم الاقتصاد کب ، کیوں اور کن حالات میں لکھی گئی اور اس کی اوّلین اشاعت کب عمل میں آئی تاکہ اس کتاب کے بارے میں مستند بنیادی معلومات اور اس کا مکمل پس منظر سامنے آ جائے۔ انہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موضوع کا انتخاب کیا گیا اور علم الاقتصاد کے بارے یہ سب تحقیق مقالہ کے آغاز میں بطور مقدمہ شامل کر دی گئی ہے البتہ تعلیقات متن کے ساتھ ہر صفحے پر درج ہیں۔ جہاں حاشیہ جات زیادہ طویل ہو گئے ہیں وہاں مزید صفحات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ تعارف مقالہ: تعارف مقالہ کے سلسلے میں چند مذید باتیں قابلِ ذکر ہیں۔ مثلاً۔۔ صحت متن کے سلسلے میں۔ ۱۔ بہترین نسخے کو مقالہ کی بنیاد قرار دیا گیا ہے یعنی ۱۹۰۴ء کی اشاعت۔ ۲۔ متن کے مختلف نسخوں کے تقابلی مطالعہ کا گراف مقالہ ھذا میں شامل ہے۔ ۳۔ متن میں ظاہری اغلاط اور طباعت کی غلطیوں کی نشاندہی صفحہ وار کرنے کی بجائے صفحہ نمبر دیکر ایک ہی جگہ کر دی گئی ہے ۴۔ مصنف کے حوالہ جاتی مصادر کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔ ۵۔ اقبال نے علم الاقتصاد میں جن مصنفین سے استفادہ کیا ہے کی تحقیق کر کے ایک صفحے پر ان کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ حاشیہ نگاری کے سلسلے میں حاشیہ نگاری کے اصولوں کو مد نظر رکھ کر قابلِ تصریح مقامات کی تشریح و توضیح کے لیے حاشیہ نگاری کی گئی ہے۔ ۱۔ ترجمہ شدہ پیرا گراف کا اصل متن درج کرنے کے لیے ۲۔ قابل توضیح اصطلاحات کی وضاحت کے لیے ۳۔ اقبال کی وضع کردہ معاشی اصطلاحات اور ان کے جدید مترادفات کے موازانہ کے لیے۔ ۴۔ تاریخی شخصیات کو متعارف کرانے کے لیے ۵۔ کلامِ اقبال سے وضاحت کے لیے ماخذ کی نشاندہی کے سلسلے میں ۱۔ ہر باب کے لیے علیحدہ نمبروں کے ساتھ حوالہ جات کی فہرست۔ ۲۔ آخر میں کتابیات مرتب کی گئی ہے۔ اقبال کی اردو نثر : اقبال عام طور پر ایک اچھے شاعر کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اقبال صرف اچھے شاعر ہی نہیں بہت اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کی نثر بھی اتنی ہی متاثر کن ہے جتنی کہ شاعری۔ اقبال کی نثرنگاری کا سلسلہ ۱۹۰۲ء سے شروع ہوتا ہے جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں معلمی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ کچھ نثر پارے مخزن میں بھی شائع ہوتے رہے کچھ علیحدہ کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ علم الاقتصاد کا شمار بھی انہی نثرپاروں میں ہوتا ہے۔۔ “اردو شعرا کی عام روش کے برعکس اقبال نے نثر میں بھی کئی بلند پایہ تصانیف چھوڑی ہیں یہی وجہ ہے کہ اقبال کی نثر ان کے کلام سے کم اہم نہیں۲ “۔”اقبال اگر شاعری نہ کرتے اور نثر ہی لکھتے تو بھی وہ اردو نثر میں مزار غالب کی مانند ایک دل بستان یادگار چھوڑ جاتے۳ “۔ علم الاقتصاد اقبال کی اوّلین نثری کاوش: اگرچہ علمی و ادبی دنیا میں اقبال کی شہرت کو بقائے دوام تو ان کے اشعار اور فلسفیانہ موضوعات پر بعض نثری کتب کی اشاعت کے بعدمیسر آیا لیکن اس شہرت کی راہ ہموار کرنے میں “علم الاقتصاد” نے بنیادی کردار ادا کیا۔”خود ماہرین معاشیات نے بھی اس کتاب کی اہمیت کو واضح کیا ہے اور اس کو معاشیات کی اہم کتاب قرار دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس کو بیسویں صدی کی علمی نثر کا اعلیٰ نمونہ کہا جا سکتا ہے”۔ یہی وہ تصنیف ہے جس کی بدولت اقبال پہلی بار مصنفین کی صف میں شامل ہوئے۔ علم الاقتصاد کا علمی پس منظر ایم اے کرنے کے بعد ۱۳ مئی ۱۸۹۹ء کو اقبال اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عربک ریڈر مقرر ہوئے۔ “ریڈر شپ کے فرائض منصبی میں تاریخ اور پولیٹیکل اکانومی کی تدریس کے علاوہ انگریزی یا ادبی تصانیف کا اردو ترجمہ بھی شامل تھا۔ اس طرح ایک طرف تو وہ اقتصادیات پر درس دیتے رہے دوسری طرف انھوں نے فرانسس واکر کی کتاب Political Economyکا ملخص اردو ترجمہ بھی کیا۔ “علم الاقتصاد” انہی مشاغل کے پس منظر میں لکھی گئی۵ “۔ علم الاقتصاد کا علمی و فنی تعارف اقبال کے فکری رجحانات کی عکاسی کرنے والے نثرپاروں میں “علم الاقتصاد” وہ تصنیف ہے جو شاعر مشرق کی تخلیقات ذہنی کا اوّلین نقش ہے۔ یہ کتاب اقبال کی بالغ نظری اور معاشی معاملات کی ماہرانہ سوجھ بوجھ کا مظہر ہے۔ یہ کتاب اقبال کے استاد فلسفہ ڈبلیو بیل ڈائریکٹر محکمہ تعلیم پنجاب کے نام منسوب ہے۔ اقبال کی یہ تصنیف اقبال کی زندگی میں ہی چھپ گئی تھی۔ اس کی طباعت پیسہ اخبار کے خادم التعلیم پریس لاہور سے ہوئی۔ متن کی کتابت درمیانہ قلم سے ہے البتہ حواشی نسبتاً باریک قلم سے رقم کئے گئے ہیں۔ صفحات کی کل تعداد ۲۱۶ ہے۔ کتاب کا سائز ساڑھے آٹھ ؍ساڑھے پانچ انچ ہے۔ سر ورق پر تاریخ اشاعت درج نہیں ہے۔ پیش کش ص ۱ پر ہے۔ فہرست مضامین ص ۲ پر جبکہ دیباچہ ص ۴ پر درج ہے۔ کتاب کا متن ص ۸ سے شروع ہوتا ہے اور ص ۲۱۶ پر ختم ہو جاتا ہے۔ متن میں کئی مقامات پر عبارت کو نمایاں کرنے کے لیے ان کے نیچے خط کھینچ دیا گیا ہے۔ مثلاًص ۶۷،۶۸،۸۱، ۸۲،۸۷،۸۸، ۹۵،۱۰۲، ۱۲۱،۱۲۲،۱۲۸ وغیرہ۔ عہد شباب کی تصنیف اور علمی کاوش کا پہلا ثمر ہونے کے باوجود یہ تصنیف ایسا گہرا تفکر لیے ہوئے ہے۔ ایسا مدلل اسلوبِ بیان اور جدتِ فکر کی حامل ہے کہ اس تصنیف کے مطالعے سے مستقبل کے اقبال کی جھلک بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ علم الاقتصاد کی وجہ تصنیف اور محرک: اقبال جیسے مایۂ ناز شاعر کی علمی کاوشوں کا اولین ثمر ایک نثری کتاب ہے۔ اور وہ بھی معاشیات جیسے خشک موضوع پر۔۔ اقبال کا شاعرانہ ذہن اس تصنیف کی طرف کیونکر مائل ہوا؟ علم الاقتصاد کی وجہ تصنیف اور محرکات کے بارے میں مختلف مصنفین نے مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔ غلام حسین ذوالفقار نے اسے افرائضِ منصبی کا حصہ قرار دیا ہے،۔۔۔ نذیر نیازی نے اس کے آرنلڈ کی تحریک اور ٹیکسٹ بُک کمیٹی کے ایما پر لکھے جانے کا ذکر کیا ہے۷۔۔۔ مشفق خواجہ نے اسے اقبال کی معاشیات سے گہری دلچسپی کا نتیجہ گردانا ہے۸۔رفیع الدین ہاشمی نے اسے آرنلڈ کی تحریک ، اقتصادیات کا تازہ مطالعہ اور منصبی کارکردگی میں شمار ہونے کا شاخسانہ بتایا ہے۹۔۔۔ ڈاکٹرعبادت بریلوی نے معاشیات کی اہمیت کو روشناس کرانے کے جذبے کو وجہ تصنیف قرار دیا ہے۱۰۔ ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے خیال میںاہل وطن کے افلاس و غربت کا شدید احساس اس تصنیف کا محرک بنا ۱۱۔۔۔ اگرچہ تمام مذکورہ بیانات مبنی بر حقائق ہیں لیکن کسی ایک وجہ کی بجائے مذکورہ تمام وجوہات علم الاقتصاد کی تصنیف کا محرک ثابت ہوئیں۔۔۔ میکوڈ ریڈر کی حیثیت سے بہتر کارکردگی کا اظہار۔۔۔ تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار۔۔۔ معاشیات کے مضمون سے قدرتی دلچسپی اور تدریس معاشیات کا اثر۔۔۔ مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کو دور کرنے کی خواہش اور مسلمانوں کو معاشیات سے روشناس کرانے کا جذبہ۔۔۔ آرنلڈ کی تحریک اور اصرار۔۔۔ ٹیکسٹ بک کمیٹی کی تحریک۔۔۔ غرض مذکورہ تمام وجوہات علم الاقتصاد کی تصنیف کے لیے محرک ثابت ہوئیں۔ دیباچہ علم الاقتصاد کا بغور مطالعہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ اہل وطن کے افلاس و غربت کو دور کرنے اور ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانانِ ہند کو معاشیات کے علم سے روشناس کرانے کا جذبہ اس تصنیف کا محرک ِ خاص تھا اور اسے اردو میں تصنیف کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی۱۲۔ علم الاقتصاد کا اصل مسودہ : اگرچہ عام تاثر یہ ہے اقبال نے علم الاقتصاد کا اصل مسودہ عطیہ بیگم کو دے دیا تھا اور ان سے وہ مسودہ آرنلڈ نے مانگ کر محفوظ کر لیا اس تاثر کی وجہ عطیہ بیگم کا اپنا بیان ہے۔۔۔ “دوسرے دن اقبال نے مجھے اپنی پولیٹیکل اکانومی کا اصل مسودہ تحفہ کے طور پر دیا اور ساتھ ہی وہ مقالہ بھی جس پر انہیں ڈگری ملی تھی۱۳۔۔۔یہ واقعہ ۱۶ ؍جولائی۱۹۰۷ء کا ہے لیکن اقبال کے خط محررہ ۲۴؍اپریل ۱۹۰۷ء کے مطابق۔۔۔۔ “خیال تھا کہ اپنی اردو کتاب علم الاقتصاد بھی پیش کرتا افسوس ہے میرے پاس یہاں کوئی نسخہ موجود نہیں۔ ہندوستان سے اس کا حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں۔ اس ہفتے اس کے لیے لکھوں گا ۱۴۔۔۔”یعنی اقبال اصل مسودہ بجائے علم الاقتصاد کا مطبوعہ نسخہ پیش کرنا چاہتے تھے۔ عروجِ اقبال کے مصنف نے بھی اسی امکان کے پیشِ نظر اصل مسودہ کی پیش کش کو عطیہ بیگم کا اندازِ بیان قرار دیا ہے ۱۵۔ ویسے بھی یہ بات قرین قیاس نہیں کہ اقبال مطبوعہ کتاب کے نسخے ساتھ پہنچانے کی بجائے صرف مسودہ ساتھ گئے اور وہ عطیہ بیگم کو بطور تحفہ دے دیا۔ اگر عطیہ کے بیان کے مطابق آرنلڈ نے وہ مسودہ ان سے مانگ کر رکھ لیا تو وہ مسودہ کہاں گیا ؟ سعید اختر درانی سے ایوانِ اقبال میں ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۵ء کو ملاقات کے دوران یہی موضوع زیر بحث آیا تو انہیں بھی اس سلسلے میں مشکوک پایا۔ آرنلڈ کے ورثا مسودہ کی عدم دستیابی ظاہر کرتی ہے کہ یہ محض عطیہ بیگم کی داستان طرازی تھی۔ علم الاقتصاد کا سن اشاعت: علم الاقتصاد دسمبر ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ اورینٹل کالج کی سالانہ رپورٹ ۱۹۱۶ء ، ۱۹۰۲ء۔ ۱۹۰۱ء کے مندرجات کے مطابق۔۔ “شیخ محمد اقبال پولٹیکل اکانومی پر ایک نئی کتاب تیار کر رہے ہیں۱۶۔سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب کی تکمیل میں دو سے تین سال تک صرف ہوئے کیونکہ دسمبر ۱۹۰۴ء میں کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آ چکی تھی۔ چونکہ علم الاقتصاد کے تین ایڈیشن پر سن اشاعت درج نہیں اس لیے اس سلسلے میں ابہام پیدا ہونا فطری امر تھایہی وجہ ہے کہ اقبال کی اس تصنیف کے سن اشاعت کے سلسلے میں متضاد بیانات دیکھنے میں آتے ہیں اسے ۱۹۰۰ء سے لیکر ۱۹۰۵ء تک کے سالوں کی تصنیف قرار دیا جاتا ہے۔ ذیل میں علیحدہ علیحدہ فرق ظاہر کرتے ہیں کہ ممتاز اہلِ قلم اس تصنیف کو کس سال کی اشاعت قرار دیتے ہیں۔ ۱۹۰۰ء کو سال اشاعت قرار دینے والے مصنفین: ۱۔ عطا اللہ شیخ ، اقبالنامہ مجموعہ مکاتیب اقبال ، لاہور ، شیخ اشرف، ج دوم ،ص ۳۳۔ ۱۹۰۱ء کو سالِ اشاعت قرار دینے والے مصنفین: ۱۔ احمد میاں اختر قاضی جونا گڑھی ، اقبالیات کا تنقیدی جائزہ ، کراچی ، اقبال اکادمی ، ۱۹۵۵ئ، ص ۱۴۔ ۲۔ افتخار حسین شاہ سید ، اقبال اور پیروی شبلی، ص ۱۳۹۔ ۳۔ محمد حامد ، افکارِ اقبال ، ص ۲۳۴۔ ۱۹۰۳ء کو سالِ اشاعت قرار دینے والے مصنفین : ۱۔ افتخار احمد صدیقی ، عروجِ اقبال ، ص ۱۷۸۔ ۲۔ رفیع الدین ہاشمی ، کتابیاتِ اقبال، ص ۱۶۔ ۳۔ عبادت بریلوی ، ڈاکٹر ، اقبال کی اردو نثر ، ص ۷۳۔ ۴۔ فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر ، اقبال سب کے لیے ، ص ۳۸۔ ۵۔ محی الدین زور قادری ، ڈاکٹر ، شاد اقبال ، ص ۴۱۔ ۶۔ مرزا امجد علی بیگ ، ڈاکٹر ، مقالہ ، اقبال اور اقتصادیات مشمولہ نقوش اقبال نمبر ، ص ۳۶۲۔ ۱۹۰۴ء کو سالِ اشاعت قرار دینے والے مصنفین : ۱۔ جاوید اقبال ، ڈاکٹر ، زندہ رود ، ص ۸۷۔ ۲۔ رفیع الدین ہاشمی ، ڈاکٹر ، تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ، ص ۲۹۰۔ ۳۔ صدیق جاوید ، ڈاکٹر ، (علم الاقتصاد ، ایک عمرانی مطالعہ) ، انتخاب مقالات۔ اقبالیات، ص۸۱ ۴۔ غلام حسین ذوالفقار ، مطالعہ اقبال ، ص ۲۷۔ ۵۔ محمد ریاض ، ڈاکٹر ، جاوید نامہ تحقیق و توضیح ، ص ۱۰۔ ۱۹۰۵ء کو سالِ اشاعت قرار دینے والے مصنفین : ۱۔ الیاس برنی ، علم المعشیت، ص ۱۱۔ ۲۔ محمد احمد سبزواری ، رسالہ معاشیات اکتوبر ۱۹۵۳ء ، کراچی ، ص ۴۴۶۔ یہ تفصیلی معلومات فراہم کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ چونکہ اقبال نے خود اس تصنیف کو کوئی بہت اہمیت نہ دی اس لیے زیادہ تر معاصرین نے ابھی اس کتاب کو دیکھے بغیر اس پر تبصرہ کر دیا جس نے سرسری اندازہ سے دیکھا سرورق پر سال اشاعت درج نہ ہونے کی بنا پر اسے بھی قیافہ شناسی سے کام لینا پڑا شاید یہی وجہ ہے کہ اکثر مصنفین نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے تاریخ اشاعت کا ذکر ہی نہیں کیا۔ سال اشاعت درج نہ کرنے والے مصنفین : ۱۔ بشیر احمد ڈار ، انوار ِ اقبال، ص ۸۱۔ ۲۔ عبدالسلام خورشید ، ڈاکٹر ، سرگذشتِ اقبال ، ص ۴۴، ۴۳۔ ۳۔ عبدالسلام ندوی ، سید، اقبال کامل ، ص ۹۴۔ ۴۔ عبدالمجید سالک ، ذکر اقبال ، ص ۴۲۔ ۵۔ محمد الدین فوق، منشی ، تذکار اقبال ، ص ۸۵۔ ۶۔ نذیر نیازی ، سید، دانائے راز ، ص ۱۱۵۔ حالانکہ اگر علم الاقتصاد کی تاریخ اشاعت کا پتہ لگانے میں دلچسپی لی جاتی تو یہ ایسا کوئی مشکل امر نہ تھا جس دور میں اقبال گورنمنٹ کالج ، لاہور میں درس و تدریس کے مشاغل میں مصروف تھے اسی دور (۱۹۰۱ئ) میں شیخ عبدالقادر کا مائیہ ناز رسالہ “مخزن” جاری ہوا جو اپنے وقت کی مائیہ ناز ہستیوں کے شاہکار نظم و نثر کا متلاشی رہتا ، خصوصاً اقبال کے افکارِ نظم و نثر تو اس رسالے کے لیے فرمائش کر کے حاصل کیے جاتے تھے۔ اس دور کی کوئی نظم۔ غزل یا نثر پارہ ایسا نہیں جس کو مخزن میں جگہ نہ دی گئی ہو۔ اپریل ۱۹۰۴ء کے مخزن صفحہ نمبر ۵ پر علم الاقتصاد میں شامل آخری باب’آبادی‘ ایک مضمون کی حیثیت سے شامل کیا گیا اور خود شیخ عبدالقادر کے قلم سے علم الاقتصاد کے بارے میں تعارفی نوٹ بھی موجود ہے جس کے آخر میں صریح الفاظ میں ’کتاب زیر طبع ہے‘ کے الفاظ درج ہیں۔ اس کے بعد مئی سے اکتوبر تک کے مخزن میں اقبال کا کوئی نہ کوئی فن پارہ شامل رہا لیکن علم الاقتصاد کے بارے میں کچھ رقم نہیں کیا گیا۔ نومبر اور دسمبر کے شماروں میں اقبال کی کوئی تحریر شامل نہیں البتہ دسمبر ۱۹۰۴ء کے شمارے کے آخری صفحہ پر ایک اشتہار چھاپا گیا ہے جو ’علم الاقتصاد‘ کے چھپ کر تیار ہو جانے کا مژدہ دیتا ہے۔ اس تصریح کے بعد کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ علم الاقتصاد کا اسلوبِ بیان: علامہ کی پہلی تصنیف علم الاقتصاد ایک فنی کتاب ہونے کی وجہ سے ادبی چٹخاروں اور شوخیوں سے خالی ہے مگر اس فن پر اردو زبان میں پہلی کتاب ہونے کی وجہ سے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ یہ اپنے اندر نہ صرف معلومات کے اعتبار سے وسعت و ہمہ گیری رکھتی ہے بلکہ زبان و بیان اور اسلوب کے اعتبار سے بھی منفرد نظر آتی ہے کیونکہ جس زمانے میں یہ کتاب تصنیف کی گئی اس قسم کی نثر لکھنے کا رواج عام نہ تھا لیکن اس کتاب میں اقبال نے عام فہم ، آسان اور سادہ لیکن عملی زبان میں اقتصادیات کے تمام پہلوئوں کو بڑی روانی سے پیش کیا ہے۔۔۔ “اگرچہ ایسے موضوعات میں ادبیت تو پیدا نہیں ہو سکتی لیکن آسان اور عام فہم زبان میں اس قسم کے علمی موضوعات کو پیش کر دینا ہی ایک بہت بڑا علمی کارنامہ ہے اور اقبال نے یہ کارنامہ بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے ۱۷۔ ڈاکٹر خواجہ امجد سعید علم الاقتصاد کے اسلوبِ بیان کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔ Credit goes to Iqbal that he introduced the subjict in as simple language as possible.18 اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان و بیان کے اعتبار سے یہ کتاب بہت صاف ستھری ہے، معاشی مسائل بہت خوش اسلوبی سے اور بہت آسان زبان میں بیان کیے گئے ہیں کہیں کہیں جملوں کی تراش خراش میں ناپختگی نظر آتی ہے اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ ان دنوں اردو زبان میں معاشیات کے مسائل بیان کرنا آسان کام نہ تھا۔ بعض جگہوں پر ایسا اسلوبِ بیان اختیار کیا گیا ہے جو نامانوس معلوم ہوتا ہے مثلاً۔۔۔ تم جانتے ہو ص ۹۶۔۔۔ تم کو معلوم ہے کہ ص ۱۳۲۔۔۔ اس کی عدم اجراء ، ص ۱۳۹۔۔۔ اپنی بنک جاری کرتی ہے۔ ص ۱۴۰۔۔۔ بی بی کی خواہش فطری تقاضا ہے۔ ص ۲۱۳۔۔۔ آرام و آسائش کی مخل ، ص ۲۱۰۔۔۔ وغیرہ ، چند ایک معمولی خامیوں کے علاوہ۔ “علم الاقتصاد کا بیان بڑا سلجھا ہوا ، صاف اور سلیس ہے اور زبان سر تا سر علمی ۱۹۔۔۔ “حقائق علمی کی وضاحت کے لیے نہایت موزوں ، متین اور سنجیدہ اسلوبِ تحریر اختیار کیا گیا ہے لیکن علمی استدلال اور عقل اندازِ بحث کی شعوری کوشش کے باوجود کہیں کہیں ان کے درد مند دل کے جذبات ظاہر ہو جاتے ہیں “۲۰۔۔۔