اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال شیخ عطا اللہ شعبہ معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ دیباچہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اقبال نامہ جلد دوم کی اشاعت کے ساتھ حکیم الامت فدائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عاشق ملت اسلامیہ ڈاکٹر سر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی ایک اہم علمی و معنوی یادگار کی فراہمی و حفاظت کی خدمت ایک گونہ تکمیل کو پہنچی۔ اس خدمت کی طرف سے غفلت ہمیں آئندہ نسلوں کی نظر میں محسن ناشناسی کا مرتکب اور ہماری بدذوقی اور دوں ہمتی کے لیے موجب نفریں قرار دیتی۔ ان مکاتیب کی فراہمی کا ایک مقصد حضرت علامہ کی وفات کے بعد ان کی ایک ایسی کتاب کی اشاعت تھا جو تمام عمر ان کے زیر تصنیف رہی ارو جس سے ان کے کلام کی تشریح کی وضاحت ہوتی ہے اوران کے افکار کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن میرا سب سے اہم مقصد سیرت نگار اقبال کے لیے ان کی ذات اور ان کے افکار سے متعلق خود ان کی قلمی شہادت مہیا کرنا تھا۔ افسوس بارہ سال کے طویل عرصے میں ہماری محفل اقبال کے کتنے ہی دوستوں شناسائوں اور ندیموں اور مشیروں سے خالی ہو چکی ہے۔ اور ان کی سیرت و شخصیت اور افکار و کلا م سے متعلق کتنا ہی قیمتی خزانہ معلومات ہمیشہ کے لیے ضائع ہو چکا ہے۔ لیکن مقام تاسف ہے کہ ملت نے اب تک اس خادم ملت کے سوانح حیات کی ترتیب کی طرف توجہ نہیںکی۔ یہ خدمت اپنی انجام دہی کے لیے ایک اجتماعی کوشش کی محتاج ہے۔ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کی بزم ہائے اقبال کو ہم اس اہم خدمت کی طرف ایک لمحہ کے توقف کے بغیر اقبال کی سیرت نگاری کا کام متفقہ کوششوں سے شروع کر دینا چاہتے ہیں۔ اور زیادہ سے زیادہ دو برس کے اندر اسے تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ ہم اتنا بھی نہ کر سکے تو یوم اقبال کے سالانہ ہنگامے ہمارے ذوق سلیم کے ماتم اور ہماری محسن ناشناسی کے مرثیوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ مکاتیب اقبال کی فراہمی کا کام یادش بخیر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں شروع ہوا اور جلد اول جس میں ۲۶۷ خطوط ہیں ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئی۔ اس کی اشاعت کا مقصودیہ تھا کہ مکاتیب کی مزید فراہمی میں سہولت پیدا ہو چنانچہ ایک حد تک ایسا ہوا بھی لیکن جنگ نے ہر طرح کی مشکلات کو دوچند کر دیا جنگ کے خاتمہ پر ملک میں فسادات کا سلسلہ شروع ہوا۔ تقسیم برعظیم کے بعد اور آزادی کے جلو میں آنے والے ہنگامہ رستخیز میں دوسری کتنی ہی قیمتی یادگاروں کے ساتھ اقبال کے مکاتیب کے و ہ ذخیرے جن پر میری نظر تھی بظاہر ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گئے اور کتنے ہی نادر ذخیرے جن کا ہمیں علم نہ تھا اور جو اپنے وقت پر کسی نہ کسی طریق سے ضرور ظاہر ہوتے۔ اب بظاہر تلف ہو چکے ہیں۔ اس لیے جو کچھ ہو سکا وجہ مسرت ہے جو کچھ رہ گیا وہ موجب صد ہزار حسرت۔ حصہ اول میں مکاتیب پر کوئی تبصرہ نہ تھا ۔ حصہ دوم کی تکمیل و اشاعت پر اظہار خیال کا وعدہ تھا۔ بعض احباب نے اس عرصہ میں مکاتیب حصہ اول کی روشنی میں اقبال کی سیرت پر طبع آزمائی فرمائی۔ اب میں سمجھتا ہوں کہ ان خطوط کے تعارف کے طور پر مرتب مکاتیب یا چند سطور لکھنے کی ذمہ داری ضرور عائد ہوتی ہے۔ جو خطوط حاصل ہو سکے بلاکم و کاست شامل مجموعہ کر لیے گئے ہیں۔ ہر شخص اپنے مذاق و جستجو کے مطابق ان میں اپنی تسکین کا سامان مہیا پائے گا۔ کس کے لیے کون سے خطوط اور ا ن میں کون سی شے جاذب توجہ ہو گی ہمارے واردات قلبی اور سطح ذہنی پر موقوف ہے۔ اقبال کے متعلق معلومات کی طلب تمنا امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ اور میں نہیں کہہ سکتا کہ ایک چوتھائی صدی کے بعد ان مکاتیب کے پڑھنے والوں کی نگاہ میں کون سی چیز زیادہ محبوب ہو گی۔ لہٰذا میں نے ان خطوط کو بھی اس مجموعہ میں شامل کر لیا ہے۔ جو آج بعض دوستوں کی نظر میں قطعاً غیر اہم ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کل یہی خطوط بڑے معرکے کی چیز ثابت ہوں اور کتنے ہی اہم مسائل کا فیصلہ ان کی روشنی میں کیا جا سکے۔ ان خطوط کے مطالعہ کے بعد اقبال کی ذات کے متعلق جو امتیازات مجھے نظر آتے ہیں ان میں ان کا خلوص ان کی علم دوستی اسلام سے ان کی شیفتگی ہندوستان کے مسلمانوں کے زبوں حالی پر ان کی دل سوزی اور اصلاح حال کے لیے ان کی کاوش ممالک اسلامیہ کے لیے اتحاد و استقلال اور استحکام کی تجاویز اور کوشش اہل و عیال سے محبت دوستوں کے لیے جذبہ مروت اور عالم انسانیت کے لیے فلاح و خیر سگالی کے جذبات نمایاں ہیںَ ان میں سے چند کے متعلق ارشادات پر اکتفا کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ اقبال کو سمجھنے کے لیے ان کے کلام کی طرح ان کے خطوط کا مطالعہ بھی دوستداران اقبال کے لیے لازمی ہے۔ خلوص اقبال کی زندگی سراپا خلوص تھی اور ان خطوط میں اس کی لفظی و عملی شہادت کثرت سے موجود ہے۔ وہ دوستوں کے دکھ درد میں ان کا شریک اور ان کی امداد و اعانت پر کمر بستہ ہے۔ ہر چھوٹی سے چھوٹی مروت کے لیے بھی دلی اور دائمی احسان مندی اس کا خاصہ ہے۔ عطیہ بیگم اس امر پر اظہار تاسف کرتی ہیں کہ شمالی ہندوستان میں اقبال کو عوام میںوہ عقیدت اور قدر و منزلت حاصل نہیں جس کا وہ حقدار ہے۔ جواب میں لکھتے ہیں: ’’لو گ ریاکاری سے عقیدت رکھتے ہیں اور اسی کا احترام کرتے ہیں۔ میں ایک بے ریا زندگی بسر کرتاہوں اور منافقت سے کوسوں دور ہوں۔ اگر ریاکاری و منافقت ہی میرے لیے وجہ حصول احترام و عقیدت ہو سکتی ہے تو خدا کرے میں اس دنیا سے ایسا بے تعلق اور بیگانہ ہو جائوں کہ میرے لیے بھی ایک آنکھ اشک بار اور ایک بھی زباں نوحہ خواں نہ ہو‘‘۔ لیکن اقبال کی زبان حقیقت ترجمان پر حق ضرور جاری ہو جایا کرتاتھا چنانچہ ۱۹۰۹ء میں عطیہ بیگم کو ہی ایک دوسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’اگر وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میںطوفان بپا کیے ہوئے ہیں عوام پر ظاہر ہو جائیں تو مجھے یقین واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہو گی۔ دنیا میرے گناہوں پر پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوئوں کا خراج عقیدت پیش کرے گی‘‘۔ اقبال کے قلب با صفا اور زبان بے ریا سے نکلے ہوئے یہ کلمات کتنے سچے ثابت ہوئے اور اس کی وفات پر ایک دنیا نے اسے آہوں اور آنسوئوں کا خراج عقیدت پیش کیا اور آج: زیارت گاہ اہل عزم و ہمت ہے لحد میری کہ خاک کوہ کو میں نے بتایا راز الوندی! (اقبال) مہاراجہ سر کشن پرشاد سے بہت عرصہ اقبال کی خط و کتابت رہی۔ اقبال کی نیاز مندی اور حفظ مراتب کی شان ابتدا سے انتہا تک یکساں رہی۔ اقبال کے جاننے والے حیران ہیں کہ آخر اس ہندو رئیس میں کیا خوبی تھی کہ جو اقبال ا س کا گرویدہ ہو گیا۔ حضرت علامہ کے ایک ندیم خاص نے تو ایک پرائیویٹ گفتگو میں یہاںتک فرمایا کہ اقبال نے کبھی مہاراجہ سے تعلقات کا اشارتہً بھی ذکر نہیں فرمایا تھا۔ لیجیے اقبال کی زبانی اس رابطہ کی نوعیت ملاحظہ فرما لیجیے۔ مارچ ۱۹۱۷ء میں مہاراجہ بہادر کو لکھتے ہیں: ’’مجھے خلوص سرکار سے ہے اس کا راز معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں سرکار کی قبائے امارت سے میرے دل کو مسرت ہے۔ مگر میری نگاہ اسے سے پرے جاتی ہے۔ اور اس چیز پر جا ٹھہرتی ہے جو اس قبا میں پوشیدہ ہے۔ الحمد اللہ یہ خلوص کسی غرض کا پردہ دار نہیں اورنہ انشاء اللہ ہو گا۔ انسانی قلب کے لیے اس سے بڑھ کر زبوں بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا خلوص پروردہ اغراض و مقاصد ہو جائے انشاء اللہ العزیز اقبال کو آپ حاضر و غائب اپنا مخلص پائیں گے۔ اللہ نے اس کو نگاہ بلند اور دل غیور عطا کیا ہے۔ جو خدمت کا طالب نہیں اور احباب کی خدمت کو ہمیشہ حاضر ہے‘‘۔ اسی خط میں لکھتے ہیں: ’’انہیں باتوں سے اقبال آ پ کا گرویدہ ہے۔ امارت عزت آبرو‘ جاہ و حشم عام ہے مگر دل ایک ایسی چیز ہے کہ ہر امیر کے پہلو میں نہیں ہوتا‘‘۔ اس سے ایک پہلے خط میں مہاراجہ کو لکھتے ہیں: ’’الحمد اللہ کہ آئینہ دل گر د غرض سے پاک ہے۔ اقبال کا شعار ہمیشہ محبت و خلوص ہے اور انشاء اللہ رہے گا۔ اغراض کا شائبہ خلوص کو مسموم کر دیتا ہے۔ اور خلوص وہ چیز ہے کہ اس کو محفوظ و بے لوث رکھنا بندہ درگاہ کی زندگی کا مقصود اعلیٰ و اسنیٰ ہے‘‘۔ اسی خلوص و بے ریائی کا نتیجہ تھاکہ یہ ہندو مہاراجہ جس کی حیثیئت کتنے ہی ہندو والیان ریاست سے بڑھ کر تھی اقبال کو اپنی بیٹیوں کے رشتے کی تلاش کی دوستانہ فرمائش کرتا ہے اور اقبال اس دوستانہ اعتماد کا پورا پورا عملی احترام کرتے ہیں۔ اقبال نامہ کی دونوں جلدوں میں جا بجا ایسے شواہد موجود ہیں کہ اقبال نے کبھی کسی دوست کو کسی دوسرے دوست یا بیگانے کے متعلق ایسی بات نہیںلکھی کہ جو براہ راست اسے لکھنے یا کہنے پر آمادہ نہ ہوں۔ تہجد مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا اور نماز بے حضور از من نیاید کہنے والے اقبال اپنے خلوص و بے ریائی کی بدولت ہی جب موقع پید اہو گیا تو اپنے ایک ہندو دوست کو جس کے متعلق یقین ہے کہ وہ اس راز یا حقیقت کو عام نہیں کرے گا تاکہ اس سے اقبا کو شہرت حاصل ہو۔ ۱۹۱۶ء میں لکھتے ہیں: ’’سردی آ رہی ہے صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتاہوں اور پھراس کے بعد نہیں سوتا سوائے اس کے کہ مصلے پر اونگھ جائوں‘‘۔ ۱۹۱۸ء میں ایک دوسرے خط میں مہاراجہ کو لکھتے ہیں: ’’سرکار کی صاحبزادی کی علالت کی خبر سن کر متردد ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ صحت عاجل کرامت فرمائے انشاء اللہ کل صبح نماز کے بعد دعا کروں گا۔ کل رمضان کا چاند یہاں دکھائی دیا۔ آج رمضان المبارک کی پہلی ہے۔ بندہ روسیاہ کبھی کبھی تہجد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے سو خدا کے فضل و کرم سے تہجد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دعا کروں گا کہ اس وقت عبادت الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے۔ کیا عجب ہے کہ دعا قبول ہو جائے‘‘۔ قبول تنقید و اصلاح اقبال نے شاعری سے ہمیشہ بیزاری کا اظہار کیا لیکن اسے اپنے خیالت کی اشاعت کا ای مقبول ذریعہ سمجھتے ہوئے اختیار کیے رکھا۔ شاعر فطرتاً حساس ہوتے ہیں۔ مصنف مصور شاعر اور ہر صاحب فن کے لیے اس کے کمال ہنر کی داد سب سے بڑی مسرت اور اس کے فن پر تنقید اس کے لیے انتہائے اذیت کا موجب ہوا کرتی ہے اور شاعر حضرات بالخصوص: نازک مزاج شاہاں تاب سخن نہ دارد ک مصداق ہوا کرتے ہیں اقبال ایک طبع سلیم لے کر پید اہوئے تھے۔ تنقید و اصلاح کلام کے بارے میں بھی ان کا رویہ سلامتی انکساری حصول علم اور استفادہ ہی کا رہا اور اپنے کلام پر اعتراضات کو انہوںنے خندہ پیشانی اور دلی شکریہ سے قبول فرمایا۔ ۱۹۰۳ء میں مولوی حبیب الرحمن خاں شیروانی کو اپنے اشعار پر تنقید موصول ہونے پر لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ آج مجھے اپنے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی داد مل گئی۔ آپ کا تہ دل سے مشکور ہوں۔ آپ لوگ نہ ہوں تو واللہ ہم شعر کہنا ترک کر دیں۔ اگرچہ جلسہ میںہر طرف سے لوگ حسب معمول ان کی تعریف کرتے تھے۔ مگر جو مزا مجھے آپ کی داد سے ملا ہے اسے میرا دل ہی جانتا ہے۔ آ پ کا خط حفاظت سے صندوق میں بند کر دیا ہے نظر ثانی کے وقت آپ کی تنقیدوں سے فائدہ اٹھائوں گا‘‘۔ مولوی سید سلیمان ندوی کو جن کے علم و فضل اور خدمات دینی کا اقبال کو مخلصانہ اعتراف و احترام تھا لکھتے ہیں: ’’معارف میں ابھی آپ کا ریویو مثنوی رموز بے خودی نظر سے گزرا… آپ نے جو کچھ فرمایا وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے صحت الفاظ و محاورات کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہو گا لیکن آپ نے ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ کرتے تو آپ کا ریویو میرے لیے مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط ملط الفاظ اور محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے مجھے ا ن سے آگاہ کیجیے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے‘‘۔ ایک دوسرے خط میں اپنی لغزشوں پر آگاہی کے لیے تقاضا کرتے ہیں: ’’رموز بے خودی کی لغزشوں سے آغاہ کرنے کا آپ نے وعد ہ کیا تھا۔ اب تو ایک ماہ سے بہت زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ امید ہے ک توجہ فرمائی جائے تاکہ میں دوسرے ایڈیشن میں آپ کے ارشادات سے مستفید ہو سکوں‘‘۔ اس تقاضے کے جواب میں جوطویل الفاظ و محاورات اور بعض اشعار کی نوعیت کے متعلق موصول ہوئی اس پر سید صاحب موصوف کو اپنے الفاظ کی بنا پر لکھتے ہیں: ’’مثالیں اساتذہ موجود ہیں مگرا س خیا ل سے آ پ کا وقت ضائع ہو گا نظر انداز کرتا ہوں البتہ اگر آ پ اجازت دیں تو لکھوں گا‘‘۔ اور پھر کس قدر انکسار اور طالب علمانہ جستجو ارو احترام کے اندازمیں لکھا: ’’محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میں نے غلط مثالیں تو نہیں انتخاب کیں‘‘۔ اجازت موصول ہونے پر اعتراضات کے جواب میں مثالوں میں اساتذہ کے اشعار بطور سند پیش کیے محض ایک مثال پیش کرتا ہوں خیال ہے کہ سید صاحب کا ذوق شعر اس شعر کو پڑھ کر ایک مرتبہ تو وجد میں آ ہی گیا ہو گا۔ علامہ نے عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ سے متعلق مثنوی میںلکھا تھا: کور ذوقاں داستانہا ساختند وسعت ادراک او نشاختند اقبال سید صاحب کو لکھتے ہیں کہ کور ذوق کی نسبت آپ کا ارشاد تھا کہ بے مزہ ترکیب ہے۔ اس کے جواب میں یہ سند پیش کرتے ہیں: چہ غم زیں عروس سخن رابتہ کہ بر کور ذوقاں شود جلوہ گر (ظہوری) محمد احمد خاں صاحب نے دو ایک اشعار کی معانی کی وضاحت چاہی اورلکھا کہ ان کے دوستوں کو: قید دستور سے بالا ہے مگر دل میرا فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا کے مصرع دوم بالخصوص لفظ ’’نازل‘‘ پر اعتراض ہے جس کے معنے اوپر سے نیچے آنے کے لیں لہٰذا فرش سے عرش پر نازل ہونا صحیح نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دوسرے دو اشعار کے متعلق تو جواب لکھا لیکن اس اعتراض کے متعلق لکھا کہ تیسرے سوال کا جواب ذوق سلیم سے پوچھیے نہ مجھ سے نہ منطق سے نہ کسی ماہر زبان سے۔ آل احمد سرور معلم شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی نے اپنے چند شکوک تحریر فرمائے ہیں۔ انہیںلکھتے ہیں: ’’میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگر آپ پور ے غو ر و توجہ سے یہ مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ بھی انہی نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں۔ اس صورت میں غالباً آپ کے شکوک تمام رفع ہو جائیں گے۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کا Viewمجھ سے مختلف ہو یا آپ کود دین اسلام کے حقائق ہی کو ناقص تصور کریں۔ اس دوسری صورت میں دوستانہ بحث ہو سکتی ہے۔ جس کا نتیجہ معلوم نہیں کیا ہو آپ کے خط سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بھی بالاستعیاب مطالعہ نہیں کیا۔ اگر میرا خیا ل صحیح ہے تو میں آپ کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں اور آپ بھی اس کی طرف توجہ کریں کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خود بخود آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔ ‘‘ ایک عقیدت منداقبال کی ایک پرانی نظم پر کسی تنقید کی طرف توجہ دلاتے ہیں تواغلاط کتابت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نقاد کی نظر سے نظم کے حقیقی اسقام البتہ پوشیدہ رہے۔ شعر محاورہ اور بندش ی درستی اور چستی کا نام نہیں۔ میرا ادبی نصب العین نقاد کے نصب العین سے مختلف ہے‘‘۔ ان اقتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ نے ہمیشہ تنقید کا خیر مقدم کیا۔ اور اعتراض کو سمجھنے اور جواب کے سمجھانے میں عالی حوصلگی سے کام لیا ہے۔ ایک مرتبہ جب کسی نااہل نے علامہ اقبال کے کلام میں اصلاح کی جرات کی تو علامہ اقبال نے اپنے انداز خاص میں ان کے ارشادات عالیہ کا جواب لکھا۔ بابو عبدالمجید صاحب کو ۱۹۰۴ ء میں لکھتے ہیں : ’’یہ کوئی صاحب چھوٹے شملہ سے میری غزل کی اصلاح کر کے ارسال کرتے ہیں۔ میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کیجیے اور عرض کیجیے کہ بہتر ہو اگر آپ امیر و داغ کی اصلاح کیا کریں۔ مجھ گمنام کی اصلاح کرنے سے آپ کی شہرت نہ ہو گی۔ میرے بے گناہ اشعار کو جو حضرت نے تیغ قلم سے مجروح کیا ہے اس کا صلہ انہیں خدا سے ملے… امید ہے کہ وہ برانہ سمجھیں گے۔ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکا ہو جاتاہے‘‘۔ اشعار کو تیغ قلم سے مجروح کرنے کی ترکیب سے مجھے حضرت علامہ کے استاد گرامی مولوی میر حسن صاحب کا ایک لطیفہ یاد آ گیا جو دوران ملازمت مرے کالج میں انہوںنے مجھ سے بیان فرمایا تھا۔ سیالکوٹ کے ایک مشہور شاعر جو اپنے آپ کو اقبال کا حریف سمجھتے تھے۔ اور آبائی پیشہ کے لحاظ سے قصا ب تھے مولوی کی خدمت میں ایک غزل لے کر حاضر ہوئے اور ملاحظہ کی فرمائش کی۔ مولوی صاحب نے غزل دیکھی اور خاموش رہے ۔ شاعر کا دل داد کے لیے گدگدا رہا تھا۔ مولوی صاحب نے پوچھا کہ اپنی رائے گرامی بھی فرمائیے کیا ہے؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ میرے دوست! کیا کہوں آپ نے شاعری کا جھٹکا کر دیا ہے! تحفہ کلام و داد سخن اقبال عمر بھر شاعری سے انکار کرتے رہے لیکن کسی صاحب ذو ق اور سخن فہم کو ان کی رنگیں نوائی اور جادو بیانی یا رائے انکار نہیں ۔ اپنے شعر کی شوکت وعظمت اور تاثیرو قوت کا ان کو کس قد ر صحیح اندازہ تھا: باغباں زور کلامم آزمود مصرعے ارید و شمشیرے درود شاعر کے کلام کی داد کے لیے سخن فہمی کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انہوںنے منشی سراج الدین صاحب کو ۱۹۱۵ء میں لکھا: ’’الحمد اللہ آ پ کو مثنوی پسند ہوئی آپ ہندوستان کے ان چیدہ لوگوں میں سے ہیں کہ جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے اور اگر ذرا نیچر فیاضی سے کام لیتی توآپ کو زمرہ شعراء میں پیدا کرتی بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے ا س سے بہتر ہے۔ محض ذوق شعر رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شاعر اور تصنیف اور تصنیف کی شدید تکلیف اسے اٹھانی نہیں پڑتی‘‘۔ شاعر ی میں اقبال کی پور ی عمر گزری اور اس کی شاعری نے دنیائے اسلام میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ اقبال نے کون کون سے شعروں کے پسند کیے اورکون کون سے اشعار اہل ذوق کی خدمت میں لطف اندوزی کے لیے پیش کیے۔ مکاتیب اقبال میں ملاحظہ فرمائیے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں سید سلیمان ندوی کے شعر: ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرہ خوں جو رگ گلو میں ہے کی دل کھول کر داددی ہے: ماہ را بہ فلک دونیم کند فقر را ترکمانئے ہم است کے مصرع ثانی کو خاص طور پر پسند فرمایا اور دہرایا ہے لسان العصر کو لکھتے ہیں: ’’آپ کا مصرع لاجواب ہے… معارف میں کسی ہندو شاعر کاشعر نظر سے گزرا: بس کہ از شرم تو در پرداز رنگ گلشن است رشتہ نظارہ بندد در ہوا گلدستہ را اور کچھ عرصہ ہوا اخبا ر ’’انجیل‘‘ میں کسی نے نہایت عمدہ شعر لکھاتھا: شب چو انداز ہم آغوشی اویاد کنم خویش را تنگ بہ برگیرم و فریاد کنم نیاز الدین خان کو لکھتے ہیں اور عنوان مکتوب گرامی کا یہ شعر ہے: عصیان ما و رحمت پروردگار ما ایں را نہایتے است نہ آں را نہایتے شعر مندرجہ عنوان نے بے چین کر دیا ہے سبحان اللہ! گرامی کے اس شعر پر ایک لاکھ دفعہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیے۔ خواجہ حافظ تو ایک طرف فارسی لٹریچر میں اس پائے کا شعر بہت کم نکلے گا… ابکہ یہ خط لکھ رہا ہوں شعر مندرجہ عنوان کے اثر سے دل سو ز و گداز سے معمور ہے۔ گرامی صاحب اپنے شعر کا اثر دیکھتے تو نہ صرف میری ولایت کے قائل ہو جاتے بلکہ اپنی ولایت میں بھی انہیں شک نہ رہتا‘‘۔ حضرت علامہ کو اپنے کلام میں سے کچھ اشعارپسن تھے جنہیں وہ تحفتہً احباب ذوق اور سخن فہم دوستوں کو بھیجتے تھے۔ مولانا اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں: ’’سیدھے آسان اور مختصر الفاظ میں حقائق بیان کرنا آپ کا کمال ہے۔ عبدالماجد صاحب نے جو شعر آپ کا پسند کیا ہے نہایت خوب صورت ہے۔ میں نے بھی اسی مضمون پر ایک شعر لکھا تھا: گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر شمع بولی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ مولانا اکبر الہ آبادی کی خدمت ہی میں ایک دوسرے خط میں چند اشعار ارسال فرماتے ہیں: فزوں قبیلہ آں پختہ کار باد کہ گفت چراغ راہ حیات است جلوہ امید بیار بادہ کہ گردوں بکام ما گردید مثال غنچہ نواہاز شاخسار دمید مقطع لاجواب ہے اوران کو ا س زمانے کی ذہنی کیفیت اور ماحول کا آئینہ دار: نواز حوصلہ دوستاں بلند تراست غزل سر اشدم آنجا کہ کس نشیند مولانا اکبر ہی کو لکھتے ہیں: ’’مثنوی کا تیسرا حصہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ دو شعر یاد آئے ہیں جو دو یا تین ماہ ہوئے لکھے تھے۔ عرض کرتا ہوں: درجہاں مانند جوئے کوہسار از نشیب و ہم فراز آگاہ شو یا مثال سیل بے زنہار خیز فارغ از پست و بلند راہ شو حضرت گرامی کو ۱۹۱۰ء میں لکھتے ہیں: ’’آپ نے ایک غزل لکھی تھی فرسنگ است تنگ است۔ اسی زمین پر میں ایک استاد کا ایک شعر نہایت پسند آیا: ہلاک شیشہ درخوں نشستہ خویشم کہ آخریں نفسش عذر خواہی سنگ است سر کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’حال ہی میں ایک اردو غزل لکھی تھی۔ اس کے ایک دو شعر ملاحظہ کے لیے لکھتا ہوں: پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش توہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی شیوہ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی تو ہے زناری بت خانہ ایام ابھی مہاراجہ کو ہی ایک دوسرے موقع پر مضمون اور مہاراجہ کی مناسبت س کیا برمحل لکھتے ہیں: ’’بھلا یہ دو شعرکیسے ہیں؟ بنظر اصلاح ملاحظہ فرمائیے: بہ یزداں روز محشر برہمن گفت فروغ زندگی تاب شرر بود ولیکن نہ رنجی بار تو گویم صنم از آدمی پائندہ تربود مہاراجہ ہی کو لکھتے ہیں: ’’کیا دلکش اور معنی خیز شعر کسی ایرانی شاعر کا ہے: بزمے کہ دراںسفرہ کشد جلوہ دیدار کونین غبارے است کہ از بال مگس ریخت مولانا اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی ایڈیٹر عبرت کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر مضمون کی داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں نے ان کی زندگی کے تمام واقعات ایک شعر میں بند کر دیے ہیں: ہمت و کشت ملت راچو ابر ثانی اسلام و غار و بدر و قبر‘‘ مولوی الف دین صاحب کے دو اشعار میں اصلاح کی تجویز فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: ’’باقی اشعار نہایت عمدہ اور صاف ہیں مثنوی اسرار خودی کے دوسرے حصہ کا قریب پانچ سو شعر لکھا گیا ہے مگر ہاتف کبھی کبھی دوچار ہوتے ہیں اور مجھے فرصت کم ہے۔ امید ہے کہ رفتہ رفتہ ہو جائیں گے۔ ہجرت کے مفہوم کے متعلق چند اشعار جو لکھے ہیں عرض کرتا ہوں تاکہ آپ اندازہ کر سکٰں کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے‘‘۔ اس کے بعد ۲۱ اشعار لکھے ہیں۔ حضرت علامہ کو عالمگیرؒ سے خاص عقیدت تھی۔ جن پر مثنوی میں ان کی فارسی نظم اہل ذوق کے لیے ایک وجد انگیز تحفہ ہے۔ ۱۹۱۵ء میں سفر حیدر آباد میں علامہ مزار عالمگیر پر حاضر ہوئے اورایک نظم لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ اس زمانے میں شاعری سے بیزاری بہت بڑھی ہوئی تھی لیکن عالمگیرؒ کے کردار کا احترام ہدیہ عقیدت کا طالب تھا۔ عطیہ بیگم کو لکھتے ہیں: ’’مجھ میں اب شاعری کے لیے کوئی ولولہ باقی نہیں رہا۔ ایسا محسو س کرتا ہوں کہ کسی نے میری شاعری کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ ارومیں محروم تخیل کر دیا گیا ہوں۔ شاید حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ پر جن کے مرقد منور کی میں نے حال ہی میں زیارت کی سعادت حاصل کی ہے میری ایک نظم ہو گی جو میرے آخری اشعار ہوں گے۔ اس نظم کا لکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں میرا خیال ہے کہ اگر مکمل ہو گئی تو کافی عرصہ تک زندہ رہے گی‘‘۔ اسی سلسلہ میں علامہ اقبال کے بڑے بھائی کو عقیدت ملاحظہ فرمائیے۔ اقبال لسان العصر اکبر کو لکھتے ہیں: ’’عالمگیر ؒ کے مزار پر حاضر ہوا تھا میرے بڑے بھائی بھی میرے ساتھ تھے۔ کہنے لگے کہ میں قنات کے اندر نہ جائوں گا (مزار کے گرد قنات تھی) کہ میری ڈاڑھی غیر مشروع ہے‘‘۔ لسان العصر کو لکھتے ہیں: ’’فی الحال مثنوی کا دوسرا حصہ بھی ملتوی ہے مگر اس میں عالمگیر اورنگ زیبؒ کے متعلق جو اشعار لکھے ہیں ان میں سے ایک عرض کرتا ہوں: درمیان کارزار کفر و دیں ترکش مارا خدنگ آخریں پروفیسر اکبر منیر کو لکھتے ہیں: ’’اشعار جو آپ نے بھیجے ہیں نہایت دلچسپ ہیں اور بالخصوص مسلمانے نمی بینم نے مجھے رلا دیا‘‘۔ ایک دوسرے خط میں انہیں لکھتے ہیں: ’’آپ کا قیام ایران یقینا آپ کے لیے نہایت خوشگوار سود مند ثابت ہوا ہے۔ اس کی بدولت آپ کے کلام میں ایک سادگی قوت اور جلا آگئی ہے ‘‘۔ دعوت شعر گوئی یا مصرع بندی کی ایک ہی مثال مکاتیب اقبال میں ملتی ہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’کئی دن سے ایک مصرع ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ اس پر اشعار لکھیے یا اس پر مصرع لگائیے۔ مولانا گرامی کی خدمت میں بھی یہ مصرع ارسال کیا ہے اور مولانا اکبر کی خدمت میں بھی لکھوں گا: ایں سر خلیل است بآذر نتواں گفت‘‘ مکاتیب میں جابجا اشعار سے متعلق دلچسپ اشارات ملتے ہیں۔ اس سلسلہ کو علامہ کی تحریر پر جو انہوںنے علامہ کیفی چریا کوٹی کو لکھی تھی ختم کرتا ہوں۔ جس سے اہل علم سے علامہ کی عقیدت ظاہر ہوتی ہے: ’’آپ کی مرسلہ نظم پہنچی میری عزت ہوئی میں اس پر کیا اظہار خیال کروں! ہم لوگ آپ کے زلہ ربا ہیں آپ کے خاندان میں سے ایک عالم فیضیاب ہے اور آپ کی ذات سے ہو رہا ہے۔ آپ ہمارے رہنما ہیں‘‘۔ مصنفین کی حوصلہ افزائی و رہنمائی اقبال نامہ کی دونوں جلدوں کا صفحہ صفحہ اس پر شاہد ہے کہ علامہ مرحوم ایک علم دوست اور علم پرور بزر گ تھے اور یہی ان کا محبوب مشغلہ تھا اگر انہیں فارغ البالی نصیب ہوتی تو وہ ملت کی خدمات علمی و عینی کی انجام دہی میں اس عہد میں بے مثال ہوتے۔ اس پر بھی جو کچھ انہوں نے کیا ان کے حالات کے پیش نظر حد درجہ اہم اور ان کے ذوق افتاد طبیعت کا پتہ دیتا ہے۔ اقبال نے ۱۹۰۰ء میں علم الاقتصاد کے نا م سے اردو میں اکنامکس پر سب سے پہلے کتاب تیار کی اور مجھے اس مضمون میں معلم کی حیثیت سے اور اس مضمون کو اپنی زبان میں منتقل کر دینے کی اہمیت کے پیش نظر اس کتاب کے دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ جب لاہور سے احباب نے اس کتاب کے مہیا کرنے سے اپنی معذوری ظاہر کر دی تو میں نے کتب خانہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جستجو شروع ککی۔ کتاب مل گئی اور میں نے بعد مطالعہ اسے کتب محفوظ میں داخل کرا دیا۔ اس کتاب کے مطالعہ سے حضرت علامہ کی قابلیت اور خدمت اردو کی صلاحیت کا جو اندازہ مجھے ہوا وہ ان حضرات کو ہرگز نہیں ہو سکتا جنہیں ا س کے دیکھنے کا موقع ملا۔ اگرچہ اس میں اولیت کا شرف علامہ ہی کو حاصل تھا۔ اور انہوںنے جو راہ ہموار کی تھی اس پر گامزن ہونا چنداں مشکل نہ تھا۔ تاہم جب ۱۹۱۷ء میں علی گڑھ سے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب شائع ہوئی تو اقبال نے جو داد مصنف کو دی وہ اقبال کی دیدہ وری حوصلہ علم دوستی اور عظمت کی سرمایہ دار ہے۔ مصنف کو لکھتے ہیں: ’’آپ کی تصنیف اردو زبان پر ایک احسان عظیم ہے مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اردو زبان میں علم الاقتصد پر یہ پہلی کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل‘‘۔ مولوی غلام قادر صاحب فصیح مصنف تاریخ اسلام کو لکھتے ہیں: ’’خود مجھ پر جو اثر اس کے مطالعہ سے ہوا ہے اس کا اظہار میں اس سے بہتر الفاظ میں نہیں کر سکتا کہ بسا اوقات دوران مطالعہ میں چشم پر آب ہو جاتاہوں۔ اس کا اثر میرے دل پر کئی کئی دن رہتا ہے‘‘۔ ظہور الدین مہجور کو لکھتے ہیں: ’’مجھے یہ معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے والے ہیںَ میں کئی سالوں سے اس کے لکھنے کی تحریک کر رہا ہوں مگر افسوس ہے کہ کسی نے توجہ نہ کی۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر میں فارسی شعر گوئی کی تاریخ لکھیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بار آور ثابت ہو گی۔ اگر کبھی خود کشمیر میں یونیورسٹی بن گئی تو فارسی زبان کے نصاب میں اس کا کورس ہونا ضروری ہے‘‘۔ اللہ اللہ اس بزرگ کے خمیر میں علم اور عشق ملت کو کس طرح سمو دیا گیا ہے! محمد اکرام صاحب کو غالب نامہ کے موصول ہونے پر لکھتے ہیں: ’’بلاشبہ آپ نے غالب پر ایک نہایت عمدہ تصنیف پیش کی ہے اگرچہ مجھے آپ کے چند نتائج سے اتفاق نہیں۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ حضرت غالب کو اردو نظم میں بیدل کی تقلید میں ناکامی ہوئی‘‘۔ ایک دوسرے خط میں انہیں لکھتے ہیں: ’’ہسپانیہ پر نظم یوں تو تمام تر پرسوز ہے لیکن طارق سے متعلق اشعار بالخصوص دلگداز ہیں میں اسے محفوظ رکھوں گا اور کوشش کروں گا کہ یہ اشعار اردو میں منتقل ہو سکیں۔ میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا ہوں۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی گئی جو کسی وقت شائع ہو گی۔ الحمرا ء کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی‘‘۔ سید سلیمان کی تصنیف عمر خیام پر انہیں لکھتے ہیں: ’’جو کچھ آپ نے لکھ دیا ہے اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا‘‘۔ مولوی سراج الدین پال کے نام ان کے خطوط ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیؤے کہ صرف خواجہ حافظ پر ای مضمون کی ترغیب کے لیے کتنی مرتبہ انہیں لکھا ہے اور کس قدر حوالہ جات انہیں میہیا کیے ہیں اور کس طرح ان کی رہنمائی کی ہے۔ اسی طرح جو بات نہیں جانتے تھے یا جس کی وضاحت چاہتے تھے یا جس کے ایسے پہلو جو نظر انداز کر دیے گئے تھے۔ اسی طرح جو بات نہیں جانتے تھے یا جس کی وضاحت چاہتے تھے یا جس کے ایسے پہلو جو نظر انداز کر دیے گئے ہیں جاننا چاہتے تھے دوسروں سے پوچھتے تھے۔ جو دوسروں کو بتا سکتے تھے خوشی سے بتاتے تھے۔ اس سلسلہ میں صرف ایک اور مثال پیش کرتا ہوں۔ حافظ محمد فضل الرحمن انصاری کو ۱۹۳۷ء میں لکھتے ہیں: ’’جہاں تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے فرانس جرمنی‘ انگلستان اور اٹلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اور حقائق حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتا ہے۔ ان حالات میں آ پ کے بلندمقاصد پر نظر رکھتے ہوئے بلاتامل کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لیے یورپ جانا بے سود ہے: میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں! مصر جائیے عربی زبان میں مہارت پیدا کیجیے۔ اسلامی علوم اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ تصوف‘ فقہ ‘ تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ پھر اگر ذہن خداداد ہے تو اور دل میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے‘‘۔ علم دوستی اقبال کی نمایاں ترین خصوصیت جو ان مکاتیب سے سامنے آتی ہے ان کی علم دوستی ہے۔ خالص مذہبی مباحث سے قطع نظر بھی کرلیجیے تو اقبال ایک علم دوست اور علم پرور انسان نظر آتے ہیں اور حالات سازگار ہوتے تو یہی ان کا محبوب مشغلہ ہوتا۔ حکمائے اسلام کی بحث زمان اور مکان کی حقیقت تلاش کی جا رہی ہے۔ متکلمین نے علم مناظر و رویا کی رو سے خدائے تعالیٰ کی رویت کے امکان سے جو بحث کی ہے اس کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔ حال کے روسی علماء کی تصانیف کی جستجو کرائی جا رہی ہے۔ اور ان کے ترجمہ کی سفارش کی جا رہی ہے۔ تصوف اور حافظ پر سیر حاصل ریسرچ اور تحقیق علمی کا اہتمام کیا جا رہا ہے مسلمانوں نے منطق اسقرائی پر جو کچھ خود لکھا ہے اوریونانیوں کی منطق پر انہوںنے جو اضافے کے ہیں۔ اس کے متعلق خود تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دارالمصنیفن کی طرف سے ہندوستان کے حکما ئے اسلام پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی جا رہی ہے۔ الغزالی سے متعلق ریسرچ پر مشورہ دیا جا رہا ہے۔ نادر مخطوطات کی فہرست کی تیاری کا کام کرایا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور بیرون ہند میں کتابوں کی تلاش جاری ہے۔ کبھی فارسی کا کورس تیار کرنے کا خیال ہے۔ غرض علم دوستی علامہ کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ اسی علم دوستی کا نتیجہ ہے کہ ان کے مکاتیب کے سطر سطر سے اہل علم کا احترام پایا جاتاہے جس کی مثالیں صفحہ صفحہ پر بکھری نظر آتی ہیں۔ معرکہ اسرار و رموز یا شریعت و طریقت کی جنگ مثنوی اسرار خودی و مثنوی رموز بے خودی اقبال کے افکار و پیام کا ماحاصل اولین و آخرین ہیں۔ اسرا ر کی اشاعت اول میں علامہ مرحوم نے حافظؒ کے متعلق چند اشعار لکھے تھے۔ جن پر صوفیائے کرام کے علمبردار بے حد چراغ پا ہوئے اور علامہ مرحوم پر ہر طرف سے یورش کر دی۔ علامہ مرحوم نے اس سلسلہ میں مہاراجہ کو اس ہنگامہ کے دو سال بعد لکھا: ’’خواجہ صاحب نے مثنوی اسرار خودی پر اعتراض کیے تھے۔ چونکہ میرا عقیدہ تھا اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھان اس ملک کے لوگوں کے لیی مفید ہے اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اثر اچھا نہ ہو گا۔ اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ورنہ کسی قسم کے بحث مباحثے کی مطلق ضرورت نہ تھی نہ بحث کرنا میرا شعار ہے۔ بلکہ جہاں کہیں بحث ہو رہی ہو وہاں سے گریز کرتا ہوں‘‘۔ لیکن جب دوسروں نے اقبال کو اس ناگوار بحث میں گھسیٹا تو اقبال کا اصول حریفوں سے مختلف تھا: ’’میں نے صاف باطنی کے ساتھ لکھا تھا کہ آپ میرے ساتھ ناانصافی نہ کریں علمی بحث ہونی چاہیے ۔ حریف کوبدنام کرنا مقصود نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کا قائل کرنا اور راہ راست پر لانا‘‘۔ اقبال کو اپنے نظریات کی تائید میں لکھنا پڑا اور آج ہمیں اقبال کے ان خطوط سے اقبال کے کلام کی وہ نادر تشریح میسر آتی ہ جو دنیا کی نظر سے اب تک اوجھل تھی۔ الحمد اللہ اس مجموعہ مکاتیب میں بعض خطوط ایسے بھی ہیں جن کی فراہمی اور اشاعت کی خواہش خود علامہ مرحوم کو بھی تھی۔ شریعت اور تصوف لسان العصر کو لکھتے ہیں: ’’کئی صدیوں سے علماء اور صوفیا میں طاقت کے لیے جنگ ہو رہی تھی جس میں آخر کار صوفیا غالب آئے یہاں تک کہ اب برائے نام علماء جو باقی ہیں جب تک کسی خانوادے میں بیعت نہ لیتے ہوں ہر دل عزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علماء کی طرف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجدد الف ثانی عالمگیر اور مولانا اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیاء کی کوشش کی مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع قوت نے اس گروہ احرا ر کو کامیاب نہ ہونے دیا‘‘۔ صوفیا نے لسان العصر کی تائید و اعانت حاصل کرنے کے لیے اسرار کی طرف انہیں توجہ دلائی اور انہوںنے تصوف اور بالخصوص حافظ کے متعلق علامہ کے اعتراضات کو عدم پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اقبا کو اس کے متعلق اطلاع دی۔ اقبال لسان العصر کو پیر و مرشد مانتے تھے اور کہتے تھے کہ پیر و مرشد سے کسی مرید بے ریا کا اختلاف بے حد قلق انگیز ہوتا ہے لیکن مرید نے پوری جرات اور مردانگی سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا علامہ لکھتے ہیں: ’’میں نے خواجہ حافظ پر کہٰں یہ الزا م نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے مے کشی بڑھ گئی ہے۔ میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت پر اس نصب الععین سے ضرور فائدہ ہوا ۔ اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر بھی ہے۔ خواجہ حافظؒ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا۔ نہ ان کی شخصیت سے۔ نہ اشعار میں مے سے مراد وہ مے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس مے سے مراد وہ حالات سکر ہے جو حافظ کے کلام سے بحیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے چونکہ حافظ دلی اور عارف تصور کیے گئے ہیں اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل نظر انداز کر دی ہے اور میرے ریمارک تصو ف اور ولایت پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھے گئے ہیں‘‘۔ اسی خط میں حضرت اکبر سے التجا ئے انصاف کرتے ہیں: ’’معاف کیجیے گا آپ کے خطو ط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ (ممکن ہے غلطی پر ہوں) کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی میں صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ کے متعلق لکھے گئے ہیں باقی اشعار پر شاید نظر نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو ان کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی کہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔‘‘ اس کے بعد ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’آپ مجھے تناقض کا ملزم گردانتے ہیںَ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ میری بدنصیبی ہے یہ کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کو اب تک پڑھا نہیں ہے۔ میں نے کسی گزشتہ خط میں عرض کیا تھا کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر ایک دفعہ ضرور پڑھجائیے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یہ اعتراض نہ ہوتا‘‘۔ اعتراضات کی نوعیت اور جواب خطوط کی تفصیل سے موجود ہے۔ غیر اسلامی تصوف اور اس کے ادبی نصب العین سے بغاوت اقبا ل نے غیر اسلامی تصوف اور اس کے نصب العین سے کیوں بغاوتکی خود ان کی زبانی سن لیجیے: ’’عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے۔ مگر انسان کے طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے اور اس قوت کا اثر لٹریچرپر ہوتا ہے ۔ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ مسلانوں کا لٹریچر تمام ممالک اسلامیہ میں قابل اصلاح ہے۔ یاسیہ لٹریچر کبھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ قوم کی زندگی کے لیے اس کا اور اس کے لٹریچر کا رجائیہ ہونا ضروری ہے۔ اسرار خودی میں حافظ پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو خارج کر کے اور اشعار لکھے ہیں جن کا عنوان یہ ہے درحقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ ان اشعار کو پڑھ کر مجھے یقین ہے کہ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور میرا اصل مطلب واضح ہو جائے گا‘‘۔ لسان العصر کو مفصل جوابات لکھنے کے بعد تیسری مرتبہ لکھتے ہیں: ’’زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ مجھ پر عنایت فرمائیے۔ عنایت کیا رحم کیجیے اور اسرار خودی کو ایک دفعہ پڑھ جائیے۔ جس طرح منصور کو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اور اس کی تکلیف سے اس نے آہ و فریاد کی اسی طرح مجھ کو آپ کا اوعتراض تکلیف دیتا ہے۔‘‘ عجمی ادب و تصوف کے مسلمانوں کی زندگی پر اثرات کے سلسلہ میں مولوی سراج الدین پال صاحب کو لکھتے ہیں: ’’مسلمان مردہ ہیں انحطاط ملی نے ان کے تمام قویٰ شل کر دیا ہے اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ وہ اپنے صید پر ایسا اثر ڈالتا ہے کہ جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصور کرنے لگ جاتا ہے یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے مگر ہمیں اپنے ادائے فرض سے کام ہے ملامت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے‘‘۔ مولوی سراج الدین پال صاحب ہی کوحافظ پر ایک مضمون لکھنے کی ترغیب دیتے ہیں اور متعدد خطوط میں ان کی رہنمائی کے لیے کتابوں رسالوں اور اخباروں کے حوالے دیتے ہیں جن سے ان کی علم دوستی اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے محولہ بالا خط میں لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معانی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں ا س دستور کو مسخ کر دینا ہے۔ یہ ایک نہایت سٹل طریق تنسیخ کا ہے ۔ اور یہ طریق وہی قومیں ایجاد یا اختیار کرتی ہیں جن کی فطرت گو سفندی ہو… تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔ ان شعراء نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے۔ اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے اگر اسلام افلا س کو بر ا کہتا ہے تو حکیم سنائی اسکے اعلیٰ درجہ کی سعادت قرار دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے تو شعرائے عجم ا س شعار میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں مثلاً: غازی زپئے شہادت اندر تگ و پوے ست غافل کہ شہید عشق فاضل ترازوست در روز قیامت ایں بہ او کے ماند ایں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے بہت عمدہ ہے اور قابل تعریف ۔ مگر انصاف سے دیکھا جائے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اس سے زیادہ دلفریب اور خوب صورت طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر نے کمال یہ کیا ہے کہ جس کو اس نے زہر دیا ہے اس کو احساس بھی اس امر کا نہیں ہو سکتا کہ کسی نے مجھے زہر دیا ہے۔ بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے آب حیات پلا دیا گیا ہے۔ آہ مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں‘‘۔ حافظ اور تصوف سے متعلق حافظ محمد اسلم جیراجپوری کے نام بھی اقبال کا مکتوب لائق توجہ ہے لکھتے ہیں: ’’پیرزادہ مظفر الدین صاحب نے میرا مطلب مطلق نہیں سمجھا۔ تصوف سے اگر اخلاق فی العمل مراد ہے (اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں اس کا لیا جاتا تھا) تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وج سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات سے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالہ نہ مل سکا اور ایک دو باب لکھ کر رہ گیا۔ تصوف اور خودی کے مسائل پر مولوی ظفر احمد صاحب صدیقی کو لکھتے ہیں: ’’غلام قوم مادیات کو وروحانیات پر مقدم سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اور جب انسان میں خوئے غلامی راسخ ہو جاتہے تو وہ رہ ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد قوت نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو… بہرحال حدو د خودی کے تعین کا نام شریعت ہے او ر شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے۔ بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیا نے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے میرے عقیدہ کی رو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی او ر ایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں‘‘۔ حافظؒ کے متعلق مولوی سراج الدین پال کے نا م ایک خط میں اپنا نظریہ اور طریق تحقیق بیان کرتے ہیں جس کی صحت اور دانش و مصلحت آج سورج کی طرح روشن اور مسلم ہے: ’’… اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حافظ کے معاصرانہ تاریخ کو غور سے دیکھیے مسلمانوں کی دماغی فضا کس قسم کی تھی اور کون کون سے فلسفیانہ مسائل اس وقت اسلامی دماغ کے سامنے تھے۔ مسلمانوں کی پولیٹکل حالت کیا تھی۔ پھر ان سب باتوں کی روشنی میں حافظ کے کلام کا مطالعہ کیجیے… اور سب سے آخر میں شاعر حافظ ہے (اگر اسے صوفی سمجھاجائے) یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تما م شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا کہ جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہو گئی تو پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتاہے ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جو ان کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں خو د ہندوستان کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا‘‘۔ اردو اقبا ل نے اردو کی خدمت میں پوری زندگی بسر کر دی اردو شاعری اور زبان کو زیربار احسان کیا اگر وہ اردو زبان کی کچھ خدمت نہ کرتے تو اکنامکس کو اردومیں ڈھال دینے کی اولین کامیاب کوشش ان کے لیے باعث افتخار ہو سکتی تھی۔ لیکن وہ مدت العمر اس زبان کی خدمت کرتے رہے اور دوسروں کو اس کی خدمت کا شوق دلاتے رہے اوران کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ ان مکاتیب میں خود ان کی شہادت موجود ہے کہ جامعہ عثمانیہ کے ابتدائی دور میں وضع اصطلاحات میں مدد دیتے رہے۔ اردو کانفرنس میں دعوت شمولیت کے جواب میں مولوی عبدالحق کو لکھتے ہیں : ’’اس اہم معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں اگرچہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیںرکھتا تاہم میری لسانیعصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں‘‘۔ ایک دوسرے خط میں مولوی صاحب موصوف کو لکھتے ہیں: ’’آپ کی تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتدا سر سید احمد خاں رحمتہ اللہ علیہ نے کی تھی‘‘۔ تیسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کر سکتا‘‘ اقبال کو اپنے حالات کی بنا پر اردو نثر لکھنے کا اتفاق شاذ و نادر ہی ہوتا تھا۔ لیکن بعض اوقات وہ نثر میں بھی شاعری کیا کرتے تھے اور مختصر جملوں میں شعر کی طرح حقائق بیان کرنے پر قادر تھے۔ ایک دوست کو ایک مرتبہ لکھتے ہیں: ’’فکر روزی قاتل روح ہے‘‘۔ اسی طرح مولوی عبدالحق صاحب کی ترقی اردو کے سلسلہ میں محنت و جانفشانی کی داد یہ کہہ کر دی ہے: ’’آپ ایک صاحب عزم آدمی ہیں اور یہ بات مجھے مدت سے معلوم تھی‘‘۔ ان مکاتیب میں علامہ نے زبان کی سادگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور انشاء پردازی کے جوہر دکھانے کی کوشش نہیں کی؟ البتہ جہاں کہیں موضوع کی دلکشی نے ان کے لیے ایک موقع مہیا کر دیا ہے۔ انہوںنے جو خیالات ذوق و جوش قلبی سے قلمبند کر دیے ہیں۔ ان میں زبان کی دلفریبی بدرجہ غایت موجود ہے۔ حضرات گرامی کو ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں: ’’گرامی کو خاک پنجاب جذب کرے گی یا خاک خاک دکن اس سوال کے جواب میں حسب الحکم مراقبہ کیا گیا۔ جو انکشاف ہوا عرض کیا جاتا ہے۔ گرامی مسلم ہے اور مسلم تو وہ خاک نہیں کہ خاک اسے جذب کر سکے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے جو جامع ہے جواہر موسویت اور ابراہمییت کی۔ آگ اسے چھو جاؤئے تو بردد سلام بن جائے۔ پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ اسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکتی۔ کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہیں۔ پانی آگ جذب کر لیتا ہے عدم بود کو کھا جاتا ہے پستی بلندی میں سما جاتی ہے مگر جو قوت جامع اضداد ہو او رمحلل تمام تناقضات کی ہو اسے کون جذب کر ے۔ مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اند ر جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے… اس کی لاش خاک و خون میں تڑپ رہی تھی لیکن وہ ہستی جس کی آنکھوں میں دوشیزہ لڑکیوںسے بھی زیادہ حیا تھی جس کا قلب تاثرات لطیفہ کا سرچسمہ تھا۔ اس درد انگیز منظر سے مطلق متاثر نہ ہوئی نضیر کی بیٹی نے قتل کی خبر سنی تو نوحہ و فریاد کرتی ہوئی اور باپ کی جدائی میں درد انگیز اشعار پڑھتی ہوئی دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئی۔ اللہ اکبر اشعار سنے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر متاثر ہوئے کہ اس لڑکی کے ساتھ مل کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ جوش ہمدردی نے اس سب سے زیادہ ضبط کرنے والے انسان کے سینے میں ایک آہ سرد نکلوا کر چھوڑی… پھر مسلم جو حامل ہے محدثیت کا ور وارث ہے موسویت کا اور ابراہیمیت کا کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے۔ البتہ زمان ومکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے اور اس کی قوت جاذبہ ذوقی و فطری نہیں بلکہ مستعار ہے ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ہوئے ذروں کو کبھی پامال کیا تھا‘‘۔ اس مکتوب کو حصہ اول میں تمام و کمال پڑحیے اور اقبال کی انشاء پردازی اور مطالب جمیلہ کے اظہار پر اس کے کمال فن کی داد دیجیے۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے۔ منشی محمد دین فوق کو لکھتے ہیں اور نفس مضمون اقبال کے لیے دلکشی رکھتا ہے۔ اقبال ولایت کے پہلے سفر کے دوران میں سویز پہنچے تو مسلمان تاجروں کی ایک کثیر تعداد جہاز پر آ موجود ہوئی اقبال ان میں سے ایک سے سگریٹ خریدتے ہوئے اسے بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں۔ اقبال کے سر پر ہیٹ دیکھ کر اسے تسلیم کرنے میں تامل ہوتا ہے: ’’آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا اور چونکہ حافظ قرآن تھا اس واسطے میں نے چند آیات قرآنی پڑھیں تو نہایت خوش ہوا اور میرے ہاتھ چومنے لگا ۔ باقی دکانداروں کو مجھ سے ملایا اور سب میرے گرد حلقہ باندھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہنے لگے اورمیری عرض سفر معلوم کرکے دعائیں دینے لگے یا یوں کہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے۔ تھوڑی دیر کے بعد مصری نوجوانوں کا ایک نہایت خوبصورت گروہ جہاز کی سیر کو آیا۔ میں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے اس قدر مانوس معلوم ہوئے کہ مجھے ایک سیکنڈ کے لیے علی گڑھ کالج ڈیپوٹیشن کا شبہ ہوا۔ یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ میں بھی دخل در معقولات میں ان میں جا گھسا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا جیسے حریری کا کوئی مقام پڑھ رہا ہو‘‘۔ اسی خط میں نہر سویز کے متعلق لکھتے ہیں: ’’کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگ تراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا جس نے اقوام عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیا د رکھی تھی… یہ کینال جسے ایک فرانسیسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا دنیا کے عجائبا میں سے ایک ہے۔ کینال کیا ہے عرب اور افریقہ کی جدائی ہے۔ اور مشرق اور مغرب کا اتحاد۔ دنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بدھ نے بھی اس قدر اثر نہیں کیا جس قدر اس مغربی اختراع نے زمانہ حال کی تجارت پر کیا ہے‘‘۔ سید غلام میراں شاہ کو لکھتے ہیں: ’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو۔ آپ رفیق راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو… چند روز ہوئے سر اکبرحیدری وزیر اعظم حیدر آباد کا خط مجھ کو ولایت سے آیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ اگر تمہاری معیت میں نصیب ہو تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ لیکن درویشوں کے قافلہ میں جو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہو سکتا ہے‘‘۔ زبان کی ترقی کا راز سردار عبدالرب خاںنشتر کو ۱۹۲۳ء میں لکھتے ہیں: ’’زبان کو میں ایک بت تصورنہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اور جب میں اس انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے‘‘۔ اسی مضمون پر مولوی عبدالحق صاحب کو چودہ برس بعد لکھا ہے: ’’زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اورنئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کے بقا کا انحصار ہے‘‘۔ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے لیے احساس خطر ہندوستان میں علامہ کو اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے متعلق بہت بڑا خطرہ نطر آتا تھا۔ جس کے انسداد کی بعض ایسی کوششیں ان مکاتیب سے ملت کے سامنے آتی ہیں جو آج تک سب کی نظر سے پوشیدہ تھیںَ مسلمانوں اور اسلام کے لیے خطرہ ان کو ہندوستان کی تحریک قومیت اور مسلمانوں کی بے حسی اور بے راہ روی کی وجہ سے تھا۔ اشاعت اسلام کے لیے ان کے دل میں ایک تڑپ تھی۔ میر غلام بھیک صاحب نیرنگ کو لکھتے ہیں: ’’میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پرمقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس کا عنصر نہیں جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتاہے تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے‘‘۔ اسی خط میں دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’میں علیٰ درجہ البصیرت یہ کہتا ہوںاور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربے کے بعد کہ ہندوستان کی سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرہ عظیم ہے۔ میرے خیال میں شدھی کا خطرہ اس خطرہ کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے‘‘۔ اس روشن ضمری اور عاقبت بینی آج کون صاحب نظر داد نہ دے گا۔ مخدوم میراں شاہ صاحب کو لکھتے ہیں: ’’دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت ہمت اثر و رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے… افسوس شمال مغربی ہندوستان میں جن لوگوں نے عالم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے گا الا ماشاء اللہ!‘‘ منشی صالح محمد صاحب کو لکھتے ہیں: ’’اسلام پر ایک بڑا نازک وقت ہندوستان میں آ رہا ہے۔ سیاسی حقوق اور ملی تمدن کا تحفظ ایک طرف خود اسلام کی ہستی معرض خطر میں ہے۔ میں ایک مدت سے ا س مسئلہ پر غور کر رہا ہوں اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ مسلمانوں کے لیے مقدم ہے کہ ایک بڑا نیشنل فنڈ قائم کریں جو ایک ٹرسٹ کی صورت میں ہوا اور اس کا روپیہ مسلمانوں کے تمدن اور ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور ان کی دینی اشاعت وغیرہ پر خرچ کیا جائے۔ اسی طرح ان کے اخبارات کی حالت درست کی جائے اور وہ تمام وسائل اختیار کیے جائیں جو زمانہ حال میں اقوام کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں…‘‘ ایک دوسرے خط میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہے: ’’مسلمانوں کی مختلف مقامات میں دینی اور سیاسی اعتبار سے تنظیم کی جائے قومی عساکر بنائے جائیں اور ان تمام وسائل سے اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کر کے اس کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے‘‘۔ عام مسلمانوں میں اسلام اور مسلمانوں کی ا س حالت زار اور ان کے لیے خطرہ عظیم کے عدم احساس کا ماتم اور اس خطرے کی نوعیت کو یوں واضح فرمایا ہے: ’’میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے مسلمانوں کو ابھی تک اس اک احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں کیا ہو جائے گا۔ آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور پھیل اقوام کی طرح ہو جائے۔ اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک میں فنا ہوجائے اگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے تمام کام چھوڑنے پڑے تو انشاء اللہ چھوڑ دوں گا۔ او ر اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کر دوں گا… ہم لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب اورملت ہندیہ کے احیائے جدید کی تدابیر پر ہمیشہ نظر رہتی تھی۔ مسلمانان ہند کے انحطاط کا ایک سبب ان میں تنظیم اور یک جہتی و ہم آہنگی کا فقدان ہے ۱۹۳۳ء میں شیخ عبداللہ کو لکھتے ہیں: ’’ہم آہنگی ایک ایسی چیز ہے کہ جو تمام سیاسی اور تمدنی مشکلات کا علاج ہے ہندی مسلمانوںکے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے ہوئے ہیں کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ اس کے افراد بالخصوص علماء اوروں کے ہاتھ میں کٹ پتلی بنے رہے بلکہ اس وقت ہیں‘‘۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو خود متحد ہو کر ہمت کرنے اور اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور انہیں دوسروں کی عیاری سے ہوشیار رہنے کی تلقین کے سلسلہ میں سید سلیمان ندوی کو تحریک خلافت کے زمانے میں لکھتے ہیں: ’’مدت سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی کہ یہ تاثر ایک چھوٹی سی تضمین کی صورت میں منتقل ہو گیا ہے۔ معلوم نہیں آپ کا اس بارہ میںکیا خیال ہے۔ واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگرہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں کے اشارے پر ناچتے چلے جاتے ہیں افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقت خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلماں کو ہے ننگ وہ پادشائی مراد از شکستن چناں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی اصل شعر میں دیگراں کی جگہ ناکساں ہے میں نے یہ لفظی تغیر ارادۃً کیا ہے‘‘۔ یہ نہ سمجھیے کہ اقبال کی نظر صرف ننگ اسلام علماء ہی کے گناہوں پر تھی انگریزی خواں طبقے کے وہ لوگ جو ذاتی نفع کی خاطر ملت فروشی پر مائل اور اس طرح ملت میں انتشار کا باعث ہوتے تھے ان کی سیاہ کاریوں سے بھی علامہ کو بے حد قلق تھا۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ چار پانچ سال کے تجربہ سے مجھے بے حد افسردہ کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ پست فطرت ہے‘‘۔ فتنہ قومیت و وطنیت علامہ مرحوم ہندوسان میں مسلمانوں کی سیاسی و تمدنی برتری اور ان میں صحیح اسلامی تعلیمات کے پیدا کرنے اور انہیں ان پر عمل پیر اہونے کے داعی تھے۔ جب کبھی اور جہاں کبھ انہیں ایسے اعمال و تحریکات سے سابقہ پڑا تھا جو مسلمانوں کو ان کے مقاصد عالیہ سے منحرف کرنے کے لیے کی جا رہی تھیں علامہ کی نگاہ دوربیں انہیںبھانپ لیتی تھی اور وہ ان کی مخالفت میں آواز بلند کرتے تھے حضرت علامہ نے فتنہ قومیت و وطنیت کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور وہ مسلمانوں میں اس عصبیت کے پیدا کرنے کے مخالف تھے۔ سیدسلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ’’بزم اغیار کی رونق ضرور تھی۔ اسلام کا ہندوئوں کے ہاتھ پر بک جانا گوارانہیں ہو سکتا۔ افسوس اہل خلافت اپنی اصلی راہ سے بہت دو ر جا پڑے۔ وہ ہم کو ایک ایسی قومیت کی راہ دکھا رہے ہیں جس کو کوئی مخلص مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی قبول نہیں کر سکتا‘‘۔ حضرت اکبر کو لکھتے ہیں: ’’اس وقت اسلام کا دشمن سائنس نہیں… اس کا دشمن یورپ کا جغرافیائی جذبہ قومیت ہے جس نے ترکوں کو خلافت کے خلاف اکسایا۔ مصرمیں مصریوں کے لیے کی آواز بلند کی او رہندوستان کو پین انڈین ڈیمو کریسی کا بے معنی خواب دکھایا‘‘۔ آخری ایام میں جو اذیت علامہ مرحوم کو بعض مسلمانوں کے ان اعمال سے ہوئی جن کانتیجہ ملت میں انتشار اور غیر اسلمای اصولوں کو عملاً تسلیم کرنا تھا ناقابل بیان ہے۔ اسی پر انہین مومن پرستد و کافر تراشد کی پھبتی سوجھتی تھیں۔ اور انہیں حالات سے مجبوراً انہوںنے دل چوں کندہ قصاب دارم پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ: بے نادید نی ہا دیدہ ام من مرا اے کاش کہ مادر نزادے مذہب سے دلچسپی اور فقہ اسلامی کی تشکیل جدید اقبال غلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ع عاشق دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ زمانے کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا۔ مسلمانوں کے مذہبی انحطاط پر ان کا دل دکھتا تھا۔ مخالف قوتوں کے زور و اثر کو دیکھتے تھے اسباب انحطاط او رمشکلات کے مقابلہ کی صورتیں ان کے ذہن میں تھیں۔ کبھی ہماری بے حسی پر ان کا دل بیٹھ جاتاتھا کبھی نامساعد زمانہ سے اسلام کے لیے جنگ آزمائی کا عزم ہوتا تھا اور اسلام کی فتح اور مسلمانوں کی کامرانی کے یقین پر ان کی زندگی موقوف تھی۔ مکاتیب کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے لیکن یاد رہے کہ اقبال کی نگاہ میں مذہب او رسیاست کی علیحدگی جائز نہ تھی۔ جہاں وہ مسلمانوں کے مذہبی انحطاط سے نالاں تھے وہاں ان کے سیاسی تنزل کا ماتم بھی جاری تھا جہاں دوستوں کو مذہب اسلام کے مسائل کی طرف متوجہ کرتے اور دنیا کے موجودہ رجحانات کے پیش نظر تعلیمات اسلامی کی بلندی کی دنیا میں تلقین کی تدابیر پیش کرتے تھے وہاں ممالک اسلامیہ کی سیاسی شیرازہ بندی اور استحکام کو ان کے لیے زندگی اور آبرو کا راز جانتے اور مانتے تھے اور جب اور جہاں جس طرح ممکن ہو ا ان ممالک کی خدمت کرتے تھے ان کی سب سے بڑی خدمت مسلمانوں کو اس مذہبی و سیاسی خدمت کی طرف متوجہ کرنا تھا اوران دونوں قسم کی خدمات میں ان کا حصہ رہنمایانہ تھا۔ سید سلیمان ندوی کو لکھتے ہیں: ’’میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالک اسلامیہ کے موجودہ حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہو رہاہے۔ ذاتی لحاظ سے خدا کے فضل وکرم سے میرا دل پورا مطمئن ہے۔ یہ بے چینی اور اضطراب محض اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل گھبر اکر کوئی دوسری راہ نہ اختیار کر لے۔ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ عرب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ فرانسیسی خوب بولتا تھا۔ مگر اسلام سے قطعاً بے خبر تھا۔ اس قسم کے واقعات مشاہدہ میں آتے ہیں تو سخت تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ مذہبی انحطاط کی علت ہندوستان میں تعلیم کا سراسر غیر مذہبی ہوجانا اور عربی زبان سے ناواقفیت بتائی گئی ہے۔ نیاز احمد خاں کو ۱۹۳۱ء میں لکھتے ہیں: ’’مذہبی مسائل بالخصوص اسلامی مذہبی مسائل کے فہم کے لیے ایک خاص ترتیب کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ مسلمانوں کی نئی پود اس سے باکل کوری ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تعلیم کا تمام تر غیر دینی ہو جانا اس مصیبت کا باعث ہوا ہے۔ ‘‘ ایک دوست کوجو ہندوستان سے باہر گئے ہیں لکھتے ہیں: ’’عربی سیکھنے کا موقع ہے خوب سیکھیے مگر مجھے اندیشہ ہے کہ عربی دانی سے آپ کی دلچسپی جو اب آپ کو فارسی لٹریچر سے ہے کم ہو جائے گی۔ کوئی آدمی عربی زبان کے چارم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں خاصی عربی سیکھ لی تھی مگر بعد میں اورمشاغل کی وجہ سے اس کا مطالعہ چھوٹ گیا تاہم مجھے اس زبان کی عظمت کا صحیح اندازہ ہے‘‘۔ ایک دوسرے دوست کو ۱۹۱۶ء میںلکھتے ہیں: ’’ہندی مسلمانوں کی بڑی بدبختی یہ ہے کہ اس ملک سے عربی زبان کا علم اٹھ گیا ہے اورقرآن کی تفسیر میں محاورہ عرب سے بالکل کام نہیں لیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قناعت و توکل کے وہ معنی لیے جاتے ہیں جو عربی زبان میں ہرگز نہیں…اس طرح ان لوگوں نے نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں ہندی اور یونانی تخیلات داخل کر دیے ہیں‘‘۔ مسلمانوں کی زبوں حالی اور بداعمالی اور ان کے مستقبل کی فکر دین و ملت کے دو خادموں کو رلاتی ہے۔ اور وہ ایک دوسرے کی تائید و اعانت کرتے اور ہمت بندھاتے ہیں سید سلیمان کو لکھتے ہیں: ’’دنیا اس وقت ایک روحانی پیکار میںمصروف ہے۔ اس پیکار و انقلاب کا رخ معین کرنے والے قلوب و اذہان پر شک و ناامیدی کی حالت کبھی کبھی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آ پ کا قلب قوی اور ذہن ہمہ گیر ہے۔ آپ اس حالت سے جلد نکل آئیں گے … آپ اس جماعت کا پیش خیمہ ہیں … اس جماعت کا دنیا میں عنقریب پیدا ہونا قطعی اور یقینی ہے‘‘۔ مذہبی پستی اورناواقفیت کا فوری علاج بھی بتایا جا رہا ہے اور مذہبی شوق کے پیدا کرنے اور اسلام کی برتری دنیا پر واضح و ثابت کرنے کا مستقل نسخہ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ مولانا عبدالماجد کو ۱۹۲۹ء میں مسلم یونیورسٹی کے نئے دور کا مطالعہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’آپ علی گڑھ جا کر مذہبیی مضامین پر طلبہ سے گفتگوئیں کیا کریں تو نتائج بہت اچھے ہوں گے۔ باوجود بہت سی مخالف قوتوں کے جو ہندوستان میں مذہب کے خلاف (اور بالخصوص اسلام کے خلاف) ا س وقت عمل کر رہی ہیں مسلمان جوانوں کے دل میں اسلام کے لیے تڑپ ہے لیکن کوئی آدمی ہم میں نہیں کہ جس کی زندگی قلوب پر موثر ہو…‘‘ ’’اسلام کے لیے اس ملک میں نازک وقت آ رہا ہے جن لوگوں کو کچھ احساس ہے ان کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش اس ملک میںکریں… علماء میں مداہنت آ گئی ہے‘‘۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’افسوس کہ زمانہ حال کے اسلامی فقہا یا تو زمانہ کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں… ہندوستان میںعام حنفی اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد کے تمام دروازے بند ہیں… میری رائے ناقص میں مذہب اسلام گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید تاریخ اسلام پر ایسا وقت اس سے پہلے نہیں آیا۔ ‘‘ حضرت علامہ نے فکر اسلامی کی تجدید و طرح نو کے لیے بہت کوشش فرمائی اور طرح طرح کے مسائل کی طرف خود بھی توجہ کی اور علماء کو بھی متوجہ کیا۔ ان کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ فقہ اسلامی پر نئے سرے سے کتابیں لکھی جائیں۔ ایک دوست کو ایک عالم دین کے متعلق لکھتے ہیں: ’’کیا اچھا ہو کہ وہ شریف محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مبسوط کتاب تحریر فرما دیں جس میں عبادات و معالات کے متعلق صرف قرآن سے استدلال کیا گیا ہو معاملات کے متعلق خاص طور پر اس قسم کی کتاب کی آج کل شدید ضڑورت ہے… اس پر ایک آدھ کتاب بھی تصنیف ہو چکی ہے ۔ اس سے زیادہ تر زمانہ حال کے مغربی اصول فقہ کو ملحوظ رکھ کر فقہ اسلامی پر بحث کی گئی ہے… ایک مدت سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ قرآن کامل کتاب ہے اور خود اپنے کمال کا مدعی ہے…لیکن ضرورت اس امر کی ہے ہ اس کے کمال کو عملی طور پر ثابت کیا جائے کہ سیاسیات انسانی کے لیے تمام ضروری قواعد موجود ہیں اوراسمیںفلاں فلاں آیات سے فلاں فلاں قواعد کا استخراج ہوتاہے نیز جو جو قواعد عبادات یا معاملات کے متعلق (بالخصوص موخر الذکر کے متعلق ) دیگر اقوا م میں اس وقت مروج ہیں ان پر قرآن نقطہ نگاہ سے تنقید کی جائے اور دکھایا جائے کہ وہ بالکل ناقص ہیں اور ان پر عمل کرنے سے نوع انسانی کبھی سیاست سے بہرہ اندوز نہیں ہو سکتی۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہو گا اوربنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم وہی شخص ہو گا‘‘۔ اقبال اس صورت حال کا مقابلہ علماء اسلام کی ایک جماعت تیار کرکے کرنا چاہتے تھے۔ اس جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے کس پایہ اور کن اوصاف کے اساتذہ کی ضرورت سمجھتے تھے۔ اس کا اندازہ شیخ جامعہ ازہر کے نا م تحریک داراسلام سے متعلق ان کا مکتوب لائق توجہ ہے ۔ فرماتے ہیں: ’’ہم ان کے لیے ایک لائبریری قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر قسم کی نئی اور پرانی کتابیں موجود ہوں۔ اور ان کی رہنمائی کے لیے ہم ایک ایسا معلم جو کامل اور صالح ہو اور قرآن حکیم میں بصارت تامہ رکھتا ہو ور نیز انقلا ب دو رحاضرہ سے بھی واقف ہو مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کو کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے واقف کرے اور تفکر اسلامی کی تجدید یعنی فلسفہ حکمت اقتصادیات اور سیاسیات کے علوم میںان کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے علم اور تحریروں کے ذریعے تمدن اسلامی کے دوبارہ زندہ کرنے میں جہاد کر سکیں‘‘۔ کن کن مذہبی مسائل پر توجہ تھی ڈاکٹر اقبال کی نظر حال و مستقبل دونوں پر تھی۔ دین اسلام کو زمانہ حال کی مقتضیات کے پیش نظر جن مسائل سے واسطہ پڑا ہے یا پڑے گا ا س کااندازہ علامہ مرحوم کو تھا اور وہ چاہتے تھے کہ سوچتے تھے دوستوں سے پوچھتے تھے اور خود تلاش کرتے تھے اس سلسلہ میں صرف ان مسائل کی طرف محض اشارات پر اکتفا کرتا ہوں جن سے انہیں دلچسپی تھی سید سلیمان ندوی کو ۱۹۳۴ء میں لکھتے ہیں: ’’دنیا عجب کشمکش میں ہے جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے ۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ دار کے خلاف ایک جہاد عظیم ہو رہاہے ۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ) بھی حالت نزع میں ہے۔ غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے اس بحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیے۔ اگر کوئی کتابیں ایسی ہوں جن کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے نامو ں سے آگاہ فرمائیے‘‘۔ سید صاحب ہی سے دریافت کرتے ہیں: ’’احکام منصوصہ میں توسیع اختیارات امام کے اصول کیا ہیں؟ اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو کیا ان کے عمل کو بھی محدود کر سکتا ہے؟ اسکی کوئی تاریخی مثال ہو تو واضح فرمائیے!‘‘ ’’زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے میں کیا ہے؟ اگر کوئی اسلامی ملک (روس کی طرح) زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسلامی کے موافق ہو گی یا مخالف؟ اس مسئلہ کا سیاست اور اجتماع معاشر ت سے گہرا تعلق ہے کیایہ بات رائے امام کے سپرد ہو گی؟ اس ضمن میں علامہ کا یہ سوال کہ کیا جماعت امام کی قام مقام ہو سکتی ہے مدنظر رہنا چاہیے۔ ’’امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگر بچہ پیدا ہو تو اس بچہ کے ولد الحرام ہونے پر نہیںکیا جا سکتا۔ اس مسئلہ کی اساس کیا ہے؟ کیا یہ اصول محض ایک قائدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے؟ اس سوال کے پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ مروجہ ایکٹ شہادت کی رو سے تمام وہ قواعدشہادت جو اس ایکٹ کے نفاذ سے پہلے ملک میں مروج تھے منسوخ کیے گئے ہیںَ ہندوستان کی عدالتوں نے مذکورہ بالا اصول کو قاعدہ شہادت قرا ر دے کر منسوخ کردیا ہے۔ نتیجہ اس بات کابعض مقامات میں یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچہ جو فقہ اسلامی کی رو سے ولد الحلال ہے ایکٹ شہادت کی رو سے ولد الحرام قرار دیا جاتا ہے‘‘۔ اقبا ل کو اعتراف ہے: ’’میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ البتہ فرصت کے اوقات میں میںاس بات کی کوشش کیا کرتا ہوں کہ ان معلومات میں اضافہ ہو۔ یہ بات زیادہ تر ذاتی اطمینان کے لیے ہے نہ کہ تعلیم و تعلم کی غرض سے‘‘۔ لیکن اقبال مجبور ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی بیداری اور اسلام کی حقیقی تعلیم کو زمانہ حال کی مقتضیات کے پیش نظر دوسرے ضابطہ ہائے حیات سے بہتتر اور ابدی ثابت کرنے کے لیے جو کوشش ضروری ہے جہاں تک ان کے امکان میں ہے وہ کریں۔ وہ ایک دوست کو لکھتے ہیں: ’’مولوی صاحب مصوف یا ان کے رفقا کو جو کلام الٰہی اورمسلمانوں کے دیگر لٹریچر پر عبور رکھتے ہیں اس طر ف توجہ کرنی چاہیے۔ میں اور مجھ ایسے اور لوگ صرف ایک آنکھ رکھتے ہیں‘‘۔ حضرت علامہ نے بالآخر تہیہ کر لیا کہ وہ ایک کتاب لکھیں جس میں حقائق قرآنیہ سے بحث ہو اور اس احتیاط کا یہ عالم ہے کہ اس کا عنوان اسلام میری نظر میں قرار دیا ہے: ’’اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مضمون میری ذاتی رائے تصور کیا جائے جو ممکن ہے غلط ہو‘‘۔ اس کتاب کے متعلق اپنی عمر کے آخری ایام میں انہوںنے سید راس مسعود کو لکھا ہے: ’’تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلم بند کر جائوںاور جو تھوڑی سی ہمت و طاقت مجھ میں موجود ہے اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں‘‘۔ ایک دوسرے خط میں سید راس مسعود ہی کو لکھتے ہیں: ’’اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر عہد حاضر کے افکار کی روشنی میںاپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسامحسوس ہوتا ہے کہ میرا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آ جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں دے سکتا‘‘۔ غیر اسلامی تصوف پر علامہ کے خیالات کسی دوسری جگہ موجود ہیں۔ مذہبی نقطہ نگاہ سے لکھتے ہیں: ’’اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے‘‘۔ ایک دوسرے خط میں سید صاحب کو لکھتے ہیں: ’’خواجہ نقشبند اور مجدد سرہند کی میرے دل میں بہت بڑی عزت ہے مگر افسوس کہ آ ج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ یہی حال سلسلہ قادریہ کا ہے جس میں میں خود بیعت رکھتا ہوں حالانکہ حضرت محی الدین کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرنا تھا‘‘۔ سید سلیمان کو لکھتے ہیں: ’’امریکہ کے ایک مصنف کی کتاب میںلکھا ہے کہ اجماع امت نص قرآنی منسوخ کر سکتاہے یعنی یہ کہ مثلاً مدت شیر خوارگی کی نص صڑیح کی رو سے دو سال ہے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے… مصنف نے لکھا ہے کہ بعض حنفاء اور معتزلیوں کے نزدیک اجماع امت یہ اخیتار رکھتا ہے کہ مگر اس نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ آپ سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود ہے… دریافت طلب امر یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا بھی ہے کہ جو صحابہؓ نے نص قرآنی کے خلاف نافذ کیا ہو اور وہ کون سا حکم ہے‘‘ ’’آیہ توریث میں حصص بھی ازلی و ابدی ہیں یا قاعدہ توریث میں جو اصول مضمر ہے صرف وہی ناقابل تبدیل ہے اور حصص میں حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے ؟ کیا روسی مسلمانوں میں بھی ابن تیممہ اور محمد عبدالوہاب نجدی کے حالات کی اشاعت ہوئی تھی؟… مفتی عالم جان جن کا حال میں انتقال ہو گیا ہے ان کی تحریک کی اصلی غایت کیا تھی؟ کیایہ محض تعلیمی تحریک تھی یا اس کامقصود ایک مذہبی انقلاب بھی تھا؟‘‘ اس وقت آئین پاکستان پر بحث مباحثہ جاری ہے۔ مذہبی مسئلہ میں امام کے اختیارات کی نوعیت پر بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال سید سلیمان ندوی سے دریافت فرماتے ہیں: ’’زمانہ حال کی زبان میں یوںکہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن ان (امام) کو ایسا اختیار دیتی ہے امام ایک شخص واح د ہے یا جماعت بھی امام کے قائم مقا م ہو سکتیہے ۔۔ ؟ ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا امام ہو یا تمام اسلامی ممالک کے لیے ایک واحد امام ہو؟ موخر الذکر صورت سے موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میں کیونکر بروئے کار آ سکتی ہے؟ مہربانی کر کے ان سوالات پر روشنی ڈالیے‘‘۔ اسی قسم کے بیسیوں سوالات ہیں جن کا حل تلاش کیاجا رہا ہے۔ ممالک اسلامیہ…فلسطین حضرت علامہ کو مسئلہ فلسطین سے غایت درجہ دلچسپی تھی۔ اور انہوںنے ہندوستان کے دور غلامی میں فلسطین کو پنجہ اغیار سے چھڑانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مس فارقوہرسن کے نام ان کے خطوط اس پر شاہد ہیں کہ کچھ جو پہلے میسر آئے حصہ اول میں موجود ہیں۔ جو خطوط میری علی گڑھ سے واپسی کے بعد لاہور میں سر عبدالقادر مرحوم سے درستیاب ہوئے۔ حصہ دو م میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ ان خطوط میں برطانیہ کو عربوں سے اپنے حتمی وعدوں کی خلاف ورزی کے ارتکاب سے بچنے کے لیے توجہ دلائی جا رہی ہے۔ انہیں تاریخ اقوام پر گہری نظر رکھنے والے مفکر کی طرح بتایا جارہا ہے کہ: ’’جب طاقت عقل و دانش کو پس پشت ڈال کر محض اپنی ذات پر بھروسہ کر لیتی ہے تو نتیجہ خود طاقت کا زوا ل ہوتاہے‘‘۔ انگریزوں سے کہا جا رہا ہے کہ فلسطین تمہاری ذاتی جائدا د نہیں تم اس تحریک کو یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن مہیا کرنے سے کہیں زیادہ برطانوی سامراج کے لیے ایک ساحلی گوشہ حاصل کرنے کے زیادہ فکر مند ہو۔ کہیں برطانیہ کو عربی کی دوستی سے محرومی کے عواقب سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں مشرق قریب کے اسلامی ممالک کی سیاسی وحد ت و استحکام کو ترکوں اور عربوں کے فوری اتحاد مکرر پر موقوف بتایا جا رہا ہے عربوں کو بتایا جا رہا ہے کہ عرب ممالک کے مختلف بادشاہ فلسطین کے لیے آزادانہ اورایماندارانہ فیصلہ حاصل کرنے سے قاصر ہیںَ مس فارقوہرسن سے تجویز کیا جا رہا ہے کہ فلسطین کے مسئلہ سے اپیل کے لیے ہز ہائی نس آغا خاں کی تائید و اعانت حاصل کریں اور اپیل کا مسودہ مصر و فلسطین کے زعمائے فکر و عمل کے مشورہ سے مرتب کریں۔ اس مسئلہ پر دلچسپی اور اعانت کے لیے مس فارقوہرسن اور لارڈ ازلینٹن کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ افغانستان حضرت علامہ کو افغانستان سے گہری دلچسپی رہی ۔ اس دلچسپی کا اندازہ ان اشعار سے ہو سکتاہے جو سیاست افغانستان کے بعد مثنوی پس چہ باید کرد کی صورت میں شائع ہوئے۔ امان اللہ خاں کے فرار کے بعد افغانستان میں جو حالت پیدا ہوئی وہ ہر صاحب دل مسلمان کے لیے بے حد قلق انگیز تھی عام طورپر یہ مشہورہے کہ جب نادر خاں لاہور سے گزرے تو اقبال نے اپنا تمام اندوختہ جو اس وقت ان کے پاس موجود تھا۔ لے کر سٹیشن پر پہنچے اور علیحدگی میں نادر خاں سے کہا کہ میری کائنات یہی کچھ ہے۔ اسے قبول فرما کر اس جہاد کے ثواب اور افغانستان کے استقلال کی کوشش میں شمولیت کا شرف مجھے بھی حاصل ہونے دیجیے۔ نادر خاں نے متاع درویش کے قبول سے بصد شکریہ انکار کر دیا۔ لیکن اقبال اس فکر میں رہے اور دوستوں سے خطوط اور تار کے ذریعے اپیل کی۔ مولوی محمد جمیل صاحب کو لکھتے ہیں : ’’افغانستان میں دوبارہ امن قائم ہوتا جاتا ہے۔ ہندوستان میں معدودے چند افراد کو ا س ملک کے انقلاب کے اسباب سے واقفیت ہے۔ میری رائے میں امان اللہ کی واپسی کے کوئی امکانات نہیں‘‘۔ علامہ خود استقلال افغانسان کے بعد کابل گئے اور آزادملک کو اپنی مسیحا نفسی سے زندہ کرنے میں حصہ لیا۔ اور جن لوگوں نے ملک کی آزادی کے حاصل کرنے میں حصہ لیاتھا۔ انہیں اپنے ہدیہ عقیدت سے جس نے اشعار تابدارکی صورت اختیار کی ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔ احباب بنگلور سے بذریعہ تار افغانستان کی آزادی کی کوشش کے لیے چندہ جمع کیا جا رہا ہے مولوی محمد جمیل صاحب کو ۱۹۲۹ء میں لکھتے ہیں: ’’مجھے امید ہے کہ احباب بنگلور جن سے میں نے اس سلسلہ میں اعانت کی درخواست کی ہے فراخ دلی سے چندہ دیں گے۔ میں نے سیٹھ حاجی اسمعیل ایڈیٹر ’’الکلام‘‘ اور عبدالغفو ر صاحب کو بھی تار دیا ہے۔ ازراہ کرم ہمارے اٹک پار کے بھائیوں کی طرف سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے وہ ان حضرات کو یاد دلائیے۔ افغانستان کا استقلال و استحکام مسلمانان ہندوستان اور وسطی ایشیاء کے لیے وجہ جمعیت و تقویت ہے‘‘۔ کشمیر تنم گلے از خیابان جنت کشمیر کہنے والے اقبال نے: دل از حریم حجاز و نواز شیراز است کہہ کر اپنے جسم و روح کے تعلق اور نسبت کوواضح کر دیاھتا۔ جب تن کو ایذاپہنچی تو دل متاثر ہوا۔ کشمیر میں جب مسلمانوں پر سخت مصیبت نازل ہوئی اور حکومت نے انہیں قید و بند میں ڈالنا شروع کیا تو اقبال نے انہیں یک جہتی کاپیغام دیا۔ اسیران قید و بند کے لے پٹنہ سے نعیم الحق صاحب بیرسٹر کی خدمات بطور وکیل حاصل کیں۔ لاہور سے وکیل ان کی مدد کو بھیجے اور کشمیریوں کی حالت زار پر اپنے کلام میں بڑا ماتم کیا۔ لیکن شاعر امید کی زبان پر یہ الفاظ بھی جاری ہوئے کہ میجھے امید ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پانسہ پلٹنے والی ہے خدا کرے جلد علامہ مرحوم کی پیش گوئی پوری ہو! دوسرے اسلامی ممالک حضرت علامہ نے جنگ ہائے طرابلس اور بلقان میں ایک دلدوز نوا بلند کی اور جنگ اول کے بعد تحریک خلافت میں ایک حدتک خود شامل رہے اور ایک زمانہ شاہد ہے کہ وہ ترکوںکی مصیبت جو جنگ اول کے بعد ان پر نازل ہوئی خود روئے اور دوسروں کو رلایا لیکن ان کا دل ہمیشہ امید سے معمور رہتا تھا۔ انہوںنے فرمایا: اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا ۱۹۲۹ء میں ان کا ارادہ اسلامی ممالک کی سیاحت کرنا تھا۔ مولوی محمد جمیل صاحب کو لکھتے ہیں: ’’اب باوجودمالی مشکلات کے ایران و ترکی کے سفر کی تیاری میں مصرو ف ہوں۔ خداوند تعالیٰ پر بھروسہ ہے۔ اور امید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے لیے جو میں محض اسلام اور مسلمانو ں کی بہتری اور بلندی کے لیے اختیار کر رہا ہوں زاد راہ میسر آ جائے گا‘‘۔ لیکن مالی مشکلات نے امید کی روشنی کو مدھم کر دیا دوسرے خط میں لکھتے ہیں: ’’میں ترکی اور مصر کے سفر کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہیں زرمی طلبہ والا معاملہ ہے اور ہندوستان کے مسلمان امراء اسلام کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت و اہمیت سے قطعاً نا آشنا ہیں‘‘۔ غرض علامہ مرحوم سے جب اور جیسا میسر ہوا انہوںنے اسلامی ممالک کی خدمت کو اپنا فرض سمجھا تعلیم یافتہ طبقہ میں ان کے کلام کی بدولت ہی اتحاد ممالک و ملل اسلامیہ کا ایک قومی جذبہ پایا جاتا ہے۔ سیاسی پیش گوئیاں اقبال کے کلام کی طرح خطوط میں بھی جا بجا پیش گوئیاں ملتی ہیں ۱۹۱۸ء میں لسان العصر اکبر الہ آبادی کو لکھتے ہیں: ’’کلکتہ کے فسادات کے حالات اخبار میں پڑھے تھے۔ آج مزید حالات پڑھے خدا تعالیٰ مسلمانوں پر فضل کرے او ر ان کے لیڈروں کو آنکھیں عطا فرمائے کہ وہ اس زمانے کے میلان طبیعت کو دیکھیں‘‘۔ مسلمان لیڈروں کی سیاسی عاقبت نا اندیشی کا یہ اولین مرثیہ ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے اختلافات بڑھتے گئے۔ اقبال کو اس سے دکھ ہوا۔ لیکن ان کی فراست نے انہیں اس نتیجہ پر پہنچا دیا جوآج ایک حقیقت ثابتہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ مارچ ۱۹۲۲ ء میں مہاراجہ کشن پرشاد کو پنجاب کے متعلق لکھتے ہیں: ’’افسوس ہے کہ پنجاب میں ہندو مسلمانوں کی رقابت بلکہ عداوت بہت ترقی پر ہے اگر یہی حالت رہی تو آئندہ تیس سال میں دونوں قوموں کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی‘‘۔ یہ پیش گوئی تیس برس سے پہلے ہی پوری ہو گئی۔ ۱۹۳۲ء میں مس فارقوہرسن کو لکھتے ہیں: ’’ذاتی طور پر میں ہندوستان کے مستقبل سے نہایت مایوس ہو رہا ہوں۔ بمبئی کے فسادات نے جو ابھی تک فرونہیں ہوئے مجھے بے حد پریشان کر رکھا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز ایک خونریزی کی صورت میں اختیار کرے گا اوریہ بدامنی ایسے نتائج پیدا کرے گی کہ جو بے حدناگوارہ وں گے۔ بعض لوگوں کی تو رائے ہے کہ ہندوستان میں اس بے چینی کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم کی سویت استوار ہو جائے گی‘‘۔ دونوں قوموں کے لیے باہمی عداوت کی وجہ سے زندگی مشکل ہوگئی۔ آزادی آئی اور اپنے ساتھ خون کے سمندر لائی۔ بدامنی موجود ہے دیکھیں ہندوستان کا کیا حال ہوتا ہے۔ ۱۹۳۶ء میں مولوی عبدالحق کو انجمن ترقی اردو کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے جو لڑائیاں لڑنی پڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہوگا۔ پنجابیوں کو ا س میں بڑی بڑی دقتیں پیش آئیں گی کیونکہ اسلای زمانے میں یہا ں کے مسلمانوں کی مناسبت تربیت نہیں کی گئی ہے۔ مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سرزمین معلوم ہوتی ہے!‘‘۔ یہ پیش گوئی کس قدر جلد اور صحیح ثابت ہوئی! اقبال اسلام کی دینی ودنیاوی شوکت و عظمت کے آرزو مند تھے۔ اور عالم اسلام کی تحریکات اور ترقیات کا غائر توجہ سے مطالعہ کرتے رہتے تھے اور اس مطالعہ کی بنا پر اپنے نتائج استوار کرتے تھے۔ ۱۹۲۴ء میں اکبر منیر صاحب کو لکھتے ہیں: ’’دنیا میں دل میں انقلاب ہے۔ اس واسطے قلوب انسانی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسلام کی عظمت کا زمانہ انشاء اللہ قریب آ رہا ہے‘‘۔ خواب او ر اس کی تعبیر اس سلسلہ میں اقبال کا ایک خواب اور اس کی تعبیر بھی انہی کی زبان سے سن لیجیے۔ ۱۹۳۱ء میں مولوی راغب احسن صاحب کو جنہوں نے کلکتہ میںجمعتہ شبان المسلمین کی بنیاد رکھی اور اس تحریک کا میثاق علامہ کی خدمت میں بھیجا لکھتے ہیں: ’’مدت ہوئی میں نے آ پ کو خواب میں دیکھا تھا کہ ایک سیاہ پوش فوج عربی گھوڑوں پر سوار ہے۔ مجھے تفہیم ہوئی کہ یہ ملائکہ ہیںَ میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ ممالک اسلامیہ میں کوئی تحریک پید اہونے والی ہے۔ عربی گھوڑوں سے مراد روح اسلامیت ہے۔ کیا عجب ہے کہ یہی وہ تحریک ہو جس کا آغاز آپ نے کیا ہے!‘‘۔ اقبال نے تجویز و قیام پاکستان کی تیار ی میں جو حصہ لیا وہ جنت آشیاں قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ان کے خطوط سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان پر میں نے کسی پر تبصرہ کی ضرورت محسوس نہیں کی اسی طرح صاحبزادہ آفتاب احمد خان وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور خالد خلیل پروفیسر جامعہ قسطنطنیہ کے نام مکاتیب سے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا کیونکہ وہ خطوط اپنی نوعیت و اہمیت کے لحاظ سے جداگانہ توجہ و مطالعہ کے محتاج ہیں۔ خویش و اقارب ملت کے لیے اقبال کی دلسوزی کے تذکرہ کے بعد اس شخص کی بلند نظری اور ایثار کی ایک تھوڑی سی جھلک بھی دیکھ لیجیے۔ اہل و اعیال سے محبت اور ان کے لیے دلسوزی انسان کے لیے ایک فطری امر ہے لیکن اپنی آسائش کو دوسروں کے حقوق کے احترام میں ترک دنیا کر دینا ایک ایسا عمل ہے جو عام نہیں مہاراجہ کشن پرشاد کو لکھتے ہیں: ’’کچہری بند تھی اور میں چاہتا تھا کہ کسی ایسی جگہ جہاں لوگ میرے جاننے والے نہ ہوں چلاجائوں۔ اور تھوڑے دنوںآرام کروں۔ پہاڑ کے لے سامان موجود تھا مگر اس قدر کہ تنہا جا سکوں۔ تنہا جا کر ایک پر فضا مقام میں آرام کرنا اور اہل و عیال کو گرمی میں چھوڑ کر جانا بعید ا ز مروت معلوم ہوا۔ اسی واسطے ایک گائوںچلا گیا جہاں ویسی ہی گرمی تھی جیسی لاہور میں مگر آدمیوں کی آمدورفت نہ تھی‘‘۔ اقبال کو اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد سے والہانہ محبت تھی۔ اور جب ایک زمانہ میں ان پرمصیبت آئی تو اقبال انگاروں پر لوٹ پڑے اوران کی اعانت کو دوڑے اور ان کے لیی اپنے ذہن رسا اور فراست اورمعاملہ فہمی و تدبر اور دلیری سے اس زمانہ میں وہ کیا جو شاید کوئی دوسرا نہ کر سکتا تھا۔ اگر اس معاملہ فہمی اور فراست کو وہ حصول دنیا کے لیے صرف کرتے تو ہندوستان میں ان سے کسی کو یارائے مقابلہ نہ تھا۔ لیکن یہ فہم و فراست خدمت ملت کے لیے وقف تھا۔ نیلامی کا مال نہ تھا۔ اقبال عالم انسانیت کا ایک بہی خواہ خادم تھا۔ اور جس نے اسے صرف مسلمانان ہند یا مسلمانان عالم ہی کا خدمت گزار سمجھا اس نے اسے مرد آفاقی کی فطرت کے سمجھنے میں بے حد غلطی کی ہے۔مکاتیب میں بھی اس جذبہ خدمت انسانیت کا تذکرہ آ گیا ہے: قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے لکھنے والے شو لال شوری کو لکھا ہے: ’’بنی نوع انسان کی وحد ت کا خیال اس شدید قومیت کے دور میں جس کا ماحصل انسان میں باہمی خانہ جنگی کے سوائے کچھ نہیں تھامحتاج اشاعت ہے۔ اگر آپ کے پمفلٹ کا یہی موضوع ہے تو بلاشبہ آپ کی تشخیص درست ہے‘‘۔ مضامین دنیا کو آج بھی اقبال سے متعلق معلومات کی اس قدر طلب و تلاش ہے کہ عقید تمندان اقبال ان کے افکار و اقوال کی ہر جھلک محفوظ کر لینا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ایک دوست نے بعد ا ز سعی بسیار مجھے پانچ سال کے پرچہ جات مضمون نویسی کی نقل مہیا کی ہے جو علامہ مرحوم نے حیدرآباد دسول سروس کے امتحان کے لیے مرتب فرمائے تھے میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کے افکار کی نوعیت و اہمیت کوسمجھنے کے لیے ان کا جاننا بھی سود مند ہے اور میں اپنے آپ کو اس پر رضامند نہیں پاتا کہ عقیدت مندوں کو اقبال کے ذہن روح کے ان ہنگاموں سے بے خبر رکھا جائے مضامین ذیل ہیں: ۱۔ مشرق میں جمہوریت کے لیے جدوجہد اس کی موجودہ کیفیت اور اس کا مستقبل۔ ۲۔ تاریخ بحیثیت ایک علم۔ ۳۔ ادبی تنقید اوراس کے مقاصد ۴۔ اجتماعی زندگی میں صاحب فکر افراد کی اہمیت ۵۔ ہندی تہذیب اس کے سیاسی عناصر اور ا س کا تدریجی ارتقائ۔ ۶۔ افتراق مذہب و سیاست ۷۔ عورت اور تمدن جدید۔ ۸۔ افغانوں اور مغلوں کی طاقت آزمائی ہندوستان میں۔ ۹۔ صحیح انسانی تہذیب مادی اور روحانی علوم سے متشکل ہوتی ہے۔ ۱۰۔ میر انیس مرحوم ۱۱۔ فارسی ادبیات کااثر اردو شعراء پر۔ ۱۲۔ قومیت کا تصور زمانہ حاضرہ میں۔ ۱۳۔ ممالک ایشیا میں سیاسی انقلاب اور اس کا مستقبل۔ ۱۴۔ قدامت پرستی اور حیات اجتماعی کا ارتقائ۔ ۱۵۔ طبعی اور مابعد الطبعی ۱۶۔ تصوف کی چاشنی اردو شعر میں۔ ۱۷۔ تہذیب اقوام کے مادی اور نفسیاتی موثرات ۱۸۔ مشرقی اقوام کو مغربی تہذیب کی تنقید کی ضرورت ہے۔ اس کی تقلید کی ضرورت نہیں۔ ۱۹۔ شخصی امامت سیاسیات میں۔ ۲۰۔ سرمایہ داری کا موجودہ نظام اور اس کے نتائج۔ ۲۱۔ پھانسی کی سزا اڑا دینی چاہیے۔ ۲۲۔ جیل خانوں کی اصلاح۔ ۲۳۔ بولنے والی تصاویر اور ان کا اثر عام تمدن پر۔ ۲۴۔ ہندوستان کے افلاس کی وجوہ۔ ۲۵۔ اردو میںڈرامہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ۲۶۔ اگر سونا کیمیاوی طریق سے بن جائے؟ ۲۷۔ جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیںمذاق سخن نہیں ہے۔ ۲۸۔ غزل: ابتدائے شاعری بھی ہے اور انتہائے شاعری بھی ۔ ڈاکٹر برائون کا قطعہ وفات ڈاکٹر برائون کیمرج کے مشہور مستشرق تھے ۔ انہوںنے فارسی میں دسترس حاصل کی۔ ادب ایران اور انقلاب ایران جیسی شہرہ آفاق تصانیف کے علاوہ اپنے مطالعہ کی بنا پراسلام سے ایک گونہ عقیدت رکھتے تھے۔ اور جب اور جہاں کہیں ممکن ہوا انہوںنے مسلمانوں کی اعانت میںاپنی آواز بلند کی ۔ پروفیسر برائون کی وفات پر اقبال نے تین اشعار کا ایک قطعہ لکھا جس کی نقل اسرار خودی کے انگریز مترجم ڈاکٹر نکلسن کے کاغذات سے خود ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ان کی وفات کے بعد مجھ تک پہنچی ہے۔ ارباب بصیرت کی نظر میں اقبال کا قطعہ اور نکلسن کی فارسی تحریر کا نمونہ دونوں نوادر میں سے ہیں جہاں تک مجھے علم ہے اقبال کا برائون کو یہ خراج تحسین اس ملک میں آج تک شائع نہیں ہوا۔ اور ان کے مطبوعہ کلام میں موجود نہیں۔ لیکن ا س قابل ہے کہ اسے محفوظ کیا جائے۔ نقل حسب ذیل ہے۔ ایک چھوٹا سا کاغذ ایک لفافہ میں بند ہے۔ لفافہ پر انگریزی زبان میں قطعہ وفات پروفیسر برائون از اقبال لکھا ہے: قطعہ تاریخ وفات پروفیسر ای جی رون اعلی اللہ معادہ نازش اہل کمال ای ۔ جی برون فیض او در مغرب و مشرق عمیم مغرب اندر ماتم او سینہ چاک از فراق او دل مشرق دو نیم تابفردوس بریں ماویٰ گرفت گفت ہاتف ذلک الفوذ العظیم ۱۹۲۶ء محمد اقبال اسی طرح علی گڑھ میں میںنے اقبال کی کسی تصنیف پر مولانا محمد علی جوہر کا قطعہ وفات جو انتہائی دلسوزی اور جذبہ روحانی کے تحت کھا گیا تھا نقل کر رکھا تھا۔ وہ بھی مطبوعہ کلام میں موجود نہیں اور بڑا ظلم ہو گا کہ اگر اسے علامہ کے کلام میں مستقل جگہ نہ دی جا سکے۔ یک نفس جان نزار او تپد اندر فرنگ تامژہ برہم زینم از ماہ پر دیں در گزشت اے خوشا مشت غبار او کہ از جذب حرم از کنار اندلس و از ساحل بربر گزشت خاک قدس اورا بہ آغوش تمنا در گرفت سوئے گردوں رفت زاں راہے کہ پیغمبر گزشت می نہ گنجد جز بہ آں خاکے پاک از رنگ و بوست بندہ کو از تمیز اسود و احمر گذشت جلوہ او تا ابد باقی بہ چشم آسیا است گرچہ آں نور نگاہ خاور از خاور گذشت عطیہ خطوط کے لیے استدعا خطوط کی فراہمی کا کام بشرط زندگی جاری رکھنے کا ارادہ ہے۔ کیا عجب کہ حالات دوبارہ سازگار ہو جائیں اور ہند اور بیرون ہند سے ایسے خزانے دستیاب ہو جائیں جو اس وقت کے وہم و گمان میں بھی نہیں یا کم از کم ان دونوں جلدوں میں مکاتیب کی تعدادمیں اضافہ کی صورت میں ہی پیدا ہو جائے۔ اقبال کے افکار سے وسیع حلقہ کو روشناس کرانے کی غرض سے اس مجموعہ کے اہم مکاتیب کو انگریزی اور فارسی میں شائع کرانے کا عزم ہے۔ ممکن ہوا تو عربی میں بھی اس کی اشاعت کا اہتمام پیش نظر رہے گا۔ عقیدت مندان اقبال سے استدعا ہے کہ ان کے پاس جو خطوط موجود ہوں وہ مرحمت فرما دیں جن لوگوں کے پا س خطوط ہیں ان کا پتہ دیں اور ان خطوط کے حصول میں میری اعانت فرمائیں میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے جہاں میرا شباب ان نوجوانان ملت کی خدمت میں صرف ہوا جو متعدد اعتبارات سے بے مثال تھے چلا آیا ہوں بصد حسرت و یاس اس عظیم الشان درس گاہ اور ان نوجوانوں کی خدمت کے شرف و سعاد ت کی یا داب میرا سرمایہ حیات ہے۔ اب ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں کام کر رہا ہوں اور اسی پتہ پر اس سلسلہ میں معلومات اور اطلاعات کا طالب ہوں۔ شیخ عطاء اللہ لاہور یکم مارچ ۱۹۵۱ء ٭٭٭ مولانا احسن مارہروی کے نام (۱) … (۱) مکرم بندہ جناب میر صاحب السلام علیکم ! دونوں رسالے پہنچے سبحان اللہ! نواب صاحب کی غزل کیامزے کی ہے۔ افسوس ہے کہ اب تک میں نے آپ کے گلدستے کوکوئی غزل نہیں دی ۔ انشاء اللہ امتحان کے بعد باقاعدہ ارسال کیا کروں گا۔ ایک تکلیف دیتاہوں اگر آپ کے پاس استاذی حضرت مرزا داغ کی تصویر ہوتو ارسال فرمائیے گا۔ بہت ممنون ہوں گا اگر آ پ کے پا س نہ ہو تو مطلع فرمائیے گا کہ کہا ں سے مل سکتی ہے۔ میں نے تمام دنیا کے بڑے بڑے شاعروں کی فوٹو جمع کرنے شروع کیے ہیں چنانچہ انگریزی جرمنی اور فرنچ شعراء کے فوٹوز کے لیے امریکہ لکھا ہے۔ غالباً کسی نہ کسی استاد بھائی کے پاس تو حضرت کا فوٹو ضرور ہو گا ۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو ازراہ عنایت جلد مطلع فرمائیے۔ حضرت امیر مینائی کے فوٹو کی بھی ضرورت ہے۔ والسلام! خاکسار محمد اقبال از لاہور۔ گورنمنٹ کالج بورڈنگ ہائوس ۲۸ فروری ۱۸۹۹ء یہ سب سے پرانا خط ہے جو دستیاب ہوا ہے۔ (منقول از تاریخ ادب اردو) ٭٭٭ مولوی انشاء اللہ خان ایڈیٹر’’وطن‘‘ کے نام (۲)…(۱) مخدوم و مکرم مولوی صاحب السلام علیکم! آپ سے رخصت ہو کر اسلامی شان و شوکت کے اس قبرستان میں پہنچاجسے دہلی کہتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذیر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدراس موجود تھے تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا ازاں بعد حضرت محبوب الٰہی کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن وہیں بسر کیا۔ اللہ اللہ حضرت محبوب الٰہی کا مزار بھی عجیب جگہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزارکی زیارت بھی ہو جائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے جس پر دہلی کی خاک ہمیشہ ناز کرے گی حسن اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا۔ اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر : دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہو گئیں بالخصوص اس نے جب یہ شعر پڑھا: وہ بادہ شبانہ کی سرمستیاں کہاں اٹھیے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی تو مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ آنکھیں پرنم ہو گئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدہ سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپا جاتاہے۔ اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دسامن دل کو کھینچتے ہیں۔ مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقرے میں فاتحہ پڑھا داراشکوہ کے مزار کی خاموشی سے دل کے کانوںسے ہوا لموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرتناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا جو صفحہ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ ۳ ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا۔ اور ۴ کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل میں پہنچا۔ ریلوے سٹیشن پر تمام ہوٹلوں کے ٹکٹ ملتے ہیں مگر میں نے ٹاامس کک کی ہدایت سے انگلش ہوٹل میں قیام کیا اورتجربہ سے معلوم کیا کہ یہ ہوتل ہندوستانی طلبا کے لیے جو ولایت جا رہے ہوں نہایت موزوں ہے۔ ریلوے سٹیشن یہاں سے قریب ہے گھاٹ یہاں سے قریب ہیں۔ ٹامس کک کا دفتر یہاں سے قریب ہے۔ غرض کہ ہر قسم کا آرام ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ شہر کے باقی تمام ہوٹلوں کی نسبت ارزاں ہے۔ صرف تین روپے یومیہ اور ہر قسم کا آرام حاصل کر لو۔ یہاں کا منتظم ایک پادری پیر مرد ہے۔ جس کی شکل سے اس قدر تقدس ظاہر ہوتاہے کہ دیکھنے والے کو ایران کے پرانے خشور (نبی) یادآ جاتے ہیں دکانداری نے اسے ایسا عجز سکھا دیا ہے کہ ہمارے بعض علماء میں باوجود عبادت اور مرشد کامل کی صحبت میں بیٹھنے کے بھی ویسا انکسار پیدا نہیں ہوتا کارلائل نے کیا خوب کہا ہے: محنت ہی بہت بڑی عبادت ہے۔ میرے دل پر اس پر مرد کی صورتنے کچھ ایسا اثر کرتی تھی کہ بعض اوقات اسے دیکھ کر میری آنکھیںپرنم ہو جاتی تھیں۔ لیکن جب اس کی وقعت میرے دل میں اندازہ سے زیادہ ہو گئی تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس کا بیا بعض وجوہ سے ضرور ی ہے۔ میں ایک شام نیچے کی منزل میں خرسی پر بیٹھا تھا کہ پارسی پیر مرد کمرے سے باہر نکلا۔ اس کی بغل میں شراب کی بوتل تھی ب اس نے مجھے بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس کو چھپانے کی کوشش کی اور میں نے دور سے تاڑکر آواز دی سیٹھ صاحب ہم سے یوں چھپاتے ہو خوشی سے اس کا شوق کرو۔ ذرا مسکرایا اور کچھ پیے ہوئے بھی تھا: سراب شوک پینے سے سبھی گم دور ہو جائے ۱؎ میں نے یہ سن کر کہا کہ واہ رے بڈھے خدا تیری عمر درا ز کرے اور تیری پرانی شاخ سے بہت سا میوہ نورس پیدا ہو کر بمبئی کھیٹ باڑی میں بکتا پھرے۔ اس ہوٹل میں ایک یونانی بھ آ کر مقیم ہوا جو ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولتا تھا۔ میں نے ایک روز ا س سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟ بولا چین سے آیا ہوں اب ٹرانسوال جائوں گا۔ میں نے پوچھا تم چین میں کیا کام کرتے ہو؟ کہنے لگا سوداگری کرتا تھا لیکن چینی لو گ ہماری چیزیں نہیں خریدتے ۔ میں نے سن کر ان سے کہا ہم ہندیوں سے تو یہ افیمی ہی عقل مند نکلے کہ اپنے لک کی صنعت کا خیال رکھتے ہیں۔ شاباش افیمیو شاباش ! نیند سے بیدار ہو جائو۔ ۱؎ پارسی بڈھے نے اس مصرع میں شراب شوق اور غم کی مٹی پلید کی ہے۔ ابھی تم آنکھیں مل رہے ہو کہ اس سے دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ رہی ہے۔ ہاں ہم ہندوستانیوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ ایشیا کی تجارتی عظمت کو از سر نو قائم کرنے میں تمہاری مدد کر سکیں گے۔ ہم متفق ہو کر کا م کرنا نہیں جانتے۔ ہمارے ملک میں محبت اورمروت کی بو باقی نہیں رہہی۔ ہم اس کو پکا مسلمان سمجھتے ہیں جو ہندوئوں کے خون کا پیاسا ہو اور اس کو پکاہندو خیال کرتے ہیں جو مسلمان کی جان کا دشمن ہو۔ ہم کتاب کے کیڑ ے ہیں اور مغربی دماغوں کے خیالات ہماری خوراک ہیں۔ کاش خلیج بنگالہ کی موجیں ہمیں غرق کر ڈالیں۔ مولوی صاحب میں بے اختیار ہوں لکھنے تھے کہ سفر کے حالات اور بیٹھ گیا ہوں وعظ کرنے! کیا کرں اس سوال کے متعلق تاثرات کا ہجوم میرے دل میں اس قدر ہے کہ بسا اوقات مجھے مجنون سا کر دیا اور کر رہا ہے۔ ایک شب میں کھانے کے کمرے میں تھا کہ دو جنٹلمین میرے سامنے آ بیٹھے۔ شکل سے معلوم ہوتا تھا کہ یورپین ہیں۔ فرانسیسی میں باتیں کرتے تھے۔ آخر جب کھانا کھا کر اٹھے تو ایک نے کرسی کے نیچے سے اپنی ترکی ٹوپی نکال کر پہنی جس سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کوئی ترک ہے۔ میری طبیعت بہت متاثرہوئی اور مجھے یہ فکر پیدا ہوئی کہ کسی طرح ان سے ملاقات ہو۔ دوسرے روز میں نے خواہ مخواہ باتیں شروع کیں تو یورپ کی اکثر زبانیں سوائے انگریزی کے جانتا تھا۔ میں نے پوچھا فارسی جانتے ہو؟ بولا بہت کم پھر میں نے فارسی میں اس سے گفتگو شروع کی۔ لیکن وہ نہ سمجھتا تھا۔ آخر بمجبوری ٹوٹی پھوٹی عربی میں اس سے باتیں کیں۔ یہ نوجوان ترک ینگ پارٹی سے تعلق رکھتا تھا اور سلطان عبدالحمید کا سخت مخالف ہے۔ باتوں باتوںمیں مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہے۔ میں نے درخواست کی کہ اپنے شعر سنائو۔ کہنے لگا میں کمال بے (ترکی کا سب سے مشہور زندہ شاعر) کا شاگردہوں اور اکثر پولیٹکل معاملات پر لکھا کرتا ہوں کمال بے کے جو اشعار اس نے سنائے سب کے سب نہایت عمدہ تھے لیکن جو شعر اپنے سنائے وہ سب کے سب سلطان کی ہجو میں تھے۔ ان میں سے ایک شعر یہاں درج کرتاہوں: ظلم و جورن تو سفوجہ برملتے محو ایلیور آدمیت ملک و ملت دشمن عبدالحمید یعنی کبیر ظلم و جور نے تمام قوم کو مٹا دیا ہے عبدالحمید آدمیت اور ملک و قوم سب کا دشمن ہے۔ اس مضمون پر اس سے بہت گفتگو ہوئی اور میں نے اسے بتایا کہ ینگ پارٹی کو انگلستان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کیونکہ جس طریق سے رعایائے انگلستان نے بتدریج اپنے بادشاہوں سے پولیٹکل حقوق حاصل کیے ہیں وہ طرقی سب سے عمدہ ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشان انقلابو ں کا بغیر کشت و خون ہو جاانا کچھ خاک انگلستان کا ہی حصہ ہے۔ ایک روز سر شام میں اور یہ ترک جنٹلمین بمبئی کا اسلامیہ مدرسہ دیکھنے چلے گئے۔ وہاں سکول کی گرائونڈ میں مسلمان طلبا کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ہم نے ان میں سے ایک کو بلایا اور سکول کے متعلق بہت سی باتیں اس سے دریافت کیں۔ میں نے اس طالب علم سے پوچھا کہ انجمن اس سکو کو کالج کیوںنہیں بنا دیتی۔ کیا فنڈ نہیں ہے یا کوئی اور وجہ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ فنڈ و موجود ہے اور اگر ضرورت ہو تو ایک آن میں موجود ہو سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں بڑے بڑے متمول سوداگر موجود ہیں مگرمشکل یہ ہے کہ مسلمان طلبا پڑھنے کے لیے نہیں آتے۔ اس کے علاوہ اور اچھے اچھے کالج بمبئی میں موجود ہیں اور جیسی تعلیم ان میں ہوتی ہے ویسی سردست ہم یہاں دے بھی نہیں سکتے۔ یہ جواب سن کر میں بہت خوش ہوا۔ میرا خیال تھا کہ بمبئی جیسے شہر میں مسلمانوں کا کالج ضرور ہو گا کیونکہ یہاں مسلمان تمول میں کسی اور قوم سے پیچھے نہیں ہیں۔ لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ تمول کے ساتھ ان میں عقل بھی ہے۔ ہم پنجابیوں کی طرح احمق نہیں ہیں۔ ہر چیز کوتجارتی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور نفع و نقصا ن پر ہر پہلو سے غور کر لیتے ہیں۔ غرض کہ بمبئی (خدا اسے آباد رکھے) عجب شہر ہے۔ بازار کشادہ ہر طرف پختہ سربفلک عمارتیں ہیں کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان سے خیرہ ہوتی ہے۔ بازاروں میں گاڑیوں کی آمد و رفت اس قدر ہے کہ پیدل چلنا محال ہوجاتا ہے۔ یہاں ہر چیز مل سکتی ہے یورپ و امریکہ کے کارخانوں کی کوئی چیز طلب کرو فوراً آ ملے گی۔ ہاں البتہ ایک چیز ایسی ہے جو اس شہر میں نہیں مل سکتی یعنی فراغت۔ یہاں پارسیوں کی آبادی نوے ہزار کے قریب ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام شہر ہی اپرسیوں کا ہے۔ اس قوم کی صلاحیت نہایت قابل تعریف ہے۔ اور ان کی دولت و عظمت بے اندازہ مگر اس قوم کے لیے کسی اچھے فیوچر Futureکی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ یہ لوگ عام طورپر سب کے سب دولت کمانے کی فکر میں ہیں۔ اور کسی چیز پر اقتصادی پہلو کے سوا کسی اور پہلو سے نگاہ ہی نہیں ڈال سکتے۔ علاوہ اس کے کوئی نہ کوئی اور ان ی زبان ہے نہ ان کا لٹریچر ہے اور طرہ یہ کہ فارسی کو حقارت اورنفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ افسوس یہ لوگ فارسی لٹریچر سے غافل ہیں ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ ایرانی لٹریچر مین عربیت کو فی الحقیقت کوئی دخل نہیں ہے۔ بلکہ زردشتی رنگ اس کے رگ و ریشے میں ہے اور اسی پر اس کے حسن کا دارومدارہے۔ میں نے سکول کے پارسی لڑکوں اورلڑکیوں کو بازار میں پھرتے دیکھا۔ چستی کی مورتیں تھیں۔ مگر تعجب ہے کہ ان کی خوبصورت آنکھیں اسی فی صد کے حساب سے عینک پو ش تھیں۔ دریافت کرنے پر معلو م ہوا کہ عینک پوشی پارسیوںکا قومی فیشن ہوتا جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کے قومی ریفارمر اس طرف توجہ کیوںنہیں کرتے۔ اسشہر کی تعلیمی حالت نہایت عمدہ معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے ہوٹل کا حجام ہندوستان کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات جانتا تھا۔ گجراتی کا اخبار ہر روز پڑھا جاتا تھا اور جاپان اور روس کی لڑائی سے پورا باخبر تھا۔ نورو جی دادا بھائی کا نام بڑی عزت سے لیتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ نوروجی انگلستان میں کیا کرتا ہے؟ بولا حجور کالوں کے لیے لڑتا ہے ہوٹل کے نیچے مسلمان دکاندار ہیں۔ میں نے دیکھا ہر روز گجراتی اخبار پرھتے تھے میں ںے ایک رو ز ان سے پوچھ اکہ تم اردوپڑھ سکتے ہو؟ کہنے لگے نہیں سمجھ سکتے ہیں پڑھنانہیں جانتے۔ میں نے پوچھا ہ جب مولوی تمہارا نکاح پرھاتا ہے تو کون سی زبان بولتاہے۔ مسکرا کر بولا اردو یہاں پر ہر کوئی اردو سمجھ سکتا ہے اور ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتا ہے۔ ہمارے ہوٹل کا سیٹھ (بہی بوتل والا پیر مرد) کبھی ہندوستان نہیں گیا مگر اردوخاصی بولتا تھا۔ میں بمبئی یعنی باب لندن کی کیفیت دیکھ کر حیران ہوں خدا جانے لندن کا ہو گا جس کا دروازہ ایسا عظیم الشان ہے اچھا دیدہ خواہد شد ۷ ستمبر کو ۲ بجے ہم وکٹوریہ ڈاک گھاٹ پر پہنچے جہاں مختلف کمپنیوں کے جہاز کھڑے ہیں۔ اللہ اکبر! یہاں کی دنیا ہی نرالی ہے کئی طرح کے جہاز اورسینکڑوں کشتیاں ڈاک میں کھڑی ہیںَ او رمسافر سے کہہ رہی ہیں کہ سمندر کی وسعت سے نہ ڈر خدانے چاہا تو ہم تجھے صحیح سلامت منزل مقصود پر پہنچا دیں گے۔ خیر طبی معائنہ کے بعد میں اپنے جہاز پر سوار ہوا۔ لالہ دھنپت رام وکیل لاہور اور ان کے ایک دوست ڈاکٹر صاحب اس روز حسن اتفاق سے بمبئی میں تھے۔ میں ان کا نہایت سپاس گزار ہوں کہ یہ دونو ں صاحب مجھے رخصت کرنے کے لیے ڈاک پر تشریف لائے۔ بہت سے اور لوگ بھی جہاز پر سوار ہوئے۔ ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک ہجوم ڈاک پر تھا کوئی ۳ بجے جہاز نے حرکت کی اورہم اپنے دوستوں کو سلام کہتے اور رومال ہلاتے ہوئے سمند رپ چلے گئے۔ یہاں تک کہ موجیں ادھر ادھر سے آ کر ہمارے جہاز کو چومنے لگیں۔ فرانسیسی قوم کا مذاق اس جہاز کی عمدگی اور نفاست سے ظاہر ہے۔ ہر روز صبح کو ئی آدمی جہاز کی صٖائی میں مصروف رہتے ہیںَ اور ایسی خوبی سے صفائی کرتے ہیں کہ ایک تنکا تک جہاز پر نہین رہنے دیتے۔ ملازموں میںمصر کے چند حبشی بھی ہیں جو مسلمان ہیںاور عربی بولتے ہیں۔ جہاز کے فرانسیسی افسر نہایت خوش اخلاق ہیں ان کے تکلفات کو دیکھ کر لکھنو یاد آ جاتا ہے ایک روز ایک افسر جہاز پر کھڑا تھا کہ ایک حسین عورت کا ادھر سے گزرہوا۔ اتفاق سے یا غالباً ارادتہً یہ عورت اس افسر کے شانے پر ہاتھ رکھتی ہوئی گزری۔ ہمارے نوجوان افسر نے اس توجہ کے جواب میں ایک ایسی ادا سے جنبش کی کہ ہمارے ملک کے حسین بھی اس کی نقل نہیں اتار سکتے۔ کھانے کا انتظام بھی نہایت قابل دید ہے میزبھی فرانسیسی تکلف کی گواہی دے رہا ہے۔ مگر اس جہاز پر ہم ہندوستانیوں کے لیے ایک بڑی دقت یہ ہے کہ جہاز کے تقریباً سب مسافر انگریزی بولتے ہیں۔ انگریزی کوئی نہیں جانتا۔ جہا ز کے تمام ملازم فرانسیسی بولتے ہیں اور بعض اوقات ان کو اپنا مطلب سمجھانے میں بڑی دقت ہوتی ہے ۔ اگرچہ فرانسیسی جہازوں میں ہر طرح کی آسائش ہے تاہم میری رائے یہی ہے کہ ہم لوگوں کو انگریزی کمپنیوں کے جہازوں میں سفر کرنا چاہیے ان کے مسافر سب کے سب انگریزی دان ہوتے ہیں اور علاوہ ا س کے مسافروں کی کثرت کی وجہ سے جہاز پر بڑی رونق ہوتی ہے۔ ہمارے اس جہاز میں ساٹھ سے زیادہ مسافرنہیںہیں۔ ہم لوگ رات کو اپنے اپنے کمروں میں سوتے ہیں اور صبح سے شام تک تختہ جہاز پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے رہتے ہیں کوئی پڑھتا ہے کوئی باتیں کرتا ہے کوئی پھرتا ہے۔ کیبن میں جہاز کی جنبش کی وجہ سے طبیعت بہت گھبراتی ہے۔ مگرتختہ جہاز پر بہت آرام رہتا ہے۔ میرے تمام ساتھی دوسرے ہی روز مرض بحری میں مبتلا ہو گئے مگر الحمد اللہ میں محفوظ رہا۔ مجھ سے اکثروں نے دریافت کیا کہ کیا تم نے پہلے بھی بحری سفر کیا ہے جب میں نے جواب دیا کہ نہیں تو وہ حیران ہوئے اور کہا کہ تم بڑے مضبوط آدمی ہو۔ بمبئی سے ذرا آگے نکل کر سمندر کی حالت کسی قدر متلاطم تھی۔ خواجہ خضڑ صاحب کچھ خفا سے معلوم ہوتے تھے۔ اتنی اونچی اونچی موجیں آتی تھیں کہ خدا کی پناہ دیکھ کر دہشت آتی تھی۔ ایک شب ہم کھانا کھا کر تختہ پر آ بیٹھے۔ کچھ عرصہ بعد سمندر کی سرد ہوا نے ہم سب کو سلا دیا۔ مگر دفعتہ ایک خوفناک موج نے اچھل کر ہم پر حملہ کیا اور ہم سب بھیگ گئے۔ عورتیں بچے مرد نیچے بھاگ کر اپنے کمروں میں جا سوئے۔ اورہم تھوڑی دیر کے لیے جہاز کے ملازموں اور افسروں کے تمسخر کا باعث بنے رہے ۔ راستے میں ایک آدھ بارش بھی ہوئی جس سے سمندر کا تلاطم نسبتاً بڑھ گیا۔ اورطبیعت اس نظارے کی یکسانیت سے اکتانے لگی۔ سمندر کا پانی بالکل سیاہ معلوم ہوتا ہے اور موجیں جو زور سے اٹھتی ہیں ان کو سفید جھاگ چاندی کی ایک کلغی سی پہنا دیتی ہے اور دور دور تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے سطح سمندر پر روئی کے گالے بکھری ڈالے ہیں۔ یہ نظارہ بہت دلفریب معلوم ہوتا ہے اگر اس میں موجوں کی دہشت ناک کشاکش کی آمیزش نہ ہو ان کی قتو سے جہاز ایک معمولی کشتی کی طرح جنبش کرتا ہے آسمان اوپر تلے ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے مگر آنکھیں چونکہ اس نظارہ سے کسی قدر مانوس ہو گئی ہیں اور نیز جہاز والوں کے چہروں کا اطمینان یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ایک معمولی بات ہے اس واسطے ہم کو بھی خوف کا احساس نہیں ہوتا۔ یورپین لڑکے لڑکیاں تختہ جہاز پر دوڑتے پھرتے ہیں اور محسوس بھی نہیںکرتے کہ جہازمیں ہیں۔ ہمارایک ہم سفر پادری ہے جو جنوبی ہندوستان سے آیاہے۔ اوراب اٹلی کو جا رہا ہے۔ گزشتہ رات مجھ سے کسی نے کہا کہ یہ فرانسیسی پادری بہت سی زبانیںجانتا ہے۔ اور روسی زبان بھی خوب بولتا ہے میں اس کے پاس جا کر کھڑاہوا اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ کونٹ ٹالسٹائی کی نسبت تمہار ا کیا خیال ہے۔ اسنے میرے سوال پر نہایت حیرانی ظاہر کی اور پوچھا کہ کونٹ ٹالسٹائی کون ہے؟ مجھے یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوا کہ یہ شخص روسی زبان جانتا ہے اور کونٹ کے نا م سے واقف نہیں ہے۔ میں یہ لکھنا بھول گیا کہ جہاز پردیا سلائی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تختہ جہاز کے ایک طرف کمرے ی دیوار پر پیتل کی انگیٹھی سی سلگا رکھی ہے۔ جس میں چند لکڑیاں آگ لگا کر رکھ دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو سگریٹ یا سگار رودی کرنا ہو اس انگیٹھی میں سے ایک لکڑی اٹھا لیں۔ جہاز کے سفر میں دل پر سب سے زیادہ اثر ڈالنے والی چیز سمندر کا نظارہ ہے۔ باری تعالیٰ کی قوت لامتناہی کا جو اثر سمندر دیکھ کر ہوتاہے شاید ہی کسی اور چیز سے ہوتا ہو ۔ حج بیت اللہ میں جو تمدنی اور روحانی فوائد ہیں ان سے قطع نظر کر کے ایک بڑا اخلاقی فائدہ سمندر کی ہیبت ناک موجوں اور اس کی خوف ناک وسعت کا دیکھنا ہے۔ جس سے مغرور انسان کو اپنے ہیچ محض ہونے کا پورا یقین ہو جاتاہے۔ شارع اسلام کی ہر بات قربان ہو جانے کے قابل ہے۔ بابی انتت وامی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ۱۲ ستبمر کی صبح ہے۔ میں بہت سویرے اٹھا ہوں جہاز کے جاروب کش ابھی تختے صاف کر رہے ہیں۔ چراغوں کی روشنی دھیمی پڑ گئی ہے۔ آفتاب چشمہ آب میں سے اٹھتا ہو ا معلوم ہوتا ہے اور سمندر اس وقت ایسا ہی ہے جیساہمارا دریائے راوی۔ شاید صبح کے پر تاثیر نظارے نے اسے سمجھا دیا ہے کہ سکون قلب بھی ایک نایاب شے ہے ہر وقت کی الجھن اوربیتابی اچھی نہیں۔ طلوع آفتاب کا نظارہ ایک درد مند دل کے لیے تلاوت کا حکم رکھتا ہے۔ یہی آفتاب جس کے طلوع و غروب ہونے کو میدان میں ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے مگر یہاں سمندر میں اس کی کیفیت ایسی ہے کہ: نظارہ زجنبیدن مژگاں گلہ دارد حقیقت میں جن لوگوں نے آفتاب پرستی کو اپنا مذہب قرار دے رکھا ہے میں ان کو قابل معذوری سمجھتاہوں۔ ناسخ مرحوم کیا خوب فرما گئے ہیں: ہے جی میں آفتاب پرستوں سے پوچھیے تصویر کس کی ہے ورق آفتاب میں کوئٹے کے ڈپٹی کمشنر صاحب جو اٹھارہ ماہ کی رخصت لے کر ولایت جا رہے تھے اور وہ پادری صاحب جو ٹالسٹائی کے نام سے ناواقف معلوم ہوتے تھے۔ اس وقت جہاز کی اوپر کی چھت پر کھڑے اس نظارے کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ یہ پادری صاحب بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ ان میںایک خاص ہنر ہے اور وہ یہ کہ ہر کسی کو باتوں میں لگا لیتے ہیںَ انگریزی بولتے ہیں مگر بہت شکستہ اور مجھ کو جب بلاتے ہیں تو ٹالسٹائی کے نام سے۔ کل مجھ سے پوچھتے تھے کہ تم ہندوستان کا ٹالسٹائی بننا چاہتے ہو؟ میں نے جواب دیا کہ ٹالسٹائی بن جانا آٓسان نہیں ہے زمین سورج کے گر د لاکھوں چکر لگاتی ہے تک کہیں جا کے ایک ٹالسٹائی پید ا ہوتا ہے۔ کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر صاحب بڑے باخبر آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ کل رات ان سے ہندوستان کے پولیٹکل معاملات پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ عربی اور فارسی جانتے ہیں سر ولیم میور کی تصانیف کے متعلق گفتگو ہوئی تو کہنے گے کہ کاش یہ شخص ذرا کم متعصب ہوتا۔ عمر خیام کے بڑے مداح ہیں ۔ مگر میںنے کہا کہ اہل یورپ نے ابھی سحابی نجفی کی رباعیات کا مطالعہ نہیں کیا۔ ورنہ عمر خیام کو کبھی کے فراموش کر گئے ہوتے۔ اس ساحل قریب آتا جاتا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جا پہنچے گا۔ ساحل عرب کے تصورنے جو ذو ق و شوق اس وقت د ل میں پیداکر دیا ہے اس کی داستان کیا عرض کروں بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کر لوں: اللہ رے خاک پاک مدینہ کی آبرو خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا اے عرب کی مقد س سرزمین تجھ کومبارک ہو تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا۔ مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا فسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ باغ کے مالک نے اپنے ملازموں کو مالیوں کے پاس پھل کا حصہ لینے کو بھیجا۔ لیکن مالیوں نے ہمیشہ ملازمو ں کو مار پیٹ کے باغ سے باہر نکال دیااور مالک کے حقوق کی کچھ پروا نہ کی… مگر اے پاک سرزمین تو وہ جگہ ہے جہاں سے باغ کے مالک نے خود ظہور کیا تاکہ گستاخ مالیوں کو باغ سے نکال کر پھولوں کو ان کے مامسعود پنجوں سے آزاد کرے۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں۔ اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازت آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بد کردار جسم کی خاک تیرے ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوںمیں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو۔ کاش میں تیرے صحرائوں میں لٹ جائوں۔ اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اورپائوں کے آبلوں کی پروانہ کرتا ہوا اس پاک سر زمین میں جاپہنچوں جہاں کی گلیوں میں بلالؓ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔ از عدن مورخہ ۱۲ ستمبر راقم…محمد اقبال (اخبار وطن لاہور نمبر ۳۹ جلد ۵ مورخہ ۶ اکتوبر ۱۹۰۵ئ) (۳)… (۲) مولوی صاحب مخدوم و مکرم السلام علیکم! میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سویز نہر پہنچ کر دوسرا خط لکھوں گا۔ مگر چونکہ عدن سے سویز تک کے حالات بہت مختصر تھے اس واسطے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ لندن پہنچ کر مفصل واقعات عرض کروں گا۔ میرے پاس ایک کاغذ تھا جس پر میں نوٹ لیتا جاتا تھا مگر افسوس کہ منزل مقصود پر پہنچ کر وہ کاغذ کہیں کھو گیا۔ یہی وجہ میرے اب تک خاموش رہنے کی تھی شیخ عبدالقادر صاحب کی معرفت آپ کی شکایت پہنچی کل ایک پرائیویٹ خط میں نے آپ کو لکھا تھا دونوں خط آپ کو ایک ہی وقت ملیں گے۔ عدن میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے بنائے ہوئے تالاب میں اور یہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ایک دفعہ بارش کا پانی ہر جگہ سے ڈھل کر ان میں جا گرتا ہے چونکہ ملک خشک ہے اس واسطے ایسی تعمیر کی سخت ضرورت تھیی۔ میں بوجہ گرمی اور نیز قرنطینہ کے عدن کی سیر نہ کر سکا۔ انجینئری کے اس حیرت ناک کرشمے کی دید سے محروم رہا جب ہم سویزپہنچے تو مسلمان دکانداروں کی ایک کثیر تعداد ہمارے جہاز پر آموجود ہوئی اور اس قسم کا بازار تختہ جہاز پر لگ گیا۔ ان لوگوں کی فطرت میں میلان تجارت مرکوز ہے۔ اور کیوںنہ ہو! ان ہی کے آبائو اجداد تھے جن کے ہاتھوں میں کبھی یور پ اور کبھی ایشیا کی تجارت تھی۔ سلیمان اعظم ان ہی میں سے ایک کا شہنشا ہ تھا۔ جس کی وسعت تجارت نے اقوام یورپ کو ڈرا کر ہندوستان کو ایک نئی راہ دریافت کرنے کی تحریک دی تھی ۔ کوئی پھل بیچتا ہے کوئی پوسٹ کارڈ دکھاتاہے کوئی مصر کے پرانے بت بیچتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ یہ ذرا سا بت اٹھارہ ہزار سال برس کا ہے جو ابھی کھنڈر کھودنے پر ملا ہے۔ غرض یہ لوگ گاہکوں کو قید کرلینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیںکرتے۔ ان ہی لوگوں میں ایک شعبدہ باز بھی ہے کہ ایک مرغی کا بچہ ہاتھ میں لیے ہے اور کسی نامعلوم ترکیب سے ایک کے دو بنا کر دکھاتا ہے۔ ایک نوجوان مصری دکاندار سے میں نے سگریٹ خریدنے چاہے اور باتوں باتوںمیں میں نے اس سے کہا کہ میں مسلمان ہوں مگر چونکہ میرے سر پر انگریزی ٹوپی تھی اس نے ماننے میں تامل کیا اور مجھ سے کہا کہ تم ہیٹ کیوں پہنتے ہو۔ تعجب ہے کہ یہ شخص ٹوٹی پھوٹی اردو بولتا تھا۔ جب وہ میرے اسلام کا قائل ہو کر یہ جملہ بولا کہ تم بھی مسلم ہم بھی مسلم تو مجھے بڑی مسرت ہوئ۔ میںنے اسے جواب دیا کہ ہیٹ پہننے سے کیا اسلام تشریف لے جاتاہے۔ کہنے لگا کہ اگر مسلمان کی ڈاڑھی منڈی ہوئی ہو تو اس کوٹرکی ٹوپی یعنی طربوش ضرور پہننا چاہیے ورنہ پھر اسلام کی علامت کیا ہو گی؟ میں ںے دل میں کہا کہ کا ش ہمارے ہندوستان میں بھی یہ مسئلہ عروج ہو جاتا کہ ہمارے دوست موسمی علماء کے حملوں سے مامون و مصئون ہوجاتے۔ خیر آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا اورچونکہ حافظ قرآن تھا اس واسطے میں نے چند آیات قرآن شریف کی پڑھیں تو نہایت خوش ہوا اور میرے ہاتھ چومنے لگا۔ باقی تمام دکاندار وں سے مجھے ملایا اور وہ لوگ میرے گرد حلقہ باند ھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہنے لگے اور میری غرض سفر معلوم کر کے دعائیں دینے لگے۔ یا یوں کہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے۔ تھوڑ ی دیر کے بعد مصری نوجوانوں کا ایک نہایت خوب صورت گروہ جہاز کی سیر کے لیے آیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے ا س قدر مانوس معلوم ہوتے تھے کہ مجھے ایک سیکنڈ ک لیے علی گڑھ کالج کے ایک ڈیپوٹیشن کا شبہہ ہوا۔ یہ لوگ جہاز کے کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اور میں بھی دخل در معقولات ان میں جا گھسا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا کہ جیسے حریری کا کوئی مقام پڑھ رہاہو۔ آخر مسلمانوں کے اس گروہ کو چھوڑ کر ہمارا جہاز رخصت ہوا اورآہستہ آہستہ سویز کنال میں جا داخل ہوا۔ یہ کنال جسے ایک فرانسیسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔ عرب اور افریقہ کی جدائی ہے اور مشرق و مغرب کا اتحاد ہے۔ دنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بدھ نے بھی اتنا اثر نہیں کیا جس قدر اس مغربی دماغ نے زمانہ حال کی تجارت پراثر کیا ہے۔ کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگ تراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا۔ جس نے اقوام عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیاد رکھی جس نے حال کی دنیا کی تہذیب و تمدن کو اور کچھ اور کر دیا۔ بعض بعض جگہ تو یہ کینال ایسی تنگ ہے کہ دو جہاز مشکل سے اس میں سے گزر سکتے ہیں۔ اور کسی کسی جگہ ایسی بھی ہے ک اگر کوئی غنیم چاہے کہ رات اسے مٹی سے پر کر دے تو آسانی سے کر سکتا ہے۔ سینکڑوں آدمی ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں جب ٹھیک رہتی ہے اور اس کا خیا ل ہمیشہ رکھنا پڑتا ہے کہ دونوں جانب سے جو ریگ ہوا سے اڑ کر اس میں گرتی رہتی ہے اس کا انتظام ہوتا رہے ۔ کنارے پر جو مزدور کام کرتے ہیں بض نہایت شریر ہیں۔ جب ہمارا جہاز آہستہ آہستہ جارہا تھا اور جہاز کی چند انگریز بیبیاں کھڑی ساحل کی سیر کر رہی تھیں تو ان میں سے ایک مزدور سر تا پا برہنہ ہو کر ناچنے لگا۔ یہ بے چاری دوڑ کر اپنے کمروں میں چلی گئیںَ جہاز سے گزرتے ہوئے ایک اور دل چسپ نظارہ بھی دیکھنے میں آیا اور وہ یہ کہ ہم نے ایک مصری جہاز گزرتے ہوئے دیکھا جو بالکل ہمارے پاس ہی سے گزرا اس پر تمام سپاہی ترکی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھے اور نہایت خوش الحانی سے عربی غزل گاتے جا رہے تھے۔ یہ نظارہ ایسا پر اثر تھا کہ اس کی کیفیت اب تک دل پر باقی ہے۔ ابھی ہم پورٹ سعید نہ پہنچے تھے کہ ایک بارود سے بھرے ہوئے جہاز کے پھٹ جانے اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر غرق ہو جانے کی خبر آئی تھوڑی دیر میں اس کے ٹکڑے کنال سے گزرتے ہوئے دکھائی دیے۔ جان و مال کا بے حد اندازہ نقصان ہوا اور تھوڑی دیر کے لیے ہماری طبیعت پر اس مصیبت سے بہت متاثر رہی۔ پورٹ سعید پہنچ کر پھر مسلمان تاجروں کی دکانیں تخگہ جہاز پر لگ گئیںَ میں ایک کشتی میں بیٹھ کر مع پارسی ہم سفر کے بندرگاہ کی سیر کو چلا گیا۔ پورٹ سعید جہازوں کو کوئلہ مہیا کرنے والے بندرگاہوں میں سب سے بڑا ہے اور سعید پاشا کے نام سے مشہور ہے۔ جس نے سویز کنال بنانے کی اجازت دی تھی۔ عمارت کا نظارہ نہایت ہی خوبصورت ہے۔ اور شہر چھوٹی موٹی بمبئی ہے جس کے متعلق خیال ہے کہ یہ کبھی دنیا کے تجارتی مرکزوں میں سے ایک ہو گا۔ مدرسہ دیکھا مسجدوں کی سیر کی اسلامی گورنر کا مکان دیکھا موجد سویز کنال کا مجسمہ دیکھا۔ غرض کہ خوب سیر کی۔ یہاں کے مدرسہ میں عربی اور فرانسیسی پڑھاتے ہیں جس حصہ میں انگریز آباد ہیں وہ حصہ خصوصیت سے خوبصورت اور پاکیزہ ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ جہاں مسلمان آباد ہیں وہ جگہ بہت میلی ہے یہودی فرانسیسی‘ انگریز یونانی مسلان غرض کہ دنیا کی تمام قومیں یہاں آباد ہیں۔ سب کے محلے جدا جدا ہیں۔ ہوٹل بھی جدا جدا ہیں اور چرچ بھی۔ شہر کی سیر کر کے پورٹ آفس میں آیا۔ ملازم قریباً سب مسلمان ہیں اور خوب انگریزی اور عربی بولتے ہیں۔ اس عمارت میں داخل ہو کر میں نے نوٹس بورڈ سے کئی نئے عربی الفاظ سیکھے جن کو ایک کاغذ پر میں نے نوٹ کر لیا۔ لیکن افسوس ہے کہ بعد میں وہ کاغذ بھی کھو گیا۔ کچھ ٹکٹ پوسٹ آفس سے خرید کیے اور خطوں پر لگا کر ڈاک میں ڈالے تعجب ہے ک ہان میں سے کسی خط کی رسیدنہیںآئی۔ آخر اپنے مسلمان راہ نما کو جو اکثر زبانیںجانتا تھا کچھ انعام دے کر جہاز کو لوٹا۔ یہاں جو پہنچا تو ایک نظارہ دیکھنے میں آیا تختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے۔ اور خوب رقص و سرود ہو رہا تھا۔ ان عورتوں میں ایک لڑکی جس کی عمر تیرہ چودہ سال کی ہو گی نہایت حسین تھی۔ مجھے دیانتداری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ا س کے حسن نے تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سخت اثر کیا۔ لیکؤن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں مسافروں سے انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثر زائل ہو گیا۔ کیونکہ میری نگاہ میں وہ حسن جس میں استغنا کا غازہ نہ ہو بدصورتی سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ القصہ فردوس گوش اور کسی جنت نگاہ کے خطوط اٹھا کر ہم روانہ ہوئے اور ہمارا جہاز بحر روم میں داخل ہو گیا۔ یہاں سے بہت سے جزیرے رستے میں ملتے ہیں۔ جن میں سے بعض کسی نہ کسی بات کے لیے مشہو رہیں۔ لیکن ان کے نظارے کی کیفیت ذہن سے اتر گئی۔ یہ جتنے سطور لکھے ہیں حافظہ سے لکھے ہیں ۔ اگر میرے نوٹ ضائع نہ ہو جاتے تو امید ہے کہ میں آپ کے ناظرین کو زیادہ کامیابی کے ساتھ خوش کر سکتا۔ بحر روم کے ابتدائی حصے میں سمندر کا نظارہ بہت دلچسپ تھا۔ اور ہوا میں ایسا اثر تھا کہ غیر موزوں طبع آدمی بھی موزوں ہو جائے۔ میری طبیعت قدرتاً شعر پر مائل ہو گئی اور میںنے چند اشعار کی غزل لکھی جو حاضر ہے: مثال پرتو مے طوف جام کرتے ہیں یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں خصوصیت نہیں کچھ اس کام میں اے کلیم تیری شجر حجر میں بھی خدا سے کلام کرتے ہیں نیا جہاں کوئی اے شمع ڈھونڈ لے کہ یہاں ستم کش تپش ناتمام کرتے ہیں عجب تماشا ہے مجھ کافر محبت کا صنم بھی سن کے جے رام رام کرتے ہیں ہوا جہاں کی ہے پیکار آفریں کیسی کہاں عدم کے مسافر قیام کرتے ہیں نظٓرہ لالے کا تڑپا گیا مرے جی کو بہار میں اے آتش بجام کرتے ہیں رہین لذت ہستی نہ ہو کہ مثل شرر یہ راہ ایک نفس میں تمام کرتے ہیں بھلی ہے ہم نفسو اس چمن میں خاموشی کہ خوش نوائوں کو پابند دام کرتے ہیں غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کی حلال چیز کو گویا حرام کرتے ہیں الٰہی سحر ہے پیران خرقہ پوش میں کیا کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہیں میں ان کی محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں جو گھر کو پھونک کے دنیا میں نام کرتے ہیں جہاںکو ہوتی ہے عبرت ہماری پستی سے نظام دہرمیں ہم کچھ تو کام کرتے ہیں بھلا نبھے گی تری ہم سے کیونکر اے واعظ کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبال بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں (مازنی اٹلی کے محسنین کا سرگروہ تھا۔ یہ شعر اس وقت لکھا گیا جب کہ اس ملک کا ساحل نظر کے سامنے تھا)۔ مارسیلز تک پہنچنے میں چھ روز صرف ہوئے۔ کچھ تو اس وجہ سے کہ سمندر کا آخری حصہ بہت متلاطم تھا۔ اور کچھ اس خیال سے کہ اصلی راستے میں طوفان کا اندیشہ ہو گا۔ ہمارا کپتان جہا ز کو ایک اور راستہ پر لے گیا جو معمولی رستے سے کسی قدر لمبا تھا۔ ۲۳ کی صبح کو مارسیلز یعنی فرانس کی ایک مشہور تاریخی بندر گاہ پر پہنچے اور چونکہ ہمیں آٹھ دس گھنٹے کا وقفہ مل گیا تھا اس واسطے بندرگاہ کی خوب سیر کی۔ مارسیلز کا نوٹرڈام گرجا نہایت اونچی جگہ پر تعمیر ہوا ہے اور اس عمارت کو دیکھ کر د ل پر یہ بات منقوش ہو جاتی ہے کہ دنیا میںمذہبی تاثیر ہی حقیقت میںتمام علوم و فنون کی محرک ہوتی ہے۔ مارسیلزسے گاڑی پر سوار ہوئے اور فرانس کی سیر بھی حسن رہگذرے کے طریق پر ہو گئی۔ کھیتیاں جو گاڑی کے ادھر ادھر آتی ہیں ان میں سے فرانسیسی لوگوں کا نفیس مذاق مترشح ہوتا ہے ۔ ایک رات گاڑی میں کٹی اوردوسری شام ہم لوگ برٹش چینل کو کراس کر کے ڈوور اور ڈوور سے لندن پہنچے ۔ شیخ عبدالقادر کی باریک نگہ نے باوجود میرے انگریزی لباس کے مجھے دور سے پہچان لیا اور دوڑ کر بغل گیر ہوئے۔ مکان پر پہنچ کر رات بھر آرام کیا۔ دوسری صبح سے کام شروع ہوا یعنی ان تمام فراض کا مجموعہ جن کی انجام دہی نے مجھے وطن سے جدا کیا تھا اور میری نگاہ میں ایسا ہی مقدس ہے جیسے عبادت والسلام۔ آپ کا اقبال (از کیمبرج ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ئ) (اخبار وطن لاہور نمبر ۴۹‘ جلد ۵‘ مورخہ ۲۲‘ دسمبر ۱۹۰۵ئ) ٭٭٭ حبیب الرحمن خاں شیروانی کے نام (۴)…(۱) مخدوم و مکرم خاں صاحبج السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ لاہور سے ہوتا ہوا مجھے یہاں ملا۔ میں ایک مصیبت میں مبتلا اس وقت لاہور سے ایک ہزار میل کے فاصلہ پر برٹش بلوچستان میں ہوں۔ آپ بھی خدا کی جناب میں دعا کریں کہ اس کا انجام اچھا ہو۔ آ پ کا خط حفاظت سے صندوق میں بند کر دیا ہے ۔ نظر ثانی کے وقت آپ کی تنقیدوںسے فائدہ اٹھائوں گا۔ اگر میری ہر نظم کے متعلق آپ اس قسم کا خط لکھ دیا کریں تو میں آپ کا نہایت ممنون ہوں گا۔ آپ کا اقبال از فورٹ سنڈیمن برٹش بلوچستان ۲۵ مئی ۱۹۰۳ء (۵)…(۲) از شہر سیالکوٹ ۶ اگست ۱۹۰۳ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ خان صاحب السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ کل شام ملا۔ الحمد اللہ کہ آ خیریت سے ہیں۔ خدا کے فضل سے اس تشویش کا خاتمہ ہوا ۔ میرے بڑے بھائی جان جو بلوچستان کے سرحد پر سب ڈویژنل آفیسر ملٹری ورکس تھے ان کے مخالفین نے ایک خوفناک فوجداری مقدمہ بنا دیا تھا لیکن الحمد اللہ کہ دشمنوں کے منہ میں خاک پڑی بھائی صاحب بری ہوئے۔ اگرچہ روپیہ کثیر صرف ہوال۔ ہم شکر ہے ہماری مصیبت کا خاتمہ ہوا ہم باقی رہ گئے اور ہماری مصیبت دشمنوںکی تلاش میں پھر بلوچستان کی طرف عود کر گئی۔ بلوچستان ایجنسی والے تو ہمارے ساتھ ناانصافی کرنے پر آمادہ تھے۔ مگر خدا لارڈ کرزن کا بھلا کرے کہ میرے لکھنے پر معاملہ دگرگوں ہو گیا۔ والسلام۔ آپ کا مخلص محمد اقبال (۶)…(۳) از لاہور بھاٹی دروازہ مخدوم ومکرم حضرت قبلہ خان صاحب السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ملا حقیقت یہ ہے کہ آج مجھے اپنے ٹوٹے پھوٹے اشعار کی داد مل گئی۔ بعض بعض جگہ جو تنقید آپ نے فرمائی ہے بالکل درست ہے بالخصوص لفظ چبھ کے متعلق مجھے آپ سے کلی اتفاق ہے۔ میرے اصل مسودہ میں جو ایکد وست نے لکھا تھا غلطی سے تو کی جگہ جو لکھا گیا۔ وہیں سے کاتب نے نقل کی۔ میری ہستی ہے تو تھی مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے توڈکٹیٹ کرایا تھا۔ طور پر تم نے جو اے حضرت موسیٰؑ اصل مصرع طور پر تو نے جو اے دیدہ موسیٰؑ دیکھا ہے کاتب نے یہ سمجھ کر پیغمبروں ک نام کے ساتھ حضرت آیا کرتاہے یہ لفظ لکھ دیا اور اصل لفظ کو زور عادت کی وجہ سے نظر انداز کر دیا۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ اس نظم کے بعض دیگر اشعار میں بھی کچھ قابل اعتراض باتیں ہیں۔ اس سال مجھے امید نہ تھی کہ میں کوئی نظم پڑھ سکوں گا۔ مڈل کے امتحان کے پرچوں سے فراغت نہ ہوئی طبیعت کو یکسوئی کس طرح نصیب ہوتی یہ نظم جلسہ سالانہ سے تین روزپہلے لکھی گئی اور ہفتہ کی شام کو مطبع میںبھیجی گئی۔ رات کو کاتب نے لکھی اور جلدی میں بندو ں کی ترتیب میں بھی غلطی کر گیا۔ میں نے اس کا ایک مصروع بھی اپنے ہاتھوں سے نہیں لکھا۔ کہ جلد ی میں جو کچھ منہ میں آیا ڈکٹیٹ کراتا گیا۔ ان حالات کی وجہ سے ببعض بعض اشعار میں کچھ نقص رہ گئے لفظ چبھ کے لیے میں خصوصیت سے آپ کا مشکور ہوں۔ کیونکہ یہ بات میرے خیال کے مطابق نہ تھی۔ آپ نے جو ریمارکس اس کے اشعار پر لکھے ہیں ان کے لیے میں آ پ کا تہہ د ل سے مشور ہوں آپ لوگ نہ ہو ں تو واللہ ہم شعر کہنا ہی ترک کر دیں۔ اگرچہ جلسہ میں ہر طرف سے لوگ حسب معمول ان کی تعریف کرتے تھے اور مگر جو مزا مجھے آپ کی داد سے ملا ہے اسے میرا دل ہی جانتا ہے۔ افسوس ہ کہ اب آپ تشریف نہ لا سکے میر نیرنگ تشریف لائے تھے۔ چوہدری خوشی محمد تھے۔ مولانا گرامی بھی تھے۔ غرضیکہ محفل احباب کے سب ارکان مشیدہ موجود تھے اگر آپ ہوتے تو ایک آدھ رات خوب گزر جاتی۔ حبیب کی موجودگی شعرا کے لیے کافی سامان ہے اور بالخصوص جب کہ حبیب شعر فہم اور شعر گو بھی ہو۔ ایف اے کے امتحان اور نتیجہ بھیجنے میں چار دن کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ لہٰذا مجبوراً بس کرتا ہوں معاف کیجیے گا اب کے مخزن میں میری دو غزلیں نئی طبع ہوں گی امید ہے آپ پڑھ کر محظوظ ہوں گے۔ مولانا گرامی میرے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں پوچھتے ہیں کہ خط کس کو لکھ رہے ہو۔ میںکہتا ہوں حبیب کو توآپ فرماتے ہیں کہ میرا بھی سلام لکھ دو۔ آخر شاعر ہیں نا۔ والسلام۔ آپ کا مخلص اقبال نوٹ : اس خط پر تاریخ درج نہیں۔ نوٹ : اس خط میںجو نظم زیر بحث ہے وہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۳ء اخبار ’’وطن‘‘ لاہورمیں درج تھی۔ اور اخبار کا وہ ورق جس میں مکتوب الیہ نے اپنے قلم سے نشانات بنائے ہیں اور اصلاحات تجویز کی تھیں مجھے دیکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے پہلا شعر جس کا حوالہ علامہ اقبال کے خط میںہے اس طرح چھپا ہوا تھا: میری ہستی ہی جو تھی میری نظر کا پردا اٹھ گیا بزم سیمیں پردہ محفل ہو کر پہلے مصرع میں جو ترمیم مکتوب الیہ نے تجویز فرمائی یعنی جو کی بجائے تو اقبا ل اسی کو کتابت کی غلطی فرما رہے ہیں۔ دوسرا شعر جس کی طرف خط میں اشارہ ہے وطن اخبار محولہ بالا میں یوں درج ہے: طور پر تو نے جو اے حضرت موسیٰؑ دیکھا وہی کچھ قیس نے دیکھا پس محمل ہو کر اسی شعر پر مکتوب الیہ نے اپنے قلم سے الفاظ نے اور حضرت پر نشان بنایا ہوا ہے اور حاشیہ پر دیدہ لکھا ہوا ہے۔ تیسرا شعر جس کے لفظ چبھ کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے او ر جس میں لفظ چبھ کے قریب یہ نشان بنا ہوا ہے اس طرح درج ہے: صفت نوک سر خار شب فرقت میں چبھ رہی ہے نگہ دیدہ انجم مجھ کو (مرتب) ٭٭٭ بابو عبدالمجید کے نام (۷)…(۱) بابو صاحب مکرم! یہ کوئی صاحب چھوٹے شملہ سے میری غزل ی اصلاح کرکے ارسال کرتے ہیں۔ میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کیجیے اور عرض کیجیے کہ بہتر ہو کہ اگر آپ امیر و داغ کی اصلاح کیا کریں مجھ گمنام کی اصلاح کرنے سے آپ کی شہرت نہ ہو گی۔ میرے بے گناہ اشعار کو جو حضرت نے تیغ قلم سے مجروح کیا ہے ا س کاصلہ انہیں خدا سے ملے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو عقل و فہم عطا کرے۔ میں نے یہ دو حرف محض ازراہ ہمدردی تحریر کیے ہیںَ امید ہے کہ وہ برا نہ سمجھیں گے۔ اکثر انسانوں کو کنج تنہائی میں بیٹھے ہمہ دانی کا دھوکہ ہو جاتا ہے ان کا قصورنہیں فطر ت انسان ہی اس قسم کی ہے۔ راقم آثم محمد اقبال لاہور ۱۹۰۴ء ٭٭٭ غلام قادر گرامی کے نام (۸)…(۱) لاہور ‘ ۱۱ مارچ ۱۹۱۰ء بابا گرامی سلام! خط لکھے ہوئے کئی دن گزر گئے ہیں حیدر ی صاحب کے متلق استفسار کیا تھا۔ جواب ندارد۔ دو خطوں کے جواب میں آپ کے ذمہ ہیںَ آ پ کس عالم غفلت میں قیام پذیر یا تشریف فرما ہیں۔ جواب لکھیے اورجلد اشعار کے متعلق جو کچھ میں نے پوچھا ہے اس کا جواب دیجیے۔ آپ نے ایک غزل لکھی تھی فرسنگ اسست تنگ است۔ اسی زمین میں ایک استاد کا شعرنہایت پسند آیا: ہلاک شیشہ در خوں نشستہ خویشم کہ آخریںنفسش عذر خواہی سنگ است للہ درمن قال جواب جلد آئے مجھے کئی دن سے انتظارہے۔ آپ رخصت پر کب آتے ہیں ۔ پنجاب میں کئی لوگ چشم براہ ہیںَ اور بالخصوص اقبال۔ محمد اقبال لاہور (عطیہ مدیر شہاب حیدر آباد دکن) (۹)…(۲) لاہور۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۸ء جناب مولانا گرامی مدظلہ العالی گرامی کو خاک پنجاب جذب کرے گی یا خاک دکن اس سوال کے جواب کے لیے حسب الحکم مراقبہ کیا گیا جو انکشاف ہوا معروض ہے۔ گرامی مسلم ہے اورمسلم تو وہ خاک نہیںکہ خاک اسے جذب کر سکے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے جو جامع ہے جواہر موسویت اور ابراہیمیت کی آگ اسے چھو جائے تو برد و سلام بن جائے پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے آسمان و زمین میں یہ سما نہیں سکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میںسمائی ہیں۔ پانی‘ آگ جذب کر لیتا ہے عدم بود کو کھا جاتا ہے۔ پستی بلندی میں سما جاتی ہے۔ مگر جو قوت جامع اضدادہو اور محلل تمام تناقضات کی ہو اسے کون جذب کرے مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اندر جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے شاید نضیر نام ایک شص تھا ہجرت سے پہلے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت ایذا دیتاتھا۔ فتح مکہ کے بعد جب حضور شہر میں داخل ہوئے تو ایک مجمع عام میں آپؐ نے علی المرتضیٰؓ کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دو۔ ذوالفقار حیدری نے ایک آن میںاس کمبخت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کی لاش خاک و خون میں تڑپ رہی تھی۔ لیکن وہ ہستی جس کی آنکھوں میں دوشیرزہ لڑکیوںسے بھی زیادہ حیا تھی جس کا قلب تاثرات لطیفہ کا سرچشمہ تھا جو اہل عالم کے لیے سراپا رحمت و شفقت تھی اس درد انگیز منظر سے مطلق متاثر نہ ہوئی۔ نضیر کی بیٹی نے باپ کے قتل کی خبر سنی تو نوحہ و فریاد کرتی ہوئی اور باپ کی جدائی میں درد انگیز اشعار پڑھتی ہوئی یہ اشعار حماسہ میں منقول ہیں دربار نبویؐ میں حاضر ہوئی۔ اللہ اکبر! اشعار سنے تو حضورؐ اس قدر متاثر ہوئے کہ اس لڑکی کے ساتھ مل کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ جو ش ہمدردی نے اس سب سے زیادہ ضبط کرنے والے انسان کے سینے میں سے ایک سر آہ نکلوا کے چھوڑی ۔ پھر نضیر کی تڑپتی ہوئی لاش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہ فعل محمد رسول اللہ کا ہے اوراپنی روتی ہوئی آنکھ پر انگلی رکھ کر کہا کہ یہ فعل محمد بن عبداللہ کا ہے۔ پھر حکم دیا کہ نضیر کے بعد کوئی شخص مکہ میں قتل نہ کیا جائے۔ غرض کہ اس طرح مسلم حنیف جذبات متناقض یعنی قہر ومحبت کو اپنے قلب کی گرمی سے تحلیل کرتا ہے اور اس کا دائرہ اثر اخلاقی تناقضات تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام طبعی تناقضات پر بھی حاوی ہے۔ پھر مسلم جو حامل ہے محمدیت کا اوروارث ہے موسویت اور ابراہیمیت کا کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے۔ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے۔ اور اس کی قوت جاذبہ ذاتی اور فطری نہیں بلکہ مستعار ہے ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ذروں کو کبھی پامال کیا تھا۔ شیخ محمد اقبال صاحب آپ کا دستی خط لائے تھے۔ جو کسی مسلم کا عزیز ہے۔ وہ میرا عزیز ہے۔ وہ جب چاہیں تشریف لائیں میرا دروازہ کسی پر بند نہیں اور اگر میں کچھ جانتا ہوں تو وہ مسلمانوں کامال ہے۔ اس کے معاوضہ میں نہ اطاعت چاہتا ہوں نہ محب‘ نہ عزت‘ نہ روپیہ ۔ اشعار کی داد نہ دوں گا جب تک لاہور میں تشریف نہ لائی۔ ابھی نیاز لادین صاحب کا خط ملا ہے۔ وہ بھی لکھتے ہیں کہ گرامی صاحب لاہور آنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ کسی کو اعتبار نہیںآتا۔ بخار لاہور میں ہر سال ہوتا ہے۔ اب کے سال نسبتاً کم ہے زیادہ کیا عرض کروں۔ خدا کا فضل ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ الحمد اللہ کہ آپ کو صحت ہو گئی۔ ابھی آپ کی بڑی ضرورت ہے والسلام۔ مخلص محمد اقبال لاہور ٭٭٭ منشی سراج الدین کے نام (۱۰)…(۱) ڈیر سراج! دو تین روز ہوئے طبیعت بہ سبب دورہ درد کے علیل ہے یہ چند شعر قلم برداشتہ آپ کے شکریہ میں عرض کرتا ہوں میرا ارمغان یہی ہے۔ اسی کوقبول کر کے مجھے مشکور کیجیے چاہیں تو پیشانی پر چند اردو سطور لکھ کر مخزن کو بھیج دیجیے والسلا م۔ آ پ کا اقبال از لاہور ۱۹۰۲ء آپ نے جو کو جو بھیجی ارمغان انگشتری دے رہی ہے مہر و الفت کا نشاں انگشتری زینت دست حنا مالیدہ جاناں ہوئی ہے مثال عاشقاں آتش بجاں انگشتری تو سراپا آیتے از سورہ قرآن فیض وقف مطلق سے سراج مہرباں انگشتری میرے ہاتھوں سے اگر پہنے اسے وہ دلربا ہو رموز بے دلی کی ترجماں انگشتری ہو نہ برق افگن کہیں اے طائر رنگ حنا تاکتی رہتی ہے تیرا آشیاں انگشتری ساغر مے میں پڑا انگشت ساقی کا جو عکس بن گئی گردابہ آب رواں انگشتری ہوں بہ تبدیل قوافی فارسی میںنغمہ خواں ہند سے جاتی ہے سوئے اصفہاں انگشتری ٭٭٭ یارم از کشمر فرستاد است چار انگشتری چار در صورت بمعنی صد ہزار انگشتری چار را گر صد ہزار آوردہ ام اینک دلیل شد قبول دست یارم ہر چہار انگشتری داغ داغ موج مینا کاری اش جوش بہار می دہد چوں غنچہ گل بوئے یار انگشتری درلہا نور آمدد ۱؎ چشم تماشا شد تمام بود در کشمیر چشم انتظار انگشتری یار را ساغر بکف انگشتری در دست یاد حلقہ اش خمیازہ دست خمار انگشتری ۱؎ لاہور کا دوسرا نا م جس کو امیر خسرو قرآن السعدین میں استعمال فرماتے ہیں (اقبال) ما اسیر حلقہ اش او خود اسیر دست دوست اللہ اللہ دام و صیاد و شکار انگشتری خاتم دست سلیماں حلقہ در گوش دے است اے عجب انگشتری را جاں نثار انگشتری وہ چہ بکشاید بدست آں نگار سیم تن ماند گرزیں پیشتر سر بستہ کار انگشتری من دل گم گشتہ خود را کجا جویم سراغ دزدی دزد حنا را پردہ دار انگشتری راز دار دزدہم دزد است در بازار حسن چشمک دزد حنا را راز دار انگشتری ہر دو باہم ساختند و نقد دلہامی برند پختہ مغز انگشت جاناں پختہ کار انگشتری نو بہار دلفریب انگشتری دررد ست یار بوسہ بروستش زندلیل و نہار انگشتری بوالہوس ز انگشتری طرز اطاعت یاد گیر می نہد سر بر خط فرمان یار انگشتری ماہ نو قالب تہی کرد است از حسرت بہ چرخ جلوہ فرماشد چودر انگشت یار انگشتری ارمغانم سلک گوہر ہاست یعنی ایں غزل کز سراجم نور ہان آمد چہار انگشتری کشت اے اقبال مقبول امیر ملک حسن کردہ دا مارا گرہ آخر زکار انگشتری ٭٭٭ (۱۱)…(۲) لاہور ۔ بھاٹی دروازہ ۱۱ مارچ ۱۹۰۳ء برادر مکرم السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا۔ الحمد اللہ کہ آپ خیریت س ہیں ۔ آج عید کا دن ہے اور بارش ہو رہی ہے۔ گرامی صاحب تشریف رکھتے ہیں اور شعر و سخن کی محفل گرم ہے شیخ عبدالقادر ابھی اٹھ کر کسی کام کو گئے ہیں۔ سید بشیر حیدر بیٹھے ہیں اور ابر گہر بار کی اصل علت کی آمد آمد ہے یہ جملہ شاید آپ کو بے معنی معلوم ہو گا مگر کبھی وقت ملاقات پر آپ پر اس کا مفہوم واضح ہو جائے گا۔ آپ کے خط نے ایک بڑی فکر سے مجھے نجات دی۔ مجھے تین روز سے اس بات کی کاوش تھی کہ نظم کہیں سے ملے تو ارسال کروں۔ الحمد اللہ کہ آپ کو مل گئی۔۔ آپ کی داد کامشکور ہوں اوراس کو کبھی تصنع نہیں سمجھتا۔ آپکو کس با ت سے یہ اندیشہ پیدا ہوا؟ ترتیب اشعار کی خود مجھے فکر ہور ہی ہے۔ مگر یہ خیال ہے کہ ابھی کلام کی مقدار تھوڑی ہے۔ بہرحال جب یہ کام ہو گا تو آپ کی صلاح و مشورے کے بغیر نہ ہو گا۔ مطمئن رہیںملٹن کی تقلید میں کچھ لکھنے کا ارادہ مدت سے ہے اور اب وہ وقت قریب معلوم ہوتاہے کہ کیونکہ ان دنوں وقت کو کوئی لحظہ خالی نہیںجاتا جس میں اس کی فکر نہ ہو۔ پانچ چھ سال سے ا س آرزو کو دل میں پرورش کر رہا ہوں مگر جتنی کاوش مجھے آج کل محسوس ہوتی ہے ۔ اس قدر کبھی نہ ہوئی فکر روزگار سے نجات ملتی ہے تو اس کام کو باقاعدہ شروع کروں گا۔ ابر گہربار شروع کرنے سے بیشتر میں نے اس خیال سے کہ کوئی وہابی اس کے بعض اشعار پر کوئی فتویٰ نہ دے دے چند باتیں تمہید میں بھی کہی تھیں اورایک غزل بھی کہی تھی کہ جو ارسال خدمت کرتا ہوں۔ نوٹ: اس کے بعد خط میں وہ تمام غزل درج ہے جس کا مطلع ہے: ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی اس غزل کے بعد بلبل کی فریاد مکمل لکھی ہوئی ہے۔ پھر خط یوں شروع ہوتا ہے (مرتب) کاغذ ختم ہو گیا ہے دل بھی اکتا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے بڑی ہمت کی کہ اتنے اشعار نقل کر لیے اور آپ کو خط بھی لکھ دیا۔ الحمد اللہ علی ذالک مندرجہ بالا نظم کی بندش ملاحظہ فرمائیے۔ چونکہ بچوں کے لیے ہے اس واسطے اضافات اور وقت مضمون سے خالی ہے۔ علاوہ بریں فریاد کرنے والا آخر پرندہ ہے۔ والسلام ۔ صادق علی خاں صاحب عنبر صاحب اور دیگر احباب کی خدمت میں سلام عرض کریں۔ آپ کا صادق محمد اقبال (۱۲)…(۳) لاہور ۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء مخدومی۔ السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ملا جس کو پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ الحمد اللہ کہ آپ کو مثنوی پسند آئی۔ آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کی شاعری سے طبعی مناسبت ہے اور اگرنیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرہ شعرامیں پیدا کرتی۔ بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر ہے۔ محض ذوق شعر رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شاعر اور تصنیف کی شدید تکلیف اسے اٹھانی نہیں پڑتی۔ یہ مثنوی گزشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی۔ مگر اس طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ چند اتوار کے دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے۔ موجودہ مشاغل وقت نہیں چھوڑتے اور جوں جوں اس پروفیشن میںزمانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے کام بڑھ ہی جاتا ہے۔ لٹریری مشاغل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں اگر مجھے پوری فرصت ہوتی تو غالباً اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہو گا جس کے مضامین میرے ذہن میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حصہ اس حصہ سے زیادہ لطیف ہو گا کم از کم مطالب کے اعتبار سے گو زبان اور تخیل کے اعتبار سے میں نہیںکہہ سکتا کہ کیسا ہو گا۔ یہ بات طبیعت کے رنگ پر منحصر ہے جو اپنے اختیار کی بات نہیں۔ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں س ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیںَ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب العین سے اور غرض وغایت سے آشنائی نہیں ان کے لٹریری آئیڈیل بھی ایرانی ہیں اور سوشل نصب العین بھی ایرانی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس مثنوی میں حقیقی اسلام کو بے نقاب کر وں جس کی اشاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے ہوئی۔ صوفی لوگوںںے اسے تصوف پر ایک حملہ تصور کیا ہے اور یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے۔ انشاء اللہ دوسرے حصہ میں دکھائوں گا کہ تصوف کیا ہے۔ اور کہاں سے آیا اور صحابہ کرامؓ کی زندگی سے کہاں تک ان تعلیمات کی تصدیق ہوتی ہے جس کا تصوف حامی ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا والسلام۔ آپ کا خادم محمد اقبال (۱۳) … (۴) لاہور ۱۴ اکتوبر ۱۹۱۵ء مخدومی السلام علیکم آپ کا والا نامہ ملا۔ الحمد اللہ کہ آپ خیریت سے ہیں۔ زمیندار میں آپ کا خط چھپ جانے کی غلطی کا ذمہ دار کسی حد تک میں ہوں خود اور زیادہ تر دفتر زمیندار ہے۔ میںنے تو وہ خط مولوی عمادی صاحب کی خدمت میں اس واسطے ارسال کیا تھا کہ وہ اپنے ریویو میں اس تحریر سے مدد لیں۔ مولوی عمادی ایڈیٹر ’’زمیندار‘‘ خود ایک ریویو لکھ رہے ہیں جو ہنوز ناتمام ہے۔ مقصد اشاعت نہ تھا مگر معلوم ہوتا ہے ہ غلطی سے وہ تحریر ہی چھاپ دی گئی۔ مجھے اس غلطی کے لیے سخت افسوس ہے جہاں تک مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کو یہی لکھا تھا کہ یہ ریویو ایک پرائیویٹ خط ہے۔ ا س میں بعض باتیں پتے کی تھیںاور میرا خیال تھا کہ مولوی صاحب کو ان کے پڑھنے سے مدد ملے گی۔ مگر اس تحریر کی اشاعت کا ذمہ دار غالباً اسسٹنٹ ایڈیٹرہے جسے معلوم نہ تھا کہ یہ پرائیویٹ خط دفتر میں کیوں بھیجا گیا بہرحال اس ندامت کا سب بوجھ مجھ پر ہے میں مولوی صاحب سے ضرور استفسار کرتا مگر میں اس وجہ سے کہ محض لٹریری تنقید ہے اور چھپ چکی ہے جس کا علاج اب محال ہے میں نے ان سے استفسارنہ کیا۔ اگر کوئی چارہ کار ہو تو تحریر فرمائیے کہ اس کا علاج کیا جائے۔ والسلام آپ کا محمد اقبال ٭٭٭ حکیم محمد حسین عرشی کے نام (۱۴)…(۱) لاہور ۱۹ مارچ ۱۹۳۵ء جناب عرشی صاحب! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے میری صحت عامہ تو بہت بہتر ہو گئی ہے۔ مگر آواز پر ابھی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ علاج برقی ایک سال تک جاری رہے گا۔ دو ماہ سے وقفے کے بعد بھوپال جانا ہو گا۔ آپ اسلام اور اس کے حقائق سے لذت آشنا ہیں۔ مثنوی رومی کے پڑھنے سے اگر قلب میں گرمی شوق پیداہو جائے تو اور کیا چاہیے۔ شوق خود مرشد ہے میں ایک مدت سے مطالعہ کتب ترک کر چکا ہوں اگر کبھی کچھ پڑھتا ہوں تو صرف قرآن یا مثنوی رومی افسوس ہے کہ ہم اچھے زمانے میں پیدا نہ ہوئے۔ کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں ایک بھی صاحب سرور نہیں بہرحال قرآن اور مثنوی کا مطالعہ جاری رکھیے۔ مجھ سے بھی کبھی کبھی ملتے رہیے۔ اس واسطے نہیں کہ میں آپ کو کچھ سکھا سکتا ہوںبلکہ اس واسطے کہ ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت میں بعض دفعہ ایسے نتائج پیداکر جاتی ہے کہ جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جن کو جااننے والے مسلمانان ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے زیادہ کیا عر ض کروں۔ محمد اقبال (۱۵)…(۲) جناب ۱؎ عرشی صاحب السلام علیکم! آپ کا والہ نامہ آج صبح مجھے مل گیا۔ مولوی صاحب ۲؎ قبلہ کی خدمت میںمیری طرف سے سلام عرض کر کے بہت بہت شکریہ ادا کیجیے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں گزشتہ ۱۸ ماہ سے ہائی کورٹ میں کام نہیں کرتا اس واسطے مولوی صاحب سے گفتگو کرنے کے لیے مجھ کو پہلے کتابوں کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ جس کے لیے اس وقت میری طبیعت حاضر نہیں اور نہ اس قدر محنت برداشت ہو سکتی ہے۔ انشاء اللہ کچھ مدت بعد ایسا کروں گا۔ فی الحال میرے خیال میں چاہیے کہ ایسی مثالیں لی جائیں جن میں فقہا کے نزدیک عول کی ضرورت پڑتی ہے اور تقسیم سے ثابت کیا جائے کہ ’’عول‘‘ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی مثالیں انگریزی کتب میں موجو د ہیںَ مولوی سراج الدین پال آپ کو بتا سکیں گے۔ یہ مسئلہ نہایت ضروری ہے میں خود بھی ’’عول‘‘ کی تردید میں بہت دلچسپی رکھتا ہوں۔ امید کہ مولوی صاحب کا مزاج بخیر ہو گا۔ ۱؎ ایک صحبت میں علامہ اقبال نے مجھ سے اسلامی قانون وراثت کے بعض اجزا کے متعلق حضرت خواجہ احمد الدین مرحوم کی تحقیق دریافت فرمائی۔ میں نے لا علمی ظاہر کی اور امر تسر پہنچ کر خواجہ صاحب کو آمادہ کیا کہ وہ علامہ مرحوم کے رو دع رو اس اہم مسئلہ پر روشنی ڈالیں۔ ان کی منظوری سیے علامہ کو مطلع کیا تو آپ نے اپنے مکتوب مذکور سپرد قلم فرمایا۔ (عرشی) ۲؎ خواجہ احمد الدین صاحب مرحوم (عرشی) اگر مسئلہ ’’عول‘‘ پر ایک علیحدہ رسالہ لکھا جائے تو نہایت مناسب ہو گا جو کچھ مولوی صاحب صاحب نے تفسیر بیان القرآن ۱؎ میں لکھا ہے اس کو مزید تشریح و توضیح کے سال علیحدہ چھاپ دیا جائے تاکہ اس مسئلے کی طرف علماء کی خاص توجہ ہو جائے اور وکیل و بیرسٹر صاحبان بھی اس میں خاص دلچسپی لے سکیں۔ مخلص محمد اقبال ۱۷ ۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء (۱۶)…(۳) لاہور ۱۴جون ۱۹۳۶ء جناب عرشی ۲؎ صاحب السلام علیکم! آپ کا والہ نامہ ابھی ملا ہے۔ مولانا مرحوم کے انتقال کی خبر میں نے اخبارات میں دیکھی بہت رنج ہوا۔ خدا تعالیٰ انہیں مغفرت کرے۔ اس زمانے میں ان کا دم غنیمت تھا۔ عالم باعمل روز روز نہیں پیدا ہوتے۔ ’’ضرب کلیم‘‘ امید کہ اس ماہ کے آخر تک چھپ جائے گی۔ فارسی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ ا س کے بعد شائع ہو گی۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے جاوید سلمہ بھی اچھا ہے ۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال ۱؎ تفسیر بیان للناس (عرشی) ۲؎ میں نے مولانا خواجہ احمد الدین مرحوم صاحب تفسیر بیان للناس کی رحلت کی اطلاع دی اور فارسی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے متعلق پوچھا تھا۔ یہ خط ان باتوں کے جواب میں لکھا گیا ہے ۔ (عرشی) (۱۷)…(۴) لاہور ۱۵ ستمبر ۱۹۳۶ء جناب عرشی صاحب! ۱۔ قرشی ۱؎ سے مراد حضور رسالت مآبؐ ہیں بخاری سے مراد بو علی سینا اس سے اوپر کے اشعار ملاحظہ کیجیے: دل در سخن محمدی بند اے پور علی زبو علی چند ۲۔ خود بوئے چنیں آپ کے نسخہ میں جو مصرع ہے غلط ہے۔ بوئے برون فارسی محاورہ ہے۔ جس کامطلب کسی چیز کی اصلیت اور حقیقت کو پا جانا ہے۔ مطلب خاقانیکا یہ ہے کہ اس دنیا کی اصلیت تو اسی سے معلوم ہو سکتی ہے کہ اس کی آب و ہوا ابلیس کو تو راس آ گئی۔ جو اب تک زندہ ہے اور بیچارے آدم کو راس نہ آئی جو یہاں سے رخصت ہو گیا۔ ۱؎ علامہ نے ضرب کلیم میں ایک نظم’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ لکھی ہے اس میں خاقانی کا ایک شعر لائے ہیں۔ چوں دیدہ راہ بین نداری قاید قرشی بہ از بخاری میں نے پوچھا قرشی و بخاری سے کیا مراد ہے؟ اسی میں ایک دوسرا شعر بھی خاقانی کا ہے خود بوئے چنیں جہاں تواں برد کابلیس بماندد بو البشر مرد یہ دونوں شعر خاقانی کی مثنوی تحفتہ العراقین سے لیے گئے ہیں۔ میرے پاس اس کا مشرح نسخہ موجود ہے۔ میں نے اس میں دیکھا تو دوسرے شعر کرمختلف پایا ۔ مفہوم میں تشابہ کے سبب علامہ سے استفسار کیا ۔ نیز مجذوب فرنگی مہدی اور محراب گل افغان جو ضرب کلیم میں مذکور ہیں ان سے متعلق سوالات کیے ۔ آپ نے مندرجہ بالا گرامی نامہ تحریر فرمایا۔ (عرشی) ۳۔ مجذوب فرنگی سے مراد حکیم نطشہ ہے۔ اس کی تشریح بال جبریل میں کر دی گئی تھی۔ مہدی سے مراد کوئی خاص مہدی نہیں ہے۔ وہی جو عالم افکار میں زلزلہ پیدا کر سکے۔ ایک اور جگہ مہدی برحق ہے۔ اس کی تشریح آپ ملیں گے تو کر دوں گا۔ طویل خط لکھنے سے قاصر ہوں محراب گل محض فرضی نام ہے۔ جاوید اچھا ہے سیالکوٹ گیا ہوا ہے۔ محمد اقبال ٭٭٭ سراج الدین پال کے نام (۱۸)…(۱) لاہور ۱۰ جولائی ۱۹۱۶ء بندہ مکرم السلام علیکم! آپ کا خط مجھے مل گیا ہے جس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں۔ آپ کے مضامین نہایت اچھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حقائق اسلامیہ کی سمجھ عطا کی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کر تا ہے۔ افسوس ہے کہ مسلمان مردہ ہیںَ انحطاط ملی نے ان تمام قویٰ کو شل کر دیا ہے اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثر ڈالتا ہے کہ جس سے انحاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصور کرنے لگ جاتاہے۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے مگر ہمیں اپنے ادائے فرض سے کام ہے۔ ملامت کا خو ف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ میں مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں امید ہے کہ اس حصہ میں بعض باتوں پر مزید روشنی پڑ ے گی۔ حافظ پر ایک طویل مضمون شائع ہونے کا مجھے بھی احساس ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اس کا باحسن وجوہ اتمام کر سکتے ہیں۔ آپ کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ جو سامان عقلی و اخلاقی ایسا مضمون لکھنے کے لیے ضروری ہے وہ آپ میں سب موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل و شعار میں باطنی معانی تلا ش کرنا یا باطنی مفہوم پید اکرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے۔ یہ ایک نہایت Subtleطریق تنسیخ ہے اور یہ طریق وہی قومیں اختیار یا ایجاد کرتی ہیں جن کی فطرت گوسفندی ہو ۔ شعرائے عجم میں بیشتر وہ شعرا ہیں جو اپنے فطری میلان کے باعث وجودی فلسفے کی طرف مائل تھے۔ اسلام سے پہلے بھی ایرانی قوم میں یہ میلان موجود طبیعت تھا۔ اور اگرچہ اسلام نے کچھ عرصہ تک اس کا نشوونما نہ ہونے دیا تاہم وقت پا کر ایران کا آبائی اور طبعی مذاق اچھی طرح سے ظاہر ہوا۔ یا بالفاظ دیگر مسلمانوں کو ایک ایسے لٹریچر کی بنیاد پڑی جس کی بنا وحدت الوجود تھی۔ ان شعرا نے نہایت عجیب و غریب اور بظاہر دلفریب طریقوں سے شعائر اسلام کی تردید و تنسیخ کی ہے اور اسلام کی ہر محمود شے کو ایک طرح سے مذموم بیان کیا ہے۔ اگر اسلام افلاس کو برا کہتا ہے تو حکیم سنائی افلاس کو اعلیٰ درجہ کی سعادت قرا ر دیتا ہے۔ اسلام جہاد فی سبیل اللہ کو حیات کے لیے ضروری تصور کرتا ہے تو شعرائے عجم اس شعار اسلام میں کوئی اور معنی تلاش کرتے ہیں مثلاً: غازی ز پئے شہادت اندر تگ و پوست غافل کہ شہید عشق فاضل تراز دست در روز قیامت ایں باد کے ماند ایں کشتہ دشمن است و آں کشتہ دوست یہ رباعی شاعرانہ اعتبار سے نہایت عمدہ ہے اور قابل تعریف مگر انصاف سے دیکھیے تو جہاد اسلامیہ کی تردید میں اس سے زیادہ دلفریب اور خوبصورت طریق اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ شاعر نے کمال یہ کر دیا ہے کہ جس کو اس نے زہر دیا ہے اس کو احساس بھی نہیں امر کا نہیں ہو سکتا کہ مجھے کسی نے زہر دیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے آب حیات پلایا گیا ہے آہ مسلمان کئی صدیوں سے یہی سمجھ رہے ہیں۔ اس نقطہ خیال سے نہ صرف حافظ بلکہ تمام شعرائے ایران پر نگاہ ڈالنی چاہیے۔ اگر آپ حافظ پر لکھیں تو اس نقطہ خیال کو ملحوظ رکھیں۔ جب آپ اس نگاہ سے شعرائے معروف پر غور کریں گے تو آپ کو عجیب و غریب باتیں معلوم ہو ں گی یہ طویل خط میں نے صرف اسی واسطے لکھا ہے کہ فارسی شعر کے مطالعے میں آپ کا دماغ ایک خاص رست پر پڑ جائے۔ انشاء اللہ اسرار خودی کے دوسرے حصے میں بتائوں گا کہ شعر کا نصب العین کیا ہونا چاہیے۔ ایک اور مضمون بھی لکھ رہا ہوں جو وکیل میں شائع ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسی جماعت پیدا کردے جو بقول آپ کے اسلام کے نادان دوستوں کی پیدا کی ہوئی آمیزشوں کے خلاف جہاد کرے۔ والسلام۔ آپ کا مخلص محمد اقبال (۱۹)…(۲) لاہور ۱۴ جولائی ۱۹۱۶ء مکرم بندہ السلام علیکم! میں نے پرسوں ایک خط آ پ کی خدمت میں لکھا تھا۔ جو امید ہے آپ کو مل گیا ہو گا۔ ا س میں آپ کو یہ لکھنا بھول گیا کہ آپ کا ارادہ حافظ پر مضمون لکھنے یکا ہے تو حال میں ایک کتاب جو خواجہ حافظ شیرازی پر لکھی گئی ہے ملاحظہ فرما لیجیے۔ اس کتاب کا نام لطائف غیبی ہے مصنف مرزا محمد دارابی ہیں طہران میں شائع ہوئی تھی۔ غالباً ۱۰ یا ۱۱ سال ہو گئے اس می جو اعتراضات حافظ پر وقتاً فوقتاً کیے گئے ہیں ان کی تردید ہے۔ اس سے آ پ کو معلوم ہو گا کہ کیا کی اعتراضات حافظ کے کلام اور ان کی تعلیم پر کیے گئے ہیں۔ میں نے اس کا ایک مطبوعہ نسخہ انگلستان میں دیکھا تھا۔ اس وقت یہ معلوم نہ تھا کہ کبھی اس کی ضرورت پیش آئے گی۔ ورنہ نوٹ کر لیتا۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ بمبئی کے ایرانی کتب فروشوں سے مل جائے گی۔ پروفیسر برائون نے لٹریری ہسٹر ی آف پرشیا میں بھ اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ کلارک نے جو انگریزی ترجمہ حافظ کا کیا ہے اس کے دیباچہ یں ایک عجیب بات لکھی ہے یعنی حافظ کے چچا سعدی (یہ شیخ سعدی نہیں ہیں) نے اس سے کہا کہ تمہارے کلام پڑھنے والوں پر دیوانگی اور لعنت نازل ہو گی۔ یہ واقعہ لکھ کر حاشیہ میں مصنف نوٹ دیتا ہے کہ قسطنطنیہ کے شیعوں کا اب تک یہ عقیدہ ہے کہ حافظ کا کلام پڑھنے والوں پر بالآخر جنون کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ تذکروںسے اور مصالحہ بھی آپ کو ملے گا۔ تاریخی اعتبار سے اس کے کلام پر نظر ڈالنی ہو تو مولوی شبلی کی شعر العجم ملاحظہ کیجیے غالباً اس سے آپ واقف ہوں گے۔ دیوان حافظ سے فال نکالنے کے دستور کے متعلق بھی عمدہ آگاہی کلارک کے دیباچے میں مے گی۔ تیمور خاندان کے متعلق جو واقعہ مشہور ہے۔ اس کا ذکر آتشکدہ کے مصنف نے کیا ہے یعنی بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا) وہ تاریخی اعتبار سے غلط ہے کیونکہ حافظ کا انتقال ۱۳۸۸ء میں ہوا۔ تیمورنے شیراز ۱۳۹۲ء میں فتح کیا۔ والسلام آپ کا خادم محمداقبال (۲۰)…(۳) لاہور ۱۹ جولائی ۱۹۱۶ء مکرمی السلام علیکم! صیام کے متعلق آ پ کا مضمون نہایت عمدہ ہے اور میرے مذہب کے عین مطابق ہے بلکہ آ پ کے مضمون کا آخری فقرہ میں نے سب سے پہلے پڑھا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ آیا آپ کو یہ حقیقت معلوم ہے کہ باب افعال کاایک خاصہ سلب ماخذ ہے۔ یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوئی کہ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں یطیون میں تمام بوڑھے فطری کمزور اور حائضہ عورتیں شامل ہیں۔ ہندی مسلمانوں کی بڑی بدبختی یہ ہے کہ اس ملک سے عربی زبان کا علم اٹھ گیا ہے۔ اور قرآن کی تفسیر میں محاورہ عرب سے بالکل کام نہیںلیتے یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں قناعت اور توکل کے وہ معنی نہیں لیے جاتے ہیں جو عربی زبان میں ہرگز نہیں ہیں کل میں ایک صوفی مفسر قرآن کی ایککتاب دیکھ رہا تھا لکھتے ہیں خلق الارض والسموت فی ستتہ ایام میں ایام سے مراد تنزلات ہیں یعنی فی ستتہ تنزلات ہیں۔ کم بخت کو یہ معلوم نہیں کہ عربی زبان میں یوم کا مفہوم قطعاً یہ نہیں اورنہ ہو سکتا ہے کہ تخلیق بالتنزیلات کا مفہوم ہی عربوںکے مذاق اورفطرت کا مخالف ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میںہندی اوریونانی تخیلات داخل کر دیے ہیں۔ کاش کہ مولانا نظامی کی دعا اس زمانے میںمقبول ہو او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائیں اور ہندی مسلمانوں پر اپنا دین بے نقاب کریں۔ کلارک کے ترجمہ حافظ کے لیے جو آپ نے تھیکر کو لکھا ہے ٹھیک نہیںکیا بہت بڑی کتاب ہے۔ اس کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ اگر خریداری کے لیے لکھا ہے تو فرمائش منسوخ کر دیجیے۔ یہاں اورینٹل کالج لاہور کی لائبریری میں موجود ہے ۔ آ پ وہاں سے دیکھ سکتے ہیں۔ پروفیسر برائون کی کتاب بھی یہاں موجودہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جو یورپ میںبااقساط شائع ہو رہی ہے۔ اس میں بھی حافظ پر ضرور آرٹیکل ہو گا۔ وہ بھی آپ کو یہاں سے مل جائے گی۔ ایک مشکل یہ ہے کہ حافظ کی صحیح غزلوں کا پتہ نہیں چلتا۔ بعض پرانے نسخوں میں بعض ایسی غزلیں ہیںکہ وہی غزلیں خواجو کرمانی کے دیوان میں بھی پائی جاتی ہیں خواجو کرمانی وہ شخص ہے جس کے تتبع کا خود حافظ کو اعتراف ہے۔ لائی پزک (جرمنی) میں جو ایڈیشن شائع ہوئی تھی وہ غالباً سودی (ترک شارح حافظ) کے ایڈیشن پر مبنی ہے۔ اس کا مقصد زیادہ تر تشریح ہے۔ سودی کا ترجمہ بھی ہو گیا ہے مگر جرمن میں سے ہے۔ اگر کتاب یہاں مل گئی تو میں آپ کو اس کے سمجھنے میں مدد دے سکو ں گا۔ برائون کی تاریخ ادبیات ایران میں بھی حافظ پر کچھ ہو گا۔ یہ کتاب بھی جرمن میں ہے اور اورئنٹل کالج لاہور کی لائبریری میں موجود ہے۔ جب آپ مضمون لکھیں گے تو میں اس کا وہ حصہ آپ کے لیے ترجمہ کردوں گا علامہ مجلسی کی مجالس المومنین بھی ملاحظہ کر لیجیے۔ اس میں حافظ کو شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مراز امحمد دارابی کی کتاب تلاش کر رہا ہوں مل گئی تو آپ کو بھی دکھائوں گا۔ مولانا جامی کی نفحات الانس بھی ملاحظہ کیجیے اور غور سے دیکھیے کہ مولانا نے کس قدر احتیاط سے حافظ کے متعلق لکھا ہے۔ پڑھنے پر آپ کو خود بخو دیہ بات معلوم ہو جائے گی کہ خواجہ حافظ کے متعلق ایک معاصرانہ شہادت ملفوظات شاہ جہانگیر اشرف میں پائی جاتی ہے۔ ی کتاب کمیاب ہے۔ مگر معلو م نہیں کہ یہ ملفوظات کس نے جمع کیے اور شاہ جہانگیر اشرف کی وفات کے کس قدر عرصہ بعد۔ شاہ جہانگیر اشرف حافظ کے ہمعصر تھے او ر جامع ملفوظات لکھتا ہے کہ شاہ جہانگیر اشرف حافظ کو ولی کامل تصور کرتے تھے۔ اور وہ حافظ س یہم صحبت رہے ہیں۔ اس کے متعلق بھی میں جستجو کر رہاہوں۔ مولانا اسلم جیراجپوری نے ایک کتاب حیات حافظ نام لکھی ہے۔ آسانی سے مل جائے گی۔ اسے بھی ملاحظہ کر لیجیے۔ شاید کوئی مطلب کی بات معلوم ہو جائے۔ اورنہیں تو ماخذ معلوم ہو جائیں گے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ حافظ کی معاصرانہ تاریخ غور سے دیکھیے۔ مسلمانوں کی دماغی فضا کس قسم کی تھی اور کون کون سے فلسفیانہ مسائل اس وقت اسلامی دماغ کے سامنے تھے مسلمانوں کی پولیٹکل حالت کیا تھی۔ پھر ان سب باتوں کی روشنی میں حافظ کے کلام کا مطالعہ کیجیے۔ تصوف کا سب سے پہلا شاعر عراقی ہے۔ جس نے لمعات میں فصوص الحکم محی الدین ابن العربی کی تعلیموں کو نظم کیا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے فصوص میں سوائے الحاد و زندقہ کے اور کچھ نہیں۔ اس پر میں انشاء اللہ ایک مفصل لکھوں گا) اور سب سے آخری شاعر حافظ ہے (اگر اسے صوفی سمجھا جائے) یہ حیرت کی بات ہے کہ تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا جس قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میںمفقود ہو گئی تھی۔ و پھر اس قوم کا نقطہ نگاہ بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ناتوانی ایک حسین و جمیل شے ہو جاتی ہے۔ اور ترک دنیا موجب تسکین اس ترک دنیا کے پردے میں قومیں اپنی سستی و کاہلی اور اس شکست کو جوان کو تنازع للبقا میں ہو چھپایا کرتی ہیں خود ہندوستا کے مسلمانوں کو دیکھیے کہ ان کے ادبیات کا انتہائی کمال لکھنو کی مرثیہ گوئی پر ختم ہوا والسلام۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ٭٭٭ پروفیسر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے نام (۲۱)…(۱) لاہور ۲ ستمبر ۱۹۲۵ء جناب من! السلام علیکم آپ کا نوازش نامہ آج مجھے ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میری مذہبی معلومات کا دائرہ نہایت محدود ہے۔ البتہ فرصت کے اوقات میں میں اس بات کی کوشش کیا کرتاہوں کہ ان معلومات میں اضافہ ہو۔ یہ بات زیادہ تر ذاتی اطمینان کیلیے ہے نہ تعلیم و تعلم کی غرض سے۔ کچھ مدت ہوئی کہ میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا۔ مگر دوران تحریر میں اس کا احساس نہیں ہوا کہ یہ مضمون اس قدر آسان نہیں جیسے کہ میں نے اسے ابتدا میں تصور کیا تھا۔ اس پر تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ مومجودہ صورت میں وہ مضمون ا س قابل نہیں کہ لوگ ساس سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے اس مضمون میں نہایت مختصر طور پر محض اشارۃً بیان کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آج تک اسے شائع نہیں کیا۔ اب میں انشاء اللہ اسے ایک کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی کروشش کروں گا۔ جس کا عنوان یہ ہو گا Islam as I Understand it۱؎ اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مضمون میری ذاتی رائے تصور کیاجائے جو ممکن ہے غلط ہو۔ اس کے علاوہ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ میری عمر زیادہ ترمغربی فلسفے کے مطالعہ میں گزری ہے۔ اور یہ نقطہ خیال ایک حد تک طبیعت ثانیہ بن گیا ہے۔ دانستہ یا نادانستہ میں اسی نقطہ نگاہ سے حقائق اسلام کامطالعہ کرتا ہوں اور مجھ کو بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے کہ اردو میں گفتگو کرتے ہوئے میں اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح ادا نہیں کر سکتا۔ مذکورہ بالا حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ مولوی صاحب ۲؎ موصوف ۱؎ اسلام میرے نقطہ نظر سے ۲؎ مولانا خواجہ احمد الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو میرے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ ۱؎ ہاں مجھ کو ان سے فائدہ پہنچنا یقینی ہے۔ اس واسطے وہ اگر مجھ کو مستفیض کرنے کے ارادہ سے امرتسر سے لاہور آنے کی زحمت گوارا فرمائیں تو ان کی بہت مہربانی ہے۔ جس کے لیے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھ کو ان کے خیالات سے کسی حد تک پہلے بھی آگاہی ۲؎ ہے ۔ کیا اچھا ہو اکہ وہ شریعت محمدیہؐ پر ایک مبسوط کتاب تحریر فرمائیں جس میں عبادت و معاملات کے متعلق صرف قرآن ۳؎ سے استدلال کیا گیا ہو۔ معاملات کے متعلق خاص طورپر اس قسم کی کتاب کی آج کل شدید ضرورت ہے۔ ہندوستان میں تو شاید اس کے مقبول ہونے کے لے مدت درکار ہے ہاں دوسرے اسلامی ممالک میں اس کی ضرورت کا احساس ہر روز بڑھ رہا ہے۔ شیخ علی رازق اور دوسرے علمائے مصر کے مباحث سے مولوی صاحب آگاہ ہوں گے۔ علی ہذا القیاس ترکی میں بھی یہی مسائل زیر غور ہیں۔ اس پر ایک آدھ کتاب بھی تصنیف ہو چکی ہے۔ اس میں زیادہ تر زمانہ حال کے مغربی اصول فقہ کو ملحوظ رکھ کر فقہ اسلامی پر بحث کی گئی ہے۔ ترکوں نے جو چرچ اور سٹیٹ میں امتیاز کر کے ان کو الگ الگ کر دیا ہے اس کے نتائج نہایت دور رس ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ افتراق اقوام اسلامیہ کے لیے باعث برکت ہو گا یا شفاوت غرض کہ مولوی صاحب موصوف یا ان کے رفقا کو جو کلام الٰہی اور مسلمانوں کے دیگر مذہبی لٹریچر پر عبور رکھتے ہیں ۱؎ پروفیسر تبسم صاحب کا ارشاد ہ کہ دوران گفتگو میں ڈاکٹر صاحب اصطلاحات جدیدہ کو جس بے تکلفی کے ساتھ استعمال کرتے تھے خواجہ صاحب بھی اسی بے تکلفی سے سمجھتے تھے۔ ۲؎ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب بلاغ کا مطالعہ فرمایا کرتے تھے۔ ۳؎ صرف قرآن کا لفظ ڈاکٹر صاحب کے معتقدات پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالتا ہے۔ اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ میں اورمجھ ایسے لوگ صرف ایک آنکھ رکھتے ہیں۔ ایک مدت سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ قرآن کامل کتاب ہے اور اپنے خود کمال کا مدعی ہے۔ رسالہ ’’بلاغ‘‘ امرتسر کے ہر نمبر میںاور مولوی حشمت علی صاحب کے رسالہ ’’اشاعتہ القرآن‘‘ کے ہر نمبر میں اسی پربحث ہوتی ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے کمال کو عملی طور پر ثابت کیا جائے کہ سیادت انسانی کے لیے تمام ضروری قواعد اس میں موجود ہیں اور اس میں فلاں فلاں آیات سے فلاں فلاں قواعدکا استخراج ہوتا ہے۔ نیز جو قواعد عبادات یا معاملات کے متعلق ہیں بالخصوص موکر الذکر کے متعلق دیگر اقوام میں اس قد رمروج ہیں ان پر قرآنی نقطہ نگاہ سے تنقید کی جائے اور دکھایا جائے کہ وہ بالکل ناقص ہیں اور ان پر عمل کرنے سے بنی نوع انسان کبھی سیادت سے بہرہ اندوز نہیں ہو سکتی۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس ۱؎ پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا۔ وہ اسلام کا مجدد ہوگا او ر بنی نو ع انسان کا سب سے بڑا خادم ہو گا۔ قریباً تمام ممالک میں اس وقت مسلمان یا تو اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں یا قوانین اسلامیہ پر غور و فکر کر رہے ہیں سوائے ایران اور افغانستان کے مگر ان ممالک میں بھی امروز و فردا یہ سوال پیدا ہونے والا ہے مگر افسوس ہے کہ زمانہ حال کے اسلامی فقہا یا تو زمانہ کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں۔ ایران میں مجتہد ین شیعہ کی تنگ نظری او ر قدامت پرستی نے بہاء اللہ کو پیدا کیا ۔ جو سرے سے احکام قرآنی ہی کا منکر ہے۔ ۱؎ Jurisprudenceیعنی اصول فقہ ہندوستان میں عام حنفی اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد کے تمام دروازے بند ہیں۔ میں ںے ایک بہت بڑے عالم کو یہ کہتے سنا کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا نظیر ناممکن ہے۔ غرض کہ یہ وقت عملی کام کا ہے کیونکہ میری رائے ناقص میں مذہب اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید تاریخ اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ حافظ محمد اسلم صاحب جیراجپوری کے نام (۲۲)…(۱) لاہور ۱۷۔ مئی ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم! آپ کا تبصرہ اسرار خودی پر الناظر میں دیکھا ہے جس کے لیے میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں۔ دید مت مردے دریں قحط الرجال خواجہ حافظ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح اور توضیح تھا خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا۔ مگر عوام اس باریک ا متیاز کوسمجھ نہ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے د ے ہوئی۔ اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں یا تو خواجہ دنیا کے بہترین شعرا میں سے ہیں بہرحال میں نے وہ اشعار حذف کر دیے ہیں اور ان کی جگہ اسی لٹریری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں۔ عرفی کے اشارے سے محض اس کے بعض اشعار کی تلمیح مقصود تھی مثلاً گرفتم آنکہ بہشتم دہند بے طاعت قبول کردن صدقہ نہ شرط انصاف است لیکن ا س مقابلے سے میں خود مطمئن نہ تھا اور یہ ایک مزید وجہ ان اشعار کو حذف کر دینے کی تھی۔ دیباچہ بہت مختصر تھا اور اپنے اختصار کی وجہ سے غلط فہمی کا باعث بنا جیس اکہ مجھے بعض احباب کے خطوط سے اور دیگر تحریروں سے معلوم ہوا جو وقتاً فوقتاً شائع ہوتی رہیں کیمبرج کے پروفیسر نکلسن بھی اس خیال میں آپ کے ہمنوا ہیں کہ دیباچہ دوسری ایڈیشن سے حذف نہ کرنا چاہیے تھا۔ انہوںنے اس کا انگریزی ترجمہ کرایا ہے۔ شاید انگریزی ایڈیشن کے ساتھ شائع کریں۔ پیرزادہ مظفر الدین صاحب نے میرا مقصد مطلق نہیں سمجھا۔ تصوف سے اگر اخلاص فی العمل مرادہے اور یہی مفہوم قرون اولیٰ میں لیا جاتا تھا تو کسی مسلمان کواس پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ ہاں جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی تصورات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کر کے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے۔ میں نے ایک تاریخ تصوف کی لکھنی شروع کی تھی مگر افسوس کہ مسالانہ مل سکا۔ اورایک دو باب لکھ کر رہ گیا پروفیسر نکلسن اسلامی شاعری اور تصوف کے نام سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو عنقریب شائع ہو گی ممکن ہے کہ یہ کتاب ایک حد تک وہی کام دے جو میں کرنا چاہتا تھا۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین جس کا ذکر ابن حزم کی فہرست میں ہے فرانس میں شائع ہو گیا ہے مولف نے فرنچ زبان میں نہایت مفید حواشی اس پر لکھے ہیں۔ آپ کی نظر سے گرا ہو گا۔ حسین کے اصلی معتقدات پر اس رسالے سے بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان منصورکی سزا وہی میں بالکل حق بجانب تھے۔ اس کے علاوہ ابن حزم نے کتاب الملل میں جو کچھ منصور کے متعلق لکھا ہے۔ اس کی اس رسالے سے پوری تائید ہوتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ غیر صوفیا قریباً سب کے سب منصور سے بیزا رتھے۔ معلوم نہیںمتاخرین اس کے اس قدر دلدادہ کیوں ہو گئے۔ مذہب آفتاب پرستی کے متعلق جو تحقیقات حال میں ہو رہی ہیں اس سے امید ہوتی ہے کہ عجمی تصوف کے پوشیدہ مراسم کی اصلیت بہت جلد دنیا کومعلوم ہو جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ اس طویل خط کے لیے آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ آپ کے تبصرہ سے مجھے بڑی تسکین قلب ہوئی ۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ٭٭٭ سردار عبدالرب خا ں نشتر کے نام (۲۳)…(۱) آپ کا جواب درست ہے۔ میں اس میں کوئی اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ سوائے اس کے کہ زبان کو میں کوئی بت تصور نہیں کرتا جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کاایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیںرہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کو وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔ محمد اقبال لاہور ۱۹ اگست ۱۹۲۳ء ٭٭٭ مولانا محمد اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی ایڈیٹر عبرت کے نام (۲۴)…(۱) مخدومی السلام علیکم ! امسال عارضہ نقرس کی وجہ سے بہت تکلیف رہی۔ اب خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ امیر خاں پر آپ نے خوب مضمون لکھا ہے۔ خدائے تعالیٰ ان کے جانشینوں کو بھی ہدایت دے کہ مسلمانو ں پر ظلم کرنے سے دست کش ہو جائیں صدیق رضی اللہ عنہ پر بھی خوب مضمون لکھا گیا ہے۔ میں نے ان کی زندگی کے تمام واقعات ایک شعر میں بند کر دیے ہیں۔ ہمت او کشت ملت راچو ابر ثانی اسلام و غار و بدر و قبر امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال لاہور ۲۲ ستمبر ۱۹۲۲ء ٭٭٭ غلام احمد مہجور کے نام (۲۵)…(۱) لاہور ۔ ۱۲ مارچ مکرم بندہ! السلام علیکم ! مجھے یہ معلو م کر کے کمال مسرت ہوئی کہ آپ تذکرہ شعرائے کشمیر لکھنے والے ہیں۔ میں کئی سالوں سے اس کو لکھنے کی تحریک کر رہا ہوں مگر افسوس کسی نے توجہ نہ کی۔ آپ کے ارادوں میں اللہ تعالیٰ برکت دے! افسوس ہے کہ کشمیر کا لٹریچر تباہ ہو گیا اس تباہی کا باعث زیادہ سکھوں کی حکومت اور موجودہ حکومت کی لاپروائی اور نیز مسلمانوں کی غفلت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ وادی کشمیر کے تعلیم یافتہ مسلمان اب بھی موجود لٹریچر کی حفاظت کے یے ایک سوسائٹی بنائیں؟ ہاں تذکرہ کشمیر لکھتے وقت مولانا شبلی کی شعر العجم آپ کے پیش نظر رہنی چاہیے۔ محض حروف تہجی کی ترتیب سے شعراء کا حال لکھ دینا کافی نہ ہو گا۔ کام کی چیز یہ ہے کہ آپ کشمیر میں فارسی شعراء کی تاریخ لکھیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایسی تصنیف نہایت بارآور ثابت ہو گی۔ اگر کبھی خود کشمیر میں یونیورسٹی بن گئی تو فارسی بان کے نصاب میں اس کا کورس ہونا یقینی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹا کھانے والی ہے۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ میرے پاس کوئی مسالہ تذکرہ شعرا کے لیے نہیں ہے ورنہ آپ کی خدمت میں ارسال کرتا۔ والسلام۔ محمد اقبال‘ لاہور ٭٭٭ سید نصیر الدین ہاشمی کے نام (۲۶)…(۱) لاہور ۔ ۷مئی ۱۹۲۵ء جناب من السلام علیکم ! میں نقرس کی وجہ سے صاحب فراش تھا۔ اس واسطے اس سے پہلے آپ کے خط کا جواب نہ لکھ سکا معاف فرمائیے۔ دکن میں اردو نہایت مفید کتاب ہے خصوصاً اس کا پہلا حصہ جو میں نے نہایت غور سے پڑھا ہے۔ اردو زبان اور لٹریچر کی تاریخ کے لیے جس قدر مسالا ممکن ہوجمع کرنا ضروری ہے۔ غالباً پنجاب میں بھی کچھ پرانا مسالہ موجود ہے۔ اگر اس کے جمع کرنے میں کسی کو کامیابی ہو گئی تو مورخ اردو کے لیے نئے سوالات پیدا ہوں گے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال نوٹ: اس خط کے کئی سال بعد مولانا محمود شیرانی نے پنجاب میں اردو شائع فرمائی۔ (۱۷)…(۲) لاہور ۹ مئی ۱۹۳۲ء مخدوم من! یورپ میں دکھنی مخطوطات کا نسخہ جو آپ نے بکمال عنایت مجھے مرحمت فرمایا ہے اس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ یہ کتاب اردو زبان اور لٹریچر کی تاریخ میں نہایت مفید ثابت ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ایسی مفید معلومات کا سلسلہ جاری رکھ سکنے میں کامیاب ہوں گے۔ ابھی بہت سا مواد جمع کرنا اور بہت سی کتابوں کے صحیح ایڈیشنوں کا چھپنا باقی ہے تاکہ اردو کے ارتقا کی ایک صحیح تاریخ مدون ہو سکے۔ آپ کا یہ کارنامہ قابل قدر ہے اور میں آپ کو اس کتاب کی اشاعت پر مبارک باد دیتا ہوں۔ مخلص محمد اقبال (۲۸)…(۳) جناب من! کتاب ’’دکن میں اردو‘‘ جو آپ نے بکمال عنایت ارسال فرمائی ہے آج ہی موصول ہوئی۔ شکریہ قبول فرمائیے۔ میں ایک مدت سے علیل ہوں فی الحال اسے پڑھنے اوراس سے مستفید ہونے سے قاصرہوں۔ محمد اقبال لاہور ۱۸ دسمبر ۱۹۳۶ء ٭٭٭ محمد مبین عباسی کیفی چریا کوٹی کے نام (۲۹)…(۱) لاہور ۱۲ اگست ۱۹۱۶ء جناب مولانا کیفی صاحب ایڈیٹر العلم! مخدومی السلام علیکم ۔ رسالہ ’’العلم‘‘ کے لیے ممنون ہوا۔ نہایت عمدہ رسالہ ہے اس کے مضامین تعلیم یافتہ مسلمانوں کے لیے نہایت مفید ہوں گے۔ مضمون الحیوانات فی القرآن نہایت قابلیت سے لکھا گیا ہے جسے میں نے خصوصیت سے پسند کیا۔ اسی مضمون پر ایک مغربی مستشرق نے بھی لکھا ہے جس کا عنوان ہے ’’حیوانات کے نام سامی زبانوں میں‘‘ مجھے یقین ہے کہ آپ کا رسالہ کامیاب ہو گا اور مسلمانوںکے لیے باعث برکت۔ اقبال (۳۰)…(۲) لاہور۔۲۱ ستمبر ۱۹۲۰ء بخدمت جناب حضرت علامہ کیفی چریاکوٹی ایڈیٹر سبحان گورکھپور مخدومی مولانا صاحب زاد کرمہ تسلیم! آپ کی مرسلہ نظم پہنچی۔ میری عزت ہوئی۔ میں اس پر کیا اظہار خیال کروں ہم لوگ آپ کے زلہ ربا ہیں۔ آپ کے خاندان سے ایک عالم فیضیاب ہے اور آپ کی ذات سے ہو رہا ہے۔ آ پ ہمارے رہنما ہیں۔ اس شعر نے خدا جانے مجھے کس عالم میں پہنچا دیا۔ پہچانتا نہیں ہے مجھ آستاں نشیں کو تو نے جو ساتھ چھوڑا اے داغ جہبہ سائی اقبال (۳۱)…(۲) لاہور ۳۸۔۲۔۱۸ جناب علامہ صاحب! آپ کا خط مع نظم موصول ہوا۔ علالت کی وجہ سے ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ کی نظم ایک دوست نے پڑ ھ کر سنائی جس کے لیے میں آپ کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خڈا کرے آپ رسالہ العلم دوبارہ جاری کر سکیں۔ امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ والسلام اقبال ٭٭٭ محمد عمر الدین کے نام (۳۲)…(۱) ۲۲ نومبر ۱۹۳۵ئ۔ ڈیئر محمد عمر الدین! آپ نے جو کتابچہ ارسال فرمایاہے اس کے لیے ممنون ہوں امام غزالی کے فلسفہ اخلاق کا یہ نہایت ہی دلچسپ تذکرہ ہے۔ یہ درست ہے کہ مفکر کو ایک منظم عالم کی ضرورت ہوتی ہے اور اس لیے وہ اخلاقیات اور مابعد الطبیعیات کے نظام قائم کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے لیکن تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ ایک عام فرد کو انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے ایک نظام کی ضرورت ہے۔ اپنے اور اس گروہ کے مفاد کے پیش نظر جس سے وہ وابستہ ہے اسے اس نظام کی حاکمیت پر معترض نہ ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں ااسلام کی قوت تعمیر اقوام کا یہی راز ہے۔ آپ کا مقالہ پر تاثیر و فیض انگیز ہے مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلہ میں مزید تفتیش و تحقیق جاری رکھیں گے۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ ڈاکٹر ۱؎ سید ظفر الحسن کے نام (۳۳)…(۱) لاہور ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء مائی ڈیر ڈاکٹر ظفر الحسن آپ کے شاگرد رشید محمد عمر الدین صاحب نے کچھ عرصہ گزرا مجھے الغزالی پر ایک چھوٹی سی کتاب ارسال فرمائی تھی۔ ان سے کہیے کہ وہ مارگیرڈ سمتھ کی کتاب An early Mystic of Baghdadحارث ابن اسد المحاسبی کا جو چند ماہ قبل شائع ہوئی مطالعہ کریں۔ انہیں چاہیے کہ اس کتاب کا ایک ایک لفظ نہایت غور سے پڑھیں۔ اس کتاب سے انہیںنہ صرف غزالی کی تعلیمات کے سمجھنے میں بڑی مدد ملے گی بلکہ غزالی کی مدد سے مشرق و مغرب کے یہودی اور عیسائی تصوف پر محاسبی کے اثرات کا بھی معقول اندازہ ہو سکے گا۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (انگریزی) (۳۴)…(۲) لاہور ۱۶جولائی ۱۹۳۱ء ۱؎ موضو ع کی مناسبت سے یہ خط یہاں درج کر دیا گیا ہے ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب کے نام گراں قدر مجموعہ دوسرے حصہ میں شائع ہو گا۔ مائی ڈیر ڈاکٹر ظفر الحسن! عنایت نامہ کے لیے ممنون ہوں۔ افسوس ہے کہ مجھے اب تک ہز ہائی نس چترال کی طرف سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ۔ جونہی ان کی طرف سے کوئی اطلاع ملتی ہے میں آپ کو لکھوں گا۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ مولانا شبلی کے نام (۳۵)…(۱) لاہور ۱۲ جنوری ۱۹۱۲ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولوی صاحب السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ملا انجمن کا جلسہ ایسٹر کی تعطیلوں میں ہو گا۔ اگر وہاں کی شمولیت کے بعد میں لکھنو حاضر ہو سکا تو ضرور حاضر خدمت ہوں گا۔ افسوس کہ ڈیپوٹیشن ۱؎ میں شریک ہونے کے لیے قاصر ہوں۔ اگر آپ کا ارشادہو تو میں چوہدری شہاب الدین صاحب بی اے وکیل چیف کورٹ سے دریافت کروں وہ نہایت قابل آدمی ہیں اور اس کام کے لیے اہل ۔ اگریہ پسند نہ ہو تو نواب ذوالفقار علی خاں اس وقت کلکتہ میں ہیں آپ انکو پنجاب کی طرف سے انتخاب کریں اور ان کو لکھ دیں کہ وہ ۲۹ جنوری تک کلکتہ ہی میں ٹھہریں۔ ۱؎ وقف اولاد کمیٹی کی طرف سے وائسرائے کی خدمت میں وفد جانا تجویز ہوا تھا مسٹر محمد شفیع بیرسٹر لاہور بھی اس وقت کلکتہ میں ہیں۔ غالباً وہ بھی آپ کے لکھنے پر ۲۹ جنوری ت وہاں قیام کر سکیں۔ جو تجویز پسند خاطر ہو تو اس کو عمل میں لائیے۔ باقی خیریت ہے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال۔ بیرسٹر لاہور ٭٭٭ سید سلیمان ندوی کے نام (۳۶)…(۱) لاہور یکم نومبر ۱۹۱۶ء مخدومی السلام علیکم! اورئنٹل کالج لاہور میں ہیڈ پرشین ٹیچر کی جگہ خالی ہوئی ہے۔ ا س کی تنخواہ ایک سو بیس روپیہ ماہوار ہے۔ میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اس جگہ کو اپنے لیے پسند فرماتے ہیںؒ۔ اگر ایسا ہو تو آپ کے لیے سعی کی جائے۔ آپ کا لاہور میں رہنا پنجاب والوں کے لیے بے حد مفید ہو گا۔ والسلام۔ آپ کا خادم محمد اقبال بیرسٹر لاہور (۳۷)…(۲) لاہور ۱۲ نومبر ۱۹۱۶ء مخدومی السلام علیکم! مجھے یہ معلو م ہوا تھا کہ آپ ملازمت کوئی قبول نہ کریں گے۔ لیکن سنڈیکیٹ کے بعض ممبروں کی تعمیل ارشاد میں آ پکو لکھنا ضرور تھا۔ کسی قدر خود غرضی کا شائبہ بھی میرے خط میں نہ تھا۔ اور وہ یہ کہ میں چاہتا تھا کہ جس طرح پنجاب والوں کو صوبہ متحدہ کے علماء و فصحا سے ا س سے پیشتر فائدہ پہنچا ہے۔ اب بھ وہ سلسلہ آپ کے یہاں رہنے سے بدستو ر جاری ہے۔ مولانا شبلی مرحوم کی زندگی میں میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح مولانا مرحوم پنجاب میں مستقل طور پر اقامت گزیں ہو جائیں مگر مسلمان امراء میں علمی مذاق مفقود ہو چکا ہے۔ میری کوشش بار آور نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ دارالمصنفین کے کام میں برکت دے اور آپ کا وجو دمسلمانوں کے لیے مفید ثابت کرے! آ پ کی غزل لاجواب ہے بالخصوص یہ شعر مجھے بڑا پسند آیا: ہزار بار مجھے لے گیا ہے مقتل میں وہ ایک قطرہ خوں جو رگ گلو میں ہے مولانا شبلی مرحوم و مغفور نے تاریخٰ واقعات کو نظم کرنا شروع کیا تھا۔ اور جو چند نظمیں انہوںنے لکھی تھیں وہ نہایت مقبول ہوئیں غزل کے ساتھ وہ سلسلہ بھی جاری رکھیے ۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۳۸ٌ…(۳) لاہور ۱۳ نومبر ۱۹۱۷ء مخدومی۔ السلام علیکم !آپ کو نوازش نامہ قوت روح اور اطمینان قلب کا باعث ہے میں ایک مدت کے مطالعہ اور غور و فکر کے بعد انہیں نتائج پر پہنچا ہوں کہ جو آپ کے والا نامے میں درج ہیں۔ جو کام آپ کر رہے ہیں جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اس کا صبر عطا فرمائیں گے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ تصوف کا وجودہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے۔ جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے۔ آپ کو خیر القرون قرنی والی حدیث یاد ہو گی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ میری امت میں تین قرنوں کے بعد سمن ویظہر فیھم السمن کا ظہو ر ہو گا۔ میں نے اس پر دو تین مضامین اخبار وکیل امرتسر میں شائع کیے تھے۔ ج کا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ سمن سے مراد رہبانیت ہے جو وسط ایشیا کی اقوام میں مسلمانوں سے پہلے عام تھی۔ آئمہ محدثین نے جیساکہ آپ کو معلو م ہے یہ لکھا ہے کہ اس لفظ سے مراد عیش پرستی ہے۔ مگر لسانی تحقیق سے محدثین کا خیال صحیح نہیں کھلتا۔ افسوس ہے کہ عدیم الفرصتی اور علالت کی وجہ سے میں ان مضامین کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ میرا تو عقیدہ ہے کہ غلو فی الزہد اور مسئلہ وجود مسلمانوں میں زیدہ بدھ سمنبت مذہب کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ خواجہ نقشبند اور مجدد سرہند ؒ کی میرے دل میں بڑی عزت ہے مگر افسوس ہے کہ آج یہ سلسلہ بھی عجمیت کے رنگ میں رنگ گیا ہے۔ یہی حال سلسلہ قادریہ کا ہے جس میں میں خود بیعت رکھتا ہوں حالانکہ حضرت محی الدین ۱؎ کا مقصود اسلامی تصوف کو عجمیت سے پاک کرنا تھا۔ ۱؎ حضرت محی الدین عبدالقادر گیلانی مولف سے میری مراد ایڈیٹر کتاب الطواسین موسیو میسگان ہے ۔ جس نے فرانسیسی زبان میںطواسین کے مضامین پر حواشی لکھے ہیں۔ انشاء اللہ معارف کے لیے کچھ نہ کچھ لکھوں گا۔ میری صحت بالعموم اچھی نہیں رہتی اس واسطے بہت کم لکھتا ہوں۔ مثنوی اسرار خودی کا دوسرا حصہ یعنی رموز بے خودی (اسرار حیات ملیہ اسلامیہ) قریب الاختتام ہے۔ شائع ہونے پر ارسال کروں گا امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۳۹)…(۴) لاہور ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء مخدومی السلام علیکم! والا نامہ ابھی ملا ہے۔ رموز بے خودی میں نے ہی آپ کی خدمت میں بھجوائی تھی ریویو کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آج مولانا ابوالکلام کا خط آیا ہے انہوںنے بھی میری اس ناچیز کوشش کو بہت پسند فرمایا ہے۔ مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد ٓٓپ استاذ الکل ہیں۔ اقبال آپ کی تنقید سے مستفید ہو گا۔ اسرار خودی کا دوسراایڈیشن تیار کر رہا ہوں عنقریب آپ کی خدمت میں مرسل ہو گی۔ رسالہ ’’صوفی‘‘ میں میںنے کوئی نظم شائع نہیں کی۔ کوئی پرانی مطبوعہ نظم انہوںنے شائع کر دی ہو گی۔ ورنہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ میں ’’صوفی‘‘ کو ’’معارف‘‘ پر ترجیح دوں ’’معارف‘‘ ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔ میں انشاء اللہ ضرور آ پ کے لیے کچھ لکھوں گا ۔ وہ وعدہ کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے آپ سے کیا تھا اور میں اس وقت تک پورا نہیں کر سکا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا والسلام۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۴۰)…(۵) لاہور ۱۰ مئی ۱۹۱۸ء مخدوم مکرم جناب قبلہ مولوی صاحب السلام علیکم! معارف میں بھی آپ کا ریویو (مثنوی رموز بے خودی پر) نظر سے گزرا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ میرے لیے سرمایہ افتخار ہے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے! صحت الفاظ و محاورات کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے ضرور صحیح ہو گا لیکن آپ ان لغزشوں کی طرف بھی توجہ فرماتے تو میرے لیے آپ کا ریویو زیادہ مفید ہوتا۔ اگر آپ نے غلط الفاظ و محاورات نوٹ کر رکھے ہیں تو مہربانی کر کے مجھے ان سے آگاہ کیجیے۔ کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی اصلاح ہو جائے۔ غالباً آپ نے رموز بے خودی کے صفحات پرہی نوٹ کیے ہوں گے اگر ایسا ہو تو وہ کاپی ارسال فرما دیجیے۔ میں دوسری کاپی اس کے عوض میں آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا۔ اس تکلیف کو میں ایک احسان تصور کروں گا۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۴۱)…(۶) مخدومی مولانا السلام علیکم! چند اشعار ’’معارف‘‘ کے لیے ارسال خدمت ہیں۔ ان میں سے جو پسند آئے اسے شائع کیجیے امید کہ آ پ کا مزاج بخیر ہو گا۔ نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا میں ہلاک جادو سے سامری تو قتیل شیوہ آزری میں نوائے سوختہ در گلو تو پریدہ رنگ رمیدہ بو میں حکایت غم آرزو تو حدیث ماتم دلبری مرا عیش غم مرا شہد سم مری بود ہم نفس عدم ترا دل حرم گرد عجم ترا دیں خریدہ کافری تری راکھ میں ہے اک شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر کہ جہاں میں نان شعید پر ہے مدار قوت حیدری کوئی ایسی طرز طواف تو مجھے اے چراغ حرم بتا کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشت سمندری گلہ جفائے وفا نما کر حرم کو اہل حرم سے ہے کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم وہ گدا تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغ سکندری والسلام مخلص محمد اقبال لاہور ۳ ۲ مئی ۱۹۱۸ء (۴۲)…(۷) لاہور ۸ ستمبر ۱۹۱۸ء مخدومی السلام علیکم! ’’رموز بے خودی‘‘ کی لغزشوں سے آگاہ کرنے کا وعدہ آپ نے کیا تھا۔ اب تو ایک ماہ سے بہت زیادہ عرصہ ہو گیا امید کی توجہ فرمائی جائے گی تاکہ میں دوسرے ایڈیشن میں آپ کے ارشادات سے مستفید ہو سکوں۔ وساتیر کے حوالوں کے متعلق آ پ نے لکھا تھا۔ اس وقت اورئنٹل کالج لاہور کا کتب خانہ بند تھا۔ اور اب بھی بند ہے ۔ اکتوبر میں کھلے گا۔ اگر کچھ حوالے دستیاب ہو گئے تو عرض کروں گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال روس کے مسلمانوں کے متعلق جو مضمون معارف میں شائع ہوا ہے اسے ایک علیحدہ رسالے کی صورت میں شائع کرنا چاہیے۔ محمد اقبال (۴۳)…(۸) لاہور ۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء مخدوم مکرم جناب مولانا السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے جس کے لیے نہایت ممنون ہوں۔ مجھے ا س سے بہت فائدہ پہنچے گا۔ میں چند روز کے لیے شملہ گیا تھا۔ وہاں معلوم ہواکہ آ پ بھی وہاں تشریف رکھتے ہیں۔ افسوس ہے کہ آ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ مجھے ایک ضروری کام درپیش تھا جس میں مصروفیت رہی۔ البتہ معنوی طور پر آ پ کی صحبت رہی کیونکہ رات کوسیرت نبویؐ کا مطالعہ رہتا تھا۔ مولانا مرحوم نے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہے جس کا صلہ دربار نبوی سے عطا ہو گا۔ قوافی کے متعلق جو کچھ آ پ نے تحریر فرمایا ہے بالکل بجا ہے۔ مگر چونکہ شاعری اس مثنوی ۱؎ سے مقصود نہ تھی ا س واسطے میں ںے بعض باتوں میں عمداً تساہل برتا۔ اس کے علاوہ مولانا روم کی مثنوی میں قریباً ہر صفحہ پراس قسم کے قوافی کی مثالیں ملتی ہیں اور ظہوری کے ساقی نامہ کے چند اشعاربھی زیر نظر تھے۔ غالباً اور مثنویوں میں بھی ایسی مثالیں ہوں گی۔ اصول تشبیہہ کے متعلق کاش آ پ سے گفتگو ہو سکتی! قوت واہمہ کے عمل کی رو سے بیدل اور غنی کا طریق زیادہ صحیح معلوم ہوتاہے ۔گو کتب بلاغت کے خلاف ہے زمانہ حال کے مغربی شعراء کابھی یہی طرز عمل ہے۔ تاہم آپ کے ارشادات نہایت مفید ہیں اور میں ان سے مستفید ہونے کی پوری کوشش کروں گا۔ ۱؎ اسرار خودی بحر تلخ ر و کلمہ بسکون لام باریک تر از جو (بمعنی کم در عرض وعمق) کوری ذوق محفل از ساغر رنگین کردن‘ سرمہ او دیدہ مردم شکست‘ ساز برق آہنگ‘ ازگل غربت (بمعنی شر) نوابالیدن صبح آفتاب‘ اندر قفس وغیرہ۔ کی مثالیں اساتذہ میں موجود ہیں۔ مگر اس خیال سے کہ آ پ کا وقت ضائع ہو گا نظر انداز کرتا ہوں۔ البتہ اگر آپ اجازت دین تو لکھوں گا۔ محض یہ معلوم کرنے کے لیے کہ میں نے غلط مثالیں تو انتخاب نہیںکیں۔ ایک امر دریافت طلب ہے اس سے آگاہ فرما کر ممنون کیجیے قطرہ از نرگس شہلاستی پر جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا ہے میں نہیں سمجھ سکا۔ کیا آپ کا مقصود یہ ہے کہ قطرہ کا لفظ شہلا کے لیے یعنی قطرہ شہلا موزوں نہیں یا کچھ اور ؟ علی ہذا القیاس خیمہ برزد درحقیقت از مجاز نعرہ زدشیرے از دامان دشت باز بانت کلمہ توحید خواند کے متعلق بھی یہی سوال ہے۔ امید ہے کہ آ پ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اس طویل خط کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ مخلص محمد اقبال (۴۴)…(۹) لاہور ۱۰ نومبر ۱۹۱۸ء مخدومی‘ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ! کئی روز ہوئے ایک عریضہ خدمت عالیہ میں لکھا تھا جواب سے ہنوز محروم ہوں۔ خیمہ برزد از حقیقت و مجاز کے متعلق آ پ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ’’از‘‘ میں تجاوز کا مفہو م نہیں ہے کیونکہ خیمہ برزدن کے معنی قیام کرنے کے ہیں۔ میں تلاش میں تھا کہ کوئی سند مل جائے جیسا کہ میں نے گزشتہ خط میں عرض بھی کیا تھا آج کلیات سعدی کی وہ سند مل گئی جو ارسال خدمت ہے: صوفی از صومعہ گو خیمہ بزن در گلزار وقت آن نیست کہ درخانہ نشینی بیکار بصیریؒ کو چادر عطا ہونا کئی روایات میں آیا ہے۔ گزشتہ خط میں اس کا حوالہ لکھنا بھول گیا تھا مولوی ذوالفقار علی دیو بندی نے شرح قصیدہ بردہ میں منجملہ اور روایات کے یہ روایت بھی لکھی ہے کہ مطلع فرمائیے کہ جو اسناد میں نے اپنے خطوط میں لکھے ہیں ان کی نسبت آ پ کی کیا رائے ہے الفاظ ’’ورثہ‘‘ اور ’’خیال‘‘ کے متعلق بھی عرض کروںگا۔ امید کہ آ پ کا مزاج بخیر ہوگا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال (۴۵)…(۱۰) لاہور ۲۳ اکتوبر ۱۹۱۸ء مخدومی السلام علیکم! آپ کے دونوں نوازش نامے مل گئے ج کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں بخار میں مبتلا تھا اس لیے جواب نہ لکھ سکا۔ اس کے علاوہ ٹیک چند بہار کی ابطال ضرورت میرے پاس لاہور میں موجود نہ تھی۔ اس رسالہ میں لفظ کلمہ پر بحث ہے۔ دیکھ کر جواب عرض کروں گا اور باقی اسناد بھی لکھوں گا۔ ’’سیر ‘‘ فارسی میں ان معنوںمیںآتا ہ کہ سیر کردن‘ سیر زدن‘ سیرداشتن بلکہ سیر دیدن بھی: عمر ہا صائب بشہر عقل بودم کوچہ بند مدتے ہم باغزالاں سیر صحرامی زنم مخلص کاشی تماشا دارد اے مہ با تو سیر گلستان کردن کہ از شرم رخت ہر گل بچنیدن رنگ خواہد شد لفظ ’’نعرہ‘‘ حیوانات کی آواز کے لیے بھی آتا ہے۔ اس وقت نعرہ اسپ کی سند موجود ہے۔ اور مجھے یاد ہے کہ شیر کے لیے بھی مستعمل ہوا ہے۔ انشاء اللہ عرض کروں گا مگر میں نے اور وجوہ سے اس شعر میں ترمیم کر دی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ غریدن بہت بہتر ہے۔ دشت اور بیشہ مرادف بھی آتے ہیں۔ اور دشت کے لیے ضروری نہیں کہ بالکل خشک ہو: مپرس از آب و رنگ کوہسارش ہزاراں دشت لالہ داغدارش یحییٰ شیرازی دشت در معنی آبادی و ریرانہ آتا ہے۔ اور معنی کلیت کے پیدا کرتاہے۔ مگر اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں کہ میں نے ہر دو اشعار زیر بحث میں ترمیم کر دی ہے۔ دشت دور ایسا ہی ہے جیسے کوہ و دشت پست و بلند سے تقطیع نہیں گرتی۔ آپ نے مصرع صحیح نہیں لکھا نعرہ زدشیرے در دامان دشت نہیںبلکہ نعرہ زد شیرے از دامان دشت ہے باقی باتیں انشاء اللہ دوسرے خط میں عرض کروں گا۔ جس توجہ سے آپ نے تنقیدی خطوط لکھنے کی زحمت گوارا فرمائی ہے اس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال ‘ لاہور (۴۶)…(۱۱) لاہور ۳۰ اکتوبر ۱۹۱۸ء مخدومی‘ السلام علیکم! اسناد حسب وعدہ حاضر ہیں: ۱۔ از گل غربت زماں گم کردہ (رموز) آپکا ارشاد اس مصرع پر تھا کہ ازگل بمعنی دولت اچھے معنوں میں آتا ہے برے معنوں میں نہیں آتا۔ بہار عجم میں زیر لفظ ’’گل‘‘ یہ محاورہ بھی دیا ہے اور اشعار بھی دیے ہیں زیردت چرخ بودن از گل بے فطرتی ست ۲۔ محفل رنگ بیک ساغر کند (رموز) نہ ہفتاد و دو ملت گردش چشم تومی سازد بیک پیمانہ رنگیں کردہ یک شہر محفلہا (ناصر علی) ۳۔ سرمہ او دیدہ مردم شکست (رموز) چشم و گوش شکستن یعنی نابینا شدن (بہار عجم) ترسم زگریہ چشم گہر بار بشکند (صائب) ۴۔ عشق را داغے مثال لالہ بس در گریبانش گل یک نالہ بس (رموز) گل نالہ پر آپ کا ارشادتھا: چنگے بتار نٹمہ قانون شیرزن گلبرگ نالہ بگریبان دل فشاں (زلالی) ۵۔ ز آسمان آبگوں یم می چکد من زجو باریک ترمی سازمش (رموز) لفظ باریک پر آپ کا ارشاد تھا کہ صحیح نہیں باریک بمعنی کم و در عرض و عمق بھی آیا ہے: نازک تراست از رگ جاں گفتگوئے سن باریک شد محیط چو آمد بجوئے من (صائب) از تواضع می تواں مغلوب کردن خصم را می شود باریک جو سیلاب از پل بگذرد ۶۔ کور ذوقاں دااستانہا ساختند (رموز) کور ذوق کی نسبت آپ کاارشا د تھا کہ بے مزہ ترکیب ہے۔ چہ غم دیں عروس سخن رابتر کہ برکور ذوقاں شود جلوہ گر (ظہوری) کور ذوقاں زفیض تربتیت چوں مسیحا مزا جدان سخن (ملاطغرا) ۷۔ نوا بالیدن تانوائے یک اذاں بالیدہ است (رموز) تاچند ببالد نفس اندود نوایم (بیدل) ۷۔ بحر تلخ رو بود بحر تلخ رویک سادہ دشت (رموز) تلخ رو بحر کی صفات میں آتا ہے۔ (بہار عجم) ۹۔ نعرہ زد شیرے اد امان دشت (رموز) منجملہ اور ارشادات کے ایک یہ ارشاد تھا کہ لفظ نعرہ شیر کے لیے ٹھیک نہیں بہار عجم میںایک شعر دیا ہے جس میں نعرہ اسپ لکھا ہے: بابر ماند چوپے برنہاد و نعرہ کشاد (معزفطرت) ۱۰۔ ساز برق آہنگ او ننواختہ (رموز) آپ کا ارشاد تھا کہ ساز برق صحیح نہیں۔ لیکن مصرع میں ساز کی صفت برق آہنگ ہے۔ اور برق آہنگ ساز کی صفت آتی ہے۔ بہار عجم زیر لفظ ساز ۱۱۔ ہم چو صبح آفتاب اندر قفس (رموز) آپ کا ارشاد تھا کہ صبح کے لیے آفتاب کی کیا ضرورت ہے۔ یہ ترکیب مرزا بیدل کی ہے ۔ میں نے اس کے لیے محل استعمال نیا پیدا کیا ہے۔ یعنی کعبتہ اللہ کے گرداگرد جب ملت بیضا نماز پڑھتی ہے یا طواف کرتی ہے تو یہ نظارہ صبح آفتاب در قفس سے مشابہ ہے: ملت بیضا بہ طوفش ہم نفس ہم چو صبح آفتاب اندر قفس ۱۲۔ اے بصیری را روا بخشندہ (رموز) بصیریؒ کے متعلق بھی یہی واقعہ مشہور ہے فر ق صرد اس قدر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بصیریؒ کو جو جذام میں مبتلا تھا اپنی چادر مطہر خواب میں عطا فرمائی تھی جس کے اثر سے اس نے جذام سے نجات پائی۔ بعض لوگوں میں قصیدہ بصیریؒ قصیدہ بردہ کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۳۔ من شبے صدیقؓ را دیدم بخواب گل زخاک راہ او چیدم بخواب دوسرے مصرع پر آپ کا ارشاد تھا کہ مطلب زیادہ واضح ہونا چاہیے او رگل زخاک راہ او چیدم کا کیا مطلب ہے ۔ یہ واقعہ خواب کا ہے جو خواب میں دیکھا گیا۔ بقیہ اسی طرح نظم کر دیا گیا ہے۔ ۱۴۔ باز بائت کلمہ توحید خواند ۔ لفظ کلمہ کے متعلق بھی لکھوں گا۔ افسوس ہے کہ ابطال ضرورت دستیاب نہیں ہوئی۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ اس رسالہ میں اس لفظ پر بحث ہے۔ بہت سے الفاظ جن کو اساتذہ نے تحریک و بہ سکون دونوں طرح استعمال کیا ہے انہوںنے کمی کر دی ہے۔ مثلاً رب ارنی‘ رمضان‘ حرکت متوازی و قران وغیرہ۔ اس کا بہ سکون استعمال ہونا یقینی ہے۔ اسناد انشاء اللہ عرض کروں گا ۔جواہرالترکیب میں چار دفعہ بہ سکون لام آیا ہے۔ ۱۵۔ فرد و قوم آئینہ یک دیگراند ہم خیال و ہم نشین و ہمسراند (رموز) لفظ ہم خیال کی نسبت آ پ کو شبہ تھا: یاد ایا میکہ باہم آشنا بودیم ما ہم خیال و ہم صفیر و ہم نوا بودیم ما لیکن میںنے یہ لفظ شعر سے نکال دیا ہے: ۱۶۔ بائے بسم اللہ (حضرت علیؓ کے لیے ) قاآنی نے لکھا ہے اورمیم مروت مولانا جامی نے تحفتہ الاحرار میں لکھا ہے۔ میں نے میم مرگ لکھا تھا۔ ۱۷۔ قوافی کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا تھا صحیح ہے۔ قاعدہ یہی ہے کہ جو آپ تحریر فرماتے ہیں مولانا روم ان باتوں کی پروا نہیں کرتے۔ ظہور ی کے دو شعر جو زیر نظر تھے عرض کرتا ہوں: گل شو از آب و گل بردمد برقاصی از سینہ دل جہد چو از چشم جادو بجا دو رود با عجاز پہلو بہ پہلو زند دوسرا شعر کسی قدر مشتبہ ہے۔ کوئی اور ایڈیشن ساقی نامہ کی دسیتاب نہیں ہوئی۔ ورنہ مقابلہ کرتا۔ بہرحال قاعدہ کی خلاف ورزی کے لیے بغٰر اگر شعر لکھا جا سکتا ہوتو قاعدہ توڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ انشاء اللہ ان قوافی پر نظر ڈالا کروں گا۔ ۱۸۔ ورثہ دورہ خیال وغیرہ کے متعلق آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے۔ لیکن ان الفاظ کے متعلق پھر بھی کچھ عرض کروں گا۔ ۱۹۔ شاہ رمز آگاہ شد محو نماز خیمہ بر زد از حقیقت در مجاز نعرہ زد شیرے از دامان دشت دشت و دراز ہیبتش لرزندہ گشت ان اشعار کے متعلق جو کچھ آپ کا ارشاد ہے اس سے مولوی اصغر علی روحی پروفیسر اسلامیہ کالج لاہور اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن فی الحال ان پیش کردہ اسناد سے مجھے تسکین نہیں ہوئی۔ دوچار روز تک نتیجہ عرض کروں گا۔ ان اسناد کو ملاحظہ فرمائیے اوربتائیے کہ کون سی صحیح اور کون سی غلط ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا مخلص محمد اقبال‘ لاہور (۴۷)…(۱۲) لاہور دوسری دسمبر ۱۹۱۸ء مخدومی‘ السلام علیکم! والا نامہ مل گیا ہے۔ حالات معلوم ہونے پر طبیعت بہت متاثر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان قلب عطا فرمائے آپ کا یہ فقرہ کہ میرے ساتھ خدا کا معاملہ عجیب ہے۔ گویا تمام ملت مرحومہ کے احساسات کا ترجمان ہے۔ جو قوم ایک مشن لے کر پیدا ہوئی ہے اس کی روحانی تربیت کے لیے ابتلا کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیںہے۔ ایک انگریزی مصنف جسے ابتلا کے دور رس نتائج کا تجربہ ہو چکاہے لکھتا ہے کہ دکھ دیوتائوں کی ایک رحمت عظیم ہے تاکہ انسان زندگی کے ہر پہلو کامشاہدہ کر سکے۔ آپ امت محمدیہ کے خاص افراد ہیں اور اس مامور من اللہ قوم کے خاص افراد ہی کو امر الٰہی ودیعت کیا گیا ہے۔ فرقہ یاسیہ کو چھوڑ کر فرقہ رجائیہ میں آ جائیے جس حقیقت کو آپ زیر پردہ رہ دیکھ چکے ہی اس کی بے نقابی کا زمانہ قریب ہے ۔ انشاء اللہ! زمانہ باز بیفروخت آتش نمرود کہ بے نقاب شود جوہر مسلمانی شخصی اعتبار سے مجھے آپ کے ساتھ حد درجہ ہمدردی ہے ۔ یقین جانیے کہ آپ کے الفاظ نے میرے دل پر سوز و گداز کی کیفیت طاری کر دی اور مین دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آلام و مصائب میں استقامت عطا فرمائے۔ ہاں ترجمہ کی داد دیتا ہوں لٹریری اغراض کے لیے یہ ترجمہ نہایت عمدہ ہے میرے خیال میں اس سے بہتر الفاظ نہ مل سکیں گے۔ البتہ فلسفیانہ اغراض کے لیے ایک شاید اور الفاظ وضع کیے جائیں تو بہتر ہو گا۔ پنجاب میں بھی بیماری ۱؎ نے غضب ڈھایا۔ لاہور میںتو چندروز یہ حالت رہی کہ گورکن بھی نہ مل سکتے تھے امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ۱؎ گزشتہ بڑی جنگ کے بعد انفلوئنزا کی سخت مہلک وبا نمودار ہوئی تھی۔ (۴۸)…(۱۳) لاہور ۲۳ مارچ ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم! ایک عرصہ سے آپ کی خیریت معلوم نہیں ہوئی۔ معارف میں حضرت مولانا محمود الحسن صاحب قبلہ کا ایک خط شائع ہو ا ہے جس میں انہوںنے طرفہ کا ایک مقبول عربی شعر نقل کیا ہے کیا آپ یہ بتانے کی زحمت گوارا کر سکتے ہیں کہ یہ خط مالطہ سے کونسی تاریخ کو لکھا گیا تھا صاحب مضمون نے خط کی تاریخ نہیں بتائی امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال (۴۹)…(۱۴) لاہور ۳ اپریل ۱۹۱۹ء مخدومی ‘ السلام علیکم! والا نامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ الحمد اللہ کہ مولانا آزاد کو آزادی ۱؎ ملی۔ کف بطن میں بالخصوص آج کل صحو ہی کی ضرورت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کی تربیت اسی حال میں خی تھی ’’سکر‘‘ کی حالت عمل کی دشوار منزل کو طے کر لینے کے بعد ہو تو مفید ہے باقی حالات میں اس کا اثر روح پر ایسا ہی ہے جیسا کہ افیون کا جسم پر۔ مولانا آزاد اب کہاں ہیں؟ ۱؎ مولانا ابوالکلام آزاد رانچی کی نظر بندی سے جنگ عظیم کے بعد رہا ہوئے تھے۔ پتہ لکھیے کہ ان کی خدمت میں عریضہ لکھوں۔ میری خامیوں سے مجھے ضرور آگاہ کیا کیجیے۔ آپ کو زحمت تو ہو گی لیکن مجھے فائدہ ہو گا بادہ نارسا ۱؎ کے لیی مجھے کوئی سند یاد نہیں۔ بادہ نارس یا میوہ نارس (بمعنی خام) لکھتے ہیں لفظ مینار غلط ہے۔ صحیح لفظ منار (بغیری کے ہے) یہ الفاظ ااس زمانہ کی نظموں میں واقع ہوئے ہیں جس زمانہ مں میں سمجھتا تھا کہ لٹریچر میں ہر طرح کی آزادی لے سکتے ہیں یہاں تک کہ بعض نظموں میںمیں نے اصول بحر کا بھی خیال نہیں کیا اور ارادتہً۔ مجموعہ ۲؎ اب تک مرتب نہ ہو سکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب ان تمام لفظوں پر نظر ثانی کرنا چاہتا ہوں جس کے لیے فرصت نہیں ملتی۔ انشاء اللہ بعد از نظر ثانی شائع کروں گا۔ اگرچہ مقصود اس شعر گوئی کا نہ شاعری ہے نہ زبان مولانا گرامی جالندھری شاعر حضور نظام نے ایک غزل لکھ کر ڈاک میں ارسال کی ہے۔ جس کے اشعار عرض کرتا ہوں پسند ہوں تو معارف میں شائع کیجیے: پنہانم و پیدانم کیفم بشراب اندر پیدایم و پنہایم داغ بکباب اندر دیباچہ بودم ہیچ انگیز وجودم ہیچ مضمون خیالم من پیچیدہ بخواب اندر آں نکتہ کہ عارف را آور بوجداین است جاں ہست بجسم اندر دریا بہ حباب اندر ۱؎ یہ دو غلط لفظ اقبال نے استعمال کیے تھے۔ ۲؎ میرا بار بار اصرار تھا کہ اردو نظموں کا مجموعہ چھپوا دیجیے۔ یہی مجموعہ بانگ درا کے نام سے چھپا ہے۔ از موسی من می پرس از غیر چہ می پرسی شوقم بسوال اندر ذوقم بجواب اندر رمزیست حکیمانہ می خوانم دی رقصم خوابست بمرگ اندر مرگ ست بخواب اندر در کشمکش لائیم در جذبہ الائیم ہیچیم وہمہ مائیم چوں عکس بآب اندر دیدیم گرامی را در خلد بریں امشب ابلہ بہ بہشت اندر دانا بعذاب اندر مخلص محمد اقبال ‘ لاہور (۵۰)…(۱۵) لاہور ۲۶ اگست ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم! معارف میں ابھی تصوف و تناسخ پر ایک مضمون نظر سے گزرا۔ ہندوستان ریویو میں بھی میں نے یہ مضمون دیکھاتھا۔ خیر علمی اعتبار سے تو اس کی وقعت کچھ بھی نہیں۔ البتہ ایک بات آپ سے دریافت طلب ہے ہم چو سبزہ بارہا روئیدہ ام کی نسبت آپ نے لکھا ہے کہ یہ مولانا کا شعر ہے مجھے ایک عرصہ سے اس میں تامل ہے۔ مثنوی کبھی شروع سے لے کر آخر تک پڑھنے کا اتفاق نہیںہوا۔ مگر ایک قابل اعتبار بزرگ نے قریباً چار سال ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ یہ شعر مولانا کا نہیں ہے۔ اورنہ مثنوی میں ہے اگر مثنوی کے کسی ایڈیشن میںیہ شعر آپ کی نظر سے گزرا ہو تو مہربانی کرکے ایڈیشن اور صفحہ کا حوالہ دے کر ممنون فرمائیے ۱؎۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال۔ لاہور (۵۱)…(۱۶) لاہور ۱۷۔ ستمبر ۱۹۱۹ء مخدومہ السلام علیکم! والانامہ کئی دنوں سے آیارکھا ہے مگر میں لاہور میں نہ تھا۔ اس واسطے جواب میں تاخیر ہوئی معاف فرمائیے گا۔ یہ شعر گلشن راز کا نہیں ہو سکتا۔ اس کی بحر اور ہے۔ یقیں داند کہ ہستی جزیکے نیست انشاء اللہ معارف کے لیے کچھ نہ کچھ لکھوں گا۔ کئی ماہ کے لیے صرف تین شعر لکھے تھے نقیب ۲؎ کا عرصہ سے تقاضا تھا کہ اس کے لیے بھیج دیے۔ میں تو اپنے اشعار کو چنداں وقعت نہیں دیتا۔ لیکن جب ایڈیٹر معارف ان کے لیے تقاضا کرتے ہیں تو شبہ ہوتا ہے کہ شاید ایسا ہی کچھ ہو۔ ۱؎ یہ شعر مولانا کی مثنوی میں نہیں ہے۔ مولانا کے کلیات میں ہے۔ ۲؎ نقیب نام کا ایک رسالہ بدایوں سے نکلتا تھا۔ حیدر آباد کے متعلق مجھے علم نہیں افواہاً میں نے کئی دفعہ سنا ہے کہ وہاں اقبال کا تذکرہ ہے۔ مگر مجھ تک کبھی کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں آئی نہ میں نے خود کوئی درخواست آج تک کی۔ مخلص محمد اقبال ‘ لاہور (۵۲)…(۱۷) لاہور ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ! دوسرے صفحہ ر چند اشعار معارف کے لیے لکھتا ہوں۔ مدت سے یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی تھی گزشتہ رات زکام کیوجہ سے سو نہ سکا۔ یہ تاثرایک چھوٹی سی تضمین کی صورت میں منتقل ہو گیا۔ درد سر نے زیادہ شعر نہ لکھنے دیے۔ اور نہ طبیعت پر زیادہ نہ زور دے سکا۔ معلوم نہیں کہ آپ کا اس بارہ میں کیا خیال ہے۔ واقعات صاف اور نمایاں ہیں مگر ہندوستان کے سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھتے اور لندن کے شیعوں ۱؎ کے اشارہ پر ناچتے چلے جاتے ہیں۔ افسوس مفصل عرض نہیں کر سکتا کہ زمانہ نازک ہے۔ بہرحال اگر یہ اشعار آپ کو پسند نہ ہوں یا رسالہ معارف کے لیے آپ انہیں موزوں نہ تصور فرمائیں تو واپس بھیج دیجیے۔ مسئلہ تصویر پر آپ نے خوب لکھا اوراصول تشریعی واضح کرکے کئی اورمسائل کو بالکنایہ حل کر دیا۔ للہ درک! ۱؎ اشارہ ہز ہائی نس آغا خاں کی طرف ہے مجلس خلافت کی بنیاد اسی طرح پڑی تھی یعنی یہ کہ آغا خاں نے منشی مشیر حسین صاحب قدوائی مرحوم بیرسٹر کوآمادہ کیا اور انہوںنے مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محلی کو لکھ کر آمادہ کیا۔ اس خط کو پرائیویٹ تصور فرمائیے: بہت آزمایا ہے غیروں کو تو نے مگر آج ہے وقت خویش آزمائی نہیں تجھ کو تاریخ سے آگہی کیا؟ خلافت کی کرنے لگا تو گدائی خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلمانوں کو ہے ننگ وہ پادشائی مرا از شکستن چنیں عار ناید کہ از دیگراں خواستن مومیائی عنوان ان اشعار کا آپ خود تجویز کر لیں اصل فارسی شعرمیں دیگراں کی جگہ ناکساں ہے میں نے یہ لفظی تغیر ارادتہً کیا ہے۔ مخلص محمد اقبال (۵۳)…(۱۸) لاہور ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم! نوازش نامہ ملا عنوان جو آپ نے تجویز فرمایا ہے ٹھیک ہے تبصرہ کے متعلق میں بھی یہی مشورہ دوں گا کہ میرا مجموعہ شائع ہو لے تو لکھیے۔ فی الحال میں ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب ۱؎ لکھ رہا ہوں جس کا قریباً نصف حصہ لکھا جا چکا ہے۔ کچھ نظمیں فارسی میں ہوں گی کچھ اردو میں۔ کلام کا بہت سا حصہ نظر ثانی کا محتاج ہے۔ لیکن اور مشاغل اتنی فرصت نہیں چھوڑتے کہ ادھر توجہ کر سکوں۔ تاہم جو کچھ ممکن ہے کرتاہوں۔ ۱؎ پیام مشرق کی تلالیف کی اطلاع شاعری میں بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظرنہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس اس بات کو مدنظر رکھکر کہ جن خیلات کو مفید سمجھتا ہوں ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیاعجب کہ آئندہ کی نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں اس وسطے کہ آرٹ (فن) غایت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے۔ اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں۔ جرمنی کے دو بڑے شاعر بیرسٹر تھے یعنی گوئٹے اوراوہلنڈ گوئٹے تھوڑے دن پریکٹس کے بعد ویمر کی ریاست کا تعلیمی مشیر بن گیا اور ا س طرح فن کی باریکیون کی طرف توجہ کرنے کا اسے پورا موقع مل گیا۔ اوہلنڈ تمام عمر مقدمات پر بحث کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت تھوڑی نظمیں لکھ سکا اوروہ کمال پورے طور پر نشوونما نہ پا سکا جو ا س کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ غرض یہ کہ موجود ہ حالات میں میرے افکار اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی تنقید کے لیے سید سلیمان کا دل و دماغ صرف ہو لیکن اگر احباب تبصرہ پر مصر ہیں تو یہی بہتر ہو کہ مجموعہ کا انتظارکیا جائے۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے دل و دماغ کی سرگشت بھی مختصڑ طور پر لکھنا چاہتا ہوں۔ اور یہ سرگزشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خیالات ا س وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق لوگوں کے دلوںمیں ہیں اس تحریر سے ان میں بہت انقلاب پیدا ہو گا۔ کاش یاجوج ماجوج پر آپ کوئی مضمون لکھتے یہ امر تحقیق کا محتاج ہے زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۵۴)…(۱۹) لاہور ۱۰ نومبر ۱۹۱۹ء مخدومی السلام علیکم کئی دنو ں سے آپ کو خط لکھنے کا قصد کر رہا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ موکلین وکلا کے پاس جب مقدمات کی پیشی کے لیے آتے ہیں تو ان میں سے بعض پھل پھول مٹھائی کی صورت میںہدیہ لے آتے ہیں۔ یہ ہدایا فیس مقررہ کے علاوہ ہوتے ہیں اوروہ لوگ اپنی خوشی سے لاتے ہیں۔ کیا یہ مال مسلمان کے لیے حلال ہے؟ مولانا ابوالکلام آزاد کا تذکرہ آپ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ بہت دلچسپ کتا بہے۔ مگر دیباچہ میں مولوی فضل الدین ۱؎ احمد لکھتے ہیں کہ اقبال کی مثنویاں تحریک الہلال ہی کی آواز بازگشت ہیں شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ جو خیالات میں نے ان مثنویوں میں ظاہر کیے ہیں ان کو برابر ۱۹۰۷ء سے ظاہر کر رہا ہوں۔ اس کے شواہد میری مطبوعہ تحریریں نظم و نثر و انگریزی و اردو موجود ہیں۔ جو غالباً مولوی صاحب کے پیش نظر نہ تھیںَ بہرحال اس کا کچھ افسوس نہیں کہ انہوںںے ایسا لکھا۔ مقصود اسلامی حقائق کی اشاعت ہے۔ نہ نام آوری۔ البتہ اس با ت سے مجھے رنج ہوا کہ ان کے خیال میں اقبال تحریک الہلال سے پہلے مسلمان نہ تھا۔ تحریک الہلال نے اسے مسلمان بنا دیا ہے۔ ان کی عبارت سے ایسا خیال مترشح ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا مقصو دیہ نہ ہو۔ ۱؎ مولوی فضل الدین احمد اس زمانہ میں گویا الہلال اور الہلال پریس کے مینجر تھے۔ میرے دل میں مولانا ابو الکلام کی بڑی عزت ہے اوران کی تحریک سے ہمدردی مگر کسی تحریک کی وقعت بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اوروں کی دل آزاری کی جائے۔ وہ لکھتے ہیںکہ اقبال کے جو مذہبی خیالات اس سے پہلے سنے گئے ان میں اور مثنویوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ معلوم نہیں انہوںنے کیا سنا تھا۔ اور سنی سنائی بات پر اعتبار کر کے ایسا جملہ لکھنا جس کے کئی معنی ہو سکتے ہوں۔ کسی طرح ان لوگوں کے شایان شان نہیں جو اصلاح کے علم بردار ہوں۔ مجھے معلوم نہیںکہ مولوی فضل الدین احمد صاحب کہاںہیں ورنہ موخر الذکر شکایت براہ راست ان سے کرتا۔ اگر آ پ سے ان کی ملاقات ہو تو میری شکایت ان تک پہنچائیے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام۔ آپ کا خادم محمد اقبال۔ لاہور (۵۵)…(۲۰) لاہور ۱۰ اکتوبر ۱۹۲۰ء مخدومی السلام علیکم! مراجعت ۱؎ مع الخیر مبارک ! آپ نے بڑا کام کیا ہے جس کا صلہ قوم کی طرف سے شگر گزاری کی صور ت میں مل رہاہے۔ اور دربار نبویؐ سے نہ جانے کس صورت میں عطا ہو گا۔ وزرائے انگلستان کا جواب وہی ہے جو ان حالات میں دیا گیا ہے۔ ۱؎ مکتوب الیہ (سلیمان) کے سفر یورپ سے واپسی پر انومن ؎۱ لبشرین مثلنا و قومہمالنا عبدون تاہم مجھے یقین ہ کہ ہندی وفد کا سفر یورپ بڑے اہم نتائج پیدا کرے گا۔ امید ہے کہ آپ کی صحت اچھی ہو گی۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال (۵۶)…(۲۱) لاہور ۲۳ دسمبر ۱۹۲۰ء مخدومی السلام علیکم! سیر ۃ عائشہؓ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ یہ ہدیہ سلیمانی نہیں سرمہ سلیمانی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔ خدا تعالیٰ جزائے خیر دے۔ یہ معلوم کرکے بڑا تعجب ہوا کہ حمیرا والی سب احادیث موضاعات میں ہیں کیا کلمینی یا حمیرا بھی موضوع ہے؟ کمال کا شعر کیا مزے کا ہے: ایں تصرف ہائے من در شعر من کلمینی یا حمیرائے من است زیادہ کیا عرض کروں امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ۱؎ یہ قرآن پاک کی آیت اس موقع کی ہے جب فرعون نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارون علیہم السلام پر ایمان لانے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ دونوں عام بشر تھے اور ان کی قوم فرعون کی غلام رعایا میں تھی۔ اس آیت کا ترجمہ بھی یہی ہے۔ (۵۷)…(۲۲) لاہور ۵ اکتوبر ۱۹۲۱ء مخدومی تسلیم! ستمبر کا معارف ابھی نظر سے گزرا ہے۔ اس میں مسٹر ڈکنسن کے ریویو (اسرار خودی) کا ترجمہ آپ نے شائع کیا ہے۔ ترجمہ مذکور کا ایک ایک فقرہ یہ ہے اقبال ان تمام فلسفوں کے دشمن ہیں جو شے واجب الوجود کو تسلیم کرتے ہیں صفحہ ۲۱۴۔ اگر آپ کے پاس رسالہ نیشن Nation موجود جس میں انگریزی ریویو شائع ہوا تھا تو میں اسے دیکھناچاہتا ہوں مہربانی کر کے ایک آدھ روز کے لیے بھیج دیجیے۔ مجھے ایسا خیال ہے کہ غالباً مذکورہ بالا فقرہ اس ریویو میں نہیں ہے۔ یا اس کی جگہ کچھ اور ہے۔ مقصود یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں ترجمہ میں سہو تو نہیں ہو گیا۔ کیا حکمائے صوفیہ اسلام میں سے کسی نے زمان و مکان کی حقیقت پر بھی بحث کی ہے ؟ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال مولوی عبدالماجد صاحب کا پتہ معلوم نہ تھا اس واسطے آپ کو زحمت دی گئی۔ محمد اقبال ۱؎ مولوی عبدالماجد صاحب ان دنوں معارف کے شریک ایڈیٹر تھے۔ (۵۸)…(۲۳) مخدومی السلام علیکم ! پوسٹ کارڈ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں کیا کتب خانہ بانکی پور سے کتاب عاریتہ مل سکتی ہے۔ میںاس کتابکے دیکھنے کامدت سے خواہش مند ہوں۔ انگلستان اور یورپ میں تو کتابیں عاریتہ مل سکتی ہیں معلوم نہیں کہ اس لائبریری کا کیا قاعدہ ہے۔ شاید پنجاب یونیورسٹی کی معرفت لکھنے سے مل جائے۔ غالباً قلمی نسخہ ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال‘ لاہور ۲۸ نومبر ۱۹۲۱ء (۵۹)…(۲۴) لاہور ۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء مخدومی السلام علیکم! ایک عرصہ سے آپ کو خط لکھنے کا قصد کر رہا تھا۔ دو باتیں دریافت طلب ہیں۔ ۱۔ متکلمین میں سے بعض نے علم مناظرو مرایا کی رو سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رویت ممکن ہے۔ یہ بحث کہاں ملے گی میں اس مضمون کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ ۲۔ مرزا غالب کے اس شعر کا مفہوم آپ کے نزدیک کیا ہے؟ ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ اللعالمینے ھم بود حال کے ہئیت دان کہتے ہیں کہ بعض سیاروں میں انسان یا انسانوں سے اعلیٰ تر مخلوق کی آبادی ممکن ہے۔ اگر ایسا ہو تو رحمتہ اللعالمینؐ کا ظہور وہاں بھی ضروری ہے۱؎۔ اس صورت میں کم از کم محمدیت کے لیے تناسخ یا بروز لازم آتا ہے۔ شیخ اشراق تناسخ کے ایک شکل میں قائل تھے۔ ان کے اس عقیدہ کی وجہ یہی تو نہ تھی ۲؎؟ میں نقرس کی وجہ سے دو ماہ کے قریب صاحب فراش رہا۔ اب کچھ افاقہ ہوا ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور (۶۰)…(۲۵) لاہور ۲۹ مئی ۱۹۲۲ء عید مبارک باشد مخدومی السلام علیکم! میں آپ کو خط لکھنے ولا تھا کہ مفتی جان عالم ۳؎ کے حالات معارف میں شائع کیے جائیں مسلم اسٹنڈرڈ لندن نے ان کے کچھ حالات شائع کیے تھے۔ آج کے معارف میں میری آرزو سے بڑھ کر مضمون لکھا گیا۔ جزاک اللہ معارف کا ایڈیٹر صاحب کشف نہ ہو گا تو اور کون ہو گا۔ ۱؎ اس معنی کا ایک اثر بھی تفسیروں میں مروی ہے جو اثر ابن عباس کے نام سے ہے۔ اس اثر کی تاویل میں مولانا قاسم صاحب کا رسالہ تخدیر الناس فی اثر ابن عباس اور مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محل کا ایک مضمون ہے جو اس بحث میں دیکھنے کے قابل ہے۔ ۲؎ یہ وجہ نہیں کہ شیخ اشراق ایرانی فلسفہ سے متاثر تھے اوروہاں سے یہ خیال ان تک پہنچا تھا۔ (دیکھیے شرح کلمتہ الاشراق مقالہ خامسہ) ۳؎ روسی مسلمان مصلح عالم حال کے روسی علما ء کی بعض تصانیف اسلام کے متعلق اگر دستیاب ہو جائیں تو ان کا ترجمہ ہندوستان میں شائع ہونا چاہیے۔ خضر راہ ۱؎ کے متعلق جو نوٹ آپ نے لکھا اس کا شکریہ قبول فرمائیے۔ جوش بیان کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا صحیح ہے مگر یہ نقص اس نظم کے لیے ضروری تھا کم از کم میرے خیال میں جناب خضرؑ کی پختہ کاری ان کا تجربہ اور واقعات و حوادث عالم پر ان کی نظر ان سب باتوں کے علاوہ ان کا انداز طبیعت جو سورہ کہف سے معلوم ہوتا ہے اس بات کا مقتضی تھا کہ جوش اور تخیل کو ان کے ارشادات میں کم دخل ہو۔ اس نظم کے بعض بند میں نے خود نکال دیے ۔ اور محض اس وجہ سے کہ ان کا جوش بیان بہت بڑھا ہوا تھا اور جناب خضرؑ کے انداز طبیعت سے موافقت نہ رکھتا تھا۔ یہ بند اب کسی اور نظم کاحصہ بن جائیں گے۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۶۱)…(۲۶) لاہور ۵ جولائی ۱۹۲۳ء مخدومی السلام علیکم! ’’پیام مشرق‘‘ پر جو نوٹ آ پ نے معارف میں لکھا ہے اس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ ۱؎ اقبال کی ایک نظم پروفیسر نکلسن کا خط بھی آیا ہے انہوںنے اسے بہت پسند کیا ہے ۔ اور غالباً ا س کا ترجمہ بھی کریں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب جدید اوریجنل خیالات سے مملو ہے اور گوئٹے کے ’’دیوان مغربی‘‘ کا قابل تحسین جواب ہے۔ مگر میرے لیے آپ کی رائے پروفیسر نکلسن کی رائے سے زیادہ قابل افتخار ہے۔ سید نجیب ۱؎ اشرف صاحب نے اپنے مضمون میں محمد دارال کے لطیفہ غیبیہ کا ذکر کیاہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب ہے اور میں نے ایران سے منگوائی ہے۔ اگر وہ یا آپ اسے دیکھنا چاہیں تو بھیج دوں۔ ندوے والے اسے دیکھیں گے تو کوئی نہ کوئی بات پیدا کریں گے۔ اب کے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ پر آپ سے ملنے کی توقع تھی۔ میں اسی خیال سے جلسہ میں گیا کہ آپ کو اپنے ہاں مہمان کرنے کے لیے لیتا آئوں گا۔ مگر جلسہ میں جا کر مایوسی ہوئی۔ انشاء اللہ پھر کوئی موقع پیدا ہو گا۔ کیا تفہیمات الہیہ چھپ گئی ہے؟ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال‘ لاہور (۶۲) …(۲۷) شملہ نوبہار ۳ اگست ۱۹۲۲ء مخدومی السلام علیکم! میں کچھ دنوں کے لیے شملہ میں قیام پذیر ہوں۔ نقرس کے دورہ کی وجہ سے صحت اچھی نہیں رہی۔ ۱؎ سید نجیب اشرف ندوی سابق نائب مدیر معارف مردان خدا خدا نباشد لیکن ز خدا خدا نباشد کس کا شعرہے؟ ایک امر کے لیے اس کی تحقیق ضروری ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کی نظر سے کسی تذکرہ میں یہ شعر گزرا ہو عام طور پر مشہور ہے کہ میں چند روز اور شملہ میں ہوں۔ اگر آ پ جلد جواب دیں تو مندرجہ بالا پتے پر خط لکھیں اور اگر کچھ دنوں کے بعد خط لکھنا ہو تو لاہور کے پتہ پر تحریر فرمائیں۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال‘ بیرسٹر‘ لاہور (۶۳)…(۲۸) لاہور ۲۲ اگست ۱۹۳۳ء مخدومی جناب مولینا السلام علیکم! نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔ جتنی آگاہی آپ نے دے دی ہے وہ اگر زمانہ فرصت دے تو باقی عمر کے لیے کافی ہے۔ مولانا حکیم برکات احمدصاحب بہاری ثم ٹونکی کا رسالہ تحقیق زمان مطبوعہ ہے یا قلمی؟ اگر قلمی ہے تو کہاں سے عاریتہ ملے گا؟ علی ہذا القیاس مولانا شاہ اسمعیل شہید کی عبقات قاضی محب اللہ کے جوہر الفرد اور حافظ امان اللہ بنارسی کی تمام تصانیف کہاں سے دستیاب ہوں گی؟ زمان و مکان و حرکت کی بحث ا س وقت فلسفہ اور سائنس کے مباحث میںسب سے زیادہ اہم ہے ۔ میری ایک مدت سے خواہش ہے کہ اسلامی حکماء و صوفیہ کے نقطہ نگاہ سے یورپ کو روشناس کرایا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا بہت اچھا اثر ہو گا۔ میرے لیکچر آکسفورڈ یونیورسٹی چھاپ رہی ہے۔ اردو ترجمہ نیاز ی صاحب نے ختم کر لیا ہے۔ اس کی طباعت بھی عنقریب شروع ہو گی۔ جن کتابوں کا آپ نے اپنے والا نامے میں ذکر فرمایا ہے کی آپ کے کتب خانہ دارالمصنفین میں موجود ہیں؟ اگر ہوں تو میں چند روز کے لیے وہیں حاضر ہو جائوں اورآپ کی مدد سے ان میں سے بعض کو دیکھ سکوں۔ پنجاب یونیورسٹی کے کتب خانہ میں ان میں سے بعض موجود ہیں مگر سب نہیں۔ اس کے علاوہ یہاں علمی شغف رکھنے والے علماء بھی موجود نہیں ہیں جن سے وقتاً فوقتاً استفادہ کیا جائے۔ فی الحال میں مولوی نور الحق صاحب کی مدد سے مباحث ۱؎ مشرقیہ دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد شرح مواقف ۲؎ دیکھنے کا قصد ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیرہو گا۔ جو زحمت بھی آپ کو دیتا ہوں اس کے لیے معاف فرما دیا کریں۔ حضرت ابن عربیؒ کے بحث زمان کا ملخص اگر عطا ہو جائے تو بہت عنایت ہو گی۔ آپ کے ملخص کی روشنی میں کتاب میں خود پڑھوں گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال ۱؎ طبیعیات والٰہیات میں امام رازیؒ کی اہم تصنیف ۲؎ فلسفہ و علم کی مشہور کتاب (۶۴)…(۲۹) لاہور ۲۳ جنوری ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم! رسالہ ذخیرہ الدینیہ جاوا سے نکلنا شرو ع ہوا ہے۔ آپ کی خدمت میں بھی پہنچا ہو گا۔ ایڈیٹر واقف کار معلوم ہوتا ہے۔ اور مضامین اچھے لکھتا ہے۔ ہر مہینہ احادیث نبویؐ کے متعلق کچھ نہ کچھ اس میں ضرور ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ کے پرچہ میں وہ لکھتے ہیں کہ حدیث خلیلی فی ہذہ الامتہ اویسؓ القرنی موضوع ہے۔ اور امام مالکؒ کے نزدیک اویسؓ قرنی کا کوئی تاریخی وجودہی نہیںہے۔ آپ حضرت اویسؓ قرنی اور ان تمام صوفی روایات کے متعلق جو ان سے منسوب ہیں کیا خیال رکھتے ہیں؟ اگر حضرت امام مالک کی تحقیق زیر نظر۱؎ ہو تو ازراہ عنایت حوالے سے آگہ فرمائیے گا۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال لاہور (۶۵)…(۳۰) لاہور یکم فروری ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم! نوازش نامہ معلومات سے لبریز ہے نہایت شکر گزار ہوں۔ ۱؎ اصابہ ابن حجرؒ میں ہے قال ابن عدی لیس لہ روایت لکن کان ینکر وجودہ ا س کو نقل کر کے حافظ ابن حجر ؒ نے ان کے وجود کی اثباتی روایتیں لکھی ہیں۔ میں نے چند نظمیں فارسی میں لکھی ہیں جو پیام مشرق کی دوسری ایڈیشن میں شامل کر دی گئیں۔ انہیںنظموںمیں سے ایک آپ کی خدمت میں ارسال کی گئی ۔ ایک جامعہ ملیہ علی گڑھ کے لیے اور ایک علی گڑھ منتھلی کے لیے بھیج دی گئی۔ اور کسی جگہ کوئی نظم میںنے نہیں بھیجی۔ معار ف میں مجھے خاص طور پر محبوب ہے۔ اور بالخصوص آپ کے مضامین کے لیے کہ آ پ کی نثر معانی سے معمور ہونے کے علاوہ لٹریری خوبیوں سے بھی مالا مال ہہوتی ہے۔ مولینا گرامی کی غزل میں سن چکا ہوں۔ ا س کا ایک شعر مجھے خاص طور پر پسند آیا: فقر را ترکمائے ہم ہست اس شعر پر میں نے تضمین بھی کی تھی مگرپیام مشرق میں اس واسطے داخل نہ کی کہ اس کے اشعار کی بندش کچھ بھی پسند نہ آئی۔ اگر آ پ کو پسند ہو تو مجھے اشاعت میں کوئی عذر نہیں عرض کرتا ہوں: سخنے راندہ کہ جز قرشی بہ سر مسند نبیؐ نہ نشست درس گیر از گرامی ہمہ درد کہ برید از خود باد پیوست رمز ترک خلافت عربی گفت آں می گسار بزم الست ماہ را بر فلک دونیم کند فقر را ترکمانئے ہم ہست لفظ نشانی کلاسیکل فارسی میں تو آتا ہے جدید فارسی کا حال مجھے معلوم نہیں بہار عجم ملاحظہ فرمائیے۔ مسلمانوں نے منطق استقرائی پر جو کچھ لکھا ہے اور جو جو اضافے انہوںنے یونانیوں کی منطق پر کیے ہیں اس پر میں کچھ تحقیق کر رہا ہوں۔ میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ اگر ازراہ عنایت اپنی وسیع معلومات سے مجھے مستفیض فرما ئیں کم از کم ان کتابوں کے نام تحریر فرمائیے جن کو پڑھنا ضروری ہے۔ جرمن زبان میں کچھ مسالا اس کے لیے ہے اور چند کتابیں اسلامی حکماء پر حال ہی میں شائع ہوئی ہیں جو میں نے پنجاب یونیورسٹی کے لیے خرید لی تھیں۔ عربی و فارسی کتب سے آپ آگاہ فرمائیں مگر کتابیں ایسی ہوں جو دستیاب ہو سکتی ہوں ان کے ناموں پر نشان کر دیجیے گا۔ قیاس پر اعتراض غالباً سب سے پہلے امام رازیؒ ۱؎ نے کیا تھا امام غزالی ابن تمیمہؒ اور شاید شیخ سہروردی مقتولؒ نے بھی اس مضمون پر لکھا ہے۔ موخر الذکر کی تحقیق زمانہ حال کے خیالا ت کے بہت قریب ہے۔ امید کہ مزا ج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۶۶)…(۳۱) لاہور یکم مئی ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم! کیا روسی مسلمانوں نے بھی ابن تمیمہ اور محمد بن عبدالوہاب نجدی کے حالات کی اشاعت ہوئی تھی؟ اس کے متعلق آگاہی کی ضرورت ہے مفتی عالم جان جن کا حال میں انتقال ہو گیا ہے ان کی تحریک کی اصل غایت کیا تھی؟ ۱؎ سب سے پہلے ابوالبرکات بغدادی نے کیا ہے جن کی کتاب المقر حیدر آباد سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ کیایہ محض تعلیمی تحریک تھی یا اس کا مقصود ایک مذہبی انقلاب بھی تھا؟ تکلیف دہی کے لیے معافی چاہتا ہوں اور یہ بھی التماس کرتا ہوں کہ اس عریضہ کا جواب جہاں تک ممکن ہو جلد دیا جائے۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال بیرسٹر لاہور (۶۷)…(۳۲) لاہور ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء مخدومی السلام علیکم! والا نامہ ملا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ رویت باری کے متعلق جو استفسار میں نے آپ سے کیاتھا اس کا مقصود فلسفیانہ تحقیقات نہ تھیں۔ خیال تھا کہ شاید اس بحچ میں کوئی بات ایسی نکل آئے جس سے آئن سٹائن کے انقلاب انگیز نظریہ نور پر کچھ روشنی پڑے اس خیال کو ابن رشد کے ایک رسالہ سے تقویت ہوئی جس میں انہو ں نے ابو المعالی کے رسالہ سے ایک فقرہ اقتباس کیا ہے ۔ابوالمعالی کا خیال آئن سٹائن سے بہت ملتا جلتا ہے۔ گو مقدم الذکر کے ہاں یہ بات محض ایک قیاس ہے اور موخر الذکر نے اسے علم ریاضی کی رو سے ثابت کر دیا ہے۔ اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کاچسکا ڈال دیاہے۔ تاہم مسلک میرا وہی ہے۔ جو قرآن کا ہے۔ اور جس کو آپ نے آیت شریفہ کے حوالے سے بیان فرمایا ہے خلافت پر جو مضامین آپ نے لکھے ہیں نہایت قابل قدر ہیں۔ ان سب کو علیحدہ رسالے کی صورت میں شائع ہونا چاہیے۔ نظم خضر راہ جو انجمن کے سالانہ جلسے میں پڑھی تھی ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں شائع ہو گئی تھی۔ میں آج دریافت کرائوں گاکہ اگر کوئی کاپی اس کی موجود ہے تو خدمت والا میں ارسال کرادوں گا۔ ساری نظم کا اب چھپنا تو ٹھیک نہیں اورنہ اس قدر گنجائش معارف میں ہو گی لیکن اگر کوئی بند آپ کو پسند آ جائے تو اسے چھاپ دیجیے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ گوئٹے (شاعر جرمنی) کے مشرقی دیوان کے جواب ۱؎ میں میں نے ایک مجموعہ فارسی اشعار کا لکھا ہے عنقریب شائع ہو گا۔ اس کے دیباچہ میں یہ دکھانے کی کوشش کروں گا کہ فارسی لٹریچر نے جرمن لٹریچر پر کیا اثر کیا ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۶۸)…(۳۳) لاہور ۱۸ اگست ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم! حال میں امریکہ کی مشہور یونیورسٹی (کولمبیا) نے ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے مسلمانوں کے نظریات متعلقہ مالیات اس کتاب میں لکھا ہے کہ اجماع امت نص قرآنی کو منسوخ کر سکتا ہے یعنی یہ کہ مثلاً مدت شیر خوارگی جو نص صریح کی رو سے دو سال سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے یا حصص شرعی میراث میں کمی بیشی کر سکتا ہے مصنف نے لکھا ہے کہ بعض حنفا اور معتزلیوں کے نزدیک اجماع امت یہ اختیار رکھتا ہے۔ ۱؎ پیام مشر ق کا ذکر مگر اس نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ آپ سے یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ ۱؎ موجود ہے؟ امر دیگریہ ہے کہ آپ کی ذاتی رائے اس بارے میں کیا ہے میں نے مولوی ابوالکلام صاحب کی خدمت میں بھی عریضہ لکھا ہے میں آ پ کا بڑا ممنون ہوں گا کہ اگر جواب جلد دیاجائے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بیرسٹر ۴۳ میکلوڈ روڈ لاہور (۶۹)…(۳۴) لاہور ۲۷ اگست ۱۹۲۴ء مخدوم محترم السلام علیکم! نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ ۱۔ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ فقہا نے اجماع سے نص کی تخصیص جائز سمجھی ہے ایسی تخصیص یا تعمیم کی مثال اگرکوئی ہو تو اس سے آگاہ فرمائیے۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم کرنا ضروری ہے کہ ایسی تخصیص یا تعمیم صرف اجماع صحابہؓ ہی کر سکتا ہے یا علماء و مجتہدین امت بھی کر سکتے ہیں۔ ۱؎ اجماع سے نص قرآنی کے منسوخ ہونے کا کوئی قائل نہیں امریکی مصنف نے غلط لکھا ہے۔ آمدی الاحکام میں لکھتے ہیں مذہب الجمہور ان الاجماع لا ینسخ بہ خلافا بعض المتزلہ ج ۳ ص ۲۲۹ بعض معتزلہ ایسا کہتے تھے مگر ان کی رائے مقبول نہیں ہو سکی۔ آمدی نے حصہ شرعی کے ایک خاص مسئلہ کے باب میں ایک حوالہ نقل کیاہے۔ پھر اس کا جواب دے دیا ہے اس سے امریکی مصنف کا استدلال غلط محض ہے۔ اگر مسلمانوں کی تاریخ میں صحابہؓ کے بعد کوئی ایسی مثال موجود ہوتو اس سے بھی آگاہ فرمایے۔ یعنی یہ کہ کس مسئلہ میں صحابہ نے یا علمائے امت نے نص کے حکم کی تخصیص و تعمیم کر دی۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ تخصیص یا تعمیم حکم سے آ پ کی کیا مرادہے۔ ۲۔ دیگر آپ کا ارشاد ہے کہ اگر صحابہؓ کا کوئی حکم نص کے خلاف ہے تو اس کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا۔ جو ہم تک روایتہ نہیںپہنچا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا بھی ہے جو صحابہؓ نے نص قرآن کے خلاف نافذ کیا ہو اور وہ کون سا حکم ہے ۱؎۔ ی بات کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم میں ہو گا۔ محض حسن ظن پر مبنی ہے یا آج کل کی قانونی اصطلاح میں لیگل فکشن ہے۔ علام آمدی کے قول سے تو بظاہر امریکن مصنف کی تائید ہوتی ہے۔ گو صرف اسی حد تک کہ اجماع صحابہؓ نص قرآنی کے خلاف کر سکتا تھا۔ بعد کے علماء ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے علم میں کوئی ناسخ حکم نہیں ہو سکتا۔ ۳۔ اگر صحابہؓ کے اجماع نے کوئی حکم نص قرآنی کے خلاف نافذ کیا تو علامہ آمدی کے خیال کے مطابق ایسا کسی ناسخ حکم کی بنا پر ہوا ہے۔ وہ ناسخ حکم سوائے حدیث نبویؐ کے اور کچھ نہیں ہو ستکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حدیث ناسخ قرآن ہو سکتی ہے۔ جس سے کم از کم مجھے تو انکار ہے۔ او رغالباً آ پ کو بھی ہوگا۔ مجھے افسوس ہے کہ مٰں نے آ کو دوبارہ زحمت دینے پر مجبور ہوا ہوں۔لیکن آ کے وسیع اخلاق پر بھروسہ کر کے یہ جرات کی ہے۔ جوکتاب امریکہ میں چھپی ہے اس کا نشان مندجہ ذیل ہے: Muhammadan Theories of Finance By Nicolaf P. Aghnides ۱؎ ایسا کوئی حکم نہیں اور نہ نص قرآن کے خلاف کوئی حکم صحابہؓ نے دیا ہے۔ یہ کتاب کولمبیا یونیورسٹی نے شائع کی ہے۔ قیمت غالباًدس بارہ روپیہ سے زیادہ نہ ہو گی اگر آپ اسے منگوانا چاہیں تو کسی تاجر کتب امریکائی کے ذریعہ سے منگوا سکتے ہیں۔ تھیکر اسپنک یا میکملین کلکتہ بھی منگوا کر د ے سکتاہے۔ ان کو مفصل پتہ لکھ دیجیے یا براہ راست سیکرٹری کولمبیا یونیورسٹی شہر نیویارک امریکہ سے خط و کتابت کیجیے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا اور خط کا جواب جلد ملے گا۔ مخلص محمد اقبال بیرسٹر میکلوڈ روڈ لاہور (۷۰)…(۳۵) مخدومی السلام علیکم! میں نے کل ایک عریضہ ارسال کیا تھا۔ تخصیص و تعمیم احکام کا جہاں تک تعلق ہے اس خط کے جواب کی زحمت گوارا نہ فرمائیے کیونکہ قاصی شوکانی کی ارشاد الفحول سے اس کا حال مجھے معلوم ہو گیا ہے۔ البتہ باقی حصہ خط کا جواب ضرور عنایت فرمائیے۔ علامہ آمدی کی کتاب جہاتک مجھے معلوم ہے یہاں نہیں ہے۔ انشاء اللہ سرما میں یونیورسٹی کے لیے ایک کاپی منگوانے کی کوشش کروں گا۔ پنجاب میں ایک صاحب نے حال میں قرآن کی تفسیر شائع کی ہے۔ جس کا نام تذکرہ ۱؎ ہے۔ کیا آپ ک نظر سے گزری ہے۔ کتاب اس قابل ہے کہ اس کا ریویو مفصل آپ کے قلم سے نکلے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال لاہور ۱۹ اگست ۱۹۲۴ء ۱؎ علامہ مشرقی صاحب کا تذکرہ (۷۱)…(۳۶) لاہور ۵ ستمبر ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم! والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے مضمون سے بہت تسکین ہوئی۔ انجمن حمایت اسلام کا صدر مجھے منتخب کیا گیا تھا۔ مگر میں نے بعض وجود سے استعفا دے دیا ہے۔ کونسل میں اختلاف ہے اور عام حالت میں انجمن کی اچھی نہیں ہے ۔ بعض ارکان ذات اغراض سے اس میں داخل ہوئے ہیں اور ان کے نزدیک انجمن اغراض کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اور بس اس وقت وہی جماعت جلسہ کی تیاریاں کر ہری ہے مگر آپ ضرور تشریف لائیے۔ یہاں کے لوگوں کو ختم نبوت کے مسئلے میں بڑی دلچسپی ہے ۔ اور آپ کی تقریر انشاء اللہ بیحد توجہ سے سنی جائے گی۔ اسی کے علاوہ میں ایک مدت سے آپ کی ملاقات کا اشتیا ق رکھتا ہوں۔ میرے ہی غیرب خانہ پر ٹھہر لیجیے۔ یہاں سے انجمن کا جلسہ گاہ کچھ دور نہیں موٹر پر چھ منٹوں کی راہ ہے۔ جناب مشرقی امرتسر کے رہنے والے تھے۔ نوجوان آدمی ہیںَ کیمبرج میں ریاضی کا اعلیٰ امتحان پاس کیا ہے۔ ہندوستان واپس آئے تو کچھ مدت کے لیے پشاور کالج کے پرنسپل رہے۔ اس کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا کے محکمہ تعلیم میں رہے۔ آج کل غالباً کسی سرکاری سکول میں ہیڈ ماسٹر ہیں۔ مجھے ان کی قابلیت کا حال زیادہ معلوم نہیں مگر اس کتاب کے ریویو سے جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ مغربی افکار پر بھی ان کی نظر نہایت سطحی ہے۔ باقی تفسیر قرآن و تاریخ اسلام کے متلعق آپ مجھ سے بہتر اندازہ کر سکتے ہیں۔ ان کی کتاب کے متعلق یہاں عجیب و غریب افواہیں ہیں زبانی عرض کرون گا ’’زمیندار ‘ میں تذکرہ پر ایک ریویو شائع ہواہے۔ جو مصنف نے محنت و کاوش سے لکھا ہے۔ مگر سید سلیمان ندوی کی اسٹائل اور وسعت نظر اس کو حاصل نہیں۔ مجھے تذکرہ کا علم اسی ریویو سے ہوا۔ جناب مشرقی جہاں تک مجھے معلوم ہے خود مدعی نہیں ہیں۔ امت مسلمہ سے ممکن ہے کہ ان کا تعلق ہو کیونکہ آج کل امت مسلمہ کا سنٹر امرتسر ہے۔ یہاں فرقہ سے بھی جہاں تک مجھے معلوم ہے ان کا تعلق نہیں۔ مختصر یہ کہ یورپین افکار کی تاریخ کا اعادہ آج کل دنیائے اسلام میں ہو رہا ہے۔ ان حالات میں جو اس وقت کیفیت آپ کے قلب کی ہے وہ ایک حد تک نیچرل ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ جو کام کر رہے ہیں وہ امت مسلمہ کے لیے از بس مفید ہے۔ دنیائے اسلام اس وقت ایک روحانی پیکار میں مصروف ہے۔ اس پیکار و انقلاب کا رخ متعین کرنے والے قلو ب و اذہان پر بیشک و ناامیدی کی حالت کبھی کبھی پیدا ہو جاتی ہے مجھے یقین ہے کہ آپ کا قلب قوی ہے اور ذہن ہمہ گیر آپ اس حالت سے جلد نکل جائیں گے۔ یا صوفیہ کی اصطلاح میں یوںکہیے کہ اس مقام کو جلد طے کر لیں گے۔ آپ قلندر ہیں مگر وہ قلندر جس کی نسبت اقبال نے یہ کہا ہے: قلندراں کہ براہ تو سخت می کوشند زشاہ باج سانند و خرقہ می پوشند بجلوت اند و کمندے بہ مہر و مہ پیچند بخلوت اند و زمان و مکاں در آغوشند دریں جہاں کہ جمال تو جلوہ ہا دارد ز فرق تا بہ قدم دیدہ و دل و گوشند بزور بزم سراپا چو پرنیان و حریر بروز رزم خود آگاہ و تن فراموشند آپ اس جماعت کے پیش خیمہ ہیں۔ اس جماعت کا دنیا میں عنقریب پیدا ہونا قطعی اور یقینی ہے باقی جس راہ پر آپ اسسے پہلے قدم زن ۱؎ تھے اس کے متعلق انشاء اللہ بروقت ملاقات گفتگو ہو گی۔ ہندوستانی نیشنلزم کی انتہا یہی تھی کہ جو آ پ کے مشاہدہ میں آ گئی۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا۔ یہ خط بستر پر لیٹے لیٹے لکھا ہے۔ آج طبیعت بہت مضحمل ہے بدخطی معاف فرمائیے گا۔ مخلص محمد اقبال (۷۲)…(۳۷) مخدومی السلام علیکم! آپ نے کسی گزشتہ خط میں مجھے لکھا تھا کہ حضور سرور کائناتؐ سے جب کوئی مسئلہ دریافت کیا جات تھا تو آپ بعض دفعہ وحی کا انتظار کرتے ۔ اگر وہی نازل ہوتی تواس کے مطابق مسائل کا جواب دیتے اور اگر وحی نازل نہ ہوتی تو قرآن شریف کی کسی آیت سے استدلال فرماتے اور جواب دیتے کہ وہ آیت بھی پڑھ دیتے۔ اس کا حوالہ کونسی کتاب میں ملے گا؟ کیا یہ قاضی شوکانی کی کتاب ارشاد الفحول سے آپ نے لیا ہے؟۲؎۔ ۱؎ اشارہ کانگرس کی طرف ہے۔ ۲؎ اس کا ذکر کتب احادیث میں ہے۔ دوسرا امر جو اس کے متعلق دریاافت طلب ہے وہ یہ ہے کہ جو جواب وحی کی بنا پر دیا گیاہے وہ تمام امت پر حجت ہے اور وہ وحی بھی قرآن شریف میں داخل ہو گئی۔ لیکن جو جواب محض استدلال کی بنیاد پر دیا گیا جس میں وحی کو دخل نہیں کیا وہ بھی تمام امت پر حجت ہے ۱؎ ۔ اگر جواب اثبات میں ہو تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام استدلالات بھی وحی میں داخل ہیں ۲؎۔ یا بالفاظ دیگر یہ کہ قرآن و حدیث میں کوئی فرق نہیں ہے ۳؎ ۔ جواب سے مطلع فرما کر ممنون فرمائیے۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور ۱۶ اکتوبر ۱۹۲۴ء (۷۳)…(۳۸) لاہور ۱۸ مارچ ۱۹۲۶ء مخدومی السلام علیکم! اس وقت سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہ اسلامی کی ایک مفصل تاریخ لکھی جائے۔ اس مبحث پر مصر میں ایک چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی تھی جو میری نظر سے گزری ہے مگر افسوس ہے کہ بہت مختصر ہے اور جن مسائل پر بحث کی ضرور ت ہے مصنف نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اگر مولانا شبلیؒ زندہ ہوتے تو میں ان سے ایسی کتاب لکھنے کی درخواست کرتا۔ ۱؎ بے شبہ ۲؎ وحی خفی میں داخل ہیں۔ ۳؎ جی نہیں دونوں میں بہت فرق ہے۔ قرآن اک بہ الفاظ وحی ہے اور بتواتر منقول ہے اور یہ حدیثیں وحی سے معنی ماخوذ ہیں اور بہ تواتر منقول نہیں۔ موجودہ صورت میں سوائے آپ کے اس کام کو کون کرے گا! میں نے ایک رسالہ اجتہاد پر لکھاتھا۔ مگر چونکہ مرا دل بعض امورکے متعلق خود مطمئن نہیں اس واسطے ا س کو اب تک شائع نہیں کیا۔ آ پ کو یاد ہو گا کہ میں نے آپ سے بھی کئی امور کے متعلق استفسار کیا تھا مسلمانوں پر اس وقت دماغی اعتبار سے وہی زمانہ آ رہاہے کہ جس کی ابتدا یورپ کی تاریخ میں لوتھر کے عہدسے ہوئی۔ مگر چونکہ اسلای تحریک میں کوئی خاص شخصیت رہنما نہیں ہے۔ اس واسطے اس تحریک کا مستقبل خطرات سے خالی نہیں ۔ نہ عامتہ المسلمین کو یہ معلوم ہے کہ اصلاح لوتھر نے مسیحیت کے لیے کیا کیانتائج پیدا کیے۔ ہندوستان کی جمعتہ العلماء کی توجہ اس طرف ضروری ہے۔ آپ چونکہ اس جمعیت کے صدر ہیں اس واسطے میں آپ سے درخواست ہے کہ اس کام کو مستقل طور پر اپنے ہاتھ میں لیجیے۔ ندوہ کے دیگر ارکان یا فاراغ التحصیل طلبہ کو بھی اپنے ساتھ ملائیے تاکہ اقوام اسلامی کو فقہ اسلامی کی اصل حقیقت معلوم ہو۔ میںنے سنا ہے کہ البانیا ک مسلمانوں نے وضو اڑا دیا ہے ۱؎ اور ممکن ہے نماز میں بھی کوئی ترمیم کی ہو۔ ٹرکی کا حال تو ااپ کو معلوم ہی ہے ۲؎۔ مصڑ میں یہ تحریک جاری ہے ۳؎۔ اور عنقریب ایران اور افغانستان میں بھی اس کا ظہور ہو گا۔ ایران کو بابیت سے اندیشہ ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اسمعیلی تحریک کہیں پھر زندہ نہ ہو جائے۔ ایک قدیم اسلامی اصطلاح ہے کہ صوت الحی شاید اس کا مفہوم قبیلہ کی آواز ہے۔ کیونکہ اس وقت دنیائے اسلام میں کوئی خاص مذہبی شخصیت نہیں جو طبائع کے اس انقلاب کو ٹھیک رستہ پر لگائے۔ غرضکہ اس وقت مذہبی اعتبار سے دنیائے اسلام کی راہنمائی کی سخت ضرورت ہے۔ ۱؎ یہ خبر غلط تھی ۲؎ ٹرکی میں نماز میں کوئی تغیر نہیں ہوا۔ ۳؎ یہ خبر بھی بے اصل ہے۔ اور میرا عقیدہ یہ ہے کہ ہندوستان کے بعض علماء اس کام کو باحسن وجوہ انجام دے سکتے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے تو ہم باقی اقوام اسلامیہ کو کوئی ایسی مدد نہیں دے سکتے ۔ ہاں دماغی اعتبار سے ان کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ دیگر امر دریافت طلب یہ ہے کہ آیہ توریث میں حصص بھی ازلی ابدی ہیں یا قاعدہ توریث میں جو اصول مضمر ہے صرف وہی ناقابل تبدیل ہے۔ اور حصص میں حالات کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے ۱؎۔ آیہ وصیت پر بھی جو ارشادات ہیں میری سمجھ میں نہیںآئے۔ اس زحمت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ جب فرصت ملے جزئیات سے بھی آگاہ فرمائیے۔ اس احسان کے لیے ہمیشہ شکر گزار ہوں گا۔ بعض خیالات زمانہ حال کے فلسفیانہ نقطہ نظر کا نتیجہ ہیں۔ ان کے ادا کرنے کے لیے قدیم فارسی اسلوب بیان سے مدد نہیں ملتی۔ بعض تاثرات کے اظہار کے لیے الفاظ ہاتھ نہیں آتے۔ اس واسطے مجبوراً ترکیب اختراع کرنی پڑتی ہے۔ جو ضرور ہے کہ اہل زبان کو ناگوار ہو اس سے مانو س نہیں ہے۔ بعض اشعار کے لکھنے میں تو مجھے اس قدر روحانی تکلیف ہوئی کہ الفاظ میں بیان نہیںہو سکتی۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ کاش چند روز کے لیے آ پ سے ملاقات ہوتی اور آپ کی صحبت سے مستفید ہو نے کا موقع ملتا ! امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ۱؎ بیشک ۲؎ کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ (۷۴)…(۳۹) لاہور ۷ اپریل ۱۹۲۶ء مخدومی السلا م علیکم! آپ کے بعد خطوط میرے پا س محفوظ ہیں اور یہ آخری خط بھی جو نہایت معنی خیز ہے۔ اور جس کے مضمون سے مجھے بحیثیت مجموعی پورا اتفاق ہے محفوظ رہے گا۔ عبادات کے متعلق کوئی ترمیم و تنسیخ میرے پیش نظر نہیں ہے۔ بلکہ میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں ان کی ازلیت و ابدیت پر دلائل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں معاملات کے متعلق بعض سوالات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں چوکہ شرعیت احادیث (یعنی وہ احادیث جن کا تعلق معاملات سے ہے) کا مشکل سوال پید ا ہو جاتا ہے اورابھی تک میرا دل اپنی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہوا۔ اس واسطے وہ مضمون شائع نہیںکیا گیا میرا مقصود یہ ہے کہ زمانہ حال کے جورس پروڈنس کی روشنی میں اسلامی معاملات کا مطالعہ کیا جائے۔ مگر غلامانہ انداز میں ہیں بلکہ ناقدانہ انداز میں۔ اس سے پہلے مسلمانوں کے عقائد کے متعلق ایسا ہی کیاہے۔ یونان کا فلسفہ ایک زمانے میں انسانی علوم کی انتہا تصور کیا گیا مگر جب مسلمانوں میں تنقید کا مادہ پیدا ہوا تو انہوںنے اسی فلسفے کے ہتھیاروں سے اس کا مقابلہ کیا۔ ا س عصر میں معاملات کے متعلق بھی ایسا ہی کرنا ضروری ہے۔ قاعدہ میراث کے حصص کے متعلق میں نے مضمون اجہتاد میں یہی طریق اختیار کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لڑکی کو لڑکے سے آدھا حصہ ملنا عین انصاف ہے م۔ مساوی حصہ ملنے سے انصاف قائم نہیں رہتا۔ بحث کا محرک ترکی شاعری ضیابک کی بعض تحریریں تھیں جن میں وہ اسلامی طلاق اور میراث کا ذکر کرتاہے۔ میں نے جو حصص کے متعلق آپ سے دریافت کیا تھا اس کا مقصد یہ نہ تھا کہ میں ان حصص میں ترمیم چاہتا ہوں۔ بلکہ خیال یہ تھا کہ شاید ان حصص کی ازلیت و ابدیت پر آپ کوئی روشنی ڈالیں گے میرے نزدیک اقوام کی زندگی میں قدیم ایسا ہی ضروری عنصر ہے جیسا کہ جدید بلکہ میرا ذاتی میلان قدیم کی طرف ہے مگر میں دیکھتا ہوںکہ اسلامی ممالک میں عوام اور تعلیم یافتہ لوگ دونوں طبقے علوم اسلامیہ سے بے خبر ہیں۔ اس بے خبری سے آ پ کی اصلاح میں یورپ کے معنوی استیلا کا اندیشہ ہے۔ جس کا سدباب ضروری ہے۔ میرا ایک مدت سے یہ عقیدہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں جو سیاسی اعتبار سے دیگر ممالک اسلامیہ کی کوئی مدد نہیں کر ستکے دماغی اعتبا ر سے ان کی بہت کچھ مدد کر سکتے ہیں۔ کیا عجب ہے کہ اسلامی ہند کی آیندہ نسلوں کی نگاہوں میں ندوہ علی گڑھ سے زیادہ کارآمد ثابت ہو۔ آپ کے خط کے آخری حصے میں ایک سوال میرے دل میں پیدا ہوا ہے۔ اوروہ یہ ہے کہ اما م کو اختیار ہے کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد (مثلاً سرقہ کی حد) کو ترک کر دے ۱؎ اور اس کی جگہ کوئی اور حد مقر ر کر دے۔ اور اس اختیار کی بنا کون سی آیت ہے ۔ حضرت عمرؓ نے طلاق کے متعلق جو مجلس قائم کی ہے ۲؎ اس کا اختیار ان کو شرعاً حاصل تھا۳؎۔ ۱؎ ترک کر دے کا لفظ صحیح نہیں ملتوی کر دے صحیح ہے۔ جیسے میدان جنگ میں جب اسلامی فوج دارالحرب میں یا دارالحرب سے قریب ہو حدود بمصالح ملتوی کر دیے جاتے ہیں۔ ۲؎ میری عبارت کے سمجھنے میں یا اقبال نے خود انے مطلب کی تعبیر میں غلطی کی ہے حضرت عمرؓ سے پہلے ایک ملس یعنی ایک ہی نشست میں تین طلاقو ں کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کو تین قرار دیا بات ی تھی ۔ ۳؎ حنیفہ کا قول ہے کہ حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم معلوم ہوتا جس کی اشاعت عہد اول میں نہیں ہو سکی تھی او ر حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں کی۔ حافظ ابن قیم کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے تعزیراً ایسا کیا تھا اور امام کو تعزیراً ایسا کرنے کا اختیار ہے۔ میں ا س اختیار کی اساس معلوم کرنا چاہتا ہو ۔زمانہ حال کی زبان سے یوں کہیے کہ آیا اسلامی کانسٹی ٹیوشن اور ان کو ایسا اخیتار دیتی تھی؟ امام ایک شخص واحد ہے یا جماعت بھی امام کے قائم مقام ہوسکتی ہے۔ ہر اسلامی ملک کے لیے اپنا مام ہو یا تمام اسلامی دنیا کے لیے ایک واحد امام ہو موخر الذکر صورت میں موجودہ فرق اسلامیہ کی موجودگی میںکیونکر بروئے کار آ سکتی ہے؟ مہربانی کر کے ان سوالات پر روشنی ڈالیے لقب امام سے بہت سی مشکلات کا خاتمہ ہو جاتاہے بشرطیکہ اس کو وہ اختیارات شرعاً حاصل ہوں جن کا اشارہ آپ نے کیاہے۱؎۔ ترجمہ جو آپ نے ارسا ل کیا ہے افسوس ہے کہ وہ معارف کے قابل نہیں ہے۔ میں نے یہ مضمون ان طلبہ کے لیے لکھا تھا جو اضافیت سے کسی قدر آشنا تھے اس واسطے مختصر لکھا تھا۔ مفصل لکھنے کے لیے وقت نہ تھا۔ نہ ضرورت۔ غالباً ایسے ریڈر کو اس سے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا۔ جو فلسفہ کے بعض مسائل اورنظریہ اضافیہ سے آشنا نہیں ہے۔ ہرحال میںنے ایک صاحب سے کہا ہے کہ وہ اس کا اردو ترجمہ معارف کے لیے کریں وہ ترجمہ کریں گے پھر میں اسے دیکھ کر آپ کی خدمت میں ارسال کروں گا۔ جامعہ کا ترجمہ بھی میری نظر سے گزرا ہے۔ قادیانیوں نے بھی ایک ترجمہ اس مضمون کا کیا تھا۔ مگر وہ بھی غلط تھا۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اطمینان دلائے کہ آپ کا اطمینان اور خانگی پریشانیوں سے آزادی ہم سب کے لیے از بس ضروری ہے۔ مخلص محمد اقبال ۱؎ میں نے ان کو لکھا تھا کہ مسائل فقیہہ میں ترجیح اور بعض میں التوا یا اجرائے تعزیر مفتیوں کا نہیں بلکہ امام کا حق ہے۔ (۷۵)…(۴۰) لاہور ۲۴ اپریل ۱۹۲۶ء مخدومی السلام علیکم! آپ اپنے نوازش نامہ کی طوالت کے لیے عذر خواہی کرتے ہیں مگر میرے لیے یہ طویل خط باعث خیر و برکت ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ میں نے اسے کئی دفعہ پڑھا ہے اور گزتہ رات چوھدری غلام رسول مہر سے بھی پڑھوا کر سنا۔ اور احباب بھی اس مجلس میں شریک تھے۔ اگر میری نظراس قدر وسیع ہوتی تو جس قدر آپ کی ہے تو مجھے یقین ہے کہ میں اسلام کی کچھ خدمت کر سکتا ۔ فی الحال انشاء اللہ آپ کی مدد سے کچھ نہ کچھ لکھوں گا۔ مضمون اجتہاد کی تکمیل کے بعد حافظ ابن قیم کی کتاب طریق الحکمیہ پر اور اس کے بعد المقابلات پر جس کا ذکر آپ نے میرے خط میں کیا ہے لکھنے کا ارادہ ہے۔ شرعیت احادیت کے متعلق جو کھٹک میرے دل میں ہے ۱؎۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ احادیث سرے سے بیکار ہیں۔ ان میں سے ایسے بیش بہا اصول ہیں کہ سوسائٹی باوجود اپنی ترقی و تعالیٰ کے اب تک ان کی بلندیوں تک نہیں پہنچی ۔ مثلاً ملکیت شاملات وہ کے متعلق المرعیٰ للہ ورسولہ (بخاری) اس حدیث کا ذکر میں نے اپنے مضمون اجتہاد میں بھی کیا ہے۔ بہرحال چند امور اور دریافت طلب ہیں۔ ۱؎ میں نے ان کو اس کا تسلی بخش جواب لکھ کر بھیجا تھا۔ اگرچہ آپ اس وقت سفر حجاز کی تیاریوںمیں مصروف ہوں گے تاہم مجھے یقین ہے کہ آپ ازراہ عنایت میرے سوالات پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں گے۔ ۱؎ ۱۔ آپ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسل کی دو حیثیتیں ہیں نبوت اور امامت۔ نبوت میں احکام قرآنی اور آیات قرآنی سے حضور کے استنباط داخل ہیں اجتہاد کی بنا محض عقل بری اور تجربہ و مشاہد ہ ہے یا یہ بھی وحی میں داخل ہے؟ اگر وحی میں داخل ہے تو اس پر آپ کیا دلیل قائم کرتے ہیں ۲؎۔ میں خود اس کے لیے دلیل رکھتا ہوں مگر میں اس پر اعتماد نہیں کرتا۔ اور آپ کا خیا ل معلوم کرنا چاہتاہوں۔ وحی غیر متلو کی تعریف نفیساتی اعتبار سے کیا ہے؟ کیا وحی متلو اور غیر متلو کے امتیاز کا پتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں چلتاہے یا یہ اصطلاحات بعد میں وضع کی گئیں۔ ۳؎ ۲۔ حضورؐ نے اذان کے متعلق صحابہ سے مشورہ کیا کیایہ مشورہ نبوت کے تحت میں آئے گا یا امامت کے تحت میں ۴؎۔ ۱؎ ان تمام امورکے جواب میں سیرۃ النبیؐ جلد چہارم کے مقدمہ میں موجود ہیں۔ مختصراً جواب یہاں بھی حوالہ قل ہیں ۔ ۲؎ اجتہاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد عقل بشری اور تجربہ او رمشاہدہ پر نہیں بلکہ عقل نبوی کا نتیجہ ہے جو عقل بشری سے مافوق ہے۔ اور جس میں عقل بشری و تجربہ و مشاہدہ کو دخل نہیں۔ اور نبی کی ہر غلطی کی اصلاح کا اللہ تعالیٰ ذ مہ دار ہے۔ پس اجتہاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نتائج بھ اگر غلط ہوتے تو اللہ تعالیٰ اصلاح فرماتا جیسا کہ چا ر پانچ مقام پر اصلاح فرما دیا ہے۔ پس جب بقیہ اجتہاات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح نہیں فرمائی تو تقریراً وہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے صحیح قرار دیے گئے اور اس لیے وہ واجب القبول ہیں۔ ۳؎ اصطلاح بعد میں پیدا ہوتی ہے۔ ۴؎ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض روایات کی رو سے خود بھی اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کی تعلیم دی تھی اور دوسرے صحابہ نے بھی خواب میں دیکھا تھا البتہ اس باب میں صحابہؓ سے مشورہ کرنا باب امامت سے تھا نہ کہ نبوت سے کہ احکام نبوت میںمشورہ نہیں۔ ۳۔ فقہا کے نزدیک خاوند کو جو حق اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ہے وہ بیوی کو یا اس کے کسی خویش یا کسی اور آدمی کے حوالے کیا جا سکتا ہے؟ اس مسئلہ کی بنا کوئی آیت قرآنی ہے یا حدیث۱؎؟ ۴۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک طلاق یا خاوند کی موت کے دو سال بعد بھی اگر بچہ پیدا ہو تو قیاس اس بچہ کے ولد الحرام ہونے پر نہیں کیا جا سکتا۔ اس مسئلہ کی اساس ۲؎ کیاہے؟ کیایہ اصول محض ایک قاعدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے ؟ اس سوال کے پوچھنے کی وجہ یہ ہے کہ مروجہ ایکٹ شہادت کی رو سے تمام وہ قواعدشہادت جو اس ایکٹ کے نفاذ سے پہلے ملک میں مروج تھے منسوخ کیے گئے۔ ہندوستان کی عدالتوں نے مذکورہ بالا اصول کو قاعدہ شہادت قرار دے کر منسوخ کردیا۔ نتیجہ اس کا بعض مقامات میں یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان بچہ جو فقہ اسلامی کی رو سے ولد الحلال ہے ایکٹ شہادت کی رو سے ولد الحرام قرار دیا جاتا ہے۔ ایکٹ شہادت میں اور بھی باتیں ہیں جن کا ذکر اس مضمون میں کرنے کا ارادہ ہے۔ جو میں حافظ ابن قیمؒ کے فلسفہ شہادت پر لکھو ں گا۔ امید ہے کہ آپ اس تکلیف دہی کے لیے مجھے معاف فرمائیں گے۔ میں آ پ سے سچ کہتا ہوں کہ میرے دل میں ممالک اسلامیہ کے موجودہ حالات دیکھ کر بے انتہا اضطراب پیدا ہو رہا ہے۔ ذاتی لحاظ صے خدا کے فضل و کرم سے میرا دل پورا مطمئن ہے۔ یہ بے چینی اور اضطراب محض اس وجہ سے ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ نسل گھبرا کر کوئی اور راہ اختیار نہ کر لے۔ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ عرب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ فرانسیسی خوب بولتا تھا مگر اسلام سے قطعاً بے خبر تھا۔ اس قسم کے واقعات مشاہدہ میںآتے ہیں تو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ۱؎ تصریح تو احادیث میں ہے مگر قرآن پاک سے استنباط ممکن ہے۔ ۲؎ اس کی اساس ایک تو حضرت عائشہؓ کا قول ہے جو دارقطنی میں ہے دوسرے طبی تجرربہ ہے امام شافعیؒ کے نزدیک اکثر مدت حمل چار برس ہے (ہدایہ) (۷۶)…(۴۱) لاہور ۷ مارچ ۱۹۲۸ء مخدومی السلام علیکم! شمس بازغہ یا صدرا میں جہاں زمان کی حقیقت کے متعلق بہت سے اقوال نقل کیے ہیں ان میںسے ایک قول یہ ہے کہ زمان خدا ہے۔ بخاری میں ایک حدیث بھی اسی مضمون کی ہے لا تسبو الدھر کیا حکمائے اسلام میں سے کسی نے یہ مذہب اختیار کیا ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ بحث کہاں ملے گی؟۱؎ قرون وسطیٰ کے ایک یہودی حکیم موسیٰ بن میمون نے لکھا ہے کہ خدا کے لیے کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بلکہ وہ زمان کو لحظہ بلحظہ پیدا کرتا ہے میمو ن قرطبہ میں پیدا ہوا اور قاہرہ میںمرا۔ غالباً بارہویں صدی کے آخر میں اس نے مسلمانوںکو یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی اور تمام عمر مسلمانوں ہی کی ملازمت کرتارہا۔ متکلمین کے خیالات اس نے جرح قدح بھی خوب کی ہے۔ میرا گمان ہے کہ میمون کا مذکورہ بالا مذہب بھی ضرور کسی نہ کسی مسلمان حکیم کی خوشہ چینی ہے۔ اگر آ پ کے علم میں یہ بات ہوتو مہربانی کر کے مطلع فرمائیے۔ ۱؎ اقبا ل مرحوم کو اس بحث سے بڑی دلچسپی تھی۔ میں نے لاہور میں اس پر ان کی ایک تقریر بھی سنیت ھی۔ اخیر زمانہ میں میرے دلل میں علامہ ابن قیمؒ کی تصانیف کی ایک حقیقت فہم میں آئی جس سے بڑی خوشی ہوئی مگر افسوس کہ اس زمانہ میںمرحوم بیمار تھے انتظار تھا کہ وہ تندرست ہوں تو ان کو سنائوں مگر افسوس جڑ کٹ گئی نخل آرزو کی مجھے یقین ہے کہ وہ اگر اس کو سنتے توضرور خوش ہوتے۔ میں ایک مضمون لکھ رہا ہوں جس کا عنوان یہ ہے۔ ’’زمان کی حقیقت فلسفہ اسلام کی تاریخ میں‘‘۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اوراس خط کا جواب جہاں تک ممکن ہو جلد دیجیے گا۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال‘ بیرسٹر‘ لاہور (۷۷)…(۴۲) لاہور ۱۸ مارچ ۱۹۲۸ء مخدومی السلام علیکم! نوازش نامہ مل گیا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ ایک زحمت دیتا ہوں معاف فرمائیے گا مباحث مشرقیہ لاہور میں دستیاب نہیں ہو سکتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ زمان کے متعلق امام رازیؒ کے خیالا ت کا خلاصہ قلم بند فرما کر مجھے ارسال فرما دیں ؟ میں ا س کا ترجمہ نہیں چاہتا صرف خلاصہ چاہتاہوں جس کے لکھنے میں غالباً آپ کا بہت سا وقت ضائع نہ ہو گا۔ بزم اغیار کی رونق ضروری تھی۔ اسلام کا ہندوئوں کے ہاتھ بک جانا گوارا نہیں ہو سکتا۔ افسوس اہل خلافت اپنی اصلی راہ سے بہت دور جا پڑے ۔ وہ ہم کوایک ایسی قومیت کی راہ دکھا رہے ہیں جس کوکوئی مخلص مسلمان ایک منٹ کے لیے بھی قبول نہیں کر سکتا۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔والسلام مخلص محمد اقبال (۷۸)…(۴۳) لاہور ۲۵ اپریل ۱۹۲۹ء مخدومی السلام علیکم! نوازش نامہ مل گیا ہے لیکچروں کا اردو ترجمہ ۱؎ انشاء اللہ کیا جائے گا۔ اصطلاحات کے متعلق آپ سے بھی مشورہ طلب کروںگا۔ سر شفیع کی خدمت ۲؎ میں عرض کر دوں گا۔ ذوالفقار علی خاں ۴ مئی کو ولایت جا رہے ہیں۔ ان سے کہنا مناسب معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ان کی مالی حالات کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بہتر ہو کہ آپ سر عبدالقادر سے اس کار خیر کے لیے چندہ طلب فرمائیے والسلام مخلص محمد اقبال (۷۹)…(۴۴) لاہور ۲ ستمبر ۱۹۲۹ء مخدومی السلام علیکم! ایک عریضہ ارسال خدمت کر چکا ہوں امید کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گزر ا ہو گا۔ جس باب میں مولانا شبلیؒ نے ایک فقرہ شعائر وارتفاقات کے متعلق نقل کیاہے اسی باب میں ایک اور فقرہ نظر سے گزرا جو پہلے نظر سے نہ گزرا تھا۔ ۱ ؎؎ وہ لیکچر جو مدراس میں میرے خطبات مدراس کے بعد اقبال مرحوم نے دیا تھا جو انگریزی میں شائع ہو چکا ہے۔ ۲؎ شاید ندوہ کی امداد کی درخواست کی ہو۔ وشعائر الدین امر ظاہر تخصیص بہ و یمتاز صاحبہ بہ فی سائر الادیان کالختان و تعظیم المساجد و الاذان والجمعہ والجماعات یہ شاہ صاحب کی اپنی تشریح ہے جناب کا ارشاد اس کے بارے میں کیا ہے؟ علی ہذا القیاس ارتفاقات میں شاہ صاحب کی تشریح کے مطابق تمام تدابیر جو سوشل اعتبار سے نافع ہوں داخل ہیں مثلاً نکاح و طلاق کے احکام وغیرہ۔ اگر شاہ صاحب کی عبارت کی یہ تشریح صحیح ہے تو حیرت انگیز ہے۔ اگر ان معاملات میں تھوڑی سی ڈھیل بھی دی جائے تو سوسائٹی کا کوئی نظام نہ رہے گا ۱؎۔ ہر ایک ملک کے مسلمان اپنے اپنے دستور کے مطابق مراسم کی پابندی کریں گے۔ ستمبر کے معارف کاشدت کے ساتھ منتظر ہوں۔ جلد بھجوائیے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۸۰)…(۴۵) لاہور ۲۲ ستمبر ۱۹۲۹ء مخدومی السلام علیکم! الکلام (یعنی علم کلام جدید) کے صفحہ ۱۱۴۔۱۱۳ پر مولانا شبلی رحمتہ اللہ علیہ نے حجتہ اللہ البلاغہ (صفحۃ ۱۲۳) کا ایک فقرہ عربی میںنقل کیا ہے جس کے مفہوم کا خلاصہ انہوںنے اپنے الفاظ میں بھی دیا ہے۔ اس عربی فقرہ کے آخری حصہ کا ترجمہ یہ ہے: ۱؎ مولانا شبلی مرحوم نے شاہ صاحب کے الفاظ کے جو وسیع معنی قرار دیے ہیں وہ صحیح نہیں۔ ’’اس بنا پر اس سے بہتر اور آسان کوئی طریقہ نہیںکہ شعائر تعزیرات اور انتظامات میں خاص اس قوم کے عادات کا لحاظ کیا جائے۔ جن میں یہ امام پیدا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ آنے والی نسلوں پران احکام کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے‘‘۔ مہربانی کر کے یہ فرمائیے کہ مندرجہ بالا فقرہ میں لفظ شعارسے کیامراد ہے۔ اور اس کے تحت میں کون کون سے مراسم یا دستور آتے ہیں۔ اس لفظ کی مفصل تشریح مطلوب ہے۔ جواب کا سخت انتظار رہے گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۸۱)…(۴۶) لاہور ۸ ۲ ستمبر ۱۹۲۹ء مخدومی! والا نامہ ملا جس کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔ لفظ شعار کے معنی کے متعلق پورا اطمینان آپ کی تحریر سے نہیں ہوا۔ کیا کسی جگہ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجتہ اللہ البالغہ میں شعائر کی یہ تشریح کی ہے جو آپ نے کی ہے؟ دیگر عرض یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ نے اسی فقرہ میں لفظ ارتفاقات کا استعمال کیا ہے۔ مولانا شبلی نے ایک جگہ اس کا ترجمہ انتظامات اور دوسری جگہ مسلمات کیا ہے۔ اردو ترجمہ سے یہ نہیں کھلتا کہ اصل مقصود کیا ہے۔ کل سیالکوٹ میں حجتہ اللہ البالغہ مطالعہ سے گزری۔ ااس سے معلوم ہوا کہ شاہ صاحب نے ارتفاقات کی چار قسمیں لکھی ہیںَ ان چار قسموں میں تمدنی امور مثلاً نکاح طلاق وغیرہ کے مسائل بھی آ جاتے ہیں۔ کیاشاہ صاحب کے خیال میں ان معاملات میں بھی سخت گیری نہیںکی جاتی میرا مقصد محض شاہ صاحب کا مطلب سمجھنا ہے مہربانی کر کے اسے واضح فرمائیے۔ سنت پرآپ کا مضمون ضرور دیکھو گا اور اس سے اپنی تحریر میں فائدہ بھی اٹھائوں گا۔ اس خط کا جواب جلد ارسال فرمائیے۔ مخلص محمد اقبال (۸۲)…(۴۷) لاہور ۸ اگست ۱۹۳۳ء مخدومی السلام علیکم! چند ضروری امور دریافت طلب ہیں جن کے لیے زحمت دے رہا ہوں ازراہ عنایت معاف فرمائیے۔ ۱۔ حضرت محی الدین ابن عربیؒ کے ’’فتوحات‘‘ یا کسی اور کتاب میں حقیقت زمان ی بحث کس کس جگہ ہے ؟ حوالے مطلوب ہیں۔ ۲۔ حضرات صوفیہ میں اگر کسی اور بزرگ نے بھی اس مضمون پر بحث کی ہو تو اس کے حوالے سے بھی آگاہ فرمائیے۔ ۳۔ متکلمین کے نقطہ خیال سے حقیقت زمان یا آن سیال پر مختصڑ اور مدلل بحث کون سی کتاب میں ملے گی؟ امام رازیؒ کی مباحث مشرقیہ میں آج کل دیکھ رہا ہوں۔ ۴۔ ہندوستان میں بڑے بڑے اشاعرہ کون کون سے ہیں اور ملا محمود جونپوری کو چھوڑ کر کیا اور فلاسفہ بھی ہندوستانی مسلمانوں میں پیدا ہوئے؟ ان کے اسماء سے مطلع فرمائیے اگر ممکن ہو تو ان کی بڑی بڑی تصنیفات سے بھی۔ امید کہ مزاج بخیرو عافیت ہو گا والسلام مخلص محمد اقبال (۸۳)… (۴۸) لاہور ۴ ستمبر ۱۹۳۳ء مخدومی السلام و علیکم! والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ رسالہ اتقانفی ماہیتہ الزمان آج بھی مل گیا۔ میں نے اس کے لیے ایک دوست کو ٹونک لکھاتھا۔ آج مولوی برکا ت احمد کو ایک اور رسالہ کے لیی جو اردو میں ہے لکھا ہے۔ ہندی فلسفی ساکن پھلواری مصنف تسویلات فلسفہ کا نام کیاہے؟ اور کتاب مذکور طبع ہوئی یانہیں۔ اگر نہیں طبع ہوئی تو قلمی نسخہ اس کا کہاںسے دستیاب ہو گا مہربانی کر کے جلد مطلع فرمائیں۔ شرح مواقف دیکھ رہا ہوں۔ فتوحات کامطالعہ آپ کا ملخص آنے کے بعد دیکھوں گا ۱؎ ۔ خدا کرے کہ آپ کی صحت اچھی رہے اورآپ اس طرف جلد توجہ کر سکیں۔ نور الاسلام کا عربی رسالہ بابت مکان جو رامپور میں ہے کس زبان میں ہے؟ قلمی ہے یا مطبوعہ؟ نورالاسلام کا زمان کون سا ہے؟ اس تصدیق کے لیے معافی کا خواستگار ہوں۔ علوم اسلام کی جوئے شیر کا فرہاد آج ہندوستان میں سوائے سید سلیمان ندوی کے اور کون ہے؟ ۱؎ کروں گا سہو قلم ہے دارالمصنفین کی طرف سے ہندوستان کے حکمائے اسلام پرایک کتاب نکلنی چاہیے اس کی سخت ضرورت ہے۔ عام طورپر یورپ میں سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی کوئی فلسفیانہ روایات نہیں ہیں۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال (۸۴)…(۴۹) لاہور ۱۰ ستمبر ۱۹۳۳ء مخدومی جناب مولینا السلام علیکم! ایک عریضہ پہلے ارسال کر چکا ہوں۔ اس کے جواب کا انتظار ہے۔ اس عریضہ میں یہ دریافت کرنابھول گیا کہ ملا محب اللہ بہاریؒ کی کتاب جوہر الفرد کہاں سے ملے گی۔ شاہ افغانستان آ پ سے تعلیم مذہبی کے بارہ میں مشورہ چاہتے ہیں۔ شاید اسی ماہ ستمبرمیں آ کو کابل سے دعوت آئے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آ پ جانے کے لیے تیار ہوں گے۔ ممکن ہے کہ سید راس مسعود اور اقبال بھی آپ کے ہمراہ ہوں۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ جوا ب کاانتظار ہے۔ محمد اقبال ۔ لاہور (۸۵)…(۵۰) لاہور ۱۷ ستمبر ۱۹۳۳ء مخدومی السلام علیکم!آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے جو ہم نے قونصل جنرل صاحب کی خدمت میں بھیج دیا ہے۔ سید راس مسعود صاحب کی طرف سے ابھی تک جواب موصول نہیں ہوا۔ حضرت ابن عربیؒ کے خیالات و افکار کا جو وعدہ آ پ نے فرمایاہے ا س کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔ مولوی سید برکات احمد صاحب کا رسالہ میںنے دیکھا ہے انشاء اللہ اسے سبقاً سبقاً پڑھوں گا۔ مسئلہ آن کے متعلق ابھی تک مشکلات باقی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فلاسفہ پر جو اعتراض ہمارے متکلمین نے کیے ہیں وہ مسئلہ زمان کے متعلق خود ان کے افکار پر بھی عائد ہوتے ہیںَ مولوی سید برکات احمد مرحوم نے دہر اور زمان میں امتیاز کر کے کسی در مشکلات کو کم کر نے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ مسئلہ نہایت پیچیدہ ہے۔ ممکن ہے حضرت ابن عربیؒ اس پر روشنی ڈال سکیں۔ جمعیت العلماء کی صدارت کے متعلق جو کچھ آپ نے لکھا ہے بالکل صحیح ہے ۔ مولوی مظہر الدین صاحب نے میر ا حوالہ دینے پر اصرار کیا اس واسطے میں نے ان کو اجازت دے دی ہے کہ آپ کو صدارت کے لیے خط لکھیں تو میرا حوالہ دے دیں۔ میں خود مسلمانوں کے انتشار سے بے حد درد مند ہوں اور گزشتہ پانچ چار سال کے تجربہ نے مجھے سخت افسردہ کر دیاہے۔ آپ کا طر زعمل اختیار کیے بغیر چارہ نہیں۔ مسلمانوں کا مغرب زدہ طبقہ نہایت پست فطرت ہے۔ میں نے آغا خان کو باوجود ا ن کی تمام کمزوریوں کے ئان سب سے بہتر مسلمان پایاایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدت سے ان کے مذہبی خیالات میں ایک انقلاب عظیم آ رہاہے زیادہ کیاعرض کروں سوائے التماس دعا کے! والسلام مخلص محمد اقبال ۱؎ جدید جمعتہ العلماء کانپور (۸۶)… (۵۱) مخدومی جناب مولینا السلام علیکم! دعوت نامہ جو قونصل صاحب کیطرف سے مجھے موصول ہوا ہے ارسال خدمت ہے تاریخ روانگی کے متعلق بعد میں عرض کروں گا۔ کیونکہ پاسپورٹ لینے کے لیے بھی کچھ دن لگیں گے ۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ آج قونصل صاحب کو مزید تفصیلات کے لیے خط لکھ رہا ہوں۔ ان کا جواب آنے پر پھر خط لکھوں گا۔ آپ پاسپورٹ کے لیے درخواست کردیں۔ اس میں اگر یہ لکھ دیا جائے کہ آپ کو شاہ افغان نے تعلیمی امو رمیں مشورہ کرنے کے لیے طلب فرمایا ہے تو پاسپورٹ حاصل ہونے میں سہولت ہو اور جلد مل جائے والسلام مخلص محمد اقبال ‘ لاہور ۵ اکتوبر ۱۹۳۳ء (۸۷)…(۵۲) لاہور ۹ اکتوبر ۱۹۳۳ء جناب مولینا السلام علیکم! میںنے آپ کی خدمت میں دعوت نامہ افغانستان ارسال کیا تھا مگر آپ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ امید ہے آپ نے پاسپورٹ کے لیے اپنے ضلع میں درخواست کر دی ہو گی۔ اگر کوئی ملازم آپ کے ہمراہ جائے گا ت اس کے لیے علیحدہ درخواست پاسپورٹ کے لیے دینی ہو گی۔ جب آپ کو پاسپورٹ مل جائے تو مہربانی کر کے مجھے بذریعہ تار مطلع فرمائیے۔ پاسپورٹ کی درخواست ایک خاص فارم پر دی جاتی ہے اور ساتھ فوٹو بھی دینا پڑتاہے۔ اگر کوئی اور امر دریافت طلب ہو تو قونص جنرل افغانستان ۳ ہیلی وڈ نیو دہلی سے دریافت کریں۔ آپ کے مصارف افغان گورنمنٹ ادا کرے گی پشاور سے آپ شاہی مہمان ہوں گے۔ جواب جلد دیں۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۸۸)…(۵۳) لاہور ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۳۳ء جناب مولینا السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملاہے۔ میں نے آ پ کو دعوت نامہ ۹ اکتوبر سے پہلے بھیج دیا تھا۔ تعجب ہے کہ آپ نے اتنے دنوں بعد پاسپورٹ کے لیے درخواست دی۔ بہرحال قونصل صاحب نے گورنمنٹ آف انڈیا کو لکھ دیا ہے کہ آپ کا پاسپورٹ جلد مل جائے مجھے امید ہے کہ جلد مل جائے گا۔ اس سے پہلے میں ایک پوسٹ کارڈ لکھ چکا ہوں کہ جب آپ کو پاسپورٹ مل جائے تو فوراً مجھے اطلاع دیں تاکہ تاریخ روانگی مقررکی جائے۔ سید راس مسعود کا خط کل مجھے ملا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ۱۹ اکتوبر کو پشاور چلنا چاہیے۔ میں نے ان کو جواب میں لکھا ہے کہ تاریخ روانگی پشاور سے کی تعین پاسپورٹ ملنے پر ہونی چاہے۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگرملازم ساتھ لے جانا چاہیں تو اس کے لیے علیحدہ پاسپورٹ لینا ہو گا۔ اکتوبرمیں موسم خوشگوار ہوتاہے۔ راتیںعام طور پر ایسی ہوتی ہیں کہ جیسے شملہ میں البتہ نو مبرمیں سردی کسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ میرے خیال میں سردی کے موسم کے لیے موزوں بستر اور پہننے کے لیے کڑے لے جانا چاہیے۔ قونصل صاحب نے بھی یہی لکھا ہے۔ قونصل خانے کا ایک آدمی ہمارے ہمراہ جائے گا اورپشاور سے آپ شاہی مہمان ہوں گے۔ وہاں آٹھ دس روز سے زیادہ ٹھہرنے کی شاید ضرورت نہ ہو گی زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال ‘ لاہور (۸۹)…(۵۴) مخدومی مولینا السلام علیکم! سید راس مسعود اصرار کرتے ہیںکہ لاہور سے ۲۰ اکتوبر کی صبح کو پشاور کی طرف روانہ ہوں۔ شام کو پشاور پہنچ جائیں گے رات بھر وہاں ٹھہر کر ۲۱ کی صبح کو روانہ کابل ہوں گے۔ آپ ایسا انتظام کریں کہ یا تو ۲۰ کی صبح کو لاہور پہنچیں یا ۱۹ کی شام کو لاہور پہنچ جائیں۔ امید ہے کہ آپ کو پاسپورٹ اس سے پہلے مل جائے گا۔ میرا پاسپورٹ کل مل جانے کی توقع ہے۔ البتہ ملازم کا دو تین روز بعد ملے گا۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ مزاج والا بخیر و عافیت ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ہم ۲۱ کی صبح کو پشاور میں مل جائیں۔ اگرہم پہلے پہنچیں گے تو آ پ کے لیے ایک آدمی سٹیشن پر بھجوادیا جائے گا۔ اس کارڈ کے جواب میں فوراً خط لکھیے تاکہ آپ کے انتظامات کا حال معلوم ہو جائے۔ ۱۳ اکتوبر ۱۹۳۳ئ مخلص محمد اقبال (۹۰)…(۵۵) جناب مولینا السلام علیکم! اس سے پہلے ایک کارڈ آپ کی خدمت میںلکھ چکا ہوں اور ایک ملفوف خط بھی لکھ چکا ہوں۔ ۱۹ اکتوبر سے پہلے ہم سب کومل جائیں گے۔ اب فیصلہ یہ ہے کہ ہم ۲۰ اکتوبر کو لاہورسے صبح کی ٹرین میں پشاور کو روانہ ہوں۔ اور ۲۱ کی صبح کو کابل روانہ ہوں۔ جلد ی اس واسطے ہے کہ نومبر میں وہاں سردی ہوجاتی ہے۔ سید راس مسعود ۱۹ کی شام کو لاہور پہنچ جائیں گے۔ آپ بھی مہربانی کر کے ۱۹ کی شام کو لاہور پہنچ جائیے یا ۲۰ کی صبح کو ایسے وقت پہنچیے کہ آپ ہمارے ساترھ ۲۰ کی صبح کے میل ٹرین میںسوار ہو سکیں۔ قونصل خانہ سے جو آدمی ہمارے ہمراہ جائے گا وہ بھی لاہور ہی سے ساتھ ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں جب ملاقات ہو گی تو مفصل عرض کروں گا۔ اس انتظام کے لیے قونصل جنرل صاحب کو اطلاع دے دی ہے۔ والسلام ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۳ئ مخلص محمد اقبال (۹۱)…(۵۶) مخدومی آپ کا پوسٹ کارڈ ابھی ملاہے۔ میں اس سے پہلے ایک ملفوف خط ارسال خدمت کر چکا ہوں۔ آپ ۱۹ اکتوبر کی شام کو لاہور پہنچ جائیے۔ یہاں سے ۲۰ اکتوبر کی صبح پشاور روانہ ہو جائیں گے۔ سید راس مسعود بھی ۱۹ اکتوبر کی شام کو لاہور پہنچیں گے۔ قونصل جنرل صاحب کو بھی آپ تار دے دیں کہ آپ ۱۹ کی شا م کو لاہور پہنچ جائیںگے۔ اگر آپ کو پاسپورٹ ۱۷ کو مل جائے تو مجھے تار دینے کی ضرورت نہیں قونصل جنرل کو بذریعہ تار مطلع کر دیںَ اور لاہور ۱۹ کی شام کو پہنچ جائیے والسلام محمد اقبال ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۳ء (۹۲)…(۵۷) جناب مکرم السلام علیکم! آپ کا تار کل ملا جس سے معلوم ہواکہ ۱۷ اکتوبر تک آپ کو پاسپورٹ نہیں مل سکا۔ ممکن ہے ۱۸ یا ۱۹ تک مل جائے۔ ہم یعنی سید راس مسعود اور میں ۲۰ کی صبح کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں۔ اگر آپ ۲۱ کی صبح تک پشاور پہنچ سکیں تو خوب ہے۔ ڈین ہوٹل میں رات بسر ہو گی۔ یہ ہوٹل پشاور چھائونی کے اسٹیشن کے بالکل قریب ہے۔ آپ وہیں کے پتے پرہم کو تار دے دیں۔ ہم آ پ کی گاڑی کا انتظار کریں گے اور سٹیشن پر آپ کے لیے آدمی بھیج دیا جائے گا۔ اگر آپ کل شام یا ۲۰ کی صبح لاہور پہنچیں تو ٹکٹ صرف لاہور تک ہی کا خریدیں جیسا کہ میں پہلے تار دے چکا ہوں کہ اگر یہ ممکن نہ ہوتو ٹکٹ پشاور چھائونی سٹیشن تک کا خریدیں۔ آپ کے تمام مصارف ادا کیے جائیں گے۔ امید کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ اور آپ کی معیت سے ہم سب مستفیض ہوں گے۔ والسلام ۸ اکتوبر ۱۹۳۳ئ محمد اقبال ‘ لاہور (۹۳)…(۵۸) لاہور ۱۸اکتوبر ۱۹۳۳ء مخدومی جناب قبلہ مولینا السلام علیکم! ’’معارف‘‘ سے معلو م ہوا کہ آ پ مع الخیر وطن پہنچ گئے ۔ یہ عریضہ حضرت محی الدین ابن عربیؒ کے مسئل زمان و مکان کی تلخیص کی یاددہانی کے لیے لکھتا ہو ں۔ مجھے چند روز تک اس کی ضرورت پڑے گی۔ اس واسطے التماس ہے کہ ادھر جلد توجہ فرما کر مجھے ممنون فرمائیے۔ شاہ نادر کی شہادت کا قلق ہوا خدا تعالیٰ اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ انشاء اللہ افغانستان میں امن و امان رہے گا۔ میں نے شاہ ظاہر کو تار دے دیا تھا جس کا جواب پرسوں موصول ہوا۔ صدر اعظم صاحب کا تار بھی آیا تھا۔ امید ہے کہ آپ نے بھی ان کو تعزیت کا تار دیا ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال (۹۴)…(۵۹) لاہور ۹ دسمبر ۱۹۳۳ء مخدومی السلام علیکم! عمر خیام پر آپ نے جو کچھ لکھ دیا ہے ا س پر اب کوئی مشرقی یا مغربی عالم اضافہ نہ کر سکے گا۔ الحمد اللہ کہ اس بحث کا خاتمہ آ پ کی تصنیف پر ہوا ! مولوی نور الاسلام کا رسالہ فی تحقیق المکان کی نقل رامپور کتب خانہ سے آ گئی ہے۔ اب آپ کے ایفائے وعدہ کا اتنظار ہے۔ امید ہے کہ آپ ادھر جلد توجہ فرما کر مجھے شکر گزاری کا موقع دیں گے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ جناب کامزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۹۵)…(۶۰) لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۳۳ء مخدومی جناب مولینا‘ السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے ۔ تلخیص کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ مگر اسے پڑھکر میرے دل میں ایک خیال یا سوال پیدا ہوا ہے جس کاپوچھنا ضروری ہے۔ اگر دہر ممتد اور مستمر ہے اور حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر مکان کیا چیز ہے؟ جس طرح زمان دہر کا ایک طرح سے عکس ہے اسی طرح مکان بھی دہر کا عکس ہونا چاہیے۔ یایوں کہیے کہ زمان و مکان دونوں کی حقیقت اصلیہ دہر ہی ہے۔ کیا یہ خیال محی الدین ابن العربیؒ کے نقطہ خیال سے صحیح ہے؟ اس کا جواب شاید فتوحات ہی میں ملے مہربانی کر کے تھوڑی سی تکلیف گوارا فرمائیے او ر دیکھیے کہ کیا انہوںنے مکان پر بھی بحث کی ہے اور اگر کی ہے تو مکان اور دہر کا تعلق ان کے نزدیک کیا ہے۔ اس زحمت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ اور جواب جہاں تک ہو جلد مانگتا ہوں۔ میں نے زمان و مکان کے متعلق تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بڑے بڑے مسائل پر غور و فکر کیا ہے اور ا س غور و فکر کی تاریخ لکھی جا سکتی ہے ۔ یہ کام صرف آپ ہی کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو چاہیے کہ اس کا م کو اپنی زندگی کے اہم مقاصد میں شمار کریںَ جواب کا انتظار رہے گا۔ مخلص محمد اقبال (۹۶)…(۶۱) لاہور ۱۵ جنوری ۱۹۳۴ء مخدومی‘ السلام علیکم! دنیا ا س وقت عجیب کشمکش میں ہے۔ جمہوریت فنا ہو رہی ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹر شپ قائم ہو رہی ہے۔ جرمنی میں مادی قوت کی پرستش کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف پھر ایک جہاد عظیم ہو رہا ہے۔ تہذیب و تمدن بالخصوص یورپ میں بھی حالت نزع میں ہے۔ غرض کہ نظام عالم ایک نئی تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آ پ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک ممد ہو سکتا ہے؟ اس مبحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیے اور اگر کوئی کتابیں ہوں جن کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے ناموں سے آگاہ فرمائیے والسلام محمد اقبال (۹۷) … (۶۲) لاہور ۲۴ جنوری ۱۹۳۴ء مخدوم مکرم السلام علیکم! کچھ روز ہوئے ایک عریضہ لکھا تھا غالباً آ پ کی عدیم الفرصتی جواب سے مانع رہی اس خط کے جواب کا انتظار ہے۔ کل میں آپ کے پرانے خطوط پڑھ رہا تھا جو میرے پاس محفوظ ہیںَ ان میں سے ایک خط میں آپ نے لکھا ہیکہ اسلامی ریاست کے امیر کو اختیار ہے کہ جب اسے معلوم ہو کہ بعض شرعی اجازتوں میں فساد کو امکان ہے تو ان اجازتوں کو منسوخ کر دے عارضی طور پر یا مستقل طورپر بلکہ بعض فرائض کو بھی منسوخ کر سکتا ہے۱؎۔ اس وقت آپ کا خط میرے سامنے نہیں ہے حافظے سے لکھ رہا ہوں کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کا حوالہ کہاں سے ملے گا؟ مہربانی کر کے اس کتاب کا پتہ دیجیے جس میں یہ مسئلہ درج ہے۔ ۲؎ کیا یہ صحیح ہے کہ متعہ (نکاح موقت) حضرت عمرؓ سے پہلے مسلمانوں میں مروج تھا اور حضرت عمرؓ نے اسے منسوخ کر دیا نیز زمانہ حا ل کا کوئی امیر بھی کسی امر کی نسبت ایسا فیصلہ کرنے کا مجاز ہے؟ سفر نامہ کابل بہت دلچسپ ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کو وہاں ایک دفعہ پھر جانا پرے امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۹۸)…(۶۳) لاہور یکم فروری ۱۹۳۴ء جناب مولانا السلام علیکم! ۱؎ آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے شکر گزار ہوں ۔ میںنے آپ کا خط پھر دیکھا ہے۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے درست ہے ۔ ۱؎ ڈاکٹر صاحب کے حافظہ نے غلطی کی ہے۔ ملتوی کی جگہ منسوخ لکھ گئے ہیں۔ مگر میں ان معاملات کی ایک فہرست چاہتا ہوں جن کے متعلق رائے قائم کرنا امام کے سپرد ہے۔ جرائم میں ایسے جرم ہیں جن کی تعزیر غالباً قرآن شریف میںمقرر ہے۔ ان کے متعلق امام کیونکر رائے دے سکتاہے؟ ۲؎ آپ فرماتے ہیں کہ تواتر عمل کی ایک مثا ل نماز ہے۔ مالکیوں اور حنفیوں اور شیعوں میں جو اختلاف صورت نماز میں ہے وہ کیونکر ہوا؟ ۳؎ ایک اور سوا ل پوچھنے کی جرات کرتا ہوں (۱) احکام منصوصہ میں توسیع اخیتارات امام کے اصول کیا ہیں ؟ (۲) اگر اما م توسیع کر سکتا ہے تو کیا ان کے عمل کو محدود بھی کر سکتا ہے؟ اس کی کوئی تاریخی مثال ہو تو واضح فرمائیے (۳) زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسلامی فقہا کا مذہب اس بارے میں کیا ہے قاضی مبارک میں شاید اس کے متعلق کوئی فتویٰ ہے وہ فتویٰ کیا ہے (۴) اگر کوئی اسلامی ملک (روس کی طرح) زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرعی اسلامی کے موافق ہوگی۔ یا مخالف؟ اس مسئلہ کا سیاست اور اجتماع معاشرت سے گہرا تعلقق ہے کیا یہ بات بھی رائے امام کے سپرد ہو گی ؟ (۵) صدقات کی کتنی قسمیں اسلام میں ہیں؟ صدقہ اور خیرات میں کیا فرق ہے؟ تکلیف تو آ پ کو ان سوالات کے جواب میں ہو گی مگر مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اس زحمت کے لیے معاف فرمائیں گے۔ تعلیمی مشورت کے لیے جو جلسے ٓپ کے آنے سے پلے ہوئے ان کے متعلق کچھ نوٹ سید راس مسعود نے لیے تھے۔ ان کی خدمت میں ہم دونوں کے علاوہ سردار فیض محمد خاں وزیر خارجہ اور افغانی تعلیمی بورڈ کے ممبر اور غالباً ترکی کی تعلیمی مشیر شامل تھے ۔ سرور خان کے خطوط بھی آئے تھے۔ والسلا م مخلص محمد اقبال (۹۹)…(۶۴) لاہور ۶ ستمبر ۱۹۳۴ء مخدومی مولینا السلام علیکم! یہ خط اعظم گڑھ کے پتہ پر لکھتا ہوں معلوم نہیں کہ آپ ابھی علی گڑھ ہی میں ہیں یا وہاں سے واپس آ گئے۔ راغب اصفہانی نے مفردات میںلفظ نبی کی تشیرح میں لکھا ہے کہ لفظ نبی کے دو معنی ہیں خبر دینے والا اورمقام بلند پر کھڑا ہونے والا اول الذکر نبی ہمزہ کے ساتھ اور دوسرا بغیر ہمزہ کے ۔ اس ضمن میں راغب نے ایک حدیث بھی نقل کی ہے یعنی حضور رسالتمآبؐ نے فرمایا کہ میں نبی بغیر ہمزہ کے ہوں۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں ہے یا نہیں ۱؎ قرآن شریف میں جن انبیا کا ذکر ہے ا ن میں سے کون سے نبی بالہمزہ ہیں اور کون سے بغیر ہمزہ ؟یاسب کے سب بغیر ہمزہ ہیں ۲؎۔ ۲۔ لفظ نار کا روٹ عربی زبان میں کیا ہے؟ ۳۔ لفظ نجات ۴؎ کا روٹ کیا ہے اور روٹ کے رو سے اس کے کیا معنی ہیں؟ ۱؎ یہ حدیث صحاح میں نہیں ہے۔ آ پ نے اس کے لیے نبی کہنے سے منع فرمایا ہے کہ لغت کی رو سے منصبداد نبوت کے لیے نبی لفظ ہے نبئی نہیں۔ ۲؎ یقینا سب کے سب نبئی نہیں۔ ۳؎ ن ور سے معلو ہوتا ہے۔ اس روٹ کے اصلی معنی چمک کے معلوم ہوتے ہیں مثلاً نور روشنی‘ نار‘ آگ ‘ نورہ چونا‘ نورۃ کلی سب اسی ایک مفہوم کے مظاہر ہیں۔ ۴؎ ن ج و معنی بلندی کے یعنی جو سیلاب کے وقت پناہ کی جگہ بن سکے ۔ اسی سے نجوۃ ہے اسی سے موجودہ غالباً راغب ہی نے لکھا ہے کہ اس کے معنی بلندی کے ہیںَ نمبر ایک میں جو سوال میں نے لکھا ہے وہ بڑا اہم ہے کیونکہ اگر قرآنی انبیاء یا حضور رسالت مآبؐ نبی بغیر ہمزہ ہیں تو لفظ نبی کا انگریزی ترجمہ Prophetجس کے معنی خبر دینے والا کے ہیں کیونکر درست ہو سکتا ہے؟ امید کہ آپ کا مزاج بخیرو عافیت ہو گا۔ آپ کا سفر نامہ افغانستان خوب ہ لوگوں نے بہت پسند کیا۔ ہاں ایک ضروری بات یاد آ گئی یہاں ایک صاحب کے پاس شاہ ولی اللہؒ کے تفہیمات الٰہیہ کی دوسر ی جلد ہے جو شاہ عاشق حسین (شاگرد شاہ ولی اللہ) کی لکھی ہوئی ہے۔ کیا ندوہ کے کتب خانہ میں یہ کتاب موجود ہے۔ مولوی نواب صدر یار جنگ کے ہاں جو نسخہ ہے وہ پہلی جلد ہے یا دوسری یا دونوں؟ کیا کسی نے اس کتاب کے اردو تراجم کیے ہیں؟ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ شاید معارف میں اس کے اردوترجمہ کا اعلان کیا گیا تھا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۱۰۰)…(۶۵) بھوپال شیش محل ۱۹ جولائی ۱۹۳۵ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولوی صاحب السلام علیکم! میں گلے کے برقی علاج کے لیے کچھ مدت کے لیے بھوپال میںمقیم ہوں۔ اس خط کا جواب یہیں مذکورہ بالا پتہ پر عنایت فرمائیے۔ ۱۔ کیا فقہ اسلامی کی تو سے توہیں رسولؐ قابل تعزیر جرم ہے۱؎۔ ۱؎ بے شبہ اگر ہے تو اس کی تعزیر کیا ہے ؟ ۱؎ ۲۔ اگر کوئی شخص جو اسلا م کا مدعی ہے یہ کہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو حضور رسالتمآبؐ پر جزوی فضیلت حاصل ہے تو اس واسطے کہ مرزا قادیانی ایک زیادہ متمدن زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں تو کیا ایسا شخص توہین رسولؐ کے جرم کا مرتکب ہوا؟ بالفاظ دیگر اگر توہین رسولؐ جرم قابل تعزیر ہے تو عقیدہ مذکورہ توہین رسولؐ کی حد میں آتا ہے یا نہیں ۲؎۔ ۳۔ اگر توہین رسولؐ کی مثالیں کتب فقہ میں مذکور ہوں تو مہربانی فرما کر ان میں سے چند تحریر فرمائیے کتاب کا حوالہ بقیہ صفحہ پر تحریر فرما کر ممنون فرمائیے ۳؎۔ امید ہے کہ اس عریضہ کا جواب جلد ملے گا زیادہ کیا عرض کروں میر ی صحت پہلے سے بہتر ہے۔ امید ہے اس دفعہ علاج سے زیادہ فائدہ ہو گا۔ والسلام مخلص محمداقبال (لاہور) حال وارد بھوپال ۱؎ تعزیر حب رائے امام قید سے لے کر قتل تک ۲؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کو جزوی فضیلت حاصل ہونا جائز ہے۔ اور ایسا کہنا کفر ہے نہ توہین نبی کا باعث ہے البتہ مقتضائے محبت ک یخلاف ہے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ جزوی فضیلت حقیقت میں فضیلت کے شمارمیں بھی ہے مثلاً زیادہ متمدن زمانہ میں ہونا کوئی فضیلت نہیں کیونکہ خود تمدن نہ کوئی دینی فضیلت ہے نہ اخلاقی نہ عقلی بلکہ ممکن ہے کہ اس کے بعد اوربھی دنیا زیادہ متمدن ہو جائے تو اس زمانہ کے آدمی پر بھی اس زمانہ کے آدمی کو فوقیت حاصل ہو جائے اور اگر یہ امر باعث فضیلت ہو تو غلام احمد قادیانی کیا اقبال سیالکوٹی کو بھی یہ جزوی فضٰلت حاصل ہے بلکہ غلام احمد سے زیادہ۔ کیونکہ مرزا صاحب نے صرف اسے کو دور سے دیکھا ہے چکھا اورآزمایا نہیں ۔ ۳؎ یہ نقل کفر مجھ سے نہ ہو گا۔ آپ السیف المسلول علی شاتم الرسول دیکھ لیجیے۔ (۱۰۱)…(۶۶) بھوپال شیش محل یکم اگست ۱۹۳۵ء مخدو م مکرم جناب مولینا السلام علیکم! آپ کا والہ نامہ مجھے ابھی ملاہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ چند امور ابھی دریافت طلب ہیں ان کے جواب سے بھی ممنون فرماؤئیے ۱؎۔ ۱۔ تکملہ مجمع البحار صفحہ ۸۵ میں حضرت عائشہؓ کا ایک قو ل نقل کیا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ حضور رسالت مآبؐ کو خاتم النبیین کہو لیکن یہ نہ کہو کہ ا ن کے بعد کوئی بنی نہیں ہو گا ۲؎۔ مہربانی فرما کر اس کتاب کو دیکھ کر یہ فرمائیے کہ اس قول کے اسناد درج ہیں اور اگر ہیں تو آپ کے نزدک ان اسنا د کی حقیقت کیا ہے۔ ایسا ہی قول در منثور جلد پنجم صفحہ ۰۴ ۲ میں ہے۔ اس کی تصدیق کی بھی ضرورت ہے۔ ۳ ؎ میں نے یہاں بھوپال میں یہ کتب تلاش کیںلیکن افسوس اب تک نہیں ملیں۔ ۱؎ اس وقت و ہ رد قادیانی پر اپنا مضمون تیار کر رہے تھے۔ ۲؎ جی ہاں اس کتاب میں یہ روایت ہے جو مصنف ابن ابنی شیبہ سے لی گئی ہے لیکن اس کی سند مذکور نہیں جو روایت کی صحت و ضعف کا پتالگایا جائے اور اگر صحیح ہو بھی تو یہ حضر ت عائشہؓ کی محض رائے ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار خود فرمایا ہے کہ لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں حضرت عائشہ ؓ نے اپنے خیال میں اس لیے ایسا کہنے سے منع کیا کہ حضرت عیسیٰؑ کے نزول کاانکار اس سے لوگ نہ سمجھنے لگیں۔ بہرحال یہ ان کا خیال ہے کہ جس کا صحیح ہونا ضروری نہیں خصوصاً ایسی صورت میں جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف ہو۔ ۳؎ جی ہاں وہی روایت بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ اس کتاب میں بھی ہے اور اس کی نسبت پہلے لکھ چکا۔ حجج الکرامہ صفحہ ۴۲۷۔۴۳۱ حضرت مسیحؑ کے دوبارہ آنے کے متعلق ارشاد ہے : من قال بسبب نبوتہ کفرحقا ا س قول کی آپ کے نزدیک کیا حقیقت ہے ؟ ۱؎ ۳؎ لو عاش ابراہیم لکان نبیا اس حدیث کے متعلق آ کا کیا خیال ہے ؟ نووی اسے معتبر نہیںجانتا ملا علی قاری کے نزدیک معتبر ہے۔ کیا اس کے اسناد درست ہیں ۲؎ بخاری کی حدیث اما مکم منکم میں دائوحالیہ ہے کیا ۳؎؟ اگر حالیہ ہو تو اس حدیث کا یہ مطللب معلوم ہوتا ہے کہ مسیح ؑ کے دوبارہ آنے سے مسلمانوں کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ ۱؎ حجج الکرامہ فی آثار القیامہ نواب صدیق حسن خاں کی کتاب ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی بصفت نبوت ہو گی یا بلا صٖت نبوت اس باب میں علماء کا اختلاف ہے۔ نواب صاحب کی رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ بصفت نبوت ہو گی۔ اس لیے وہ لکھتے ہیں کہ جو لو گ ان کی آمد ثانی میں انن کی صفت نبوت کا انکار کرتے ہیں وہ مرتکب کلمہ کفر ہیںَ بہرحال یہ رائے ہے۔ ۲؎ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے۔ اس روایت کو بعض محققین نے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ فرضاً ہے واقعہ نہیں کیونکہ لو فرض اور عدم وقوع کے لیے آتا ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ اس لیے ابراہیم بن محمدؐ کو بچپن ہی میں اٹھا لیا گیا تھا۔ چنانچہ دوسری روایتوں میں یہی مذکورہے کہ چنانچہ خود ابن ماجہ اور بخاری میں ہے ولو قضٰ ان یکون بعد محمد نبی لعاش انبہ ولکن لا نبی بعدہ (ابن ماجہ جنائز بخاری انبیائ) یعنی یہ کہ اگر فیصلہ الٰہی یہ ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو تو آپ کے صاحبزادہ زندہ رہتے لیکن یہ فیصلہ الٰہی ہو چکا تھا کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ ملا علی قاری نے اس کو موضوعات میں لیا ہے ۔ اس کو معتبر نہیں کہا ہے ضعیف کہا ہے۔ ا س میں ابو شیبہ ابراہیم راوی ضعیف ہے۔ بلکہ وہ تروک الحدیث منکر الحدیث باطل گو اور دروغ گو تک کہا گیا ہے۔ اس کے بعد بشرط صحت ملا نے اس کی تاویل کی ہے۔ بہرحال اس حدیث کا وہی مطلب ہے جو اس حدیث کا ہے لو کان بعدی نبیالکان عمر (مسند احمد ترمذی) اگر میرے بعد کوئی نبنی ہونا ممکن ہوتا تو عمرؓ بن خطاب نبی ہوتے لیکن چونکہ ممکن نہیں ا س لیے نہ وہ اور نہ کوئی اور نبی ہو سکتا ہے۔ ۳؎ صحیح یہی ہے کہ دائو حالیہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ عیسائیوں پر حجت ہوں گے اور مسلمانوں کی تائید فرمائیں گے مسلمانوں کا امام الگ ہو گا حضرت عیسیٰؑ نہ ہوں گے۔ کیونکہ جس وقت وہ آئیں گے مسلمانوں کا امام خود مسلمانوں میں سے ہو گا۔ ۵۔ ختم نبوت کے متعلق اور بھی اگر کوئی بات آپ کے ذہن میں ہو تو اس سے آگاہ فر مائیے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۱۰۲)… (۶۷) بھوپال ۲۰ اگست ۱۹۳۵ء مخدومی السلام علیکم! آپ کانوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں بھی یہاں حمیدیہ لائبریری اور بعض پرائیویٹ احباب سے کتابیں منگوا کر دیکھتا رہا۔ الحمد اللہ کہ بہت سی باتیں مل گئیں اس مطالعہ سے مجھے بے انتہا فائدہ ہوا ہے۔ اور آپ کے خط نے تو راہیں کھول دی ہیں۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیںسمجھا۔ ا س واسطے کوئی میرا رقیب نہیں اور نہ میں کسی کو اپنا رقیب تصور کرتا ہوں۔ فن شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی ہاں بعض عقائد خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کر لیا ہے ورنہ نہ بینی خیر ازاں مرد فرودست کہ برمن تہمت شعر و سخن بست (زبور عجم) مخلص محمد اقبال (۱۰۳)…(۶۸) بھوپال ۲۳ اگست ۱۹۳۳ء مخدوم مکرم جناب مولینا السلام علیکم! ایک عریضہ لکھ چکا ہوں امید کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گزراہو گا۔ ایک بات دریافت طلب رہ گئی تھی جو اب عرض کرتا ہوں۔ کیا علمائے اسلام میں کوئی ایسے بزرگ بھی گزرے ہیں جو حیات و نزول مسیح ابن مریمؑ کے منکر ہوں؟ یا اگر حیات کے قائل ہو تو نزول کے منکر ہوں؟ معتزلہ کا عام طور پر اس سلسلہ میں کیا مذہب ہے؟ ۱؎ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا میں ۲۸ اگست کی شام کو رخصت ہوں گا۔ علاج کا کورس اس روز صبح ختم ہو جائے گا۔ اس خط کا جواب لاہور کے پتہ پر ارسال فرمائیے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۱۰۴)…(۶۹) لاہور ۲ اگست ۱۹۳۶ء مخدومی مولینا السلام علیکم! ۱؎ مجھے جہاں تک علم ہے نزول مسیح کا انکار کسی نے نہیں کیا۔ معتزلہ کی کتابیںنہیںملتیں جو حال معلوم ہو۔ البتہ ابن حزم وفات مسیح کے قائل تھے ساتھ ہی نزول کے بھی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے آپ کو صحت عطا فرمائی۔ آپ کا وجود ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے از بس ضروری ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی دعائوں کو شرف قبولیت بخشا ہے تاکہ وہ دیر تک آپ کے علوم سے مستفیض ہوتے رہیں۔ میں نے سنا ہے کہ شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب بدور البازغہ چھپ گئی ہے۔ مہربانی کر کے اس کاایک نسہ وی پی مجھے ارسال فرمائیے۔ اگر آپ کے ہاں نہیں ہے تو مہربانی کر کے جہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے وہاں سے منگوا دیجیے یا ان کو لکھ دیجیے کہ ایک نسخہ میرے لیے وی پی کر دیا جائے۔ مجھے معلوم نہیں کہ کہاں چھپی ہے اور کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ اس واسطے آپ کو تکلیف دی گئی ہے۔ موسی جار اللہ کو آپ جانتے ہوں گے انہوںنے حال میں ایک کتاب عقائد شیعہ پر شائع کی ہے اس میں بعض لطائف ہیں جو بہت جاذب توجہ ہیں۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۱۰۵)…(۷۰) لاہور ۷ اگست ۱۹۳۶ء مخدومی السلام علیکم! والا نامہ ابھی ملا ہے۔ آپ کی صحت کی خبر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ خدا تعالیٰ آپ کو دیر تک زندہ سلامت رکھے میری صحت کی حالات بہ نسبت سابق بہترہے۔ گو آواز میں کوئی خاص ترقی نہیں ہوئی۔ انشاء اللہ موسم سرما میں وہ انگریزی کتاب لکھنا شروع کریں گے۔ جس کا وعدہ میں نے اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال سے کر رکھا ہے۔ اس میں آپ کے مشورہ کی ضرورت ہے۔ بدور البازغہ بھی اسی مطلب کے لیے منگوائی ہے۔ اس کتاب میں زیدہ تر قوانین اسلام پر بحث ہوگی اس وقت اسی کو زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے متعلق جو کچھ آپ کے ذہن میں ہے مہربانی کر کے ان کے ناموں سے مجھے آگاہ فرمائیے اور یہ بھی فرمائیے کہ جہاں کہاں سے دستیاب ہو گی۔ الحمد اللہ اب قادیانی فتنہ پنجاب میں رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے۔ مولینا ابو الکلام آزاد نے دو تین بیان چھپوائے ہیںمگر حال کے روشن خیال علماء کو ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ اگر آپ کی صحت اجازت دے تو آپ بھی اس پر ایک جامع و نافع بیان شائع فرمائیے۔ میں بھی تیسرا بیان انشاء اللہ جلد لکھوں گا۔ اس کا موضوع ہو گا بروز لفظ ۱؎بروز کے متعلق اگر کوئی نکتہ آپ کے ذہن میں یا کہیں صوفیہ کی کتابوں میں اس پر بحث ہو تو اس کا پتہ دیجیے نہایت شکر گزار ہوں گا۔ موسیٰ جار اللہ ۲؎ صاحب کی کتاب نہایت عمدہ ہے۔ ملنے کا پتہ کتاب پر یہ لکھا ہے: مکتبہ الخانجی شارع عبدالعزیز مصر امید کہ مزاج والا بخیر و عافیت ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال ۱؎ لفظ بروز کے معنی تو ظہور ہیں مگر اس کے اصطلاحی معنی ملاحدہ عجم کی پیداوار ہیں۔ ۲؎ موسیٰ جار اللہ مشہور روسی عالم مفکر یہ ہندوستان میں کئی بار آ چکے ہیں۔ مجھ سے مکہ معظمہ میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ یہ ترکی میں بہت سی اسلامی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ٭٭٭ مولوی ظفر احمد صاحب صدیقی کے نام (۱۰۶)…(۱) لاہور ۱۲ دسمبر ۱۹۳۶ء (۱) جناب من ! معترض… قرآن کریم کی تعلیم سے بے بہرہ ہے۔ علی ہذا القیاس اسلامی تصوف میں مسئلہ خودی کی تاریخ اورنیز میری تحریروں سے ناواقف محض ہے۔ موخر الذکر صورت میں میں اسے معذور جانتا ہوں آخر اس غلامی کے زمانہ میں مسلمانوں کے پاس کون سا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی آئندہ نسلوں کو اسلامی تصورات کے بننے اور بگڑنے کی تاریخ سے آگاہ کر سکیں۔ غلام قوم مادیات کو روحانیت پر مقدم سمجھنے پر مجبورہو جاتی ہے۔ اور جب انسان میں خوائے غلامی راسخ ہو جاتی ہے تو ہر ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرتا ہے جس کا مقصد قوت نفس اور روح انسانی کا ترفع ہو۔ (۲) اعتراض کا جواب آسان ہے دین اسلام جو ہر مسلمان کے عقیدہ کی رو سے ہر شے پر مقدم ہے نفس انسانی اور اس کے مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا بلکہ ان کے عمل کے لیے حدود متعین کرتاہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الٰہی ہے۔ خودی خواہ مسولینی کی ہو خواہ ہٹلر کی قانون الٰہی کی پابندہو جائے تو مسلمان ہو جاتی ہے۔ مسولینی نے حبشہ کو محض جوع الارض کی تسکین کے لیے پامال کیا۔ مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانہ میں حبشہ کی آزادی کو محفوظ رکھا۔ فرق اس قدر ہے کہ پہلی صورت میں خودی کسی قانون کی پابند نہیں دوسری صورت میں قانون الٰہی اور اخلاق کی پابند ہے۔ بہرحال‘ حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے، اور شریعت اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکام الٰہی، خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہر ہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصود ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے۔ بعض نے اسی کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی اور ایرانی صوفیہ میں سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر فلسفہ ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارۂ محض ہے۔ میرے عقیدہ کی رو سے یہ تفسیر بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی، اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اسی تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔ (۳) معترض کا یہ کہنا کہ اقبال اس دور ترقی میں جنگ کا حامی ہے، غلط ہے۔ میں جنگ کا حامی نہیں ہوں، نہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ کے ہوتے ہوئے، اس کا حامی ہو سکتا ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جہاد یا جنگ کی صرف دو صورتیں ہیں، محافظانہ اور مصلحانہ، پہلی صورت میں یعنی اس صورت میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اور ان کو گھروں سے نکالا جائے، مسلمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ حکم) دوسری صورت جس میں جہاد کا حکم ہے ۹:۴۹ میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات کو غور سے پڑھیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہور جمعیت اقوام کے اجلاس میں Collective Security کہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ اگر گزشتہ زمانہ کے مسلمان مدبرین اور سیاسیین قرآن پر تدبر کرتے تو اسلامی دنیا میں جمعیت اقوام کے بنے ہوئے آج صدیاں گئی ہوتیں۔ جمعیت اقوام جو زمانہ حال میں بنائی گئی ہے اس کی تاریخ بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ جب تک اقوام کی خودی قانون الٰہی کی پابند نہ ہو، امن عالم کی کوئی سبیل نہیں نکل سکتی۔ جنگ کی مذکورہ بالا دو صورتوں کے سوائے میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا۔ جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علیٰ ہذا القیاس، دین کی اشاعت کے لیے تلوار اٹھانا بھی حرام ہے۔ (۴) شاہین کی تشبیہہ محض شاعرانہ تشبیہہ نہیں، اس جانور میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں۔ (۱) خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔(۲) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا (۳) بلند پرواز ہے (۴) خلوت پسند ہے (۵) تیز نگاہ ہے آپ کے خط کا جواب حقیقت میں طویل ہے لیکن افسوس کہ میں طویل خط لکھنا تو درکنار، معمولی خط و کتابت سے بھی قاصر ہوں۔ محمد اقبال میر سید غلام بھیک نیرنگ کے نام (۱۰۷) (۱) لاہور ۴۔ جنوری ۱۹۲۲ء مخدومی میر صاحب، السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں آپ کو اس اعزاز کی خود اطلاع دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فروتر ہیں۔ سینکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے، سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضہ میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی انشاء اللہ! اقبال کی زندگی مومنانہ نہیں لیکن اس کا دل مومن ہے۔ مقدمہ سجاد حسین میں میں نے محض اپنا فرض ادا کیا، شکریے کا مستحق نہیں ہوں۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۱۰۸) (۲) لاہور ۲۴۔ جنوری ۱۹۶۷ء ڈئیر میر صاحب، السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ، کہ خیریت ہے۔ چندہ اس کانفرنس کے لیے انشاء اللہ ہو جائے گا۔ بڑے آدمیوں کی منت نہ کرنی پڑے گی۔ فی الحال تین آدمیوں نے آٹھ ہزار روپے جمع کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے۔ باقی روپیہ بھی، اس غرض کے لیے، عام مسلمان دینے کو تیار ہو جائیں گے، اور میں سمجھتا ہوں کہ رقم مطلوبہ کا بہت بڑا حصہ غالباً لاہور ہی سے جمع کر لوں گا بلکہ میرا ارادہ یہ ہے کہ جب تک رقم مطلوبہ کے وعدے پرائیویٹ طور پر ہو نہ جائیں، اس کانفرنس کے متعلق کوئی اعلان نہ کیا جائے۔ یورپ اور امریکا سے کم از کم آٹھ دس آدمیوں کو دعوت دی جائے گی، باقی جو مسلمان یورپین ہندوستان میں موجود ہیں، ان کی فہرست تیار کی جائے گی، آپ فی الحال اس فہرست کی تیاری میں مدد دیں اور اپنے احباب کو خطوط لکھ کر ان کے مفصل پتے دریافت کریں۔ کم از کم سو یورپین مسلمان اس کانفرنس میں جمع ہو جائیں تو خوب ہو۔ کانفرنس کے اجلاسوں کے لیے ٹکٹ لگانے کا قصد ہے۔ آپ اپنے دوست سے کہیں کہ فی الحال یہ خیال کانفیڈ نیشل ہے۔ مسٹر پکٹ ہال کو میں نے حیدر آباد خط لکھا تھا، ان کو اس خیال سے نہ معلوم کیوں ہمدردی نہیں۔ میں انگلستان خط و کتابت کر رہا ہوں۔ مخلص محمد اقبال اگر کچھ کمی چندے میں رہ گئی تو والی بھوپال سے مدد کی التجا کرنا بہتر ہو گا محمد اقبال ( ۱۰۹) ( ۳) لاہور ۵۔ دسمبر ۱۹۶۸ء ڈیئر میر صاحب، السلام علیکم! میرے نزدیک تبلیغ اسلام کا کام اس وقت تمام کاموں پر مقدم ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمانوں کا مقصد سیاسیات سے محض آزادی اور اقتصادی بہبودی ہے اور حفاظت اسلام اس مقصد کا عنصر نہیں ہے، جیسا کہ آج کل کے قوم پرستوں کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے، تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہ ہوں گے۔ یہ بات میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں اور سیاسیات حاضرہ کے تھوڑے سے تجربہ کے بعد ہندوستان کی سیاسیات کی روش جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، خود مذہب اسلام کے لیے ایک خطرۂ عظیم ہے۔ میرے خیال میں شدھی کا خطرہ اس خطرے کے مقابلے میں کچھ وقعت نہیں رکھتا یا کم از کم یہ بھی شدھی ہی کی ایک غیر محسوس صورت ہے۔ بہرحال، جس جانفشانی سے آپ نے تبلیغ کا کام کیا ہے، اس کا اجر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دے سکتے ہیں۔ میں انشاء اللہ، جہاں جہاں موقع ہو گا، آپ کے ایجنٹ کے طور پر کہنے سننے کو حاضر ہوں مگر آپ اور مولوی عبدالماجد بدایونی جنوبی ہندوستان کے دورے کے لیے تیار رہیں۔ باقی رہا لیکچروں کے ترجمے کا کام۔ سو یہ کام نا ممکن نہیں تو مشکل اور از بس مشکل ضرور ضرور ہے۔ ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے، اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیری ہے اور اس تعمیر میں میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خواں دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے والے (یا سننے والے) کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔ تین لیکچر امسال لکھے گئے ہیں، تین آئندہ سال لکھوں گا اور مدراس ہی میں دسمبر ۶۹ء یا جنوری ۳۰ء میں دوں گا۔ حیدر آباد دکن بھی ٹھیروں گا، کیونکہ عثمانیہ یونیورسٹی کا تار آیا ہے کہ لیکچر وہاں بھی دیے جائیں۔ آئندہ دسمبر تک یہ تمام لیکچر تیار ہو کر چھپ جائیں گے، اس وقت میں آپ کی خدمت میں ایک کاپی بھیج سکوں گا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال مولوی الف دین کے نام ( ۱۱۰) ( ۱) لاہور ۹ جنوری ۱۹۱۷ء مخدومی مولوی صاحب، السلام علیکم! خط ملا، تکلیف فرمائی کا شکریہ قبول ہو۔ افسوس کہ میجر کمرون سے میری واقفیت نہیں، اور نہ جہاں تک مجھے معلوم ہے میرے کسی دوست سے ان کی واقفیت ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اس قسم کے رسوخ سے کوسوں بھاگتا ہوں اور اس کے وجوہ خاص ہیں جن کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ خود سمجھتے ہوں گے۔ آپ کے اشعار نہایت عمدہ ہیں۔ علم غائب اور نص غائب الخ کا پورا شعر کاٹ ڈالیے اور حزر جاں لا الٰہ الخ کا دوسرا مصرع کاٹ کر اور مصرع غور فرمائیے۔ باقی اشعار نہایت عمدہ اور صاف ہیں۔ مثنوی اسرار خودی کے دوسرے حصہ کا قریب پانچ سو شعر لکھا گیا ہے مگر ہاتف کبھی کبھی دو چار ہوتے ہیں، اور مجھے فرصت کم ہے امید کہ رفتہ رفتہ ہو جائیں گے۔ ہجرت کے مفہوم کے متعلق جو چند اشعار لکھے ہیں عرض کرتا ہوں تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ یہ کیا چیز ہو گی۔ محمد اقبال، لاہور ہندی و چینی سفال جام ماست رومی و شامی گل اندام ماست قلب ما از ہند دردم و شام نیست مرز بوم او بجز اسلام نیست عقدۂ قومیت مسلم کشود از وطن آقائے ما ہجرت نمود دست اویک ملت گیتی نورد بر اساس کلمہ تعمیر کرد تاز بخشش ہائے آں سلطان دیں مسجد ماشد ہمہ روئے زمین آنکہ در قرآں خدا اور استود آں کہ حفظ جان اور موعود بود دشمناں بے دست و پا از ہیتبش لرزہ برتن از شکوہ نطرتش پس چرا از مسکن آبا گریخت؟ توچہ پنداری کہ از اعدا گریخت؟ قصہ گویاں حق زما پوشیدہ اند معنی ہجرت غلط فہمیدہ اند ہجرت آئین حیات مسلم است ایں زا اسباب ثبات مسلم است معنی آواز تنک آبی رم است ترک شبنم بہر تسخیر یم است مہر را آزادہ رفتن آبروست عرصہ آفاق زیر پائے اوست بگزر از گل گلستاں مقصود تست ایں زیاں پیرایہ بند سود تست ہمچوں جو سرمایہ از باراں مخواہ بے کراں شو در جہاں پایاں مخواہ بود بحر تلخ دویک سادہ دشت ساحلے ور زید واز شرم آب گشت بایدت آہنگ تسخیر ہمہ تا تومی باشی فراگیر ہمہ صورت ماہی بہ بحر آباد شو یعنی از قید وطن آزاد شو ہر کہ از بند جہات آزاد شد چوں فلک در شش جہات آباد شد بوئے گل از ترک گل جولانگرست در فراخائے چمن خود گستر است اے کہ یک جا در چمن انداختی مثل بلبل باگلے در ساختی چوں صبا بار قبول از دوش گیر گلشن اندر حلقہ آغوش گیر مطبوعہ نسخہ میں اشعار کی ترتیب مختلف ہے اور بعض الفاظ میں تغیر ہے، (باقی اگلے صفحہ پر) پروفیسر شجاع الدین ناموس کے نام ( ۱۱۱) ( ۱) لاہور ۲۰ جنوری ۱۹۳۱ء ڈیئر خواجہ شجاع، السلام علیکم آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ بڑی خوشی سے تشریف لائیے! میں ۱۴۔ فروری کو غالباً لاہور ہی میں ہوں گا، اگر کہیں باہر جانے کا اتفاق ہو گیا تو لکھ بھیجوں گا۔ فوٹو میرے پاس وقت موجود نہیں۔ لیکن میں کوشش کروں گا کہ آپ کی تشریف آوری تک دستیاب ہو جائیں۔ باقی رہے منظومات، سو یہ ہندی فارسی ہے ایک ایرانی کو کیا پسند آئے گی! میرے زیر نظر حقائق اخلاقی دملی ہیں۔ زبان میرے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ فن شعر سے بھی میں بحیثیت فن کے نابلد ہوں۔ اگر ان خیالات کو کوئی شخص ان کی مروجہ زبان میں لکھ دے تو شاید ان لوگوں کے لیے مفید ہو۔ بہرحال جو کچھ شائع ہو چکا ہے، حاضر کر دیا جائے گا۔ آخری نظم جاوید نامہ جس کے دو ہزار شعر ہوں گے، ابھی ختم نہیں ہوئی، ممکن ہے مارچ تک ختم ہو جائے۔ یہ ایک قسم کی ڈوائین کامیڈی (گزشتہ سے پیوستہ) شعر نمبر ۴ کا پہلا مصرع مطبوعہ نسخہ میں یوں ہے حکمتش یک ملتی گیتی نورد شعر نمبر ۸ کا دوسرا مصرع مطبوعہ نسخہ میں ’’تو گماں داری کہ از اعدا گریخت‘‘ ہے شعر نمبر ۱۷ کے دوسرے مصرع میں وطن کے بجائے لفظ مقام ہے شعر نمبر ۱۸ کے پہلے مصرع میں ’’ہند‘‘ کے بجائے ’’قید‘‘ ہے۔ ہے اور مثنوی مولانا رومؒ کی طرز پر لکھی گئی ہے۔ اس کا دیباچہ بہت دلچسپ ہو گا اور ا س میں غالباً ہندو ایران بلکہ تمام دنیائے اسلام کے لیے نئی باتیں ہوں گی۔ ایرانیوں میں حسین ابن منصور حلاج، قرۃ العین، ناصر خسرو علوی وغیرہ کا نظم میں ذکر آئے گا۔ جمال الدین افغانی کا پیغام مملکت روس کے نام ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں! امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا مخلص محمد اقبال ( ۱۱۲) ( ۲) لاہور (بلا تاریخ) مائی ڈیئر مسٹر شجاع! آپ نے کتاب سیر السما کے سلسلہ میں جو زحمت گوارہ فرمائی، اس کے لیے نہایت ممنون ہوں، میں چاہتا ہوں کہ آپ کتاب کا بغور مطالعہ فرمائیں۔ مجھے صرف اس قدر اطلاع کی ضرورت ہے کہ آیا اس کتاب کا موضوع فلکیات سے ایک سائنٹیفک بحث ہے یا صرف اس میں آسمان کی کیفیات، تخیل یا مذہبی تجربہ یعنی مشاہدہ روحانی یا وحی و الہام کی بناء پر لکھی گئی ہیں۔ اکثر مسلمان صوفیا نے آسمانوں سے اسی انداز سے بحث کی ہے۔ اگر کتاب پر موخر الذکر صورت کا اطلاق ہوتا ہو تو میں یا خود آؤں گا یا چودھری محمد حسین صاحب کو بھیجوں گا۔ آپ کا محمد اقبال ( ۱۱۳) ( ۳) لاہور ۲۰ جنوری ۱۹۳۱ء ڈیئر خواجہ شجاع، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ نے کتاب کی عبارت نقل کرنے میں بڑی زحمت اٹھائی۔ میر سراج الدین صاحب میرے پرانے مہربان ہیں۔ میں نے ان کو بھی اس کتاب کے لیے لکھا تھا۔ بہرحال، اب معلوم ہوا کہ کتاب میرے مطلب کی نہیں ہے۔ آپ لاہور تشریف لائیں تو فہرست ہمراہ لیتے آئیں۔ ممکن ہے بعض کتابیں یا کل، پنجاب یونیورسٹی خرید لے۔ پروفیسر شفیع جو پنجاب یونیورسٹی کے عربی کے پروفیسر ہیں اور جن کو غالباً آپ بھی جانتے ہوں گے، وہ بھی اس فہرست کو دیکھ لیں گے، اور دیکھنے کے بعد یونیورسٹی میں رپورٹ کر سکیں گے۔ زیادہ کیا عرض کروں! امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۱۴) ( ۴) لاہور ۸ مئی ۱۹۳۲ء جناب منعمی صاحب! السلام علیکم۔ اچار کے لیے بہت بہت شکریہ۔ واقعی مجھے اچار شلہ سے بہت محبت ہے۔ خورجہ سے خود بھی ایک دفعہ منگوایا تھا مگر وہ کچھ ایسا اچھا نہ تھا، جیسا سنا تھا، اس سے کم پایا۔ آپ کے خط میں میں نے خورجہ کو خواجہ پڑھا اور اس سے یہ سمجھا کہ ساخت خواجہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ اچار آپ نے خود بنایا ہے، بہرحال، شکریہ قبول کیجئے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۱۵) ( ۵) لاہور ۲۱۔ اگست ۱۹۳۲ء ڈیر منعمی صاحب، السلام علیکم! میں آج صبح دہلی سے واپس آیا تو آپ کا خط ملا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ ہندوستان سے باہر ہیں۔ بہرحال جس طرح آپ نے ایران میں رہ کر فارسی سیکھی، اسی طرح اب عربی سیکھنے کا موقع ہے خوب سیکھئے! مگر مجھے اندیشہ ہے کہ عربی دانی سے آپ کی دل چسپی جو آپ کو فارسی لٹریچر سے ہے، کم ہو جائے گی۔ کوئی آدمی عربی زبان کے چارم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ میں نے طالب علمی کے زمانے میں خاصی عربی سیکھ لی تھی مگر بعد میں اور مشاغل کی وجہ سے اس کا مطالعہ چھوٹ گیا، تاہم مجھے اس زبان کی عظمت کا صحیح اندازہ ہے آپ کے خط کے ساتھ ہی انگلستان ہی Aristotelian Societyکا دعوت نامہ پہنچا کہ انگلستان آ کر اس سوسائٹی کے سامنے لیکچر دوں۔ ابھی جواب نہیں لکھ سکا۔ اگر عراق کی طرف سے بھی دعوت آ گئی تو کیا عجب مزید کشش کا باعث ہو جائے اور میں ایک دفعہ پھر گھر سے باہر نکل سکوں۔ اگر اب کے نکلا تو سپین کی سیر کا بھی قصد ہے۔ انشاء اللہ، عربوں کے قدیم شہر بھی دیکھوں گا اور ان پر لکھوں گا بھی امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۱۱۶) ( ۶) بھوپال ۵۔ اگست ۱۹۳۵ء ڈیئر مسٹر شجاع! میں بغرض علاج برقی بھوپال میں مقیم ہوں اور اگست کے آخر تک یہیں رہونگا۔ میری صحت عامہ پہلے کی نسبت بہت اچھی ہے اور آواز میں بھی کسی قدر فرق ہے۔ امید ہے کہ اس دفعہ کے علاج سے بہت فائدہ ہو گا۔ رب شہتوت کی نسبت کچھ عرض نہیں کر سکتا لیکن بعض لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ مفید ہے۔ بہرحال آزمانے پر معلوم ہو گا۔ میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے محض میرے لیے اس درخت کی حفاظت کی اگر اس کا پھل فائدہ نہ بھی کرے تو ممکن ہے آپ کے اخلاص کی برکت سے فائدہ ہو جائے۔ باقی، خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ والسلام محمد اقبال مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ کے نام ( ۱۱۷) ( ۱) لاہور ۲۳ جون ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب پیر صاحب! آپ کا نوازش نامہ ملا جسے پڑھ کر میں بہت متاثر ہوا۔ اس ملک اور اس زمانہ میں جب کہ اولیائے اسلام کی اولاد نے اپنے اسلاف کے تمام اوصاف کھو دیے ہیں اور ان کی بزرگی کو اپنی ریاست کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے، میں آپ کے وجود کو غنیمت تصور کرتا ہوں۔ مجھ کو یقین ہے کہ آپ کا اخلاص اور وہ محبت جو آپ کے حضور رسالت ماب ؐ سے ہے۔ آپ کے خاندان پر بہت بری برکات کے نزول کا باعث ہو گی۔ باقی میری نسبت جو حسن ظن آپ کو ہے، وہ بھی محض آپ کے اخلاق کریمانہ کا نتیجہ ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۱۸) ( ۲) لاہور یکم جولائی ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ پیر صاحب! آپ کا خط جو آج ملا ہے، آپ کی صفائی باطن کی دلیل ہے، کیونکہ میں بھی ۱۶جولائی ۱۹۳۷ء کے بعد ہی کشمیر جانے کا عزم کر رہا ہوں اگرچہ ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا۔ میرے لڑکے، جاوید کا سکول ۱۶جولائی کو بند ہو گا۔ اگر میں نے قطعی فیصلہ کشمیر جانے کا کر لیا تو اس کو چند روز پہلے سکول سے چھٹی دلائی جا سکتی ہے۔ میں نے اپنے بعض دوستوں کو کشمیر کوٹھی کے لیے خطوط بھی لکھے ہیں جن کے جواب کی توقع آج یا کل تک ہے۔ میرے ایک دوست سید مراتب علی شاہ، آرمی کنٹریکٹر نے پرسوں یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ اگر آپ کشمیر جانے کا عزم کر لیں تو میری سب سے بڑی کار جس میں سات آٹھ آدمی بیٹھ سکتے ہیں، آپ کشمیر لے جا سکتے ہیں۔ مگر اس سارے معاملے میں ایک رکاوٹ ہے جو اگر دور نہ ہوئی، اور کوئی غیر متوقع رکاوٹ پیش نہ آئی تو میں اس کا آپ سے ذکر بوقت ملاقات زبانی کروں گا۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اگر میں کشمیر جا سکا تو آپ کی معیت باعث برکت ہو گی۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۱۹) ( ۳) لاہور ۲۵ جولائی ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب پیر صاحب! السلام علیکم۔ کئی روز ہوئے میں نے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھا تھا جس کے جواب کا اب تک انتظار ہے۔ خدا کرے کہ آپ بمع اعزہ مع الخیر ہوں۔ معلوم نہیں ہوا کہ آپ کشمیر جا سکے یا نہیں۔ افسوس کہ میں اب تک نہیں جا سکا سر عبدالصمد خاں ہوم منسٹر کشمیر کے خط کا انتظار ہے۔ باقی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے، آپ اپنی خیریت سے اطلاع فرمائیں۔ لاہور میں خوب گرمی ہے۔ بارش کم ہوئی ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۲۰) ( ۴) لاہور ۱۱۔ اگست ۱۹۳۷ء مخدومی جناب قبلہ پیر صاحب! نوازش نامہ ابھی موصول ہوا جس کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔ حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو۔ اور اگر آپ رفیق راہ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ عراق کی راہ جائیں تو بہت سے مقدس مقامات کی زیارت ہو جاتی ہے لیکن بغداد سے مدینہ تک چھ سو میل کا طویل سفر ہے جو لاری پر کرنا پڑتا ہے۔ صحرائی سفر بہت دشوار گزار ہے۔ وہاں کی گورنمنٹ کی طرف سے ایک اطلاع اخباروں میں شائع ہوئی تھی کہ جن لوگوں کی صحت اچھی نہیں، وہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔ مولوی محبوب عالم، مرحوم، ایڈیٹر پیسہ اخبار کی صاحبزادی فاطمہ بیگم، ایڈیٹر ’’خاتون‘‘ جو حال ہی میں واپس آئی ہیں، وہ بھی اس راستہ کی دشواری کی تصدیق کرتی ہیں۔ آپ ایسے باہمت جوان کے لیے تو یہ سفر قطعاً مشکل نہیں۔ ہمت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز و ناتواں ہے۔ کیا عجب کہ خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور آپ کی معیت اس سفر میں نصیب کرے۔ چند روز ہوئے، سر اکبر حیدری وزیر اعظم حیدر کا خط مجھ کو ولایت سے آیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ اگر تمہاری معیت میں نصیب ہو تو بڑی خوشی کی با ت ہے۔لیکن درویشوں کے قافلہ میں جو لذت و راحت ہے، وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہو سکتی ہے۔ میرے دوست غلام بھیک نیرنگ نے بھی خطوط اپنے احباب کو بغداد میں میرے کہنے پر لکھے ہیں کہ مذکورہ بالا راستہ کے کوائف سے مفصل آگاہی ہو۔ ان کا جواب آنے پر آپ کو بھی اطلاع دوں گا۔ باقی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید کہ آپکا مزاج مع الخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۲۱) ( ۵) ۲۱ اگست ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب پیر صاحب! آپ کا نوازش نامہ بڑے انتظار کے بعد ملا۔ یہ تو میں اندازہ کر سکتا تھا کہ آپ کشمیر نہیں جا سکے، لیکن مجھے اندیشہ تھا کہ آپ خدانخواستہ علیل نہ ہوں۔ آپ کے خط سے معلوم ہوا کہ ہر طرح خیریت ہے۔ الحمد للہ علی ذلک! میں انشاء اللہ ایک دفعہ ضرور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ موسم کی خوشگواری، مرغی، انڈے اور فروٹ کی کثرت کی کشش سے بہت زیادہ کشش خود آپ کی ذات کی ہے مگر فی الحال میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں۔ یہی وجہ منجملہ اور وجوہ کے تھی کہ میں کشمیر نہیں جا سکا۔ اس کے علاوہ موجودات حالات میں سفر کروں تو بچوں کو کس کے پاس چھوڑ جاؤں! گزشتہ ماہ سے ایک جرمن خاتون ان کی نگہداشت کے لیے رکھی ہے۔ جب بچے کچھ مدت میں اس کے ساتھ مانوس ہو جائیں گے، اور وہ بھی گھر کے معاملات سے پوری واقف ہو جائیگی تو مجھ کو لاہور سے باہر حرکت کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ لاہور میں اگرچہ بارش دو چار دفعہ ہوئی ہے تاہم گرمی ہے۔ رات کسی قدر خنک ہو جاتی ہے۔ امید کہ جناب والا کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۲۲) ( ۶) لاہور ۲ دسمبر ۱۹۳۷ء مخدومی جناب پیر صاحب! آپ کا خط آج صبح مل گیا۔ الحمد للہ کہ آپ خیریت سے ہیں او رحج کی تیاریوں میں مصروف۔ خدا تعالیٰ آپ کو یہ سفر مبارک کرے اور اس کے فرشتوں کی رحمتیں آپ کے شریک حال ہوں۔ کاش کہ میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا اور آپ کی صحبت کی برکت سے مستفیض ہوتا! لیکن افسوس ہے کہ جدائی کے ایام ابھی کچھ باقی معلوم ہوتے ہیں۔ میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جس کوں، تاہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے جرأت ہوتی ہے الطالح لی یعنی گنہگار میرے لیے ہے۔ امید ہے کہ آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہ فرمائیں گے۔ باقی، خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ میں آپ کے لیے دست بدعا ہوں۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۲۳) ( ۷) لاہور ۴ دسمبر ۱۹۳۷ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ پیر صاحب! السلام علیکم۔ آپ کے دونوں نواز ش نامے موصول ہو گئے ہیں۔ عراق کی طرف سے جو راستہ جاتا ہے، اس کے متعلق پورے طور پر تحقیق فرمائیے۔ مجھ کو تو یہی معلوم ہوا ہے کہ یہ راستہ اچھا نہیں، اور وہاں کی سرکاری اطلاع بھی یہی ہے کہ بیمار آدمی اس راستے سے سفر نہ کرے۔ باقی رہا آپ کا اطمینان قلب، سو آپ کو معلوم ہے کہ اطمینان قلب ذکر الٰہی سے پیدا ہوتا ہے اور ذکر الٰہی آپ کے آباو اجداد کی میراث ہے۔ سب نے یہ طریق انہیں سے سیکھا ہے۔ بالفاظ دیگر یہ آپ کی میراث ہے۔ میں آپ کے چہرے میں آثار سعادت دیکھتا ہوں۔ کوئی شخص آپ کو آپ کی میراث سے محروم نہیں کر سکتا۔ امید کہ جناب کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا مخلص محمد اقبال ( ۱۲۴) ( ۸) جاوید منزل لاہور ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۸ء مخدوم الملک جناب قبلہ پیر صاحب! السلام علیکم۔ امید کہ میرا خط جو جمال الدین والی میں آپ سے پہلے پہنچ گیا تھا، آپ کو مل گیا ہو گا، خدا کا شکر ہے کہ سفر میں صاحبزادہ بھی آپ کے شریک حال تھا۔ اس عمر میں سعادت حج نصیب ہونا اس کی خوش نصیبی کی دلیل ہے۔ میں نے آپ کے مخلص کا خط پڑھا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے احباب اور مخلصین آپ سے اس روحانیت کی بنا پر جو آپ نے اپنے آبا و اجداد سے ورثہ میں پائی ہے، بہت بڑی بڑی امیدیں رکھتے ہیں۔ ان امیدوں میں میں بھی شریک ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت، جہت، اثر، رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ کچھ عجب نہیں کہ جلد آپ کی طبیعت میں ایک بہت بڑا انقلاب پیدا ہو جس کی ابھی تک آپ کو توقع نہیں۔ افسوس ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں جن بزرگوں نے علم اسلام بلند کیا ان کی اولادیں دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے الا ماشاء اللہ! وقت تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں بزرگوں کی اولاد سے کسی کی روحانیت کو بیدار کر دے اور کلمہ اسلام کے اعلاء پر مامور کرے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ امید ہے کہ آپ مع الخیر ہوں گے۔ میں آپ کے جانے سے چند روز بعد بہت بیمار ہو گیا۔ یہاں تک کہ زندگی سے مایوسی تھی، دمے کے متواتر دورے ہوئے۔ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے گودمے میں بہت کچھ افاقہ ہو گیا ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۱۲۴) ( ۹) جاوید منزل لاہور مخدوم و مکرم جناب قبلہ پیر صاحب! آپ کا تار گزشتہ رات کراچی سے ملا جس کو پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔ میں آپ کی بخیریت واپسی پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کا حج قبول فرمائے اور آپ کو اپنے دین کی محبت اور اپنے حبیب کے عشق سے مالا مال فرمائے۔ امید ہے کہ اس خط کے پہنچنے تک آپ بھی جمال الدین والی میں پہنچ گئے ہوں گے۔ والسلام محمد اقبال مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام ( ۱۲۶) ( ۱) لاہور ۶ جنوری ۱۹۲۲ء مخدومی، السلام علیکم! نوازش نامے کے لیے سراپا سپاس ہوں، آپ کے مختصر الفاظ نے اس موقع پر میرے جذبات کی نہایت صحیح ترجمانی کی ہے۔ حالات مختلف ہوتے تو میرا طریق عمل بھی اس بارے میں مختلف ہوتا لیکن یہ بات دنیا کو عنقریب معلوم ہو جائے گی کہ اقبال کلمہ حق کہنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ ہاں کھلی کھلی جنگ اس کی فطرت کے خلاف ہے۔ اسرار خودی کا ریویو دیکھنے کا منتظر ہوں۔ سی آر داس کا خطبہ صدارت کانگرس آپ نے دیکھا ہو گا۔ اس نے اسی روحانی اصول کو سیاسی رنگ میں پیش کیا ہے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا ۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۱۲۷) ( ۲) لاہور ۱۷ اپریل ۱۹۲۲ء مخدومی، السلام علیکم! والا نامہ مل گیا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مجھے آپ سے قلبی تعلق ہے اس واسطے ہمیشہ آپ کے خط سے مسرت ہوتی ہے۔ پیام مشرق اپریل کے آخر تک شائع ہو جائے گا۔ چند ضروری نظمیں ذہن میں تھیں لیکن افسوس ہے انہیں ختم نہ کر سکا۔ فکر روزی قاتل روح ہے۔ یکسوئی نصیب نہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ والد مکرم کا اصرار تھا کہ جتنا ہو چکا ہے، اسے شائع کر دیا جائے۔ آپ کے نوجوان دوست کے تبصرۂ پیام کو میں شوق سے پڑھوں گا۔ میرے ایک سکھ دوست اسرار خودی کا بھگوت گیتا سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان کی تحریر انگریزی میں ہو گی۔ میرے کلام کی مقبولیت محض فضل ایزدی ہے ورنہ اپنے آپ میں کوئی ہنر نہیں دیکھتا اور اعمال صالحہ کی شرط بھی مفقود ہے۔ مولیٰنا کی کتاب فیہ مافیہ کو آپ خود ایڈیٹ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ میں وسائل ایڈٹ کرنے کے بہت زیادہ ہیں لیکن آخر ہندی مسلمانوں کو بھی تو یہ کام کچھ نہ کچھ شروع کرنا ہے میری رائے میں آپ یہ ضروری کام خود کریں، بعد میں یورپین ایڈیشن بھی نکل آئے گی۔ جوہر کے نعتیہ کلام کو میں نے بھی خاص طور پر نوٹ کیا ہے، بلکہ میں تو ان کے روحانی انقلاب کو ایک مدت سے دیکھ رہا ہوں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۲۸) ( ۳) لاہور ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۲۳ء مخدومی، السلام علیکم! پیام مشرق میں چند اشعار بوئے گل پر ہیں جو آپ کے ملاحظہ سے گزرے ہوں گے، آخری شعر ہے۔ زندانی کہ بندز پائش کشادہ اند آہے گذاشت است کہ بونام دادہ اند حال میں جامعہ ملیہ علی گڑھ کے رسالے میں پیام مشرق پر ریویو کرتے ہوئے مولانا محمد اسلم جیرا جپوری ’’آہے گذاشت است‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ یہ ترکیب مکروہ معلوم ہوتی ہے، یہی مطلب کسی اور طرح ادا کرنا چاہیے۔ میں آپ کا خیال معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مولیٰنا سید سلیمان ندوی صاحب سے بھی استصواب کروں گا۔ چونکہ دوسری ایڈیشن جلد نکالنے کا ارادہ ہے، اس واسطے اگر آپ کا جواب جلد مل جائے تو بہتر ہو۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور ( ۱۲۹) ( ۴) مکرمی! پیام من کے لیے شکر گزار ہوں۔ آپ کا تبصرہ بجائے خود ایک نہایت مفید رسالہ ہے۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ۳۔ نومبر ۱۹۲۳ء نوٹ: مکتوب الیہ نے ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ مع اپنے مفصل تبصرہ کے شائع کیا تھا۔ ( ۱۳۰) ( ۵) لاہور ۲۶ جنوری ۱۹۲۴ء مخدومی، السلام علیکم! ابھی ایک عریضہ ڈاک میں ڈال چکا ہوں۔ مکرر عرض ہے کہ آپ صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں فوراً خط لکھیں کہ وہ تجویز معلومہ کورٹ کے سامنے پیش نہ کریں۔ کم از کم مجھ سے پوچھے بغیر پیش نہ رکیں۔ والسلام تاکید مزید عرض کرتا ہوں۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۳۱) ( ۶) لاہور ۲۲۔ مارچ ۱۹۲۵ء مخدومی، السلام علیکم! والا نامہ مل گیا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں مگر آپ کانوٹ پڑھ کر مجھے بہت تعجب ہوا۔ معلوم ہوتا ہے عدیم الفرصتی کی وجہ سے آپ نے وہ مضمون بہت سرسری نظر سے دیکھا ہے۔ بہرحال میں آپ کا خط زیر نظر رکھوں گا۔ مضمون کا مسودہ ارسال فرمائیے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال نوٹ: اقبال نے اپنے انگریزی مقالہ ’’اجتہاد‘‘ پر رائے طلب کی تھی، اور جو رائے دی گئی، خاصی مخالفانہ تھی۔ ( ۱۳۲) ( ۷) لاہور ۵ جنوری ۱۹۲۹ء مخدومی، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ کل موصول ہوا جس کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔ میں بھی ایک ہفتہ کے لیے علی گڑھ گیا تھا۔ وہاں ایک نئی زندگی کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔ سید راس مسعود بہت مستعد آدمی معلوم ہوتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ان کی مساعی سے یونیورسٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی ہو گی۔ آپ بھی کبھی وہاں جایا کریں اور مذہبی مضامین پر طالب علموں سے گفتگوئیں کیا کریں تو نتائج بہت اچھے ہوں گے۔ باوجود بہت سی مخالف قوتوں کے جو ہندوستان میں مذہب کے خلاف (اور بالخصوص اسلام کے خلاف) اس وقت عمل کر رہی ہیں مسلمان جوانوں کے دل میں اسلام کے لیے تڑپ ہے لیکن ا فسوس کہ کوئی آدمی ہم میں نہیں جس کی زندگی قلوب پر موثر ہو! بانگ درا کی تیسری ایڈیشن جس کی تعداد دس ہزار ہو گی، چھپ رہی ہے غالباً دو ماہ تک تیار ہو جائے گی۔ لاہور کانگرس نے آزادی کامل کا اعلان کر دیا ہے۔ جماعتی اختلافات کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ دیکھئے ہندوؤں کا لبرل گروہ ان اختلافات کا کیا فیصلہ کرتا ہے مسلمانوں میں آزادی کے لیے ایک ولولہ موجود ہے مگر مشکل ایں نیست کہ بزم از سر ہنگامہ گذشت مشکل ایں است کہ بے نقل و ندیم اندہمہ مخلص محمد اقبال نوٹ: اس خط کی تاریخ جیسا کہ عام اتفاق ہوتا ہے سال بھر کی عادت کی وجہ سے جنوری ۱۹۲۹ء لکھ گئے ہیں حالانکہ جنوری ۱۹۳۰ء لکھنا چاہیے تھا۔ سید راس مسعود ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ کے وائس چانسلر ہو کر آئے تھے اور اقبال دسمبر ۱۹۲۹ء کے آخری ہفتہ میں علی گڑھ آئے۔ ( ۱۳۳) ( ۸) لاہور ۲۷جولائی ۱۹۳۳ء جناب مکرم، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔ میں بڑی خوشی سے ایڈریس لکھوں گا لیکن اسی دسمبر میں نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو شاید میں ہندوستان میں نہ ہوں گا اور اگر ہوا تو ایک اور ایڈریس لکھنے کا وعدہ کر چکا ہوں ہاں، آئندہ سال اگر سید راس مسعود چاہیں تو میں حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے اخبار میں میرے مضمون کا ذکر کیا ہے جو انگریزی اخباروں میں چھپا ہے۔ عرض یہ ہے کہ یہ اصل میں ایک انٹرویو تھا جو ہنگری کے ایک اخباری نامہ نگار کو دیا گیا تھا۔ اس نے بعض خاص سوالات کیے تھے جن کے جواب دیے گئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں اس نے اس انٹرویو کو ایک مستقل مضمون کی صورت دے کر انگریزی اخبارات میں بھیج دیا اور بہت سی ضروری باتیں چھوڑ گیا، شاید اس وجہ سے کہ اس کے مضمون کا ربط قائم رہے۔ تعجب ہے کہ لکھنو کے اخبار ہمدم میں کسی صاحب نے اس پر اعتراضات کیے ہیں جنہوں نے مضمون مذکور کے مقاصد کو ٹھیک طور پر نہیں سمجھا۔ آپ نے اپنے پہلے خط میں وطنیت کے اصول پر اسلام کے اصول اجتماعی کو ترجیح دینے پر مجھے امام العصر کہا ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں ایک نیشنلسٹ اخبار جس کے چار ایڈیٹر ہیں اور چاروں مسلمان ہیں اور جس کا پہلا نمبر لاہور سے آج ہی نکلا ہے، لکھتا ہے کہ اقبال نے وطنیت کا عذر لنگ تراشا ہے۔ دیکھا، مغربی کالجوں کے پڑھتے ہوئے مسلمان نوجوان روحانی اعتبار سے کتنے فرومایہ ہیں! ان کو معلوم نہیں کہ اسلامیت کیا ہے اور وطنیت کیا چیز ہے۔ وطنیت ان کے نزدیک لفظ وطن کا محض ایک مشتق ہے اور بس امید کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔ محمد اقبال ( ۱۳۴) ( ۹) مخدومی، آپ کا پوسٹ کارڈ ابھی ملا ہے۔ ’’سچ‘‘ کے دو نمبر بھی مل گئے تھے۔ جن کے لیے شکر گزار ہوں۔ گزشتہ پانچ چار سال کے تجربے نے مجھے بہت درد مند کر دیا ہے، اس لیے جلسوں میں میرے واسطے کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ میں کہیں نہیں جا رہا، نہ پٹنہ نہ کانپور، امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال لاہور ۲۴ ستمبر ۱۹۳۳ء نوٹ: پٹنہ اور کانپور میں اس سال بہت اہم قومی اجتماعات ہو رہے تھے۔ ( ۱۳۵) ( ۱۰) مکرمی، السلام علیکم! جہاں تک مجھے معلوم ہے، لفظ برزخ کا کوئی ترجمہ انگریزی زبان میں نہیں ہے، بعض مترجمین قرآن نے لفظBarrier لکھا ہے مگر یہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لفظ برزخ ایرانی لفظ پروک کا معرب ہے۔ مگر مجھے نہیں معلوم کہ قدیم ایرانیوں کے نزدیک پروک کا کیا مفہوم تھا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، موت، برزخ، حشر و نشر وغیرہ Biological اصطلاحات ہیں اور ان کی حقیقت کچھ معلوم نہیں سوائے اس کے جو صوفیائے کرام نے اپنے مکاشفات کی بنا پر لکھی ہے۔ میری رائے میں تو برزخی زندگی کا ترجمہ Burzukh Life ہی کریں۔ لیکن حقیقت برزخ پر ایک مفصل نوٹ دینا ضروری ہے۔ اس نوٹ میں موت، حشر وغیرہ کی حقیقت بھی اسلامی نقطہ خیال سے واضح کرنا چاہیے۔ والسلام محمد اقبال ۱۹ جون ۱۹۳۴ء نوٹ: مکتوب الیہ نے اپنے انگریزی ترجمہ القرآن کے سلسلہ میں دریافت فرمایا تھا کہ لفظ برزخ کو انگریزی میں کیونکر منتقل کیا جائے۔ ( ۱۳۶) ( ۱۱) مخدومی، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے۔ جس کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔ میں خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہوں۔ صحت عامہ تو قریباً بحال ہو گئی ہے، البتہ آواز میں ابھی کسر باقی ہے۔ یہاں کے کالجوں کے مسلمان طلبہ کی ایک جمعیت ہے۔ا نہوں نے ایک اپیل شائع کی تھی کہ اقبال کے لیے جمعہ کے روز مسجدوں میں دعا کی جائے۔ اس اپیل سے اخباروں اور ان کے ناظرین کو غلط فہمی ہوئی۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا اور ترجمہ قرآن کا کام جاری ہو گا۔ والسلام محمد اقبال ۲۸اپریل ۱۹۳۶ء میجر سعید محمد خاں کے نام ( ۱۳۷) ( ۱) (اقبال کے نام سے ایک فوجی اسکول قائم کرنے کی تجویز کے جواب میں لکھاگیا) محترمی میجر صاحب! ایک معمولی شاعر کے نام سے فوجی اسکول کو موسوم کرنا کچھ زیادہ موزوں نہیں معلوم ہوتا۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آپ اس فوجی اسکول کا نام ’’ٹیپو فوجی اسکولـ‘‘ رکھیں۔ ٹیپو، ہندوستان کا آخری مسلمان سپاہی تھا جس کو ہندوستان کے مسلمانوں نے جلد فراموش کر دینے میں بڑی نا انصافی سے کام لیا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں جیسا کہ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے، اس عالی مرتبت مسلمان سپاہی کی قبر زندگی رکھتی ہے، بہ نسبت ہم جیسے لوگوں کے جو بظاہر زندہ ہیں یا اپنے آپ کو زندہ ظاہر کر کے لوگوں کو دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ نیاز مند محمد اقبال ( منقول از سیرت اقبال) سید محفوظ علی بدایونی کے نام ( ۱۳۸) ( ۱) لاہور ۲۱ دسمبر ۱۹۳۳ء مخدومی جناب سید صاحب،السلام علیکم! کیا مسلمان ریاضی دانوں میں کوئی اس بات کا بھی قائل ہوا ہے کہ مکان کے ابعاد تین سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں؟ یا نہیں شاید نصیر الدین طوسی نے ایسے امکان کا کہیں ذکر کیا ہے، مگر حوالہ یاد نہیں۔ آپ کے بدایوں میں ایک بزرگ ہیں جنہوں نے کچھ مدت ہوئی ایک رسالہ علم ہیئت پر شائع کیا تھا۔ غالباً کسی یونانی رسالے کا عربی ترجمہ تھا۔ مہربانی کر کے ان سے دریافت فرما کر مجھے مطلع فرمائیے۔ اس وقت ان کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ورنہ براہ راست انہی کی خدمت میں یہ عریضہ لکھتا اور آپ کو زحمت نہ دیتا۔ امید کہ آپ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر مندرجہ بالا سوال ان سے پوچھیں گے اور ان کے جواب سے مجھے جہاں تک ممکن ہو جلد مطلع فرمائیں گے والسلام مخلص محمد اقبال ( ۱۳۹) ( ۲) لاہور ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۵ء مخدومی، السلام علیکم! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ آپ مع الخیر ہیں۔ میں گزشتہ ۱۸ ماہ سے علیل ہوں سفر بہت کم کرتا ہوں۔ ہر تیسرے مہینے بھوپال جاتا ہوں۔ وہاں برقی علاج ہے جس سے کچھ فائدہ ہے۔ اب وائنا (آسٹریا) جانے کی فکر میں ہوں۔ یہ ظاہری علاج ہے۔ باطنی علاج صرف اس قدر ہے کہ آپ کے جد ؐ پر درود پڑھتا ہوں۔ آپ بھی دعا فرمائیے۔ اگر بدایوں آتا تو ضرور آپ ہی کے ہاں ٹھہرتا اور آپ کے روحانیات سے مستفیض ہوتا ۔والسلام مخلص محمد اقبال چودھری نیاز علی خاں صاحب کے نام (بانی ادارہ دار السلام پٹھانکوٹ) ( ۱۴۰) ( ۱) لاہور ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ء جناب چودھری صاحب، السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ آم اس سے پہلے مل گئے تھے جو نہایت شیریں ہیں۔ نیازی صاحب کے ہاتھ سے رسید لکھوا کے ارسال کر چکا ہوں۔ مہربانی کر کے اگر ممکن ہو تو اور آم اسی قسم کے ارسال کیجئے۔ آپ ضرور تشریف لائیں۔ میں آپ سے ادارہ کے متعلق گفتگو کروں گا۔ اسلام کے لیے اس ملک میں نازک زمانہ آ رہا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ احساس ہے، ان کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش اس ملک میں کریں۔ انشاء آپ کا ادارہ اس مقصد کو باحسن وجوہ پورا کرے گا۔ علماء میں مداہنت آ گئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ، اسلام سے بے پردا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت و عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں عوام میں جذبہ موجود ہے مگر ان کا کوئی بے عرض راہنما نہیں ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں! امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال حضرت علامہ مصطفیٰ المراغی شیخ جامعہ ازہر کے نام ( ۱۴۱) ( ۱) ہم نے ارادہ کیا ہے کہ پنجاب کے ایک گاؤں میں ایک ایسا ادارہ قائم کریں جس کی نظیر آج تک یہاں وقوع میں نہیں آئی۔ ہماری خواہش ہے کہ اس ادارہ کو وہ شان حاصل ہو جو دوسرے دینی اور اسلامی اداروں کی شان سے بہت بڑھ چڑھ کر ہو۔ ہم نے ارادہ کیا ہے کہ علوم جدیدہ کے چندفارغ التحصیل حضرات اور چند علوم دینیہ کے ماہرین کو یہاں جمع کریں۔ یہ ایسے حضرات ہوں جن میں اعلیٰ درجہ کی ذہنی صلاحیتیں موجود ہوں اور وہ اپنی زندگیاں دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہم ان کے لیے تہذیب حاضرہ کے شور و شغب سے دور ایک کونے میں ہوسٹل بنانا چاہتے ہیں جو کہ ان کے لیے ایک علمی اسلامی مرکز ہو۔ اور ہم ان کے لیے ایک لائبریری قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر قسم کی نئی اور پرانی کتاب موجود ہو، اور ان کی رہنمائی کے لیے ہم ایک ایسا جو کامل اور صالح ہو اور قرآن حکیم میں بصارت نامہ رکھتا ہو اور نیز انقلاب دور حاضرہ سے بھی واقف ہو، مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح سے واقف کرے اور تفکر اسلامی کی تجدید یعنی فلسفہ، حکمت، اقتصادیات اور سیاسیات کے علوم میں ان کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے علم اور تحریروں کے ذریعے تمدن اسلامی کے دوبارہ زندہ کرنے میں جہاد کر سکیں۔ اس تجویز کی اہمیت آپ پر منکشف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں آپ خود اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ لہٰذا میری تمنا ہے کہ آپ ازراہ عنایت ایک روشن خیال مصری عالم کو جامعہ ازہر کے خرچ پر ہمارے پاس بھیج کر ممنون فرمائیں تاکہ یہ شخص ہم کو اس کام میں مدد دے ۔ چاہیے کہ یہ شخص علوم شرعیہ اور تاریخ تمدن اسلامی میں ماہر ہو، نیز زبان انگریزی پر بھی قدرت کامل رکھتا ہو۔ علاوہ ازیں مجھے مصری وفد کے اراکین سے جنہوں نے پچھلے دنوں ہمیں اپنی زیارت سے مشرف فرمایا تھا، معلوم ہوا تھا کہ جامعہ ازہر اپنے خرچ پر چند مبلغین مختلف مقامات میں بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میں آپ سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مرکز اسلامی کی بنا جیسا کہ میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے۔ مقصد تبلیغ کے لیے مختلف مقامات پر مختلف مبلغین بھیجنے سے زیادہ اولیٰ و اقرب ہے۔ مجھے توقع ہے کہ دین حق کا نور اس مرکز سے ہندوستان کے تمام اطراف و اکناف میں پھیلے گا۔ نوٹ: یہ ایک خط کا اقتباس ہے۔ اصل خط عربی میں لکھا گیا تھا۔ محمد امین زبیری ایڈیٹر ’’ظل السلطان‘‘ بھوپال کے نام ( ۱۴۲) ( ۱) لاہور ۲۹ اپریل ۱۹۱۷ء مخدومی، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے۔ میری رائے میں اس بحث پر سب سے بہتر کتاب قرآن کریم ہے، تدبر شرط ہے، اس میں تمام باتیں موجود ہیں۔ بلکہ Modern Eugenics کے تمام مسائل بھی اس میں موجود ہیں۔ زمانہ حال کی سفر یجٹ عورتوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ایک کتاب Rights of Woman میری نظر سے گزری ہے۔ کسی عورت کی لکھی ہوئی ہے مگر افسوس ہے کہ مصنف کا نام ذہن میں محفوظ نہیں۔ جان سٹوارٹ ہل نے بھی اس پر ایک مفصل مضمون لکھا تھا۔ مخلص محمد اقبال نوٹ: مکتوب الیہ محمد امین زبیری وظیفہ یاب سرکار بھوپال، حال مقیم علی گڑھ اس زمانہ میں رسالہ ’’ظل السلطان‘‘ بھوپال کے ایڈیٹر تھے۔ جس میں مسائل نسواں پر اہم مباحث ہوتے تھے۔ اسی سلسلہ میں علامہ کا یہ خط ہے۔ مولانا شوکت علی کے نام ( ۱۴۳) ( ۱) (۱۹۱۴ء میں اولڈ بوائز ایسوسی ایشن ایم اے او کالج علی گڑھ کے سالانہ اجلاس میں دعوت شمولیت کے جواب میں) بھائی شوکت! اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفان بے تمیزی کے زمانہ میں گھر کی چار دیواری کو کشتی نوح سمجھتا ہے۔ دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے پر مجبوری ہے۔ تم مجھے علی گڑھ بلاتے ہو، میں ایک عرصہ سے خدا گڑھ میں رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کئی عمروں میں ختم نہیں ہو سکتی۔ علی گڑھ والوں سے میرا سلام کہیے مجھے ان سے غائبانہ محبت ہے اور اس قدر کہ ملاقات ظاہری سے اس میں کچھ اضافہ ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ یہ چند اشعار میری طرف سے ان کی خدمت میں عرض کر دیجئے۔ والسلام نظم کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا تمدن آفریں، خلاق آئین جہانداری وہ صحرائے عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا سماں الفقر فخری کا رہا شان امارت میں بآب درنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کای کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہانگیر و جہاندار و جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھو ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا ’’غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را‘‘ نیاز احمد کے نام ( ۱۴۴) ( ۱) مکتوب الیہ الٰہ آباد یونیورسٹی میں ایم اے کے طالب علم تھے اور سوشلزم اور کمیونزم کے مطالعہ کے بعد انہوں نے ڈاکٹر اقبال سے دریافت کیا تھا کہ تحریکات حاضرہ کے پیش نظر آئندہ تشکیل عالم کے سلسلہ میں اسلام کوئی قوت ہو گا یا نہیں۔ (انگریزی) لاہور ۱۱۔ فروری ۱۹۳۱ء ڈیئر مسٹر نیاز احمد! آپ کا خط ملا جس کے لیے شکر گزار ہوں۔ مجھے افسوس ہے مگر نہ تو میرے پاس اس قدر وقت ہے او رنہ ہی ایک مختصر خط اس کا متحمل ہو سکتا ہے کہ آپ نے جو سوالات کیے ہیں ان کے جوابات قلم بند کر سکوں۔ اصل میں آپ کے سوالات کے مکمل جواب کے لیے ایک کتاب درکار ہو گی۔ آپ میرے خطبات ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامی‘‘ جو میں علی گڑھ اور جنوبی ہندوستان میں دیے تھے، مطالعہ کیجئے۔ وہ شائع ہو چکے ہیں۔ مذہبی مسائل، بالخصوص اسلامی مذہبی مسائل کے فہم کے لیے ایک خاص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ا فسوس! کہ مسلمانوں کی نئی پود اس سے بالکل کوری ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، تعلیم کا تمام تر غیر دینی ہو جانا اس مصیبت کا باعث ہوا ہے اور ہندوؤں کے ہاں تو ایک گونہ مذہب کا وجود ہی ندارد ہے۔ اگر آپ کبھی لاہور تشریف لائیں تو مجھ سے ملیے۔ میں آپ کی دقتوں اور پریشانیوں کو رفع کرنے میں جو خدمت بجا لا سکوں، اس سے دریغ نہ ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۴۵) ( ۲) مکتوب الیہ اس زمانہ میں لکھنو کے عیسائی سکول میں معلم تھے اور علامہ سے انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ لاہور ۲۰ نومبر ۱۹۳۷ء ڈیئر مسٹر نیاز! آپ کا نوازش نامہ ملا جس کے لیے ممنون ہوں۔ میرے خیال میں آپ کا اولین فرض یہ ہے کہ آپ کو اسلام، اس کی مذہبی اور سیاسی تاریخ، اس کے کلچر اور اس بحران کا مطالعہ کرنا چاہیے جو ترکی اور دوسرے اسلامی ممالک میں مغرب کے افکار جدید کے اسلامی زندگی اور افکار پر اثر نے پیدا کر دیا ہے۔ آپ عیسائیوں کی تبلیغی طرز سے زیادہ، اسلام پر کتابیں لکھ کر اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں۔ اسلام میں تنخواہ دار مبلغین کی انجمنیں کبھی نہیں تھیں۔ تبلیغ کا کام انفرادی کوشش اور سرگرمی پر موقوف رہا ہے۔ افریقہ کا حلقہ بگوش اسلام ہونا ایسے مسلمانوں کی انفرادی کوششوں کا مرہون منت ہے جن کے پاس اس خدمت کے ظاہرء وسائل موجود نہ تھے۔ ہندوستان میں بھی اشاعت اسلام کا کام شخصی اور انفرادی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ مخلص محمد اقبال منشی آدم علی بھائی کے نام ( ۱۴۶) ( ۱) منشی صاحب موصوف نے ایک ہندو دوست کی تشفی کے لیے جو تلاش حق کی غرض سے اسلام کا مطالعہ کر رہے تھے، ڈاکٹر صاحب مرحوم کو لکھا کہ ان کے ہندو دوست کی خاطر ایک مضمون لکھ کر بھیجیں جس سے قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت ثابت ہو۔ جناب من! آپ کا خط مجھے ملا۔ افسوس ہے یہ مضمون ایک یا متعدد خطوط میں نہیں سما سکتا۔ آپ ان صاحب کو لاہور بھیج دیں۔ میں اپنے علم و فہم کے مطابق ان کی مدد کو حاضر ہوں۔ والسلام محمد اقبال ۱۷ ستمبر ۱۹۲۵ء ڈاکٹر عباس علی خاں کے نام ( ۱۴۷) ( ۱) لاہور ۱۳جون ۱۹۳۲ء مکرم بندہ، السلام علیکم! قرآن شریف کا تحفہ جو آپ نے بہ کمال عنایت ارسال فرمایا ہے، ابھی موصول ہوا۔ اس مقدس تحفے کے لیے میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں۔ انشاء اللہ یہی نسخہ استعمال کیا کروں گا۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال ڈاکٹر صوفی غلام محی الدین کے نام ( ۱۴۸) ( ۱) لاہور ۳۱ مارچ ۱۹۳۳ء ڈیئر صوفی صاحب، السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ کرنیل صاحب سے میں اس سے پہلے واقف نہیں ہوں۔ کیا انہوں نے اس سے پہلے کوئی منظوم ترجمہ کیا؟ اگر کیا ہو تو اس کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ باقی رہا یہ امر کہ کونسی نظموں کا ترجمہ کیا جائے، سو عرض یہ ہے کہ بانگ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب علمی کے زمانہ کی ہیں۔ زیادہ پختہ کلام، افسوس کہ فارسی زبان میں ہوا، بہتر طریق یہ ہے کہ بانگ درا سے بعض نظمیں انتخاب کر لی جائیں، باقی زبور عجم اور پیام مشرق سے انتخاب کی جائیں۔ اس سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا تمام و کمال ترجمہ کیا جائے۔ یہ نظم ایک قسم کی Divine Comedy ہے۔ مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کر لینا یقینی امر ہے۔ اگر وہ ترجمہ میں کامیاب ہو جائے اور اگر اس ترجمہ کو کوئی عمدہ مصور Illustrate بھی کر دے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہو گا اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصور کے لیے بہت عمدہ مسالا ہے۔ پیام مشرق کا ترجمہ جرمن زبان میں ہو رہا ہے۔ ارلانگن یونیورسٹی کے پروفیسر ہل کر رہے ہیں۔ بہرحال جو بھی رائے ہو، میں اس میں مدد دینے کو حاضر ہوں۔ ترجمہ کی اشاعت وغیرہ کے متعلق شرائط بعد میں طے ہو جائیں گی، فی الحال آپ مذکورہ بالا مشوروں پر غور کیجئے اور کرنیل صاحب کی رائے دریافت کیجئے۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۴۹) ( ۲) ڈیئر صوفی صاحب، السلام علیکم! آپ کا پوسٹ کارڈ مل گیا ہے جس کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔ میں نے مسٹر ٹیوٹ کو سری نگر کے پتہ پر لکھا ہے۔ آپ نے جو تجویز کی ہے، مناسب ہے۔ میں بھی آپ کے تراجم دیکھ لیا کروں گا، گو یہ کام آسان نہیں ہے۔ پہلی رباعی کا ترجمہ انگریزی نمونتہً میں نے ان کو بھیجا ہے، اس میں بڑی دقت ہوئی۔ افسوس ہے کہ نکلسن کا ترجمہ اسرار خودی میرے پاس موجود نہیں۔ اس سے آپ کو مدد بھی کچھ نہ ملے گی۔ باقی خیریت ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ فقط محمد اقبال، لاہور نوٹ: اس خط پر علامہ نے کوئی تاریخ نہیں لکھی ہے مگر لاہور کے ڈاکخانہ کی مہر ۲۳ اپریل ۱۹۳۳ء کی ہے۔ ( ۱۵۰) ( ۳) لاہور ۲ مئی ۱۹۳۳ء ڈیئر صوفی صاحب، السلام علیکم! والا نامہ مع رباعیات مل گیا۔ رباعیات پر نظر ثانی کر کے میں نے آج ہی ٹیوٹ صاحب کی خدمت میں بھیج دی ہیں۔ میری نظر ثانی میں محض تشریحی نوٹ تھے۔ آئندہ رباعیات کسی اچھے کاغذ پر ٹائپ کرا کر ارسال کیا کریں تو بہتر ہو۔ فقط مخلص محمد اقبال ( ۱۵۱) ( ۴) ۲۴۔ مئی ۱۹۳۲ء ڈیئر صوفی صاحب، السلام علیکم! اس ترجمے پر نظر ثانی فرمائیے۔ اس کے علاوہ ہر رباعی علیحدہ کاغذ پر لکھوائیے، جس طرح آپ نے پہلے کیا ہے۔ ہر کاغذ میں تھوڑی سی جگہ صاف رہے تاکہ میں اس پر مترجم کی راہنمائی کے لیے تشریحی نوٹ لکھ سکوں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر تاثیر نے بھی چند رباعیات کا ترجمہ کیا ہے، اسے بھی کرنل صاحب کی خدمت میں بھیج دیا جائے۔ فقط محمد اقبال ( ۱۵۲) ( ۵) لاہور ۵۔ جون ۱۹۳۳ء جناب صوفی صاحب، السلام علیکم! مہربانی کر کے ایک ہی دفعہ بہت سی رباعیات ہی نہ بھیج دیا کریں، تھوڑی تھوڑی بھیجا کریں۔ ان کو رباعیات کہنا غلط نہیں۔ بابا طاہر عریاں کی رباعیات جو اس بحر میں ہیں، رباعیات ہی کہلاتی ہیں۔ ان میں قطعات بھی داخل ہیں۔ ہاں، یہ صحیح ہے کہ یہ رباعیات رباعی کے مقررہ اوزان میں نہیں ہیں، مگر اس کا کچھ مضائقہ نہیں۔ ذوالفقار علی خاں مرحوم کے بیٹے ڈیرہ دون میں ہیں ، مجھے ان کا ایڈریس معلوم نہیں ۔ میں ان کے جنارے کے لیے مالیر کوٹلہ گیا تھا۔ فقط محمد اقبال ضرار احمد کاظمی کے نام ( ۱۵۳) ( ۱) لاہور ۲۵ جون ۱۹۳۵ء جناب من! میں جب تک آپ کی مصوری کا نمونہ نہ دیکھ لوں، کوئی رائے قائم نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ ایک اور مشکل ہے، وہ یہ کہ شکوہ اور جواب شکوہ کو علیحدہ چھاپنے کا حق دس سال کے لیے میں ایک لوکل کمپنی کو دے چکا ہوں۔ اس میعاد میں سے دو سال گزر چکے ہیں۔ بہتر ہے کہ فی الحال آپ مولانا حالی مرحوم کے شکوۂ ہند پر طبع آزمائی کیجئے۔ اس کی طباعت کے بعد میں بہتر رائے قائم کر سکوں گا۔ میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف جاوید نامہ ایک ایسی کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کر سکتا ہے، مگر اس کے لیے پوری مہارت فن کے علاوہ الہام الٰہی اور صرف کثیر کی ضرورت ہے۔ والسلام محمد اقبال حالی مرحومہ کی صد سالہ یادگار کی تقریب پر نوجوان مصور، اقبال کی خدمت میں پانی پت حاضر ہوا اور شکوہ اور جواب شکوہ سے متعلق جو تصاویر تیار کی تھیں، وہ علامہ کو دکھلائیں جو انہوں نے نہایت ہی پسند کیں۔ ( ۱۵۴) ( ۲) لاہور ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۸ء مکرم بندہ، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ آیا، پڑھ کر خوشی ہوئی۔ آپ بدایوں جیسے مردم خیز خطہ میں اقبال ڈے منا رہے ہیں، خدا آپ کو مبارک کرے۔ میں اور علامہ یوسف علی صاحب نے آپ کا آرٹ بابت شکوہ اور جواب شکوہ مولانا حالی کی برسی پر دیکھا تھا۔ میرا اور مبصر زمانہ علامہ عبداللہ یوسف علی صاحب کا یہ خیال ہے کہ اگر آپ نے کافی مشق و مہارت کے بعد اس فن میں کمال حاصل کر کے شکوہ اور جواب شکوہ کو دنیائے اسلام کے سامنے پیش کر دیا تو آپ فن مصوری میں ایک نیا اضافہ کر کے اپنے فن کا ایک نیا اسکول قائم کر رہے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں جب یہ چیز ایسی شان کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گی تو دنیا یقینی طور سے اس کو کاظمی اسکول کے نام سے موسوم کرے گی۔ آپ محض فن مصوری میں اضافہ نہیں کر رہے بلکہ دنیائے اسلام میں بحیثیت ’’مصور اقبال‘‘ ایک زبردست خدمت انجام دے رہے ہیں جو کہ شاید قدرت آپ ہی سے لینا چاہتی ہے۔ پوری مہارت فن کے بعد اگر آپ نے جاوید نامہ پر خامہ فرسائی کی تو ہمیشہ زندہ رہو گے۔ میری طبیعت پہلے سے اچھی ہے مگر حالت روز بروز ابتر نظر آتی ہے۔ بوجہ کمزوری کے دوسرے صاحب سے خط لکھوا رہا ہوں۔ خدا سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ آپ کو آپ کے نیک ارادوں میں کامیابی عطا کرے۔ مجھ کو آپ کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ یا تو صحت کلی دے یا ساتھ ایمان کے اٹھا لے۔ والسلام محمد اقبال جاوید منزل۔۔۔۔ لاہور پروفیسر محمد شفیع کے نام اسلامیہ کالج پشاور (انگریزی) ( ۱۵۵) ( ۱) لاہور ۲۔ مئی ۱۹۲۴ء مائی ڈیئر شفیع! حکام کا اپنا ایک مسلک اور طریق کار ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں حکام سے لوگوں کی سفارش نہیں کرتا۔ تجربہ ثابت کرتا ہے کہ ایسی سفارشات شاذ و نادر ہی کارگر ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود گذشتہ دو سال میں دوستوں اور دوسرے لوگوں کے اصرار پر تحریری و زبانی سفارشات کرنے پر مجبور ہوا ہوں، اور نتیجہ ہیچ۔ مجھے افسوس ہے آپ سے متعلق بھی میری سفارش کا نتیجہ کچھ نہ ہوا۔ میں تو اس سلسلہ میں اپنے گزشتہ گناہوں سے پشیمان ہوں۔ تجربہ نے مجھ پر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ یہ خود داری کے قطعی منافی ہے۔ اب آپ کے لیے دعا کرنے کو جی چاہتا ہے اب اس کے لیے بلا نتیجہ سفارش پر سفارش کرتے چلے جانا مجھے ذلت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس کے لیے بہترین طریق یہ ہو گا کہ درخواست دے اور اپنے حقوق پیش کرے۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۵۶) ( ۲) لاہور ۱۴ جولائی ۱۹۲۸ء ڈیئر پروفیسر شفیع! السلام علیکم آپ کا خط مل گیا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میری صحت اب خدا کے فضل و کرم سے روبہ ترقی ہے۔ انشاء اللہ کامل صحت کی توقع ہے۔ خان بہادر صاحب کو میں نے آج ہی ڈاک میں ایک خط لکھا ہے۔ اس میں ضروری باتیں لکھ دی ہیں۔ آپ ان کی خدمت میں میری طرف سے زبانی شکریہ بھی ادا کر دیں۔ دیدمش مردے دریں قحط الرجال باقی، خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ باقی رہا ایبٹ آباد آنا، اس کے متعلق پھر عرض کروں گا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر و عافیت ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۵۷) ( ۳) لاہور ۲۱۔ جولائی ۱۹۲۸ء ڈیئر پروفیسر شفیع، السلام علیکم! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشحال خاں خٹک، مشہور محب وطن پر میں نے ایک مختصر نوٹ لکھا ہے جو ’’اسلامک کلچر‘‘ حیدر آباد دکن میں شائع ہو گا۔ اس کی کاپی خان بہادر اور آپ کے پاس بھی پہنچے گی۔ میں نے ایڈیٹر کو آج ہی اس مضمون کا خط لکھا ہے۔ محمد اقبال خواجہ غلام السیدین کے نام ( ۱۵۸) ( ۱) ڈیئر سیدین صاحب، السلام علیکم! دو بچوں کے لیے استانی کی ضرورت ہے جس پر میں ان کی اخلاقی اور دینی تربیت کے لیے اعتبار کر سکوں۔ تہذیب نسواں میں اشتہار دیا تھا جس کے جواب میں ایک خط علی گڑھ سے پھر آیا ہے۔ مہربانی کر کے اس خاتون کے متعلق حالات معلوم کر کے آگاہ کرئیے۔ چونکہ بچوں کی والدہ کا گزشتہ مئی میں دفعتہ انتقال ہو گیا۔ اس واسطے گھر کا تمام انتظام بھی استانی صاحبہ کے سپرد ہو گا۔ ان کے فرائض مندرجہ ذیل ہونگے: (۱)بچوں کی اخلاقی اور دینی تربیت اور نگہداشت، لڑکا ۱۱ سال کا ہے، اسکول جاتا ہے۔ لڑکی ۵ سال کی ہے۔ ( ۲) گھر کا انتظام اور نگہداشت اس سے میری مراد یہ ہے کہ سب گھر کا چارج انہیں کو دیا جائے گا اور زنان خانے کے تمام اخراجات انہیں کے ہاتھ سے ہوں گے۔ مندرجہ ذیل باتیں ضروری ہیں۔ ( ۱) بیوہ اور بے اولاد ہو( ۲) عمر میں کسی قدر مسن ہو تو بہتر ہے( ۳) کسی شریف گھر کی ہو جو گردش زمانہ سے اس قسم کا کام کرنے پر مجبور ہو گئی ہو ( ۴) دینی اور اخلاقی تعلیم دے سکتی ہو، یعنی قرآن اور اردو پڑھا سکتی ہو۔ عربی اور فارسی بھی جانے تو اور بھی بہتر ہے۔ ( ۵) سینا پرونا وغیرہ بھی جانتی ہو( ۶) کھانا پکانا جانتی ہو۔ اس سے میری مراد یہ نہیں کہ اس سے باورچی کا کام لیا جائے۔ غرض کہ آپ خود ماہر تعلیم ہیں، اور میرے موجودہ حالات سے بھی باخبر۔ مندرجہ بالا امور کو ملحوظ رکھ کر حالات دریافت کیجئے۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا، اور آپ سے پانی پت میں ملاقات ہو گی۔ ۸۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء محمد اقبال جو خط علی گڑھ سے آیا ہے، وہ اس خط میں ملفوف ہے۔ اس پر ان کا پتہ بھی لکھ دیا ہے۔ ( ۱۵۹) ( ۲) انگریزی لاہور ۲۱ جون ۱۹۳۶ء مائی ڈیئر سیدین! آپ کا نوازش نامہ ابھی ابھی موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ نے جو خلاصہ تیار کیا ہے، نہایت ہی عمدہ ہے اور مجھے اس پر کسی اضافہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ضرب کلیم امید ہے جون کے آخر تک شائع ہو جائے گی اور میں آپ کو ایک نسخہ پیشگی بھیج سکوں گا۔ اس مجموعہ میں ایک حصہ تعلیم و تربیت کے لیے وقف ہے۔ ممکن ہے آپ کو اس میں کوئی نئی بات نظر نہ آئے، تاہم اگر کتاب آپ کو بروقت مل جائے تو محولہ بالا حصہ ضرور مطالعہ فرمائیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ Leibnitz's monadism کے تعلیمی نتائج سے واقف ہیں، اس کے قیاس کے مطابق انسانی مونیڈ خارج سے کوئی اثر قبول کرنے سے عاری ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ انسانی مونیڈ زیادہ تر تاثیر پذیر نوعیت کا حامل ہے۔ زمانہ ایک بڑی ہی برکت و نعمت (لا تسبوالدھر ان الدھر ھو اللہ) اگر ایک طرف موت اور تباہی لاتا ہے تو دوسری طرف وقت ہی آبادی و شادابی کا منبع ہے۔ یہی اشیاء کے پوشیدہ امکانات کو بروئے کار لاتا ہے۔ حالات حاضرہ میں تغیر کا امکان ہی انسان کی سب سے بڑی دولت اور ساکھ ہے۔ مخلص محمد اقبال میری عام صحت بہت بہتر ہے۔ آواز میں ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔ ( ۱۶۰) ( ۳) لاہور ۱۸ اپریل ۱۹۳۶ء ڈیئر سیدین صاحب، السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے بہت بہت شکریہ قبول کیجئے۔ میں خدا کے فضل سے ، بہ نسبت سابق بہت تندرست ہوں۔ آواز میں بھی اب کے نمایاں فرق ہے۔ اخباروں نے میری صحت کے متعلق غلط فہمی پھیلا دی تھی جس کی وجہ سے احباب کو تشویش لاحق ہوئی۔ بہرحال، خدا کا شکر ہے۔ ’’ضرب کلیم‘‘ کے پروف دیکھ رہا ہوں، امید ہے کہ مئی کے آخر تک کتاب چھپ جائے گی۔ استانی کا اب تک کوئی انتظام نہیں ہو سکا۔ آپ یہ سن کر ہنسیں گے کہ ایک نوجوان لڑکی جو خاصی تعلیم یافتہ ہے اور دینی تعلیم بھی رکھتی ہے، اتالیقی قبول کرتی ہے مگر شرط یہ کرتی ہے کہ نکاح کر لو۔ شاید کچھ عرصے کے لیے علی گڑھ بھی رہ چکی ہے بہت سمجھایا، نہیں مانتی، آخر اس کے ساتھ Negotiationبند کرنی پڑی۔ تصویر ابھی تک نہیں بن سکی کیونکہ میں لاہور سے باہر رہا۔ آئندہ موسم میں انشاء اللہ بنواؤں گا۔ جاوید اچھا ہے۔ اپنے بیوی بچوں سے میری طرف سے دعا کہیے۔ سید راس مسعود سے معلوم ہوا تھا کہ آپ کے بہنوائی 1؎ دفعتہ انتقال فرما گئے۔ خدا تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۶۱) ( ۴) لاہور ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۶ء ڈیئر سیدین صاحب! آپ کا خط مل گیا ہے، الحمد للہ خیریت ہے۔ میرا خیال تھا کہ آپ کی کتاب شائع ہو گئی ہو گی۔ بہرحال جب شائع ہو جائے تو اس کی ایک کاپی بھیج دیجئے گا۔ اب تو سردی کا موسم آ گیا ہے، ضرور کبھی لاہور آئیے گا، میں ابھی تک سفر کرنے سے ڈرتا ہوں۔ ممکن ہے ایک ماہ کے بعد اس قابل ہو سکوں۔ 1؎ سید محمد مستحسن صاحب زیدی مرحوم بیرسٹر ایٹ لائ، میرٹھ سوشلزم کے معترف ہر جگہ روحانیت کے مذہب کے مخالف ہیں اور اس کو افیون تصور کرتے ہیں، لفظ افیون اس ضمن میں سب سے پہلے کارل مارکس نے استعمال کیا تھا۔ میں مسلمان ہوں اور انشاء اللہ مسلمان مروں گا! میرے نزدیک تاریخ انسانی کی مادی تعبیر سراسر غلط ہے۔ روحانیت کا میں قائل ہوں مگر روحانیت کے قرآنی مفہوم کا، جس کی تشریح میں نے ان تحریروں میں جا بجا کی ہے، اور سب سے بڑھ کر اس فارسی مثنوی میں جو عنقریب آپ کو ملے گی، جو روحانیت میرے نزدیک مغضب ہے یعنی افیونی خواص رکھتی ہے، اس کی تردید میں نے جا بجا کی ہے۔ باقی رہا سوشلزم، سو اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسلمان سوسائٹی نے آج تک بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۶۲) ( ۵) از لاہور ۳۱جولائی ۱۹۳۷ء ڈیئر خواجہ سیدین! مہربانی کر کے فوراً اطلاع دیجئے کہ آیا آپ اس وقت علی گڑھ میں ہیں یا علی گڑھ سے باہر۔ زیادہ کیا لکھوں! سید راس مسعود کے ناگہانی انتقال نے سخت پریشان کر رکھا ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۶۳) ( ۶) لاہور ۱۱ ۔ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیئر سیدین صاحب! آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے بہت بہت شکریہ قبول کیجئے۔ میری صحت پہلے سے اچھی ہے، آواز میں بھی کچھ فرق ہے، مگر افسوس ہے کہ ضعف بصارت کی وجہ سے ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا ہے۔ میری خط و کتابت احباب کرتے ہیں یا کبھی جاوید میاں سے خطوط کے جواب لکھوا لیتا ہوں۔ اسلامی اصول فقہ کے متعلق ایک کتاب لکھنے کا ارادہ تھا لیکن اب یہ امید موہوم معلوم ہوتی ہے۔ مجھے اندیشہ1؎ہے کہ میں آپ کا مضمون نہ پڑھ سکوں گا البتہ اگر آپ لاہور تشریف لائیں تو اس کے بعض مقامات مجھ کو سنا سکتے ہیں اسلامک کلچر کا مطبع بہت اچھا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور میں ایک اور بھی انگریزی مطبع ہے جہاں کی چھپائی بہت اچھی ہے، اگر رسالہ بہت طویل نہیں ہے تو اسلامک کلچر میں بھی چھپ سکتا ہے اس کے متعلق آپ ایڈیٹر ’’اسلامک کلچر‘‘ ماڈل ٹاؤن لاہور سے خط و کتابت کریں۔ مسٹر نکلسن کا ترجمہ غلط ہے۔ 2؎ مصرع میں لفظ نے ہے جس کا انگریزی ترجمہ 1؎ افسوس کہ یہ اندیشہ پورا ہوا۔ علامہ، کتاب کی اشاعت سے پہلے جوار رحمت میں پہنچ گئے، البتہ کتاب کا خلاصہ جو میں نے ان کی خدمت میں بھیج دیا تھا، انہوں نے پڑھ لیا تھا اور اس کو پسند فرمایا تھا۔ 2؎ میں نے علامہ مرحوم کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی کہ نکلسن نے اسرار خودی کے ترجمے میں صورت طفلاں زنے مرکب کنی کو غلط پڑھ کر بجائے نے کا ترجمہ reed کرنے کے ’’ز‘‘ کو اس کے ساتھ ملا کر ’’زنے‘‘ پڑھا تھا اور اس کا ترجمہ Women کیا تھا یہ ہیں ہمارے بہترین مستشرقین! reedہے۔ میں نے ان کی توجہ اس غلطی کی طرف دلائی تھی مگر معلوم نہیں کہ ان سے کس طرح نظر انداز ہو گئی۔ ایک جگہ اور بھی ترجمے میں اغلاط ہیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا ۔ عابد صاحب سے سلام کہیے۔ محمد اقبال ( ۱۶۴) ( ۷) لاہور ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیئر سیدین صاحب! آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے شکریہ قبول کیجئے، میں نے مسعود مرحوم کے کتبہ مزار کے لیے ایک رباعی رباعیات میں سے انتخاب کر کے مرحوم کے سیکرٹری ممنون حسن خاں کو بھوپال بھیجی تھی۔ معلوم نہیں کہ انہوں نے اب تک علی گڑھ کیوں نہیں بھیجی۔ یہ رباعی حقیقت میں میں نے اپنے کتبہ مزار کے لیے لکھی تھی۔ میں ابھی ممنون حسن صاحب کو ایک خط لکھ کر دریافت کرتا ہوں۔ چند اشعار مرحوم کی وفات پر بھی لکھے تھے جو رسالہ اردو کے مسعود نمبر میں شائع ہوں گے۔ اگر وہ رباعی جو میں نے بھوپال لکھ کر بھیجی تھی، پسند آ گئی تو بہتر ورنہ اور فکر کروں گا۔ میری طرف سے مسعود مرحوم کی والدہ ماجدہ کی خدمت میں بہت بہت آداب عرض کیجئے۔ ذرا موسم اچھا ہو جائے تو میں خود بھی تعزیت کے لیے، اور مرحوم کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے علی گڑھ حاضر ہونے کا قصد رکھتا ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی سے اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ وائس چانسلر مسٹرM.L.A. Darling Financial Commissioner ہیں میرے دوست ہیں، گو گزشتہ تین سال سے بوجہ علالت ان سے نہیں مل سکا۔ آپ ان سے اس بارے میں خط و کتابت کریں۔ 1؎ اس کے علاوہ مسٹر عبدالحئی، وزیر تعلیم کو لکھ سکتے ہیں اگر ایسا نہ ہو سکا تو اور انتظام بھی ہو سکتا ہے۔ باقی خیریت ہے امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال ( ۱۶۵) ( ۸) ڈیئر سیدین صاحب! آپ کے خط کا جواب لکھ کر ابھی ڈاک میں ڈال چکا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر ڈارلنگ یا مسٹر عبدالحئی کو آپ کا لکھنا مناسب نہیں۔ 2؎ یونیورسٹی کو چاہیے کہ وہ خود آپ کو دعوت دے۔ اس کے متعلق میں کچھ دنوں بعد بے تکلف احباب سے گفتگو کروں گا۔ مقامی کالج کھلنے کے بعد یہ گفتگو ممکن ہو سکے گی۔ جس طرح آپ کا تحریر نامناسب ہے، اسی طرح میرا تحریر کرنا بھی نامناسب ہے۔ کیا آپ اس کو پسند کرینگے کہ یہ لیکچر اسلامیہ کالج یا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن یا مسلم انٹر کالجئیٹ بردر ہڈ کی دعوت پر دیے جائیں؟ والسلام محمد اقبال 1؎ اقبال کے فلسفہ تعلیم کے متعلق ’’توسیعی خطبات ‘‘ دیے جانے کی تجویز بعض احباب نے پیش کی تھی۔ 2؎ تجویز یہ تھی کہ اقبال کے فلسفہ تعلیم کے بارے میں پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام ’’توسیعی خطبات‘‘ دیے جائیں۔ ممنون حسن خاں کے نام ( ۱۶۶) ( ۱) لاہور ۱۶ جولائی ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون صاحب! آپ کا خط مل گیا ہے۔ میں بہت متردد ہوں۔ بارہ دن کا ملیریا اور اس پر مسلسل سر درد، مجھے اندیشہ ہے کہ مسعود بہت کمزور ہو گئے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ ان کو جلد صحت کامل عطا فرمائے۔ میرا یہ خط وصول کرتے ہی آپ ان کی خیر خیریت سے آگاہ کریں تاکہ تردد رفع ہو۔ امید کہ لیڈی مسعود اور بچی دونوں تندرست ہوں گی۔ میری طرف سے دعا کیجئے۔ اب کے لاہور میں بھی بخار کازور رہا، اور اب بھی ہے، گو نسبتاً کم ہے لیکن اب برسات شروع ہو گئی اور موسم بدل گیا ہے۔ باقی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ سید مسعود کی خیر خیریت سے بہت جلد آگاہ کریں تاکید مزید ہے۔ بھوپال میں تو آج کل خوب بارش ہوتی ہو گی۔ جاوید میاں اچھے ہیں۔ آج کل ان کو آم کھانے سے کام ہے۔ صبح و شام یہی مشغلہ ان کا ہے۔ امتحان میں عربی فیل اور انگریزی میں فرسٹ۔ علی بخش کی طرف سے سید صاحب کو، لیڈی مسعود صاحبہ کو آداب کیجئے۔ جاوید بھی سلام عرض کرتا ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۶۷) ( ۲) لاہور ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون! سید مسعود مرحوم کے انتقال کی ناگہانی خبر، صبح اٹھتے ہی اخبار ’’زمیندار‘‘ سے معلوم ہوئی۔ میں نے اس خبر کو مشتبہ سمجھ کر آپ کے نام تار لکھا کہ اتنے میں سول ملٹری گزٹ سے مرحوم کے انتقال کی سرکاری اطلاع معلوم ہوئی۔ سخت پریشان ہوں مفصل حالات سے مجھے آگاہ کیجئے میرے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت ہے مرحوم کے ساتھ جو قلبی تعلقات میرے تھے۔ وہ آپ کو معلوم ہیں ابھی ان کی والدہ اور لیڈی مسعود کے نام تار دیے ہیں۔ آپ کے خط کا مجھے بے چینی سے انتظار ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۶۸) ( ۳) لاہور ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون! صبح میں آپ کو خط لکھ چکا ہوں۔ آج صبح سے دوپہر تک مرحوم کے جاننے والے اور ان کے غائبانہ معترف تعزیت کے لیے آتے رہے۔ راس مسعود کا رنج عالمگیر ہے یہ تار جو اس خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں سردار صلاح الدین سلجوقی، قونصل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ مرحوم کے اعزہ تک پہنچا دیا جائے۔ مہربانی کر کے آپ یہ تار لیڈی مسعود اور مرحوم کی والدہ کو دکھا دیں۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۶۹) ( ۴) لاہور ۲ اگست ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون! میں آپ کے خط کا کئی دن سے منتظر ہوں، مہربانی کر کے مفصل خط لکھیے۔ علی گڑھ کے خطوط سے معلوم ہوا کہ راس مسعود کے صاحبزادے انور ہندوستان میں ہیں۔ مجھے یہ بات پہلے معلوم نہ تھی آج میں نے انہیں بھی خط لکھا ہے۔ اطلاع دیجئے کہ آیا انور اپنے مرحوم باپ سے مل سکا یا نہیں۔ نیز یہ کہ لیڈی مسعود صاحبہ کیسی ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے خدانخواستہ وہ علیل نہ ہوں۔ ان کی صحت و عافیت سے جلد اطلاع دیں۔ میں ذرا سفر کے قابل ہو لوں تو سید مسعود کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے علی گڑھ جانے کا قصد رکھتا ہوں۔ وہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ ایک دو روز کے لیے شاید بھوپال میں بھی آ سکوں۔ زیادہ کیا لکھوں! سوائے اس کے کہ بہت پریشان ہوں۔ خط کا جواب بہت جلد دو۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۷۰) ( ۵) ۷ ۔ اگست ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون صاحب! مسعود مرحوم کے کتبہ مزار کے لیے میں نے مندرجہ ذیل رباعی انتخاب کی ہے۔ نہ پیوستم دریں بستاں سرا دل زبند این و آں آزادہ رفتم چو باد صبح گردیدم دم چند گلاں را رنگ و آبے دادہ رفتم یہ رباعی میں نے اپنے کتبہ مزار کے لیے لکھی تھی لیکن تقدیر الٰہی یہ تھی کہ مسعود مرحوم مجھ سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جائے، حالانکہ عمر کے اعتبار سے مجھ کو ان سے پہلے جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ رباعی کا مضمون مجھ سے زیادہ ان کی زندگی اور موت پر صادق آتا ہے۔ لیکن اگر صرف ایک ہی مطلع ان کے سنگ مزار پر لکھنا ہو تو مندرجہ ذیل شعر میرے خیال میں بہتر ہو گا۔ اے برادر من ترا از زندگی دادم نشاں خواب را مرگ سبک داں مرگ را خواب گراں باقی خیریت ہے۔ مسعو دکا غم باقی رہے گا۔ جب تک میں باقی ہوں میرے پہلے خط کا مفصل جواب دیجئے۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۷۱) ( ۶) لاہور ۲۳ اگست ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون! مسعود مرحوم کی وفات پر جو اشعار میں نے لکھے تھے، وہ آج میں نے رسالہ اردو میں چھپنے کے لیے حیدر آباد دکن بھیج دیے ہیں۔ مدیر رسالہ مولوی عبدالحق مسعود نمبر نکالنے والے ہیں۔ امید کہ یہ رسالہ آپ کو بھوپال میں مل جائے گا۔ خود بھی پڑھیے اور لیڈی مسعود کو بھی سنائیے۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خیریت سے آگاہ کیجئے۔ اکبر ولایت سے آیا یا نہیں، اور انور کیا اس وقت بھوپال میں ہے، رشید صاحب بھوپال میں ہیں یا اندور چلے گئے؟ تمام حالات و کوائف سے مفصل آگاہ کیجئے۔ اعلیٰ حضرت نواب صاحب اس وقت بھوپال میں ہیں یا شملہ میں؟ آپ محکمہ تعلیم میں رہیں گے یا اعلیحضرت کے اسٹاف میں لیے جائیں گے؟ موخر الذکر جگہ آپ کے لیے بہتر ہے۔ باقی، خدا کے فضل و کرم سے سب خیریت ہے۔ والسلام آپ کا محمد اقبال ( ۱۷۲) ( ۷) لاہور ۴۔ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون! آ پ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے بہت بہت شکریہ ۔ میں لیڈی مسعود صاحبہ کی طرف سے بہت متفکر رہتا ہوں۔مجھے اندیشہ ہے کہ ان کی صحت پر مرحوم کی موت کا بہت خراب اثر پڑے گا۔ بچی کی صحت اور پرورش کے لیے ان کا تندرست رہنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس خیال نے کہ راس مسعود کوئی وصیت نہ کر سکے، میرے انکار میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ آپ مجھ کو باقاعدہ خط لکھتے رہیے۔ انور ریاض منزل ہی میں ہیں یا کسی اور جگہ؟ میری طرف سے انہیں دعا کہیے۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہو کر میری جانب سے بہت بہت سلام کہیے اور جو کچھ میں نے اوپر لکھا ہے، عرض کر دیجئے، جاوید سلمہ، تندرست ہے اور آداب کہتا ہے۔ لاہور میں یکم اگست سے لے کر اس وقت تک کہ ۴ ستمبر ہے، مطلق بارش نہیں ہوئی۔ ہاں، شعیب صاحب کی خدمت میں بھی سلام کہیے۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۱۷۳) ( ۸) لاہور ۲۵ ستمبر ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون! میں نے آپ کو جو رباعی مسعود مرحوم کے کتبہ مزار کے لیے لکھ کر بھیجی تھی اس کی ایک نقل مجھے بھیج دیں۔ شاید آپ نے وہ رباعی اب تک علی گڑھ نہیں بھیجی۔ میاں انور ملیں تو ان سے کہیے کہ میں نے جو کچھ ان کو لکھا تھا، اس کے جواب کا منتظر ہوں۔ امید کہ لیڈی مسعود کا مزاج اب اچھا ہو گا۔ میری طرف سے بہت بہت دعا کہیے۔ باقی، خیریت ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۱۷۴) ( ۹) لاہور ۲۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء ڈیئر ممنون صاحب! آپ کا خط مل گیا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میری حالت بھی خدا کے فضل سے بہتر ہے لیکن ابھی طویل سفر کے لائق نہیں۔ انور کا خط بھی آج آیا تھا، ابھی اس کا بھی جواب لکھا ہے۔ر باعی اور شعر جو آپ نے خط میں لکھے ہیں۔ والدہ ماجدہ مسعود مرحوم کی خدمت میں بتوسط خواجہ غلام السیدین بھیج دیے گئے ہیں کیونکہ سیدین صاحب کا خط اس بارہ میں مجھے چند روز ہوئے آیا تھا۔ شاید آپ کو معلوم ہو گا کہ ریاست بھوپال میں اسلامی فیملی لاکے متعلق علماء کے مشورہ کے بعد ایک Enactment وضع کیا گیا تھا۔ اگر آپ کو معلوم نہیں تو شعیب صاحب سے معلوم کیجئے اور اس کی ایک کاپی لے کر مجھے بھیج دیجئے۔ زیادہ کیا لکھوں، سوائے اس کے کہ مسعود نہیں بھولتا۔ ڈاکٹر عبدالباسط کہیں مل جائیں تو ان سے میرا سلام کہہ دیجئے۔ علیٰ ہذا القیاس، خان بہاد رڈاکٹر احمد بخش اور ڈاکٹر رحمان صاحب سے بھی۔ والسلام محمد اقبال ( ۱۷۵) ( ۱۰) جاوید منزل لاہور ۱۹۔ اپریل ۱۹۳۸ء ڈیئر ممنون! آپ کا خط کئی روز ہوئے ملا تھا۔ افسوس کہ شدید علالت کی وجہ سے میں جواب نہ لکھوا سکا۔ دمے کے متواتر دوروں نے مجھے زندگی سے تقریباً مایوس کر دیا تھا مگر اب خدا کے فضل سے کچھ افاقہ ہے، گو کلی طور پر ابھی صحت نہیں ہوئی۔ آنکھوں کا آپریشن مارچ میں ہونے والا تھا مگر دمے کی وجہ سے اسے ملتوی کرنا پڑا۔ اب، بشرط زندگی، انشاء اللہ ستمبر میں ہو گا۔ حیات صاحب سے میرا بہت بہت سلام کہیے۔ اب آپ کے فرائض منصبی کیا ہیں؟ کیا آپ اعلیٰحضرت کی پیشی میں ہیں؟ زیادہ کیا لکھوں! امید کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ مخلص محمد اقبال غازی عبدالرحمن کے نام ( ۱۷۶) ( ۱) لاہور ۱۲۔ مئی ۱۹۱۶ء مکرم بندہ تسلیم! نشان ہلال کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے، یہ نشان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صحابہ کے عہد میں مروج نہ تھا۔ بعض مغربی مورخین نے لکھا ہے کہ فتح قسطنطنیہ سے شروع ہوا، بعض سلطان سلیم کے عہد میں بتاتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں۔ میرے خیال میں ترکوں کو اس کی ترویج سے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً صلیبی لڑائیوں کے زمانے میںاس کی ترویج شروع ہوئی (صلیبی جنگوں کے تذکرے میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے) اور کچھ عجب نہیں کہ صلاح الدین ایوبی کے زمانے سے اس کا آغاز ہوا ہو۔ صلاح الدین ایوبی، ترک نہ تھے، کرد تھے۔ سنی دنیا اس نشان کو اپنا قومی نشان تصور کرتی ہے۔ ایران کا نشان اور ہے۔ میرے خیال میں اس کا استعمال محض اتفاقی طور پر شروع ہوا۔ صلیبی سپاہی اپنے سینوں، لباسوں اور علموں پر صلیب کا نشان رکھتے تھے۔ امتیاز کے واسطے مسلمانوں نے یہ نشان شروع کر لیا۔ اس واسطے کہ اس میں ہر روز بڑھنے کا اشارہ تھا۔ ہلال کا لفظ ہی نمو کا اشارہ کرتا ہے، اور اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں۔ تاریخی پہلو سے میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کے موجد نے اس کے نمو کے خیال سے جاری کیا یا چاند سورج سے اپنا سلسلہ نسب ملانے کے خیال سے، مگر تمام امت کا اس پر، صدیوں سے، اجماع ہو چکا ہے۔ جن اسلامی قوموں کا نشان اور ہے وہ اس نشان پر کبھی معرض نہیں ہوئیں اور حدیث صحیح ہے کہ میری امت کا اجماع ضلالت پر نہ ہو گا۔ اس واسطے اس کو ضلالت تصور کرنا ٹھیک نہیں۔ واللہ اعلم محمد اقبال محمد رمضان عطائی کے نام ( ۱۷۷) ( ۱) لاہور ۱۹۔ فروری ۱۹۳۷ء جناب من! میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں۔ خط و کتابت سے معذور ہوں۔ باقی، شعر کسی کی ملکیت نہیں، آپ بلا تکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آ گئی ہے، اپنے نام سے مشہور کریں، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ فقط محمد اقبال، لاہور مندرجہ بالا خط میں جس رباعی کا حوالہ ہے وہ حسب ذیل ہے۔ تو غنی ازہر دو عالم من فقید روز محشر عذر ہائے من پذیر در حسابم را تو بینی ناگزیر از نگاہ مصطفےؐ پنہاں بگیر ارمغان حجاز میں اس رباعی کو شائع کرنے کی ممانعت علامہ مرحوم نے اپنی زندگی ہی میں فرما دی تھی۔ ارمغان حجاز میں شاعر نے اس رباعی کے مفہوم کو بہ تغیر الفاظ یوں ارشاد فرمایا ہے۔ بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر شودبے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر مکن رسوا حضور خواجہ مارا حساب من زچشم او نہاں گیر مگر سچ یہ ہے کہ وہ بات پیدا نہیں ہو سکی، ایک شاعر کا ظرف اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ اپنا کلام یوں کسی کو دے کر اس سے تہی دست ہو جائے۔ شبنم کا قطرہ ( ۱۷۸) ( ۱) معلوم نہیں یہ سلسلہ اب تک بھی جاری ہے یا نہیں لیکن بیس پچیس برس پہلے، گورنمنٹ کالج لاہور میں ہر سال، تقسیم انعامات کے موقع پر ایک انعام اردو میں بہترین نظم لکنے والے طالب علم کو بھی ملا کرتا تھا۔ چنانچہ ۱۹۲۱ء میں جب میں جماعت سال اول میں تعلیم پاتا تھا، کالج کے طلبہ کو حسب معمول نظمیں پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ میں ابھی کالج میں نوارد تھا۔ کالج کی ادبی مجالس میں بھی کوئی ادبی حصہ نہیں لیا تھا، اور چند احباب کے سوا کسی کو میرے ذوق شعر و شاعری کا علم نہ تھا۔ انہیں میں سے بعض احباب نے مجھے انعامی مقابلہ کے لیے نظم لکھنے کا مشورہ دیا مگر ان دنوں کالج میں کچھ ایسی مشہور ادبی شخصیتیں موجود تھیں کہ ان کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ایک دوست ایسے تھے جن کا مشورہ اصرار کی حد تک پہنچ گیا، اور جن کے اصرار میں ’’خود را پیش کن‘‘ سے زیادہ ’’امتحان خویش کن‘‘ کا جذبہ کا ر فرما نظر آتا تھا۔ آخر ان کا اصرا کامیاب ہوا۔ انہی دنوں ایک مضمون ذہن میں گردش کر رہا تھا، اسی کو میں نے شبنم کا قطرہ عنوان دے کر نظم میں ڈھال دیا اور یہ نظم کالج کے دفتر میں پہنچا دی۔ کوئی مہینہ بھر کے بعد ایک دن اچانک انہی اصرار کرنے والے دوست نے آ کر مبارکباد دی کہ آپ کی نظم اول قرار دی گئی ہے اور اس سال کا انعام آپ کو ملے گا۔ میں اسے مذاق سمجھا، لیکن جب ان کے کہنے پر خود جا کر کالج کے تختہ اعلانات پر اعلان پڑھا تو مسرت آمیز تعجب ہوا کیونکہ مجھے اس کی بالکل امید نہ تھی۔ کالج کے طلبہ میں تو یہ ایک طے شدہ امر تھا کہ اول انعام بزم سخن کے سیکرٹری کا حصہ ہے جو کالج کے ’’ملک الشعرائ‘‘کہلاتے تھے۔ اس وقت لاہور کے ادبی حلقوں میں خاصی شہرت کے مالک تھے اور کئی برس سے متواتر انعام لے رہے تھے۔ اعلان میں درج تھا کہ میری نظم اول اور ان کی نظم دوسرے درجے پر قرا ردی گئی ہے، فلاں تاریخ کو کالج کا ایک خاص جلسہ منعقد ہو گا جس میں ہم دونوں یہ نظمیں پڑھ کر سنائیں گے۔ اس کامیابی پر میرے احباب کی اور خاص طور پر میری خوشی کا سب سے بڑا باعث یہ تھا کہ انعامی مقابلے کا فیصلہ حضرت علامہ اقبال نے فرمایا تھا۔ جس روز جلسہ ہوا میری نظم میرے حوالے کر دی گئی۔ یہ دیکھ کر میری مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ نظم پر جا بجا اصلاح بھی موجود تھی۔ اس وقت تو میں اس اصلاح کو نہ پوری طرح پڑھ اور نہ اچھی طرح سمجھ سکا، اور جہاں تک مجھے یاد ہے، اس جلسے میں میں نے کہیں اصل اور کہیں اصلاح کے مطابق نظم پڑھ دی تھی، لیکن بعد میں جب غور سے دیکھا تو اصلاح کی اہمیت محسوس ہوئی۔ چند روز کے بعد میں خود حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان دنوں وہ انار کلی والے بالا خانے میں قیام فرما تھے۔ میں جھجکتے جھجکتے اوپر پہنچا۔ انہوں نے پاس کی ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں بیٹھ گیا وہ خود ایک آرام کرسی پر لیٹے ہوئے، حقہ پینے میں مصروف تھے۔ سامنے ان کے ایک ہم عمر بزرگ تشریف رکھتے تھے جو سیالکوٹ کے رہنے والے اور غالباً ان کے ہم جماعت یا بچپن کے دوست تھے۔ ان کے ساتھ وہ اپنے طالب علمی کے زمانہ کے واقعات کی یاد تازہ کر رہے تھے کہ سیالکوٹ میں وہ کس طرح مدرسہ کے اوقات کے بعد مساجد و مکاتب میں مختلف مولوی صاحبان کی خدمت میں حاضر ہو کر فارسی پڑھا کرتے تھے۔ ایک استاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا (اپنا یا شاید ان کا بتایا ہوا) یہ شعر اب تک نہیں بھولتا از قدر عنائے اومن درد مند افتادہ ام دوستاں رحمے کہ از بام بلند افتادہ ام اس انداز کے دلچسپ واقعات کے بعد فرمانے لگے کہ لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیونکر آ گئی جب کہ اس نے اسکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لیے سکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ فارسی زبان کے سلسلے میں مولانا گرامی (مرحوم) کا ذکر آ گیا۔ان کے غیر معمولی حافظہ کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ کسی کو اشاعر، غزلیں یا نظمیں یاد ہوں گی مگر مولانا کی مثنویاں تک مسلسل یاد ہیں۔ وہ اس وقت اسی کمرے کے ایک گوشے میں پلنگ پر دراز تھے۔ فرمایا، لیجئے ابھی ان کے حافظے کا کرشمہ دیکھئے۔ یہ کہہ کر مولانا کو آواز دی وہ اٹھ بیٹھے کہا کہ مولانا! حضرت نظامی نے وہ کیا فرمایا ہے۔ زگرد بیاباں بیابان گرد بس اس مصرع کا سننا تھا کہ مولانا گرامی دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں اٹھا کر جھومنے لگے اور کہنے لگے:’’اللہ اللہ! اللہ اللہ!‘‘ اس کے بعد ایک دوبار اس مصرع کو دہرایا اور پھر وہیں سے مثنوی شروع کر دی۔ مزے لے لے کر شعر پر شعر پڑھتے گئے۔ میں نے مولانا گرامی کو پہلی اور آخری بار جبھی دیکھا۔ ان کا منڈا ہوا سر، اٹھی ہوئی انگلیاں، نیم وجد کا عالم، جھوم جھوم کر زور دار اور پر جذب آواز کے ساتھ شعر پڑھنا! یہ تمام منظر اب تک میرے تصور پر نقش ہے۔ یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا اور شاید بہت دیر جاری رہتا، لیکن آخر حضرت علامہ نے نہایت حسن اسلوب سے موضوع بدل کر گفتگو کا رخ کسی اور طرف پھیر دیا۔ کچھ دیر بعد میری طرف مستفسرانہ انداز میں توجہ فرمائی تو میں نے اپنا تعارف اس طرح کرایا کہ وہ اصلاح شدہ نظم ان کے پیش کر کے، ان کی توجہ خاص کا شکریہ ادا کیا۔ دیکھ کر فرمایا کہ ہاں، یہ نظم مجھے پسند آئی تھی۔ اس خیال سے کہ یہ کہیں شائع ہو گی، میں نے جہاں جہاں ضروری سمجھا، اصلاح کر دی۔ اس کے بعد کچھ وقت اصلاح کے متعلق باتیں ہوئیں۔ چونکہ دیر بہت ہو گئی تھی، آخر میں نے اجازت طلب کی اور اس محفل خاص سے بادل ناخواستہ رخصت ہوا۔ یہ تھی حضرت علامہ کی خدمت میں میری پہلی حاضری، اور یہ تھی وہ صورت حالات جس کے تحت میری نظم کو حضرت علامہ کے قلم سے اصلاح کا شرف حاصل ہوا ۔ اس اصلاح کی عکسی تصویر اس مجموعے میں شامل ہے۔ فنی حیثیت سے یہ اصلاح شاید کچھ زیادہ اہم نہ سمجھی جائے کیونکہ نظم بالکل مبتدیانہ ہے۔ اس لیے زیادہ تر اس میں غلطیوں کو صحیح اور سست بندشوں کو درست کرنے ہی کی ضرورت تھی، لیکن چند مقامات ایسے بھی ہیں جہاں اصلاح میں نوک قلم کی استادانہ جنبش صاف نمایاں ہے۔ مثلاً اس طرح پھرتا پھراتا جستجوئے یار میں تھک کے آخر گر پڑا ہوں گوشہ گلزار میں کیا کہوں پوشیدہ تھی فطرت میں از خود رفتگی کوہ میں بھی دل نہ بہلا ہمرہ دریا ہوا ان مصرعوں میں تھوڑی سی تبدیلی سے اشعار کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا گیا ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر نظم کا پہلا شعر خاص طور پر قابل توجہ ہے کیونکہ اس میں حضرت علامہ نے میرے دو مصرعوں کو ایک مصرع میں سمو کر اور دوسرا مصرع اپنی طرف سے بڑھا کر نظم کی تمہید کو مکمل کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں نظم کے ابتدائی چند اشعار کا قلمزد ہو جانا بھی حضرت علامہ کے خاص نقطہ نظر کی ترجمانی کرتا ہے۔ ان دنوں تو مجھے بھی تعجب اور افسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ نے ایسی عمدہ تشبیہات کو بحال نہ رہنے دیا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔ اصلاح کی مصلحت واضح ہوتی گئی، اور آخر صاف محسوس ہونے لگا کہ حضرت علامہ کے نزدیک بے جان فن کاری اور مصنوعی شاعری کس قدر بے کار اور بے معنی چیز ہے۔ بہر صورت، فن کے لحاظ سے اس اصلاح کی قدر و قیمت کا اندازہ کچھ بھی لگایا جائے، جہاں تک مجھے علم ہے، حضرت علامہ نے کبھی کسی کی نظم کی اصلاح اپنے قلم سے نہیں فرمائی۔ اگر یہ درست ہے تو پھر اس حیثیت سے یہ اصلاح یقینا اہل ذوق کے لیے نوادر ادبیہ میں سے ہے اور میرے لیے بجا طور پر باعث فخر و مباہات۔ اسد (ملتانی) نئی دہلی ۲۰۔ اکتوبر ۱۹۴۳ء شبنم کا قطرہ نظم اصلاح شاہد لالہ کا اک زینت فزا زیور ہوں میں نازنین گل کے نازک کان کا گوہر ہوں میں دیدۂ نرگس میں میں اک رشک فرحت فال ہوں رائے زیبائے سمن پر جا نشین خال ہوں بوند ہوں آب عنب کی میں بجام موتیا لب پہ خضر سبزہ کے ہوں قطرۂ آب بقا برگ گلبن کی صدف میں گوہر نایاب ہوں جھومتی ڈالی پہ مثل قطرۂ سیماب ہوں اس طرح جلوہ نما ہوتا ہوں نوک خار پر جیسے آویزاں سر منصور ہووے وار پر دیکھنے کو اک ذرا سا قطرۂ بے رنگ ہوں مختلف رنگوں میں لیکن قلزم نیرنگ ہوں قطرۂ بے رنگ ہوں یا قلزم نیرنگ ہوں سننے والے سن کہ میں بھی اک خموش آہنگ ہوں پر نہیں ہیں چین میرے قلب مضطر کے لیے میں بنا ہوں چرخ کی مانند چکر کے لیے وقف بیتابی ہے میری جان مضطر کے لیے پھر رہا ہوں دلبروں کی آنکھ کے تل کی طرح مضطر و بیتاب ہوں عشاق کے دل کی طرح گردش ہفت آسماں پنہاں ہے میرے سینے میں ہے نہاں راز حیات روح میرے جینے میں زندگی کا راز پوشیدہ ہے میرے جینے میں ہاں ذرا سینے مری آوارگی کی داستاں میں کہاں تھا، کس لیے، اور کس طرح پہنچا یہاں! پہلے پہلے تھا ٹھکانا اک سمندر میں مرا تھا نہایت خرم و شاداں دل اس گھر میں مرا یاد ہیں لہریں جو سطح آب پر آوارہ تھیں ہاں یہی لہریں، یہی موجیں مرا گہوارہ تھیں یاد آتی ہیں مجھے رہ رہ کے وہ آزادیاں جن کی خاطر اب ترستا ہے دل ناشاد یاں گاہ، سونے کے لیے تہ میں چلا جاتا تھا میں سطح پر بہر تماشا، گاہ آ جاتا تھا میں اتفاقاً ایک دن آیا جو سطح آب پر جا پڑی میری نگہ خورشید عالمتاب پر دیکھ کر اس شعلہ رو کو آگ سی دل میں لگی آہ! پھر کیا ہوتا، میں تھا اور تھی از خود رفتگی کیا کہوں پوشیدہ تھی فطرت میں از خود رفتگی دل مرا تیر نگاہ مہر نے گھائل کیا اور وفور شوق نے پرواز پر مائل کیا چھوڑی شکل اشک اور آہ رسا بن کر اڑا میں ہوائے وصل جاناں میں ہوا بن کر اڑا لاکھوں لٹکے تھے مری خاطر شعاعوں کے کمند کرۂ خاکی سے لے کر تا بہ آں بام بلند میں بھی چڑھتا رہ گیا ان پر سحر سے شام تک پر نہ پہنچا ہائے قسمت! دلربا کی بام تک شام ہونے سے تو بس میرا مقدر سو گیا بخت دنیا کی طرح تاریک منظر ہو گیا شام آئی جس گھڑی میرا مقدر سو گیا میری قسمت کی طرح تاریک منظر ہو گیا جس سے ملنے کے لیے میں ڈھونڈتا تھا کوئی راہ اس کے نظارہ سے بھی آنکھیں ہوئیں محروم آہ! ابر کے ہمراہ سرگرداں رہا میں رات بھر تارے دیکھے، چاند دیکھا پر نہ وہ آٰا نظر میں جو تھا ناکام بھی، مایوس بھی، بے صبر بھی میرے حال زار پر رونے لگا خود ابر بھی میں بھی ساتھ اس ابر کے اشک چکاں بن کر گرا اور گرا کس چیز پر میں اک پہاڑی پر گرا مل گیا بوندوں میں، اشک مضطرب بن کر گرا رفعت گردوں سے آخر اک پہاڑی پر گرا اس پہاڑی سے میں بہ کر ہمرہ دریا ہوا جوش وحشت میں روانہ جانب صحرا ہوا کوہ پر بھی دل نہ بہلا، ہم رہ دریا ہوا جب مرا بے مہر دلبر پھر نظر آیا مجھے اور کمند حسن دل آویز سے کھینچا مجھے آب دریا سے مجھے فوراً جدا ہونا پڑا پھر سوار توسن بادصبا ہونا پڑا اس طرح سے پھرتا پھرتا میں تلاش یار میں سرد دل ہو گرا آخر یہاں گلزار میں اس طرح پھرتا پھراتا جستجوئے یار میں تھک کے آخر گر پڑا ہوں گوشہ گلزار میں ہوں وہی قطرہ جو تھا اک دن محیط بیکراں ہوں وہی قطرہ جو تھا، ہمراہ دریائے رواں ہوں وہی قطرہ جو تھا اک دن سمندر میں نہاں ہوں وہی قطرہ کہ جو تھا ابر گوہر بار میں ہوں وہی قطرہ جو برسا تھا کبھی کہسار میں میں وہی قطرہ ہوں جو کالی گھٹا کے ساتھ تھا میں وہی قطرہ ہوں جو اک دن ہوا کے ساتھ تھا بات یہ ہے اہل دنیا جانتے ہیں کم مجھے یہ سمجھتے ہیں فقط اک قطرۂ شبنم مجھے قطرۂ ناچیز ہوں لیکن جہاندیدہ ہوں میں تجربہ کار، انقلاب آسماں دیدہ ہوں میں میری ہستی ہستی انسان سے کچھ کم نہیں غافل انساں لیکن ان اسرار سے محرم نہیں مجھ میں ہے پوشیدہ راز زندگی بے ثبات مجھ سے پوچھو نکتہ سر بستہ موت و حیات محرم راز بلندی، واقف پستی ہوں میں بہر انساں رہنمائے منزل ہستی ہوں میں ہاں، مجسم تجربہ ہوں اور سراپا ہوش ہوں ہوں ذرا سا قطرۂ لیکن بحر در آغوش ہوں علامہ اقبال نتیجہ فکر محمد اسد خاں طالب علم فرسٹ ائیر کلاس گورنمنٹ کالج لاہور۔۔۔ مورخہ ۱۲ فروری ۲۱ء سرسید راس مسعود کے نام ( ۱۷۹) ( ۱) ( انگریزی) لاہور ۲۔ جون ۱۹۳۴ء مائی ڈیئر مسعود! از راہ کرم مجھے فوراً اپنے موجود پتے اور آئندہ پروگرام سے مطلع فرمائیے۔ میں آپ سے اپنے متعلق ایک نہایت اہم مسئلہ میں ملنا چاہتا ہوں یا آپ کو تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ جواب واپسی ڈاک سے دیجئے۔ والسلام محمد اقبال جس مسئلہ میں آپ سے مشورہ چاہتا ہوں، اس کا تعلق آپ کے استعفائ1؎ سے نہیں اقبال ( ۱۸۰) ( ۲) ( انگریزی) لاہور ۲۰۔ مارچ ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر مسعود! امید ہے آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ بخیریت ہونگے۔ میں بھی بفضل خدا 1؎ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے استعفاء خیریت سے ہوں۔ میرا خیال ہے اعلیحضرت کی لاہور تشریف آوری کے لیے ۲۱ اپریل موزوں ہو گی۔ ۲۰ اپریل کو تو گورنر پنجاب اجلاس میں رسمی شمولیت فرمائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ۲۱ اپریل تمام تر اعلیٰ حضرت اور مسلمانان پنجاب کے لیے ہی مخصوص رہے۔ اگر اعلیٰ حضرت انگلستان تشریف نہیں لے جا رہے ہیں تو اس انتظام کی طرف توجہ کیجئے۔ امید ہے اعلیٰ حضرت کے لیے ایک علیحدہ دن مخصوص کرانے میں میں میرے منشا کو آپ نے پا لیا ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ اب یہ قطعی طور پر طے پا گیا ہے۔ کہ اعلیٰ حضرت عازم انگلستان نہ ہوں گے۔ اگر ایسا ہے تو تار کے ذریعہ اطلاع دیجئے۔ اور یہ اطلاع بھی بذریعہ تار ہی دیجئے کہ ۲۱ اپریل اعلیٰ حضرت کو منظور ہے۔ معاملہ معلومہ کی نسبت آپ کو کوئی اطلاع ملی ہے؟ میں اس خط کا جو اس ماہ کے آخر میں آپ مجھے لکھنا چاہتے ہیں، بیتابی سے منتظر ہوں ۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام اور انور کو دعا! ہمیشہ آپ کا محمد اقبال ( ۱۸۱) ( ۳) لاہور ۲۹۔ مارچ ۱۹۳۵ء ( ضروری) ڈیئر مسعود! کئی دن ہوئے میں نے ایک خط آپ کو لکھا تھا مگر تا حال جواب نہیں آیا۔ شاید خط آپ کو ملا نہ ہو۔ کیونکہ ان دنوں آپ بھوپال میں نہ تھے، والدہ ماجدہ کی علالت کی وجہ سے علی گڑھ چلے گئے تھے۔ بہرحال اگر وہ خط مل گیا ہو تو جواب لکھیے۔ شاید آپ حیدر آباد سے کسی جواب کے منتظر ہوں گے۔ آپ کا خیال تھا کہ مارچ کے آخر میں آپ کسی قطعی فیصلہ کی اطلاع دے سکیں گے۔ میرے حالات اس امر کے متقضیٰ ہیں کہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہو، گو میں آپ سے چھپا نہیں سکتا کہ مجھے اس طرف سے نا امیدی ہے۔ غرض کہ میں آپ کے جواب کا شدت سے منتظر ہوں۔ اس امر کی اطلاع آپ نے نہیں دی کہ آیا ہزہائینس جلسہ انجمن میں جلوہ افروز ہوں گے یا نہیں۔ اور مجھ سے ہزہائینس نے خود فرمایا تھا کہ اگر انگلستان نہ گئے تو ضرور تشریف لائیں گے۔ یہاں اس خبر سے جوش مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مہربانی کر کے مطلع فرمائیے کہ آیا ہزہائینس ولایت تشریف لے جائیں گے! مولوی غلام محی الدین، سیکرٹری انجمن نے دو تین روز ہوئے مجھے اطلاع دی کہ آپ کی طرف سے کوئی اطلاع موصول ہوئی ہے کہ ہزہائی نس تشریف نہیں لا سکیں گے۔ مجھ کو آپ کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی۔ مہربانی کر کے جلد اطلاع دیجئے۔ جب سے میں بھوپال سے واپس آیا ہوں، لوگ زمینوں کے متعلق دریافت کرتے ہیں میرے پاس کوئی ان شرائط کی کاپی نہیں ہے جن کے مطابق اراضی دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی جب کہ میں یہ خط لکھ رہا ہوں، ایک صاحب اسی غرض کے لیے بیٹھے ہیں۔ میں نے ان کو خط لکھ دینے کا وعدہ کیا ہے اور وہ خود بھوپال حاضر ہوں گے۔ شرائط کی کاپی ارسال کروا دیجئے تاکہ میں زمین کے خواستگاروں کو دکھا سکوں۔ زیادہ کیا عرض (کروں1؎)! امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں آداب! میں ان کے لیے دعائے صحت کرتا ہوں۔ انور میاں کو دعا، اور حکیم صاحبس ے بھی سلام کہیے۔ والسلام ہمیشہ آپ کا محمد اقبال 1؎ خط میں صرف زیادہ کای عرض لکھا ہوا ہے۔ ( ۱۸۲) ( ۴) ( انگریزی) لاہور ۱۴ اپریل ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر مسعود! امید ہے کہ میرا وہ خط جس میں مس فرکوہرسن کا خط ملفوف تھا، مل گیا ہو گا۔ خط کشیدہ پارہ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا وہ کاغذات بھی آپ کو مل گئے ہیں جو مس موصوفہ نے آپ کو بھیجے تھے؟ میں اور چند دوسرے احباب اعلیٰ حضرت کے استعفاء کے متعلق ایک بیان ایسوسی ایٹڈ پریس میں بھیج رہے ہیں۔ میرے متعلق آپ کی جو تجویز ہے، اس کا سراغ مجھے انجام کار مل ہی گیا۔ مجھے یہ اطلاع ایک بہاولپوری دوست کی معرفت ملی ہے، اور یہ معلوم ہوا ہے کہ نواب صاحب بھوپال نے نواب صاحب بہاول پور کے نام ایک خط لکھا ہے۔ اس خط کے مضمون سے بھی مجھے تھوڑی بہت آگاہی ہوئی ہیے۔ کیا میری اطلاع درست ہے؟ اس خط کا جواب موصول ہو جانے پر میں اس مسئلہ میں اپنی رائے آپ پر ظاہر کر سکوں گا۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام اور انو رکو پیار! ہمیشہ آپ کا محمد اقبال ( ۱۸۳) ( ۵) ( انگریزی) لاہور ۲۶ اپریل ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر مسعود! نوازش نامہ موصول ہوا ۔ آپ کی علالت کی اطلاع باعث تشویش ہوئی۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ میں انشاء اللہ مئی کے آخر تک بھوپال آ سکوں گا۔ میری بیوی گزشتہ دس سال سے بیمار اور تلی اور جگر کے عوارض میں مبتلا ہے، اور اب بوجہ بخار زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔ ہم لوگ انشاء اللہ وسط مئی تک اپنے نئے مکان میں چلے جائیں گے۔ خدا کرے کہ اس وقت تک میری بیوی میں چلنے پھرنے کی ہمت پیدا ہو جائے! آپ نے میرے متعلق جس دلچسپی کا اظہار فرمایا ہے اس کے لیے آپ کا ممنون ہوں، اگرچہ مجھے آپ سے یہ کہنے میں کچھ تامل نہیں کہ مجھے اس سلسلہ میں کامیابی کی کچھ زیادہ توقع نہیں۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے تو اس خیال سے مسرت تھی کہ آپ کے اس کوشش میں کامیاب ہونے کی قوی امید تھی اور اس طرح میرے لیے ممکن ہو سکتا تھا کہ میں قرآن کریم پر، عہد حاضر کے افکار کی روشنی میں، اپنے وہ نوٹ تیار کر لیتا جو عرصہ سے میرے زیر غور ہیں، لیکن اب تو نہ معلوم کیوں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ میرا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اگر مجھے حیات مستعار کی بقیہ گھڑیاں وقف کر دینے کا سامان میسر آئے تو میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے ان نوٹوں سے بہتر میں کوئی پیشکش مسلمانان عالم کو نہیں کر سکتا۔ بہرحال دیدہ باید ہر امر اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر عالم جدید میں اسلام کی خدمت کا شرف میرے لیے مقدر ہو چکا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تکمیل کے لیے ضروری ذرائع بہم پہنچا دے گا۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام کہیے! علی بخش آپ دونوں کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے۔ جاوید بھی آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ تندرست ہوں گے۔ ہمیشہ آپ کا محمد اقبال ( ۱۸۴) ( ۶) ( انگریزی) لاہور ۲۔ مئی ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر مسعود! امید ہے آپ اور لیڈی مسعود دونوں بخیریت ہوں گے۔ا لحمد للہ! میری تشویش ذرا کم ہو گئی ہے۔ میری بیوی کو ایک آپریشن کرانا پڑا۔ اگرچہ یہ بڑا ہی ہولناک اور ناقابل برداشت منظر تھا لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی بچ گئی۔ میں انشاء اللہ مئی کے آخر میں آپ دونوں کے پاس پہنچ جاؤں گا۔ آپ نے کوئی اطلاع نہیں دی اس لیے میں سمجھتا ہوں معاملہ معلومہ جوں کا توں ہی ہے۔ یونیورسٹی کا چانسلر اب کون ہو گا؟ کاش! اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال اپنے استعفاء پر دوبارہ غور فرما سکتے۔ لیکن شعیب صاحب نے مجھے لکھا تھا کہ اس کا کوئی امکان نہیں۔ یہ ممکن بلکہ اغلب ہے کہ لارڈ ویلنگڈن، نواب صاحب کو استعفاء پر مکرر غور کرنے پر ضرور مائل کریں گے۔ مجھے اطلاع دیجئے کہ اعلیحضرت کا اس سلسلہ میں کیا ارادہ ہے۔ اگر اعلیٰ حضرت رضا مند نہ ہوں تو پھر کیا آپ کی رائے میں نواب صاحب بہاول پور اس منصب کے لیے موزوں ہوں گے؟ ہمیشہ آپ کا محمد اقبال علی بخش، آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے۔ ( ۱۸۵) ( ۷) ( انگریزی) لاہور ۲۳ مئی ۱۹۳۵ء مائی ڈیئر مسعود! نوازش نامے کے لیے جس سے ایک گونہ اطمینان ہوا، سراپا سپاس ہوں، میری خواہش تو حقیقت میں اس انسان کی خواہش ہے جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے اور سفر آخرت سے پہلے کچھ نہ کچھ خدمت انجام دینے کا تمنائی ہے۔ مجھے امید ہے آپ اعلیحضرت کی خدمت اقدس میں اس مسئلہ کو پیش کر دیں گے۔ اعلیحضرت کے مراحم خسروانہ کا کس زبان سے شکریہ ادا کروں کہ بھوپال میں میری آسائش کا ان کو اس قدر خیال ہے میری بیوی خطرناک طور پر بیمار ہے شاید یہ اس کے آخری لمحات ہیں! لہٰذا میرے لیے لاہور سے باہر جانا اس وقت ممکن نہیں۔ آپ کو بعد میں اطلاع دے سکوں گا۔ مجھے اطلاع دیجئے کہ آپ اور لیڈی مسعود صاحبہ کب بھوپال واپس آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ لیڈی مسعود صاحبہ تو کچھ دیر اندور میں مزید قیام فرمائیں گی اور آپ جون کے آخر میں بھوپال واپس پہنچ جائیں گے لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں میرا سلام کہیے اور انور کو دعا! کیا حکیم صاحب ابھی وہاں ہی ہیں؟ امید ہے انہیں ملازمت مل گئی ہو گی۔ ہمیشہ آپ کا محمد اقبال ساڑھے پانچ بجے میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اقبال ( ۱۸۶) ( ۸) ( انگریزی) لاہور ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! میں نے آپ کو کل خط لکھا اور کل کے خط کے تسلسل میں یہ خط لکھ رہا ہوں کیونکہ میں ایک بہت اہم بات لکھنا بھول گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں آپ جانتے ہیں کہ میں نے خود کو سادہ زندگی کا عادی بنا لیا ہے۔ میری ضروریات بہت زیادہ نہیں ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک تھوڑی سی پنشن میرے لیے کافی ہو گی۔ مہربانی کر کے یہ نہ سوچیں کہ مجھے جینے کے لیے ہزاروں کی ضرورت ہے۔ چراغ سحر ہوں، بجھنا چاہتا ہوں۔ تمنا ہے کہ مرنے سے پہلے قرآن کریم سے متعلق اپنے افکار قلمبند کر جاؤں۔ جو تھوڑی سی ہمت و طاقت ابھی مجھ میں باقی ہے، اسے اسی خدمت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں تاکہ (قیامت کے دن) آپ کے جد امجد (حضور نبی کریم ؐ) کی زیارت مجھے اس اطمینان خاطر کے ساتھ میسر ہو کہ اس عظیم الشان دین کی جو حضور ؐ نے ہم تک پہنچایا، کوئی خدمت بجا لا سکا ۔ مخلص محمد اقبال ( ۱۸۷) ( ۹) لاہور ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے میں کس زبان سے اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کروں! انہوں نے ایسے وقت میں میری دستگیری فرمائی جب کہ میں چاروں طرف سے آلام و مصائب میں محصور تھا۔ خدا تعالیٰ ان کی عمر و دولت میں برکت دے! ہندوستان کے مسلمان شرفاء میں سے کون ہے جو اعلیٰ حضرت کا اور ان کے دودمان عالی کا ممنون احسان نہیں ہے! دور دستاں را بہ احساں یاد کردن ہمت است ورنہ ہر نخلے بہ پائے خود ثمرمی افگند یہ عریضہ اعلیٰ حضرت کو سنا دیجئے۔ میں خود حاضر ہو کر شکریہ ادا کروں گا۔ اب میری درخواست صرف اس قدر ہے کہ احکام اس پنشن کے تو جاری ہوں گے ہی، سرکار عالی اپنے ہاتھ سے بھی اس مضمون کا ایک خط مجھے لکھ دیں جو آپ نے مجھے لکھا ہے۔ یہ خط میری اولاد میں بطور یادگار کے رہے گا اور وہ اس پر فخر کریں گے۔ میں انشاء اللہ یا تو چالیسویں کے بعد حاضر ہوں گا یا جب آپ اور لیڈی مسعود ابتداء اگست میں، مع الخیر، اندور سے بھوپال واپس آ جائیں گے تو مہربانی کر کے مجھے یہ لکھ دیجئے کہ اگر میں جون کے آخر میں آؤں تو اپنے بھوپال پہنچنے کی کس کو اطلاع دوں۔ ممنون کو اطلاع دے دوں یا جس کو آپ لکھیں؟ لیڈی مسعود کی خدمت میں سلام! جاوید، آداب کہتا ہے۔ باقی، آپ کا شکریہ کیا ادا کروں! مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی سادات کی آبائی میراث ہے، بالخصوص آپ کے خاندان کی۔ آپ کا محمد اقبال ( ۱۸۸) ( ۱۰) لاہور ۱۵۔ جون ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! امید کہ آپ اور لیڈی مسعود بہمہ وجودہ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ کے خط کے انتظار میں ہوں۔ امید کہ ضروری احکام متعلقہ پنشن جاری ہو گئے ہوں گے۔ اب صرف مجھے اس خط کا انتظار ہے جس کا ذکر میں نے اپنے گزشتہ خط میں کیا تھا۔ اگر اعلیٰ حضرت پچمڑی سے واپس تشریف لے آئے ہوں تو وہ خط لکھوا کر بھجوا دیجئے۔ کل اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ کا تار تعزیتی آیا تھا، اور آج سردار صلاح الدین سلجوتی اعلیٰ حضرت کا زبانی پیغام لائے ہیں۔ بہت حوصلہ افزا اور دل خوش کن پیغام ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں، سوائے دعاء ترقی مراتب! لارڈ لووین کا خط ابھی لندن سے آیا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ’’رہوڈز لیکچرز‘‘ کے لیے کب آؤ گے۔ اب بچوں کو چھوڑ کر کہا جا سکتا ہوں! ان کی ماں کی وصیت ہے کہ ان بچوں کو اپنے سے ایک دن کے لیے بھی جدا نہ کرنا۔ لیڈی مسعود کی خیریت سے آگاہ کیجئے اور میری طرف سے انہیں سلام کہیے۔ آپ کا محمد اقبال ( ۱۸۹) ( ۱۱) لاہور ۲۴ جون ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! آپ کا خط مل گیا ہے اور اعلیٰ حضرت کا والا نامہ بھی موصول ہو گیا ہے جسے میں نے سادہ اور خوبصورت فریم میں لگو ادیا ہے۔ آپ شاید اندور تشریف لے گئے ہوں گے۔ میں لیڈی مسعود کے لیے دست بدعا ہوں۔ جب ان کو فراغت ہو تو مجھے ان کی خیریت سے بذریعہ تار مطلع کیجئے۔ میں انشاء اللہ وسط جولائی تک بھوپال پہنچوں گا۔ جاوید کو ہمراہ لانا ہو گا۔ علی بخش بھی ہمراہ ہو گا۔ وہ آپ کو ہر روز ایک دو دفعہ یاد کر لیتا ہے۔ شعیب صاحب کو اپنے آنے کی اطلاع دے دوں گا، مگر یہ تو فرمائیے کہ میرا ایڈریس بھوپال میں کیا ہو گا تاکہ میں گھر میں وہ ایڈریس چھوڑ جاؤں۔ اس طرح بچی منیرہ کی خیریت کی خبر مجھے روز ملتی رہے گی۔ جس جگہ مجھے ٹھہرنا ہو گا، اس جگہ کا پتہ لکھ دیجئے، زیادہ کیا عرض کروں، سوائے اس کے کہ آپ سے ملنے کے واسطے تڑپ رہا ہوں۔ والسلام محمد اقبال ہاں، آپ کا پرائیویٹ سیکرٹری ممنون حسن خاں ریاض منزل ہی میں ہو گا یا کہیں اور؟ میں اپنے انے کی اطلاع اسے بھی دے دوں گا۔ ( ۱۹۰) ( ۱۲) لاہور ۲ جولائی ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! ابھی آپ کا تار ملا جس سے اطمینان خاطر ہوا۔ خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے۔ آپ کا خط ملنے سے اس وقت تک میری طبیعت نہایت پریشان تھی۔ گزشتہ رات بھی میں دیر تک ان کے لیے دعا کرتا رہا۔ دوران قیام بھوپال میں انہوں نے جو توجہ مجھ پر مبذول کی میں اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ امید ہے کہ اب وہ جلد صحت کامل حاصل کر لیں گی اور آپ کی طبیعت کو بھی اطمینان نصیب ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ موسم سخت گرم ہے۔ بارش کا انتظار ہے۔ کل سے مطلع غبار آلود ہے۔ میری طرف سے انہیں سلام کہیے اور دعائے صحت! آپ کا محمد اقبال ( ۱۹۱) ( ۱۳) لاہور ۱۸ ستمبر ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! تمہارا خط جس میں دو نامے ملفوف تھے، ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ میں بھی خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہوں۔ انشاء اللہ ۲۴ یا ۲۵ اکتوبر کو پانی پت پہنچوں گا۔ جو چند اشعار فارسی کے لکھے تھے، وہ میں نے خواجہ سجاد حسین صاحب کی خدمت میں ان کی درخواست پر بھیج دیے ہیں۔ جاوید کے ماموں کو بھی آج قالین کے لیے پھر لکھ دیا ہے۔ اطمینان فرمائیے! باقی رہا وہ معاملہ، سو اس میں تمہارے اس خط کے بعد میں کیا عرض کروں! اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال کی پنشن قبول کرنے کے بعد کسی اور طرف بھی نگاہ کرنا آئین جوانمردی نہیں ہے لیکن آپ کو اپنا دوسرا Selfخیال کرتا ہوں اس واسطے جو کچھ آپ لکھتے ہیں، اس پر عمل کرتا ہوں۔ اخباروں میں اس کا چرچا مناسب نہیں معلوم ہوتا، اور اس کی ادائیگی بھی معرفت اعلیٰ حضرت ہی ہونی چاہیے جیسا کہ آپ نے مجھ سے زبانی کہا تھا۔ زیادہ کیا عرض کروں! لیڈی مسعود سلام قبول کریں !جاوید سلام عرض کرتا ہے۔ علی بخش بھی آداب کہتا ہے۔ والسلام محمد اقبال، لاہور حالی اور اقبال محولہ بالا اشعار جو حالی کی صد سالہ برسی پر نواب صاحب بھوپال کی موجودگی میں پڑھے گئے اور اب تک اقبال کی کسی کتاب میں درج نہیں ہوئے، حسب ذیل ہیں: مزاج ناقہ را مانند عرفی نیک می بینم چو محمل را گراں بینم حدی را تیز تر خوانم حمید اللہ خاں اے ملک و ملت را فروغ از تو ز الطاف تو موج لالہ خیزد از خیابانم طواف مرقد حالی سزد ارباب معنی را نوائے اوبجانہا افگندے شورے کہ من دانم بیاتا فقر و شاہی در حضور او بہم سازیم تو برخاکش گہر افشان و من برگ گل افشانم ایک دوسرے موقع پر حالی سے متعلق مندرجہ ذیل قطعہ کہا تھا۔ آں لالہ صحرا کہ خزاں دید و بیفسرد سید دگر اورا نمے از اشک سحر داد حالی ز نواہائے جگر سوز نیا سود تا لالہ شبنم زدہ را داغ جگر داد ۲۴ جون ۱۹۳۵ء ( ۱۹۲) ( ۱۴) لاہور ۲۔ اکتوبر ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! ایک خط اس سے پہلے لکھ چکا ہوں جو امید ہے تم کو مل گیا ہو گا، جواب کا ابھی تک انتظار ہے۔ امید ہے کہ آپ اور بیگم مسعود مع الخیر ہوں گے۔ میرے ایک دوست جو یہاں کے سادات میں سے ہیں اور مرض ذیابیطس کے پرانے بیمار تھے، حال میں تندرست کو ہر وائینا (آسٹریا) سے واپس آئے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ دوران علاج میں انہوں نے اپنے ڈاکٹر سے میرے مرض کا ذکر بھی کیا تھا جس پر ڈاکٹر نے کہا کہ اگر وہ بیمار یہاں آ جائے تو میں گارنٹی کرتا ہوں کہ بالکل تندرست ہو جائے گا۔ شاہ صاحب فروری میں پھر وائینا جانے والے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ چلوں اور وہاں چل کر علاج کراؤں۔ آپ اس بارے میں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ فی الحال میری صحت ترقی کر رہی ہے۔ آواز میں بھی قدرے امپروومنٹ ہے۔ ڈاکٹر عبدالباسط نے جو فوٹو میرے سینے کا لیا تھا، اسے ڈاکٹر رحمن وائینا بھیجنے والے تھے، معلوم نہیں ابھی تک بھیجا ہے یا نہیں، میں نے ڈاکٹر صاحب (عبدالباسط) کو خط لکھ کر دریافت کیا ہے۔ وہاں سے اکسپرٹر اوپنین آ جانے پر آخری فیصلہ کروں گا، فی الحال میں آپ کی رائے چاہتا ہوں۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ جاوید آداب عرض کرتا ہے اور علی بخش سلام لکھواتا ہے۔ والسلام محمد اقبال بیگم مسعود صاحبہ سے سلام عرض کیجئے۔ انشاء اللہ پانی پت میں ملاقات ہو گی۔ کل سے کوٹھی کے بقایا حصے کی تعمیر ہو گی۔ امید کہ پانی پت جانے تک کام ختم ہو جائیگا۔ ( ۱۹۳) ( ۱۵) لاہور ۱۰ دسمبر ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! تمہارا خط ابھی ملا۔ کل شام کے قریب تار بھی ملا۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے میں اعلیٰ حضرت کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ معلوم ہوتا ہے ان کو میری آسائش کا بہت خیال ہے خدائے تعالیٰ اجر عظیم ان کو عطا فرمائے! اس سے پہلے ایک خط آپ کی خدمت میں لکھ چکا ہوں۔ امید ہے پہنچ گیا ہو گا اور کتابوں کا پارسل بھی مل گیا ہو گا۔ اندور سے رشید صاحب کا خط بھی آیا تھا، ان کو بھی جواب لکھ دیا تھا۔ لیڈی مسعود صاحبہ کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے حکیم نابینا صاحب کی خدمت میں ان کی علالت کا تذکرہ کر دیا تھا۔ وہ نومبر میں تمہارے ساتھ دہلی آئیں تو ضرور ان کو نبض دکھائیں۔ لاہور میں گرمی کی بے انتہا شدت ہے۔ بارش کا نام و نشان نہیں ہے۔سرحد پر جنگ باقاعدہ شروع ہو گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے مسجد شہید گنج کا اثر وہاں بھی جا پہنچا ہے اور راولپنڈی میں کیا تمام پنجاب میں مسجد کی بازیابی کے لیے جوش و خروش بڑھ رہا ہے۔ خدائے تعالیٰ مسلمانوں پر اپنا فضل کرے۔ زیادہ کیا لکھوں، جاوید آپ کی اور لیڈی مسعود کی خدمت میں آداب لکھواتا ہے۔ علی بخش بھی آداب عرض کرتا ہے۔ والسلام محمد اقبال، لاہور ( ۱۹۴) ( ۱۶) لاہور ۱۱ دسمبر ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! کل خط لکھ چکا ہوں، آج اس تمام معاملے پر کامل غور و فکر کرنے کے بعد پھر لکھتا ہوں۔ آپ اس خط کو کانفیڈنشل تصور فرمائیں۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ سے بھوپال میں آپ کے بڈ روم میں گفتگو کی تھی۔ میرا خیال تھا کہ میرا خیال معلوم کر لینے کے بعد آپ نے شاید اس تجویز کو ڈراپ کر دیا ہو گا۔ اس کے بعد جس مسٹری کا آپ نے مجھ سے ذکر کیا تھا، میں سمجھ رہا تھا کہ یہ کوئی اور معاملہ ہے۔ بہرحال آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے۔ وہ میرے لیے کافی ہے۔ اور اگر کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ آپ کو میرے اس خط سے یقینا کوئی تعجب نہ ہو گاکیونکہ جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں، ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے ان حالات پر نظر کرتے ہوئے مجھے اس رقم کو قبول کرتے ہوئے حجاب آتا ہے اور میں بے حد تذبذب کی حالت میں ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کی ہزہائینس آغا خان سے کیا خط و کتابت ہوئی، اور مجھے اندیشہ ہے کہ میری اس تحریر کو ناشکری پر محمول نہ کیا جائے بہرحال میں نے ہزہائی نس آغا خاں کو شکریہ کا خط لکھ دیا ہے گو اس میں مندرجہ بالا خیالات کا اظہار مطلق نہیں کیا گیا اور اخلاقاً مجھ کو ایسا کرنے کی جرأت بھی نہ ہونی چاہیے تھی۔ آپ جب اس معاملے پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کے بہت سے پہلو ہیں اور میں نے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر آپ کو یہ خط لکھا ہے۔ آپ مہربانی کر کے مجھ کو جلد اس امر سے اطلاع دیں کہ آپا کو میرے ان خیالات سے اتفاق ہے یا نہیں اگر اتفاق نہیں ہے اور اب اس تجویز کا ڈراپ کرنا قرین مصلحت نہیں ہے تو پھر میں ایک اور تجویز پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ ہزہائی نس آغا خاں یہ پنشن جاوید کو عطا کر دیں، اس وقت تک کہ اس کی تعلیم کا زمانہ ختم ہو جائے یا جس وقت تک ہز ہائی نس مناسب تصور کریں۔ بعض پرائیویٹ وجوہ کی بناء پر جن کا کچھ نہ کچھ حال آپ کو معلوم بھی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کی تعلیم کی طرف سے بکلی اطمینان ہو جائے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہزہائی نس آغا خاں میری اس تجویز کی نسبت کیا خیال کریں گے۔ میں نے اپنی مشکلات کا حال آپ کو لکھ دیا ہے۔ اب آپ جو تجویز چاہیں کریں اور مجھ کو اپنے خیالات سے مطلع کریں جہاں تک ممکن ہے جلد آخری فیصلے تک اس بات کا پریس میں جانا مناسب نہیں ہے۔ امید ہے مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال، لاہور ( ۱۹۵) ( ۱۷) ڈیئر مسعود! ملفوفہ خط سید احمد عباس کا ہے جو مدینہ منورہ میں روضہ حضور سالت مآب ؐ کے محافظ ہیں۔ میں نے پہلے بھی تم سے ان کا ذکر کیا تھا۔ نہایت عمدہ سفر نامہ ہندوستان کا لکھ رہے ہیں، عربی زبان کے ادیب ہیں اور شرفائے عرب میں ان کا خاندان بلند مرتبت ہے۔ یہ خط ہزہائینس کی خدمت میں بھجوا دیجئے۔ چونکہ ان کو یہاں کے دستور کا علم نہیں، اس واسطے انہوں نے اپنا خط میرے خط میں ملفوف کر دیا ہے۔ اگر اعلیٰ حضرت نے ان کو اجازت دی تو یہاں آئیں گے۔ پٹیالہ نے ان کی بڑی قدر افزائی کی اور بڑی خاطر و مدارات کی۔ اگر وہ آئیں تو تم بھی ان کی دعوت دینا۔ اور کرنل رابنسن سے بھی تو مجھے ملا دیجئے، تم کہتے تھے کہ وہ اب یہاں سے چلے جانے والے ہیں۔ والسلام محمد اقبال (یہ خط بھوپال ہی میں لکھا گیا) شیش محل ۱۰ مارچ ۱۹۳۶ء ( ۱۹۶) ( ۱۸) لاہور ۲ مئی ۱۹۳۵ء ڈیئر مسعود! کئی دن سے تمہارا خط نہیں ملا، میں منتظر ہوں، خیر خیریت تو لکھ دیجئے۔ اگر تم مصروف ہو تو ممنون صاحب سے کہہ دیجئے کہ دو حرف لکھ دیا کریں میری صحت خدا کے فضل سے بحال ہو گئی ہے، بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس بیماری سے پہلے جو حالت تھی، وہ عود کر آئی ہے۔ البتہ آواز میں ابھی اتنی ترقی نہیں ہوئی جتنی کہ امید تھی، گو پہلے سے بہتر ہے۔ نیازی اور انجمن حمایت اسلام کی عرضداشت کیا ہوا؟ کیا تم نے سر آغا خاں والے معاملہ کا اعلیٰ حضرت سے ذکر کیا تھا؟ یہ بات میرے دل میں کھٹک رہی ہے۔ معلوم نہیں اعلیٰ حضرت کیا خیال کریں۔ زیادہ کیا لکھوں! پنڈت جواہر لال نہرو کا خط آیا تھا۔ آج کل مسٹر محمد علی جناح لاہور آئے ہوئے ہیں اور یہاں کی مختلف پولیٹیکل پارٹیوں میں اتحاد کی کوشش کر رہے ہیں۔ امید کہ تم اور بیگم صاحبہ اچھے ہوں گے۔ محمد اقبال ( ۱۹۷) ( ۱۹) لاہور یکم اگست ۱۹۳۶ء ڈیئر مسعود! آج میرے منشی، طاہر دین آپ کی خدمت میں ضرب کلیم کی چھ مجلہ کاپیاں ارسال کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک کاپی آپ کی ہے اور باقی خاندان شاہی کے لیے ایک اعلیٰ حضرت کے لیے، ایک ہزہائینس کے لیے، ایک شہزادی ولی عہد کے لیے اور دو اعلیٰ حضرت کے دونوں بھتیجوں کے لیے۔ اعلیٰ حضرت کے لیے جو کاپی ہے اس پر میرا نام کتاب کے صفحہ1پر ڈیڈیکیشن کے اشعار کے نیچے لکھا ہے۔ اگر کوئی اور کاپی مطلوب ہو تو اطلاع دیجئے۔ ڈاکٹر عبدالباسط صاحب اور شعیب صاحب کے لیے علیحدہ پارسل میں کاپیاں ان کے نام ارسال کی گئی ہیں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ بیگم مسعود سلام قبول کریں! جاوید سلام عرض کرتا ہے۔ علی بخش بھی آداب کہتا ہے۔ والسلام محمد اقبال میں خدا کے فضل سے اچھا ہوں۔ شاید سردیوں میں بھوپال آؤں! ( ۱۹۸) ( ۲۰) لاہور ۱۲ اگست ۱۹۳۶ء ڈیئر مسعود! تمہارا خط ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے! میرا بھی یہی فیصلہ ہے جو تم نے کیا ہے۔ یہ واقعی اور اٹل ہے میں نے تو پارلیمنٹری بورڈ کی صدارت سے بھی استعفاء دے دیا ہے۔ بورڈ کی میٹنگ کل ہو گی۔ آج کے سول اینڈ ملٹری گزٹ میں جو نوٹ اس استعفاء پر نکلا ہے ممکن ہے تمہارے ملاحظہ سے گزرا ہو۔ بورڈ کے ممبر اصرار کر رہے ہیں کہ کچھ دن کے لیے اسے ملتوی کر دوں۔ بہرحال اس ماہ کے اختتام تک میں اس کی صدارت سے دستبردار ہو جاؤں گا۔ جس روز کتب تمہارے نام ارسال کی گئیں، اس روز صرف آٹھ کتابیں جلد ہو کر آئی تھیں۔ آٹھ کی آٹھ بھوپال ارسال کر دی گئیں۔ بعد میں جو جلدیں ہوئیں وہ Interior قسم کی جلدیں تھیں اس واسطے لیڈی مسعود کے نام ارسال نہ کی گئی۔ امید ہے کل تک اور عمدہ جلدیں بن کر آئیں گی تو انہیں ارسال گا۔ مطمئن رہیے! مجھے یاد ہے، بھولا نہیں ہوں، اعلیٰ حضرت کا خط بھی نہایت تلظف آمیز تھا جو انہوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ باقی رہی کتاب سو یہ ایک Topical چیز ہے۔ اس کا مقصود یہ ہے کہ بعض خاص خاص مضامین پر میں اپنے خیالات کا اظہار کروں جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے یہ ایک اعلان جنگ ہے زمانہ حاضر کے نام اور ’’ناظرین‘‘ سے میں نے خود ہی کہا ہے کہ میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ۔ نوائے چنگ یہاں موزوں نہیں ہے۔ اس کتاب کا Realisticہونا ضروری ہے اور نوائے چنگ کی تلافی Epigrammatic Style سے کی گئی ہے۔ والسلام محمد اقبال، لاہور ( ۱۹۹) ( ۲۱) لاہور ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ء ڈیئر مسعود! ابھی تمہارا خط ملا۔ کیا خوب! میں گزشتہ رات علی بخش سے کہہ رہا تھا کہ مسعود کا خط کئی دن سے نہیں آیا، فکر و تردد ہے آج دوپہر کو تمہارا خط مل گیا۔ الحمد للہ! میری صحت دن بدن ترقی کر رہی ہے۔ آواز میں بھی فرق آ رہا ہے۔ انشاء اللہ دربار رسالت ؐ میں جو کچھ میں نے عرض کیا ہے، قبول ہو گا۔ امسال دربار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں حاضری کا قصد تھا مگر بعض موانع پیش آ گئے۔ انشاء اللہ آئندہ سال حج بھی کروں گا اور دربار رسالت ؐ میں بھی حاضری دوں گا، اور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لاؤں گا کہ مسلمانان ہند یاد کریں گے۔ یہ تحفہ بھی اعلیٰ حضرت کی نذر کیا جائے گا۔ خدا تعالیٰ انہیں عمر دراز عطا فرمائے۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ لاہور میں الیکشن کی گرم بازاری ہے۔ پنجاب میں الیکشن کے سلسلے میں اب تک دو قتل کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ سرحد پر پھر جنگ اور قصہ وہی مسجد شہید گنج کا! امید کہ لیڈی مسعود بخیریت ہوں گی۔ ان کی خدمت میں آداب عرض ہو۔ علی بخش آپ دونوں کی خدمت میں آداب عرض کرتا ہے۔ جاوید بھی، جو ابھی سکول سے آیا ہے، سلام عرض کرتا ہے۔ فروری یا مارچ میں دہلی جانے کا قصد ہے۔ ممکن ہوا تو چند روز کے لیے بھوپال بھی آؤں گا۔ تمہارا مخلص محمد اقبال ( ۲۰۰) ( ۲۲) لاہور ۱۹ اپریل ۱۹۳۷ء ڈیئر مسعود! کئی دنوں سے تمہاری خیریت معلوم نہیں ہوئی۔ امید ہے کہ لیڈی مسعود اور بچی خدا کے فضل و کرم سے مع الخیر ہوں گی۔ ان کی خیریت سے مطلع کیجئے میں ایک روز کے لیے دہلی گیا تھا۔ حکیم نابینا کی دوائی سے صحت بہت ترقی کر رہی ہے۔ تم اپنی خیریت سے مطلع کرو۔ گرمی کا آغاز لاہور میں ہو گیا ہے، گو رات کو ذرا سردی ہو جاتی ہے۔ کیا آپ کا اس دفعہ کشمیر جانے کا قصد ہے؟ رات میں نے ایک کشمیری بزرگ سے سنا کہ تم کشمیر کے ہوم منسٹر بننے والے ہو۔ کیا اس افواہ میں کوئی صداقت ہے۔ امید نہیں کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال تم کو بھوپال چھوڑنے کی اجازت دیں۔ والسلام تمہارا مخلص محمد اقبال میں نے یہ خط ایک دوست سے لکھوایا ہے معاف رکھنا! آنکھ کا معائنہ کرایا ہے اور ڈاکٹر نے کہا ہے کہ دوسرے مسائنہ تک لکھنا پڑھنا بند کر دو۔ جاوید تم کو اور لیڈی مسعود کو سلام کہتا ہے اور علی بخش بھی سلام عرض کرتا ہے۔ ( ۲۰۱) ( ۲۳) لاہور ۸ جون ۱۹۳۷ء ڈیئر مسعود! تمہارا خط آج مل گیا جسے پڑھ کر اطمینان ہوا، دعا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری بچی کو جلد صحت یاب کرے تاکہ تم دونوں کو اطمینان قلب حاصل ہو۔ جاوید اور منیرہ کی نگہداشت کے لیے اور گھر کے عام انتظام کے لیے جو ایک مدت سے بگڑا ہوا ہے میں نے فی الحال آزمائشی طور پر علی گڑھ سے ایک جرمن خاتون کو جو اسلامی معاشرت سے واقف ہے اور اردو بول سکتی ہے، بلوایا ہے۔ پروفیسر رشید صدیقی اور دیگر احباب نے اس کی شرافت کی بہت تعریف کی ہے اگر وہ اپنے فرائض ادا کرنے میں کامیاب ہو گی تو مجھے بے فکری ہو جائے گی۔ جاوید کی عمر اس وقت تقریباً تیرہ سال ہے اور منیرہ کی قریباً سات سال ماں کی موت سے ان کی تربیت میں بہت نقص رہ گئے ہیں، اسی واسطے میں نے مذکورہ بالا انتظام کیا ہے۔ یہ جرمن لیڈی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے، علی گڑھ کے ایک پروفیسر کی بیوی کی بہن ہے جو ایک مدت سے علی گڑھ میں مقیم رہی ہے۔ شاید تم انہیں جانتے ہو گے۔ باقی تمہارے خط سے مجھے بے انتہا تسلی ہوتی ہے اور تمہارا وعدہ بھی مجھ کو اچھی طرح یاد ہے زیادہ کیا لکھوں گرمی شدید ہے علی بخش سلام کہتا ہے اور جاوید سلام عرض کرتا ہے۔ ہاں، تم سن کر تعجب کرو گے کہ سر اکبر حیدری کا خط مجھ کو لندن سے آیا ہے اور بہت دل خوش کن والسلام محمد اقبال ( ۲۰۲) ( ۲۴) لاہور ۱۰ جون ۱۹۳۷ء ڈیئر مسعود! پرسوں میں نے ایک خط لکھا تھا، امید ہے کہ پہنچا ہو گا اس خط میں ایک بات لکھنا بھول گیا جواب لکھتا ہوں۔ میں نے جاوید اور منیرہ کے چار Guariansمقرر کیے تھے یہ Guardians از روئے وصیت مقرر کئے گئے تھے جو سب رجسٹرار لاہور کے دفتر میں محفوظ ہے۔ نام ان کے حسب ذیل ہیں۔ ۱) شیخ طاہر الدین۔ یہ میرے کلارک ہیں جو قریباً بیس سال سے میرے ساتھ ہیں۔ مجھ کو ان کے اخلاص پر کامل اعتماد ہے۔ ۲)چودھری محمد حسین ایم اے سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ سول سیکرٹریٹ لاہور۔ یہ بھی میرے قدیم دوست ہیں اور نہایت مخلص مسلمان۔ ۳) شیخ اعجاز احمد بی اے، ایل ایل بی، سب جج دہلی ۔ ۴) عبدالغنی مرحوم، عبدالغنی بیچارے کی بابت میں تم کو اطلاع دے چکا ہوں۔ اس کی جگہ خاں صاحب میاں امیر الدین سب رجسٹرار لاہور کو مقرر کرنے کا ارادہ ہے۔ نمبر ۳ شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے۔ افسوس کہ دینی عقائد کی وجہ سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ قادیانیوں کے عقیدے کے مطابق تمام مسلمان کافر ہیں۔ اس واسطے سے احمد شرعاً مشتبہ ہے۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا آیا مسلمان بچوں کا (guardian) ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ وہ خود عیال دار ہے اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کی جگہ تم کو guardian مقرر کروں۔ مجھے امید ہے کہ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ یہ درست ہے کہ تم لاہور سے بہت دور ہو، لیکن اگر کوئی معاملہ ایسا ہوا تو لاہور میں رہنے والے guardians تمہارے ساتھ خط و کتابت کر سکتے ہیں۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے لاہور کا درجہ حرارت کسی قدر کم ہو گیا ہے۔ لیڈی مسعود سلام قبول کریں! نادرہ کے لیے دعا کرتا ہوں، امید کہ تم کو اب نقرس سے آرام ہو گا۔ کہتے ہیں کہ Iodexاس کے لیے بہت مفید ہے۔ ایک تو مرہم کی صورت میں ہوتی ہے، دوسری سیال صورت میں۔ موخر الذکر کے استعمال میں سہولت ہے۔ والسلام محمد اقبال مندرجہ بالا خط کا جواب خوش قسمتی سے محفوظ ہے۔ نقل ملاحظہ فرمائیے: جواب بھوپال ۱۴ جون ۱۹۳۷ء نہایت پیارے اقبال! تمہارا خط مورخہ ۱۰ جون ابھی ۳ بجے میں نے بغو رپڑھا۔ چوتھے گارڈین کی بابت میری رائے یہ ہے کہ چونکہ میں نہ لاہور میں رہتا ہوں اور نہ کوئی امید لاہور کے قریب رہنے کی ہے، تو مجھے مقرر نہ کرو بلکہ کسی ایسے دوست کو جو کم سے کم پنجاب ہی میں مقیم ہوں۔ البتہ اپنی وصیت میں یہ ضرور لکھوا کہ اگر guardiansکو کسی معاملہ میں جہاں تک کہ منیرہ سلمہا اور جاوید سلمہ کی تعلیم کا تعلق ہے، کوئی مالی دقت پیش آئے تو پہلے میں مطلع کیا جاؤں کیونکہ جب تک کہ ان دونوں کی انشاء اللہ بائیس برس کی عمر نہ ہو جائے، میں ہر ممکن طریقہ سے مدد دینے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ میں خود زندہ رہا۔ یہ خود ایک بڑی ذمہ داری میں اپنے اوپر اس عشق کے ثبوت میں لے رہا ہوں جو مجھے تم سے ہے۔ یہ ضرور کرنا کہ میرے متعلق اس سلسلہ میں جو الفاظ اپنے وصیت نامہ میں درج کرو جو کہ رجسٹرار کے پاس محفوظ کر رہے ہو، ان کی ایک نقل میرے پاس ضرور بھیج دینا۔ اگر خدانخواستہ ضرورت پیش آئی تو یقین رکھو کہ تمہارے ان دونوں بچوں کے لیے ان کی تعلیم کے مسئلہ میں میں وہی کروں گا جو اپنی اولاد کے لیے۔ یہ ضرور صلاح دیتا ہوں کہ جہاں تک جائیداد وغیرہ کا تعلق ہے، اس کا انتظام اپنے سامنے ہی ایسا کر دو کہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ شکر ہے خدا کا کہ نادرہ اب ذرا بہتر ہے۔ میں ہوں تمہارا چاہنے والا راس مسعود لیڈی مسعود کے نام ( ۲۰۳) ( ۱) لاہور ۲۵ فروری ۱۹۳۶ء ڈیئر بیگم صاحبہ! آپ کا والا نامہ مل گیا ہے۔ نان خطائی کے لیے تو میں نے کئی دن سے کہہ رکھا ہے، انشاء اللہ ۲۷ تک امرتسر سے تیار ہو کر آ جائے گی۔ قصور کی میتھی بھی امید (ہے) کل تک یا پرسوں تک مل جائے گی۔ ہمراہ لاؤں گا۔ میں انشاء اللہ العزیز ۲۹ فروری شام کو یہاں سے روانہ ہو کر ۲ مارچ کی دوپہر آپ کی خدمت میں پہنچوں گا۔ مہربانی کر کے شعیب صاحب کو مطلع کر دیجئے گا مسعود صاحب سے بھی سلام کہیے۔ انہوں نے میرے کسی خط کا جواب نہیں دیا۔ آج ڈاکٹر عبدالباسط صاحب کو بھی خط لکھ دیا ہے۔ اب ایک ماہ سے زیادہ نہ ٹھہر سکوں گا کیونکہ ایسٹر کی تعطیلوں میں انجمن حمایت اسلام لاہور کا سالانہ جلسہ ہے اور بعض خاص حالات کی وجہ سے ان دنوں میرا یہاں موجود ہونا ضروری ہے۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۲۰۴) ( ۲) لاہور یکم اگست ۱۹۳۷ء مائی ڈیئر لیڈی مسعود! میں آپ کو صبر و شکر کی تلقین کیونکر کروں جب کہ میرا دل تقدیر کی شکایتوں سے خود لبریز ہے۔ مرحوم سے جو میرے قلبی تعلقات تھے، ان کا حال آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ اس بناء پر میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ جب تک زندہ ہوں، آپ کے دکھ درد میں شریک ہوں۔ غالباً مرحوم کے دوستں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جس کے دل پر مرحوم نے اپنی دلنوازی، بلند نظری اور سیر چشمی کا گہرا نقش نہ چھوڑا ہو۔ مسعود اپنے باپ دادا کے تمام اوصاف کا جامع تھا۔ اس نے قدرت سے دادا کا دل اور باپ کا دماغ پایا تھا اور جب تک جیا، اس دل و دماغ سے ملک و ملت کی خدمت کرتا رہا۔ خدا تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے! کل شام کے اخباروں سے معلوم ہوا کہ مرحوم کی میت علی گڑھ لائی گئی ہے اس وجہ سے میں نے کل صبح آپ کو بھوپال کے پتہ پر تار دیا تھا اور والدہ ماجدہ مرحوم کو علی گڑھ کے پتے پر۔ اس کے بعد ہز ایکسلینسی سردار صلاح الدین خاں سلجوقی قونصل جنرل افغانستان مقیم شملہ کا تعزیتی تار بھی میرے نام آیا جس میں انہوں نے خواہش کی تھی کہ ان کا پیغام ہمدردی مرحوم کے اعزہ تک پہنچا دیا جائے۔ یہ تار بھی میں نے بھوپال ہی بھیج دیا تھا، امید کہ آپ تک پہنچ جائے گا ۔ والدہ ماجدہ تک بھی سردار صاحب کا پیغام ہمدردی پہنچا دیجئے۔ زیادہ کیا لکھوں، ہم سب پریشان ہیں اور خدا تعالیٰ سے آپ کے اطمینان قلب کی دعا مانگتے ہیں۔ والسلام محمد اقبال علی بخش آداب کہتا ہے اور بے حد رنج و غم کا اظہار کرتا ہے۔ نوٹ: ارمغان حجاز میں مسعود مرحوم کے عنوان سے اقبال نے موت و حیات کے معمہ کی کشود میں انسانی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے چند اشعار میں براہ راست سرسید راس مسعود مرحوم کی وفات پر اپنے رنج و قلق کا اظہار کیا ہے۔ صرف پانچ اشعار اس خط سے متعلق ہونے کی بناء پر نقل کیے جاتے ہیں: رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یادگار کمالات احمد و محمود زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اس کی وہ کارواں کا متاع گراں بہار مسعود مجھے رلاتی ہے اہل جہاں کی بیدردی فنان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود نہ کہہ کر صبر میں پنہاں ہے چارۂ غم دوست نہ کہہ کر صبر معمائے موت کی ہے کشود دلے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است ز عشق تابہ صبوری ہزار فرسنگ است سعدی ( ۲۰۵) ( ۳) لاہور ۲۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء ڈیئر لیڈی مسعود صاحبہ! میں نے انور کے خط کا جواب لکھ دیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر ظفر الحسن، پروفیسر علی گڑھ سے مشورہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ وارڈن نیو کالج کو خود خط لکھ سکتے ہیں۔ مسعود مرحوم نے نیو کالج ہی میں تعلیم پائی تھی اور کالج کے موجودہ وارڈن غالباً ان کو جانتے ہیں۔ اس بناء پر جو تجویز آخری میرے ذہن میں آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر ظفر الحسن، مذکورہ بالا کالج کے وارڈن کو یہ لکھیں کہ وہ انور کے لیے سر ہیری ہیگ، گورنر یو پی کو لکھیں کہ وائسرائے ہند، انور کے خاندان کی خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے اس نوجوان کو جو اپنے قد و قامت اور تعلیم کے لحاظ سے ہر طرح موزوں ہے، امپیریل پولیس سروس میں لیے جانے کی سفارش کریں اور چونکہ انور اس وقت نواب صاحب بھوپال کی سروس میں ہے، اس لیے وائسرائے اعلیحضرت نواب صاحب بھوپال سے مشورت فرمائیں۔ یہ مختصر مضمون وارڈ کے اس خط کا ہونا چاہیے جو نیو کالج کا وارڈن سر ہیری ہیگ کو لکھے۔ اگر انور کی درخواست پر اعلیحضرت وائسرائے کی خدمت میں سفارش کرنے کو خود تیار ہو جائیں تو یہ بات سب سے اچھی ہے۔ اس صورت میں وارڈن نیو کالج صرف سر ہیری ہیگ کی خدمت میں یہ لکھیں کہ انو رکی بابت وائسرائے سے خود سفارش کریں۔ اگر اس تجویز سے آپ کو اتفاق ہو تو آپ ڈاکٹر ظفر الحسن صاحب کو علی گڑھ خط لکھ دیں کہ وہ نیو کالج خط لکھ کر سر ہیری ہیگ کے نام سفارشی خط جلد منگوائیں۔ محمد اقبال شیخ محمد عبداللہ ( کشمیری) کے نام ( ۲۰۶) ( ۱) لاہور ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۳ء ڈیئر شیخ عبداللہ صاحب، السلام علیکم! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ مسلم کانفرنس کشمیر کے اخبار پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے یقین ہے کہ بزرگان کشمیر بہت جلد اپنے معاملات سلجھا سکیں گے۔ اس بات کے لیے میں ہر لحظہ دست بدعا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے آپ کی مساعی کو بار آور کرے گا۔ لیکن جو مختلف جماعتیں سنا ہے کہ بن گئی ہیں اور ان کا باہمی اختلاف آپ کے مقاصد کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ ہو گا۔ ہم آہنگی ہی ایک ایسی چیز ہے جو تمام سیاسی و تمدنی مشکلات کا علاج ہے۔ ہندی مسلمانوں کے کام اب تک محض اس وجہ سے بگڑے رہے کہ یہ قوم ہم آہنگ نہ ہو سکی اور اس کے افراد بالخصوص علماء اور اوروں کے ہاتھ میں کٹ پتلی بنے رہے، بلکہ اس وقت ہیں۔ بہرحال، دعا ہے کہ آپ کے ملک کو یہ تجربہ نہ ہو۔ افسوس ہے کہ میں اور مشاغل کی وجہ سے کانفرنس میں شریک نہ ہو سکوں گا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال، لاہور حافظ محمد فضل الرحمن انصاری کے نام ( ۲۰۷) ( ۱) لاہور ۱۶ جولائی ۱۹۳۷ء جناب من! السلام علیکم و رحمتہ اللہ۔ جہاں تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے فرانس، جرمنی، انگلستان اور اٹلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالمانہ تحقیق اور احقاق حق کے ظاہری طلسم میں چھپایا جاتا ہے۔ سادہ لوح مسلمان طالب علم اس طلسم میں گرفتار ہو کر گمراہ ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں آپ کے بلند مقاصد پر نظر رکھتے ہوئے میں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لیے یورپ جانا بے سود ہے۔ میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں مصر جائیے، عربی زبان میں مہارت پیدا کیجئے۔ اسلامی علوم، اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ، تصوف، فقہ، تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اصل روح تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ پھر اگر ذہن خدا داد ہے اور دل میں خدمت اسلام کی تڑپ ہے، تو آپ اس تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے ہاں یورپ کا فلسفہ پڑھنے کے لیے آپ یورپ کا سفر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کو موجودہ حالات میں فلسفہ اور لٹریچر کی چنداں ضرورت نہیں۔ اس صورت میں بھی Thesis کے ذریعہ ڈگری حاصل کرنا فضول ہے۔ یورپ کے فلسفہ کی مختلف شاخوں کا مطالعہ کر کے ڈگری حاصل کرنا چاہیے۔ میں علیل ہوں اور خط و کتابت کرنے سے قاصر ہوں۔ یہ خط بھی ایک دوست کے ہاتھ سے لکھوایا ہے۔ والسلام محمد اقبال مسعود عالم ندوی کے نام ( ۲۰۸) ( ۱) مخدومی جناب مدیر ’’الضیا1؎!‘‘ مجلہ ضیا میں سید فضل رحمن صاحب انصاری کی کتاب اے نیو مسلم ورلڈ ان میکنگ پر آپ کا ریویو نظر سے گزرا مگر اس سے یہ نہ معلوم ہوا کہ کتاب کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔ اگرزحمت نہ ہو تو مہربانی کر کے جو نسخہ آپ کے پاس ہے، قیمتاً ارسال فرما دیجئے یا جہاں سے کتاب مذکورہ دستیاب ہو سکتی ہے وہاں لکھ دیجئے کہ مجھے 1؎ مجلہ ’’الضیائ‘‘ (عربی ) جو مکتوب الیہ کی ادارت میں لکھنو سے شائع ہوتا تھا ّ۱۹۳۲/۱۳۵۱، ۱۹۳۵/۱۳۵۴ ایک نسخہ بذریعہ ویلیو ارسال کر دیں۔ امید کہ آپ یہ زحمت گوارا فرما کر مجھے ممنون فرمائیں گے۔ مخلص محمد اقبال میو روڈ، جاوید منزل، لاہور ( ۲۰۹) ( ۲) ۲۸ نومبر ۱۹۳۵ء مخلصی، السلام علیکم! کتب مرسلہ آج موصول ہو گئیں۔ بہت بہت شکریہ قبول فرمائیے۔ مولیٰنا کاشغری1؎ کی خدمت میں علیحدہ عریضہ لکھ دیا ہے۔ مولیٰنا سید سلیمان ندوی کی علالت کی خبریں بہت متردد کر رہی ہیں، خدا تعالیٰ ان کو صحت عاجل مرحمت فرمائے، میری طرف سے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر استفسار حالات کیجئے، اس وقت علماء ہند میں وہ نہایت قابل احترام ہستی ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو دیر تک زندہ رکھے! امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا مخلص محمد اقبال ( ۲۱۰) ( ۳) لاہور ۵۔ فروری ۱۹۳۶ء مخدومی مولیٰنا، السلام علیکم! پنڈت جواہر لال نہرو کے جواب میں میں نے جو کچھ لکھا تھا، اس کی ایک 1؎ مولانا عبدالرحمن کاشغری ندوی، پروفیسر مدرسہ عالیہ، کلکتہ کاپی آپ کی خدمت میں بھجوائی گئی تھی۔ مہربانی کر کے مطلع فرمائیے کہ وہ پمفلٹ آپ تک پہنچایا نہیں۔ اخباروں میں مولیٰنا سید سلیمان کی صحت کی خبر پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ خدا تعالیٰ ان کو دیر تک سلامت رکھے۔ ان کا وجود اس ملک میں غنیمت ہے۔ میری طرف سے بہت بہت سلام ان کی خدمت میں عرض کیجئے۔ کسی گزشتہ خط میں (جو اس وقت نہیں مل سکا) انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ ایک اسلامی ملک کے امیر کو اختیار ہے کہ اگر کسی ایسے امر میں جس کی شرع نے اجازت دی ہو فساد پیدا ہو تو اس اجازت کو revokeکر لے۔ اس کی مثالیں بھی مولیٰنا نے خلافت راشدہ کے زمانہ کی لکھی تھیں۔ اس قول کے لیے حوالے کی ضرورت ہے۔ مہربانی کر کے آپ خود یا مولیٰنا موصوف سے دریافت کر کے تحریر فرمائیں ۔ میں نے خود ادھر ادھر سے تفحص کر کے حوالہ نکالا تھا مگر افسوس کہ اب وہ کاغذ جس پر یہ سب کچھ نوٹ کیا تھا، نہیں ملتا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مولیٰنا کی خدمت میں سلام شوق عرض کریں۔ مخلص محمد اقبال اس خط کے جواب کی طرف جلد توجہ فرمائیے تو ممنون ہوں گا۔ ( ۲۱۱) ( ۴) لاہور ۱۲ فروری ۱۹۳۶ء ڈیئر مولیٰنا مسعود عالم، السلام علیکم! آپ کا خط عین اس وقت پہنچا جب کہ میں ابن قیم ؒ کی اعلام الموقعین پڑھ رہا تھا۔ خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ میرے مطلب کے لیے کافی مسالا آپ نے جمع کر دیا ہے۔ اب اگر ضرورت ہوئی تو اسی سے فائدہ اٹھاؤں گا، مولیٰنا سید سلیمان ندوی کو تکلیف دینے کی ضرورت نہیں۔ فقہی مسائل کے اختلافات اور علماء اسلام کی جرح و قدح جس میں حضور رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عشق پوشیدہ ہے، ان تمام چیزوں کا مطالعہ بیحد روحانی لذت رکھتا ہے۔ میں نے تو صرف یہ لکھا تھا کہ شرعی اجازت کو امیر منسوخ کر سکتا ہے۔ اعلام سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض خاص حالات میں قرآن کے تعزیری احکام میں بھی تغیر ہو سکتا ہے، مثلاً سارق کے لیے قطع ید کے حکم میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ کے دوران میں تغیر کر دیا تھا۔ بہرحال، جو زحمت آپ نے اٹھائی ہے، میں اس کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔ جاوید اس وقت اسکول میں ہیں۔ آپ کا سلام ان تک پہنچا دوں گا۔ رات کو قرآن پڑھا کرتے ہیں۔ محمد اقبال، لاہور مسلم لیگ کا خطبہ میرے پاس تو موجود نہیں ہے، البتہ کوشش کروں گا، اگر مل سکا تو بھیج دوں گا۔ مسلم کانفرنس کا خطبہ صدارت موجود ہے اگر مطلوب ہو تو بھیج دوں۔ محمد اقبال ( ۲۱۲) ( ۵) لاہور ۱۹ فروری ۱۹۳۶ء جناب مولیٰنا مسعود صاحب، السلام علیکم! میں آپ کو دونوں ایڈریس بھیج چکا ہوں، امید کہ موصول ہو گئے ہوں گے تھوڑی سی تکلیف اور دیتا ہوں جس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ محمد لطفی جمعہ، مصر کے ایک بیرسٹر ہیں۔ انہوں نے حال میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے حیات الشرق اس کتاب کے صفحہ ۶۵پر ترکوں کے متعلق لکھتے ہوئے کہتے ہیں: فالا فضل للمسلمین فی الشرق ان یترکوا نغمتہ الانتقاد و التقریع ضد مصطفی کمال وغیرہ وان یترکوہ کما ترکہم یترکوہ کما ترکہم پر مصنف نے حاشیہ کتاب پر یہ نوٹ دیا ہے:فی الحدیث الصحیح، اتر کو الترک کما ترکوکم دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ حدیث کونسی کتاب میں ہے، اس کے راوی کون ہیں اور حضور رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال ( ۲۱۳) ( ۶) لاہور ۲۵۔ فروری ۱۹۳۶ء جناب مولیٰنا، السلام علیکم! ترکوں کے متعلق مایوس نہ ہونا چاہیے۔ ان کے ایک خدا پرست جرنیل کے الفاظ ہیں: یہ الحاد کی ہوا آئی ہے، کچھ دن کے بعد نکل جائے گی۔ جو کچھ ہوا، جذبہ وطن پرستی بلکہ توران پرستی کا نتیجہ تھا۔ اب جو عراق، افغان، ایران اور ترکی کے معاہدہ کی تجویز ہو رہی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکوں نے توران پرستی کو بحیثیت ایک پالیسی کے ترک کر دیا ہے، کافر نتوانی شد ناچار مسلمان شو حالات اس قسم کے ہیں کہ ترک، اسلام کو چھوڑ کر کبھی من حیث القوم سر سبز نہیں ہو سکتے۔ باقی ، یہ بات صحیح ہے کہ ان میں افرنگ زدہ لوگ بکثرت ہیں۔ لیکن کیا عجب ہے کہ آئندہ دس سال میں افرنگ زدگی کے سرچشمے ہی کا خاتمہ ہو جائے۔ سب کچھ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ باقی، آپ کی کتاب 1؎ کے متعلق پھر لکھوں گا۔ بہت سے خطوط لکھنے کے بعد تھک گیا ہوں۔ ۲۹ کو بھوپال جانے کا قصد ہے۔ وہاں ایک ماہ قیام رہے گا۔ محمد اقبال ( ۲۱۴) ( ۷) لاہور ۲۸ مئی جناب مولیٰنا، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ میں بہ نسبت سابق بہتر ہوں، مگر اطباء نے لکھنا پڑھنا بند کرا دیا ہے، اس واسطے تمام دن لیٹے لیٹے گزر جاتا ہے۔ افسوس کہ آپ کی کتاب کا مسودہ دیکھنے سے قاصر ہوں۔ نہ فی الحال کچھ لکھنے کے قابل ہوں۔ آپ کے دوست2؎ کا مجموعہ نظم میں نے دیکھا ہے۔ ان کے اشعار اچھے ہیں۔ امید کہ ایک دن اس سے بہتر کہیں گے۔ فی الحال ان کے کلام میں ناپختگی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال 1؎ مکتوب الیہ کی عربی تاریخ ہند ’’حاضر مسلمہ الہند و غا برہم‘‘2؎ سید محمد فاروق فاروق پانسپاری بلیادی پروفیسر محمد الیاس برنی کے نام ( ۲۱۵) ( ۱) کتاب المعیشت مل گئی تھی، مگر میں درد گردہ کے دورے کی وجہ سے صاحب فراش تھا اور اب تک پورے طور پر صحت نہیں ہوئی، گو پہلے کی نسبت بہت افاقہ ہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ آپ کی عنایت کا شکریہ ادا نہ کر سکا۔ آپ کی تصنیف اردو زبان پر ایک احسان عظیم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اردو زبان میں علم اقتصاد پر یہ پہلی کتاب ہے، اور ہر پہلو سے کامل۔ والسلام آپ کا مخلص محمد اقبال، لاہور ۸۔ مارچ۱۹۱۷ء ( ۲۱۶) ( ۲) ۲۔ اکتوبر ۱۹۱۷ء مخدومی، السلام علیکم! آپ کا والا نامہ مل گیا ہے۔ مجھے کیونکر اجازت میں تامل ہو سکتا ہے، بڑے شوق سے میری نظم، جو پسند خاطر ہو، درج فرمائیے مگر آج کا زمانہ ہندوستان میں اور طرح کا ہے، اس کی نبض شناسی ضروری ہے۔ اگر آپ میری نظموں کے متعلق مجھ سے مشورہ کریں تو شاید بہتر ہو گا۔ یہ معلوم ہو جائے کہ آپ کے خیال میں کون سی نظمیں اس مجموعے میں آنی چاہئیں تو رائے دے سکوں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال، لاہور ( ۲۱۷) ( ۳) لاہور ۶۔ جون ۱۹۳۶ء مخدومی جناب پروفیسر الیاس! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے۔ کتاب ’’قادیانی مذہب‘‘ اس سے بہت پہلے موصول ہو گئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب بے شمار لوگوں کے لیے چراغ ہدایت کا کام دے گی اور جو لوگ قادیانی مذہب پر مزید لکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے تو یہ ضخیم کتاب ایک نعمت غیر مترقبہ ہے جس سے ان کی محنت و زحمت بہت کم ہو گئی ہے۔ میں آپ کی خدمت میں مفصل خط لکھتا مگر دو سال سے بیمار ہوں اور بہت کم خط و کتابت کرتا ہوں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ حضور نظام کا خط میری نظر سے گزرا تھا لیکن میں نے سنا ہے کہ جو روپیہ ان کی گورنمنٹ کی طرف سے پنجاب میں آتا ہے، وہ یا تو پارٹی پالیٹکس پر صرف ہوتا ہے یا ان اخباروں پر جو قادیانیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے۔ میں نے یہ بات آپ کو بصیغہ راز لکھ دی ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۲۱۸) ( ۴) لاہور ۱۳ جون ۱۹۳۶ء مخدومی، پروفیسر صاحب! السلام علیکم۔ نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے نہایت شکر گزار ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کو طب میں بھی دخل ہے۔ اگر معلوم ہوتا تو ضرور آپ کی خدمت میں لکھتا۔ دو سال سے اوپر ہو گئے، جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا۔ سویاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوا۔ بہدا نہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا۔ یہ کیفیت دو سال سے جاری ہے۔ بلند آواز سے بول نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے مجھے بالآخر بیرسٹری کا کام چھوڑنا پڑا۔ انگریزی اور یونانی اطباء دونوں کا علاج کیا مگر کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ مجھے کسی قدر دمہ کی شکایت ہو گئی۔ حکیم نابینا صاحب نے فرمایا کہ تمہاری بیماری ایک ہلکا سا دمہ ہے۔ کھانسی اس شدت سے آتی تھی کہ میں بیہوش ہو جاتا تھا، اب یہ کیفیت نہیں ہے۔ صبح بلغم نکلتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس کھانا کھانے کے بعد بھی سفید بلغم نکلتی ہے۔ جس کے نکلنے سے آواز نسبتاً بہتر ہو جاتی ہے۔ انگریزی اطباء کی تشخیص یہ ہے کہ ایک رگ جسے Aorta کہتے ہیں اور جو قلب کے قریب ہے، ایک مقام سے پھیل گئی ہے اس کا دباؤ و دکل کارڈ پر پڑتا ہے جس کے سبب سے بولنے میں دقت ہوتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس ان کی تشخیص یہ بھی ہے کہ طویل بیماری سے قلب کی رگیں کمزور ہو گئی ہیں اس واسطے عام کمزوری ہو گئی ہے اور مجھے کوئی ایسا کام کرنا نہیں چاہیے جس میں Exictementپیدا ہو۔ ذرا سی محنت کرنے سے دم پھول جاتا ہے یہاں تک کہ غسل کرنے میں اپنے ہاتھوں سے اپنا بدن بھی اگر ملوں تو دم چڑھ جاتا ہے۔ عام کمزوری بھی ہے۔ یہ مختصر کیفیت میری بیماری کی ہے۔ اگر آپ کوئی دوا تجویز کریں گے تو ضرور مفید ہو گی۔ آپ عا شقان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں سے ہیں اس واسطے ایک اور بات آپ کے گوش گزار کرنے کے لائق ہے۔ ۳ اپریل کی رات ۳ بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سرسید علیہ الرحمتہ کو خواب میں دیکھا، پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو۔ میں نے عرض کیا دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔ فرمایا حضور رسالتماب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کرو۔ میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور اس عرضداشت کے چند شعر جواب طویل ہو گئی ہے، میری زبان پر جاری ہو گئے۔ انشاء اللہ ایک مثنوی فارسی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ نا م کے ساتھ یہ عرضداشت شائع ہوگی۔ ۴ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ (ring) عود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے، گو اس ترقی کی رفتار بہت سست ہے۔ جسم میں بھی عام کمزوری ہے زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۲۱۹) ( ۵) لاہور ۲۳ جون ۱۹۳۶ء مخدومی پروفیسر صاحب، السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔ انشاء اللہ ایک ہفتہ تک حسب ہدایت استعمال کرنے کے بعد نتیجے سے مطلع کروں گا۔ مجھے امید ہے آپ کی روحانیت اور اخلاص میری شفا کا باعث ہوں گے۔ فی الحال میری شکایات یہی ہیں جو لکھ چکا ہوں یعنی عام کمزوری، قلب کی کمزوری، دم پھولنا، قبض اور جگر کے فعل کی بے قاعدگی، بلغم وغیرہ۔ اس سے پہلے کھانسی اور دمہ بھی تھا، اور جب کھانسی ہوتی تھی تو میں بیہوش ہو جاتا تھا۔ بہرحال، ان سب امور کو ذہن میں رکھیے۔ اس دوا کے استعمال کے بعد جواہر مہرہ اور سفوف کا استعمال ہو گا۔ موتی منجن اور اکسیر آئل کی دو شیشیاں جن میں دو دو اونس دوا ہو، مہربانی کر کے وی پی بھجوا دیجئے۔ جس دکان سے ملتی ہوں، ان کو رقعہ لکھ دیجئے کہ میرے نام وی پی ارسال کر دیں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال ( ۲۲۰) ( ۶) لاہور ۲۷ جون ۱۹۳۶ء مخدومی پروفیسر صاحب، السلام علیکم! اس سے پہلے ایک عریضہ ارسال کر چکا ہوں۔ امید کہ ملاحظہ عالی سے گزرا ہو گا۔ آپ کی گولیاں کھاتے ہوئے آج چوتھا روز ہے۔ ان کے استعمال سے بلغم کا آنا کم ہو گیا ہے۔ البتہ آواز میں ابھی تک کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ ابھی گولیاں باقی پورے ہفتہ تک انشاء اللہ استعمال کرتا جاؤں گا۔ اگر جواہر مہرہ اور سفوف بھی جن کا ذکر آپ نے اپنے خط میں کیا تھا، ارسال کر دیں تو عین عنایت ہو گی، یا شاید ان کا استعمال گولیوں کے استعمال کے بعد ہونا ضروری ہے۔ بہرحال جو مناسب ہو کیجئے۔ سفوف اور جواہر مہرہ کے استعمال کے متعلق جو ضروری ہدایات ہوں وہ بھی لکھ بھیجئے کھانے پینے کے متعلق اگر کوئی ہدایت ہو تو وہ بھی فرما دیجئے۔ دودھ، بالائی دہی اور ترشی کے استعمال سے تکلیف ہوتی ہے۔ میں ترشی کے استعمال کا عادی تھا، چونکہ دو سال سے ترشی کا استعمال نہیں کر سکتا، میرا کھانا بالکل بے لطف ہو گیا ہے۔ بھوک بھی کم لگتی ہے، قبض کی بھی شکایت رہتی ہے شاید میں نے پہلے نہیں لکھا مجھے کئی سال تک درد گردہ کی شکایت رہی ہے۔ اب آٹھ سال سے اس درد کا دورہ نہیں ہوا۔ نقرس کی شکایت البتہ ہے، کبھی کبھی اس کا دورہ ہوتا ہے مگر زیادہ شدت کے ساتھ نہیں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا، والسلام مخلص محمد اقبال آپ نے مرزا محمود کا تازہ اعلان پڑھا ہو گا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ پیغمبر، قوموں کو آزادی دلانے کے لیے آتے ہیں نہ کہ غلامی سکھانے کے لیے۔ اس بناء پر اپنے پیروں کو سیاسیات میں حصہ لینے کی تاکید کی ہے۔ والسلام ( ۲۲۱) ( ۷) لاہور ۲۹۔ جولائی ۱۹۳۶ء مخدومی پروفیسر صاحب! آپ کا والا نامہ کل ملا اور آج دوا کا پارسل بھی موصول ہوا۔ بہت شکر گزار ہوں۔ خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ استعمال کرنے کے بعد حالات سے اطلاع کروں گا۔ سب سے (پہلے؟) جواہر مہرہ استعمال کرنے کا قصد ہے۔ میں نے آپ کی خدمت میں ایک نسخہ ’’ضرب کلیم‘‘ کا ارسال کیا ہے۔ افسوس کہ جدول اغلاط ہمراہ نہ بھیج سکا۔ وہ آج چھپیں گے۔ کل ارسال خدمت کروں گا، اس کے آخری صفحہ پر چسپاں کر لیجئے زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال ( ۲۲۲) ( ۸) جاوید منزل، لاہور ۲۷ مئی ۱۹۳۷ء جناب پروفیسر صاحب، السلام علیکم! آپ کی کتاب، قادیانی مذہب کی نئی ایڈیشن جو آپ نے بکمال عنایت ارسال فرمائی ہے مجھے مل گئی ہے جس کے لیے بے انتہا شکر گزار ہوں ۔ میں نے سید نذیر نیازی ایڈیٹر طلوع اسلام سے سنا ہے کہ یہ کتاب بہت مقبول ہو رہی ہے۔ آپ کی محنت قابل داد ہے کہ اس سے عامتہ المسلمین کو بے انتہا فائدہ پہنچا ہے اور آئندہ پہنچتا رہے گا۔ اب ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے، جو کہ آپ کے ذاتی افکار کا نتیجہ ہو۔ آپ کے قلم سے مسلمان ایسی توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں۔ قادیانی تحریک یا یوں کہیے کہ بانی تحریک کا دعویٰ مسئلہ بروز پر مبنی ہے۔ مسئلہ مذکور کی تحقیق تاریخی لحاظ سے از بس ضروری ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ مسئلہ عجمی مسلمانوں کی ایجاد ہے اور اصل اس کی آرین ہے۔ نبوت کا سامی تخیل اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ میری رائے ناقص میں اس مسئلہ کی تاریخی تحقیق قادیانیت کا خاتمہ کرنے کے لیے کافی ہو گی۔ والسلام محمد اقبال صغرا بیگم ہمایوں مرزا کے نام ( ۲۲۳) ( ۱) لاہور ۲۸ نومبر ۱۹۲۲ء مکرمہ، تسلیم! رسالہ النساء کے لیے نہایت سپاس گزار ہوں۔ بہت اچھا رسالہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا مطالعہ مسلمان عورتوں کے لیے بہت سبق آموز ہو گا۔ میں کچھ مدت سے اردو میں بہت کم لکھتا ہوں لیکن اگر کچھ اردو اشعار ہو گئے تو بھیج دوں گا۔ تسلیم محمد اقبال ( ۲۲۴) ( ۲) مخدومہ جناب صغرا ہمایوں بیگم صاحبہ! تسلیم آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میری صحت ایک مدت سے خراب ہے اسی واسطے لٹریری مشاغل کی طرف بہت کم توجہ کر سکتا ہوں۔ پیام مشرق نام ایک مجموعہ نظم جو فارسی میں ہے تیار ہو رہا ہے۔شاید دو تین ماہ میں شائع ہو جائے گا۔ انشاء اللہ ایک کاپی آپ کی خدمت میں ارسال کروں گا۔ لیکن چونکہ اندیشہ ہے کہ بھول نہ جاؤں، اس واسطے اگر کتاب آپ کو نہ پہنچے تو بلا تکلف یاد دلا دیجئے۔ آپ کے شوہر ہمایوں مرزا صاحب سے مجھے نیاز حاصل نہیں ہے لیکن میں نے آپ کا خط، جو ہزار داستاں میں شائع ہوا ہے، پڑھا ہے۔ اس خط کے پڑھنے سے مجھے خاص مسرت ہوئی۔ فریاد مرحوم کی لٹریری عظمت میں کس کو کلام ہو سکتا ہے جن کے شاگردوں میں شاد عظیم آبادی ہوں! امید کہ مزاج بخیر ہو گا! مخلص محمد اقبال، ۲۸ فروری ۱۹۲۳ء ( ۲۲۵) ( ۳) لاہور ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۳ء مکرمہ، تسلیم! افسوس کہ میں وعدہ یاد نہ رکھ سکا جس سے مجھے ندامت ہے امید کہ آپ معاف فرمائیں گی۔ بہرحال کل پبلشر کو لکھ بھیجوں گا، کہ وہ پیام مشرق کی ایک جلد آپ کی خدمت میں بھیج دے۔ مضمون لکھنے کی فرصت نہ ملی، اور نہ ابھی کچھ مدت تک ایسی فرصت ملنے کی توقع ہے کیونکہ فرصت کے اوقات میں مجھے بعض ضروری لٹریری کاموں کی تکمیل کرنا ہے۔ محمد اقبال ( ۲۲۶) ( ۴) لاہور ۱۲۔ جولائی ۱۹۲۸ء جناب محترمہ تسلیم! آپ کے اشعار صاف ہیں۔ افسوس کہ میں فن اصلاح سے نابلد ہوں، محض آپ کے تعمیل ارشاد کے خیال سے بعض جگہ کچھ الفاظ بدل دیے گئے۔ رسالہ نور جہاں، امرتسر میں بھیج دیجئے۔ میری بیوی سلام عرض کرتی ہیں۔ مخلص محمد اقبال حمید الدین خان بدایونی کے نام ( ۲۲۷) ( ۱) لاہور ۱۸ نومبر ۱۹۱۹ء مکرم بندہ، السلام علیکم! آپ کے دونوں خط مجھے مل گئے تھے۔ پہلے خط میں کوئی ایسی بات نہ تھی جس کا جواب جلدی دیا جائے۔ دوسرا خط ملا تو میں بخار کی وجہ سے صاحب فراش تھا۔ اب کچھ افاقہ ہے۔ افسوس ہے کہ کوئی شعر اس وقت لکھا ہوا موجود نہیں۔ مشاغل اجازت نہیں دیتے کہ جب چاہوں ادھر توجہ کر سکوں اور فکر کر کے کچھ شعر لکھ لوں۔ مخلص محمد اقبال، لاہور ( ۲۲۸) ( ۲) لاہور ۲۷ نومبر ۱۹۱۹ء مخدومی، السلام علیکم! نوازش نامہ مل گیا ہے، جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ خدا کے فضل و کرم سے اب بالکل اچھا ہوں۔ میری زندگی میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں جو اوروں کے لیے سبق آموز ہو سکے۔ ہاں، خیالات کا تدریجی انقلاب البتہ سبق آموز ہو سکتا ہے۔ اگر کبھی فرصت ہو گئی تو لکھوں گا، فی الحال اس کا وجود محض عزائم کی فہرست میں ہے۔ مولانا اکبر کا خط مجھے دہلی سے آیا تھا۔ اگر وہ کچھ روز وہاں ٹھہرتے تو میں بھی ان کی زیارت کے لیے آ جاتا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۲۹) ( ۳) لاہور ۳۰ اگست ۱۹۲۱ء مخدومی! تبدیل ہوا کے لیے شملہ چلا گیا تھا، مگر وہاں جاتے ہی طبیعت اور بگڑ گئی۔ چار پانچ روز کے بعد واپس آ گیا۔ اب خدا کے فضل سے کسی قدر اچھا ہوں۔ آپ کا حسن ظن میری نسبت بہت بڑھ گیا ہے۔حقیقت میں میں نے جو کچھ لکھا ہے، ا س کی نسبت دنیائے شاعری سے کچھ بھی نہیں اور نہ کبھی میں نے Seriously اس طرف توجہ کی ہے۔ بہرحال آپ کی عنایت کا شکر گزار ہوں۔ باقی رہا یہ امر کہ موجودہ بیداری کا سہرا میرے سر پر ہے یا ہونا چاہیے، اس کے متعلق کیا عرض کروں۔ مقصود تو بیداری سے تھا، اگر بیداری ہندوستان کی تاریخ میں میرا نام تک بھی نہ آئے تو مجھے قطعاً اس کا ملال نہیں۔ لیکن آپ کے اس ریمارک سے مجھے بہت تعجب ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بات کا شاید کسی کو احساس نہیں۔ مولوی ابو الکلام صاحب آزاد کے تذکرہ کا دیباچہ لکھنے والے بزرگ نے جن الفاظ میں محمد علی، شوکت علی اور میری طرف اشارہ کیا ہے، ان سے میرے اس خیال کو اور تقویت ہو گئی ہے۔ لیکن اگر کسی کو بھی اس کا احساس نہ ہو تو مجھے اس کا رنج نہیں کیونکہ اس معاملہ میں خدا کے فضل و کرم سے بالکل بے غرض ہوں۔ معلوم نہیں کونسا شعر آپ کے پاس امانت ہے۔ بہتر ہے، چھاپ دیجئے۔ مخلص محمد اقبال سید نعیم الحق کے نام ( ۲۳۰) ( ۱) ( انگریزی) لاہور ۲۵ دسمبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر مسٹر نعیم الحق! نوازش نامہ موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اگر میں کانفرنس میں شمولیت کے لیے پٹنہ آ سکا تو یقینا آپ سے ملاقات میرے لیے باعث مسرت ہو گی۔ لیکن پٹنہ میں میرا آنا غیر یقینی ہے کیونکہ مجھے ممکن ہے اواخر مارچ ۱۹۳۴ء میں آکسفورڈ میں لیکچروں کے ایک سلسلہ کے لیے انگلستان جانا پڑے۔ اور یہ ضروری ہے کہ یہ لیکچر میری روانگی سے پیشتر مرتب کر لیے جائیں۔ اگر میرا ارادہ پٹنہ آنے کا ہوا تو آپ کو مطلع کروں گا۔ کشمیر کے مسلمانوں کی امداد و اعانت آپ کا بڑا ہی کرم ہے۔ مقدمات کی تاریخیں فروری ۱۹۳۴ء میں حسب ذیل ہیں: ۵ سے ۱۰ فروری تک مقدمہ سکھ چین پور ۴ سے ۱۷ فروری تک مقدمہ علی بیگ، دونوں مقدمات کی سماعت جموں میں ہو گی۔ کیا آپ دونوں مقدمات کی پیروی کے لیے تیار ہیں۔ ملک برکت (علی) فروری میں اپنے انتخاب میں مصروف ہوں گے ہم سب آپ کی مکرر اعانت کے لیے نہایت احسان مند ہوں گے۔ اگر آپ تکلیف گوارا فرمائیں تو مجھے فوراً بذریعہ تار اپنی آمادگی سے مطلع فرمائیں تاکہ ضروری کاغذات بھیج سکوں۔ کوشش کروں گا کہ آپ کے لیے ایک مددگار مہیا کیا جائے۔ عبدالحمید صاحب نے مجھے اطلاع دی ہے کہ آپ نے ذکر کیا تھا کہ پٹنہ کے عبدالعزیز صاحب مسلمانوں کی امداد کو ہر وقت تیار ہوں گے۔ آپ میری طرف سے ان کی خدمت میں کشمیر کے بے بس مسلمانوں کی امداد کی درخواست کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے گا۔ آپ کے تار کا انتظار رہے گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۳۱) ( ۲) (انگریزی) ۱۳ جنوری ۱۹۳۴ء مائی ڈیئر نعیم الحق! نوازش نامہ اور تار کے لیے جو کل رات موصول ہوا اور جس کا جواب آج صبح بھیجا گیا، نہایت ممنون ہوں۔ آپ کی اس عنایت کا کیونکر شکریہ ادا کیا جائے۔ کہ آپ دونوں مقدمات کی پیروی کے لیے آمادہ ہیں۔ میں اس مقدمہ کا فیصلہ اور دوسرے کاغذات آپ کو بھیج رہا ہوں جس کی تاریخ پیشی جموں میں ۱۳ فروری مقرر ہوئی ہے۔ یہ بہتر ہو گا کہ آپ ۱۲ فروری کو جموں پہنچ جائیں۔ دوسرے مقدمہ کے متعلق کاغذات ابھی مجھے موصول نہیں ہوئے۔ اگر کوئی دوسرا انتظام ممکن نہ ہوا تو میں کاغذات موصول ہوتے ہی آپ کی خدمت میں بھیج دوں گا۔ دوسرا مقدمہ ۵ فروری کو شروع ہوتا ہے۔ جس مقدمہ کے کاغذات میں بھیج رہا ہوں، وہ پانچ چھ دن سے زیادہ نہ لے گا۔ امید ہے آپ کے پاس فرصت میں اس مقدمہ کی تیاری کے لیے کافی وقت ہو گا۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: کاغذات کے موصول ہونے کی اطلاع ضرور دیجئے اور جموں میں پہنچنے کی اطلاع شیخ عبدالحمید صاحب ایڈووکیٹ (صدر کشمیر کانفرنس) کو دیجئے اور دوسرے معاملات میں بھی انہی سے براہ راست خط و کتابت مفید ہو گی۔ م ۔۱ ( ۲۳۲) ( ۳) ( انگریزی ) لاہور ۲۲جنوری ۱۹۳۴ء مائی ڈیئر مسٹر نعیم الحق! نوازش نامہ کے لیے جو ابھی موصول ہوا، سراپا سپاس ہوں، مجھے پٹنہ میں دوستوں کے متعلق حد درجہ تشویش تھی اور میں تار دینے ہی والا تھا کہ آپ کا نوازش نامہ موصول ہو گیا۔ زلزلہ کی ہولناکی سے طبیعت پر غم و یاس کی فراوانی اور پریشان خاطری کے باوجود مقدمہ کی پیروی کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے آپ کی ہمت و مستعدی لائق صد ہزار داد و ستائش ہے۔ مجھے میر پور کے دوسرے مقدمہ کی نقل فیصلہ تو موصول ہو گئی لیکن ابھی دوسرے کاغذات کا انتظار ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس مقدمہ کی پیروی کا بار بھی آپ ہی پر ڈال دینا آپ کو حد درجہ زحمت میں مبتلا کرنا ہو گا۔ جہاں تک آپ کے مددگار کا تعلق ہے، میں لاہور ہی میں کسی کو آمادہ کروں گا تاکجہ وہ لاہور ہی سے آپ کے ساتھ ہو جائے، یا پھر جموں میں آپ سے آن ملے۔ جموں کانفرنس آپ کی میزبان ہو گی۔ آپ شیخ عبدالحمید صاحب کو تحریر کر دیں۔ میں نے شیخ عبداللہ صاحب، صد رکانفرنس سے بھی تذکرہ کر دیا ہے۔ وہ اس وقت لاہور میں ہیں لیکن جموں میں آپ کی تشریف آوری تک پہنچ جائیں گے۔ تکلیف کے لیے دوبارہ شکریہ عرض کرتا ہوں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۳۳) ( ۴) ( انگریزی) لاہور ۲۸ جنوری ۱۹۳۴ء مائی ڈیئر نعیم الحق! نوازش نامہ موصول ہوا جس کے لیے ممنون ہوں۔ میں عبدالحمید صاحب کو لکھ رہا ہوں کہ مقدمہ میں درخواست التواء دے دیں۔ لیکن چونکہ آب آپ مقدمہ میں وکیل ہیں، بہتر یہ ہو گا کہ آپ براہ راست کشمیر ہائی کورٹ میں درخواست التواء دے دیں اور وجودہ وہی تحریر کریں جو آپ نے اپنے نوازش نامہ میں تحریر فرمائی ہیں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد:ـ جس وقت آپ کشمیر پہنچیں گے، امید ہے کشمیر میں زبردست ایجی ٹیشن دوبارہ شروع ہو چکی ہو گی۔ محمد اقبال ( ۲۳۴) ( ۵) لاہور ۹۔ فروری ۱۹۳۴ء مائی ڈیئر مسٹر نعیم الحق! نوازش نامہ موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ جس مقدمہ کی پیروی کے لیے میں نے آپ سے درخواست کی تھی، اس کی پیروی چودھری ظفر اللہ خاں کریں گے عبدالحمید صاحب نے مجھے یہ اطلاع دی ہے اور میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو ہر قسم کی زحمت سے بچانے کے لیے مجھے فی الفور آپ کو مطلع کرنا چاہیے۔ چودھری ظفر اللہ خاں کیونکر اور کس کی دعوت پر وہاں جا رہے ہیں، مجھے معلوم نہیں۔ شاید کشمیر کانفرنس کے بعض لوگ ابھی تک قادیانیوں سے خفیہ تعلقات رکھتے ہیں۔ میں اس تمام زحمت کے لیے جو آپ برداشت کر رہے ہیں اور اس تمام ایثار کے لیے جو آپ گوارا فرما رہے ہیں، بیحد ممنون ہوں۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال نامعلوم مکتوب الیہ کے نام یہ خطوط سید نعیم الحق صاحب کا عطیہ ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ شیخ عبداللہ کے نام لکھے گئے ہیں۔ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ القاب و خطاب کے پیش نظر میری رائے ہے کہ خط کسی اور بزرگ کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اس رائے کی تصدیق اشاعت کے بعد ہو سکے گی۔ (مرتب) ( ۲۳۵) ( ۱) لاہور یکم ستمبر ۱۹۳۳ء جناب من، السلام علیکم! آپ کا تار کل مل گیا تھا جس کے لیے بہت شکریہ ہے مہربانی کر کے میری طرف سے اور جملہ ممبران کشمیر کمیٹی کی طرف سے مسٹر نعیم الحق صاحب کی خدمت میں بہت بہت شکریہ ادا کریں۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمانان پنجاب و کشمیر ان کی خدمت کی بہت قدر کریں گے۔ کل مجھے کشمیر سے تار آیا تھا کہ ضروری کاغذات مسٹر نعیم الحق صاحب کی خدمت میں ارسال کر دیے گئے ہیں۔ تاریخ مقدمہ ۲۲ ستمبر ہے اور مقدمہ سری نگر میں ہو گا۔ شیخ عبدالحمید صدر کشمیر کانفرنس ان کو مفصل ہدایات لکھ دیں گے کہ ان کو کون سے رستے سری نگر پہنچنا چاہیے۔ یعنی جموں کے راستے یا راولپنڈی کے راستے۔ دونوں رستے اچھے ہیں جموں یا راولپنڈی سے موٹر پر جاتے ہیں اور راہ نہایت پر فضا ہے مجھے یقین ہے کہ مسلمانان کشمیر ان کا مناسب استقبال کریں گے۔ میرا یہ عریضہ مسٹر نعیم الحق کو دکھا دیجئے۔ میں براہ راست ان کی خدمت میں لکھتا مگر معلوم نہ تھا کہ وہ اس وقت پٹنہ میں ہیں یا اپنے کام کے سلسلہ میں کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے کل رات شیخ عبدالحمید صاحب کو مسٹر موصوف کے متعلق ایک مفصل خط لکھ دیا ہے۔ والسلام محمد اقبال ( ۲۳۶) ( ۲) جناب مولوی صاحب، السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے نعیم الحق صاحب کو آمادہ کر لیا۔ کل شیخ عبدالحمید صاحب کا تار آیا کہ نعیم صاحب کو کاغذات بھیج دیے گئے ہیں۔ باقی جوآپ نے کسی اور صاحب کے متعلق لکھا ہے اس کے لیے بھی آپ کا بہت ممنون ہوں۔ ان کو بھی آمادہ رکھیے۔ جب ان کی مدد کی ضرورت ہو گی تو میں آپ کو بذریعہ تار یا خط مطلع کروں گا۔ اس سے پہلے بھی ایک خط آپ کی خدمت میں لکھ چکا ہوں۔ نعیم الحق صاحب کی خدمت میں مزید شکریہ۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ ۴ ستمبر کو میں شملہ جا رہا ہوں۔ مولوی شفیع داؤدی صاحب سے بھی ملاقات ہو گی۔ ۲ ستمبر ۱۹۳۳ء محمد اقبال، لاہور ( ۲۳۷) ( ۳) جناب مولوی صاحب، السلام علیکم! آپ کا والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے بہت شکر گزار ہوں مسٹر نعیم الحق صاحب کے خط سے جو انہوں نے شیخ عبدالحمید کو لکھا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں کشمیر اور سری نگر دو مختلف جگہیں ہیں۔ ان کی خدمت میں عرض کریں کہ کشمیر ملک کا نام ہے اور سری نگر دار السلطنت ہے۔ مقدمات جو بھی ہوں، سری نگر میں ہوں گے اور جہاں تک میں خیال کرتا ہوں ان کو زیادہ مدت وہاں ٹھہرنا نہ پڑے گا۔ شیخ عبدالحمید صاحب کا خط مجھے آج آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ سید نعیم الحق صاحب کا سفر خرچ کشمیر کمیٹی کی طرف سے ادا ہونا چاہیے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ سید صاحب موصوف اس حقیر رقم کو جو سفر خرچ کی صورت میں ان کی خدمت میں پیش کی جائے، قبول نہ کریں گے۔ اور یہ کام للہ، مسلمانوں کے لیے کریں گے۔ کشمیر کمیٹی کے پاس زیادہ فنڈ نہیں ہے ورنہ میں خود سید صاحب کی خدمت میں پیش کرتا، اس واسطے مہربانی کر کے ان کی خدمت میں عرض کریں کہ اگر آپ بلا کسی قسم کے معاوضہ اور سفر خرچ کے یہ خدمت کریں تو اللہ کے نزدیک اجر جزیل کے مستحق ہوں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی اور صورت میں اس کا اجر مل جائے گا۔ سید صاحب موصوف سے یہ بات طے کر کے مجھے بذریعہ تار مطلع فرمائیں تاکہ ان کی خدمت میں کاغذات ضروری بھجواؤں اور یہ بھی اطلاع دوں کہ کس تاریخ پر ان کو سری نگر پہنچنا چاہیے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ سید صاحب موصوف کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت شکریہ ادا کریں۔ مخلص محمد اقبال نوٹ: اس خط پر تاریخ درج نہیں۔ پیر سید مہر علیؒ شاہ گولڑوی کے نام ( ۲۳۸) ( ۱) لاہور ۸۔ اگست ۱۹۳۳ء مخدوم و مکرم حضرت قبلہ، السلام علیکم! اگرچہ زیارت اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے، تاہم اس سے پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا۔ اب اس محرومی کی تلافی اس عریضہ سے کرتا ہوں گو مجھے اندیشہ ہے کہ اس خط کا جواب لکھنے یا لکھوانے میں جناب کو زحمت ہو گی۔ بہرحال، جناب کی وسعت اخلاق پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ چند سطور لکھنے کی جرأت کرتا ہوں کہ اس وقت ہندوستان بھر میں کوئی اور دروازہ نہیں جو پیش نظر مقصد کے لیے کھٹکھٹایا جائے۔ میں نے گزشتہ سال انگلستان میں حضرت مجدد الف ثانیؒ پر ایک تقریر کی تھی جو وہاں کے ادا شناس لوگوں میں بہت مقبول ہوئی۔ اب پھر ادھر جانے کا قصد ہے اور اس سفر میں حضرت محی الدین ابن عربی پر کچھ کہنے کا ارادہ ہے۔ نظر بایں حال چند امور دریافت طلب ہیں۔ جناب کے اخلاق کریمانہ سے بعید نہ ہو گا اگر ان سوالات کا جواب شافی مرحمت فرمایا جائے۔ ۱۔ اول یہ کہ حضرت شیخ اکبرؒ نے تعلیم حقیقت زمان کے متعلق کیا کہا ہے اور ائمہ متکلمین سے کہاں تک مختلف ہے۔ ۲۔ یہ تعلیم شیخ اکبرؒ کی کون کون سی کتب میں پائی جاتی ہے اور کہاں کہاں۔ اس سوال کا مقصود یہ ہے کہ سوال اول کے جواب کی روشنی میں خود بھی ان مقامات کا مطالعہ کر سکوں۔ ۳۔ حضرات صوفیاء میں سے اگر کسی اور بزرگ نے بھی حقیقت زمان پر بحث کی ہو تو ان بزرگ کے ارشادات کے نشان بھی مطلوب ہیں۔ مولوی سید انور شاہ مرحوم و مغفور نے مجھے عراقی کا ایک رسالہ مرحمت فرمایا تھا، اس کا نام تھانی داریتہ الزمان، جناب کو ضرور اس کا علم ہو گا۔ میں نے یہ رسالہ دیکھا ہے مگر چونکہ یہ رسالہ بہت مختصر ہے اس واسطے مزید روشنی کی ضرورت ہے۔ میں نے سنا ہے کہ جناب نے درس و تدریس کا سلسلہ ترک فرما دیا ہے۔ اس واسطے مجھے یہ عریضہ لکھنے میں تامل تھا۔ لیکن چونکہ مقصود خدمت اسلام ہے، مجھے یقین ہے کہ اس تصدیعہ کے لیے جناب مجھے معاف فرمائیں گے اور جواب باصواب سے ممنون فرمائیں گے۔ باقی، التماس دعا! مخلص محمد اقبال، بیرسٹر ایٹ لائ، لاہور مس فارقوہرسن کے نام ( ۲۳۹) ( ۱) ( انگریزی) لاہور ۲۲ مئی ۱۹۳۲ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! عنایت نامہ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ جواب فوراً دے رہا ہوں کیونکہ احتمال ہے کہ آئندہ ہفتہ بعض اہم مصروفیات کی وجہ سے مجھے خط و کتابت کی فرصت میسر نہ آ سکے گی۔ گزشتہ نومبر ہی لندن میں ہم میں سے بعض کو کابینہ کے اندرونی اختلافات کا کچھ اندازہ سا ہو رہا تھا تاہم ہمیں انتظارکرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور پذیر ہوتا ہے۔ ذاتی طور پر میں ہندوستان کے مستقبل سے نہایت مایوس ہو رہا ہوں۔ بمبئی کے فسادات نے جو ابھی تک فرو نہیں ہوئے، مجھے بے حد پریشان کر رکھا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کا آغاز ایک خونریزی کی صورت اختیار کرے گا اور یہ بد امنی ایسے نتائج پیدا کرے گی جو بے حد ناگوار ہوں گے۔ بعض لوگوں کی تو رائے ہے کہ ہندوستان میں اس بے چینی کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم کی سویت استوار ہو جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ بہترین برطانوی واقف کار کو بھی اس امر کا قطعاً اندازہ نہیں کہ اس بظاہر پر سکون سمندر کی گہرائیوں میں کیسے کیسے طوفان بیتاب ہیں۔ وہ ہندوستانی جو اعلیٰ مناصب پر فائز ہو کر برطانوی پالیسی کو قریب سے دیکھ سکتے ہیں، متلاشیان روزگار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ ان میں کبھی کبھار چالاک و ہوشیار لوگ بھی نظر آجاتے ہیں لیکن یہ طبقہ یکسر محروم بصیرت ہے۔ دنیا بہ امید قائم ہے، خدا کرے بہتر حالات پیدا ہوں۔ میں یورپ، شمالی افریقہ، ترکی اور ہسپانیہ کی سیاحت کا مقصد رکھتا ہوں۔ دو ایک ماہ میں قطعی فیصلے پر پہنچ سکوں گا۔ جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے، میں ایک اپیل شائع کرنے پر بخوشی آمادہ ہوں۔ میں نے پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ ہزہائینس آغا خاں کی اعانت حاصل کریں۔ ایسی اپیل میں ان کی شمولیت نہایت موثر ثابت ہو گی۔ کیا ہزہائینس آغا خاں اپنے طور پر نظام کو نہیں لکھ سکتے؟ اپیل پر ان کے دستخط لازمی ہیں، اور اپیل مصر و فلسطین کے زماے فکر و عمل کے مشورے سے مرتب ہونی چاہیے۔ میں نے ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر سے اس تحریک کی تائید میں پراپیگنڈا شروع کرنے کو کہا ہے۔ امید ہے اس کے اخبار کے چند پرچے آپ کی خدمت میں پہنچ چکے ہوں گے۔ میرے خطبہ کے نسخے آئندہ ڈاک سے مرسل خدمت ہونگے اور امید ہے اس خط کے ساتھ ہی مل جائیں گے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک نسخہ پہلے بھی ارسال خدمت کر چکا ہوں سالخوردہ شوکت علی نے ایک نوجوان انگریز لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اب امریکا تشریف لے جا رہے ہیں۔ ہندو اخبارات میں اس شادی پر خوب خوب تبصرے ہوئے ہیں۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مسلمانوں کی اعانت کے سلسلہ میں آپ کی کوششیں ہماری دلی احسان مندی کی حقدار ہیں۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: میں نے آج ہوئی ڈاک سے برطانوی ’’فیلسوف میکٹیگرٹ‘‘ پر ایک مقالہ بھیجا ہے۔ وہ کیمبرج میں میرے ماسٹر تھے اور قریباً دو سال ہوئے رحلت کر گئے ۔ ان سے متعلق یہ مقالہ میں نے سر فرانسس ینگ ہسبنڈ کی فرمائش پ رلکھا ہے، اور انڈین سوسائٹی جرنل میں شائع ہو گا ممکن ہے اس میں آپ کے لیے کوئی چیز دلچسپی کی پائی جائے۔ ( ۲۴۰) ( ۲) ( انگریزی) لاہور ۲۷ فروری ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! عنایت ناموں کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں ۲۵ فروری کو لاہور پہنچا اور اس وقت ان کاموں کو نپٹا رہا ہوں جو میری غیر حاضری میں جمع ہو گئے تھے آپ کا عنایت نامہ جس میں ڈیلی ایکسپریس کے تراشے ملفوف تھے، کل شام ملا۔ تراشے میں نے اپنے نوٹ کے ساتھ فوراً اخبارات میں بھیج دیے۔ افسوس ہے خالد شیلڈرک نے انگلستان میں ایسے مرکز کے قیام کی مخالفت کی۔ مجھ تک یہی اطلاع پہنچی ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے نیشنل لیگ کے متعلق بھی نازیبا خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اگر یہی حقیقت ہے تو افسوس ہے۔ بہرحال، جو کچھ بن پڑے، ہمیں تو کرنا ہی چاہیے۔ میں جلد وائسرائے سے ملنے دہلی جاؤں گا۔ سر اکبر حیدری نے تجویز کی تھی کہ میں حیدر آباد پہنچوں۔ میں ضرور جاؤں گا لیکن فی الحال سر اکبر حیدری علیل ہیں۔ دوران سفر میں ایک حادثے میں ان کا بازو ٹوٹ گیا۔ میں نے آج انہیں لکھا ہے۔ جواب موصول ہونے پر فیصلہ کروں گا۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۴۱) ( ۳) ( انگریزی) لاہور ۲۔ مارچ ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! مقامی مسلم انگریزی اخبار ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ کا ایک تراشہ ملفوف ہے۔ اردو اخبارات نے بھی اس کی اشاعت میں حصہ لیا ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۴۲) ( ۴) ( انگریزی) لاہور ۶۔ مارچ ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! امید ہے نیاز نامے شرف ملاحظہ حاصل کر چکے ہوں گے۔ میں آج صبح دہلی سے واپس پہنچا ہوں۔ وہاں ترکی کے پرنس حمی سے ملاقات ہوئی۔ آپ کی سکیم سے مختلف ایک منصوبہ ان کے ذہن میں بھی ہے۔ جب وہ لندن پہنچیں تو بہتر ہو گا آپ ان سے تبادلہ خیال فرما دیں۔ وہ ہندوستان سے وسط مارچ میں روانہ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حیدر آباد کو اس مسئلہ سے دلی وابستگی ہے اور ان کی ایسوسی ایشن کے لیے ریاست کی طرف سے معقول سالانہ امداد کی منظوری نہایت اغلب ہے۔ ذاتی طور پر ان کے منصوبے سے متعلق میرے ذہن میں کچھ اعتراضات تھے، اور ہیں۔ میں انہیں اس کی تفصیلات سے بعد میں مطلع کروں گا۔ اس وقت محض اطلاع مقصود ہے۔ کیونکہ ان کے پراپیگنڈے کا اثر لازماً آپ کی سکیم پر پڑے گا۔ اگر لندن آنے کا پھر اتفاق ہوا تو آپ سے مفصل گفتگو ہو گی۔ نہ آ سکا تو آپ کو لکھوں گا۔ میرا آنا یقینی نہیں کیونکہ جائنٹ سلیکٹ کمیٹی کے روبرو پیش ہونے والے ہندوستانی مندوبین کی تعداد غالباً کم کر دی جائے گی، اور میں خواہ مخواہ دوسروں کے پیچھے بھاگے پھرنے کا عادی نہیں۔ آپ کا شکریہ! مخلص محمد اقبال ( ۲۴۳) ( ۵) ( انگریزی) لاہور ۲۳۔ نومبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! عنایت ناموں کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ مسلم ہند کی جانب سے نیشنل لیگ کی بر وقت سعی کے لیے آپ کا شکریہ۔ امید ہے کہ آپ حکومت کی احمقانہ فلسطینی حکمت عملی کے خلاف برطانوی رائے عامہ کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوں گی۔ ’’نجات دہندہ گاندھی‘‘ ایک کتاب ارسال خدمت ہے۔ آپ کو یاد ہو گا آپ نے مجھے اے این فیلڈ کی ایک کتاب دی تھی جس میں یہودی بین الاقوامی زرداروں کے ناپسندیدہ مشاغل کا تذکرہ تھا۔ جو کتاب آپ کو بھیج رہا ہوں، اس سے آپ کو فیلڈ کی کتاب کے مطالعہ سے معاشیات کے ایک ہندوستانی طالب علم کے رد عمل کا اندازہ ہو سکے گا۔ اس کا خیال ہے گاندھی بین الاقوامی یہودی زرداروں کی سازش میں شامل اور ان کا ایجنٹ ہے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۴۴) ( ۶) ( انگریزی) لاہور ۲۵ دسمبر ۱۹۳۳ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! عنایت نامہ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ ہم سب آپ کے اور لارڈ از لنگٹن کے فلسطینی عربوں کی نہایت ہی گراں قدر خدمات بجا لانے کے لیے دلی احسان مند ہیں۔ لندن میں آپ سے اپریل ۱۹۳۴ء یا ۱۹۳۵ء میں دوبارہ ملاقات میرے لیے بیحد مسرت کا موجب ہو گی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے مجھے روڈز خطبات کے لیے دعوت دی ہے۔ میں نے یہ دعوت قبول کر لی ہے۔ میں جس موضوع پر یہ خطبات دینا چاہتا ہوں، وہ مشکل اور خاصی تحقیق و تفتیش علمی کا طالب ہے، اس لیے ممکن ہے آئندہ تین ماہ میں یہ کام انجام نہ پا سکے۔ بہرحال، اپنے پروگرام سے آپ کو آگاہ کرونگا۔ یہاں کے حالات بدستور ہیں۔ گاندھی، سیاسیات سے کنارہ کش ہو گئے ہیں اور اب بقول خود ’’ہریجن سدھار‘‘ میں مصروف ہیں۔ پنڈت جواہر لعل اب کشتی کے ناخدا ہیں۔ اغلب ہے کہ اہندوستان کی سیاست اپنا رخ بدل لے اور شاید کمیونزم کے راستے پر پڑ لے۔ اس سلسلہ میں مزید گفتگو ملاقات پر ہو گی۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۴۵) ( ۷) ( انگریزی) لاہور ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۴ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! دونوں عنایت ناموں کے لیے جو پے بہ پے تازہ اور گزشتہ ڈاک سے موصول ہوئے، ممنون ہوں۔ افسوس ہے میں اب تک علیل ہوں۔ مجھے گلے کی تکلیف ہے جس نے گزشتہ پانچ ماہ سے ڈاکٹری علاج کو وقف ناکامی کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ کوئی صدری پیچیدگی ہے، اور وائنا میں علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔یہ بڑی ہی شومی قسمت ہے۔ حیران ہوں کہ ۱۹۳۵ء میں انگلستان میں اپنی مصروفیات سے کیونکر عہدہ برآ ہو سکوں گا۔ اگر میرے ذرائع اس کے متحمل ہوئے تو وائنا میں چار پانچ ماہ قیام رہے گا۔ اس وقت ایک تجربہ کار دہلوی حکیم کے زیر علاج ہوں۔ وہ جلد صحت یابی کی امید دلاتے ہیں۔ کچھ دیر اور ان کا علاج کروں گا۔ اگر ان کا علاج ناکام رہا تو لارڈ لووین کو خطبات کے التواء کے لیے لکھوں گا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ ان کے لیے پریشانی کا موجب ہو گا لیکن کوئی چارۂ کار نظر نہیں آتا۔ بول تو سکتا ہوں لیکن نہایت مدھم آواز میں۔ مقدمات کی پیروی اور جلسوں کی تقریر،دونوں سے قاصر ہوں۔ میری بیوی اور بچوں کو اس صورت حال سے شدید پریشانی لاحق ہے۔ مجھے ہمیشہ آپ کی پاک باطنی پر یقین رہا ہے۔میرے لیے دعا فرمائیے۔ ہندوستانی مسلمان، عربوں کے لیے آپ کی خدمات کو بہ نظر ستائش دیکھتے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ لارڈ از لنگٹن کا خط اخبارات میں بھیج دیا گیا۔ انگلستان میں مسلم سنٹر کے قیام کی تجویز نہایت اعلیٰ ہے اور مجھے یقین کامل ہے کہ نظام بخوشی اس مسئلہ میں آپ کا ساتھ دینگے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ ملک معظم کی جوبلی کے سلسلہ میں انگلستان آ رہے ہیں۔ امید ہے آپ کو ان سے ملاقات کا موقع ملے گا اور آپ اس عظیم الشان تحریک کی غایت ان پر بالمشافہ واضح کر سکیں گی۔مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ نواب رام پور اور صاحب زادہ عبدالصمد صاحب سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ صاحب زادہ صاحب میرے دوست اور نہایت عمدہ آدمی ہیں۔ نواب بھوپال بھی انگلستان میں ہیں۔ کیا آپ کی ان سے ملاقات ہوئی اگر نہ ملی ہوں تو ان سے ضرور ملیے۔ ملک معظم کی جوبلی کے سلسلہ میں تمام والیان ریاست ہائے ہند، انگلستان میں ہوں گے۔ اگر اس وقت میں بھی انگلستان پہنچ گیا تو اس کار عظیم میں آپ کی ہر ممکن اعانت سے دریغ نہ کروں گا۔ شیخ اصغر علی صاحب کا پتہ آپ کے خط سے ملا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ کہیں یورپ میں ہیں کئی ماہ ہوئے انہیں ایک خط بھی لکھا تھا لیکن جواب نہ ملا۔ شاید میرا خط ان تک نہ پہنچا ہو۔ بہترین تمناؤں اور دلی احترام کے ساتھ۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: سر ہنری لارنس نے قرطاس ابیض کی تجاویز پر ایک نہایت عمدہ کتابچہ شائع کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ یورپ میں طوفان پل رہے ہیں ۔ ڈاکٹر ڈالفس کا قتل ایک خطرناک علامت ہے۔ ( ۲۴۶) ( ۸) ( انگریزی) میو روڈ۔ لاہور ۲۰ جولائی ۱۹۳۷ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! میں بدستور بیمار ہوں اس لیے فلسطین رپورٹ پر اپنی رائے اور وہ عجیب و غریب خیالات اور احساسات جو اس نے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں بالخصوص اور ایشیائی مسلمانوں کے دلوں میں بالعموم پیدا کیے ہیں یا کر سکتی ہے، تفصیل سے تحریر نہیں کر سکتا۔ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ نیشنل لیگ آف انگلینڈ وقت شناسی کا ثبوت دے اور اہل برطانیہ کو عربوں کے خلاف جن سے برطانوی سیاست دانوں نے اہل برطانیہ کے نام سے حتمی وعدے کیے تھے، نا انصافی کے ارتکاب سے بچا لے، طاقت کا سرچشمہ فراست ہے۔ جب طاقت عقل و دانش کو پس پشت ڈال کر محض اپنی ذات ہی پر بھروسہ کر لیتی ہے تو نتیجہ خود طاقت کا زوال ہوتا ہے۔ پرنس محمد علی مصری نے ایک معقول تعمیری تجویز پیش کی ہے جو ہر طرح اہل برطانیہ کیلئے لائق توجہ ہے۔ ہمیں یہ کبھی بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ فلسطین، انگلستان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں۔ فلسطین تو انگلستان کے پاس جمعیتہ الاقوام کی طرف سے زیر انتداب ہے اور مسلم ایشیا، لیگ آف نیشنز کو انگریزوں اور فرانسیسیوں کا ایک ایسا ادارہ سمجھتا ہے جسے انہوں نے کمزور مسلم سلطنتوں کے علاقوں کی تقسیم کے لیے وضع کر رکھا ہے۔ فلسطین پر یہودیوں کا بھی کوئی حق نہیں۔ یہودیوں نے تو اس ملک کو رضا مندانہ طور پر، عربوں کے فلسطین پر قبضہ سے بہت پہلے خیر باد کہہ دیا تھا۔ صہیونیت بھی کوئی مذہبی تحریک نہیں۔ علاوہ اس امر کے کہ مذہبی یہودیوں کو صہیونیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ خود فلسطین رپورٹ نے اس امر کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا ہے۔ فلسطین رپورٹ کو منصفانہ نظر سے پڑھنے والے کے دل میں یہ اثر پیدا ہوتا ہے کہ تحریک صہیونیت کا آغاز یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن مہیا کرنے سے کہیں زیادہ برطانوی سامراج کے لیے میڈیٹرمینین میں ایک ساحلی کنارہ حاصل کرنے کے لیے ہوا تھا۔ بحیثیت مجموعی رپورٹ کا منشا مقامات مقدسہ کا عربوں سے بجبر، مستقل انتداب کی صورت میں جو کمیشن نے برطانوی سامراجی ہوس کی پردہ پوشی کے لیے وضع کیا ہے، خرید لینا ہے۔ اس فروخت کی قیمت عربوں کے لیے تھوڑا سا روپیہ اور ان کی سخاوت و مردانگی کا ایک قصیدہ اور یہودیوں کا ایک علاقہ پر قبضہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ برطانوی مدبرین عربوں کے خلاف صریح عناد کی پالیسی سے دستکش ہو کر ان کا ملک ان کے حوالے کر دیں گے۔ مجھے یہ بھی امید ہے کہ عرب، انگریزوں اور بشرط ضرورت فرانسیسیوں سے بھی مصالحت کے لیے تیار ہوں گے۔ اگر پراپیگنڈے کے زور سے اہل برطانیہ کو عربوں کے خلاف دھوکہ دیا گیا تو مجھے اندیشہ ہے موجودہ حکمت عملی کے نتائج خطرناک ثابت ہونگے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ( ۲۴۷) ( ۹) ( انگریزی ) میو روڈ لاہور ۶۔ ستمبر ۱۹۳۷ء مائی ڈیئر مس فارقوہرسن! آپ کے نوازش ناموں کے لیے جو یکے بعد دیگرے موصول ہوئے، ممنون ہوں۔ مجھے اس اطلاع سے نہایت مسرت ہوئی کہ نیشنل لیگ مسئلہ فلسطین میں گہری دلچسپی لے رہی ہے اور مجھے یقین واثق ہے کہ لیگ انجام کار اہل برطانیہ کو حقیقت حال کے محسوس کرانے اور عربوں کی دوستی سے محرومی کے سیاسی عواقب سے کماحقہ، آگاہ کرنے میں کامیاب ہو گی۔ مصر، شام اور عراق سے میرا کچھ نہ کچھ تعلق قائم ہے۔ نجف اشرف کے شیعوں نے تقسیم فلسطین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ایرانی وزیراعظم اور ترکی صدر جمہوریہ نے بھی تقریریں کی ہیں اور احتجاج کیا ہے۔ خود ہندوستان میں اس مسئلہ پر جذبات روز بروز شدت اور تلخی اختیار کر رہے ہیں۔ اگلے ہی روز دہلی میں پچاس ہزار مسلمانوں کے اجتماع نے فلسطین کمیشن کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ اخبارات میں یہ اطلاع بھی شائع ہوئی ہے کہ کانپور میں مسئلہ فلسطین کے سلسلہ میں مسلمانوں کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں۔ اس قدر تو اب بالکل واضح اور قطعی ہے کہ تمام دنیائے اسلام مسئلہ فلسطین پر متحد الخیال ہے۔ میری خواہش تو تھی کہ آپ کو ایک مفصل خط لکھوں جس میں اس مسئلہ پر ایک سیر حاصل بحث کروں لیکن افسوس ہے بیمار ہوں اور مجھے اپنی بیوی کی وفات کی وجہ سے بعض ایسے امور کی طرف بھی توجہ کرنی پڑتی ہے جن سے مجھے کبھی دلچسپی نہ تھی۔ مجھے قوی امید ہے کہ نیشنل لیگ انگلستان کو اس نازک سیاسی حماقت سے بچا لے گی اور ایسا کرنے میں وہ انگلستان اور عالم اسلام دونوں کی خدمت بجا لائے گی۔ سر عبدالقادر سے میرا سلام کہیے۔ مجھے اس اطلاع سے خوشی ہوئی کہ وہ مسئلہ فلسطین میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ مخلص محمد اقبال میں نے آپ کا خط اردو اور انگریزی اخبارات کو لاہور، دہلی اور کلکتہ میں بھیج دیا ہے۔ ( ۲۴۸) علامہ اقبال کا بیان مسئلہ فلسطین مجھے نہایت افسوس ہے کہ میں اس جلسہ عام میں جو مسلمانان لاہور آج فلسطین رپورٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے منعقد کر رہے ہیں۔ شمولیت سے قاصر ہوں۔ لیکن میں مسلمانوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو نا انصافی برتی گئی ہے مجھے اس کا ایسا ہی شدید احساس ہے جیسا مشرق قریب کی صورت حالات سے واقف کسی شخص کو ہو سکتا ہے، مجھے قوی امید ہے کہ اہل برطانیہ کو اب بھی اس وعدہ کے ایفا پر مائل کیا جا سکتا ہے جو انگلستان کی طرف سے عربوں سے کیا گیا تھا۔ مجھے مسرت ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ نے اپنی ایک تازہ بحث میں ملک معظم کی حکومت کے فیصلہ پر نظر ثانی کرتے ہوئے مسئلہ تقسیم فلسطین کو غیر منفعل چھوڑ دیا ہے۔ یہ فیصلہ مسلمانان عالم کو ایک موقع بہم پہنچاتا ہے کہ وہ پوری قوت کے ساتھ اس امر کا اعلان کریں کہ وہ مسئلہ جس کا حل برطانوی سیاست دان تلاش کر رہے ہیں، محض قضیہ فلسطین ہی نہیں بلکہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شدید اثر تمام دنیائے اسلام پر ہو گا۔ مسئلہ فلسطین کو اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو فلسطین ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلسطین میں مسئلہ یہود کا تو ۱۳صدیاں ہوئیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یروشلم میں داخلہ سے قبل خاتمہ ہو چکا تھا۔ فلسطین سے یہودیوں کا جبری اخراج کبھی بھی عمل میں نہیں آیا بلکہ بقول پروفیسر ہوکنگ، یہود اپنی مرضی اور ارادہ سے اس ملک سے باہر پھیل گئے اور ان کے مقدس صحائف کا غالب حصہ فلسطین سے باہر ہی مرتب و مدون ہوا۔ مسئلہ فلسطین کبھی بھی عیسائیوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ زمانہ حال کے تاریخی انکشافات نے پیٹر دی ہرمٹ کی ہستی ہی کو محل اشتباہ قرار دے دیا ہے۔ بالفرض اگر یہ اعتراف بھی کر لیا جائے کہ حروب صلیبیہ فلسطین کو عیسائیوں کا مسئلہ بنانے کی کوششیں تھیں تو اس کوشش کو صلاح الدین کی فتوحات نے ناکام بنا دیا۔ لہٰذا میں فلسطین کو خالص اسلامی مسئلہ سمجھتا ہوں۔ مشرق قریب کے اسلامی ممالک سے متعلق برطانوی سامراجی ارادے کبھی بھی اس طرح بے نقاب نہ ہوئے تھے جیسے رائل کمیشن کی رپورٹ نے انہیں رسوا کر دیا ہے۔ فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی امپیریلزم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں اپنے ایک مقام کی متلاشی ہے۔ بقول ایک ممبر پارلیمنٹ کے یہ ایک خطرناک تجربہ ہے اور اس سے برطانوی مسئلہ بحیرۂ روم کا حل میسر نہیں آتا۔ برطانوی مدبرین کو جاننا چاہیے کہ برطانوی امپیریلزم کی مشکلات کا حل تلاش کرتے کرتے، وہ برطانوی امپیریلزم کے لیے ایک مصیبت برپا کر رہے ہیں۔ ارض مقدس بشمول مسجد عمرؓ کی مارسل لاء کی دھمکی کے ماتحت جس کے ساتھ ساتھ عربوں کی مروت و سخاوت کا قصیدہ بھی پڑھا گیا ہے، فروخت برطانوی سیاست کا کارنامہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے تدبر کا ماتم ہے۔ یہودیوں کو زرخیز زمین اور عربوں کے لیے کچھ نقدی اور پتھریلی اور بنجر زمین کا عطیہ کوئی سیاسی دانائی نہیں۔ یہ تو برطانوی تدبر کی شان سے گرا ہوا ایک نہایت ہی کمینہ سودا ہے جو اس نامور قوم کے لیے باعث ندامت ہے جس کے نام پر عربوں سے آزادی اور اشحا دکے قطعی وعدے کیے گئے تھے۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ اس مختصر بیان میں فلسطین رپورٹ کی تفاصیل سے اور ان تازہ تاریخی حالات سے جن کی بناء پر یہ معرض ظہور میں آئی، بحث کر سکوں۔ یہ رپورٹ مسلمانان ایشیا کے لیے بڑی بڑی عبرتوں کی سرمایہ دار ہے۔ تجربہ نے اس امر کو بہ تکرار واضح کر دیا ہے کہ مشرق قریب کے اسلامی ممالک کی سیاسی وحدت و استحکام عربوں اور ترکوں کے فوری اتحاد مکرر پر موقوف ہے۔ ترکوں کو دنیائے اسلام سے علیحدہ کر دینے کی حکمت عملی ابھی تک جاری ہے۔ گاہے گاہے اب بھی یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ ترک تارک اسلام ہو رہے ہیں۔ ترکوں پر اس سے بڑا بہتان نہیں باندھا جا سکتا۔ اس شرارت آمیز پراپیگنڈے کا شکار وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو تاریخ تصورات فقہ اسلامی سے نابلند ہیں۔ مسئلہ فلسطین کے امکانات ممکن ہے مسلمانوں کو اس متحدہ انگریزی، فرانسیسی ادارہ، جسے جمعیتہ الاقوام کا پر شکوہ لقب دیا گیا ہے کی رکنیت کی حیثیت پر غور کرنے پر مجبور کریں اور ایک ایشیائی جمعیتہ الاقوام کے قیام و ترتیب پر مجبور ہوں۔ عربوں کو جن کا شعور مذہبی ظہور اسلام کا موجب بنا جس نے مختلف اقوام ایشیا کو ایک حیرت انگیز کامیابی کے ساتھ متحد کر دکھایا، ترکوں سے ان کی مصیبت کے زمانہ میں غداری کے نتائج سے غافل نہ رہنا چاہیے۔ عربوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان غریب بادشاہوں پر جو خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، مسئلہ فلسطین پر ایک آزادانہ اور ایماندارانہ فیصلہ سے قاصر ہیں، اعتماد نہ کرنا چاہیے۔ عربوں کا فیصلہ پورے غور و خوض کے بعد ایک آزاد فیصلہ ہونا چاہیے جس کے لیے انہیں مسئلہ زیر بحث کے تمام پہلوؤں پر پوری پوری ضروری معلومات میسر ہونی چاہئیں۔ موجودہ زمانہ ایشیا کی غیر عربی اسلامی سلطنتوں کے لیے بھی ایک ابتلا و آزمائش کا دور ہے۔ کیونکہ تنسیخ خلافت کے بعد مذہبی اور سیاسی نوعیت کا یہ پہلا بین الاقوامی مسئلہ ہے جو تاریخی قوتیں ان کے سامنے لا رہی ہیں۔ ڈاکٹر نکلسن کے نام ( ۲۴۹) ( ۱) فلسفہ سخت کوشی لاہور ۲۴ جنوری ۱۹۲۱ء محترمی ڈاکٹر نکلسن! شفیع کے نام آپ نے جو مکتوب تحریر فرمایا ہے، اس سے مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ اسرار خودی کا ترجمہ انگلستان میں قبول عام حاصل کر رہا ہے۔ بعض انگریز تنقید نگاروں نے اس سطحی تشابہ اور تماثل سے جو میرے اور نطشے کے خیالات میں پایا جاتا ہے، دھوکا کھایا ہے اور غلط راہ پر پڑ گئے ہیں۔’’دی اینتھینیم‘‘ والے مضمون میں خیالات ظاہر کیے گئے ہیں وہ بہت حد تک حقائق کی غلط فہمی پر مبنی ہیں، لیکن اس غلطی کی ذمہ داری صاحب مضمون پر عائد نہیں ہوتی۔ ا سنے اپنے مضمون میں میری جن نظموں کا ذکر کیا ہے، اگر اسے ان کی صحیح تاریخ اشاعت کا بھی علم ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ میری ادبی سرگرمیوں کے نشو و ارتقاء کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ بالکل مختلف نظر آتا۔ وہ انسان کامل کے متعلق میرے تخیل کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے خلط مبحث کر کے میرے انسان کامل اور جرمن مفکر کے فوق الانسان کو ایک ہی چیز فرض کر لیا ہے۔ میں نے آج سے قریباً بیس سال قبل انسان کامل کے متصوفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا۔ اور یہ وہ زمانہ ہے جب نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا نہ اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ یہ مضمون ’’انڈین انٹی کیوری‘‘ میں شائع ہوا۔ جب ۱۹۰۸ء میں میں نے ’’ایرانی الٰہیات‘‘ پر ایک کتاب لکھی تو اس کتاب میں اس کو شامل کر لیا گیا۔ انگریزوں کو چاہیے کہ میرے خیالات کو سمجھنے کے لیے جرمن مفکر کے بجائے اپنے ایک ہم وطن فلسفی کے افکار کو رہنما بنائیں۔ میری مراد الگزنڈر سے ہے جس کے گلاسکو والے خطبات پچھلے سال شائع ہو چکے ہیں۔ ان خطبات میں اس نے ’’خدا اور لوہیت‘‘ کے عنوان سے جو باب لکھا ہے، وہ پڑھنے کے قابل ہے، وہ صفحہ ۳۴۷ پر لکھتا ہیـ: ’’گویا ذہن انسانی کے نزدیک الوہیت دوسری اعلیٰ تجربی قوت ہے جسے کائنات عالم وجود میں لانے کی سعی کر رہی ہے۔ قیاس و اجتہاد کی رہنمائی سے ہمیں یقین ہو چکا ہے کہ بطن گیتی میں اس قسم کی ایک قوت موجود ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ وہ قوت کیا ہے۔ ہم نہ تو اسے محسوس کر سکتے ہیں نہ ہمارا ذہن اس کے تصور پر قادر ہے۔ انسان ابھی تک ایک نامعلوم خدا کے لیے قربان گاہیں تعمیر کر رہا ہے۔ یہ معلوم کرنا کہ الوہیت کیا چیز ہے اس کا احساس کیسا ہوتا ہے، اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم خدا بن جائیں۔ الگزنڈر کے خیالات میرے عقائد کی نسبت زیادہ جسارت آمیز ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ کائنات میں جذبہ الوہیت جاری و ساری ہے۔ لیکن میں الگزنڈر کی طرح یہ نہیں مانتا کہ یہ قوت ایک ایسے خدا کے وجود میں جلوہ آرا ہو گی جو وقت کا تابع ہو گا۔ اس باب میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ قوت ایک اکمل و اعلیٰ انسان کے پیکر خاکی میں ظاہر ہو گی۔ خدا کے متعلق میرا عقیدہ الگزنڈر کے عقیدے سے مختلف ہے لیکن اگر انگریز ان جزوی اختلافات سے قطع نظر کر کے انسان کامل کے تخیل پر اپنے ایک ہم وطن مفکر کے افکار کی روشنی میں نظر ڈالیں تو انہیں یہ عقیدہ اس قدر اجنبی اور غیر مانوس نہیں معلوم ہو گا۔ مجھے مسٹر ڈکنسن کی تنقید بدرجہ غایت دلچسپ معلوم ہوتی ہے اور مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اس کے متعلق چند باتیں عرض کر دوں۔ براہ کرم انہیں یہ خط دکھا دیں۔ مجھے یقین ہے کہ انہیں اس امر سے دلچسپی ہو گی کہ میں ان کے ریویو کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہوں۔ ۱۔ مسٹر ڈکنسن کے نزدیک میں نے اپنی نظموں میں جسمانی قوت کو منتہائے آمال قرار دیا ہے (انہوں نے مجھے ایک مکتوب لکھا ہے جس میں یہی خیال ظاہر کیا ہے) انہیں اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں روحانی قوت کا تو قائل ہوں لیکن جسمانی قوت پر یقین نہیں رکھتا جب ایک قوم کو حق و صداقت کی حمایت میں دعوت پیکار دی جائے تو میرے عقیدے کی رو سے اس دعوت پر لبیک کہنا اس کا فرض ہے، لیکن میں ان تمام جنگوں کو مردود سمجھتا ہوں جن کا مقصود کشور کشائی اور ملک گیری ہو۔ (حکایت میاں میرؒ اور شہنشاہ ہندوستان) مسٹر ڈکنسن نے صحیح فرمایا کہ جنگ خواہ حق و صداقت کی حمایت میں ہو خواہ ملک گیری اور فتح مندی کی خاطر، تباہی اور بربادی اس کا لازمی نتیجہ ہے اس لیے اس کے استیصال کی سعی کرنا چاہیے۔ لیکن ہم دیکھ چکے ہیں کہ معاہدے، لیگیں، پنچایتیں اور کانفرنسیں استیصال عرب نہیں کر سکتیں۔ اگر اس سعی میں ہمیں پیش از پیش کامیابی ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ ململ مستعمر جن ملتوں کو تمدن و تہذیب میں اپنا ہمسر نہیں سمجھتیں، انہیں اپنے سہام جو رو تعدی کا شکار بنانے کے لیے زیادہ پر امن وسائل اختیار کر لیں گی حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرتی مسائل کی پیچیدگیاں سلجھانے، ہمارے تنازعات کا فیصلہ کرے اور بین الملی اخلاق کی بنیاد مستحکم و استوار کرے۔ پروفیسر میکنزی کی کتاب ’’انٹروڈکشن ٹو سوشیالوجی‘‘ کے یہ دو آخری پیراگراف کس قدر صحیح ہیں! میں انہیں یہاں لفظ بہ لفظ نقل کر دیتا ہوںـ: ’’کامل انسانوں کے بغیر سوسائٹی معراج کمال پر نہیں پہنچ سکتی اور اس غرض کے لیے محض عرفان اور حقیقت سے آگاہی کافی نہیں بلکہ ہیجان اور تحریک کی قوت بھی ضروری ہے۔ جسے یوں کہنا چاہیے کہ یہ معما حل کرنے کے لیے ہم نور و حرارت، دونوں کے محتاج ہیں۔ غالباً عہد حاضرہ کے معاشرتی مسائل کا فلسفیانہ فہم و ادراک بھی وقت کی اہم ترین ضرورت نہیں۔ ہمیں معلم بھی چاہیے اور پیغمبر بھی۔ ہمیں آج رسکن یا کار لائل یا ٹالسٹائی جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ضمیر کو زیادہ متشدد اور سخت گیر بنانے اور فرائض کے دائرے کو زیادہ وسیع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ غالباً ہمیں ایک نئے مسیح کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ یہ قول صحیح ہے کہ عہد حاضرہ کے پیغمبر کو محض ’’بیابان کی صدا‘‘ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عہد حاضرہ کے بیابان آباد شہروں کے گلی کوچے ہیں جہاں ترقی کی مسلسل و پیہم جدوجہد کا بازار گرم ہے۔ اس عہد کے پیغمبر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ہنگامہ زار میں وعظ و تبلیغ کرے۔ غالباً ہمیں پیغمبر سے بھی زیادہ عہد نو کے شاعر کی ضرورت ہے یا ایک ایسے شخص کا وجود ہمارے لیے مفید ثابت ہو گا جو شاعری اور پیغمبری کی دو گونہ صفات سے متصف ہو۔ عہد ماضی کے شاعروں نے ہمیں فطرت سے محبت کرنے کی تعلیم دی ہے۔ انہوں نے ہمیں اس قدر ژرف نگاہ بنا دیا ہے کہ ہم مظاہر فطرت میں انوار ربانی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم ابھی ایک شاعر کے منتظر ہیں جو ہمیں اسی وضاحت کے ساتھ پیکر انسانی میں صفات الٰہی کے جلوے دکھا دے۔ ہائنے نے ازراہ تفنن اپنے آپ کو روح القدس کا سپاہی کہا تھا۔ ہمیں ایسے شخص کی ضرورت ہے جو در حقیقت روح القدس کا سپاہی ہو۔ جو اس حقیقت پر ہماری آنکھیں کھول دے کہ ہمارے بلند ترین نصب العین روز مرہ کی زندگی میں پورے ہو رہے ہیں اور اگر اس زندگی کو ترقی دینے کی سعی کی جائے تو ہمیں محض راہبانہ ریاضت اور نفس کشی ہی کا موقع نہیں ملے گا بلکہ ایسا ارفع و اعلیٰ مقصد حاصل ہو جائے گا جو تمام خیالات تمام جذبات اور تمام مسرتوں کو ترقی کے بلند مقام پر پہنچا سکتا ہے۔ انگریزوں کو چاہیے کہ اس نوع کے خیالات کی روشنی میں انسان کامل کے متعلق میرے افکار کا مطالعہ کریں۔ ہمارے عہد نامے اور پنچایتیں جنگ و پیکار کو صفحہ حیات سے محو نہیں کر سکتیں۔ کوئی بلند مرتبہ شخصیت ہی ان مصائب کا خاتمہ کر سکتی ہے اور اس شعر میں میں نے اسی کو مخاطب کیا ہے۔ باز در عالم بیاد ایام صلح جنگ جویاں راہدہ پیغام صلح ۲۔ مسٹر ڈکنسن نے آگے چل کر میرے ’’فلسفہ سخت کوشی‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اس باب میں جو کچھ فرمایا ہے، اس کا مدار علیہ وہ خیالات ہیں جو میں نے حقیقت کے متعلق اپنی نظموں میں ظاہر کیے ہیں۔ میرے عقیدے میں حقیقت ایسے اجزا کا مجموعہ ہے جو تصادم کے واسطہ سے ربط و امتزاج پیدا کر کے ’’کل‘‘ کی صورت میں تبدیلی کی سعی کر رہے ہیں اور یہ تصادم لا محالہ ان کی شیرازہ بندی اور ارتباط پر منتج ہو گا۔ دراصل بقائے شخصی اور زندگی کے علو و ارتقاء کے لیے تصادم نہایت ضروری ہے۔ نطشے بقائے شخصی کا منکر ہے۔ جو لوگ حصول بقا کے آرزو مند ہیں، وہ ان سے کہتا ہے:’’ کیا تم ہمیشہ کے لیے زمانے کی پشت کا بوجھ بنے رہنا چاہتے ہو‘‘ اس کے قلم سے یہ الفاظ اس لیے نکلے ہیں کہ زمانے کے متعلق اس کا تصور غلط تھا۔ اس نے کبھی مسئلہ زمان کے اخلاقی پہلو کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ بخلاف اس کے میرے نزدیک بقا انسان کی بلند ترین آرزو اور ایسی متاع گراں مایہ ہے جس کے حصول پر انسان اپنی تمام قوتیں مرکوز کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں عمل کی تمام صور و اشکال مختلفہ کو جن میں تصادم و پیکار بھی شامل ہے، ضروری سمجھتا ہوں۔ اور میرے نزدیک ان سے انسان کو زیادہ استحکام و استقلال حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر میں نے سکون و جمود اور اس نوع کے تصوف کو جس کا دائرہ محض قیاس آرائیوں تک محدود ہو، مردود قرار دیا ہے۔ میں تصادم کو سیاسی حیثیت سے نہیں بلکہ اخلاقی حیثیت سے ضروری سمجھتا ہوں حالانکہ اس باب میں نطشے کے خیالات کا مدار غالباً سیاست ہے۔ جدید طبیعات سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مادی قوت کے جزو لایتجزیٰ نے ہزار ہا سال تک ارتقائی مدارج طے کرنے کے بعد موجودہ صورت اختیار کی ہے پھر بھی وہ فانی ہے اور اسے مٹا دیا جا سکتا ہے۔ قوت ذہنی کے جوہر یعنی ذات بشر کی بھی یہی کیفیت ہے۔ صدہا برس کی مسلسل جدوجہد اور تصادم و پیکار کے بعد وہ موجودہ صورت تک پہنچا ہے پھر بھی عوارض ذہنی کے مظاہر مختلفہ سے اس کی بے ثباتی اور عدم استحکام ظاہر ہے۔ اگر وہ بدستور قائم دہاتی رہنا چاہتا ہے تو یقینا وہ ماضی کے درس عبرت کو فراموش نہیں کر سکتا۔ اسے لا محالہ ان قوتوں سے اپنے قیام کی خاطر استمداد کرنی پڑے گی جو آج تک اس کے استحکام کی ضامن رہی ہیں۔ ممکن ہے کہ فطرت کا ارتقا ان قوتوں میں اصلاح کر دے یا ان میں سے بعض کو (مثلاً تصادم اور جنگ و پیکار کو جو استحکام کے قوی عوامل میں سے ہیں) جو اس کے ارتقاء کی کفیل بنی رہی ہیں، بالکل مٹا دے اور اس کے استحکام و بقا کی خاطر بعض ایسی قوتیں عرصہ شہود میں لے آئے جن سے انسان آج تک نا آشنا رہا ہے۔ لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اس باب میں کسی نصب العین کا پرستار نہیں ہوں اس لیے میرے نزدیک اس نوع کے انقلاب کا زمانہ ابھی بہت دور ہے اور مجھے اندیشہ ہے کہ یورپ کی جنگ عظیم میں انسان کی بصیرت و موعظت کا جو سرمایہ پنہاں ہے، وہ اس سے عرصہ دراز تک متمتع نہ ہو سکے گا۔ ان سطور سے واضح ہو گیا ہے کہ میں نے محض اخلاقی زاویہ نگاہ سے تصادم و پیکار کو ضروری قرار دیا ہے۔ افسوس کہ مسٹر ڈکنسن نے ’’فلسفہ سخت کوشی‘‘ کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے! ۳۔ مسٹر ڈکنسن نے آگے چل کر میرے فلسفے کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے اعتبار سے عالمگیر ہے لیکن باعتبار اطلاق و انطباق، مخصوص و محدود ایک حیثیت سے ان کا ارشاد صحیح ہے۔ انسانیت کا نصب العین شعر اور فلسفہ میں عالمگیر حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، لیکن اگر اسے موثر نصب العین بنانا اور عملی زندگی میں بروئے کار لانا چاہیں تو آپ شاعروں اور فلسفیوں کو اپنا مخاطب اولیں نہیں ٹھہرائیں گے اور ایک ایسی مخصوص سوسائٹی تک اپنا دائرہ مخاطبت محدود کر دیں گے جو ایک مستقل عقیدہ اور معین راہ عمل رکھتی ہو۔ لیکن اپنے عملی نمونے اور ترغیب و تبلیغ سے ہمیشہ اپنا دائرہ وسیع کرتی چلی جائے۔ میرے نزدیک اس قسم کی سوسائٹی اسلام ہے۔ اسلام ہمیشہ رنگ و نسل کے عقیدے کا لجو انسانیت کے نصب العین کی راہ میں سب سے بڑا سنگ گراں ہے، نہایت کامیاب حریف رہا ہے۔ رینان کا یہ خیال غلط ہے کہ سائنس، اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ دراصل اسلام بلکہ کائنات انسانیت کا سب سے بڑا دشمن رنگ و نسل کا عقیدہ ہے اور جو لوگ نوع انسان سے محبت رکھتے ہیں، ان کا فرض ہے کہ ابلیس کی اس اختراع کے خلاف علم جہاد بلند کر دیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ قومیت کا عقیدہ جس کی بنیاد نسل یا جغرافی حدود ملک پر ہے، دنیائے اسلام میں استیلا حاصل کر رہا ہے اور مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظر انداز کر کے اس عقیدے کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں جو قومیت کو ملک و وطن کی حدود میں مقید رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے میں ایک مسلمان اور ہمدرد نوع کی حیثیت سے انہیں یہ یاد دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کا حقیقی فرض سارے بنی آدم کی نشو و ارتقاء ہے۔ نسل اور حدود ملک کی بنیاد پر قبائل اور اقوام کی تنظیم حیات اجتماعی کی ترقی اور تربیت کا ایک وقتی اور عارضی پہلو ہے۔ اگر اسے یہی حیثیت دی جائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں اس چیز کا مخالف ہوں کہ اسے انسانی قوت عمل کا مظہر اتم قرار دیا جائے کیونکہ تنہا یہی جماعت میرے مقاصد کے لیے موزوں واقع ہوئی ہے۔ مسٹر ڈکنسن کا یہ خیال بھی تسامح سے خالی نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی روح کسی خاص گروہ سے مختص ہے۔ اسلام نو کائنات انسانیت کے اتحاد عمومی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے تمام جزوی اختلافات سے قطع نظر کر لیتا ہے اور کہتا ہے: تعالو الیٰ کلمتہً سواء بیننا و بینکم میرے خیال میں مسٹر ڈکنسن کا ذہن ابھی تک یورپ والوں کے س قدیم عقیدے سے آزاد نہیں ہوا کہ اسلام سفاکی اور خونریزی کا درس دیتا ہے دراصل خدا کی ارضی بادشاہت صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ تمام انسان اس میں داخل ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ نسل اور قومیت کے بتوں کی پرستش ترک کر دیں اور ایک دوسرے کی شخصیت تسلیم کر لیں۔ انجمنیں، حکم برداریاں، اس قسم کے عہد نامے جن کاذکر مسٹر کنیز نے کیا ہے، ملکیت خواہ وہ جمہوریت کی ہی قبا میں پوشیدہ کیوں نہ ہو، انسان کو فوز و فلاح سے آشنا نہیں کر سکتی بلکہ انسانی فلاح تمام انسانوں کی مساوات اور حریت میں پنہاں ہے۔ آج ہمیں اس چیز کی ضرورت ہے کہ سائنس کا محل استعمال قطعی طور پر بدل دیا جائے۔ ان خفیہ سیاسی منصوبوں سے احتراز کیا جائے جن کا مقصد بھی یہ ہے کہ کمزور وزبوں حال یا ایسی اقوام جو عیاری اور حیلہ گری کے فن میں چنداں مہارت نہیں رکھتیں، صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائیں مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مسلمان بھی دوسری قوموں کی طرح جنگ کرتے رہے ہیں، انہوں نے بھی فتوحات کی ہیں۔ مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ ان کے بعض قافلہ سالار ذاتی خواہشات کو دین و مذہب کے لباس میں جلوہ گر کرتے رہے ہیں لیکن مجھے پوری طرح یقین ہے کہ کشور کشائی اور ملک گیری ابتداء اسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔ اسلام کو جہاں ستائی اور کشور کشائی میں جو کامیابی ہوئی ہے، میرے نزدیک وہ اس کے مقاصد کے حق میں بے حد مضر تھی۔ اس طرح وہ اقتصادی اصول نشوونما نہ پا سکے جن کا ذکر قرآن کریم ا ور احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جا بجا آیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں نے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کر لی، لیکن ساتھ ہی ان کے سیاسی نصب العین پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا اور انہوں نے اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں کہ اسلامی اصولوں کی گیرائی کا دائرہ کس قدر وسیع ہے۔ بلا شبہ اسلام کا مقصد انجذاب ہے، مگر اس انجذاب کے لیے کشور کشائی درکا رنہیں بلکہ صرف اسلام کی سیدھی سادی تعلیم جو الٰہیات کے دقیق اور پیچیدہ مسائل سے پاک اور عقل انسانی کے عین مطابق واقع ہوئی ہے، اس عقدہ کی گرہ کشائی کر سکتی ہے۔ اسلام کی فطرت میں ایسے اوصاف پنہاں ہیں جن کی بدولت وہ کامیابی کے بام بلند پر پہنچ سکتا ہے۔ ذرا چین کے حالات پر نظر ڈالیے جہاں کسی سیاسی قوت کی پشت پناہی کے بغیر اسلام کے تبلیغی مشن نے غیر معمولی کامیابی حاصل کر لی اور لاکھوں انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے! میں بیس سال سے دنیا کے افکار کا مطالعہ کر رہا ہوں، اور اس طویل عرصے نے مجھ میں اس قدر صلاحیت پیدا کر دی ہے کہ حالات و واقعات پر غیر جانبدارانہ حیثیت سے غور کر سکوں۔ میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری قوت طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشری نظام تلاش کیا جائے۔ اور عقلاً یہ نا ممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشری نظام سے قطع نظر کر لیا جائے۔ جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ و درجہ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات کو مٹا دینا ہے۔ اسلام دنیوی معاملات کے باب میں نہایت ژرف نگاہ بھی ہے، اور پھر انسان میں بے نفسی اور دنیوی لذائذ و نعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اور حسن معاملت کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ہمسایوں کے بارے میں اسی قسم کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یورپ اس گنج گراں مایہ سے محروم ہے۔ اور یہ متاع اسے ہمارے ہی فیض صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔ میں اس بارے میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے اسرار خودی پر چند تشریحی نوٹ لکھے تھے جنہیں آپ نے دیباچہ اسرار میں شامل کر لیا ہے۔ ان تفسیری حواشی میں میں نے مغربی مفکرین کے افکار و عقائد کی روشنی میں اپنی حیثیت واضح کی ہے یہ طریق محض اس لیے اختیار کیا تھا تاکہ انگلستان کے لوگ میرے خیالات بآسانی سمجھ لیں۔ ورنہ قرآن حکیم، صوفیائے کرام اور مسلمان فلسفیوں کے افکار سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ابن عربی اور عراقی (وحدت الوجود) واحد محمود (کثرت وجود) الجیلی (انسان کامل کا تصور) اور مجدد سرہندیؒ (ذات بشربہ متعلق ذات حق) چنانچہ میں نے اسرار کے پہلے ایڈیشن میں بزبان اردو جو دیباچہ لکھا ہے، اس میں یہی طریق استدلال اختیار کیا گیا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ ’’اسرار‘‘ کا فلسفہ مسلمان صوفیاء اور حکماء کے افکار و مشاہدات سے ماخوذ ہے اور تو اور وقت کے متعلق برگسان کا عقیدہ بھی ہمارے صوفیوں کے لیے نئی چیز نہیں۔ قرآن الٰہیات کی کتاب نہیں بلکہ اس میں انسان کی معاش و معاد کے متعلق جو کچھ کہا گیا ہے، پوری قطعیت سے کہا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا تعلق الٰہیات ہی کے مسائل سے ہے۔ عہد جدید کا ایک مسلمان اہل علم جب ان مسائل کو مذہبی تجربات اور افکار کی روشنی میں بیان کرتا ہے جن کا مبداء اور سرچشمہ قرآن مجید ہے، تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ جدید افکار کو قدیم لباس میں پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ پرانے حقائق کو جدید افکار کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے اہل مغرب اسلامی فلسفے کی تعلیم سے ناآشنائے محض ہیں۔ اے کاش مجھے اس قدر فرصت ہوتی کہ میں اس موضوع پر ایک مبسوط کتاب لکھ کر مغربی فلسفیوں کو اس حقیقت سے روشناس کر دیتا کہ دنیا کی مختلف قوموں کے فلسفیانہ خیالات ایک دوسرے سے کس قدر مشابہ ہیں ! مخلص محمد اقبال قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے نام ( ۲۵۰) ( ۱) ( انگریزی) لاہور ۲۳ مئی ۳۶ء ڈیئر مسٹر جناح! والا نامہ ابھی ابھی موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کے کام کی ترقی و کامرانی کی اطلاع موجب صد ہزار مسرت ہوئی۔ مجھے امید ہے کہ پنجاب پارٹیاں بالخصوص احرار و اتحاد ملت تھوڑی بہت نزاع و کشمکش کے بعد انجام کار آپ کے ساتھ شامل ہو جائیں گی۔ اتحاد ملت کے ایک سرگرم کارکن نے چند روز ہوئے مجھ سے یہی رائے ظاہر کی تھی۔ مولوی ظفر علی خاں کے رویہ کے متعلق ابھی خود اتحاد ملت والے کوئی قطعی رائے قائم کرنے سے قاصر ہیں لیکن ان باتوں کے لیے ابھی خاصا وقت ہے۔ ہمیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ اتحاد ملت والوں کو اسمبلی میں اپنی نمائندگی سپرد کرنے کے متعلق رائے دہندگان کا کیا خیال ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ ملاقات کا آرزو مند۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۵۱) ( ۲) ( انگریزی) لاہور ۹۔ جون ۳۶ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! میرا تیار کیا ہوا مسودہ ارسال خدمت ہے۔ کل کے ایسٹرن ٹائمز کا ایک تراشہ بھی ملفوف ہے۔ یہ گورد اسپور کے ایک قابل وکیل کا خط ہے۔ مجھے امید ہے کہ بورڈ کی طرف سے شائع ہونے والے بیان میں تمام اسکیم کی پوری تفصیل موجود ہو گی اور ساتھ ہی اب تک اس اسکیم کے خلاف جتنے اعتراضات کئے گئے ہیں، ان کا جواب بھی موجود ہو گا۔ اس بیان میں لگی لپٹی رکھے بغیر ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ حیثیت کا ہندوؤں اور حکومت دونوں سے متعلق ایک واضح اور صاف صاف اعلان ہونا چاہیے۔ اس بیان میں یہ انتباہ بھی موجود ہونا چاہیے کہ اگر مسلمانان ہند نے موجودہ اسکیم کو اختیار نہ کیا تو وہ نہ صرف جو کچھ گزشتہ پندرہ برس میں حاصل کر چکے ہیں، اسے ہی کھو دیں گے بلکہ اپنا شیرازہ خود اپنے ہاتھوں درہم برہم کر کے کر کے اپنے لیے خسارے کا باعث ہوں گے۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: میں نہایت ممنون ہوں گا اگر اخبارات میں بھیجنے سے قبل مجوزہ بیان کی نقل مجھے بھیج دیں۔ اس بیان میں بعض دوسرے مسائل کی طرف بھی توجہ لازمی ہے، مثلاً ۱۔ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ انتخاب نے ہمارے لیے یہ لازمی و لا بدی کر دیا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کے مسلمان نمائندے ایک کل ہند پالیسی اور پروگرام پر متحد ہو جائیں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی میں صرف ایسے لوگوں کو بھیج سکیں جو مرکزی اسمبلی میں اسلامی ہند کے ان مرکزی مسائل کی تائید و حمایت کریں جو ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کی حیثیت سے مسلمانوں سے متعلق ہوں۔ جو لوگ اس وقت صوبائی پالیسی اور پروگرام کے حامی ہیں، وہی آئین میں مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ انتخاب کے طریق کو جزو آئین بنوانے کے ذمہ دار ہیں۔ بلا شبہہ ایک غیر ملکی حکومت کی مصلحتوں کا یہی تقاضا تھا۔ اب جبکہ قوم بالواسطہ انتخابات کی مصیبت کا علاج، لیگ اسکیم کے مطابق، ایک کل ہند طریق انتخابات کے ذریعے جسے تمام صوبائی امیدواروں کو لازماً اختیار کرنا ہو گا، کرنا چاہتی ہے تو پھر وہی سورما دوبارہ ایک غیر ملکی حکومت کے اشارہ پر قوم کو اپنی شیرازہ بندی کی کوششوں میں ناکام بنانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ ۲۔ اسلامی اوقاف(جیسا کہ مسجد شہید گنج نے ضرورت کا احساس کرایا ہے) سے متعلق قانون اور اسلامی ثقافت، زبان، مساجد اور قانون شریعت سے متعلق مسائل پر بھی بیان میں توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ محمد اقبال ( ۲۵۲) ( ۳) ( صیغہ راز) ( انگریزی) لاہور ۲۵ جون ۳۶ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! سر سکندر حیات دو ایک روز گزرے روانہ ہو سکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ بمبئی میں آپ سے مل کر بعض اہم امور پر گفتگو کریں گے۔ کل شام دولتانہ مجھ سے ملے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ممبران حسب ذیل اعلان کے لیے تیار ہیں۔ کہ ان تمام امور میں جو مسلمانوں سے بحیثیت ایک کل ہند اقلیت کے متعلق ہیں وہ لیگ کے فیصلے کے پابند ہوں گے اور صوبائی اسمبلی میں کسی غیر مسلم پارٹی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔ بشرطیکہ صوبائی لیگ بھی حسب ذیل اعلان کرنے کو تیار ہو: کہ وہ مسلم ارکان اسمبلی جو لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں پہنچتے ہیں، اس پارٹی سے سوالات کریں گے جس سے مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ ازراہ کرم اولیں فرصت میں مجھے مطلع فرمائیے کہ اس تجویز کے متعلق آپ کیا رائے ہے۔ سر سکندر حیات سے جو گفتگو ہو، اس کے نتیجہ سے بھی مطلع فرمائیے۔ اگر آپ سر سکندر حیات کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ ہمارے ساتھ شامل ہو سکیں گے۔ امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۵۳) ( ۴) ( انگریزی) میو روڈ۔ لاہور ۲۳ اگست ۳۶ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! امید ہے میرا اس سے پیشتر کا خط آپ کو مل گیا ہو گا۔ پنجاب پارلیمنٹری بورڈ اور یونینسٹ پارٹی میں مفاہمت کے متعلق کچھ گفتگو ہو رہی ہے۔ ازراہ کرم ایسی مفاہمت کی شرائط اور اس سے متعلق اپنی رائے سے مطلع فرمائیے۔ اخبارات سے معلوم ہوا تھا کہ آپ نے بنگال پروجا پارٹی اور پارلیمنٹری بورڈ میں مصالحت کرا دی ہے۔ اس مصالحت کی شرائط سے اطلاع دیجئے۔ چونکہ پروجا پارٹی، یونینسٹ کی طرح ایک غیر فرقہ وارانہ پارٹی ہے، بنگال میں یہ مصالحت یہاں بھی آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۵۴) ( ۵) ( انگریزی) ( بصیغہ راز) لاہور ۲۰۔ مارچ ۳۷ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! امید ہے پنڈت جواہر لعل نہرو کا وہ خطبہ جو انہوں نے آل انڈیا نیشنل کانوینشن کے اجلاس میں فرمایا ہے آپ کے ملاحظہ سے گزرا ہو گا اور ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق اس خطبہ میں جو مسلک کار فرما ہے، اس پر آپ نے پورے طور پر غور کیا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ ہندوستان اور اسلامی ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقیات کے پیش نظر دستور جدید ہندی مسلمانوں کو اپنی تنظیم کے لیے ایک نادر موقع بہم پہنچاتا ہے۔ اگرچہ ہم ملک میں تمام ترقی پسند پارٹیوں کے ساتھ موالات کے لیے تیار ہیں؟ تاہم ہمیں اس حقیقت کو ہرگز پس پشت نہ ڈالنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کے اخلاقی و سیاسی اقتدار کا دار ومدار تمام تر ہندوستانی مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کانوینشن کو ایک پر زور جواب دیا جائے۔ آپ کو چاہیے کہ دہلی میں جلد از جلد ایک آل انڈیا مسلم کانوینشن منعقد کریں۔ جس میں نئی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم راہنماؤں کو بھی دعوت شمولیت دی جائے۔ آپ کو چاہیے کہ اس اسلامی موتمر کی طرف سے پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی وحدت کا بطور نصب العین اعلان کر دیں۔ یہ امر لابدی ہے کہ ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دنیا کو صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہندوستان میں حل طلب مسئلہ صرف معاشی مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ ہندی مسلمانوں کی اکثریت کی نگاہ میں ہندوستان میں تہذیب اسلامی کا مستقبل اگر معاشی مسئلہ سے زیادہ اہم نہیں تو اس سے کسی طرح کم اہمیت کا حامل بھی نہیں۔ اگر آپ ایسی کانوینشن منعقد کر سکیں تو ان مسلم ارکان مجالس واضع قوانین کی حیثیت کا پول بھی کھل جائے گا جنہوں نے مسلمانوں کی خواہشوں اور تمناؤں کے خلاف اپنی اپنی جداگانہ پارٹیاں قائم کر لی ہیں۔ مزید برآں اس کانوینشن سے ہندوؤں پر بھی یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی تدبیر خواہ وہ کس قدر ہی عیارانہ کیوں نہ ہو، ہندی مسلمانوں کو اپنی ثقافتی وحدت سے غافل نہیں کر سکتی۔ میں چند روز تک دہلی آ رہا ہوں اور اس اہم مسئلہ پر آپ سے گفتگو کروں گا۔ میرا قیام افغانی قونصل خانہ میں ہو گا۔ اگر آپ کو کچھ فرصت میسر آ سکے تو وہی ہمارا مقام ملاقات ہونا چاہیے۔ ازراہ کرم اس خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: معاف فرمائیے! ضعف بصارت کی وجہ سے یہ خط میں نے ایک دوست سے لکھوایا ہے۔ ( ۲۵۵) ( ۶) ( انگریزی) لاہور ۲۲۔ اپریل ۳۷ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! دو ہفتے گزرے میں نے دہلی کے پتہ پر ایک خط لکھا تھا۔ معلوم نہیں شریف ملاحظہ حاصل کر سکا یا نہیں۔ بعد میں جب میں خود دہلی پہنچا تو آپ تشریف لے جا چکے تھے۔ اس خطہ میں میں نے تجویز کی تھی کہ ہم فوراً کسی مقام پر مثلاً دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کانوینشن منعقد کریں اور ایک مرتبہ پھر حکومت اور ہندوؤں، دونوں کے لیے مسلمانوں کی پالیسی کا اعلان کیا جائے۔ چونکہ صورت حال نازک تر ہوتی جا رہی ہے اور پنجاب کے مسلمان ان وجودہ کی بناء پر جن کی تشریح و تفصیل اس وقت غیر ضروری ہے، کانگرس کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اس مسئلہ پر جلد از جلد غور کریں اور اس کے متعلق اولین فرصت میں فیصلہ کریں۔ مسلم لیگ کا اجلاس تو اگست تک لیے ملتوی ہو چکا ہے لیکن حالات اسلامی پالیسی کے فوری اعلان مکرر کے مقتضی ہیں۔ اگر کانوینشن کے اجلاس سے قبل مقتدر مسلمان لیڈروں کا ایک دورہ بھی ہوجائے تو کانوینشن یقینا نہایت کامیاب رہے گی۔ ازراہ کرم اس خط کا جواب اولین فرصت میں دیجئے۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۵۶) ( ۷) ( انگریزی) ( بصیغہ راز) لاہور ۲۸ مئی ۳۷ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! نوازش نامہ موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ یہ اطلاع کہ لیگ کے دستور و پروگرام میں جن تغیرات کی طرف میں نے آپ کی توجہ مبذول کرائی تھی، وہ آپ کے پیش نظر رہیں گے، موجب مسرت و اطمینان ہوئی۔ مجھے یقین کامل ہے کہ اسلامی ہند کی نزاکت حالات کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ لیگ کو انجام کار یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ وہ مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ کی نمائندہ بنی رہے یا مسلمان عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرے جنہیں اب تک نہایت بجا طور پر لیگ میں کوئی وجہ دلکشی نظر نہیں آئی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت جو عام مسلمانوں کی بہبودی کی ضامن نہ ہو عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔ نئے دستور کے ماتحت بڑی بڑی اسامیاں تو اعلیٰ طبقات کے بچوں کے لیے وقف ہیں، اور چھوٹی چھوٹی وزراء کے دوستوں اور رشتہ داروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ دوسرے اعتبارات سے بھی ہمارے سیاسی ادارات نے غریب مسلمان کی اصلاح حال کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جا رہی ہے۔مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو کی ساہوکاری و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی حصہ دار ہے، اگرچہ ابھی قوی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کر کے رہے گا۔ جواہر لال کی منکر خدا اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جا سکتی ہے۔ لیگ کا مستقبل اس امر پر موقف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بے تعلق ہی رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ مقتضیات حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ ایک مصیبت تو یہ ہے کہ کسی ایک آزاد اسلامی ریاست یا ایسی چند ریاستوں کی عدم موجودگی میں شریعت اسلامیہ کا نفاذ اس ملک میں محال ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندوستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں۔ اگر ہندوستان میں اس طریق کار پر عملدرآمد اور اس مقصد کا حصول ناممکن ہے تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے، او روہ خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کئی سالوں سے شروع ہے۔ مجھے قوی اندیشہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستان میں فلسطین کی سی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ جواہر لال کی اشتراکیت خود ہندوؤں میں کشت و خون کا موجب ہو گی۔ معاشری جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع، برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیت کا حشر ہندوستان میں بدھ کا ساہو گا یا نہیں۔ میں اس سے متعلق تو کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن مجھے اس قدر صاف نظر آتا ہے کہ ہندو دھرم معاشری جمہوریت (سوشل ڈیموکریسی) اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم کا خاتمہ ہے۔ اسلام کے لیے سوشل ڈیمو کریسی کی کسی موزوں شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید و موافقت حاصل ہو حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوؤں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا اوپر ذکر کر چکا ہوں، اسلامی ہندوستان میں ان مسائل کے حل بآسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعہ ایک یا زائد اسلامی ریاستوں کا قیام اشد لازمی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے۔ بہرحال، میں نے اپنے خیالات آپ کی خدمت میں اس امید پر پیش کر دیے ہیں کہ آپ ان پر اپنے خطبہ یا لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں پوری پوری توجہ مبذول کر سکیں۔ اسلامی ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فطانت و فراست ہماری موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کر سکے گی۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: اس نیاز نامہ کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کراؤں لیکن مزید غور پر میں نے موجودہ وقت کو اس کے لیے موزوں نے پایا ( ۲۵۷) ( ۸) ( انگریزی) ( بصیغہ راز) لاہور ۲۱ جون ۳۷ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! نوازش نامہ کل موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کی بے پناہ مصروفیت سے آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ اس وقت مسلمانوں کو اس طوفان بلا میں جو شمال مغربی ہندوستان اور شاید ملک کے گوشہ گوشہ سے اٹھنے والا ہے، صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہم فی الحقیقت خانہ جنگی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ فوج اور پولیس موجود نہ ہو تو یہ خانہ جنگی چشم زدن میں عالمگیر ہو جائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ہندو، مسلم فسادات کا ایک سلسلہ سا قائم ہو چکا ہے۔ صرف شمال مغربی ہند میں ان تین ماہ میں کم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات رونما ہو چکے ہیں۔ ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے توہین رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کم از کم چار وارداتیں پیش آ چکی ہیں۔ توہین رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان چاروں وارداتوں میں مجرم فی النار کر دیا گیا۔ سندھ میں قرآن کریم کے نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔ صورت حال کا نظر غائر سے مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں نہ معاشی بلکہ خالص سیاسی ہیں۔ مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں میں بھی ہندو اور سکھوں کا مقصد مسلمانوں پر خوف و ہراس طاری کر دینا ہے۔ آئین کی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ اپنی اکثریت کے صوبوں میں بھی مسلمانوں کا دار و مدار تمام تر غیر مسلموں پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم وزارت نہ صرف کوئی مناسب کارروائی نہیں کر سکتی بلکہ وزارت کو خود مسلمانوں سے نا انصافی برتنی پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن کی امداد پر وزارت قائم ہے خوش رہ سکیں اور دوسروں پر ظاہر کیا جا سکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر متعصب ہے۔ لہٰذا یہ ایک عالم آشکار حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس اس آئین کو رد کرنے کے خاص وجودہ موجود ہیں۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ دستور جدید ہندوؤں ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ان صوبوں میں جہاں ہندؤ آبادی کی اکثریت ہے۔ حکومت میں ہندوؤں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔ بر خلاف اس کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ہندوؤں کا دست نگر رکھا گیا ہے۔ مجھے اس امر میں قطعاً ذرہ برابر شک و شبہہ کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ موجودہ دستور ہندی مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ مزید برآں یہ دستور تو اس معاشی تنگدستی کا جو شدید تر ہوتی چلی جا رہی ہے، کوئی علاج ہی نہیں۔ فرقہ وارانہ فیصلہ ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی ہستی کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن کسی قوم کی سیاسی ہستی کا ایسا اعتراف جو اس کی معاشی پسماندگی کا کوئی حل نہ تجویز کرتا ہو اور نہ کر سکے، اس کے لیے بے سود ہے۔ کانگرس کے صدر نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کی جداگانہ سیاسی حیثیت ہی سے انکار کر دیا ہے۔ ہندوؤں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی ہندو مہا سبھا نے جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ سمجھتا ہوں، بارہا اعلان کیا ہے کہ ہندو اور مسلمانوں کی متحدہ قومیت کا وجود ہندوستان میں ناقابل قبول ہے۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچانے کی واحد ترکیب اس طریق پر ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق میں اسلامی اصلاحات کے نفاذ ہے۔ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو ہند اور بیرون ہند کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری سے کیونکر محروم کیا جا سکتا ہے! میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ مسلم اکثریت و مسلم اقلیت کے صوبوں کا بہترین مفاد اس وقت اسی طریق سے وابستہ ہے۔ لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ میں منعقد کرنے کے بجائے پنجاب میں منعقد کرنا بہتر ہو گا۔ لاہور میں اگست تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میری رائے میں آپ کو لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہو جاتا ہے، لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے امکان پر غور کرنا چاہیے۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور لیگ کے آئندہ اجلاس کا لاہور میں انعقاد پنجابی مسلمانوں کی سیاسی بیداری کے لیے از حد مفید ہو گا۔ اندریں حالات یہ بالکل عیاں ہے کہ ہندوستاں کا امن نسلی، مذہبی اور لسانی میلانات کی بناء پر ملک کی تقسیم مکرر پر موقوف ہے۔ اکثر برطانوی مدبر بھی اس نظریے کے قائل ہیں۔ ہندو مسلم فسادات جو اس دستور جدید کے جلو میں پوری تیزی سے رونما ہو رہے ہیں، امید ہے ان پر یہ حقیقت ناقابل تردید طور پر واضح کر دیں گے۔ مجھے یاد ہے انگلستان سے میری روانگی کے وقت لارڈ لووین نے مجھ سے کہا تھا کہ ہندوستان کی مشکلات کا حل تو تمہاری اسکیم میں موجود ہے لیکن اس کے بارور ہونے کے لیے پچیس سال کی مدت درکار ہو گی ۔ پنجاب کے بعض مسلمان تو پہلے ہی شمال مغربی ہند کی ایک مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پر غور کر رہے ہیں، اور یہ خیال پھیلتا جا رہا ہے۔ اس امر میں میں آپ کا ہم خیال ہوں کہ ہماری قوم ابھی تک نظم و ضبط سے محروم ہے اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کے لیے ابھی وقت سازگار نہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو انجام کار مجبوراً اختیار کرنا ہی پڑے گا۔ میرے خیال میں تو دستور جدید، سارے ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بناء پر حد درجہ یاس انگیز ہے۔ مخلص محمد اقبال ( ۲۵۸) ( ۹) ( انگریزی) لاہور ۱۱۔ اگست ۳۷ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! واقعات نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ لیگ کو اپنی تمام تر توجہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں پر مبذول کرنی چاہیے۔ لیگ کے دہلی دفتر نے مسٹر غلام رسول کو اطلاع دی ہے کہ مسلم لیگ کے اجلاس کی تاریخ تا حال مقرر نہیں ہوئی۔ اندریں حالات مجھے اندیشہ ہے کہ اگست اور ستمبر میں اجلاس منعقد ہی نہیں ہو سکے گا، لہٰذا میں مکرر درخواست کرتا ہوں کہ لیگ کا اجلاس اکتوبر کے وسط یا آخر میں لاہور میں منعقد کیا جائے۔ پنجاب میں لیگ کے لیے روز افزوں سرگرمی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مجھے قوی امید ہے کہ لاہور میں لیگ کا اجلاس لیگ کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں باب ثابت ہو گا اور عوام کو لیگ کے حلقہ میں اثر میں لانے کے لیے ایک ہم ذریعہ۔ ازراہ کرم اس خط کا دو حرفی جواب ضرور دیں! مخلص محمد اقبال (۲۵۹) (۱۰) ( انگریزی) ( بصیغہ راز) لاہور ۷۔ اکتوبر ۳۷ء مائی ڈیئر جناح! امید ہے پنجاب سے خاصی تعداد لکھنو اجلاس میں شمولیت کے لیے پہنچے گی۔ یونینسٹ مسلمان بھی سر سکندر کی قیادت میں شمولیت کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان آپ سے متوقع ہیں کہ اس پر آشوب زمانے میں آپ ان کے مستقبل سے متعلق ان کی کامل اور واضح ترین راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تجویز ہے کہ لیگ کمیونل ایوارڈ Communal Award سے متعلق اپنی پالیسی ایک مناسب قرار داد کی صورت میں واضح کر دے۔ خود پنجاب اور معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض گمراہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح بدل دینے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوؤں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے۔ ایسے لوگ بخوشی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوؤں کی خوشنودی حاصل کر لینے کے بعد وہ اپنا موجودہ اثر و اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ انگریز، ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتا ہے اور ہندو، کمیونل ایوارڈ کا خاتمہ کرنے والوں کے لیے بہ دیدہ و دل فرش راہ ہوں گے۔ اس لیے برطانوی حکومت اپنے مسلمان ایجنٹوں کے کندھوں پر ہی اس کا جنازہ اٹھوانا چاہتی ہے۔ لیگ کونسل کے لیے ۲۸ افراد کی فہرست تیار کروں گا۔ مسٹر غلام رسول آپ کو وہ فہرست دکھا دیں گے۔ مجھے امید ہے یہ انتخاب پورے غور و خوض سے کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی لاہور سے ۱۳ کو روانہ ہوں گے۔ مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے۔ لیگ کے مقاصد کے لیے مسلمان عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ ایک نادر موقع ہے۔ مجھے امید ہے کہ لیگ اس مسئلہ پر ایک مناسب قرار داد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسی راہ عمل بھی متعین کی جائے گی جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔ اس طریق سے ایک طرف تو لیگ کو ہر دلعزیزی حاصل ہو گی اور دوسری طرف شاید فلسطین کے عربوں کو کچھ فائدہ پہنچ جائے۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام، دونوں پر پڑتا ہو، جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ ایشیا کے دروازے پر ایک مغربی چھاؤنی کا مسلط کیا جانا اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پر خطر ہے۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: لیگ کو اس امر کی قرار داد پاس کرنی چاہیے کہ کوئی صوبہ دوسری اقوام کے ساتھ کمیونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ چونکہ اس مسئلہ کا تعلق تمام ہندوستان سے ہے، لہٰذا اسے طے کرنے کا حق صرف لیگ ہی کو حاصل ہو گا۔ شاید ایک قدم آگے بڑھا کر آپ کہہ سکتے ہیں موجودہ فضا کسی فرقہ وارانہ مصالحت کے لیے سازگار نہیں۔ ( ۲۶۰) ( ۱۱) ( انگریزی ) ( بصیغہ راز) لاہور ۳۰۔ اکتوبر ۳۷ء مائی ڈیئر مسٹر جناح! امید ہے آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی قرار داد آپ کے ملاحظہ سے گزری ہو گی۔ آپ کی بروقت تدبیر کارگر ثابت ہوئی۔ ہم سب کانگرس کی قرار داد پر آپ کے خیالات کے منتظر ہیں۔ لاہور کے اخبار ٹربیون نے تو اس پر مخالفانہ اظہار رائے کر دیا ہے، اور مجھے امید ہے ہندو بالعموم اس کی مخالفت ہی کریں گے۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، اس کا اثر خواب آور نہ ہونا چاہیے۔ ہمیں مسلمانوں کی تنظیم کے لیے اپنی تمام قوتیں ہمیشہ سے زیادہ گرمجوشی کے ساتھ وقت کر دینی چاہیں اور اس وقت تک دم نہ لینا چاہیے جب تک پانچ صوبوں میں مسلمانوں کی حکومت نہیں ہو جاتی اور بلوچستان کو اصلاحات نہیں ملتیں۔ یہاں افواہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصہ لیگ کے مسلک پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی تک سر سکندر اور ان کی پارٹی نے دستخط نہیں کیے، اور آج صبح معلوم ہوا کہ وہ لیگ کے آئندہ اجلاس تک انتظار کریں گے۔ جیسا کہ خود ان میں سے ایک ممبر نے مجھ سے کہا ان کا منشا صوبائی لیگ کی قوت عمل کو معطل کر دینا ہے۔ چند دن تک جملہ حالات و واقعات سے آپ کو آگاہ کروں گا اور پھر عمل کے لیے آپ کی ہدایت کا منتظر رہوں گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ اجلاس لاہورسے قبل‘ کم از کم دو ہفتے پنجاب کے دورے کے لیے ضرور وقف کریں گے۔ مخلص محمد اقبال (۲۶۱)…(۱۲) لاہور (انگریزی) یکم نومبر ۱۹۳۷ء (ضروری) مائی ڈیر مسٹر جناح! سر سکندر حیات خاں اپنی پارٹی کے چند ممبران کے ساتھ کل میرے پاس تشریف لائے۔ لیگ اوریونینسٹ پارٹی کے اختلافات پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ طرفین کی طرف سے اس سے پہلے بھی اخبارات میں بیانات شائع ہوئے ہیں۔ اور ہر فریق نے جناح سکندر معاہدہ کی شرائط کی اپنے مقصد کے موافق تشریح و توضیح کی ہے۔ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی ہو گئی ہے جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں یہ بیانات جلد ہی آپ کے ملاحظہ کے لیے ارسال خدمت کروں گا۔ جس معاہدہ پر سر سکندر حیات کے دستخط ہیں معلوم ہوا ہے وہ آپ کے پاس ہے ازراہ کرم اس کی ایک نقل اولین فرصت میں مرحمت فرمائیں۔ مزید برآں یہ بھی دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ نے یہ منظور کر لیا تھا کہ صوبائی پارلیمنٹری بورڈ یونینسٹ پارٹی کے اختیار میں رہے ۔ سر سکندر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے یہ قبول کر لیا تھا۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کو بورڈ میں اکثریت حاصل ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے ایسی شرط جناح سکندر معاہدہ میں موجود نہیں۔ ازراہ کرم اولین فرصت میں اس خط کا جواب مرحمت فرمائیں۔ ہمارے آدمی صوبہ میں دورہ کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر لیگ کی شاخیں قائم کر رہے ہیں۔ گزشتہ شب لاہور میں ایک نہایت کامیاب جلسہ منعقد ہوا امید ہے کہ ایسے ہی اور بھی جلسے ہوں گے۔ مخلص محمد اقبال (۲۶۲)…(۱۳) لاہور (انگریزی) ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ئ (بصیغہ راز) مائی ڈیرمسٹر جناح! سر سکندر اور ان کے دوستوں سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر لیگ اور پارلیمنٹری بورڈ پر اپنا پورا پورا قبضہ چاہتے ہیں آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکور ہے کہ پالیمنٹری بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میں آئے گی اور یونینسٹوں کو بورڈ میں اکثریت حاصل ہو گی۔ سرسکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں ا ن کی اکثریت تسلیم کر لی ہے۔ میں نے چند دن ہوئے آ پ سے دریافت کیا تھا کہ آیا آپ نے فی الواقعہ پارلیمنٹری بورڈ میں یونینسٹ اکثریت منظور کر لی تھی۔ ابھی تک جواب کا انتظار ہے۔ ذاتی طورپر میں سر سکندر کو وہ اکثریت دینے کا مخالف نہیںجس کے وہ طالب ہیں لیکن عہدہ داران لیگ میں رد و بدل کا مطالبہ یقینا منشائے معاہدہ سے تجاوز کرنا ہے۔بالخصوص موجودہ معتمد (جنہوں نے لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں) کی علیحدگی کا مطالبہ معقولیت سے دور ہے۔ سر سکندر یہ بھی چاہتے ہیں کہ لیگ کی مالیات پر بھی ان کا ہی آدمی مسلط ہو۔ مجھے تو اس تما م کھیل کا مقصد لیگ پر پہلے قبضہ جمانا اور پھر اس کا جنازہ نکال دینے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ صوبے کے رائے سے آگاہی رکھتے ہوئے میں لیگ کو سر سکندر اور ان کے دوستوں کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری لینے کو تیارنہیں۔ اس معاہدہ نے پہلے ہی صوبہ میں لیگ کے وقار کو صدمہ پہنچایا ہے۔ اور یونینسٹوں کی چالیں اسے اور بھی چرکے لگائیں گی۔ انہوںنے اب تک لیگ کے مسلک پر دستخط نہیں کیے اور میں سمجھتا ہوں کہ نہ ہی وہ ایسا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لیگ کا اجلاس لاہور میں فروری کی بجائے اپریل میں منعقد ہو۔ میرے خیال میں وہ اپنی زمیندارہ لیگ کے قیام و استحکام کے لیے اس طرح مہلت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً آپ کو علم ہو گا کہ لکھنو سے واپسی پر سر سکندر حیات نے ایک زمیندارہ لیگ کی بنیاد ڈالی تھی۔ جس کی شاخیں اب صوبہ بھر میں قائم کی جا رہی ہیں۔ ازراہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ اندریں حالا ت ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اول تو بذریعہ تا ر اپنی رائے سے مطلع فرمائیے وگرنہ اولین فرصت میں پوری تفصیل سے تحریر فرمائیے۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ لسان العصر اکبر آبادی کے نام (۲۶۳)…(۱) لاہور ۶ اکتوبر ۱۹۱۱ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ سید صاحب السلام علیکم! کل ظفر علی خان صاحب سے سنا تھا کہ جناب کو چوٹ آ گئی اسی وقت سے میرادل بے قرار تھا اور میں عریضہ خدمت عالی میں لکھنے کو تھا کہ آج جناب کا محبت نامہ ملا۔ دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس تکلیف کو رفع کرے اور آپ کو دیر تک زندہ رکھے تاکہ ہندوستان کے مسلمان اس قلب کی گرمی سے متاثر ہوں جو خدا نے آپ کے سینے میں رکھا ہے ۔ میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دو ں ۔لاہور ایک بڑا شہر ہے للیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے: طعنہ زن ہے ضبط اور لذت بڑی افشا میں ہے ہے کوئی مشکل سی مشکل راز داں کے واسطے لارڈ بیکن کہتے ہیں کہ جتنا بڑا شہر ہو گا اتنی ہی بڑا تنہائی ہوتی ہے۔ سو یہی حال میرا لاہور میں ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ماہ میں بعض مقامات کی وجہ سے سخت پریشانی رہی۔ اور مجھے بعض کام اپنی فطرت اور طبیعت کے خلاف کرنے پڑے۔ اور ان میں ہی طبع سلیم میرے لیے شکنجے کا کام دے گئی کیا خوب کہہ گیا ہے عرفی: رستم ز مدعی بقبول غلط ولے در تابم از شکنجہ طبع سلیم خویش ناتمام غزل کے اشعار آپ نے پسند فرمائے مجھے یہ سن کر مسرت ہوتی ہے کہ آپ میرے اشعار پسند فرماتے ہیں غرہ شوال پر چند اشعار لکھے تھے زمیندار اخبار کے عید نمبر میں شائع ہوئے۔ ان کو ضرور ملاحظہ فرمائیے۔ میں نے چند اشعار آخر میں ایسے لکھے ہیںکہ ترکی و اٹلی کی جنگ نے ان کی تصدیق کر دی ہے۔ اگر زمیندار اخبار آپ تک پہنچا ہو تو تحریر فرمائیے۔ بھجوا دوں گا۔ خواجہ حسن نظامی واپس تشریف لے آئے۔ مجھے بھی ان سے محبت ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تلاش میںرہتا ہوں۔ خدا آپ کو اور مجھ کو بھی زیارت روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نصیب کرے۔ مدت سے یہ آرزو دل میں پرورش پا رہی ہے۔ کہ دیکھیے کب جوان ہوتی ہے شیخ عبدالقادر لائل پور میں سرکاری وکیل ہو گئے۔ اب ہو لاہور سے وہاں چلے گئے کچھ دن ہوئے یہاں آئے تھے مگر میں ان سے نہ مل سکا۔ آرڈر قائم کرنے کا خیال تھا اور اب تک ہے۔ مگر ا س راہ میں مشکلات بے حد ہیں۔ اور سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس مذاق کے لوگ کہاں ہیں۔ بہرحال ہم خیال پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہوں اور کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتا۔ آپ دعاکریں۔ خیریت مزاج سے مطلع کیجیے۔ مجھے اس خط کے جواب کا انتظار رہے گا۔ خدا آپ کو صحت کامل عطا فرمائے۔ دعاگو محمد اقبال‘ بیرسٹر ‘ لاہور (۲۶۴)…(۲) لاہور ۹ نومبر ۱۹۱۱ء مخدومی السلام علیکم! آپ کے دونوں نوازش نامے یکے بعد دیگرے موصول ہوئے الحمد اللہ کہ جناب خیریت سے ہیں۔ ترکو ں کی فتح کا مژدہ جانفزا پہنچا مسرت ہوئی۔ مگر ا س کا کیا علاج کہ دل کو پھر بھی اطمینان نہیں ہوتا۔ معلوم نہیں روح کیا چاہتی ہے۔ اور آنکھوں کو کس نظارے کی ہوس ہے میں ایک زبردست تمنا کا احساس اپنے دل میں کرتا ہوں۔ گو اس تمنا کا موضوع مجھے اچھی طرح سے معلوم نہیں ہے۔ ایسی حالت میں مجھے مسرت بھی ہوتو ماس میں اضطراب کا عنصر غالب رہتا ہے۔ لاہور کی بستی میں کوئی ہمدم دیرینہ نہیں نام و نمود پر مرنے والے بہت ہیں۔ قومی جلسو سے بھی پہلو تہی کرتا ہوں ہاں آپ کے خطوط میرے پا س سب محفوظ ہیں بار بار پڑھا کرتا ہوں اور تنہائی میں یہی خاموش کاغذ میرے ندیم ہوتے ہیں کئی دفعہ ارادہ کیا ہے کہ آپ کی خدمت میں استدعا کروں کہ خط ذرالمبا لکھا کیجیے مگر میں خود لمبا خط لکھنے سے گھبراتا ہوں۔ پھر میرا کوئی حق نہیں کہ آپ کو لمبا خط لکھنے کی زحمت دوں۔ یہ ایک قسم کی روحانی خود غرضی ہو گی جس کا ارتکاب میرے نزدیک گناہ ہے۔ آپ کی ملاقات کے لیے دل تڑپ رہا ہے۔ خدا جلد کوئی سامان پیدا کرے۔ کیاآپ دربار کے موقع پر دہلی تشریف لائیں گے؟ زمیندار میںیہ پڑھ کر نہایت افسوس ہوا کہ اردو شاہنامہ تلف ہو گیا۔ جو شر اس میں شائع ہوئے ہیں وہ بڑے زور کے ہیں: رگ موج سے خون جاری کریں ا س مصرع پر تو فردوسی اور نظامی بھی رشک کرتے ہیں! ہاشم طال عمرہ کو میری طرف سے بہت بہت پیار دیجیے۔ میری روح کو اس نام سے ایک خاص تعلق ہے اللہ تعالیٰ اس بچے کی عمر دراز کرے اور دین دنیا میں اسے بامراد کرے سکول کی خواندگی میں اس کا وقت ضرور ضائع ہوتا ہو گا۔ مگر باوجود اس کے کس قدر خوش نصیب لڑکا ہے کہ پیران مشرق سے فیض کی نظر لے رہا ہے۔ یہی نظر صبغتہ اللہ ہے وما احسن صبغۃ! اب کوئی دن جاتا ہے کہ پیران مشرق دنیا میں نہ رہیں گے اور آئندہ زمانے کے مسلمان بچے نہایت بدنصیب ہوں گے۔ میاں ہاشم! اب وقت ہے کہ اس کی قدر کرنا اور جو کچھ پیر مشرق سے لے سکتے ہو لے لینا۔ یہ وقت پھر نہیں آئے گا۔ اس تربیت کے فیض سے زندگی بھر تمہاری روح لذت اٹھائے گی۔ خادم محمد اقبال ‘ لاہور (۲۶۵)…(۳) لاہور ۱۶ جولائی ۱۹۱۴ء مخدوم و مکرم حضرت قبلہ مولینا السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا جس کو پڑھ کر بہت مسرت ہوئی۔ حضرت! میں آپ کو اپنا پیرومرشد تصور کرتا ہوں۔ اگرکوئی شخص میری مذمت کرے جس کامقصد آپ کی مدح سرائی ہو تو مجھے اس کا مطلق رنج نہیں بلکہ خوشی ہے۔ جب کہ آپ سے ملاقات اور خط و کتابت نہ تھی اس وقت بھی میری ارادت و عقیدت ایسی ہی تھی جیسی اب ہے اور انشاء اللہ جب تک زندہ رہوں ایسی ہی رہے گی۔ اگر ساری دنیا متفق اللسان ہو کر یہ کہے کہ اقبال پوچ گو ہے تو مجھے اس کا مطلق اثر نہ ہو گا۔ کیونکہ شاعری سے میرا مقصد بقول آپ کے حصول دولت و جا ہ نہیں ہے محض اظہار عقیدت ہے۔ عام لوگ شاعرانہ اندا ز سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ان کو کیامعلوم کہ شاعر کی داد دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اگر داد دینے والا شاعر ہو تو جس کو داد دینا مقصود ہو اس کے رنگ میں شعر لکھے یا بالفاظ دیگر اس کا تتبع کرے۔ اس کی فوقیت کا اعتراف کرے میں نے بھی اسی خیال سے اپنے چند اشعار آپ کے رنگ میں لکھے ہیں مگر عوام کے رجحان و بدمذاقی نے اس کا مفہوم کچھ اور سمجھ لیا ہے اور میرے اس فعل سے عجیب و غریب نتائج پیدا کر لیے ۔ سوائے اس کے کیا کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگو ں کو سمجھ عطا کرے۔ نقاد کو جو خط آ پ نے لکھا ہے میں اسے شوق سے پڑھوں گا۔ اگر وہ شائع ہو جائے تو رسالہ کی کاپی بھیج دیجیے گا۔ میر ے پاس نقاد نہیں آتا۔ سبحان اللہ غم بڑا مدرک حقائق ہے زندگی کا سارا فلسفہ اس ذراسے مصرع میں مخفی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے لاہورمیں اب بارش بالکل نہیں ہوئی۔ ابر روز آتا ہے مگر لاہور کی چار دیواری کے اندر اسے برسنے کا حکم نہیںہے۔ اگست کے ابتدا میں چند روز کے لیے شملہ جانے کا قصد ہے کچہری تین اگست سے بند ہوجائے گی والسلام۔ آپ کا خادم محمد اقبال (۲۶۶)…(۴) لاہور ۱۷ دسمبر ۱۹۱۴ء مخدومی‘ السلام علیکم! کل خط لکھ چکا ہوں مگر آپ کے ا س شعر کی دا د دینا بھول گیا۔ جہاں ہستی ہوئی محدود لاکھوں پیچ پڑتے ہیں عقیدے عقل عنصر سب کے سب آپس میں لڑتے ہیں سبحان اللہ! کس قدر باریک اور گہرا شعر ہے۔ ہیگل جس کو جرمنی والے افلاطون سے بڑا فلسفی تصور کرتے ہیں اور تخیل کے اعتبار سے حقیقت میں ہے بھی افلاطون سے بڑا اس کاتمام فلسفہ اسی اصول پر مبنی ہے۔ آپ نے ہیگل کے سمندر کو ایک قطرہ میں بند کر دیا یا یوںکہیے کہ ہیگل کا سمندر اس قطرے کی تفسیر ہے۔ ہیگل لکھتا ہے کہ اصول تناقض ہستی محدود کی زندگی کا راز ہے۔ اور ہستی مطلق کی زندگی میں تمام قسم کے تناقض محدودکا خاصہ ہیں۔ گداختہ ہو کر آپس میں گھل مل جاتے ہیں۔ کیمبرج کی تاریخ ہندوستان کے لیے جو مضمون اردو لٹریچر میں مجھے لکھنا ہے اس میں اس شعر کا ضرور ذکر کروں گا۔ اسی رنگ کے فلسفیانہ اشعار اور بھی لکھیے کہ خود بھی لذت اٹھائوں اور اوروں کو بھی اس لذت میں شریک کروں۔ آج مہاراجہ کشن پرشاد کا خط آیا تھا معلوم ہوا کہ خواجہ نظامی حیدر آباد سے اورنگ آباد چلے گئے خلد آباد کی زیارت مقصود ہو گی! میں بھی وہاں گیا تھا اور عالمگیر علیہ الرحمتہ کے مزار پاک پر حاضر ہوا تھا۔ میرے بڑے بھائی بھی ساتھ تھے کہنے لگے کہ میں قنات کے اندر نہ جائوں گا مزار کے گرد قنات تھی کہ میری ڈاڑھی غیر مشروع ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۲۶۷)…(۵) لاہور ۱۸ اکتوبر ۱۹۱۵ء مخدومی تسلیم! آپ کا نوازش نامہ مل گیاتھا۔ مجھے اس بات سے تردد ہے کہ آپ کی علالت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ آ پ کو جلد صحت کامل عطا فرمائے۔ آپ کے خطوط سے مجھے نہایت فائدہ ہوتا ہے۔ اور مزید غور و فکر کی راہ کھلتی ہے۔ اس واسطے میں ان خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریں نہایت بیش قیمت ہیں اوربہت لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔ واعظ قرآن بننے کی اہلیت تو مجھ میں نہیں ہے۔ ہاں اس مطالعہ سے اپنا اطمینان خاطر روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے۔ گو عملی حالت کے اعتبار سے بہت سست عنصر واقع ہوا ہے۔ آپ دعا فرمائیں۔ شیعوں کے متعلق آپ نے خوب لکھا۔ میرا مدت سے یہی خیال ہے۔ امامت کا مسئلہ سوسائٹی کو انتشار سے محفو ظ رکھنے والا ہے۔ خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ مذہبی حقائق کا معیار عقل ہو۔ میںنے کئی دفعہ یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ صوفی بننے کی نسبت شیعہ ہونا ضروری ہے۔ اگر تقلید ضروری ہے تو اولاد علی المرتضیٰؓ سے بڑھ کر اور کون امام ہو گا۔ البتہ اامت کے اصول میں ایک نقص ہے اوروہ یہ کہ عوام کو مجتہدین سے تعلق رہتا ہے اور قرآن سے تعلق کم ہو جاتاہے۔ یہاں تک کہ بالکل کوئی تعلق نہیںرہتا۔ مذہب بغیر قوت کے محض ایک فلسفہ ہے۔ یہ نہایت صحیح مسئلہ ہے اور حقیقت میںمثنوی لکھنے کے لیے یہی خیال محرک ہوا ۔ میں گزشتہ دس سال سے اسی پیچ و تاب میں ہوں۔ انیس احمد کو میں جانتا ہوں۔ انہوںنے ایک رسالہ تعلیم قرآن بھی لکھا تھا۔ اچھا رسالہ تھا مگر بعض لوگ ان پر بدظن ہیں۔ چند روزہوئے لاہور میں بھی آئے تھے مجھ سے نہیں ملے معراج الدین کہاں سے دسیتاب ہوتی ہے؟ قرآن کے متعلق عربی میں بعض نہایت عمدہ کتابیں ہیں مگر افسوس ہے کہ لاہور میں دستیاب نہیںہوتیں۔ جرمنی کے علماء نے بھی بہت کچھ لکھا ہے مگر جنگ کی وجہ سے وہاں سے نہیں آ سکتیں۔ انشاء اللہ بعد از جنگ بہت سی کتابیں علوم قرآنی کے متعلق وہاں سے منگوائوں گا۔ مدت ہوئی چند شعر فارسی میں لکھے تھے عرض کرتا ہوں: خوش آنکہ رخت خرد رابہ شعلہ مے سوخت مثال لالہ متاع ز آتشے اندوخت تو ہم زساغر مے چہرہ را گلستاں کن بہار خرقہ فروشی بہ صوفیاں آموخت دلم تپیدز محرومی فقیہ حرم کہ پیر میکدہ جامے بہ فتویٰ نہ فروخت منج قدر سرود از نوائے بے اثرم ز برق نغمہ تواں حاصل سکندر سوخت ٭٭٭ فزوں قبیلہ آں پختہ کار باد کہ گفت چراغ راہ حیات است جلوہ امید بیار بادہ کہ گردوں بکام ما گردید مثال غنچہ نواہا ز شاخسار دمید خورم بہ یاد تنک نوشی امام حڑم کہ جز بصحبت یاران رازداں نہ چشید چناں ز نقش دوئی شست لوح خاطر خویش کہ وحشی تو ہم از آہوئے خیال رمید نواز حوصلہ دوستاں بلند تر است غزل سر شدم آنجا کہ بیچ کس نشیند غالباً یہ اشعار آپ کے لیے نئے نہ ہوں گے کیونکہ مجھے یاد پڑتاہے کہ شاید کچھ عرصہ ہوا میں نے یہ اشعارآپ کی خدمت میں تحریر کیے تھے۔ خیریت مزاج سے مطلع فرمائیے۔ آپ کا خادم محمد اقبال (۲۶۸)… (۶) لاہور ۲۵ اکتوبر ۱۹۱۵ء مخدومی السلام علیکم! نوازش نامہ ملا دونوں اشعار لاجواب ہیں: فطرت کی زباں جس کو سمجھو سبحان اللہ یہ طرز اوریہ معنی آفرینی خاص آپ کے لیے ہے کوئی دوسرا یہاں مجال دم زدن نہیں رکھتا اور دوسرا شعر: … جو کچھ قسمت بھی ہوتی کئی دفعہ پڑھ چکا ہوں اس کا لطف کم ہونے میں نہیں آتا۔ کبھی موقع ہوتا ہے تو دل کا دکھڑاآپ کے پاس روتاہوں۔ یہاں لاہور میں ضروریات اسللامی سے ایک متنفس بھی آگاہ نہیں یہاں انجمن اورکالج اور فکر مناصب کے سوا اور کچھ نہیں۔ پنجاب میںعلماء کا پیدا ہونا بند ہو گیا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ نے کوئی خاص مدد نہ کی تو آئندہ بیس سال نہایت خطرناک نظر آتے ہیں۔ صوفیا کی دکانیں ہیں مگر وہاں سیرت اسلامی کی متاع نہیں بکتی۔ کئی صدیوں سے علماء اور صوفیا میں طاقت کے لیے جنگ ہو رہی ہے جس میں آخر کار صوفیا غالب آئے یہاں تک کہ اب برائے نام علماء جو باقی ہیں وہ بھی جب تک کسی نہ کسی خانوادے میں بیعت نہ لیتے ہوں۔ ہر دل عزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علماء کی طر ف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجددالف ثانی عالمگیر اور مولینا اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ اب اسلامی جماعت کا محض خدا پر بھروسہ ہے میں بھلا کیا کر سکتا ہوں۔ صرف ایک بے چین اور مضطرب جان رکھتا ہوں۔ قوت عمل مفقود ہے ہاں یہ آرزو رہتی ہے کہ کوئی قابل نوجوان جو ذوق خداداد کے ساتھ قوت عمل بھی رکھتا ہو۔ مل جائے جس کے دل میں اپنا اضطراب منتقل کر دوں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آ پ کا خادم محمد اقبال (۲۶۹)…(۷) لاہور ۲۷ جنوری ۱۹۱۶ء مخدومی السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ملا الحمد اللہ کہ خیریت ہے۔ انشاء اللہ اختلاف رائے کا اثرپرائیویٹ تعلقات پر نہ ہو گا۔ میں نے تو صر ف ایک دو خط شائع کیے تھے۔ اور وہ بھی اس وقت جب خواجہ حسن نظامی نے خود مضامین لکھے اور اپنے احباب سے لکھوائے۔ ان مضامین کی مجھے کوئی شکایت نہیں شکوہ صرف اس امر کا تھا کہ پرائیویٹ خطوں میں تو وہ مجھے لکھتے تھے اور لکھتے ہیں کہ تمہاری نیت پر کوئی حملہ نہیں لیکن اخباروں میں اس کے برعکس لکھتے ہیں میں نے خود خواجہ حسن نظامی سے اس امر کی شکایت کی تھی اور نہایت صاف باطنی سے لکھاتھا کہ آ پ میرے ساتھ نا انصافی نہ کریں علمی بحث ہونی چاہیے۔ حریف کو بدنام کرنا مقصود نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اس کو قائل کرنا اور راہ راست پر لانا۔ بہرحال وہ معذور ہیں اور صوفی ضرور ہیں مگر تصوف کی تاریخ اور ادبیات و علوم القرآن سے مطلق واقفیت نہیںرکھتے اس واسطے مجھے ان کے مضامین کا مطلق اندیشہ نہیں ہے۔ علامہ ابن جوزیؒ نے جو کچھ تصوف پر لکھا ہے اس کو شائع کرنے کا مقصد ہے ۔ اس کے ساتھ تصوف کی تاریخ پر ایک مفصل دیباچہ لکھوںگا۔ انشائاللہ اس کا مسالہ جمع کر لیا ہے۔ منصور حلاج کارسالہ کتاب الطواسین فرانس میں مع نہایت مفید حواشی کے شائع ہو گیا ہے۔ دیباچے میں اس کتاب کو استعمال کروں گا۔ فرانسیسی مستشرق نے نہایت عمدہ حواشی دیے ہیں۔ رہبانیت کے متعلق جو آیہ شریفہ آپ کے خیال میں ہو ضرور لکھیے۔ وائے برہستی اگر مقصود ہستی ہو چکا نہایت خوب ہے۔ سیدھے آسان اور مختصر الفاظ میں حقائق بیان کرنا آپ کا کمال ہے۔ عبدالماجد صاحب نے جو شعر آپ کا پسند کیا نہایت خوب ہے۔ میں نے بھی اسی مضمون کا ایک شعر لکھاتھا: گل تبسم کہہ رہا تھا زندگانی کو مگر شمع بولی گریہ غم کے سوا کچھ بھی نہیں محمد اقبال (۲۷۰)…(۸) لاہور ۴ فروری ۱۹۱۶ء مخدوم و مکرم حضرت مولینا السلام علیکم! آپ کا والا نامہ مل گیا ہے۔ میں تصوف کی تاریخ پرایک مبسوط مضمون لکھ رہا ہوں جو ممکن ہے کہ ایک کتاب بن جائے چونکہ خواجہ حسن نظامی نے عام طور پر اخباروں میں میری نسبت یہ مشہور کر دیا ہے کہ میں صوفیائے کرام سے بدظن ہوں اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف اور واضح کرنی ضروری ہے۔ ورنہ اس طویل مضمون کے لکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ چونکہ میں نے خواجہ حافظ پر اعتراض کیا ہے ا س واسطے ان کا خیال ہے کہ میں تحریک تصوف کو دنیا سے مٹا دینا چاہتا ہوں ۔ سراسرار خودی کے عنوان سے انہوںنے ایک مضمون و خطیب میں لکھا ہے جو آ پ کی نظر سے گزرا ہو گا۔ جو پانچ وجوہ انہوں نے ایک مثنوی سے اختلاف کرنے کے لکھے ہیں انہیں ذرا غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ تاریخ تصوف سے فارغ ہو لوںتو تقویہ الایمان کی طرف توجہ کروں گا۔ فی الحال جو فرصت ملتی ہے وہ اسی مضمون کی نذر ہو جاتی ہے افسوس کہ ضروری کتب لاہور کے کتب خانوں میں نہیںملتیں۔ جہاں تک ہو سکا میں نے تلاش کی ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ اس مضمون کو پڑھ کر خوش ہوں گے۔ منصور حلاج کا رسالہ کتاب الطواسین نام فرانس میں شائع ہو گیا ہے۔ وہ بھی منگوایا ہے امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ فی الحال مثنوی کا دوسرا حصہ ملتوی ہے۔ مگر اس میں عالمگیر اورنگ زیب کے متعلق جو اشعار لکھے ہیں ان میںسے ایک عرض کرتا ہوں: درمیان کارزار کفر و دیں ترکمش مارا خدنگ آخریں آپ کا قطعہ حضرت اقبال اور خواجہ حسن بہت خوب رہا۔ صرف ایک بات ہے کہ خواجہ صاحب کو تو کبھی رقص اور سکر نصیب ہوتا ہو گا۔ میں اس نعمت سے محروم ہوں۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال (۲۷۱)…(۹) لاہور ۱۱ جون ۱۹۱۸ء مخدومی تسلیمات! کل ایک خط ڈاک میں ڈال چکا ہوں۔ آج اور کل دو خط اور آپ کے موصول ہوئے ۔ میںنے خواجہ حافظؒ پر کہیں یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے مے کشی بڑھ گئی ہے۔ میرا اعتراض حافظ ؒ پر بالکل اس نوعیت کا ہے۔ اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میںکئی صدیوں سے پاپولر ہے اپنے وقت میں اس نصب العین سے ضڑور فائدہ ہوا اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضڑ ہے خواجہ حافظؒ کی ولایت سے اس تنقید کوئی سروکار نہ تھا۔ نہ ان کی شخصیت سے اور نہ ان کے اشعار میں مے سے مرا د وہ مے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں۔ بلکہ اس سے وہ حالت سکر Narcoticمراد ہے جو حافظؒ کے کلام سے بحیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ حافظؒ ولی اور عارف تصور کیے گئے ہیں اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام میں بالکل ہی ظر انداز کر دیا ہے۔ اور میرے ریمارک تصو ف اور ولایت پر حملہ کے مترادف سمجھے گئے۔ خواجہ حسن نظامی نے ایسا سمجھ کر اخباروں میںلکھا اس واسطے مجھے مجبوراً تصوف پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا پڑا۔ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ کون سا تصوف میرے نزدیک قابل اعتراض ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ نئی بات نہیں حضرت علاء الدولہ سمنانیؒ لکھ چکے ہیں کہ حضرت جنید بغدادیؒ لکھ چکے ہیں میں نے تو محی الدین اور منصور حلاج کے متعلق وہ الفاظ نہیں لکھے جو حضرت سمنانی اور جنیدؒ نے ان لوگوں کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔ ہاں ان کے عقائد اور خیالات سے بیزاری ضرور ظاہر کی ہے۔ اگر اسی کا نام مادیت ہے تو قسم بخدائے لایزال مجھ سے بڑہ کر مادہ پرست دنیا میںکوئی نہ ہو گا۔ معاف کیجیے گا مجھے آپ کے خطوط سے یہ معلو م ہوا ہے کہ ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کے صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظؒ کے متعلق لکھے گئے ہیں۔ باقی اشعار پر شاید نظر نہیں فرمائی۔ کاش ااپ کو ان کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی کہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔ عجمی تصوف سے لٹریچر میں دلفریبی اور حسن و چمک پیدا ہوتا ہے مگر ایسا کہ طبائع کو پست کرنے والا ہے۔ اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتاہے اور اس قوت کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے۔ میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کا لٹریچر تمام ممالک اسلامیہ میں قابل اصلاح ہے ۔ Pessimistic Literature کبھی زندہ نہ رہ سکا۔ قوم کی زندگی کے لیے اس کا اور اس کا لٹریچر کا Optimisticہونا ضرور ی ہے ۔ اسرار خودی میںحافظؒ پر جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو خارج کرکے اور اشعار لکھے ہیں جن کا عنوان یہ ہے: درحقیقت شعر و اصلاح ادبیات اسلامیہ ان اشعار کو پڑح کر مجھے یقین ہے کہ بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ اور میرا اصل مطلب واضح ہو جائے گا۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ پنڈت کشوری لعل سے بہت عرصہ ہوا ملاقات ہوئی تھی معلوم نہیں کہ وہ آج کل کہاں ہیں۔ کعبہ و کاشی کے سواکوئی اور مقام بھی ہو گا۔ مگر خدارا آج کل صرف کعبہ ہی بتائیے۔ ورنہ مسلمانوں کی جمعیت کا شیرازہ بکھرجائے گا۔ اس وقت اسلام کا دشمن سائنس نہیں (جیسا کہ بعض لوگ نادانی سے سمجھ بیٹھے ہیں ۔ اسلام کی پوزیشن سائنس کے خلاف نہایت مضبوط ہے) مگر اس کا دشمن یورپ کا Territorial Nationalismہے جس نے ترکوں کو خلافت کے خلاف اکسایا۔ مصر میں مصریوں کے لیے کی آواز بلند کی اور ہندوستان کو Pan Indian Democracyکا بے معنی خواب دکھایا۔ آپ تو گروہ بندی پر بڑا زور دیتے ہیں بلکہ ایک جگہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مذہب کیا ہے گروہ بندی ہے فقط۔ گو مجھے اس مصرع سے اتفاق نہیں تاہم مذہب اسلام کا ایک نہایت ضروری پہلو قومیت ہے جس کا مرکز کعبتہ اللہ ہے۔ اگر آپ کے نزدیک مذہب کا مقصد صرف گروہ بندی ہے اور کچھ نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا مصرع سے معلوم ہوتا ہے تو آپ کے قلم و بان سے یہ بات زیب نہیں دیتی۔ کعبہ و کاشی کے سوا اور کوئی مقام بھی ہے! آپ کے نزدیک تو کعبہ کے سوا کوئی اور مقام نہ ہوناچاہیے۔ یہی میرا بھی مذہب ہے۔ خیریت مزاج سے آگاہ کیجیے۔ مخلص محمد اقبال‘ لاہور (۲۷۲)…(۱۰) لاہور ۲۰ جولائی۱۹۱۸ء مخدومی! نوازش نامہ کل ملا تھا۔ اس سے پیشتر ایک پوسٹ کارڈ بھی ملاتھا آپ مجھے تناقض کا ملزم گردانتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ میری بدنصیبی یہ ہے کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کو اب تک نہیں پڑھا۔ میںنے کسی گزشتہ خط میں عرض بھی کیا تھا کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر سے ایک دفعہ پڑھ لیجیے۔ اگر آ پ ایسا کرتے ہیں تو یہ احتراض نہ ہو گا۔ آں چناں گم شو کہ یکسر سجدہ شو اور اسرار خودی میں کوئی تناقض نہیں۔ یہ بات تو میں نے پہلے حصہ میں ا س سے بھی زیادہ واضح طور پر بیان کی ہے۔ اند کے اندر حرائے دل نشیں ترک خود کن سوئے حق ہجرات گزیں محکم از حق شو سوئے خود گام زن لات و عزائے ہوس را سر شکن ہر کہ دراقلیم لا آباد شد فارغ از بن زن و اولاد شد (اسرارخودی) میں اس خودی کا حامی ہوں جو سچی اور بے خودی سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی جو نتیجہ ہے ہجرت الی الحق کرنے کا اور جو باطل کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح مضبوط ہے۔ بندہ حق پیش مولا لاستے پیش باطل از نعم برجاستے دوسرے حصے میں عالمگیر کی ایک حکایت ہے اس میں یہ شعر ہے: ایں چنیں دل خود نما و خود شکن دارد اندر سینہ مومن وطن مگر ایک اور بے خودی ہے جس کی دو قسمیں ہیں: (۱) ایک وہ جو Lyric Poetryکے پڑھنے سے پیداہوتی ہے۔ یہ اس قسم سے ہے جو افیون و شراب کا نتیجہ ہے۔ (۲) دوسری وہ بے خودی ہے جو بعض صوفیہ اسلامیہ اور تمام ہندو جوگیوں کے نزدیک ذات انسانی کو ذات باری میں فنا کر دینے سے پیدا ہوتی ہے اور یہ فنا ذات باری میں ہے نہ احکام باری تعالیٰ میں۔ پہلی قسم کی بے خودی تو ایک حد تک مفید ہو سکتی ہے مگر دوسری قسم تمام مذہب و اخلاق کے خلاف جڑ کاٹنے والی ہے میں ان دونوں قسموں کی بے خودی کا معترض ہوں۔ اور بس حقیقی اسلامی بے خودی میرے نزدیک اپنے ذاتی اور شخصی میلانات رجحانات و تخیلات کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کا پابند ہوجانا ہے۔ اس طرح پر کہ اس پابندی کے نتائج سے انسان بالکل لاپروا ہو جائے اور محض رضا و تسلیم کو اپنا شعار بنائے یہی اسلامی تصوف کے نزدیک فنا ہے البتہ عجمی تصوف فنا کے کچھ اور معنی جانتا ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ خواجہ حافظؒ پر جو اشعار میں نے لکھے تھے ان کے مقاصد کچھ اور تھے۔ آیات قرآنی پر جو آپ نے لکھی ہیں زیر نظر ہیں۔ میں انے کے وہی معنی سمجھتا ہوں جو آپ کے ذہن میں ہیں۔ حیات دنیا بیشک لہو و لعب میں ہے۔ میں نے بھی پہلے حصہ میں (اسرار خودی) یہی لکھا ہے: در قبائے خسروی درویش زی دیدہ بیدار و خدا اندیش زی پھر دوسرے حصے میں ہے کہ جس میں حضرت عمرؓ کا ایک قول منظوم کیا ہے: راہ رشوار است ساماں بکم بگیر در جہاں آزاد زی آزاد میر سبحہ اقلل من الدنیا شمار از تعش حرا شوی سرمایہ دار غرض یہ کہ سلطنت ہو امارت ہو کچھ ہو بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے۔ بلکہ یہ ذرائع ہین اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے جو شخص ان کو بجائے خود مقصد جانتاہے وہ رضوا بالحیوۃ الدنیا میں داخل ہے۔ کوئی فعل مسلمان کا ایسا نہ ہونا چاہیے کہ جس کا مقصد اعلائے کلمتہ اللہ کے سوا کچھ اور ہو۔ مسلمان کی تعریف پہلے حصے میں یوں کی گئی ہے (اسرارخودی): قلب را از صبغتہ اللہ رنگ دہ عشق را ناموس و نام و ننگ دہ طبع مسلم از محبت قاہراست مسلم ار عاشق نباشد کافراست تابع حق دیدنش نادیدنش خورونش ‘ نوشیدنش‘ خوابیدنش در رضایش مرضی حق گم شود ایں سخن کے باور مردم شود زیادہ کیا عرض کروں۔ سوائے اس کے کہ مجھ پر عنایت فرمائیے۔ عنایت کیا رحم فرمائیے او راسرار خودی کو ایک دفعہ پڑھ جائیے جس طرح منصور کو شبلی کے پتھر سے زخم آیا اور اس کی تکلیف سے اس نے آہ و فریاد کی اسی طرح مجھ و آ پ کا اعتراض تکلیف دیتا ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۲۷۳)…(۱۱) لاہور ۲۵ جولائی ۱۹۱۸ء مخدومی السلام علیکم! والانامہ کل ملاتھا۔ الحمد اللہ کہ خیریت ہے۔ گرمی کی یہاں بھی شدت ہے۔ برسات اب کے خالی جاتی معلوم ہوتی ہے۔ خواجہ حسن نظامی کا خط مجھے بھی آیا تھا اور میرا مقصد بھی فاتحہ جناب امیرؓ میںشریک ہونے کا تھا۔ مگر افسوس ہے کہ میری بیوی کچھ عرصہ سے بیمار ہے۔ اور ابھی تک روبصحت کامل طور پر نہیں ہوئیں۔ خواجہ صاحب کو بھی میں نے یہی لکھا تھا کہ وہ اچھی ہو گئیں تو حاضر ہوں گا۔ اگر اب نہ جا سکا تو تعطیلوں میںانشاء اللہ دہلی جانے کا قصدہے۔ کیا ایک مدت سے آستانہ حضرت محبوب الٰہیؒ پر حاضر ہنوے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ کیا عجب کہ ان گرما کی تعطیلوں میں اللہ اس ارادے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے! خواجہ حسن نظامی سے دلی محبت ہے جس پر اختلاف خیال قطعاً کوئی اثر نہیں رکھتا۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ وہ اختلاف بھی کم از کم میرے علم کے مطابق کوئی ایسا اختلاف نہیں۔ وہ کچھ عرصہ ہوا یہاں تشریف لائے تھے۔ میں نے اصرار کیا کہ وہ ایک روز قیام فرمائیں لیکن وہ ٹھہر نہ سکتے تھے۔ زبانی باتیں ہوتیں تو بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جاتیں۔ لیکن جو کچھ بھی ہو اس سے اس محبت میں کمی واقع نہیں ہو سکتی جو مجھ کو ان سے ہے۔ وہ ایک نہایت محبوب آدمی ہیں۔ ان کو جان کر ان سے محبت نہ رکھناممکن نہیں۔ غم بڑا مدرک حقائق ہے ا س مصرع کی پہلے بھی داد دے چکا ہوں۔ آپ کے اکثر اشعار میں حقائق حیات اس سادگی اور بے تکلفی سے منظوم ہوتے ہیں کہ شیکسپئر اور مولانا روم یاد آ جاتے ہیں۔ آپ کے اس شعر جہاں ہستی ہوئی محدود پر ریویو کرتے ہوئے میں نے کسی انگریزی فلسفے کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ خیالات و افکار بھی آپس میں برسر پیکار رہتے ہیں۔ کل مثنوی مولانا روم دیکھ رہا تھا کہ یہ شعر نظر پڑا: ہر خیالے را خیالے مے خورد فکر ہم برفکر دیگرمے چرد سبحان اللہ! ایک خاص باب میں انہوںنے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ باری تعالیٰ کے سوا ہر ہستی آکل ماکول ہے اور اس ضمن میں شوپن ہار (فلاسفر جرمنی) کے فلسفے کو اس خوبی سے نظم کر گئے ہیں کہ خود شوپن ہار کی روح پھڑ ک گئی ہو گی۔ کل شام ایک محفل میں آپ کے شعر: دل اس کے ساتھ ہے خدا جس کے ساتھ ہے پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ اگرچہ یہ شعر مشاعرے میں پڑھا نہیں گیا۔ تاہم تمام شہر میں مشہور ہے۔ بن خاک راہ تاچ لیا کر ہوا کے ساتھ پر آج گفتگو رہے گی۔ یہ شعر بھی حقائق سے خالی نہیں ایک فارسی رباعی ہو گئی تھی عرض کرتا ہوں: گل گفت کہ عیش نو بہارے خوشتر یک صبح چمن ز روزگارے خوشتر زاں پیش کہ کس ترابد ستار زند مردن بکنار شاخسارے خوشتر زیادہ التماس دعا! مخلص محمد اقبال (۲۷۴)…(۱۲) سیالکوٹ ۱۳ اگست ۱۹۱۸ء مخدومی السلام و علیکم! والانامہ لاہور سے ہوتا ہوا ملا ۔ الحمد اللہ کہ جناب کا مزاج بخیر ہے۔ واقعی آپ نے سچ فرمایا کہ ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ شفقت ایک طرف ۔ اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا ہوں۔ اور پہاڑ پر جانے کی بجائے ان کی گرمی صحبت سے مستفید ہوتا ہوں۔ پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کر رہے تھے۔ جس کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ دوران گفتگو میں کہنے لگے کہ معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے۔ اس خیال سے اس قدر متاثرہوئے کہ قریباً بے ہوش ہو گئے اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی۔ یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیران مشرقی سے ہی مل سکتے ہیں۔ یور کی درسگاہوں میں ان کا نشان نہیں۔ اگست کے آخر تک انشاء اللہ یہیں قیام رہے گا۔ تہذیب نسواں یا صحیح معنوںمیں تخریب نسواں نے اگر کچھ لکھا ہے تو اس کا بہترین جواب خاموشی ہے۔ تردید کی کوئی ضرور ت نہیں۔ یہ پرچہ قدیم اسلامی شعار کو بہ نگاہ حقارت دیکھتا ہے۔ گو ابھی صاف صاف لکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ میں نے سنا ہے کہ سید عبدالرئوف لاہور تشریف لائے تھے۔ اور چیف جج صاحب سے بھی ملے تھے۔ گورنمنٹ میں نام ضرور پیش ہے اور بعض حکام مائل بھی ہیں مگر مجھے باوجود ان سب باتوں کے امید نہیں۔ اسی واسطے اس موقع پر میں کسی سے نہیں ملا۔ اور میرے بعض احباب مجھ سے ناراض ہیں کہ شملہ جانے کی جگہ سیالکوٹ آ گیا ہوں۔ مگر میں ان احباب کو معذورجانتا ہوں کہ وہ میری قلبی کیفیات سے آگاہ نہیں ہیں۔ بہرحال جو کچھ علم الٰہی میں ہے ہو جائے اور وہی انسب و اولیٰ ہو گا۔ باقی خداکے فضل و کرم سے خیریت ہے ۔ خیریت سے آگاہ کیجیے۔ کل شام سے طبیعت نہایت مشتعل ہے۔ وکیل اخبار لکھتا ہے کہ کسی انگریزی اخبار نے کل مدینہ منورہ کی بہت توہین کی ہے۔ کمزوروں کے پاس سوائے بددعا کے اور کیا ہے!والد مکرم سلام شوق عرض کرتے ہیں۔ مخلص محمد اقبال (۲۷۵)…(۱۳) لاہور ۱۴ ستمبر ۱۹۱۸ء مخدومی‘ السلام علیکم! والا نامہ ابھی ملا۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ ابھی تو مسلمانوں کو اور ان کے لٹریچر کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضر عطا فرمائے! میں ۹ ستمبر کو لاہور واپس آ گیا تھا مگر ترشی کے زیادہ استعمال سے دانت میں سخت درد ہو گیا جس نے کئی روز تک بے قرار رکھا۔ اب خدا کے فضل سے بالکل اچھا ہوں۔ رسالہ ایسٹ ویسٹ (انگریزی) کے اگست نمبر میں ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب نے ایک ریویو دونوں مثنویوں پر لکھا ہے۔ نہایت قابلیت سے لکھا ہے۔ اگر اس ریویو کی کوئی کاپی مل گئی تو ارسال خدمت کروں گا آج زمانہ میں ایک ریویو نظر سے گزرا۔ ’’زمانے‘‘ کے اسی نمبر میں آپ کے اشعار بھی دیکھے جن کو کئی دفعہ پڑھا ہے۔ اور ابھی کئی بار پڑھوں گا بالخصوص اس شعر نے: جب علم ہی عاشق دنیا ہوا بہت اثر دل پر کیا۔ مگر اس شعر کو یہ صلح کل فقیری فقرہ یا شاہی لطیفہ ہے آپ کے اشعار میں دیکھ کر بہت تعجب ہوا ہے۔ یہ کس کا شعر ہے؟ شاہی لطیفہ کی داد دینا میرے قلم کے امکان سے باہر ہے۔ ایک نہایت مخلص نوجوان یہاں لاہور میں ہے۔ تاجر کتب ہے اور مجھ سے کہتا ہے کہ شکوہ اور جواب شکوہ کو پھر شائع کرنا چاہیے۔ مگر مولینا اکبر دیباچہ لکھیں میں نے آ پ کی طرف سے ہر چند عذر کیا مگر وہ مصر ہے۔ آخر میں نے اس سے وعدہ کیا ہے کہ مولینا کی خدمت میںعرض کروںگا۔ ایسی فرمائش کرتے ہوئے حجاب آتا ہے مجھے آ پ کے ضعف و ناتوانی کا حال معلوم ہے۔ تاہم اگر کسی روز طبیعت شگفتہ ہو تو اور آلام و افکار کا احساس شگفتگی طبع سے م ہو گیا ہو تو دس پندرہ سطور اس کی خاطر لکھ ڈالیے۔ یہ لڑکا آپ کا غائبانہ مرید ہے۔ کلکتہ کے فساد کے حالات اخبار میں پڑھے تھے آج مزید حالات پڑھے۔ خدا تعالیٰ مسلمانوں پر فضل کرے ارو ن کے لیڈروں کو آنکھیں عطا فرمائے کہ وہ اس زمانے کے میلان طبیعت کو دیکھیں۔ مجھے بھی کلکتہ سے بلاوا آیا تھا اور میںجانے کو قریبا؟ً تیار بھی تھا مگر جب مطبوعہ خط کا مضمون والد مکرم کو سنایا تو انہوںنے فرمایا کہ حکام غالباً یہ جلسہ بند کر دیں گے۔ بعد میں ایسا ہی ہوا: نادیدنی کی دید سے ہوتا ہے خون دل بے دست و پا کو دیدہ بینا نہ چاہیے مخلص محمد اقبال (۲۷۶)…(۱۴) لاہور ۲۸ اکتوبر ۱۹۱۸ء مخدومی‘ السلام علیکم! نوازش نامہ دو تین روز ہوئے موصولہوا ۔ الحمد اللہ خیریت ہے لاہور میں وبائے انفلوئنزا کی بہت شدت ہے۔ یہاں تک کہ گورکن میسر نہیں آتے۔ دو ا سے بھی ا س مرض کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ اول تو معلوم ہی نہیں کہ اس کا علاج کیا ہے‘ دوسرا دوا موجود نہیں اور ڈاکٹر خود اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے پنجاب میں اس وقت اس کا حملہ نہایت شدت سے ہے۔ لاہور میں قریبا ً ڈھائی سو اموات روزانہ ہیںَ اور ابھی کمی کے کوئی آثار نہیں ۔ امرت سر میں بھی یہی کیفیت ہے۔ امید کہ الہ آباد میں خیریت ہو گی۔ مسلمانوں پر خصوصیت سے زیادہ نظر عنایت ہے۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم فرمائے۔ زمانہ میں ریویو دیکھا تھا خیر اچھا ریویو تھا۔ مگر آ پ کی شاعری پر ریویو لکھنے کا حق آج تک کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکا۔ زمانے نے جو اشعار انتخاب کیے وہ دو چار روز ہوئے بار روم میں مزے لے لے کر پڑھے گئے۔ وقت کی مصلحت نہیں ورنہ آپ کے اشعارپر کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا ارو زندگی رہی تو انشاء اللہ کچھ ضرور لکھوں گا۔ مطلع آپ کا لاجواب ہے: کم ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مقصود وہی ہے سبحان اللہ والیہ المصیر! معارف میں کسی ہندو شاعرکا شعر نظر سے گزرا: بسکہ از شرم تودر پرواز رنگ گلشن است رشتہ نظارہ بندد در ہوا گلدستہ را اور کچھ عرصہ ہوا اخبار ’’الخلیل‘‘ میں کسی نے ایک نہایت عمدہ شعر لکھا تھا: شب چو انداز ہم آغوشی او یاد کنم خویش را تنگ بہ برگیرم و فریاد کنم اللہ در من قال! زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کامزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۲۷۷)…(۱۵) لاہور ۲۸ نومبر ۱۹۱۸ء مخدومی‘ السلام علیکم! نوازش نامہ مل گیا او ر اس سے بیشتر بھی ایک خط ملا تھا۔ جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی جس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل معمول سے زیادہ مصروفیت ہے اسلامیہ کالج لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر ہیگ چیچک کی بیماری سے دفعتہ انتقال کر گئے اور انجمن حمایت اسلام لاہور کے اصرار پر دو ماہ کے لیے کالج کے ایم اے کی جماعت مجھ کو لینی پڑی۔ امید ہے کہ دو ماہ تک نیا پروفیسر مل جائے گا۔ یہ لڑکے شام کو ہر روز میرے مکان پر آ جاتے ہیں۔ دن میں جو تھوڑی بہت فرصت ملتی ہے۔ اس میں ان کے لیکچر کے لیے کتب دیکھتا ہوں۔ لیکچر کیا ہیں انسان کی ذہنی مایوسیوں اورناکامیوں کا افسانہ ہے جسے عرف عام میں تاریخ فلسفہ کہتے ہیں۔ ابھی کل شام ہی میں ان کو آپ کا یہ شعر سنا رہا تھا: میں طاقت ذہن غیر محدود جانتا تھا خبر نہیں تھی کہ ہوش مجھ کو ملا ہے تل کر نظر بھی مجھ کو ملی ہے نپ کے سبحان اللہ کیا خوب کہا ہے جزاک اللہ! بہرحال ان لیکچروں کے بہانے سے ان لڑکوں کے کان میں کوئی نہ کوئی مذہبی نکتہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جان حاضر ہے مگر راہ خدا ملتی نہیں میں آپ کا مقصود سمجھتا ہوں۔ سیدھے سادے الفاظ میں حقائق بیان کر دینا آپ کا کاص حصہ ہے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ آپ کی رباعی: اور شکریہ ہے کہ موت آ جاتی ہے بہت عرصہ سے میں نے نوٹ کر رکھی ہے۔ بہت عرصہ سے کوئی شعر نہیں لکھا۔ مثنوی کا تیسرا حصہ لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ دو شعر یا د آئے ہیں جو دو یاتین ماہ ہوئے لکھے تھے۔ عرض کرتا ہوں: در جہاں مانند جوئے کوہسار از نشیب و ہم فراز آگاہ شو یا مثال سل بے زنہار خیز فارغ از پست و بلند راہ شو باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ بال بچے سب یہیں ہیں۔ اور الحمد اللہ خیریت سے ہیں۔ آج ۲۸ نومبر ہے فتح کی خوشی میں بہت بڑ ا جلسہ ہونے والا ہے۔ شاید شام کو میں بھی اس جلسے میں جائوں والسلام۔ امید کہ آ پ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال ‘ لاہور (۲۷۸)…(۱۶) لاہور ۲۰ اپریل ۱۹۱۹ء مخدومی‘ السلام علیکم! والانامہ مل گیا تھا ۔ اس کے بعد ایک اور خط آپ کا ملا۔ اس وقت تک خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح کی خیریت ہے۔ امید کہ آنجناب بخیر و عافیت سے ہوں گے ۔ لاہور کے حالات آپ نے اخباروں میں دیکھ لیے ہوں گے۔ گاندھی صاحب کا خاموش مقابلہ یہا ں تک رنگ لایا ہے کہ حکام لاہور اور پنجاب کے دیگر مقامات میں مارشل لا (آئین عسکری) کے اجراء پر مجبور ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے عجب زمانہ آ رہا ہے! زچہا گزشتہ باشی بچہارسیدہ باشی ٹھیک ہے ۔ جو شخص زجہاں گزشتہ باشی بہماں رسیدہ باشی پڑھتا ہے وہ زبان اور شعر دونوں کے ذوق سے معرا ہے۔ آپ سے ملنے کو بہت دل چاہتا ہے مگر یہ زمانہ گھر سے باہر نکلنے کا نہیں اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں کی حالت پر رحم کرے! مومن کو چاہیے کہ خدا ہی کا ہو رہے۔ چند روز ہوئے ایک مصرع ذہن میں آیا تھا دوسرا مصرع نہیں ہو سکا۔ ایں سر خلیل است بآذر نتواں گفت غور فرمائیے کچھ ذہن میں آئے تو مطلع کیجیے۔ خواجہ صاحب کا خط بھی آیا ہے وہ خیریت سے ہیں۔ مخلص محمد اقبال‘ لاہور نوٹ : اس لفافہ پر Passed by Censorکی سلپ لگی ہوئی ہے۔ ٭٭٭ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نام (۲۷۹)…(۱) لاہور ۲۷ ستمبر ۱۹۳۶ء مخدومی جناب مولینا! نوازش نامہ ابھی ملاہے اس سے پہلے بھی آپ کا خط مع تجویز ملا تھا۔ مگر میں علالت کے باعث جلد جواب نہ لکھ سکا۔ پہلے سے اچھا ہوں مگر افسوس ہے کہ ابھی سفر کے لائق نہیں ہوں۔ خصوصاً جب کہ سفر ۱۲ گھنٹے سے زیادہ ہو۔ رات بھر ریل میں سفر کرنے میں قبض ہو جاتی ہے جو سخت تکلیف دیتی ہے۔ اور یہ سلسلہ کئی کئی دن رہتا ہے۔ بہرحال اگر اردو کانفرنس کی تاریخوں تک میں سفر کرنے کے قابل ہو گیا تو انشاء اللہ ضرور حاضر ہوں گا۔ لیکن اگر حاضر نہ بھی ہو سکا تو یقین جانیے کہ اس اہم معاملے میں کلیتہً آپ کے ساتھ ہوں۔ اگرچہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ تاہم میری لسانی عصبیت دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ آپ کی تجویز میں اختلاف کی کوئی زیادہ گنجائش نہیں۔ میرے خیال میں صرف دو باتیں زیر بحث آئیں گی: اول یہ کہ فنڈ کہاں سے آئے گا۔ عام مسلمانوں کی حالت اقتصادی اعتبار سے حوصلہ شکن ہے۔ امرا توجہ کریں تو کام بن سکتا ہے مگر افسوس کہ اکثر مسلمان امراء مقروض ہیں۔ دوم یہ کہ صدر انجمن کا مستقر کہاں ہو میرے خیال میں اس کا مستقر لاہور میں ہونا چاہیے اور اس کے لیے ایک سے زیادہ وجوہ ہیں: (۱) مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے جو لڑائیاں آئندہ لڑناپڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہو گا۔ پنجابیوںکو اس میں بڑی بڑی دقتیں پیش آئیں گی۔ کیونکہ اسلامی زمانہ یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیںکی گئی۔ مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سر زمین معلوم ہوتی ہے! (۲) آپ انجمن اردو کے متعلق ایک پبلشنگ ہائو س قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی کامیابی بھی لاہور ہی میں ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ایک بڑا پبلشنگ سنٹر ہے۔ اور بہت سا طباعت کا کام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انگریزی پبلشنگ کی طرف بھی یہاں کے مسلمان توجہ کر رہے ہیں۔ (۳) یہاں کے لوگوں میں اثر قبول کرنے کا مادہ زیادہ ہے۔ سادہ دل صحرائیوں کی طرح ان میں ہر قسم کی باتیں سننے اور ان سے متاثر ہوکر ان پر عمل کرنے کی صلاحیت اور مقامات سے بڑھ کر ہے۔ ایک معمولی جلسے کے لیے آٹھ دس ہزار مسلمانوں کا جمع ہوجانا کوئی بڑی با ت نہیں۔ بلکہ بیس بیس ہزار کا مجمع بھی غیر معمولی نہیں۔ یہ بات پنجاب کے ہندوئوں میں بھی نہیںپائی جاتی ۔ باقی رہا آپ کے خط کا اخری فقرہ سو میں اس کے لیے آپ کا بہت شکر گزار ہوں انسان جب تک زندہ ہے افکار و ترددات لازمہ حیات ہیں: مرتا ہوں جو بے چین گھڑی بھر نہیں ہوتا معنوی اعتبار سے تو مدت ہوئی کہ میں ںے اسے آپ پر ہی چھوڑ دیا تھا۔ اب ظاہری اعتبار سے بھی چھوڑتا ہوں۔ کیونکہ آپ ایک صاحب عزم آدمی ہیں اوریہ بات مجھے مدت سے معلوم ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر و عافیت ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۲۸۰)…(۲) لاہور ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۶ء مخدومی مولینا! میں تو علی گڑھ حاضر ہونا کا مصمم ارادہ رکھتا تھا لیکن افسوس کہ کمر کے درد سے ابھی تک افاقہ نہیں ہوا۔ اس بنا پر بقیہ علاج کے لیے بھوپال میں نہیں جا سکا۔ علی ہذا القیاس فلسطین کانفرنس کی صدارت سے بھی اسی بنا پر انکار کر دیا حالانکہ مسئلہ فلسطین سے مجھے بے حد دلچسپی ہے۔ آپ کی تحریک سے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ بہت سے اعتبار سے یہ تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیںجس کی ابتدا سر سید رحمتہ اللہ علیہ نے کی تھی۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آ پ کا مزاج بخیرہوگا۔ والسلام۔ مخلص محمد اقبال (۲۸۱)…(۳) لاہور ۲۸ اپریل ۱۹۳۷ء مخدومی جناب مولوی صاحب! آپ کا والانامہ بمع روداد اور اغراض ومقاصد انجمن ملا۔ مجھ کو ان اغراض و مقاصد سے پورا اتفاق ہے ۔ نیز انجمن کی رجسٹری کرانا بھی منظور ہے۔ اردو کی اشاعت اور ترقی کے لیے آپ کا دلی میں نقل مکان کرنا بہت ضروری ہے۔ معلوم نہیں آ پ کے حالات ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ کاش میں اپنی زندگی کے باقی دنوں میں آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کر سکتا۔ لیکن افسوس کہ ایک علالت پیچھا نہیں چھوڑتی دوسرے بچوں کی خبر گیری اور انکی تعلیم و تربیت کے فکر افکار دامنگیر ہیں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۲۸۲)…(۴) لاہور ۲۳ اگست ۱۹۳۷ء مخدومی جناب مولینا! مسعود مرحوم کااخلاص اس کی درد مندی اور ا س کا اخلاق جس میں اس کے باپ اور دادا دونوں کی جھلک نظر آتی تھی۔ اب ہندوستان میں یہ باتیں کہاں نظر آئیں گی! جس روز مرحوم کی ناگہانی موت کی خبر لاہور پہنچی تھی اسی روز میں نے چند اشعار لکھے تھے جو ارسال خدمت کرتا ہوں۔ مگر یہ اشعار مرثیہ کہلانے کے مستحق نہیں۔ مرثیہ لکھنا مجھے آتا بھی نہیں۔ میرے لیے مرحوم کا غم محض ایک محرک ہے اور اس یقین کی آرزو اور تلاش کی مرحوم باوجود ہم سے جدا ہونے کے مرا نہیں ہے بلکہ زندہ ہے۔ آنسو بہانا ایک فطری امر ہے مگر میرا غم اسی یقین سے ہلکا ہوتا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے میرے قلب کی یہی کیفیت چلی آتی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امیدکہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مرحوم کے متعلق میں آپ کو کچھ دنوں بعد ایک او ر خط لکھوں گا۔ فی الحال اس خط کی رسید سے مطلع کر دیجیے تاکہ مجھے اطمینان ہو جائے کہ اشعار مرسلہ آپ تک پہنچ گئے ہیں سر اکبر حیدری سے ملاقات ہو تو میرا سلام عرض کر دیجیے۔ اخبارات میں دیکھا کہ وہ ولایت سے واپس آ گئے ہیں والسلام۔ آپ کا مخلص محمد اقبال مجھے ضعف بصارت کی وجہ سے ڈاکٹروں نے لکھنے پڑھنے سے منع کر دیا ہے یہ خط ایک دوست سے لکھوایا ہے نظم کا ان سے دوسرا بند الٹا لکھا گیا ہے۔ معاف فرمائیے! (۲۸۳) …(۵) لاہور ۹ ستمبر ۱۹۳۷ء مخدومی جناب مولوی صاحب! تسلیم آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے جس کے لیے بہت شکر گزارہوں۔ اردو زبان کے تحفظ کے لیے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں ان کے لیے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آپ کی شکر گزار ہوں گی۔ مگر آپ سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں سرکاری مدد پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کی بقا کا اظہار ہے۔ آپ کی کوششوں کامرکز وہی پروگرام ہونا چاہیے جو آ پ علی گڑھ میںوضع کر چکے ہیں کبھی کبھی پنجاب کا دورہ بھی لازم ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کسی گزشتہ خط میں آپ نے مجھے لکھا تھا کہ مجھے دنیاوی افکار سے مضطرب نہ ہونا چاہیے بلکہ اس اضطراب کو اپنے احباب کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ کیا اس معاملے میں آپ نے کوئی عملی اقدا م کیا؟ اگر اب تک نہیں کیا تو میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت موقع ہے کیو نکہ سر اکبر حیدری نے اپنے گزشتہ خطوں میں امید دلائی ہے یا ایسے اشارات کیے ہیں جن سے امید بندھتی ہے۔ باقی خدا کے فضل وکرم سے خیریت ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام آپ کا مخلص محمد اقبال (۲۸۴)…(۶) ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء مخدومی جناب مولینا! سلام مسنون۔ میں نے سنا ہے کہ لیگ کی طرف سے آ پ کو بھی لکھنو آنے کی دعوت دی گئی ہے براہ عنایت اس سفر کی زحمت ضرور گوارا فرمائیے ۔ اردو کے متعلق اگر لیگ کے کھلے سیشن میںکوئی مناسب قرارداد منظور ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ اس کا اثر بہت اچھا ہو گا۔ تھوڑا عرصہ ہوا کہ میں نے آپ کی خدمت میں ایک رجسٹر ڈ خط لکھا تھا۔ رسید تو اس کی واپس آ گئی تھی لیکن خط کے جواب کا ابھی تک منتظر ہوں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۲۸۵)…(۷) لاہور ۲۳ دسمبر ۱۹۳۷ء مخدومی جناب مولینا! مزاج شریف السلام علیکم! الہ آباد یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری آپ کو مبارک ہو اور حقیقت یہ ہے کہ الہ آباد یونیورسٹی نے آ پ کی قدر شناسی کر کے اہل ہنر کی نگاہوں میں خود کو مستحق مبارک باد کر لیا ہے۔ اس واسطے آپ کو مبارک با د دیتے ہوئے میںالہ آباد یونیورسٹی کو بھی ان کی نکتہ شناسی پر مبارک باد دیتا ہوں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۲۸۶)…(۸) جاوید منزل لاہور ۱۵ مارچ ۳۸ ۱۹ء ڈیر مولوی صاحب! سلام مسنون۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج اچھا ہو گا مجھے معلوم ہو اہے کہ سارٹن کی انگریزی کتاب مقدمہ تاریخ سائنس کا ترجمہ نیازی صاحب آپ کے لیے اردو میں کر رہے ہیں۔ میںنے ترجمہ کا ایک حصہ خود بھی دیکھا ہے نصف سے زیادہ کتاب کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے چونکہ گزشتہ چار پانچ برس سے نیازی صاحب کے حالات اچھے نہیں رہے اس لیے وہ باطمینان ترجمے کا کوئی حصہ آپ کو نہ بھیج سکے۔ ترجمہ اب صاف ہو رہا ہے اور نیازی صاحب مجھے یقین دلایا ہے کہ اپریل سے ماہ بماہ آپ کی خدمت میں پہنچتا رہے گا۔ نیازی صاحب آپ کی مدد کے مستحق ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ انہیں تھوڑا سا وقت اور دیجیے تاکہ وہ اطمینان کے ساتھ ترجمے کی اقساط بھیج سکیں۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ محمد جمیل کے نام (۲۸۷)…(۱) (انگریزی) لاہور ۱۸ فروری ۱۹۲۹ء مائی ڈیر مسٹر جمیل! ابھی ابھی آپ کا نوازش نامہ ملا اور تصویری کارڈموصول ہوئے بہت بہت شکریہ قبول فرمائیے۔ آپ تک یہ اطلاع پہنچانا میرے لیے باعث مسرت ہے کہ میں آزمائش میں ثابت قدم نکلا اور اب باوجود مالی مشکلات کے ایران و ترکی کے سفر کی تیاری میں مصروف ہوں۔ خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے لیے جو میں محض اسلام اورمسلمانوں کی بہتری و بلندی کے لیے اختیار کر رہا ہوں زاد راہ میسر آ جائے گا۔ مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوء کہ میرا سفر میسور مسلم نوجوانوں میں تاریخی تحقیق کے شوق و ذوق کا باعث ہوا۔ سیٹھ محمد ابا نے مجھے سلطان ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ کی تاریخ سے متعلق ایک قلمی مسودہ ہے جو ایک شخص کے پاس ہے جو ہمیں سلطان کے مقبرہ پر ملا تھا ارسال فرمانے کا وعدہ فرمایا تھا۔ مجھے امید ہے وہ اس کوشش میں کامیاب ہوں گے۔ ان تک میرا سلام شوق پہنچا دیجیے اور ان سے کہی کہ اسلام کی خدمت کے لیے ان کے ذوق و جوش نے میرے دل پر ایک ایسا اثر پیدا کیا ہے جو کبھی محو نہ ہو گا۔ میں دست بدعا ہوں کہ انہیں بنگلور کے حاجی سر اسماعیل کی سی عظمت و منزلت حاصل ہو۔ چودھری محمد حسین صاحب بخیریت ہیں اور تصاویر کی موجودہ قسط اور آئندہ اقساط کی ان سے دلچسپی اور باعث مسرت ہوں گی۔ چودھری صاحب کو بھی سلطان مرحوم کی تاریخ سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے اورآج کل وہ سطان پر ایک مختصر آرٹیکل مرتب کر رہے ہیںَ وہ سفر نامہ مدراس بھی لکنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اوراس میں تمام تصاویر جو آپ ارسال فرمائیں کام آئیں گی میں آپ کے دوست عمر ہولسٹ کے لیکچروں کی اشاعت میں کوئی حرج نہیںسمجھتا۔ان میں کوئی خاص نئی بات تو ہے نہیں لیکن میںسمجھتا ہوں کہ شاید عیسائی قارئین پر ان کا کچھ اثر ہو۔ اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ پہلو پر بھی ابھی کام کرنے کی شدید ضرور ت ہے۔ جرمن زبان میں چند کتابیں ہیں جن کا حال ہی میں کلکتہ کے صلاح الدین خدا بخش صاحب نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ لیکن وہ کتابیں بھی کچھ یونہی سی ہیں۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۲۸۸)…(۲) (انگریزی) لاہور ۲۱ مئی ۱۹۲۹ء مائی ڈیرمسٹر جمیل! عید کارڈ ملا شکریہ۔ آپ کی خیریت کی اطلاع باعث مسرت ہوئی۔ میں بھی الحمد اللہ بخیریت ہوں۔ میں ترکی اور مصر کے سفر کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں۔ جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ زرمی طلبہ والا معاملہ ہے اور ہندوستان کے مسلمان امراء اسلام کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت و اہمیت سے قطعاً نا آشنا ہیں۔ تاریخ اسلام میں یہ دور نہایت نازک ہے۔ اگر مناسب ذرائع اور طریق اختیار کیے جائیں تواسلام اقوام عالم کو ابھی تک مسخر کر سکتا ہے۔ مجھ سے جو خدمت ممکن ہوئی بجا لائوں گا مسٹر حامد حسن اور حاجی سیٹھ جمال محمد صاحب کی خدمت میں میرا سلام شوق عرض کر دیجیے۔ مخلص محمد اقبال (۲۸۹)…(۳) لاہور ۲۴ اگست ۱۹۲۹ء مائی ڈیر مسٹر جمیل! آپ کا نوازش نامہ محررہ بیس ماہ حال ابھی ابھی موصول ہو ا ہے۔ جس کے لیے نہایت ممنون ہوں۔ آج کل عدالتیں تعطیلات گرما کے سلسلہ میں بند ہیں اور میں اپنے آخری تین خطبات مرتب کر رہا ہوں جوامید ہے اواخر اکتوبر تک مکمل ہو جائیں گے ابھی تک اسلامی ممالک کی سیاحت کاکوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مالی مشکلات ہنوز سد راہ ہیں۔ سلطان شہید پر میری نظم اس کتاب کا حصہ ہو گی۔ جسے میں اپنی زندگی کا ماحصل بنانا چاہتا ہوں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کے لیے آ پ کو انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے اس کا ایک حصہ کچھ عرصہ ہوا مرتب کیاتھا۔ لیکن پھر ضروری مشاغل کی بناپر اس کو نامکمل چھوڑ دینا پڑا۔ سلطان شہید کے کسی روزنامچہ کا مجھے علم نہیں۔ لیکن اگر واقعی کوئی روزنامچہ موجود ہو تو اس کا ایک نسخہ نہایت شوق سے حاصل کروں گا۔ اگر آپ کے پاس موجود ہو تو کچھ دیر کے لیے مستعار مرحمت فرمائیے۔ میں اس سے ضروری نوٹ لے کر واپس کر دوں گا۔ چوہدری محمد حسین صاحب ہر شام یہاں تشریف لاتے ہیں میرا خیال ہے کہ وہ سردیوں میں سفر نامہ کی تالیف و ترتیب پوری گرمجوشی سے شروع کر سکیں گے۔ مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ جنوبی ہندوستان میںیوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریب سے ایک ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہی ہماری سب سے بڑی اور کارگر قوت ہو سکتی ہے۔ مستقبل قریب میں جو حالات پیدا ہونے والے ہیں ان کے پیش نظر مسلمانان ہند کی تنظیم اشد لازمی ہے۔ عبدالمجید صاحب قرشی۔ بانی تحریک (سیرت) آج تشریف لائے ہوئے تھے۔ میںنے انہیں بتایا کہ کس طرح اس تحریک کو ہندوستان میں خدمت اسلام کے لیے مفید و موثر بنایا جا سکتا ہے۔ ان تفاصیل پر صرف بالمشافہ گفتگو ہی ہو سکتی ہے۔ ا س کا ضبط تحریر میں لے آنا مناسب نظر نہیں آتا۔ آ پ کا مکتوب چودھری صاحب کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ وہ سفر نامہ کے متعلق آپ کو مفصل اطلاع دیں گے امید کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۲۹۰)…(۴) (انگریزی) لاہور ۴ نومبر ۱۹۲۹ء مائی ڈیر مسٹر جمیل! ہلال احمر فنڈ کے لیے دس روپیہ کے عطیہ کا شکر یہ ! میں آپ کا عطیہ سیکرٹری صاحب کے پاس بنک میں جمع کرانے کے لیے بھیج دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ احباب بنگلور جن سے میںنے اس سلسلہ میں اعانت کی درخواست کی ہے فراخ دلی سے چندہ دیں گے۔ میں نے سیٹھ حاجی اسمعیل اور ایڈیٹر الکلام کے علاوہ عبدالغفور صاحب کو بھی تار دیا ہے۔ ازراہ کرم ہمارے اٹک پار کے بھائیوں کی طرف سے جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے وہ ان حضرات کو یاد دلائیے۔ افغانستان کا استقلال و استحکام مسلمانان ہندوستان اور وسطی ایشیاء کے لیے وجہ جمعیت و تقویت ہے بچہ سقہ اپنے گیارہ ساتھیوں سمیت قتل ہو چکا ہے۔ اور نادر خاں بادشاہ بتدریج استحکام حاصل کر رہے ہیں۔ میرے خطبات اب مکمل ہوچکے ہیں اور غالباً اسی ماہ علی گڑھ میں ان کے سنانے کے لیے جائوں گا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی طرف سے بھی اواخر جنوری ۱۹۳۰ء میں اسی سلسلہ میں حاضری کی دعوت موصول ہوئی ہے۔ مدراس کی طرف سے بھی دعوت نامہ موصول ہوا ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ حاضرنہ ہو سکوں گا۔ سلطان شہیدؒ کے روزنامچہ کے لیے جو سلسلہ جنبانی آپ نے شروع کی ہے اس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اگر آپ ایک نسخہ بھجوا سکیں تو میرے لیے یہ ایک گنج گراں بہا ہو گا۔ اس روزنامچہ سے امید ہے کہ سلطان سے متعلق مجوزہ نظم میں مجھے سلطان شہید کے صحیح صحیح حالات پیش کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ ازراہ کرم مطلع فرمائیے کہ وہ مالک کتاب قیمت چاہتے ہیں تو کیا۔ میں بخوشی مناسب قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔ اگر وہ آپ کو کتاب کی نقل لینے دیں تو خوشخط نقل لے لیجیے۔ چودھری صاحب بخیریت ہیں اور ہر شام تشریف لاتے ہیں۔ مخلص محمد اقبال (۲۹۱)…(۵) (انگریزی) لاہور ۔ ۴ مارچ ۱۹۳۰ء مائی ڈیر جمیل! آپ کے خوبصورت عید کارڈ کے لیے جو ابھی ابھی موصول ہوا ہے سراپا سپاس ہوں میری طر ف سے بھی عید مبارک قبول فرمائیے۔ میںدست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان اور دوسرے (اسلامی) ممالک کے نوجوانوں کو اپنے لطف و کرم سے فیض یاب و شا د کام کرے اوراپنی رحمت بے پایاں سے ان کا دامن امید بھر دے۔ میرے خطبات زیر طباعت ہیں اورامید ہے کہ دو ماہ تک شائع ہو جائیں گے۔ میں ناشر سے کہہ دوں گاکہ ان کے شائع ہوتے ہی ایک نسخہ آپ کی خدمت میں بھیج دے لیکن اگر میں بھول جائوں تو آخر اپریل تک مجھے بلا تکلف یاد دلا دیجیے۔ جہاں تک مجھے علم ہے گولڈ زی چرکی کوئی انگریزی تصانیف نہیںہیںَ وہ ایک جرمن (؟) یہودی ہے اور انگریزی نہیںلکھتا۔ اس کی مشہور ترین کتب جرمن زبان میں ہیں اور ان میں کوئی خاص چیز مجھے تو نظر نہیں آتی۔ میں یوروپین مستشرقین کا قائل نہیں ہوں کیونکہ ان کی تصانیف سیاسی پراپیگنڈہ یا تبلیغی مقاصد کی تخلیق ہوتی ہیں۔ افغانستان میں دوبارہ امن قائم ہوتا جاتا ہے۔ ہندوستان میں معدودے چند افراد کو اس ملک کے انقلاب کے اسباب سے واقفیت ہے۔ میری رائے میں امیر امان اللہ کی واپسی کے کوئی امکانات نہیں جہاں تک میں جانتا ہوں کہ افغان اسے نہیں چاہتے۔ اعلیٰ حضرت نادر خاں ملک کو شاہراہ ترقی پر ڈالنے کی بے حد کوشش فرما رہی ہیں وہ افغانوں کے محبوب ہیں اورنیم پنجابی بھی۔ ان کی والدہ لاہورمیں پیدا ہوئیں اور یہیں پرورش پائی۔ مخلص محمد اقبال (۲۹۲)…(۶) (انگریزی) لاہور ۶ دسمبر ۱۹۳۴ء ڈیر مسٹر جمیل! نوازش نامہ موصول ہوا ۔ یاد آوری کے لیے ممنون ہوں۔ گزشتہ گیارہ ماہ سے گلے کی تکلیف میں مبتلا ہوں۔ شاید علاج کے لیے وائنا جانا پڑے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے میرے خطبات شائع کیے تھے۔ ایک خطبہ بہ عنوان کیا مذہب ممکن ہے بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کلکتہ یا بمبئی سے حاصل کر سکتے ہیں یا پھر براہ راست لندن سے ۔ میری اردو نظموں کا ایک مجموعہ جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہو گا۔ ایک دو مہینے ہوئے ایک فارسی نظم مسافر شائع ہوئی تھی۔ یہ میری گزشتہ سال کی سیاحت افغانستان کا تذکرہ ہے۔ مخلص محمد اقبال (۲۹۳) …(۷) (انگریزی) بھوپال ۔ شیش محل ۶ مارچ ۱۹۳۶ء ڈیر مسٹر جمیل! نوازش نامہ موصول ہوا ۔ یاد آوری کے لیے ممنون ہوں۔ میں بدستور بیمار ہوں۔ بھوپال میں برقی علاج ہو رہا ہے۔ بوجہ علالت روہڈز لیکروز فی الحال منسوخ کر دیے گئے ہیں ۔ بال جبریل گزشتہ سال شائع ہوئی اور ضرب کلیم امید ہے کہ آئندہ اپریل میںشائع ہوجائے گی۔ ان دونوں کتابوں کے لیے تاج کمپنی لاہور کو اور اسلام اور احمدیت کے لیے انجمن خدام الدین لاہور کو لکھیے۔ مخلص محمد اقبال بھوپال ٭٭٭ میر حسن الدین کے نام (۲۹۴)…(۱) جناب من ‘السلام علیکم! مجھے کوئی تامل نہیں کہ آپ بلاتکلف اس کا ترجمہ شائع فرما سکتے ہیں۔ مگرمیرے نزدیک اس کا ترجمہ مفید نہ ہو گا۔ یہ کتاب اب سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اس وقت سے بہت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیال میں بہت سا انقلاب آ چکا ہے۔ جرمن زبان میں غزالی طوسی وغیرہ پر علیحدہ کتابیںلکھی گئی ہیں جو میری تحریر کے وقت موجود نہ تھیں۔ میرے خیال میں اس کتاب کا اب تھوڑا سا حصہ باقی ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے آئندہ آپ کو اختیار ہے ۔ میری رائے میں ترجمہ کرنے سے بہتر یہ بات ہے کہ آپ خود ایسی تاریخ لکھیں۔ ۱۱جنوری ۱۹۲۷ئ محمد اقبال ‘ لاہور نوٹ: (اجازت ترجمہ Persian Metaphysicsسے متعلق ) ٭٭٭ عطیہ بیگم کے نام اقبال کے مکاتیب عطیہ بیگم صاحبہ بانیہ ’’اکیڈمی آف اسلام‘‘ کے نام گرامی سے پاکستان اور ہندوستان کا ہر تعلیم یافتہ مسلمان اچھی طرح آشنا ہے ۔ ان کے خاندان کے ذوق علمی کا اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ ۱۹۰۷ء میں جب مسلمانان ہند ابھی انگریزی تعلیم کی علت و حرمت کے مباحث میں الجھے ہوئے تھے عطیہ کو تکمیل تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا گیا اور وہ بھی فلسفہ ایسے اوق اور دماغ سوز مضمون میں۔ ان کی ذہانت قابلیت اوروسعت مطالعہ کا اس سے بہتر کیا ثبوت ہو گا کہ عطیہ بیگم اور اقبال مستند اہل علم اور ماہرین فلسفہ کے علمی مباحث میں شامل ہوتے رہے۔ اور اقبال نے عطیہ بیگم کی رائے کی وقعت کو عملاً تسلیم کیا یہاں تک کہ انہیںاپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ اور تاریخ عالم کا مسودہ پوراپورا سنایا۔ عطیہ بیگم اس زمانے میں اپنا ایک اور روزنامچہ لکھتی جاتی تھیں۔ وہ روزنامچہ ان خطوط کی طرح محفوظ ہے اور اسی کی مدد سے موصوفہ نے اکیڈمی آف اسلام کی طرف سے اقبال کے زیر عنوان ایک مقالہ انگریزی زبان میں شائع کرایا ہے جس میں یہ خطوط شامل ہیں اور اقبال کے قیام یورپ کے حالات و واقعات پورے طورپر قلمبند کر دیے گئے ہیں۔ عطیہ بیگم صاحبہ نے ازراہ دوستی عقید ت مندان و دوستداران اقبال کے وسیع تر حلقہ تک ان کے خطوط کو پہنچانے کے لیے مجھے ان انگریزی خطوط کو مکاتیب اقبال حصہ دوم میں شامل کر لینے کی بخوشی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جس کے لیے میں ان کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان خطوط کا ضروری پس منظر جو ان کے سمجھنے میں معاون ہو گا۔ ان کے انگریزی مقالہ اقبال سے پیش خدمت ہے۔ ملاقا ت اول اقبال اور عطیہ بیگم کی پہلی ملاقات کی کیفیت نہایت پرلطف ہے۔ مس بیک کی طرف سے جن کا دولت کدہ اس زمانے میں ہندوستانی طلبہ کاماویٰ و ملجا تھا۔ عطیہ بیگم کو ایک خاص دعوت دی جاتی ہے۔ کہ یکم اپریل کو تشریف لائیں تاکہ محمد اقبال نامی ایک قابل وہونہار نوجوان سے ان سے ان کی ملاقات کرائی جا سکے جو خاص اسی غرض سے کیمبرج سے لندن آ رہے ہیں۔ چونکہ مس عطیہ فیضی اقبال کے نام تک سے بھی آشنا نہیں یہ دعوت خاص انہیں ایک گونہ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ اقبال آئے ملاقات ہوئی تھوڑی دیر بعد عطیہ بیگم نے رفع حیرت کے لیے اس ملاقات کی علت مخصوص دریافت فرمائی تو اقبال ایک ماہر قاصد کی طرح عطیہ بیگم کے کمالات کو تقریب ملاقات کیلیے اپنی سپر بنایا اور کہا آپ کو اپنے سیاحت نامہ کی بدولت ہندوستان اور انگلستان میں جو شہرت حاصل ہو چکی ہے وہی میرے اس اشتیاق ملاقات کا باعث ہوئی ہے۔ عطیہ بیگم نے تسلیم بجا لاتے ہوئے فرمایا کیمبرج سے لندن تک کے سفر کی زحمت محض اس ذرہ نوازی کے لیے میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ مذاق برطرف میں اس تکلیف فرمائی کی علت غائی جاننے کی آرزو مند ہوں۔ مس عطیہ کی اس صاف گوئی سے اقبال کا اظہار مقصد کا جس کے لیے وہ ایک دلآویز تمہید باندھ رہے تھے موقع میسر آ گیا۔ اور وہ بلا تمہید مزید یوں گویا ہوئے: ’’میں سید اور بیگم علی بلگرامی کی طرف سے آپ کے لیے کیمبرج آنے کی دعوت لے کر حاضر ہوا ہوں اور اس پر مامور ہوں کہ آپ کی قبولیت ان تک پہنچادوں۔ اگر آپ دعوت رد کریں گے تو میرے لیے یہ ایک ایسا داغ ناکامی ہو گا کہ جس کا میں عادی نہیں۔ اگر دعوت کو شرف قبولیت بخشیں گی تو یہ میزبانوں کے لیے باعث افتخار ہو گا‘‘۔ ایسے ادا فہم رمز آشنا اور نکتہ سنج قاصد کے لیے کامرانی بیتاب تھی۔ دعوت قبول کر لی گئی اور ۲۲ اپریل کو مس عطیہ بیگم اقبال اور شیخ عبدالقادر کی معیت میں کیمبرج پہنچیں۔ سید علی بلگرامی کے دولت کدہ پر اقبال نے یہ گراں قدر اور مقدس امانت پیش کرتے ہوئے ایک فارسی شعرپڑھا اور فرمایا کہ مجھے اگر کبھی ناکامی کا اندیشہ ہواہے تو محض مس عطیہ کو یہ دعوت قبول کرانے میں۔ انہوںنے آپ کے پاس خاطرسے دعوت قبول فرما کر میری قاصدی کو داغ ناکامی سے بچا لیا۔ آج کون ہے جسے میزبان قاصد اور مہمان کی عظمت سے انکار ہو؟ مس بیک کے ہاں ابتدائی تعارف کے بعد ہی اپنے مخصوص ذوق مشترک کی بنا پر اقبال اور عطیہ بیگم میں فلسفہ موضوع گفتگو بن گیا۔ مس عطیہ نے فلسفہ قدیم و جدید میں تکمیل حاصل کی تھی اس مختصر صحبت میں نطشے اور افلاطون پر دونوں کے نکتہ ہائے نگاہ میں ایک اختلاف پایاگیا ۔ اقبال نے چند خطوط میں اس اختلاف علمی میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ مس عطیہ نے اپنے دلائل پیش کیے اور تحریری مناظرہ ختم ہو گیا۔ افسوس اس تحریری مناظرہ کی کوئی یادگار باقی نہیں رہی۔ دونوں کی ملاقات اول میں ان کے باہمی ذوق سخن نے حافظ کو بھی موضوع گفتگو بنایا۔ اور دونوں طرف سے حافظ کے اشعار آبدار جو نوک زبان تھے سنائے جانے لگے۔ عطیہ نے دیکھا کہ اقبال حافظ کے بڑے مداح ہیں اقبال نے کہا جب میرا ذوق جوش پر آتا ہے تو حافظ کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے اور میں خود حافظ بن جاتا ہے۔ اقبال نے عطیہ سے بابا فغانی کی تصانیف کے مطالعہ کی سفارش بھی کی کیونکہ وہ ہندوستان میں کمیاب ہیں۔ بعد کی ملاقاتیں ملاقات اول کے بعد وہاں کے دستور کے مطابق مس عطیہ کو اقبا ل لندن میں دعوت طعام دیتے رہے۔ دعوت میں جرمن پروفیسر بھی شامل ہیں اور وہی فلسفیانہ مسائل پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ مس عطیہ اپنی سہیلیوں سے چائے کی دعوت میں اقبال کا تعارف کراتی ہیں تو مختلف علو م و فنون میں ماہر عورتوں کا ایک مجمع موجود ہے۔ پروفیسر آرنلڈ کے ہاں ارباب علم کی ایک محفل منعقد ہوتی ہے تو اس میں بھی دونوں موجود ہیں۔ فلسفہ مرگ و حیات پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی لیکن اقبال خاموش ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ خاص طور پر اقبال کو اظہار خیال کی دعوت دیتے ہیں۔ تو اقبال برجستہ فرماتے ہیں: ’’زندگی موت کی ابتدا ہے اور موت زندگی کا آغاز‘‘۔ پروفیسر آرنلڈ کے ہاں ہی ان کی دوبارہ ملاقات ہوتی ہے اور آرنلڈ اقبال کو ایک نادر عربی قلمی نسخہ کے مطالعہ کے لیے جرمنی بھیجنے کی تجویز کرتے ہیں اور تھوڑی بہت کسر نفسی اور معذرت کے بعد آرنلڈ کے اصرار پر اس خدمت کے لیے آمادگی ظاہر فرماتے ہیں۔ اگلے ہی روز ایک علمی مجلس میں پھر دونوں موجود ہیں۔ وہی علمی فضا وہی دقیق مسائل پر بحث مباحثہ جرمن اور عربی کتب سے اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں۔ گرما گرم بحث جاری ہے۔ اقبال حسب موقع حافظ کے اشعار بھی مثال اور سند کے طورپر پیش کرتے ہیں۔ دوسرے فلاسفہ سے اس کا موازنہ اور اس کے نصب العین کی وضاحت بھی ساتھ ساتھ ہوتی جاتی ہے۔ ہندوستانی طلبہ کا ایک جشن تفریح منعقد ہے۔ ڈاکٹر انصاری بھی شامل ہیں۔ ہر شخص اپنے اپنے کمالات سے حاضرین کو محظوظ کر رہا ہے۔ اقبال نے حاضرین میں سے ہر ایک کا ایک ایسا نقشہ مزاحیہ اشعار میں کھینچا ہے کہ سننے والے مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ اشعار لکھنے کی کوشش کی تو اقبال نے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ ایک باہمی تفریح کی وقتی چیز ہے۔ لائق دوام نہیں۔ بعد کی دو ملاقاتوں میں اقبال نے امتحان کے لیے جومقالہ تیار کیا تھا اوراپنا مسودہ تاریخ عالم جو جرمن امتحان کے لیے لکھا تھا۔ مس عطیہ کو پورا پورا سنایا اور ان کی رائے کی قدر کی ۔ ایک دوسری ملاقات میں ان کے مباحث علمی میں ایک جرمن پروفیسر بھی شامل نظر آتے ہیں۔ ۱۶ جولائی ۱۹۰۷ء کو اقبال اپنی کتاب علم الاقتصاد کا اصل مسودہ اور اپنے اس مقالہ کا مسودہ جس پر انہیں ڈگری ملی مس عطیہ کو پیش کرتے ہیں۔ یہ دونوں مسودات اور اقبال کا ایک جرمن زبان میںلکھا ہوا خط بعد میں عطیہ سے پروفیسر آرنلڈ نے بطو ر یادگار لے لیے۔ اس وقت کہ یہ سطور زیر تحریر ہیںَ عطیہ بیگم پھر لندن میں ہیں۔ اور میں نے انہیں لکھا ہے کہ وہ پاکستانی ہائی کمشنر کی معرفت کوشش کریں کہ اقبال کی یہ یادگاریں پاکستان کو واپس مل جائیں اور انہیں عجائب خانہ میں جگہ ملے۔ جرمنی اقبال جرمنی چلے گئے۔ عطیہ کی تکمیل تعلیم کے لیے بھی پروفیسر آرنلڈ نے انہیں مشورہ دیا کہ ہندوستان سے واپسی سے پہلے جرمنی ضرو ر جائیں اور وہاں کے نظام تعلیم کا مطالعہ کریں اور فلسفہ کے پروفیسروں سے ملیں۔ میں پروفیسر آرنلڈ نے اقبال کو اطلاع دے دی کہ مس عطیہ ان کو تجویز پر چند دنوں کے لیے جرمنی آئیں گی۔ مس عطیہ اپنے بھائی ڈاکٹر فیضی اور چند دوسرے ہندوستان طلبہ کی معیت میں جرمنی پہنچتی ہیں ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں قیام کرتی ہیں۔ اقبال نے ان کے لے جرمنی کے مشہور مقامات کی سیر کا ایک پروگرام تیار کر رکھا ہے۔ اور قابل مطالعہ کتابوں کی ایک فہرست بھی مرتب کر رکھی ہے۔ اقبال جرمنی میں بے حد خوش ہیں۔ انگلستان کی سی دل گرفتگی جرمنی میں نہیں پائی جاتی۔ جرمنی میں گھر کی سی فضا موجود ہے۔ اقبال کی قابل استانیاں سیر و تفریح اور علمی مباحث میں ساتھ ہیں۔ ان کی قابلیت کا یہ حال ہے کہ اقبال کے ایک جرمن پروفیسر کی کم عمر لڑکی اقبال سے سوال پوچھتی ہے اور حسب ضرورت جوابات کی ایسی وضاحت کرتی جاتی ہے کہ اقبا ل اظہار تاسف کے طورپر دانتوںمیں انگلی کاٹنے لگ جاتے ہیں۔ عطیہ اور اس کے ساتھیوں کا جرمنی میں دس دن تک قیام رہا اور پھر وہ لوگ ہندوستان چلے آئے۔ مس عطیہ نے اس مقالہ میں دو دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ ایک اقبال سے متعلق ہے۔ اوردوسرا اقبال نے اپنے والد بزرگوار کے متعلق جو خود مس عطیہ کو سنایا۔ ایک روز جب مس عطیہ جرمنی میں تھیں اور ایک پارٹی میں کسی خاص مقام کو روانہ ہونے والی تھیں۔ اقبال روانگی سے بہت دیر پہلے مراقبہ میں چلے گئے اور دیر تک عالم مافیہا سے غافل بے حس و حرکت آنکھیں بند کیے بت بنے بیٹھے ہیں۔ جرمن استانیاں پریشان کہ اقبال کو کیا ہو گیا ہے اور کیا وہ کبھی ہو ش میں آئے گا۔ جب پارٹی اقبال کے کمرے میں جمع ہوئی اورمس عطیہ بھی پہنچیں تو اقبال کا اس کی ایک استانی کی مددسے عطیہ نے جھنجھوڑا اور اردو میں کہا یہ جرمنی ہے ہندوستان نہیں کیا کر رہے ہو؟ اقبال ایسے اٹھے گویا گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ دوسرا واقعہ جو اقبال کے والد بزرگوار کے صاحب کشف ہونے پر دلالت کرتا ہے اقبل نے مس عطیہ سے خود بیان فرمایا۔ اقبال کی عمر گیارہ برس کی تھی جس ایک رات وہ معمولی آہٹ سن کر بیدار ہوئے تو والدہ کو دیکھا کہ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے جا رہی ہیں۔ اقبال بھی پیچھے پیچھے ہو لیے۔ دیکھا تو ان کے والد کے گرداگرد جو دروازے کے باہر بیٹھے ہیں ایک حلقہ نور بنا ہواہے۔ اقبال نے والد کے پاس جانا چاہا تو والدہ نے منع کر دیا اور اسے سمجھا بجھا کر سونے کے لیے بھیج دیا۔ صبح اٹھتے ہی اقبال والد بزرگوار سے رات کی کیفیت کی تشریح کے طابل ہوئے تو انہیں بتایا گیا کہ رات کو ان کے والد بزرگوار کو مراقبہ میں معلوم ہوا ہے کہ کابل کا ایک قافلہ جو شہر کی طرف آ رہا ہے شہر سے پچیس میل دو ر بڑی مشکل میں ہے۔ اس کارواں میں ایک مریض ہے جس کی حالت خطرناک ہو چکی ہے۔ اوراب قافلہ سفر سے معذور ہے۔ اور یہ کہ اقبال کے والد بزرگوارکو جا کر ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اس کے بعد اقبال کے والد بزرگوار نے غالباًکچھ دوا دارو جمع کیا اور پوری تیزی سے قافلہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اقبال بھی ساتھ تھے۔ ٹانگہ قافلے کے پاس پہننچا تو واقعی اہل قافلہ ایک شخص کی علالت کی وجہ سے بے حد پریشان تھا۔ اقبال کے والد بزرگوار نے پہنچتے ہی پوچھا کہ مریض کہاں ہے۔ اس مریض کے کچھ اعضا معطل ہوگئے تھے۔ اقبال کے والد بزرگواار نے مریض کے جسم پر ایک راکھ سی دوا کے طور پر چھڑکی اور کہا کہ مریض انشاء اللہ اچھا ہو جائے گا لیکن یہ قدرت خدا ہی کو حاصل ہے کہ اس کے وہ اعضا جو معطل ہو چکے ہیں دوبارہ دے دے۔ چوبیس گھنٹے میں مریض کی حالت اچھی ہونی شروع ہو گئی۔ اہل قافلہ نے معقول فیس ادا کرنی چاہی جسے قبول نہ کیا گیا چند دنوں کے بعد یہ قافلہ سیالکوٹ پہنچا تو مریض شفایاب ہو چکا تھا۔ یہ خطوط انگریزی میں لکھے گئے زبان کی خوبی لطافت اور حسن بیان ان خطوط کا خاص حصہ ہے۔ ابتدائی عمر میں اقبال کی یہ انشاء پردازی اہم اور نازک مسائل پر اظہار خیال کا پیرایہ اس کا قادر الکلامی کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ عطاء اللہ مرتب ’’اقبال نامہ‘‘ ۵ مارچ ۱۹۴۹ء ٭٭٭ عطیہ بیگم کے نام (۲۹۵)…(۱) (انگریزی) ٹرینٹی کالج کیمبرج ۲۴ اپریل ۱۹۰۷ء مائی ڈیر مس فیضی! حسب وعدہ اپنی ایک نظم بھیج رہا ہوں ۔ دقت نظر سے مطالعہ کے بعد اپنی تنقید سے ممنون فرمائیے گا۔ خیال تھا کہ اپنی اردو کتاب علم الاقتصاد بھی پیش کرتا۔ افسوس ہے کہ میرے پاس یہاں کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔ ہندوستان سے اس کا حاصل کرنا چنداں مشکل نہیں اسی ہفتہ اس کے لیے لکھوں گا ۔ امید ہے آ پ کا مزاج بخیر ہو گا۔ مخلص محمد اقبال (۲۹۶)…(۲) (انگریزی) لاہور ۱۳ جنوری ۱۹۰۹ء مائی ڈیر مس عطیہ! گرامی نامہ کے لیے جوابھی ابھی موصول ہو کر باعث تسکین ہوا۔ سراپا سپاس ہوں۔ میرا ارادہ تعزیت کے لیے خود بمبئی حاضر ہونے کا تھا۔ لیکن ۲۹ دسمبر کو جب میں کانفرنس کے مباحث میں شریک تھا۔ وطن سے بھائی جان کو تشویش ناک کی علالت کی اطلاع بذریعہ تار ملی۔ میں اسی روز سیالکوٹ چلا گیا اور بقیہ حالات تعطیلات ان کی تیمارداری میں مصروف ہو گئیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ اب بالکل تندرست ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ا ز سر نو زندگی بخش کر مجھے ایک حد درجہ المناک حادثہ سے بال بال بچا لیا ہے۔ ایک عرصہ سے وہ میرے کفیل چلے آ رہے ہیں۔ جنجیرہ آنے کی دعوت کے لیے آپ کا نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کا ممنون احسان ہوں۔ یہ دعوت میرے لیے مسرت و منفعت کی سرمایہ دا ر تھی لیکن آپ جانتی ہیں کہ میں نے حال ہی میں اپنا کاروبار شروع کیا ہے اور اس کے لیے میری یہاں موجودگی اشد ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ مجھے دوسروں کی خاطر آپ کے لطف صحبت سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ میری دلی آرز و تھی کہ اس حادثہ میں آپ اور آپ کی ہمشیرہ صاحبہ کے غم و الم میں شریک اور آپ کا غم غلط کرنے میںکوشاں ہوتا لیکن حالات کچھ ایسے ہیں کہ میں خود اپن جذبات کی پائمالی پر مجبور ہوں۔ نامساعد حالات کے مقابلے میں مجھے سپر ڈال ہی دینی پڑی ہے۔ امید ہے میری یہ دنیا پرستی جو شاعری میں حماقت کے ہم معنی ہے ناگوار خاطر نہ ہو گی۔ ان ناسازگار حالات کی وجہ سے میرے لیے مستقبل میں جنجیرہ آنا مشکل ہو گا۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ستمبر کی تعطیلات میں جب چیف کورٹ بند ہو آپ سے ملاقات کے لیے آ سکوں۔ میرے لیے آ پ کی نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی صحبت دلی مسرت اور دماغی منفعت کی سرمایہ دار ہے۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میں مودبانہ سلام عرض کرنے کے بعد انہیں ایک ایسے دور افتادہ دوست کی خیر سگالی کا یقین دلائیے جسے ناموافق حالات نے ان سے ملاقات کی فوری مسرتوں سے یوں بیدردانہ محروم کر دیا ہے۔ لیکن جسے یہ ناموافق حالات بھی دولت تخیل سے محروم کر دینے پر قادر نہیں۔ مخلص محمد اقبال تحریر مابعد: فلسفہ عجم شائع ہو چکا ہے۔ جلد ایک نسخہ خدمت عالی میں مرسل ہو گا۔ غزلوں کا مجموعہ جلد شائع کرنے کا آرزو مند ہوں۔ یہ مجموعہ ہندوستان میں طبع ہو گا۔ جرمنی میں جلد بندھے گی اور ایک ہندوستانی خاتون کے نا م سے فخر انتساب حاصل کرے گا۔ (۲۹۷)…(۳) (انگریزی) لاہور ۹ اپریل ۱۹۰۹ء مائی ڈیر مس فیضی! عنایت نامہ آج موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں ۔ میں یہ نہیں بتائوں گا کہ میر محمد صاحب کون بزرگ ہیں۔ ا ن کی بیگم صاحبہ کو جانتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس اشارہ سے ان کا سراغ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔ بلاشبہ چند روز قبل میں نے علی گڑھ کے شعبہ فلسفہ کی پروفیسر ی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ تاریخ کی پروفیسری قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ میں قید ملازمت سے آزاد رہنا چاہتا ہوں اور دوسرے میرا ارادہ تو اولین فرصت میں ایک ملک سے ہجرت کرجانے کا ہے۔ وجہ آپ کو معلوم ہے۔ صرف بھائی جان کی طرف سے مجھ پر جو ایک اخلاقی قرض و فرض مسلط ہے۔ وہ زنجیر پا بنا ہوا ہے۔ میری زندگی حددرجہ تلخ ہے (یہاں اقبال نے اپنی خانگی اور ذاتی پریشانی کا ذکر کیا ہے …مرتب) اس مصیبت کا واحد علاج یہی ہے کہ میں اس بدنصیب ملک کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ جائوں یا پھر شراب نوشی کی لت ڈالوں کہ خود کشی کامرحلہ آسان ہو جائے۔ کتابوں کے بوسیدہ و عقیم اوراق میرے لیے سرمایہ مسرت سے عاری ہیں۔ میری روح کا سوز انہیں اور تمام سماجی رسم و رواج کو جلا کر خاک کر دینے کے لیے کافی ہے۔ آ پ کہتی ہیں کہ دینا کو ایک خدائے خیر نے پیدا کیا۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن دنیا کے حقائق تو کسی دوسرے نتیجے ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اگر عقل انسانی ہی کو معیار قرار دیا جائے تو یزداں کی نسبت ایک قادر مطلق اور ابدی اہرمن پر ایمان لانا زیادہ آسان نظر آتاہے۔ ان مزخرفات کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ میں ہمدردی کا طالب نہیں۔ میں تو اپنی روح سے وہ بار ہلکا کرنا چاہتا تھا جس کے نیچے وہ دبی چلی جا رہی ہے۔ چونکہ آپ مجھے بخوبی جانتی ہیں میںنے اپنے جذبات کے اظہار میں بے باک نہیں سمجھا۔ یہ صیغہ راز کی باتیں ہیں براہ کرم کسی سے ان کا ذکر نہ کریں۔ امید ہے اب آپ سمجھ چکی ہوں گی۔ کہ میں نے ملازمت سے کیوں انکار کیا۔ افسوس ہے کہ آپ کے لیے استانی مہیا نہ کر سکا۔ انجمن کے سیکرٹری نے چند روز ہوئے مجھے بتایا تھا کہ آج کل استانی کا مہیا آنا بے حد مشکل ہے۔ میں نے چند روز گزرے ایک پبلک جلسہ میں سماج کے ارتقا میں مذہب کے عنصر کا مفہوم کے عنوان سے ایک تقریر کی تھی میں نے صرف چند ؤضروری نوٹ لکھ لیے تھے۔ معلوم نہیں کسی نے پورے نوٹ قلمبند کیے یا نہیں۔ انجمن میں میرا لیکچر اسلام ایک سیاسی و مذہبی نصب العین کی حیثیت سے کے زیر عنوان انگریزی میں ہو گا۔ اگر یہ لیکچر شائع ہوا تو ضرور مرسل خدمت ہو گا۔ ایڈیٹر آبرور سے کہوں گا کہ آبزرور کا ایک پرچہ آپ کی خدمت میں بھیج دیں۔ عبدالقادر صاحب چیف کورٹ میں پریکٹس کے لیے لاہور تشریف لے آئے ہیں مجھے یہ معلوم کرکے نہایت افسوس ہوا ہے کہ آپ کو باور نہیں آتا کہ میں آپ سے اور نواب صاحب اور یبگم صاحبہ سے جو مجھ پر بے حد شفقت فرماتے ہیں۔ ملاقات کے لیے بمبئی آنے کا آرزو مند ہوں۔ میں تو ضرور ہونا چاہتا تھا لیکن آیایہ ممکن ہو سکے گا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یقین مانیے آپ لوگوں کی صحبت سے زیادہ تسکین مجھے کہیں نہیں میسر ۔ دوتین ہفتے گزرے آپ کی سہیلی Wegenastکا خط آیا۔ وہ نہایت سچی اور نیک دل لڑکی ہے۔ میں نے اسے اور بڈھی نیک دل استانی کو بھی لکھا ہے۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میں میرا سلام عرض کیجیے اور انہیں میری رفاقت کا جو اگرچہ ان کے لیے کسی مصرف کی نہیں لیکن خلوص و ثبات کی سرمایہ دار ہے یقین دلائیے۔ مخلص محمد اقبال (۲۹۸)…(۴) (انگریزی) لاہور ۱۷ ۔ اپریل ۱۹۰۹ء مائی ڈیر مس عطیہ! حرف تسکین ۱؎ کے لیے آپ کا شکریہ۔ ۱؎ گزشتہ خط میں اقبال نے اپنی خانگی اذیت کا ایک دردناک خاکہ پیش کیا تھا جس کے جواب میں عطیہ بیگم (باقی اگلے صفحہ پر دیکھیے) آ پ کے خط سے مجھے بڑی تقویت ہوئی میں بھ آپ سے ملاقات کا متمنی ہوں تاکہ اپنی ساری ہستی کو آپ سے کھول کر بیان کر سکوں۔ آپ فرماتی ہیں کہ آپ مجھ سے بہت سے سوالات کرنا چاہتی ہیںتو پھر کیوں نہیں کرتیں؟ میرے نام لکھے ہوئے آپ کے خطوط کو میں ہمیشہ ایک محفوظ صندوق میں رکھتا ہوں۔ انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ آپ جانتی ہیں کہ میں آپ سے کوئی بات چھپاتا نہیں بلکہ ایسا کرنا گناہ سمجھتا ہوں۔ مجھے تسلیم ہے کہ میرے خطوط طمانیت بخش نہ تھے لیکن ان وجوہ کی بناپر جو آپ نے اپنے گزشتہ عنایت نامہ میں بیان کیں ایسا ہونا ناگزیر تھا۔ مجھے فراموشگاری کا مرتکب نہ گردانیے۔ یہ میری فطرت و عادت کے خلا ف ہے میں تو آپ کے قلم سے اس امر کی توضیح و تشریح کا طالب ہوں۔ گزشتہ رات میں نے خواب میں بہشت گیا لیکن جہنم والوں سے ہو کر گزرنا پڑا۔ میں نے محسوس کیا کہ دوزخ تو سردی کے لحاظ سے ایک فرفستان ہے۔ دوزخ کے ارباب اختیار نے میری حیرت کو بھانپ لیلا اور کہا کہ اس مقام کی فطرت تو حد درجہ بارد ہے۔ لیکن اس سے گرم تر مقام فہم و گمان سیبالاتر ہے کیونکہ اسکے گرمانے کے لیے ہر شخص اپنا ایندھن ساتھ لاتا ہے۔ میں بھی اسی سلسلہ میں امکان بھر کوئلہ جمع کرنے کی فکر میں ہوں لیکن یہاں کوئلہ کی کانوں کی بہت قلت ہے۔ عبدالقادر صاحب سے اکثر چیف کورٹ کے کمرہ وکلا میں ملاقات ہو جاتی ہے۔ ایک عرصے سے آپ کے متعلق ہماری باہمی گفتگو نہیں ہوئی۔ میری کم گوئی ۱؎ اب بڑھتی جا رہی ہے۔ (گزشتہ سے پیوستہ ) نے کلمات تحسین تحریر فرمائے اور ا س اضطراب و مایوسی کو اقبال کی شان کے منافی قرار دیا۔ ۱؎ سخن اے ہمنشین از من چہ خواہی کہ من با خویش دارم گفتگوے غالباً اس کیفیت کا آغاز ہو چکا ہو گا (مرتب)۔ میرا سینہ یاس انگیز اور غم انگیز خیالات کا خزینہ ہے یہ خیالا ت میری روح کی تاریک بانبیوں میں سانپ کی طرح نکلے چلے آتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں ایک سپیرا بن جائوں گا۔ گلیوں میں پھروں گا اور تماش بین لڑکوں کی ایک بھیڑ میرے پیچھے پیچھے ہو گی۔ یہ خیال نہ فرمائیے کہ میں مبتلائے یاس ہو چکا ہوں یقین مانیے میری تیرہ بختی میرے لیے ایک لطف و لذت کی سرمایہ دار ہے۔ اور میں ا ن لوگوں پر ہنستا ہوں جو اپنے آ پ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں۔ دیکھیے کس طرح سامان مسرت بہم کرتا ہوں! چند روز ہوئے مس Wegenastکا خط آیا تھا۔ جب اسے جواب لکھوں گا تو وہ دن یاد کرائوں گا جب آپ جرمنی میں تھیں (افسوس ہے کہ وہ دن اب ہمیشہ کے لیے گزر گئے) وہ اس وقت اپنے ہی شہر میں ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہائیڈل برگ استانی صاحبہ کے پاس ان کے پڑھانے کے کام میں اعانت کے لیے پہنچ چکی ہوں گی۔ اطمینان فرمائیے کہ وہ بہمہ وجوہ خیریت سے ہے۔ بدخطی کے لیے معذرت خواہ ہوں خیالات کا ایک طوفان امڈا چلا آ رہا ہے۔ معلوم نہیں کیا لکھ چکا ہوں۔ ہر لمحہ اپنے خیالات ہمراہ لاتا ہے۔ خیالات کی بے ربطی کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ استانی سے متعلق زنامہ مدارس انجمن نے بھی ایک درخواست بھیجی ہے۔ ان سے خط و کتابت کے بعد آپ کو اطلاع دوں گا لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ اسے لڑکیوں کے کسی مدرسہ میں جنجیرہ پڑھانا ہو گا یا بمبئی۔ بڑے بھائی جان کا تبادلہ ایک مقام پر جو بمبئی سے سولہ میل ہے ہو گیا ہے۔ وہ عنقریب وہاں پہنچ جائیں گے آبزرو راخبار کے دو پرچے ارسال خدمت ہیں امید ہے آپ کی دل چسپی کا باعث ہوں گے۔ نواب صاحب او ربیگم صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کیجیے۔ مخلص محمد اقبال ’’ا س خط کے ابتدائی حصے میں جس خواب کا ذکر کیاگیا ہے اس کی کیفیت اقبال نے سیر فلک کے نام سے غالباً اس خط کے بعد نظم کی تھی۔ چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں‘‘۔ (مرتب) کیا بتائوں تمہیں ارم کیا ہے خاتم آرزوئے دیدہ و گوش شاخ طوبیٰ پر نغمہ ریز طیور بے حجابانہ حور جلوہ فروش ساقیان جمیل جام بدست پینے والوں میں شور نوشانوش دور جنت سے آنکھ نے دیکھا ایک تاریک خانہ سرد و خموش طالع قیس و گیسوئے لیلیٰ اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش خنک ایسا کہ جس سے شرما کر کرہ زمہر یر ہو روپوش میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی حیرت انگیز تھا جواب سروش یہ مقام خنک جہنم ہے نار سے نور سے تہی آغوش شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے جن سے لرزاں ہے مرد عبرت کوش اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں! (۲۹۹)…(۵) (انگریزی) لاہور ۱۷ جولائی ۱۹۰۹ء مائی ڈیر مس عطیہ! گرامی نامہ کے لیے جو ابھی ابھی موصول ہوا ہے سراپا سپاس ہوں آج صبح سے طبیعت غیر معمولی طور پر بشاش ہے لہٰذا گر میرا نیاز نامہ میں ظرافت کی چاشنی محسوس کریں تو معذور سمجھیں۔ میں نے اپنا منصوبہ بدل نہیںدیا۔ میری غیر حاضری سے آپ سے کوئی مخالف نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب نہیں ۔ مجھے بعض وقت دو کشتیوں ایک دخانی جہاز دو ٹانگوں اور دو گھاٹیوں کے خیال سے خوف ضرور لاحق ہوتاہے ۱؎۔ یہ سفر توایک ہفت خواں سے کم نہیں جسے عبور کرلینے پر مجھے رستم کی سی شہرت نصیب ہو سکتی ہے۔ رستم کی ضرورت تو اشد تھی اور مجھے اپنی ضرورت کی نوعیت کا پورا پورا علم نہیںہے۔ میں جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہوں تو عام طور پر اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیتا ہوں۔ جدھر چاہیں بہا لے جائیں۔ مجھ پر آپ کی بے پایاں عنایات کا آپ کو غالباً علم ہی نہیں لیکن مجھے ان کا اس قدر احساس ہے کہ اس کے اظہار سے میری زبان قلم قاصرہے۔ چونکہ ناقابل بیان احساسات کا حیطہ بیان میں لے آنا ممکن نہیں آئیے اس قصہ کو یہیں چھوڑ دیں۔ ۱؎ جنجیرہ پہنچنے کے لیے مصائب و وسائل سفر کا یہ خاکہ عطیہ بیگم نے اپنے خط میں اقبال کی آگاہی کے لیے کھینچا تھا۔ آپ بھی تو فرماتی ہیں کہ آپ قطعی فیصلہ کر چکیہیں اور اس میں کسی تغیر کی گنجائش نہیں۔ وہ شکایت شیریں جنہیں ااپ غلطی سے حقیر کے نام سے تعبیر کرتی ہیںَ ان کی نوعیت سے مجھے بھی تو آگاہ فرمائیے۔ اگر یہ شکایات مجھ سے ہیں تو ازراہ کرم انہیں تشنہ تفصیل نہ رہنے دیجیے۔ بلاشبہ ہرشخص کے لیے زندگی اورموت کے انتظار کا نام ہے۔ میں بھی اگلے جہان کی سیر کاآرزو مند ہوں۔ وہاں پہنچ کر چاہتاہوں کہ اپنے خالق کی زیارت کروں اور اس سے خواہش کروں کہ میری ذہنی کیفیت کی عقلی وضاحت ی جائے اور یہ کوئی آسان کام نہ ہو گا۔ مجھ سے ااپ کو شکایت نہ ہونی چاہیے میں تو خود اپنے لیے بھی ایک معما ہوں۔ برسوں گزرے میں نے کہا تھا: اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے کچھ اس میں تمسخر واللہ نہیں ہے بہت لوگوں نے میرے متعلق اس قسم کے خیالات کا اظہار کیاہے اور سچ تو یہ ہے کہ مجھے تنہائی میں بار بار اپنے آ پ پر ہنسی آئی ہے۔ میں اب ان خیالات دیبانات کا ایک قطعی جواب دینے والا ہوں آپ اسے مخزن کے اوراق میں ملاحظہ فرمائیں گی۔ میںنے نہایت عمدگی سے اپنے متعلق دوسروں کے خیالات کا اظہار تو کر دیا ہے لیکن جو اب ابھی نظم کرنا باقی ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ شمالی ہندوستان میں میری ذات سے عقیدت و احترا م کے فقدان سے آپ کو انتہائی قلق ہوا۔ یقین مانیے مجھے دوسروں کے احترام کی پروا نہیں میں دوسروں کی واہ وا ہ پر زندہ رہنے کا قائل نہیں۔ جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے لو گ ریاکاری سے عقیدت رکھتے ہیں۔ اور اسی کا احترا م کرتے ہیںَ میں ایک بے ریا زندگی بسر کرتا ہوں۔ اور منافقت سے کوسوں دورہوں۔ اگر ریاکاری اور منافقت ہی میرے لیے وجہ حصول احترام و عقیدت ہو سکتی ہے تو خدا کرے میں اس دنیا سے ایسا بے تعلق ہو جائوں کہ میرے لیے ایک آنکھ بھی اشکبار اور ایک بھی زبان نوحہ خواں نہ ہو۔ پبلک کے احترام وعقیدت کا خراج ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو عوا م کے غلط نظریات اخلاق و مذہب کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔ مجھے عوام کے احترام ی خاطر ان کے نظریات کو قبول کرکے اپنے آپ کو گرانا اور روح انسانی کی فطری آزادی کو دبانا نہیں آتا۔ گوئٹے اور شیلے کو اپنے معاصرین کا احترام حاصل نہ ہو گا۔ میں اگرچہ فن شعر میں ان کی ہمسری کا دعوے دار نہیں ہو سکتا۔ تاہم مجھے فخر ہے کہ کم از کم اس اعتبار سے ان کی ہمنشینی کا حقدار ضرور ہوں۔ کیا میں نے کبھی آپ کی رہنمائی کی ہے؟ آپ کو تو کبھی میری طرف سے علمی رہنمائی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اتنا تو مجھے ضرور یاد پڑتا ہے کہ میں نے افلاطون سے آپ کو روشناس کرایا اور بس یہ مطالعہ اس قدر کم اور سرسری تھا کہ اس سلسلہ میں آپ کی علمی رہنماء کے شرف کا اپنے کو حقدار نہیں سمجھتا۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں آپ کی خواہشات کا احترام نہیں کرتا۔ یہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ کیونکہ آپ کی خواہشات کا احترا م میں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے اور آپ کی خوشنودی کے لیے امکان بھر کوشاں رہا ہوں۔ البتہ جب کبھی کوئی امر ہی میرے حیطہ اقتدارسے باہر ہوا تو میں مجبور رہا۔ میری فطرت کا تقاضا میری رہنمائی ایک دوسری طرف ہی کر رہا ہے۔ وگزنہ آپ زیادہ محتاط ہوتے۔ افسوس ہے کہ میں آپ کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہا ہوں ازراہ کرم ذرا وضاحت سے فرمائیے مجھے کس اعتبار سے زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ میں ہمہ تن آپ کی خدمت کے لیے آمادہ ہوں۔ میں تو اپنی فطرت کے تقاضے سے پرستاری پر مجبور ہوں میری پرستش کوئی کیا کرے گا۔ لیکن وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کیے ہوئے ہیں عوام پر ظاہر کروں تو پھر مجھے یقین واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہو گی دنیا میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوئوں کا خراج عقیدت ۱؎ پیش کرے گی۔ لفٹننٹ گورنر لاہور گورنمنٹ کالج کی پروفیسری کے لیے سکرٹری آف سٹیٹ سے میری سفارش کرنے پر آمادہ تھے۔ لیکن میں نے میلان طبع کے خلاف اس اسامی کی امیدواری سے دستبرداری کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالات مقتضی ہیں کہ میں ہر مسئلہ میں مالی نقطہ نگاہ کو ملحوظ رکھوں۔ اگرچہ اسی نقطہ نگاہ کے خلاف میں نے چند سال قبل بغاوت برپا کر رکھی تھی۔ اللہ کے بھروسہ پر میں نے وکالت ہی کو اپنا پیشہ اختیار کیے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیا آپ مجھے اس نظم میں جو میں نے میونک سے آپ کو بھیجی تھی نقل ارسال فرما سکتی ہیں؟ میرے پاس کوئی نقل نہیں اورمیں اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میں سلام نیاز۔ مخلص محمد اقبال ۱؎ پس از من شعر من خوانند و دریا بند ومی گویند جہانے را دگرگوں کرد یک مردے خود آگاہے (مرتب) نظم محولہ بالا حسب ذیل ہے: جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے خود تڑپتا تھا چمن والوں کو تڑپاتا تھا میں تجھ کو جب رنگین نوا پاتا تھا شرماتاتھا میں میرے پہلو میں دل مضطرنہ تھا سیماب تھا ارتکاب جرم الفت کے لیے بیتاب تھا نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی از نفس در سینہ خوں گشتہ نشتر داشتم زیر خاموشی نہاں غوغائے محشر داشتم اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں عشق کے کانٹے سے لالے بن گئے چھالے مرے کھیلتے ہیں بجلیوں کے ساتھ اب نالے مرے غازہ الفت سے یہ خاک سیاہ آئینہ ہے اور آئینے میں عکس ہمدم دیرینہ ہے قید میں آیا تو حاصل مجھ کو آزادی ہوئی دل کے لٹ جانے سے میرے گھر کی آبادی ہوئی ضو سے اس خورشید کی اختر مرا تابندہ ہے چاندنی جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے یک نظر کر دی و آداب فنا آموختی اے خنک روزیکہ خاشاک مرا واسوختی میونک(جرمنی) دور افتادہ ! اقبال (۳۰۰)…(۶) (انگریزی) لاہور ۳۰ مارچ ۱۹۱۰ء مائی ڈیر مس عطیہ! ملامت نامہ کے لیے جس سے میں بے حد لذت اندوز ہوا سراپا سپاس ہوں۔ ایک دوست ک ملامت سے زیادہ پرلطف کسی دوسری چیز میں نہیں۔ ہز ہائی نس کا دعوت نامہ حیدر آبادہی میں موصول ہوا تھا۔ میں نے فوراً بعد آپ کو لکھاتھا کہ جنجیرہ آنا میرے لیے ممکن نہیں کل واپس پر آپ کا لطف انگیز ملامت نامہ موصول ہوا۔ میں نے تو ہز ہائی نس کو تار دے دیا تھا کہ میں کالج کی مصروفیت کی وجہ سے جو بارہا میرے لیے ایک بار ثابت ہوئی ہے شرف حاضری سے محروم رہ گیا ہوں۔ میں اگر حیدرآباد میں چندے اور ٹھہر جاتا تو مجھے یقین واثق ہے کہ اعلیٰ حضرت حضور نظام مجھے شرف بازیابی بخشتے۔ میں حیدر آباد میں جملہ اکابر سے ملااور اکثر نے مجھے اپنے ہاں دعوت پر بلایا۔ میرا سفر حیدر آباد بلا مقصد نہ تھا۔ عند الملاقات عرض کروں گا۔ خاندان حیدری سے ملاقات ہی مقصود سفرنہ تھا۔ میں ان سے اس سفر میں ہی ملا ہوں قبل ازیں ان سے مجھے نیاز حاصل نہ تھا۔ بیگم حیدری کا کرم ہے کہ انہوںنے ان عنایت آمیز الفاظ میں میرا ذکر کیا ہے۔ مجھے ان کا اہل عرب کا سا جذبہ بے حد پسند آیا اور ان کے ہاں مجھے گھر کی سی آسائش میسر آئی۔ میں ان تمام امور میں جو ان کی توجہ یا ہمدردی کا مرکز ہیں ان کے فہم و فراست کا مداح ہوں۔ حیدری اور بیگم حیدری ہی کے اثر سے مجھے حیدر آباد کی معاشرت کے بعض بہترین نمائندوں کا موقع میسر آیا۔ حیدری صاحب ایک پابند وضؑ اور وسیع المشرب بزرگ ہیں۔ ان سے ملاقات سے قبل میری رائے تھی کہ وہ اعداد و شمار سے کام رکھنے والے ایک خشک طبع انسان ہوں گے۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ قدرت نے انہیں درد دل اور فکر بلند کی نعمتوںسے مالا مال کر رکھا ہے۔ ان دونوں کے لیے میرے دل میں بے حد احترام ہے۔ ایک حقیقی گھر کا نقشہ ایک تو میں نے آرنلڈ صاحب کے ہاں دیکھاتھا اور دوسرا ان کے ہاں۔ بیگم حیدری اپنے وجدان کی بدولت ہم مردوں کی نسبت جن کا سرمایہ بے جان استدلال ہے۔ بہتر معاملہ فہم ہیں۔ مجھ پرایک کرم فرمائیے اور نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میںمیری طرف سے معذرت پیش کیجیے۔ حیران ہوں کہ ہز ہائی نس کے تار کے جواب میں جو خظ میں نے انہیں لکھا کیا ہو گا۔ شومی قسمت سے میں اپنے تعلق خاطر کے اظہار و اعلان کا عادی نہیں لیکن اسی عدم اعلان و اظہار کی بدولت میرے تعلق خاطر میں ایک گہرائی و گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ مگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ میں ایک بے حس انسان ہوں ازراہ کرم نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کو یقین دلائیے کہ میں بندہ فرمان ہوں۔ جب کبھی حالات نے مساعدت کی میں انتہائی مسرت کے ساتھ جنجیرہ میں حاضر ہوں گا۔ میری دس روز کی رخصت اتفاقیہ ۲۸ کو ختم ہوئی۔ میں ۲۳ کو حیدر آباد لاہور کے لیے روانہ ہوا۔ چار دن کا سفر ہے۔ واپسی پر مجھے حضرت حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر بھی حاضر ہونا تھا۔ حضرت عالمگیر پر ایک ایسی وجد انگیز نظم لکھوں گا کہ اردو والوں نے آج تک نہ دیکھی ہو گی۔ ۲۹ صبح کو لاہور پہنچا۔ سیدھا کالج گیا اور وہاں سے کچہری۔ آ پ خود ہی اندازہ فرمائیے کہ اندریں حالات میرے لیے جنجیرہ آنا کا سفر کیونکر ممکن تھا۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ سے ملاقات کی مسرت سے اسی بنا پر مجھے محروم ہونا پڑا۔ امید ہے یہ تصریح آپ کے لیے کافی ہو گی۔ اور آ پ میری طرف سے وکیل کی خدمات انجام دیں گی۔ اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کا مجھے خود اعتراف ہے۔ لیکن فراموشگاری اور ریاکاری کا کبھی مرتکب نہیں ہوا ہوں۔ لیکن شاید جیسا کہ آپ خیال کرتی ہوں گی میں تو خود انے لیے ایک معما ہوں لیکن یہ راز سب پر عیاں ہے۔ وہ راز ہوں کہ زمانے پہ آشکار ہوں میں میرے طو ر طریقے انوکھے ہو سکتے ہیں لیکن اس دنیا ایسوں کی کیا کمی ہے جن کے اطوار مجھ سے بھی حیرت انگیز ہیں۔ موقع ہی انسان کی فطرت کا حقیقی معیار ہے۔ اگر کبھی وق آیا تو آپ کو دکھا دوں گا کہ مجھے اپنے احباب سے کس قدر تعلق خاطر ہے اور ان کے لیے کس قدر دل سوز ی مجھ میں پائی جاتی ہے۔ زندگی کسے پیاری نہیں۔ لیکن آپ انے میں اس قدر قوت ضرور پاتا ہوں کہ جب ضرورت پڑے اسے دوسروں پر نثا کر دوں۔ فراموشگاری و ریاکاری کو اشارۃً و کنایتہ بھی مجھ سے منسوب نہ کیجیے۔ کہ اس سے میری روح کو اذیت ہوتی ہے۔ میری فطرت سے متعلق آپ کی ناواقفیت پر لرز جاتا ہوں۔ کاش میں اپنا باطن آ پ پر عیاں کر سکتا تاکہ میری روح پر فراموشگاری کا جو حاب آپ کے نظر آتا ہے دور ہو جاتا۔ اس ناگزیر فروگزاشت کے لیے میری طرف سے ان کی خدمت میں معذرت پیش کیجیے اور مجھے مطلع کیجیے کہ میری تصریح ان کے ندیک قابل قبول ثابت ہوتی ہے۔ یا نہیں۔ ہمیشہ آپ کا اقبال (۳۰۱)…(۷) (انگریزی) لاہور ۷ اپریل ۱۹۱۰ء مائی ڈیر مس عطیہ! کرم نامہ کے لیے جو آج صبح موصول ہوا۔ سراپا سپاس ہوں۔ معلو م نہیں کہ آپ کیوں بھول جاتی ہیں کہ میں نے حیدر آباد سے آپ کو دو خط لکھے۔ ایک آپ کی طرف اطلاع کے موصول ہونے سے بیشتر اور دوسرا آپ کا تار ملنے کے بعد۔ اپنے دوسرے خط میں میں نے تار ملنے کی اطلاع دی اور جنجیرہ نہ آ سکنے کی مفصل وجہ بیان کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شومی قسمت سے میرا دوسرا خط شرف ملاحظہ سے محروم رہا۔ ورنہ میں یوں ہدس ملامت بے دریغ نہ بنتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نیاز نامہ کیونکر آپ تک پہنچا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ میری نیت اور میرے عمل سے متعلق ایک افسوسناک غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور اس کا تدارک بلا ملاقات ممکن نہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے تعلقات کے پیش نظر اب ہماری ملاقات اشد ابد ہو چکی ہے۔ لہٰذا میں اس کے لیے ضرور وقت نکالوں گا۔ اگرچہ آ پ کا خیال ہے کہ اس گزارش احوال واقعی کے لیے کوئی موقع مسیر نہ آ سکے گا۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے اخلاص و صداقت کا آ پ کو قائل کر سکوںگا۔ مجھے آپ کی فطری نیکی پر ایسا ہی اعتماد ہے۔ فی الحال آپ سے صرف یہی درخواست کروں گا کہ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میں میرا جواب پیش کر دیں۔ میری دانست میں وہ آپ کی نسبت عفو و درگزر کی لذت سے زیادہ آشنا ہیں۔ ہمارے درمیان جوغلط فہمی ہوئی ہے اس کے متعدد اسباب ہیں اور یہی اسباب غیر شعوری طورپر آپ کے دل و دماغ پر مسلط ہیں۔ ان اسباب نے میری شومی قسمت سے آپ کو مجھ سے اس حد تک بدظن کر دیا ہے کہ اب آپ مجھ سے دروغ بافی کی تہمت طرازی تک اتر آئی ہیں۔ اور میرے تعلقات کو خلوص و صداقت سے معرا سمجھتی ہیں۔ میری سیاحت حیدر آباد سے متعلق کوئی نتائج اخذ نہ کیے مثلاً یہ کہ اعلیٰ حضرت حضور نظام میری قدر افزائی فرما رہے ہیں۔ اس معاملہ سے خود میری تحریر کا انتظار فرمائیے۔ میںنے اتنا سفر اس زمانے میں جب کہ میرے پاس قطعاً گنجائش نہتھی صرف ملاقاتوں کے لیے ہی اختیار نہیں کیا تھا۔ حیدر آباد کی سوسائٹی کے متعلق اتنا ہی کہوں گاکہ مجھے آپ کی رائے سے اتفاق ہے۔ آج صبح تک آپ کا تازہ عنایت نامہ موصول ہونے سے قبل تو میری رائے تھی کہ حیدر آباد سے واپسی پر آ پ کا جو مکرمت نامہ موصول ہوا تھا اس میں خیر اندیشی کی ایک بین السطور جھلک ضرور موجود تھی۔ لیکن اس تازہ گرامی نامہ نے تو مجھے پریشان کر دیا ہے ۔ ایسا محسوس کرتا ہوں کہ آپ فی الحقیقت مجھ سے ناراض ہو گئی ہیں۔ میں نہایت پریشان خاطر ہوں اور جب تک اپنی بریت پیش نہ کروں۔ یہی کیفیت قائم رہے گی۔ یقین مانیے کہ مجھ میں یا میری نیاز مندی میں قطعاً کوئی تغیر واقعہ نہیں ہوا۔ میری پیش گوئی ہے کہ ایک دن خود آپ کو اس کا اعتراف کرنا ہی پڑے گا۔ میں نے کب اعلیٰ حضرت حضور نظام کی طرف سے اپنی قدر افزائی کو اپنے یے سرمایہ افتخار سمجھا ہے۔ مجھے تو ان باتوں کی مطلق پروا نہیں۔ اگرچہ لوگ بدقسمتی سے مجھے ایک شاعر کی حیثیت سے ہی جانتے ہیں۔ لیکن میں شاعر کی حیثیت سے شہر ت کا آرزو مند نہیں ہوں۔ ابھی چند روز ہوئے مجھے ایک اطالوی شہزادی کا خط آیا تھا جس میں اس نے میری چند نظمیں مع انگریزی ترجمہ کے طلب کی تھیں لیکن شاعری کے لیے میرے دل میں کوئی ولولہ موجود نہیں اور اس کی ذ مہ دار ی آپ پر عائد ہوتی ہے۔ جب مجھے ممالک غیر سے ایسے شائستہ اشخاص کی قدر دانی میسر آئے تو مجھے ایک ہندوستانی والی ریاست کی قدردانی کی کیا پروا ہو سکتی ہے! مائی ڈیر مس عطیہ! میرے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجیے اورن ہی مجھ پر ایسا عتاب فرمائیے جو آپ کے خط سے ٹپک رہا ہے۔ آپ نے تمام حقیقت تو سنی نہیں آپ کو میری ان مشکلات کا جو میری روش کا باعث ہوئی ہیں کچھ اندازہ ہی نہیں میرے رویہ کی مفصل تشریح ایک طویل خط کی طالب ہے۔ جس کی طوالت ناگواری کی حدتک پہنچ جائے گی۔ اور شاید یہ داستان طویل متعدد خطوط کی طالب ہو اور ایک نیا زمانہ اس کامتحمل نہ ہو سکے۔ مزید برآں ا س حقیقت سے کیسے انکار ہو سکتا ہے کہ کاغذ کے نقوش بے جان سے الفاظ کی آواز زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ کاغذ جذبات انسانی کی حرارت کا کب متحمل ہو سکتا ہے۔ اور کئی امور ایسے بھی تو ہوتے ہیںکہ جن کا ضبط تحریر میں لانا مناسب نہیںہوتا۔ میری نیت سے متعلق فیصلہ دینے میں عجلت سے کام نہ لیجیے۔ آ پ مجھے دنیائے عمل میں قدم رکھنے اور بک جانے کا الزام دیتی ہیں۔ شاید اس الزام میں حقیققت کا ایک شمہ ضرور موجود ہے۔ لیکن جب آپ پر تمام حالات منکشف ہوں گے تو آپ کو میرے طرز عمل کے لیے وجہ جواز بھی نظر آ جائے گی۔ دوسرے اعتبارات سے میں اب تک ایک خواب دیکھنے والا ہی ہوں اوربقول آپ کے ایک دوست کے جیسا کہ انہوںنے اردو ادب پر اپنے ایک مقالہ کے متعلق آ پ کو سند سمجھا اور یہ کیوں نہ کہوں کہ آپ نے ایسی سند ہونے سے انکار کر دیا۔ تو اس سند کے اختیارات تسلیم کرنے کو تیار ہوں اور ہمیشہ تیار رہوں گا۔ بعض لوگ ادھر بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہو کر آپ کے متعلق بھی مجھے بھی ایسی ہی سند سمجھتے ہیں۔ لیکن میری مایوسی کا اندازہ کیجیے جب مجھے دوسروں کی زبانی معلوم ہوا کہ آپ لاہور کے قدوم میمنت لزوم سے مفتخر ہونے والا ہی نہیں بلکہ ہو چکا ہے۔ آپ نے تو دو حرفی اطلاع تک دریغ فرمایا۔ آ پ نے تو دو حرفی اطلاع تک سے دریغ فرمایا۔ آپ سے اتفاقیہ ملاقات ہو گئی اور اس سے میرے قلق میں مزید اضافہ ہوا۔ میری رائے میں ان امور پر گفتگو ملاقات پر ہی اٹھا رکھنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں قلم روکتا ہوں۔ بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ البتہ ضرور نہیں کہ وہ باتیں اسی نوعیت کی ہوں۔ کچھ دیر پہلے مجھے آپ کا اعتماد حاصل تھا اور آپ کو میرا پاس خاطر بھی ملحوظ تھا۔ انہی تعلقات کے پیش نظر کم ا ز کم میری ایک درخواست قبو ل تو فمرائیے۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میں میری طرف سے معذرت عرض کر دیجیے کہ میری مجبوریوں کے پیش نظر میری فروگزاشت سے درگزر فرما دیں۔ ان کی خدمت میں حاضر ہونا خود میرے لیے صد ہزار مسرت کا سرمایہ دار ہوتا ہے۔ زیادہ نہیںکہوں گا کہ مبادا میرے خلوص پر شبہہ کیا جائے یہ میری بدقسمتی ہے کہ آپ کے خطوط آپ سے متعلق میرے رویہ کے غلط اندازے کی روشنی میں مطالعہ کرتی ہیں۔ اور یہ کوشش کرتی ہیں کہ آپ کا خیال جس غلط راستہ پر پڑ چکا ہے۔ اسے اس سے ہٹا لیںَ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو ازراہ کرم خلوص و دیانت کی خاطر اور ا س جنس میں میری تہی مائگی مسلم اور آپ کا دامن مالا مال ہے اس وقت تک انتظار کیجیے کہ حقیقت آپ پر منکشف ہو جائے مقتضائے انصاف یہی ہے کہ آپ منصف ضرو ر ہیں خواہ بعض اوقات ضد ہی کیوں نہ کر بیٹھیں اور آمادہ جفا ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ ان دنوں کی یاد میں جو بیت چکے ہیں لیکن جن کی یاد میرے قلب میں تازہ ہے۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ تک میرا پیغام پہنچا دیجیے۔ اور ان سے عرض کیجیے کہ فروگزاشت کو لاپروائی پر محمول نہ فرماویں ار نہ ہی یہ خیال فرماویں کہ میرے دل میں ان سے بہت مقام کسی دوسرے کو میسر آ گیا ہے۔ لاہور واپسی پر آپ کا عنایت نامہ ملا تو میں نے نواب صاحب کو تار دے دیا تھا۔ کہ کالج سے متعلق مصروفیات کی بنا پر جنجیرہ حاضر نہ ہو سکا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے تار کو شرف ملاحظہ حاصل ہوا یا اس کاو بھی وہی حشر ہوا جو میرے حیدر آباد والے خط کا ہوا اور جس کی عدم رسیدگی شدید غلط فہمی کا موجب ہوئی۔ نظم کے نقل کے لیے جو آپ نے ارسال فرمائی ممنون ہوں۔ اس کی اشد ضرورت تھی۔ میں نے ہر چند حافظہ پر زور دیا یہ اشعار یاد نہیں آئے۔ نظموں کی اشاعت کے لیے مختلف حصص ملک سے تقاضے آ رہے ہیںایک صاحب نے جنہیں آپ سے ملاقات حاصل ہے اپنی خدمات پیش کی ہیںَ وہ خود مقدمہ لکھیں گے۔ ہندوستان کے بہترین مطبع میں اسے زیور طبع سے آراستہ کریں گے اور جرمنی میں اس کی جلد بندھوائیں گے۔ لیکن مجھ میں اب شاعری کے لیے کوئی ولولہ باقی نہیں رہا۔ ایسا محسوس کرتا ہوں کسی نے میری شاعری کا گلا گھونٹ دیا ہے اور میں محروم تخیل کر دیا گیا ہوں۔ شاید حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ پر جن کے مرقد منور کی میں نے حال ہی میں زیارت کی سعادت حاصل کی ہے میری نظم ہو گی جو میرے آخری اشعار ہوں گے۔ اس نظم کا لکھنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اگر مکمل ہو گئی تو کافی عرصہ تک زندہ رہے گی۔ آپ کا باصرہ خراشی خاصی ہو چکی ہے۔ اب مجھے خط ختم کرنا ہے۔ ساڑے بارہ بج چکے ہیں دن کے کام کے بعد تھک کر چور ہو چکا ہوں اور اب ایک گونہ اندوہ کے ساتھ لیٹ جاتا ہوں۔ ملامت کے لیے مکرر شکریہ۔ مخلص محمد اقبال (۳۰۲)…(۸) (انگریزی) لاہور ۷ جولائی ۱۹۱۱ء مائی ڈیر مس عطیہ! افسوس ہے کہ آپ کے عنایت نامہ کا جو کچھ گزرا ہو موصول ہوا تھا۔ تاخیر سے جواب دے رہاہوں۔ وجہ یہ ہوئی کہ ان دنوں کافی پریشانی میں مبتلا رہا۔ بدنصیبی سایہ کی طرح میرے ساتھ لگی رہی ہے اوراس کی اس درجہ وفاداری کی وجہ سے مجھے اس سے انس ہوتا جا رہا ہے۔ تفصیل سے پھر کسی وقت لکھوں گا۔ نظموں کا مجموعہ بخوشی ارسال خدمت کروں گا۔ ایک دوست نے میری نظموں کی ایک بیاض ارسال فرمائی ہے۔ کاتب انہیں خوش خط لکھ رہا ہے۔ جب کتابت ختم ہو چکے گی تو نظر ثانی کروں گا۔ جو نظمیں اشاعت کے قابل سمجھی جائیں گی۔ انہیں دوبارہ لکھوں گا اور ایک نقل آپ کی خدمت میں بھی پیش کروں گا۔ ممنونیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آپ کی مسرت ہی میرا حوصلہ ہے۔ بلکہ اس تحسین و ستائش کے لیے جس کامیں مستحق نہیںہوں میں خود آپ کا احسان مند ہوں۔ لیکن یہ تو ارشاد ہو کہ یہ مجموعہ جو ایک دل خونچکاں کے نواہائے غم کے سوا کچھ نہیںآپ کے کس مصرف کا ہے۔ ان میں زندہ دلی نام کو بھی نہیں لہٰذا میں نے انتساب میں کہا ہے: خندہ ہے بہر طلسم غنچہ تمہید شکست تو تبسم سے مری کلیوں کا نامحرم سمجھ درد کے پانی سے ہے سرسبزی کشت سخن فطرت شاعر کے آئینے میں جوہر غم سمجھ اشاعت کے لیے انتخاب میرے لیے ایک مشکل مرحلہ ہے۔ گزشتہ پانچ چھ سال سے میری نظمیں زیادہ تر پرائیویٹ نوعیت کی حامل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پبلک کو انہیں پڑھنے کا حق نہیں۔ بعض تو میں نے تلف کر ڈالی ہیں تاکہ کوئی انہیں چرا کر شائع نہ کر دے ۔بہرحال دیکھوں گا کہ اس سللسہ میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ قبلہ والد صاحب نے فرمائش کی ہے کہ حضرت بو علی قلندرؒ کی مثنوی کے طرز پر ایک فارسی مثنوی لکھوں۔ اس راہ کی مشکلات کے باوجود میں نے کام شروع کر دیا ہے۔ تمہیدی بندملاحظہ فرمائیے: نالہ را انداز نو ایجاد کن بزم را از ہائو ہو آباد کن آتش استی بزم عالم بر فروز دیگراں راہم ازیں آتش بسوز سینہ را سر منزل صد نالہ ساز اشک خونیں را جگر پرکالہ ساز پشت پا بر شورش دنیا بزن موجہ بیرون ایں دریا بزن بقیہ اشعار حافظہ سے اتر گئے ہیںَ امید ہے کہ علالت سے واپسی پر یاد آ جائیں گے۔ دس بج چکے ہیں۔ مجھے جانا ہو گا۔ ایک تازہ غزل جو ادیب میں شائع ہوئی ہے ملفوف ہے۔ میں نے اپنے دوست سردار امرائو سنگھ صاحب کوجنہیں امید ہے آ پ جانتی ہوں گی لکھا ہے کہ مجھے ان اشعار کا انگریزی ترجمہ بھیجیں جو میں نے شہزادی دلیپ سنگھ کی ایک سہیلی مس گوٹسمن کے لیے اس وقت لکھے تھے جب انہوں نے شالا مار باغ سے ایک خوبصورت پھول توڑ کر مجھے پیش کیا تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اصل میرے پاس محفوظ نہیں لیکن آپ کے لیی تلاش ضرور کروں گا۔ نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کی خدمت میں نیاز۔ مخلص محمد اقبال (۳۰۳)…(۹) (انگریزی) لاہور ۱۴ دسمبر ۱۹۱۱ء ڈیر مس فیضی! ابھی ابھی آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں مسز نائیڈو کو اگر آپ کی رائے میں وہ اردو نظم سمجھنے سے قاصر ہیں تو میری نظم نہ دکھائیے۔ یہ میری تازہ غیر مطبوعہ نظم ہے چند مزید اشعار جو پرسوں صبح چار بجے موزوں ہو گئے تھے۔ درج کر دیے گئے ہیںَ اس بحر میں پہلے میں نے کبھی نہیں لکھا۔ اس نظم میں موسیقیت کی فراوانی ہے۔ کاش میں خود آپ کو اور بیگم صاحبہ کو ترنم سے سنا سکتا! مخلص محمد اقبال نوائے غم زندگانی ہے مری مثل رباب خاموش جس کی ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبریز آغوش بربط کون ومکاں جس کی خموشی پہ نثار جس کے ہر تار میں ہیں سینکڑوں نغموں کے مزار محشرستان نوا کا ہے امیں جس کا سکوت اور منت کش ہنگامہ نہیں جس کا سکوت آہ ! امید محبت کی بر آئی نہ کبھی چوٹ اس ساز نے مضراب کی کھائی نہ کبھی مگر آتی ہے نسیم چمن طور کبھی سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھی چھیڑ آہستی سے دیتی ہے مرا تار حیات جس سے ہوتی ہے رہا روح گرفتار حیات نغمہ یاس کی دھیمی سی صدا اٹھتی ہے اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتی ہے جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے مسز نائیڈو صاحبہ کی خدمت میں سلام کہیے اور ان کو یہ اشعار دکھائیے۔ میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ مس عطیہ آپ کو دکھائیں گی۔ اقبال ہندوئوں نے بنگال کو دو حصوں(ہندو بنگال اور مسلم بنگال) میں تقسیم کو حکومت کی طرف سے بنگالی قومیت کے قلب پر ایک ضرب کاری سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن حکومت نے دہلی کو دارالسلطنت قرار دے کر اپنے فیصلے کی خود ہی پوری ہوشیاری سے تنسیخ بھی کر دی ہے۔ بنگالی سمجھتا ہے کہ جیت اس کی رہی لیکن اسے نظرنہیں آتا کہ اس کی اہمیت گھٹا کر صفر کر دی گئی ہے۔ اس مسئلہ سے متعلق دو شعر ہو گئے ہیں: مندمل زخم دل بنگال آخر ہو گیا وہ جو تھی پہلے تمیز کافر و مومن ہو گئی تاج شاہی آج کلکتے سے دہلی آ گیا مل گئی بابو کو جوتی اورپگڑی چھن گئی محمد اقبال نوٹ : اس خط میں نظم دعا بھی ملفوف تھی جو اضافہ کے ساتھ بانگ درا میں شامل کی گئی۔ البتہ یہ شعر بانگ درا میں شامل نہیں: آتش منشی جس کی کانٹوں کو جلا ڈالے اس بادیہ پیما کو وہ آبلہ پا دے (۳۰۴)…(۱۰) (انگریزی) لاہور ۲۹ مئی ۱۹۳۳ء مائی ڈیر عطیہ بیگم! آپ کے میموریل سے متعلق مجھے ابھی تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ مسئلہ فلسطین کے متعلق آپ کی معلومات درست نہیں۔ میں نے مفتی فلسطین کو مشورہ دیا کہ وہ کم از کم وسط اکتوبر تک ہندوستان کا قصد نہ فرمائیں نہیں کہہ سکتا کہ یہ مشورہ ان کے نزدیک قابل قبول بھی ہو گا یا نہیں۔ شوکت علی صاحب میرے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں وہ حقیقت میں ایک ایسی ستائش ہے جس کا میں اپنے آپ کو اہل نہیں پاتا۔ میں بھی تو ان کی طرح ایک تودہ خاک سے کچھ بھی زیادہ نہیںہوں۔ ہسپانیہ میں میری پرائیویٹ سکرٹری نے جو ایک برطانوی لڑکی تھی۔ میرے متعلق اپنے رویہ میں دفعتہ ایک تبدیلی پیدا کر لی تھی اور میری خدمت ایک پرائیویٹ سیکرٹری کی بجائے ایک مرید کی طرح انجام دینے لگی۔ میں نے اسے اپنی روش میں اس نہایت ہی واضح تبدیلی کی وجہ سے دریافت کی تو اس نے کہا کہ اس نے مجھے ایک فرشتہ پایا ہے۔ اور اقرار کیا کہ وہ مثبت طور پر تو اپنے محسوسات کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ البتہ منفی طور پر یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ کوئی بیوقوف نہیں ہے۔ اگر آپ کو ہندوستان کی مسلم خواتین کانفرنس سے متعلق اصرا ر ہے توآپ کو اس کا انعقاد کسی دوسری کانفرنس یا لیگ کے زیر اہتمام نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ایک جداگانہ اور آزاد تنظیم ہونی چاہیے۔ اس کے مسلک عمومی سے متعلق آپ بلاشبہہ ممبران کانفرنس ہی سے مشورہ کر سکتی ہیں۔ اواخر جولائی میں میرے یورپ جانے کا امکان ہے اگر اس تجویز نے عملی صورت اختیار کر لی توآپ کو اطلاع دوں گا۔ مخلص محمد اقبال (ماخوذ جنگ کراچی۔ اقبال ایڈیشن ۱۹۶۶ئ) اصل حسب معمول انگریزی میں ہے ٭٭٭ پروفیسر محمد اکبر منیر کے نام (۳۰۵)…(۱) (یہ خط اس وقت لکھا گیا جب مکتوب الیہ اسلامیہ کالج لاہور میں بی اے کے متعلم تھے۔ بعد میں فارسی کے پروفیسر ہو گئے اور مختلف سرکاری کالجوں میں کام کرتے رہے ہیں اوراب پنشن یاب ہو چکے ہیں) (انگریزی) لاہور ۱۲ جنوری ۱۹۱۸ء ڈیر مسٹر محمد اکبر! عنایت نامہ کا شکریہ۔ آپ کی نظم جو ملفوف تھی۔ میں نے نہایت دلچسپی سے پڑھی۔ آ پ نے اپنے عنایت نامہ اورنظم میں جس قدر میری تعریف و توصیف فرمائی ہے اس کے لیے آپ کا نہایت شکر گزار ہوں اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ا س تحسین و ستائش کا سزاوار نہیں۔ آپ کی نظم سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر آپ نے مشق جاری رکھی اور غور و فکر کی عادت ڈالی تو ایک روز آ پ کو اس میدان میں بہت بڑی کامیابی نصیب ہو گی۔ شعر کا منبع و ماخذ شاعر کا دماغ نہیں اس کی روح ہے اگرچہ تخیل کی بے پایاں وسعتوں سے شاعر کو محفوظ رکھنے کے لیے دماغ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ مخلص محمد اقبال (۳۰۶)…(۲) (یہ مکتوب بحرین کے پتہ پر لکھا گیا جہاں مکتوب الیہ اس زمانے میں ملازم تھے) لاہور ۲۱ اپریل ۱۹۲۰ء مکرم بندہ۔ السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے جسے پڑھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی یہ ایک نادر موقع مل گیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے بڑا فائدہ اٹھائیں گے واپسی ہندوستان پر بھی یہ تجربہ آپ کے لیے از بس مفید ہو گا۔ عربی زبان سیکھنے کے لیے میری رائے ناقص میں مصر بیروت سے بہتر ہے۔ فلسفے کی مندرجہ ذیل کتب فی الحال پڑھیے پھر اور لکھ دوں گا۔ (نوٹ: اس کے بعد چار انگریزی کتابوں کے نام درج ہیں) یہ سب کتابیںغالباً لاہور سے مل جائیں گی۔ راما کرشنا کو لکھنا چاہیے نہ ملیں تو وہ انگلستان سے منگوا دے گا۔ فوٹو کی نسبت یہ عرض ہے کہ اس وقت میرا کوئی فوٹو میرے پاس موجود نہیںہاں بنوائوں گا تو آپ کی خدمت میں ایک کاپی ضرور مرسل ہو گی۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ شیرازی صاحب سے بھی میرا سلام کہیے۔ امید کہ مقتضیات زمانہ سے ادھر کے لوگ باخبر ہوتے جائیں گے قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ بہتر ایام لائے۔ مخلص محمد اقبال۔ لاہور (۳۰۷)…(۳) (یہ خط بھی بحرین کے پتہ پر ہی لکھا گیا ) لاہور ۴ اگست ۱۹۲۰ء مکرم بندہ‘ السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ مجھے یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوئی کہ آ پ ایران جانے والے ہیں۔ شیراز فارسیوں کے کلچر کامرکز ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہاں کا قیاام آپ کے لیے مفید ہو گا۔ حال کی ایرانی شاعری میں کچھ نہیں۔ البتہ اس قوم کی بیداری کے شواہد کے طور پر اسے ضرو ر پڑھنا چاہیے۔ علاوہ اس کے زبان کی تحصیل کے لیے بھی مفید ہے۔ ایرانی شاعری کا تو قا آنی پر خاتمہ ہو گیا۔ خالص فلسفہ میں اگر کتابیں آپ کو مل جائیں تو انہیں جمع کرتے جائیے قلمی ہوں یا مطبوعہ تصوف کی کتب کا ز مانہ کرنا بھی مفید ہو گا۔ حال کے ایرانی حکما میںہادی سبزواری مشہور ہیںَ ان کی کتاب اسرار الحکم میری نظر سے گزری ہے محض افلاطونیت کے چربہ ہے اور بس ۔ حال کے دیگر حکماء میں سے اگر کسی کی تصنیفات آپ کے ہاتھ آجائیں تو غنیمت ہے فلسفے اور تصوف کی کتابوں پر اگر خرچ ہو تو پروانہ کیجیے۔ اس میں مجھے بھی شریک سمجھیے ۔ البتہ کتاب خریدنے میں احتیاط لازم ہے۔ کیونکہ نوے فی صد کتابوں میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لوگ نام کی وجہ سے خرید لیتے ہیں۔ ایک کتاب غالباً لطائف غیبی نام ایران میں شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر برائون نے لٹریری ہسٹری میں اس کا ذکر کیاہے۔ یہ کتاب ان اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ جو شیعہ حضرات نے وقتاً فوقتاً خواجہ حافظ ؒ پر کیے ہیں۔ اگر کہیں سے دسیتاب ہو جائے تو میرے لیے خرید کر کے بھیج دیجیے۔ یونانیوں کے فلسفے پر حال ہی میں ایک نہایت عمدہ چھوٹی سی کتاب شائع ہوئی ہے: A Critical History of Greek Philosophy By W.T.Stace اسے ضرور پڑھیے ۔ میکملن سے ملے گی۔ اس سے زیادہ صاف اور واضح کتاب آج تک میری نظر سے نہیں گزری ۔ بعد کا یورپین فلسفہ سمجھنے میں اس سے بڑی مدد ملے گی۔ اسرار خودی کاانگریزی ترجمہ ہو گیا ہے۔ اس وقت پریس میں ہے غالباً سردیوں میں شائع ہو گا۔ پروفیسر نکلسن کا خط آیا تھا۔ انہوںنے وہاں کی لٹریری سوسائیٹیوں میں اس کتاب کے مضمون پر متعدد لیکچر دیے ہیں جن کی وجہ سے ا س نئے فلسفے کا وہاں بڑا چرچا ہے۔ اب میں گوئٹے کے ’’دیوان‘‘ کے جواب میں ایک دیوان فارسی لکھ رہا ہوں جس کا ایک تہائی حصہ لکھ چکا ہوں۔ اسرار خودی کا ترجمہ یور پ کی اور زبانوں میں بھی ہو جائے تو تعجب نہیں۔ میں نے سنا ہے کہ فرانس میں بھی اس کا چرچا ہے۔ یہ غالباً پروفیسر نکلسن کے لیکچروں کی وجہ سے ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دیوان کا ترجمہ بھی ضرور ہو گا۔ کیونکہ یورپ کی دماغی زندگی کے ہر پہلو پر اس میں نظر ڈالی گئی ہے اور مغرب کے سرد خیالات و افکار میں کسی قدر جرات ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ ہندوستان اور بالخصوص پنجاب میں بے شمار لوگ (مسلمان) افغانستان کی طرف سے ہجرت کر رہے ہیں۔ ا س وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی (اور ممکن ہے کہ زیادہ) جا چکا ہو گا۔ محمد اقبال (۳۰۸)…(۴) لاہور ۳۰ جنوری ۱۹۲۲ء مخدومی‘ السلام علیکم! آپ کا نوازش نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اس سے پہلے بھی آپ کا ایک نہایت دلچسپ خط ملا تھا مگر میری صحت کچھ عرصے سے خراب ہے۔ جواب لکھنے سے قاصر رہا۔ عصر آزادی میں آپ کی دونوں نظموں دلآویز ہیںانشاء اللہ آپ کی زبان شستہ ہوجائے گی اور ایران کا قیا م آپ کی شاعری کے لیے نہایت مفید ہو گا۔ ملا صدر الدین شیرازی کے لیے تفسیر قرآن کے لیے ممنون ہوں۔ یہ چیز عجیب و غریب ہو گی۔ امید کہ چند روز تک یہاں پہنچ جائے گی۔ میںحال میں ان کی کتاب ملاصدرا کامطالعہ کررہا ہوں۔ اور اگر وقت نے مساعدت کی تو ان کے خیالات پر کچھ لکھوں گا بھی۔ عرصہ سے میرا ارادہ ایک انٹرنس کورس فارسی ترتیب دینے کا ہے۔ جدید فارسی نظم و نثر کے کچھ عمدہ اورآسان نمونے مل جائیں تو یہاں کے طلبہ کے لیے نہایت مفید ہو گا۔ اگر آپ کو چند ایسی کتب نظم و نثر مل جائیں تو میرے لیے خرید لیجیے۔ نظمیں مشہور اساتذہ حال کی ہوں اور سلیس اور آسان طرز جدید میں لکھی گئی ہوں تو زیادہ مناسب ہے۔ پولیٹکل نظموں کی ضرورت نہیں ۔ ایک کتاب سفینہ طالبی سنا ہے بہت اچھی ہے مگر ہندوستان میں دستیاب نہیں ہوئی۔ یہ کتاب کوئی اور کتاب اسی قسم کی مل جائے تو خوب ہے غرض کہ آپ یہاں کے انٹرنس کے طلبہ کی ضروریات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ میرا مقصودیہ ہے کہ فارسی کے ذریعہ سے بھی جدید خیالات اور احساسات طلبہ ہند تک پہنچیں۔ انگریزی کورسوں کے مضامین کا تنوع نہایت دل چسپ ہوتا ہے۔ انتخاب میں وہ بھی زیر نظر رہے۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ یہاں کے حالات بدستور ہیں۔ عدم تعاون روز افزوں ہے اور گورنمنٹ تشدد پر آمادہ نہیں۔ زمانہ حال کی طبیعت میں ہیجان و اضطراب ہے۔ معلوم نہیں کہ باطن فطرت میں کیا کیا اسرار ہیں جو ظہو ر پذیر ہوں گے۔ فلسفہ کی کتابوں کے نام دوسرے صفحے پر لکھتا ہوں۔ لاجک فی الحال آپ کو ضرورت نہیںہے۔ (اس کے بعد انگریزی میں فلسفہ کی تین کتابوں کے نام دیے ہیں ۔ مرتب) مخلص محمد اقبال (۳۰۹)…(۵) ڈیر مسٹر منیر السلام علیکم! آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اخبار استخرمیں آپ کی نظم شائع ہوئی ملاحظہ سے گزرا۔ آپ کی زبن صفائی میں بہت ترقی کر رہی ہے۔ اللہم زدفزد! خیالات کے لیے طبیعت پر زور دینا چاہیے۔ مطالب جلیلہ کی مشرقی نظم کو بہت ضرورت ہے ۔ حکیم سنائی اور مولانا روم کو زیر نظر رکھنا چاہیے۔ اس قسم کے لوگ و ملل کی زندگی کا اصلی رازہیں۔ اگر یہی لوگ غلط راستے پر پڑ جائیں تو اقوام کی ممات بھی انہی کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ مولانا روم کے تو اسرار و حقائق زندہ جاوید ہیں حکیم سنائی سے طرز ادا سیکھنا چاہیے کیونکہ مطالب علایہ کے ادا کرنے میں ان سے بڑھ کر کسی نے قدم نہیںرکھا۔ ایرانی اخبارات میں اس قسم کی نظمیں شائع کیا کیجیے۔ مغربی اور وسطی ایشیا کی مسلمان قومیںاگر متحد ہو گئیں تو بچ جائیں گی۔ اور اگر انکے اختلافات کا تصفیہ نہ ہو سکا تو اللہ حافظ ہے۔ مضامین اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ میرا مذہبی عقیدہ یہی ہے کہ اتحاد ہو گا اور دنیا پھر ایک دفعہ جلال اسلامی کا نظارہ دیکھے گی۔ ہندوستان میں بظاہر مہاتما گاندھی کی گرفتاری کے بعد امن وسکون ہے مگر قلوب کاہیجاان حیرت انگیز ہے۔ اتنے عرصے میں اتنا انقلاب تاریخ امم میں بے نظیر ہے۔ ہم لوگ جو انقلاب سے خود متاثر ہونے والے ہیں اس کی عظمت اور اہمیت کوا س قدر محسوس نہیں کرتے۔ آئندہ نسلیںاس کی تاریخ پڑھ کر حیرت میں ڈو ب جائیں گی ایشیا کی مسلمان اقوام کی حرکت بھی کم حیرت انگیز نہیں۔ کیا عجب کہ اس نئی بیداری کو ایک نظر سے دیکھنے کے لیے میں جو لائی یا اگست کے مہینے میں ایران جا نکلوں۔ میرے ایک دوست سردار جوگندر سنگھ ایڈیٹر ’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘ اصرارکر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئٹے کے رستے ایران چلوں اگرممکن ہوسکا تو ان کا ساتھ ضرور دوں گا۔ اس دفعہ مجھے درد نقرس (گوٹ) کی وجہ سے سخت تکلیف رہی۔ کامل دوماہ چارپائی سے اتر نہیں سکا۔ چونکہ میری فطرت کو ایران سے ایک خاص مناسبت ہے۔ ممکن ہے وہاں کی آب و ہوا کا اچھا اثر مجھ پر ہو۔ ’’سفینہ طالبی‘‘ میں نے یہاں تلاش کی۔ افسوس نہ مل سکی۔ آپ کو نثر کو جو عمدہ کتب مل سکیں بھیج دیجیے۔ نظم نہ ملے تو نہ سہی۔ نثر کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر حکایات کی کوئی عمدہ کتاب ہو تو وہ بھی ارسا ل کیجیے۔ یعنی ایسی کتاب جس میں چھوٹی چھوٹی حکایات لطیف اور معنی خیز ہوں۔ ملا صدرا کی تفسیر بھی پہنچ گئی تھی۔ بعض مقامات تو خوب ہیں مگر بحیثیت مجموعی ا س کا پایہ تفاسیر میںبہت کم ہے۔ اردو نظم خضر راہ جو میں نے حال ہی میں لکھی ہے۔ ارسال خدمت کروں گا۔ گوئٹے کے دیوان کے جواب میں دیوان مشرق میں نے بھی لکھی ہے جو قریب الاختتا م ہے۔ امید ہے کہ اس سال کے اختتام سے پہلے شائع ہو جائے گا۔ باقی خدا کے فضل و کر سے خیریت ہے۔ امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ فارسی کتب جہاں تک ممکن ہو جلد ارسال کیجیے۔ مخلص محمد اقبال (۳۱۰)…(۶) (یہ مکتوب بغداد کے پتہ پر لکھا گیا) لاہور ۲ فروری ۱۹۲۴ء مخدومی السلام علیکم! خط آپ کا ابھی ملا ہے جسے پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے۔ آ پ کو اسلامی ممالک کے سفر سے بہت فائدہ ہواہے اور ہو گا۔ اشعار جو آپ نے بھیجے ہیں نہایت دل چسپ ہیں اور بالخصوص مسلمان نمی بینم نے تو مجھے رلا دیا۔ اللہم زد فزد! میں نے ایک عرصہ ہوا آ پ کو بغدد کے پتے پر ایک خط لکھا تھا یا شاید شیراز کے پتے پر امید نہیں کہ وہ خط آپ تک پہنچا ہو کیونکہ اس خط میں اس کی طرف کوئی اشارہ نہیںاس عرصے میں میں نے ایک کتاب پیام مشرق نام لکھ کر شائع کی ہے۔ چونکہ آپ کا مستقل پتہ معلوم نہ تھا اور آپ نے خط اس وقت لکھا جب آپ تہران سے رخصت ہونے والے تھے۔ اس واسطے میں نے احتیاطاً اسے نہ بھیجا۔ اس خیا ل سے کہیں ضائع نہ ہو جائے۔ اب اس کی پہلی ایڈیشن ختم ہو چکی ہے۔ دوسری ایڈیشن جس میں بہت سا اضافہ ہے چند روز میں شائع ہو جائے گی۔ جہاں آپ کا مستقل قیام کچھ عرصہ کے لیے ہو مطلع فرمائیے تاکہ میں وہ کتاب آپ کی خدمت میں ارسال کر سکوں۔ یہ کتاب گوئٹے کے مغربی دیوان کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ باقی خداکے فضل و کرم سے خیریت ہے امید کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ دنیا کے دل میں انقلاب ہے۔ اس واسطے قلوب انسانی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسلام کی عظمت کا زمانہ انشاء اللہ قریب آ رہا ہے والسلام۔ ۲ فروری ۱۹۲۴ئ مخلص محمد اقبال (۳۱۱)…(۷) (یہ مکتوب گورنمنٹ کالج ملتان کے پتہ پر لکھا گیا جہاں مکتوب الیہ پروفیسر ی کے منصب پر فائز ہو چکے تھے) لاہور ۷ ۱ مارچ ۱۹۲۵ء ڈیر مسٹر اکبر منیر! السلام علیکم آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ زندگی کا راز یہی ہے جہاں رہو جس کی حالت میں رہا خوش اور مطمئن رہو۔ دنیا میں بہت کم ایسے آدمی ہیں جو اپنی زندگی کے مختلف احوال و مقاصد سے آگاہ ہوتے ہیں۔ عام طورپر ہم سب لو گ اپنی زندگی کا محض ایک خارجی مشاہدہ کر سکتے ہیں اندرونی علل و اسباب و نتائج ہماری نظر سے مخفی رہتے ہیں۔ ہاں لاہور میں بہار کا آغا ز ہے مگر دلم بہ ہیچ تسلی نمی شود حاذق بہار دیدم و گل دیدم و خزاں دیدم ماہ نو ضرور مرتب کیجیے۔ اس سے بہت فائدہ ہو گا۔ زبو ر عجم کے لیے ایک مدت درکار ہو گی۔ بہت سے اور مشاغل ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے اگر اسی کام میں سراپا محو ہو سکتا تو اب تک ختم ہو گیا ہوتا۔ والسلام محمد اقبال (۳۱۲)…(۸) (انگریزی) لاہور ۹ نومبر ۱۹۲۸ء مائی ڈیر مسٹر منیر! آ پ نے اپنے بھائی کی وساطت سے نظموں کا جو مجموعہ ارسال فرمایاہے ا س کے لیے شکریہ قبول فرمائیے۔ میں نے اس مجموعہ کو نہایت دلچسپی سے پڑھا ہے۔ آپ کا قیام ایران یقینا آپ کے لیے نہایت سود مند ثابت ہوا ہے۔ اس کی بدولت آپ کے کلام میں ایک سادگی قوت اور جلا آ گئی ہے مجھے امید ہے کہ ماہ نو جلد بدر کامل میں مبدل ہو جائے گا۔ آپ کا محمد اقبال (۳۱۳)…(۹) لاہور مارچ ۱۹۳۳ء ڈیر اکبر منیر! آپ کا خط ابھی ملا ہے جس کے لیے شکر گزار ہوں۔ میں ۱۱ مارچ کی شام یہاں سے دہلی جائوں گا۔ غالباً ۱۴مارچ کی صبح واپس آئوں گا۔ ۱۱ مارچ کے دن کسی وقت آپ مجھ سے مل سکتے ہیں۔ امیدکہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ والسلام محمد اقبال شاد اقبال اقبال کے خطوط کے اولین مجموعہ کی اشاعت کا شرف و فخر جناب محی الدین صاحب قادر ی پروفیسر ادب اردوجامعہ عثمانیہ کے لے مقدر ہو چکا تھا۔ انہوںنے اقبال نامہ یعنی پیش نظر مجموعہ کی جلد اول کی اشاعت سے قبل شاد اقبا ل کے نام سے اقبال اور مہااراجہ کشن پرشاد (حیدر آباد) کی باہمی خط وکتابت جو متعدد اعتبارات سے اہم ہے شائع کر دی ہے۔ میں جملہ عقیدت مندان اقبالا کی طرف سے ان کی خدمت میں دلی تشکر کا ہدیہ پیش کرتاہوں کہ انہوں نے مجھے شاداقبال کے اس انتخاب کی اقبال نامہ حصہ دوم میں شمولیت کی بخوشی اجازت مرحمت فرمائ۔ قارئین کرام اور دوستداران اقبال شاد اقبال کے مطالعہ سے اقبال سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ (عطاء اللہ مرتب اقبال نامہ) ٭٭٭ سر کشن پرشا د کے نام (۳۱۴)…(۱) لاہور یکم نومبر ۱۹۱۶ء سرکار والا تبار تسلیم ع التعظیم! نوازش نامہ مل گیا ہے سرکار کی بندہ نوازی کا سپاس گزار ہوں کہ اس دور افتادہ دعاگو کو بالاتزام یاد فرماتے ہیں۔ لاہور سے ایک ماہ کی غیر حاضری کا مقصد سیاحت نہ تھا۔ اگر سیاحت کے مقصد سے ھگر سے باہر نکلتا تو ممکن نہ تھا کہ اقبال آستانہ شاد تک نہ پہنچے ۔ مقصد محض آرام تھا ۔ لاہور کورٹ میںتعطیل تھی کچہری بند تھی۔ ارو میں چاہتا تھا کہ کسی جگہ جہاں لوگ میرے جاننے والے نہ ہوں چلا جائوں اورتھوڑے دنوں کے لیے آرام کروں۔ پہاڑ پر جانے کے لیے سامان موجو د تھا۔ مگر صرف اسی قدر کہ تنہا جا سکوں۔ تنہا جا کر ایک پر فضا مقا م میں آرام کرنا اور اہل اعیال کوگرمی میں چھوڑ جانا بعید از مروت معلوم ہوا۔ اس واسطے ایک گائوں میں چلا گیا جہاں ویسی ہی گرمی تھی جیسی لاہور میں مگر آدمیوں کی آمد و رفت نہ تھی۔ اسی تنہائی میں مثنوی اسرار خودی کے حصہ دوم کا کچھ حصہ لکھا گیا۔ اور ایک نظم کے خیالات یا پلاٹ ذہن میں آئے جس کا نام ہو گا۔ اقلیم خاموشاں یہ نظم اردو میں ہو گی اور اس کا مقصد یہ دکھانا ہو گا کہ مردہ قومیںدنیا میں کیا کرتی ہیںَ ان کے عام حالات و جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ بس یہ دو باتیں میری تنہائی کی کائنات ہیں۔ باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے ۔ سرکار کے لیے ہمیشہ دست بدعا ہوں۔ حیدر آباد کے ارباب حل و عقدخوابیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے اور حقیقت مضمرہ پر ان کی آنکھیں کھولے۔ ایسا ہو تو آپ کی قدر ان کو معلوم ہو گی اور داغ مرحوم کا یہ قول صادق آئے گا: تو مجھ کو چاہے اور مجھے اجتناب ہو کیاخواجوئے کرمانی کا دیوان سرکار کے کتب خانے میں قلمی یا طبع شدہ موجود ہے خادم دیرینہ محمد اقبال‘ لاہور (۳۱۵)…(۲) لاہور ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۶ء سرکار والاتبار‘ تسلیم! والانامہ مل گیاہے جس کے لیے میں سرکار کا سپاس گزار ہوں۔ راجہ گویند پرشاد مرحوم و مغفور کی خبر رحلت معلوم کر کے افسوس ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت رکے اور آپ کو صبر جلیل عطا فرمائے۔ کتنے رنج و قلق کی بات ہے کہ ایسا نوجوان اس دنیا سے ناشاد جائے۔ لیکن گویند پرشاد باقی ہے اور یہ جدائی محض عارضی ہے: پستی عالم میں ملنے کو جداہوتے ہیں ہم عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم لاہور کے حالات بدستور ہیں سردی آ رہی ہے صبح چار بجے کبھی تین بجے اٹھتا ہوں پھر اسکے بعد نہیں سوتا سوائے اس کے کہ کبھی مصلے پر ہی اونگھ جائوں یہ موسم نہایت خوشگوار ہے۔ اور پنجاب کی سیر و سیاحت کے لے موزوں اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو پنجاب کی خاک کو قدم بوسی کا موقع دیجیے۔ یہاں کے دلوں پر آ پ کا نقش ابھی تک موجود ہے۔ کبی اس راہ سے شاید سواری تیری گزری ہے کہ میرے دل میں نقش پا ترے توسن کے نکلے ہیں اقلیم خاموشاں تیار ہوجائے تو سرکار کی خدمت میں ارسال کروں۔ مقصود اقلیم خاموشاں سے محشر ہے تاکہ دیدار الٰہی نصیب ہو کہ یہ موقوف بہ محشر ہے: طالب دیدار محشر کا تمنائی ہوا وہ سمجھتے ہیں کہ جرم ناشکیبائی ہوا زیادہ کیا عرض کروں کہ سرکار سے دور ہوں اور جیتا ہوں مخلص محمد اقبال ہاں یہ عرض کرنا بھول گیا کہ لاہور میں کچھ عرصہ سے ایک بہت بڑے ایرانی عالم مقیم ہیں یعنی سرکا ر علامہ شیخ عبدالعلی طہرانی۔ معلو م نہیں کبھی حیدر آباد میں بھی ان کا گزر ہوا یا نہیں۔ عالم متبحر ہیںَ مذہباً شیعہ ہیں مگر مطالب قرآن بیان فرماتے ہیں تو سمجھنے سوچنے والے لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ علم جعفر میں کمال رکھتے ہیںَ کھبی کبھی ان کی خدمت میںحاضر ہوا کرتا ہوں۔ اگر اس موسم میں سرکار لاہور کا سفر کریں تو خوب ہو کہ یہ آدمی دیکھنے کے قابل ہے۔ (۳۱۶)…(۳) ۶ دسمبر ۱۹۱۶ء سرکار والاتبار! نوازش نامہ ابھی ملاہے۔ اخبار میں حضور نظام کے بمبئی تشریف لے جانے کی خبر نظر سے گزری تھی مگریہ معلوم نہ تھاکہ سرکار ابھی ان کی معیت میں ہیں۔ اس واسطے کل جو عریضہ لکھا۔ وہ حیدر آباد کے پتے پر لکھا گیا۔ الحمد اللہ کہ سرکار کا مزاج بخیر ہے معلوم نہیں بمبئی میں آپ کا قیام کب تک رہے گا۔ دیار پیر سنجر کی زیارت ضرور کیجیے۔ میں بھی ایک روز تخیلات کی ہوا میں اڑتا ہوا وہاں پہنچا تھا۔ فضائے آسمانی سے یہ آواز آ رہی تھی۔ فرشتوں نے کانوں سے جس کو سنا تھا ہم آنکھوں سے وہ زیر و بم دیکھتے ہیں اس شعر کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا۔ سرکار کو اس دربار فلک آثار میں بہت گز ر ہے۔ امید کہ کہ اس کے مفہوم پر روشنی ڈالی جائے گی۔ بہرحال میں آپ کے سفر پنجاب کے امکان سے فی الحال خوش ہوں۔ اللہ تعالیٰ سلامت رکھے اورنہال آرزو بار آور ہو۔ جس اثر کو سرکار ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے متعلق آپ کا خادم دیرینہ عرض کرتاہے۔ دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن نہ ترے فسانہ سوز میںنہ تری حدیث گداز میں مگر امید کیفیت مستقل اور ناامیدی عارضی ہے۔ اس کا ثبوت بھی انشاء اللہ مل جائے گا۔ مطمئن رہیے آرزو میری شرط ہے نا امید از آرزوئے پیہم است نا امیدی زندگانی راسم است غم و اضمحلال کا آپ کے دربار میں کیا کام ہے۔ ان کو رخصت کا اشارہ فرمائیے: اے کہ در زندان غم باشی اسیر از نبی تعلیم لا تحزن بگیر ایں سبق صدیق را صدیق کرد سر خوش از پیمانہ تحقیق کرد گر خدا داری زغم آزاد شو از خیال بیش و کم آزاد شو خادم دیرینہ محمد اقبال (۳۱۷)… (۴) لاہور ۵ جنوری ۱۹۱۷ء سرکار والاتبار تسلیم مع التعظیم! محبت نامہ مل گیا ہے جس کے لیے اقبال سراپا سپاس ہے۔ الحمد اللہ کہ آئینہ دل گرد غرض سے پاک ہے ۔ اقبا ل کا شعار ہمیشہ سے محبت و خلوص رہا ہے۔ اور انشاء اللہ رہے گا۔ اغراض کا شائبہ خلوص کو مسموم کر دیتا ہے۔ اور خلوص وہ چیز ہے کہ اس کو محفوظ و بے لوث رکھنا بندہ درگاہ کی زندگی کا مقصود اعلیٰ و اسنیٰ ہے۔ دل تو بہت عرصہ سے آرزو مند آستانہ بوسی ہے مگر کیا کیا جائے ایک مجنوں اور سوزنجیریں۔ تین چار ماہ ہوئے کہ ارادہ مصمم سفر حیدر آبادکا کر لیا تھا مگر استخارہ کیا تو اجازت نہ ملی خاموش رہا۔ اب سرکار مع الخیر پھر حیدر آباد واپس تشریف لے جائیں اور پنجاب کی سردی بھی قدرے کم ہو جائے تو پھر قصد کروں کئی باتیں راز کی آپ سے کرنی ہیں۔ گویہ ممکن ہے کہ میرے حیدر آباد آنے تک و ہ راز خود بخود آشکارا ہو جائے اورمجھے افشا کرنے کی ضرورت نہ ہو حافظ… علی شاہ صاحب کو میں بہت عرصہ سے جانتا ہوں۔ وہ ہمارے ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے ہیںَ میں ان کو سلسلہ پیری مریدی کے آغاز سے پہلے بھی جانتا تھا اور اب بھی ان کے حالات سے ناواقف نہیںہوں۔ ایک دفعہ بنگلور میں ان کی وجہ سے بہت فساد ہونے کو تیار تھا۔ ان کا وجود مسلمانوں میں اختلاف کا باعث ہو ا وہاں کے مسلمانوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ میں ان کے حالات بلا رو رعایت لکھوں تاکہ فساد رفع ہو میں نے جو کچھ معلوم تھا لکھ دیا الحمد اللہ کہ فساد رفع ہو گیا۔ اور حافظ صاحب مع اپنے مریدوں کے وہاںسے رخصت ہوئے۔ وہ بڑے ہوشیار آدمی ہیں اور پیری مریدی کے فن کو خوب سمجھتے ہیں ۔ بے اعتنائی ان لوگوں کی بالعموم مصنوعی ہوتی ہے اور ا س میں سینکڑوں اغراض پوشیدہ ہوتی ہیں جس طرح وہ سرکار سے پیش آئے ہیں اس طر زعمل کا مفہوم بخوبی سمجھتا ہوں۔ ان کے ہاں جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ آپ ان کی سمجھ اور گرفت سے بالا تر ہیں۔ عنقائے بلند آشیاں کس کے قابو میں آسکتا ہے۔ قریب ہے کہ آپ سب سے مستغنی ہو جائیں۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید کہ سرکار کا مزاج بخیر ہو گا۔ خادم کہن محمد اقبال (۳۱۸)…(۵) لاہور ۷ مارچ ۱۹۱۷ء سرکار والا تبار تسلیم مع التعظیم! والا نامہ پرسوں مل گیاتھا۔ جس میںسرکار دولت مدار کے حیدر آباد واپس جانے کی خبر تھی۔ لہٰذا یہ عریضہ حیدر آبا دہی کے پتہ پرلکھا گیاہے۔ کہ سرکار کل بمبئی سے رخصت ہوجائیں گے۔ فارسی غزل کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ آپ کا والہ نامہ بار روم میں ملا تھا۔ یہاں کے وکالت پیشہ احباب میں بعض ذوق سخن رکھتے ہیں۔ اہل پنجاب کے دلوں پرآپ کا نقش تو پہلے سے ہے۔ فارسی غزل کیستم من جب پڑھی گئی تو ارباب ذوق سرمست ہو گئے۔ واقعی لاجواب غزل ہے۔ انہیںباتوں سے اقبال آپ کا گرویدہ ہے۔ امارت عزت آبرو جاہ و حشم عام ہے مگر دل ایک ایسی چیز ہے جو کہ ہر امیر کے پہلو میں نہیں ہوتا۔ کیا خوب ہو اگر سرکار عالی کا فارسی دیوان مرتب ہو کر دیدہ افروز اہل بصیرت ہو۔ مجھے جو خلوص سرکار سے ہے اس کا راز معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں یہ راز مضمر ہے اس دل میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے۔ سرکارکی قبائے امارت سے میرے دل کو مسرت ہے۔ مگر میری نگاہ اس سے پرے جاتی ہے۔ اور اس چیز پر جا ٹھہرتی ہے جو اس قبا میں پوشید ہ ہے۔ الحمد اللہ کہ یہ خلوص کسی غرض کا پردہ دار نہیں اور نہ انشاء اللہ ہو گا۔ انسانی قلب کے لے اس سے بڑ ھ کر زبوں حالی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا خلوص پروردہ اغراض و مقاصد ہو جائے انشاء اللہ العزیز اقبال کو آپ حاضر و غائب اپنا مخلص پائیں گے۔ اللہ نے اس کو نگاہ بلند اور دل غیور عطا کیا ہے۔ جو خدمت کا طالب نہیں اور احباب کی خدمت کو ہمیشہ حاضر ہے۔ اللہ اکبر سے دوچار روز ہوئے کہ ملاقات ہوئی تھی۔ آپ کا تذکرہ بھی ہوا تھا ایاک نستعین کا دور دورہ ہو جائے گا۔ مطمئن رہیے۔ آج کل لاہور میں سلطان کی سرائے میں ایک مجذوبہ نے بہت لوگوںکو اپنی طرف کھینچا ہے۔ کسی روز ان کی خدمت میں بھی جانے کا قصد ہے شاد کا پیغام بھی پہنچا دوں گا۔ قید سے گھبرانا کیا! اس کی شدت لطف آزادی کو دوبالا کر دے گی عرصہ ہواکہ میں نے پھول سے خطاب کیا تھا: اگر منظور ہے تجھ کو خزاں نا آشنا رہنا تو کانٹوں میں الجھکر زندگی کرنے کی خو کر لے صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے انہیں پابندیوں میں حاصل آزادی کو توکر لے تصویریں ابھی کوئی پاس نہیں نئی بنو اکر سرکار کی خدمت میں حاضر کروں گا۔ لڑکا دہلی کالج میںپڑھتا ہے۔ ذہین و طباع ہے مگر کھیل کودکی طر ف زیادہ راغب ہے ۔آج کل اس کی فکر میں ہوں کہ اس کو کہیں مرید کرائوں یا ا س کی شادی کر دوں کہ اس کے ناز میں نیاز پیدا ہو جائے۔ ناز تا ناز است کم خیرد نیاز نازہا سازد بہم خیز و نیاز اس کی تصویر بھی انشاء اللہ حاضر ہو گی۔ والسلام مخلص قدیم محمد اقبال (۳۱۹)…(۶) لاہور ۱۰ اپریل ۱۹۱۷ء سرکار والاتبار تسلیم! یہ سن کر کمال مسرت ہوئی کہ سرکار حیدر آباد تشریف لے آئے۔ اقبال پھر مبارکباد یتا ہے کہ خدا کرے یہ مبارک باد اور کئی مبارکبادوں کا پیش خیمہ ہو! سرکار نے بجا ارشاد فرمایا کہ انسان تدبیر کا مجاز اور اس پر معناً قادر ہے۔ مگر اس معاملے میں جس قدر تدابیر اقبال کے ذہن میں آ سکتی ہیں ان سب کا مرکز ایک وجو دہے جس کانام گرامی شاد ہے۔ تدبیر اور تقدیر اسی نام میں مخفی ہیں۔ پھر اقبال انشاء اللہ العزیز ہر حال میں شاد ہے۔ لاہورم میں ہوں یا حیدر آباد میں: اگر نزدیک و گر دورم غبار آں سر کویم (بیدل) یہاں پنجاب اور یوپی کے اخباروں میں چرچا ہوا تو دور دور سے مبارک باد کے تار بھی آ گئے ۔ اور اضلاع پنجاب کے اہل مقدمات جن کے مقدمات میرے سپر د ہیں ان کی گونہ پریشانی ہوئی۔ بہرحال مرضی مولا از ہمہ اولیٰ۔ کل پنجاب کی مشہور انجمن حمایت اسلام لاہورجو سرکار کی فیاضی سے بھی مستفیض ہو چکی ہے اپنا سالانہ اجلاس کرے گی بھوپال کے پرنس حمید اللہ خاں صدارت کے لیی آئے ہیں۔ ان کا جلوس سنا ہے بڑی دھوم دھام سے نکلے گا۔ بازاروں کی آرائش ہو رہی ہے۔ کیا دل کش اور معنی خیز شعر کسی ایرانی شاعر کا ہے۔ بزمے کہ درآں سفرہ کشہ جلوہ دیدار کونین غبارے ست کہ از بال مگس ریخت مخلص قدیم محمد اقبال (۳۲۰)…(۷) لاہور ۱۹ مئی ۱۹۱۷ء سرکار والاتبار تسلیم مع آداب و تعظیم! سرکار کا والہ نامہ جس سے اطمینان ہوا۔ یہ خط میرے اس عریضے کے جواب میں ہے جس میں میں نے سرکار کو علالت طبع کے متعلق استفسارکیا تھا۔ افسوس کہ ۱۴ اپریل کا لکھا ہوا خط مجھ تک نہ پہنچا۔ معلوم نہیںکہاںغائب ہو گیا۔ گم ہو وہ نگیںجس پہ کھدے نام ہمارا بہرحال یہ معلوم کر کے کمال مسرت ہوئی کہ سرکار کا مزاج اب خدا کے فضل و کرم سے روبصحت ہے۔ آج کل لاہور میں بھی عجیب و غریب موسم ہے۔ مئی اورجون کے مہینوں کی لو کی شدت اور حرارت ناقابل برداشت ہوا کرتی ہے۔ مگر آج کل یہ حال ہے کہ قریباً ہر روز آسمان ابر آلود رہتا ہے۔ اور صبح کے وقت خاصی سردی ہوتی ہے۔ مغرب سے آفتاب نکلنے کا یہی مفہوم ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آلام و اسقام سے ہمیشہ محفوظ و مامون رکھے۔ کہ آپ کی ذات نو ع انسان کے لیے سرچسمہ فیوض و برکات ہے۔ کل مولینا اکبر کاخط آیا تھا۔ اس خط میں ایک لطیف مطلع انہوںنے لکھا ہے: زباں سے قلب پر صوفی خدا کا نام لایا ہے یہی مسلک ہے جس میں فلسفہ اسلام لایا ہے میں فارسی مثنوی کے دوسرے حصے کی تکمیل میں مصروف ہوں اس کا نام رموز بے خودی ہو گا۔ یونیورسٹی امتحانوں کے کاغذات سے فرصت ہو گئی ہے۔ امید ہے کہ اب جلد ختم ہو جائے گا۔ حال میں ایک اردو غزل لکھی تھی اس کے دو ایک شعر ملاحظہ کے لیے لکھتاہوں: پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی شیوہ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی تو ہے زناری بت خانہ ایام ابھی باقی خدا کے فضل و کرم سے خیریت ہے۔ امید کہ سرکار کا مزاج مبارک بخیر و عافیت ہو گا۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۲۱)…(۸) لاہور ۳۰ جون ۱۹۱۷ء سرکار والا تسلیم! نوازش نامہ مل گیا ۔ فارسی مثنوی یا قصیدہ خوب لکھا گیا ہے۔ میں نے اسے شروع سے آخر تک پڑھا ہے چونکہ سرکار نے ترمیم و تنسیخ کے لے ارشاد فرمایا تھا اس واسطے کسی کسی جگہ ترمیم کی جرات کی ہے۔ طوالت کے خیال سے وجوہ ترمیم نہیںلکھے۔ سرکار پر خود بخود روشن ہوجائے گا۔ چند اشعار کے گرد لکیر کھینچ دی ہے ان کی اشاعت میرے خیال میں مناسب نہیں۔ کچھ اس وجہ سے کہ: بردار تواں گفت و بہ منبر نتواں گفت اور کچھ اس وجہ سے کہ آپ کی شان صداقت اس سے ارفع واعلیٰ ہے کہ آپ اپنی صفائی کے گواہ پیش کریں۔ اہل نظر کو یہ اشعار کھٹکیں گے۔ آئندہ سرکار کو اختیار ہے کہ ان کی اشاعت ہو یا نہ ہو۔ یہ اشعار صفحہ دس گیارہ پر ہیں۔ سرکار کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے تفریط کے طور پر چند اشعار اس قصیدے کی پشت پر لکھ دیے ہیں۔ آخر کے شعر میں ایک مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کی تشریح اس جگہ کر دی ہے۔ ایاک نعبد تو کوچ کر گئے۔ اب تو عرش کے قریب ہوں گے۔ یا وہاںتک پہنچ گئے ہوں گے ایک اور بزرگ لاہور کے قریب ہیں۔ ذرا بارش ہو تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر طالب دعا ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مشکلات دور کرے۔ وہاں کے حالات سن کر تعجب ہوا ۔ مگریہ چند روزہ باتیں ہیں۔ وہ وقت دور نہیںکہ سب کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ آپ مجھ ہی سے دریافت کرتے ہیں کہ کب تک آستانہ شاد تک حاضری ہو گی اس کے متعلق کیا عرض کروں سب کچھ نرنکار کے قبضہ قدرت میں ہے۔ جب اسے منظور ہو گا حاضر ہوں گا۔ اس وقت کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آئندہ کا علم اقبال کو ہے نہ شاد کو۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۲۲)…(۹) لاہور ۲۰ جنوری۱۹۱۸ء سرکار والاتبار تسلیم! نوازش نامہ ملا ہے جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ مولوی ظفر علی خاں صاحب نے آپ کے کلام میں بے جا تصرف کیا۔ کئی روز ہوئے کہ ان سے ملاقات نہیں ہوئی پیغام پہنچا دوں گا تصوف پر جو مضامین انہوںنے لکھے یا لکھ رہے ہیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں نہ میں نے آج تک کوئی مضمون اس بحث پر ان کے اخبار میں لکھا ہے۔ نہ ان کو نہ کسی اور کو لکھنے کی تحریک کی مولوی صاحب سے میرے قدیمی تعلقات ہیں محض اس بنا پر بعض لوگ یہ گمان کر بیٹھے کہ مضامین میری تحریک سے لکھے جاتے ہیں حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ان کے مضامین کے اکثر امور سے مجھے سخت اختلاف ہے۔ اورکئی دفعہ مولوی صاحب سے اس بارے میں مباحثہ بھی ہو چکا ہے۔ خواجہ صاحب کو یہی بدظنی تھی مگر کچھ عرصہ کے بعد جب ان کی بدگمانی رفع ہو گئی توانہوںنے مجھے معذرت کا خط لکھا جس کے جواب میں میں نے انہیںمزید یقین دلایا کہ اس بحث سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ میں نے دو سال کاعرصہ ہوا تصوف کے بعض مسائل سے کسی قدر اختلاف کیا تھا اور وہ اختلاف ایک عرصہ سے صوفیائے اسلام میں چلا آتا ہے۔ کوئی نئی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ بعض ناواقف لوگوںنے میرے مضامین کو تصوف کی دشمنی پر محمول کیا ہے۔ مجھے تو اس اختلاف کے ظاہر کرنے کی بھی ضرورت نہ تھی۔ محض اس وجہ سے کہ اپنی پوزیشن کا واضح کرنا ضروری تھا۔ کہ خواجہ صاحب نے مثنوی اسرار خودی پر اعتراض کیے تھے۔ چونکہ میرا عقیدہ تھا کہ اور ہے کہ اس مثنوی کا پڑھنا ا س ملک کے لوگوں کے لیے مفید ہے۔ اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ خواجہ صاحب کے مضامین کا اچھا اثر نہ ہو گا۔ اس واسطے مجھے اپنی پوزیشن صاف کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ورنہ کسی قسم کے بحث مباحثے کی مطلق ضرورت نہ تھی۔ نیہ بحث کرنا میرا شعار ہے بلکہ جہاں کہیںبحث ہو رہی ہے تو وہاں سے گریز کرتاہوں۔ غرض کہ سرکار بھی مؤطمئن رہیں مجھے ا س بحث سے جو ہو رہی ہے کوئی ہمدردی نہیںاور اس کی اکثرباتوں سے بالکل اختلاف ہے مولوی ظفر علی خاں سے میں نے بارہا کہا ہے کہ یہ بحث بے نتیجہ خیز نہیں ہے اور عوام بلکہ اکثر خواص کو بھی کوئی دلچسپی نہیںمگر ہر آدمی اپنے خیالات کا بندہ ہے میرے کہنے پر انہوںنے عمل نہیں کیا اور اس واسطے میں بھی خاموش ہو رہا۔ حیدری صاحب تو اقبال کو بلاتے بلاتے رہ گئے۔ یونیورسٹی کے کاغذات ان کی طرف سے کبھی کبھی آ جاتے ہیں کہ یہیں سے مشورہ لکھوں۔ ادھر سے مولوی عبدالحق صاحب اصطلاحات علمیہ کی ایک طویل فہرست ارسال کرتے ہیں کہ ان کے اردو تراجم اردو پر تنقید کروں گویا ان بزرگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اقبال کوکوئی اور کام نہیں۔ ترجمہ کرنے والوں کو معقول تنخواہیں دے کر بلایا تویہ کام بھی انہیں سے لینا چاہیے۔ اصل میں یہی حصہ ان کے کام کا مشکل ہے۔ میرا جذب دل تو بوڑھا ہو گیا۔ آ پ کا جذبہ تو بفضل ابھی جوان ہے ۔ اورہمیشہ رہے گا۔ پھر کیوں اقبا کووہاں نہیں کھینچ لیا جاتا؟ کیا حضور نظٓم کے ساتھ آپ دہلی نہ تشریف لائیں گے؟ امید کہ سرکار کا مزاج بخیرہو گا۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۲۳)…(۱۰) لاہور ۱۱ جون ۱۹۱۸ء سرکار والاتبار! آداب عرض کرتا ہوں۔ والا نامہ ایک عرصہ کے بعد ملا۔ کئی دن گزر گئے ہیں میں نے ایک عریضۃ ارسال خدمت کیا تھا اور ساتھ ہی اس کے ایک نسخہ مثنوی رموز بے خودی کا بھی ڈاک میںڈالا تھا مگرنہ خط کا جواب ملا نہ مثنوی کی رسید۔ آج بعد از انتظار شدید سرکار کا والہ نامہ ملا ہے مگر مثنوی کی رسید اس میں بھی نہیں۔ اقبال کے دل پر سے شاد کی یاد کیونکر فراموش ہر سکتی ہے کاش آپ سے ملاقات ہوتی اور کچھ عرصہ کے لیے آپ سے مستفید ہونے کا موقع ملتا۔ لیکن کوئی بات اپنے بس کی نہیں۔ سرکار کی صاحبزادی کی علالت کی خبر سنکر متردد ہوا ہوں اللہ تعالیٰ صحت عاجل کرامت فرما دے۔ انشاء اللہ کل صبح کی نمازکے بعد دعا کروں گا۔ کل رمضان کا چاند یہاں دکھائی دیا۔آج رمضان المبارک کی پہلی ہے بندہ روسیاء کبھی کبھی تہجد کے لیے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے۔ سو خدا کے فضل و کرم سیتہجد سے پہلے بھی اور بعد میں بھی دعا کروں گا۔ کہ اس وقت عبادت الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے۔ کیا عجب ہے کہ دعا قبو ل ہو جائے۔ باقی حالات بدستور ہیں۔ گرمی کازور ہے۔ بارش امید ہے جلد شروع ہو گی۔ طالع کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں اللہ تعالیٰ سب کو اطمینان نصیب کرے اور عزت و آبرو محفوظ رکھے۔ اس دور میں آبرو بہت…(امیر) زیادہ کیا عرض کرو ں سوائے دعائے بلندی مراتب کے آپ کا مخلص محمد اقبال (۳۲۴)…(۱۱) لاہور ۲۹ مارچ ۱۹۱۹ء سرکار والاتبار تسلیم! والانامہ مع کتابوں کے ایک پیکٹ کے مل گیا ہے جس کے لیے اقبال سراپا سپاس ہے۔ مثنوی آئینہ وحدت سے بلحاظ زبان و خیالات کے بالخصوص پسند ہے۔ اللہ کرے حسن رقم اور زیادہ دہلی تو گیا تھا اور دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدین کی درگارہ پر بھی حاضر ہوا تھا۔ مگر افسوسکہ پیر سنجرؒ کے دربار میں حاصل نہ ہو سکا۔ انشاء اللہ پھرجائوں گا اور ا س آستانے کی زیارت سے شرف اندوز ہو کر واپس آئوں گا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنائی۔ سرکار بہت یاد آئے۔ خدا کرے کہ ملاقات ہو اور بہت سی باتیں ہوں۔ جن کے اظہار کے لیے دل تڑپتا ہے۔ افسوس کہ حیدر آباد دور ہے اور اقبال کا عزم کمزور و ناتواں ہے ورنہ کم از کم چھ ماہ میں ایک دفعہ تو آستانہ شاد پر حاضر ہوا کرے۔ کئی دن سے ایک مصرع زہن میں گردش کر رہا ہے۔ اس پر اشعار لکھیے یا اس پر مصرع لگائیے۔ مولانا گرامی کی خدمت میں بھی یہ مصرع ارسال کیا ہے اورمولانا اکبر کی خدمت میں بھی لکھوں گا۔ ایں سر خلیل است بآذر نتواں گفت امید کہ سرکار کا مزاج بخیر ہو گا اور جملہ متعلقین اور متوسلین اچھے ہوں گے۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۲۵)…(۱۲) سرکار والا مرتبت تسلیم! والا نامہ مل گیا ہے۔ سرکار عالی مع اقربا و احباب خیریت سے ہیںَ بندہ درگاہ بھی خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہے۔ سرکارنے اقوام ہند کے متعلق جو کچھ بھی فرمایا بجا ہے۔ جو مسائل انسان نہ حل کر سکے اب معلوم ہوتا ہے قدرت خود انہیں حل کرنا چاہتی ہے یہاں کے حالات ملاقات ہوتو عرض کروں۔ تحریر سے ادا نہیںہو سکتے۔ آج آٹھ دن سے مارشل لاء یعنی قانون عسکری یہاں جاری ہے۔ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی گورنمنٹ یہی قانون جاری کرنے پر مجبور ہو رئی ہے۔ جن لوگوں نے قصور اور امرت سر میں قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ا ن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اور ان پر مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ کل سے ان کا ٹرائل بھی شرو ع ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے مگر خواجہ حافظ کا شعر تسکین کا باعث ہے۔ ہاں مشو نومید چوں واقف نہ از سر غیب باشد اندر پردہ بازی ہائے پنہاں غم مخور میرا ارادہ رامائن کو اردو میں لکھنے کا ہے۔ سرکار کو معلوم ہو گا۔ مسیح جہانگیری نے رامائن کے قصیکو فارسی میں نظم کیا ہے۔ افسوس کہ وہ مثنوی کہیں سے دستیاب نہیں ہو سکی ۔ اگر سرکار کے کتب خانے میں ہوتو چند روز کے لیے عاریتاً مل سکتی ہے۔ میرے خیال میں اس کا تتبع کرنا بہتر ہو گا۔ اس کے متعلق اور مشورہ سے بھی سرکار دریغ نہ رکھیں گے۔ زیادہ کیا عرض کروں خدا کے فضل و کرم سے اچھا ہوں۔ خیریت مزاج سے آگاہ فرمایا کیجیے۔ مخلص قدیم محمد اقبال ‘ لاہور (۳۲۶)…(۱۳) لاہور ۱۷ دسمبر ۱۹۱۹ء سرکار والاتبار تسلیمات عرض! عید کارڈ موصول ہو گیا تھا جس کے لیے اقبال سراپا سپاس ہے پنجاب میں عید امسال بہت سی قربانیاں لے کر گئی ہے۔ تاہم مبارک ہے کہ انشاء اللہ نتائج مبارک ہو ں گے۔ امید کہ مع اعزہ و اقربا ہر طرح خیر و عافیت سے ہوں گے۔ ملاقات کو جی ترستا ہے مگر کیونکر ہو؟ گزشتہ ماہ دہلی گیا تھا خواجہ حسن نظامی صاحب سے ملاقات ہوء یتھی قوالی کی صحبت ہوئی آ پ بہت یاد آئے۔ زمانے کے گزتہ نمبرمیںسرکار کی ایک نظم نظر سے گزری۔ معنوی ملاقات تو ہو گئی ظاہری باقی ہے۔ خدا کو منظور ہوا تو اس کا وقت بھی آ جائے گا۔ عثمانیہ یونیورسٹی کا آغاز ہو گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کے سکالر شپ اور علمی قدر دانیوں سے ارکان یونیورسٹی کی طرح طرح کے فائدے ہو گے بھلا یہ دو شعر کیسے ہیں: بنظر اصلاح ملاحظہ فرمائیے: بہ یزدان روز محشر برہمن گفت فروغ زندگی تاب شرر بود ولیکن گر نہ رنجی با تو گویم صنم از آدمی پائندہ تر بود مخلص قدیم محمد اقبال (۳۲۷)…(۱۴) لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۱۹ء سرکار والا تبار تسلیم! والا نامہ کل شام موصول ہوا۔ جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ اس سے پہلے سرکار کا کوئی نوازش نامہ نہیں ملا بلکہ میں اپنے عریضے کے جواب کا منتظر تھا۔ الحمد اللہ کہ خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح کی خیریت ہے۔ سردی کا خوب زور ہے ۔ جشن صلح کی تیاریاں بھی ہیں۔ آج رات سرکاری عمارتوں میں چراغاں کیا جائے گا۔ لاہور کے مسلمانوں نے ایک عام جلسے میں یہ قرار دیا ہے کہ جشن صلح میں شرکت نہ کی جائے۔ میں بھی اس جلسے میںشریک تھا۔ پولیٹکل جلسوں میںکبھی شریک نہیں ہوا کرتا۔ اس جلسے میں اس واسطے شریک ہوا کہ ایک بہت بڑا مذہبی مسئلہ زیر بحث تھا۔ حیدر آباد کے نئے دور کے… آپ کی مساعی بار آور کرے۔ دیکھیں برار کی گتھی نئی وزارت سے سلجھتی ہے یا نہیں کیا عجب ہے کہ اقبال آصف جاہی یہاں اپنا کام کرجائے اور حضور نظام کی یہ آڑزو پوری ہو آمین! آپ کی زیارت کو بہت دل چاہتا ہے مگر بقول سرکار کے دکن کا انقلابی دور آپ کی کشش سے متحد ہو جائے تو شاید کوئی صورت مصافحہ و معانقہ کی بھی پیداہو جائے یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔ بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی۔ خاک پاک پنجاب دامن گیر معلوم ہوتی ہے۔ مولینا اکبر آج کل دہلی کے حجرہ رین بسیرا میں مقیم ہیں انشاء اللہ ۲ ۲ دسمبر کو میں بھ ان کی زیارت کے لیے دہلی جائوں گا… دھوم دھام کے جلسے میں یعنی کانگرس اور لیگ کے… ریشنز کمیٹی کی صدارت کے لیے مجھ سے کہا گیا تھا لیکن دور رہتا ہوں اس کے علاوہ مولینا اکبر کی کشش دہلی کھینچ رہی ہے۔ بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے زیادہ کیا عرض کروں۔امید کہ سرکار کا مزاج مع الخیر ہو گا۔ بندہ درگاہ محمد اقبال‘ لاہور (۳۲۸)…(۱۵) لاہور ۲۹ دسمبر ۱۹۲۲ء سرکار والاتبار تسلیم! والانامہ مل گیا تھا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ الحمد اللہ کہ سرکار علی کو … کے فرض سے سبکدوشی ہوئی۔ انشاء اللہ باقی فرائض بھی بوجوہ احسن انجام پذیر ہوں گے سرکار نے جو کچھ حیدرآباد کے لڑکوں کے متعلق ارشاد فرمایاہے بالکل بجا ہے۔ فی زمانہ شرفائے ہند کی لڑکیوں کے بر کا معاملہ بہت نازک ہو گیا ہے۔ پنجا ب کی حالت حیدر آباد سے نسبتاً بہتر ہے گو دور درا سے رشتوں میں دقتیں ہیں صاحبزادیوں کے متعلق اگر ضروری کوائف سے مجھے آگاہی ہو جائے تو شاید میں کوئی مفید مشورہ عرض کر سکوں۔ ایک آدھ موقع میرے خیال میں ہے لیکن چونکہ معاملہ اہم ہے اس واسطے ہر قسم کی احتیاط ضروری ہے۔ جس مآل اندیشی سے سرکار اس قسم کے کاموں کو انجام دیتے ہیں اس سے معلو م ہوتا ہے کہ اولاد کے متعلق اپنے فرائض کا اس قد ر تیز احساس شاید کسی باپ کو نہ ہو گا۔ آ پ کے علم بزرگی معاملہ فہمی او ر روایات خاندانی کا اقتضا بھی یہی ہے۔ پنجاب میں سرکار شاد کے پائے کے لوگ کہاں ہاں لڑکوں کی تعلیم اور چال چلن کے متعلق حیدر آبادکی نسبت بہتر اطمینان ہو سکتا ہے۔ بہر حال سرکار عالی سے ضرور آگاہی حاصل کرنے کے بعد میں کچھ مزید امور عرض کروں گا۔ اس قسم کے معاملات میں اور نیز دیگر معاملات میں بے تکلافانہ خط و کتابت کرنی محض سرکار عالی کی وسعت خیال کی وجہ سے ہے ورنہ کجا وزیر نظام اور کجا اقبل ہیچ میرز اقبال سرکار کی درویش منشی اوراپنی صاف باطنی پر بھروسہ کر کے بے تکلفانہ عرض و معروض کر لیا کرتا ہے۔ امید ہے کہ مزاج بخیر و عافیت ہو گا۔ اس عریضے کا جواب اگر جلد مرحمت ہو تو بہتر ہے۔ مخلص قدیم محمد اقبال‘ لاہور (۳۲۹)…(۱۶) لاہور ۱۹ مارچ ۱۹۲۳ء سرکار والاتبار تسلیم! والا نامہ کل مل گیا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ معاملہ معلومہ کی تحقیقات کے بعد سرکار کو عریضہ لکھوں اس واسطے اتنی تعویق خط لکھنے میں ہوئی۔ افسوس ہے کہ اس معاملے میں میرا اطمینان نہ ہوا۔ انشاء اللہ… اور طر ف خیال کروں گا۔ اگر کوئی صور ت حسب مرادنکل آئی تو …ٹیلی فون کا سلسلہ جاری ہے اور کئی اطراف میں۔ اطمینان فرمائیے۔ خدا نؤے چاہا تو نقش حسب مراد بیٹھے گا۔ مگر اقبال آ پ کی استقامت اور سکون قلب کی داد دیتا ہے کہ کل کسی اخبار میں حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے اشعار دیکھنے میں آئے ماشاء اللہ خوب لکھتے ہیںَ سادگی اور سلاست میں کلام حضور کا اپناجواب نہیں رکھتا۔ برار کے استرداد میں یاد آوری اقبال کی ضرورت ہے۔ پیام مشرق جو میں نے جرمنی کے مشہور شاعر گوئٹے کے دیوان مغربی کے جواب میں لکھا ہے چھپ رہا ہے انشاء اللہ اس کی ایک کاپی پیش کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ سرکار اسے پسند فرماویں گے۔ افسوس ہے کہ پنجاب میں ہندو مسلمانوں کی رقابت بلکہ عداوت بہت ترقی پر ہے اگر یہی حالات رہی تو آئندہ تیس سال میں دونوں قوموں کے لیے زندگی مشکل ہو جائے گی۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ سرکار عالی کا مزاج بخیر ہو گا۔ اور جملہ متعلقین اور متوسلین بھی تندرست ہوں گے۔ مخلص محمد اقبال ‘ لاہور (۳۳۰)…(۱۷) لاہور ۱۴ جنوری ۱۹۲۴ء سرکار والاتبار تسلیم! نوروز کارڈ کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ میں یکم جنوری سے ۹ جنوری تک لاہور سے باہر تھا۔ نواب صاحبان کرنال (پنجاب) کے مقدمات کی خاطر اتنے روز لاہور سے باہرٹھہرنا پڑا۔ وہاں سے واپس آیا تو سرکار عالی جناب کا نو رو ز کارڈ پایا جو میں نصب ملاقات تھا۔ سرکار اور صاحبزادگان والاتبار کی تصویریں نہایت صاف اور ستھری ہیں مصور کا فن قابل داد ہے۔ یہ خط شبیر حسن صاحب جوش ملیح آبادی لکھنوی کی معرفی کے لیے لکھتاہوں۔ یہ نجووان نہایت قابل اور ہونہار شاعر ہیں۔ میںنے ان ک ی تصانیف کو ہمیشہ دل چسپی سے پڑھا ہے۔ اس خدادا د قابلیت کے علاوہ لکھنو کے ایک معزز خاندان سے ہیں جو اثر ورسوخ کے ساتھ لٹریری شہرت بھی رکھتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سرکار ان کے حال پر نظر عنایت فرماویں گے۔ اور اگر ان کو کسی امر میں سرکار کے مشورے کی ضرورت ہو گی تو ا س سے دریغ نہ فرمائیں گے۔ سرکار والا کی شرفا پروری کے اعتماد پر اس درخواست کی جرات کی گئی ہے۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہو گا۔ مفصل عریضہ انشاء اللہ پھر لکھوں گا۔ مخلص محمد اقبال ‘لاہور (۳۳۱)…(۱۸) لاہور ۲۸ دسمبر ۱۹۲۶ء سرکار والا تبار!؎ خوبصورت کرسمس کارڈ کے لیے جس سے سرکار کی ملاقات بھی ہر سال ہو جاتی ہے اقبال سراپا سپاس ہے۔ مبارک باد کاتار تو بھیجا تھا مگر مفصل عریضہ لکھنے کی نوبت نہ آئی اس کی وجہ یہ ہے کہ میں خود بھی اہل لاہور کے اصرار سے پنجاب کونسل کے الیکشن میں گرفتا رتھا۔ الحمد اللہ تین ہزار کی میجارٹی سے کامیاب ہوا اور اب فرصٹ پا ر یہ عریضہ سرکار والا کی خدمت میںلکھ رہا ہوں مجھے یقین ہے کہ سرکار والا کا تقرر حیدر آباد کے لیے بے انتہا برکات کا باعث ہو گا۔ بلکہ میں تو اس بات کا امیدوار ہوں کہ سرکار کا وجود باوجود ان تمام مشکلات کے ازالے کا باعث ہوگا۔ جو اس وقت ہندوستانی۸ رئوسا کو در پیش ہیں۔ اگر سرکار کے اثر ورسوخ کی وجہ سے چیمبر آف پرنسز ہندوستانی رئوسا اور انگریزی سرکار کے تعلقات کے مسئلے کو اپنا سوال بنا لے تو حیرت انگیز نتائج کے پیدا ہونے ک توقع ہے۔ رائل کمیشن ہندوستان میں عنقریب آنے والی ہے۔ اس مسئلے کی چھان بین کے لیے بین الاقوامی قانون جاننے والوں کی ایک جماعت تیر کرنی چاہیے جو کمیشن کے سامنے شہادت دینے والوں کو اس مسئلے کے مالہ و ما علیہ میں پورے طور پر تیار کرے۔ اگر ا س مسئلے میں اقبال کی ضرورت ہو تو وہ بھی اپنی بساط کے مطابق حاضر ہے انشاء اللہ سرکاروالا اسے اپنی خدمت میںقاصر نہ پائیں گے۔ مگر یہ مسئلہ نہایت ضرور ی ہے اس کی طرف فوری توجہ ہونا چاہیے۔ اور اس کے حل کا طریق بھی یہی ہے۔ جو میں نے اوپر عرض کیا ہے۔ برار کے متعلق جو طریق اختیار کیا گیا تھا میری ناقص رائے میں صحیح نہ تھا انشاء اللہ ملاقات ہو گی تو مفصل عرض کروںگا۔ امید کہ حضور والا مع متعلقین و متوسلین مع الخیر ہوں گے۔ نیاز مند دیرینہ اقبال (۳۳۲)…(۱۹) (مکتوب الیہ کے نام مندرجہ ذیل دو خطوط مولوی عبدالرزاق صاحب حیدر آبادی کا عطیہ ہیں جو لمعہ صاحب کی وساطت سے موصول ہوئے ہیں۔ یہ مکاتیب شاد اقبال میں موجود نہیں) (عطا اللہ مرتب اقبال نامہ) لاہور ۱۷ دسمبر ۱۹۱۴ء سرکار والا! خط لکھ چکنے کے بعد آ پ کا خط مل گیا تھا۔ اس واسطے نئی اردوکی اصطلاح میں حرف شکایت واپس لیتا ہوں۔ آج آپ کا دوسرا خط ملا ہے۔ الحمد اللہ خیریت ہے مولیٰ اکبر کے خط سے معلوم ہوا ہے کہ خواجہ نظامی سیر دکن میں مصروف ہیں اورنگ آبا د سے خلد آباد کی زیارت مقصود ہو گی۔ انقلاب وزارت کی خبر بھی اخباروں میں پڑھی تھی۔ تغیر روز کا کچھ دید کے قابل نہ تھا نرگس بتا پھر کس کے نظارے کو تو نے آنکھ کھولی ہے؟ بہر حال تغیر اگر قابل دید بھی ہو تو امیر مرحوم کا اصول قابل عمل ہے: دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے منہ سے کچھ نہ بول آنکھ آئینے کی پیدا کر دہن تصویر کا خادم مخلص محمد اقبال (۳۳۳)…(۲۰) لاہور ۲۸ دسمبر ۱۹۱۴ء سرکار والا تسلیم! آپ کا نوازش نامہ عین اس وقت ملا جب میں سیالکوٹ سے لاہور کے لیے تیار ہو رہا تھا۔ والدہ مرحو مہ کا چہلم تھا جو بخیر و خوبی ختم ہوا۔ ابھی لاہور پہنچا ہوں۔ نظم ست بچن نہایت عمدہ ہے مگر مجھے اس کی اشاعت میں اس وجہ سے تامل ہیکہ اس خیال کی اشاعت آپ کی طرف سے کئی دفعہ ہو چکی ہے۔ نظم میں بھی اور نثر میں بھی اعادہ بسا اوقات ٹھوکر کا باعث ہو جاتا ہے۔ اور پڑھنے والا ممکن ہے کہ تکرار کو کسی اور وجہ پر محمول کرے۔ لیکن اگر اشاعت مطلوب ہو تو اس میں جو شخصی عنصر ہے اسے نکال ڈالیے اور باقی اشعار پر نظر ثانی فرما لیجے کیونکہ بعض بعض جگہ کچھ الفاظ کھٹکتے ہیں … (تحریر حذف کی گئی ) پہلے عریضۃ میں حضرت امیر مرحوم کا ایک شعر لکھ چکا ہوں نظر باز اس پر عمل پیرا ہوا کرتے ہیں۔ افسوس کہ تزک عثمانیہ کے لیے کچھ نہیں لکھ سکا۔ مگر قانونی مسائل میں اشعار کے لیے کہاں سے وقت نکلے! دل اور دماغ دونوں کام کرنا چاہتے ہیں مگر پیٹ کا حکم ہے کہ ہماری رضا کے بغیر ایک خیال یا ایک تاثر بھی اپنے اندر داخل نہ ہونے دو ۔ عجب کشمکش کی حالت ہے مگر شکایت نہیںکہ ہمارے مذہب میں شکایت ہی کفرہے ۔ بہرحال ان تعطیلوں میں چند فارسی اشعار نظم ہو گئے تھے اگر پسند ہوں تو تزک عثمانیہ میں طبع فرمائیے۔ (دوسرا صفحہ ملاحظہ فرمائیے زیادہ کیا عرض کروں بجز ا س کے کہ زندہ ہوں۔ فقط آپ کا خادم محمد اقبال‘ لاہور خوش آنکہ رخت خرد راز شعلہ مے سوخت مثال لالہ متاعے از آتشے اندوخت تو ہم ز ساغر مے چہرہ را گلستاں کن بہار خرقہ فروشی بصوفیاں آموخت دلم تپید ز محرومی فقیہ حرم کہ پیر میکدہ جامے بفتوئے بفروخت عجب مدار ز سر مستیم کہ پیر مغاں قبائے رندی حافظ بقامت من دوخت مسنج قدر سرو داز نوائے بے اثرم زبرق نغمہ تواں حاصل سکندر سوخت صبا! بہ مولد حافظ سلام ما برساں کہ چشم نکتہ وراں خاک آں دیار افروخت (مکاتیب ۲۱ تا ۵۰ شاد اقبال سے بہ اجازت ماخوذہیں) (۳۳۴)…(۲۱) لاہور ۴ دسمبر ۱۹۱۶ء سرکار والاتبار! نوازش نامہ ابھی مل گیا ہے۔ جس کے لیے سراپا سپاس گزارہوں۔ سرکار علامہ عبدالعلی ہردی طہرانی سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ نہایت مخلصانہ سلام آ پ کی خدمت میں پہنچاتے ہیں۔ اس سے بیشتر امرائے دکن میں سے کسی سے سرکار کے اوصاف کا تذکرہ سن چکے ہیں۔ فرماتے تھے کہ حیدر آباد کا سفر کروں گا تو مہاراجہ بہادرسے ضرور ملاقات کروں گا۔ دوسری ملاقات کے موقع پر اور باتیں بھی مان سے کروں گاجو کچھ وہ فرمائیں گے دوسرے خط میں عرض خدمت والا کروں گا۔ لاہور میں سردی خوب ہو رہی ہے۔ کرسمس آ رہا ہے ۔ علی گڑھ اور لکھنو میں کانفرنس اور کانگرس کے اجلاس کی تیاریاں ہو رہی ہیںَ اور صاحبان و ریاست سفر کر رہے ہیں۔ ادھر پنجاب میں گرانی اشیائے خوردنی اور خصوصاً غلے کی گرانی کی وجہ سے لوگ بددل ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم کرے۔ انگلستان میں جنگ کی وجہ سے مرغی کی قیمت ۴ اور ایک انڈا ۶ آنے کو بکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اقوام عالم کو اس مصیبت عظیم سے نجات دے ۔ امید کہ سرکار کا مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص دیرینہ محمد اقبال (۳۳۵)…(۲۲) لاہور ۱۷ دسمبر ۱۹۱۶ء سرکار والا تبار تسلیم مع التعظیم! نوازش نامہ بمبئی کا لکھا ہوامل گیا جس کے لیے ممنون و مشکور ہوں۔ الحمد اللہ کہ سرکار عالی کا مزاج بخیر ہے۔ امسال لکھنو اور علی گڑھ میں جلسے ہیں مگر بندہ درگاہ بوجہ سردی کہیں نہیں گیا۔ سرکار اگر اجمیر اور لاہور تشریف لائیں تو زہے سعادت اقبال کو آستاںبوسی کا موقع مل جائے گا۔ اب تو آپ کی زیارت کو بہت عرصہ ہو گیا۔ دل آرزو مند ہے کہ آستانہ شاد پر حاضر ہو کر شادمانی سے بہرہ اندوزہو۔ سنا ہے کہ حیدر آبادمیں طاعون کا دور دورہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عروس البلاد کو آفات ارضی و سماوی سے محفوظ و مصئون رکھے ۔ آمین! معلوم نہیں سرکار کا قیام بمبئی میں کب تک رہے گا۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ خدائے قادر و قیوم نے کشن پرشاد کو ذولمنن کا ہم عدد کیا ہے۔ اقبال پر بھی نظر عنایت رہے اور اوقات خاص میں اس شرمندی عقبیٰ کو یا د رکھا جائے۔ بندہ قدیم محمد اقبال‘ لاہور (۳۳۶)…(۲۳) لاہور ۲۳ فروری ۱۹۱۷ء سرکار والا تبار تسلیم! والا نامہ ابھی ملا ہے جس کے لیے اقبال سراپا سپاس ہے۔ قاضی پیٹ سے ایک نوازش نامہ ملا تو ضرور تھا مگر ا س میں سرکار کے بمبئی تشریف لے جانے کی خبر تھی۔ لہٰذا بمبئی کا ایڈریس معلوم کرنے کے لیے انتظار ضرورہوا۔ الحمد اللہ کہ آج بمبء سے سرکار کا والہ نامہ ملا۔ خودی و بے خودی سے کوئی تعلق نہیں مگر خودی کی بھی انتہائے کمال یہی ہے کہ دوست کی رضاجوئی میں فنا ہو جائے۔ ترک خود سوئے حق خلوت گزیں کل بمبئی سے ایک جوہری کا خط ملا۔ یہ شخص میرا ہم جماعت وہم مدرسہ ہے۔ ذہانت خدادا د قوت ایجاد رکھتا ہے اور زیوروں کی ساخت میں کمال۔ مجھے لکھا کہ مہاراجہ بہادر بمبئی آنے والے ہیں میری معرفی کرا دیجیے کہ قدر گوہر شہ بداند میں نے اسے بھی محض اس خیا ل سے جواب نہ دیا کہ معلوم نہ تھا کہ سرکار بمبئی میں جلوہ افروز ہوں گے۔ یا ابھی چشم براہ ہے۔ بہرحال یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی کہ سرکار بفضلہ مع الخیر بمبئی واپس تشریف لے آئے ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلدے میں خیر و عافیت کرے کہ سرکار مع الخیر وطن نہضت فرما ہوں۔ اقبال کا ارادہ تو ہے کہ شاد کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہو مگر سب کچھ جذب شاد پر منحصر ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ کہ جن کواس خرقہ پوش امیر کی ہم بزمی میسرہے۔ کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اقبال کے لیے بھی ایسے ہی سامان پیدا کر دے۔ فی الحال تو کیفیت قلب کی یہی ہے: می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست چند روز ہوئے کہ حیدر آباد کے محکمہ تعلیم کی طرف سے ایک خط آیا تھا کہ بیت العلوم دکن کے امتحان کی تاریخ اسلامی کے لیے پرچہ سوالات تیار کروں۔ پچھلے سال یہ پرچہ بنا دیا تھا مگر امسال الہ آباد اور پنجاب کی دونوں یونیورسٹیوں کے امتحانات ایم اے کا کام میرے سپرد تھا۔ فرصت نہ تھی کہ مجبوراً انکار کرنا پڑا۔ کل لاہور میں عجیب و غریب نظارہ تھا یعنی ہوائے جہاز اڑائے گئے۔ تمام دن زن و مردا س نظارے کو دیکھنے کے لیے کوٹھوں اور میدانوں میں جمع ہو گئے مگر: ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں تیرے طیارے مرا جہاز محروم بادباں پھر کیا زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ شاد کو شاد و آباد رکھے۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۳۷)…(۲۴) لاہور ۱۸ مارچ ۱۹۱۷ء سرکار والاتبار تسلیم! ایک عریضہ چند روز ہوئے لکھاتھا۔ امید کہ ملاحظہ عالی سے گزر چکا ہو گا۔ آج منشی محمد دین یا دین محمد ۱؎ ایڈیٹر اخبار میونسپل گزٹ لاہور میرے پاس آئے تھے۔ انہوںنے ایک اخبار کے متعلق مجھے کچھ لکھا تھا۔ جوا ب تک میری نظروں سے نہیں گزرا۔ مگر معلوم ہو اکہ جیسا کہ انہوںنے مفصل بیان بھی کیا۔ اسی مضمون کا ایک عریضۃ بھی ایڈیٹرمذکور کی طرف سے سرکار والا کی خدمت میں لکھاگیا تھا۔ اس عریضے کا جواب منشی محمد دین صاحب نے مجھے دکھایا ہے۔ جس کو پڑھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ یہی والانامہ عریضہ ہذا کے لکھنے کا محرک ہوا۔ میں نے منشی محمد دین صاحب سے یہی کہا کہ جو سرکار نے اپنے والا نامے میں ارشاد فرمایا تھا۔ ان کو معلوم نہ تھاک کہ سرکار شاد میں اقال بھی آبرو رکھتا ہے۔ مگر جو کچھ انہوںنے بے غرضانہ کیا اس کا شکریہ ادا کرنا فرض عین تھا اور جو کچھ سرکار نے اس عریضے کے جواب میں لکھا کہ اس کے لیے بھی اقبال سراپا احساس تشکر و امتنان ہے۔ اخباروں میںکئی دن سے یہ بات چکر لگا رہی ہے کہ میں نے سنا ہے کہ پنجاب اوریوپی کے اکثر اخباروں میں مخبر دکن نے بھی لکھا ہے مگر سرکار کو میں نے عمداً اس بارے میں کچھ نہ لکھا۔ زیادہ تر اس وجہ سے کہ اگر کوئی امکان اس قسم کا نکلے تو سرکار کی مساعی پر مجھے پور ا اعتماد ہے۔ اور علاوہ اس اعتماد کے حیدر آباد کے حالات کا مجھے مطلق علم نہ تھا۔ انہی وجوہ کے باوجود اس بات کے کہ سرکار کے قریب اورظل عاطفت میں رہنے کا خیال مدت سے دامن گیر ہے۔ میں نے سرکار کی خدمت میں کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ میں نے اب تک اپنے ذاتی معاملات میں ذاتی کوشش کو بہت کم دخل دیا ہے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو حالات کے اوپر چھو ڑ دیا ہے اور نتیجے سے خواہ وہ کسی قسم کا ہو خدا کے فضل و کرم سے نہیں گھبرایا۔ ۱؎ دین محمد ہی نام تھا۔ اس وقت بھی قلب کی کیفیت یہی ہے کہ جہاں اس کی رضالے جائے وہاں جائوں گا۔ دل میں یہ ضرور ہے کہ اگر خدا کی نگاہ انتخاب نے مجھے حیدر آباد کے لیے چنا ہے تو اتفاق سے یہ انتخاب میری مرضی کے بھی عین مطابق ہے گویا باالفاظ دیگر بندہ و آقا کی رضا اس معاملے میں کلی طور پر ایک ہے زیادہ کیا عرض کروں امید کہ سرکار کا مزاج بخیر ہو گا۔ سراپا سپاس‘ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۳۸)…(۲۵) لاہور ۱۵ اپریل ۱۹۱۷ء سرکار والا تبار تسلیم! ایک عریضۃ اس سے پہلے ارسال خدمت کر چکا ہوں۔ امید کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گزرا ہو گا۔ مخبر دکن سے معلوم ہوا ہے کہ حیدر آباد ہائی کورٹ کے ججی کے لیے چند نام حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے سامنے پیش کیے گئے ہیں جن میں سے ایک نام خاکسار کا بھی ہے۔ اس خیال سے یہ کہ میرا نام اور ناموں کے ساتھ پیش ہوا ۔ اور یہ ایک قسم کا مقابلہ ہے چند امور آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہیں جن کا علم ممکن ہے سرکار کو نہ ہو۔ ممکن ہے کہ حضور نظام دکن ان امور سے متعلق سرکار سے استفسار فرماویں۔ ا س جگہ کے لیے فلسفہ دانی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ تاہم یہ کہنا ضروری ہے۔ کہ اس فن میں میں ہندوستان اور یورپ کے اعلیٰ ترین امتحان انگلستان (کیمبرج) جرمنی (میونخ) یونیورسٹیوں سے پاس کیے ہیں انگلستان سے واپس آنے پر لاہور گورنمنٹ کالج میں مجھے فلفسے کا اعلیٰ پروفیسر مقرر کیا گیا تھا۔ یہ کام میں نے ۱۸ ماہ تک کیا اور یہاں کی اعلیٰ ترین جماعتوں کو اس فن کی تعلیم دی۔ گورنمنٹ نے بعد ازاںیہ جگہ مجھے آفر بھی کی مگر میں نے انکار کر دیا۔ میری ضرورت گورنمنٹ کو کس قدر تھی اس کا اندازہ اس سے ہوجائے گا کہ پروفیسر ی کے تقرر کی وجہ سے صبح کچہری نہ جا سکتاتھا۔ ججان ہائی کورٹ کو گورنمنٹ کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ میرے تمام مقدمات دن کے پچھلے حصے میں پیش ہوا کریں گے۔ چنانچہ ۱۸ ماہ تک ا س پر عمل درآمد ہوتا رہا مگر اس عہدہ کے لیے جو حیدر آباد میں خالی ہواہے عربی دانی کی زیادہ ضرورت ہو گی۔ اس کے متعلق ی یہ امر سرکار کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ عربی زبان کے امتحانات میں میں پنجاب میں اول رہا ہوں۔ انگلستان میں مجھ کو عارضی طور پر چھ ماہ کے لیے لندن یونیورسٹی کا عربی پروفیسر مقرر کیا گیاتھا۔ واپسی پر پنجا ب اور الہ آباد یونیورسٹیوں میں عربی اور فلسفہ میں بی اے اور ایم اے کا ممتحن مقرر کیا گیا۔ اوراب بھی ہوں۔ امسال الہ آبا دیونیورسٹی کے ایم اے کے دو پرچے میرے پا س تھے۔ پنجاب میں بی اے کی فارسی کا ایک پرچہ اورایم اے کے دو پرچے میرے پاس ہیںَ علاوہ ازیں ان مضامین کے میں نے پنجاب گورنمنٹ کالج میں علم الاقتصاد تاریخ اور انگریزی بی اے اور ایم اے کی جماعتوں کو پڑھائی ہے اور حکام بالا سے تحسین حاصل کی ہے۔ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی ایک عرصے سے جاری ہے علم الاقتصاد پر اردو میں سب سے پہلی مستند کتاب میں نے لکھی۔ انگریزی میں چھوٹی چھوٹی تصانیف کے علاوہ ایک مفصل رسالہ فلسفہ ایران پر لکھا ہے جو انگلستان میں شائع ہوا تھا۔ میرے پاس اس وقت یہ کتابیں موجود نہیں ورنہ ارسال خدمت کرتا۔ باقی جو کچھ میرے حالات ہیں وہ سرکار پر بخوبی روشن ہیںان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ فقہ اسلام میں اس وقت ایک مفصل کتاب بزبا ن انگریزی تصنیف ہے جس کے لیے میں نے مصر و شام و عرب سے مصالحہ جمع کیا ہے جو انشاء اللہ بشرط زندگی شائع ہو گی۔ اور مجھے یقین ہے کہ اپنے فن میںایک بے نظیر کتاب ہو گی۔ میر ا ارادہ ہے کہ اس کتاب کو تفصیل مسائل کے اعتبار سے ایسا ہی بنائوں گا جیس کہ امام نسفیؒ کی مبسوط ہے۔ جو ساٹھ جلدوں تک لکھی گئی تھی۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ سرکار کا مزاج بخیر ہوگا۔ اس طویل خط کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ بندہ قدیم مخلص محمداقبال (۳۳۹)…(۲۶) لاہور ۳ مئی ۱۹۱۷ء سرکاروالا تبارتسلیم! ابھی اخبار ’’دیش‘‘ میں سرکار کی علالت کی خبر پڑھی گونہ تردد ہے۔ اقبال کر خبر خیریت سے مطلع کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ شفائے عاجل کرامت فرمائے اور چشم زخم روزگار سے محفوظ و مامون رکھے۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۴۰)…(۲۷) لاہور ۱۴جون ۱۹۱۷ء سرکار والاتبار ! تسلیم مع التعظیم! والا نامہ ملا جس کے لیے مرہون منت ہوں۔ کاغذی ملاقات کا خاتمہ اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال صفحہ 497 سے آگے مورخہ ۲۴ دسمبر ۲۰۰۹؁ اس کے یدقرت میں ہے ۔ اسے منظور ہو تو اقبال ہوگا اور آستانہ شاد! موقع تو ایک پیدا ہوگیا ہے ، ممکن ہے کہ سرکار جذبات نے اسے پیدا کیا ہو۔ بہرحال ، اگر مقدر ہے تو سرکار شاد تک اقبال کی ظاہری رسائی بھی ہوجائے گی ۔ باطنی اعتبار سے تو بندہ درگاہ وہاں پہلے سے موجود ہے ۔ مولینا لسان العصر کا مطلع نہایت عمدہ ہے۔ لیکن سرکار کا یہ شعر شریعت کا طریقت کے لیے پیغام لایا ہے۔ اس مطلع سے کم نہیں، ایک جہان معنی اس میں آباد ہے۔ آخر کیوں نہ ہو؟۔ ان رموز کے جاننے والوں میں سرکار عالی کانمبر اول ہے۔ حیات ملیہ کا راز اسی پیغام میں مخفی ہے۔ آپ نے اسے خوب پہچانا ،للہ درک! موسم کی حالت اب کے سال یہاں بھی عجیب وغریب ہے۔ دو چار روز گرمی ہوتی ہے۔ پھر بارش کم وبیش آجاتی ہے۔ اور ہوا میں کس قدر خنکی پیدا کر جاتی ہے۔ اور لو کا تو امسال نشان تک نہیں۔ علم موسم کے ماہرین بہت بارش کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔اور ہونی بھی چاہیئے کہ خون کی بارش کے جو دھبے چادر ہستی پر لگا دیئے ہیں،وہ دھل جائیں ،میں سرکار کے لئے ہمیشہ دست بدعا ہوں۔انشا اللہ تمام آرزوئیں بر آئیں گی۔! دین، اس فیاضی کا نتیجہ ہے۔ جو آبا سے ۔۔۔۔ آپ کو میراث میں پہنچی ہے۔اللہ تعالیٰ اس سے ضرور سبک دوش کرے گا۔ زیادہ کیا عرض کروں ،امید ہے کہ سرکار کا مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۴۱) ۔۔۔۔ (۲۸) لاہور ۱۶ جولائی ۱۷ئ؁ سرکار والا تبار ! تسلیمات۔ ایک عریضہ پہلے ارسال کر چکا ہوں ،امید کہ ملاحظہ عالی سے گزرا ہوگا۔ کیا تقریظ کے اشعار سرکار کو پسند آئے؟ حیدری صاحب قبلہ نے پھر حیدر آباد آنے کی دعوت دی ہے۔ چیف کورٹ لاہور بھی بند ہونے والا ہے۔اور میرا دل بھی چند روز کی آوارگی چاہتا ہے۔اس واسطے میں نے ان کی دعوت قبول کر لی۔انشا اللہ اگست یا ستمبر میں حاضر ہو ں گا۔کیا سرکار بھی ان دنوں حیدر آباد میں قیام فرمائیں گے؟۔ یا کہیں اور تشریف لے جانے کا قصد ہے۔؟۔ یہ استفسار کرنے کی اس واسطے جرات کی کہ ایسا نہ ہو،اقبال آستانہ شاد پر حاضر ہو اور یہ کہتا ہوا واپس آئے ،ع چہ قدرطپیدہ باشد چو ترا نہ دیدہ باشد مخلص قدیم محمد اقبال (۳۴۲)۔۔۔۔۔ (۲۹) لاہور ۲۷ جولائی ۱۷ئ؁ سرکار والا تبار ! تسلیم والا نامہ معہ تقاریظہ ملفوفہ مل گیا ہے۔ جس کے لئے سرا پا سپاس ہوں۔ ان تقاریظ میں بیرسٹرانہ اعتبار سے کوئی نقص نہیں ہے۔بجنسہ واپس ارسال کرتا ہوں۔ انشا اللہ اگست کے مہینے میں حاضر ہوں گا۔ حیدری صاحب کے خط کا انتظار ہے۔ ان کے جواب آنے پر کوئی تاریخ مقرر کرو ں گا۔ اور سرکار کو بھی مطلع کروں گا۔انشا اللہ جس روز وہاں پہنچوں گا،اسی روز آستانہ شاد کاطواف ہوگا۔ حیدری صاحب نے جس امر کے لیے مجھے دعوت دی ہے۔ اس کے متعلق سرکار سے وہیں مشورہ ہوگا۔پہلے خیال تھا کہ عریضے میں سب کچھ عر ض کروں،مگر بعد غور یہ طے ہوا کہ بالمشافہ عرض کرنا مناسب اور موزوں تر ہے۔مجھے یقین ہے کہ سرکار اپنی جبلی فراست وسیاست سے بہت حد تک معلوم کر گئے ہوں گے کہ کیا امر ہے؟۔ میری ذاتی قوت فیصلہ ناتواں ہے۔ اس واسطے شاد کی رائے صحیح سے استمداد ضروری ہے۔ زیادہ کیا عر ض کروں! بارش نہیں ہوئی،لاہور آتش کدہ آزر بن رہا ہے۔ مگر اس آتش کدہ کا مصنف لطف اللہ نہیں ،قہر اللہ ہے۔ عید کارڈ کا شکریہ! گزشتہ عید سرکار کو بھی مبارک ہو۔میں روزے رکھتا ہوں،مگر عید کے احساس مسرت سے محروم۔ بندہ درگاہ؁ محمد اقبال (۳۴۳)۔۔۔۔۔۔۔۔(۳۰) لاہور ۱۴ اگست ۱۷ ئ؁ سرکار والا تبار ! تسلیم والا نامہ رجسٹرڈ آج مل گیا۔جس کے لئے سراپا شکر وسپاس ہے۔جس خلوص سے سرکار نے مشورہ دیا ہے۔ اقبال اس کے لئے شکر گزار ہے۔اور ہمشیہ رہے گا۔ انشا اللہ سرکار کے مشورہ پر عمل درآمد ہوگا۔ کیونکہ سرکار کی معاملہ شناسی کبھی غلطی نہیں کر سکتی۔خصوصا جب کہ اس کے ساتھ تلطف بھی ہو۔ حیدری صاحب نے جیسا کہ میں نے گزشتہ عریضے میں عرض کیا تھا۔مجھے قانون کی پروفیسری پیش کی ہے۔ اور یہپوچھا کہ اگر پرائیویٹ پریکٹس بھی ساتھ ہو تو کیا تنخواہ لو گے؟۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میر مجلسی،عدالت العالیہ کی خالی ہے۔ نہ اس کے متعلق انہوں نے کبھی اپنے خط میں اشارہ کیا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جائے تو میں اسے قانون کی پروفیسری اور پرائیویٹ پریکٹس پر ترجیح دوں گا۔آپ سے حیدری صاحب ملیں تو بر سبیل تذکرہ اس کی طرف توجہ دلائیں۔یعنی اگر سر کار ان سے یہ تذکرہ کرنا مناسب سمجھیں تو ممکن ہے آپ کا ان سے پہلے اس امر کے متعلق تذکرہ بھی آچکا ہو۔اگر ایسا اتفاق نہ ہوا ہو۔ اور اگر سرکار اسے مناسب تصور فرمائیں تو یہ اب وقت ہے کہ انہوں نے خود مجھے ملازمت کے لئے لکھا ہے۔اس قسم کے تذکرہ کے لئے نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔بہر حال یہ سب کچھ سرکار کی رائے پر منحصر ہے۔ اقبال خواہ لاہور میں ،خواہ حیدر آباد میں خواہ مریخ ستارے میں رہے۔ وہ غیر محسوس روحانی پیوند جو اس کو سرکار سے ہے،انشا اللہ العزیز قائم رہے گا۔ نہ وقت اسے دیرینہ کر سکتا ہے۔ نہ تعلقات اسے کمزور کر سکتے ہیں۔ مجھے تو حیدر آباد آنے کی سب سے بڑی خوشی اس امر کی ہے کہ سرکار سے اکثر ملاقات ہوا کرے گی۔اور سرکار کے علمی وادبی مشاغل سے گونہ رابطہ قائم رہے گا۔ باقی رہی اقبال کی بیرسٹری یا کوئی اور ہنر جو اس بے ہنر میں ہے۔ وہ سب آپ کی خدمت کے لئے وقف ہے۔ اگر یہ بندہ ناچیز وہاں قیام پذیر ہو گیا ۔اور حالات زمانہ نے مساعدت کی تو انشا اللہ اقبال ،شاد کے کام آئے گا۔ زیادہ کیا عر ض کروں،امید ہے کہ سرکار کا مزاج بخیر ہوگا۔ بندہ درگاہ محمد اقبال (۳۴۴)۔۔۔۔۔۔(۳۱) لاہور ۷ ستمبر ۱۷ئ؁ سرکار والا تبار! تسلیم بندہ درگاہ اقبال ۳۰ اگست کی شام کو یہاں سے حیدر آباد روانہ ہونے والا تھا کہ ۲۹ کی شام کو بخار نے آدبایا۔ اور اس کے ایک دوروز بعد پیچش کا اضافہ ہوا۔ ہفتہ بھر سخت تکلیف کا سامنا رہا۔آج خدا کے فضل وکرم سے اس قابل ہوں کہ حیدری صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھ سکوں۔ ڈاکٹر صاحب ایک ہفتے تک اجازت نہیں دیتے ۔اور میں نے بھی صحت کے خیال سے یہ بہتر سمجھا ہے کہ سفر حیدر آباد ملتوی کروں۔ یہاں تک کہ معاملہ معلومہ خط وکتابت سے طے ہو جائے۔سو آج حیدری صاحب کی خدمت میں عریضہ لکھا ہے۔ اور جو مشورہ سرکار نے بکمال عنایت دیا تھا،اسی کے مطابق میرے عریضے کا مضمون ہے۔ اگر اللہ کو منظور ہوا اور معاملہ طے ہو گیا تو اقبال ہوگا اور آستانہ شاد،امید کہ سرکار کا مزاج بخیر ہو گا۔ بندہ قدیم محمد اقبال لاہور (۳۴۵) ۔۔۔۔۔(۳۲) لاہور ۶،اکتوبر ۱۷ئ؁ سرکار والا تبار عید کارڈ مرسلہ سرکار مل گیا۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ حیدر آباد کے سفر کے لئے تیار تھا۔ مگر علالت کی وجہ سے رک گیا،جیسا کہ ایک عریضے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔حیدری صاحب کا ایک تار پھر آیا تھا ۔اور میں اکتوبر کی گیارہ کو یہاں سے چلنے کا قصد کر چکا تھا۔ مگر ایک مقدمہ کی وجہ سے پھر رکنا پڑا۔اس کے علاوہ حیدری صاحب کا خط بھی آیا کہ نومبر کے مہینے میں آؤ تو بہتر ہے۔غرض کہ اقبال کی عید ابھی نہیں آئی۔ کیونکہ یہ تو اس روز آئے گی جب آستانہ شاد پر اس کا گزر ہوگا۔امید ہے کہ سرکار کا مزاج بہمہ وجوہ بخیر ہوگا۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۴۶)۔۔۔۔۔۔(۳۳) لاہور ۷،اکتوبر ۱۷ئ؁ سرکار والا تبار! تسلیم نوازش نامہ مل گیا۔ سرکار نے جوکچھ لکھا ہے۔ بالکل بجا اور درست ہے۔لیکن گرما کی تعطیلوں میں حیدر آباد کا سفر آسان تھا۔ اور اب یہ سفر تقریبا دو ہزار روپیہ کے نقصان کے مترادف ہے۔ اگر حیدری صاحب کے خطوط سے کوئی امید خاص میرے دل میں پیدا ہوتی ،تو میں اس نقصان کا متحمل ہو جاتا۔ لیکن اس وقت تک جو خطوط ان کی طرف سے آئے ہیں،ان میں کوئی خاص بات نہیں،سوائے اس کے انہوں نے مجھ سے تنخواہ کے بارے میں استفسار کیا ہے۔ جس کا جواب میں نے ان کو دے دیا تھا۔ علاوہ اس کے مجھے اور ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ابھی میری وہاں ضرورت بھی نہیں۔حیدری صاحب اس وقت صرف مجھے اس لئے بلاتے ہیں کہ یونیورسٹی سے متعلق مجھ سے گفتگو کریں۔ اور کوئی غرض ان کے خطوط سے معلوم نہیں ہوتی۔ محض اس غرض سے کہ وہ مجھ سے یونیورسٹی اسکیم کی مفصل گفتگو کر سکیں۔یا محض ان کی ملاقات کے لئے،میں اپنے موجودہ حالات میں اس قدر اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ میں نے نہایت صاف دلی سے ان کی خدمت میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ گرمیوں کی تعطیلات میں آتا تو صرف آمد ورفت کے اخراجات تھے۔ انکم کے فقدان کا اندیشہ نہ تھا۔ اب جب کہ عدالتیں کھل گئی ہیں۔ تو صورت حال مختلف ہو گئی ہے۔ اس وقت میرا یہ خیال تھا کہ اگر وہاں کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی تو کم از کم سرکار کے آستانے کی حاضری ہی سہی۔لیکن اب ان حالات میں جب کہ حیدری صاحب کے خطوط بھی کسی قسم کی امید پیدا نہیں کرتے،بلکہ محض تفنن طبع کے لئے حیدر آباد کی دعوت دیتے ہیں۔اس قدر نقصان برداشت کرنا میرے امکان سے باہر ہے۔ ان کا تار پھر آیا تھا کہ آؤ۔ میں نے ان کو تار دیا تھا کہ اکتوبر کے دوسرے پفتے میں آسکوں گا۔اس کے بعد انہوں نے صحیح تاریخ روانگی بذریعہ تار مانگی۔ اور میں نے جواب دیا کہ گیارہ اکتوبر کو یہاں سے سفر کروں گا،لیکن بعد میں ایک مقدمہ کی وجہ سے رک گیا۔ چنانچہ میں نے ان کی خدمت میں عریضہ لکھا کہ ایک مقدمے کے لئے جس کو میں نے قبول کرلیا ہے۔ ۱۵،اکتوبر کے روز مجھے لاہور میں ہونا چاہیئے۔ اس واسطے گیارہ کو یہاں سے روانہ نہ ہو سکوں گا۔ اس کے بعد مجھے حیدری صاحب کا خط ملا، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ اکتوبر کی بجائے نومبر میں آیئے۔ نومبر میں حیدر آباد کا سفر کرنا مذکورہ بالا وجوہ سے مشکل معلوم ہوتا ہے۔ بہر حال اگر ممکن ہوا تو میں وہاں پر حاضر ہوں گا۔ میں نے یہ طویل داستان لکھ کر ناحق سرکار کی سمع خراشی کی ہے۔ لیکن اس دلچسپی کے بھروسے پر جو سرکار کو از روئے اخلاق کریمانہ میرے معاملات سے ہے۔ میں نے یہ داستان لکھنے کی جرات کی ہے۔مجھے یقین ہے کہ سرکار کی فیاضی مجھے معاف فرمائے گی۔ امید ہے کہ سرکار کا مزاج بہمہ وجود بخیر ہوگا۔ مخلص قدیم محمد اقبال لاہور (۳۴۷)۔۔۔۔۔(۳۴) لاہور ۲۲ نومبر ۱۷ئ؁ سرکار و الا تبار تسلیم! حامل رقعہ سید ابراھیم ہیں۔یہ حیدر آبا دجاتے ہیں اور مجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ سرکار کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے ان کو ایک معرفی نامہ دوں۔آدمی ہوشیار ہیں اور قابل، فارسی کی عمدہ لیاقت ہے۔ اور انگریزی بی ،اے تک پڑھی ہے۔ حیدر آباد میں ان کے ایک بھائی ہیں۔ان سے ملنے کے لئے دکن کا سفر کرتے ہیں۔آپ کے آستانے پر حاضر ہونے کا شرف حاصل کرنا ان کی آرزو ہے۔ امید ہے کہ سرکار کا مزاج بہمہ وجود بخیر ہوگا۔ مخلص قدیم محمد اقبال لاہور (۳۴۸)۔۔۔۔۔۔(۳۵) لاہور ۱۹ دسمبر ۱۷ئ؁ سرکار والا تبار تسلیم! بندہء درگاہ کو بہت روز سے سرکار کی خیر خیریت معلوم نہیں ہوئی۔مولوی ظفر علی خان کے اخبار میں ایک غزل لاجواب نظر سے گزری۔اسی کو نصف ملاقات تصور کیا گیا۔ امید ہے کہ سرکار کا مزاج بہمہ وجود بخیر ہوگا۔ خیریت سے مطلع فرمایئے۔ مخلص قدیم محمد اقبال لاہور (۳۴۹)۔۔۔۔۔ (۳۶) لاہور یکم فروری ۱۸ئ؁ سرکار والا تبار تسلیم! ایک عریضہ بجواب والا نامہ ارسال خدمت کر چکا ہوں۔ پرسوں رات خواب میں دیکھا کہ سرکار کی طرف سے ایک والا نامہ ملا ہے۔ جس کی ہیئت وصورت ایسی ہے،جیسے کوئی خریطہ شاہی ہو۔ تعبیر تو اس خواب کی معلوم نہیں مگر خواب کو امر واقعہ سمجھ کر اس خریطہ کا جواب لکھتا ہوں۔ گو مضمون خریطہ اب ذہن سے اتر گیا ہے۔ شاد کی طرف سے اقبال کو خریطہ ء شاہی آئے،یہ بات خالی از معنی نہیں،انتظار شرط ہے۔ اور اللہ کی رحمت ہمارے خیالوں سے وسیع تر ہے۔ حضور نظام علی گڑھ تشریف لائے تھے۔وہاں سے نواب اسحاق خاں صاحب سیکرٹری کالج کا تار مجھے آیا تھا کہ حضور کے خیر مقدم میں چند اشعار یہاں آکر پڑھوں۔ یہ ایک بڑی عزت تھی۔ مگر افسوس کہ علالت نے مجھے اس سے محروم رکھا۔امید تھی کہ سرکار بھی ان کے ساتھ تشریف لائیں گے،مگر یہ امید پوری نہ ہوئی۔ کیا عجب کہ ایک ہی وقت میں سب امیدیں پوری ہو جائیں۔ کرم اے شہ عرب وعجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم وہ گدا کہ تونے عطا کیا ہے جنہیں دماغ سکندری انگلستان کے پروفیسر نکلسن جنہوں نے دیوان شمس تبریز کا انگریزی ترجمہ کیا ہے۔ (کشف المحجوب حضرت علی ہجویری کا بھی ان ہی بزرگ نے انگریزی ترجمہ کیا ہے )۔ مجھ سے اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ مگر کوئی نسخہ مثنوی کا ان کے پاس نہیں ہے۔ جو ہے انہوں نے کہیں سے عاریتا لیا ہے۔ آج ان کا خط آیا تھا،جس میں وہ مثنوی کا نسخہ مانگتے ہیں۔لطف یہ ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی نسخہ نہیں،سوائے ایک نسخے کہ جس میں میں نے بہت سی ترامیم کر رکھی ہیں۔ جو دوسرے ایڈیشن کے لئے ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے سرکار کی خدمت میں چند نسخے ارسال کیے تھے۔ غالبا آپ نے احباب میں تقسیم کر دیے ہوں گے،اگر کوئی کاپی باقی رہ گئی ہو،اور سرکار کو اس کی ضرورت نہ ہو تو مرحمت فرمایئے،میں نہایت شکر گزار ہوں گا،اور پروفیسر صاحب کو لکھ دوں گا کہ نسخہ سرکار سے دستیاب ہوا ہے۔ اس مثنوی کا دوسرا حصہ رموز بے خودی’’زیر طبع ہے۔‘‘ فروری یا مارچ میں شائع ہو جائے گا۔ تو آپ کے ملا حظہ کے لئے ارسال ہوگا۔ تیسرے حصے کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ یہ ایک نئی قسم کی منطق الطیر ہوگی۔ زیادہ کیا عرض کروں،امید ہے کہ سرکار کا مزاج بخیر وعافیت ہوگا،کل مولانا اکبر کا خط آیا تھا،خوب شعر کہتے ہیں۔انشا اللہ میں بھی ایم،اے کا زبانی امتحان لینے کے لئے الہ آباد جاؤں گا اور مولانا کی ملاقات سے شرف اندوز ہوں گا۔ سید ناظر الحسن صاحب،ایڈیٹر ذخیرہ کے خط سے کبھی کبھی سرکار کی خیر وعافیت معلوم ہو جاتی ہے۔ مخلص قدیم محمد اقبال لاہور (۳۵۰)۔۔۔۔۔(۳۷) لاہور ۱۰ اپریل ۱۸ئ؁ سرکار والا تبار! تسلیم مع التعظیم والا نامہ مل گیا ،جس کے لئے شکرگزار ہوں۔آپ کی اور آپ کے بچوں کی علالت معلوم کرکے تردد ہوا۔ مگر امید ہے کہ اس وقت خدا کے فضل وکرم سے مع الخیر ہوں گے۔ بمبئی میں قبل ازوقت گرمی ہے۔ تو پنجاب میں بعد از وقت سردی۔ اپریل کا پہلا ہفتہ گزر گیا ہے۔اور اس وقت تک لوگوں کمروں میں لحاف لے کر سوتے ہیں۔دو چار روز سے بارش بند ہو گئی ہے۔ ورنہ اس سے پیشتر تقریبا ہر روز ابر آتا ہے۔ اور برس جاتا،بیماری کا بھی بعض مقامات میں زور ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کا حامی وناصر ہو! میرے مقدر کے دانوں کو آپ کی تلاش ہے۔ تو ممکن ہے مل جائیں،اگر چہ بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی۔سرکار مدارا لمہام ہوتے ،تو اس قدر جستجو گوارا کرنے کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔اگر زمانے نے مجھے آپ کے آستانے پر لا ڈالا تو میری عین سعادت مندی ہے۔اس وقت دوستانہ ونیاز مندانہ مہر و وفا کا ثبوت دے سکوں گا۔ مولوی ظفر علی خان حیدر آباد طلب کر لیے گئے ۔آج میں نے اخبار میں دیکھا کہ وہ وہاں پہنچ گئے ہیں۔نہایت قابل آدمی ہیں،اور ان کا ذہن مثل برق کے تیز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی علمی قابلیت سے ریاست کو بہت فائدہ ہوگا۔ دو تین روز میں مثنوی رموز بے خودی یعنی اسرار خودی کا دوسرا حصہ خدمت عالی میں مرسل ہوگا۔کتاب چھپ کر تیار ہے۔ آپ کے لئے جلد بندھوانے کے لئے دی ہے۔ جس روز جلد گر کے پاس سے آئے گی،اسی روز ارسال خدمت ہو گی۔ خواجہ حسن نظامی ایک روز کے لئے لاہور تشریف لائے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ وہ زیادہ دیر تک نہ ٹھہر سکتے تھے۔ اس واسطے زیادہ باتیں نہ ہو سکیں۔امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۳۵۱)۔۔۔۔(۳۸) لاہور ۱۱ جولائی ۱۸ئ؁ سرکار والا تبار تسلیم ! آج سید ناظر الحسن صاحب ایڈیٹر رسالہ ذخیرہ کے خط سے معلوم ہوا کہ آپ کے صاحب زادہ بلند اقبال کئی دن بخار میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے۔ اور آپ کے داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ! آپ کا دل بڑا زخم خوردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم رکھے۔ مگر شاد کو تسلیم کی تلقین کون کر سکتا ہے۔ اقبال محض ایک دل رکھتا ہے۔ جس سے آپ کو اخلاص ہے۔ اس دل کی ہمدردی پیش کرتا ہے۔ اور آپ کے لئے دست بدعا ہے۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۳۵۲)۔۔۔۔۔(۳۹) لاہور ۲۱ فروری ۱۹ئ؁ سرکار والا تبار تسلیم! تار مرسلہ سرکار عالی آج صبح ملا۔ سیتا رام صاحب سے میں پہلے آشنا نہ تھا۔ نہ ان کا نام بحیثیت ایڈیٹر کبھی سنا تھا۔لالہ دینا ناتھ ایڈیٹر اخبار دیش کو بلوا کر بھی دریافت کیا ہے۔ان کو بھی کوئی خاص حالات سیتا رام صاحب کے معلوم نہ تھے۔اور نہ ہی انہوں نے اس سے پیشتر کبھی ان کا نام سنا تھا۔ مگر تحقیق سے ان کی جو کچھ معلوم ہو اعرض کرتا ہوں۔ لالہ سیتا رام صاحب ایف ،اے تک تعلیم پائے ہوئے ہیں۔ ایف۔اے کا امتحان پاس نہیں کیا۔ ’’کھتری پتر‘‘ کا نام سے ایک اخبار نکالنے کا قصد رکھتے تھے۔ ابھی تک یہ اخبار نہیں نکلا۔لالہ کاشی رام اخبار بلا ٹین،ان کے رشتہ دار ہیں۔ اور ان کے ایک بھائی اننت رام بیر سٹر ہیں۔ جن سے میں واقف نہیں ہوں۔ باقی ان کے پرئیویٹ کریکٹر ووسائل کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ اگر مزید تحقیقات کی ضرورت ہو تو ارشاد فرمایئے۔اوور تحقیق کی جائے گی۔ بندے کی خدمت سرکار عالی کے لئے ہر وقت حاضر ہے۔ باقی خدا کے فضل وکرم سے خیریت ہے۔ امید ہے جناب کا مزاج بخیر ہوگا۔ یہاں کے حالات بدستور ہیں۔ تار کاجواب عرض کر چکا ہوں مخلص قدیم محمداقبال (۳۵۳)۔۔۔۔۔۔(۴۰) لاہور ۲۶ فروری ۱۹ء ؁ سرکار عالی تسلیم! والا نامہ مل گیا۔جس کے لئے اقبال سراپا سپاس ہے۔ اس سے پہلے سرکار کا جو نوازش نامہ آیا تھا۔ اس کا جواب بھی عرض کر دیا گیا ہے۔مگر نہ معلوم سرکار تک کیوں نہ پہنچا۔ تار کا جواب بھی عرض کردیا گیا تھا۔بعد میں ایک مفصل عریضہ بھی سیتا رام کے متعلق لکھ دیا تھا۔خدا کے فضل وکرم سے بالکل اچھا ہوں۔ اور شاد کے لئے ہمیشہ دست بدعا ہوں۔ دل تو ملاقات شاد کے لئے تڑپتا ہے۔ مگر حالات پر نہ شاد کو قدرت ہے اور نہ اقبال کو۔امور کے فیصلے آسمان پر ہوتے ہیں۔زمین پر محض ان کا اشتہار دیا جاتا ہے۔ دیکھیں اس امر کے فیصلے کا اشتہار کب ہوتا ہے۔ ۲۸ فروری کو دہلی جانے کا قصد ہے۔ وہاں سے ممکن ہوا تو سرکار خواجہؓ میں بھی حاضر ہوں گا۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ خواجہ حسن نظامی رفیق راہ ہوئے تو کیا عجب کہ ع دل بے تاب جہاں پہنچے دیار پیر سنجرؒ میں میسر ہے جہاں درمان درد نا شکیبائی امیر حبیب اللہ والی افغانستان کی خبر آپ نے سن لی ہوگی۔ جلال آباد میں کسی نے انہیں قتل کر دیا۔ لاہور میں تو یہ خبر پہلے ہی سے مشہور تھی۔ کل اخبارات میں اس کا اعلان ہوا۔ بطن گیتی میں نہ معلوم کیا کیا حوادث پوشیدہ ہیں۔مرزا غالب خوب کہہ گئے ہیں ع اے سبزہ سر راہ ازجور پاچہ نالی درکیش روز گاراں گل خون بہا نداردد زیادہ کیا عرض کروں،دعا کرتا ہوں،امید کہ سرکار کا مزاج بمع جمیع لواحقین ومتوسلین بخیر ہوگا۔ مخلص قدیم محمد اقبال (۳۵۴)۔۔۔۔۔۔۔(۴۱) لاہور ۷اکتوبر ۱۹ئ؁ سرکار والا تبار تسلیم! والا نامہ کل شام موصول ہوا۔ مثنوی خمار شاد کی کاپیاں بھی وصول ہوئیں۔چند احباب اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں تقسیم ہو گئیں۔ بات یہ ہے کہ علمی دنیا میں کیا اور سوشل اعتبار سے کیا،خماری شاہ ایک خاص آدمی ہیں،جن کے افکار سے ہر آدمی کو دل چسپی ہے۔خدا کا فضل وکرم ہے کہ اس وقت بہمہ وجوہ خیریت ہے۔اور خدا کا شکر ہے کہ سرکار والا بھی معہ متعلقین ومتوسلین مع الخیر ہیں۔ سر سید علی امام اگر آپ کو اّخ معظم کہتے ہیں،تو حقیقت حال کا اظہار کرتے ہیں۔واقع میں ایسا ہی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے ان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہیں گے۔سید علی امام سے جہاں تک مجھے واقفیت ہے۔ وہ نہایت نکتہ رس اور تعلقات کو نبھانے والے آدمی ہیں۔ عام زندگی میں ان کا بے تکلفانہ انداز اور سادگی نہایت دل فریب ہے۔اور یہ خصوصیات مجھے یقین ہے دکن کی آب وہوا کا بخوبی مقابلہ کر سکیں گی۔ اب کے موسم گرما یہیں لاہور میں گزارا جائے۔کشمیر جانے کا قصد تھا۔ مگر یاران طریقت ہم سفر نہ ہو سکے۔ اکیلے سفر کرنا اقبال سے ممکن نہیں۔ ع ،اکیلے لطف سیر وادی سینا نہیں آتا آج تعطیلات موسم گرما ختم ہو گئیں، موسم سرما کا آغاز ہے۔ لاہور میں چہل پہل ہے اور رونق شروع ہو رہی ہے۔کالج طلبہ سے معمور ہو گئے ہیں۔ بازاروں میں طلبہ کے جھنڈ پھر نظر آنے لگے۔ غرض کہ خدا خدا کرکے گرمی کا خاتمہ ہوا۔ زیادہ کیا عرض کروں؟۔ سرکار نے یہ کیا لکھا ہے کہ ’’نہ آپ آتے ہو نہ مجھے بلاتے ہو۔‘‘ اقبال ایک مدت سے منتظر امام ہے۔ کئی سال پیشتر عرض کر چکا ہے۔ ع ،کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں سرکار ظہور امام کی خبر دیتے ہیں۔پھر کیا عجب کہ ا قبال کی دیرینہ ارادت اور خماری شاہ کی کشمکش متحد ہو کر کام کر جائیں۔اور اقبال جو معنوی اعتبار سے شاد کا آستانہ نشین ہے۔ صوری اعتبار سے بھی حاضر ہو جائے۔ اقبال کی کشش تو ایک عرصے سے قوت کھو چکی ہے۔ شادؔ کی کشش کا امتحان باقی ہے۔ امید ہے کہ مزاج عالی بخیر وعافیت ہوگا۔ بندہ درگاہ مخلص محمد اقبال لاہور (۳۵۵)۔۔۔۔۔۔(۴۲) ۱۱ اکتوبر ۲۲ ء ؁ سرکار والا تبار اقبال تسلیمات عر ض کرتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا عرض کیا تھا کہ خاکسار نے جو پیغام مولانا شاہ تاج الدین صاحب کی خدمت میں بھیجا تھا۔اس کا جواب سرکار والا کی خدمت میں پہلے پہنچے گا۔اخباروں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ مطلوبہ جواب سرکار عالی تک پہنچ گیا ہے۔ لیکن اقبال حضور سے سننے کا مشتاق ہے۔ تصدیق ہوجائے تو مزید عرض کروں گا۔امید ہے کہ سرکار عالی کا مزاج مع متعلقین بخیر وعافیت ہو گا۔جواب کے لئے چشم براہ ہوں۔ بندہ مخلص محمد اقبال (۳۵۶)۔۔۔۔۔۔۔۔(۴۳) لاہور ۱۱ نومبر ۲۲ء ؁ سرکار والا تبار ! تسلیم۔ دو والا نامے ملے۔ جن کے لئے سراپا سپاس ہوں۔میں عریضہ لکھنے ہی کو تھا کہ دوسرا نوازش نامہ سرکار عالی کا موصول ہوا۔ بابا تاج کے پیغام سے میری مراد معشوق کامرانی کا خیال ہے۔ جب سرکار کو یہ پیغام موصول ہو تو دربار تاج میں تشریف لے جایئے۔ فی الحال سرکار والا کا تامل بالکل بجا ہے۔ اور جو کچھ سرکار نے جمال صاحب کو لکھا ہے،مناسب ہے، میں نے جو عرض کیا تھا کہ بابا تاج کا پیغام مجھ سے پہلے سرکار کی خدمت میں پہنچے گا۔اس سے مراد۔۔۔۔۔ ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں ،امید ہے کہ مزاج والا بخیر ہوگا۔ مخلص شاد محمد اقبال (۳۵۷)۔۔۔۔۔۔۔(۴۴) دسمبر سرکار والا تبار! تسلیم دعوتی رقعہ سرکار والا کی طرف سے چند روز ہوئے پہنچا۔عزت افزائی کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ کاش اس کار خیر میں شریک ہو سکتا۔ لاہور سے حیدر آباد بہت دور ہے۔ تاہم امید۔۔۔۔۔ کہ کبھی اقبال کے جمود کا خاتمہ کر دے۔۔۔۔۔ خدا تعالیٰ آپ کو دیر تک زندہ رکھے اور تمام آرزوئیں بر آئیں۔۔لاہور میں عجیب موسم ہے۔ دوپہر کو گرمی،رات کوسردی۔ اس عجیب وغریب موسم نے مجھے کئی روز تک بیمار رکھا۔ کل سے کسی قدر آرام، اور سرکار والا کی صحت وسلامتی کا۔۔۔۔ معاملہ معلومہ۔۔۔۔ تو سرکار کے حسب مراد ہو گا۔ میں بھی کئی دنوں سے دست بدعا ہوں۔ دیگر حضرات سے استمداد کا خواست گار ہوں۔ امید ہے کہ مزاج والا بخریت ہوگا۔ مخلص محمد اقبال (۳۵۸)۔۔۔۔۔۔(۴۵) لاہور ۲۴ جنوری ۲۳ء ؁ سرکار والا تسلیم! مع التعظیم نوازش نامہ مل گیا تھا۔اپنے خط کے جواب کا منتظر تھا۔ انشا اللہ میں اس طرف پوری توجہ دوں گا۔ضروری کوائف سے آگاہی ہو گئی ہے۔بعض اور امور بھی جو دریافت طلب ہیں،پھر دریافت کروں گا۔صرف اس قدر خیال ہے کہ موجودہ حالات میں فریقین کا اطمینان کس طرح ہوگا۔اور اس کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔بعض باتیں شرعی نقطہ نگاہ سے بھی پوچھی جاتی ہیں۔ میرا عقیدہ ہے کہ سرکار عالی اس کو خوب سمجھتے ہیں۔ میرے علم میں ایک موقع ہے۔ اگر اس کے متعلق میرا اطمینان ہو گیا تو عرض کروں گا۔ فی الحال ضروری آگاہی بہم پہنچا رہا ہوں۔ اگر اس کے متعلق خود میرا اطمینان نہ ہوا تو پھر کوئی اور موقع تلااش کروں گا۔ امید ہے کہ سرکار والا مع متعلقین بخیر وعافیت ہوں گے۔ سرکار نے میرے خطاب کے متعلق جو کچھ سنا ہے۔ صحیح ہے۔ یہ اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ ہونے،اور اس پر یورپ اور امریکہ میں متعدد ریو یو چھپنے کا نتیجہ ہے۔ دینوی نقطہ نگاہ سے یہ ایک قسم کی عزت ہے۔ مگر ہر عزت فقط اللہ کے لئے ہے۔ نوروز کارڈ کا شکریہ قبول فرمایئے۔ جس میں آپ کی اور آپ کے صاحب زادوں کی نہایت خوب صورت تصویریں ہیں۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۳۵۹)۔۔۔۔۔(۴۶) لاہور ۱۸ مئی ۲۳ء ؁ سرکار والا تبار تسلیم! والا نامہ کئی روز سے آیا رکھا ہے۔ لیکن بندہ اخلاص کیش اقبال دوہفتہ سے علیل ہے۔ اسی وجہ سے توقف ہوا۔ سرکار عالی معاف فرمائیں۔ آج سفر نامہ شاد نظر سے گزرا۔اس کرم فرمائی کے لئے سپاس گزار ہوں۔ خوب دل چسپ ہے۔ حالت علالت میں میری چند فارسی کی نظموں کا مجموعہ جو پیام مشرق کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔شائع ہوا۔ میں نے پبلشر کو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ سرکار عالی کی خدمت میں فورا اس کا ایک نسخہ ارسال کرے۔ امید ہے کہ سرکار والا تک یہ کتاب پہنچی ہوگی۔ سرکار کے گزشتہ خط میں راجہ خواجہ پرشاد طال اللہ عمرہ کے مسہری پر گرنے کی خبر تھی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو چشم زخم روز گار سے محفوظ ومامون رکھے۔ ہاں جوگی جی کا واقعہ۔۔۔ اللہ والے ایسے ہی ہوتے ہیں۔کچھ عرصہ ہوا، ضلع گورکھ پور میں اسی قسم کا ایک واقعہ سننے میں آیا تھا۔ باقی بندہء دیرینہ اقبال سرکار عالی دست بدعا ہے۔امید کہ سر کار عالی کا مزاج بخیر ہوگا۔ مفصل انشا اللہ پھر عرض کرے گا۔ خلوص کیش محمد اقبال (۳۶۰)۔۔۔۔۔۔(۴۷) لاہور ۲۴ اکتوبر ۲۳ء ؁ سرکار والا تبار ! تسلیم والا نامہ موصول ہو گیا ہے۔ صاحب زادی کے انتقال کی خبر معلوم کرکے نہایت تاسف ہوا۔ اقبال شاد کے غم والم میں شریک ہے۔ سرکار کی نگاہ بلند،طبیعت بلند، پھر حوصلہ کیوں نہ بلند ہو۔ مگر عرفی نے کیا خوب کہا ہے ۔۔۔ع من ازیںدرد گراں مایہ چہ لذت یابم کہ باندازہ آں صب وثباتم دادند خدائے تعالیٰ صبر جمیل عطا فرمائے۔معزز ذرائع سے جو خبر سنانے والے نے سنائی ہے۔ خدا کرے کہ صحیح ہو۔میری تو یہ دیرینہ آرزو ہے کہ سرکار ک وفائز المرام دیکھوں۔ذمہ داری ضرور ہے۔ لیکن اس وقت کے حالات اس امر کے مقتضی ہیں کہ حیدر آباد کا مدار المہام شاد ہو۔اور مجھے یقین ہے کہ حضور نظام کی نگاہ زمانے کے میلان طبیعت کو صحیح طور پر دیکھتی ہے۔ حضوروائسرائے آج کل لاہور میں رونق افروز ہیں۔ کل ا نہوں نے نئے پنجاب ہائی کورٹ کا افتتاح فرمایا۔ چیف جسٹس شادی لال نے جو تقریر اس موقع پر فرمائی۔ اس کے جواب میں حضور وائسرائے نے اقبال کی تعریف بھی کی ہے۔ تقریر نہایت دل کش اور نہایت عمدگی سے ادا کی گئی ہے۔اقبال کی تعریف سے سب کوتعجب ہوا۔ کہ اس کی توقع نہ تھی۔ اخباروں میں امید کہ یہ تقریر سرکار والا کے ملا حظے سے گزرے گی۔ زیادہ کیا عرض کروں امید کہ سرکار والا کا مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص محمد اقبال لاہور (۳۶۱)۔۔۔۔۔(۴۸) لاہور ۲۹ ستمبر ۲۳ء ؁ سرکار والا! تسلیم والا نامہ ابھی ملا ہے۔ جس کے لئے اقبال سراپا سپاس ہے۔گزشتہ تین ماہ سے مسلسل بیماری کی وجہ سے آلام وافکار میں گرفتار ہوں۔پہلے میری بیوی کو ٹائیفائیڈ فیور ہو گیا۔ اور وہ قریبا دو ماہ صاحب فراش رہیں۔ اس کے بعد میری باری آئی۔ خدا خدا کرکے پرسوں سے بخار اترا ہے۔ اور یہ خط نقاہت کی وجہ سے بستر پر لیٹے لیٹے لکھ رہا ہوں۔بہر حال اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ لیکن یہ معلوم کرکے تعجب بھی ہوا اور تردد بھی کہ بر خور دار خواجہ پرشاد طال اللہ عمرہ کی آنکھ ابھی تک اچھی نہیں ہوئی۔اللہ تعالیٰ فضل وکرم کرے! مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو صحت کامل عطا فرمائے گا۔ جس کا وجود سینکڑوں ہزاروں کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک ہے۔ اللہ تعالیٰ کی غیرت کبھی گوارا نہیں کرے گی کہ اس کے نور نظر کو چشم زخم پہنچے۔انشا اللہ استدعائے دعا کروں گا۔ گزشتہ اگست عثمانیہ یونیورسٹی نے حیدر آباد آنے کی دعوت دی تھی۔ جناب رجسٹرار نے تار دیا۔اس کے بعد حیدری صاحب کا بھی تار آیا،مگر بیوی کی علالت نے لاہور سے باہر نہ نکلنے دیا۔ آخر کار پروفیسر فلسفہ عثمانیہ یونیورسٹی لاہور ہی تشریف لے آئے۔ اور جو مشورہ ان کو مطلوب تھا۔دے دیا گیا۔ یہ موقع سرکار کی ملاقات کے لئے ایک مدت کے بعد ہاتھ آیا تھا۔ مگر افسوس کہ اللہ تعالیٰ کو میرا سفر حیدر آباد منظور نہ تھا۔ خدا کرے پھر کوئی موقع پیدا ہو۔ اور اقبال سرکار شاد کی زیارت سے لطف اندوز ہو۔ زیادہ کیا عرض کروں،امید کہ سرکار والا کا مزاج مع الخیر ہوگا۔راجہ خواجہ پرشاد طال عمرہ کو دعائے صحت اور درازی عمر وترقی درجات! مخلص محمد اقبال (۳۶۲)۔۔۔۔۔۔(۴۹) لاہور ۲۲ دسمبر ۱۹۲۴ء ؁ سرکار والاتبارا! تسلیم خوب صورت کرسمس کارڈ مرسلہ سرکار والا ابھی ملا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ اگر مکتوب نصف ملاقات ہے تو فوٹو بھی نصف زیارت کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ الحمد للہ کی سرکار والا کی زیارت ہوئی،اور صاحب زادوں کی بھی۔ خدا تعالیٰ ان کو دیر گاہ سلامت رکھے۔ اور سرکار والا کی آرزو بر لائے۔ایک مدت ہوئی سلسلہ خط وکتابت سے محروم ہوں۔اس عرصہ میں بہت سے آلام ومصائب کا شکار رہا۔ بیوی کا انتقال ہوگیا۔ جس کے لئے اب تک قلب پریشان ہے۔ دوسری بیوی کے ہاں خدا کے فضل وکرم سے لڑکا ہوا۔جس سے قدرے تلافی ہوئی۔ خدائے تعالیٰ کا شکر ہے۔ خوشی ہو یا غم سب کچھ ہی اسی کی طرف سے ہے۔اور ع ہر چہ از دوست می رسد نیکوست بچہ کا نام جاوید رکھا گیا ہے۔ یہ معلوم کرکے مسرت ہوئی کہ سرکار والا معہ متعلقین خدا کے فضل وکرم سے معہ متعلقین ومتوسلین خدا کے فضل وکرم بہمہ وجوہ مع الخیر ہیں۔حیدر آباد کی وزارت کے متعلق طرح طرح کی افواہیں اخبار پنجاب میں شائع ہوتی رہتی ہیں،پھر جلد ہی ان کی تردید بھی ہو جایا کرتی ہے۔ آخری افوہ میاں سر محمد شفیع صاحب کے متعلق تھی۔ مگر دو چار روز ہوئے اس کی بھی پرزور تردید ہو گئی۔ وہ اپنی ملازمت سے سبک دوش ہو کر ۲۴ کو لاہور پہنچنے والے ہیں۔ یہاں ان کا زور شور سے استقبال ہوگا۔ سنا گیا ہے کہ وہ لاہور ہائی کورٹ میں پھر اپنا بیرسٹری کاکام شروع کریں گے۔سر علی امام صاحب کے مساعی کا نتیجہ،افسوس ہے کہ حسب دل خواہ بر آمد نہ ہوا۔ سرکار والا کو یاد ہوگا،جو کچھ میں نے بہت مدت ہوئی،خدمت عالی میں عرض کیا تھا،معلوم نہیں اب اعلیٰ حضرت کیا طریق اختیار کریں گے۔ بعد اس ناکامی کے عجیب عجیب خبریں اڑائی گئیں۔ دنیا بھی خوب ہے۔ کوئی شخص بھی اپنی تدبیر کی ناکامی ماننے کو تیار نہیں۔خدا کا علم سب پر غالب ہے۔ واللہ غالب علی امرہ،ولا کن اکثر الناس لا یعلمون۔۔ زیادہ کیا عرض کروں سوائے اس کے کہ شاد آباد رہے۔ مخلص محمد اقبال (۳۶۳)۔۔۔۔۔(۵۰) لاہور ۴ جنوری ۱۹۲۵ء ؁ سرکار والاتبارا! تسلیم مع التعظیم والا نامہ ابھی ملا ہے۔ جس کے لئے اقبال سراپا سپاس ہے۔ اور سال نو کی مبارک باد خدمت عالی میں عرض کرتا ہے۔ سرکار عالی نے مرور زمانہ کا نقشہ خوب کھینچا۔ گویا الفاظ میں کیفیت کی تصویر اتار دی۔جس کی تصویر سے رنگ وقرطاس عاجز ہیں۔اس سے پہلے بھی ایک والا نامہ ملا تھا۔اس کی تعمیل میں بانگ درا کا نسخہ ارسال خدمت کر دیا گیا ہے۔ وزارت حیدر آباد کے لئے اب تک بھی افواہ ہے۔ کہ سر محمد شفیع حضورنظام سے خط وکتابت کر رہے ہیں۔واللہ اعلم بالصواب! فی الحال انہوں نے یہاں بیرسٹری کاکام شروع کر دیا ہے۔ مگر سرکار نے خوب فرمایا،جو ہوا، ہوگیا، جو ہونے والا ہے۔ ہو کر رہے گا۔ اکبر مرحوم کا شعر یاد آگیا۔ کیا خوب فرماتے ہیں ع جو ہنس رہا ہے۔ وہ ہنس چکے گا جو رورہا ہے۔ وہ رو چکے گا سکون دل سے خدا خدا کر،جو ہو رہا ہے وہ ہو چکے گا شاد کی زیارت سامان مسرت وانبساط ہے۔ دیکھیے،یہ سامان دور افتادہ اقبال کو کب میسر آتا ہے۔ امید کہ سرکار عالی کا مزاج بخیر ہوگا اور جملہ صاحب زادگان مع متوسلین مع الخیر ہوں گے۔ مخلص محمد اقبال صاحبزادہ آفتاب احمد خاں کے نام (۳۶۴)۔۔۔۔۔۔۔ ۱ انگریزی ۴ جون ۱۹۲۵ء ؁ مائی ڈیر صاحب زادہ صاحب میں نے علوم اسلامیہ کے متعلق آپ کے نہایت عمدہ نوٹ کا بہت دل چسپی سے مطالعہ کیا،معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس پر بہت کچھ غور کیا ہے۔ اس مضمون پر مختلف نقطہ نظر بالخصوص جدید دنیائے اسلام میں عالم گیر روح انسانیت (Human ism) کی تخلیق بلکہ بیداری کے لحاظ سے نگاہ ڈالنی چاہیئے۔بہر حال قبل اس کے کہ میں کچھ عرض کروں۔ چند منتشر خیالات جو میرے ذہن میں آئے ہیں۔علوم اسلامیہ کے مقاصد کے سلسلہ میں بیان کروں گا۔ ۱۔ بہتر ومسلمہ جامعیت کے علماء وفقہا وغیرہ کو تعلیم وتربیت دینا،یہ آپ کا پہلا مقصد ہے،جو آپ نے اپنے مراسلہ کے صفحہ چار پر بیان فرمایا ہے۔ اور اس سے مجھے کلی اتفاق ہے۔ ۲۔ ایسے عالم پیدا کرنا جو اسلامی افکار اور ادبیات کے مختلف شعبوں میں اپنی تحقیقات سے اسلامی تمدن اور موجودہ علوم کے درمیان حیات دماغی کا جو تسلسل پایا جاتا ہے۔اس کی از روئے نشو ونمو جستجو کریں۔اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔ یورپ میں اسلام کا سیاسی زوال بدقسمتی سے کہا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں رونما ہوا ہے،جب مسلم حکماء کو اس حقیقت کا احساس ہونے لگا تھا۔ کہ استخراجی علوم لا یعنی ہیں،اور جب وہ استقرائی علوم کی تعمیر کی طرف کسی حد تک مائل ہو چکے تھے۔ دنیائے اسلام میں تحریک ذہنی عملا اس وقت سے مسدود ہو گئی اور یورپ نے مسلم حکماء کے غور وفکر کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہونا شروع کیا۔ یورپ میں’’ جذبہ انسانیت‘‘ کی تحریک بڑی حد تک ان قوتوں کا نتیجہ تھی۔ جو اسلامی فکر سے بروئے کار آئیں۔یہ کہنا مطلق مبالغہ نہیں ہے کہ جدید یورپین ’’ جذبہ انسانیت‘‘ کا جو ثمرہ جدید سائنس اور فلسفہ کی شکل میں بر آمد ہوا ہے۔ اسے کئی لحاظ سے محض اسلامی تمدن کی توسیع پذیری کہا جا سکتا ہے۔ اس اہم حقیقت کا احساس نہ آج کل کے یورپین کو ہے۔ اور نہ مسلمانوں کو۔ کیونکہ مسلمان حکماء کے جو کار نامے محفوظ ہیں۔وہ ابھی تک یورپ اور ایشیا اور افریقہ کے کتب خانوں میں منتشر اور غیر مطبوعہ شکل اور حالتوں میں ہیں۔ آج کل کے مسلمانوں کی جہالت کا یہ عالم ہے۔ کہ جو کچھ ایک بڑی حد تک، خود ان کے تمدن سے بر آمد ہوا ہے۔ وہ اسے بالکل غیر اسلامی تصور کرتے ہیں۔مثلا اگر کسی مسلم حکیم کو یہ معلوم ہو کہ آئن سٹائن کے نظریات سے کسی قدر ملتے جلتے خیالات پر اسلام کے سائنٹفیک حلقوں میں سنجیدگی سے بحث ومباحثے ہوتے تھے۔ (ابو المعالی جس کا قول ابن رشد نے نقل کیا ہے۔) تو آئن سٹائن کا موجودہ نظریہ ان کوا تنا اجنبی نہ معلوم ہو۔ اس کے علاوہ جدید استقرائی منطق سے اسے جو بیگانگی ہے،وہ بہت کچھ کم ہو جائے،اگر اس کو یہ علم ہو کہ جدید منطق کا تمام نظام رازی کے ان مشہور ومعروف اعتراضات سے وجود میں آیا،جو انہوں نے ارسطو کے استخراجی منطق پر عائد کیے تھے۔اس قسم کے عالموں کا تیار کرنا از بس ضروری ہے۔ کیونکہ جدید علم کے اخذ وجذب کرنے میں صرف یہی لوگ مدد کر سکتے ہیں۔ ۳۔ ایسے عالموں کا تیار کرنا جو اسلامی تاریخ،آرٹ،(فنون) اور علم تہذیب وتمدن کے مختلف پہلوؤں پر حاوی ہوں۔( یہ اصل میں آپ کا تیسرا مقصد ہے) جو آپ نے اپنے مراسلہ کے صفحہ چار پر بیان فرمایا ہے۔میں نے اس میں سے سائنس اور فلسفہ کو علیحدہ کرکے اسے کسی قدر محدود کر دیا ہے۔آپ کا مقصد نمبر ۲ بھی اسی مد میں آجاتا ہے۔ ۴۔ایسے عالموں کا پیدا کرنا جو اسلام کے قانونی لٹریچر میں تحقیق وتدقیق(ریسرچ) کے لئے موزوں ہو۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا قانونی لٹریچر جس کا کافی حصہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔ بے انتہا ہے۔ میری رائے میں ایسے علوم اسلامیہ کی ایک علیحدہ شاخ قرار دینا چاہیئے۔( قانون سے میرا مقصد صرف اس قانون سے ہے،جس کا تعلق فقہ سے ہے۔) صرف انہیں عام اصولوں کے تحت میں ہمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں علوم اسلامیہ کی اسکیم مرتب کرنا چاہیئے۔ اب میں اس مسئلہ کے عملی رخ پر غور کرتا ہوں: ۲۔مسلم دینیات کا مطالعہ ہمارا پہلا مقصد جس کی بابت ہم دونوں متفق ہیں،موزوں صفات کے علماء پیدا کرنا ہے۔جو ملت کی رو حانی ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔مگر زندگی کے متعلق ملت کے زاویہ نگاہ کے دوش بدوش ملت کی رو حانی ضرورتیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔فرد کی حیثیت اس کی دماغی نجات وآزادی اور طبیعی علوم کی غیر متناہی ترقی،ان چیزوں میں جو تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس نے جدید زندگی کے اساس کو یکسر متغیر کر دیا ہے۔ چنانچہ جس قسم کا علم کلام اور علم دین ازمنہ متوسطہ کے مسلمان کی تسکین قلب کے لئے کافی ہوتا تھا۔ وہ آج تسکین بخش نہیں ہے۔ اس سے مذہب کی روح کو صدمہ پہنچانا مقصود نہیں ہے۔اجتہادی گہرائیوں کو دوبارہ حاصل کرنا مقصود ہے۔ تو فکر دینی کو از سر نو تعمیر کرناقطعا لازمی ہے۔ اور بہت سے مسئلوں کی طرح اس مسئلہ میں بھی سر سید احمد خان کی دور رس نگاہ کم وبیش پیشین گوئیانہ تھی۔ جیسا کہ آپ کو علم ہے ،انہوں نے اس کی بنیاد زیادہ تر ایک گزرے ہوئے عہد کا فلسفیانہ معتقدات و افکار پر رکھی۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں آپ کے مسلم دینیات کے مجوزہ نصاب سے اتفاق نہیں کر سکتا۔میرے نزدیک قدیم طرز پر مسلم دینیات کاشعبہ قائم کرنا بالکل بیسود ہے۔ اگر اس سے آپ کا یہ مقصد نہیں ہے۔کہ سوسائٹی کی زیادہ قدامت پسند جماعت کی تالیف قلب مدنظر رہے۔ جہاں تک رو حانیت کا تعلق ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ قدیم تر دینیات فرسودہ خیالات کی حامل ہے۔اور جہاں تک تعلیمی حیثیت کا تعلق ہے۔جدید مسائل کے طلوع اور قدیم مسائل کی طرح نو کے مقابلہ میں اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں۔آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کی ایک نئی وادی کی طرف مہمیز کیا جائے۔اور ایک نئی دینیات اور علم کلام کی تعمیر وتشکیل میں اس کو بر سر کار لایا جائے۔ظاہر ہے کہ یہ کام انہیں لوگوں کے ہاتھ انجام پا سکتا ہے۔جن میں اس کام کے کرنے کی صلاحیت ہے۔مگر ایسے آدمی کس طور پیدا کیے جائیں؟۔ میں آپ کی اس تجویز سے پورے طور پر متفق ہوں۔ کہ دیو بند اور لکھنئو کے بہترین مواد کو بر سرکار لا نے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔مگر سوال یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو انٹر میڈیٹ تک تعلیم دینے کے بعد کیا کریں گے۔ کیا آپ ان کو بی،اے اور ایم،اے بنائیں گے؟جیسا کہ سرٹامس آرنلڈ کی تجویز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جہاں تک دینیاتی افکاردماغی کے مطالعہ یا ترقی کا تعلق ہے۔ وہ آپ کا مقصد پورا نہیں کر سکیں گے۔دیو بند اور لکھنو کے وہ لوگ جو علم دینیات پر غور وفکر کرنے کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ان کو میرے نزدیک قبل اس کے کہ وہ آرنلڈ کے مجوزہ نصاب کو عبور کر جائیں،جس کو ان کی ضرورتوں کا خیال کرکے بہت مختصر کر دینا پڑے گا۔افکار جدیدہ اور سائنس سے آشنا کر دیا جائے۔جدید سائنس اور خیالات کی تعلیم ختم کرنے کے بعد ان کو آرنلڈ کے مجوزہ نصاب کے ایسے لیکچر سننے کو کہا جا سکتا ہے۔ جو ان کے خاص مضامین کے متعلق ہوں۔ مثلا اسلام کے فرقہ جات اور اسلامی اخلاق، اور فلسفہ مابعد الطبیعات،اس ترتیب کے بعد انہیں مسلم دینیات،کلام اور تفسیر پر مجتہدانہ خطبہ دینے کے لئے یونیورسٹی فیلو بنایا جائے۔صرف یہ لوگ یونیورسٹی میں دینیات کا ایک نیا سکول قائم کر سکیں گے ،اور ہمارا مقصد نمبر ۱ پورا ہو سکے گا۔لہذا میری تجویز یہ ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سوسائٹی کا قدامت پسند عنصر مطمئن ہو جائے توآپ قدیم طرز کی دینیات کے سکول سے ابتدا کر سکتے ہیں۔جیسا کہ آپ نے اپنے مراسلہ کی دفعہ نمبر چار میں تجویز کیا ہے۔ مگر آپ کا نصب العین یہ ہونا چاہیئے کہ آپ تدریجا اس کی بجائے ان لوگوں کی جماعت کو کار فرما بنائیں جو میری تجویز کردہ اسکیم کے مطابق خود اجتہاد فکر پر قادر ہوں گے۔ ۳۔ہمارا دوسرا مقصد دیو بند اور لکھنو کے وہ لوگ جو خالص سائنٹفیک تحقیقات کا مخصوص ذوق رکھتے ہیں۔ ان کو ان کے میلانات طبعی کے مطابق جدید ریاضیات،سائنس اور فلسفہ کی مکمل تعلیم دینی چاہیئے۔جدید سائنس اور حکمت کی تعلیم پوری کرنے کے بعد ان کو اجازت دے دی جائے کہ وہ آرنلڈ کا کورس پورا کریں۔جس کو ان کی ضرورتو ں کا لحاظ کرکے مختصر کر دیا جائے۔مثلا صرف اس شخص کو آرنلڈ کورس کا نمبر ۳ ’’ دنیائے اسلاما ور سائنس پر لیکچر سننے کی اجازت دی جائے۔جو صرف طبعی سائنس پڑھ چکا ہے۔ اس کے بعد آپ اسے یونیورسٹی کا فیلو بنا سکتے ہیں۔تاکہ وہ اپنا پورا وقت خاص سائنس میں ریسرچ پر صرف کرے،جس کا اس نے مطالعہ کیا ہے۔ ۴۔ ہمارا تیسرا مقصد آرنلڈ کا کورس ان لوگوں کو لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔جو سائنس یا فلسفہ میں خاص دل چسپی نہیں رکھتے ،بلکہ مسلم تمدن اور تہذیب کے اصولوں کی عام تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مگر اسے صرف لکھنو اور دیو بند کے لوگوں تک محدود نہیں کرنا چاہیئے۔آپ کی اپنی یونیورسٹی کے ایسے لوگ جو عربی اچھی طرح جانتے ہیں،اسے اختیار کر سکتے ہیں۔مگر اس کورس میں مسلم آرٹ اور فن تعمیر بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ ۵۔ مسلم قانون اور تاریخ قانون ہمیں دیو بند اور لکھنو سے ایسے ذہین اور طباع لوگ منتخب کرنے چاہیئں،جو قانون کا خاص ذوق رکھتے ہوں۔چونکہ قانون محمدی ﷺ سر تا سرتعمیری تشکیل کا محتاج ہے۔ ہم کوچاہیئے کہ انہیں اصول فقہ وقانون سازی کے اصولوں کی تعلیم میں اور شاید جدید اقتصادیات اور اجتماعیات کی جامع تعلیم دینے کی بھی ضرورت پیش آئے۔ اگرآپ چاہیئں تو ان کو ایل، ایل،بی بنائیں اور پھر آرنلڈ کا کورس پڑھنے کی اجازت دیں۔ مگر ان کے لئے بھی کورس میں تخفیف کرنی پڑے گی۔مثلا ان سے کہا جائے گا کہ سیاسی نظریہ اسلامیہ اور اسلامی اصول فقہ کاارتقا وغیرہ مضامین کے لیکچروں میں شریک ہوں۔بعض کو وکالت کا پیشہ اختیار کرنے دیا جائے۔دوسروں کو یونیورسٹی فیلو شپ اختیار کرنے کی اجازت دی جائے،کچھ اپنے آپ کو قانونی ریسرچ کے لئے وقف کر دیں۔اس ملک میں قانون محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طریقہ سے عمل میں لایا جاتا ہے۔ وہ بغایت تاسف انگیز ہے۔اور بعض دشواریاں ایسی ہیں جو صرف مجلس قانون ساز کے قیام سے دور ہو سکتی ہیں۔ مسلمان قانون دان جن کا پیشہ وکالت ہو اور جو قانون محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصولوں پر پورے طور پر حاوی ہوں۔وہ عدالت اورکونسل دونوں میں بے حد مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ۶۔ مختصرا میری تجاویز حسب ذیل ہیں: جو نصاب سر ٹامس آرنلڈ نے تجویز کیا ہے۔ میں اس کو قبول کرتا ہوں۔مگر پورا کورس صرف ان طالب علموں کو لینے کی اجازت ہونی چاہیئے۔جو قانونی دینیات اور سائنس کے لئے کوئی خاص ذوق نہ رکھتے ہوں۔جہاں تک دینیات کی تعلیم کا تعلق ہے۔ میں آپ کی تجویز (آپ کے خط کی دفعہ چار) کو تسلیم کرتا ہوں۔ مگر اسے صرف عارضی اور امتحانی حیثیت دینا چاہتا ہوں۔اس کی جگہ رفتہ رفتہ ان لوگوں کے لئے جو اسلامی حکمت ،ادبیات،آرٹ،تاریخ نیز دینیات کا نصاب اختیار کریں گے،جرمن اور فرنچ زبانوں کا حسب ضرورت جاننا ازبس ضروری ہے۔ مخلص محمد اقبال مکرر۔۔۔ منسلکہ خط ٹائپ کیا جا چکا ہے۔کہ میں پروفیسر محمد شفیع سے ملا،جن کو آپ نے کہا تھا کہ مجھ سے علوم اسلامیہ کے متعلق تبادلہ خیال کریں۔ان سے گفت وشنید کا ما حصل یہ ہے: ۱۔پروفیسر محمد شفیع میرے خیال میں دینیات کی نسبت زیادہ حامی نہیں ہیں۔ ۲۔ ان کا خیال ہے کہ اسلامی حکمت وغیرہ کی تعلیم کے لئے زیادہ تر یونیورسٹی کے گریجویٹوں میں سے انتخاب کرنا چاہیئے۔معمولی یونیورسٹی تعلیم کے بعد وہ ان لوگوں کو عربی زبان وادب کی تعلیم دینے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں ہر دو امور میں ان سے اتفاق نہیں کر سکتا۔میری رائے میں جدید اسلامی ملتوں کے لئے جدید دینیاتی افکار کی توسیع اور ترویج ضروری ہے۔ قدیم اور جدید اصولات تعلیم کے مابین رو حانی آزادی اور معبدی اقتدار کے مابین دنیائے اسلام میں ایک کشا کش شروع ہو گئی ہے۔یہ ’’روح انسانیت کی تحریک‘‘ افغانستان جیسے ملک پر اثر ڈال رہی ہے۔آپ نے امیر افغانستان کی وہ تقریر پڑھی ہوگی،جس میں انہوں نے علماء کے اختیارات کے حدود متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ جدید دنیائے اسلام کی مختلف تحریکیں اسی نتیجہ کی طرف لے جاتی ہیں۔ان حالات کے ماتحت مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے آپ کا فرض ہے کہ دلیری سے اس وادی کی طرف قدم بڑھائیں۔اس میں شک نہیں کہ محتاط رہنا لازمی ہوگا۔اور فکر وحکمت کی اصلاح اس طور پر عمل میں لانی ہوگی کہ معاشرتی امن وسکون میں خلل واقع نہ آنے پائے۔ رہا پروفیسر شفیع محمد کا دوسرا خیال،اس کے سلسلہ میں میری رائے یہ ہے کہ دیو بند اور ندوہ کے لوگوں کی عربی علیمت ہماری دوسری یونیورسٹیوں کے گریجویٹ سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مگر پروفیسر شفیع محمد کا خیال ہے کہ قدیم طرز تعلیم کی وجہ سے جو دیو بند اور ندوہ میں جاری ہے۔ ان کے طالب علموں کا ذہنی نصب العین نہایت تنگ ہو جاتا ہے۔ ان کو یہ تسلیم ہے کہ عربی زبان کی قابلیت ان کی بہتر ہوتی ہے۔ میرے رائے میں جو لوگ غیر معمولی روشن دل ودماغ کے ہوتے ہیں،ان کے لئے طریقہ تعلیم کی نوعیت کچھ بہت زیادہ اہم نہیں ہے۔ ایسے لوگو ں کا پیش نہاد کافی لچکیلا ہوتا ہے۔اور ان میں وسعت پذیر ہونے کی کافی صلاحیت ہوتی ہے۔ قدیم اور جدید طرز تعلیم کے محض بہترین ناقد اسی قدیم طریقہ تعلیم کی پیدا وار ہوتے ہیں۔مزید بر آں ندوہ کے بعض افراد ایسے ہیں جو پروفیسر شفیع محمد کے عقیدہ کی تکذیب کرتے ہیں۔ میں یہاں ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ندوہ اور دیو بند کے لوگوں کو انٹر میڈیٹ کے معیار تک پہنچانا چاہتے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ وہ یونیورسٹی انٹرمیڈیٹ امتحان پاس کرنے پر مجبور کیے جائیں،یہاں وہ سوائے انگریزی کے کوئی دوسری زبان اختیار نہ کر سکیں گے۔دوسرے مضامین میں وہ حسب ذیل مضامین سے انتخاب کر سکیں گے۔(الف) علوم طبعی(ب) ریاضیات (ج) فلسفہ (د) اقتصادیات چونکہ ان کو انگریزی کی تعلیم محض کام چلانے کے مطابق حاصل کرنا ہو گی۔ میں یونیورسٹی کے اعلیٰ امتحانات ایم،اے اور بی،اے سے انگریزی کو بالکل خذف کر دینا چاہتا ہوں۔ ان امتحانات میں ان کو صرف سائنس اور فلسفہ کے مضامین لینے کی ضرورت ہو گی۔ابھی میں اس امر کی طرف توجہ نہیں کر سکا ہوں کہ آیا ان کو بی،اے اور ایم،اے کے امتحانات پاس کرنا ضروری ہوں گے۔اس امر کے متعلق دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں۔اگر یہ طے ہو کہ ان کو یونیورسٹی کے امتحانات بی، اے یا ایم،اے کے امتحانات پاس کرنا نہ پڑیں گے تو یہ ظاہر ہے کہ ان کو بمقابلہ دیگر طلبہ کے جن کو امتحان پاس کرنا ہے۔ زیادہ وسیع پیمانہ پر مطالعہ کا موقع ملے گا۔ مگر اس حالت میں ان لوگوں کی علمی کارکردگی پر یونیورسٹی کو خاص طور پر نگران رہنا پڑے گا۔ نوٹ: اصل خط انگریزی میں ہے۔ مندرجہ بالا ترجمہ رسالہ سہیل جلد اول شمارہ دوم بابت اپریل ۱۹۲۶ء مطابق رمضان المبارک وشوال ۱۳۴۴ئ؁ سے نقل کیاگیا ہے۔ خط کی تاریخ سید عبد الواحد صاحب کی مرتبہ کتاب سے لی گئی ہے۔(مرتب) ماسٹر طالع محمد کے نام (۳۶۵)۔۔۔۔۔(۱) مکتوب الیہ نے جلال پور جٹاں ضلع گجرات ،پنجاب سے دریافت فرمایا،جب الفاظ عربی یا فارسی سے اردو میں منتقل ہوتے ہیں تو بعض اوقات اردو میں آن کر ان کا تلفظ بدل جاتا ہے۔ مثلا عربی میں شفقت ہے،لیکن اردو میں شفقت صحیح ہے۔ مگر بعض باریک بین اور نفاست پسند حضرات اصلی زبان کے تلفظ کو اردو میں خواہ مخواہ ٹھونسنے پر ادھار کھائے ہوئے ہیں۔اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟۔ کیا اصلی زبان کے تلفظ کو صحیح تصور کیا جائے،یا وہ تلفظ صحیح ہے جو اہل زبان (دہلوی اور لکھنوی ادیب یا ان کا خواندہ طبقہ) استعمال کرتے ہیں۔اس کے بعد ماسٹر صاحب موصوف نے الفاظ کی ایک فہرست دے کر ان کا درست تلفظ دریافت فرمایا،جواب حسب ذیل موصول ہوا۔ مکرم بندہ! السلام علیکم! جس قسم کی تحقیق زبان آپ کو مطلوب ہے۔ افسوس کہ میں اس میں آپ کی کوئی امداد نہیں کر سکتا۔غالبا لکھنو سے ایک ادھ رسالہ اس قسم کا شائع ہوتا ہے۔ مگر مجھے نام معلوم نہیں،اس بارے میں آپ مرزا یاس عظیم آبادی ایڈیٹر کار امروز لکھنو اور مرزا عزیز لکھنوی اشرف منزل لکھنو سے خط وکتابت کریں۔وہ آپ کوبہتر مشورہ دے سکیں گے۔ میں آپ کی قدر ومنزلت کرتا ہوں کہ اس زمانے میں اور ایسے مقام پر آپ کو صحیح اردو کا ذوق ہے۔ ۱۷ جون ۲۱ء ؁ محمد اقبال سردار ایم بی احمد کے نام (۳۶۶)۔۔۔۔۔۔(۱) انگریزی سیالکوٹ ۱۷ اگست ۱۹۲۲ء ؁ جناب من جرمنی سے متعلق میری معلومات اب پرانی ہو چکی ہیں۔تیرہ برس گزرے میں اس ملک میں تھا۔ اس کے بعد اس ملک کو تاریخ عالم کی ایک عظیم ترین جنگ سے دو چار ہونا پڑا۔ا س وقت وہ ملک دنیا کی معاشی تاریخ کے ایک عدیم المثال مالی بحران میں مبتلا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جرمنی کی درس گاہوں میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ آپ کو کسی ایسے شخص کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ،جو حال ہی میںاس ملک سے واپس آیا ہو۔ میں تو صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنا مقالہ میونک یونیورسٹی میں پیش کیا۔ جس کے ارباب اختیار نے مجھے یونیورسٹی کے قیام سے مستشنیٰ کر دیا۔ اور مجھے اپنا مقالہ انگریزی میں لکھنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔ جرمن یونیورسٹیاں بالعموم ۳ سال یا ڈیڑھ سال کے لیے لیکچروں میں حاضری پر اصرار کرتی ہیں۔حاضری کی مدت کا تعین امیدوار کی اہلیت پر ہوتا ہے۔ اور عام طور پر مقاملہ جرمن زبان میں مرتب کرنے پر اصرار کیا جاتا ہے۔ مجھے اپنے کیمبرج کے استادوں کی سفارش کی بنا پر اس سے مستشٰنی قرار دیا گیا۔ پی،ایچ،ڈی کا امتحان زبانی جرمن زبان میں ہوا۔ جو میں نے قیام جرمن تھوڑی بہت سیکھی تھی۔ آپ کا محمد اقبال چودھری محمد احسن کے نام (۳۶۷)۔۔۔۔۔۔(۱) مکتوب الیہ کے بڑے بھائی حافظ محمد حسن صاحب کا تعلق جماعت احمدیہ لاہور سے ہے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی اس جماعت میں شمولیت کی دعوت دی۔اور سلسلہ کا تبلیغی لٹریچر بہم پہنچایا۔جس کے مطالعہ کے بعد مکتوب الیہ نے ڈاکٹر اقبال مرحوم سے بعض دینی مسائل کا حل چاہااور اس جماعت سے متعلق علامہ مرحوم کی رائے دریافت فرمائی۔ لاہور ۷اپریل ۳۲ء ؁ جناب من! السلام علیکم میں آپ کے بڑے بھائی سے بخوبی واقف ہوں۔ وہ نہایت نیک نفس انسان ہیں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ آپ کو کسی عالم سے یہ سوالات کرنے چاہیئں ،جو آپ نے مجھ سے کیے ہیں۔میں زیادہ سے زیادہ آپ کو اپنا عقیدہ بتا سکتا ہوں،اور بس میرے نزدیک مہدی،مسیحیت اور مجددیت کے متعلق جو احادیث ہیں وہ ایرانیا ور عجمی تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ عربی تخیلات اور قرآن کی صحیح سپرٹ سے ان کوکوئی سروکار نہیں،ہاں یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے بعض علماء یا دیگر قائدین ملت کو مجدد یا مہدی کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ مثلا محمد ثانی فاتح قسطنطنیہ کو مورخین نے مہدی لکھا ہے۔ بعض علمائے امت کو امام اور مجدد کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں، زمانہ حال میں میرے نزدیک اگر کوئی شخص مجدد کہلانے کا مستحق ہے ۔تو وہ صرف جمال الدین افغانیؒ ہے۔مصر ویران،ترکی وہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبد الوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی کا ذکر کرنا ہوگا۔ موخر الذکر ہی اصل میں موسس ہے۔ زمانہ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا، اگر قوم نے ان کو عام طور پر مجدد نہیں کہا یا انہوں نے خود اس کا دعویٰ نہیں کیا،تو اس سے ان کے کام کی اہمیت میں کوئی فرق اہل بصیرت کے نزدیک نہیں آتا۔ باقی رہی تحریک احمدیت،سو میرے نزدیک لاہور کی جماعت میں بہت سے ایسے افراد ہیں ،جن کو میں غیرت مند مسلمان جانتا ہوں۔اور ان کی اشاعت اسلام کی مساعی میں ان کا ہمدرد ہوں۔کسی جماعت میں شریک ہونا یا نہ ہونا انسان کی ذاتی افتاد طبیعت پر بہت کچھ انحصار رکھتا ہے۔ تحریک میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ آپ کو خود کرنا چاہیئے۔ اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کئی طریق ہیں۔ جن طریقوں پر اس وقت تک عمل ہوا۔ان کے علاوہ اور طریق بھی ہو سکتے ہیں۔ میرے عقیدہ ناقص میں جو طریق مرزا صاحب نے اختیار کیا ہے،وہ زمانہ حال کی طبائع کے لئے موزوں نہیں ہے۔ہاں اشاعت اسلام کا جو جوش ان کی جماعت کے اکثر افراد میں پایا جاتا ہے۔قابل قدر ہے۔ والسلام محمد اقبال پروفیسر میاں محمد شریف کے نام (۳۶۸)۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۱۹ جنوری ۲۵ئ؁ ڈیر شریف ! آپ کا خط مل گیا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ میں کئی دنوں سے صاحب فراش ہوں۔مسوڑے پھول جانے کی وجہ سے سخت تکلیف ہورہی ہے۔ دو آپریشن یکے بعد دیگرے ہو چکے ہیں۔گزشتہ رات جو آپریشن ہوا۔اس سے کسی قدر افاقہ ہوا۔ مگر ابھی تک صاحب فراش ہوں۔چنانچہ یہ خط بھی لیٹے لیٹے لکھ رہا ہوں۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے جو میری قدر افزائی کی ہے۔اس کے لئے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں۔ یہ اعزاز اور بھی گراں قدر ہو جاتا ہے۔ جب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میرا کوئی حق اس یونیورسٹی پر نہ تھا۔ اور نہ عام طور پر علی گڑھ تحریک سے میرا کوئی خاص تعلق رہا ہے۔ امید نہیں کہ ایک ہفتہ تک اس شدت سرما میں سفر کے قابل ہو سکوں،لیکن بعد میں انشا اللہ علی گڑھ ضرور آؤں گا،اور جب آؤں گا تو ضرور آپ سے ملاقات کروں گا۔ اور مسرت حاصل کروں گا۔امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔پروفیسر رشیداحمد صدیقی سے میرا سلام کہیئے۔ مخلص محمد اقبال (۳۶۹)۔۔۔۔۔۔۔(۲) (انگریزی) مائی ڈیر شریف ! میں آپ کے سوالات کا جواب بہم پہنچانے سے قاصر ہوں،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دنیائے اسلام بالخصوص مصر وایران میں Intellectual Activity ہے۔ اور فلسفہ اب بھی دینیات کے ساتھ ساتھ زیر مطالعہ ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے مکاتب میں جو اب تک پرانی روش پر قائم ہیں۔مغربی فلسفہ پڑھایا جاتا تھا۔ یا نہیں ،فلسفہ حال کی بعض کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ مثلا نطشے کی ایک تصنیف کتاب الفجر کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ مجھے اطلا ع ملی تھی کہ کسی شخص نے میسو پو ٹیما میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ لیکن اب تک یہ کتاب میری نظر سے نہیں گزری ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے علماء نے فکر اسلامی کو فلسفہ عہد حاضر کی روشنی میں ازسر نو ترتیب دینے کی کوئی کوشش نہیں فرمائی ہے۔ ۔لیکن دنیائے ا سلام کو جو حوادث پیش آرہے ہیں،ان کی بنا پر یقین ہوتا ہے کہ اس طرف ضرور توجہ ہو گی۔ خلافت کی تنسیخ نے مصر کے بعض مفکرین کو مسئلہ آئین پر قرآن کریم کے مطالعہ کی طرف راغب کیا ہے۔ جب اسلام کی سیاسی بے چینی دور ہوچکے گی۔ تو فلسفیانہ مسائل بھی زیر بحث آئیں گے۔معاف فرمایئے میں نے آپ کے خط کی پشت پر ہی جواب لکھ دیا،اس خیال سے کہ آپ اپنے سوالات کی طرف رجوع کرنا چاہیئں گے۔ مخلص محمد اقبال اس خط پر کوئی تاریخ درج نہیں،لیکن یہ ۱۷ فروری ۱۹۲۶ء ؁ کے خط کے جواب میں موصول ہوا تھا۔ عبد الرشید کے نام (۳۷۰)۔۔۔۔۔(۱) انگریزی مائی ڈیر رشید ! گرامی نامہ کے لئے جو ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ سراپا سپاس ہوں۔آپ کو معلوم ہی ہے کہ امتل اور مسعود کے لئے میرے دل میں کتنی محبت ہے۔اور ان کی خوشی کے لئے میں ہر ممکن کوشش کے لئے تیار ہوں۔لیکن اس خاص معاملے میں میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ نفسیاتی وجوہ کی بنا پر اس الم انگیز یاد کو تازہ رکھنے کا سامان بہم پہنچانا مناسب نہ ہوگا۔ اس یاد سے امومت کی اہلیت پر اثر انداز ہونے کا احتمال ہے۔میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اس سلسلہ کو اس وقت تک نہ چھیڑیئے ،جب تک خدا وند کریم اپنے فضل وکرم سے دوسرا بچہ عطا فرمائے۔اس وقت کتبے پر یہ شعر کندہ کرادیجیئے ع در چمن بود ولیکن نتواں گفت کہ بود آہ،ازان غنچہ کہ باد سحر اورا نکشود یہ شعر آ پ کا خط پڑھتے ہی ذہن میں آگیا۔ مخلص محمد اقبال اختتام خط پر اردو میں مندرجہ ذیل تحریر ہے : میں نے حکیم نابینا صاحب سے دہلی میں امتل کی علالت کا ذکر کر دیا تھا۔وہ نومبر میں دہلی جائیں تو ان کو ضرور نبض دکھائیں۔ محمد اقبال نوٹ لیڈی مسعود کے ہاں مردہ بچہ پیدا ہوا۔ مکتوب الیہ یعنی والد لیڈی مسعود نے کتبہ کے لیے شعر کی فرمائش کی تھی۔(مرتب) قاضی نذیر احمد کے نام (۳۷۱)۔۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۱۲ مئی ۱۹۳۷ء ؁ جناب من : ڈاکٹر صاحب کو آپ کا خط مل گیا ہے۔ وہ خود علیل ہیں۔ اس واسطے مجھ سے آپ کے سوالات کا مندرجہ ذیل کا جواب لکھوایا ہے : ۱۔ میری تحریر میں خودی کا لفظ دو معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔اخلاقی اور ما بعد الطبعیی ہر دو معنوں میں لفظ مذکور کی تشریح واضع طور پر کر دی گئی ہے۔ جس میں فارسی جاننے والے کو کسی قسم کی شک کی گنجائش نہیں رہتی۔اسرار خودی،اور موز بے خودی،دونوں کا موضوع یہی مسلہ خودی ہے۔ان کتابوں کے پڑھنے سے آپ کو اطمینان ہو جائے گا۔اگر ان دونوں میں یا کسی اور کتاب میں آپ کوکوئی ایسا شعر ملے جس میں خودی کا مفہوم تکبر یا نخوت لیا گیا ہو۔ تو اس سے مجھے آگاہ کیجیئے۔ اس کے علاوہ مذکورہ بالا دونوں کتابیں انیس سوچودہ اور ۱۹۱۸ء ؁ میں شائع ہوئیں۔اس وقت سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں مضامین ان کے مطالب کی تشریح میں لکھے گئے ہیں۔باوجود ان کے اگر کسی کو غلط فہمی ہو تو اس کیا علاج ہو سکتا ہے۔ اس زمانے میں یہ ممکن نہیں کہ سچائی کی دو قسمیں قرار دی جائیں۔ایک عوام کے لئے، ایک خواص کے لئے،اور جو صداقت خواص کے لئے ہو،اسے عوام پر ظاہر نہ کیا جائے۔ لیکن میرے حالات کے لئے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔کیونکہ میں نے مسئلہ خودی کے صرف اس پہلو کو نمایاں کیا ہے۔ جس کا جاننا اس زمانے کے ہندی مسلمانوں کے لیے میرے خیال میں ضروری ہے۔ اور جس کو ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔خودی کے متعلق تصوف کے جو دقیق مسائل ہیں۔ان سے میں نے اعراض کیا ہے۔ ۲۔ دوسرے سوال کا جواب بہت طویل ہے۔ مگر افسوس کہ طویل خط لکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ نہ خواہش۔ مختصرا یہ عرض ہے کہ عصبیت اور چیز ہے اور تعصب اور چیز ہے۔ عصبیت کی جڑ حیاتی (Biological) ہے ۔اور تعصب نفسیاتی (Psychol ogical) تعصب ایک بیماری ہے۔ جس کا علاج اطبائے رو حانی اور تعلیم سے ہو سکتا ہے۔عصبیت زندگی کا ایک خاصہ ہے۔جس کی پرورش اور تربیت ضروری ہے۔ اسلام میں انفرادی اور اجتماعی عصبیت دونوں کی حدود مقرر ہیں۔ان ہی کا نام شریعت ہے۔ میرے عقیدہ کی رو سے ان حدود کے اندر رہنا باعث فلاح ہے۔ اور ان سے تجاوز کرنا بر بادی ہے۔تصادم جس کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ ان حدود سے تجاوز کیا جائے۔ یا اپنی عصبیت چھوڑ کر کوئی دوسری عصبیت مثلا نسلی عصبیت اختیار کر لی جائے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ کفار کے ساتھ ہر قسم کا میل ملاپ حرام ہے۔تو وہ حدود شرعیہ سے تجاوز کرتا ہے۔اور اس کے لیے تبلیغ دین میں دقتوں کا سامنا ہوگا۔اسی طرح اگر کوئی قوم اسلامی عصبیت کو چھوڑ کر نسلی عصبیت کو بطور ایک اصول تنظیم کے اختیار کرے مثلا ترکوں پر یہ خیال غالب آرہا ہے۔ تو اس قوم کے لئے تبلیغ بے معنی ہو جاتی ہے۔ اور اس کو یوں بھی تبلیغ میں دل چسپی نہ رہے گی۔ والسلام محمد شفیع ایم،اے مولوی احمد رضا صاحب بجنوری کے نام (۳۷۲)۔۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۲۳ ستمبر ۳۶ء ؁ مخدومی ! السلام علیکم آپ کا نوازش نامہ کئی روز ہوئے مل گیا تھا،جس کے لئے بہت شکر گزار ہوں۔آپ نے اس خط میں فرمایا تھا کہ لاہور کی ایجنسی سے خیر کثیر اور تفہیمات کے نسخے پہنچ جائیں گے۔اطلاعا گزارش ہے کہ یہ کتابیں ابھی تک موصول نہیں ہوئیں۔ آپ نے ملکیت زمین کے متعلق امام محمدؒ کی کسی کتاب کا ذکر کیا ہے۔ مہربانی کرکے مطلع فرمائیں کہ کتاب مذکور کہاں دستیاب ہے۔ نام بھی کتاب کا پڑھا نہیں گیا۔کیا آپ کسی ایسے بزرگ کا نام تجویز کر سکتے ہیں،جس کی نظر فقہ اسلام واصول فقہ وتفسیر پر وسیع ہو۔ اور جو شاہ ولی اللی کے فلسفے اور ان کی کتابوں پر پوری بصیرت رکھتا ہو۔ اگر کوئی ایسے بزرگ مل جائیں،تو میں ان کو اپنی کتابوں کے سلسلے میں کچھ مدت کے لئے اپنے پاس رکھ لوں گا۔اور اس مدد کا جو مجھے ان سے ملے گی،مناسب معاوضہ دوں گا۔ زیادہ کیا عرض کروں،امید ہے کہ جناب والا کا مزاج بخیر ہوگا۔ والسلام مخلص محمد اقبال ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے نام (۳۷۳)۔۔۔۔۔(۱) ۲۲ ستمبر ۳۲ ء ؁ جناب من السلام علیکم۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس قسم کی دستاویز آپ کے پاس ہیں۔لیکن اگر وہ پوشیدہ رہیں تو ان کا کیا فائدہ؟۔ مجھے آپ ان کے اصل بھجوادیجیئے ،تو میں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوئی صورت نکالوں،بعد تصفیہ بعض امور کے جن کی تشریح اس خط میں ضروری نہیں، میں وہ تمام کاغذات آپ کو واپس کردوں گا۔ محمد اقبال (یہ کاغذات قضیہ کشمیر سے متعلق تھے) محمد احمد خان کے نام (۳۷۴)۔۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۲۱ ستمبر ۳۶ ء ؁ جناب من تسلیم! آپ کا والا نامہ مع پارسل کتب ابھی موصول ہوا ہے۔ افسوس کہ گزشتہ دو سال سے علیل ہوں۔مشاغل علمی قریبا ترک ہو چکے ہیں ۔اور خط وکتابت بھی شاذ ونادر ہی کرتا ہوں۔فی الحال آپ کی کتابیں پڑھنے کی ہمت اپنے آپ میں نہیں پاتا۔میں آپ کی نظم ونثر کواچھی نظروں سے دیکھتا ہوں۔ فقط محمد اقبال مکتوب الیہ نا معلوم (۳۷۵)۔۔۔۔۔(۱) اس مکتوب کے سلسلہ میںمکتوب الیہ نے مندرجہ ذیل تشریح ضروری سمجھی ہے۔ اور اس قابل ہے کہ اس سے اقبال کی شاعری نے جو انقلاب ا ور ہیجان پیدا کیا ہے۔اس کی یاد گار کے طور پر محفوظ کیا جائے۔ ’’عرصہ ہوا، احباب کی ایک صحبت میں ڈاکٹر اقبال کی شاعری موضوع بحث تھی۔ صاحب خانہ شکوہ اور جواب شکوہ ترنم سے سنا رہے تھے۔ ایک صاحب نے بعض اشعار پر نکتہ چینی شروع کی۔یہ ساری بحث تو حافظہ میں نہیں ہے۔مگر چند اعتراضات یہ تھے۔ شکوہ کا ایک شعر ع پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی اپنے شیدائیوں پہ یہ چشم غضب کیا معنی غیر سبب صحیح نہیں،بے سبب کے عوض غیر سبب کہنا غلط ہے۔ جواب شکوہ کے پہلے بند: دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کا چوتھا مصرعہ ہے۔ خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ نظر رکھتی ہے۔ گزر رکھنے کا فاعل بات ہے۔ گزر رکھنا اردو کی بول چال نہیں، جب مئے درد سے ہو خلقت شاعر مدہوش آنکھ جب خون کے اشکوں سے بنے لالہ فروش کشور دل میں ہوں خاموش خیالوں کے خروش چرخ سے سوئے زمیں شعر کو لاتا ہے سروش قید دستور سے بالا ہے مگر دل میرا فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا اور باتوں سے قطع نظر اوپر سے نیچے آنے کو نازل کہتے ہیں۔لہذا فرش سے عرش پر ظاہر ہونا صحیح نہیں،قید دستور سے بالا ہونے کا اشارہ صرف یہ ظاہر کر سکتا ہے۔ کہ سروش شعر کو چرخ سے سوئے زمین لاتا ہے۔ مگر میرا شعر فرش سے عرش پر جاتا ہے۔ اس موقع پر نازل ہونا نہیں کہہ سکتے۔لفظ کے لغوی معنی کیسے بدل جائیں گے؟۔ وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہ ء رعنائی تھا نازش موسم گل لالہ صحرائی تھا جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کرلو ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو چوتھے مصرع میں لفظ ہر جائی درست نہیں،اردو کے محاورے میں یہ لفظ ذم کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹیپ کے شعر میں کسی یکجائی سے عہد غلامی کرلو۔ اور ملت کو مقامی کرلو،کے کیا معنے ہو سکتے ہیں؟۔ جواب شکوہ کا آخری شعر ہے۔ بول اس نام کا ہر قوم میں بالا کردے اور دنیا کے اندھیرے میں اجالا کر دے۔ بول بالا ہونا اردو کا محاورہ ہے ،جو کنایہ ہے شہرت یا نام وری کے لئے پس بول ،بالا میں فصل جائز نہیں۔‘‘ غرض یہ اور دوسرے چند اعتراضات سن کر میں نے عر ض کیا،جناب کبھی آپ نے اس پر بھی غور فرمایا ہے۔ کہ شاعری سے علامہ کی غرض کیا تھی؟۔ شاعری ان کے لئے باعث فخر نہیں،ان کی ہستی اس سے بہت ارفع واعلیٰ ہے۔ ادب وشعر میں انقلاب پیدا کرنا یا زبان اردو کی اصلاح وتوسیع ہر گز ان کا مقصد نہیں۔قوم کی زبوں حالی سے متاثر ہو کر جو کچھ وہ کہتے ہیں۔اس کا اثر بجلی کی طرح سننے والے پر بھی ہوتا ہے۔شعر کی بڑی خوبی تو یہی ہے کہ جس کے اثر کے ماتحت شعرکہا جائے،وہی اثر سامع پر بھی ہو۔اس خصوص میں اقبال کی شاعری اپنا جواب نہیں رکھتی۔اس کے مقابلہ میں معمولی فروگزاشت پر کوئی نظر نہیں ڈالتا۔ یہ بحث تو ختم ہو گئی۔مگر عرصہ تک میرے دل میں خلش رہی،بالاخر دل میں آیا کہ ڈاکٹر اقبال سے ہی کیوں نہ استفسار کر لیا جائے۔ان اعتراضات سے قطع نظر کرکے معمولی پیرایہ استفسار اختیار کرکے ضمنا ایک ادھ اعتراض کی نسبت دریافت کرنا مناسب معلوم ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے کسی شعر میں ،روشن بصر پڑھا تھا،اگر چہ یہ لفظ غلط نہیں،دریافت طلب یہ تھا کہ بصر کو روشن کیوں کہا جائے۔صاحب بہار عجم نے صرف نظامی اور عرفی کے اشعار بطور نظیر لکھ دیئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیقات لفظی سے فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ایک اور شعر میں درون خانہ کا لفظ آیا ہے۔مگر محل استعمال کے لحاظ سے کچھ شبہ تھا۔ میرا تیسرا سوال: ع فرش سے شعر ہوا عرش پہ نازل میرا کے متعلق تھا۔ان تینوں سوالات کا ڈاکٹر صاحب نے سلسلہ وار جواب ادا فرمایا جو درج ذیل ہے۔ لاہور ۵دسمبر ۳۶ء ؁ جناب من (۱) خرد را تو روشن بصر کردہ چراغ ہدایت تو بر کردہ (۲) درون خانہ سے مراد نفس انسانی نہیں ہے۔ بلکہ نظام عالم کا باطن ہے۔ مراد یہ ہے کہ عقل انسانی نظام عالم کے ظاہر کو روشن کرتی ہے۔ اس کے باطن کو نہیں دیکھ سکتی۔ (۳) تیسرے سوال کا جواب ذوق سلیم سے ہے۔ نہ مجھ سے، نہ منطق سے، نہ کسی ماہر زبان سے۔ فقط محمد اقبال راغب احسن صاحب کے نام (۳۷۶)۔۔۔۔۔۔(۱) ۲۳ اپریل ۱۹۳۱ء ؁ کو جناب راغب احسن صاحب ایم ،اے جمعیۃ الشبان المسلمین کلکتہ کی بنیاد رکھی اور اس فکر اسلامیت کا میثاق شائع کیا۔اور حکیم الاسلام علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کی خدمت میں ارسال کیا۔ علامہ نے مندرجہ ذیل مکتوب ارسال فر مایا۔ لاہور ۲۸ مئی ۱۹۳۱ء ؁ جناب راغب صاحب السلام علیکم ، آپ کا خط مع میثاق ابھی ملا ہے۔ آپ کی تحریک مبارک ہے۔ عجب نہیں کہ عالم گیر ہو جائے۔انگریزی ترجمے کی فی الحال ضرورت نہیں۔اس وقت تک انتظار کیجیئے۔ جب کہ انگریز خود آپ کی تحریک کا مطالعہ کرنے انگلستان سے ہندوستان آئے۔ فی الحال اس کا ترجمہ جدید فارسی، عربی اور پشتو اور ترکی میں کرایئے۔ اور ممکن ہو تو اہل زبان سے ہر ایک جزو کی صورت میں ممالک اسلامیہ میں اس میثاق وقواعد و مقاصد کو شائع کرایئے۔ تاکہ ان ممالک میں اس کی تخم ریزی ہو جائے۔غالبا آپ کی تقلید وہاں بھی ہوگی یا ممکن ہے ان ممالک میں یہ تحریک کوئی اور صورت اختیار کرے۔ مدت ہوئی میں نے خواب دیکھا تھا کہ ایک سیاہ پوش فوج عربی گھوڑوں پر سوار ہے۔مجھے تفہیم ہوئی یہ ملائکہ ہیں۔ میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ ممالک اسلامیہ میں کوئی جدید تحریک پیدا ہونے والی ہے۔ عربی گھوڑوں سے مراد روح اسلا میت ہے۔ کیا عجب ہے کہ یہی وہ تحریک ہو جس کا آغاز آپ نے کیا ہے۔ ابھی ا ور بھی امور ہیں،جن پر آپ کو غور کرنا ہوگا اور ان کو اپنی تحریک اور مقاصد کا جزو بنانا ہوگا۔مگر ان کا وقت ابھی نہیں آیا۔ قومی سرمائے کی سخت ضرورت ہے۔ افسوس مسلمان امراء پر حب مال غالب ہے۔ والسلام محمد اقبال شوکت حسین کے نام (۳۷۷) ۔۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۳جنوری ۱۹۳۶ء ؁ جناب من! اخبار موسول ہوا، ممنون ہوا۔ میں نے بھی چند دن ہوئے یہ اخبار دیکھا تھا۔لیکن اسے قابل توجہ نہ سمجھا، یہ نظم بیس برس ہوئے لکھی گئی تھی۔ معلوم نہیں کس نے شائع کی ہے۔اس کی اشاعت سے قبل مجھ سے اجازت حاصل کرنا زیادہ قرین انصاف معلوم ہوتا،لیکن ادبی اخلاق وآداب اس ملک میں مفقود ہے۔ مصنف کوجس کے دل ودماغ میں مسلسل انقلاب برپا رہتا ہے،کون خاطر میں لاتا ہے۔ یہ نظم اگر چہ میری نہایت ہی ابتدائی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ تاہم تنقید کے بعض حصے اغلاط کتابت پر محمول ہونے چاہییں۔جن کا مورد الزام مجھے نہیں ٹھہرانا چاہیئے۔ نقاد کی نظر سے نظم کے حقیقی مقام البتہ پوشیدہ رہے۔ شعر محاورا اور بندش کی درستی اور چستی ہی کا نام نہیں۔ میرا ادبی نصب العین نقاد کے ادبی نصب العین سے مختلف ہے۔ میرے کلام میں شعریت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اور میری ہر گز یہ خواہش نہیں کہ اس زمانہ کے شعرا میں میرا شمار ہو۔ نیاز مند محمد اقبال (۳۷۸)۔۔۔۔۔(۲) انگریزی لاہور ۶ جنوری ۱۹۱۹ء ؁ جناب من! نوازش نامہ موصول ہوا۔ مجھے خوشی ہوئی۔ کہ آپ نظم کی پہلی اشاعت کی تلاش میں کام یاب ہوئے۔میرے پاس اصل مسودہ کی کوئی نقل تک موجود نہیں۔نظم اس مقام سے بری نہیں،لیکن اب اس طرف توجہ کے لئے فرصت کہاں؟۔ ایک پرانی نظم کو آراستہ کرنے سے ایک نئی نظم تیار کرنا مقابلتہ آسان ہے۔ نظم کے اسمقام البتہ نفسیاتی ہیں،چند بندشیں بھی قابل اصلاح ہیں۔ ہندوستانی ناقدین ابھی آرٹ کی تنقید کے ابتدائی اصولوں سے بھی بے بہرہ ہیں۔البتہ مجھے خوشی ہے کہ آپ اس معاملہ میں مطمئن ہیں۔ محمد اقبال (۳۷۹)۔۔۔۔۔(۳) مخدومی السلام علیکم ! آپ کی نظم موصول ہو گئی۔ شکریہ قبول فرمایئے۔ اسرار خودی اقبال کا قال ہے۔ مگر ممکن ہے ،آپ کا حال ہو۔ اگر ایسا ہو تو میرے لیے بھی دعا فرمایئے۔ محمد اقبال ،لاہور ۷ فروری ۱۹۲۶ء ؁ مولوی احمد علی شاب کے نام (۳۸۰)۔۔۔۔۔(۱) مکتوب الیہ نے ایک نظم ۱۳ اگست ۱۹۲۶ء ؁ کو اصلاح کے لئے ارسال فرمائی تھی۔ جناب من! تسلیم اس خدمت سے معاف فرمایئے۔ کہ میں بہت عدیم الفرصت ہوں۔اس کے علاوہ دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنے فرصت کے اوقات کے لئے شاعری سے بہتر مصرف تلاش کریں۔اگر اردو کی خدمت کا شوق ہو تو اس وقت نظم سے زیادہ نثر کی ضرورت ہے۔ خادم محمد اقبال سید انور شاہ صاحب ؒ کے نام (۳۸۱)۔۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۱۳ مارچ ۳۵ ء ؁ مخدوم ومکرم حضرت قبلہ مولٰینا! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، مجھے ماسٹر عبد اللہ صاحب سے ابھی معلوم ہوا ہے کہ آپ انجمن خدام الدین کے جلسہ میں تشریف لائے ہیں۔اور ایک دو روز قیام فرماویں گے۔ میں اسے اپنی بڑی سعادت تصور کروں گا کہ اگر آپ کل شام اپنے دیرینہ مخلص کے ہاں کھانا کھائیں۔جناب کی وساطت سے حضرت مولوی حبیب الرحمن صاحب،قبلہ عثمانی صاحب،حضرت مولوی شبیر احمد صا حب اور جناب مفتی عزیز الرحمن صاحب کی خدمت میں بھی یہی التماس ہے ۔ مجھے امید ہے کہ جناب اس عریضے کو شرف قبولیت بخشیں گے۔ آپ کو قیام گاہ پر لانے کے لئے سواری یہاں سے بھیج دی جائے گی۔ مخلص محمد اقبال پروفیسر سردار محمد کے نام (۳۸۲)۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۶ مارچ ۲۵ ء ؁ مکرمی ،السلام علیکم ! آپ کا خط کئی دنوں سے آیا رکھا ہے۔ مگر میں عدیم الفرصتی کی وجہ سے جواب نہ لکھ سکا۔اب بھی آپ کے دوست کے نوٹ کا پورا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔کیونکہ وہ سند مانگتے ہیں ۔اور سند کے لئے تلاش کی ضرورت ہے۔اور تلاش کے لئے فرصت شرط ہے۔میرے علم میں خجستہ پا، خجستہ پے، خجستہ گام ،خجستہ قدم سب صحیح ہیں۔ان میں سے کون کس محل پر استعمال کیا جائے۔استعمال کرنے والے کی ضرورت اور مذاق پر منحصر ہے۔عثمان مختاری نے خجستہ دست بھی لکھ دیا تھا۔علیٰ ہذا القیاس اس کی ضد سبز پا(شوم قدم) ہے۔ اس میں بھی شعراء نے حسب ضرورت تصرف کیا ہے۔ اور سبز پا، سبز پے، اور سبز قدم تینوں طرح لکھا ہے۔ بہر حال مطالعہ کے وقت میں خیال رکھوں گا،اگر کوئی شعر مل گیا تو لکھ بھیجوں گا۔زبان کے متعلق میرا نقطہ نگاہ اور ہے۔مگر اس ملک میں جہاں لوگ علم اللسان جدید سے واقف نہیں،وہ نقطہ نگاہ بدعت سمجھا جائے گا۔اس واسطے اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ورنہ آپ کے دوست کی تنقید کا وہ کافی جواب ہوتا۔ان کی تسلی صرف سند سے ہی ہو سکتی ہے۔ جس کی تلاش انشا اللہ کرو ں گا، محمد اقبال شو لال شوری کے نام (۳۸۳)۔۔۔۔۔(۱) انگریزی لاہور ۲۷ مئی ۱۹۳۷ء ؁ ڈیر مسٹر شوری ! مجھے نہایت ہی تاسف سے آپ کو اطلاع دینا پڑتی ہے۔ کہ آپ کے مرسلہ کے کاغذات کا مطالعہ میرے لئے نا ممکن ہے۔میری آنکھوں کی تکلیف بڑھ رہی ہے۔ اور میرے معالجین نے مجھے لکھنے پڑھنے کی سخت ممانعت کر دی ہے۔بنی نوع انسان کی وحدت کا خیال اس شدید قومیت کے دور میں جس کا ماحصل نسل انسان میں باہمی خانہ جنگی کے سوائے کچھ نہیں،محتاج اشاعت ہے۔ اگر آپ کے پمفلٹ کا یہی موضوع ہے ،تو بلا شبہ آپ کی تشخص درست ہے۔ آپ کامحمد اقبال حاجی نواب محمد اسٰمعیل خاں رئیس دتا دلی ضلع علی گڑھ کے نام (۳۸۴)۔۔۔۔۔(۱) عالی جناب نواب صاحب قبلہ ! السلام علیکم ،آپ کی کتابیں اور خط کئی دنوں سے میری میز پر رکھا ہے۔میں بوجہ علالت جواب نہ لکھ سکا۔ اس تاخیر کے لئے معافی کا خواستگار ہوں۔ حالات زمانہ، یعنی جغرافیہ جو آپ نے بچوں اور بچیوں کے لئے تالیف فرمایا ہے۔ نہایت عمدہ رسالہ ہے۔ اور میری رائے ناقص میں ایک بہت بڑی کمی کو پورا کرتا ہے۔ میں نے بار ہا دیکھا ہے کہ مسلمان مستورات بوجہ جغرافیہ نہ جاننے کے اخبارا چھی طرح نہیں سمجھ سکتیں۔ آپ کا رسالہ ان کے لئے از بس مفید ہوگا۔ قطع نظر اس کے کہ ان کو دنیا کے حالات سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اس رسالہ کے مطالعہ سے ان کے دائرہ نظر میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے جو اسلامیہ سکول اس وقت موجود ہے۔ یا جو آئندہ بنائے جائیں گے۔ان میں اس جغرافیہ کی ترویج نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کوجزائے خیر دے۔ آپ اپنا بیش قینت وقت ایسے ایسے رسائل کی تصنیف وتالیف میں صرف فرماتے ہیں۔ والسلام آپ کا خادم محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا ء غلام قادر فصحیح کے نام (۳۸۵)۔۔۔۔۔(۱) میرے نزدیک یہ رسالہ نہایت مفید ہے۔ اور ہر مسلمان کو اس کا پڑھنا ضروری ہے۔ عام مسلمانوں میں اخلاق حسنہ پیدا کرنے کے لئے اس سے اچھا کوئی ا ور ذریعہ نہیں ہے۔کہ اس قسم کے تاریخی رسالے شائع کیے جائیں۔جن سے ان کو اسلاف کے حالات معلوم ہوں۔اور ان کے طرز عمل کا ان پر اثر پڑے۔قوموں کی بیداری کا اندازا اس سے ہو سکتا ہے۔ کہ ان کو اپنی تاریخ سے کہاں تک دل چسپی ہے۔آپ کے رسالے کی اشاعت سے یہ معلوم ہوگا کہ مسلمان کہاں تک اپنے اسلاف کے حالات سے دل چسپی رکھتے ہیں۔ حالات موجودہ کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں عام طور پر ایک قسم کی قومی بیداری پیدا ہو گئی ہے۔اور تاریخی مضامین کو نہایت توجہ سے سنا جاتا ہے۔اس واسطے میں سمجھتا ہوں کہ آپ ک ارسالہ بر محل نکلا ہے۔اور ہماری ضروریات موجودہ کا کفیل ہوگا۔ خود مجھ پر جو اثر اس کے مطالعے سے ہوتا ہے،اس کا اظہار میںاس سے بہتر الفاظ میں نہیں کر سکتا کہ بسا اوقات دوران مطالعہ میں چشم پر آب ہو جاتا ہوں۔ اس کا اثر میرے دل پرکئی کئی دن رہتا ہے۔ خدا کرے کوئی مسلمان گھر اس رسالے سے خالی نہ رہے۔ محمد اقبال محمد دین فوق (۳۸۶)۔۔۔۔۔۔(۱) از کیمبرج یونیورسٹی ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ ئ؁ مخدوم ومکرم ! السلام علیکم میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ سویز پہنچ کر دوسرا خط لکھوں گا۔ مگر چونکہ عدن سے سویز تک کے حالات بہت مختصر تھے۔ اس واسطے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ لندن پہنچ کر مناسب واقعات عرض کروں گا۔ میرے پاس ایک کاغذ تھا۔ جس پر میں نوٹ لیتا جاتا تھا۔ مگر افسوس کہ منزل مقصود پر پہنچ کر وہ کاغذ کہیں کھو گیا۔ یہی وجہ اب تک میرے خاموشرہنے کی تھی۔ شیخ عبد القادر کی معرفت آپ کی شکایت پہنچی۔کل ایک پرائیویٹ خط میں نے آپ کے نام لکھا تھا۔دونوں خط آپ کو ایک ہی وقت ملیں گے۔ عدن میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے بنائے ہوئے تالاب ہیں۔ اور یہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ایک دفعہ کی بارش کا تمام پانی ہر جگہ سے ڈھل کر ان میں جا گرتا ہے۔ چونکہ ملک خشک ہے۔ اس لئے ایسی تعمیر کی سخت ضرورت ہے۔ میں بوجہ گرمی کے اور قرنطینہ کے عدن کی سیر نہ کر سکا۔اور انجئینری کے اس حیرت ناک کرشمے سے محروم رہا۔ جب ہم سویز پہنچے تو مسلمان دکانداروں کی ایک کثیر تعداد ہمارے جہاز پر آموجود ہوئی۔اور ایک قسم کا بازار تختہ جہاز پر لگ گیا۔ ان لوگوں کی فطرت میں میلان تجارت مرکوز ہے۔اور کیوں نہ ہو۔انہی کے آبا واجداد تھے۔جن کے ہاتھوں کبھی یورپ اور ایشیا کی تجارت تھی۔سلیمان اعظم انہی میں کا ایک شہنشاہ تھا۔ جس کی وسعت تجارت نے تاجر اقوام کو ڈرا کر ہندوستان کی ایک نئی راہ دریافت کرنے کی تحریک کی تھی۔کوئی پھل بیچتا ہے۔ کوئی پوسٹ کارڈ دکھاتا ہے۔ کوئی مصر کے پرانے بت بیچتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ یہ ذرا سا بت اٹھارہ ہزار برس کا ہے۔ جو ابھی کھنڈر کھودنے پر ملا ہے۔غرض یہ کہ یہ لوگ گاہکوں کو (۱ؔ)قید کر لینے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑتے۔انہی لوگوں میں ایک شعبدہ باز بھی ہے۔ کہ ایک مرغی کا بچہ ہاتھ میں لیے ہے۔ اور کسی نامعلوم ترکیب سے ایک کے دو بنا کر دکھاتا ہے۔ ایک نوجوان دکاندار مصری سے میں نے سگرٹ خریدنے چاہے اور باتوں باتوں میں اس سے کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ مگر میرے سر پر چونکہ انگریزی ٹوپی تھی۔اس نے ماننے میں تامل کیا اور مجھ سے کہا کہ تم ہیٹ کیوں پہنتے ہو؟۔(تعجب ہے کہ یہ شخص ٹوٹی پھوٹی اردو قید انگریزی لفظ (Capture)کا ترجمہ ہے۔ اس کا مفہوم گاہک کو پھانس لینا ہے۔ؔ بولتا تھا۔ جب وہ میرے اسلام کا قائل ہو کر یہ جملہ بولا کہ’ تم بھی مسلم ،ہم بھی مسلم،تو مجھے بڑی مسرت ہوئی) میں نے جواب دیا کہ کیا ہیٹ پہننے سے اسلام تشریف لے جاتا ہے۔ کہنے لگا کہ اگر مسلمان کی داڑھی منڈی ہو تو اسے ترکی ٹوپی یعنی طربوش ضرور پہننا چاہیئے۔ورنہ پھر اسلام کی علامت کیا ہوگی؟۔ میں نے اپنے دل میں کہا، کہ کاش ہندوستان میں بھی یہ مسئلہ مروج ہو جاتا کہ ہمارے دوست موسمی علماء کے حملوں سے مامون ومصئون ہو جاتے۔خیر آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا۔ اور چونکہ حافظ قرآن تھا۔ اس واسطے میں نے قرآن شریف کی چند آیات پڑھیں،تو نہایت خوش ہوا اور میرے ہاتھ چومنے لگا۔باقی تمام دکانداروں کو مجھ سے ملایا،اور وہ سب میرے گرد حلقہ باندھ کر ماشا اللہ ،ماشا اللہ ،کہنے لگے۔اور میری غرض سفر معلوم کرکے دعائیں دینے لگے۔یا یوں کہیئے کہ وہ دو چار منٹ کے لئے تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی اخوت کی بلندی پر جا پہنچے۔ تھوڑی دیر کے بعد مصر جوانوں کا نہایت خوبصورت گروہ جہاز کی سیر کے لئے آیا۔ میں نے جب نظر اٹھا کر دیکھا تو ان کے چہرے اس قدر مانوس لگے کہ مجھے ایک سیکنڈ کے لئے علی گڑھ کالج ڈپو ٹیشن کا شبہ ہوا۔ یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے۔ اور میں بھی دخل درمعقولات ان میں جا گھسا۔دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوب صورت عربی بولتا تھا۔جیسے حریری کا کوئی مقامہ پڑھ رہا ہو۔ آخر مسلمانوں کے اس گروہ کو چھوڑ کر ہمارا جہاز روانہ ہوا۔ اورآہستہ آہستہ نہر سویز میں داخل ہوا۔ یہ کنال جسے ایک فرانسیسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا۔ دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے۔کنال کیا ہے۔ عرب اور افریقہ کی جدائی ہے۔ اور مشرق اور مغرب کا اتحاد ہے۔ دنیا کی روحانی زندگی پر مہا تما بدھ نے بھی ایسا اثر نہیں کیا۔جس قدر اس مغربی اختراع نے زمانہ حال کی تجارت پر کیا ہے۔ کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگ تراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا۔جس نے اقوام عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیاد رکھی۔جس نے حال کی دنیا کی تہذیب وتمدن کو کچھ کا کچھ کر دیا۔ بعض بعض جگہ تو یہ کنال ایسی تنگ ہے کہ دو جہاز مشکل سے اس میں سے گزر سکتے ہیں۔اور کسی کسی جگہ ایسی بھی ہے کہ اگر کوئی غنیم چاہے کہ رات بھر میں اسے مٹی سے پر کردے۔ تو آسانی سے کر سکتا ہے۔ سینکڑوں آدمی ہر وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ جب ٹھیک رہتی ہے۔ اوراس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ دونوں جانب سے جو ریگ ہوا سے اڑ کر اس میں گرتی ہے۔ اس کا انتظام ہوتا رہے۔۔۔۔ محمد اقبال (۳۷۸)۔۔۔۔۔۔(۲) ۱۳ مارچ ۲۱ ء ؁ فوق کو اسلامیات سے ہمیشہ شغف رہا ہے۔ اس سے پہلے ان کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ ’’حریت اسلام‘‘ ان کی بہترین تصنیف ہے۔دلیری اور بے باکی سے اعلان حق کرنا گزشتہ مسلمانوں کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو تھا۔ مگر افسوس کہ عہد حاضر کے مسلمان تو تاریخ اسلامی سے بالکل بے بہرہ ہیں۔اچھے اچھے تعلیم یافتہ موٹے موٹے واقعات سے بے خبر ہیں۔ان حالات میں فوق صاحب کی تصنیف پنجاب کے اسلامی لتریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔اور مجھے یقین ہے کہ کوئی مسلمان خاندان اس بیش بہا کتاب کے مطالعہ سے محروم نہ رہے گا۔ اسلامی سکولوں اور کالجوں کے کتب خانے خاص طور پر اس کے مطالعہ پر توجہ دیں۔اس زمانے میں جب کہ جمہوریت کی روح پنجاب میں نشو ونما پا رہی ہے۔ دیگر اہل ملک کے لئے بھی یہ کتاب سبق آموز ہو گی۔ محمد اقبال مکتوب الیہ نامعلوم (۳۸۸)۔۔۔۔۔(۱) ۲۸ دسمبر ۳۷ ء ؁ جناب من سلام مسنون ! آپ کی تجویز کی خوبی اس کے نتائج سے ظاہر ہے۔ جن کی نسبت آپ خود فرماتے ہیں کہ بہت اچھے ہیں۔قرآن مجید میں بھی یہی آیا ہے۔ کہ وانذر عشیرتک الا قربین ۔۔ہ والسلام محمد اقبال مکتوب الیہ نے تعلیمات اسلامی کی اشاعت کا ایک پروگرام پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دی تھی کہ خود اپنے اقربا میں اس کی اشاعت کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہوا۔ خالد خلیل کے نام (۳۸۹)۔۔۔۔۔(۱) مائی ڈیر خالد خلیل میں آپ کا یہ خط سید سجاد (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کے مکتوب کے جواب میں لکھ رہا ہوں۔جنہوں نے کچھ عرصہ ہوا ،آپ کا خط یہاں اخبارات میں شائع کرایا۔اور خصوصا مجھ سے ایسی تجاویز طلب کیں ،جو آپ کے معلمانہ مساعی ومشاغل میں معین ہو سکیں۔ میرے نزدیک قسطنطنیہ یونیورسٹی کے ادارہ ء دینیات نے یہ نہایت دانش مندانہ کام کیا ہے،اگر اسلامی علم الا انساب کاکام باقاعدہ طور پر کیا گیا تو اغلبا ایسے انکشافات بروئے کار آئیں گے،جن سے دنیائے اسلام کی بابت ترکوں کا دائرہ نظر وسیع تر ہو جائے گا۔اور اس طرح پر ممکن ہے کہ نوخیز نسل کا ذہنی اور روحانی نصب العین محکم تر ہو جائے۔علاوہ ازیں اس قسم کی تحقیقات سے انسانی علوم کے سرمایے میں اضافہ ہوگا۔اور ممکن ہے کہ نسلی خصوصیتوں کی تہہ میں وحدت روح کے ایسے سامان دریافت ہو سکیں جن کا اندازہ سطحی مشاہدے سے بمشکل لگایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے یہ حقیقت بھی بے نقاب ہو سکے کہ ایشیا کی سیرت کی تشکیل میں جس کا راز ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا،مہتمم بالشان تاتاری نسل کی بعض اہم تر شاخیں کار فرما رہی ہیں۔ جو کام آپ کے پیش نظر ہے۔ اس کے امکانات بے پایاں ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے خطبات علمی سے انسانیت،اسلام اور اپنے ملک وملت کی زبردست خدمت سر انجام دیں گے ،اور کم از کم دس سال کی مستقل سعی ومحنت کے بعد آپ ملل اسلام اور ان لوگوں کے لئے جو بطریق مختلفہ ان ملل سے دل چسپی رکھتے ہیں۔ایک کلیتہ جدید نقطہ نظر مہیا کر سکیں گے۔ میں پہلے ایک عام تجویز پیش کروں گا۔ آپ کو ادارہ دینیات کو مشورہ دینا چاہیئے کہ جتنی کتابیں تاریخی یا اور قسم کی یورپین اور اسلامی زبانوں میں مختلف ممالک کے مسلمانوں کے متعلق لکھی گئی ہیں۔ وہ ان سب کو فراہم کرے۔یورپین کتابوں میں سے اکثر جو بلا شبہ خاص اغراض کو مد نظر رکھ کر تصنیف کی گئی ہے۔( مثلا تبلیغی،سیاسی،تجارتی وغیرہ ) تاہم ان کتابوں میں کہیں کہیں آپ کو اپنے مضمون سے متعلق نہایت مفید معلومات ملیں گی۔ مثلا مارشل کی ، اسلام چین میں، ایک مشنری نے اٖغراض مشنری کے لیے لکھی ہے۔ بایں ہمہ اس کتاب کے بعض حصص کے مطالعہ سے چینی مسلمانوں کے موجودہ نصب العین ان کی تحریکات اور ان کی آرزوؤں کا پتا لگتا ہے۔ مصنف نے ان کی اصلیت کے متنازع فیہ مسئلہ،ان کی موجودہ آبادی،ان کے معاہد، اور ان کے ادب کی نوعیت سے بحث کی ہے۔ ایک دوسری مثال سٹورڈرڈ کی تصنیف ، جدید دنیائے اسلام ہے۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے۔ جو جنگ عظیم کے بعد احاطہ تحریر میں آئی ہیں۔اور اس کے مصنف کا مقصد جو ( اینگلو سیکسن نسل کی برتری کا قائل معلوم ہوتا ہے۔)محض ایک طرح کی سیاسی اشتہار بازی ہے۔تاہم یہ ایک مفید کتاب یورپین زبانوں میں لکھی ہوئی ہے۔ ان کتابوں کے بے شمار حوالے دیتی ہے۔ جو اسلام اور ملل اسلامیہ پر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کتابیں ہیں ،جن کو سیاحوں یا حکومتہائے یورپ کے ان سیاسی نمائندوں نے فردا فردا بعض اسلامی ممالک پر لکھا ہے۔ جہاں وہ متعین تھے۔ مثلا برٹن اور فلبی (عرب) گوبنو (فارس) اور ویمری (وسط ایشیا) یہ وہی ویمری ہے ،جس نے مرحوم سلطان عبد الحمید کو بتایا تھا کہ اسلام کے حلقہ بگوش ہو نے سے پہلے ترک اپنے ایک مخصوص رسم الخط کے مالک تھے۔ یہ سب کتابیں جمع کرنی چاہیئں۔اور اپنے خطبات کی تیاری میں ان سے مدد لینی چاہیئے۔میسرز لوزک اینڈ کمپنی برٹش میوزیم لندن سے مراسلت کیجیئے۔ ان کی فہرست کتب سے آپ کو معلوم ہوگا ،کہ یورپین مستشرقین نے اسلامی تمدن پر کتنا زبردست ذخیرہ فراہم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کا لائپزگ (جرمنی) کے پروفیسر ڈاکٹر فشر سے مراسلت کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ میرا خیال ہے،وہ آپ کے مضمون کے متعلق قیمتی مشورے دے سکیں گے۔ اگر آپ خود ان سے واقف نہیں تو خط میں میرا حوالہ دے دیجیئے گا۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر زویمر کا بھی نام لوں گا۔ جو قاہرہ میں ایک امریکن مشنری ہیں۔وہ اسلام کی مخالفت میں ایک رسالہ ، مسلم ورلڈ ، کی ادارت بھی کرتے ہیں۔لیکن انہوں نے متعدد کتابوں اور مضامین کی صورت میں ملل اسلامی پر بہت کچھ لکھا ہے۔گزشتہ سال وہ لاہور آئے تھے۔اور انہوں نے جرمن زبان میں مجھے ایک کتاب دکھائی تھی۔ جس میں اسلام اور ملل اسلام پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں،ان کے عنوانات درج تھے۔ میں اس کے مصنف کا نام بھول گیا ہوں۔مگر یہ آسانی سے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر زویمر کو لکھیں تو وہ آپ کو بتا دیں گے۔ یہ کتاب حال میں شائع ہوئی ہے۔ اور اس سے آپ کو اغلبا ایسی کتابوں کے نام ملیں گے،جو آپ کے مضمون سے متعلق ہیں۔ پروفیسر ہاروٹز (فرینکفورٹ جرمنی سے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔) (۲) تصریحا میں مشورہ دوں گا۔ کہ انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلام مستقل طور پر پیش نظر رہے۔ اس میں آپ کو اسلامی ممالک مثلا افغانستان،بلوچستان، کشمیر، وغیرہ پر ان کی نسلی اور نسبی خصوصیات پر مضمون ملیں گے۔فارس کے متعلق میں Memoir Sur L Ethnograpie de ia perse Nicolas de Khanik off paris isse کے مطالعہ کا مشورہ دوں گا۔یہ کسی قدر پرانی کتاب ہے۔ مگر اس سے آپ کو اپنے کام کی نوعیت اور ترتیب کا ایک عام اندازہ ہو جائے گا۔ (۳) جہاں تک آپ کے خطبات کی ترتیب کا تعلق ہے۔ میں حسب ذیل مشورے دینا چاہتا ہوں۔ شروع میں دو ایک ابتدائی خطبات ہوں۔ جن میں حسب ذیل امور پر بحث ہو۔ (الف) علم وظائف الاعضا کے نقطہ نظر سے نسل کی حیثیت (ب) وہ اسباب جن سے نسلوں کی تفریق پیدا ہو ئی۔ ج : کیا مذہب ایک نسل آفریں عنصر ہے۔بذاتہ میں محسوس کرتا ہوں،کہ تفریق لسانی کے باوجود کیا عالم اسلام کی ادبیات ایک مشترک پیش نہاد کی حامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی میرا خیال ہے کہ ایسا ہے۔ (د) اسلامی نسلوں کا ایک سرسری دائرہ۔ ۱۔سامی (ا) عرب (ب) افغانی اور کشمیری (کیا یہ عبرانی ہیں؟۔) ۲۔ آریائی ۱، ایرانی (ب) ہندی مسلمان ،یہ مخلوط النسل ہیں۔ آریائی عنصر غالب ہے،جاٹ اور راجپوت جیسا کہ بعض مصنفین کاخیال ہے۔شاید تاتاری ہیں۔ ۳۔ تاتاری وسط ایشیا کے تاتاری (ب) منگولین (کاشغری اور تبتی) (ج) چینی مسلمان (د) عثمانی ترک ۴۔ حبشی اور بربری ۵۔ علم الانساب کے اغراض ومقاصد (۴) میری رائے ہے کہ مثال کے طور پر افغانوں پر خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے۔ خطبہ اول: افغان۔افغانستان میں نسلوں کا خلط ملط، فارسی بولنے والے افغان اور پشتو بولنے والے افغان۔کیا افغان اور پٹھان مابہ الا متیاز ہے؟۔ کیا افغان عبرانی ہیں؟۔ اپنی اصلیت کے متعلق ان کی اپنی روایات۔کیا پشتو زبان میں عبرانی الفاظ ملتے ہیں۔ کیا وہ ان یہودیوں کے اخلاف ہیں ،جن کو ایرانی کسریٰ نے اسیرین کی غلامی سے نجات دلائی تھی۔ جدید افغانستان کے بڑے بڑے قبائل،ان کی تخمینی آبادی۔ خطبہ دوم: افغانوں کے اسلام لانے کے زمانہ سے ان کی سیاسی تاریخ پر سرسری تبصرہ خطبہ سوم : افغانوں کو متحد کرنے کی جدوجہد۔ (ا) مذہبی۔پیر روشن اور ان کے اخلاف (ب) سیاسی ۔ مشہور افغان شیر شاہ سوری جس نے افغانان ہند کو متحد اور عارضی طور پر حکومت مغلیہ کو بر طرف کر دیا تھا۔ اس کی تگ ودو کا صرف ہندوستان تک محدود ہونا۔ (ج) خوش حال خان خٹک،سرھدی افغانوں کا زبردست سپاہی شاعر ،جس نے ہندوستان کے مغلوں کے خلاف افغان قبیلوں کو متحد کرنا چاہا تھا۔ا س کا خیال تھاکہ افغان عربی انسل تھے۔اس نے آخری شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر سے شکست کھائی،اور کسی ہندی قلعہ میں قید کر دیا گیا۔افغانوں کا شاید اولین قومی شاعر تھا۔ (د) احمد شاہ ابدالی (ہ) مرحوم عبد الرحمن خان۔موجودہ امیر اور افغانوں میں قومی تشخص پیدا کرنے کی جد وجہد۔ خطبہ چہارم موجودہ افغانی تمدن،ان کی قدیم اور جدید صنعت وصناعت۔ان کی ادبیات،ان کی آرزوؤں اور حوصلہ مندیوں کی ترجمان کی حیثیت سے۔ خطبہ پنجم افغانی نسل کا مستقبل (۵) آخر میں ایک نہایت اہم تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔ گو اس کا تعلق اس خط سے نہیں ہے۔ ادارہ ء دینیات کو چاہیئے کہ دینیات کی ایک پروفیسر شپ قائم کرے،جس پر کسی ایسے شخص کو متعین کیا جائے،جس نے اسلامی دینیات اور جدید یورپین فکر وتصور کا مطالعہ کیا ہو۔ تاکہ وہ مسلم دینیات کو افکار جدیدہ کا ہمدوش بنا سکے۔ قدیم اسلامی دینیات کے (جس کا ماخذ زیادہ تر یونانی حکمت وفکر تھا) تار وپود بکھر چکے ہیں۔ اب وقت آچکا ہے کہ اس کی شیرازہ بندی کی جائے۔ ترکی کو چاہیئے کہ جس طور پر وہ اور معاملات میں پیش قدمی کررہی ہے۔،اس معاملہ میں بھی پیش قدمی کرے۔ یورپ نے عقل والہام کو ہم آہنگ بنانا ہم سے سیکھا ہے۔وہ اپنی دینیات کو موجودہ فلسفہ کی روشنی میں از سر نو تعمیر کرکے ہم سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسلام کہ عیسائیت سے کہیں زیادہ سادہ اور عقلی مذہب ہے۔ اس شعبہ میں کیوں بے حس وحرکت ر ہے۔ ادارہ ء دینیات کو ایک جدید علم کلام کی طرح ڈالنی چاہیئے۔ اور ترکی کی نو خیز نسل کو یورپ کی لا مذہبیت سے محفوظ و مصمون کر لینا چاہیئے۔مذہب قوم میں ایک متوازن سیرت پیدا کرتا ہے۔ جو حیات ملی کے مختلف پہلوؤں کے لئے بیش ترین سرمایہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بحیثیت مجموعی یورپ نے اپنے باشندوں کی تعلیم وتربیت میں سے مذہب کا عنصر خذف کر دیا ہے۔ اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس بے لگام انسانیت کا کیا حشر ہوگا۔شاید ایک نئی جنگ کی صورت میں وہ اپنی ہلاکت کا باعث خود ہو۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لا روز نامی اسٹٹسمینٹس کے نام (۳۹۰)۔۔۔۔۔ (۱) میرے اس بیان پر جو آپ کے اخبار کی ۱۴ مئی کی اشاعت میں شائع کیا گیا تھا، آپ نے جو تنقیدی اداریہ لکھا ہے۔ میں اس کے لیے آپ کا مشکور ہوں۔آپ نے اپنے اداریے میں جو سوال اٹھا یا ہے۔ وہ بڑا ہی اہم ہے۔ اور میں واقعی بہت خوش ہوں کہ آپ نے اسے اٹھایا ہے۔ میں نے اپنے بیان میں اس سوال کو نہیں اٹھایا ہے۔ کیونکہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ قادیانیوں کی علیحدگی پسند ی کی پالیسی ( جس پر وہ مذہبی اور سماجی معاملات میں یکسانیت کے ساتھ اس وقت سے کوشاں ہیں۔جب متقابل رسالت کی بنیادوں پر ایک نئے فرقہ کے قیام کا خیال پیدا ہوا،اور اس روش کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کی شدت کے پیش نظر یہ ایک حد تک حکومت کا فرض تھا۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے موقف کی با ضابطہ پیش کش کا انتظار کیے بغیر قادیانیوں اور مسلمانوں کے مابین اپنے بنیادی اختلاف پر انتظامیہ کی حیثیت سے توجہ کرتی۔میرے ان احساسات کو حکومت کے اس رویے سے بھی تقویت ملی تھی۔ جو اس نے سکھ فرقے کے بارے میں اختیار کیا،جسے ۱۹۱۹ء ؁ تک انتظامی اعتبار سے علیحدہ سیاسی اکائی تصور نہیں کیا جاتا تھا۔لیکن بعد میں اسے یہ حیثیت دی گئی۔حالانکہ سکھوں نے اپنے موقف کو با ضابطہ طور پر پیش نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا کہ سکھ فی الحقیقت ہندو ہیں۔ بہر حال ،چونکہ اب یہ سوال اٹھا دیا گیا ہے۔ اور آپ نے یہ سوال اٹھا دیا ہے۔ لہذا میں اس معاملے کے بارے میں چند مشاہدات پیش کروں گا۔جو میرے نزدیک انگریزوں اور مسلمانوں دونوں کے نقطہ نظر سے انتہائی اہم ہیں۔آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں یہ بات بالکل واضع بیان کروں کہ آیا ( اور پھر کن حالات اور کس مقام پر ) میں کسی فرقہ کے مذہبی اختلافات کے بارے میں سرکاری موقف گوارا کر سکتا ہوں۔میں یہ کہوں گا کہ: اول یہ کہ اسلام در حقیقت ایک دینی جماعت ہے۔جس کے حدود واضع طور پر متعین ہیں،یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا یقین،یہی وہ اصول ہے،جو بالکل واضع طور پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان حد فاضل کی حیثیت رکھتا ہے۔اور جس کی بنا پر کوئی فرد بھی یہ فیصلہ کر سکتا ہے۔ کہ فلاں گروہ یا یا شخص جماعت کا حصہ ہے یا نہیں، مثلا برہمو مذہب کے پیرو خدا کی زات میں یقین رکھتے ہیں اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر مانتے ہیں،لیکن ان کو ہر گز اسلام کا جزو قرار نہیںدیا جا سکتا۔ کیونکہ وہ قادیانیوں کی طرح وہ اس نظریہ پر یقین رکھتے ہیں کہ پیغمبروں کی معرفت اور الہا مات کا سلسلہ غیر مختتم ہے۔ اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر یقین نہیں رکھتے۔جہاں تک مجھے علم ہے،مسلمانوں کے کسی بھی فرقے نے اس حد فاضل سے تجاوز کی جسارت نہیں کی۔ایرانیوں میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو کھلم کھلا مسترد کر دیا۔لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضع طور پر اس کا بھی ا عتراف کیا۔ کہ لفظ مسلم کے اصلطلاحی معنی کے اعتبار سے وہ مسلمان نہیں بلکہ ایک نیا فرقہ ہے۔ ہمارے عقیدے کے مطابق مذہب کی حیثیت سے اسلام کو خدا نے الہام کیا۔ لیکن معاشرے یا قوم کی صورت میں اسلام کے وجود کا مکمل انحصار صرف رسول اللہ کی ذات پاک پر ہے۔ میرے خیال کے مطابق قادیانیوں کے سامنے صرف دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ راست بازی سے بہائیوں کی تقلید کرنے لگیں۔اور یا پھر وہ اسلام میں ختم نبوت کے بارے میں اپنی توضیحات کو ترک کرکے اس عقیدے پر اس طرح ایمان لے آئیں،جیسا کہ اس کا منشا ومراد ہے۔ قادیانیوں کی عیارانہ تو ضیحات کے پس پشت ان کی یہ خواہش کار فرما ہے کہ وہ واضع سیاسی فوائد کی خاطر اسلام کے دائرے میں شامل رہیں۔ دوم یہ کہ ہمیں عالم اسلام کے بارے میں قادیانیوں کی اپنی پالیسی اور رویے کو ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہیئے۔ تحریک کے بانی نے اسلام کو سڑا ہوا دودھ اور اپنے ماننے والوں کوتازہ دودھ قرار دیا تھا۔ اور آخر الذکر کو خبر دار بھی کیا تھا کہ وہ اول الذکر سے نہ گھلیں ملیں۔علاوہ ازیں وہ بنیادی اصولوں سے منکر ہیں۔اور اپنے فرقے کو ایک نئے نام (احمدی) سے موسوم کرتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے نماز اجتماعات میں بھی شرکت نہیں کرتے۔اور شادی بیاہ جیسے معاملات میں مسلمانوں کا سماجی مقاطعہ کرتے ہیں۔علیٰ ھذا القیاس ! ان سب سے بڑھ کر قادیانیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ سارا عالم اسلام کافر ہے۔ مجموعی طور پر یہ تمام امور بلا شبہ قادیانیوں کی جانب سے علیحدگی کے اعلان کی حیثیت رکھتے ہیں۔یقینا درج بالا حقائق یہ واضع کرنے کے لئے کافی ہیں کہ وہ اسلام سے اس دوری کی نسبت زیادہ دور ہیں۔جو سکھوں اور ہندو مت میں پائی جاتی ہے۔ کیونکہ سکھ ہندوؤں کے مندر میں پوجا نہ کرنے کے باوجود ان میں شادیاں تو کر لیتے ہیں۔ سوم، یہ جاننے کے لئے کوئی غیر معمولی ذہانت تو درکار نہیں کہ مذہبی اور سماجی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اپنانے کے باوجود قادیانی فرقہ سیاسی اعتبار سے اسلام کے ساتھ کیوں منسلک رہنا چاہتا ہے۔ قطع نظر سیاسی فوائد کے جو سرکاری ملازمت سے متعلق ہیں۔ اور جنہیں وہ اسلام سے منسلک رہ کر حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ قادیانی اپنی موجودہ آبادی کے پیش نظر جو آخری مردم شماری کے مطابق صرف ۵۶ ہزار ہے۔ ملک کے کسی بھی دستور ساز ادارے میں ایک نشست کے بھی حق دار نہیں ہیں۔ لہذا وہ ان معنی میں سیاسی اقلیت کے زمرے میں آتے ہیں۔جس میں آپ نے اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔اور یہ بات کہ قادیانیوں نے ایک علیحدہ واجع سیاسی یونٹ کی حیثیت دینے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا،یہ ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنی موجودہ پوزیشن میں خود کو دستور ساز اداروں میں نمائندگی کا حقدار نہیں پاتے۔ نئے آئین میں ایسی اقلیتوں کے لیے تحفظ کی دفعات موجود ہیں۔میرے خیال میں یہ واضع ہے کہ الگ حیثیت دیے جانے کے لئے حکومت تک رسائی کے معاملہ میں قادیانی فرقہ کبھی پہل نہیں کرے گا۔ جو مسلمان اپنے مطالبہ میں بالکل حق بجانب ہیں کہ قادیانیوں کو فی الفور جماعت مصدری سے علیحدہ کر دیا جائے۔اگر حکومت فوری طور پر ان کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرتی تو ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ شک ضرور گزرے گا کہ بر طانوی حکومت گویا نئے مذہب کو بچا کر رکھ رہی ہے۔ اور انہیں مسلمانوں سے علیحدہ حیثیت دینے میں اس لیے دیر کر رہی ہے کہ اس کے پیرو تعداد میں بہت کم ہیں۔اور فی الحالاس صوبے میں ایسی چوتھی اقلیت کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ،جو دستور ساز ادارے میں پنجاب کے مسلمانوں کی پہلے ہی برائے نام اکثریت کو موثر طور پر نقصان پہنچا سکے۔ حکومت نے ۱۹۱۹ء ؁ میں سکھوں کی جانب سے انہیں علیحدہ فرقہ قرار دیے جانے کے با ضابطہ مطالبے کا انتظار نہیں کیا تھا۔ پھر آخرقادیانیوں کے سلسلے میں ایسے با ضابطہ مطالبے کا انتظار کیوں کیا جائے ؟۔ مخلص محمد اقبال پنڈت جواہر لال کے نام (۳۹۱)۔۔۔۔۔(۱) انگریزی ۲۱ جون ۱۹۳۶ء ؁ مائی ڈیر پنڈت جواہر لعل : آپ کا جو خط مجھے کل ملا ہے۔ اس کے لئے بڑا شکر گزار ہوں۔ جب میں نے آپ کے مضامین کا جواب لکھا تو مجھے یقین تھا کہ آپ احمدیوں کی سیاسی روش سے بالکل بے خبر ہیں۔دراصل میں نے جواب اسی مقصد کے پیش نظر لکھا تھا۔ کہ یہ وضا حت کر سکوں،بالخصوص آپ کے لئے، کہ مسلمانوں کی وفا داری کا آغاز کیسے ہوا؟۔ اور کس طرح اسے بالا خر احمدی ازم میں ایک الہامی اساس میسر آئی۔ اپنے مقالہ کی اشاعت کے بعد مجھے یہ جان کر بڑا تعجب ہوا کہ پڑھے لکھے مسلمانوں کو بھی ان تاریخی وجوہ کا علم نہیں ،جن سے احمدی ازم کی تعلیمات کی تشکیل ہوئی۔ علاوہ ازیں پنجاب اور دوسرے مقامات پر آپ کے مسلم مشیر آپ کے مضامین سے بڑے پریشان تھے۔ کیونکہ ان کو خیال ہوا کہ آپ احمدیہ تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں۔اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ا حمدیوں نے آپ کے مضمون کی اشاعت پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے۔احمدیوں کا پریس آپ کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کرنے کا اصل ذمہ دار ہے۔ بہر حال مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میرا یہ تاثر درست نہ تھا۔ ذاتی طور پر مجھے دینیات سے کوئی خاص دل چسپی نہیں،تاہم میں اس میں بھی دخیل ہوا۔ تاکہ احمدیوں کا انہی کی زبان میں جواب دیا جا سکے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا مقالہ اسلام ا ور ہندوستان کے بہترین مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھا گیا ہے۔مجھے اس امر میں قطعا کوئی شبہ نہیں کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں ہی کے غدار ہیں۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ لاہور میں آپ سے ملاقات کا موقع نہ مل سکا۔ میں ان دنوں بیمار تھا۔ اور کمرے سے باہر بھی نہیں نکل سکتا تھا۔ گزشتہ دو برس کی مسلسل علالت کی وجہ سے میں عملا گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔آپ جب اگلی بار پنجاب آئیں تو مجھے ضرور اطلاع دیں۔ کیا آپ کو میرا وہ خط ملا تھا ،جس میں آپ کی مجوزہ سول لبرٹی یونین کے بارے میں لکھا تھا۔ چونکہ آپ کے اس خط میں وصول یابی کی کوئی اطلاع نہیں،اس لیے مجھے خدشہ ہے کہ وہ آپ تک نہیں پہنچا۔ مخلص محمد اقبال علی بخش کے نام (۳۹۲)۔۔۔۔۔(۱) لندن ۱۱ دسمبر ۱۹۰۷ء ؁ عزیز علی بخش ! بعد سلام کے واضع ہو کہ خط تمہارا پہنچا ،حال معلوم ہوا،میرے آنے میں ابھی چھ سات ماہ کا عرصہ باقی ہے۔امید ہے کہ اس وقت تک تم فارغ نہ رہو گے۔ اور وہ کمی جو چوری سے ہو گئی ہے۔ اسے پورا کرلو گے۔ مجھے یہ سن کر بڑا افسوس ہوا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو اس موقع پر تمہاری ضرور مدد کرتا۔ تم نے اپنی شادی کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا ہے۔میرا تو خیال تھا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے۔ بہر حال انسان کو شادی سے پہلے سوچ لینا چاہیئے۔ کہ بیوی اور بچوں کی پرورش کے واسطے اس کے پاس سامان ہے یا نہیں، اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اپنی محنت سے بیوی کو آسودہ رکھ سکو گے تو ضرور کر لو۔ شادی کرنا عین ثواب ہے۔ اگر بیوی آسودہ رہ سکے۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں کر سکتا تو وہ شادی کرکے نہ صرف اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے۔ بلکہ ایک بے گناہ کو بھی لے ڈوبتا ہے۔ محمد اقبال منقول از نوائے وقت) ۔ نوٹ علی بخش ڈاکٹر صاحب مرحوم کا وہ ملازم ہے۔ جسے ڈاکٹر صاحب کی خدمت کی سعادت آخری دم تک نصیب ہوئی۔ سید تقی کے نام (۳۹۳)۔۔۔۔(۱) ڈیر سید تقی ! السلام علیکم ! آج مقام۔۔۔۔۔ کوٹ میں پہنچے،گھوڑے کا سفراور گھوڑے سے اکتائے تو اونٹ کا سفر،خدا کی پناہ پہلے روز ۳۷ میل سفر گھوڑے پر کیا۔کیا آپ اندازا کر سکتے ہیں کہ مجھے کس قدر تکلیف ہوئی ہو گی۔لیکن جو تکلیف محبت کی وجہ سے پیدا ہو۔ وہ لذیذ ہو جاتی ہے۔ فورٹ سنڈے من یہاں سے ابھی پچاس میل کے فاصلے پر ہے۔ پرسوں پہنچیں گے ،بشرطیکہ بارش نہ ہوئی۔ آج ۔۔۔۔ کورٹ پہنچتے ہی بھائی صاحب کے متعلق خبر ملی۔ ان کو رائل انجئینر کوئٹہ کے تار پر تار دینے سے حراست سے نکال دیا ہے۔اس نے متواتر تاریں دیں کہ ایک معزز افسر کو بغیر منظوری شملہ کیوں حراست میں دیا گیا ہے۔ انہی متواتر تاروں کے دوران میں وہاں کے پولیٹیکل ایجنٹ کی تبدیلی بھی ہو گئی۔سنا ہے کہ اس مقدمے میں اس ہی کی شرارت تھی۔خدا انجام بخیر کرے۔آپ مطمئن رہیں۔امید ہے اس مقدمے کا نتیجہ بھائی صاحب کے حق میں اچھا ہوگا۔معلوم ہوتا ہے کہ کوئٹہ کے حکام کو ان کی دیانت داری کا کافی ثبوت مل گیا ہے۔ ایجنٹ کوئٹہ نے فورٹ سنڈیمن کے انجئینر کی فورا تبدیلی کر دی۔ اس مقدمے کی ساری بنا عداوت پر ہے۔ مجھے سارے حالات ابھی معلوم نہیں، تاہم جو کچھ معلوم ہوا۔اس سے یہی اندازا ہو سکا کہ اس کی تہہ میں عداوت محض ہے۔باقی خیریت ہے۔ امیر کہاں ہے؟۔ خدا کے لئے وہاں ضرور جایا کریں۔مجھے بہت اضطراب ہے۔ خدا جانے اس میں کیا راز ہے؟۔ جتنا دور ہو رہا ہوں،اتنا ہی میں اس سے قریب ہو رہا ہوں۔ والسلام آپ کا مخلص محمد اقبال شاطر مدراسی کے نام (۳۹۴)۔۔۔۔۔ (۱) از گورنمنٹ کالج ۲۲ فروری ۱۹۰۵ء ؁ مخدوم ومکرم جناب شاطر صاحب تسلیم! آپ کا نوازش نامہ مع قصیدے کے پہنچا۔ اس قصیدے کا کچھ حصہ مخزن میں شائع ہو چکا ہے۔ اور پنجاب میں عموما پسند یدگی اور وقعت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ہمارے ایک کرم فرما جالندھر میں ہیں۔میں نے سنا ہے کہ وہ اس کو نہایت پسند کرتے ہیں،اور اس کے اشعار کو انہوں نے اتنی دفعہ پڑھا ہے کہ اب ان کو وہ تمام حصہ جو مخزن میں شائع ہو چکا ہے۔ ازبر یاد ہے۔ اکثر اشعار بلند پایہ اور نہایت معنی خیز ہیں۔بندشیں صاف اور ستھری ہیں۔اور اشعار کا اندرونی درد مصنف کے چوٹ کھائے ہوئے دل کو نہایت نمایاں کرکے دکھا رہا ہے۔ انسان کی روح کی اصلی کیفیت غم ہے۔ خوشی ایک عارضی چیز ہے۔ آپ کے اشعار اس امر پر شاہد ہیں ،کہ آپ نے فطرت انسانی کے اس گہرے راز کو خوب سمجھا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ میں اس کے سقموں سے آپ کو آگاہ کروں،آپ کے حسن ظن کا ممنون ہوں۔مگر بخدا مجھ میں یہ قابلیت نہیں کہ آپ کے کلام کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ سکوں، میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ کو میرے اشعار کونہایت وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔لیکن آپ نے شاید مجھے میرے حق سے بڑھ کر داد دی ہے۔میں آپ کے نوازش نامے کا ابتدائی حصہ پڑھ کر شرمندہ ہوتا ہوں۔ اور آپ کی وسعت قلب پر حیران ۔خدا آپ کو جزائے خیر دے اور ہمیشہ با مراد رکھے۔ آپ کے خاندانی تعزز کا حال معلوم کرکے مجھے بڑی مسرت ہوئی،آپ لوگ گزشتہ کاروان کی اسلام کی یاد گاریں ہیں۔ اس وجہ سے ہر طرح واجب الا حترام اور قابل تعطیم ہیں۔ جس قصیدے کے ارسال کرنے کا آپ وعدہ کرتے ہیں۔اس کا شوق سے منتظر رہوں گا۔ والسلام آپ کا نیاز مند محمد اقبال از لاہور گورنمنٹ کالج بھاٹی گیٹ (۳۹۵)۔۔۔۔۔(۲) لاہور ۱۶ مارچ ۱۹۰۵ء ؁ مخدوم ومکرم! السلام علیکم ، نوازش نامہ موصول ہوا۔ مولانا حالی نے جو کچھ آپ کے اشعار کی نسبت تحریر فر مایا ہے۔ بالکل صحیح ہے۔آپ کا اسلوب بیان واقعی نرالا ہے۔اور آپ کی صفائی زبان آپ کے ہم وطنوں کے لئے سرمایہ افتخار ہے۔ میرا خود خیال تھا کہ آپ اصل میں ہندوستان کے رہنے والے ہوں گے۔مگر یہ معلوم کرکے کہ آپ کی پرورش مدراس میں ہوئی، مجھے تعجب ہوا۔ مولانا حالی حالی نے جو شعر پسند فرمایا ہے۔واقعی ۔۔۔۔۔ ہے۔اور سوائے ایک شعر کے تمام قصیدے میں اس پائے کا کوئی شعر نہیں ہے۔ یعنی (پڑھا نہیں گیا۔) جع شعر مولانا نے انتخاب کیا ہے۔وہ شعریت میں اس شعر سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر مضمون کے اعتبار سے یہ شعر اس سے بلند تر ہے۔ میرے خیال میں دونوں شعر ایک پائے کے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی اچھے اچھے اشعار آپ کے قصیدے میں موجود ہیں۔ مثلا، اپنا اپنا ہے مقدر بال وپر کا کیا گناہ کوئی جل مرتا ہے بلبل کوئی ہوتا ہے شکار اور یہ مصرع ہوتے ہم فانی تو ہوتا عشق بھی ناپائیدار یہ مضمون ٹینی سن مرحوم ملک الشعرائے انگلستان کے ایک شعر میں بھی بڑی خوبی سے ادا ہوا ہے۔ جن صاحب کو آپ کا قصیدہ ازبر ہے،ان کا نام پنڈت چھجو رام وکیل ہے۔ باقی خیریت ہے۔ آپ کا نیاز مند محمد اقبال (۳۹۶)۔۔۔۔(۳) سیال کوٹ شہر ۲۹ اگست ۱۹۰۸ء ؁ مخدومی السلام علیکم ! میں ایک دوروز کے لئے لاہور چلا گیا تھا۔ کل واپس آیا تو آپ کا نوازش نامہ ملا۔ مبارک کے لئے شکریہ دلی قبول کیجیئے۔ اعجاز عشق کے چند صفحے تحریر سے پہلے دیکھ چکا تھا۔ باقی اشعار بھی ماشا اللہ نہایت بلند پایہ کے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرافت کے ساتھ ساتھ دولت کمال سے بھی مالا مال فرمایا ہے۔ وذلک فضل اللہ یعطی من یشا ئُ۔ میں آپ کی سوانح عمری اور دیگر اشعار دیکھنے کا نہایت مشتاق ہوں۔جب کبھی شائع ہوں۔مجھے ایک کاپی عنایت فر ما کر سپاس گزار فرمایئے۔آپ کے کلام میں ایک خاص رنگ ہے۔جو شعراء میں بہت شاذ پایا جاتا ہے۔ مولانا حالی، شبلی ،شاد، جیسے قادر الکلام بزرگوں سے داد سخن گوئی لینا ہر ایک کا کام نہیں۔ جو کچھ ان بزرگوں نے آپ کے حق میں تحریر فرمایا،وہ آپ کے لئے باعث افتخار ہے۔ میں ایک دو ماہ کے لئے سیالکوٹ مقیم رہوں گا۔ اس کے بعد لاہور بیرسٹری کا کام شروع کروں گا۔ ملازمت کا سلسلہ ترک کر دیا ہے۔ آپ میرے مجموعہ کلام کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔میں کیا اور میرا کلام کیا؟۔ نہ مجھے ان اوراق پریشان جمع کرنے کی فرصت ہے۔ نہ حقیقت میں ان کی ضرورت ہے۔محض دوسروں کا دل بہلانے کے لئے کبھی کبھی کچھ لکھتا ہوں۔ اور وہ بھی مجبورا۔گزشتہ تین سال سے بہت کم اتفاق شعر گوئی ہوتا ہے۔ اور اب تو میں پیشہ ہی اس قسم کا اختیار کرنے کو ہوں،جس کو شاعری سے کوئی نسبت نہیں۔ اگر آپ اعجاز عشق ،میرے کسی دوست کے نام ارسال کرنا چاہیئں تو حضرت مولوی سید میر حسن صاحب پروفیسر عربی سکاچ مشن کالج سیالکوٹ کے نام ارسال کر دیجیئے۔یہ بڑے بزرگ عالم اور شعر فہم ہیں۔میں نے انہیں سے اکتساب فیض کیا ہے۔ والسلام آپ کا نیاز مند محمد اقبال (۳۹۷)۔۔۔۔۔۔(۴) لاہور ۲۲ ستمبر ۲۹ء ؁ مخدومی ! السلام علیکم نوازش نامہ مل گیا ہے۔ ایک کاپی ضمیمہ اعجاز حق کی بھی مو صول ہوئی ،جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ سبحان اللہ ،آپ کا کلام سراپا اعجاز ہے۔ حکمت وفلسفہ مجھے یقین ہے، کہ ایک دن آپ کے اشعار کو حرز جان بنائیں گے۔میری فارسی مثنوی کے متعلق جو کچھ آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔آپ کی بندہ نوازی ہے۔ افسوس کہ دیگر مصروفیتوں کی وجہ سے جو کچھ میں چاہتا تھا،لکھ نہ سکا، بہر حال جو کچھ ہو گیا،غنیمت ہے۔ اردو اشعار کا مجموعہ ابھی شائع نہیں ہو سکا۔امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔والسلام مخلص محمد اقبال بیرسٹر ،لاہور سید نذیر نیازی کے نام (۳۹۸)۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۲۹ مئی ۳۲ ء ؁ ڈیر نیازی صاحب! السلام علیکم ! میرے یورپ جانے کا ابھی قطعی فیصلہ نہیں ہوا۔ اگر گیا تو اسی سال اکتوبر میں جاؤں گا۔ ورنہ انشا اللہ آئندہ سال، ڈاکٹر جر مانوس کا خط مجھے بھی آیا تھا۔اگر میں یورپ گیا تو ان سے بھی ضرور ملوں گا۔مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ کی صحت اچھی نہیں،آج کل کشمیر کا موسم نہایت عمدہ ہے۔ اور غالبا وسط نومبر تک اچھا رہے گا۔بعد میں زیادہ سردی ہو جائے گی۔ لندن کی Aristotelian Socity نے مجھ سے کسی فلسفیانہ مضمون پر لیکچر دینے کی در خواست کی تھی جو کہ ختم کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے: is Religion Possible اگر خود گیا تو یہ لیکچر زبانی دیا جائے گا۔ ورنہ ڈاک میں بھیج دیا جائے گا۔ لیکچر کے لکھنے میں قریبا ایک ماہ صرف ہوا۔ Aristotelian Society لندن کی ایک مشہور اور پرانی سو سائٹی ہے۔اور بہت سے مغربی حکما ء دیکھ چکی ہے۔ باقی خدا کے فضل وکرم سے خیریت۔خدا وند تعالیٰ آپ کو صحت بخشے : یورپ کے متعلق جو قطعی فیصلہ ہوگا تو آپ کو مطلع کروں گا۔ محمد اقبال (۳۹۹)۔۔۔۔۔۔(۲) لاہور ۲۰ جون ۳۴ ء ؁ ڈیر نیازی صاحب ! السلام علیکم ! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ الحمدللہ کہ خیریت ہے۔ حکیم صاحب فرماتے ہیں۔کہ اول خوراک کا ایک بٹا چار حصہ دیا جاتا ہے۔ میں خود محسوس کرتا ہوں۔ اسی واسطے میں نے لکھا تھا۔ کہ دوائی کی طاقت ذرا زیادہ کر دی جائے۔ تو شاید فائدہ زیادہ ہو۔ مگر وہ بہتر سمجھتے ہیں۔اسی واسطے ان کا ارشاد مقدم ہے۔ جیسا کہ انہوں نے فرمایا تھا۔ دوائی کا استعمال تو دیر تک رہے گا۔ آواز جلد بہتر ہو جائے گی۔میں یہی چاہتا ہوں کہ آواز میں جلد تبدیلی ہو۔ تاکہ میں آئندہ پروگرام وضع کر سکوں۔کل جنوبی افریقہ سے دعوت آئی ہے۔ اور وہاں کے مسلمان مصر ہیں۔ کہ یہاں کا وعدہ ضروری ہے۔ گزشتہ ہفتہ ایک خط جرمنی سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ ترکی کی طرف سے بھی مجھ کو دعوت دی جانے والی ہے۔ بہر حال میری یہ خواہش ہے کہ اس جہان سے رخصت ہونے سے پہلے ؔ بر آورد ہر چہ اندر سینہ داری سرودے نالہ وآہ وفغانے فالودہ پینے کو کبھی کبھی دل چاہتا ہے۔ مگر حکیم صاحب سے پوچھنا بھول گیا۔ آپ دریافت کرکے مطلع فرمائیں۔ سردہ ابھی لاہور میں نہیں آیا۔ کابل میں سردے کا موسم اگست سے شروع ہوگا۔البتہ کوئٹہ (مستونگ) کا سردہ شاید مل جائے۔ میں نے وہاں لکھوایا ہے۔ انجیر تازہ کی تلاش کراؤں گا۔ حکیم صاحب کے نسخے کی ایک مطبوعہ کاپی ارسال فر ما دیں۔یعنی وہ مطبوعہ کاغذ جس پر سبزی ترکاری وغیرہ کے استعمال کے متعلق ہدایات درج ہوں۔آپ نے پبلشر کے متعلق کچھ نہیں لکھا،ان سے گفتگو کرکے مجھے مطلع کریں۔تاکہ اگر ان سے معاملہ طے نہ ہو تو کتابت وطباعت کا انتظام یہاں شروع کر دیا جائے۔لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ کتاب جلد شائع کی جائے۔اگر اور نہیں تو آپ اپنے ترجمہ کے متعلق ہی جلد فیصلہ ان سے کر لیں۔ محمد اقبال (۴۰۰)۔۔۔۔۔۔(۳) ڈیر نیازی صاحب : ایک خط آج ہی لکھ چکا ہوں۔ ابھی ملک برکت علی صاحب سے ملا قات ہوئی ،جو شملہ گئے ہیں۔شملہ میں ایک میرے مہر بان خواجہ حبیب اللہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کشمیری گل قند بشرطیکہ بہت پرانی ہو۔ دوکل کارڈ کی تقویت کے لئے اکسیر ہے۔پچاس سال کی پرانی گل قند خواجہ صاحب مذکور کے پاس موجود ہے۔مہر بانی کرکے حکیم صاحب سے ذکر کیجیئے۔اور ان سے پوچھیے کہ وہ اس گل قند کے متعلق کیا مشورہ دیتے ہیں۔اس کا جواب بہت جلد آنا چاہیئے۔ نیز یہ بھی دریافت کیجیئے کہ مرچ سرخ، مصالحہ گوشت اور سبزی وغیرہ میں ڈالا جائے یا نہ،؟۔ شہد(Hony) کے استعمال کے متعلق بھی ہدایت حاصل کیجیئے۔ محمد اقبال ۶ جولائی ۳۴ ئ؁ خطوط نمبر ۳۹۴ سے ۴۰۰ تک امروز کے اقبال نمبر بابت سال ۱۹۴۹ء سے شکریہ کے ساتھ منقول ہیں ۔) آل احمد سرور کے نام (۴۰۱)۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۱۲ مارچ ۱۹۳۷ء ؁ جناب من! میری آنکھوں میں پانی اترنے کے آثار ہیں۔ڈاکٹر لکھنے پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔جب تک اپریشن نہ ہو جائے۔ معاف کیجیئے گا میں یہ خط اپنے ایک دوست سے لکھوا رہا ہوں۔ آپ کے دل میں جو باتیں پیدا ہوئی ہیں۔ان کا جواب بہت طویل ہے۔ اور میں بحالت موجودہ طویل خط لکھنے سے قاصر ہوں۔اگر میں کبھی علی گڑھ حا ضر ہوا یا آپ کبھی لاہور تشریف لائے تو انشا اللہ زبانی گفتگو ہو گی۔سردست میں دو چار باتیں عرض کرتا ہوں۔ ۱۔ میرے نزدیک فاشزم،کمونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔میرے عقیدے کی رو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے۔ جو بنی نوع انسان کے لیے ہر نقطہ نگاہ سے موجب نجات ہو سکتی ہے۔ میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ ان نتائج تک پہنچیں۔جن تک میں پہنچا ہوں۔ اس صورت میں غالبا آپ کے شکوک تمام کے تمام رفع ہو جائیں۔یہ ممکن ہے کہ آپ کاview مجھ سے مختلف ہو۔ یا آپ خود دین اسلام کے حقائق ہی کو ناقص تصور کریں۔اس دوسری صورت میں دوستانہ بحث ہو سکتی ہے۔جس کا نتیجہ معلوم نہیں کیا ہو؟۔ ۲۔ آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بالا ستیعاب مطالعہ نہیں کیا۔ اگر میرا یہ خیال صحیح ہے ،تو میں آپ کو یہ دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس طرف بھی توجہ کریں،کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خود بخود آپ کی سمجھ میں آجائیں گی۔ ۳۔ مسولینی کے متعلق جو کچھ میں نے لکھا ہے۔ اس میں آپ کو تناقض نظر آتا ہے۔ آپ درست فرماتے ہیں ،لیکن اگر اس بندہ خدا میںDevilاورSanit دونوں کی خصوصیات جمع ہوں تو اس کا میں کیا علاج کروں،مسولینی سے اگر آپ کی کبھی ملاقات ہو تو آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔کہ اس کی نگاہ میں ایک نا قابل بیان تیزی ہے۔ جس کو شعاع آفتاب سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ کم ازکم مجھ کو اسی قسم کا احساس ہوا۔ ۴۔ آپ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے لیکچرار ہیں۔اس واسطے مجھے یقین ہے کہ لٹریچر کے اسالیب بیان سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔تیمور کی روح کو اپیل کرنے سے تیموریت کو زندہ کرنا مقصود نہیں،بلکہ وسط ایشیا کے ترکوں کوبیدار کرنا مقصود ہے۔ تیمور کی طرف اشارہ محض اسلوب بیان ہے۔ اسلوب بیان کو شاعر کا حقیقی ویو تصور کرنا درست نہیں۔ایسے اسالیب کی مثالیں دنیا کے ہر لٹریچر میں موجود ہیں۔والسلام آپ کا مخلص محمد اقبال نوٹ یہ خط ماہ نو، سے شکریے کے ساتھ نقل کیا جاتا ہے۔ سرور صاحب نے یہ خط اقبال نامہ کے لئے مرحمت فرمانے کا وعدہ کیا تھا۔لیکن خط دستیاب نہ ہوا۔ اور وہ علی گڑھ سے لکھنو چلے گئے۔ اور میں واپس لاہور آگیا،تو انہوں نے یہ خط ماہ نو ، میں شائع کرا دیا۔ اقبال نے بال جبریل میں مسولینی کے زیر عنوان اس کی کام رانیوں سے متاثر ہو کر چند وجد انگیز اشعار لکھے ہیں۔ ندرت فکروعمل کیا شے ہے؟۔ ذوق انقلاب ندرت فکروعمل کیا شے ہے؟۔ ملت کا شباب ندرت فکروعمل سے معجزات زندگی ندرت فکروعمل سے سنگ خارا لعل ناب اسی انداز سے علامہ نے مسولینی کے کمالات گنوائے ہیںاور آخر میں اٹلی کو بتایا ہے کہ، فیض یہ کس کی نظر ہے،کرامت کس کی ہے وہ کہ ہے جس کی نگاہ مثل شعاع آفتاب (مرتب) نیاز الدین خان کے نام (۴۰۲)۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۱۴ جنوری ۱۹۲۲ء ؁ مخدومی ! السلام علیکم آپ کے دونوں خط مل گئے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی زیارت مبارک ہو۔ اس زمانے میں یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔دوسری رویا کا بھی یہی مفہوم ہے۔ قرآن پاک کثرت سے پڑھنا چاہیئے۔ تاکہ قلب محمدی نسبت پیدا کرے۔ اس نسبت محمدیہ کی تولید کے لئے یہ ضروری نہیں کہ قرآن کے معنی بھی آتے ہوں۔ خلوص ومحبت کے ساتھ محض قرات ہی کافی ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم زندہ ہیں۔ اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اس طرح مستفیض ہو سکتے ہیں۔جس طرح صحابہ ؓ ہوا کرتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا،اس واسطے خاموش رہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ مولانا گرامی لاہور میں تشریف رکھتے ہیں۔ کبوتر موجود ہیں۔مگر مشکلوں سے بچے پالتے ہیں۔بڑی دیر بعد ایک جوڑے نے بچوں کی پرورش کی ہے۔والسلام مخلص محمد اقبال ،لاہور (۴۰۳)۔۔۔۔(۲) عصیان ما رحمت پرور دگار ما ایں را نہایتے است نہ آں را نہایئے مخدومی ! السلام وعلیکم والا نامہ ابھی ملا ہے۔ اس سے پہلے ایک کارڈ لکھ چکا ہوں۔ شعر مندرجہ عنوان نے بے چین کر دیا۔ سبحان اللہ، گرامی کے اس شعر پر ایک لاکھ دفعہ اللہ اکبر پڑھنا چاہیئے۔ خواجہ حافظ تو ایک طرف مجھے یقین ہے کہ فارسی لٹریچر میں اس پائے کا شعر کم نکلے گا۔انسان کی بے نہایتی کا ثبوت دیا ہے۔ مگر اس انداز سے کہ موحد کی روح فدا ہو جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک معنی میں انسان بھی بے نہایت ہے۔ اور یہی صداقت مسئلہ وحدت الوجود میں ہے۔ شاعر نے اس حقیقت کو اس خوبی سے نمایا ں کیا ہے کہ پڑھنے والے پر اسلامی حقائق کا انکشاف ہو جاتا ہے۔ یہی ہے کمال شاعری جو الہام کے پہلو بہ پہلو ہے۔ ’’ تمہید نیم خند ، تو مرگ ولایتے‘‘ اگر یہ شعر مطلع ہوتا تو خواجہ کی پوری غزل کا جواب ہوتا اور اگر یہ مصرع خواجہ کو سوجھتا تو وہ اس پر فخر کرتے۔ البتہ پہلے مصرع میں جو لفظ آں آیا ہے۔ اس کو کسی طرح نہ نکالنا چاہیئے۔ (عنوان آں نگاہ) یہ مشورہ مولانا کی خدمت میں پیش کیجیئے۔ زیادہ کیا عرض کروں ،اب کہ یہ خط لکھ رہا ہوں۔شعر مندرجہ عنوان کے اثر سے دل سوز وگداز سے معمور ہے۔گرامی صاحب اپنے شعر کا فوری اثر دیکھتے تو نہ صرف میری ولایت کے قائل ہو جاتے ،بلکہ اپنی ولایت میں بھی انہیں شک نہیں رہتا۔ امید ہے کہ ان کا روپیہ حیدر آباد سے آگیا ہوگا۔ لیکن اگر پریشانی ان سے ایسے اشعار لکھوا رہی ہے ،تو اہل ذوق کو حضور نظام کی خدمت میں ایک عرضداشت اس مضمون کی بھیجنی چاہیئے کہ ان کا منصب بند کر دیا جائے۔والسلام مخلص محمد اقبال (منقول از آفاق) محمد اکرام صاحب کے نام (۴۰۴)۔۔۔۔(۱) انگریزی ۲۷ مارچ ۱۹۳۳ء ؁ مائی ڈیر محمد اکرام ! آج صبح دہلی سے عنایت نامہ موصول ہوا۔ یاد آوری کے لئے ممنون ہوں۔ہسپانیہ پر نظم یوں تو پر سوز ہے۔ لیکن طارق سے متعلق اشتہار بالخصوص دل گداز ہیں۔ میں اسے محفوظ رکھوں گا اور کوشش کروں گا کہ یہ اشعار اردو میں منتقل ہو سکیں۔ میں اپنی سیاحت اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی،جو کسی وقت شائع ہو گی۔ الحمرا ء کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ تھا۔لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا،جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔میڈرڈ یونیورسٹی کے ارباب اختیار نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ہسپانیہ اور عالم اسلام کا ذہنی ارتقا کے زیر عنوان ایک لیکچر دوں۔یہ لیکچر نہایت پسند کیا گیا۔ پروفیسر آسین نے جوDivine Comedy and islam کے مصنف ہیں،بحیثیت صدر اپنی افتتاحی تقریر میں میری تعریف و تو صیف میں خوب مبالغہ کیا۔روڈز لیکچرز کے متعلق مجھے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی غالبا میرے چھ خطبات شائع کرنا چاہتی ہے۔ میں نے مسٹر ملفورڈ کی خدمت میں ایک نسخہ بھیج دیا ہے۔ لارڈ لودین ان خطبات کے متعلق بڑی گرم جوشی کا اظہار فر مارہے تھے۔ اور انگلستان میں ان کی طباعت اور اشاعت کے آرزو مند ہیں۔چودہری رحمت علی صاحب اور پیر صاحب کی خدمت میں جب ان سے ملا قات ہو۔ میرا سلام شوق پہنچا دیں۔ امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ مخلص محمد اقبال تحریر ما بعد، میں نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل قریب میں انگلستان آسکوں گا یا نہیں (۴۰۵)۔۔۔۔۔۔(۲) انگریزی لاہور ۱۷ دسمبر ۱۹۳۳ء ؁ مائی ڈیر اکرام ! عنایت نامہ موصول ہوا، یاد آوری کا شکریہ، میں نے لارڈ لودین کی دعوت قبول کر لی ہے۔ میرا موضوع ’’فکر اسلامی میں تصور زمان و مکاں‘‘ ہوگا۔ یہ ایک اوق موضوع ہے۔ اوے ایسے محظوطات کی مدد سے جن میں کم از کم بعض ابھی تل عدم پتہ ہیں۔ کافی تفتیش وتحقیق کا طالب ہے۔ اس موضوع پر ابھی تک کسی نے خامہ فرسائی نہیں کی ہے۔ بنا بریں مجھے شک ہے کہ میں ان خطبات کو تین چار ماہ تک جو مجھے ملے ہیں۔ مکمل بھی کر سکوں گا یا نہیں، لہذا میں نے لارڈ لودین سے دریافت کیا ہے۔ کہ آیا روڈرز خطبات کے ٹرسٹیان ۱۹۳۴ء ؁ کے موسم سرما کے بجائے ۱۹۳۵ء ؁ کے موسم سرما میں ان خطبات کے دینے کی اجازت دے سکیں گے۔مجھے ۱۹۳۴ء ؁ کی جنوری کے اواخر یا اوائل فروری میں لکھیے۔ اس وقت میں آپ کو زیادہ قطعی اطلاع دے سکوں گا۔ میں ان خطبات کے علاوہ جن کا میں نے ذمہ لیا ہے۔ آکسفورڈ میں کوئی لیکچر دینا نہیں چاہتا ۔ لیکن اسلامی موضوعات سے متعلق میں نجی اور غیر رسمی مذاکرات کے لیے ضرور آمادہ ہوں گا۔ مخلص محمد اقبال (۴۰۶)۔۔۔۔۔۔(۳) انگریزی لاہور ۱۸ فروری ۱۹۳۴ء ؁ مائی ڈیر محمد اکرام ! عنایت نامہ ابھی ابھی موصول ہوا ہے۔ جس کے لئے ممنون ہوں۔ میں گوالیار نہیں جا رہا ہوں۔ اور نہ اس قسم کے اجتماعات میں شرکت پسند کرتا ہوں۔ روڈز خطبات امید ہے،آئندہ سال (۱۹۳۵ئ؁) اپریل یا مئی میں دے سکوں گا۔اپریل ۱۹۳۵ء تک ہندوستان سے روانگی کا کوئی ارادہ نہیں۔ مخلص محمد اقبال (۴۰۷)۔۔۔۔۔۔(۴) انگریزی لاہور ۳ مئی ۱۹۳۷ء ؁ مائی ڈیر اکرام ! پچھلی دفعہ جب آپ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اپنی کتاب ’’ غالب نامہ اور سورت کے آم جن کی عمدگی کی آپ نے بھی تعریف کی تھی، بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔آموں کا انتظار تو کر سکتا ہوں۔لیکن غالب نامہ کے ریویوز اخبارات میں دیکھنے کے بعد اس کے لئے بے تاب ہوں،جلد ازجلد ایک نسخہ بھیج دیجیئے۔ مخلص محمد اقبال (۴۰۸)۔۔۔۔۔(۵) انگریزی لاہور ۱۲ مئی ۱۹۳۷ء ؁ مائی ڈیر اکرام ! عنایت نامے اور کتاب کے لئے جو اس کے موصول ہونے کے ایک گھنٹہ بعد ملی،شکریہ قبول فرمایئے۔ آپ نے مقدمہ کی تیاری اور غالب کی نظموں کی تاریخ وار ترتیب میں محنت وکاوش سے کام لیا ہے۔ بلا شبہ آپ نے غالب پر ایک نہایت عمدہ تصنیف پیش کی ہے۔اگر چی مجھے آپ کے چند نتائج سے اتفاق نہیں ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے۔کہ حضرت غالب کو اردو نظم میں بیدل کی تقلید میں ناکامی ہوئی۔ غالب نے بیدل کے الفاظ کی نقالی ضرور کی۔لیکن بیدل کے معانی سے اس کا دامن تہی رہا۔ بیدل کاراہوار فکر اپنے ہم عصروں کے لئے ذرا گریز پا تھا۔اس امر کے ثبوت میں شہادت پیش کی جا سکتی ہے۔ کہ ہند اور بیرون ہند کے معاصرین بیدل اوردوسرے دلدادگان نظم فارسی بیدل کے نظریہ حیات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ مخلص محمد اقبال (۴۰۹)۔۔۔۔۔(۶) انگریزی لاہور ۲۰ جون ۱۹۳۷ئ؁ مائی ڈیر محمد اکرام ! آموں کا پارسل پہنچا۔ نہایت ممنون ہون۔ آم اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ اگر چہ بدقسمتی سے شاید تفاوت آبوہوا یا لاہور کی شدید گرمی کی وجہ سے ان کے ذائقے میں فرق آگیا ہے۔ مخلص محمد اقبال خان عبد الرحمن چغتائی کے نام (۴۱۰)۔۔۔۔۔(۱) لاہور ۲۴ اپریل ۱۹۲۵ء ؁ ڈیر مسٹر عبد الرحمن ! السلام علیکم ! آپ کے والدہ ماجدہ کے انتقال کی خبر زمیندار میں پڑھ کر بہت رنج ہوا۔ خدا تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ دے۔اور آپ کو اور ماسٹر عبداللہ صاحب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ عید کے موقع پر یہ صدمہ اور بھی درد ناک ہے ۔مگر ع زمانہ جام بدست وجنازہ بر دوش است محمد اقبال (۴۱۱)۔۔۔۔۔۔(۲) لاہور ۸ جنوری ۱۹۲۶ء ؁ ڈیر مسٹر عبد الرحمن ! افسوس ہے کہ لدھیانے سے کوئی تصویر یا آئینہ نہیں ملا، اس واسطے آپ مہر بانی کرکے اسی تصویر سے انلارج کریں،اور اگر انلارج نہیں ہو سکتی تو وہ تصویر ماسٹر عبد اللہ صاحب کے ہمدست ارسال فرمایئے کہ لدھیانے واپس بھیجی جائے۔ محمد اقبال ماسٹر محمد عبد اللہ چغتائی (۴۱۲)۔۔۔۔(۱) ۲۳ اگست ۲۵ ء ؁ ڈیر ماسٹر صاحب ! السلام علیکم۔ آپ کا خط مل گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی مل گیا تھا۔ میں نے انڈین ریویو کا مضمون دیکھا ہے۔تصویر طالب علمی کے زمانے کی ہے۔ مضمون میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔آپ اپنا اردو ترجمہ ابھی شائع نہ کریں۔باقی خیریت ہے۔ برادرم غلام محمد سلام علیکم ! میں بھی انشا اللہ شملہ آؤں گا ،مگر چند روز بعد، محمد اقبال، لاہور (۴۱۳)۔۔۔۔۔(۲) ۵ اگست ۱۹۲۶ء ؁ ڈیر ماسٹر صاحب ! آپ کے پاس راغب اصفہانی کی ،مفردات ہو تو چند روز کے لئے بھیج دیجیئے۔یا خود لے کر آیئے۔ لفظ سلطان اور شان جو سدرۃ الترجمہ میں واقع ہوئے ہیں۔ ان کے معانی دیکھنا مطلوب ہیں۔ محمد اقبال،بیرسٹر ،لاہور (۴۱۴)۔۔۔۔۔۔