جملہ حقوق محفوظ ناشر محمد سہیل عمر ناظم اقبال اکادمی پاکستان حکومت پاکستان وزارت ثقافت، کھیل چھٹی منزل، ایوان اقبال، لاہور Tel:[92-42]631-45110 Fax:[92-42]6314496 Email: iqbalacd@lhr.comsats.net.pk Website: www.allamaiqbal.com ISBN 969-416-372-2 طبع اوّل: ۲۰۰۶ء تعداد: ۱۰۰۰ قیمت: کمپوزنگ، صفحہ بندی: ایجوکیشنل ریسورس ڈیولپمنٹ سینٹر، کراچی مطبع: فہرست مضامین تعارف ا حرفِ اوّل و حکایاتِ بانگ ِدرا ۱ ۱۔ اخترِ صبح ۲ ۲۔چاند اور تارے ۳ ۳۔ستارہ ۴ ۴۔دو ستارے ۶ ۵۔تضمین برشعرانیسی شاملو ۷ ۶۔رات اور شاعر ۹ ۷۔بزم ِانجم ۱۱ ۸۔ سیرِفلَک ۱۳ ۹۔موٹر ۱۵ ۱۰۔خطاب بہ جوانانِ اسلام ۱۷ ۱۱۔حضور ِرسالت مآب میں ۱۹ ۱۲۔ دُعا ۲۱ ۱۳۔ شبنم اور ستارے ۲۳ ۱۴۔ محاصرۂ ادرنہ ۲۵ ۱۵۔ غلام قادر روہیلہ ۲۷ ۱۷۔ ایک مکالمہ ۳۰ ۱۸۔ شعاعِ آفتاب ۳۱ ۱۹۔ عُرفی ۳۳ ۲۰۔ کفرو اسلام ۳۵ حکایاتِ بال جبریل ۳۷ ۱۔عبدالر حمن اوّل کا بویا ہوا کھجور کا درخت ۳۸ ۲۔ہسپانیہ ۴۰ ۳۔لینن خدا کے حضور میں ۴۲ ۴۔فرشتوں کا گیت ۴۶ ۵۔فرمانِ خدا فرشتوں سے ۴۸ ۶۔پروانہ اور جگنو ۵۳ ۷۔ایک نوجوان کے نام ۵۴ ۸۔ سوال ۵۶ ۹۔ پنجاب کے دہقان سے ۵۷ ۱۰۔تاتاری کا خواب ۵۹ ۱۱۔ابو العلا معرّی ۶۱ ۱۲۔ پنجاب کے پیرزاروں سے ۶۳ ۱۳۔ ابلیس کی عرض داشت ۶۶ ۱۴۔ باغی مرید ۶۸ ۱۵۔ قطعہ ۷۰ حکایاتِ ضربِ کلیم ۷۱ ۱۔ لا اِلہٰ ا لا اللہ ۷۲ ۲۔ایک فلسفہ زدہ سیدکے نام ۷۴ ۳۔شکر وشکایت ۷۷ ۴۔افرنگ زدہ ۷۹ ۵۔قلندر کی پہچان ۸۱ ۶۔فلسفہ ۸۳ ۷۔کافر ومومن ۸۵ ۸۔ لاہور و کراچی ۸۷ ۸۔مردِمسلمان ۹۰ ۱۰۔سلطان ٹیپو کی وصیّت ۹۴ ۱۱۔جاوید سے ۹۷ ۱۲۔ شعاعِ اُمید ۱۰۲ ۱۳۔ اہلِ ہُنر سے ۱۰۵ ۱۴۔ نسیم و شبنم ۱۰۶ ۱۵۔ اہرامِ مصر ۱۰۷ ۱۶۔ صبحِ چمن ۱۰۸ ۱۷۔ ذوقِ نظر ۱۰۹ ۱۸۔ ایک بحری قزاق اور سکندر ۱۱۰ حکایاتِ ارمغان حجاز ۱۱۱ ۱۔ بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو ۱۱۲ ۲۔تصویر و مصّور ۱۱۵ ۳۔عالمِ برزخ ۱۱۹ ۴۔معزول شہنشاہ ۱۲۳ ۵۔ دوزخی کی مناجات ۱۲۹ ۶۔آوازِ غیب ۱۳۲ ۷۔واعظ اور کافر ۱۳۶ ۸۔ مرید پختۂ کار ۱۳۷ ۹۔پیِر خرقہ باز ۱۳۸ ۱۰۔دخترانِ ملّت ۱۳۹ ۱۱۔برہمن ۱۴۵ ۱۲۔ تقدیر وتدبیر ۱۵۲ ۱۳۔ موت ۱۵۵ ۱۴۔ ابلیس (بگوابلیس را) ۱۵۷ ۱۵۔ نگہداشت خودی ۱۶۰ ۱۶۔ دونصیحتیں ۱۶۲ ۱۷۔ موج و ساحل ۱۶۴ حکایاتِ پیامِ مشرق ۱۶۷ ۱۔ گل اور خار ۱۶۸ ۲۔اختر ِصبح ۱۷۰ ۳۔پروانہ ۱۷۲ ۴۔بوئے گل ۱۷۴ ۵۔افکارِ انجم ۱۷۵ ۶۔زندگی ۱۷۶ ۷۔محاورۂ علم و عشق ۱۷۷ ۸۔کرمِ کتابی ۱۷۹ ۹۔ کِبروناز ۱۸۱ ۱۰۔حقیقت ۱۸۳ ۱۱۔قطرۂ آب ۱۸۵ ۱۲۔ محاورہ مابین خدا و انسان ۱۸۷ ۱۳۔ شاہین و ماہی ۱۸۹ ۱۴۔ کرمکِ شب تاب ۱۹۱ ۱۵۔ تنہائی ۱۹۲ ۱۶۔ حکمتِ فرنگ ۱۹۵ ۱۷۔ زندگی و عمل ۱۹۷ ۱۸۔ غنی کشمیری ۱۹۹ ۱۹۔ خطاب بہ مصطفی کمال پاشا ۲۰۲ ۲۰۔ طیـّارہ ۲۰۶ ۲۱۔شوپن ہارونیٹشا ۲۰۸ ۲۲۔جلال و ہیگل ۲۱۱ ۲۳۔ پٹوفی ۲۱۳ ۲۴۔حکیم اگٹس کو مٹ و مردِمزدور ۲۱۵ ۲۵۔جلال و گوئٹے ۲۱۸ ۲۶۔موسیو لینن وقیصر ولیم ۲۲۱ ۲۷۔قسمت نامٔہ سرمایہ دار و مزدور ۲۲۳ ۲۸۔نوائے مزدور ۲۲۹ ۲۹۔آزادیِ بحر ۲۳۲ ۳۰۔گل و دستار ۲۳۴ حکایاتِ اسرار ورموز ۲۳۵ ۱۔حکایت حضرت بوعلی قلندرؒ پادشاہ دہلی ۲۳۶ ۲۔حکایت شیراں و گو سفنداں ۲۳۸ ۳۔حکایت حضرت علیؒ ہجویری و نوجوانِ مرو ۲۴۳ ۴۔حکایتِ الماس و زغال ۲۴۵ ۵۔حکایت شیخ و برہمن ۲۴۷ ۶۔مکالمۂ گنگا و ہمالہ ۲۴۹ ۷۔محاورئہ تیر وشمشیر ۲۵۲ حکایاتِ جاوید نامہ ۲۵۵ ۱۔حکایت فرعون کبیر و فرعون صغیر ۲۵۶ ۲۔حکایت سلطان مظفر گجراتی ۲۶۵ اخترِصُبح صبح کا ستارہ رورہا تھا اور روتے روتے کہہ رہا تھا۔ ’’میں بھی کتنا بدنصیب ہوں۔ قدرت کی طرف سے مجھے نگاہ تو عطا ہوئی۔ لیکن قدرت نے مجھے اس نگاہ سے دیکھنے اور اس سے کام لینے کی مہلت نہیں دی۔ مجھے قدرت نے اتنی زندگی ہی نہیں دی کہ میں اس دنیا کا جی بھر کے نظّارہ کرسکوں۔ اس دنیا کی ہر چیز کو سورج کی بدولت زندگی ملتی ہے۔ سورج نکلتا ہے تو ساری کائنات میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے لیکن میں ہی ایسا قسمت کا مارا ہوں جسے صبح کے دامن میں پناہ نہیں ملی۔ طلوعِ آفتاب دنیا کی ہرچیز کے لیے زندگی کا پیام لاتا ہے لیکن اس کی روشنی میرے لیے موت کا پیغام ثابت ہوتی ہے۔ بھلا اس کائنات میں صبح کے ستارے کی ہستی اور حیثیت ہی کیا ہے؟ وہ تو ایسے ہی ناپائدار ہے جیسے پانی کا بُلبُلا کہ ایک آن میں پھوٹ کر غائب ہوجاتا ہے۔ وہ تو ایک چنگاری کی طرح ہے کہ ذرا سا چمکی اوربُجھ گئی۔‘‘ میں نے صبح کے ستارے کی یہ باتیں سُنیں تو اس سے کہا۔ ’’اے صبح کے ستارے! ایک صبح کی پیشانی کو اپنی جگمگاہٹ سے زینت دینے والے !تجھے اپنے فنا ہوجانے کا غم کھائے جارہا ہے؟ کیا توغیر فانی ہونا چاہتا ہے؟ تجھے لازوال اور ابدی زندگی کی آرزو ہے تو پھر ایسا کر کہ آسمان کی بلندیوں سے اُتر آ۔ آسمان کی بلندی سے شبنم کے ساتھ اتر کر میری شاعری کے باغ میں آجا۔ اس باغ کی فضا رُوح کو تازگی بخشنے والی ہے۔ میں اس باغ کا مالی ہوں جس کی بہار محبت ہے۔ یہ باغ ابد کی طرح ہمیشہ رہنے والا ہے۔ کیوںکہ اس کی بنیاد محبت پر قائم ہے جو خود ابدی اور غیر فانی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒ نے صبح کے ستارے کی بابت یہ نظم ایک دوسرے رنگ میں کہی ہے۔اس نظم میں علّامہ اقبالؒؒ نے صبح کے ستارے کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر توفنا کے غم میں مبتلا ہے اور ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو میرے شعر کے باغ میں آجا جس کی رونق اور تروتازگی محبت کے دم سے ہے۔ یہ باغ کبھی ویران نہ ہوگا اور اس میں آکر تجھے فنا کے غم سے نجات مل جائے گی۔ کیوںکہ عشق اور محبت کے ابدی اور غیر فانی جذبے نے میرے کلام کی بُنیاد ابد کی طرح پائدار کردی ہے۔ چاند اور تارے صبح کے وقت ڈرتے ڈرتے تاروں نے چاند سے کہا۔ ’’ہم ایک مُدّت سے چمکتے آرہے ہیں۔ ہم چمک چمک کر تھک بھی گئے۔ لیکن آسمان کی وہی کیفیت رہی جو پہلے تھی۔ ہمارا کام صرف چلنا ہی چلنا ہے۔ صبح چلنا، شام چلنا۔ چلنا، چلنا اور ہمیشہ چلنا۔ یوُں لگتا ہے جیسے اس کائنات کی ہر چیز بے قرار ہے اور یہاں سکون نام کی کوئی چیز نہیں۔ تارے ہوں یا انسان درخت ہوں یا پتھر، جان دار ہوں یا بے جان، سب سفر کی سختیاں جھلیتے نظر آتے ہیں۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ سفر کبھی ختم بھی ہوگا اور کیا ہمیں کبھی منزل بھی نظر آئے گی یا نہیں؟ کیا کسی منزل پر پہنچ کر آرام کرنا ہمارا مقدّر ہے یا نہیں؟‘‘ تاروں کی بات سُن کر چاند نے جواب دیا۔ اے میرے ساتھیو!اے آسمان پر چمکنے والے اور رات کی محفل کی رونق بڑھانے والے دوستو!اس جہان کی تو زندگی ہی حرکت کے دم سے ہے۔ حرکت تو اس جہان کا پرانا دستور ہے، کوئی نئی بات نہیں۔ زمانے کا گھوڑا طلب اور جستجو کے کوڑے کھا کھا کر دوڑتا ہے۔ تلاش اور جستجو ہر شے کو ہر وقت حرکت میں رکھتی ہے۔ یہ وہ راستہ جس میں کہیںرُکنے ٹھہرنے یا قیام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ یہاں رُکنا یا ٹھہرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ جو ٹھہرا یا رُکا، وہ ختم ہوگیا۔ چلنے والے چلتے چلتے دُور آگے نکل گئے ہیں مگر جو ذرا بھی کہیں ٹھہر گئے ہیں، زمانہ اور وقت اُنھیں روند ڈالتاہے اور انھیں روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے تم اسی طرح چلتے رہو اور چلنے سے گھبرائو نہیں۔ اس چلنے کا انجام حُسن ہے اور اس کا آغاز عشق سے ہوتا ہے۔ یہ عشق تلاش و جستجو اور جدوجہد کے سچے ذوق،کھرے جذبے اور پکی لگن کا نام ہے۔ اس میں درجۂ کمال حاصل کرلینے کا نام حُسن ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒ نے اس نظم میں ہمیں حرکت اور جدوجہد کی تعلیم دی ہے۔ اُنھوں نے ستاروں کے سوال کے جواب میں چاند کی زبان سے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ زندگی سراپا عمل اور جدوجہد کا نام ہے۔ عمل پیہم اور سعیِ مسلسل زندگی اور ترقی کے لیے لازمی ہیں۔عمل زندگی ہے اور سکون موت۔جو قومیں مصروفِ عمل ہیں وہ ترقی کرتی ہیں اور قومیں بے عمل ہوجائیںوہ فنا کے گھاٹ اُترجاتی ہیں۔ اس لحاظ سے حرکت یا عمل ہی زندگی ہے اور زندگی ہی کا دوسرانام عمل یا حرکت ہے۔ ستارہ رات کے وقت آسمان کی طرف غور سے دیکھا جائے تو ستارے کانپتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک ستارے کو میں نے کچھ زیادہ ہی کانپتے ہوئے دیکھا تو کہا۔ ’’اے ستارے!کیا تجھے یہ خوف ہے کہ چاند طلوع ہوگا تو تیری چمک دمک ماند پڑجائے گی؟ یا تجھے صبح کے طلوع ہونے کا خطرہ ہے کہ صبح ہوتے ہی تُو فنا کے گھاٹ اُتر جائے گا؟ یا تجھے حُسن کے انجام کی خبر مل گئی ہے کہ حُسن کا انجام زوال ہے؟کیا تجھے یہ ڈر ہے کہ کوئی تجھ سے یہ نور کی دولت، یہ روشنی، یہ چمک دمک چھین لے جائے گا؟یا تجھے یہ خوف پریشان کررہا ہے کہ چنگاری کی طرح تیری عمر بھی بہت مختصر ہے اور تو سمجھتا ہے کہ جس طرح چنگاری ایک لمحے کے لیے چمک کر بجھ جاتی ہے، اُسی طرح تو بھی ایک لمحے کے لیے چمک کر بجھ جائے گا؟ ’’اے ستارے! آسمان نے تیرا گھر زمین سے بہت دُور بنایا ہے اور چاند کی طرح تجھے سنہری اور نُور کا لباس پہنایا ہے۔ اس کے باوجود تیری ننھی سی جان پر خوف طاری ہے، اور تیری ساری رات کانپتے ہوئے گزرتی ہے۔ ایسا تو نہیں ہونا چاہیے!‘‘ پھر میں نے ستارے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’اے چمکنے والے مسافر! یہ دُنیا عجیب ہے۔ یہاں کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ ایک کی بلندی دوسرے کی پستی، ایک کاعروج دوسرے کے زوال اور ایک کی زندگی دوسرے کی فنا کا سبب بن جاتی ہے۔ سورج کی پیدائش لاکھوں ستاروں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ کیوںکہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو آسمان پر چمکتے ہوئے لاکھوں تارے فنا ہوجاتے ہیں۔ جو چیز ان ستاروں کے حق میں فنا کی نیندہے۔ وہی آفتاب کے حق میں زندگی کی مستی بن جاتی ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ جسے ہم فنا سمجھتے ہیں وہ زندگی کا جوش اور کمال ہے۔ جب کلی چٹک کر اپنا وجود ختم کردیتی ہے تو پھول وجود میں آتا ہے۔ گویا غُنچے کی موت پر پھول کی پیدائش کا راز پوشیدہ ہے۔ جسے ہم عدم کہتے ہیں، وہ بھی ہستی کا آئینہ دار ہے۔کیوںکہ اس دنیا میں ایک کا عدم دوسرے کی ہستی کا سبب ہے۔ ایک چیز مٹتی ہے تو قدرت اس سے بہتر چیز وجود میں لے آتی ہے۔ ستارے مٹے تو سورج وجود میں آگیا۔ کلی گم ہوئی تو پھول آ موجود ہوا۔ قدرت کے کارخانے میں سکون اور ٹھہرائو نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہاں ہر گھڑی، ہرلحظہ تبدیلی، تغیّر اور انقلاب رُونما ہوتا رہتا ہے۔ یہاں کوئی چیز بھی ایک حالت پر قائم نہیں رہتی۔ زمانے میں کسی چیز کو اگر بقا ہے تو صرف تغیّر کو ہے۔ ہر چیز بدلتی جاتی ہے۔ صرف تغیّر باقی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں ستارے کی زندگی کے حوالے سے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ اس کائنات میں سکون اور ٹھہرائو ناممکن ہے۔ یہاں ہر چیز ہر گھڑی تبدیلی اور تغیّر کے مسلسل عمل سے گزرتی ہے۔ دنیا کی کوئی چیزبھی ایک حالت یا ایک قالب پر قائم نہیں رہتی بلکہ اس دنیا کی تمام چیزیں اپنے قالب اور اپنی ہیئت بدلتی رہتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہتر سے بہتر شے کی تخلیق کے لیے تغیّر کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پس کائنات میں اگر کسی چیز کو دوام اور پائداری حاصل ہے تو وہ یہی قانونِ تغیّرہے۔ ہر چیز بدلتی جاتی ہے۔، صرف تغیّر باقی ہے۔ پس جب تغیّر یا انقلاب اس دنیا کا قانون ہے تو کسی کو اس تغیّر یا انقلاب سے خوف زدہ یا غمگین نہیں ہونا چاہیے جو اس کی زندگی میں پیدا ہو۔ کیوںکہ تغیّر اور انقلاب سے اس کائنات کی کوئی شے بھی محفوظ نہیں ہے۔ دو ستارے دو ستارے اپنے راستے پر چلتے چلتے جب ایک ہی بُرج میں جمع ہوئے تو دونوں ایک دوسرے کو یوُں قریب پاکر بہت خوش ہوئے۔ ایک ستارہ دوسرے سے کہنے لگا۔ ’’اگر ہمارا یہ ملاپ ہمیشہ قائم رہے تو کیا ہی اچھّا ہو۔ ہم ایک مّدت سے گردش میں ہیں۔ کاش یہ ہروقت کی گردش اپنے انجام کوپُہنچے۔ اگر آسمان ہمارے حال پر تھوڑی سی مہربانی کرے اور ہمیں اس مسلسل سفر سے نجات دے دے تو ہم اسی بُرج میں ایک ساتھ رہ کر چمک سکتے ہیں۔ اگرہم دونوں مل کر چمکنے لگیں تو یہ ہمارے لیے بھی اچھا ہوگا اور دوسروں کے لیے بھی۔ دوسرے ستارے کو بھی یہ بات پسند آئی اور اس نے کہا۔’’ہاں اگر ایسا ہوجائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ لیکن اُن ستاروں کی ملاپ کی یہ آرزو اُن کے لیے جُدائی کا پیغام بن گئی۔ اِدھر انھوں نے ہمیشہ ملے رہنے کی تمنّا کی اور اُدھر بُرج میں اُن دونوں کا ساتھ ختم ہوگیا۔ وہ اپنے اپنے راستے پر چلتے چلتے کچھ دیر کے لیے ایک دوسرے کے قریب آئے تھے اور پھر اپنے اپنے راستے پر بڑھتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ تاروں کی قسمت میں تو مسلسل گردش میں رہنا لکھا ہے اور اس گردش کا راستہ پہلے مقررہے۔ کوئی ستارہ ہزار چاہے، وہ نہ تو کہیں ٹھہر سکتا ہے اور نہ اس راستے سے اِدھر اُدھر ہوسکتا ہے۔ آشنائی اور ملاپ کا قائم اور باقی رہنا ایک ایسا خواب ہے جو اس کائنات میں کبھی پورا نہیں ہوسکتا کیوںکہ جدائی ہی اس دُنیا کا دستور ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے اس نظم میں قِران میں آنے والے ( یعنی ایک ہی بُرج میں جمع ہونے والے ) دوستاروں کے حوالے سے ہمیں یہ بتایا ہے اس دنیا کا قانون ہی یہ ہے کہ کوئی چیز خواہ جان دار ہو یا بے جان، دوسری چیز کے ساتھ ہمیشہ وابستہ نہیں رہ سکتی۔ جس طرح دوستارے ہمیشہ ایک بُرج میں نہیں رہ سکتے دو انسان ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ایک نہ ایک دن وہ ایک دوسرے سے جُدا ہو کر ضرور رہتے ہیں کیوںکہ جدائی ہی قانونِ قدرت ہے۔ تضمین بر شعر انیسی شاملو میں صبح کی ہوا کی طرح ہمیشہ آوارہ پھرتا رہتاہوں۔ محبّت میں سفر منزل سے بھی زیادہ پرلطف معلوم ہوتا ہے۔ کیوںکہ عاشق ایک جگہ قیام نہیں کرسکتا۔ پھرتے پھراتے میرا بے قرار اور بے تاب دل خواجہ معین الدین اجمیری کی سرزمین اجمیر شریف جا پہنچا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں عاشقوں کو روُحانی تسکین نصیب ہوتی ہے، غم کے ماروں اور بے قراروں کو قرار کی دولت یہیں ہاتھ آتی ہے، بے صبری کے دکھ کا علاج ہوتا ہے تو یہیں ہوتا ہے، میں حضرتِ والا کے مزار پر حاضر ہوا کہ حالِ دل عرض کروں۔ میرے دل کی آرزو ابھی میرے ہونٹوں تک نہ آئی تھی اور ابھی میں کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ خواجہ کے مزار سے آواز آئی۔ ’’اے وہ شخص کہ جس نے اپنے بزرگوں کے طریقے کو چھوڑ دیا ہے، اہلِ حرم کو تجھ سے شکایت ہے کہ تیرے بزرگ تو اسلام کی تبلیغ و اشاعت کیا کرتے تھے لیکن تُو اس طرف سے بالکل غافل ہے۔ تُو قیس ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا تو پھر تیرے دل کی آگ کیوں ٹھنڈی پڑگئی۔ تو زبان سے تو اسلا م کی محبّت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن تیرے اندر محبّت کی آگ بالکل سرد ہوچکی ہے۔ حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ اسلام میں تو وہی دلکشی اور محبوبیت کی شان موجود ہے جو پہلے تھی لیکن تجھ میں اس محبّت کا کوئی اثر نظرنہیں آتا جس کا تُو دعوے دار ہے۔ قدرت نے تیری زمین میں لااِلٰہ کا جو بیج بویا تھا وہ نہ اُگا اور اس طرح تیری زمانے بھر میں رسوائی ہوئی۔ تونے توحید کا پیغام دُنیا کو نہیں سُنایا، حالاںکہ ہر مسلمان کا یہ اوّلین فریضہ ہے۔ جب تُو نے اسلام کی تبلیغ چھوڑدی تو پھر تُو ساری دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوگیا۔ دُنیا کی دوسری قومیں کسی نہ کسی رنگ میں اپنا فرض ادا کررہی ہیں لیکن تو اپنے مقصدِ حیات سے بالکل غافل ہے۔ آج تُو دنیا کے سامنے اپنا کوئی کارنامہ پیش نہیں کرسکتا، محض اس لیے کہ تُونے اُس کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہے جس کے لیے اللہ نے تجھ کو پیدا کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دُنیا کی ساری قومیں تجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور یہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا وجود دُنیا کے لیے کسی رنگ میں بھی مفید نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر رسوائی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ ’’اے مسلمان!