کتاب کا دیباچہ اس حقیقت کا واضع عکاس ہے۔۔۔” آیا مفلسی بھی نظم عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دُکھ سے آزاد ہو؟” جیسے فقرات اقبال کے جذباتِ قلبی کے عکاس ہیں۔ علم الاقتصاد کی کتابت و انداز تحریر اگرچہ خوبصورت ہے لیکن بہت سے الفاظ قدیم انداز میں لکھے گئے ہیں۔ اب یہ طرز املا متروک ہو چکا ہے مثلاً سعے ، پہونچ ، فلان ، تبادلی ، ابہی ، تھون وغیرہ۔ دیباچہ علم الاقتصاد کی اہمیت: جہاں علم الاقتصاد ایک خاص علمی مرتبے کی حامل ہے وہاں دیباچہ علم الاقتصاد بھی کئی وجوہ سے بہت اہم ہے یہ دیباچہ اقبال کے جذباتِ قلبی ، غربت و افلاس کو دور کرنے کے لیے ان کی دلی خواہش اور داخلی محرکات کی عکاسی بہت خوبصورتی سے کرتا ہے۔ درج ذیل حقائق اس دیباچہ کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں: ۱۔ اس میں معاشیات کی تعریف بیان کی گئی ہے۔ ۲۔ برصغیر کے لوگوں کے لیے اس کے مطالعے کی ضرورت کا احساس دلایا گیا ہے۔ ۳۔ انگریزی کتب کا براہِ راست ترجمہ یا چربہ نہ ہونے کی وضاحت کی گئی ہے۔ ۴۔ متین اندازِ تحریر جو انگریزی علمی کتابوں کا خاصا ہے کہ اختیار کرنے کا ذکر کیا ہے۔ ۵۔ اصطلاحات کے ماخذ بیان کیے ہیں۔ ۶۔ تصنیف کے محرک کا تذکرہ کیا ہے۔ ۷۔ شبلی کی اصلاح کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ۸۔ فضل حسین اور لالہ جیا رام کی کتب سے استفادہ کا اعتراف کیا ہے۔ عہد اقبال میں علم الاقتصاد کی علمی اہمیت: علم الاقتصاد کی علمی اہمیت میں سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ اقبال کی اوّلین کاوشِ علمی ہے اور دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ اردو میں پہلی مستند اور جامع کتابِ معاشیات ہے۔ علم الاقتصاد کے اوّلین علمی کاوش ہونے میں تو کس کو کلام ہے نہ شک لیکن اردو زبان میں پہلی کتابِ معاشیات ہونے پر متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ بے شمار کتب کے مطالعے سے ظاہر ہوا ہے کہ الیاس برنی، مشفق خواجہ اور رفیع الدین ہاشمی کے علاوہ تقریباً ہر ایک نے اقبال کی علم الاقتصاد کو “معاشیات” پر اردو میں پہلی کتاب، قرار دیا ہے۔ ’علم الاقتصاد‘ اردو میں معاشیات پر پہلی کتاب ہے۔ سطورِ ذیل اس بیان کی تصدیق کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اقبال نے ۱۹۰۰ء میں علم الاقتصاد کے نام سے اردو میں اکنامکس پر سب سے پہلے کتاب تیار کی۲۱۔ اقبال کے فکری رجحانات کا جائزہ ان کی بعض نثری تحریروں بالخصوص ان کی اوّلین تصنیف علم الاقتصاد کے حوالے کے بغیر نا مکمل رہے گا ۲۲۔ علم الاقتصاد اقبال کی پہلی نثری تالیف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے ۲۳۔ ان کی سب سے پہلی کتاب جو شائع ہوئی وہ نثر میں علم الاقتصاد پر ہے اور اس موضوع پر اردو میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے ۲۴۔ علامہ نے یہ کتاب ۱۹۰۱ء میں تحریر کی اس وقت تک اس میدان میں کسی مسلمان معیشت دان نے کام نہیں کیا تھا اس کے بعد لکھی جانے والی کتب الیاس برنی کی علم المعیشت تھی جو انجمن ترقی اردو کی جانب سے ۱۹۱۶ ء میں چھپی اس طرح علامہ کو اردو زبان میں معاشیات پر سب سے پہلا مصنف قرار دیا جا سکتا ہے۲۵۔ علامہ ممدوح نے سب سے پہلے اردو زبان میں علم الاقتصاد کے نام سے ایک کتاب لکھی جو آج کل نایاب ہے ۲۶ ڈاکٹر خواجہ امجد سعید نے بھی اردو لٹریچر کی ہسٹری میں پہلی بار معاشی اصطلاحات کو اردو میں پیش کرنے کا سہرا اقبال کے سر باندھا ہے۲۷۔ علم الاقتصاد معاشیات کے موضوع پر اقبال کی پہلی تصنیف ہے اور اتفاق سے اردو میں اس مضمون کی پہلی کتاب بھی ہے ۲۸۔ یہ اور اس قسم کے بے شمار بیانات نظر سے گزرتے ہیں جن میں علم الاقتصاد کو اردو زبان میں اکنامکس پر پہلی کتاب قرار دیا جاتا ہے لیکن جدید ترین تحقیق کے مطابق یہ بیان درست نہیں۔ ترجمے کی شکل میں معاشیات کو سب سے پہلے اردو زبان میں پیش کرنے کا سہرا پنڈت دھرم نارائن کے سر بندھتا ہے جنھوں نے دہلی کالج کے سینئر سکالر کی حیثیت سے فرانس وے لینڈ کی کتاب Elements of Political Economy کا اردو ترجمہ “اصول علم انتظام مدن “۲۹ کے نام سے کیا۔ یہ کتاب ۱۸۴۵ء میں دہلی کالج کی زیر سرپرستی چھپی۔ جبکہ طبفراد کتاب کی شکل میں علم معاشیات پر پہلی تصنیف بنامم “رسالہ علم انتظام مدن” محمد منصور شاہ خاں اور محمد سعود شاہ خاں نے لکھی۳۰۔ اگلے صفحہ پر ایک گراف دیا جا رہا ہے جو علم الاقتصاد سے قبل شائع شدہ تراجم و کتب کے بارے میں تفصیلات مہیا کرتا ہے۔ اس گوشوارے کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذکورہ تمام کتب کم و بیش تراجم ہی شمار ہوتے ہیں بنظر غائر دیکھا جائے تو علم الاقتصاد ہی پہلی مستند اور جامع کتب کی حیثیت سے منظر عام پر آئی اور اس کے ۱۲ سال بعد علم المعیشت شائع ہوئی۔ اس کی تصدیق خود اقبال کے بیان سے ہوتی ہے۔کشن پرشاد کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔۔۔ “تصنیف و تالیف کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ علم الاقتصاد پر سب سے پہلی مستند ٭کتاب میں نے لکھی ہے” ۳۱۔مشفق خواجہ نے بھی جہاں علم الاقتصاد کے اردو میں پہلی کتاب ہونے کی تردید کی ہے وہاں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ۔۔۔ “ یہ درست ہے کہ یہ پہلی معیاری اور جامع کتاب ہے “۳۲۔اس لحاظ سے علم الاقتصاد اس زمانے کی بے حد اہمیت کی حامل کتب شمار ہوتی ہے جو اس حقیقت کی واضح طور پر عکاس ہے کہ اقبال کے ذہن میں شروع ہی سے اہل وطن خصوصاً مسلمانوں کی معاشی خوشحالی کی آرزو موجزن تھی۔ علم الاقتصاد ۱۹۰۷ء تک مارکیٹ میں دستیاب تھی۳۳۔ علم الاقتصاد سے پہلے اردو میں علم معاشیات پر چھپنے والے تراجم و کتب : نام کتاب نام مصنف نام مترجم ترجمہ شدہ کتاب کا نام ناشر سن اشاعت Element of Political Economy فرانسس وے لینڈ پنڈت دھرم نارائن اصول علم انتظامِ مدن انجمن اشاعت علوم بذریعہ السنۂ ملکی ۱۸۴۵ء تین چار کتب سے استفادہ کیا ہے Political Economy جمیس سٹوارٹ مل ۱٭ محمد منصور شاہ خاں محمد مسعود شاہ خاں رسالہ علم انتظامِ مدن مطبع مرتضوی دہلی ماقبل۱۸۵۷ء Political Economy این ولیم سینیئر بابو رام کلی چوہدری رائے شنکر داس رسالہ علم انتظامِ مدن سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۸۶۵ء Political Economy جمیس سٹوارٹ مل پنڈت دھرم نارائن اصول سیاست مدن سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ ۱۸۶۹ء کتاب کا نام نہیں دیا ۲٭ جان پارک لیڈلی مترجم کا نام نامعلوم دستور المعاش گورنمنٹ پریس الٰہ آباد ۱۸۷۳ء Primer of Political Economy پروفیسر جیونس شمس العلما مولوی ذکا اللہ صاحب کیمیائے دولت مطبع مجتبائی دہلی ۱۹۰۰ء یہ گوشوارہ ظاہرکرتا ہے کہ سوائے نمبر ۲ کتاب “رسالہ علم انتظام مدن” کے باقی تمام کتب انگریزی کتابوں کا براہ راست ترجمہ ہیں۔ صرف نمبر ۲ کتاب ہی کسی حد تک آزادانہ غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ یعنی علم الاقتصاد سے پہلے ترجمہ کے علاوہ کوئی خاص قابلِ ذکر کام نہیں ہوا کیونکہ “رسالہ علم انتظام مدن” کو بھی زیادہ ترجمے ایس مل کی کتاب کا بلاواسطہ ترجمہ کہہ سکتے ہیں۳۴۔ علم الاقتصاد کی اہمیت خود اقبال کی نظر میں : اقبال نے اپنی اس تصنیف کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی حتیٰ کہ باقی کتب کی اشاعت ان کی زندگی میں ہی ایک سے زیادہ مرتبہ ہوئی لیکن اقبال نے علم الاقتصاد کو ۱۹۰۴ء کے بعد دوبارہ شائع کرانے کی زحمت نہ کی۔ خود اقبال نے بھی صرف دو ہی جگہ اس کا تذکرہ کیا ہے۔۔۔ ایک بار سر کشن پرشاد کے نام خط میں۔۔۔ (جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال اپنی اس تصنیف کے مستند ہونے پر فخر محسوس کرتے تھے۳۵) اور دوسری بار عطیہ بیگم کے نام خط ۳۶ میں اس کا ایک نسخہ بھیجنے کے خیال کا ذکر کیا ہے۔۔۔ “بعد میں اقبال نے خود بھی اس کتاب کو لائق اعتنا نہ سمجھا ، بلکہ بحیثیت علم وہ علم اقتصادیات پر بھی کوئی خاص توجہ نہ سے سکے” ۳۷۔ اقبال کی تشکیل میں علم الاقتصاد کا کردار: اس تصنیف سے جہاں اقبال کے ذہن و فکر کے حقیقت پسندانہ رجحان کا ثبوت ملتا ہے وہاں یہ سراغ بھی ملتا ہے کہ “خضر راہ “ کا انقلابی پیغام روس کے اشتراکی انقلاب کی صدائے بازگشت نہیںبلکہ اقبال کے قلب و ذہن میں اس انقلابی پیغام کے محرکات ابتدا ہی سے کار فرما تھے۳۸ اور علم الاقتصاد ان محرکات کا منہ بولتا ثبوت ہے فکر اقبال کے ارتقائی عمل کے بنظر غائر مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ابتدائی کتاب میں اقبال نے جو خیالات پیش کیے وہی افکار پختہ تر ہو کر فکر اقبال میں ڈھلے اور فلسفہ اقبال کے مہتم بالشان موضوع قرار پائے۔ جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۳۹ پیغام اسی درد مند دل کی پکار ہے جس کی دلی تمنا رہی ہے کہ۔۔۔ “ ایک درد مند دل کو ہلا دینے والے افلاس کا درد ناک نظارہ ہمیشہ کے لیے مضحۂ عالم سے حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے”۴۰۔۔۔ اس کتاب میں اقبال نے جو نظریات پیش کیے ہیں وہ ان کے فکر و فن کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہیں۔ معاشی مسائل سے اقبال کی یہ دلچسپی ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے فکر و فن کو زیادہ بہتر سے سمجھا جا سکتا ہے۔ بال جبریل “خدا کے حضور میں” کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تیری منتظر روز مکافات۴۱ ضرب کلیم میں تری کتابوں میں اے کلیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوط خم دار کی نمائش ، مریزد کج دار کی نمائش۴۲ مثنوی پس چہ باید کرد میں شیوہ تہذیب نو آدم دری است پردہ آدم دری سوداگری است۴۳ پیام مشرق میں بدوشِ زمیں بار سرمایہ دار ندارد گزشت از خور و خواب کار۴۴ کیا ان تمام اشعار میں علم الاقتصاد کے نظریات کی جھلک نظر نہیں آتی ؟ ۱۹۰۴ء میں علم الاقتصاد میں اقبال نے کہا “کمی اجرت کا بہترین نسخہ قومی تعلیم ہے” اور آگے چل کر زبانِ شعر میں کہا : بہ پور خویش دین و دانش آموز کہ تابد چوں مہ و انجم نگینش بدست ادا گر داری ہنر را یہ بیضاست اندر آستینش ہر دو مضامین کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ بنیاد علم الاقتصاد میں رکھ دی گئی تھی آگے چل کر صرف تشریح کی گئی۔مسلمانوں کے افلاس و زبوں حالی کا شدید احساس ہی نالۂ یتیم اور شکوہ جیسی معرکۃ الآرا نظموں کی تخلیق کا باعث بنا۔ علم الاقتصاد کی موجودہ اہمیت: علم معاشیات میں عصر اقبال سے لیکر اب تک جو گردانقدر اضافے ہوئے، انداز بحث اور نقطۂ نظر جس طرح بدلا اور بدلتا چلا جا رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے علم الاقتصاد کی موجودہ اہمیت اگرچہ کہنے کو صرف تاریخی ہے لیکن اس کے باوجود “علامہ کی صحتِ فکر کے موضوع پر گرفت کے ساتھ ساتھ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ’معاشیات کی حقیقی اہمیت‘ اور بنیادی نوعیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے جن مقالات کا اظہار کیا ہے ان کی صحت آج بھی مسلم ہے تو اس کی قدر و قیمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے”۴۵۔اقبال کے نظریات کا مقابلہ جدید نظریات سے کیا جائے تو بہت سے نظریات کی اہمیت آج بھی جوں کی توں نظر آئے گی مثلاً۔ “مقابلۂ کابل دستکار کا محافظ ہے”۴۶۔ “ہر بے روز گار دستکار کا حق ہے کہ سرکار اسے روز گار دے “۴۷۔ “۔۔۔ ضرور ہے کہ افزائش آبادی کے خوفناک نتائج ہمارے آرام و آسائش کے محل ہو اور ہمیں اس فراغت سے محروم کر دیں جو بصورت کمی آبادی ہم کو حاصل ہوتی”۴۸۔ زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ورنہ بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جو اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس لیے اگرچہ معاشی نظریات اور اصولوں میں اتنی پیش رفت ہو چکی ہے کہ علم الاقتصاد کا علمی مرتبہ جدید کتب کے مقابلے میں لائقِ اعتنا نہیں اور یہی یہ دورِ جدید کے قاری کے لیے سود مند ہے اس کے باوجود اقبال کی اوّلین تصنیف کے طور پر یہ ہمیشہ اہم رہے گی۔۔ “معاشی انصاف کی اصطلاح اگرچہ بہت بعد کی بات ہے لیکن اس کے تخیل کی بنیاد اس کتاب میں موجود ہے یہی وجہ ہے کہ علم الاقتصاد آج بھی تاریخی اہمیت کی حامل کتاب ہے۔چونکہ اقبال کے ذہنی ارتقا کو سمجھنے میں بڑی مدد دیتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرق کے ایک عظیم ذہن میں مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا احساس اتنا جدید تھا کہ اس کی بنیاد پر ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا تصور ابھر کر سامنے آیا۔ نیز انھوں نے اقتصادی عمل کو فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ کرنے پر زور دیا۴۹۔ مضامین علم الاقتصاد کا مختصر خاکہ : کتاب علم الاقتصاد پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اوّل میں صرف ایک باب ہے۔”علم الاقتصاد کی ماہیت اور طریقِ تحقیق”۔ حصہ دوم میں چار ابواب ہیں۔ زمین ، محنت ، سرمایہ اور پیدائش دولت کے لحاظ سے قابلیت۔ حصہ سوم میں تبادلۂ دولت کے چھ ابواب مسئلہ قدر ، تجارت بین الاقوام ، زر نقد کی ماہیت اور قدر ، حق الضرب پر کاغذی اور اعتبار کی ماہیت پر بحث کی گئی ہے۔ حصہ چہارم پیداوارِ دولت کے حصہ دار کے ذیل میں لگان ، سود ، منافع اجرت، دستکاری کی دولت پرنامکمل مقابلہ کا اثر او رمالگزاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔ حصہ پنجم میں تین ابواب آبادی وجہ معیشت ، جدید ضروریات کی افزائش اور صرفِ دولت کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ مضامین الاقتصاد میں دیگر تصانیف سے استفادہ : اقبال نے علم الاقتصاد میں عموماً مصنفین کا نام لیے بغیر ’ایک محقق کہتا ہے‘۔۔ ’ایک مصنف کا خیال ہے‘۔۔ کے انداز میں بات کی ہے اور سوائے تھامس مالتھس کی کتاب کے اور کسی کتاب کا نام بطور حوالہ درج نہیں کیا اس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ جس دور میں اقبال نے یہ کتاب لکھی ہندوستانی عوام کی علمی حیثیت کے پیش نظر حوالہ جات کی ضرورت محسوس نہ کی۔ علم الاقتصاد کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال نے دورانِ تصنیف مندرجہ ذیل کتب کو پیش نظر رکھا ہے اور جگہ جگہ ان سے مدد لی ہے۔ 1- Marshall, Alfred: Prinicples of Economics 2- Mill, J. S. : Prinicples of Political Economy 3- Ricardo. David: Prinicples of Political Economy and Taxation 4- Smith, Adam : Wealth of Nations 5- Malthus, Thomas: An Essay on the Principles of Population 6- Walker, F. A. : Political Economy “جس کتاب سے اقبال نے سب سے زیادہ فائدہ سے استفادہ کیا۔ وہ الفرڈ مارشل کی پرنسپلز آف اکنامکس ہے”۵۰۔اس میں کہیں کہیں انیسویں صدی کے مشہور امریکی ماہر اقتصادیات فرانسس واکر اور تھامس مالتھس کے خیالات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۵۱۔ چونکہ اقبال نے خود اعتراف کیا ہے کہ “اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کیے گئے ہیں”۵۲۔ اس لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہو گا کہ انھوں نے مارشل سے بھی استفادہ کیا ہے ۵۳۔ ویسے بھی ابتدائی ابواب کے کئی پیراگراف مارشل کی کتاب ’اصول معاشیات‘ کا بلاواسطہ ترجمہ معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے اقبال نے واکر ، سمتھ، ریکارڈو ، مارشل مل، مالتھس وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے اس لیے یہ بات طے ہے کہ ان تمام مصنفین سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ کارل مارکس کا نام واضح طور پر تو نہیں لیا گیا لیکن اقبال کے کئی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے کارل مارکس سے بھی استفادہ کیا ہے۔ مثلاً۔ “بعض محققین نے بڑے زور و شور سے ثابت کیا ہے کہ یہ سب ناانصافی شخصی جائیداد سے پیدا ہوتی ہے”۵۴۔ اس کے علاوہ بقول انور اقبال قریشی کتاب میں ٹاوسگ سے استفادہ کی جھلک بھی نظر آتی ہے۵۵۔ اور سپنسر سے استفادہ تو مسلم ہے کیونکہ اقبال نے اس استفادہ کا تحریری ثبوت علم الاقتصاد میں یہ کہہ کر پیش کر دیا ہے۔ “ محقق سپنسر (Spencer) نے حکیم مالتھس کے اصولِ آبادی پر ایک نہایت دلچسپ بحث کی ہے۵۶۔ مصنفین جن کا ذکر اشازۃً کیا گیا ہے: علم الاقتصاد میں ۲۸ مختلف مقامات پر ماہرین معاشیات کا ذکر اشارۃً کیا گیا ہے نام نہیں لیا گیا لیکن قرائن سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کن محققین کا ذکر کیا جا رہا ہے مثلاً ص ۲۱ پر۔۔۔ “ایک محقق جو ان حکماء کے طبقۂ موخر میں داخل ہے کہتا ہے کہ علم الاقتصاد کے ماہرین کے فرائض درج ذیل ہیں… یہاں محقق سے مراد جے این کنیز ہے۔ ص ۴۲ پر …”ایک مشہور انگریزی مصنف لکھتا ہے کہ علم الاقتصاد کے اصول و نتائج انسان کے ذاتی تاثرات کے صریح مخالف ہیں”۔۔۔ غالباً مشہور انگریزی مصنف سے مراد رابنز ہے۔ ص ۱۵۶ … “بعض محققین نے بڑے زور و شور سے ثابت کیا ہے کہ یہ سب بے انصافی شخصی جائیداد سے پیدا ہوتی ہے”۔۔۔ یہاں محققین سے مراد کارل مارکس اور اس کے ساتھی ماینکل اور دیگر اشتراکی مفکر ہیں۔ ص ۱۸۶… “ایک مصنف لکھتا ہے کہ تمام اشیاء نقل مکانی کر سکتی ہیں مگر انسان ایک ایسی چیز ہے جو بڑی مشکل سے ایک مقام سے دوسرے مقام تک حرکت کرتا ہے”۔۔۔ یہاں مصنف سے مراد ایڈم سمتھ ہے۔ ص ۲۱۴ … “انگریزی محققین کے نزدیک جہاں تک ممکن ہو سامانِ معیشت ارزاں نہ ہونا چاہیے”۔۔۔ یہاں حکیم تھامس مالتھس کی طرف اشارہ ہے۔ نو مصنفین جن کا بالصراحت ذکر کیا گیا : ۲۶ مقامات پر مصنفین کاذکر نام لے کر کیا گیا ہے۔ نمبر شمار نام مصنف جتنی بار ذکر کیا گیا صفحہ نمبر مذکورہ جملہ ۱۔ ایڈم سمتھ دو دفعہ ۱۴ “اس مغالطہ کو پہلے ایڈیم سمتھ صاحب نے ظاہر کیا “ ۸۰ “بعض حکماء ریکارڈو ، سمتھ ، مل وغیرہ” (مشترکہ ذکر) ۲۔ واکر پانچ جگہ ۱۶۸ “منافع کی مزید توضیح کے لیے محقق واکر لکھتا ہے” ۱۷۹ “امریکہ کے مشہور محقق واکر اس مسئلہ کی نہایت زور سے تردید کرتے ہیں” ۱۸۱ “محقق واکر کے نزدیک اجرت کی بحث لگان سود اور منافع کی بحث کے بعد آتی ہے”۔ ۲۰۲ “محقق واکر کے نزدیک انسانی قبائل کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے “ ۲۰۳ “محقق واکر کہتا ہے کہ انسان کی بقا و فنا کی صورت میں یہ قانون کامل طور پر عمل نہیں کر سکتا”۔ ۳۔ مالتھس ۹ دفعہ ۲۰۵ “حکیم مالتھس اپنے مضمون موسوم بہ آبادی میں یہ اصول دریافت کرتا ہے” ۲۰۵ “مرد عورت کا ایک جوڑا حکیم مالتھس کے نزدیک بالعموم چار بچے پیدا کرتا ہے” ۲۰۶ “حکیم مالتھس کے اصول آبادی پر ایک نہایت دلچسپ بحث کی ہے”۔ ۲۰۷ “حکیم مالتھس کے نزدیک افلاس اور دیگر برائیوں کا اصل منبع آبادی کا اندازے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے” ۲۰۹ “مندرجہ بالا خیالات اوّل اوّل حکیم مالتھس نے ظاہر کیے”۔ ۲۰۹ “حکیم مالتھس ان موانع کا ذکر تا ہے” ۲۱۱ “حکیم مالتھس کے نزدیک آبادی انسان کی ترقی کو روکنے کے وسائل دوقسم کے ہیں” ۲۱۴ “حکیم مالتھس کے مسائل کی رو سے اشیاء خوردنی کی ارزانی افزائش آبادی کے خوفناک نتائج کی طرف سے انسان کو اندھا کر دیتی ہے” ۲۱۵ “حکیم مالتھس کے مسائل کا نتیجہ صحیح ہے” ۴۔ سپنسر ا بار ۲۰۶ “محقق سپنسر نے حکیم مالتھس کے اصولِ آبادی پر ایک نہایت دلچسپ بحث کی ہے” ۵۔ ریکارڈو ۲ دفعہ ۸۰ “بعض حکماء ریکارڈو ، سمتھ ، مل وغیرہ کہتے ہیں” ۸۰ “اور ریکارڈو کا اصول صحیح معلوم ہو گا” ۶۔ جے ایس مل ۴ دفعہ ۶۸ “محقق مل ایک قانون وضع کرتا ہے کہ سرمایہ جمع کرنے کی خواہش شرح سود کے ساتھ نسبت مستقیم رکھتی ہے”۔ ۶۸ “یاد رکھناچاہیے کہ مل کا یہ قانون کامل طور پر صحیح نہیں” ۸۰ “بعض حکماء ریکارڈو ، سمتھ، مل وغیرہ کہتے ہیں” ۱۱۴ “مل صاحب نے اس اصطلاح کے سمجھنے میں ایک غلطی کھائی ہے” ۷۔ مارشل ۱ بار ۹۰ “محقق مارشل فرماتے ہیں کہ جن پیشوں میں سرمایہ قائم کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے اس میں اشیا کی قیمتیں بہت تفیر پذیر ہوتی ہیں” ۸۔ دت صاحب ۱ بار ۱۹۵ ’دت صاحب جنہوں نے حال ہی میں سرکار ہند کے ساتھ اس اہم موضوع پر خط و کتابت کی ہے” ۹۔ گریشم ۱ بار ۱۲۰ “اسی صداقت کو گریشم صاحب ایک اقتصادی اصول کی صورت میں یوں پیش کرتے ہیں” علم الاقتصاد کے مختلف ایڈیشنوں کا موازنہ : طبع اشاعت تعداد تقطیع : س م مسطر خوش نویس ضخامت اوّل ۱۹۰۴ء در ج نہیں ۲۰×۲؍۱ ۳ ۲۱ سطری درج نہیں ۲+۲۱۶ اعلان حقوق اشاعت مطبع ناشر ملنے کا پتہ قیمت درج نہیں خادم التعلیم سٹیم پریس ، لاہور شیخ محمد اقبال مصنف کتاب ایک روپیہ طبع اوّل ۱۹۰۴ء کی اہم خصوصیات : علم الاقتصاد کے اوّلین ایڈیشن پر توضیحی نوٹ ص پر “علم الاقتصاد کا علمی اور فنی تعارف “ اور ص پر “مضامین علم الاقتصاد کا مختصر خاکہ “ کے عنوانات سے دیئے جا چکے ہیں اس کے علاوہ پہلے ایڈیشن کی چیدہ چیدہ خصوصیات درج ذیل ہیں۔ ۱۔ طبع اوّل میں ص ۴ پر عنوان “دیباچہ مصنف “ رقم ہے۔ ۲۔ ہر باب کے آخر میں بطور اختتامیہ۔۔۔۔۔ یہ نشان بنایا گیا ہے۔ ۳۔ اہم امور کی توضیح کے لیے مصنف نے خود بھی حاشیہ جات تحریر کیے ہیں مثلا ص ۱۲ ،۱۴، ۱۶،۵۱ ، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۴۰، ۱۹۵ ، ۲۰۵ وغیرہ پر ۴۔ فہرست ابواب میں ہر جگہ دوم اور سوم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں البتہ ص ۷۱ پر حصہ سوئم اور ص ۱۰۹ ہر باب سوئم جبکہ ص ۲۰۹ ہرباب دوئم کے الفاظ رقم ہیں۔ ص ۱۷۳ پر غلطی سے باب چہارم کی بجائے باب پنجم لکھ دیا گیا ہے جبکہ اصل میں باب پنجم ص ۱۸۵ سے شروع ہوتا ہے جس کا عنوان ہے “مقابلہ نا کامل دستکاروں کی حالت پر کیا اثر کرتا ہے”۔ ۵۔ املا قدیم طرز کا ہے اور اہم فقرات خط کشیدہ ہیں۔ طبع اشاعت تعداد تقلیع : س م مسطر خوش نویس ضخامت دوم ۱۹۶۱ء درج نہیں ۲۲×۱۴ ۲۶ سطری ٹائپ ۶+۲۲۲ اعلان حقوق اشاعت مطبع ناشر ملنے کا پتہ قیمت درج نہیں فیروز سنزلمیٹڈ، لاہور اقبال اکادمی پاکستان درج نہیں طبع دوم ۱۹۶۱ء کی اہم خصوصیات: پہلی اشاعت کے ستاون سال بعد ، اقبال اکادمی پاکستان، کراچی نے “علم الاقتصاد” کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا۔ اس پر سال طباعت درج نہیں مگر ممتاز حسن کے پیش لفظ کی تاریخ (۱۰ جون۱۹۶۱ئ) سے اس کا سال اشاعت متعین کرنا مشکل نہیں ہے۔ سرورق اور اس کی پشت کا صفحہ شمار نہیں لایا گیا۔ فہرست ، صفحات الف ، ب ، ج پر درج ہے۔ صفحہ د خالی ہے۔ پیش لفظ ( از ممتاز حسن ص ۱ تا ۱۰) مقدمہ (از انور اقبال قریشی ص ۱۱ تا ۱۹ ) پیش کش (انتساب اور مصنف ، ص ۲۱) اور دیباچہ (از مصنف ، ص ۲۳ تا ۲۶) کے بعد متن کتان سے صفحات کا از سر نو شمار ہوتا ہے۔ دوسرے ایڈیشن کی سب سے اہم بات۔ طبع اوّل کے متن کی تصحیح ہے۔ جو مجلہ “اقبال ریویو” کے مدیر معاون جناب خورشدی احمد صاحب کی کوششوں کی مرہونِ منت ہے”۵۷۔ ۱۔ مضامین کتاب کو پانچ حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ صرف ایک باب پر مشتمل ہے۔حصہ دوم میں چار ابواب ہیں۔ حصہ سوئم میں چھ ابواب اور حصہ چہارم میں بھی چھ ابواب شامل ہیں جبکہ حصہ پنجم صرف تین ابواب پر مشتمل ہے۔ ۲۔ کتاب کے آخر میں دس صفحات پر مشتمل ضمیمے میں کتاب میں استعمال شدہ اردو معاشی اصطلاحات کا انگلش ترجمہ دیا گیا ہے۔ ۳۔ حاشیے میں مختصراً معاشیات کی بعض اصطلاحات کی تشریح اور انگریزی مترادفات رقم کیے گئے ہیں۔ ۴۔ کتابت کی اغلاط کی تصریح بھی حاشیے میں کی گئی ہے۔ ۵۔ متن میں بہت سے تصرفات بغیر کسی تصریح کے کئے گئے ہیں۔ ۶۔ طبع اوّل میں اہم جملوں کو نمایاں کرنے کے لیے ان کے نیچے خط کھینچ دیا گیا ہے لیکن طبع دوم میں اس کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ ۷۔ طبع اوّل میں لفظ “دیباچہ” استعمال کیا گیا ہے جبکہ طبع دوم میں اسے “دیباچہ “ لکھا گیا ہے۔ ۸۔ فہرست ابواب طبع اوّل میںدوم اور سوم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں صرف ایک جگہ سہواً دوئم اور دو جگہ سوئم لکھا گیا ہے۔ جبکہ طبع دوم میں ہر جگہ دوئم اور سوئم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ ۹۔ آخری صفحے پر مطبوعہ فیروز سنز رقم ہے ورنہ کتاب کے ابتدائی صفحات پر مطبع کا نام نہیں لکھا گیا۔ طبع اشاعت تعداد تقطیع َ:س م مسطر خوش نویس ضخامت سوم ۱۹۷۷ء ۱۱۰۰ ۲۲×۲؍۱ ۱۳ ۱۹ سطری درج نہیں ۲۷۲ اعلان حقوق اشاعت مطبع ناشر ملنے کا پتہ قیمت جملہ حقوق محفوظ طفیل آرٹ پرنٹرز سرکلر روڈ، لاہور اقبال اکادمی پاکستان ۲۰ روپے طبع سوم ۱۹۷۷ء کی خصوصیات: ترتیب کے لحاظ سے یہ علم الاقتصاد کا تیسرا ایڈیشن ہے لیکن اس پر بار اوّل ۱۹۷۷ء کے الفاظ درج ہیں اس غلطی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی اگر اقبال کی زندگی میں شائع ہونے والے ایڈیشن کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو خود اقبال اکیڈمی اسے پہلی بار جون ۱۹۶۱ء میں شائع کر چکی تھی۔ اس ایڈیشن میں رسم الخط تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ ایڈیشن خط نسخ کی بجائے خط نستعلیق میں رقم کیا گیا ہے۔ اس ایڈیشن میں حواشی اور متن دونوں ایک ہی قلم سے رقم کیے گئے ہیں جبکہ پہلے ایڈیشن میں حواشی کا قلم متن کی نسبت باریک ہے فہرست میں ہر حصے کے عنوانات کے ساتھ باب اوّل۔ باب دوئم۔ باب سوئم کے الفاظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نیز شروع سے آخر تک تمام عنوانات نمبر مسلسل شمار کیے گئے ہیں۔ جبکہ پہلے ایڈیشنوں میں ایسا نہیں ہے۔ طبع اشاعت تعداد تقطیع : س م مسطر خوش نویس ضخامت چہارم ۱۹۹۱ء ۱۱۰۰ ۲۲×۲؍۱۳۱ ۱۹ سطری درج نہیں ۲۷۲ اعلان حقوق اشاعت مطبع ناشر ملنے کا پتہ قیمت درج نہیں طفیل آرٹ پرنٹرز،۱۸۷ سرکلرروڈ ، لاہور آئینہ ادب،چوک مینار انار کلی،لاہور ۶۰ روپے طبع چہارم ۱۹۹۱ء کی خصوصیات: ۱۔ ترتیب کے لحاظ سے یہ علم الاقتصاد کا چوتھا ایڈیشن ہے لیکن اس پر بار دوم ۱۹۹۱ء درج ہے۔غالباً ۱۹۷۷ء کے ایڈیشن کو بار اوّل قرار دینے کی مناسبت سے لکھا گیاہے۔ ۲۔ اس کتاب کے شروع کا ایک ورق خالی ہے۔ دوسرے ورق کے ایک صفحے پر صرف “علم الاقتصاد” کے الفاظ رقم ہیں باقی پورا صفحہ خالی ہے اگلے صفحے پر ’اچھی کتاب کا نکھار ہمیشہ قائم رہتا ہے “ کے الفاظ دائیں سے بائیں کی بجائے اوپر سے نیچے کی جانب لکھے گئے ہیں تیسرے ورق کو ہم اس ایڈیشن کا سرورق کہہ سکتے ہیں۔ ۳۔ فہرست مضامین میں ترتیب بعینہٖ ۱۹۷۷ء کے ایڈیشن والی ہے یعنی پیش لفظ سے ضمیمے تک تمام عنوانات کو مسلسل شمار کرتے ہوئے ایک سے پچیس تک نمبر شمار کیے گئے ہیں۔ ۴۔ یہ کتاب بھی خط نستعلیق میں ہے۔ طباعت کی غلطیاں کہیں کہیں نظر آتی ہیں مثلاً ص ۱۳۴ پر بین الممالک کو ’بین المالک‘ اور ص ۲۵۶ پر نوع انسان کو ’نوحِ انسان‘ لکھا گیا ہے۔ ۵۔ حاشیہ جات سب کے سب ۱۹۶۱ء اور ۱۹۷۷ء کے ایڈیشنوں والے ہیں۔ اس لیے ان میں کوئی قابلِ ذکر بات نہیں۔ ایک دو جگہ پر حاشیہ جات میں بھی غلطی کی گئی ہے مثلاً ص ۱۱۵ کے حاشیے میں اصل نسخے میں ’اس ‘ لکھنے کا ذکر ص ۱۹۷ کے حاشیہ میں ’دھات‘ کی املا والا بیان وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پہلا ایڈیشن (۱۹۰۴ئ) اور آخری ایڈیشن (۱۹۹۱ئ) کے متنوں کا تقابلی موازنہ نمبرشمار صفحہ نمبر پہلا ایڈیشن ۱۹۰۴ء مذکورہ فقرہ صفحہ نمبر آخری ایڈیشن تبدیل شدہ فقرہ ۱ ۴ اصول مذہب بھی انتہا درجہ کا موثر ثابت ہوا ہے ۳۰ اصول مذہب بھی بے انتہا موثر ثابت ہوا ہے۔ ۲ ۹ اوّل تو یہ کہہ سکتے ہیں ۳۸ اوّل تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔ ۳ ۹ اس کے علاوہ یہ کہا جا سکتا ہے ۳۸ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ۴ ۹ ہم نے لفظ دولت کا استعمال کئی جگہ کیا ہے ۳۹ ہم نے لفظ دولت کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ ۵ ۱۰ مطلوب یا وہ تمام اشیا۔۔۔۔ ۳۹ مطلوب اشیاء یا وہ تمام اشیا۔۔ ۶ ۱۰ اپنے کاموں کو سر انجام کرتا ہے ۴۰ اپنے کاموں کو سر انجام دیتا ہے ۷ ۱۷ فطری قوائے جن کو انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ قدر کہتے ہیں؟ ۵۰؍۴۹ فطری قویٰ کو جنہیں انسان کے ذاتی اوصاف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے حامل قدر کہا جا سکتا ہے؟ ۸ ۲۲ تمام استدلات جو اس اصول پر مبنی سمجھے جائیں گے غلط ہوں گے ۵۴ تمام استدلات جو اس اصول پر مبنی ہوں گے غلط سمجھے جائیں گے۔ ۹ ۲۲ اس سے ایک صدی پہلے ہندوستان میں یہ بات بہت مشکل تھی ۵۵ کہ اب سے ایک صدی پہلے ہندوستان میں یہ بات مشکل تھی ۱۰ ۳۳ تو قینچیوں کی قیمت پر کچھ اثر نہ ہو گا ۶۸ تو قینچیوں کی قیمت پر زیادہ اثر نہ ہوگا ۱۱ ۴۷ جس کے پیدا کرنے کی خصوصیت کے ساتھ اسے قابلیت ہے ۸۲ جس کے پیدا کرنے کی قابلیت اسے خصوصیت کے ساتھ حاصل ہے ۱۲ ۵۷ پیدائش دولت کے لحاظ سے کسی قوم کی قابلیت ۹۲ کسی قوم کی قابلیت پیدائش دولت کے لحاظ سے ۱۳ ۵۸ خاص پیشہ بڑی جانفشانی اور روپیہ خرچ کر کے سیکھا ہے ۹۴ خاص پیشہ بڑی جانفشانی سے اور روپیہ خرچ کر کے سیکھا ہے ۱۴ ۵۹ مالک یا کارخاندار کا وجود۔۔۔ ۹۴ مالک یا کار خانہ دار کا وجود ۱۵ ۶۳ کئی اشیاء قدرتی پیدا ہوتی ہیں ۹۸ کئی اشیاء قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہیں ۱۶ ۶۵ ذاتی ضروریات کے پورا ہونے پر۔۔۔ ۱۰۰ اس طرح ذاتی ضروریات کے پورا ہونے پر۔۔۔ ۱۷ ۶۶ ٭قانونِ آبادی ۱۰۲ ٭٭قانون آبادی ٭قانونِ آبادی موٹے الفاظ میں سطر کے شروع میں لکھا گیا ہے ٭٭ایک سطر میں یہ سرخی دے کر نیچے سے باریک الفاظ میں لکھنا شروع کیا گیا ہے۔ ۱۸ ۶۸ ۱ ؎ ۱۰۳ محنت کی کارکردگی ۱ ؎ ۱۹ ۷۴ چھ شخصوں میں سے ایک۔۔۔ ۱۱۲ چھ اشخاص میں سے ہر ایک۔۔۔ ۲۰ ۷۷ ان کے نزدیک شے کا مفید ہونا ۱۱۵ ان کے نزدیک کسی شے کا مفید ہونا۔۔۔ ۲۱ ۷۷ مشکل سے ہاتھ آنا ان کی قدر کا باعث ہوتا ہے ۱۱۵ مشکل سے ہاتھ آنا اس کی قدر کا باعث ہوتا ہے ۲۲ ۷۷ اس دعوے ٰ کی ثبوت میں۔۔۔ ۱۱۶ اس دعویٰ کے ثبوت میں ۲۳ ۸۱ مقدار مطلوب کے تغیر قیمت کے ساتھ وابستہ ہے قانونِ طلب کی توضیح ہوتی ہے ۱۲۰ قانونِ طلب کے ذریعے تغیر قیمت سے وابستہ مقدار مطلوب کے تغیر کی توضیح ہوتی ہے ۲ ؎ ۲۴ ۸۳ یعنی اشیا کی مطلوب ان کی رسد کے مساوی ہو ۱۲۳ یعنی اشیاء کی طلب ان کی رسد کے مساوی ہو ۲۵ ۸۷ پس لفظ منڈی سے مراد ان تمام افراد کی ہے ۱۲۷ پس لفظ منڈی سے مراد وہ تمام افرد ہیں ۲۶ ۱۱۴ اگر زر نقد کی قدر زیادہ ہو قیمت اشیاء کم ہوتی ہے ۱۵۶ اگر زر نقد کی قدر زیادہ ہو تو قیمت اشیاء کم ہوتی ہے ۲۷ ۱۱۶ اس فرق کو مٹی کاٹا کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۱۵۸ اس فرق کو مٹی کاٹا کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۲۸ ۱۳۷ ملک کی حالاتِ اقتصادی کے تغیر کے ساتھ مطابق کرے کی قابلیت نہیں ۱۸۱ ملک کی حالت اقتصادی کے تغیر کے ساتھ مطابق کرنے کی قابلیت نہیں۳ ؎ ۲۹ ۱۳۹ کم قدر سکے کو قبول نہیں کریں گے ۱۸۳ کم قدر کے سکے۴؎ کو قبول نہیں کریں گے۔ ۳۰ ۱۴۶ جس سے کسی کو گریز نہیں ہو سکتی ۱۸۹ جس سے کسی کو گریز نہیں ہو سکتا ۱ ؎ محنت کی کارکردگی کے لیے کوئی سرخی نہیں دی گئی۔ ۱ ؎ محنت کی کارکردگی ایک لائن میں صرف سرخ درج ہے۔ ۲؎ نئے ایڈیشن میں جملے کو سہل بنانے کی کوشش میں مزید مبہم کر دیا گیا ہے ۳؎ یہاں مطابق کرنے کی قابلیت نہیں کے بجائے مطابقت کرنے کی قابلیت ہونا چاہیے تھا لیکن نئے تینوں ایڈیشنوں میں بھی مطابق لکھا گیا ہے ۴؎ یہاں کے کا اضافہ بلا جواز اور بے محل ہے ٭ سات جگہ ہر یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اور جگہ مٹی کاٹا لکھا گیا ہے ۳۱ ۱۴۷ انسان مکان کو تجارت کے ذریعہ اور زبان کو اعتبار کے ذریعہ فتح کرتا ہے ۱۹۰ انسان مکان کو تجارت کے ذریعے اور زمان کو اعتبار کے ذریعے فتح کرتا ہے۔ ۳۲ ۱۵۲ لفظ دہات پرانے املا کے تحت لکھا گیا ہے ۱۹۷ ۱۹۹۱ء کے ایڈیشن میں لکھا گیا ہے کہ طبع اوّل میں ہر جگہ ’دیہات‘ کو ’دھات‘ لکھا گیا ہے حالانکہ یہ غلط ہے ’دھات‘ کی بجائے ’دہات‘ لکھا گیا ہے ۳۳ ۱۵۲ صوبجات متحدہ امریکہ ۱۷۷ ریاستہائے متحدہ امریکہ ۳۴ ۱۶۹ اس طرح مختلف کار خانداروں کے منافع کی حقدار۔۔۔ اسی طرح مختلف کار خانہ داروں کے منافع کی حقدار۔۔۔ ۳۵ ۱۷۷ یومیہ اجرت عمہ ہے ۲۲۳ یومیہ اجرت ایک روپیہ ہے ۳۶ ۱۷۷ کاری گری کی وجہ للعہ قیمت پاتا ہے ۲۲۳ کاریگری کی وجہ ۴ روپے قیمت پاتا ہے ۳۷ ۱۸۵ باب پنجم۔ مقابلۂ نا کامل دستکاروں کی حالت پر کیا کرتا ہے ۲۳۱ باب۔