سلسلہ درسیات اقبال جلد اول ۔دوم ۔ سوم پروفیسر سید عبدالرشید فاضل اقبال اکادمی پاکستان 1۔ مختصر حالات اقبال کا پور ا نام شیخ محمد اقبال ہے اور ان کے والد کانام شیخ نور محمد تھا۔ ان کی تعلیمات کی وجہ سے انہیں حکیم الامت کا خطاب دیا۔ اقبال 1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ اقبال نے ایف ۔ اے تک اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں تعلیم پائی بی ۔ اے اور ایم ۔ اے کے امتخانات گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیے۔ اقبال 1905ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور 1908ء میںتعلیم مکمل کر کے واپس آ گئے ۔ لندن میں کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفے کا امتحان پاس کیا۔ جرمنی سے پی ۔ ایچ ۔ ڈی کرنے کے بعد پھر لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ اقبال نے اسلامی موضوعات پر سات لیکچر دیے جو بہت پسند کیے گئے اور علامہ اقبال بطور مفکر اور فلسفی اسلام کے مشہور ہوئے۔ آپ بہت بڑے شاعر اور اعلیٰ درجے کے فلسفی تھے ان کا انتقال لاہور میں 21اپریل 1938 کو ہوا۔ 1۔ نیچے دیے ہوئے جملوں میں خالی جگہ کو پر کرو۔ اور ان دو لفظوں سے کام لو۔ (شاعر ‘ فلسفی) (الف) اقبال بہت بڑے … تھے۔ (ب) اقبال اعلیٰ درجے کے …تھے۔ (ج) اقبال … تھے ۔ 2۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں کو اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو۔ (الف) اقبال کو علم حاصل کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ (ب) اقبال روزانہ فجر کی نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ (ج) اقبال اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ 2۔ بچے کی دعا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو ٭٭٭ نظم کامطلب: بچہ خدا سے یہ دعا کرتا ہے کہ: اے خدا میری زندگی شمع کی طرح ہو۔ جس طرح شمع کی روشن سے اندھیرا دور ہو تا ہے اسی طرح میرے علم کی روشنی سے دنیا سے برائی کا اندھیرا دور ہو۔ اور ہر جگہ نیکی اور بھلائی کا اجالا ہو جائے۔ یہ بھی تمنا ہے کہ جس طرح پھول سے باغ کی رونق ہوتی ہے اسی طرح میرے دم سے میرے وطن کی رونق ہو۔ تیسری تمنا یہ ہے کہ اے اللہ! میری زندگی پروانے کی طرح ہو جس طرح پروانے کو شمع سے محبت ہوتی ہے کہ جہاں شمع روشن ہوتی ہے پروانہ وہیں پہنچ جاتا ہے میں بھی جہاں علم ہو وہیں پہنچ کر علم حاصل کروں۔ یہ بھی تمنا ہے کہ غریبوں کی مدد کرنا اور کمزوروں اور دردمندوں سے محبت کرنا میرا کام ہو۔ آخر میں بچہ یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ ! مجھے برائی سے بچاتے رہنا اور اس راستے پر چلانا جومیرے لیے بھلائی کا راستہ ہو۔ ٭٭٭ 1۔ بجے کی دعا کو زبانی یاد کرو۔ 2۔ نیچے دیے ہوئے الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی تمنا خواہش ضعیف کمزور صورت شکل طرح درد مند رحم دل زینت رونق 3 ۔ اوپر دیے ہوئے لفظوں میں سے ہر ایک کو جملے میں استعمال کرو۔ 4۔ نیچے لکھے ہوئے شعر کو اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو۔ مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو اسی رہ پہ چلانا مجھ کو 5۔ نیچے کے جملوں میںخالی جگہ پر کرو۔ (الف) برائی سے بچنا …ہے۔ (ب) میرے دم سے دنیا کا اندھیرا… ہو جائے۔ (ج) میرا کام غریبوں اور ضعیفوں کی…کرنا ہو۔ 3۔ ہمارے نبیؐ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے نبی ہیں۔ ہر مسلمان کے دل میں‘ آپؐ کی محمد اور انتہا درجے کی عزت ہے۔ مسلمانوںکی عزت و آبرو آپؐ ہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں ہے۔ ہمار ے نبیؐ ٹاٹ پر سوتے تھے اور آپؐ کی امت کے قدموں تلے کسریٰ کا تخت تھا مسلمانوں نے جب سے ایران کو فتح کیا ہے اس وقت سے آج تک ایران کا تخت ان کے قدموں میں ہے یعنی ایران پر مسلمانوں کی حکومت ہے۔ یہ بات مسلمانوں کو حضورؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے نبیؐ ’’غار حرا‘‘ میںتنہا خدا کی عبادت کیا کرتے تھے مگر جب غار سے نکل کر لوگوں کی ہدایت کی تو اس کے نتیجے میں ایک قوم بن گئی‘ اور حکومت قائم ہو گئی اور اس قوم کو آئین مل گیا۔ آپؐ راتوں کوجاگ کر خدا کی یاد میں جاگے ہیں تب سے یہ قوم تخت شاہی پر سوئی ہے یعنی مسلمان بادشاہ ہوئے اور صدیوں تک اس حالت میں سوئے کہ تخت و تاج کے مالک تھے۔ آپ کی شجاعت کا یہ حال تھا کہ لڑائی کے وقت آپ کی تلوار لوہے کے بھی ٹکڑے اڑا دیتی تھی اور آپ کی نرم دلی کا یہ عالم تھا کہ نماز میں آپؐ کی آنکھوںسے آنسو جاری رہتے تھے۔ ہمارے نبیؐ نے یہ تعلیم دی کہ دین کے ذریعے دنیا کی زندگی کو کس طرح خوشگوار بنایا جا سکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے انسان کی پوری زندگی کی رہنمائی کی اور یہ بتا دیا کہ اگر تم مومن رہو گے تو تم ہی دنیا میں اعلیٰ رہو گے چنانچہ مسلمانوں نے اسلام کی تعلیمات پر عمل کر کے آدھی سے زیادہ دنیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور جہاں قبضہ کیا وہاں حکومت کا ایسااچھا انتظام کیا کہ وہاں کے رہنے والوں کویہ محسوس ہوا کہ گویا وہ دوزخ سے نکل کر جنت میں آ گئے ہیں ظاہر ہے کہ یہ کام کوئی دوسرا نہ کرسکا اس لیے اقبال نے سچ کہا ہے کہ آپ جیسا دنیا میں پیدا نہ ہوا۔ ہمارے نبیؐ کے نزدیک پست و بلند اور اعلیٰ و ادنیٰ سب برابر تھے۔ آپؐ اپنے آزاد کیے ہوئے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے۔ مکہ فتح ہوا تو آپؐ نے اپنے بدترین دشمنوںکو معاف کر دیا۔ کافروں نے حضورؐ کو بڑی تکلیف دی تھی مگر مکہ فتح کرنے کے بعد جب آپؐ کو بدلہ لینے کا حق بھی تھا۔ اور قوت بھی حاصل تھی تو آپؐ نے فرمایا کہ تم سب کو معاف کر دیاگیا۔ آج تم کو کسی قسم کی سزا نہیں۔ ٭٭٭ 1۔ اوپر کا مضمون اقبال کی کتاب’’اسرار خودی‘‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ کتاب فارسی زبان میں ہے۔ ہم نے اس سے خاص خاص حصو ں کو اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ فارسی زبان میں اسرار خودی اقبال کی پہلی تصنیف ہے۔ اس کتاب میںاقبال نے خودی کوپہچاننے کی تعلیم دی ہے بہت سے لوگ خودی کا نام سن کر چونک پڑے کیونکہ خودی کے ایک معنی غرور کے بھی ہیںَ حالانکہ اقبال نے یہ بتایا تھا کہ آپنے آپ کوجان لینا خودی کو پہچاننا ہے۔ آپ لوگ کہیں گے کہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو خوب جانتا ہے۔ مگر یہ جاننا جاننا نہیں اصل جاننا تو یہ ہے کہ انسان کو خدا نے جو طاقتیں بخشی ہیں وہ ان سب سے اچھی طرح واقف ہو جائے ۔ شیر جب تک شکار پر حملہ نہ کرے وہ نہیںجانتا کہ ا س میں کتنی قوت ہے۔ اسی طرح انسان جب تک دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرتاہے اس کی خودی دبی رہتی ہے۔ مگر جب کوئی سہارا نہیںرہتا اور اسے اپنی پوری قوت اورطاقت سے کام لینا پڑتاہے تو اس کی خودی ابھرتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ سمجھ لیتاہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے سب میرے ہی لیے ہے میں اپنی ذاتی قوتوں کو کام میں لائوں تو مشکل سے مشکل کام بھی کر سکتاہوں اور وہ کون سی چیز ہے جو اپنی کوشش اور محنت سے حاصل نہیںکر سکتا۔ اگلے زمانے میں بہت سے شاعروں نے اس بات کو نہیںسمجھا بلکہ وہ ہمیشہ ہی کہتے رہے کہ انسان کو اپنی خودی بالکل مٹا دینی چاہیے۔ اس قسم کے خیالات سب سے پہلے یونان میں پیدا ہوئے تھے اور جب یونان کی کتابوں کا عربی ترجمہ ہوا تو بہت سے مسلمان شاعر یہ بات نئے نئے طریقوںسے بیان کرنے لگے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان کو ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ اسے خددا پر بھروسہ کر کے ایک کونے میں بیٹھ رہنا چاہیے اس قسم کے خیالات نے مسلمانوں کے بازوئوں کو سست اور ان کی تلواروں کو کند کر دیا اور انہیں اپنے آپ پر بالکل بھروسہ نہ رہا۔ اقبال نے اسرار خودی میں ایسے شاعروں کی سخت مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہنا قوم کے لیے موت کا پیغام ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچانو اپنے دل سے ڈر اور خوف نکال دو۔ دریائوں میںکود پڑو۔ موجوں سے لڑو۔ چٹانو ں سے ٹکرا جائو۔ کیونکہ زندگی پھولوں کی سیج نہیںجنگ کا میدان ہے۔ ٭٭٭ مشق 1 ۔ اپنے نبیؐ کا نام بار بار پڑھ کے زبانی یاد کرلو۔ پورا نام اس طرح یاد کرو۔’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘۔ 2۔ ’’غار حرا‘‘ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک غار ہے جس کو’’غار حرا‘‘ کہتے ہیں ہمارے نبیؐ اس غار میںمہینوں قیام فرماتے اور خدا کی عبادت میں مصروف رہتے کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے ‘ وہ سامان ختم ہو چکتا تو گھر تشریف لے آئے اور پھرواپس جا کر خدا کی عبادت میں مصروف ہو جاتے۔ 3۔ ہمارے نبیؐ اپنے آزاد کیے ہوئے غلام حضرت زیدؓ کو اپنے ساتھ کھانا کھلایا کرتے تھے۔ اس طرح آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام کے نزدیک کے آقا و غلام کوئی چیز نہیں ہے۔ 4 ۔ رمضان 8ھ مطابق جنوری 630ء میں مکہ فتح ہوا۔ اسلام کا لشکر جب مکے ی طرف بڑھا تو مسلمان سپاہی ہتھیاروں سے سجے ہوئے تھے۔ اور تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے شہر میں داخل ہوئے تو دشمن پر خوف طاری ہو گیا۔ حضورؐ نے ان سے پوچھا’’تم کو معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں‘‘ سب پکار اٹھے تو شریف بھائی ہے اور شریف برادر زادہ حضورؐ نے فرمایا ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں تم سب آزاد ہو ‘‘ اس طرح ہمارے نبیؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کر دیا ۔ یہ آپؐ کی شان رحمت تھی ۔ آپؐ رحمتہ اللعالمین ہیں۔ مشق 1۔ نیچے لکھے ہوئے جملوںمیںخالی جگہ کو پرکرو۔ (الف) ہمارے نبیؐ کا نام …ہے۔ (ب) حضورؐ جب نماز میں ہوتے تھے تو …آنسو بہتے رہتے تھے۔ (ج) ہمارے نبیؐ …میں تنہا خدا کی… کیا کرتے تھے۔ 2۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں کو اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط لکھو (الف) حضورؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میںمسلمانوں کی نجات ہے۔ (ب) آج تم پر کوئی الزام نہیں تم سب آزاد ہو۔ (ج) مسلمان سپاہی تکبیر کے نعرے لگاتے ہوئے شہرمیں داخل ہوئے تو دشمن پر خوف طاری ہوگیا۔ ٭٭٭ 4۔ ترانہ ملی چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم ‘ وطن ہے سارا جہاں ہمارا توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں‘ وہ پاسباں ہمارا تیغوں کے سایے میں ہم پل کے جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو! اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا اے عرض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم ہے خون تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا سالار کارواں ہے میر حجازؐ اپنا اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ہوتا ہے جادہ پیماں پھر کارواں ہمارا ٭٭٭ 1۔ ترانہ ملی کو زبانی یاد کرو۔ 2۔ الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی توحید خدا کو ایک ماننا اوراس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا۔ بتکدہ وہ جگہ جہاں بت رکھے ہوں بتخانہ۔ پاسبان چوکیدار ‘حفاظت کرنے والا سیل پانی کا ریلا سالار سردار سالار کارواں قافلے کا سردار میر حجاز حضرت محمد مصطفیٰؐ خجر ہلال کا عیسائیوںکی صلیب کے بالمقابل اقبال نے خنجر کو مسلمانوں کا امتیازی نشان قرار دیا ہے جو پہلی رات کے چاند کی مانند ہوتا ہے اور جہاں سے مسلمانوں کے قمری مہینہ کا آغاز ہوتا ہے۔ باطل جھوٹ ارض پاک اسلامی سرزمین بانگ درا گھنٹی کی آواز جو قافلہ کے روانہ ہونے اور چلتے ہوئے بجتی ہے۔ جادہ پیما راستہ پر روانگی 3۔ نیچے لکھے ہوئے شعروں کو اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو۔ توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا تیغوں کے سایے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا ٭٭٭ 5۔ ایک مکڑا اور مکھی اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت بھولے سے بھی تم نے یہاں پائوں نہ رکھا غیروں سے نہ ملنے کی تو کوئی بات نہیں ہے اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا آئو جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی حضرت! کسی نادان کو دیجیے گا یہ دھوکا اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا مکڑے نے کہا واہ فریبی مجھے سمجھے تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا منظور تمہار مجھے خاطر تھی وگرنہ کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیںتھا اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے ٹھہرو جو مرے گھر پر تو ہے اس میں برا کیا اس گھر میں تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے دیواروں کو آئنوں سے میں نے ہے سجایا مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا مکھی نے کہا خیر یہ ٹھیک ہے لیکن میں آپ کے گھر آئوں یہ امیدنہ رکھنا ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیںسکتا مکڑے نے کہا دل میں سنی جو بات اس کی پھانسوں اسے کس طرح؟ ہی کمبخت ہے دانا سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا یہ حسن‘ یہ پوشاک‘ یہ خوبی‘ یہ صفائی پھر اس پہ قیامت ہے اڑتے ہوئے کاٹا مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا انکار کی عادت کو سمجھتی ہوںمیں برا سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا ٭٭٭ لفظ معنی لفظ معنی کٹیا جھونپڑی رتبہ درجہ ‘مرتبہ کلغی وہ پر جو کسی پرندے کے سر پر تاج کی طرح ابھرے ہوتے ہیں۔ اڑایا کھایا پسیجی مہربان ہوئی نرم ہوئی گنی ٹکڑا‘ ریزہ ہیرے کا ریزہ ٭٭٭ نظم کا مطلب ایک دن ایک مکڑاکسی مکھی سے کہنے لگا کہ تم ہر روزاس طرف سے گزرتی ہو لیکن کبھی میری کٹیا میں نہیںآئیں۔ غیروں سے نہ ملو تو کوئی حرج نہیں لیکن اپنوں سے اس طرح دور دور رہنا اچھا نہیں۔ میرے گھر میں آئو تو یہ میرے لیے عزت کی بات ہے اگر آنا منظور ہو تو وہ سامنے سیڑھی ہے اس پہ چڑھ کے آ جائو۔ مکھی نے مکڑے کی بات سنی تو کہنے لگی۔ حضرت ایسا دھوکا کسی نادان کو دیجیے مکھی آپ کے جال میں نہیںآئے گی کیونکہ جو آپ کی سیڑھی پر چڑھتا ہے وہ پھر کبھی نہیں اترتا(وہیںختم ہو جاتا ہے)۔ مکڑے نے کہا کیا مجھے فریبی سمجھا ہے؟ اگریہ بات ہے تو تم سا نادان دنیا میں کوئی نہ ہو گا مجھے تو محض تمہار ی خاطر منظور تھی ورنہ ا سمیں میرا کوئی فائدہ نہ تھا۔ خدا جانے کہاں سے اڑتی ہوئی آئی ہو۔ اگر میرے گھر میں ٹھہرو تو اور سستا لو تو اسمیں برائی کیاہے؟ اس گھر میں آپ کو دکھانے کی بھی کئی چیزیں ہیں ۔ اگرچہ باہر سے ایک کٹیا نظرا ٓتا ہے۔ دروازے پر باریک پردے لٹکے ہوئے ہیں دیواروں کو آئینوںسے سجایا گیا ہے۔ اور مہمانوں کے آرام کرنے کے لیے بچھونے بھی ہیں۔ ہر شخص کو یہ سامان کہاں میسر آتا ہے۔ مکھی نے کہا جی ہا ںیہ سب درست ہے مگر یہ امید نہ رکھے کہ میں آپ کے گھر آئوں خدا مجھے ان نرم بچھونوں سے بچائے جو کوئی ان بچھونوں پر سوتاہے وہ پھر کبھی نہیں اٹھتا (بس مر کے ہی اٹھتا ہے)۔ مکڑے نے جب مکھی کی یہ بات سنی تو اپنے دل میں سوچا کہ یہ کمبخت تو سمجھدار ہے اس کو کس طر ح پھانسوں خوشامد سے تو دنیا میں سیکڑوں کام نکتے ہیں۔ دنیا میں جس کو دیکھو خوشامد کا بندہ ہے۔ یہ سوچ کر اس نے مکھی سے کہا۔ بڑی بی اللہ نے آ پ کو بہت بڑا رتبہ بخشاہے۔ جو کوئی آپ کو ایک نظر دیکھ لیتا ہے اس کو آپ کی صورت سے محبت ہو جاتی ہے۔ آ پ کی آنکھیں کیا ہیں ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں ہیں۔ اور آپ کے سر کو خدا نے کلغی سے سجایا ہے۔ یہ حسن یہ پوشاک یہ خوبی یہ صفائی پھر اس پر آپ کا اڑتے ہوئے گانا اور بھی قیامت ہے۔ مکھی نے جب یہ خوشامد کی باتیں سنیں تو مہربان ہو گئی اور بولی مجھے آپ سے کوئی کھٹکا نہیں ہے میں انکار کی عادت کو اچھا نہیں سمجھتی۔ کسی کا دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ بات کہی اور اپنی جگہ سے اڑ کر مکڑے کے پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑ لیا اور چونکہ وہ کئی دن سے بھوکا تھا اب جو مکھی ہاتھ آئی تو اس کو گھر میں آرام سے بیٹھ کے کھایا۔ اقبال نے اس نظم میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اپنے پیٹ کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ اورکیسے کیسے فریب دیتا ہے۔ اور جب اسکا فریب نہیں چلتا تو پھر خوشامد کرکے رام کرے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے انسان کو غرض کے بندوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ نہ ان کی فریب کی باتوں میں آناچاہیے۔ نہ خوشامد سے خوش ہو کر ان کو دوست سمجھ لینا چاہیے۔ خوشامد اچھے اچھے عقل مندوں کو بیوقوف بنا دیتی ہے۔ اور وہ جان بوجھ کر بھی دشمن کے ہاتھوں برباد ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات جو وہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ انسان کی فطرت خوشامد کو کیسا پسند کرتی ہے۔ کہ آدمی جان بوجھ کر بھی کہ فلاں شخص اس کا جانی دشمن ہے جب وہ شخص خوشامد کرنے لگتاہے تو اسکی دشمنی کو بھول جاتا ہے اور اس طرح دشمن کو کامیاب ہونے کا موقع دیتا ہے اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اپنے اندر خوشامد پسندی کی عادت پیدا نہ ہونے دے۔ مشق 1 ۔ مکڑے اور مکھی کی گفتگو اپنے جملوں میں بیان کرو۔ 2 ۔ اس شعر کوصاف صاف اور خوشخط اپنی کاپی میں نقل کرو۔ غیروں سے نہ ملیے توکوئی بات نہیں اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا 3۔ نیچے لکھے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوںمیں استعمال کرو۔ پسیجا‘ اڑایا‘ کھٹکا‘ سجایا‘ میسر ٭٭٭ 6۔ ایک پرندہ اور جگنو سر شام ایک مرغ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر اڑا طائر اسے جگنو سمجھ کر کہا جگنو نے او مرغ نوا ریز نہ کر بیکس پہ منقار ہوس تیز تجھے جس نے چہک گل کومہک دی اسی اللہ نے مجھ کوچمک دی لباس نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طورہوں میں چہک تیری بہشت گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوس نظر ہے پروں کو میرے قدرت نے ضیا دی تجھے اس نے صدائے دلربا دی تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے آواز تجھ کو دیا ہے سو مجھ کوساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشین سوز قیام بزم ہستی ہے انہیں سے ظہور اوج و پستی ہے انہیں سے ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی ٭٭٭ ایک پرندہ اور جگنو شام کا وقت تھا اور ایک پرندہ کسی درخت کی ٹہنی پر بیٹھا گا رہا تھا۔ ایک چمکتی ہوئی چیز زمین پر دیکھی تو اسے جگنو سمجھ کر اڑا اور اس کے پاس جا کر چونچ مارنے لگا جگنو نے کہا اے پرندے! ایک بیکس پر چونچ نہ مار…جس نے تجھے چہکنا سکھایا اور پھولوں کو مہکنا عطا کیا ہے اسی اللہ نے مجھے روشنی دی ہے۔ میں نور کے لباس میں چھپا ہوا پتنگوں کے جہاں کا طور ہوں۔ اگر تیرا گانا کانوں کی جنت ہے تو میری روشنی آنکھوں کی بہشت ہے ۔ قدرت نے میرے پروں کو روشنی دی ہے تو تجھے دل کش آواز دی ہے تجھے گانا سکھانا تو مجھے باغ کی مشعل بنایا ہے ۔ مجھے چمک بخشی ہے تو تجھے آواز مجھے سوز دیا ہے تو تجھے ساز۔ غرضکہ اس دنیا کی محلف میں ہم آہنگی آپس میں صلح صفائی رکھنے کے ذریعے ہی سے قائم ہے۔ جس وقت دنیا میں صلح اور محبت کے بجائے مخالفت اور دشمنی پیدا ہو جاتیہ ہے تو دنیا کی ساری رونق ختم ہو جاتی ہے۔ ٭٭٭ 1۔ یہ اقبال کی نظم’’ایک پرندہ اورجگنو‘‘ کامضمون ہے۔ اس نظم کے ذریعے علامہ اقبال یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز خدا کی پیدا کی ہوئی ہے۔ اسی لیے بھی ان میں باہم صلح اور محبت ہونی چاہیے اور اس دنیا کا چین او رآرام بھی آپس میں محبت اور اتحاد رکھنے ہی سے رہتا ہے۔ اس لیے بھی ایک دوسرے کی مخالفت کرنے اور لڑنے بھڑنے کے بجائے سب کو میل ملاپ اور محبت سے رہنا چاہیے تاکہ دنیا کی رونق بھی قائم رہے اور اس کے بسنے والو ں کو چین اور آرام بھی نصیب ہو۔ مشق 1۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہ کو پر کرو۔ (الف) پرندہ درخت کی ٹہنی پر بیٹھا…تھا۔ (ب) میں پتنگو ں کے جہاں کا …ہوں۔ (ج) اگر تیرا گانا…جنت ہے تو میری روشنی آنکھوں کی…ہے۔ 2۔ اقبا ل کی نظم کے اس شعر کو زبانی یاد کرو۔ ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی 3۔ ان دو شعروں کو خوش خط اور صاف صاف اپنی کاپی میںنقل کرو۔ کہا جگنو نے او مرغ نوا ریز نہ کر بیکس پہ منقار ہوس تیز تجھے جس نے چہک گل کو مہک دی اسی اللہ نے مجھ کو چمک دی ٭٭٭ لفظ معنی لفظ معنی ہوس کسی چیز کی بہت زیادہ خواہش کرنا۔ سوز جلن مخالفت‘ رنج و تکلیف طور وہ پہاڑ جس پر حضرت موسیٰ نے خدا کا جلوہ دیکھا تھا۔ ساز صلح‘ موافقت کرنا آرام بہشت جنت رفیق ساتھی ‘دوست دلکش دل کو لبھانے والی بزم ہستی دنیا کی محفل یعنی دنیا مشعل لکڑی کے سر پر کپڑے کی موٹی تہہ باندھ کر اس کو تیل میں دال کر جلاتے ہیں۔ ہم آہنگی یکساں ‘ موزونیت‘ اتفاق 4۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کرو۔ ہوس‘ دلکش‘ رفیق‘ طور‘ بہشت ٭٭٭ 7۔ ایک پرندہ جو پیاس سے بیتاب تھا ایک پرندہ پیاس کی وجہ سے بیتاب تھا اس کو باغ میں ایک ہیرے کا ٹکڑا نظر آیا۔ پیاس کی وجہ سے اس نے اس ہیرے کے ٹکڑے کو پانی سمجھ لیا۔ اور پاس جا کر اس پر چونچ مارنے لگا تاکہ اس سے اپنی پیاس بجھائے مگر اس کو پانی نہ ملا۔ ہیر ے نے کہا کہ اے نادان! تو مجھ پر چونچ مارتا ہے میں پانی نہیں ہوں ہیرا ہوں ! میرے پانی سے تیری پیاس نہیں بجھے گی۔ میں دوسروں کے لیے زندہ نہیںہوں کہ دوسرے مجھے استعمال کریں اگر تو مجھ سے کام نکالنا چاہتا ہے تو یہ تیری کم عقلی ہے۔ میرا پانی پرندو ں کی منقار کو توڑ دیتا ہے۔ بلکہ اس سے آدمی بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ہیرے سے ناامید ہو کر وہ پرندہ وہاں سے چل دیا۔ اتنے میں اسے شبنم کا قطرہ نظر آیا جو شاخ پر چمک رہا تھا اور آفتاب کے ڈر سے کانپ رہاتھا۔ پرندہ شاخ کے نیچے پہنچا تو شبنم کا قطرہ اس کے منہ میں ٹپک گیا۔ لوگو! اگر تم دشمن سے اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ تم قطرہ ہو یا ہیرا؟ پرندہ پیاس کی تکلیف سے بے چین تھا تو اس نے دوسرے کی زندگی کو اپنا سرمایہ بنا لیا۔ ہیرا سخت تھا… اس لیے باقی رہا۔ قطرہ سخت نہ تھا اس لیے ختم ہو گیا۔ اگر تم اپنی بقا چاہتے ہوتو ہیرا بنو شبنم نہ بنو۔ ٭٭٭ 1۔ یہ حکایت اسرار خودی سے لی گئی ہے۔ 2۔ حکایت کا مقصد خود اقبال نے بیان کر دیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اپنی خودی کی حفاظت کرنے سے ایک دم کے لیے بھی غافل نہ رہو۔ ہیر ے کے ٹکڑے کی طرح مضبوط بننا چاہیے شبنم کی طرح نرم بننا اچھا نہیں ہوتا۔ 3۔ خودی کے معنی ہیں اپنی ذاتی میں چھپی ہوئی قوتیں اور صلاحیتیں یعنی جو لوگ اپنی ذات میں چھپی ہوئی قوتوں کو پہچانتے ہیں اور ان سے کام لیتے ہیں ان کے اندر مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا میں عزت کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیںَ مگر یہ بات بڑی مشکل سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے کہ آدمی کو اچھے علم اور اچھی صحبت میں بیٹھ کر اچھی عادتیں اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی چھپی ہوئی قوتوں کو صحیح طور پر استعمال کر سکے۔ مشق 4۔ الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی بیتاب بے قرار ‘ بے چین سرمایہ پونجی پانی چمک‘ آب ‘ ہیرے اور موتی وغیرہ کی چمک دمک کو اس کی آب کہتے ہیں بقا زندگی 5 ۔ نیچے دیے ہوئے ادھورے جملے کو پورا کرو: (الف) ایک پرندہ پیاس کے مارے… (ب) دو کبوتر ہوا میں… (ج) اتنے میں پرندے کو شبنم کا … 6۔ نیچے دیے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کرو: بیتاب‘ ہوس‘ آفتاب‘ سرمایہ‘ پیاس 7۔ اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو: اگر تم بقا چاہتے ہو تو ہیرا بنو شبنم نہ بنو۔ ٭٭٭ 8 ۔ خلیفہ ہارون رشید اور امام مالک مسلمانوں کے امیر ہارون رشید نے حضرت امام مالکؓ کو پیغام بھیجا کہ اے محترم! میں آپ سے حدیث پڑھنا چاہتا ہوں۔ مہربانی فرما کر عراق تشریف لائیے۔ عراق کاکیا کہنا ہے۔ یہاں کا دن کیسا روشن ہوتا ہے! پھر عرا ق کے انگوروں کی تو تعریف ہی نہیں ہو سکتی۔ جن سے آب حیات ٹپکتا ہے۔ اور عراق کی خاک زخم کے لیے شفا دینے والے مرہم کا کام کرتی ہے۔ حضرت مالکؓ نے جوا ب دیا کہ امیر المومنین ! میں محمد مصطفیٰؐ کا نوکر ہوں اور میرے سر میں مصطفیٰؐ کے خیال کے سوا اور کوئی خیال نہیں ہے۔ بھلا میں اس آستانے کو چھوڑ کر کہاں جا سکتا ہوں۔ عراق کے دن تو یہاں کی رات بدرجہا بہتر ہے۔ عشق کہتا ہے کہ بس میرا کہنا مان اور بادشاہوں کو اپنی چاکری میںبھی قبول نہ کر اور آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کا غلام بن جائوں ! پھر یہ بھی کس قدر عجیب بات ہے کہ آپ کو پڑھانے کے لیے میں آپ کے دروازے پر حاضر ہوں! امیر المومنین قوم کا چاکر آپ کا چاکر نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ علم دین سیکھنا چاہتے ہیں تو میرے شاگردوں کے ساتھ درس میں آ کر بیٹھیے۔ یہ حکایت اقبال کی کتاب رموز بے خودی سے لی گئی ہے ۔ رموز بے خودی فارسی نظم ہے جس کا خلاصہ اردو میںکیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اقبال نے بتایا ہے کہ اسلام کا بنایا ہوا آئین قوم کے لیے بہترین ضابطہ ہے۔ اور مختلف اسلامی اصولوں پر بحث کر کے یہ بات مسلمانو ں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنے اسلامی آئین پر کسی دوسرے آئین کو ترجیح نہ دیں بلکہ اپنے اسلامی آئین اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ عزت کی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ اس حکایت میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اسلام کو سمجھنے والے ایسے خوددار ہوتے ہیں کہ وہ خدا اور رسول کی محبت اور قوم کی خدمت کے مقابلے میں کسی چیز کو خیال میں نہیں لاتے ایسے ہی مضبوط خودی کے مالک لوگوں نے دنیا میں اسلام پھیلایا ہے۔ اور دین کی خدمت کی ہے۔ مشق 1۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہ کو پر کرو: (الف) خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک کو …بھیجا۔ (ب) میرے سر میں محمد مصطفیٰؐ کے خیال کے سوا اور …نہیں ہے۔ (ج) قوم کا خادم بادشاہ …نہیںہو سکتا۔ 2۔ ہارون الرشید اور امام مالکؓ کی حکایت کو اپنے جملوں میں بیان کرو۔ 3 ۔ ان الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی حدیث جو کچھ رسولؐ نے فرمایا آستانہ دہلیز چوکھٹ‘ بارگاہ آب حیات وہ پانی جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے پینے سے قیامت تک موت نہیں آتی۔ درس سبق علم دین دین کا علم ‘ قرآن اور حدیث وغیرہ۔ 4 ۔ ان جملوں کو اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو۔ (الف) میرے سر میں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کے سوا اور کوئی خیال نہیں ہے۔ (ب) قوم کا خادم بادشاہ کا نوکر نہیں ہو سکتا۔ 9۔ ہمدردی ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اڑنے چگنے میں دن گزارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک؟ ہر چیر پہ چھا گیا اندھیرا سن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری میں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے ٭٭٭ 1۔ کسی درخت کی شاخ پر ایک بلبل اداس بیٹھا تھا۔ اور یہ کہہ رہا تھا کہ افسوس میں نے سارا دن اڑنے چگنے میں گزار دیا اور اب رات آ گئی ہے میں اپنے گھر کس طرح پہنچوں ہر چیز پہ اندھیرا چھا گیا ہے۔ وہیں ایک جگنو بھی بلبل کا رونا دھونا سن رہاتھا وہ کہنے لگا ’’اگرچہ میں ذرا سا کیڑا ہوں مگر آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں ۔ رات سر پر آ گئی تو غم نہ کیجیے میں راستے میں روشنی کروں گا۔ کیونکہ اللہ نے مجھے مشعل دی ہے۔ 2۔ اقبال نے اس نظم کا مقصد آخری شعر میں بیان کیا ہے یعنی وہی لوگدنیا میں اچھے ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں تم اتنا سمجھ لو کہ دوسروں کی مدد کرنے میں اپنی کم درجے کی حیثیت کو نہیں دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا حیثیت رکھتے ہیں جو کسی کی مدد کریں ! یہ خیال غلط ہے بلکہ جو کچھ تم کر سکتے ہو اس میں کمی نہ کرو کہ یہی تمہارا اخلاقی فرض ہے۔ مشق 3۔ آخری شعر کو زبان یاد کر کے اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط لکھو۔ 4۔ الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی شجر درخت مشعل کپڑے کی بڑی بتی جو تیل میں تر کر کے لکڑی کے ایک سرے پر باندھ کر جلاتے ہیں۔ اداس رنجیدہ آشیاں گھونسلا آہ و زاری رونا دھونا 5۔ نیچے کے جملوں میں خالی جگہ کو پر کرو: (الف) کسی درخت کی شاخ پر ایک بلبل…بیٹھا تھا۔ (ب) اگرچہ میں ذرا سا…ہوں۔ (ج) اللہ نے مجھے … دی ہے۔ 6۔ ان لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کرو۔ اداس‘ آہ و زاری‘ آشیاں۔ 10۔ اسیر فلک ایک نظم میں اقبال نے اپنی آسمان کی خیالی سیر کا بیان اس طرح کیا ہے۔ میں اپنے خیال میں ایک دن آسمان کی طرف روانہ ہوا۔ اڑتا چلا جا رہا تھا اور آسما ن پر میرا جاننے والا کوئی نہ تھا تارے مجھے بڑے تعجب سے دیکھ رہے تھے ان کے لیے میرا سفر ایک ایسا را ز تھا جس سے وہ بالکل ناواقف تھے میں اس پرواز میں اتنا بلندہو گیا کہ صبح و شام کا یہ پرانام نظام بھی پیچھے رہ گیا۔ اس بلندی پر پہنچ کر جہاں صبح و شام نہ تھے وہاں پہنچ کر میں نے جنت کو دیکھا۔ جنت کی تعریف کیا کروں بس یہ سمجھ لو کہ آنکھوں اور کانوں کی تمام تمنائوں کے پورا ہونے کی جگہ ہے۔ دیکھنے کی چیزیں بھی ایسی ایسی خوشنما اور خوبصورت ہیں کہ بیان نہیں کر سکتا اورآوازیں بھی ایسی دلکش کہ کانوںنے ایسی آوازیں زندگی میں کبھی نہیں سنیں۔ طوبیٰ کی شاخوں پر پرندے بڑے میٹھے سروں میں راگ گا رہے تھے۔ اور جنت کی حوریں اپنا جمال دکھا رہی تھیں خوبصورت ساقی اپنے ہاتھوں میں جام لیے ہوئے شراب طہور پلا رہے تھے۔ اور پینے والے خوشی میں‘ مست شور کر رہے تھے۔ جنت سے دور ایک تاریگ گھر نظر آیا جہاں بالکل سناٹا تھا۔ اور ٹھنڈک بھی تھی۔ اس گھر کے اندھیرے کی تو کوئی حد ہی نہ تھی ۔ او ر ٹھنڈا ایسا تھا جیسا کرہ زمہر میر میں نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو جو جواب ملا وہ بڑا حیرت میں ڈا ل دینے والا تھا ۔ کہا یہ ٹھنڈ مقام دوزخ ہے یہاں نہ آگ ہے نہ روشنی۔ یہ ان دونوں چیزوں سے خالی ہے۔ اس کے شعلے جن کے بارے میں سن سن کر لوگ کانپتے ہیں مانگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے اپنے نہیں ہوتے مانگ ہوئے اس طرح کہ دنیا والے جو یہاں آتے ہیں اپنے انگارے ساتھ لاتے ہیں۔ یعنی جو کچھ دنیا میں برے کام کرتے ہیں وہ ان کے ساتھ آتے ہیں اور یہاں وہ بڑے کام ان کے لیے انگارے بن جاتے ہیں۔ مشق 1۔ تم اس نظم کے آخری شعر کو زبانی یاد کرلو۔ اور اس کو اپنی کاپی میں خوشخط نقل کرو۔شعر یہ ہے: اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے انگارے ساتھ لاتے ہیں 2۔ الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی راز بھید جمال حسن ‘ خوبصورتی طوبیٰ جنت میں ایک درخت ہے جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی ایک ایک شاخ پر ہر جنتی کے گھر میں ہو گی۔ ساقی پلانے والا حور جنت کی عورتیں جو نہایت خوبصورت ہوں گی۔ شراب طہور جنت کی پاک شراب تاریک سیاہ وہ جگہ جہاں اندھیرا ہو کرہ زمہریر وہ کرہ جہاں سخت سردی ہوتی ہے یہ کرہ ہوا کے وسط میں ہے۔ 3 ۔ نیچے کے جملوں کو پورا کرو۔ (الف) طوبیٰ کی شاخوں پرپرندے میٹھے میٹھے سروں میں… (ب) انسان اپنی جنت اور دوزخ… (ج) خوبصورت ساقی اپنے ہاتھوں میں جام لیے … 11۔ ایک آرزو دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو مرتا ہوں خامشی پر‘ یہ آرزو ہے میری دامن کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو لذت سرود کی ہو‘ چڑیوں کے چہچہوں میں چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بلبل ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہو دل فریب ایسا کہسار کا نظارہ پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو آغوش کے زمین کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو مہندی لگائے سورج جب شام کی دلہن کو سرخی لیے سنہری ہر پھول کی قبا ہو راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم امید ان کی میرا ٹوٹا ہوا دیا ہو بجلی چمک کے ان کو کٹیا مری دکھا دے جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو پچھلے پہر کی کویل وہ صبح کی موذن میں اس کا ہمنوا ہوں وہ میری ہمنوا ہو کانوں پہ ہو نہ میرے دیر و حرم کا احساں روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو نالہ مرا دعا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بیہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے ٭٭٭ نظم کا مطلب اے اللہ! اب دنیا کی محفلوں سے میرا جی نہیںلگتا۔ اس لیے کہ لوگوں کی غفلت اورخود غرضیوں کو دیکھ کر میرا دل بجھ گیا ہے۔ اور جب دل بجھ گیا ہو تو محفل کا لطف نہیں آ سکتا۔ اب تو جی یہ چاہتا ہے کہ کسی پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنا لوں جہاں چڑیوں کے چہچہانے میں گانے کامزہ ہو اور قدرتی چشموں کے شور میں باجے کی آواز کا لطف ہو۔ بلبل مجھ سے ایسی گھل مل جائے کہ اس کے دل میں میرا ڈر بالکل نہ رہے جھونپڑی کے دونوں طرف ہرے ہرے بوٹے صف باندھے کھڑے ہوں۔ اور ندی کا صاف شفاف پانی ان کی تصویر لے رہا ہو۔ پہاڑوں کا نظارہ ایسا دلکش ہو کہ پانی بھی موج بن کے اسے اٹھ اٹھ کے دیکھ رہا ہو۔ زمین کی گود میں سبزہ سویا ہوا ہو اور جھاڑیوں میں بہت ہوا پانی جگہ جگہ چمک رہا ہو۔پھولوں کی شاخ جھک جھک کر پانی کو چھو رہی ہو جیسے کوئی حسین آئینہ دیکھتا ہے ۔ شام کے وقت میں جب سورج شام کی دلہن کو مہندی لگائے (یعنی آسمان کے کناروں پر شفق نمودار ہو) تو پھولوں کا لباس سرخ نظر آنے لگے۔ رات میں سفر کرنے والے جب تھک کر رہ جائیں تو میرے ٹوٹے ہوئے دیے کی روشنی ان کو یہ امید دلائے کہ رات گزارنے کی جگہ موجود ہے ۔ اور جب آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوںاور ہر طرف اندھیرا گھپ ہو تو بجلی کی چمک میں ان کو میرا کٹیا نظر آ جائے۔ کویل جو پچھلی رات کو کتی ہے۔ اس کی کوک اذان کا کام دے۔ میں اٹھ بیٹھوں اور خدا کی یاد میں لگ جائوں۔ اور اس طرح کویل اور میں ایک دوسرے کے ہم نوا ہو جائیں ۔ میرے کانوں پر مسجد اور مندر کا احسان نہ ہو۔ یعنی میں مسجد کی اذان یا مندر کے سنکھ کی آواز سے بیدار نہ ہو ں بلکہ جھونپڑی کے سوراخ سے جو روشنی نظر آئے اس سے سمجھ لوں کہ صبح ہو گئی ہے۔ اور جس وقت شبنم پھولوں کو وضو کرانے آئے تو میرا وضو ہو اورمیرا نالہ میری دعا ہو۔ اور یہ رونا ایسا اثر کرے کہ اس سے ہر درد مند دل رونے لگ جائے اور شاید اسی طرح غفلت میں پڑے ہوئے سوئے ہوئے لوگ جاگ اٹھیں! ٭٭٭ جس کیفیت میں اقبال نے یہ نظم لکھی ہے وہ کبھی کبھی قوم کے ہر سچے خیر خواہ کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ قوم کا سچا خیر خواہ جب دیکھتاہے کہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور ان کے دل میں ایک دوسرے سے ہمدردی کی بجائے خود غرضی ہی خود غرضی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اغراض میں گم ہو کر خدا کو بھی بھلا دیتے ہیںَ اور جو جی میں آتی ہے کرتے رہتے ہیں تو اسے ایسے لوگوں کی صحبت سے بیزاری محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور وہ چاہتا ہے کہ ان سے بھاگ کر بہت دو ر چلا جائے۔ ایسی جگہ جہاں قدرت کے نظارے ا س کی نگاہ کے سامنے ہوں۔ ایسے نظارے جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور ان قدرتی نظاروں میں وہ سب کچھ بھو ل کر خدا کی یاد میں محو ہو جائے۔ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے یہ بھی بتا دیا ہے کہ ایسے خود غرض اور غفلت میں پڑے لوگوں سے تو قدرتی مناظراور جنگل کی تنہائی میں رہنا بہت اچھا ہے۔ جہاں کی ہر چیز سے رنج و غم کے بجائے مسرت و شادمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور جہاں پرندے تک خدا کی یاد کرتے ہیں۔ لیکن وہاں بھی وہ خود غرضی سے دور رہ کر لوگوں کو کسی نہ کسی طرح خدمت ہی کرنا چاہتے ہیں۔مثلاً رات کے مسافر جب تھک کر رہ جائیں تو وہ ان کی کٹیا میں قیام کر سکیں۔ اوروہ وہاں پچھلی رات کو اٹھ کر یکسوئی کے ساتھ خدا کا ذکر کریں اور رو رو کے دعا مانگیں کہ الٰہی ان لوگوں کو سمجھ عطا فرما کہ یہ خود غرضی چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کریں اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اپنی ترقی کی منزلوں کی طرف چل پڑیں۔ اس نظم کو پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو قدرتی مناظر کی تصویر کھینچنے میں کیسا کمال حاصل تھا۔ مشق لفظ معنی لفظ معنی اکتانا بیزار ہونا‘ تنگ آنا‘ جی نہ لگنا نظارہ تماشا‘منظر مرتا ہوں بہت زیادہ چاہتا ہوں موج لہر خامشی خاموشی آغوش گود سرود گانا قبا لباس شورش شور دیا چراغ مانوس محبت کرنے والا‘ چاہنے والا‘ بے تکلف موذن اذان دینے والا کھٹکا ڈر ہم نوا ہم آواز دل فریب دلکش دیر مندر حرم کعبہ‘مسجد سحر نما صبح دکھانے والا نیچے لکھے ہوئے ادھورے جملو ں کو پورا کرو: (الف) دنیا کی محفلوں میں …نہیںلگتا۔ (ب) چڑیوں کے چہچہانے میں …مزہ ہو۔ (ج) پھولوں کی شاخ جھک جھک کر…چھو رہی ہو۔ 6۔ اقبال نے تنہا رہنے کی آرزو کس وجہ سے کی ہے؟ 7۔ ذیل کے اشعار کو صاف صاف اور خوشخط اپنی کاپی میں نقل کرو اور زبانی یاد بھی کرو: (الف) آغوش میں زمیں کی سویا ہوا ہو سبزہ پھر پھر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو (ب) پھولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے رونا مرا وضو ہو‘ نالہ مرا دعا ہو ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے 12 شکوہ اور جواب شکوہ سے انتخاب (شکوہ) ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کی مصیبت کے لیے اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی بت فروشی کے عرض بت شکنی کیوں کرتی؟ ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پائوں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز نبدہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے (جواب شکوہ) منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک حرم پاک بھی ‘ اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیںاور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہیں باتیں ہیں جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراتو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا‘ توغریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب امرا نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بیضا غرباکے دم سے تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم تم خطا کار و خطابیں‘ وہ خطاپوش و کریم چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟ ٭٭٭ 1۔ یہ دنوں نظمیں اقبال کی کتاب’’بانگ درا‘‘ سے لی گئی ہیںَ ہم نے تین تین بند دونوں میں سے انتخاب کیے ہیں۔ 2 ۔ نظم ’’شکوہ‘‘ اپریل 1911ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں پڑھی گئی اس کے چند ماہ بعد موچی دروازے کے باہر ایک بہت بڑے جلسے میں جواب شکوہ سنائی گئی۔ یہ جلسہ مولانا ظفر علی خاں مرحوم کے اہتمام میں جنگ بلقان کے سلسلے میں ہوا تھا تاکہ ترکوں کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ نظم کے ختم ہونے پر اس کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوئیں اور وہ تمام روپیہ بلقان فنڈ میں دے دیا گیا۔ ٭٭٭ اشعار کا مطلب اقبال کو جو قوم کی موجود حالت پر ایسا رنج ہوا کہ خدا سے شکوہ کرنے پر مجبور ہو گئے شکوے میں مسلمانوں کی اسلام کے لیے قربانیوں اور اعلیٰ درجے کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں تاکہ خدا ان پر پہلے کی طرح مہربان ہو جائے اور وہ پھر دنیا میں ویسا ہی عزت کا مقام حاصل کر لیں جیسا ان کو پہلے کبھی حاصل تھا۔ شکو ے کے تینوں بند اسلاف کے اسی قسم کے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ پہلا بند خدا سے غرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہم زندہ تھے تو اس لیے کہ اسلام کی خاطر کافروں سے جنگ کریں ار مرتے تھے تو اس بات پر کہ دنیا میں تیرا نام بلند ہو۔ ہم نہ حکومت کے لیے لڑتے تھے اور نہ دولت کے لیے بلکہ صرف تیرے دین کی خاطر لڑتے تھے۔ اگر ہم زرومال پر مرتے تو بتوں کو توڑنے کی بجائے ا ن کے بدلے میں دولت حاصل کرتے۔ سلطان محمود غزنویؒ جب سومنات کے مندر میں داخل ہوا تو اس کے ہاتھ میں گرز تھا۔ مندر کے پجاریوں نے عرض کیا کہ سلطان ! ہمارے دیوتائوں کو نہ توڑو اس ک یبدلے میں جتنا زروجواہر آپ کو چاہیے ہم سے لے لیں مگر محمود نے کہا کہ میں بت فروش نہیں ہوں بت شکن ہوں اور یہ کہہ کر بت کو گرز مار ما ر کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اقبال نے اپنے شعر میں اسی تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دوسرا بند اگر ہم کسی لڑائی میں اڑ جاتے تو پھرکسی طرح بھی نہیں ٹلتے تھے۔ ہمارے مقابلے میں بڑے بڑے شیر دل بہادر بھی نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اور اگر تجھ سے کوئی سرکشی کرتا تو ہم غصے میں آپے سے باہر ہو جاتے تھے اورپھر تلوار کیا چیز ہے توپ سے بھی لڑ جاتے تھے۔ اسی طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر تلواروں کے سایے میں تیرا پیغام سناتے اور لوگوں کے دلوں پر تیری توحید کا نقش بٹھاتے تھے۔ تیسرا بند اگر عین لڑائی میں وقت نماز آ گیا تو فوراً قبلہ کی طرف رخ کر لیا اور نما ز ادا کی اور اس شان سے ادا کی کہ بادشاہ اور غلام ایک ہی صف میں کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہو گئے۔ غلام اور آقا میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔ ٭٭٭ جواب شکوہ شکوے کے جواب میں خدا کی طرف سے یہ ارشاد ہوا کہ تم نے جو مسلمانوں کے کارنامے بیان کیے ہیں وہ تمہارے باپ دادا کے کارنامے تھے تم ذرااپنی حالت دیکھو کہ کیاتم ہو۔ تمہاری حالت تو اتنی خراب ہے کہ تمہیں مسلمان کہنا بھی اسلام کی توہین ہے۔ پہلابند ارشاد ہوتا ہے کہ اس قوم کا نفع…اور نقصان اللہ اورنبی دین اور ایمان حرم اورقرآن سب کچھ ایک ہے۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس کے باوجود خود مسلمان ایک نہیںہیں۔ یہ بے شمار فرقوں اور ذاتوں میں تقسیم ہو گئے ہیں پھر خود ہی بتائو کہ کیا دنیا میں خوش رہنے اور ترقی کرنے کی یہی علامتیں ہیں؟ دوسر ا بند جبکہ حال یہ ہے کہ مسجد وں میں نماز کے لیے صفیں بھی غریب بناتے ہیںَ روزے کی زحمت بھی غریب گوارا کرتے ہیں۔ بلکہ ا ب تو ہمارانام بھی غریب ہی لیتے ہیں۔ امیر تو اپنی دولت کے نشے میں ایسے مست ہوتے ہیں کہ ہم کو بھول کر بھی یاد نہیں کرتے ۔ اسلام اگر باقی ہے تو غریبوں کے دم سے باقی ہے۔ تیسرا بند تم اپنے باپ دادا کے کارناموں پر فخر کرتے ہو۔ مگریہ سوچو کہ تم میں اور ان میں کتنا بڑا فرق ہے ۔ تم آپس میں غضب ناک ہو وہ آپس میں رحیم تھے تم خطائیںکرتے ہو اور دوسروں کی خطائیں دیکھتے پھرتے ہو اور وہ دوسروں کی خطائوں کو چھپاتے تھے اور ایک دوسرے پر کرم کرتے تھے اور مہربانی کرتے تھے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ تم…ان کی طرح بلند مقام پر تو پہنچنا چاہتے ہو۔ مگر ان کی سی غیرت و حمیت اپنے اندر نہیںرکھتے ۔ وہ کام کرتے تھے تم باتیں بناتے ہو بھلا محض باتوں سے بھی کسی قوم نے دنیا میں عزت کا مقام حاصل کیاہے۔ تمہارے بزرگوں نے آپس میں محبت اور اتحاد پیدا کیا اور ہمارے بتائے ہوئے طریقوں پر چلے تو ہم نے ان کو ایران اور روم کے تخت و تاج دے دیے۔ احکام سے سرکشی کی تو اس پستی و ذلت کی حالت کو پہنچ گئے ہم تو عمل کے مطابق بدلہ دیتے ہیں جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ ٭٭٭ مشق 1 ۔ شکو ہ اور جواب شکوہ کے اشعار زبانی یاد کرو 2۔ نیچے لکھے ہوئے ادھورے جملوں کو پورا کرو۔ (الف) اگر ہم زر و مال پر مرتے تو…توڑنے کی بجائے ان کے بدلے میں …حاصل کرتے۔ (ب) ہمارے مقابلے میں…نہیںٹھہر سکتے تھے۔ (ج) تمہاری حالت تو اتنی خراب ہے کہ تم کو…اسلام کی توہین ہے۔ 3۔ نیچے دیے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میںاستعمال کرو۔ غضبناک ‘ رحیم‘ خطا‘ توحید‘ حمیت 4۔ مشکل الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی جنگ لڑائی زحمت تکلیف عظمت عزت و مقام امرا امیر کی جمع ہے تیغ زنی تلوار چلانا ملت بیضا اسلام سربکف سر ہتھیلی پر لیے ہوئے غضب ناک غصہ میں بھرا ہوا بت فروشی بتوں کا بیچنا رحیم رحم کرنے والا بت شکنی بتوں کو توڑنا قلب سلیم درست اور دور اندیش دل تیغ تلوار تخت فغفور چین کا بادشاہ کا تخت قبلہ رو قبلے کی طرف رخ کرنا خطا کار خطا کرنے والا قوم حجاز مسلمان خطابیں خطا دیکھنے والا توحید خدا کو ایک ماننا خطا پوش خطا کو چھپانے والا زیر خنجر تلوار کے نیچے بندہ غلام غنی مالدار اوج ثریا ثریا کی بلندی‘ ثریا کے ستاروں کا ایک مجموعہ ہے ساتویں آسمان پر منفعت نفع سریر کے ایران کاتخت حرم کعبہ حمیت غیرت فرقہ بندی فرقے بنانا‘ ٹولیوں میں تقسیم ہونا صف آرا صفیں بنانے والے ٭٭٭ 13۔ باز اپنے بچے کو نصیحت کرتاہے بیٹے تو جانتا ہے کہ تمام باز حقیقت میں ایک جیسی خوبیاں رکھتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں مٹھی بھر پروں سے زیادہ نہیں ہوتے مگر اپنے پہلو میں شیر کا دل رکھتے ہیںَ تو بھی اپنے اندر جرات اور حمیت پیدا کر اور بڑی اعلیٰ درجے کی چیز کا چاہنے والا بن کبک تورنگ اور سارس وغیرہ سے دور رہ۔ ان س صرف شکار کرنے کے وقت مل کیونکہ یہ قوم بڑی ڈرپوک ہے کمینہ خصلت ہے کہ اپنی چونچ مٹی سے آلودہ کرتی ہے۔ وہ باز جو اپنے شکار کے جانوروں سے زندگی کا طریقہ سیکھتا ہے آخر انہیں کا شکار ہو جاتا ہے۔ بہت سے شکرے زمین پر گر گئے اور دانہ چننے والے پرندوں کی صحبت میں پڑ کر ہلاک ہوگئے ۔ جو اپنی خوبیوں کی حفاظت کر اور خوش خوش زندگی گزار دلیر سخت اور طاقت ور رہ جسمانی نرمی اور نزاکت تیتیر وغیرہ کا حصہ ہیں تیری رگیں ہرن کے سینگوں کی طرح سخت ہونی چاہئیں کہ دنیا میں خوش رہنا انہیں کا حق ہے جو سخت طاقت ور اور محنتی ہوتے ہیں۔ عقاب نے اپنے بیٹے کو کیسی اچھی نصیحت کی ہے کہ بیٹے بدن کے خون کا ایک قطرہ خالص لعل سے بہتر ہوتا ہے مجھے بوڑھے بازوں کی نصیحت یاد ہے کہ کسی درخت پر آشیانہ نہ بنانا ہم گھر نہیں بناتے نہ باغ میں نہ جنگل میں ہمارے لیے تو پہاڑ اور صحرا جنت ہیںَ زمین پر سے دانہ چگنا گناہ ہے۔ خدا نے ہم کو آسمان کی وسیع فضا عطا کی ہے جس اصیل بازنے زمین کو چھوا وہ گھریلو مرغ سے بھی زیادہ کمینہ ہے اور گرے ہوئے درجے کا ہو گیا ہے۔ شاہبازوں کے لیے پتھر فرش کا کام دیتا ہے۔ کیونکہ وہ پتھر پر چل کر اپنے پنجے تیز کرتے ہیں۔ تو جنگل کے ان زرد آنکھوں والے بازوں سے تعلق رکھتا ہے جو لڑائی کے وقت چیتے کی آنکھوں سے پتلی نکال لیتے ہیںَ اس کی آخری نصیحت یہ ہے کہ اس آسمان کے نیچے نرم و سخت جو بھی تجھے میسر ہو کھا لے مگر دوسروں سے اپنی غذا نہ لے اور نیک رہ اور نیک لوگوں کی نصیحت قبول کر کے اس پر عمل کرتا رہ۔ ٭٭٭ 1۔ اقبال نے اپنی نظم’’باز اپنے بچے کو نصیحت کرتاہے‘‘ کے عنوان سے ایک نظم اپنی مشہو ر کتاب’’پیام مشرق‘‘میں لکھی ہے ’’پیام مشرق‘‘ فارسی زبان میں ہے۔ ہم نے اس کے خاص خاص حصوں کا آسان اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ تاکہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکو۔ 2۔ یہ نظم اقبا ل نے اس لیے لکھی ہے کہ شاہین باز اور عقاب جیسے پرندوں کو وہ بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان میں سے بعض بڑی اعلیٰ درجے کی خوبیاں پائی جاتی ہیں مثلاً خوددار اورغیرت مند ہوتے ہیں… آشیانہ نہیں بناتے۔ بلند پرواز ہوتے ہیں اور تیز نگاہ ہوتے ہیں اور یہی صفات مومن میں ہوتی ہیں۔ اسی لیے اقبال مسلمان کو شاہین عقاب اور باز اور مسلمان بچوں کو شاہین بچے کہتے ہیں ۔ اس نظم کے ذریعے وہ بچوں کو یہ بات سمجھانا چاہتے ہیں کہ وہ شاہین بچے ہیں ان کو اپنے اندر شاہین اور عقاب کی سی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ مشق 3۔ الفاظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی جرات ہمت آلودہ کرنا خراب کرنا‘ گندہ کرنا حمیت غیرت تنومند ہٹا کٹا‘ طاقت ور تورنگ ایک جنگلی مرغ آشیانہ گھونسلا کمینہ خصلت گھٹیا عادتوں والا سفلہ کمینہ سارنگ سیاہ رنگ کا پرندہ‘ دلکش آواز والا جو سفید دھبے رکھتا ہے مردار خور مرے ہوئے جانوروں کو کھانے والا بلند پرواز بلندی پر اڑنے والا صفات خوبیاں 4۔ نیچے دیے ہوئے لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کرو: حمیت‘ کمینہ خصلت آلودہ کرنا‘ تنومند‘ صفات 5۔ نیچے لکھے ہوئے جملوںمیں خالی جگہ کو پر کرو: (الف) قوی‘سخت اور تنومند آدمی… رہتا ہے۔ (ب) باز اور شاہین… نہیںبناتے۔ (ج) باز اپنی غذا…حاصل نہیں کرتا۔ ٭٭٭ 14۔ طفل شیر خوار (دودھ پیتا بچہ) میں نے چاقو تجھ سے چھینا ہے تو چلاتا ہے تو مہرباں ہوں میں مجھے نامہرباں سمجھا ہے تو پھر پڑا روئے گا اے نواررد اقلیم غم! چبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوک قلم آہ‘ کیوں دکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے یہ بے آزار ہے گیند ہے تیری کہاں چینی کی بلی ہے کدھر؟ وہ ذرا سا جانور ٹوٹا ہوا ہے جس کا سر تیرا آئینہ تھا آزار غبار آرزو آنکھ کھلتے ہی چمک اٹھا شرار آرزو ہاتھ کی جنبش میں طرز دید میں پوشیدہ ہے تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہ زندگانی ہے تیری آزاد قید امتیاز تیری آنکھوں پر ہویدا ہے مگر قدرت کا راز جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے چلاتا ہے تو کیا تماشا ہے ردی کاغذ سے من جاتا ہے تو آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں میں بھی ترا توتلون آشنا‘ میں بھی تلون آشنا عارضی لذت کا شیدائی ہوں چلاتا ہوں میں جلد آ جاتا ہے غصہ جلد من جاتا ہوں میں میری آنکھوں کو لبھا لیتا ہے حسن ظاہری کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی میری تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں میں بھی ہوں دیکھنے کو نوجواں ہوں طفل ناداں میں بھی ہوں ٭٭٭ نظم کا مطلب یہ ہے: اے بچے میں نے تجھ سے چاقو چھین لیا ہے تو اس پر روتا کیوں ہے میں تجھ پر مہربان ہوں اور تو مجھے نامہربان سمجھتا ہے۔ چاقو اس لیے چھینا ہے کہ کہیں اس سے تیرا ہاتھ نہ کٹ جائے! قلم کی نوک بھی باریک ہے اس سے بھی ہوشیار رہنا۔ اگر چبھ گئی تو پھر روئے چلائے گا۔ اے بچے! آخر تجھے دکھ دینے والی چیز سے ہی پیار کیوں ہے؟ یہ کاغز کا ٹکڑا ہے اس سے کھیل یہ تکلیف دینے والا نہیں ہے ۔ اپنی گیند سے کھیل اپنی چینی کی بلی سے کھیل نہ چیزیںتکلیف دینے والی نہیں ہیں۔ ان سے کیوں نہیںکھیلتا؟ اے بچے! جب تک ت ماں کے پیٹ میں تھا۔ تو ہم قسم کی آرزو اور خواہش سے پاک تھا لیکند نیا میں آتے ہی تیرے اندر آرزوئوں اور تمنائوں کا ایک طوفان آ گیا اور اب یہ آرزو طرح طرح سے ظاہر ہو رہی ہے ۔ کبھی ہاتھ کی حرکت سے ظاہر ہوتی ہے کبھی ایک خاص انداز کے ساتھ دیکھنے سے ظاہر ہوتی ہے ۔ تیری طرح تیری آرزو بھی نوزائیدہ (بچہ) ہے۔ اے بچے! تیری زندگی اچھے برے کی تمیز سے آزاد ہے اسی لیے تو ہر چیز سے خوش ہو جاتا ہے اس سے معلومہوتا ہے تجھ کو قدرت کا راز معلوم ہو قدرت بھی امتیاز نہیں رکھتی یہی وجہ ہے کہ جب تو کسی بات پر ناراض ہو کر روتا چلاتا ہے تو ایک معمولی سے کاغذ کے ٹکڑے ہی سے بہل جاتا ہے۔ آہ! یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ کبھی خوش ہے اور کبھی ناخوش میں بھی اس عادت میں تیرے سات شریک ہوں میں بھی عارضی لذت پر جان دیتا ہوں اور اس کے نہ منے پر روتا چلاتا ہوں اور مل جانے پر خوش ہو جاتا ہوں یعنی جیسا تلون تیری طبیعت میں ہے میں بھی ابھی ایک چیز سے خوش ہو ں تو تھوڑی دیر میں کسی دوسری چیز کی آرزو کرنے لگتا ہوں ۔ اور تیری طرح میری آنکھوں کو بھی ظاہری حسن لبھا لیتا ہے اس طرح میری نادانی بھی تیری نادانی سے کم نہیں ہے۔ تیری طرح میں بھی کبھی روتا ہوں اور کبھی ہنستا ہوں۔ گویا دیکھنے میں نوجوان ہوں حقیقت میں بھی طفل نادان ہی ہوں۔ 1۔ اس نظم میں اقبال نے بچے کی ذہنی حالت بیا ن کی ہے کہ وہ اچھے برے کی تمیز نہ رکھنے کی وجہ سے تکلیف دینے والی چیزوں سے بھی کھیلنے لگتا ہے۔ معمولی چیز سے بہل جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کی طبیعت میں تلون پایا جاتاہے۔ وہ کبھی کسی چیز کی آرزو کرتا ہے تو کبھی کسی اور چیز کی۔ بچے کی ذہنی حالت بیان کرنے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ نوجوان بھی طفل شیر خوار ہی کی طرح تلون مزاج ہوتے۔ یہ بھی کبھی ایک چیز کی تمنا کرتے ہیں تو کبھی دوسری چیز کے لیے بے چین ہونے لگتے ہیں۔ عام طورپر بچوں کو نادان کہا جاتا ہے۔ لیکن غور سے دیکھتے تونوجوان اور بوڑھے نادانی میں بچوں سے کم نہیں ہوتے۔ وہ بھی بچوں کی طرح عارضی لذت کے شیدائی اور ظاہری حسن کے چاہنے والے ہوتے ہیں۔ اور فانی چیزوں کے حاصل کرنے کے خیال میں مگن رہتے ہیں۔ مشق 2۔ اقبال نے بچے کی ذہنی حالت کیا بتائی ہے؟ 3۔ اقبا ل نے بچے اور جوان کو نادانی میں ایک سا کیسے قرار دیا ہے؟ 4 ۔ نیچے دیے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میںاستعمال کرو۔ بے آزار ‘ جنبش ‘ تلون‘ شرار 5۔ الفا ظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی شے چیز آئینہ یہاں دل مراد ہے طرز دید دیکھنے کا انداز شرار پتنگا نوزائیدہ جو ابھی ابھی پیدا ہوا ہو ہم آہنگ متفق بے آزار جوتکلیف نہ دے تلون ایک حال پر قائم نہ رہنا ٭٭٭ 15۔ مذہب اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمیعت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی ٭٭٭ اقبال نے اس نظم میں یورپ کی قومو ں اور مسلمانوں کے درمیان فرق بتایا ہے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیںَ اے مسلمان! اپنی قوم کو یورپ کی قوموں جیسا نہ سمجھ۔ ان میں اور تیری قوم میں بڑا فرق ہے! مسلمان قوم دوسری قومون سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ یورپ کی قوموں کا اتحاد ملک و ملت وطن اور رنگ و نسل وغیرہ سے قائم ہے اور مسلمانوں کا اتحاد مذہب کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ یعنی دنیا بھر کے مسلمان دین کے رشتے کی وجہ سے بھائی بھائی ہیں مسلمانوں نے اگر دین کو چھوڑ دیا تو ان کا قومی اتحاد بھی ختم ہو جائے گا اور جب اتحاد ختم ہو گیا تو قوم بھی باقی نہ رہے گی۔ غرضکہ یورپ والوںکی دیکھا دیکھی ہم کو وطن اور رنگ اور نسل وغیرہ پر فخر نہیںکرنا چاہیے بلکہ دین اسلام پر فخر کرنا چاہیے اور دین ہی کے ذریعے سے اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے اپنی قوم کو مضبوط بنانا چاہیے۔ مشق 1۔ ا س نظم کو زبانی یاد کرو۔ 2 ۔ مسلمانوں اور دوسری قوموںمیں کیا فرق ہے؟ 3۔ الفا ظ کے معنی یاد کرو۔ لفظ معنی لفظ معنی ملت قوم رسول ہاشمی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو قبیلہ بنی ہاشم سے تعلق رکھتے تھے۔ قیاس کرنا سمجھنا جمعیت قومی اتحاد اقوام مغرب یورپ کی قومیں قوم رسول ہاشمیؐ مسلمان ٭٭٭ 16 ۔ کافر و مومن کافر ہو تو تیغ پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الٰہی ٭٭٭ 1۔ کافر تلوار پہ بھروسہ کرتا ہے وہ بغیر تلوار کے لڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کو خدا پر بھروسہ نہٰں ہوتا۔ اور مومن بغیر تلوار کے بھی لرتا ہے۔ اس لیے کہ اس کوخدا پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ کہ خدا چاہے تو بغیر تلوار کے بھی فتح مند ہو سکتا ہے۔ اور تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ تعداد میں کم اورنہتے مسلمان کافروں کی بھاری جمعیت پر جو ہتھیاروں سے بھی لیس تھی ‘ غالب آئے ہیں۔ بلکہ بعض موقعوں پر تو مسلمان نے کافر کو اپنی تلوار دے دی ہے۔ اور خود بغیر تلوار کے لڑکر فتح حاصل کی ہے۔ 2۔ اگر مسلمان خدا کا نافرمان ہو گیا یا اس خدا پر ایمان نہیں رہا تو پھر نہ اس کی قسمت میں فقیری ہے نہ بادشاہی اور اگر اس کا خداپر ویسا ہی ایمان ہے جیسا ایک مسلمان کا ہونا چاہیے تو وہ فقیری میں بھی بادشاہی کرتاہے۔ چنانچہ بہت سے درویشوں کے حالات سے ثابت ہے کہ عوام تو عوام بادشاہ بھی ان کا بے حد احترام کرتے ہیں اور ان کی خدمت میں نیاز مندوں کی طرح حاضر ہوتے تھے۔ 3۔ اگر مسلمان نافرمان ہے تو خدا کی تقدیر کے تابع ہوتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ خدا نے ازل می اس کی تقدیر میں لکھ دیا ہے وہی ہو گا۔ محنت اور کوشش کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ اس لیے وہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہتا ہے۔ اور کچھ نہیں کرتا اور اگر مومن ہے تو وہ خود ہی تقدیر الہی ہوتا ہے۔ یعنی اپنی کوشش محنت اور تدبیر سے جیسا چاہتا ہے ویسا ہی اپنے آپ کو بنا لیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ تقدیر پہلے سے بنی بنائی کوئی چیز نہیں ہے عمل سے بنتی ہے انسان اپنے عمل محنت اور کوشش سے اپنی تقدیر بھی بدل سکتا ہے۔ مشق 1 ۔ ان اشعارکو زبانی یاد کرو اور صاف اور خوشخط اپنی کاپی میں بھی لکھ لو۔ 2۔ کافر تلوار پر بھروسہ کس لیے کرتا ہے اور مومن بغیر تلوار کے بھی لڑنے کے لیے تیار کیوں ہو جاتاہے؟ 3۔ کیا تقدیر پہلے سے بنا دی گئی ہے اور اس کی وجہ سے انسان کو دوڑ دھوپ نہیں کرنی چاہیے؟ 4۔ نیچے لکھے ہوئے مصرعوں کو پورا کرو: (الف) کافرتو ہے… کرتا ہے بھروسہ۔ (ب) مومن ہے تو…لڑتا ہے سپاہی۔ (ج) مومن ہے تو…شاہی۔ 5۔ الفاظ کے معنی یاد کرو: لفظ معنی لفظ معنی تابع فرمانبردار فقیر درویش‘ اللہ والا شمشیر تلوار ٭٭٭ 17۔ محراب گل افغان کے افکار نظم رومی بدلے‘ شامی بدلے‘ بدلا ہندوستان تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان اپنی خودی پہچان او غافل افغان موسم اچھا‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان! اپنی خودی پہچان او غافل افغان اونچی جس کی لہر نہیں ہے وہ کیسا دریا! جس کی ہوا میں تیز نہیں ہیں وہ کیسا طوفان! اپنی خودی پہچان او غافل افغان ڈھونڈے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان! اپنی خودی پہچان او غافل افغان تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج! عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان! اپنی خودی پہچان او غافل افغان ٭٭٭ اقبال نے اپنی کتاب ’’ضرب کلیم‘‘ میں محراب گل افغان کے خیالات نظم بند کیے ہیں۔ محراب گل افغان اپنے افغان بھائیوں کو خواب غفلت سے بیدار کرکے دنیا کی دوسری قوموں کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کو اپنے بھائیوں کی غفلت پر بڑ ا افسوس ہے۔ اس نظم میں اقبال نے محراب گل افغان کی زبانی سرحد کے افغانوں کوانقلاب کا پیغام دیا ہے ۔ سرحد یعنی آزاد علاقے کے افغانوں میںوہ خوبیاں موجود ہیں جن کی اگر صحیح تربیت کی جائے تو یہ اپنے آپ کو بدل کر اپنے لیے ایک اونچا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں دینی حمیت بہت ہے‘ اپنے دل میں جہاد کاجذبہ دوسروں کی بہ نسبت بہت زیادہ رکھتے ہیں۔ فطرتاً بہادر ہیں اور جفاکش بھی ہیں اور انگریز اور انگریزیت دونوں سے سخت نفرت رکھتے ہیں۔ اقبال چونکہ ان کی ان خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھے اس لیے انہوںنے اس نظم میں ان کو غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے آپ کو بدلنے کی نصیحت کی ہے۔ پہلے بند میں فرماتے ہیں کہ اے سرحد کے افغان اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھ ہر طرف انقلاب آیا ہوا ہے ترک بھی بدل گئے شامی بھی بدل گئے اور ہندوستان بھی بدل گیا۔ اللہ نے تیرے اندر بڑی صلاحیتیں رکھی ہیں تو بھی اپنی ذاتی صلاحیتوں کو پہچان اور ان سے کام لے کر اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کر۔ دوسرا بند اگر موسم بھی اچھا ہو‘ پانی بھی کثیر ہو اور مٹی بھی زرخیز ہو پھر بھی کوئی دہقان اپنے کھیت کو نہ سینچے تو وہ کیسا دہقان ہے؟ اس کو دہقان کہنا ہی نہیں چاہیے۔ یعنی جب تمہیں خدا نے ایسی صلاحیتیں دی ہیں اور پھر ہر قسم کے قدرتی وسائل بھی مہیا کیے ہیں یعنی اچھی آب و ہوا پانی کی کثرت زرخیز ٹی وغیرہ تو پھر تم کیوں غفلت میں پڑے ہو۔ تم بھی اپنے آپ کو پہچانو اور اپنی خدادا د صلاحیتوں سے کام لے کر ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہو۔ تیسرا بند تم تو سمندر تھے(بڑے عالی ظرف اور بلند حوصلہ والے) پھر کیا وجہ ہے کہ تمہارے اندر جوش و خروش نہیں ہے؟ تم تو طوفان ہو (بڑے مستعد‘ جفاکش اور بہادر) پھر تمہاری رگوں میں ایسی سستی کیوں ہے؟ غافل افغانو! اپنے آپ کو پہچانو اور اس غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر اپنے موجودہ حالات کو بدلو۔ چوتھا بند یاد رکھو! جس نے اپنی ذات میں غوطہ لگا کر اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور ان کی قدر کی ۔ ایسے دہقان کے مقابلے میں سلطان بھی کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے اسے غافل افغان اپنے آپ کو پہچان یعنی اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے۔ پانچواں بند یہ سچ ہے کہ تیرے علاقے میں علم و حکمت کی روشنی نہیں پہنچی ہے لیکن تیری بے علمی ہندوستان کے ان علما کے علم و فضل سے بہتر ہے جو اپنی خودی کو بیچ رہے ہیں۔ کوئی ہندو کا ساتھ دے رہا ہے کوئی انگریز کا غلام بنا ہوا ہے او رہندو اور انگریز ان سے جو کام لینا چاہتے ہیں لے لیتے ہیںَ بہرحال اے افغان اپنی غفلت سے با ز آ اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور قدرتی وسائل کی قدر کر اور ان سے کام لیتے ہوئے اپنی موجود ہ قابل افسوس حالت کو بدل اور ترقی کی راہ پر چل۔ مشق 1۔ آزاد علاقے کے افغانوں کی وہ خصوصیات کیا ہیں جن کی وجہ سے اقبال نے ا ن کو خاص طور پر خطاب کیا ہے؟ 2۔ آزاد علاقے میں علم و حکمت کی روشنی نہ پہنچنے کے باوجو د اقبال نے اس علاقے کے لوگوں کی کس بات کی تعریف کی ہے اور علماء کے مقابلے میں بھی ان کو اچھا کیوں بتایا ہے؟ 3 ۔ نیچے دیے ہوئے دونوں بند اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو: موسم اچھا ‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان اپنی خودی پہچان او غافل افغان! ڈھونڈ کے اپنی خاک جس نے پایا اپنا آپ اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان! اپنی خودی پہچان! او غافل افغان! ٭٭٭ 18۔ اقبال اور ان کے استاد 1۔ مولوی سید میر حسن سیالکوٹ میں ایک کالج تھا جس میں ایک بزرگ مولوی سید میر حسن شاہ علوم مشرقی (عربی و فارسی) پڑھاتے تھے ۔ ان کی تعلیم میں یہ خاص بات تھی کہ جو کوئی ا ن سے عربی یا فارسی پڑھتا تھا وہ اس کی طبیعت میں اس زبان کے ساتھ زیادہ دلچسپی پیدا کر دیتے تھے۔ اورجو کچھ بتا دیتے تھے وہ دلوں پر نقش ہو جاتا تھا۔ اقبال کو ابتدائی عمر میں مولوی سید میر حسن سا استاد ملا طبیعت میں علم حاصل کرنے کا شوق قدرتی طور پر موجود تھا ۔ فارسی اور عربی مولوی صاحب کے مرحوم سے پڑھی۔ پھر کیا تھا۔ سونے پہ سہاگہ ہو گیا۔ مولوی صاحب نے شاگرد کے شوق اور ذہن کی خوبیوں سے اندازہ لگا لیا کہ یہ لڑکا آگے چل کر بڑا نام پیدا کرے گا۔ اس لیے بڑی محنت سے پڑھانے لگے شاگرد کا شوق دیکھ کر اور سوجھ بوجھ دیکھ کر مولوی صاحب بہت خوش ہوتے تھے۔ مولوی صاحب کے سینکڑوں شاگرد تھے۔ مگر وہ سب سے زیادہ اقبا ل پر مہربان تھے ۔ کیوں نہ ہوتے؟ ان کے شاگردوں میں کون ایسا تھا جو شوق اور ذہانت میں اقال کا مقابلہ کر سکتا۔ کہ ادھر مولوی صاحب کی زبان سے کوئی بات نکلتی تھی اور ادھر ان کا ذہن بجلی کی سی تیزی سے اس کی تہہ تک پہنچ جاتا تھا۔ جبکہ دوسروں کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اقبال بھی اپنے استاد کی بڑی عزت کرتے تھے۔ چنانچہ جب گورنمنٹ نے انہیں سر کا خطاب دینا چاہا تو انہوںنے کہا کہ مجھے یہ خطاب اس شرط پر منظور ہے کہ میر ے استاد کو شمس العلماء بنا دیا جائے۔ اور جب گورنر نے کہا کہ میں نے ان کا نام آج پہلی دفعہ سنا ہے ۔ کیا انہوں نے کچھ کتابیں لکھی ہیں؟ تو علامہ اقبال نے فرمایا کہ انہوںنے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ لیکن میں ان کی زندہ کتاب آپ کے سامنے موجود ہوں۔ وہ میرے استاد محترم ہیں۔ چنانچہ مولوی میر حسن شمس العلماء ہو گئے۔ اقبال نے انگلستان جاتے ہوئے جو نظم حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کی درگاہ پر پڑھی تھی اس میں بھی جہاں اپنے ماں باپ اور بڑے بھائی کا ذکر کیا ہے وہاں مولوی صاحب کے متعلق کہا ہے کہ : نفس سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو دعا یہ کہ خداوند آسماں و زمین کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو استاد کی عظمت کے بارے میں یہ واقعہ بڑا سبق آموز ہے: 1913ء کا ذکر ہے کہ سید محمد عبداللہ ان سے ملنے گئے تو وہ فرمانے لگے۔ : عبداللہ جی یورپ کا کوئی ایسا بڑا عالم یا فلسفی نہیں ہے جس سے میںنہ ملا ہوں اور کسی نہ کسی موضوع پر بے جھجک بات نہ کی ہو ۔لیکن نہ جانے کیا بات ہے کہ شاہ جی (میر حسن مرحوم) کے آگے میرے منہ سے بات نہیں نکلتی۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کے کسی نقطہ نظر سے مجھے اختلاف ہوتاہے لیکن دل کی بات آسانی سے زبان پر نہیں لا سکتا۔ ایک بار اقبال کویہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ شاہ جی کا کیا کہنا! شاہ جی کی ہربات شعر ہوتی ہے ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقبال اپنے استاد مولوی سید میر حسن شاہ کا کس قدر احترام کرتے تھے اور ان کے لیے ان کے دل میں کتنی محبت عظمت اور عقیدت تھی۔ 1؎ 2۔ نواب مرزا داغ دہلوی اقبال ابھی سکو ہی میں پڑھتے تھے کہ کلام موزوں زبان سے نکلنے لگا پنجاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ روزگار فقیر حصہ اول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اردو کا رواج اس قدر ہو گیا تھا کہ ہر شہر میں اردو زبان اور شاعری کا چرچا کم و بیش موجود تھا۔ سیالکوٹ میں اقبال کی طالب علمی کے دنوں میں ایک چھوٹا سا مشاعرہ ہوتا تھا۔ اقبال نے اس مشاعرے کے لیے بھی کبھی کبھار غزل لکھنی شروع کر دی۔ اردو کے شاعروں میں ان دنوں نواب مرزا داغ دہلوی کی بڑی شہرت تھی اور نواب دکن کے استاد ہونے کی وجہ سے ان کی شہرت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ لوگ جو ان کے پاس نہیں جا سکتے تھے خط و کتابت کے زریعہ سے ان کی شاگردی اختیار کرتے۔ غزلیں ڈاک کے ذریعے ا ن کے پاس جات تھیں اور وہ اصلاح کے بعد واپس بھیج دیتے تھے اقبال نے انہیں خط لکھا اور چند غزلیں اصلاح کے لیے بھیجیں ۔ اس طرح اقبال کو اردو زبان سیکھنے کے لیے بھی استاد سے نسبت حاصل ہوئی اپنے وقت میں زبان کی خوبی کے لحاظ سے غزل کے فن میں یکتا سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ اس ابتدائی غزل گو میں وہ باتیں موجود نہ تھیں جن کی وجہ سے کلام اقبال نے شہر ت پائی ۔ مگر مرزا داغ دہلوی پہچان گئے کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ شہرکا یہ طالب علم کوئی معمولی غزل گو نہیں ہے۔ انہوں نے جلد کہہ دیا کہ کلام میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے چنانچہ شاگردی استادی کا تعلق…زیادہ دیر تک قائم نہ رہا۔ مگر اقبال کے دل میں داغ سے اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی بڑی قدر تھی اپنے استاد کی شاعری اور زبان دانی پرفخر کیا کرتے تھے اور جب داغ کا انتقال ہوا تو ان کا ایسا پردرد مرثیہ لکھا جس میں ان کے کمالات شاعری کے دل کھول کر تعریف کی ہے۔ اور ان کے انتقال پر اپنے صدمے کا بڑے موثر الفاظ میں ذکر کیا ہے اور ان کے انتقال کو اردو زبان میں اور شاعری کے لیے نقصان دہ عظیم قرار دیا ہے ۔ یہ مرثیہ اردو کے بہترین مرثیوں میں شمار ہوتا ہے۔ 3 ۔ مسٹر آرنلڈ سیالکوٹ کے کالج میں ایف اے کے درجے تک تعلیم تھی بی اے کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ مقدمہ بانگ درا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال کو لاہور آنا پڑا ۔ ان کی طبیعت کو فلسفہ سے خاص لگائو تھا۔ اور لاہور کے استادوں میں انہیں ایک نہایت شفیع استاد مل گئے جنہوں نے فلسفہ کے ساتھ ان کی طبیعت کا لگائو دیکھ کر انہیں خاص توجہ سے پڑھانا شروع کیا۔ پروفیسر آرنلڈ جو بعد میں سر ٹامس آرنلڈ بن گئے غیر معمولی قابلیت کے مالک تھے اور فلسفہ میں کمال رکھتے تھے اور علمی جستجو اور تلاش کے نئے طریقوں سے خوب واقف تھے۔ انہوںنے چاہا کہ اپنے شاگرد کو اپنے مذاق اور طرز عمل سے مستفید کریں اور وہ اس ارادے میں کامیاب رہے جب وہ اپنی ملازمت کی مدت پوری کر کے واپس انگلستان چلے گئے تو اس کا اقبال کوبڑا رنج ہوا۔ چنانچہ ان کی یاد میں ایک نظم لکھی جو نالہ فراق کے نام سے ’’بانگ درا‘‘ میں شامل ہے۔ اس نظم میں اقبال نے مسٹر آرنلڈ کی تعریف کی ہے۔ اور اپنے عقیدت مندانہ جذبات کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ اور اس بات پر اپنے دکھ کا اظہار کی اہے کہ وہ ابھی فلسفہ میں درجہ کمال کو نہیںپہنچے تھے کہ استاد کے فیض تعلیم سے محروم ہو گئے اور بالآخر یہی شوق علم ان کو استاد کے پیچھے پیچھے انگلستان لے گیا اور وہاں وہ رشتہ استادی شاگردی اور بھی مضبوط ہو گیا۔ آرنلڈ صاحب خوش تھے کہ ان کی محنت ٹھکانے لگی اور ان کا شاگرد علمی دنیا میں ان کے لیے شہرت کا باعث ہوا۔ اور اقبال کو اقرار تھا کہ جس مذاق کی بنیاد میر حسن نے رکھی تھی اس کے آخری مرحلے آرنلڈ صاحب کی مشفقانہ رہبری سے طے ہوئے اقبال نے اپنی نجی صحبتوں اور اپنی تحیروں میں اپنے استاد کا ذکر بڑے احترام سے کیا ہے ۔ اور ان کی شاگردی پر فخر کیا ہے اور آرنلڈ صاحب کہا کرتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کو محقق سے محقق تر کر دیتا ہے 1؎ ٭٭٭ مشق 1 ۔ داغ دہلوی کی شاگردی اقبال نے کس طرح اختیار کی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ ۔ ماخوذ از مقدمہ بانگ درا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2۔ مولوی سید میر حسن مرحوم کو شمس العلما کا خطاب کس صلے میں ملا؟ 3۔ مسٹر آرنلڈ اقبال کے بارے میں کیا خیال رکھتے تھے؟ 4 ۔ الفاظ کے معنی یاد کرو: لفظ معنی لفظ معنی نفس سانس کلام موزوں شعر شفیق مہربان نقطہ نظر خیال شادمان خوش نقصان عظیم بہت بڑا نقصان محقق تحقیق کرنے والا قلق رنج ٭٭٭ 19۔ اقبال کے لطائف (ہنسنے ہنسانے کی باتیں) اقبال کی طبیعت میں ظرافت اور خوش طبعی کا مادہ بھی بلا کا تھا۔ خواہ کیسا مضمون ہو وہ ہنسنے ہنسانے کا پہلا نکال لیا کرتے تھے۔ 1۔ فقیر سید وجیہ الدین مرحوم فرماتے ہیں: میرا طالب علمی کا زمانہ تھا کہ پہلی ہی ملاقات میں میں نے علاوہ اور باتوں کے حضرت علامہ سے یہ بھی کہہ دیا کہ انگلستان پہنچ کر لوگ اپنے نام فرنگیانہ بنالیتے ہیں آپ کو بھی چاہیے تھا کہ اپنا نام "A.K.Ball"رکھ لیتے۔ اقبال نے بلا تامل جواب دیا بھئی ہم نے تو ایسا نہیںکیا مگر تم جب ولایت جائو تو اس نسخے پر ضرور عمل کرنا اور اپنا نام "W.A.Heed"رکھ لینا۔ میں اس جواب سے لاجواب سا ہو گیا اور تھوڑی دیر کے بعد کسی بہانے سے وہاںسے کھسک آیا۔ (روزگار فقیر حصہ اول) ٭٭٭ 2۔ عبداللہ چغتائی سے علامہ اقبال کو بڑا لگائو تھا ۔ ان کی ملاقات کے منتطر رہتے اور ان کی باتیں سنتے اور محظوظ ہوتے ۔ ایک بار چغتائی صاحب عرصے کے بعد علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے علامہ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا: عبداللہ! اتنے دنوں سے کہاں تھے؟ چغتائی صاحب نے جواب دیا۔ ڈاکٹر صاحب کیا عرض کروں آج کل اس قدر مصروفیت رہتی ہے کہ فرصت ہی نہیں ملتی۔ اور فرصت ملتی ہے تو وقت نہیںملتا۔ علامہ نے جواب میں بے اختیار قہقہہ لگایا اور فرمایا۔ عبداللہ! آج تم نے وہ بات کہی ہے جو آئن سٹائن کے باپ کو بھی نہیں سوجھی ہو گی۔ آئن سٹائن یورپ کا بہت بڑا فلسفی گزرا ہے اور وقت (Time)کے اپنے فلسفے کی وجہ سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ ٭٭٭ 20۔ شاہد اور عزیز کے درمیان گفتگو شاہد اور عزیز گہرے دوست تھے۔ روزانہ شام کے وقت ملا کرتے ہیں اور اچھی اچھی باتیں کرتے ہیںَ کبھی شاعری پر بھی ملک کے حالات پر کبھی غالب اور حالی پر کبھی قائد اعظم اور پاکستان پر غرض اس طرح دونوں دوست ایک دوسرے کے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک ملاقات میں شاہد نے عزیز سے پوچھا کہ علامہ اقبال نے اتنے بڑے مفکر اور شاعر ہیں ان کا بچپن کیسا گزرا۔ عزیز نے شاہد کوتفصیل سے اقبال کے بچپن کے حالات سنائے ا سنے اپنے دوست کو بتایا کہ حالات تو بہت ہیں مگر وہ فی الحال چند خاص خاص باتیں ہی بیان کریں گے۔ اقبال نے اس زمانے کے عام رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم مکتب میں پائی۔ اس کے بعد وہ انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے۔ مکتب کی تعلیم کا یہ اثر ہوا کہ ان کا دینی رنگ ایسا پختہ ہو گیا کہ تعلیم جدید کے تمام درجے طے کر لینے اورفلسفے میں کمال حاصل کر لینے کے باوجو د بھی وہ بڑے پکے مسلمان رہے۔ اقبال کو پڑھنے کا شوق تھا۔ کلا س میں استاد جو کچھ پڑھاتا تھا وہ اسے بڑے غور سے سنتے اور اسی وقت یاد کر لیتے استا د ان کے ذہن کی تیزی اور علم حاصل کرنے کے شوق سے بہت خوش تھے۔ اور یہ ان کی محنت ذہن کی تیزی اور شوق سے پرھنے کا نتیجہ تھا کہ وہ ہر جماعت میں اول درجے میں کامیاب ہوئے وظیفہ پایا اور تمغے حاصل کیے۔ اقبال کو قرآن کی تلاوت کا بڑا شوق تھا۔ بڑے دلکش لہجے میں اونچی آواز میں ہر روز صبح کے وقت قرآن پڑھا کرتے تھے کہ جوسنتا اس کا جی یہی چاہتا تھا کہ بس سنتا ہی رہے۔ ان کے والد بھی بیٹے کو قرآن پڑھتے سنا کرتے۔ اور بہت خوش ہوتے ایک دن انہوںنے اقبال کو نصیحت کی کہ بیٹے! قران کی یہ سمجھ کر پڑھا کرو کہ تم پر نازل ہو رہا ہے یعنی خدا تم سے خطاب کر رہا ہے۔ اقبال نے اس نصیحت پر بڑی سختی سے عمل کیا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس دن سے قرآن پڑھنے میں کچھ اور ہی لطف آتاہے۔ اقبال بھی بچون کی طرح کھیلتے تھے مگر اول تو شریفانہ کھیل کھیلتے اور دوسرے شریف اور اچھے لڑکوں کے ساتھ کھیلتے۔ اور کھیلنے میں زیادہ وقت صرف نہیںکرتے تھے۔ زیادہ وقت وہ پڑھنے میں صرف کرتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی وہ کسی گہرے غور و فکر میں ایسے ڈوب جاتے کہ کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ یہ غوروفکراس بات کی ابتدا تھی کہ وہ آگے چل کر ایک بہت بڑے فلسفی اور مفکر بننے والے تھے۔ ایک دن بچپن میں انہوںنے کسی سائل کو لکڑی مار دی سائل ا ن کے دروازے سے کسی طرح ٹلتا ہی نہ تھا اس پر ان کو غصہ آ گیا او ر انہوں نے لکڑی سے اس زور سے مارا کہ وہ جو کچھ مانگ کر لایاتھا وہ بھی ہاتھ سے گر گیا۔ ا ن کے والد نے یہ بات دیکھکر اور ان کو بہت اس سے بڑا دکھ ہوا۔ اور نہایت درد بھرے الفاظ میں ان کو خدا اور رسولؐ سے ڈرایا۔ باپ کی باتوں کا اقبا ل پر ایسا اثر ہوا کہ اس دن کے بعد سے انہوںنے پھر کسی کو ایسی بات نہیں کہی جو اس کی دل آزاری کا سبب ہو۔ وہ غریبوں اور درویشوں سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ اقبا ل کی ذہانت کے بارے میںایک اور لطیفہ بھی مشہور ہے کہ کسی دن اتفاق سے وہ سکول دیر سے پہنچے تو ان کے استاد نے ان سے کہا: اقبال تم ہمیشہ دیر سے آتے ہو۔ اس پر اقبال نے فوراً جواب دیا کہ اقبال ہمیشہ دیر ہی سے آتا ہے۔ اقبال دیر سے نہیںآتے تھے۔ اتفاق سے کسی دن دیر ہو گئی تو استاد نے ان کی ذہانت آزمانے کے لیے خوش طبعی کے طور پر ایسا کہہ دیا تھا۔ اقبا ل کا یہ جواب سن کر استاد ان کی حاضر جوابی اور ذہانت سے بیحد خوش ہوا۔ اور اس نے سمجھ لیا کہ یہ لڑکا آگے چل کر ایک نام آور شخص بننے والا ہے۔ اقبال کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ وہ صبح بہت جلد سو کر اٹھتے تھے۔ فجر کی نماز پڑھتے اور اس کے بعد قرآن کی تلاوت کرتے‘ تلاوت سے فارغ ہو کر کسی قدر‘ ورزش کرتے اورناشتہ کر کے سکول چلے جاتے۔ صبح جلدی اٹھنے کی عادت ان میں ایسی پختہ ہو گئی تھی کہ جب وہ تین سال یورپ میں رہے تو وہاں بھی اس میں کوئی فرق نہ آیا۔ اپنی سحر خیزی کا انہوںنے جگہ جگہ اپنے کلام میںذکر کیا ہے۔ اور سحر خیزی کے فائدے بیان کیے ہیں۔ شاہد عزیز صاحب واقعی آپ نے اقبال کے بارے میں بڑی معلومات رکھتے ہیں آج آپ نے بڑی مفید معلومات سے نوازا ہے۔ خدا کرے ہماری نئی نسل بھی اقبال کے بچپن کے واقعات سے سبق حاصل کرے۔ اچھا یہ تو بتائیے کہ اقبال نے پاکستان کے قیام میں حصہ لیا ؟ عزیز صاحب یوں تو اقبال کے یورپ ے واپسی کے بعد کی تما م شاعری پاکستان کی تعمیر سے تعلق رکھتی ہے کہیں نوجوانوں کو نصحیت ہے کہ وہاپنے آپ کو پہچانیں کہ وہ کیا ہیں اور کہیں بوڑھوں کو توجہ دلائی ہے کہ وہ نئی نسل کی تربیت کی تعلیم و تربیت اس طرح کریں کہ وہ صحیںمعنی میں مسلمان ہو کر اپنے کھوئے ہوئے قومی مقام کو حاصل کر سکیں۔ چنانچہ ان کی سب سے پہلی فارسی کی کتابوں اسرار خودی اور رموز بے خودی کے پڑھنے سے ہمارے اس خیال کی تائید ہو جائے گی۔ مگر جب 1930ء میں انہوںنے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی جو الہ آباد میں ہوا تھا تو اپنے خطبہ صدارت میں صاف صاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ مسلمان ہندوئوں کی فرقہ پرسی کی وجہ سے ان کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔ اس لیے ان کو اپنی اکثریت کے صوبوں میں اپنی علیحدہ مملکت قائم کرنی چاہیے۔ چنانچہ علامہ اقبال کے اس خیال کی تکمیل قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھوں سے ہوئی اور 14اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشہ پرنمودا ر ہو گیا۔ شاہد بہت بہت شکریہ عزیز صاحب بڑا کرم فرمایا کسی دوسرے موقع پر پھر آپ کو تکلیف دوں گا ان شاء اللہ خدا حافظ! ٭٭٭ مشق الفاظ کے معنی یاد کرو: لفظ معنی لفظ معنی اقبالی اقبال کو ماننے والا نازل ہونا اترنا رواج قاعدہ شریفانہ شریفوں کا سا پختہ پکا سائل سوال کرنے والا بھکاری تلاوت قرآن پڑھنا عقیدت محبت لہجہ‘ لے لے‘ قرات برجستہ بے ساختہ ‘برمحل سحر خیزی صبح جلدی اٹھنا زحمت تکلیف ناقص خراب ‘ جس میں نقص ہو تکمیل پور ا ہونا 1۔ اقبال کے بچپن کے حالات میں سے کچھ واقعات اپنے الفاظ میں بیا ن کرو۔ 2 ۔ قرآن کی تلاوت کے بارے میں اقبال کے والد نے ان کو کیا نصیحت کی تھی؟ 3۔ کیا اقبال بچپن میں نہیںکھیلتے تھے؟ اگر کھیلتے تھے تو ان میں اور دوسرے لڑکوںمیں کیا فرق تھا؟ 4۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں کو پورا کرو: (الف) بھلا کون سا پڑھا لکھا مسلمان ہے جس کو اقبال سے … (ب) بھئی جب اقبال سے دلچسپی ہے تو ان کا … (ج) اقبال کو قرآن کی تلاوت کا … 5۔ نیچے دیے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میںاستعمال کرو۔ شریفانہ‘ اقبال مندی‘ سحر خیزی‘ زحمت‘ مطالعہ ٭٭٭ 21۔ اقبال کے خاص خاص اشعار اقبال کے وہ اشعار جو لوگوں کو زبانی یاد ہیں اوروہ بہت زیادہ پڑھے جاتے ہیں ان میں سے چند اشعار تم بھی یاد کر لو۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ٭٭٭ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ ٭٭٭ یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟ ٭٭٭ حرم پاک بھی‘ اللہ بھی ‘ قرآن بھی ایک کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟ ٭٭٭ کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ٭٭٭ باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا ٭٭٭ پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں گرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور ٭٭٭ کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری صدیوں سے رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا ٭٭٭ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن ٭٭٭ سلسلہ درسیات اقبال دوم 1۔ زندگی کے حالات اقبال کشمیری پنڈتوں کے ایک پرانے خاندان سے تعلق رکھتے تھے ڈھائی سو سال قبل ان کے بزرگوں میں ایک صاحب مسلمان ہو گئے تھے۔ بعد میں یہ خاندان راجائوں کے ظلم سے تنگ آ کر دوسرے بہت سے خاندانوں کی طرح کشمیر کو چھوڑ کر سیالکوٹ میں آباد ہوگیا۔ اقبال کے والد شیخ نور محمد بڑے نیک اور اللہ والے بزرگ تھے ۔ سیالکوٹ میں ان کا چھوٹا سا کاروبار تھا گو آمدنی قلیل تھی لیکن وہ اسی میں بڑے صبر و شکر کے ساتھ رہتیتھے ۔ اقبال سیالکوٹ میں 1877ء میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے قاعدے کے مطابق آپ نے مکتب سے تعلیم کا آغاز کیا۔ اس کے بعدانگریزی مدرسے میں داخل ہو گئے۔ پانچویں جماعت کاامتحان وظیفے سے پاس کیا۔مڈل اور انٹرنس کے امتحان میں بھی وظیفہ حاصل کیا۔ آپ شروع ہی سے ذہانت کا پیکر تھے۔ جب آپ سکاچ مشن کالج سیالکوٹ میں داخل ہوئے تو مولانا سید میر حسن مرحوم جیسے قابل اور مہربان استاد کی خاص توجہ اور تعیم و تربیت نے آپ کی ذاتی خوبیوں کو چمکانے میں اور ابھارنے میں بڑا کرادار ادا کیا۔ سیالکوٹ سے ایف اے پاس کرنے کے بعد اقبال لاہور آ گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور بی اے کے امتحان بھی شاندار طیرقے سے پاس کیا بلکہ عربی اور انگریزی کے مضامین میں امتیاز حاصل کرنے کے سبب دو سونے کے تمغے بھی حاصل کیے۔ اور وظیفہ بھی حاصل کیا۔ انہی دنوں آرنلڈ صاحب علی گڑھ کالج سے گورنمنٹ کالج لاہور آ گئے فلسفے میں کمال رکھنے کی وجہ سے آرنلڈ صاحب کی دنیا بھر میں شہرت تھی۔ اس شرت نے اقبال کو ان کا گرویدہ بنا دیا اورآرنلڈ صاحب بھی اقبال کی ذہانت اور فلسفیانہ دماغ کے قائل ہو گئے۔ اور اقبال کو بہت چاہنے لگے چنانچہ اقبال نے ایم اے بھی پاس کر لیا ارو ایک تمغہ بھی حاصل کیا۔ (ملازمت کا سلسلہ) ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال گورنمنٹ کالج میں لیکچرر ہو گئے۔ علامہ کالج کے اوقات کے علاوہ بھی طالب علموں کو اپنے مکان پر لے جایا کرتے اور پڑھایا کرتے تھے اس طرح جب تک آپ طالب علم رہے ایک نیک‘سعادت مند‘ ذہین اور مٰنتی طالب علم رہے اور جب استاد ہوئے تو ایک شفیق اور مہربان استاد ثابت ہوئے۔ (ولایت کاسفر) اقبال کو علم حاصل کرنے کا شوق حد سے زیادہ تھا۔ جب تک یہاں رہے تو بہت زیادہ کتابیں پڑھ کر اس شو ق کو پورا کرتے رہے۔ لیکن طبیعت بھری نہیض آخر 1905ء میں ولایت کا سفر کیا اور صرف علم کی خاطر ماں باپ بیوی بچوں دوسرے رشتہ داروں اور دوستووں سے ہزاروں میل دور کی جدائی اختیار کی ۔ ہفتوں اور مہینوں کے لیے نہیں بلکہ پورے تین سال کے لیے لندن کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفے کا امتحا ن پاس کرنے کے بعد جرمنی کی میونک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جرمنی سے واپس آ کر لند ن میں بیرسٹری کا امتحا ن پاس کیا۔ صرف 22-23ا ل کی عمر میں اس قدر ڈگریاں حاصل کرنا ور فارسی عربی سنسکرت کے علاوہ یورپ کی کئی زبانوں میںمہارت بہم پہنچانا اقبال جیسے شہ دماغ ہی کا کام تھا۔ آخر آپ 1908ء میں وطن واپس تشریف لے آئے۔ ٭٭٭ (اقبال کی شاعری) اقبال نے ایف اے کا امتحان مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کیا تھا اور شاعری کی ابتدا بھی وہیں سے کی تھی ۔ لیکن آپ کے شاعرانہ جوہر لاہور میں آ کر کھلے علم کی روشنی اور لاہور کی سوسائٹی نے طبیعت کو ایساچمکایا کہ ذرہ آفتاب بن گیا۔ آپ کی شاعری کا چرچا شروع شروع میں آپ کے ہم جمات طالب علموں تک ہی رہا۔ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد اس محدود حلقے سے نکل کر دور دور پہنچنے لگا۔ مرزا داغ دہلوی کی اس زمانے میں بڑی شہرت تھی ۔ لوگ خط و کتابت کے ذریعے ا ن کو اپنا کلام اصلاح کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ اقبال نے بھی ایسا ہی کیا مگر یہ اصلاح کا سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہا۔ کیونکہ خود داغ نے کچھ غزلیں دیکھنے کے بعد لکھ بھیا کہ آپ کے اشعار میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے۔ اس زمانہ تک اقبال غزلیں ہی کہتے رہے۔ چنانچہ آپ کے ابتدائی کلام یں زیادہ تر غزلیں ہی ملتی ہیں۔ لیکن یہ غزل گوئی زیادہ دنوں تک قائم نہ رہی آخر انہوں نے قوم کی توجہ کی اور قومی نظمیں لکھنا شروع کیں۔ 1899ء میں نالہ یتیم کے نام سے جو ایک نظم آپ نے انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں پڑھی اس نے آپ کی شاعری اور علمی شہرت کو ہندوستان کی ہر علمی سوسائٹی تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد انجمن کے ہر سالانہ جلسے کے لے اقبال کی نظم ضروری قرار پا گئی۔ اقبال نے وطن کی محبت کے جذبات سے بھرپور نظم ہمالہ کے نام سے لکھی۔ پھر ہندو مسلم اتحاد کے لیے کئی نظمں لکھیں ہندیترانہ لکھا ان تمام نظموں نے مردہ دلوں میں جان ڈال دی اور ہندو اور مسلمان دونوں ہی نے ا ن کو پسند کیا۔ 1910-11ء کا زمانہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بڑی پریشانی اور آزمائش کا زمانہ تھا۔ بلقان کی جنگ اور طرابلس کی لڑائیوں میں مسلمانوں کا خون بہہ رہا تھا اسلامی خلافت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھنے اور اسلام کا سیاسی اقدار مٹنے کو تھا جس نے ہر مسلمان کو تڑپا دیا تھا۔ ایسے میں اقبال کے دل میں یہ تیر کیسے نہ لگتا ان کے دل نے اس مصیبت کو سب سے زیادہ محسوس کیا نظمیں لکھیں سنائیں اور محفلوں میں شور و فغاں برپا کر دیا۔ اب وہ ترانہ ہندی کی بجائے ترانہ ملی لکھتے ہیں۔ چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا وہ وطنیت کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اب اقبا ل کے کلام کی شہرت دنیا بھر میں پ؛ھیل گئی خصوصاً اسلامی ملکوں میں ان کی نظموں کو بڑا قبول عام حاصل ہوا۔ (علالت اور وفات) اقبال کو کچھ عرصے سے گردے کی تکلیف تھی۔ علاج سے مرض کسی حد تک کم تو ہو گیا مگر پوری طرح دور نہیں ہوا تھا۔ جلد ہی اس درد کے دورے پڑنے لگے۔ موت سے کوئی چار سال پہلے گلا خڑاب ہونے سے آوازبیٹھ گئی۔ اس کے علاج کے لیے وہ بھوپال گئے کیونکہ وہاں بجلی کے ذریعے علاج کا بہت اچھا انتظا م تھا۔ اس علاج سے فائدہ ہو مگر بہت کم۔ وفات سے کوئی سال بھر پہلے ان کی آنکھوں میںموتیا اتر آیا۔ کچھ دنوں بعد سانس پھولنے لگی۔ اٹھ کے غسل خانے تک جانا مشکل تھا۔ دسمبر 1937 ء میں طبیعت زیادہ بگڑنے لگی۔ دل بہت کمزور ہو گیا۔ کندھوں میںبھی درد ہو جاتا۔ غرضکہ چار سال کی لمبی علالت کے بعدعلم و فضل کا یہ آفتاب 21اپریل 1938ء کو ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔ (الفاظ کے معنی) لفظ معنی لفظ معنی ذہانت ذہن کی تیزی اعزاز عزت‘مرتبہ تربیت دیکھ بھال کرنا‘ ادب سکھانا‘ تعلیم دینا جوہر کمال ہنر ‘ذاتی خوبی امتیاز یہاں فرق کے معنی ہیں اصلاح درستی گرویدہ بہت چاہنے والا اتحاد میل جول اوقات وقت کی جمع اقتدار حکومت‘ اختیار‘ طاقت علالت بیماری ٭٭٭ مشق 1۔ اقبال کے خاندان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہو بیان کرو؟ 2۔ اقبال کے والد کا کیا نام تھا؟ ان کا مختصر حال دوایک جملوں میںبیان کرو؟ 3۔ اقبال کے استادوں کے نام بتائو اورہرایک کا مختصر حال بھی بیان کرو؟ 4۔ اقبال کی شاعری میں اپنے استاد سے کس طرح سے اصلاح لیتے تھے؟ اور ان کے استاد نے ان کی غزلیں دیکھ کر ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی تھی؟ 5۔ اقبال یورپ کب گئے اور وہاں سے کب واپس آئے۔ یورپ میں انہوںنے کس یونیورسٹی میں تعلیم پائی؟ 6۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہ کو پر کرو: (الف) اقبال کشمیری پنڈتوں کے ایک…تعلق رکھتے تھے۔ (ب) اقبال نے شروع میں اس زمانے کے قاعدے کے مطابق …پڑھا۔ (ج) سیالکوٹ سے ایف ۔ اے پا س کرنے کے بعد اقبال…آ گئے۔ 7۔ ان جملوں کو صا ف صاف اپنی کاپی میں نقل کرو: (الف) اقبال کو علم حاصل کرنے کا شوق حد سے زیادہ تھا۔ (ب) اقبال کے شاعرانہ جوہر لاہور میں آ کر کھلے۔ (ج) انجمن حمایت اسلام لاہور کے ہر سالانہ جلسے میں اقبال کی نظم ضروری قرارپا گئی۔ ٭٭٭ 2۔ اقبال کی خاص خاص باتیں 1926ء میں اقبال نے دوستوںکے بار بار کہنے پر حامی بھر لی کہ وہ پنجاب کی مجلس قانون ساز کے انتخاب میں حصہ لیں گے۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو دو امیدواروں نے اپنے نام واپس لے لیے مگر تیسرا امیدار آخر تک جمارہا۔ لاہور کے ہرمحلے میں اقبال کے نیاز مندوں اور دوستوں نے جلسے کیے۔ شہر کی تمام برادریوں نے ان کی حمایت میں بیانات دیے۔ اور اشتہارات تقسیم کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اقبال بہت زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے اور 23نومبر 1928 ء کو ایم ایل سی بن گئے۔ دسمبر 1928ء کے آخری دنوںمیں اسلامیات پر لیکچر دینے کے لیے اقبال کو مدراس یونیورسٹی کی طرف سے دعوت دی گئی۔ آپ تشریف لے گئے اور تین دن وہاں قیام یا۔ مختلف انجمنوں نے سپاس نامے پیش کیے اور دعوتیں دیںَ مدراس بنگلور اور میسو کے تقریباً تمام انگریزی اردو اور دوسری زبانوں کے اخباروں نے اپنے اداریے لکھے۔ اقبال کے فوٹو شائع کیے اوران کو خوش آمدید کہا۔ اخبارا ت کے نمائندوں اور مذہب و فلسفہ کے بڑے بڑے عالموں نے ان سے مذہب فلسفہ‘ اور سیاسیات سے متعلق سوالات کیے۔ 9جنوری 1929کو جب اقبال بنگلور کے سٹیشن پر پہنچے تو ہزاروں آدمی ان کو دیکھنے کے لیے سٹیشن پر موجودتھے۔ یہاں بہت سی انجمنوں کی طرف سے ان کی خدمت میں سپاسنامے پیش کیے گئے۔ میسور میں انہیں مہاراجہی کا دعوت نامہ ملا وہ حکومت کے مہمان ہیں۔چنانچہ انہوںنے 10جنوری کوسرکاری مہمان خانے میں قیام کیا میسور یونیورسٹی میں ان کے لیکچروں کا انتظا م کیا گیا۔ دوسرے دن میسور کے مسلمانوں نے ا ن کو خوش آمدید کہا۔ اور سپاسنامہ پیش کیا۔ میسور بنگلور سرنگاپٹم اور دوسرے مقامات دیکھنے کے بعد وہ 14جنوری کو حیدر آباد پہنچے جہاں سٹیشن پر مسلمان بچے ایک قطار میں کھڑے جو ان کا کہا ہوا قومی ترانہ چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا بڑی دلکش آواز میں گارہے تھے۔ اسٹیشن پر عوام کے ساتھ ساتھ عثمانیہ یونیورسٹی کے استاد اور دوسرے لوگ بھی موجود تھے۔ آپ نے حکومت کے مہمان کی حیثیت سے سرکاری مہمان خانے میں قیام کیا۔ 18جنوری کی صبح کو 11بجے وہ اعلیٰ حضرت حضور نظام سے ملے۔ حیدر آباد اورمدراس کے اخباروں نے ان کی علمی فضیلت پر مضامین شائع کیے اور بعض نے اقبال نمبربھی نکالے۔ دسمبر 1930ء میں آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلا س کی صدارت فرمائی اور اس موقعے پر اپنے صدارتی خطبے میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ اقبال کا یہی وہ خوا ب تھا جس کی تعبیر بعدمیں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ہاتھوں ہوئی۔ اور 1947ء میںپاکستان وجود میں آ گیا۔ اقبال دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے جو لندن میں 1931ء میں ہوئی اور کانفرنس سے فارغ ہو کر لندن سے فلسطین پہنچے جہاں آپ کو موتمر اسلامی میں ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے بلایا گیا تھا۔ تیسری گول میز کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد اقبال پیرس تشریف لے گئے جہاں علمی حلقوں کے علاوہ انہوںنے فرانس کے مشہور فلسفی برگسان سے بھی ملاقات کی اور ان دونوں فلسفیوں کے درمیان نہایت ہی اہم علمی مسائل پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد اقبال نے ہسپانیہ کا سفرکیا۔ میڈرڈ یونیورسٹی کے منتظمین نے ان سے درخواست کی کہ ہسپانیہ اورعالم اسلام کا ذہنی ارتقاء کے موضو ع پر لیکچر دیں۔ علامہ کا لیکچر بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر پروفیسر آسین نے اقبال کی تعریف کا حق ادا کر دیا۔ ا س سفر میں اقبال مسجد قرطبہ دیکھنے بھی گئے اور اس مسجد سے تعلق اپنے خیالات ایک نظم میں پیش کیے جو ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے عنوان سے ان کی کتاب با ل جبریل میں موجود ہے۔ اور ان کی بہترین نظموں میںشمارہوتی ہے۔ ہسپانیہ سے وہ اٹلی تشریف لے گئے۔ یہاں بھی علمی حلقوں سے ان کا بڑی گر م جوشی سے استقبال کیا۔ ڈاکتر اسکاراپ نے نے ہندوستان میںاٹلی کے سفیر رہ چکے تھے اور اقبال کے بڑے مداح تھے کئی استقبالی تقریبوں کا انتظام کیا۔ اس کے علاوہ اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی نے خود ملاقات کی خواہش کر کے اقبال کو مدعو کیا۔ اور اقبال اس سے مل کر ان کی شخصیت سے بہت متاثرہوا۔ چنانچہ اپنے ان خیالات کو جس اس سے ملنے کے بعد اقبال کے دل میں پیدا ہوئے انہوں نے ایک نظم میںپیش کیا ہے جو مسولینی کے عنوان سے بال جبریل میں شامل ہے۔ 1932ء میں اقبال نے آل انڈیامسلم کانفرنس کے عام اجلاس کی صدارت کی اس کانفرنس میں اقبال نے جوصدارتی خطبہ پڑھا وہ بہت اہم تھا۔ اس میں انہوںنے گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کے وفد کی کارگزاری سنائی اور گاندھی جی مالوجی اور ہندویوں اور سکھوں کے دوسرے رہنمائوں کے ضدی رویے کی تفصیل کے ساتھ پیش کیا اور صوبہ سرحد عبدالغفار خاں مسئلہ کشمیر ہندو مسلم فسادات‘ اقلیتوں کے اندیشوں اور دوسرے مسائل کے بارے میں نہایت گہرے اور دورس خیالات کا اظہار کیا۔ ماہ ستمبر 1933 ء میں افغانستان کے بادشاہ ‘ اعلیٰ حضرت محمد نادر شاہ کی طرف سے علامہ اقبال سید سلیمان ندوی اورسر راس مسعود کو دعوت نامہ ملا کہ یہ حضرات چند روز کے لیے افغانستان تشریف لائیں اورافغانستان کے وزیر تعلیم کو کابل میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے اور تعلیمات کو جدید اصولوں کے مطابق درست کرنے کے بارے میں مشورہ دیں۔ چنانچہ تینوں حضرات اکتوبر کے آخری ہفتے میں کابل پہنچ گئے۔ وہاں شاہی مہمان رہے۔ اعلیٰ حضرت نادر شاہ سے ملاقات ہوئی اور افغانستان کے دوسرے امیروں‘ وزیروں اور کابل کے معزز لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ انجمن ادبی کابل نے افغانستا ن کے ادیبوں اور دانشوروں کے ایک شاندار جلسے میں معزز مہمانوں کو سپاسنامہ پیش کیا۔ تین ہفتے کے قریب وہاں قیام کرنے کے بعد اقبال غزنی اور قندھا ر روانہ ہو گئے ۔ غزنی میںسلطان محمود غزنوی حکیم سنائی اور حضرت گنج بخشؒ کے والد کے مزارات پر فاتحہ پڑھی۔ پھر قندھار پہنچ کر خرقہ شریف کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ اور قندھار سے 2نومبر کو صبح وطن واپس آنے کے لیے چل پڑے۔ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی حمایت طرف داری‘مدد مسائل باتیں تصور خیال ذہنی ارتقاء ذہنی ترقی وجود میں آ گیا بن گیا تعریف کا حق ادا کر دیا خوب تعریف کی گرم جوشی جوش اورمحبت مداح تعریف کرنے والا ٭٭٭ مشق اقبال کی زندگی کے بارے میں نیچے لکھے ہوئے سوالوں کا جواب دو: (الف) اقبال نے کس انتخاب میں حصہ لیا؟ انتخاب کا نتیجہ کیا نکلا؟ (ب) اقبال کومدراس یونیورسٹی نے کس لیے بلایا تھا؟ وہ اس سفر میں کہاں کہاں گئے؟ (ج) اقبال تیسری گو ل میز کانفرنس میں لندن کے علاوہ کہاں کہاں گئے؟ اور انہوںنے کس کس بڑے آدمی سے ملاقات کی؟ (د) ’’مسجد قرطبہ‘‘ کے دیکھنے کے بعد اقبال پر اس کا کیا اثر ہوا؟ 2۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہ کوپر کرو: (الف) پاکستان کا تصور…دیا۔ (ب) اقبال کا یہی وہ خواب تھا جس کی تعبیر بعد میں… ہاتھوں ہوئی۔ (ج) مسولینی نے خود ملاقات کی خواہش کر کے… مدعو کیا۔ 3۔ ذیل کے لفظوں کو اپنے جملوں میںاستعمال کرو: تصور۔ حمایت۔ کامیاب۔ مدعو۔ استقبال ٭٭٭ 3۔ بچے کی دعا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب ہر مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو ‘ اس رہ پہ چلانا مجھ کو ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی صورت طرح‘ مانند‘ مثال زینت رونق ‘خوبصورتی چمکنا روشنی پھیلانا حمایت مدد‘ طرفداری میرے چمکنے سے میرے علم کی روشنی سے ضعیف کمزور نظم کا مقصد یہ بتایا ہے کہ بچے کی دعا کیا ہونی چاہیے۔ وہزیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے علم حاصل کر کے اپنے علم کی روشنی سے دنیا سے جہالت اور برائیوں کے اندھیرے دور کرے‘ اور اچھے کام کر کے اپنے ملک کی عزت اور رونق کا سبب بنے۔ اور غریبوں کی مدد کرے مصیبت زدوں کمزوروں کے کا م آئے۔ برائیوں سے خود بھی دور رہے اور اچھے کام کرے اور سیدھے راستے پر چلے۔ مشق 1۔ بچے نے اپنی دعا میں کس چیز کی تمنا کی ہے؟ 2۔ دنیا کا اندھیرا کس طر ح دور ہوتا ہے؟ ٭٭٭ 3 ۔ خالی جگہوں میں لفظ لکھ کر نیچے لکھے ہوئے مصرعوں کو پورا کرو۔ (الف) لب پہ آتی ہے…تمنا میری۔ (ب) دور دنیا کا…اندھیرا ہو جائے۔ (ج) جس طر ح پھول سے ہوتی ہے…زینت۔ (د) میرے اللہ!… بچانا مجھ کو۔ ٭٭٭ 4۔ جملے بنائو اور ان میں نیچے دیے ہوئے الفاظ استعمال کرو۔ میرے دم سے۔ غریبوں کی حمایت۔ علم کی روشنی 4۔ ایک پہاڑ اور گلہری کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے ذرا سی چیز ہے اس پر غرور کیا کہنا یہ عقل اور یہ سمجھ‘ یہ شعور کیا کہنا خدا کی شان ہے نا چیز‘ چیز بن بیٹھیں جو بے شعور ہو باتمیز بن بیٹھیں تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ نصیب کہاں! بھلا پہاڑ کہاں! جانور غریب کہاں! کہا یہ سن کے گلہری نے منہ ذرا سنبھال یہ کچی باتیں ہیں‘ دل سے انہیں نکال ذرا جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا نہیں ہے تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے کوئی بڑا کوئی چھوٹا‘ یہ اس کی حکمت ہے بڑا جہان میں تجھ کو بنادیا اس نے مجھے درخٹ پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے قدم اٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ کو نری بڑائی ہے! خوبی ہے اور کیا تجھ میں جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کردکھا مجھ کو نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی بے شعور بے وقوف‘ بے عقل بساط حیثیت باتمیز سلیقے والا‘ تمیز والا نری صرف ‘ محض کچی باتیں بودی باتیں‘ بیکار باتیں نکمی ناکارہ‘ بیکار نظم کا مقصد نظم کا مقصد نظم کے آخری شعر میں اقبال نے خود بتا دیا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز بیکار نہیں ہے۔ دنیا قدرت کا کارخانہ ہے‘ قدرت کے کارخانے میں کوئی چیز بری کیسے ہو سکتی ہے ؟ خدا کا ہر کام حکمت سے ہوتا ہے۔ ا س لیے سمجھنا چاہیے کہ اس نے ہر چیز کو کسی نہ کسی مقصد سے پیدا کیا ہے۔ نظم کو پڑھ کر یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح گلہری نے پہاڑ سے بات کی یہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اپنے آپ کو اور دنیا کو پہچانتے ہیں۔ اس لیے اپنے آ پ کو اور دنیا کو پیچاننے اور سمججھنے کی ضرورت ہے تاکہ آدمی کو اپنی اور اس دنیا کی قدر و منزلت معلوم ہو۔ ورنہ جو لوگ اپنے آپ کو نہیں پہچانتے وہ ہر شاندار چیز کے آگے سر جھکا دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو ہیچ سمجھ لیتے ہیں۔ مشق 1۔ کیا کوئی چیز دنیا میں بیکار ہے؟ نہیں ہے تو ا س کا کیا سبب ہے؟ 2۔ گلہری اور پہاڑ کی گفتگو اپنے لفظوں میں لکھو؟ 3 خالی جگہوں کو پر کرو: (۱) کوئی پہاڑ …یہ کہتا تھا۔ (۲) میری آن بان کے آگے…پست ہے۔ (۳) تو بھی تو آخر میری طرح …نہیں ہے۔ (۴) تجھ میں نری بڑائی ہے اور کیا…ہے۔ 4 ۔ ا س نظم سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ ٭٭٭ 5۔ سلطان مراد اور معمار ملک خجند 1؎ میں ایک معمار تھا جو فن تعمیر میں بڑا مشہور تھا۔ اس معمارنے سلطان مراد کے حکم سے ایک مسجد بنائی۔ مگر بادشاہ کو ا س کاکام پسند نہ آیا۔ اور اس کے اس قصور پر کہ مسجد کی اس کو خواہش کے مطابق نہیں بنا سکا بادشاہ ایسا غضب ناک ہوا کہ اس بیچارے کا ہاتھ کٹوا دیا۔ معمار اسی حالت میں قاضی کے پاس گیا اور اس کوبادشاہ کے ظلم کی داستان سنائی اور فریاد کہ کہ محمد مصطفیٰؐ کے آئین کی حفاظت کرنا آپ کا کام ہے میں بادشاہ کا غلام نہیں ہوں(اگر غلط کہتاہوں تو) میرے دعوے کو قرآن سے غلط ثابت کیجیے۔ قاضی کو بڑا افسوس ہوا۔ بادشاہ کے حاضر ہونے کا حکم جاری کر دیا۔ بادشاہ کے پاس قاضی کا حکم پہنچا تو قرآن کے ڈر سے اس کا رنگ زرد ہو گیا۔ اور مجرموں کی طرح حاضر ہو گیا۔ وہ شرم سے سر جھکائے ہوئے تھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اب ایک طرف وہ معمار تھا اور دوسری طرف بادشاہ بادشاہ نے کہا کہ میں اپنے کیے پر نادم ہوں اور اپنے جرم کا اقرار کرتا ہوں قاضی نے کہا کہ خدا کا حکم ہے کہ قصاص (بدلے) میں زندگی ہے اگر ظالم سے بدلہ نہ لیاجائے تو کسی کی زندگی محفوظ نہیں رہ سکتی‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ ترکستان کا ایک شہر ہے جس کو روس نے 1866ء میں فتح کیا تھا۔ اس وقت اس میں تاجل قبیلے کے ترک آباد تھے ۔ تو قند سے 75میل کے فاصلے پر ہے۔ مسلمانو ں کے عہد حکومت میں علم و فن کا مرکز تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب مراد نے قرآن کی یہ آیت سنی تو آستین سے اپنا ہاتھ باہر نکال دیا۔ یہ دیکھ کر معمار چپ نہ رہ سکا اس نے قرآن کی آیت پڑھی۔ ان اللہ یامرکم بالعدل والاحسان (اللہ تم کو عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے) اور کہا میںنے بادشاہ کو خدا اور رسولؐ کے لیے معاف کیا۔ اقبال فرماتے ہیں کہ دیکھا! یہ ہے پیغمبر کے آئین کا دبدبہ کہ چیونٹی کو سلیمان پر فتح حاصل ہوگئی یعنی معمار بادشاہ کے مقابلے میں کامیاب ہو گیا۔ قرآن کے آگے غلام اور آقا برابر ہیں۔ اور فقیر کے بوریے اور بادشاہ کے تخت میں کوئی فرق نہیں۔ ٭٭٭ مشق 1۔ سلطان مراد نے معمار کا ہاتھ کیوں کٹوایا؟ 2 ۔ ہاتھ کٹنے کے بعد معمار نے کیا کیا؟ 3۔ نیچے لکھے ہوئے ادھورے جملوں کو پورا کرو: (الف) ملک خنجند میں ایک … (ب) معمار کے ہاتھ سے خون… (ج) میرے اس دعوے کو قرآن سے… 4۔ بادشاہ نے جب اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو قاضی نے کیا کہا؟ 5۔ جب بادشاہ نے اپنا ہاتھ آستین سے باہر نکالا تاکہ بدلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے تو معمار نے کیا کہا؟ ٭٭٭ اقبال نے اپنی کتاب رموز بے خودی میں کئی حکایتیں اس غرض سے لکھی ہیں کہ اسلام نے جو آزادی مساوات اور بھائی چارے کی تعلیم دی ہے ۔ اس کو تاریخٰ واقعات سے ثابت کیا جائے۔ یہ حکایت انہی حکایتوں میں سے ایک ہے۔ ’’رموز بے خودی‘‘ فارسی زبان میں ہے ہم نے حکایت کا اردو میں ترجمہ کر لیا ہے۔ ٭٭٭ 6۔ ہمدردی ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بلبل تھا کوئی اداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اڑنے چگنے میں دن گزارا پہنچوں کس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سن کر بلبل کی آہ و زاری جگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے کیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری میں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے ٭٭٭ (الفاظ کے معنی) لفظ معنی لفظ معنی ٹہنی شاخ آشیاں گھونسلا‘ گھر اداس رنجیدہ آہ و زاری رونا جھینکنا نظم کا مقصد آخری شعر میں خود اقبال نے بتا دیا ہے کہ دنیا میں اچھے لوگ وہ ہیں جو دوسروں کے کام آتے ہیں۔ اس نظم سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ میں تو معمولی آدمی ہوں کسی کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق جو مدد بھی آپ کر سکتے ہیں اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ مشق 1۔ ان لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کرو: اداس۔ آہ و زاری۔ شجر ۔ دیا 2۔ نیچے لکھے ہوئے شعر کو زبانی یاد کر لو۔ ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے آتے ہیں جو کام دوسروں کے 3۔ اس شعر کو اپنی کاپی میں صاف صاف اور خوشخط نقل کرو۔ ٭٭٭ 7۔ پرندے کی فریاد آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی اپنی خوشی سے آنا‘ اپنی خوشی سے جانا لگتی ہے چوٹ دل ؤپر آتا ہے یاد جس دم شبنم کے آنسوئوں پر کلیوں کا مسکرانا وہ پیاری پیاری صورت وہ کامنی سی مورت آباد جس کے دم سے تھا میرا آشیانہ آتی نہیں صدائیں اس کی مرے قفس میں ہوئی مری رہائی اے کاش! میرے بس میں کیا بدنصیب ہوں میں گھر کو ترس رہا ہوں ساتھی تو ہیں وطن میں میں قید میں پڑا ہوں آئی بہار‘ کلیاں پھولوں کی ہنس رہی ہیں میں اس اندھیرے گھر میں قسمت کو رو رہا ہوں اس قید کا الٰہی دکھڑا کسے سنائوں؟ ڈر ہے یہیں قفس میں میں گم سے مر نہ جائوں جب سے چمن چھٹا ہے یہ حال ہو گیا ہے دل غم کو کھا رہا ہے غم دل کو کھا رہا ہے گانا اسے سمجھ کو خوش ہوں نہ سننے والے دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے آزاد مجھ کو کر دے ‘ او قید کرنے والے میں بے زباں ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی شبنم کے آنسو اوس کے قطرے بس طاقت‘ قابو‘ اختیار کامنی خوبصورت‘ نرم و نازک کلیاں ہنس رہی ہیں کلیاں کھل رہی ہیں صدائیں آوازیں دکھڑا دکھ اے کاش کیا اچھا ہوتا نظم کا مقصد اقبال کہتے ہیں کہ ہر جاندار کو اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ اس کی‘ فطرت کے عین مطابق ہے۔ آزادی بڑی نعمت ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ آزادی کا ایک دن غلامی کے سو سال سے بہتر ہے۔ وطن کی قدر اس وقت ہوتی ہے جس وطن چھوٹ جاتا ہے اسی طرح آزادی کی قدر اس وقت ہوتی ہے جس کوئی قید میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ آرام کی قدر اس کومعلوم ہوتی ہے جو مصیبت میں گرفتار ہوا ہو۔ لہٰذ ا پرندے کی فریاد سے سبق لیتے ہوئے ہمیں وطن‘ آزادی اور خدا کے بخشے ہوئے آرام و آسائش کی قدرکرنی چاہیے۔ مشق 1۔ ہمیں پرندے کی فریاد سے کیا سبق ملتا ہے؟ 2۔ خالی جگہوں میں لفظ لکھ کر نیچے لکھے ہوئے مصرعوںکو پورا کرو۔ (ا) آتا ہے یاد مجھ کو…زمانہ۔ (ب) آباد جس کے دم سے …آشیانہ۔ (ج) دکھے ہوئے دلوں کی… صدا ہے۔ 3 ۔ نیچے دیے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کرو۔ دکھڑا۔ بس۔ شبنم۔ کلیاں۔ ٭٭٭ 8۔ حکایت شیر اور شہنشاہ حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ جن کی وجہ سے برصغیر میں مسلمانوں کے وقار میں اضافہ ہوا۔ اور شریعت اسلامیہ کا احترام بڑھا ا س نے تلوار نے بے دینی کا خاتمہ کیا اور نیکی کی شمع روشن کی اورنگ زیب ایک دن صبح سویرے جنگل کی سیر کو نکلے۔ صرف ایک وفادار نوکر ساتھ تھا۔ نماز کا وقت ہوا تو نماز میں محو ہو گئے۔ اتنے میں ایک شیر نمودار ہوا جس کی آواز سے زمین لرزتی تھی۔ وہ انسان کی بو پا کر شہنشاہ کی طرف جھپٹا اور حملہ کرنے ہی کو تھا کہ شہنشاہ نے نما ز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھے بغیر تلوار نکالی اور اس زور سے شیر پر ماری کہ اس کا پیٹ چاک ہو گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کا شیر قالین کا شیر بن گیا۔ اور شہنشاہ نماز میں پھر محو ہو گئے اور ان کی نماز حضور دل سے ہونے کی وجہ سے مومن کی معراج تھی۔ اقبال فرماتے ہیں کہ مومن کے سینے میں ایسا ہی دل ہوا ہے کہ انے مولاکے آگے ہیچ اور باطل کے مقابلے میں سب کچھ۔ اللہ کا خوف ایمان کی نشانی ہے اور اللہ کے سوا کسی اور کا خوف شرک کی دلیل ہے۔ 1۔ یہ حکایت ہم نے اقبال کی کتاب رموز بے خودی سے لی ہے اور اس کا فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔ اس حکایت کے ذریعے اقبا ل نے یہ بتایا ہے کہ جس دل میں ایمان ہو اس میں خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ اس حکایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیرؒ شہنشاہ ہوتے ہوئے نماز کے کیسے پابند تھے۔ اور پھر ان کی نماز بھی وہ ہوتی تھی جس کو مسلمان کی معراج کہا گیا ہے۔ مشق 2۔ شہنشاہ عالمگیرؒشیر سے بالکل نہیں ڈرے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ 3۔ نیچے لکھے ہوئے ادھورے جملوں کو پورا کرو: (الف) اورنگ زیب عالمگیر نے دین کی… (ب) شہنشاہ پھر نماز میں… (ج) اللہ کا خوف ایمان کی… الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی برصغیر پاکستان اور ہندوستان مل کر برصغیر کہلاتا ہے۔ محو ہو گیا مگن ہو گیا‘ مصروف ہو گیا احترام عزت حضور دل دل کی حاضری‘ نماز پڑھتے وقت ادھر ادھر خیالات میں محو ہونے کی بجائے خدا کی طرف متوجہ رہے اس کو حضور دل کہتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ اسلامی قانون نمودار ہوا ظاہر ہوا قالین کا شیر قالین کی بناوٹ میں جو شیر بنا دیتے ہیں معراج یہاں حضوری کی کیفیت مراد ہے۔ 9۔ مرید ہندی اور پیر رومی مولانا جلال الدین رومیؒ فارسی کے بہت بڑے صوفی شاعر تھے۔ ان کی مثنوی ایک مشہور کتا ہے جس میں انہوں نے نیکی اور دین کی باتیں ا س انداز سے بیا ن کی ہیں کہ جو سنتا ہے اثر قبول کرتاہے۔ اقبال کو مولنا رومیؓ سے بڑی عقیدت تھی۔ وہ اپنے آپ کو رومیؒ کا مرید کہا کرتے تھے۔ چنانچہ اپنے آپ کو مرید اور رومی کو پیر قرار دے کر انہوںنے عالم خیال میں مولانا سے کچھ نہایت مفید سوالات کیے ہیں۔ ہم انمیں سے چند ایک سوالات اور ان کے جوابات یہاں نقل کر رہے ہیں۔ یہ سبق اقبال کی کتاب ’’بال جبریل‘ ‘ سے لیا گیا ہے۔ مرید ہندی موجودہ تعلیم کی وجہ سے دین کی جو حالت ہے‘ دیکھنے والی آنکھ اس پر خون کے آنسو روتی ہے۔ پیر رومی جو کوئی علم سے تن کے پالنے عیش کرنے اور نفس کی خواہش پورا کرنے کا کام لے گا اس کے حق میں علم سانپ بن جائے گا۔ اورجو علم سے اپنے نفس کی اصلاح کا کام لے گا اور اس کے ذریعے روح کی پاکیزگی اور دل کی صفائی حاصل کرے گا وہ اس کے لیے ایک وفادار دوست ثابت ہو گا۔ یعنی علم بری چیز نہیں ہے۔ ہم اپنے غلط استعمال سے اس کو بدنام کرتے ہیں۔ ہم کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال پیدا کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ دین کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے تاکہ علم حاضرہ کا صحیح استعمال کر سکیں۔ ٭٭٭ مرید ہندی اے پیر! میں نے مشرقی و مغرب کے علوم حاصل کر یے مگر روح کو چین نصیب نہ ہو سکا۔ پیر رومی جو شخص ہر کس و ناکس کو حکیم سمجھ کر اپنی نبض اس کے ہاتھ میں دے دیتا ہے وہ بیمارہی رہتا ہے۔ ایسی صورت میں چین اور اطمینان کیسے نصیب ہو سکتا ہے تم کو ماں کی طرف سے رجوع کرنا چاہے۔ تمہاری غمخواری اور تمہاری علاج وہی کرے گی‘ یعنی قرآن سے ہدایت حاصل کرو۔ تمام اخلاقی بیماریوں کا علاج اس میں موجود ہے۔ ہر شخص کو اپنا رہنما بنا لینا ہر شخص کی باتوں پر عمل کر گزرنا ایسے ہی نتیجے پیدا کرتا ہے جیسے تم دیکھ رہے ہو۔ مرید ہندی آہ! مدرسے کے نوجوان پر مغربی خیالات کے جادو نے کیا اثر کیا ہے کہ وہ بے بس ہو کر رہ گیا ہے! پیر رومی ایسا ہونا لازمی بات ہے۔ کیونکہ وہ پرندہ جس کے ابھی پر نہیں اگے ہیں اڑنے کی کوشش کرے گا تو پھاڑ کھانے والی بلی اس کو اپنا لقمہ بنانے کی کوشش کرے گی۔ پہلے اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دے کر ان کے دل پر دین کا رنگ جمائو۔ اس کے بعد اگر وہ انگریزی پڑھیں گے سائنس و ٹیکنالوجی میں کمال پیدا کرنا چاہیں گے تو وہ جدید علوم سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کے قابل ہو سکیںگے۔ مرید ہندی اے پیر! آپ کی باتوں سے مشرق زندہ ہے۔ یہ تو فرمائیے کہ قومیں کس مرض سے ہلاک ہوئی ہیں؟ پیر رومی پچھلی قوموں کے ہلاک ہونے کا سبب یہ ہے کہ انہوںنے جندل کو عود سمجھ لیا بدی کو نیکی بدخواہ کو خیر خواہ قرار دے لیا۔ یعنی قومیں اچھے برے کی تمیز سے محروم ہوجانے کی وجہ سے ہلاک ہوتی ہیں۔ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی مثنوی ایک قسم کی نظم ماں یاں اس سے قرآن مراد ہے کیونکہ قرآن کا ایک نام ام الکتاب کتابوں کی ماں بھی ہے عقیدت محبت ہلاک ہونا مرنا اصلاح درستی مشرق و مغرب ایشیا اور یورپ جندل ایک قسم کا پتھر عود ایک خوشبو دار لکڑی ٭٭٭ مشق 1۔ مولانا رومی کون تھے؟ دو ایک جملوں میں ان کی تعریف کرو۔ 2۔ رومی نے قوموں کی ہلاکت کا کیا سبب بتایا ہے؟ 3۔ مرید ہند کون ہے؟ دو ایک جملوں میں ان کی تعریف کرو۔ 4۔ نیچے لکھے ہوئے الفاظ کو اپنے جملوں میںاستعمال کرو۔ عقیدت۔ اصلاح۔ ہلاک کرنا 5۔ نیچے کے جملوں میں خالی جگہ کو پر کرو۔ (الف) مولانا رومیؒ فارسی زبان کے بہت بڑے…ہوئے ہیں۔ (ب) اقبال کو مولانا رومی سے بڑی …تھی۔ (ج) جو کوئی علم سے اپنے نفس کی اصلاح کرے گا اس کے لیے علم …ہو گا۔ ٭٭٭ 10 ۔ چاند اور تارے ڈرتے ڈرتے دم سحر سے تارے کہنے لگے فلک سے نظارے وہی رہے فلک پر ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر کام اپنا ہے صبح و شام چلنا چلنا چلنا‘ مدام چلنا بیتاب ہے اس جہاں کی ہر شے کہتے ہیں جسے سکوں نہیں ہے رہتے ہیں ستم کش سفر سب تارے‘ انسان‘ شجر ‘ حجر‘ سب ہو گا کبھی ختم یہ سفر کیا؟ منزل کبھی آئے گی نظر کیا؟ کہنے لگا چاند‘ ہم نشینو! اے مزرع شب کے خوشہ چینو! جنبش میںہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی ہے دوڑتا اشہب زمانہ کھا کھا کے طلب کا تازیانہ اس راہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں انجام ہے اس خرام کا حسن آغاز ہے عشق‘ انتہا حسن ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی دم سحر صبح کا وقت خوشہ چین بالیاں چننے والا۔ فائدہ اٹھانے والا قمر چاند طلب تمنا‘ خواہش نظارے تماشے تازیانہ کوڑا ‘ طلب او رتمنا ہی سے دنیا ترقی کرتی ہے حجر پتھر مقام جگہ ہم نشیں ساتھی بے محل بے موقع ‘ نامناسب مزرع شب رات کی کھیتی اجل موت نظم کا مقصد اقبال کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز حرکت میں ہے۔ شجر و حجر چرند پرند تارے انسان اور حیوان غرض زندگی اورا سے سے متعلق ہر شے مسلسل حرکت میں ہے۔ جو چلتے ہیں وہی منزل پاتے ہیں۔ اور جو حرکت اور کوشش ترک کر کے آرام سے بیٹھ رہتے ہیں وہ ترقی سے محروم رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگ زندہ نہیںکہلاتے۔ اسی طرح قوموں کا حال ہے۔ جو قومیں محنت و مشقت اورکوشش کرتی ہیں ترقی کی دوڑ میں وہی آگے رہتی ہیں اور ایسی ہی قومیں زندہ قومیں کہلاتی ہیں۔ علامہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ حرکت اور کوشش کے لیے دل میں طلب کا ہونا ضروری ہے اگر دل میں طلب اور آرزو باقی نہیں رہی تو ایسے دل کو مردہ کہتے ہیں ۔ اورمردہ دل کوئی کام نہیں کر سکتا۔ ٭٭٭ مشق 1۔ زمانے کا گھوڑا تازیانہ کھا کر دوڑتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ 2 ۔ ایک شخص اور ایک قوم کی ترقی کس بات پر موقوف ہے؟ 3۔ اس نظم کو اپنی عبارت میں لکھو۔ 4۔ خالی جگہ میں الفاظ لکھ کر نیچے لکھے ہوئے مصرعوں کو پورا کرو۔ (الف) کام اپنا ہے… چلنا۔ (ب) ہو گا کبھی ختم…کیا؟ (ج) کھا کھا کے …تازیانہ۔ 11۔ ترانہ ہندی سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں سمجھو ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا پربت وہ سب سے اونچا ہمسایہ آسماں کا وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا گودی میں کھیلتی ہیں اس کی ہزاروں ندیاں گلشن ہے جن کے دم سے رشک جناں ہمارا اے آب رود گنگا وہ دن ہیںیاد تجھ کو اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم‘ وطن ہے ہندوستاں ہمارا کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیںہماری صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا اقبال! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی غربت پردیس بیر دشمنی پربت پہاڑ محرم رازداں‘ بھید رشک جناں جنت سے بہتر جس پر جنت کو بھی رشک آئے درد پنہاں پوشیدہ تکلیف‘ درد کارواں قافلہ 1۔ یہ ترانہ اقبال نے 1904ء میں لکھا تھا۔ اور یہ وہ زمانہ تھا جب وہ ایک مخلص وطن دوست تھے۔ اور ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے ۔ لیکن بعد میں انہوں نے’ترانہ ہندی‘‘ کے مقابلے میں ترانہ ملی لکھا۔ کیوں کہ ان کومعلوم ہو گیا کہ ہندو سے بڑا کوئی فرقہ پرست نہیں اور اس کے ساتھ کسی طرح کا اتحاد ممکن نہیں۔ مشق 2 ْ۔ اقبال نے ترانہ ہندی کب اور کیوں لکھا تھا؟ 3۔ نیچے لکھے ہوئے الفاظ کواپنے جملوں میں استعمال کرو۔ غربت۔ رشک جنان۔ بیر۔ محرم۔ درد نہاں 4۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں کو پورا کرو۔ (الف) ہمارا ہندوستاں سارے جہاں سے… (ب) جب تیرے کنارے ہمارا کارواں… (ج) مذہب… آپس میں بیر رکھنا۔ ٭٭٭ 12۔ ایک تاریخی واقعہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ تم میں جو مال دار ہو وہ انے مال میں سے کچھ خدا کی راہ میں بھی دیں۔ یہ ارشاد سن کرحضرت عمرؓ اٹھے اور نہایت خوش خوش گھر گئے کیونکہ اس دن ان کے پا س کئی ہزار درہم تھے آپ دل میں کہہ رہے تھے کہ آج وہ ضرور حضرت صدیقؓ سے بازی لے جائیں گے چنانچہ اپنا مال حضورؐ کی خدمت میںپیش کر دیا۔ حضورؐ نے فرمایا عمرؓ ! اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ آئے ہو؟ مسلمان پر اپنے اہل عیال کا بھی حق ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی حضورؐ ! آدھا مال اہل و عیال کے لیے چھوڑ آیا ہوں اور آدھا قوم کے لیے ساتھ لایا ہوں‘‘۔ اسی اثنا میں حضورؐ کے وہ رفیق بھی آ گئے جن کی وجہ سے عشق و محبت کی بنیادیں استوار ہیں یعنی اس کی وارفتگی اور شیفتگی کا یہ حال ہے کہ گھر سے جھاڑ پونچھ کر سب کچھ اٹھا لائے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ بیوی بچوں کی فکر بھی ضروری ہے۔ حضرت صدیقؓ نے جواب میں عرض کیا۔ آپؐ کی ذات پاک کے دم سے یہ دنیا قائم ہے جب ہر شے کا انحصار آپؐ پر ہے تو ابوبکرؓ کے لیے بس اللہ اور اس کا رسولؐ ہی کافی ہیں۔ صدیقؓ ایک دن رسول پاکؐ نے اصحاب سے کہا دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مال دار ارشاد سن کے فرط طرب سے عمرؓ اٹھے اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیقؓ سے ضرور بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار لائے غرض کہ مال رسول امیںؐ کے پاس ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار پوچھا حضور سرور عالمؐ نے اے عمرؓ! اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟ مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار اتنے میں وہ رفیق نبوتؐ بھی آ گیا جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار لے آیا وہ اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت ہر چیز جس سے چشم جہاں میںہو اعتبار بولے حضورؐ چاہیے فکر عیال بھی کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس! ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی اصحاب صاحب کی جمع ہے ساتھی ‘ دوست‘ حضورؐ کو دیکھنے والے مسلمان‘ اصحاب اور صحابہؓ کہلاتے ہیں۔ اہل و عیال بیوی بچے حقوق حق کی جمع ہے 1۔ یہ تاریخی واقعہ اقبال کی کتاب بانگ درا سے لیا گیا ہے۔ نظم کا عنوان ہے صدیقؓ ۔ اقبال اس تاریخی واقعے کو نظم کے ذریعے پیش کرنے سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضورؐ کے اصحابؓ آپ کے سچے عاشق تھے اور راہ خدا میں اپنا گھر بار لٹانے کے بعد بھی خوش رہتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے اس فعل کو حضورؐ پسند فرمائیں گے۔ نظم میں یہ بھی دکھایا ہے کہ وہ نیک کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کیسی کوشش کرتے ہیں۔ یہی امر شخص چاہتا تھا کہ کا ر خیر میں وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے آگے ہی رہے۔ ٭٭٭ مشق 1۔ حضرت عمرؓ نے حضور اکرمؐ کا ارشاد گرامی سننے کے بعد کیا کیا؟ 2۔ کیا حضرت عمرؓ اپنے دوسرے تمام ساتھیو ں پر سبقت لے گئے ؟ نہیں تو اس کا کیا سبب ہے؟ 3۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہوں کو پر کرو۔ (الف) اس دن حضرت عمرؓ کے پاس…تھے۔ (ب) حضورؐ نے فرمایا عمرؓ ! …کیا چھوڑا ہے۔ (ج) صدیقؓ کے لیے خدا کا رسولؐ … ہے۔ 4۔ اس شعر کو زبانی یاد کر لو اور اپنی کاپی میں صاف صاف لکھ لو۔ پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولؐ بس ٭٭٭ 13۔ غنی کاشمیری اقبال نے غنی کاشمیری کا ایک واقعہ اپنی کتاب ’’پیام مشرق ‘‘ میں نظم کیا ہے ۔ اقبال کو یہ واقعہ اس لیے پسند آیا کہ ا س سے اپنے آپ کو پہچاننے کا سبق ملتا ہے۔ کشمیر کا مایہ ناز شاعر غنی جب اپنے گھر میں ہوتا تھا تو گھر کا دروازہ بند رکھتا تھا اور جب گھر سے باہر جاتا تھا تو گھر کو چوپٹ چھوڑ جاتا تھا۔ کسی نے اس سے کہا غنی آپ کا یہ کام ہر شخص کو عجب معلوم ہوتا ہے۔ جواب دیا اور اس فقیر صفت شاعر نے کیا خوب جواب دیا کہ دوستوں نے جو کچھ دیکھا وہ بالکل صحیح ہے۔ مگر اس میں تعجب کی کون سی بات ہے۔ جب تک غنی گھر میں ہوتا ہے یہی گھر کی سب سے قیمتی متاع ہے اس لیے اس کی حفاظت کے لیے گھر کا دروازہ بند رکھنا ضروری ہے ۔ مگر جب وہ گھر میں نہیںہوتا تو پھر اس گھر میں کیا رہ جاتا ہے جس کی حفاظت کی جائے۔ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی مایہ ناز بہت زیادہ قدر کے قابل متاع پونچی‘ قیمتی چیز فقیر صفت درویشوں کی سی عادت رکھنے والا چوپٹ چاروں طرف کھلا ہوا مشق 1 ۔ غنی کاشمیری کا واقعہ اپنے الفاظ میں بیان کرو۔ 2۔ اقبال نے اس واقعے کو اس قدر کیوں پسند کیا؟ 3۔ لوگوں کی دریافت کرنے پر غنی نے اپنی اس عادت کے بارے میں کیا جواب دیا؟ 4۔ ذیل کے ادھورے جملو ں کو پورا کرو: (الف) غنی کاکشمیر کا…تھا۔ (ب) وہ فارسی زبان کا مایہ ناز …تھا۔ (ج) جب وہ اپنے گھر سے باہر جاتا تھا تو گھر کو…چھوڑ جاتا تھا۔ 5۔ مندرجہ ذیل لفظوں کو اپنے جملوں میں استعمال کرو۔ فقیر صفت۔ چوپٹ۔ قیمتی متاع ٭٭٭ 14۔ ایک گائے اور بکری اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں تھی سراپا بہار جس کی زمیں کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں تھے اناروں کے بے شمار درخت اور پیپل کے سایہ دار درخت ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں طائروں کی صدائیں آتی تھیں کسی ندی کے پاس اک بکری چرتے چرتے کہیں سے آ نکلی جب ٹھہر کر ادھر ادھر دیکھا پاس اک گائے کو کھڑے پایا پہلے جھک کر اسے سلام کیا پھر سلیقہ سے یوں کلام کیا کیوں بڑی بی مزاج کیسے ہیں؟ گائے بولی خیر اچھے ہیں کٹ رہی ہے بڑی بھلی اپنی ہے مصیبت میں زندگی اپنی جان پر آ بنی کیا کہیے؟ اپنی قسمت بری ہے کیا کہیے دیکھتی ہوں خدا کی شان کو میں رو رہی ہوں بروں کی جان کو میں زور چلتا نہیں غریبوں کا پیش آیا لکھا نصیبوں کا آدمی سے کوئی بھلا نہ کرے اس سے پالا پڑے خدا نہ کرے دودھ کم دوں تو بڑبراتا ہے ہوں جو دبلی تو بیچ کھاتا ہے ہتھکنڈوں سے غلام کرتا ہے کن فریبوں سے رام کرتا ہے اس کے بچوں کو پالتی ہوں میں دودھ سے جان ڈالتی ہوں میں بدلے نیکی کے یہ برائی ہے! میرے اللہ! تری دہائی ہے سن کے بکری یہ ماجرا سارا بولی ایسا گلا نہیں اچھا بات سچی ہے بے مزا لگتی میں کہوں گی مگر جدا لگتی یہ چراگہ یہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا یہ ہری گھاس اور یہ سایا ایسی خوشیاں ہمیں نصیب کہاں یہ کہاں بے زباں غریب کہاں یہ مزے آدمی کے دم سے ہیں لطف سارے اسی کے دم سے ہیں اس کے دم سے ہی اپنی آبادی قید ہم کو بھلی کہ آزادی؟ سو طرح کا بنوں میں ہے کھٹکا واں کی گزران سے بچائے خدا ہم پر احسان ہے بڑا اس کا ہم کو زیبا نہیں گلا اس کا قدر آرام کی اگر سمجھو… آدمی کا کبھی گلا نہ کرو گائے سن کر یہ بات شرمائی آدمی کے گلے سے پچھتائی دل میں پرکھا بھلا برا اس نے اور کچھ سوچ کر کہا اس نے یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی دل کو لگتی ہے بات بکری کی ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی سراپا سر سے پیر تک ‘ تمام ‘ پورے کا پورا خدا لگتی کہنا حق بات کہنا سماں کیفیت‘ منظر بن جنگل طائر پرندہ گزران وقت گزارنا جان پر آ بنی ہے جان خطرے میں ہے زیبا نہیں اچھا نہیں‘ زیب نہیں دیتا پیش آیا سامنے آیا‘ دیکھنا پڑا دل کو لگنا دل کو بھانا‘ دل کو پسند آنا تیری دہائی ہے تیری پناہ مانگتا ہوں ماجرا قصہ گلا شکوہ‘ شکایت نظم کامقصد انسان کو کسی کی شکایت سوچ سمجھ کرکرنی چاہیے تاکہ بعد میں شکایت کے بیجا ہونے پر شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ کسی شخص کی برائیوں کے ساتھ ساتھ اسکی خوبیاں بھی نظر میںرکھنا چاہیے۔ یہ بڑی بے انصافی کی بات ہے کہ کسی کی خوبیوں کو چھوڑ کر اس کی برائیوں کو بیان نکرنا شروع کر دیا جائے۔ بلکہ اخلاق کی خوبی تو اسی میں ہے کہ لوگوں کی برائیوں سے نگاہ بچا کر ان کی خوبیوں ہی کی تعریف کی جائے۔ عقل کا تعلق مرتبے یا جسمانی طور پر طڑے ہونے سے نہیں ہے کہ فلاں شخص بڑے مرتبے یا بڑے ڈیل ڈول کا ہے تو اس میں چھوٹے مرتبے اور چھوٹے قدو قامت والے کے مقابلے میں عقل زیادہ ہو گی۔ بکری ‘ گائے سے بہت چھوٹی ہوتی ہے مگر جس حقیقت کو اس کی نظر پہنچی گائے کی نظر وہاں تک نہ پہنچ سکی۔ اچھے لوگوں کایہ شیوہ ہوتا ہے کہ جب کوئی دوسرا آدمی ان کی غلطی پر ٹوکتا ہے ۔ تو وہ اس سے لڑنے جھگڑنے کے بجائے اپنی غلطی کا اقرار کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ گائے پر اس کی غلطی ظاہر ہو گئی اس نے اسے فوراً مان لیا۔ بلکہ بکری کی سمجھ بوجھ اور دانائی کی تعریف بھی کی۔ حالانکہ قدوقامت میں وہ بکری سے کئی گنا بڑی ہے۔ ٭٭٭ مشق 1۔ گائے نے آدمی کی کیا شکایت کی اور بکری نے کیا تعریف کی ہے چند جملوں میں بیان کرو؟ 2 ۔ پوری نظم پڑھنے کے بعد تم اس سے کیا کیا سبق حاصل کرتے ہو؟ 3۔ نیچے لکھے ہوئے جملوںمیں خالی جگہیں پر کرو: (الف) اناروں کے…درخت تھے۔ (ب) طائروں کی …آ رہی تھیں۔ (ج) ہتھکنڈوں سے …کرتا ہے۔ 4۔ اس شعر کو زبانی یاد کرو۔ بدلے نیکی کے یہ برائی ہے میرے اللہ تری دہائی ہے! 5۔ اس شعر کو صاف صاف خوشخط اپنی کاپی میں نقل کرو۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں طائروں کی صدائیں لاتی ہیں ٭٭٭ 15۔ قیام پاکستان برصغیر پاک و ہند پر تقریباً ایک ہزار سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ 1707 ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل شاہزادوں کی خانہ جنگی اور باہمی مخالفت کی وجہ سے سلطنت کمزور ہوتی گئی اور انگریزوں کااقتدار جو اس ملک میں تجارت کی غرض سے آئے تھے بڑھتا چلا گیا اور وہ رفتہ رفتہ بہت سے علاقوں پر قابض ہو گئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مغل سلطنت کا چراغ جو مدت سے ٹمٹما رہا تھا ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی انگریز پوری طرح ملک پر مسلط ہو گئے۔ چونکہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوںسے چھینی تھی اس لیے وہ قدرتی طور پر مسلمانوں سے بدگمان رہتے تھے کہ اگر انہیںکبھی موقع مل گیا تو وہ اپنی کھوئی ہوئی سلطنت واپس لینے کی کوشش کریں گے۔ 57ء کی جنگ آزادی نے اس بدگمانی کو اور مستحکم کر دیا۔ انگریزوں ے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ تحریک مسلمانوں کی اسی طرح کی کوشش کا نتیجہ ہے لہٰذا انہوںنے مسلمانوں کی قوت کو پامال کرنا شروع کر دیا جہاں کہیں کسی اونچے گھرانے کو دیکھ پاتے اسے تباہ کر کے مفلسی اور بے کسی کی حالت تک پہنچا دیتے۔ اس کے برعکس ہندوئوں کی پشت پنائی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مسلمان روز بروز پستی کی طرف گرتے چلے گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ہم وطنوں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ یہ حالت دیکھ کر بعض درد دل رکھنے والے مسلمانوں نے قوم کو تباہی سے بچانے کا بیڑا اٹھایا۔ سرسید کا نام ان رہنمائوں کی فہرست میں ہے انہوںنے قوم کو بیدار کرنے اور ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ بالآخر تمام قوم نے جھرجھری لی آنکھیں کھولیں۔ اپنی زبوں حالی کی طرف نگاہ ڈالی اورخدا کا نام لے کر اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ قوم کی اس کروٹ کو جہاں ہندوئوں نے شبہ کی نگاہ سے دیکھا وہاں انگریزوں نے اپنے لیے خطرے کا پیش خیمہ سمجھا۔ دونوںنے مل کر مسلمانوں کی تحریک آزادی کو دبانے کی کوشش کی لیکن مخلص رہنمائوں کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی بدولت یہ تحریک زندہ رہی اور مسلمان برابر اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہے۔ مسلمانوں کی دلی خواہش یہ تھی کہ سب بے پہلے اپنے ملک کو انگریز وں کے تسلط سے آزاد کیا جائے۔ ا س مقصد کے لیے انہوں نے برادر ان وطن کی طرف مکمل تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ لیکن ہندوئوں نے اس تعاون کو کبی بھی سچے دل سے قبول نہ کیا۔ بلکہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ مسلمانوں کے مفاد کو نظر انداز کیا جائے اور صرف اپنے فائدے پر نظر رکھی جائے۔ چنانچہ مسلمان رہنمائوں کو جب یقین ہو گیا کہ ہندوئوں کو مسلمانوں کی تررقی کسی طرح گوارہ نہیں تو اور وہ اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کو رعایتیں دینا تو درکنار ان کے واجبی حقوق تک دینے کو تیار ہیں تو انہوں نے اپنے لیے ایک الگ حکومت کا نقشہ ذہن میں بنانا شروع کیا۔ اس آزاد اسلامی حکومت کاواضح تصور سب سے پہلے حضرت علامہ اقبال کے دل میں پیدا ہوا۔ 1930ء میں مسلم لیگ کاایک اجلاس الہ آباد میں منعقد ہوا۔ علامہ اقبال اس اجلاس کے صد ر تھے۔ انہوںنے اپنے خطبہ صدارت میں ارشاد فرمایا کہ میری نگاہ میں مسلمانوں اور ہندوئوں کی باہمی کش مکش کا واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے انہیں ملا کر انگریزی حکومت کے زیر اثر اس سے آزاد ایک سلطنت قائم کر دی جائے۔ تاکہ وہاں مسلمان اپنے مذہب تمدن اور روایات کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کر سکیں۔ اس نصب العین کومدنظر رکھ کر حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مسلم لیگ کی از سر نو تنظیم کی۔ شروع شروع میں ہندوئوں کے علاوہ انگریزی حکومت نے بھی مسلمانوں کی اس تنظیم کی سخت مخالفت کی اوران کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالیں۔ لیکن قائد اعظمؒ کی مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ گئی۔ مسلمان قائد اعظمؒ کی رہنمائی میںیک زباں ہو کر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے۔ آخر کار 1940ء میں باقاعدہ قرارداد کی شکل میں آزاد اسلامی مملکت کا مطالبہ پیش کر دیا۔ یہ قرارداد 23مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظور ہوئی جس کی یاد میں ہم ہر سال اس تاریخ کو یوم پاکستان مناتے ہیںَ بلکہ قرارداد کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے لاہور میںایک عظیم الشان مینار تعمیر کیا گیا ہے۔ جسے مینار پاکستان کہتے ہیں۔ یہ مینار اس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس ہوا تھا۔ اس قرارداد کے بعد حصول پاکستان کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ سات سال تک مسلمانوں نے برابر جدوجہد جاری رکھی۔ ہر طرح کی مصیبتیں جھیلیں جانیںقربان کیں قید و بند کی سختیاں برداشت کیں لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی نہ ہٹے۔ آزمائشوںؓ کے اس دور کی کہانی جتنی در د بھری ہے اسی قدر ولولہ انگیز بھی ہے۔ مسلمانوںنے قائد اعظم کے حکم سے ذرا سرتابی نہیں کی۔ ہر مصیبت خاموشی سے برداشت کی اور ثابت قدرمی سے ڈٹے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ایثار قربانی جانبازی او ر حق پرستی کو قبول فرمایا۔ ہندو اور انگریز مسلمانوں کے بے پناہ جذبے کو نہ دبا سکے۔ انہوںنے اپنی تمام قوتیں آزما کے دیکھ لیں ان کا کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ جس بات پر اڑ جائیں اسے پور ا کر کے رہتے ہیں۔ اس لیے انگریز کو اپنی سلطنت کی قوت اور ہندو کو اپنی اکثریت ککے گھمنڈ کے باوجود مسلمانوں کے مطالبے کے آگے جھکنا پڑا اور 14اگست 1947ء کو آدھی رات کے وقت دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک ابھرا جس کا نام پاکستا ن ہے وہ ملک جس میںہم آزادی کے ساتھ خدا کا نام لیتے ہیں اور عزت و آبرو کی زندگی گزارتے ہیں اس پیارے ملک پاکستان کے لیے ہمارے بزرگوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ ہم بھی اس کی حفاظت کے لیے اور ا س کی ترقی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیںکریں گے۔ پاکستان پائندہ باد 1؎ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی خانہ جنگی آپس کی لڑائی تعاون ساتھ دینا‘ مدد دینا اقتدار طاقت ‘حکومت اکثریت کسی چیز کا زیاد ہ ہونا رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ نصب العین مقصد مسلط قابض مدنظر رکھنا سامنے رکھنا مستحکم مضبوط تنظیم جماعت ‘ پارٹی تحریک انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی ایثار قربانی‘ اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا پامال برباد جانبازی جان کی بازی لگانا‘ سرفروشی برعکس خلاف حربہ لڑائی کا ہتھیار‘ حملہ پشت پناہی مدد ‘ حمایت خطوط لکیریں‘ خط کی جمع ہے بیڑا اٹھانا کسی مشکل کام کرنے کا عہد کیا بیدار کیا جگایا دریغ نہ کیا تامل نہ کیا‘ کمی نہیں کی زبوں حالی خراب حالت سرفہرست سب سے اونچا تسلط قبضہ جھرجھری لی حرکت میں آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1 ؎ ماخوز از ’’اردو کی پانچویں کتاب‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1۔ برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے کتنی مدت حکومت کی؟ 2 ۔ مسلمانوں کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ 3۔ انگریز مسلمانوں سے کیوں بدگمان تھے؟ 4۔ کیا ہندوئوں نے مسلمانوں کے تعاون کی قدر کی؟ 5 سب سے پہلے پاکستان کا تصور کس نے کب اور کہا ں پیش کیا؟ مختصر طور پر بیان کرو؟ 6۔ پاکستان کے بانی کون تھے؟ دو ایک جملوں میںان کا تعارف کرائو۔ 7۔ خالی جگہوں کوپر کرو: (i) پاکستان … کو قائم ہوا۔ (ii) پاکستان کا تصور سب سے پہلے …نے پیش کیاتھا۔ (iii) پاکستا ن کے بانی …تھے۔ ٭٭٭ 16۔ حامد اور محمود کے درمیان مکالمہ مکالمہ حامد: محمود صاحب اقبال کی نظموں میں سے کون سی نظم آپ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ محمود: بھئی اقبال کا کلام جتنا اوردو میں ہے اتنا ہ فارسی میں بھی ہے۔ بلکہ فارسی میں اردو کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ فارسی کلام اپنے اندر بڑی گہرائی رکھتا ہے۔ کیوںکہ انہیں اپنے فلسفیانہ خیالات زیادہ تر فارسی میں بیان کیے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ فارسی میں بس شد بد رکھتا ہوں۔ لہٰذا ان کے فارسی کلام کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیںسکتا۔ حامد: یہ بات آپ نے بالکل صحیح فرمائی ہے کہ اقبال کا زیادہ تر کلام فارسی میں ہے اور فلسفیانہ خیالات کی وجہ سے اپنے اندر گہرائی بھی رکھتاہے۔ تو پھر ان کے اردو کلام میں سے اپنی پسند کی بہترین نظم کانام بتائیے۔ محمود: اردو کلام میں بھی بال جبریل‘ ضرب کلیم‘ اور ارمغان حجاز (حصہ اردو) آسان نہیں ہیں۔ یہ کتابیں بھی اقبال کے ویسے ہی فلسفیانہ اور عارفانہ خیالات سے بھری پڑی ہیں اس لیے ان میں سے بھی کسی نظم کا انتخاب کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ حامد: اچھا بھائی! تو پھر ان کے آسان اردو کلام میں سے سہی میں تو نظم کے انتخاب سے آپ کے خیالات اور آپ کی طبیعت کا رجحان معلوم کر نا چاہتا ہوں۔ محمود: بھئی! بانگ درا جو اقبال کے ابتدائی اردو کلام کا مجموعہ ہے۔ مجھے اس میں سب سے زیادہ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ پسند ہیں بلکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ میری عمر اور قابلیت کے دوسرے لڑکوںکو بھی یہی دو نظمیں پسند ہیں ۔ بہت سے نوجوان طالب علموں کو تو یہ نظمیں زبانی یاد ہیں۔ پھر نوجوانوں پر ہی کیا موقو ف بوڑھوں کو بھی ان نظموں کی تعریف کرتے سنا گیا ہے۔ بہت سے مقرر اور واعظ بھی اپنی تقریروں میں ان نظموں کے اشعار سے جوش و خروش پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حامد: واللہ محمود! آپ نے تومیرے دل کی بات کہہ دی۔ اپنے اور آپ کے خیالت میں اس قدر یکسانیت دیکھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ محمود: میں نے کہا تھا نا کہ میں کیا اکثر و بیشتر نوجوان طالب علم انہیں دونظموں کو زیادہ پسند کرتیہیں۔ چانچہ آپ کی پسند سے میرے اس دعوے کی تصدیق بھی ہو گئی۔ حامد: یہ تو معلوم ہو گیا کہ آپ شکوہ اور جواب شکوہ کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں اب یہ بھی بتا دیجیے کہ ان نظموںکو آپ کس لیے پسند کرتے ہیں؟ محمود: میں نے جب پہلی بار مولانا حالی مرحوم کی مسدس پڑھی تو یقین کیجیے مجھ پر اس کا اتنا ہی اثر ہواکہ بیان نہیںکر سکتا۔ بہت سے بند از بر ہو گئے۔ جن کو خود بھی پڑھتا تھا اور دوسروں کو بھی سناتا۔ حالی نے اپنی مسدس میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا وہ نقشہ کھینچا ہے۔ کہ تعریف کے لیے الفاظ نہیںملتے۔ جب میں نے شکوہ اور جواب شکوہ پڑھا تو فوراً خیال آیا کہ یہاں بھی مسلمانوں کے عروج و زوال ہی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ مگر ایک نئے اور مختلف انداز میں علامہ نے جب عروج و زوال کی داستان اگرچہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کی۔ مگر جو کچھ لکھا ہے وہ جوش ‘ ولولے ‘ اور دل سوزی کے اس قدر بھرا ہواہے کہ دل میں تیر و نشتر کی طرح اترتا چلا جاتا ہے۔ زوال کے اسباب جو شکوہ کے جواب میں بتائے گئے ہیں وہ اس قدر صحیح ہیں کہ ان سے انکار کی گنجائش کیو کونہیںہو سکتی۔ شکوہ کو پڑھیے تو معلوم ہوتاہے کہ شاعر بڑے زور و شور کے ساتھ اپنی قومی تاریخ کے ورق الٹتا چلا جارہا ہے۔ کہ ہم نے یہ کیا ہم نے وہ کیا۔ اور پھر بھی ہم ہی سب سے زیادہ مصیبتوں میں گرفتار اور ذلت خواری میں مبتلا ہیں مگر جب خدا کی طرف سے اس کا جواب ملتا ہے کہ تم جو اس قدر بڑھ بڑھ کر بول رہے ہو ذرا یہ تو بتائو کہ تم کیا ہو؟ وہ تو تمہارے اسلاف کے کارنامے ہیں۔ تم نے کیا کیا ہے؟ اپنے کارنامے پیش کرو۔ تو شاعر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ حامد: اقبال نے اپنے شکوے میں کیا دعو ے کیے ہیں ان میں سے خاص خاص دعوے تو بیان کیجیے۔ محمود: کہتے ہیں کہ ہم سے پہلے دنیا کا یہ حال تھا کہ کہیں پتھروں کی پوجا ہے تو کہیں درختوں کی کہیں ستاروں کی تو کہیں آگ کی اور کہیں کسی اور چیز کی۔ خدا کو کوئی نہیںمانتا تھا ہم نے منوایا ہے خدا کا نام اور اس کا کلمہ ہم نے بلند کیا ہے۔ اس کے لیے جنگیںلڑی ہیں اپنی جانوں کی پروا کی نہ اپنے مال کی اورنہ اپنے عزیز و اقارب کی پھر خشکی میں بھی لڑے اور دریائوں میں بھی بلکہ بحرظلمات میں بھی ہم نے گھوڑے دوڑا دیے۔ ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر تجھ کو معلوم ہے لینا تھا کوئی نام ترا؟ قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا تھے ہمیں ایک تیرے معرکہ آرائوں میں خشکیوں میں لڑے کبھی لڑتے کبھی دریائوں میں دیں آذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی کلمہ پڑھتے تھے ہم چھائوںمیں تلواروں کی ہم جو جیتے تھ تو جنگوں کی مصیبت کے لیے اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے قوم جواپنی زرومال جہاں پر متی بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی؟ ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پائوں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے تو ہی کہدے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟ توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے؟ کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے؟ کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدہ ایراں کو؟ کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟ کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی؟ اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی؟ کس کی شمشیر جہانگیر جہاندار ہوئی؟ کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی؟ کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے؟ منہ کے بل گر کے ھو اللہ ھو احد کہتے تھے آ گیا عین لڑائی میں گر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے کوہ میں دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے اور معلوم ہے تجھ کو‘ کبھی ناکام پھرے؟ دشت تو دشت صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے تیرے کعبے کو جبینوں سے سجایا ہم نے تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں ٭٭٭ خدا سے کہتے ہیں کہ تیری دنیا کا عجیب حال تھا کہیں پتھروں خی پوجا کی تھی کہیں درختوںکی اور کہیں کسی اور چیز کی۔ انسان محسوس چیز کو پوجنے کا خوگر تھا۔ بھلا وہ ان دیکھے خدا کو کیوں کر مانتا۔ تو جانتا ہے کہ کوئی تیرا نام بھی نہ لیتا تھا؟ مسلمانوں کی قوت بازو نے تیرا کام کیا تیرے دین کی تبلیغ کی اور تجھے منوایا۔ اسی دنیا میں سلجوقی بھی تھے تورانی بھی تھے چینی بھی تھیـ ‘ ساسانی بھی تھے یونانی بھی تھے اور نصڑانی بھی تھے مگر تیرے نام پر کس نے تلوار اٹھائی؟ جو بات بگڑی ہوئی تھی وہ کس نے بنائی؟ ہم نے تلوار اٹھائی اور دین کی بگڑی ہوئی بات بنائی۔ تیرے لیے جنگ کرنھے والے تنہا ہم ہی تھے۔ ہم خشکیوں پر بھی لڑے اور دریائوں پر بھی لڑے۔ کبھی ہم نے یورپ کے کلیسائوں میں اور کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں اذانیںدیں۔ بادشاہوں کی شان ہماری آنکھوںمیںنہیں جچتی تھی۔ ہم تلواروں کی چھائوں میں بھی تیرا کلمہ ہی پڑھتے تھے ہم جتنے مصیبت سہنے کے لیے اور مرتے تیرانام کی عظمت کے لیے تھے (کہ اس نام کی عظمت میں فرق نہ آئے) ہماری جنگ حکومت کے لیے نہیں تھی۔ دنیا میں ہم دولت کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر نہیں پھرتے تھے۔ اگر ہم دنیا کے زرومال پر مرتے تو بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتے؟ ہم جنگ میں اڑ جاتے تھے تو پھر ٹل نہیں سکتے تھے۔ ہمارے مقابلے میں شیروں کے پائوں بھی اکھڑ جاتے تھے۔ (بڑے سے بڑا بہادر بھی ہمارے مقابلے میںنہیں ٹھہر سکتا تھا )۔ اگر تجھ سے کوئی سرکشی کرتا تھا تو ہم بگڑ جاتے تھے۔ پھر تلوار تو تلوار توپ کا بھی مقابلہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔ ہم نے توحید کا نقش ہر دل پر بٹھایا اور تلوار کے زیر سایہ بھی توحید کا پیغام سنانے سے باز نہیں آئے تو ہی بتا در خیبر کس نے اکھاڑا‘ قیصر کے شہر کو کس نے فتح کیا۔ جھوٹے خدائوں کے پیکر کس نے توڑے اور کافروں کے لشکروں کے لشکر کس نے کاٹ کر رکھ دیے۔ ایران کے آتش کدوں کو کس نے ٹھنڈا کیا۔ اور تیرے ذکر کو پھر سے کس نے زندہ کیا (شاعر بتانا یہ چاہتا ہے) یہ سب کچھ ہمیں نے تو کیا تھا… ہمارے سوا اور کونسی قوم تیری چاہنے والی ہوئی تیرے لیے جنگ کی زحمت کس نے اٹھائی صنم کی ہیبت سے ڈرے سہمے ہوئے رہتے تھے۔ ایسے سہمے ہوئے کہ منہ کے بل گر کے بھی اللہ احد ہی کہتے تھے۔ عین لڑائی میں اگر نمازکا وقت آ جاتا تو ہم فوراً صف باندھ کر قبلہ رو ہو جاتے تھے۔ اور نماز ادا کرتے تھے۔ اور اس شان سے ادا کرتے تھے کہ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ آقا و غلام نادار اور مالدار تیرے حضور میں آ کر کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ہم کون و مکاں (دنیا) کی محلف میں صبح و شام پھرتے رہتے تھے۔ اور توحید کی شراب لے کر جام کی طرح گردش میں رہتے تھے جنگل تو جنگل ہم نے دریا بھی نہیں چھوڑے یہاں تک کہ بحر ظلمات میں بھی گھوڑے دوڑا دیے۔ دنیا سے باطل کو ہمیں نے مٹایا نو ع انساں کو غلامی سے ہمیں نے چھڑایا۔ تیرے کعبے کواپنی پیچشانیوں سے ہمیں نے بسایا۔ تیرے قرآن کو سینے سے ہمیں نے لگایا پھربھی ہم سے یہ شکایت ہے کہ ہم وفادار نہیں ہیں اگر ہم وفادار نہیں ہیں تو تو بھی تو دلدار نہیںہے۔ غرض یوں لگتا ہے کہ جیسے مسلمانوں کی پوری تاریخ اپنی ساری تابناکیوں کے ساتھ ان چند صفحات میں سمٹ آئی ہے۔ چنانچہ آخر میں اقبال کہتے ہیں کہ اتنی ساری قربانیوں اور سرفروشیوں کے باوجود بھی تیری رحمتیں غیروںپر نازل ہو رہی ہیں اور ہم پر بجلیاں ہی گرائی جا رہی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر حامد: واقعی شکوہ تو اپنے اندر بڑی گھن گرج رکھتا ہے ۔ اگرچہ دعوے غلط نہیں ہیں مگر خدا کے سامنے اس انداز سے گفتگو کرنا شاید قابل اعتراض بات ہو۔ محمود: مگر اقبال تو اس کے قائل ہی نہیںکہ انہوںنے شکوہ کر کے کوئی گستاخی کی ہے کیونکہ وہ شکوے کے شروع میں یہ کہہ چکے ہیں کہ: شکوہ اللہ سے حاکم بدہن ہے مجھ کو پھر خدا کی طف سے بھی اس کی اسی طرح تعریف کی گئی ہے: ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے یعنی شکوہ اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ اس کوشکر بنا دیا ہے۔ اور بندوں کو خدا سے ہم کلام کر دیا ہے۔ حامد : یہ تو فرمائیے کہ اقبال نے جو شکوے میں زور و شور سے مسلمانوں کے کارنامے گنوائے ہیں اور ان کارناموں کے باوجود مسلمانوں کو جس ذلت و خواری سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے اس کے بارے میں خدا کی طرف سے کیا جواب ملا؟ محمود : اس کے بارے میں کچھ نہ پوچھو بڑا عبرت ناک جواب ملا ہے آواز آئی: صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے میرے کعبے کو جبینوں سے سجایا کس نے میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں کون ہے تارک آئین رسول مختارؐ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بیزار قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں کچھ بھی پیام محمدؐ کا تمہیں پاس نہیں جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب امرا نشہ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا اس کے آئینہ ہستی میں عمل جوہر تھا جو بھروسہ تھا اسے قوت بازو پر تھا ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا باپ کا علم‘ نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابل میراث پدر کیوں کر ہو! ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے تم مسلمان ہو یہ انداز مسلمانی ہے؟ حیدریؓ فقر ہے نے دولت عثمانیؓ ہے تم کو اسلام سے کیا نسبت روحانی ہے؟ وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر تم ہو آپس میں غضبناک وہ آپس میں رحیم تم خطا کار و خطا بیں وہ خطا پوش و کریم چاہتے ہیں سب کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی خود کشی شیوا تمہارا وہ غیور و خوددار تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں یکنار اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی نقش ہے صفحہ ہستی پہ صداقت ان کی ہاتھ بے زور ہیں اتحاد سے دل خوگر ہیں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے تم ہی کہدو یہی آئین وفاداری ہے؟ قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے محمود : جواب شکوہ کے مندرجہ بالا بندوں کی مختصر تشریح کرتے ہوئے بات جاری رکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جنہوں نے باطل کو دنیا سے مٹایا نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا میرے کعبے کو جبینوں سے سجایا اور میرے قرآن کو سینوں سے لگایا وہ تھے تو تمہارے ہی باپ دادا مگر یہ بتائو کہ تم کیا ہو؟ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو اور قیامت کا انتظار کر رہے ہو۔ اس قوم کا نفع بھی ایک ہے نقصان بھی ایک اللہ رسول اور آخر ت اوردین ایمان غرض سب کچھ ایک ہی ہے۔ ایسے میں گر خود مسلمان بھی ایک (متحد ) ہوتیتو کون سی بڑی بات تھی؟ مگر اس کے برعکس حال یہ ہے کہ کہیں فرقہ بندی ہے اور کہیں ذات پات کا جھگڑا ہے ۔ کای دنیا میں رہنے سہنے کا یہی طریقہ ہے۔ رسول مختارؐ کو چھوڑنے والا کون ہے وقت کی مصلحت پر اپنے عمل کی بنیاد کس نے رکھی ہے۔ غیروں کا شعار کس کو بھا گیا ہے۔ اسلاف کے اصولوں سے کس کی نگاہ تیز ہو گئی ہے۔ اور ان کے طریقوں سے کس کو نفرت ہے۔ نہ دل میں سوز ہے اور نہ روح میں احساس ہے بلکہ تمہاری نظر میں محمدؐ کا پیغام کا کچھ بھی لحاظ نہیں رہا ۔ مسجدوں میں ماز کی صٖیں غریب قائم کرتے ہیں روزہ کی زحمت بھی غریب گوارا کر تے ہیں ۔ ہمارے نام لیوا بھی غریب ہیں۔ بلکہ تمہارا پردہ بھی غریب ہی رکھتے ہیں۔ امیر دولت کے نشے میں ہم سے غافل ہو گئے اسلام بس غریبوں کا رہ گیا ہے ۔ ہر مسلمان مرگ باطل کے لیے نشتر تھا (باطل کو مٹانے والا) ارو اس کی زندگی کے آئینے کا جوہر عمل تھا۔ جس طرح جوہر آئینے سے جدا نہیں ہوتا اسی طرح عمل مسلمان کی زندگی سے جدا نہیں ہوتا اور جس طرح آئینے کی قدر و قیمت جوہر سے ہوتی ہے۔ اسی طرح مسلمان عمل کے زریعے عزت کے مقام پر فائز تھے۔ ان کو اپنی قوت بازو پر بھروسہ تھا ۔ اور تم دوسروں پر بھروسہ کرتے ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹے کو باپ کا علم نہ آتا ہو تو وہ باپ کی علمی میراث کا مستحق قرار دے دیا جائے۔ جس کودیکھے تن آسنای میں مبتلا ہے۔ تم کیسے مسلمان ہو کیا مسلمانوں کے یہی طو ر طریقے ہوتے ہیں نہ علی المرتضیٰؓ کا سا فقر ہے نہ عثمان غنیؓ کی سی دولت۔ پھر تم کو اسلاف سے کیا نسبت ہے؟ وہ دنیا میں مسلمان ہو کر عزت کے مقام پر پہنچے تھے۔ اور تم قرآن کو چھوڑ کر ذلیل ہو گئے تم آپس میں غضبناک ہو وہ آپس میں رحیم تھے۔ تم خطاکار ہو اور دوسروں کی خطائیں ڈھونڈتے پھرتے ہو۔ اور وہ خطائوں کو چھپانے والے تھے۔ اس پر بھی چاہتے ہو کہ ثریا کی بلندی پر پہنچ جائو۔ پہلے ثریا پر پہنچنے والا قلب سلیم تو پیدا کرو۔ فغفور کا تخت بھی ان کا تھا اور کے کا تخت بھی ان کا تھا۔ یونہی باتیں ہیں کہ تم میں اہمیت ہے؟ تمہارا شیوہ خود کو فنا کرنا ہے اور ہو خوددار اورباغیرت تھے تم اخوت سے بھاگتے ہو۔ وہ اخوت پر نثار تھے۔ تم گفتا ر ہی گفتار ہو وہ سراپا کردار تھے۔ یہ وجہ ہے کہ تم کلی کلی کو ترستے ہو جبکہ تمہارے اسلاف باغوں کے مالک تھے۔ آج غیر قوموں کو ان کی حکایت یاد ہے اور ان کی سچائی صفحہ ہستی پر نقش ہے(ہمیشہ رہے گی) آج کیا حالت ہے ہاتھ بے زور ہیں دلوں میں اتحاد ہ۔ امتی پیغمبرؐ کے لیے رسوائی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ بت شکن دنیا سے اٹھ گئے ۔ اب جو ان کے جانشین ہیں وہ بت بنانے والے ہیںَ باپ ابراہیمؑ کی طرح بت شکن تھے اور بیٹے آذر کی طرح بت گر ہیں۔ شراب پینے والے نئے ہیں شراب نئی ہے اور شراب کے خم و ساغر بھی نئے ہیں۔ حرم کعبہ بھی نیا ہے بت بھی نئے ہیں۔ اورتم بھی نئے ہو۔ (یعنی پہلے خدا کی محبت کی شراب پیتے تھے اور اب دنیا کی محبت کی شراب پیتے ہو۔ اسلام سے پہلے کعبہ میں پتھر کے بت تھے اور اب نئے نئے خیالات اور نظریات کے بت اپنے دماغوں میں سجا لیے ہیں۔ پھر اسلا م سے پہلے کے زمانے میں اور آج کے زمانے میں کیا فرق رہا؟) صبح کا اٹھنا تمہیں کس قدر گراں گزرتا ہے۔ اور جب یہ بات ہے کہ تم کو ہم سے محبت کب ہے نیند سے محبت ہے۔ تمہاری طبیعت ایسی ہو گئی ہے کہ اس پر رمضان کی قید بھاری ہوتی ہے۔ اور جب یہ بات ہے تو تم ہی کہو یہ وفاداری کیا ہے قوم مذہب سے بنتی ہے مذہب نہیں تو تم بھی نہیں جس طرح جذب باہم ہو تو ستاروں کی انجمن بھی نہیں ہو سکتی جس کو دنیا میں کوئی کام نہیں آتا وہ تم ہو جس قوم کو اپنے نشیمن کی پرواہ نہ ہو وہ تمہیں تو ہو۔ اور اپنے اسلاف کی قبریں بیچ کھانے والے تم ہی تو ہو۔ اور جب یہ بات ہے تو پتھر کے بت مل جائیں گے تو ان کو کیوں نہیں بیچو گے۔ بتوں کے ذریعہ بھی اپنے کھانے کمانے کا دھندا کر سکتے ہو۔ حامد صاحب! یہ تو بالکل د و ٹوک بات ہے کہ ہمارے اسلاف نے جو کچھ کیا تھا اس کا صلہ ان کو مل گیا اور ہم جو کچھ کر رہے ہیں اس کا صلہ ہم کو مل رہا ہے۔ پھر شکوہ کیسا! ہم کو اپنے کردار کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہیے۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کو پیش کر کے شکوہ کرنا تو بڑی بے غیرتی کی بات ہے۔ ہماری زبوں حالی ہمارے ہی اعمال کا نتیجہ ہے۔ ہم نے اسلام کو چھوڑا۔ اپنے اسلاف کے طور طریقوں کو خیر باد کہا…اور دوسری قوموں کے طور طریق کو اختیار کیا اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔ پھر بھی شکوہ کریں کہ مسلمان ذلیل ہو گئے رسوا ہو گئے خوار ہو گئے تو ہم کویہ بات زیب نہیں دیتی ۔ ہاں ایک بات اور بتا دیجیے۔ یہ نظمیں کب کہی گئیں اور ان کو کہاں سنایا گیا۔ محمود: 1911 ء کے ماہ اپریل میں انجمن حمایت اسلام کا جو سالانہ اجلاس ہوا اس پر حضرت علامہ نے اپنی مشہور نظم ’’شکوہ‘‘ پڑھی ریواز ہوسٹل کے صحن میں پڑھی اس وقت ان کے والد محترم بھی جلسے میں تشریف رکھتے تھے اور اس نظم کو سن کر برابر روتے رہے چند ماہ بعد موچی دروازے کے باہر ایک بہت بڑے جسلے میں علامہ نے نظم ’’جواب شکوہ‘‘ سنائی یہ جلسہ مولانا ظفر علی خاں مرحوم کے زیر اہتمام جنگ بلقان کے سلسلے میں ہوا تھا تاکہ ترکوں کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ نظم کے ختم ہونے پر اس کی ہزارو ں کاپیاں فروخت ہوئیں اور تمام رقم بلقان فنڈ میں دے دی گئی ۔ حامد: محمود صاحب ! بہت بہت شکریہ! آج آپ سے مل کر بڑی معلومات حاصل ہوئیں ۔ جزاک اللہ۔ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی شد بد معمولی پڑھنے لکھنے کی قابلیت فلسفیانہ فلسفیوں جیسے‘ مراد فلسفے کے خیالات عارفانہ عارفوں (خدا کے پہچاننے والوں) کے معرفت کے خیالات رجحان جھکائو‘ میلان‘ رغبت موقوف منحصر گرمی محفل محفل کی رونق یکسانیت ایک سا ہونا‘ برابری مسدس نظم کی ایک قس جس کے ہر بند میں چھ مصرعے ہوتے ہیں عروج بلندی اسلاف سلف کی جمع ہے اگلے وقتوں کے لوگ باپ دادا اپنا سا منہ لے کے رہ جانا شرمندہ ہونا‘ خفیف ہونا بحرظلمات بحر اوقیانوس نیاز مندی عاجزی باطل جو حق نہ ہو‘ غلط‘ جھوٹا آستانہ چوکھٹ ‘ درگاہ پیکر صورت‘ شکل ‘ مجسمہ بت پاش پاش کر دیا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سرنگوں اوندھا سر کے بل لٹکا ہوا ‘ ذلیل طنطنہ شان و شوکت شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو میرے منہ میں خاک ہو کہ مجھے اللہ سے شکوہ ہے ہم سخن ہم کلام دو ٹوک بات صاف صاف بات سربکف سر ہتھیلی پر رکھے ہوئے اتحاد بے دینی ‘ دین سے پھرنا‘ سیدھے راستے سے کترا کر چلنا اتحاد میل جول ‘ دوستی‘ محبت احکام حکم کی جمع ہے حضور میں روبرو‘ سامنے کردار عمل زبوں حالی بدحالی۔ برا حال ہونا اہتمام انتظام بے حمیتی بے غیرتی اختتام خاتمہ مکالمے کا مختصر خلاصہ زندگی عمل سے بنتی ہے عزت و خوشحالی ‘ کوشش محنت اور اچھے اصولوں پرعمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور مسلمانوں کے لیے تو خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے اتنے اچھے اصول موجود ہیں کہ جن پر عمل کر کے ہمارے اسلاف اقبا ل مندی و خوشحالی کے نہایت بلند مقام پر پہنچ گئے تھے۔ اس لیے ہم کو چاہیے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے بزرگوں کے طور طریق اختیار کرتے ہوئے آپس میں محبت اور اخلاق کے ساتھ رہیں۔ دور حاضر کے علوم میں بھی کمال پیدا کرکے دوسری قوموں سے آگے نکل جانے کی کوشش کریں البتہ دوسری قوموں کی تہذیب اور تمدن پر فریفتہ نہ ہوں۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہم کو شکوہ شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ٭٭٭ مشق 1 ۔ اقبال نے شکوہ میں مسلمانوں کے جو کارنامے بیان کیے ہیں ان کومختصر طور پر بیان کرو۔ 2۔ شکوہ کے جواب میں خدا کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے اس کا خلاصہ پیش کرو۔ 3 ۔ ’’شکوہ‘ ‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ کب لکھے گئے اور کہاں سنائے گئے۔ 4۔ نیچے لکھے ہوئے الفاظ کے معنی بتائو اور انہی کو اپنے جملوں میں استعمال کرو۔ شد بد۔ رجحان۔ گرمی محفل۔ عروج۔ زوال 5۔ نیچے کے اشعار کو زبانی یاد کرو اوراپنی کاپی میں صاف صاف خوشخط لکھو۔ قوم جو اپنی زرو مال جہاں پر مرتی بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی ٭٭٭ ٹل نہ سکتے تھے‘ اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے پائوں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑ جاتے تھے تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے تیغ کیا چیز ہے‘ہم توپ سے لڑ جاتے تھے نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا کس نے زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ٭٭٭ دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے …شکوہ ٭٭٭ صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے میرے کعبے کو جبینوں سے سجایا کس نے میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی قرآن بھی ایک حرم پاک بھی‘ اللہ بھی‘ قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ٭٭٭ باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو پھر پسر قابل میراث پدر کیو کر ہو؟ ٭٭٭ چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا‘ تو کرے قلب سلیم …(جواب شکوہ) ٭٭٭ 17۔ علامہ اقبال کے ارشادات (الف) ایک دفعہ گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کا بچہ صحن میںکھیل رہا تھا علامہ نے اسے دیکھاتو فرمایا: جاوید اور اس بچے میں اس وقت کوئی خاص فرق نہیں۔ کیونکہ سب بچے برابرہوتے ہیں۔ لیکن بڑے ہونے پر ان میںزمین و آسمان کا فرق ہو جائے گا۔ اس لیے نہیںکہ جاوید کسی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اس لیے کہ اس کو اپنی زندگی میں ایسے مواقع میسر آئیں گے کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن سکے گا۔ لیکن یہ بچہ اپنی زندگی میںایسے مواقع نہ میسر آنے کی وجہ سے وہیں کاوہیں رہ جائے گا۔ حالانکہ اگراس کو بھی ایسے مواقع مل جائیں تو ا س کے پوشیدہ جوہر بھی کھل سکتے ہیں۔ اور سنگ راہ کے بجائے یہ بھی عزت اور شہرت کے آسمان کا درخشندہ ستارہ بن سکتا ہے۔ 1 ؎ (ب) میکلوڈ روڈ پر علامہ اقبال کی کوٹھی کے پچھواڑے دیال سنگھ کالج کا وسیع میدان تھا۔ جب یں شام کے وقت کالج کے لڑکے کھیلا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی فٹ بال یا کرکٹ کی گیند اچھل کر کوٹھی میں جا گربی تھی۔ ان کی بیگم نے کئی بار حضرت علامہ کو کالج کے پرنسپل سے اس کی شکایت کرنے کو کہا۔ مگر آپ ہمیشہ درگزر سے کام لیا اور بیگم کو یہ کہہ کر سمجھایا: ’’اس طرح بچوں پر پابندیاں لگا نے سے کیا حاصل ہو گا۔ ان کو آزادی سے کھیلنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ اقبال درون خانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ قوم کے نونہال غلط قسم کے اشغال چھوڑ کر اب صحت مند کھیلوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ ہمیںان کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کیا ہوا کہ اگر کبھی کبھار ان کی گیند ہمارے صحن میں آ جاتی ہے۔ اس سے ہماراکوئی نقصان نہیںہوتا اور کچھ ہو بھی جائے تو یہ مسئلہ اتنا اہم نہیں جتنا ہماری آئندہ نسل کا صحت مند ہونا ضروری ہے‘‘۔ 1؎ (ج) ایک دفعہ طالب علموں کی ایک جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مسلمان کو چاہیے کہ وہ ذات پات کی لعنت سے دور رہے مسلمان کی ذات صرف اسلام ہے اس لیے اس کو فخر کے ساتھ کہنا چاہیے کہ میں مسلمان ہوں اور بس۔ بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا رنگ ‘ نسل‘ اور خاندان اور قبیلے وغیرہ کے امتیازات کو بت سمجھ کر توڑ دینا چاہیے۔ اور اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا ایک فرد سمجھنا چاہیے اور بس۔ اسی طرح ہر مسلمان کو خواہوہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو بیکارنہ رہنا چاہیے۔ اپنے دست و بازو سے کمانے کی کوشش کرنی چاہیے‘‘۔ (د) وفات سے چند روز پہلے علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد مرحوم سیالکوٹ سے ان کی مزاج پرسی کے لیے آئے اور ان کودلاسا دینے لگے تو انہوں نے فرمایا: ’’بھائی صاحب میں موت سے نہیں ڈرتا ۔ انشاء اللہ مسکراتے ہوئے موت کا استقبال کروں گا‘‘ اور پھر فارسی کا ایک شعر پڑھاجس کا مطلب تھا کہ میں تم کو مومن کی پہچان بتاتا ہوں اور وجہ یہ ہے کہ جب موت آتی ہے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔ 2؎ (ھ) ایک موقعہ پر فرمایا ہے: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ اقبال درون خانہ 2؎ روزگار فقیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’انسان کو دنیا میں عمل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھو اوراس کے لیے کوشش کیے جائو‘‘۔ 1؎ (ز) ایک دفعہ فرمایا ’’دنیا میں بڑے بڑے رفارمر اور فلسفی پیدا ہوئے ہیں اور انہوںنے ملک و قوم کی اصلاح کے لیے اصول اور نظریات وضع کیے ہیں مگر ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے اپنے وضع کیے ہوئے اصول اورنظریات پر خود بھی عمل کیا ہو بس ایک ہی ہستی ایسی گزری ہے جس نے اپنے دیے ہوئے پیغام پر پہلے خود عمل کر کے دکھایا۔ اور وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے‘‘ 2؎ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی سنگ راہ راستے کا پتھر طبقہ گروہ‘ جماعت پچھواڑے پچھلی طرف تصانیف کتابیں‘ تصنیف کی جمع ہے درگزر کرنا معاف کرنا‘ ٹال دینا رفارمر اصلاح کرنے والا اشغال شغل کی جمع ہے‘ کام نظریے خیالات‘ اصول وغیرہ حوصلہ افزائی ہمت بڑھانا وضع کرنا بنانا مسئلہ معاملہ‘ سوال وضع کیے ہیں بنائے ہیں لعنت پھٹکار ٭٭٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ سیرت اقبال 1؎ ایضاً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مشق 1۔ علامہ اقبال کے ارشاد کے مطابق وقت کے ساتھ جاوید اورملازمہ کے بچے کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کیسے ہوجائے گا؟ 2۔ صحن خانہ میںگیند آ کر گرنے پر جب بیگم علامہ سے اس کی شکایت کالج کے پرنسپل سے کرنے کو کہا تو علامہ نے بیگم کو کیا جواب دیا؟ 3۔ نیچے لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہوں کو پر کرو (الف) بڑے ہونے پر دونوں میں … فرق ہو جائے گا۔ (ب) ہمیں ان کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بجائے ان کی … کرنی چاہیے۔ (ج) ہمیں اپنے دست و بازو سے… کوشش کرنی چاہیے۔ 4 ذیل کے جملوں کو اپنی کاپی میں صاف صاف خوشخط لکھو۔ (الف) یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ قوم کے نونہال غلط قسم کے اشغال چھوڑ کر صحت مند کھیلوں کی طرف رجوع کررہے ہیں۔ (ب) ہر مسلمان کو اپنے دست و بازو سے کمانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٭٭٭ 18۔ اقبال کی قابل رشک عادات 1۔ حب رسولؐ اقبال کو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی۔ جب کبھی حضورؐ کا ذکر ہوتا ت بے تاب ہوجاتے اور دیر تک آنکھوں سے آنسوجاری رہتے اگر کبھی حضورؐ کی سیر ت مبارکہ کے عنوان سے تقریر کرتے تو وہ ایسی موثرہوتی کہ سننے والا حضورؐ کا گرویدہ ہو جاتا ۔ آپ کے سامنے کو مسلمان ’’محمد صاحب‘‘ یا ایسا ہی کوئی اور لفظ حضورؐ کے نام سے ملا کر بولتا تو ا س سے آپ کو اتنی تکلیف ہوتی کہ اس کا اثر کئی دن تک رہتا۔ خواجہ الطاف حسین حالی مرحوم کی ’’مسدس‘‘ کے یہ بند آپ کو بہت پسند تھے۔ ان کو خود بھی پڑھتے رہتے اور دوسروں سے بھی پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا مصیبت میںغیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوی یتیموں کا والی غلاموں کا مولا خطاکار سے درگزر کرنے والا بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا قبائل کو شیر و شکر کرنے والا اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا جس خام کو جس نے کندن بنایا کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا عرب جس پر قرنوں سے تھا جہل چھایا پلٹ دی بس اک آن میں ان کی کایا رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا اشعار کا مطلب یہ ہے کہ تمام نبیوں کو خدا کی طرف سے الگ الگ لقب ملے ہیں۔ ہمارے نبیؐ کو رحمتہ اللعالمین کا لقب ملا ہے۔ لہٰذا سارے نبیوں میں رحمت کا لقب پانے والے آپؐ ہیں۔ آپؐ غریبوں کی مرادیں بر لانے والے‘ مصیبت میں غیروں کے کام آنے والے اور اپنے تو اپنے پرایوں کا بھی غم کھانے والے تھے۔ آپؐ کی ذات گرامی غریبوں اور کمزوروں کا ٹھکانہ تھی۔ آپؐ یتیموںکے وارث اور غلاموں کے مولیٰ تھے۔ آپؐ خطاکاروں کو معاف کرنے والے اور بر ا چاہنے والوں کے دلو ں میں گھر کرنے والے تھے ۔ جھگڑوںکو مٹانے والے اورقبیلوں کو آپس میں ملانے والے تھے۔ آپؐ حرا سے اتر کر قوم کی طرف آئے اوراپنے ساتھ ایک نسخہ کیمیا لائے یعنی قرآن۔ یہ وہ نسخہ ہے جس نے تانبے (اس وقت کے ناکارہ انسان) کو کندن بنا دیا انسان جو نہایت ذلیل اور ناکارہ ہو چکا تھا اس کو انتہائی بلند مقام پر پہنچا دیا۔ کھرے اور کھوٹے کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جس طرح کسوٹی بنا دیتی ہے کہ یہ سونا کھرا ہے اور وہ کھوٹا ہے اسی طرح قرآن نے بھی اچھوں کو بروں سے الگ کر دیا۔ جس جس نے قرآن سن کر اسلام قبول کر لیا وہ ایک طرف ہو گئے اور جنہوں نے قرآن کو سننے کے بعد بھی اپنی روش نہیں چھوڑی وہ دوسری طرف ہو گئے ۔ وہ عرب جس پر صدیوں سے جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس کی بہت جلد کایا پلٹ دی۔ اور اب بیرے(عرب) کو طوفان کی موجوں کا ڈر نہیں رہا ۔ اس لیے کہ ہوا کے رخ بدل گیا جہالت کی تاریکی دور ہو گئی اوراسلام کا نور آ گیا۔ اور اسلام نے انسان کو ہر طرح کی مصیبت سے محفوظ کر دیا۔ مولانا حالی کے ان اشعار کو سن کر جن کا ہم نے ابھی ابھی مطلب بیان کیا ہے اقبال کا دل بھر آتاتھا۔ اور وہ بے اختیار رو پڑتے تھے۔ اسی طرح اگر کوئی عمدہ نعت پڑھتا تو آپ کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔ اقبال نے اپنی ہر کتاب میں حضورؐ کی شان میں نعت ضرور شامل کی ہے ۔ اور ایسے سوزوگداز اور والہانہ انداز میں لکھی ہے کہ اس کا ایک ایک حرف تیر و نشتر کی طرح دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ آخرعمر میں اقبال کو زیارت حرمین (مکہ و مدینہ) کا شوق حد سے زیادہ ہو گیا تھا چنانچہ انہوںنے اسی شوق میں ایسے شعر بھی لکھنے شروع کر دیے تھے جیسے آپ مکہ اور مدینہ کے سفر میں ہیں۔ اور وہاں کی کیفیتوں سے متاثر ہو کر اشعار کہہ رہے ہیں۔ ایسے تمام اشعار ان کی کتاب ارمغان حجاز میں موجود ہیں جو ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی ہے لیکن افسوس ہے کہ ان کی شدید اور طویل علالت نے جو تقریباً تین سال تک رہی اورآخڑ ان کی جان لے کر ٹلی‘ ان کو زیارت حرمین کا موقع نہیںدیا۔ اور وہ یہ حسرت اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ 2۔ قرآن کے ساتھ بے حد محبت اقبال کو قرآن کے ساتھ بڑی محبت تھی بچپن ہی سے روزانہ صبح کے وقت قرآن کی تلاوت نہایت پابندی سے کیا کرتے تھے۔ اور اونچی آواز میں نہایت دلکش لہجے میں قرآن پڑھا کرتے تھے۔ ان کے والد ان کے قرآن پڑھنے کو سنتے اور دل ہی دل میں خوش ہوتے۔ ان کے اسی ذوق و شوق کودیکھ کر ہی والد نے ان کو نصیحت کی کہ بیٹے! جب قرآن پڑھو تو یہ سمجھ کر پڑھو کہ تم پر ہی اتر رہا ہے یعنی اللہ تعالیٰ تم سے خود ہم کلام ہے۔ چنانچہ اقبال نے اس نصیحت پر عمل کیا۔ ان کا یہ حال تھا کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے کبھی وجد میں آ جائے اور کبھی روتے روتے ان کی ہچکی بندھ جاتی تھی۔ روتے روتے اور پڑھتے جاتے۔ یہاں تک کہ قرآن کے ورق ان کے آنسوئوں سے تر ہو جاتے۔ عمر بھر ان کا یہی دستور رہا۔ آخری عمرمیں جب گلا خراب ہوجانے کی وجہ سے… ان کی آواز بیٹھ گئی تو ان کو اس بات کا بڑا غم تھا کہ وہ حسب معمول اونچی آواز سے قرآن نہیں پڑھ سکتے۔ یہ تو قرآن کی تلاوت کا حال تھا۔ رہا قرآن کا سمجھنا تو چونکہ انہوںنے اس کا بڑ ا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس کے معنی و مطالب کی تہہ تک پہنچے تھے اس لیے انہوںنے اس کتاب کی تعریف کثرت اورایسے موثر انداز اور دل نشیں پیرائے میں کی ہے کہ دل میں اترتی چلی جاتی ہے پھر ایسی مدلل کہ کسیکو انکار کی گنجائش نہیں رہتی۔ 3۔ سحر خیزی اقبال کی ہمیشہ سے یہ عادت تھی کہ سبح چار بجے اور کبھی تین بجے اٹھ بیٹھتے تھے۔ اور پھر نہیں سوتے تھے۔ بالعموم فجر کی نماز پڑھنے کے بعد قرآن کی تلاوت کرنے بیٹھ جاتے اوردن چڑھے تک کرتے رہتے۔ ان کی سحر خیزی کا یہ حال تھا کہ یورپ کے قیام کے دوران بھی ا س میں فرق نہ آیا۔ چنانچہ ایک شعر میں فرماتے ہیں۔ زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی آداب سحری صبح جلدی اٹھنا حوائج ضروری سے فارغ ہو کر فجر کی نماز پڑھنا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔وغیرہ۔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ لندن کے موسم سرما کی ہوائوں میں تلوار کی سی تیزی ہوتی تھی مگر میں نے وہاں بھی صبح جلدی اٹھنا اور نماز فجر ادا کرنا اورنماز کے بعد قرآن کی تلاوت کرنا نہیں چھوڑا۔ غرض کہ اقبال کی صبح جلدی اٹھنے کی عادت اس قدر پختہ ہو گئی تھی کہ اس میں کسی حال میںکوئی فرق نہ آیا۔ پھر یہی نہیں کہ وہ معمول کے ساتھ صبح جلدی اٹھتے تھے بلکہ اپنے کلام میں جا بجا صبح جلدی اٹھنے کی تعریف کی اور اس کے فائدے ایسے موثر انداز میں بیان کیے کہ ا س کو پڑھ کر لوگوں کے دلوں میں سحر خیزی کا شوق پیدا ہوتا ہے چونکہ سحر خیزی ان کا حال تھا اس لیے ان کے اس بیان میں ایسی تاثیر کا ہونا قدرتی بات ہے۔ 4۔ سادگی سادگی بھی اقبال کی ایسی صفت تھی جس کی کوئی مثال ان کے درجے بلکہ ان سے کم درجے کے کسی شخص میں بھی نہیں مل سکتی۔ گرمی کے موسم میں گھر میں سفید قمیض اور تہمد سردی کے موسم میں کمبل اوڑھ لیتے۔ البتہ ہائی کورٹ جانا ہوتایاکسی خاص کام سے تقریب میں شرکت کرنی ہوتی تو سوٹ پہن لیتے ۔ شلوار بھی پہنتے تھے اور شلوار کے ساتھ چھوٹا کوٹ بھی پہنا ہے۔ اور شیروانی بھی سر پر ترکی ٹوپی رکھتے تھے۔ جب ترکی ٹوپی ملنی مشکل ہو گئی تو قراقلی نما سیاہ ٹوپی پسند فرمائی کبھی کبھی لنگی اور کلاہ کا بھی استعمال کر لیتے تھے۔ تکلیف دہ لباس انہوںنے کبھی نہیںپہنا۔ تکلف سے انہیں طبعاً نفرت تھی۔ ان کی سادگی بالکل فطری تھی۔ وہ لباس کو تن ڈھانکنے کا ذریعہ سمجھتے تھے جو لبا س وقت اور ماحول کے مطابق یہ مقصدپورا کر سکتا تھا وہ اسی پر مطمئن رہتے۔ ایسے معاملات میں مین میکھ نکالنے سے ان کی طبیعت اکتائی تھی۔ یہی حال خود نوش اور زندگی کے دوسرے امور کا تھا کھانے میں جو کچھ مل گیا خوش ہو کر کھا لیا۔ اور خدا کا شکر ادا کیا۔ بلکہ کھانا وہ ایک مدت سے ایک ہی وقت کھاتے تھے۔ چائے بھی نہیںپیتے تھے ۔ البتہ کبھی کبھی رات کو سونے سے پہلے نمکین چائے پی لیتے تھے۔ اتنے بلند پایہ فلسفی اور عالی مرتبہ مفکر ہونے کے باوجود تنہائی پسند نہ تھے ۔ ہر قسم کے لوگوں سے ملتے اور ہر شخص سے ا س کے مذاق کے مطابق گفتگو کرتے جس سے بھی ملتے انتہائی بے تکلفی کے ساتھ ملتے۔ ان کی صحبت میں بیٹھنے والا شخص ان کے انکسار‘ سادگی اور اخلاق کی خوبی کا بڑا گہرا اثر دل پر لے کے اٹھتا۔ بلکہ اپنی خاکساری کے اظہار کے لیے وہ اپنے مخاطب سے ایسے سوالات کرتے گویا اس سے مستفیض ہو رہے ہیں۔ ہمیشہ کرایے کے مکان میں رہے۔ آخر میں اپناایک ذاتی مکان بنوالیا تھا۔ مکان پر آنے میں کسی کو کوئی روک ٹوک نہیںتھی۔ ان کا دروازہ سب کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ جو چاہتا بلا تکلف آپ سے آ کر ملتا اور ہم کلام ہو جاتا۔ جو سوال چاہتا کرتا پھر مکان اور اس کا آس پاس سادگی کا مکمل مرقع ہوتا تھا۔ نہ مکان کے باہر کسی قسم کی آرائش و زیبائش نہ اندر فرنیچر کے ٹھاٹ باٹ غرضکہ ہر طرح کی سادگی ان کی زندگی کا خاصہ بن چکی تھی۔ 5۔ قناعت ’’قناعت‘‘ کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی محنت اور کوشش سے جو کچھ حاصل کرے اس پر خوش رہے اور ضرورت سے زیادہ کے لیے دوڑ دھوپ نہ کرے۔ علامہ اقبال میں قناعت کی صفت کمال درجے کی تھی اور وہ اس پر سختی سے قائم تھے۔ جب وکالت کرتے تھے تو صرف اتنے پیسوں کام کام لیتے تھے جس سے ان کی زندگی کی ضروریات پوری ہو جائیں۔ اگر کوئی مقدمہ جھوٹا یا کمزور نظر آتا ہو تو اسے لینے سے انکار کر دیتے۔ اور مقدمے کے فریق سمجھاتے کہ تمہارے کیس میں جان نہیں ہے۔ خواہ مخواہ روپیہ ضائع نہ کرو۔ ایک دفعہ ایک شخص اپنے مقدمے کی پیروی کرانے کے لیے آیا۔ لیک انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مقدمے میں جان نہیں ہے وہ شخص ضد کر رہا تھا کہ آپ اپنی منہ مانگی فیس لیں اور پیروی کریں۔ اگر فیصلہ میرے خلاف بھی ہوا تو مجھے افسوس نہ ہو گا۔ مگر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں حرام کی کمائی کا قائل نہیں ہوں۔ آخر بڑی ردوکد کے بعد وہ شخص ناراض ہو کر چلا گیا۔ آخری عمر میں طویل علالت کی وجہ سے انہیں وکالت چھوڑنی پڑی۔ تین چار سال بڑی پریشان کے عالم میں گزرے ۔ کیونکہ حصول آمدنی کا ذریعہ نہ تھا۔ جب یہ خیر نواب صاحب بھوپال کے پاس پہنچی تو انہوںنے محض اپنے تعلق کی خاطر کی بنا پر اپنی جیب خاص سے پانچسو 500روپے ماہوار وظیفہ مقررر کر دیا۔ علامہ…مرحوم پہلے اس کے لیے رضامند نہ تھے مگر ان کے دوست سر راس مسعود اور خود نواب صاحب کے یقین دلانے پر کہ یہ ریاست کی طرف سے نہیںبلکہ ایک مخلص دوست کا اظہار عقیدت ہے توانہوںنے اسے قبول کر لیا ۔ اس کے بعد متعدد عقیدت مندوں نے اپنی طرف سے مزید وظائف کی پیش کش کی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری ضرورت کے مطابق خداوند کریم نے بڑ ا اچھا انتظام کر دیا ہے 1؎ ‘‘ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی موثر اثر کرنے والا قرن صدی گرویدہ عاشق ‘ بہت زیادہ چاہنے والا جہل جہالت ملجا و ماویٰ ٹھکانہ حرا مکے میں ایک پہاڑ ہے جس کی ایک غار میں حضورؐ نبوت سے پہلے عبادت کیا کرتے تھے مولیٰ آقا نسخہ کیمیا کیمیا کا نسخہ‘ یہاں قرآن مراد ہے بداندیش براچاہنے والا‘ دشمن بے اختیار خود بخود‘ بلا ارادہ مفاسد مفسدہ کی جمع ہے۔ لڑائی جھگڑے‘ بگاڑ اور خرابی کی باتیں ناگزیر ضروری قبائل قبیلے دل بھر آیا غمگین ہونے سے آنکھوں میں آنسو بھر آنا مس خام کچا تانبا والہانہ انتہائی محبت والا کندن خالص سونا شغف بے حد دلچسپی‘ لگائو‘ شوق وجد بے خو د ہو کر جھومنا مدلل دلیل سے ثابت کیا ہوا تہجد نوافل جو اکثر نیک لوگ آدھی رات کے بعد پڑھا کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ روزگار فقیر حصہ دوم ص 470 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ مشق 1۔ اس کتاب میں اقبال کی جتنی ’’قابل رشک عادات‘‘ بیان کی گئی ہیں۔ ان کے عنوان بتائو؟ 2۔ حضور سرور عالمؐ کے ساتھ اقبال کی محبت ان کی کن باتوں سے ثابت ہوتی ہے؟ 3۔ قناعت بھی اقبال کی ایک صفت تھی۔ دو ایک مثالوں سے ان کی قناعت ثابت کرو؟ 4۔ اقبال کی سادگی پر دو ایک مثالیں بیان کرو؟ 5۔ نیچے لکھے ہوئے الفاظ کے معنی بتائو او راپنے جملوں میں استعمال کرو۔ گرویدہ۔ بد اندیش۔ بے اختیار۔ دل بھر آنا۔ والہانہ 6۔ ان جملوں کو صا ف صاف اور خوشخط لکھو۔ (الف) اقبال کو حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت تھی۔ (ب) سارے نبیوں میں رحمت کا لقب پانے والے صرف ہمارے نبیؐ ہیں۔ (ج) اقبال قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے کبھی وجد میں آ جاتے تھے اور کبھی روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں۔ ٭٭٭ 19۔ علامہ اقبال کے خطوط لسان العصر اکبر الہ آبادی کے نام لاہور 18اکتوبر 1915ے مخدومی! تسلیم آپ کا نوازش نامہ مل گیا تھا۔ مجھے اس بات سے تردد ہے کہ آپ کی علالت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جلد صحت کامل عطا فرمائے۔ آپ سے خطوط سے مجھے نہایت فائدہ ہوتا ہے۔ اور مزید غور و فکر کی راہ کھلتی ہے اسی واسطے میں خطوط کو محفوظ رکھتا ہوں کہ یہ تحریریںنہایت بیش قیمت ہیں۔ اور بہت سے لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچنے کی توقع ہے ۔ واعظ قرآن بننے کی اہلیت تو مجھ میں نہیں ہے ہاں اس مطالعہ سے اپنا اطمینان خاطر روز بروز ترقی کرتا جا رہا ہے گو عملی حالت کے اعتبار سے بہت سست واقع ہوا ہوں۔ آ پ دعا فرمائیں۔ قرآن کے متعلق عربی میں بعض نہایت عمدہ کتابیں ہیں مگر افسوس ہے کہ لاہور میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ جرمنی کے علما نے بھی بہت کچھ لکھا ہے ۔ مگر جنگ کی وجہ سے وہاں سے نہیں آ سکتیں۔ انشاء اللہ بعد از جنگ بہت سی کتابیں علوم قرآن کے متعلق وہاںسے منگوائوں گا۔ آپ کا خادم محمد اقبال ٭٭٭ سیالکوٹ 13اگست1918ء مخدومی السلام علیکم! والا نامہ لاہور سے ہوتا ہوا ملا۔ الحمد للہ کہ جناب کا مزاج بخیر ہے۔ واقعی آپ نے سچ فرمایا کہ ہزار کتب خانہ ایک طرف ارو باپ کی شفقت ایک طرف‘ اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کے بجائے ان کی گرمی صحبت سے مستفید ہوتا ہوں۔ پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کر رہے تھے جس کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ دوران گفتگو کہنے لگے کہ معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہے۔ اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تقریباً بے ہوش ہو گئے۔ اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی۔ یہ خاموش لیکچر جو پیران مشرق سے ہی مل سکتے ہیں۔ یورپ کی درس گاہوں میں ان کا نشان نہیں۔ والد مکرم سلام شوق عرض کرتے ہیں۔ مخلص محمد اقبال ٭٭٭ (بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نام) لاہور 9ستمبر 1937ء مخدومی جناب مولوی صاحب! تسلیم آپ کا نوازش نامہ مل گیا ہے جس کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔ اردو زبان کے تحفظ کے لیے جو کوششیں آ پ کر رہے ہیں ان کے لیے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آپ کی شکر گزار رہیں گی۔ مگر آپ سے زیادہ اس بات کو کون سمجھ سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں سرکاری امداد پر کوئی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ زبانیںاپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں۔ اور نئے نئے خیالات و جذبات کا ادا کر سکتنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے۔ آپ کی کوششوں کامرکز وہی پروگرام ہونا چاہیے جو آپ علی گڑھ میں وضع کر چکے ہیں کبھی کبھی پنجاب کا دورہ بھی لازم ہے۔ باقی خدا کے فضل وکرم سے خیریت ہے۔ امید ہے کہ آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ٭٭٭ (محمد جمیل کے نام) لاہور 18فروری 1929ء مائی ڈیر مسٹر جمیل! ابھی ابھی آپ کا نوازش نامہ اور تصویری کارڈ موصول ہوئے۔ بہت بہت شکریہ قبول فرمائیے۔ آپ تک یہ اطلاع پہنچانا میرے لیے باعث مسرت ہے کہ میں آزمائش میں ثابت قدم نکلا اور اب باوجود مالی مشکلات کے ایران اور ترکی کے سفر کی تیاری میں مصروف ہوں۔ خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم پر بھروسہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس سفر کے لیے جو میں محض اسلام اور مسلمانوں کی بہتری اور بلندی کے لیے اختیار کر رہا ہوں زادراہ میسر آ جائے گا۔ مجھے اس اطلاع سے بے حد مسرت ہوئی کہ میرا سفر میسور مسلم نوجوانوں میں تاریخی تحقیق کے شوق و ذوق کا باعث ہوا۔ سیٹھ آبا صاحب نے مجھے سلطان ٹیپو رحمہ اللہ علیہ کی تاریخ کے متعلق ایک قلمی مسودہ دیا جو ایک شخص کے پاس ہے اور ہمیں جو سلطان کے مقبرہ پر ملا تھا ارسال کرنے کا وعدہ فرمایا ہے مجھے امید ہے کہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوں گے ۔ ان تک میرا سلام شوق پہنچا دیجیے اور ان سے کہے کہ سلام کی خدمت کے لیے ان کے زوق و شوق نے میرے دل پر ایک ایسا اثر پیدا کر دیا ہے کہ جو کبھی محو نہ ہو گا۔ میں دست بدعا ہوں کہ انہیںبنگلور کے حاجی اسماعیل کی سی عظمت و منزلت حاصل ہو۔ مخلص۔ محمد اقبال ٭٭٭ پروفیسر محمد اکبر منیر کے نام لاہور 4اگست1920ء مکرم بندہ السلام علیکم۔ آپ کا خط ابھی ابھی ملا ہے۔ مجھے یہ معلوم کر کے بڑی مسرت ہوئی کہ آپ ایران جانے والے ہیں۔ شیراز فارسیوں کے کلچر کا مرکز ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہاں کا قیام آپ کے لیے مفید ہو گا۔ حال کی ایرانی شاعری میں کچھ نہیں البتہ اس قوم میں بیداری کے شواہش کے طور پر اسے ضرور پڑھنا چاہیے علاوہ اس کے زبان کی تحصیل کے لیے بھی مفید ہے۔ ایرانی شاعری کا تو قاآنی پر خاتمہ ہو گیا۔ خالص فلسفے میں اگر کتابیں آپ کو مل جائیں تو انہیںجمع کرتے جائیے قلمی ہوں یا مطبوعہ۔ تصوف کی کتب کا جمع کرنا بھی مفید ہو گا حال کے ایرانی حکماء میں حادی سبزواری مشہور ہیں۔ ان کی کتاب اسرار الحکم میری نظر سے گزری ہے۔ محض افلاطونیت کاچربہ ہے اور بس۔ حال کے حکما میں سے اگر کسی کی تصنیفات آپ کے ہاتھ آ جائیں تو غنیمت ہے فلسفے اور تصوف کی کتابوں پر اگر خرچ ہو تو پروا نہ کیجیے اس میں مجھے بھی شریک سمجھیے۔ البتہ کتاب خریدنے میں احتیاط لازم ہے کیونکہ نوے فی صد کتابوں میں کچھ بھی نہیںہوتا۔ لوگ نام کی وجہ سے خریدتے ہیں۔ ایک کتاب غالباً ’’لطائف غیبی‘‘ نام کی ایران میں شائع ہوئی تھی۔ پروفیسر برائون نے ’’لٹریری ہسٹری‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب ان اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے جو وقتاً فوقتاً خواجہ حافظ پر کیے گئے ہیں۔ اگر کہیں سے دستیاب ہو جائے تو میرے لیے خرید کر بھیج دیجیے۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔ محمد اقبال ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی شفقت مہربانی مستفید ہوتا ہوں فائدہ اٹھاتا ہوں دوران گفتگو گفتگو کے وقت‘ گفتگو کے درمیان پیران مشرق مشرق کے رہنے والے بزرگ تردد فکر محو نہ ہو گا نہیںمٹے گا علالت بیماری منزلت مرتبہ واعظ قرآن قرآن کا وعظ کہنے والا دست بدعا ہوں دعا کرتا ہوں تحفظ حفاظت کرنا‘ حفاظت نشوونما پاتی ہیں بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں ٭٭٭ مشق 1 ۔ اقبال نے اکبر الہ آبادی کو اپنے والد محترم کے بارے میں جس واقعے کا ذکر کیا ہے اس کو بیان کرو؟ 2۔ اقبال نے اکبر کے خطوط کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے؟ 3 ۔ اقبال نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کو اردو زبان کے بارے میں کیا لکھا ہے؟ 4۔ اقبال ایران اور ترکی کا سفر کس غرض سے کرنا چاہتے تھے؟ 5۔ نیچے لکھے ہوئے ادھورے جملوں کو پورا کرو: (الف) شیراز فارسیوں کے کلچر کا مرکز ہے۔ (ب) آپ کے خطوط سے مجھے نہایت… (ج) البتہ کتاب خریدنے میں… 6۔ نیچے کے جملوں کو صاف صاف خوشخط اپنی کاپی میں نقل کرو۔ (الف) شیراز فارسیوں کے کلچر کا مرکز تھا۔ (ب) زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں۔ (ج) ایرانی شاعری کا قاآنی پر خاتمہ ہو گیا۔ ٭٭٭ 20۔ اقبال کے لطائف اقبال کی طبیعت میں مزاح اور خوش طبعی بڑی فراوانی سے پائی جاتی تھی۔ کسی قسم کا موضوع ہو وہ ہنسنے ہنسانے کا پہلو نکال لیا کرتے تھے۔ یہاں ان کے چند لطیفے بیان کیے جاتے ہیں: 1۔ میکلوڈ روڈ پر علامہ اقبال کی کوٹھی کے پیچھے دیال سنگھ کالج کا کھیل کا وسیع میدان تھا۔ برسات کے موسم میں جب موسلا دھار بارشیں ہوتیں تو یہ میدان پانی سے بھر جاتا اور ایک اچھی خا؟صی جھیل کا منظر پیش کرتا‘ پانی جمع ہوجانے سے مچھر اور مینڈک بڑی کثرت سے پیدا ہو جاتے ۔ مچھروں سے تو کسی نہ کسی طور پر بچائو کا انتظام کر دیا جاتا مگر مینڈک رات کو اس شدت کے ٹرائے کہ سونا حرام کر دیتے۔ بیگم اقبال زچ ہو کر کبھی کالج والوں کو برا بھلا کہتیں تو کبھی مینڈکوں کو کوستیں۔ ایک دفعہ حضرت علامہ سے بھی اس کا ذکر آیا تو آپ بہت ہنسے اور فرمایا: ’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے لوگ شب بیداری کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں لیکن آپ کے لیے تو قدرت نے خود ہی انتظام کر دیا ہے اس لیے مینڈکوں کو برا بھلا کہنے کی بجائے اللہ اللہ کیا کیجیے‘‘۔ 1؎ 2۔ حضرت علامہ جب کبھی کسی کی دعوت کرتے تو خاص اہتمام کیا جاتا۔ بیگم صاحبہ کھانے پکانے کی ماہر تھیں۔ان کے پکائے ہوئے کھانے ایسے لذیذ ہوتے کہ مہمان چٹخارے لے لے کر کھاتے۔ ایک دفعہ کسی صاحب کی دعوت تھی۔ نواب ذوالفقار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ اقبال درون خانہ ص 47 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی خاں بھی مدعو تھے ۔ سب لوگوں نے کھانوں کی بڑی تعریف کی لیکن کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ پکائے ہوئے کس کے ہیں۔ نہ کسی نے پوچھا کہ علامہ ہی نے بتانا مناسب سمجھا۔ اتفاق سے چند روز بعد نواب ذوالفقار علی خاں کے یہاں کسی تقریب کا اہتمام تھا۔ انہوںنے علامہ کو پیغام بھجوایا کہ اس دن جس خانساماں نے آپ کے ہاں کھانا تیار کیا تھا براہ نوازش اس کا پتہ بتائیں آپ اس پیغام سے بڑے محظوظ ہوئے اور جواب بھجوایا: ’’بھائی میں تو غریب آدمی ہوں کھانا وغیرہ میری بیگم خود پکاتی ہیں‘‘ پھر بیگم کو سارا واقعہ سنایا اور مسکراتے ہوئے کہا: ’’کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا!‘‘ 3 ۔ اقبال کو آم بہت مرغوب تھے۔ ایک مرتبہ اکبرنے الہ آباد سے ان کے لیے ’’لنگڑا آم‘‘ کی ایک پیٹی بھجوائی اقبال نے ا س کی رسید میں یہ شعر لکھ بھیجا: اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبر الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا 1؎ 4۔ میرے ایک قریبی رشتہ دار واجد علی صاحب کو کتے پالنے کا بہت شوق تھا ایک دفعہ میں ان کے ساتھ موٹر میں بیٹح کرعلامہ اقبال سے ملنے گیا موٹر میں ان کے کتے بھی تھے۔ ہم لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کتوں کو موٹر میں ہی چھوڑ دیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ڈاکٹر صاحب کی ننھی بچی منیرہ بھاگی ہوئی آئی اور کہنے لگی ۔ ’’اباجان موٹر میں کتے آئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ روزگار فقیر حصہ اول ص 51 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’نہیں بیٹا یہ تو آدمی ہیں‘‘۔ 5۔ نادر خاں(جو بعد میں والی افغانستان ہوئے اور نادر شاہ کہلائے) سے جب پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تو وہ کابل جاتے ہوئے لاہور میں ٹھہر گئے تھے علامہ فرماتے ہیں کہ وہ میری صور ت دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ کہنے لگے آپ اقبال ہیں؟ میںسمجھتا تھا لمبی ڈاڑھی والے بزرگ ہوں گے میں نے کہا: آپ سے زیادہ تو مجھے حیرانی ہوئی ہے آپ تو جرنیل ہیں۔ میں سمجھتا تھا آپ دیوہیکل ہوں گے مگرآپ میں جرنیلی کی کوئی شان نہیں اس قدر دبلے پتلے! 6۔ ڈاکٹر سید عبداللہ ایم اے پی ایچ ڈی فرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں بڑا مزاح تھا ۔ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک فقیر ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوئے تہمد باندھے آ گیا ۔ کرسی پر بیٹھا تھامیری ٹانگیں دبانے لگا میں مزے سے بیٹھا رہا اور وہ میرے پائوں دباتا رہا۔ آخر میں نے پوچھا ’’آپ کیسے آئے ہیں؟‘‘ اس فقیر نے کہا کہ میں فلاں پیر کی خدمت میں حاضر تھا انہوںنے مجھ سے کہا کہ تمہارے علاقے کا قلندر ڈاکٹر اقبال کو مقرر کر دیا ہے تم ان کے پاس جائو۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے تو ابھی تک ا س تقرر کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ میری اس بات کو بھی اس فقری نے قلندری کے کوچے کی کوئی رمز سمجھا ٹانگیں دباتا رہا۔ اتنے میں چودھری محمد حسین صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی سکندر کے بارے میں گفتگو شروع کرنے ہی والے تھے کہ میں نے کہا اور ٹوکا کہ چودھری صاحب اس سکندری کو رہنے دیجیے آج یہاں قلندری کی باتیں ہو رہی ہیں‘‘۔ 1؎ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1؎ ملفوظات اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭ الفاظ کے معنی لفظ معنی لفظ معنی مزاح مذاق خوش طبعی دل لگی‘ مذاق منظر تماشا‘ تماشا گاہ‘ نگاہ پڑنے کی جگہ نیند حرام کر دیتے نیند بے مزہ کر دیتے‘ سونے نہیں دیتے زچ ہو کر تنگ آ کر شب بیداری رات کو جاگنا جتن تدبیر تقریب شادی بیاہ وغیرہ‘ سبب ‘ موقع محظوظ خوش غائبانہ پیٹھ پیچھے مرغوب پسندیدہ اعجاز مسیحائی عیسیٰ علیہ السلام کا سا معجزہ معذور جس کو کسی بات میں عذر ہو‘ مجبور ہو موضوع مضمون‘ مدعا لطیفہ چٹکلا‘ دلچسپ بات والی افغانستان افغانستان کا بادشاہ رمز بھید کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا تجھ کو دنیا پیٹھ پیچھے کیا کہتی ہے لنگڑا آم لنگڑا کے دو معنی ہیں ایک ٹانگ سے معذور‘ ایک قسم کا مشہور آ م جو نہایت لذیذ ہوتا ہے شعر میں دونوں معنوں سے کام لیا ہے اور اسی بات سے شعر میںلطف پیدا ہو ا ہے لنگڑا آم جو آپ نے بھیجا مل گیا ارو لنگڑا الہ آباد سے چل کر لاہور پہنچ گیا یہ آپ کا اعجاز مسیحائی (معجزہ) ہے ورنہ لنگڑا تو بیچارہ دو چار قدم بھی مشکل سے چل سکتا ہے۔ مشق 1۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے اقبال کو جب لنگڑا آم بھیجا تو انہوںنے اس کے جواب میں جو شعر لکھ کر بھیجا تھا اس کو پڑھ کر اس کی خوبی بیان کرو؟ 2 نادر شاہ اور اقبال کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی اس کو اسی انداز سے بیا ن کرو؟ 3 نیچے کے جملوں میں خالی جگہوں کو پر کرو: (الف) لیکن آپ نے تو قدرت نے …انتظام کر دیا تھا۔ (ب) بھائی میں تو غریب آدمی ہوں…کھانا وغیرہ… پکاتی ہیں۔ (ج) مگر آپ میں جرنیلی کی…نہیں۔ 4۔ ان الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کرو: مزاح ۔ منظر۔ جتن۔ محظوظ۔ رمز ٭٭٭ 21۔ اقبال کے چند مخصوص اشعار اقبال کے کئی اشعارلوگوں کو زبانی یاد ہو جاتے ہیں اور گفتگو اور تقریر کے دوران میں بے ساختہ زبان پر آ جاتے ہیں۔ ایسے کچھ اشعار تم بھی یاد کر لو۔ یہ دستور زباں ہندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری ٭٭٭ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا ٭٭٭ خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں کا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا ٭٭٭ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی ٭٭٭ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ٭٭٭ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے ٭٭٭ بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی ٭٭٭ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ٭٭٭ خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے مسلمان کو ہے ننگ ‘ وہ بادشاہی ٭٭٭ سبق پھر پڑھ صداقت کا ‘ عدالت کا ‘ شجاعت کا لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ٭٭٭ پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر ٭٭٭ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن! گفتار میں کردار میں‘ اللہ کی برہان! جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان ٭٭٭ سلسلہ درسیات اقبال سوم حصہ نثر اقبال کی نثر نگاری اردو میں علمی زبان کا مسئلہ خاصا پریشان کن رہا ہے۔ لیکن اقبال کے مضامین کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والے کو اگراپنے مضمون پر واقعی قدرت ہو تو وہ اپنے لیے ایک باوقار 1؎ علمی زبان خود وجو دمیں لا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں بہانہ ساز لوگ علمی اصطلاحاات کی مشکل کا سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ کہ علمی اصطلاحیں ہر زبان میں مشکل ہوتی ہیں یہ لکھنے والے بھی موقوف 2؎ ہے کہ وہ علمی بات کو وضاحت کے ساتھ کس طرح ادا کرتا ہے (مثلا! اقبال کے مضمون) بچوں کی تعلیم و تربیت ہی کو دیکھ لیجیے ا س میں بچوں کی نفسیات ان کی ترغیبات 3؎ ذہن ان کے ماحول کے محرکات 4؎ وغیرہ کا علمی بیان ہے۔ لیکن توضیح ا س قدر قابل فہم اور زبان باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی سادہ ہے کہ ارد و زبان سے نابلد 5؎ آدمی بھی تھوڑی سی کوشش سے اس کو سمجھ سکتا ہے…ان عبارتوں میں وہی سلاست اور مدرسانہ 6؎ تشریحی انداز ہے اور ادیبانہ طرز تخاطب ہے مثلاً بچوں او ربڑوں کی نقل کرنے کامادہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے۔ ماں ہنستی ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اس کی آواز کی نقل اتارے بغیر نہیں رہتا۔ ذرا بڑا ہوتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے تو اپنے ہمجولیوں سے کہتا ہے آئو بھئی ہم بنتے ہیں تم شاگرد بنو۔ کہیں بازار کے دوکانداروں کی طرح سودا سلف بیچتا ہے کبھی پھر پھر ا کر اونچی آواز دیتا ہے کہ چلو آئو انار سستے لگا دیے۔ 1؎ شاندار 2؎منحصر3؎ خواہشات میلانات 4؎ حرکت میں لانے والی باتیں 5؎ ناواقف 6؎استادوں جیسا۔ اس عبارت میں نقالی کی توضیح بھی ہے ۔ اور تصویر بھی۔ اور یہی مصوری کا عمل دیکھنے والے کے متعلق یہ باور 1؎ کراتا ہے کہ وہ ادیب کا مزاج لے کر آیا ہے۔ اور یہ اور بات ہے کہ فارسی ادب کے زیر اثر رنگینی استعار ہ کے شوق میں وہ رگ چراغ اور خون آفتاب‘ شرار سنگ اورجلوہ طور کے تلازمات 2؎ میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ان کے علمی مضامین میں مشکل الفاظ میں بھی ہیں۔ مگر ان سے چارہ نہیں کسی عام علمی مضمون کے سلسلے میں یہ توقع رکھانا بالکل بے جا ہے کہ لکھنے والا اقلیدس اور حکمت عالیہ کے مسائل کو باغ و بہار اور طلسم ہوشربا کی داستان میں لکھے۔ ہر تحریر موضوع کے لحاظ سے ایک خاص حجم 4؎ اور خاص وزن رکھی ہے علمی تحریریں اگر خفیف ہوں یعنی اس وزن سے خالی ہوں جو علمی موضوعات کی جزالت 4؎ کے لے ضروری ہے تو ان میں علمی شان پیدا نہیں ہوسکتی… علمیت کو سادہ لفظوں میں تحلیل 5؎ کر دینا بڑا نازک بلکہ خطرناک کھیل ہے اس میں ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ سادگی سے علمی تحریر بے وزن نہ ہو جائے…ہماری نثر میں ایسی وزن دار اور سنجیدہ تحریروں کا اول نمونہ شبلی کے ہا ںپایا جاتا ہے۔ اور دوسر ا اقبال کے یہاں۔ شبلی کی فلسفیانہ نثر اور اقبال کی حکیمانہ نثر میں یہ فرق ہے کہ شبلی کی تحریروں کا جھکائو کسی حد تک سرسید احمد خاں کے دبستان نثر کے خصوصیات کی طرف ہے۔ یعنی وہ عبارتوں کی علمی شان کو قائم رکھتے ہوئے بھی یہ دیکھتے ہیں کہ محاورے کی بے تکلفی قائم رہے۔ اقبال محاورے کی بے تکلفی کو ضروری نہیں سمجھتے علمی عبارت کی علمی فضا کا خیال رکھتے 1؎ یقین دلاتا ہے۔ 2؎ مضمون کی رعایت سے الفاظ کا استعمال تلازمہ کہلاتا ہے۔تلازمات کی جمع ہے۔ 3؎ جسامت 4؎ بڑائی ‘خوبی‘ مضبوطی 5؎ حل کر دینا ہیں…دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر شبلی نے حکیمانہ نثر کی آن قائم رکھی تو اقبال نے حکیمانہ نثر کا وزن بڑھایا ۔ اور اس کا رتبہ اونچا کیا… ان کا خیال یہ تھا کہ اردو زبان خصوصاً علمی زبان کو وزن دار اوررعب دار ضرور ہونا چاہے۔ اور ان کی علمی زبان ہی اس کا معیار ہے۔ اقبال‘ مولانا ابواللکلام آزاد اور ظفر علی خان تینوں سہل لکھنے پر قادر تھے لیکن وہ اپنی زبان کو اس تہذیب کا ترجمان بنانا چاہتے تھے جو برگستوان 1؎ اور قہستان کا دبدبہ رکھتی ہیو۔ یہ مقامی اور زمینی رنگ اور عورتوں کی بولی اس قہستانی تہذیب کے حسب حال نہیں ۃو ستکی۔ یہ معلوم ہے کہ اقبال نے کہستان کو قہستان لکھ کر اپنے لہجے اور ذوق کی خارا پسندی 2؎ کاثبوت دیا ہے۔ بعض لوگ اس کو روز مرہ کی مخالفت کہیں گے بعض دوسرے اس کو مشکل پسندی قرار دیںگے۔ لیکن ظاہر ہے کہ قلعہ احمد نگر کامعمار قیصر باغ کا معمار نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہمارے یہاں علمی تحریر کی شان بہت کم لوگ برقرار رکھ سکتے ہیں… بہرحال اردو نثر میں علامہ نے اگرچہ کم لکھا لیکن وہ علمی اسلوب کا ایک منفرد رنگ 3؎ اوردو نثر کو دیے گئے ہیں جو ان کے پیغا م اور ان کی مرغوب تہذیب دونوں کا ترجمان ہے۔ میری تحریر سے یہ غلط فہمی نہیں ۃو گی کہ علامہ کی تحریر خشک اور محض سنجیدہ تھی …ان کی اردو نثر کا علمی حصہ بھی خشک نہیں۔ اوریہ عجیب بات ہے کہ ان کی مشکل سے مشکل تحریر کو پڑھ کر بھی نقل 4؎ کا احساس نہیں ہوتا۔ البتہ وہ وزن ہر جگہ موجود ہے جو ان کی تحریر کو خفیف ہونے سے بچاتاہے۔ یہ یاد رہے کہ اقبال کی تحریریں بے رنگ نہیں آخر وہ ایک شاعر کی تحریریں ہیں۔ ان میں تخیل اور جذبہ آفریں لفظوں کی کارفرؤمائی تو مسلم امر ہے… میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ اقبال اگر شاعری نہ کرتے اورنثر ہی لکھتے تو بھی وہ 1؎ لحاف کی ایک قسم جس کو بغرض زینت و حفاظت گھوڑے پر ڈالتے ہیں۔ 2؎ مشکل پسندی 3؎ یکتا ممتاز 4؎ بھاری پن اردو نثر میں مرزا غالب کے مانند ایک یادگار خاص دبستان 1؎ یادگار چھوڑ جاتے وہ اپنی خاص شگفتہ تحریر کے زیادہ سے زیادہ نمونے ہمیں دے جاتے اور ایک ایسا ادبی انداز ایجاد کرتے جس میں زبردست قوت فکریہ کے ہمراہ ایک قوی قوت متخیلہ دست بدست مل رہی ہوتی جس میں شاعری نثر سے ہم آغوش نظر آتی۔ (شفا راز جسارت ڈاکٹر سیدعبداللہ بہ مقالات اقبال) اقبال کے مضامین پیچیدہ مسائل کی عام تشریح کے لحاظ سے معیاری نمونہ قائم کرتے ہیں اور پیچیدہ مسائل پر فکر و تدبر اور اظہار خیالات کی راہیں بتاتے ہیں۔ خیالات کی عظمت کے باوجود زبان کی شستگی اور روانی ان کے مضامین کی خصوصیت ہے… جیسا کہ ان کی ہمہ گیر طبیعت کا تقاضا تھا اردو زبان کی خدمت پر آمادہ ہونے سے پہلے علامہ اقبال نے علم اللسان کا گہرا مطالعہ کر لیا تھا اور وہ زبان کے نشوونما 2؎ کے قانون سے بخوبی واقف تھے چنانچہ اپنے خط میں سردار عبدالرب نشتر کو لکھتے ہیں۔ زبان کو میں بت تصور نہیں کرتا۔ جس کی پرستش کی جائے بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسان ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو وہ مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک دفعہ مولوی عبدالحق مرحوم کو لکھاتھا۔ زبانیں اپنی اندونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں۔ اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کرنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے …اقبال کی اردو نثر سچ پوچھیے تو اردو نثر کا اقبال ہے۔ مضامین اقبال اردو ادب کے عظیم الشان انقلابی مظاہر ہیں 3؎ ترقی پسند ادب کا معیار ہیں دلیل راہ ہیں ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کا سنگ بنیاد ہیں۔ یہ مضامین ہمیں احتساب کائنات 4؎ کے حکیمانہ طریقے سمجھاتے ہیں۔ انسانی 1؎ مکتب سکول2؎ بڑھنا ترقی کرنا 3؎ تماشا گاہیں 4 ؎ جائز ہ لینا مسائل پر فکر و تدبر کے سلیقے سے آشنا کرتے ہیں‘‘۔ (پیش لفظ سید عبدالواحد بہ مقالات اقبال) اقبال نے ہمارے حکما شعرا اور ادبا میں سب سے پہلے ہرمذموم 1؎ کو محمو د بنانے والے آرٹ برائے آرٹ اور ادب برائے ادب کے نظریے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اس تصور کو حکیمانہ دلائل اور عمرانی تجربات 2؎ سے مدلل کیا۔ آرٹ برائے آرٹ کے اصول میں اقبال کے نزدیک حسن کا ایک تصور رہ جاتا ہے جس میں صداقت اس کے لازمی جزو کے طور پر باقی نہیں رہتی ایسے آرٹ اور ادب سے خستہ جان قوموں کی خستہ جانی اور ناتوان ملتوں کی ناتوانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ اس لیے معیار ادب اقبال کے نزدیک اس کی حیات بخشی کی صلاحیت ہے۔ اور ادب اور آرٹ حیات انسانی کے تابع ہیں 3؎ ۔ اقبا ل ادب میں فکر صالح 4؎ کے طالب ہیں تاکہ آرٹ اور ادب پیکار حیات سے میل کھا سکیں۔ اور قومی تعمیر کے امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کریں۔ وسواس 5؎ اور ہراس 6؎ کو دل سے دور کریں۔ کوہ گراں کو کاہ بنائیں۔ چنانچہ اقبال کے دو مضامین ایک جناب رسالتمآبؐ کا ادبی تبصرہ دوسرا دیباچہ مرقع چغتائی اسی بحث پر مشتمل ہیں۔ اقبال نے ان مقالات میں دکھایا ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ کے وجدان نے کس طرح اس باب میں انسانی فکرو ادب کی رہنمائی فرمائی ہے۔ اشتراکی اور ترقی پسند ادیب بھی اس نکتے میں اقبال کے ہم نوا بن 7؎ گئے ہیں اور بڑے زور سے اقبال کی طرح ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا پرچار کیا جا رہا ہے مگر دونوں کا فرق خو دزندگی کی بابت ان کے تصورات میں ملتا ہے۔ ’’اشتراکی‘‘ زندگی کو صرف مادی پیمانہ امروز و فردا سے ناپتے ہیں اور دانائے راز اقبا ل کا جو تصور حیات وسیع تر اور عمیق تر 9؎ ہے ان کی نگاہ اور عقیدے میں زندگی کے تسلسل ‘ توسیع اور استحکام کے امکانات اور لوازم کا دائرہ حد بندی سے بالاتر ہے 1؎ ۔ ناپسندیدہ 2 ؎ تمدنی ۔ تہذیبی 3؎ ماتحت 4؎ صحت مند فکر 5؎ براخیال 6؎ خوف 7؎ بارے میں 8؎ ہم آواز 9؎ گہرا تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی مضامین نثر میں اقبال کے بعض مبہم 1؎ او ر مشکل تصورات معین اور واضح ہو جاتے ہیں۔ بعض مجمل نکات مفصل توجیہات 2؎ کے آئینے میں اجاگر ہوتے ہیں۔ اقبال نے اپنے مضامین میں باطل اقدار کی جگہ ترقی پرور اقدار پیش کی ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ذہن انسانی کو دگرگوں کر دیں تاکہ وہ جہان دیگر پیدا کر سکے۔ ان کے افکار سے بحر و برر میں انقلاب کا طوفان برپا کیا جا سکتا ہے۔ اقبال ادب و فلسفہ کے علاوہ عمرانیات کے نہایت بالغ 3؎ نظر عالم اور ماہر تھے قوموں کے عروج و زوال کے اصول او رقوانین پر ان کی نظر دو رس ہے حکمت ایمانی اور مصلحت عمرانی کا مطالعہ ایک دوسرے سے تعلق کی روشنی میں خوب کیا ہے۔ ان کے اکثر مضامین کا موضوع بحث یہی ایمانی حقیقتیں اور عمرانی حکمتیں ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں ان کے مضامین کی غایت بھی۔ ان اخلاقی ‘مذہبی ‘ملی حقائق کو پیش نظر لانا ہے جن کا تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے تاکہ افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں سے ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید 4؎ ہو۔ اقبال چاہتے ہیں۔ نبوت محمدیؐ کی تعلیم کے مطابق بنی نوع انسان کی اقوام کو باوجود شعوب 5؎ اور الوان 6؎ والسنہ 7؎ کے اختلافات کو تسلیم کر لینے کے ان کو ان تمام آلودگیوں سے 8؎ سے پاک رکھا جائے جو زبان و مکان وطن قوم نسل نسب ملک وغیرہ کے ناموں سے موسوم کی جاتی ہیں۔ اور اس طرح ا س پیکر خاکی کو وہ ملکوتی تخیل عطا کیا جائے جو اپنے وقت کے ہر دور میں ابدیت 1؎ سے ہم کنار ہوتا ہے۔ یہ ہے مقام محمدیؐ یہ ہے نصب العین ملت اسلامیہ (مقدمہ مضامین اقبال مرتبہ تاج) 1؎ الجھے ہوئے2 تشریحات دلائل 3؎ ذہین حقیقت کو جاننے والا 4 ؎پیدائش 5؎ قبیلے 6؎ لون کی جمع رنگ 7؎ لسان کی جمع زبانیں 8؎ نجاستوں 9؎ فرشتوں جیسی بعض لوگ کہتے ہیں کہ اقبال کی اسلام کے ساتھ گرویدگی اگر وہ بندی یا فرقہ بندی کے مذاق پر مبنی ہے۔ حالانکہ صورت حال برعکس ہے۔ اور یہ خیال لا علمی یا نارسائی فکر کے باعث ہے اس کا سبب خود اقبال سے سنیے: ’’اگر عالم بشریت کا مقصد اقوام انسانی کا امن سلامتی اور ان کی موجودہ اجتماعی نیتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظام اسلام کے کوئی اور اجتماعی نظام زہن میں نہیں آ سکتا 3؎ اقبال مشترک (Goman) مفادات میں بیجا تعصب کے ہرگز حامی نہیں وہ تعاون 4؎ کے داعی ہیں قرآنی تعلیم کی دعوت بھی یہی ہے فرماتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم عقدہ اس مسلمان کے سامنے جو قومی کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے۔ یہ ہے کہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو بہتر بنائے اس کا یہ فرض ہے کہ کسی اور مسئلے پر غور کرنے سے پہلے یہ دریافت کرے کہ ملک کی اس حالت میں کس حد تک ان بڑی اقتصادی 4؎ قوتوں نے حصہ لیا ہے جو آج کل کی دنیا میں اپنا عمل کر رہی ہیں۔ جو شخص اس گتھی کو سلجھانے کا بیڑا اٹھائے اسے چاہیے کہ مذہب و ملت کے اختلا ف کی طرف سے خالی الذہن ہو جائے اور کسی ایک جماعت کی طر ف داری یا پاسداری کے خیال کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دے۔ اس لیے کہ اقتصادی قوتیں تمام قوموں پر اپنا عمل یکساں کرتی ہیں۔ (مقدمہ مضامین اقبال مرتبہ تاج) 1؎ ہمیشگی 2؎ عشق و محبت 3؎ باہم مدد کرنا 4؎ مالی اسلوب بیان مضامین اقبال ان بیش بہا تخیلات کے علاوہ جن کا ذکر ہوا ہماری زبان کو غیر معمولی حکیمانہ اور عالمانہ اسالیب بیان کی دولت بخشتے ہیں۔ انگریزی اور جرمن زبانوں میں فلسفیانہ کتابیں پڑھیے۔ عمرانی علوم کے مضامین کا مطالعہ فرمائیے بڑے بڑے ایجاد کار حکماء اور علماء کے اسالیب بیان کا اندازہ کیجیے اسالیب اقبال انہی کے آثار ہیں۔ جدید علوم و فنون پر جو لوگ اردو میں لکھ رہے ہیں کہ ان کے لیے اقبال کے مضامین معیاری نمونے ہیں۔ کسی قدر عمیق اور دقیق اردو میں یہ طرز تحریر منفرد یعنی آپ کی مثال اپنی ہے نہایت پختہ اور پر شوکت ادبی چٹخاروں اور شوخیوں سے خالی۔ لیکن کئی ترکیبیں نہایت بلیغ اور نئی ہیںَ یہ اقبال کی ایجاد اور عطیہ ہیں۔ طرز اظہار سلیس روا ں نہیں سنجیدہ اورگراں ہے انگریزی کی علمی تحریروں کی طرح جا بجا جملے ترکیب و ترکیب کے حامل مطالعہ کئی مقامات پر تکرار کا طالب ہوتا ہے۔ اقبا ل کا عام مشغلہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہرگز نہ تھا۔ ابتدا میں جب ان پر اعتراضات کے بم ضائع پرستوں کی طرف سے برس رہے تھے تو ان کی طبیعت تحقیق کی طرف مائل ہوگئی۔ لیکن ایک بلند نظر انسان کی طرح ان کو اعتراف تھا کہ: آپ مطمئن رہیں مجھے اساتذہ کی ہم سری کا دعویٰ نہیں اگر اہل پنجاب مجھے… بہمہ وجوہ کامل خیال کرتے ہیں تو ان کی غلطی ہے۔ زبان کامسئلہ بڑا نازک ہوتا ہے یہ ایک ایسی دشوار گزار وادی ہے بالخصوص ان لوگوں کو جو اہل زبان نہیںہیں یہاں قدم قدم پر ٹھوکر لگنے کا اندیشہ ہے۔ (مقدمہ مضامین اقبال مرتبہ تاج) خلاصہ اس گفتگو کا ی ہے کہ اقبال نے ایک ایسی باوقار علمی زبان پیدا کی ہے جواپنا جواب نہیں رکھتی۔ انہوںنے مشکل علمی اصطلاحات سے بھی کام لیا ہے مگر ان کو ایسی وضاحت کے ساتھ ادا کیا ہے کہ وہ قابل فہم گئی ہیں پھر ان کی زبان باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی سادہ ہے کہ اردو زبان سے ناواقف آدمی بھی تھوڑی سی کوشش سے اس کو سمجھ سکتا ہے۔ اقبال کا خیال یہ تھا کہ علمی زبان دار اور رعب دار ہونا چاہیے۔ چنانچہ خود ان کی علمی زبان کا بہترین نمونہ ہے۔ متعدد اشخاص کو جو انہوںنے اپنے خطوط میں اردو زبان کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ زبان کے نشوونما اور ترقی کے اصول و ضوابط سے پوری پوری واقفیت رکھتے تھے۔ اسی لیے اقبا ل کی اردو نثر ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کا سنگ بنیاد ہے۔ اقبال کے مضامین ہمیں احتساب کائنات کے حکیمانہ طریقے سمجھاتے ہیں اور انسانی مسائل پر فکر و تدبر کے سلیقے سے آشنا کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا بیش بہا خیالات کے علاوہ مضامین اقبال نے ہماری زبان کو غیر معمولی حکیمانہ اور عالمانہ اسالیب بیان کی دولت بھی بخشی ہے ۔ انگریزی اورجرمن زبانوں میں فلسفیانہ کتابیں پڑھیے عمرانی علوم کے مضامین کا مطالعہ فرمائیے بڑے بڑے ایجاد کار حکماء اورعلماء کے اسالیب بیان کا اندازہ کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اسالیب اقبال انہی کے آثار ہیں۔ نہایت پختہ اور پرشوکت ادبی چٹخاروں اور شوخیوں سے خالی مگر کتنی ہی ترکیبیں نہایت بلیغ اور نئی ہیں اظہار سلیس و رواں نہیں سنجیدہ اور گراں ہے اور انگریزی کی علمی تحریروں میں جا بجا جملے ترکیب و ترکیب کے حامل مطالعہ کئی مقامات پر تکرار کا طالب ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود دل چسپی و دل کشی سے خالی نہیںَ بہرحال اردو نثر میں اقبال نے اگرچہ بہت کم لکھاہے مگر وہ علمی زبان اور حکیمانہ اسلوب نگارش کا ایک ایسا منفرد رنگ اردو نثر کو دے گئے ہیں جو ان کے پیغام اور مرغوب تہذیب دونوں کا ترجمان ہے۔ ٭٭٭ انتخاب نثر 1۔ جناب رسالت مآبؐ کا ادبی تبصرہ حضور سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کی عربی شاعری کی نسبت وقتاً فوقتاً جن ناقدانہ 1؎ خیالات کا اظہار فرمایا ہے ان کی روشنی صفحات تاریخ کے لیے خط پاشان 2؎ کا حکم رکھتی ہے۔ لیکن دو موقعوں پر جو تنقیدات آپؐ نے ارشاد فرمائیں ان سے مسلمانان ہند کو آج کل کے زمانے میں بہت بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے کہ ان کا ادب ان کے قومی انحطاط کے دور کانتیجہ ہے۔ اور آج کہل انہیں ایک نئے ادبی نصب العین 3؎ کی تلاش ہے۔ شاعری کیسی ہونی چاہیے ور کیسی نہ ہونی چاہیے۔ یہ وہ عقدہ ہے جسے جناب رسالتمآب ؐ کے وجدان نے اس طرح حل کیا ہے۔ امراء القیس نے اسلام سے 40سال پہلے کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہمیں بتاتی ہیں کہ جناب پیغمبر ؐ نے اس کی نسبت سے ایک موقعے پر حست ذیل رائے ظاہرفرمائی۔ اشعر الشعراء وقائدھم الی النار یعنی وہ شاعروں کا سرتاج تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں بھی ان کا سپہ سالار ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امرا القیس کی شاعری میں وہ کون سی باتیں ہیں جنہوںنے حضور سرور کائناتؐ سے یہ رائے ظاہر کروائی۔ امراء القیس کے دیوان پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہیں شراب ارغوانی ک دور عشق و حسن کی ہوش ربا داستانوں 1؎ تنقیدی 2؎ پاشان کے معنی متفرق اوردور دور کے ہیں۔ اس تحریر کو خط پاشان کہتے ہیں جس میں دائرے اور حروف دور دور لکھے ہوں مراد یہ ہے کہ نمایاں منفرد 3؎ مقصد اور جان گداز جذبوں آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی عرب کے دور جاہلیت 1؎ کی کل تخلیقی کائنات ہے۔ امرا القیس قوت ارادی جو جنبش میں لانے کے بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اوران میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کییفیت پیدا کرتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون 2؎ لطیفی کے اس اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ ضائع و بدائع 3؎ کے محاسن او ر انسانی زندگی کے محاسن 4؎ یہ کچھ ضروری نہیں کہ دونوں ایک ہی ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر بہت اچھا شعر کہے لیکن وہی شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین 5؎ کی سیر کرانے کے بجائے اسفل السافلین کا تماشادکھا دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور س شاعرپر حیف ہے جو قومی زندگی کے مشکلات و امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے فرسودگی و انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر رکھ دے اوراس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کا فرض یہ ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے اس میں اوروں کو بھی شریک کرے نہ یہ کہ اٹھائی گیر بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے اس کو بھی ہتھیالے۔ ایک دفعہ قبیلہ بنو عیس کے مشہور شاعر عنترہ کا یہ شعر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا گیا۔ ولقد ابیت علی الطویٰ واظلہ حتی انال بد کریم الماکل 1؎ اسلام سے پہلے کا زمانہ 2؎ شاعری مصوری اور موسیقی وغیرہ 3؎ اشعار میں جو لفظی اور معنوی خوبیاں ہوتی ہیں ان کو صنائع و بدائع کہتے ہیں۔ 4؎ خوبیاں جمع حسن کی 5؎ علیین علیہ کی جمع ہے جنت کے اونچے اونچے مکان 6؎ دوزخ کا سب سے نچلا ساتواں حصہ حادیہ۔ (ترجمہ) میں نے بہت سی رایں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں آکل حلال کے قابل ہو سکوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت 1؎ کا مقصد وحید 2؎ یہ تھا کہ انسانی زندگی کو شاندار بنائیں ار اس کی آزمائشوں اور سختیوں کو خوش آئند اور مطبوع کر کے دکھائیں اور اس شعر کو سن کر بے انتہا محظوظ ہوئے۔ اوراپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوق ملاقات نہیں پیدا کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعر کے نگارندہ 3؎ کے دیکھنے کو میرا دل بے اختیار چاہتا ہے‘‘۔ اللہ اکبر! توحید کا وہ فرزند اعظم صلی اللہ علیہ وسلم جس کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈال لینا نظارگیوں 4؎ کے لیے دنیوی برکت اور اخروی 5؎ نجات کو دو کونہ سرمایہ اندوزی کا ذریعہ تھا۔ خود ایک بت پرست عرب سے ملنے کا شوق ظاہر کرتا ہے کہ اس عرب نے اپنے شعر میں اس کی گوں کی بات کہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عزت عنترہ کوبخشی اس کی وجہ ظاہر ہے عنترہ کا شعر ایک صحت بخش زندگی کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے حلال کی کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھانی پڑتیہیں جو کڑیاں جھیلنی پڑتی ہیں ان کا نقش پردہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے۔ حضور خواجہ دو جہاں ؐ (بابی و انت و امی) نے جو اس قدر شعر کی تعریف فرمائی ہے اس سے صنعت کے ایک دوسرے بڑے اصول کی شرح ہوتی ہے کہ صنعت حیات انسانی کے تابع ہے اس پر فوقیت نہیں رکھتی۔ ہر وہ استعداد جو مبدہ 6؎ فیاض نے فطرت انسانی میں ودیعت 7؎ کی ہے وہ ہر وہ 1؎ رسالت پیغمبرؐ کا بھیجا جانا 2؎ واحد یکتا 3؎ لکھنے والا 4؎نظارگی دیکھنے والا 5؎ آخرت کی 6؎ اللہ تعالیٰ 7؎ رکھی ہے۔ توانائی جو انسان کے دل و دماغ کو بخشی گئی ہے ایک مقصد وحید 1؎ اور ایک غائت 2؎ انعایات کے لیے وقف ہے یعنی قومی زندگی جو آفتاب بن کر چمکے قوت سے لبریز ہو جوش سے سرشار ہو۔ ہر انسانی صنعت اس غائب آفریں کے تابع اور مطیع ہونی چاہیے۔ اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہیے کہ اس میں حیات بخشی کی قابلیت کس قدرہے۔ تمام وہ باتیں جن کی وجہ سے ہم جاگتے جاگتے اونگھنے لگیں اور جو جیتی جاگتی حقیقتیں ہمارے گردو پیش موجود ہیں (کہ انہیںپر غلبہ پانے کا نام زندگی ہے) ان کی طرف سے آنکھو ں پر پٹی باندھ لیں انحطاط اور موت کا پیغا م ہے۔ صنعت گر کو چنیا بیگم کے حلقہ عشاق میں داخل نہ ہونا چاہیے۔ مصور فطرت کو اپنی رنگارنگ نگار آرائیوں کا اعجاز دکھانے کے لیے افیون کی چسکی سے احتراز واجب ہے ۔ یہ پیش پا افتادہ فقرہ ہجس سے ہمارے کانوں کی آئے دن تواضع کی جاتی ہے کہ کمال صنعت اپنی غائت آپ ہے۔ انفرادی و اجتماعی انحطاط کے لیے ایک عیارانہ حیلہ ہے جو اس لیے تراشا گیا ہے کہ تم سے زندگی اور قوت دھوکا دے کر چھین لی جائے غرض یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان حقیقی نے عنترہ کے شعر کی خوبیو ں کا جو اعتراف کیا اس نے اصل الاصول 4؎ کی بنیاد ڈال دی صنعت کے ہر کمال کی صحیح ارتقاء کیاہونی چاہیے ۔ مضمون محولہ بالا ستارہ صبح لاہور میں 1917ء میں شائع ہواتھا۔ اور یہ وہ زمانہ ہے جب کہ اقبال کی ’’بامقصد‘‘ اسلامی شاعری کا آغاز ہو چکا تھا۔ ظاہر ہے اقبال کے یہ خیالات نگارش مضمون سے بیک یکایک پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ اور نہ مضمون لکھنے کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ بلکہ یہ خیالات بہت پہلے پیداہوکر اس مضمون کے لکھنے کے وقت تک پختہ اور مستحکم ہو چکے تھے یہی وجہ ہہے کہ پھر آخر عمر تک ان کی شاعری و انشاء پردازی اسی معیار کی رہنمائی میں ترقی کرتی رہی۔ جو حضور کے ادبی تبصرے نے قائم کیا تھا۔ 1؎ واحد مقصد تنہا مقصد 2؎ تمام مقصدوں کا مقصد ‘ اصل مقصد 3؎ معمولی سا منے کی چیز 4؎ حقیقی اور بنیادی اصول اس مضمون سے اقبال کی شاعری اور انشاء پردازی کے سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی اور معلوم ہو گیا کہ انہوںنے اپنی نگارشات کو محور کوئی معیار و مقصد متعین نہیں کیا بلکہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادبی تبصرے کی روشنی میں جادہ سخن گوئی پر گامزن رہے کیونکہ حضورؐ کا تبصرہ قرآن کی اس سورت نے آخری جملوں کی ترجمانی کی ہے جس کا عنوان ہے الشعراء جس میں خود خالق عالم نے شاعری کی دو قسمیں کر دی ہیں ایک وہ جو لوگوں کو گمراہ کرتی ہے اوردوسری وہ جو اللہ پر ایمان لانے اورعمل صالح کرنے والوں سے متعلق ہے۔ اور جس کامقصد مخلوق خدا کی ہدایت اور نوع انسانی کو خیر کی طرف بلانا ہے۔ اس مضمون میں اقبال نے حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادبی تبصرے کی روشنی میں یہ بتایا ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے۔ اور کیسی نہیں ہونی چاہیے۔ یعن جو شاعری ہوشیاری کے بجائے سامعین پر بے خودی کی کیفیت طاری کر دے اس کو مذموم قرار دیا ہے امرا القیس کے کمالات شاعری سے کس کا انکار ہو سکتا ہے۔ جب کہ خود حضور نبی کریمؐ نے اس کو اشعر الشعراء فرمایا ہے۔ مگر امرا القیس نے صنائع اور بدائع کے محاسن کو ہی سب کچھ سمجھا اور انسانی زندگی کے محاسن پر کوئی پروا نہ کی۔ حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے عین ممکن ہے کہ شاعر شعر بہت اچھا کہے لیکن وہی شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی شر کرانے کے بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھا دے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ شاعری اثر انگیزی کے اعتبار سے ایک قسم کی ساحری ہے اور جب یہ بات ہے تو اس کی اثر انگیزی سے صحیح کام لینا چاہیے۔ اور وہ یہ ہے کہ قومی زندگی کے مشکلات اور امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کر کے لوگوں میں مشکلات خوشی خوشی انگیر کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ اور قوم میں مایوسی اور پست ہمتی پیدا نہ ہونے دی جائے اقبال فرماتے ہیں کہ اس شاعر پر افسو س ہے کہ جو ایسا کرنے کی بجائے فرسودگی اور انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر رکھ گے اور اس طرح قو م کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ فرماتے ہیں خہ شاعر کا فرض یہ ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے اس میں وہ دوسروں کو بھی شریک کر ے یعنی اپنے کلا م کے ذریعے اسے دوسروں کو بھی دکھا دے کہ زندگی اور قوت اس کوکہتہے ہیں۔ عنترہ کے شعر کو حضورؐ نے اس لیے پسند فرمایا کہ وہ ایک صحت بخش زندگی کی جیتی جاگتی تصویر پیش کرتا ہے یعنی حلال کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھانی پڑتی ہیں ان کا نقش پردہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ صنعت حیات انسانی کے تابع ہے۔ اس پر فوقیت نہیں رکھتی۔ لہٰذا ہر وہ استطاعت جو اللہ تعالیٰ نے فطرت انسانی میں ودیعت کی ہے اور ہر وہ توانائی جو انسان کے دل و دماغ کوبخشی گئیہے اس کاصحیح مصرف یہ ہے کہ اس کے ذریعے قومی زندگی کو آفتاب بنا کر چمکایا جائے۔ اسے قوت سے لبریز اور جو ش سے سرشار کر دیا جائے یعنی ہر چیز کی قدر و قیمت کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ ا س میں حیات بخشی کی قابلیت کس قدر ہے جس میں جتنی زیادہ یہ بات پائی جائے گی وہ اتنی ہی زیادہ قابل تعریف ہو گی اور یہ خیال کہ کمال صنعت اپنی غائت آپ ہے انفرادی اور اجتماعی انحطاط کا ایک عیارانہ حیلہ ہے ۔ جو اس لیے تراشا گیا ہے کہ ہم سے زندگی اور قوت دھوکہ دے کر چھین لی جائے۔ ٭٭٭ اقبال کی ایک تقریر کابل میں علامہ اقبال کے سفر افغانستان کے موقع پر کابل میں انجمن ادبی کابل نے علامہ اور دوسرے اراکین وفد کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پیش کیا۔ اس کے بعد افغانستان کے مشہور شاعر عبداللہ خان نے خیر مقد م کے نام سے ایک نظم پڑھی۔ نظم کے بعد سر راس مسعود مرحوم اور مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے اظہار خیالات کیا ۔ اور آخر میں علامہ مرحوم نے درج ذیل تقریر کی: … اگرچہ سر راس مسعود اور سید سلیمان ندوی صاحب کی تقریروں کے بعد اب کوئی ایسی چیز باقی نہیںہے جسے میں بیان کرں۔ لیکن انجمن ادبی کابل کے ارکان مجھ سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ خیر مقدم کے جواب میں میں بھی کچھ عرض کروں۔ میں انجمن کا بے حد ممنون ہوں کہ اس نے میرے متعلق نظم و نثر میں بہت اچھے خیالات اور پر احساس جذبات ظاہر کیے ہیں۔ میں بھی خواہش رکھتا ہوں کہ انجمن کے نوجوان ارکان کے عملی پہلو سے بحث کروں۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ آرٹ یعن ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ان یں سے ہرایک زندگی کی معاون 1؎ اور خدمت گار ہے۔ اسی بنا پر میں آرٹ کو ایجاد و اختراع سمجھتا ہوں اور نہ کہ محض آلہ تفریح 2؎ شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ اس وقت جب کہ حکومت یہ کوشش کر رہی ہے کہ موجود ہ زمانے میں افغانستان کی تاریخ ایک نئی زندگی کے میدان میں داخل ہو تو اس ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان کے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت اور بزرگی کے بجائے موت کو 1؎ مددگار 2؎ تفریح کا سامان تفریح کا ذریعہ زیادہ بڑھا کر نہ دکھائیں۔ کیونکہ جب آرٹ موت کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے تو اس وقت وہ سخت خوفناک اور برباد کن ہو جاتا ہے۔ اور جو حسن قوت سے خالی ہو وہ محض پیام موت ہے دلبری بے قاہری جادوگری است دلبری باقاہری پیغمبر است میں چاہتا ہوں کہ آ پ کی توجہ کو ایک مرکزی نقطے کی طرف مبذول کروں حیات نبویؐ کے واقعات میںسے ایک واقعہ کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور 1؎ میں عرب کے مشہور شاعر امرا القیس کے کچھ اشعار پڑھے گئے ۔ ارشاد ہوا اشعر الشعراء وقائد ہم الی النار یعنی تمام شاعروں میں بہترین شاعر اور ان کو دوزخ کی طرف لے جانے والا۔ اس ارشاد سراسر ارشاد 2؎ سے واضح ہے کہ شعر کا کمال بعض اوقات لوگوں پر برا اثر مرتب کرتا ہے۔ کسی قوم کی زندگی کی موقوف 3؎ علیہ چیزیں محض شکل و صورت ہی میںنہیں ہیں بلکہ جو چیز حقیقتاً قوم کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ وہ تخیل ہے جس کو شاعر قوم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور وہ بلند پایہ نظریات ہیں جن کو وہ اپنی قوم میںپیدا کرنا چاہتا ہے ۔ قومیں شعراء کی دستگیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی 4؎ سے نشوونما پا کر امر 5؎ ہو جاتی ہیں۔ پس میری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعراء اور انشاء پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔ وہ قوم ترقی کے راستے پر چل رہی ہے اس کی امانیت 6؎ خاص تربیت کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے مگر وہ تربیت جس کا خمیر احتیاط کے ساتھ اٹھایا جائے پس اس انجمن کاکام یہ ہے کہ نوجوانوں 1؎ حسن بغیر طاقت کے محض جادوگری ہے اور حسن طاقت کے ساتھ مل کر پیغمبری بن جاتا ہے۔ 1؎ سامنے روبرو 2؎ رہنمائی 3؎ وہ چیزیں جن پر کسی چیز کا دارومدار ہو۔ 4؎ استقلال 5؎ غیر فانی ہمیشہ زندہ رہنے والی 6؎ خودی کے افکار کو ادبیات کے ذریعے متشکل کرے۔ اور ان کو ایسی روحانی قوت بخشے کہ وہ بالآخر اپنی خودی کو پا کر اور قابلیت بہم پہنچا کر پکاراٹھیں۔ من آں جہان خیالم کہ فطرت ازلی جہان بلبل و گل را شکست و ساخت مرا نفس بہ سینہ گدازم کہ طائر حر مم تواں زگرمی آواز من شناخت مرا 1؎ میں ایک نکتہ اور بھی کہتا ہوں۔ مسولینی نے ایک اچھا نظریہ قائم کیا ہے کہ اٹلی کو چاہیے کہ اپنی نجات حاصل کرنے کے لیے ایک کروڑ پتی کو پیدا کرے جو اس ملک کے گریبان کو اینگلو سیکسن اقوام کے قرضہ سے نجات دلا سکے یا کسی دوسرے دانتے کو جو ایک نئی جنت پیش کرے یا کسی نئے کولمبس کو پیدا کرے جو ایک نئے براعظم کا پتا لگائے اگرآپ مجھ سے دریافت کریں تو میں کہوں گا کہ افغانستان کو ایک ایسے مرد کی ضرورت ہے جو اس ملک کو قبائلی زندگی سے نکال کر وحدت ملی کی زندگی سے آشنا کر سکے۔ اور مجھے خوشی کہ افغانستان کو ایک ایسا مرد کامل مل گیا ہے جس کا وہ عرصہ سے انتظار کر رہا تھا۔ اور مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت نادر شاہ کی شخصیت کو اس لیے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ افغانستان کو ایشیاء میں ایک نئی قوم بنا کر دنیا سے متعارف کریں۔ اس ملک کے نوجوانوں کو چاہیے کہ اس بزرگ رہنما کو اپنی تعلیم و تربیت کا معلم سمجھیں۔ کیونکہ ان کی زندگی ایثار اخلاص اور اپنے ملک کے ساتھ صداقت اور اسلام کے ساتھ عشق و محبت سے لبریز ہے۔ ٭٭٭ کابل والی تقریر میں حضرت علامہ نے جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: آرٹ یعنی ادبیات شاعری‘ مصوری موسیقی اور معماری وغیرہ کو زندگی کا معاون ہونا چاہیے۔ شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کوآباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ اب جبکہ 1؎ میں وہ جہان خیال ہوں کہ خدا نے جہان بلبل و گل کو ختم کر کے مجھے پیدا کیا ہے میں طائر حرم ہوں نفس کو سینہ میں دیتا ہوں۔ بس میری گرمی آواز ہی سے مجھے پہچانا جا سکتا ہے۔ خود حکومت کوشش کر رہی ہے کہ افغانستان ایک نئی زندگی کے میدان میں داخل ہو تو اس ملک کے شعرا پر لازم آتاہے۔ کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ ان کو زندگی کی عظمت اور بزرگی سے روشناس کرائیں ۔ موت کے بیان سے اجتناب کریں۔ کیونکہ جب آرٹ مو ت کانقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے تو وہ سخت خطرناک اور برباد کن ہو جاتا ہے۔ دوسری بات آپ نے یہ فرمائی کہ جو حسن قوت سے خالی ہو‘ وہ پیام موت ہے۔ آرٹ میں محض حسن پیدا کیاجائے اور اس کو قوت کا مظہر نہ بنایا جائے تو ایسا آرٹ قوم میں زندگی پیداکرنے کے بجائے اس کو ہلاکت کی نظر دے گا۔ ا س بات کے ثبوت میں اقبال نے امرا القیس کی شاعری پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تبصرہ پیش کیا ہے وہ کہتے ہیں اس نے اپنے آرٹ میں حسن تو بدرجہ اتم پیدا کیا مگر اس میں قوت پیدانہ کر سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی شاعری نے قوم کو بیدار اور فعال بنانے کی بجائے اس کو سلانے بلکہ ہلا ک کرنے کا سامان کیا۔ اس لیے اقبال نے خواہش ظاہر کی کہ افغانستان کے شعراء او رانشاء پرداز اپنی قوم میں وہ روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں کیونکہ اپنے آپ کو پہچاننے اور اپنی خودی کی صحیح نہج پر تربیت کے بغیر قوم زندگی کی روح نہیں پھونکی جا سکتی۔ تیسری بات حضرت علامہ نے مسولینی کے حوالے سے کہی تھی جب تک کوئی قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہو تی اور دوسروں کی مدد اور سہارے سے زندہ رہتی ہے وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ اس لیے اپنے ملکی وسائل پر اعتماد کر کے اپنے ملک کو ترقی اور استحکام کے راستے پر ڈالنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہے۔ افغان قوم کو ایک ایسے مرد کامل کی ضرورت تھی کہ جس کی پر خلوص رہنمائی میں وہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتی۔ سو خدا کا شکر ہے کہ اس کو ایسا مرد کامل نادر شاہ کی شکل میں مل گیا۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایسے مرد کامل کی رہنمائی اور جدوجہد سے دنیا کی دوسری ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنی جگہ نہ بنا سکیں۔ ٭٭٭ 3۔ اقتباس از مضمون قومی زندگی سب سے پہلے نبی عربؐ نے انسان کو فطری 1؎ آزادی کی تعلیم دی اور غلاموں اور آقائوں کے حقوق کو مساوی قرار دے کر اس تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھی جس کے نتائج کو اس وقت تمام دنیا محسوس کر رہی ہے۔ ایسا کرنا گویا نوع انسان کے ایک کثیر حصے کو اس آزاد مقابلے کے میدان میں واپس لے آنا تھا۔ جس کے اثر سے تمدن و تہذیب کی اعلیٰ صورتیں پیدا ہو تی ہیں اور جو دنیا کی تمام تہذیب و شائستگی کی بیخ و بنیاد ہے حکیم عربؐ کی اس مبارک تعلیم کا نتیجہ کیا ہوا؟ مسلمانوں میں غلام بادشاہ ہوئے غلام وزیر ہوئے غلاموں کو اعلیٰ تعلیم دی گئی۔ غلاموں میں فلسفی اور ادیب پیدا ہوئے غرضیکہ اس قبیح 2؎ امتیاز کے مٹ جانے سے ہر غلام کے ایک اعلیٰ خاندان کے آدمیوں کے ساتھ عقلی مقابلہ کر سکتا تھا۔ اور اس مقابلے میں کامیاب ہو کر سلطنت کے اعلیٰ ترین مناصب 3؎ پر پہنچ سکتاتھا۔ اس تعلیم کاسب سے اعلیٰ نمونہ جناب فاروقؓ نے پیش کیا جب کہ وہ بیت المقدس کی فتح کے لیے جا رہے تھے۔ جہاںتک مجھے معلوم ہے دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میںایسی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اور مسلمان اس تعلیم پر جس قدر ناز کریں بجا ہے علی ہذا القیاس عورتوں کے حقوق کانازک مسئلہ ہے جس کے متعلق حکیم عربؐ نے ایسی آزادا نہ تعلیم دی مگر چونکہ یہ مضمون نہایت وسیع اور بحث طلب ہے۔ اس واسطے میں اسے یہاں نظر انداز کرتا ہوں البتہ مناسب مقام پر اس کی طرف چند اشارات بھی کروں گا۔ 1؎ پیدائشی قدرتی 2 برا 3؎ عہدے مرتبے جمع منصب کی 4؎ اسی طرح لیکن شرائط زندگی کے متعلق ایک اور غور طلب بات یہ ہے کہ کیا وہ تمام حالات جس پر کسی قوم کی زندگی کا دارومدار ہے۔ انسانی کوشش سے ایک خاص ترتیب میںجمع ہوسکتے ہیں بالفاظ دیگر قوم کی زندگی قوم کے اختیار میں ہے یا پودوں اور حیوانوں کی طرح افراد انسانی کی زندگی بھی قوائے فطرت 1؎ کے غیر اختیاری عمل پر منحصر ہے؟ اگرچہ زندگی کی اصلیت مخلوقات کی صورت میں وہی ہے۔ تاہم انسان اپنی عقل خداداد کی وجہ سے آفرینش کی ہر صورت سے ممیز ہے 2؎ ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ایسی قوت دی ہے جس کی وساطت سے 3؎ یہ شرائط زندگی کو سمجھ سکتا ہے اور ہر انقلاب کے لوازم 4؎ پر غور کر سکتا ہے۔ اس کی گرفت ایسی زبردست ہے کہ یہ قدرت کے قوانین کو معلوم کر کے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ او ر اپنے ارتقا 5؎ کو متعین کر سکتاہے۔ جب یہ دیکھتا ہے کہ آبادی کی افزائش کے ساتھ زمین کی پیداوار قدرتی اسباب سے کم ہو رہی ہے تو یہ ان اسباب کا مقابلہ کرنا ہے ۔ اور مختلف اقسا م کی ایجادوں سے ان کی مخالفت کو روک کر اپنی زندگی کے سامان بہم پہنچانا ہے ۔ اگر انسان عقل کے زیور سے معرا 6؎ ہوتا تو ترقی تہذیب و تمدن کے لیے کوششیں کرنا بالکل بے سود ہوتا‘ ہماری زندگی حیوانوں اور درختوں کی طرح ہوتی ۔ ہم کسی انقلاب کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ اور ہماری بقا و فنا کا انحصار محض قدرتی اسباب پر ہوتا۔ جن کی قوت کے سامنے ہم بالکل بے بس ہوتے۔ یہاں تک تو میں نے شرائط زندگی پر زیادہ تر فطری لحاظ سے بحث کی ہے۔ اب میں واقعات کی طرف آتا ہوں۔ جن سے میں چند ایسے نتائج پیدا کرنے کی کوشش کروں گا جو اہل ملک و قوم کے لیے عملی لحاظ سے مفید ہوں… اگر ہم متمدن دنیا کی گزشتہ اور موجودہ تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اقوام قدیمہ میں صرف چار قومیں ایسی ہیں جو قوانین زندگی کی تیز تلوار سے بچ کر بری بھلی 1؎ قدرت کی قوتیں 2؎ سب سے نمایاں ممتاز مختلف 3؎ ذریعہ 4؎ ضروری باتیں 5؎ ترقی 6 ؎ خالی ننگا حالت میں اب تک صفحہ ہستی پر قائم ہیں۔ یعنی چینی ہندو‘ بنی اسرائیل‘ اور پارسی حال کی قوموں میں سے دیگر مغربی اقوام کے علاوہ ایشیا میں جاپان اور فرنگستان میں اہل اطالیہ‘ دونوں قومیں ایسی ہیں جنہوں نے موجودہ تغیر کے مفہوم کوسمجھ کر اپنے تمدنی اخلاقی اور سیاسی حالات کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے لیکن چونکہ ہندوئوں اور چینیوں کی قومی زندگی کے اسباب اسرائیلیوں اور پارسیوں کی قومی زندگی کے اسباب سے بالکل مختلف ہیں اور جہاں تک مضمون زیر بحث کا تعلق ہے ہمیں کوئی عملی فائدے بھی نہیں دے سکتے۔ اس واسطے میں ان دونوں قوموں کی دلچسپ اور حیر ت انگیز سرگزشت کی طرف اشارہ نہیںکروں گا… اگرچہ یہ ساری قومیں قومی زندگی کے اصل مفہوم کو ادا نہیںکرتیں۔ تاہم یہ بات کچھ تعجب خیز نہیں ہے کہ باوجود تمام خارجی یورشوں 1؎ کے جو ان کے ممالک پر وقتا ً فوقتاً رہیں باوجود صدہا سال کی غلامی اور ارضٰ و سماوی آفات کے جو ان قوموں نے برداشت کیں ان کا نام و نشان اب تک قائم ہے بنی اسرائیل کی تاریخ ایک دردناک کہانی ہے جس کو ایک دردمند دل سن بھی نہیں سکتا۔ تاہم یہ قوم اپنے فطری قویٰ کے لحاظ سے اس قدر حیرت انگیز ہے کہ کوئی مشرقی و مغربی سوائے ہندوئوں کے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی… سینکڑوں پیغمبر اس برگزیدہ قوم میں مبعوث 2؎ ہوئے سینکڑوں شہنشاہ اور ہزاروں مقنن 3؎ پیدا ہوئے جنہوں نے قوم کے تمدن اور اس کی تہذیب کو معراج کمال تک پہنچا دیا مگر آخر قہر الٰہی نے قوانین حیات کی صورت میں اپنا عمل کیا اور یہ قوم غلامی کی خوفناک مصیبتیں اٹھاتی وطن سے بے وطن ہوئی۔ نہ وہ عظمت نہ وہ سلطنت نہ و ہ شوکت نہ وہ تہذیب‘ نہ وہ تمدن‘ غرضکہ پریشاں اور خستہ حال ہو کر مغربی ممالک میں منتشر ہو گئی اور اب تک غیر اقوام کی سختیاں اٹھا رہی ہے باوجود ان تمام مصائب کے 1؎ حملوں 2؎ زمین اور آسمانی آفتیں 3؎ پیدا ہوئے 4؎ قانون داں قانون کے ماہر؎ قوم بنی اسرائیل نے زمانے کے ہاتھوں برداشت کیے‘ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ یہ قوم اب تک زندہ ہے اگرچہ قومیت اور حکومت نہیںرہی تاہم دولت کا یہ حال ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی سلطنتیں اس قوم کی مقروض ہیں اور اس دولت کے بل بوتے پر یہ قوم ایک عرصے سے اس تجویز کو عملی صورت دینے میںمصروف ہے کہ سلطنت عثمانیہ سے اپنا آبائی وطن خرید کر اپنی پرانی عظمت و جلال کی از سر نو بنیاد رکھے۔ یہودیوں کو چھوڑ کر پارسیوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالو ایک زمانے میں عظیم الشان قوم تھی۔ یہودیوں کی طرح اس قوم میں بھی پیغمبر مبعوث ہوئے۔ کیانی تہذیب و تمدن انتہائی نقطہ تک پہنچا آخر کار شہنشاہ یزد جرد کے عہد میں عربی تلواروں نے کیانی شائستگی کو صفحہ عالم سے معدوم کر دیا اورموبدوں (پارسیوں کے پیشوا) کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ آتش کدے ویران ہوئے۔ لیکن کیا یہ قوم صفحہ ہستی سے مٹ گئی حقیت یہ ہے کہ ان دونوں قوموں نے انقلاب کو کسی قدرسمجھ لیا ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت صنعت و تجارت ہے دنیا کی تجارت کا ایک کثیر حصہ ان کے ہاتھوں میں ہے اور یہی وجہ ان کے سنبھل جانے کی ہے۔ حال کی قوموں میں اطالیہ تو خیر فرنگستانی ہیں جاپانیوں کو دیکھو کس قدر حیرت انگیز سرعت 1؎ سے ترقی کر رہے ہیں۔ ابھی تیس چالیس سال کی بات ہے کہ یہ تقریباً مردہ تھی۔ 1868 میں جاپان میں پہلی تعلیمی مجلس ہوئی۔ اس سے چار سال بعد یعنی 1872ء میں جاپان کا پہلی تعلیمی قانون شائع کیا گیا اور شہنشاہ جاپان نے ا س کی اشاعت کے موقع پر مندرجہ ذیل الفاظ کہے۔ ’’ہمارا مدعا یہ ہے کہ اب سے ملک جاپان میں تعلیم اس قدر عام ہو کہ ہمارے جزیرے کے کسی گائوں کا کوئی خاندان جاہل نہ رہے‘‘۔ غرضیکہ 36سال کے قلیل عرصے میں مشرق اقصی 2؎ کی اس مستعد قو م نے جو مذہبی 1؎ جلدی تیزی 2؎ مشرق بعید لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی دنیوی اعتبار سے ممالک مغرب کی تقلید کر کے ترقی کے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے۔ اور محققی مغرب اس کی رفتا ر ترقی کو دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں۔ جاپانیوں کی باریک بن نظر نے اس عظیم الشان انقلاب کی حقیقت کو دیکھ لیا تھا۔ اور وہ راہ اختیار کی جو ان کی قومی بقا کے لیے ضروری تھی۔ افراد کے دل و دماغ دفعتاً بدل گئے اور تعلیم و اصلاح تمدن نے قوم کی قو کو اور سے کچھاور بنا دیا۔ اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان نے رموز حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لیے سب سے اچھا نمونہ ہے ہمیں لازم ہے کہ اس کے فوری تغیر کے اسباب پر غور کریں اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں۔ ان واقعات کی روشنی میں اگر ہندوستان کی حالت کو دیکھا جائے تو ایک مایوس کر دینے والا نظارہ سامنے آتا ہے ۔ کیا ہمارا ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہے؟ اپنے مکان کے اسباب آرائش ہی کو دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ ذرا ذرا سی بات کے لیے ہم اقوام غیر کے محتاج ہیں اور روز بروز ہوتے جاتے ہیں آپ کا لیمپ جرمنی میں بنا ہے اس کی چمنی آسٹریلیا میں تیار ہوئی ہے۔ اس کا تیل روس سے آیا ہے۔ اور گندھک کی سلائی جس سے لیمپ روشن کیا جاتا ہے سویڈن اور جاپان سے پہنچی ہے۔ کلاک جو آپ کی نشست گاہ کی دیوار پر آویزاں ہے امریکہ کے کارخانوں میں تیار ہوا تھا اور وہ چھوٹی سی گھری جو آپ کی جیب میں ٹک ٹک کر رہی ہے جنیوا کے کاریگروں کی صنعت کا نمونہ ہے علی ہذا القیاس پہننے کا کپڑا ہاتھوں کی چھڑی چاقو قینچی‘ دروازوں کی چلمنیں اور روز مرہ کے استعمال کی صد ہا چیزیں غیر ملکوں کے کارخانوں میں تیار ہو کر آپ کے پاس پہنچتی ہیں۔ ایسے حالات میں جب مصنوعات 2؎ او ر تجارت 1؎ یکایک 2؎ بنی ہوئی چیزیں کی طرف سے ہمارا ملک بالکل غافل ہو یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم مصارف زندگی میں جس کا دائرہ روز برو ز وسیع ہوتاجاتا ہے۔ کامیاب ہوں گے۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ اگر اس اعتار سے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو ان کی حالت نہایت مخدوش نظر آتی ہے ۔ یہ بدقسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے۔ صنعت کھو بیٹھی ہے تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیزتلوار سے مجروح 1؎ ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا 2؎ ٹیکے کھڑی ہے۔ اور باتیں توخیر ابھی تک ان کے مذہبی نزاعوں کا ہی فیصلہ نہیںہوا۔ آئے دن ایک نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھ کر باقی تمام نوع انسان کو جہنم کا ایندھن قرار دیتا ہے۔ غرضیکہ ان فرقہ آرائیوں نے خیر الامم 3؎ کی جمعیت کو کچھ ایسی بری طرح منتشر کر دیا ہے کہ اتحادو یگانگت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ مولوی صاحبان کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی شہر میں اتفاق سے دو جمع ہو جائیں تو حیات مسیح یا آیات ناسخ و منسوخ پر بحث کرنے کے لیے باہمی نامہ و پیام ہوتے ہیں۔ اوراگر بحث چھڑ جائے تو بالعموم بحث چھڑ جاتی ہے توایسی جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ کہ خدا کی پناہ پرانا علم و فضل جو علمائے اسلام کا خاصہ تھا نام کو بھی نہیں ہاں مسلمان کافروں کی ایک فہرست ہے کہ اپنے دست خاص میں سے ہر روز اضافہ کرتے رہتے ہیں یہاں امراء کی عشرت پسندی کی داستان سب سے نرالی ہے خیر سے چار لڑکیاںاور دو لڑکے پہلے ہی ہیں ابھی میاں تیسری بیوی کی تلاش میں ہے اور پہلی دو بیویوں سے پوشیدہ کہیں کہیں پیغام بھیجتے رہتے ہیں ۔ کبھی گھر کی جوت پیراز سے فرصت ہوئی تو بازار کی کسی حسن فروش نازنین سے بھی گھڑی بھر کے لیے آنکھ لڑا آئے اور اول تو کسی کی جرات نیہں کہ حضرت کو نصیحت کرے۔ اور اگر کسی کو لب کشائی کا حوصلہ ہوا تو چیں بہ چیں ہو کر ارشاد 1؎ زخمی 2؎ لاٹھی ‘ ڈنڈا 3؎ مسلمان قوم‘ ساری قومو ں سے بہتر ہے فرماتے ہیں۔ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو عوام کی کچھ نہ پوچھیے کوئی اپنی عمر کا اندوختہ بچے کے ختنہ پر اڑا رہا ہے کوئی استاد کے خوف سے اپنے ناز پروردہ لڑکے کا پڑھنا لکھنا چھڑا رہا ہے۔ کوئی دن بھر کی کمائی شام کو اڑاتا ہے اور صبح کل کا اللہ مالک ہے کہہ کر اپنے دل کو تسکین دیتا ہے۔ کہیں ایک معمولی بات میں مقدمہ بازیاں ہو رہی ہیں۔ کہیںجائیداد کے جھگڑوں سے جائیدادیں فنا ہو رہی ہیں غرض کس کس کی شکایت کریں لنکا میں جو ہے باون گز ہے ہے۔ تمدن کی یہ صورت ہے کہ لڑکیاں ناتعلیم یافتہ ہیں نوجوان جاہل روزگار ان کونہیںملتا۔ صنعت سے گھبراتے ہیں حرفت کو عار سمجھتے ہیں۔ مقدمات نکاح کی تعداد ان میں روز بروز بڑھ رہی ہے جرم کی مقدار روز فروں ہے دماغ شاہجہانی آمدنی قلیل اور افلا س کا یہ عالم کہ: رمضاں خوب مہینہ ہے مسلمانوں کا! یہ وقت بڑا نازک ہے اور سوائے اس کے کہ تمام قوم متفقہ طور پر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ کرے ۔ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیامیںخوئی بڑا کام سعی بلیغ کے بغیر نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنی حالت خود نہ بدلے۔ (مخزن اکتوبر 1905ئ) مندرجہ بالا اقتباس کا خلاصہ یہ ہے: سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو فطری آزادی کی تعلیم دی ۔ اور غلاموں اور آقائوں کے حقوق مساوی قرار دے کر اس تمدنی انقلاب کی بنیاد رکھی جس نے تاریخ کو اس وقت تمام دنیا محسوس کر رہی ہے۔ اور اس تعلیم کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں غلام بادشاہ ہوئے غلام وزیر ہوئے غلاموں کو اعلیٰ تعلیم دی گئی غلاموں میں فلسفی اور ادیب پیدا ہوئے ۔ اور اس تعلیم کا سب سے اعلیٰ نمونہ جناب فاروقؓ نے پیش کیا کہ جب کہ وہ بیت المقدس کی فتح کے لیے جا رہے تھے۔ بیت المقدس کے واقعے کی طرف اشار ہ ہے۔ مسلمانوں نے شہر کا محاصر ہ کر رکھا تھا عیسائیوںنے ہمت ہار کر صلح کی درخواست کی اور مزید اطمینان کے لیے اس شرط کا اضافہ کیا کہ عمرؓ خود یہاں آئیں اور معاہد ہ صلح ان کے ہاتھوں سے لکھاجائے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ان کی درخواست پر 16ھ کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ اس سفر کے بارے میں مشہور ہے کہ آ پ اور غلام باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے۔ اور اتفاق کی بات ہے کہ جب آپ بیت المقدس پہنچے تو غلام کی باری اونٹ پر بیٹھنے اور آپ کی اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلنے کی تھی۔ا س بات کو دیکھ کر عیسائی محو حیرت ہوگئے اور شہر کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اقبال فرماتے ہیں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے دنیا کی تاریخ مین ایسی مثال پیش نہیںکی جا سکتی اور مسلمان اس تعلیم پر جس قدر ناز کریں بجا ہے۔ دوسری بات اس اقتباس میں اقبا ل یہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ زندگی کی اصلیت مخلوقات کی صورت میں یکساں ہے تاہم انسان اپنی عقل کی ایک ایسی قوت دی ہے جس کے ذریعے یہ شرائط زندگی کو سمجھ سکتا ہے۔ اور انقلاب کے لوازم پر غور کر سکتا ہے۔ اس کی گرفت ایسی زبردست ہے کہ یہ قدرت کے قوانین کو معلوم کر کے ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اپنے ارتقا کے رخ کو متعین کر سکتاہے۔ اس کے بعد اس نظری بحث کو چھوڑ کر اقبال واقعات کی طرف آتے ہیں۔ اور دور حاضر کی قوموںمیں سے جاپان اور اطالیہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ کہ ان دو قومو ں نے موجودہ تغیر کے مفہوم کو سمجھ کر اپنے تمدنی اخلاقی اور سیاسی حالات کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور قدیم قوموں میں سے اسرائیل اور پارسیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قومیں ایسی ہیں جو قوانین زندگی کی تیز تلوار سے بچ کر بری بھلی حالت میں ا تک صفحہ ہستی پر موجود ہیں۔ جاپان کی تعریف کرتے ہیں کہ 36سال کے قلیل عرصے میں مشرق بعید کی اس مستعد قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی دنیوی اعتبار ممالک مغرب کی تقلید ے ذریعے تقری کر کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ آج دنیا کی سب سے زیادہ مہذب اقوام میںشمار ہوتی ہے۔ اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں سے جاپان نے رموز حیات کو سب سے زیادہ اچھا سمجھا ہے اس لے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لیے سب سے اچھا نمونہ ہے ہمیں لازم ہے کہ ا س قوم کے فوری تغیر کے اسباب پر غور کریں۔ اور جہاں تک ہمارے ملکی حالات کی رو سے ممکن و مناسب ہو اس جزیرے کی تقلید سے فائدہ اٹھائیں۔ اقبال اس کے بعد ہندوستانیوں کی حالات پر افسوس کرتے ہیں کہ آج اس ملک کی حالت یہ ہے کہ ہر اعتبار سے دوسروں کامحتاج ہے اور ان کے سہارے پر زندہ ہے ہندوستان کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس اعتبار سے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو ان کی حالت نہایت مخدوش ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے موجودہ مصائب تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔ آخر میں فرماتے ہیں کہ یہ بڑا نازک وقت ہے اور سوائے اس کے ساری قوم متفقہ طورپر اپنے دل و دماغ کو اصلاح کی طرف متوجہ کرے کوء فلاح کی صورت نظر نہیں آتی۔ دنیا میں کوئی بڑا کام سعی بلیغ کے بغیر نہیںہوا۔ اور دنیا کی کسی قوم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ جب تک کہ اس قوم کے افراد کو اپنی اصلاح کی فکر نہ ہو۔ اگر ہم جاپان کی تاریخ سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اس وقت ہمیں دو چیزوں کی سخت ضرورت ہے۔ اصلاح تمدن اور تعلیم عام مسلمانوں میں اصلاح تمدن کا سوال درحقیقت ایک مذہبی سوالہے۔ کیونکہ اسلامی تمدن اص میں مذہب اسلام کی عملی صورت کا نام ہے ۔ ہماری تمدنی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو اصول مذہب سے جدا ہو سکتا ہو۔ رہا تعلیم عام کا معاملہ تو اسلام نے آج سے ساڑھے تیرہ سو 1300سال پہلے ہر مسلمان مرد اور عورت پر تعلیم کو فرض قرار دے دیا تھا۔ پھر مسلمانوں کے تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے رہنے پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ ٭٭٭ 4۔ اقتباس از ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر اب میں چند خیالات اپنی قوم کے غربا کی عام حالت کی اصلاح کے بارے میںظاہر کرتا ہوں۔ اس ضمن 1؎میں عام طبقہ کے مسلمانو ں کی اقتصادی 2؎ حالت سب سے پہلے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ یقینا کسی کو اس ات سے انکار نہ ہو گا کہ غریب مسلمان کی اقتصادی حالت نہایت ہی افسوس ناک اور قابل رحم ہے۔ شہرو ںمیں جہاں کی آبادی کا جزو غالب 3؎ مسلمان ہیں معمولی درجے کے مسلمانوں کی قلیل اجرت غلیظ مکان اور ان کے پیٹ بھر روٹی کو ترستے ہوئے بچوں کا حسرت ناک نظارہ کس نے نہیں دیکھا۔ لاہور کے کسی اسلامی محلے میں جا نکلو ایک تنگ و تاریک گوچے پر تمہاری نظر پڑے گی جس کے وحشت 4 ؎ زاسکوت کے طلسم کو رہ رہ کر یا تو لاغر و نیم برہنہ بچوں کی چیخ و پکار یا کسی پردہ نشین بڑھیا کی لجاجت 5؎ آمیز صدا توڑتی ہو گی جس کی سوکھی اور مرجھائی ہوئی انگلیاں برقعے میں سے نکل کر خیرات کے لیے پھیلی ہوں گی یہ تو گلی کی حالت تھی غم زدہ گھروں کے اندر جا کے دیکھو تو صدہا مرد اور عورتیں ایسی پائو گے جنہوںنے کبھی اچھے دن دیکھے تھے لیکن آج افاقہ کر رہی ہیں۔ کئی دن سے اناج کا ایک دانہ تک منہ میں نہیں اڑ کر گیا۔ لیکن غیرت اور خودداری اجازت نہیں دیتی کہ خیرات کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں ہمارے نوجوان علم برادران اصلاح تمدن جو پردے کی رسم کو ہماری قوم کے قویٰ کے روز افزوں انحطاط کا باعث قرار 1؎ سلسلے میں 2؎ مالی 3؎ بڑا حصہ 4؎ وحشت پیدا کرنے والا 5؎ عاجزی ‘ خوشامت‘ منت‘ سماجت دینے کے عادی ہیں شاید یہ نہیں جانتے کہ اس انحطاط کا اصل ذمہ دار پردہ نہیں بلکہ ی جاں 1؎ فرسا افلاس ہے جو ہماری قوم کے ادنیٰ و اقاصی 2؎ کو کھائے جا رہا ے ۔ علاوہ اس افلاس کے ایک اور طبقہ ان نکمے اور نکھٹو افراد کا ہے جو اپنے جیسی ناکارہ اولاد پیدا کر کے سستی اور کاہلی اور بداعمالی وسیلہ کاری ی زندگی خود بھی بسر کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنا بنا لیتے ہیں کیا ہ نے عقدہ 3؎ کے ان پہلوئوں پر بھی نظر ڈالی ہے۔ کیا ہم نے کبھی اس بات کو محسوس کیا ہے کہ ہماری انجمنوں اور مجلسوں کا قرض یہ نہیں ہے کہ خاص خاص اشخاص کی کلاہ افتخار و اعزاز میں بیٹھے ہوئے طرے لگایا کریں بلکہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی سطح کو اونچا کریں۔ سب سے زیادہ اہم عقدہ اس مسلمان کے سامنے جو قومی کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیت ہے یہ ہے کہ کیوں کر اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو سدھارے۔ اس کا فرض یہ ہے کہ ہندوستان کی عام اقتصادی حالت پر نظر غائر 4؎ ڈال کر ان سب اسباب کا پتہ لگائے جنہوںنے ملک کی یہ حالت کر دی ہے ۔ اس کا یہ فرض ہے کہ کسی اور مسئلے پر غور کرنے سے پہلے یہ دریافت کرے کہ ملک کی عام اقتصادی حالت میں کس حد تک ان بڑی بڑی اقتصادی قوتوں نے حصہ لیا ہے جو آج کل کی دنیا میں اپنا عمل کر رہی ہیں۔ کس حد تک اہل ملک کی تاریخٰ روایات‘ عادات اوہام 5؎ اور اخلاقی کمزوریوںنے حصہ لیا ہے۔ ارو اگر گورنمنٹ کے طرز عمل کا بھی اس میں کوئی حصہ ہے تو وہ کس حد تک ہے جو شخص اس گتھی کو سلجھانے کا بیڑا اٹھائے اسے چاہے کہ مذہب و ملت کے اختلاف کی طرف سے مطلقاً خالی الذہن ہوجائے اور کسی ایک جماعت کی طرف داری یا پاسداری کے خیال کو اپنے پاس سے پھٹکنے نہ دے۔ اس لیے کہ اقتصادی قوتیں تمام قوموں پر اپنا عمل یکساں کرتی ہیں۔ یہ شرح مالگزاری کا آئے دن کااضافہ مسکرات 6؎ ممالک کی غیر کی اس ملک میں درآمد قیمت اجناس کی گرانی (خواہ اس 1 جان لیوا 2؎ بہت دور والے 3؎ مشکل بات4؎ گہری نظر 5؎ دہم کی جمع ہے 6؎ نشہ آور چیزیں گرانی کا باعث یہ ہو کہ سکہ رائج الوقت کے متعلق حکومت کے قائم کیے ہوئے اصول غلط ہیں یا یہ کہ کسی ایک زراعتی ملک اور صنعتی ملک کے درمیان آزاد تجارت کا سلسلہ قائم کر دیا گیا ہے یا کوئی اور سبب ہو یہ تمام امور ایسے ہیں جو مسلمانوں ہندوئوں سکھوں اور پارسیوں کی اقتصادی حالت پر یکساں موثر ہو کر نہایت بلند 1؎ آہنگی سے منادی کر رہے ہیں 2؎ کہ مختلف جماعتوں کے اہل الرائے 3؎ اور مقتدا 4؎ اگر اور باتوں میں نہیں تو اقتصادیات میں ضرور آپس میں سر جوڑ کر مشورہ کر سکتے ہیں۔ اور ملک کی مشترکہ فلاح کی تدابیر پر غور کر سکتے ہیں۔ لیکن مسلمان رہنمایان قوم نے ابھی تک اپنی تمام توجہ اس مسئلے پر صر ف کیے رکھی ہے کہ سرکاری نوکریاں ہم لوگوں کو بہ حصہ رسد ملتی ہیں۔ یہ کوشش بجائے خود ضروری اور قابل ستائش ہے۔ اور تاوقتیکہ مسلمانوں کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہو۔ ہمارے سر بر آور دگان ملت کو برابر اس کوشش میں سرگرمی کے ساتھ مصروف رہنا چاہیے لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی انہیںمدنظر رکھنی چاہیے کہ دولت کی پیداوار کا ذریعہ ہونے کے لحاظ سے سرکاری ملازمت ایک نہایت ہی محدود ذریعہ ہے سرکاری ملازمت کی تعداد محدود ہے چند اشخاص کو ضرور آسودہ اور خوش حال بنا دیتی ہے۔ لیکن قوم کے تما م افراد اس صورت میں آسودہ اور خو ش حال ہو سکتے ہیں جب کہ ان کو اقتصادی آزادی نصیب ہو اس میں بھی شک نہیں کہ اگر کسی قوم کے چند افراد حکومت کے اعلیٰ مناصب پر فائز ہوں تو اس قوم کی عزت اور خودداری میں چار چاند لگ جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی صحیح ہے کہ اقتصادی سرگرمی کے اور بہت سے اصناف ایسے ہیں جو اہمیت اور سودمندی میں سرکاری ملازمت کے لگ بھگ ہیں اور جس قوم کو اپنے اسلاف سے سپاہیانہ صفات ترکہ میں پہنچی ہوں۔ اس کے لیے سپہ گری کے تصورات کو چھوڑ کر تجارت اور صنعت و حرفت کی ڈگر پر چلنا یقینا تکلیف دہ ہے۔ لیکن چونکہ مغربی اقوام کی دیکھا دیکھی ایشیا کی تمام 1؎ بلند آواز سے 2؎ اعلان کر رہے ہیں 3 عقلمند لوگ 4؎رہنما قوموں کی اقتصادی حالت تغیرپذیر ہوتی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ کودوں 1؎ تو دکنی ہی پڑے گی۔ علاوہ ان اقتصادی مشکلات کے رفع کرنے کے جو ہماری سنگ راہ ہیں ہمیں صنعتی تعلیم پر بھی ضرور توجہ صرف کرنی چاہیے جو میری رائے میں اعلیٰ تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہے صنعتی تعلیم سے عامہ خلائق 2؎ اور اقتصادی حالت سدھرتی ہے۔ اور یہی طبقہ قوم کے لیے بمنزلہ ریڑھ کی ہڈی کے ہے۔ بخلاف اس کے اعلیٰ تعلیم صرف ان چند اشخاص کو نفع پہنچاتی ہے جن کی دماغی قابلیت اوسط سے بڑی ہوئی ہوتی ہے ہمارے اغنیا 3؎ کے بذل وجود کا مصرف ایسا ہونا چاہیے کہ عام مسلمانوں کے بچے اراں تعلیم حاصل کرسکیں لیکن صنعتی اور تجارتی تعلیم بلا کسی اخلاقی تربیت کے بجائے خود کافی و مکتفی نہیں ہے۔ اقتصادی مقابلہ میں تربیت کے اخلاقی عنصر کیکچھ کم ضرور ت نہیں پڑتی اعتماد باہمی دیانتداری پابندی اوقات اور تعاون وہ اقتصادی اوصاف ہیں جو مہارت فن کی برابر کی جوڑ ہیں۔ ہندوستان میں بہت سے کارخانے محض اس لیے نہ چل سکے کہ کارخانہ داروں کو نہ ایک دوسرے پر بھروسہ تھا اور نہ اصول امداد باہمی کا ان کا راہنما تھا۔ اگر ہم اچھے کاریگر اچھے دوکاندار اچھے اہل حرفہ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اچھے شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ انہیں اول پکا مسلمان بنائیں۔ یہ اقتباس علامہ کے اس لیکچرسے لیا گیا ہے جو انہوںنے 1910ء کے آغازمیں اسٹریچی ہال ایم اے او کالج علی گڑھ میں دیا تھا۔ اصل لیکچر انگریزی زبان میں تھا۔ حضر ت مولانا ظفر علی خاں نے اس کا اردو میں ترجمہ کیا اور مئی 1911میں برکت علی اسلامیہ ہال لاہور میںایک عام جلسے میں پڑ ھ کر سنایا یہ جلسہ اسی لیکچر کی خاطر منعقد کیا گیا تھا حضرت علامہ بھی اس جلسے میں شریک تھے۔ اس لیکچر کے مطالعے سے معلوم ہو گا کہ علامہ مرحوم ادب و فلسفہ کے علاوہ عمرانیات کے بھی نہایت بالغ نظر عالم اور ماہر تھے۔ قوموں کے عروج و زوال کے اسباب و علل 1؎ سخت کام 2؎ عوام 3؎ مال دار غنی کی جمع پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ اس مضمون میں اسلام پر مجلسی اور معاشرتی نقطہ نظر سے بحث کی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ نے حکمت ایمانی اور مصلحت عمرانی کا مطالعہ ایک دوسرے سے تعلق کی روشنی میں بڑی دقت نظر سے کیا ہے 1؎ ٭٭٭ اس اقتباس میں اقبال نے خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کی ا س وقت کی معاشرتی حالت یعنی ان کی اقتصادی حالت پر روشنی ڈالی ہے۔ ہندوستان کی عام حالت ہی درماندہ ہے۔ مگر مسلمانوں کی حالت کچھ زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ اس حالت کے اسباب بیان کرنے کے بعد انہوں نے اس کے در کرنے کی تجاویزبھی بتائی ہیں۔ اور مسلمان رہنمائوں اور سماجی کارکنوں کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔ کہ وہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس امر کی طرف توجہ دیں کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت درست ہو جائے اور کہ درست ہونے سے ان کی عام حالت خود بخود درست ہو جائے گی۔ اقبال نے مسلمانوں رہنمائوں کو مشور ہ دیا ہے کہ وہ اول اس بات کا پتہ چلائیں کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت اور پس ماندگی کے اسباب کیا ہیں؟ ان کی عام اقتصادی حالت میں کس حد تک ان بڑی اقتصادی قوتوں نے حصہ لیا ہے جو آج کل کی دنیا میں اپنا عمل کر رہی ہیں؟ کس حد تک اہل ملک کی تاریخٰ روایات عادات اوہام اور اخلاقی کمزوریوں نے حصہ لیاہے اور اگر گورنمنٹ کے طرز عمل کا بھی اس میں کوئی حصہ ہے تو وہ کس حد تک ہے؟ اور جو شخص اس گتھ کو سلجھانے کا بیڑا اٹھائے اسے چاہیے کہ مذہب و ملت کے اختلاف کی طرف سے مطلقاً خال الذہن ہوجائے۔ اور کسی ایک جماعت کی طرف داری یا پاسداری کے خیال کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دے۔ اس لیے کہ اقتصادی قوتیں تمام قوموں پر اپنا عمل یکساں کرتی ہیں۔ شرح مالگزاری کا آئے دن کا اضافہ‘ مسکرات ممالک غیر کی اس ملک میں درآمد قیمت اجناس کی گرانی یہ تمام امور 1؎ مستفاداز تمہید کتابچہ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر ایسے ہیں جو مسلمانوں سکھوں اور پارسیوں وغیرہ کی اقتصادی حالت پر یکساں موثر ہو کر نہایت بلند آہنگی سے اعلان کر رہے ہیں کہ مختلف جماعتوں کے دانشور اور رہنما اور باتوں میں نہیں تو اقتصادیات ہی میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور مشورہ کریںکہ اور ملک کی مشترکہ فلاح کی تدابیر پر غور کریں۔ اقبال نے مسلمانوں کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ ملازمت ہی تک ہ رہیں بلکہ تجارتی اور صنعتی تعلیم میں کمال پیدا کر کے صنعت و تجارت کے ذریعے اپنی خوشحالی کے اسباب پیدا کریں۔ فرماتے ہیں کہ جس قوم کو اپنے اسلاف سے سپاہیانہ روایات ترکیہ میں ملی ہوں اس کے لیے سپہ گری کے تصورات کو چھوڑ کر تجارت اور صنعت و حرفت کی ڈگر پر چلنا یقینا تکلیف دہ ہے۔ لیکن رفتار زمانہ کو دیکھتے ہوئے ان کو یہ کڑوی گولی تو نگلنی ہی پڑے گی۔ ملازمت سے چند اشخاص کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کہ ملازمت محدود ہوتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں تجارت و صنعت کے ذریعے عام لوگوں کی حالت درست ہوتی ہے۔ اور آخر میں اقبال ایک ایسی ہدایت فرماتے ہیں جو انہی کا کام ہے فرماتے ہیں کہ صنعتی اور تجارتی تعلیم بدوان اخلاقی تربیت کے ناکافی ہو گی اس لیے اخلاقی تربیت کا بھی پوراپور ا لحاظ رکھا جائے فرماتے ہیں کہ بہت سے کارخانے محض اس وجہ سے چل سکے کہ کارخانہ داروں کو نہ ایکد وسرے پر اعتماد تھا اور نہ اصول امداد باہمی ان کے رہنما تھے ۔ لہٰذا سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ہم اچھے کاریگر اچھے دوکاندار‘ اچھے اہل حرفہ اور سب سے بڑھ کر اچھے شہری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ سب سے پہلے انہیں پکا مسلمان بنائیں۔ ٭٭٭ 5۔ محفل میلاد النبیؐ زمانہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے انسانوں کی طبائع 1؎ اور ان کے افکار 2؎ اور ان کے نقطہ ہائے نگاہ بھی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا تہواروں کے منانے کے طریقے اور مراسم بھ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور ان سے استفادے 3؎ کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں ہم کو چاہیے کہ ہم بھی اپنے مقدس دنوں کے مراسم 4؎ پر غور کریں اور جو تبدیلیاں افکار کے تغیرات سے ہونی لازم ہیں ان کو مدنظر رکھیں۔ منجملہ ان مقدس ایام کے جو مسلمانوں کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں ایک میلاد النبیؐ کا دن بھی ہے۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو دماغی اور قلبی تربیت کیلیے ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہترین ہو‘ وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے چنانچہ مسلمانوںکے لے اسی وجہ سے ضروری ہے کہ وہ اسوہ رسول کریمؐ کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبہ تقلید اور جذبہ عمل قائم رہے او ر ان جذبات کو قائم رکھنے کے تین چار طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ تو درود صلوۃ ہے جو مسلمانوں کی زندگی کا جزو لاینفک 6 ؎ ہو چکاہے۔ وہ ہر وقت درود پڑھنے کے موقعے نکالتے رہتے ہیں عرب کے متعلق میں نے سنا ہے کہ اگر کہیں دو آدمی لڑ پڑتے ہیں اور تیسرا باآواز بلند اللھم صلی علی سیدنا وبارک وسلم پڑھ دیتاہے تو لڑائی فورا ً رک جاتی ہے۔ اور متخاصمین 7؎ ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فوراً باز آ جاتے ہیں یہ درود کا اثرہے اور لازم ہے کہ جس پر درود پڑھا جائے 1؎ طبیعتیں 2؎ ذکر کی جمع ہے 3؎ فائدہ اٹھانا 4؎ رسومات 5؎ رسولؐ کا نمونہ 6؎ کبھی نہ جدا ہونے والا حصہ 7؎ لڑنے والے جائے اس کی یاد قلوب کے اندر اپنا اثرپیدا کرے ۔ پہلاطریقہ انفرادی ہے اور دوسرا اجتماعی یعنی مسلمانوں کی کثیر تعداد مں جمع ہوں اورایک شخص جو حضور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح حیات سے پوری طرح واقف ہو… آپؐ کے سوانح حیات بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا ذوق و شوق مسلمانوں کے قلوب میں پیدا ہو … ۔ تیسرا طریقہ اگرچہ مشکل ہے لیکن بہرحال اس کا بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ یاد رسولؐ اس کثرت سے اور ایسے انداز میں کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوئوں کا خود مظہر ہو جائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے کی جو کیفیت حضور سرور عالمؐ کے وجود مقدس سے ہویدا تھی 1؎ وہ آج تمہارے ہمارے قلوب میںپیدا ہوجائے حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں: آدمی دید است باقی پوست است دیدآں باشد کہ دید دوست است 2؎ یہ جوہر انسانی کا انتہائی کمال ہے کہ اسے دوست کے سوا اور کسی چیز کی دید دے مطلب نہ رہے۔ یہ طریقہ مشکل ہے کتابوں کو پڑھنے یامیری تقریر کے سننے سے نہیں آئے گا۔ اس کے لیے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی انوار حاصل کرنا ضروری ہیں اگریہ میسر نہ ہو تو پھر ہمارے لیے یہی طریقہ غنیمت ہے جس پر ہم آج عمل پیرا ہیں۔ 1؎ ظاہر 2؎ ترجمہ آدمی اصل میں دید ہی ہے اور دید کے علاوہ باقی سب پوست ہے۔ اور دید دوست کے دیدار کانا م ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طریق پر عمل کرنے کے لیے کیا کیا جائے پچاس سال سے شور برپا ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے لیکن جہاں تک میں نے غور کیا ہے تعلیم سے زیادہ اس قوم کی تربیت ضروری ہے۔ اورملی اعتبار سے یہ تربیت علما کے ہاتھمیں ہے۔ اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے۔ صدر 1؎اسلام میںاسکول نہ تھے کالج نہ تھے یونیورسٹیاں نہ تھیں لیکن تعلیم و تربیت اس کی ہر چیزمیں ہے۔ خطبہ جمعہ خطبہ عید حج ‘ وعظ غرض تعلیم و تربیت عوام کے بے شمار مواقع اسلام نے بہم پہنچائے ہیں لیکن افسوس کہ علماء کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام قائم نہیں رہا۔ اور اگر کوء رہا بھی تو اس کا طریق عمل ایسا رہا کہ دین کی حقیقی روح نکل گئی۔ جھگڑے پیدا ہو گئے اور علماء کے درمیان جنہیںپیغمبر علیہ السلام کی جانشینی کافرض ادا کرنا تھا سر پٹھول ہونے لگی۔ مصر ‘ عرب‘ ایران‘ افغانستان‘ ابھی تہذیب و تمدن میں ہم سے پیچھے ہیں لیکن وہاں علماء ایک دوسرے کا سر نہیںتوڑتے وجہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک نے اخلاق میں اعلیٰ معیار کو پا لیا ہے جس کی تکمیل حضور علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور ہم ابھی اس معیار سے بہت دور ہیں۔ دنیا میں نبوت کا سب سے بڑا کام تکمیل اخلاق ہے۔ چنانچہ حضورؐ ے فرمایا بعثت لا تم مکارم اخلاق میںاخلاق کے اتمام 2؎ کے لیے بھیجا گیاہوں۔ اس لیے علماء کا فرض ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوہ حسنہ کی تقلید سے خوشگوار ہوجائے اور اتباع 3؎ سنت زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں تک جاری و ساری رہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے خربوزہ لایا گیاتوآپ نے کھانے سے انکار کر دیا کہ انہیںمعلوم نہ تھا کہ نبی کریمؐ نے یہ پھل کس طرح کھایا ہے مبادا ترک سنت کا ارتکاب ہو جائے۔ افسوس کہ ہم میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں بھی موجودنہیں جن سے ہماری زندگی خوشگوار ہو اور ہم اخلاق کی فضا میں زندگی بسر کر کے ایک دوسرے کے لیے باعث رحمت ہو جائیںَ اگلے زمانے کے مسلمانوں میں اتباع سنت سے ایک اخلاقی ذوق اور ملکہ پیدا ہو جاتا تھا اور وہ ہر چیز کے متعلق خود ہی اندازہکر لیا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ ا س چیز کے متعلق کیا ہو گا۔ 1؎ آغاز اسلام ابتدائے اسلام 2؎ پورا کرنا 3؎ سنت کی پیروی حضرت مولانا روم بازارمیں جارہے تھے کہ آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی۔ کچھ بچے کھیل رہے تھے ان سب نے مولانا کو سلام کیا اور مولانا ایک ایک کا سلام الگ الگ قبول کرنے کے لیے دیر تک کھڑے رہے۔ ایک بچہ کہیں دور کھیل رہا تھا اور اس نے وہیںسے پکار کر کہا کہ حضرت ابھی جائیے گا نہیںمیرا سلام لیتے جائیے تو مولانا نے بچے کی خاطر کچھ دیر ک توقف فرمایا اور اس کا سلام لے کر گئے۔ کسی نے پوچھا حضرت آپ نے اس بچے کے لیے اس قدر توقف کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس قسم کا واقعہ پیش آتا تو حضورؐ بھی ایسا ہی کرتے۔ گویا ان بزرگوںمیں تقلید رسولؐ اور اتباع سنت سے ایک خاص اخلاقی ذوق پیدا ہو گیا تھا… اس طرح کے بے شمار واقعات میں علماء کو چاہیے کہ ان کو ہمارے سامنے پیش کر دیں… چونکہ مسلمان اور بالخصوس ہندوپاکستان کے مسلمان سالانہ عید میلا د النبیؐ بڑے اہتمام سے مناتے ہیں اس لیے اقبال کے اس مضمون کو شامل نصاب کیا جاتا ہے کہ طلبہ شروع ہی سے اس تقریب کی وجہ سے اور اس کے منانے کی افادیت سے واقف ہو جائیں تاکہ آگے چل کر وہ حضورؐ کے اسوہ کی پیروی کر کے اپنی زندگیوںکو انفررادی اور اجتماعی طورپر خوشگوار بنا سکیں۔ اقبال نے اپنے مضمون میں عید میلاد منانے کے تین طریقے بتلائے ہیں۔ پہلا طریقہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا ہے اور اس پر مسلمان شدت سے قائم ہیں۔ دن اوررات میں جب بھی موقع ملتا ہے نہایت درجہ عقیدت و محبت سے درود بھیجتے رہتے ہیں۔ اس سے حضور ؐ کے ساتھ قلبی و روحانی رابطہ قائم ہوتا ہے اوریہ رابطہ ایک مسلمان کی زندگی پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس اثر کی ایک مثال بھی دی جاتی ہے۔ جو بارہا مشاہدہ میں آ چکی ہے کہ اگر دو عرب کسی بات پر لڑتے ہوں اور تیسرا شخص باآواز بلند درود شریف پڑھ دیتا ہے تو وہ لڑنے والے ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھانے سے فوراً باز آ جاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ مسلمان کثیر تعداد میں کسی جگہ جمع ہوں اور ایک شخص جو حضورؐ کے حالات زندگی سے پوری طرح واقف ہو آپ کے حالات زندگی بیان کرے تاکہ ان کی تقلید کا مسلمانوں کے دلوں میں ذوق و شوق پیدا ہو۔ یہ طریقہ بھی مسلمانوںمیںمروج ہے ربیع الاول کے مہینے میں خاص طور پر اس قسم کے اجتماعات اور مجالس ہوتی ہیں۔ تیسرا طریقہ یہ بتاتاہے کہ حضورؐ کی یاد اس کثرت سے اور ایسے انداز سے کی جائے کہ انسان کا قلب نبوت کے مختلف پہلوئوں کا خود مظہر بن جائے یعنی آج سے تیرہ سو سال پہلے جو کیفیت حضورؐ سرور عالم کے وجود مقدس سے ہویدا تھی وہ آج بھی ہمارے دلوںمیں پیدا ہو جائے۔ مگر اقبال فرماتے ہیں کہ یہ تیسرا طریقہ بہت مشکل ہے یہ کتابوں کے پڑھنے یا تقریروں کے سننے میں عمل میں نہیں آتا۔ ا س کے لیے کچھ مدت نیکوں اور بزرگوں کی صحبت میں بیٹھ کر روحانی انوار حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور اگریہ بات میسر نہ آ سکے تو پھر یہی دوسرا طریقہ غنیمت ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طریقے پر عمل کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟ اقبال فرماتے ہیں کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بلکہ تعلم سے کہیں زیادہ قوم کی تربیت ضروری ہے۔ اور ملی اعتبار سے یہ تربیت علماء کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن افسوس کہ علماء کی تعلیم کا کوئی صحیح نظام نہیںرہا۔ اور اگر کوئی رہا بھی تو اس کے طریق عمل سے دین کی حقیقی روح نکل گئی جھگڑے پیدا ہو گئے اور علماء کے درمیان جنہیںپیغمبر کی جانشینی کا فرض ادا کرنا تھا سرپھٹول ہونے لگی۔ دنیامیںنبوت کا سب سے بڑا کام تکمیل اخلاق ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا بعث لاتمم مکارم الاخلاق میںنہایت اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ اس لیے علماء کافرض ہے کہ وہ رسول اللہؐ کے اخلاق ہمارے سامنے پیش کریں تاکہ ہماری زندگی حضورؐ کے اسوہ حسنہ کی تقلید سے خوشگوارہوجائے۔ مکاتیب اقبال خطوط کے مطالعہ کے بعد اقبال کی ذات سے متعلق جو امتیازات مجھے نظر آتے ہیں ان میںان کا خلوص ان کی علم دوستی اسلام سے ان کی شیفتگی 1؎ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کی دل سوزی 2؎ اور اصلا ح حال پر ان کی کوشش ممالک اسلامیہ کے اتحاد و استقلال و استحکام کی تجاویز اور کوشش اہل و عیال سے محبت دوستوں کے لیے جذبہ مروت اور عالم انسانیت کے لیے فلاح و خیر سگالی 3؎ کے جذبات نمایاں ہیں۔ ان مکاتیب میں علامہ نے زبان کی سادگی کو ہاتھ سے نہیںدیا اور انشاء پردازی کے جوہر دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ البتہ جہاں کہیںموضوع کی دل کشی نے موقع دیا ہے انہوںنے جو خیالات ذوق و شوق اور جوش قلبی سے قلمبند 4؎ کر دیے ہیں ان میں زبان کی دل فریبی بدرجہ غایت 5؎ موجود ہے۔ حضرت گرامی کو 1918 ء میں لکھتے ہیں۔ ’’گرامی کو خاک پنجاب جذب کر لے گی یا خاک دکن اس سوال کے جواب میں حسب الحکم مراقبہ کیا گیا جو انکشاف ہوا عرض کیا جاتاہے۔ گرامی مسلم ہے اور مسلم تو وہ خاک نہیںکہ خاک اسے جذب کر سکے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے جو جامع ہے جواہر موسویت اور ابراہمیت کی آگ اسے چھو جائے تو بردوسلاما بن جائے پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ آسمان و زمین میںیہ سما نہیںسکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہیں۔ پانی آگ کو جذب کر لیتا ہے۔ عدم بود کو کھا جاتاہے پستی لندی میں سما جاتی ہے۔ مگرجو قوت جامع 1؎ اضداد ہو اور محلل 2؎ تمام تناقصات 3؎ کی ہو اسے کون جذب کرے۔ مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو انے اند جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے… البتہ زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک ریگستان ہے جو مسلم کو جذب کر سکتا ہے۔ اور اس کی قوت جاذبہ ذوقی و فطری نہیں بلکہ مستعار ہے ایک کف پا 4؎ جس نے اس ریگستان کے چمکنے والے ذروں کو کبھی پامال کیا ہے‘‘۔ 1؎ عشق 2؎ ہمدردی 3؎ خیر خواہی 4؎ تحریر کر دینا 5؎ بہت زیادہ منشی محمد دین فوق کو لکھتے ہیں چونکہ نفس مضمون اقبال کے لیے دلکشی رکھتا تھا اس لیے خوب لکھا اقبال ولایت کے پہلے سفر کے دوران میں سوئز پہنچے تو مسلمان تاجروں کی ایک کثیر تعداد جہاز پر آن موجود ہوئی اقبال ان میں سے ایک سے سگریٹ خریدتے ہوئے اسے بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ۔ مگر اقبال کے سر پر ہیٹ دیکھ کر اسے تسلیم کرنے میں تامل ہوتاہے۔ ’’آخر یہ شخص میرے اسلام کا قائل ہوا اور چونکہ حافظ قرآن تھا اس واسطے میں نے چند آیا ت قرآن شریف کی پڑھیں تو نہایت خوش ہو ا اور میرے ہاتھ چومنے لگا۔ باقی تمام دوکانداروںسے مجھے ملایا۔ اور وہ سب میرے گرد حلقہ باندھ کر ماشاء اللہ ماشاء اللہ کہنے لگے اور میری غرض سفر معلوم کر کے دعائیں دینے لگے یا یوں کہیے کہ دو چار منٹ کے لیے وہ تجارت کی پستی سے ابھر کر اسلامی 5؎ اخوت کی بلندی تک پہنچے۔ تھوڑی دیر کے بعد مصر ی نوجوانوںکا ایک نہایت خوبصورت گروہ جہاز کی سیر کے لیے آیا۔ میں نے جب نظر اٹھاکر دیکھا تو ان کے چہرے اس قدر مانوس معلوم ہوتے تھے کہ ایک سیکنڈ کے لیے مجھے علی گڑھ کالج ڈیپوٹیشن کا شبہ ہوا۔ یہ لوگ جہاز کے ایک کنارے پر کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے ۔ میںبھی دخ در معقولات ان میں جا گھسا۔ دیر تک باتیں ہوتی رہیںَ ان میں سے ایک نوجوان ایسی خوبصورت عربی بولتا تھا جیسے حریری 1؎ کاکوئی مقام پڑھ رہا ہو۔ 1؎ مختلف چیزوں کو جمع رکھنے والی 2؎ حل یا ختم کرنے والی 3؎ اختلافات 4؎ تلوا 5؎ بھائی چارہ اسی خط میں نہر سویز کے متعلق لکھتے ہیں: ’’کسی شاعر کا قلم اور کسی سنگتراش کا ہنر اس شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا جس نے اقوام عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیاد رکھی… یہ کینال جسے ایک فرانسیسی انجینئر نے تعمیر کیاتھا۔ دنیا کے عجائبات میں سے ہے کینال کیا ہے عرب اور افریقہ کی جدائی ہے اور مشرق اور مغرب کا اتحاد دنیا کی رومانی زندگی پر مہاتما بندھ نے بھی اس قدر اثر نہیںکیا جس قدر اس مغربی اختراع 2؎ نے زمانہ حال کی تجارت پر کیا ہے‘‘۔ سید غلام میران شاہ کو لکھتے ہیں: ’’حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت 3؎ عطا فرمائے تو یہ آرزو پوری ہو۔ آپ رفیق ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو… چند روز ہوئے۔ سر اکبر حیدری وزیر اعظم حیدر آباد کا خط مجھ کو ولایت سے آیا تھا جس میںوہ لکھتے ہیں کہ حج بیت اللہ اگر تمہاری معیت میںنصیب ہو تو بڑی خوشی کی بات ہے لیکن درویشوں کے قافلہ میںجو لذت و راحت ہے وہ امیروں کی معیت میں کیونکر نصیب ہو سکتی ہے‘‘ (دیباچہ مکاتیب اقبال حصہ دوم) مکاتیب اقبال سے مختصر سا تعارف کرانے کے بعد ہم ان کے مکاتیب میں سے کسی قدر انتخاب کرتے ہیں: 1؎ مقامات حریری ایک کتاب ہے عربی میں 2؎ ایجاد 3؎ طاقت ‘ حیثیت لاہور 12اکتوبر 1918ء جناب مولانا گرامی مدظلہ العالی گرامی کو خاک پنجاب جذب کر ے گی یا خاک دکن؟ اس سوال کے جواب میں حسب الحکم مراقبہ کیا گیا جو انکشاف ہوا عرض کیا جاتاہے۔ گرامی مسلم ہے اور مسلم تو وہ خاک نہیںکہ خاک اسے جذب کر سکے۔ یہ ایک قوت نورانیہ ہے جو جامع ہے جواہر موسویت اور ابراہمیت کی آگ اسے چھو جائے تو بردوسلاما بن جائے پانی اس کی ہیبت سے خشک ہو جائے۔ آسمان و زمین میںیہ سما نہیںسکتی کہ یہ دونوں ہستیاں اس میں سمائی ہیں۔ پانی آگ کو جذب کر لیتا ہے۔ عدم بود کو کھا جاتاہے پستی لندی میں سما جاتی ہے۔ مگرجو قوت جامع اضداد ہو اور محلل تمام تناقصات کی ہو اسے کون جذب کرے۔ مسلم کو موت نہیں چھو سکتی کہ اس کی قوت حیات و موت کو اپنے اندر جذب کر کے حیات و ممات کا تناقض مٹا چکی ہے ۔ شاید نضیر نام کا ایک شخص تھا جو ہجرت سے پہلے حضور علیہ الصلو ۃ والسلام کو سخت ایذا 1؎ دیتا تھا فتح مکہ کے بعد جب حضورؐ شہر میں داخل ہوئے تو ایک مجمع عام میںآپؐ نے علی مرتضیٰؓ کو حکم دیا کہ اس کی گردن اڑا دو۔ ذوالفقار حیدری نے ایک آن میں اس کمبخت کاخاتمہ کر دیا۔ اس کی لاش خاک و خون پر پڑی تڑ پ رہی تھی۔ لیکن وہ ہستی جس کی آنکھوںمیں دوشیزہ 2؎م لڑکیوںسے بھی زیادہ حیا تھی جس کا قلب تاثرات لطیفہ 3؎ کا سرچشمہ تھا اس دردانگیز منظر سے مطلق متاثرنہ ہوئی ۔ نضیر کی بیٹی نے جب باپ کے قتل کی خبر سنی تو نوحہ و فریاد کرتی ہوئی اور باپ کی جدائی میں درد انگیز اشعارپڑھتی ہوئی دربار نبویؐ میں حاضر ہوئی اللہ اکبر! اشعار سنے تو حضورؐ اس قدر متاثر ہوئے کہ اس لڑکی کے ساتھ مل کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ جوش ہمدردی نے اس سب سے زیادہ ضبط کرنے والے انسان کے سینے سے ایک آہ سرد نکلوا کر چھوڑی۔ پھر نضیر کی تڑپتی ہوئی لاش کی طرف 1؎ تکلیف 2؎ کنواری 3؎ لطیف احساسات اشارہ کر کے فرمایا۔ یہ فعل محمدؐ رسول اللہ کا ہے اور اپنی روتی ہوئی آنکھ پر انگلی رکھ کر فرمایا کہ یہ فعل محمدؐ بن عبداللہ کا ہے پھر حکم دیا کہ نضیر کے قتل کے بعد کوئی شخص مکہ میں قتل نہ کیا جائے۔ غرضیکہ اسی طرح مسلم حنیف 1؎ جذبات متناقض یعنی قہر و محبت اپنے قلب کی گرمی سے تحلیل کرتا ہے اور اس کادائرہ اثر اخلاقی تناقضات تک ہی محدود نہیں بلکہ تمام طبعی تناقضات پربھی حاوی ہے 2؎ ۔ پھر مسلم جو حامل ہے محمدیت کا اور وارث ہے موسویت و ابراہیمیت کا کیونکر کسی شے میں جذب ہو سکتا ہے۔ البتہ اس زمان و مکان کی مقید دنیا کے مرکز میں ایک انگلستان ہے جو مسلم کو جذب کر لیتا ہے۔ اور اس کی قوت جاذبہ ذوقی اور فطری نہیںبلکہ مستعار 3؎ ہے ایک کف پا سے جس نے اس ریگستان کے چمکتے ذروں کو کبھی پامال کیاتھا۔ محمد اقبال لاہور یہ خط مکاتیب اقبال بنام بلگرامی سے لیا گیا ہے۔ ٭٭٭ منشی سراج الدین کے نام (۲) لاہور 4اکتوبر 1910ء مخدومی ! السلام علیکم آپ کانوازش نامہ ملا جس کو پڑھ کر مجھے بڑی مسرت ہوئی ۔ الحمد للہ آپ کو مثنوی پسند آئی۔ آپ ہندوستان کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن کو شاعری سے طبعی مناسبت ہے۔ اور اگر نیچر ذرا فیاضی سے کام لیتی تو آپ کو زمرہ شعرا میں پیدا کرتی بہرحال شعر کا صحیح ذوق شاعری سے کم نہیں 1؎ دین میں سچا اور مستحکم جو باطل سے منہ موڑ کر حق کی طرف متوجہ رہے جو ملت ابراہیم پر قائم رہے ۔ 2؎ احاطہ کرنے والا۔ غالب‘ قابو پانے والا 3؎ مانگا ہوا‘ ادھا ر لیا ہوا بلکہ کم از کم ایک اعتبار سے اس سے بہتر ہے۔ محض ذوق رکھنے والا شعر کا ویسا ہی لطف اٹھا سکتا ہے جیسا کہ خود شاعر اور تصنیف کی شدید تکلیف اسے اٹھانی نہیں پڑتی۔ یہ مثنوی گزشتہ دو سال کے عرصے میں لکھی گئی ہے۔ مگرا س طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ چند اتوار کے دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے کہ موجودہ مشاغل وقت نہیںچھوڑتے اور جوں جوں اس پروفیشن میں ز مانہ زیادہ ہوتا جاتا ہے کام بڑھتا ہی جاتاہے لٹریری مشاغل کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں اگر مجھے پوری فرصت ہوئی تو غالباً اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی۔ اس کا دوسرا حصہ بھی ہوتا جس کے مضامین میرے ذہ میں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حصہ اس حصے سے زیادہ لطیف ہو گا۔ کم از کم مطالب کے اعتبار سے گو زبان اور تخیل کے اعتبار سے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیسا ہو گا۔ یہ بات طبیعت کے رنگ پر منحصرہے۔ جو اپنے اختیار کی بات نہیں… آپ کا خادم محمد اقبال ٭٭٭ 3۔ سرا ج الدین پال کے نام لاہور 10جولائی 1916ء مکرم بندہ۔ السلام علیکم آپ کا خط مجھے مل گیا ۔ جس کے لیے میں آپ کا ممنون ہوں ۔آپ کے مضامین نہایت اچھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حقائق اسلامیہ 1؎ کی سمجھ عطا کی ہے۔ حدیث میں آتا ہیکہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتاہے تو اسے 1؎ حقیقتیں دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ افسوس ہے مسلمان مرد ہ ہیں۔ انحطاط ملی 1؎ نے ان کے تمام قویٰ کو شل کر دیاہے ۔ اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے صید 1 ؎ پر ایسا اثر ڈالتا ہے کہ جسسے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی 3؎ تصور کرنے لگتا ہے ۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے مگر ہمیں اپنے ادارئے فرض سے کا م ہے امت کا خوف رکھنا ہمارے مذہب میں حرام ہے میں مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا دوسرا حصہ لکھ رہا ہوں امید ہے کہ اس حصہ میں بعض باتوں پر مزید روشنی پڑے گی۔ حافظ پر ایک طویل مضمون شائع ہونے کا مجھے بھی احساس ہے مجھے یقین ہے کہ آپ کو کام کو باحسن 4؎ وجوہ انجام دے سکتے ہیں۔ آپ کے مضامین معلوم ہوتا ہے کہ جو سامان عقلی اور اخلاقی ایسا مضمون لکھنے کے لیے ضروری ہے وہ سب آپ میں موجود ہے… آپ کا مخلص محمد اقبال یہ اقتباس ’’اقبال نامہ‘‘ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول سے لیا گیا ہے۔ ٭٭٭ (4) علامہ سید سلیمان ندوی کے نام لاہور 10اکتوبر 1919ء مخدومی السلام علیکم نوازش نامہ ملا عنوان جو آپ نے تجویز فرمایا ہے ٹھیک ہے تبصرہ کے متعلق میں بھی یہی مشورہ دوں گا کہ میرا مجموعہ شائع ہو لے تو لکھیے۔ فی الحال ایک مغربی شاعر کے دیوان کا جواب لکھ رہا ہوں جس کا تقریباً نصف حصہ لکھا جا چکا ہے کچھ نظمیں فارسی میںہوںگی کچھ اردو میں کلام کا بہت سا حصہ نظر ثانی 5؎ کا محتاج ہے لیکن اور مشاغل 1؎ قومی تنزل 2؎ شکار 3؎ سرپرست 4؎ نہایت خوبی کے ساتھ 5؎ دوبارہ دیکھنا اتنی فرصت نہیںچھوڑتے کہ ادھر توجہ کر سکوںتاہم جو کچھ ممکن ہے کرتا ہوں شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح 1 نظر نہیںرہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں‘ مقصود صر ف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس۔ اس بات کو مدنظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں ان کوظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوںکیا عجب کہ آئندہ نسلیں مجھے شاعر تصور نہ کریں۔ اس واسطے کہ آرٹ (فن) غائت درجہ کی جانکاہی چاہتا ہے اور یہ بات موجودہ حالات میں میرے لیے ممکن نہیں جرمنی کے دو بڑے شاعر بیرسٹر یعنی گوئٹے اور روہلنڈ گوئٹے تھوڑے دن پریکٹس کے بعد ویمر کی ریاست کا تعلیمی مشیر بن گیا ار اس طرح فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کا اسے پورا موقع مل گیا۔ روہلنڈ تمام عمر مقدمات پر بحث کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ ہو کہ بہت تھوڑی نظمیں لکھ سکا اور وہ کمال پورے طور پر نشوونما نہ پا سکا جو اس کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔ غرض یہ کہ موجود ہ حالات میں میرے افکار اس قابل نہیں کہ ان کی تنقید کے لیے سید سلیمان ندوی کا دل و دمٓغ صرف ہو لیکن اگر احباب کے تبصرے پر مصر ہیں تو یہی بہتر ہے کہ مجموعے کا انتظار کیا جائے۔ اس کے علاوہ میں اپنے دل و دماغ کی سرگزشت بھی مختصر طور پر لکھنا چاہتا ہوں اور یہ سرگزشت کلام پر روشنی ڈالنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو خیالات اس وقت میرے کلام اور افکار کے متعلق نہایت لوگوں کے دلوں میں ہیں اس تحریر سے ان میںانقلاب پیدا ہو گا۔ زیادہ کیا عرض کروںامید آپ کا مزاج بخیر ہو گا والسلام مخلص محمد اقبال (اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول ) ٭٭٭ 1؎ مقصد اعلیٰ (5) مولوی ظفر احمد صاحب صدیقی کے نام لاہور 12دسمبر 1936ء اعتراض کا جواب آسان ہے دین اسلام جوہر مسلمان کے عقیدہ کی رو سے ہر شے پر مقدم ہے نفس انسانی اور ا س کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا بلکہ ان کے عمل کے لکیے حدود متعین 1؎ کرتا ہے ان حدود کے متعین کرن کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الٰہی ہے خودی خواہ مسولینی کی ہو یا ہٹلر کی قانونی الٰہی کے پابند ہو جائے تو مسلمان ہو جاتی ہے۔ مسولینی نے حبہ کو محض جوع الارض 2؎ کی تسکین کے لیے پامال کیا۔ مسلمانوں نے اپنے عروج کے ز مانے میں حبشہ کی آزادی کو محفوظ رکھا فرق اس قدر ہے کہ پہلی صورت میں خودی کسی قانون کی پابند نہیں۔ دوسری صورت میں قانون الٰہی اور اخلاق کی پابندہے۔ بہرحال حدود خودی کے تعین کا نام شریعت ہے اورشریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے… (۳) معترض کا یہ کہنا کہ اقبال دور ترقی میںجنگ کا حامی ہے غلط ہے میں جنگ کاحامی نہیںہوں۔ نہ کوئی مسلمان شریعت کے حدود معینہ 3؎ کے ہوتے ہوئے ئاس کا حامہ ہو سکتای ہے۔ قرآن کی تعلیم کی رو سے جہاد یا جنگ کی صرف دو صورتیں ہیں۔ محافظانہ اور مصلحانہ پہلی صورت میں یعنی اس صورت میں کہ جب مسلمانوں پر ظلم کیا جائے اوران کے گھروں کو نکالا جائے۔ مسلمان کو تلوار اٹھانے کی اجازت ہے (نہ کہ حکم)ٰ دوسری صورت میں جس میں جہاد کرنے کا حکم ہے ۹:۴۹میں بیان ہوئی ہے۔ ان آیات پر غور کرنے سے پڑھیے تومعلوم ہو گا کہ وہ چیز جس کو سیموئل ہو جمعیت اقوام کے اجلاس میں Collective Securityکہتا ہے قرآن نے اس کا اصول کس سادگی اور فصاحت سے بیان کیا ہے۔ اگر گزشتہ زمانے کے مسلمان مدبرین اور سیاسیین قرآن پر تدبر کرتے تو اسلامی دنیا میں جمعیت اقوام بنے ہوئے آج صدیاں گزر گئی ہوتیں 1 مقرر 2 ؎ زمین کی بھوک ‘ ملک گیری کی ہوس 3؎ مقررہ حدود جنگ کی مذکورہ بالا صورتوں کے سوائے میں اور کسی جنگ کو نہیں جانتا۔ جوع الارض کی تسکین کے لیے جنگ کرنا دین اسلام میں حرام ہے۔ علی ہذا القیاس 1؎ دین کی اشاعت کے لیے تلواراٹھانا بھی حرام ہے… (اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول) ٭٭٭ (6) مخدوم الملک سید غلام میران شاہ کے نام جاوید منزل لاہور 29مارچ 1938ء مخدوم الملک جناب قبلہ پیر صاحب السلام علیکم میں نے آپ کے مخلص کا خط پڑھا ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ کے احباب اورمخلصین آپ سے اس روحانیت کی بنا پر جو آپ نے اپنے آباواجداد سے ورثہ میں پائی ہے بہت بڑی بڑی امیدیں رکھتے ہیں ان امیدوں میں میں بھی شریک ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت ‘ ہمیت ‘ اثر و رسوخ اور دولت وعظمت کو حقائق اسلام کی نشر و اشاعت میں صرف کریںَ اس تاریخ زمانے میں حضور رسالت مآبؐ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ جلد آپ کی طبیعت میں ایک بہت بڑا انقلاب پیدا ہو جس کی ابھی تک آپ کوتوقع نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ شمال مغربی ہندوستان میں جن بزرگوں نے اسلام بلند کیا ان کی اولاد دین دنیوی جاہ و منصب کے پیچھے پڑ کر تباہ ہو گئیں ۔ اور آج ان سے زیادہ جاہل کوئی مسلمان مشکل سے ملے گا۔ الاماشاء اللہ وقت تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیںبزرگوں کی اولاد میں سے کسی کی روحانیت کو بیدار کر دے اور کلمہ اسلام کے اعلا ء 2؎ پر مامور کر دے والسلام 1 ؎ اسی طرح 2 ؎ بلند کرنا (7) حضرت علامہ مصطفے المراغی شیخ جامعہ ازہر کے نام ہم نے ارادہ کیا ہے کہ پنجاب کے کسی گائوں میںایک ایسا ادارہ قائم کریں جس کی نظیر آج تک یہاں وقوع 2؎ میں نہیں آئی۔ اس ادارے کو وہ شان حاصل ہو جو دوسرے دینی اور اسلامی اداروں کی شان سے بہت بڑھ چڑھ کر ہو۔ اورعلوم جدید کے چند فارغ التحصیل حضرات اور چند علوم دنیینہ کے ماہرین کو یہاں جمع کریں۔ یہ ایسے حضرات ہوں جن میںاعلیٰ درجہ کی ذہنی صلاحیتیں موجود ہوں اور وہ اپنی زندگیاں دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ہم ان کے لیے تہذیب حاضرہ کے شعور و شغب سے دور ایک ہوسٹل بھی بنانا چاہتے ہیں جو ان کے لیے ایک علمی اسلامی مرکز ہو۔ اور ان کے لیے ایک ایسی لائبریری بھی قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں ہر قسم کی نئی اور پرانی کتاب موجود ہو۔ اور ان کی رہنمائی کے لیے ایک ایسا معلم جو کامل اور صالح ہو اور قرآن حکیم میں بصیرت نامہ رکھتا ہو اور ساتھ ہی انقلاب دور حاضر سے بھی واقف ہو مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ ان کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے واقف کر دے اور تفکر اسلامی کی تجدید یعنی فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات اورسیاسیات کے علوم میں ان کی مدد کرے تاکہ وہ اپنے علم اور تحریروں کے ذریعہ تمدن اسلامی کے دوبارہ زندہ کرنے میں جہاد کر سکیں۔ اس تجویز کی اہمیت آپ پر ہم کیا ظاہر کریں۔ آپ خود اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ لہٰذا میری خواہش ہے کہ آپ ازراہ عنایت ایک روشن خیال مصری عالم کو جامعہ ازہر کے خڑچ پر ہمارے پاس بھیج کر ممنون فرمائیں تاکہ وہ ہم کو اس کام میں مدد دے سکے یہ شخص علوم شرعیہ اورتاریخ تمدن اسلامی میںماہر ہو نیز زبان انگریزی پر بھی قدرت رکھتا ہو۔ مجھے توقع ہے کہ دین حق کا نور اس مرکز سے ہندوستان کے تمام اطراف 1؎ ظہور میں نہیں آئی و اکناف میں پھیلے گا۔ محمد اقبال (نوٹ) یہ ایک خط کا اقتباس ہے اصل خط عربی میںلکھا گیا تھا۔ اقبال نامہ۔ مجموعہ مکاتیب اقبال ۔ حصہ اول ٭٭٭ (8) غازی عبدالرحمن کے نام لاہور 12مئی 1916ء مکرم بندہ تسلیم نشان ہلال کی تاریخ میں اختلاف ہے جہاں تک مجھے علم ہے یہ نشان نبی کریمؐ اور صحابہؓ کے عہد میں مروج نہ تھا۔ بعض مغربی مورخین نے لکھا ہے کہ فتح قسطنطنیہ سے شروع ہوا بعض سلطان سلیم کے عہد میں بتائے ہیں مگر یہ صحیح نہیں میرے خیال میں ترکوں کو ا س کی ترویج 1؎ وسے کوئی تعلق نہیں۔ غالباً صلیبی لڑائیوں کے زمانے میں اس کی تروین شروع ہوئی(صلیبی جنگوں کے تذکرے میں اس کا ذکر ملتا ہے) اور کچھ عجب نہیں کہ صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں اس کا آغاز ہوا ہو۔ صلاح الدین ایوبی ترک نہتھے کرد تھے سنی دنیا اس نشان کو اپنا قومی نشان تصور کرتی ہے۔ ایران کا نشان اور ہے میرے خیال میں اس کا استعمال محض اتفاقی طو ر پر شروع ہوا۔ صلیبی سپاہی اپنے سینوں لباسوں اور علموں پر صلیب کا نشان رکھتے تھے۔امتیاز کے واسطے مسلمانوں نے یہ نشان شروع کیا۔ اس واسطے کہ اس میں ہر روزبڑھنے کا اشارہ تھا۔ ہلال کا لفظ ہی نمو کا اشارہ کرتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ تاریخی پہلو سے میں یہ نہیںکہہ سکتا کہ اس کے موجد نے اس نمو 2؎ کے خیال سے جاری کیایا چاند سورج سے اپنا سلسلہ نسب ملانے کے خیال سے مگر تمام امت کا اس 1؎ روح دنیا 2؎ بڑھنا پر صدیوں سے اجماع 1؎ ہو چکا ہے ۔ جن اسلامی قوموں کا نشان اور ہے وہ اس نشان پر کبھی معترض نہیں ہوئے اور حدیث صحیح ہے کہ میری امت کا اجماع ضلالت 2؎ پر نہ ہو گا اس واسطے اس کو ضلالت تصور کرنا ٹھیک نہیں ہے واللہ اعلم۔ (اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول) محمد اقبال ٭٭٭ لمعہ صاحب کے نام سنیے غزل اور رباعی کے لیے قافیہ کی شرط تو لازمی ہے لیکن اگر ردیف بھی بڑھا دی جائے تو سخن میں اور لطف بڑھ جاتا ہے ۔ البتہ نظم ردیف کی محتاج نہیں۔ قافیہ تو ہونا چاہیے۔ اب کچھ عرصہ سے بلا ردیف و قافیہ نظمیںلکھی جاتی ہیں اور یہ انگریزی نظموں کی تقلید ہے۔ جس کا نام انگریزی میںبلینک ورس Blank Verseہے جس کا (نثر مرجز) کہنا چاہیے اگرچہ پبلک مذاق کچھ ایسا ہو چلا ہے کہ میرے خیال میں ٰہ روش آئندہ مقبول نہ ہو گی۔ نظموں کے لے اولا سبجیکٹ (Subject) اور مضامین تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ نیچرل مضامین تو سبجیکٹ ہی کے اعلیٰ انتخاب سے کچھ لطف دیتے ہیں اور مین دیکھتا ہوں کہ آپ کی نظمیں اس خصوصیت سے مالا مال ہوتی ہیں کلام کی پختگی تو اب بھی آپ کے خیالات میں موجود ہے۔ اور مشق سے ہوتے ہوتے حاصل ہو گی قدیم شاعری اور جدید شاعری کا سوال بھی سرمایہ ادب کا ایک سبجیکٹ ہو گیا ہے۔ میں فقط فرسودہ مضامین کی حد تک جدید و قدیم کی بحث کو مانتا ہوں۔ شاعری کی جان تو شاعر کے جذبات ہیں۔ جذبات انسانی اورکیفیات قلبی اللہ کی دین ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ طبع موزوں اس کے ادا کرنے کے لیے پر اثر الفاظ کی تلاش کرے 1؎ علماء کا کسی دینی بات پر متفق ہونا 2 ؎ گمراہی نظم کے اصناف 1؎ کی تقسیم جو قدیم سے ہے ہمیشہ رہے گی اور انسانی جذبات ماحول کے تابع رہیں گے۔ بس یہ سمجھ لیا جائے کہ جس شاعر کے جذبات‘ ماحول سے اثر پذیر ہیں۔ وہ شاعرجدید رنگ کا حامل متصور ہو سکتا ہے۔ نہ کہ نفس شعری اگر ہم نے پابندی عروض کی خلاف ورزی کی تو شاعری کا قلعہ ہی منہدم ہو جائے گا۔ اور اس نقطہ خیال سے یہ کہنا پڑے گا اور یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ شعراء کا کام تعمیری ہونا چاہیے۔ نہ کہ تخریبی خدا حافظ زیادہ والسلام مخلص محمد اقبال 10اپریل 1934ء ٭٭٭ حافظ محمد فضل الرحمن انصاری کے نام لاہور 16جولائی 1937ء جناب من۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ جہاں تک اسلامی ریسرچ کا تعلق ہے ۔ فرانس جرمنی انگلستان اور اٹلی کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کے مقاصد خاص ہیں جن کو عالما نہ تحقیق اور حقائق حق 2؎ یک ظاہر طلسم میں چھپایا جاتا ہے۔ سادہ لوح مسلمان طالب علم اس طلسم میں گرفتارہوجاتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ان حالات میں آپ کے بلندمقاصد پر نظررکھتے ہوئے ہیں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے لیے یورپ جانا بے سود ہے: میر کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہو کے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں مصر جائیے عربی زبان میںمہارت پیدا کیجیے ۔ اسلامی علوم اسلام کی دینی اور سیاسی تاریخ تصوف فقہ‘ تفسیر کا بغور مطالعہ کر کے محمد عربیؐ کی اصل روح تک 1؎ قسمیں 2؎ حق کی تحقیق کرنا پہنچنے کی کوشش کیجیے۔ پراگر ذہن خداداد ہے اور دل میں خدمت اسلام کی تڑ پ ہے تو آپ اس کی تحریک کی بنیاد رکھ سکیں گے جو اس وقت آپ کے ذہن میں ہے ہاں یورپ کا فلسفہ پڑھنے کے لیے آپ کو یورپ کا سفر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ مسلمانوں کو موجودہ حالات میں فلسفہ اورلٹریچر کی چنداں ضرورت نہیںہے۔ اس صورت میں بھی Thesisکے ذریعے ڈگری حاصل کرنا فضولہے یورپ کے فلسفہ کی مختلف شاخوں کا مطالعہکر کے ڈگری حاصل کرنا چاہیے… والسلام محمد اقبال (اقبال نامہ : مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول) ٭٭٭ محمد علی جناح کے نام لاہور 28مئی 1937ء بصیغہ راز مائی ڈئیر مسٹر جناح نوازش نامہ موصول ہوا جس کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ یہ اطلاع کہ لیگ کے دستور و پروگرام میں جن تغیرات کی طرف میں نے آپ کی توجہ مبذول کروائی تھی وہ آپ کے پیش نظر رہیں گے۔ موجب مسرت و اطمینان ہوئی مجھے یقین کامل ہے کہ اسلامی ہند کی نزاکت حالات کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ لیگ کو انجام کا ر یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ وہ مسلمانوں کے اعلیٰ طبقہ کی نمائندگی کررہی ہے یا مسلمان عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرے جنہیںاب تک نہایت بجا طور پر لیگ میں کوئی وجہ دل کشی نظر نہیں آئی میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت جو عام مسلمانوں کی بہبود کی ضامن نہ ہو عوام کے لیے باعث کشش نہیںہو سکتی۔ نئے دستور کے ماتحت بڑی بڑی آسامیاں تو اعلیٰ طبقات کے بچوں کے لیے وقف ہیں اور چھوٹی چھوٹی وزرا کے دوستوں اور رشتہ داروں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ دوسرے اعتبارات سے بھی ہمارے سیاسی ادارات نے غریب مسلمانوں کی اصلاح کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہ کی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو سال سے ان کی حالت مسلسل گرتی جا رہی ہے مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو کی ساہوکاری اور سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی حصہ دار ہے۔ اگرچہ ابھی قوی نہیںہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کر کے رہے گا۔ جواہر لال کی منکر خدا 1؎ اشتراکیت مسلمانوں میںکوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گا۔ لہٰذا سوال پیدا ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جا سکتی ہے؟ لیگ کامستقبل ا س امر پر موقوف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لیے کیاکوشش کرتی ہے۔ اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس 2؎ کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بے تعلق رہیں گے۔ خوش قسمتی سے اسلای قانون کے نفاذ میںاس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہہ اسلامی کا مطالعہ مقضیات حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پنہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ کسی ایک آزاد اسلامی ریاست یا ایسی چند ریاستو ں کی عدم موجودگی میںشریعت اسلامیہ کا نفاذ اس 1؎ خدا کاانکار کرنے والی 2؎ غریبی مفلسی ‘ محتاجی ملک میں محال ہے سالہاسال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہے اور اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندوستان کے امن کا بہترین حل سمجھتاہوں۔ اگر ہندوستان میں اس طریقہ کار پر عمل درآمد اور اس مقصد کے حصول ناممکن ہے تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے اور وہ خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میںکئی سالوں سے شروع ہے… مسائل حاضرہ کا حل مسلماونں کے لے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسا ن ہے۔ لیکن جیسا اوپر ذکر کر چکا ہوں اسلامی ہندستان میں ان مسائل کے حل بآسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعہ ایک یا زائد اسلامی ریاستوں کا قیام اشد ضروری ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیںآن پہنچا؟ شاید جواہرلال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جو اب ہے۔ بہرحال میں نے اپنے خیالات آپ کی خدمت میں اس امید کے پیش کر دیے ہیں کہ آپ ان پر اپنے خطبہ لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں پوری پوری توجہ مبذول کر سکیں۔ اسلامی ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فطانت و فراست ان کی موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کر سکے گی۔ مخلص محمد اقبال (اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ دوم) ٭٭٭ لاہور 21جون 1937 بصیغہ راز مائی ڈئیر مسٹر جناح نوازش نامہ کل موصول ہوا ۔ جس کے لیے سراپاسپاس ہوں۔ آپ کی بے پناہ 1؎ مصروفیت کی آگاہی رکھنے کے باوجود آپ کو اکثر لکھتے رہنے کے لیے معذرت خواہ ہوں ا س وقت مسلمانوں کو اس طوفا ن بلا میں جو شمالی ہندوستاناور شاید ملک کے گوشہ گوشہ سے اٹھنے والا ہے۔ صڑف آپ ہی کی ذات گرامی سے رہنمائی کی توقع ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ فوج اور پولیس موجود ہ ہو تو یہ خانہ جنگی چشم زدن 2؎ میں عالمگیر ہو جائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔ صر ف شمال مغربی ہند میں ان تین ماہ میں کم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہندوئوں او رسکھوں کی طرف سے توہین رسولؐ کی کم از کم چار وارداتیں پیش آ چکی ہیں۔ توہین رسولؐ کی ان چار وارداتوںمیںمجرم فی النار 3؎ کر دیا گیا۔ سندھ میں قرآن مجید کے نذر آتش کرنے کے واقعاتبھی پیش آتے ہیں۔ صورت حال کا نظر غائر 4؎ سے مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیںنہ معاشی بلکہ خالص سیاسی ہیں مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں میںبھی ہندو اور سکھوں کا مقصد مسلمانوں پر خوف و ہراس طاری کر دینا ہے۔ آئین کی کیفیت کچھ ایسی ہے کہ اپنی اکثریت کے صوبوںمیں بھی مسلمانوں کا دارومدار تمام تر غیر مسلموں پر ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم وزار ت نہ صرف کوئی مناسب کاروائی نہیںکر سکتی بلکہ وزارت کو خود مسلمانوں س ناانصافی برتنی پڑتی ہے۔ تاکہ وہ لوگ جن کی امداد ر وزارت قائم ہے۔ خوش رہ سکیں اور دوسروں پر ظاہر کیا جا سکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر متعصب 5؎ ہے لہٰذا یہ ایک عالم آشکار حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس اس آئین کو رد کرنے کی خاص وجوہ موجود ہیں مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ دستور جدید ہندوئوں ہی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ان صوبوں میں جہاں ہند و آبادی کی اکثریت ہے حکومت میںہندوئوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے۔ او ر وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کرسکتے ہیں۔ برخلاف 1؎ انتہا درجہ کی 2؎ پلک جھپکنے ذرا سی دیر میں 3؎ گہری نظر 4؎ ہلاک 5؎ بے تعصب غیر جانبدار اس کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں مسلمانوں کو ہندوئوں کا دست نگر رکھا گیا ہے۔ مجھے اس امر میں قطعاً ذراہ براببر شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ موجودہ دستور ہنددی مسلمانوں کے لیے زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے۔ مزید برآں یہ دستور تو اسی معاشی تنگ دستی کا جو شدید تر ہو تی چلی جا رہی ہے۔ کوئی علاج ہی نہیں فرقہ وارانہ فیصلہ ہندوستان میںمسلمانوںکی سیاسی ہستی کو تسلیم تو کرتاہے لیکن کسی قوم کی سیاسی ہستی کا ایسا اعتراف جواس کی معاشی پس ماندگی کا کوئی حل نہ تجویز کرنا ہو اور نہ کر سکے اس کے لیے بے سود ہے… اندریں حالات یہ بالکل عیاں 1؎ ہے کہ ہندوستان کا امن نسلی مذہبی اور لسانی میلانات کی بنا پر ملک کی تقسیم مکرر پر موقوف ہے۔ اکثر برطانوی مدبر بھی اس نظریے کے قائل ہیںَ ہندو مسلم فسادات جو اس دستور جدید کے جلو میں پوری تیزی سے رونما ہو رہے ہیںامید ہے کہ ان پر حقیقت ناقابل تردید طور پر واضح کر دیں گے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے میری روانگی کے وقت لارڈ لووین نے مجھ سے کہاتھا کہ ہندوستان کی مشکلات کا حل توتمہاری سکیم میںموجود ہے لیکن اس کے بارآو ر ہونے کے لیے پچیس سال کی مدت درکار ہو گی پنجاب کے بعض مسلمان تو پہلے ہی شمال مغربی ہند کی ایک مسلم کانفرنس کے انتعقاد کی تجویز پر غور کر رہے ہیں۔ اور یہ خیال پھیلتا جا رہا ہے ۔ اس امرمیں میں آپ کا ہم خیال ہوں کہ ہماری قوم ابھی تک نظم و ضبط 2؎ سے محروم ہے۔ اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کے لیے ابھی وقت سازگار نہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو انجام کار مجبوراً اختیار کرنا ہی پڑے گا۔ 1 ؎ ظاہر 2؎ باقاعدگی میرے خیال میں تو ’’دستور جدید‘‘ سارے ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پرحد درجہ یاس انگیز ہے۔ مخلص محمد اقبال (اقبال نامہ: مجموعہ اقبال حصہ دوم) ٭٭٭ لسان العصر اکبر الہ آبادی کے نام لاہور 6اکتوبر 1911ء مخدوم و مکرم جناب قبلہ سید صاحب السلام علیکم کل ظفر علی خاں سے سنا تھا کہ جناب کو چوٹ آ گئی ہے۔ اسی وقت سے میرا دل بے قرار تھا۔ اور عریضہ خدمت عالی میںلکھنے کو تھا کہ آج جناب کا محبت نامہ ملا۔ دست بدعا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس تکلیف کو رفع کرے اور آپ کو دیر تک زندہ رکھے تاکہ ہندوستان کے مسلمان اس قلب کی گرمی سے متاثر ہوتے رہیں جو خدا نے آپ کے سینے میں رکھی ہے۔ میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئیمرید اپنے پیر کو دیکھتا ہے اور وہی محبت و عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو۔ اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میںتنہا ہوں۔ ایک فرد واحد بھی ایسا نہیںجس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے۔ طعنہ زن ہے ضبط اور لذت بڑی افشا میں ہے ہے کوئی مشکل سے مشکل راز داں کے واسطے لارڈ بیکن کہتے ہیں کہ جتنا بڑا شہر ہو اتنی ہی بڑی تنہائی ہوتی ہے۔ سویہی حال میرا لاوہر میںہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ماہ بعض معاملات کی وجہ سے سخت پریشانی رہی اورمجھے بعض کام اپنی فطرت اور طبیعت کے خلاف کرنے پڑے اور ان ہی میں طبع سلیم میرے لیے شکنجے کا کام دے گی… دعا گو محمد اقبال بیرسٹر لاہور (اقبال نامہ‘ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ دوم) ٭٭٭ قاضی نذیر احمد کے نام لاہور 12مئی 1937ء (خط میں بعض جواب طلب امور کاجواب دینے کے بعد ایک سوال کا جواب یہ دیتے ہیں) دوسرے سوال کا جواب بہت طویل ہے مگر افسوس کہ طویل خط لکھنے کی نہ ہمت ہے اور نہ خواہش ۔ مختصراً یہ عرض ہے کہ عصبیت اور چیز ہے اور تعصب اور چیز ہے عصبیت کی جڑ حیاتی (Biological)ہے اور تعصب کی نفسیاتی (Psychological) تعصب ایک بیماری ہے جس کا علاج اطبائے روحانی او ر تعلیم سے ہو سکتا ہے۔ عصبیت زندگی کا ایک خاصہ ہے جس کی پرورش اور تربیت ضروری ہے۔ اسلام میں انفرادی اور اجتماعی عصبیت دونوں کے حدود مقرر ہیں انہی کا نام شریعت ہے میرے عقیدے کی رو سے بلکہ ہر مسلمان کے عقیدہ کی رو سے‘ ان حدود کے اند رہنا باعث فلا ح ہے اور ان سے تجاوز کرنا بربادی تصادم1؎ جس کا ذکر آپ نے کیا ہے صرف اس صورت میں پیدا ہوتا ہے کہ جبکہ ان حدود سے تجاوز کیاجائے یا اپنی عصبیت کو چھوڑ کر کوئی دوسری عصبیت مثلاً نسلی عصبیت اختیار کر لی جائے اگر کوئی شخص کہے کہ کفار کے ساتھ ہر قسم کا میل ملاپ حرام ہے تو وہ حدود شرعیہ سے تجاوز کرتا ہے ہاور اس کے لیے تبلیغ دین میںدقتوں کا سامنا ہو گا 1؎ باہم ٹکرانا لڑانا اسی طرح اگر کوئی قوم اسلامی عصبیت کو چھوڑ کر نسلی عصبیت کو بطورایک اصول تنظیم کے اختیار کر ے مثلاً ترکوں پر یہ خیال غالب آ رہا ہے تو اس قوم کے لیے تبلیغ بے معنی ہو جاتی ہے۔ اور اس کو یوں بھی تبلیغ میں دلچسپی نہ رہے گی۔ والسلام از قلم محمد شفیع ایم اے (اقبال نامہ مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ دوم) ٭٭٭ حصہ نظم اقبال کی شاعری اقبال کی اردو شاعری کی ابتدا سیالکوت میں اس وقت ہوگئی تھی جب کہ وہ ابھی اسکول ہی میں پڑھتے تھے۔ لیکن شاعری کے جوہر لاہور آنے پر چمکے۔ شروع میں ان کی شاعری کا چرچا ان کے ہم جماعت طلبا احباب اور اساتذہ تک محدود تھا۔ لیکن بہت جلد ان کے شاعرانہ کمال کا آوازہ 1؎ طلبا اور احباب سے نکل کر دور دور جا پہنچا۔ لاہور کے مشاعروں میںشریک ہونے لگے اول مرزا ارشد گورگانی دہلوی سے اصلاح کلام کے لیے رجوع کیا۔ پھر مرزا داغ دہلوی سے جو ان دنوں حیدر آباد دکن میں تھے بذریعہ خط و کتابت تلمذ 2؎ اختیار کیا اور چند غزلیں اصلاح کے لیے روانہ کیں۔ سر عبدالقادر فرماتے ہیں: ’’اس طرح اقبال کو اردو زبان دان کے لیے بھی ایسے استاد سے نسبت پیدا ہوئی جو اپنے وقت مین زبان کو خوبی کے لحاظ سے فن غزل گوئی میں یکتا سمجھا جاتا تھا۔ گو اس ابتدائی غزل گوئی میں وہ باتیں تو موجود نہیں تھیں جن سے بعد ازاں کلام اقبال نے شہرت پائی۔ مگر جناب داغ دہلوی پہچان گئے کہ پنجاب کے ایک دور افتادہ ضلع کا یہ طالب علم کوئی معمولی غزل گو نہیں انہوںنے جلد کہہ دیا کہ کلام میںاصلاح کی گنجائش بہت کم ہے اور یہ سلسلہ تلمذ کا بہت دیر تک قائم نہیںرہا البتہ اس کی یاد دونوں طرف رہ گئی۔ داغ کانام اردو شاعری میں ایسا پایہ رکھتا ہے کہ اقبال کے دل میں داغ سے اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر ہے اور اقبال نے داغ کی زندگی ہی میں قبول عا م کاوہ درجہ حاصل کر 1؎ شہرت 2؎ شاگردی لیا تھا کہ داغ مرحوم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اقبال بھی ان لوگوں میںشامل ہے جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی ۔ مجھے خود دکن میں ان سے ملنے کا اتفاق ہوا اور میںنے خو د ایسے فخریہ کلمات ان کی زبان سے سنے ۔ (مقدمہ بانگ درا) اقبال کی اسی زمانے کی ایک غزل کامقطع ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کے دل میں داغ کے ساتھ اس مختصر اور غائبانہ تعلق کی کیسی قدر تھی۔ نسیم و تشنہ ہی اقبال کچھ اس پر نہیںنازاں مجھے بھی فخر ہے شاگردی داغ سخنداں کا داغ کی وفات پر مرثیہ بھی لکھا جس میں داغ کی خصوصیات کلام کو بڑے موثر انداز میں بیان کیاہے اور جتنے مرثیے انہوںنے لکھے ہیں ان سب میں یہی ایک مرثیہ ایسا ہے کہ جس میں مرثیہ کی شان بدرجہ اتم موجود ہے۔ داغ کے کلام کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔ اب کہاں وہ بانکپن 1؎ وہ شوخی طرز بیاں آگ تھی کافور 2؎ پیری میں جوانی کی نہاں تھی زبان داغ پر جو آرزو ہر دل میں ہے لیلیٰ معنی وہاں بے پردہ یاں محمل 3؎ میں ہے اب صبا سے کون پوچھے گا سکوت 4؎گل کا راز! کون سمجھے گا چمن میں نالہ بلبل کا راز! تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں 1؎ شوخی کا انداز 2؎ بڑھاپے کی ٹھنڈک 3؎ اونٹ کا ہودہ کجاوہ 4؎ خاموشی اور دکھلائیں گے مضموں کی ہمیںباریکیاں اپنے فکر نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں تلخی دوراں کے نقشے کھینچ کر رلوائیں گے یا تخیل کی نئی دنیا ہمیں دکھلائیں گے اس چمن میں ہوں گے پیدا بلبل 2؎ شیراز بھی سینکڑوں 2؎ ساحر بھی ہوں گے صاحب اعجاز 3؎ بھی اٹھیں گے آذر 4؎ ہزاروں شعر کے بتخانے سے مے پلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسریں بہت ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟ اٹھ گیا ناوک فگن 5؎ مارے گا دل پر تیر کون ٭٭٭ اقبال نے لاہور کے مشاعرے میں سب سے پہلے جو غزل پڑھی تھی اس کا مقطع یہ ہے: اقبال لکھنو سے نہ دلی سے ہے غرض ہم تو اسیر 6؎ ہیں خم زلف کمال کے اگر تحقیق کی نظر سے واقعات کو دیکھا جائے تو یہ شعر ان کی افتاد طبع کا صحیح ترجمان ثابت ہو گا۔ اس وقت زبان انداز بیان تاثیر اور قادر الکلامی کے اعتبار سے داغ ہی کو قبول عام کے دربار میں صدر نشینی کا منصب حاصل تھا۔ اس لیے اقبال کی کمال پسند طبیعت نے ان کا انتخاب کر لیا۔ اور ا س انتخاب کے وقت لکھنو اور دلی کا تصور ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا۔ 1؎ حافظ شیراز جیسے شاعر 2؎ جادوگر 3؎ معجز بیان 4؎ حضرت ابراہیمؑ کے والد 5؎ تیر چلانے والا 6؎ گرفتار اسی طرح ارادی اور غیر ارادی طور پر زبان و انداز بیان میں وہ ہمیشہ غالب کی پیروی کرتے رہے وہی فارسی الفاظ اور وہی فارسی ترکیبوں کی کثرت وہی رفعت فکر و بلندی تخیل جو مرزا کے کلام کا جوہر ہے۔ اقبا ل کے ہاں بھی موجود ہے۔ اور اسی وجہ سے مرزا غالب کی یاد میں بھی انہوںنے کچھ اشعار لکھے ہیں جن میں مرزا کی ان خصوصیات ہی کی تعریف کی ہے مثلاً فکر انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا ہے یہ مرغ تخیل کی رسائی 1؎ تا کجا 2؎ تھا سراپا روح تو بزم سخن پیکر 3؎ ترا زیب محفل بھی رہا محفل سے پنہاں بھی رہا دید تیری آنکھ کو اس حسن کو منظور ہے بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور 4ہے محفل ہستی ترے بربط 5؎ سے ہے سرمایہ دار جس طرح ندی کے نغموں سے سکوت کوہسار تیرے فردوس تخیل سے ہے قدرت کی بہار تیری کشت فکر سے اگلتے ہیں عالم سبزہ دار6؎ زندگی مضمر7؎ ہے تیری شوخی تحریر میں تاب گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں نطق 8؎ کو سوناز ہیں تیرے لب اعجاز پر محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر خندہ زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر 1 پہنچ 2؎ کہاں تک 3؎ جسم 4؎ پوشیدہ 5 باجا 6؎ سبزہ کی طرح 7؎ پوشیدہ 8؎ گویائی بولنے کی قوت آہ! تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشن و یمر 1؎ میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے لطف گویائی میں تیری ہمسری 2؎ ممکن نہیں ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں ٭٭٭ اور جس طرح زبان و بیان کے معاملے میں انہوںنے داغ اور غالب کا انتخاب کیا تھا۔ معانی و مضامین کے لیے ان کی نظرمولانا الطاف حسین حالی پر پڑی قوم کا درد قومی روایات کے ساتھ والہانہ 3؎ تعلق‘ قوم کی اخلاقی پستی کا رونا۔ جو حالی کے کلام کی جان ہے۔ کلام اقبال کی تاثیر کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اگرچہ ان میں اور حالی میںبڑا فرق ہے۔ حالی کے یہاں یاس 4؎ ہے مگر اقبا ل کے یہاں امید کا دامن کسی وقت بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ حالی کے ہاں قوم اور وطن کا درد ہے مگر اقبال کے یہاں اسلام پوری ملت اسلامیہ او اس سے بھی سوا تمام بنی نوع انسان کا درد ہے ۔ اور پھر جو تنوع 5؎مضامین اقبال کے ہاں پایا جاتا ہے اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں ہو سکتا۔ تاہم سوز و درد قوم وہی ہے جس نے حالی سے مسدس لکھوایا تھا۔ اگرچہ یہ سوز و گداز بھی اقبال کے ہاں انتہائی کمال کو پہنچ گیا ہے یہاں تک کہ اس کی نظر پوری شاعری کیا فارسی شاعری میں بھی مشکل ہی سے ملے گی اور ان کی کمال پسندی کی انتہا ہے کہ اپنی کتاب ’’بال جبریل‘‘ کے سرنامے کو بھرتری ہری کے ایک شعر کے ترجمے سے مزین کیا وہ شعر یہ ہے: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر بہرحال ایسا شاعر جو ایک عالم گیر پیغام لے کر آیا ہو‘ کسی خاص مقام میںمحدود 1؎جرمنی کا ایک شہر 2؎ برابری 3؎ انتہائی شوق و محبت والا 4؎ ناامیدی 5؎ رنگارنگی ہونا کیسے پسند کر سکتاہے۔ اس لیے اقبال کی آزاد طبیعت نے دلی اور لکھنو کی قید سے نکل کر ایک نئی دنیائے شاعری پیدا کی اور اپنے زندگی بخش نغمات سے ایک عالمگیر ملت کے جسم مردہ میںخون زندگی دوڑا دیا۔ بیس بائیس سال کی عمر میں ایک غزل مشاعرے میں پڑھی جب اس شعرپر پہنچے: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال 1؎ کے تومرزا ارشدگورگانی مرحوم نے اختیار سبحان اللہ اور واہ واہ کہہ اٹھے اور بولے …میاں اقبال اس عمر میں اور یہ شعر! یہ پہلا موقع تھا کہ لاہور کے بامذاق اور سخن فہم لوگوں کو اس جوہر قاتل کا علم ہوا اور دیکھنے والوں نے ذرے میں آفتاب کی تابانی اور قطرے میں دریا کی روانی کا مشاہد کر لیا تھا۔ لیکن اقبال غزل کے لیے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے غزل کو خیر باد کہہ کر بہت جلد جو کام کرنا تھا اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ قوم کی حالت خراب تھی۔ اس پر دل دکھا اور دردانگیز نغمے پیدا ہونے شروع ہو گئے۔شعر کیا تھے شیشہ بشکستہ کی آواز تھی اگر ایک طرف ملک کا سب سے زیادہ موقر 2؎ مجلہ ’’مخزن‘‘ جو شیخ عبدالقادر مرحوم نے جاری کیاتھا ان کے کلام سے آراستہ ہونے لگا تو دوسری طرف ملک کی سب سے زیادہ مقبول انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے کی یہ خصوصیت قرار پا گئی کہ اس میں اقبال اپنی نظم سنائیں گے۔ غرضیکہ ایسے پریس اور ایسے پلیٹ فارم سے ان کا پیغام بلند ہوا اور ملک کے گوشے گوشے میں پہنچنے لگا۔ مخزن کے پہلے ہی شمارے کو جو اپریل 1901ء میں نکلا تھا۔ اقبال کی نظم ’’ہمالیہ‘‘ شائع کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اور پھر 1905ء تک کب کہ وہ ولایت تشریف نہ لے گئے یہ سلسلہ برابر جاری رہا یعنی مخزن کے ہر شمارے میں ان کی تازہ نظم ضرور شامل ہوتی انجمن حمایت اسلام کے جلسوں کا کیاکہنا جب اقبا ل کی نظم پڑھی جاتی تو دس د س ہزار آدمی بیک وقت موجود ہوتے ور دم بخود بیٹھے سنتے رہتے۔ ایک اجلاس میں اقبال نے نالہ یتیم کے نام سے نظم پڑھی تو ایک کہرام مچ گیا گویا جلسہ گاہ صف ماتم بن گئی تھی۔ ہر شخص کی آنکھیں اشکبار تھیں اور دل غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ شیخ عبدالقادر صاحب فرماتے ہیں: ’’انجمن کا ایک اجلاس جس میں اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’شکوہ‘‘ اپنے خا ص انداز سے پڑھی تو اکثر لوگوں کو یاد ہو گا کہ کیف غم 1؎ کا سماں جلسے پر چھا گیا تھا۔ ان کے بہت سے مداح 2؎ پھولوں سے جھولیاں بھر کر لائے تھے اور جب وہ پڑھ رہے تھے تو ان پر پھول برسا رہے تھے‘‘۔ اسی طرح جب ایک اور اجلاس میں انہوںنے اپنی نظم خضر راہ سنائی تو مجمعے پر جو در انگیز اثرہوا قابل بیان ہے۔ اس شعر پر پہنچے تو علامہ خود بھی رونے لگے اور حاضرین کو بھی رلایا۔ بیچتا ہے ہاشمی 3؎ ناموس 4؎ دین مصطفیٰؐ خاک و خون میں لوٹتا ہے ترکمان 5؎ سخت کوش خضر راہ کے بعد دوسرے سال انہوںنے اپنے ا س دور شاعری کی شاہکار 6؎ نظم طلوع اسلام بھی انجمن کے سالانہ جلسہ ہی میں سنائی تھی۔ غرض انجمن حمایت اسلام کے جلسو کی بدولت ملت اسلامیہ ہند 7؎ کو گراں بہا غیر فانی دولت حاصل ہوئی جس سے ملت کا سر افتخار سے ہمیشہ بلند رہے گا۔ اس زمانے میں ان کی آمد شعر کے بارے میں سر عبدالقادر فرماتے ہیں کہ : اقبال اس وقت طالب علمی سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے اور دن رات علمی صحبتوں اور مشاغل میں بسر کرتے تھے۔ طبیعت زورو ں پر تھی شعر 1؎ غم کی کیفیت 2؎ تعریف کرنے والے 3؎ شریف مکہ مراد ہے 4؎ عزت 5؎ سخت محنت کرنے والا ترک 6؎ سب سے بڑا کارنامہ 7؎ موجودہ برصغیر ہندو پاک کہنے کی طرف جس وقت مائل ہوتے تو غضب کی آمدہوتی تھی ایک نشست میں بے شمار شعر ہو جاتے تھے۔ ان کے دوست اور بعض طالب علم جو پاس ہوتے پنسل کاغذ لے کر لکھتے جاتے تھے اور وہ اپنی دھن میںکہتے جاتے۔ میں نے اس زمانے میں انہیںکبھی کاغذ لے کر سخن کرتے نہیںدیکھا۔ موزوں الفاظ کا دریا تھا یا ایک چشمہ ابلتا معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص کیفیت رقت 1؎ کی عموماً ان پر طاری ہوتی تھی۔ اپنے اشعار سریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے خود وجد کرتے تھے اور دوسرو ں کو بھی وجد 2؎ میں لاتے تھے۔ اقبال کی شاعری کو چار حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ شعر گوئی کے آغاز سے 1905ء تک ہے یعنی ان کے انگلستان جانے سے پہلے کا زمانہ دوسرا دور 1905ء سے 1908ء تک ہے جب کہ وہ حصو ل تعلیم کے لیے انگلستان میں رہے۔ تیسر ا دور 1909ء سے بانگ درا کی اشاعت 1924 تک ہے ور چوتھا دور 1924ء سے وفات تک ہے۔ ان ادوار 3؎ کی شاعری میں بظاہر اختلاف نظر آتاہے مگر یہ اختلاف ویساہی ہے جیسا کسی چیز میں ارتقائی 4؎ مدارج طے کر تے وقت مختلف ادوار میں ہوتاہے اور ایسا اختلا ف ناگزیر ہے ۔ ورنہ جمود 5؎ لازم آتا ہے جو زندگی کے منافی ہے۔ اس اختلاف احوال سے نہ فرد کو مفر ہے نہ قوم کو۔ جوں جوں خیالات میںتبدیلی اور نظریات میں وسعت آتی جاتی ہے افعال و کردار میں بھی اس کا اثر نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ تاہم اقبال کی طبیعت کا جوہر یعنی قوم وملت کادرد‘ اسلام سے محبت ہے عشق رسولؐ اور اسلام کا عشق شروع سے آخر تک قائم رہا۔ بلکہ شروع میں ایک شرار تھا تو آخر میں برق سوزاں بن کر ان کے رگ و پے میں رواں دواں ہو گیا۔ اور وہی نظریات جو شروع میں بہت کم نمایاں تھے بعد میں وسعت و پختگی حاصل کر کے اپنی تابانی سے دنیا کی نگاہوں 1؎ درد و سوز و گداز 2؎ جھومنا 3؎ دور کی جمع ہے 4 ؎ ترقی کی منزلیں 5؎ بے عملی کو خیرہ 1؎ کرنے لگے۔ دور اول (1) کسی قدر داغ کے رنگ کی غزلیں ہیں جو زبان اور اندازبیان ہر اعتبار سے داغ کی رنگ کا بہترین نمونہ ہیں۔ تعداد میں کم اس لیے ہیں کہ ایسی غزلوں کا ایک بڑا حصہ بعد میں انہوں نے خود نکال دیا۔ اور چند غزلیں نسبت استادی شاگردی کی یادگا ر کے طور پر رہنے دیں۔ (2) بچوں کی نظمیں ہیںجو اگرچہ معمولی معمولی چیزوں پر لکھی گئی ہیں مگر بڑی سبق آموز ہیں۔ انگریزی زبان کی یہ خاص خصوصیت ہے کہ اس میں ایسی معمولی چیزوں پر نظمیںلکھی جاتی ہیں اور ان سے بچوںکے کردار بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ اقبال کی ان نظموں کی زبان نہایت صاف سادہ اور رواں ہے۔ اور ان میں محاورہ اور روز مرہ بول چال کی زبان کی خوبی بھی پائی جاتی ہے۔ (3) کچھ نظمیں انگریزی کی نظمو ں سے ماخوذ ہیں۔ جو ترجمہ ہرگز نہیں معلوم ہوتیںَ بلکہ اگر ان شعرا کے نام نہ لکھے جاتے جن کی نظموں کے یہ ترجمے ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا کہ یہ اصل خیالات ہیں یا مستعار 2؎۔ (4) صوفیانہ خیالات ہیں اور ان میں وہ خیالات بھی ہیں جن کے بعد میں انہوںنے تردید کی ہے یعنی وحدۃ الوجود 3؎ کا رنگ بھی موجود ہے۔ (5)اس وقت کی ملکی تحریکات سے متعلق بھی نظمیں ہیں جن میںہندو مسلم اتحاد پربڑا زور دیا ہے۔ اور چونکہ یہ ان کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا اس لیے طبیعت کا جوش ان نظموں میں بہت پایا جاتا ہے۔ اور کلام سرتاپا آمد معلوم ہوتاہے۔ بعد میںا س محدود اتحاد سے انہوںنے برات 4؎ کا اظہار کر کے اس کے بجائے ایک عالم گیر اخوت کے پرچار کو اپنے کلام کا موضوع بنا لیا۔ 1؎ نگاہوںمیں چکا چوند پیدا کر نے لگے 2؎ دوسرے سے لیے ہوئے 3؎ صوفیوں کی اصطلا ح ہے 4؎ بیزاری ‘ علیحدگی دوسرے دو ر میں 1۔ یورپ کے زمانہ قیام میں وہاں کی عملی زندگی کے نتائج 1؎ علامہ اقبا ل نے اپنی آنکھوںسے دیکھے تھے اس لیے ان کی حساس 2؎ طبیعت نے بہت زیادہ اثر قبول کیایہاں تک کہ انہوںنے شاعری ہی کو ترک کر دینے کا فیصلہ کر لیاتاکہ اپنے خیال کے مطابق شاعری میںصرف ہونے والے وقت کو کسی مفید کام میں صرف کر سکیں مگر ان کا یہ ارادہ سر عبدالقادر کی بروقت کوشش سے عملی جامہ نہ پہن سکا۔ (2) زاویہ نگاہ 3؎ وہ نہیں رہا۔ یورپ میں رہ کر عینی 4؎ مشاہدات سے ان پر اقوام یور پ کی ترقی کا راز کھل گیا کہ یہ سارے کرشمے کوشش پیہم اور جہد مسلسل 5؎ کے ہیں کوشش کے بغیر فطررت کی مضمر صلاحیتوں کا اظہار نہیںہو سکتا۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ فلسفہ الہیات ایران پر مضمون لکھنے کی غرض سے جو ادبیات اریان کا مطالعہ تھا تومشرقی اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کی پستی و زبوں حالی 6؎ کے اسباب بھی ان کو معلوم ہو گئے۔ اور ان اسباب میں ایک برا سبب انہوںنے صوفیانہ شاعری کو پایا۔ جس کی وجہ سے بے عملی و فرار کی کیفیت غالب آئی اور ترک دنیاو ترک عمل کی طرف میلان پید ا ہوا۔ لہٰذا اب انہوںنے غزل کو یاتو سرے سے ترک کر دیا یا غزل کے پیمانوں سے بھی سعی و عمل کی شراب پلانا شروع کر دی۔ 3۔ فلسفہ خودی و بے خودی کی جھلکیاںبھی نظر آنے لگیں۔ (4) ہندو مسلم اتحاد پر کوئی نظم نہیںلکھی اس لیے کہ وطن پرستی اور قومیت کے غیر فطری جذبات نے جو خون آشامیاں 7؎ یورپ میں کی ہیں اس سے عبرت کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوںنے نہیں چاہا کہ ان کا ملک بھی اس طرح خاک و خون میں لوٹنے کی سعادت حاصل کرے۔ 1؎ نتیجے 2؎ احساس رکھنے والی 3؎ نقطہ نگاہ 4؎ آنکھوں سے دیکھے ہوئے واقعات 5؎ لگاتار کوشش 6 ؎ خستہ بدحالی 7؎ خون خرابہ خونریزی (5یورپ کی مادہ پرستی کی مذمت کی اور ساتھ ہی تہذیب 1؎ حجازی کی ستائش 2؎بھی کی اور اس کی نجات عالم کا ذریعہ قرار دیاہے۔ اور یہی وہ اسباب ہیں جن سے ان کی شاعری نے پیغام کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ تیسرے دور میں (1)علامہ اس دور میں وطنیت و قومیت کو خیر باد کہہ کر عالمگیر اخوت کی تعلیم دیتے ہیں۔ (2) تہذیب کی جدید خرابیوں اور ان خرابیوں کے اسبا ب کو بے نقاب کرتے ہیں اور مسلمانوں کو خصوصیت کے ساتھ اس سے اجتناب 3؎ کرنے اوراپنی تہذیب کی طرف لوٹنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ (3)اہل مغرب کی سیاسی چالوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہیں اور ان چالوں کا طلسم توڑ دینے کی تدابیر بھی بتاتے ہیں۔ (4)عزم و استقلال اور ہمت کا سبق دیتے ہیں اور خودی و بے خودی کے فلسفے کے ذریعے فرد و جماعت کے خصائص 4؎ اور ان کے ارتقاء و استحکام کے اصول بتلاتے ہیں۔ (5) فارسی ترکیبیں اور فارسی بندشیں ان کے کلام میں پہلے کی نسبت بہت زیادہ آ گئیں۔ اور فارسی کے مصرعے اور اشعار پہلے سے بھی زیادہ اردو اشعار کے ساتھ شامل ہو نے لگے بلکہ بعض نظموں میںکئی کئی بند فارسی کے نظر آتے ہیں۔ (6) فارسی شعرا کے کلام پر تضمینیں 5؎ لکھی ہیں۔ (7) حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے محبت بلکہ مدینہ کے 1؎ اسلامی تہذیب 2؎ تعریف 3؎ پرہیز کرنا الگ رہنا 4؎ خصوصیتیں 5؎ دوسرے شاعر کے مصرعے یا مصرع کے ٹکڑے یا شعر پر دوسرے مصرعوں یا اشعار کا اضافہ کرنا ۔ لیے بھی تڑپ پیدا ہو جاتی ہے اور عجیب دل کش پیرائے میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ چوتھے دور میں (1) طویل نظمیںنہیں ہیں۔ زیادہ تر غزلیںاور چھوٹی چھوٹی نظمیںہیں۔ اس دور کی شاعری کا مستقل موضوع خودی کا فلسفہ ہے۔ اور اس نشہ میں سرشار ہو کر انہوںنے بڑے بڑے رموز و اسرار معرفت خودی کے متعلق بیان کیے ہیں۔ اور اس موضوع کی مختلف جہات کی روشنی ڈالی ہے۔ اور اس کو بڑے موثر انداز میںذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے۔ (2) سیاسی موضوع پر بھی بعض اعلیٰ درجے کی نظمیں کہی ہیں جن میںیورپ کی جمہوریت اور روس کی اشتراکیت کا بھی جائزہ لیا ہے۔ اور ان کے نقائص بھی بتلائے ہیں۔ (3) اس دور کی سب سے زیادہ پر جوش نظم ’’ساقی نامہ‘‘ ہے جس کو انہوںنے مثنوی میر حسن کی بحر میںلکھا ہے اور جیسا کہ مولوی عبدالسلام ندوی کہتے ہیں اس نظم میں ڈاکٹر صاحب یا جوش بیان اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گیا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پرجوش الفاظ اور مست خیالات کا ایک سیلاب امنڈا چلا آتا ہے۔ ’’بانگ درا‘‘ اقبال کی وہ کتاب ہے جس کو ان کی شہرت کا سنگ بنیاد کہنا چاہیے حقیقت یہ ہے کہ عوام میں’’بانگ درا‘‘ کی نظموںکی بدولت ہی انہیں شہرت حاصل ہوئی اقبال کی غزلوں کا یہ مجموعہ 1924ء میں پہلی مرتبہ شائع ہوا۔ اور ان کے دوست سر عبدالقادر مرحوم نے اس پرایک سیر حاصل مقدمہ لکھا جس میں انہوںنے اقبال کی شاعری کے مختلف ادوار کا مختصر مگر جامع ذکر کیا ہے۔ بانگ درا تین حصوں میںمنقسم ہے۔ پہلے حصے میں وہ کلام شامل ہے جو انہوںنے ابتدائے شاعری سے 1905ء تک کہا اوردوسرے حصے میں 1908ء تک کا کلام شامل ہے (جب کہ وہ یورپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے) اور تیسرا حصہ 1908ء سے بانگ درا کی اشاعت تک کے کلام پر مشتمل ہے۔ بانگ درا میں غزلیں بھی ہیں اور نظمیںبھی ۔ ابتدائی غزلوں میں داغ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ مگر جوں جوں ان کے خیالات میں وسعت اور فکر میں بلندی پیدا ہوتی گئی ان کے کلام میں غالب کا رنگ پیدا ہونے لگا۔ بانگ درا کی نظموں کے موضوعات میںبڑی رنگا رنگی ہے۔ (1)فطری یا نیچرل نظمیں بھی ہیں جن میں اقبال نے مناظر قدرت کی تصویر کھینچی ہے۔ (2) وطنی اور قومی نظمیںبھی ہیں جن میں انہوںنے وطن دوستی کے جذبات کو ابھارا ہے۔ یا اپنی قوم کودعوت عمل دی ہے۔ (3)اخلاقی نظمیںبھی ہیں جن میں قوم کو اپنے اندر اخلاق حسنہ پیدا کرنے کی تلقین کی ہے یا کسی واقعے سے کوئی سبق اخذ کیا ہے۔ (4) تاریخی نظمیںبھی ہیں جن میں تاریخی واقعات نظم کیے ہیں یا بعض مشاہدات کا ذکر کیا ہے۔ (5)فلسفیانہ نظمیں بھی ہیںضن میں فلسفہ و حکمت کے نکتے بیان کیے گئے ہیں۔ (6)دعائیہ نظمیں بھی ہیں جن میںانہوںنے دعائیں مانگی ہیں۔ (7) بعض نظموں میںانہوںنے فارسی شعرا کے اشعار پر تضمین کی ہے۔ (8) بعض نظموںمیںانہوںنے مشہور شعرا کی خدمت میں خراج تحسین پیش کیاہے۔ (9) بعض میںہندوستان کے مشہور مذہبی رہنمائوں کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ (10)کسی قدر اکبر الہ آبادی مرحوم کے رنگ کی ظریفانہ نظمیںبھی ہیں۔ خصوصیات بانگ درا بعض نظموںمیںفارسی ترکیبیںکثرت سے استعمال کی ہیں حتیٰ کہ بعض شعر ایسے ہیں کہ اگر اردو کے بجائے فارسی کا ایک لفظ رکھ دیا جائے تو پورا شعر فارسی زبان کا ہو جائے۔ ایک خصوصیت یہ ہے کہ اقبال نے اپنے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے بہت سی جدید ترکیبیںوضع کی ہیں جن کی بدولت اردو زبا ن میں وسعت پیدا ہو گئی ہے۔ مثلاً توسن ادراک انسان‘ ناقہ ‘ شاہد رحمت‘ قتیل ذوق‘استفہام‘ قرب فراق آمیز‘ طوق گلو افشار‘ حسن تماشا پسند‘ شورش میخانہ انسان‘ دختر خوش خرام ابر‘ شانہ موج صرصر‘ داغ مداد شب‘کلیم دردہ سینائے علم‘ مایہ دار اشک عنابی‘ شکست رشتہ تسبیح شیخ وغیرہ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ بانگ درا کے بہت سے اشعار اپنی برجستگی دل کشی معنویت اور موزونیت کی وجہ سے زباں زر خاص و عام ہو گئے ہیں۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اکثر نظموں میںسوز وگداز کی وہ کیفیت پائی جاتی ہے جسے مبصرین کلام اقبال نے کیف غم سے تعبیر کیاہے۔ چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس کتا ب کے اکثر اشعار سے محبت نوع انسانی کا سبق ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اگر غورکیاجائے تو کچھ مزید خصوصیات مل جائیں گی۔ ٭٭٭ بانگ درا کے بعد ان کے اردو کلام کا دوسرا مجموعہ بال جبریل کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب 1935ء میں شائع ہوئی اور اس کے پہلے حصے میں غزلیں اور کچھ رباعیا ں یا قطعات ہیں ۔ اور ان میں جوش بلندی اور رنگینی سب کچھ موجو د ہے۔ اس میں وہ نظم بھی ہے جس کو انہوںنے 1933ء میں حکیم سنائی غزنوی کے مزار کی زیارت کے بعد انہی کے ایک مشہور قصیدے کی پیروی میں لکھاہے۔ دوسرے حصے میں مختلف موضوعوں پر نظمیں ہیں کچھ نظمیں اندلس کی مشہور عمارات و مقامات پر ہیں اور یہ تاثرات کا نتیجہ ہیں جب اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس کی شرکت کے بعد سپین کی سیر کی اور ان عمارات اور مقامات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ۔ ذوق و شوق کے عنوان سے ایک طویل نظم ہے جس کے اکثر اشعار فلسطین میں لکھے گئے ہیں مختلف عنوانات پر اور بھی چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں لیکن ا س حصے کی سب سے مشہور و مقبول نظم ’’ساقی نامہ‘‘ ہے جو مثنوی سحر البیان کے طرز اور بحر میں لکھی گئی ہے۔ اور اس میں جوش ‘ سرمستی اور رنگینی سب کچھ موجود ہے۔ بال جبریل بانگ درا کی اشاعت کے عرصہ دراز کے بعد لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچی تو اطمینان ہوا کہ اقبال نے اردو شعر گوئی سے کلیتہ ً اجتناب نہیںکیا ہے۔ ورنہ عام طورپر یہی سمجھا جانے لگا تھا کہ اب انہوں نے اردو کے بجائے فارسی زبان کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اور یہی نہیں کہ اردو کلام کا ایک اور مجموعہ شائقین کے ہاتھوں میں آیا۔ بلکہ یہ حق ہے کہ ادب اردو میں اس تصنیف نے ان جواہر پاروں کا اضافہ کیا ہے جن سے دامن اردو اب تک تہی تھا۔ فکر و تخیل کا شاہکار ہونے کے اعتبار سے اردو کی کوئی تصنیف اس کو نہیں پہنچ سکتی جن لوگوں کو فارسی سے بہرہ نہیں اور اس سبب سے وہ اقبال کے فارسی کلام… سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ وہ اس کتاب کو پڑھیں۔ ان کو اس میں علامہ کے تقریباً وہ تمام افکار مل جائیں گے جو فارسی تصانیف میں کثرت سے پھیلے ہوئے ہیں۔ تمام کتاب تعلیمات سے بھری ہوئی ہے۔ راہنمائوں کی کج روی خلوص و یقین کا فقدان اور طلسم مغرب میں گرفتاری پر اقبال نے سخت تنبیہ کی ہے اور عرفان خودی اور مرد مومن کی خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی ترغیب و تحریص نہایت موثر پیرائے میں کی ہے۔ اور امت مسلمہ کو پھر ایک مرکز پر جمع ہو کر اپنی قوت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ اور جمود اور غلط قسم کے توکل کو چھوڑ کر عزم و ہمت سے کام لے کر اپنی حالات کو درست کرنے اور ترقی تعالیٰ کی طرف گامزن ہونے کی دعوت دی ہے تاکہ وہ پھر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔ ٭٭٭ بال جبریل کے بعد اردو کلام کا تیسر امجموعہ ’’ضرب کلیم‘‘ کے نام سے پہلی بار جولائی 1936ء میں شائع ہوا۔ یہ کتاب مختلف عنوانات پر منقسم ہے۔ ابتدائی حصے کا کوئی عنوان نہیں۔ اس میں مختلف چیزوں پر چھوٹی چھوٹی نظمیں ہیں۔ ان کے علاوہ تعلیم و تربیت عورت ادبیات‘ فنون لطیفہ ‘ سیاسیات ‘ مشرق و مغرب کے عنوانا ت سے گوناگوں موضوعات پر اسی قسم کی مختصر نظمیں ہیں آخر میں محراب گل افغان کے افکار کے نام سے کچھ ایسی نظمیں ہیں جن میںبعض ترانہ یا گیت کی شکل رکھتی ہیں۔ اور دل چسپ ہیں لیکن اس کتاب میں شاعرانہ رنگینی اور دلآویزی کم ہے۔ مگر حقائق و معارف کی جولانیاں بہت زیادہ ہیں۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاعر اور فلسفی اپنے فکر کی بلندیوں پر پہنچ چکا ہے اوراب قلیل الفاظ میں کثیر المعانی حقائق بیان کرنے پر قادر ہے۔ ضرب کلیم کے حقائق ملت اسلامیہ ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام اقوام و ملل کے لیے شمع ہدایت کا کام دے سکتے ہیںَ کیونکہ علامہ خود فرما چکے ہیں کہ ضرب کلیم ایک اعلان جنگ ہے زمانہ حاضر کے نام۔ ٭٭٭ اردو کلام کا چوتھا اور آخری مجموعہ ہے ارمغان حجاز (حصہ اردو) ارمغان کی نظموںمیں سو ز و گداز بھی ہے اور جو ش بیان بھی کشمیر پر جو نظمیں ہیں ان میں اہل کشمیر کو ہمت و استقلال کے ساتھ اپنی آزادی حاصل کرنے کی ترغٹیب دی ہے ۔ چند رباعیاں بھی شامل ہیںجو اگرچہ مختلف موضوعات پر ہیں مگر ان سب میں ان کا خاص شاعرانہ انداز موجود ہے۔ ٭٭٭ انتخاب نظم (غزلیات) (1) کبھی اے حقیقت منتظر ۱؎ نظر آ لباس مجاز ۲؎ میں کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز ۳؎ میں تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ۴؎ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ۵؎ ساز میں نہ کہیں جہاں میںاماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو ۶؎ بندہ نواب میں نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز۷؎ میں جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں (کلیات اردو) ٭٭٭ (2) لائوں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کے جلانے کے لیے ۱؎ وہ حقیقت جس کاانتظار کیا جا رہا ہے ذات خداوندی ۲؎ خدا کی ذات کے سوا ہر چیز مجاز ہے ۳؎ نیاز مندی والی پیشانی ۴ ؎ دل مراد ہے ۵ ؎ دل ۶؎ درگزر کرنا معاف کرنا ۷؎ سلطان محمود کا غلام ایاز دل میں کوئی اس طرح کی آرزو پیدا کروں لوٹ جائے آسماں میرے مٹانے کے لیے جمع کر خرمن تو پہلے دانہ دانہ چن کے تو آ ہی نکلے گی کوئی بجلی جلانے کے لیے اس چمن میں مرغ دل گائے نہ آزادی کے گیت آہ! یہ گلشن نہیںایسے ترانے کے لیے (ایضاً) ٭٭٭ (3) جنہیںمیں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں ۱؎ میں کبھی اپنا نظارہ کیا ہے تو نے اے مجنوں! کہ لیلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل ۲؎ نشینوں میں مجھے روکے گا تو اے ناخدا کیا غرق ہونے سے کہ جن کو ڈوبنا ہو ڈوب جاتے ہیں سفینوں ۳؎ میں جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ۴؎ ان کی الہی ! کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل ۵؎ کے سینوں میں؟ کسی ایسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو کہ خورشید قیامت بھی ہو تیرے خوشہ چینوں ۶؎ میں محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوںمیں ۱؎ رہنے والے ۲؎ اونٹ پر زنانی سواریوں کے بیٹھنے کی جگہ ۳؎ سفینہ ‘ کشتی ۴؎ سانس کی لہر ۵ ؎ اہل دل اللہ والے ۶؎ خرمن ۷؎ وہ لوگ جو کھیت کٹنے کے بعد گرے ہوئے خوشے چن لیتے ہیں فیض حاصل کرنے والے سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق بھلا اے دل! حسین ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں (ایضاً ص ۱۰۳) ٭٭٭ (4) پھڑک اتھا کوئی تیری ادائے ماعر ۱؎ فنا پر ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز ۲؎ آفرینوں میں نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا بہت مدت سے چرچے ہیں تیرے باریک سینوں میں (ایضاً ص ۱۰۵) ٭٭٭ (5) زمانہ آیا ہے بے حجابی کا‘ عام دیدار یار ہو گا سکوت ۳؎ تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپکے پیتے تھے پینے والے بنے گا سارا جہان میخانہ ‘ ہر کوئی بادہ خوار ۴؎ ہو گا نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر ۵؎ پھر ہوشیار ہو گا دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ۶؎ ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا ۱؎ نہیں پہنچانا ہم نے تجھ کو جیسا کہ تیرے پہچاننے کا حق ہے ۲؎ انبیامراد ہیں ۳؎ خاموشی ۴؎ شراب پینے والا ۵؎ مسلمان مراد ہے ۶کوٹا خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرت ہیں مارے مارے میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا میں ظلمت ۱؎ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ ۲؎ کارواں کو شرر فشاں ہو گی آہ میری‘ نفس میرا شعلہ بار ہو گا (ایضاً ص ۱۴۰) ٭٭٭ (6) یہ سرود ۳؎ قمری و بلبل فریب گوش ہے باطن ہنگامہ آبد چمن خاموش ہے تیرے پیمانوں کا ہے یہ اے مئے مغرب اثر خندہ زن ساقی ہے ساری انجمن خاموش ہے آہ! دنیا دل سمجھتی ہے جسے وہ دل نہیں پہلو نے انسان میں اک ہنگامہ خاموش ہے زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل یہ سمجھ لے کوئی مینا خانہ باردوش ہے جس ۴؎ کے دم سے دلی لاہور ہم پہلو ہوئے آہ! اے اقبال! وہ بلبل بھی اب خاموش ہے (ایضا! ص ۲۷۸) ٭٭٭ (7) کیا عشق ایک زندگی مستعار کا! کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا! وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک اس میں مزا نہیں تپش ۵؎ و انتظار کا میری بساط ۶؎ کیا ہے؟ تب و تاب یک نفس! شعلہ سے بے محل ۷؎ ہے الجھنا شرار کا! ۱؎ اندھیر ا ۲؎ عاجز تھکا ہوا ۳؎ گانا ۴؎ مرزا داغ دہلوی مراد ہیں ۵؎ تڑپنا تڑپ ۶؎حیثیت ۷؎ بے جانا مناسب کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا پھر ذوق و شوق دیکھ دل بیقرار کا کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو (ایضاً ص ۳۰۱) ٭٭٭ (8) لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی! ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی! تین سو ۱؎ سال سے ہیں ہند کے میخانے بند اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی! میری مینائے ۲؎ غزل میں ٹھی ذرا سی باقی شیخ کہتا ہے کہ یہ بھی حرام اے ساقی! شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق ۳؎ تہی رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی! عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے؟ علم کی ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی (ایضاً ص ۳۰۴) ٭٭٭ (9) وہی میری کم نصیبی وہی تیری بے نیازی میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی ۴؎ اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی ۵؎ وہ فریب خورہ شاہین کہ پلا ہو ۶؎ کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی نہ زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر میں کوئی دلکشا صدا ہو عجمی ہو یا کہ تازی! کوئی کارواں سے ٹوٹا‘ کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی! (ایضاً ص ۳۰۹) ۱؎ حضرت مجدد الف ثانی کی طرف اشارہ ہے ۲؎ بوتل ۳؎ جنگل ۴؎ غزل گوئی ۵؎ امام فخر الدین رازی ۶؎ کرگس گدھ ٭٭٭ (10) پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن ۱؎ مجکو پھر نغموں پر اکسانے لگا مرغ چمن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن حسن ۲؎ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لیے ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟ (ایضاً ص ۳۲۲) ٭٭٭ (11) دل بیدار فاروقی دل بیدار کراری! مس ۳؎ آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری! مشام ۴؎ تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشاں اس کا ظن و تخمین ۵؎ سے ہاتھ آتانہیں آہوئے تاتاری ۶؎ خداوند یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں! کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری! (ایضاً ص ۳۲۹) ٭٭٭ (12) زمستانی ہوائیں ۷؎ گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی ۱؎جنگل ۲؎ خدا ۳؎ کانسی ۴؎ دماغ ۵؎ شک و شبہ ۶؎ خدا مراد ہے ۷؎ جاڑوں کی کہیں سرمایہ محفل تھی میری گرم گفتاری کہیں سب کو پریشاں کر گئی میری کم آمیزی ۱؎ زمام ۲؎ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی جلال ۳؎ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی سو ۴؎ اد رومتہ الکبریٰ میں دلی یاد آتی ہے وہی عبرت وہی عظمت وہی شان دلآویزی (ایضاً ص ۳۳۲) ٭٭٭ (13) جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی۵؎ کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی عطار ہو رومی ہو‘ رازی ہو‘ غزالی ہو کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی! نومید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ! کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی اے طائر ۶؎ لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۷؎ (ایضاً ص ۳۴۸) ٭٭٭ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں قناعت نہ کر عالم رنگ و بو ۸؎ پر چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں ۱؎ کم ملنا ۲؎ باگ دوڑ ۳ ؎ شان و شکوہ ۴ ؎ میدان ۵؎ اپنے آپ کو پہچاننا ۶؎ انسان مراد ہے ۷؎ مکاری ۸؎ یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں (ایضاً ص ۳۵۳) ٭٭٭ پہلی 6غزلیں بانگ دراسے لی گئی ہیں اور باقی با ل جبریل سے ٭٭٭ قطعات و رباعیات (1) جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے خدایا آرزو میری یہی ہے مرا نور بصیرت عام کر دے ٭٭٭ (2) کرم تیرا کہ بے جوہر نہیںمیں غلام طغرل۱؎ و بنجر نہیں میں جہاں بینی مری فطرت ہے لیکن کسی جمشید کا ساغر نہیں میں (کلیات اردو ص ۳۷۸) ٭٭٭ (3) محبت کا جنوں باقی نہیں ہے مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ۲؎ ہے صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے (ایضاً ص ۳۷۷) ٭٭٭ ۱؎ سلجوقی خاندان کے شان و شوکت والے بادشاہ ۲؎ خون سفید ہو گئے ہیں (5) کہا اقبال نے شیخ حرم سے یہ محراب مسجد سو گیا کون؟ ندا مسجد کی دیواروں سے آئی فرنگی بتکدے میں کھو گیا کون؟ (ایضا ص ۶۷۳) ٭٭٭ (6) دلوں کو مرکز مہر و وفا کر حریم کبریا سے آشنا کر جسے نا جویں ۱؎ بخشی ہے تو نے اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر ٭٭٭ (7) عطا اسلاف کا جذب دروں کر شریک زمرہ لا یحزنون ۲؎ کر خود کی گتھیاں سلجھا چکا میں مریمولا مجھے صاحب جنوں کر (ایضا ص ۳۷۹) ٭٭٭ (8) ترا جوہر ہے نوری پاک ہے تو فروغ ۳؎ دیدہ افلاک ہے تو ترے صید زبوں ۴؎ افرشتہ و حور کہ شاہین شہ لولاک ۵؎ ہے تو (ایضاً ص ۳۷۶) ٭٭٭ (9) کل اپنے مریدوں سے کہا پیر مغاںنے قیمت میں یہ معنی ہے درناب سے وہ چند زہر اب ہے اس قسم کے حق میں مئے افرنگ جس قوم کے بچے نہیںخوددار و ہنر مند (ایضاً ص ۴۶۲) ٭٭٭ ۱؎ جو کی روٹی ۲؎ وہ لوگ جن کی شان لا خوف علیہم ولا ہم یحزنون آیا ہے اولیا اللہ جن کو خوف ہوتا ہے نہ رنج ۳؎ فروغ روشنی ۴؎ کمزور شکار ۵ ؎ حضور سرور کائناتؐ (10) غریبی میںہوں محسود امیری کہ غیرت مند ہے میری فقیری عذر اس فقر ودرویشی سے جس نے مسلماں کو سکھا دی سربزریری ۱؎ (ایضاً ص ۶۷۲) ٭٭٭ (11) ترے دریا میں طوفاں کیوںنہیں ہے؟ خودی تیری مسلماں کیوںنہیںہے؟ عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟ (ایضاً ص ۶۷۴) ٭٭٭ رباعی نمبر ۵‘۱۰‘۱۱ ارمغاں حجاز سے لی گئی ہیں باقی بال جبریل سے۔ ۱؎ سرجھکائے ہوئے رہنا ٭٭٭ منظومات (1) ابر کہسار ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن ۱؎ میرا ابر کہسار ہوں گل پاش ۲؎ ہے دامن میرا کبھی صحرا‘ کبھی گلزار ہے مسکن۳؎ میرا شہر و ویرانہ مرا بحر مرا بن میرا کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو سبزہ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو مجھ کو قدرت نے سکھایا ہے در افشان ہونا ناقہ ۴؎ شاہد رحمت ۵؎ کا حدی ۶؎ خواں ہونا غم زدائے ۷؎ دل افسردہ دہقاں ہونا رونق بزم جوانان گلستاں ہونا بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں شانہ ۸؎ موجہ صر صر ۹؎ سے سنور جاتا ہوں دور سے دیدہ امید کو ترساتا ہوں کسی بستی سے جو خاموش گزرجاتا ہوں سیر کرتا ہوا جس دم لب جو ۱۰؎ آتا ہوں بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں سبزہ مزرع نوخیز ۱۱؎ کی امید ہوں میں زادہ ۱۲؎ بحر ہوں پروردہ خورشید ہوں میں ۱؎ گھر ۲؎ پھو ل برسانے والا ۳؎ رہنے کی جگہ ۴؎ اونٹنی ۵؎ باران رحمت کو شاہد کہا ہے ۶؎ اونٹ کے لیے گانے بجانے والا ۷؎ غم والا ۸؎ کنگھا ۹؎ ہوا کی لہر ۱۰؎ نہر کا کنارا ۱۱؎ ابھی ابھی اگی ہوئی کھیتی ۱۲؎ سمندر کا بچہ چشمہ کوہ و کو دی شورش قلزم ۱۳؎ میں نے اور پرندوں کو کیا محو ۱۴؎ ترنم میں نے سر پہ سبزہ کے کھڑے ہو کے کہاقم۱۵؎ میں نے غنچہ گل کو دیا ذوق تبسم میں نے فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے جھونپڑے دامن کہسار ہیں دہقانوں کے (کلیات اقبال ص 27-28) ٭٭٭ ۱۳؎ سمندر ۱۴؎ گانا ۱۵؎ کھڑا ہو جا (2) موج دریا مضطرب ۱؎ رکھتا ہے میرا دل بیتاب مجھے عین ہستی ۲؎ ہے تڑپ صورت سیماب ۳؎ مجھے موج ہے نام مرا‘ بحر ہے پایاب ۴؎ مجھے ہو نہ زنجیر کبھی حلقہ گرداب ۵؎ مجھے آب میں مثل ہوا جاتا ہے تو سن ۶؎میرا خار ماہی ۷؎ سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا میں اچھلتی ہوں کبھی جذب مہ کامل سے جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے کیوں تڑپتی ہوں یہ پوچھے کوئی میرے دل سے زحمت تنگی دریا سے گریزاں ہوں میں وسعت بحڑ کی فرقت میں پریشاں ہوں میں (ایضاً ص ۶۲) ٭٭٭ ابرکہسار شرح و وضاحت گل پاش ہے دامن میرا : میں ہی پھولوں کے اگنے کا باعث ہوں در افشاں : موتی بکھیرنے والایہاں استعارے کے طور پر بارش کی بوندیں مراد ہیں۔ ظاہر ہے ان بوندو ں ہی سے کھیتیاں سرسبز ہوتی ہیں۔ تو یہ بوندیں کسان کی نظر میں موتی سے کیا کم ہیں۔ ناقہ شاہد رحمت کا حدی خواں ہونا: بادل خدا کی رحمت کا نشان ہے اس لیے اسے شاہد رحمت کے ناقہ کا حدی خواں ہونے والا قرار دیا ہے کیونکہ حدی خواں ناقہ (اونٹنی) کو حدی(سرور) سناتا ہے تو وہ تیز چلتی ہے۔ ۱؎ بیقرار ۲؎ زندگی ۳ ؎ پارہ ۴؎ٹخنے ٹخنے پانی ۵؎ بھنور کا چکر ۶؎ گھوڑا ۷؎ مچھلی کے کانٹے حدی: وہ نغمہ یا سرود جو شتر بان اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے گاتے ہیں۔ بن کے گیسو رخ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں: جس طرح گیسو کسی حسین کے رخساروں پر بکھر جاتے ہیں تو اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اسی طرح جب بادل برستا ہے تو سبزہ لہلہانے لگتاہے۔ اور زمین خوبصورت معلوم ہونے لگتی ہے۔ شانہ موجہ صرصربھی استعارہ ہے تیز ہوائیں مجھے بکھیر کر خوشنما بنا دیتی ہیں ۔ گرداب کی بالیاں پہناتا ہوں: جب پانی میں بوندیں پڑتی ہیں تو قدرتی طور پر حلقے بن جاتے ہیں ان حلقوں کو شاعر نے گرداب کی بالیاں قرار دیا ہے۔ زادہ بحر: سمندر کا بیٹا جب آفتاب سمندر پر چمکتا ہے تو اس کی حرارت سے پانی بھاپ بن کر اڑ تاہے اور وہ بھاپ اوپر جا کر بادل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس لیے شاعر نے بادل کو سمندر کا بیٹا کہا ہے۔ چشمہ کوہ کودی شورش قلزم میںنے: جب پہاڑوں پر بارش ہوتی ہے تو پہاڑی ندیوں میں غیر معمولی جوش پیدا ہو جاتاہے۔ اور وہ بڑے زور شور سے بہنے لگتے ہیں ۔ ذوق تبسم دیا کھلا کر پھول بنا دیا۔ ٭٭٭ موج دریا جذب مہ کامل: جب چودھویں رات کا چاند سمندر پر چمکتا ہے تو قانون قدرت کے مطابق پانی میں تلاطم پیدا ہو جاتا ہے۔ اور موجیں اونچی ہونے لگتی ہیں۔ اس نظم میں اقبال نے موج کی کیفیت بیان کی ہے کہ حرکت ‘ اضطراب اور روانی اس کی ذات کا خاصہ ہے۔ جس طرح سیماب کو ایک لمحہ کے لیے قرار نصیب نہیں ہوتا اسی طرح موج بھی ہر وقت رواں دواں اور بے قرار رہتی ہے۔ اس کی اس روانی اور حرکت کا یہ اثر ہوتا ہے کہ دریا میں کوئی چیز گرداب ہو یا خار ماہی‘ موج کی روانی کو نہیں روک سکتی۔ ٭٭٭ 3 جگنو جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں؟ آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں؟ یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا غربت ۱؎ میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں تکمہ ۲؎ کوئی گراہے مہتاب کی قبا کا؟ ذرہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں؟ چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت میں روشنی بھی نکلا کبھی گہن سے آیا کبھی مگن سے پروانہ اک پتنگا جگنو بھی اک پتنگا وہ روشنی کا طالب ۳؎ یہ روشنی سراپا ہر چیز کوجہاں میں قدرت نے دلبری دی۴؎ پروانہ کو تپش دی ۵؎ جگنو کو روشنی دی رنگین ۶؎ نوا بنایا مرغان بے زباں کو گل کو زباں دے کر تعلیم خامشی دی نظارہ شفق کو خوبی زوال میں تھی چمکا کے اس پری ۷؎ کو تھوڑی سی زندگی دی رنگین کیا سحر کو‘ بانکی دلہن کی صورت پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آر سی دی سایہ دیا شجر کو‘ پرواز دی ہوا کو پانی کو دی روانی‘ موجوں کو بیکلی دی یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری جگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری (ایضاً ص ۸۴) ۱؎ پردیس ۲؎ گھنڈی بٹن ۳؎ چاہنے والا ۴؎ دلکشی ۵؎ تڑپ ۶؎ خوش آواز ۷؎ مراد شفق ۸؎ چاند تارے وغیرہ جگنو گل کو زبان دے کر گل کو خاموشی دی: شعر ا گلاب کی پنکھڑی کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں گل کو زبان دے کر قدرت نے اس کو خاموش رہنے کی تعلیم دی ہے۔ کہ وہ باوجود زبان رکھنے کے خاموش ہے۔ ٭٭٭ (4) بزم انجم سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے پہنا دیا شفق نے سونے کا سارا زیور قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی چمکے عروس شب کے موتی وہ پیارے پیارے وہ دور رہنے والے ہنگامہ جہاں سے کہتا ہے جن کو انسان اپنی زباں میں تارے محو فلک ۱؎ فروزی تھی انجمن فلک کی عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی اے شب کے پاسبانو! اے آسماں کے تارو! تابندہ ۲؎ قوم ساری گردوں نشیں تمہاری چھیڑو ۳؎ سرود ایسا جاگ اٹھیں سونے والے رہبر ہے قافلوں کی تاب جبیں ۴؎ تمہاری آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمہاری رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے وسعت تھی آسماں کی معمور ۵؎ اس نوا سے حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں جس طرح عکس گل ہو شبنم کی آرسی میں آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں ۱؎ آسمان کو روشن کرنا ۲؎ چمکنے والی ۳؎ گانا ۴؎ پیشانی کی چمک ۵؎ آباد ہیں جذب ۱؎ باہمی سے قائم نظام سارے پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں (ایضاً ص ۱۷۳) ٭٭٭ شرح و وضاحت بزم انجم شام سیہ قبا: چونکہ شام کے وقت ہر طرف سیاہی چھا جا تی ہے اس لیے شاعر نے شام کو سیاہ قبا والی کہاہے۔ لالے کے پھول مارے: سورج نے افق کو سرخ کر دیا۔ وہ شفق مراد ہے جو غروب آفتاب کے وقت نظر آتی ہے۔ محمل میں خامشی کے: رات کی لیلیٰ خاموشی کے محمل میں بیٹھ کر آئی یعنی رات ہو گئی اور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ چمکے عروس شب کے الخ: تارے چمکنے لگے۔ محف فلک فروزی: تارے آسمان کو روشن کرنے میں مصروف تھے۔ آئینے قسمتوں کے: دنیا والے جو چونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی قسمت ستاروں سے وابستہ ہے یا ستارے ان کی قسمت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے امید ہے کہ وہ تمہارے پیغام کو غور سے سنیں گے۔ شبنم کی آرسی: چونکہ شبنم کے قطرے میں گلاب کا عکس نظر آتاہے اس لیے شاعر نے قطرہ شبنم کو آرسی کہا ہے۔ آئین نو سے ڈرنا: اپنی قومی زندگی میں تبدیلی سے ڈرنا رواداری: ہنگامہ چل چلائو‘ بھاگ دوڑ ۱؎ کشش جذب باہمی سے کشش کا قدرتی قانون مراد ہے۔ مگر حسن تعلیل کے طور پر اس سے باہمی الفت مراد لی ہے۔ اس نظم کے ذریعے اقبال نے قومی زندگی کا راز بتلایا ہے کہ مسلمان اگر بہ حیثیت قوم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو وہ تاروں کے نظام سے سبق حاصل کریں۔ تاروں کانظام جذب باہمی سے قائم ہے۔ اسی طرح مسلمان بھی باہمی محبت کی بدولت زندہ بھی رہ سکتے ہیں اور ترقی بھی کر سکتے ہیں۔ ٭٭٭ (5) بلالؓ چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا حبش سے تجھ کو اٹھا کر حجاز میں لایا ہوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی وہ آستاں نہ چھٹا تجھ سے ایک دم کے لیے کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں نظر تھی صورت ۱؎ سلمانؓ ادا شناس تری شراب دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری تجھے نظارے کا مثل کلیم سودا تھا اویسؓ ۲؎ طاقت دیدار کو ترستا تھا مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا ترے لیے تو یہ صحرا ہی طور تھا گویا تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید خنک ۳؎ دلے کہ تپیدو دمے نیا سائید گری وہ برق تری جان نا شکیبا ۴؎ پر کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسیؑ پر تپش ز شعلہ گرفتند و بر دل زدند چہ برق جلوہ بخاشک حاصل تو زدند! ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری کسیؐ کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی نماز اس کے نظارے کا ایک بہانہ بنی خوشا وہ وقت کہ یثرب ۵؎ مقام تھا اسؐ کا خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اسؐ کا ٭٭٭ ۱؎ سلمان کی طرح ۲ ؎ ایک بزرگ جو حضورؐ کو نہ دیکھ سکے ۳؎ مبارک ہے وہ دل کہ تڑپتا ہی رہا اور ایک دم بھی جس نے آرام نہ لیا ۴؎ بیقرار ۵ ؎ مدینہ شرح و وضاحت بلالؓ حبش سے حجاز لے آئی: حجاز میں آ کر تجھے دولت اسلام نصیب ہوئی۔ وہ آستاں: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا آستاں کسی کے: آنحضرتؐ کے مزے ستم کے لیے: اپنے کافر آقا کے ظلم و ستم برداشت کیے۔ اویس طاقت دیدار کو ترستا تھا: حضرت اویس قرنیؓ حضورؐ کے سچے عاشقوں میں بہت ممتاز حیثیت رکھتے تھے چونکہ ان کی والدہ بہت ضعیف تھیں اس لیے حضورؐ نے ا ن کو حکم دیا کہ تم میری ملاقات کے لیے مت آئو بلکہ اپنی ماں کی خدمت کرو۔ اس میں میری خوشنودی مضمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو حضورؐ کے دیدار کی مسرت نہ حاصل ہو سکی۔ تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرت دید: حضرت بلالؓ حضورؐ کے سچے عاشقوں میں سے تھے اور ان کو حضورؐ سے ا س قدر محبت تھی کہ حضورؐ کو مسلسل دیکھتے رہنے کے باوجود ان کے دل کو سیری نہیں ہوتی تھی۔ کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دست موسیٰ پر: جب حضرت موسیٰؑ نے اپنا ہاتھ(اپنی بغل سے)نکالا تو وہ دیکھنے والوں کو بالکل سفید نظر آیا۔ یہاں دست موسیٰؑ سے سفیدی مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے بلالؓ ! حضورؐ کے عشق کی بدولت آپ کی سیاہ رنگت موسیٰؑ کے ہاتھ کی سفیدی سے بھی زیادہ بخت والی تھی۔ ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری: آپ کے دیکھنے میں نیاز کا رنگ چھلکتا تھا۔ اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی: عشق نبیؐ کی بدولت تیری آواز اذاں میں عجیب سوز و گداز کا رنگ پیدا ہو گیا تھا۔ ٭٭٭ سلمان فارسیؓ آپ پہلے مجوسی تھے اور ماہ بہ یا روزبہ نام تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اصفہان (ایران) سے حاضرہو کر مسلمان ہوئے اور ابو عبداللہ سلمان فارسی کہلائے گئے۔ حضور اکرمٔ نے فرمایا ہے سلمان منا اہل البیت سلمان میرے اہل بیت میں ہے۔ صدق‘ توکل ‘ اور قناعت کے لیے مشہور ہیں۔ آپ سے کسی نے پوچھا سلمان! آپ کا شجرہ نسب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ سلمان ابن الاسلام یعنی اب فلان ابن فلاں پر فخر نہیں فرزند اسلام ہونے پر فخر ہے۔ اویس قرنیؓ قرن یمن کے ایک قبیلے کا نام ہے حضرت اویسؓ اس قبیلے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے قرنی کہلاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشقوں میں بہت ممتاز مرتبہ رکھتے ہیں ۔ چونکہ حضرت اویس کی والدہ بہت ضعیف تھیں اس لیے حضور نے ان کو یہ حکم دیا کہ تم میری ملاقات کے لیے نہ آئو بلکہ اپنی ماں کی خدمت کرو اسی میں میری خوشنودی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کو حضورؐ کے دیدار کی مسرت حاصل نہ ہو سکی۔ ٭٭٭ (6) حضور رسالت مآبؐ میں گراں جو مجھ پر ہنگامہ زمانہ ہوا جہاں سے باندھ کے رخت ۱؎ سفر روانہ ہوا قیود شام و سحر میں بسر تو کی لیکن نظام کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا فرشتے بزم رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو حضورؐ آئی رحمت ۲؎ میں لے گئے مجھ کو کہا حضورؐ نے اے عندلیب ۳؎ باغ حجاز! کلی کلی ہے تری گرمی نوا سے گداز ہمیشہ سر خوش جام ولا ہے دل تیرا فتادگی تری غیرت سجود نیاز اڑا جو پستی دنیا سے تو سوئے گردوں سکھائی تجھ کو مالک ۴؎ نے رفعت ۵؎ پرواز نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟ حضورؐ دہر میں آسودگی نہیں ملتی تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیںملتی ہزاروں لالہ و گل ہی۶؎ ریاض ہستی میں وفا کی جس میں ہو ب وہ کی نہیں ملتی مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں جو چیز اس میں ہے جنت میں بھی نہیں ملتی چھلتی ہے تری امت کی آبرو اس میں طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں (ایضاً ص ۱۹۷) ٭٭٭ ۱؎ سامان سفر ۲؎ آنحضرتؐ ۳؎ بلبل ۴؎ فرشتے ۵؎ پرواز کی بلندی ۶؎ باغ شرح و وضاحت حضور رسالت مآبؐ میں ہنگامہ زمانہ: وہ مصائب مراد ہیں جو اس بیسویں صدی کے آغاز سے مسلمانوں پر نازل ہونے شرو ع ہوئے۔ عندلیب باغ حجاز : سرزمین حجاز کا بلبل‘ عاشق رسولؐ کلی کلی ہے تری : اسلام کی محبت تری رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ سرخوش جام ولا: محبت کی شراب میں مست رہنے والا غیرت سجود نیاز: عاشق کے سجدے سے بڑھ کر۔ آبگینہ: جام بلورین اعلیٰ قسم کے بلور کا پیالہ۔ یہ نظم اقبال نے اس جلسے میںسنائی تھی جو 1912ء میں شاہی مسجد لاہور میں حضرت مولانا ظفر علی خاں مرحوم کی کوشش سے منعقد ہواتھا۔ جلسہ کی غرض یہ تھی کہ جنگ بلقان کے سلسلے میں ترکوں کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ مولانا مرحوم نے 1911ء میں سب سے پہلے ترکوں کے لیے چندہ جمع کیا۔ اس طبی وفد کی وساطت سے ترکوںکو بھجوایا جو ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں قسطنطنیہ گیا تھا تاکہ مجروحین کی تیمار ر داری کر سکے۔ ٭٭٭ (7) جنگ یرموک کا ایک واقعہ صف بستہ تھے عرب کے جوانان تیغ تھی منتظر حنا کی عروس زمین شام اک نوجوان صورت سیماب مضطرب آکر ہوا امیر عساکر سے ہم کلام اے ابوعبیدہؓ رخصت پیکار دے مجھے لبریز ہو گیا میرے صبر و سکوں کا جام بیتاب ہو رہا ہوں فراق رسولؐ میں اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام جاتا ہوں میں حضورؐ رسالت پناہ میں اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام جاتا ہوں حضور رسالتؐ پناہ میں لے جائوں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ جس کی نگاہ تھی صفت تیغ بے نیام بولا امیر فوج کہ وہ نوجواں ہے تو پیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام پوری کرے خدائے محمدؐ تری مراد کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام پہنچے جو بارگاہ رسول امیںؐ میں تو کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام ہم پر کرم کیا ہے خدائے غیور نے پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضورؐ نے (ایضاً ص ۲۴۷) ٭٭٭ شرح و تشریح جنگ یرموک کاایک واقعہ حنا سے خون مراد ہے۔ امیر عساکر: سپہ سالار فوج ‘ صورت سیماب ‘ مضطرب ‘ شوق شہادت پر بے تاب صبر کا کام لبریز ہو گیا: اب میں بالکل صبر نہیں کر سکتا۔ جنگ یرموک: عہد فاروقیؓ کی فیصلہ کن جنگوںمیں سے ہے ۔ یہ جنگ 10ھ میں ہوئی تھی۔ جس میں بیس ہزار مسلمانوںنے دو لاکھ رومیوں کو شکست فاش دی تھی اس جنگ کے بعد رومیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں سارا ملک شام مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔ یرموک کامیدان اردن کے علاقے میں دمشق کے کچھ فاصلے پر ہے۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح کی جلالت شان کا انداز اس بات سے ہو سکتا ہے کہ وہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ ان دس اصحاب رسولؐ میں سے جن کے جنتی ہونے کی بشارت ان کی زندگی میں ہی حضور ؐ اکرم نے دی تھی۔ حضرت ابو عبیدہ ؓ کا شمار شجاعان عرب میں ہے۔ ہر معرکہ میں حضورؐ کے ساتھ رہے لیکن جگ احد میں انہوںنے اپنی شجاعت کے جوہر پورے کمال کے ساتھ دکھائے اور حضورؐ کی خوشنودی حاصل کی۔ حضرت عمرؓ نے انہیںسپہ سالار بنا کر شام بھیجا چنانچہ تاریخ میں ان کا نام فاتح شام لے لقب سے مشہور ہے۔ ٭٭٭ اس پر جوش نظم میں اقبال نے ایک مومن کے شوق شہادت کا تذکرہ تحریر کیا ہے ۔ جس سے ان کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس دور کے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ پر کس قدر پختہ یقین تھا۔ ٭٭٭ (8) بلاد ۱؎ اسلامیہ سرزمین دلی کی مسجود ۲؎ غم دیدہ۳؎ ہے ذرے ذرے میں لہو اسلاف۴؎ کا خوابیدہ ہے پاک اس اجڑے گلستاں کی نہو کیونکر زمیں؟ خانقاہ عظمت اسلام ہے یہ سرزمیں سوئے ہیں اس خاک میں خیر الامم ۵؎ کے تاجدار نظم عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد جل چکا ۶؎ حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد ہے زیارت گاہ مسلم گو جہاں آباد ۷؎ بھی اس کرامت ۸؎ کا مگر حقدرا ہے بغداد بھی یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامان ناز لالہ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیب حجاز خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوش ۹؎ ارم جس نے دیکھے جانشینان پیمبرؐ کے قدم جس کے غنچے تھے چمن ساماں وہ گلشن ہے یہی! کانپتا تھا جن سے روما‘ ان کا مدفن ہے یہی! ۱ ؎ اسلامی شہر ۲؎ جس کو سجدہ کیا جائے ۳ ؎ غم زدہ ۴؎ باپ دادا ۵؎ مسلمان قوم کا لقب ۶؎ خرمن ۷؎ دلی ۸ ؎ بزرگی ۹؎ برابر ہے زمین قرطبہ ۱؎ بھی دیدہ مسلم کا نور ظلمت مغرب میں جو روشن تھی مثل شمع طور بجھ کے بزم بیضا پریشان کر گئی اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں ۲؎ کر گئی قبر اس تہذیب کی یہ سر زمین پاک ہے جس سے ۳ تاک گلشن یورپ کی رگ نمناک ہے خطہ قسطنطنیہ یعنی قیصر کا دیار مہدی امت کی سطوت کا نشان پائدار صورت خاک حرم ۴؎ یہ سرزمین بھی پاک ہے آستان مسند آرائے شہ لولاکؐ ہے نگہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا تربت ایوب ۵؎ انصاری سے آتی ہے صدا اے مسلمان ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر سیکروں صدیوں سے کشت و خوں کا حاصل ہے یہ شہر وہ زمیں ہے تو مگر اے خوابگاہ ۶؎ مصطفیٰ دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر کے سوا خاتم ۷؎ ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں مجھ میں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملی جس کے دامن میں اماں اقوام عالم کو ملی نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے ۱؎ ہسپانیہ ۲ روشن ۳؎ انگور کی بیل ۴؎ کعبہ ۵؎صحابی حضورؐ ۶؎ مدینہ ۷؎ انگوٹھی جانشیں قیصر کے وارث مسند جم کے ہوئے ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام ہند ہی بنیاد ہے اس کی نہ فارس ہے نہ شام آہ یثرت ! دیس ہے مسلم کا تو ماویٰ ہے تو نقطہ جاذب تاثرکی شعاعوں کا ہے تو جب تلک باقی ہے تو ‘ دنیا میں باقی ہم بھی ہیں صبح ہے تو اس چمن میں گوہر شبنم بھی ہیں (کلیات اردو ص 147) ٭٭٭ بلاد اسلامیہ بلاد: جمع ہے بلد کی بلد بمعنی شہر مسحود دل غم دیدہ: یعنی مسلمانوں کے غمگین دلوں کو بہت محبوب ہے۔ اسلام کا لہور خوابیدہ ہے: ہمارے آبائو اجداد کا خون اس کے ذرے ذرے میں ملا ہوا ہے۔ خیر الامم : امم جمع ہے امت کی بمعنی قوم یا جماعت‘ خیر بمعنی بہترین بہترین قوم سے مراد مسلمان قوم ہے۔ جہاں آباد : دلی ہمدوش ارم: ارم وہ شہر حسین ہے جسے شداد نے بسایا تھا اور جس میں اس نے جنت ارضی بنای تھی۔ مطلب یہ ہے کہ بغداد بھی ارم کی طرح حسین شہر تھا۔ جانشینان پیمبرؐ: سلاطین عباسیہ مراد ہیں۔ چمن سامان سے مراد یہ ہے کہ غنچہ اپنی جگہ ایک چمن تھا۔ کانپتا تھا جس سے روما: اشارہ ہے مشرقی سلطنت روم (قسطنطنیہ ) کے عیسائی فرمانروائوں کی طرف جو سلاطین عباسیہ بالخصوص ہارون مامون متوکل کی سطوت سے کانپتے تھے۔ بزم ملت بیضا: مسلمان قوم مہدی امت : ایک ضعیف حدیث میں سلطان محمد الملقب بہ فاتح کو جس نے 1453ء میں قسطنطنیہ فتح کیاتھا اس امت کا مہدی قرار دیا ہے۔ شہ لولاک: لقب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے: قسطنطنیہ حضور اکرمؐ کے جانشینوں یا خلفاء (عثمانی) کا آستانہ دارالخلافہ ہے۔ حضرت ایوب انصاریؓ : سرکار دو عالمؐ کے مشہور صحابہ میں سے ہیں ان کو حضورؐ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ۔ اور 49ھ میں جب امیر معاویہ نے قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے دوسرا لشکر بھیجا تو اس میں حضرت ایوب انصاریؓ بھی شریک ہوئے اور داد شجاعت دی لیکن دوران محاصرہ میںوفات پائی۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کو قسطنطنیہ کی دیوار کے نیچے دفن کیا گیا ۔ کشت و خون کا حاصل: جگ و جدل کا نتیجہ خوابگاہ مصطفیٰ: مدینہ طیبہ کی سرزمین خاتم ہستی: کائنات نقطہ جاذب: تجھ سے محبت کی شعاعیں پھوٹ کر نکلتی ہیں یا تو دنیا بھر کے مسلمانوں کی محبت کا مرکز ہے۔ یا تیری طرف مسلمانوں کے دل کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ٭٭٭ (9) ہسپانیہ ہسپانیہ تو خون مسلماں کا امیں ہے مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تیری باد سحر میں روشن تھیںستاروں کی طرح ان کی سنانین ۱؎ خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حنا کی باقی ہے ابھی رنگ مرے خون جگر میں کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں مانا وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے ولیکن تسکین مسافر نہ سفر میں نہ حضر میں! (کلیات اردو ص ۹۵) ٭٭٭ ہسپانیہ یہ نظم ان جذبات کی آئینہ دار ہے جو سیاحت ہسپانیہ کے بعد اقبال کے سینہ میں موجزن ہوئے اقبال نے اپنی تصانیف میں جا بجا زوال قرطبہ اور غرناطہ پر آنسو بہائے ہیں۔ ٭٭٭ ۱؎ برچھیاں ۲؎ کوڑا کرکٹ ۳؎ مراد کافر (10) طارق کی دعا (اندلس کے میدان جنگ میں) یہ غازی یہ تیرے پراسرار ۱؎ بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی ۲؎ دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب ومقصود مومن نامال غنیمت نہ کشور کشائی خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کوخون عرب سے کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا خبر میں نظر میں اذان سحر میں! طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کی وہ سوز اس نے پایا نہیں کے جگر میں! کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں! دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذر میں! عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے (ایضاً ص ۳۹۷) ٭٭٭ طارق کی دعا اقبا ل نے اس دلکش اور نہات موثر نظم میں بطل اسلام طارق بن زیاد فاتح اندلس ۱؎ جس کی حقیقت سمجھ میں نہ آئے مراد مسلمان ۲؎ حکمرانی کا ذوق کے ان جذبات کی عکاسی اپنے الفاظ میں کی ہے جو آغاز جنگ سے پہلے اس مرد مومن کے دل میں موجز ہوئے ہوں گے۔ اورپھر دعا کی صورت میں اس کی زبان پر آئے ہوں گے۔ اگرچہ دعا کے الفاظ بیعنہ اقبال تک نہیں پہنچے لیکن جو کچھ انہوںنے لکھا ہے اس کو پڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالباً طارق نے اللہ سے اسی طرح کی دعا مانگی ہو گی۔ ٭٭٭ (11) گدائی میکدے میں ایک دن اک رند زیرک ۱؎ نے کہا ہ ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا! تاج بہ پہنایا ہے کس کی بے کلاہی نے اسے کس ی عریانی نے بخشی ہے اسے زریںقبا؟ اس کے آب ۲؎ لالہ گوں کی خون دہقان سے کشید تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا! اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی دینے والا کون ہے؟ مرد غریب و بے نوا مانگنے والا گدا ہے ! صدقہ مانگے یا خراج کوئی مانے یا نہ مانے میرو سلطاں سب گدا (کلیا ت اردو ص ۱۱۶) ٭٭٭ ۱؎ ہوشیار ۲؎ شراب (12) ایک نوجوان کے نام ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوان کی تن آسانی امارت کیا شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل نہ زور حیدریؓ تجھ میں نہ استغنائے سلمانیؓ نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی! عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں نہ ہو نومید ‘ نومیدی زوال علم و عرفاں ہے امید مرد مومن سے خدا کے رازدانوں میں نہیںتیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں (کلیات اردو ص ۴۱۱) ٭٭٭ (15) خوشحال خاں کی وصیت قبال ہوں ملت کی وحدت میں گم کہ ہو نام افغانیوں کا بلند محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند! مغل سے کسی طرح کمتر نہیں قیستاں کا یہ بچہ ارجمند کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند اڑا کر نہ لائے جہاں باد کوہ مغل شہسواروں کی گرد سمند! ٭٭٭ خوشحال خاں اس نظم میں اقبال نے سرحد کے مشہور وطن دوست شاعر خوشحال خاں کے جذبات کو اپنے انداز میں نظم کیاہے۔ خوشحال خاں نے افغانستان کی آزادی کے لیے سرحد کے قبائل کی ایک جعمیت تیار کی۔ اس کی تقریباً سو نظموں کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ ٭٭٭ (16) مرد مسلماں ہر لحظہ ۱؎ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردارمیں اللہ کی برہان ۲؎ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان! ہمسایہ جبریل امیں بندہ خاکی ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں! یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان (کلیات اردو ص ۵۴۲) ٭٭٭ ۱؎ ہر آن ۲؎ دلیل (17).۔بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا اس دشت ۱؎ سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر کہتے ہیں کہ شیشہ کو بنا سکتے ہیں خارا۲؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص کرتا نہیںجو صحبت ساحل سے کنارا دین ہاتھ سے دیگر اگر آزاد ہو ملت ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیںسکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا اخلاص عمل مانگ نیاگن کہن سے شاہان چہ عجب گر بنوازند گدارا! (کلیات اردو ص ۶۵۷) ٭٭٭ ۱؎ جنگل ۲؎ سخت پتھر اقبال کے محبوب الفاظ ہر شاعر اور ادیب کو اپنے مذاق اور فکر و خیال کے مطابق بعض الفاظ خاص طور پر پسند ہوتے ہیں اور وہ ان الفاظ کا استعمال غالباً نسبتاً زیادہ کرتے ہیں۔ اقبال کو بھی بعض الفاظ بہت زیادہ پسند تھے۔ اس لیے انہوں نے ان الفاظ کو اپنے کلام میں بار بار استعمال کیا ہے۔ اور بڑے ذوق و شوق سے کیا ہے۔ ہم یہاں ان کے پسندیدہ الفاظ میں سے کچھ حال کا بیان کرتے ہیں۔ (۱) شاہین یہ لفظ اقبال کو بہت پسندتھا۔ اس کا استعمال انہوںنے اپنے اردو اور فارسی کلام میں کثرت سے کیا ہے مگر ہم ان کے اس قسم کے کچھ اشعار اور ان کا مطلب لکھتے ہیں۔ تاکہ تمکو معلوم ہو جائے کہ علامہ اس لفظ سے کیوں اتنا پسند کرتے تھے۔ دعا کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے اس میں فرماتے ہیں۔ جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے جوانوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ الٰہی مسلم جوانوں کو میری آہ سحر عطا کر تاکہ ان شاہین بچوں کو دوبارہ بال و پر حاصل ہوں تاکہ وہ اپنی پرواز پھر سے جاری رکھ سکیں۔ آہ سحر صبح جلدی اٹھنے اور خدا کے ساتھ عاجزی اور نیاز مندی کے تعلق سے حاصل ہوتی ہے ۔ اس لیے علامہ جوانوں کے لیے صبح جلدی اٹھنے اور عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ خدا کا ذکر کرنے کی دعا کرتے ہیں۔ تاکہ ان کے اندر بلند پروازی کا شوق پیدا ہو مسلمان کے اندر بلند مرتبوںپر پہنچنے کا ولولہ خداکے ساتھ تعلق استوار رکھنے ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال کو شاہین کی بلند پروازی پسند ہے۔ اس لیے چاہتے ہیں کہ مسلمان نوجوان بھی اپنے اندر بلند عزائم پیدا کر کے بلند مرتبوں پر فائز ہوں۔ ٭٭٭ شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا فرمات ہیں کہ مجھے سکول کے کار پردازوں سے شکایت ہے کہ وہ شاہین بچوں (مسلمان بچوں) کو مٹی سے کھیلنے کا سبق پڑھا رہے ہیں یعنی ان کو دینی اور اخلاقی باتوں سے جاہل بنا رہے ہیں تاکہ وہ اپنی زندگی کو دوسری نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے تک ہی محدود رکھیں یہی وجہ ہے کہ معاشیات کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ روحانی اور اخلاقی باتوں کے مقابلے میں یہ باتیں ادنیٰ درجے کی ہیں اس لیے ان میں مبتلا رہنے کو اقبال خاک میں کھیلے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور مسلمان نوجوان چونکہ شاہین بچے ہیں اسلیے ان کو خاک میں کھیلنے کی تعلیم دینا ان پر بہت بڑا ظلم ہے۔ ان کو تو دنیا میں سربلند ہونے کے ساتھ ساتھ دینی و اخلاقی بلندیوں پر پہنچنے کی تعلیم دینی چاہیے کہ یہ بات ان کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ ٭٭٭ تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں فرماتے ہیں کہ مسلمان شاہین ہے اور شاہین کاکام بلندیوں پر پرواز کرنا ہے بیکار ہو کر پستی میں ُڑا رہنا نہیں ہے بلکہ اس کو تو یہ چاہیے کہ کسی یاک آسمان بلند مرتبہ پر پہنچ جائے تو دوسرے کے لیے کوشش کرے تاکہ ترقی کی رفتار جاری رہے کہ اسی کا نام زندگی ہے ۔ تھک کر بیٹھ رہنا یا کسی ایک مقصد کے حاصل ہو جانے پر قناعت کرلینا مسلمان کاکام نہیں ہے۔ شاہین ہر وقت پرواز میں رہتا ہے۔ اقبال کو اس کی یہ صفت بہت پسند ہے ۔ اس لیے چاہتے ہیں کہ قوم کے نوجوان بھی ترقی کی فضائوں میں پرواز کرتے ہی رہیں تھک کر نہ بیٹھیں۔ ٭٭٭ ترا اندیشہ افلاکی نہیںہے تری پرواز لولاکی نہیں ہے یہ مانا اصل شاہینی ہے تیری تری آنکھوں میں بیباکی نہیںہے فرماتے ہیں کہ اے مسلمان جب تو شاہین ہے تو تیرے خایلات بلند کیوں نہیںہیں تیری آواز تو ایسی ہونی چاہیے کہ جو مسلمان ہونے کی وجہ سے تیرے لائق ہو۔ کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی شب آسمانوں سے بھی آگے تشریف لے گئے تھے اس لیے حضورؐ کی امت میں ہونے کی اصل وجہ سے تیری ترقی کی پرواز بھی بہت بلند ہونی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شاہین ہوتے ہوئے تیرے اندر وہ بیباکی بھی نہیں ہے جو شاہین کی صفت ہے شاہین بہت بیباک ہوتا ہے۔ بلندی پر اڑتے ہوئے اپنے شکار پر جھپٹتا ہے اورگرنے کا خطرہ بالکل محسوس نہیں کرتا۔ ٭٭٭ ترا جوہر نوری پاک ہے تو فروغ دیدہ افلاک ہے تو ترے صید زبوں افرشتہ و حور کہ شاہین شہ لولاک ہے تو فرماتے ہیں کہ اے مسلمان تو شہ لولاک (حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کا شاہین ہے اس لیے تیرا جوہر نوری ہے اور تو پاک ہے اورتیرا مرتبہ یہ ہے کہ تو آسمانوں کی آنکھ کا نور ہے۔ تیری شان یہ ہے کہ فرشتے اور حور کی طرف تو تو نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کیونکہ تیرا مقصود خدا کی ذات ہے۔ ایسا شخص دنیا کی معمولی چیزوں کی طرف کیسے مائل ہو سکتا ہے۔ ٭٭٭ مسلمان جوانوں سے فرماتے ہیں: نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں مسلمان شاہین ہوتا ہے اور شاہین کسی جگہ آشیانہ نہیں بناتا خواہ شاہی محل کا گنبد ہی کیوں نہ ہو بلکہ آشیانے کے بجائے پہاڑ کی چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے۔مسلمان کو بھی بادشاہوں کے قرب پر فخر نہیںکرنا چاہیے۔ بلکہ نہایت سادہ زندگی میں خوش رہنا چاہیے۔ تاکہ خودداری قائم رہے۔ ٭٭٭ بچہ شاہین سے کہتا تھا عقاب سالخوردہ اے ترے شہپر پہ آسان رفعت چرخ بریں ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام سخت کوشی سے تلخ ہے زندگانی انگبیں جو کبوتر کے جھپٹنے میںمزا ہے اے پسر وہ مزا شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں ایک بوڑھا عقاب اپنے بچے سے کہہ رہا تھا کہ بیٹے تو شاہن بچہ ہے خدانے تیرے پروں میں اڑنے کی وہ طاقت رکھی ہے کہ آسمان کی بلندی بھی تیرے لیے کوئی چیز نہیں تو چاہے تو آسمانوں تک پرواز کر سکتا ہے۔ جوانی میں محنت و مشقت کے ذریعے خون کو گرم رکھنا چاہیے سخت محنت کی تؒکی ہی میں زندگیکی شیرینی پوشیدہ ہے۔ جو محنت و مشقت نہیںکرے گا وہ زندگی کی لذتوں سے محروم رہے گا۔ کبوتر کے گوشت میں وہ مزا نہیں جو کبوترپر جھپٹنے میں ہوتا ہے۔ کیونکہ مقصد کے حاصل ہوجانے کے بعد عمل کی سرگرمی باقی نہیںرہتی اور زندگی کا لطف کوشش محنت اور عمل کی سرگرمی سے عبارت ہے۔ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ رہنے میںنہیں ہے۔ ٭٭٭ ایک نظم شاہین کے عنوان سے لکھی ہے شاہین کہتا ہے: کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ میں نے زمیں سے اس لیے تعلق ترک کیا ہے کہ وہاں آب و دانہ کو رزق کہتے ہیں حالانکہ گوشت کانام رزق ہونا چاہیے ۔ آب و دانہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ اور زمین کی پستی میں ملتا ہے۔ مگر پرندوں کا گوشت بڑی مشکل سے اور وہ بھی فضا کی بلندیوں پر پرواز کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر گوشت میں جو طاقت و توانائی ہے وہ آب و دانہ میں کہاں ہے! اس لیے کہتا ہے کہ میں نے زمین سے اس لیے کنارہ کر لیا ہے کہ یہاں آب و دانہ کو رزق کہتے ہیں اور اسی پر قناعت کر کے خوش ہوتے ہیں۔ بھلا کہاں آب و دانہ اور کہاں ایک تازہ پرندے کا نفیس گوشت اور وہ بھی فضا کی بلندیوں میں پلٹنے جھپٹنے کے بعد اپنی ہی تلاش و کوشش سے حاصل کیا ہوا۔ یہ بلند حوصلگی کے ساتھ اعلیٰ درجے کی چیز کو پسند کرنے کی تعلیم ہے۔ ٭٭٭ بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو ازل سے فطرت مری راہبانہ نہ باد بہاری نہ گلچیں نہ بلبل نہ بیماری نغمہ عاشقانہ مجھے بیاباں کی خلوت اس لیے پسند ہے کہ خدا نے میری فطرت سب سے الگ رہنے والی بنائی ہے۔ چونکہ بیاباں میںنہ بہار کی ہوا ہے نہ گلچیں ہے نہ بلبل ہے اور نہ عاشقانہ گانوں کی بیماری ہے۔ یہ باتیں باغوں میںہوتی ہیں۔ اس لیے باغوں کی ٹھنڈک اور آرام والی ہوا آدمی کو سست اور کاہل بنا دیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں صحراکی ہواگرام ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ صحرا کے رہنے والے محنتی اور جفاکش ہوتے ہیں۔ راحت اور آرام کی زندگی انسان کو بیکار کر دیتی ہے۔ خیابانوں سے پرہیز ہے لازم ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ اس لیے باغ کے رہنے والوں سیدور رہنا اچھا ہے۔ ان کی ادائوں میں بڑی کوشش ہوتی ہے۔ اور آدمی ان کی ادائوں پر فریفتہ ہو کر کہیں کا نہیں رہتا۔ مطلب یہ ہے کہ عیش و آرام کی زندگی سب کو عزیز ہوتی ہے۔ مگریہ زندگی آدمی کو کسی کام کا نہیںچھوڑتی اس لیے آرام و آسائش کی زندگی سے دور ہنا ہی اچھا ہے اس کے مقابلے میں ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری جواں مرد کی ضربت غازیانہ بیابان کی ہوا آدمی کے خون کو گرم رکھتی ہے۔ اور اس کے اندر ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ اس کی ضر ب سے غازیوں کی سی کار ی ضرب ہو جاتی ہے۔ محنت و مشقت کی زندگی انسان کو شجاع اور دلیر بناتی ہے۔ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ میں جو فاختہ اور کبوتر پر جھپٹتا ہوں تو اس سے یہ نہ سمجھنا کہ میں ان جانوروں کا بھوکا ہوں کیونکہ باز کی زندگی زاہدانہ ہوتی ہے اور وہ کھانے پینے کی پروانہیںکرتا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان جانوروں پر جھپٹنا خون کے گرم رکھنے کی ایک تدبیر ہے اور جتنا زیادہ جھپٹتا پلٹتا ہوں اتنا ہی خون گرم رہتا ہے اور یہ خون کی گرمی ہی میری زندگی ہے۔ مسلمان کو بھی کھانے پینے کی بجائے محنت اور مشقت سے زیادہ دلچسپی ہونی چاہیے کہ محنت ومشقت ہی کانام زندگی ہے اور کھانے پینے کا لطف بھی محنت کرنے والے ہی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ پورب و پچھم والی دنیا توچکوروں کے رہنے کی جگہ ہے۔ کیونکہ ان کی پرواز پست اور محدود ہوتی ہے۔ میری دنیا تو یہ نیلا آسماں ہے جس کی کوئی حدنہیں ہے یہاں جتنا چاہوں پرواز کر سکتا ہوں۔ اقبال چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی کسی ترقی کو کافی نہ سمجھیں۔ ان کی کوششوں کا میدان غیر محدود ہونا چاہیے اور ا ن کے مقاصد میں رفعت بلندی ہونی چاہیے۔ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ درویش آزاد ہوتا ہے اور وہ کسی خاص جگہ یا شہر کا پابند نہیںہوتا۔ بلکہ وہ تو یہ کہتا ہے کہ ہر ملک ہمارے خدا کا ملک ہے اس لیے ہمارا ہے اور وہ گھر بنانے کی بھی فکر نہیں کرتا کہ جب اس کا کوئی مخصوص وطن نہیںہے تو گھر کہاں بنائے؟ مسلمان کی زندگی بھی ایسی ہی آزادانہ ہوتی ہے۔ وہ وطن کی پابندنہیں ہوتی۔ نہ ہی پرتکلف اور عالی شان مکان کی پابند ہوتی ہے۔ اس کے پیش نظر تو بڑے بڑے مقاصد ہوتے ہیں۔ انہی کی تکمیل سے اس کو فرصت نہیںہوتی۔ ٭٭٭ (۲) غازی غازی کے معنی ہیں فتح کرنے والا بہادر سپاہی خصوصاً کفا رکو میدان کے جنگ میں ہلاک کرنے والا۔ اقبال نے ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے ۔ فاطمہ بنت عبداللہ فاطمہ وہ لڑکہ ہے جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہو ئی۔۔ یہ چودہ سال کی لڑکی اپنے پہلومیں شیر کا دل رکھتی تھی۔ ا س نے طرابلس کی جنگ میںجو ترکی اور اٹلی کے درمیان ہوئی تھی۔ اپنے ذمے غازیوں کو پانی پپلانے کا کام لے لیا تھا اور اپنے کندھے پر مشکیزہ اٹھائے زخمیوں کو پانی پلاتی رہی کہ شہید ہو گئی۔ اقبال نے یہ نظم لکھ کر فاطمہ بنت عبداللہ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے اس نے صحرائی لڑکی کی اتنی تعریف اس لیے کی ہے کہ وہ غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ فرماتے ہیں کہ اے فاطمہ تو ملت اسلامیہ کی آبروہے تیرے خاکی جسم کا ذرہ ذرہ پاک اور بے گناہ ہے اور یہ سعادت تجھے اس لیے نصیب ہوئی کہ تو نے غازیوں کو پانی پلانے کی خدمت انجام دی ہے۔ فاطمہ! تو آبروئے امت محروم ہے ذرہ ذرہ تیری مشیت خاک کا معصوم ہے یہ سعادت جو صحرائی تری قسمت میں تھی غازیان دین کی سفائی تیری قسمت میں تھی یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر! یہ کلی بھی اس گلستاں خزاں منظر میں تھی ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی اپنے صحرا میں بہت آہوا بھی پوشیدہ ہے بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوبیدہ ہے اقبال نے اپنی مشہور نظم طلوع اسلام پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر لکھی تھی۔ اس نظم مین انہوںنے ترکوں کی شجاعت کی جی کھول کر تعریف کی ہ۔ اور اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیا ہے کہ دشمن میں زبردست طاقت کے مقابلے میں ترکوںنے اپنی شجاعت اور سرفروشی کے ایسے کارنامے تاریخ کے صفحا ت پر لکھے ہیں کہ مسلمان ان پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے۔ اور اس بات پر بھی ان کوبہت خوشی ہوئی کہ اس جنگ کے نتیجے میں مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ سمجھ گئے کہ کون ان کا دشمن ہے اور کون دوست اس نظم میں اقبال غازی کی تعریف اس طرح کرتے ہیںـ: وہ چشم پاک میںکیوں زینت برگستوران دیکھے نظر آتی ہو جس کو مرد غازی کی جگر تابی فرماتے ہیں گھوڑے کی ساز کی زیب و زینت تو دنیا والے ظاہر ہیں لوگ دیکھتے ہیں کہ وہ مسلمان جس کو اللہ نے دل کی آنکھیں دی ہیں وہ تو مرد غازی کے ایمان کی حرارت اوراس کا جوش جہاد بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ٭٭٭ ایک نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے طارق کی دعا ا س نظم میں انہوںنے غازیوں کی تعریف انتہائی جوش کے ساتھ کی ہے فرماتے ہیں: یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے جنہیںتو نے بخشاہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے قبا چاہیے اس کو خون عرب سے کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا خبر میں نظر میں اذان سحر میں طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو وہ سوز اس نے پایا انہیںکے جگر میں کشاد در دل سمجھتے ہیں اس کو ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں دل مرد مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرہ لاتذر میں عزائم کو سینوں میںبیدار کر دے نگاہ مسلماںکو تلوار کر دے ٭٭٭ رمضان ۹۲ھ (اپریل ۷۱۱ئ) میں موسیٰ بن نصیر والی افریقہ نے اپنے نامور سردار طارق بن زیاد کو سپین پر حملہ کرنے کی غرض سے روانہ کیا۔ چنانچہ طارق نے آبنائے کو عبور کرکے ایک پہاڑی پر قیام کیا جو آج کل جبل الطارق یا جبرالٹر کے نام سے مشہور ہے۔ طارق رمضان ۹۲ھ میں دریائے لکہ کے کنارے راڈرک شاہ سپین کی ایک لاکھ فوج سے معرکہ آر ا ہوا۔ اقبال نے طارق ارو اس کے ساتھیوں کو پراسرار بندے اس لیے کہا ہے کہ جب طارق اپنی فوج کے ساتھ اندرون ملک کی طرف بڑھا تو اتفاق سے راڈرک کا ایک صوبہ اس نواح میںموجود تھا۔ وہ طارق کے مقابلے کے لیے نکل آیا۔ لیکن طارق نے اسے شکست فاش دے دی۔ صوبہ دار اس قدر خوف زدہ ہوا کہ اس نے راڈرک کو ان الفاظ میں اس واقعہ کی اطلاع دی کہ ہمارے ملک میںایسے لوگوں نے حملہ کردیا ہے کہ نہ ان کا وطن معلوم ہوتا ہے نہ اصلیت کہ وہ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں زمین سے نکلے ہیں یا آسمان سے اتر پڑے ہیں۔ نظم کا مطلب یہ ہے کہ: الٰہی یہ غازی جن کی بے مثال شجاعت اور سرفروشی کو دیکھ کر دشمن ان کو پراسرا کہتے ہیں جنہیں تو نے حکمرانی کا ذوق عطا کیاہے جن کے گھوڑوں کی ٹھوکر سے دریا اور صحرا کائی کی طرح چھٹ جاتے ہیں جن کی ہیبت سے پہاڑ سمٹ کر رائی بن جاتیہیں یہ اس وقت اپنے وطن سے دور تیرے نام کو بلند کرنے کی غرض سے ایک اجنبی ملک میں آئے ہیں جہاں ان کا کوئی دوست اور مددگارنہیں۔ محبت کی لذت بھی کیسی عجیب شیہے کہ یہ مسلمان کو دونوں جہانوںکی پروا نہیں ان کے پیش نظرنہ مال غنیمت ہے نہ ملک گیری بلکہ ان کامقصود تیری راہ میںلڑ کر شہید ہوجانا ہے۔ یہ تیری محبت کے نشے میں سرشار ہیں۔ اے خدا تو نے عربوں کو جو اسلام سے پہلے صحرائی تھے عشق اور جہاد جیسی نعمتوں سے نواز کر دنیا کی قوموں میں یکتا بنا دیا۔ انسان کی زندگی جس سوز و گداز کی صدیوں سے طلب گار تھی وہ اسے انہیں عربوں کی بدولت حاصل ہوا۔ یہ عرب جذبہ محبت میں ایسے سرشار ہیں کہ موت کو ہلاکت نہیںبلکہ مقصد کے حاصل ہونے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اے خدا ان غازیوں کے دل میں پھر وہی جذبہ جہاد پیدا کر دے جو ان کے اسلاف میں تھا تاکہ یہ تیری زمین پر کسی کافرکو زندہ نہ رہنے دیں۔ خدایا ! ممسلمانوں کے دلوں میں پھر عزائم کو بیدار کر دے اور ان کی نگاہوں کو تلوار بنا دے یعنی ان میںایسا رعب پیدا کر دے کہ کافرا ن کو دیکھ کر ہی لرزہ بر اندام ہو جائیں۔ ٭٭٭ (۳) مومن مومن کی عام تعریف تو یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور ا س کے تمام صفات فرشو ں آسمانی کتابوں اور پیغمبروں کو دل سے مانے اور جو باتیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طر ف سے لائے ہیں ان سب کو سچا جانے اور زبان سے ان کا اقرار کرے وہ مومن ہے۔ مگر اقبا ل نے اس لفظ میں اس قدر معنی پیدا کیے ہیں کہ ان کی وسعتوں کی کوئی حد نہیںرہی۔ اور ان معنوں میں اپنے بیان کی اثر انگیزی و دلکشی کے باعث بڑی کشش پیدا کر دی ہے مثلاً ہو حلقہ یاران تو بریشم کی طرح نرم رزق حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن مومن دوستوں کی صحبت میں ریشم کی طرح نرم اور حق و باطل کی جنگ میںفولاد کی طرح سخت ہوتا ہے۔ افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن مومن خاکی ہوتے ہوئے خاک سے آزا د ہوتا ہے یعنی ادنیٰ درجے کی مادی خواہشوں میں گرفتار نہیں ہوتا۔ جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن مومن اپنی نظر میں بلند مقاصد رکھتا ہے اور اس لیے معمولی چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کے بھی نہیں رکھتا۔ کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن! مومن کی ایمانی و اخلاقی خوبیاں ایسی دلکش ہوتی ہیں کہ فرشتے بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور اپنی خوبیوں کی وجہ سے اس قدر بے نیازی کی شان پیدا ہو جاتی ہے کہ حوروں کی طرف بھی مائل نہیں ہوتا۔ حوروں کے اس کے کم کم ملنے کی شکایت رہتی ہے۔ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان جس طرح انسان چار عناصر پانی‘ ہوا ‘ آگ اور مٹی سے بنا ہے اسی طرح مومن چار عناصڑ قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت سے بنتا ہے۔ قہاری: کفر و باطل کو مٹانا اور اسلام کے دشمنوں کو دفع کرنا غفاری لوگوں کی خطائوں کو بہت زیادہ معاف کرنا۔ قدوسی انتہائے پاکیزگی و طہارت جبروت: شان و شوکت ہمسایہ جبریل امین بندہ خاکی ہے اس کانشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں مومن خاکی ہوتے ہوئے اپنے پاکیزہ اور بلند مقاصد کی وجہ سے جبریل امیں کا ہمسایہ ہم پلہہ ہوتا ہے اور اس کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کسی خاص جگہ اور مقام میں محدود نہیںہوتا۔ بلکہ ساری دنیا اس کا وطن ہوتی ہے اور دنیا کے تمام مسلمان اس کے ہم وطن اوربھائی ہوتے ہیں۔ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن مومن ظاہر میں قاری (قرآ ن پڑھنے والا) نظرآتا ہے ورنہ حقیقت میں وہ قرآن ہے اور یہ راز کسی کونہیں معلوم۔ قرآن وہ ان معنوں میںہے کہ اس کے ایک ایک عمل میں قرآن کی شان عیاںہوتی ہے دیکھنے والے کو اس کے اعمال و کردار دیکھ کر قرآن سمجھ میں آتاچلاجاتا ہے۔ کیونکہ اس کا ہر عمل قران کے عین مطابق ہوتا ہے۔ جس سے جگرلالہ میںٹھنڈک ہو وہ شبنم دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان دوستی کی صورت میں مومن ایسا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ اس کی ٹحنڈک شبنم کی طرح لالے کے جگر میں بھی ٹھنڈک پیدا کر دیتی ہے ۔ اور قہر و غضب کی حالت میں ایسا طوفان ہوتا ہے کہ جس سے دریائوں کے دل بھی دہل جاتے ہیں۔ بڑے بڑے جابر اور ظالم بادشاہ بھی اس کے خو ف سے کانپنے لگتے ہیں۔ فطرت کے سرود ازلی اس کے شب و روز آہنگ میں یکتا صفت سورہ رحمن مومن کی زندگی میں فطرت کے نغمو ں کی سی دلکشی ہوتی ہے اور اس کے کاموں میں ایسی ہم آہنگی (موزونیت) ہوتی ہے جیسے سورۃ رحمن کی آیتوں میں۔ ٭٭٭ عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا گیا ہے کہ اگر آپؐ نہ ہوتے تو آسمان و زمین بھی نہ ہوتے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عالم حضور کی خاطر پیدا کیاگیا ہے اورمومن چونکہ وارث رسولؐ ہے اس لیے اس کو اس عالم کا بھی وارث ہونا چاہیے مگر یہ عالم عیش و آرام میں مبتلا مومن کا نہیں۔ جانباز مومن کا ہے جو اس کو جہاد کر کے کفار کے قبضے سے چھینتا ہے کیونکہ اس کی میراث پر کفار محض اس کی غفلت کی وجہ سے قابض ہو گئے ہیں۔ ٭٭٭ کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی اگر مسلمان کانام ہے اور کام کافروں کے سے کرتاہے تو اس کی قسمت میں نہ فقیری ہے نہ شاہی اور اگر واقعی مسلمان ہے تو فقیری میںبھی بادشاہی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات زندگی پڑھ لینے بھی کافی ہیں کہ بادشاہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی خواہش کرتے اور وہ ان کو اپنی خدمت میں حاضر ہونے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ ٭٭٭ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اگر سپاہی کافر ہے تو وہ تلوار پر بھروسہ کرتا ہے کیونکہ کافر خدا پر ایمان نہیںرکھتا۔اس لیے وہ مادی دنیوی سہاروں اور وسیلوں کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر سپاہی مومن ہے تو وہ بغیر تلوار کے بھی لڑتاہے کیونکہ اس کو مادی سہاروں ہی کی ضرورت نہیںہوتی۔ اس کا خدا پر بھی ایمان ہوتا ہے ک وہ بغیر کسی ظاہری سبب کے بھی سب کچھ کر سکتا ہے۔ ٭٭٭ (۴) زندگی زندگی کا لفظ اب تک جن معنوں میںبولاجاتا رہا ہے وہ نہایت محدود تھے۔ اقبال نے زندگی کے معنوں میں اس قدر وسعت پیدا کی کہ اس کی مثال کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیںملتی ہم مثال کے طور پر کچھ اشعار نقل کرتے ہیں ورنہ اس کے مختلف معنی کے استعمال سے اقبال کا اردو اورفارسی کا کلام بھرا ہوا ہے۔ نظم ’’بچے کی دعا‘‘ میں زندگی کی یہ تعریف ہے کہ شمع کی طرح دوسروں کے کام آنا اور پروانوں کی طرح علم کی شمع سے محبت کرنا زندگی ہے۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ٭٭٭ نظم چاند تارے میں زندگی کی یہ تعریف کی ہے کہ حڑکت میں زندگی ہے۔ جنبش سے ہے زندگی جہاں کی یہ رسم قدیم ہے یہاں کی ٭٭٭ نظر عاشق ہرجائی میں زندگی کی تعریف یہ ہے کہ زندگی محبت کا درد اور دکھ سہنے اور اف ن کرنے کا نام ہے۔ اس لیے میں اپنے دوست کی وفا سے بے نیاز ہوں اور اس کی جفائوں کو پسند کرتا ہوں۔ زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے میری عشق کو آزاد دستور وفا رکھتاہوں میں ٭٭٭ نظم گورستان شاہی میں چہل پہل اور شور و غوغا کو زندگی کہا ہے اور خاموشی کے سناٹے کو موت: زندگی سے تھا کبھی معمور اب سنسان ہے یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے ٭٭٭ ایک نظم جس کاعنوان ہے فلسفہ غم اس میں زندگی کی یہ تعریف کی ہے کہ زندگی جہاں عیش و عشرت رکھتی ہے وہیں اپنے اندر درود غم بھی رکھتی ہے: گو سراپا کیف عشرت ہے شراب زندگی اشک بھی رکھتاہے دامن میں سحاب زندگی ٭٭٭ اسی نظم میں فرماتے ہیں جس شخص کی شام نالہ یارب سے واقف نہ ہو درد اورتکلیف کی حالت میں آدمی یارب یارب کرتا رہتا ہے۔ جس کی رات میں آنسوئوں کے تارے نہ ہوں(رات کے وقت روتا نہ ہو جس کا دل غم سے شکستہ نہ ہوا ہو اور جو ہمیشہ عیش و عشرت ہی میں رہتا ہو اور جس کا عشق جدائی کے آزار سے واقف نہ ہو۔ ایسا شخص گو دکھ درد رسے دور ہے لیکن زندگی کے راز سے ناواقف ہے کیونکہ زندگی رنج وغم سہنے اور دکھ اور درد برداشت کرنے ہی میں پنہاں ہے۔ شام جس کی آشنائے نالہ یارب نہیں جلوہ پیرا جس کی شب میں اشک کے کوکب نہیں جس کا جام دل شکست غم سے ہے نا آشنا جس سدا مست شراب عیش و عشرت ہی رہا ہاتھ جس گلچیں کا ہے محفوظ نوک خار سے عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے زندگی کا راز اس کی آنکھ سے مستور ہے اس نظم میں زندگی کی یہ بھی تعریف کی ہے کہ وہ ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیشہ جاری رہے گی ۔ زندگی اگرچہ ایک ہے لیکن یہ کثر ت اس طرح بن گئی ہے کہ جیسے کوئی دریا پہاڑ کی بلندیوں سے نکل کر بہت سی نہروں میںتقسیم ہو جاتا ہے۔ ارو وہ نہریں رواں دواں سمندر میں جا گرتی ہیں اور ایک ہو جاتی ہیں اسی طرح انسان بھی موت کے ہاتھوں ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں تاہم یہ جدائی عارضی ہے اس لیے کہ ایک دن سب کے سب حشرکے میدان میں ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔ ایک اصلیت میں ہے نہر روان زندگی گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئی پستی عالم میں ملنے کو جدا ہوتے ہیں ہم عارضی فرقت کو دائم جان کر روتے ہیں ہم ٭٭٭ علامہ نے ایک نظم چاند کے عنوان سے لکھی ہے ۔ اس میں فرماتے ہیں کہ خدا تاروں کی خاموشی میں نہیںملے گا۔ خدا کو زندگی کے ہنگاموں میںتلاش کرنا چاہیے۔ تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں ٭٭٭ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ زندگی کا راز قطرے سے سیکھنا چاہیے کہ کبھی موتی کبھی شبنم اور کبھی آنسو کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ وہ کبھی ایک حال پر نہیں رہتا کہ ایک حال پر رہنا زندگی نہیں ہے زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات یہ کبھی گوہر‘ کبھی شبنم‘ کبھی آنسوہوا ٭٭٭ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ پہلومیں دل ہونا چاہیے بغیر دل کے زندگی نہیں ہے مگر دل سے یہ گوشت کا ٹکڑا مراد نہیںہے ۔ جو انسان کے بائیں پہلو میں ہوتاہے۔ بلکہ وہ چیز مراد ہے جس کی موجودگی کی وجہ سے اللہ کے خاص بندے اہل دل کہلاتے ہیں۔ پھر کہیں سے اس کو پیدا کر بڑی دولت ہے یہ زندگی کیسی جو دل بیگانہ پہلو ہوا ٭٭٭ ایک نظم کا عنوان ہے شفاخانہ حجاز اس میں زندگی کی یہ تعریف کی ہے کہ حجاز کے راستے میں تو مرنا زندگی ہے۔ یہاں شفاخانہ قائم کرنا اچھا نہیں۔ عاشق کی جو بات موت کی تلخی میں حاصل ہوتی ہے وہ خضرؑ کو اپنی عمر دراز میں بھی میسر نہیں۔ میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات پوشیدہ جس طرح ہے حقیقت مجاز میں تلخابہ اجل میں جو عاشق مل گیا پایا نہ خضرؑ نے مے عمر دراز میں ٭٭٭ ایک اور جگہ حڑکت دوڑ دھوپ اور چہل پہل کو زندگی قرار دیتے ہیں۔ چہچہاتے ہیں پرندے پاکے پیغام حیات باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات مسلم خوابیدہ اٹھ ہنگامہ آرا تو بھی ہو وہ چمک اٹھا افق گرم تقاضا تو بھی ہو ٭٭٭ ایک شعر میں انسان کے روز مرہ کے احوال کو زندگی کہا ہے: خوب ہے تجھ کو شعار صاحب یثرب کا پاس کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں ٭٭٭ زندگی کی یہ بھی تعریف کی ہے: نے مجال شکوہ ہے نے طاقت گفتار ہے زندگانی کیا ہے ایک طوق گلو افشار ہے نہ شکوہ شکایت کرنے کی مجال ہے نہ بولنے کی طاقت ہے بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے یہ تو گلا گھونٹنے والا پھندہ ہے۔ یہ غلامی کی زندگی ہے جس میںآدمی اپنا درد دکھ بھی بیان نہیںکر سکتا ایسی زندگی کو طوق گلو فشار گلے کو دبانے والا طوق کہنا کس قدر صحیح مثال ہے۔ ٭٭٭ زندگی فنا ہونے والی چیز نہیں ہے علامہ نے اس حقیقت کو اس طرح ادا کیا ہے کہ زندگی کی آگ کا انجام راکھ ہو جانا نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسا موتی ہے جو ٹوٹ جائے ۔ زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ گوہر نہیں ٭٭٭ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ زندگی قدرت کو اس قدر محبوب ہے کہ اس نے اس کی حفاظت کو ذوق ہر چیز میں رکھ دیا ہے؟ ہر چیز اپنی زندگی کی حفاظت خود کرتی ہے۔ اگر زندگی کا نقش موت کے ہاتھوں مٹ سکتا تو قدرت موت کو اس طرح عام نہ کرتی موت اس قدر عام ہے تو سمجھ لو موت کچھ نہیں موت کا عام ہونا ہی اس کے بے اثرہونے کی دلیل ہے موت کی مثال خواب کی سی ہے۔ جس طرح سونے سے زندگی میں خلل نہیں پڑتا اسی طرح موت بھی زندگی میں خلل انداز نہیں ہو سکتی۔ زندگی محبوب ایسی دیدہ قدرت میں ہے ذوق حفظ زندگی ہر چیز کی فطرت میں ہے موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں زندگی اس دنیا تک ہی محدود نہیں ہے۔ آخرت میں بھی جاری ہے البتہ آخرت کی زندگی دنیا کی زندگی سے بالکل مختلف ہے: مختلف ہر منزل ہستی کی رسم و راہ ہے آخرت بھی زندگی کی ایک جولاں گاہ ہے کوشش محنت اور جفاکشی میں زندگی کی آبرو ہے تمنا آبرو کی ہے اگر گلزار ہستی میں تو کانٹوں میں الجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے ٭٭٭ موت زندگی کے ختم ہوجانے کا نام نہیں۔ بلکہ اس عارضٰ زندگی کے بدلے میں ہمیشہ رہنے والی زندگی ملتی ہے۔ موت کو سمجھا ہے غافل اختتام زندگی ہے یہ شام زندگی صبح دوام زندگی ٭٭٭ نظم خضر راہ میں کہتے ہیں کہ میں نے خضر سے پوچھا کہ ہمیشہ سفر میں رہنے سے اسے کیا حاصل ہوتا ہے خضر نے فرمایا کہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ مسلسل سفر میں رہنا ہی اصل زندگی ہے کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل ٭٭٭ مسلسل مشکلات اور پریشانیوں کا مقابلہ کرتے رہنے سے زندگی اور زیادہ پختہ ہوتی ہے۔ زندگی کی پختگی کا راز اسی میں ہے کہ انسان پریشانیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہے۔ پختہ تر ہے گردش پیہم سے جام زندگی ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی ٭٭٭ زندگی کو امروز دو فردا کے پیمانے سے ناپنا غلطی ہے کیونکہ زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے مسلسل دوڑنے والی اور ہر دم جوا ں رہنے والی شے ہے اور امروز و فردا عارضی اور ناپائیدار ہیں۔ تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی ٭٭٭ دوسروںکی بنائی ہوئی دنیا میں رہنا زندگی نہیں ہے۔ زندگی اپنی دنیا آپ بنانے کا نام ہے: اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کو زندگی قرار دینا ہے اور ا س کی تائید میں دو حقیقتیں پیش کی ہیں ایک یہ کہ آدم جب جنت سے دنیا میں آئے تو انہوں نے اپنے جملہ امور خود ہی انجام دیے۔ ان کو ہی بنائی دنیا(ضرورت کی چیزیں) نہیںملی تھیں۔ پس تم بھی اولاد آدم ہو۔ تم کو بھی اپنے کام کسی دوسرے کے سہارے کے بغیر خود ہی کرنے چاہئیں اور اس طرح اپنے زندہ ہونے کا ثبو ت دینا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ جو خدا جو حی و قیوم ہے اس نے اپنی یہ دنیا (جہاں اب و گل) بغیر کسی دوسرے کے تعاون سے خود ہی پیدا کیاہے لفظ کن فرمایا اور یہ کائنات وجود میں آ گئی۔ اگر خدا نہ کہتا و یہ عالم کیسے وجو دمیں آ تا۔ اسی طرح تم بھی اگر محنت مشقت نہیںکرو گے تو کام کیسے ہوں گے۔ اپنے کام خود کرو اور اپنی زندگی کا ثبوت دوسروں کے سہارے رہنا زندگی نہیںہے۔ ضمیر کن فکاں۔ کن فکاں کا راز (کن ۔ ہو جا۔ فکاں۔ واپس ہو گیا) زندگی کی شکلیں مختلف ہیں کوہکن سے پوچھیے تو کہیے گا کہ دودھ کی نہر بسولا یعنی تیشا اور بھاری پتھر زندگی ہے کیونکہ کوہکن کا مقصدشیریں تھی اور شیریں کے ملنے کی شرط یہ تھی کہ وہ پہاڑ کو کاٹ کر جوئے شیر لائے۔ شیریںایک حسینہ تھی جو حسن و جمال کے اعتبار سے تمام فارس میںاپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ خسرو پرویز نے اس کی تعریف سنی تو اس کو دیکھنے کی غرض سے گیا اور دیکھتے ہی اس پر عاشق ہو گیا۔ شیریں نے اس سے شاد ی کر لی۔ شیریں کے محل کے پاس ایک پر فضا پہاڑ تھا۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ اس پہاڑ سے محل تک ایک نہر نکال جائے اس زمانے میں فرہاد نامی سنگ تراش اسکام میں بہت ماہر تھا کہنا چاہیے کہ انجینئر تھا ۔ اس کو دربار سے طلب کیا گیا وہ آیا اور جونہی اس کی نظر شیریںپر پڑی ہزار جان سے اس پر عاشق ہو گیا۔ حسب منشا نہایت عمدہ نہر نکالی مگر سوائے شیریں کے اور کوئی صلہ نہ چاہا۔ خسرو نے یہ شرط رکھی کہ اگر تم کوہ بیستون کو کاٹ کر صاف دو گے تو شیریں ت کو مل جائے گی جذبہ عشق میں شبانہ روز محنت کر کے تھوڑے عرصے میں تمام پہاڑ کاٹ ڈالا۔ جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ایک بہروپیے کو بھیجا …جس نے فرہاد کو بتایا کہ شیریں کا انتقال ہو گیا ہے یہ سنتے ہی فرہاد کی امیدوں پر پانی پھر گیا اور ا س نے اپنے سر پر وہی تیشہ مار لیا اور جاں بحق ہو گیا۔ زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی ٭٭٭ زندگی غلامی میںکم ہوکر جوئے کم آب رہ جاتی ہے۔ اور آزادی میں بحر بیکراں ہوتی ہے غلامی میں کم اس لیے ہو جاتی ہے کہ غلام کی صلاحیتوں اور خداداد قوتوں پر پابندی لگی ہوتی ہے اس لیے وہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بس کھانے پینے پہننے اور رہنے کی حد تک اس کی ضروریات اس کے آقا کی طرف سے پوری کر دی جاتی ہیں اور آقا اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے اس سے کام لیتا ہے۔ اس کے برخلاف آزاد کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں آزاد ار اس کے اپنے اختیار میں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس پر ترقی کے تمام راستے کھلے ہوتے ہیں۔ اور یوں ا س کے فکر و عمل کی جولانیوں کا میدان بہت زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں سے زندگی زندگی کو ہمیشگی مضبوط ایمان کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اور اس کی دلیل میں یہ بات پش کی ہے کہ ترک چونکہ ایمان محکم کے مالک تھے اس لیے جرمنوں کے مقابلے میں زیادہ پائدار ثابت ہوئے: ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں کہ المانی سے بھی پایندہ تر نکلا ہے تورانی ٭٭٭ انسان مٹی کا ایک پیکر ہے اور اس پیکر میں زندگی رکھ دی گئی ہے مگر یہ زندگی ظاہر اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنی کوششوں سے نئی نئی فتوحات حاصل کرتاہے ورنہ زندگی اس کے اندر اسی طرح پوشیدہ رہتی ہے جس طرح آگ پتھر میں پوشیدہ رہتی ہے۔ آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی ٭٭٭ زندگی کے میدان مختلف ہیں تو ہر میدان میں اس کا استعمال بھی مختلف ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ دشمنوں میں نرم خوئی اختیار کی جائے اور دوستوں میں بدمزاجی اور سختی: مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر شبستان محبت میں حریر و پنہاں ہو جا گز جا بن کے سیل تندرو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا ٭٭٭ ایک جگہ انسان کو زندگی کہا ہے اور انسان کے علاوہ جو کچھ اس دنیا میں ہے اس کو کھیل کو د قرار دیا ہے: تو زندگی ہے پاندگی ہے باقی ہے جو کچھ سب خاکبازی ٭٭٭ زندگی کا سمندر برابر جاری ہے اور ہر شے سے زندگی کی رواداری اور دوڑ دھوپ کا اظہار ہو رہا ہے۔ دمادم رواں ہے یم زندگی ہر اک شے سے پیدا رم زندگی ٭٭٭ کہیں شاہین ہے جس کے پنجے چکوروں کے خون سے رنگین ہیں کہیںکبوتر ہے جو اپنے آشیانے سے دور جا ل میں گرفتار ہے اور پھڑ پھڑا رہا ہے یہ سب زندگی ہی کے آثار ہیں۔ کہیں جرہ شاہین سیماب رنگ لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ کبوتر کہیں آشیانے سے دور پھڑکتا ہوا جال میں ناصبور ٭٭٭ زندگی کو الجھ کر سلجھنے میں لذت حاصل ہوتی ہے کیونکہ الجھنے کی صورت میںسلجھانے پرمحنت کرنی پڑتی ہے اور محنت میںہی زندگی کا لطف ہوتا ہے: الجھ کر سلجھنے میں لذت اسے تڑپنے پھڑکنے میں راحت اسے ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End