جاوید نامہ تحقیق وتوضیع ڈاکٹر محمد ریاض اقبال اکادمی پاکستان توضیح مصنف! معاصر ایرانی شاعر کاظم رجوی نے علامہ اقبال کی تعریف میںایک قصیدے میں کہا ہے: آفریں بر ملک پاکستان و بر اقبال او آہنیں بنیان گزار کاخ استقلال او! کرد از جاوید نامہ‘ نام خود را جاوداں جاوداں مانند آرے جاوداں امثال او یوں تو حضرت علامہ کی جملہ تصانیف نقوش دوام کا حکم رکھتی ہیں ۱؎ مگر جاوید نامہ کے علاوہ ان کی اردو اور انگریزی مصنفات میں بھی ممتاز ۲؎ تھے۔ یہ وہ تصنیف ہے جس کی تکمیل پر مصنف نے اپنے دل و دماغ کے نچڑ جانے کا ذکر کیا ۔ اس افلاکی ڈرامائی نظم کو لکھنے سے قبل مفکر شاعر نے اس نہج پر لکھی جانے والی تمام دستیاب کتابوں کا مطالعہ کیا۔ انہوںنے بالخصوص احادیث معراج کا عمیق نظر سے مطالعہ کیا کیونکہ اس کتاب کا ایک حصہ حقائق معراج کو نیا صبغہ اور رنگ ینے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ حضرت علامہ کا یہ خواب بیداری یا تخیلی سفر نامہ فارسی کی نادر اور منفرد کتاب ہے حکیم سنائی غزنوی (۵۳۵ھ) کی مثنوی سیر العبار الی المعاد دراصل سیر روح کا ایک عارفانہ تمثیل نامہ ہے۔ اور اسے جاوید نامہ کی ایک پیشرو کتاب ماننا محض نام کی رعایت کرنے کے مترادف ہو گا زرتشتی عارف اور ایران کا سفر ارداویران نامہ بھی عہد اسلامی کی ایک تصنیف ہے اور عربی کتابیں جیسے رسالۃ التوابع و الروایع یا رسالۃ الغفران اور تصانیف ابن عربی وغیر ہم بزبان نثر ملتی ہیں۔ اطالوی شاعر دانتے البخیری کی ڈیوائن کامیڈی کے بعد جاوید نامہ پہلا شعری آسمانی نظم نامہ ہے جسے ایک مسلمان مفکر شاعر نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ ااس کتاب مین حقائق و معار ف کا جو بحر مواج ملتا ہے اسی کے پیش نظر اقبال یہ آرز و مند تھے کہ یہ کتاب دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو اور مصور بھی شائع ۳؎ ہو۔ یہ کام کچھ ہو گا تاہم اس کے زبان و بیان اسمائے رجال و نسواں اور حقائق و معارف کو واضح کرنے کی بھی اشد ضرورت تھی اور ہے۔ فارسی برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم ثقافتی زبان رہی مگر اب وہ ہمارے ہاں ایک غیر معمولی اجنبی زبان بنتی جا رہی ہے۔ حضرت علامہ بحیثیت مجموعی زبان کے اعتبار سے ایک سہل شاعر ہیں مگر تفکر کے عنصر کے ساتھ ان کے اشعار کی تفہیم و نمائش کارے دارد کے مصداق ہے۔ جاوید نامہ یوں بھی ایک فکر و فلسہ کی حامل کتاب ہے ۔ اس لیے اس کے فکری اور فکری اسالیب بیان کو سمجھنا غور و فکر کا متقاضی ہے۔ جاوید نامہ کے اصلی یا فرضی کرداروں کامتعارف کروانا ایک ضروری امر ہے‘ اس کے بغیر سیاق کلام کو سمجھنا اور شاعر کے سحر بیان کا استحسان کرنا عسیر ہے۔ حقائق و معارف سے پردہ کشائی اصلی اور اہم مرحلہ ہے موجودہ مختصر تصنیف اس ضمن کی ایک کوشش ناتمام ہے۔ راقم الحروف گزشتہ چند سال سے جاوید نامہ کے فکری اور فنی پہلوئوں پر متوجہ رہا اور ا س کے بعض پہلوئوں پر مقالے بھی اردو انگریزی اور فارسی زبانوںمیں لکھے گئے۔ اس سلسلسے میں دوسروں کے نتائج فکر و تحقیق بھی پڑھے۔ اس کتاب کی تحقیق و توضیح پر مبنی یہ تالیف اس خاطر پیش کی جا رہی ہے کہ: ۱۔ جاوید نامہ کے مباحث پر اقالیین زیادہ متوجہ ہوں۔ ۲۔ اس کتاب کے نادر اسلو ب مکالماتی زور اور حقائق و معارف پر غور و فکر عام کیا جائے خصوصاً نوجوانوں کو حضرت علامہ فکر سے زیادہ بہر ہ مند کیا جائے۔ ۳۔ جاوید نامہ کے اسما ء الرجال متعارف ہوں اور اس سلسلے کے دیگر افلاکی سفر ناموں کا اجمالی تعارف کیاجائے۔ مگر یہ امور موجزاور ممکنہ مختصر صورت میں واضح کیے گئے ہیں تاکہ کتاب کا یہ توضیح نامہ اصل کتاب سے ضخیم تر نہ ہو اس لیے کہ یہ کتاب جاوید نامہ کی شرح نہیں۔ البتہ تحقیق و توضیح کے عمدہ و زبدہ مطالب مصنف کا خیال میں اس کتاب میں سمو گئے ہیں۔ فارسی اشعار کا اکثر صورتوں میں ترجمہ دیا گیا ہے یا ان ادبیات کی ترجمانی وتلخیص دے دی گئی ہے۔ تاکہ فارسی سے کمتر نامانوس اقبال شناس اور اقبال جو بھی اس سے مستفید ہو سکیں اقبال اکادمی پاکستان کے فاضل ممتہین بالخصوص نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد باقر اور ناظم پروفیسر محمد منور صاحبان سے توقع ہے کہ وہ اسے شائع کر کے مطالعہ جاوید نامہ کے ضمن میں نئی کاوشوں کو دعوت دیں گے ۔ دیگر اقبال شناسوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ مصنف کو اس کی زلات اور لغزشوں پر متوجہ کریں تاکہ اس شاہکار اقبال کی تحقیق و توضیح کو اس کے بعد زیادہ بہتر اور مفید بنایا جا سکے کیونکہ تحقیق و مطالعہ ایک مسلسل عمل ہے: گر نجات ما فراغ از جستجو ست ! گور خوشتر از بہشت رنگ و بو ست!! پروفیسر ڈاکٹر سید محمد اکرم لاہور کے بعض مفید مشوروں اور شعبہ عربی کے یہاں میرے رفیق پروفیسر حافظ محمد طفیل ہاشمی کی معاونت کا شکر گزار ہوں ۔ اسلام آباد دو شنبہ ۶ فروری ۱۹۸۴ء ڈاکٹر محمد ریاض شعبہ اقبالیات علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ۱۔ ہے مگرا س نقش میں رنگ ثبات دوام جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام! ۲۔ اقبال نے انگریزی کے سات خطبات تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کی فکری اہمیت مسلم مگر جاوید نامہ کے تناظر میں علامہ مرحوم کا ایک جملہ نقل کر دیں ’’… حق یہ ہے کہ منطق کی خشکی شعر کی دل ربائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘‘۔ دیباچہ اسرار خودی (اشاعت اول) مقالات اقبال صفحہ ۱۹۶۔ ۳۔ اقبال نامہ ۱۴ صفحہ ۲۹۹ ٭٭٭ کتاب بزبان شاعر جاوید نامہ پر اپنی گفتگو شروع کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب بزبان شاعر متعارف کروائی جائے خوش قسمتی سے ہمیں اس کتاب کے بارے میں حضرت علامہ کی زبان فیض ترجمان کے بعض تعارفیے دستیاب ہیں جو بڑے دلچسپ اور گرہ کشا ہیں۔ ۱۹۳۱ء کے آخری مہینوں میں اقبال دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں انگلستان گئے جاوید نامہ اس وقت پریس کے حوالے کیا جا چکا تھا۔ وہاں علامہ اقبال کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں انہوںنے نیاز محمد خاں مرحوم (ایک مشہور افسر جنہیں این ایم خاں کہا جاتارہا ہے) کو اس کتاب کے موضوع اور اسلوب کے بارے میں ایک مختصر نوٹ لکھوایا تھا جو مدتوں بعد مارننگ نیوز کلکتہ کے ۱۹۴۴ء کے عید الفطر ایڈیشن میں شائع ہوا اور سید عبدالواحد معینی مرحوم کے مرتبہ تھاٹس اینڈ ریفلیکشنز آف اقبال شیخ محمد اشرف پبلیکیشنز لاہور طبع ثانی ۱۹۷۳ء کے ۲۲۳ تا ۲۲۹ میں بھی موجود ہے۔ اس کااردو ترجمہ کتاب کے اسلوب اور اس کے مشمولات کو شاعر کی زبان سے واضح کر دیتا ہے۔ کتاب کا آغاز ایک مناجات سے ہوتا ہے لیکن اصل مطالب اس وقت آتے ہیں جب شاعر شام کے وقت دریا کے کنارے مولانائے روم کے بعض اشعار پڑھ رہا ہوتاہے۔ رومی کی روح وہاں آ حاضر ہوتی ہے ۔ شاعر روح رومی سے کئی سوال پوچھتا ہے مگر اہم تر سوال یہ ہے کہ انسان کی روح زمان و مکان سے باہر کس طرح آ جاتی ہے۔ اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ واقعہ معراج کو ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کی جائے۔ بع میں زمان و مکان کی روح آتی ہے ۔ جسے شاعر نے ایک دو چہرے والے فرشتے کے طور پر مجسم کیا ہے۔ اس کا ایک چہرہ تاریک اور بے حس ہے اور دوسرا روشن اور بیدار۔ روح زمان و مکان شاعر پر ایک قسم کا اثر ڈالتی اور اسے عالم بالا میں لے جاتی ہے۔ رومی اور شاعر کی روحیں فضا میں طیران شروع کر دیتی ہیں اور چاند کے کوہستان ظاہر ہونے تک ان کی پرواز جاری رہتی ہے۔ یہاں وہ ستاروں کاایک نغمہ سنتے ہیں۔ جو ان انسانوں کو خوش آمدید کہتا ہے ۔ جنہوں نے فضا سے پار گزرنے کی جرات اور ہمت دکھائی ہے۔ چاند پر رومی اور شاعر توقف کرتے ہیں اور اس فلک کی بعض غاروں میں جاتے ہیں ۔ ایک غار میں وہ مشہور ہندی عارف وشوامتر سے ملتے ہیں جسے شاعرنے جہاں دوست کے ترجمے سے ظاہر کیا ہے۔ وشوامتر سوچ بچار میں غرق ہے اور اس کے سر کے اوپر ایک سفید سانپ کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ وشوامتر رومی کو پہچان لیتاہے اور پوچھتا ہے کہ دوسرا ساتھی کون ہے؟ اس پر رومی اپنے رفیق شاعر کا مختصر تعارف کرواتے ہیں اس پر ہندی شاعر عارف کی روحانی بلندی کوآزمانے کی خاطر اس سے بعض سوالات پوچھتا ہے۔ مثلا ً ایک نادر سوال یہ ہے کہ انسان کو خد ا کے مقبلے میں کس بات کی برتری حاصل ہے شاعر جواب دیتا ہے کہ علم موت میں۔ اس طرح وہ دیگر سوال پوچھتا ہے۔ اور جب شاعر ان کے تسلی بخش جواب دیتا جاتا ہے تو وہ خود حقائق سے پردہ اٹھاتاہے ۔ جو اس کی نو باتوں کے عنوان سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد رومی اور شاعر غار سے نکل کر وادہ ماہ میں آ جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ایک عظیم چٹان پر چار تصاویر یا نقوش کندہ نظر آتے ہیں۔ انہیں گوتم بدھ‘ زرتشت‘ حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدؐ کی الواح (طواسین) کہا جاتا ہے اس حصے میں ان الواح و طواسین کا بیان ہے۔ رومی اور اقبال اسی طرح ایک سیارے سے دوسرے سیارے تک پہنچتے رہے فلک مریضخ پرایک نام نہاد پیغمبرعورت کو دکھایا گیا ہے۔ اس کی اصل یورپ سے ہے اور بچپن میں شیطان اسے اغوا کرکے وہاں لے گیا تھا اور وہ عورتوں کو ترقی اور آزادی کے نئے اصول بتاتی ہے ا س کا مقصد تو الدو تناسل کا استیصال ہے۔ ا س کا دعویٰ اورپیغام یہ ہے کہ دنیا پر آخر کار عورت ہی کی حکومت ہو گی اپن بنات نوع کو ا س کی نصیحت اولیٰ یہ ہے کہ خود کو رشتہ ازدواج میں مقید نہ کریں اور اگر ایسا کرنا پڑے تو نر اولاد کو تلف کرتی رہیں اور مادینہ اولاد کی حفاظت کریں۔ مریخ کی اس پیغمبر کی باتوں پر رومی کو ایک موقع ملتا ہے کہ وہ تہذیب حاضر کے بعض پہلوئوں کو ہدف تنقید بنائیں۔ فلک عطارد پر رومی اور شاعر سید جمال الدین افغانی اور ترکی میں مذہبی اصلاحات کی تحریک کے سربراہ حلیم پاشا سے ملتے ہیں۔ افغانی یہاں مملکت روس کو ایک پیغام دیتے ہیں جس میں روح اسلام اور روح اشتراکیت کا موازنہ کیا گیا ہے اور کارل مارکس کو پیغمبر بے جبریل کہا گیا ہے۔ ایک دوسرے فلک پر وہ تین روحوں سے ملتے ہیں۔ یہ حسین ابن منصور حلاج طاہرہ ابابیہ اورمرزا غالب ہیں ۔ یہ فرخ کر لیا گیا کہ ان کو روحوں کو بہشت کی پیش کی گئی تھی مگر انہوںنے اسے قبول نہ کیا اور شورش دنیا کے گرد سیر دوام کرتے رہنے کو انہوںنے ترجیح دی۔ یہاں ابن حلاج ایک مسلمان صوفی کے روپ میں اپنا مقام واضح کرتاہے۔ غالب کی شاعری کے متعلق ان کی روح سے ادبی اورمذہبی قسم کے سوالات پوچھے جاتے ہیں قرۃ العین طاہرہ اپناایک نغمہ پیش کرتی ہے۔ ایک دوسرے فلک پر جسے منحوس تصور کیا جاتا ہے اور طرح کی روحیں ملتی ہیں۔ ان کا مقام دوزخ کے شعلے ہیں مگر آتش جہنم بھی انہیں قبول نہیں کرتی۔ یہ بنگال کے میر جعفر اور میسور کے میر صادق کی روحیں ہیں۔ ایک اور فلک پر شفاف سمندر کی تہہ میں فرعون اور لارڈ کچر کی روحیں نظر آتی ہیں۔ ان کی باتیں سن کر مہدی سوڈانی کی روح بہشت بریں سے وہاں آ حاضر ہوتی ہے ۔ اور نیچے سمندر میں غوطہ زن ہو کر کچز سے باتیں کرتی ہے۔ پھر اس روح کو جوش آ جاتا ہے اوروہ سارے عالم عرب سے مخاطب ہوتی ہے۔ ان سب سیاروں سے گزرتے ہوئے رومی اور شاعر بہشت میں داخل ہوتے ہیں وہاں وہ اولیاء اللہ اور بادشاہوں سے ملتے ہیں وہاں انہیں لاہور کے گورنر عبدالصمد خاں کی بیٹی شرف النساء کامحل دکھائی دیتا ہے ۔ جن بزرگوں سے شاعر بہشت میں ملتا ہے ان میں سے ایک کشمیر کے مربی حضرت شاہ ہمدان ہیں جو کشمیر کی تاریخ اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں کئی باتیں چھیڑتے ہیں۔ شاعر ایران کے بادشاہ نادر شاہ افشار افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی اور سلطان ٹیپو شہید سے بھی ملتا ہے۔ بہشت چھوڑتے وقت وہاں کی حوریں شاعر کو گھیر لیتی ہیں اور اصرار کرتی ہیں کہ وہیں رکے رہیں۔ مگر شاعر ان سے معذرت چاہتا ہے۔ یہاں دراصل بہشت کا صحیح اسلامی تصور پیش کرنا مقصد ہے جس کے مطابق بہشت کوئی معین مقام نہیں بلکہ روحانی ترقی کا ایک مرحلہ ہے بہرحال شاعر اور حوروں میں اس بات پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ اگر شاعر حوروں کی خاطرا یک غزل پڑھے تو وہ اسے جانے دیں گی اور شاعریہ فرمائش پوری کر دیتا ہے۔ اب شاعر اور رومی تدریجاً آگے بڑھتے ہیں اور ایک ایسے مقام پر پہنچتے ہیں جہاں رومی شاعر کی رفاقت چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ خدا کے حضور ہر کسی کو تنہا جانا ہوتا ہے شاعر وہاں خدا کی صفت جمال و تجلی سے بعض سوالات پوچھتا ہے اور اپنی قوم کی تقدیر بے حجاب دیکھنا چاہتا ہے جو اسے دکھا دی جاتی ہے۔ کتاب روح ارضی کے ایک نغمے کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے۔ آخری حصہ میں شاعر اپنے بیٹے سے خطاب کرتا ہے جو دراصل ہر آنے والی نسل سے ایک تخاطب ہے۔ علامہ اقبال نے منقولہ بالا نوٹ فی البدیہہ لکھوایا۔ اس میں سارے چھ افلاک کے نام نہیں ہیں اور کتاب کی ترتیب بیان بھی اس میں نہیں بلکہ سیاروں کا ذکر تقدم و تاخر کے ساتھ ہے۔ اس کے باوجود کتاب کو سامنے رکھ کر جو کوئی اس نوٹ کو پڑھے وہ اس کے مطالب بزبان شاعر ملاحظہ کر لے گا۔ دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقبال ایران کے ایک سابق وزیر سید ضیاء الدین طباطبائی سے ملے اور دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھایا۔ مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے ۲۳ اکتوبر ۱۹۳۱ ء کے روزنامہ ’’انقلاب‘‘ میں لکھا تھا کہ: حضرت علامہ نے جاوید نامہ کے بعض اشعار سنائے۔ سید صاحب تڑپ اٹھے اور اپنے اور اپنے رفقا سے کہنے لگے کہ ایسی چیزیں آج تک نہیں سنیںضروری ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے کلام کو ایران میں بکثرت شائع کیا جائے۔ ۱؎ پھر ۴ نومبر ۱۹۳۱ء کو حضر ت علامہ نے جو لیکچر وہاں لندن میں دیا۔ روزنامہ انقلاب میں اس کی کیفیت ۲۲ نومبر کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس لیکچر کا موضوع اقبال کا شعر و فلسفہ تھا اس میں جاوید نامے کا مختصر ذکر کتاب کے بعض فکری اور فنی پہلوئوں کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ میری تازہ تصنیف جاوید نامہ… حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے جیسے دانتے کی تصنیف یورپ کی ڈیوائن کامیڈی ہے۔ اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف سیاروں کی سیر کرتا ہوا مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتاہے پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے۔ اس تصنیف میں دور حاضر کے تمام جماعتی‘ اقتصادی‘ سیاسی‘ مذہبی‘ اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیر بحث آ گئے ہیںَ اس میں صرف دو شخصتیں یورپ کی آئی ہیں۔ اول کچز دوم نٹشے۔ باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں۔ دانتے نے اپنا رفیق سفر یا خضر طریق ورج کو بنایا تھا۔ میرے رفیق سفر یا خضر طریق مولانا روم ہیں۔ میں اس تصنیف سے صرف ایک دو مثالیں ہی پیش کر سکتا ہوں مثلاً چاند میں ہندوستان کے مشہور ہندو صوفی وشوامتر سے ملاقا ت ہوتی ہے جس کا نا م میں نے جاوید نامے میں جہاں دوست رکھا ہے ۔ اس لیی کہ وشوا متر کے معنی جہاں دوست کے ہیں۔ وشوامتر سے جو باتیں ہوئیں انہیں میں نے نہ تا سخن عارف ہندی کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ گفت مرگ عقل؟ گفتم ترک فکر گفت مرگ قلب گفتم ترک ذکر گفت تن؟ گفتم کہ زادہ از گرد رہ گفت جاں؟ گفتم کہ رمز لا الہ گفت آدم؟ گفتم از اسرار دست گفتم عالم؟ گفتم او خود روبرو ست گفت این علم و ہنر گفتم کہ پوست گفت حجب چیست؟ گفتم روئے دوست گفت دین عامیان ؟ گفتم شبند گفت دین عارفاں؟ گفتم کہ دید آپ حیران ہوں گے کہ کچز اس ضمن میں کیسے آ گیا؟ جاوید نامہ میں کچز اور فرعون آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ فرعون کچز کو طعنہ دیتا ہے کہ یورپ کے لوگ بڑے بے رحم اور بے درد ہیں۔ انہوںنے ہماری قبریں تک کھود ڈالیں ہیں۔ کچز جواب دیتا ہے کہ ہمارا مقصدسائنس کی خدمت اور علم الآثار کی خدمت ہے۔ قبریں اس لیے کھودی ہیں کہ معلوم ہو کہ آج سے تین چار ہزار سال قبل دنیا کی حالت کیا تھی فرعون اس تشریح کے جواب میں کہتا ہے : قبر مارا علم و حکمت برکشود لیکن اندر تربت مہدی چہ بود؟ ایک مقام پر میں نے چار الواح لکھے ہیں لوح بدھ لوح زرتشت لوح مسیحؑ اور لوح محمدؐ۔ لوح مسیح ؑ میں ٹالسٹائے کا ایک خواب ہے۔ لوح زرتشت میں اسلامی تصوف کے مشہور مسئلہ فضٰلت نبوت و ولایت یا ولایت بر نبوت کے متعلق بحث ہے لوح محمدؐ کا مضمون یہ ہے کہ کعبہ میں بت ٹوٹے پڑے ہیں ابوجہل کی روح گریہ و زاری کر رہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ رہی ہے کہ انہوںنے ہمارے دین کو برباد کیا ہماری خاندانی بلند پائیگی زائل کر ڈالی ار مساوات کی تعلیم دینی شروع کردی جو مزدکیوں سے حاصل کی گئی ہے۔ ۲؎ کتاب نما علامہ اقبال کے منقولہ بالا نوٹ کی طرح تعارفی اشاریہ بھی فی البدیہہ ہے اس لیے ان میں کتاب کی ترتیب تصنیف نہیں إلتی اور افلاک و سیارگان کے نام بھی کہیں کہیں آئے ہیں مگر جاوید نامہ کا مطالعہ مکمل کر لینے والوں کی خاطر یہ یادداشت اور اشاعرے کتاب نما کا کام دیں گے۔ ان کے ذریعے شاعر کی بعض تعبیر واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلاً جہاں دوست سے مراد وشوا متر ہیں یا کوئی اور؟ ۳؎ جاوید نامہ فارسی مثنوی کی صورت میںایک بے نظیر اور بدل کتاب ہے مثنوی گلشن راز جدید کے سوا اقبال کی جملہ مثنویاں بحر رمل میں ہیں اور ان کا وزن مثنوی رومی کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ جاوید نامہ بھی اسی زمرے میں کی ایک مثنوی ہے ۔ (کل ابیات ۱۸۲۹) مگر اس میں غزل ترجیح بند اور ترکیب بند بھی شامل ہیں۔ مثنوی اسرار خودی کے بعض ابیات کے علاوہ علامہ اقبال اور زبور عجم کی چند غزلیں جاوید نامہ میں شامل کی گئی ہیں بعض نئی غزلیں بھی شامل نظر آتی ہیں۔ اقبال کی ہر کتاب میں تضمینات کے کچھ نمونے موجود ہیں۔ جاوید نامہ میں دوسرے شاعروں کے تضمین شدہ اشعار ۷۳ ہیں ۔ اور یہ ناصر خسرو علوی رومی غنی کشمیری طاہرہ یا بیہ اور غالب کے ہیں۔ خطاب بہ جاوید (سخنے با نثر ا دنو) کتاب کا ضمنی حصہ ہے جس کے ابیات ۱۳۶ ہیں اور اس حصے میں رومی کا ایک شعر تضمین شدہ نظر آتا ہے ۔ جاوید نامہ اقبال کی اہم تر کتابوں میں سے ہے البتہ اس کی کمیت نے نہیں بلکہ کیفیت نے ایک جہاں کو اس کامداح بنا رکھا ہے۔مناجات کے یہ شعر نقلی نہیں ۃیں حقیقت کا مظہر ہیں۔ آنچہ گفتم از جہانے دیگر است ایں کتاب از آسمانے دیگر است بحرم و ازمن کم آشوبی خطاست آنکہ در قوم فرو آید کجاست؟ یک جہاں بر ساحل من آرمید از کراں غیر از رم موجے ندید یعنی جاوید نامہ میں میں نے جو کچھ کہا ایک دوسرے جہاں کی بات معلوم ہوتی ہے۔ یہ کتاب ایک دوسرے فلک سے ہے۔ میں ایک سمندر ہوں۔ آشوب و تلاطم میں کئی سمندر کا نقص ہو گا۔ وہ شخص کہاں ہے جو اس تھاہ سمندر کی گہرائی میں اترے۔ ایک پورا عالم میرے سمندر کے کنارے آ بیٹھا مگر کنارے پر اسے امواج کی کشاکش کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ جاوید نامہ کا کچھ حصہ گویا ۱۹۲۷ء میں لکھا گیا ۴؎ مگر سیر سیارگاں کا تصور گویا پہلے سے حضرت علامہ کی توجہ کا مرکز تھا۔ چنانچہ اپنے ایک تخیلی خواب کا حال انہوںنے مہاراجہ کشن پرشاد (۱۹۴۴ئ) کو لکھا اور بانگ درا (حصہ سوم) میں ا س معنی پر مبنی ایک نظم بھی ملتی ہے: تھا تخیل جو ہمسفر میرا آسمان پر ہوا گزر میرا اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئی جاننے والا چرخ پر میرا تارے حیرت سے دیکھتے تھے مجھے راز سربستہ تھا سفر میرا حلقہ صبح و شام سے نکلا اس پرانے نظام سے نکلا کیا سنائوں تمہیں ارم کیا ہے خاتم ازروئے دیدہ و گوش شاخ طوبیٰ پہ نغمہ ریز طیور بے حجابانہ حور جلوہ فروش ساقیان جمیل جام بدست پینے والوں میں شور نو شانوش دور جنت سے آنکھ نے دیکھا ایک تاریک خانہ سرد و خموش طالع قیس و گیسوئے لیلیٰ اس کی تاریکیوں سے دوش بدوش خنک ایسا کہ جس سے شرما کر کرہ زمبر یر ہو روپوش میں نے پوچھی جو کیفیت اس کی حیرت انگیز تھا جواب سروش یہ مقام خنک جہنم ہے نار سے نور سے تہی آغوش شعلے ہوتے ہیں مستعار اس کے جن سے لرزاں ہیں مرد عبرت کوش اہل دنیا جو یہاں آتے ہیں اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں یہاں شاعر نے اعمال کی نتیجہ خیزی بتائی ہے بانگ درا کا ایک شعر اسی مفہوم کا مظہر ہے کہ: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے اور جاوید نامہ (حصہ آنسوئے افلاک) میں اس سے بھرتری ہری سے ترجمہ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار زانکہ خیزد ز عمل دوزخ و اعراف و بہشت زبور عجم ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی تھی۔ اور اس کی غزلیات حصہ دوم میں سے درج ذیل د و شعر جاوید نامہ کا دیباچہ بنے۔ خیال من بتماشائے آسماں بود است بدوش ماہ و جا غوش کہکشاں بود است گماں مبر کہ ہمیں خاکداں نشیمن ما است کہ ہر ستارہ جہاں است یا جہاں بود است ۱۹۲۷ء کے لگ بھگ اقبال نے مثنوی گلشن راز جدید لکھی جو زبور عجم کا جزو ہے۔ ۱۹۲۸ اور ۱۹۲۹ء میں حضرت علامہ نے اپنے شہرہ آفاق چھ انگریزی خطبات لکھے ۵؎ اور برصغیر کی علمی مجالس میں پڑھے۔ اس کے بعد وہ دیگر تخلیقی کاموں میں منہمک رہے اور ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو آپ نے کل ہندو مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ الہ آباد میں جو صدارتی خطبہ پڑھا وہ بھی اسی زمانے میں لکھا گیا۔ مگر دو تین سال کے عرصے کا ان کا اہم تر تخلیقی کارنامہ یہی ہے کہ جاوید نامہ ہے جو پہلی فروری ۱۹۳۲ء میں شائع ہوا تھا۔ حضرت علامہ نے یہ کتاب لکھ کر اعتراف کیا کہ اس سے ان کا دل اوردماغ نچڑ گیا ۶؎ ۔ اصل مسودہ علامہ اقبال میوزیم لاہور میں موجود ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ انہوںنے کتاب کی اشاعت کے وقت اس میں کئی تبدیلیاں کی تھیں۔ ان کا عزم تھا کہ اشاعت ثانی میں وہ کچھ اضافے کریں گے مگر یہ کتاب ان کی وفات کے بعد نئی کتابت کے ساتھ ۱۹۴۷ میں شائع ہوسکی۔ ۱۹۷۴ء تک یہ کتاب سات بار شائع ہوئی۔ اور ۱۹۷۳ء سے یہ کلیات اقبال فارسی کے جزو کے طورپر شائع ہو رہی ہے۔ اس کتاب کی ایک مکمل اور ایک دوسری ناتمام شرح ملتی ہے ۷؎ ۔ اس کے بارے میں اردو انگریزی اورفارسی میں متعدد مقالے لکھے گئے ۸؎ ۔ یہ نثر یا نظم میںاطالوی پنجابی ‘ ترکی‘ جرمن‘ فرانسیسی‘ سندھی‘ پشتو‘ انگریزی اور اردو وغیرہ زبانوں میںترجمہ ہوئی۔ اردو اور انگریزی میں اس کے ایک سے زائد نثر یا نظم میں تراجم ملتے ہیں پھر بھی اقبال شناسی کا تقاضا ہے کہ اس کتاب پر بیشتر توجہ مبذول فرمائی جائے۔ یہ توجہ فنی اور اسلوبی پہلو پر ضروری ہے۔ اور فکری پہلو پر اس بے بھی زیادہ ضروری ہے۔ مولانا محمد اسلم جیراجپوری نے جاوید نامے کو فارسی کی پانچوں اہم کتاب بتایا تھا یعنی فردوسی کے شاہنامے‘ رومی کی مثنوی‘ سعدی کی گلستان اور حافظ کے دیوان کے بعد انتہائی اہم اور دلآویز کتاب جسے اصل یا ترجمہ کی صورت میں عالم اسلام کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے ۹؎۔ اوریہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اسلوب فن کے اعتبار سے جاوید نامے کی سی کوئی کتاب فارسی زبان میں ہے نہ اسلامی ادب میں۔ جاوید نامہ اور دیگر تصانیف اقبال علامہ اقبال ایسے اکابر مصنفین مفکرین اور شعرا میں شامل ہیں جن کی تحریر یا گفتار کے کسی حصہ کو بھی کم اہم نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مقالات مکاتیب بیانات‘ تقاریر‘ ملفوظات مصاحبے اور متروک اردو و فارسی کلام وغیرہ کو حرز جاں بنایا جا رہا ہے اور ان کے سوانح اور افکار پر اس قدر توجہ مبذول کی جا رہی ہے ظاہر ہے کہ ان کی ہر اردو انگریزی اور فارسی تصنیف اہم ہے علم الاقتصاد (۱۹۰۴ئ) اردو میں معاشیات کی اولین کتابوں میں سے ہے اور معاشی نظریات کو ماحول سے منطبق کر کے جانچنے اور معاشری تجزیاتی ملاحظے کے لحاظ سے یہ کتاب اب بھی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے علاوہ ا س کی اصلاحات اور زبان بھی جسے شبلی نعمانی ایسے قابل ادیب و عالم کے ہاتھوں اصلاح ملی تھی‘ لائق اعتنا ہے۔ ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا انگریزی ۱۹۰۸ء اقبال اپنے ڈاکٹریٹ کے اس مقالے کو چنداں قابل اعتنا نہ جانتے تھے ۱۰؎ اور نئی تحقیقات کی روشنی میں اس میں اصلاح کے آرزو مند تھے مگر ۱۹۶۷ء میؤں جب اس کا فارسی ترجمہ شائع ہوا تو مترجم نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایران کے فلسفہ مابعد الطبیعیات پر اب تک اس سے بہتر کتاب نہیں لکھی گئی ۱۱؎۔ یہ اللہ کی دین ہے کہ حضرت علامہ نے جو لکھا۔ وہ نقطہ کمال تک پہنچا اور اسے صاحبان ذوق و شوق نے غیر معمولی پذیرائی بخشی۔ ۳۔ شذرات فکر (۱۹۱۰ء شائع شدہ ۱۹۶۱ئ) انگریزی زبان میں حضرت علامہ کے یہ نوٹ ان کی ثروت فکر اور محیر عقل وسعت مطالعہ کے مظہر ہیں۔ ۴۔۵ اسرار و رموز مثنوی اسرار خودی اور مثنوی رموز بے خودی بالترتیب ۱۹۱۵ء ۱۹۱۸ء اور ۱۹۲۳ سے یکجا یہ مثنویاں اقبال کے فلسفہ خودی و بیخودی کی حامل ہیں۔ اور اس فلسفے کو اس منظوم صورت میں پیش کرنے کا اقبال کو بجا طور پر افتخار تھا۔ ۶۔ پیام مشرق (۱۹۲۳ئ) جو شاعر آلمان گوئٹے (۱۸۳۲ئ) کے دیوان شرقی و غربی کا ایک کامیاب جواب ہے اور ایرانی شاعر ڈاکٹر قاسم رسا کے مقبول: در پیام مشرق آں دانا چوکرد باگوتہ دانائے مغرب گفتگو در سخن از شاعر مغرب زمین شاعر مشرق زمین پر بود گو ۷۔۸۔۹ اردو مجموعے (بانگ درا ۱۹۲۴ء اور بال جبریل ۹۳۵ء ضرب کلیم ۱۹۳۶ء اور ارمغان حجاز ۱۹۳۸ئ) ہر توصیف سے مستغنی ہیں۔ ارمغان حجاز کے آغاز میں کوئی ۳؍۲ حصے پر مشتمل دو بیتیاں ہیں جو بے حد وجد آفریں اور رقت آورہیں۔ خصوصاً حصہ حضور رسالتمآبؐ کے زیر عنوان دو بیتیاںیا رباعیاں اردو مجمووں کی بعض طویل نظمیں شاہکار عالمی ادب میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں جیسے خضر راہ ذوق و شوق‘ مسجد قرطبہ ساقی نامہ اور ابلیس کی مجلس شوریٰ ضرب کلیم میں کہیں کہیں شعریت کی کمی ہے مگر افکار کی رنگارنگی اور معنی خیزی نیز زور بیان کے اعتبار سے یہ ایک کم نظیر کتاب ہے ۱۱۔۱۲ مثنوی مسافر (۱۹۳۴ئ) اور پس چہ باید کرد (۱۹۳۶ئ) بلکہ اس سال س دونوں مثنویاں یکجا شائع ہوتی رہی ہیں۔ حقائق و معارف سے لبریز ہیں۔ پہلی شاعر کے سفر افغانستان پر مشتمل ہے (اکتوبر و نومبر ۱۹۳۳ئ) مگر اس کی ضمنیات اعلیٰ درجے کی ہیں۔ مثنوی پس چہ باید کر د اے اقوام شرق کوئی سوا پانچ سو اشعار کی حامل کتاب ہے مگر حکومت الٰہیہ کے اوصاف مرد مومن کے مختصات اور شرق و غرب کا موازنہ نیز عالم اسلام کے حالات جس طرح اس موجز کتاب میں سموئے ہوئے ہیں اس کی کوئی نظیر تلاش کرنا مشکل ہو گا۔ ۱۳ زبور عجم (۱۹۲۷) کے ساتھ دو مثنویاں ضمیمہ شدہ ہیں گلشن راز جدید جو شیخ محمود شبستری (۷۲۰ھ) کی گلشن راز کا بانداز دیگر جواب ہے اور بندگی نامہ (درمذمت غلامی) اصل کتاب میں غزلیات کے دو حصے ہیں ایک حصہ خطاب بہ خدا ہے اور دوسر ا حصہ خطاب بہ انسان۔ چوہدری محمد حسین نے ایک مضمون میں بجا لکھا ہے ۱۲؎ ہے کہ زبور عجم فارسی غزل کا آخری نقطہ کمال ہے۔ شاعر کو خود بھی اس کتاب پر نازو فخر تھا۔ بال جبریل میں فرماتے ہیں: اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم فغان نیم بیہوشی بے نوائے راز نہیں یہ بات یا درکھنے کی ہے کہ زبور عجم اور بال جبریل کئی غزلوں کے کئی اشعار مترادف معانی کے حامل ہیں۔ ۱۴۔ انگریزی خطبات جن کا اردو ترجمہ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے نام سے موجود ہے ۱۹۳۰ء میں چھ خطبے شائع ہوئے تھے اور ۱۹۳۴ء سے سات کی تعداد میں شائع ہو رہے ہیں۔ پانچویں اورچھٹے خطبے کا موضوع کسی طور پر غیر فلسفیانہ ہے باقی پانچ خطبے غایت درجے کی فلسفیانہ بحثوں پر مشتمل ہیں اور مجموعی طور پر یہ کتاب جاوید نامہ کی ردیف میں ہی آتی ہے۔ جاوید نامے کے آخری حصہ خطاب بہ جاوید میں اقبال نے اپنی اس کتاب کو دیگر منظوم کتابوں سے یوں ممیز کیا ہے۔ من بطبع عصر خود گفتم دو حرف کردہ ام بحرین را اندر دو ظرف حرف پیچا پیش و حرف نیشدار تاکنم عقل و دل مرداں شکار حرف تہ دارے با انداز فرنگ نالہ مستانہ از تار چنگ! اصل ایں از ذکر واصل آں زفکر اے تو بادا وارث ایں فکر و ذکر آبجویم از دوبحر اصل من است فصل من فصل من و ہم فصل من است تا مزاج عصر من دیگر فتاد طبع من ہنگامہ دیگر نہاد! ترجمہ: میں نے اپنے زمانے کے تقاضے کے مطابق دو باتیں کی ہیں۔ اور دو دو سمندروں کو دو کوزوں میںبند کر یا ہے۔ ایک پیچیدہ گفتگو اور ناقدانہ باتوں کی حامل کتاب ہے (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ) تاکہ اس سے مفکرین کی عقل ول دل کو شکار کر سکوں۔ یہ کتاب اہل مغرب کے اسولب میں ذو معنی انداز پر مبنی ہے۔ دوسری کتابیں ساز کے تاز کے مستانہ نالے ہیں۔ (شاعری) یہ کتابیں (شاعری) ذکر پر مبنی ہیں۔ اور وہ (خطبات) فکر کے حامل بیٹے خدا تجھے ذکر و فکر دونوں کا وارث بنائے۔ میں ایک ندی ہوں اور میری اصل و اساس مذکورہ دونوں بحر ہیں۔ مگر میری ندی کے پانی میںجدائی ہے اورامتزاج بھی چونکہ میرے زمانے کا مزاج اور رجحان دگرگوں ہو گیا ہے۔ میرے ذوق طبع نے بھی ایک نیا ہنگامہ برپا کر دیا ہے جو ذکر و فکر کا مجموعہ ہے۔ جاوید نامہ کے امتیازی پہلو حضرت علامہ کی درجن سے زائد کتابوں میںسے ہر ایک میں بوقلمونی تنوع اورقابل توجہ ندرت ہے پھر بھی جاوید نامہ کے بعض امتیازی پہلو ہیں۔ ۱۔ کتاب کا ظاہر اسلوب بے ھد جاذب نظر ہے۔ ا س کا آغاز وسط اور خاتمہ سب حصے یکساں درجے کے دلچسپ ہیں۔ ہر کتاب خواں کو دلچسپی رہے گی کہ پورا افلاکی سیاحت نامہ پڑھ کر دم لے۔ ڈاکٹر احمد علی رجائی اپنے مقالے تحلیلے از جاوید نامہ اقبال میں لکھتے ہیں کہ اقبال کی کتاب کا اختتام شاہنامہ فردوسی کا ساروکھا ۱۳؎ پھیکا نہیں بلکہ غایت درجے کا دلچسپ ہے۔ شاعر صفت جمال نے خفیہ سوال پوچھنے لگا تھا کہ صفت جمال نے ظاہر کی ہے کہ غیر معمولی ڈرامائی انداز میں یہ سفر تمام کروا دیا۔ ۲۔ فنی اعتبار سے دیکھیں تو شعر کی یہ مہارت چشم گیر ہے کہ مطالب عالیہ کے باوجود کتاب کو خشکی اور پیوست سے بچا لیا گیا ہے غزلوں کی ترجیح اور ترکیب بندوں اور دوسرے اصناف سخن کی تضمینات کے ذریعے بغایت دلچسپ ہو گئی ہے۔ اقبال نے موقع محل کی مناسبت سے اپنی بہترین غزلوں کو اس کتاب میں سمویا ہے یہ غزلیں کچھ علامہ مرحوم کی پہلے سے شائع شدہ کتابوں سے ماخوذ ہیں اور بعض نئی بھی۔ ۳۔ اقبا ل کی شاعری میں ڈرامائی عنصر خاصا ہے مگر جاوید نامہ از اول تا آخر ایک منظوم ڈرامہ ہے۔ یہ ڈرامائی گفتگو شاعر کی غیر معمولی قعت بیان کی مظہر ہے جاوید نامہ مجموعی طورپر ایک المیہ ہے نہ بزمیہ یا رزمیہ۔ اسے انسانی یا اسلامی حماسہ کہا جا سکتا ہے۔ اور انگریزی ادب کی رو سے اسے طربیہ و المیہ یا بزمیہ و رزمیہ کا امتزاج کہہ سکتے ہیں۔ ۴۔ جیسا کہ آگے بیان ہو گا سیر افلاک کے سلسلے میں دانتے کی ڈیوائن کامیڈی بزبان اطالوی تو موجود ہے اور سنائی غزلوں کی ایک مختصر مثنوی سیر العباد الی المعاد بھی دیگر منظوم کتابوں میں عربی ہوں یا فارسی سفر روح کا مجمل سا بیان ملتا ہے اس لحاظ سے جاوید نامہ بزبان فارسی ایک نادر کتاب ہے۔ اقبال کا یہ کمال فن کس قدر لائق تحسین ہے کہ انہوںنے ایک اکتسابی زبان میں اس قدر عظیم شاہکار تخلیق کیا ہے ۔ ۵۔ جاوید نامہ فکر و فن دونوں کا شاہکار ہے موقع و محل اور موضوع بیان کے اعتبار سے یہ کتاب سہل ہے گو اس میں ادق اشعار بھی موجود ہیں اس کتاب میں جہاں منظر کشی کے دلآویز نمونے ملتے ہیں وہاں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں صاحبان غور و فکر کو ہر شعر کے بحر ژوف میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے جیسے مناجات تمہید زمینی گفتگو با عارف ہندی طواسین رسل گفتگو با این حلاج مقام نطشہ گفتگو بادشاہ ہمدانؒ پیغام سلطان شہیدؒ اور حضور جمال باری وغیر ہ کے مقامات پر۔ ۶۔ جاوید نامہ کے بارے میں خوش قسمتی سے خود مصنف کی وضاحتیں موجود ہیں جن می سے بعض کے اقتباسات ہم نے اس سے قبل نقل کر دیے۔ اس کے علاوہ اقبال کے جلیس اور دم ساز چوہدری محمد حسین مرحوم کا ایک مفصل مضمون بھی کتاب کے اسلوب بیان کامظہر ہے۔ یہ مضمون نیرنگ خیال کے اقبال نمبر بابت ۱۹۳۲ء میں شامل تھا۔ اسے حضرت علامہ نے بالضرور دیکھا ہو گا مگر ہم ایک شارح جاوید نامہ کے ساتھ اتفاق نہیں کر سکتے۔ کہ اسے علامہ اقبال نے لکھا یا املا کروایا ہو گا ۱۴؎ چوہدری مرحوم ایسے فاضل شخص کے ساتھ یہ بدگمانی روا نہیںہے۔ اس مضمون کا اقتباس نقل ہو گا۔ ۷۔ ہم نے کہا کہ جاوید نامہ بیشتر ایک منظوم ڈرامہ ہے ڈرامے کی خصوصیات میں فرضی نامون کی شمولیت اور انہیں مختلف کردار سونپنا ہوتا ہے یہ خصوصیات جاوید نامہ میں بھی ہیں۔ یہاںافلاک کے کئی شہروں اور پہاڑوں کے فرضی نام ملتے ہیں اور اس طرح بعض اصنام کے بھی خود شاعر کتاب میں زندہ رود (دریائے رواں) موسوم ہے۔ ۸۔ کتاب یوں تو اقبال کا اپنا ادبی معراج نامہ ہے مگر ا س کا ماحصل واقعہ معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک فلسفیانہ بنیاد فراہم کرنا ہے۔ معراج نبویؐ کے بے نظیر واقعہ کے بارے میں اقبال نے کئی دوسری کتابوں میں بھی لکھا ہے۔ مگر ماوید نامہ میں ان کا بیان زیادہ مدلل اور مفصل صورت میں ہے۔ ۹۔ اسلامی رواداری اور وسعت مشربی کے مظاہر جاوید نامہ میں بخوبی ملتے ہیں۔ گویہ خصوصیات اقبال کی دیگر کتابوں میں بھی مل جاتی ہیں مگر یہاں ان کی تلقین ہے اور وافر مقدار میں نمونے بھی مثلاً آدمیت احترام آدمی باخبر شو از مقام آدمی آدمی از ربط و ضبط تن بتن برطریق دوستی گامے بزن بندہ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق کفر و دیں را گیرد پہنائے دل دل اگر بگریز و از دل واے دل چنانچہ اس کتاب میں گوتم بدھ اور زرتشت کو یپغمبروں کے زمرے میں دکھایا گیا ہے زرتشتیوں کو تاریخ اسلام کے بعض ادوار میں اہل کتاب مانا گیا ہے مگر گوتم بدھ کے ساتھ اقبال نے خاص رواداری دکھائی ہے ادھر بھرتری ہری واسل بہشت ہے اور نیٹشے اور طاہرہ بابیہ پہلا ملحد ہے اور دوسری علی محمد باب کی خانہ زاد نبوت کی پیرو اطراف بہشت میں۔ ۱۰۔ جوانان اسلام اور ہر عصر کے نثاد نو سے اقبال کا باقاعدہ تخاطب ا س کتاب سے شروع ہوتا ہے اور متاخر تصانیف میں وہ پوری شدومد کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ شاعر فردا نے بانگ درا میں بچوں کے لیے کافی لکھا ایک نظم خطاب بہ جوانان اسلام بھی ملتی ہے۔ زبور عجم میں وہ خدا سے دعا فرماتے ہیں: زبادہ کہ بخاک من آتشے آمیخت پیالہ بجوانان نو نیاز آور مگر جاوید نامے کی مناجات میں بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ من کہ نو میدم ز پیران کہن دارم از روزے کہ می آید سخن بر جوانان سہل کن حرف مرا بہرشاں پایاب کن ژرف مرا ۱۵؎ اس سلسلے میں جاوید نامے کا ضمیمہ سخنے بانثاز نو خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے اس کے جملہ ۱۳۶ ابیات نوجوانوں کے لیے نصیحتوں پر مبنی ہیں۔ فارسی شاعری اخلاقی تعلیم اور پندو نصائح کے لیے معروف رہی ہے۔ مگر ایک مدت کے بعد علامہ اقبال نے یہ کام ناصحانہ نہیں حکیمانہ انداز میںانجام دیا ہے اور حکیمانہ نصائح کو سمونا بھی جاوید نامہ کے صے میں آیا ہے۔ چوہدری محمد حسین کے مقالے سے اقتباس جاوید نامے کی ایک شرح موجود ہے اور ایک دوسری ناتمام شرح ابھی جو چند ابتدائی صفحات کا تعارف نامہ ہے اس کتاب کے بار ے میں متعدد مقالوں میںچوہدری محمد حسین کا ۱۹۳۲ء کا لکھا ہوامضمون اب بھی محققین کے لیے جاذب نظر اور معلومات افزا ہے۔ ایک منتخب اقتباس ملاحظہ ہو۔ جاوید نامہ دراصل معراج نامہ ہے۔ اسرار و حقائق کی معراج محمدیہؐ پر کتاب کھے کا ایک مدت سے حضڑت علامہ کو خیال تھا۔ کتاب کانام بجائے معراج نامہ کے جاوید نامہ رکھنے کی محرک دو تین باتیں ہوئیں۔ اسلام کی بہت سی اور باتوں کی طرح مسلمانوں نے حقیقت معراج پر بھی بہت کم غور کیا ہے دراصل گلشن راز جدید کی طرح علوم حاضرہ کی روشنی میں معراج کی شرح لکھ کر ایک قسم کا معراج نامہ جدید لکھنے کا علامہ کو خیال تھا۔ یہ معراج نامہ بہت ممکن ہے کہ عام شرحی انداز میں تحریر ہوتا اور اپنی موجودہ آسمانی ڈرامہ کی شکل اختیار نہ کرتا۔ لیکن اس اثنا میں اٹلی کے مشہور شاعر ڈینٹے کی کتاب ڈیوائن کامیڈی پر بعض نئی اوراہم تنقیدات یور پ میں شائع ہو چکی تھیں جن میں اس حقیقت کو پایہ ثبوت تک پہنچایا گیا تھا کہ ڈیوائن کامیڈی کے آسمانی ڈرامے کا تمام پلاٹ بلکہ اس کے بیشتر تفصیلی مناظر ان واقعات پر مبنی ہیں اور ان کی نقل ہیں جو اسلام میں معراج محمدیہؐ کے متعلق بعض احادیث و روایات میں مذکور ہوئے یا بعد میں بعض مشہور متصوفین و ادبا کی ان کتابوں میں درج ہوئے جن میں انہوںنے مختلف نکتہ ہائے نظر سے خود اپنے معراجوں کا ذکر کیا ہے یا معراج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرح لکھی۔ ایک حد تک اس واقع نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ بجائے تشریحی انداز میں معراج نامہ لکھنے کے جو وسعت مضامی کے لحاظ سے یقینا حقائق معراج کے مباحث ہی تک محدود رہتا۔ ڈینتے کے انداز میں ادبی عرفانی نہیں نقطہ نگاہ سے معراج اقبال دیکھا جائے جس میں قید مباحث سے آزادی ہو اور تخیل و ادراک تاویل و تغیر سے گزر کر فکر و بصیرت اور اختراع و الہام کی جن محدود فضائوں تک پرواز کرنا چاہیں باسانی کر سکیں۔ جاوید نامہ اور ڈیوائن کامیڈی کے مرکب الفاظ ایک دوسرے کے مترادف نہیں( غالباً جیساکہ آئندہ بیان کیا جائے گا ایسا ہونا ضروری تھا باہم بادی النٖر میں ایک معنوی سی مناسبت دونوں ناموںمیںموجود ہے۔ حضرت علامہ کے فرزند ارجمند عزیزی جاوید اقبال سلمہ کا نام بھی کسی حد تک کتاب کے جاودی نامہ ہونے کا ذمہ دار ہے۔ لیکن ان خاص معنوں میں جاوید نامہ کتاب کا وہ آخری حصہ ہے جو آسمانی ڈرامے کے خاتمے کے بعد بطور ضمیمہ آتاہے اور جس کا نام خطاب بہ جاوید سخنے با نژاد نو ہے… مشرق کے لوگ اگرچہ اب تک اس حقیقت سے بے خبر ہوں گے اہل مغرب پر ہسپانیہ کے بعض مستشرقین کی جدید تحقیقات نے اب یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح کر دی ہے کہ ڈینٹے کی ڈیوائن کامیڈی کا ماخذ اولا وہ احادیث نبویؐ ہیں جن میں معراج کی کیفیات (بعض صورتوں میں باختلاف تفصیلات) مروی ہیں۔ ثانیاً وہ کتب تصوف میں ادب اسلامیہ میں اسرار معراج نبویؐ پر روشنی ڈانے کے علاوہ بعض صورتوں میںمصنفین نے خود اپنی سیاحت علوی اور مشاہدات تجلیات کا ذکر کیا ہے موخر الذکر میں محی الدین ابن عربی کی مشہور کتاب فتوحات مکیہ اور ابولاعلا معری کی تصنیف رسالتہ الغفران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ میڈرڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر آسن جو اس اہم انکشاف کے بانی ہوئے اپنی معرکتہ الآرا کتاب اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی میں لکھتے ہیں۔ جب ڈینٹے البخیری اپنی اس حیرت انگیز نظم کا تصوراپنے ذہن میں لایا اس سے کم از کم چھ سو سال قبل اسلام میں ایک مذہبی روایت موجود تھی۔ جو محمد (صلعم) کی مساکن حیات مابعد کی ساحتوں پرمشتمل تھی۔ رفتہ رفتہ آٹھویں صدی سے لے کر تیرھویں صدی عیسویں کے اندر اندر مسلم محدثین علما مفسرین صوفیہ حکما اور شعرا سبنے مل کر اس روایت کو ایک مذہبی تاریخی حکایت کا لبادہ پہنا دیا۔ کبھی یہ رواتیتیں شروعح معراج کی صورت میں دہرائی جاتیں کبھی خود راویوں کی واردات کی صورت میں اور بھی ادبی اتباعی عالیفات کے انداز میں۔ ان تمام روایات کو ایک جگہ رکھ کر اگر ڈیوائن کامیڈی سے مقابلہ کیا جائے تو مشابہت کے بے شمار مقامات خود بخود سامنے آ جائیں گے بلکہ کء جگہ بہشت و دوزخ کے عام خاکوں‘ ان کے منازل و مدارج تذکرہ ہائے سزا و جزا‘ مشاہدہ مناظر انداز حرکات وسکنات واردات و واقعات سفر رموز و کنایات ‘ دلیل راہ کے فرائض اور اعلیٰ ادبی خوبیوں میں مطابقت تامہ نظر آئے گی ۱۶؎ ۔ پروفیسر آسن نے احادیث مراج کو بااعتبار اسناد میں تین زمانوں میں تقسیم کر کے ہر زمانے کی روایات کے تفصیلی اختلاف کو قصہ معراج کے ارتقاء کا موجب قرار دیا ہے۔ لیکن اس امر کا ذکر کر کے رسول عربؐ سے پہلے بھی بعض پیغمبروں کے متعلق معراج کی روایتیں موجود تھیں بلکہ اردو اوریاف کی ایرانی بہشت کی سیر کے قدیم افسانے کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ ان مباحثوں اور معراج میں کوئی انتا واضح وسیع اور مکمل نہ تھا جس قدر کہ اسلامی روایت اپنے لٹریچر میں رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی روایت ہر عالم و جاہل مسلمان کے دل میں گھر کر چکی تھی اورا س کو صحیح تسلیم کرنا ان کے ایمان کا جزو تھا۔ آج اس وقت بھی تمام اسلامی دنیا میں معراج پیغمبرؐ کا دن مذہبی تہوار کا دن سمجھا جاتا ہے۔ اور ترکی مصڑ اور مراکش جیسے اسلامی ممالک میں اس روز قومی تعطیل منائی جاتی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ پیغمبر اسلام کی معراج کے واقعہ میں مسلمانوں کا عقیدہ کس قدر راسخ ہے۔ پروفیسر آسن نے اگر خود اسلامی دنیا کی سیر کی ہوتی اور مسلمانوں کی ہر زبان کے لٹریر کو بہ نظر غائر دیکھا ہوتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ معراج پیغمبرؐ کی روایت کامسلمانوں کے عقیدہ اور تصور پر اتنا تسلط ہے کہ کوئی زبان دنیا میں ایسی نہ ہو گی جسے عام طور پر مسلمان بولتے ہوں اور اس میں معراج نامہ موجود نہ ہو۔ بلکہ سچ پوچھو تو مسئلہ معراج کی سیاسیات پر بھی اثر انداز ہوا۔ معراج جسمانی تھی یا روحانی اس اختلاف پر لڑائیوں تک نوبت پہنچی۔ معراج کا مذہبی اور علمی تو وہی ہے جسے مشاہدہ تجلی ذات کہنا چاہیے اور جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیب ہوا۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جسے متصوف کا پہلو کہنا چاہیے۔ صوفیہ کا معراج بھی دراصل ایک قسم کا علمی اور مذہبی پہلو رکھتاہے ۔ مختلف صوفیانے مختلف رنگوں میں تجلی ذات کے مشاہدے کاذکر کیا ہے۔ حضرات اعاظم صوفیہ میں حضرت بایزید بسطامیؒ اور محی الدین ابن العربی ؒ کامعراج مہشہور ہے حضرت بایزید بسطامی کے معراج کی کیفیات شاید قلم بند نہ ہوئیں ۱۷؎ لیکن محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں اپنے معراج پر دفتر کے دفتر لکھے ہیں۔ اور سیاحت علوی میں دو افراد کو راہنما اورساتھی بنایا جن میں سے ایک فلسفی ہے ار دوسرا عالم دین ان کی زبان سے تمام دنیا جہاں کے علوم و فنون اورمسائل و مباحث کے متعلق اچھوتے انداز میں اظہار خیال فرمایا ہے گویا سبب خیالات وہ انکشافت و الہامات ہیں جو ان کیے قلب پر معراج میں وارد ہوئے… معراج کا تیسرا پہلو خالص ادبی اور آٹسٹک ہے۔ ادبی پہلو ضروری نہیں کہ اخلاق اور مذہب کی جھلک سے بالکل معرا ہو۔ مشہور عربی نابینا شاعری ابولعلا مصری کا رسالہ الغفران اسی ادبی پہلو کا حامل ہے… پروفیسر آسن کا خیال ہے کہ ڈیوائن کامیڈی کی بعض ادبی خوبیاں رسالتہ الغفران کی خصوصیات کی بھی شرمندہ احسان ہیں۔ رسالۃ الغفران میں نہ صرف بعض قدیم و ہمعصر شعرا وغیرہ کے کلام پر تنقید ہے بلکہ علمائے لغت وغیرہ سے ملاقات کے دوران بعض معنوں پربحثیں بھی ہیں اسی طرح شہر زوری کا ایک قصیدہ سفر روح سے متعلق ہے جس کو ابن خلکان نے نقل کیا ہے اور وسٹن فیلڈ نے ترجمہ کر کے شائع کیا ہے… فارسی کے خمسہ سر ا شعرائے واقعات معراج بالاتزام لکھے ہیں۔ چوھدری مرحوم اسلامی ادب پر واقعہ معارج کے ہمہ گیر اثرات کا ذکر کرتے ہیں اور نظامی گنجوی اور دوسری فارسی خمسہ سرائوں کے بالالتزام معراج کے ذکر پر مبنی اشعار لکھنے کا بھی ۔ ڈینٹے کا بنوغ اور عبقریت مسلم مگر اس کی ڈیوائن کامیڈی جو ابتدا میں صرف کامیڈیا تھی۔ احادیث معراج اور مسلم صوفیا و ادبا کی کتابوں کی مرہون منت ہے۔ البتہ اپنے مسیحانہ تعصبات جیسے رسول اسلامؐ کو دوزخ میںدکھانے کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ آگے بڑھے سے قبل ہم چوہدری محمد حسین مرحوم کے مقابلے کے بعض امور کی وضاحت کریں گے۔ ملاحظات اقتباس یہ ملاحظات مقالے پر ہیں اور اس میں ترجمہ شدہ اسلام اینڈ کامیڈی کے اقتباسات بھی ۔ ۱۔ گلشن راز جدید یعنی اقبال کی اس نام کی مثنوی جو زبور عجم کا جزو ہے شیخ سعد الدین محمود شبستری (۷۲۰ھ) کو امیر سید حسینی ہروی (۷۱۷ھ) نے ۱۷ سوالوں کے جواب پوچھے تھے شیخ نے وحدت وجود کے تصور کیی رو سے ان کی جواب دیا۔ جو ان کی مثنوی گلشن راز کا جزو ہیں۔ اس مثنوی کے ایک ہزار آٹھ ابیات ہیں۔ اقبال نے علوم و فنون جدید اور فلسفہ خودی کی روشنی میں گیارہسو سوالوں کو نو بنا کر دو دو سوالوں کو دو جگہ ایک کر کے جواب لکھا ہے۔ اس مثنوی میں جاوید نامہ اور اقبال کے انگریزی خطبات میں اشتراک معان ہے۔ جنہیں ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے کافی حد تک واضح کیا ہے ۱۸؎ ۔ ۲۔ پروفیسر مگل وائی آسن نے ۱۹۱۹ء میں بزبان ہسپانوی زیر بحث کتاب میڈرڈ سے شائع کروائی اور اس کا کسی قدر مختصر شدہ انگریزی ترجمہ اسلام اینڈ دی ڈیوائن کامیڈی مترجم ہارولڈایل سنڈرلینڈ لندن سے شائع ہوا۔ سفحات ۲۹۵ ۱۹؎ ۔ ۳۔ ۱۹۳۲ء میں جب چوہدری محمد حسین نے مقالہ لکھا تو اس سال ڈاکٹر نکلسن نے بایزید بسطامی کی معراجیہ گفتو کا متن ایک رسالے میں شائع کر دیا تھا۔ یہ متن ۱۹۷۴ء میں سہ ماہی دی مسلم ورلڈ کی اشاعت ۲۰؎ میں انگریزی میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ۴۔ اردو اویراف زرتشتی مذہب کے بزرگوں میں سے ایک تھا اس کی گفتگو کا پہلوی زبان میں متن اور فارسی ترجمہ دستیاب ہے۔ اس کے بارے میں ایرانی محققین نے کئی مقالے بھی لکھے ہیں۔ اس کاافسانہ معراج دسویں سے چودھویں صدی عیسویں یعنی چوتھی سے آٹھویں صدی ہجری کے دوران کسی وقت لکھا گیا ہے۔ وہ سات دن بحالت خواب عالم بالا میں رہا اور اعراف دوزخ اور برزخ کے مناظر دیکھ کر لوٹا۔ گناہگاروں کو اس کی بتائی ہوئی سزائین اور نیکوں کی جزا احادیث معراج کے مطابق ہے یا ان احادیث سے بہت قریب اور یہ افسانہ بالضرور واقعہ معراج رسولؐ کے تابع لکھا گیا ہے اورموخر الذکر سے تعلق رکھتا ہے۔ ۵۔ شہرزوری سے مراد مرتضیٰ بن شہرزوری موصلی ہیں۔ ابن شہرزوری امام محمد غزالی کے چھد سال بعد فوت ہوئے (۵۱۱ھ) ابن خلیکان نے دفیات الاعیان میںلکھا ہے کہ ان کا یہ قصیدہ بے نظیر ہے کہ اور نایاب بھی۔ اس لیے وہ اپنی کتاب کے اصول کے خلاف اسے تمام نقل کرتے ہیں ملاحظات اقتباس آگے پھر زیر بحث آئیں گے مگر ابن شہر زوری کا قصیدہ یہیں نقل کر دیتے ہیں۔ قصیدہ ابن شہرزوری لمعت نارھم وقد ودنس اللیل و مل الحادی وحار الدلیل فا ملتھاو فکری من البین علیل و لحظ عینی کلل وفوادی ذالک الفواد المعنی و غرامی ذالک العزام ادخیل ثم قابلتھا و قلت لصحبی ھزہ النار نار لیلی فمیلوا فرمو ا نحوھا لحاظا صحیحات فعادت خواسئا وھی حول ثم مالو ا الی الملام وقالو اخلب مارایت ام تخییل فتجنبتھم وملت الیھا والھوی مرکبی و شوقی الزسیل ومعی صاحب الی یقتضی الفا ثار و الحب شرطہ التطفیل وھی تعلو و نحن ندنو الی ان حجزت دونہا طلول محول فدنونا من اطلول فحالت زفرات من دونہا و غلیل قلت من بالدیار قالو جریحواسیر مکبل و قتیل ماالذی جئت تبتغی قلت صیف جاء یبغی القبری فائن النزول فاشارت بالرحب دونک فاعزرھا فما عندنا لضیف رحیل من اتانا القی عصا السیر عنہ قلت من لی بہائو این السبیل فحططنا الی منازل قوم صرعتہم قبل المذاق الشمول درس الوجد منھم کل رسم فہر رسم والقوم فیہ مقیل منہم من عناولم یبق للشکوی ولا للد موع فیہ مقیل لیس الا الا نفاس تخبر عنہ وھو عنہا مبرا معزول و من القوم من یشیل الی وجد تبقی علیہ منہ القلیل ولکل رایت منہم مقاما شرحہ فی الکتاب مما یطول قلت اھل الھوی سلام علیکم لی فواد عنکم بکم مشغول وجفون قد اقرحتہا من الدمع حچیثا الی لقاکم سیول لم یزل حافز من الشوق یحدونی الیکم والحادثات تحول و اعتذاری ذنب فہل دن من یعلم عذری فی ترک عذری قبول جئت کی اصل[طلی فہل یی الی نارکم ھذہ الغداۃ سبیل فاجابت شواھد الحال عنھم کل حد من دونہا مفلول لا تروقنک الریاض الا نیقات فمن دونہا ربی و دحول کم اتاھا قوم علی غرۃ منھا وراموا امر افعذ الوصول وقفو شاخصین حتی اذا مالاح للوصل غرۃ وجحول وبعد ت رایۃ الوفا بید الوجد و نادی اھل الحقائق جولول این من کان یدعینا فہذ ا القیوم نید صبغ الدا وی یحول حملوا حملتہ الفحول ولا و یضرع یوم اللقاء الا الفحول بذلو انفسا سخت حین شحت بوصال ساستصغرا المبذول ثم غابوا من بعد ما اقعتحموھا بین امواجہا وجاعت سیول قذفتھم الی الرسوم فکل دمہ فی طلولھا مطلول نارنا ھذہ تضی لمن یسری بلیل لکنھا لا تنیل منتہی الحظ ما تزود منہا اللحظ والمدرکون ذاک قلیل جائھا من عرفت یبغی اقتباساولہ اوالبسط والمتی والسول فتعالت عن المناک وعزت عن دنو الیہ وھو رسول فوقفنا کما عہدت حیاری کل عزم من دونہا مخذول ندفع الوقت بالرجاء وناھیک بقلب غذاوہ التعلیل کلما ذاق کاس یاس مریر جا کاس من الرجا محول فاذا سولت لہ النفس امراحید عنہ وقیل صبر جمیل ھذہ حالنا وما رصل العلم الیہ وکل حال نحول ترجمہ قصیدہ ۱۔ ان کی آتش افروزاں تھی جبکہ تیرہ و تار تھی اور حدی خواں ملول اور راہنما حیرت زدہ تھا۔ ۲۔ میں ںے آگ کو بغور دیکھا گو میری فکر جدائی کے باعث بیمار اور میری تار نگاہ کمزور پڑ گئی تھی۔ ۳۔ اور میرا قلب قلب مطلوب اور میرا عشق عشق موثر تھا۔ ۴۔ پھرمیںاس کے سامنے آیا اور اپنے احباب سے کہا یہ آگ میری آج شب کی آگ ہے اس کی طرف توجہ دو۔ ۵۔ انہوںنے اس طرف سیدھی نگاہیں ڈالیں لیکن وہ بھینگی اورکمزور ہو کر پلٹیں ۔ ۶۔ پھر وہ مجھے ملامت کرنے لگے کہ تو نے جو دیکھا تھا وہ نمود غبار تھا یا پیکر تخیل؟ ۷۔ میں نے انہیں چھوڑ دیا اور کود اس کی طرف مائل ہوا۔ اس حالت میںعشق میرا مرکب تھا اور شوق میرارفیق سفر۔ ۸۔ میرے ساتھ ایک ہم نشین چلا جو نشانات اور علامات کا تعین کرتا تھا۔ آہستہ خرامی ہی محبت کی شرط ہے۔ ۹۔ آگ بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔ اور ہم دونوں اس کے قریب تر ہوتے جا رہے تھے تآٓنکہ کچھ ٹیلے درمیان یں حائل ہو گئے۔ ۱۰۔ ہم ٹیلوں کے نزدیک ہوئے تو دراز نفسی اور محبت کی آتش فروزاں آڑے آ گئی۔ ۱۱۔ میں نے پوچھا بستی میں کون ہے؟ جواب آیا نیم بسمل اسیر پا بہ زنجیر اور عاشق۔ ۱۲۔ تم کیا ڈھونڈنے آئے ہو؟ میں نے کہا مہمان ہوں ضیافت کا طالب ٹھہروں کہاں؟ ۱۳۔ اس نے اشارہ کیا کہ میرے پاس بہت کشادہ جگہ ہے وہیں ٹھہرو مہمان کے پاس ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ۱۴۔ ہمارے پاس جو آتا ہے عصائے سفر رکھ دیتا ہے میں نے کہا میں کیا کروں اور کہاں جائوں۔ ۱۵۔ ہم ایسے لوگوں میں اتر ے تھے جنہیں بادشمال نے پہلے ہی پچھاڑ دیا تھا۔ ۱۶۔ عشق نے ہر نشان مٹا دیا تھا اور صرف نشان عشق باقی رہ گیا تھا اور لوگ اس میں براجمان تھے۔ ۱۷ ان میں سے کچھ مٹ چکے تھے یہاں تک کہ شکوہ یا گریہ و زوری کے لیے بھی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ۱۸۔ صرف سانسوں کی آمد و رفت باقی تھی جو ان کو خبر دیتی تھی مگر وہ اس سے بے نیاز تھے۔ ۱۹۔ اور کچھ تو ایسے تھے کہ عشق نے بس انہیں ذرا سا باقی چھوڑا تھا۔ ۲۰۔ ان میں سے ہر ایک کا ایک مقام تھا جس کی شرح لکھی جائے تو بہت طویل ہے۔ ۲۱۔ میں نے کہا اے گروہ عشاق تم پر سلام ہو۔ میرا دل تمہارے احوال میں مشغو ل ہے۔ ۲۲۔ اور میری پلکیں جنہں میںنے اشکوں سے مجروح کر لیا ہے تمہاری ملاقات کے لیے سیل رواں ہے۔ ۲۳۔ ہمیشہ راحلہ شوق مجھے تیری طرف لاتی رہی اور حوادث حائل ہوتے رہے۔ ۲۴۔ بہانے بنانا گناہ ہے کیا تم میں کوئی ہے جو میرے ترک عذر کے عذر کو قبول کر لے۔ ۲۵۔ میں تمہارے پاس آگ تاپنے آیا ہوں کیا آج صبح تمہاری آگ پر میرے لیے کوئی گنجائش ہے۔ ۲۶ انہوںنے زبان حال سے جس کی تیزی کے سامنے تمام تیزیاں کند تھیں مجھے جواب دیا۔ ۲۷ شاندار باغوں سے دھوکہ نہ کھا جانا۔ ان کے راستے میں کئی ٹیلے اور گڑھے ہیں۔ ۲۸۔ ان کی رعنائی کو دیکھ کر کتنے لوگ پختہ عزم لے کر آئے لیکن ان تک نہ پہنچ سکے۔ ۲۹۔ اور وہ کھڑے ہو گئے ا طرح کہ ان کی آنکھیں کھلی رہ گئیں تھیں جبکہ انہیں روشن جبیں اور سفید ٹانگوں والی حوروں نے دعوت وصا ل دی تھی۔ ۳۰۔ اور عشق کے ہاتھ میں وفا کا جھنڈا لہرایا اور صاحبان حقائق نے آواز دی کہ روانہ ہو جائو۔ ۳۱۔ کہاں ہے جو وہ ہمارے سامنے بلند بانگ دعوے کرتا تھا۔ آج دعوئوں کا تمام رنگ دھل گیا ہے۔ ۳۲۔ انہوںنے دلیروں اور جوانمردوں کا سا حملہ کیا اور بہادر ہی میدان جنگ میں پچھاڑے جاتے ہیں۔ ۳۳۔ جب ان کے نفوس نے وصال کی شدید خواہش کی تو انہوںنے وہیں جانیںقربان کر دیں اور اپنی قربانی معمولی جانی۔ ۳۴۔ انہیں سوچوں کے درمیان گرفتار بلا چھوڑ کر ساتھی غائب ہو گئے اورسیلاب آ گیا۔ ۳۵۔ اس نے انہیں کھنڈروں میں لا پھینکا کہ یہاں ان کے خون کی بارش ہوئی تھی۔ ۳۶۔ ہماری آگ رات کے راہگیروں کے لیے روشنی مہیا کرتی ہے لیکن وہ حد نگاہ کو نہیں پہنچتی۔ ۳۷۔ اور حد نگاہ تک پہنچنے والے ہوتے بھی کم ہیں۔ ۳۸۔ آگ لینے وہ آیا ہے جسے تو جانتا ہے لیکن اس نے امید و رجا کے آگے دست سوال دراز کر رکھا تھا۔ ۳۹۔ لیکن اسے حاصل نہ کر سکا بلکہ اس کے قریب بھی نہ جا سکا حالانکہ وہ اس کے لیے ترستادہ تھی۔ ۴۰۔ ہم حیران و ششدر کھڑے رہے کیونکہ بالعموم ہرارادہ و عزم کے راستے میں رکاوٹیں رہی ہیں۔ ۴۱۔ ہم دل کے ساتھ امید باندھ رہے اور یاسے دل سے بچو جس کی غذا اسباب جوئی ہو۔ ۴۲۔ ہمارا دل جب بھی ناامیدی کا تلخ گھونٹ پیتا تو اس کے بعد امید کا پیمانہ گردش میں آتا۔ ۴۳۔ اور جب کوئی راہ نکلتی تو پھر رکاوٹ آ جاتی۔ اس وقت کہا جاتا رہا کہ صبر ہی بہتر ہے۔ ۴۴۔ ہمارا حا روح اور ہمارا منتہائے کمال یہی رہاہے مگر ہر حال بدلتا رہتا ہے۔ آسمانی سفر ناموں کی تلاش جاوید نامے کے سلسلے میں اقبال نے ڈیوائن کامیڈی مولفہ دانتے سے ضرور استفادہ کیا ہے ۔ مگر وہ اس کتاب کی تکمیل سے چند سال قبل دیگر مولفوں اور شاعروں خصوصاً مسلمانوں کے افلاکی سفر ناموں کی تلا ش میں مصروف وہے ملٹن کی فردوس گم گشتہ اور فردوس بازیافتہ کے وہ زمانہ طالب علمی سے گرویدہ تھے۔ ۱۹۱۶ء میں وہ مہاراجہ کشن کو لکھتے ہیں دیکھیں اقبال نامہ ص ۱۳۷ کہ وہ اقلیم خموشاں نام کی ایک اردو نظم لکھیں گے جس میں مردہ قو موں کا لائحہ عمل بیان ہو گا اور ان کے جذبات اور خیالات منعکس کیے جائیں گے۔ ۱۹۳۰ء میں جاوید نامہ لکھا جا رہا تھا اوراس زمانے میں اقبال کو مسلمانوں کے افلاکی سفر ناموں کی سرگرمی سے تلا ش تھی۔ مثلاً محمد غوث گوالیاری کے رسالے یا علامہ عبدالعزیاز پرہاروی مظفر گڑھی ۱۲۳۹ھ کے رسالہ سر السماء کی ۱۹۳۰ء میں غالباً اقبال نے بہاولپور کے پروفیسر شجاع ناموس کو لکھا آ پ نے کتاب سرالسما کے سلسلے میں جو زحمت گورار فرمائی اس کیلیے نہایت ممنون ہوں میں چاہتا ہوں کہ آ پ کتاب کا بغور مطالعہ فرمائیں مجھے صرف اس قدر اطلاع کی ضرورت ہے کہ آیا اس کتاب کا موضوع فلکیات سے ایک سائنٹنفک بحث سے یا صرف اس میں آسمان کی کیفیات تخیل یا مذہبی تجربی یعنی مشاہدہ روحانی و الہام کی بنا پر لکھی گئی ہے۔ اکثر مسلمان صوفیہ نے آسمانوں سے اسی اندازسے بحث ی ہے اقبال نامہ ۱۲ صفحہ ۲۱۷ خط تاریخ ندارد اکتوبر یانومبر ۱۹۳۰ء کو انہوںنے میر سراج الدین بہاولپور کو لکھا: سر السما… رسالے کی تلاش میں مجھے مدد دیں… جو مقصد میرے زیر نظر ہے وہ قومی ہے انفراد ی نہیں ہے‘‘۔ (ماہنامہ معارف لاہور بابت نومبر و دسمبر ۱۹۸۳ء صفحہ ۴۸‘۴۹) قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ تخلیق جاوید نامہ کو اقبال ایک قومی مقصد جانتے تھے علامہ عبدالعزیز پرہاروی کی کتاب سرالسماء ہے اور اقبال اس کے نام کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ اسے سرالسماء جانا اور چوہدری محمد حسین کے ذریعے یا خود جا کر وہ بہاولپور میں اس کے متشخصات دیکھنا چاہتے تھے۔ اتنے میں ڈاکٹر پروفیسر خواجہ شجاع ناموس معنی نے انہیں سرالسماء کی جزواً یا تماماً نقل بھجی اور اقبال ۲۰جنوری ۱۹۳۱ء کے خط میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں: ’’آپ نے کتاب کی عبارت نقل کرنے میں بڑی زحمت اٹھائی میر سراج الدین صاحب میرے پرانے مربان ہیں میں نے ان کو بھی اس کتاب کے لیے لکھا تھا بہرحال اب معلوم ہو ا ہے کہ کتاب میرے مطلب کی نہیں…‘‘ (اقبال نامہ ۲۱۸) اقبال کا یہ ذوق تلاش کس قدر محققانہ ہے کہ انہوںنے جاوید نامہ پریس بھیجنے سے قبل اس قسم کا ممکنہ حد تک قابل حصول ادب کھنگال ڈالا تھا۔ اندریں رہ ہر چہ آید در نظر بانگاہ سحر مے اورانگر دربیا بان طلب دیوانہ شو یعنی ابراہیم ایں بتخانہ شو گرنجات بافراغ از جستجو ست گورخوشتراز بہشت رنگ و بو ست (ج ن فلک قمر تمہید) یہاں جاویدنامے سے قبل ہم ترعرفانی اور شعری ادب پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہو گا مگر واقعہ معراج سے متعلق اقبال کا ذوق طلب مزید واضح کر دیں۔ واقعہ معراج سے متقل اقبال کی غیر معمولی دلچسپی ان کے اس مضمون سے عیان ہے جو مسلمان سائنسدانوں کے عمیق تر مطالعے کی اپیل کے عنوان سے سہ ماہی اسلامک کلچر دکن کی اپریل ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں شامل تھا۔ یہ داراصل اورئنٹل کانفرنس لاہور منعقدہ ۱۹۲۸ء کا ان کا صدارتی خطبہ تھا۔ جس کا اردو متن میں گفتار اقبال میں موجود ہے۔ اس خطبے کے انعکاسات اقبال کے انگریزی خطباب خطبہ ۵ اور جاوید نامہ میںدیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ : کچھ وقت گزرا جب ثقافت اسلام کے بارے میںایک گروہ انسانی کے احساسات کی قتو کے طور پر میرے ذہن میں کئی سوالات ابھرے مثلاً یہ کہ کیا جدید سائنس اپنی اصل کے اعتبارر سے مغربی ہے مسلمانوں کی اپنی ثقافت کے اظہار کے لیے تعمیرات پر اتنی توجہ کیوں دی اور موسیقی اور مصوری سے مقابلتہ کم اعتنائی کیوں برتی ہے؟ مسلمانوں کی ریاضیات اور تزئینی فنون سے ان کے عقلی اور جذباتی رجحان اور تصورات زمان و مکان کے سلسلے میں ان کے رویے کس قدر ظاہر ہوتے ہیں؟ کیاایسے نفسیاتی وجوہ ہیں جن سے جوہر انرجی کی تھیوری یونانی نظریوں کی طرح قابل قبول ہو؟ اسلام کی ثقافتی تاریخ میں عقیدہ معراج کیا نفسیاتی اہمیت ہے؟ پروفیسر میکڈالڈ نے حال ہی میں اسلامی جوہریت کے ارتقاء پر بدھ مت کے اثرات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جس ثقافتی مسئلے کو میں نے چھیڑا ہے وہ ایک خالصتاً تاریخی سوال سے اہم ترہے جس کا جواب پروفیسر میکڈالڈ نے دیا ہے۔ اسی طرح پروفیسر بیوان نے روایات معراج کے بارے میں ہمیں اہم تاریخٰ مباحث سے مستفید کیا ہے مگرمیرے خیال میں اہم تر بات یہ ہے کہ روایات معراج نے عام مسلمانوں پر کیا اثر ڈالا اور مسلمانوں کے افکار اس واقعہ کی طرف کس طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک روحانی تصور سے بالا تر ہے اس روایت سے محی الدین ابن عربی کے توسط سے ڈانٹے اثر پذیر ہوا اور ڈیوائن کامیڈی جو از منہ متوسط کے مغربی تمدن کو محٰط ہے و ہ انہی روایات کی مدد سے تالیف ہوئی مورخ شاید کہہ دے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ معراج کی توثیقات قرآن مجید میں نہیں ہیں مگر نفسیات دان بتائے گا کہ ا س واقعہ کا جو خاکہ قرآن مجید میں آیا ہے وہ دین اسلام کے ایک پہلو کے طور پر مسلمانوں کے لیے ضروری رہنما اصول فراہم کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعہ معراج کے بغیر اسلام کے فکر اور جذبے کو بے حد تحریک اور تشفی ملی ہے۔ اس واقعہ کے بغیر اسلام کے روح تمدن کوجانچنا مشکل ہوتاہے۔ مگر اس کے مطالعہ و تحقیق کی روشنی میں بہت سے تمدنی عقدوں کی گرہ کشائی آسان ہو جاتی ہے ‘‘۔ ۲۱؎ فلسفیانہ اندا ز سے حقیقت معراج کو اقبال نے مثنوی گلشن راز جدید میں تیسرے سوال کے جوابم یں بیان کیا ہے۔ یہاں وہ زمان و مکان کو اعتباری بتاتے ہیں اور جسمانی اور روحانی معراج کی بحثوں کو افتراق ملک و دین سیکولرزم کے شبیہ بتاتے ہیں۔ سہ پہلو ایں جہان چون و چنداست خرد کیف و کم اوراکمند است جہان طوسی اقلیدس است ایں پے عقل زمین فر سا بس است ایں زمانش ہم مکانش اعتباری است زمین و آسمانش اعتباری است کمان رازہ کن و آماج دریاب نہ حرفم نکتہ معراج دریاب مجو مطلق دریں دیر مکافات کہ مطلق نیست جز نور السموٰت مہ رسالت نمہ ارزد بیک جو بحرف کم بشتم غوطہ زن شو تن و جان رادوتا گفتن کلام است تن و جان را دوتا دیدن حرام است بدن را تا فرنگ از جان جدا دید نگاہش ملک و دیں راہم دو تا دید واقعہ معراج نبویؐ اور صوفیہ و شعرا سیرت نگاروں کا بالعموم اتفاق ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجر ت سے دو سال قبل ۱۷ رمضان المبارک کو اسراء و معراج نصیب ہواتھا تقریباً ۲۳ اگست ۶۲۰ ء آ پ اپنی پھوپھی حضرت ام ہانی ؓ کے ہاں تھے کہ رات کو آپ کی معجزاتی صورت میں حرف شریف سے بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ لے جایا گیا۔ اور وہاں سے عالم بالا کی طرف جہاں آپ نے آیات خداوندی دیکھیں بہشت اور دوزخ کے منظر دیکھے اور حضور خداوندی میں جا کر مشاہدہ جلا ل و جمال کی اور حقوق و فرائض کی سوغات لے کر زمین پر لوٹے جناب ام ہانیؓ نے جب یہ واقعات سنے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کیا کہ لوگ استہزا کریں گے اور زیادہ تر مخالفت پر اتر آئیں گے لہٰذا ان واقعات کا اخفا کریں مگر پیغمبر کو تو ابلاغ کرنا ہوتا ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بلا تامل واقعہ معراج کی تصدیق کی اور صدیق ملقب ہوئے واقعہ اسراء و معراج کی جزئیات احادیث اور سیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور محمل اشارے سورۃ اسرا یا بنی اسرائیل نمبر ۱۷ کی آیت اولیٰ اور سورۃ نجم نمبر ۵۳ کی آیات ۱ تا ۱۸ میں ملتے ہیں جہاں اس واقعہ کی تفصیل لکھنا بے محل ہے۔ اتنا کافی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم بالا میں تشریف لے گئے اور مشاہدات غیب کے بعد واپس آئے۔ صوفیہ نے صوفیانہ اور عارفانہ انداز میں اپنے روحانی سفر لکھے اور شعرا اور ادبار نے ادبی اور تخلیقی اوپر بایزید بسطامیؒ تیسری صدی ھ کے رسالے کا ذکر ہوا اور ابن عربی (۶۳۸ئ) کی الفتوحات المکیہ کا بھی ابن عربی نے اپنے بعض رسائل میں بھی بانداز معراج اپنے روحانی سفر نامے لکھے ہیں۔ ۲۲؎ ۔ ابن سینا (۴۲۸ھ) کے دورسالے سیر روح کے بارے میں حکیمانہ بحثوں کے حامل ہیں رسالہ الروح اور رسالہ الطیر امام فخر الدین رازیؒ (۴۰۴ھ) کا رسالہ در سیر نفس عاقلہ دراصل حکیم سنائی غزنوی (۵۳۵ھ) کی فارسی مچنوی سیر العباد کا تکملہ ے مائل ہروی نے اس مثنوی اور رسالے کو ایک ساتھ شائع کر وایا ہے ۲۳؎۔ حکیم سنائی ہوا کی توصیف سے اس مثنوی کا آغاز کرتے ہیں۔ اس میں انسان کی حکمت تخلیق کا بیان ہے اور مختلف جواہر حیات کا بھی شاعر زوائل و فضائل اخلاق کی بحث کرتا ہے۔ اور عقل انسانی کی افلاک تک سیروگزر کا ذکر بھی لاتاہے۔ امام رازی ان نکات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر شاعر اور فارسی نثر نویس دونوں کا ذکر و بیان مبہم سا ہے۔ اور شاید عرفا ہ اس سے مستفید ہو سکیں۔ شیخ عطار (۶۱۸ھ) کی مثنوی منطق الطیر خصوصا اس کا حصہ ہفت دادی روح ک سیر و طیران اور مراتبت روحانی کے طے کرنے کی بہترین تصویر پیش کرت ہے ہفت داری والے حصے کی عض صوفیا نے تلخیص بھی کی ہے جیسے کہ حضرت شاہ ہمدان میر سید علی ہمدانی ۷۸۶ھ نے ۲۴؎ مگر مجموعی طورپر یہ کوئی صوفیانہ معراج نہیں نہیں بلکہ سیر روح کا بیان ہے۔ خمسہ سرا شعرا جیسے نظامی گنجوی ۶۱۰ھ امیر خسرو دہلوی(۷۳۵ھ)جامی (۸۹۸ھ) اور صوفی کشمیری (۱۰۰۳ھ) نے واقعہ معراج کی پورے التزام کے ساتھ بعد از نعت ہر مثنوی میں لکھا ہے کہ مگر اس ضمن میں دیگر شعرا بھی متوجہ رہے اور واقعات معراج کو نظم کرتے رہے ہیں۔ معراج کے زیر اثر لکھے والے نثر نویسوں میں عربی کے د و مصنف قابل ذکر ہیں۔ ایک رسالتہ التوابع و الزوابع ۲۵؎ کا مصف ابوعامر احمد شہید اندلسی (۴۲۶ھ) اور دوسرا ابوالعلا معری (۹۴۴۹ صاحب رسالۃ الغفران تابعہ مادہ جن ہے (جمع توابع) اور زابعہ یا زوبعہ شیطان (جمع زوابع ) اس پہلی کتاب میں شعرا و ادباء کی ارواح کی ملاقا ت کے پردے میں ان کی کتب اوردواوین پر تبصرے ملتے ہیں۔ ابن شہید ہر شاعریا ادیب کے اچھے یا برے خیالات کواس جن یا شیطان سے ماخوذ مانتا ہے۔ جو اس کا دم ساز ہے گوشاعر یا ادیب کو اس بات کی کوئی خبرنہیں ہوتی۔ وہ عالم خواب میں دادی جنات میں جاتا ہے جہاں گزشتہ عہد کے شعرا و ادبا سے وہ ملتا ہے اوران کے شعر و ادب کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ارو اس گفتگو سے وہ یہ نتیجہ نکالتاہے کہ عبقری شعرا و ادبا جن و شیطان سے مد د لیتے رہے ہیں اور انہیںاپنے مقام و مرتبہ اور شعر و ادب کے معانی سے آگاہی نہ تھیل البتہ اس کی گفتگو میں فرضی ادبا و شعرا کے نام مذکور ہیں۔ یہ رسالہ ابوالعلا کے رسالے کی طرح دلآویز نہیں بلکہ مشکل ہے۔ رسالۃ الغفران کا فارسی ترجمہ بھی موجو د ہے ۲۶؎ ابوالعلا معری کے ایک معاصر ابن قارح نے اس سے ملحدوں اور بے دینوں کے استہزاء کیا تھا معری اپنے رسالے کے ذریعے ایسے شاعروں اور ادیبوں کو واصل جنت دکھاتاہے اور ابن قارح جیسے لوگوں کو جواب دیتا ہے کہ گناہگار غفران اور بخشش کے مستحق ہیں ۲۷؎ ضمناً اس رسالے میں لغوی بحثیں اور ادبی لطیفے بھی ملتے ہیں ڈاکٹر احمد علی رجائی لکھتے ہیں کہ ڈینٹے کامذہبی شخص معری ایسے ملحد کے رسالہ الغفران سے متاثر نہ ہو سکا تھا۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ڈینڈ نے اس رسالے کی مدد سے ڈیوائن کامیڈی میں کئی ادبی خوبیاں پیدا کی ہیں۔ اقبال بھی رسالہ الغفران اور لزومیات کے قدردان تھے (دیکھیں بال جبریل)۔ ڈینٹے کا روایات معراج سے بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر اثر پذیر ہونا غیر یقینی ہے۔ چوہدری محمد حسین کے مضمون میں بھی اس بات کے اشارے آ گئے ہیں اقبال کا جاوید نامہ معراج شریف کی روایات کے زیر اثر لکھی جانے والی ایک ادبی اور تخیلی کاوش ہے۔ اس سلسلے میں ہم تبرکاً بعض خمسہ سر ا فارسی شعرا کے معراجیہ اشعار نقل کیے دیتے ہیں کیونکہ ادبی معراج کے ذکر میں ان شعرا کا ضمنی ذکر ہر جگہ ملتا ہے۔ گو واقعات معراج لکھنا صرف ان ہی کا خاصانہیں۔ چند خمسہ سرائوں کے معراجیہ اشعار: ۱۔ نظامی گنجویؒ (و ۔ ۶۱۰ھ) محمد کافر نیش ہست خاکش ہزاراں آفریں بر جان پاکش سریر عرش را نعلین اوتاج امیں وحی و صاحب سر معراج خلیل از خلیتا شان سیاہش کلیم از جان و شان بارگاہش (مثنوی خسرو و شیریں) اے ختم مر پیمبران مرسلؐ حلوائے پسین و ملح اول اے بر سر مدرہ گشتہ راہت وے منظر عرش پایگاہت اے سید بارگاہ کونین نسابہ شھرقاب قوسین رفتہ زو رائے عرش بالا ہفتاد ھز او پردہ بالا اے شش جہت او تر خیرہ ماندہ برہفت فلک جنبیہ راندہ شش ہفت ہزار سال بودہ کایں عبدبہ را جہاں شنیدہ اے نقش تو معراج معانی معراج تو نقل آسمانی خلوت گہ عرش گشتہ جایت پرواز پری گرفت پایت سربرزدہ از سرائے فانی بر اوج سرائے ام ہانی جبریلؑ رسید طوق در و دست کز بہر تو آسماں کمر بست در نسخ عطارد از حروفت منسوخ شد آیت و قوفت زہرہ طبق نثار برفرق تا نور تو کے برآید از شرق خورشید بصورت ہلالی زحمت زرہ تو کرد خالی مریخ ملازم بتافت مرکب رو کمترین و شافت ۲۸؎ دراجہ مشتری بدان نسور از راہ نو گفتہ چشم بد دور کیواں علم سیاہ بردوش دربندگی تو حلقہ درگوش (مثنوی لیلی مجنوں) ۲۔ عبدالرحمن جامی ؒ (و ۸۹۸ھ) یک شبے از صبح دل افروز تر وز شب و روز بمہ فیروز تر طرہ او نافہ دولت کشاے غرہ او نور سعادت فزائے بارقہ لط درافشاں درا و ابر عنایت گہر افشاں درا و خواجہ کہ آمد دو جہاں بندہ اش کرد مدد دولت یا بندہ اش… راہرو راست رو ماغویٰ رہبر روشن نظر ماطغیٰ ۲۹؎ خلعت اسریٰ بہ بر انداختہ جامہ شب رفتن ازآں ساختہ ۳۰؎ پائے در آور د بہ پشت براق خواند بر آفاق کہ ہزافراق تافت زبیت الحرم اور الگام زدبہ طواف حرم قدس گام خیمہ برسن زوز جہات پردہ اوشد تتق نور ذات ہست ز پردہ بہ دراین گفت و گوے بہ کہ شود مختصر این گفت و گوے خواجہ درآں پردہ بدید آنچہ دید وآنچہ نیابد بہ زبان ہم شنید… بود بہ یک لحظہ درآں نیم شب آمدن و رفتن او اے عجب بود بلے نور زمین آسمان در سفر نور نگنجد زمان (مثنوی تحفتہ الاحرار) دو خمسہ سرائوں کی ایک ایک مثنوی سے یہ معراجیہ اشعار نقل کرنا مژتے از خروارے ہے ان اور دیگر شعرائوں نے معراج شریف کے بارے میں کافی مفصل لکھا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ جامی خمسہ سرا ہی نہیں سبعہ سرا بھی ہیںل ان کی اخلاقی مثنویوں میںنظامی کی مثنیویوں کے اسلوب پر ست دیگر مثنویا ں بھی ہیں۔ یہاں نامناسب نہ ہو گا کہ واقعہ معراج کے بارے میں علامہ اقبال ؒ کی دوسری کتابوں کے بھی اشعار نقل کر دے جائیں تاکہ جاوید نامہ کے تناظر میںانہیںبھی دیکھ لیا جائے۔ از بانگ درا اختر شام کی آتی ہے فلک سے آواز سجدہ کرتی ہے سحر جس کو وہ ہے آج کی رات رہ یک گام ہے ہمت کے لیے عرش بریں کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات ازبال جبریل سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰؐ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں از ضرب کلیم دے ولولہ شوق جسے لذت پرواز کر سکتا ہے وہ ذرہ مہر کو تاراج مشکل نہیں یاران چمن معرکہ باز پرسوز اگر ہو نفس سینہ دراج ناوک ہے مسلماں ہدف اس کا ہے ثریا ہے سر سرا پردہ جاں نکتہ معراج تو معنی و النجم نہ سمجھا تو عجب کیا ہے تیرا مدو و جذر بھی چاند کا محتاج اس سلسلے میں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کا خطبہ پنجم بھی لائق مطالعہ ہے۔ اقبالؒ واقعہ معراج سے نبوت کا اعلیٰ مقام واضح کرتے ہیں کیونکہ نبی اپنے اعلیٰ ترین تجربات سے بھی عالم بشریت کو بہرہ ور کر دیتا ہے مگر ولی اپنے ذاتی مشاہدات اور روحانی ترقیات کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے۔ طاسین زرتشت میں اقبال نے اسی بات کی توضیح کی ہے کہ بعض صوفیوں کے دعوئوں کے برخلاف مقام نبوت مقام ولایت سے بغایت اولیٰ و ارفع ہے۔ واقعہ معراج ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ روحانی تجربات سے دوسروں کو بھی مستفید و بہرہ مند کیا جائے۔ جاوید نامہ اور ڈیوائن کامیڈی اس سے قبل ہم نے بعض عرفانی اور ادبی اور تخلیقی کتابوں کا ذکر کیا ہے جو معراج شریف کے واوعہ کی روایات کے زیر اثر لکھی گئی ہیں اس فہرست میں عالم بالا کی طرف جانے کی آرزو یا کوشش کی گئی ہے۔ دوسرے حوالوںکا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ مگر جیسا کہ چودھری محمد حسین کے مقالے سے ظاہرہے کہ جاوید نامہ کی باایں صورت تخلیق مگل وائی آسن کی کتاب اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی کے زیر اثر ہوئی مذکورہ کتاب میں ڈینٹے کی کتاب پر روایات معراج اور ابن عربی کی الفتوحات المکیہ نیز معری کے رسالہ الغفران وغیرہ کے اثرات سے بحث کی گئی ہے اور ضروری شواہد نقل کیے گئے ہیں۔ جاوید نامہ کا نام اسلوب بیان اور س کے موضوات فکر اقبال سے منتخب ہوئے اور ڈیوائن کامیڈی کے طرز پر ایک افلاکی سفر کا ڈرامہ لکھنا اس معنی میں نہیں کہ اقبال ڈینٹے یا کسی دوسرے کے مقلد ہیں پھر بھی چونکہ ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ ایک ساتھ مذکور ہوتے رہے اور اس موضوع پر کافی لکھا جا تا رہا لہٰذا ان دونوں کتابوں پر ایک ساتھ نگاہ ڈالنا ضروری ہے۔ ہمارے پیش نظر ڈیوائن کامیڈی کے انگریزی اور فارسی تراؤجم ہیں ابتدا میں یہ بات پیش نظر رہے کہ : ۱۔ اقبال نے جس طرح گلشن را ز کا جواب گلشن راز جدید کی صورت میں مختصر لکھا ہے ایک ہزار آٹھ کے مقابلے میں ۲۲۰ ابیات اس طرح جاوید نامہ بھی ڈیوائن کامیڈی کے مقابلے میں مختصر ہے۔ اقبال کو چودھویں صدی عیسویں کے تفصیل پسند ذہ کے بجائے بیسویں صدی عیسوی اور اس کے بعد اختصار پسندوں کا خیال رکھنا تھا حشو و زوائدے ان کی طبیعت ویسے بھی متنفر تھی۔ ۲۔ جاوید نامے میں ڈیوائن کامیڈی کے سے تفصیلی مناظر نہیں مگر منظر کشی نقطہ کمال کو پہنچی ہوء ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کلیم الدین احمد ایسے ایک رخے نقاد کو اس کتاب میں بالعموم نہ کوئی صوری خوبی نظر آئی اور نہ معنوی ۳۱؎ ۳۔ ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ میں کہیں تو ارادت اور تشابہات ہیں مگر دونوں شاعروں کا مقصود اور ہدف مختلف ہے۔ دانتے نے اپنی محبوبہ کو زندہ جاوید بنانے کی کوشش کی اپنے بعض مذہبی عقائد اور تعصبات بیان کیے اور طرب انگیر شاعرانہ مناظر پیش کیے ہیں۔ اقبال کا جاوید نامہ البتہ شاعر اسلام کے معروف موضوعات کا حامل ہے اقبالیات کے بمشکل ہی کوئی موضوعات نکلیں گے جو جاوید نامہ میں نہ مل سکیں۔ یہاں کتاب کے موضوعات؟ بلا تامل لکھے جاتے ہیں۔ مناجات احساس تنہائی‘ زمان لا یزال کی تمنا‘ جاودانیت کی آرزو‘ اسلوب جاوید نامہ نوجوانوں سے توقعات۔ تمہید آسمانی شرف انسانی ‘ عشق کی عقل پر برتری تمہید زمینی موجود و محمود ‘ عشق‘ علم سے برتر‘ حقیقت معراج ‘ فرشتہ زمان و مکان‘ اہل مشرقی کو پیغام بیداری‘ درویشی کی فضیلت ‘ ملوکیت پر فلک قمر فلسفہ ہندی کے بعض مباحث ‘ چار ادیان‘ بدھ مت‘ زرتشتیت ‘ مسیحیت ‘ اور اسلام کی بنیادی تعلیمات۔ فلک عطارد نظریہ وطنیت کی نارسائی‘ اشتراکیت‘ اور ملوکیت کی خرابیاں] قرآن مجید اور تجدید تفکر‘ خلافت انسانی‘ اسلامی حکومت ‘ مسئلہ ملکیت زمین‘ سائنسی علوم کی اہمیت ‘ مذہبی پیشوائیت کی خامیاں ‘ تضدید فکر اسلامی کے لیے علما کا فرض۔ فلک زہرہ مخالف دین قوتوں کی سرخروئی کا استہزائ۔ پیغام بیداری ملت عرب فلک مریخ نمونے کا معاشرہ‘ تقدیروں کو تبدل و تغیر ‘ مغرب کا بارامومت سے متنفر فتنہ۔ فلک مشتری بہشت کا اسلامی تصور‘ مسئلہ جبر و قدر‘ انا الحق بمعنی انا حق ہے‘ جذبہ عشق حقیقت محمدیہؐ ‘ اتباع رسولؐ کی حکمت ‘ درویش حقیقی زاہد و عاشق کا فرق ‘مقام ابلیس۔ فلک زحل غداران وطن کا انجام بددرانتے کے دوزخ سرود ۳۴ میں بھی اس گروہ کی مذمت کی گئی ہے۔ آنسوئے افلاک بہشت کا منظر‘ تاریخ پنجاب و کشمیر‘ مقام شعر و شاعر ‘ ایران کے معاصر حالات پر تبصرہ(قبل از اسلام تاریخ پر ناز اوروطن پرستی) افغانستان اور افغانوں کا افتراق‘ تقلید مغرب کے مکاتب‘ ترکوں کی مغرب دوستی سلطان ٹیپو کی زبانی حیات‘ موت اور شہادت کا بیان‘ عدل زوال و عروج مسلماناں‘ اتحاد عالم اسلام خطاب بہ جاوید حقیقت توحید سے ادراک ‘ عبادات و شعائر اسلامی پر غور و فکر کرنے کی اہمیت‘ بے حسی اور مذہبی پیشوائوں کی اندھی تقلید‘ علم حقیقی حاصل کرنے ‘ خودی آموزی‘ صدق مقال و اکل حلال‘ برتنے تقویٰ شعاری ادب و احترام انسانی فقر اختیاری سے لگائو‘ صدق اخلاص کی روش اپنانے اور حرص و غم سے دور رہنے وغیرہ جیسے نصائح حکیمانہ زبان میں۔ جاوید نامہ کے یہ مباحث دانتے کو کہاں میسر تھے۔ دانتے اور ڈیوائن کامیڈی کا تعارف دانتے ۱۲۶۵ء کو فلارنس (اٹلی) کی ایک ریاست میں پیدا ہوا اور ۵۶ سال کی عمر می ۱۲۲۱ء میں امیونیا میں فوت ہوا۔ ا س نے مقامی درس گاہوں کے علاوہ یورپ کے کئی ممالک میں تعلیم حاصل کی وہ ادب و شعر اور فنون لطیفہ پر بے نظیر دسترس رکھتا تھا۔ جوانی میں اس نے سیاست میں بھی حصہ لیا مگر پوپ اور بادشاہ کی مخالفت نے ۱۳۰۳ء میں اسے جلاوطن کر دیا۔ وہ کوئی دو دھے جلا وطن رہا اور کئی مقامات پر اچھے برے دن گزارتا رہا۔ ڈیوائن کامیڈی اس نے جلاوطنی ہی میں لکھی۔ یہ کتاب طربیہ موسوم تھی (کامیڈی) اور ڈیوائن کامیڈی یا الٰہی کا اضافہ دو تین صدیوں بعد قدر دانوں نے کیا ہے۔ دانتے نوجوانی میں بتیرس نام کی ایک ہم عمر لڑکی کا عاشق ہوا اور گو اسے اس نے دو بار ہی دیکھا تھا مگر اس کی یاد تازہ کرنے کے لیے دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کا شاہکار لکھا جس میں اندرون بہشت یہی محبوبہ اس کی رہنما بنی ڈیوائن کامیڈی میں بہشت کے سوا دیگر جگہوں پر اس کا راہنمائے راہ ورجل ہے جو کہ لاطینی زبان کا عظیم شاعر رہا ہے۔ دانتے کا ایسے ہی مرشد ہے جیسے اقبال کا رومی۔ دانتے کی محبوبہ ۲۴ سال کی عمر میں سائمن ڈی بارڈی نام کے ایک شخص سے بیاہی گئی (۱۲۸۹ئ) مگر ایک سال بعد ۱۲۹۰ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد دانتے نے بھی شادی کی۔ اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ۳۲؎ ہوئیں۔مگر جلاوطنی کے دوران وہ بیشتر وقت تنہا ہی رہا۔ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کے علاوہ دیگر کتابیں بھی لکھی ہیں جو نثر اور نظم دونوں میں ہیں۔ ۱۹۷۷ء میں ڈیوائن کامیڈی کا جو انگریزی ترجمہ لندن میں شائع ہوا۔ اس میں پانچ دوسری کتابوں کے تراجم بھ دیکھے جا سکتے ہیں ۳۳؎۔ ڈیوائن کامیڈی اس کتاب کے تین حصے ہیں دوزخ اعراف اور بہشت‘ ہر حسہ میں حضرت عیسیٰؑ کی عمر کے اعداد کے مطابق ۳۳ سرود ملتے ہیں مگر دوزخ کا ابتدائی شامل کر کے اس کے ۳۴ سرود یا نغمے بنتے ہیں دوزخ میں شاعر نے مغفور لوگ دکھائے ہیں گناہوں کی سزائیں اسی قبیل کی ہیں جس قبیل کی احادیث معراج میں ملتی ہیں ارواویراف نامہ کا اندازبھی یہی ہے۔ کمتر گناہ والے لوگ اعراف میں دکھائی دیتے ہیں اور مقدسین بہشت میں۔ دانتے ایک دن خوش ہو کر پہاڑ پر جانا چاہتا تھا۔ مگر رزائل اخلاق کی بندشوں نے اسے پیڑ لیا ۔ اتنے میں لاطینی شاعر ورجل کی روح وہاں آ گئی ورجل نے کہا کہ وہ دانت کو عالم بالا کی سیر کروائے گا۔ مگر وہ دوزخ سے گزر کر جائے گا۔ دانتے دوزخ کے نام سے گھبرایا مگر کوہستان خوش فزا کی طلب کے ہاتھوں سے مجبو رہو کر وہ ورجل کی رہنمای پر مطمئن ہو گیا اور چل دیا۔ ا سطرح وہ دوزخ سے گزرتے ہیں اوردوزخ کے ۳۴ حلقوں میں مختلف گناہوں کے مرتکب افراد کی حالت زار دیکھتے ہیں آخر کوہ اعراف آ گیا یہاں گناہگار نظر آئے مگر وہ زیادہ اذیت مٰں نہ تھے اعراف یا المطہر سے گزرنے کے بعد جب دانتے بہشت میں داخل ہوا تو میٹیلڈا نام کی ایک حسینہ اس کی رہنمائی ہاتھ میں لی۔ آگے نیکوں کی ارواح تھیں اور وہاں بیترس بھی آ نکلی وہاں شاعر نے نہر مقدس کا پانی پیا اور آلودگیوں سے پاک ہوا۔ اب ورجل اور میٹیلڈا یکے بعد دیگرے اسے چھوڑگئے اور وہ بیترس کی براہ راست راہبری میں استفادہ کرنے لگا۔ یہاں تک زیر زمین سفر تھااور اب بالائے زمین کی باری آتی ہے ۔ شاعر اور بیترس کرہ ماہ پر گئے جہاں انہوںنے روحانیت کے عاری اور حب الوطنی سے عاری لوگ دیکھے فلک عطارد پر انہیں حوصلہ مند اور جری ارواح ملیں فلک زہرہ پر حکمت‘ شجاعت‘ انصاف اور عفت کی صفات مجسم ہو کر رقص کرتی نظر آئیں۔ یہاں شاعرنے ایک نغمہ بھی سنا فلک مریح پر انہیں صلیبی جنگوں میں شریک ہونے والے لوگ ملے ددانتے کے اجداد بھی ان لوگوں میں شامل تھے فلک مشتری پر ان سے حکمت کی روح ملتی ہے۔ اور سخنان حکمت بتاتی ہے جبکہ فلک زحل پر وہ صاحبان ورع و تقویٰ سے ملتے ہیں۔ اب عالم لاہوت میں یا لامکان آ جاتا ہے جہاں سے بیترس رخصت ہو جاتی ہے اور شاعر سینٹ برنارڑ کی راہنمائی میں بہرہ ور ہوتا ہے یہاں اسے تثلیث اور حلول و اتحاد یا خدا کے اسرار بتائے جاتے ہیں ذکر افلا ک کی رو سے ڈیوائن کامیڈی کی ترتیب یہ ہے: زمین ‘ دوزخ‘ مقام اعراف‘ بہشت‘ فلک قمر‘ فلک عطارد‘ فلک زہرہ‘ فلک مریخ‘ فلک مشتری‘ فلک زحل‘ اور آنسوئے افلاک۔ اقبال کے جاوید نامے میں ترتیب اس طرح ہے زمین فلک قمر‘ فلک عطارد‘ فلک زہرہ‘ فلک مریخ ‘ فلک مشتری‘ فلک زحل اور آنسوئے افلاک۔ یعنی یہاں مقام نمبر ۲ تا چار غائب ہیں۔ اعراف کا کتاب میں نام ہی ہے جبکہ دوزخ کی ایک جھلک زحل پر ملتی ہے ۔ اور بہشت کا ذکر آنسوئے افلاک والے حصے میں ۳۴؎ موازنہ و تشابہ گو ڈانٹے کو حیات بعد الموت سے زیادہ دلچسپی ہے اقور اقبا ل کو اس حیات کے ابدی بنانے سے مگرڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ دونوں شاہکار ہیں۔ دونوں فلسفی مزاج شاعروں نے ان کتابوں میں اپنے عقائد کے مطابق حقائق و معارف جمع کیے ہیں مگر ڈیوائن کامیڈی میں منظر نگاری زیادہ ہے اور جاوید نامہ میں حقائق نگاری کا بحر مواج دکھاء دیتا ہے۔ ظاہری تشابہ معمولی ہے جیسے دونوں شاعروں کا سفر پہاڑ کے نزدیک سے شروع ہوتا ہے دونوں کے رہنما شاعر ہیں ورجل اور رومی اقبال نے فلک زہحل پر غداران وطن جعفر اور صادق کو مبتلائے عذاب و ذلت دکھایا ہے۔ دانتے نے دوزخ میں حلقہ ۳۴ میں بھی ایسے لوگوں عقوبت میں گرفتار ہیں گو ذرا مبہم انداز میں فلک عطارد پر اقبال نے بھی حوصلہ مند اور جرات افزا کردار لاتے ہیں یہ سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا ہیں جاوید نامہ کے فلک زہرہ پربھی رقص و سرود کی محفلیں ملتی ہیں۔ مگر فضائل اخلاق کی قوتوں کے بجائے اقوام قدیم کے بت پا کو بی کر رہے ہیں۔ دونوں شاعر خدا سے اپنی دلچسپی کے امور کے بارے میں سوال کرتے ہیں اس تشاابہ کے باوجود یہ بات ماننی پڑے گی کہ طربیہ الٰہی اول و آخر طربیہ ہے اور شاید ا س سے کوئی پیغام عالم انسانی کو نہ ملے جبکہ جاوید نامہ از اول تا آخر پیغام ہے۔ اقبال نے مثنوی اسرار خودی کے آغاز میں نظیری (۱۰۲۳ھ) کا یہ شعر کس برجستگی کے ساتھ نقل کیا ہے۔ نیست در خشک و تر بیشہ من کوتاہی چوب ہر نخل کہ منبر نشود دار کنم دانتے کی زیادہ توجہ موت پر اور اعمال کے عواقب پر مبذول ہے۔ اقبال حسنتہ الدنیا و الآخرۃ پر متوجہ ہیں انہیں خودی کے استحکام کی فکر ہے اور خودی کے استحکام کے لیے بعد فضایل اخلاق کی پابندی اور کئی رذائل اخلاق سے اجتناب ضروری ہے۔ ضرب کلیم میں اقبال نے دوسرے فلسفیوں سے اپنا مختلف مقصود بتایا ہے۔ نظر حیات پہ رکھتا ہے مرد دانشمند حیات کیا ہے ؟ حضور و سروع نور و جور (سپنوزا) نگاہ موت پہ رکھتاہے مرد دانشمند حیات ہے شب تاریک میں شرر کی نمود (افلاطون) حیات و موت نہیںالتفات کے لائق فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود (اقبال) چنانچہ ڈیوائن کامیڈی میں غیر مسیحی برادری کے لیے شاید ہی کچھ نکات پیغام مل سکیں مگر جاوید نامہ مومنانہ رواداری اور عالمی اپیل کے امور سے مملو ہے جییس آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ فن ذات حق رانیست ایں عالم حجاب غوطہ را حائل نگر دو نقش آب آنچہ در آدم بگنجد عالم است آنچہ اور عالم نگنجد آدم است علم از تحقیق لذت می برد عشق از تخلیق لذت می برد چیست تقدیر پر ملوکیت ؟ شفاق محکمی جستن ز تدبیر نفاق زیر گردوں فقر و مسکین چراست آنچہ از مولاست می گوئی زماست ۱۹۳۲ء میں جاوید نامہ کی اشاعت سے چند ماہ بعد نیرنگ خیال کا معروف اقبال نمبر لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے حصہ کتب میں ص ۴۵۵ ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ کے امتیازات برجستہ طور پر اس طرح لکھے گئے تھے۔ سات سو سال ہوئے کہ اطالعی شاعر ڈانٹے نے دنیا کو ایک پیغام دیا تھا کیونکہ ڈیوائن کامیڈی کی ہر سطر میں مبیحت کی بجائے قدیمی رومی شاہنشاہیت کی روح جلوہ گر تھی چنانچہ ڈانٹے کی یہہ تصنیف جاوید نامہ کی ترتیب کی محرک ہوئی اور مشرق کے اس فقید المثال شاعر نے آفاق و انفس کے لطیف و نازک حقائق کو ایسے مجتہدانہ انداز میں بے نقاب کیا ہے کہ اس کا یہ دیوان مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق کی گم کردہ راہ قوموں کے لیے خضر راہ ثابت ہو گا۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے لکھا ہے۔ ڈانٹے کی طربیہ کی ساخت سے جزوی مماثلت کے باوجود اوریہ تسلیم کر لینے کے باوصف کہ انہیں جاوید نامہ لکھنے کی تحرییک طربیہ ہی سے ہوئی ہم یہ تسلیم کر لینے پر مجبور ہیں کہ اقبال کا جاوید نامہ ایک خاص پہلو سے اوریجنل اور بعض دوسرے پہلوئوں سے ایک عظیم شاعر اور نابغہ کاشاہکار ہے… جاوید نامہ کو معراج نامہ کے سلسلے کی چیز سمجھنے کے بجائے زیادہ شواہد اس بات کے حق میں ہیں کہ حضرت علامہ نے لا شعور طور سے اپنی تصنیف کو سلسلہ طربیہ سے ملانے کا اہتمام کیا جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت علامہ کو اسرار معراج سے جو دلچسپی تھی۔ اس کے لیے طربیہ کی صورت میں ایک ادنیٰ نمون علامہ کو میسر آیا اور وہ یہ ادبی نمونہ تھا جو آفاقی اور لازوال شہرت کا مالک تھا۔ اس عظیم ادبی روایت سے منسلک ہونے میں جو کشش ہو سکتی ہے اس سے بآسانی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اقبال کا جاوید نامہ اسلام کے ایک بنیادی عقیدہ معراج کی شرح و تعبیر سے متعلق ہونے کا مدعی ہے لیکن اقبال کی پیشقدمی محض دینیاتی نہیں بلکہ علوم جدید خصوصاً نفسیات و معاشریات پر مبنی ہے ڈانٹے کی طربیہ میں اساطیری مواد کا غلبہ ہے وہ قد یم یونانی دیومالائی علامتوں سے پورا فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اقبال کے یہاں اساطیری حوالے کم سے کم ہیں یہی حال مافوق الفطرت کا عنصر ہے۔ ڈانٹے اس عنصر سے غیر معمولی فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اقبا ل یہاں یہ بقدر نمک یا بقدر ضرورت پایا جاتا ہے۔ اقبال کی عقلی حسن امکان وقوع کے استعمال میں بڑی محتاط ہے۔ ڈانٹے کا قاعدہ ہے کہ مسافران افلاک کو ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچانے کیلیے بے ہوشی اور تعطل حواس کا حربہ استعمال کرتا ہے جس کے دوران مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں لیکن اقبال کے یہاں تعطل حواس کی صورت کہیں نظر نہیں آتی… غرضیکہ ڈانٹے کا سفر جھٹکوں کا ایک سلسلہ ہے مگر اقبال کا سفر مختلف مراحل سے قدرتی عبور کا تاثر پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کی دینی اور ادبی روایت سے واقعہ معراج کو بالعموم روحانی صوفیانہ‘ اور دینی اہمیت حاصل رہی ہے علامہ اقبال نے ا س روایت سے متصل رہ کر اس واقعہ یا عقیدہ کی ایک نئی معنویت عطا کی یہ معنویت اپنے زمانے کے سائنسی اور مادی ماحول کی دریافتوں اور آرزوئوں کے مطابق روحانی مقاصد کے علاوہ مادی غایتوں سے بھی وابستہ کی گئی ہے ۳۵؎ اور یہی وہ مقام ہے جہاں علامہ اقبال اپنے سابقون سے الگ ہو جاتے ہیں ۳۶؎۔ ٭٭٭ کتاب اور شاعر کا نام کتاب کا نام جاوید نامہ چوہدری محمد حسین کے مقالے سے واضح ہے کہ اتنی بات مزید دل لگتی ہے کہ ابدیت اور جاودانیت دیگر مفکرین کی طرح اقبالؒ کی بھی آرزو رہی ہے۔ جاوید نامہ میں بھی اس آرزو کو دیکھا جا سکتا ہے۔ مناجات کے دوسرے بند میں وہ وقت خالص تک رسائی حاصل کرنے کے طالب ہیں کیونکہ اس کائناتی وقت میں دوام ہے کہ جب ہمارا زبان خالص استمرار اور استدام سے عاری ہے : دیدہ ام روز جہان چار سوئے آنکہ نورش برفروز کاخ و کوئے ارزم سیارہ اورا وجود نیست الا ایں کہ گوئی رفت و بود اے خوش آں روزے کہ از ایام نیست صحب اور نیم روز وشام نیست روشن از نورش اگر گردد رواں صورت راچوں رنگ دیدن می تواں غیب ہا ارتاب او گردد حضور نوبت اد لا یزال و بے مرور اے خدا روزی کن آں روزے مرا وارحان زیں روز بے سوزے مرا پانچویں بند میں وہ فراق و مہجوری کی حالت سے نالاں ہیں اور صدائے غیب سے اعلان قربت سننے کے منتظر گرچہ از حاکم نردید جز کلام حرف مہجوری نہی گردد تمام زیر گردوں خویش را یا بم غریب زانسوئے گردوں بگوانی قیب ۲۶؎ تا مثال مہر وماہ گردد غروب ایں جہات و ایں شمال و ایں جنوب از طلسم دوش و فردا بگذ رم از مہ و مہر ثریا بگذرم چھٹیبند میں وہ جاودانی اور آسمانی بننے کا آرزو کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ تو فروغ جاوداں ما چوں شرار یک دودم داریم و آں ہم مستعار اے تو شناسی نزاع مرگ و زیست زنک بریزداں برد ایں بندہ کیست؟ بندہ آفاق گیر و ناصبور نے غیاب اور اخوش آید نے حضور آنیم من جاودانی کن مرا از زمینی آسمانی کن مرا تمہید زمینی میں وہ لب دریا بھی آرزوئے جاودانیت سے سرشار نظر آتے ہیں: بادل خود گفتگو ماداشتم آرزو ہا جستجو ہا داشتم آنی و از جاودانی بے نصیب زندہ و از زندگانی بے نصیب البتہ ندائے جمال سے جب انہیں یہ نوید ملتی ہے کہ قربت خدا سے بہرہ مند اور صاحبان خودی حیات جاوداں سے متمتع ہوتے ہیں تو انہیں اس نوید سے سرور اور تقویت قلب ملتا ہے۔ زندگانی نیست تکرار نفس اصل اور از حی و قیوم است دیس قرب جاں با آنگہ گفت انی قریب ۳۷؎ از حیات جاوداں بردن نصیب بودہ ای اندر جہان چار سو ہر کہ گنجد اندرد میرد درو زندگی خواہی خودی را پیش کن چار سو را غرق اندر خویش کن رہا شاعر کا نام زندہ رود۔ یہ نام سب سے پہلے فلک عطارد میں وارد ہوا جہاں رومی سید جمال الدین افغانی سے کہتے ہیں کہ انہوںنے از راہ مزاح اقبال کو زندہ رود کا نام دیا ہے مگر مزاح میں بھی وہ وجہ تسمیہ بتا دیتے ہیں: گفت رومی ذرہ گردوں نورد در دل اویک جہان سوزد درد چشم جز بر خویشتن نکشادہ دل بکس نادادہ آزادہ تنویر اندر فراخائے وجود من ز شوخی گویم اورا زندہ رود یعنی شاعر کی سرعت فکر و اندیشہ نے اسے زندہ رود ملقب کروایا ہے فلک قمر میں انہی شاعر زندہ رود موسوم نہ تھے مگر رومی نے ان کا تعارف کچھ اس طرح کا کروایا تھا: مردے اندر جستجو آوارہ ثابتے با فطرت سیارہ پختہ تر کارش زخا میہائے او من شہید ناتما میہائے او شیشہ خود رابگردوں بستہ طاق فکرش از جبریلؑ می خواہد صداق چوں عقاب افتد بصید ماہ و مہر گرم رو اندر طواف نہ سپہر زندہ رود (دریائے زندہ) یعنی زندہ رودخانہ یا دریا۔ یعنی ایسا دریا جس میں وافر مقدار میں پانی ہو۔ اتفاق سے ایران کے شہر اصفحان کے پاس سے زائندہ رود کا نام ایک کم آب دریا گزرتا ہے۔ مگر اس سے زندہ رود کی مماثلت تلاش کرنا بعید ہے ۳۸؎ ندی جو اور امواج بحر و دریا کے و غیر ہم دراصل اقبال کے تصور خودی کی مماثلتوں اور تعبیرات میں سے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اقبال کے ہاں دریا و بحر اور ان کے تلازمات کا فراوانی کے ساتھ ذکر موجود ہے جیسے: فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہے کہ اپنی موج سے بیگانہ نہ رہ سکتا نہیں دریا ساحل افتادہ گفت گرچہ بسے زیستم ہیچ نہ معلوم شد آہ کہ من چیستم موج ز خود رفتہ تیز خرامید و گفت ہستم اگر می روم گر نردم نیستم بلے است شبنم ما کہکشاں کنارہ اوست بیک شکستن موج از کنارہ می گزرد درجوئے روان ما بے منت طوفانے یک موج اگر خیزد آں موج زجیجوں بہ اقبال اپنے اردو ساقی نامہ میں جوئے رواں کو خودی اور زندگی کا عکاس بتاتے ہیں: وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی اٹکتی لچکتی سرکتی ہوئی اچھلتی پھسلتی سنبھلتی ہوئی بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ ذرا دیکھ اے ساقی لالہ فام سناتی ہے یہ زندگی کا پیام مگر جاوید نامہ میں سلطان ٹیپو شہیدؒ کی زبانی زندہ رود کا عقدہ کچھ حل ہو جاتا ہے کیونکہ اگر دریائے کا ویری زندہ رود ہے تو شاعر بھی ویسا ہی زندہ رود ہ اور سلطان شہید انسان کو بھی رود حیات کی ایک موج اور لہر بتاتے ہیں۔ در جہاں تو زندہ رود او زندہ رود خوشترک آید سرود اندر سرود اے من و تو موجے آرزو حیات ہر نفس دیگر شود ایں کائنات ڈاکٹر جسٹس جاوید اقبال نے زندہ رو د کے نام سے اقبال کے حیات اور کارناموں کو یکجا کیا ہے۔ یہ بڑا مناسب نام ہے زندہ رود کے نام کی مناسبت کو اقبال نے تصورات زندگی و خودی میں تلاش کرنا چاہیے۔ نظم خضر راہ کے ذیلی عنوان زندگی میں ہے: تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی اسی طرح سر راس مسعود کے مرثیے کا تیسرا بند یوں ہے: خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقام حیات کہ عشق موت سے کرتاہے امتحان ثبات خودی ہے زندہ تو دریا ہے بیکرانہ ترا ترے فراق میںمضطر ہے موج سیل نیل و فرات خودی ہے مردہ تو مانند کاہ پیش نسیم خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات نگاہ ایک تجلی سے ہے اگر محروم دو صد ہزار تجلی تلافی مافات مقام بندہ مومن کا ہے ورائے سپہر زمیں سے تا بہ ثریا تمام لات و منات حریم ذات ہے اس کا نشیمن ابدی نہ تیرہ خاک لحد ہے نہ جلوہ گاہ صفات خود آگہاں کہ ازیں خاکداں بروں جستند طلسم مہر و سپہر و ستارہ بشکستند جاوید نامہ کے تمثیلی کردار ہر ڈرامے میں وہ نثر ہو یا نظم کچھ تمثیلی کرداروں سے کام لینا پڑتاہے خواہ وہ کردار اصلی ہوں یا فرضی جاوید نامے میں بھی ایسے کئی کردار ہیں ہم انہیں ہر فلک کے حوالے سے لکھے دیتے ہیں۔ البتہ یاد رہے کہ اقبال اور رومی ہر جگہ مذکور ہیں روح رومی تمہید زمینی والے حصے میں ظاہر ہوتی ہے اور آنسوئے افلاک میں جب شاعر حضور جمال جانے لگتا ہے تو غائب ہو جاتی ہے۔ تمہید… (تمہید آسمانی اور تمہید زمینی) آسمان و زمین ‘ فرشتے ‘ روح زمان و مکاں‘ زرواں‘ اور نغمہ خواں ستارے‘ اقبال اور رومی کے سلسلے میں اوپر وضاحت کر دی گئی ہے کہ ہر کہیں مذکورہ ہیں۔ فلک قمر اسقروطی‘ عارف ہند‘ جہاں دوست (وشوامتر) ‘ فرشتہ سروش‘ چار انبیاء گوتم بدھ‘ زرتشت‘ حضرت مسیحؑ اور حضرت محمدؐ کی الواح (طواسین) ایک رقاصہ عورت‘ اہرمن‘ حکیم ٹالسٹائے کا مجسمہ خواب اور افلاطوس۔ فلک عطارد سید جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا ترک (بعض صوفیہ مصطفی کمال اتاترک اور کئی دوسروں کے نام کرداروں کے طورپر نہیں ضمناً آئے ہیں)۔ فلک زہرہ فرعون‘ لارڈ کچنر (فرعون صغیر) محمد احمد مہدی سوڈانی کی روح اور اقوام قدیم کے دیوتا۔ اقبال نے یہاں ایک شعر میں دس بتوں کے نام گنوائے ہیں۔ بعل و مردوخ و یعوق و نسر و فسر رم خن و لات و منات و عسر و غسر ان دس بتوں مٰں سے پانچ اقوام قدیم کے دیوتا رہے ہیں بعل یعوق‘ نسر‘ لات اور منات۔ باقی پانچ شاعر کی طباعی نے خود تراشے ہیں۔ فلک مریخ ایک منجم فرز مرز (ایک شیطانی کردار) اور ایک نام نہاد پیغمبر عورت۔ فلک مشتری حسین ابن منصوری حلاج‘ طاہرہ بابیہ‘ مرزا غالب اور ابلیس (خواجہ اہل فراق) فلک زحل (دوزخ) میر جعفر‘ میر صادق اور روح ہندوستان بیرون افلاک اور بہشت نیٹشے ‘ بیگم شرف النسائ‘ شاہ ہمداں ‘ میر سید علی ہمدانی‘ غنی کشمیری‘ بھرتری ہری ‘ روح ناصر خسرو‘ نادر شاہ افشار‘ احمد شاہ ابدالی ‘ سلطان ٹیپو شہید‘ حوران بہشت اور خدا کی صفات جمال و جلال۔ کرداروں کی مختصر توضیح ہر جاوید نامہ خواں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا کرداروں کے بارے میں کسی قدر معلومات رکھتا ہو۔ اس صورت میں وہ جاوید نامہ کے مباحث کی تحسین کر سکے گا۔ اس مقصد کے لیے ہم کم معروف کرداروں کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔ آسانی کی خاطر ا س تعارف کو افلاک کی ترتیب سے بجائے حروف تہجی کی ترتیب سے لکھا جاتا ہے۔ ۱۔ ابدالی احمد شاہ درانی بانی افغانستان(و ۱۷۷۴ئ) وہ نادر شاہ افشار کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے مگر بادشاہ مذکور کی وفات کے بعد انہوں نے افغانستان کو الگ کر کے اس علاقے کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ ان کا مزار قندھار میں ہے۔ انہوںنے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی (۱۱۷۶ھ ۱۷۶۲ئئ) کے ایما پر مسلمانوں کی حمایت میں ہندوئوں پر ایک بڑا حملہ کیا تھا۔ اسے پانی پت کی تیسری جنگ کہا جاتا ہے جس میں مرہٹوں کی اسلام دشمن قوت تہس نہس ہو کے رہ گئی تھی۔ ۲۔ ابلیس شیاطین کا جد اعلیٰ اور آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے سے راندہ درگاہ باری ہونے والا جن۔ اقبالؒ انسانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ ابلیسی قوتوں کا مقابلہ کر کے اپنی خودی کو جلا بخشیں۔ انہوںنے بعض صوفیا کی مانند ابلیس کو موحد کہا اور جاوید نامہ میں لکھتے ہیں کہ آج کل کے انسانوں کی بے عملی پر ابلیس بھی فریادی ہے ارمغان حجاز میں ہے: حیف ضرف او مرد تمام است کہ آں آتش نسب والا مقام است نہ ہر خاکی سزاوار سخنے اوست کہ صید لاغرے بردے حرام است ۳۔ اسقروطی (Ischariat) فلک قمر (طاسین مسیحؑ) میں پگھلی ہوئی چاندی کی یخ بستہ ندی میں استخوان شکستہ فریادی نوجوان یہی اسقروطی ہے۔ وہ حضرت مسیحؑ کا ایک حواری و دم سا ز تھا مگر جب حضرت مسیحؑ یہودیوں سے بچنے کے لیے ہجرت کرنے لگے تو اس کی غدارانہ جاسوسی نے انہیں گرفتار کروا دیا اور عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق یہودی حاکم نے انہیں مصلوب کروا دیا تھا۔ ۴۔ افرنگین جاوید نامے میں اس کا ذکر اسقروطی کے ساتھ ہے۔ یہ پری پیکر اور بدکردار افرنگ پروردہ عورت دراصل فاسد تہذیب مغربی و مسیحی کا ایک کنایہ ہے۔ اقبالؒ نے لکھا ہے کہ اسقروطی اگر حضرت مسیحؑ کا بدن بے روح کرنے کا موجب بنا تھا تو افرنگین نے ان کے دین کی روح نے لے لی۔ لہٰذا فاسد مغربی مدنیت کا روح القدس سے دور دور کا تعلق نہیں ہے۔ ۵۔ افلاطوس یہودی حاکم رومی جس نے مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰؑ ابن مریم کو مصلوب کیا تھا (دیکھیے اوپر نمبر ۳ اور ۴) ۶۔ اہرمن اہرمن یعنی روح بد اور نمائندہ شیطان جب کہ یزداں نمائندہ خدا ہے۔ زرتشتی مذہب کے یہ کلمات اب پرانے معانی سے عاری ہو گئے ہیں اور اب یزداں خدا ہے اور اہرمن شیطان یا ابلیس۔ ۷۔ ابوجہل رو ح ابوجہل کو فلک قمر پر مجسم کر کے نوحہ کر کے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ پورا نام ابوالحکم عمر و تھا اس شخص نے ہجرت کے واقعہ سے قبل رسول اکرمؐ کے قتل کا گھنائونا منصوبہ بنایا تھا غزوہ بدر میں وہ قتل ہوا۔ ۸۔ بعل لفظی معنی شوہر یا سردار۔ فینقی قوم کا سورج دیوتا تھا۔ دیکھیں قرآن مجید ۱۲۵:۴۷ ۹۔ بھرتری ہری اجین کا راجہ اور راجہ زادہ تھا۔ راجہ گندھر دسین اس کا باپ تھا جس کا دارالحکومت قدیم صوبہ مالوہ کا شہر اجین رہا ہے۔ بھرتری ہری فلسفہ موسیقی اور مصوری پر دسترس رکھتا تھا۔ وہ جب حاکم بنا تو جوگی گورکھنا تھ کا مرید بنا اور تخت و تاج کو خیر باد کہ دیا۔ پروفیسر ٹائونے نے اس کے اشلوکوں کو انگریزی میں ترجمہ کر کے ۱۹۱۴ء میں بمبئی سے شائع کیا تھا۔ اقبال نے جاوید نامہ میں اس کے چند اشلوکوں کو ایک غزل کی صورت میں ترجمہ کیا ہے اور ایک اشلوک کو بال جبریل کا ذیلی سرنامہ بنایا ہے بھرتری ہری کا زمانہ پہلی سے تیسری صدی عیسوی تک مختلف فیہ ہے۔ ۱۰۔ ٹالسٹائے لئیو کائونٹ نکولا یوچ ٹالسٹائے (۸‘۹نومبر ۱۹۱۰ء ) فلسفی ناول نویس اور افسانہ نگار تھا وہ امیر زادہ تھا مگر زندگی درویشانہ بسر کرتا رہا۔ آج عالم مسیحی اسے کوئی مصلح مانے یا نہ مانے‘ مگر اس کی زندگی کے آخری سالوں میں سارا مسیحی عالم روس کی طرف رجوع کرنے لگا تھا کہ ٹالسٹائے کی دست بوسی کی جا سکے۔ ٹالسٹائے کی درجنوں کتابیں روس میں دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں اقبالؒ نے اپنے پہلے سفر یورپ کی رپوتاژ میں جب ٹالسٹائے ہنوز زندہ تھا اس کاذکر کیا اور پیام مشرق وغیرہ میں بھی۔ ۱۱۔ جمال (حضور) خدا کی صفت مراد ہے جمال سے بحث جاری تھی کہ صفت جمال نے ظاہر ہو کر سلسلہ کلام ختم کر دیا۔ (دیکھیں کتاب کا آخری حصہ)۔ ۱۲۔ جمال الدین افغانی سید اتحاد عالم اسلام کے داعی ار جہان اسلام کے کئی ملکوں جیسے افغانستان ‘ ایران ہند‘ مصر‘ ترکی اور روس وغیرہ کو بیدار کرنے والے (۱۸۳۸ئ۔ ۱۸۹۷ئ) سید موصوف پہلے استنبول میں دفن ہوئے بعد میں ان کا تابوت افغانستان لا کر کابل میں دفن کیا گیا (۱۹۴۴ئ) ۱۳۔ جہاں دوست وشوامتر مراد ہیں جو رام چندر کے دوست اور استاد بتائے جاتے ہیں۔ اقبالؒ نے خود وشوامتر کو ہی جہاں دوست کہا ہے ۔لہٰذا اب دیگر محققین مثلاً پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی یہ قیاس آرائیاں بے وقعت ہو جاتی ہیں کہ جہاں دوست سے مراد شیوا جی مہاراج ہیں ۳۹؎ ۱۴۔ جعفر از بنگال میر جعفر علی خان )۱۷۶۵ئ) جس کی غداری نے ۱۷۵۷ء کی جنگ پلاسی میں لارڈ کلائیو کے ہاتھوں نواب سراج الدولہ کو شکست دلوائی۔ ۱۵۔ حلاج حسین بن منصور حلاج بیضاوی ( ۳۰۹ھ) صاحب نعرہ انا الحق جس کی کتاب الطواسین تصوف میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور اقبالؒ نے اس کتا ب کا خاص تاثر قبول کیا ہے۔ ۱۴۔ حوران بہشتی بہشت کا ایک تفریحی منظر (آنسوئے افلاک) جہاں حوریں زندہ رود کو رکنے کے لیے التماس کرتی ہیں مگر شاعر اس درخواست سے صرف نظر کرتا ہے ۔ اور غزل سنا کر چل پڑتا ہے۔ ۱۷۔ روح ہندوستان ایک تمثیلی کردار (فلک زحل) جہاں روح ہندوستان مجسم ہو کر غداروں کے کرتوتوں پر نوحہ و فریاد کرتی ہے۔ ۱۸۔ رومی مولانا جلال الدین رومی (۶۷۲ھ) جن کا دیوان کبیر (دیوان شمس تبریز) مثنوی فیہ مافیہ‘ مجالس سبعہ اور مکتوبات معروف ہیں۔ رومی اقبال کے معنوی مرشد ہیں اور جاوید نامہ کے افلاکی سفر کے رہنما۔ ۱۹۔ زن رقاصہ گوتم بدھ کے ہاتھ پر تائب ہونے والی ایک عورت جس نے ناز و عشوے سے ا س مرد حق کو ورغلانے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی۔ ۲۰۔ زروان زرتشتی روایات کے بموجب ایک سیاہ و سفید چہرے والا فرشتہ جو زمان و مکان کے امور کا ناظم ہے۔ ۲۱۔ سروش زرتشتی مذہب کا ایک مقرب فرشتہ (سامی روایات کا جبرئیل) ۲۲۔ سعید حلیم پاشا ترکی کی اصلاح دین جماعت کے سربراہ وزیر داخلہ خارجہ وغیرہ اور وزیر اعظم بھی رہے انہیں ۶ دسمبر ۱۹۲۱ء کو ایک ارمنی نے گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔ ان کے مقالے معروف ہیں اسلام لشمق (اسلامیات) جو مجلہ سبیل الرشاد استبنول میں ۱۹۱۸ء میں شائع ہوا اور مسلم معاشرے کی اصلاح کا انگریزی ترجمہ اسلامک کلچر حیدر آباد دکن بابت جنوری ۱۹۲۷ء میں شائع ہوا۔ ان کا ایک تیسرا مقالہ ہمارا فکری بحران معروف ہے۔ ۲۳۔ سلطان شہید والی میسور سلطان فتح علی ٹیپو (۱۷۹۹ئ) جنہوں نے برصغیر کے آزاد رہنے اور یہاں سے انگریزوں کو نکالنے کی خاطر آخر تک کوشش کی۔ اقبال کو سلطان سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اورجنوری ۱۹۲۹ء کو ان کے مزار پر فاتحہ پڑھنے بھی حاضر ہوئے تھے ۔ ۲۴۔ شرف النساء بیگم اس عظیم خاتون (۱۷۴۷ئ) کے والد ذکریا خان اور دادا خان پنجاب کے گورنر رہے۔ وہ لاہور کے سرودالا مقبرے میں مدفون ہیں قرآن مجید اور شمشیر کو وہ اپنی ہمیشہ پاس رکھتی تھیں اور یہ اس کی وصیت کے مطابق قبر کے تعویز میں محفوظ کروائی گئی تھیں مگر سکھا شاہی دور میں انہیںنکال لیا گیا اورقبر کو گزند پہنچائی گئی تھی۔ ۲۵۔ شاہ ہمدان ‘ امیر کبیر سید علی ہمدانی وادی جموں و کشمیر کے اس عظیم مبلغ کو علی ثانی اور حواری کشمیر بھی کہتے ہیں۔ (۷۸۶ھ؍۱۳۸۵ئ) شاہ موصودف ختلان (روسی تاجکستان)ٰ میں مدفون ہیں۔ جسے اب سولاب کہا جاتاہے۔ ان کی اہم تر تصنیف ذخیرۃ الملوک ہے جو علامہ اقبال کے زیر مطالعہ رہی ہے وہ بلتستان اور گلگت وغیرہ علاقوں کے اولین مبلغ اسلام ہیں۔ ۲۶۔ طاہرہ بابیہ (۱۸۵۲ئ) زریں تاج ام سلمہ جو قرۃ العین طاہرہ کے نام سے مشہور ہے۔ بابی مذہب کی پیرو تھی۔ اس نے ناصر الدین شاہ قاچار (۱۸۴۸ء ۱۸۹۶ئ) کی ملکہ بننے پر قید و بند اور قتل ہو جانے کو ترجیح دی ۔ وہ قزوین کی رہنے والی تھی۔ شیراز بغداد اور نجف میں بھی رہی۔ اقبال طاہرہ کی شہامت و شجاعت کے قدردان تھے اور اس کی ایک غزل کا بیشتر حصہ بھی انہوںنے جاوید نامہ میں نقل کیا گو ایرانی محقق سید محمد محیط طباطبائی اس غزل کو مجہول بتاتے ہیں اور طاہرہ کے شاعرہ ہونے سے بھی انہیں انکار ہے ۴۰؎۔ ۲۸۔ غالب مرزا اسد اللہ خان غالب جو اردو اور فارسی کے عظیم ادیب اور شاعر تھے۔(۱۷۹۷ئ…۱۸۶۹ئ)۔ ۲۹۔ غنی کشمیری محمد طاہر غنی (۱۰۷۹ئ) جو سبک ہندی کے بڑے شاعر اور درویش مشرب شخص تھے ان کے آباو ا جداد شاہ ہمدان کے ساتھ ایران سے وادی جموں و کشمیرمیں وارد ہوئے تھے۔ ۳۰۔ فرعون حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا معاصر شاہ مصر کی ممی جسکی نعش اب تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجودہے۔ اس کا زمانہ ۱۶ صدی قبل مسیح کا ہے۔ ۳۱۔ فرز مرز ایک فرضی شیطانی کردار جو فرنگی مآب اور مغرب زدہ رہا۔ ۳۲۔ کچز لارڈ کچز جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری اور فیلڈ مارشل کے عہدے سے نوازا گیا۔ ۵ جولائی ۱۹۱۶ء کو سمندر میں غرق ہوا۔ وہ خرطوم کا حاکم بھی (ذوالخرطوم) رہا۔ مصر سوڈان‘ ہندوستان اورافریقہ میں انگریزی مستعمرات کا بھی محافظ رہا۔ پہلی جنگ عظی کے دوران میں ایک جرمن آبدوز نے اس ے بحری جہاز کو ایسا ڈبویا کہ کچز کی نعش تک نہ ملی۔ محمد احمد مہدی سوڈانی ۱۸۸۵ء کی قبر کی بے حرمتی کرنے اور ظالمانہ رویہ رکھنے پر اقبال اسے فرعون صغیر کہتے ہیں ۴۱؎۔ ۳۳۔ لات قبیلہ ثقیف کا سورج دیوتا (بت) اس قبیلے کا بڑ ا معبد طائف میں تھا۔ ۳۴۔ منات قبیلہ خزرج کی دیوتا (زن نما بت) جسے قضا و قدر کی مالکہ سمجھا جاتا تھا۔ یہ دور جاہلی کے جملہ عربوں کی معبودہ تھی لات اور منات قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں۔ ۳۵۔ مہدی سوڈانی مصر و سوڈان میں علم جہاد بلند کرنے والے مجاہد انہوںنے خرطوم اور اس کے نواح میں شرح اسلامی کو نافذ کروایا تھا۔ ان کا دعویٰ مہدویت مختلف فیہ ہے۔ ۱۸۹۸ء میں خرطوم فتح کر کے لارڈ کچز نے محمد احمد مہدی سوڈانی کے مقبرے کو توپوں سے اڑایا اور ان کی نعش کو دریا برد کروا دیا تھا۔ ۳۶۔ نادر شاہ افشار نادر شاہ نے ۱۷۳۹ء میں ہندوستان پر حملہ کیا (پانی پت کی دوسری لڑائی) اور دہلی کو غارت کیا تھا۔ مگر ایران کے اس بادشاہ (۱۷۳۶ئ…۸۱۷۴۷) کی شیعہ سنی اتحاد کی کوششیں بالخصوص اقبال کو پسند تھیں۔ ۳۷۔ ناصر خسرو اسماعیلی عقائد رکھنے والا شاعر ناصر خسرو علوی قبادیانی بلخی (۴۸۱ھ) جو فارسی کا عظیم ادیب اور شاعر تھا اقبال نے جاوید نامہ میں اس کے ایک اخلاقی قصیدے کے چند اسشعار غزل کے عنوان سے نقل کیے ہیں۔ ۳۸۔ نبیہ مریخ فلک مریخ پر ایک نام نہاد پیغمبر کی مدعی عورت کا کردار جو دراصل ایک مغرب زدہ اور بار امومت سے فرار اختیار کرنے والی عورت کا کردار ہے۔ ۳۹۔ نسر دو ستاروں کے نمونے پر کرگس کا سا تراشا ہوا بت و جاہلی کے زمانے میں عربوں کامعبود رہا۔ ۴۰۔ نیٹشے جرمن فلسفی فریڈرک نیٹشے ۱۹۰۰ء جو ۱۸۸۹ء سے مفلوج اور معذور سا رہا وہ فوق البشر کے تصور کی وجہ سے مشہور یہ۔ نیز مسیحیوں کی بے جان مدنیت کا بھی وہ زبردست ناقد رہا ہے۔ ۴۱۔ یعوق گھوڑے کی شکل کا بت جسے معاصران حضرت نوح پوجتے رہے ۔ (قرآن مجید ۷۱:؛۲۳) دور جاہلی کے یمعنی عربوں کابھی وہ معبود رہا ہے۔ ۴۲۔ طواسین رسل طس (طاسین جمع طواسین) قرآن مجید کے حروف مقطعات میں سے ہے۔ اقبال نے طواسین بمعنی اسرار یا رموز لیا ہے ابن حلاج کی کتاب الطواسین معروف ہے۔ اقبال نے زرتشت گوتم بدھ‘ حضرت مسیحؑ اور حضرت محمد ؐ کے طواسین لکھے ہیں حضرت مسیحؑ یا حضرت محمدؐ کے حالات اور کارنامے جاوید نامہ خوانوں کو معلوم ہو ںگے۔ ۴۳۔ زرتشت نام اسپناما تھا زرتشت یعنی زرد اشترا (یہ زرد اونٹ والا) ان کا دور حیات ۶ ہزار سال سے ۶ سو سال ق م تک مختلف فیہ ہے۔ ان کی مذہبی کتاب اوستا الہامی مانی جاتی ہے اور کبھی مسلمان زرتشتیوں کو اہل کتاب بھی مانتے رہے ہیں زرتشتی اپنے آپ کو موحد کہتے ہیں مگر نور و ظلمت اور خیر و شر (یزدان و اہرمن) کی ثنویت آمیز تعلیم ان کے ہاں موجود نظر آتی ہے۔ ا س سلسلے میں اقبال کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ایران میں مابعد الطبیعیات کا مطالعہ خاصا معلومات افزاہے۔ ۴۴۔ گوتم بدھ ان کا دور حٰات بھی سات یا چھو سو سال ق م میں مختلف فیہ ہے ان کے پیرو بلخ کشمیر بہار‘ ہندچینی‘ جاپان اور جنوبی کوریا میں زیادہ ہیں۔ ان کے اقوال میں ایمان فیصلے اورگفتار و کردار کی درستی شامل ہے۔ ان کے مذہب میں عورت ایک فتنہ ہے جس پر نظر رکھنی چاہیے۔ گوتم بدھ دراصل کیل وستو کے شاہزادے تھے ۔ ان کا نام سدھارتھ تھا مگر انہوںنے ترک دنیا ک ر کے جو راہ اختایر کی تھی قرآن مجید کا ذی الکفل شاید وہی ہوں۔ جاوید نامے کا اسلوب اور افلاک سے ماقبال حصہ جاوید نامہ ایک ڈرامائی طویل نظم ہے۔ کتاب مثنوی کی صورت میں ہے اور اس میں اکثر دوسرے اصناف سخن کے اشعار بھی درا ٓئے ہیں۔ یہ اشعار نئے ہیں یا دیگر شعرا اور خود شاعر کی مطبوعہ کتب سے ماخوذ ہوکر تضمین ہوئے ہیں۔ اقبال نے اپنے خطوط میں لکھا تھا کہ جاوید نامہ کا دیباچہ بے حد دلچسپ ہو گا وہ واقعی دلچسپ ہے اور زبور عجم کی ایک غزل کے صر ف دو شعروں ۴۲؎ پر مشتمل ہے: خیال من بہ تماشائے آسماں بود است بدوش ماہ و باغوش کہکشان بود است گماں مبرکیہ ہمیں خاکداں نشیمن ما است کہ ہر ستارہ جہان است یا جہاں بود است شاعر نے یہاں اپنے سفر عالم بالا کی طرف اشارہ کرنے کے علاوہ یہ بتایا ہے کہ افلاک کے ثوابت اور سیارے بھی کبھی جہاں رہے ہیں یا اب بھی مقصد یہ ہے کہ زمین کے علاوہ دیگر کرات کا ذی روح مخلوقات سے آباد ہونا ناممکنات میں سے نہیں بلکہ احادیث معراج کے اشارے کرات کے آباد ہونے کے مملکنات پر دلالت کرتے ہیں کتاب کا ڈرامائی عنصر اور اس کے اسلوب کا تنوع کتاب کو مصور و منعکس بنانے کے محرک ہیں۔ اس سلسلے میں کئی تصاویر بنائی جاتی رہی ہیں۔ خود شاعر اس کتاب کو مصور کرنے کے آرزو مند تھے مگر اس کام کے لیے مصورین کے خون جگر اور زر کثیر کی ضرورت ہے ۱۹۸۲ء میں اقبا ل اکادمی میں ۳۵ تصاویر شامل ہیں جاوید امہ کا اصل مسودہ اقبا میوزم لاہور میں موجود ہے۔ اس کی رو سے اقبال کی کتاب کے صفحہ سوم پر ذیل کے فارسی اشعار کو جاوید نامہ کی علامت کے طور پر لکھنا چاہتے ہیں مگر بعد میں یہ شعر کتاب میں جگہ نہ پا سکتا: صدائے تیشہ کہ بررنگ می خورد دگر است خبر دھید ۴۳؎ کہ آواز تیشہ و جگر است (نامعلوم) یہ شعر حضرت مظہر جا ن جاناںؒ (۱۱۹۵ئ) کے خریطہ جواہر میں موجود ہے۔ اقبال نے ۱۹۳۴ء میں مجلہ کابل کو پیغام دیتے ہوئے اس کومعنویت کو گویا زیادہ واضح کر دیا تھا: صبا بگوئے بافغان کوہسار ازمن بمنزلے رس آں ملتے کہ خود نگر است مرید پیر خراباتیان خود بیں شو نگاہ او از عقاب گرسنہ تیز تراست ضمیر تست کہ نقش زمانہ نوکشد نہ حرکت فلک است ایں نہ گردش قمر است دگر بسلسلہ کوہسار خود بنکر کہ تو کلیمی و صبح تجلی و گراست بیا بیا کہ بدامان نادر آویزیم کہ مرد پاک نہاد است و صاحب نظر است یکے است خربت اقبال و خڑبت فرہاد جزانیکہ تیشہ مارا نشانہ بر جگر است ۴۴؎ پھر مذکورہ شعرارمغان حجا میں بھی وارد ہوا ہے اور مجلہ کابل کے نام پیغام اس کی معنویت کو واضح کر دیتا ہے۔ غریب شہر ہوں سن تو لے مری فریاد کہ تیرے سینے میں بھی ہوں قیامتیں آباد مری نوائے غم آلود ہے متاع عزیز جہاں میں عام نہیں دولت دل ناشاد گلہ ہے مجھ کو زمانے کی کور ذوقی سے سمجھتا ہے مری محنت کو محنت فرہاد صدائے تیشہ کہ برسنگ میخورد دگر است خبر بگیر کہ آواز تیشہ و جگر است مگر جاوید نامہ جیسی عمیق اور یزادہ محنت طلب کتاب میں اس کی شمولیت زیادہ انسب کی باتیں اقبالؒ نے یہاں کچھ ہی کیا ہے۔ پہلے بند میں شاعر احساس تنہائی اور موجودات ہجاں کی بے حسی کا ذکرکرتاہے۔ آخری شعر ہے: زار نالیدم صدائے برنخواست ہم نفس فرزند آدم را کجا ست؟ جاوید نامہ کی جملہ اشاعتوں کے علاوہ اصل مسودے میں بھی خاست کی بجائے خواست ہی لکھا ہے۔ اور یہ غلطی نہیں ہے۔ کئی قدیم کتابوں میں خاستن ہی ملتا ہے ۴۵؎ نہ کہ خواستن بہرحال پہلے بند میں شاعر کو احساس تنہائی ہے اور ہم خیال انسانوں کینایابی کا شکوہ دوسرے بند میں اقبال زبان نا خالص کی ناپائیداری کا ذکر کرتے ہوئے زمان خاص یا کائناتی وقت سے بے بہرہ ور ہونے کے آرزو مند نظر آتے ہیں جو اس نظام شمسی کے تابع نہیں یہ وقت جسے میسر آ جائے وہ آواز و صدا کو ایسے ہی دیکھ سکتا ہے جیسے رنگ کو تیسرے بند میں شاعر تجلیات ذات کا متمنی ہے۔ اوریہ تمنا اگلے بند میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ پانچواں بند عقل کے ساتھ ساتھ عشق کی نعمت ملنے کا تمنا نامہ ہے شاعر کو عقل و علم کے ساتھ عشق کی آرزو ہے۔ وہ عشق جو اسے تجلی و حضور سے مالا مال کرے تاکہ وہ عین فراق میں وصال کی لذت محسوس کرے۔ آخری چھٹے بند میں شاعر جاودانیت کی تمنا کرتا ہے۔ اسے جادہ زندگی میں گفتار و کردار کا اعتدال کی آرزو ہے آخری اشعار میں اقبال اپنے آپ اشعار کے بحر عمیق کا ذکر کرتے ہیں اور اس دعا کا اظہار بھی کہ آئندہ نسلیں خدا کرے ان کے افکار سے بہتر صورت میںمالا مال ہوتی رہیں۔ تمہید شاعر نے یہاں شرف انسانی کو عجیب طریقے سے بیا ن کیا ہے ۔ ابتدا میں تخلیق کائنات کا منظر ہے ۔ آسمان اپنی بلندی اور اجرام فلکی کی نورانیت پر نازاں ہے اور زمین کو اس کی پستی اور تاریکی پر طعنے دیتا ہے۔ اس کے نزدیک زمین میں سامان کو اس کی پستی اور تاریکی پر طعنے دیتا ہے اس کے نزدیک زمین میں سامان دلبری و دلکشی مفقو د تھا۔ زمین اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکی مگر بیرون افلاک سے ایک غیبی آواز نے اس کی ڈھارس بندھوائی ۔ صدا آئی کہ زمین سے عقل و عشق کے سوتے پھوٹیں گے۔ آفتاب اگر نور صبح مہیا کرے گا ۔ تو نور روح دل زمین سے ہی نمودار ہو گا ۔ مخلوقات ارضی خونریز تو ہوں گے اور افلاکی مخلوقات کی سی عبادات اورتسبیحات بھی انہیں میسر نہ ہوں گی۔ مگر وہ صفات باری میں اس کی ذات کے جلو ے دیکھنے لگیں گے کیونکہ عقل و عشق انہیں بے نظیر پرواز و طیران سے مالا مال کریں گے اور بقول رومی : ہر کہ عاشق شد جمال ذات را اوست سید جملہ موجودات را اقبال رومی کے مندرجہ بالا شعر کو نقل کرنے کے بعد زبور عجم حصہ دوم سے غزل ۴۵؎ نقل کرتے ہیں جو شرف انسانی کی آئینہ دار ہے فرماتے ہیں: زمین ایک دن انسان کے کوکب تقیدر سے آسمان سے ہم پلہ ہو جائے گی۔ فکر انسانی حوادث سے سرشار ہوتی ہے مگر اس میں دائرہ افلاک سے باہر نکلنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ انسان اپنے کارناموں کی بنا پر فرشتوں سے زیادہ باعظمت اور پر شرف بنے گا اوپر تمہید آسمانی کا خلاصہ نقل ہوا۔ اب تمہید زمینی کے ظہور کی نوبت ہے۔ شاعر ایک دن غروب آفتاب کے وقت دریا کے کنارے اکیلے بیٹھا رومی کی ایک معروف غزل گنگنا رہا تھا۔ اس غزل کے مندرجہ ذیل تین شعر تصانیف اقبال میں کئی بار نقل ۴۶؎ ہوئے ہیں۔ دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر کزدام و دو ملولم و انسانم آرزو ست زیں ہمراہان سست عناصر و لم گرفت شیر خدا و تستم دستانم آرزو ست گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما گفت آنکہ یافت می نشود آنم آرزوست اس وقت روح رومی پہاڑ کے پیچھے سے وہاں آ حاضر ہوتی ہے۔ شاعر رومی سے موجود و ناموجود اور محمود و نامحمود کے معانی پوچھتا ہے: گفتمش موجود و ناموجود چیست؟ معنی محمود و نامحمود چیست؟ یہ سوال دراصل معراج نبویؐ کے معانی و حقائق بیان کرنے کی خاطر تھا۔ رومی فرماتے ہیں کہ نمود و ہ ہے جو نمود و ظہور کا طالب ہو کیونکہ یہ کام وجود کے لیے مسلزم ہے۔ موجود وہ ہے جو حی و قائم کے روبرو اپنے کمالات کو آزما سکے اور اپنے وجود پر شہادت طلب کر سکے۔ اقبال یہاں شہادت خویش اور شہادت غیر کے بعد شہادت ذات حق کی بات کرتے ہیں۔ صوفیہ اسے تجلی اسماء تجلی صفات اور تجلی ذات بتایا ہے۔ معراج دراصل ایسے ہی موجود کے شایان شان ہے اور یہی موجو د دراص محمود کہلانے کا سزاوار ہے۔ شاہد اول شعور خویشتن خویش را دیدن بنور خویشتن شاہد ثانی شعور دیگرے خویش را دیدن بنور دیگرے شاہد ثالث شعور ذات حق خویش را دیدن بنور ذات حق پیش ایں نوراین بمانی استوار حی و قائم چوں خدا خود را شمار برمقام خود رسیدن زندگی است ذات بے پردہ دیدن زندگی است مردمومن در نمازد با صفات مصطفیٰؐ راضی نشد الا بذات چیست معراج آرزوئے شاہدے امتحانے روبروئے شاہدے شاہد عادل کہ بے تصدیق او زندگی مارا چو گل را رنگ و بو در حضورش کس نماند استوار دربماند ہست او کامل عیار اقبال کا مدعا یہ ہے کہ انسان پہلے خودبیں اور خودشناس بنے پھر جہاں بیں یعنی انے دوسروں کے وجود کا امتیاز کرے۔ او رآخری مرحلہ یہ ہے کہ وہ خدا بیں بننے کی صلاحیت پیدا کرے۔ ۴۷؎ اقبال رومی سے دوسرا سوال پوچھتے ہیں کہ انسان اس کائنات ارضی کا سینہ چاک کر کے افلاک اور ورائے افلاک تک کیسے پہنچے؟ رومی جواب دیتے ہیں کہ غلطہ اور اقتدار اور قدرت وسطوت کے حامل انسان ہی حدود کائنات سے باہر نکل سکتے ہیں قرآن مجید میں ہے: یا معشر الج والانس ان استطعتم ان تنفذو امن اقطار السموات والارض فانفذو لا تنفذون الا بسلطان (۳۳:۵۵ الرحمن) یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ اگر تم افلاک و زمین کی حدود سے باہر جا سکتے ہو تو جائو مگر سلطان کے بغیر تم سے یہ کام ہو نہیں سکے گا۔ یہ حصول سلطان ایک قسم کی ولادت نو ہے جو زندگی کے احوال کی ایک حالت ہے۔ عقل اسے تحریک تو کرتی ہے مگر قوت عشق ہی اس کی ولادت ثانی کو عملی بناتی ہے ۔ یہ دید و نظر کا کام ہے جو صاحبان دل کو ہاتھ لگتا ہے۔ جس طرح شکم مادر سے باہر آنا ولادت اول ہے اس طرح حدود و جہات کائنات سے باہر نکلنے کا نام ولادت ثانی ہے۔ اس ولادت ثانی کا حامل انسان کامل زبان و مکان پر غالب آ جاتا ہے اسے فراخی زمین و افلاک سے باک نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جسم روح کا محمل و آلہ ہے مگر دراصل جسم روح کی ہی ایک شان و حالت ہے۔ روح اگرتسخیر کائنات کا جذبہ ہے تو جسم حدود کائنات میں محدود رہنے کا عزم سرد ہے۔ مگر شعور کا تغیر جسم و روح دونوں کو متحرک کر دیتا ہے۔ لہٰذا معراج شریف کے جسمانی اور روحانی ہونے کے اختلافات قابل توجہ نہیں۔ معراج انقلاب شعور ہے ۔ وہ جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی خلاصہ یہ ہے کہ واقعہ معراج زندگی کے لیے اصول حرکت اور تسخیر کائنات کا پیغام لییہوئے ہے: گفت اگر سلطان تر آید بدست می تواں افلاک را از ہم شکست باش تا عریاں شود ایں کائنات شوید از دامان خود گر جہات در وجود او نہ کم بینی نہ بیش خویش را بینی ازو اورا ز خویش زادن طفل از شکست اشکم است زادن مرد از شکست عالم است ہر دو زادن را دلیل آمد اذاں آں بلب گویند و ایںاز عین جاں جان بیدارے چو زاید دربدن لرزہ ہا افتد دریں دیر کہن عاشقان خود را بہ یزداں می دھند عقل تاویلی بہ قرباں می دھند عاشقی؟ از سو بہ بے سوئی خرام مرگ را برخویشتن گرداں حرام بر مکان و برزماں اسرار شو فارغ از پیچاک ایں زنار شو تیز ترکن ایں دو چشم و ایں دو گوش ہر چہ می بینی بنوش ازراہ ہوش توازیں نہ آسماں ترسی؟ مترس از فراخائے جہاں ترسی؟ مترس چشم بکشا برزمان و مکاں ایں و دحال است از احوال جاں اے کہ گوئی محمل جان است تن سر جان را در نگر برتن متن محملے نے حالے ازا احوال اوست محملش خواندن فریب گفتگو ست چیست جاں جذب و سرور و سوز و درد ذوق تسخیر سپہر گرد گرد چیست تن بارنگ و و خو کردن است با مقام چار سو خو کردن است از شعور است انیکہ گوئی نزدو دور چیست معراج؟ انقلاب اندر شعور انقلاب اندر شعور از جذب و شوق وارہاند جذب و شوق از تحت و فوق ایں بد باجا ن ما انباز نیست مشت خاکے مانع پرواز نیست معراج کا فلسفہ پیش کرکے شاعر نے اپنی تخیلی معراج کا آغاز کرتاہے۔ رومی و اقبا ل کی اس گفتگو کے بعف فرشتہ زروان نمودار ہوتاہے۔ اس کاایک گال آگ کی طرح تابناک ہے اور دوسرا دھوئیں کا سا تاریک۔ اس کی ایک آنکھ بیدار تھی اور دوسری خواب آلود۔ اس کے بال و پر عجیب اور رنگا رنگ تھے۔ زرتشتی مذہب میں اسے زمان و مکان کا نگران فرشتہ مانا گیا ہے۔ اقبال بھی اس کی پوری تقریر نقل کرتے ہیں جس کی رو سے وہ زمان و مکان کے امور کاظم ہے۔ البتہ اسے اعتراف ہے کہ صرف ایک جواں مرد نے ا س کا طلسم توڑا ہے۔ یہ جواں مرد نبی آخر الزمانؐ ہیں جن کا قول ہے: لی مع اللہ رقت لا یعنی فہ بنی مرسل اور ملک مقرب یعنی میرا اللہ کے ساتھایک وقت مقرر ہے جس کے دوران کوئی نبی مرسل یا فرشتہ مقرب بار نہیں پا سکتا۔ البتہ یہاں نکتہ مضمر ہے کہ فیض ختم نبوت اور فیض ایمان سے بہرہ مند دوسرے مردان کامل بھی زمان و مکان پر غالب آ سکتے ہیں۔ گفت زو ا انم جہاں را قا ہرم ہم نہانم از نگہ ہم ظاہرم بستہ ہرتدبیر با تقدیر من ناطق و صامت ہمہ نخچیر من در طلسم من اسیر است ایں جہاں ازدمم ہر لحظہ پیر است ایں جہاں لی مع اللہ ہر کرا در دل نشست آں جوانمردے طلسم من شکست گر تو خواہی من بنا شم درمیان لی مع اللہ باز خواں از عین جاں زروان کی موثر نگاہ نے شاعر کا رشتہ کائنات ارضی کے ساتھ منقطع کر دیا ہے اور وہ رومی کی معیت میں عالم بالا کی طرف چل دیے۔ اس دوران وہ زمزمہ انجم سننے لگے۔ ستارے رومی اور اقبال کو خو ش آمدید کہتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مختلف افلاک ان انسانوں کو دیکھنے کے لیے بے چین ہیں بلکہ تجلیات صفات حق کو بھی ان کی تمنا دے دیدار ہے۔ ایک درجن اشعار پر مشتقمل اور تین بندوں میں منقسم یہ دلآویز ترکیب بند مشرف انسانی کا مظہر ہے۔ پیغام بیداری کا حالم اور فقر و درویشی کی فضیلت کا آئینہ دار ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پیش کیے بغیر آگے گزرنا ذوق پر گراں گزر رہا ہے۔ زمزمہ انجم بند اول اے وجود خاکی تیری عقل زندگی کا حاصل ہے اور تیرا عشق راز کائنات ہے۔ عالم جہات کے اس طرف تیرے آنے کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں۔ تیری وجہ سے زہرہ ماہ اور مشتری ایک دوسرے سیارے سے رقابت کر رہے ہیں بلکہ تتجھ پر ایک نظر ڈالنے کے لیے خدا کی تجلیات میں کھینچا تانی اور کشمکش کارفرما ہے۔ دوست کے راستے میں تازہ اور نئے جلوے ہیں مگر شوق اور آرزو والا شخص صفات سیدل نہیں لگاتا۔ زندگی صدق و صفا اور نشوونما ہے۔ ازل سے ابد تک تگ و تار جاری رکھو۔ زندگی خدا کا (نہ ختم ہونے والا) ملک ہے۔ بند دوم غزل خواں (شاعر) کو نالہ و فریاد کرنے دے رند اور محتسب دونوں کو بادہ حق کے خم کے کإ پلائو (سب کو مستی و بیداری دینے کی کوشش کرو) شام عراق ہندوستان اور ایران کے لوگ مصری و شیرینی خور ہو چکے ہیں مصری خوروں کو آرزو کی تلخی آزادی اور بیداری کی تڑپ فراہم کرو۔ ندی کے دل کو تیز رفتار طوفان کی لذت دو تاکہ وہ بلند امواج سمندر کے ساتھ نبرد آزمائی کر سکے ۔ کمزوروں کو طاقت ور استعماریوں کے خلاف اٹھ کھڑ ا ہونے کاجذبہ مرد درویز آگ ہے اور امارت و قیصریت خس و خاشاک ہے بادشاہوں کے اقتدار و غلبے کو مرد درویش کی ایک بات نیچا دکھا سکتی ہے۔ بند سوم قلندری و درویشی کا دبدبہ جذبہ کلیمؑ ہے اور اسکندری و پادشاہی کی شان و شوکت سامری کا زور گزر ادو۔ مرد درویش صلح و آشتی کا مظہر ہے اور نگاہ کے اثر سے رام کرتا ہے مگر بادشاہ جنگ و جدال اور فوج کے ذریعے غارت گری پر متوجہ رہتے ہیں۔ درویش اور بادشاہوں دونون کو کشور کشائی اور بقائے نا م سے تعلق ہے مگر درویش دلبری سے کام لیتا ہے اور بادشاہ قاہری و جبر سے۔ پس اے انسانو ں قلندری اور درویشی کی ضرب سے سکندری کی دیوار(نظام ملوکیت) کو توڑ ڈالو حضرت موسیٰ کلیم اللہؑ کی رسم تازہ اور سحر سامری کی رونق کا خاتمہ کر دو۔ جاوید نامہ ادب و شعر کے لحاظ سے جاوید نامہ اگر ایک بڑی حد تک اقبال کی حاصل حیات ہے تو اسے صرف حقائق نگاری کے لحاظ سے نہ دیکھنا چاہیے۔ اقبال اگر عظیم فلسفی و مفکر ہیں تو وہ ایسے ہی عظیم شاعر بھی ہیں لہٰذا جاوید نامہ کی ادبی اور شاعرانہ خوبیوں کو ہر مقام پر پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ مغربی دنیا اب دانتے کو ایک فلسفی سے زیادہ متکلم مانتی ہے مگر چودھری محمد حسین کے جاوید نامہ پر مذکورہ مضمون کا ایک جملہ دانتے اور اقبال کے سلسلے میں آج بھی دعوت فکر دے رہا ہے کہ ڈیوائن کامیڈی کا مصنف ایک فلسفی شاعر تھا جب کہ جاوید نامے کا خالق ایک شاعر فلسفی ۴۸ ؎ ہے جاوید نامہ کی شاعرانہ خوبیاں اس کتاب میں جابجا مذکور ہوں گی۔ یہاں فلک قمر سے ماقبل حصے پر ایک نگاہ ڈالنا ہمارا مقصود ہے۔ تمہید آسمانی کا ابتدائیہ کس قدر ادبی ہے خالق زندگی نے غیب و حضور کی لذت سے اس دور و نزدیک کے جہاں کا نقش باندھا ہے۔ زندگی نے نفس کے تار کو اس طرح توڑ ا کہ ایام زمانے کے حیرت کدہ کی بنیاد ڈال دی خود گری تشکیل خودی کے ذوق و شوق سے کہیں میں اور ہوں تو اور ۴۹؎ کا نعرہ بلند کیا۔ تخلیق کائنات کے اس فلسفیانہ بیان کے بعد چاند اور ستاروں کی گردش اور نورانیت آفتاب کی طلا پاش شعاعوں کا پھیلائو اور صبح اول کی نموداری کا ذکر بے حد دلکش ہے پھر شاعر زمین کی اس حالت کو مجسم کرتا ہے جس میں انسانی قافلوں کوہستانی ندیوں صحرائی بادیوں بحروبر کی رونق اور بادبہار سے مستفید سبزے وغیرہ کا فقدان تھا: ماہ و اختر راخرام آموختند صد چراغ اندر فضا افروختند بر سپہر نیلگوں زد آفتاب خیمہ زربفت یا سمیں طناب از افق صبح نخستیں سرکشید عالم نو زادہ را در برکشید ملک آدم خاکدانے بود و بس دشت او بے کاروانے بود و بس نے بکوہے آبجوئے در ستیز نے بصحرائے سحابے ریز ریز نے سرود طائران در شاخسار نے رم آہو میان مرغزار بے تجلی ہائے جاں بحر و برش دود پیچاں طیلساں پیکرش سبزہ باد فرور دیں نادیدہ اندر اعماق زمیں خوابیدہ تمہید زمینی کا مندرجہ ذیل شعر غروب آفتاب کا منظرپیش کرتا ہے مصرع ثانی صاحبان ذوق کو دعوت غور و فکر دے رہا ہے کہ شاعر کی منظر کشی پر توجہ کریں: بحر و ہنگام غروب آفتاب نیلگوں آب از شفق لعل مذاب ترجمہ: سمندر (تھا) اور غروب آفتا ب کا وقت نیلا پانی شفق(کے عکس) سے پگھلا ہوا لعل (نظر آتاتھا۔ سورج غروب ہوا مگر اس کے نور کا ایک ٹکڑا گویا شام کے حصے آیا۔ یہ بالائے بام محبوب کی طرح نمودار ہوا یہ روح رومی تھی جو پہاڑ کے پیچھے سے نمودار ہوئی۔ اس کا ایک چہرہ سورج کی مانند براق تھا۔ رومی کا بڑھاپا عہد جوانی کی طرح مبارک اور دلآویز تھا۔ موج مضطر خفت بر سنجاب آب ۵۰؎ شد افق تار از زبان آفتاب از متاعش پارہ دز دید شام کوکبے چوں شاہدے بالائے بام روح رومی پردہ را بردرید از یس کہ پارہ آمد پدید طلعتش رخشندہ مثل آفتاب شیب او فرخندہ چوں عہد شباب نظم خضر راہ میں اقبال نے حضرت خضر کی توصیف میں کہا تھا: دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر جس کیپیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب یہاں رومی کی توصیف اس طرح کی ہے کہ: طلعتش رخشندہ مثل آفتاب شیب او فرخندہ چوں عہد شباب پیکرے روشن ز نور سرمدی در سراپا یش سرور سرمدی زرتشتی مذہب کی رو سے فرشتہ زرواں زمان و مکاں کی روح ہے۔ یعنی خدا نے اسے زمان و مکان کاناظم مقرر کر رکھا ہے۔ اقبال گو زمان و مکاں کو اعتباری مانتے ہیں مگر زروان یا زمان کی قاہرانہ شان کا ذکر کرتے ہیں جس میں شبیر احمد خان غوری نہایت تند وو تیز لہجے میں معترض ہوئے ہین ۵۱؎ ۔ بہرحال یہاں سیاحت عالم علوی پر لے جانے والے اس فرشتے کی تصویر کشی اس طرح ملتی ہے۔: اچانک میں نے دیکھا کہ مغرب و مشرق میں آسمان ایک ابر نور میں غرق ہے اس بادل ؤسے ایک فرشتہ نکل کے نیچے آیا۔ اس کے دو چہرے تھے۔ ایک آگ کا سا روشن اور دوسرا دھویں کا سا تاریک ایک شہرہ رخسار شب تاریک کی طرح تھا اور دوسرا روشن ستارے کی طرح اس کی ایک آنکھ بیدا ر تھی اور دوسری سوئی ہوئی بند اس کے بازو سرخ زرد سبز روپہلی نیلے اور ہرے تھے ۔ اس کے مزاج میں خیال کی مانند فرار تھا۔ زمین سے ثریا تک کی پرواز اس کاایک لمحہ تھا۔ ہر لحظہ اس کی آرزو یہ ہوتی تھی کہ دوسری فضا میں جانے کے لیے پر کھولے: ناگہاں دیدم میان غرب و شرق آسماں وریک سحاب نور غرق زاں سحاب افرشتہ آمد فردد بادو طلعت ایں چو آتش آں چودود آں چو شب تاریک و ایں روشن شہاب چشم ایں بیدار و چشم آں بخواب بال ادرار نگہائے سرخ زرد سبز و سیمیں و کبود و لاجورد چوں خیال اندر مزاج اورمے از زمیں تا کہکشاں اورادمے ہر زماں اورا ہوائے دیگرے پرکشادن در فضائے دیگرے منظر کشی اور حقائق نگاری کا ایک امتزاج زمزمہ انجم ہے جو چار چار اشعار والے تین بندوں پر مشتمل ایک ترکیب بند ہے۔ بند اول میں ستارے انسانوں کے عالم بالاکی طر ف آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں دوسرے بند میں شاعر کو پیغام بیداری دینے کی وہ تلقین کرتے ہیں اور بند سوم میں درویشی کی شاہی پر برتری کا بیان اس پیغام پر ختم ہوتا ہے کہ: ضرب قلندری بیار سد سکندری شکن رسم کلیم تازہ کن رونق ساحری شکن ٭٭٭ فلک قمر چاند زمین کا قریب ترین ہمسایہ ہے۔ اقبال اپنے افلاکی سفر کی منزل اول کے طور پر یہاں پہنچتے ہیں۔ ابتدا میں وہ اپنا حر کی فلسفہ حیات بتاتے ہی۔ اس فلسفہ زندگی کی رو سے سائنس اور مشاہداتی نقطہ نظر کی خاص اہمیت ہے۔ عالم اور ماورائے عالم نیز زمان و مکان اعتباری نوعیت کے ہیں۔ بہشت کا قرآنی تصور یہ ہے کہ وہ سعی پیہم اور عمل صالح سے ہاتھ لگتا ہے اور وہاں بھی ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ بے خود افتادن لب جوئے بہشت بے نیاز از حرب و ضرب خوب و زشت گر نجات ما فراغ از جستجو ست گور خوشتر از بہشت رنگ و بو ست اے مسافر جاں بمیر داز مقام زندہ تر گردد ز پرواز مدام ان تمہیدی اشاروں کے بعد اقبا ل اپنے سفر کی کیفیت بیان کرتے ہیں۔ عالم علوی کے سفر میں انہیں اوپر کی منزل کی چیزیں نیچے نظر آنے لگتی ہیںَ ان کی خاک وجود چاند سے زیادہ براق ہو گئی اور شاعر کا اپنا سایہ ان کے سر پر پڑنے لگا اب انہیں چاند کے پہاڑ دکھائی دینے لگے۔ ان پہاڑوں اور ان کی غاروں کو شاعر کی فکر نے تراشا ہے اوررومی شاعرسے یہ کہتے ہیں کہ یہ غار قابل دید ہیںَ دو پہاڑوں کو شاعر نے حواشی کتاب میں آتش فشاں لکھا ہے۔ یہ خافطین اور یلدرم ہیں اایک پہاڑ کا نام قشمرود ہے کلیم الدین احمد کو شکایت ہے ۱؎ کہ جاوید نامہ میں منظر کشی کا فقدان ہے۔ کاش انہوں نے فلک قمر والے حصے سے ہی انصاف کیا ہوتا۔ ابتدا میں فلک قمر کی ہولناک اور تیرہ و تار فضا کا بیان ہے۔ وہاں دھواں ہے اور آگ۔ نہ سبزہ ہے نہ پرندے خشک بادل ہیں اور تند و تیز ہوا ہے۔ اس فلک میں نہ کوئی رنگ ہیں نہ ہوائیں۔ وہاں زندگی کے آثارہیں نہ موت کے قمر ہے تو خاندان آفتاب کا ہی ایک فرد مگر اس کے کرے کی صبح و شام سے انقلاب پیدا نہیں ہوتے۔ آن سکوت آں کوہسار ہولناک اندروں پر سوز و بیروں چاک چاک صد جبل از خافطین و یلدرم بردہانش دود و نار اندر شکم از درو نش سبزہ سربر نزد طائرے اندر فضایش پر نزد ابرہائے نم ہوا ہا تند و تیز بازمین مردہ اندر ستیز عالمے فرسودہ بے رنگ و صوت نے نشان زندگی دروے نہ صوت نے بنافش ریشہ نخل حیات نے بہ حلب روزگارش حادثات گرچہ ہست ازدود مان آفتاب صبح و شام او نزاید انقلاب اب رومی اقبال کو کوہ قمر کی ایک تیرہ و تار غار میں لے جاتے ہیں۔ اس غار کی مجسم صورت بھی دیکھتے ہی چلیں: وادی ہر سنگ و زنار بند دیو سار ۲؎ از نخلہائے سربلند از سرشت آب و خاک است ایں مقام یا خیالم نقش بندد در منام در ہوائے او چومے ذوق و سرود سایہ از تقبیل ۳؎ خاکش عین نور نے زمینش را سپہر لاجورد نے کنارش از شفقہا سرخ وزرد نور دربند ظلام ۴؎ آنجا بنود دود گرد صبح و شام آنجا بنود وہاں انہیں جہاں دوست (وشوامتر) ملتا ہے۔ وہ عریاںبدن تھا۔ اس کے سر پر چوٹھی سی تھی جس کے گرد ایک سفید سانپ کنڈلی مارے بیٹھتا تھا۔ یہ جہاں دوست یا وشوامتر ہندو افساونں کی روسے قنوج کا راجہ تھا۔ وہ راجہ رام چندر کا اتالیق رہا۔ شکنتلا ا س کی بیٹی تھی۔ اسے رام رشی اور برہم رشی کے القاب ملتے ہوئے تھے وہ اقبال کو دیکھ کر کہتا ہے کہ درنگاہش آرزوئے زندگی است رومی اس خودی سے سرشا ر شخص کا وشوامتر سے تعارف کرواتے ہیں۔ اس پر وشوامتر رومی سے سوال کرتے ہیں کہ عالم آدم اور خدا کی حقیقت بتائیں: عالم ازرنگ است و بے رنگی است حق چیست عالم چیست آدم چیست حق؟ اقبال نے اس موضوع پر کئی بار لکھا ہے ۵؎ یہاں وہ ایک شعر کی صورت میں مجمل جواب دیتے ہیں کہ: آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ فن یعنی اللہ تعالیٰ شمشیر زن ہے (فاعل حقیقی) جبکہ انسان شمشیر ہے۔ اور دنیا اس شمشیر کا سنگ فساں جس پر یہ تلوار تیز کی جاتی ہے۔پس اہم تر اور حقیقی وجو دخدا ہے مگر انسان ھبی آلہ کار کی مانند ہے۔ خدا اسی خلیفے کے ذریعے دنیا کے کام چلاتاہے۔ مگر عالم کا وجود انسانی فعالیتوں کی جولانگاہ ہے۔ اور اسے بھی کم اہم نہیں کہہ سکتے۔ لہٰذا خدا کے وجود کے ساتھ ساتھ انسان اور عالم کو بھی ظلی وجود کی نعمت ملی ہے اور ان دونوں کے وجود کو بے حقیقت نہیں کہہ سکتے۔ رومی افسوس کرتے ہیں کہ اہل مشرق نے خدا شناسی کی طرف توجہ کرتے ہوئے جہاں کو بھلا دیا جبکہ مغرب والے جہاں شناسی میں ایسے لگے کہ خدا کو بھلا دیا۔ رہی خود شناسی تو وہ خدا شناسی کا مقدمہ ہے۔ وشوامتر رومی سے اتفاق کرتا ہے کہ مشرق والے عدم وجود کی بحثوں میں اپنی توانائی صرف کرتے رہے مگر اب وہ خواب گراں سے بیدار نظر آتے ہیں۔ چنانچہ اس عارف ہندی کو کوہ قسمرود پر ایک فرشتہ دکھائی دیتا ہے جو زہرہ کے جمال کا فریفتہ یا چاہ بابل کا عاشق وارفتہ نظر آتا ہے۔ مگر اس نے دل کی بات یہ بتائی کہ اہل مشرق کی بیداری اور ان کی جلد آزادی کے آثار نظر آنے لگے ہیں اوراہل فلک ان آثار کو حقیقت بنتے دیکھ کر بے حد خوش و خر م ہیں۔ گفت ہنگام طلوع خاور است آفتاب تازہ او را در بر است لعلہا از سنگ رہ آید بروں بوسفان او زچہ آید بروں رستخیرے درکنارش دیدہ ام لرزہ اندر کوہسارش دیدہ ام رخت بندد از مقام آزری تاشود دخود گرز ترک بت گری اے خوش آن قومے کہ جان او تپید از گل خود خویش را باز آفرید عرشیاں را صبح عید آں ساعتے چوں شود بیداد چشم ملتے وشوامتر کا کردار اقبا ل نے جاوید نامے میں شاید اس لیے شاکل کیا ہو گا کہ اس ک زبانی اہل مشرق بالخصوص اہل ہندکو بیداری اور آزاد ی کا پیغام دے سکیں یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اقبال نے جاوید نامہ کس تخلیق کے زمانے میں ہی ۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو وہ خطبہ الہ آباد دیا تھا جو نظریہ پاکستان کی ایک اہم دستاویز ہے۔ وشوامتر رومی سے گفتگو کر رہے تھے مگر اس دوران وہ رفیق رومی (اقبال پر بھی متوجہ تھے جس کی آنکھوں میں وہ زندگی کی آرزودیکھ رہے تھے۔ اب وہ اقبال سے یکے بعد دیگرے پانچ سوال کرتے ہیں اور ان کے اطمنان بخش جواب بھی سنتے ہیں۔ یہ سوال و جواب فارسی کتابوں میں صنعت سوال و جوب کے نہایت عمدہ نمونوں میں شامل کیے جانے کے قابل ہیں۔ گفت مرگ عقل؟ گفتم ترک فکر گفت مرت قلب ؟ گفتم ترک ذکر گفت رن؟ گفتم کہ زاد از گرد رہ گفت جاں؟ گفتم کہ رمز لا الہ گفت آدم؟ گفتم از اسرار اوست گفت عالم؟ گفتم از خود روبروست گفت این علم و ہنر؟ گفتم کہ پوست گفت حجت چیست؟ گفتم روئے دوست گفت دین عامیاں؟ گفتم شنید گفت دین عارفاں ؟ گفتم کہ دید جب کسی عالم و عار ف کو سوالوں کے جواب حسب دلخواہ مل جائیں تو اس کی مسرت کا ٹھکانا نہیں ہوتا؟ وشوامتر اقبال کو نو سخنان ؤحکمت کا تحفہ دیتے ہیں اور ان کی قابلیت کو آفریں کہتے ہیں: ذات حق را نیست ایں عالم حجاب غوطہ را حائل نگر دو نقش آب زادن اندر عالمے دیگر خوش است تا شباب دیگرے آید بدست حق ورائے مرگ و عین زندگی است بندہ چوں میر و نمی داند کہ چیست؟ گرچہ مامرغان بے بال و پریم از خدا در علم مرگ افزوں تریم وقت ؟ شرینی بزھر آمیختہ رحمت عامے بقہر آمیختہ خالی از قہرش ببینی شہر و دشت رحمت ادانیکہ گوئی درگزشت کافری مرگ است اے روشن نہاد کے نہرو با مردہ غازی را جہاد مرد مومن زندہ و باخود بجنگ برخود افتد ہمچو بر آہو پلنگ کافر بیدار دل پیش صنم بہ زد دیندارے کہ خفت اندر حرم چشم کو راست اینکہ بیند ناصواب ہیچگہ شب رانتیند آفتاب صحبت گل دانہ را سازد درخٹ آدمی از صحبت گل تیرہ بخت دانہ از گل می پذیر و پیچ و تاب تاکند صید شعاع آفتاب من بہ گل گفتم بگو اے سینہ چاک چوں بگیری رنگ و بو از باد و خاک گفت گل اے ہوشمند رفتہ ہوش چوں پیامے گیری از برق خموش جاں بتن مارا ز جذب ایں و آں جذت تو پیدا و جذب ما نہاں یہ نکات ذرا سے غور و فکر سے سمجھے جاسکتے ہیں۔ وشوامتر یہ نکتے بیان کر چکے تو ایک صاحب زلف دراز فرشتہ وہاں نظر آیا۔ وہ سروش تھا جو زرتشتی مذہب کا گویا جبرئیل ہے اقبا ل نے اسے فرشہ شعرا بتاتے ہیں۔ وہ نازنین وہاں کی بے نور فضا کوکب تھا۔ اس کی سنبل نما زلفیں کمر تک دراز تھیں۔ اس کے چہرے سے کوہ و کمر کو روشنی مل رہی تھی۔ اس کے سامنے ایک فانوس خیال گھوم رہا تھا۔ وہ فانوس خیال فلک پیر کی طرح عیار تھا۔ اس میں طرح طرح کی تصویریں تھیں جیسے شکرہ چڑیا پر جھپٹ رہا تھا اور چیتا ہرن پر۔ یہ چاندی کا سا براق پیکر خدائے پاک کی فکر میں پیدا ہوا مگر پھر ذوق نمود نے اسے خلقت وجود دے دیا۔ وہ آوارہ اور مسافرت نصیب ہے اس جبرئیلی شان والے سراپا نزاکت فرشتے کا یہ تعارف کیا شاعری کی اعلیٰ و برتر صورت نہیں ہے کہ: ناز نینے در طلسم آں شبے آں شبے بے کوکبے راکوکبے سنبلستان دو زلفش تا کمر تاب گیر از طلعتش کوہ و کمر غرق اندر جلوہ مستانہ خوش سرود آں مست بے پیمانہ پیش او گردندہ فانوس خیال ذوفنوں مثل سپہر دیر سال اندراں فانوس پیکر رنگ رنگ شکرہ بر کنشک و بر آہو پلنگ من بہ رومی گفتم اے دانائے راز بر رفیق کم نظر یکشائے راز گفت ایں پیکر چوسیم تابناک زاد در اندیشہ یزداں پاک باز بے تابانہ از ذوق نمود در شبستان وجود آمد فرود ہمچو ما آوارہ و غربت نصیب تو غریبی من غریبم او غریب شان او جبریلی و نامش سروش می برداز ہوش وی آرد بہوش غنچہ مارا کشور از شمبنش مردہ آتش زندہ از سوز دمش زخمہ شاعر بساز دل از دست چاکہا در پردہ محمل از دست بعد میں ہمیں نوائے سرو ش ملتی ہے توسات اشعار پر مشتمل اقبا ل کی ایک معنی خیز اور بغایت دلآویز غزل ہے رومی نے شاعر سے کہا تھا: دیدہ ام در نغمہ او عالمے آتشے گیر از نوائے او دمے لہٰذا اس غزل کو معنی خیز ہونا ہی تھا۔ یوں تو یہ زمین کئی شاعروں کے ہاں ملتی ہے مگر اقبال نے شیخ نصیر الدین چراغ دہلویؒ (۷۵۷ھ) کے ایک نیم مصرع کی طرف حاشیے میں خود اشارہ کیا ہے شیخ موصوف نے فرمایا ہے : اے زاہد ظاہر بیں از قرب چہ می پرسی او درمن و من در وے چوں بو بلاب اندر در سینہ نصیر الدین جز عشق نمی گنجد ایں طرفہ تماشا بیں دریا بحباب اندر اقبا ل نے بولکلاب اندر کے کلمات کیے اور حاشیے میں لکھا: تلمیح بہ مصر ع مشہور غزل صوفیہ ار درمن و من در اوچوں بو بگلاب اندر اقبا ل کی غزل کے آخری تین اشعار یوں ہیں: بے درد جہانگریری آں قرب میسر نیست گلشن بگریباں کش اے بو بگلاب اندر اے زاہد ظاہر بیں گیرم کہ خودی فافی است لیکن تو نمی بینی طوفاں بحباب اندر ایں صوت دلآویزے از زخمہ مطرب نیست مہجور جناں حورے نالد بہ رباب اندر نوائے سروش سننے کے بعد رومی اور اقبا ل چاند کی وادی یرغمید کی طرف چلتے ہیں۔ مگر راستے میں رومی دو موضوعات پر فکر انگیز گفتگو کرتے ہیں۔ یہ موضوعات شاعری اورپیغمبری ہیں پاکیزہ شاعری ایک طرح کی پیغمبری ہی ہے مگر پیغمبر کا کام اور مقام ارفع اعلیٰ ہے کیونکہ وہ صالح اقوام و ملل کو وجود میں لے آتاہے اوراس کی تعلیمات کے اثرات ابدی اور انمٹ نقوش ہوتے ہیں شاعری کے بار ے میں رومی کہتے ہیں کہ: ’’جس شعر میں آگ ہو اس کی حرارت ذکر خداسے ہے۔ وہ شاعری خس و خاشاک کو باغ بنا دیتی ہے اور افلاک کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ وہ شاعری حق و صداقت کی شاہد ہے اور درویشوں کو بادشاہی بخش دیتی ہے۔ اس سے خون بدن میں زیادہ تیز ہونے لگتا ہے ۔ اور دل حضرت جبرئیل سے بھی بیدار تر ہو جاتا ہے۔ ہندی شاعروں کی بے سوز اور خواب آور شاعری کا انتقاد کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ شاعر جستجو اور آرزو کی علامت ہوتا ہے وہ ملت کا دل ہوتا ہے جس کے بغیر قوم محض مٹی کا انبار رہ جاتی ہے۔ شاعری سوز و مستی کا نام ہے جس سے ایک نیا جہاں تشکیل پاتا ہے۔ اگر شاعری انسانیت کی تعمیر و ترقی کے لیے وقف ہو تو اسے پیغمبری کا وارث اور جانشیں کہا جائے گا۔ گفت آں شعرے کہ آتش اندر دست اصل اواز گرمئی اللہ ہو ست آں نوا گلشن کندخاشاک را آن نوا برہم زند افلاک را آن نوا برحق گواہی می وھد با فقیراں پادشاہی می دھد خون از و اندر بدن سیار تر قلب از روح الامیں بیدار تر فطرت شاعر سراپا جستجو ست خالق و پروردگار آرزو ست شاعر اندر سینہ ملت چو دل ملتے بے شاعرے انبار گل سوز و مستی نقشبند عالمے است شاعری بے سوز و مستی ماتمے است شعر را مقصود اگر آدم گری است شاعری ہم وارث پیغمبری است اب پیغمبر ی کی باری آتیہے شاعر نے چوں کہ اس کے بعد طواسین رسل دیکھنے ہیں اس لیے مقام نبوت کے بارے میں اس کا سوال بے حد مناسب ہے رومی کا جواب ایک نئے علم کلام کا حامی ہے۔ یہاں صالح اقوام و ملل کو نبوت کی علامت بتایا گیا ہے۔ نبی و رسول چونکہ تائید ایزدی سے مستفید ہوتا ہے لہٰذااس کے قریارحمت کے دو ر رس نتائج نکلتے ہیں۔ پیغمبر جسم و جاں کے تقاضے جانتا ہے۔ پس کوئی شخص عقل کل ہو کر بھی اس سے بے نیاز ہو جانے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ گفت اقوام و ملل آیات اوست مصر ہائے ماز مخلوقات اوست از دم ناطق آمد سنگ وخشت ماہمہ مانند حاصل او چو کشت پاک سازد استخوان و ریشہ را بال جبرئیلے دہد اندیشہ را آفتابش راز والے نیست نیست منکر او را کمالے نیست نیست رحمت حق صحبت احرار او قہر یزداں ضربت کرار او گرچہ باشی عقل کل ازوے مرم زانکہ او بیند تن و جاں را بہم اب یہ صاحبان شوق مسافر وادی یرغمید کے اس سفید پتھر(سنگ قمر) کی طرف چلتے ہیں جہاں طواسین نبوت کندہ کیے گئے ہیں وہاں گوتم بدھ زرتشت حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمدؐ کی اساسی تعلیمات نقش شدہ ہیں۔ طواسین طاسین (طس) کی جمع ہے جو قرآن مجید کی بعض سورتوں کے حروف مقطعات ہیں اور یہ حروف اسرار و رموز کے بمنزلہ ہیں۔ شیخ حسین ابن منصور حلاج کی گفتگو ۶؎ طواسین کے نام سے ہی جمع ہوئی ہے اور اقبال نے بھی طواسین کو اسرار و رموز کے معانی میں لیا ہے۔ طاسین گوتم اس طاسین کے ذیل میں اقبال نے زبور عجم کی دو غزلیں نقل کی ہیں اور بیچ میں ایکنئی غزل لائے ہیں طاسین کا عنوان ہے ایک عشوہ باز کا گوتم کے ہاتھ پر توبہ کرنا۔ پہلی دو غزلیں گوتم کی زبانی ہیں اور تیسری رقاصہ کے جواب کے طور پر پہلی غزل زبور عجم حصہ دوم غزل ۵۲ کا کلیدی مضمون یہ مصرع ہے: کہ تو ہستی و وجود جہاں چیزے نیست مقصد یہ کہ انسان کے وجود کے مقابلے میں دو جہاں کی مخلوقات ہیچ اور فروتر ہیں دوسری غزل میں رقاصہ کو کئی نصائح ملتے ہیں: ا: ترک دنیا ایک موہوم بات ہے ۔ اصلی کام یہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہو کر دنیا میں غرق اور خدا فراموش نہ ہوا جائے۔ ب: عمل اور کام بڑی مبارک روش ہیں۔ بہشت بھی وہی قابل قدر ہے جو اعمال کی جزا میں ملے۔ ج: آرام کی فکر نہ کی جائے ابنائے نوع کے لیے جان کھپانا ہر آسائش سے افضل و مقدم ہے۔ د: حسن قابل قدر ہے مگر اس ناپائیدار حسن سے دل لگانے کی بجائے فکر و عمل کے حسن سے دل بستگی اختیار کی جائے۔ ان واعظانہ نکات کو سن کر رقاصہ وہ غزل پڑھتی ہے جو اس کی توبہ کی مظہر ہے مگر میں حیران ہوں کہ اس غزل زبور عجم حصہ اول غزل ۴۸ کے کون سے شعر کو توبہ پر محمول کیا جائے؟ البتہ غزل کے الفاظ کو مجازی اور کنایتی معانی دیے جا سکتے ہیں۔ اقبال کی رواداری ملاحظہ ہو کہ پہلے انہوں نے گوتم بدھ کو زمرہ انبیاء میں شامل کیا پھر اس سے وہ تعلمات منسوب کیں تو عرف عام میں بدھ مذہب والوں کی روش کی ضد ہیں خود شناسی اور امور دنیا میں شرکت بظاہر بدھ مت والوں کا شیوہ نہیں مگر ان کی اصلی تعلیمات کا ایسا ہونا بعید از قیا س نہیں۔ حسن خیا ل و عمل البتہ گوتم کو تعلیمات سے اب بھی منسوب ملتا ہے۔ طاسین زرتشت زرتشت کے حالات و افکار کے لیے اقبال کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ جو اردو میں بھی ترجمہ ہوا ہے اب بھی ایک عمدہ تعارف نامے کا کام دیتا ہے۔ اس طاسین میں اہرمن (بدروح شیطان) زرتشت کو آزماتے نظر آتاہے۔ پہلے اہرمن اس پیغمبر کے ہاتھوں اپنی نامرادیوں کو گنواتا ہے۔ پھر وہ زرتشت کو ایمان باللہ اوروعدہ حق پر اعتماد کرنے کے نقصانات بتاتا ہے نعوذ باللہ وہ پیغمبرا نہ جلوتی زندگی کو ایک درد سر بتاتا ہے اور عجمی تصوف کایہ نکتہ یاد دلاتا ہے کہ نبوت مرتے میں ولایت سے فروتر ہے۔ وہ انبیا کی مصیبتوں کو یاد دلاتا ہے۔ حضرت نوحؑ صدہاسال روئے تب کہیں جا کر ان کی دعا پر تاثیر ہوئی حضرت زکریاؑ حضرت ایوبؑ اور حضرت مسیحؑ کو آرے کیڑے اور صلیب کے صلے ملے۔ لہٰذا جلوتی زندگی ترک کر کے کوہ و صحرا کی خلوتی زندگی اختیار کرنا چاہیے تاکہ نبوت کی سردردی سے جان چھوٹے۔ زرتشت اہرمن کے جال میں نہیں پھنشستے وہ ظلمت اہرمن کو ہٹا کر نور کی نعمت پاتے ہیں اور جملہ مصائب و آلام اور انبیاء کی ابتلائوں کو خودی کی تقویت کا موجب بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک خلوت کے ساتھ جلوت کا وجود بھی ضروری ہے۔ صوفیہ و درویش کو اپنی ہی فکر ہوتی ہے مگر پیغمبر دنیا کے دل سوز اور ہم درد ہوتے ہیں۔ وہ خود تو آگ سے مسون ہیں انہیں ڈوسروں کو بچانے کی فکر ہے اوراسی نقطہ نطر سے نبوت ولایت سے بے حد بلند مرتبہ مقام ہے: خویشتن را و انمودن زندگی است ضرب خود را آزمودن زندگی است از بلا ہا پختہ تر گرد خودی تا خدارا پردہ در گردد خودی مرد حق بیں جز بحق خود را ندید لا الہ می گفت و درخون می تپید عشق را در خوں تپیدن آبروست آرہ و چوب و رسن عیدین او ست در رہ حق ہرچہ پیش آید نکوست مر جانا مہر با نیہائے دوست خلوت و جلوت کمال سوز و ساز ہر دو حالات و مقامات نیاز چیست آں؟ بگزشتن از دیر و کشت چیست ایں‘ تنہا ترفتن در بہشت گرچہ اندر خلوت و جلوت خداست خلوت آغاز است و جلوت انتہا ست گفتہ پیغمبری درد سراست عشق چوں کامل شود آدم گراست راہ حق با کارواں رفتن خوش است ہمچو جاں اندر جہاں رفتن خوش است طاسین مسیحؑ طاسین مسیحؑ میں تعلیمات مسیح نہیں بلکہ ان تعلیمات کے خراب اور فراموش کر دیے جانے کا بیان ہے۔ اور وہ بھی انوکھے اور دلچسپ انداز میں صورت احوال یہ ہے کہ مسیحی مصلہ اور ادیب لیوٹا لسٹائے ۸ نومبر ۱۹۱۰ء ایک خواب دیکھتا مجسم کیا گیاہے۔ اس کے خواب میں ایک یہودی نوجوان بحالت کرب دکھائی دیتا ہے۔ جسے افرنگین نام کی مغربی اور مسیحی لڑکی استہزا کرتی اور طعنے دیتی ہے۔ قوت تجسیم کے اعتبار سے یہ حصہ شاعرانہ کمال کامظہر ہے۔ شاعر نے ان دو کرداروں کے ذڑیعے یہودیوں کی مذمت کی جنہوں نے(مسیحیوں کے عقیدہ کے مطابق) حضرت عیسیٰ کو مصلوب کر دیا تھا۔ مگر وہ مسیحیوں کی بھی مذمت کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنی مدنیت سے تعلیمات مسیح ؑ کو یکسر خارج کر دیا ہے ار ر نام نہاد طور پر ان سے منسوب ہیں۔ ٹالسٹائی ہفت مرگ نام کے کوہسار کو دیکھتا ہے جہاں کسی پرندے یا شاخ و برگ کا دور دور تک پتہ نہیں۔ اس کے دھوئیں کی گرد سے چاند کی روشنی تارکول کی طرح سیاہ تھی۔ اس وادی کی فضا میں سورج تشنہ مر جائے وہاں چاندی کی ندی رواں تھی جس میں جوئے کہکشاں کے سے خم تھے۔ اس وادی کی ندی کے مقابلے میں راستے کی بلندی و پستی ہیچ تھی۔ اس کی رفتار میں ریزی موجوں کی بھرمار ہے۔ اور بے حد پیچ و خم تھے۔ درمیان کوہسار ہفت مرگ وادی بے طائر و بے شاخ و برگ تاب مہ از دود گرد او چوقیر آفتاب اندر فضایش تشنہ میر رود سیماب اندراں وادی رواں خم نجم مانند جوئے کہکشاں پیش او پست و بلند راہ ہیچ تند سیر وموج موج و پیچ پیچ یہاں ایک نوجوان جوئے سیماب میں کمر تک غرق تھا۔ جو ہر قسم کی تکلیف سہہ رہا تھا۔ جوئے سیمیں کے کنارے ایک عشوہ باز نازک اندام عورت کھڑی تھی۔ جو پیران یہود کو گمراہ کر سکتی تھی۔ ٹالسٹائی اس کانام اور کام پوچھتا ہے۔ وہ اپنا نام افرنگین بتاتی ہے۔ اس کا کام ساحری تھا۔ اتنے میں جوئے سیمیں یخ بستہ ہو گئی اور مذکورہ نوجوان کی ہڈیاں چورہو گئیں۔ یہ نوجوان جوڈس اسقروطی تھا۔ جو حضرت عیسیٰ کا حواری بنا مگریہودی حاکم رومی فلاطوس سے جاسوسی کر کے انہیں گرفتار اور مصلوب کروا دیا۔ افرنگین مدنیت یورپ کی مجسم صورت ہے۔ وہ اسقروطی کو طعنی دیتی ہے کہ اس نے روح القدس سے غداری کی تھی اور آج اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے اسقروطی جوا ب دیتا ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیحؑ کو مصلوب کر کے ان کی مادی زندگی لے لی تھی مگر اہل مغرب اور نام نہاد مسیحیوں نے ان کی تعلیمات کی روح کو ہی فاسد کر کے رکھ دیا ہے صحبتے با آب و گل و رزیدہ بندہ را از پیش حق وزدیدہ حکمتے کو عقدہ اشیاء کشاد یا تو غیر از فکر چنگیزی نداد آنچہ ما کردیم بانا سوت او ملت او کرد بالا ہوت او یہاں اقبال نے عیسائی قوم فاسد معاشرت علوم و فنون کی ترقی کے ان کے غیر ہمدردانہ رویے اور مادی نقطہ نظر کی مذمت کی ہے ایسے انتقادات اقبال کے ہاں کئی موارد میں ملتے ہیں ضرب کلیم کا قطعہ یورپ اور سوریا دیکھیں اس میں اقبال مولد مسیحؑ کے فاسد کیے جانے کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں: فرنگیوں کو عطا خاک سوریا نے کیا نبیؑ عفت و غم خواری و کم آزاری صلہ فرنگ سے آیا ہے سوریا کے لیی مئے و قمار و ہجوم زنان بازاری طاسین محمدؐ اس طاسین میں اقبال نے ابوجہل کی روح کو کعبہ میں نوحہ کرتے دکھایا ہے۔ اقبال نے مثنوی رموز بے خودی میں اسلامی مدنیت کی جن تین خصوصیات اخوت حریت اور مساوات سے مفصل بحث کی ہے ان کا اجمال یہاں بھی آ گیا ہے مگر جاوید نامہ کے شایان شان یہاں بات بے حد ندرت کے ساتھ کی گئی ہے۔ پہلے اس حصے کے اشخاص و اصنام متعارف کر دیں۔ لات منات اور ہبل معروف بتوں کے نام ہیںَ سلمانؓ یعنی سلمان فارسیؓ آپ پہلے زرتشتی مذہب پر تھے پھرعیسائی ہو گئے اور آخر میں مسلمان نبی اکرمؐ کے خاص خدمت گزار تھے (وفات: ۳۵یا ۳۶ھ) ہاشم قریش کے ایک نامور شخص رسول اکرمؐ کے اجداد میں سے تھے۔ عدنان شمالی علاقوں کے عربوں کے جد۔ سبحان ایک بے نظیر اور فصیح و بلیغ خطیب جنہیں خطیب عرب کہا جاتا رہا۔ مراد سحبان بن زفر بن ایاد ہیں جنہیں سحبان دائل کہتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے اور ۵۸ ھ میںحضرت امیر معاویہؓ کے وہد خلافت میں فوت ہوئے۔ زھیر زہیر بن ابی سلمی مراد ہیں جو دور جاہلی میں تین عظم شاعروں (دوسرے دو امرا القیس اور النابغہ ہیں) میں سے تھا اور اس کی قصا مدسبعہ معلقات میں شامل رہے ہیں۔ قصیدہ بردہ لکھنے والے حضرت کعبؓ اس کے فرزند تھے۔ زہیر کوئی سو سال کی عمر میں بعثت رسولؐ کے ایک سا ل قبل ۶۱۰ ء میں فوت ہوا ہے۔ امرا القیس بنی اسد کے بادشاہ کا بیٹا۔ دور جاہلی کا یمنی شاعر ۵۲۰ھ میں پیدا ہوا اور چھوٹی عمر میں ۵۴۰ھ تا ۵۶۵ھ کے درمیان کسی وقت فوت ہوا۔ دور جاہلی کا عظیم شاعر تھا جس کے اشعار اور مصرعے امثال کی طرح مشہور ہیں۔ مزدک ساسانی دور کا ایک انتہا پسند انقلابی ایرانی فرد جس نے گویا زر زمین اور زن کے مشترک قرار دیے جانے کا ایک تصورپیش کیا۔ وہ اور اس کے پیرو ۵۲۹ء میں شہزادہ خسرو(بعد میں یہی نوشیروان عادل کہلایا) کے حکم سے قتل ہوئے تھے۔ اقبال نے یہاں بزبال ابوجہل اسلامی مساوات کو تعلیم مزدک بتایا اور ۱۹۳۶ء میں لکھئی گئی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ میں وہ کمیونسٹوں اور اشتراکیوں کی تعلیم مساوات کو تعریفی طور پر مزدکیت کی ایک صورت بتاتے ہیں۔ وہ یہودی فتنہ گر وہ روح مزدک کا بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے تحلیل طاسین طاسین محمدؐ میں روح ابوجہل حرم کعبی میں نوحہ رکرتے ہوئے مجسم ہوئی ابوجہل کا نام پہلے بھی آیا ہے۔ نام عمرو بن ہشام تھا اور کنیت ابوالحکم قریش کے قبیلہ بنی مخزوم اور حلیف قبائل کا سربراہ تھا۔ ایک بڑا تاجر متمول شخص تھا خاندانی سیاست اور وجاہت کا اسے بے حد ادر تھا۔ اخوت حریت اور مساوات کی تعلیمات کے بے حد خلاف تھا۔ اسلامی دشمنی اس کا شعار رہا چنانچہ ہر قبیلے کے ایک فرد کی شمولیت سے قتل رسولؐ کا ہولناک منصوبہ بنایا اس سے منسوب ہے۔ جنگ بدر کے دوران عفرا انصاری کے دو نوجوان بیٹوں معاذؓ اورمعوذؓ نے اسے قتل کیا تھا۔ روح ابوجہل فریاد کرتی ہے کہ: (حضرت) محمد ؐ نے حرم کعبہ کی رونق ختم کر دی ۔ انہوںنے ملوکیت ۷؎ اور سرداری کے خاتمے کا اعلان کر دیا اب ننوجوان غلام ہوں کہ آزاد سرداروں کی کب سنیں گے۔ اس پیغمبرؐ نے سحر کلام سے توحید ۸؎ کا نغمہ بند کیا ارورعجیب بات یہ ہے کہ لوگ محسوس بتوں کو چھوڑ کر غائب اور غیر محسوس خدائے واحد کی پوجا کرنے لگے اور بت توڑ ڈالے گئے۔ مذہب اسلام کو نہ ملک خاص سے نسبت ہے نہ کسی خاندان سے۔ چنانچہ رسول خداؐ قریش کے اعلیٰ خاندان سے ہونے کے باوجو د عروں احرار عرب کی فضیلت نہیں مانتے۔ وہ غلاموں کے ساتھ مل کر کھانا کھا لیتے ہیں۔ انہٰں احرار عرب سے کوئی لگائو نہیں بلکہ بدصورت حبشیوں ۹؎ سے انہیں زیادہ محبت ہو گئی ہے۔ اب گورے ارو کالے ایک ہو گئے اور خاندانی وجاہت کا لحاظ رکھا گیا۔ یہ تصور مساوات اور بھائی چارے (اخوت) کی تعلیم عجمی خیالات ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ (حضرت) محمدؐ کا ایک خدمت گزار صحابی سلمان مزدک کی یہ تعلیم لایا ہے کہ پیغمبرؐ نے نعوذ باللہ دھوکا کھایا ہے اور عربوں کے لیے قیامت برپا کر دی ہے۔ اب خاندان ہاشم کی رونق کہاں رہیَ عجمی عدنانی کیسے بنے گا اورگونگے کو حضرت سحبان دائل کی ۱۰؎ فصاحت و بلاغت کیسے آئے گی؟ سرداران عرب اندھے ہو کر اس دین کو قبول کرنے لگے ہیں۔ اسے زہیر توکیا تو نہیں اٹھ سکتا۔ کہ اپنی شاعری کے سحر سے نوائے جبرئیلؑ کا یہ فسون توڑ ڈالے؟۱۱؎۔ روح ابوجہل حجر اسود سے نوحہ کرتی ہے۔ کہ اب اس مقدس پتھر کو سب بوسہ دینے لگے ہیں۔ وہ ہبل بت سے فریاد کرتی ہے کہ ان بے بینوں اور غیر حنیف لوگوں کو خانہ خدا سے باہر نکالنے کا کوئی جتن کرے ۱۲؎ ۔ یہی فریاد لات و منات سے بھی کرتی ہے۔ اسے ان بتوں کا حرم کعبہ سے اخراج ناگوار گزرتا ہے۔ چنانچہ دیوانہ وار کہتی ہے کہ ابھی رک جائیں اور اگر جاتے ہیں تو اسے بھلائیں نہیں۔ یہاں شاعر روح ابوجہل کی زبانی ایک آئیہ قرآنی کو مسلمانوں کے لیے بددعا کے طور پر تضمین کرتے ہیں: فاتھم اعجاز نخل خادیتہ اس جزوی آئیہ مبارکہ کا ترجمہ ہے: گویا وہ کھوکھلے کھجور کی لکڑی ہیں (آیہ ۷ سورہ ۶۹)اس کی سورت میں یہاں قوم عاد اور ثمود کی تباہی کامنظر ہے۔ اقبال نے یہاں تساری مصرع کے لیے اس آیت سے استفادہ کیاہے۔ آخری شعر میں امرا القیس کے ایک مصرع کو ابتدا میں فارسی کلمات لگا کر تضمین کیا گیا ہے: مہلتے ان کنت از معت الفراق امر اء القیس کے قصیدہ کا پورا شعر یوں ہے۔ افاطم مھلا بعض ھذا اللہ لل دان کنت از مبعت صرمی فا جملے ۱۳؎ ملاحظات طاسین محمدؐ کے ذیل میں کئی نکات قابل ملاحظہ ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں اقبال نے مثنوی اسرار خودی کا ایک شعر تضمین کیا ہے: در نگاہ ادیکے ۱۴؎ بالا و پست با غلام خویش بریک خوان نشست اقبال کو مساوات محمدیؐ کس قدر پسند تھی؟ اس کی ایک جھلک ہمیں مشہور مورخ محمود بنگلوری کی اس تحریر میں ملتی ہے کہ جو انہوںنے علامہ مرحوم کے سفر میسور کے سلسلے میں (جنوری ۱۹۲۹ئ) تحریر کی ہے۔ ’’شاید ہی یہ فخر کسی کو حاصل ہو گا کہ گنتگل میں کھانے کے وقت جب میں اپنا برتن (جنوبی ہند کے رواج کے مطابق) تو آپ (علامہ اقبال) نے اس کو کھینچ کر علیحدہ کر دیا اور آپ کے روبرو جو برتن تھا اس میں نہ صرف کھانے کو کہا بلکہ اپنے ہاتھ سے نوالے میرے منہ میں دیے‘‘۔ ۱۵؎ ٭٭٭ فلک عطارد آغاز کلام رومی اور اقبال قمر کے بعد فلک عطارد میں آ پہنچتے ہیں۔ یہ فلک انہیں زمین سے قدیم تر لگا۔ یہ گویا بادل کی صورت میں بڑھتے بڑھتے فلک بن گیا۔ اس میں بھی پہاڑ صحرا اور بحر و بر ہیں مگر انسانی آبادی کے آثار مفقود ہیں۔ اقبال رومی سے اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ کوہستانی دریا خوب خروشاں ہیں مگر زندگی کے آثار یہاں موجود نہیں۔ پھر یہ اذان کی آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ رومی کہتے ہیں کہ عطارد اور زمین میں قریبی ربط ہے ۔ حضرت آدمؑ بہشت سے زمین کی طرف جاتے ہوئے ایک دو روز یہاں ٹھہرتے ہیں یہ اولیا اللہ اور بزرگ صوفیہ کا مقام گزر ہے۔ چنانچہ فضیل بو سعید‘ جنیدؒ اوربایزید کے سے پاک مرد ادھر آتے رہتے ہیں۔ رومی اقبا ل کو جلد نماز میں شرکت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ دیکھتے کیا ہیں کہ سید جمال الدین افغانی امامت کروا رہے ہیں اور سعید محمد حلیم پاشا ا ن کی اقتدا میں ہیںَ رومی ان افغانی اور تاتار بزرگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ عصر حاضر کے مشرق میں ان سے بہتر افراد پیدا نہیں ہوئے۔ گفت مشرق زیں دوکس بہتر نزاد ناخن شان عقدہ ہائے ماکشاد سید السادات مولانا جمال زندہ از گفتار او سنگ و سفال ترک سالار آں حلیم درد مند فکر او مثل مقام او بلند رومی اور اقبال شریک نماز ہوتے ہیں رومی قرا ت میں سورۃ النجم اس سوز و ساز سے پڑھ رہے تھے کہ حضرت خلیلؑ اور حضرت جبرئیلؑ کو بھی اس پر وجد آ جاتا ہے۔ اور صاحب زبور حضرت دائودؑ بھی سوز و مستی کے حامل بن جاتے ہیں یا د رہے کہ سورہ و النجم (نمبر ۵۳) میں معراج رسولؐ کا خصوصی ذکر ہے ۔ نماز کے بعد رومی اور اقبال افغانی کی دست بوسی کرتے ہیں اوررومی شاعر کو ایک صاحب سوز و ساز اور آز اد روش انسان کے طور پر متعارف کرواتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ وہ ازراہ ناز وشوخی اقبال کو ’’زندہ رود‘‘ کہا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شاعر ہر کہیں ہمیں زندہ رودکے لقب سے ملقب و موسوم نظر آتے ہیں اور اس تسمیہ کی توجیہہ پہلے ہو چکی ہے۔ اسمائے افراد اس فلک پر چار صوفیا کے نام ضمناً آئے ہیں۔ اصل کردار افغانی اور سعید حلیم پاشا کے ہیں انہیںمختصراً متعارف کروا دیا جائے۔ جنید بغدادیؒ بایزید بسطامیؒ ‘ فضیل بن غیاض اور ابو سعید ابوالخیر تیسری سے پانچویں صدی ہجری کے معروف صوفیہ ہیں۔ سید جمال الدین افغانی (۱۸۳۸ئ۔ ۱۸۹۷ئ)ہمارے ہاں خاصے معروف ہیں۔ وہ بہت بڑے مصلح اور عالم اسلام ک اتحاد کے داعی تھے۔ جوانی میں وہ امرائے افغانستان کے مشیر رہے۔ پھر وہ ہند ایران روس مصر ترکی عرب ممالک انگلستان اور فرانس وغیر ہ میں آتے جاتے رہے۔ اور ہر کہیں استعمار غربی کے خلاف شعلہ افشاں رہے ۱؎ ۔ ان کا نکالا ہوا رسالہ العروۃ الوثقی جس کے صرف ۱۸ شمارے نکلے ہیں ان کے موثر افکار کا آئینہ دار ہے۔ اقبال انہیں مجدد عصر کہتے رہے ہیں ۲؎۔ اور فلک عطارد میں افغانی کی تعلیمات کا ایک خلاصہ آ گیا ہے۔ محمد سعید حلیم پاشا ( ۱۸۶۳ء ۔ ۱۹۲۱ئ) ایک ترک راہنما تھے۔ وہ ترکی جماعت اصلاح دین کے صدر تھے۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے اور اس کے دوران وہ ترکی کے وزیر داخلہ اور پھر وزیر اعظم بن رہے۔ ان کی شہرت کی بنا پر ان کے تین مبسوط مقالے ہیں ایک ہمارا فکری بحران اور دوسرا اسلام بشق(اسلامیانا) جو عظیم ترک شاعر محمد عاکف کی ادارت میں استنبول سے نکلنے والے رسالہ سبیل الرشاد میں ۱۹۱۸ء میں بزبان ترکی شائع ہوئے ۳؎ اور تیسرا ’’مسلم معاشرے کی اصلاح‘‘ جو مصنف کی وفات کے بعد ۱۹۲۳ء میں فرانسیسی زبان میں پیرس کے ایک مجلے میں شائع ہوا۔ اور جنوری ۱۹۲۷ء کے سہ ماہی اسلامی کلچر (دکن) میںاس کا انگریزی زبان میں ترجمہ شائع ہوا۔ اقبال کے انگریزی خطبات اور جاوید نامہ مظہر ہیں کہ اقبال نے ان مقالوں کے انگریزی تراجم پڑھے تھے۔ خطبات میں وہ اس مصنف کی بصیرت کی توصیف کرتے ہیں ۴؎ ۔ البتہ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ فلک عطارد میں کہیں کہیں انتساب غلط ملط ہو گیا ہے۔ یعنی سعید حلیم پاشا کے مقالوں کی باتیں سید جمال الدین افغانی سے منسوب ہو گئی ہیں اور سید افغانی کے العروہ الوثقیٰ کے مباحث پاشائے مرحوم سے العروۃ الوثقیٰ ۱۵ جمادی الاول سے ۲۶ ذی الحجہ ۱۳۰۱ھ تک پیرس سے شائع ہو رہا تھا۔ اور اب اس کے مضامین کتابی صورت میں بھی ملتے ہیں۔ افغانی سے گفتگو افغانی زندہ رود سے مسلمانوں کی حالت کا پوچھتے ہیں۔ زندہ رود انہیں ترکوں ایرانیوں اور عربوں کی مغرب مآبی کا بتاتے ہیں مغربی استعمار کے اثرات مسلم مگر نظریہ وطنیت ملوکیت اور فتنہ اشتراکیت نے بھی مسلمانوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ نظریہ وطنیت کے مضمرات ہر اقبال خواں کو معلوم ہیں۔ یہاں زندہ رود بزبان افغانی بتاتے ہیں کہ اہل مغرت خود تو تلاش مرکز میں ہیں مگر مسلمانوں کو بے مرکز اور منتشر کرنے کے نظریہ وطنیت پھیلا رہے ہیں۔ دین اسلام ایک آفاقی دین ہے لہٰذا اس دین کے ماننے والے ایک عالمی امت ہیں اور وہ محدود جغرافیائی حدود میں نہیں سما سکتے۔ سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے مگر وہ تمام جہان کو منور کرتا ہے۔ اسے کوئی آفتاب مشرق کیوں نہیںکہتا؟ مسلمان بھی اسی طرح مختلف ادنیٰ نسبتوں سے بالا تر ہو کر عالمی امت کا فرد بنتا ہے۔ اشتراکیت نام نہاد معاشی مساوات کا اصول ہے ۵؎ ۔ یہ مادی اور تن پروری کا تصور انسانی اخوت سے کوئی سروکار نہیں رکھتا اس لیے یہ ایک مردود اورمطہر ود اصول ہے نظام ملوکیت کا بھی یہی حال ہے۔ اس نظام کے تحت آدمی ایسے کھوکھلے اور بے رونق ہو جاتے ہیں کہ جیسے عرق گرفتہ پھول ۔ دراصل یہ دونوں بے دین تصور ہائے حیات میں ملوکیت بے روح نظام ہے جس میں زندگانی کی شگوفہ ئی مفقود ہے جبکہ اشتراکیت نے ٹیکسوں تلے اپنی عمارت تعمیر کر رکھی ہے۔ ملوکیت دین و ثقافت کی دشمن ہے اور اشتراکیت میں شکم کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوئے۔ سعید حلیم پاشا کی گفتگو بعد میں بیان ہو گی۔ زندہ رود جب جہان قرآن کا پوچھتے ہیں تو افغانی دوبارہ سلسلہ کلام کو ہاتھ میں لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ جہاں قرآن مسلمانوں کے سینے میں ہے مگر اسے بھی زندہ ہونا ہے۔ اس عالم میں سلاطین ہیں نہ غلام۔ اس کی ایک تجلی نے روح حضرت عمرؓ کو براق کر دیا تھا۔ اس کے محکمات ہمیشہ تازہ ہیں اور اس کے ظاہر سے انقلابات ہویداہوتے رہتے ہیں۔ افغانی یہاں چار محکمات قرآنی سے بحث کرتے ہیں۔ خلافت انسانی‘ حکومت الٰہی‘ زمین کی خدائی ملکیت اور حکمت و دانش (سائنس) کی نعمت عظیم۔ محکمات (مفرد محکم) یعنی بنیادی اور اساسی تعلیمات اور تصورات رومی سعید حلیم پاشا کی گفتگو کے بعد یہ نکتہ بتاتے ہیں کہ دین اسلام ہر عصر کے تقاضے پورے کرتا ہے پھر وہ مملکت روس کو ایک قرآنی پیغام دیتے ہیں۔ چار اساسی تصورات فلک عطارد قرآن مجید کی تعلیمات کا ایک بے نظیر خزانہ ہے چار بنیادی تصورات میں اقبال پہلے خلافت انسانی کو لاتے ہیں۔ قرآن مجید میں انسان اپنی تخلیق کے وقت سے ہی خلیفہ خدا ۴؎ کے طور پر متعارف ہوا ہے عظمت انسانی پر اقبال کے مندرجہ ذیل دو شعر عالمی ادب میں شاہکار کے طور پر مذکور ہوں گے۔ آنچہ در آدم بگنجد عالم است آنچہ در عالم نگجند آدم است برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است مگر عظمت انسانی میں مرد کے ساتھ عورت بھی شریک و سہم ہے۔ آدم گری کا اہم تر کام عورت کی عفت مابی سے انجام پذیر ہوتا ہے۔ زن نگہ دارندہ نار حیات فطرت او لوح اسرار حیات آتش مارا بجان خود زند جوہر او خاک را آدم کند ارج ما از ارجمند یہائے او ماہمہ از نقشبند بہائے او حق ترا داد است اگر تاب نظر پاک شو قدسیت اور انگر اقبال عظمت انسانی کے بیان میں ہی خلوت و جلوت اور تخلیق و تحقیق کے مسائل بیان کرتے ہیں۔ آنحضرتؐ نے خلوت حرا کی برکت سے ایک ملت تشکیل کی اور ایسے کارنامے انجام دیے جن سے منکرین خدا بھی انکار نہیں کر سکتے تھے۔ مصطفیؐ اندر حرا خلوت گزید مدتے جز خویشن کس را ندید نقش مارا درد ل او تیختند ملتے از خلوتش انگیختند می توانی منکر یزداں شدن منکر از خلوتش نتواں شدن دوسری طرف موسیٰ ؑ کا تقاضائے دیدار باری ہے جس کا جواب انہیں لن ترانی ۷؎ کی صورت میں ملا ہے۔ اس تقاضے میں جلوت اور تحقیق کے مضمرات ہیں قوت عشق تخلیق سے مربوط ہے اور قوت علم تحقیق سے۔ انسان (خلیفہ خدا) کو جلوت او رخلوت دونوں کی ضرورت اور ان کے آداب پر متوجہ رہنا چاہیے تاکہ وہ اپنا مقام والا محفوظ رکھ سکے۔ علم از تحقیق لذت می برد عشق از تخلیق لذت می برد صاحب تحقیق را جلوت عزیز صاحت تخیق را خلوت عزیز در نگر ہنگامہ آفاق را زحمت جلوت مدہ اخلاق را حفظ ہر نقش آفریں از خلوت است خام او انگین از خلوت است تحقیق و تخلیق کی اعلیٰ تر رہنمائی کے بعد اب دوسری اساس قرآنیہ کا بیان ہے حکومت الٰہی یہاں اقبال ملوکیت اورہر قسم کی آمریت کی مذمت کرتے ہیں۔ ملوک اور آمرین خود ساختہ قوانین کے ذریعے قلعہ بستہ بیٹھے رہتے ہیں انہوںنے ہی آقا اور غلام اور امیر و غریب کے فطری فرق کو غیر فطری فرق تک بڑھا دیا ہے۔ ان نظاموں میںسراپا عیاری ہے یہاں امومت بے احترام ہے اور فرزند کشی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں نظام ملوکیت کی نیرنگیاں دیکھنی ہوں تو امراء کے ٹھاٹھ اور غریبوں کی زبوں حالی پر ایک نگاہ ڈال لو لہٰذا ملوکیت اور مغربی طرز کی سرمایہ داری باعث عبرت ہے۔ حضرت علامہ فرماتے ہیں: غیر حق چون نا ہی و آمر شود زور وزیر ناتواں قاہر شود زیر گردوں آمری از قاہری است آمری از ما سوا اللہ کافری است یعنی آئین خدائی کو ترک کر کے جو نظام حکومت بنے گا اس میں طاقتور کمزور کو تہس نہس کرتا رہے گا۔ آسمان کے نیچے طاقتور کا حکم ہی چلتا ہے مگر نظام خدائی سے عاری حکمران کفر اور ظلم کا مظہر بنتی ہے۔ یاد رہے کہ قرآن مجید میں اسلام کی تعلیمات کے علی الرغم فیصلے کرنے والوں اور من بھاتا نظام حکومت چلانے والوں کو ظالم فاسق اور کافر ۸؎ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ حکومت الٰہی ازروئے اسلام وہ ہے جس کے خدوخال اقبال نے اس سلسلے میں اپنے پہلے چھ اشعار میں نمایاں کیے ہیں: بندہ حق بے نیاز ہر مقام نے غلام اورانہ اوکس را غلام بندہ حق مرد آزاد است و بس ملک و آئینش خداداد است و بس رسم و راہ و دین و آئینش ز حق زشت و خوب و تلخ و نو شینش ز حق عقل خودبیں غافل از بہبود غیر سود خود بیند نبیلند سود غیر وحی حق بینندہ سود ہمہ درنگاہش سود وبہبود ہمہ عادل اندر صلح و ہم اندر مصاف وصل و فصلش لا یراعی لا یخاف منقولہ بالا اشعار کا آزاد اردو ترجمہ میں اپنے ایک مقالے ۶؎ میں ذیل کی صورت میں لکھ چکا ہوں: ’’مرد مومن مقا م و مرتبہ کی قید سے آزاد ہوتا ہے نہ کسی کو غلام و تابع بنائے نہ کسی غیر کا اقتدار مانے۔ مرد مسلمان ہی درحقیقت آزادانہ زندگی گزارتا ہے۔ اس کا ملک بھی خداداد ہوتاہے۔ اور آئین بھی خداداد۔ اس کا دین و آئین طور طریقے تلخ و شیرین اور خوب و بد کے پیمانے سب خدائی ہوتے ہیں۔ ہوس اور خود غرضی کی حامل انسانی عقل دوسروں کی بہتری سے غافل رہتی ہے۔ دوسری کا تو کجا اسے اپنے فائدے کے آداب بھی نہیں سوجھتے۔ یہ وحی خداوندی ہی ہے جو سب کا فائدہ دیکھتی ہے اورہر ایک کا بھلا چاہتی ہے۔ امن کی حالت ہو یا جگ کا زمانہ وحی الٰہی عدل و انصاف ہی خاطر نشین کرتی ہے اس کا امتزاج اور انفعال کار یہ ہے کہ وہ نہ کسی سے بے جا رعایت برتے اور نہ کسی سے ڈرے۔‘‘ تیسرا بنیادی تصور زمین کی خدائی ملکیت ہے قرآن مجید میں الارض اللہ ۹؎ کے کلمات آئے ہیں یعنی خدا کی زمین ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ زمین کے خدا نے متاع ۱۰؎ قرا ر دیا ہے ۔ اس امانت سے رق اور قبر کا استفادہ کرنا روا ہے۔ باقی زمین پیوستگی مستحسن ہے اور نہ زمین کی پر ہوس ملکیت زمین فتنہ ہائے ثلاثہ میح سے ایک ہے۔ زر زمین اور زن کے فتنوں سے بہلاوا ایک بے شرف موت کے مصداق ہے: سرگزشت آدم اندر شرق و غرب بہر خاکے فتنہ ہائے حرب و ضرب یک عروس و شوہر او ماہمہ آں فسوں گر بے ہمہ ہم باہمہ حق زمین راجز متاع مانگفت ایں متاع بے بہا مفت است مفت وہ خدایا نکتہ ازمن پذیر رزق و گور ازوئے بگیر اور امگیر باطن الارض للہ ظاہر است ہر کہ ایں ظاہر بتیند کافر است دل برنگ و بوئے و کاخ و کو مدہ دل حریم اوست جز با او مدہ مردن بے برگ و بے گورو کفن؟ گم شدن در نقرہ و فرزند و زن ۱۱؎ بال جبریل کا قطعہ الارض للہ یوں ہے: پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟ کون لایا کھینچ کے پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے ؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟ کس نے بھردی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟ موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوائے انقلاب؟ وہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں ارمغان حجاز میں بزبان ابلیس زمین کی خدائی ملکیت بتائی جا رہی ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمین اس اساس کا مدعا یہ ہے کہ اقبال زمین کے عظیم ملکیتوں کے خلاف تھے وہ رزق و گور کی حد تک اس متاع مفت سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ فتنہ عظیم قابو میں ہو تو زروزن ے فتنے بھی دب سکتے ہیں۔ کیونکہ غیر محدود اراضی کے حقوق سرمایہ داری اور عیش پرستی کو ہوا دیتے ہیں اور اسلام یا فقر غیور ۱۲؎ خود سر سلطانی کے اعزاز میں نمودار ہوتا ہے۔ یا جوع و رقص اور عریانی و رسیانی کے روپ میں حالانکہ: فقر و جوع و رقصو و عریانی کجاست؟ فقر سلطانی است رہبانی کجاست؟ مسئلہ ملکیت زمین سے غیر معمولی دل چسپی جاوید نامہ کا یہ حصہ اور دیگر تصانیف کے اجمالی اشارے مسئلہ ملکیت زمین کے سلسلے میں حضرت علامہ کی غیر معمولی دل چسپی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں علامہ مرحوم کے مکتوب مورخہ ۱۱ دسمبر ۱۹۳۴ ء ۱۳؎ بنام مولانا راغب احسن کا یاک اقتباس نق کرنا مناسب نظر آتا ہے۔ اس اقتباس میں جاوید نامے کا حوالہ بھی ہے اور اس کتاب کا یہی مقام فلک عطارد کاایک موضوع کا زیادہ محتوی ہے ۔اقبال اسلام کے معاشرتی پہلوئوں معاشی پہلوئوں پر تحقیق کرنے کے بے حد آرزومند تھے اور یہ خط اس موضوع کا بھی صحیح مظہر ہے۔ قرآن میں تو زمین کے متعلق کئی دفعہ آیا ہے کہ الارض للہ اور حضرت آدمؑ سے بھی یہی کہا گیا کہ تمہارے لیے زمین مستقر اورم تاع یعنی فائدے کی چیز ہے۔ اسلام کے نزدیک ملکیت صرف اللہ کی ہے ۔ مسلمان صرف اس چیز کا امین ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔ میری رائے میں اگر کوئی مسلمان اپنی پرائیویٹ زمین وغیرہ کا غلط استعمال کرے تو حاکمیت اسلامیہ کا حق ہے کہ وہ اس سے باز پرس کرے یہی وہ نکتہ ہے اسلام کا جس کو یورپ میںمسولینی نے خوب سمجھا ہے۔ غالباً امام محمد یا ابو یوسف سے خلفائے عباسیہ میں سے کسی نے فتویٰ زمین کی ملکیت کے متعلق طلب کیا تھا تو انہوںنے یہ فرمایا تھا کہ زمین اس کی ملکیت ہے۔ جو اس کو زندہ رکھ سکے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ زمین کا مالک امام کے نزدیک وہی ہے جو حقیقت میں اپنی محنت سے اسے کاشت کرتا ہے۔ نہ وہ شخص کہ گھر میں بیٹھا بٹائی لیتا ہے حضور رسالتمابؐ نے تو حیوانوں پر بھی شفقت کی ہے اور حکم دیا ہے کہ المرعی للہ ورسولہ یعنی چراگاہیں اللہ اور اس کے رسولؐ کی ملکیت ہیں کسی شخص کی پرائیویٹ ملکیت نہیں ہیں علی ہذا القیاس بعض احادیث میں دو منزلہ مکان بنانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ غرضیکہ اس معاملہ میں مفصل بحث اور ریسرچ کی بھی ضرورت ہے۔ اس پر آج تک کسی نے نہیں لکھا۔ مسلمان علماء اپنی غفلت سے اسلامی عقائد پر بحث مباحثے کرتے رہے اور اسلام کے معاشرتی نظام کی طرف کسی نے شاید سوائے شاہ ولی اللہؒ کے توجہ نہیں کلی۔ اب اس زمانے میں معاشرتی نظام اسلام کی تفصیلات کی ضرورت ہے کیونکہ لوگ موجودہ زمانے کے اقتصادی سوالات کی وجہ سے عقائد ما بعد الطبعی میں دل چسپی نہیں لیتے۔ بحیثیت مذہب کے اسلام کی کامیابی کا دارومدار اس پر ہے کہ اس کے معاشرتی نظا م کی افضلیت زمانہ حال کے نظاموں پر ثابت کی جائے یورپ اور اسلام کی رقابت ہمیشہ رہ ہے مگر اس سے پہلے اس کا انتہائی نقطہ حروب صلیبیہ تھا۔ اب یورپ اور اسلام کی جنگ تلواروں کی نہیںبلکہ معاشرت کے نظاموں کی ہو گی۔ یعنی فسطائیت بالشوزم اور اسلام وغیرہ Plainsپر معرکہ آرا ہوں گے۔ مسلمانوں میں تو اس وقت اس مطلب کے آدمی موجود نہیں۔ کیا عجب کہ یورپ کے مفکر خود اس نظام کا اکتشاف کریں۔ یہ امر بہت مشکل ہے کیونکہ مذہب اسلام پر قرون اولیٰ سے ہی مجوسیت اور یہودیت غالب آ گئی یعنی اسلام کے اصل افکار کو یہودی اور مجوسی افکار نے عوام کی نگاہوں سے چھپا لیا میری رائے ناقص میں اسلام آج تک بے نقاب نہیں ہوا۔ افسوس کہ علالت کی وجہ سے میں آپ کو طویل خط نہیں لکھ سکتا ۔ جو کچھ میں نے لکھا ہے محض اشارات ہیں ان کی تفصیل اگر آپ کے سامنے ہوتے تو زبانی عرض کرتا۔ جاوید نامہ کے متعدد مقامات پر ا س مسئلہ کے مختلف پہلو آئے ہیں۔ اس کو شروع سے آخر تک پھر پڑھیے۔ آپ کی آگاہی کے لیے میں یہ بھی لکھ دیتا ہوں کہ قرآن نے تقسیم جائیدا د کے متعلق جو قاعدہ دیا ہے۔ اس کا اطلاق (میری ناقص رائے میں) زمین پر نہیں ہوتا۔ یہ قاعدہ صرف جائیدا د (منقولہ کے لیے ہے مگر علماء کی رائے مختلف ہے اور مسلمانوں کی پرکٹس بھی اس بارے میں جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ مختلف ہے…‘‘۔ چوتھی اساسی تعلیم حکمت خیر کثیر است کے عنوان سے ہے یعنی حکمت و دانش (سائنس) ایک نعمت عظیم ہے۔ یہاں اقبا ل اپنا پسندیدہ موضوع بیان کرتے ہیں جو بعد میں مثنوی پس چہ باید کرد میں بھی آیا ہے ۱۴؎۔ یہ موضوع علوم و فنون کو اسلامی نہاد فراہم کرنے (اسلامیانے) سے عبارت ہے۔ اقبال اسے علم و عشق کے کنایات کے ذریعے سے بھی واضح کرتے ہیں خلاصہ مبحث یہ ہے کہ سائنسی علوم غیر معمولی موثر اور مفید ہیں مگر ان کا حقیقی افادہ نوع انسانی کو اسی وقت مل سکتا ہے جب ان میں ابلیسیت اور طاغوتیت نہ ہو اور یہ عشق و محبت کی بنائے محکم پر استوار ہوں۔ اقبال بزبان افغانی کہتے ہیں کہ سوز دل اور بشر دوستی کی مظہر سائنس پیغمبرانہ منہاج رکھتی ہے کیونکہ اس کی ابلیسیت کو شمشیر قرآن نے کاٹ رکھا ہے اور اس میں جلا ل کے ساتھ ساتھ جمال کی قوت بھی دکھائی دیتی ہے۔ دل اگر بند دبہ حق پیغمبری است ورزحق بیگانہ گردد کافری است علم راہ بے سوز دل خوانی شراست نور او تاریکی بحر و بر است… علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق است از لاہوتیاں بے محبت علم و حکمت مردہ عقل تیرے بر ہدف ناخوردہ کوہ راہ بینندہ از دیدار کن بولہب را حیدر کرارؓ کن اس عنوان کا پہلا شعر پیام مشرق کی پیشکش سے ماخوذ ہے۔ گفت حکمت را خدا اخیر کثیر ۱۱؎ ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر ملت روس کو پیغام افغانی اس مفصل پیغام (۵۰ اشعار) میں اسلام اور اشتراکیت کا موازنہ ہے اور تعلیمات اسلام کے اہم تر نکات بھی۔ اس کے کل چھ بند ہیں جن کا خلاصہ ذیل ہے۔ ۱۔ قرآن مجید کی تعلیمات اور ہیں اور مسلمانوں کے طور طریقے اور مثلاً نظام ملوکیت کو دیکھیں قرآن و سنت کی راہنمائی میں اس آمریت کے برعکس ہے۔ آنحضرتؐ نے یہ بشارت دی تھی کہ اب قیصر و کسریٰ وجود میں نہیں آئیں گے۔ مگر مسلمانوں نے قیصر روم اور کسرائے ایران کا خاتمہ کر کے خود ملوکیت کی طرح ڈال دی ہے ۔ اور اس نظام حکمرانی نے اسلامی ثقافت کو کج مج کر کے رکھ دیا ہے۔ ۲۔ روس نے زاریت اور ملوکیت کا خاتمہ کر دیا اور مغربی آئین و دین سے گلو خلاصی کروالی مگر اسے مسلمانوں کی تاریخ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ مبادا وہ بھی ایک ملوکیت کا خاتمہ کر کے اشتراکیت کے روپ میں ایک بدتر ملوکیت قائم کر دیں ۱۵؎ ۔ پھر نفی (لا اللہ) کی منزل میں زندگی گزر نہ سکے گی۔ ملک روس کو ’’الا اللہ‘‘ اختیار کرنے کے لیے سوچنا چاہیے تاکہ اسے ایک محکم اساس میسر ہو سکے۔ ۳۔ اقبال (بزبان افغانی) روسیوں کو قرآن مجید پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ قرآن مجید وہ کتاب عظیم ہے جس نے غلامی کا استیصال کیا اور ملوکیت کا خاتمہ اس کتاب میں سادہ و دلآویز آداب سیاست ملتے ہیں۔ اس کی ڈپلومیسی میں کوئی روباہی اور عیاری نہیں ہے۔ یہ کتاب ذکر اور فکر کا امتزاج سکھاتی ہے۔ جز بہ قرآن ضیغمی روباہی است فقر قرآں اصل شاہنشاہی است فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر فکر را کامل ندیدم جز بذکر ذکر؟ ذوق و شوق رادادن ادب کارجان است ایں نہ کار کام و لب ۴۔ اس بند میں بھی پیغام قرآن جاری ہے۔ اس کتاب نے آفاقیت مٹائی ہے اور ملے نوائوں کی مدد کرائی۔ اس میں ارتکاز زر کی حوصلہ شکنی کی گئی اور نفاق کی تعلیم دی گئی قرآن نے سود کا قلع قمع کی اور قرض حسنہ دینے کی تشویش دلوائی۔ زمین کا مالک خدا ہے اور انسان اس متاع سے روزی حاصل کرنے کا مجاز ہے۔ قرآن نے حق ملکیت تو دیا مگر مالک حقیقی کو خدا بتایا اور انسان کو اس کی نعمتوں کا امین گردانا جسے امانت مال کا حساب دینا ہو گا۔ قرآن نے ملوک کو اور حق کے لیے سد راہ بتایا ہے اورتخریب کاری ان لوگوں کا وطیرہ قرار دیا ہے ۱۶؎ اس کتاب عظیم نے وحدت انسانی کی تعلیم دی ہے۔ ۵۔ قرآ ن مجید نے کاہنوں پوپوں اور مذہبی پیشوائوں کے استحصال کا خاتمہ کیا۔ یہ انقلابی کتاب خدا کی طرح ظاہر ہے اورباطن میں زندہ وپائندہ اور ناطق بھی ہے۔ اس نے جہاد فی سبیل اللہ اور ضرورت سے زیادہ مال و منال کے انفاق کر دینے کے انقلابی تصورات دیے ہیں۔ اہل روس نے جو نیا نظم قائم کیا ہے اسے انہیں چاہیے کہ پرتو قرآن میں دیکھیں اور ا س کتاب عظیم سے راہنمائی حاصل کریں۔ ۶۔ آخری چھٹا بند دراصل مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ فراہم کرتا ہے… قرآن مجید کی حفاظت کا خدا نے ذمہ لیا ہے اوراسے بہرحال زمان و مکان سے قطع نظر ابدی طور پر باقی رہنا ہے۔ اب مسلمانوں کو فکر کرنی چاہیے کہ وہ اس کتاب زندہ کی تعلیمات کے اہل ہیں یا نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ انہیں کسی اور قوم سے بدل دے ۱۷؎ اور اس دوسری قوم کو حامل قرآن بنا دے۔ محفل ما بے مے و بے ساقی است ساز قرآن رانو اہا باقی است زخمہ ما بے اثر انتدا گر آسماں دار دہزاراں زخمہ ور حق اگر از پیش ما بردارد ش پیش قومے دیگرے بگزار دش سعید حلیم پاشا سے گفتگو سعید حلیم پاشا سے گفتو ان کے محولہ جات مقالے مسلم معاشرت کی اصلاح کے پیش نظر ہے۔ وہ ایک تو شرق و غرب کا رجحان بتاتے ہیں کہ اقوام مشرق عشق اور زیر کی عقل کے امتزاج کی قائل رہی ہے مگر موجودہ اقوام مغرب نری زیر کی (عقل) کی حامل بنی ہوئی ہیں۔ ادھر مسلمانوں کے مغرب مآبی ملاحظہ ہو کہ ترک رہنما کمال پاشا تقلید مغرب پر نازاں ہیں اور اہل مغرب کے قدیم سے وہ اپنے لیے جدید طلب کر رہے ہیں حالانکہ اس تجدد کو تجدید سے دلا جائے اور قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کی جائے تو کوئی مشکل پیش نہ آئے گی ہوشمند مسلمان ہر عصر کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد کرتے رہے اور انہیں تقلید دیگراں کی کبھی ضرورت نہیں رہی۔ افغانی نے جب چار محکمات قرآن واضح کر لیے اورزندہ رود نے تاتاریوں کردوں اور عام مسلمانوں کی نافہمی قرآن کی شکایت کی کہ: رفت سوز سینہ تاتار و کرد یا مسلمان مرد یا قرآن بمرد تو سعید حلیم پاشا اس کی زمہ داری کم خواندہ اور بے بصیرت ملائوں پر ڈالتے ہیں ملا کو وہ قرآن فروش کہتے ہیں۔ اور افسانہ خواں۔ وہ مسلمانوںمیں اختلافات اور تفرقے پیدا کرتاہے۔ حکمت دین کا فہم اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ دین کی تعبیر و تفہیم کا کام البتہ علمائے حق کو انجام دینا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ تعلیمات قرآنی کو عام کریں حق بات کہیں اور تاریخ اسلام سے استشہاد کرتے رہیں تخلقو باخلاق للہ کا تقاضا یہ ہے کہ علمائے دین مسلمانوں کو تجدید اور اجتہادی اصولوں سے آگاہ کرتے رہیں پھر مسلمانوں کو یہ نکتہ سمجھاتے رہنا چاہیے کہ ہماری سب راہیں مکہ مکرمہ ۱۸؎ اور مدینہ منورہ کی طرف منعطف رہیں جبکہ ملت کفر کے راستے دوسرے ہیں۔ مرد حق از کس نگیر درنگ و بو مرد حق از حق پذیر درنگ و بو ۱۹؎ ہر زمان اندر تنش جانے دگر ہر زمان او راچو حق شانے دگر راز ہا با مرد مومن باز گوے شرح رمز کل یوم بازگوئے ۲۰؎ جز حرم منزل ندارد کارواں غیر حق در دل ندارد کارواں من نمی گویم کہ راہش دیگر است کارواں دیگر نگاہش دیگر است افغانی کی گفتگو اور ان کا پیغام بہ ملت روس فلک عطارد کے موخر مباحث میں رومی افغانی اورپاشائے مرحوم کی گفتگو میں سن کر رو پڑتے ہیں۔ ازدروں آہے جگر دوزے کشید اشک اورنگین تر از خون شہید پھر وہ افغانی سے مخاطب ہوتے ہیں کہ اللہ کی رسی مضبوطی سے پکڑی رکھی جائے اور دامن امید نہ چھوڑا جائے۔ اس کے بعد وہ زندہ رود سے آتش افگن اشعار پڑھنے کو کہتے ہیں۔ ایسے اشعار جو حضرت کلیمؑ کے واقعہ عبور نیل کے مظہر ہوںیا حضرت خلیلؑ کے آگ میں کو دپڑنے کے واقعہ کے یاد آور ۱۵؎ دل بخون مثل شفق باید زدن دست در فتراک حق باید زدن جان زا امید است چوں جوئے زدن ترک امید است مرگ جاوداں ناقہ ما خستہ و محمل گراں تلخ تر باید نوائے سارباں ۲۱؎ در گزر مثل کلیم از رود نیل سوئے آتش گام زن مثل خلیلؑ یہاں زندہ رود (اقبال) کی چھ شعروں کی ایک غزل ہے جس کی ردیف اندہمہ ہے اس میں تعلیمی درس گاہوں کی مقلدانہ ذہنیت صوفیہ کے عزم سوز و ساز اور عدم تصفیہ باطن اورمسلمانوں کے افتراق و نفاق پر انتقادات ملتے ہیں آخری شعر یوں ہے۔ مشکل ایں نیست کہ بزم از گرہنگامہ گزشت مشکل ایں است کہ بے نقل و ندیم اندہمہ اس طرح فلک عطارد گزر جاتا ہے۔ ٭٭٭ فلک زھرہ فلک عطارد کے بعد رومی اور زندہ رود (اقبال) فلک زہرہ پر آتے ہیں زہرہ کو ناہید‘ اناہید‘ اناہیتا‘ بغدخت اور بیلغت وغیرہ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ فلک یا سیارہ بے حد منوربتایا جاتا ہے۔ طلوع آفتاب سے قبل یا غروب آٖتاب کے بعد نظر آنے والے اس حسین سیارے کے ساتھ کئی افسانے مربوط ہیں۔ ان میں ہاروت اور ماروت کا نام کے فرشتوں کا عشق بھی مذکور ہو سکتاہے۔ جو اس جرم کی پاداش میں چاہ بابل میں الٹے لٹکائے گئے تھے۔ اقبال نے اس تلمیح سے استفادہ کیا ہے۔ فلک قمر پر عارف ہندی جہاں دوست (وشوامتر) کی زبانی ایک مبشر فرشتے کو یوں کہلوایاتھا۔ از جمال زہرہ گلد اختی؟ دل بہ چاہ بابلے انداختی؟ ڈانٹے کی ڈیوائن کامیڈی میں فلک زہرہ پر رقص و سرود کی ایک محفل جمی ہوئی نظر آتی ہے۔ زندہ رود کو بے نتیجہ تفریحات سے لذت اندوز ہونے کا یارا نہیں حکم کا ہر ایک کام حکمت خیز ہوتا ہے۔ انہوں نے تمہید کے بعد قدیم اقوام کے دیوتائوں اصنام کا ایک دلآویز مجلس جمائی مگر یہاں تفریح کم اور عبرت اور نتیجہ خیزی زیادہ ہے۔ اس کے بعد دو فرعون نظر آتے ہیں ایک معاصر حضرت موسیٰؑ اور دوسرا انیسویں صدی عیسوی کا ایک سفاک انگریز جنرل (لارڈ کچز) ابتدائیہ فلک زہرہ کا ابتدائیہ مثنوی رومی کے اسلوب پر ہے۔ بات ایسی ہے جو فلک زہر ہ اور زمین دونوں سے کہنا مناسب ہے زندہ رود کہتے ہیں کہ ہمارے اور سورج کے درمیان تو تہ بہ تہ فضا کے ذریعے کئی حجاب رکھے گئے ہیں کئی پردے لٹک رہے ہیں ۱؎ اور کئی آتشیں جلوے لپٹے ہوئے ہیں تاکہ نور آفتاب زیادہ تپش والا نہ ہو اور شاخوں پتوں اورپھلوں وغیرہ کے لیے قابل برداشت ہو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حرارت شمسی سے گل لالہ کی رگیں خونیں بنی ہوئی ہیں اور اس حرارت کے رقص و سرود سے ندیاں روپہلی ہیں۔ روح بھی وجود خاکی سے گزر کر اپنی اصلی حالت کی طرف آتی ہے۔ سیر روح موت کے ذریعے ہو یا حشر و نشر کے ذریعے۔ اس کا برگ و ساز حرارت و تب و تاب ہی ہے۔ حسین حیات بھی روح فضائے نیلی میں غوطے کھا کھا کے پھرا بھرتی رہتی ہے۔ وہ اپنا دم بنتی ہے اور اپنا ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ذبیح اللہ کی طرح وہ بھی سراپا تسلیم بنی رہتی ہے سیر روح میں بڑی قوت ہوتی ہے۔ اس کی ضرب ضرب حیدریؓ ہوتی ہے اس کے سامنے نہ افلاک کو نو خیز جانیں جنہیں وہ فتح کرنے پر قادر ہے۔ سیرو سلوک سے روح پختہ اور سیار ہوتی ہے۔ اور ا س کے نتیجے میں ۱؎ جبرائیل اور حوریں صید ہو سکتی ہیں۔ یوں روح و جسم کی پاکیزگی پرواز سے انسان کامل مقام معراج ۱؎ پر پہنچتاہے۔ اور عبدہ کے مرتبہ والا پر فائز ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر نہیں کہ کہاں ہوں۔ البتہ اتنا معلوم ہے کہ دوستوں سے جدا ہوں۔ وہ ایک اندرونی جنگ و جدال کی بات کرتے ہیں جن میں وہ حضرت امام زین العابدینؓ کی طرح تن تنہا میدان میں رہ گئے ہیں کیونکہ دوسروں کے کفر و دین کی موجودہ آویزش کی خبر نہیں۔ اس وقت کسی کو مقام و راہ کی خبر نہیں اور شاعر اسلام کی نوا کے سوا کوئی چراغ راہ نہیں رہا ۴؎ ۔ بچے جوان بوڑھے سب غرق بحر ہو چکے۔ ایک مرد فقیر ہی بچ کر ساحل تک آیا ہے۔ شاعر وصال سے گریزاں اور فراق کا طالب ہے۔ وہ سیر دوام اور نو بنو افلاک و عوالم کا آرزو مند ہے۔ مرشد رومی بھی زندہ رود کے مزاج آشنا ہیں وہ اسے سیارہ زہرہ کے نواح میں آ جانے کی نوید دیتے ہیں فلک زہرہ بھی آب و خاک سے متشکل ہیں اور حرم کی طرح اس کے گرد کالا غلاف ہے۔ مگر یہ غلاف سیاہ بادلوں کا ہے۔ یہاں انہیں اقوام قدیم کے بت اور دیوتا نظر آتے ہیں۔ یہ شکستہ اصنام موجودہ بے خلیل ؑ زمانے میں گویا اعلیٰ حالم آ رہے ہیں۔ بعل و مردوغ و یعوق و نسر و فسر رم خن و لات و منات و عسر و غسر تمہید در تمہید کے طور پر شاعر مجلس خدایان اقوام عالم کا پس منظر پیش کرتے ہیں وہاں تند ہوائیں اور کالے بادل تھے۔ تاریکی ایسی کہ برق راہ گم کر دے وہاں فضا میں لٹکا ہوا ایک بحر تھا جس کا دامن چاک تھا مگر بے گہر۔ جیسے خیال وجود ضمیر میں ہوتا ہے۔ رومی اور زندہ رود بھی ایسے ہی بحر سیاہ میں تیرتے جاتے تھے۔ شاعر نئی فضا دیکھنے کے لیے بے چین تھا۔ اتنے میں فلک زہرہ کے پہاڑ جو ئیبار اور مرغزار نظر آنے لگے ہیں بہار کا منظر نسیم بہاری‘ طائروں کی نغمہ سرائی چشمے سبزے کوہ و صحرا اور آب حیات سے زیادہ حیات افزا سر زمین ان زائران سیارہ نے دیکھی اور وادی زہرہ کے بتوں کا حال بھی سنا۔ اندریں وادی خدایان کہن آں خدائے مصر و آں رب الفراق آں زار باب عرب ایں از عراق ایں الہ الوصل و آں رب الفراق ایں زنسل مہر و داماد قمر آں بہ زوج مشتری دارد نظر اں یکے درد ست او تیغ دورو واں دگر پیچیدہ مارے در گلو ہر یکے ترسیدہ از ذکر جمیل ہر یکے آزردہ از ضرب خلیلؑ ۶؎ یہ ان دیوتائوں کا تعارف ہے جن کے اصلی یا فرضی نام شاعر کے منقولہ بالا شعر میں آ گئے ہیں۔ ان سب کو خلیلان عصر کے ضبربین توڑتی رہیں اور ذکر جمیل سے وہ اب بھی خائف تھے۔ ذکر قرآن مجید کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ مگر ذکر جمیل ذکر حسنہ یا تذکرہ قرآنی کی ترکیب اسی طرح قرآن مجید میں نہیں آئی اقبال نے اسے چند بار استعمال کیا ہے اور شیخ سعدی نے گلستان میں اسے اپنے لیے عام معنوں میں استعمال کیا تھا (…ذکر جمیل سعدی…) بہرحا ل بقول شاعر اس بے خلیل زمانے میں یہ بت دلیر ہو رہے تھے مردوخ بت بہت خوش ہو رہا تھا کہ عصر حاضر کے دیندار لوگ بھی معابد سے گریزاں ہیں۔ دوسری طرف آثار قدیم کی کشفیات ہو رہی ہیں اور پرانے بتوں کو نکالا جا رہا ہے۔ یہ گویا دور کہن کے عود آنے کی نوید ہے۔ مردوخ کی اس تقریر پر بعل خوش ہو کر ایک نغمہ پڑھتا ہے جو ترجیع بند کی صورت میں ہے۔ نغمہ بعل نغمہ بعل اقبال کا ایک بے نظیر ترجیع بند ہے۔ نظم چار چار شعروں کے چار بندوں پر مشتمل ہے۔ اور ترجیعی مصرع ہے: اے خدایان کہن وقت است وقت پہلے بند میں بعل کہتا ہے کہ انسان فضائوں میں اڑنے لگا ہے مگر ورائے افلاک خدا اسے نظر نہ آیا۔ انسانی افکار رو بہ تغیر ہیں۔ اس کی روح اب پھر وجو دمحسوس ۷؎ سے چین حاصل کرنے لگی ہے۔ لہٰذا عہد گزشتہ کے احیا کی امید ہے شاید بت پرستی پھر شروع ہو جائے۔ قدیم دیوتائو مناسب وقت آ گیا ہے کہ مغربی مستشرقین ۸؎ زندہ با د جو ہم بتوں کو قبروں سے باہر ے آئے اور اسے کشفیات کا نام دیا ہے۔ دوسرا بند: دیکھیں مسلمانوں کا دائرہ اتحاد ٹوٹ گیا ۹؎ اولاد ابراہیمؑ الست ۱۰؎ کے ذو ق سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ اس الہام آموز ملت کی مجلسیں درہم برہم ہیں اور جام شکستہ دراصل مسلمانوں نے نظریہ وطنیت اپنا لیا ہے اور یہ دن دیکھنے لگے۔ ان کے رہنما ‘پیر حرم بے دی زنار بند ہو گئے ہیں لہٰذا مسلمانوں کا خون کفار کے خون سے بھی سرد ہو گیا ہے ۱۱؎ ۔ قدیم دیوتائو خوشی کا وقت عود آیا ہے۔ تیسرا بند: دنیا میں خوشی کے دن پلٹ آئے ہیں کہ دین اسلام وطنیت اور نسل پرستی کے ہاتھوں ہزیمت کھا گیا محمد مصطفیؐ کے چراغ کی اب کیا فکر کیونکہ اسے صد ہا بولہب پھونکیں ما ر رہے ہیں۔ کلمہ توحید کی صدائیں تو بلند ہیں مگر دل سے رخصت شدہ نعرہ لبوں پر کب تک رہے گا؟ مغربی جادو نے اہرمن کو زندہ کر دیا اور یزدان کے دن اب خوف شب سے زرد ہو رہے ہیں۔ پرانے خدائو بغلیں بجانے کا وقت آ گیا ہے۔ چوتھا بند: مسلما ن کی گردن سے اب سلسلہ دین کو کھول دینا چاہیے۔ ہمارے بندے (بت پرست) کو آزاد ہونا ہی سزاوار ہے ۔ نماز مسلمانوں پر گراں اور ناقابل تحمل بنا دو۔ ایک آدھ رکعت رہے اور وہ بھی سجدے کے بغیر جذبے کو تو نغمہ بڑھاتا ہے اس بے سرود و لذت نماز میںویسے بھی کیا فائدہ ہے۔ غیب نشیں خدا ہے تو نعوذ باللہ وہ بت ہی اچاھ ہے جو موجود و مشہود ہے۔ قدیم دیوتائو مسرت کرنے کے لمحات آ گئے۔ اوپر منقول آزاد ترجمے سے واضح ہے کہ بتوں ۱۲؎ اور جملہ شیطانی قوتوں کو مسلمانوں کی بربادی پر ہی حقیقی مسرت ملتی ہے کیونکہ بقول اقبال دنیا ہی میں دو ہی نظریاتی اقوام ہیں ملت اسلام ۱۳؎ اور ملت کفر۔ قلزم زہرہ اقبال فرماتے ہیں کہ ضرب خلیلی سے بہرہ ور رومی نے اس موقع پر ایک غزل پڑھی جس سے خدایان کہن سجدہ ریز ہو گئے۔ یہ غزل زبور عجم حصہ دوم میں سے ہے (شمارہ ۲۱) اور اس کے مقطع میں ہر قسم کے بت توڑ ڈالنے کا عزم ملتا ہے۔ گفتمش در دل من لات و منات است بسے گفت ایں بتکدہ رایر و زبر باید کرد غزل پڑھنے کے بعد رومی خاص اندا ز سے اقبال کو بتاتے ہیں کہ: وہ پہاڑ جہاں پر برف چاندی کے ڈھیر کی طرح ہے اس کے پیچھے ہیرے کے رنگ کا شفاف سمندر ہے جس کا اندر اس کے باہر سے زیادہ براق ہے لہریں یا سیلاب اس میں خلل انداز نہیں ہو سکتے۔ اس کے وجود میں لازوال سکون کارفرما ہے یہ طاقت ور سرکشوں کا مقام ہے۔ وہ خدائے غائب کے منکر اور حاضر پرست تھے اس کے بعد رومی حضرت موسیٰؑ کے معاصر فرعون اور لارڈ جنرل کچز کا تعارف کرتے ہیں پہلا فرعون حضرت موسیٰؑ کے معاصر فرعون اور لارڈ کچز کا تعارف کراتے ہیں پہلا فرعون حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں غرق ہواتھا۔ اس کی ممیائی ہوئی نعش قرآن مجید کے وعدے کے عین ۱۴؎ مطابق اب تک قاہرہ کے عجائب گھر میں مجسمہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ شاعر اسے فرعون کبیر کہتے ہیں دوسرا فرعون صغیر لارڈ کچز ہے جو ۱۹۱۶ میں غرقاب بحر ہو ا اور اس کی نعش نہ مل سکی۔ زندہ رود کہت ہیں خہ مرنا رتو ہر کسی کو ہے مگر ظالموں کی موت بالعموم آیات خدا کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ ہر کسے با تلخی مرگ آشنا ست مرگ جباراں ز آیات خداست جس طرح حضرت موسیٰؑ نے دریائے نیل کا سینہ چاک کیا تھا ۱۵؎ رومی ویسے ہی دریائے زہرہ کا سینہ چیرتے ہیں۔ برما سینہ خود دا کشود باہوا بود و چو آبے وا نمود قعر اویک وادی بے رنگ و بو وادی تاریکی او تو بتو پیر رومی سورہ طہ سرود زیر دریا ماہتاب آمد فرود کوہ ہائے شستہ و عریان و سرد اندر آن سرگشتہ و حیراں دو مرد سوئے رومی یک نظر نگر یستند باز سوئے یک دگر نگر یستند گفت فرعون ایں سحر ایں جوئے نور از کجا ایں صبح و ایں نور و حضور ؟ شاعر کی بے مثال منظر کشی دیکھنے کے لیے منقولہ بالا اشعار غور طلب ہیں ۶؎ ۔ ترجمہ: سمندر نے ہم پر اپنا سینہ کھولا یا وہ ہوا تھی جو پانی کی طرح نمودار ہوئی اس کی گہرائی ایک بے رنگ و بو وادی تھی جس کی تاریکی تہہ در تہہ تھی۔ رومی نے سورہ طہ پڑھی اور چاند اس دریا کے اندر چمک اٹھا۔ وہاں دھلے ہوئے عریاں اور سرد پہاڑ اور ان کے بیچ میں دو مرد حیران اور پشیمان بیٹھے تھے۔ ایک بار انہوںنے رومی کو دیکھا اورپھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا کی۔ فرعون بولا یہ صبح کی اور یہ نور کی ندی؟ یہ صبح اوریہ نور و ظہور کہاں سے ہے؟ رومی کے سورہ طہ قرات کرنے اور اس کی برکت سے ماہ کے زیر آب آ جانے کا قرینہ اس سورہ میں حضرت موسیٰ کا قصہ ہے۔ آنحضرتؐ سے قبل جن انبیاؑ کا قرآن مجید میں ذکر ہے ان میں سے سب سے زیادہ سورتوں (۲۱) میں ذکر موسیٰ وارد ہوئے سورہ طہ (۲۰) کی ۱۳۵ آیات میں سے ۹۰ آیات (شمارہ ۹ تا ۹۸) قصہ فرعون و کلیم کے لیے مختص نظر آتی ہے۔ حضرت موسیٰ کی ابتدائی زندگی واقعہ کوہ طور اعانت حضرت ہارونؑ سحر سامری اور معجزہ ید بیضا وغیرہ سب کچھ یہاں مذکور ہے۔ اس لیے اقبال ذکر موسیٰ و فرعون میں اس سورۃ کابرمحل حوالہ دیتے ہیں۔ فرعون کبیر رومی فرعون کبیر کا استعجاب دور کر کے اسے بتاتے ہیں کہ اس نور و تجلی کی اصل ید بیضا (نبوت) ہے اس پر فرعون ید بیضا کو خاطر میں لے آتا ہے اور اس نور کی قدر نہ کر نے پر پچھتاتاہے ۔ وہ کشفیات کرنے والے نام نہاد علمی رہزنوں کو لعل و گہر کے بجائے اپنی نعش دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ نعش ملوکیت کے نفاق انگیز حربوں کامجسمہ ہے۔ وہ اگر آج حضرت کلیم اللہؑ کو دیکھتا ہے تو ملوکیتی ریشہ دوانیوں کے بجائے ان سے ایک آگاہ دل ملنے کی التجا کرتا ہے۔ رومی کہتے ہیں کہ نور روح اور ید بیضا (حکمت کلیمی) کے بغیر ملوکیت سراپا حرام کا کام ہے۔ نام نہاد حکومت اور ملوکیت کیا ہے؟ محکوموں اور محروموں کااستحصال ۔ تاج بادشاہی باج اور خراج سے ہاتھ لگتا ہے ۔ اور ان حربوں سے انسان شیشے کی طرح چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ فوج جیل خانے اور ہتھکڑیاں رہزنی کے طریقے ہیں۔ مگر حاکم کے ہاتھ ان ہی وسائل سے مضبوط ہوتے ہیں۔ فرعون نے کشفیات کے نام پر لعل و گہر ڈھونڈنے والوں کو دزد کہا ہے مگر کچنر اس بات کو نہیں مانتا وہ کہتا ہے کہ مغرب کے ماہرین آثار قدیمہ کے مقاصد بلند تر ہیں۔ اور وہ علمی و تاریخٰ اکتشافات کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بے جستجو حکمت کیا ہے؟ مغربی ماہرین تو کشف اسرار کے لیے علم و حکمت کرتے ہیں اقبال نے کچنر کو ذوالخرطوم کہا ہے یعنی خرطوم والا یا حاکم خرطوم۔ کچنر نے سوڈان کے موجودہ دارالحکومت اور نواحی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ فرعون کچنر کو یہ کہہ کر لاجواب کر دیتا ہے : قبر مارا علم و حکمت بر کشود لیک اندر تربت مہدی چہ بود؟ فرعون صغیر کچز ۱۷؎ کا تعارف یہ شخص کرنل کے عہدے پر مصر میں متعین ہوا۔ مصریوں ترکوں اور انگریزوں نے انیسویں صدی عیسویں کے آخری ربع تک سوڈان کو اپنے زیر تسلط رکھا تھا۔ ان ملکوں کی مشترکہ کمانڈ کی قیادت جنرل گارڈن کے ہاتھ تھی مگر دوسری طرف سوڈان میں مہدی سوڈانی نے علم بغاوت و جہاد بلند کر رکھا تھا۔ ان کے پیروئوں نے جنوری ۱۸۸۵ء میں لارڈ گارڈن کو ٹھکانے لگا دیا اور سوڈان کو آزاد کر ا لیا۔ کچز نے اس وقت کمان سنبھالی وہ جنگ کرتارہا مگر ستمبر ۱۸۹۸ء تک مجاہدین نے اسے پسپا کیے رکھا۔ اس سال جب وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز تھا۔ اسے مہدی کے بیٹے عبداللہ کے لشر انصارپر غالب آنے کا موقعہ مل گیا۔ اس کی کمان میں انگلستان اور مصر کا ایک جرار لشکر حملہ آورہوا تھا۔ اس وقت اس ظالم نے مہدی کی قبر کو توپ کے گولوں سے اڑوا دیا اور اس درویش سوڈانی کی نعش کو دریا برد کروائی۔ قدرت کا انتقام دیکھیںکہ پہلی عالمی جنگ کے دوران ۵ جولائی ۱۹۱۶ء میں جب وہ بحری جہاز میں ہمپ شائرمیں سوار ہو کراپنے حلیف ملک روس سے فوجی حکمت عملی کے بارے میں صلاح و مشورہ کرنے جا رہا تھا۔ تو ایک جرمن آبدوز نے اس کے جہاز کو ڈبو دیا۔ اور کچز یا دوسرے مسافروں مٰں سے کسی ایک کی بھی نعش نہ ملی اقبال نے کیسا عبرت انگیز واقعہ یہاں بزبان شعر پیش کیا ہے۔ کچز کے بارے میں اتنا اضافہ کر دیں کہ وہ افریقہ اور ہند کے برطانوی مستعمرات میں سالار اعظم رہا انگریزوں نے اسے لارڈ آنریری ڈاکٹر اور فیلڈ مارشل بنا کر اپنی بربریت نوازی پرمہر تصدیق ثبت کر دی تھی ۱۸؎۔ مہدی اور ان کا خطاب بہ اقوام عرب سید محمد احمد مہدی سوڈانی نے غالباً کبھی مہدی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ ان کے بیٹے عبداللہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے پیروئوں سے کہا کرتا تھا کہ ان کے والد کو محمد احمد بن عبداللہ ہو مہدی اللہ وخلیفتہ رسولہ کے کلمات سے یاد کیا کریں ۱۹؎اقبال تصور مہدی کو عجمی تصور کرتے تھے ۲۰؎ مگر ہر خودی بیدار شخص ان کے لیے ایک طرح کا مہدی تھا: کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی گیا دور حدیث لن ترانی ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار وہی مہدی وہی آخر زمانی ۲۱؎ وہ نیٹشے کے تصور فوق البشر کو ایک قسم کا تصورمہدی جانتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ اگر اس طرح جرمن بیدار ہو گئے تو مہدی ان کا کیا بگاڑا؟ البتہ جو تصور مہدی ملت میں رخنہ ڈالے اور مسلمانوں کو استعماری قوتوں کا برتر غلام بنانے لگے وہ قابل مذمت ہے۔ دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت ہو جس کی نگہ زلزلہ عالم افکار ۲۱؎ بلکہ وہ نبوت ہے مسلمانوں کے لیے برگ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام ۲۱؎ قطعہ مہدی یوں ہے: قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو مجذوب فرنگی نے بانداز فرنگی مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار نومید نہ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو ہو زندہ کفن پوش تومیت اسے سمجھیں یا چاک کریں مردک ناداں کے کفن کو ۲۱؎ سید محمد مہدی (۱۸۳۴۔۱۸۸۵) ایک عظیم مجاہد عرب تھے۔ آپ سادات حبش میںسے تھے اورحافظ قرآن۔ آپ مشہور عارف سدی محمد شریف سمانی کے مرید بھی تھے۔ ادھر سید جمال الدین افغانی اور شیخ محمد عبدہ و غیر ہم سے بھ ان کے ہم خیالی کے مراسم تھے چنانچہ العروۃ الوثقیٰ میں ان کی حمایت میں اظہار خیال دیکھا جا سکتا ہے۔ مہدی سوڈانی نے سوڈانیوں کو آزاد کروانے کی لوگوں سے بیعت لی اورنہتے مریدوں کی افواج کے ساتھ ترکوں مصریوں اور انگریزوں کے قشون کے خلاف اعلان جہاد کر دیا۔ مہدی کی فوج نے جنوری ۱۸۸۵ء میں خرطوم کو آزادکروایا اور یہاں اور اس کے نواح میں ریاست اسلامی قائم کر دی تھی بعد کے متعلقہ واقعات کو لارڈ کچز کے تعارف میں دیکھ لیا گیا ہے۔ فرعون نے جب کچز سے پوچھا کہ: ہماری قبر کو علم و حکمت (کے کاموں) نے کھدوایا لیکن مہدی کی قبر میں کیا رکھا تھا؟ تو اس وقت بحر زہرہ میں بجلی چمکی موجوں میں ارتعاش پیدا ہوا اورخوشبوئے جنت میں بسی ہوئی روح مہدی وہاں حاضر ہوئی۔ پہلے تو اس نے کچز کو عبرت دلائی کہ قبر درویش کی بے حرمتی نے تیری لاش کودریا برد کر دیا۔ ا س کے بعد روح مہدی دلگیر اور دل سوز آواز میں معاصر عرب رہنمائوں سے مخاطب ہوتی ہے۔ وہ روح عرب کونئے اعصا و ازمنہ کی خالق دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ احمد فواد (۱۹۲۲۔۱۹۳۶) فیصل اول (۱۹۲۱۔۱۹۳۳) اور عبدالعزیز بن بنعود (۱۹۲۶۔۱۹۵۳) سے مخاطب ہے کہ کب تک دود آلود اور بے سوز و ساز رہیں گے؟ وہ خاک مکہ مکرمہ سے فریاد کرتی ہے کہ یہ مقدر سرزمین عمر فاروقؓ اور خالد بن ولیدؓ کے دیگر افراد ملت کو جنم دے۔ وہ سوڈانی او رافریقیوں کے دام کو دیکھ رہی ہے مگر اپنی دریا برد ہڈیوں کا واسطہ دیتیہے کہ یہ لوگ اپنی سرنوشت اپنے ہاتھ میں لیں اور فرمودات رسولؐ کے عین مطابق رنج و الم برداشت کرنے اور جہاد و پیکار کے لیے آگے نکلنے میں پہل کریں۔ فلک زہرہ والے حصے کا آخری بند روح مہدی کا خطاب بہ عالم عرب بیحد رقت بار ہے۔ دس شعروں کے اس بند میں اول و آخر ایک ہی شعر کی تکرار ہے۔ ا س حصے میں عربی اد ب اور عربی ماحول کا انعکاس دیکھا جاتا ہے روح مہدی صحرائیوں کی حدی خوانی اور گنگناہٹ کے انداز میں عربوں کو نئے خطرات سے اگاہ کرتی ہے۔ اور عربوں اور عالم اسلام کو اپنی صفوں میں اتحاد واپس لانے کی تلقین کرتی ہے۔ اس بند میں زبان ایمانی اور کنایتی ہے جیسے یثرب صحیح اسلامی روش کے لیے ہے اور نجد غیروں کے طور طریقے اپنانے کی خاطر ان ابیات کی ترجمانی ہم اس سے قبل یوں کر چکے ہیں۔ مسلمانو ہمارا سالار کارواں یثرب میں ہے مگر ہم ابھی نجد میں بھـٹک رہے ہیں۔ ایسی سعی کرو کہ جلد از جلد سالار کارواں سے جا ملو اور رہنمائی لو۔ ہم بہت عقت ماندہ ہو رہے ہیں اس لیے کوششیں تیز تر کر لو۔ ملت اسلام میں بیداری کے آثار نظر آ رہے ہیں مگر مبادا مخالفین کی کثرت سے مسلمانوں خوف زدہ ہونے گیںَ مسلمانو منزل دور سہی اور آلام و مصائب کی یورش بھی مسلم مگر حدی خوانی جاری رکھو اور کاروان اسلام کو سالار کارواں کی تعلیمات کی قیادت کے حوالے کر کے دم لو ۲۲؎ ۔ اس بند کا لفظی ترجمہ یوں ہو گا: دوستو! سارباں یثرب میں ہے اور ہم نجد میں۔ وہ حدی کہاں ہے جو ناقہ کو وجد میں لے آئے ۲۲؎ بارش برسی زمیں سے سبزہ اگا۔ شاید ناقہ کے پائوں سست پڑ جائیں میری روح درد فراق سے فریاد کناں ہے وہ راستہ لو جہاں سبزہ کم ہو ناقہ سبزہ سے مست ہے۔ اور میں دوست سے ۔ ناقہ تیرے ہاتھ میں ہے اور میں دوست کے ہاتھوں میں۔ صحرا پر آب کی گزرگاہ بنا دی گئی۔ پہاڑوں پر کھجور کے پتے دھل گئے دیکھو دو ہرن ایک دوسرے کے پیچھے پہاڑی سے نیچے آتے ہیں۔ وہ فوراً چشمہ صحرا سے پانی پیتے ہیں اور پھر راہ گیروں پر نظر ڈالتے ہیں۔ صحرا کی ریت ریشم کی طرح نرم ہے۔ اونٹ (ناقہ) کے لیے راستہ دشوار نہیں۔ تیتر کے پروں کی طرح کالے بادل گھنے ہو رہے ہیں۔ چونکہ ہم اپنی منزل سے دور ہیں اس لیے بارش کا خوف ہے۔ دوستو ساربان یثرب میں ہے اور ہم نجد میں وہ حدی کدھر ہے جو ناقہ کو وجد میں لے آئے؟ بحر فلک زہرہ والا حصہ ۱۳۴ اشعار پر مشتمل ہے ۔ اور یہاں کا سفر یہ عجیب طریقے سے ارتقاء پا کر ختم ہو تا ہے۔ ٭٭٭ فلک مریخ ابتدائیہ فلک مریخ والا حصہ نئے افکار اور نہایت جدت آمیز کرداروں کی مناسبت سے بے حد دلآویز بنا ہوا ہے۔ فلک زہرہ پر رومی اور زندہ رود ابھی دریا میں تھے کہ اس حصے کی سیاحت ختم ہو گئی۔ وہاں انہوںنے کچھ آنکھ بند کی ہی تھی کہ فلک مریخ کی مرغزار اور رصد گاہ نظر آنے لگی۔ شاعر پڑھن والوں کو سیر روح ک تلقین کرتے ہیں کیونکہ اس میں کہنگی نہیں اور یہ وقت پر غالب آ جانے کا وسیلہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ مریخیوں کی دوربینیں کہکشاں پر کمندیں ڈالنے والی تھیں۔ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ مقام نو آسمانوں کی خلوت گاہ ہے یا زمین کا نواح؟ رومی نے زندہ رود کو بتایا کہ وہاں بھی زمین کی رنگ و بو کے جادو کا اثر چلتا ہے اور وہاں بھی شہر اور گلی کوچے ہیں۔ وہاں کے رہنے والے مغربی اقوام کے ماہرین علوم تھے۔ او رجسم و جان کے علوم میں انسانوں سے برتر فضائی علم میں مہارت کی وجہ سے وہ زمان و مکان پر غالب تھے۔ انسانوں کا دل جسم میں مقید ہوتا ہے۔ وہاں جسم دل کا مقید تھا۔ قلب و روح کی یکتائی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ دائمی فراق و مرگ کو معلوم کرلیتے ہیں اور اس کا ایک دو دن پہلے اعلان کر دیتے ہیں۔ ان کی موت جسم کے مرنے سے عبارت نہیں کیونکہ وہاں روح جیسے مقام پر خدا بہت کم کسی کو لایا ہو گا لہٰذا یہاں کچھ رکنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ رومی اور زندہ رود جسم کی مقید نہیں بلکہ وہاں جسم روح میں جذب کر لیا جاتا ہے۔ رومی کہتے ہیں کہ مریخ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ رصد گاہ سے ایک مریخی عالم باہر نکلا اس کا حلیہ ملاحظہ ہو۔ ایک بوڑھا عالم جس کی ڈاڑھی برف کی طرح سفید تھی اس نے سالہا سال علم و حکمت میں صرف کیے تھے۔ مغربی دانش وروں کی طرح وہ بڑا زیرک تھا۔ اس نے مغربی پادریوں کا سا لباس پہن رکھا تھا۔ تھا بوڑھا مگر اس کا قد سرو کی طرح بلند تھا۔ اس کا چہرہ مرو (ترکستان) کے ترکوں کا سا تھا۔ وہ ہر طریقے سے آگاہ تھا اور اس کی آنکھوں سے گہری فکر نمایاں تھی‘‘۔ اس عالم پیر کے بارے میں زندہ رو دکہتے ہیں کہ وہ ہم انسانوںکو دیکھ کر بے حد خوش ہوا اور نصیر الدین طوسی اور عمر خیام کی زبان (فارسی) میں بات کرنے لگا۔ وہ ان انسا نوں کے وہاں پہنچ جانے کی داددیتا ہے۔ زندہ رود کو اس کی رداں اور سریع گفتگو پر تعجب ہوا۔ اور اس بات پر وہ حیران ہوئے کہ مریخی فارسی کیسے سیکھ گئے مگر بعد میں انہیںمعلوم ہوا کہ وہ ایران میں رہ چکا ہے۔ عالم مریخی کہتاہے کہ حضرت محمد مصطفیؐ کے زمانے میں ایک مریخی زمین پر گیا تھا۔ اور اسنے ایک دلآویز یادداشت میں زمین کے جملہ احوال لکھے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں کہتا ہے کہ معدنیات زمین پر تحقیقات کرنے وہ ایران فرنگستان مصر ‘ ہند ‘ امریکہ جاپان اور چین جا چکا ہے۔ لہٰذا انسان مریخیوں کو جانے یا نہ جانیں وہ اہل زمین کے حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ عالم مریخی کی گفتگو سن کر رومی اس سے اپنے آپ کو اور زندہ رود کو متعارف کرواتے ہیں وہ اپنا موقف بھی تحقیق بتاتے ہیں۔ عالم مریخی انہیںبتاتا ہے کہ جہاں وہ ہیں یہ مقام برخیا کے آباد کیے ہوئے شہر مرغدین کا نواح ہے۔ برخیا ان کا جد امجد (آدم ) تھا۔ برخیا بڑانیک شخص تھا چنانچہ اس نے بہشت میں فرزمرز شیطانی کردار کا دھوکہ کھا کر نافرمانی نہ کی لہٰذا خدا نے اسے یہ عمدہ فلک عطا کیا اور یہاں بھیج دیا۔ شہر مرغدین اور وہاں کا آئیڈیل معاشرہ ذہن زندہ رود نے مرغدین نام کے ایک نئے شہر کو یہاں خلق کیا ہے اور وہاں کے آئیڈیل معاشرے کو مجسم کیا۔ چشم فلک نے ایسا معاشرہ صدر اسلام کے علاوہ کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ترجمہ اشعار: مریخ کے رہنے والے خوش گفتار حسین‘ خوش عادت اور سادہ لباس لوگ ہیں کسب و کار کی زحمت سے وہ آزاد ہیں۔ وہ کیمیائے آفتاب کے راز دان ہیں ۔ جس طرح ہم اہل زمین آب شور سے نمک لے لیتے ہیں۔ ان میں سے جو چاہے نور آفتاب سے سیم و زر لے لیتا ہے۔ وہاں علم و ہنر کا مقصد خدمت ہے۔ کام زر کے پیمانے سے نہیں ناپے جاتے۔ دنیا و درہم کی وہاں کسی کو خبر نہیں۔ ان بتوں کا وہاں کے حرموں میں ذکر نہیں ہے۔ وہاں مشینوں کا دیو طبیعتوں پر غالب نہیں وہاںکے آسمان دھوئیں سے تیرہ و تار نہیں۔ وہاں کے کسان محنتی ہیں مگر ان کے چراغ روشن ہیں وہ زمینوں کی غارت گری سے محفوظ ہیں۔ وہاں کے کسان کی زراعت نہروں کے جھگڑوں سے پائمال نہیں۔ زمین کی پیداوار بلا شرکت غیرے اسی کی ہے ۱؎ وہاں فوجیں نہیں ہیں اور جنگ و جدال سے کوئی روزی حاصل نہیںکرتا۔ مرغدین میں جھوٹے پروپیگنڈے کی تشہیر سے قلم آلودہ نہیں کیے جاتے۔ وہاں کے بازاروں میںبیکاروں کا شور و شغب نہیں ہے نہ فقیرو ں کی آواز سے آزار گوش ہوتا ہے۔ ذرا سی ترمیمات کے ذریعے مرغدین کا معاشرہ ایک ریاست اسلامی کا معاشرہ بن سکتا ہے۔ زندہ رو د کا کمال دیکھیں کہ وہ اپنا آئیڈیل معاشرہ کہاں پیش کرتے ہیں پھر دیکھیں کہ بات سے بات کس طرح نکلتی ہے۔ عالم مریخی مرغدین سے زائرین خاکی کو مطلع کر کے کہتا ہے کہ یہاں نہ کوئی سائل ہے نہ محروم غلام و آقا اور حاکم و محکوم کا وجود یہاں مفقود ہے۔ زندہ رود کہتے ہیں کہ تقدیر حق نے سائل و محروم اور غلام و آقا پیدا کیے ہیں اور اس بات کا چارہ کار نہیں کہ اہل زمین ان معاشرتی امتیازات سے بچیں۔ تقدیر کا تغیر ایک نیا خیال تقدیر و تدبیر کا مسئلہ مشکل مباحث میں سے ہے جبر و قدر یعنی مجبوری و مختاری کی طویل کلامی بحثوں سے یہ عقدہ واشگاف صورت میں حل نہیں ہوا۔ معتدل روش یی ہے کہ انسان صاحب اختیار و عمل ہے مگر بعض امور میں وہ مجبور بھی ہے۔ اقبال نے مثنوی گلشن راز جدید ۲؎ اور انگریزی خطبات ۳؎ میں اس پر بحث کی ہے۔ یہاں وہ حکیم مریخی کی زبان ایک قرآنی اصول سمجھاتے ہیں کہ جس طرح قرآن مجید کی رو سے تمام اقوام کے رویے میں تبدیلی آ جانے سے ا ن کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اسی طرح فرو کی روش بدلنے سے اس کی حالت متغیر ہو گی۔ اقبال نے پیام مشرق کے دیباچے میں لکھا تھا: ’’… اقوام مشرق کو یہ محسوس کر لینا چاہیے کہ زندگی اپنے احوال میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کر سکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون جس کو قرآن نے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرو امابا انفسھم ؎۴ کے سادہ او ربلیغ الفاظ میں بیان کیا ہے زندگی کے فردی اور اجتماعی دونوںپہلوئوں پر حاوی ہے…‘‘ عالم مریخی کہتے ہیں کہ تقدیر ایک نہیں۔ ایک تقدیر دلخواہ نہ ہو تو دوسری طلب کرنا چاہیے کیوں کہ خدا کی تقدیریں لامحدود ہیں اور بے انتہا ہیں۔ بات اتنی ہے کہ جیسے تم ویسی تمہاری تقدیر۔ مٹی بنو تو ہوا میں منتشر ہو ں گے۔ پتھر بنو تو شیشہ شکن ہو گے۔ شبنم ہو تو ٹپکنا تمہاری تقدیر ہو گی اور سمندر بنو تو پائندگی اورپائیداری تمہاری سر نوشت ہو گی جو دین یہ تعلیم دے کہ تقدیر معین ہے اور عمل بیکار ہے۔ وہ جادو ہو گا یا قرص افیون مگر اسے دین کا نام سزاوار نہ ہو گا۔ شہر مرغدین کے ذکر میں ہے کہ: خدمت آمد مقصد علم و ہنر کار ہارا کس نمی سنجد بزد عالم مریخی اسی لیے اہل زمین کو کہتاہے کہ وہ بھی پیغمبر انہ شان رکھیں اور خلق خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں کیونکہ انسانوں کو ملنے والی نعمتیں امانت ہیں اور ان کی ادائیگی ان کا صحیح مصرف ہے: طبع روشن مرد حق را آبروست خدمت خلق خدا مقصود اوست خدمت از رسم و رہ پیغمبری است مرد خدمت خواستن سوداگری است عالم مریخی نعمائے خداوندی کی ایک فہرست پیش کرتا ہے ۔ ذہن رسا فکر حکیمی ذکر کلیمی واردات دل‘ گرمی گفتار اور شعلہ کردار ۵؎ زندگانی چیست؟ کان گوہر است تو امینی صاحب و دیگر است اس حصے کے آخری تیسرے بند میں اقبال عالم مریخی کی زبانی مسئلہ ملکیت بالخصوص ملکیت زمین پر پھر اظہار نظرکرتے ہیں اس سے قبل فلک عطارد والے حصے میں یہ مبحث آیا ہے فرماتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک حقیقی خداہے۔ انسان ملک خدا کا امین ہے تاکہ اپنی حدود میں خود بھی اس سے استفادہ کرے اور مستحقین کو بھی دے۔ زمین کو اپنی ملکیت جاننا فساد فی الارض ہے دراصل خدائی چیزوں کو لوگوں نے اپنی ملکیت بنا کر دوسروں کا استحصال کر دیا ہے اس لیے غربت اور افلاس اہل زمین کا مقدر بن گئی ہے۔ اے کہ می گوئی متاع ماز ماست مرد ناداں ایں ہمہ ملک خداست ارض حق را ارض خود دانی بگو چیست شرح آیہ لا تفسدوا؟ ۶؎ ملک یزداں را بہ یزداں بازہ دہ تاز کار خویش بکشائی گرہ زیر گردوں فقر و مسکینی چراست؟ آنچہ از مولاست می گوئی زماست مریخ کی دوشیزہ نبیہ عالم مریخی رومی اور دندہ رود کو سیر کروا رہے تھے کہ ایک عجیب کردار سامنے آ گیا۔ یہ یہاں کی ایک غیر شادی کردہ عورت کا کردار ہے جو نبوت آخر زماں کی مدعی تھی اور عورتوں کو ازدواج سے اجتناب کرنے کی ترغیب دے رہی تھی۔ اس عورت نے ایک کھلے میدان میں مجمع لگا رکھا تھا۔ شاعر اس کا تعار ف یوں پیش کرتا ہے: اس کا قد نارون کے درخت کا سا (کج مج) تھا اس کا چہرہ روشن تھا مگر روحانی نور سے محروم۔ وہ حرف مدعا لب پر واضح طور پر نہ لا سکتی تھی۔ اس کی باتیں بے سوز اور اس کی آنکھیں بے نم تھیں سرور آرزو کی اسے خبر نہ تھی۔ اس کا سینہ جوش جوانی سے فارغ تھا۔ اس کا آئینہ دھندلا اور بے جوہر تھا۔ وہ عشق او رآداب عشق سے بے بہرہ تھی وہ ایک ممولے کی طرح تھی جسے عشق کے شاہین نے بھگا دیا ہو۔ عالم مریخی نے کہا کہ یہ عورت اہل مریخ میں سے نہیں۔ یہ ایک سادہ لوح اور ہر قسم کی عیاری سے عاری مغربی عورت تھی۔ فر ز مرز (شیطانی کردار) اسے وہاں سے اٹھا لایا تھا اورنام نہاد دعویٰ نبوت اسے سکھایا۔ وہ اسرار بدن بتاتی ہے اور عورتوں کو ضبط تولید سکھاتی ہے۔ نبیہ مریخ کا بیان اور تبصرہ رومی وہ عورتوں کو تلقین کرتی ہے کہ ازدواج سے دور رہیں اور امومت کا بار نہ اٹھائیں مرد کی محبوبہ بن کر جینا بھی کوئی جینا ہے؟ امومت کی تکلیف آخر عورت کو ہی اٹھانی پڑے گی۔ وہ یہ نوید دیتی ہے کہ آئندہ جنین ارحام میں دیکھے جا سکیں گے اور جہاں کوئی جنین حسب دلخواہ نہ ہوا اسے تلف کیاجا سکے گا۔ ان جنین کا وجود مرد کا محتاج نہ ہو گا۔ اور بیٹا یا بیٹی جو کسی کی خواہش ہو وہ بآسانی حاصل ہو سکے گا۔ نبیہ مریخ آئندہ زمانوں کے لیے یہ پیش گوئی کرتی ہے کہ اس وقت عورتیں بے وصل مرد اولاد کی تولید پر قادر ہو سکیں گی۔ سائنس کی ترقی سے یہ سب کچھ ایک عام فن بن جائے گا۔ رومی اس موقع پر مغربی ضبط تولید کے اصولوں پر تبصرہ کرتے ہیں اور بے عشق و دین روشن زندگی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ان پانچ شعروں کا ترجمہ کر دیا جائے جو زندہ رود نے بزبان رومی پیش کیے ہیں: نئے طریقے والے زمانے کا مذہب دیکھ کر لا دین تہذیب کا نتیجہ اور حاصل دیکھ لو۔ زندگی کا طور و طریقہ عشق ہے۔ تہذیب کی اصل دین ہے اور دین عشق سے عبارت ہے ۔ عشق کا ظاہر پر سوز آتش ہے مگر ا س کاباطن رب العالمین کا نور ہے ۔ عشق کے اطنی تب و تاب اور اس کے کرشمہ ساز جنون سے ہی علم وفن (وجود میں آتے ہیں) آداب عشق کے بغیر دین پختہ نہیں ہوتا۔ دین کو ارباب عشق کی صحبت و ہم نشینی سے سیکھو۔ اس سے قبل فلک عطارد پر خلافت آدم کے عنوان سے زندہ رود مرد و زن کے اختلاط کی برکتیں بیان کر چکے ہیں۔ زندگی اے زندہ دل دانی کہ چیست عشق یک بیں در تماشائے دوئی است مرد و زن وابستہ یک دیگواند کائنات شوق را صورت گراند اس موقعہ پر بھی عشق و شوق کے ا س معاشرہ ساز پہلوپر روشنی ڈالی گئی ہے عشق کے بعض ظاہری پہل؛و جیسے امومت دردناک سہی مگر ان میں بڑے فوائد مضمر ہیں یہ ناشناختہ پدر کی اولادیں جو Teet Tubes کے ذریعے پیدا ہونے لگی ہیں انسانی احساسات اور جذبات کی ترجمان نہیں ہو سکتیں۔ اور بفجوائے قرآن راحت و سکون اور درد و الم کا مبادلہ ہوتا رہتا ہے ۷؎۔ اور بار امومت کی بعض تلخیاں ناروا ضبط تولید اپنانے اور ترک ازدواج کرنے کا جواز نہیں پیدا کر سکتی ہیں۔ دیدہ مینا میں داغ غم چراغ سینہ ہے روح کو سامان زینت آہ کا آئینہ ہے (فلسفہ غم بانگ درا) ٭٭٭ فلک مشتری مریخ کے بعدرومی اور زندہ رود (اقبال) فلک مشتری پر آ پہنچتے ہیں۔ تمہید میں شاعر نے حکمت اور عرفان کا موازنہ کیا ہے۔ کار حکمت دیدن وفرسودن است کار عرفان دیدن و افزودن است یعنی علم و فلسفہ کا مشاہدہ اور تحقیق ہے جبکہ عرفان و تجلی باطن عشق کائنات کا مشاہدہ اور تکمیل ہے فلسفہ و حکمت تجلیات میں غرق ہونا سکھاتے ہیں جبکہ عرفان اور اشراق تجلیات کو دل میں سمو لیتا ہے زندہ رود یہاں‘ فلک مشتری میں آ جانے کے ضمن میں رومی کی راہنمائی کا ایک بار پھر اعتراف کرتے ہیں۔ ایں ہمہ از فیض مردے پاک زاد آنکہ سوز او بجان من فتاد کاروان این دو بینائے وجود برکنار مشتری آمد فرود فلک مشتری کے ماحول کا ایک تعارف یہاں اس طرح ملتا ہے۔ مشتری ایک ناتمام خاکدان ہے اس کے گرد قمر طواف کرتے ہیں اس کی صراحی انگور ابھی شراب سے خالی ہے۔ اس کی مٹی سے ابھی آرزو نے جنم نہیں لیا اس کے چاندوں کی روشنی سے آدھی رات دوپہر لگتی ہے۔ اس کی ہوا میں نہ سردی ہے نہ تپش! وہاں انہیں تین اشخاص کی ارواح نظر آئیں حسین بن منصور حلاج بیضاوی (۳۰۹ھ) قرۃ العین طاہرہ بابیہ (۱۸۵۲ئ) اور مرزا اسد اللہ خاں غالب (۱۸۶۹ئ) لوگوںنے سرخ عبائیں پہن رکھی تھیں اور سوز دروں سے ان کے چہرے تابناک تھے۔ یہ مست الست‘ افراد شعر پڑھ رہے تھے اور رومی نے زندہ رود سے کہا کہ وہ ان آتش نوائوں کے سوز سے بہرہ مند ہو۔ حسین ابن منصور حلاج صاحب نعرہ انا الحق ایک نامور عارف اور صوفی تھے۔ اقبال ان کے نعرہ انا الحق خودی حق ہے۔ کے معنوں میں لیتے ہیں جبکہ معاصر علماء نے اس کے معنی میں حق ہوں بتا کر تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔ اقبال ان کے ملفوظات کتاب الطواسین سے بے حد اثر پذیر تھے جسے مستشرق لوئی مسینون (۱۹۶۲ئ) نے ۱۹۱۳ء میں پیرس سے شائع کر دیا تھا۔ اس کتاب میں بزبان عربی ابن حلاج کی گفتگو ملتی ہے جو ان کے کسی شاگرد نے مرتب کی تھی۔ اس کافارسی متن شیخ روز بہان بقلی شیرازی (۶۰۶ھ) نے مرتب کیا اور کتاب الطواسین میں دونوں متون جس حد تک مرتب کو مل سکے متقابل ملتے ہیں ۱؎ ۔ مسینوں ابن حلاج کے افکار کا مختصص مانا جاتا ہے اور اس سلسلے میں تبادلہ خیال ے لیے یکم نومبر ۱۹۳۲ء کو اقبال اس سے پیرس میں ملے بھی تھے ۲؎ اقبال نے یہاں فلک مشتری میں اوراس سے قبل گلشن راز جدید میں ابن حلاج کا خصوصی ذکر کیا ہے باقی کتابوںمیں ضمناً باتیں ملتی ہیں اور کتاب الطواسین کی گفتگو کو حضرت علامہ نے ہر جگہ پیش نظر رکھا ہے۔ مرزا غالب کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ اقبال نے یہاں ان کے ایک اردو شعر اور ۱۲۸ اشعار کی ایک فارسی مثنوی کے مختصر حالات لکھنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ نام زریں تاج‘ محمد صالح قزوینی کی بیٹی تھی۔ اس کی شادی ملا محمد قزوینی سے ہوئی تھی۔ جو طاہرہ کا عم زادتھا۔ وہ چونکہ علی محمد باب کی نام نہاد نبوت پر ایمان لے آئی اور بابیوں کا مبلغہ بن گئی۔ اس لیے اس کی ازدواجی زندگی ناکام رہی بلکہ عملاً وہ شوہر سے جدا رہی۔ وہ قزوین سے نجف بغداد اور شیراز گئی۔ مگر ایک بدعتی مبلغہ کے طورپر ہر جگہ اس نے مصائب جھیلے‘ علی محمد باب نے اسے قرۃ العین کا لقب طاہرہ کا تخلص اور ام السلم کی کنیت دی تھی۔ باب ناصر الدین شاہ قاچار کے حکم سے ۱۸۵۰ء میں قتل ہوا اور بابی قیدو زندان میں بھیجے گئے۔ یاد رہے کہ بعد کے سالوں میں باب کے ایک ارادت مند بہاء اللہ نے اپنے باپ اور نبی ہونے کا اعلان کیا۔ اور بابی مذہب کو ختم کر ا دیا۔ اس کے پیرو بہائی کہلاتے ہیں۔ بادشاہ طاہرہ کے حسن و خطابت سے متاثر تھا اس لیے اس نے اسے ملکہ بنانے کی پیش کش کی مگر طاہرہ نہ مانی آخر ۱۸۵۲ء میں ۳۲ سال کی عمر میں قتل ہوئی۔ علامہ اقبال کو قادیانیوں یا احمدیوں کی طرح بابیوں اور بہائیوں سے شدید نفرت تھی ۔ ۳؎ البتہ وہ بہائیوں کی اس روش سے خوش تھے کہ انہیں قادیانیوں کی طرح مسلمان ہونے پر اصرار نہیں ۴؎ ۔ بلکہ اپنے مذہب کو ایک مذہب نو کا نام دیتے ہیں۔ یہاں اقبال نے طاہرہ کی شاعری اور اس استقامت عشق کا خراج تحسین پیش کیا ہے ایرانی محقق استاد سید محمد محیط طباطبائی البتہ طاہرہ کی شاعری کو موضوعہ قرار دیتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جاوید نامہ مطالعہ کر کے انہوںنے علامہ اقبال کو ایک خط لکھا تھا کہ اس غلط حوالے کی آئندہ تصحیح کر دیں مگر خط ارسال کرنے سے قبل معلوم ہو گیا تھا کہ ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء کو اقبا ل کا انتقال ہو گیا اس لیے وہ خط انہوںنے بعد میں شائع کیا ۵؎۔ تین مستانہ غزلیں یہاں زندہ رود نے طاہرہ اور غالب کیا یک ایک غزل نقل کی ہے اور ابن حلاج سے اپنی ایک مستانہ غزل تضمین کی ہے جو پیام مشرق میں موجود ہے۔ اس غزل کے ایک شعر میں نظیری نیشا پوری (۱۰۲۳ھ) کا مصرع تضمین کیا گیا ہے: بملک جم ندھم مصرع نصیری را کسے کہ کشتہ نشداد قبیلہ معانیست یہ پوری غزل جذبہ قربانی سوز و مستی اور رندانہ گفتگو کی آئینہ دار ہے۔ اور ابن حلاج کی شخصیت سے یہ باتیں میل کھاتی ہیں۔ یہ غزل اور اس کا انتساب دونوں داد طلب ہیں۔ اقبال نے چونکہ غالب کو بھی ابن حلاج اور طاہرہ ایسے مستان الست میں دکھایا ہے (عملاً نہ سہی غالب بھی رند لا ابالی اور سوز و مستی والے تھے) اس لیے ان کی بھی ایک مستانہ غزل یہاں پیش کی گئی ہے: بیا کہ قاعدہ آسمان بگر دانیم قضا بگردش رطل گراں بگر دانیم یہ غزل کا مطلع ہے۔ باقی پانچ اشعار بھی ایسے ہی رندی آموز ہیں۔ طاہرہ کی غزل میں جذبہ عشق کا وفور ہے۔ وہ درد فرااق سے نالاں ہے مگر ہر قسم کی مشکلات سہنے کے لیے آمادہ بھی ہے اس کی غزل کا مطلع ہے: گربتو افتدم نظر چہرہ بہ چہرہ روبرو شرح دہم غم ترا نکتہ بہ نکتہ موبمو زندہ رود نے ان غزلوں سے سوز و ساز کا ذخیرہ تو دل کو دیا‘ مگر رومی شاعر سے کہتے ہیں کہ ۶؎ ان ارواح بزرگ سے مشکل مباحث اور مسائل بھی پوچھیے اس لیے کہ زندہ رو د ان حضرات سے براہ راست گفتگو کرتا ہے۔ ارواح سہ گانہ سے گفتگو فلک مشتری کا ذیلی عنوان یہ ہے کہ ابن حلاج‘ قرہ العین طاہرہ اور غالب کی اراوح جو نشیمن بہشت کی طرف مائل نہ ہوئیں اور سیاحت جاہ دانی میں لگ گئیں۔ زندہ رود اسی ناسبت سے ابن حلاج سے گفتگو کرتے وقت پہلا سوال یہی پوچھتے ہیں کہ وہ مقام مومنین سے دور کیوں ہے یعنی بہشت چھوڑ کر گردش و سیاحت کیوں کر رہا ہے؟ از مقام مومناں دوری چرا؟ یعنی از فردوس مہجوری چرا؟ ابن حلاج جواب دیتے ہیں کہ خوب و زشت جاننے والے مرد حر کو سکون بہشت سے لگائو نہیں وہ سیر جاوداں کا شائق ہوتا ہے تاکہ اس طرح اس کا ارتقائے خودی جاری رہے اور وہ تجلی وجود کا مرتبہ حاصل کر سکے۔ شراب بہشتی حوروغلماں‘ خواب و خور اور نغمہ سرور پر ملاہی متوجہ ہیں۔ عاشق تو شق قبر اور بانگ صور کے بغیر صبح نشور کا منظر دیکھ لیں گے۔ زندہ رود علم و عشق کا موازنہ کرتے ہیں عشق کا امید بیم سے وابسطہ ہے نہ وہ جلال کائنات سے خوف زدہ ہے وہ تو ؤجمال کائنات میں غرق ہو جاتا ہے علم ماضی اور حال پر متوجہ ہے جبکہ عشق مستقبل نگر ہے علم جبر و صبر کا عادی ہے مگر عشق دیدار و جود کی جسارت رکھتا ہے۔ وہ جبر کے شکو ول سے نہیں روتا اور روئے بھی تو اس کا گریہ ومستانہ و رندانہ انداز ہوتا ہے۔ عاشق تعمیر خودی پر متوجہ ہوتا ہے جس کے لیے خلش فراق ناگریز ہے ۷؎ اور اس طرح تقدیر خودی ابدیت کی حامل بنتی ہے۔ تقدیر کا سن کر زندہ رود گردش تقدیر کی پیچیدگی کو زندگی و موت کا سوال بناتے ہیں ضمناً وہ جبر محمود کو جبر مذموم سے ممیز بھی کرتے ہیں۔ ابن حلاج کہتے ہیں کہ تقدیر کے سامان زندگی سے بنانے والے کی قوت سے موت اور شیطان بھی ڈرتے ہیں۔ صاحب ہمت شخص مجبوری کو مختاری بنا لیتا ہے مگر بے ہمت شخص سراپا مجبوری بنا رہتا ہے۔ حضرت خالدؓ بن ولید ۸؎ بھی انسان تھے۔ انہیں جبرر نے کسی جنگ میں شکست کیوں نہیں دلوائی؟ وہ تو سیف اللہ بن گئے مگر کمزور ہمت والے جبر سے قدر و اختیار کی طرف آتے ہی نہیں (مولانئے روم نے لکھا ہے کہ بایزید بسطامیؒ کے زمانے میں کسی مسلمان نے ایک زرتشتی مسلمان ہونے کی دعوت دی مگر وہ پست ہمت یہ کہ کر مکر بیٹھا کہ بایزید بسطامی کے عمل کے مطابق اسلام لانے کی ا س میں سکت نہیں ہے) یہاں زندہ رود اطاعت سے اختیار کے حصول کے مسئلے کی طرف دوبارہ۹؎ متوجہ کرتے ہیں چنانچہ خڈا نے یہ فرما کر کہ مومن خدا کی مدد کریں تو وہ ان کی مدد کرے گا۔ اس موضوع کو واضح فرما دیا ہے۔ انسان کامل حضرت محمدؐ کے کنکریاں پھینکنے کے واقعے کو اگر خدا نے اپنے ساتھ منسوب کیا ہے ۱۰؎ تو ان کے پیرو مومن بھی درجہ بدرجہ اس مدہیت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ زندہ رود ابن حلاج سے اگلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ ان کا انا الحق کہنا کس مفہوم میں تھا اور انہیں لوگوں نے مصلوب کیوں کروا دیا؟ اقبال انا الحق کی توجیہہ پہلے ہی پیش کر چکے ہیں خودی حق ہے ۱۱؎ ۔ یہاں بانداز دیگر ابن حلاج کی زبانی یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس عارف نے بقائے روح اور خودی سے نار و نور کو بیان کیا تھا مگر جمود پسند علماء و فقہا نے اس بندہ حق کی تکفیر کی اور اس کی جان لے کر دم لیا۔ اقبال کے نزدیک انا الحق کہنا اور فلسفہ خودی پیش کرنا ایک طرح کے کام ہیں۔ اسی لیے وہ اقبال کو بندہ محرم کہتے ہیں اور ایک اردو قطعے میں بھی اقبا ل نے ابن حلاج کی زبانی فلسفہ خودی کی تجلیل کی ہے۔ فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی شرق میں ہے ابھ تک وہی کاسہ وہی آش حلاج کیلیکن یہ روایت ہے کہ آخر اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش ۱۲؎ یہاں اقبال معرکہ خودی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مثنوی اسرار خودی کی اشاعت (۱۹۱۵ئ) کے بعد سالہا سال تک جاری رہا اور ابن حلاج انہیں کہتے ہیں کہ خودی کے نورو نور کو تم نے بھی ظاہر کیا ہے لہٰذا مبادا کہ انجام بھی مجھ جیسا ہو گا۔ من زنور و نار او دادم خبر بندہ محرم گناہ من نگر آنچہ من کر دم تو ہم کر دی بترس محشرے برمردہ آوردی بترس زندہ رود نے قرۃ العین طاہرہ سے کوئی سوال نہیںپوچھا مگر وہ ابن حلاج کی اس گفتگو سے متاثر ہو کر خود ہی بول پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ صاحبان جذب و جنون کا عرف عام میں گناہ نئے انقلابات کو جنم دیتا ہے۔ عاشق محبوب کے لیے جان دے دیتا ہے مگراسکی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا وہ مر کر بھی امر ہو جاتا ہے۔ (وہ دراصل اپنے اور ابن حلاج کے مصلوب کیے جانے کا ذکر کرتی ہے)۔ اب زندہ رود کا روئے سخن غالب کی طرف ہے وہ غالب سے ان کے مندرجہ ذیل اردو شعر کے معنی پوچھتے ہیں: قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ اے نالہ نشان جگر سوختے کیا ہے؟ (اس شعر کو فارسی کتاب میں شامل کرنے کی مناسبت سے زندہ رود نے کیا ہے کو چیست بنا دیا ہے)۔ اس شعر پر ان دنوں بحث ہو رہی تھی()مثلاً ماہنامہ معارف اعظم گڑھ میں) اور اگر مولانا الطاف حسین حالی کے بقول اے کو جز کا مترادف سمجھ لیا جائے تو شعر آسان ہے۔ یعنی قمری اور بلبل کا نشان امتیاز ان کا مفرد نالہ و فغا ن ہے ۔ ورنہ ان دونوں کا رنگ کچھ کچھ یکساں ۃی ہے۔ خاکستری خواجہ حالی نے یادگار غالب میں لکھا ہے؟ ’’میںنے خود ا س کے معنی مرزا سے پوچھے تھے فرایا کہ اے کی جگہ جز پڑھو معنی خود سمجھ میں آ جائیں گے۔ شعر کا یہ مطلب ہے کہ قمری جو ایک کف خاکستر سے زیادہ اور بلبل جو ایک قفس رنگ سے زیادہ نہیں ان کے جگر سوختہ یعنی عاشق ہونے کا ثبوت صرف ان کے چہکنے اوربولنے سے ہوتا ہے۔ یہاں جس معنی میں مرزا نے اے کا لفظ استعمال کیا ہے ظاہراً یہ انہی کا اختراع ہے… ‘‘ (یادگار غالب مولفہ ۱۸۹۷ئ)‘‘۔ اقبال نے جو معنی اس شعر کے لکھے انہیں دکھانے کے لیے ان چھ اشعار کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے: ’’سوز جگر سے جو نالہ اٹھتا ہے میں نے ہر کہیں اس کا اثر جداگانہ دیکھا ہے ۔ قمری اس کے اثر سے جل گئی بلبل نے اس سے رنگ حاصل کر لیے۔ اس نالے کی آغوش حیات میں موت ہے۔ ایک لمحہ یہاں زندگی ہے اور وہاں موت (اس میں) ایسا رنگ ہے کہ اس میں رنگا رنگی ۱۳؎ ہے ۔ اور بے رنگی بھی تو نہیں جانتا یہ رنگ و بو کا مقام ہے۔ ہر دل کا حصہ نغمہ و فریاد کے انداز سے ہے تو یا رنگ اختیار کر یا بے رنگی لے تاکہ تو سوز جگر کی خبر لے سکے‘‘۔ اب زندہ رود غالب سے پوچھتے ہیں کہ اس نیلی فضا میں زیر آسمان پر کئی جہان ہیںکیا ہر جہان کے اولیاء و انبیاء جداگانہ ہیں؟ غالب کہتے ہیں کہ جہاں موجود ہی نہیں بلکہ تخلیق کائنات کا عمل جاری ہے اور خالق نئی دنیا میں بھی موجود میں لے آ رہا ہے۔ لیکن جہاں ہنگامہ دنیا ہو وہاں رحمتۃ اللعالمینؐ کا ہونا لا بدو لازمی ہے۔ یہ شعر غالب کا ہی ہے: ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ اللعالمینؐ ہم بود زندہ رود اس شعر کے معنی واضح تر پوچھتے ہیں دوبار ایک ایک مصرع کا سوال اور ایک ایک مصرع میں ہی جواب۔ یہ حصہ مکالموں کے اعتبار سے بے حد جاندار ہے زندہ رود غالب کی زبانی ایک عمدہ شعر پیش کرتے ہیں: خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست رحمتہ اللعالمینی انتہا ست آیہ قرآنی ہے خلق فقد ر فھدیٰ () یعنی خدا نے انسان کو پیدا کیا اس کی تقدیر و سرنوشت وضع کی اور پھر اسے آسمانی ہدایت دی۔ مگر یہ تینوں مرحلے ابتدا کے ہیں جب کہ رحمتہ اللعالمین (خاتم رسالت) کا وجود خلق و تقدیر و ہدایت کی انتہا و فکر ہے۔ غالب یہ سب گفتگو کرنے کے بعد بھی اعتذار کرتے ہیں کہ یہ موضوع شاعروں کی نکتہ پردازی سے بالاتر ہے شاعر کلیم ہیں مگر ید بیضا سے محروم جبکہ یہ مضمون ورائے شاعری ہے یعنی شاعرانہ کفر ۱۴؎۔ اس مضمون کو زندہ رود ابن حلاج کی زبانی بیان کرتے ہیں: ہر کجا بینی جہان رنگ و بو آنکہ از خاکش بروید آرزو یاز نور مصطفیؐ اورا بہاست یا ہنوز اندر تلاش مصطفیؐ است فارسی تو کجا عالم اسلام کے پورے ادب میں شاید اس پایے کے نعتیہ شعر نہ ملیں گے۔ موضوع یہ ہے کہ: ہر جہان رنگ و بو جہاں بھی آرزو پنپ رہی ہو‘ ااسے یا تو نور مصطفیؐ سے رونق و بہا مل رہی ہو گی یا وہ بھی ابھی تلاش مصطفیؐ کی منزل میں ہو گا۔ مسلہ امتناع خلق نظیر رحمتہ اللعالمینؐ ہمارا برصغیر نت نئے مسائل پیدا کرنے میںایک منفرد ملک ہے۔ اقبال نے غالب کے ایک شعر کی تضمین کر کے یہاں جس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے وہ امتناع خلق نظیر رحمتہ اللعالمینؐ کہا جاتاہے۔ مرزا غالب نے اس موضوع پر ۱۲۸ شعر کی ایک فارسی مثنوی لکھی ہے۔ مسئلہ اس موضوع پر تھا کہ آیا اللہ تعالیٰ رحمتہ اللعالمینؐ کی سی کوئی دوسری ہستی پیدا کرنے پر قادر ہے یا نہیں؟ مذکور انیسویںصدی کے ربع الاول میں مرزا غالب کے دو بزرگ معاصرین کے درمیان چھڑا تھا۔ یہ مولانا رنجش اور شاہ اسمعیل دہلوی تھے ۔ شاہ اسماعیل کا موقف تھا کہ یہ رحمۃ اللعالمینؐ خاتم النبیین تھے اور کائنات کی کامل ہستی اور ان کا سا دوبارہ تخلیق ہونا محالات سے ہے۔ مولاناحیدر بخش آنحضرتؐ کی رحمۃ اللعالمینی ختم نبوت اور کاملیت کے قائل تھے مگر قدرت الٰہی پر ان کا نقطہ نظر شدید تر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ قدرت حق سے نظری رحمۃ اللعالمینؐ پیدا ہونا محال نہیں کیونکہ عجز تخلیق خدا کے شایان شان نہیں۔ مرزا غالب ایسے زیرت و ذکی نوجوان کوا س مسئلے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ غالب مولانا فضل حق خیر آبادی کے تقریباً ہم سن اور ان کے دوست تھے۔ اور دونوں بزرگوں نے ان کے ذریعے غالب کی استقامت چاہی۔غالب نے کمال یا کہ دونوں حریفوں کی حمایت کی اور اس ایک کو بھی گلہ و شکوہ کرنے کا موقعہ نہ ملا غالب نے کہا کہ گو خدا ہر چیز کی تخلیق پر قادر ہے مگر اس کے کام حکمت سے مملو ہوتے ہیں۔ رحمتہ اللعالمینؐ کو بطور انسان کامل اور خاتم النبیین کے وہ خلق کر چکا ہے اس کی حکمت کے تقاضے سے بعید ہو گا کہ وہ اس کا نظیر بنائے۔ اس جواب سے مولانا فضل حق خیر آبادی بالخصوص بے حد محظوظ ہوئے ۱۵؎۔ میںیہاں مرزا کی مثنوی کے چند شعر نقل کیے دیتا ہوں: آنکہ مہر و ماہ و اختر آفرید می تواند مہر دیگر آفرید لیک انر عالم ازروئے یقین خود نمی گنجد دو ختم المرسلیں یک جہاں تاہست یک خاتم بس است قدرت حق راز یک عالم بس است خواہد ازہر ذرہ آرد عالمے ہم بود ہر عالمے را خاتمے ہر کجا ہنگامہ عالم بود رحمتہ اللعالیمنے ہم بود در یکے عالم دو تا خاتم مجوے صد ہزاراں عالم و خاتم بگوے کثرت ابداع عالم خوب تر؟ یا بیک عالم دو خاتم خوب تر؟ غالب ایں اندیشہ پنذیرم ہمی خردہ ہم بر خویش می گیرم ہمی ایں نہ عجز است اختیار است اے فقیہہ خواجہؐ بے ہمتا بود لاریب فیہ ہر کرابا سایہ نپسندد خدا ہمچو او یک نقش کے بندد خدا؟ ہم گہر مہر منیرش چوں بود سایہ چوں بنود نظیرش چوں بود؟ منفرد اندر کمال ذاتی است لاجرم مثلش محال ذاتی است زیں عقیدت برنگردم والسلام نامہ رادرمی نوردم والسلام یعنی: جس ہستی نے سورج چاند اور ستارے بنائے وہ ایک دوسرا سورج بنا بھی سکتا ہے لیکن دنیا میں یقینا دو ختم المرسلین نہیں سما سکتے۔ ایک جہاں جب تک ہے اس کے لیے ایک خاتم کافی ہے گو قدرتکی شان ایک ہی عالم خلق کرنا نہیں۔ وہ ہر ذرے سے عالم بنا سکتا ہے اور ایسے ہر عالم کے لیے خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن ہر ہنگامہ عالم میں رحمۃ اللعالمینؐ ایک ہی ہو گا۔ ایک جہاں میں دو خاتم تلاش نہ کرو بلکہ لاکھوں عالم ہوں تو ایک خاتم ہی جانو۔ عالم کثیر مقدار میں بنانا اچھا ہے ایک عالم میں دو خاتم اچھے ہیں ؟ غالب یہ بات نہیں مانتا کہ اور اپنے تصور کا بھی ناقد ہوں خواجہ کائناتکو بے نظیر رہنے دینا خدا کے عجز کی دلیل نہیں خدا نے جس کا سایہ نہ چاہا وہ اس کی نظیر کیسے گوارا کرے گا؟ مہر منیر ان کی ہمسری کیسے کرے؟ جس کا سایہ نہ ہو اس کا نظیر کیا ہو؟ آپؐ کمال ذات کے اعتبار سے منفرد تھے اور ان سالانا لابد محال ہے میں اس عقیدے سے نہ پلٹوں گا اور اسی پر ختم کرتا ہوں۔ حقیقت محمدیہؐ اور ابن حلاجؒ زندہ رود ابن حلاج سے کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ بات پوچھنا گناہ ہو گا مگر بتائی کہ اس جوہر کا راز کیا ہے جسے محمد مصطفیؐ کہتے ہیں؟ آپ آدی تھے یا ایسا جوہر جو کبھی کبھی عالم وجود میں آتا ہے؟ ابن حلاج کا جواب بہت کچھ کتاب الطواسین کے تناظر میں دیکھنا چاہے آنحضرتؐ کو جوہر کہنے پر مولانا محمد اسلم جیراجپوری نے اقبال پر انتقاد کیا تھا ۱۶؎۔ مگر حضرت علامہ یہاں اپنے تمایلات کے علاوہ ابن حلاج کی کتاب پرنظر رکھتے ہوئے تھے اقبال بزبان ابن حلاج کہتے ہیں: پیش او گیستی جبیں فرسودہ است خویش را خود عبدہ ۱۷؎ فرمودہ است عبدہ از فہم تو بالا تر است زانکہ اوہم آدم و ہم جوہر است جوہر او نے عرب نے اعجم است آدم است و ہم ز آدم اقدم است عبدہ صورت گر تقدیر ہا اندرو ویرانہ ہا تعمیر ہا عبدہ ہم جانفزا ہم جانستاں عبدہ ہم شیشہ ہم سنگ گراں عبدہ دیگر عبدہ چیزے دگر ماسراپا انتظار او منتظر عبدہ دہر است و دہر از عبدہ است ماہمہ رنگیم و اوبے رنگ وبو ست عبدہ یا ابتدا یا انتہا ست عبدہ را صبح و شام ما کجا ست؟ کس زرمز عبدہ آگاہ نیست عبدہ جز سر الا اللہ نیست لا الہ تیغ و دم او عبدہ فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ عبدہ چند و چگون کائنات عبدہ راز درون کائنات مدعا پیدا نگردد زیں دو بیعت تا نبینی از مقام مارمیت ترجمہ: آپ کے سامنے ایک جہاں جبیں گستر رہا (مگر) خود انہوںنے اپنے آپ کو عبدہ (اللہ کا بندہ) ہی کہا۔ عبدہ تیری سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ وہ آدم بھی ہے اور جوہر بھی۔ ان کا جوہر عربی یا عجمی نہیں۔ وہ جوہر آدم ہے اور آدم سے قدیم تر بھی ہے۔ عبدہ سے تقدیروں کی صورت گری ہوئی۔ اس وجو د میں ویرانیاں اور تعمیریں (انقلابات) آئیں۔ عبدہ نے جان فزائی کی اور جان ستانی بھی۔ عبدہ شیشہ بھی ہے اور بھاری پتھر بھی۔ عبد اور ہے اور عبدہ اور ہم (عام عبد) سراپا انتظار ہوتے ہیں اور عبدہ منتظر ہوتا ہے۔ عبدہ زمانہ ہے اور زمانہ عبدہ ہے۔ ہم رنگ ہیں اور عبدہ بے رنگ و بو ہے۔ عبدہ ابتدا والا ہے مگر بے انتہا ہے ۔ عبدہ کے لیے ہماری صحبتیں اور شا میں کہاں ہیں۔ عبدہ کے راز سے کوئی آگاہ نہیں وہ لا الہ الا اللہ کے راز کے سوا ہے بھی کیا؟ لا الہ الا اللہ تلوار ہے اور عبدہ اس کی دھار۔ تجھے زیادہ وضاحت چاہیے تو ہو کو عبدہ کہو۔ عبدہ کائنات کی کیفیت اور اس کا راز باطن ہے۔ ان دو شعروں سے تیرا مقصد واضح نہ ہو گا۔ جب تک تو قرآن مجید سے مارسیت ازرمیت ولکن اللہ رحی (۸:۱۷) کا سباق نہ دیکھ لے۔ اب کتاب الطواسین کے پہلے طاسین (طاسین معراج محمدیؐ) کاایک اقتباس ملاحظہ ہو: ۳۔ جس کسی نے آپؐ کی سنت پر عمل کرنے کا کہا اس نے آپ]ؐ کی سیرت حقہ کی متابعت کا کہا اور جس کسی نے آپؐ سے روگردانی کی وہ وبال میں پھنسا… ۸: آپؐ ظاہر بھی ہیں مگر صاحب باطن بھی ہیں۔ آپؐکی نظر عظمت شہرت نور قدرومنزلت اور بصیرت کو زوال نہیں۔ آپؐ وقوع پذیر حوادث بلکہ مخلوق کے وجود سے قبل بھی مشہور تھے۔ آ پ ازل سے موجود تھے اور آپ کے جواہر ابد کے بعد بھی مذکورہ ہیں آپ کا جوہر پاکیزہ ہے اور آپ کا کلام مظہر نبوت آپ کا مرتبہ علم انتہائی بلند ہے اورآپ کا جوہر نور نہ شرقی ہے نہ غربی ہی… ۱۳: کوئی بھی عالم آپ کے علم تک نہ پہنچا اور صاحب حکمت آپؐ کی حکمت کی کنہ سے مطلع نہ ہوا۔ ۱۴: ایسا اس لیے ہوا کہ آپ ’’ہو‘‘ اور ’’ہو‘‘ کی مانند تھے۔ ’’انا‘‘ بھی ’’ہو‘‘ سے ہے اور ہو والا ہو ہو جاتا ہے ۱۸؎۔ اس اقتباس کے بعد کے سوال دیدار رسولؐ کا بھی گویا جواب موجود ہے یعنی دیدار رسولؐ متابعت رسولؐ کا دوسرا نام ہے: معنی دیدار آں آخر زماں حکم او بر خویشتن کردن رواں در جہاں زی چوں رسول انس و جاں ناچو او باشی قبول انس و جاں باز خود را بیں ہمی دیدار اوست سنت او سرے از اسرار اوست حقیقت محمدیہؐ کے سلسلے میں زندہ رود نے ایک تو جوہر نور کی بات کی ہے اور دوسرے آیہ مبارکہ کی مارمیت اذرمیت ولکن اللہ رمی (۸:۱۷) سے آنحضرتؐ کی غیر معمولی قربت حق کا اشتہاد کیا ہے۔ مثنوی رومی ۱۹؎ میں اس آیہ مبارکہ کا حوالہ بکثرت نظر آتا ہے۔ رومی اور زندہ رود کا استدلال یہ ہے کہ غزوہ کے لیے بدوحنین میں خدا نے آنحضرتؐ کے کنکریاں پھینکنے کو اپنا جوہر فعل قرار دیا اس سے آنحضرتؐ کا مقام بلند تو واضح ہے ۔ بلکہ ان نے حقیقی متبع بھی اسی بلندی کا پرتو پا لیتے ہیں ایک نیا نکتہ عبدہ کا ہے۔ کلمہ شہادت اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ ورسولہ میں آنحضرت ؐ کے لیے عبدہ کا لفظ آیا ہے۔ قرآن مجید میں عبدہ ایک بار حضرت ذکریاؑ کے لیے آیا (۲:۱۹) عبد کی دوسری صورتوں (عبادی ‘ عبادہ اور عبدنا وغیرہ) میں آنحضرت کے علاوہ دوسروں کا بھی ذکر آیا ہے مگر ۶ آیات میں عبدہ نبی اکرمؐ کے لیے مستعمل ہوا ہے: ۱:۱۷‘ ۱:۱۸‘ ۱:۲۵‘ ۳۶:۲۹‘ ۱۰:۵۳ ۲۰؎ ‘ اور ۹:۵۳۔ اقبال نے اسی مناسبت سے نقطہ آفرینی کو عبدہ کو آنحضرتؐ کا خاص لقب قرار دے دیا۔ اقبال نے کئی موقعوں پر جیسے تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے آخری (ساتویں) خطبے میں لکھا ہے کہ دین شاعری اور فلسفہ دونوں دریافت حقائق کے ذرایع ہیں مگر دین کا مرتبہ بلند تر ہے۔ اسی مناسبت سے وہ غالب کی زبانی حقیقت محمدیہؐ کی پردہ کشائی نہیںکرتے بلکہ رشتہ بحث ابن حلاج کے ہاتھ میں دیتے ہیں جو شعبہ عرفان و دین کے توسط سے بات کرتے رہے۔ دیدار رسولؐ کے معنی زندہ رود نے یہ بتائے ہیں کہ وہ آنحضرتؐ کی اتباع اور اس اتباع کی روشنی میں خویشتن نگریکا نام ہے۔ اب وہ ابن حلاج سے دیدار خدا کے معنی پوچھتے ہیں۔ ابن حلاج فرماتے ہیں کہ دیدار خدا نقش خدا اپنانے کا نام ہے حدیث قدسی ہے کہ تخلقوا باخلا ق اللہ یہ نقش حق ہلے اپنی روح میں منعکس کیا جائے اور بعد میں سارے جہاں میں۔ اس طرح دیدار خدا عام ہو سکے گا۔ نقش حق اپنانے سے جہاں صید ہو سکتا ہے اور تقدیر تدبیر سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے وہ زندہ رود کو تلقین کرتے ہیں کہ موجودہ کافر و بے دین عصر کی لوح پر نقش حق کندہ کرنے کی بے حد ضرورت ہے ۲۱؎۔ ابن حلاج کی ایک انقلابی صوفی تھے۔ وہ ان بے عمل صوفیہ پر انتقاد کرتے ہیں جو دم بخود خلوت نشین ہیں اور حکم حق کے تد اول کے لیے عملاً کچھ نہیں کرتے اور وہ نقش حق کے ذکر سے شاہد و مشہود کی وحدت بیان کرتے ہیں۔ وائے درویشے کہ ہوئے آفرید باز لب بربست و دم در خود کشید حکم حق رادر جہاں جاری نکرد نانے از جو خورد و کراری نکرد خانقاہے جست و از خیبر رمید راہبی و ر زید و سلطانی ندید نقش حق داری؟ جہاں نخچر تست ہم عناں تقدیر باتدبیر تست بعد کے سوال کے جواب میں ابن حلاج فرماتے ہیں کہ نقش حق کی طرح ریزی کے لیے دلبری کا طریقہ قاہری کی روش سے بہترہے۔ صوفیہ نے تبلیغ اسلام اور اخلاق آموزی کی خاطر دلبرانہ طریق ہی اپنائے ہیں۔ زمزمہ انجم (جاوید نامہ) میں اقبال نے فرمایا ہے: مرد فقیر آتش است میری و قیصری خس است فال و فر ملوک را حرف برہنہ بس است دبدبہ قلندری طنطنہ سکندری آں ہمہ جذبہ کلیم ایں ہمہ سحر ساحری آں بہ نگاہ می کشد ایں بہ سیاہ می کشد آں ہمہ صلح و آتشی ایں ہمی جنگ و داوری ہر دو جہاں کشاستند ہر دو دوام خواستند ایں بہ دلیل قاہری ایں بہ دلیل دلبری ابن حلاج سے بعد کے دو سوال زاہد و عاشق کے فرق اور خودی سوزی کے بارے میں پوچھے گئے ہیں۔ پہلے سوال کا معنی خیز جواب یہ ہے کہ زاہد اس دنیا میں مسافر اور اجنبی ہوتا ہے جبکہ عاشق عالم عقبیٰ میں بھی اس حالت سے دوچار رہے گا ۲۲؎۔ دوسرے سوال کا جواب ابن حلاج یہ دیتے ہیں کہ خودی سوز اور فنائے شخصٰت پر کاربند شخص عارف ہو ہی نہیں سکتا۔ انا الحق خودی کا اعلان ہے اوراس میں فنائے خودی کا عجز شامل نہیں ہے۔ سکر یاراں از تہی پیمانگی است نیستی از معرفت بیگانگی است اے کہ جوئی در فنا مقصود و را ورنمی یا ید عدم موجود را آنحضرتؐ کے جوہر و آدم ہونے اور مقام عبدہ کے سلسلے میں پروفیسر ڈاکٹر این میری شمل نے لکھا ہے : ’’یہ جو حضرت محمدؐ کو آدم و جوہر کا امتزاج کیا گیا ہے۔ یہ ابن عربی اور الجلیلی کی تقلید میں ہے جنہوںنے انسان کامل کا نظریہ پیش کیا اورایسے انسان کی دنیوی اور خدائی صفات بیان کی ہیں۔ عدہ ۲۳؎ کی حقیقت پر صوفیہ متوجہ کرتے رہے ہیں مثلاً دیکھیں رسالہ قیشریہ با پنجابی شاعر بلھے شاہ کے اشعار ان کے نزدیک چونکہ عبدہ کے کلمات اسرار اور معراج کے سیاق و سباق میں آنحضرتؐ کے لیے استعمال ہوئے ہیں (۱:۱۷ اور ۱۰:۵۳) اس لیے یہ کلمات ان کی عظیم شان کے مظہر ہیں۔ اقبال بھی اسی کتاب میںیہی کہتے ہیں: مرد مومن در نسازد با صفات مصطفیؐ راضٰ نشد الا بذات تاز مازاغ البصر گیرد نصیب بر مقام عبدہ گردد رقیب اقبال یہاں شیخ احمد سرہندی (۱۶۲۴ئ) کی تعلیمات سے بھی ہم آہنگ نظر آتے ہیں شیخ موصوف سے انہیں بے حد عقیدت تھی شیخ سرہندی نے عبدیت کا تصور دیا اور خدائے ورا الوراء کے ساتھ انسانی تعلق کی معراج یہی بتائی ہے کہ انسان خدا کا عبد اور بندہ ہے نقشبندی سلسلے کے ایک فرد اور اردو زبان کے شاعر میر درد دہلویؒ اور اقبال کے نظریات کی قربت اور رابطے پر بھی ابھی توجہ نہیں دی گئی۔ انہوںنے علم الٰہی محمدیؐ کا ایک تصور پیش کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ صحیح موحد اور توحید پرست وہی ہے جو بلند اور پردہ شگا ف نظر رکھیں مگر خدا کے عبد ہی رہیں۔ بہرحال اقبال کے نزدیک لفظ عبد ہ بے حد اہم ہے اوراس میں پیغمبرانہ راز مضمر ہے۔ بلکہ انسان کا اناسان کامل کی قربت اور روحانی صفت کی برکت دینے کے لحاظ سے عبدہ کو انسان کا راز بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث قدسی گرہ کشا ہے اور وہ یہ ہے کہ میرا خدا کے ساتھ ایک مقررہ وقت ہے جس میں کوئی رسول یا مقرب فرشتہ بار نہیں پا سکتا۔ معراج شریف کا واقعہ اسی کامل عبدیت کا مظہر ہے جس نے زمان و مکان کے عقدے حل کر دیے تھے۔ اقبال اسی لیے عبدہ کے مقام والا اور پیغمبر اکرمؐ کے نمونہ کامل کی غیر معمولی حیثیت کو با ر بار خاطر نشین کرتے رہے: نوع انسان را بشیر و ہم نذیر ہم سپاہی ہم سپہ گر ہم امیر مدعائے عالم الاسماء ستے سر سبحان الذی اسرا ستے اقبال اس حدیث سے بھی استناد کرتے ہیں جیسے کتاب اللمع وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے مطابق خدا اپنے خاص بندوں کو ہاتھ کان اور آنکھ بن جاتا ہے۔ جس کے ذریعے سے وہ کام کرتے سنتے اور دیکھتے ہیں قرآن مجید میں (۷:۱۸) ایک غزوے کے دوران آنحضرتؐ کے کنکریاں پھینکنے کے فعل کو خدا نے اپے ساتھ نسبت دی ومافیت اذرمیت ولکن اللہ رمی کئی دوسروں کیطرح اقبال نے اس اقایت سے بھی نکتہ آفرینی کی ہے اور اسی طرح دوسرے معجزات رسولؐ سے بھی جیسے واقعہ شق القمر (۱:۵۴) … یہاں انہوں نے الجیلی کی طرح حقیقت محمدیہؐ کو انسان کامل کے طور پر واضح کیا مگر انہوںنے صوفیہ کی طرح اصطلاحات کے پرد ے میں بات نہیںکی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ حضرت محمدؐ اقبال کے لیے بعد از خدا سب کچھ تھے۔ چنانچہ انہوںنے خدا سے کو رسولؐ سے بدل کر عطار کے حمدیہ شعر کو نعتیہ بنایا: حمد بے حد مر (رسولؐ‘‘ پاک را آنکہ ایمان داد مشت خاک را ۲۴؎ پیغمبر اکرمؐ دین یا دنیا کے ہر مسئلے میں قابل تقلید و اتباع نمونہ ہیں: از کلید دیں در دنیا کشاد ہمچو او بطن ام گیستی نزاد…‘‘ (مثنوی‘ اسرار خودی) ابلیس اور نالہ ابلیس ابلیس کا اقبال کے ہاں متعدد مواقع پر آیا ہے۔ اسی جاوید نامہ کے حصہ آں سوئے افلاک میں اس کا ذکر پھر آئے گا۔ اس کتاب سے قبل پیام مشرق میں ۲۵؎ اس کا جاندار کردار مجسم ہو چکا ۔ (بال جبریل اور ارمغان حجاز میں اس کا خصوصی ذکر متاخر دور سے متعلق ہے) یہاں مگر اقبال کتاب الطواسین کے حصہ طاسین ازل و التباس کی مناسبت سے بات کرتے ہیں مذکورہ طاسین میں ابلیس کو غیر معمولی عابد توحید پرست اور ایک جرات مند مجمسہ شر بتایا گیا ہے ابن حلاج ابلیس کے لیے غیر معمولی دل چسپی رکھتے ہیں۔ ان کی یہ دلچسپی دیگر صوفیہ نے بھی اپنائی۔ مثلاً عطار کے الٰہی نامہ کے مقالب ہشتم میں ہے: نمی خواہند طاعت کردن من کنند آنکہ گنہ در گردن من محک نقد مرداں در کف لوست زمشرق تا مغرب در صف اوست چرا در چشم تو خرد است ابلیس کہ رہزن شد بزرگاں را بہ تلبیس یقیں میداں امیرانے کہ ہستند کہ صدتن راچو تو گردن شکستند اگرچہ برسر تو پادشاہند ولے درخیل شیطان یک گدا اند دمے ابلیس خالی نیست زیں سوز ز ابلیس لعیں مروی در آسوز عزیزا قصہ ابلیس بشنو زمانے ترک کن تلبیس بشنو اگرچہ راندہ و ملعونراہ است ہمیشہ در حضور پادشاہ است چو لعنت می کنی اور شب و روز ازو بارے مسلمانی بیا موز اگر شیبان تو گردد مسلمان شود سحر تو فقر و کفر ایماں درآں ساعت کہ ملعوں گشت ابلیس زباں بکشا و در تسبیح و تقدیس کہ لعنت خوشتر آید از توصد بار کہ سر پیچیدن از تو موئے اغیار… عطار کے مندرجہ بالا اشعار میں کتاب الطواسین کا انعکاس اور اقبال کے نالہ ابلیس کا ہیولیٰ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں زندہ رود ابن حلاج سے کہتے ہیں کہ انسان تو ہرلحاظ سے ترقی کر گئے مگر مردو د ابلیس (پودشیاطین) کہیں کا نہ رہا۔ نامعلوم اب بیچارے کا کیا حال ہو گا؟ ابن حلاج ابلیس کو خواجہ اہل فراق کے لقب س ییاد کرتے ہیں یعنی اہل جدائی و فراق کا سردار‘ وہ فرماتے ہیں کہ انسان کو جہول ۲۶؎ کہا گیا ہے مگر ابلیس کاکفرو انکار بتاتا ہے کہ وہ عارف وجود ہے۔ اس کی مردودیت ارتقا کی خاطر ہے۔ انسانوں کو احساس نہیں کہ ابلیس عشق و محبت میں ان سے سینئر ہے۔ جو کوئی ترک تقلید کر کے دیکھے اس کے لیے ابلیس توحید آموز ہو گا۔ زندہ رود ابن حلاج سے مزید گفتگو کے طالب تھے۔ مگر وہ سراپا پرواز عارف جلد رخصت ہو گیا۔ اقبال نے طاہرہ یا غالب سے ملاقات کو بے تبصرہ چھوڑ دیا۔ مگر ابن حلاج سے اثر پذیری کا یہ دلآویز اظہار کرتے ہیں: صحبت روشن دلاں ایک دم دو دم آں دودم سرمایہ بود و عدم عشق را شوریدہ ترکرد و گزشت عقل را صاحب نظر کردو گزشت چشم بربستم کہ با خود دارمش از مقام دیدہ دردل آرمش زندہ رود نے اابلیس کا ذکر کیا تھا۔ تو وہ آنکلا (اسی قسم کی ایک مثل بھی مشہور ہے ۲۷؎) اس وقت جہان مشتری تاریک ہو گیا تھا شعلہ دود سے ایک بڈھا باہر آیا۔ اس نے کالا کوٹ پہن رکھا تھا اور اس کا بدن دھوئیں کے پیچ و تاب میں ڈوبا ہواتھا۔ رومی نے چپکے سے کہا یہ ہے خواجہ اہل فراق وہ سراپا سوز اور ازل سے خون آلود جام والا ہے۔ رومی اس کے حلیے پر تبصرہ کرتے ہیں: کہنہ کم خندہ اندک سخن چشم او بنیدہ جان در بدن رند و ملا و خرقہ پوش در عمل چون زاہدان سخت کوش فطرتش بیگانہ ذوق وصال زہد او ترک جمال لا یزال تاگسستن از جمال آساں بنود کار پیش افگند از ترک سجود اند کے در واردات او نگر مشکلات او ثبات و نگر غرق اندر رزم خیر و شر ہنوز صد پیمبر دیدہ و کافر ہنوز یعنی: وہ بوڑھا سنجیدہ اور کم سخن تھا مگر اس کی نظر بدن میں روح میں دیکھنے والی تھی وہ رند ملا حکیم و فلسفی خرقہ پوش صوفی اور عمل و عبادت میں سخت کوش زاہدوں کا سا تھا۔ اس کی فطرت ذوق وصال سے نا آشنا تھی۔ جمال لا یزال سے فراق اختیار کرنا اس کا زہد تھا چونکہ جمال ایزدی سے انفصال ممکن نہ تھا۔ اس نے انکار سجدہ کے ذریعے اسے طے کیا ذرا اس کی وارداتوں کو دیکھ۔ اس کی مشکلوں اور اس کی ثابت قدمی کو دیکھ۔ وہ اب بھی خیر و شر کے معرکے میں مصروف ہے۔ صدہا پیغمبر دیکھے اور اب بھی کافر ہی ہے۔ ابلیس زندہ رود کو کن اکھیوں سے دیکھتا ہے اور اپنی تاریخ خدامات گنواتا ہے وہ سخت کوش ہے اس نے فقہیان دین مبین کو افتراق سے دوچار کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمان فقہائے اسلام کا شیرازہ بکھیر دیا مگر نظام ابلیسی متحد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس نے خیر و شر کا معرکہ برپا کرنے کی خار انکار سجدہ کیا تھا۔ وہ خدا کا دیدار کر چکا لہٰذا منکر خدا کیسے ۲۸؎ ہو سکتا ہے۔ ؟ اس نے انسان کو ترک و اختیار کا ذوق دیا ہے ابلیس زندہ رود کے لیے انسانوں سے التجا کرتا ہے کہ اسے دعوت مبارزہ دیں اور اس کی اطاعت نہ کریں زندہ رود ابلیس سے کہتے ہیں کہ فراق و افتراق اب چھوڑ دو یہ اچھا عمل نہیں۔ ہمارے رسولؐ نے طلاق ۲۹ ؎ کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ مگر ابلیس اس مشورہ کو کب مان سکتا تھا۔ وہ فراق کے فوائد بتاتے ہوئے اور وصل سے بیزار ی کرتے ہوئے اپنے دھوئیں کے بادلوں میں جا چھپا۔ البتہ شاعر نے دھوئیں سے ایک دردناک نالہ سنایا۔ نالہ ابلیس نالہ ابلیس جاوید نامہ سے قطع نظر ایک جداگانہ نظم کے طور پر بھی اقبال کی ایک لازوال تخلیق ہے۔ اشعار کا حسن صوری بھی ہے اورمعنوی بھی۔ شکوہ و شکایت لکھنے میں اقبال ید طولیٰ رکھتے تھے خڈا اورانسانوں سے وہ شکوے تو کرتے رہے یہاں اہنوںنے انسانوں کے بارے میں ابلیس کا شکوہ نظم کیا ہے۔ یہ شکوہ بے حد عبرت ناک ہے اور ننگ آور ہے۔ کیونکہ خود مظہر شر انسانوں کی بے حد مقاوتی اور تسلیم باشتر کی روش سے خدا کے ہاں فریادی ۳۰؎ ہے۔ وہ خدا سے ملتمس ہے کہ اسے صاحبان خودی اور مردان مومن سے زیادہ سابقہ پڑے گا بلکہ گاہے گاہے اسے شکست بھی ملے کیونکہ سر بہ تسلیم نخچیروںسے وہ تنگ آ چکا ہے۔ اقبال کے ہاں ابلیس انسانوں کی قوت خیر و مبارزہ کو آزمانے کی ایک محک ہے مگر عصر حاضر کے بے عمل انسانوں نے اس ازلی دشمن سے شقاوت اور بدبختی کے سوا کچھ بھی نہیں لیا ہے: اے خداوند صواب و ناصواب من شدم از صحبت آدم خراب ہیچ گاہ از حکم من سر بر نتافت چشم از خود بست و خود را درنیافت خاکش از ذوق ابا ۳۱؎ بیگانہ از شرار کبریا بیگانہ فطرت و خام و عزم او ضعیف تاب یک ضربم نیار دا ایں حریف بندہ صاحب نظر با ید مرا یک حریف پختہ تر باید مرا لعبت آب و گل از من بازگیر می نیابد کودکی از مرد پیر ان آدم چیست یک مشت خس است مشت خس رایک شرار از من بس است اندریں عالم اگر جزخس بنود ایں قدر آتش مراد ادن چہ سود؟ شیشہ رابگدا ختن عارے بود سنگ ۳۲؎ رابگدا ختن کارے سود منکر خود از تومی خواہم بدہ سوئے آں مردے خدا را ہم بدہ… یعنی: اے خدائے خیر و شر میں انسان کی محفل سے خراب ہو گیا ہوں۔ اس نے کبھی میرے حکم سے سرتابی نہ کی۔ خود سے آنکھیں بند کر لیں۔ اور اپنے آپ کو نہ پا سکا۔ اس کا وجود انکار اور شرار عظمت و کبریائی سے بے بہرہ ہے اس کی فطرت خام اور اس کا عزم کمزور ہے۔ یہ مد مقابل میری ایک ضرب کی تاب نہیں لا سکتا۔ مجھے ایک بصیرت والے اور پختہ حریف کی تمنا ہے۔ خدایا یہ مٹی اورپانی کی گڑیا کمزور انسان مجھ سے لے لے۔ بڈھے سے اب بچگانہ کام نہیں ہوتے۔ انسان ہے کیا؟ خس و خاشاک کی ایک مشت‘ مٹھی بھر خس و خاشاک کو میرا ایک شرارہ کافی ہے۔ اس دنیا میں اگر خس و خاشاک ہی ہونا تھا تو مجھے اس قدر آگ دینے کا کیا فائدہ؟ شیشہ پگھلانا باعث ندامت ہے ۔ مگر پتھر پگھلانا مشکل ہوتاہے۔ میری آرزو ہے خدایا کہ میرا دشمن سے سامنا ہو۔ خدایا مجھے ایسے مرد خدا کا راستہ بتا ۳۳؎ (ابلیس کے سلسلے میں افکار اقبال سے ہم آں سوئے افلاک والے حصے میں بحث کریں گے جہاں حضرت شاہ ہمدان کی ذخیرۃ الملوک کی طرف اشارہ آیا ہے)۔ ٭٭٭ فلک زحل بیان واقعات کے اعتبار سے فلک زحل نہایت مختصر ہے (کل ۶۹ اشعار) کردار بھی دو تین ہیں۔ میر جعفر میر صادق اور روح ہند۔ فلک زحل کو ستارہ شناس نحس بتاتے رہے۔ اقبال نے اسے دوزخ یا اس سے ملحقہ منطقہ بتایا ہے زرتشتی مرد صالح نے ادواویر اف نامہ اور دانتے نے ڈیوائن کامیڈی میں مختلف گناہوں کے مرتکبین کو مبتلائے عذاب دکھایا ہے۔ اقبال نے اطراف دوزخ کی ایک جھلک پیش کی اور غداران وطن کوعبرتناک عقوبت میں مبتلا دکھایا ہے۔ ان قومی غداروں کی سز ا اتنی رقت بار ہے کہ ہر درد مند دل یہ حصہ پڑھتے ہوئے متاسف اور متاثر ہوتا ہے۔ زندہ رود ابتدا میں فلک زحل کا نحوست بار منظر بتاتے ہیں۔ اس فلک کے باب کا عنوان ہے وہ پلید روحیں جنہوں نے ملک و ملت کے ساتھ غداری کی اور آتش دوزخ نے بھی انہیں قبول نہ کیا۔ رومی اس فلک کے نحس ہونے پر روشنی ڈالتے ہیں اور اس زنار پوش فلک کے گرد کسی ستارے (فلک) کی دم دکھائی دیتی ہے۔ اس کی حرکت میں جمود ہے اور نیکی وہاں بدی بن جاتی ہے۔ ہے یہ بھی خاکی فلک مگر اس پر قدم رکھنا محال ہے۔ فرشتے یہاں گزر لیے روز الست سے قہر خدا تقسیم کر رہے ہیں۔ فرشتے اس فلک کو درے لگاتے اور جامد کیے ہوئے ہیں۔ اس منحوس مقام پر ایسی ارواح آتی ہیں کہ جن کے جلانے سے دوزخ کو بھی نفرت ہے۔ یہاں دو پرانے طاغوت ہیں جنہوں نے اپنے شکم کی خاطر قوم کی روح کو قتل کیا تھا۔ جعفر از بنگال و صادق از دکن ننگ آدم ننگ دین ننگ وطن یہ شعر اپنی سلاست بلاغت اور معنویت کے اعتبار سے ضرب المثل کی طرح معروف ہو چکا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ برصغیر میں غیر ملکیوں کے استعمار اور غلامی کا بیج ان ہی غداروں نے بویا ہے۔ یہاں میر جعفر یامیر صادق کے حالات اور ان کے غدارانہ کرتوت لکھنے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کافی ہے کہ میر جعفر ۱۷۵۷ء میں نواب سراج الدولہ شہید کی شکست کا سبب بنا اور میسور کی تیسری جنگ (۱۷۹۹) میں میر صادق نے سلطان فتح علی ٹیپو شہید کی ناکامی کے اسباب مہیا کیے ۔ شاعر ان غداروں کو ایک خونین سمندر میں غوطہ زن دکھاتا ہے۔ قلزم خونیں ایک ہولناک مقام ہے جو شاعر کی قوت منظر کشی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ خون بھرا سمندر ۱؎ آنچہ دیدم می نگنجد در بیان تن زسہمش بے خبر گردد زجان من چہ دیدم؟ قلزمے دیدم در خون قلزمے طوفان بروں طوفاں دروں درہوا ماران چو در قلزم نہنگ کفچہ شبگوں بال و پرسیماب رنگ موجہا درندہ مانند پلنگ از نہیبش مردہ ساحل نہنگ بحر ساحل را اماں دم نداد ہر زماں کہ پارہ در خوں فتاد موج خون با موج خوں اندر ستیز درمیانش زور قے درافت و خیز اندر آں زورق در مرد زر دروے زر درد عریاں بدن آشفتہ موئے یعنی میں نے جو دیکھا وہ بیان نہیں ہو سکتا۔ ا س کے خوف سے جسم روح سے بے خبر ہو جاتا ہے۔ دیکھا کیا؟خون بھرا سمندر۔ اس کے اندر بھی طوفان باہر بھی طوفان۔ اس کی فضا میں سانپ ایسے ہی تھے جیسے سمندر میں مگر مچھ ہوتے ہیں ۔ ان پرواز کن سانپوں کے بازو کالے تھے۔ اور پر سفید۔ اس سمندر کی موجیں چیتوں کی سی درندہ تھیں ایسی کہ ان کے خوف سے مگرمچھ ساحل پر ہی دم توڑ دیں۔ ساحل سمندر سے آمیزش کر رہا تھا اور لحظہ بہ لحظہ چٹانیں سمندر میں جا گرتی تھیں۔ اس خود آلود سمندر کی موجیں متصادم تھیں۔ اور ان کے بیچ میں ایک کشتی ڈگمگاتے نظر آتی تھی۔ اس کشتی میں دوز رد چہرہ ننگے اور پریشان حال سر دکھائی دے رہے تھے (یہ جعفر اورصادق کا ماحول ہے)۔ اس منظر کو مصور کیسے پیش کر سکے گا؟ اتنے میں رومی اور زندہ رود روح ہند کو دیکھتے ہیں جو ایک حسین اور خوش لباس حور کی صورت میں مجسم ہے اور وہ نالہ و فریاد کر رہا ہے کہ : اہل ہند جذبہ حب وطن سے بے بہرہ ہیں۔ وہ رسوم و قیود میں جکڑے ہوئے ہیں مگر ملی غیرت و خود ی سے عاری ہیں۔ روح ہند ترک دنیا اور ضعف و ناتوانی سکھانے والے فقر سے پناہ مانگتی ہے۔ ایسا فقر انسان کو نام نہاد صابر اور عملاً مجبور بنائے رکھتا ہے۔ مگر اس حور نازنین کا شکوہ غداروں سے ہے۔ جعفر اور صادق کی روح اب بھی سیاست ہند میں دخیل ہے مسلمان سیاست دان انگریزوں کے علاوہ ہندوئوں کے بھی دست نگر ہیں متحدہ قومیت کا پرچار کرنے والے وطن کو معبود بنا کر اپنے مذہبوں سے غداری کر رہے ہیں۔ گاہ اور ابا کلیسا ساز باز گاہ پیش دیریاں اندر نیاز دین او آئین او سوداگریء است عنتری اندر لباس حیدریؓ است تاجہان رنگ و بو گردد دگر رسم و آئین او گردد دگر تپش ازیں چیزے دگر مسجود او در زمان ما وطن معبو داو جعفر اور صادق کی غداری مسلم۔ مگر غیر مسلموں نے بھی خوب غداریاں کیں ہیں۔ زندہ رود ہند کے غداروں کی دہائی دیتے وہ خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ ملتے راہر کجا غارت گرے است اصل اداز صادقے یا جعفرے است الامان از روح جعفر الامان الامان از جعفر ان ایں زماں ایک دوزخی کی فریاد یہاں کشتی نشین غداروں میں سے ایک کو فریاد کرتے دکھایا گیا ہے۔ وہ اپنے عذاب و عقوبت پر فریاد کرتا ہے اور اپنے عبرتناک انجام پر دوسروں کو متوجہ کرتا ہے کہ اسے اور اس کے ساتھ کو آتش دوزخ نے بھی دھتکار دیا ہے اور موت کو بھی ان کے نابود کرنے سے دلچسپی نہیں۔ گفت دوزخ را خس و خاشاک بہ شعلہ من زیں دو کافر پاک بہ جان زشتے گرچہ نرزد با دو جو اے کہ از من ہدیہ جاں خواہی برو ایں چنین کارے نمی آیدز مرگ جان غدارے نیا ساید زمرگ فلک زحل سے بیرون افلاک جانے کا منظر یوں ملتا ہے: ناگہاں آمد صدائے ہولناک سینہ صحرا و دریا چاک چاک ربط اقلیم بدن از ہم گسیخت دمبدم کہ پارہ بر کہ پارہ لخت کوہہا مثل سحاب اندر مرور انہدام عالمے بے بانگ صور برق و تندر از تب و تاب دروں آشیاں جستند اندر بحر خوں موجہا پر شور و از خود رفتہ تر غرق خون گردید آں کوہ و کمر یعنی اچانک خوفناک آواز آئی جس سے فلک زحل صحرا اور سمندر کا سینہ چاک ہو گیا اقلیم بدن کا رابطہ ٹوٹ گیا۔ چٹانوں پر چٹانیں مسلسل ٹوٹنے لگیں۔ پہاڑ بادلوں کی طرح اڑنے لگے۔ صدائے صور کے بغیر ہی وہ جہاں مٹنے لگا۔ بجلی اور کڑک نے اندرونی تپش سے دریائے خون میں جائے پناہ لی موجیںپر ہیجان ہو کر زیادہ بے تاب ہو گئیں اور پہاڑی سلسلے سمیت دریائے خون میں غرق ہو گئیں… یاد ہے کہ دریائے خون غداروں کا وطن ہے۔ ٭٭٭ آنسوئے افلاک (افلاک سے باہر) افلاک سے باہر جاوید نامے کا بے نظیر اور طویل باب ہے۔ مقدم کتابوں میں افلاک یا اعراف بہشت اور دوزخ کا ذکر آیا ہے۔ اقبال نے افلاک کسے باہر جانے کا نیا تصور پیش کیا ہے اس حصے کے متعدد کردار ہیں نیٹشے قصر شرف النساء شاہ ہمددان اور غنی بھرتری ہری‘ ابدالی‘ سلطان ٹیپو اور نادر شاہ ‘ روح ناصر خسرو‘ حوران بہشتی اور جمال خدا۔ تجلی جلال سے اس سفر کا اختتام ہو جاتا ہے۔ نیٹشے کا مقام اعراف بال جبریل میں ہے۔ تڑپ رہا ہے فلاطوں میان غیب و حضور ازل سے اہل خرد کا مقام ہے اعراف جرمن فلسفی فریڈرک ولہلم نیٹشے (۱۸۴۴ئ…۱۹۰۰ئ) کو اقبال نے یہاں افلاک اور بیرون افلاک یعنی مکان و لامکان کے بیچ میں دکھایا ہے۔ آں سوئے افلاک کے آغاز میں وہ نٹشے کے تصور معرکہ ہستی و نیستی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے اثبات (تکمیل خودی) اور اس کی ظاہری بے ثباتی کا ذکر کرتے ہوئے زمین و افلاک کی حدود کے خاتمے کا حال بیان کرتے ہیں مکان و لا مکان میں بڑ ا فرق ہے۔ وہاں مہرو ایام سریع ہے مگر عقل انسانی وہاں کام نہیں کر سکتی۔ مکان لامکان کے درمیان انہوںنے ایک تیز نظر اور صاحب سوز جگر شخص کو دیکھا جو انسانی عظمت کا حاکی اور یہ شعر بار بار پڑھ رہا تھا: نہ جبریلے نہ فردوسے نہ حورے نے خداوندے کف خاکے کہ می سوز دز جان آرزو مندے زندہ رو د (اقبال) نے رومی سے کہا کہ یہ دیوانہ کون ہے؟ رومی کہتے ہیں کہ وہ ایک جرمن فرزانہ (مجذوب) ہے بات اس نے بھی عظمت نفس کی ہے (انا الحق) مگر وہ ایک نیا ابن حلاج ہے مغرب والے ا س کی بے باک باتوں سے لرز اٹھے ۱؎۔ تھا وہ مجذوب مگر اسے دیوانہ مشہور کر دیا گیا۔ اسے کسی فتویٰ باز مولوی نے مصلوب نہ کیا مگر طبیبوں ۲؎ نے اسے تیز دوائوں سے مار ڈالا۔ وہ مقام کبریا کی تلاش میں تھا مگر عشق و مستی سے بے نصیب اہل مغرب اس کی کیا تشفی کرتے؟ الا محالہ وہ ملحد ہی رہا اور لا الہ کی منزل سے آگے بڑھ کر الا اللہ نہ کہہ سکا۔ وہ طالب دیدار مگر وہ ظلمت ہی میں رہا۔ اگر وہ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے زمانے میں ہوتا تو وہ سرور سرمدی حاصل کر لیتا اور مقام کبریا ۳؎ دیکھ لیتا۔ نیٹشے ایک ذہین فلسفی تھا مگر آخری عمر میں وہ فالج زدہ اور کسی قدر فاترالعقل ہو گیا تھا۔ اقبال اس کے فوق البشر (سپر مین) کے تصور کواعلان خودی کے مترادف ۴؎ جانتے تھے اور اس کی تالیف بقول زرتشت کا انہوںنے خصوصی تاثر لیا تھا۔ نیٹشے اور اقبال کے تصورات کے قرب و بعید پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ اقبال کے ہاں اس کا ذکر پیام مشرق انگریزی خطبات بال جبریل اور ضرب کلیم وغیرہ میں بھی ہے تقابلی مطالعے سے ایسا ہوتا ہے کہ نیٹشے کی تنقید مسیحیت اس کے تصور ارتقائے حیات اور مقام فوق البشر کے نکات کے اقبال قدر دان تھے۔ اس حصے کا خاتمہ کتنا دلآویز ہے۔ عقل او با خویشتن در گفتگو ست تو رہ خود رو کہ راہ خود نکوست پیش نہ گامے کہ آمد آن مقام کاندرو بے حرف می روید کلام ۵؎ یعنی رومی نے کہا کہ نیٹشے کی عقل خود کلامی میں مصروف ہے اب اس کی بات چھوڑو کیونکہ وہ مقام آ رہا ہے جہاں بے حرف کلام بنتا ہے۔ (یہ بہشت میں پہنچنے کا حرف آغاز ہے)۔ بہشت کا تصور زندہ رود ابتدا میں بتاتے ہیں کہ جنت الفردوس‘ روح کی طرح اب مجرد مقام ہے جسے مجسم کرنا ناممکن ہے۔ جنت کا بیان روح و دل کا بیان ہے۔ یہاں کے حالات و آثار تغیر پذیر رہتے ہیں۔ اہل زمین کی زبان میں جنت کا ماحول اس طرح منعکس ہو سکتا ہے۔ لالہ ہا آسودہ در کہسار ہا نہرہ ہا گردندہ در گلزار ہا غنچہ ہائے سرخ و اسپید و کبود از دم قدوسیاں اور کشود آب ہا سیمیں ہوا ہا عنبریں قصہ ہا با قبہ ہائے زمردیں خیمہ ہا قوت گوں زریں طناب شاہداں با طلعت آئینہ تاب ترجمہ: پہاڑوں پر گلہائے لالہ پٹے پڑے تھے باغوں میں نہریں بہہ رہی تھیں۔ سرخ سفید اور سبز غنچے فرشتوں سے سانس سے کھل رہے تھے۔ روپہلا پانی عنبر بار فضائیں اور ہوائیں (اور ) زمردی (نیلے) رنگ کے قبوں والے محل دکھائی دیتے تھے۔ سرخ رنگ کے شامیانے اور باناتیں تھیںآئینے کے چہرے والے حسین (حور و غلمان) اس پر مزید تھے۔ زندہ رود یہ جلوے دیک کر حیران سے تھے مگر رومی نے انہیں بتایا کہ یہ جلوے حقیقی نہیں بلکہ یہ اعمال کے عکوس ہیں۔ بہشت نیک اعمال والوں کا مسکن ہے لہٰذادیدار اور ذوق دید کے مقام کے یہ حسین جلوے اعمال کے ظل اور عکس ہیں۔ دوزخ و بہشت کے اعتباری ہونے کا بیان مقدم مسلمان مفکرین کے ہاں بھی ملتا ہے اور خود اقبال کی بعض مقدم اور متاخر کتابوں میں بھی ۶؎۔ جاوید نامے کے اس حصے میں بھرتری ہری کا ایک شعر ترجمے کی صورت میں ہے: پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار زانکہ خیز در عمل دوزخ و اعراف و بہشت شاعر نے عالم ارواح یا عالم مثال کی نوعیت مختصراً بیان کی اور اب وہ ایک محترم خاتون شرف النساء بیگم کے محل کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ شرف النساء دنیا کی طرح بہشت میں بھی مستور و محجوب ہی ہیں۔ البتہ شاعر ان کا قصر لعلین دیکھتا ہے جسے حوروں کی پاسداری حاصل ہے۔ شرف النساء بیگم شرف النساء بیگم خان بہادر کی بیٹی اور نواب ذکریا خان کی بہن تھیں۔ ان کے دادا نواب عبدالصمد خاں تھے بیگم رحمتہ اللہ علیہا کے والد اور دادا تیموریوں (مغلوں) کے نامور گورنر تھے۔ فرخ سیر کے عہد میں گوروبندہ بیراگی کا جو فتنہ پنجاب میں اٹھا اسے بیگم موصوف کے باپ دادا نے ہی فرو کیا تھا۔ اور بندہ بیراگی ۱۷۱۶ء میں قتل ہوا تھا۔ یہ خاتون بظاہر جوانی میں ۱۷۴۷ ء میں فوت ہوئی اور لاہور کے علاقہ بیگم پورہ میں دفن ہوئی۔ شالامار کے نزدیک کا یہ علاقہ بیگم مرحومہ کے نام پر ہے اور ان کے مقبرے کو جو سرو کے درختوں میں محصور رہا سرووالا مقبرہ کہتے ہیں۔ زندہ رود اس خاتون کو عفت مآبی اور قرآن دوستی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ علی الصبح ایک بلند چبوترے پر بیٹھتیں اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتیں۔ ان کی کمر میں تلوار آویزا ں رہتی جسے وہ قرآن مجید کے ساتھ رکھ کر چبورترے سے نیچے اترتی تھیں۔ قرآن مجید اور تلوار (علامت جہاد) سے اس خاتون کو عجیب وابستگی تھی۔ وہ جب امراض الموت میں مبتلا ہوئیں تو انہوںنے قرآن مجید اور تلوار کو ان کے ساتھ رکھنے کی وصیت کی چنانچہ یہ چیزیں اسی چبوترے کے نیچے ان کے مدفن کے تعویز میں رکھ دی گئیں۔ زندہ رود نے اس خاتون کے معمول کی یوں تحلیل کی ہے۔ تاز قرآن پاک می سوز و وجود از تلاوت یک نفس فارغ بنود در کمر تیغ دو رو قرآن بدست تن بدن ہوش و حواس اللہ مست خلوت و شمشیر و قرآن و نماز اے خوش آں عمرے کہ رفت اندر نیاز ۷؎ قرآن مجید اور شمشیر ایک دوسرے کی محافظ ہیں اور اجتماعی زندگی کا مدار و محور بھی۔ این دو قوت حافظ یک دیگرانہ کائنات زندگی را محور اند کوئی ایک صدی تک قرآن و شمشیر کا وجود زائرئن کو پیغام حیات دیتا رہا۔ مگر سکھا شاہی دور میں کسی سکھ نے اس تعویز کو غالباً بربنائے حرص و آز) کھولا اور قرآن مجید اور شمشیر کو لے گیا۔ ان نعمتوں کے فقدان نے دین اسلام کو پنجاب میں زار و زبوں کر دیا۔ علامہ نے واقعات تاریخ کے بیان کرنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں چنانچہ یہاں انہوںنے سکھا شاہی اور اس سے ماقبل کی تاریخ پنجاب کو چار شعروں میں سمو دیا ہے: مرقدش اندر جہان بے ثبات اہل حق را داد پیغام حیات تا مسلمان کرد باخود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در نورد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا روبہی را پیشہ کرد ۸؎ از دلش تاب و تب سیماب رقت خود بدانی آنچہ بر پنجاب رفت خالصہ شمشیر و قرآن راببرد اندراں کشور مسلمانی بمرد یعنی شرف النساء بیگم کا مزار قرآن مجید اور شمشیر کے تعویز کی بنا پر مدتوںمسلمانوں کے لیے پیغام زندگی بنا رہا۔ پھر مسلمانوںنے جو کیا سو کیا اور گردش زمانہ نے اس کی بساط الٹ دی۔ مرد حق دراصل غیر حق کا سوچنے لگا (اور) اس شیر حق نے لومڑی کا مکارانہ شیوہ اخیتار کیا اور اس طرح مسلمانوں کے دل سے پارے کا اضطراب جاتا رہا اور تجھے معلو م ہی ہے کہ پنجاب پر کیا گزری چنانچہ سکھ قرآن مجید اور شمشیر لے اڑے اور یہاں اسلام کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ ان اشعار میں سکھا شاہی دور کا اشارہ ہے خصوصاً ۱۸۴۰ء میں شروع ہونے والی سکھوںکی خانہ جنگی کا جس نے پنجاب کے کئی آثار مٹا دیے اور اس منطقے کو ضعف و اضمحلال سے دوچار کر دیا۔ خالصہ عہد پنجاب میں تقریباً انیسویں صدی کے اوائل سے پنجاب کے بعض حصوں پر رنجیت سنگھ کا تسلط شروع ہوا جو کوئی چالیس برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد کوئی دس برس تک (۱۸۴۹ئ) اس کے کئی جانشینوں کا زور گزر اقتدار رہا۔ اس دوران سکھوں نے نہایت بہیمانہ اور تعصب آمیز کام کیے۔ انہیں بالخصوص مسلمانوں کے شعائر اور معابد کے تقدس کا کوئی پاس نہ تھا۔ انہوںنے خوف و ہراس کی فضا قائم رکھی تھی۔ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ (۱۸۳۱ء بمقام بالا کوٹ) کی تحریک جہاس اساساً سکھوں کے خلاف ہی تھی۔ لیکن علامہ اقبالؒ کی یہ توجیہہ کتنی برحق ہے کہ بندہ حق نے غیر حق کے ساتھ ساز باز کی اورمسلمانوں کو خالصائوں کی بدترین غلامی کا دور دیکھنا پڑا ۹؎۔ امیر کبیر حضرت سید علی ہمدانیؒ اور ملاطاہر غنیؒ کشمیر ی کی زیارت حضرت میر سید علی ہمدانیؒ(۷۸۶ھ؍۱۳۸۵ئ) کو حواری کشمیر علی ثانی اور شاہ ہمدانی کے القاب سے یاد کرتے ہیں ملا محمد طاہر غنی کشمیری (۱۰۷۹ھ) سبک ہندی کے معروف فارسی شاعرہیں جن کے آبائو اجداد حضرت شاہ ہمدانی ؒ کے ساتھ ایران سے وادی جموں و کشمیر میں وارد ہوئے تھے۔ زندہ رود ابھی تاریخ پنجاب کے سکھا شاہی دور کے مظالم کی یاد سے ملول تھے کہ انہیں غنی یہ شعر پڑھتے دکھائی دیے۔ جمع کردم مشت خاشا کے کہ سوزم خویش را گل گماں دارد کہ بندم آشیاں در گلستان رومی کہتے ہیں کہ اب تاریخ پنجاب کو ایک طرف رکھ دیں اور بعد کے نظارے دیکھیں دراصل وہ زندہ رود کی توجہ اب تاریخ کشمیر کی طرف مبذول کروا رہے ہیں۔ وہ شعر خواں درویش شاعر ملا محمد طاہر غنی کا تعارف پیش کر تے ہیں کہ وہ بہشت میں حضرت شاہ ہمدانؒ کے حضور شعر و نغمہ پڑھتے رہتے ہیں۔ پھر وہ حضرت شاہ ہمدانؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جن کا ہاتھ تقدیر امم کا معمار ہے۔ ان کے عظیم خاندان سے امام محمد غزالیؒ ایسے یگانہ روز فرد نے استفادہ کیا ہے ۱۰؎۔ وہ خطہ جنت نظیر کشمیر میں امرا دراویش اور سلاطین کے مربی و مشیر رہے ۔ اسی فیاض شخص نے وادی جموں و کشمیر کو علم صنعت و حرفت تہذیب و تمدن اور دین اسلامی کی نعمتوں سے مالا مال کیا خوشنما اور دل فریب ہنر و فن رائج کر کے انہوںنے وادی و ایران صغیر کا لقب کا سزاوار کیا۔ علامہ اقبال کے جن پانچ شعروں کی ہم نے تحلیل پیش کی ان میں تلمیحات اور معانی کا ایک جہان مضمر ہے۔ سید السادات ۱۱؎ سالار عجم دست او معمار تقدیر امم تاغزالی درس اللہ ہو گرفت ذکر و فکر از درد مان او گرفت مرشد آں کشور مینو نظیر میر و درویش و سلاطین را مشیر ۱۲؎ خطہ را آں شاہ دریا آستیں داد علم و صنعت و تہذیب و دیں آفرید آں مرد ایران صغیر باھنر ہائے غریب و دلپذیر یہ اشعار حضرت شاہ ہمدانؒ کے کچھ حالات اور کارنامے بیان کرنے کے متقاضی ہیں۔ حضرت شاہ ہمدانؒ احوال و خدمات۱۳؎ حضرت شاہ ہمدان ۷۱۴ھ میں ہمدان میںمتولد ہوئے اور ان کے اجداد طبقہ حکام سے تعلق رکھتے تھے مگر شاہ صاحب نے فقر کو ترجیح دی سید علاء الدولہ سمنانی ۷۳۴ھ ان کے ماموں تھے انہوں نے کئی بزرگوں سے استفادہ کیا۔ جیسے اخی علی دوستی سمنانی ( ۷۳۴ھ) شیخ محمود مزوقانی رازی (۷۶۶ھ) او رشیخ محمد بن محمد ازکانی ۷۷۹ھ۔ شاہ موصوف بہت بڑے سیاح تھے انہوںنے اکثر اسلامی ممالک کی سیر کی اور ۱۲ بار حج کیا امیر تیمور کے دور اقتدار میں وہ تاجکستان کے علاقے ختالان موجودہ نام کولاب اوراس کے نواح میں تبلیغ کرتے رہے مگر حق گوئی کی پاداش میں ۷۷۴ھ میں انہیں ملک بدر کر دیا گیا۔ وہ اسی سال سرینگر کشمیر یں آئے۔ انہوںنے سلطان قطب الدین اور سلطان شہاب الدین شاہمیری کے زمانے میں یہاں بے نظیر خدمات انجام دیں۔ ان کے ساتھ صدہا ایرانی مہاجر بھی کشمیر آئے۔ انہوںنے شال بانی اور دیگر دست کاریوں کو ترقی دی۔ شاہ ہمدان نے وادی جموں و کشمیر گلگت بلتستان اورنواحی علاقوں میں ہزار ہا لوگوں کو دعوت دین دی۔ اور وہ اسلام لے آئے۔ شاہ موصوف ۷۸۶ھ میں فوت ہوئے اور وصیت کے مطابق مذکورہ ختلان گولاب لے جا کر دفن کیے گئے اور ان کے بیٹے میر سید محمد ہمدانی نے (۷۷۴۔۸۵۴ھ) میں ان علاقوں میں تبلیغ کی جنہیں ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں۔ شاہ ہمدان فارسی اور عربی میں شعر بھی کہتے تھے ان کی سو سے زیادہ کتابیں موجود ہیں ان میں سے اہم ترا ور ضخیم تر ذخیرۃ الملوک ہے۔ کتاب کے دس باب ہیں اور اس میں نظام اسلام کے جملہ پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ یہ علامہ اقبال کی ممدوح کتاب تھی ۱۴؎۔ زندہ رود اب کشمیر کے معاصر حالات پر تبصرہ کرتے ہیں۔ وادی جموں و کشمیر کی طبعی خوبصورتی اوریہاں کے باشندوں کا حسن اور ظرافت کاری و ہنر مندی مسلم مگر ہائے یہ غلامی اور غریبی افسوس کہ وہ کشمیر جس نے آٹھویں صدی ہجری میں شہاب الدین شاہمیری (۷۷۵۔۷۹۶ھ) ایسا فاتح جرنیل اور حاکم پیدا کیا افسوس آج محکومی اور مفلوک الحالی کی زندگی گزارتا ہے۔ زندہ رود گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے کہ اتنے میں غنی ڈوگروں کے ہاتھوں جموں و کشمیر کی خرید (معاہد امرتسر ۱۸۴۶ء ) کے مسئلے پر توجہ دلاتے ہیں۔ باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی حرفے زمابہ مجلس اقوام باز گوے دہقاں و کشت و جوے و خیابان فروختند قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند مگر ’’مجلس اقوام‘‘ نے اس غیر انسانی معاہدے پر کوئی توجہ نہ دی ادھر استصواب رائے کے سلسلے میں ۱۹۴۸ء سے اقوام متحدہ نے بھی کچھ نہ کیا۔ شاہ ہمدان جواباً فرماتے ہیں کہ کشمیر کے حالات بدلنے اور یہاں کے باشندوں کی حالت سھدرنے کا راز ان کی بیداری اور سرفروزی میں مضمر ہے۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں وہ اہل کشمیر کو تلقین کرتے ہیں کہ غاصبین حقوق ڈوگروں کو وہ باج مالیہ بھی ادا نہ کریں کیونکہ اس کے مستحین اولی الامر ہوتے ہیں خواہ وہ منتخب ہوں یا فاتح مگر ریاست کے نام نہاد خریداروں کو باج کا حق نہیں۔ غنی کشمیر سے نسبت والے ہندی آزادی خواہوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ان میں اقبال بھی شامل ہیں کہ ان کے نفس گرم سے پورے برصغیر کی تحریک آزادی پروان چڑھ رہی ہے۔ کشمیریوں کی ہنر مندی اور ان کی مفلوک الحالی کا بیان ساقی نامہ (پیام مشرق) میں بھی ملتا ہے۔ کشمیری کہ بابندگی خوگرفتہ بتے می تراشد زسنگ مزارے ضمیرش تہی از خیال بلندے خودی ناشناسے زخود شرمسارے بریشم قبا خواجہ از محنت او نصیب تنش جامہ تار تارے اقبال کا تصور ابلیس حضرت شاہ ہمدان ؒ کی غیر معمولی اور معاشرتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے بعد زندہ رود ان ؤسے حقیقت ابلیس پر روشنی ڈالنے کو کہتے ہیں۔ شاعر کا سوال پانچ اشعار کا حامل ہے۔ میں آپ سے اس راز خدائی کے عقدے کی کلید چاہتا ہوں کہ اس نے انسانوں سے اطاعت کا تقاضا کیا اور شیطان بھی پیدا کر دیا۔ خوب و ناخوب کی آرائش کیوں؟ اور علم سے عمل کا تقاضا کیوں ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ جادوگری ہے اور بدقمار سے ہم نشینی کیوں کروائی گئی ہے؟ مہماری مشت خاک اور یہ فلک گردوں؟ فرمائیے خدا نے ہمارے ساتھ یہ کیا کھیل کھیلا ہے ؟ ہمارے کام اور ہمارے افکار و بال جان ہیں اور ہم سوائے دانتوں سے ہاتھ کاٹنے کے کریں بھی تو کیا؟ مدعا یہ ہے کہ ابلیس کے وجود شر کو انسان کے پیچھے کیوں لگادیا گیا ہے شاہ ہمدانؒ کا جواب شاعر شعروں میں سما گیا: بندہ کز خونیشتن دارد خبر آفریند منفعت را از ضرر بزم بادیواست آدم راو بال رزم بادیواست آدم را جمال خویش را براہرمن باید زدن توہمہ تیغ آن ہمہ سنگ فسن تیز تر شوتا فتد ضرب تو سخت ورنہ باشی دردو گیتی تیرہ بخت زندہ رود نے بعد کے ایک سوال میں خود اشارہ کر دیا ہے کہ وہ حضرت شاہ ہمدانؒ کی بحث خیر و شرکی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو ان کی اہم تر کتاب ذخیرہ الملوک میں ملتی ہے۔ گفتہ از حکمت زشت و نکوئے پیر دانا نکتہ دیگر بگوئے مرشد معنی نگاہاں بودہ محرم اسرار ۱۵؎ شاہاں بودہ جاوید نامہ کی تخلیق سے کچھ قبل اقبال ذخیرہ الملوک دیکھنے کے آرزو مند تھے ۱۶؎ اور منشی محمد الدین فوق نے یہ کتاب ان کو دی ہو گی اسی کتاب کے حوالے سے اقبال نے کہا ہے کہ ابلیس سے مقابلہ کرنے سے انسانی خودی کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوتا ہے۔ذخیرہ الملوک میں یہ بحث تفصیل کے ساتھ باب ششم میں موجود ہے ۔ اس باب کا عنوان در شرح سلطنت معنوی و اسرار خلافت انسانی و کیفیت سیاست روحانی و اطلاع بر صلاح و فساد مملکت جسمانی و مشابہت تعاریف ولایت حسی و مفاد براسرار خلافت نفسی ہے اس کا ایک مربوط اقتباس یوں ہے۔ ۱۷؎ و نزد اہل کشت و تحقیق ملائکہ و شیاطی بحقیقیت ایں دو لشکر ندوایں دو لشکر در شہر وجود انسانی ازاوان بلوغ تالجد لحد پیوستہ در محاربت و منازعت اندوہر یک ازایں دو لشکر نفاذ امر یادشاہ خودمی طلبند و قمع دیگرے می خواہند و خلق در غالبیت و مغلوبیت ایں دو لشکر برینج قسم اند مومن محفوظ و کافر مرک و منافق غادرو عاصی مصر و فاسق متلون امامومن محفوظ و بتا اید عنایت ربانی از جہاد لشکر نفس وھوی پرداختہ وابراعدائے شہر و جود ظگر یافتہ و روح و عقل کہ را پادشاہ وزیر مطلق اند حاکم حاضر دیارائی مملکت سائی و قوائے روحانی کہ حزب اللہ و بدرقہ راہ سعادت اند مظفر و منصور گردایندہ و اعادی شہر وجود را کہ جن شیاطین و داعی راہ شقاوت اند منہزم و مقہور گردایند ہ و صولت ہویٰ را باغی حضرت خلافت است پائمال غیرت کدہ ودار المک بدن رابہ عدل و علم و طاعت و احسان معمور گردایندہ است ذلک فضل اللہ یوتیہ لمن یشائ۔ اقبال خودی و شخصیت کے ارتقاء کی خاطر مخالفانہ قوت سے نبرد آزمائی کے قدردان تھے مثنوی اسرار خودی میں ہے۔ فارغ از اندیشہ اغیار شو قوت خوابیدہ بیدار شو سنگ چوں برخود گماں شیشہ کرد شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد ناتواں خود را اگر رھرو شمرو نقد جان خویش بار ہزن سپرد تاکجا خود را شماری مائوطین از گل خود شعلہ طور آفرین با عزیزاں سرگراں بودن چرا شکوہ سنج دشمنان بودن چرا؟ راست میگویم عدوہم یار تست ہستی او رونق بازار تست ہر کہ دانائے مقامات خودی است فضل حق داند اگر دشمن قوی است کشت انساں راعدو باشد سحاب ممکناتش رابر انگیز و ز خواب سنگ رہ آب است اگر ہمت قوی است سیل را پست و بلند جادہ چیست؟ سنگ رہ گردو فسان تیغ عزم قطع منزل امتحان تیغ عزم ابلیس (پدر شیاطین) کی افادیت ان کے نزدیک یہی تھی کہ وہ ایک متحرک مخالف کردار ہے جو انسان کو فعال اورنبرد آزما بنائے رکھتا ہے۔ ایک تحقیقی نظر تصور ابلیس کے سلسلے میں اقبال کے کئی مشرقی او رمغربی ماخذ نظر آتے ہیں جیسے تصورات زرتشت و مانی ابن حلاج کی کتاب الطواسین عطار کا الٰہی نامہ‘ ابن عربی کی الفتوحات المکیہ ۱۸؎ رومی کی مژنوی شریف۔ عبدالکریم الجیلی کی االانسان الکامل دانتے کی ڈیوائن کامیڈی ۱۹؎ ملٹن کی فردوس گم گشتہ اور گوئٹے کا ڈرامہ خائوسٹ وغیرہ۔ علامہ مرحوم نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کے عنوان سے لکھا تھا اور اس طرح انہوںنے ایران قدیم اور ا س ملک کے قدیم مذاہب کے بارے میں بڑا ہی دقیق و عمیق مطالعہ فرمایا تھا۔ چنانچہ زرتشتی اور مانوی مذہب کاتصور خیر و شر اور پہلوی اور اوستازبانوں میں مذکور نئی روایات و اساطیر ان کے تصور ابلیس میں موجود ہے۔ سال تالیف و اشاعت کی ترتیب کے لحاظ سے علامہ کی جن تصانیف میں بظورخاص ابلیس کا تصور بیان ہوا ہے وہ ’’پیام مشرق‘‘ ’’’جاوید نامہ‘‘ ’’بال جبریل‘‘ ’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’ارمغان حجاز‘ ‘ ہیں ان کتابوں میں شر آمیز ہستی کے لیے ابلیس شیطان طاغوت اہرمن اور دیو وغیرہ کے کلمات استعمال ہوئے ہیں اس طرح اس کا اسم خاص عزازیل میں بھی ذکر ہوا ہے۔ ابلیس اور شیطان کو علامہ نے نہایت مناسب سیاق و سباق اور پوری معنوی بصیرت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور اس نازک فرق کو ملحوظ رکھا ہے۔ جو نظام ابلیسی کے کارکنوں کے ساتھ مربوط ہے۔ مثلاً ابلیس شیطا ن اور دیگر ناموں کے سلسلے میں۔ ابلیس (اس کا اسم ذات عزازیل ہے) جملہ شیاطین کا ابو الآباء ہے۔ عزازیل عبرانی زبان کا لفظ ہے قرآن مجید نے ابلیس کو ناری اور افلاکی مخلوق قرار دیا ہے ۔ یہ کلمہ قرآن حکیم مین گیارہ بار آیا ہے۔ اس لفظ کے مشتق اور غیر مشتق ہونے کے بارے میں کئی بحثیں ملتی ہیں۔ آرتھر جیفری کا خیال ہے کہ اسے یونانی لفظ Dia Bolosسے معرب کیا گیا ہے۔ عبرانی اور سریانی زبانوں میں اول Dکو حذف کر لیا گیا اور پھر کچھ تعریف وتغیر سے ابلیس بنا دیا گیا۔ یونانی لفظ کے معنی دروغ گوئی اور فتنہ پرداز کے ہیں اور یہ کام ابلیسیت کے ساتھ مربوط ہیں اور دوسری طرف شیطان وزن فعلان کا مادہ پروفیسر مذکورہ شیط بتاتے ہیں جس کی اصلی حبشی زبان ہے شیطان کے معانی ارواح خبیثہ کے حاکم کے ہیں۔ قرآن مجید میں یہ لفظ ستاسی بار وارد ہوا۔ (جمع شیاطین) اور اس کے معانی متعدد نظر آتے ہیں کہں ابلیس اولاد آدم کے لیے استعمال ہوا ہے اور کہیں خبیث اراوح کے لیے قرآن مجید میں انسان اور جن کا بھی ذکر آیاہے اور کہٰں کہیں مخالف دین اور دشمن افرادکو بھی شیطان کہا گیا ہے ہم یہاں تین آیات نقل کر دیں: ۱۔ واز القول الزین آمنوا قالو آمنا ج واذا خلوا الی شیطینھم فالوانا معکم (۱۴:۲) یعنی جب وہ منافقین مومنوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اپنے شیطان (برے افراد اور سرداروں) سے اکیلے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ۲۔ وکذلک جعلنا لکل نبی عدو شیطین الانس و الجن یوحی بعضھم الی عض زخرف القول غرورا (۱۱۲:۶) یعنی اور اسی طرح ہم نے کے دشمن بہت سے آدمی اور جن شیطان پیدا کیے جن میں سے بعض ددوسروں کو چکنی چپڑی باتوں سے وسوسے میں ڈالتے ہیں۔ تاکہ انہیں دھوکے میں رکھیں۔ ۳۔ وان الشیطین لیوحون الی اولیھم لیجارلوکم ج (۱۲۱:۶) اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کو وحی کرنے (خفیہ تعلیم دیتے) ہیں تاکہ یہ تم سے پیکار و جدال کریں۔ لفظ طاغوت قرآن مجید میںآٹھ بار آیا ہے اورا سکے معانی بت ساحر اور کاہن وغیرہ شامل ہیں لہٰذا ساحر و کہانت بھی ابلیسی امور ہیں۔ اہرمن(مظہر شر یا خالق شر) اور دیوزرتشتی مذہب کی لفظیات ہیں قدیم ایرانی ادبیات میں ہرمز ہرمز و با اہورا مزدا خدا نے واحد کے نام ہیں جبکہ اہرمن کی ضد (ثنویت نمودار ہونے کے بعد)ٰ اس مذہب میں یزداں بن گئی گو اصل کے اعتبار سے یزداں ایزداں ہے یعنی ایزد کی جمع اور ایزد مقرب فرشتے کو کہتے ہیں۔ جن الفاظ کا یہاں ذکر ہوا۔ ابلیس عزازیل شیطان طاغوت دیو اور اہرمن (ضد یزداں) علامہ اقبال کے اشعار میں یہ سب مذکور ہیں مثلاً: کہتا تھا عزازیل خداوند جہاں سے پرکالہ آتش ہوئی آدم کی کف خاک (ب۔ج) ترا از آستان خود براند ند رحیم و کافر و طاغوت خواندند من از صبح ازل در پیچ و تابم ازاں خارے کہ اندر دل نشاندند (۔ح) از خداوندے کہ غیب اور اسزد خوشتر آں دیوے کہ آید در شہود (ج۔ن) اہرمن رازندہ کر د افسون غرب روز یزداں زرد و رواز بیم شب (ج۔ن) یہاں اس بات کی بھی وضاحت کر دیں کہ اہرمن (یا اہریمن) زرتشتی مزہبی زبان اوستا میں انگرامینیو کے طور پر مذکور ہے۔ اور ا س کے مانی ناپاک کے ہیں دیواس فکر پاک کے ہمکاروں کے نام ہیں اور وہ متعدد ہیں۔ جیسے غصے حرص اور جھوٹ کے دیو جو تقریباً شیطان کے مترادف ہیں پہلوی زبان میں لکھی گئی زرتشتی مذہبی کتاب یندھشن کی ر و سے ہرمز خالق خیر ہے اور اہریمن خالق شر۔ تخلیق کائنات کے بعد ہرمز نور کائنات کے حصے کا مالک بنا اور اہریمن حصہ ظلمت کا مانی کے مذہب میں بھی نور و ظلمت کی یہ بحث موجود ہے اور تخلیق کائنات کے ضمن میں اہور امزدا اوراہریمن کی تخلیقات کے ان حصوں کا بھی ذکر ہے۔ اقبال نے زرتشت اور مانی کے مذاہب کی اساطیر کا دقت نظڑ سے مطالعہ کیا ہے اسی لیے وہ جاوید نامہ کے فلک مشتری میں ابلیس کے لیے تاریک ماحول لاتے ہیں: ناگہاں دیدم جہاں تاریک شد از مکاں تا لا مکاں تاریک شد اندراں شب شعلہ آمد پدید از در ونش پیر مردے برجہید یک قبائے سرمہ ای اندر برش غرق اند دود پیچاں پیکر ش اند کے غلطید اندر دود خویش باز گم گردید اندر دود خویش نالہ زاں دود پیچاں شد بلند اے خنک جانے کہ گردد دودمند اقبال نے جاوید نامہ اورارمغان حجاز وغیرہ میں الیس کو جو بوڑھا کہا ہے یہ ان کی جدت فکر کی دلیل ہے۔ لبعت آب و گل ازمن بازگیر می ناید کود کی ازمرد پیر فراغت دے اسے کار جہاں سے کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے ہوا پیری سے شیطان کہنہ اندیش گناہ تازہ تر لائے کہاں سے علامہ اقبال کو ابلیس و شیطان کی نت نئی ریشہ دوانیوں کے پیش نظر انسانوں کو دعوت مقابلہ و مبارزہ دنیا تھا۔ اوریہ کام انہوںنے نہایت جدت آمیز طریقے سے باحسن وجوہ انجام دیا ہے۔ اقبال کی منظوم کتابوں میںبیان ابلیس کی اہم تر زبانوں کے حوالے حسب ذیل ہیں۔ ۱۔ پیام مشرق کی نظم تسخیر فطرت پانچ حصوں پر مشتمل ہے اور دو حصوں کے عنوان انکار ابلیس اور اغوائے آدم ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ ابلیس نے آدم کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ آگ سے بنا اور ایک برتر مخلوق ہے۔ اقبال نے انکار ابلیس بڑے طمطراق سے ساتھ بیان کیا ہے: نوری ناداں نیم سجدہ بہ آدمی برم اوبہ نہاد است خاک من بہ نژاد آدرم می پنداز سوز من خون رنگ کائنات من بہ دو صرصرم من بہ غوتندرم… اغوائے آدم بھی دراصل ابلیسی تلقینات میں ہیں کہ: زندگی سوز و ساز بہ زا سکون دوام فاختہ شاہین شود از تپش زیر دام ہیچ نیایدز تو غیر سجود و نیاز خیز چوسر و بلند‘ اے بعمل نرم گام… ۲۔ جاوید نامہ تو یہاں زیر بحث ہے۔ اس میں ابلیس و شیطان کا ذکر فلک قمر فلک مشتری اور اس حصے آں سوئے افلاک میں آیاہے۔ ۳۔ بال جبریل میں ابلیس و جبریل ایک زبردست مکالمہ ہے قطعہ دراصل پیام مشرق کی نظم اغوائے آدم کا سا ہے مگر مکالماتی زور نے اس کا حسن بڑھا دیا ہے ایک دوسری نظم ابلیس کی عرضداشت تعریفی نوعیت کی ہے۔ ۴۔ ضرب کلیم کی نظم تقدیر ابلیس و یزداں کا مکالمہ ہے جو محی الدین ابن عربی کی کتاب الفتوحات المکیہ سے ماخوذ ہے۔ ابلیس کہتا ہے کہ اس کا انکار سجدہ مشیت ایزدی سے ہوا ہے مگر یزداں اسے اختیار کو مجبوری بنا دینے کا طعنہ دیتا ہے۔ بال جبریل کا ایک شعر ہے اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیوں کر مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا؟ ارمغان حجاز حصہ فارسی میں ابلیس خاکی و ناری کے بارے میں اور ابلیس کے تخاطف میں ۱۴ دو بیتیاں ملتی ہیں اور اس اردو حصے کی نظم عظیم ابلیس کی مجلس شوریٰ ہے (نوشتہ ۱۹۳۶ئ) یہ نظم ابلیس اور اس کے پانچ مشیروں کی گفتگگوپر مشتمل ہے ۔ اوریہ اسلامی نظام کی برتری کی حاکی ہے۔ تصور ابلیس میں عطار اور رومی بعض پہلوئوں میں اقبال کے پیش رو ہیں۔ عطار کے الٰہی نامے کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں اس میں ہے: محک نقد مرداں در کف اوست ز مشرق تابہ مغرب در صفت اوست چرا در چشم تو خرد است ابلیس کہ رہزن شد بزرگان رابہ تلبیس یقیں می داں کہ میرا نے کہ ہستیند کہ صد تن را چو تو گردن شکستند اگرچہ بر سر تو پادشاہند ولے درخیل شیطان یک گدا اند اقبال بھی یہی فرماتے ہیں کہ صید زبون کو ہاتھ ڈالنا ابلیس کے مرتبے سے فروتر ہے۔ چہ شیطانی خرامش واژگو نے کند چشم ترا کو راز فسونے من اور امردہ شیطانے شمارم کہ گیر و چوں تو نخچیر زبونے حریف ضرب او مرد تمام است کہ آں آتش نسب والا مقام است نہ ہر خاکی سزاوار نخ اوست کہ صید لاغرے بروئے حرام است (ارمغان حجاز) ابلیس کے بے تعطیل جمعہ رہنے کی جو بات اقبال نے فلک مشرق والے حصے میں لکھی ہے۔ یہ ذکریا قزوینی کی کتاب عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات میں بھی ملتی ہے۔ بلکہ اس کتاب میں ابلیس اوراس کے پانچ مشیروں کی ہر جمعہ کی میٹنگ کا ذکر بھی موجود ہے۔ روز جمعہ ابلیس کنار بحر بیٹھتا اور ہفتہ وارکامیابیوں کاجائزہ لیتا ہے علامہ اقبال کے ہاں ابلیس اور شیطان وغیرہ کی فعالیتوں سے مربوط کئی بصیرت افروز نکتہ آفرینیاں بھی ملتی ہیں جیسے: کشتن ابلیس کارے مشکل است زانکہ او گم اندر اعماق دل است خوشترآں باشد مسلمانش کنی کشتہ شمشیر قرآنش کنی (ج ن ) دل ما از کنار مارمیدہ بصورت ماندہ و معنی ندیدہ زما آں ماندہ درگاہ خوشتر حق اورادیدہ مارا شنیدہ (ج۔ ن) بشر تا از مقام خود فتاد است بقدر محکمی اور کشاد است گنہ ہم می شود بے لذت و سرد اگر ابلیس تو خاکی نہاد است (ا ح) علم بے عشق است از طاغوتیاں علم با عشق است از لا ہوتیاں دل اگر بندد بہ حق پیغمبری است ورز حق بیگانہ گردد کافری است تو میدانی صواب و نا صوابم نروید دانہ از کشت خرابم نکردی سجدہ و از درد مندی بخود گیری گناہ بے حسابم حاصل کلام یہ ہے کہ ابلیس کو اقبال نے ایک محرک عمل کے طور پر پیش کیا اور اس سلسلے میں رومی شاہ ہمدانؒ ابن عربی الجیلی اور ملٹن (فردوس گم گشتہ میں) نیز گوئٹے (ڈرامہ فوسٹ) ایک حد تک ان کے پیش رو کہے جا سکتے ہیں مگر جزوا۔ منظر کشی یہاں اقبال نے اپنے سفر کشمیر (۱۹۲۲ئ) کا حوالہ دیا جب انہوںنے باغ نشاط میں بیٹھ کر ساقی نامہ لکھا تھا۔ پھر وہ کشمیر کی بہار اور لب دریا غروب آفتاب کے منظر کو پیش کرتے ہیں مگر ایک پرندہ انہیں بے چین کر دیتا ہے۔ مرغ بہاری کہتا ہے کہ یہاں طبعی بہار توہے مگر دور زیردستی ختم نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضرت شاہ ہمدانؒ کے معاصر شہاب الدین شاہمیر ۲۰؎ کا کوئی دوسرا حاکم ہیاں موجود نہیں ۔ یہ سن کر غنی سے شاعر وہ اشعار پڑھواتے ہیں جو کشمیر کی فروخت سے متعلق ہیں اور ان پانچ شعروں سے تین اوپر نقل ہو چکے۔ کوہہائے خنگ سار اونگر آتشیں دست چنار او نگر در بہاراں لعل می ریزدز سنگ خیزدز خاکش یکے طوفان رنگ لکہ ہائے ابردرکوہ و دمن پنبہ پراں از کمان پنبہ زن کوہ و دریا و غروب آفتاب من خڈارا دیدم آنجابے حجاب بانسیم آوارہ بودم در نشاط بشنو از نے می ۲۱؎ سرودم در نشاط لالہ است و نرگس شہلا دمید باد نور روزی گریبانش درید عمر ہا بالید ازیں کوہ و کمر نستر از نور قمر پاکیزہ تر عمر ہا گل رخت بربست و کشاد خاک ما دیگر شہاب الدین نزاد نالہ پر سوز آں مرغ سحر داد جانم راتب و تاب دگر معرکہ روح و بدن خیر و شر کی طرح روح و بدن کا مبارزہ بھی قابل توجہ ہونا چاہیے یعنی بدنی اور روحانی قوتوںکو بدن کی قوتوں کے تابع رکھنا چاہیے اقبا ل نے یہاں ہمدان کی زبانی اہل کشمیر کو یہ تلقین کی ہے کہ جسم کو روح و قلب کے تابع رکھنا چاہیے۔ تاکہ جہاد و آویزش کے لیے انسان تیار رہے۔ زندہ رود بڑی لطیف بحث کرتے ہیں کہ قربانی روح الی اللہ کا نام ہے خو د شناسی ہلاکت ذات ہے مگر خود شناسی بقائے ذات ہے۔ خواہ ظاہری طور پر جان جان آفرین کے سپرد کر دی گئی ہو۔ شاہ ہمدانؒ سے منسوب یہ بحث ذخیرہ الملوک کے اسی باب سے ماخوذ ہیں جس میں خیر و شر کے ذکر میں ابلیس کے سلسلے کا اقتباس اس سے قبل نقل کیا جا چکا ہے۔ اقبال کردار نگاری کے فن میں کمال کرتے ہیں مگر یونہی کسی سے کوئی بات منسوب نہیں کرتے ہیں ذخیرہ الملوک کے دس ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں۔ باب یکم لوازم و شرائط ایمان باب دوم حقوق ابدیت‘ باب سوم مکارم حسن اخلاق اور خلفائے راشدینؓ کی متابعت کی ضرورت باب چہارم حقوق والدین و اقربا باب پنجم حقوق سلطنت معنوی و آداب رعایا باب ششم اسرار خلافت انسانی باب ہفتم امر بالمعروف و نہی عن المنکر باب ہشتم حقوق شکر نعمت‘ باب نہم حقائق صبر اور باب دہم مذمت کبر باب ششم اس کتاب کا مشکل ترین باب ہے پورا عنوان یوں ہے۔ در شرح سلطنت معنوی و اسرار خلافت انسانی و کیفیت سیاست روحانی و اطلاع بر صلاح و فساد مملکت جسمانی و مشابہت تعاریف حسی با اسرار غلافت نفسی جاوید نامہ کے فلک عطارد میں گفتار افغانی سے منسوب خلافت آدم والا حصہ جو محکمات عالم قرآنی کے تحت آیا ہے۔ وہ کچھ کچھ اس باب میں متوارد یا ماخوذ نظر آتاہے خصوصاً عظمت آدم کے بیان کا حصہ۔ اقبال کی عظمت فکر دیکھیں کہ انہوںنے ذخیرہ الملوک کے خیال انگیز حصے سے ہی تاثر لیا ہے۔ البتہ اس موضوع پر مرشد اقبال رومی نے بھی لکھا ہے۔ دفتر ششم یہ ہے (ابیات ۲۱۵۳ سے مابعد) پس خلیفہ ساخت صاحب سینہ تابود شاہینش را آئینہ پس صفائے بے حد و دش داداد و آنگہ از ظلمت ضدش بنہاد او دو علم برساخت اسپید و سیاہ آں یکے آدم دگر ابلیس راہ ہمچناں دور دو ہابیل شد ضد نور پاک او قابیل شد ہمچناں ایں دو علم از عدل و جور تابہ نمرود آمد اندر دور دور ضد ابراہیمؑ گشت و خصم او و آں دو لشکر کیں گزار و جنگ جو دور دور قرن قرن ایں دو فریق تابہ فرعون و بہ موسیٰؑ شفیق ہمچناں تا دور و طور مصطفیؐ با ابو جہل آن سپہ دار جفا ذخیرہ الملوک میں شیطان و ابلیس کی حکمت تلبیس سے ذرا قبال معرکہ روح و بدن کی بحث یوں آغاز ہوتی ہے۔ چنانچہ پیچ مملکتہ از ممالک صوری از دشمن مفسداین نیست و ہیچ سلطنتے از منازوعے قاصد خالی نہ ہمچنین خلیفہ روح رادر مملکت جسمانی دشمن اس قاصد و منازعے قاہر کہ اوراہو اخوانند… اقبا ل یہاں فرماتے ہیں: یا تو گویم یمز باریک اے پسر تن ہمہ خاک است و جاں والی گہر جسم را از بہر جاں باید گداخت پاک را از خاک می باید شناخت گر ببری پارہ تن راز تن رفت از دست تو آں لخت بدن لیکن آن جانے کہ گردد جلوہ مست گرزدست اوراہی آید بدست جوہرش باہچ شے مانند نیست ہست اندر بند و اندر بند نیست گر نگہداری بیمرد در بدن وربیفشانی فروغ انجمن باج و خراج دینے نہ دینے کا ہم سے اوپر اشارہ کیا سوال یہ تھا: مافقیر و حکمران خواہد خراج چیست اصل اعتبار تخت و تاج شاہ ہمدان فرماتے ہیںکہ حکومت با اقتدار یا لوگوں کی رضامندی سے ہاتھ لگتا ہے یا انہیں مغلو ب کر کے مگر باج و اخراج کے مستحق دو اشخاص ہیں یا نص قرآنی کی روح کے مطابق اولیٰ الالمر یا قاہرہ و دلبری کا مجموعہ فاتح۔ اصل شاہی چیست اندر شرق و غرب؟ یا رضائے امتاں با حرب و ضڑب فاش گویم باتو اے والا مقام۲۲؎ باج راجز بادوکس دادن حرام یا اولی الامر کہ منکم شان اوست ۲۳؎ آیہ حق حجت و برہان اوست یا جوانمردے چو صر صر تند خیز شہر گیر و خویش باز اندر ستیز روز کیں کشور کشا از قاہری روز صلح از شیوہ ہائے دلبری ان دو صفات سے عاری حکمران حکومت کے شایان شان نہیں اوران کا شیشہ تسلط کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ یہ بحث بھی اشارہ و کنایہ میں ذخیرہ الملوک کے زیر بحث باب میں ملتی ہے۔ برہمان کشمیر در آزادی ہند زندہ رود اقبال یہاں برہمان کشمیر کی ان کوششوں کو سراہتے ہیں جو وہ آزادی ہند کے لیے کر رہے تھے۔ اگر یہاں پنڈت موتی لال نہرو اور ان کے بیٹے جواہر لعل نہرو کی طرف اشارہ ہو تو بے حرج ہے۔ ان لوگوں کی آزادی ہند کے لیے کوششیں مسلم ہیںؒ گو برصغیر بھر کے مع کشمیر مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لیے بھی ان کے سیاہ کارنامے کم نہیں۔ اقبال نے یہاں اپنے سوز و ساز کو بھی کشمیر نژادگی سے نسبت دی ہے: خاک مارا بے شرر دانی اگر بردرون خود یکے بکشا نظر ایں ہمہ سوزے کہ داری از کجاست؟ ایں دم باد بہاری از کجاست؟ ایں ہماں باداست کز تاثیر او کوہسار مابگیرد رنگ و بو اقبال نے یہاں جھیل ولر کی دو موجوں کا تلازمہ پیش کیا ہے موج قدیم اور موج جدید کو وہ متصل ہو کر کشتی کشمیر کو متحرک رکھنے کا پیغام دیتے ہیں پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی اس توجیہہ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ موج قدیم سے مراد میر واعظ مولانا محمد فاروق ہیں اور موج جدید ۲۴؎ سے مراد شیخ محمد عبداللہ جاوید نامہ ۱۹۳۱ء میں ریس کے حوالے ہوا۔ او ر اس وقت تک کے سیاقات اور قرائن ا س قیاس آرائی کی توثیق نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ ارمغان حجاز کی نظ ملا زادہ ضیخم لولابی کشمیر کا بیاض میں مذکور میر واعظ بھی واعظ بزرگ کے معانی میں ہے اور کسی مخصوص شخصیت کے لیے نہیں ہے: یہ راز ہم سے چھپایا ہے میر واعظ نے کہ خود حرم ہے چراغ حرم کا پروانہ ٓٓخر میں غنی کشمیری نزدہ رود سے آشوب شعر ۲۵؎ برپا کرنے کی درخواست کرتے ہیں یہاں زبور عجم کی ایک سراپا انقلاب غزل درج ملتی ہے (نمبر ۱۴ حصہ سوم) اس کے دو شعر یوں ہیں: گفتند جہان ما آیا بتومی سازد؟ گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن در میکدہ ہادیدم شایستہ حریفے نیست بار ستم دستان زن با مغبچہ ہاکم زن سنسکرت شاعر بھرتری ہری سے ملاقات بھرتری ہری کا زمانہ پہلی صدی ق م بتایا جاتا ہے اور اس کا تعلق علاقہ اجین سے تھا۔ شاہزادگی بادشاہی اور جوگی پن اس کی زندگی کے تین دور ہیں جس میں اس نے ایک ایک ششتکا سو قطعات میں لکھا۔ ان قطعات کے موضوعات محبت سیاست اور اخلاقیات ہیں۔ پروہت گوپی ناتھ نے ان کا ترجمہ ۱۸۹۴ء میں بمبئی سے شائع کروایا جو ۱۹۱۴ء میں دوبارہ چھپا تھا ۲۶؎۔ زندہ رود کی غزل نے حوروں کو بھی متاثر یا اور وہ اپنے خیموں سے باہر جھانک رہی تھی۔ کہ اب کیا ہو گا؟ شاعر نے اہل زمین ک سوز سے بہشتیوں کو متاثر کیا۔ اتنے میں رومی انہیں بھرتی ہری کی طرف متوجہ کرتے ہیں بھرتری ہرہ بلند مرتبہ بادشاہ درویش اور شاعر رہا۔ یہاں وہ زند ہ رود کے شعر سننے حاضر ہو رہاتھا۔ رومی اور زندہ رود ہز دفن کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوئے: مابہ تعظیم ہز برخاستیم باز باوے صحبتے آراستیم زندہ رود بھرتری ہری سے پوچھتے ہیں کہ شعر کو خدا سوز دیتا ہے یا خودی؟ زندہ رود یہاں بھرتی ہری کے سخنان حکمت کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ سنسکرت شاعر کہتا ہے کہ شاعر وہ ہے جو دل گرم اور لذت جستجو رکھتا ہو اور اس کی شاعری آرزو سے سوز حاصل کرتی ہے۔ (ظاہر ہے کہ یہ سوزآرزو خودی کا جزو ہے اور خدا کی دین) پھر شاعر بھرتری ہری کے سخنان حکمت کا انتخاب پانچ شعروں کی صورت میں پیش کرتے ہیں ان اشعار میں خالق حقیقی سے لو لگانے اور روح عبادات ککردار سازی کو نظر میں رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بھرتی ہری حالات دنیا کو انسانی اعمال کا عکس و نتیجہ بتاتے ہیں کیونکہ اعراف ہو کہ بہشت یا دوزخ انہیں انسانی وجود اعمال وجود میں منعکس کرتے ہیں (ا س سے قبل یہ بات بہشت کی منظر کشی میں بھی آ گئی ہے)۔ ایں خدایان تنگ مایہ ز سنگ اندوخشت برترے ہست کہ دور است زدیر و زکنشت سجدہ بے ذوق عمل خشک و بجائے نرسد زندگانی ہمہ کردار چہ زیباوچہ زشت فاش گویم بتوحرفے کہ نداند ہمہ کس اے خوش آں بندہ کہ بر لوح دل اور انبو شت ایں جہانے کہ تو بینی اثر یزداں نیست چرخہ از تست و ہم آں رشتہ بردوک توزشت پیش آئین مکافات عمل سجدہ گزار زانکہ خیز در عمل دوزخ و اعراف وبہشت ۲۷؎ جاوید نامہ کے علاوہ بال جبریل کا ایک سرنامہ بھی بھرتری ہری کی حکیمانہ گفتار سے ماخوذ ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر تین بادشاہوں کے جنتی محلات میں یہ بادشاہ نادر شاہ افشار احمد شاہ ابدالی درانی اور فتح علی ٹیپو شہید ہیں اقبال نے گویا ان کے دور حیات کی مناسبت سے اسی ترتیب سے ان کا ذکر کیا ہے: نادر آں دانائے رمز اتحاد با مسلمان داد پیغام و داد مرد ابدالی و جودش آیتے داد افغان را اساس ملتے آن شہیدان محبت را امام آبروئے ہند و چین وروم و شام نامش از خورشید و مہ تابندہ تر خاک قبرش از من و تو زندہ تر عشق رازے بود بر صحرا نہاد تو ندانی جاں چہ مشتاقانہ داد از نگاہ خواجہ بدر و حنینؐ فقر سلطاں وارث جذب حسینؓ رفت سلطان زیں سرائے ہفت روز نوب او در دکن باقی ہنوز یہ اشعار اس وجہ پسند کو ظاہر کرتے ہیں کہ جن کی بنا پر حضرت علامہ نے ان تین سلاطین مشرق کو بہشت میں دکھایا ہے۔ اور ان کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ انہیں نادر شاہ افشار ایرنای کی ایران میں اور برصغیر میں سفاکیوں سے یہاں کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اس کی ان ناکام کوششوں سے واسطہ ہے جو اس نے سنی او رشیعہ اتحاد کے سلسلے میں کیں پھر اس کے زریعے ایرانیوں کی مغرب مآبی اور غیر معمولی وطن پرستی وغیرہ پر انتقاد کرنا بھی مقصود تھا۔ یہی کام انہوںنے ابدالی کے ساتھ گفتگو کے دوران افغانستان کے بارے میں کیا مگر افغانستان کی غیر منظم قوت حال اور برادر کشی زیادہ ہدف تنقید فنی جاوید نامہ تصنیف کیے جانے کے دوران امیر امان اللہ خان کی مغرب مآبانہ کوششیں ہدف تنقید بنیں بچہ شقہ کا عارضی دور آیا اورا س کے بعد جنرل نادر خان افغان بروئے کار آئے۔ ان امور کا انعکاس جاوید نامہ میں موجود ہے۔ سلطان فتح علی ٹیپو شہید کی سیرت سے اقبال نے البتہ زیادہ گہرا تاثر لیا تھا۔ جنوری ۱۹۲۹ء میں آپ نے سلطان کے مزار واقع سرنگا پٹم میسور پر حاضری دی تھی یہاں ابدالی اورنادر شاہ کا ذکر ایک ایک شعر میں آیا ہے اور شلطان ٹیپو کا پانچ میں ابدالی نے پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو زور توڑکر برصغیر کے مسلمانوں کے دل موہ لیے تھے مگر اقبال کے اس کے کارنامے کو سراہتے ہیں کہ افغانوں کو اس نے ایک قوم ہونے کا درس دیا تھا۔ شاعر نے اسن بادشاہوں کے محل کی منظر کشی کی ہے اور ا سمحل کے درودیوار فیروزے کے تھے۔ محل کی بلندی وہاں کے پھول اور سرودسمن متغیر گل و شجر فوارے پرندوں کی نغمہ سرائی محل کی عقیقی چھت دیوار سؤتون اور پرچین اور ریشم کے فرش کا بیان ملتاہے۔ ا س کے گرد سنہری پٹیاں باندھے حوریں کھڑی تھیں۔ قصرے از فیروزہ دیوار و درش آسمان نیلگوں اندر برش رفعت او برتر از چند و چگوں می کند اندیشہ را خوارو زبوں آن گل و سرود سمن آں شاخسار از لطافت مثل تصویر بہار ہر زمان برگ گل و برگ شجر دارد از زوق نمو رنگ دگر ایں قدر باد صبا افسوں گراست تامژہ برہم زنی زرد احمر است ہر طرف فوارہ ہا گوہر فروش مرغک فردوس راد اندر خووش بارگاہے اندر آں کاخے بلند ذرہ و آفتاب اندر کمند سقف و دیوار و اساطین ۲۸؎ از عقیق فرز او ازیشم ۲۹؎ و پرچین ۳۰؎ از عقیق بریمین و بریسار آں و ثاق حوریاں صف بستہ باریں نطاق ۳۱؎ نادر شاہ افشار سے گفتگو رومی نادر شاہ افشار سے زندہ رود کو متعارف کرواتے ہیں کہ اس جادو نوا شاعر نے اہل مشرق کو سوز و ساز سے مالا مال کیا ہے۔ نادر شاعر کو خوش آمدید کہتے ہیں اور اس محرمراز سے معاصر ایران کے حالات پوچھتے ہیں۔ زندہ رود کہتے ہیں کہ ایران نے ایک مدت کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ اور کسی قدر خود شناس ۳۲؎ بنا لیکن یہ تہذیب آفرین ملت جلد ہی مغرب زدگی کے دام میں آ گئی۔ مغرب زدگی نے اسے قوم پرست بنا دیا چنانچہ اس ملت کو ایران قبل از اسلام سے زیادہ اعتنا ہے اور عرب مسلمانوں کی خدمات کو بنظر حقارت دیکھتی ہے۔ یہ ملت حیدر کرارؓ سے زیادہ رستم کی دلدادہ ہے۔ پرانے آثار کی کھدائی سے اسے امید ہے کہ حیات نو مل جائے گی اور حالانکہ یہ بھی مغرب زدگی کا ایک باطل نقشہ ہے۔ زندہ رود کہتے ہیں کہ ایرانی تہذیب روبہ انحطاط تھی۔ جب اسلام کی نعمت اس قوم کو مسیر ہوئی تو تازہ دم عربوں نے اسے ایک حیات تازہ دی ورنہ ایران بھی رومۃ الکبریٰ کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ گیا ہوتا۔ عرب ایران کو فتح کر کے اپنے صحرا کولو ٹ گئے مگر ایرانی اب بھی ان کی جان بخشی نہیں کرتے وہ مغرب زدگی کی آگ میں پگھل رہے ہیں مگر عرب مسلمانوں کا کوئی احسان قبول نہیں کرتے۔ ۱۹۷۹ء کے اوائل میں ایران میں اسلامی جمہوری انقلاب برپا ہو گیا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں وہ سب حالات خاصے بدل گئے جن پر اقبال نے انتقاد کیا تھا البتہ ایران و عراق کی افسوسناک جنگ ایرانیت اور عربیت کو کسی قدر ضرور ہا دے رہی ہے خڈا کرے یہ صورت حال جلد بدل جائے۔ روح ناصر خسرو کی ایک جھلک یہ جاوید نامے کا ایک خوب صورت اور زود گزر کردار ہے ناصر علوی خسرو قبادیانی بخارائی (۴۸۱ھ) اسماعیلی عقائد کا ایک اخلاقی او ردینی شاعر تھا۔ ان کا سفر نامہ نثری کتاب زاد المسافرین اور دیوان شعر حقائق و معار ف سے لبریز ہیں اس نے کسی امیر و شاہ کی تعریف نہیں کی بلکہ دنیا کو دین کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ غالباً اس لیے اقبال ا کی روح کو بے تبصرہ ظاہر کرواتے اور چند شعر پڑھنے کے بعد غائب کرواتے ہیں۔ اس کے پانچ شعروں کو اقبال نے غزل بتایا ہے مگر یہ ابیات دراصل ایک اخلاقی قصیدے کا جزو ہیں۔ یہ اشعار دینی نقطہ نظر او رہنر و فن کی برتری کے حاکی ہیں۔ دست را چوں مرکب تیغ و قلم کر دی مدار ہیچ غم گر مرکتب تن لنگ باشد یا عرن از سر شمشیر و از نوک قلم زایک ہز اے برادرہم چونور ارتارو نار از نارون بے مزدان نزد بے دیں ہم قلم ہم تیغ را چون بناشد دین بنا شد کلک و آہن راثمن دیں گرامی شدبد انا و بناداں خوار گشت پیش ناداں دین چو پیچ گا و باشد یاسمین ہمچو کرپاسے کہ ازیک نیمہ زو الیاس را کرتہ آید و زد گرنیمہ یہودی را کفن ۱ ۔ جب تو تلوار اور قلم کا گھوڑا بنا لے تو مرکب جسم لنگرا ہو یا اس کے تخنوں کی کھال پھٹیوئی ہو کوئی غم نہ کر ۲۔ اے بھائی جس طرح آگ سے روشنی اور درخت ناروان سے اگ پیدا ہوتی ہے تلوار اور قلم کی نوک سے اسی طرح ہنر و فن پیدا ہوتے ہیں۔ ۳۔ بے دین کے نزدیک قلم و تلوار کو بے ہنر جان کیونکہ دین نہ ہو تو قلم اور لوہے شمشیر کی قیمت ہی نہیں ہوتی۔ ۴۔۵۔ عقل مند کے ہاں دین محترم ہے اور احمق کے ہاں ذلیل و خوار احمق کے سامنے دین ایسے ہی ہے جیسے گائے کے آگے چنبیلی جیسے کھور (کر پاس) کہ اس کے آدھے سے الیاسؑ کی قمیص بنائے جائے اور باقی آدھے سے یہودی کا کفن (یہ دونوں نصف نسبت کے لحاظ سے برابر نہیں رہتیے)۔ بابا ابدالی ۳۳؎ سے تبادلہ خیال اب زندہ رود ابدالی کو افغانیوں اور افغانستان کے حالات سے مطلع کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ دیگر قومیں اتحاد افراد کے لیے کوشا ں ہیں مگر افغانستان میں برادر کشی کا بازار گرم ہے۔ افغان بے حد جری اور باصلاحیت افراد ہیں مگر انہیں اپنی خودی اور صلاحیتوں کا احساس نہیں۔ معروف افغان شاعر خوشحال خان خٹک نے اسی مناسبت سے افغانوں کی خود شناسی کا استہزا کیا ہے کہ اگر کسی افغان کو ہیرے اور جواہرات کے بار والا اونٹ مل جائے تو وہ ان چیزوں کی پرواہ نہ کرے گا۔ بلکہ اونٹ کی گھنٹی کے انتخاب پر خشنور رہے گا۔ زندہ رود کے اس تبصرے پر ابدالی تائیداً کہتے ہیں کہ افغان اقوام ایشیا میں د ل کی سی حیثیت رکھتے ہیں مگریہ دل ابھی تب و تاب سے محڑوم ہے۔ اس لیے ایشایا کا بدن دیگر اقوام بھی فساد زدہ ہو رہے ہیں گفتگو کا پہلا نبدان دو حکمت آمیز شعروں پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ہمچوتن قوت یعنی دل کو بھی بدن کی طرح کسی قانون و آئین کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ د دشمنی سے مردہ ہوتا ہے اور دین سے زندہ دل کی قوت اتحاد مسلمین سے ہویدا ہوت ہے ۔ اور اسی اتحاد کی عملی صورت سے ملت وجود میں آتی ہے۔ ان دو شعروں میں اقبال کے ملت ساز فلسفے کا خلاصہ آ گیا ہے۔ ۱۔ مسلمانوں کی باہمی رنجشیں اور عداوتیں دل کی قاتل ہیں۔ ۲۔ دل کی حیات تعلیمات دین پر عمل کرنے سے ہے۔ ۳۔ مسلمانوں کی شکوہ مندی ان کے اتحاد سے ہے اور کسی خطہ زمین میں مسلمانوں کے فکری اور عملی اتحاد سے ہی ملت تشکیل پذیر ہوتی ہے۔ بعد کے اشعار میں زندہ رود ابدالی کی زبانی اقوام مشرق کی تقلید فرنگی کو ہدف انتقاد بناتے ہیں۔ وہ ترکوں کا برملا ذکر کرتے ہیں مگریہاں امیر امان اللہ خان کی مغرب آبی کی طرف بھی مضمر اشارات ہو سکتے ہیں۔ شاہزادہ سعید حلیم پاشا کے جس مقالے مسلم معاشرے کی اصلاح کا ہم نے فلک عطارد والے حصے میں ذکر کیا ہے اس میں بھی یہی باتیں ہیں کہ: اہل مشرق خصوصاً مسلمانوں کو مغربیوں کی تمدنی تقلید سے برحذر رہنا چاہیے۔ مغربیوں کی ترقی کا راز گانے بجانے بے حجاب لڑکیوں کے رقص عریانی آمیز فیشنوں لادینی تصو ر حیات یا لاطینی رسم الخط اپنانے میں نہیں ہے انہوںنے علوم و فنون سیکھنے میں محنت کی اور مدارج ترقی طے کیے۔ علوم و فنون لباس او رچال ڈھال کی تقلید سے ہاتھ نہیں لگتے۔ ان کے لیے استعداد ذوق اور تن دہی کی ضرورت ہے۔ مگر مشرق مقلد تن آسان وہ فرنگیوں کے ذوق علمی کی تلقید نہیں کرتے۔ تمدنی تقلید کر کے ظاہری طور پر مغرب مآب بنتے ہیں اور ان کے ہاتھ کچھ نہیںلگتا۔ ابدالی کی گفتگو کے دوسرے تیسرے بند کے یہ اشعار ضرب المثل بن کے رہیں گے۔ علم و فن را اے جوان شوخ و سنگ مغزمی باید نہ ملبوس فرنگ ملک معنی کس حداور انبست بے جہاد پیہمے ناید بدست سہل راجستن دریں دیر کہن ایں دلیل آنکہ جاں رفت از بدن بہرحال ابدالی کے تبصرے پر زندہ رود مزید اضافہ کرتے ہیں کہ تمدن مغرب پیچ میں سے کھوکھلا ہے۔ اس کی ظاہری چمک البتہ دلآویز ہے۔ اور عام لوگ اس چمک سے خیرہ ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا جانے ان مشرقی مقلدوں کا کیا بنے گا۔ ابدالی ایران کے شاہ رضا خان اورافغانستان کے جنرل نادر خان افغان کی تعریف کرتے ہں کہ انہوںنے اپنی اپنی ملتوں کو کچھ کچھ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ بعد میں اقبال شار ضا خان(۱۹۴۴ئ) کی مغر ب آزمائی کے سخت ناقد بن گئے تھے۔ جنرل نادر شاہ افغان ۹ نومبر ۱۹۳۳ء کو شہید کر دیے گئے اب ان دونوں کے عہد ہائے حکومت کی نئی توجیہات ہوں گی۔ سلطان فتح علی ٹیپوؒ شہید ۳۴؎ کے ساتھ گفتگو سلطان شہید زندہ رود سے برصغیر کے معاصر حالات کا پوچھتے ہیں اور سلطان فرماتے ہیں کہ یہاں ہندو او رمسلم بے حس ہیں ہم نے تو اس سرزمین کی آزدی کی خاطر جان کا نذرانہ دیا اور اسے کبھی بھلاتے نہیں مگر ی ملک غالباً ایک بے وفا معشوق کا سا ہے اس میں قربان دینے والوں کی کیا قدر ہو گی؟ زندہ رود کہتے ہیں کہ اہل ہند سول نافرمانی اور ترک موالات کی تحریکیں چلاتے رہتے ہیں اور اب وہ ان کے مشورے سے بغیر بننے والے فرنگی قوانین کو بھی نہ مانیں گے۔ سلطان شہید اس علامت بیداری سے خوش ہو تے ہیں اور فرماتے ہیں کہ عصیان و نافرمانی وجود خودی کی دلیل ہے۔ زندہ رود تو میرے علاقے میسور گیا ہے اور وہاں میرے مزار پر اپنی پیشانی رگڑی ہے۔ کیا تجھے وہاں کوئی آثار دکھائی دیے ؟ زندہ روز اس کا اثبات میں جواب دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دریائے کاویری میں انہوںنے ایک نیا شور و ہیجان دیکھا ہے یہاں سلطان شہید زندہ رو د کے غیر معمولی اثر کا ذکر کرتے ہیں اس شعر کو دربار رسالت مآبؐ سے بھی شرف قبویت ملا ہے۔ سلطان شہید فرماتے ہیں: میں مولائے کلؐ کے حضور گیا جن کے بغیر راسطے طے نہیں ہوتے۔ وہاں (بہشت میں) اگرچہ با ت کرنے کا یارا نہٰں اور روح کو دیدار کے علاوہ کام نہیں مگر میں تیر ے اشعار کا گرویدہ ہوتے ہوئے ایک شعر پڑ ھ ہی گیا حضور اکرمؐ نے فرمایا تو نے یہ کس کا شعر پڑھا ہے؟ اس میں زندگی کے ہنگامے میں روح کو سازگار آنے والے اسی سوز کے ساتھ میری چند باتیں دریائے کاویری تک پہنچائو۔ دنیا میں وہ بھی زندہ رو دہے اور تو بھی زندہ رود ہے یہ نغمہ خوب رہے گا: بودہ ام در حضرت مولائے کلؐ آنکہ بے او طے نمی گردد سبل گرچہ آنجا جرات گفتار نیست روح را کارے بجز دیدار نیست سوختم از گفمی اشعار تو بر زبانم رفت از افکار تو گفت این بیتے کہ بدخواندی زکیست؟ اندرو ہنگامہ ہائے زندگی است باہماں سوزے کہ در ساز دبجاں یک دو حرف از مابہ کاویری رساں درجہاں تو زندہ رود او زندہ رود خوشترک آید سرود اندر سرود حضور اکرمؐ کی زبانی شعر اقبال کی توصیف ایک ناروا شاعرانہ تعلی معلوم ہو گی مگر یہ مبنی برحقیقت ہے کہ ایک خواب کی ترجمانی ہے۔ سلطان ٹیپو شہید کا پیغام دریائے کاویری کے نام (زندگی ‘ موت‘ اور شہادت کی حقیقت) شاہکاراقبال جاوید نامہ کے زبدہ اور اعلیٰ تر اشعار کی جو کوئی تلاش کرے گا اس کی نگاہ لا محالہ ان اشعار پر پڑے گی : یہ شاعر کے اس مصرع کے ترجمان ہیں: باہماں سوزے کہ در سازدبجان یہ جہاد آموز شعر ہیں لہٰذا ان کا لہجہ رزمیہ اور عسکری ہونا ضروری تھا۔ یہ حصہ چار بندوں پر مشتمل ہے۔ پہلے دو بند تمہیدی ۳۵؎ ہیں جن میں کوئی آدھے ابیات آ گئے بعد میں دو بند مقام شہید اور منزلت جہاد کو ظاہر کرتے ہیں۔ پہلا بند خطابیہ ہے اور جس میں سلطان شہید اپنے دارالحکومت سرنگا پٹم کے ساتھ سے گزرنے والے دریائے کاویری کو بڑ ے پیار اور اپنائیت کے ساتھ خطاب کرتے ہیں اور اس کے آخری حصے میں سلطان شہید کا تعارف ہے۔ اور ان کے رفاہی اور معاشرتی کارناموں کا بیان ہے: اے ترا سازے کہ سوز زندی است ہیچ می دانی کہ ایں پیغام کیست؟ آنکہ می کردی طواف سطوتش بودہ آئینہ دار دولتش آنکہ صحرا ہاز تدبیرش بہشت آنکہ نقش خود بخون خود نوشت آنکہ خاکش مرجع صد آرزوست اضطرباب موج تواز خون اوست آنکہ گفتارش ہمہ کردار بود مشرق اندر خواب و او بیدار بود یعنی اے دریا جس کے ساز میں زندگی کا سوز ہے۔ تجھے معلوم ہے کہ یہ کس کا پیغام ہے؟ اس کا جس کی سطوت و دبدبے (سلطنت) کا تو طواف کرتا رہا۔ جس کی حکومت کا تو آئیہن دار اور خادم رہا۔ وہ جس کی منصوبہ بندی سے ریگستان بہشت زار بن گئے اور وہ جس نے اپنا نقش دوام اپنے خون سے لکھا ہے۔ وہ جس کی قبر صد ہا آرزوئوں کا مرجع ہے وہ جس کے خون سے تیری موجوں میں اضطراب ہے۔ یہ اس کا پیغام ہے جس کی گفتار سراپا کردار تھی۔ وہ اس وقت بیدار تھا جب پورا مشرق خواب غفلت میں محوو غرق تھا۔ قارئین دیکھیں گے کہ حضرت علامہ اقبال نے کردار نگاری کا کمال کر دکھایا اور آخری تین شعروں میں سلطان ٹیپو کی سیرت کے بحر کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے۔ دوسرے بند میں تجدد امثال ۳۶؎ تغیر اشیاء اور زندگی کی ناپائیداری کا بیان ہے۔ یہ بیان کسی قدر بال جبریل کی دو عظیم نظموں مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ یں بھی آیا ہے۔ تیسرے بند میں پہلے دو بندوں کا ارتقاء ملتاہے یعنی شرار زندگی۔ سے خرمن وجود کو جلانا چاہیے۔ تاکہ ا س چنگاری کی تابناکیاں وسعت پذیر ہو سکیں۔ سلطان شہید نے ۴۸ سال کی مختصر عمر پائی مگراس میں غیر معمولی کارنامے انجام دیے۔ اس سے اقبال زندگی کے طول و عرض کا نکتہ نکالتے ہیں۔ طول حیات یعنی طویل عمر مگر اس کا یہ لازمہ نہیںکہ طویل عمر میں ابدی کارنامے انجام دیے جا سکیں۔ اس کے مقابلے میں عرض حیات میں زیادہ ثبات ہے یعنی مختصر عمر میں زیادہ اور اہم کام انجام دینا۔ سلطان شہید نے بظاہر کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ اقبا ل نے یہاں گیدڑ (شغال) کی جگہ میش بھیڑ لکھا ہے: سینہ داری اگر دو خورد تیر در جہاں شاہین بزی شاہین بمیر زانکہ در عرض حیات آمد ثبات از خدا کم خواستم طول حیات زندگی را چیست رسم و دین و کیش؟ یک دم شیری بہ از صد سال میش زندگی موت اور شہادت کا بیان دراصل آخری چوتھے بند میں سمویا ہے: فرماتے ہیں کہ زندگی کو تسلیم رضا سے استحکام ملتا ہے۔ جبکہ موت سحر ہے یا دھوکا موت مرد مومن کے صدہا مقامات میں سے ایک ہے۔ وہ شیر ہے اور موت ہرن مومن موت پر ایسے حملہ آور ہوتاہے جیسے شاہین کبوتر پر۔ غلام کو ہر وقت موت کا خطرہ لاحق رہتا ہے جبکہ آزاد کو مرکر نئی زندگی نملتی ہے۔ آزو کو موت لمحے بھر کے لییے ہے کیونکہ اس کی توجہ خودی پر مرکوز رہتی ہے ۳۷؎ ۔ گو مومن ہر موت کوخوشدلی سے لبیک کہتا ہے مگر عام موت میں انسان اور حیوان برابرہیں مومن حضرت امام حسینؓ کی موت کا آرزو مند رہتا ہے۔ بادشاہ غارت گری کی خاطر جنگ کرتے ہیں ۳۸؎ ۔ مگر مومن کی روش کی پیروی میں اصلاح یا دفاغ کی خاطر مجبوراً جنگ و عزا کے لیے اٹھتا ہے اور اگر شہید ہوجائے تو وہ گویا اللہ کی طرف ہجرت کر لیتا ہے ۳۹؎ ۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے: الجھاد رھبانیۃ الاسلام جہاد اسلام کی رہبانیت کا نام ہے۔ یعنی جس کسی کو ہجرت یا ترک دنیا مقصود ہو وہ جہاد کے ذریعے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر یہ کام کر سکتا ہے۔ ورنہ دنیا میں رہ کر ترک دنیا کرناایک عبث اور ناروا فعل ہے۔ ہر زماں میرد غلام از بیم مرگ زندگی او را حرام از بیم مرگ بندہ آزاد راسا نے دگر مرگ اور امی دھد جانے دگر او خود اندیش است مرگ اندیش نیست مرگ آزاداں ز آنے بیش نیست گرچہ ہر مرگ است برمومن شکر مرگ پور مرتضیٰؓ چیزے دگر جنگ شاہان جہاں غارت گری است جنگ مومن سنت پیغمبریؐ است جنگ مومن چیست؟ ہجرت سوئے دوست ترک عالم اختیار کوئے دوست آنکہؐ حرف شوق بااقوام گفت جنگ را راہبانی اسلام گفت صوفیہ موت سے بے خوفی سکھاتے رہے(مثلاً دیکھیں مثنوی رومی اور گلشن راز) اقبال نے بھی یہ کام انجام دیا۔ ۔ ضمناً اقبال کومسئلہ حیات و موت میں سے جاودانیت یا بقائے دوام سے غیر معمولی لگائو رہا ہے گو بقائے دوام کی آرزو شعوری یا غیر شعوری طور پر ہر شخص اورہر ذی روح کو ہے مگر اقبال کے نزدیک بقائے دوام استحکام کودی کے ساتھ مربوط و مشروط ہو سکتا ہے۔ شہادت چونکہ ایک ارفع خودی کا عمل ہے لہٰذا شہدا پر موت طاری نہیںہوتی۔ شہادت سے بالاتر مقام کی حامل خودیوں کا بھی یہی حال ہے اقبال کے چوتھے انگریزی خطبے مٰں خودی جبر و قر ‘ حیات بعد الموت‘ میں ہے: زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں۔ او جس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا اس کی ہلاکت او رتباہی کا سامان پیدا کر دیتے ہیں لہٰذا یہ امر کہ خودی فنا ہو جائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے عمل پر موقوف ہے۔ اور ا س لیے خودی کو برقرر رکھیں گے تو وہی اعمال جن کی بناپر اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیاز زمن و تو خودی کا احترام کریں ۔ لہٰذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دارومدار ہماری مسلسل جدوجہد پر ہے۔ بالفاظ دیگر ہم اس کے امیدوار ہیں۔ مادیت حاضرہ کی سب سے زیادہ یاس انگیز غلطی یہ ہے کہ اس کے نزدیک ہمارا متناہی شعور اپنے موضوع کا تمام و کمال احاطہ کر لیتا ہے حالانکہ فلسفہ اور سائنس منجملہ ان ذرائع سے ہیں جن کے ذریعے ہم اس موضوع تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا خودی نے اپنے عمل و سعی کی بدولت اگر اسی زندگی میں اتنا استحکام پیدا کر لیا ہے کہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے تو ا س کے ذریعے موت کو بھی ایک راستہ ہی تصورکیا جائے گا۔ وہ راستہ جسے قرآن پاک نے برزخ کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم باطنی واردات اور مشاہدات سے رجوع کرتے ہیں و ان سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ برزخ نام ہے شعور کی اس حالت کا جس میں زمان و مکان کے متعلق خودی کے اندر کچھ تغیر رونما ہو جاتا ہے اور یہ بات کچھ غیر اغلب بھی نہیں۔ ہیلم ہولٹس پہلا شخص ہے جس نے یہ دریافت کیا تھا کہ اعصابی ہیجان کے شعور میں کچھ وقت لگتا ہے ۔ جو اگر صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمانے کے باب میں ہم نے جو نظریہ قائم کر رکھا ہے اس کی ساری ذمہ داری ہمرے نظام عضوی پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا اس نظام کی ہلاکت کے باوجود اگر خودی کی ہستی برقرار رہتی ہے تو یہ ایک قدرتی امر ہے۔ کہ زمان و مکان کے بارے میں ہماری روش بدل جائے خودی کو بہرحال اپنی جدوجہد جاری رکھنا ہے تاکہ اس میں حیات بعد الموت کی صلاحیت پیدا ہو جائے دراص بعثت بعد الموت کوئی خارجی حادثہ نہیں۔ یہ خودی ہی کے اندر ایک حیاتی عمل کی تکمیل ہے۔ اور جسے انفرادی یا اجتماعی جس لحاظ سے دیکھیے دونوں صورتوں میں محاسبہ ذات کی وہ ساعت ہے جس میں خودی اپنے گزشتہ امعال کا اور مستقل میں اپنے ممکنات کا جائزہ لیتی ہے۔ قرآن مجید کا بھی یہی ۴۰؎ ارشاد ہے کہ ہم اپنی حیات ثانیہ کا قیاس خلق اول کی مماثلت پر کریں۔ (تشکیل جدید الٰہیا ت اسلامیہ صفحہ ۱۸۰ تا ۱۸۲) حوران بہشتی کے لیے نغمہ خوانی بہشت کا سفر ختم ہوا اور رومی نے زندہ رود سے چپکے سے کہا چلو۔ رومی تو چلے گئے مگر زندہ رود ابھی جنت سے ذنی طور پر فارغ نہ تھے تاہم وہ لوٹے اوردر بہشت پر حوروں نے انہیںگھیر لیا (یہاں گوئٹے کی دیوان شرق و غرب کی نظم حور و شاعر یاد آ رہی ہے جس کا جواب فارسی میں اقبال نے بھی پیام مشرق میں شامل کیا ہے) اور ان سے مزید ٹھہرنے کا تقاضا کرنے لگیں۔ برلب شان زندہ رود اے زندہ رود زندہ رود اے صاحب سوز و سرود شور و غوغا از ایسار و ازیمیں یک دو دم بامانشیں بامانشیں یہ منظر تو دل چسپ ہے مگر زندہ رود نے رکنے سے معذرت کی کیونکہ اب ان کا ارادہ جمال ایزدی میں پہنچنے کا تھا بہشت کا اسلامی تصور یہ ہے کہ وہاں بھی ارتقائے مراحل جاری رہیں گے ۴۱؎ اور انتہائے کار دیدار حق ہے۔ البتہ حوروں کی فرمائش پر زندہ رود نے ایک تازہ غزل ضرور سنا دی اور جس کا مقطع یوں ہے۔ قلندریم و کرامات ما جہاں بینی است زمانگاہ طلب کیمیا چہ می جوئی یہ غزل بہشت کے شایان شان ہے۔ پاکیزہ معانی اور سوالیہ انداز ساتوں شعروں کے نکات یوں بیان ہو سکتے ہیں۔ معرفت خدا اسے مل سکتی ہے جو خود شناس اور عظمت انسانی سے آگاہ ہو۔ کامیابی انہیں ملے گی جو اصل مقصود پر توجہ ہوں فروع سے دل لگانے والوں اوراصول فراموشوں کو کیا ملے گا؟ اسی مطلب کی بانداز دگر تکرار ہے۔ فقر درویشی وہی شکوہ مند ہے جس کے حامل کا مطبع نظر اونچا ہو۔ سربزریری کرنا قابل فخر نہیں ہے۔ شاعروں اور ہزوفوں کے اثرات دوسروں سے پوچھے جائیں ان کی تعلیموں پر توجہ نہ دی جائے۔ دل کی کشاد اور معرفت صاحبان دل کی ہم نشینی سے میسر ہوتی ہے۔ دانایان راز جہاں بینی سکھاتے ہیں وہ کیمیا گری (دولت طلبی اور دینی شکوہ) پر متوجہ نہیں ہیں۔ جمال حق کے حضور زندہ رود تمہید ا ً کہتے ہیں کہ بہشت میں بھی تجلیات باری میں سے ہے مگر روح تجلی ذات سے کمتر پر قانع نہیں ہوتی۔ نیک گوہر علم اورقوت عشق کی مدد سے یہ دیدار ناممکن نہیں جاوید نامے کی مناجات تمہید زمینی اور فلک عطارد پر یہ مضمون انواع و اقسام کے طریقوں سے بیان ہو چکا ہے۔ شاعریہاں بھی عقل یا علم کی محدودیتیں بتاتے ہیں اورپھر عشق لامتناہی قوت کا ذکر کرتے ہیں۔ عشق کس را کے نجلوت می برد اوزچشم خویش غیرت می برد اول اوہم رفیق و ہم طریق آخر او راہ رفتن بے رفیق بعد کے بند میں زندہ رود جمال حق کے حؤضور پہنچنے کی کیفیت بتاتے ہیں اور خدا انسان اور کائنات کے رابطہ کے سلسلے میں فلسفیانہ نکات بیان کرتے ہیں۔ وہ جمال حق کے بحر نور اور اس کے لایزال سرور کا ذکر کرتے ہیں کل یوم ہو فی شان (۲۹:۵۵) وہ حیات کو رباب کے استعارے سے واضح کرتے ہیں یعنی حیات کائنات میں ایزدی جلوے صفات ایسے ہیں جیسے رباب کے سر اور نغمے وہ اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں تاکہ جملہ ناری نوری اور خاکی مخلوقات کی ایک اصل ہے۔ خالق کل خدا کا زمان وقت ایزدی ہمیشہ حال ہے۔ وہ ماضی بنتا ہے نہ مستقبل حال ہی رہتا ہے پھر وہ یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ خدا جملہ مخلوقات میں منعکس ہے۔ وحدت شہود انسان اس کا جویا تو ہے ہی خود خدا کو بھی انسان کی تلاش ہے گوہر حیات تو خدا ہے مگر اس کا ظل انسان ہے۔ یعنی خودی خدا ہی کا پرتو ہے ۴۲؎۔ زندہ رود کہتے ہیں کہ عشق نے انہیںجرات گفتگو دی ہے اور ہو جمال حق سے مخاطب ہو کر یوں بولے: اے خدا تیرے وجود سے ہی دونوں ارضی و فلکی ذرا اس ارضی خاکدان کی طرف توجہ ہو۔ آزاد انسان کے لیے یہ بات سازگار ہے کہ اس کے گل سنبل سے کانٹا اگے ۔ دنیا کے غالب اورامیر لوگ عیش و عشرت میں محو ہیں اور مغلوب و غریب دن رات گن گن کر دن کاٹ رہے ہیں خدایا ملوکیت نے تیرے جہان کو خراب کر دیا اور آفتاب کے نور کے باوجود یہاں تاریک رات ہی ہے ۔ مغربی علوم اور سائنس سراپا غارت گری ہیں۔ حیدرؓ کے وجود کے فقدان سے بت خانے خیبر بنے ہوئے ہیں ۴۳؎۔ لا الہ الا اللہ کہنے والا مسلمان زار و بدحال ہے عدم اتحاد اور بے مرکزی سے اس کی فکر پراگندہ ہو رہی ہے اور اس بت خانے میں مرنے والے کی چار موتیں اور آفتیں ہیں سود خور حاکم اورملا و پیر خدایا ایسا جہاں تیرے شایان شان کہاں ہے؟ یہ آب و گل کا خاکدان تیرے دامن پر داغ ہے۔ زندہ رود کے خطاب حق کا ہم نے آزاد ترجمہ کیا ہے۔ عالمی سطح پر شاعر کو شکایت ہے کہ : ۱۔ اچھے انسانوں کی تذکلیل ہو رہی ہے اور ان کی نیک سرشتی ان کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے۔ ۴۴؎ ۲۔ امیر اور غریب کا غیر معمولی تفاوت شاعر کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے ۴۵؎۔ ۳۔ ملوکیت اور استبداد نے دنیا کو تباہ کر رکھا ہے۔ اور ہر کہیں ظلم و ستم کا دور دورہ ہے۔ ۴۔ مغربی علوم اور سائنس انسانوں کی ہلاکت کے موجبات فراہم کر رہے ہیں ان سیکولر علوم کو انسانی سوز و ساز سے مزین کرنے والا کوئی نہیں۔ مسلمانوں کے زوال کا ایک سبب یہ بتایا گیا ہے کہ ان میں فکر وعمل کا اتحاد نہیں ۴۶ ؎ وہ فرقہ بندی وطنیت اور بے حسی کا شکار ہیں اس کے علاوہ سود خوروں نے معاشی طور پر انہیںبدحال کر رکھا ہے۔ استعمار کے پجاری مقامی حکام انہیںہر طرح سے گزند پہنچا رہے ہیں اورنام نہاد مذہبی پیشوا (ملا اور پیر) دین کو اپنے لیے بازیچہ اطفال بنا رہے ہیں مسلمانوں کے افتراق کی بات عالمگیر ہے باقی مسائل بظاہر برصغیر کے سیاق میں کہے گئے ہیں۔ جاوید نامہ کا یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں اقبال نے دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کی خرابیوں کی وجوہات کامل بصیرت کے ساتھ گنوائی ہیں۔ اے دو عالم از تو بانور و نظر اند کے آں خاکدانے رانگر بندہ آزاد رانا ساز گار برد مداز سنبل او نیش خار غالباں غرق اند در عیش و طرب کار مغلوباں شمار روز و شب از ملوکیت جہان تو خراب تیرہ شب در آستین آفتاب دانش افرنگیاں غارت گری دیر ہا خیبر شد از بے حیدری آنکہ گوید لا الہ بیچارہ ایست فکرش از بے مرکزی آوارہ ایست چار مرگ اندر پے ایں دیر میر سود خوار و والی و ملا و پیر ایں چنیں عالم کجا شایان تست آب و گل داغے کہ برادمان تست ملوکیت و استبداد کی خرابیوں کی تفصیل اس سے قبل فلک عطارد میں بھ بیان ہوتی ہے۔ زندہ رود کی عرضداشت کے جواب میں ندائے جمال سے صدائے راہنمائی سنائی دیتی ہے ۔ کہ انسانوں کو خلاق بننا چاہیے اگر حالات سازگار ہوں تو انہیں نت نئے اور بہتر ماحول کا مظہر جان کر وجود میں لانا چاہیے۔ متداول حالات پر کڑھتے رہنا اور شکوہ و شکایت کرتے رہنا کافی نہیں۔ زندہ مشتاق شو خلاق شو ہمچو ما گیرندہ آفاق شو در شکن آن را کہ ناید سازگار از ضمیر خود دگر عالم بیار ہر کہ اورا قوت تخلیق نیست پیش ما جز کا فرو زندیق نیست مرد حق برندہ چوں شمشیر باش خود جہان خویش را تقدیر باش شاعر اس پیغام انقلاب سے د گرم ہوتے ہیں اور صنعت جمال سے بانداز جستجو کہتے ہیں کہ مردہ اور زوال یافتہ اقوام مگر دوبارہ حیات و عروج سے بہرہ مند ہو سکیں گے؟ بات گویا مسلمانوں کے سیاق میں ہے۔ ندائے جمال سے سنائی دیتا ہے کہ قرب حق سے بہرہ مند افراد اور اقوام ابدیت کی شان پا لیتے ہیں۔مثلاً عقیدہ توحید فرد اور ملت دونوں کو امتلا دیتا ہے کہ افراد میں ابوذر غفاریؓ با یزید بسطامیؒ اور ابوبکر شبلیؒ کی زندگیوں پر غور کرو کہ توحید نے انہیں کیسا لاہوتی بنایا اور ملتوں میں طغرل اور سنجر کی اقوام(سلاجقہ ) پر غور کیا جا سکتا ہے کہ وہ کیسی جبروتی بنی تھیں۔ توحید یا سلمان فارسیؓ وجود میں لائے گی یا ملت حضرت سلیمانؑ کو مگر اس کام کے لیے ضروری ہے کہ افراد ملت میں فکر اور عمل کا مکمل اتحا د کارفرما ہو ۴۷؎۔ دانائے راز کی نظر میں مسلمانوں کی دوبارہ ترقی کاایک ہی طریقہ ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی فکری و عملی اتحاد توحید کی یہ برکت وہ نہ لیں گے۔ تو وہ کہیں گے بھی نہ رہیں گے۔ ملتے چون می شود توحید مست قوت وجبروت می آید بدست روح ملت راوجود از انجمن روح ملت نیست محتاج بدن تا وجودش را نمود از صحبت است مرد چون شیرازہ صحبت شکست مردہ ازیک نگاہی زندہ شو بگذر از بے مرکزی پائندہ شو وحدت افکار و کردار آفریں تاشوی اندر جہاں صاحب نگیں زندہ رود کی دیگر عرضداشت یہ ہے کہ انسان کائنات اور خدا کا رابطہ کس نوعیت کا ہے ؟ انسان پابند تقدیر و موت کیوں ہے جبکہ خدا ابدی ہے؟ ان سوالوں کا جواب زندہ رود اس سے قبل دے چکے تھے ۴۸؎۔ آفاق میں گم ہو نے اور آفاقی کو خود میں گم کرنے کی بحثیں وحدت وجود اور وحدت شہود کے حوالے سے ہوتی رہیں اور عظمت انسانی کے واسطے سے بھی مگر اقبال اور ان کے مرشد رومی بھی پیغمبر اسلامؐ کے بچپن کے ایک واقعہ سے بھی استناد کرتے رہے۔ مثنوی رومیؒ میں ہے کہ حضرت سعیدہ حلیمہؓ آنحضرتؐ کے بچپن کے دوران انہیں حرم کعبہ لے گئیںَ آپؐ کہیں بھیڑ میں ادھر ادھر ہو گئے اور ان کی رضاعی ماں ان کو تلاش کرنے لگیں اتنے میں ایک غیبی آواز حضرت سعدیہؓ حلیمہ نے سنی فکر نہ کرو یہ بچہ دنیا میں گم نہ ہو گا بلکہ دنیا کو اپنے آپ میں گم کرے گا۔ ملفوظات اقبال میںہے (صفحہ ۱۵۔۱۶) ’’…سرمد کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی اور وہ شعر سامنے آ گیا‘‘۔ ملا گوید احمدؐ بہ فلک برشد سرمد گوید فلک با احمدؐ در شد کہا جاتا ہے کہ یہ وہی شعر ہے جس پر بعض علماء کا اعتراض تھا کہ اس میں معراج جسمانی سے انکار ہے۔ اوراس کی بنا پر سرمد کو واجب القتل قرار دیا گیا ۔ علامہ نے فرمایا کہ یہ شعر مولانا روم کے اس شعر سے ماخوذ ہے: تو مخور غم کہ نگردد یا وہ او بلکہ عالم یاوہ گردد اندرو علامہ نے وہ واقعہ بیان کیا جو اس شعر سے متعلق مولانا روم نے نظم کیا ہے…یہاں پہنچ کر حضرت علامہ دھاڑیں مر کر رونے لگے…‘‘ یہاں ندائے جمال اقبال انتا ہی نقل کرتے ہیں کہ مرتا وہ ہے جو آفاق میں گم ہو جاتا ہے لیکن آفاق کو اپنے وجود میں گم کر لینے والا ابدی اور جاودانی بن جاتاہے ۴۹؎۔ دلچسپ اختتام سفر زندہ رود بڑی معذر ت سے اگلا سوال پوچھتے ہیں کہ روس اور جرمنی میں انقلابات برپا ہو چکے ہیں اور روح مسلمان میں شور انقلاب برپا ہے ۵۰؎۔ مشرق و مغرب کی تدبیریں تو نظر آتی ہیں مگر تقدیریں اوجھل ہیں جو ان کے لیے نمایاں کر دی جائیں زندہ رود دراصل انقلاب عالم اسلام کے بارے میں کچھجاننے کے آرزو مند ہیں مگر امور غیب کو خدا ہی جانتاہے اوران امور میں دوسروں کی مداخلت اسے گوارہ نہیں چنانچہ زندہ رود کے اس سوال پر خدا کی صفت جلال نے صفت جمال کی جگہ لے لی اور اس صفت نے زندہ رود کو جلوہ مست ۵۱؎ اور بے زبان بنا دیا۔ شاعر کے افلاکی سفر کا اسی پر خاتمہ ہو گیا اوسے اتنا ہی پتہ چلا کہ وہ اپینی زمین پر اور زیر فلک ہے۔ عالم سرخ تابناک ہو رہا ہے اور ا س کے ضمیر میں سنوائے سوز ناک سنائی دی۔ یہ نوائے سوز ناک زبور عجم (حصہ دوم) کی ایک غزل (شمارہ ۶۲) ہے اس غزل کے ذریعے گویا شاعر کو اپنے آخری سوال کا جواب بھی مل گیا مثلاً: بگذر از خاور وا افسونی افرنگ مشو کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو چون پرکاہ کہ در راہگذر باد افتاد رفت اسکندر رود ار او قبا دو خسرو ۵۲؎ یہ اشعار مشرق و مغرب کے حالات بدلنے اور ملوکیت کے خاتمے کی نوید دیتے ہیں۔ اسی طرح ذیل کا شعر کنایات کے پردے میں اسلامی انقلاب کے امکانات کے بارے میں ہو سکتا ہے۔ تاکہ ہر کوئی نظام اسلام کی برکتوں سے مالامال ہو سکے۔ تو فرو زندہ تر از مہر منیر آمدہ آنچناں ذی کہ بہ ہر ذرہ رسانی پر تو جاوید نامہ اس دلآویز انداز میں ختم ہو جاتاہے۔ ٭٭٭ جاوید سے خطاب (نئی نسل سے گفتگو) اقبال اور نوجوان خطاب بہ جاوید کا ذیلی عنوان شاعر نے سخنے بہ نژاد نو (نئی نسل سے باتیں) رکھا۔ اصل آسمانی ڈرامے سے ضمیمے کا تعلق نہیں بلکہ یہ ایک جداگانہ او رمستقل حصہ ہے۔ اس حصے کے چھوٹے بڑے ۱۳ بند ہیں اشعار کی تعداد ۱۳۶ ہے اس حصے میں نوجوانوں اور جواں سالوں کے لیے شعر و حکمت سے لبریز پند و موعظت کی باتیں ہیں یہ حصہ خاصا سہل و سلیس ہے اور دانائے راز نے اس میں جوانان اسلام کواہم تر معاشرتی اور علمی نکات سے مالا مال کیا ہے۔ جاوید نامہ اقبال کی ان تصانیف میں سے ہے جہاں سے وہ نوجوانوں سے خطاب کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں اور ان کی اکثر بعد کی کتابوں میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جیسا کہ کتاب کے تعارف میں ذکر ہوا۔ کتاب کا یہ ضمیمہ جاوید نامہ کی وجہ تسمیہ سے خاصا مربوط ہے۔ اس حصے کو فارسی کی اخلاقی مثنویوں کے زمرے میں شمار کرنا چاہیے۔ جاوید نامہ کی مناجات میں شاعر نے نوجوانوں سے اپنی خاص وابستگی کا ذکر کیا ہے۔ ضبط در گفتار کو کردارے بدہ جادہ ہا پیداست رفتارے بدہ آنچہ گفتم از جہانے دیگر است ایں کتاب از آسمانے دیگر است بحرم و از من کم آشوبی خطاست آنکہ در قوم فرو آید کجاست یک جہاں بر ساحل من آرمید از کراں غیر از رم موجے ندید من کہ نومیدم ز پیران کہن دارم از روزے کہ می آید سخن بر جوانان سہل کن حرف مرا بہر شاں پایاب کن ژرف مرا اقبال کی مقدم کتابوں میں سے بانگ درا کی ایک نظم خطاب بہ جوانان اسلام اہم ہے اس میں نوجوانوں کو اپنی ثقافتی اور علمی تاریخ ہے۔ تاریخ سے وابستگی اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا سماں الفقر فخری کا رہا دور امارت میں باب درنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بان و جہاں آرا اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیںسکتی کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارا گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔ ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی نہیںدنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا مگر وہ علم کی موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا زبور عجم کی ایک غزل میں بھی وہ نوجوانوں کے لیے دعائیہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ زبادہ کہ بخاک من آتشے آمیخت پیالہ بہ جوانان نو نیاز آور جاوید نامہ کا زیر بحث حصہ خطابیہ اور بیانیہ رنگ میں ہے۔ بعد کی کتابوں میں اقبال نوجوانوں کے لیے بدست بدعا بھی ہوئے ہیں شاعری کے ابتدائی دور میں انہوںنے ترجمے کی صورت میں یا طبع زاد ایسی نظمیں بھی لکھی ہیں جو بچوں کے لیے ہیںَ اسرار و رموشز ۱؎ اور بانگ درا ۲؎ کی بعض منظوم داستانوں کا تعلق بھی اساساً نوجوانوں سے ہے مگر شعر میں نوجوانوں سے تخاطب جاوید نامہ کے اس حصے سے شروع ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اس وقت پچاس برس سے کچچھ زیادہ کے ہو چکے ہیں اور دراصل نوجوانوں سے تخاطب ان کو سخنان حکمت بتانے کے لیے یہ اور اس سے بالا تر سن و سال ہی مناسب نظر آتاہے۔ جاوید نامہ سے موخر کتابوں میں سے بال جبریل میں ہے۔ جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے ٭٭٭ ترے صوفے ہیں افرنگی تیرے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدریؓ تجھ میں نہ استغنائے سلمانیؓ نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نو مید نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن ہے خدا کے رازدانوں میں نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ٭٭٭ بچہ شاہیں سے کہتا تھا عقاب سالخورد اے تیرے شہپر پہ آساں رفعت چرخ دیں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے طفل وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں ٭٭٭ شراب کہن پھر پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا مری خاک جگنو بنا کر اڑا خرد کو غلامی سے آزاد کر جوانوں کو پیروں کا استاد کر ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر جوانوں کو سوز جگر بخش دے میرا عشق میری نظر بخش دے ٭٭٭ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند اب ضرب کلیم کے چند اشعار دیکھیں: اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیںرہتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد ٭٭٭ وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر اگر ہو بزم تو رعنا غزال تاتاری ٭٭٭ ذیل کے اشعار ارمغان حجاز میں سے ہیں: جوانان رابد آموز است ایں عصر شب ابلیس را روز است ایں عصر بدامانش مثال شعلہ پیچم کہ بے نور است و بے سوز است ایں عصر (عصر حاضر) ادب پیرایہ نادان و دانا ست خوش آنکواز ادب خود رابیا راست ندارم آں مسلماں زادہ را دوست کہ در دانش فزود و در ادب کاست جوانے خوش گلے رنگین کلاہے نگاہ اوچو شیراں بے پناہے بہ مکتب علم میشی رابیا موخت میسر نایدش برگ گیا ہے (تعلیم) پہلا اور دوسرا بند فرماتے ہیں کہ اولاد کو چاہیے کہ صاحب دل باپ کی نگاہ سے اس کے معمولات سے سبق حاصل کریں۔ جاوید (نئی نسل) سے وہ کہتے ہیں کہ ماں نے تجھے لا الہ الا اللہ (کلمہ توحید) تو سکھایا مگر اس کلمے کے سوز و ساز مجھ سیسیکھو۔ توحید وہ حقیقت کبریٰ ہے جس کا فیض ساری کائنات میں جاری ہے مگر اعلان توحید خدا کی کبریائی کا عظیم اعلان ہے اور یہ وہ شمشیر ہے جو ماسوی اللہ کی نفی کرنا سکھاتی ہے اقبال لا الہ یا نعرہ تکبیر (اللہ اکبر) وغیرہ کے ذریعے مسلمانوں کو بار بار یہ نکتہ سمجھاتے رہے ہیں کہ توحید کا عقیدہ ایک بے نظر قوت حیات ہے۔ یہاں وہ نوجوانوں کو اس عقیدے کے مضمرات پر توجہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ توحید کے خودی ساز عقیدے پر یوں تو حضرت اقبال نے تقریباً ہر کتاب میں لکھا مگر مثنوی رموز بے خودی میں اس کی حکمتوں کا بھرپور بیان ملتا ہے۔ مثلاً توحید بے باک ہونا سکھاتی ہے اور توحید پرست خدا کے سوا کسی کے آگے سر خم نہیں کرتا ۳؎۔ تیسرا اورچوتھا بند ان دو بندوں میں حکیم الامت مسلمانوں کے خلاف عقائد اعمال ان کی بے روح عبادات اور ان کے موت اور حرص و آز کے بڑھتے ہوئے رجحان کا ماتم کرتے ہیں۔ ضمناً وہ احمدیوں یا قادیانیوں اور بہائیوں کے گمراہ کن اور تفرقہ آموز عقائد پر انتقاد کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ آج کے نام نہاد مومنوں کو دیکھو دوسروں کی غلامی پر قانع غدار غربت و افلاس اور منافقت و فرقہ بندی سے نباہ کرنے والے! ایسے لوگ کہاں کے مسلمان و مومن ہیں؟ ان کی نماز و روزے میں کوئی بھی حلاوت نہیں مسلمان کا سرمایہ تعلق باللہ تھا مگر موجودہ مسلمان موت کے خوف اور دولت کی ہوس کے فتنے سے دوچار ہیں ان کا ذوق اور سرور و مستی اس لیے غائب ہے کہ انہوںنے قرآن مجید سے تعلق چھوڑ رکھا ہے۔ یہ لوگ عصر حاضر کے فتنوں سے مسحور ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی (۱۹۰۸ئ) یا حسین بہا ء اللہ ایرانی کے نئے عقائد سے گمراہ کر رہے ہیں۔ مقدم الذکر جہاد کا منکر تھا اور موخر الذکر حج کا۔ دین اسلام کے ارکان اس طرح پیوستہ و متصل ہیں کہ جہاد و حج ترک کر دیں تو نماز و روزہ بھی بے روح ہو کر رہ جاتے ہیں اور نماز و روزہ نہ ہو تو فرد بے خود اور قوم غیر منظم ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں نے جہاد یا حج سے انکار سے اثر لیا ان کے دل قرآن مجید کی گرمی سے خالی ہیں۔ اور ان سے بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اقبال مسلمانوں کی خودی کو فراموشی کا ماتم کر کے عبادات خصوصاً نماز کے بے روح ہو جانے ایک دوسرے انداز سے کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے سبحان ربی الاعلیٰ کہنے اور خدائے واحد کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی بے حد اہمیت رہی اور نما ز کی شان و شکوہ مسلمانوں کے جلا ل و جبروت کو منعکس کرتی رہی ہے اور اب وہی نماز ان کے ضعف اور سر بریزی کو نمایاں کررہی ہے مگر خامی مسلمانوں میں ہے ان کی نماز یا عبادات کے نظام میں کوئی خرابی نہیں بے روح عبادات کی موجودگی کے باوجود اب مسلمان منتشر ہیں اور اب بے زما م و لگام اونٹنی کی طرح خود سری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ قرآن مجید کے حامل مسلمانوں کی یہ بے حسی صد بار باعث حیرت ہے کہ عقیدہ ان کا کیا ہے اور عمل کیا۔ ان اشعار کے پیش نظریہ نکتہ لکھنا ضروری ہے کہ مثنوی رموز بے خودی کی تصنیف سے لے کر آخر دم تک کوئی ربع صدی عقیدہ نبوت پر لکھتے رہے۔ احمدیوں اور قادیانیوں نے ترک جہاد کا انہوںنے ضرب کلیم اور ارمغان حجاز میں بھی استہزا کیا ۱۹۳۵ء اور ۱۹۳۶ء میں علامہ مرحوم نے ان لوگوں کے خلاف کئی مضامین لکھے اور بیانات دیے انہوںنے ان کے اقلیت قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا اور انہیں دین و ملک کا غدار بتایا تھا ۴؎۔ بہائیوں کے بارے میں فلک مشتری پر (بحوالہ قراہ العین طاہرہ) مختصر گفتگو ہو چکی ہے۔ پانچواں بند اس حصے میں عصر حاضر کی مادیت اور براعظم ایشیا کے جمود و رکود پر بے لاگ تبصرہ ملتا ہے۔ عصر حاضر کیا ہے؟ عقلہا بے باک علم و فن یعنی عقلوں کی بے باکی اور دلوں کی سختی‘ آنکھوں کی بے حیائی اور مجاز دوستی کا زمانہ اس عصر میں علوم و فنون دین و سیاست او ر عقل و دل سب مادیت کا شکار ہیں۔ براعظم ایشیا میں جس میں مسلمانوں کی اکثریت کے مساکن ہیں اور جو روحانیت کا علمبردار رہا وہ آج خود فراموش اور دوسروں کا مقلد ہے۔ یہاں ایجادات اور تصورات نابود ہیں اور یہاں کے لوگوں کی زندگی جامد راکھ اور جذبہ ترقی سے عاری ہے۔ یہاں کے لوگوں کی عقل دین اور ننگ و ناموس کو یا مغربیوں نے اسیر و صید کر رکھا ہے یا یہاں کے ملائوں اور بادشاہوں نے (مشرقی یا ایشیائی اقوام کی تقلید مغرب کی خرابیوں کا ذکر جاوید نامہ کے فلک عطارد اور آنسوئے افلاک میں آیا ہے اور موخر الذکر حصے میں صوفی و ملا کے یکے از اسباب زوال امت ہونے کا بھی) اقبال نوجوانوں کو اپنے کارنامے کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ انہوںنے خون جگر دے کر اقوام ایشیائی کی بیداری کا کچھ سامان مہیا کیا ہے۔ تاخستم بر عالم افکار او تا دریدم پردہ اسرار او درمیان سینہ دل خوں کردہ ام تا جہانش را دگرگوں کردہ ام عصر حاضر کی مادہ پرور ذہنیت اور اقوام مشرق ایشیا کی تقلید پسندی اور ن کے وجود زوال کا محاکمہ چند ادبیات میں جس طرح علامہ اقبال نے سمویا یہ ان ہی کا حق تھا۔ آج براعظم ایشیا کے حالات کافی حد تک بدل چکے ہیں۔ تاہم دوسرے براعظموں کے مقابلے میں یہ عظیم سر زمین اب بھی اقبال کے اس شعر کی تصویر ہے۔ صید ملایان و نخچیر ملوک آہوئے اندیشہ اولنگ و لوک یعنی ایشیا ملائوں بادشاہوں (مطلق العنان حاکموں) کا شکار ہے (اور) اس کی فکر کا ہرن لنگڑا لولا ہی ہے۔ چھٹا بند اقبال کی دونوع کتابیں اس بند میں اقبال نے اپنی انگریزی تصنیف (خطبات) اور اردو و فارسی کی شعری تصانیف کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور نوجوانوں کو ان دونوں قسم کی کتابوں سے استفادہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ جاوید نامہ کی اشاعت کے وقت تک اقبال کے چھ انگریزی خطبات شائع ہوئے تھے ساتواں خطبہ انہوںنے ۱۹۳۲ء میں لندن میں پڑھا تھا جو ۱۹۳۴ء میں شامل کتاب ہوا۔ مگر کتاب کا نام حاشیے میں تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ہی مرقوم ہے۔ اقبال نوجوانوںکو اپنے انگریزی خطبات کی اہمیت بتاتے ہیں یوں تو ان کی کتابیں تقاضائے زمانہ کے مطابق لکھی گئی ہیں مگر خطبات میں دو سمندر دو کوزوں میں بند کر دیے گئے ہیںَ مگر خطبات پیچیدہ زبان میں اور سنجیدہ تر ہیں تاکہ صاحبان فکر و فلسفہ ان سے مستفید ہو سکیں۔ اور ان کی اہمیت کے قائل ہو سکیںَ شعری کتابیں مغربیوں کے اسلوب میں تہ دار باتوں کی حامل ہیں اورموسیقیت سے بھرے ہوئے مستانہ نغمے ہیںَ شعری کتابیں ذکر کی حامل ہیں جبکہ خطبات فکر کے خاکی ہیںَ ان دونوں قسم کی کتابوں کے مضامین یکساں نوعیت کے بھی ہیں اور انفرادی موضوع کے آئینہ دار بھی ۔ حضرت علامہ اقبال دعا کرتے ہیں کہ خدا نوجوانوں کو توفیق دے کہ وہ ان شعری اورنثری دونوں قسم کی کتابوں سے استفادہ کر سکیں۔ اقبال کا اپنی کتابوں پر یہ تبصرہ ۱۹۳۱ء کے لگ بھگ کا ہے۔ اس کے بعد بھی انہوںنے نثر میں فکر انگیز مقالے بھی لکھے ہیں اور ایمان پرور شاعری بھی کی۔ مگر یہ تبصرہ پھر بھی بے حد اہم اور گرہ کشا ہے۔ ا س میں انہوں ںے نہایت قطعیت کے ساتھ یہ بتا دیا ہے کہ خطبات فکر و فلسفہ کی کتاب ہے اور اس کے مخاطبین منتہی قسم کے لوگ ہیں۔ یہ بات اقبال نے خطوط وغیرہ کے ذریعے بھی واضح کی ہے ۵؎ ۔ اقبال کی شاعری رموز و کنایات کی حامل ہے ۔ اس عقدے کو بھی انہوںنے یہاں وا کیا ہے۔ پھر یہ بات غور طلب ہے کہ کہ: میں ندی ہوں اور میری اصل دونوں سمندروں (ذکر و فکر) سے ہے۔ یہاں وہ اپنے خطبات اور منظوم کتب کو ایک دوسرے کا تکلمہ قرار دیتے رہے ہیں اورحقیقت بھی یہی ہے ۔ خطبات سے کچھ پہلے لکھی جانے والی کتاب مثنوی گلشن راز جدید اوریہ جاوید نامہ بالخصوص کئی مشترک مباحث کو محیط ہیں دیگر کتابوں کے اشتراکات بھی چشم گیر ہیں۔ نہ صرف مترادف اردو اور فارسی اشعار ملتے ہیں بلکہ نثر اور شعر کے معانی میں کہیں کہیں ہم آہنگی بھی ملتی ہے مگر ہر جگہ اس شعر کا سماں ہے کہ : مرا معنی تازہ مدعا ست اگر گفتہ را باز گویم رواست (پیام مشرق) ساتواں بند۔ نوجوان معلمین اورنظام تعلیم اب تک نوجوانوں نے دوسرے گروہوں کی حالت ملاحظہ کی تھی۔ اب شاعر اسلام خود انہیں خود نگری کی دعوت دیتے ہیں۔ یہاں نوجوان طالبان علم کے طور پر مذکور ہیں۔ ان کے ساتھ معلمین اور نظام تعلیم بھی ہدف ملامت بنتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں کہ عصر حاضر کے نوجوان علم کے پیاسے ہیں مگر ان کے جام (ذہن) خالی ہیں اور وہ روشن خیال اور بٹے ٹھنے لگتے ہیں مگر ان کی روح تاریک ہے۔ وہ کم نظر ناامید اوربے یقین ہیں۔ انہوںنے ابھی دنیا کو دیکھا ہی کب ہے وہ خود فراموش ہیں اور غیروں کے معترف ہیں۔ لہٰذا ان مسلمانوں کی مٹی سے بت خانے کے معمار اینٹیں بنا رہے ہیں۔ نوجواناں تشنہ لب خالی ایاغ شستہ رو تاریک جاں روشن دماغ کم نگاہ و بے یقین و نا امید چشم شاں اندر جہاں چیزے ندید ناکساں منکر ز خود‘ مومن بغیر خشت بند از خاک شاں معمار دیر تین شعر اور اتنا عظیم تبصرہ۔ مولانا غلام قادر گرامی (۱۹۲۷ئ) نے اقبال کی شاعری کے بارے میں ہی فرمایا تھا کہ: دردیدہ معنی نگہاں حضرت اقبال پیغمبری کر دو پیغمبر نتواں گفت کلمات اقبال اس بات کے غماز ہیں کہ یہاں ان نوجوانوں کو ہدف ملامت بنایا جا رہاہے جو بے یقین اورقوت دین سے بدظن ہو کر متحدہ قومیت کے ہمنوا ہو رہے تھے۔ اور ہندو اکثریت کی ہمنوائی کرنے لگے تھے۔ علامہ مرحوم فرماتے ہیں کہ تعلیم نظام کو تربیت نفوس سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس تاریکی پر ور نظام نے فطری استعداد کو ایسی زک پہنچائی کہ کسی ہونہار شخص کے جوہر نمودار ہی نہ ہو سکے معلمین کے دروس سربزیری اور خود شکنی پر مبنی ہیں ۶؎۔ علم و دانش میں سوز قلب نہ ہو تو ا س کے ذریعے خوب و ناخوب کا خط امتیاز کیسے کھینچا جائے گا۔ علم حقیقی کی ابتدا تربیت حواس سے ہوتی ہے۔ مگر اس کی انتہا حضور(تجلی کائنات) ہے جو قوائے شعور سے بالا تر مقام ہے علم میں سوز قلب کی آمیزش کا موضوع جاوید نامے میں اس سے قبل زیر بحث آ چکا ہے مثنوی پس چہ بیاد کرد میں شاعر نے اسے مزید واضح کیا ہے ۷؎۔ آٹھواں بند۔ تلقین خود شناسی و عمل اقبال نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ وہ کتابیں بھی پڑھیں مگر صاحبان دل بزرگوں کی صحبت سے بھی مستفید ہوں ۸؎۔ صحبت و ہم نشینی سے ہر کسی کو اس کے ذوق اوراستعداد کے مطابق حصہ ملے گا۔ کم کھانے کم سونے اور کم باتیں کرنے کی عادت ڈالنا چاہیے۔ تاکہ انسان اپنے گرد پرکار کی طرح گھوم سکے اور رکت و عمل کو شعار بنا سکے۔ کہتے ہیں کہ ملا صرف منکر خدا کو کافر کہتا ہے مگر میں منکر خودی کو اس سے بڑا کافر کہتا ہوں۔ کیونکہ منکر خدا قرآن مجید کی اصلاح میں جلد باز و عجول ۹؎ کہا جائے گا جبکہ منکر خودی عجول کے علاوہ ظلوم و جہول بھی ہے ۱۰؎۔ بیٹے! سچائی کا راستہ اختیار کیا جس کا کوئی امیر یا بادشاہ سد راہ نہ بن سکے گا۔ غصہ کا عالم ہو یا خوشی کا ‘ دامن انصاف نہ چھوڑو۔ امیری ہو یا غریبی میانہ روی اختیار کیے رہ۔ کوئی حکم حق مشکل نظر آئے تو اس کی تاویل نہ کر۔ اپنے دلکا چراغ تلاش کر اور اس حکم پر عمل کر کے دکھا۔ جس طرح ذکر و فکر کی فراوانی سے حفاظت روح ہوتی ہے اسی طرح جوانی میں ضبط نفس سے بدن کی حفاظت ہوتی ہے ۱۱؎۔ بدن و روح کی اس حفاظت کے بغیر دنیا اور ماورائے دنیا کی حکمرانی نہیںملتی۔ زندگی مسلسل حرکت و عمل کا نام ہے چاند اپنی محوری گردش سے بدر بنتا ہے اور اپنی اس حالت میں کچھ دن باقی رہتا ہے۔ مگر انسان کی گردش و حرکت میں ایساسکون ہی نہیں۔ زندگی لذت پروا زکا نام ہے۔ طائر زندی آشیانے سے نباہ نہیںکرتا۔ کوے اور گدھ کا رزق قبرستان میں ہے مگر بازوں کی روزی چاند اور ستاروں کے نواح میں ہے۔ اس بند کی لفظی ترجمانی سے واضح ہے کہ اس کے نکات تشریح طلب ہیں مگر ان کا جداگانہ احاطہ کیا جا سکتا ہے۔ کتابی علم ضروری ہے مگر دل کی کشاد کے لیے صاحبان فکر نظر کی صحبت سے مستفید ہونا اس سے مفید تر ہے مثنوی پس چہ باید کر د میں ہے: شکوہ کم کن از سپہر گرد گرد زندہ شواز صحبت آن زندہ مرد مرد حڑ دریائے ژرف و بیکراں آب گیر از بحر و لے از ناوداں حقیقی خدا شناس وہی ہو گا جو خودی شناس ہو۔ قول معروف ہے کہ: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ اخلاص اور راست بازی اور میانہ روی زندگی گزارنے کے بہترین اصول ہیں۔ دور شباب کا ضبط نفس ایک شخصیت ساز عمل ہے اسے ذکر و فکر کے ساتھ توام کیا جانا چاہیے۔ زندگی حرکت و عمل اور جہد مسلسل کا نام ہے۔ جس کا مطمع نظر جتنا بلند ہو اتنا ہی وہ بلند تر مراحل زندگی پر پہنچے گا۔ نواں بند۔ ورع و تقویٰ اس بند کے آغاز میںدو معنی خیز اشعار ملتے ہیں: سر دیں صدق مقام اکل حلال خلوت و جلوت تماشائے جلال در رہ حق سخت چوں الماس زی دیدہ برحق بند و بے وسواس زی یعنی دین کا راز سچی بات اور حلال روزی ہیں جن کو اپنانے والے مومن جلوت و خلوت میں جمال حق دیکھنے کی اہلیت پیدا کر سکتے ہیں۔ راہ دین میںہیرے کے سے سخت بنو حق سے دل لگائو اور بے خوف و وسوسہ جیو۔ اقبال یہاں سلطان مظفر الدین ابن سلطان محمود بیگڑہ گجراتی کا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں اورنوجوانوں کو اطاعت اور ورع و تقویٰ اپنانے کی ایک مثال فراہم کرتے ہیں۔ پھر یہ سلطان بھی قرون اولیٰ سے نہ تھا۔ اس کا تعلق دور متاخر سے تھا ۱۲؎۔ سلطان مذکور کا عربی نسل کا ایک دیدہ زیب گھوڑا ایک دفعہ بیمار ہو گیا۔ یہ ایک بے نظیر گھوڑا تھا جو صلح و جنگ دونوں صورتوںمیں بادشاہ کی سواری کے کام لایا جاتا تھا۔ شاعر اس کی مناسب حال توصیف کر کے بتاتے ہں کہ ایک معالج حیوانات نے شراب پلا کر اس گھوڑے کے درد کا علاج کیا مگر: شاہ حق بیں دیگر آں یکراں نخواست شرع تقویٰ از طریق ما جداست اے خدا بخشد ترا قلب و جگر طاعت مردمسلمانے نگر یعنی حق پرست سلطان نے اس شراب پئے ہوئے گھوڑے کی پھر سواری نہ کی۔ راہ تقویٰ ہم موجودہ مسلمانوں کی راہ سے جدا ہے اے نوجواں خدا تجھے قلب و جگر کی نعمت عطا کرے۔ ا س مرد مومن کی اطاعت و روع پرتوجہ کر۔ دسواں بند۔ درس عشق و رواداری فرماتے ہیں کہ دین سوز جستجو کا نام ہے دین کا آغاز عشق سے ہے اور اس کی اتنہا ادب و احترام پھول رنگ و بو سے عزیز ہوتا ہے (اور انسان ادب سے) بے ادب شخص کو ایک بے رنگ و بو اور بے آبرو وجود جانیں۔ میںجب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوں تو میرا دن رات کی طرح تاریک ہو جاتا ہے۔ میرے سینے میں تب و تاب بڑھتی ہے اور مجھے ایسے وقت رسول اللہؐ کا زمانہ یاد آ جاتا ہے جس میں دوسری باتوں کی طر ح ادب و احترام کا دور دورہ تھا میں اپنے بے ادب زمانے سے پشیمان ہو کر گزشتہ صدیوں میں ذہناً پناہ لیتا ہوں۔ فرماتے ہیں جس طرح عورت شوہر (اورمحرموں) کے علاوہ دوسرے سے ستر و پردہ اختیار کرتی ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو بھی برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنا چاہیے ورنہ وہ حفظ خودی نہ کر سکیں گے۔ بری بات کہنا برا ہے مومن اور کافر سب اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ انسانیت احترام انسان کا نام ہے۔ انسان کے بلند مقام کو خاطر نشین رکھنا ضروری ہے ۱۳؎۔ انسانیت حسن معاشرت سے عبارت ہے لہٰذا دوسروں سے موانست اختیار کی جائے۔ مرد مومن تخلقو باخلاق اللہ کی روشنی میں مومنوں کے علاوہ کافروں پر بھی شفقت کرتا ہے دل کی وسعتوں میں آفاق سما جاتا ہے۔ لہٰذا غیر مسلموں سے رواداری برتنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ شیوہ اسلام ہے۔ گیارھواں بند۔ اختیار کفر تصوف میں فقر کا مفہوم اللہ کو پا کر کائنات سے بے نیازی ہے۔ کلام اقبال میں اس کا مفہوم یہی ہے۔ مندرجہ ذیل احادیث کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے جو کتب صوفی میں نقل ہوتی رہی ہیں۔ ۱۔ الفقر فخری و الفقر منی ۲۔ لی فرقتان ۔ الفقر و الجہاد فقر یہاں غربت و افلاس کے معنی میں نہیںَ یہ اصطلاحی معنی میں ہے یعنی فقر اختیاری کے لیے مال و دولت کی کمی پر قناعت اوراس کی افراط پر میانہ روی اور درویشی اختیار کرنا اور بندہ مال و منال نہ بننا۔ یہ ہے فقر جاوید نامہ سے قبل زبور عجم میں بھی فقرا کے اوصاف آئے ہیں ۱۴؎۔ مگر اقبال کا تصور فقر جاوید نامے سے ہی ابھرتاہے اور ان کی بعد کی جملہ تصانیف میں وہ ارتقائی منازل طے کرتانظر آتا ہے ۱۵؎۔ اس بند میں نوجوانوں کو تلقین ہے کہ مال و دولت کی فراوانی سے بدمست نہ ہوں اور دولت کی بہتات کے بھی آرزو مند نہ ہوں بلکہ خدا سے سوز دل کے طالب بنیں کیونکہ: سالہا اندر جہاں گردیدہ ام نم بچشم منعماں کم دیدہ ام من خدائے آنکہ درویشانہ زیست وائے آنکو از خدا بیگانہ زیست بارھواں بند۔ عوام کی تعریف اور خواص پر تنقید علامہ مرحوم نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ اس وقت عام مسلمان لائق اعتنا ہیں مگر نام نہاد خواص ذو ق و شوق اور یقین سے محروم ہیں خواص سے امراء ہی مراد نہںجو غربا کی توصیف کے مقابلے میں جواب شکوہ میں ہدف انتقاد بن چکے ہیں ۱۶؎۔ یہاں عالم صوفی و روشن خیال بلکہ مسلمان سب ہی موجب ملامت بنائے جا رہے ہیں۔ ’’عالم قرآن مجید کے علم سے بے نیاز دکھائی دیتاہے۔ صوفی لمبے بال کٹے ہوئے ہیں (درویش روشن) مگر فطرت میں گرگ خونخوار ہیں خانقاہوں میں کچھ رونق ذکر ہے مگر شراب معرفت کی بوتل والا جواں مرد صوفی و عارف کہاں رہا؟ مقلدان مغرب مسلمان تو سراب میں حوض کوثر تلا ش کر رہے ہیں سراب میں آب کہاں اور آب کوثر کہاں یہ سب لوگ راز دین سے بے خبر ہیں بلکہ انہیں اہل کیں (کینہ اور دشمنی والے) کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اس وقت ان خواص سے خیر و خوبی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ البتہ عوام میں صدق وصفا دکھائی دیتے ہیں۔ اڑتے گڈھ بھی ہیں اور شاہین بھی۔ مگر گدھوں کے طریقے اورشاہین کی پرواز کی شان و شوکت اور ہے۔ ذیل کا شعر مثنوی رومی سے لے کر تضمین کیا گیا ہے: اہل دیں را بازداں از اہل کیں ہم نشیں حق بجو‘ با او نشیں تیرھواں بند۔ مرد حق کی راہنمائی اور رقص روح خطاب بہ جاوید کا یہ آخری بند اور طویل تر بھی۔ اس میں مرد حق ۱۷؎ کے اوصاف بتائے گئے ہیں اور اس مرشد کی تلاش کی تاکید کی گئی ہے۔ اقبال اپنے خاندان کی درویش سیرتی کا ذکر کرتے ہیں اور رومی نیز مثنوی معنوی کی مرشدانہ حیثیت کو واضح کرتے ہیں۔ مگر رومی نے روح کا رقص سکھایا تھا۔ بدن کا رقص ان سے غلط منسوب ہے۔ رقص روح ماسوی اللہ سے روگردانی اور حرص و غم پر غالب آنے سے ہاتھ لگتا ہے۔ مرد حق کی ایک انقلابی شخصیت ہوتی ہے اور اس میں پیغمبرانہ صفات ہوتی ہیں۔ او کلیمؑ و او مسیحؑ و او خلیلؑ او محمدؐ ‘ او کتاب او جبریلؑ صاحبان دل کو مرد حق سے ہی سوز و ساز ملتا ہے۔ مگر عصر حاضر کے سے مادی زمانے میں مرد حق کہیں مستور ہوتا ہے اور بآسانی مل نہیں سکتا۔ مگرنوجوانوں کو دامن طلب پھیلانا چاہیے اور مر د حق کی جستجو جاری رکھنا چاہیے۔ اقبال خطاب بہ جاوید کہتے ہیں کہ خود ان کا آبائی ورثہ درویشانہ ہے۔ اس کی بھی قدر کرنا چاہیے۔ پھر وہ رومی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ جن کی مثنوی ایک مرشد صادق کا کام دیتی ہے۔ مگر افسوس کہ رومی کے پیروئوں فرقہ مولویہ نے ان کے کلام سے رقص بدن کا طریقہ سیکھا اور رقص روح کی طرف توجہ نہ کی ۔ حالانکہ یہ دوسرا اہم تر کام ہے ۔ رقص بدن سے ورزش ہی ہوتی ہے۔ مگر رقص روح ایک انقلابی قدم ہے اس سے علم اور غلبہ ملتا ہے رقص روح فرد اور ملت دونوں کو قوت و شکوہ دیتا ہے۔ مگر رقص روح مشکل کام ہے۔ ماسویٰ اللہ سے انصراف اور حرص و غم پر غالب آنے سے رقص روح کی حلاوت ملتی ہے۔ یہاں اقبال غم کو دل و ایمان کی کمزوری کا موجب بتاتے ہیں اورغم و حرص کی تباہ کاریوں پر متنبہ کرنے والی دو احادیث نقل کرتے ہیں۔ ۱۔ الھم نصف الھرم (غم نصب بڑھاپا ہے) ۲۔ ایاکم والطمع فانہ الفقر الحاضر (حرص سے بچو بے شک وہ مداوم غربت ہے) اقبال اسی رقص روح کی تلقین پر جاوید نامہ کے اس ضمیمہ کو ختم کرتے ہیں۔ اے مرا تسکین جان نا شکیب توا گراز رقص جاں گیری نصیب ستر دین مصطفیٰؐ گویم ترا ہم بہ قبر اندر دعا گویم ترا ترجمہ : اے جاوید نوجواں و کہ میری بے قرار روح کا قرار ہے ۱۸؎۔ تو اگر رقص روح سے بہرہ مند ہو جائے تو میں تجھے دین مصطفیؐ کے راز بتائوں گا اور قبر کے اندر بھی تیرے لیے دعا گو رہوں گا۔ رومی مسلمہ پر وجد و سماع سے لگائو رکھتے تھے۔ البتہ حرص و غم پر وہ غالب تھے۔ وہ دوستوں اور عزیزوں کے موت کے موقعہ پر بھی پائے کوباں جاتے تھے ۱۹؎۔ اقبال کی یہ جدت ہے کہ انہوںنے تعلیمات رومی سے رقص روح کے تصور کو اخذ کیا اور اسے ترقی دی۔ رقص روح یعنی روح کی بالیدگی اور تہجت اقبال نے اسے فضائل اخلاق میں شامل کر لیا ہے اور ماسویٰ اللہ سے قطع تعلق اور حرص و غم پر قابو پانے کو اس کو خصوصیات بنایا۔ اقبال انفرادیت پر ہی نہیں اجتماعیت پربھی توجہ دیتے ہیں چنانچہ رقص روح کے فوائد وہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ علم و حکم از رقص جان آید بدست ہم زمین ہم آسماں آید بدست فرد ازوے صاحب جذب کلیمؑ ملت ازوے وارث ملک عظیم اقبال نے رقص ۲۰ ؎ و موسیقی کی افادیت کے قائل تھے اور کہتے ہیں: شعر سے روشن ہے جان جبرئیل و اہرمن رقص و موسیقی سے ہے سوز و سرود انجمن فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرار فن شعر گویا روح موسیقی ہے رقص اس کا بدن البتہ رقص ان کے نزدیک وہی لائق احترام ہے (خصوصاً مسلمانوں اور اقوام ایشیا کے نقطہ نظر سے جو روح کو حرکت دے اور اسے قومیت اور نبوت کے اوصاف کا پرتو بنائے۔ چھوڑ یورپ کے لیے رقص بدن کے خم و پیچ روح کے رقص میں ہے ضرب کلیم الٰہی صلہ اس رقص کا ہے تشنگی کام و دہن صلہ اس رقص کا درویشی وشاہنشاہی ۲۱؎ اقبال کی اصطلاح رقص جاں سے مراد وجد ہے نہ کہ رقص۔ رقص کا محرک انبساط نفس امارہ ہے۔ جبکہ وجد کا محرک انبساط روح ہے۔ رومی وجد و سماع سے لگائو رکھتے تھے۔ رقص و موسیقی سے نہیں۔ ان اصطلاحات کا استعمال ضروری ہے۔ مگر اقبال نے نیا جدت آمیز پیرایہ اختیار کیا اور وجد و سماع کو رقص جاں کہا اوراسے ہوس پر ور رقص بد ن سے ممتاز کر دیا۔ اردو ترجمہ مزید فائدے کے لیے مناسب نظر آتا ہے کہ خطاب بہ جاوید والے حصے کا اردو تمیں ترجمہ پیش کر دیا جائے۔ اس کی مدد سے علامہ مرحوم کے مفاہیم و معانی کو ہر کوئی اپنے ذوق کے مطابق درک کر سکتا ہے: بند اول یہ بات سمجھانا بے سود ہے (کہ) جو کچھ دل کی گہرائی میں وہ باہر نہیںآتا۔ میں نے اگرچہ صد ہانکتے واضح طور پر بیان کیے ہیں مگر ایک ایسا نکتہ ہے جو کتاب میں نہیں سماتا۔ اسے میں بیان کروں تو مشکل بنے گا۔ (اور) حرف و صدا سے چھپا دیں گے۔ اس نکتے کا سوز میری نگاہ یا میری آہ صبحگاہ سے حاصل کر۔ بند دوم بیٹے تیری ماں نے تجھے پہلا سبق دیاتیری کلی اس کی باد نسیم سے کھلی اس کی باد نسیم سے تیری یہ رنگ و بو ہے ۔ میرے سامان تیری قیمت تیری ماں کی وجہ سے ہے۔ ۔ تو نے ہمیشہ دولت اس سے جمع کی اور لا الہ الا اللہ کو تو نے اس کے لبوں سے سیکھا۔ تو لا الہ کہتا ہے؟ بیتے ذوق نگاہ مجھ سے سیکھ آتش لا الہ میں جلنا مجھ سے سیکھ۔ اسے روح سے کہہ تاکہ تیرے جسم سے روح کی خوشبو آئے۔ سورج اور چاند لا الہ کے سوز سے ہی گردش کرتے ہیں۔ میں نے اس سوز کو پہاڑوں کی جمادات اور نباتات میں دیکھا ہے لا الہ الا اللہ کے کلمات گفتار ہی یہ بے زنہار تلوار ہیں ۔ توحید کے سوز کے ساتھ جینا قہاری ہے۔ لا الہ الا اللہ ایک کاری ضرب ہے۔ بند سوم مومن ہو اور دوسروں کے سامنے کمر بستہ؟ مومن ہو اور غداری افلاس و منافقت؟ (ایسے مومن نے) دمڑی کے بدلے دین و قوم کو بیچ ڈالا۔ گھر کا سامان بھی جلا اور گھر بھی۔ اس کی نما ز میں لا الہ الا اللہ تھا اور اب نہیں اس کے ناز میں نیاز تھا اور اب نہیں ہے۔ اس کے نماز و روزہ میں نور نہ تھا ا س کی کائنات میں جلوہ نہ تھا۔ وہ جس کا سرمایہ خدا تھا اس کا فتنہ مال کی محبت اورم وت کا خوف ہے۔ اس کی وہ مستی اور ذوق و سرور جاتا رہا۔ اس کا دین کتاب قرآن مجید میں ہے اور وہ خود قبر میں۔ اس کی ہم نشینی عصر حاضر سے ہے۔ اس نے دو نام نہاد پیغمبروں سے دین کی باتیں سیکھ رکھی ہیں۔ ایک نام نہاد پیغمبر ایران سے تھا اور دوسرا ہندی الاصل۔ وہ حج سے بے بہرہ تھا اور یہ جہاد سے جہاد اور حج فرائض نہ رہیں تو نماز و روزے کے پیکر سے بھی رونق گئی۔ نماز اور روزوں کی روح غائب ہوتی تو فر د محروم خودی ہوا اور قوم غیر منظم۔ جن کے سینے قرآن مجید کی گرمی سے خالی ہوں ان انسانوں سے بہتری کی کیا امید ہے؟ مسلمان خودی سے محروم ہو چکا ہے۔ اے خضر مدد کریں کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ بند چہارم وہ سجدہ جس سے زمین کانپ جاتی تھی سورج اور چاند بھی اس کے حسب منشا گردش کرتے تھے اس سجدے کا اثر اگر پتھر بھی قبو ل کر لے تو وہ پتھ دھویں کی طرح فضا میں منتشر ہو جائے مگر اس زمانے میں وہ سجدہ ضعف اور سربریزی کے سوا کچھ نہیں اور اس میں بڑھاپے کے اضمحلال کے سوا ہیچ ہے۔ تسبیح۔ سبحان ربی الاعلیٰ کی شان و شوکت کہاں رہ؟ یہ تسبیح نما ز کا قصور ہے یا خود ہمارا؟ ہر کوئی اپنی راہ پر تیز بھا گ رہا ہے۔ ہماری اونٹنی بے لگام اور بے ہودہ بھاگنے والی ہے۔ قرآن مجید کا حامل اور ذوق طلب سے محروم؟ تعجب ہے دوبارہ تعجب ہے اور سہ بارہ تعجب ہے۔ بند پنجم بیٹے خدا گر تجھے صاحب بصیرت بنائے تو آئندہ زمانے پر غور کر اس زمانے میں عقلیں بے باک دل بے گداز و نرمی آنکھیں بے حیا اور مجاز میں ڈوبی ہوتی ہیںَ علم و ہنر ہو یا دین و سیاست اور عقل و دل سب مل کر مادیت کے گر د گھوم رہے ہیںَ وطن آفتاب ایشیا دوسروں پر فریفتہ اور خود فراموش ہے۔ اس کے قلب میں نئی نئی وارداتیں ہی ۔ اس کی متاع کوکوئی دو کوڑیوںکے بدلے نہیں لیتا۔ اس قدیم بت کدہ دنیا میں اس زمانہ کا جامد سرد اور حرکت کے بغیر ہے۔ یہ براعظم ملائوں اور بادشاہوں کا شکار ہیاس کی فکر لولی لنگڑی ہے۔ اس کی عقل ‘ دین اور ننگ و ناموش مغربی لارڈوں کے شکار بندوں میں بندھے ہوئے ہیں میں نے ایشیائیوں کے جہان افکار پر حملہ کیا اور اس براعظم کے راز افشا کر دیے۔ میں نے اپنے سینے میں خون دل کر دیا ہیاں تک کہ اس کی دنیا بدل گئی۔ بند ششم میں نے اپنے زمانے کے تقاضے کے مطابق دو باتیں کیں۔ دو سمندروں کو میں نے دو کوزوں میں بند کر دیا ہے۔ ایک پیچیدہ اور انتقادی بات ہے تاکہ میں مردان میدان کے عقل و دل کو شکار کروں۔ دوسری مغربیوں کی طرزکی تہہ دار اور علاماتی بات ہے جو بربط کے تاروں کا مستانہ نالہ ہے شاعری یہ دوسری بات ذکر سے مربوط ہے اور پہلی فکر سے۔ خدا تجھے اس فکر و ذکر کا وارث بنائے میں ای ندی ہوں جس کا منبع دو سمندر ہیں۔ میرے پانی میں جدائی ہے اور امتزاج بھی۔ جب سے میرے زمانے کا مزاج بدلا ہے میری طبیعت نے نیا ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ بند ہفتم نوجوان پیاسے ہیں اور خالی جام۔ وہ بنے ٹھنے تاریک روح والے اور روشن خیال ہیں وہ بے بصیرت بے یقین اورناامید ہیں۔ ان کی آنکھ نے دنیا میں کچھ دیکھا ہی نہیںَ یہ بے شخصیت اپنے منکر اور غیروں کو ماننے والے ہیں اس لیے بت خانے کا معمار ان کی مٹی سے اینٹیں بناتا ہے۔ مدرسے کو جب تک اس نوجوان کے جذب باطنی سے آگاہی نہیں وہ اپنے ہدف تعمیر خودی سے ناواقف ہے۔ اس مدرسے نے فطر ی نور کو نوجوانوں کی ارواح سے دھو ڈالا اور اس کی شاخ سے ایک بھی خوب صورت پھول نہ اگا۔ ہمارا معمور معلم ایٹ کو ٹیڑھا رکھتا ہے اور شاہین بچے کو بطخ کی سربریزی کی عادت ڈال رہا ہے۔ علم جب تک زندگی کی تپش نہ لے دل واردات و جذبات کی تپش نہیں لیتا۔ اے مخاطب علم تیرے مقامات و علامات کی توضیح کے سوا نہیں ہے۔ پہلے محسوسات کی آگ میں جلنا چاہے تاکہ تو اپنی چاندی کو تانبے سے ممتاز کر سکے۔ علم حق پہلے حواس ہے پھر حضور۔ یہ آخری مرحلہ حضور شعور میں نہیںسماتا۔ بند ہشتم تو اہل فن سے صدا ہا کتابیں پڑھتا ہے مگر ان سے بہتر وہ درس ہے جو تو نظر صحبت سے لے۔ نظر سے جو شراب گرتی ہے اسسے ہر کوئی ایک دوسرے طریقے سے مست ہو جاتا ہے۔ باد صبح کے جھونکوں سے چرا غ بجھ جاتا ہے مگر اس ہوا سے گل و لالہ کے پیالے میں شراب پڑتی ہے۔ تھوڑا کھانے والا تھوڑا سونے والا ور تھوڑا باتیںکرنے والا ہو مگر اپن یگرد پرکار کی طرح گھومنا سیکھ۔ ملا کی نظر میں خدا کا منکر کافرہے۔ میرے نزدیک منکر خودی اس سے بڑا کافر ہے۔ منکر وجود خدا جلد باز ہے مگر منکر خودی جلد باز ہے اور ظالم و جاہل بھی اخلاص کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑ اور امیر و سلطان کے خوف سے دور رہ۔ غصے اور خوشی میں انصاف سے ہاتھ نہ دو غربت اور دولت مندی میں میانہ روی ترک نہ کرو۔ حکم مشکل ہوتو ا س کی تاویل نہ کر اور انے دل کے سوا چراغ نہ ڈھونڈ۔ روحوں کی حفاظت و افر ذکر و فکر سے ہوتی ہے اور بدنوں کی حفاظت جوانی میں ضبط نفس اپنانے سے اس پست وبلند دنیا میں جسم و روح کی حفاظت کے بغیر حاکمی و بالادستی میسر نہیں ہوتی۔ سفر کا مقصد لذت پرواز ہے۔ اگر تیری نظر آشیانے پر ہے تو نہ اڑ۔ چاند گردش کرتا ہے مقام والا بدر بن جائے آدمی کی گردش و پرواز کے لیے مقا م و سکون حرام ہے۔ زندگی لذت پرواز کے سوا نہیں۔ آشیانہ اس پرندے کی فطرت سے سازگار نہیں کوے اور گدھ کی روزی قبر کی مٹی میں ہے بازوں کی روزی چاند اور سورج کے نواح میں ہے۔ بند نہم دین کاراز سچی بات اور حلال روزی ہے خلوت اور جلوت میں جمال کو دیکھنا ہے۔ دین کے راستے میں ہیرے کی طرح سخت رہ حق سے دل لگا اور بے خوف رہ میں تجھے دین کے رازوں میں سے ایک راز بتاتا ہوں مظفر کی تاریخٰ داستان نقل کرتا ہوں۔ وہ اخلاص عمل میں منفرد اور بایزید بسطامیؒ کے مقام والا بادشاہ تھا۔ اس کے پاس بیٹوں کا ساپیارا ایک گھوڑا تھا۔ جو میدان جنگ میں اپنے مالک کی طرح سخت کوش رہتا تھا۔ وہ اعلیٰ عربی نسل کا سبز رنگ گھوڑاتھا جو باوناہونے کے علاوہ بے نقص و عیب تھا۔ اے پارے اور نکتہ دان مردن مومن کے پاس قرآن تلوار اورگھوڑے کے سواہوتا ہی کیاہے؟ بہرطور میں اصیل گھوڑے کی کیا تعریف کروں۔ وہ پہاڑوں اور پانی پر ہوا کی طرح چلتا تھا۔ جنگ کے دن وہ نگاہ سے آمادہ اور تیز تر تھا وہ گویا پہاڑ اور وادی میں چلنے والا جھکڑ تھا۔ اس کی دوڑ میں قیامت کے فتنے تھے۔ اس کے سموں کی ضرب سے پتھر ریزہ ریزہ ہو جاتے تھے۔ ایک دن وہ انسان کا سامحترم جانور درد شکم سے لاچا ر اور درد مند ہو گیا تھا۔ایک معالج حیوانات نے شراب سے اس کا علاج کیا اور بادشاہ کے گھوڑے کو تکلیف سے نجات دی۔ مگر حق پرست بادشاہ کو اس گھوڑے کی پھر طلب نہ رہی۔ تقویٰ کا راستہ ہمارا وش سے جدا ہے۔ اے نوجواں خدا تجھے قلب و جگر دے ایک مرد مومن کی اطاعت کو ملاحظہ کر۔ بند دہم دین طلب و جوستجو میں سراپا جلنا ہے۔ اس کا آغاز ادب سے ہوتا ہے۔ انتہا عشق۔ پھول کی رونق اس کے رنگ و بو سے ہے ۔بے رنگ بے رنگ و و اور بے آمیز ہے۔ میں جب کسی نوجوان کو بے ادب دیکھتا ہوںتو میرا دن رات کی طرح تاریک ہو جاتا ہے اور میرا سوز بڑھ جاتاہے۔ اور مجھے محمد مصطفیٰؐ کا عہد یاد آ جاتا ہے۔ میں اپنے زمانے سے پشیمان ہوتا ہوں اور قرون گزشتہ میں جا چھپتا ہوں۔ عورت کا ستر شوہرہے یا قبر کی خاک۔ مردوں کا ستر اپنے آپ کو برے دوستوں سے بچانا ہے۔ بری بات کو لب پر لانا گناہ ہے۔ کافر اور مومن سب اللہ کی مخلق ہیں انسانیت انسان کا احترام ہے۔ انسان کے بلند مقام کا خیال رکھو انسان میل جول اور معاشرت سے عبارت ہے۔ دوستی کے راستے پر قدم رکھ۔ عشق کا بندہ خدا کی روش اپناتا ہے۔ اور کافر و مومن دونوں پر شفیق بنتا ہے۔ دل کی وسعتوں میں خفر اور دین دونوں کو سمو لے۔ دل جو دل سے بھاگے اس پر حیف ہے۔ دل اگرچہ مادیت کا قیدی ہے مگر یہ سب کائنات دل کی ہی ہے۔ بند یا ز دہم تو دہقانوںاور امیروں سے بھی ہوت و فقر اختیاری کو نہ چھوڑ۔ فقر کا سوز تیری روح میں سویا ہوا ہے۔ یہ تیرے آبائو اجداد کی ہی پرانی شراب ہے۔ دنیا میں سوز و ہمدردی طلب کر۔ دولت خداسے مانگ بادشاہ سے نہیں۔ کتنے حق سرشت اور بابصیرت لو ہیں جو دولت کی بہتات سے اندھے بن جاتے ہیں اور دولت کی فراوانی دل کی نرمی لے لیتی ہے۔ وہ ناز لاتی ہے نیاز لے جاتی ہے میں مدتوں دنیا میں گھوما پھرا مگر امیروں کی آنکھیں بے نم ہی دیکھیں ہیں اس پر فدا ہوں جو درویشانہ زندگی گزارے اس پر حیف و افسوس ہے جو خداسے بیگانہ جیا۔ بند دواز دہم مسلمانوں میں وہ پہلا سا ذوق و شوق یقین و رنگ و بو نہ ڈھونڈ علماء علم قرآن سے بے نیا زہیں صوفی گرگ درندہ ہیں اور لمبے بالوں والے خانقاہوں میں شور و غوغا کرت ہیں مگر وہ جوانمرد صوفی کہاں ہے جس کے کدو مٹکے میں شراب حق ہو۔ افرنگ زدہ مسلمان بھی سراب میں حوض کوثر تلاش کر رہے ہیں وہ سب دین کے راز سے بے بہرہ ہیں اور اہل کینہ ہیںَ خواص پر نیکی حڑام ہو گئی مگر میں نے عوام میں صفدق و صفا کا ملاحظہ کیا ہے۔ رومی نے کہا ہے کہ اہل دین کو اہل کینہ سے ممتاز کرو حق کا ہم نشین ڈھونڈو اور اس کے ساتھ بیٹھو۔ گدھوں کا طور طریقہ اور ہے اور شاہین کی پرواز کی شان و شوکت اور ہے۔ بند سیز دہم مرد حق بجلی کی طرح آسمان سے جھپٹتا ہے۔ مشرق و مغرب کے شہر و صحرا اس بجلی کا ایندھن ہیں ہم ابھی کائنات کی تاریکیوں میں ہیں وہ کائنات کے انتظام میں شریک ہیں وہ کلیمؑ اوروہ مسیحؑ ہے وہ خلیلؑ ہے۔ وہ محمدؐ ہے وہ کتاب قرآن مجید ہے اور وہ جبرئیلؑ۔ وہ صاحبان دل کی کائنات کا سورج ہے۔ ان کی حیات اسی کی شعاع سے ہے۔ وہ پہلے اپنی نار میں تجھے جلاتاہے۔ اور پھر توجھے بادشاہی کرنا سکھاتا ہے۔ اس کے سوز سے ہم سب صاحب دل ہیں۔ ورنہ ہم مادے کا نقش باطل ہوتے جس زمانے میں تو نے جنم لیا اس سے مجھے خوف ہے۔ ی جسم مادیت می گم ہے اور روح کے بارے میں بے خبر ہے روح کے فقدان سے جب بدن کم بہا بنے و مرد حق اپنے آ پ کو چھپا لیتا ہے۔ طلب و جستجو مرد حق کو سامنے دیکھے بھی اسے حاصل نہیں کر سکتی۔ مگر تو زوق طلب نہ چھوڑ۔ خواہ تیرے کار طلب میں صدہا گر ہیں ہوں لیکن بیٹے اگر باخبر مرد کی صحبت میسر نہ ہو تو باپ دادا کا جو کچھ میرے پاس ہے اسی کو لے لیے۔ مرشد رومی کو راستے کا ساتھی بنا لے تاکہ خدا تجھے سوز و گداز دے۔ اس لیے کہ رومی مغز اور چھلکے و ممتاز کرتاہے۔ اور دوست کی گلی میں اس کا پائوں خوب جمتا ہے۔ لگوگوں نے اس کی شرح کی مگر اسے کوئی نہ دیکھا۔ اس کا معنی ہرن کی طرح ہم سے بھاگ گیا ہے۔ لوگں نے اس کی گفتار سے رقص بدن سیکھا اور رقص روح سے آنکھیں موند رکھیں رقص بدن سے مادی جسم حرکت کرتا ہے مگر رقص روح کائنات کو پلٹ کے رکھ دیتا ہے۔ رقص روح سے علم و اقتدار اور زمین و آسمان ملتے ہیں رقص روح سے فرد حضرت کلیمؑ کے جذب سے سرشار ہوتا ہے اور ملت ساس سے عظیم ملک کی وارث بنتی ہے۔ لیکن رقص روح کارے دارد۔ ماسوی اللہ کی نابودی آسان کب ہے جب تک حرص و غم ک آگ سے دل جلے بیٹے روح رقص نہیں کر سکتی۔ ایما ن کی کمزوری اور دل پریشانی ہے۔ اے نوجوان (حدیث میں ہے کہ) غم نصف بڑھاپا ہے تجھے معلوم ہے کہ حدیث میں حرص کو پیہم افلاس کہا گیا ہے میں اس کا غلام ہوں جسے آپ پر قابو ہو۔ اے میری بے قرار روح کے چین تجھے اگر رقص روح سے بہرہ ملے تو میں تجھے محمد مصطفیؐ کے دین کا راز بتائوں گا اور قبر کے اندر بھی تیرے لیے دعا کرتا رہوں گا۔ سر دین مصطفیؐ گویم ترا ہم بقبر اندر دعا گویم ترا ٭٭٭ منابع اور مصادر کتب اردو اقبال کامل از مولانا عبدالسلام ندوی (طبع پاکستان) مکتبہ ادب اردو لاہور (۱۹۶۷ئ) اقبال کا نظریہ عقل و عشق از ڈاکٹر میر ولی الدین دکن ۱۹۴۵ء (بروشر) اقبال ایک مطالعہ از کلیم الدین احمد دہلی (بھارت) ۱۹۷۹ء اقبال اور فارسی شعراء از ڈاکٹر محمد ریاض اقبال اکادمی لاہور ۱۹۷۷ء اقبال اور تقدیر امم سنگ میل پبلشرز لاہور ۱۹۸۳ء اقبال چودھری محمد حسین کی نظر میں مرتبہ محمد حنیف شاہد سنگ میل پبلشرز لاہور ۱۹۷۵ء اقبال جہان دیگر مولفہ محمد فریدالحق گردیزی پبلشرز کراچی ۱۹۸۳ء اقبال اور ابن حلاج از ڈاکٹر محمد ریاض اسلامک بک فائونڈیشن لاہور ۱۹۷۷ء اقبال نامہ (۲ حصے) مرتبہ شیخ عطا ء اللہ شیخ محمد اشرف لاہور ۱۹۴۵؍ ۱۹۵۱ء اقبال اور کشمیر ا ز جگن ناتھ آزاد سری نگر ۱۹۷۷ء اقبال بحیثیت مفکر تعلیم از بختیار حسین صدیقی اقبال اکادمی لاہور ۱۹۸۳ء انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار اقبا ل اکادمی کراچی ؍ لاہور ۱۹۶۷؍ ۱۹۷۷ء اوراق گم گشتہ مرتبہ رحیم بخش شاہین اسلامک پبلیشرز لاہور ۱۹۷۵ء برکات اقبال از ڈاکٹر محمد ریاض مقبول اکیڈمی لاہور ۱۹۸۲ء تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ترجمہ از سید نذیر نیازی بزم اقبال لاہور ۱۹۵۸ء اور ۱۹۸۳ء تصانیف اقبال کا تحقیقی اور توضیحی مطالعہ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اقبال اکادمی لاہور ۱۹۸۲ء تاریخ ادبیات عرب از دکتر اکبر بہروز تبریز ۱۳۵۹شی؍ ۱۹۸۰ء جاوید نامہ (طبع خاص) اقبال اکادمی لاہور ۱۹۸۲ء روح اقبال (ساتواں ۱۹۸۷ء ایڈٰشن) غالب اکادمی دہلی ۱۹۷۶ء ذخیرہ الملوک از میر سید علی ہمدانی باہتمام نیا ز علی خان امرتسر ۱۳۲۱ھ رسالہ التوابع و الزوابع ا ابو عامر شہید اندلسی بیروت ۱۹۵۵ء رسالہ غفران از ابوالعلی معری ترجمہ اکبر دانا سرشت تہران ۱۳۱۵ش؍ ۱۹۳۶ء سیر فلسفہ در ایران ترجمہ و کترا میر حسن آریا پنور تہران ۱۹۶۷ء اور بعد سیر العباد الی العباد ا ز سنائی مدونہ مائل ہروی کابل ۱۳۴۴ش؍ ۱۹۵۶ء شرح جاوید نامہ از پروفیسر یوسف سلیم چشتی عشرت پبلشنگ ہائوس لاہور ۱۹۳۷ء علم الکلام اور الکلام از شبلی نعمانی مسعو د پبلشنگ ہائوس کراچی ۱۹۶۹ء غارت گران ایمان از صادق علی دلاوری لاہور ۱۹۳۷ء غزالی نامہ از استاد جلال ہمائی تہران ۱۳۳۹ش؍ ۱۹۶۰ء کتاب الاسراء الی مقام الاسراء مع رسائل ابن عربی مجلد ثانی دکن ۱۹۴۸ء کلیات اقبال اردو فارسی لاہور ۱۹۷۳ء اور ا س کے بعد کلیات فارسی اقبال مدونہ احمد سروش تہران ۱۳۴۴ش؍۱۹۶۵ء اور بعد کامیدی الٰہی دانتے ترجمہ از شجاع الدین شفا (حصہ اول دوزخ) تہران ۱۹۵۹ء گفتار اقبال مرتبہ ڈاکٹر محمد رفیق افضل لاہور ۱۹۲۹ء میر سید علی ہمدانی شاہ ہمدان از ڈاکٹر محمد ریاض سنگ میل پبلشرزلاہور ۱۹۷۴ء مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی‘ محمد عبداللہ قریشی آئینہ ادب لاہور ۱۹۸۲ء مقاصد اقبال از ڈاکٹر سید محمد عبداللہ علمی کتاب خانہ اردو بازار لاہور ۱۹۸۰ء مقالات حکم ج ۲ اقبالیات از ڈاکٹرخلیفہ عبدالحکیم ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ۱۹۶۹ء مطالعہ جاوید کی روشنی میں تعلیمات اقبال (کتابچہ) از ڈاکٹر محمد ریاض آل پاکستان ایجوکیشنل کانگرس لاہور ۱۹۷۸ء متعلقات خطبات اقبال از ڈاکٹر سید محمد عبداللہ اقبال اکادمی لاہور ۱۹۷۷ء نعت رسول کریمؐ اور شعر فارسی مرتبہ سید ضیاء الدین ہشیری تہران انتشارات ۱۹۶۹ء نوادرات از مولانامحمد اسلم جیراجپوری مقالہ جاویدنامہ ادارہ طلوع اسلام کراچی ۱۹۵۱ء نذر عابد مرتبہ مالک رام (مقالہ: اقبال کاتصور زمان) دہلی ۱۹۷۴ء مجلے اردو ؍ فارسی ادبی دنیا (سابق ماہنامہ) لاہور بابت اپریل ۱۹۷۲ء اکتوبر ۱۹۷۲ء اکتوبر ۱۹۷۸ء اقبال(سہ ماہی) بزم اقبال لاہور بابت اپریل ۱۹۷۲ء اکتوبر ۱۹۷۲ء اور اکتوبر ۱۹۷۸ء اقبال ریویو سہ ماہی اقبال اکادمی لاہور بابت جولائی ۱۹۶۳ء جنوری ۱۹۶۹ء اقبال سالنامہ اقبال ہوسٹل گورنمنٹ کالج لاہور ۱۹۷۷ء ثقافت سہ ماہی اسلام آباد اپریل ۱۹۷۸ء مقالہ اقبال و رومی غالب نما ادارہ یادگار کراچی شمارہ ۱۰‘۱۲‘ج ۳ مقالہ جاوید نامہ پر ایک نظر فکر ونظر ماہنامہ اسلام آباد ستمبر ۱۹۷۲ء مقالہ شاہ ہمدانؒ مجلہ دانش کدہ ادبیات مشہد اپریل ۱۹۵۶ء مقالہ ا ز ڈاکٹر احمد علی رجائی جاوید نامہ ماہنامہ وحید تہران اکتوبر ۱۹۷۱ء مقالہ (اسراء معراج) نقوش مجلہ مع یزنگ خیال لاہور نومبر ۱۹۷۷ء نیرنگ خیال اکتوبر ۱۹۳۲ء ہنر و مردم ماہنامہ تہران شمارہ اقبال ۱۹۷۷ء ٭٭٭ English Books/Journals 1. Ardent Pilgrim , Iqbal Singh. 2. Gabriel's Wing: A stury into the relegious ideas of Sir Muhammad Iqbal Prof. Dr. Annemarie Shaimmel, Leiden E.J. Brill 1963. 3. Iqbal and Post. Kantian Voluntarism B.A Dar Bazm-e-Iqbal Lahore. 2nd Ed. 1965, 4. Iqbal: Address to Javaid B.A. Dar , Wood Street Karachi, 1971. 5. Iqbal Cwntenary Papers University of the Punjab Lahore. Vol I. 1982 i. The Medieval Religionsity of Dante and the Modern Religion of Iqbal. Alessandro Bavsani. ii. Iqbal and Bharatarihari S. Samad Husayn Rizvi. iii. Iblis in Iqbal's poetry Annemarie Schimmel. 6. Iqbal Centenary papers University of the Punjab Lahore Vol II 1983. i. Javid Nama: A Study of the world civilization Dr. Muhammad Maruf. 7. Kashir (Two Vols) Dr A.M.D. Sufi Lahore 1948-49 8. Islam and the Divine Comedy Miguel Asin Y Placacios abridged Tr.H.L. Sunder Land John Murray London 1926. 9. Speeches Statements and writing of Iqbal Ed. Latif Ahmad Sharwani 2nd Lahore 1977. 10. Thoughts and Reflections of Iqbal Ed. S.A Vahid moini sh. Ashraf Lahore May 1973. 11. The Portable Dante Tr. Paolo Milano Penguin Books Ltd, London 1977. Journals 1. Islamic Culture (Quarterly) Hyderabad Deccan Jan 1927 Article by Saeed Halim Pasha. 2. Iqbal's Genius in Javid Nama Dr. Muhammad Riaz Iqbal Review Lahore April 1978. 3 The Prophets Miraj Nazeer-el-Azma The Muslim world USA April 1973. باب اول حواشی ۱۔ گفتار اقبال مرتبہ ڈاکٹر محمد رفیق افضل لاہور ۱۹۶۹ء صفحہ ۲۳۳ ۲۔ گفتار اقبال صفحہ ۲۴۴‘۲۴۵ ۳۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد شیو جی مہاراج بتاتے ہیں دیکھیے اقبال اور کشمیر سرینگر ۱۹۷۷ء صفحہ ۲۲ ۴۔ تصانیف اقبا کا توضیحی اور تحقیقی مطالعہ از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اقبال اکادمی لاہور ۱۹۸۲ء ص ۱۵۴‘۱۵۵ ۵۔ ساتواں خطبہ انہوںنے ۱۹۳۲ء میں لندن میں دیا اورموجودہ صورت میں سات خطبات کے ساتھ کتاب پہلی بار ۱۹۳۴ء میں لندن سے شائع ہوئی تھی۔ ۶۔ ملفوظات اقبال اقبال اکادمی لاہور ۱۹۷۷ء ص ۱۲۶ڈاکٹر محمد دین ناصر سے گفتگو جاوید نامہ کو ابھی ابھی ختم کیا ہے اور دل و دماغ نچڑ گئے ہیں۔ ۷۔ ناتمام شرح صبغتہ اللہ بخاری کی ہے جس میں چوھدری محمد حسین کا معروف مقالہ ہے اور مطالعہ جاوید نامہ ا ز ابتدا تا فلک عطارد کتاب اقبال اکادمی لاہور نے شائع کی تھی (س ن)۔ ۸۔ دیکھیں ان مقالات کی فہرست مآخذ و مصادر میں۔ ۹۔ نوادرات مطبوعہ ادارہ طلوع اسلام کراچی ۱۹۵۱ء مقالہ جاوید نامہ ۱۰۔ دیکھیں اردو مترجم میر حسن الدین کے نام ان کا مکتوب مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۲۷ء انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار کراچی ۱۹۶۷ء ص ۲۰۲ ۱۱۔ میر فلسفہ در ایران ترجمہ از ڈاکٹر امیر حسن آریانپور تہران ۱۹۶۷ء پیش گفتار ۱۲۔ دیکھیں اقبال چودھری محمد حسین کی نظر میں طبع شدہ سنگ میل پبلی کیشنز لاہور ۱۹۷۵ء عراقی‘ سعدی‘ حافظ ‘ عرفی ‘ نظیری‘ صائب اور غالب وغیرہ آج موجود ہوتے تو جس فن کو انہوں نے شروع کیا تھا اور تمام زندگی اس کے کمالات دکھانے میں صرف کر دی آج اس کو حد کمال کوپہنچا ہوا دیکھ لیتے ص ۱۲۷ ۱۳۔ مجلہ دانشکوہ ادبیات دانش گاہ مشہد بہار ۱۳۴۴ش؍ ۱۹۶۵ء ص ۱۶ آخر کتاب جاوید نامہ بر خلاف شاہنامہ خوش است باراہنمائے یزدانی و حق بر اقبال توام می باشد۔ ۱۴۔ یوسف سلیم چشتی مرحوم شرح جاوید نامہ شائع کردہ عشرت پبلشنک ہائوس انارکلی لاہور ۱۹۵۶ء فصل دوم ص ۲۳ ۱۵۔ ترجمہ: میں ج قدیم بوڑھوں سے ناامید ہوں آنے والے دن کی خاطر شعر و سخن رکھتا ہوں۔ خدایا جوانوں پر میری بات آسان کر دے ان کے لیے میرے گہرے سمندر کو قابل گزر بنا دے۔ ۱۶۔ کتاب مذکور لندن ۱۹۲۶ ء ص ۱۵ ۱۷۔ ان کے قلمبند ہونے کا ہم نے بعد میں ذکر کر دیا ہے۔ ۱۸۔ متعلقات خطبات اقبا صفحہ ۲۴۱ تا ۳۰۵ اورمقاصد اقبال ص ۱۸۴ تا ۲۲۱ ۱۹۔ ۱۹۷۷ء میں اس کتاب کا فوٹو پرنٹ لاہور سے بھی شائع ہوا ہے۔ قوسین خان چیمبرز مول چندا سٹریٹ انارکلی لاہور ۳ اپریل ۱۹۷۳ء ۲۰۔ انگریزی متن لطیف احمد شیروانی یا سید عبدالواحد معینی کے مرتبہ مجموعوں میں موجود ہے۔ ۲۱۔ جیسے کتاب الاسرا الی مقام الاسرا مع رسائل المجلد الثانی حیدر آباد دکن ۱۹۴۸ء ۲۲۔ مسائل ھروی مرتب ۱۳۴۴ ش ؍ ۱۹۵۶ء طبع کابل رسالہ سیر نفس فخر الدین رازی و سیر العباد الی المعاد حکیم سنائی غزنوی۔ ۲۳۔ مخطوطہ کتاب خانہ ملی ملک تہران (ایران) ۲۴۔ طبع بیروت ۱۹۵۵ء ۲۵۔ مترجم اکبر دانا سرشت تہران ۱۳۱۵ش؍ ۱۹۳۶ء ۲۶۔ نصیب ماس تبہشت اے خدا شناس برد کہ مستحق کرامت گناہگارا انند (حافظ) ۲۷۔ وشاق غلام نوکر ۲۸۔ سورہ النجم (۵۳) کی ابتدائی آیات کی طرف اشارہ ہے۔ ۲۹۔ اسراء رات کو سفر کرنا‘ دیکھیں آیت اول سورہ بنی اسرائیل اسراء ۳۰۔ اقبال ایک مطالعہ مطبوعہ کتاب منزل سبزی منڈی پٹنہ ۴ جولائی ۱۹۷۹ء مقالہ اول دانتے اور اقبال ص ۹ تا ۱۴۸۔ اس کتاب میں اردو کے اردو ساقی نامے کی تعریف و تمجید ملتی ہے مگر علامہ مرحوم کی جملہ اردو اور فارسی شاعری کی نہایت بے دردانہ مذمت کی گئی ہے۔ ۳۱۔ ماخوذ از مقدمہ دوزخ ترجمہ شجاع الدین شفا م مطبوعات امیر کبیر تہران ۱۹۵۹ء طبع ثانی دوزخ Inferno ڈیوائن کامیڈی کا جزو اول ہے۔ ۳۲۔ ۱۹۷۷ء The Portable Dante مع ڈیوائن کامیڈی کا مطبوعہ Penguin Books لندن ۳۳۔ ۱۹۳۲ء میں جاوید نامہ کی اشاعت سے چند ماہ بعد نیرنگ خیال کا معروف اقبال نمبر لاہور سے شائع ہوا ا س کے حصہ اشتہار کتب میں ص ۴۵۵۵ ڈیوائن کامیڈی اور جاوید نامہ کے امتیازات برجستہ طور پر اس طرح لکھے گئے تھے۔ سات سو سال ہوئے کہ اطالوی شاعری ڈانٹے نے دنیا کوایک پیغام دیا تھا کہ جس میں اگرچہ شاعرانہ حسن اور نزاکت فن کی تصویر کمال خوبی سے کھینچی گئی ہے۔ لیکن اس کا پیغام نامکمل تھا۔ کیونکہ ڈیوائن کامیڈی کی ہر سطر میںمسیحیت کی بجائے قدیم رومی شہنشاہیت کی روح جلوہ گر تھی چنانچہ ڈانٹے کی بہی تصنیف جاوید نامہ کی ترتیب کی محرک ہوئی اورمشرق کے اس فقید المثال شاعر نے آفاق و انفس کے لطیف و نازک حقائق کو ایسے مجتہدانہ انداز میں بے نقاب کر دیا ہے کہ اس کا یہ دیوان اور بالخصوص اسلامی مشرق کی گم کردہ راہ قوموں کے لیے خضر ہدایت ثابت ہو گا۔ ۳۴۔ بات وہی نفسیات و معاشرت کی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ مصنف کا اشارہ اقبال کی سیاسی اور اجتماعی بحثوں کی طرف ہے مگر اسلام میں روحانی اور مادی غایات کہاں ہیں۔ ۳۵۔ مقاصد اقبال شائع کردہ علمی کتاب خانہ اردو بازار لاہور (س ن ۱۹۸۱ئ) صفحہ ۱۵۰‘۱۵۱‘۱۵۲’۱۵۵‘ ۱۵۶’۱۶۷‘ اور ۱۶۸ ۳۶۔ قرآن مجید ۸۶؍ ۲ (البقرہ) ۳۷۔ مگر زائندہ رود چونکہ یوں ہی ندی نالوں سے بنتا اور کسی بڑے سمندر سے متصل ہونے کی بجاے ندی نالوں میں ہی منشعب ہو کر زمینوں کی سیرابی کرنے جاتا ہے۔ وہ اقبا ل کے تصور خودی و بے خودی سے ہم آہنگ ہو کر معنی خیز بنتا ہے کہ: اے خوش آں جوئے تنگ مابہ کہ از ذوق خودی در دل خاک فرواخت و بہ دریا نرسید (زبور عجم) ۳۸۔ اقبال اور کشمیر سرینگر ۱۹۷۷ء ص ۳۲‘۳۳ ۳۹۔ دیکھیں ماہنامہ ہنر و مردم تہران (شمارہ و یثرہ اقبال) نوامبر ۱۹۸۸ء نامہ ایبہ اقبال فرستادہ نشکر۔ ۴۰۔ اقبال نے عربی املا کی رو سے Kitchenerکو جاوید نامہ میںکشنر لکھا جب کہ فارسی میں کچسز لکھا جا سکتا ہے۔ ۴۱۔ مناجات بھی ایک طرح کا دیباچہ ہے مگر حضرت علامہ شاید بزبان نثر دیباچہ لکھنا چاہتے تھے؟ ۴۲۔ جاوید نامہ کے مسودہ میں مصرع ثانی میں دھید ہے اور شاعر کا نامعلوم مگر ارمغان حجاز میں دھید کی جگہ بیگر ہے اور بیاض خریطہ جواہر کا بھی ذکر ہے۔ ۴۳۔ دیکھیں مجلہ اقبال گورنمنٹ کالج ہوسٹل لاہور کے ۱۹۷۷ء کے شمارے میں میرا مقالہ۔ ۴۴۔ کلیات فارسی اقبال طبع تہران میں مگر خاست کر دیا گیا ہے۔ ۴۵۔ سہ ماہی ثقافت اسلام آباد بابت اپریل ۱۹۷۸ء میں میرا مقالہ دیکھ لیا جائے اقبال اوررومی۔ ۴۶۔ فارسی زبان ایک عرصے سے Logyکی خاطر شناس ؍ شناسی لاتے ہیں اقبال نے بھی اسے استعمال کیا ہے ۔ مشرق شناس جاوید نامہ میں زن شناس ضرب کلیم میں مگر انہیں بین نگر شکن وغیرہم حقے زیادہ پسند تھے۔ جیسے خود بیں خود نگر جہاں بیں خدا بین وغیرہ۔ ۴۷۔ نقوش لاہور دسمبر ۱۹۷۷ء ص ۱۴۵ (نیرنگ خیال ۱۹۳۲ء تجدید طبع) ۴۸۔ من دیگر م تو دیگری امیر خسروکے ہاں آیا ہے: من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں شدی ناکس نگوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری ۴۹۔ سمندر کی موج بے تاب پانی کے نیلے کپڑے پر سو گئی۔ ۵۰۔ دیکھیے نذر عابد (پیش کش بہ ڈاکٹر سید عابد حسین) مطبوعہ دہلی ۱۹۷۴ء میں ان کا مقالہ اقبال کا تصور زمان انہوںنے اقبال کی زوانیت دوستی کے خلاف کسی دوسرے مقالے بھی لکھے ہیں۔ باب دوم حواشی ۱۔ اقبال ایک مطالعہ مقالہ : دانتے اور اقبال ۲۔ سردیو عظیم جثہ والے ۳۔ بوسہ دینا ۴۔ جمع ظلمت ۵۔ مثلاً دیکھیں اقبا ل کے مقالے اسلام بطور ایک اخلاقی اور سیاسی لائحہ عمل (انگریزی نوشتہ ۱۹۱۰ء ) میں حقہ اخلایقات کی بحث کا آغازیا حضرت علامہ کے ساتھ انگریزی خطبات میں سے پہلے خطبے کا آغاز۔ مقالہ کئی مجموعوں میں موجود ہے۔ ۶۔ کتاب الطواسین عربی متن ابن حلاج کے کسی نامعلوم تلمیذ کا ہے فارسی ترجمہ یہاں شیخ روز یہاں بقلی شیرازی (۶۰۶ھ) کا ہے اور دونوں متن ناقص اور نامکمل متلے ہیں مگر ان کی مدد سے دوسری زبانوں میں مکمل ترجمہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ میرا اردو ترجمہ ۱۹۷۷ ء میں اسلامک بک فائونڈیشن لاہور نے شائع کیا ہے۔ ۷۔ حدیث رسولؐ ہے: ازا ھلک قیصر فلا قیصر بعدہ واذاھلک کسریٰ بعدہ یعنی جب قیصر روم مرا تو اس کے بعد قیصر نہ آئے گا۔ اور جب کسریٰ (شاہ ایران) مرا تو پھر کوئی کسریٰ نہ آئے گا۔ اقبال نے اس کے مخالف ملوک حدیث سے کئی جگہ استشہاد کیا ہے۔ ۸۔ توحید کا مظہر کلمہ لا الہ الا اللہ بھی خدا کے سوا ہر سرداری کی نفی کرتا ہے۔ ۹۔ جیسے حضرت بلالؓ بن ریاح۔ حضرت بلالؓ پیدا ہوئے تو مکے میں ہوئے مگر ان کو اصل حبشہ سے تھی۔ ۱۰۔ عرب ویسے بھی سارے غیر عرب جہاں کو عجم یعنی گونگا کہتے ہیں۔ ۱۱۔ فلک زہرہ پر نغمہ بعل گویا نوحہ ابوجہل کا تکلمہ ہے مگر یہ نوحہ و مرثیہ ہے اور وہ نغمہ وطربیہ۔ ۱۲۔ یاد رہے کہ عرب یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کی طرح خود کو احناف کہتے تھے یعنی پیرو حضرت ابراہیم۔ ۱۳۔ ترجمہ: اے فاطمہ تو اپنے ناز و عشوے میںکچھ کمی کر اور اگر تو نے جدائی کا اراد ہ کیا ہے تو یہ کام وقار اور متانت سے انجام دے۔ ۱۴۔ دیکھیں مثنوی مذکور کا حصہ: در بیاں آینکہ خودی از عشق و محبت ۱۵۔ رحیم بخش شاہین (مرتب) اوراق گم گشتہ ص ۶۸ طبع اسلامک پبلی کیشنز لاہور ۱۹۷۵ء ٭٭٭ باب سوم حواشی ۱۔ اقبال نے ان کی فصیح و بلیغ تقریر کو ایک مصرع میں کتنا زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے زندہ از گفتار او سنگ و سفال ۲۔ دیکھیں جواہر لعل نہرو کے نام اقبال کا کھلا خط بسلسلہ قادیانیت و احمدیت ۱۹۳۶ء ۳۔ دیکھیں سہ ماہی اقبال لاہور بابت اپریل ۱۹۷۳ ء میں میرا مقالہ سید جمال الدین افغانی اور اقبال۔ ۴۔ خطبہ ششم ۱۹۷۵ء کی اشاعت کی رو سے ص ۱۵۶ اقبال اسے Keen-Sighted Writerکہتے ہیں۔ ۵۔ سرمایہ کیسپیل نام کا مصنف کارل مارکس ۱۸۸۳ء یہودی الاصل تھا اور اسی لیے اقبال اسے از نسل خلیلؑ بتاتے ہیں۔ قلب او مومن دمانش کافر است یہ مصرع پیام مشرق میں فریڈرک نٹشے ۱۹۰۰ء کے لیے کہا گیا ہے۔ سرمایہ اور کارل مارکس کا ذکر ابلیس کی مجلس شوریٰ نام کی نظم میں تیرے مشیر کی زبانی بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ۶۔ قرآن مجید ۳:۲ اقبال یہاں فرماتے ہیں: حسرت انی جاہل تقدیر او از زمین تا آسمان تفسیر او ۷۔ قرٓان مجید ۱۴۳:۷ ۸۔ قرآن مجید آیہ ۴۴‘۴۵‘ اور ۴۷:۵ تصور ریاست اسلامی مقالات ہمدرد قومی کانفرنس دسمبر ۱۹۸۳ء کراچی مقالہ علامہ اقبال اور تصور ریاست اسلامی ص ۳۶۱ ۹۔ قرآن مجید ۷۳:۷ ۱۰۔ ایضاً ۳۶:۲ ۱۱۔ مثنوی رومی کے ایسے ہی شعر میں نقدہ آیا ہے یعنی مال و منال اور نقدی فقرہ بھی اس میں شامل ہے: چیست دنیا؟ از خدا غافل بدن نے قماش و نقدہ و فرزند وزن ۱۲۔ لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر دوسرا نام اس دین کا ہے فقرغیور (ضرب کلیم) ۱۳۔ اقبال جہان دیگر مرتبہ محمدفرید الحق مطبوعہ گردیزی پبلشرز کراچی جولائی ۱۹۸۳ء ۱۴۔ عنوان کتاب والا ہے یعنی اسی عنوان سے کتاب متعارف ہے۔ ۱۵۔ قرآن مجید ۲۶۹:۲ ۱۶۔ یہاں بصیرت اقبال خصوصیت کے ساتھ قابل داد ہے با ل جبریل میں ہے: زمام کارا گر مزدور کے ہاتھوں میںہو پھر کیا طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی ۱۷۔ قرآن مجید ۳۴:۲۷ نظم خضر راہ میںسلطنت کے عنوان سے اسی آیہ مبارکہ کی طرف اشارہ ہے: آ بتائوں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک سلطنت عالم اقوام کی ہے اک جادوگری قرآن مجید تغیر اقوام کو ایک آسان بات بتاتا ہے کہ دیکھیں ۳۹:۹ ۱۸۔ سعید حلیم پاشا کے مقالے می ںایسے ہی آیا ہے۔ ۱۹۔ قرآن مجید ۱۳۸:۲ ۲۰۔ ایضاً ۲۹:۵۵ ۲۱۔ اشارہ عرفی: نوارا تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی حدی را تیز ترمی خواں چو مضحمل را گراں بینی ٭٭٭ باب چہارم حواشی ۱۔ پنجتن بمعنی پیچیدن لپیٹنا ۲۔ مخیل: پنجہ ۳۔ مازا غ البصر وما طغی (۱۷: ۵۳) سے واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے ۔ ۴۔ با ل جبریل میں ہے: اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا قندیل کیا عجب میری نوا ہائے سحر گاہی ہے زندہ ہو جائے وہ آتش کہ تری خاک میں ہے ۵۔ اقبال کے نزدیک عصر حاضر بت پرور ہے۔ جس نے پرانے بتوں کے علاوہ کئی نئے بت بنائے ہیں جیسے وطنیت یا نسل پرستی کے بت۔ لہٰذا کسی خلیل عصر کی ضرورت ہے جوا ن بتوں کو پاش پاش کرتا رہے۔ اکبر الہ آبادی (۱۹۲۱ئ) کے مرثیے میں اقبال نے اسی لیے انہیں خلیل عصڑ کہا تھا۔ کہ وہ بھی ایسے اصنام کے ہادم اور قامع رہے ہیں: سر زر دہ طور معنی کلیمے یہ بت خانہ دور حاضر خلیلے اقبا ل سنت خلیلی کی پیروی میں ایک عظیم بت شکن تھے اور دوسرے مومنوں کو بھی خلیلان عصر میں شامل ہونے کا درس دیتے رہے ہیں۔ ۶ ۔ ان میں بعل یعوق نسر لات و منات ادیان کہن کے معروف اصنام رہے ہیں جبکہ باقی پانچ شاعر کی فکر نے موزوں کیے ہیں۔ دیکھیں اس سے قبل پیش کیاہوا جاوید نامہ کے کرداروں کا تعارف ۔ ۷۔ نیز دیکھیں شکوہ کا ابتدائی حصہ۔ ۸۔ اقبال نے مشرق شناس لکھا ایرانی مستشرق کو خاور شناس کہتے ہیں۔ ۹۔ مسلمان اولاد ابراہیم ؑ ہیں بلکہ ان کا یہ نام بھی حضرت موصوف نے ہی رکھاہے ۔ قرآن مجید ۷۸:۲۲ ۱۰۔ قرآن مجید ۱۷۲: ۷ ۱۱۔ اقبال کی یہ دلپذیر تعبیر ہے کہ مسلمان گرم خون ہوتاہے گرم خون یعنی غیرت مند فعال اور محب و انقلاب پسند۔ ۱۲۔ اقبال کے ہاں بت یعنی صاحبان بت ملت کفر: بت صنم خانوں میںکہتے ہیں مسلماں ہو گئے ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہباں ہو گئے (شکوہ) بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیاہے (بال جبریل) ۱۳۔ دیکھیں مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی اور محمد عبداللہ قریشی میں آئینہ ادب لاہور ۱۹۸۲ء میں مقالہ اقبال مسلمان اور جغرافیائی حدود۔ ۱۴۔ قرآن مجید ۹۲:۱۰ ۱۵۔ ایضاً ۹۰:۱۰ ۱۶۔ اس حصے کی طرف چودھری محمد حسین نے بھی اپنا معروف مقالے میں اشارہ کیا ہے یہ حصہ اتنا زبردست منظر کشی پیش کرتاہے کہ مصوربھی بمشکل اس کی تصویر کشی کر سکے گا۔ دیکھیں سہ ماہی اقبال ریویو بابت جنوری ۱۹۷۸ء میں راقم الحروف کا مقالہ بزبان انگریزی ۔ ۱۷۔ Kitchener ۱۸ ۔ دیکھیں سہ ماہی اقبال لاہور بابت اکتوبر ۱۹۷۲ء میں میرا مقالہ محمد احمد مہدی سوڈانی اور اقبال۔ ۱۹۔ غارت گران اقبال از صادق علی دلاوری لاہور ۱۹۳۷ء ۲۰۔ اقبال نامہ: صفحہ ۲۳۱ مکتوب مورخہ ۷ اپریل ۱۹۳۲ء بنام چوھدری محمد احسن۔ ۲۱۔ بال جبریل (۴ تا ۶) ضرب کلیم قطعات مہدی برحق نبوت اور مہدی۔ ۲۲۔ برکات اقبال شائع کردہ مقبول اکیڈمی لاہور ۱۹۸۲ء ص ۱۶۶ ۱۶۷ ۲۳۔ اقبا ل کے ہاں سارباں ناقہ اور حدی وغیرہ کے تلازمات بکثرت آئے ہیں مگر اس ضمن میں نغمہ ساربان حجاز مشمولہ پیام مشرق بالخصوص قابل ذکر ہے اس کا ایک بند یوں ہے: مہ ز سفر پاکشید در پس تل آرمید صبح ز مشرق دمید جامعہ شب بر درید باد بیاباں وزید تیز تر گام زن منزل مادور نیست ٭٭٭ باب پنجم حواشی ۱۔ یہاں عجیب صورت حال ہے۔ ایک طرف اکتساب کی کچھ نفی سی ہے اور دوسری طرف دہقان کی سخت کوشی کااثبات بھی۔ ۲۔ جواب سوال ۶ بتقدیر شن مقام ہست و بود است نمود خویش و حفظ ایں نمود است ۳۔ خطبہ چہارم خودی… کے ذیل ہیں۔ ۴۔ آیہ ۱۳ سورہ ۱۱۔ ۵۔ قرآن مجید میں سے (۵۸:۷۴)اللہ تمہیںحکم دیتا ہے کہ امانات ان کے مالکوں کو لوٹا دو ۔ ۶۔ ایضا ۸۵ فسا د فی الارض کی یہ توجیہہ اقبال کی جدت تفسیر کہی جائے گی۔ ۷۔ قرآن مجید آیات ۵‘۶ سورہ ۹۴ ٭٭٭ باب ششم حواشی ۱۔ ملاحظہ ہو میرا اس کتاب کا اردو ترجمہ مطبوعہ اسلامک بک فائونڈیشن لاہور ۱۹۷۷ء ۲۔ ملاحظہ ہو سہ ماہی مجلہ اقبال بزم اقبال لاہور بابت ماہ جنوری سال ۱۹۶۷ء صفحہ ۶۳ ۳۔ دیکھیں جاوید نامہ کا حصہ خطاب بہ جاوید ۴۔ ملاحظہ ہو احمدیوں ؍ قادیانیوں کے بارے میں اقبال کی تقریریں اور بیانات ۵۔ ماہنامہ ہر و مردم تہران (ایران) اقبال نمبر ۱۹۷۷ء مقالہ نامہ کہ بہ اقبال فرستادہ نشد۔ ۶۔ غالب و حلاج و خاتون عجم شور ہا افگندہ از جان حرم ابن حلاج کے نعرہ مستانہ اور طاہرہ کی روش ملحدانہ نے یقینا روح حرم کو متاثر کیا مگر غالب کے ہاں رندانہ اقوال ہی نظر آتے ہیں۔ ۷۔ فراق کی آرزو اور وصال سے دوری اقبال کا ایک خاص مضمون ہے ارمغان حجاز میں بگو ابلیس را کے عنوان سے ہے: جدائی شوق را روشن بصر کرد جدائی شوق را جوئندہ تر کرد نمی دائم کہ احوال تو چون است مرا ایں آب و گل از من خبر کرد ۸۔ عجیب توارد کہ علامہ شبلی نعمانیؒ نے بھی جبر و قدر کے مسئلے میں صحابہ کرام ؓ کی کامیابیوں کا ایسے ہی حوالہ دیا ہے دیکھیں علم الکلام اورالکلام مسعود پبلشنگ ہائوس کراچی ۱۹۶۴ء ص ۳۱۵ ویسے یہ کتابیں اقبال کے زیر مطالعہ رہی ہیں۔ ۹ مثنوی اسرار خودی موضوع… عشق و محبت اورمرحلہ اطاعت ۱۰۔ ان تنصر اللہ ینصر کم… الخ قرآن ۱۶۰:۳ ۱۱ ۔ مثنوی گلشن راز جدید زبور عجم جواب سوال ہشتم: دوام آں بہ کہ جان مستعارے سود از عشق و مستی پائدارے وجود کوہسار و دشت و در ہیچ جہان فانی خودی فانی دگر ہیچ دگر از شنکر و منصور کم گوے خدارا ہم براہ خویشتن جوے بخود گم بہر تحقیق خودی شو انا الحق گرے و صدیق خودی شو ۱۲۔ ضرب کلیم قطعہ اقبال۔ ۱۳۔ ارژنگ یا ارتنگ وغیرہ مانی کی منقش کتاب۔ ۱۴۔ یہ اقبال کا خاص انداز بیاں ہے نوحہ ابوجہل فلک قمر میں ہے: ساحر و اندر کلامش ساحری است ایں دو حرف لا الہ خود کافری است ۱۵۔ ملاحظہ ہو میری کتاب اقبال اور فارسی شعراء اقبال اکادمی لاہور ۱۹۷۷ء صفحہ ۳۸۱ تا ۳۸۴۔ ۱۶۔ نوادرات مذکور قبل جاوید نامہ۔ ۱۷۔ اقبال نے یہاں سورۃ النجم میں مذکور عبدہ پر تو جہ دی اور اسی طرح سورہ اسرا یا بنی اسرائیل کی آیہ اولیٰ کے عبدہ پر بھی۔ بات یہاں اسراء اور معراج کے حوالے سے ہے اورکتاب الطواسین کی تقلید میں۔ ۱۸۔ اقبال اور ابن حلاج ترجمہ کتاب الطواسین اسلامک بک فائونڈیشن لاہور ۱۹۷۷ء ص ۱۳‘۱۶‘۱۸‘۱۹۔ ۱۹۔ مثلاً مارمیت از رمیت گفت حق کار حق برکارھا دارد سبق مارمیت ازرمیت راست دان ہرچہ دارد جاں بود از جاں جاں (دفتر دوم) مارمیت از رمیت از نسبت است نفی و اثباتست و ہر دو مثبت است مارمیت ازرمیت آمد خطاب گم شد او واللہ اعلم بالصواب (دفتر سوم) ۲۰۔ اقبال کی زیادہ توجہ اسی آیہ کی معراج کی طرف تھی فاوحیٰ الیٰ عبدہ ما اوحیٰ ۲۱۔ یہ شعر کس قدر معنی خیز ہے: عصر حاضر باتومی جوید ستیز نقش حق بر لوح ایں کافر بریز ۲۲۔ تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی (بال جبریل) ۲۳۔ دوسری مثالوں کے لیے دیکھیں قرآن مجید ۱:۱۸‘ ۱:۲۵‘ ۱۰:۵۳‘ اور ۵۷:۹ آیہ ۱۷۰:۴ میں ہے کہ حضرت مسیحؑ کو عبد خدا بننا کبھی ناپسند نہ ہوا۔ ۲۴۔ مثنوی پس چہ باید کرد۔ ۲۵۔ انکار ابلیس (تسخیر فطرت نظم کا جزو) می تپداز سوز من خون رنگ کائنات من بہ در صر صرم من بہ غو تندرم زبور عجم کے ایک مستزادمیں ہے: یاد گر آدم از ابلیس باشد کمترک یاد گر ابلیس بہر امتحان عقل و دیں یا چناں کن یا چنیں ۲۶۔ قرآن مجید ۷۲:۳۳ (سورہ الاحزاب) ۲۷۔ Think of a Devil and the Devil is there ۲۸۔ ارمغان حجاز (حضور حق) میں ہے: دل ما از کنار ما رمیدہ بصورت ماندہ و معنی ندیدہ زماں آں راندہ درگاہ خوشتر حق او را دیدہ و مارا شنیدہ ۲۹۔ ابغض ای شیاء عندی الطلاق او کماقال مگر جس فراق و انفصال کی اقبال تائید کرتے ہیں وہ ایک فکری موضوعہے معاشرتی ہرگز نہیں۔ اقبال تو خاندانی ملکی اور بین الاقوامی طور پر مسلمانوں کے مکمل اتحاد و اتصال کے داعی رہے ہیں۔ ۳۰۔ Gabriel's Wingمیں ڈاکٹر این میری شمل نے ابلیس اور نالہ ابلیس سے خوب بحث کی ہے کتاب مذکور صفحہ ۳۵۱ ۳۱۔ ابا یعنی ابیٰ اشارہ ہے آیہ قرآن کی طرف جیسے ۳۴:۲ وغیرہ ۳۲: یعنی معمولی انسانوں کی گمراہی (شیشہ) کو ابلیس معمولی بات جانتا ہے مگر مردان کامل (سنگ) سے مقابلہ کارے دارز۔ ۳۳۔ اس فلک پر رومی کا دوبار ذکر آیا ہے اور وہ بھی ایک تعارف کن کے طور پر پوری گفتگوئیں زندہ رود سے ہی منسوب نظر آتی ہیں۔ ٭٭٭ باب ہفتم حواشی ۱۔ ابن عربی کے ہاں ایسا بحر خونیں فلک زہرہ پر نظر آتا ہے۔ ٭٭٭ باب ہشتم حواشی ۱۔ پیام مشرق میں نیٹشے پر تین قطعات ملتے ہیں اور ایک میں ہے: نیشتر اندر دل مغرب فشرد دشتہ از خون چلیپا احمر است ۲۔ اقبال کے ہاں ابن سینا کہیں فلسفی اور کہیں طبیب ۳۔ بال جبریل میں اپنے حوالے سے کہتے ہیں: اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے؟ ۴۔ ضرب کلیم میں وہ Supermanکے تصور کو ایک طرح کا تصور مہدی کہتے ہیں۔ مجذوب فرنگی نے بانداز فرنگی مہدی کے تصور سے کیا ہے زندہ وطن کو ۵۔ مصرع ازرومی مصرع اولیٰ یوں ۃے: اے خدا بنمای جاں را آں مقام ۶۔ مثلاً دیکھیں ان کا خطبہ چہارم حصہ آخر:؛؛ … جہنم بھی کوئی ہاویہ نہیں جسے کسی منقسم خدانے اس لیے تیار کر رکھا ہے ک گناہ گر ہمیشہ اس میں گرفتار رہیں گے۔ وہ درحقیقت تادیب کا ایک عمل ہے تاکہ جو خودی پتھر کی طرح سخت ہو گئی ہے۔ وہ پھر رحمت خداوندی کی نسیم جان فزا کا اثر قبول کر سکے لہٰذا جنت بھی لطف و عیش و آرام یا تعطل کی کوئی حالت نہیں۔ زندگی ایک ہے اور مسلسل اور اس لیے انسان بھی اس ذات لامتناہی کی نو بہ نو تکلیات کے لیے جس کی ہر لحظہ ایک نئی شان ہے ہمیشہ آگے ہی بڑھتا رہے گا پھر کسی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ تجلیات الٰہیہ سے سرفراز ہو وہ صرف ان کے مشاہدے پر قناعت نہیں کرے گا۔ خودی کی زندگی اختیار کی زندگی ہے جس کا ہر عمل ایک نیا موقعہ پیدا کر دیتا ہے اوریوں اپنی اخلاقی اور ایجاد و طباعی کے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ترجمہ سید نذیر نیازی صفحہ ۱۸۶‘ ۱۸۷) ۷۔ جاوید نامہ کے ضمیمہ (خطاب بہ جاوید) میں اقبال قرآن و شمشیر کے ساتھ گھوڑے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ مرد مومن را عزیز اے نکتہ رس چیست جز قرآن و شمشیر و فرس؟ ۸۔ یہ تعبیر رومی کی ہے: شیر دنیا جوید اشکارے و برگ شیر مولا جوید آزادی و مرگ (رومی) ۹۔ مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ ان کا عدم اتحاد اور غیر مسلموں کے ساتھ ان کا میل جول ہر کہیں ان کے زوال کا سبب رہا ہے مسلمانوں نے جب بھی اپنوں پر غیروں کو ترجیح دی اور انہیںمحرم راز بنایا و اس سے ان کا داخلی خلفشار بڑھا ہے اور وہ نئے مصائب سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کے دو تین باب تو اقبال نے بھی جاوید نامہ میں گنوائے ہیں۔ ایک نواب سراج الدولہ کی جنگ پلاسی میںشکست کا واقعہ ہے ۱۷۵۷ء ۔ جسے میر جعفر اور اس کے غدار گروہ نے انجام دیا۔ دوسرا واقعہ سلطان ٹیپو شہید کی ۱۷۹۹ء میں شہادت ہے جس کا موجب میر صادق اور اس کا ٹولہ بنا۔ اس وقت نظام حید رآباد دکن نے بھی سلطنا کے ساتھ تعاون نہ کیا تھا۔ تیسرا واقعہ سکھوں کے پنجاب اور اس ے نواح میں تسلط ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ سید احمدشہید اور شاہ اسماعیل شہید اور ان کے کئی ساتھیوں کی شہادت تحریک مجاہدین کی ناکامی کا سبب مسلمانوں کی بے حسی اور بے غیرتی بنی ہے ۔ یہاں تمام واقعات اور جزئیات کی طرف اشارہ کرناممکن نہیں۔ تحریک مجاہدین مولفہ غلام رسول مہر سے شواہد دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے بعد کے دور کی ریشہ دوانیوں نے ہی تیموریوں مغلوں کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ بہرطور اقبال کے یہ شعر تاریخ پنجاب کے سیاق سے قطع نظر مسلمانوں کے عمومی سیاہ کارناموں کی طرف اشارہ ہو سکتے ہیں۔ خصوصاً پنجاب کے تناظر میں: تا مسلماں کرد با خود آنچہ کرد گردش دوراں بساطش در نورد مرد حق از غیر حق اندیشہ کرد شیر مولا روبہی را پیشہ کرد ۱۰۔ سید مرتضیٰ علوی حسنی ذوالمشرقینالموالی محمد (أ۴۸۰) سے امام محمد غزالی (۵۰۵ھ) کے استفادہ کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ دیکھیں غزالی نامہ صفحہ ۱۲۵ مرتبہ استاد جلال ھمائی تہران۔ ۱۱۔ جاوید نامہ (فلک عطارد) میں اقبال نے سید جمال الدین افغانی کو بھی سید السادات کہا ہے۔ ۱۲۔ خطہ کشمیر کے ناموں میں سے ایک ۱۳۔ دیکھیں میری کتاب۔ حضرت میر سید علی ہمدانی شاہ ہمدانؒ سنگ میل پبلشرز لاہور ۱۹۷۴ء (اور بعد) اور مقالے : اقبال اور شاہ ہمدان سہ ماہی اقبال ریویو جنوری ۱۹۶۹ء شاہ ہمدان آثار و احوال سہ ماہی اقبال اپریل ۱۹۷۲ء اور حضر ت شاہ ہمدان کی برصغیر میں خدمات ماہنامہ فکر و نظر اسلام آباد ستمبر ۱۹۷۲ئ۔ ۱۴ دیکھیں اس کتاب کے بارے میں میرا مقالہ ماہنامہ ادبی دنیا لاہور کی اشاعت اپریل ۱۹۷۰ء میں۔ ۱۵۔ اقبال نے یہاں حاشیے میں کتاب الملوک لکھا ہے جبکہ کتاب کا اصل نام ذخیرہ الملوک ہے۔ ۱۶۔ انوار اقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار کراچی ۱۹۷۶ء ص ۷۵ مکتوب مورخہ ۵ مئی ۱۹۲۶ء بنام محمد الدین فوق ۱۷۔ ذخیرہ الملوک باہتمام نیاز علی خان امرتسر ۱۳۲۱ھ ص ۱۳۰ ۱۸۔ مثلا خیر و شر کی قوتوں کا بیان: در حقیقت ہر عدو داروئے تست کیمیائے نافع و دلجوئے تست زیں سبب ہر انبیا رنج و شکست از ہمہ خلق جہاں افزوں تراست (مثنوی دفتر چہارم) چوں عدو نبود جہاد آمد محال شہوت از نبود نباشد امتثال (مثنوی دفتر پنجم) ۱۹۔ اقبال دور جوانی سے ہی ملٹن (۸ دسمبر ۱۶۰۸ئ۔ ۹ نومبر ۱۶۷۴ئ) کی کتابوں Paradise Lostمولفہ ۱۶۶۵ء اور Paradise Regained مولفہ ۱۶۷۰ء سے متاثر رہے۔ پہلی کتاب کے آغاز میں ہی مجلس ابلیس و شیاطین قائم ہے اس کتاب کے ۱۲ اجزا ہیں اس رزمیے کے کردار خدا کا بیتا مسیحؑ مقرب فرشتے آدم و حوا اور ابلیس میں جبکہ گناہ اورم وت کو بھی مجسم کیاگیا ہے۔ دوسری کتاب فردوس بازیافتہ کے چار اجزاء ہیں۔ ۲۰۔ وادی جموں و کشمیر میں دین اسلام آٹھویں صدی ہجری میں پھیلا۔ پہلے مسلمان سلطان صدر الدین کے بعد سلطان شاہمیر نے ۷۴۳ھ میں اپنے سلطنتی خاندان کی بنیاد رکھی جو دو صدیوں سے زائد عرصے تک جاری رہا۔ سلطان شہاب الدین شاہمیر کا تیسرا بیٹا تھا۔ اور یہ سلطان زین العابدین بڈشاہ (۸۰۱۔ ۸۲۷ھ) اس سلسلے کے نامور ترین سلاطین تھے۔ شہاب الدین نے کشمیر میں حضرت شاہ ہمدانؒ کی رہنمائی میں شرح اسلام کا نفاذ کیا۔ اس نے مساجد اور مدارس بنوائے اور عربی اور فارسی زبانوں کو متداول کیا۔ مروجہ صنعتوں کی سرپرستی کی معاصر مسلمان سلاطین جیسے تغلقوں کے ساتھ روابط حسنہ قائم تھے وادی میں رفاہی کاموں کا سلسہ پھیلایا شہاب الدین بہت بڑا فاتح بھی تھا۔ اس نے تبت لداخ اور کابل تک کے علاقے اپنی قلمرو میں شامل کیے تھے۔ وہ بہت بڑاناظم بھی تھا۔ اور اس کے عہد میں داخلی طورپر مثالی امن و امان رہا اسے علماء وفضلا کی صحبت سے مستفید ہونے کا بڑا اشتیاق تھا۔ چنانچہ وہ خانقاہ معلیٰ ا￿پس مقام پر ۹۹ ۷ تا ۸۰۱ھ کے دوران مسجد شاہ ہمدانمیں حضرت شاہ ہمدان کے درس میں شامل ہوتا رہا۔ شاہ ہمدان کے ایما پر اس نے صنعت شال بانی کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ اس نے کئی دانشمندوں کو کشمیر بلایا اور وہاں انہیں تمکن دیا۔ اقبال یہاں صف شکنی اور فتوحات کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ مغلوں تیموریا ن ہند کے دور زوال کے بعد کشمیری پہلے افغانوں کے زیر نگیں ہوئے پھر سکھوں کے اور آخر میں ڈوگروں کے اور شہاب الدین کی فتوحات ایک قصہ پارینہ بن کر رہ گئیں۔ از غلامی جذبہ ہائے او بمرد آتشے اندر رگ تاکش فسرد تانہ پنداری کہ بود است ایں چنیں جبہ راہموارہ سوداست ایں چنیں در زمانے صف شکن ہم بودہ است چیرہ و جانباز و پردم بودہ است عمرھا گل رخت بربست و کشاد خاک مادیگر شہاب الدین نزاد دیکھیں ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی کی دو جلدی کتاب Kashirبرائے تفصیل۔ اسے پنجاب یونیورسٹی لاہور نے شائع کیا ہے ۱۹۴۸ء ۔ ۱۹۴۹ئ۔ ۲۲۔ جگن ناتھ آزاد صاحب کو تعجب ہے کہ اقبال شاہ ہمدان کی زبانی اپنے آپ کو مرد راد اور والا مقام کیسے کہلواتے ہیں۔ راد کے کئی معانی ہیں جیسے جوانمرد اور دانا۔ ا س لفظ میں کیا خرابی ہے والا مقام اگر اس بزرگ نے تشویش سے کہہ دیا تو پسر کی بے تکلفی سے بھی انہوں نے ہی شاعر کوپکارا ہے۔ دیکھیں اقبال اور کشمیر ص ۱۸۴۔ ۲۳۔ قرآن مجید ۵۹:۴ ۲۴: اقبال اور کشمیر ص ۱۸۶‘۱۸۷ ۲۵۔ تازہ آشوبے فگن اندر بہشت یک نوا مستانہ زن اندر بہشت ۲۶۔ دیکھیں Iqbal Centenary Papersشائع کردہ پنجاب یونیورسٹی لاہور ۱۹۸۲ء میں سید ضمیر حسین رضوی کا مقالہ Iqbal and Bhartrihariص ۸۱ تا ۹۵۔ ۲۷۔ ترجمہ: (۱) یہ کم قیمت دیوتا (بت ) پتھر اوراینٹ کے ہیں ایک معبو د اعلیٰ تراست جو بت خانے اورمعبد سے اور (بالا) ہے۔ (۲) ذوق عمل کے بغیر سجدہ خشک ہے اور کہیں نہیںپہنچتا۔ زندگی خوب یا نا خوب سراپا عمل ہے۔ (۴۔۳) ایک بات تجھے بتائوں جسے ہر کوئی نہیںجانتا۔ مبارک شخص ہے وہ جو اسے لوح دل پر لکھ لے یہ دنیا جو تو دیکھتا ہے یہ (بایں صورت) خدا کے زیر اثر نہیں۔ چرخہ تیرا ہے اور وہ دھاگہ بھی تیرا ہے جو تیرے تکلے پر بنا گیا ہے۔ عمل کے بدلے کے قانون کے سامنے سر رکھ لے کیونکہ دوزخ اعراف اور جنت عمل سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ۲۸۔ جمع اسطوانہ (استوانہ) کی ستوں میلے ۲۹۔ عقیقی کی سی ایک دھات ۳۰۔ چپٹی کیلیں اورمیلے ۳۱۔ کمر بند اور پیٹی ۳۲۔ ولادت ماز ندراں ۱۶۸۸ء نام علی قلی بیگ تھا اورعہد حکومت ۱۷۳۷تا ۱۷۴۷ء اس نے ۱۷۳۸ء میں دہی غارت کی تھی۔ ۳۳۔ احمد شاہ ابدالی درانی ہروی‘ اپنے والد کی جلا وطنی کے زمانے میں ملتان میںپیدا ہوئے ۔ ۱۷۲۵ء میں وہ ہرات لوٹ گئے۔ وہ نادر شاہ افشار کے محافظ دستے میں شامل رہے اور ترقی کرتے کرتے وہ ایک اعلیٰ افسر بن گئے۔ نادر شاہ کی وفات پر انہوںنے افغانستان کے نام سے نیا ملک قلمرو ایران سے جدا کر وا لیا۔ انہوںنے سات بار ہندوستان پر حملہ کیا۔ وفات ۱۷۷۲ء میں ہوئی۔ اورقندھار میں ان کا مقبرہ موجود ہے۔ ۳۴۔ ولادت میسور ۱۷۵۱ء اور شہادت ۴ مئی ۱۷۹۹ء ۳۵۔ اور ان میں غیر معمولی شاعرانہ ہنر اور زور ہے۔ ۳۶۔ اے من و تو موجے از رود حیات ہر نفس دیگر شود ایں کائنات ۳۷۔ اقبال نے ابدیت خودی کا جو تصور پیش کیا اس کے ساتھ آزاد اور غلام کے معا د کو بھی منوط کر دیا۔ ارمغان حجاز میں ہے: مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد ۳۸۔ اشارہ بہ قرآن مجید ۳۴:۲۷ ۳۹: ایضاً ۴۱:۱۶ ۴۰۔ ملاحظہ ہو ۶۶‘۶۷:۱۹ اور ۶۰تا ۶۲:۵۶ ۴۱۔ مثلاً قرآن مجید ۱۹:۸۴ ۴۲ ۔ ارمغان حجاز (حضور عالم انسانی) میں ہے: خودی را از وجود حق وجودے خودی را از نمود حق نمودے نمی دانم کہ ایں تابندہ گوہر کجا بودے اگر دریا نبودے ۴۳۔ فلک عطارد (حکمت خیر کثیر است) میں بو لہب کو حیدر کرار بنانے کی تلقین ہے۔ ۴۴۔ بال جبریل میں ہے: یارب یہ جہان گذراں خوب ہے لیکن کیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مد ۴۵۔ بجلال تو کہ دردل دگر آرزو ندرام بہ جز ایں دعا کہ بخشی بکبوتراں عقابی (زبور عجم) ۴۶۔ ضرب کلیم کے قطعہ توحید میں ہے: آہ اس راز سے واقف ہے نہ ملا نہ فقیر وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے نام یعنی مسلمانوں کو ہم فکر ہونا چاہیے اوران کی پالیسیاں بھی یکساں نوعیت کی ہوں۔ ۴۷۔ یہ توحید کی ملی اور اجتماعی برکتوں کا بیان ہے۔ ۴۸۔ مثلاً فلک قمر پر جہاں دوست (وشوامتر) کے سوال کے جواب میں جیسے: آدمی شمشیر و حق شمشیر زن عالم ایں شمشیر را سنگ قسن ۴۹۔ ضرب کلیم کا ایک قطعہ ہے: کل ساحل دریا پہ کہا مجھ سے خضر نے تو ڈھونڈ رہاہے سم افرنگ کا تریاق؟ اک نکتہ میرے پاس ہے شمشیر کی مانند بندہ و صیقل زدہ و روشن و براق کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق (کافر و مومن) ۵۰۔ چند سال بعد ۱۹۳۳ء کے اوائل میں جب اقبال نے سپین کی سیر کی تو انہوںنے اپنی معروف نظم مسجد قرطبہ کے آخر میں شور روح مسلمان کا ذکر اس طرح کیا: کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میںہے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دیں جس نے نہ چھوڑے کہیںنقش کہن کے نشاں حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں چشم فرانسیس بی دیکھ چکی انقلاب جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں مہلت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی جواں روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب راز خدائی ہے یہ کہ نہیں سکتی زباں دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتاہے کیا گنبد نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا… آب روان کبیر تیرے کنارے کوئی دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب ۵۱۔ زاں تجلیہا کہ در جانم شکست چون کلیمؑ اللہ فشادم جلوہ مست نور اوہر پردگی را وانمود تاب گفتار از زبان من ربود ۵۲۔ سیاق گفتار کے اعتبار سے مفہوم یہ ہوا کہ مشرق ومغرب کے حالات بدلیں گے اور دنیائے نئے تحولات سے دوچار ہو گی۔ بال جبریل کی نظم زمانہ میں ہے: جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے جسے فرنگی مقاصروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ ٭٭٭ باب نہم حواشی ۱۔ جیسے مرو کے نوجوان کی داستان ۲۔ مثلاً فاطمہ بنت عبداللہ اور جنگ یرموک کا ایک واقعہ۔ ۳۔ بیم و شک میردعمل گیرد حیات چشم می بنید ضمیر کائنات چون مقام عبدہ محکم شود کاسہ دریوزہ جام جم شود… بندہ حق پیش مولا ستے پیش باطل از نعم برخاستے خوف حق عنوان ایمان است و یس خوف غیر از شرک پنہاں است و پس ۴۔ جیسے فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر (امامت) فتنہ ملت بیضا ہے امامت اس کی جو مسلمانوں کو سلاطیں کا پرستار کرے (امامت) محکوم کے الہام سے اللہ بچائے غارت گر اقوام ہے وہ صورت چنگیز (الہام اور آزادی) وہ نبوت ہے مسلماں کے لیے برگ حشیش جس نبوت میں نہیں قوت و شوکت کا پیام (نبوت) کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید ہے جہاد اس دور میں مرد مسلمان پہ حرام (ابلیس کی مجلس شوریٰ) ۵۔ مثلاً : ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے زیادہ متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیا کیا جائے…بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے۔ ا س کے بغیر چارہ نہ تھا۔ اقبال نامہ صفحہ ۲۱۰۔۲۱۱ مکتوب مورخہ ۵ دسمبر ۱۹۲۸ء بنام میر سید غلام بھپک نیرنگ ۶۔ شکایت ہے مجھے یارب خدوندان مکتب سے سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا (بال جبریل) ۷۔ کاب والے عنوان پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق کے زیر عنوان ۸۔ صحبت از علم کتابی خوشتراست صحبت مردان حر آدم گراست (پس چہ باید کرد) ۹۔۱۰۔ قرآ ن مجید میںبالترتیب ۱۱:۱۷ اور ۳۳:۷۲ آدمی کا عجول جلد باز ہونا اس کی سرشت ہے اور ظلوم و جہول اسے احساس ذمہ داری قبول کرنے کی مناسبت سے کہا گیا گو یہ ذمہ داری ادا کرنے والے خال خال رہے ہیں۔ اکثریت کے حکم میں اقلیت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ ۱۱۔ مثنوی اسرار خودی میں ضبط نفس خودی کے سہ گانہ مراحل ترتیب میں سے ایک ہے۔ ۱۲۔ سلطان مظفر نے گجرات (کاٹھیاوار) پر کوئی ۱۵ برس تک حکومت کی (۱۵۱۱ تا ۱۵۲۶) وہ سلطان محمود بیگڑہ کا فرزند تھا۔ جس نے نصف صدی سے زائر تک حکومت کی (۱۴۵۶۔۱۵۱۱ئ) بیگڑہ یعنی دو قلعوں والا اس کا لقب تھا۔ سلطان مظفر کو حلیم کے لقب سے یاد کرتے ہیں جو اس کے تحمل اور بردباری کو خراج تحسین ہے مگر وہ دینی حمیت سے مالا مال تھا۔ چنانچہ مالوہ کے راجپوتوں کی کمر اسکے عساکر نے توڑی تھی۔ سلطان اوراس کے والد کے تقویٰ اور روع کے واقعات تواریخ میںموجود ہیں سلطان مظفر بھی ان سلاطی می سے ہے جو قرآن مجید کے نسخے کی کتابت کرتے رہے اورایسے سلاطین میں تیموری مغل بادشاہ اورنگ زیب (۱۶۵۸ئ۔ ۱۷۰۷ئ) بھی شامل ہے۔ ۱۳۔ آدمت احترام آدمی با خبر شو از مقام آدمی یہ عظیم شعر ارمغان حجاز حصہ حضور عالم انسانی کا سر نامہ بھی بتایا گیا ہے۔ ۱۴۔ قلندراں کہ بہ تسخیر آب و گل کو شند زشاہ باج ستانند و خرقہ می پوشند بجلوت اندو کمندے بہ مہر وماہ پیچند بخلوت اندوزمان و مکاں در آغوشند… نظام تازہ بچرخ دورنگ می بخشند ستارہ ہائے کہن را جنازہ بردوشند… ۱۵۔ بال جبریل کی غزلوں میں اوصاف فقر اکثر دکھائی دیتے ہیں اور اس کتاب کے حصہ دوم کی غزل ۵۹ تماماً فقر کی مبین ہے۔ ایک قطعہ فقر کے عنوان سے ہے ۳ شعر اوراس میں حقیقی اورجعلی فقیر ممیز کیے گئے ہیں۔ خلاصہ یہ جاوید نامے سے موخڑ ہر تصنیف اقبال فقر کے ذکر سے مملو دکھائی دیتی ہے۔ اور اسلام کو ایک دوسرانام دیتے ہیں۔ فقر غیور ضرب کلیم میں اس عنوان کا ایک قطعہ موجود ہے۔ ۱۶۔ جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب امراء نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے ۱۷۔ اقبال کے ہاں مرد مومن مرد حر اور عاشق وغیرہم مترادف کلمات ہیں البتہ مرد حق کی اصطلاح کو وہ زیادہ کام میں لاتے ہیں جیسے: مرد حق افسون ایں دیر کہن ازدو حرف ربی الاعلیٰ شکن (پس چہ باید کرد) نشان مرد حق دیگر چہ گویم چو مرگ آید تبسم برلب اوست (ارمغان حجاز) ۱۸۔ یہ مصرع: اے مرا تسکین جان نا شکیب جاوید کے حوالے سے نوجوانوں کے لیے علامہ اقبال کے لیے خصوصی تعلق خاطر کا مظہر ہے۔ ۱۹۔ شمس الدین افلاکی کی مناقب العارفین میں ایسے کئی واقعات منقول ہیں جیسے صلاح الدین زرکوب (۶۵۷ھ ) کی وفات پر رومی کا زرکوب ہونا۔ ان کے نزدیک بندے کا وصال موجب خرسندی رہا ہے۔ ۲۰۔ اسی عنوان کا قطعہ ضرب کلیم کلیات اقبال اردو ص ۵۹۵ ۲۱۔ ایضا ً ص ۵۹۶ (عنوان قطعہ ہے : رقص)۔ ٭٭٭ اشاریہ شخصیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (محمدؐ، مصطفیؐ، احمدؐ، حضور اکرمؐ، مولائے کلؐ، رسالت مآبؐ، رحمتہ اللعالمینؐ، پیغمبر اکرمؐ نبی آخر الزمانؐ) 2,6,11,15,18,20,28,32,48,51,57,62,64,77,81,82,83 84,89,93,95,103,105,109,111,122,124,125,126,127,128 130,131,132,133,134,137,163,167,173,174,183,200,201 207,209 آدمؑ ‘ حضرت: 41,50,67,71,72,73,85,88,89,91,92,112,138, 153,157 آسمین‘ پروفیسر:18,19,20,35 ابدالی ‘ احمد شاہ: 4,49,85,144,167,168,170,171,172 ابراہیم خلیل اللہ ؑحضرت: 27,32,61,63,86,98,100,101,102,200, 208 ابلیس (شیطان‘ عزازیل): 2,30,31,37,49,50,51,55,78,82,92, 132,134,136,137,139,153,154,155,156,157,158,159, 160,161,162,170,189 ابن خلکان: 20,21 ابن سعود ‘ عبدالعزیز: 108 ان سینا بو علی: 30 ابن عربی محی الدین: 17,19,28,35,155,159,161 ابوبکر صدیقؓ ‘ حضرت: 29 ابوجہل: ,51,81,82,83,84,163 ابوذر غفاریؓ، حضرت: 182 ابوسعید ابو الخیر: 86 ابولہب 95,103 ابویوسف: 93 اتاترک مصطفی کمال پاشا: 48,97 احمد فواد: 108 اسپینوزا: 41 اسقروطی‘ جوڈس: 48,50,81 اسکندر: 184 اسماعیلؑ ، حضرت: 100 اسماعیل شہید دہلوی‘ شاہ : 126 افغانی ‘ جمال الدین: 73,40,46,48,5,86,87,88,94,95,98,188 افلاطون (فلاطون) : 41,144,149 اقبال حکیم الامت علامہ محمد: 1,2,4,5,6,7,9,10,11,13,15,16,17,20, 25,26,27,28,31,35,36,38,40,41,42,43,47,48,50,51,52,54 55,56,57,58,59,60,61,62,64,65,66,67,68,70,71,72,73, 74,75,76,77,78,81,84,85,86,87,88,90,91,92,94,96,99,103 ,107,113,114,118,119,120,123,124,128,132,133,134,136,137 139,140,141,144,145,146,147,149,151,152,153,154,155,157,158 159,160,161,162,163,164,165,167,168,169,171,172,174 175,176,177,178,193,184,186,187,190,191,192,193,194 ,195,197,198,199,200,201,202 اقلیدس: 28 الیاسؑ ، حضرت: 170 ام ہانی ؓ: 29,32 امان اللہ خان ‘ امیر افغانستان: 167,171 امرائو القیس: 82,84 اندلسی ابو عامر احمد شہید: 30 ایوب ؑ ، حضرت: 79 ب باب ‘ علی محمد: 15,119 با یزید بسطامیؒ: ,19,1,29,85,86,122,182,206 بنگلوری ‘ محمود: 84 بچہ‘ سقہ 167 برخیا: 112 برنارڈ ‘ سینٹ: 39 بندہ بیراگی ‘ گرو: 147 بھرتری ہری: 1,6,8,15,49,51,144,146,165,167 بہاء اللہ : 120 بیواں‘ پروفیسر: 120 پ پاشا ‘ سیعد حلیم: 3,40,48,85,86,87,88,97,98,171 ت تیمور امیر: 151 ٹ ٹالسٹائی حکیم (طالسطائی): 6,48,51,52,54,80 ٹائونے ‘ پروفیسر: 51 ٹیپو‘ سلطان فتح علی (سلطان شہید): 4,14,37,47,49,141,144,167,168 172,174,175 ج جامی ‘ عبدالرحمن: 30,33 جاوید اقبال ‘ ڈاکٹر جسٹس: 7,17,47, جبرئیل ؑ: 32,46,53,74,77,81,83,86,100,145,159,200,201 208 جعفر ‘ میر: 3,40,42,49,52,140,141 جگن ناتھ آزاد ‘پروفیسر: 52,165 جمی انجینئر: 58 جنید بغدادیؒ: 85,86 جیراجپوری ‘ محمد اسلم: 9,128 جیفرے آرتھر: 155 الجیلی‘عبدالکریم: 132,134,155,161 ح حافظ شیرازی: 9 حالی ‘ الطاف حسین: 124 حسینؓ‘ حضرت امام(شہید کربلا): 167,176 حلاج حسین بن منصور (ابن حلاج): 3,14,49,52,57,77,118,128,131 ,132,134,135,136,145,155 حلیمہ سعدیہؓ: 183 حیدر بخش ‘مولانا: 124 خ خالد بن ولیدؓ، حضرت: 109,122 خان نیاز محمد خان: 1 خٹک‘ خوشحال خان: 171 خسرو دہلوی‘ امیر: 30 خسرو نادر: 144 خسرو علوی قبادیانی ‘ ناصر: 7,49,56,169 خضرؑ‘ حضرت: 68,203 خیام ‘ عمر: 111 خیر آبادی ‘ مولانا فضل حق: 126 د دارا : 184 دانتے: 5,14,16,17,18,20,25,28,1,35,36,37,38,39,40 42,43,66,99,146,155 دائود‘ حضرت: 86 درد دہلوی‘ میر: 133 ذ ذوالکفل: 57 ر رازی‘ امام فخر الدین: 30 رازی‘ شیخ محمد مزدکانی: 150 راس مسعود: 47 رامچندر‘ راجہ : 71 رجائی‘ ڈاکٹر احمد علی: 13,31 رسا‘ ڈاکٹر قاسم: 11 رضا خان شاہ ایران: 172 رم خن: 48,111 رنجیت سنگھ: 149 رومی ‘ جلال الدین (مولانا روم پیر رومی): 1,2,3,4,5,7,9,11,38,40,46 , 48,53,60,61,62,64,65,68,70,71,73,75,76,85,86,88,98 , 99,101,103,104,105,110,111,115,118,119,121,122,123, 130,134,140,142,145,146,149,155,159,161,162,163,166, 168,169,178,184,199,200,201,208 ز زرتشت: 2,6,15,34,48,57,77,78,79,140,155,158 زکریاؑ‘ حضرت: 79 زکریا خان‘ نواب: 54,147 زہیر: 83 زین العابدینؓ‘ حضرت امام: 100 س سامری: 66,105,132 سائمن ڈی بارڈی: 38 سبحان وائل: 82,83 سراج الدولہ شہید‘ نواب: 52,141 سراج الدین ‘ میر: 26 سرمد: 183,184 سعدی ‘ شیخ مصلح الدین: 9,102 سلطان مظفر ابن سلطان محمود بیگڑا گجراتی: 197 سلمان فارسیؓ‘ حضرت: 81,83,182 سلیمانؑ‘ حضرت: 182 سمانی‘ سید محمد شریف: 108 سمنانی‘ اخی علی دوستی: 150 سمنانی ‘ سید علائو الدولہ: 150 سنائی غزنوی حکیم: 14,30,123 سنڈر لینڈ‘ لارولڈ ایل: 21 سہیل بن ابی سلمہ 82 سید احمد شہید: 149 ش شاہ میری ‘ سلطان شہاب الدین: 151,161,162 شاہ ہمدان‘ امیر کبیر سید علی ہمدانی: 3,14,30,49,54,55,139,144,149 , 150,151,152,153,161,162,164 شبستری‘ شیخ سعد الدین محمود: 11,20 شبلی ‘ ابوبکر: 10,182 شرف النساء بیگم: 3,49,54,147,148 شہرزوری ‘ مرتضیٰ موصلی: 20,21 شیرازی‘ شیخ روز بہان بلقی: 119 شیوجی مہاراج: 52 ص صادق میر: 3,40,49,54,140,142 ض ضیغم لولابی کشمیری‘ ملا زادہ: 165 ط طاہرہ ‘ قراۃ العین (زریں تاج ام سلمہ): 3,7,15,49,54,118,119,120, 121,123,136,191 طباطبایئُ استاد سید محمد محیط: 54,120 طباطبائی‘ سید ضیا الدین: 4 طوسی‘ نصیر الدین: 28,111 ع عاکف‘ احمد 87 عبداللہ ‘ ڈاکٹر سید: 20,42 عبداللہ‘ شیخ: 106,107,165 عبدالصمد خاں نواب: 3,54,147 عبدالعزیز پیر ہاروی‘ علامہ: 26 عبدہ ‘ شیخ محمد: 108 عدنان: 92 عطار فرید الدین : 30,134,135,155,159 عفراء انصاری: 83 علیؓ ‘ حضرت (حیدر کرار مرتضیٰ ابوتراب) 95,169,176,180 عمرؓ حضرت (فاروق اعظم): 88,109 غ غالب میرزا اسد اللہ خان: 1,3,6,7,49,55,118,119,120,121,123, 124,125,127,131,136 غزالی‘ امام محمد: 21,150 غنی کشمیری‘ ملا طاہر: 7,49,55,144,149,150,151,12,161,165 غوث گوالیاری ‘ شاہ محمد: 26 غوری‘ شبیر احمد خاں: 68 ف فرخ سیر: 147 فردوسی: 9 فرعون: 3,5,6,48,55,99,104,105,106,163 فرہاد: 59 فضیل بن عیاض: 85,86 فوق ‘ منشی محمد دین: 153 فیصل اول: 108 ق قابیل : 162 قاچار ناصر الدین شاہ : 54,119 قادیانی‘ مرزا غلام احمد: 190 قزوینی‘ ذکریا: 160 قزوینی ‘ ملا محمد صالح: 119 قطب الدین سلطان: 151 قیصر روم: 95 ک کچز‘لارڈ جنرل : 1,3,5,6,7,48,55,56,99,104,106,108 کسریٰ: 95 کشمیری‘ صوفی: 30 کشن پرشاد‘ مہاراجہ: 7,25 کعبؓ حضرت: 82 کلائیو‘ لارڈ: 52 کلیم الدین احمد: 35,70 گ گارڈن‘ جنرل: 106 گرامی‘ مولانا غلام قادر: 194 گوپی ناتھ پروہت: 166 گوتم بدھ(سدھارتھ): 2,6,15,48,53,57,77,78 گوئٹے: 11,155,161,178 م مارکس ‘ کارل: 3 ماروت: 99 مائل ہروی: 30 ماسینو ‘ لوئی: 119 مانی: 155,157,158 مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندیؒ: 133,145 محمد‘ امام: 93 محمد حسین چوھدری: 11,14,16,20,21,31,35,44 مزدک: 82,83 مسولینی: 93 مسیح‘ حضرت عیسیٰؑ: 2,6,38,48,50,57,77,79,80,81,200,208 مظہر جان جاناں ‘ میرزا: 58 معاذؓ، حضرت: 83 معاویہؓ، حضرت: 82 معری ‘ ابوالعلائ: 17,19,30,31,35 ملٹن ‘ جان: 25,155,161 موسیٰؑ ‘ کلیم اللہ‘ حضرت: 32,55,66,68,69,89,98,99,104,105,125 132,163,200,201,208 مہدی سوڈانی ‘ سید محمد: 3,6,48,55,56,106,107,108,109 مہر ‘ مولانا غلام رسول: 4 میر واعظ ‘ محمد فاروق: 165 میکڈونلڈ: 27,28 ن نادر خان افغان ‘ جنرل: 168,172 نادر شاہ افشار: 3,49,56,144,167,168,169 ناموس‘ پروفیسر شجاع الدین: 26 نصیر الدین محمود روشن چراغ دہلی شیخ: 75 نطشے(نٹشے): 5,14,15,49,56,107,108,144,145 نظا م گنجوی: 20,30,32,33 نظیری نیشاپوری: 40,120 نکلسن ‘ ڈاکٹر: 21 نوحؑ، حضرت: 57,79 نوشیروان عادل: 82 نہرو‘ جواہر لعل: 164 نہرو‘ موتی لعل: 164 و ورجل: 5,38,39,40 وسٹن فیلڈ: 20 ولی اللہ محدث دہلوی ‘ شاہ: 49,93 ہ ہابیل: 162 ہاروت: 99 ہارونؑ، حضرت: 105 ہاشم: 82,83 ہروی ‘ امیر سید حسینی: 20 ٭٭٭ کتب و رسائل ا ارمغان حجاز: 11,50,59,95,134,155,158,159,160,165,189, 191 اسپ نامہ زرتشت: 57 اسرار خودی: 4,40,134,154 اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی: 18,20,21,35 اسلامک کلچر دکن‘ سہ ماہی: 27,87 اسلام عشق: 86 اقبال نامہ: 25,26 الانسان الکامل: 155 الٰہی نامہ: 135,155,159 العروۃ الوثقیٰ: 86,87,108 انقلاب‘ روزنامہ: 4,5 اوستا: 57,157 ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقائ: 10,57,155 ایرد اویراف نامہ: 18,38,140 ب بال جبریل: 11,12,31,34,51,91,117,134,144,145,155,159 169 بانگ درا: 7,8,11,34,186,187 بقول زرتشت: 145 پ پیام مشرق: 6,11,52,113,120,145,152,155,158,178 پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق: 11,94,195 ت تاریخ پنجاب و کشمیر: 37 تشکیل جدید الہیات اسلامیہ: 12,34,131,178,193 تھاٹس ایند ریفلیکشنز آف اقبال: 1 ج جاوید نامہ: 1,4,5,6,7,8,9,10,13,14,15,16,17,20,25,26,27, 31,33,35,36,37,40,41,42,44,47,48,49,50,51,53,56,57,58, 59,66,70,73,81,87,92,94,132,134,144,146,153,155,158 159,163,165,168,169,174,179,181,185,186,187,192,193, 194,195,198,208 خ خریطہ جواہر: 58 د دمی مسلم ورلڈ: 21,178 دیوان شرقی و غربی: 11 دیوان کبیر (دیوان شمس تبریز): 53 ڈ ڈیوائن کامیڈی: 5,14,16,17,20,25,28,31,35,37,38,39,40, 41,42,66,99,140,155 ذ ذخیرۃ الملوک: 54,151,153,162,163 ر رسالہ التوابع و الزوایع: 30 رسالۃ الروح: 30 رسالہ در سیر نفس عاقلہ: 30 رسالہ الطیر: 30 رسالتہ الغفران: 18,19,0,0,31,35 رسالہ قشیر یہ: 132 رموز بے خودی: 81,190,191 ز زاد المسافرین: 169 ز بور: 86 زبور عجم: 7,8,9,11,12,15,20,61,77,78,103,165,184,187, 198 س ساقی نامہ: 161 سیر العباد: 14 ی یادگار غالب: 123 ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End