۵ مقابلہ دستکاروں کی حالت پر کیا اثر کرتا ہے ۳۸ ۱۸۹ بالعموم وہ فطری خود داری اور ہم چشموں کی نگاہوں میں دقعت پیدا کرنے کی آرزو اس پر کوئی اثر نہیں کر سکتی جو قدرتاً انسان کو اوروں سے آگے بڑھ جانے کی ایک زبر دست تحریک دیتی ہے ۲۳۵ بالعموم فطری خود داری اور ہم چشموں کی نگاہوں میں وقعت پیدا کرنے کی آرزو اس پر اثر نہیں کر سکتی جو قدرتاً انسان کو اوروں سے آگے بڑھ جانے کی ایک زبر دست تحریک دیتی ہے۔ ۳۹ ۱۹۱ اور کوئی کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہتا ۲۳۷ اور کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہتا ۴۰ ۱۹۹ آبادی۔ وجہ معیشت ۲۴۷ آبادی ۴۱ ۲۰۱ دولت کا دوسرا استعمال یہ ہے کہ اس کی وساطت سے دستکار کی بی بی پرورش پاتی ہے ۲۴۸؍ ۲۴۹ دولت کا دوسرا استعما یہ ہے کہ اس کی وساطت سے دستکار رشتہ ازدواج استوار کرتا ہے ۴۲ ۲۰۳ جو چار پائوں کے حق میں نہایت مضر ہے ۲۵۱ جو چار پایوں کے حق میںنہایت مضر ہے ۴۳ ۲۰۳ کسی فرد کو اگر کوئی مرض ہو اجائے ۲۵۱ کسی فرد کو اگر کوئی مرض لاحق ہو جائے ۱؎ ذریعہ کے بعد جگہ خالی چھوڑی گئی ہے ایڈیشن اوّل (۱۹۰۴ئ) : متن میں ظاہری اغلاط اور طباعت کی غلطیاں نمبر شمار صفحہ نمبر سطر غلط الفاظ درست الفاظ ۱ ۵ ۱۶ برودہ بڑودہ ۲ ۷ ۱۶ کبنٹ کینٹب ۳ ۹ ۱۷ نتیجہ ہوا کرتے نتیجہ ہوا کرتے ہیں ۴ ۱۱ ۴ کے روئے سے کی رو سے ۵ ۲۴ ۱۲ تعلق دیگر علوم ہے تعلق دیگر علوم سے ۶ ۳۶ ۱۳ ہم اس پر زیادہ خامہ فرسانی نہیں کرنا چاہئیے ہمیں اس پر زیادہ خامہ فرسانی نہیں کرنا چاہیے ۷ ۵۰ ۱۴ اس کی نسل کا بقا ہی محال ہو جاتا اس کی نسل کی بقا ہی محال ہو جاتی ۸ ۵۶ ۸ کفایت شعار بنانے کے مہد ہیں کفایت شعار بنانے کی ممدہیں ۹ ۶۳ ۶ مغلوں کے زمانے میں مغلوں کے زمانے میں ۱۰ ۶۴ ۴ قوانینِ صحت کی خلاف قوانین صحت کے خلاف ۱۱ ۷۵ ۷ جس قدر افادات کم ہوں اُسی قدر اس کی مانگ بھی کم ہو گی جس قدر افادات کم ہو گی اسی قدر اس کی مانگ بھی کم ہو گی ۱۲ ۸۷ ۷ چاء کے منڈی چائے کی منڈی ۱۳ ۹۵ ۸ سرمایہ داروں کا دوسرے ملک میں نہ جا سکتا سرمایہ داروں کا دوسرے ملک میں نہ جا سکنا ۱۴ ۱۲۶ ۱۴ ہر حملے اور اصطلاح کی معنی ہر جملے اور اصطلاح کے معنی ۱۵ ۱۳۷ ۷ جو عنذالطلب زر نقد کی صورت میں تبدیل نہیں کرایا جاسکتا جو عندالطلب زر نقد کی صورت میں تبدیل نہیں کرایا جا سکتا ۱۶ ۱۳۹ ۹ اس کی عدم اجرا کی صورت متداول کرنے پڑی اس کے عدم اجرا کی صورت میں متداول کرنے پڑیں ۱۷ ۱۴۰ ۲ اپنی بنک جاری کرتی ہے اپنا بنک جاری کرتی ہے ۱۸ ۱۴۶ ۱۲ جس سے کسی کو گریز نہیں ہو سکتی جس سے کسی کو گریز نہیں ہو سکتا ۱۹ ۱۵۱ ۱۳ دولت چار حصوں میں تقسیم ہوتی یعنی دولت چار حصوں میں تقسیم ہوتی ہے یعنی ۲۰ ۱۵۲ ۲ ہندوستان بعض دیہات ہندوستان کے بعض دیہات ۲۱ ۱۵۲ ۱۴ صوبجات متحدہ امریکہ صوبہ جات متحدہ امریکہ ۲۲ ۱۸۰ ۱۰ پیداوارِ محنت سے ادا کی جاتی ہے نہ سرمایہ اجرت میں سے پیداوار محنت سے ادا کی جاتی ہے نہ کہ سرمایہ اجرت میں سے ۲۳ ۱۸۶ ۲ جس جگہ حالات نے ایک جگہ لا پھینکا وہیں پڑے رہتے ہیں جس جگہ حالات نے لا پھینکا وہیں پڑے رہتے ہیں ۲۴ ۱۹۴ ۱۹ قاتحین مفتوحوں کی پیداوار زمین سے کچھ حصہ وصول کریں فاتحین مفتوحوں کی پیداوار زمین سے کچھ حصہ وصول کریں ۲۵ ۱۹۸ ۳ تجربے کی وساطت سے مثلاً یہ معلوم کر لیتا ہے کہ فرضاً چار ماہ کے بعد غلے کی قیمت چڑھ جائے گی تجربے کی وساطت سے یہ معلوم کر لیتا ہے کہ چار ماہ کے بعد غلے کی قیمت بڑھ جائے گی۔ ۲۶ ۲۰۱ ۱۳ بی بی کا ہونا دستکار کو محنت کی تحریک کرتا ہے بی بی کا ہونا دستکار میں محنت کی تحریک پیدا کرتا ہے ۲۷ ۲۰۳ ۲۰ اس استدلال سے محقق موصوف یہ نتیجہ نکلتا ہے اس استدلال سے محقق موصوف یہ نتیجہ نکالتا ہے ۲۸ ۲۰۵ ۱۳ مالہتس٭ مالتھس ۲۹ ۲۰۷ ۱۰ افزائش ابادی کی میلان کو اختیاری طور پر بھی روک سکتا ہے افزائش آبادی کے میلان کو اختیاری طور پر بھی روک سکتا ہے ۳۰ ۲۰۷ ۱۰ اصل منبع آبادی کا انداز سے زیادہ بڑھ جانا ہے اصل منبع آبادی کا اندازے سے زیادہ بڑھ جانا ہے ٭ ۲۰۵ لے کر ص ۲۱۵ تک نوجگہ حکیم مالتھس کا ذکر آیا ہے اور ہر جگہ اسے مالہتس ہی لکھا گیا ہے متروک رسم الخط: شمار صفحہ متروک رائج شمار صفحہ متروک رائج شمار صفحہ متروک رائج ۱ ۱ تبادلی تبادلے ۱۱ ۷۳ ہی ہے ۲۱ ۱۱۸ ملینگی ملیں گی ۲ ۲ پہونچ پہنچ ۱۲ ۷۵ لئی لیے ۲۲ ۱۱۹ پگہلانے پگھلانے ۳ ۳ پہونچنے پہنچنے ۱۳ ۷۹ تھوں تہوں ۲۳ ۱۴۶ ابہی ابھی ۴ ۴ قوائے قواء ۱۴ ۸۲ نکریگا نہ کرے گا ۲۴ ۱۴۹ بڑہ بڑھ ۵ ۵ بڑہتے بڑھتے ۱۵ ۸۴ نہو نہ ہو ۲۵ ۱۴۵ فلان فلاں ۶ بڑہتی بڑھتی ۱۶ ۸۳ ماہیگیری ماہی گیری ۲۶ ۱۵۲ دہات دیہات ۷ نہوتی نہ ہوتی ۱۷ ۹۰ ۴؍عم سوا روپیہ ۲۷ ۱۸۹ قوائے قویٰ ۸ چاء چائے ۱۸ ۱۰۲ موزون موزوں ۲۸ ۲۰۵ حکیم مالتہس حکیم مالتھس ۹ شی شے ۱۹ ۱۱۳ نکرے نہ کرے ۲۹ ۸۶ ہمنے ہم نے ۱۰ نہوگی نہ ہو گی ۲۰ ۱۱۵ لیوے لے ۳۰ ۱۴۱ دیویں دیں علم الاقتصاد کی اصطلاحات: جس دور میں علم الاقتصاد تحریر کی گئی علمی زبان کے لحاظ سے اردو زبان کچھ ایسی ترقی یافتہ نہ تھی اور معاشیات کے موضوع پر اردو میں قلم فرسائی کچھ ایسا آسان نہ تھا اس کے باوجود اقبال نے اردو دان طبقے کو معاشیات متعارف کرانے کے لیے یہ کتاب اردو زبان میں ہی لکھی۔ اقبال سے پہلے ۱۸۴۵ء کے لگ بھگ پنڈت دھرم نارائن وے لینڈ او ر مل کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کر چکے تھے ہو سکتا ہے کہ اقبال نے ان سے استفادہ کیا ہو لیکن یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی بقول مشفق خواجہ “یہ کہنا نا مناسب ہو گا کہ ذکاء اللہ کی کتاب کیمیائے دولت اور پنڈت دھرم نارائن کے تراجم سے انھوں نے استفادہ کیا ہے” ۵۸۔لیکن یہ بات انھوں نے قیاساً کہی ہے کوئی فلسفی ثبوت پیش نہیں کیا۔ خود اقبال کی تصریح کے مطابق۔” میں نے بعض اصطلاحات خود وضع کی ہیں اور ہمیں مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں”۵۹۔اقبال نے اصطلاحات کے جو تراجم استعمال کیے ہیں ان میں سے پیشتر آج بھی مستعمل ہیں لیکن چند ایک اصطلاحات متروک ہو چکی ہیں۔ مثلاً اقسام محنت ۶۰۔ کنارہ زراعت ۶۱۔ مصالح ۶۲۔ دولت آفریں ۶۳۔ افاداتِ انتہائی ۶۴۔ وقت حصول ۶۵۔قیمت صحیح ۶۶۔ مٹی کاٹا۶۷۔سود کاذب ۶۸۔ محنتی ۶۹۔ اعمال ۷۰۔ خالت زراعی ۷۱۔ تامین تجارت ۷۲۔ رشک ۷۳۔ محنتیوں کی اجرت ۷۴۔۔۔ اقبال نے Capital کے سرمائے کی اصطلاح استعمال کی ہے لیکن علم المعیشت میں ’اھل‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ علم الاقتصاد اقبال کے عمرانی فکر و نظر کا مرقع : علم معاشیات بنیادی طور پر ایک عمرانی علم ہے اور اقبال کی تصنیف “علم الاقتصاد” ان کے عمرانی فکر و نظر کا بین ثبوت ہے۔ اس کتاب میں اقبال نے جو خیالات پیش کیے ہیں وہ انہی اصل کی اعتبار سے عمرانی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اقبال نے علم الاقتصاد کے پہلے باب میں ہی یہ تصریح فرما دی ہے کہ۔۔ “فلسفہ تمدن کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ انسان زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد معلوم کرے ۷۵۔ سیاق و سباق بتاتے ہیں کہ یہ مقصد ترقی تمدن ہے جس کے لیے وسائل و ذرائع بروے کار لانا علم الاقتصاد کا کام ہے۔ اس کتاب میں اقبال نے معاشیات کے مختلف موضوعات کے علاوہ عمرانی مسائل پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ مثلاً ہندوستان کے تمدنی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے غربت و افلاس ، تعلیم کی کمی اور صنعتی تعلیم سے رو گردانی کو گنوایا ہے۷۶۔۔ اس کتاب کا آخری باب آبادی کے مسئلے پر بحث کرتا ہے جو بجائے خود ایک عمرانی مسئلہ ہے۔۔ “آبادی کا مناسب حدود سے باہر نکل جانا افلاس اور دیگر بد نتائج کا سرچشمہ ہے”۷۷۔۔” اقبال کی اس تصنیف میں اگرچہ فرد و معاشرے کے باہمی تعلق کا موضوع بالکل ضمنی اور ثانوی طور پر آیا ہے مگر جس انداز میں آیا ہے اس سے ذہن عمرانیات کے عضویاتی نظریہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے” ۷۸۔۔غرض علم الاقتصاد علامہ اقبال کے عمرانی فکر و نظر کا مرقع ہے۔ یہ تصنیف اقبال کے عمرانی افکار کی اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ علم الاقتصاد میں مشمولہ فقہی مسائل: اقبال نے علم الاقتصاد میں جن فقہی مسائل پر روشنی ڈالی ہے ان میں پانچ موضوعات بطور خاص قابل ذکر ہیں ۱۔ تعداد ازدواج۔ ۲۔ ضبط تولید۔ ۳۔ ملکیت زمین۔ ۴۔ شخصی جائداد۔ ۵۔ قومی ملکیت۔ اگرچہ اقبال نے ان موضوعات پر تفصیلی بحث نہیں کی لیکن علم الاقتصاد جیسی ابتدائی کتاب میں ان مسائل کی اہمیت کا احساس دلا دینا ہی ایک کار نامے سے کم نہیں۔ انہی تصورات کی بنا پر اقبال نے آگے چل کر اسلامی فقہ کی تدوین نو کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا۔ علم الاقتصاد کی روشنی میں معاشی مسائل کی اہمیت: اقبال نے علم الاقتصاد میں معاشی مسائل کو خاص طور ہر اہم اور توجہ طلب قرار دیا ہے اور جس انداز سے اشتراکیت کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے اس سے اقبال کی نظر میں معاشی مسائل کی اہمیت واضح طور پراجاگر ہو جاتی ہے۔ علم الاقتصاد میں بعض معاشی مسائل کے بارے میں یوں بار بار اظہار خیال کیا گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی نظر میں قومی بقا کا دارو مدار ان معاشی مسائل کے حل پر منحصر ہے مثلا دستکاروں کی خستہ حالی کو دور کرنے کا مسئلہ۷۹۔ افلاس و غربت سے نجات۸۰ دلانے کی خواہش وغیرہ۔۔۔ علم الاقتصاد کے مطالعہ سے اقبال کی معاشی مسائل سے دلچسپی اور معاشی مسائل کے حل میں ان کے نقطۂ نظر اور اجتہادی فکر کے مختلف پہلو واضح ہوتے ہیں۔ علم الاقتصاد میں ہندوستان کے معاشی مسئلہ کی وضاحت: اقبال نے اپنے عصری تقاضوں کو نانچ کر علم الاقتصاد میں ہندوستان کے معاشی مسائل کی وضاحت کے لیے اقتصادیات کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ مختلف مباحث کے دوران اقبال نے ہندوستان کی معاشی ترقی میں موانع اسباب پر روشنی ڈالی اور انہیں چار مشقوں میں ترتیب دیا۔ ۱۔ غربت و افلاس ۸۱۔ ۲۔ تعلیمی پسماندگی ۸۲۔ ۳۔ صنعت کی طرف سے بے توجہی اور تجارت پر مغربی سوداگروں کا قبضہ ۸۳۔ ۴۔ افزائش آبادی ۸۴۔۔۔اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ علم الاقتصاد جیسی ابتدائی کتاب میں بھی اقبال کی ہندوستان کے معاشی مسائل سے آگہی کا ثبوت موجود ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر خواجہ امجد سعید نے اقبال کو ہندوستان کا پہلا معیشت دان قرار دیا ہے ۸۵۔۔۔ فی الحقیقت ہندوستان کی اقتصادی مشکلات کا جو شعور اقبال کو تھا وہ اور بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی تمام بیماریوں کا حل اقتصادی ترقی میںپوشیدہ ہے۔ اقبال کی معاشیات ہند سے دلچسپی ان کے مضمون “قومی زندگی”۸۶ سے بخوبی عیاں ہوتی ہے۔ اقبال اور معاشیات اقبال کے معاشی افکار کی نوعیت: معاشیات ایک معاشرتی علم ہے جس کا تعلق معاشی مسائل پر غور و فکر کے بعد انھیں حل کرنے سے ہے تاکہ معاشی خوشحالی کا حصول ممکن ہو سکے۔ انھی وجوہ کے پیش نظر اقبال نے مجموعی قومی دولت کے فروغ و تقسیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہوئے انسانی شخصیت کی تعمیر اور ارتقائے تمدن کو پیشِ نظر رکھنا لازم قرار دیا ہے۸۷۔ اسی لیے اقبال نے علم معاشیات کے اہم مفروضے کو رد کرتے ہوئے انسان کی معاشی زندگی کو خود غرضی اور ایثار دونوں کا امتزاج قراد دیا ہے۔ اقبال کے بعض معاشی افکار تو ایسے ہیں جن پر نئے علوم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے خاص کر اشتراکیت اور اسلامی معاشیات یا فقہ کے حوالے سے ان کے افکار۔ اقبال کا معاشی شعور: اقبال کو اقتصادیات سے گہری دلچسپی تھی ان کے فکری سرمائے کا ایک دقیع حصہ بالواسطہ طور پر اسی موضوع سے متعلق ہے اگرچہ اقبال نے اقتصادیات کو بطور مضمون نہیں پڑھا لیکن ایم اے اور بی اے کی جماعتوں کو اقتصادیات کی تدریس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اس مضمون کا گہرا مطالعہ کیا تھا خود علم الاقتصاد کی تصنیف اس کا واضح ثبوت ہے۔ اقبال کی بعد کی تحریریں ثابت کرتی ہیں کہ اپنے عہد کی تمام معاشی تحاریک سے کلی طور پر با خبر تھے۔ سرمایہ داری اور اشتراکیت کے بارے میں اقبال نے نظم و نثر میں دونوں میں اظہار خیال کیا ہے اسی پختہ معاشی شعور کی وجہ سے اقبال نے سودیشی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے اسے اقتصادی لحاظ سے غیر مفید قرار دیا تھا ۸۸۔ اس تناظر میں مخالفین اقبال کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے کہ اقبال علم معاشیات سے قطعی ناواقف تھے۔ کیا اقبال نے کوئی مربوط معاشی نظریہ وضع کیا؟ اگرچہ اقبال نے فلسفہ خودی کی طرح کوئی مربوط معاشی فلسفہ وضع نہیں کیا اس کے باوجود انھوں نے معاشیات کا عمیق مطالعہ کیا اور اپنے دور کے معاشی نظریات پر اس حد تک عبور حاصل کر لیا کہ اپنے افکار کی روشنی میں ان پر تنقیدی نظر ڈال سکیں۔ فکر اقبال میں معاش کی اہمیت : اقبال اپنی زندگی کے فکری ادوار میں معاشی مسائل پر نظم و نثر میں خیال افروز اظہار رائے کرتے رہے۔ قومی زندگی ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، ۱۹۱۱ء کی مردم شماری پر مسلمانوں کے بارے میں تجزیاتی رپورٹ، لیجسلیٹو کونسل کی تقاریر ۱۹۲۷ء اور ۱۹۳۰ء خطبہ الٰہ آباد ۱۹۳۰ء رسالہ الحکیم میں ضبط تولید پر مضمون ۱۹۳۶ء اور قائد اعظم کے نام خطوط میں ہندوستانی مسلمانوں کے معاشی مسائل پر بحث (۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۸ء تک) اور خضر راہ ، لینن ، خدا کے حضور میں ، فرشتوں کا گیت ، اشتراکیت۔ کارل مارکس کی آواز ، ابلیس کی مجلس شوریٰ ، قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور ، نوائے مزدور ، محاورہ مابین کومٹ و مزدور جیسی نظمیں زندگی کے معاشی پہلو کے بارے میں ان کے حساساست کی عکاسی ہیں جبکہ اس مضمون کے اشعار تمام کلام میںمختلف مقامات پر دیکھنے میں آتے ہیں۔ مسلم معاشرے کے اقتصادی مسائل پر اقبال کی نظر: عبداللہ چغتائی کے نام خطوط میں اقبال نے دنیائے اسلام میں ذہنی انقلاب کے لیے اقتصادی مشکلات کے خاتمے کو ضروری قرار دیا ہے ۸۹۔ انھوں نے ہندوستان کے دستور کو مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا باعث قرار دیا ہے ۹۰۔ معاشیات کی اسلامی قدروں سے نوجوان طبقے کو روشناس کرانے کے لیے علامہ اقبال نے مسلم انڈیا سوسائٹی کی حمایت کی جس کا مقصد اسلام کے اقتصادی پہلوئوں کی وضاحت کرنا تھا۔ اقبال نے مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے بے معنی توکل ، جہالت ، رواج پرستی۔ صنعتی تعلیم کی کمی ، امراء کی عشرت پسندی اور تعداد ازدواج وغیرہ۹۱ کو عموماً اور ہندو مہاجن ، سرمایہ دارانہ نظام اور غیر ملکی حکمرانوں کو خصوصاً مسلمانوں کی معاشی بدحالی کا ذمہ دار قرار دیا ہے ۹۲۔ مسلمانوں میں اقتصادی پسماندگی کا شعور اور معاشی ترقی کا عزم پیدا کرنے کی خواہش: اقبال کے طرزِ فکر کا ایک اہم پہلو ہے۔ وہ صرف حالات کا تجزیہ کر کے خاموش نہیں ہو جاتے بلکہ حالات و واقعات کے تجزیے کے بعد وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق؟ اور اس مسئلے کا شافی حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ معاشی ترقی کے لیے انھوں نے تعلیم کا نسخہ کیمیا تجویز کیا ، میدانِ تجارت میں تنظیم اور کاشتکاروں کی مقروضیت کے ازالے کے لیے نوجوانوں کی انجمنیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ مارچ ۱۹۳۲ء لاہور کے خطبۂ صدارت میں اقبال نے ہر ممکن طریق سے کوشش کی کہ مسلمانوں میں معاشی ترقی کا عزم پیدا کیا جائے کیونکہ ان کی سیاسی بقا کا انحصار بھی بڑی حد تک اسی پر ہے ۹۳۔ انھوں نے روٹی کے مسئلے ، کو اسی لیے سنگین قرار دیا کہ مفلسی ۹۴ مانع خودی ہے۔ مفلسی انسان اپنی عزت نفس کو دائو پر لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اخلاقی ترقی بھی بجز ایک مضبوط معیشت کے ممکن نہیں ۹۵۔(زمانہ کانپور اپریل ۱۹۰۶ئ) مسلمانوں کی معاشی بدحالی ختم کرنے کے لیے اقبال کی کاوشیں: اقبال نے مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے جو تجاویز پیش کیں ان کے عملی نفاذ کے لیے بھی کوشاں رہے۔ پنجاب لیجسلیٹو کونل کے رکن کی حیثیت سے اقبال نے ۱۹۳۷ء سے ۱۹۳۰ء کے عرصے میں ہر ممکن کوشش کی۔ صوبائی میزبانیوں پر تنقید کے دوران پیش کی گئی عملی تجاویز کا مقصد معیشت کا عادلانہ فروغ اور غربت، جہالت اور بیروز گاری کے خاتمے کی کوشش کرنا تھا یہ عملی تجاویز درج ذیل ہیں:۔ ۱۔ چھوٹے زمینداروں کے استحقاق کی حفاظت کی تجاویز۔ سرکاری زمینوں کے استعمال کا حق بے زمین کاشتکاروں کو دینا۔ کاشتکاروں کے لیے مطلوبہ سہولتیں مہیا کرنا۔ دو بیگھے تک زمین کے مالکوں سے مالیہ وصول نہ کرنا ۹۶۔ ۲۔ خود کاشت زمیندار کی حمایت : زمین حکومت کی نہیں قوم کی ملکیت ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت کی روشنی میں کاشت نہ کرنے والے زمین دار کا زمین پر کوئی حق نہیں۔ حکومت اس زمیندار سے لے کر یہ زمین کسی دوسرے کاشتکار کو دے سکتی ہے۔ یہ انقلابی اقدام جاگیرداری اور ڈیرہ ازم پر کاری ضرب لگانا ہے جس کا لازمی نتیجہ زرعی پیداوار میں اضافہ کی شکل میں نکلتا ہے۔ خود حکومت بھی ملکیت زمین کا دعوی نہیں کر سکتی۔ زمین صرف اس کی ہے جو اسے کاشت کرے۔ ۳۔ دیہات سدھار انجمنوں کا قیام۔ ۴۔ ایلوپیتھی کے ساتھ ساتھ طب مشرقی کا احیا (۲۲؍فروری ۱۹۲۸ء کی تقریر کونسل میں)۔ ۵۔ عورتوں تعلیم و تربیت اور اصلاح پر زور۔ ۶۔ صنعتی تعلیم کی خصوصی اہمیت۔ ۷۔ مالیہ کو انکم ٹیکس کی طرح قیاس کرنا۔ ۸۔ وراثت اور موت ٹیکس کا نفاذ۔ ۹۔ فحابرہ کی خدمت۔ ۱۰۔ صنعتی ترقی کی ضرورت و اہمیت پر زور۔ ۱۱۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کو کم کرنا۔ یہ تمام تجاویز وقتاً فوقتاً ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۰ء کے عرصے میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں تقاریر کے دوران پیش کی گئیں جو کہ زرعی معیشت پر اقبال کی عمیق نظری کو ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر اقتصادی مسائل پر عبور کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ اقبال کے معاشی نظریات کے ارتقائی مراحل: اقبال کے معاشی نظریات کا اولین اظہار ان کی تصنیف علم الاقتصاد میں ہوا بعدازاں چونکہ خود اقبال کے خیال میں اقتصادی نظریات میں کافی تغیرات رونما ہو چکے تھے اس لیے اقبال نے اسے ابتدائی کتاب قرار دے کر اسے دوبارہ چھاپنے سے احتراز کیا لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ باوجود تغیرات کے اقبال کے معاشی تصورات کی عمارت انہی بنیادوں پر استوار ہوئی جو علم الاقتصاد میں پیش کئے گئے تھے۔ اگرچہ اقبال نے ابتداً مغربی ماہرین معاشیات مارشل ، واکر ، سمتھ ، ریکارڈو اور مل وغیرہ سے استفادہ کیا لیکن اصل میں وہ نہ کلاسیکی اور نو کلاسیکی ماہرینِ معاشیات سے متاثر ہوئے اور نہ کارل مارکس سے بلکہ ذاتی غور و فکر کے بعد اقبال نے اسلامی اقتصادی اصولوں کو بہترین قرار دیا۔ اقبال کے معاشی نظریات کے ماخذ: جس طرح فکر اقبال کے ہر پہلو کی اساس قرآن حکیم ہے اس طرح اقبال کے معاشی تصورات کی بنیاد بھی اسلامی ہے اگرچہ اقبال نے علم الاقتصاد کے مضامین مختلف مغربی ماہرینِ معاشیات کی مستند کتب سے اخذ کیے ہیں لیکن اس ابتدائی دور میں بھی اقبال نے بتا دیا کہ ’بعض جگہ میں نے اپنی رائے کا بھی اظہار کیا ہے‘ آگے چل کر فکر اقبال میں جوں جوں پختگی آتی گئی ان کے اقتصادی نظریات کے ماخذ بدلتے گئے۔ ویسے تو علم الاقتصاد کا سرورق بھی ظاہر کرتا ہے کہ اقبال نے اسلام کے زمانہ ، عروج کے ماہرین سے استفادہ کیا ہے جو معاشی نظریات کو ’علم سیاست مدن‘ کا حصہ سمجھتے تھے۔ ان میں محمد بن حسن طوسی اور ابن خلدون قابلِ ذکر ہیں کیونکہ اقبال نے سرورق پر علم الاقتصاد کے نیچے قوسین میں جس کا معروف نام علم سیاست مدن ہے۹۸ تحریر کیا ہے۔ بعدازاں اقبال کی نظم و نثر کے مطالعے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اقبال کے معاشی تصورات کے ماخذ اہل مغرب یا اشتراکی نہیںبلکہ قرآن ، حدیث اور فقہ اسلامیہ ہیں۔ دنیا میں رائج نظامہائے معیشت کا تجزیہ فکر اقبال کے تناظر میں: دنیا میں رائج نظامہائے معیشت میں ۱۔ اسلامی نظام معیشت ۲۔ انفرادی یا سرمایہ دارانہ نظام ۳۔ اشتراکی یا اشتمالی نظامِ معیشت شامل ہیں۔ ملتِ اسلامیہ کی موجودہ سیاسی تنزل کی بنا پر اسلامی نظامِ معیشت اگرچہ اتنا موثر نہیں رہا لیکن اقبال اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جدید تصورات معیشت اپنی جگہ خواہ کتنے محمود ہوں اسلامی نظامِ معیشت کی ہمہ گیری کا مقابلہ نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ اقبال ہمیں سرمایہ داری اور اشتراکیت پر دو کی قباحتوں سے روشناس کراتے ہوئے معیشت اسلامی کے نظام عدل و انصاف کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور محنت کشوں کے انقلابی نغموں کی بدولت اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا شعور عطا کرتے ہیں کیونکہ اسلام محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں سے زیادہ بہتر انداز میں کرتا ہے بشرطیکہ نظامِ اسلامی کو صحیح طور پر نافذ کی جائے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی نظام معیشت بہترین نظام ہے کیونکہ : ۱۔ دین و دنیا کی ہم آہنگی کا حامل ہے: معاشی ترقی کو اہمیت تو دیتا ہے لیکن حصولِ دولت کے لیے انسان کو مشین بن جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات ۹۹ ۲۔ ترقی پذیر ممکنات کی موجودگی : اسلام تمام مادی قیود سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اس کا اصل اصول نہ اشتراکِ زبان ہے نہ اشتراک وطن و اغراض اقتصادی یہی وجہ ہے کہ ابلیس بھی اسلامی نظام کی برتری کا اعلان کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرازِآرزو ۱۰۰ ۳۔ قرآن پاک انقلاب حقیقی کا پیغامبر: لا سے الا کی طرف پیش قدمی کا دعویٰ صرف اسلام ہی کر سکتا ہے۔ لا قیصر و لاکسریٰ کا نعرہ بھی اسلام ہی نے لگایا تھا۔ اشتراکیت کا انقلاب ادھورا ہے اس میں لا کی منزل تو ہے لیکن یہ الااللہ سے بے گانہ ہے کردہ کار خدا ونداں تمام بگزر از لا جانبِ الا حترام کا پیغام اشتراکیت کے لیے ہے کیونکہ انسان کے اقتصادی امراض کا جو علاج قرآن نے تجویز کیا وہی بہترین ہے۔ اقبال نے لا اور الا کو بطور معاشی اصطلاحات استعمال کیا ہے۔ ۴۔ قل العفو کا نظریہ: انسان کے بنیادی حقوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے متوازن معاشی نظام کی وضاحت کرتا ہے جس میں ازِ دولت کی قطعاً گنجائش نہیں رہتی۔ اقبال اقتصادی معاملات میں اسلام میں اسلام سے رہنمائی حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار ۱۰۱ اقبال اشتراکیت کی مساوات شکم بجائے اسلامی مساوات کے قائل ہیں جس میں فرقِ مراتب کو تسلیم کیا جاتا ہے اور جس کا مقصد کس نگر دو در جہاں محتاج کس ۵۔ معاشی اعمال کا تابع اخلاق ہونا: اسلام کے نظامِ معیشت کی خصوصیت ہے اور یہی چیز اسے سرمایہ داری اور اشتراکیت سے ممیز کرتی ہے۔ سرمایہ داری فقط پیٹ کی آگ بجھانے کا نام ہے اور اشتراکیت بھی’ معیشت بے قدر ‘کہلاتی ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی عکاسی اقبال کے اس شعر سے ہوتی ہے۔ دل برنگ و بوئے و کاخ و کو مدہ دل حریم اوست جز با او مدہ ۱۰۲ ۶۔ حق ملکیت کا معتدل تصور: اقبال نے اسلام کے حق ملکیت کی تشریح اس شعر میں کی ہے۔ رزق خود را از زمیں برون رواست ایں متاع بندہ و ملک خداست ۱۰۳ اسلام اشتراکیت اور سرمایہ داری کی افراط تفریط سے کلیتہً مبرا ہے۔ وہ خدیا! نکتۂ از من پذیر رزق و گور از وے بگیر او را مگیر ۱۰۴ اقبال آل احمد سرور کے نام خط محررہ مارچ ۱۹۳۷ء میں واضح طور پر لکھتے ہیں۔ کمیونزم یا زمانہ حال کے ازم میرے نزدیک کوئی حقیقت نہیںرکھتے۔ میرے عقیدے کی رو سے اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو نوعِ انسان کے لیے ہر نقطۂ نگاہ سے موجبِ نجات ہو سکتی ہے ۱۰۵۔ اور یہ کوئی خیالی بات نہیں کارون اولیٰ میںاس کا کامیاب ترین تجربہ ہو چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت : فکر اقبال کے تناظر میں سرمایہ دارانہ نظام استبداری نظام ہے۔ جور ، جبر اور مکرو حیلہ سے دوسروں کے مال پر غاصبانہ قبضہ اس کا معمول ہے۔ “غیر کی کھیتی پہ نظر رکھنا “ اس کی فطرت ہے۔ وہ سرمایہ دار کو زمین کا بوجھ چور تصور کرتے ہیں جو دوسروں کی محنت پر انحصار کرتا ہے اس لیے وہ کہتے ہیں۔ کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تری منتظر روز مکافات۱۰۶ جاگیر داری ، کارخانہ داری، سود خوری ، سرمایہ داری کی مختلف صورتیں ہیں۔ اقبال سرمایہ داری کی ان تمام صورتوں کے خلاف تھے۔ مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہاے سادگی سے کھا گیا مزدور مات ۱۰۷ زمزد بندئہ کر پاس پوش و محنت کش نصیب خواجہ نا کردہ کار رفتِ حریر ۱۰۸ اقبال کی نظر میں سرمایہ داری استبداری نظام ہے جو از ضعیفاں نان بودن حکمت است از تن شاں جاں ربودن حکمت است ۱۰۹ کی خصوصیت رکھتی ہے۔ i ) انحطاط تمدن :۔ سرمایہ داری اقدارِ عالیہ کو ختم کرکے مادیت پرستی سکھاتی ہے۔ شیوئہ تہذیب نو آدم دری است پردہ آدم دری سودا گری است۱۱۰ اسی لیے اقبال کو سرمایہ دارانہ نظام کے باوصف تہذیب انسانی کا انجام ہولناک نظر آتا ہے۔ ii )لا دینی :۔ سرمایہ داری کی بہت بڑی خامی حق پریقین کا فقدان ہے اس لیے ان کے نزدیک آواز افرنگ و از آئین او آہ از اندیشہ لا دین او۱۱۱ iii )فطری تقسیم کار کا نظریہ:۔شخصی ملکیت کے طرف دار معیشت کے کاروبار میں تقسیم کار کو فطری قرار دیتے ہیں لیکن اقبال کے نزدیک یہ محنت کشوں کو دھوکہ دینے والی بات ہے کیونکہ۔ بدوش زمیں بار سرمایہ دار ندارد گذشت از خور و خواب کار ۱۱۲ iv ) ارتکاز دولت :۔ سرمایہ داری میں قوت سرمایہ کو لا محدود کر دینے سے طبقاتی تغاوت بڑھ جاتی ہے اور مساوات ختم ہو جاتی ہے عقل خود بیں غلغلہ از ہم بنود غیر سود خود بیند نہ بیند سود غیر۱۱۳ اشتراکی نظامِ معیشت: پہلی جنگ عظیم کے بعد انقلاب روس کے نتیجے میں اشتراکی نظام روس میں قائم ہوا۔ یہ نظام چونکہ سرمایہ داری کے خلاف ردِ عمل تھا اس لیے اقبال نے اس کے بعض ایجابی پہلوئوں کو سراہا اور اپنے کلام میں بھی اس کے بارے میں بہت کچھ کہا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے سلبی پہلوئوں کو رد بھی کر دیا۔ اقبال نے اشتراکیت کے جن ایجابی پہلوئوں کی تعریف کی ہے وہ یہ ہیں۔ ۱) محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ :۔ اشتراکیت کی خصوصیت شما رکی جاتی ہے۔ غلام گرسند دیدی کہ برو رید آخر تمیض خواجہ کہ رنکین ز خونِ ما برد است ۱۱۴ کارل مارکس نے دنیا کی توجہ سرمایہ داروں کی خامیوں کی طرف مبذول کرائی۔ سرمایہ محنت کی آویزش ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔ اقبال محنت کشوں کے تحفظ کے سلسلے میں اشتراکیت کو سراہتے ہیں۔ اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کافر امرا کے درو دیوار ہلا دو جس کھیت سے دہقان کو میسرنہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۱۱۵ ۲) شخصی ملکیت زمین کی مخالفت:۔ اشتراکیت کا دوسرا ایجابی پہلو ہے۔ اقبال کا خیال بھی یہی ہے کہ زمین خدا کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی کی سی ہے زمین کی پیداوار سے استفادہ اُسی کا حق ہے اس پر محنت کی ۔ دہ خدایا ! یہ زمیں تیری نہیں میری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری میری۱۱۶ ۳) ارتکاز دولت کی مخالفت:۔ اشتراکیت نے سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے ارتکاز دولت کا قلع قمع کر دیا اور زائد از ضرورت مال کو عوام کی عام احتیاج کے لیے وقف کرنے کا نظریہ اقبال کی نظر میں عین قرآنی تعلیم ہے جو قل العفو کے اصول کے مطابق ایک معاشرت پیدا کر سکتا ہے۔ اسی لیے اقبال نے امید ظاہر کی ہے کہ۔ جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس عہد میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار۱۱۷ ۴) اشتراکیت کی حرکت پسندی اور انقلابی روح :۔ اقبال کے نزدیک اس کا ایجابی پہلو ہے بقول اقبال۔ روس را قلب و جگر گردیدہ خوں از ضمیرش حرف “لا “ آمد بروں۱۱۸ اشتراکیت کے ان ایجابی پہلوئوں کو سراہنے کی بنا پر اقبال کو کارل مارکس کا مداح تصور کر لیا گیا حالانکہ اقبال اشتراکیت کے مداح نہیں وہ صرف ان اصولوں کے مداح ہیں جو اسلام کے اقتصادی اصولوں کے قریب تر ہیںورنہ وہ اشتراکیت کے بہت سے پہلوئوں کے ناقد بھی ہیں۔ اقبال نے ایڈیٹر ’زمیندار‘ کے نام ۲۴ جون ۱۹۲۳ء کو ایک خط لکھا جس میں بالشویک خیالات رکھنے والے کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہوئے انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین حل تعلیمات قرآنی کو قرار دیا ۱۱۹۔ خواجہ غلام السیدین کے نام خط میں بھی اقبال نے تاریخ انسانی کی مادی تعبیر کو غلط قرار دیا تھا ۱۲۰ اور آل احمد سرورکے نام خط میں بھی فاشزم ، کمیونزم اور زمانہ حال کے پرازم کے مقابلے میں اسلام کو موجب نجات قرار دیا ہے ۱۲۱۔ اشتراکیت کے سلبی پہلو: اقبال اشتراکیت کے چار نظریات سے متفق نہیں۔ ۱) ملحدانہ نظریات :۔ اشتراکیت نے مذہب کے تردید اور الحاد پرستی کو شعار بنایا ہے اس لیے اقبال کے نزدیک وہ ’لا ‘ کی منزل ہر رک گیا ہے حالانکہ اقبال کے نزدیک۔ در مقام لا ینا سائید حیات سوئے الا می فرامد کائنات۱۲۲ زندگی کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اس لیے اقبال نے ملوکیت کے ساتھ ساتھ اسے بھی یزداں نا شناس کہا ہے۔ ۲) مزدوروں کی آمریت :۔ سرمایہ داری میں استحصال کا ذمہ دار سرمایہ دار ہوتا ہے لیکن اشتراکیت میں پارٹی خود استحصال کا باعث بن جاتی ہے اور مزدوروں کی ڈکیٹٹرشپ قائم ہو جاتی ہے۔ زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کو ہکن میں بھی وہی حیلے ہیںپرویزی۱۲۳ ۳) دین و سیاست کی علیحدگی :۔ اشتراکیت دین و سیاست کو الگ الگ کر دیتی ہے کیونکہ اس میں مذہب کے لیے کوئی گنجائش نہیں جبکہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق اقبال کہتے ہیں کہ جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو! جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۱۲۴ ۴) مساواتِ شکم پردار و مدار:۔ اقبال نے جاوید نامہ میں اشتراکیت کی اس خامی کا تذکرہ کیا ہے اور کارل مارکس کے بارے میں کہا ہے۔ دین آں پیغمبر حق ناشناس بر مساواتِ شکم دارد اساس۱۲۵ کارل مارکس یعنی ’سرمایہ‘ نامی کتاب لکھنے والے کی تعلیمات اگرچہ کسی حد تک درست ہیں لیکن روحانیت سے قطعی عاری ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ۔ روسیاں نقش نومی انداختند آب و ناں بردند و دیں در با ختند۱۲۶ ایک عالمگیر نظام کسی محکم اساس کا طالب ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ لینن نے بھی بالاخر اس خامی کو محسوس کر لیا کہ انسان کا نصب العین روٹی نہیں بلکہ معیار انسانیت کو بلند کرنا ہے۔ اشتراکیت فطرت کے خلاف جنگ کر رہی ہے اور انسانوں کے طبعی فرق کو منطق کے زور سے مٹانا چاہتی ہے۔ حالانکہ یہ فرق خود روس میں بھی نہیں مٹ سکا۔ وہاں پر بھی یہ فرق موجود ہے۔۱۲۷ اقبال سب نظامہائے معیشت کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انسانوں کے معاشی اور تمدنی کا تسلی بخش حال قانونِ اسلامی کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اس کے مزید فروغ میں ہے۔۱۲۸ اقبال کی نثری تحریروں میں معاشی آرا : اجرت کا مسئلہ :۔ اقبال نے عاملین پیدائش کی اجرت کے متعلق اظہار کرتے ہوئے ’قومی تعلیم کو کمی اجرت کا بہترین نسخہ، قرار دیا۔۱۲۹ مخلوط معیشت :۔ اقبال حق ملکیت کا معتدل تصور رکھتے ہیں اس لیے مخلوط معیشت کے حامی ہیں۔ ایسی معیشت جو نجی کوشش کو ایک متعین حد تک قبول کرے اور ریاستی تحویل کا اصول بھی نافذ کرے۔ بے قید معیشت پر اپنی اولین تصنیف میں تنقید کرتے ہوئے کہا۔ “یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقی آزادی قیود کو دور کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ بعض قیود سے آزادی کا دائرہ اور وسیع ہوتا ہے۔۱۳۰ احتکار و اکتناز کی مذمت :۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں تقریر کرتے ہوئے اقبال نے وراثت ٹیکس کی جو تجویز پیش کی اس کا مقصد بھی اکتناز دولت کی حوصلہ شکنی تھی ۱۳۱۔ خطبہ الٰہ آباد میں بھی ایسی سوسائٹی کا تذکرہ کیا جہاں شکم کی مساوات کی بجائے روحوں کی مساوات کا اہتمام کیا جائے اور اکتناز دولت کا کوئی امکان نہ ہو۔ ۱۳۲ مساوی آمدنی کے نظریہ کی مخالفت :۔ اقبال کے نزدیک رزق کی عادلانہ تقسیم اگرچہ عین دین ہے لیکن ہر شخص کی آمدنی اس کی قابلیت و صلاحیت کے مطابق طے ہوتی ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ ہر شخص ایک سی آمدنی حاصل کر سکے اس لیے فرق مراتب لازم ہے۔ اسلامی معاشیات کی تجدید نو کی ضرورت :۔ علامہ معاشیات کی اسلامی قدروں کے بارے میں تحقیق کی جانب نوجوانوں کو توجہ دلاتے رہتے تھے، مسلم انڈیا سوسائٹی کا مقصد بھی نوجوانوں کو اسلام کے اقتصادی اصولوں کی جانب متوجہ کرنا تھا۔ اسلامی اقتصادیات کی تجدید نو کی ضرورت کے پیش نظر ہی اقبال نے اس سوسائٹی کے ساتھ اپنی عمیق ترین محدودیاں مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔۱۳۳ مسلمانوں کے معاشی مسائل کے حل کے لیے نفاذ آئینِ اسلامی کی ضرورت:۔ علامہ اسلامی قانون کی تجدید نو پر اس لیے زور دیتے تھے کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کے معاشی مسائل کا حل اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ سے وابستہ تھا۔ قائد اعظم کے نام خط میں انھوں نے لکھا۔ “خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ مقتضیاتِ حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے”۔ ۱۳۴ لارڈ لوتھین کے نام خط میں بھی انھی خیالات کا اظہار کیا۔ اسلام معاشی نظام کی حیثیت سے بہت دلچسپی کا باعث ہوگا اور موجودہ دور کی مشکلات کے عملی حل پیش کر سکے گا۔۱۳۵ منافع یا قدر زائد کا نظریہ:۔ اقبال کے نزدیک قدر زائد اہل محنت کے استحصال اور پیداوار میں منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اور وہ “کھائے کیوں مزدور کی محنت کا حق سرمادار” کے قائل ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں مزدوروں کی آمریت کے خلاف ہیں۔ سرمایہ دار کو اس کی محنت اور سرمائے کا صلہ ضرور ملنا چاہیے۔۔۔ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا؟ طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔۱۳۶ کسبِ مال کی حدود:۔ اقبال کے نزدیک صنعتی اور تجارتی تعلیم بلا کسی اخلاقی تربیت کے بجائے خود مکتفی نہیں ہوتی۔ اقتصادی مقابلہ میں اخلاقی عنصر کی کچھ ضرورت نہیں ہوتی اس لیے ان کے خیال میں اچھے کاریگر، اچھے دکاندار اور اہل حرفہ بننے کے لیے انھیں پہلے پکا مسلمان بنائیں۱۳۷۔ یعنی کسبِ مال کی اسلامی حدود کے اندر رہنا ضروری ہے۔ معاشی ترقی کے لیے بلند معیار تعلیم ، بلند شرح خواندگی اور صنعتی تعلیم کی اہمیت:۔ اقبال کے ذہن میں قومی تعلیم کا خیال علم الاقتصاد کی تصنیف سے بھی پہلے “سید کی لوح تربت” کے زیر عنوان نظم میں موجود ہے ۱۳۹۔ اس سے ندوی کی کتاب انسانِ کامل کے مندرجات کی تردید ہوتی ہے جس کے مطابق۔۔۔ “اقبال نے اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں تعلیم پر کچھ نہیں لکھا صرف تیسرے دور میں اس پر اظہار خیال کیا ۱۴۰۔ اقبال کی ابتدائی کتاب “قومی زندگی”میں قومی تعلیم کی بنیاد انقلابِ حالات کی وجہ سے پیدا شدہ ضرورتوں پر رکھنے کی تاکید کی گئی ہے ۱۴۱۔ صنعتی تعلیم کی اہمیت کے بارے میں کہا۔۔ “مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہیے” ۱۴۲۔اسی طرح مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے اور شرح خواندگی بلند کرنے کی غرض سے کہا۔۔۔ “ مسلمانوں کو بے شک علوم جدیدہ کی تیز پا رفتار کے قدم بقدم چلنا چاہیے” ۱۴۳۔ صنعت و حرفت کی ترقی پر زور دیتے ہوء پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا۔۔۔ “ صنعت وحرفت پر ہمارا خرچ نہ ہونے کے برابر ہے۔۔۔ صنعتی ترقی سے ہی ہم اپنے آپ کو بے کاری کی لعنت سے بچا سکتے ہیں” ۱۴۴۔ کسب معاش میں عورت کا کردار :۔ اقبال نے علم الاقتصاد میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسبِ معاش میں عورت کے فعال کردار کے حامی ہیں۔ مثلاً اجرت کے ضمن میں یہ تحریر۔۔۔ بعض پیشوں میں دستکار کی بی بی اور اس کے بال بچوں کو بھی ہاتھ بٹانے کا موقع مل جاتا ہے بلکہ اکثر صورتوں میں بی بی کی کمائی میاں کے مساوی ہو جاتی ہے مثلاً بافندگی کا پیشہ ۱۴۵۔ خاندانی منصوبہ بندی کی معاشی اہمیت:۔ علم الاقتصاد کے آخری باب موسوم بہ آبادی میں اقبال نے واضع الفاظ میں لکھا ہے کہ۔۔ “آبادی کا مناسب حدود سے نکل جانا افلاس اور دیگر بد نتائج کا سرچشمہ ہے” ۱۴۶۔۔جہاں تک ممکن ہو بچوں کی کم سے کم تعداد پیدا کرے ۱۴۷۔۔ اور اس مقصد کا حصول بڑی عمر کی شادی ، شرح پیدائش کو کم از کم کرنا اور ضبط تولید کے ذریعے ممکن ہے۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں تقریر کے دوران اگرچہ موضوع براہ راست یہ نہ تھا بلکہ لینڈ ریونیو بل پر بحث کے دوران اقبال نے استعارۃً کہا کہ۔۔۔” ضبط تولید کے اس دور میں طفل کشی کوئی بری بات نہیں” ۱۴۸۔۔۔ پھر بھی اس سے اقبال کے رجحان طبع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ البتہ اس ابتدائی دور کے بعد اقبال نے خاندانی منصوبہ بندی پر اپنی بعد کی تحریروں میں کچھ نہیں لکھا۔ شائد فساد خلق کے خوف سے ایسا ہوا ہو۔ معاشی نظریات کلامِ اقبال کے آئینے میں : معاشی انقلاب کی خواہش :۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران نظامِ ملوکیت کے خلاف رد عمل کے نتیجے میں روس میں انقلاب آیا۔ اقبال کے کلام میں اس انقلاب کی عکاسی جس انداز میں کی گئی ہے اس سے علامہ کے معاشی تصورات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مزدوروں کو مژدہ سناتے ہیں کہ دور ملوکیت تمام ہوا اب تمہارا دور آنے کو ہے۔ انقلاب بے کہ نہ گنجد بہ ضمیر افلاک بینم و پیچ ندانم کہ چناں می بینم۱۴۹ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے۱۵۰ انجم میں بھی اپنوں نے ایسا ہی انقلابی نعرہ بلند کیا خواجہ از خونِ رنگِ مزدور ساز و لعل باب از جفائے دہ خدایاں کار دہقاناں خراب انقلاب ! انقلاب ! اے انقلاب !! ۱۵۱ انقلاب خواہ دنیا کے کسی حصے میں ہو اگر یہ غلامی کی زنجیرویں کاٹنے کے لیے ہو تو اقبال اس کے ہمنوا ہیں۔ اشتراکیت کا یہی پہلو ہے جس اقبال نے تعریف کی لیکن یہ اشتراکیت کی تعریف نہیں انقلاب کی مدح سرائی ہے۔ اقبال چونکہ طبعاً انقلاب پسند ہیں اس لیے۔۔۔ اٹھوں میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ امراء کے در و دویوار ہلا دو۱۵۲ کا پیغام دے کر اس اسلامی انقلاب کا پیغام دے رہے ہیں جس کے وہ سدا آرزو مند رہے۔ طبقاتی تقسیم کی مذمت :۔ اقبال کے کلام میں جا بجا اسلام کے اقتصادی نظریات کی عکاسی کی گئی ہے جو موثر اور سچی مساوات پیدا کرتے ہیں اور جسے خدا نے “فاصبعتم بنعمۃ اخوانا” کی آیت کریمہ میں بیان کیا ہے۔ اقبال نے جابجا اخوت و مساوات کو سراہا ہے۔۔۔ موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقاں نے فقیر رہ نشیں۱۵۳ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۱۵۴ کلام اقبال میں جابجا طبقاتی تقسیم کی مذمت کی گئی ہے۔ تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے!! حرز اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۱۵۵ اور نسل و قومیت کلیسا سلطنت تہذیب رنک خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات۱۵۶ سرمایہ و محنت کی آویزش:۔ سرمائے اور محنت کی آویزش کے سلسلے میں کلامِ اقبال میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اقبال اشتراکیت کے حامی ہیں جیسا کہ شمس الدین حسن مدیر انقلاب نے ۲۴؍جون ۱۹۲۳ء کو زمیندار اخبار میں انہی خیالات کی بنا پر اقبال کو اشتراکیت کا مبلغ اعلیٰ قرار دیا تھا ۱۵۷۔ حالانکہ اقبال کے خیالات اشتراکی نہیں خالصتاً اسلامی اصولوں کے تابع ہیں جن کے تحت مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا نہ کرنا گناہِ عظیم ہے جبکہ سرمایہ داری کے نام میں محنت کا استحصال عام سی چیز ہے۔ بقول اقبال : دستِ دولت آفریں کو مزدری یوں ملتی رہی اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات۱۵۸ اقبال اسی ظلم کے خلاف مزدور کا تحفظ چاہتے ہیں اور اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ: غلام گر سنہ دیدی کہ بر درید آخر! قمیصِ خواجہ کہ رنگیں ز خونِ مابود است۱۵۹ اقبال اسی ظلم کے خلاف ہیں: تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات۱۶۰ لیکن یہ آویزش صرف سرمایہ داری و اشتراکیت میں ہے اسلام میں نہیں۔ محنت و سرمایہ دنیا میں صف آرا ہو گئے دیکھئے ہوتا ہے کس کس کی تمنائوں کا خون ۱۶۱ کے شعر میں اسی کشمکش کی طرف اشارہ ہے۔ قل العفو کامسئلہ یا معاشی مساوات: جو حرفِ قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار۱۶۲ اقبا ل کے اس شعر کے بارے میں اشتراکیت پسندوں نے بہت سے مغالطے پیدا کر دئیے ہیں حالانکہ اگر وہ اسی نظم کے اس سے پہلے شعر کو بھی ساتھ ساتھ کر دیکھیں گے تو مغالطے کی گنجائش نہیں رہتی : قرآن میں ہو غوطہ زن اے مسلماں اللہ کرے تجھ کو عطا جرت کردار۱۶۳ اقبال کی نظر میں “العفو” کے معنی یہ نہیں کہ جو کچھ ضرورتوں سے باقی ماندہ ہے وہ زبردستی چھین لو۔ اس کا مطلب فقط یہ ہے کہ جو کچھ پس انداز ہے اس سے خرچ کرو اور وہ بھی رضا سے۔ وہ پہلے اپنی ضرورت پوری کر کے پھر انفاق کے قائل ہیں۔ البتہ قانونِ زکوۃ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس نفاذ جبری ہے اور ہر شخص پر فرض۔ خود ’العفو‘ والی آیت سے بھی رقم جمع کرنے کا اثبات ہوتا ہے کیونکہ زر محفوظ موجود ہو تو ’العفو‘ اپنی پس اندازی کی نوبت آئے گی۔ کلام اقبال میں اس معاشی مسئلے پر اسلامی نقطۂ نظر کے عین مطابق اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اقبال تعلیم قرآنی کے مطابق مال کی چند ہاتھوں میں گردش کی بجائے دورانِ فون کی طرح جسم ملت کے ہر رگ و ریشہ میں پہنچنے کے قائل ہیں۔ ہیچ خیر از مردک زرکش مجو لن تنالوا البر حتی تنققوا۱۶۴ ارض للہ کا نظریہ: اقبال کو چونکہ مسلمانوں کی اقتصادی بہبودی بہبود سے بہت دلچسپی تھی۔ مسلمان زیادہ تر کاشتکار تھے اور ان کے دل میں یہ بات سما دی گئی تھی کہ زمین حکومت کی ملکیت ہے اور زرعی مال گزاری کا نظام بھی اس مفروضے پر مبنی تھا۔ اقبال نے جہاں اپنی نثری تحریروں میں اس کی حالت کی وہاں کلامِ اقبال میں بھی جا بجا اس کی مذمت نظر آتی ہے۔ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں : اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں ۱۶۵ وہ خدایا یہ زمین تیری نہیں میری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں۱۶۶ مالک ہے یا مزارع شوریدہ حال ہے جو زیر آسماں ہے وہ دھرتی کا مال ہے۱۶۷ باطن ’الارض للہ‘ ظاہر است ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است۱۶۸ اور رزق خود را از زمین بردن رو است ایں متاعِ بندہ و ملک خدا است بندئہ مومن امیں، حق مالک است غیر حق ہر شے کہ بینی مالک است۱۶۹ اقبال کا یہ معاشی نظریہ قرآنِ پاک کی آیت “للہ ما فی السموات و الارض “ سے اخذ کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال کی طرفیں “زمین کا حقیقی مالک اللہ ہے۔ زمین اس کی متاع اور یہ متاع بے بہا روشنی، ہوا اور پانی کی طرح انسانوں کے لیے بنائی گئی ہے وہ اس سے فائدہ تو اٹھا سکتے ہیں اس پر ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ ہاں رزق حاصل کرنے کی غرض سے جس قدر اراضی خود کاشت کر سکتا ہے وہ بحیثیت ایک امین اس کی ملکیت رہ سکتی ہے” ۱۷۰ لیکن الارض للہ کے یہ معنی نہیں کہ زمین کسی فرد یا اجتماع کی ملکیت ہو ہی نہیں سکتی اگر ایسا ہوجاتا تو اقبال انفاق پر شعر نہ لکھتے۔ ہاں البتہ لا محدود ملکیت کا مسئلہ الگ ہے اس کا نہ اسلام قائل ہے اور نا اقبال۔۔”وہ اجتماعی مصالح کے لیے ملکیت کے معقول تحدید کو جائز گردانتے ہیں” ۱۷۱۔ لا اور الا بطور معاشی اصطلاحات : علامہ اقبال نے روسیوں کو لا الہٰ کی بنیادوں پر قائم پایا تو انہیں الا اللہ کو اپنانے کی دعوت دیتے ہوئے قرآن کی معاشی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی۔ انسانی معاشرہ میں الا اللہ کی اہمیت کا ذکر جاوید نامہ کے علاوہ ’پس چہ باید کرد‘ اور ’ضرب کلیم‘ میں بھی کیا ہے:۔ کردہ کار خداونداں تمام بکذر از لا جانب الا خرام در گزر از لا اگر جو یندہ تارہ اثبات گیری زندہ۱۷۲ روس را قلب و جگر گردید خوں از ضمیرش حرف لا آئید بروں کردہ ام اندر مقاماتش نگاہ لا سلاطیں لا کلیسا لا الہ فکر اور در تند باد لا بماند مرکب خود را سوے الا نہ راند درمقام لا نیا سائید حیات سوے الا می خرا مد کائنات۱۷۳ نہادِ زندگی میں ابتدا لا انتہا اِلا پیام موت ہے جب لا ہو اِلا سے بے گانہ وہ ملت روح جس کی لا سے آگے بڑھ نہیں سکتی یقین جانو ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ۱۷۴ یہ تمام اشعار اس امر پر شاہد ہیں کہ اقبال ایک عالمگیر معاشی نظام کے نفاذ کے لیے قرآن کو اساسِ محکم قرار دیتے تھے کیونکہ قرآن کا معاشی نظام اکتناز و احتکار۔ ربا و قمار کو ممنوع قرار دیتا ہے اور جاگیرداری کا خاتمہ کرتا ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف تحریکوں کی حمایت: اقبال نے مغربی استعماری طاقتوں کی ملوکیت کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کی وہ سرمایہ داری نظام کے مخالف تھے مسولینی کے اس حد تک ہم خیال تھے وہ بھی ان کی طرح سرمایہ داری کے خلاف تھا۔ اقبال نے مسولینی پر دو نظمیں بھی تحریر کیں۔ دونوں کا عنوان ’مسولینی‘ ہے ایک بال جبریل میں اور دوسری ضرب کلیم میں ہے۔ رومۃ الکبریٰ دگر گوں ہو گیا تیرا ضمیر اینکہ می بینم بہ بیداریست یا رب یا بہ خواب چشم پیران کہن میں زندگانی کا فروغ نوجواں تیرے ہیں سوز آرزو سے سینہ تاب۱۷۵ اقبال نے مسولینی سے ملاقات کی اور اس کی ذہانت سے بہت متاثر ہوئے۔یورپ کی سرمایہ دار اقوام اشتراکیت اور فاشزم کے مخالف تھیں٭ اقبال کی نظر میں دونوں نظام خامیوں کے حامل ہیںاسی لیے کہتے ہیں۔ مگر مسولینی نے چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کی اور اس میں دراڑیں ڈالیں اس لیے اقبال اسے پسند کرتے تھے کہ بالآخر ایسے ہی جھٹکوں سے سرمایہ دارانہ نظام موت سے دو چار ہو گا۔ تاہم فاشسٹ مسولینی نے چونکہ کسی مثبت نظام کے لیے بنیادیں فراہم نہ کیں لہٰذا وہ اس سے زیادہ قریب نہ ہو سکے۔ کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟ بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار میں چھلنی تو چھاج پردہ تہذیب میں غارت گری، آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے ، میں روا رکھتا ہوں آج۱۷۶ علامہ نے اس نظم میں مسولینی کے خیالات کی عکاسی کی ہے مگر اس سے یہ تاثیر لینا کہ علامہ فاشزم کے حامی تھے صریحاً غلط ہے۔ اس نظم کے آخری شعر کے الفاظ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ فی الحقیقت فاشزم بھی غارت گری اور آدم کشی کا دوسرا نام ہے۔ توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب۱۷۷ مساوات شکم کی مذمت: علامہ جہاں سرمایہ داری کی ارتکازِ دولت کے خلاف ہیں وہاں وہ اشتراکیت کی مساوات شکم کی اساس معیشت کو بھی رد کرتے ہیں۔ غریباں گم کردہ ام افلاک را در شکم جو یند جانِ پاک را رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک جزبہ تن کارے نہ، ندارد اشتراک دین آں پیغمبر حق نا شناس بر مساواتِ شکم دارد اساس۱۷۸ چونکہ یہ تن کو بارونق اور دل کو تاریک بناتی ہے۔ اس لیے اقبال سرمایہ داری کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں : ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب ہر دو یزداں ناشناس و آدم فریب غرق دیدم ہر دو را در آب گل ہر دو را تن روشن و تاریک دل۱۷۹ اسی لیے وہ فیصلہ دیتے ہیں کہ مساواتِ حقیقی اشتراکیت کے بس کا روگ نہیں کیونکہ۔۔۔ تا اخوت را مقام اندر دل است بیخ او در دل نہ در آب و گل است۱۸۰ پیامبر اشتراکیت کی مذمت: اقبال کے بارے میں یہ غلط تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اشتراکیت کے حامی تھے اور انہوں نے کارل مارکس سے بہت اخذ کیا۔ یہ تاخیر صریحاً غلط ہے۔ کلام اقبال میں کارل مارکس کے بارے میں متعدد مقامات پر خیال آرائی کی گئی ہے: تیری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوط خمدار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمائش۱۸۱ وہ یہودی فتنہ گروہ روح مزدک کا بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار۱۸۲ وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح مسیح بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل دار و کتاب ۱۸۳ صاحبِ سرمایہ از نسل خلیل یعنی آں پیغمبر بے جبریل۱۸۴ دین آں پیغمبر حق ناشناس بر مساواتِ شکم دارد اساس۱۸۵ مذکورہ اشعار سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال نہ اشتراکیت سے متاثر تھے اور نہ پیغمبر اشتراکیت سے۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ کا نظریہ: معیشت اسلامی: جس چیز کے بارے میں انسان نے محنت نہیں کی اس پر اس کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے علامہ مزدور اور اس کی محنت کا حق دلانے کے سلسلے میں عین اسلامی نظریہ کے مطابق مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری ادا کر دینے کے قائل تھے اور اور مزدور سے نا انصافی کے سخت خلاف تھے سرمایہ داری کے خلاف انہیں سب سے بڑی شکایت ہی یہی تھی کہ وہ مزدور کی محنت کا حق ثبت کر لیتا ہے۔ حکم حق ہے۔ “لیس للانسان الا ماسعیٰ”! کھائے کیوں مزدور کی محنت کا حق سرمایہ دار۱۸۶ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے مزدور کو ہمیشہ یہ تلقین کی کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل اختیار نہ کریں جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔ فلسفہ فقر کی معاشی حیثیت: قرآن نے جس فقر کو سراہا ہے وہی اصل شہنشاہی ہے۔اس کی بدولت خود مومن کو کائنات پر حکومت حاصل ہوتی ہے۔ یہ فقر اختیاری کہلاتا ہے اس پر جناب رسالت مآب ﷺ نے فخر کیا ہے جبکہ فقر اضطراری سے پناہ مانگی ہے۔ یہ فرد کے معاشی و مادی احوال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اقبال کے نزدیک فقر ایک اسلوبِ زندگی ہے۔ ایک خاص وقار ہے جو انسان کو دولت کی ہوس سے بچاتا ہے۔ ۱۸۷ یہ اس داخلی کیفیت کا نام ہے جس کا ذکر اقبال نے یوں کیا ہے۔ فقر خواہی از تہی دستی فعال عافیت در حال و نے در جاہ و مال۱۸۸ فقر جنگاہ میں بے ساز ویراق آتا ہے ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقر غیور کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زر و سیم۱۸۹ نگاہ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے۱۹۰ نظریہ سود: اقبال اسلامی نظام معیشت کو بہترین تسلیم کرتے ہوئے سود کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں “انما البیع مثل الربوا”والی کافرانہ دلیل کے بارے میں بال جبریل کی نظم ’لینن خدا کے حضور میں‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں : ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مناجات۱۹۱ رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات۱۹۲ یہ نظام بنکاری جو سود پر چل رہا ہے اقبال اس کے سراسر مخالف ہیں۔ان کا بے حد مقروض ہونا اور بعض صوبوں میں ان کی ناکافی اکثریتوں کا خیال کر لیا جائے تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ مسلمان جداگانہ انتخابات کے لیے کیوں مضطرب ہیں۱۹۳۔اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں واضح کیا کہ مسلمانوں کا بنیادی مقصد ترقی کی راہ میں آزادی سے مزن ہونا ہے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر ہی وہ ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ قائد اعظم کے نام خط میں بھی اقبال نے انہی حقائق کا اظہار کیا ہے ۱۹۴۔روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جار ہے ہیں۔ عام خیال ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہوکاری اور سرمایہ داری ہے یہ احساس کہ اس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا۔ اگر اسلامی قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقا ایک آزاد مسلم ریاست کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔۱۹۵ ان حقائق کی روشنی میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ تحریک پاکستان کے پس پردہ بھی معاشی عوامل کار فرما تھے۔ عصر حاضر میں پاکستان کے معاشی مسائل: اگرچہ معاشی مسائل ہر دور میں انسان کے لیے اہم ترین اور سب سے زیادہ توجہ کے حامل رہے ہیں لیکن دور حاضر میں معاشی مسائل ہمیشہ سے زیادہ اہمیت حاصل کر گئے ہیں۔ عصر حاضر کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور روز افزوں مہنگائی معاشی مسائل میں کئی گنا اضافہ کرنے کا باعث بن گئی ہے۔ اگرچہ عہد اقبال میں بھی مسلمانوں کے لیے “روٹی کا مسئلہ” اہم ترین مسئلہ تھا لیکن یہ مسئلہ عصر حاضر کے معاشی مسائل سے بہت مختلف تھا۔ اگرچہ اس وقت بھی “قلیل اجرت ، غلیظ مکان اور پیٹ بھر روٹی کو ترستے ہوئے بچے”۱۹۸ معاشی مسائل کی سنگینی کا احساس دلاتے تھے لیکن آج کے دور میں پاکستان کو جو معاشی مسائل درپیش ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان اس وقت تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح معاشی بدحالی کے گرداب میں بری طرح پھنسا ہو ا ہے۔ ٭ بیرونی قرضوں نے معیشت کو برباد کر دیا ہے ٭ بیرونی تجارت رو بہ زوال اور جبکہ تجارتی توازن عنقا ہے ٭ زر مبادلہ کے وسائل غیر یقینی ہیں ٭ افراط زر کی وجہ سے کرنسی کی قیمت کم ہو رہی ہے ٭ حکومت کے غیر ترقیاتی اخراجات روز افزوں ہیں ٭ آبادی اور بیروز گاری میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ٭ اقتصادی منصوبہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے ٭ ہر سال کا بجٹ خسارے کی سرمایہ کاری کا پیغام لیکر آتا ہے ہمارے خیال میں پاکستان کی معیشت میں کوئی بنیادی خامی ضرور ہے جس کی وجہ سے یہ روبہ زوال ہے۔ پاکستان کے ان معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے کمیٹیاں اور کمیشن بنائے جاتے ہیں جو کہ ہمیشہ بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں کیونکہ معاشی مسائل کو دفتری انداز میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے لیے خلوص نیت کی قومی روی اور ان تھک محنت کی ضرورت ہے۔ علامہ اقبال کے معاشی افکار و تجاویز کی روشنی میں اگر ہم آج کے پاکستان پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے ان انقلابی خطوط پر اپنا معاشرہ اور اقتصادی ڈھانچہ تعمیر نہیں کیا جس کی نشاندہی انھوں نے کی تھی۔ ٭ زرعی اصلاحات نتیجہ خیر نہیں ٭ دیہی علاقوں کی اصلاح و ترقی کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا ٭ صنعتی اور تجارتی تعلیم تو کجا شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے ٭ معاشیاں ناہمواریاں عروج پر ہیں ٭ بے روز گاری ، افراط زر اور روز افزوں مہنگائی ٭ مفاد پرستی اور رشوت ستانی کا دور دورہ ہے ان معاشی مسائل کے تناظر میں ملک کی مجموعی صورتحال بقول علامہ اقبال : تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی ، خواجہ بلند نام ابھی ۱۹۹ معاشی ترقی کے راہ کی رکاوٹیں: پاکستان کی معاشی ترقی کے راستے میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ مثلاً وسائل اور سرمائے کی کمی، آبادی اور وسائل میں عدم توازن کی صورت حال، ہنر مندی اور علوم و فنون کا فقدان، صنعتی پسماندگی ، غیر موزوں معاشی پالیسیاں، ان سب کے نتیجے میں ملکی معیشت گوناں گوں مسائل کا شکار ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔ ملکی کرنسی کی قیمت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ مہنگائی کا گراف بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور ایک عام آدمی کے لیے زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ پاکستانی معاشرہ میں اقبال کے اقتصادی تصورات سے استفادہ کی صورتیں: اگرچہ اقبال کے دور میں علم معاشیات کے مباحث کا دائرہ بہت وسیع اور مربوط نہ تھا، آج کی ترقیاتی معاشیات کی نسبت عہداقبال کا علم معاشیات بہت تنگ داماں تھا اس کے باوجود اقبال نے انسانی زندگی کے معاشی مسائل اور ان کے حل کے لیے ٹھوس علمی تجاویز پیش کیں۔ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی ممبر شپ کے دوران ۱۹۲۷ء تا ۱۹۳۰ء صوبائی بجٹ تقاریر کے دوران اور وقتاً فوقتاً تقاریر کے مواقع پر انھوں نے جو عملی تجاویز پیش کیں وہ دور رس نتائج کی حامل تھیںاور ان کا مقصد معیشت کے عاملانہ فروغ کی راہ ہموار کرنا تھا۔ فی کس آمدنی میں اضافہ کیونکر ممکن ہے؟ پیداوار میں اضافہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ انسان کی زندگی کا معیار کیسے اونچا کیا جائے؟۔۔۔ یہ سب مسائل اقبال کے سامنے تھے اور ان کی عملی تجاویز کا رخ اپنی مسائل انھی مسائل کو حل کرنے کی طرف تھا اس کے لیے انھوں نے ایسی تجاویز پیش کیں جن پر عمل درآمد کے بعد معاشی خوشحالی کی منزل آسان تر ہو سکتی ہے۔۔۔ مثلاً۔۔۔ ۱) فقہ اسلامی کی تدوین نو: انسانوں کے معاشی اور تمدنی مسائل کا حال اقبال کے نزدیک اسلامی فقہ کی تدوین نو میں ہے۔ معاشی مسائل کا حل اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں فقہ اسلامی کے مزید فروغ میں موجود ہے۔ اگر اس قانون کی اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کا بنیادی معاشی حق محفوظ ہو جاتا ہے۔ ۲۰۰ کیونکہ اس نظام میں غریب امیروں پر ٹیکس عائد کر سکتے ہیں اور سوسائٹی مساوات شکم کی بجائے روحوں کی مساوات پر قائم ہوتی ہے۔۲۰۱ ۲) درآمدات کی نسبت برامدات میں اضافہ پر زور: اقبال نے مختلف تحریروں میں ہندوستان کی عمومی معاشی پسماندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے جن وجوہات کی نشاندہی کی ہے ان میں سے ایک تجارت پر غیر ملکی قبضہ اور بیرونی منڈیوں میں ملکی برامدات کی کمی اور درآمدات کی زیادتی ہے۔ کسی قوم کے کارخانے بتاتے ہیں کہ وہ قوم کہاں تک غیروں کی محتاج ہے اور کہاں تک اپنی ضروریات کو اپنی محنت سے حاصل کرتی ہے۔۲۰۲ ۳) مسلم ممالک کے باہمی تجارتی روابط کا فروغ : اقبال نے ایشیا کے مسلم ممالک کے مابین تجارتی روابط کے فروغ کا ذکر متعدد مقامات پر کیا ہے۔ وہ عالمِ اسلام کے اتحاد و روابط کے زبر دست مبلغ اور موتمر عالمِ اسلامی کے حامی تھے۔۲۰۳ اس لحاظ سے اقبال کو وسطی ایشیا کی جدید “تنظیم برائے تعاون ترقی و تعمیر نو” کا ایک پیش رو مفکر سمجھنا چاہیے۔ ۴) زرعی اصلاحات کی ضرورت: اقبال کے اقتصادی تصورات کی روشنی میں زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں تو ملکی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ زمین کے بارے میں اقبال کا یہ نظریہ کہ زمین نہ تو قطعی طور پر حکومت کی ملکیت ہے اور نہ افراد کی بلکہ صرف خداوند کریم کی ملکیت ہے اور حکومت وقت اجتماعی مفاد کے لیے اس کی امین اور منتظم ہے وہ انتظامی اقدامات بھی کر سکتی ہے اور کاشتکاری کے لیے کسانوں کو بھی دے سکتی ہے اگر اقبال کے اس نظریہ پر عمل کیا جائے تو جاگیرداری اور زمینداری ختم ہو سکتی ہے اور کاشتکاری کی معاشی حالت فی الواقعی بہتر ہو سکتی ہے۔ مالیہ کا انتظام انکم ٹیکس کے اصول پر استوار کرنا یا پانچ ب۲۰۴بیگھے تک کے مالکان کو مالیہ معاف کرنا جیسی تجویز جو چھوٹے کاشتکاروں کے تحفظ کے سلسلے میں اقبال نے جو تجاویز پیش کی تھیں ابھی تک اس اصول پر پورے طور پر عمل نہیں ہو سکا۔ حالانکہ ملک کی آبادی کا غالب حصہ دیہات میں بستا ہے۔ ۵) لازمی تعلیم کی اہمیت:تعلیم کے بارے میں اقبال کے خیالات انتہائی جدید ہیں وہ نوجوانوں کے لیے عام تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی صنعتی اور انتظامی تعلیم کے حامی تھے حتیٰ کہ وہ جبری تعلیم کا قانون نافذ کرنے اور اس سلسلے میں موثر اور قابلِ عمل حکمت عملی وضع کرنے قائل تھے۔ لیجسلیٹو کونسل میں ۵؍مارچ ۱۹۲۷ء اور ۴؍مارچ ۱۹۲۹ء کے سالانہ بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں انھوں نے انتظامی اخراجات کی بجائے تعلیم کے لیے زیادہ رقوم مختص کرنے پر زور دیا۔۲۰۵ اقبال کی نظم میں تعلیم کا اصل مقصد نوجوانوں میں ایسی قابلیت پیدا کرنا ہے جس کی بدولت وہ اپنے تمدنی فرائض باحسن وجود ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ قومی تعلیم کی بنیاد ان ضرورتوں پر ہونی چاہیے جو انقلابِ حالات کی بنا پر پیدا ہوئی ہوں۔ وہ تعلیم کو معاشی ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ کمی اجرت کی تلافی اور مقابلہ نا مکمل کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے قومی تعلیم کا نسخہ تجویز کرتے ہیں”۔یہ وہ چیز ہے جس سے دستکار کا ہنر اس کی محنت کی کارکردگی اور ذہانت ترقی کرتی ہے۔۲۰۶اس ضمن میں جاپان کی مثال دیتے ہوئے صنعتی تعلیم کو وقت کی اہم ترین قرار دیتے ہیں”۔حال کی قوموں میں جاپانیوں کو دیکھو کس سرعت سے ترقی کر رہے ہیں ابھی تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے کہ یہ قوم قریباً مردہ ت۱۸۶۸ء میں جاپان کی پہلی تعلیم مجلس قائم ہوئی س سے چار سال بعد ۱۸۷۲ء میں جاپان کا پہلا تعلیمی قانون شائع کیا گیا اور شہنشاہ جاپان نے اس کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے”۔ ہمارا مدعا ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گائوں میں کوئی خاندان جاہل نہ رہے۔ غرضیکہ ۳۶ سال کے قلیل عرصے میں مشرقِ اقصیٰ کی اس مستعد قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی دینوی اعتبار سے ترقی کے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی مہذب ترین اقوام میں شمار ہوتی ہے”۲۰۷۔ ۶) تعلیم نسواں : اقبال نے تعلیم نسواں پر بھی بہت زور دیا۲۰۸۔ سچ یہ ہے کہ آج بھی ہماری خواتین بہت پسماندہ اور بے بس ہیں اگرچہ پچھلے دس سالوں میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن بحیثیت مجموعی صورت حال اقبال کے دور سے زیادہ مختلف نہیں۔ عورتوں کے معاملے میں اقبال کی پر زور تحریروں کی روشنی میں پیداری پیدا کرنے اور فلاح و بہبود میں اضافہ کرنے والے بھرپور پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ۷) انکم ٹیکس کی طرح لگان میں رعایت : انکم ٹیکس کے اصول پر مالیے کی تشخیص کا اصول پاکستان میں ۱۹۷۷ء میں لا گو ہوا جبکہ علامہ یہی تجویز نصف صدی قبل پیش کر چکے تھے۔ ۱۹۲۸ء میں کونسل میں اس مسئلہ پر بحث کے دوران اقبال نے ثابت کیا کہ زمین کی ملکیت حکومت کے ہاتھ میں نہیں بلکہ عوام خود اپنی زمین کے مالک ہیں اس لیے مالیے کی تشخیص انکم ٹیکس کے اصول پر ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میں اقبال نے کہا۔ “یورپی مصنفین میں سب سے پہلے فرانس کے مصنف پیروں نے ۱۸۷۷ء میں اس نظریے کو جھٹلایا۔ ۱۸۳۰ء میں ہر گز نے تحقیق کی اور اپنی کتاب میں منوسمرتی ، اسلامی قوانین اور ہندوستان مختلف علاقوں کے دستور کا ذکر کیا۔” اقبال نے یہ بھی کہا کہ اگر مکمل طور پر یہ اصول لاگو نہیں ہو سکتا تو کم از کم نا کیا جائے کہ بارانی علاقوں میں پانچ بیگھے اراضی تک کے مالکوں کو مالیے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ اگرچہ تجویز بھی قبول نہ کی گئی لیکن اقبال کی معاشیات سے وابستگی اور عوام کی حالت سدھارنے کی مخلصانہ کوشش بدستور جاری رہی۔ ۸) محصولات کے نفاذ کی پالیسی: محصولات کے نفاذ کے سلسلے میں اقبال کی اہم تجویز موت یا وراثت ٹیکس عائد کرنے کی تجویز تھی۔ جسے جدید اصطلاح میں Inheritance Tax کا نام دیا جاتا ہے اور دنیا کے اکثر و بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس عائد ہے۔ اقبال نے بیس ہزار یا تیس ہزار کی مالیت کی جائداد وراثت میں حاصل کرنے پر ایک خاص شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پیش کی تھی جو ارتکازِ دولت کے لیے بہت موزوں ہے۔۲۱۰ پاکستان میں بھی ایک دہائی قبل تک یہ ٹیکس عائد تھا جو امراء کے اصرار پر ختم کر دیا آج کل کے حالات متقاضی ہیں کہ ارتکازِ دولت کے عمل کو روکنے کے لیے اقبال کی تجویز کے عین مطابق وراثت ٹیکس کا پھر اجرا کیا جائے۔ حکومت کے انتظامی اخراجات میں کمی کی ضرورت: پنجاب لیجسلیٹو کونسل میں اقبال کی آخری تقریر مارچ ۱۹۳۰ء میں حکومت کے انتظامی اخراجات کو خاص طور پر ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ افسر شاہی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سماجی فلاح و بہبود کے فقدان ، بھوک ، بیروز گاری اور فرقہ وارانہ جھگڑوں جیسی لعنتوں کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ۲۱۱فی الحقیقت اقبال کا یہ رد عمل آج کل کے حالات پر بالکل صادق آتا ہے۔ ہمارے بجٹ کے خسارے کے باوجود معاشی اور سماجی مسائل میں ہوش ربا اضافہ اس امر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ مروجہ نظامِ حکومت نقائص سے پُر ہے اور اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پورے نظام کو بدل کر ایسا نظامِ حکومت رائج کیاجائے جس میں حکام افکار و کردار اقبال کے انسان دوست فکری سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں۔ غرض اقبال کے معاشی افکار و تجاویز سے صاف طور پر عیاں ہوتا ہے کہ اپنے دور کے معاشی مباحث سے پوری طرح باخبر تھے اور ایسے معاشرے کی تعمیر کے خواہاں تھے جو کس نہ باشد درجہاں محتاج کس نکتۂ شرعِ مبین ایں است و بس۲۱۲ کی تصویر ہو۔ اقبال علم معاشیات کی مدد سے یہی معاشرہ تعمیر کرنا چاہتے تھے انھوں نے انسان کی معاشی زندگی کو اس کی معاشرتی زندگی کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایسا نیا اندازِ فکر متعارف کیا جو یقینا علم معاشیات کے مباحث کو سمجھنے کا منفرد انداز ہے اور آج کے پاکستانی معاشرے کے لیے اقبال کے اقتصادی تصورات سے استفادہ کر کے آج بھی اپنے معاشی کو بطریق احسن حل کرنے کے قابل ہو سکتا ہے بشرطیکہ نیت نیک اور جذبہ صادق ہو۔ ۹) علامہ اقبال کے تناضر میں اقتصادی ترقی کے لیے مجوزہ اقدامات:اقبال کے فلسفیانہ نظریات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ ایک ماہر معاشیات ہونے کے باوجود وہ انسان کے معاشی مسائل کو ایک موثر انداز میں اجاگر کرکے معاشی فلاح و بہبود کو انسان کی تمدنی ترویج کے لیے لازم قرار دیتے ہیں اقبال کی نظر میں غریبی قوائے انسانی پر بہت اثر انداز ہوتی ہے بلکہ بسا اوقات روح کے مجلہ آئینے کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی و تمدنی لحاظ سے اس کا وجود و عدم وجود برابر ہو جاتا ہے۔۲۱۳ اقبال نے آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اپنے معاشی افکار کے تناظر میں جو عملی اقتصادی تجاویزپیش کی تھیں ان پر ابھی تک عمل نہیں ہوا حالانکہ وہ آج بھی ہمارے بہت سے دکھوں کا علاج پیش کرتی ہیں۔ غربت و افلاس کو دور کرنے اور معاشی خوشحالی کو تیز کرنے الناس کی تقدیر بنانے کے لیے اقبال نے اپنی تحریروں میں جن عوامل پر زور دیا ہے ان پر آج کل بھی عام بحث ہو رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال کے اقتصادی تصورات سے استفادہ کر کے ہم آج بھی اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ معاشی خوشحالی کے حصول کے سلسلے میں اقبال نے سات عوامل کا بطور خاص ذکر کیا ہے مثلاً:۔ ۱) نوجوانوں کو صنعتی ، فنی اور تجارتی تعلیم سے آراستہ کرنا ۲) عورتوں کی تعلیم اور تمدنی ترقی کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا (خصوصاً دیہی عورتوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات) ۳) شہری اور دیہاتی ہر دو علاقوں میںنجی انجمنیں قائم کر کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنا۔۲۱۴ ۴) صنعتی ترقی کے لیے بھرپور کوشش کرنا۔ ۵) معاشی ترقی کی راہ میں حائل روایات و رسوم کو دور کرنا۔ ۶) اقتصادی قوت پیدا کرنے والے عوامل کی نشاندہی کرنا۔۲۱۵ یاد رہے کہ اقبال نے معاشی ترقی کے لیے جن عوامل کا ذکر کیا ہے یہ وہی عوامل ہیں جنہیں مشہور امریکی خاتون معیشت دان ارما ایڈل مین نے اپنے ترقیاتی ماڈل میں انگریزی حرف یو میں شامل کیا ہے۔۲۱۶ اقبال اگر علمی اعتبار سے اسلامی معاشیات کی تجدید نو چاہتے تھے تو عملی لحاظ سے بھی انھوں نے معاشرے کے مسائل اور مسلمانوں کی معاشی حالت سے اغماض نہیں برتا۔ بلکہ وہ مسلم معاشرے کی معاشی ابتری سے بخوبی آگاہ تھے اور اس صورتحال کو بدلنے کے لیے موثر اقدامات کے خواہاں تھے۔ اس لیے ان کا خیال تھا کہ سب سے اہم عقدہ جو اس مسلمان کے سامنے جو قومی کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے یہی ہے کہ کیونکہ اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو سدھارے۔۲۱۷۔۔۔ علامہ کا ایمان ہے کہ مسلمانوں کی معاشی جنت ان کے دینی و تمدنی فکر کے تاریخی تسلسل میں پنہاں ہے اگر اس حقیقت کو مدنظر رکھ کر تحقیق کی جائے تو وہ ایک جہانِ نو کے خالق ثابت ہو سکتے ہیں اقبال بار بار تلقین کرتے ہیں کہ اسلام بجائے خود ایک پیام انقلاب ہے اس لیے اسلامی تعلیمات کی بدولت اس معاشی جنت کا حصول عین ممکن ہے۔ انسان کے اقتصادی امراض کا جو علاج قرآن نے تجویز کیا ہے وہی بہترین ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کی برتری: علامہ کے افکار سے ثابت ہے کہ ان نزدیک معیشت کے دونوں مروجہ نظام یعنی اشتراکیت اور سرمایہ داری ناقص و باطل ہیں اور انسانیت کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے صرف قرآن کی معاشی تعلیمات پر مبنی نظام ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔ اسی خیال کا اظہار انھوں نے ارمغانِ حجاز کی نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں نہایت خوش اسلوبی سے کیا ہے:۔ کب ڈرا سکتے ہی مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشان روز گار آشفتہ مغز آشفتہ جو جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے مزدکیت فتنۂ فروا نہیں اسلام ہے۲۱۸ الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر حافظِ ناموسِ زن ، مرد آزما ، مرد آفریں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین۲۱۹ اسلام کی معاشی تعلیمات کو تمام مسائل کا حل قرار دیتے ہوئے اپنی وفات سے گیارہ ماہ قبل ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں لکھتے ہیں۔ “سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیونکر حل کیا جائے۔۔۔ خوقسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے۔۔۔ اگر اسلامی قانون کو صحیح طور پر سمجھا جائے اور نافذ کیا جائے تو کم از کم ہر فرد کی بنیادی ضروریات و حاجات پوری کی جا سکتی ہیں”۔۲۲۰ اقبال قرآن کو پیغام انقلاب سمجھتے تھے۔ قرآن کا منتہائے نظر انسان کے بنیادی حقوق کو لحاظ رکھتے ہوئے ایک ایسے متوازن معاشی نظام کا نفاذ ہے جس میں کوئی کسی کے لیے استحصال کا باعث نہ بن سکے اس لیے اقبال قرآن کریم اقتصادی تعلیم کو مسلمانوں کی تمام مشکلات کا حل قرار دیتے ہیں۔۲۲۱اقبال اسلام کے صالح اور متوازن معاشی نظام کے نفاذ کے ذریعے ریاست کا قیام چاہتے ہیں جس میں غریب کا معیار زندگی بلند کر کے اسے درمیانہ طبقہ تک پہنچنے کی سہولتیں فراہم کی جائیں اور امیر کے ذرائع آمدن کو محدود کر کے اسے درمیانہ طبقہ سے تجاوز کرنے سے روکا جائے اور اسی طرز عمل کو ’اقتصاد‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام کے معاشی میں نہ سود کے لیے کوئی گنجائش ہے اور نہ تعلقہ داری نظام کے لیے۔ اسلامی نظامِ معیشت میں ان برائیوں کی بھی کوئی گنجائش نہیں جو صراطِ زر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ اسلام زر اعتباری کو ظاہری قدر کی بجائے قوتِ خرید کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔۲۲۲ سو اقبال کے معاشی مسورات کے نفاذ کا طریقہ اسلامی معاشی جمہوریت کا قیام ہے۔ اقتصادیات کی مروجہ اصطلاح کی روشنی میں ہم انہیں مخلوط معیشت کا ہی کہہ سکتے ہیں جو اراضی کی حد ملکیت بھی مقرر کرتے ہیں اور ریاستی تحویل کے اصول کو بھی مانتے ہیں ان کی ہاں ’اقتصاد‘ یا ’دولت‘ مادیانہ تقسیم خروج یا خراج کے ذریعے نہیں بلکہ اخوت اور برضائے عوام یعنی جمہوری طرزِ عمل ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر ہم پاکستان کے اقتصادی مسائل کے شافی حل کے متمنی ہیں تو فکر اقبال کے عین مطابق یہ اسلامی نظام معیشت کے نفاذ کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا۔ ٭٭٭ حوالہ جات (مقدمہ) ۱۔ علم الاقتصاد : اقبال کا پہلا علمی کارنامہ، ص، ۷۳۔ ۲۔ اقبال سب کے لیے ، ص ۳۷۔ ۳۔ سائیل اقبال، ص ۳۰۳۔ ۴۔ اقبال اردو نثر ، ص ۷۷۔ ۵۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ، ص ۲۸۹۔ ۶۔ اقبال کا ذہنی ارتقا ، ص ۱۴۔ ۷۔ دانائے راز ، ص ۱۰۹۔ ۸۔ اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ، ص ۷۶۔ ۹۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و تو ضیحی مطالعہ ، ص ۲۸۹۔ ۱۰۔ اقبال کی اردو نثر ، ص ۷۸۔ ۱۱۔ عروج اقبال ، ص ۱۷۹۔ ۱۲۔ علم الاقتصاد ، ص ۴، ۵۔ ۱۳۔ اقبال از عطیہ بیگم ، ص ۳۱۔ ۱۴۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال) ، ص ۱۱۴۔ ۱۵۔ عروج اقبال، ص ۳۲۳۔ ۱۶۔ اورینٹل کالج میگزین ، ص ۷۔ ۱۷۔ اقبال کی اردو نثر ، ص ۸۳۔ ۱۸۔ سلیکشن فرام اقبال ریویو ، ص ۲۲۶۔ ۱۹۔ دانائے راز ، ص ۴۵۔ ۲۱۔ عروج اقبال ، ص ۱۸۲۔ ۲۱۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال) ،حصہ دوم ، ص ۳۳۔ ۲۲۔ عروج اقبال، ص ۱۷۸۔ ۲۳۔ اقبال کی اردو نثر ، ص ۷۷۔ ۲۴۔ اقبال کامل ، ص ۹۴۔ ۲۵۔ افکارِ اقبال ، ۲۳۴۔ ۲۶۔ تذکار اقبال، ص ۷۷۔ ۲۷۔ اقبال ریویو ، ۲۲۶۔ ۲۸۔ برکاتِ اقبال، ص ۲۳۶۔ ۲۹۔ علم المعیشت، ص ۱۱۔ ۳۰۔ علم الاقتصاد : اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ، ص ۸۵۔ ۳۱۔ شاد اقبال، ص ۴۵۔ ۳۲۔ علم الاقتصاد : اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ، ص ۷۴۔ ۳۳۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال ج دوم)، ص ۱۱۴۔ ۳۴۔ علم الاقتصاد : اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ، ص۸۵۔ ۳۵۔ شاد اقبال ، ص ۴۵۔ ۳۶۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال، ج دوم )، ص ۱۱۴۔ ۳۷۔ اقبال بحیثیت مفکر پاکستان ، ص ۶۶۔ ۳۸۔ عروج اقبال ، ص ۱۷۸۔ ۳۹۔ کلیات اقبال، ص ۴۳۷۔ ۴۰۔ علم الاقتصاد ، ص ۵۔ ۴۱۔ کلیات اقبال ، ص ۴۳۶۔ ۴۲۔ ایضاً ، ص ۶۴۹۔ ۴۳۔ مثنوی پس چہ باید کرد ، ص ۳۸۔ ۴۴۔ پیام مشرق ، ص ۲۰۵۔ ۴۵۔ دانائے راز ، ص ۱۱۶۔ ۴۶۔ علم الاقتصاد ، ص ۱۸۸۔ ۴۷،۴۸۔ ایضاً ، ص ۱۹۰،۲۱۰ ۴۹۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ، ص ۳۰۰۔ ۵۰۔ علم الاقتصاد : اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ، ص ۷۸۔ ۵۱۔ اقبالیات ، جنوری تا مارچ ۹۵، ص۱۳۸۔ ۵۲۔ علم الاقتصاد ، ص ۶۔ ۵۳۔ اقبال اور اقبال مشمولہ نقوش اقبال ، ص ۳۶۱۔ ۵۴۔ علم الاقتصاد ، ص ۵۶۔ ۵۵۔ ایضاً ، ایڈیشن ۱۹۹۱ء ، ص ۱۹۔ ۵۶۔ ایضاً ایڈیشن ۱۹۰۴ء ، ص ۲۰۶۔ ۵۷۔ تصانیف اقبال کا تحقیقی و توصیحی مطالعہ ، ص ۲۹۶،۲۹۷۔ ۵۸۔ علم الاقتصاد : اقبال کا پہلا علمی کارنامہ ، ص ۷۸۔ ۵۹۔ ایضاً ، ص ۶۔ ۶۰۔ ایضاً ، ص ۲۷، ۴۳، ۴۵۔ ۶۱۔ ایضاً ، ص ۳۲۔ ۶۲۔ ایضاً ، ص ۳۷۔ ۶۳۔ ایضاً ، ص ۳۸۔ ۶۴۔ علم الاقتصاد ، ص ۸۶۔ ۶۵۔۷۷۔ایضاً ، ص ۷۷،۸۸،۱۱۶،۱۶۱،۲۲، ۴۳، ۳۸، ۳۵، ۴۸، ۵۴، ۱۲ ، ۳۳، ۲۰۵۔ ۷۸۔ علم الاقتصاد : ایک عمرانی مطالعہ ، ص ۹۱۔ ۷۹۔ علم الاقتصاد ، ص ۱۹۱۔ ۸۰۔ ایضاً ، ص ۵۔ ۸۱۔ ایضاً، ص ۲۳، ۵، ۲۰۰۔ ۸۲۔ ایضاً، ص ۵، ۴۷، ۵۶۔ ۸۳۔ ایضاً ،ص ۳۳، ۵۵۔ ۸۴۔ ایضاً، ص ۲۰۵۔ ۸۵۔ اقبال ریویو ، ص ۲۲۵۔ ۸۶۔ قومی زندگی ، ص ۳۳، ۳۴۔ ۸۷۔ علم الاقتصاد ، ص ۲۶۔ ۸۸۔ انوار اقبال، ص ۳۱۔ ۸۹۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال ج دوم)، ۳۴۸۔ ۹۰۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام ، ۴۸۔ ۹۱۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک نظر ، ۳۶، ۳۷۔ ۹۲۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام ، ص ۴۹۔ ۹۳۔ انوار اقبال ، ص ۲۶۔ ۹۴۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک نظر ، ص ۱۰۳۔ ۹۵۔ علم الاقتصاد ، ص ۲۲۔ ۹۶۔ حرف اقبال ، ص ۹۱۔ ۹۷۔ علم الاقتصاد ، ص ۵۔ ۹۸۔ اقبال کے معاشی افکار بحوالہ اقبالیات، جنوری تا مارچ ، ۹۵۔ ۹۹۔ کلیات اقبال، ص ۴۳۵۔ ۱۰۰۔ ایضاً ، ص ۷۰۹۔ ۱۰۱۔ کلیات اقبال ، ص ۶۴۸۔ ۱۰۲۔ جاوید نامہ ، ص ۹۱۔ ۱۰۳۔ ایضاً ، ص ۹۰۔ ۱۰۴۔ ایضاً ، ص ۸۰۔ ۱۰۵۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال ج دوم) ، ص ۳۱۴۔ ۱۰۶۔ کلیات اقبال ، ص ۴۳۶۔ ۱۰۷۔ ایضاً ، ص ۲۹۲۔ ۱۰۸۔ پیام مشرق ، ص ۲۱۶۔ ۱۰۹۔ مثنوی پس چہ باید کرد، ص ۳۸۔ ۱۱۰۔ ایضاً ، ص ۳۸۔ ۱۱۱۔ ایضاً ، ص ۵۸۔ ۱۱۲۔ کلیات اقبال(فارسی) ، ص ۷۵۶۔ ۱۱۳۔ جاوید نامہ ، ص ۷۸۔ ۱۱۴۔ پیام مشرق ، ص ۲۰۹۔ ۱۱۵۔ کلیات اقبال، ص ۴۳۷۔ ۱۱۶۔ ایضاً ، ص ۴۴۷۔ ۱۱۷۔ ایضاً ، ص ۶۴۸۔ ۱۱۸۔ مثنوی پس چہ باید کرد ، ص ۲۱۔ ۱۱۹۔ گفتار اقبال ، ص ۶۔ ۱۲۰۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال ج اوّل) ، ص ۳۱۸۔ ۱۲۱۔ ایضاً (ج دوم)، ص ۳۱۴۔ ۱۲۲۔ مثنوی پس چہ باید کرد، ص ۲۲۔ ۱۲۳۔ کلیات اقبال، ص ۳۷۴۔ ۱۲۴۔ ایضاً ، ص ۳۷۴۔ ۱۲۵۔ جاوید نامہ ، ص ۶۹۔ ۱۲۶۔ ایضاً ، ص ۸۶۔ ۱۲۷۔ اقتصادی ہند۔ ۱۲۸۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال، ج دوم) ، ص ۱۵۔ ۱۲۹۔ علم الاقتصاد ۱۳۰۔ ایضاً ۱۳۱۔ حرف اقبال ، ص ۹۵۔ ۱۳۲۔ ایضاً ، ص ۶۵، ۶۶۔ ۱۳۳۔ گفتار اقبال، ص ۲۰۸۔ ۱۳۴۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال، ج دوم) ، ص ۱۵۔ ۱۳۵۔ خطوط اقبال، ص ۲۲۵۔ ۱۳۶۔ کلیات اقبال، ص ۳۷۴۔ ۱۳۷۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک نظر ، ص ۱۰۹، ۱۱۰۔ ۱۳۸۔ علم الاقتصاد ۱۳۹۔ کلیات اقبال، ص ۸۴۔ ۱۴۰۔ اقبال کامل ، ص ۳۴۶۔ ۱۴۱۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک نظر ، ص ۵۲۔ ۱۴۲۔ ایضاً ، ص ۵۵۔ ۱۴۳۔ ایضاً، ص ۹۵۔ ۱۴۴۔ حرف اقبال ، ص ۹۹۔ ۱۴۵۔ علم الاقتصاد ، ص ۱۷۴۔ ۱۴۶۔ ایضاً ، ص ۲۰۵۔ ۱۴۷۔ ایضاً ، ص ۲۱۳۔ ۱۴۸۔ گفتار اقبال، ص ۹۰۔ ۱۴۹۔ پیام مشرق ، ص ۱۹۲۔ ۱۵۰۔ کلیات اقبال، ص ۲۹۲۔ ۱۵۱۔ کلیات اقبال (فارسی) ، ص ۹۸۲۔ ۱۵۲۔ کلیات اقبال ، ۱۵۳۔ کلیات اقبال، ص ۷۱۰۔ ۱۵۴۔ ایضاً ، ص ۱۹۳۔ ۱۵۵۔ایضاً ، ص ۲۸۶۔ ۱۵۶۔ ایضاً ، ص ۲۹۲۔ ۱۵۷۔ گفتار اقبال، ص ۵،۶۔ ۱۵۸۔ کلیات اقبال، ص ۲۹۲۔ ۱۵۹۔ پیام مشرق، ص ۲۴۹۔ ۱۶۰۔ کلیات اقبال، ص ۴۳۶۔ ۱۶۱۔ ایضاً ، ۳۲۲۔ ۱۶۲۔ کلیات اقبال، ص ۶۴۸۔ ۱۶۳۔ ۱۶۴۔ جاوید نامہ ، ص ۸۹۔ ۱۶۵۔ کلیات اقبال، ۷۱۰۔ ۱۶۶۔ ایضاً، ۴۴۷۔ ۱۶۷۔ ایضاً ، ص ۳۲۳۔ ۱۶۸۔ جاوید نامہ ، ص ۸۱۔ ۱۶۹۔ جاوید نامہ ، ص ۹۰۔ ۱۷۰۔ مئے لالہ فام ، ۲۷۹۔ ۱۷۱۔ مسائل اقبال، ص ۲۵۵۔ ۱۷۲۔ جاوید نامہ ، ص ۸۸۔ ۱۷۳۔ مثنوی پس چہ باید کرد ، ص ۲۱، ۲۲۔ ۱۷۴۔ کلیات اقبال، ص ۵۷۶۔ ۱۷۵۔ ایضاً، ص ۴۸۱۔ ۱۷۶۔ کلیات اقبال، ص ۶۶۱، ۶۶۲۔ ۱۷۷۔ ایضاً ، ۷۰۵۔ ۱۷۸۔ جاوید نامہ، ص ۶۹۔ ۱۷۹۔ ایضاً ، ص ۶۹۔ ۱۸۰۔ ایضاً، ص ۷۰۔ ۱۸۱۔ کلیات اقبال، ص ۶۴۹۔ ۱۸۲۔ ایضاً ، ص ۷۰۷۔ ۱۸۳۔ ایضا، ص ۷۰۵۔ ۱۸۴۔ جاوید نامہ، ص ۶۹۔ ۱۸۵۔ ایضاً ، ص ۶۹۔ ۱۸۶۔ کلیات اقبال، ص ۳۲۴۔ ۱۸۴۔ مسائل اقبال، ۲۵۰۔ ۱۸۵۔ مثنوی پس چہ باید کرد، ص ۱۴۔ ۱۸۶۔ کلیات اقبال، ص ۵۴۲۔ ۱۹۰۔ کلیات اقبال ، ص ۳۷۹۔ ۱۹۱۔ ایضاً ، ص ۴۳۵۔ ۱۹۲۔ ایضاً ، ص ۴۳۴۔ ۱۹۳۔ ۱۹۴۔ کلیات اقبال، ص ۴۵۶۔ ۱۹۵۔ حرف اقبال، ص ۲۹۔ ۱۹۶۔ ایضاً ، ص ۳۳۔ ۱۹۷۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام، ص ۴۸،۴۹۔ ۱۹۸۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک نظر ، ص ۱۰۳۔ ۱۹۹۔ کلیات اقبال۔ ۲۰۰۔ اقبالنامہ (مجموعہ مکاتیب اقبال، ج اوّل)، ص ۱۶۔ ۲۰۱۔ حرف اقبال، ص ۶۵۔ ۲۰۲۔ قومی زندگی اور ملت بیضاپر ایک نظر، ص ۵۴۔ ۲۰۳۔ گفتار اقبال، ص ۱۱،۱۲،۱۴۶۔ ۲۰۴۔ حرف اقبال، ص ۹۰،۹۱۔ ۲۰۵۔ ایضاً ، ص ۷۴، ۹۲۔ ۲۰۶۔ علم الاقتصاد ۲۰۷۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک نظر ۲۰۸۔ ایضاً ، ص ۴۵۔ ۲۰۹۔ سرگذشت اقبال، ص ۲۱۴۔ ۲۱۰۔ حرف اقبال، ص ۹۵۔ ۲۱۱۔ ایضاً ، ص ۹۸،۹۹۔ ۲۱۲۔ ۲۲۳۔ علم الاقتصاد ۲۲۴۔ گفتار اقبال، ص ۶۱۔ ۲۲۵۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ، ص ۳۵ تا ۵۶۔ ۲۲۶۔ اقبالیات ، جنوری تا مارچ ، ۱۹۹۵ء ، ص ۱۴۴۔ ۲۲۷۔ قومی زندگی اور ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، ص ۱۰۵۔ ۲۲۸۔ کلیات اقبال، ص ۷۰۹۔ ۲۲۹۔ ایضاً ، ص ۷۱۰۔ ۲۳۰۔ اقبالنامہ مجموعہ مکاتیب اقبال، ج اوّل ۲۳۱۔ گفتار اقبال، ص ۸۔ ۲۳۲۔ قدر زر کے تغیرات، ۹۶۔