اقبال کے خطوط جنا ح کے نام ترتیب و تہذیب محمد جہانگیر عالم اقبال اکادمی پاکستان ابتدائیہ جنو ب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کے جداگانہ ملی وجود کی بقا اور تحفظ کے لیے اسلامی مملکت … پاکستان کی راہیں فکر اقبال سے روشن ہوئی تھیں۔ اور اب پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں اپنا مقام نظریات اقبال پر عمل پیرا ہو کر ہی حاصل کر سکتا ہے۔ اس لیے افکار اقبال کی ترویج و اشاعت کے کام میں شرکت نظریہ پاکستان کے ساتھ وابستگی کا اظہار ہی نہیں بلکہ پاکستان کو ایک مثالی مملکت بنانے کے عمل میں شرکت بھی ہے۔ اسی نقطہ نظر کے پیش نظر میں نے اقبال صدی کے سال (۱۹۷۷ئ) لیٹرز آف اقبال ٹو جناح (Letters of Iqbal to Jinnah)کا اردو ترجمہ مع حواشی اور خطوط کے مباحث پر مشتمل ایک مفصل مقدمہ کے ساتھ پیش کیا تھا۔ جسے علمی اور تعلیمی حلقوں میںپسند کیا گیا۔ میری حوصلہ افزائی ہوئی اور اقبالیات کے مطالعہ میں دلچسپی بڑھی جس کے نتیجہ میں مجھے علامہ اقبال کے دو اور قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ملے جو پہلے مجموعہ میں شامل نہیں تھے۔ بہرحال پاکستانیات کا طالب علم ہونے کے تعلق سے اقبالیات کے ساتھ تعلق مضبوط تر ہوا۔ جناب ڈاکٹر وحید قریشی اور جناب محمد صدیق خاں شبلی مجھے علمی کام جاری رکھنے کی ترغیب دیتے رہے۔ اور میری حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ اس لیے میں ان بزرگوں کا سپاس گزار ہوں۔ یہ ان ہی کی محبت اورشفقت کا نتیجہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی راہ پر گامزن ہو کر اقبال کے خطوط جناح کے نام کا یہ جدید ایڈیشن پیش کر رہا ہوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف ۹اگست ۱۹۹۵ء محمد جہانگیر عالم اشاعت کی کہانی ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ (Letters of Iqbal to Jinnah)ہماری تاریخی دستاویزات کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اقبالیات اور تحریک پاکستان کے شائقین کے لیے ان کا مطالعہ بڑا دلچسپ اور اہم ہے۔ کیونکہ یہ خطوط مفکر پاکستان علامہ اقبال (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ئ) اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح (۱۸۷۶ئ۔۱۹۴۸ئ) کے درمیان گہر ے تعلقات اور فکری ہم آہنگی کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اساس کا تعین بھی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ خطوط برصغیر جنوب مشرقی ایشیاء کے ایک خاص عہد کے سیاسی حالات اور مسائل پر علامہ اقبال کے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتے ہیں۔ یہ خطوط ایسے وقت لکھے گئے تھے جب ہندوستانی مسلمان اپنی تاریخ کے ایک نازک دور سے گزر رہے تھے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا مسئلہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس فکری انتشار کے زماے میں علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت نے منزل کی نشاندہی کی اور اس کے راستوں کو روشن کیا۔ یہ خطوط ایک طرح سے خطبہ الہ آباد کے اجمال کی تفصیل ہی ہیں۔ ان خطوط میں برصغیر کے دستور مسائل ‘ مسلم لیگ کی تنظیم نو‘ مسلم ایشیاء کے مستقبل‘ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کا قیام اور اس میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے بارے میں علامہ اقبال نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ تحریک پاکستان کے پس منظر اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان خطوط کا مطالعہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلی دفعہ ’’اقبال کے خطو ط جناح کے نام‘‘ انگریزی میںلاہور کے مشہور و معروف ناشر شیخ محمد اشرف (۱۹۰۳ئ۔۱۹۸۰ئ) نے اپریل ۱۹۴۳ء میں شائع کیے۔ اسی سال یہ خطوط ادارہ اشاعت اردو حیدر آباد (دکن) کے زیر اہتمام اردو زبان میں شائع ہوئے۔ ا س کے بعد یہ خطوط متعدد بار شائع ہونے کے علاوہ برصغیر کی دوسری زبانوں مثلاً بنگالی او ر تامل وغیرہ میں بھی شائع ہوئے۔ ان خطوط کی اشاعت کی کہانی بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی دریافت اور اشاعت کا سہرا جناب محمد شریف طوسی (۱۹۰۰ئ۔ ۱۹۸۳ئ) کے سر ہے۔ آ پ ان دنوں (دسمبر ۱۹۴۲ء تا مئی ۱۹۴۳ئ) بمبئی میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ذاتی کتب خانہ(لائبریری) میں اپنی کتاب (Pakistan Movement 1906-1942)کی تیاری کے لیے مواد تلاش کر رہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام برصغیر کے مختلف رہنمائوں کے لکھے ہوئے خطوط آپ کے ہاتھ لگے۔ آپ نے ان کی چھان بین کر کے ہر ایک رہنما کے خطوط الگ الگ کیے۔ ان میں علامہ اقبال کے خطوط بھی تھے جو انہوںنے مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے نام لکھے تھے آپ نے ان تمام خطوط کو تجو کہ تعدادمیں تیرہ (۱۳) تھے ترتیب دے کر ٹائپ کیا۔ پھر انہیں قائد اعظم محمد علی جناح کے حضور پیش کیا کہ ان خطوط کی اشاعت کا بندوبست ہونا چاہیے۔ ابتدا میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کی اشاعت پر کچھ تامل کیا لیکن جب محمد شریف طوسی (۱۹۰۰ء ۔ ۱۹۸۳ئ) نے قائد اعظم محمد علی جناح پر واضح کیا کہ یہ خطوط برصغیر کے مسلمانوںکے نقطہ نگاہ سے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں او ر ان کی اشاعت سے ملک بھر میں اور خصوصاً پنجاب میں مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ اس خط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا تھا: اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع رکھتی ہے‘‘۔ انہو ں نے کہا کہ اس سے نہ صرف تحریک پاکستان کو مقبولیت حاصل ہو گی بلکہ اس سے ایک تازہ ولولہ ملے گا ۱؎۔ ۱؎ ایم ایس طوسی My Reminiscencesکراچی ۱۹۷۶ء ص ۔ ۱۱ قائد اعظم محمد علی جناح ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ کی اشاعت پر رضامند ہو گئے۔ چنانچہ ان کے لیے اشاعت کے لیے یہ مناسب خیال کیا گیا کہ علامہ اقبال کے خطوط کے جواب میں جواب خطوط قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریر کیے تھے ا کو بھی ان کے ساتھ شائع کیا جائے۔ اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بمبئی سے ۲۸ جنوری ۱۹۴۳ء کو لاہور میں میاں بشیر احمد (۱۸۹۳ئ۔۱۹۷۱ئ) ایڈیٹر ’’ہمایوں‘‘ کو لکھا کہ علامہ اقبال کے خطوط کے جواب میں انہوںنے جو خطوط لکھے تھے ان کو تلاش کرا کے ارسال کر دیں۔ ۱۵ فروری ۱۹۴۳ء کو دوبارہ قائد اعظم محمد علی جناح نے میاں بشیر احمد کو لکھا کہ ان خطوط کی اشاعت سے مسلم عوام کی بڑی خدمت ہو گی اور خصوصاً اس مقصد کو جس کے لیے ہم لڑ رہے ہیں میاں بشیر احمد نے ۲۴ فروری ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کو جواب دیا کہ علامہ اقبال کے ترکہ کے نگران چوہدری محمد حسین )۱۸۹۴ئ۔ ۱۹۵۰ئ) ان کے خطوط کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں لہٰذا اب ان خطوط کو جو قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے تبصرہ Commentsکے ساتھ یا اس کے بغیر شائع کرا دیں ۔ ۲؎ لاہور کے مشہو رو معروف ناشر شیخ محمد اشرت (۱۹۰۳ئ۔ ۱۹۸۰ئ) کی خدمات اس سلسلے میں بڑی نمایاں ہیں کہ انہوںنے قیام پاکستان سے پہلے اسلام اور تحریک پاکستان کے موضوع پر بہت زیادہ کتابیں شائع کیں جبکہ اس زمانے میںاشاعت کا کام اتنا زیادہ مالی طور پر منفعت بخش نہیں تھا۔ جتنا کہ اب ہے۔ بہرحال تحریک پاکستان کی نشرواشاعت کا کام اتنا زیادہ مالی طور پر منفعت بخش نہیں تھا۔ جتنا کہ اب ہے۔ بہرحال تحریک پاکستان کینشر و اشاعت کے سلسلے میں شیخ محمد اشرف کی خدمات کا اعتراف ہمیں کھلے دل سے کرنا چاہیے کہ انہوںنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے قیام پاکستان کی جدوجہد میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان دنوں شیخ محمد اشرف سید مطلوب الحسن (۱۹۱۵ئ۔۱۹۸۴ئ) کی کتاب محمد علی جناح…ایک سیاسی مطالعہ‘‘ کی اشاعت کا انتظام کر رہے تھے اور ان کا قائد اعظم محمد علی جناح سے رابطہ تھا۔ اسی سلسلے میں شیخ محمد اشرف مارچ ۱۹۴۳ء کے آخری ہفتہ میں قائد اعظم محمد علی جناح سے دہلی میں ملے ۔ ۱؎ جمیل الدین احمد Quaid-e-Azam as seen by his contemporatiesلاہور ۱۹۶۶ء ص ۱۷۔ اس ملاقات میںدیگر امور کے علاوہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی اشاعت کا کام شیخ محمد اشرف کے سپرد یا۔ اور معاملہ اس طرح طے پایا کہ ان خطوط کا پہلا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں چھاپا جائے گا۔ اور اس کی رائلٹی شیخ محمد اشرف کو مبلغ تین سو روپے یکمشت ادا کریں گے۔ یہ رقم مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے عطیہ ہو گی۔ ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ان خطوط کی اشاعت کے بارے میں شیخ محمد اشرف کو لکھا کہ جیسا کہ پچھلے دنوں انہوںنے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘شائع کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا کہ وہ پہلا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں چھپوائیں گے اور اس کے لیے رائلٹی کے طور پر مبلغ تین سو روپے یکمشت ادا کریں گے۔ لہٰذا اس رقم کاچیک ارسال کر دیں انہیں خطوط مع پیش لفظ کے ارسال ہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے اس خط میں وضاحت کر دی کہ یہ انتظام صرف پہلے ایڈیشن کے لیے ہے اور اس ایڈیشن میں صرف تین ہزار کاپیاں چھپوائی جائیں گی اور امید ظاہر کی کہ ان کی اشاعت خوبصورت طریق پر ہو گی اور اس کے صفحہ اول پر علامہ اقبال کی اچھی سی تصویر شائع کرنے کا بھی انتظام کیا جائے گا۔ ان خطوط کی ایک سو کاپیاں اعزازی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کو ارسال کی جائیں گی۔ طباعت کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے خط کے آخیر میں پھر لکھا کہ اس سلسلے میں انہیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود اس کے ماہر ہیں اورا نہیں توقع ہے کہ وہ ان خطوط کو بڑے خوبصورت انداز میں طبع کرائیں گے۔ ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کو ہی شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا گیا کہ اقبال کے خطوط کی اشاعت کے لیے معاہدہ کا مسودہ مع تین سو روپے کا بنک ڈرافٹ ارسال خدمت ہے معاہدہ کی ایک نقل دستخط کے بعد واپس کر دیں۔ خطوط اقبال کے لیے ان کے تجویز کردہ نام کے صحیح الفاظ انہیں یاد نہیں رہے۔ لہٰذا وہ معاہدہ کے مسودہ میں خالی جگہ پر نام لکھ دیں اور توقع ظاہر کی کہ انہوں نے ان خطوط کے تعارف کے طور پر پیش لفظ لکھ دیا ہو گا۔ ۳؎ ۳؎ سید شمس الدین Plain Mr. Jinnahکراچی ۱۹۷۱ء ص ۶۵۔۱۶۴ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کے لیے پیش لفظ کا مسودہ محمد شریف طوسی نے تیار کیا تھا اور ٹائپ کرنے کے بعد اسے قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے پیش کیا ۔ انہوںنے اس میںمعمولی سی ترمیم و تنسیخ کے بعد اس کی منظوری دے دی ۔ پیش لفظ کا یہ مسودہ محمد شریف طوسی نے اپنے پا س محفوظ رکھ لیا تھا۔ ۴؎ ان کی وفات کے بعد یہ مسودہ ان کے خلف الرشید ڈاکٹر انور طوسی (جدہ) کے پاس محفوظ تھا۔ ۵؎ ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ محمد اشرف کے خط محررہ ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کے جواب میں تحریر کیا کہ انہیں ان کا خط مل گیا ہے۔ جس میں مبلغ تین سو روپے کا بنک ڈرافٹ اورمعاہدہ کا مسودہ تھا۔ معاہدہ کی ایک نقل واپس بھیج رہا ہوں۔ خطوط اقبال کا نام ''Letter of Iqbal to Jinnah"مناسب ہے۔ ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء ہی کو شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کے خط محررہ ۲۷ فروری ۱۹۴۳ء کا جواب دیا۔ جس میںتحریر کیا کہ انہیں خطوط اقبال مع پیش لفظ مل گئے ہیں۔ اور دریافت کیا کہ اس کتابچہ کا نام کیا ہو؟ اس کتابچہ کی قیمت کے بارے میں شیخ محمد اشرف نے اس خط میں لکھا کہ وہ حساب کتاب کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کتابچہ کی قیمت صرف آٹھ آنے کم رہے گی ۔ اس لیے ان کے خیال میں اس کی قیمت بارہ آنے ہونی چاہیے۔ اور اس ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کی اجازت چاہی۔ ۴ اپریل ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے شیخ محمد اشرف کو جواب دیا کہ خطوط اقبال کے کتابچہ کا نام "Letters of Iqbal to Jinnah"ہو اور اگر وہ مناسب خیال کرتے ہیں تو اس کی قیمت آٹھ آنے کی بجائے بارہ آنے رکھ لیں۔ ۱۴ اپریل ۱۹۴۳ء کو شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کو اطلاع دی کہ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘زیر طبع ہیں اور امید ظاہر کی کہ اس ہفتہ کے آخر تک کتاب تیار ہو جائے گی ۔ اپریل ۱۹۴۳ء میں کتاب چھپ کر مارکیٹ میں فروخت کے لیے پہنچ گئی ہے۔ کتاب کی فروخت بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی۔ ۴؎ ایم ایس طوسی کتاب مذکورہ ص نمبر ۱۲ ۵؎ روزنامہ ’’نوائے وقت لاہور ‘‘ میگزین ۴ ستمبر ۱۹۸۷ء صفحہ نمبر ۶ چنانچہ ۳۱ دسمبر ۱۹۴۳ء کو شیخ محمد اشرف نے قائد اعظم محمد علی جناح کو خط کے ذریعے اطلاع دی کہ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی فروخت بڑی اچھی ہو رہی ہے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۹ جنوری ۱۹۴۴ء کو تحریر کیا کہ انہیں یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ خطوط اقبال کی فروخت بہت اچھی ہو رہی ہے۔ مارچ ۱۹۴۴ء تک ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ چنانچہ ۳۱ مارچ ۱۹۴۴ء کو شیخ محمد اشرف کے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ ان ہی شرائط پر جن پر پہلے معاہدہ ہوا تھا اقبال کے خطوط کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی اجازت فرمائیے۔ مبلغ تین سو روپے کا چیک ارسال خدمت ہے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۸ اپریل ۱۹۴۴ء کو شیخ محمد اشرف کو تحریر کیا کہ انہیں ان کا خط مع تین سو روپے مبلغ کی مالیت کا چیک مل گیا ہے۔ اور وہ رضامند ہیں کہ خطوط کا دوسرا ایڈیشن تین ہزار کی تعداد میں شائع کر لیں اور اس کی شرائط وہ ہوں گی جو پہلے ایڈیشن کے لیے ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء کے معاہد ہ میں طے ہو چکی ہیںَ ۸ اپریل ۱۹۴۴ء کو شیخ محمد اشرف نے دوبارہ قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ براہ کرم ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ ۱۰ اپریل ۱۹۴۴ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا جواب دہلی سے لکھاکہ وہ ان کے خط محررہ ۸ اپریل کے لیے ممنون ہیں اور پہلے ہی ان کو اقبال کے خطوط کی اشاعت کی اجازت کے بارے میں لکھ چکے ہیں۔ ۶؎ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کے دوسرے ایڈیشن میں علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر بھی تھیں۔ اس کے بعد یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی۔ تیسرا ایڈیشن ۱۹۵۶ء میں طبع ہوا۔ اس کے بعد ۱۹۶۳ء ‘ ۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۴ء میں بھی شائع ہوئی۔ ساتویں بار ۱۹۷۸ء میں شائع ہوئی ۔ ۷؎ ۶؎ سید شمس الحسن مذکورہ بالا صفحہ ۱۶۵ تا ۱۷۳ ۷؎ شیخ محمد اشرف مرحوم کا خط راقم الحروف کے نا م ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کی اشاعت سے قبل ہی قائد اعظم محمد علی جناح کو ان خطوط کے ترجمہ کی اشاعت کے لیے فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اسی طرح کی ایک فرمائش شیخ عطاء اللہ (وفات دسمبر ۱۹۶۸ئ) استاد معاشیات مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی طرف سے آئی۔ انہوںنے ۱۹ فروری ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ وہ خطوط اقبال کا مجموعہ ’’اقبال نامہ‘‘ کے نام سے شائع کرا رہے ہیں۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کو ان میں شامل کرنے کی اجازت چاہیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی طرف سے محمد شریف طوسی (جو ان دنوں ایم آر ٹی کے قلمی نام سے مضامین لکھتے تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ہاں اپنی کتاب کے سلسلے میں کام کر رہے تھے) نے دیا کہ ان خطوط کی اشاعت کا انتظا م ہو گیا ہے۔ اس لیے ان خطوط کی نقل ارسال نہیں کی جا رہی۔ اپریل ۱۹۴۳ء میں جب ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘انگریزی زبان میں شائع ہو گئے تو پھر شیخ عطا اللہ نے ۱۸ اپریل ۱۹۴۳ء کو خط لکھا اور ملاقات کی درخواست کی تاکہ بالمشافہ بات چیت کر کے ان خطو ط کی اردو میں اشاعت کی اجازت حاصل کر سکیں۔ ۱۹ اپریل ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے جواب دیا کہ وہ ان دنوں مسلم لیگ کے اجلاس کے سلسلے میں کافی مصروف ہیں ۔ اجلاس کے بعد ملاقات ہو سکے گی۔ اس طر ح یہ معاملہ کچھ وقت کے لیے کھٹائی میں پڑ گیا۔ یکم نومبر ۱۹۴۳ء کو شیخ عطا اللہ نے دوبارہ اس معاملہ کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھا۔اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۶ نومبر ۱۹۴۳ء کو لکھا کہ ان خطوط کی انگریزی زبان میں اشاعت کے لیے انہوںنے ایک ناشر سے معاملہ طے کر لیا ہے ۔ وہ ان خطوط کااردو ترجمہ ان کی کتاب ’’اقبال نامہ‘‘ میں شامل کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں۔ بشرطیکہ وہ مبلغ تین سو روپے یکمشت بطور رائلٹی اپنی کتاب کے پہلے ایڈیشن پر دینے کے لیے تیار ہوں۔ نئے ایڈیشن کے لیے بھی اسی طرح کی شرائط ہوں گی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے خط میں یہ بھی تحریر کیا کہ وہ یہ رقم اپنی ذات کے لیے نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ یہ رقم عطیہ کے طور پر مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع ہو گی۔ شیخ عطاء اللہ ان شرائط پر ان خطوط کو شائع کرنے پر رضامند نہ ہوئے اور انہوںنے ۱۲ نومبر ۱۹۴۳ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھ دیا کہ ان کی کتاب کی نکاسی کے امکانات ایسے نہیں ہیں کہ وہ اس سلسلے میں کوئی مالی بار برداشت کر سکیں۔ اسی طرح کی ایک فرمائش ۴ ستمبر ۱۹۴۳ء کو باغبانپورہ لاہور سے عفت مقصود نے کی کہ اسے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘اردو میں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے ۱۰ ستمبر ۱۹۴۳ء کو لکھا کہ وہ ان خطوط کے اردو ترجمہ کی اشاعت کی اجازت دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ وہ اس کی رائلٹی کے طورپر ایک معقول رقم مثلاً تین سو روپے یکمشت پہلے ایڈیشن کے لیے جو کہ تین ہزار کی تعداد کا ہو گا دینے کے لیے تیار ہو۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے یہ بھی لکھا کہ انہیں اس رقم کی سخت ضرورت ہے۔ یہ رقم انہیں اپنی ذا ت کے لیے نہیں چاہیے بلکہ یہ رقم بطور عطیہ مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع ہو گی۔ آئندہ اشاعت کے لیے اسی قسم کی شرائط ہوں گی۔ اگر وہ رضامند ہوں تو براہ کرم اطلاع دیں ۸؎ لیکن یہاں بھی بات آگے نہ بڑھ سکی۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘سب سے پہلی بار اردو میں ادارہ اشاعت اردو عابد روڈ حیدر آباد دکن سے ستمبر ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئے۔ اردو ترجمہ سید مشتاق احمد چشتی کا تھا حیران کن بات یہ ہے کہ کتابیات اقبال کے متعلق اب تک جتنی کتابیں شائع ہوئی ہیںان میں سے کسی ایک کتاب میں بھی سید مشتاق احمد چشتی کے ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کے اردو ترجمہ کا ذکر تک نہیں ہے۔ اس کے بعد عبدالرحمن سعید نے ان خطوط کا اردو ترجمہ کیا جو کہ حیدر آباد دکن ہی سے شائع ہوا۔ اس ترجمہ کے اب تک تین چار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہاں میں ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتاہوں وہ یہ ہے کہ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کا سب سے پہلے اردو ترجمہ عبدالرحمن سعید کا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ درست نہیں۔ ان خطوط کا سب سے پہلا اردو ترجمہ سید مشتاق احمد چشتی کا ہے ۔ یہ ترجمہ ۱۹۴۳ء میں شائع ہوا تھا۔ ۸؎ سید شمس الحسن مذکورہ بالا صفحہ ۱۸۰ تا ۱۸۱ قائد اعظم محمد علی جناح کی اجازت کے بغیر یہ ترجمہ شائع ہوا۔ یہ اس طرح ظاہر ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ۶ نومبر ۱۹۴۳ء کو شیخ عطااللہ کے خط کے جواب میں لکھا تھا کہ انہوںنے صرف انگریزی زبان میں ان خطوط کی اشاعت کا معاملہ ایک ناشر سے طے کیا ہوا ہے۔ عبدالرحمن سعید نے خطوط اقبال کا ترجمہ قائد اعظم محمد علی جناح کی اجازت سے شائع کیا تھا۔ یہ اس طرح سے واضح ہوتا ہے کہ ۱۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک خط کے جواب میں لکھا ہے کہ انگریزی اور اردو میں ان خطوط کی اشاعت کے لیے دو پارٹیوں سے معاملہ طے ہو چکا ہے۔ اس وقت تک ان خطوط کے صرف دو ارد و ترجمے شائع ہوئے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہی قائد اعطم محمد علی جناح کا معاملہ طے ہوا تھا۔ اور وہ عبدالرحمن سعید ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان ہی کا ترجمہ بارہا شائع ہوتا رہا ہے جبکہ سید مشتاق احمد چشتی کا ترجمہ دوسری مرتبہ شائع نہ ہو سکا۔ ۱۲ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو ایس ایم بذل الحق نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ان خطو ط کے بنگالی ترجمہ شائع کرنے کی اجازت چاہی۔ جس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۱ نومبر ۱۹۴۵ء کو انہیں جواب دیا کہ وہ ان کطوط کا بنگالی زبان میں ترجمہ شائع کر سکتے ہیں کسی دوسری زبان میں نہیں کیونکہ انگریزی اور اردو میں ان خطوط کی اشاعت کے لیے ان کی دو پارٹیوں سے معاملہ طے ہو چکا ہے۔ اسی طرح ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۵ء کو کے ایم یوسف نے قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ انہیں ان خطوط کا ترجمہ تامل زبان میں شائع کرنے کی اجازت دی جائے۔ جس کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ۳۹ دسمبر ۱۹۴۵ء کو لکھا کہ انہیں ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کو تامل زبان میں شائع کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ۹؎۔ قیام پاکستان کے بعد ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی متعدد بار شائع ہوئے۔ ’’اقبال نامہ‘‘ حصہ دوم مرتبہ شیخ عطاء اللہ میں یہ خطوط شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان خطوط کا اردو ترجمہ پروفیسر سعید کی کتاب ’’اقبال اورقائد اعظم‘‘ اور محمد حنیف شاید کی کتاب ’’علامہ اقبال اور قائد اعظم کے سیاسی نظریات‘‘ میں بھی شامل ہے۔ ۹؎ سید شمس الحسن مذکورہ بالا صفحہ ۱۸۰تا۱۸۲ ’’ماہ نو‘‘ کے علاوہ ملک کے دوسرے رسائل و جرائد میں بھی یہ بارہا شائع ہو چکے ہیں۔ دسمبر ۱۹۷۶ء میں ان خطوط کا اردو ترجمہ پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی نے کیا جو فیصل آباد سے شائع ہوا۔ سال اقبال ۱۹۷۷ء میں راقم الحروف نے بھی ان خطوط کا اردو ترجمہ مع حواشی تیار کیا۔ اس کے ساتھ ان خطوط کے مباحث پر ایک مقدمہ بھی تحریر کیا جو علمی اور تعلیمی حلقوں میں اچھی نظر سے دیکھا گیا۔ ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘میںخطوط اقبال کی تعداد تیرہ (۱۳) تھی ۱۹۸۰ء میں مجھے علامہ اقبال کے دو اور خط ملے جو انہوںنے ان ہی دنوں قائد اعظم کو لکھے تھے۔ پہلا خط ۸ دسمبر ۱۹۳۶ء کا تحریرکردہ ہے۔ اوردوسرا خط ۱۳ اگست ۱۹۳۷ء کو لکھا گیا تھا۔ اس طرح حضرت علامہ اقبال کے قائد اعظم کے نام خطوط کی تعداد پندرہ (۱۵) ہو گئی۔ علاوہ ازیں تین خطوط ایسے ہیں جو ان ہی دنو ں جناب غلام رسول خاں بار ایٹ لاء سیکرٹری پنجاب مسلم لیگ نے اعلامہ اقبال کی طرف سے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھے تھے۔ ان تمام خطوط جو کہ تعداد میں اٹھارہ (۱۸) ہو گئے کو ترتیب دے کر راقم الحروف نے اپریل ۱۹۸۳ء میں ’’اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘کا جدید ایڈیشن شائع کرایا تھا۔ پچھلے دنوں معروف اقبال شناس پروفیسر صابر کلوروی نے علامہ اقبال کا قائد اعظم محمد علی جناح کے نام ایک اور خط تلاش کیا۔ یہ خط ۱۰ مئی ۱۹۳۷ء کا تحریر کردہ ہے۔ ’’اقبالیات‘‘ (جلد ۲۸ شمارہ ۴) جنوری مارچ ۱۹۸۸ء میں شائع ہوا ہے۔ روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور ۹ نومبر ۱۹۸۸ء کے اقبال نمبر میں بھی اس کا متن اور عکس شائع ہوا ہے۔ اس طرح اب حضرت علامہ اقبال کے قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خطوط کی تعداد انیس (۱۹) ہو گئی ہے۔ ٭٭٭ خطوط کے مباحث اقبال کے خطوط جناح کے نام جہاں مفکر پاکستان علامہ اقبال (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۸ئ) اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح (۱۸۷۶ء ۔ ۱۹۴۸ئ) کے درمیان گہرے تعلقات کا بین ثبوت ہیں وہاں برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کے ایک خاص عہد کے سیاسی حالات اور مسائل پر بھی گہری روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ پر آشوب زمانہ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کا ابتدائی زمانہ تھا۔ مسلم اقلیتی علاقوں میں مسلمان مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہو رہے تھے مگر مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کی ہر صوبے میں اپنی علیحدہ علیحدہ تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں تھیں اور مسلم لیگ کا وہاں کوئی خاص اثر و رسوخ نہ تھا۔ کانگریس ایک نئے حربے یعنی مسلم رابطہ عوام تحریک کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے دام فریب میں لانے کے لیے کوشا تھی۔ ان حالات اور واقعات پر علامہ اقبال کی بڑی گہری نگاہ تھی اہنوںنے اپنے خطوط میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں اپنے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار کیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح ملک کے دستوری مسائل اور حالات کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد پورے طور پر ان کے خیالات سے ہم آہنگ ہوئے اور پھر یہی خیالات مسلم ہندوستان کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔ جس کا مظہر ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد پاکستان تھی۔ دسمبر ۱۹۳۰ء میں علامہ اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد کی صدارت کی۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں واضح طور پر برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ ریاست کا تصور پیش کیا۔ اسی بنا پر آپ کو مفکر پاکستان کہا جاتاہے۔ اس کے بعد آپ نے اس ریاست کے حصول کے لیے قائد کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ محمد علی جناح ہیں جو اس دور میں مسلمانوں کی صحیح طریق پر رہنمائی کر سکتے ہیں ۔ ۱۹۳۶ء میں ایک روز علامہ اقبال کے ہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی دیانت امانت اور قابلیت کا ذکر ہو رہا تھا آپ نے فرمایا کہ: ’’مسٹر جناح کو خدائے تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جوآج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا وہ خوبی کیا ہے آپ نے انگریزی میںکہا: He is Indorruptable and Unpurchaseable (نہ تو وہ بدعنوان ہیں اور نہ انہیں خریدا جا سکتا ہے) … بات یہ ہے کہ انگریز نے ہندوستان میں پارلیمنڑی طرز حکومت کے نام سے اپنی شہنشاہیت کو مضبوط کرنے کا ایک جال بچھایا ہے۔ جناح اس جال کی ایک ایک گروہ سے واقف ہیں وہ بیچارہ صرف یہ کہتا ہے کہ مسلماں اس نظام حکومت کے ماتحت کہیں خسارہ نہ اٹھائیں۔ اس لیے وہ اپنی سیاسی بصیرت کی روشنی میں آپ کو ہوشیار ہو جانے کی تلقین کرتا ہے‘‘ ۱؎ علامہ اقبال سمجھتے تھے کہ اس وقت برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں کی صحیح طورپر رہنمائی قائد اعظم محمد علی جناح ہی کر سکتے تھے اسی لیے وہ اپنی گفتگوئوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کی دیانت اور قائدانہ صلاحیتوںکی تعریف کیا کرتے تھے۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۳۷ء کو مولانا راغب احسن (۱۹۰۶ء ۱۹۷۵ئ) کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں۔ ’’اس وقت مسلمانوں کے لیے یہی راہ عمل کھلی ہے کہ وہ مسٹر محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی تنظیم کریں۔ مجھ کو ان کی دیانت پر کلی اعتماد ہے‘‘ ۲؎۔ علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کے حصول کی خاطر تیار بھی کیا۔ جس کی شہادت قائد اعظم محمد علی جناح کے نام آپ کے خطوط دیتے ہیں۔ ۲۱جون ۱۹۳۷ء کو آپ نے قائد اعظم محمد علی جناح کو تحریر کیا کہ: ۱؎ غلام دست گیر رشید آثار اقبال حیدر آباد دکن ص ۲؎ محمد فرید الحق۔ اقبال۔ جہاں دیگر کراچی ۱۹۸۳ء ’’آپ بہت مصروف آدمی ہیں مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آ پ بار خاطر نہ خیا ل کریں۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے‘‘۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام برصغیر جنوب مشرقی ایشیا کی اہم سیاسی دستاویزات کا حصہ ہیں۔ ان خطوط کے مباحث میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم اور خاص طور پر پنجاب میں اس کا دیگر مسلم جماعتوں سے اتحاد و تعاون اسے عوامی جماعت بنانے کے لیے اس کے منشور اور پروگرام میں تبدیلی کی ضرورت آل انڈیا نیشنل کنونشن اور مسلم رابطہ عوام تحریک کے مناسب جواب کے لیے مسلم کنونشن کے انعقاد کی تجویز قانون ہند ۱۹۳۵ء اورکیمونل ایوارڈ کے بارے میں مسلم پالیسی ہندو مسلم فسادات جناح سکندر معاہدہ‘ مسئلہ فلسطین اور برصغیر میں امن و امان کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے شمال مغربی ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کے قیام کی ضرورت اور اہمیت وغیرہ شامل ہیں۔ علامہ اقبال اس بات کے خواہش مند تھے کہ مسلم لیگ مسلم عوام میں مقبول اورہر دل عزیز ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ مسلم لیگ کے منشور اور نصب العین میں عام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے اورا ن کی عمومی فلاح و بہبود کے لیے کوئی واضح پروگرام ہو۔ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں قائد اعظم محمد علی جناح کی توجہ اس طر ف مبذول کرانے کی کوشش کریں۔ آپ نے ۱۰ مئی ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے آئین میں مناسب تبدیلیاں کرنا ضروری ہیں۔ تاکہ مسلم لیگ کو عوام الناس کے قریب تر لایا جائے جنہوں نے اب تک مسلمانوں کے بالائی متوسط طبقے کی سیاسی سرگرمیوں میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ متوسط مسلمان طبقے کو شکایت ہے کہ ہمارے لیڈروں کو صرف اپنے عہدوں سے دلچسپی ہے اور یہ کہ حکومت کے مختلف محکموں میں خالی آسامیاں یونینسٹوں کے رشتہ داروں یا دوستوں کے لیے مخصوص کر دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا متوسط طبقہ سیاسی معاملات میں کم دلچسپی لیتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کی شکایت بجا ہے مجھے امید ہے کہ آپ لیگ کے دستور میں چند مناسب ترمیمات کے بارے میں ضرور غور کریں گے۔ جس سے عوام الناس میں لیگ اور اس کی سرگرمیوں کے ضمن میں بہتر توقعات پیدا ہوں گی‘‘۔ علامہ اقبال مسلم لیگ کے آئین اور پروگرام میں تبدیلی کی ضرورت کو بہت ضروری خیال کرتے تھے کہ اس لیے آپ نے دوبارہ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں تحریر کیا۔ ’’مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق نے تحریر کیا تھا کہ وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ مسلمانان ہند کی نازک صورتحال کا آپ کو پورا پورا احساس ہے۔ مسلم لیگ کو آخر کار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے گی یا مسلم جمہور کی جنہوںنے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس (مسلم لیگ) میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہ ہو۔ ہمارے کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔ نئے دستور کے تحت الاعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزاء اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ روٹی کا مسئلہ روز بروز نازک ہو تا جا رہا ہے … لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علاج کیا ہے ۔مسلم لیگ کا سارا مستقل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ اگر مسلم لیگ نے (اس ضمن میں ) کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے‘‘۔ ۱۹۳۶ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نو کے کام کا آغاز کیا اور پورے ملک کا دورہ کیا۔ مسلمانوں کی علاقائی اور چھوٹی چھوٹی تنظیموں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے کی دعوت دی ۔ جس کا خاطر خواہ اثر ہوا اور مسلمانوںکی انجمنیں اور جماعتیں مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہو گئیں۔ ۲۹ اپریل ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم محمد علی جناح پنجاب کے دورہ پر لاہور تشریف لائے۔ سب سے پہلے آپ نے سر فضل حسین (۱۸۷۷ئ۔۱۹۳۶ئ) سے ملاقات کی اور ان سیپنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی استدعا کی مگر انہوںنے صاف انکار کر دیا۔ اس کے بعد آپ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مسلم لیگ کی تنظیم نو اور صوبائی پارلیمانی بورڈ کے قیام کی درخواست کی۔ آپ نے بیماری کے باوجود امداد و اعانت کا وعدہ کیا اور سختی کے سات یہ بھی فرمایا کہ: ’’اگر آپ اودھ کے تعلقہ داروں اور بمبئی کے کروڑ پتی سیٹھوں کی قسم کی لوگ پنجاب میں تلاش کریں گے تو یہ جنس میرے پاس نہیں۔ میں صرف عوام کی مدد کا وعدہ کر سکتا ہوں‘‘۔ اس ملاقات کے چشم دید گواہ کی روایت ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح جیسے غیر جذباتی انسان علامہ اقبال کی اس بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ اپنی کرسی سے دو انچ اٹھے اور بڑے جوش سے کہا: ’’مجھے صرف عوا م کی مدد درکار ہے‘‘۔ ۳؎ قائد اعظم محمد علی جناح کی پنجاب سے واپسی پر علامہ اقبال نے پنجاب مسلم لیگ کی تنظیم نو کے کام کا آغاز کیا ۸ مئی ۱۹۳۶ء کو پنجا ب کے مسلمانوں کے نام مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کی حمایت میں علامہ اقبلا نے دوسرے مسلم رہنمائوں کے اشتراک سے ایک بیان اخبارات کو جاری کیا ۔ جسے ایک پمفلٹ کی صورت میں ’’مسلمانان پنجاب کے نام اہم اپیل‘‘ کے عنوان سے چھپوا کر تقسیم کیا گیا ۔ اس میں کہاگیاکہ: ۳؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی اقبال کے آخری دو سال کراچی ۱۹۶۱ء ص ۷۔۳۰۶ ’’ بطل جلیل مسٹر محمد عل جناح ان قابل فخر مسلم رہنمائوں میں سے ہیں جن کی سیاسی دانش ہمیشہ مسلمانوں کے لیے صبر آزما وقتوں میں مشعل راہ کا کام دیتی رہی ہے۔ جس خلوص اور عزیمت سے انہوںنے مسلمانان ہند کی تمام اہم اور نازک موقعوں پر خدمت کی ہے اس کے لیے مسلمانوں کی آنے والی نسلوںکے سر عقیدت و احترام سے جھکے رہیں گے۔ ان کی تازہ ترین خدمت شہید گنج کے سانحہ المناک سے متعلق ہے۔ جس وقت کہ تمام صوبہ شہید گنج کے واقعہ خونچکاں کی وجہ سے خوف و ہراس سے سراسیمہ تھا۔ اور مسلمانوں کے جلیل القدر رہنما اور سرفروش رضاکار قید میں ٹھونس دیے گئے تھے اور تقریباً تمام اسلامی پریس ضمانتوں اور ضبطیوں کے بار گراں سے عضو معطل بنا ہوا تھا اور پنجاب کے نام نہاد رہنما منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر اپنے فلک بوس محلوںمیں محو عشرت تھے۔ اس وقت مسٹر جناح ہی تھے جو بمبئی سے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے پنجاب کے مسلمانوں کے زخمی دلوں پر مرہم لگانے کے لیے فرشہ رحمت بن کر نمودار ہوئے ان کی تشریف آوری سے صوبے کی فضا یکسر بدل گئی۔ رہنمائوں اور رضاکاروں کو قید و بند کی مصیبتوں سے رہا کر دیا گیا اور ضمانتوں اور ضبطیوں کی تیز تلوار جو اسلامی پریس کے سر پرلٹک رہی تھی ہٹا لی گئی۔ ان پاکیزہ خدمات کو یاد کر کے آج بھی احسان شناس پنجابی مسلمان کا دل تشکر و امتنان کے جذبات سے مسحور ہو جاتا ہے۔ ان کی سب سے آخری خدمت جو ان کی سیاسی بصیر ت پر دال ہے اس سکیم کی صورت میں جلوہ گر ہوئی جس کے تحت تمام صوبوں میں انتخابات مسلم لیگ کے جھنڈے تلے لڑے جائیں گے اور اس طرح مسلمان ان کھرے اور قابل اعتماد ارکان کو اسمبلی میں بھیجنے کے قابل ہو سکیں گے جو قوم و وطن کے مفاد کے لیے ہر ممکن قربانی اور ایثار کرنے کو تیار ہوں گے… وہ قوم اور ملک کے خادم بن کر جائیں گے اور قوم و وطن کے مفاد عالیہ کے لیے انہیں بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانا ہوا تو وہ کبھی دریغ نہیں کریںگے‘‘۔ ۴؎ ۴؎ محمد رفیق افضل (مرتبہ) گفتار اقبار۔ لاہور ۱۹۶۹ء ص ۵۔۲۰۳ ۱۲ مئی ۱۹۳۶ ء کو لاہور کے مسلم رہنمائوں کا ایک اجلاس علامہ اقبال کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کی جائے اور پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے مندرجہ ذیل عہدے دار مقرر کیے گئے۔ صدر… علامہ اقبال نائب صدر… ملک برکت علی۔ خلیفہ شجاع الدین سیکرٹری… غلام رسول خان جائنٹ سیکرٹری… میاںعبدالمجید اور عاشق حسین بٹالوی علاوہ ازیں ایک قرارداد کے ذریعہ قائد اعظم محمد علی جناح کی اس سکیم کا خیر مقدم کیا گیا جس کی رو سے آل انڈیا مسلم لیگ ایک مرکزی پارلیمانی بورڈ قائم کر کے تمام صوبوں میں مسلمانوں کے انتخابات کی نگرانی کرے گی اور مسلمانوں سے درخواست کی کہ وہ اس سکیم کو کامیاب بنانے کی پوری کوشش کریں۔ ۵؎۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا کام بڑی تیزی سے ہونے لگا اور اس میں خاطرخواہ کامیابی ہوئی۔ پنجاب میں بھی علامہ اقبال کے زیر اثر مسلم لیگ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۳ ۲ مئی ۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال نے مسلم لیگ کی کامیابی کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا کہ: ’’مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کا کام آگے بڑھ رہاہے ۔ مجھے پور ی توقع ہے کہ پنجاب کی جماعتیں بالخصوص احرار اور اتحاد ملت تھوڑی بہت نزاع اور کشمکش کے بعد آخر کار آپ کے ساتھ شریک ہو جائیں گی‘‘۔ ۲۸ مئی ۱۹۳۶ء کو علامہ اقبال کے دولت کدہ پر مسلم لیگ کا ایک اجلاس منعقد ہوا۔ جس میںمرکزی پارلیمانی بورڈ کے پنجاب کے اراکین کے علاوہ خلیفہ شجاع الدین ملک برکت علی‘ سید محمد علی جعفری‘ ملک نور الٰہی مالک روزنامہ ’’احسان‘‘ پیر تاج الدین بیرسٹر ایٹ لاء ملک نور احمد‘ غلام رسول خاں بیرسٹر ایٹ لاء شیخ اکبر اعلی ایڈووکیٹ ‘ میاں عبدالمجید بیرسٹر ایٹ لاء اورعاشق حسین بٹالوی نے شرکت کی۔ ۵؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کتاب مذکور ص ۳۱۵ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ حصہ لے اور اس ک لیے ایک صوبائی پارلیمانی بورڈ بھی قائم کیا جائے۔ علاوہ ازیں پارلیمانی بورڈ کے قواعد و ضوابط مرتب کر کے شائع کیے جائیں۔ ۶؎ چنانچہ پنجاب صوبائی پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا گیا اور اس کے قواعد و ضوابط مرتب کر کے شائع کیے گئے۔ اس کے علاوہ مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ جن کے ذمے نشر و اشاعت اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں جا کر پارلیمانی بورڈ کے اغراض و مقاصد سے عوام کو متعارف کرانا تھا۔ شروع شروع میں اتحاد ملت اور مجلس احرار اسلام نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا مگر جلد ہی ان جماعتوں نے علیحدہ علیحدہ انتخابا ت میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی طرح مسلم لیگ اوریونینسٹ پارٹی کے درمیان مفاہمت کی بات چیت ہوئی مگر وہ بھی بے سود رہی۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال نے ۲۳ اگست ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے دریافت کیا کہ ان کی کیا رائے ہے۔ ’’پنجاب پارلیمانی بورڈ اوریونینسٹ پارٹی کے مابین مفاہمت کی کچھ گفتگو ہو رہی ہے۔ اس قسم کی مفاہمت کے بارے میں آ پ کی کیا رائے ہے اور اس کے لیے آپ کیا شرائط تجویز کرتے ہیں؟ میں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ آ پ نے بنگال پر جا پارٹی اور پارلیمانی بورڈ میں مصالحت کرا دی ہے۔ اس کی شرائط و ضوابط سے مجھے مطلع فرمائیے چونکہ پرجا پارٹی بھی یونینسٹ پارٹی کی طرح غیر فرقہ وارانہ ہے ا س لیے بنگال میں آپ کی مصالحت آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کو مسلم اکثریتی علاقوں میں زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ وہ چاہتے تھے کہ ۱۹۳۷ء میں ہونے والا مسلم لیگ کا سالانہ اجلا س لاہور میں منعقد کیا جائے اس سے پنجاب میں سیاسی بیداری پیدا ہو گی اور مسلم لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو گا۔ چنانچہ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کے خط میں علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو تحریر کیا کہ: ۶؎ ایضاً ص ۳۱۸ ’’مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ کی بجائے پنجاب میںمنعقد کرنا بہتر ہو گا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے میرا خیال ہے کہ آپ لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہو جاتا ہے تو مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں غور فرمائیں۔ پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ لاہور میںمسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیداری کا باعث ہو گا‘‘۔ یہاں اس بات کا زکر بے جا نہ ہو گا کہ اگر یہ بھی بتایا جائے کہ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ پنجاب میں برصغیر کے مسلمانوں کی ملی تحفظ کے لیے آئندہ تمام لڑائیاں لڑی جائیں گی۔ جیسا کہ آپ نے بابائے اردو مولوی عبدالحق (۱۸۷۰ء ۔ ۱۹۶۱ئ) کے نام اپنے خط محررہ ۲۷ ستمبر ۱۹۳۶ء میں تحریر کیا۔ ’’مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لیے جو لڑائیاں آئندہ لڑنی پڑیں گی۔ ان کا میدان پنجاب ہو گا‘‘۔ ۷؎ آپ نے دوبارہ ۱۱ اگست ۱۹۳۷ ء کو قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس لاہور میںمنعقد کیا جائے آپ نے اپنے خط میں لکھا کہ : ’’میں مکرر درخواست کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کا اجلاس اکتوبر کے وسط یا آخر میں لاہور میں منعقد کیا جائے۔ پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے جوش و خروش برابر بڑھ رہا ہے اورمجھے قوی امید ہے کہ لاہورمیں اس کا اجلاس مسلم لیگ کی تاریخ میں انقلاب آفریں باب اور عوام سے رابطہ استوار کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔ ‘‘ ۱۹۳۷ء میںمسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس مسلم لیگ کی تنظیم نو کے زمانے کا پہلا اجلاس تھا۔ اور مسل لیگ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس اجلاس میں آسام بنگال اورپنجاب کے وزرائے اعظم نے مسلم لیگ میںشمولیت کا اعلان کیا جس سے مسلمانوں کے قومی اتفاق و اتحاد کا اظہار ہوا اور مسلم لیگ کی حیثیت بلند ہوئی۔ ۷؎ ڈاکٹر ممتاز حسین (مرتبہ) اقبال اور عبدالحق لاہور ۱۹۷۳ء ص ۴۴ یہ اجلاس ا س لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت کو برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے تسلیم کر لیا اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفسیر کوپ لینڈ لکھتے ہیں: ’’تینوں مسلمان وزرائے اعظم کی شرکت نے مسلم لیگ میں زندگی کی جو روح پھونکی وہ تمام پرجوش تقریروں سے زیادہ تھی۔ مسٹر جناح کا شمار اگرچہ ہمیشہ ہندوستان کی صف اول کے لیڈروں میں ہوتا رہا ہے لیکن انہیں اب تک اپنی قوم کی مجموعی اور غیر مشروط تائید کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کے قائد اعظم ہونے کے بجائے وہ ہمیشہ مسلمانوں کے ایک خاص طبقے کے لیڈڑ سمجھے جاتے تھے۔ انہیں سیاسیات کے بائیں بازا کا ایک ایسا لیڈر خیال کیا جاتا تھا جو برطانوی اقتدار کا سخت مخالف اور ہندوستانی قومیت کا بے خوف علمبردار تھا۔ انہی خصائص کی بنا پر قدامت پسند مسلمان انہیں کانگریس کا حامی سمجھنے پر مجبور تھے۔ لیکن اب جناح کی حیثیت یہ نہیںرہی تھی کہ وہ مسلمانوں کے بہت سے لیڈروں میںسے ایک لیڈر نہیں تھے۔ بلکہ پوری قوم کے تنہا اور واحد نمائندہ لیڈر بن گئے تھے ‘‘ ۸؎ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے تحت ۳۷۔۱۹۳۶ء میں ملک بھر میں عام انتخابات ہوئے۔ ان میں کانگریس کو نمایاں کامیابی ہوئی۔ اس سے کانگرس کو اپنی قوت کا احساس ہوا۔ چنانچہ کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لا ل نہرو (۱۸۸۹ئ۔۱۹۶۴ئ) نے ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ کو دہلی می ایک اال انڈیا نیشنل کنونشن منعقد کی ۔ جس میں کانگرس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی تمام صوبائی اسمبلیوں کے اراکین نے شرکت کی۔ اس کنونشن میں تقریر کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے (۱۸۸۹ئ۔ ۱۹۶۴ئ) نے کہا کہ: ’’ہم لوگ مدت تک اس وہم میں مبتلا رہے کہ فرقہ پرست لیڈروں سے مفاہمت یا سمجھوتہ کرنے سے مسائل کا تصفیہ ہوجائے گا۔ اس چکر میں پڑ کر ہم نے عوام کو نظر انداز کیے رکھا۔ یہ طرز عمل غلط اوریہ پالیسی بیکار تھی۔ آئندہ ہم کبھی اس طرف رجوع نہیںکریں گے۔ ۸؎ کوپ لینڈ Indian Politicsص۸۳۔ تعجب ہے کہ ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کو ایک الگ گروہ تصورکر کے ہندوئوں سے سمجھوتہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ انداز فکر قرون وسطیٰ میں رائج ہو تو موجودہ زمانے میں اسے کوئی نہیں پوچھتا۔ آج کل ہر چیز پر اقتصادی نقطہ نظر سے غور کیا جاتا ہے۔ جہاں تک افلاس بے کاری اور قومی آزادی کا سوال ہے ہندوئوں مسلمانوں سکھوں اور مسیحیوں میں کوئی فرق نہیں ہے چوٹی کے فرقہ پرست لیڈر ہر وقت حصے بخرے اور بٹوارے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کی قوم کو ملازمتوں کو چھوڑ کر جب ہم براہ راست عوام سے ملتے ہیں تو ہمیں وہی مشترکہ مسائل کارفرما نظر آتے ہیں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے یعنی افلاس بے کاری اور قومی آزدی کی لگن۔ ان نام نہاد فرقہ وارانہ مسائل کے حل کابھی یہی طریقہ ہے کہ لیڈروں کو نظر انداز کر کے براہ راست عوام سے ربط و ضبط پیدا کیا جائے… اگرچہ الیکشن میں ہم مسلمانوں کے حلقوں میںاپنے امیدوار منتخب نہیں کر اسکے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمان عوام میں ہم کامیاب و سرخرو ہیں۔ یہ لوگ یقینا فرقہ پرستی کی لعنت کو ترک کرنے پر کسی حد تک آمادہ ہو گئے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان حالات سے فائدہ اٹھائیں اور مسلمان عوام اور ان کے پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کر کے ملک کو ہر نوع کی فرقہ پرستی سے پاک کر دیں‘‘ ۹؎ پنڈت جواہر لال نہرو کی متذکرہ بالا تقریر کے پیش نظر علامہ اقبال نے ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ۹؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ اقبال کے آخری دو سال ۔ کراچی ۱۹۶۱ء ص ۸۳‘۳۸۱ ’’میرا خیال ہے کہ آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ جو انہوںنے آل انڈیا نیشنل کنونشن میں دیا ہے پڑھا ہو گا اوراس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے اس کو آپ نے بخوبی محسوس کر لیا ہو گا۔ جہاں تک اس کا تعلق ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور نے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقع دیا ہے کہ وہ ہندوستان اور مسلم ایشیا کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم نو کر سکیں۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں تاہم ہمیںاس حقیقت کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے اس لیے میر ی تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کو ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ جلد از جلد دہلی میں ایک آل انڈیا مسلم کنونشن منعقد کریں۔ جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ اس کنونشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان دیں کہ سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانان ہند ملک میںجداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیںَ اوریہ انتہائی ضروری ہیکہ انرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک میں صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیں ہے اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیی اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔ اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر آپ ایسی کنونشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیت سے اامتحان ہو جائے گا۔ جہوںنے مسلمانوں کی امنگوں اور مقاصد کے خلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیںَ دمزید برآں اس سے ہندوئوں پر عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیارانہ کیوں نہ ہو پھربھی مسلمانان ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء کو دوبارہ علامہ اقبال نے قائد اعظم کے نام اپنے خط میں اپنی تجویز کو دہرایا کہ: ’’ہمیں فوراً ایک آل انڈیا کنونشن (کسی بھی مقام پر) مثلاً دہلی میں منعقد رکر کے حکومت اور ہندوئوں کو ایک بار پھر مسلمانان ہند کی پالیسی سے آگاہ کر دینا چاہیے‘‘۔ آل انڈیا نیشنل کنونشن کے اختتام کے فوری بعد کانگرس نے اپنی توجہ مسلمانوںکی طرف مبذول کر دی اور اس سلسلہ میںکانگرس کی ہائی کمان کے تحت ایک الگ شعبہ مسلم رابطہ عوام قائم کیا گیا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو کانگرس میں جذب کر کے ان کے جداگانہ وجود کو ختم کیا جائے۔ ’’مگر مسلمان کانگرس کے فریب میں نہ آئے اور اس کی یہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ بلکہ ا س کے برعکس مسلمانوں نے اپنے باہمی انتشار کو ختم کر کے آپ کو متحد کیا اور مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو گئے۔ اور ضمنی انتخابات سے ثابت ہو گیا کہ مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ جو نہ صرف مسلمانوں کے حقوق اورمفادات کی نگراں ہے بلکہ ان کے جداگانہ قومی تشخص کی حامل بھی ہے‘‘ ۱۰؎ علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں سیاسی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی غربت و افلاس کے علاج کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کو مشورہ دیا کہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی اپنی جؤداگانہ ریاست ہو اور اس میں نظام شریعت کا نفاذ ہو۔ اس سے مسلمانوں کی سیاسی اور اقتصادی زندگی درست ہو سکے گی۔ آ پ نے ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد مٰں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جات اہے لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاء ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہاہے اور اب بھی میرا یہ ایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت (روٹی کا مسئلہ) اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام اسی سے حل ہو سکتا ہے‘‘۔ ۱۰؎ محمد جہانگیر عالم تحریک پاکستان لائل پور ۱۹۷۵ء ص ۱۵۷ پنڈت جواہر لال نہرو ۱۸۸۹ئ۔۱۹۶۴ئ) بہت حد تک اشتراکیت کی طرف مائل تھے وہ ملکی مسائل ک ومادی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے قائل تھے۔ آل انڈیا نیشنل کنونشن کے خطبہ میں انہوںنے عوام کی غربت وافلاس کاذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کو کانگرس کے دام فریب میں لانے کی ناکام کوشش کی۔ پنڈت جواہر لال نہرو (۱۸۸۹ء ۔ ۱۹۶۴ئ) کی اشتراکیت پر بحث کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے مذکورہ بالا خط میں تحریر کیا کہ: ’’جواہر لال کی بے دین اشتراکیت میں مسلمانوںمیں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ جواہر لال کی اشتراکیت کا ہندوئوں کی ہیت سیاسیہ کے ساتھ پیوند خود ہندوئوں کے آپس میں خون و خرابہ کا باعث ہو گا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت کے درمیان وجہ نزاع برہمنیت اور بدھ مت کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیںہے۔ آیا اشترایت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت کا سا ہو گا یا نہیں؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن میرے ذہن میں یہ بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھرم اشتراکی جمہوریت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریت کو مناسب تبدیلیوں اور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کر لینا کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہو گا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طور پر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں ا س مطالبہ کا وقت نہیں آ پہنچا؟ شاید جواہر لال کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے‘‘۔ علامہ اقبال کے ان خطوط میں سے ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو تحریر کیا گیا خط اپنے مباحث کے اعتبار سے بڑا منفرد اور اہم ہے۔ اس خط میں زمانے کے برصغیر پاک و ہند کے سیاسی حالات اور مسائل کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات کی پوری جھلک موجود ہے۔ اس زمانے میں آئے دن ہندو مسلم فسادات ہوتے رہتے تھے۔ مسلم اقلیتی علاقوں کے علاوہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندو مسلم فسادات عام تھے۔ علامہ اقبال کے نزدیک ان فسادات کے اسباب نہ تو مذہبی تھے اور نہ ہی اقتصادی بلکہ خالصتاً سیاسی تھے۔ انہوںؤنے ان فسادات کے بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگر فوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی) دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جائے۔ گزشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے۔ میں نے تمام صورت حال کا اچھی طرح سے جائزہ لیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اورنہ اقتصادی بلکہ خالص سیاسی ہیں یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندوئوں اور سکھوں کا مقصد مسلمانوں پر خوف و ہراس طاری کرنا ہے‘‘۔ قانون ہند ۱۹۳۵ء کو برصغیر پاک و ہند کی تما م سیاسی جماعتوںنے ناپسند کیا۔ علامہ اقبال بھی اس سے مطمئن نہیںتھے۔ آپ کا یہ خیال تھا کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاات اور حقوق کے تحفظ اور نگہداشت کے لیے ناکافی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کو ایک موقع ضرور مہیاکر رہا ہے کہ وہ اپنی قومی تنظیم کر سکیں۔ اس قانون کے نفاذ ؤسے مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمان ہندوئوں کے رحم و کرم پر بھروسہ کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ مذکورہ بالا خط میںعلامہ اقبال نے اس قانون کے بارے میں تحریر کیا کہ: ’’ نیا دستور (قانون ہند ۱۹۳۵ئ) کچھ اس قسم کا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم ناانصافی برتنا پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن پر وزارت کا انحصار ہے خوش رہ سکیں اور ظاہر کیاجا سکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر جانب دار ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ہمارے پاس اس دستور کو رد کرنے کے خالص وجوہ موجود ہیں مجھے تو ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ نیا دستور ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر اندا زکر سکتے ہیں مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں کو کاملاً ہندوئوں پر انحصار کرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے‘‘۔ اپنے اسی خط میں علامہ اقبال نے تحریر کیا کہ کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے واضح الفاظ میں مسلمانوں کے جداگانہ قومی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن ہندوئوں کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ہندو مہا سبھا جو کہ ہندو عوام کی نمائندہ جماعت ہے متحدہ قومیت کے نظریہ کی حامی نہیںہے۔ جیسا کہ ہندو مہا سبھا کے صدر ساور کر (۱۸۸۳ئ۔۱۹۶۶ئ) نے ۱۹۳۷ء میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ: ’’یہ ایک ٹھوس واقعہ ہے کہ ہمیں یہ نام نہاد رفرقہ وارانہ مسائل ہندو اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں کی ثقافتی مذہبی اور قومی معاندت سے ورثے میں ملے ہیں۔ آج ہندوستان کو ایک متحد اور ہم آہنگ قوم فرض نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے برعکس ہندوستان میںدو بڑی قومیں ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان ۱۱؎ ۔‘‘ ہندوستان کے سیاسی مسائل کا حل علامہ کے نزدیک یہی تھا کہ: ’’ملک کی از سر نو تقسیم کی جائے جس کی بنیاد نسلی مذہبی او رلسانی اشتراک پر ہو۔ ہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے مسلم صوبوںکے ایک جداگانہ وفاق کا قیام صرف واحد راستہ ہے جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جا سکے گا۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود ارادی حاصل ہو‘‘۔ ۱۱؎ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی برصغیر پاک و ہند کی ملت اسلامیہ (اردو ترجمہ) کراچی ۱۹۶۷ء ص ۳۶۹۔ قانون ہند ۱۹۳۵ء کی منظور ی سے پہلے برطانوی حکومت نے ہندوستان کی مجالس قانون ساز میں مختلف اقوام کی نمائندگی کے تعین کے لیے ایک اعلان کیا جو کمیونل ایوارڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی روسے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا۔ اگرچہ کمیونل ایوارڈ میں مسلمانوں کے تمام مطالبات کو قبول نہیںکیا گیا۔ لیکن مسلمانوں نے اسے ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر منظور کر لیا۔ علامہ اقبال بھی کمیونل ایوارڈ کو اس لحاظ سے پسند کرتے ہیں کہ اس میں ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو تسلیم کر لیاہے۔ جب علامہ اقبال کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اس ایوارڈ کو تبدیل کروانے کے درپے ہیں تو اا پ نے ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کے خط میں قائد اعظم کو تحریر کیا کہ: ’’مسلم لیگ ایک مناسب قراردا دکی صورت میں کمیونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کر دے۔ پنجاب اور معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے ایسے لوگ اس غلط فہمی مین مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرکے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں بھی سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے۔ جو کمیونل ایوارڈ میں گڑبڑ کرانے کو خوش آمدید کہیں گے لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑبڑ کرائے‘‘۔ اسی خط کے اختتام پر آپ نے دوبارہ لکھا کہ: ’’مسلم لیگ یہ قرار داد پاس کرے کہ کوئی صوبہ دوسری اقوا م کے ساتھ کمیونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ یہ ایک کل ہند مسئلہ ہے اور صرف مسلم لیگ ہی کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ ممکن ہے کہ آپ ایک قدم آگے بڑھ کر کہیں کہ موجودہ فضا کسی فرقہ ورانہ سمجھوتے کے لیے مناسب نہیں‘‘۔ جنگ عظیم کے بعد سے دنیائے اسلام گوناگوں مسائل سے گھری ہوئی ہے اور ان مین سے سب سے زیاادہ اہم فلسطین کا مسئلہ ہے مسئلہ فلسطین کو علامہ اقبال کے خیال میں اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو فلسطین ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے جو تمام دنیائے اسلام پر شدت کے ساتھ اثر اندا زہو گا ۱۲؎۔ عالم اسلام اس مسئلہ سے مضطرب ہے آج بھی یہ مسئلہ مسلمانوں کے لیے وبال جان بنا ہوا ہے کئی جنگیں ہو چکی ہیں مگر یہ مسئلہ طے نہیں ہوا۔ علامہ اقبال کا خیال تھا کہ مسلم لیگ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس سے جہاں عربوں کی حمایت ہو گی وہاں اس کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کو متحد کرنے کا موقع بھی ملے گا جس سے مسلم لیگ کی تحریک کو فائدہ پہنچے گا۔ چنانچہ آپ نے ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام ایک خط میں تحریر کیا کہ: ’’مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے مسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام سے رابطہ پیدا کرنے کا ہمارے لیے یہ نادر موقع ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرارداد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا کہ جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔ اس سے ایک طرف تو مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہو گی اور دوسری طرف شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے ۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام پر پڑتا ہو جیل خانے کے لیے جاننے کے لے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پرخطر ہے‘‘۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلا س منعقدہ لکھنو ۱۵۔۱۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اپنے خطبہ صدارت میں مسئلہ فلسطین پر تفصیلی بحث کی۔ آپ نے اپنی تقریر کے دوران فرمایا کہ میں حکومت برطانیہ کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا جرات دلیری اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ حکومت برطانیہ کی تاریخ میں ایک جدید انقلاب کا دروازہ کھول دے گا۔ میں صرف مسلمانان ہند کی نہیں بلکہ اس معاملہ میں مسلمانان عالم کی ترجمانی کر رہاہوں۔ اور تمام انصاف پسند اور فکر من اصحاب اس بات میں میری تائید کریں گے۔ ۱۲؎ لطیف احمد شیروانی حرف اقبال لاہور ص ۲۱۹ جب میں یہ کہوں گا کہ اگر برطانیہ نے اپنے ان مواعید عزائم اور اعلانات کو جو زمانہ قبل و بعد جنگ تمام دنیا کے روبرو غیر مشروط طور پر کیے گئے تھے پورا نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا ہے۔ میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ عربوں کے اندر نہایت شدید احساس پیداہو چکا ہے اور حکومت برطانیہ جھلا کر اور جوش میں آ کر اعراب فلسطین کے خلاف نہایت سخت تشدد کے استعمال پر اتر آئی ہے۔ مسلمانان ہندوستان عربوں کو ا س منصفانہ اور جرات آموزانہ جہاد میں ان کی ہر ممکن امداد کریں گے چنانچہ آل انڈیا مسل لیگ کی طرف سے میں ان کو یہ پیغام بھیجنا چاہتاہوں کہ اس منصفانہ جنگ میں وہ جس عزم اور حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ اجام کار کامیاب ہو کر رہیں گے‘‘ ۱۳؎ اس اجلاس میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی جس میں حکومت برطانیہ کوآگاہ کیا گیا کہ اگر وہ بیت المقدس میں یہودیوں کی حمایت کی پالیسی سے باز نہ آئے گی تو السمای ممالک کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے ہندوستان کے مسلمان بھی برطانیہ کو اسلام کا دشمن تصور کریں گے اور مجبوراً اس کے رد عمل کے لیے مذہب کی ہدایت کے مطابق ان کو کوئی اور پالیسی اختیار کرنا پڑے گی۔ علاوہ ازیں ۱۷ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو مسلم لیگ نے قاہرہ فلسطین کانفرنس میں اپنا ایک وفد بھیجا کو عبدالرحمن صدیقی (وفات ۱۹۵۳ئ) خلیق الزماں (۱۸۸۹۔۱۹۷۳ئ) اور مولوی مظہر الدین (وفات ۱۹۳۹ئ) پر مشتمل تھا ۔ ۱۴؎ جناح سکندر معاہدہ ان خطوط کا ایک دلچسپ اور اہم مبحث ہے ۔ یہ معاہدہ پنجاب کی سیاسی تاریخ کا اہم باب ہے۔ مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو ۱۹۳۷ء میں پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر حیات خان (۱۸۹۲ئ۔۱۹۴۲ئ) نے مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے مسلم اراکین کو بھی مسلم لیگ میں شمولیت کے لیے کہیں گے۔ یہ اعلان تاریخ میں جناح سکندر معاہدہ کے نام سے مشہور ہے۔ علامہ اقبال کے خطوط قائد اعظم کے نام محررہ ۲۵ جون ۱۹۳۶ء ۲۳ اگست ۱۹۳۶ء ‘ ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء ۳۰ اکتوبر یکم نومبر ۱۹۳۷ء اور ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء میں اس معاہدہ کا ذکر کسی نہ کسی انداز میں موجود ہے۔ ۱۳؎ رئیس احمد جعفری۔ خطبات قائد اعظم لاہور ص ۹۔۱۰۸ ۱۴؎ رئیس احمد جعفری۔ قائد اعظم اور ان کا عہد۔ لاہور ص ۶۳۲ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے نفاذ سے برصغیر پاک و ہند کی سیاسیات میں ایک نیا تموج پیدا ہوا اور ملک کی سیاسی صورت حال تیزی کے ساتھ تبدیل ہونے لگی۔ انتخابات میں غیر متوقع کامیابی کے بعد کانگرس بگولے کی طرح برصغیر کے افق پر رقص کناں تھی۔ سات صوبوں میں اسے واضح اکثریت حاصل تھی اوروہاں اس کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ صوبہ سرحد۔ سندھ اور آسام میں کانگرس غیر کانگرسی وزارتوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھی۔ پنجاب میں بھی کانگرس یونینسٹ پارٹی کی حکومت پر دھاوے بول رہی تھی پنڈت جواہر لال نہرو (۱۸۸۹ئ۔۱۹۶۴ئ) نے پنجاب کے دورہ کے دوران ایک مقام پر تقریر کرتیہوئے عوام سے اپیل کی کہ یونینسٹ وزار ت کے کوڑے کرکٹ سے صوبے کے آنگن کو پاک کر دیں۔ اسی اثناء میں پنجاب میں مسلم لیگ روز بروز مقبول ہو رہی تھی۔ خصوصاً نوجوان طبقہ علامہ ابال کے زیر اثر پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے بڑ ھ چڑ ھ کر کام کر رہا تھا۔ اس طرح سر سکندر حیات خان (۱۸۹۲ئ۔۱۹۴۲ئ) کی یونینسٹ پارٹی ایک طرف کانگرس کی یلغار سے خوفزدہ تھی۔ اور دوسری طرف اسے مسلم لیگ سے خطرہ درپیش تھا۔ ان حالات میں سر سکندر حیات نے مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس میں شرکت کی اورمسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے سر سکندر حیات خان نے مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنائی کہ: ’’(۱) سر سکندر حیات خان وپاس جا کر اپنی پارٹی کا ایک خاص اجلاس منعقد کریں گے۔ جس میں پارٹی کے ان تمام مسلمان ممبروں کوجو ابھی تک مسلم لیگ کے ممبر نہیںبنے ہدایت فرمائیں گے کہ وہ سب مسلم لیگ کے حلق نامے پر دستخط کر کے لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اندریں حالات وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی بورڈ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے۔ لیکن یہ معاہدہ یونینسٹ پارٹی کی موجودہ کولیشن پر اثر اندا ز نہیں ہو گا۔ (ب) اس معاہدے کے قبول کے بعد آئندہ مجلس قانون ساز کے عام اورضمنی انتخابات میں وہ متعدد فریق جو موجودہ یونینسٹ پارٹی کے اجزائے ترکیبی ہیں متحدہ طور پر ایک دوسرے کے امیدواروں کی حمایت کریںگے۔ (ج) یہ کہ مجلس قانون ساز کے وہ مسلم ارکان جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ہیں یا اب لیگ کی رکنیت قبول کرتے ہیں اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی متصور ہوں گے ایسی مسلم لیگ پارٹی کو اجازت ہو گی کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سیاسی پارٹی اور پروگرام کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسری پارٹی سے تعاون یا اتحاد کرے۔ اس قسم کا تعاون انتخابات کے ماقبل یا بعد ہر دو صورتوں میںکیا جا سکتا ہے۔ نیز پنجاب کی موجودہ متحدہ جماعت اپنا موجودہ نام یونینسٹ پارٹی برقرار رکھے گی۔ (د) مذکورہ بالا معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی بورڈ کی تشکیل از سر نو عمل میںلائی جا ئے گی‘‘۔ موجودہ بالا تحریر جو جناح سکندر معاہد ہ کے نام سے مشہور ہوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی (وفات ۱۹۸۹ئ) رقم طراز ہیں کہ: ’’یہ پیکٹ بڑا مبہم غیر واضح اور گومگو تھا۔ جس میں نہ مسلم لیگ کی حیثیت واضح کی گئی تھی اور نہ یونینسٹ پارٹی کا موقف کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ سر سکندر حیات اپنی جگہ خوش تھے کہ انہیں کانگرس کے مقابلے میں آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور اب کانگرسی اپنی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ممبروں کو برگشتہ نہیں کر سکے گی۔ ادھر مسٹر جناح اپنی جگہ مطمئن تھے کہ پنجا ب کا وزیر اعظم لیگ میں شامل ہو گیا ہے اس لیے لیگ کی نمائندہ حیثیت مسلم ہو جائے گی‘‘ ۱۵؎ پنجاب میں جناح سکندر معاہدہ پر کسی خوشگوار رد عمل کا اظہار نہ ہوا بلکہ پنجاب کی سیاسی صورتحال خراب ہوئی۔ اس معاہدہ کے متعلق سر سکندر حیات نے ایک اخباری بیان میں اعلانکیا کہ پنجاب میں اس وقت جو جماعتیں جس جس طرح کام کر رہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ ۱۶؎۔ اسی قسم کا ایک بیان راجہ غضنفر علی خان (۱۸۹۵ئ۔ ۱۹۶۳ئ۔ ) نے دیا۔ ۱۷؎ ۱۵؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ کتاب مذکور صفحہ ۸۹۔۴۸۷ ۱۶؎ ایضاً ص ۴۹۲ ۱۷؎ ایضاً ص ۴۹۳ اس کے بعد یونینسٹ پارٹی کے ایکدوسرے لیڈر سر چھوٹو رام نے ایک بیان دیا ۱۸؎ جس میں انہوںنے اپنے انداز میں جناح سکندر معاہدے کی وضاحت کی۔ ان کے جواب میں بیرسٹر غلام رسول خان (وفات ۱۹۴۹ئ) اور ملک برکت علی (۱۸۸۵ئ۔۱۹۴۶ئ) نے بیانات دیے ۱۹؎ ا سطرح ان وضاحتی بیانات سے معاہدہ کی عجیب و غریب تاویلیں ہونے لگیںَ جس سے پنجاب میں مسلم لیگ کی تنظیم کا کام بہت حد تک متاثر ہوا۔ اس صورت حال سے متعلق علامہ اقبال نے قائد اعظم کو باخبر رکھنے کے لیے ۳۰ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو تحریر کیاتھا کہ: ’’سننے میں آیا ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصہ مسلم لیگ کے نصب العین پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی تک سر سکندر اور ان کی پارٹی نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ مجھے آج صبح معلوم ہواہے کہ وہ مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس تک انتظار کریں گے جیسا کہ خودان میں سے ایک ممبر نے مجھے بتایا کہ ان کا منشاء صوبائی مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو کمزور کرنا ہے۔ بہرحال میں چند روزمین ٓپ کو پورے کوائف سے مطلع کر دوں گا۔ اور پھر ااپ کی رائے درکار ہو گی کہ ہم کس طرح کام جاری رکھیں‘‘۔ اسی دن سر سکندر حیات نے علامہ اقبال سے ملاقات کی۔ مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے اختلافات پر بات چیت ہوئی۔ اس کے بارے میں علامہ اقبال نے اگلے دن یعنی یکم نومبر ۱۹۳۷ء کو قائد اعظم کے نام اپنے خط میں تحریر کیا کہ: ’’سر سکندر حیات خان اپنی پارٹی کے چند اراکین کے ہمراہ کل مجھے ملے۔ ہمارے درمیان دیر تک مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوتی رہی دونوںفریقوں سے اخبارات کو بیان جاری کیے گئے ہر ایک فریق جناح سکندر معاہدہ کے بارے میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے۔ ۱۸؎ ایضاً ص ۴۹۵ ۱۹؎ ایضاً ص ۶۔۵۰۴ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیداہو گئی ہے جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو لکھا تھا کہ یہ سارے بیانات چند روز میں ااپ کو ارسال کر دوں گا۔ سردست میری درخواست ہے کہ آپ مجھے اس سمجھوتے کی ایک نقل جس پر سر سکندر کے دستخط ہیں اور جو میرے علم کے مطابق آپ کے پاس ہے جلد بھجوادیجیے۔۔ میں نے آپ سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آیا آپ صوبائی پارلیمانی بورڈ کویونینسٹ پارٹی کے اخیتار میں دینے پر رضامند ہیں۔ سر سکندر کا مجھ سے یہ کہنا ہے کہ آپ اس پر راضی ہو گئے ہیںَ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کی بورڈ میں اکثریت ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے جنا ح سکندر معاہدہ میںایسی کوئی بات نہیں ہے‘‘۔ ۱۰ نومبر ۱۹۳۷ء کو علامہ اقبال نے قائد اعظم کو ایک اور خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ: ’’سر سکندر حیات اور ان کے احباب سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر اکندر اس سے کم کسی اور چیز کے خواہش مند نہیں کہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر ان کا مکمل قبضہ ہو آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکورہے کہ پارلیمانی بورڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹی کو اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے ان کی بورڈ میں اکثریت تسلیم کر لی ہے۔ میں نے پچھلے دنوں آپ کو ایک خط میں لکھا تھا کہ کیا واقعی آپ نے پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ پارٹی اکثریت منظور کر لی ہے۔ ابھی تک آپ نے اس بارے میں مجھے کوئی اطلاع نہیں دی۔ ذاتی طور پر مجھے انہں وہ کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا جس کے وہ خواہش مند ہیں لیکن جب وہ مسلم لیگ کے عہدیداروں کی مکمل ردوبدل کا مطالبہ کرتے ہیں تو منشائے معاہدہ سے تجاوز کر جاتے ہیں بالخصوص سیکرٹری کی علیحدگی کا مطالبہ حالانکہ انہوںنے مسلم لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کے آدمیوں کا اختیار ہو۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح مسلم لیگ پر قبضہ کر کے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ صوبے کی رائے کی پوری جان پہچان رکھتے ہوئے میں مسلم لیگ کو سر سکندر اور اس کے احباب کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ معاہدے کے باعث پنجاب مسلم لیگ کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ اور یونیسٹوں کے ہتھکنڈے اسے اور بھی نقصان پنچائیں گے۔ انہوںنے ابھی تک مسلم لیگ کے منشور پر دستخط نہیںکیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتے‘‘۔ یہ معلو م نہیں ہے کہ اس کے جواب میں قائد اعظم نے کیا تحریر کیا مگر یہ بات بلاشک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ قائد اعظم نے ا س سلسلہ میں علامہ اقبال کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے اس سلسلہ کے نقطہ نگاہ میں اختلاف کا سبب دونوں کا اپنا مزاج تھا۔ علامہ اقبال جو کہ بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے ہر معاملہ کی گرائی تک نگاہ رکھتے تھے جب کہ قائد اعظم جو کہ ایک عملی سیاست دان تھے نگاہ معاملہ کی گہرائی کے ساتھ ساتھ اس کی گیرائی پر بھی ہوتی تھی۔ بات یہ تھی کہ اس زمانے میں کانگرس قائد اعظم کو بار بار ی کہتی تھی کہ مسلمانوں کی اکثریت کے صوبوں میں تو مسلم لیگ کو کوئی پوچھتا نہیں۔ یہ صرف مسلم اقلیتی صوبوں کا شوروغوغا ہے۔ اس کا بہترین جواب یہی تھا کہ مسلم اکثریتی صوبوں میں مسلم لیگ کا قیام کسی نہ کسی طرح موجود ہو۔ جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ مسلم اکثریتی صوبوں کے عوام مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ بہرحال جناح سکندر معاہدہ سے برصغیر پاک و ہند کی سیاسیات میں مسلم لیگ کی حیثیت بلند ہوئی ہے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال کے خطوط محررہ ۲۸ مئی ۱۹۳۷ئ۔ اور ۲۱ جون ۱۹۳۷ء میں تصور پاکستان کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے علامہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ ملی تشخص کی خاطر اسلامی دنیا کی بات ۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد میں کی تھی۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا تھا کہ: ’’’میری خواہش ہے کہ پنجاب صوبہ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میںملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت اختیار ی حاصل کرے خواہ اس کے باہر مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوںکو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔ ‘‘ ۲۰؎ خطبہ الہ آبادمیں علامہ اقبال نے خواہش ظاہر کی تھی کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی اپنی جداگانہ ریاست ہونی چاہیی۔ اس کے بعد سے آپ نے اس خیال پر مزید غور و فکر شروع کر دیا۔ ۱۹۳۱ء میں آپ کا یہ خیال تھا کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں ی ایک الگ سیاسی تنظیم قائم کی جائے جس کے لیے کئی نام مثلا انڈیا کانفرنس مجلس ملی‘ حزب جمہور‘ حزب عوام وغیرہ آپ کے زیر غو ر تھے۔ ۲۱؎ ۔ ۱۹ اپریل ۱۹۳۱ء کو آپ نے سید نذیر نیازی (۱۹۰۰ء ۔ ۱۹۸۱ئ) کے نام اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ: ’’اپر انڈیا کانفرنس کاجلسہ بھی انشاء اللہ ہو گا‘‘ ۲۲؎ اپر انڈیا کانفرنس کے سلسلہ میں سیدنذیر نیازی اپنی کتاب ’’مکتوبات اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ الہ آباد سے واپس آئے تو شمال مغربی ہندوستان یعنی اسلامی اکثریت کے صوبوں کے مسلمان آبادیوں کے لیے ایک ایسی مشترکہ سیاسی جماعت کاتصور لے کر جس سے صوبائی امتیازات یک قلم ختم ہو جائیں اورمسلمان ایک الگ تھلگ قوم کی حیثیت سے اپنا سیاسی موقف متعین کر لیں۔ چنانچہ لاہور پہنچ کر انہوںنے اپر انڈیا کانفرنس کے انعقاد کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ بلکہ ایک خطبہ ایڈریس بھی لکھنا شروع کر دیا تھا۔ جو شاید بعدمیں تلف کر دیا گیا۔ لیکن یہ کانفرنس کبھی منعقد نہیں ہو سکی۔ حالانکہ اکتوبر ۱۹۳۱ء میں جب میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت بھی وہ اپنے اس پہلے خیا ل پر قائم تھے بلکہ میرے استفسارات پر ارشاد فرمایا انتظار کرو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ ۲۰؎ لطیف احمد شیروانی ۔ کتاب مذکور۔ ص ۲۹ ۲۱؎ سید نذیر نیازی۔ مکتوب اقبال کراچی ص ۵۵ ۲۲؎ ایضاً ص ۵۴ یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ خطبہ لکھاجا رہا ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے علامہ کا کیامقصد تھا۔ اس لیے کہ اصولی اور عملی دونوں پہلوئوں سے وہ لیگ کی توجہ اس امر کی طرف منعطف کروا چکے تھے کہ شمال مغربی ہندوستان میں ایک اسلامی مملکت کا مطالبہ آزادی ہندوستان کے عین مطابق ہے۔ لہٰذا اب ایک نئی کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سلسلہ میں راقم الحروف کی یہ گزارش ہے کہ حضرت علامہ سے بڑھ کر کسے معلوم تھا کہ مسلمانوں کی حیات ملی میںایک بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان کا ایک سیاسی اور اجتماعی موقف متعین کیا جائے۔ بغیر اس کے ناممکن تھا کہ ان کے اندر پھر سے زندگی کی روح عود کرے یوں بھی ایک ایسی اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ جو بلاد اسلامیہ سے متصل ہو اگر کہیں امکان تھا تو مغربی ہندوستان اور اس کے لیے ضروری تھا کہ ا س علاقے کے باشندوں کو ذہناً اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لہٰذا وہ سب سے پہلے شمال مغربی ہندوستان ہی کو اپنا مخاطب بنا سکتے تھے۔ وہ چاہتے تھے اول اس خطے کے مسلمانوں کو برطانوی سیاست اور ہندو اکثریت کے منصوبوں سے خبردار کریں اورپھر بتائیں کہ ان کی دینی حمیت اور ملی عصبیت کا تقاضا کیا ہے … حضرت علامہ بجا طور پر مصر تھے کہ جب تک مسلمانوں کے الگ تھلکگ اور جداگانہ قومی وجود تسلیم نہیںکیا جاتا۔ ہندوستان کی سیاسی گتھی الجھتی ہی چلی جائے گی۔ بلکہ ان کا ارشاد بھی تو نہایت درست تھا کہ جدید سیاسی تصورات کا لحاظ رکھا جائے تو مسلمانوں ہی کو دراصل اس ملک میں ایک قوم کے درجہ حاصل ہے… شمال مغربی ہندوستان میں اس کانفرنس کا انعقا د یوں بھی ضرور ی تھا کہ یہیں ان تحریکوں نے سر اٹھایا تھا کہ جو دانستہ یا نادانستہ اسلام کے جسد ملی کو مجروح کر رہی تھیں دوسرے صوبوں مثلاً بنگال میں ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لیکن پھر ایک دفعہ جب اس شعور کو تقویت پہنچی کہ مسلمان ایک قوم ہیںلہٰذا ان کا ایک سیاسی موقف اور سیاسی مستقبل ہے علی ہذا القیاس ایک تہذیبی مطمع نظر تو اس کے اثرات سارے ملک میں پھیل سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ اس کانفرنس کا انعقاد کیوں نہ ہو سکا۔ تو اس کی سب سے بڑی وجہ تو گول میز کانفرنسوں کا انعقاد تھا جن میں خود علامہ کو بھی شریک ہونا پڑا۔ ۲۳؎۔ ۲۳؎ ایضاً ص ۶۳۔۶۶ سید نذیر نیازی (۱۹۰۰ء ۔ ۱۹۸۱ئ) علامہ اقبال کی مجوزہ اپر انڈیا کانفرنس کے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اپر انڈیا کانفرنس تمہید تھی مسلمانوں میں صحیح ملی شعور کی نشوونما اور اس کے پیش نظر (غیر منقسم ہندوستان میں اپنے صحیح مستقبل کے تعین کی۔ وہ ایک ناگزیر اقدام تھا جو اسلامی تہذیب و ثقافت کلچر کے تحفظ اور پرورش کا جو ایک مخصوص نقطہ نظر سے حیات فرد اورجماعت ہی کا دوسر ا نام ہے۔ وہ اعلان تھا کہ اپنے جداگانہ ملی وجود کا لہٰذا ازروئے آئین و سیاست اس اقتدر کے حصول کا جو بحیثیت اکثریت ان کا حق تھا۔ مختصراً یہ کہ وہ آرزو تھی انجام کار ایک اسلامی ریاست کے قیام اور تشکیل کی ۲۴؎۔ علامہ اقبال نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے لیے اپنی تجویز جو کہ انہوںنے خطبہ الہ آباد میں پیش کی تھی قائد اعظم کی توجہ چاہی جس کے لیے آپ نے ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کے خط میں تحریر کیا کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان نے مجھ سے کہا ھتا کہ میری سکیم میں ہندوستان کے مصائب کا واحد ممکن حل ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے اپنے اسی خط میں یہ بھی تحریر کیا کہ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میں مسلم کانفرنس کے انعقاد کے بارے میں تجویز پیش کر رہے ہیں۔ یہ اسی خیال کی بازگشت تھی جو ۱۹۳۱ء میں علامہ اقبال کے ذہن میں تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنے اس خط میں تحریر کیا ہے کہ: ’’پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میں مسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی اور نہ ہی ان میں اتنا نظم و نسق ہے اورشاید ہی کانفرنس کے انعقادکا ابھی موزوں وقت بھی نہیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ کر دینا چاہیے کہ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔ ۲۴؎ ایضاً ص ۹۰۔۹۱ علامہ اقبال آہستہ آہستہ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنی خواہش مطالبہ پاکستان کی طرف لا رہے تھے۔ بالآخر قائد اعظم کے الفاظ میں ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے… اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے۔ جس کا مظہر آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہے ۔ ۲۵؎ قرارداد پاکستان کی منظور کے بعد ایک دن قائد اعظم نے اپنے سیکرٹری سید مطلوب الحسن (۱۹۱۵ئ۔۱۹۸۴ئ) سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اقبال ہم میں موجود نہیں لیکن اگر وہ زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے‘‘۔ ۲۶؎۔ ۲۵؎ قائد اعظم محمد علی جناح ۔ پیش لفظ۔ اقبال کے خطوط جناح کے نام ۲۶؎ سید مطلوب الحسن۔ محمد علی جناح ایک سیاسی مطالعہ انگریزی کراچی ۱۹۷۵ئ۔ ص ۲۳۱ ٭٭٭ اقبال کے خطوط جناح کے نام پیش لفظ یہ کتابچہ ان خطو ط پر مشتمل ہے جو اسلا م کے قومی شاعر فلسفی اور عارف ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے میرے نام مئی ۱۹۳۶ء سے نومبر ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں اپنی وفات سے کچھ ماہ پہلے تحریر کیے تھے۔ یہ دور جوجون ۱۹۳۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے قیام اوراکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنو کے تاریخی اجلاس کے دوران تک محیط ہے مسلم ہندوستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر مرکزی پارلیمانی بورڈ نے اپنی صوبائی شاخوں کے ہمراہ مسلم لیگ کی طرف سے یہ پہلی عظیم کوشش کی کہ مسلم رائے عامہ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے تحت صوبائی مجلس قانون ساز کے لیے لیگ کے ٹکٹ پر آئندہ انتخابات میں حصہ لیا جائے تو لکھنو اجلاس اس امر کی طرف نشاندہی کا باعث بنا کہ پہلے مرحلہ میںمسلم لیگ کی عوامی سطح پر تنظیم نو ہونی چاہیے۔ اور یہ کہ مسلم لیگ ہی ہندوستان کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے ان دونوں مقاصد کے حصول میں میں اپنے دوستوں جن میں ڈاکٹر سر محمد اقبال بھی شامل ہیں کے انمول تعاون حب الوطنی اور بے غرض مساعی کی بدولت کامیاب ہو سکا۔ اس مختصر عرصہ میں مسلم لیگ کافی قوت پکڑ گئی ۔ ہر صوبے میں جہاں مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ قائم ہوا اور مسلم لیگ کی شاخیں قائم ہوئیں۔ ہم نے ساٹھ سے ستر فی صد نشستیں حاصل کیں جن پر مسلم لیگی امیدواروں نے انتخاب لڑا تھا۔ تقریباً ہر صوبے میں مدراس کے دور دراز کونے سے لے کر شمال مغربی سرحدی صوبے تک مسلم لیگ کی سینکڑوں ضلعی اور ابتدائی شاخیں قائم ہو گئیں۔ کانگرس نے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنے اور مسلم لیگ کو مرغوب کرنے کے لیے جو نام نہاد مسلم رابطہ عوام تحریک چلائی تھی مسلم لیگ نے اس پر ضرب کاری لگائی۔ مسلم لیگ متعدد ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوئی اور ان لوگوں کی فتنہ پردازیوں اور سازشوں کو ختم کر دیا جو یہ تاثر دینے کی توقع رکھتے تھے کہ مسلم لیگ کو مسلمان عوام کی حمایت حاصل نہیں۔ لکھنو اجلاس سے اٹھارہ ماہ پہلے مسلم لیگ ایک اعلیٰ اور ترقی پذیر پروگرام کی حامل جماعت کی حیثیت سے مسلمانوں کو منظم کرنے پر کامیاب ہوئی اوروہ صوبے بھی اس کے زیر اثر آ گئے جن تک وقت کی قلت یا لیگ پارلیمانی بورڈوں کی ناکافی سرگرمیوں کے باعث بہتر طور پر رسائی نہ ہو سکی تھی لکھنو اجلاس نے اس مقبولیت کی صریح شہادت فراہم کر کے دی جو مسلم لیگ کو مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور گروہوں میں حاصل تھی۔ یہ مسلم لیگ کی نہایت شاندار کامیابی تھی کہ اس کی قیادت کو مسلم اکثریتی اور اقلیتی صوبوں نے قبول کر لیا اور اسے اس کامیابی تک پہنچانے میں ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بڑا کردار ادا کیا اگرچہ عوام کو اس وقت اس کا علم نہ ہو سکا۔ سکندر جناح معاہدہ کے بارے میں انکے کچھ اپنے خدشات تھے۔ وہ اس پر عمل درآمد اور اس کو نمایاں نتائج کو جلد از جلد دیکھنا چاہتے تھے تکہ اس کے متعلق عوام کے شکوک و شبہات دور ہوسکیں۔ لیکن افسوس کہ وہ یہ دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے کہ پنجاب نے قابل ذکر ترقی کر لی ہے اور اب ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان ثابت قدمی کے ساتھ مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔ اس مختصر تاریخی پس منظر کو ذہن میں رکھ کر ان خطوط کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا تاہم مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ اقبال کے خطوط کے جواب میں میرے خطوط دستیاب نہ ہو سکے۔ مذکورہ عرصہ کے دوران میں تن تنہا بغیر کسی ذاتی عملہ کی مدد سے کام کرتا تھا اس لیے میں ان خطوط کی نقول اپنے پاس نہ رکھ سکا جو میں دوسروں کو ارسال کرتا تھا۔ میں نے لاہور میں اقبال کے ترکے کے نگرانوں سے دریافت کرایا تو انہوںنے مجھے اطلاع دی کہ میرے خطوط دستیاب نہیں ہو سکے۔ چنانچہ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے کہ ان خطوط کو اپنے جوابات کے بغیر ہی شائع کرائوں کیونکہ میرے نزدیک یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیر مبہم اظہار ہے۔ ان کے خیالات پورے طور پر میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالآخر میں ہندوستان کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد انہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس متحدہ خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی منظور کردہ قرارداد لاہور ہے۔ جو عام طور پر قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہے۔ ایم اے جناح ۲۷ مارچ ۱۹۴۳ء ٭٭٭ لاہور ۲۳ مئی ۱۹۳۶ء محترم جناح صاحب ابھی ابھی آپ کا خط موصول ہوا جس کے لیے بے حد شکر گزار ہوں۔ مجھے یہ جان کرمسرت ہوئی کہ آپ کاکام آگے بڑھ رہا ہے۔ مجھے پوری توقع ہے کہ پنجاب کی جماعتیں بالخصوص احرار اور اتحاد ملت ۱؎۲؎ تھوڑی بہت نزاع و کشمکش کے بعد آخیر کار آپ کے ساتھ شریک ہو جائیں گی۔ اتحاد ملت کے ایک سرگر م اور فعال رکن نے چند روز ہوئے مجھے یہی بتایا ہے کہ اگرچہ مولانا ظفرعلی خان ۳؎ کے رویے کے بارے میں خود اتحاد ملت والے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ تاہم ابھی کافی وقت ہے۔ ہمیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ رائے دہندگان اسمبلی میں اپنی نمائندگی اتحاد ملت والوں کے سپرد کرنے کے متعلق کیا خیال کرتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ ملاقات کا آرزو مند۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ۱؎ مجلس احرار اسلام: پنجاب ککی ایک سیاسی اور مذہبی جماعت جس کی داغ بیل پنجاب خلافت کمیٹی کے اراکین نے ۱۹۲۹ ء میں رکھی۔ اس جماعت کی باقاعدہ تشکیل جولائی ۱۹۳۱ء میں ہوئی۔ مجلس احرار اسلام کے بانی اراکین میںمولانا سید عطار اللہ شاہ بخاری(۱۸۹۱ئ۔ ۱۹۶۱ئ) چودھری افضل حق (۱۸۹۵ئ۔ ۱۹۴۲ئ) مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی (۱۸۹۲ء ۱۹۵۶ئ) اور مولانا مظہر علی اظہر (۱۸۹۵ء ۱۹۷۴ئ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تحریک آزدی میں مجلس احرار نے کانگرس کا ساتھ دیا اور حصول پاکستا ن میں مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ انگریز دشمنی اور رد قادیانیت (تحریک ختم نبوت) کے سلسلہ میں مجلس احرار کی خدمات نمایاں ہیں۔ ۲؎ مجلس اتحاد ملت : یہ بھی پنجاب کی ایک سیاسی اور مذہبی جماعت تھی جو نیلی پوش کے ام سے زیادہ مشہور ہوئی۔ ۱۹۳۶ء میں اس کا قیام عمل میںآی ااور مولانا ظفر علی خان اس کے صدر منتخب ہوئے۔ یہ جماعت زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکی۔ ۳؎ مولانا ظفر علی خان۔ (۱۸۷۳ئ۔ ۱۹۵۶ئ) تحریک آزادی کے ایک جانباز سپاہی اور ہمہ صفت شخصیت تھے۔ ظفر علی خان ایک اچھے شاعر بلند پایہ ادیب اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شعلہ نوا خطیب بھی تھے لیکن آپ کی شہرت ایک بیباک صحافی کی حیثیت سے زیادہ ہے ۔ آپ نے اخبار زمیندار کے ذریعے مسلمانوں ہند میں سیاسی بیدار ی پیدا کی اور جدوجہد آزادی میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ بقول حضرت علامہ اقبال مصطفی کمال کی تلوارنے ترکوں کو جگانے کے لیے جو کام کیا ظفر علی خان کے قلم نے وہی کام ہندوستان کے مسلمانوں کو جگانے کے لیے کیا۔ خود مولانا نے کہا ہے: قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو تو مجھ سے سیکھ لے یہ فن اور اس میں بے مثال بن لاہور ۹؍جون ۱۹۳۶ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب میں اپنا مسودہ ارسال خدمت کر رہاہوں کل کے ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ ۱؎ کا ایک تراشہ بھی ہمراہ ہے ۔ یہ گورداسپور کے ایک قابل وکیل کا خط ہے۔ مجھے امید ہے کہ بورڈ ۲؎ کی طرف سے جاری شدہ بیان میں تمام سکیم ۳؎ کی پوری تفصیل ہو گی۔ اور سکی پر اب تک کیے گئے اعتراضات کا بھی شافعی جواب ہو گا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حیثیت کا ہندوئوں اور حکومت دونوںسے متعلق اس میں برملا اور واضح ہونا چاہیے۔ اسو بیان میں یہ انتباہ بھی ہو کہ اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے موجودہ سکیم کو اختیار نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ جو کچھ گزشتہ پندرہ برسوں میں انہوںنے حاصل کیا ہے ضائع کر بیٹھیں گے بلکہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے قومی شیرازے کو پارہ پارہ کر کے اپنے نقصان کا باعث ہو ں گے۔ آپ کا محمد اقبال مکرر آنکہ: میں نہایت ممنون ہوں گا کہ اگر اخبارات کو روانہ کرنے سے قبل آپ یہ بیان مجھے بھی ارسال کر دیں۔ دوسری بات جس کا ذکر ا س بیان میں ہونا چاہیے یہ ہے: ۱؎ ایسٹرن ٹائمز: انگریزی اخبار جو لاہور سے شائع ہوتا تھا ۔ اس اخبار کا آغاز ۱۰ ستمبر ۱۹۳۱ کو ہوا اور اس کو یونینسٹ پارٹی کی مالی امداد حاصل تھی اوریہ اس پارٹی کے پروپیگنڈے کے لیے وقف تھا۔ ۲؎ بورڈ: آل انڈیا مسلم لیگ کا مرکزی پارلیمانی بورڈ جس کے اراکین کے ناموں کا اعلان قائد اعظم محمد علی جناح نے ۲۱ مئی ۱۹۳۶ء کو کیا بورڈ کے اراکین کی تعداد ۵۶ تھی۔ ۳؎ سکیم: اس خط میں سکیم اور بیان کا لفظ بار بار آیا ہے۔ اس سے مراد آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کا مینی فیسٹو (منشور ) ہے جو آئندہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا سنگ بنیاد بننے والاہے۔ ۱۔ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب نے یہ قطعی طو رپر ضروری کر دیا ہے کہ جو اراکین صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب کیے جائیں وہ ایک کل ہند مسلم پالیسی اور پروگرام کے پابند ہوں تاکہ وہ مرکزی اسمبلی میں ایسے مسلمان نمائندے منتخب کری ںجو اس بات کا عہد کریں کہ مرکزی اسمبلی میں مسلم ہندوستان ان کے مکصوص مرکزی مسائل کی تائید و حمایت کریں گے۔ جو ہندوستان کی دوسری بڑی قوم کی حیثیت سے مسلمانوں سے متعلق ہوں۔ جو لوگ اس وقت صوبائی پالیسی اور پروگرام کے حامی ہیں وہی لوگ مرکزی اسمبلی کے لیے بالواسطہ طریق انتخاب کو دستور میںشامل کروانے کے ذمہ دار ہیں۔ بلاشبہ ایک غیر ملکی حکومت کا مفاد اسی میں ہے اب جب کہ قوم ا س مصیبت سے بالواسطہ انتخاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور اس نے انتخاب کے لیے ایک کل ہند سکیم (یعنی مسلم لیگ کی سکیم) اختیار کر لی ہے جس کی پابندی تمام صوبائی امیدوار کریں گے تو وہی لوگ پھر غیر ملکی حکومت کے اشارے پر مصروف عمل ہیں کہ قوم کو اپنی شیرازہ بندی کی کوششوں میں ناکام کریں۔ ۲۔ اسلامی اوقاف جیسا کہ شہید گنج ۴؎ سے ظاہر ہوا اور اسلامی ثقافت زبان ‘ مساجداور قانون شریعت سے متعلق مسائل پر بھی بیان میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ۴ ؎ شہید گنج: لاہور ریلوے سٹیشن سے دہلی دروازے کی طرف جاتے ہوئے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے نزدیک ایک بہت قدیم مسجد ہے جو شاہجہان کے عہد میں تعمیر ہوئی تھی۔ مسجد کے قریب ہی سکھوں کی ایک یادگار سمادھی بھی تھی یہ جگہ شہید گنج کے نام سے موسوم ہے۔ اپنے دور حکومت میں سکھوںنے مسجد پر قبضہ کر لیا۔ برطانوی دور حکومت میں مسجد کو واگزار کرانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں جو کامیاب نہ ہو سکیں۔ جون ۱۹۵ء میں مسجد شہید گنج کے معاملہ میں مسلمانوں اور سکھوں میں سخت کشیدگی پیدا ہو گئی۔ حکومت نے حالات کوقابومیں رکھنے کے لیے مسجد کے چاروں طرف سے مسلح فوجی او رپولیس کے سپاہی متعین کر دیے اس کے باوجو دسکھوں نے ۴ اور ۵ جولائی کی درمیانی شب کو یکایک مسجد کو گرانا شروع کر دیا جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو وہ مسجد کی حفاظت کے لیے دوڑے لیکن دوسری طرف سے فوج نے بار بار گولی چلائی اور کئی مسلمان شہید ہو گئے۔۔ اس طرح ایک تحریک شروع ہو گئی۔ مسلمانوں نے شاہی مسجد کو اپنا صدر مقام بنا کر سول نافرمانی شروع کر دی۔ حکومت نے مسلمان رہنمائوں کو گرفتار کر لیا لیکن تحریک جاری رہی۔ فروری ۱۹۳۶ء کو قائد اعظم مسجد شہید گنج کے تنازعہ کے حل کے لیے لاہور آئے ۔ آپ نے گورنر سے ملاقات کر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بندوبست کیا اور سکھ رہنمائوں سے ملاقات کر کے انہیں باہمی سمجھوتے پر آمادہ کیا۔ مسجد کو واگزار کرانے کے لیے شہید گنج لیگل ڈیفنس کمیٹی بنائی گئی جس نے ڈسٹرکٹ کورٹ میں دعویٰ دائر کیا کہ مسجد ہر حالت میں مسجد ہے اور مسلمانوں کویہاں نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ڈسٹرکٹ کورٹ نے یہ مقدمہ خارج کر دیا پھر اس کی اپیل ہائی کورٹ میں کی گئی۔ ۲۶ جنوری ۱۹۳۸ء کو ہائی کورٹ نے بھی اپیل خارج کر دی۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں مسجد شہید گنج کا مسئلہ زیر غور آیا اور اس کے متعلق ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس کے علاوہ ۳۰ جنوری ۱۹۳۸ء کو مسلم لیگ کا ایک اجلاس دہلی میں منعقد ہوا۔ جس میں اعلان کیا گیا کہ مسجد شہید گنج کی بازیابی کا مطالبہ ہندوستان کے مسلمانوں کا متفقہ مطالبہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ ہوا کہ یکم فروری کو پورے ہندوستان میں یوم شہید گنج منایا جائے۔ لاہور ۲۵ جون ۱۹۳۶ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب سر سکندر حیات دو ایک رو ز ہوئے لاہور سے روانہ ہو چکے ہیں۔ میر ے خیال میں وہ بمبئی میں آپ سے مل کر بعض اہم امور پر گفتگو کریں گے۔ کل شام دولتانہ ۲؎ مجھ سے ملنے آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونینسٹ پارٹی ۳؎ کے مسلمان اراکین مندرجہ ذیل اعلان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کہ ان تمام امور میں جو مسلمانوں سے بحیثیت ایک کل ہند اقلیب سے متعلق ہیں وہ مسلم لیگ کے فیصلے کے پابند ہوں گے اور صوبائی اسمبلی میں کسی غیر مسلم جماعت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے۔ بشرطیکہ (صوبائی) مسلم لیگ بھی حسب ذیل اعلان کرے کہ: ۱؎ سر سکندر حیات : (۱۸۹۲ء ۔ ۱۹۴۲ئ) قیام پاکستان سے پہلے پنجاب کے ارباب سیاست میں سے ایک اہم شخصیت تھے ان کی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۲۴ء سے ہوا جب وہ پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ ۱۹۲۹ء میں حکومت پنجاب کے ریونیو ممبر بنے پھر ریزرو بنک کے گورنر مقرر ہوئے۔ ۱۹۳۶ء میں سر فضل حسین کی وفات کے بعد یونینسٹ پارٹی کے لیڈر چنے گئے۔ قانون ہند ۱۹۳۵ء کے تحت ۱۹۳۷ء میں پنجاب کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ اسی سال مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنو میں شریک ہوئے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ معاہدہ کیا کہ یونینسٹ پارٹی کے مسلمان اراکین مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں جو جناح سکندرمعاہدہ کے نام سے مشہور ہے۔ ۲؎ میاں احمد یار خان دولتانہ: (۱۸۹۶ء ۔ ۱۹۴۰ئ) پنجاب کی ایک اہم شخصیت اوریونینسٹ پارٹی کے روح رواں تھے اور اس دورجدید میں سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اپریل ۱۹۳۷ء میں پنجاب اسمبلی کے چیف پارلیمانی سیکرٹری مقرر ہوئے حضرت علامہ اقبال کے بڑے عقیدت مند تھے۔ آپ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور معروف بزرگ سیاستدان میاں ممتاز احمد خاں دولتانہ (۱۹۱۶ئ۔ ۱۹۹۵ئ) کے والد بزرگور تھے۔ ۳؎ پنجاب یونینسٹ پارٹی: قیام پاکستان سے قبل پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جس کی داغ بیل سر فضل حسین (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۳۶ئ) نے ۱۹۲۴ء میں رکھی۔ اس پارٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پنجاب کی حکومت ہندوئوں اور مسلمانوں کے اتحاد و اشتراک سے چلائی جائے تاکہ اصلاحات کے نفاذ سے اچھی طرح فائدہ اٹھایا جائے ۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات میں پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں یونیسٹ پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں او ر سر سکندر حیات کی سرکردگی میں وزارت تشکیل دی۔ وہ اراکین اسمبلی جو مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر صوبائی اسمبلی میں آئیں گے وہ صر ف اس جماعت یا فریق کے ساتھ تعاون کریںگے جس میںمسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۴؎۔ ازراہ کرم اپنی اولین فرصٹ میں مطلع فرمائیے کہ اس تجویز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ سر سکندر حیات سے جو گفتگو ہو اس کے نتیجہ سے بھی مطلع فرمائیے۔ اگر آپ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کاہمارے ساتھ شامل ہو جانا کچھ بعید نہیں۔ امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ آپ کا مخلص اقبال ۴؎ انہی خطوط پر بعد میں یعنی ۱۹۳۷ء میں یونینسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان جناح سکندر معاہدہ ہوا۔ میو روڈ لاہور ۲۳ اگست ۱۹۳۶ء محترم جناح صاحب امید ہے کہ میرا اس سے پہلے کا خط آپ کو مل گیا ہو گا۔ پنجاب پارلیمانی بورڈ اور یونینسٹ پارٹی کے مابین مفاہمت کی کچھ گفتگو ہو رہی ہے اس قسم کی مفاہمت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے اور اس کے لیے آپ کی کیا شرائط تجویز کرتے ہیں؟ میں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ آپ نے بنگالی پرجا پارٹی ۱؎ اور پارلیمانی بورڈ میں مصالحت کرا دی ہے۔ اس کی شرائط و ضوابط سے مجھے مطلع فرمائیے۔ چونکہ پرجا پارٹی بھی یونینسٹ پارٹی کی طرح غیر فرقہ وارانہ ہے۔ اس لیے بنگال میں آپ کی مصالحت آپ کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔ آپ کا مخلص اقبال ۱؎ کرشک پرجا پارٹی: بنگال کی ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت تھی۔ ۱۹۲۴ء میں ڈھاکہ میں اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مولوی ابو القاسم فضل الحق (۱۸۷۳ئ۔ ۱۹۶۲ئ) اس کے سربراہ تھے۔ اس پارٹی کا مقصد بنگال کے کسانوں کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ لاہور ۸ دسمبر ۱۹۳۶ء محترم جناح صاحب غلام رسول ۱؎ نے مجھے بتایا ہے کہ اس نے آپ کو بورڈ کے امور کے بارے میں ایک تفصیلی خط لکھا ہے میں ان کے اس بیان سے بالکل متفق ہوں کہ انتخابات سے کم از کم پندرہ روزپہلے آپ کی اس صوبے میں موجودگی نہایت ضروری ہے۔ آپ اس صوبے کے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عام طور پر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔ اگر آپ مولانا شوکت علی ۲؎ اور ایم کفایت اللہ ۳؎ انتخابات کے دنوں میں ان سے خطاب کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ سب آپ کی اور آپ کے امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ وگرنہ وہ کچھ اور کر بیٹھیں گے۔ اس لیے میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ دسمبر ۱۹۳۶ء کے آخیر یا جنوری ۱۹۳۷ء کے آغاز میں ہمارے ہاں تشریف لائیں تاکہ ہماری تحریک کے خلاف پیدا کیے جانے والے رد عمل کی قوتوں کو توڑنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ تشریف نہ لا سکے تو مجھے خدشہ ہے کہ آپ آنے والی اسمبلی میں چار سے زائد حامیوں کو نہ پا سکیں گے۔ احترامات کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال (بار ایٹ لائ) صدر پنجاب صوبائی مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ ۱؎ غلام رسول خان: (وفات ۱۹۴۹ئ) علامہ اقبال کے عقیدت مندوں میں سے تھے ایم اے او کالج علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے۔ ۱۹۱۴ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ لاہور میں وکالت کر کے جنوبی افریقہ چلے گئے تھے اور ۱۹۳۰ء میں واپس آ کر ملکی اور ملی کاموں میں حصہ لینے لگے۔ انجمن حمایت اسلام لاہور کے فعا ل رکن تھے۔ ۱۹۳۳ء میں جب علامہ اقبال افغانستان کے بادشاہ کی دعوت پر وہاں گئے تو آپ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے ساتھ تھے۔ ۱۹۳۶ء میں پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ آپ نے پنجاب میں مسلم لیگ کی ترویج و ترقی کے لیے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ۲؎ مولانا شوکت علی : (۱۸۷۳ئ۔ ۱۹۳۸ئ) مولانا محمد علی جوہر (۱۸۷۸ء ۔ ۱۹۳۱ئ) کے بڑے بھائی تھے۔ تاریخ میں دونوں بھائی علی برادران کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۱۸۹۵ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا ۔ کچھ عرصہ یو پی حکومت میں ملازمت کی۔ علی گڑھ کالج کے بورڈ کے ٹرسٹی ار کالج کی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے فعال رکن تھے۔ ۱۴۔۱۹۱۳ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی خاطر چندہ اکٹھا کرنے کے لیے سر آغاخان (۱۸۷۷ء ۔ ۱۹۵۷ئ) کی معیت میں ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے ملک کا دورہ کیا۔ انجمن خدام کعبہ کے بانی تھے۔ مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلہ میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ مسلم لیگ کی مرکزی پارلیمانی بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ ۱۹۳۴ء سے ۱۹۳۸ء تک مرکزی اسمبلی کے ممبر رہے۔ ۳؎ مفتی کفایت اللہ: (۱۸۷۵ئ۔ ۱۹۵۲ئ) ابتدائی تعلیم شاہجہان پور اور مرادآباد میں حاصل کی۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ مدرسہ امینیہ دہلی کے صدر مدرس رہے۔ ملک کی سیاسی تحریکوں میں نمایاں حصہ لیا۔ جمعیت العلمائے ہند کے بانی صدر تھے۔ تعلیم الاسلام آپ کی سب سے مشہور تصنیف ہے ۔ جو آ پ نے بچوں کے لیے لکھی یہ کتاب لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ لاہور ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب میرا خیال ہے کہ آ پ نے پندت جواہر لال نہرو کا وہ خطبہ ۱؎ ۲؎ جو انہوںنے آل انڈیا نیشنل کنونشن ۳؎ میں دیا ہے پڑھا ہو گا اور اس کے بین السطور جو پالیسی کارفرما ہے ا س کو آ پ نے بخوبی محسوس کر لیا ہوگا۔ جہاں تک ا س کا تعلق ہے ہندوستان کے مسلمانوں سے ہے میں سمجھتا ہوں کہ آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ نئے دستور ۴؎ نے ہندوستا ن کے مسلمانوں کو کم از کم اس بات کا ایک نادر موقعہ دیا ہے کہ وہ ہندوستان اورمسلم ایشیاء کی آئندہ سیاسی ترقی کے پیش نظر اپنی قومی تنظیم کر سکیں گے۔ اگرچہ ہم ملک کی دیگر ترقی پسند جماعتوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں تاہم ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے کہ ایشیا میں اسلام کی اخلاقی اور سیاسی طاقت کے مستقبل کا انحصار بہت حد تک ہندوستان کے مسلمانوں کی مکمل تنظیم پر ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کو ایک موثر جواب دیا جائے۔ آپ جلد از جلد دہلی میں آل انڈیا مسلم کنونشن ۵؎ منعقد کریں جس میں شرکت کے لیے نئی صوبائی اسملیوں کے اراکین کے علاوہ دوسرے مقتدر مسلم رہنمائوں کو بھی مدعو کریں۔ ۱؎ پنڈت جواہر لال نہرو : (۱۸۸۹ء ۔ ۱۹۶۴ئ) پنڈت موتی لال نہرو (۱۸۶۱ئ۔ ۱۹۳۱ئ) کے فرزند ارجمند تھے اور انڈین نیشنل کانگرس کے ممتاز رہنما تھے۔ انگلستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملکی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ ۱۹۱۸ء میں ہوم ررول لیگ الہ آباد کے سیکرٹری اور کانگرس کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۹ء میں کانگرس کے اجلاس منعقدہ لاہور کی صدارت کی اور اس کے بعد کانگرس کے صدر ہوئے۔ آزادی کے بعد بھارت کے وزیر اعظم بنے اور اپنی وفات تک وزارت عظمیٰ پر فائز رہے۔ ۲؎ خطبہ متذکرہ خطبہ میںپنڈت جواہر لال نہرو نے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا ک برصغیر کا حسل طلب مسئلہ صرف اقتصادی مسئلہ ہے نہرو کے ان نکات پر علامہ اقبال قائد اعظم محمد علی جناح کی خصوصی توجہ چاہتے تھے۔ ۳۔ آل انڈیا نیشنل کنونشن: ۳۷أ۱۹۳۸ء کے انتخابات میں کانگرس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تو کانگرس کے صدت پنڈت جواہر لال نہرو نے ۱۹ مارچ ۱۹۳۷ء کو دہلی میں اال انڈیا نیشنل کنونشن طلب کی۔ جس میں ان کے تمام اراکین اسمبلی نے شرکت کی جو کانگرس کے ٹکٹ پر مختلف صوبائی اسمبلیوں کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ ۴؎ نئے دستور سے مراد قانون ۱۹۳۵ ء ہے ۔ ۵؎ آل انڈیا مسلم کنونشن: علامہ اقبال خواہش مند تھے کہ آل انڈیا نیشنل کنونشن کا جواب آل انڈیامسلم کنونشن کے ذریعے دیا جائے۔ مگر ایسی کنونشن کا انعقاد نہ ہو سکا۔ البتہ اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم نمائندگان کا ایک کنونشن ہوا اس کنونشن میں پوری قوت اور قطعی وضاحت کے ساتھ بیان دیں کہ سیاسی مطمع نظر کی حیثیت سے مسلمانان ہند ملک میں جداگانہ سیاسی وجود رکھتے ہیں۔ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اندرون اور بیرون ہند کی دنیا کو بتا دیا جائے کہ ملک مین صرف اقتصادی مسئلہ ہی تنہا ایک مسئلہ نہیںہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے ثقافتی مسئلہ ہندوسان کے مسلمانوں کے لیے اپنے اندر زیادہ اہم نتائج رکھتا ہے۔ اور کسی صورت سے بھی یہ اقتصادی مسئلہ سے کم اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر آپ ایسی کنونشن منعقد کر سکیں تو پھر ایسے مسلم اراکین اسمبلی کی حیثیتوں کا امتحان ہو جائے گا جنہوںنے مسلمانان ہند کی امنگوں اور مقاصد کے خلاف جماعتیں قائم کر رکھی ہیں۔ مزید برآں اس سے ہندوئوں پر یہ عیاں ہو جائے گا کہ کوئی سیاسی حربہ خواہ کیسا ہی عیاران کیوں نہ ہو پھر بھی مسلمانان ہند اپنے ثقافتی وجود کو کسی طور نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ میں چند روز میں دہلی آ رہا ہوں۔ اس اہم مسئلہ پر آپ سے گفتگو ہو گی۔ میرا قیام افغانی سفارت خانہ ۶؎ میں ہو گا۔ اگر آپ کو کچھ فرصت ہو تو وہیں ہماری ملاقات ہونی چاہیے۔ ازراہ کرم خط کے جواب میں چند سطور جلد از جلد تحریر فرمائیے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لاء مکرر آنکہ: معاف فرمائیے کہ میں نے یہ خط آشوب چشم کی وجہ سے ایک دوست سے لکھوایا ہے۔ جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب نمائندوں نے شرکت کی۔ اور انہوںنے حصول پاکستان کے لیے تجدید عزم کیا۔ ۶؎ افغانی سفارت خانہ: ہیلی روڈ نئی دہلی میں ان دنوں سردار صلاح الدین سلجوقی (۱۸۹۷ء ۱۹۷۰ئ) افغان قونصل جنرل تھے وہ ایک اعلیٰ درجے کے سفارت کار ہونے کے علاوہ ایک عظیم شاعر اور ادیب بھی تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے فارسی اور عربی ادبیات پر پورا عبور رکھتے تھے۔ مولانا روم (۱۲۰۷ئ۔ ۱۲۷۲ئ) اور مرزا بیدل (۱۶۴۱ئ۔ ۱۷۲۰ئ) کے کلام کے دلدادہ تھے۔ علامہ اقبال کے دوست تھے اور اسی لیے علامہ اقبال نے ان کے ہاں قیام کیا کرتے تھے۔ لاہور ۲۲ اپریل ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب دو ہفتے ہوئے میں نے آپ کو خط لکھا تھا کہ معلوم نہیں وہ آپ کو ملا یا نہیں۔ میں نے وہ خط آپ کو دہلی کے پتہ پر لکھا تھا اور پھر جب میںدہلی گیا تو معلوم ہوا کہ آپ وہاں سے پہلے ہی رخصت ہو چکے ہیں۔ میں نے اس خط میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں فوراً ایک آل انڈیا مسلم کنونشن کسی بھی مقامپر مثلاً دہلی میں منعقد کر کے حکومت اور ہندوئوں کو ایک بار پھر مسلمانان ہند کی پالیسی سے آگاہ کر دینا چاہیے۔ چونکہ صورت حال نازک ہوتی جا رہی ہے اورپنجاب کے مسلمانوں کا رجحان بعض ایسے وجوہ کی بنا پر جن کی تفصیل بتانا اس وقت غیر ضروری ہے کانگرس ۲؎ کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس معاملہ پر فوری غور فرمای کر فیصلہ کریں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس اگست تک ملتوی ہو چکا ہے۔ لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر مسلم پالیسی کا اعلان مکرر ہو۔ اگر کنونشن کے انعقاد سے پہلے مقتدر مسلمان لیڈروں کا ایک دورہ بھی ہو جائے تو کنونشن یقینا بہت کامیاب رہے گا۔ براہ نوازش اس خط کا جواب اپنی اولین فرصت فرصت میں عنایت فرمائیے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بارایٹ لاء ۱؎ علامہ اقبال ان دنوں بیمار تھے اور اپنے معالج حکیم عبدالوہاب انصاری نابینا صاحب (۱۸۶۸ء ۔ ۱۹۴۱ئ) کو اپنی نبض دکھانے دہلی تشریف لے گئے تھے۔ ۲؎ انڈین نیشنل کانگرس: ہندوستان کی قدیم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت جس کی بنیاد ۱۸۸۵ء میں ایک انگریز اے او ہیوم (۱۸۲۹ء ۔ ۱۹۱۲ئ) نے رکھی۔ ہندو کثیر تعدادمیں اس میں شریک ہوئے۔ جبکہ مسلمانوں کی بہت ہی کم تعداد کانگرس کی طرف متوجہ ہوئی۔ کانگرس میں ہندو غالب رہے۔ اور ہندوئوں کا ہی مفاد اس کے پیش نظر رہا۔ جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنی جداگانہ تنظیم مسلم لیگ قائم کی۔ لاہور ۱۰مئی ۱۹۳۷ء محتر م جناح صاحب آپ کے خط کا شکریہ جو مجھے دریں اثناء موصول ہوا۔ مجھے آپ کو یہ بتانے میں بہت خوشی محسوس ہوتی ہے کہ پنجاب میں لیگ کی نسبت ہمدردا نہ جذبا ت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہ یونینسٹوں سمیت پنجاب کے مسلمان آپ کی پوری پشت پناہ کریں گے۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ آپ شمالی ہند کا ایک دورہ کریں اور میرٹھ ۱؎ مں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس سے پہلے ہر صوبے کے اہم شہروں میں جائیں۔ میرا خیال ہے یکہ مسلم لیگ کے آئین میں مناسب تبدیلیاں کرنا ضروری ہیں تاکہ مسلم لیگ کو عوام الناس کے قریب تر لایا جائے جنہوںنے اب تک مسلمانوں کے بالائی متوسط طبقے کی سیاسی سرگرمیوںمیں کوئی دلچسپی نہیںلی۔ متوسط مسلمان طبقے کو شکایت ہے کہ ہمارے لیڈروں کو صرف اپنے عہدوں سے دلچسپی ہے۔ اور یہ کہ حکومت کے مختلف محکموں میں آسامیاں یونیسٹوں کے رشتہ داروں یا دوستوں کے لیے مخصوص کر دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا متوسط طبقہ سیاسی معاملات میں کم دلچسپی لیتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان کی شکایت بجا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ لیگ کے دستور میں چند مناسب ترمیمات کے بارے میں ضرور غور کریں گے جس سے عوام الناس میں لیگ اور اس کی سرگرمیوں کے ضمن میں بہتر توقعات پیدا ہوں گی۔ براہ کرم اپنے جواب سے سرفراز فرمائیں! آپ کا مخلص محمد اقبال ۱؎ ۱۹۳۷ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس میرٹھ میںنہیںہوا تھا۔ بلکہ ۱۵ تا ۱۸ اکتوبر کو لکھنو میںمنعقد ہوا تھا۔ یہ اجلاس مسلم لیگ کی تنظیم نو کے زمانے کا پہلا اجلاس تھا۔ جس کی اہمیت کے پیش نظر علامہ اقبال نے قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھاکہ اجلاس سے پہلے ہر صوبے کے اہم شہروں کا دورہ کریں تاکہ مسلم لیگ کی ترقی و ترویج کے کام میں آسانی رہے۔ لاہور ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب آپ کے نوازش نامہ کا شکریہ جو مجھے اس اثنا میں ملا ۔ مجھے یہ جان کر بیحد خوشی ہوئی کہ مسلم لیگ کے دستور اور پروگرام میں جن تبدیلیوں کے متعلق میں نے تحریر کیا تھا وہ آپ کے پیش نظر رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانان ہند کی نازک صورتحال کا آپ کو پورا پور ااحساس ہے مسلم لیگ کو آخرکار یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے بالائی طبقوں کی ایک جماعت بنی رہے۔ یا مسلم جمہور کی جنہوںنے اب تک بعض معقول وجوہ کی بنا پر اس مسل لیگ میں کوئی دلچسپی نہیں لی میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ کوئی سیاسی تنظیم جو عام مسلمانوں کی حالت سدھارنے کی ضامن نہہو۔ ہمارے عوام کے لیے باعث کشش نہیں ہو سکتی۔ نئے دستور کے تحت اعلیٰ ملازمتیں تو بالائی طبقوں کے بچوں کے لیے مختص ہیں اور ادنیٰ ملازمتیں وزراء کے اعزا اور احباب کی نذر ہو جاتی ہیں دیگر امور میں بھی ہمارے سیاسی اداروں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی طرف کبھی غور کرنے کی ضرورت نہیں کی۔ روٹی کا مسئلہ اور بروز نازک تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گزشتہ دو سو سال سے وہ برابر تنزل کی طرف جا رہے ہیں عام خیال یہ ہے کہ اس غربت کی وجہ ہندو کی ساہو کاری سود خوری اور سرمایہ داری ہے۔ یہ احساس کہ اس میں غیر ملکی حکومت بھی برابر کی شریک ہے ابھی پوری طرح نہیں ابھرا لیکن آخر کو ایسا ہو کر رہے گا۔ جو اہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا علا ج کیا ہے مسلم لیگ کا سارا مستقبل اس بات پر منتحصڑ ہے۔ کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کیا کوشش کرتی ہے۔ ۱؎ اشتراکیت: ایک قدیم سیاسی نظریہ ہے جو ریاست میںانفرادی ملکیت کو ختم کر کے تمام ذرائع پیداوار کو ریاست کی تحویل میں دے دیتا ہے۔ کارل مارکس (۱۸۱۸ئ۔۱۸۸۳ئ) نے سب سے پہلے سے علمی اصولوں پر پیش کیا۔ مگر اس نظریہ کو مقبولیت اس کے بعد حاصل ہوئی۔ اشتراکیت میں خدا کا تصور بالکل نہیں۔ اس لیے اسے بے دین اشتراکیت کا نام دیا جاتا ہے۔ روس چین اور مغربی یورپ کے بہت سے ممالک میں اشتراکیت کا دور دورہ رہا ہے۔ اگر مسلم لیگ نے اس ضمن میں کوئی وعدہ نہ کیا تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام پہلے کی طرح اس سے بے تعلق رہیں گے۔ خوشی قسمتی سے مزید اسلامی قانون کے نفاذ میں اس کے حل موجود ہے۔ اور موجودہ نظریات کی روشنی میں اس میں مزید ترقی کا امکان ہے۔ اسلامی قانون کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر شخص کے لیے کم از کم حق معاز محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقائایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں ناممکن ہے۔ سالہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہ ا ہے کہ اور اب بھی میراایمان ہے کہ مسلمانوں کی غربت روٹی کا مسئلہ اور ہندوستان میں امن و امان کا قیام صرف اسی سے حل ہو سکتا ہے۔ اگر ہندوستان میں یہ ممکن نہیں ہے تو پھر دوسرا متبادل راستہ صرف خانہ جنگی ہے جو فی الحقیقت ہندو مسلم فسادات کی شکل میں کچھ عرصہ سے جاری ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ملک کے بعدحصوں مثلاً شمال مغربی ہندوستا ن میں فلسطین کی داستان دہرائی جائے گی۔ جواہر لال نہرو کی اشتراکیت کا ہنوئوں کی ہئت سیاسیہ کے ساتھ پیوند بھی خود ہندوئوںکے آپ کے خون خرابہ کا باعث ہو گا۔ اشتراکی جمہوریت اور برہمنیت ۲؎ کے درمیان وجہ ناع برہمینیت اور بدھ مت ۳؎ کے درمیان وجہ نزاع سے مختلف نہیں ہے۔ آیا اشتراکیت کا حشر ہندوستان میں بدھ مت جیسا ہو گا یا نہیں؟ میں اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا۔ لیکن میرے ذہن میں ایک بات صاف ہے کہ اگر ہندو دھرم اشتراکی جمہوریت اختیار کر لیتا ہے تو خود ہندو دھرم ختم ہو جاتا ہے۔ ۲؎ برہمنیت : سے مراد ہندو مت ہے جو ایک قدیم مذہب ہے۔ یہ مذہب کسی مخصوص عقیدے یا کسی مخصوص شخصیت کی تعلیم سے ماخوذ نہیں بلکہ یہ متضاد اور مختلف اوہام اور بے بنیاد عقیدوںکا مجموعہ ہے جو ہندو معاشرت شدت سے ذات پات کاقائل ہے۔ ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انسان چار ذاتوں برہمن کھشتری ویش اور شودر میں منقسم ہیں۔ برہمن سب سے اعلیٰ اور اونچی ذات تصور کی جاتی ہے اور اسے دوسری ذاتوں پر ہمیشہ برتری حاصل رہی ہے۔ ۳؎ بدھ مت: ایک قدیم غیر الہامی مذہب جس کی بنیاد گوتم بدھ (۵۶۳ق۔م۔ ۴۸۳ ق م) نے رکھی اس مذہب میں کسی خدا کا تصورنہیںہے بلکہ چند اخلاقی اور روحانی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ گوتم بدھ کے نزدیک زندگی دکھوں کا گھر ہے اور مصائب انسان کا مقدر ہیںَ ان سے نجات پانے کا طریقہ خواہشات کو ختم کر کے زندگی سے فرار اور رہبانیت اسلام کے لیے اشتراکی جمہوریت کو مناسب تبدیلیوںاور اسلام کے اصول شریعت کے ساتھ اختیار کرنا کوئی انقلاب نہیں بلکہ اسلام کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع ہو گا۔ موجودہ مسائل کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوئوں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے مسلم ہندوستان کے ان مسائل کا حل آسان طورپر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کو ایک یا زیادہ مسلم ریاستوں میں تقسیم کیا جائے جہاں پر مسلمانوں کی واضح اکثریت ہو۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آپہنچا۔ شاید جواہر لال نہرو کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ ایک بہترین جواب ہے۔ بہرحال میں نے اپنے خیالات پیش کر دیے ہیں اس امید پر کہ آپ اپنے خطبہ یا مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کے مباحث میں ان پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے۔ مسلم ہندوستان کو امید ہے کہ اس نازک دور میں آپ کی فراست موجودہ مشکلات کا کوئی حل تجویز کر سکے گی۔ آپ کا مخلص محمد اقبال مکرر آنکہ: اس خط کے موضوع پر میرا ارادہ تھا کہ آپ کے نام اخبارات میں ایک کھلا خط شائع کرائوں مگر غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ موجودہ وقت ایسے اقدام کے لیے موزوں نہیں۔ اختیار کرنا ہے۔ لاہور ۲۱ جون ۱۹۳۷ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب کل آپ کا نوازش نامہ ملا۔ بہت بہت شکریہ! میں جانتا ہوں کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں۔ مگر مجھے توقع ہے کہ میرے بار بار خط لکھنے کو آپ بار خاطر خیال نہ کریں گے۔ اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صڑف آپ ہی کی ذات گرامی سے قوم محفوظ رہنمائی کی توقع کا حق رکھتی ہے میں عرض کرتا ہوں کہ ہم فی الحقیقت خانہ جنگی کی حالت ہی میں ہیں اگر فوج اور پولیس نہ ہو تو یہ (خانہ جنگی) دیکھتے ہی دیھتے پھیل جائے گزشتہ چند ماہ سے ہندو مسلم فسادات کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے صرف شمال مغربی ہندوستان میں گزشتہ تین مارہ میں کم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں اور کم از کم چار وارداتیں ہنوئوں اور سکھوں کی طرف سے توہین رسالت کی ہو فکچی ہیں ان چاروں مواقع پر رسولؐ کی اہانت کرنے والوںکو قتل کردیاگیا ہے سندھ میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔ میں نے تمام صورت حال کا اچھی طرح سے جائزہ لیا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ان حالات کے اسباب نہ مذہبی ہیں اور نہ اقتصادی بلکہ خالص سیاسی ہیں یعنی مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی ہندوئوں اور سکھوں کا مقصد صرف مسلمانوں پر خوف و ہراس طاری کرنا ہے۔ نیا دستور کچھ اس قسم کا ہے کہ مسلم اکثریتی صوبوں میںبھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے رحم ر کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہو اکہ مسلم وزارتیں کوئی مناسب کارروائی نہیںکر سکتیں بلکہ انہیں خود مسلمانوںسے ناانصافی برنا پڑتی ہے تاکہ وہ لوگ جن پر وزارت کا انحصار ہے خوش رہ سکیں اور ظاہر کیا جا سکے کہ وزارت قطعی طور پر غیر جانبدار ہے۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ ہمارے پاس اس دستور کو رد کرنے کی خاص وجوہ موجود ہیں۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیا دستور ہندوئوں کی خوشنودی کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوئوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور وہ مسلمانوں کو بالکل نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مسلم اکثریتی صوبوں میںمسلمانوں کا کاملاً ہنودوئوں پر انحصارکرنے کے لیے مجبور کر دیا گیا ہے۔ میرے ذہن میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کہ یہ دستور ہندوستانی مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے یک لیے بنایاگ یا ہے۔ علاوہ ازیں یہ اقتصادی مسئلہ کا بھی حل نہیں ہے جو مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ جانکارہ بن چکا ہے۔ کیمونل ایوارڈ ۱؎ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو صرف تسلیم کرتا ہے۔ لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا ایسا اعتراف جو اس کی اقتصادی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کر تا ہو اور نہ کر سکے اس کے لیے بے سود ہے۔ کانگرس کے صدر ۲؎ نے تو غیر مبہم الفاظ میں مسلمانوں کے (جداگانہ) سیاسی وجود سے ہی انکار کر دیا ہے ہندوئوں کی دوسری سیاسی جماعت یعنی مہا سبھا ۳؎ نے جسے میں ہندو عوام کی حقیقی نمائندہ جماعت سمجھتا ہوں بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ ہندوستنا میں ایک متحدہ ہندو مسلم قوم کا وجود ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر بدیہی حل یہ ہے کہ ہندوستا ن میںقیام امن کے لیے ملک کی از سر نو تقسیم کی جائے۔ جس کی بنیاد نسلی مذہبی اور لسانی اشتراک پر ہو۔ بہت سے برطانوی مدبرین بھی ایسای ہی محسوس کرتے ہین اور دستور کے جلو میں جو ہندو مسلم فسادات چلے آ رہے ہیں وہ ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ملک کی حقیقی صورتحال کیا ہے؟ ۱؎ کیمونل ایوارڈ: گول میز کانفرنس میںفرقہ وارانہ نمائندگی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا تو ۱۶ اگست ۱۹۳۲ء کو برطانوی وزیر اعظم نے ایک اعلان کیا جس میں ہندوستان کے مختلف فرقوں کی نمائندگی کا یقین کیا گیا۔ یہ اعلان کیمونل ایوارڈ کے نام سے شہور ہے۔ جس کی روسے مسلمانوں کے علاوہ سکھوں اور عیسائیوں اور اچھوتوں کے لیے بھی جداگانہ طریق انتخاب تسلیم کیا گیا۔ ۲؎ کانگرس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو نے ۳۷۔۱۹۳۸ء کے انتخابات میں کانگرس کی غیر متوقع کامیابی کے بعد کلکتہ کے ایک جلسہ میں تقریر کرت ہوئے کہا کہ آج ہندوستان میںصرف دو فریق ہیں یعنی کانگرس اور برطانوی حکومت قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی وقت جواب دیا کہ ہندوتان میںدو نہیں بلکہ تین فریق ہیں کانگرس برطانوی حکومت اورمسلمان۔ ۳؎ ہندو مہا سبھا: ہندوستان کی ایک سیاسی جماعت جو بیسویں صدی کے شروع میں قائم کی گئی یہ جماعت ہندوئوںکو ایک الگ قوم تصور کرتی تھی اور متحدہ قومیت پر یقین نہیں رکھتی تھی لالہ لاجپت رائے (۱۸۶۵ئ۔ ۱۹۲۸ئ) ڈاکٹر مونجے (۱۸۷۲ئ۔۱۹۴۸ئ) اور ساورکر (۱۸۸۳ئ۔۱۹۶۶ئ) اس کے قابل ذکر رہنما تھے۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان سے روانگی سے قبل لارڈ لوتھیان ۴؎ نے مجھے کہا تھا کہ میری سکیم ۵؎ میں ہندوستان کے مصائب کا واحد حل ممکن ہے لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ۲۵ سال درکار ہیں۔ پنجاب کے کچھ مسلمان شمال مغربی ہندوستان میںمسلم کانفرنس کے انعقاد کی تجویز پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ تجویز تیزی سے مقبولیت اختیار کر رہی ہے۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے کہ ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ منظم نہیں ہوئی۔ اورنہ ہی ان میں اتنا نظم و ضبط ہے اور شاید ایسی کانفرنس کے انعقاد کا ابھی موزوں وقت بھی نہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے خطبہ میں کم از کم اس طریق عمل کی طرف اشارہ ضرور کر دینا چاہیے۔ جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر اختیار کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں تو نئے دستور میں ہندوستان بھر کو ایک ہی وفاق میں مربوط رکھنے کی تجویز بالکل بے کار ہے۔ مسلم صوبوں کے ایک جداگانہ وفاق کا قیام اس طریق پر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ صرف واحد راستہ ہے کہ جس سے ہندوستان میں امن و امان قائم ہو گا اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ و تسلط سے بچایا جاسکے گا۔ کیوں نہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ اقوام تصور کیا جائے جنہیں ہندوستان اور بیرون ہندوستان کی دوسری اقوام کی طرح حق خود اختیاری حاصل ہو۔ ذاتی طورپر میرا خیال ہے کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ مسلم اکثریت اور مسلم اقلیت کے صوبوں کا بہترین مفاد اسی طریق کو اختیار کرنے میں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ کا آئندہ اجلاس کسی مسلم اقلیت کے صوبہ کی بجائے پنجاب میں منعقد کرنا بہترہو گا۔ لاہور میں اگست کا مہینہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ۴؎ لارڈلوتھیان۔ (۱۸۸۲ئ۔ ۱۹۴۰ئ) برطانوی نواب اور سیاست دان تھے گول میز کانرنس میں برطانوی مندوب تھے ۱۹۳۸ء میں ہندوستان تشریف لائے۔ اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کانووکیشن سے خطاب کیا امریکہ میں برطانیہ کے سفیر بھی رہے۔ ۵؎ میری سکیم سے مراد علامہ اقبال کی وہ تجویز ہے جو آپ نے ۱۹۳۰ء کو الہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے خطبہ صدارت کے دوران پیش کی تھی۔ یعنی پنجاب سرحد سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک اسلامی ریاست قائم کر دی جائے۔ میرے خیال میں آپ کو لاہور میں وسط اکتوبر میں جب موسم خوشگوار ہو جاتا ہے مسلم لیگ کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں غور فرمائیں پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ سے دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے اورلاہور میں مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس کا انعقاد پنجاب کے مسلمانوں میں ایک نئی سیاسی بیدار ی کا باعث ہو گا۔ آ پ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لاء لاہور ۱۱؍ اگست ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب واقعات نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ مسلم لیگ کو اپنی تمام تر سرگرمیاں شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوںپر مرکوز کر دینی چاہیے مسلم لیگ کے دہلی دفتر نے مسٹر غلام رسول کو مطلع کیا ہے کہ مسلم لیگ کے اجلاد کی تاریخ تاحال طے نہیں ہوئی۔ اندرین حالات مجھے اندیشہ ہے کہ اگست اور ستمبر میں اجلاس نہیں ہو سکے گا۔ لہٰذا میں مکرر درخواست کرتا ہوں کہ مسلم لیگ کا اجلاس اکتوبر کے وسط یا آخر میں لاہور میں منعقد کیا جائے۔ پنجاب میںمسلم لیگ کے لیے جوش و خروش برابر بڑھ رہا ہے۔ اور مجھے قوی امید ہے کہ لاہور میں اس اجلاس کا مسلم لیگ کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں باب اور عوام سے رابطہ استوار کرنے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہو گا۔ براہ کرم! جواب میں چند سطریں لکھیے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لاء ٭٭٭ میو روڑ لاہور ۱۳؍ اگست ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب جیسا کہ کل میںنے آپ کو لکھا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے جوش و خروش بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں پنجاب صوبائی مسلم لیگ کے (باقاعدہ) آغار کار کے بغیر لیگ کی تقریباً ۲۰ شاخیں قائم ہو گئی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر پنجاب مسلم لیگ کے کچھ عہدیدار صوبے کا دورہ کر سکیں۔ تووہ نہ صرف رقم اکٹھی کر سکیں گے۔ بلکہ پنجاب کے عام مسلمانوں کی آنکھیں اس صورتحال کے بارے میں جو خوش قسمتی سے ود ہی مسلمانوں کے بارے میں کانگرس کے رویے سے پیدا ہو چکی ہیں کھول دیں گے۔ اگرچہ بد قسمتیسے صوباء لیگ اس قسم کے دوسرے کے لیے ابتدائی خراجات کے لیے رقم کے فقدان کی وجہ سے بڑی دشواری میں ہے ۔ کیاآپ مرکزی فنڈ سے تقریباً ۱۵۰۰ روپے عطیہ کر سکیں گے؟ مجھے امید ہے کہ ہمارے آدمی کافی رقم اکٹھی کر لیں گے جس سے ہم آپ سے مستعار لی ہوئی رقم واپس کر سکیں گے۔ اگر آپ اپنی اولین فرصت میں ایسا کر سکیں تو ہم بڑے ممنون ہوں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال ٭٭٭ لاہور ۷۔ اکتوبر ۱۹۳۷ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس ۱؎ میں پنجاب سے خاصی تعداد کی شرکت کی توقع ہے۔ یونینسٹ مسلمان بھی سر سکندر حیات کے قیادت سے شرکت کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ آج کل ہم ایک پرآشوب دور سے گزر رہے ہیں اور ہندوستانی مسلما ن امید کرتے ہیں کہ آپ اپنے خطبے میں جملہ امور میں جن کا تعلق قوم کے مستقبل سے ہے ان کی کامل اورواضح ترین راہنمائی فرمائیں گے۔ میری تجویز ہے کہ مسلم لیگ ایک مناسب قرارداد کی صورت میں کمیونل ایوارڈ سے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان یا مکرر وضاحت کرے۔ پنجاب او ر معلوم ہوا ہے کہ سندھ میں بھی بعض فریب خوردہ مسلمان اس فیصلہ کو اس طرح تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں کہ یہ ہندوئوں کے حق میں زیادہ مفید ہو جائے۔ ایسے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے وہ اپنا اقتدار بحال رکھ سکیں گے۔ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ برطانوی حکومت ہندوئوں کو خوش کرنا چاہتی ہے جو کیمونل ایوارڈ میں گڑبڑ کرانے کوخوش آمدید کہیں گے۔ لہٰذا وہ (برطانوی حکومت) کوشش کر رہی ہے کہ اپنے مسلم ایجنٹوں کے ذریعے اس میں گڑبڑ کرائے۔ مسلم لیگ کونسل کی خالی نشستوں کے لیے میں ۲۸ افراد کی فہرست تیار کروں گا۔ مسٹر غلام رسول آ پ کو وہ فہرست دکھا دیں گے۔ مجھے امید ہے کہ یہ انتخاب پورے غور و خوض سے کیا جائے گا۔ ہمارے آدمی ۱۳ تاریخ کو لاہور سے روانہ ہوں گے۔ مسئلہ فلسطین ۲؎ نے مسلمانوںکو مضطرب کر رکھا ہے۔ مسلم لیگ کے مقاصد کے لیے عوام میں رابطہ پیدا کرنے کا یہ ہمارے لیے نادر موقع ہے۔ ۱؎ لکھنو اجلاس: مسلم لیگ کا پچیسواں سالانہ اجلاس جو ۱۵۔۱۸ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو لکھنو میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں ہوا۔ ۲۔ مسئلہ فلسطین: دنیائے اسلام کا اہم ترین دینی اور سیاسی مسئلہ ہے۔ فلسطین کا علاقہ بحرہ روم کے مجھے امید ہے کہ مسلم لیگ اس مسئلہ پر ایک زور دار قرارداد ہی منظور نہیں کرے گی بلکہ لیڈروں کی ایک غیر رسمی کانفرنس میں کوئی ایسا لائحہ عمل بھی تیار کیا جائے گا جس میں مسلمان عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں۔ اس سے ایک طرف تو مسلم لیگ کو مقبولیت حاصل ہو گی۔ اور دوسری طرف شاید فلسطین کے عربوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ ذاتی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام دونوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ مشرق کے عین دروازہ پر ایک مغربی چھائونی کا قیام (اسلام اور ہندوستان) دونوں کے لیے پر خطر ہے۔ بہترین تمنائوں کے ساتھ۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لائ۔ مکرر آنکہ: مسلم لیگ یہ قرار داد پاس کرے یکہ کوئی صوبہ دوسری اقوام کے ساتھ کیمونل ایوارڈ سے متعلق کوئی سمجھوتہ کرنے کا مجاز نہ ہو گا۔ یہ ایک کل ہند مسئلہ ہے اور صرف مسلم لیگ ہی کو اس کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ آپ ایک قد م آگے بڑھ کر کہیں کہ موجودہ فضا کسی فرقہ وارانہ سمجھوتہ کے لیے مناسب نہیں۔ کنارے پر مصر شام اردن اور سعودی عرب سے متصل ہے۔ اسرائیل نے مغربی سامراج کے تعاون پرعلاقہ پر قبضہ کر کے اپنی ریاست قائم کر رکھی ہے اس کے اسباب و علل میں اسلام دشمنی‘ عربوں کو تباہ و برباد کرنے اور دنیا کی عظیم آبی شاہراہ نہر سویز کو اپنے قبضہ و تصرف میں لانا ہے۔ فلسطین آزادی کے لیے نہ صرف عرب سرگر م ہیں بلکہ دنیا بھر کی اسلامی حکومتیں بھی عربوں کی ہم نوا ہیں۔ لاہور ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب امید ہے ہ آپ کے مطالعہ سے آل انڈیا کانگرس کمیٹی کی منظور کردہ قرارداد گزر چکی ہو گی۔ آپ کے بروقت قدم نے صورتحال کو بچا لیا۔ ہم سب کانگرس کی قرارداد پر آپ کے تاثرات کے منتظر ہیں۔ ٹریبیون ۱؎ لاہور نے پہلے ہی اس پر تنقید کی ہے ۔ اور مجھے امید ہے کہ ہندوئوںکی رائے بھی بالعموم اس کے خلاف ہی ہو گی۔ لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے اس کا اثر خواب آور نہ ہونا چاہیے۔ ہمیں تنظیم کا کام پہلے سے زیادہ گرم جوشی کے ساتھ جاری رکھنا ہے اور اس وقت تک دم نہیں لینا جب تک کہ پانچ صوبوں ۲؎ میں مسلم حکومتیں قائم نہیں ہو جاتیں نیز بلوچستان میں بھی اصلاحات کا نفاذ نہیں ہو جاتا۔ سننے میں آیا ہے کہ یونینسٹ پارٹی کا ایک حصہ مسلم لیگ کے نصب العین پر دستخط کرنے کو تیار نہیں۔ ابھی تک سر سکندر حیات اور ان کی پارٹی نے اس پر دستخط نہیں کیے۔ مجھے آج صبح معلوم ہوا ہے کہ وہ مسلم لیگ کے آئندہ اجلاس تک انتظار کریں گے۔ جیسا کہ خود ان میں سے ایک ممبر نے مجھے بتایا ہے کہ ان کا منشا صوبائی مسلم لیگ کی سرگرمیوں کو کمزور کرنا ہے بہرحال میں چند روز میں آپ کو پورے کوائف سے مطلع کر دوں گا۔ اور پھر آپ کی رائے درکار ہو گی کہ ہم کس طرح کام جاری رکھیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ اجلاس لاہور سے پہلے کم از کم دو ہفتوں کے لیے آپ پنجاب کا دورہ کریں گے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لاء ۱؎ ٹریبیون: لاہور سے شائع ہونے والا انگریزی روزنامہ جو کانگرس کے پروگرام اور ہندو نقطہ نگاہ کی اشاعت و ترویج میں پیش پیش تھا۔ ۲؎ پانچ صوبے: ۱۔ پنجاب۔۲۔ سندھ۔ ۳۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ ۴۔ بنگال۔ ۵۔ آسام لاہور یکم نومبر ۱۹۳۷ء (ضروری) محترم جناح صاحب سر سکندر حیات خان اپنی پارٹی کے چند اراکین کے ہمراہ کل مجھے ملے ۔ ہمارے درمیان دیر تک مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کے باہمی اختلافات پر گفتگو ہوتی رہی۔ دونوں فریقوں کی طرف سے اخبارات کو بیانات جاری کر دیے گئے۔ ہر ایک فریق جناح سکندر معاہدہ ۱؎ کے بارے میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے۔ اس سے بہت زیادہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے جیسا کہ میں نے آپ کو لکھا تھا کہ میںیہ سارے بیانات چند روز میں آپ کو ارسال کر دوں گا۔ سردست میری درخواست ہے کہ آپ مجھے اس سمجھوتہ کی ایک نقل جس پر سر سکندر حیات کے دستخط ہیں اور جو میرے علم کے مطابق آپ کے پاس ہے جلد بھجوا دیجیے۔ آپ سے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ آیا آپ صوبائی پارلیمانی بورڈ کو یونینسٹ پارٹی کے اختیار میں دینے پر رضامند ہو گئے تھے۔ سر سکندر حیات کا مجھ سے یہ کہنا کہ آپ اس پر راضی ہو گئے ہیں لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ یونینسٹ پارٹی کو بورڈ میں اکثریت ہونی چاہیے۔ جہاں تک میرا خیال ہے جناح سکندر معاہدہ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ براہ کرم! اس خط میں کا جواب جلد از جلد عنایت فرمائیے ہمارے آدمی ملک کا دورہ کر رہے ہیں اور مختلف مقامات پر مسلم لیگ (کی شاخیں) قائم کر رہے ہیں۔ گزشتہ رات لاہور میں ہم نے ایک خاصہ کامیاب جلسہ کیا ہے۔ اب یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ آپ کا مخلص محمد اقبال (بار ایٹ لائ) ۱؎ جناح سکندر معاہدہ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں قائد اعظم محمد علی جناح اور سر سکندر حیات کے درمینا تبادلہ خیالات ہواجس کے بعد سر سکندر حیات خاں نے اعلان کیا کہ وہ اپنی یونیسٹ پارٹی کے مسلم اراکین کو ہدایت کریں گے کہ وہ مسلم لیگ کے ممبر بن جائیں اور وہ مسلم لیگ کے قواعد و ضوابط کی پابندی کریں۔ اس سے اس وقت کی مخلوط یونینسٹ وزارت پر کوئی فر ق نہیں پڑے گا اور مسلم لیگ کے صوبائی پارلیمانی بورڈ کی از سر نو تشکیل ہو گی۔ یہ اعلان بعد میں جناح سکندر معاہدہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس معاہدہ کی رو سے سر سکندر حیات خان کو مسلم لیگ کی حمایت حاصل ہو گئی اور مسلم لیگ میں پنجاب کے وزیر اعظم اور اس کے ساتھیوں کی شمولیت سے مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت مسلم ہو گئی۔ لاہور ۱۰؍ نومبر ۱۹۳۷ء (بصیغہ راز) محترم جناح صاحب سر سکندر اور ان کے احباب سے متعدد گفتگوئوں کے بعد اب میری قطعی رائے ہے کہ سر سکندر اس سے کم کسی چیز کے خواہش مند نہیںکہ مسلم لیگ اور صوبائی پارلیمانی بورڈ پر ان کا مکمل قبضہ ہو۔ آپ کے ساتھ ان کے معاہدہ میں یہ مذکورہے کہ پارلیمانی بورڈ کی نئے سرے سے تشکیل کی جائے گی اور اس میں یونینسٹ پارٹ کو اکثریت حاصل ہو گی۔ سر سکندر کہتے ہیں کہ آپ نے بورڈ میں ان کی اکثریت تسلیم کر لی ہے۔ میں نے پچھلے دنوںایک خط لکھ کر دریافت کیا تھا کہ کیا واقعی آپ نے پارلیمانی بورڈ میں یونینسٹ کی اکثریت منظور کر لی ہے؟ ابھی تک آپ نے مجھے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیںدی۔ ذاتی طور پر مجھے انہیں وہ کچھ دینے میں کوئی مضائقہ نظر نہیں آتا جس کے وہ خواہش مند ہیں لیکن جب وہ مسلم لیگ کے عہدیداروں میں مکمل ردوبدل کا مطالبہ کرتے ہیں تو منشائے معاہدہ سے تجاوز کر جاتے ہیں بالخصوص سیکرٹری (کی علیحدگی کا مطالبہ) حالانکہ انہوںنے مسلم لیگ کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی مالیات پر بھی ان ہی کے آدمیوں کا اختیار ہو۔ میرے خیال میں تو وہ اس طرح مسلم لیگ پر قبضہ کر کے اسے ختم کر دینا چاہتے ہیں صوبے کی رائے کی پوری جان پہچان رکھتے ہوئے ہیں مسلم لیگ کو سر سکندر اور اس کے احباب کے حوالے کر دینے کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ معاہدے کے باعث پنجاب مسلم لیگ کے وقار کو سخت نقصان پہنچا ہے اوریونیسٹوں کے ہتھکنڈے اسے اور بھی نقصان پہنچائیں گے۔ انہوںنے ابھی تک مسلم لیگ کے منشور پر دستخط نہیںکیے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ کرنا بھی نہیں چاہتے۔ لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس وہ فروری کی بجائے اپریل میں چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ صوبہ میںاپنی زمیندارہ لیگ ۱؎ کے قیام و استحکام کے لیے مہلت چاہتے ہیں۔ ۱؎ زمیندارہ لیگ: ۱۹۳۷ء میں سر سکندر حیات خاں نے پنجاب کے زمینداروں اور جاگیر دارو کی ایک تنطیم زمیندارہ لیگ کے نام سے قائم کی مگر اس کو کوئی مقبولیت حاصل نہ ہوئی۔ شاید آپ کو معلوم ہو گا کہ لکھنو سے واپسی پر سر سکندر نے ایک زمیندارہ لیگ قائم کی ہے جس کی شاخیں صوبہ بھر میں قائم کی جا رہی ہیں اندریں حالات براہ کرم مجھے مطلع فرمائیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اگر ہو سکے تو بذریعہ تار اپنی رائے سے مطلع فرمائیے وگرنہ فوری ایک مفصل خط تحریر فرمائیے۔ آپ کا مخلص محمد اقبال بار ایٹ لاء ٭٭٭ ضمیمہ علامہ اقبال کی طرف سے غلام رسول خاں کے لکھے ہوئے خطوط ٭٭٭ ۸؍ نومبر ۱۹۳۷ء محترم جناح صاحب آپ نے یکم نومبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر سر محمد ابال کو جو خط بھیجا تھا اس کے پیش نظر انہوںنے مجھے ہدایت فرمائی ہے کہ آپ کو اطلاع دے دوں کہ: (۱)… لکھنو میں آپ نے سر سکندر کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا وہ صوبے بھر میں شدید اختلافات کا سرچشمہ بنا ہوا ہے۔ سرسکندر نے واپس آتے ہوئے ایک بیان شائع کر دیا تھا کہ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے سابقہ صورت حال ہنوز قائم اور بحال ہے۔ البتہ اس میں صرف ایک ترمیم کر دی گئی ہے کہ یونینسٹ پارٹی کے ان مسلم ارکان کو جو مسلم لیگ کے ممبر نہیں ہیں مشورہ دیا جائے گا کہ اگر وہ پسند کریں تو لیگ میں شامل ہو جائیں۔ اس کے علاوہ یہ شرط بھی لگا دی گئی ہے کہ آئندہ ضمنی انتخابا ت میں جو مسلم امیدوار لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوں گے انہیں یہ عہد کرناہو گا کہ کامیاب ہونے کے بعد وہ یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو جائیں گے اور اس کے عوض انتخابات کی جنگ میں انہیں یونینسٹ پارٹی کی بھی امدا د حاصل ہو گی۔ سرسکندر کی جماعت کے بعض دیگر ارکان نے بھی اس قسم کے بیان شائع کیے ہیں کہ سکندر جناح پیکٹ کی رو سے پنجاب مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ یونینسٹ پارٹی کے قبضہ میں چلا جائے گا۔ سر چھوٹو رام نے اپنے دستخط سے ایک بیان اخبارات کو دیا ہے کہ جس میں انہوںنے یہ بھی لکھا ہے کہ آئندہ لیگ پارلیمنٹری بورڈ پر یونینسٹ پارٹی کا قبضہ ہو جائے گا اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی کوئی آزادانہ حیثیت باقی نہیں رہے گی اور وہ یونینسٹ پارٹی کا ایک ماتحت ادارہ بن کر رہ جائے گا۔ یونینسٹ پارٹی کے ارکان کی ان تصریحات سے مسلمانان پنجاب میں زبردست ہیجان و اضطراب پیدا ہو گیا ہے او روہ سخت حیران ہیں کہ ایسا معاہدہ کس طرح کیا گیا ہے کہ جس کے تحت لیگ کی حیثیت کالعدم ہو گئی ہے ۔ اور وہ یونینسٹ پارٹی کی ایک ماتحت جماعت بنا دی گئی ہے۔ حالانکہ عوام کی نگاہیں میں یونیسٹ پارٹی بدترین رجعت پسندوں کا ایک گروہ ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر میں نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے سیکرٹری کی حیثیت سے اور ڈاکٹر سر محمد اقبال کے مشورے سے ایک بیان شائع کیا ہے جس مکا مقصد پنجاب مسلم لیگ کے متعلق جدید غلط فہمیوں کو دور کرنا تھا۔ چنانچہ میں نے محض سکندر جناح پیکٹ کی اہم شقوں کو نقل کر دیا اور دہرایا کہ اس معاہدے کی رو سے جو مسلم لیگ پارٹی معرض وجود میں آئے گی وہ آل انڈیا مسلم لیگ مسلم لیگ مرکزی پارلیمنٹری بورڈ اور مسلم لیگ پراونشل پارلیمنٹری بورڈ کے قواعد و ضوابط کے تحت ہو گی۔ اسی ضمن میں ملک برکت علی ایم ایل اے نے بھی ایک بیان شائع کیا ہے جس میں انہوںنے معاہدے کی شرائط کو نقل کر کے واضح کر دیا ہے کہ مجلس قانون ساز کے اندر صرف مسلم لیگ پارٹی کو یہ حق حاصل ہو گا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے بنیادی اصول اور لائحہ عمل کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی دوسرے گروہ سے مل کر کولیشن بنائے یا کسی کولیشن کو قائم رکھے ان ہر دو بیانات کی نقول ارسال خدمت ہیں۔ مسلمان عوام پر ان بیانات کا خو ش گوار اثر ہوا ہے لیکن یونیسٹ پارٹی کے مقتدر ارکان ان بیانات کی اشاعت سے برہم ہو گئے ہیں۔ روزنامہ ٹربیون نے ان بیانات پر جو تبصرہ کیا ہے وہ بھی ارسال خدمت ہے۔ (۲)… ۲۲ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو ڈاکٹر سر محمد اقبال کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے سر سکندر کی خدمت میںرکنیت کے نوے فارم بھیجے اوریہ درخواست کی کہ اسمبلی کی یونینسٹ پارٹی کے مسلمان ممبروں سے ان پر دستخط کرا لیے جائیں۔ کیونکہ ان ایام میں وائسرائے کی آمد کے سلسلے میں تمام ارکان لاہور میں موجود تھے۔ مگر اس وقت تک ایک فارم پر بھی دستخط نہیں ہوئے اور نہ کوئی فارم ہمیں واپس بھیجا یا ہے ۔ سچ پوچھیے تو خود میں نے اسمبلی کے بعض مسلم ارکان سے ان فارموں پر دستخط کر نے کو کہا تھا۔ ان میں سے بعض نے بڑی مسرت سے میری درخواست کو شرف قبولیت بھی بخشا لیکن سر سکندر حیات نے اسمبلی ک ارکان کو پیغام بھیج دیا کہ ان فارموں پر دستخط نہ کیے جائیں… یہ ہے ہماری موجودہ پوزیشن! سرسکندر اور ان کے بعض دوست یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ موجودہ یونینسٹ پارٹی کے قبضہ میں آ گئی ہے اور سکندر جناح پیکٹ کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں لیگ کا واحد نمائندہ مسلم لیگ بلاک کے وجود میں آنے کے بغیر ہی وزارتی پارٹی میں شامل ہو جائے گا۔ لہٰذا یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سکندر جناح پیکٹ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی شہرت کو سخت نقصان پہنچے گا۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو لیگ کے مسلمانان پنجاب کی تمام ہمدردی ختم ہو جائے گی۔ میںیہ بھی واضح کر دوں کہ اگر ہم یہ بیانات شائع نہ کرتے تو آل انڈیا مسلم لیگ کے وقار کو سخت ٹھوکر لگتی ۔ (۳)… آپ کو یہ سن کر دلی مسرت ہو گی کہ پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا ایک وفد (جس میںخان بہادر ملک زمان مہدی‘ ملک برکت علی‘ مسٹر عاشق حسین بٹالوی اور راقم الحروف کے علاوہ بعض دیگر ارکان بھی شامل ہیں) پنجاب کا دورہ کر کے مختلف مقامات پر بڑے بڑے جلسوں میں تقریریں کر رہاہے۔ ان مقامات پر مسلمان عوام نے آل انڈیا مسل لیگ اور پنجاب پراونشل مسلم لیگ سے جس خلوص اور عقیدت کا مظاہرہ کیا ہے وہ واقعی حیرت انگیز ہے ۔ ہماری کوششوں سے اس وقت تک ۳۴ شاخیں قائم ہو چکی ہیں اورمزید شاخیں قائم ہو رہی ہیں مگر چونکہ رمضان المبارک کا مہینہ قریب ہے۔ اس لیے ہم اپنا ورہ ملتوی کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ واضح کر دینا بھی مناسب ہے کہ سرسکندر کی پارٹی کے ایک رکن نے بھی ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ (۴)… میر مقبول محمود نے ملک برکت علی کو سکندر جناح پیکٹ کی نقل مہیا نہیں کی۔ اس یلے اس کے متعلق آپ کو تار دیا گیا تھا ۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے بھی سر سکندر حیات کو پیغام بھیجا تھا کہ معاہدہ مذکورہ کی ایک نقل بھیج دیں۔ سرسکندر نے نقل بھیج دی ہے مگر میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ یہ نقل اصل کے مطابق ہے یا نہیں‘ کیونکہ میر مقبول محمود نے مجھے بتایا ہے کہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۳۷ء کی رات گیارہ بجے جبکہ معاہدے کی تمام شرائط آپ کے کمرے میں طے ہو چکی تھیں سر سکندر حیات نے بعض ترمیمیںپیش کیں اور بالآخر وہ معاہدہ مرتب ہوا جس کی نقل ڈاکتڑ سر محمد اقبال کو بہم پہنچائی گئی۔ چونکہ ہمیں ان ترمیموں کا کوئی علم نہیں اس لیے میری درخواست ہے کہ آپ اس معاہدہ کی نقل جو کہ آپ کے پاس موجود ہے ایک نقل ہمیں ارسال فرما دیجیے۔ کیونکہ جب ملک برکت علی نے میر مقبول محمود سے یہ نقل مانگی تھی تو انہوںنے جواب دیا تھا کہ مطلوبہ نقل آپ کو بھیج دی گئی ہے۔ (۵)… اب میں ان امور کی طرف آتا ہوں جن کے متعلق آپ نے ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مشورہ طلب کیا ہے۔ (الف) … فروری ۱۹۳۸ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس خصوصی لاہور میں منعقد کرانے کے متعلق جہاں تک سر سکندر حیات کی دعوت کا تعلق ہے ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن ہم اس وقت تک کوئی تجویز پیش کرنے کے قابل نہیں ہیں جب تک کہ اس قسم کا واضح اور غیر مبہم سمجھوتہ نہ ہو جائے۔ کہ سر سکندر حیات کی پارٹی کے مسلمان ارکان کسی مزید تاخیر کے بغیر مسلم لیگ کے حلف نامے اور قرطاس رکنیت پر دستخط کردیں اور اعلان کریں کہ اسمبلی کے اندر بھی ان کی جماعت مسلم لیگ پارٹی کہلائے گی۔ جہاں تک صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتاہے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سر سکندر حیات خان کی طرف سے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ اس پوزیشن کو قبول کرنے سے بچ جائیں۔ (ب)… جہاں تک آرگنائزنگ کمیٹی کی تشکیل کا سوال ہے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پراونشل مسلم لیگ اس وقت موجودہے۔ اور ہم ہر ضلع ہر تحصیل اوراکثر دیہات میں لیگ کی مقامی شاخیں قائم کر رہے ہیں۔ اس لیے پنجاب میں کسی آرگنائزنگ کمیٹی کی ضرورت نہیں۔ (ج)… جہاں تک مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کا تعلق ہے ہماری یہ تجویز ہے کہ پنجاب کو پانچ نشستیں دی جائیں ڈاکٹر سر محمد اقبال کی درخواست ہے کہ وہ خرابی صحت کی بنا پر اس قابل نہیں ہیں کہ مجلس عاملہ کے جلسوں میںشریک ہو سکیں۔ اس لیے ان کی جگہ ملک زمان مہدی ڈپٹی پریذیڈنٹ پنجا ب پراونشل مسلم لیگ کو لے لیا جائے۔ ملک برکت علی ورکنگ کمیٹی میں بدستور شامل رہیں اور مسٹر غلام رسول خان بیرسٹر ایٹ لاء کام نام بھی شامل کر لیا جائے۔ جہاں تک سر سکندر اور میاں احمد یار دولتانہ کا تعلق ہے اس مسئلہ کے حل کا انحصار بیشتران کے اس فیصلہ پر ہے کہ وہ لیگ ٹکٹ پر دستخط کر دیں اور کسی مزید تاخیر کے بغیر اسمبلی کے اندر مسلم لیگ پارٹی کے قیام کا اعلان کر دیں۔ اور کسی مزید تاخری کے بغیر اسمبلی کے اندر مسلم لیگ پارٹی کے قیا م کا اعلان کر دیں اگر وہ اس معاہدے پر عمل کریں تو یہ خیال رکھا جائے کہ ان کی نیابت کسی صورت میں موجودہ مسلم لیگ پارٹی کی نیابت سے تجاوز نہ کرنے پائے۔ آ پ کامخلص غلام رسول (برائے ڈاکٹر سر محمد اقبال) ۱؎ ۱؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی۔ اقبال کے آخری دو سال۔ کراچی ۱۹۶۱ء ص ۵۱۳۔۵۱۹۔ ۱۷۔ فروری ۱۹۳۸ء محترم جناح صاحب آپ کی گشتی چٹھی نمبر ۵۶۶ مورخہ ۱۲ فروری ۱۹۳۸ء کے جواب میں ڈاکٹر سر محمد اقبا ل نے مجھے یہ تحریر کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ (۱)… مذکورہ بالا چٹھی میں آپ نے جو ہدایات دی ہیں انہیںعملی جامہ پہنانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ (۲)… جہاں تک لیگ کے اجلاس خصوصی کا سوال ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یہ اجلاس لیگ کے نئے آئین کے مطابق کر رہے ہیں۔ مگر آپ کو اس امر کا پورا احساس ہوگا کہ اس خالص اجلاس میںجو مسئلہ زیر بحث آئے گا کہ وہ بے حد اہم ہے اور تمام مسلمانان ہند پر بالعموم اور مسلمانان پنجاب پر بالخصوص اثر انداز ہو گا۔ یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کھلے اجلاس میں اہل بصیرت مسلمانوں کی بڑی سے بڑی اکثریت ا س پر بحث کرے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے آئین کی روسے پنجاب سے ۳۶۰ سے زیادہ مسلمان اس اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ یہ تمام ممبروہاں پہنچ جائیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ دوسرے صوبوں کے مسلمانوں کے احساسات بھی پنجاب کے مسلمانوں کے احساساات کی طرح شدت سے مجروح ہوئے ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر لیگ سول نافرمانی کا فیصلہ کرے تومناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس فیصلہ کا انحصار ان لوگوں پر رکھا جائے جن پر اس تحریک کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا بوجھ ڈالا جائے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ آئین جدید کی رو سے یہ امر ممکن نہیںاس لیے ہماری تجویز یہ ہے کہ خاص اجلاس پرانے آئین ہی کے ماتحت ۳۱ مارچ ۱۹۳۸ء سے پہلے منعقد کر لیا جائے۔ کیونکہ پرانے آئین کی رو سے ہر مسلان ایک روپیہ ادا کر کے بحث میں حصہ لے سکتا ہے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ۳۱ مارچ بہت قریب ہے تو پھر ہماری یہ تجویز ہے کہ آپ نئے آئین کے نفاذ کو خاص اجلاس تک ملتوی کر دیں اور یہ اجلاس ۳۱ مارچ کے بعد مناسب تاریخوں میں منعقد کر لیاجائے۔ اگر یہ دونوں چیزیں آپ کو منظور نہ ہوں تو پھر ہماری درخواست ہے کہ آپ خاص اجلاس کی بجائے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک خاص کانفرنس منعقد کریں جس میں ہر بالغ مسلمان کو شامل ہونے کی اجازت ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ کانفرنس بھی لیگ کے زیر اہتمام اور آپ ہی کے زیر صدارت منعقد ہو گی۔ آپ کا مخلص غلام رسول آنریری سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ (برائے ڈاکٹر سر محمد اقبال) ۱؎ ۱؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ۔ کتاب مذکور ص ۶۰۸۔۶۰۹ ۷؍ مارچ ۱۹۳۸ء محترم جناح صاحب مجھے ڈاکٹر سر محمد اقبال کی طرف سے ذیل کا خط لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے۔ آ پ کا خط ڈاکٹر صاحب موصوف کو ۴؍ مارچ ۱۹۳۸ء کو ملا۔ان کی صحت کی خرابی ہم سب نیازمندوں کے لیے وجہ اضطراب بنی ہوئی ہے۔ اور وہ خود آ پ کو خط لکھنے سے معذور ہیں آپ کے خط کے جواب میںان کا ارشاد یہ ہے: کل پنجاب پراونشل مسلم لیگ کا ایک عام اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں صوبے کے تمام اضلاع کے نمائندے شامل ہوئے اور پراونشل مسلم لیگ کے ارکان کی ایک بڑی تعداد نے ا س میں حصہ لیا۔ آپ نے سر محمد اقبال کو جو خط لکھا تھا وہ اس اجلاس میں پڑھا گیا اوراتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس خصوصی لاہور ہی میںمنعقد ہو اور اس کے لیے ایک رسمی دعوت نامہ بھیج دیا جائے۔ لہٰذا ہماری درخواست ہے کہ شہید گنج کے متلعق لیگ کا اجلاس خصوصی ایسٹر کی تعطیلات میں لاہور میں منعقد کرنے کے لیے اس خط ہی کو دعوت نامہ تصور کیا جائے۔ جہاں تک پنجاب کی صورت حال کا تعلق ہے سر محمد اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں: (۱)… شہید گنج کے متعلق غالباً پریوی کونسل میں اپیل کی جائے گی لیکن لوگوں کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیںکیونکہ اس وقت وہ یہ خیال کر رہے ہیں کہ کسی برطانوی عدالت کی طرف رجوع بے سود ہے۔ (۲)… ملک برکت علی نے تحفظ مساجد کے متعلق پنجاب اسمبلی میں جو بل پیش کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ مسلمانوں میں اس پر کافی جوش پھیلا ہوا ہے اس وقت تک یونینسٹ پارٹی کے پچیس ارکان نے سر سکندر کی ہدایات کے برعکس اخبارات میں اپنے عزم کا اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس بل کی تائید کریں گے۔ اور اس بل کو انہوںنے اپنا بل بنا لیا ہے۔ نیز صوبے کے تمام ووٹر مناسب قراردادیں منظور کر کے اپنے اپنے نمائندوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس بل کی پوری حمایت کی جائے۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ جب یہ بل منظوری کی غرض سے اسمبلی میں پیش ہو گا تو قانون کی صورت اختیار کر لے گا۔ (۳)… شہید گنج کی سول نافرمانی کی تحریک روز بروز تقویت پکڑ رہی ہے۔ عوام پر امن ہیں اور بے تابی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس خصوصی کے اہم فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں جب یہ فیصلہ ہو جائے گا تو پنجاب کے تقریباً تمام مسلم ادارے مسلم لیگ کی رہنمائی میں سرگرم عمل نظر آئیں گے۔ پنجاب پراونشل مسلم لیگ آپ کو یقین دلاتی ہے کہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس خصوصی کے لیے تمام ضروری انتظامات کرنے کی ذمہ دار ہے۔ آپ کا مخلص غلام رسول خان آنریری سیکرٹری پنجاب پراونشل مسلم لیگ (برائے ڈاکٹر سر محمد اقبال ) ۱؎ ۱؎ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی ۔ کتاب مذکور ص ۵۹۴۔۵۹۶ صاحب کتاب نام محمد جہانگیر عالم پیدائش ۱۹۳۹ئ… لدھیانہ تعلیم ایم اے سیاسیات تعلیمی گہوارے پاکستان ماڈل ہائی سکول فیصل آباد گورنمنٹ کالج فیصل آباد گورنمنٹ کالج لاہور پنجاب یونیورسٹی پیشہ درس و تدریس (محکمہ تعلیم حکومت پنجاب) جن اداروں میں کام کیا گورنمنٹ کالج پنڈی گھیب گورنمنٹ کالج جھنگ موجودہ ادارہ گورنمنٹ کالج سمن آباد۔ فیصل آباد موجودہ حیثیت ایسوسی ایٹ پروفیسر تالیفات تحریک پاکستان … ۱۹۷۵ء اقبال کے خطوط قائد اعظم کے نام … ۱۹۷۷ء قرارداد پاکستان (ایک مطالعہ)…۱۹۸۲ء اقبال کے خطوط جناح کے نام… ۱۹۸۳ئ۔۱۹۸۶ء اقبال شناسی اور کارواں… ۱۹۹۲ء علاوہ ازیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے مندرجہ ذیل مضامین کی نصابی کتب کے لیے بھی کام کیا : ۱۔ اقبالیات برائے انٹرمیڈیٹ ۲۔ اقبالیات برائے بی۔ اے ۳۔ مطالعہ پاکستان (لازمی) برائے بی ۔ اے رابطہ کا پتہ: ۴۴۰۔ بی پیپلز کالونی فیصل آباد ۔ فون: ۷۱۵۴۶۹ ٭٭٭ اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End