(۳) ۷ ستمبر ۱۹۲۶ء ؁ ڈیر ماسٹر صاحب: السلام علیکم ! اگر آپ کے پاس ہندوستانی مصوروں کی بنائی ہوئی تصویروں کا کوئی چھپا ہوا مجموعہ ہو تو ایک دو روز کے لئے مر حمت کیجیئے۔میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔اگر ایسا کوئی مجموعہ نہ ہو تو چند مشہور تصاویر ہی سہی۔ ان کے ساتھ ان کا مضمون بھی ہونا ضروری ہے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی مصور بالعموم کیسے مضامین اپنے فن کی نمائش کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔ بنگال اسکول کی تصاویر کے نام خاص کر چاہیئں۔اس کے علاوہ مغلوں کے آرٹ پر اگر کوئی کتاب ہو تو وہ بھی ساتھ لایئے۔ محمد اقبال ،لاہور (۴۱۵)۔۔۔۔۔(۴) ۲۴ فروری ۱۹۲۷ئ؁ جناب ماسٹر صاحب ! آپ کے چلے جانے کے بعد اس تصویر پر غور کرتا رہا۔جس کے متعلق ہم دیر تک بحث کرتے رہے تھے۔ میری رائے میں شاید اس تصویر میں یورپ کی تصویر انٹر ڈیوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عبد الرحٰمن پھر آئیں گے،تو ان سے مفصل گفتگو ہو گی۔ محمد اقبال لاہور (۴۱۶)۔۔۔۔۔(۵) ۷ اپریل ۱۹۲۷ء ؁ لاہور جناب ماسٹر صاحب ! السلام علیکم ! آپ نے کتاب Art and the Unconscious بھیجنے کا وعدہ کیا تھا،معلوم ہوتا ہے آپ کے حافظہ سے یہ بات اتر گئی ۔مہر بانی کرکے جلد بھجوایئے۔ محمد اقبال لاہور (۴۱۷)۔۔۔۔۔(۶) ۱۰ اپریل ۱۹۲۷ء ؁ ڈیر ماسٹر صاحب ! السلام علیکم ! کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں کہ مسٹر یعقوب ہر روز کسی ایسے وقت جو ان کے لئے اور میرے لئے موزوں ہو،یہاں آیا کریں،آپ نے آج صبح بتایا تھا کہ وہ ۷ مئی کو شملہ جانے والے ہیں۔اس واسطے ضروری ہے کہ ان کے جانے سے پہلے جس قدر میں لکھواسکوں،لکھا لیا جائے،مہربانی کرکے ان سے دریافت کرکے مجھے مطلع کیجیئے۔ بلکہ بہتر ہو کہ ان کو ساتھ لے آیئے۔ تاکہ زبانی گفتگو ہو جائے۔شاید چار بجے کے بعد وہ آسکتے ہوں۔ میں ان سے پہلا لیکچر جو دیباچے کے طور پر ہوگا،لکھوانا شروع کر دوں گا،اس طرح ممکن ہے کہ دسمبر تک سب لیکچر ختم ہو جائیں۔ان کے جانے کے بعد کسی اور شارٹ ہینڈ رائٹر کو بلا لیا جائے گا۔ محمد اقبال لاہور (۴۱۸) ۔۔۔۔۔ (۷) ڈیر ماسٹر صاحب! السلام علیکم ۔ اگر برون کی لڑیری ہسٹری آف پرشیا کالج لائبریری میں ہو تو لیتے آیئے۔اس جلد کی ضرورت ہے۔ جس میں عراقی کا تذکرہ ہے۔ غالبا دوسری جلد ہے۔ محمد اقبال (۴۱۹)۔۔۔۔۔ (۱۸) لاہور ۲۹ اپریل ۱۹۲۷ء ؁ مائی ڈیر مسٹر عبد اللہ صاحب ! السلام علیکم ! میں یہ سطور آپ کی یاد دہانی کے لئے تحریر کر رہا ہوں۔آپ نے یونیورسٹی لائبریری سے Medievalسائنس پر ایک کتاب نکلوا کر مجھے ارسال کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔میں اس کا منتظر ہوں۔ آپ کا محمد اقبال (۴۲۰)۔۔۔۔۔(۹) لاہور ۳۱ مئی ۱۹۲۷ء ؁ ڈیر ماسٹر صاحب ! میری بیوی دفعتہ بہت بیمار ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے آج مذاکرہ طیبہ کے جلسے میں، جو شام کو اسلامیہ کالج گراونڈ میں میرے زیر صدارت ہونے والا ہے۔ حاضر نہیں ہو سکوں گا،مجھے معلوم نہیں کس کو لکھوں، نہ انجمن طیبہ کے سیکرٹری کا نام معلوم ہے۔ نہ ان کا پتا معلوم ہے۔ شاید وہ آپ کے اسلامیہ کالج طیبہ کے پروفیسر ہیں۔اگر یہ صحیح ہے۔تو مہر بانی کرکے ان کا نشان معلوم کرکے انہیں مطلع فرمائیے ۔جلسے کا وقت شام کا ہے۔ اور اسی وقت ڈاکٹر صاحب آنے والے ہیں۔کل بخار ۱۰۶ درجہ سے زیادہ ہو گیا تھا۔آج دیکھیے کیا حالت رہتی ہے۔ اس تردد فکر کی حالت میں جلسے میں جا کر تقریر کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں میرا یہاں ہونا ضروری ہے۔ محمد اقبال (۴۲۱)۔۔۔۔۔۔(۱۰) ۲۲ اکتوبر ۲۷ئ؁ ڈیر ماسٹر عبد اللہ ! آپ فصوص الحکم کا قلمی نسخہ جو آپ کے پاس ہے۔ ایک دن کے لیے مرحمت فرمایئے،اور اس کارڈ کے دیکھتے ہی مجھ تک پہنچا دیجیئے۔ محمد اقبال لاہور (۴۲۱)۔۔۔۔۔ (۱۱) ۲۳ اکتوبر ۲۹ ئ؁ ڈیر ماسٹر عبد اللہ ! مرقع چغتائی ‘‘ کی ایک کاپی جو عبد الرحمن صاحب نے بھیجی ہے۔ مجھے مل گئی ہے۔مگر یہ کتاب بیش قیمت ہے۔ اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کی جگہ دوسرے ایڈیشن کی کاپی ہدیۃ مجھے دے دیں،اور اس کو اپنے مصرف میں لائیں۔ اس کے علاوہ یہ امر دریافت طلب ہے کہ آیا آپ نے میری تصویر کا بلاک حاصل کر لیا ہے۔۔۔۔ مہربانی کرکے اس کام کو جلدی کریے۔ کاغذ کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے۔ ٹیٹا گڑھ ملز سے منگوایا ہے۔ کتاب کی طباعت عنقریب شروع ہو گی۔آپ کا کارڈ بھی مل گیا تھا۔ محمد اقبال لاہور (۴۲۳)۔۔۔۔۔(۱۲) ۳ نومبر ۳۱ ء ؁ ۱۱۲ ،اے سینٹ جیمز کورٹ لندن ڈیر ماسٹر عبد اللہ ! السلام علیکم ! آپ کا خط مل گیا ہے۔ الحمد اللہ کہ لاہور میں سب طرح خیریت ہے۔ آپ کا خط غلام رسول مہر صاحب کو دے دیا جائے گا۔ یہ دن بہت مصروفیت کے گزرے۔مینارٹی کمیٹی کی میٹنگ تین دفعہ ہوئی۔اور تینوں دفعہ پرائیویٹ گفتگو ئے مصا لحت کے لیے ملتوی ہو گئی۔ پرائیویٹ گفتگو بہت ہوئی۔مگر اب تک کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے مطالبات کی مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں۔اب مینارٹی کمیٹی کی میٹنگ،جس کا میں ممبر ہوں،شاید ۱۱ نومبر کو ہو، اس میں بھی کچھ نہ ہو سکے گا۔حقیقت یہ ہے کہ مییینارٹی کا کام محض مصالحت کی کوشش ہے۔ یہ کوشش کی گئی ہے۔ جس کا نتیجہ اس وقت تک کچھ نہیں ہوا۔ شاید ۲۰ نومبر تک ہم لوگ یہاں سے روانہ ہو جائیں۔روما جانے کا بھی قصد ہے۔ اس کے بعد وقت ہوا تو مصر اور فلسطین بھی۔ عبد الرحمن صاحب اور تاثیر صاحب کو سلام کہیئے۔ محمد اقبال (۴۲۴)۔۔۔۔۔(۱۳) ۶ ۱کتوبر ۳۶ ء ؁ ڈیر ماسٹر صاحب ! مولوی ابو مصلح صاحب کا پتہ مجھے معلوم نہیں،اس واسطے آپ کو تکلیف دیتا ہوں۔ان کی خدمت میں عر ض کیجیئے کہ مجھے اس کتاب کی ضرورت ہے۔ جس میں انہوں نے بچوں کو قرآن پڑھانے کا نیا طریق ایجاد کیا ہے۔ جس روز آپ کی معیت میں وہ مجھ سے ملے تھے۔اسی روز اس کتاب کا ذکر کیا تھا، اس قائدہ کی جاوید کے لیے ضرورت ہے۔ محمد اقبال لاہور (۴۲۵)۔۔۔۔۔(۱۴) ۱۳ جون ۳۷ئ؁ ڈیر ماسٹر عبد اللہ چغتائی ! آپ کا خط ملا،علمی مشاغل میں مصروف رہنا آپ کو مبارک ہو،میری صحت بہ نسبت سابق بہتر ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی ایک دائم المریض کی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ تا ہم صابر اور شاکر ہوں۔ انشا اللہ جب موت آئے گی تو مجھے متبسم پائے گی۔ قصد تو یہ تھا کہ زندگی کے باقی دن جرمنی یا اٹلی میں گزاروں،مگر بچوں کی تربیت کس پر چھوڑوں، خصوصا جب کہ میں ان کی مرحوم ماں سے عہد کر چکا ہوں،کہ جب تک یہ بالغ نہ ہو جائیں ان کو اپنی نظروں سیے اوجھل نہ کروں گا۔ان حالات میں یورپ کاسفر اور وہاں کی اقامت ناممکن نہیں تو محال ضرور ہے۔اگر توفیق الہیٰ شامل حال رہی تو زیادہ سے زیادہ مکہ ہوتا ہوا ممکن ہے مدینہ تک پہنچ جاؤں۔اب مجھ ایسے گنہ گار کے لئے آستان رسالت کے سوا اور کہاں جائے پناہ ہے۔ اٹلین زبان میں جن مضامین کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ افسوس ہے مجھے ان کا علم نہیں، اگر ممکن ہو تو ان کا انگریزی میں ترجمہ کروا کر بھیج دیجیئے۔ ترجمہ اور ٹائپ کا خرچ میں ادا کروں گا۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ دونوں رسالے جن میں یہ مضامین شائع ہوئے ہیں،بھیج دیجیئے۔میں ان کا یہاں ترجمہ کروانے کی کوشش کروں گا۔ اور جب آپ یورپ سے واپس آئیں گے تو دونوں رسالے آپ کے حوالے کر دوں گا۔ ڈیک آرٹ پر مضمون لکھنے کی اب مجھ میں ہمت نہیں رہی، اگر آپ کوپیرس میں نوجوان عمر کا سکالر مل جائے تو اس سے کہنا کہ ڈیک آرٹ کی مشہور کتاب Method کا امام غزالی کی احیا العلوم سے مقابلہ کرے اور یورپ والوں کو دکھائے کہ ڈیک آرٹ اپنے اس میتھڈ کے لئے جس نے یورپ میں نئے علوم کی بنیاد رکھی۔کہاں تک مسلمانوں کا ممنون احسان ہے۔ مغربی فلسفہ کا مورخ Lawessتو یہ لکھتا ہے کہ اگر ڈیک آرٹ عربی زبان کا عالم ہوتا تو ہم اسے غزالی کی احیا العلوم سے چوری کرنے کا الزام لگاتے،لیکن اٹلی کا مشہور شاعر دانتے بھی تو شاید عربی نہ جانتا تھا، لیکن اس کی کتاب Dante Comedy شاید محی الدین عربی کے افکار وتخیلات سے لبریز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے نتائج افکار عام طور پر یورپ میں مشہور تھے۔ اور یورپ کے بڑے بڑے مفکر اور تعلیم یافتہ آدمی خواہ وہ عربی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں،عام طور پر اسلامی تخیلات سے آشنا تھے۔ انگریزی کتابوں میں ہم ہندی مسلمانوں کو یہ سکھایا ہے کہ منطق استقرائی کا موجد بیکن (Bacon)تھا۔لیکن فلسفہ اسلامی کی تاریخ بتاتی ہے۔ کہ یورپ میں اس سے بڑا جھوٹ آج تک نہیں بولا گیا۔ارسطو کی منطق کی شکل اول پر سب سے پہلے اعتراض کرنے والا ایک مسلمان منطقی تھا۔ یہی اعتراضJohn Stuart Mill کی کتابوں میں دہرایا گیا تھا۔ اور مسلمانوں کا استقرائی طریق بیکن سے مدتوں پہلے سارے یورپ کو معلوم تھا۔ محمود خضیری سے میں سپین میں ملا تھا۔وہ اس وقت فقہ اسلامیہ پر ریسرچ کر رہے تھے۔ نہایت نیک نوجوان ہیں۔مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ وہ نصیر الدین طوسی پر مقالہ پڑھیں گے،ان سے کہیئے کہ نصیر الدین طوسی کی تحریروں کا وہ حصہ جس میں طوسی نے Euclid کے Parallel Postulate کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص مطالعہ کریں۔ بلکہ اسی ضمن میں ان کے معاصرین کی تحریروں کا مطالعہ بھی کریں،اس تحقیق سے ان کو معلوم ہوگا کہ مسلمان ریاضی دان قرون وسطی ہی میں اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے۔ یہ ممکن ہے کہ مکان کے ابعاد (Dimensions) تین سے زیادہ ہوں۔ اور ہمارے اسلامی صوفیا تو ایک مدت سے تعدد زمان ومکان کے قائل ہیں۔یہ خیال یورپ میں سب سے پہلے جرمنی کے فلسفیKantنے پیدا کیا تھا۔لیکن مسلمان صوفیا اس سے پانچ چھ سال پہلے اس نکتہ سے آشنا تھے۔ عراقی کے رسالے کا قلمی نسخہ غالبا ہندوستان میں موجود ہے۔اور میں نے ان کے ایک رسالہ کا جو خاص طور پر زمان ومکان پر ہے۔ اپنے لیکچروں میں ملحض بھی کر دیا ہے۔اگر محمود خضیری بھی اس مضمون پر ریسرچ کریں تو مجھ کو یقین ہے کہ یورپ میں نام پیدا کریں گے۔ امیر شکیب ارسلان کو اگر آپ خط لکھیں تو میرا سلام ضرور لکھیے۔ میرے دل میں ان کا بہت احترام ہے۔افسوس ہے کہ قیام یورپ میں باوجود کوشش کے ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ان سے یہ بھی دریافت کرکے مجھے اطلاع دیں کہ سید ضیا الدین طبا طبائی آج کل کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں ؟۔اقبال شیدائی اور ان کی بیگم صاحبہ کو میری طرف سے بہت بہت سلام کہیئے۔ ان کی بیگم صاحبہ کا قصد تھا کہ وہ اپنی میڈیکل تعلیم ختم کرکے ہندوستان آکر پریکٹس کریں گی،معلوم نہیں ان کے اس ارادے کا کیا حشر ہوا؟۔ ہاں خالدہ اور ادیب خانم سے بھی میرا بہت بہت سلام کہیئے۔ باقی خدا کے فضل وکرم سے خیریت سے ہے۔ علی بخش آپ کو سلام کہتا ہے۔ماسٹر عبد الرحمن چغتائی تو شاید انگلستان میں ہیں۔کیا انہوں نے وہاں اپنی تصویروں کی کوئی نمائش کی ہے؟۔ یہ خط ایک دوست کے ہاتھ سے لکھوا رہا ہوں کہ میں اب اپنے ہاتھ سے بہت کم لکھتا ہوں۔ محمد اقبال (۴۲۶)۔۔۔۔۔(۱۵) لاہور ۱۱ اگست ۳۷ ئ؁ ڈیر ماسٹر عبد اللہ ! آ پ کا خط مل گیا ہے۔الحمد للہ کہ آپ بخریت ہیں۔چغتائی صاحب سنا ہے کہ لاہور پہنچ گئے ہیں۔لیکن مجھ سے اب تک ملاقات نہیں ہوئی، ان کے ذہن میں جو تجویز ہے۔ اس کے معلوم ہونے پر رائے ظاہر کرسکوں گا۔ اٹالین رسالوں کے مضامین کا انگریزی ترجمہ جلد ارسال کیجیئے۔ بلکہ اصلی رسالے بھی ترجمے کے ساتھ بھیج دیجیئے۔یہ دونوں رسالے محفوظ رکھے جائیں گے۔ اور جب آپ واپس آئیں گے تو آپ کو دے دیے جائیں گے۔ یا اگر آپ چاہیئں تو ان کو بذریعہ ڈاک آپ کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا۔ باقی خدا کے فضل سے خیریت ہے۔ شیدائی صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ صلام قبول کریں۔ لاہور میں سخت گرمی ہے۔ساون کا مہینہ غیر معمولی طور پر خشک گزرا ہے۔آج کل پیرس میں خوب موسم ہو گا۔قادیان کے احمدیوں میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔ اور خلیفہ قادیان پر ان کے باغی مریدوں کی ایک جماعت نے نہایت فحش الزام لگائے ہیں۔ نقص امن کے احتمال سے کل سے دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ کیا گیا ہے۔ سید راس مسعود وزیر معارف بھوپال دفعتہ اس جہان فانی سے انتقال فر ماگئے۔خدا تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے،بڑے مخلص آدمی تھے۔ پروفیسر Massignon سے آپ کی ملاقات ہو تو میری طرف سے ان کی خدمت میں سلام عرض کیجیئے۔ والسلام محمد اقبال (۴۲۷)۔۔۔۔۔۔(۱۶) ڈیر ماسٹر صاحب آپ کے دونوں خط مل گئے ہیں۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔ دونوں خطوط میں اطالوی رسالوں کے مضامین کے ترجمے کا کوئی ذکر نہیں،آپ نے نہ تو رسالے بھیجے اور نہ ہی ان کا ترجمہ، حالانکہ میں نے آپ کو کہا تھا کہ ا گر ترجمہ نہیں ہو سکتا تو رسالے واپس بھیج دیں۔ جو بہ کمال حفاظت آپ کو واپس بھیج دیئے جائیں گے۔ بہر حال ان رسالوں کا یا ان کے تراجم کا شدید انتظار ہے۔ مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی،کہ دنیائے اسلام کے اچھے اچھے آدمیوں سے آپ کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ان سے آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہوگا۔ دنیائے اسلام میں ایک ذہنی انقلاب کے آثار پیدا ہیں۔ مگر یہ قومیں ابھی تک اپنی سیاسی اور اقتصادی مشکلات میں الجھی ہوئی ہیں۔ان مشکلات کے خاتمے پر ذہنی انقلاب کا آغاز یقینی ہے۔اور اس وقت تک امید ہے کہ ایسے آدمی پیدا ہو جائیں گے،جو اس انقلاب کی صحیح رہنمائی کر سکیں گے۔ آپ اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ یورپ میں ابھی جنگ نہیں ہو گی،یہاں کے اخباروں میں جو خبریں شائع ہوتی ہیں،ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب یورپ میں جنگ چھڑنے والی ہے۔ اور جلد ہی جنگ کی آگ بھڑک اٹھنے والی ہے۔ یورپ کی قوموں نے ایک اعلیٰ کلچر کی بنیاد رکھی ہے۔ مگر افسوس کہ ان کا عمل اس کلچر کے مقتضیات کے خلاف ہے۔اس واسطے اغلب ہے کہ یہ کلچر بے کار ہو کر یورپ میں فنا ہو جائے گا۔ زیادہ کیا لکھوں ،خدا کے فضل وکرم سے سب طرف خیریت ہے۔آپ کے بھائی چغتائی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ علی بخش سلام کہتا ہے۔ محمد اقبال رسالے یا ان کا تراجم بھیجنے کی مزید تاکید ہے۔ (۴۲۸)۔۔۔۔۔۔(۱۷) ڈیر ماسٹر صاحب ! ڈانٹے کی ڈوائن کامیڈی (Dante Comedy) کا لج لائبریری سے لے کر ایک دو روز کے لئے بھجوایئے۔ اورHellکی ضرورت نہیں ہے۔ محمد اقبال نوٹ اس تحریر پر کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔ (۴۲۹) ۔۔۔۔۔(۱۸) ۷ جنوری ۲۹ء ؁ ڈیر ماسٹر عبد اللہ ! تمام لاہور میں اس بات کا چرچا ہے کہ ماسٹر عبد اللہ اعلان آزادی کے خوف سے کہیں بھاگ گئے ہیں۔کیا یہ و اقعی درست ہے؟۔ محمد اقبال لاہور (۴۳۰)۔۔۔۔۔(۱۹) ۵ جون ۳۰ ء ؁ ڈیر ماسٹر عبد اللہ ! آپ نے Lane کی ڈکشنری کا اقتباس بھیجنے کا وعدہ کیا تھا،جس کا میں اب تک منتظر ہوں۔ محمد اقبال مولانا محمود شیرانی کے نام (۴۳۱)۔۔۔۔۔(۱) ( یہ خط اشعار خاقانی سے متعلق ہے جو علامہ اقبال نے ماسٹر عبد اللہ کی وساطت سے شیرانی صاحب کو بھیجا۔۔۔۔(مرتب) ڈیر شیرانی صاحب ! میں کل کابل ج ارہا ہوں۔ اس واسطے فرصت نہیں، آپ مہربانی کرکے اس خط کا جواب راقم کو دے دیں،اور ان کو یہ بھی لکھ دیں کہ میں کابل جا رہا ہوں۔اس واسطے میں خود جواب نہ لکھ سکا۔ محمد اقبال خواجہ حسن نظامی دہلوی کے نام (۴۳۲)۔۔۔۔۔(۱) مکرمی سید صاحب زادہ عمرہ دو دفعہ پیسہ اخبار میں میں نے وہ خبر پڑھی،جسے پڑھ کر لاہور کے تمام دوستوں کو تشویش تھی۔ مگر قدرت خدا کی مجھے مطلق رنج نہ ہوا۔اور اسی بنا پر مجھ سے جس دوست نے پوچھا میں نے بے تکلف کہہ دیا کہ خبر غلط ہے۔ الحمد للہ کہ ایسا ہی ثابت ہوا۔ اور میں لاہور کے احباب میں مفت کا صوفی مشہور ہو گیا۔ایسی خبریں زیادتی عمر کا باعث ہیں۔میری نسبت بھی لاہور میں اس قسم کی خبریں مشہور ہو گئی تھیں۔ والسلام۔ اس خبر سے کم از کم یہ تو معلوم ہو گیا کہ ملک کو آپ کی کس قدر ضرورت ہے۔ انشا اللہ میں بھی تعطیلوں میں اگر ممکن ہوا تو آپ سے دہلی میں ملوں گا۔ میں کچھ دنوں کے لئے لاہور سے باہر تھا۔اس واسطے آپ کے کارڈ کا جواب نہ لکھ سکا۔ راقم آپ کامفتون اقبال از لاہور ۲۲ جولائی ۱۹۰۴ء ؁ (۴۳۳)۔۔۔۔۔(۲) از کیمبرج ٹر نیٹی کالج ۸ ،اکتوبر ۱۹۰۵ء ؁ اسرار قدیم،سید حسن نظامی ! ایک خط اس سے پہلے ارسال کر چکا ہوں۔ امید ہے کہ پہنچ کر ملاحظہ عالی سے گزرا ہوگا۔ اس خط کے جواب کا انتظار ہے۔ اور بڑی شدت کے ساتھ ،اب ایک اور تکلیف دیتا ہوں،اور وہ یہ کہ قرآن شریف میں جتنی آیات صریحا تصوف کے متعلق ہوں،ان کا پتا دیجیئے۔ سپارہ اور رکوع لکھیے۔ اس بارہ میں آپ قاری شاہ سلیمان صاحب یا کسی اور صاحب سے مشورہ کرکے مجھے بہت جلد مفصل جواب دیں۔اس مضمون کی سخت ضرورت ہے۔ اور گویا کہ یہ آپ کا کام ہے۔ قاری شاہ سلیمان صاحب کی خدمت میں میرا یہی خط بھیج دیجیئے،اور بعد التماس دعا عرض کیجیئے کہ میرے لئے یہ زحمت گوارا کریں اور مہر بانی کرکے مطلوبہ قر آنی آیات کا پتہ دیویں۔ اگر قاری صاحب موصوف کو یہ ثابت کرنا ہے کہ مسئلہ وحدۃ الوجود یعنی تصوف کا اصل مسلہ قرآن کی آیات سے نکلتا ہے۔ تو وہ کون کون سے آیات پیش کر سکتے ہیں۔اور ان کی کیا تفیسر کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلام کو تصوف سے تعلق ہے؟۔ کیا حضرت علی مرتضٰےؓ کو کوئی خاص پوشیدہ تعلیم دی گئی تھی؟۔ غرضیکہ اس امر کا جواب معقولی اور منقولی اور تاریخی طور پر مفصل چاہتا ہوں،میرے پاس کچھ ذخیرہ اس امر کے متعلق موجود ہے۔ مگر آپ سے اور قاری صاحب سے استصواب ضروری ہے۔ آپ اپنے کسی اور صوفی دوست سے بھی مشورہ کر سکتے ہیں،مگر جواب جلد آ ئے۔ باقی خیریت ہے۔ اقبال (۴۳۴)۔۔۔۔(۳) ۷۸۶ پراسرار نظامی کارڈ بھی ملا،اس سے پہلے آ پ کا نوازش نامہ نہیں ملا، ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آپ کا خط آئے اور میں جواب نہ دوں۔ الاحسان کے دو نمبر بھی کل موصول ہوئے ہیں۔ خوب اور بہت خوب،کس قدر تغیر ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ اس مضمون پر بات کرنا خلاف طریقت تھا۔ اب یہ زمانہ ہے کہ ماہوار رسالے شائع ہو رہے ہیں۔اس کی ضرورت اور سخت ضرورت ہے۔ لیکن کیوں صاحب! آپ مجھے رسوا کرکے اب مشہور کرنے لگے ہیں۔ اب میری شہرت کی سوجھی ہے انہیں دیکھے کوئی مٹ کے میں جس دم غبار کوئے رسوائی ہوا۔ اقبال لاہور (۴۳۵)۔۔۔۔۔(۴) ۲۵ اپریل ۱۹۰۶ئ؁ سرمست سیاح کو سلام! متھرا،ہر دوار جگن ناتھ،امر ناتھ جی،سب کی سیر مبارک ہو۔ مگر بنارس جا کر لیلام ہو گئے۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟۔بلکہ ہمارے میر صاحب نیرنگ اور اکرام کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔ میرے پہلو میں ایک چھوٹا سا بت خانہ ہے۔ کہ ہر بت اس صنم کدے کا رشک صنعت آزری ہے۔ اس پرانے مکان کی کبھی سیر کی ہے؟۔ خدا کی قسم بنارس کا بازار فراموش کر جاؤ۔ میں تو ہر قدم پر آپ کو یاد کرتا ہوں۔والسلام آپ کا محمد اقبال (۵۳۶)۔۔۔۔۔(۵) لندن ۱۰ فروری ۱۹۰۸ئ؁ پیارے نظامی ! آپ کا خط اور رام کرشن دونوں چیزیں پہنچیں۔خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ کہ آپ مجھے کبھی کبھی یاد فر ما لیا کرتے ہیں۔افسوس کہ جرمنی کے پتا پر آپ نے جو خط بھیجا۔وہ نہ پہنچا۔ بمبئی سے آپ کا ایک خط آیا تھا۔اس کا جواب اسی پتا پر لکھا تھا۔ معلوم نہیں پہنچا یا نہیں پہنچا۔ رام کرشن نہایت عمدہ ہے۔ جو طریق اشاعت مذہب حقہ کا آپ نے اختیار کیا ہے۔ مجھے اس سے پوری دلی ہمدردی ہے۔ مسٹر آرنلڈ بہادر صاحب سے آج اس کا ذکر آیا تھا۔ وہ بہت خوش ہوئے اور آپ کی کتاب مجھ سے لے لی۔ کہتے تھے کہ میں نے ہندوستان میں بہت کوشش کی کہ سلسلہ نظامیہ نے جو کوشش اشاعت اسلام میں کی ہو۔ اس کی تاریخی شہات ملے۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ اگر آپ کے خاندان میں کوئی کتاب محفوظ چلی آتی ہے۔ تو آگاہ کیجیئے۔ اس کے علاوہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ایک کاپی اس کتاب کی ملے۔ جو آپ کے کسی دوست نے کلکی پر ان کے متعلق لکھی تھی۔ اور جس کا ذکر آپ نے اس چھوٹی سی کتاب میں کیا ہے۔ مسٹر آرنلڈ کا خیال ہے۔ کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے ہندوؤں میں اسلام پھیلانے کے لئے کوئی باقاعدہ کوشش نہیں کی، اور اب وقت ہے کہ ایسا کیا جائے۔اس میں ہندوستان کیا ساری دنیا کابھلا ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں؟۔ میری کامیابیوں پر جو لوگ آپ کو مبارک باد دیتے ہیں۔ راستی پر ہیں۔ مجھ میں اور آپ میں فرق ہی کیا ہے؟۔دیکھنے کو دو،حقیقت میں ایک، انگلستان میں میں نے اسلامی مذہب وتمدن پر لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک لیکچر ہو چکا ہے۔ اور دوسرا اسلامی تصوف پر،فروری کے تیسرے ہفتے میں ہوگا۔ باقی لیکچروں کے معنی یہ ہوں گے۔’’ مسلمانوں کا اثر تہذیب یورپ پر‘‘۔اسلامی جمہوریت اسلام اور عقل انسانی وغیرہ‘‘۔ تمام دوستوں کی خدمت میں آداب کہیئے۔ اور میرے لئے درگاہ شریف پر دعا کیجیئے۔ آپ کا اقبال (۴۳۸)۔۔۔۔۔(۷) سیالکوٹ ۱۲ اکتوبر ۱۹۰۸ء ؁ پیارے بھائی نظامی! آپ کا خط پہنچا۔ پوسٹ کارڈوں کے لئے شکر گزار ہوں۔ میں نے وی ،پی کے لیے لکھا تھا۔آپ نے کیوں تکلیف کی۔ یہ نیاز جو آپ کو پہنچی ہے۔ والدہ مکرمہ کی نیاز تھی۔قبول فرمایئے۔ بھائی صاحب کا ارادہ خود آنے کا تھا۔ مگر شاید انہیں فرصت نہیں ملی تھی۔ آپ لوگوں کو میرا مشتاق بناتے ہیں۔مجھے کچھ اعتراض نہیں،مگر اندیشہ ہے کہ مجھ سے مل کر انہیں مایوسی نہ ہو۔ میں نے سید صاحب موصوف کے نام ایک عریضہ ابھی لکھا ہے۔ان کا خط اسی خط میں ملفوف کرتا ہوں۔ آپ اپنی ہر تحریک میں بغیر پوچھے مجھے،شریک تصور کیجیئے۔ مگر جس درد نے کئی مہینوں سے مجھے بے تاب رکھا ہے۔جو مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتا۔ جو مجھے تنہائی میں رلاتا ہے۔ اس کی وجہ پہلے مجھ سے سن لیجیئے۔پھر جو چاہے کیجیئے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔اور آپ میرے ساتھ : کئی دنوں سے بیمار ہوں،دعا کیجیئے کہ بالکل اچھا ہو جاؤں۔ آپ کا صادق محمد اقبال (۴۳۹)۔۔۔۔۔(۸) لاہور ۲۵ نومبر ۱۹۰۸ء ؁ مخدومی خواجہ صاحب ! آپ کے حلقے کا ذکر پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہے۔ مجھے بھی اس حلقے میں شامل تصور کیجیئے۔ اور اہل حلقہ سے استدعا کیجیئے کہ میرے حق میں دعا کریں۔مجھے آپ سے ایک بہت ضروری امر میں مشورہ کرنا ہے۔اور اس میں آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔افسوس ہے کہ تا حال فارغ البالی سے بیٹھنے کا موقع نہ ہوا۔ ورنہ عرض کرتا ہوں، بہر حال آپ ایک نئی بات سننے کے لئے تیار رہیں۔میرے خیال میں اوراحباب بھی ہیں۔جن سے ابھی تک اس بات کا ذکر نہیں آیا۔ تاہم وہ اس امر میں یقین ہے۔ ہمارے ساتھ ہوں گے، اگر ممکن ہوتا تو میں بھی آپ کے ساتھ دہلی سے لاہور تشریف لانے کی خبر دیتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نادانستہ اسی طرف کو جا رہے ہیں۔جس طرف میں آپ کو لانا چاہتا ہوں۔اس بات نے مجھے جرات دلائی ہے کہ میں آپ سے رہنے سہنے کا دکھ ظاہر کروں،بہت کم لوگ ہیں جو ہمدردی کے ساتھ اس قضیے کو سن سکتے ہیں۔ مگر آپ سے مجھے پوری ہمدردی کی توقع ہے۔ ابھی تک کسی دوست سے اس بات کا ذکر نہیں آیا، آپ سے ذکر ہو چکنے کے بعد اگر مناسب ہوا تو بعض خاص دوستوں سے اس کا تذکرہ کروں گا۔ زیادہ کیا عرض کروں،تا حال خدا کے فضل سے اچھا ہوں،امید ہے کہ آپ بھی بخریت ہوں گے۔ محمد اقبال، بیرسٹر ایٹ لا ء لاہور (۴۴۰)۔۔۔۔۔۔(۹) مخدومی ومکرم جناب خواجہ صاحب،السلام علیکم ۔ حلقہ نظام المشائخ کے متعلق آج مسٹر محمد شفیع بیر سٹر ایٹ لاء سے سن کر بڑی خوشی ہوئی۔خدا کرے آپ کے کام میں ترقی ہو۔ مجھ کو اپنے حلقہ مشائخ کے ادنیٰ ملازمین میں تصور کیجیئے۔ مجھے ذرا کاروبار کی طرف سے اطمینان ہو لے،تو پھر عملی طور سے اس میں دل چسپی لینے کو حا ضر ہوں۔ آپ نے اچھا کیا کہ محمد شفیع صاحب کے نام خط لکھا ،میری طرف سے مزار شریف پر بھی حاضر ہو کر عرض کیجیئے۔والسلام محمد اقبال ۱۴ جنوری ۱۹۰۹ء ؁ (۴۴۱)۔۔۔۔۔۔(۱۰) لاہور ۲ اگست ۱۹۰۹ء ؁ مخدومی ! رسالہ پہنچ گیا ہے۔ آپ کی دست بستہ دعا نے بڑا لطف دیا۔ میں فراموش کار نہیں ہوں۔ البتہ آپ کو یہ لقب دیا جائے تو موزوں تر ہے۔ کچھ دنوں سے عدیم الفرصت ہوں۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ قانونی پیشہ میں اس قدر مصروفیت رہے گی۔ پنجاب میں نظامی مشہور ہوں اور آپ میری خبر نہیں لیتے۔ سیہ کار محمد اقبال (۴۴۲)۔۔۔۔۔۔(۱۱) لاہور ۴ ۲جون ۱۹۱۲ء ؁ مکرمی ! بارہ روپیہ جس طرح آپ کے خیال میں آئے،خرچ کردیجیئے،حلوا پکا دیجیئے یا خانقاہ کے متعلقین میں تقسیم کر دیجیئے۔ آپ سے ملنے کو دل چاہتا ہے۔ مگر کیا کروں؟۔ علائق نہیں چھوڑتے،روٹی کا دھندا لاور سے باہر نہیں نکلنے دیتا۔ کیا کروں ،عجب طرح کاقفس ہے۔ والسلام آپ کا مخلص اقبال (۴۴۳)۔۔۔۔۔ (۱۲) مکرمی ! السلام علیکم ۔ خدا آپ کا بھلا کرے کہ آپ نے ہندوستان کے پرانے بت کدے میں توحید کی مشعل روشن کی، مجھے یقین ہے کہ دل اس کی حدت سے گرمائیں گے،اور آنکھیں اس کے نور سے منور ہوں گی۔میں بھی اپنی بساط کے موافق کچھ نہ کچھ حاضر کروں گا۔ مسلمانان ہندوستان کی بیداری کے پانچ اسباب ہیں۔جو آپ نے اس ہفتے کے توحید میں ارقام فرمائے ہیں۔ بالکل بجا ہے،لیکن آپ نے یہ نہیں لکھا کہ اقبال جس نے اسلامی قومیت کی حقیقت کا راز اس وقت منکشف کیا، جب ہندوستان والے اس سے غافل تھے۔اور جس کے اشعار کی تاریخ زمیندار،کامریڈ،بلقان، طرابلس، اور نواب وقار الملک کی حق گوئی کی تاریخ اس سے پہلے کی ہے۔کس کا خوشہ چین ہے۔ شاعروں کی بد نصیبی ہے کہ ان کا کام برا بھلا جو کچھ بھی ہو، غیر محسوس ہوتا ہے۔ اور ظاہر بیں آنکھیں مرئیات کی طرف قدرتا زیادہ متوجہ ہوتی ہیں۔ اس خط کا مقصد شکایت نہیں،اور نہ یہ کہ اقبال کے کام کا اشتہار ہو۔ حسن نظامی کو خوب معلوم ہے کہ اس کا دوست اشتہار پسند مزاج لے کر دنیا میں نہیں آیا،مگر یہ مقصد اس خط کا ضرور ہے کہ ایک واقف حال دوست کی غلط فہمی درست ہو۔تاکہ اقبال کی وقعت اپنے دوست کی نگاہ میں محض اس لیے کم نہ ہو کہ اس نے مسلمانان ہند کی بیداری میں حصہ نہیں لیا۔ ع بکلام بیدل اگر رسی مگزر جادہء منصفی کہ کسے نمی طلبدز تو صلہ دگر مگر آفریں خاکسار اقبال (۴۴۴)۔۔۔۔۔۔(۱۳) لاہور ۲۷ دسمبر ۱۹۱۳ء ؁ خواجہ صاحب مکرم ! اجمیر سے کوئی خط نہیں لکھا،اس بارے میں شاید آپ کی ہدایت پر عمل نہ ہو، زلف خواجہ کا اسیر،دام اقبال میں کیوں کر آسکتا ہے۔شیخ احسان الحق سے درخواست کریں کہ وہ اقبال کا اشتہار نہ دیں۔ میں ان کا اور آپ کا ممنون رہوں گا۔اگر آپ مجھے اس زحمت سے بچا لیں۔آخر شاعری کی وجہ سے میں مشاہیر میں شامل ہو ں گا۔ لیکن آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنے آپ کو شاعر تصور نہیں کرتا۔اور نہ کبھی بحیثیت فن کے میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ پھر میرا کیا حق ہے۔ کہ صف شعراء میں بیٹھوں اور کوئی وجہ شہرت نہیں ہے۔ دردانہ بے چاری موتیوں کا ہار دے سکتی ہے۔ مگر گردن دینے کی وہ بساط نہیں رکھتی۔ با لفاظ دیگر یوں کہیئے کہ ’’دردانہ دے سکتی ہے۔‘‘اگر یہ صورت ہے تو گردن کہاں رہ جائے گی؟۔ وہ تو دردانہ کی ایک جزو ہے۔ والسلام محمد اقبال (۴۴۵)۔۔۔۔۔(۱۴) ڈیر خواجہ صاحب ! آپ کی سر کار سے جو مجھے خطاب عطا ہوا ہے۔ اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت واستحکام پر بحث کی ہے۔اب قریبا تیار ہے۔ اور پریس جانے کو تیار ہے۔ اس کے لیے کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمایئے۔ شیخ عبد القادر صاحب نے اس کا نام ’’اسرار حیات‘‘ ، پیام سروش، اور ،پیام نو، و آئین نو، تجویز کیے ہیں۔آپ بھی طبع آزمائی فرمایئے۔ اور نتائج سے مجھے مطلع کیجیئے۔تاکہ میں انتخاب کر سکوں۔ آپ کا خادم دیرینہ ۶ فروری ۱۹۱۵ء ؁ اقبال لاہور مولوی صالح محمد کے نام (۴۴۶)۔۔۔۔۔ (۱) لاہور ۱۰ مئی ۳۰ ء ؁ جناب مولوی صاحب،السلام علیکم ! کل کی ڈاک میں ایک خط میں آپ کی خدمت میں ارسال کر چکا ہوں۔میرا خیال تھا کہ شاید میں عرس کے موقع پر حاضر نہ ہو سکوں، لیکن مزید غور کرنے پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے اس موقع پر جانا چاہیئے۔ اس واسطے آپ کی خدمت میں اطلاعاعر ض ہے کہ میں حاضر ہوں گا۔ میرے ایک دو دوست اور بھی ہوں گے۔براہ مہر بانی بواپسی ڈاک مطلع فرمایئے۔ کہ کس تاریخ کو مجھے وہاں ہونا چاہیئے۔ خواجہ صاحب کب تک وہاں پہنچیں گے،اور ان کا قیام کب تک وہاں رہے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی مطلع فرمایئے، کہ کس بزرگ کو یہاں سے روانہ ہونے کی اطلاع دی جائے۔ کیا حضرت دیوان صاحب کو براہ راست سب کچھ لکھ دیا جائے۔یا جب خواجہ نظام الدین صاحب وہاں پہنچ جائیں تو ان کو بذریعہ تار مطلع کیا جائے۔اس خط کا جواب فورا ارسال کیا جائے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۴۴۷)۔۔۔۔۔۔ (۲) جناب من ! السلام علیکم ! آپ کا خط مل گیا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔ مجھ کو آپ کے خط نے بہت متاثر کیا ہے۔مجھ کو یہ خیال ہمیشہ تکلیف رو حانی دیتا ہے کہ آنے والی مسلمان نسل کے قلوب ان واردات سے یکسر خالی ہیں ،جن پر میرے افکار کی اساس ہے۔لیکن آپ کے خط سے مجھے گونہ مسرت ہوئی ،ان اشعار کی دقت زبان کی وجہ سے نہیں۔میں تو اتنی ہی فارسی نہیں جانتا کہ مشکل زبان لکھ سکوں،دقت جو کچھ بھی ہے۔ واردات وکیفیات کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ اگر کیفیات کا احساس ہو تو مشکل زبان بھی سہل ہو جاتی ہے۔ بہر حال آپ کی کوشش ایک مبارک فال ہے۔لیکن یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جذبات انسانی کی تخلیق یا بیداری کے کئی ذرائع ہیں۔جن میں سے ایک شعر بھی ہے۔ اور شعر کا تخلیقی یا ایقاطی اثر محض اس کے مطالب ومعانی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس میں شعر کی زبان اور زبان کے الفاظ کی صوت اور طرز ادا کو بھی بڑا دخل ہے۔ اس واسطے ترجمے یا تشریح سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا، جو مترجم کے زیر نظر ہوتا ہے۔بہر حال اس تشریح میں آپ کو ان لوگوں کی کیفیات وخیالات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیئے۔ جن کے قلوب میں آپ پیام کے جذبات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات،پیام کے مطالعہ سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی گر کی بات ہے کہ مجھ سے مشورہ نہ کیجیئے۔ جس شعر کا جو اثر آپ کے دل پر ہوتا ہے۔اسی کو صاف اور واضع طور پر بیان کرنے کی کوشش کرنا چاہیئے۔مصنف کا مفہوم معلوم کرنا باکل غیر ضروری بلکہ مضر ہے۔ہاں ایک ضروری شرط ہے،اور وہ یہ کہ جو تشریح آپ کریں،اس کی تائید شعر کی زبان سے ہونی چاہیئے۔ ایک ہی شعر کا اثر مختلف قلوب پر مختلف ہوتا ہے۔ بلکہ مختلف اوقات میں مختلف ہوتا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ قلوب انسانی کی اصلی فطرت اور انسانی تعلیم وتربیت اور تجربہ کا اختلاف ہے۔ ،اگر کسی شعر سے مختلف اثرات مختلف قلوب پر پیدا ہوں تو یہ بات اسی شعر کی قوت اور زندگی کی دلیل ہے۔ زندگی کی اصل حقیقت تنوع اور گونا گو نی ہے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۴۴۸)۔۔۔۔۔ (۳) جناب من السلام علیکم ! کئی دن ہوئے، میں نے آپ کے خط کے جواب میں خط لکھا تھا۔اور اسی خط میں آپ کی شرح پیام مشرق (رباعیات) کا مسودہ ملفوف تھا۔ معلوم نہیں وہ خط آپ تک پہنچا یا نہیں۔اگر نہیں پہنچا تو مجھے سخت افسوس ہے۔ خصوصا ان نوٹوں کی وجہ سے جو میں نے مسودہ مذکورہ کے حواشی پر کیے تھے۔ بہر حال مطلع فرمایئے۔ کہ اطمینان ہو جائے۔ حضرت خواجہ نظام الدین صاحب سے یہ بھی معلوم کیجیئے کہ آیا ان کے بزرگوں کے کتب خانے میں حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری کا وہ رسالہ موجود ہے۔ جس میں انہوں نے آسمانوں اور سیاروں کی سیر کا ذکر کیا ہے۔مجھے اس کی مدت سے تلاش ہے۔ اب تک دستیاب نہ ہوسکا۔ آج تک شائع بھی کسی نے نہیں کیا،اگر وہ رسالہ ان کے اپس نہیں تو ممکن ہے کہ اسی مضمون کاکسی ا ور بزرگ کا رسالہ موجود ہو۔ والسلام محمد اقبال لاہور نوٹ: یہ خط علامہ کے انگریزی پیڈ پر لکھا ہوا ہے۔ لیکن تاریخ تحریر نہیں کی گئی،اندازا یہی ہے کہ یہ گزشتہ خط کے بعد کا خط ہے۔(مرتب) (۴۴۹)۔۔۔۔۔ (۴) ۱۹ جون ۳۰ ء ؁ جناب من السلام علیکم ! آپ کا خط مل گیا ہے۔ جس کے لئے شکریہ قبول کیجیئے۔ الحمد للہ کہ مسودہ آپ تک پہنچ گیا ہے۔آپ نے نسخہ مطلوبہ کی تلاش میں جو زحمت گوارا کی ہے۔ اس کے لئے جناب خواجہ صاحب کا اور آپ کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔اگر آپ ادھر کے نادر الوجود قلمی نسخوں کی ایک فہرست شائع کردیں،تو عہد حاضر کے ہندوستانی مسلمانوں پر ایک احسان عظیم ہوگا۔نیز ایک بڑی علمی خدمت ہو گی۔ افسوس مسلمانوں کا علمی سرمایہ ہندوستان میں بالکل ضائع ہو گیا۔ اور آج یورپ والے یہ طعنہ دینے کے لائق ہوئے کہ ہندوستانی مسلمان علمی دولت سے بالکل تہی دست تھے۔ سر السما ء کا ذکر میں نے آج تک نہیں سنا،اس کتاب کی تلاش بھی جاری رکھیے۔ میں نہایت ممنون ہو ں گا۔ اگر ِسرا لسما ء ہی مل جائے۔شاید بہاول پور ہی سے ملے۔ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں سلام شوق عرض کیجیئے۔اگر وہ کبھی لاہور کا رخ کریں تو مجھے مطلع کیجیئے والسلام مخلص محمد اقبال (۴۵۰)۔۔۔۔۔۔ (۵) لاہور ۲۵ جولائی ۳۰ ء ؁ مکرمی ،السلام علیکم ! والا نامہ ابھی ملا ہے۔ جس کے لئے سراپا سپاس ہوں۔حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں میری طرف سے خاص طور پر شکریہ ادا کیجیئے۔ میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں۔کہ انہوں نے سر السما ء کے متعلق اس قدر دل چسپی کا اظہار فرمایا۔معلوم نہیں حجم کس قدر ہے اور کس زبان میں ہے۔ بہر حال اگر خواجہ صاحب کسی آدمی کو بھیج دیں تو بہت مہر بانی ہوگی ۔اس طرح کتاب جلدی بھی مل جائے گی اور میں اس سے اپنی کتاب ختم کرنے سے پہلے مستفیض ہو سکوں گا۔ میں نے شاید آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میرا مقصود سر السما، کے مطالعہ سے علمی تحقیقات نہیں ہے۔علمی سے مراد میری وہ تحقیق ہے،جس کا دار ومدار علم ریاضی پر ہو۔ اور جس کے مشاہدات کے لئے دور بینوں کی ضرورت ہو۔ میرا مقصود اس تحقیق سے ہے۔جس کی بنا مکاشفات قلبی پر ہو۔ چونکہ آپ کے والد سر السما کو دیکھ چکے ہیں۔اس واسطے سے مجھے یقین ہے کہ گوہر مقصود ہاتھ آئے گا۔ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں عر ض کیجیئے،جب میری کتاب ختم ہو گی تو اس کی ایک جلد انشا اللہ حاضر خدمت کروں گا۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ بے انتہا خوش ہوں گے۔ جہاں تک میرا علم ہے۔ کسی اسلامی زبان میں اس قسم کی کتاب پہلے نہیں لکھی گئی۔کتاب نظم میں ہے۔ زبان فارسی ہے۔ مثنوی مولانا روم کے بحر میں ہے۔سیرۃ سلیمان ضرور لکھیے۔آپ کا اردو طرز بیان دل چسپ اور سادہ ہے۔میں سمجھتا ہوں ،آپ پڑھنے والے کی پوری توجہ جذب کر سکنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔گزشتہ رات میرے ہاں بہت سے احباب کا مجمع تھا۔ مسلمانان ہندوستان کی عام رو حانیت کا ذکر تھا۔ اور بہت سے احباب مسلمانوں کے موجودہ انحطاط سے متاثر ہو کر ان سے مایوسی کا اظہار کر رہے تھے۔اس سلسلے میں میں نے ریمارک کیا کہ جس قوم سے خواجہ سلیمان تونسوی، شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی اور خواجہ فرید چا چڑاں شریف والے اب اس زمانے میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں،اس کی رو حانیت کا خزانہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ زیادہ کیا عرض کروں ،سوائے اس کے کہ کتاب سر السما کے حصول میں عجلت فر مایئے۔ خواجہ صاحب کی خدمت میں سلام شوق پہنچایئے۔ اور دعا کی التماس ۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۴۵۱)۔۔۔۔۔۔۔(۶) لاہور ۴ اگست ۳۰ ء ؁ جناب مولوی صاحب السلام علیکم ! میں آپ کو خط لکھنے کے قصد سے بیٹھا ہی تھا کہ ملازم نے آپ کا خط لا کر دیا۔کتاب ،سر السما ‘ کے حصول میں خواجہ صاحب جو سعی بلیغ فر مارہے ہیں،اس کا شکریہ کس زبان سے ادا کروں، ۱۔ میں نے آج بھی مولوی شمس الدین صاحب کی خدمت میں خط لکھا ہے کہ وہ خود علمی ذوق کے آدمی ہیں۔ اس کے علاوہ حضرت خواجہ صاحب نے ان کو لکھا ہے ۔یقین ہے کہ پوری کوشش کریں گے۔ اگر کتاب مفید مطلب نکل آئی تو اپنی کتاب کے دیباچے میں اس کا ذکر کرنا ہوگا۔اور اس سلسلہ میں مولانا عبد العزیز ،مصنف کتاب مذکور کا ذکر بھی ضروری ہو گا۔علاوہ اس کے خواجہ صاحب موصوف کا بھی جن کی وساطت سے کتاب حاصل ہوئی۔ان امور کے متعلق آپ کو کتاب دیکھنے کے بعد تکلیف دوں گا۔ ۲۔فہرست کتب خود تیار کیجیئے۔ لیکن اگر آپ لاہور آئیں تو زمانہ حال کی تیار شدہ فہرستیں ضرور ملاحظہ کریں۔ ان کی ترتیب کا طریق اور ہے۔ اور بہت زیادہ مفید، آپ نے ابن الندیم کی فہرست دیکھی ہوگی،اس نمونہ کی ہونی چاہیئے۔ لیکن صرف نایاب کتب ہی کا ذکر ہو تو بہتر ہو۔اس کی اشاعت کے لئے میں علی گڑھ یونیورسٹی کو لکھوں گا کہ آپ کی مدد کرے۔ ۳۔کابل جانے کا امکان ہے۔آپ ساتھ ہوں تو اور بھی اچھی بات ہے۔ ممکن ہے اگست کے آخر میں،قونصل جنرل افغا نستان متعینہ ہند (دہلی) نے مجھ سے کہا تھا کہ جشن استقلال کے موقع پر اعلیحضرت آپ کو دعوت دینے کا قصد رکھتے ہیں۔ جشن استقلال وسط اگست میں ہے۔لیکن قسط اگست میں میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کے لیے لکھنو جارہا ہوں۔اگر اس موقع پر کابل نہ جا سکا ،تو انشا اللہ کسی اور موقع پر کابل جاؤں گا۔زیادہ کیا عرض کروں ،جناب خواجہ صاحب کی خدمت میں میرا سلام شوق عرض کرنے کے بعد عرض کیجیئے کہ اپنے خاندانی اثر ورسوخ رو حانیت کو مسلمانوں کے مفاد میں کام میں لانے کا وقت ہے۔ اور گدی نشینوں نے دین کو حصول دنیا کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اس امت سے اخلاص رخصت ہو چکا ہے۔ مخلص محمد اقبال (۴۵۲)۔۔۔۔۔۔(۷) لاہور ۹ اگست ۳۰ ء ؁ جناب من السلام علیکم ! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ جس کے لئے بہت بہت شکریہ۔میں نے مولوی شمس الدین صاحب کی خدمت میں لکھا تھا ۔جواب نہیں ملا، وہ یوں بھی جواب لکھنے میں سست ہیں۔میں اس کتاب کے لیے خود نواب صاحب بہادر والی ء بہاول پور کی خدمت میں لکھتا ۔ مگر اس معمولی بات کے لئے ان کو زحمت دینا پسند نہ کیا،مجھے اندیشہ ہے کہ مولوی احمد سعید صاحب کتاب عاریۃ نہ دیںگے۔یہ بخل ایک مدت سے مسلمانوں کا لاحق حال ہے۔ خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے۔ ان حالات میں شاید یہ بہتر ہو گا کہ خواجہ صاحب بہاول پور سے کسی ایسے آدمی کو مقرر فر مادیں،جو اس کتاب کو سمجھنے کیا ہلیت رکھتا ہو۔اور مولوی صاحب احمد سعید صاحب سے صرف کتاب دیکھنے کی اجازت مانگی جائے۔اور مقرر کر دہ بزرگ مولوی صاحب احمد سعید صاحب کی موجودگی میں کتاب مذکور کا وہ حصہ دیکھیں،جس کا تعلق سیارات سماوی اور متعلقہ (امور سے) ہے۔ اگر وہ کتاب علم ہیئت کی ہے۔ تو اس کی ضرورت نہیں (یعنی میرے مقاصد کے لئے) اور اگر اس کے مضامین مکاشفاتی ہیں ،تو جستہ جستہ نوٹ سیارات کے متعلق اس کتاب سے لیے جائیں،اور مجھ کو وہ نوٹ ارسال کر دیئے جائیں۔اس طریق سے مولوی صاحب احمد سعید صاحب کتاب عاریۃ دینے کی زحمت سے بچ جائیں گے۔اور میرا کام ہو جائے گا۔ زیادہ کیا عر ض کروں؟۔ سوائے اس کے کہ آپ کی دعاؤں کا شکر گزار ہوں۔ والسلام حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں سلام پہنچایئے۔ مخلص محمد اقبال ٭،اس نشان سے شروع کرکے جو الفاظ بریکٹ میں لکھے گئے ہیں،وہ خط کے سیاق سباق پر نظر رکھتے ہوئے میں نے خود داخل کیے ہیں۔ یہ الفاظ خط کے بائیں کنارے پر تھے۔ جس کا ایک تھوڑا سا حصہ شکن پڑنے سے ضائع ہو چکا ہے۔ (مرتب) (۴۵۳)۔۔۔۔۔۔(۸) جناب من،السلام علیکم ! آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے۔جس کے لئے شکریہ۔ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں میری طرف سے بہت بہت شکریہ ادا کیجیئے۔ کہ سرّ السما کے لئے انہوں نے بہاول پور خط لکھنے کی زحمت گواراکی، میں نے بھی وہاں ایک دوست سے خط وکتابت کی تھی۔معلوم ہوا کہ شمس الدین صاحب کا کتب خانہ محفوظ ہے۔ اور ان کے بیٹے ریاست کی ملازمت میں ہیں۔ممکن ہے وہ کتاب سرّ السما اس کتب خانے میں محفوظ ہو۔ اگر یہ کتاب مل گئی،اور میرے مطلب کے موافق ہوئی،تو امید ہے بہت فائدہ ہوگا ۔زیادہ کیا عرض کروں؟۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔خواجہ صاحب سلام شوق قبول فرمائیں۔ مخلص محمد اقبال (۴۵۴)۔۔۔۔۔۔(۹) لاہور ۱۸ اپریل ۳۱ء ؁ مکرمی منشی محمد صالح صاحب ! السلام علیکم ایک مدت کے بعد یہ خط آپ کو لکھتا ہوں۔ خواجہ صاحب کو یہ خط دکھا دیں۔اور کامل غور وحوض کے بعد اس کا جواب لکھیں۔ اسلام پر ایک بڑا نازک وقت ہندوستان میں آ رہا ہے۔ سیاسی حقوق وملی تمدن کا تحفظ تو ایک طرف،خود اسلام کی ہستی معرض خطر میں ہے۔ میں ایک مدت سے اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا۔ آخر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے مقدم ہے کہ ایک بہت بڑا نیشنل فنڈ قائم کریں،جو ایک ٹرسٹ کی صورت میں ہو۔ اور اس کا روپیہ مسلمانوں کے تمدن ،اور ان کے سیاسی حقوق کی حفاظت اور ان کی دینی اشاعت وغیرہ پر خرچ کیا جائے۔اسی طرح ان کے اخباروں کی حالت درست کی جائے،اور وہ تمام وسائل اختیار کیے جائیں جو زمانہ حال میں اقوام کی حفاظت کے لئے ضروری ہیں۔مقصل سکیم پھر عرض کی جائے گی۔فی الحال یہ عر ض کرنا چاہتا ہوں کہ قدیم سجادوں کے نوجوان مالک ایک جگہ جمع ہو کر مشورہ دیں کہ کس طرح اس درخت کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔ جو ان کے بزرگوں کی کوششوں سے پھلا پھولا تھا۔اب جو کچھ ہو گا۔ نوجوان علماء اور صوفیا ہی سے ہوگا۔ جن کے دلوں میں خدا نے احساس حفاطت ملی کا پیدا کر دیا ہے۔ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں عرض کیجیئے کہ وہ ایسے نوجوان سجادہ نشینوں کو ایک جگہ جمع کر لیں، میں بھی وہاں حاضر ہو کر ان کی مشورت میں مدد دوں گا۔ یہ جلسہ فی الحال پرائیویٹ ہوگا۔ میرے خیال میں ایسے نوجوانوں کی کافی تعداد ہے۔فی الحال سندھ اور پنجاب کے حضرات ہی جمع ہوں گے۔بعض کے نام میں جانتا ہوں ، مگر غالبا خواجہ صاحب اور آپ ان حضرات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔غرض یہ کہ ان کے نام دعوت نامہ جاری ہو۔،اس پر اگر میرے دستخط کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں،اس خط کو معمولی تصور نہ فرمایئے گا۔ امید ہے کہ آپ کامزاج بخیر ہوگا۔ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں سلام شوق عرض کیجیئے۔ مخلص محمد اقبال (۴۵۵)۔۔۔۔۔ (۱۰) جناب مولوی صاحب ،السلام علیکم ! آپ کا والا نامہ بھی ملا ہے۔ الحمد للہ کہ خیریت ہے۔اس گروہ کے جمود کا مجھے بھی احساس ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اس گروہ میں سے نوجوانوں کو انتخاب کیا ہے۔مجھے امید ہے کہ ا گر ان کو کسی مرکزی مقام پر جمع کیا جائے،تو میں شاید ان کو یقین دلا سکوں کہ نظر بہ حالات آئندہ،ان کا اور ان کے خانوادوں کا احترام واقتدار بھی اسی پر موقوف ہے کہ و ہ اس نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت کریں۔ فی الحال تجویز یہ ہے کہ ایک قومی فنڈ قائم کیا جائے،کہ بغیر اس کے اسلام کے سیاسی ،ودینی مقاصد کی تکمیل واشاعت نا ممکن ہے۔مسلمان اخباروں کو قوی کیا جائے ۔نئے اخبار اور نیوز ایجنسیاں قائم کی جائیں۔ مسلمانوں کو مختلف مقامات میں دینی اور سیاسی اعتبار سے منظم کیا جائے۔ قومی عساکر بنائے جائیں۔اور تمام وسائل سے اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے اس کے مستقبل کو محفوظ کیا جائے۔میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کوابھی تک اس کا احساس نہیں کہ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے۔ اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے۔ اور اگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل اس ملک میں کیا ہو جائے گا۔ہم تو اپنا زمانہ حقیقت میں ختم کر چکے ہیں۔آئندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہو جائے۔اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہو جائے۔اگر ان مقاصد کی تکمیل کے لیے مجھے اپنے کام چھوڑنے پڑے تو انشا اللہ چھوڑ دوں گا۔اور اپنی زندگی کے باقی ایام اس مقصد جلیل کے لیے وقف کردوں گا۔ آپ خواجہ صاحب کے دل میں تڑپ پیدا کریں کہ وہ اپنے دیگر احباب میں بھی یہی تحریک کریں،ورنہ ہم سب لوگ قیامت کے روز خدا اور رسول کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔زیادہ کیا عرض کروں،سوائے اس کے کہ اس کام میں ذرا سا بھی توقف نہیں ہونا چاہیئے۔ کتاب جاوید نامہ جو میں لکھ رہا تھا، ختم ہو گئی ہے۔ آج کل میں کاتب کے حوالے کر دی جائے گی۔تشکیل جدید الہیات اسلامیہ جو میں نے انگریزی زبان میں لکھی تھی،اس کا اردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔عنقریب شائع ہو جائے گی۔والسلام مخلص محمد اقبال (۴۵۶)۔۔۔۔۔۔(۱۱) ۱۴ مئی ۳۱ء ؁ جناب مولوی صاحب ،السلام علیکم ! میں ابھی صبح بھوپال سے واپس آیا اور آپ کا خط ملا،ریاست بھو پال میں بھی نواب صاحب کی دعوت پر میں اسی مقصد کے لئے گیا تھا۔گو کہ مسلمانوں کے سیاسی اختلافات رفع کرنے کی کوشش کرکے ان کو ایک مرکز پر متحد کیا جائے۔معاملہ امید افزا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ چونکہ ہر روز قریبا رات دو بجے تک کام کرنا اور جاگنا پڑا۔ میں وہیں بیمار ہو گیا۔آج صبح واپس آیا ہوں، کسی قدر افاقہ ہے۔ میں یقینا نہیں کہہ سکتا کہ پاک پٹن شریف حاضر ہو سکوں گا، مگر چونکہ خواجہ صاحب نے امید دلائی ہے۔اس واسطے پوری کوشش کروں گا کہ حاضر ہوں،آپ مہر بانی کرکے بواپسی ڈاک دو باتوں کا جواب دیں: ۱۔ خواجہ صاحب اور دیگر نوجوان سجادہ نشین کون سی تاریخ کو وہاں موجود ہوں گے۔ ۲۔ اگر میں پاک پٹن حا ضر نہ ہو سکا تو کیا اور کوئی موقع ایسا ہو سکتا ہے کہ میں ان سب سے ایک مقام پر مل لوں۔اور اپنے معروضات ان کی خدمت میں پیش کر سکوں۔ ان باتوں کاجواب فورا ارسال فرمایئے۔ والسلام۔حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں میری طرف سے سلام اور شکریہ ،اور آداب عرض ہو۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۴۵۷)۔۔۔۔۔(۱۲) لاہور ۲۰ مئی ۳۱ ء ؁ جناب مولوی صاحب،السلام علیکم ! آپ کا خط ابھی ملا، اس سے پہلے حضرت خواجہ صاحب کا خط بھی مل گیا تھا۔ میں نے خواجہ حامد صاحب کے انتقال کی خبر اخبار میں پڑھی تھی۔ا ور میرا خیال تھا کہ تمام اختلافات کو رفع کرنے کی خاطر خواجہ صاحب کو ان کا جانشین تسلیم کر لیا جائے گا۔اس کے متعلق آپ کو لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا تھا۔مگر چونکہ حالات سے آگاہی نہ تھی،ا س لئے خاموش رہا۔بہر حال صلح کی خبر سے بہت خوش ہوا۔ خدا تعالیٰ مبارک کرے۔اور یہ کام با احسن وجوہ انجام پائے۔اگر خواجہ صاحب اس بار پاک پٹن نہ آسکیں تو کچھ مضائقہ نہیں،اجتماع کسی اور جگہ ہو جائے گا۔میں نے ٹائم ٹیبل دیکھا تو معلوم ہوا کہ پاک پٹن جانے والی سب ٹرینیں تکلیف دہ ہیں۔باقی خریت ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہوگا۔ حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں سلام عرض ہو، والسلام مخلص محمد اقبال (۴۵۸)۔۔۔۔۔۔ (۱۳) ۲۵ مئی ۳۱ ء ؁ سوموار جناب مولوی صاحب،السلام علیکم ! کل میٹنگ کا اجلاس تمام دن رہا۔ شام کو میں درد دنداں میں مبتلا ہو گیا۔ اس واسطے آج مجبورا پاکپٹن کاسفر کرنے سے قاصر ہوں،کہ دانت نکلوا دینے کا ارادہ ہے۔ انشا اللہ پھر کسی موقع پر خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام معروضات پیش کروں گا۔اس عرصے میں وہ اپنے نوجوان احباب کے ساتھ میرے خطوط کے مضمون پر گفتگو کے لئے ان کا تیار رکھیں۔ امید ہے کہ ا ن کا مزاج بخیر وعافیت ہوگا۔اور خاندانی تنازع کا بھی با حسن وجوہ خاتمہ ہو گیا ہوگا۔ آج تو آپ اور وہ پاک پٹن میں ہو ں گے۔اور یہ خط تونسہ شریف کے پتے پر ہی لکھتا ہوں کہ غالبا منگل کے روز آپ پاک پٹن سے تونسہ شریف روانہ ہوں گے ۔ اور واپس تونسہ شریف پہنچ جائیں گے۔ والسلام مخلص محمد اقبال (۴۵۹)۔۔۔۔۔(۱۴) لاہور ۷ جون ۳۱ء ؁ جناب مولوی صالح محمد صاحب ،السلام علیکم ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ اور خواجہ صاحب میرے تار اور خط کو فراموش کر گئے۔ یا ممکن ہے کہ تار کا مطلب صحیح نہ سمجھا گیا ہو۔اور خط نہ ملا ہو، میں نے تار اور خط دونوں میں لکھ دیا تھا کہ میں درد دندان میں مبتلا ہو گیا۔اور چار روز کی سخت تکلیف کے بعد دونوں دانت جو دکھتے تھے، ان کواکھڑوادیا گیا۔اگر یہ خط اور تار پہنچنے کے بعد بھی خواجہ صاحب نے بقول آپ کے میرے نہ آسکنے کو برا محسوس کیا،تو مجھے تعجب بھی ہے اور افسوس بھی،تعجب اور افسوس اس واسطے کہ میں نے حدیث میں دیکھا ہے۔ کہ مسلمان کو مسلمان پر نیک ظن رکھنا چاہیئے۔ میں نے جھوٹ نہ لکھا تھا۔ اور نہ اس زمانے کے لوگوں کی طرح بہانہ تراشی کی تھی۔ زیادہ کیا عرض کروں؟۔ والسلام محمد اقبال لاہور دوسرا صفحہ ملا حظہ کیجیئے۔ باقی رہا مقصود جس کے لئے سفر کرنا تھا۔ سو مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اس کا ایک پہلو سیاسی بھی ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ ا سلام بحیثت مذہب کے دین سیاست کا جامع ہے۔ یہاں تک کہ ایک پہلو کو دوسرے سے جدا کرنا حقائق اسلامیہ کا خون کرنا ہے۔ میں نے جو حضرات مشائخ کو اس طرف متوجہ کرنے کا قصد کیا تھا، وہ محض اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تھا۔نہ اپنے نام ونمود کی خاطر، مجھ کو نہ ہندوؤں سے کچھ مطلب ہے۔ اور نہ انگریزوں سے ،خیال یہ تھا کہ شاید اسی طریق سے نوجوان صوفیہ میں کہ ان کے اقتدار کا دار ومدار بھی اسلام کی زندگی پر ہے۔ کچھ حرارت پیدا ہو جائے۔ اور وہ کلا نہیں تو جزأّ اس میں شامل ہو جائیں۔خواجہ صاحب اگر اس تحریک میں شریک ہوں تو میرے عقیدے کی رو سے ان کی سعادت ہے۔ بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اس ساری تحریک کا سہرا ان ہی کے سر رہے۔ والسلام محمد اقبال (۴۶۰)۔۔۔۔۔(۱۵) لاہور ۲ جولائی ۱۹۳۱ء ؁ جناب مولوی صاحب ،السلام علیکم ! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ مجھے اس بات سے دلی رنج ہے کہ خواجہ صاحب پر ان کے مقدس جد کے مزار کی زیارت بند کر دی گئی ہے۔ اس تنگ دلی پر ہزار افسوس،مگر میں خواجہ صاحب کی خدمت میں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ اس مصیبت عظمیٰ پر صبر کریں۔مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کا خاتمہ کردے گا۔اور ان پر ظلم کرنے والے ذلیل وخوار ہو ں گے۔ اس امر کے متعلق جو کچھ مدد خواجہ صاحب کے خیال میں ،میں کر سکتا ہوں،اس کے لئے دل وجان سے حاضر ہوں۔آ پ بڑی خوشی سے تشریف لائیں۔ضلع ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر کون بزرگ ہیں۔ان کے نام سے مطلع فرمائیں۔اگر میری ان سے واقفیت ہوئی تو میں آپ کی ہدایت کے مطابق اس بارے میں ان سے خطوکتابت کرنے کو حاضر ہوں۔ایسے مصائب کا علاج سوائے توجہ الی اللہ کے اور کچھ نہیں، خواجہ صاحب خود اس بات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ فیصلے کی نقل ابھی نہیں پہنچی۔پڑھ کر پھر لکھوں گا،والسلام محمد اقبال لاہور (۴۶۱)۔۔۔۔۔(۱۶) لاہور ۱۱ فروری ۳۲ء ؁ جناب مولوی صاحب ،السلام علیکم ! آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ میرا یونیورسٹی سے اب تعلق نہیں ہے۔ تاہم آپ کا خط میں نے پروفیسر شفیع صاحب کو دے دیا ہے۔ امید ہے کہ وہ آپ کی مدد کر سکیں گے۔ فی الحال آپ اپنے تعلیمی امتیازات (یعنی جو امتحان پاس کیے ہوں۔) اور موجودہ مشاغل وغیرہ مجھے لکھ بھیجیں۔مدینۃ النبیﷺ کی زیارت کا قصد تھا۔مگر میرے دل میں یہ خیال جان گزیں ہو گیا کہ دینوی مقاصد کے لئے سفر کرنے کے ضمن میں حرم نبویﷺ کی زیارت کی جرات کرنا سو ء ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب میں حرم نبوی ﷺ کی زیارت کے لیے جاؤں گا تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا۔ ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا۔ یروشلم سے سفر کرنا آسان ہے۔ اس وقت ابن مسعود کے بعض قبائل بعض دیگر عرب قبائل سے جو یرو شلم اور مدینۃ النبیﷺ کے درمیان راہ میں ہیں، بر سر پیکار تھے۔ مگر یہ کوئی مشکل نہ تھی۔ جس کا تدارک نہ ہو سکے۔ جاوید نامہ شائع ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے کلارک سے کہہ دیا تھا کہ وہ خواجہ صاحب کی خدمت میں ایک کاپی ارسال کردے۔ شاید وہ بھیج چکا ہے۔ یا آج کل میں بھیج دے۔ میری طرف سے خواجہ صاحب کی خدمت میں سلام عرض کیجیئے۔ والسلام محمد اقبال (۴۶۲)۔۔۔۔۔۔(۱۷) لاہور جناب مولوی صاحب ! میں نے پروفیسر شفیع صاحب سے دریافت کیا ،تو معلوم ہوا کہ تمام یونیورسٹی کے امتحانوں کے ممتحن مقرر ہو چکے ہیں۔ورنیکو لر فائنل کاتعلق محکمہ تعلیم سے ہے، یونیورسٹی سے نہیں ہے۔ بہر حال منسلکہ فارم پر کرکے بھیج دیجیئے۔ اگر کوئی Vacancy اسی اثناء میں ہو گی تو شاید آپ کو موقع مل جائے۔والسلام محمد اقبال ۱۲ فروری ۳۲ئ؁ ختم شد ضمیمہ جات مرتب بنام قائد اعظم دیباچہ (جلد اول ،اشاعت اول) پس منظر۔۔۔۔۔۔از مختار مسعود ATA ULLAH M,A Department of Economics Muslim University Ali garh Dated ,19 Th Feb . 1943 Dear Quaid .e. AZam, Dr Iqbal died nearly five years ago ,and his m essage of regeneration of the Millat is receving that publicity and is Commanding that ever increasing warmth of reception which it is so richly deserves Quite a number of publications ciaming to interput his message have seen the light of the day in rapid succession, while all this is certainly encouraging,it is dis appointing to find that so far no one has under taken the very significant task of collecting and compilling his letters. To help the regeneration of Muslim indiaand for the exposition of the great poet,s thought and poetry,and in the interest of literature, poetrypoiltics contempoary history and islamic esti mate of modren movements and problems,you will agree,that it is n ecessary to preserve his letters for the benefit of the future generations of islam ,in india.Though much valuable time has been lost. i have,at the instance of some of my friends,in the punjab my home under taken to collect and publish these and this is the first letter i am writting in this connection and through it, i solicit your blessings and Assis tance,in the venture. I ynder stand that you possess a number of Dr . Iqbal ,s letters addressed to you May i approach you most respectfully with the request that you may be pleased to make agift of these to the nation for which you have already done so much?. you may either lend me the use of these letters which i can return to you after obtain ing copies of them, or,if you please make a gift of the same,along with the entire collection Isucceed in securing for the pur pose,to the Aligrah Muslim Unversity Libary ,on your behalf and with your permission. in case you condescend to lend me the use of these letters may i Suggest that i should receive them either through registered person ally from you at Delhi ,if you please,your wishes as to the return or retention of these letters for present ation to the Aligarh Muslim University library will be inost scrupulously carried out. Your sincerely (ATA ULLAH) Lecturer in Economics ,Muslim University Aligarh. To Quaid .I. AZam Mohammad Ali Jinnah Malabar Hill, Bombay. دیباچہ زیارت گاہ اہل عزم وہمت ہے لحد میری کہ خاک راہ کو میں نے بتایا راز الوندی اقبال کو عالم اسلام میں ایک عدیم النظیر محبوبیت حاصل تھی، اس کی موت پر لاکھوں انسان جنھوں نے کبھی اسے دیکھا نہ تھا۔جس کے دل ودماغ اس کے روح پرور نغمات سے لطف اندوز ہو چکے تھے۔ اشک بار ہوئے ،لیکن خود اقبال نے نشان مرد مومن با تو گویم چو مرگ آید تبسم بر لب اوست کہتے ہوئے اقبال کا ماتم کیا،اقبال کا ماتم عالم گیر تھا۔ لیکن مرد مومن خواہد ازیزداں پاک آںدگر مر گئے کہ بر گیرد زخاک اقبال آج زندہ تر،تابندہ تر،اور پائندہ تر ہے۔ اقبال کی اسلام دوستی اور ملت پروری کے احساس واعتراف کامل کے ساتھ ساتھ اس کی موت نے اس حقیقت سے بھی دلوں کو روشناس کرا دیا کہ اب شعر والہام کے گویا سوتے ہی بند ہو گئے ہیں،ہر تین چار سال کے بعد اقبال کے روح پرور اور وجد انگیز نغمات کے انتظار کی وجہ تسکین پیوند خاک ہو چکی تو اس کے ساتھ ہی ایک دنیا کی گونا گوں امیدیں اور مسرتیں مٹی میں مل گئیں۔ اس شدت الم اور احساس بے چارگی ودر ماندگی میں کفران نعمت سے طبیعت نے انکار کیا۔ اور خیال پیدا ہوا کہ اقبال کو جو فرصت میسر آئی،اور جو توفیق مرحمت ہوئی،اس کا شکر کیوں نہ بجا لایا جائے۔ اگر اقبال کے ساز ہستی کے بصدا ہو جانے سے دنیا محروم سرور ونغمہ ہے۔ تو کیا غم ہے؟۔اقبال اپنے اشعار وافکار میں ہمارے لئے ایک لازوال جنت نگاہ اور ایک سرمدی فردوس گوش مہیا کر گئے ہیں۔ساتھ ہی القا ہوا کہ اقبال کی وفات کے بعد کم از کم مکاتیب کی صورت میں تو دنیا ان کی ایک مدت العمر کی تصنیف سے افادہ ومسرت حاصل کر سکتی ہے۔ اقبال کی وفات کے ایک سال بعد اس سلسلے میں کچھ خط وکتابت بھی ہوئی۔لیکن میں لاہور کو جو جہاں حضرت علامہ مرحوم کے عقیدت مندوں کا ایک با اثر حلقہ موجود ہے۔ اس خدمت کے لئے موزوں ومخصوص سمجھتا رہا۔ پانچ سال کے صبر آزما انتظار کے بعد جب لاہور سے اس خدمت کے آثار قطعا پیدا نہ ہوئے تو اس سلسلے میں مزید توقف کو ایک علمی گناہ اور معصیت ملی سمجھتے ہوئے اس خدمت کی ضرورت واہمیت کے اعتراف اور راجہ حسن اختر صاحب کے اصرار پیہم کے احترام میں مجھے اس خدمت کی انجام دہی کے لئے آمادہ ہونا پڑا۔ جب فروری ۱۹۴۳ء میں اس کا آغاز ہوا، تو یہ حقیقت جونظر سے پوشیدہ تھی، یکا یک سامنے آگئی،کہ علی گڑھ اس خدمت وشرف کا ہر طرح اہل وحقدار ہے۔ اوراس خدمت کی انجام دہی کے لئے جو آسانیاں علی گڑھ میں میسر آئیں،لاہور میں قطعا ممکن نہ تھیں۔آج مجھے اپنی خوش نصیبی پر ناز ہے کہ اس مرد حق آگاہ ودانائے رموز کی اس اہم یاد گار کے تحفظ کی ادنیٰ کوشش کی سعادت مجھے میسر آئی۔ دولتے ہست کہ یابی سر راہے گاہے اگر چہ اقبال کے مکاتیب کی فراہمی واشاعت سے مقصود ایک حد تک ان جواہر پاروں کو دست برد زمانہ سے محفوظ کر لینا ہے۔ لیکن ’’اقبال نامہ‘‘ کی اشاعت میرا سب سے اہم مقصد اقبال کے آئندہ سیرت نگار کے لیے بعض مسائل اور خود اقبال کی زندگی پر اقبال کی تحریری شہادتیں مہیا کرنا ہے۔ اقبال کے مکاتیب کی اشاعت کے سلسلے میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر اقبال کی اس مدت العمر کی تصنیف کو دنیا سے روشناس کرانے کے لئے کوئی ایسے بزرگ جو ہر طرح اس خدمت کے لئے اہل ہوں ،میسر آجائیںتو ’’اقبال نامہ‘‘ کا مقدمہ بجائے خود اقبالیات پر ایک نادر مقالہ بن سکتا ہے۔ خواہش یہ تھی کہ ’’اقبال نامہ‘‘ کا مقدمہ سخن ور ہو، سخن فہم ہو، سخن سنج ہو، اقبال کا شناسا ہو،اور سب سے اہم یہ ہے کہ ایک عالم دین کی حیثیت سے اقبال کے سرچشمہ افکار سے واقف ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ نظر انتخاب کو علی گڑھ سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔قبلہ نواب صدر یار جنگ بہادر الحاج ڈاکٹر محمد حبیب الرحمن خان شروانی کی ذات گرامی میں وہ تمام کما لات ،جن کی جستجو تھی، بدرجہ اتم موجود ہیں۔اقبال کی شاعرانہ رہنمائی میں انہوں نے حصہ لیا ہے۔ وہ ایک نادر ذوق شعر وادب ازل سے ساتھ لائے ہیں۔اور ان کی نگہ جوہر شناس سے بہتر اقبال کی داد دینے والا کون مل سکتا تھا۔نواب صاحب قبلہ کے مرصع مقدمہ نے مجھے اقبال کے متعلق کچھ عرض کرنے سے،جس کا حقیقت میں میں اہل نہیں ہوں،بے نیاز کر دیا ہے۔ نواب صاحب نے میری درخواست پر مکاتیب پر وحصہ دوم کے لئے اٹھا رکھا ہے۔ تاکہ وہ مکاتیب بھی پیش نظر رہیں،جو ابھی میرے پاس نہیں پہنچے۔ میں ’’اقبال نامہ‘‘ کے موادکی فراہمی سے متعلق بزرگوں،دوستوں اور عزیزوں کی توجہات کی سپاس گزاری اور چند دوسرے اہم امور تک اپنی گزارشات محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلے میں بھی مجھے سب سے پہلے قبلہ نواب صاحب موصوف ہی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ جب میں اپنے ارادہ ء فراہمی مکاتیب اقبال کا اعلان اور چند بزرگوں سے ان کے لئے درخواست کر چکا ،تو سب سے پہلا عطیہ نواب صاحب ہی کی طرف سے موصول ہوا۔ میں نے ابھی نواب صاحب سے براہ راست درخواست بھی نہیں کی تھی۔انہوں نے اخبار میں اعلان ملا حظہ فرمایا ،اور اپنے گراں قدر عطیہ سے مجھے یوں ایک گونہ بلا طلب سرفراز فر مایا۔میری ناچیز کوشش کی یہ بزرگانہ تحسین وستائش تھی۔ اور یہ عملی داد میرے دل ودماغ کے لئے سرمایہ دار لطف وحلاوت اور نواب صاحب کی علم دوستی کا یہ ثبوت میرے لئے وجد انگیز ہے۔ اگر مسلمانوں میں یہ علم دوستی اور معارف پروری زندہ ہوتی تو جس کام پر میں نے ڈیڑھ سال صرف کیا ہے۔ ڈیڑھ ماہ میں انجام پا جاتا۔اس طرح حقیقت میں ’’اقبال نامہ‘‘ کی بنیاد نواب صاحب ہی کے مبارک ہاتھوں سے پڑی۔اور اب کہ ’’اقبال نامہ‘‘ مکمل ہو چکا ہے۔اس کی آرائش بھی نواب صاحب ہی کے فکر رسا ژرف نگاہی، ملت دوستی، معارف پروری، اقبال شناسی، اور عدیم المثال وپختہ کار گل کاری ممنون ہے۔ اقبال مرحوم کے سر عبد القادر سے نہایت مخلصانہ تعلقات رہے ہیں۔’’ بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں‘‘۔اور قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں۔’’ میں روئے خطاب سر عبد القادر ہی کی طرف تھا۔اور سر عبد القادر ہی کے لئے اقبال کی زندگی میں ان کے کلام کے مجموعہ اول یعنی بانگ درا کو ملک سے روشناس کرانے کا شرف مقدر ہو چکا ہے۔اسی نسبت سے میں نے ابتدا کار سے ہی ان کی طرف رجوع کیا۔اور میری خوش نصیبی ہے کہ ان جیسے پختہ کار اقبال دان کی سرپرستی مجھے میسر آئی۔انہوں نے خطوط کی فراہمی میں میری پر جوش رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ مولانا سید سلیمان ندوی ،جنہیں اقبال نے استاد الکل،اور ہندوستان میں جوئے شیر اسلام کے فرہاد کے القاب سے یاد فرمایا ہے۔ اسلام کی بیش بہا قلمی خدمات کی بنا پر نہ صرف آج ہی محتاج تعارف نہیں بلکہ ان کا نام زندہ وجاوید رہے گا۔علامہ اقبال کو مولانا سے گہری عقیدت تھی۔اقبال نے جس طالب علمانہ انداز سے اپنی علمی ومذہبی مشکلات میں سید صاحب سے رجوع فر مایا ہے۔ اور جس عقیدت وخلوص اور شاگردانہ انداز سے مولانا کی فضیلت کا اعتراف کیا ہے۔ان کی لطافت کا اندازا ان خطوط سے بخوبی ہو سکتا ہے۔میں بہ اصطلاح اقبال عطیہ مکاتیب کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ سید صاحب نے جس بزرگانہ شفقت ،اور جس دریا دلی اور معارف پروری سے اپنا مجموعہ مجھے مر حمت فرمایا،وہ میرے لئے باعث ہزار افتخار ومسرت اور موجب صد ہزار ممنونیت ہے۔ مولانا نے مجموعہ کاتب سے خوش خط لکھوایا،اور جواب طلب امور کے حوالہ جات از سر نو مرتب فرمائے۔اورا س طرح دنیائے علم ومذہب پر احسان فر مایا۔ کاش اصل مفصل جوابات میسر آسکتے،عطیہ مجموعہ مکاتیب کے بعد مولانا سے جب علی گڑھ میں شرف ملاقات حاصل ہوا تو مسکرائے اور فر مایا،’’آپ نے میرا خیال اور عنوان دونوں‘‘ اڑا لیے، خدا مبارک کرے۔اصل میں میرے اعلان سے پیشتر مولانا کا ارادہ اسی نام سے اقبال کے مکاتیب کی اشاعت کا تھا۔ مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی کے لطف وکرم اور شفقت کا پر خلوص شکریہ میرا خوشگوار فرض ہے۔مولانا موصوف کا عاطفت نامہ ہی اولین پیغام امید ہے۔ میرا نیاز نامہ موصول ہونے کے چار دن بعد ہی مولانا علی گڑھ تشریف لارہے تھے۔ اور گرامی نامہ میں انہوں نے خطوط ساتھ لا کر علی گڑھ میں اپنے دست مبارک سے یہ عطیہ مرحمت فرمانے کا مژدہ سنایا تھا۔ لیکن پہلی بار کوشش میں خط نہ ملے۔اور میرا دامن امید خالی رہا۔مولانا کی اہم مصروفیات اور خدمات دینی میں انہماک کی بنا پر مجھے اندیشہ تھا کہ شاید خطوط کا ملنا نا ممکن ہو۔مولانا نے خطوط کے ایک انبار سے ان مکاتیب کی تلاش کے لئے وقت نکالا،اور یہ امانت خوش دلی سے ملت کے سپرد کر دی۔ مولانا موصوف کو خطوط کی تلاش میں جووقت صرف کرنا پڑا۔اس کے اہم دینی خدمات میں صرف نہ ہونے کا مجھے افسوس ہے۔ لیکن کون ہے، جسے ان مکاتیب کے دست برد زمانہ سے محفوظ ہو جانے سے واقعی مسرت حاصل نہ ہو۔ لیڈی مسعود صاحبہ نے سر سید راس مسعود مر حوم کے نام کے تمام خطوط از راہ کرم مجھے مر حمت فرمائے۔ چند خطوط ممنون حسن خان صاحب کی وساطت سے بھی میسر آئے۔جنہوں نے اس سلسلے میں خلوص وذوق کا ثبوت دیا۔ اقبال کے خطوط مر حمت کرنے والے یا خطوط کی فراہمی میں اعانت فر مانے والے تمام بزرگوں دوستوں اور عزیزوں کا شکر گزار ہوں،جن کی حوصلہ افزائی اور توجہ سے یہ مجموعہ ملت کے رو برو پیش کرنے کی سعادت مجھے میسر آئی ہے۔ رام بابو صاحب سکسینہ مصنف ’’ تاریخ ادب اردو‘‘ ایڈیٹر نیرنگ خیال لاہور ’’ اور ایڈیٹر مصنف علی گڑھ کا احسان مند ہوں کہ انہوں نے مجھے اپنی کتاب اور رسائل سے خط شامل کرکے مجموعہ کرنے کی اجازت مر حمت فرمائی ۔ خطوط کا عطیہ مر حمت فرمانے والے دوستوں اور بزرگوں نے تشریح طلب حوالہ جات پر خود ہی نوٹ بھی مرتب فر مائے ہیں۔ بعض احباب کرام کا خاص شکریہ مجھ پر واجب ہے۔اگر چہ میں جانتا ہوں کہ اس کوشش میں اقبال سے عقیدت کا خاص دخل تھا۔تاہم اسی سلسلہ میں مجھے گراں قدر رفاقتیں میسر آگئی ہیں۔ جن بزرگوں اور عزیزوں نے اس کام میں میرا برابر کا ساتھ دیا،اور مختلف طریقوں سے میری درخواست پر اور اکثر بلا طلب میری اعانت فرمائی۔ ان کے لیے میری احسان مندی کے تذکرے سے ’’ اقبال نامہ ‘‘ کا خالی رہ جانا ایک نا قابل فراموش فرو گزاشت ہو گی۔ اس سلسلے میں وحید احمد خاں صاحب ایم،ایل، سی بدایوں،سید عبد الواحد انسپکٹر جنرل جنگلات حیدر آباد،مولانا یعقوب بخش صاحب راغب،پروفیسر آل احمد سرور۔سید نصیر الدین صاحب ہاشمی، اور غلام محمد صاحب شوریٰ اور محمد شفیع صاحب جرنلسٹ لاہور،شیخ بشیر احمد اور خواجہ عبد اللہ بھو پالی خاص طور پر شکریہ کے مستحق ہیں۔مجھے اسلامی اخبارات ورسائل کا بھی خاص شکریہ ادا کرنا ہے۔ ان اخبارات اور رسائل نے میرے اعلان کے لئے بخوشی جگہ نکالی،اور تائیدی شذرات لکھے۔ گرامی کے نام کا اکیالیس سال پہلے کا لکھا ہوا خط مجھے مدیر ’’ شہاب ‘‘ حیدر آباد کی وساطت سے موصول ہوا۔ جن کے ہاں بسکٹ فروش کی دکان سے پڑیا کی صورت میں یہ خط پہنچا۔خدا کا شکر ہے کہ یہ کام جس اجتماعی اعانت و توجہ کا محتاج تھا۔وہ اسے نصیب ہوئی،اور اقبال کا خیال، کم نوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی پورا ہوا ،اور ملے بے ذوق قرار نہ پائی۔میری یہ کوشش ہے کہ اقبال کی تمام تحریری یاد گاریں جو اب تک ان کے مطبوعہ کلام میں موجود نہیں،محفوظ کر لی جائیں۔اسی بنا پر اقبال کے دو اشعار جو انہوں نے حالی مرحوم کی صد سالہ برسی پر کہے تھے۔ ایک مناسب مقام پر درج کر دیے ہیں،حالی وسرسید سے متعلق ایک رباعی بھی درج کر دی گئی ہے۔ علامہ مرحوم نے اپنی زندگی میں اصلاح کم دی ہے۔ خوش قسمتی اسے ایک ایسی نظم جس پر علامہ مرحوم کے قلم سے اصلاح دی گئی ہے۔دستیاب ہو گئی ہے۔ وہ بھی درج کر دی گئی ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق ایک اہم بیان بھی مناسب مقام پر شامل مجموعہ ہے۔ میر ولی اللہ صاحب بشیر اہل کار محکمہ مشیر قانونی ومعتمدی وضع قوانین سرکار عالی نے مانٹ مورنیسی سابق گورنر پنجاب سے ملا قات کے لیے درخواست کی تو میر صاحب کو جواب ملا کہ ’’ میں نے تمہیں تمہارے والد صاحب کے ساتھ کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ اقبال کو یہ قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے میر صاحب کو حسب ذیل تحریر لکھ دی،اور فرمایا کہ سالک صاحب سے انگریزی ترجمہ کراکر مانٹ مورینسی اور اقبال کے اخلاق امیال کے نمونے کے طور پر محفوظ رکھے جانے کے قابل ہے۔ لاہور ۷جولائی ۱۹۲۸ء ؁ میر ولی اللہ خوشنویس آئمہ جامع مسجد دہلی کے خاندان سے ہیں۔یہ وہ محترم خاندان سے ہیں،جس کے مورث اعلیٰ کو شہنشاہشاہ جہان علیہ الرحمۃ نے بخارا سے بلا کر امام جامع مسجد مقرر کیاتھا۔ میر ولی اللہ کے دادا مولانا حافظ امیر الدین صاحب مرحوم ومغفور ابو ظفر بہادر شاہ بادشاہ دہلی کے استاد تھے۔ ان کے والد حافظ محمد سعید ولطنت دکن اور بھو پال کے وظیفہ خوار تھے۔ جو ان کو ان کی خاندانی شرافت ونجابت اور تقویٰ کی بنا پر عطا کیاگیا تھا۔ میرے نزدیک اس خاندان کے افراد اس قدر کے مستحق ہیں۔ محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لاء لاہور ’’اقبال نامہ‘‘ کا حصہ اول مشتا قان اقبال کے ہاتھوں تک پہنچ گیا،لیکن ابھی کافی ا ور اہم مواد خطوط کی صورت میں میرے پاس موجود ہے۔تلاش وجستجو جاری ہے۔ مجھے توقع ہے کہ وہ تمام بزرگ اور احباب جو اقبال کے مزید مکاتیب کی نشان دہی فراہمی یا ان کے براہ راست عطیہ سے میری اعانت وسرفرازی فرما سکتے ہیں۔اس سے دریغ نہ فرمائیں گے،تاکہ میں جلد از جلد حصہ دوم کی اشاعت کے فرض سے سبک دوش ہو سکوں۔ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ اول سلسلہ اقبالیات نمبر ۱ کے طور پر شائع ہو رہا ہے۔ حصہ دوئم بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہوگی۔اور توفیق ایزدی شامل حال ہوئی تو ارادہ ہے کہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے۔ چند اہم خدمات پیش نظر ہیں۔فی الحال مشتاقان اقبال تک صرف یہ اطلاع پہچانا چاہتا ہوں ،کہ میری تجویز اور درخواست پر مولانا محمد مبین صاحب عباسی کیفی چڑیا کوٹی نے، جن کے علم وفضل کا اعتراف و احترام خود اقبال کو تھا۔ ’’تلمیحات اقبال‘‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کرنا شروع کی ہے۔اس کتاب کی اشاعت سے قرآن کریم، احادیث نبوی،اور تاریخ وادب اسلامی سے متعلق کلام اقبال میں جو حوالہ جات اور اشارات پائے جاتے ہیں۔ان کی تشریح وتوضیع سے اقبالیات کی ہر دل عزیزی اور عالم گیری میں معقول اضافہ ہو گا۔ اقبال کے کلام کی ایسے طرز پر اشاعت کی اشد ضرورت ہے۔ جس سے اسے عام لکھے پڑھے لوگوں تک پنچایا جا سکے۔اقبال کے کلام کے تراجم اور مصور ایڈیشنز تیار کرانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔اقبال خود اس ضرورت کے قائل تھے۔ضرار احمد صاحب کاظمی کیوریٹر پکچر گیلری مسلم یونیورسٹی نے اشعار اقبال کو تصویر کا عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا تھا۔اور علامہ مرحوم نے جیسا کہ ان کے نام خطوط سے واضع ہوگا،ان کی کوشش کو پسند بھی فرمایا تھا۔معلوم ہوا ہے کہ حیدر آباد میں بھی بعض ماہرین فن اس میدان میں طبع آزمائی فر مارہے ہیں۔ امید ہے جلد قابل مسلمان مصورین سے جو وقت وفرصت کے منتظر ہیں۔ اقبال کے کلام کو مصور کرنے کی خدمت لی جائے گی۔دیکھیں کلام اقبال کی اس خدمت کی سرپرستی کی سعادت کس کے حصے آتی ہے۔ ٹرسٹیان اقبال اس اور اقبال کے کلام کی اشاعت کے سلسلہ میں مقتدر ارباب علم کی اعانت وتوجہ سے مستفید ہونے کو تیار ہوں گے۔ اقبال نے اعلیٰ حضرت نواب حمید اللہ خان فرمانروائے بھو پال کی ملت پروانہ توجہات عالی کا جو احسان مندانہ اعتراف کیا ہے۔ وہ اقبال ہی نہیں ،تمام ملت پر فرض ہے۔اقبال نے، زالطاف تو خیزد موج لالہ از خیا بانم کہہ کر اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے،اور ضرب کلیم کے انتساب میں، بگیر ایں ہمہ سرمایہ بہار از من کہ گل بدست تو از شاخ تازہ تر ماند فرما کر اپنا فرض ادا کیا۔لیکن اقبال کی احسان مندی کا یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’ارمغان حجاز ‘‘ بھی نواب صاحب کی نذر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔جس کی اطلاع انہوں نے سرسید راس مسعود کو دی تھی۔ سر راس مسعود اقبال سے پہلے فوت ہو گئے تھے۔اور ’’ارمغان حجاز‘‘ اقبال کی وفات کے بعد شائع ہوئی تھی۔اس طرح اقبال کی اس خواہش ووعدہ کا جواب ایک گونہ وصیت کا حکم رکھتا ہے۔ کسی کو علم نہ ہوا۔ اس مجموعہ مکاتیب کی اشاعت کے بعد امید ہے کہ اقبال کی اس خواہش کی تکمیل کی جائے گی۔ اقبال کے کلام وپیام کی اشاعت اور اس کی سیرت سے متعلق بعض خیالات ذہن میں موج زن ہیں۔ہندوستان کے مختلف حصص میں بزم اقبال کے نام سے اقبالین کے حلقے پیدا ہو رہے ہیں۔ حیدر آباد میں یوم اقبال جس شان سے منایا گیا ہے۔ وہ ہر طرح مملکت اسلامی کے شایاٰ ں تھا۔ علی گڑھ میں مجھے احباب کا ایک علم دوست حلقہ میسر ہے۔ جو میری اعانت ورہنمائی کے لیے ہر طرح آمادہ ہے۔ مختلف صوبہ جات میں جو کوششیں اقبال کے کلام کو ہر دل عزیز بنانے سے متعلق کی جا رہی ہیں۔ان میں ایک ربط باہمی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ چند اہم تجاویز میرے اور احباب کے پیش نظر ہیں۔خدا توفیق عمل عطا فرمائے۔ ترتیب سے متعلق نظریات پیش نظر تھے۔لیکن میں نے ہر مکتوب الیہ کے نام کا مجموعہ علیحدہ علیحدہ مگر یک جا کرنا پسند کیا ہے۔ ترتیب مکاتیب کے سلسلہ میں تقدم وتاخر کو اہم نہیں سمجھتا۔ اہمیت تو خطوط کو حاصل ہے۔ مولانا احسن مرحوم کے نام کے خط سے ’’اقبال نامہ‘‘ کا اس لیے آغاز کیا گیا ہے۔ کہ یہی سب سے پرانا خط اس وقت تک دست یاب ہو سکا۔ اس کے بعد نواب صدر یار جنگ بہادر کے نام کے مکاتیب ہیں۔ کہ مجھے سب سے پہلے موصول ہوئے۔اور اپنی قدامت کے لحاظ سے بھی اسی کے حق دار ہیں۔خطوط مختلف اوقات میں موصول ہوتے رہے۔ اور یکے بعد دیگرے پریس کے لئے تیار ہوتے رہے۔ اقبال کے افکار ،اس کے ذوق وشوق،اس کی معارف پروری،اس کی اسلام دوستی، اور مذہب پرستی کے نایاب اور آبدار موتیوں کا ایک پورا خزانہ پیش خدمت ہے۔آپ اپنے ذوق وگوہر شناسی کی بناء پر جس موتی کو جو جگہ چاہیں دے دیں۔ اقبال کے استاد شمس العلماء مولانا میر حسن مرحوم ومغفور کی خدمت با برکت میں دوران ملازمت مرے کالج سیال کوٹ مجھے شرف حاضری نصیب ہوا۔میں جانتا ہوں کہ اقبال کا اقبال کس درجہ مولانا موصوف کی جوہر شناسی،اور نگاہ کیمیا اثر کا مرہون منت ہے۔دنیا نے اقبال کی قدر نہ کرنے پر بھی اقبال کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن ’’اقبال گر‘‘ کو اقبال کے سوا کسی نے نہیں پہچانا۔اقبال کی اس مدت العمر کی یاد گار کے انتساب کا حقدار اقبال کے استاد سے زیادہ اور کون ہو سکتا ہے۔اقبال کی کسی دوسری یادگار کی تقریب پر بشرط زندگی اقبال کے استاد کے شایان شان تعارف کا شرف حاصل کروں گا۔ خوش آںقومے پریشاں روزگارے کہ زاید از ضمیرش پختہ کارے نمدش سری از اسرار غیب است زہر گردے بردن ناید سوارے عطا اللہ مرتب ’’ اقبال نامہ‘‘ شعبہ معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ (نوٹ یہ دیباچہ اندازا ستمبر ۱۹۴۴ء میں لکھا گیا ہے۔ پس منظر آج اس زمانہ کا خیال آتا ہے تو بے یقینی کی کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہوں۔آنکھوں دیکھے واقعات کو یاد کرتا ہوں ،تو خود مجھے حیرت ہوتی ہے۔ یہ عیسوی سال نامہ کی سہ ہزاری کا آغاز ہے۔ وہ سن ۱۹۴۳ئ؁ کے شروع کی بات تھی۔ان چھ دہائیوں میں زمانہ زیر وزبر ہو گیا۔ہزار رنگ بدلے اور بڑی تیز رفتاری سے بدلے۔ملک کا رواج،قوم کا مزاج اور افضلیت کا معیار سب کے سب بدل گئے ہیں۔بہت سی روایات کا تسلسل منقطع ہو چکا ہے۔ زندگی کے بہت سے گوشے با لخصوص وہ جن کاتعلق مشرقی علوم، السنہ، اور تحقیق سے ہے۔ویران ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں اس بات سے کسے غرض کہ اقبال کے خطوط جمع کرنے کے لئے قرعہ فال والد محترم شیخ عطا ء اللہ سینئر لیکچرار شعبہ معاشیات،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ) کے نام کیوں کر نکلا، اور اس کام کو سرانجام دینے میں مرتب پر کیا گزری؟َمنصوبہ بندی کیا تھی، اور کتنا بوجھ کتنے عرصے تک انہیں تنہا اٹھانا پڑا۔کہاں کہاں سے کمال کشادہ دلی سے ان کی امداد کی گئی۔ اور کن کن مراحل پر انہیں نا خوشگوار تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔اس سلسلہ میں پہلے ایڈیشن کی جلد اول، دوم کے دیباچوں میں جو اشارے کئے گئے ہیں۔ان پر کوئی اضافہ کرنا میرے لیے مناسب نہ ہوگا۔ جو بات مرتب نے بیان کرنا درست نہ سمجھی،اس کا ذکر میں کیسے کر سکتا ہوں۔ مرتب،اقبال نامہ، کو علامہ اقبال کی وفات کے ساتھ ہی اس بات کا شدید احساس تھا کہ مرحوم کے خطوط کی فراہمی کاکام جلد ازجلد شروع کرنا چاہیئے۔مرتب نے لکھا ہے کہ پانچ سال کے صبر آزماانتظار کے بعد جب لاہور سے اس کی خدمت کے آثار قطعا پیدا نہ ہوئے توانہیں خود اس خدمت کی انجام دہی کے لیے آمادہ ہونا پڑا۔ میرے علم کے مطابق والد محترم نے علامہ اقبال کے خطوط جمع کرنے کی ذمہ داری اٹھانے کا قطعی فیصلہ اس دن کیا تھا۔ جس دن لٹن لائبریری کی نئی کتابوں کے انبار میں انہیں بر عظیم کی ایک مشہور شخصیت کے خطوط کا مجموعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ دانش ور غیر مسلم تھا۔ اور اس کا انتقال علامہ اقبال کی وفات کے دو ایک سال بعد ہوا تھا۔ والد مرحوم کا کہنا تھا کہ زندہ قومیں محسنین کی یاد کو تازہ رکھتی ہیں۔باشعور قومیں اپنے فرائض کو بر وقت ادا کرتی ہیں۔جو لوگ غفلت کا شکار ہوتے ہیں۔وہ ذمہ داری کو ایک دوسرے کے سر ڈالنے کی عادت کی وجہ سے ضروری کاموں میں اکثر دیر کر دیتے ہیں۔ اور وقت انہیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ ’’اقبال نامہ‘‘ کے مرتب نے کام کا با ضابطہ آغاز جس خط سے کیا۔ وہ ۱۹ فروری ۱۹۴۳ئ؁ کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھا گیا تھا۔میں وہ خط لے کر (۴ ذکا اللہ روڈ) والے گھر سے سائیکل پر مسلم یونیورسٹی پوسٹ آفس پہنچا۔ یہ چھوٹا سا اور مسلم یونیورسٹی کا اکلوتا ڈاک خانہ ممتاز ہوسٹل اور آفتاب ہوسٹل کے درمیان واقع تھا۔اس کی پشت پر ایک غریب نواز چائے خانہ تھا۔جسے طلبا اس کے چھپر کی چھت کی نسبت سے بڑی اپنائیت کے ساتھ کیفے ڈی پھونس کہتے تھے۔ میں نے وہ خط رجسٹری کرایا۔اور اس کی رسید کو جس پر قائد اعظم کا بمبئی کا پتا درج تھا۔ بڑے فخر سے لے کر گھر واپس آیا۔ قائد اعظم کے نام لکھے ہوئے خط کی اہمیت یہ ہے کہ پہلا خط ہونے کی وجہ سے مرتب نے وضاحت کے ساتھ اپنے مقاصد کا ذکر کیا ہے۔والد محترم کا یہ خط قائد اعظم کے کاغذات میں محفوظ رہا۔ اور ۱۹۶۷ء ؁ میں پہلی بار منظر عام پر آیا۔ اس خط کی نقل ضمیمہ کی پہلی شق ہے۔ نقل ٹائپ میں ہے۔ اصل خط ہاتھ سے لکھا گیا تھا۔قائد اعظم کاجواب بہت جلد آگیا۔مصروفیت کا عذر نہ سیاست کی سنگینی کا ذکر، لکھا تھا کہ میرے پاس علامہ اقبال کے چند خطوط ہیں۔ جنہیں میں نے اب تک بوجوہ اشاعت کے لیے نہیں دیا۔ تاہم اب حالات ایسے ہیں کہ میں انہیں شائع کرانا چاہتا ہوں۔ آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ ان کی اشاعت کے حقوق حاصل کرنے کے لئے آپ مجھے کتنا معاوضہ دے سکتے ہیں۔واضع رہے کہ یہ رقم مجھے اپنے لیے نہیں بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے بطور چندہ درکار ہے۔ والد محترم نے جواب دیا کہ یہ بے صلہ خدمت میں ایک ملی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہا ہوں۔ اس وقت تو یہ اندازا بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ علامہ اقبال کے خطوط کی اتنی تعداد کب تک میسر آئے گی،کہ دوسرے مرحلے یعنی اشاعت کے مختلف مسائل پر غور کیا جاسکے۔دوسری جنگ عظیم بڑی گھمسان کی لڑائی ہے۔ جاری ہے ،اور پھیلتی جا رہی ہے۔ آشفتگی کے اس عالم میں کتابیں شائع کرنا مشکل اور ان کا بیچنا مشکل تر ہے۔ ایسے حالات میں ناشر کے مطابق کسی مالی منفعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔والد محترم نے خط میں یہ بھی لکھا کہ ’’اقبال نامہ‘‘ کی اشاعت کے لیے انہوں نے شیخ محمد اشرف کشمیری بازار لاہور کو ناشر کی حیثیت سے منتخب کیا ہے۔ جو اسلام اور تحریک پاکستان کے بارے میں لٹریچر شائع کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اور اگر قائد اعظم پسند فرمائیں تو شیخ محمد اشرف صاحب دہلی میں کسی وقت ان کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ اسی خط وکتابت کے چند ماہ بعد (Letters to Iqbal to jinnah) کے عنوان سے علامہ اقبال کے تیرہ خط قائد اعظم کے ایک مختصر دیباچہ کے ساتھ شائع ہوئے۔ناشر شیخ محمد اشرف تھے۔ میں نے قائد اعظم کے لکھے ہوئے دیباچہ کا ٹائپ کیا ہوا مسودہ دیکھا ہے۔ قائد اعظم نے بقلم خود اس میں بہت کاٹ چھانٹ کی تھی۔ دیباچہ کے دوسرے پیرا گراف میں اکتوبر ۱۹۳۷ء کے لکھنو سیشن کی دہری کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ فتح وظفر سر محمد اقبال جیسے دوستوں کی پر خلوص جد وجہد اور بے لوث خدمت کا نتیجہ ہے۔شروع میں جہاں دوستوں کا ذکر آیا ،وہاں اقبال کے علاوہ ایک آدھ نام اور بھی لکھا ہوا تھا۔نظر ثانی کرتے ہوئے قائد اعظم نے یہ نام قلم زد کر دیا۔ اب صرف علامہ اقبال کا نام باقی ہے۔ اور دوسرے ساتھیوں کا شکریہ ایک اجتماعی حوالے سے ادا کیا گیا ہے۔ وہ جو قائد اعظم نے مرتب’’اقبال نامہ‘‘ کو لکھا تھا کہ وہ ایک مدت تک ان خطوط کی اشاعت کے حق میں نہ تھے۔ مگر اب اس کے لئے تیار ہیں۔اس کی و جوہ سمجھ میں آتی ہے۔ پہلی یہ کہ قائد اعظم نے جزویاتی بحث سے پیدا ہونے والے اختلاف رائے اور سیاسی انتشار سے عوام کو محفوظ رکھنے کے لئے ان خطوط کی اشاعت کی طرح اور کئی معاملات کو برطانوی ہند کی تقسیم کی نوعیت پر مسلمانوں کے متفق الرائے ہونے تک موخر رکھا تھا۔ اقبال نے اپنے خطوط میں مسلمانوں کے علیحدہ سیاسی اکائی ہونے کی حیثیت سے اسلامی کلچر کے تحفظ (۲۰ مارچ ۱۹۳۷ئ) شریعت کے نفاذ کے لئے آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کا قیام (۲۸ مئی) اور بر عظیم کی نسلی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر از سر نو تقسیم (۲۱ جون) کی اہمیت کی جانب قائد اعظم کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ قائد اعظم نے دیباچہ کی آخری سطروں میں اس امرکی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ مسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں میرے اور علامہ اقبال کے بنیادی خیالات ایک جیسے تھے۔بالاخر اور بالاتفاق اسلامیان ہند کی اس سیاسی فکر نے قرار داد پاکستان کی با ضابطہ صورت اختیار کی۔دوسری وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان خطوط میں سر سکندر حیات کے بارے میں جس رائے کا اظہار کیا گیا تھا۔ کہ وہ پنجاب مسلم لیگ پر قبضہ کرنے کے بعد اسے ٹھکانے لگا دیں گے۔ اس کی قبل ازوقت اشاعت کئی تنظیمی دشواریوں کا باعث بن سکتی تھی۔ رائے دینے والے اور جس کے بارے میں رائے دی گئی تھی، ان دونوں کے انتقال کے بعد اب یہ خطوط تاریخ کا حصہ بن چکے تھے۔ لہذا انہیں شائع کر دیا گیا۔ ۱۹۴۳ء میں ابتدائی چند ہفتوں کی خط وکتابت کے بعد والد محترم نے چند احباب کے ساتھ مل کر ادارہ ء اقبال قائم کیا۔اور اس کے بعد سال ہا سال تک اس کے ناظم کی حیثیت سے خطوط کی فراہمی کا کام کرتے رہے۔ سرشیخ عبد القادر (چیف جسٹس بہاول پور) اس ادارہ کے سرپرست تھے۔میر سید اکبر علی خان (راجہ آف پنڈراول، بلند شہر صوبہ متحدہ) کو صدر بنایا گیا۔ ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ (جاگیر دار ٹونڈو پور،مشرقی خاندیش، صوبہ متوسط) نائب صدر تھے۔ ادارہ ء اقبال کے ناظم کی حیثیت سے کام کرنے میں یہ مصلحت تھی کہ جن لوگوں سے رابطہ کیا جا رہا تھا۔ انہیں یہ اعتبار ہو کہ اقبال کے خطوط جمع کرنے والا ایک ذمہ دار شخص ہے۔ اور یہ کام معتبر اشخاص کی رفاقت میں کر رہا ہے۔( یہ الگ بات ہے کہ ا یک عہدہ دار غیر ذمہ دار نکلے۔اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔)ادارہ کی ساکھ دراصل سر شیخ عبد القادر کے نام سے قائم تھی۔ عاشق حسین بٹالوی کا بیان ہے کہ جب بانگ درا مرتب ہوئی،تو یہ سوال پیدا ہوا کہ دیباچہ لکھوانا چاہیئے۔ یا نہیں،فیصلہ دیباچہ لکھنے کے حق میں ہوا۔ اقبال کے احباب میں سے کسی شخص نے کہا کہ دیباچہ لکھنے کا صحیح حقدار عبد الرحمن بجنوری تھا،جو مدت ہوئی انتقال کر چکا ہے۔ علامہ اقبال نے جواب میں بجنوری کی علمی وادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اعتبار سے ان کے ممنون بھی ہیں۔ عبد الرحمن بجنوری نے اسرار خودی پر اپنے تنقیدی مضمون میں لکھا تھا کہ اقبال نے خودی پر اتنا زور دیا ہے،جیسے اس کے پیش نظر ملت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ بجنوری کا یہ مضمون پڑھ کر اقبال کو احساس ہوا کہ رموز بے خودی کا لکھا جانا بہت ضروری ہے۔اس اعتراف کے بعد علامہ اقبال نے فرمایا کہ، ’’ اگر آج عبد الرحمن بجنوری زندہ ہوتے تو بھی ،بانگ درا پر دیباچہ لکھنے کا زیادہ حق شیخ عبد القادر کا تھا،اور وہی کتاب کا دیباچہ لکھیں گے۔‘‘ ادارہ کے صدر راجہ آف پنڈ راول علی گڑھ میں رہتے تھے۔اوسط درجے کے رئیس تھے، بگڑے ہوئے رئیسوں کی خامیاں ان میں نہیں تھیں،معقول انسانوں والی البتہ چند خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ باوقار،وضع دار،دوست دار ،ملی کاموں میں دل چسپی لینے والے خاموش کارکن۔اس سلسلہ میں وہ مسلم یونیورسٹی کے دو چار اساتذہ سے گاہے مشورہ بھی کرتے رہتے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں،اور والد محترم نے لاہور جانا چاہا تو احتمالی فراری (Intending Evacuee) قانون کے تحت مسلم یونیورسٹی میں ان کا بیس سالہ پراویڈنٹ فنڈ اور امپریل بنک آف انڈیا میں کل جمع جتھا منجمد کر دیا گیا۔علی گڑھ سے بے سرو سامانی کی حالت میں پاکستان کے لئے روانہ ہوتے وقت والد محترم کو صدر ادارہ اقبال راجہ پنڈ راول نے چاندی کی کی ایک تعویزی انگوٹھی دی،کہنے لگے اس کی بدولت آپ کو کبھی مالی دشواری نہیں ہو گی۔اور ایسا ہی ہوا۔ معاملات خود بخود سدھرتے چلے گئے۔ راجہ صاحب خود تو پاکستان نہ آئے مگر ان کا ایک پوتا پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں کبھی کبھار نظر آجایا کرتا تھا۔ معلوم نہیں کہ دادا نے پوتے کو پاکستان جاتے ہوئے کوئی انگوٹھی دی تھی یا نہیں۔ مرتب، اقبال نامہ نے پہلی جلد میں لکھا ہے۔ اگر چہ وہ لاہور کو علامہ اقبال کے خطوط جمع کرنے کے لئے موزوں اور مخصوص سمجھتے تھے۔مگر جونہی کام کا آغاز ہوا۔ یکا یک یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ علی گڑھ اس خدمت وشرف کا ہر طرح سے اہل و حق دار ہے۔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں علی گڑھ کو بر عظیم کے مسلمانوں کی علمی اور سیاسی معاملات میں ایسی غیر معمولی مرکزیت اور اہمیت حاصل ہو چکی تھی۔ کہ محض اس بنا پر کوئی اور شہر ایسے کاموں کے لیے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔جو کام سر سید نے علی گڑھ کے طلبا ء سے مسلمانوں کے محضر نامہ پر دستخط کے لیے لیا تھا،کچھ اسی طرح کاکام والد محترم نے برعظیم کے مختلف حصوں سے آنے والے چند منتخب طلباء سے علامہ اقبال کے خطوط کی تلاش کے سلسلے میں لیا۔سر سید کے زمانے میں طلباء مختلف اضلاع میں جا کر محضر نامہ کا مقصد سمجھاتے اور دستخط حاصل کرتے تھے۔ پرنسپل تھیوڈور بیک بھی طلباء کے ساتھ اس دستخطی مہم میں شریک ہو گئے۔اور جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں پر کھڑے دیکھے گئے۔سر سید نے جون ۱۸۹۰ء میں دستخطوں کی جو قسط جنرل سٹریچی کو بھیجی تھی۔اس کی رو سے ،۶۵۱،۴۸مسلمانوں نے یاداشت پر دستخط کیے تھے۔ ۱۹۴۳ء میںگرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے والد محترم نے چند سنجیدہ طلباء کو یہ کام سپرد کیا۔ کہ وہ اپنے اپنے علاقے کے مشاہیر اور اقبال دوست احباب سے رابطہ کریں،اور علامہ اقبال کے مکاتیب اور مکتوب الہیان کی نشان دہی کریں۔ انہیں اس سلسلے میں ادارہ اقبال کا چھپا ہوا گشتی مراسلہ بھی فراہم کیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر،سرحد، بنگال، بھو پال، حیدر آباد،دکن، مدراس اور میسور میں علی گڑھ کے نوجوان سفیر علامہ اقبال کے خطوط کی تلاش کے سلسلے میں قصہ زمین بر سر زمین قسم کی تحقیق میں مصروف ہو گئے۔اس مہم کا بڑا اچھا اور فوری اثر ہوا۔طلباء نے دو تین ماہ میں ہی بر عظیم کا کونا کونا چھان مارا۔اور سارے امکانی ماخذ کا پتا ڈھونڈ نکالا۔ ایک فہرست ان لوگوں کی بن گئی،جن کے پاس علامہ اقبال کے خط موجود تھے۔یا ان کی موجودگی کا قوی امکان تھا۔دوسری فہرست ان لوگوں کی بن گئی۔ جن سے علامہ اقبال کی خط وکتابت نہیں تھی۔یا انہوں نے خطوط محفوظ نہیں رکھے تھے۔مرتب، اقبال نامہ نے اس سلسلہ میں اچھا کام کرنے والے طلباء سے عبداللہ بھو پالی کا ذکر خاص طور پر دیباچہ میں کیا ہے۔قیام پاکستان کے بعد عبد اللہ بھو پالی لاہور آگئے اور وکالت شروع کر دی۔ ایک روز لاہور کی ضلع کچہری میں انہیں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ،اقبال نامہ ، کے ایک اور گشتی سفیرطالب علم محمد یوسف تھے۔انہوں نے ڈاکٹریٹ غالبا جماعہ ازہر سے کی، کتابیں لکھیں، پڑھا ،پڑھایا،اور عربی سکالر کی حیثیت سے نام کمایا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے پروفیسر اور صدر ہوئے۔جب مستند عالم تسلیم کر لیے گئے تو ساتھ ہی تسلیم جاں کا وقت آگیا۔انہی ڈاکٹر محمد یوسف نے کہیں لکھا ہے کہ جب مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے استاد شیخ عطا اللہ نے ،اقبال نامہ ، کے سلسلے میں کچھ کام ان کے ذمہ کیا تو انہیں خوش گوار حیرت ہوئی کہ علم اقتصاد جیسے بے رس اور سنگلاخ شعبے کا استاد ہونے کے باوجود شیخ صاحب نے علم وادب کے اتنے اہم کام کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اقبال کے خطوط کی جستجو کے سلسلہ میں مسلم یونیورسٹی کے چند طلباء کی قابل ذکر سعی و سرگرمی کے لئے علی گڑھ کی موزونیت کے کچھ اور ثبوت بھی یکے بعد دیگرے سامنے آنے لگے۔اخباروں میں خبر اور اپیل کی اشاعت کے بعد مرتب کو جو اقبال کا پہلا خط موصول ہوا۔ وہ علی گڑھ سے ہی تھا۔ اقبال کا سب سے پرانا خط بھی علی گڑھ سے ہی دستیاب ہوا۔ سید ظفرالحسن، میاں محمدشریف، میاں عمر الدین، خواجہ غلام السیدین،فضل الرحمن انصاری، ضرار احمد کاظمی، آل احمد سرور،مولوی ظفر احمد صدیقی اور صاحبزادہ آفتاب احمد خان کے نام خطوط بھی علی گڑھ کے علاوہ اور کہاں سے مل سکتے تھے۔ان کے علاوہ سر راس مسعوداور سید سلیمان ندوی کے نام اقبال کے خطوط بھی جنہیں،اقبال نامہ،کا حاصل کہا جا سکتا ہے۔ علی گڑھ ہی کے دین ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں اسلامی ہفتہ کے سالانہ انعقاد کی وجہ سے جس کی انتظامی کمیٹی میں والد محترم بھی شامل تھے،انہیں سید سلیمان ندوی سے تعلق خاطر ہو گیا۔جب سید صاحب کو علم ہوا کہ شیخ عطا اللہ اقبال کے خطوط جمع کر رہے ہیں،تو انہوں نے کاتب کا لکھا ہوا مسودہ جو ستر خطوط پر مشتمل تھا۔ رجسٹرڈ ڈاک سے بھیج کر علم دوستی،ایثار اور بے غرضی کی ایک روشن مثال قائم کی۔اس سلسلہ میں ان کا رویہ عالمانہ اور درویشانہ تھا۔انہی دنوں ایک معروف رئیس سکھ زمیندار نے جس کا کچھ وقت منٹگمری میں زمینوں پر اور باقی وقت لاہور میں گزرتا تھا۔ والد محترم کو لکھا کہ علامہ اقبال نے انہیں ایک بار مسلمانوں اور سکھوں کے باہمی تاریخی اور سیاسی تعلقات کے بارے میں ایک طویل خط جسے غیر رسمی مقالہ کہ سکتے ہیں ،لکھا تھا۔ ایک صاحب نے جو علامہ کے بہت قریبی ساتھی شمار ہوتے ہیں، سردار صاحب سے رابطہ کیا،اور خط نقل کرنے کے لئے لے گئے۔اس کے بعد اصل کو حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام ہو گئی۔مکتوب الیہ اپنی زمینوں پر نیشکر کی کاشت کیا کرتے تھے۔ رئیس اس درجہ کے تھے کہ ڈیوڑھی پر ہاتھی بندھا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے ماھول اور مشاہدہ کے مطابق تشبیہ استعمال کرتے ہوئے اپنے خط میں لکھا کہ صاحب موصوف سے اقبال کے کاغذات واپس لینے کا کام اتنا ہی نا قابلل عمل ہے۔ جتنا کسی ہاتھی کے منہ سے گنا چھیننے کی کوشش۔ سر راس مسعود کے نام لکھے ہوئے خطوط کی دریافت اور حصول کا بھی علی گڑھ سے خاص تعلق ہے۔ان میں سے صرف ایک خط علی گڑھ کے پتا پر لکھا گیا۔باقی تمام خطوط اس دور کے ہیں جب سر راس مسعود بھوپال کے وزیر تعلیمات ہوا کرتے تھے۔ سر راس مسعود کا اڑتالیس سال کی عمر میں ۳۱ جولائی ۱۹۳۷ء کو بھوپال میں انتقال ہوا۔مسلم یونیورسٹی کی مسجد میں جہاں سر سید احمد خان کی قبر کے ایک جانب ان کے صاحب زادے سید محمود کی قبر ہے۔،وہیں دوسری جانب ان کے پوتے سر راس مسعود کو دفنایا گیا۔میں اس روز وہاں موجود تھا۔ عمر کم تھی، اس لئے یہ دعویٰ نہیں کروں گا کہ میں جنازے میں شریک تھا۔ البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے جنازہ دیکھا تھا۔اس وقت جلوس باب اسحاق سے داخل ہو کر مسجد کی طرف جا رہا تھا۔میں نے پہلی بار دیکھا تھا کہ اتھاہ سوگواری اور حد سے گزرنے والا غم کیا ہوتا ہے؟۔اس کے دس گیارہ سال بعد جس دن قبروں کی ترتیب میں فرق آیا۔ دادا اور پوتے کے درمیان ایک نئی قبر ضابطہ کی کاروائی مکمل کئے بغیر بنائی گئی۔اس روز بھی میں وہاں موجود تھا۔ سر راس مسعود کی بیوہ لیڈی مسعود کا سسرال علی گڑھ تھا۔اور میکہ اندور میں تھا۔جہاں ان کے والد عبد الرشید خان ریاست کے ہوم منسٹر تھے۔ اقبال نامہ، حصہ اول میں چوبیس خط سر راس مسعود کے نام، تین لیڈی مسعود کے نام اور دس ممنون حسن خان کے نام ہیں۔ان خطوط کی تلاشی اور فراہمی میں لیڈی مسعود اور ممنون حسن خان کے علاوہ طالب علم عبد اللہ بھوپالی کی خدمات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ایک بار لیڈی مسعود نے علی گڑھ سے اندور جاتے ہوئے اقبال کے خطوط کی ایک قسط نواب احمد سعید خان چھتاری کے بڑے صاحب زادے راحت سعید خان چھتاری کے حوالے کی،تاکہ وہ اسے والد محترم کے حوالے کر دیں۔راحت سعید اگر چہ چھتاری ہاؤس میرس روڈ علی گڑھ کے باسی تھے۔ مگر ان دنوں دوسری جنگ عظیم ہو رہی تھی۔ اور وہ دہلی کے فوجی بھرتی کے ادارہ میں افسری کرتے تھے۔ دہلی سے قریب ہونے کی وجہ سے آنا جانا لگا رہتا تھا۔وہ علی گڑھ سے خط لے کر دہلی چلے گئے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے ایک دن اقبال کے سات خطوط رجسٹرڈ ڈاک سے والد صاحب کو بھیج دیئے۔یہ بھی لکھا کہ ایک کم پڑ گیا ہے۔ غالبا علی گڑھ میں رہ گیا ہے۔ اگلی بار آؤں گا تو پہنچاؤں گا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ حالات نے کروٹ لی، اور راحت سعید چھتاری نے سر راس مسعود کی بیوی سے شادی کر لی۔ بعد میں وہ پاکستان کی وزارت خارجہ سے منسلک ہوگئے۔ سفیر اور سینٹر بنے۔۱۹۷۰ء کے آس پاس کی بات ہے۔ کہ بیگم راحت سعید چھتاری کسی نیم سرکاری کام کی پیروی کے سلسلے میںمیرے دفتر میں تشریف لائیں۔جو کراچی میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کی عمارت میں واقع تھا۔ کام کاج کی بات ختم ہوئی،تو میں نے والد محترم اور اقبال کے خطوط کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ سر راس مسعود کے نام علامہ اقبال کے جو خط انہوں نے والد محترم کو ۱۹۴۳ء میں دیئے تھے۔وہ راحت صاحب کے خط میرے پاس محفوظ ہیں۔ یہ سن کر لمحہ بھر کے لئے یا شاید اس سے بھی کم وقت کے لئے ان کی آنکھوں میں یادوں بھری چمک پیدا ہوئی۔ حیران ہو کر کچھ اس طرح کی بات کی، کہ یہ خطوط آپ کے والد کی بدلت ضائع ہونے سے بچ گئے،چھپ گئے اور محفوظ ہو گئے۔پھر ذرا توقف کیا اور کہنے لگیں۔میں کسی وقت ان کو ایک بار دیکھنا چاہوں گی۔ یہ آخری بات انہوں نے بالکل غیر جذباتی انداز میں کہی، چہرہ بے احساس،لہجہ رسمی، یاد ایام کا غلبہ ہوا نہ عمر رفتہ کو آواز دی۔ میرا خیال تھا کہ ایک لمبی سانس لینے اور ایک ہلکی سی آہ کھینچنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر شیش محل بھوپال پہنچ جائیں گی۔اور میرا تعارف شاعر مشرق سے کرائیں گی۔حمیدیہ ہسپتال میں برقی علاج کے باوجود علامہ اقبال بیٹھی ہوئی آواز سے صرف اتنا دریافت کریں گے کہ اقبال نامہ کی نیا ایڈیشن جس کی اشاعت شیخ عطا اللہ تمہیں سونپ گئے تھے۔کب تک شائع ہوگا۔یہ خواہش پوری نہ ہوئی،میں نے جو تصور باندھا تھا۔اس کی رومانی ساخت میں یہ شرط شامل تھی کہ وہ پورا نہ ہو سکے۔ اس میں سابقہ لیڈی مسعود اور بیگم چھتاری کا کیا قصور؟۔وہ تھوڑی سی دیر کے لئے خاموش ہو گئیں۔میں نے اس خاموشی میں مخل ہونے کی بجائے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اقبال نے ایک جوابی خط نواب زادہ راحت سعید چھتاری کے نام بھی لکھا تھا۔جب وہ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایم،اے کے سال اول کے طالب علم تھے۔بال جبریل میں بھر تری ہری سے ماخوذ اقبال کا یہ شعر درج ہے، ؎ ’’پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کاجگر‘‘ ’’مرد ناداں پر کلام نرم ونازک بے اثر‘‘ راحت چھتاری نے اقبال کو لکھا کہ میرے استاد آل احمد سرور نے شعر کے جو معنی بتائے ہیں،مجھے اس سے یہ اختلاف ہے۔اقبال نے جواب دیا کہ آپ اور آپ کے استاد دونوں اپنی جگہ صحیح ہیں۔لیکن میرا مطلب کچھ اور ہے۔ اور آئندہ زمانہ ہی اس کو واضع کر سکے گا۔ مرتب اقبال نامہ نے فروری ۱۹۴۳ء سے اگست ۱۹۴۷ء تک علامہ اقبال کے خطوط کی جستجو میں جو خط وکتابت کی تھی۔جس کی بدولت ’’اقبال نامہ‘‘ کی دونوں جلدیں قیام پاکستان سے پہلے تیار ہو گئی تھیں۔ان کا غذات کا سب سے اہم حصہ وہ مسل تھی۔جس میں جوابا آنے والے خطوط سنبھال کر رکھے ہوئے تھے۔یہ برعظیم اور بر طانیہ سے آئے ہوئے بہت سے خطوط کا مجموعہ تھا۔جن میں ہر خط بذات خود ایک داستان یا دستاویز کا درجہ رکھتا تھا۔ان میں پروفیسر آر،اے، نکلسن(وفات اگست ۱۹۴۵ئ)کے بھی دو ایک خط موجود تھے۔ایک آدھ سر میکلم ڈارلنگ کا بھی تھا۔یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس وقت لکھے گئے تھے۔جب بر طانیہ اور بر عظیم کے درمیان رسل ورسائل کا سلسلہ بے حد مخدوش تھا۔ان دنوں ڈاک کا ایک طریقہ یہ تھا کہ لندن میں خطوط کی ۳۵ ایم،ایم فلم پر تصویر لی جاتی۔اور پھر منفی عکس کی چرخی مختلف ذرائع سے سفر کرتی ہوئی جو کبھی بحری، بری اور کبھی کبھی فضائی ہوتا ہوا بالاخر بمبئی پہنچ جاتی۔ وہاں سے پوسٹ کارڈ سائز کے پرنٹ تیار کرکے مکتوب الیہ کو بھیج دیئے جاتے۔ برطانیہ سے آئے ہوئے بیشتر خطوط عکسی تھے۔ سر میلکم ڈارلنگ کا ۱۴ جون ۱۹۴۳ء کا عکسی خطوط میرے پاس محفوظ ہے۔اس میں اقبال کا ۲۸ فروری ۱۹۳۸ء کا لکھا ہوا ایک خط نقل کیاہوا ہے۔میں اس مسل والے ان سب خطوط کو منفی عکس والے خطوط شمار کرتا تھا۔جن میں حیلہ گری سے کام لیا گیا تھا۔بڑے معاوضہ کی توقعکی گئی تھی۔معاوضہ کا کچھ ذکر خواجہ حسن نظامی کے ابتدائی خطوط میں بھی ملتا تھا۔ مگر جہاں تک میرا علم ہے۔ کام کی نوعیت سے واقف ہونے کے بعد ان خطوط کی نقل بلا معاوضہ فراہم کی گئی۔ یوں بھی ان دنوں مرتب کے بڑے بھائی شیخ برکت علی دہلی شہر کی پولیس کے سر براہ تھے۔ مزاج خانقاہی تھا۔خواجہ حسن نظامی سے ان کی دوستی تھی۔ایک بار وہ درگاہ پر حاضری کے لیے مجھے بھی ہمراہ لے گئے تھے۔ اس مسل میں نوجوان جاوید اقبال کا بھی ایک خط شامل تھا۔جس میں والد صاحب محترم کے استفسار کے جواب میں لکھا تھا۔کہ اقبال کے نام جو خطوط آتے تھے۔ وہ دستیاب نہیں ہیں، کیونکہ علامہ اقبال انہیں نذر آتش کر دیا کرتے تھے۔والد محترم نے یہ سوال اقبال کے سید سلیمان ندوی کے نام ۷ ،اپریل ۱۹۳۶ء کے لکھے ہوئے خط کے حوالے سے کیا تھا۔ جس میں درج ہے کہ آپ کے بعض خطوط میرے پاس محفوظ ہیں۔ اس نادر مسل میں جن صاحب کے لکھے ہوئے خط سب سے زیادہ تھے۔ وہ اپنا نام تخلص اور پتہ کچھ یوں لکھا کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ جاگیر دار ٹونڈہ پور،مشرقی خاندیش،سی پی، وہ آسمانی رنگ کے لکیروں والے کاغذ پر خط لکھتے تھے۔تیز قلم اور بسیار نویس تھے۔تحریر قدرے خفی تھی، ورق کے دونوں طرف لکھی ہوئی،خط ایک اچھی خاصی داستان ہوا کرتا تھا۔ملت اسلامیہ بالخصوص بر عظیم کے مسلمانوں کے مسائل کا ذکر بڑے درد مندانہ انداز میں کیا کرتے۔اقبال کے خطوط جمع کرنے کے منصوبہ کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی۔متعلقہ لوگوں سے ذاتی رابطہ کرنے کا یقین دلایا۔اور اپنے نام لکھے ہوئے خطوط کی تلاش اور قسط وار فراہمی کا وعدہ بھی کیا۔بڑے آدمیوں سے اپنے تعلقات کا ذکر بھی ضمنا کیا کرتے تھے۔ان مشاہیر میں اقبال کے بعد رابند ناتھ ٹیگور کا نام آتا تھا۔ ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ مرتب اقبال نامہ کا تعارف سر شیخ عبد القادر نے کرایا تھا۔اور بقول مرتبِ ‘‘ اس طرح اس خدمت کے لیے مجھے ایک نوجوان مخلص دوست،مداح اور عقیدت مند میسر آگئے۔ان کی دل چسپی اور اقبال سے ذاتی تعلقات ہونے کی بنا پر ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ کو ادارہ ء اقبال کا نائب صدر مقرر کیا گیا۔ ایک عرصہ کی خط وکتابت کے بعد انہوں نے اقبال کے دو مختصر خطوں کے بجھے بجھے تصویری پرنٹ بنوا کر بھیجے،اور وعدہ کیا کہ جونہی انہیں موقع ملا،وہ دیگر خطوط کے پرنٹ بھی بنوا کر بھیج دیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کام کسی بڑے شہر یعنی حیدر آباد دکن یا بمبئی میں ہو سکتا ہے۔ اور جب کبھی ان کا ادھر جانا ہوا، وہ باقی خطوط کے عکس بنوا لیں گے۔جب اس قسم کا موقع انہیں دیر تک نہ ملا تو انہوں نے خود ہی نقول اور تراجم تیار کئے اور بھیج دیئے۔’’اقبال نامہ‘‘ کی پہلی جلد میں ان کے بھیجے ہوئے انتیس خط شامل ہیں۔پانچ انگریزی سے ترجمہ کئے گئے ہیں۔اور باقی مبینہ طور پر اردو میں لکھے گئے ہیں۔انہیں لکھا گیا کہ باقی ستائیس خطوط کے اصل یا عکس جلد ازجلد بھیج دیں ۔ان کا جواب کچھ اس قسم کا ہوتا تھا کہ عنقریب فراہم کر دیے جائیں گے۔ اب ان کے خطوط میں وہ پہلے والی باقاعدگی نہ رہی اور نہ ہی وہ پہلے والی تفصیلی داستان گوئی۔اسی اثناء میں ، اقبال نامہ، کی پہلی جلد شائع ہو گئی۔ صاحب موصوف کو فورا عکس بھیجنے کے لئے تاکیدی خط لکھے گئے تھے۔ انہوں نے چپ سادھ لی۔ با لا خر ان کا جواب ایک دن آ ہی گیا۔ لکھا تھا کہ میری غیر موجودگی میں اس علاقہ میں بڑے زور وشور سے ہندو مسلم فسادات ہوئے،جس میں میرا گھر بھی جلا کر خاک کر دیا گیا۔ اس سے آگے خط پڑھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ ؎ جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا والد محترم کے نام یہ صاحب موصوف آخری خط تھا۔میں نے اسے پڑھا اور مسل میں نتھی کر دیا۔ میں اس وقت بی ،اے کا طالب علم تھا۔ ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ نے جن دو خطوط کے عکس بھیجے تھے۔ وہ دونوں بہت مختصر تھے۔ ایک کی تاریخ ۱۳ جون ۱۹۳۲ء تھی اور دوسرے کی ۳۰ جون ۱۹۳۳ء تھی۔پہلے خط پر اقبال نے مکتوب الیہ کا نام نہیں لکھا تھا۔یہ خط کسی بھی شخص کے نام ہو سکتا ہے۔چونکہ نصف صدی سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود کسی اور شخص نے مکتوب الیہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔لہذا اس خط کو اقبال نامہ کے نئے اڈیشن میں لمعہ کے نام واحد خط کی حیثیت سے شامل کیا جا رہا ہے۔ دوسرا خط صرف ایک سطر کا ہے۔ اور یہ مختصر عبارت خلاف محاورہ ہے۔ جملہ کی ساخت غیر مانوس ہے۔اور اس میں واضع بھدا پن ہے۔۔۔۔ میرا دوستانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ شعر وسخن میں اپنا وقت عزیز ضرور صرف کریں۔‘‘ جب وقت عزیز کا حوالہ دیا جائے تو دوستانہ مشورہ یہ ہوتا ہے کہ اسے ضائع نہ کیا جائے۔صلاحیتوں کے فروغ اور افزائش کے لئے محنت کرنے کا کہا جاتا ہے۔ وقت عزیز ضرور صرف کرنے کا مشورہ نہیں کہا جاتا۔ میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ جب میں نے ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ کا آخری خط آنے کے بعد ۳۰ جون ۱۹۳۳ء کو خط کے بھدے عکس کو بہت غور سے دیکھا تو مجھے شبہ ہوا جیسے کسی نے اس جملہ میں لفظ ’ نہ‘ کو ’ ضرور ‘ میں بدل دیا ہوا ہے ۔ یہ خط تحریف کے شبہ کی بنا پر اس مجموعہ میں شامل نہیں کیا گیا ۔ باقی کے ستائیس خطوط وہ ہیں۔ جن کے بارے میں یہ اطلاع دی گئی تھی کہ عکس فراہم کئے جانے سے پہلے وہ فسادات میں تباہ ہوگئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے لیے بھی اس مجموعہ میں کوئی جگہ نہیں۔ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ کے بارے میں جو توصیفی کلمات،اقبال نامہ،جلد اول کے دیباچہ میں شامل تھے۔ انہیں خذف کرنا بھی ضروری سمجھا گیا۔آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ایک نامور اقبال شناس نے جو ایک زمانہ میں جنوبی ہند کی ایک ریاست میں اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے۔ اور خاندیش سے قریب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ کی شخصیت اور حالات کے بارے میں ذاتی واقفیت رکھتے تھے۔مرتب اقبال نامہ کو بتایا کہ ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ ایک ناکام اور جاہ طلب شخص تھے۔نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتے تھے حالانکہ ڈاکٹری کی تعلیم مکمل نہیں کی تھی۔مطلب یہ تھا کہ ایسے لوگ شہرت کی خاطر سب کچھ کر گزرتے ہیں۔چند سال ہوئے مجھے ڈاکٹر وحید قریشی نے جو ان دنوں بزم اقبال کے سر براہ تھے، کہ علامہ اقبال کے چند خطوط لمعہ مرحوم کے اثاث البیت میں دریافت ہوئے ہیں۔مگر ان کے متن اور اقبال نامہ کے فراہم کردہ متن میں بہت فرق ہے۔مرتب،اقبال نامہ‘‘ کی جانب سے ہم ڈاکٹر محمد عباس علی خان لمعہ کے خطوط کا سلسلہ واقعات اور حادثہ معترضہ کو محققین کے سپرد کرتے ہیں۔ والد محترم کے نام ،اقبال نامہ کے سلسلے میں آنے والے خطوط کی ذاتی مسل پاکستان پہنچ کر سال دو سال بعد گم ہو گئی۔عنایت علی صاحب مسلم یونیورسٹی میں ہمارے گھر کے قریب رہا کرتے تھے۔ اور سال ہا سال تک صبح کی سیر میں والد محترم کے مستقل ساتھی ہوا کرتے تھے۔یہ دونوں تاروں کی چھاؤں میں سیر کے لیے نکلا کرتے تھے۔ذکا اللہ روڈ پر ان سے زیادہ سحر خیز کوئی اور نہ تھا۔ پاکستان آنے کے بعد عنایت علی صاحب کو بیڈن روڈ کے علاقے میں گھر الاٹ ہوا، جو ہمارے کوپر روڈ والے مکان سے زیادہ دور نہ تھا۔اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے عنایت علی صاحب نے ،علیگ، کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالنا شروع کر دیا۔وہ ، الہلال، اور البلاغ کی دو جلدیں اور اقبال نامہ کی مسل مستعار لے گئے۔ تاکہ علیگ اخبار کے صفحات بھرنے کے لیے مواد مل جائے۔ان کے معاونین میں دو نوجوان جز وقتی کارکن شامل تھے۔ ایک عبد العزیز جو بعد میں لندن سے ڈگری لائے۔ اور سنٹرل ٹریننگ کالج سے وابستہ ہو گئے تھے۔ دوسرے خلیل الرحمن داؤدی جو ایک معروف محقق اور نادر مسودات کے مالک تھے۔ ایک دن عنایت علی صاحب نے یہ خبر سنائی کہ ،الہلال کی دونوں جلدیں اور خطوط کی مسل تینوں چیزیں گم ہو گئی ہیں۔میں نے اس واقعہ کے چالیس پینتالیس سال بعد پروفیسر عبد العزیز اور خلیل الرحمن داودی سے رابطہ کیا۔ تاکہ خطوط کی تلاش میں ان کی مدد لی جا سکے۔دونوں نے اس کام میں دل چسپی کا اظہار کیا۔ مگر مسل نہیں ملی۔ میری دانست میں ، اقبال نامہ ، کی سر زمین محققین کے لیے بڑی زرخیز ہے۔ میری مراد اس امر سے نہیں، کہ ۔، اقبال نامہ ، ایک نوع کی سوانح نویسی،کار زار حیات کی وقائع نگاری یا بسر اوقات کا روز نامچہ ہے۔جو اقبال کی سوچ اور شخصیت کی دریافت کے لئے ماخذ ومنابع کا کام دے سکتا ہے۔میں تو اس سے بہت کم تر سطح کی بات کر رہاہوں۔میرے ذہن میں جو سوال ہیں ،وہ کچھ اس طرح کے ہیں۔اقبال نامہ حصہ اول ۱۹۴۴ء کے اواخر میں شائع ہوا یا ۱۹۴۵ء کے شروع میں؟۔ کتاب پر سن اشاعت اور دیباچہ پر سن تحریر کیوں نہ دیا گیا؟۔ حصہ اول کی اشاعت کے فورا بعد اس کی فروخت روک کر نسخے بازار سے واپس کیوں منگوائے گئے؟۔ اقبال کے خطوط میں سے کیا کچھ خذف کیا گیا۔کیا پبلشر نے اس خذف ومخذوف کے سلسلہ میں مرتب سے کوئی رابطہ کیا؟۔ اور اجازت لی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ ، اقبال نامہ ، کا حصہ دوم جو قیام پاکستان کے وقت تقریبا مکمل ہو چکا تھا،۱۹۵۱ء سے پہلے شائع نہ ہو سکا۔ان سوالات کو جواب وقت دے گا۔اور نہ بھی دے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اصل کام اقبال کے خطوط کا جمع کرنا اور ان کی حفاظت تھی جو انجام پا چکا ہے۔تاہم دو اشارے ضروری ہیں۔ایک بیان کی صورت میں اور دوسرا مثال کی شکل میں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی کتاب،تصانیف اقبال کا تحقیقی اور تو ضیحی مطالعہ میں ، اقبال نامہ ، کے ناشر شیخ محمد اشرف کا مندربہ ذیل بیان ملتا ہے۔ ، اقبال نامہ ، حصہ اول کی اشاعت رکوانے کا اصل قصہ یہ ہے کہ اس میں ایک خط تھا۔ سر راس مسعود کے نام ،جس میں اقبال نے لکھا تھا کہ جب تک جاوید کی تعلیم مکمل نہ ہو جائے پنشن جاری رہے۔یہ ایک طرح کی درخواست تھی۔ چودہری محمد حسین اس زمانے میں پریس انچارج کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ اور پیپر کنٹرولر بھی، اس وقت کا غذ پر کنٹرول تھا،جس کا مطلب تھا کہ ناشرین کی روح وہ قبض کر سکتے ہیں۔ چودہری صاحب نے کہا یہ خط شامل نہ کیا جائے۔مگر کتاب چھپ چکی تھی۔ جلدیں بن گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ بیچ میں سے نکال دو۔مگر میں نے یہ پسند نہ کیا اور کتاب روک کر رکھ دی۔فروخت بند کر دی۔ کافی عرصہ انتظار کیا ۔پھر میں نے وہ خط کتاب میں سے نکال دیا۔ جس خط کا ذکر ہو رہا ہے۔ وہ علامہ اقبال نے سر راس مسعود کو ۱۱ دسمبر ۱۹۳۵ء کو لکھا تھا۔ مرتب کے پاس ، اقبال نامہ ، حصہ اول کے تین نسخے تھے۔ دو میں یہ خط صفحہ ۳۷۳(آخری دوسطریں)سے لے کر صفحہ ۳۷۶ کی(چار سطروں) تک پھیلا ہوا ہے۔ تیسرے نسخے میں اس خط کو خذف کرنے کی نامکمل کوشش کی گئی ہے۔ ۱۱ دسمبر ۱۹۳۵ء کا لکھا ہوا کوئی خط کتاب میں شامل نہیں ہے۔ صفحہ ۳۷۳ پر زیریں جگہ خالی ہے۔اور صفحہ ۳۷۴ پر نیا خط شروع ہو جاتا ہے۔مگر اس کا متن صفحات ۳۷۵، ۳۷۶ پر ۱۱ دسمبر والے خط کے متن میں گڈ مڈ ہو جاتا ہے۔ اس طرح سر راس مسعود کے نام ۱۰ جون ۱۹۳۷ء والے خط میں یہ جملہ دو نسخوں میں موجود ہے۔لیکن تیسرے میں غائب ہے۔’’ نمبر ۳ شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے۔نہایت صالح آدمی ہے۔ لیکن وہ خود بہت عیال دار ہے۔اور عام طور پر لاہور سے باہر رہتا ہے۔ ہاشمی صاحب کی تحقیق کے مطابق خط کا اصل متن اس طرح ہے۔ ’’ شیخ اعجاز احمد میرا بھتیجا ہے۔ نہایت صالح آدمی ہے۔ مگر افسوس کہ عقائد کی رو سے قادیانی ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی مسلمان بچوں کا Guardian ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کے علاوہ وہ خود بہت عیال دار ہے۔ سر راس مسعود کے نام اقبال کے ۳۰ مئی ۱۹۳۵ء کے خط کا ابتدائی حصہ چھاپنے سے روک لیا گیا تھا۔ اور عبارت کی جگہ نقطے لگا دیے گئے۔ اس خط کا مکمل متن شائع کرنے کے لئے والد مرحوم کے کاغذات میں اصل یا اس کی نقل کی تلاش میں ناکام ہو کر میں نے شیخ محمد اشرف سے رجوع کیا۔ میں ان دنوں تہران میں تعینات تھا۔ شیخ صاحب مجھے سعودی عرب میں مل گئے۔ فرمانے لگے وارث روڈ والی کوٹھی بند ہے۔ میں اب ڈاکٹر ریاض الحسن کے ساتھ پونچھ روڈ پر رہتا ہوں۔ آپ جب اگلی بار پاکستان آئیں تو میں آپ کے ہمراہ وارث روڈ چلوں گا۔اور اقبال کے اس خط کو تلاش کروں گا۔ایک دن اس کا موقع آہی گیا۔ ہم دونوں ایک پہر مٹی سے اٹے ہوئے کمروں میں کتابوں اور کاغذوں سے الجھتے رہے۔ ایک پرانی سیف کو بمشکل کھولا۔اس میں علامہ اقبال کے چند خطوط کی بلاک سے چھپی ہوئی نقلیں رکھی ہوئی تھیں۔جس خط کی تلاش تھی۔و ہ نہیں ملا، چند ماہ بعد شیخ صاحب بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ علامہ اقبال اور والد محترم کے تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ان کی نوعیت وہی تھی۔ جو ایک دور افتاد عقیدت مند اور اس کے بلند مرتبت مرشد کے تعلقات کی ہو سکتی ہے۔ملاقات بھی دو چار بار سے زیادہ نہیں ہوئی۔میں بہت چھوٹا سا تھا۔ اس لئے وثوق سے اس بارے میں کہنا بہت مشکل ہے۔مجھے بچپن کا صرف یہ واقعہ یاد ہے کہ ہم لوگ گرمیوں کی چھٹیوں میں علی گڑھ سے امرتسر آئے ہوئے تھے۔ ایک دن والد محترم نے کہا کہ وہ مجھے اور برادر بزرگ مختار محمودکو چڑیا گھر دکھانے کے لیے لاہور لے کر جا رہے ہیں۔ صبح سویرے ریل گاڑی سے روانہ ہوئے اور لاہور پہنچ کر دن بھر کے لئے سالم تانگہ کرائے پر لیا۔ پہلا پڑاؤ اسٹیشن کے قریب ہی تھا۔ ٹانگا ایک کوٹھی کے باہر دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔والد محترم پیدل پھاٹک کے اندر چلے گئے۔کوچوان نے تنگ باگ کو اور ڈھیلا کیا اور گھوڑے کے آگے چارہ ڈال دیا۔ مجھے نہ یہ معلوم تھا کہ یہ گھر کس کا ہے؟۔ نہ یہ یاد ہے کہ و الد محترم کتنی دیر کے بعد باہر آئے۔ بہت عرصہ بعد یہ عقدہ کھلا کہ سڑک کا نام میو روڈ (اب علامہ اقبال روڈ) مکان کا نام جاوید منزل اور مکین کا نام سر ڈاکٹر محمد اقبال تھا۔کئی سال بعد ایک روز والد محترم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات کے دوران علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ آپ کے خیالات اور خواہشات کے مطابق کام کرنے کے لئے لاہور زیادہ مناسب رہے گا۔ آپ یہاں آجائیں ،لیکن یہ نہ بتایا کہ کہاں رکھی ہے روٹی رات کی؟۔ ایک بار علی گڑھ کے طلبا کا ایک وفد لاہور میں علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔اس وفد کے ایک رکن نے اپنے مضمون میں لکھا ہے۔کہ علامہ اقبال نے گفتگو کے دوران فرمایا ہے کہ مسلم یونیورسٹی کے چند اساتذہ وہاں کے طلباء کی نظریاتی تعلیم اور تربیت کے لیے اچھا کام کر رہے ہیں۔ دو چار نام لیے ، جن میں شیخ عطا اللہ کا نام بھی شامل تھا۔والد محترم کی علامہ اقبال سے کبھی خط وکتابت نہیں ہوئی۔اور نہ ہی میں چند سال پہلے تک ان کے کسی ہم نام کو جانتا تھا۔چند سال ہوئے میں جاوید منزل میں واقع اقبال میوزیم دیکھنے گیا۔وہاں علامہ اقبال کا ایک خط فریم میں لگا ہوا تھا۔مکتوب الیہ کا نام شیخ عطا اللہ ہے۔ یہ خط ۱۰ ،اپریل ۱۹۰۹ء کو لکھا ہوا ہے۔خط سے پتا چلتا ہے کہ مکتوب الیہ ’’قانونی مشاغل‘‘ سے متعلق ہیں۔ان مشا غل کی صحیح نوعیت اور صاحب موصوف کی پیشہ وارانہ حیثیت کا پتہ نہیں چلتا۔اقبال نے انہیں دینی خدمات کے لیے وقت نکالنے پر تحسین کا مستحق قرار دیا ہے۔ ایک اور خط انہی شیخ عطا اللہ صاحب کے نام ملتا ہے۔ جو چھ جنوری ۱۹۲۲ء کو لکھا گیا تھا۔ اس خط میں ’’تعلقات دیرینہ‘‘ کے ذکر کے ساتھ اقبال نے شیخ عطا اللہ صاحب کی گوشہ نشینی کا ذکر بھی کیا ہے۔اور توقع کی ہے کہ اس کی بدولت انہیں قرآن کریم پر غور وحوض کرنے کا بہتر موقع ملتا ہوگا۔ یہ شیخ عطا اللہ صاحب عمر میں والد محترم سے بہت بڑے تھے۔ ان کے نام اقبال کا پہلا خط ۱۹۰۹ء کا ہے۔ ان دنوں یہ دوسرے اور بڑے شیخ عطا ء اللہ صاحب قانونی مشاغل میں مصروف تھے۔ اس وقت والد صاحب محترم کی عمر بارہ برس تھی۔ سید مظفر حسین برنی(انڈین ایڈمنسٹر نیو سروس) نے رسالہ،شاعر بمبئیِ،اقبال نمبر (جنوری۔ جون ۱۹۸۸ئ) میں ایک مضمون ’’اقبال کے پانچ غیر مطبوعہ خطوط‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ یہ پانچ خط مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی پرانی فائلوں سے حاصل کئے گئے ہیں۔ان میں سے ایک خط علامہ اقبال نے اپنے انتقال سے ٹھیک دو برس پہلے ۲۱ ،اپریل (برنی صاحب نے مارچ لکھا ہے۔ جو میری دانست میں درست نہیں ہے۔) ۱۹۳۶ء کو لکھا تھا۔ یہ طویل ٹائپ شدہ خط مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا ء الدین کے نام لکھا ہے۔ ان دنوں والد محترم کے مسودہ کتابThe cooperative Movement in the punjab کو لندن کے مشہور ناشر جارج ایلن نے اپنی ماہرین کی آرا ء کے پیش نظر شائع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔مگر اس امر کے باعث کہ تحقیقی کتب کی فروخت محدود پیمانہ پر ہوتی ہے۔ انہوں نے اشاعت کے لیے یہ شرط عائد کی کہ مصنف کی جانب سے ایک سوپونڈ کی امداد رقم ناشر کو ادا کی جائے۔ علامہ اقبال نے اپنے خط میں پر زور سفارش کی کہ یہ رقم یونیورسٹی فنڈ یا کسی اور ذریعے سے حاصل فراہم کی جائے۔ کیونکہ اس کتاب کی اشاعت مصنف اور مسلم یونیورسٹی دونوں کے لیے باعث عزت ہو گی۔ علامہ اقبال کی سفارش کون ٹال سکتا تھا۔کتاب ۱۹۳۷ء میں کمیبرج کےProf. c.R.Fay کے دیباچہ کے ساتھ چھپی۔لندن کے رسالے The Spectater کی ۲۳ اپریل کی اشاعت میں Sir A.F. Whyte نے اپنے ریویو میں اس کتاب کی تعریف کی۔جسے پڑھ کر سر راس مسعود صاحب نے والد محترم کو مبارباد کے خط میں لکھا کہ ساری یونیورسٹی کو اس کتاب کی تعریف پر فخر ہونا چاہیئے۔ سر راس مسعود کا یہ خط آج بھی میرے پاس موجود ہے۔میں جب اس خط کو پڑھتا ہوں، تو مجھے بہت کچھ یاد آجاتا ہے۔ یہ بات میرے علم میں ہے، مگر میں اسے بیان نہیں کروں گا کہ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ والد محترم کو لندن سے شائع ہونے والی ضخیم تحقیقی مقالے کے لئے سو پونڈ کی امدادی رقم کی خاطرعلامہ اقبال کو براہ راست مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھنے کی زحمت دینا پڑی۔ بہت سے باتوں کے بارے میں خاموش رہنے اور وضع احتیاط اختیار کرنے کے باوجود یہ تعارفی اور توضیحی کلمات بہت طویل ہو گئے ہیں۔اس کے باوجود میں اگر اشہب قلم کو ایڑ لگا دوں تو وہ ممنوعہ علاقے میں بہت دور نکل جائے گا۔تاہم میں بھی مرضی اور مزاج والا ہوں۔کچھ ایسی منزلیں بھی میری زد میں ہیں، جنہیں میں سر نہیں کر نا چاہتا۔ اقبال نامہ، اقبال کے خطوط جمع کرنے کی پہلی باقاعدہ اور با ضابطہ کوشش کا ثمر ہے۔ اس مجموعہ کو اولیت کے اس اعزاز کے علاوہ مکاتیب اور مکتوب الہیان کی تعداد اور تنوع کی فضیلت بھی حاصل ہے۔ اسناد کے سلسلہ میں اس کی اہمیت کاا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کی ’’مستند ترین سوانح حیات‘‘ زندہ رود میں اس کے کم وبیش اسی(۸۰) حوالے موجود ہیں۔مکاتیب اقبال کا یہ مجموعہ ایک نوع کی سدا بہار کتاب ہے۔ جسے ہر موسم میں با آسانی دستیاب ہونا چاہیئے۔اس کے باوجود یہ کتاب ایک عرصہ تک ناپید تھی۔ ایک حد تک اس کی تاخیر کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔نئے ایڈیشن کے لیے والد محترم کے پیش نظر ایک آٹھ نکاتی منصوبہ تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اقبال نامہ کے دونوں حصے ایک جلد میں شائع کیے جائیں۔متن میں جو اغلاط در آئی ہیں۔خواہ وہ کتابت ،پروف خوانی،غلط فہمی، خوانائی کے مسائل یعنی کاغذ کا پرانا پن، روشنائی کی بے نوری یا کسی اور وجہ سے ہی کیوں نہ ہو۔ان سب کو درست کیا جائے۔لمعہ کے جن خطوط کے عکس دستیاب نہیں ہوئے۔وہ خذف کر دیئے جائیں۔سر راس مسعود کے نام لکھا ہوا جو خط فروخت روک کر نکالا گیا تھا۔ اسے دوبارہ شامل کیا جائے۔ شیخ اعجاز احمد کو بچوں کا قانونی سرپرست بنانے کے سلسلے میں جس الجھن کا اقبال نے ذکر کیا ہے۔ اس خذف کرنے کی بجائے حرف بحرف نقل کیا جائے۔ کتاب کا اشاریہ تیار کیا جائے۔ترجمہ کے ساتھ انگریزی متن بھی ہونا چاہیئے۔مکتوب الہیھم کا مختصر تعارف بھی شامل کیا جائے۔ مرتب نے آخری کام خود شروع کر دیا تھا۔مگر وہ اسے مکمل نہ کر سکے۔ اقبال نامہ کا یہ ایڈیشن مولف کی منصوبہ بندی کے عین مطابق ہے۔ صرف دو نکات پر عمل کرنا رہ گیا ہے۔ ایک ا نگریزی متن کا شامل کیا جانا۔ اور دوسرا شخصیات کا تعارف۔یہ کسر بھی کسی دن پوری ہو جائے گی۔آخر میں مجھے اقبال اکادمی کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ جس کے اشتراک کے ساتھ یہ ایڈیشن شائع کیا جا رہا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ ۔ العطا ۱۷۷۔شاد مان ۔۲ مختار مسعود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