تو نے کبھی سوچا اور غور بھی کیا ہے کہ تیری زندگی کیسی ہے؟تیرا ساز بُت خانے کا ساز ہے اور اس ساز کے پردوں سے کلیسائی نغمے نکل رہے ہیں۔ آج تیری زندگی یہ ہے کہ تو سر سے پائوں تک کُفر کے سانچے میں ڈھل چکا ہے۔ تیرے خیالات، تیرے عقائد سب غیر اسلامی ہوگئے ہیں۔ اے مسلمان! تیری پرورش تو کعبے کی گود میں ہوئی تھی لیکن تیرا دل بُت خانے کا شیدائی ہے۔ تو پیدا تو مسلمان کے گھر میں ہوا ہے لیکن تیرے اعمال کافروں کے سے ہیں۔ اے مسلمان! کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تو مسلمان ہو کر کُفر کی خدمت بجا لارہا ہے۔ شاید انیسیؔ نے تیرے ہی لیے یہ کہا تھا : ’’تجھے وفاکا سبق تو ہم نے پڑھایا تھا لیکن تونے ہمارے ساتھ وفا کرنے کی بجائے دوسروں سے وفا کی۔ گویا تو نے جو موتی ہم سے حاصل کیے تھے، اُنھیں دوسروں پر نثار کر ڈالا۔‘‘ علّامہ اقبالؒ اس نظم میں اپنے وقت کے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلمان اپنی حقیقی تعلیم کو بھول چکا ہے، اُس نے غیروں اور کافروں کے سے طور طریقے اختیار کرلیے ہیں۔ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہونے کے باوجود اسکی ساری فطرت اسلامیت کے خلاف ہے۔ اس نے توحید کا پیغام دنیا کو سُنانا ترک کردیا ہے اور اس طرح دُنیا بھر میں ذلیل اور رُسوا ہورہا ہے۔ اقبال نے مسلمان کو اس نظم میں جو پیغام دیا ہے، وہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی روحِ پاک سے منسوب کرکے دیا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ ہندوستان کی سر زمین میں اسلام پھیلانے والے مبلغین کے سرتاج کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو سرزنش کرنے اور اُنھیں ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کی طرف توجہ دلانے کا حق اُن سے بڑھ کر اور کس کو حاصل ہوسکتا ہے۔ پھر علّامہ اقبالؒؒ نے انیسیؔ شاملو کے جس شعر کی تضمین کی ہے، وہ موجودہ مسلمانوں پر ہوبہو صادق آتا ہے۔ اس تضمین سے علّامہ اقبالؒؒ کا مقصد یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ اُن کی ذِلّت اور پستی کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے توحید کا وہ پیغام دُنیا کو سُنانا چھوڑدیا ہے جس کے لیے اللہ نے اُن کو پیدا کیا تھا۔ اُن کے بزرگوں نے اس کو اپنا مقصدِ زندگی بنایا تھا تو دنیا بھر کی رفعتیں اُن کے قدموں تلے آگئی تھیں اور آج کے مسلمانوں نے اس کو ترک کردیا ہے تو دنیا بھر کی ذلّتیں اور پستیاں اُن کا مقدّر بن گئی ہیں وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر رات اور شاعر رات کی تنہائی اور خاموشی میں ایک شاعر پریشان سا پھر رہا تھا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر رات نے اُس سے کہا۔ ’’اے شاعر! تو اس چاندنی رات میں پریشان کیوں پھررہا ہے؟ صورت دیکھو تو پھول کی طرح خاموش اور حالت دیکھو تو خوشبو کی طرح آوارہ اور پریشاں! آخر کیا ماجراہے!کیا تو آسمان پر چمکتے ہوئے تاروں کے موتیوں کا جوہری ہے اور ان موتیوں کو پرکھ رہا ہے کہ ان میں سے کون سے موتی سچّے ہیں اور کون سے جھُوٹے؟ تو اِن تاروں کے حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے یا چاند کی چاندنی سے مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے؟ تیرے تڑپتے پھرنے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید تُو میرے نُور کے دریا کی کوئی مچھلی ہے جو اس دریا سے جُدا ہو کر بُری طرح تڑپ رہی ہے۔ یا میں یہ سمجھوں کہ تو میری پیشانی سے گراہوا کوئی تارا ہے جو بلندی کو چھوڑ کر زمین کی پستی میں آبسا ہے۔ کچھ بھی ہو تو اس دنیا کا باشندہ تو معلوم نہیں ہوتا بلکہ یوُںلگتا ہے جیسے توکوئی آسمانی مخلوق ہے اور کسی وجہ سے آسمان کو چھوڑ کر زمین پر آگیا ہے۔ اس وقت تو زندگی کے ساز کا ہر تار خاموش ہے۔ ساری دنیا سوئی ہوئی نظر آرہی ہے۔ دریا کی تہ میں بھنور کی آنکھ بھی نیندسے بند ہوگئی ہے اور دریا کی بے قرار لہریں بھی اس کے کناروں سے لگ کر سوگئی ہیں۔ انسانوں کی دنیا میں دن بھرکتنے ہنگامے برپا رہتے ہیں لیکن اس وقت یہ دنیا بھی یوُں سوگئی جیسے اس میں کوئی آبادی ہی نہ ہو۔ ایسے میں جب کہ ساری کائنات سکون کی حالت میں ہے، ایک شاعر ہی کے دل کو سکون اور چین کیوں نہیں؟ ساری دنیاپر میرا جادو چل گیا لیکن تُو کس طرح اس سے بچ نکلا؟‘‘ رات کی یہ باتیں سن کر شاعر نے جواب دیا۔’’اے رات! تُو تو پھر رات ہے، میرے دردِ دل کو کیا سمجھ سکتی ہے! آہ اس وسیع دنیا میں میرا کوئی ہمدم، کوئی ہم راز، کوئی رفیق کوئی ساتھی نہیں، میں اپنا دُکھڑا سنائوں تو کسے سنائوں؟ اے رات! میں تیرے چاند کی کھیتی میں اپنے آنسوئوں کے موتی بوتا ہوں اور انسانوں سے چھُپ کر صبح کی طرح روتا ہوں۔ جس طرح صبح کے وقت شبنم گرتی ہے، اسی طرح میں رو رو کر اشکوں کے موتی لُٹاتا ہوں۔ میرے آنسو بڑے شرمیلے ہیں۔ دن کے شوروغل میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں۔ دن کے وقت مجھے رونے اور آنسو بہانے کی ہمّت نہیں ہوتی لیکن جب رات کی تنہائی نصیب ہوتی ہے تومیرے آنسو بے اختیار ہو کر میری آنکھوں سے بہنے لگتے ہیں۔ میں اپنی فریاد کسے سنائوں؟ اپنے دل کی جلن اور تپش کا نظارہ کسے دکھائوں؟ میرا سینہ طور کی بجلی کی طرح آسمانی تجلیات کا امین ہے لیکن اسے دیکھنے والی آنکھ سورہی ہے۔ میں ان تجلیات سے اپنی قوم کو فیض یاب کرنا چاہتا ہُوں لیکن قوم تو سورہی ہے بلکہ مرُدہ ہو چکی ہے۔ میں اپنی محفل میں قبر کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔ اُس چراغ کی طرح جس کے ارد گرد مردے ہی مردے ہیں۔ زندہ کوئی نہیں آہ! اے رات! میں اپنی قوم کو بیدار کرنا چاہتا ہوں لیکن اس مقصد میں کامیابی محال نظر آتی ہے۔ میری منزل بڑی دور ہے۔ میری محفل کو موجود دور کی ہوا راس نہیں۔ موجودہ زمانہ چوںکہ مادہ پرستی کا زمانہ ہے اور لوگوں کے دل روحانیت سے محروم ہوچکے ہیں، اس لیے یہ عہد میری قوم کے مزاج کے مطابق نہیں ہے اور مزید دُکھ کی بات یہ ہے کہ میری قوم کو اپنے نقصان، اپنی محرومی کا احساس بھی نہیں۔ میں قوم کو جو پیغام دے رہا ہوں۔ جو بھولا ہو ا سبق اسے یاد دلانا چاہتا ہوں، قوم اس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی۔ جب میں محبّت کے اس پیغام کو ضبط کرتے کرتے تنگ آجاتا ہوں تو اپنی بے تابی سے مجبور ہو کر رات کی تنہائی میں گھر سے نکل آتا ہوں تا کہ اپنے دل کے درد کا حال رات کے چمکتے ہوئے ستاروں کو ہی سنادوں۔ اس طرح میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں اور میرے دل پر غم کا بھاری بوجھ کسی قدر ہلکا ہوجاتا ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں اپنی قوم کی بے حسی کا ماتم کیا ہے اور کہا ہے کہ میں اپنے پیغام کے ذریعے جن لوگوں کو خوابِ غفلت سے جگانا چاہتاہوں۔ وہ مُردوں کی سی نیند سو رہے ہیں۔ نہ جانے کب وہ اس خوابِ غفلت سے بیدار ہوں گے؟ کب میری فریاد سنیں گے؟ کب میرے پیغامِ محبّت کی طرف متوجہ ہوں گے اور کب میں اپنی منزلِ مقصود پر پہنچوں گا؟ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جب میں محبّت کے پیغام کو ضبط کرتے کرتے عاجز آجاتا ہوں تو رات کی تنہائی میں گھر سے نکل آتا ہوں اور رات کے تاروں کو یہ پیغام سنا کر دل کی بھڑاس نکال لیتا ہوں۔ بزمِ انجم سوُرج چھُپ گیا۔ شام ہوگئی اور ہلکا ہلکا اندھیرا چھا گیا۔ اُفق پر شفق کی سُرخی نمایاں ہوگئی۔ دن میں جن چیزوں پر سفیدی جھلکتی نظر آتی تھی، اب اُن پر سنہرا رنگ چھا گیا۔ یُوں معلوم ہوتا تھا کہ قدرت جو دن بھر چاندی کے زیورات پہن کر اپنے حسُن کی جھلک دکھاتی رہی تھی، اس نے شام ہوتے ہی چاندی کے زیور اُتار کر سونے کے زیور پہن لیے ہیں تاکہ اُس کے حُسن و جمال میں ایک نئی رعنائی اور دلکشی نظر آئے۔ شام ہوتے ہی اندھیرا چھا نے لگا اور شوروغل کی جگہ خاموشی لینے لگی۔ رات کی دُلہن کے وہ پیارے پیارے موتی چمکنے لگے جو دُنیا کے ہنگاموں سے بہت دور رہتے ہیں اور جنھیں انسان اپنی زبان میں تارے کہتا ہے۔ یہ تارے آسمان کی محفل کو سجانے میںلگے تھے کہ عرشِ بریں سے ایک فرشتے کی آواز آئی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’اے رات کے پہرے دارو! اے آسمان کے تارو! تمھاری پوری قوم آسمان کی بلندیوںپر بیٹھی ہوئی جگمگارہی ہے۔ کوئی ایسانغمہ چھیڑو جو چمک کررات کے اندھیرے میں سفر کرنے والے قافلوں کو راستہ دکھاتا ہے اور وہ تمھی کو دیکھ کر اپنی منزلِ مقصود کی راہ لیتے ہیں۔ زمین والے تمھیں اپنی قسمتوں کے آئینے سمجھتے ہیں اور تمھاری گردش کے حساب سے انسانوں کی تقدیروں کا حساب لگاتے ہیں۔ چوںکہ اہلِ زمین کی نظر میں تمھاری وقعت اور اہمیت بہت زیادہ ہے اس لیے وہ تمھاری آواز کو یقینا غور اور توجہ سے سنیں گے۔‘‘ فرشتے کی صدا سنتے ہی آسمان کی تاروں بھری فضا کی خاموشی ختم ہو گئی اور آسمان کی خاموش اور وسیع فضا میں تاروں کا یہ نغمہ گونجنے لگا۔ ’’ستاروں کی دلکشی اور رعنائی میں خدا کے حُسن وجمال کی جھلک اس طرح نظر آتی ہے جیسے شبنم کے آئینے میں پھول کا عکس نظر آتا ہے۔ نئے طریقوں سے ڈرنا اور پرانے طورطریقوں پر اڑے رہنا ہی قوموں کی زندگی کا سب سے کٹھن مرحلہ ہے۔ قومیں ہمیشہ نئے دستور سے دور بھاگتی ہیں اور لکیر کی فقیر بنی رہنا چاہتی ہیں۔ قدامت چھوڑ کر جدّت اختیار کرنا بڑا مشکل کام ہے اور ایسا حوصلہ ہر قوم کو نہیں ملتا مگر جو قومیں نئے تقاضوں کا صحیح جواب نہیں دیتیں، وقت کے تقاضوں کو پہچانتے ہوئے ان سے مطابقت نہیں کرتیں، وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، یہاں تک کہ ختم ہوجاتی ہیں۔ قدیم اور جدید کی کشمکش کا دور ہر قوم کے لیے حد درجہ نازک ہوتا ہے۔ جو قوم اس منزل سے بخیروخوبی گزرجاتی ہے، وہی زندگی کی جدوجہد میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ زندگی کا قافلہ بہت تیزرفتار ہے۔ زمانہ ہروقت تیزی سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو قومیں اس کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتیں، دوسری قومیں اُن کو کچلتے اور روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہیں۔ ہزاروں ستارے ایسے ہیں جو ہماری نظروں سے غائب ہیں لیکن ان کے نظر نہ آنے کے باوجود ہم اِنھیں بھی اپنی برادری میں شمار کرتے ہیں۔ جس بات کو اہلِ زمین ایک طویل مدّت میں بھی نہ سمجھ سکے، اس کو ہم نے اپنی مختصر سی زندگی میںسمجھ لیا۔ کائنات کے تمام نظام باہمی کشش کے باعث قائم ہیں۔ جب تک ایک دوسرے سے محبّت اور تعلق قائم ہے، نظام باقی اور قائم ہے، جہاں یہ کشش ختم ہوئی، نظام درہم برہم ہوگیا۔ تاروں کی زندگی میں یہی نکتہ چھپا ہوا ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں ستاروں کی زبانی قومی زندگی اور قومی بقا کا راز فاش کیا ہے اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مسلمان اگر بحیثیت قوم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ستاروں کی زندگی سے سبق اور نمونہ حاصل کریں۔ ستاروں کا سارا نظام باہمی جذب اور کشش پر قائم ہے۔ اس طرح مسلمانوں کا قومی نظام بھی صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب وہ بھی ’’جذب ِ باہمی‘‘ کے اصول پر عمل کریں، آپس میں اُخوت اور محبّت کے رشتوں کو فروغ دیں۔ وہ اگر دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اسی جذبِ باہمی یا آپس کی محبّت اور کشش کی بدولت کرسکتے ہیں۔ سیرِ فلک ایک دن میں نے عالمِ خیال میں آسمان کی طرف پرواز شروع کی۔ میرا خیال میرا ہم سفر تھا اور چلتے چلتے میں آسمان پر پہنچ گیا۔ میں اڑتا جارہا تھا اور آسمان پر میرا واقف یا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ تارے بھی حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص کون ہے اور کہاں جارہا ہے؟ لیکن میرا سفر ایک ایسا راز تھا جو سب کی نگاہوں سے چھپا ہوا تھا۔ چلتے چلتے میں دنیا کے پرانے نظام سے باہر نکل گیا اور صبح و شام کے حلقے سے آزاد ہوگیا۔ پہلے میں جنت میں گیا۔ میں کیا بتائوں کہ بہشت کیا ہے؟ بس یہ سمجھ لو کہ آنکھ اور کان جن جن چیزوں کی آرزو کرسکتے ہیں، وہ سب وہاں موجود تھیں۔ طوبیٰ کی شاخ پر پرندے نغمے گارہے تھے۔ حوریں بے پردہ جلوے دکھاتے ہوئے آزادی کے ساتھ باغوں کی سیر کررہی تھیں۔ خوب صورت ساقیوں کے ہاتھوں میں شرابِ طہور کے پیالے تھے اور اہل جنت میں شرابِ طہور پینے پلانے کا شور بپا تھا۔ بہشت کی یہ رونقیں دیکھتے ہوئے میں نے بہشت سے بہت دور ایک سیاہ اندھیرا مکان دیکھا جو تاریک ہونے کے علاوہ سُنسان اور انتہائی ٹھنڈا تھا۔ اس کی تاریکی مجنوں کی قسمت اور لیلیٰ کی زلفوں سے بھی زیادہ سیاہ تھی اور سردی اس قدر شدید تھی کہ اس کے سامنے کرہ زہرہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ گویا کہ وہ مکان اس انتہائی سرد کُرے سے بھی زیادہ سرد تھا جو کرہ ہوا کے وسط میں واقع ہے۔یوںلگتا تھا جیسے اس مکان کی سردی کو دیکھ کر کرۂ زہرہ نے بھی شرما کر اپنا مُنہ چھُپالیا ہے۔ میں نے جب اس مکان کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ جگہ اور اس کی کیفیت کیا ہے تو غیب کے فرشتے نے مجھے جو جواب دیا، اُس نے مجھے انتہائی حیرت میں ڈال دیا۔ فرشتے نے کہا۔ ’’یہ ٹھنڈا مقام جہنم ہے۔ یہ آگ اور روشنی دونوں سے محروم ہے۔ اس کے شُعلے اس کے اپنے نہیں، مستعار ہوتے ہیں۔ یہ شُعلے ذاتی نہ ہونے کے باوجود ایسے شدید ہوتے ہیں کہ عبرت حاصل کرنے والے لوگ ان کے تصّور ہی سے کانپ کانپ اٹھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ دُنیا کے جو لوگ یہاں آتے ہیں، وہ اپنی آگ اور اپنے انگارے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ دوزخ کا عذاب اصل میں انسان کے اپنے برے اعمال سے پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص جیسے اور جتنے برے عمل کرتا ہے۔ اُسے ویسا اور اتنا ہی عذاب ملتا ہے۔ دوزخ کے شعلے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ جو لوگ اپنے برے اعمال کی بنا پر دوزخ میں جاتے ہیں، اُن کے وہی برے اعمال اُن کے لیے دوزخ کے شعلوں اور انگاروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یعنی دوزخ میں جو بھی آتا ہے۔وہ آگ دنیا سے اپنے ساتھ لے کر آتا ہے۔ اسی حقیقت کو علّامہ اقبالؒؒ نے ایک دوسری نظم کے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے موٹر کل باتوں باتوں میں سر جو گندرسنگھ نے کیسی پتے کی بات کہی۔ نواب ذوالفقار علی خان کی موٹر کو چلتے دیکھ کر وہ بے ساختہ بول اٹھے۔ ’’دیکھو! ذوالفقار علی خان کا موٹر کس قدر خاموش واقع ہوا ہے! یہ چلتا ہے تو اس سے کوئی شور نہیں اٹھتا۔ چلنے میں تو یہ بجلی کی طرح تیز ہے لیکن ہوا کی طرح خاموش ہے۔‘‘ میں نے یہ بات سُن کر کہا۔ ’’اے دوست! یہ بات کچھ اس موٹر ہی پر موقوف نہیں۔ زندگی کے راستے پر تیز چلنے والا اسی طرح خاموش چلتا ہے۔تیز رفتاری وہی دکھاتے ہیں جو خاموش ہیں۔ قافلے کی گھنٹی کو دیکھو کہ وہ شورو فریاد کی عادی ہے۔ اس لیے وہ ساکن ہے اورچل نہیں سکتی خوشبو صبا کی طرح خاموش ہوتی ہے۔ اور اس کا قافلہ ہر طرف چل نکلتا ہے۔ خاموشی کی صفت ہی کی وجہ سے وہ تیزی سے چاروں طرف پھیل جاتی ہے۔ صراحی کو دیکھو کہ وہ قلقل کا شور پیدا کرتی ہے اس لیے اپنی جگہ ٹھہری رہتی ہے اور اِدھر اُدھر نہیں پھر سکتی۔ اس کے مقابلے میں جام کو دیکھو کہ وہ گردش میں رہتا ہے کیوںکہ اُس کی طبیعت خاموش ہے۔ چوںکہ اُس سے کوئی صدا بلند نہیں ہوتی، اس لیے وہ گردش کرتا رہتا ہے۔ یہی حال شاعر کے تخیل کا ہے۔ یہ تخیل خاموش ہے اور تخیّل کی یہ خاموشی اُڑنے والے پربن کر اُسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچادیتی ہے۔ صرف یہی نہیں، خاموشی ہی کے باعث اس کی آواز میں گرمی، حرارت اور تاثیر پیدا ہوجاتی ہے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ شاعر کی خاموشی میں وہی گرمی، حرارت اور تاثیر پائی جاتی ہے جو دوسروں کی آواز یا گویائی میں ہوتی ہے۔ شاعر کی یہ خاموشی نہ صرف گویائی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے بلکہ اپنی گویائی سے بڑھ کر طاقت اور اثر رکھتی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ کی یہ نظم اس قو ّت تخیل کی نہایت عمدہ مثال ہے جس کی بدولت وہ معمولی واقعات سے بھی فلسفیانہ نکات پیدا کرلیا کرتے تھے۔ نواب ذوالفقار علی خاں آف مایر کوٹلہ نے 1911ء میں ایک بیش قیمت موٹر منگوائی تھی۔ اس زمانے میں موٹریں عام طور پر چلنے میں بہت شورکرتی تھیں لیکن نواب صاحب کی موٹر میں یہ نقص نہیں تھا۔ایک بار علّامہ اقبالؒؒؒ نواب سرذوالفقار علی خان کی موٹر میں بیٹھ کر شالامار باغ کی سیر کو گئے۔ موٹر میں سر جو گندر سنگھ اور مرزا جلال الدین بیرسٹر بھی ساتھ تھے۔ موٹر چلتے میں شور نہ کرتے دیکھ کر سر جوگندر سنگھ نے حیرت اور تعجب کے ساتھ علّامہ اقبالؒؒؒ سے یہ بات کہی: ’’نواب صاحب کا یہ موٹر کس قدر خاموش ہے!‘‘ بظاہر یہ بات کوئی ایسی پتے کی نہ تھی کہ علّامہ اقبالؒؒؒ اس سے یُوں متاثر ہوجاتے اور اسی ایک فقرے پر اپنی نظم کی بنیاد رکھ دیتے، لیکن ہُوا یہی کہ اسی ایک فقرے سے علّامہ اقبالؒؒؒ کی حکیمانہ طبیعت نے نہایت عمدہ مضامین پیدا کرلیے اور اُن کا ذہن فوراً اس طرف منتقل ہوگیا کہ ایک اس موٹر ہی پر کیا موقوف ہے، زندگی کے راستے میں ہر تیز چلنے والا اسی طرح خاموش چلتا ہے اور تیز رفتاری وہی دکھاتے ہیں جو خاموش ہیں۔ خطاب بہ جوانانِ اسلام ’’اے مسلم نوجوان! کبھی تُونے یہ بھی سوچا ہے اور اس حقیقت پر بھی غور کیا ہے کہ تُو کس آسمان کا ٹُوٹا ہُوا تارا ہے؟ تجھے خبر بھی ہے کہ تُو اُس قوم کافرد ہے جس کی عظمت کے نشان آج بھی تاریخوں میں ملتے ہیں، تجھے اس قوم نے اپنی محبّت بھری گود میں پالا اور پروان چڑھایا ہے جس نے اپنے وقت کی عظیم ایرانی سلطنت کو پائوں تلے روند ڈالا تھا۔ وہ قوم عرب کے صحرائوں سے اٹھی تھی اور اگر چہ عرب کے صحرائوں میں اُونٹ پالنے کے سِوا کچھ نہ جانتی تھی مگر اسلام نے اُن اُونٹ پالنے والوں کو ایسے عروج اور ایسی عظمت سے ہم کنار کیا کہ اُنھوں نے دُنیا کو ایک نئی تہذیب، ایک نئے تمدّن اور ایک نئے نظام حکومت سے رُوشناس کرایا۔ وہ قوم امیری کی سربلندیوں پر پہنچ کر بھی فقر ہی کو اپنے فخر کا سامان سمجھتی رہی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے متعلق فرمایا تھاکہ ’’فقر میرے لیے باعثِ فخر ہے‘‘۔ ان بزرگوں نے اِسی بات کو سامنے رکھا اور امیری میں بھی فقر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ یہی اصول اُن کی شان اور عظمت کا باعث تھا اس لیے کہ چہرہ حسین اور خوب صورت ہو تو وہ بناوٹی زیب و زینت اور سجاوٹ سے بے نیاز ہوتا ہے۔ بزرگ اپنی شان اور عظمت، دولت یا دُنیاوی شان و شوکت میں نہیں سمجھتے تھے۔ کیوںکہ یہ سب کچھ بناوٹی اور مصنوعی ہے۔ وہ اپنی شان رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں جانتے تھے۔ اس قوم کا ایک ایک فرد غیرت مندی کی مُنہ بولتی تصویر تھا۔ اس قوم کے غریب اور تنگ دست لوگ بھی ایسے غیرت والے تھے کہ کسی کے سامنے ہرگز ہرگز ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے۔کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنا تو ایک طرف رہا، امیر لوگ بھی اُنھیں خیرات دیتے ہوئے گھبراتے تھے کہیں وہ اُنھیں ڈانٹ نہ دیں کہ تم نے ہمیں بھکاری سمجھا ہے؟ اُن کی خودداری اجازت نہ دیتی تھی کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں یا کسی کا احسان اٹھائیں، اس لیے کسی امیر آدمی کو ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اُن کی ناداری سے متاثر ہو کر اُنھیں کوئی چیز بطور خیرات، صدقہ یا عطیہ پیش کریں۔ غرض میں تجھے کیا بتائوں کہ وہ صحرا کی گود میں پلنے والے کیسی کیسی خوبیوں کے مالک تھے؟ وہ پروان تو صحرا کی گود میں چڑھے تھے مگر اسلام کے اعجاز کی بدولت انھوں نے نہ صرف دُنیا کے ایک بڑے حصّے کو فتح کیا بلکہ ایک جدید طرز کی سلطنت قائم کرکے دکھائی، دنیا کا رنگ رُوپ سنوارا، حکومت اور حکمرانی کے اصول و قوانین وضع کیے اور اس طرح دُنیا کو ایک مثالی نظامِ حکومت دیا۔ میں اگر چاہوں تو الفاظ میں اُن کی عظمت کا نقشہ کھینچ سکتا ہوں لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیوںکہ وہ مقام اور وہ نظارہ تیرے خیال اور تصور سے بہت بلند ہے۔ تو اگر چہ اُن کی اولاد ہونے کا دعوے دار ہے لیکن تُجھے اُن سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ وہ سراپا عمل اور سراپا حرکت تھے۔ جب کہ تُومحض باتیں بنانا جانتا ہے۔ وہ کردار کے غازی تھے جب کہ تو محض گُفتار کا غازی ہے۔ ہم نے وہ عظیم میراث گنوا ڈالی ہے جو ہمیں اپنے بزرگوں سے ملی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آسمان نے ہمیں ثریّا کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں پھینک ڈالا ہے۔ مجھے اس بات کا غم نہیں ہے کہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن گئی۔ یہ تو قدرت کا نظام ہے حکومت کبھی ایک ملک یا ایک قوم کے پاس نہیں رہتی۔حکومت آنی جانی چیز ہے اور اقتدار ڈھلتی چھائوں ہے۔ مجھے تو دُکھ اس بات کا ہے کہ مسلمان قوم کا علمی اور تہذیبی ورثہ بھی اس کے پاس نہیں رہا۔ ہمارے بزرگوں نے مختلف علوم و فنون پر جو کتابیں لکھی تھیں۔ وہ یورپ کے مختلف کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور یورپ والے ان سے برابر فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ہم اپنے اس گراں قدر اور عظیم تہذیبی ورثے سے محروم ہی نہیں، بے خبر بھی ہیں اور اس سے کوئی فائدہ بھی نہیں اٹھاسکتے۔ ہم نے علم کے وہ موتی کھودیے جو ہمیں بزرگوں سے ورثے میں ملے تھے۔ ان علم کے موتیوں یعنی قدیم مسلمان علما، سائنس دانوں اور فلاسفروں کی لکھی ہوئی بیش قیمت کتابوں کوجب ہم یورپ میں دیکھتے ہیں تو دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔اس احساس سے دل پر ایک چوٹ لگتی ہے کہ مسلمان کے اپنے گھر میں تو اندھیرا ہے لیکن اس کے علم کی روشنی دوسروں کے گھروں میں اجالا کررہی ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر غنی کاشمیری کا یہ شعر زبان پر آجاتا ہے کہ : اے غنی! حضرت یعقوب علیہ السلام کی سیاہ بختی تو دیکھ وہ یُوسفؑ جو اُن کی آنکھوں کا نُور تھا، زلیخا کی آنکھوں کے لیے روشنی کا سامان بنا ہوا ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں مسلم نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں اپنے پُر شُکوہ ماضی کی یاد لائی ہے۔ اور موجودہ بے حسی و بے عملی سے جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ علّامہ اقبالؒ جب اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ گئے تھے تو لندن کے برٹش میوزیم، انڈیا آفس لائبریری اور یورپ کے دیگر شہروں کی لائبریری میں مختلف علوم و فنون پر قدیم مسلمان علما، حکما اور فلسفیو ںکی لکھی ہوئی بیش بہا کتابیں اُن کی نظرسے گزریں جو اہل یورپ مسلمان ملکوں سے لوٹ کھسوٹ کر لے گئے تھے۔ اپنے بزرگوں کے اس گراں قدر علمی ورثے کو اہلِ یورپ کے قبضے میں دیکھ کر علّامہ اقبالؒؒ کو جو دلی دُکھ ہوا، اس کا اظہار اس نظم میں ہواکہ آج کا مسلمان نوجوان اپنے اسلاف کی خوبیوں سے بالکل بیگانہ ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان قوم زوال کی پستیوں میں پہنچ گئی ہے۔ کوئی مسلمان قوم کی یہ سیاہ بختی بھی دیکھے کہ مسلمان اپنے علمی اور تہذیبی ورثے سے بھی محروم ہیں، یورپی قومیں مسلمانوں کے اس علمی ورثے سے پورا پورا فائدہ اٹھارہی ہیں جب کہ خود مسلمان جہالت اور پسماندگی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ حضور ِ رسالت مآبؐ میں جب زمانے کا ہنگامہ میرے لیے بے حد ناگوار اور انتہائی ناقابل برداشت ہوگیا اور مجھ میں اُن دکھوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کو دیکھنے کی تاب نہ رہی جو مسلمانوں پر نازل ہورہے تھے تو میں نے سوچا کہ اس دُنیا سے کسی اور دُنیا میں چلا جائوں تو بہتر ہے۔ چنانچہ میں نے سفر کا سامان باندھا اور اس دُنیا سے رُخصت ہوگیا۔ اگر چہ میں نے اپنی زندگی صبح و شام کی قید کے ساتھ ہی بسر کی اور کائنات کی دیگر چیزوں کی طرح زمان و مکان کی قید ہی میں رہا لیکن میرا تعلق دُنیا کے پرُانے نظام سے رہا اور میں مادی ضروریات سے بے نیاز ہوگیا۔ آخر کار فرشتے مجھے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل میں لے گئے اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا۔ ’’اے حجاز کے باغ کی بلبل! تیرے نغموں کی حرارت سے باغِ ملت کی ایک ایک کلی کا دل پگھل رہا ہے۔ اے شاعرِ اسلام! اے وہ کہ تُو ملّت کے غم میں فنا ہوچکا ہے۔ تیرا دل ہمیشہ ہماری محبّت کے نشے سے مست رہتا ہے۔ اسلام کی محبّت تیری رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ تیری عاجزی کا مقام ایسا ہے کہ اس کے رنگِ عبودیت پر عاشقوں کے نیاز بھرے سجدوں کو بھی رشک آئے۔ تو دُنیا کی پستی سے اُڑ کر آسمان کی طرف آیا ہے۔ فرشتوں نے تُجھے اونچا اُڑنا سکھا دیا ہے۔ تو دُنیا کے باغ سے خوشبو کی طرح نکل کر یہاں آیا ہے۔ بھلا یہ تو بتا کہ ہمارے لیے کیا تحفہ لایا ہے؟‘‘ ’’اے سرورِ کائناتؐ! اے فخرِ موجوداتؐ! اے میرے آقاؐ! دنیا میں امن، چین اور آرام نصیب نہیں۔ آسودگی اور راحت کا کہیں نام نہیں۔ ایسا معلوم ہو تاہے کہ جس زندگی کی سب کو تلاش اور جستجو ہے، اس کا دنیا میں کہیں وجود ہی نہیں۔ اگر چہ دنیا کے باغ میں لالہ و گل کے ہزاروں پھُول ہیں لیکن وہ کلی کہیں دکھائی نہیں دیتی جس میں وفا کی خوشبو ہو۔ اگر چہ دنیا میں خدا کے نام پر سر جھکانے والے مسلمان ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں ہیں لیکن اسلام کے نام پر سرکٹانے والے بہت کم ہیں۔ تاہم میں حضورؐ کی بارگاہ میں نذر کے طور پر پیش کرنے کے لیے شیشے کی ایک صراحی لایا ہُوں۔ اور اے مرے آقاؐ! جو چیز اس صراحی میں ہے وہ،کائنات کا تو ذکر ہی کیا ہے، بہشت میں بھی نہیں ملتی۔ اے شاہِ خیرالامم! اس میں آپ کی امت کی آبروجھلک رہی ہے یعنی طرابلس کے شہید کے خُون سے لبریز ہے!‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں انتہائی اثر انگیز انداز میں طرابلس کے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ طرابلس (جسے آج کل لیبیا کہتے ہیں)رسمی طور پر سلطنت عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا۔اٹلی نے انگریزوں کی شہ پاکر۱۹۱۱ء میں طرابلس پر حملہ کردیا تھا۔سلطنت عثمانیہ کے پاس بحری بیڑا تو تھا نہیں، اس کی فوجیں مصر سے گزر کر ہی طرابلس پہنچ سکتی تھیں اور مصر کا راستہ انگریزوں نے روک رکھا تھا۔ ایسے میں نوجوان بہادر تُرک بھیس بدل بدل کر مصر کے غیر معروف راستوں سے گزرتے ہوئے طرابلس پہنچے اور عربوں کو منظم کرکے اٹلی کی فوجوں سے لڑایا۔ ان کی کوششوں سے تُرک، عرب اور مصری مل کر اٹلی کے مقابلے پر آگئے تھے اور اُنھوں نے غیر معمولی قربانیاں دے کر اٹلی کی پیش قدمی روک دی تھی۔ یورپی طاقتوں نے جب اٹلی کو شکست سے دوچار ہوتے دیکھا تو بلقانی ریاستوں کو شہ دے کر تُرکی پر حملہ کرادیا۔ اس طرح تُرکوں کے گھر میں جنگ شروع ہوگئی اور بہادر تُرک سالاروں کو طرابلس چھوڑ کر واپس تُرکی آنا پڑا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے یہ نظم بادشاہی مسجد لاہور کے اُس جلسے میں پڑھی جو۱۹۱۲ء میں جنگ ِ بلقان کے سلسلے میں تُرکوں کی مالی امداد کے لیے چندہ جمع کرنے کی خاطر منعقد ہواتھا۔ یہ نظم پڑھتے ہوئے وہ خود بھی روئے تھے اور حاضرین کو بھی بے طرح رُلایا تھا۔ دُعا اے خُدا! مسلمان کا دل ایک عرصے سے مُردہ ہے۔تو اس کے دل کو ایسی آرزو بخش جو ہمیشہ زندہ رہنے والی ہو، جس سے اس کے دل میں حرارت پیدا ہوجائے اور اس کی روُح تڑپ اُٹھے۔ اے خُدا! اس کے سینے میں عشقِ رسولؐ کی ایسی آگ روشن کردے جو مسلسل اس کے دل کو گرماتی رہے اور جس سے اس کی رُوح سراپا اضطراب بن جائے۔ اے خُدا! وادیِ فاران کے ایک ایک ذرے کو پھر سے چمک دمک اور آب و تاب عطا کردے۔ مسلمان کے دل میں پھر سے اس سرزمین کی محبّت پیدا کردے جو تیرے دین کا اولین گہوارہ ہے۔اسلام کے حقائق و معارف کے لیے مسلمان کا سینہ کھول دے اور اُسے پھر دیکھنے کا شوق اور تقاضا کرنے کی لذّت عطا فرما۔ یہ شوق تیرے انوارِ تجلیات سے فیض یاب ہونے کا شوق ہو اور یہ تقاضا تیری ذات سے قرب کا تقاضا ہو۔ اے خُدا! مسلمان ایک مُدّت سے بصیرت سے محروم ہے۔ وہ آنکھیں رکھنے کے باوجود کچھ نہیں دیکھتا۔ اے خُدا! اُسے دیکھنے والی آنکھ عطا فرما تاکہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ بھی اسے دیکھ سکے اور دیکھ کر سمجھ سکے۔ اے خُدا محبّت اور عشق کی جو آگ میرے سینے میں روشن ہے، وہی آگ مسلمان کے سینے میں بھی روشن کردے تاکہ جو کچھ ہونے والا ہے اور جو مجھے نظر آرہا ہے، اسکو بھی وہ نظر آجائے اور وہ اس کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اپنے فکر وعمل کی راہیں متعین کرلے۔ اے خدا! مسلمان کی حالت اُس ہرن کی سی ہے جو راستے میں بھٹک گیا ہو اور پریشان حال پھررہا ہو۔ اے خدا! اس راہ گم کردہ مسلمان کو پھر کعبے کی طرف لے چل اور پھر سے سچّا اور کھرا مسلمان بنادے۔اے خُدا! یہ شہر کی سہولتوں اور آرام طلبی کا عادی ہوگیا ہے، اس کی نظر تنگ اور حوصلہ پست ہوچکا ہے۔ تُو اس شہر کے عادی کو پھر صحرا کی وسعت عطا کرتاکہ اس کی نگاہوں میں تیزی اور حوصلوں میں بلندی پیدا ہو اور اس کی زندگی میں تگ و دو کی وہ حرارت اور جدوجہد کا وہ ولولہ پیدا ہوجائے جس سے وہ ایک عرصے سے محروم چلا آرہا ہے۔ اے خُدا! مسلمان کا دل اجڑا ہُوا ہے۔ جس طرح ویرانے میں کسی آبادی کا سُراغ نہیں ملتا، اسی طرح مسلمان کے دل میں بھی کسی تمناّ، کسی آرزو کا سراغ نہیں ملتا۔ اے خُدا! مسلمان کے دل کی اجڑی ہوئی بستی میں پھر سے قیامت کا شور پیدا کردے۔ اس کے دل کا عمل سے خالی ہے۔ اس میں پھر سے عشق کی لیلیٰ کو لا بٹھادے۔ اس کے دل کو پھر اپنی اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبّت کے نور سے بھر دے۔ اے خُدا! اس دور میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی اور اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ تاریکیوں کے اس دور میں تُو ہر مسلمان کے پریشان دل کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا داغ عطا فرما اور اس عشق کو درجۂ کمال تک پہنچا کر اس کے دل کے داغ کو وہ دل کشی نصیب فرما کہ اس کو چاند بھی دیکھے تو شرما کر رہ جائے۔ اے خُدا! مسلمانوں کے ارادوں اور مقاصد کو ایسی بلندی عطا کر کہ وہ ثُرّ یا کے ہم پلّہ ہوجائیں۔ ان میں غیرت، خودداری ہو اور اُن میں دریا کی لہروں کا سا جوشِ آزادی پیدا ہوجائے۔ اے خُدا! مسلمانوں کے دلوں میں سچی، خالص اور پاکیزہ محبّت پیدا کردے۔ان کی محبّت ہر غرض سے پاک ہو۔ اُنھیں ہر حال میں سچ بولنے کی توفیق دے۔ اُن کی صداقت اور راست بازی ایسی ہو کہ بڑی سے بڑی طاقت، بڑے سے بڑا ڈر یا خوف اور بڑے سے بڑا لالچ بھی اُنھیں سچ بولنے سے باز نہ رکھ سکے۔ اے خدا! ان کے تاریک اور اندھیرے سینوں کو ایمان کی روشنی سے منور کردے اور اُن کے دلوں کو مینا کی طرح پاک فرما کہ اُن کا ظاہر اور باطن یکساں ہو۔ جو کچھ اُن کے دلوں میں ہو، وہی اُن کی زبان پر آئے اور جو کچھ اُن کی زبانوں پر آئے، وہی اُن کے دلوں میں ہو۔ اے خُدا! مسلمانوں کو ایسی بصیرت عطا فرما کہ وہ گردو پیش کے حالات کو دیکھ کر آنے والی مصیبتوں اور پریشانیوں کا احساس کرسکیں اور اُن مصیبتوں اور پریشانیوں سے نبٹنے کا انتظام کرسکیں۔ اے خدا! انھیں اتنی توفیق دے کہ وہ آج کے ہنگاموں ہی میں کھو کر نہ رہ جائیں بلکہ آج کے ہنگاموں میں کل کے متعلق بھی کچھ سوچ سکیں۔ وہ حال ہی کے چکروں میں نہ اُلجھے رہیں بلکہ اُ ن کی نظریں مستقبل پر بھی جمی رہیں۔ کیوںکہ جو شخص آئندہ کے لیے پہلے سے تیاری نہیں کرتا، وہ عین وقت پر کچھ نہیں کرسکتا۔ اے خُدا! میں مسلمانوں کے اُجڑے ہوئے باغ کا بلبل ہُوں جسے قُدرت نے آہ و فغاں کا کام سونپ دیا ہے۔ میں ایک ایسی قوم کا شاعر ہُوں جو تباہ برباد، مُردہ اور بے حس ہوچکی ہے۔ مجھے اس قوم کو جگانا ہے، اسے بیدار کرکے پھر زندگی کے ولولوں سے آشنا کرنا ہے، مجھے اس کے اجڑے ہوئے خزاں رسیدہ باغ میں پھر بہار لانا ہے، اس لیے اے خدا!میں تجھ سے تاثیر کی بھیک مانگتا ہوں۔ میرے کلام میں ایسی تاثیر پیدا کردے کہ میرا کلام قوم کے دلوں کو گرما سکے۔ تو سخی ہے، میں محتاج ہوُں۔ تو سب کچھ دینے والا ہے۔ اے خُدا! میری جھولی میں تاثیر کی یہ بھیک ڈال دے۔ اے داتا! حاجت مند کا یہ سوال پُورا کردے!‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے یہ نظم اُس دور میں کہی تھی جب مسلمان ملکوں پر مصائب کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ اُن کا دل چوںکہ غیر معمولی طور پر حسّاس واقع ہُواتھا۔ اس لیے وہ ہر وقت مسلمانوں کے حال پر خُون کے آنسو روتے تھے۔ جب اُن کی بے تابی و بے قراری حد سے بڑھی تو دل کے جذبات اس نظم کے اشعار میں ڈھل گئے۔ اس نظم میں انھوں نے مسلمان کے لیے خُدا کی بارگاہ سے وہ اوصاف مانگے ہیں جو نام کے مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ اس لحاظ سے یہ نظم محض دُعا ہی نہیں ایک ایسا آئینہ بھی ہے جس میں ہر دور کا اور روئے زمین کے ہر چپّے کا مسلمان اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ شبنم اور ستارے ایک رات ستارے شبنم سے کہنے لگے۔ ’’اے شبنم! تو ہر صبح نئے نئے نظارے دیکھتی ہے۔ تو ہرروز دُنیا میں جاتی ہے اور ہر روز ایک نیا منظر تیرے سامنے ہوتا ہے۔ کوئی کیا جانے کہ تو کتنے جہان دیکھ چُکی ہے؟ وہ جہان جو بن کر مٹ گئے۔ تُونے اُن کے نشان بھی دیکھے ہیں اور تو نے وہ جہان بھی دیکھے ہیں جن کا اب کوئی نشان بھی باقی نہیں۔ زُہرہ ستارے نے ایک فرشتے کی زبانی یہ سُنا ہے کہ انسانوں کی بستی آسمان سے بہت دور ہے۔ تو ہر روز وہاں جاتی ہے، ذرا اس خوب صورت سرزمین کی کہانی ہمیں بھی تو سُنا۔ ہمیں بھی کچھ معلوم ہو کہ اس خِطّے میں دلکشی اور رعنائی کی ایسی کیا خوبی ہے جو چاند دن رات اس کے گرد چکر کاٹتا ہے اور اس کی محبّت کے گیت گاتا رہتا ہے؟‘‘ ستاروں کی بات سن کر شبنم نے جواب دیا۔ ’’اے تارو! دنیا کے باغ کا حال کچھ نہ پُوچھو۔ وہ خوشیوں اور مسرت بھرے نغموں کا باغ نہیں، سراسر نالہ و فریاد کی بستی ہے۔ وہاں ہر شے پر موت اور فنا کا راج ہے۔ صبا اس باغ میں آتی ہے اور آتے ہی پلٹ جاتی ہے۔ کلی اِدھرسے کِھلی، اُدھر پھول بن کر دوسرے ہی دن مُرجھا گئی۔ دنیا کی کسی بھی چیز کے لیے پائداری اور بقا نہیں۔ ہر شے بالکل عارضی ہے۔ آج ہے اور کل نہیں۔ میں تمھیں کیا بتائوں کہ کلی کس طرح اس باغ کی زیب و زینت بڑھاتی ہے؟ وہ کلی نہیں بلکہ ایک ایسا شعلہ ہے جو سوز اور جلن کی کیفیت سے محروم ہے۔ بلبل کی بدقسمتی دیکھو کہ وہ پھول کی جدائی میں دن رات آہ و فریاد کرتی رہتی ہے لیکن پھُول اُس کی یہ درد بھری صدا سُن ہی نہیں سکتا۔کیوںکہ قدرت نے اُسے سُننے کی حس دی ہی نہیں۔ اور تواور وہ اپنے دامن سے میرے موتیوں کو بھی نہیں چُن سکتا۔ اپنی ساری ظاہری خوب صورتی اور دلکشی کے باوجود وہ نہ کسی کے محبّت بھرے گیت سُن سکتا ہے اور نہ اُن موتیوں کو سمیٹ سکتا ہے جو میں اُس کے دامن میں ڈالتی ہوں۔ جن پرندوں کو قدرت نے اچھی آواز بخشی ہے، ان کا حال کچھ نہ پوچھو۔ انسان ان سب کو گرفتار کرکے پنجروں میں قید کردیتے ہیں۔ گویا ان بیچاروں کی اچھی آواز کی خوبی ہی ان کے لیے مصیبتوں بھری قید کا باعث بن جاتی ہے۔ پھر یہ ستم دیکھو کہ جہاں پھول ہے، وہیں کانٹا بھی ہے۔ جہاں کسی نے پھُول توڑا، کانٹا بھی ہاتھ میں چُبھ گیا۔ نرگس کو قدرت نے آنکھ تو دی ہے لیکن اس میں بینائی نہیں دی اور اس غم سے اس کی آنکھ میں ہمیشہ آنسو بھرے رہتے ہیں کہ اس کا دل تو نظّارے دیکھنے کا طلب گار ہے لیکن آنکھ نظر سے محروم ہے اور وہ چاہنے کے باوجود کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ شمشاد کے درخت کا حال دیکھو! دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ درخت سدا بہار ہے، بہار اور خزاں کی قید سے آزاد ہے لیکن شمشاد کی یہ آزادی صرف نام کی آزادی ہے۔وہ کہنے کو آزاد ہے لیکن اصل میں قیدی ہے کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت بھی نہیں کرسکتا۔ اس وجہ سے وہ فریاد کرتا رہتا ہے اور اس فریاد کی گرمی سے کے اس کا دل جل گیا ہے۔ ’’اب تم اپنی اور میری بات بھی سُن لو۔ کیا تمھیں معلوم ہے کہ انسانوں کی دُنیا میں تاروں کو کیا کہا جاتا ہے؟ دنیا والے رنج و الم میں اس قدر گرفتار ہیں کہ وہ تاروں کو آہوں کے شرارے کہتے ہیں اور میں ان کے نزدیک آسمان کے آنسوئوں کا مجموعہ ہوں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آسمان رات بھر دنیا والوں کے حال پر روتا رہتا ہے اور صبح کو آسمان کے وہ تمام آنسو شبنم کی شکل میں دنیا پر نازل ہوجاتے ہیں۔ ’’اب رہی چاند کی بات جو دن رات زمین کے گرد چکر کاٹتا ہے اور اس کی محبّت کے گیت گاتا رہتا ہے، تو یہ سراسر اُس کی نادانی اور بے سمجھی ہے۔ خدا جانے اُسے کیسے اس بات کا یقین ہے کہ اس طرح اسے اپنے جگر کے داغ کا علاج میسّر آجائے گا۔ دنیا والے تو خود داغ داغ جگر لیے پھرتے ہیں۔ وہ چاند کے جگر کے داغ کا علاج کیا کریں گے؟ ’’سچ پُوچھو تو اس دنیا کے کارخانے کی بنیاد ہی ہوا پر ہے۔ اس کا سارا نظام ہی بے ثبات ہے۔ اس دنیا کا ہرشخص کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلاہے۔ یُوں لگتا ہے کہ قدرت نے یہ دُنیا نہیں بنای بلکہ فضا میں آہ و فریاد کی تصویر کھینچ دی ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں ستاروں کے سوال کے جواب میں شبنم کی زبان سے اس دُنیا کی حقیقت بیان فرمائی ہے کہ یہ دُنیا نا پائدار ہے اور دنیا کے لوگ اس قدر گرفتار ِرنج و الم ہیں کہ وہ ستاروں کو بھی کسی مصیبت کے مارے ہوئے کی آہوں کے شرارے اور شبنم کو آسمان کے آنسو سمجھتے ہیں، گویا کہ یہ فانی اور ناپائدار دنیا سراسر مصیبتوں کا گھر ہے اور یہاں جسے دیکھو، اُس کی جان کو کوئی نہ کوئی روگ لگا ہوا ہے۔ محاصرۂ ادرنہ یورپ کے بلقانی حلقے میں جب حق و باطل کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور بلقانی ریاستوں بلغاریہ، سرویہ، رومانیہ اور یُونان نے تُرکی پر حملہ کردیا تو مجبوراً ترکی کو بھی اپنی حفاظت کے لیے میدانِ جنگ میں آنا پڑا۔ عیسائی فوجوں نے تُرکی کی اسلامی فوج کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ گویا صلیب کے گردو غبار نے چاند کے گرد حلقہ ڈال لیا۔ غازی شکری پاشا بلغاریہ اور سرویہ کی متحدہ یورش کا مقابلہ کرنے کے لیے ادرنہ کے محاذ کا سپہ سالار تھا۔ جب تُرکی فوجیں دشمن کے حملے کی تاب نہ لاسکیں تو شکری پاشا ادرنہ کے قلعے میں داخل ہوگیا اور بلغاریہ اور سرویہ کی فوجوں نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ شکری پاشانے پانچ ماہ تک بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ مدافعت کی، مگر قلعے میں مسلمان غازیوں کے لیے رسد اور سامان خوراک کے جو ذخیرے جمع تھے، وہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ باہر سے کمک یا سامانِ رسد پہنچنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ مجبور ہو کر شکری پاشا نے مارشل لا نافذ کردیا۔ اس فوجی قانون کے تحت خوراک کے وہ تمام ذخیرے قبضے میں لیے گئے جو لوگوں کے گھروں میں موجود تھے۔ سلطانی فوج رعایا سے غلّہ حاصل کرنے پر مجبور ہوگئی گویا شاہین دانے کے لیے چڑیا سے بھیک مانگنے لگا۔ شہر کے مفتی نے جب یہ بات سُنی تو اسے اتنا غصہ آیا گویا کہ وہ طور کی بجلی معلوم ہورہا تھا۔ اُس نے کہا جن غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمّہ مسلمانوں نے اٹھارکھا ہے، اُن کا مال مسلمان لشکر کے لیے حرام ہے۔ شہر کے مفتی کا یہ فتویٰ سارے ادرنہ میں پھیل گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ترک فوج یہودیوں اور عیسائیوں کے گھروں کے مال، و اناج اور دیگر سامان خوردنوش کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی تھی۔ اس لیے کہ خدا کا حکم یہی تھا کہ جن غیر مسلموں کی حفاظت کا ذمہ مسلمانوں نے اٹھا رکھا ہے، اُن کا مال اُن کی مرضی کے بغیر قبضے میں نہیں لیا جاسکتا۔ جب خدا کا حکم سامنے آجائے تو مسلمان نفع اور نقصان کے خیال کو دل سے نکال کر بے اختیار خُدا کے حکُم کے سامنے جھُک جاتا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے یہ نظم اس غرض سے لکھی تھی وہ ترکوں کی سیرت اور کردار کا ایک روشن پہلو دُنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ وہ ایک طرف تو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اسلام کسی حالت میںبھی حق و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ دوسری طرف وہ ترکوں کے اسلامی جذبے اور دینی شان کو نمایاں کرنا چاہتے تھے۔ محاصرہ ادرنہ کے دوران میں پیش آنے والے اس واقع سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ اس گئے گزرے دور میں اور انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی تُرکوں کے دلوں میں اسلامی شریعت کے احکام کا کس قدر پاس تھا۔ محاصرے کی حالت میں جب کہ اُنھیں باہر سے کوئی کمک یا رسد ملنے کی اُمید نہ تھی، شہر کے گھروں میں موجود اناج کا ایک ایک دانہ اُن کی ضرورت تھا لیکن جب مفتی ِشہر نے فتویٰ جاری کیا تو ترک فوج نے اس کی پوری پوری تعمیل کی۔ انھوں نے بھوک کی تکلیف تو برداشت کرلی لیکن یہودی اور عیسائی رعایا کے مال اور اناج کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غازی شکری پاشا نے پانچ ماہ تک بلغاریہ اور سرویہ کی فوجوں کا مقابلہ جاری رکھا تھا۔ مزید مقابلہ اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ ۲۵مارچ ۱۹۱۳ء کو دشمن نے آخری حملہ کیا اور صرف ایک دن میں تیس ہزار گولے ادرنہ پر پھینکے ۲۶مارچ ۱۹۱۳ء کو غازی شکری پاشا نے ہتھیار ڈال دیے۔ غازی شکری پاشا اور اُن کے ماتحت سالار قید ہوگئے اور دشمن اُنھیں ادرنہ سے بلغاریہ کے دارلحکومت صوفیہ لے گیا۔ تُرکوں نے ادرنہ کے محاصرہ کے دوران میں شریعتِ اسلامی کے احکام کی بلاچوں و چرا تعمیل کرکے جس غیر معمولی ایثار کا ثبوت دیا تھا، قدرت کی طرف سے اُنھیں اس کا صِلہ چند ماہ بعد ہیں مل گیا۔ بلقانی ریاستوں میں پھوٹ پڑی اور وہ آپس میں لڑنے لگیں تو غازی انور پاشا تھوڑی سی تُرک فوج لے کر بڑھے اور یکا یک ادرنہ پر قابض ہوگئے۔ اس طرح ادرنہ جو مارچ ۱۹۱۳ء میں ترکوں کے ہاتھ سے نکل گیا تھا، جولائی ۱۹۱۳ئمیں دوبارہ ترکوں کے قبضے میں آگیا۔ آج کل ادرنہ جمہوریہ ترکیہ کا ایک مشہور شہر ہے۔محاصرہ ادرنہ کے دوران پیش آنے والے جس واقعے کو علّامہ اقبالؒؒ نے اپنی نظم کا موضوع بنا کر ترکوں کی دینی شان کو خراجِ عقیدت پیش کیا تھا، اُس کی یاد تُرکوں کے دلوں میں آج بھی تازہ ہے۔ اور شاید ہمیشہ تازہ رہے گی۔ غلام قادر روہیلہ غلام قادر روہیلہ کتنا ظالم، ستم گر اور کینہ پرور تھا کہ اُس نے خنجر کی نوک سے تیموری بادشاہ،شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکال ڈالیں۔ پھر اس ظالم نے شاہی حرم کی بیگمات اور شہزادیوں کو حکم دیا کہ میرے سامنے ناچو۔ یہ شاہی حرم کی وہ بیگمات اور شہزادیاں ایسے فرمان کی تعمیل کیسے کرسکتی تھیں جن کے بدن چنبیلی کے پھولوں کی طرح نرم و نازک تھے اور جس کی تعمیل کرنا اپنے ہاتھوں اپنی غیرت کا گلا گھونٹ دینے والی بات تھی، مگر وہ بے بس اور مجبور تھیں، سوائے غلام قادر روہیلے کا حکم ماننے کے اُن کے لیے اور کوئی صورت ممکن نہیں تھی۔ سنگدل اور بے رحم غلام قادر نے اُن نازنینوں کو اپنے عیش و نشاط کا سامان بنایا جن کا حُسن و جمال سورج، چاند اور تاروں کی آنکھوں سے بھی پوشیدہ تھا۔ شاہی بیگمات اور شہزادیوں کے نازک دل کانپ رہے تھے لیکن ان کے قدم ناچ پر مجبور تھے۔ اپنی اس مجبوری پر اُن کی آنکھوں سے خون کے آنسوئوں کے دریا جاری تھے۔ غلام قادر روہیلہ کچھ دیر شاہی حرم کی بیگمات اور شہزادیوں کے رقص کا نظّارہ کرتا رہا۔ پھر اُس نے گھبرا کر اپنے سر سے خود اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ پھر اٹھ کر اپنی کمر سے وہ تلوار کھول ڈالی جو صرف خون بہانا اور جانیں لینا جانتی تھی، جو دشمنوں پر آگ برساتی تھی اور جس کی چمک دمک کے سامنے ستاروں کی آب و تاب بھی ماند تھی۔پھر اُ س نے خنجر سامنے رکھا اور کچھ سوچ کر لیٹ گیا۔ اُس نے ظاہر یہ کیا جسے اُس کی سُرخ سرخُ آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئی جارہی ہیں۔ تھوڑی دیر تک وہ آنکھیں بند کیے اس طرح لیٹا رہا۔ یُوں لگتا تھا جیسے نیند کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی نے اُس کی سُرخ سُرخ آنکھوں کے شُعلے بجھادیئے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُس کے بے رحمانہ حکم کی بدولت جو درد ناک نظارہ اُسکی آنکھوں کے سامنے آیا تھا، اُسے دیکھ کر خود اُس ظالم کی نگاہیں شرماگئی ہیں۔کچھ دیر تک آنکھیں بند کرکے لیٹے رہنے کے بعد وہ اُٹھا اور شاہی حرم کی بیگمات اور شہزادیوں سے یُوں مخاطب ہُوا۔ ’’تمھیں اپنی قسمت کی شکایت نہیںکرنی چاہیے۔ میں سویا تو نہیں تھا۔ میرا مسند پر لیٹ کر سوجانا، محض ایک دکھاوے اور تکلّف کی بات تھی۔ جو لوگ لشکروں کو جنگ کے لیے آراستہ کرتے ہیں، وہ تو ایک لمحے کے لیے بھی اپنے آپ سے یا دوسروں سے غافل نہیں ہوسکتے۔ غفلت اُن سے کوسوں دُور رہتی ہے۔ ایسی حرکت تو اُن کے شایانِ شان ہی نہیں۔ میری غرض تو یہ تھی کہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ شاید تیموری خاندان کی کوئی بیٹی مجھے غافل پاکر آگے بڑھے اور میرے ہی خنجر سے مجھے مار ڈالے مگر ایسا نہ ہُوا اور اس طرح یہ راز زمانے پر ظاہر ہوگیا کہ جس چیز کا نام غیرت اور حمیّت ہے، وہ تیمور کے خاندان سے رخصت ہوچکی۔اگر تیمور کے گھر انے میں غیرت و حمیت تھوڑی سی بھی باقی ہوتی تو کوئی نہ کوئی تیموری شہزادی اپنی جان پر کھیل کر مجھے مارڈالنے کی کوشش ضرورکرتی۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس دردناک نظم میں ہمیں اس الم ناک حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب قومیں عیش و عشرت کی رنگینیوں میں پڑکر شجاعت،غیرت اور حمیّت جیسے بہادرانہ اوصاف سے محروم ہوجاتی ہیں تو پھر زوال و ادبار، تباہی و بربادی اور ذلّت و رُسوائی اُن کا مقّدر بن جاتی ہے۔ غلام قادر خان روہیلہ نواب ضابطہ خان کا بیٹا اور امیرالا ُمرا نواب نجیب الدولہ کا پوتا تھا، یہ وہی نواب نجیب الدولہ تھے جنھوں نے مرہٹوں کا زور اور اقتدار ختم کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کی دعوت دی تھی اور احمد شاہ ابدالی نے ۱۷۶۱ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش دے کر اُن کے اقتدار کے سارے منصوبے خاک میں ملادیے تھے۔ یہ احمد شاہ ابدالی کی سیر چشمی تھی کہ وہ مرہٹوں کو شکست فاش دے کر واپس افغانستان چلا گیا ورنہ اگر وہ شہنشاہ بابر کی طرح خود دِلّی کے تخت پر بیٹھ جاتا تو آج برصغیر کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ جب تک نواب نجیب الدولہ زندہ رہے، مرہٹوں کو دوبارہ سراٹھانے کی ہمّت نہ ہوسکی۔ جب ۱۷۷۰ء میں اُن کا انتقال ہوگیا تو مرہٹوں نے نجیب الدولہ مرحوم کے بیٹے نواب ضابطہ خان سے ۱۷۶۱ء کی شکست کا انتقام لینے کے لیے جوڑ توڑ شروع کیے۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے میں ملک کے حالات ویسے ہی بہت ابتر تھے۔ سلطنت کا مرکز بہت کمزور ہوچکا تھا۔ مختلف امیروں نے علاقے سنبھال رکھے تھے اور وہ ان علاقوں میں اپنی من مانیاں کرتے تھے۔ اُنھیں روکنے ٹوکنے یا پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ مرہٹے اور جاٹ بھی موقع پاکر لوٹ مار کرنے سے نہیں چُوکتے تھے۔امیر بھی آپس میں لڑتے بھڑتے رہتے تھے اور ایک دوسرے کی دشمنی میں مرہٹوں یا جاٹوں کو روپے دے کر حملہ کردیتے تھے۔ اس لیے مرہٹوں کو اُسے اپنے ساتھ ملانے میں نے خود شاہ عالم ثانی کو شیشے میں اُتار لیا۔ چنانچہ شاہ عالم ثانی نے مرہٹوں کے اُکسانے پر اپنے محسن نواب نجیب الدولہ کے تمام احسانوں کو فرمواش کرتے ہوئے ضابطہ خان کے خلاف اعلان جنگ کردیا اور ۱۷۷۲ء میں مرہٹوں کا آلہ کار بن کر روہیلوں پر حملہ آور ہُوا۔ شاہی فوج نے پتھر گڑھ کے قلعے کا محاصرہ کیا اور جب روہیلوں نے ہتھیار ڈال دیے تو مرہٹوں اورشاہی فوج دونوں نے افغانی خواتین کی عِزت و آبرو کو بُری طرح پامال کیا۔ ضابطہ خان پر بڑی مصیبتیں آئیں۔ اُس کا گھر بار تباہ ہُوا اور سرداروں کی عزت و حرمت بھی باقی نہ رہی، مغل اور مرہٹہ سپاہی روہیلہ سرداروں کی عورتوں کا ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے خیموں میں لے گئے اور اُنھیں بے آبرو کیا۔ غلام قادر خان کی عمر اُس وقت بارہ تیرہ سال کی تھی اور اپنی مائوں بہنوں کی یہ بے عّزتی اس نے اپنی آنکھ سے دیکھی تھی۔ روہیلو کی اس تذلیل سے مرہٹوں کا ابھی جی نہیں بھرا تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے شاہ عالم کو دوبارہ روہیلوں پر حملہ کرنے کے لیے ابھارا اور شاہ عالم ثانی سکھوں اور جاٹوں کی سرکوبی کرنے کی بجائے ایک بار پھر اپنے محسن روہیلے افغانوں پر ۱۷۷۷ء میں حملہ آور ہوُا۔ غوث گڑھ کا قلعہ فتح کرکے اُس نے روہیلوں کی رہی سہی طاقت کا بھی خاتمہ کردیا اور ضابطہ خان اور اُس کے اہل و عیال کو آگرہ کے قلے میں قید کردیا۔ اس طرح گویا مرہٹوں نے روہیلوںسے ۱۷۶۱ء کی شکست کا انتقام لے لیا۔ جب شاہ عالم ثانی اُن روہیلے پٹھانوں کی امداد و حمایت سے محروم ہوگیا جو اُس کی سلطنت کے دست و بازو تھے تومرہٹوں نے اپنا بڑھا ہوا قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے شاہ عالم ثانی کو اپنا ’’غلام‘‘ بنالیا۔ وہ ۱۷۷۸ء سے ۱۸۰۳ء تک عملاً مرہٹوں کی قید میں رہا۔ یہ قید اُس وقت ختم ہوئی جب ۱۸۰۳ء میں انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کیا اور شاہ عالم ثانی انگریزوں کا وظیفہ خوار بن گیا۔ غلام قادر روہیلہ نے اپنی مائوں بہنوں کی بے عزّتی کا جو درناک منظر اپنی آنکھ سے دیکھا تھا۔ وہ اس کے دل میں آگ بن کر سُلگتا رہا۔ آخر اُسے 1778ء میں بدلہ لینے کا موقع ملا۔ وہ دہلی کے لال قلعے پر قابض ہوگیا اور چھُپے ہوئے خزانوں کی نشان دہی کے سلسلے میں شاہی خاندان کے بہت سے افراد کو ظلم کا نشانہ بنانے کے علاوہ شاہ عالم ثانی کی آنکھیں نکال دیں۔ اور یُوں اپنی مائوں بہنوں کی بے عزتی کا انتقام لیا۔یہ اور بات ہے کہ تاریخ کی بے رحم فطرت نے اُسے بھی نہیں بخشا۔ جب وہ اپنے انتقام کی پیاس بُجھا چکا تو کچھ دیر بعد مرہٹوں نے اُس کا پیچھا کیا۔ متھرا میں وہ گرفتار ہُوا اور مرہٹوں نے اُسے سخت اذیتیں دے کر ہلاک کردیا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں غلام قادر روہیلہ کی جس سنگ دلی کا درد انگیز نقشہ کھینچا ہے، وہ اگرچہ اپنی جگہ بجا تھی مگر علّامہ اقبالؒؒؒ کے فن کا کمال ہے کہ اُنھوں نے غیرت اور حمیت کا جو پیغام دیا ہے، وہ خود اُس شخص کی زبان سے دیا ہے جس نے کمال بے دردی سے اس غیرت کُشہ فعل کا ارتکاب کیا تھا اور ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ جو قومیں غیرت اور حمیّت سے محروم ہوجاتی ہیں وہ ایسے ہی دردناک اور عبرت انگیز انجام سے دوچار ہوتی ہیں۔ ایک مکالمہ ایک گھریلو پرندے کی ملاقات کہیں فضائوں کی وسعتوں میں پرواز کرنے والے پرندے سے ہوئی تو اُس نے شکایت کے طرز پر کہا۔ ’’اگر تو پردار ہے تو کیا میں پردار نہیں ہوں؟ قُدرت نے جسے طرح تجھے پردیے ہیں، اُس طرح مجھے بھی پروں والا بنایا ہے۔ اگر تو ہوا میں اڑسکتا ہے تو میں بھی اس خوبی سے محروم نہیں ہُوں۔ تیری طرح میں بھی ہوا میں اڑ سکتا ہُوں۔ اگر تُو آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آجا سکتا ہے تو یہ خوبی مجھ میں بھی موجود ہے۔ میں بھی تیری ہی طرح آزاد ہوں، پابند نہیں۔ قُدرت نے جسے بھی پر بخشے ہیں، اُسے اِن پروں سے اُڑنے اور پرواز کرنے کی صلاحیت بھی بخشی ہے۔ جو بھی پروں والا ہے، وہ لازماً اُڑے گا۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ تُو اور تیری طرح فضا میں اُڑنے والے دوسرے پرندے اتنے مغرور کیوں ہیں؟‘‘ یہ دل دُکھانے والی باتیں سُن کر فضا میں اُڑنے والے پرندے کی غیرت کو ٹھیس لگی اور اُس نے کہا۔ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح میں پردار ہوں، اُسی طرح تُو بھی پر دار ہے اور جس طرح میں اُڑنے میں آزاد ہوں، اس طرح تُجھے بھی اُڑنے میں پُوری آزادی حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھ کہ تیری اُڑان ہے کہاں تک؟ تیری پرواز کی حد کسی دیوار کی منڈیر تک یا زیادہ کسی درخت تک ہے۔ جب تیری پرواز کی حد یہ ہے تو پھر تُو فضا میں اُڑنے والے پرندوں کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ کس طرح کرسکتا ہے؟ تیرا رہنا سہنا تو زمین پر ہے جب کہ اُن کا تعلق آسمان سے ہے۔ تو ایک گھریلو پرندہ ہے اور اپنا رزق زمین پر تلاش کرتا ہے جب کہ ہم رزق کی تلاش میں فضائوں کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے ستاروں تک پہنچ جاتے ہیں اور اُنھیں کو دانہ سمجھ کر چونچ مارنے لگتے ہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے گھریلو پرندے اور فضا میں پرواز کرنے والے پرندے کے اس مکالمے کے ذریعے ہمیں یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر مختلف لوگوں کے پاس ظاہری اسباب ایک ہی قسم کے ہوں تو ضروری نہیں کہ ان سب کا مقام و مرتبہ بھی ایک ہو۔ وسائل چاہے یکساں ہی ہوں، لیکن وسائل کی یکسانی کے باوجود کچھ لوگ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور کچھ دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں کیوںکہ مقام اور مرتبہ ہر شخص کے وسائل پر نہیں بلکہ اُس کے ذاتی اوصاف، ہمّت وحوصلہ اور عزائم و مقاصد کی بلندی پر موقوف ہے۔ شعاعِ آفتاب صبح کے وقت جب میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کررہا تھا اور میری نگاہیں ابھرتے ہوئے سورج کو بے تابی سے دیکھ رہی تھیں تو مجھے آسمان پر بے چینی اور بے قراری سے پھرتی ہوئی ایک کرن نظر آئی۔ میں نے اُس سے پُوچھا۔ ’’تو سر سے پائوں تک بے قراری ہی بے قراری نظر آرہی ہے۔ آخر تیری بے صبر جان میں یہ بے تابی اور بے چینی کیسی ہے؟ آخر تو کیوں اس قدر تڑپ رہی ہے؟ کیا تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے جس کو آسمان قوموں کو برباد کرنے کی خاطر پال پوس کر جوان کررہا ہے؟ یہ تڑپ کسی خاص وجہ سے پیدا ہوئی ہے یا پیدائش کے آغاز ہی سے تیری یہ عادت ہے؟ یہ خوشی کا ناچ ہے یا پابندیوں سے آزاد رہنے کا جنون ہے؟ یا تجھے کسی چیز کی تلاش ہے؟ آخر اس کا کوئی مقصد تو ہونا چاہیے۔ بتا وہ مقصد کیا ہے؟‘‘ میرا سوال سُن کر کرن نے جواب دیا۔ ’’میری خاموش زندگی میں بہت سے ہنگامے پوشیدہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے صبح کی گود میں پرورش پائی ہے۔ قدرت کی طرف سے مجھے جو تقدیر ملی ہے وہ مجھے ہر لحظہ بے چین و بے قرار رکھتی ہے۔ میں روشنی کی تلاش و جستجو میں بے قرار رہتی ہُوں۔ چوںکہ میں نے صبح کی گود میں آنکھ کھولی ہے، اس لیے دوسروں کو منوّر کرنے کے لیے بے تاب رہتی ہُوں۔ میں وہ بجلی نہیں ہوں جس کا کام ہی جلانا ہے۔ اگر چہ میں اپنی فطرت کے لحاظ سے ناری ہوں اور میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے لیکن میرا کام دوسروں کو جلانا نہیں بلکہ میں دنیا کو روشن کرنے والے سورج کی طرف سے دُنیا کے لیے بیداری کا پیغام ہوں۔دُنیا والوں کو جگانا میرا کام ہے۔ میں سُرمہ بن کر انسانوں کی آنکھوں میں سما جائوں گی۔ رات نے جو کچھ تاریکی کے پردے میں چُھپارکھا تھا۔ اُسے سب کے سامنے کھول کر رکھ دُوں گی تاکہ وہ اسے دیکھ لیں۔میں تجھ سے پُوچھتی ہُوں کہ تیرے مستوں میں بھی کوئی ہوشیاری کا طلب گار ہے؟ کیا ان سونے والوں میں بھی کوئی شخص ایسا بھی ہے جو جاگنے کی لذّت سے واقف ہے؟ کیا تیری قوم میں کوئی ایسا ہے جو صبح سویرے اُٹھنے کا شوق رکھتا ہے؟ جسے اسرارِ کائنات کے سمجھنے اور فطرت کا مطالعہ اور مشاہدہ کرنے کا ذوق نصیب ہوا ہو؟ مجھے ایسے ہی شخص کی تلاش ہے اور یہی تلاش و جستجو مجھے بے چین و بے قرار رکھے ہوئے ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں سورج کی کرن کی زبان سے ہمیں سحر خیزی کی تلقین کی ہے، اور اس کے ساتھ ہی یہ نظم مسلمان کے لیے بیداری کا پیغام بھی ہے۔ یہ پیغام انفرادی بیداری کے لیے بھی ہے اور قومی بیداری کے لیے بھی۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ جس قدرتی منظر کو دیکھتے تھے، اس کی تصویر اور نقشہ کھنچتے ہوئے وہ اپنے اصل پیغام کے لیے ایک موقع پیدا کرلیتے تھے۔ چنانچہ اس نظم میں بھی وہ سورج کی کرن کی زبان سے قوم کو سحر خیزی اور بیداری کا درس دیتے ہیں۔ عُرفی عرفی کا شاعرانہ تخیّل اس قدر بلند ہے کہ اس کی شاعری میں انسانی تخیّل اپنی معراج پر پہنچا ہوُا دکھائی دیتا ہے۔ اُس کی طبعیت میں غضب کی جدّت تھی اور طرز بیان میں بے پناہ زور تھا۔ اُس نے اپنے فکروخیالات کے کمالات جیسے فلسفیوں کے دفتر کے دفتر قربان کئے جاسکتے ہیں۔ اُس کے کلام میں عاشقانہ سوز و گداز اس درجہ پایا جاتا ہے کہ پڑھنے والا تڑپ اٹھتا ہے۔ اُس نے عشق کی فضا میں ایسے نغمے گائے ہیں جنھیں سُن کر دل بے تاب ہوجاتا ہے اور آنکھیں بے اختیار آنسو بہانے لگتی ہیں۔ میرے دل نے ایک دن اُس کی قبر سے شکایت کی۔ ’’اے کہ تیرے تخیّل کی بلندی اور قلم کی جولانی پر ہر کسی کو رشک آتا ہے اب دنیا کے ہنگامے میں بے قراری کا کوئی سامان اور بے تابی کا کوئی رنگ نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں میں جدوجہد کا جذبہ سرد پڑگیا ہے اور اُن میں وہ تڑپ، وہ بے قراری نظر نہیں آتی جو اُن کے اسلاف کا امتیازی نشان تھی۔ قوم کے مزاج میں کچھ ایسی تبدیلی آگئی ہے کہ جدوجہد کی وہ سیمابی کیفیت جو کبھی پہلے موجود تھی، اب آدھی رات کے وقت جو آہ وفریاد کرتا ہے، وہ اُن کے کانوں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے بھلا جب قوم خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہی نہ چاہتی ہو تو اُنھیں شاعر کا پیغامِ بیداری کیسے پسند آسکتا ہے۔ وہ اس پیغام کی طرف کیسے متوجہ ہوں جب کہ یہ پیغام اُن کی طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے اور وہ اس سے سخت ناگواری محسوس کرتے ہیں۔ بھلا کسی کی فریاد کا شُعلہ اندھیرے کو دُور کرے تو کیسے کرے؟ رات کی پوجا کرنے والی چمگادڑوں کو تو صبح کے وقت آسمان پر نمودار ہونے والا اُجالا سخت تکلیف دہ معلوم ہوتا ہے۔ یہی حالت قوم کی ہے۔ شاعر قوم کو بیدار کرنا چاہتا ہے لیکن قوم اس کے پیغامِ بیداری کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی۔کیوںکہ وہ بیدار ہونا ہی نہیں چاہتی۔ بھلا جب کوئی قوم ظلمت کو مقصدِ حیات بنالے تو وہ روشنی کی طرف کیسے مائل ہوسکتی ہے۔ جس قوم کو غفلت کی نیند عزیز ہوجائے، اُسے بیداری کے پیغام کی طرف کیسے متوجہ کیا جاسکتا ہے؟‘‘ ’’اے شاعر!دُنیا والوں کی شکایت نہ کر۔ اپنی قوم کے رویّے کی بابت حرفِ شکایت زبان پر مت لا۔ اگر تُو یہ دیکھتا ہے کہ تیری قوم غفلت کی گہری نیند سورہی ہے تو اپنے نغمے کی لے کو اور اُونچا کردے۔ اگر نغمے کی لذت سرد پڑتی نظر آئے تو تیری نوا اور بلند ہوجانی چاہیے۔اس کی تلخی، اس کی کاٹ کچھ اور بڑھ جانی چاہیے۔ اُونٹ کی پشت پر محمل بھاری ہو اور اُونٹ کی رفتار سُست پڑجائے تو حُدی کے نغمے کو اور زیادہ تیز کردے اگر قوم تیرے پیغام کو اپنے لیے ایک ناگوار بوجھ خیال کرتی ہے تو تجھے مایوس اور دل شکستہ ہو کر بیٹھے رہنے کی بجائے اپنا پیغام قوم کو اور زیادہ جوش و خروش سے سُنانا چاہیے۔‘‘ علامہّ اقبال ؒ نے اس نظم میں عُرفی کے ایک مشہور شعر کی تضمین کی ہے۔ اس طرح ایک طرف تو اُنھو ںنے عرفی کی شاعرانہ عظمت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، دوسری طرف عُرفی کی زبان سے قوم کی بیداری او رفلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والوں کو یہ قیمتی مشورہ دیا ہے کہ اگر قوم اُن کی باتوں کی طرف متوجہ نہ ہو تو اُنھیں اس سے مایوس ہونے کی بجائے اپنے پیغام کو اور زیادہ جوش و خروش سے قوم کے کانوں تک پہنچانا چاہیے۔ اُنھیں قوم کے رویے سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے اور ہمّت ہار کر بیٹھے رہنے کی بجائے اور زیادہ سرگرمی، جوش اور ولولے سے کام لینا چاہیے۔ صحرا میں جب اُونٹ کو محمل کا بوجھ زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے اور اس بوجھ کی وجہ سے اُس کی رفتار سُست پڑجاتی ہے تو ساربان اپنی حُدی کے نغمے کی آواز کو اور زیادہ بلند کردیتے ہیں اور اُونٹ اس نغمے میںمست ہو کر زیادہ تیز چلنے لگتے ہیں۔ کُفر و اسلام تضمین برشعر میر رضی دانش ایک دن اقبال نے کوہِ طور پر خدا سے ہم کلام ہونے والے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پُوچھا۔ ’’اے حضرت! آپ کے پائوں کے نقش کی بدولت سینا کی وادی باغ و بہار بن گئی تھی۔ ذرا یہ تو فرمائیے کہ کُفر تو دُنیا میں ہرجگہ جلوہ گر نظر آتا ہے لیکن خُدا کا جلوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ نمرود کی آگ سے اب تک شعلے اُٹھ رہے ہیں لیکن ایمانی قوت کے کرشمے کہیں دیکھنے میں نہیں آتے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ میرا سوال سُن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا۔ ’’اے اقبال! اگر تو مسلمان ہونے کا دعوے دار ہے تو غائب کو چھوڑ حاضر پر فریفتہ نہ ہو۔ مسلمان کو ایمان بالغیب کی تعلیم کو مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔ اللہ نے مسلمانوں کواُس خُدا پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے جو آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ ’’یہ حکم تو عام مسلمانوں کے لیے ہے لیکن اگر تیری طبیعت غائب کی بجائے حاضر کا جلوہ دیکھنے کا تقاضا کرتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے تو اپنے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سا ایمان پیدا کر کہ اُنھیں آگ میں ڈالا گیا تو پھر بھی وہ اپنے ایمان پر قائم رہے۔ وہ آگ اُن کا بال تک بیکا نہ کرسکی اور خدا کی رحمت سے وہ آگ ان کے لیے نار سے گلزار بن گئی۔ اگر تیراایمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح پختہ ایمان نہیں ہے تو آگ تیرے وجود کو جلا کر خاک کر ڈالے گی، لیکن اگر تو اس مقام و مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا تو پھر ایمان بالغیب حاصل کر اور حاضر کی بجائے غائب کا دیوانہ بن جا۔ ’’اگر تو غائب کا دیوانہ ہے اور تیرا ایمان بالغیب پُختہ ہے تو کُفر کی ظاہری شان وشوکت کی کوئی پروانہ کر۔ جو کچھ پیش آرہا ہے، اس سے بالکل بے پروا ہو جا۔ فاران کی وادی میں اپنا خیمہ لگالے اور قدرت کے کرشموں کا انتظار کر۔ جب تو اسلامی تعلیم کا پابند ہوجائے گا اور ہر طرف سے دھیان ہٹاکر اپنے دل میں خدا کی محبّت کے جذبے کو پُختہ سے پُختہ تر کرتا جائے گا تو قدرت تیری دست گیری کرے گی اور تجھے کُفر کے مقابلے میں وہ شوکت و کامرانی نصیب ہوگی جو پُختہ ایمان والوں ہی کا مقدر ہُوا کرتی ہے۔ ’’یاد رکھ! حاضر کی شان عارضی اور غائب کا شُکوہ و دبدبہ ہمیشہ کے لیے رہنے والا ہے۔اس دنیا میں کُفر کی ظاہری شان و شوکت محض عارضی اور چندہ روزہ ہے جب کہ اسلام کی شان و شوکت دائمی اور ابدی ہے۔ اس دُنیا میں خُدا کے سوا جو کچھ بھی ہے، اس کی شان جلد ختم ہوجائے گی مگر خدا کی شان ہمیشہ قائم رہے گی۔ کُفر ایک دن لازماً مٹ جائے گا لیکن اللہ چوںکہ حق ہے، اس لیے وہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ یہ ایک ابدی صداقت ہے اور اس صداقت کو محبّت کے ساتھ وہی تعلق ہے جوروح کو جسم کے ساتھ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں خدا کی محبّت ہے تو وہ اس صداقت کو نہ صرف پورے طورپر سمجھے گا بلکہ وہ اس صداقت کا پکا معتقد ہوگا۔ ’’اگر نمرود کی آگ زمانے میں روشن ہے تو اس سے ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر کُفر دنیامیں ہر جگہ جلوہ گر نظر آتا ہے تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ کیا تونے نہیں دیکھا کہ شمع محفل میں روشن ہو کر سب کو اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ اس جلوے میں ایک طرح سے حاضر کی شان پائی جاتی ہے لیکن یہ شان عارضی ہے کیوںکہ شمع محفل منوّر کرنے کے ساتھ اپنے آپ کو پگھلادیتی ہے اور صبح ہوتے ہوتے شمع کا وجود بھی باقی نہیں رہتا لیکن اس کے مقابلے میں ہمارا نُور شمع کی طرح دنیا والوں کو جلوہ نہیں دکھاتا بلکہ پتّھر کی آگ کی طرح نگاہوں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ یہ نُور خدا کا نُور ہے، اس کا وجود دائمی ہے، اس پر کبھی فنا طاری نہیں ہوگی۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہے گا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں میر رضی دانش کے ایک شعر پر تضمین کی ہے۔ اس تضمین کے ذریعے علّامہ اقبالؒؒؒ نے ایک طرف تو کفر اور اسلام کا فرق بڑی خوب صورتی سے بیان کیا ہے، دوسری طرف میر رضی دانش کے شعر سے اپنی خدا داد ذہانت سے یہ بات پیدا کی ہے کہ کفر(بُت) ظاہر ہے لیکن محبوب(خُدا) پوشیدہ ہے۔ بُت کو فنا ہے لیکن ہمارے محبوب کو فنا نہیں۔ اس نکتہ نے میر رضی دانش کے شعر کو کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ حکایاتِ بالِ جبریل عبدالرحمن اوّل کا بویا ہُوا کھجور کا درخت سرزمینِ اندلس میں اے کھجور کے درخت! تو میر آنکھوں کا نُور ہے۔ تو میرے دل کے لیے سرور اور شادمانی کا پیغام ہے۔ میں اپنے وطن سے دُور بیٹھا ہُوں۔ تُو میرے وطن کا خاص درخت ہے اور میرے نزدیک تیری وہی حیثیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی تجلی کی وجہ سے نخل طُور کو حاصل تھی۔ تجھے یورپ کی آب و ہوا نے پالا اور پروان چڑھایا ہے حالانکہ تو عرب کے صحرا کی حُور ہے۔ جس طرح میں نے پردیس میں آکر سلطنت پائی ہے، اُسی طرح تُو بھی پردیس میں پلا بڑھا اور سرسبز و شاداب ہُوا ہے، لیکن تمام شان وشوکت اور کامیابی و کامرانی کے باوجود میرے دل میں وطن کی محبت اسی طرح موجود ہے جس طرح پہلے تھی، اسی وجہ سے میں بے چین ہُوں اور میرا دل صبر و قرار سے محروم ہے۔ پردیس میں ہونے کی وجہ سے تو بھی میری ہی طرح بے چین اور صبر و قرار سے محروم ہے۔ میری دُعا ہے کہ اس اجنبی سرزمین کی آب و ہواتجھے راس آئے اور تُو اس اجنبی سزمین کی آب میں خُوب پھلے پھُولے۔ ہوائیں تجھے نرمی سے جُھولا جھُلائیں اور صبح کی شبنم تجھے اپنی نمی سے ہرا بھرا رکھے۔ دنیا کی کیفیت نہایت عجیب و غریب اور نرالی ہے۔ یہاں کسی حالت، کسی کیفیت کو قرار نہیں۔ آج ایک انسان عروج کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا ہُوا ہے، کل اس طرح گرجاتا ہے کہ خُدا کی زمین اُس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اور اُسے کہیں ٹھکانہ نہیں ملتا انسان کی آنکھ عروج و زوال کے یہ درناک نظّارے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی۔ اس جہان کی مثال ایک ایسے سمندر کی سی ہے جس کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔ یہاں عزم و ہمّت کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو عزم و ہمت سے کام لے کر دُنیا کے اس سمندر میں تیرتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کو پالیتے ہیں۔ انسان تو محض مٹی کا ایک پُتلا ہے اور مٹی سے کبھی آگ کی چنگاریاں پیدا نہیں ہوتیں۔ یہاں وہی انسان حقیقی معنوں میں زندہ ہے جس کے اپنے دل کے اندر سوز ہو اور یہ سوز اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اُس کے سامنے کوئی بلند مقصد اور بڑا نصیب العین ہو، اُس کے دل میں اس مقصد اور نصب العین کو پُورا کرنے کی لگن اور سچیتڑپ موجود ہو اور وہ اپنی ساری زندگی اس جدوجہد میں لگا رہے۔ دیکھو! یہ اِسی ہمّت، تڑپ اور لگن کی برکت تھی کہ ملک شام کے آسمان کا ٹوٹا ہوا تارہ پردیس کی صبح میں آکر اور زیادہ روشن ہوگیا۔ عبدالرحمن شام میں تھا تو محض اُموی خاندان کا ایک شہزادہ تھا۔ وہاں سے نکل کر اندلس پہنچا تو ایک بہت بڑی سلطنت کا مالک اور بانی بن گیا اور تاریخ کے صفحات میں اُس کا نام ہمیشہ کے لیے سنہرے حرفوں میں ثبت ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دل ایمان کی دولت سے معمور ہو،وہ صحیح معنوں میں مومن ہو تو اُس کی دنیا کسی ایک ملک تک محدود نہیں رہتی۔ وہ جہاں جاتا ہے، اپنے لیے مقام اور وطن پیدا کرلیتا ہے، مومن کے جہاں کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس دنیا میں، بلکہ اس کائنات میں اس کامقام ہر کہیں ہے۔ یہ سارا جہاں اس کا جہان ہے۔ ساری کائنات اُس کی کائنات ہے! علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں اُن عربی اشعار کو اُردو کا جامہ پہنایا ہے جو عبدالرحمن اوّل نے اندلس میں اپنے لگائے ہوئے کھجور کے درخت سے مخاطب ہو کر کہے تھے۔ عبدالرحمن اوّل جو الدّاخل کے لقب سے مشہور ہے۔ اندلس میں اُموی سلطنت کا بانی تھا۔ وہ اُموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا پوتا تھا۔ بیس سال کا تھا جب عباسیوں نے اُموی سلطنت کا تختہ اُلٹ دیا، اور اُموی خاندان کے ایک ایک فرد کو چُن چُن کر قتل کیا، عبدالرحمن جان بچا کر بھاگا۔ شام سے مصراور وہاں سے مراکش ہوتا ہُوا اندلس پہنچ گیا۔ اس سفر میں اُس نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔ اندلس میں اُس نے تھوڑی سی فوج فراہم کرکے وہاں کے گورنرکو شکست دی اور اس طرح اُندلس میں آزاد اُموی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ عبدالرحمن الداخل نے قرطبہ کے پاس اپنے لیے ایک خاص باغ بنوایا تھا جس کا نام رضافہ رکھا تھا۔ اسی باغ میں اُس کا محل بھی تھا۔ عبدالرحمن نے اس باغ میں کھجور کا ایک درخت بھی لگوایاتھا۔ ایک روز کھجور کے درخت کو دیکھ کر اُسے اپنی پہلی حالت یاد آگئی اور اُس نے درخت کو مخاطب کرکے چند شعر عربی میں کہے جنھیں اقبال نے اُردومیں منتقل کرکے زندہ جاوید کردیا۔ علّامہ اقبالؒ نے اس نظم میں عبدالرحمن الدّاخل کی مثال سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ مسلمان اس دنیا میں صرف عروج اور سربلندی کے لیے آیاہے۔ محکوم ہوکر رہنا اُس کی شان نہیں اور اُس کی سربلندی کسی ایک ملک سے وابستہ نہیں۔ وہ ایک مقام کو چھوڑ کر دوسرے مقام کی طرف جاتا ہے تو وہ بھی اپنی قوتِ ایمانی، اپنے سوزِ دروں اور اپنے عزم و ہمّت سے اپنے لیے سربلندی کے سامان فراہم کرلیتا ہے۔ ہسپانیہ اے ہسپانیہ! تو مسلمانوں کے خون کا امانت دار ہے۔جس سرزمین کی فتح و تسخیر میں مسلمانوں کا خون بہا جس کی حفاظت کے لیے وہ صدیوں تک دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ جہاں اسلام کے نامور مجاہد، سالار، تاجدار، مدبّر، ادیب، قاضی، فلسفی مؤرخ پیدا ہوئے، وہ سرزمین کیوں زیادہ سے زیادہ احترام کی حق دار نہ ہو۔ اسی لیے میری نظر میں تیری زمین حرمِ کعبہ کی طرح پاک اور محترم ہے۔ اے ہسپانیہ! بھلا تیری زمین میری نگاہوں میں پاک اور لائقِ احترام کیوں نہ ہو؟ تیری خاک کے چپے چپے پر مسلمان کے سجدوں کے نشان ہیں۔ وہ ساڑھے سات سو سال تک اسی سرزمین پر نمازیں ادا کرتے رہے ہیں اور خداوندِ بزرگ و برتر کے حضور سجدہ ریز ہوتے رہے ہیں۔ صبح کے وقت تیرے طول و عرض میں جو ہوا چلتی ہے، اس میں مجھے خاموش اذانیں سُنائی دیتی ہیں اور میرے ذہن میں اُس دور کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جب تیری فضائوں میں مسلمان مجاہدوں کی اذانیں گونجتی تھیں۔ وہ اذانیں اگر چہ اب سُنائی نہیں دیتیں لیکن تیری فضا کی لہروں میں اُن کی گونج اب تک محفوظ ہے۔ اے ہسپانیہ! تجھے تو یاد ہوگا کہ وہ سجدے کرنے والے اور اذانیں دینے والے کون تھے؟ وہ تو وہ بہادر، شیردل اور جواں مرد عرب تھے جن کے نیزوں کی نوکیں ستاروں کی طرح روشن اور چمک دار تھیں۔ میرا دل اب بھی اُس زمانے کا تصور کررہا ہے جب اُن کے خیمے تیرے پہاڑوں کے دامن میں نصب تھے۔ اے ہسپانیہ! کیا تیرے حسینوں کو پھر مہندی کی ضرورت ہے؟ میرے جگر کا خون تیری یہ ضرورت پوری کرسکتا ہے اس لیے کہ اس میں ابھی تک سُرخی باقی ہے۔ کیا تیری سرزمین پھر مسلمان کے لہو کی طلب گار ہے۔ اگر واقعی تجھے مسلمان کا لہو چاہیے تو مسلمان گیاگزراہونے کے باوجود ایک بار پھر تیرے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کرسکتا ہے۔ کیوںکہ ابھی اس کے دل کے خون میں کچھ نہ کچھ سُرخی باقی ہے جو تیرے حسینوں کے لیے مہندی کا کام دے سکتی ہے۔ میں نے مانا کہ مسلمان اب پہلے جیسا مسلمان نہیں رہا۔ مجھے تسلیم ہے کہ اس کی چنگاری میں پہلے کی سی تپش اور حرارت باقی نہیں رہی لیکن یہ بھی تو نہیں ہوسکتا کہ وہ دنیا کے ہاتھوں مغلوب ہوجائے۔ چنگاری آخر چنگاری ہے، بھلا وہ گھاس پھوس سے کیسے دب سکتی ہے؟ اس طرح مسلمان گیا گزرا ہونے کے باوجود آخر مسلمان ہے، وہ دُنیا سے کیسے دب سکتا ہے؟ میری آنکھوں نے غرناطہ بھی دیکھ لیا لیکن مسافر کے لیے تسکین کا سامان نہ حالتِ سفر میں ہے اور نہ حالتِ قیام میں، اس لیے کہ ہسپانیہ کے بہترین مناظر دیکھ لینے کے باوجود دل کو تسکین نہیں ہوئی۔ میں نے ہسپانیہ میں اسلامی دور کے آثار خود بھی دیکھے اور ان کا نقشہ دوسروں کے سامنے بھی پیش کیا۔ میں نے ہسپانیہ کے مسلمانوں کی داستانیں خود بھی سُنیں اور دوسروں کو بھی سنائیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ نہ دیکھنے دکھانے سے دل نے چین پایا اور نہ سُننے سے دل کو تسکین ہوئی۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس نظم میں ہسپانیہ کی سرزمین کو مخاطب کرتے ہوئے، اس دور کی یادیں تازہ کی ہیں جب ہسپانیہ کی سرزمین پر مسلمانوں کی حکومت تھی، جب اس کی فضائوں میں توحید کے ترانے گونجتے تھے، جب اس کی فضائیں اذانوں کی ولولہ انگیز صدائوں سے معمور تھیں، اور جب اس کی خاک مسلمانوں کے سجدوں سے آبادتھی۔ علّامہ اقبالؒ ؒ جب 1932ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے انگلستان گئے تو پہلے سے یہ فیصلہ کرکے گئے تھے وہ واپس آتے ہوئے ہسپانیہ ضرور جائیں گے اور مسلمانوں کے ساڑھے سات سو سالہ دورِ حکومت کے بچے کچھے آثار دیکھیں گے۔ یہ نظم اور بالِ جبریل کی کئی دیگر نظمیں علّامہ اقبالؒؒؒ کے اسی سفر کی یادگار ہیں۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس نظم میں ہسپانیہ میں مسلمانوں کے دورِ حکومت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے نہ تو قرطبہ جیسے خوب صورت شہروں کا ذکر کیا ہے اور نہ قصرِ الحمرا جیسے عالی شان محلاّت کابلکہ ذکر کیا ہے تو اُن مجاہدین کا جن کے خیمے کبھی ہسپانیہ کے پہاڑوں کے دامن میں نصب تھے، جن کے نیزوںکی نوکیں ستاروں کی طرح روشن اور چمک دار تھیں۔ جن کی اذانیں ہسپانیہ کی فضائوں میں گونجتی تھیں اور جن کے سجدوں نے ہسپانیہ کو اپنے سجدوںسے حرم کی طرح پاک اور لائقِ احترام بنادیا تھا۔ گویا کہ علّا مہ اقبال نے ہسپانیہ کے خوب صورت شہروں اور عالی شان محلّات کی تباہی اور ویرانی کا ماتم کرنے کی بجائے اُن عرب مجاہدین کے جذبۂ جہاد اور ذوقِ عبادت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جنھوں نے ہسپانیہ کی اجنبی سرزمین میں اسلام کا پرچم بلند کیا تھا۔ اس طرح وہ ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جذبۂ جہاد اور ذوقِ عبادت یہی دو جذبے مسلمانوں کی سربلندی کے ضامن ہیں۔ جب تک اُن کا جذبۂ جہاد اور ذوقِ عبادت زندہ ہے، تب تک وہ زندہ ہیں اور دنیا کی ہر کامرانی اُن کا مقدر ہے۔ جہاں یہ دونوں جذبے سرد ہوئے، اُن کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا لہو بھی سرد ہُوا اور پھر دُنیا کی ہر ذلّت اُن کا مقدر بن گئی۔ لینن خُدا کے حضور میں اے خُدا! تیری عظمت و قدرت کی نشانیاں عالمِ روحانی اور عالم مادی، اور قائم رہنے والی ہے۔ تُوازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، لیکن میں اپنی زندگی میں اس حقیقت تک پہنچتا تو کیسے پہنچتا، میں کس طرح سمجھتا تُو موجود ہے یا نہیں؟میری مصیبت یہ تھی کہ عقل نے کائنات کے بارے میںجو نظریئے قائم کیے تھے، وہ ہرلحظہ بدلتے رہتے تھے۔ اگر ان میں سے کوئی نظریہ اپنی جگہ قائم رہ جاتا تو مجھے یقین ہوجاتا کہ وہ سچا ہے مگر اُن میں تو برابر تبدیلیاں ہوتی رہتی تھیں۔ ان سے یقین کا نُورحاصل ہوتا تو کیسے ہوتا؟ ان سے تو انسانی ذہن شک اور تذبذب کی بھول بھلیوں میںکھوجاتا تھا۔ اے خدا! اگر دنیا میں مجھے تیری ہستی کا یقین نہ آیا، اگر میں تیرے وجود یا عدم وجود کے بارے میں فیصلہ نہ کرسکا، اگر میں تجھ پر ایمان نہ لاسکا تو اس کی وجہ فلسفیوں اور دانش مند کہلانے والوں کے وہ نظریے تھے جن کے بدلتے رہنے سے میں بدظن ہوگیا تھا۔ اب مجھ پر یہ حقیقت ظاہر ہوگئی ہے کہ آثارِ فطرت یعنی چاند، سورج، ستاروں وغیرہ کا مشاہدہ کرنے والا ہیئت دان ہو یا درختوں اور پودوں وغیرہ کی تحقیقات کرنے والا عالمنبات، ان میں سے کسی کو بھی فطرت کے ازلی نغمے سے کوئی واقفیت نہیں۔ ہیئت دان ستاروں کو دیکھ کر ان کے متعلق عجیب و غریب داستانیں سُناتے ہیں اور ان کے حوالے سے دُنیا کے معاملات پر حکم لگاتے ہیں۔ نباتات کے ماہرین ہر روز درختوں اور پودوں کے حوالے سے نئی نئی باتیں پیدا کرتے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی تمام عقل و دانش کے باوجود فطرت کی صدا سے واقف نہ ہوسکے اور اس طرح تیری ذات کے عرفان سے محروم رہے۔ میں عالمِ آخرت کو کلیسا کے پادریوں کی گھڑی ہوئی بے سروپا کہانیاں اور افسانہ طرازیاں سمجھتا تھا۔ میں سمجھتا تھا کہ موت کے بعد زندگی کی کوئی حقیقت نہیں اورجنت دوزخ یہ سب خیالی باتیں ہیں جنھیں پادریوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنے ذہن سے گھڑلیا ہے، آج جب میں عالمِ آخرت کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں تو مجھے معلوم ہوا کہ جس بات کو میں کلیسا کے پادریوں کی خرافات سمجھتا تھا وہ تو ایک حقیقت تھی۔ اے خُدا ہم انسان رات دن کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بے بس بندے ہیں۔ ہماری عقل، ہماری سوچ محدود ہے، اس لیے ہم سے غلطیوں،گناہوں اور کوتاہیوں کا سرزد ہونا فطری بات ہے، اس کے مقابلے میں تیری ذات بہت برتر اور عظیم ہے، تُو نے کائنات کو پیدا کیا، اور اس کائنات کے کارخانے کو چلانے والا بھی توہی ہے۔ تو زمانوں اور لمحوں کا خالق ہے۔ تو ایک ایک لمحے کی ایک ایک بات کو محفوظ رکھنے والا ہے۔ اے خُدا! اگر مجھے اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں جسے دنیا کے فلسفی بھی حل نہ کرسکے اگر چہ انھوں نے اسے حل کرنے کی کوششوں میں مقالات لکھ لکھ کر کتابوں کے ڈھیر لگادیے،جب تک میں زمین پر زندہ رہا، اپنی ساری زندگی ایک سوال میرے ذہن میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا، مجھے زندگی بھر اسی ایک سوال نے بے چین رکھا۔ دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں، اہل فکرونظر اور دانائوں کے نظریات و خیالات کے مطالعے سے بھی مجھے اپنے سوال کا جواب نہیں مل سکا۔ جب روُح کے اندر خیالات ایک طوفان کی طرح تلاطم برپا کیے ہوئے ہوں تو انسان کو گفتگو کے آداب اور سلیقے پر قابو نہیں رہتا۔ شدّتِ احساس کی وجہ سے انسان نہ خود کو قابو رکھ سکتا ہے اور نہ حفظِ مراتب کا خیال رکھ سکتا ہے۔ میں جو بات پُوچھنا چاہتا ہوں، اسکے بارے میں میرے جذبات و احساسات بڑے نازک اور بڑے شدید ہیں۔ اس لیے اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہوجائے تو مجھے مُعاف رکھا جائے۔ اے خُدا! میں جو بات پُوچھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ انسان کو ن سا ہے جس کا تُو معبود ہے؟ کیا تُواُسی مٹی کے پُتلے کا معبود ہے جو آسمانوں کے نیچے زمین پر رہتا ہے؟ اُس انسان کی حالت تو یہ ہے کہ جو لوگ مشرق میں بستے ہیں، اُن کے خداوند سفید فام فرنگی بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ یورپ کی سفید فام قوموں نے پُورے مشرق کو جسمانی طور پر ہی نہیں، ذہنی طور پر بھی اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ مشرق والے ہر بات میں مغرب کی تقلید کرتے ہیں۔ وہ نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں اور نہ اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔ ہر بات میں فرنگ کی تقلید اُن کا شیوہ بن چکا ہے۔ زبان بولتے ہیں تو اہلِ فرنگ کی اور لباس پہنتے ہیں تو اہلِ فرنگ کا اور خود اہل مغرب کی یہ حالت ہے کہ اُنھوں نے چمکنے والی دھاتوں کو اپنا خُدا بنا رکھا ہے۔ وہ رات دن اُنھِیں کی پرستش میں لگے رہتے ہیں۔ وہ ہر معاملے کو مادی پیمانوں سے جانچتے ہیں۔ دولت ہی ان کے لیے صحیح یا غلط اور حق یا ناحق کا معیار ہے۔ اے خُدا! جب مشرق اور مغرب دونوں جگہ کا انسان گمراہی کا شکار ہے، تو پھر تو خود ہی بتا کہ تیری عبادت اور پرستش کرنے والا انسان کون سا ہے؟ تو کون سے انسان کا معبود ہے؟ اے خُدا! یورپ میں بظاہر تو علم و ہنر کی روشنی بہت زیادہ ہے۔ وہاں مختلف علوم و فنون کی بڑی بڑی درس گاہیں اور یونی ورسٹیاں قائم ہیں۔ علم حاصل کرنے والے دنیا کے کونے کونے سے ان درس گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ اپنی تمام ظاہری چکاچوند کے باوجود یورپ ظلمات اور تاریکی کی ایسی دنیاہے جس میں آبِ حیات کا کوئی چشمہ موجود نہیں جس سے انسان حقیقی زندگی حاصل کرسکے۔ یورپ میں علوم ہیں، وہ انسان کو یقین کی بجائے بے یقینی اور شک میں مبتلا کرتے ہیں۔ ان علوم سے اور تو سب کچھ مل سکتا ہے لیکن دلی طمانیت اور روحانی تسکین نہیں مل سکتی۔ اے خُدا! عمارتوں کی شان و شوکت، رونق، نفاست اور ذوقِ صفائی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یورپ والوں کے بنکوں کی عمارتیں گرجوں سے کہیں زیادہ شان دار نظر آتی ہیں، اس سے انداز ہ ہوسکتا ہے کہ اہلِ یورپ کو جو دلچسپی اپنی دولت اور اپنے کاروبار سے ہے، وہ مذہب سے نہیں۔ اُنھوں نے مادی ترقی تو بہت کرلی ہے لیکن روحانیت کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ اے خُدا! یورپ والے بظاہر جو کچھ کرتے ہیں، اس کا نام اُنھوں نے تجارت رکھ چھوڑا ہے لیکن حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ محض جوا ہے۔ اس جوئے میں ایک آدمی بے اندازہ فائدہ اٹھاتا ہے اور اس کے فائدے کے لیے لاکھوں آدمیوں کے گھر بار تباہ ہوجاتے ہیں اور وہ ایسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو موت سے بھی بد تر ہوتی ہے۔ اے خُدا! یہ اہلِ یورپ دکھاوے کے لیے دُنیا کو مساوات کی تعلیم دیتے ہیں۔ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ سب انسانوں کو برابر سمجھتے ہیں اور ان کے ہاں ذات پات، اُونچ نیچ کی کوئی قید نہیں۔ وہ جمہوریت، آزادی، انصاف اور امن کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتے ہیں مگر جمہوریت، آزادی، انصاف اور امن کی یہ باتیں صرف زبانی نعرے ہیں، اہل یورپ کا عمل ان نعروں کے بالکل برعکس ہے۔ وہ کمزور قوموں کا لہو پیتے ہیں اور اپنے علم، حکمت، تدبّر اور حکومت سے محکوموں پر ہر ظلم روا رکھتے ہیں۔ اے خُدا! اہلِ یورپ اپنے تہذیب و تمدن کے بڑے گُن گاتے ہیں۔ وہ اپنی تہذیبی و تمدنی ترقی کے فوائد کی خُوبیاں گنواتے نہیں تھکتے، مگر حقیقت کیا ہے؟ جہاں جہاں اہلِ یورپ کا تمدّن پہنچا۔ وہاں بے کاری بڑھ گئی۔ بے حیائی میں اضافہ ہوا، لوگوں کے لیے تن پوشی کا سامان نہ رہا، شراب نوشی عام ہوگئی، افلاس کے ہاتھوں ہر شخص نالاں و پریشان ہے۔ اس کے سوا اہل یورپ نے دنیا کو کیا دیا ہے؟ بھلا جو قوم آسمانی فیض سے محروم ہو، جسے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی و ہدایت حاصل نہ ہو، جو اللہ کے بھیجے ہوئے کسی سچے پیغمبر کی تعلیم پر عمل پیرا نہ ہو، اُس کے کمالات کی حد بجلی اور بھاپ کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے؟ یورپ نے جو سائنسی ایجادات کی ہیں، وہ صرف بجلی اور بھاپ تک محدودہیں۔ اگر یورپ والے الہامی تعلیم کے معتقد ہوتے تو اُن کی ترقی اور کمالات کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا۔ اے خُدا! اہلِ یورپ نے جو مادی ترقی کی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دُنیا پر انسانوں کی بجائے مشینوں کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ ہر جگہ مشینیں اور کارخانے لگ گئے ہیں۔ یہی مشینیں اور کارخانے اہل یورپ کی ترقی کا ذریعہ ہیں۔ جب انسانوں کے بڑے بڑے گروہ مل جُل کر کام کرتے تھے تو اُن میں ایک دوسرے سے تعلق کی بنا پر ہمدردی کے جذبات اُبھرتے تھے اور وہ ایک دوسرے کی خدمات اور مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔جب مشینوں کا زمانہ آگیا تو لوگوں کے دل بھی مشینوں کی طرح سخت اور بے حس ہو گئے۔ انسان بھی انسان کی بجائے مشین بن گیا۔ انسانیت، اخلاقیات، ہمدردی اور دیگر روحانی اقدار سے محروم ہوکر انسان کی سوچ اور اُس کا عمل بھی مشینی ہوگیا۔ مشینوں نے انسان کے اندر سے احساسِ مروّت کو ختم کرڈالا ہے اور انسان خود مشینوں کی طرح بے حس اور سنگ دل ہوگیاہے۔ اے خُدا! اب کچھ ایسے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تدبّر تقدیر کے ہاتھوں شکست کھاکر رہے گی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اہل یورپ نے اپنے سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں سے دولت جمع کرنے کا جو نظام قائم کررکھا تھا، وہ اپنی اندورونی خرابیوں کے باعث تباہی سے دوچار ہونے والا ہے۔ فطرت کا اصول ہے کہ جب کوئی نظام انسانیت کو راحت اور سکون کی بجائے عذاب میں مبتلا کردے تو قدرت اُس کا خاتمہ کردیتی ہے۔ اہلِ یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام میں مزدور اور کارکن میں حقوق کے لیے جدوجہد کا احساس پیدا ہوگیا ہے، چنانچہ سرمایہ داری اپنے بچائو کے لیے کیسی ہی تدبیروں سے کام لے، قانونِ قدرت سے نہیں بچ سکتی۔ اس لیے کہ خود غرض انسان چاہے کیسی ہی تدبیروں سے کام لیں، خدائی قانون اُنھیں ناکام بنادے گا اور صاف نظر آرہا ہے کہ اب تقدیر کے سامنے سرمایہ دار کی کوئی تدبیر نہیں چلے گی۔ اے خُدا! اہلِ یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام کی بُنیاد ہل گئی ہے۔ ان کے دانش وروں اور بڑے بڑے دماغوں نے محسوس کرنا شروع کردیا ہے کہ اگر یہی لیل و نہار رہے توسرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ یقینی ہے۔ وہ اس فکر میں گھلے جارہے ہیںکہ کس طرح سرمایہ دارانہ نظام کو تباہی سے بچایا جائے۔ اے خُدا! تباہی کے آثار کے باوجود یورپ میں ظاہری چمک دمک بہت ہے۔ اہلِ یورپ شام کو سیر کے لیے نکلتے ہیں تو اُن کے چہرے سُرخی سے دمک اور دہک رہے ہوتے ہیں مگر یہ سُرخی اور حسن سراسر مصنوعی ہے۔ یہ سُرخی اس بات کی علامت ہرگز نہیں کہ اُن کے جسموں میں صحت مند خون دوڑ رہا ہے بلکہ یہ وہ سرخی ہے جو یا تو غازے کی سرخی ہوتی ہے یا پھر شراب نوشی کا اثر۔ چوںکہ یورپ کا سارا نظام اندر سے بالکل کھوکھلا اور بے جان ہے، اس لیے اس کی ظاہری آرائش اور چمک دمک سراسر مصنوعی ہے۔ اے باری تعالیٰ تُو قادرِ مطلق ہے۔ تُو ہر صورتِ حال پر قادر ہے۔ عدل تیرا ازل سے دستور ہے اور تیرے عدل و انصاف میں کسی شک کی گنجائش نہیں لیکن میں یہ عرض کرنے کی اجازت چاہتاہُوں کہ دُنیا میں مزدور کی زندگی بڑی تلخ ہے۔ آخر ایک سرمایہ دار اور ایک مزدور کی زندگیوں میں اتنا فرق کیوں ہے؟ سرمایہ دار عیش و عشرت میں غرق ہے اور مزدور پریشانی و بدحالی اور افلاس و غربت کا شکار ہے۔ آخر مزدور کی زندگی میں تلخیاں ہی تلخیاں کیوں ہیں؟ اے خُدا! مجھے بتا کہ سرمایہ پرستی کی یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی کشتی کب ڈوبے گی؟ اے خدا! تیری دنیا بدلے کے دن کا انتظار کررہی ہے۔ جب تو نے یہ قاعدہ مقرر کررکھا ہے کہ بُرائی کا بدلہ بُرائی کے سوا کچھ نہ ہوگا، جو برا کام کرے گا، اس کی سزا پائے گا، پھر کیا وجہ ہے کہ سرمایہ پرستی کو اس کی برائیوں کا بدلہ ابھی تک نہیں ملا؟ دنیا اسی انتظار میں ہے کہ کب سرمایہ داری کا نظام ختم ہوتا ہے اور سرمایہ دار ظالموں نے انسانیت پر جو ظلم و ستم توڑے ہیں انھیں تیری طرف سے ان کی سزا ملے؟ فرشتوں کا گیت اے خُدا! تو نے انسان کو جو عقل عطا کی تھی، وہ ابھی تک بے لگام ہے۔ ہرشخص تدبیر اور چالاکی سے کام لیتے ہوئے اپنا مطلب نکالنے کے درپے ہے۔ ہر کوئی اپنا اُلو سیدھا کرنے کی فکر میں ہے، خلقِ خدا کی بھلائی کی فکر کسی کو نہیں۔ جہاں تک عشق اور محبت کے جذبے کا تعلق ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے ابھی تک دنیا میں کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ یہ جذبہ ابھی تک کوئی ایسی صورت اختیار نہیں کرسکا جس سے عوام کو فائدہ حاصل ہو یا ان کی بہتری کے لیے عمل میں آئے۔ کہیں کہیں اس کی جھلک ضرور نظر آتی ہے لیکن یہ جذبہ اتنا عام نہیں جتنا اسے ہونا چاہیے تھا۔ اے نقاشِ ازل! اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تونے انسان کی شکل میں جو نقش عقل اور عشق کو ملاتے ہوئے بنایا تھا، وہ ابھی تک ادھورا اور نامکمل ہے کیوںکہ وہ ابھی تک اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکا۔ اے خدا! انسانوں کی دنیا کا عجیب رنگ ہے۔ شرابی اور عیاش و اوباش ہوں یا عالم اور دین دار، دولت میں کھیلنے والے امیر ہوں یا پیری کی گدیاں سجانے والے، جسے دیکھو خلقِ خدا کی گھات میں بیٹھا ہے۔ جس کا جہاں تک بس چلتا ہے، تیرے بندوں کو اپنی اپنی مرضی کے لیے استعمال کرتاہے۔ اے خُدا! تیری دنیا میں صبح و شام کی جو کیفیت پہلے تھی، وہی اب بھی ہے اس میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اے خُدا! تیری دنیا کے دولت مندوں اور امیروں کو دیکھیں تو وہ عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں، دولت اور امیری کے نشے نے انھیں ہر چیز سے بے پروا اور غافل کررکھا ہے۔ عیش و نشاط کی محفلیں سجانے کے سوا اُنھیں اور کوئی کام ہی نہیں۔ اور اگر تیری دنیا کے مفلسوں اور غریبوں پر نظر ڈالیں تو ان کی حالت حددرجہ بری ہے لیکن وہ اسی پر قناعت کیے بیٹھے ہیں۔ اپنی حالت کو بدلنے کی کوشش کرنے کی بجائے وہ اپنی مفلسی اور غریبی ہی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کیے ہوئے ہیں بلکہ اسی کو نعمتِ خداوندی سمجھتے ہیں۔ بندہ اور آقا، غلام اور مالک، غریب اور امیر ان کی زندگیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بندہ، غلام اور غریب کی کیفیت یہ ہے کہ اسے آرام کے لیے ٹھکانا بھی میسر نہیں۔ گلی گلی اور دردر پھرنا اس کا مقدر ہے۔ اس کے برعکس آقا، مالک اور امیر کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اونچے اونچے اور عالی شان محلات میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اے خُدا! اس دنیا کی کیفیت تو یہ ہے کہ عقل ہو یادین، علم ہو یا فن سب ہوس، حرص اور لالچ کے غلام بنے ہوئے ہیں، عالموں، دینداروں،عقل مندوں اور فن کاروں کو تونے جو خوبیاں بخشی ہیں۔ ان کو وہ سب ذاتی برتری کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ وہ اوصاف اور وہ جوہر جنھیں خلقِ خدا سے محبت اور اس کی بہتری کے کام آنا چاہیے تھا، وہ صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنی ذات کے فائدے کے لیے وقف ہوکر رہ گئے ہیں۔ عشق کا جو جذبہ تونے انسان کی فطرت میں رکھا تھا، وہ انسانوں کی مشکلات کا حل ثابت ہوسکتا تھا۔ اسی کی بدولت خلقِ خدا سے محبت اور اس کی بہتری کے لیے تڑپ انسانوں کے دلوں میں پیدا ہوسکتی تھی۔ مگر یہ جذبہ بھی بہت محدود ہے اور اس کا فیض اتنا عام نہیں ہو ا جتنا ہونا چاہیے۔ اے باری تعالیٰ! انسانوں کی زندگی کا جو ہر یہی محبت یہی عشق اور یہی تڑپ ہے۔ خودی اس محبت، اس عشق کا جوہر ہے مگر افسوس کہ خودی کی یہ تیز تلوار ابھی تک نیام کے اندر چھُپی ہوئی ہے۔ انسان نہ ابھی تک اپنی خودی کو بروئے کار لایا ہے اور نہ عشق اور زندگی کے وہ جوہر آشکار ہوئے ہیں جو تونے انسانی فطرت کو بخشے ہوئے ہیں۔ فرمانِ خدا (فرشتوں سے ) اے فرشتو! اُٹھو اور میری دنیا کے غریبوں کو جگادو اور امیر لوگوں نے جو اُونچے اُونچے عالی شان محل بنارکھے ہیں۔ ان کے درو دیوار میں زلزلہ پیدا کردو۔ یہ غریب لوگ جو محکوم اور غلام بنے بیٹھے ہیں اور جنھوں نے اپنی غریبی اور محکومی ہی پر قناعت کررکھی ہے، ان میں یقین کی ایسی حرارت پیدا کردو کہ ان کا خون جوش میں آجائے۔ یہ آج چڑیا کی طرح ناچیز، کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں، ان کے مقابلے میں دولت مند اور سرمایہ دار اپنے وسیع وسائل اور سازو سامان کی وجہ سے شاہین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تم کچھ ایسا بندوبست کرو کہ یہ ناچیز اور کمزورو بے بس چڑیا اپنی تمام کمزوری کے باوجود شاہین سے لڑجائے، مفلس غریب اور نادرار لوگ جو اب تک اپنی غریبی اور ناداری پر قناعت کیے بیٹھے ہیں، جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوں اور امیروں، سرمایہ پرستوں اور دولت مندوں سے ٹکرا جائیں۔ زمانے کا رنگ بدل گیا ہے۔ شہنشاہیت اور سرمایہ داری کا دور گزر گیا۔ اب عوام کی بادشاہی کا زمانہ آرہا ہے۔ تمام معاملات کی باگ ڈور اِنھی کے ہاتھ میں ہوگی۔ نئے زمانے میں پرانے زمانے کے نقش قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے پُرانے دور کے جو جو نقش تمھیں نظر آتے ہیں، اُن سب کو مٹا ڈالو۔ ہر کاشت کار اور کسان اپنی محنت اور مشقت کے بدلے کم از کم پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کا یقیناً حق دار ہے لیکن جس کھیت سے کسان کو روزی نہیں ملتی، ایسا کھیت اس لائق ہے کہ اس گندم کا ایک ایک خوشہ جلا دیا جائے۔ کیوںکہ جس کھیت سے خود اس پر اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے کسان کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اناج نہیں مل سکتا، اُس کھیت کا اناج کسی امیر کے گودام میں بھی نہیں جانا چاہیے۔ اگر سرمایہ پرست اور زمیندار کسان کا یہ بنیادی حق بھی تسلیم نہیں کرتے کہ کسان کو اپنی محنت اور مشقت کا جائز صلہ لازماً ملنا چاہیے تو پھر نتیجہ یہی ہوگا کہ عوام میں جذبہ پیدا ہوگا کہ ایسی کھیتیاں جلادینے کے قابل ہیں جن سے کسان کو روزی بھی میسر نہیں ہوسکتی۔ مذہبی پیشوائوں خصوصاً کلیسا کے پادریوں نے خدا اور اس کے بندوں کے درمیان پردے تان رکھے ہیں۔ وہ اپنے واسطے کے بغیر کسی کو خُدا تک پہنچنے ہی نہیں دیتا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے واسطے کے بغیر کوئی خدا تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ آخر خالق اور مخلوق کے درمیان پردے کیوں حائل رہیں؟ ان مذہبی پیشوائوں کو کلیسائوں سے اُٹھا دو تاکہ انھوں نے بیچ کے پردے تان رکھے ہیں، وہ بھی اُٹھ جائیں اور خدا اور بندوں کے درمیان براہِ راست تعلق پیدا ہوجائے۔ حرم اور بُت خانہ دونوں کی حالت کیا ہے؟ حرم میں مذہب کی حقیقت یہ سمجھ لی گئی ہے کہ گاہے گاہے خدا کو سجدہ کردیا جائے۔ بت خانے والوں نے اپنا مذہب اس کو سمجھ رکھا ہے کہ بتوں کے ارد گرد چکر لگا لیے جائیں۔ دونوں جگہ صرف چند نمائشی باتوں کو مذہب سمجھ لیا گیا ہے۔ مذہب کی رُوح اور حقیقت کا احساس نہ اہلِ حرم کو ہے اور نہ بُت خانہ والوں کو۔ ایسا مذہب کس کام کا؟ بہتر یہی ہے کہ اس کا چراغ بجھادیا جائے تاکہ لوگ نمائشی باتوں کو مذہب سمجھنے کی بجائے مذہب کی روح اور حقیقت کو جان سکیں۔ حرم میں سنگِ مر مر کی سلیں لگادینے سے کیا حاصل؟ عالی شان مسجدیں، گرجے اور مندر تعمیر کردینے سے کیا فائدہ؟ مذہب کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ خلقِ خدا کی بھلائی اور خدمت کے کام بہتر سے بہتر طریقے پر انجام پائیں۔ مجھے یہ سنگِ مرمر کی عالی شان عبادت گاہیں درکار نہیں ہیں۔ میں ان سے ناراض اور بیزار ہوچکا ہوں۔ مجھے تو ایسا حرم چاہیے جو عوام میں سچا دینی جذبہ پیدا کردے چاہے وہ مٹی ہی کا بنا ہوا ہو۔ اے فرشتو! دنیا میں اس وقت جس نئی تہذیب کا شور ہر طرف برپا ہے، اس پر ہلکی سی ضرب بھی پڑے گی تو چُورچُور ہوجائے گی۔ اسے تباہ کردینا ہی ضروری ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ تم مشرق کے شاعر کو دیوانگی کے طریقے سکھادو۔ وہ اپنی شاعری سے لوگوں کو ایسا پیغام دے جو لوگوں میں جوش اور جنون کی ایک خاص کیفیت پیدا کردے اور وہ آگے بڑھ کر نئی تہذیب کی اس کارگاہ کو ریزہ ریزہ کرڈالیں۔ اس لیے جب تک اس تہذیب کا خاتمہ نہ ہوگا، اُس وقت تک وہ مصیبتیں دور نہ ہوگی جو اس تہذیب نے بنی نوعِ انسان کے لیے پیدا کی ہیں۔ علّامہ اقبالؒؒ کی یہ تین نظمیں ایک ہی سلسلے کی تین کڑیاں ہیں۔ ان نظموں میں علّامہ اقبالؒؒ نے اپنے شاعرانہ کمال کا بے نظیر نمونہ پیش کیا ہے۔ لینن جو خدا اور مذہب سے مُنکر ہے، مرنے کے بعد جب خُدا کے حضور پیش ہوتا ہے تو خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ تیری دنیا میں سرمایہ پرستوں کی طرف سے غریبوں اور محکوموں پر بہت ظلم ہورہا ہے اور اُن پر ہر طرح کی نا انصافیاں روارکھی جارہی ہیں۔ سرمایہ پرستانہ نظام کے ظلم و ستم کی بھیانک تصویر پیش کرنے کے بعد لینن خدا سے پُوچھتا ہے کہ اے قادر و عادل خُدا! دُنیا سے سرمایہ پرستی کا نظام کب ختم ہوگا؟ بندۂ مزدور کی زندگی تو بڑی تلخ ہے۔ تو قادر اور عادل ہے۔ یہ تیرا ہی قاعدہ ہے کہ جو برا کام کرے گا، اس کی سزا پائے گا۔ دنیا اسی انتظار میں ہے کہ سرمایہ پرستی کو اپنے ظلم و ستم کی سزا کب ملتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لینن کے اس سوال کے ساتھ ہی علّامہ اقبالؒؒ ’’فرشتوں کا گیت‘‘ میں فرشتوں کی زبانی انسانوں کی حالتِ زار بیان کرتے ہیں فرشتے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ اے خُدا! تو نے جس مقصد کو سامنے رکھ کر انسانوں کی تخلیق کی تھی، وہ مقصد ابھی تک ادھورا ہے، ایک طرف غریب اور نادار و مفلس لوگ کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں، دوسری طرف دولت مند اور امیر اپنے سرمائے کے بل پر عیش و عشرت کررہے ہیں۔ جن لوگوں کو تونے علم، عقل، دین، یا فن کی کچھ صلاحیتیں بخشی ہیں، وہ انھیں عام انسانوں کی فلاح و بہبود کی بجائے صرف اپنی ذات کی برتری کے لیے استعمال کررہے ہیں۔عشق کا وہ جذبہ جو انسانیت کے دُکھوں کا علاج ہوسکتا تھا، ابھی اتنا عام نہیں ہوا۔ انسان کی خودی ابھی تک بیدار نہیں ہوئی اور جب تک اس کی خودی بیدار نہ ہوگی، نہ عشق کے جوہر کھل سکتے ہیں اور زندگی صحیح معنوں میں زندگی بن سکتی ہے۔ ’’فرشتوں کا گیت‘‘ کے ساتھ ساتھ ہی اس سلسلے کی تیسری کڑی’’فرمانِ خُدا فرشتوں سے‘‘ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔ یعنی پہلے لینن نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دنیا کی حالت پیش کرتے ہوئے پُوچھا کہ سرمایہ پرستی کا بیڑا کب غرق ہوگا؟ پھر فرشتوں نے اپنی دیکھی ہوئی کیفیت کو گیت کی شکل میں پیش کرتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا کہ دُنیا کی حالت بڑی خراب ہے۔ اس پر خدا کی بارگاہ سے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ اُٹھو اور میری دنیا کے غریبوں کو جگادو اور امیروں کے دیوانوں کے درو دیوار میں زلزلہ بپا کردو یہ غریب اور محکوم جو اپنی غریبی اور محکومی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر راضی بہ رضا وہ سرمایہ پرستوں سے ٹکراجائیں اور اپنے حقوق اُن سے چھین لیں۔ اس طرح انھیں بھی معلوم ہوجائے کہ جس کھیت سے کسان کو روزی میّسر نہ ہوتی، وہ اس لائق ہے کہ اُسے جلادیاجائے۔ فرمانِ خدا میں اُن مذہبی پیشوائوں کی بھی مذمّت کی گئی ہے جو بندوں اور خدا کے درمیان پردے تان کر خود خدا تک پہنچنے کا واسطہ بن بیٹھے ہیں۔ اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ مذہب چند ظاہری رسموں کو انجام دینے کا نام نہیں ہے بلکہ مذہب کی اصل روح اور حقیقت تو یہ ہے کہ خلقِ خدا کی خدمت بہتر سے بہتر طریقے پر انجام پائے۔ آخر میں یہ بات کہی گئی ہے کہ نئی تہذیب نے دنیا کے لیے بے شمار مسائل اور مصائب پیدا کردیے ہیں۔ یہ تہذیب اپنی حقیقت کے لحاظ سے شیشے کی طرح نازک ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مشرق کے شاعر کو دیوانگی کے طریقے سکھادیے جائیں تاکہ وہ اپنی شاعری سے لوگوں میں جوش اور جنوں کی سی کیفیت پیدا کردے اور وہ آگے بڑھ کر اس تہذیب کا خاتمہ کرڈالیں جس نے ان کے لیے بے شمار مشکلیں اور مصیبتیں پیدا کی ہیں۔ علاّمہ اقبال کی یہ نظمیں اس اعتبار سے اہم ہیں کہ یہ اُس دور سے تعلق رکھتی ہیں جب روس میں شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد مزدوروں کے نام پر ایک دلتاری یا عوامی حکومت قائم ہوئی تھی۔ دُنیا بھر کے مظلوموں اور محکوموں نے اہلِ روس کی اس کامیابی کو اپنے لیے روشنی کی ایک کرن اور اُمید کا ایک چراغ سمجھا تھا۔ اُنھیں توقع تھی کہ روس کی نئی حکومت دنیا بھر کے مظلوموں اور محکوموں کو آزادی دلانے میں معاون و مدد گار ہوگی۔ لینن اس عوامی حکومت کا اوّلین سربراہ تھا۔ اس کا پُورا نام ولادی میر ایلیچ اولیانوف تھا۔وہ ۲۲اپریل ۱۹۸۰ء کو شہر اولیانوف میں پیدا ہوا تھا اور طالب علمی کے زمانے میں ہی اُس نے انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ ۱۸۸۷ء میں لینن کے بڑے بھائی کو زار روس کے خلاف سازش میں حصہ لینے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ لینن اس کے باوجود بدستور اپنی انقلابی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ جب لینن کی انقلابی سرگرمیاں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئیں تو اُسے یونیورسٹی سے خارج کردیا گیا مگر اُس نے اپنے طور پر مطالعہ جاری رکھا اور ۱۸۹۱ء میں پیٹرز برگ یونیورسٹی سے قانون کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ چار سال بعد اُسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے ۱۴ ماہ سائبریا میں جلا وطنی کے گزارے۔ وہیں اُس نے اوپسکا نامی ایک لڑکی سے شادی کرلی۔ روس آیا تو اپنے جلا وطن ساتھیوں سے ملنے فن لینڈ چلا گیا۔ ۱۹۱۷ء کے موسم بہار تک اُس کا بیشتر وقت روس سے باہر گُزرا، وہ بالشویک پارٹی کا بانی تھا۔۱۹۱۷ء میں روسی شہنشاہیت کا تختہ اُلٹا تو لینن روس پہنچ گیا اور اس کی ہدایت پر بالشویک پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ لینن اس کا پہلا سربراہ تھا۔ ۱۹۲۴ء میں اُس نے وفات پائی۔ اُسے کمیونزم کا سب سے بڑا داعی مانا جاتاہے جس نے کارل مارکس کے فلسفے کو عملی جامہ پہنایا، روس میں موجود کمیونسٹ حکومت کی بنیادیں لینن ہی نے استوار کی تھیں۔ دُنیا بھر کے مظلوم اور محکوموں نے جو اُمیدیں اور توقعات روس کی اس نئی عوامی حکومت سے وابستہ کی تھیں، وہ تمام کی تمام غلط ثابت ہوئیں۔ مزدوروں کی یہ حکومت روسی شہنشاہوں سے کہیں بڑھ کر مزدور دشمن ثابت ہوئی اور مغرب کی دیگر سامراجی طاقتوں سے کہیں زیادہ استعمار پرست نکلی۔ جس نے درجنوں آزاد ملکوں کی خودمختاری کا خاتمہ کرکے اپنے آہنی پنجے میں جکڑ لیا۔ مساوات اور انصاف کے نام پر قائم ہونے والے اس نظام حکومت نے ظلم و ستم اور جبرو استبداد میں مطلق العنان بادشاہوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ لینن کے اپنے دور میں لاکھوں انسان مروادیئے گئے اور عوامی جمہوریت کے نام پر ویسی ہی ناانصافیاں، ظلم و ستم اور زیادتیاں کی گئیں جیسی کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہوتی ہیں۔ بلکہ عوامی حکومت کے کارناموں کے سامنے تو سرمایہ دارانہ نظام کے سارے کارنامے گرد ہوگئے۔ اس تلخ حقیقت کو دیکھ کر علّامہ اقبالؒؒ ؒ کو کہنا پڑا۔ زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا؟ طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی (کاروبارِ حکومت کی باگ ڈور اگر مزدور کے ہاتھوں میں آبھی جائے تو اس سے کیا ہوگا؟ کیوںکوہکن کے طریقے میں بھی شہنشاہ پرویز ہی کی حیلہ کاریاں نظر آتی ہیں ) اس شعر میں علّامہ اقبالؒؒ نے کوہکن سے مزدور اور پرویزی سے شہنشاہی مراد لی ہے۔ وہ مزدوروں کے طبقے کی حکومتوں کا تماشا روس اور بعض دوسرے یورپی ملکوں میں دیکھ چکے تھے۔ اُنھیں اندازہ ہوچکاتھا کہ صرف افراد ہی بدلے ہیں اور حکومت کے طور طریقوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ رنگ پیدا ہی نہ ہوا جس کی امید مزدوروں سے تھی۔ لہٰذا اُن کے دل میں احساس پیدا ہوا کہ محض افراد کو بدل دینے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ ضرورت تو طرزِ عمل کو بدلنے کی ہے۔ اس کی طرف اُنھوں نے اس شعر میں اشارہ کیاہے: جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو! جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (بادشاہی کا جاہ و جلال ہو یا جمہوریت کا تماشا، یعنی حکومت کا طریق شخصی ہو یا عوامی، اگر سیاست دین سے الگ ہوجائے تو وہ محض چنگیزی رہ جاتی ہے جس میں ظلم و ستم، جوروجفا اور جبرو تشدد کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔) سیاست اسی صورت میں خلق خدا کے لیے راحت اور آسائش کا سامان بن سکتی ہے جب دین اس کی بنیاد و اساس اور روح رواں ہو، اس لیے کہ دین انسان کے اعمال کو ایک خاص دائرے میں رکھتا ہے اور ظلم کا کوئی امکان باقی نہیں چھوڑتا۔یہ اسی چنگیزیت کا کرشمہ ہے کہ لینن نے سرمایہ داری کے جن جن مظالم کی طرف اشارہ کیا ہے، کمیونسٹوں کی عوامی حکومتوں نے انسان اور انسانیت پر وہی بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر مظالم کیے ہیں۔ اسی لیے علّامہ اقبالؒؒؒنے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کے ریڈیائی پیغام میں کہا تھا۔ ’’تمام ترقی کے باوجود اس زمانے میں ملوکیت کے جبرو استبداد نے جمہوریت، قومیت، اشتراکیت،فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حُریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہورہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔ پروانہ اور جُگنو ایک روز ایک پروانے نے جگنو سے کہا۔ ’’اے جگنو! تیرا مقام اور ہے، میرا مقام اور ہے، پروانے کو جو بلند مقام حاصل ہے، جگنو وہاں تک پہنچنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ پروانہ شمع پر گر کر جل مرتا ہے۔ وہ شمع کے شعلے پر نثار ہوجاتا ہے لیکن جگنو کے پاس جو آگ ہے، اس میں آگ کی جلن ہے ہی نہیں۔ بھلا وہ آگ ہی کیا جو سوز، تپش اور جلن سے محروم ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب جگنو کی آگ میں سوز، تپش اور جلن کی کیفیت ہے ہی نہیں تو جگنو اس بے سوز آگ پر کیوں اتراتا ہے؟‘‘ پروانے کی بات سُن کر جگنو نے جواب دیا۔ ’’اے پروانے! میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے پروانہ نہیں بنایا۔ تُوجل مرنے کے لیے شمع کے شعلے کا محتاج ہے۔ تیری فطرت کے جوہر اُس وقت تک نہیں کھلتے جب تک شمع روشن نہ ہو لیکن خدا کا شکر ہے کہ مجھے جل مرنے کے لیے دوسروں سے آگ نہیں مانگنی پڑتی۔ میری فطرت کے جوہروں کا ظہور پرائی آگ پر موقوف نہیں ہے۔ میری آگ میں اگر سوز، جلن اور تپش نہیں ہے تو نہ سہی،میرے اطمینان کے لیے صرف یہی بات کافی ہے کہ میرے جوہر اسی بے سوزآگ کے ذریعے کُھلتے ہیں۔ تو اپنے جوہر دکھانے کے لیے دوسروں کا محتاج ہے لیکن میں اپنی فطرت کے جوہر دکھانے کے لیے کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہوں۔‘‘ علاّمہ اقبال ؒ نے پروانے اور جگنوکے درمیان اس مکالمے کے ذریعے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہر وجود کو اپنے اوصاف کے اظہار کے لیے اپنے ہی وسائل سے کام لینا چاہیے، اور اپنے جوہروں کو نمایا ں کرنے کے لیے صرف اپنی ذات پر تکیہ کرنا چاہیے۔ اپنے جوہر کی نمائش کے لیے دوسروں کا محتاج ہونا شایانِ شان نہیں۔ پروانے کا جوشِ جا ن نثاری اُس وقت تک دوسروں کے سامنے نہیں آتا جب تک شمع روشن نہ ہو۔ اس کے برعکس جگنو کو آگ کے لیے کسی سے بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اُس کی آگ اگر چہ سوز، جلن اور تپش سے خالی ہے لیکن اس کی فطرت کے جوہر اسی بے سوز آگ کے ذریعے دُنیا والوں کے سامنے آتے ہیں۔ ایک نوجوان کے نام اے نوجوان! تو نے اپنے لیے افرنگی وضع کے صوفے بنوائے ہیں اور تیرے قالین ایران کے بنے ہوئے ہیں۔ عیش و عشرت اور آرام پسندی کے لیے جو بہترین سامان ہوسکتا ہے، وہ تو نے اپنے لیے جمع کرکھا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اپنے عیش اور آرام کے سواتجھے اور کسی چیز سے غرض نہیں۔ میں جب نوجوانوں کو تن آسانی کی زندگی بسر کرتے دیکھتا ہوں تو میری آنکھیںخون کی آنسو رونے لگتی ہیں۔ اس لیے کہ مسلمان نوجوانوں کو تو انتہائی محنتی، سخت جان اور جفا کش ہونا چاہیے۔ اُن کے بلند نصب العین کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اپنے جسموں کو سادگی کا عادی بنالیں تاکہ ہر قسم کی محنت اور مشقت آسانی سے برادشت کرسکیں۔ جن نوجوانوں میں سخت جانی کی یہ کیفیت پیدا نہ ہوگی۔ بڑے بڑے کارنامے کیوں کر انجام دے سکیں گے اور بلند قومی مقاصد کیسے پورے کرسکیں گے؟ اے نوجوان! میں مانتا ہوں کہ تو بہت امیر ہے، تیرا بیش قیمت سازو سامان اور تیرا پُرتکلف طرزِ زندگی تیری امیری کی گواہی دے رہا ہے لیکن سازو سامان کی امیری کیا حیثیت رکھتی ہے؟ امیری تورہی ایک طرف، تجھے بادشاہوں جیسی شان وشوکت تو میسر نہیں۔ تیری حقیقی شان تو اس بات میں ہے کہ تواُن بزرگوں کے خاص جوہر اپنے اندر پیدا کرے جن کا تو نام لیوا ہے۔ تجھ میں علی شیرِ خداؓ کا سا زور ہونا چاہیے۔ جنھوں نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی لیکن اُمت کی بڑی بڑی مشکلیں اپنے زورِ بازو سے آسان کردیں۔ تجھ میں حضرت سلمان فارسیؓ کی سی بے نیازی، خودداری اور درویشی ہونی چاہیے۔ مسلمان نوجوان کی شان تو یہ ہے کہ مشکلات ہجوم در ہجوم آئیں، تب بھی وہ نہ گھبرائے اور شیرِ خداؓ کی طرح اپنے زورِ بازو سے اُنھیں ختم کرڈالے اور دُنیاوی فائدوں سے حضرت سلمانؓ فارسی کی طرح بے نیاز رہے، مگر افسوس کہ تُونہ تو شیرِخداؓ کا سازو رِ بازو رکھتا ہے۔ اور نہ سلمان فارسی ؓ جیسا استغنا اور بے نیازی۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ دورِ حاضر کی تہذیب کی چمک دمک میں مل سکے۔ اس لیے تو استغنا اور بے نیازی کو نئی تہذیب کی چکا چوند میں ڈھونڈنے کی کوشش نہ کر۔ نئی تہذیب کی تو بنیاد ہی دنیاوی فائدوں پر ہے اور یہ حرص و ہوس کے سوا اور کچھ نہیں سکھاتی۔اس کے برعکس مسلمان کی معراج ہی استغنا اور بے نیازی ہے۔اسلام کی تعلیم ہی یہ ہے کہ انسان ہرکام کو خدا کی عبادت سمجھ کرکرے اور ہرکام میں خدا کی رضا اور خوشنودی کو پیش نظر رکھے۔خدا کی عبادت دنیاوی فائدوں کے لیے نہیں کی جاتی۔ مسلمان وہی ہے جو ہر قسم کے فائدوں کے لالچ سے اپنے دل کو پاک رکھے۔ جب نوجوانوں کے اندر عقابی روح بیدار ہوتی ہے، جب اُن میں ارادے اور ہمّت کی بلندی کا خاص جوہر پیدا ہوتاہے تو وہ آسمانوں کو اپنی منزلِ مقصود بنالیتے ہیں۔ ہمّت اور حوصلے میں مسلمان نوجوانوں کی منزل کم ازکم آسمانوں جتنی بلند تو ہونی چاہیے۔ ہمّت اور حوصلے کے بغیر جدوجہد نہیں کی جاسکتی اور جہدوجہد کے بغیر ترقی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اے نوجوان! اگر حالات موافق نظر نہیں آتے تو نااُمید نہ ہو۔ اس لیے کہ نااُمیدی علم اور عرفان دونوں کا زوال ہے۔ نا اُمیدی دماغ اور دل کے حقیقی جوہر کے زائل ہوجانے کا دوسرا نام ہے۔ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا اور اس کی اُمید کا چراغ انتہائی ناموافق حالات میں بھی نہیں بجھتا اور ہزار مشکلات کے باوجود روشن رہتا ہے۔ اسی لیے کامیابی بالآخر مومن کا مقدر بنتی ہے۔ مردِ مومن کی امید کا شمار خدا کے راز دانوں میں ہوتا ہے۔ اے نوجوان! تیرا ٹھکانا بادشاہی محل کے گنبد پر نہیں۔ تو شاہین ہے شاہی محلوں کو خیر باد کہہ دے۔ جا اور پہاڑوں کی چٹانوں میں زندگی بسر کر، شاہی محلوں میں تو عیش و آرام اور تن آسانی ہی ہوتی ہے۔ جب کہ تجھے جفا کشی اور بلند ہمتی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ قدرت کی طرف سے تجھے مقصدِ زندگی دیا گیا ہے، وہ اِسی صورت میں پُورا ہوسکتا ہے جب تو محلوں کے عیش و آرام کو چھوڑ کر اپنے آپ کو سادگی، جفا کشی اور بلند ہمتی کا پیکر بنالے۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں ملّت کے نوجوانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ اُنھیں تن آسان نہیں، محنتی اور جفاکش ہونا چاہیے۔ امیرانہ سازوسامان اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانانِ ملّت میں حیدریؓ زور اور سلمانیؓ استغنا پیدا ہو، اس لیے کہ مسلمانی کی معراج ہی استغنا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ حالات کے انتہائی ناسازگار اور ناموافق ہونے کے باوجود وہ کبھی مایوس اور نااُمید نہ ہوں۔ اُن کے دل میں امید کا چراغ برابر روشن رہے اور وہ اپنے مقصدِ زندگی کے لیے برابر جدوجہد کرتے رہیں۔ نا اُمیدی کو وہ ایک لمحہ کے لیے اپنے پاس نہ پھٹکنے دیں، اس لیے کہ نااُمیدی دل اور دماغ دونوں کے جوہر زائل ہوجانے کا دوسرا نام ہے، انسان مایوس اور نا اُمید اُسی وقت ہوتا ہے جب اپنے آپ پر سے، اپنی صلاحیتوں پر سے اور اپنے مقصد کی صداقت پر سے اُس کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے ملّت کے نوجوانوں کو شاہین قرار دیتے ہوئے اُنھیں سادگی اور جفا کشی کی زندگی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ جس طرح شاہین کی بلندہمتی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ شاہی محل کے گُنبد کو چھوڑ کر پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرتا ہے، اُسی طرح ملّت کے نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بادشاہوں اور حاکموں کی جی حضوری اور خدمت گار بن کر عیش و آرام میں پڑے رہنے کی بجائے سادگی، خودداری اور جفاکشی کی زندگی کو اپنائیں اور اُس مقصدِ زندگی کے لیے بھرپور جدوجہد کریں جس کے لیے قُدرت نے اُنھیں مامور کیا ہے۔ سوال ایک غریب آدم نے جو غریب ہونے کے ساتھ ساتھ خوددار تھا، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی: ’’اے خُدا! میں اپنے غریبی کے دُکھوں اور ناداری کی مصیبتوں کا گِلہ نہیں کرسکتا۔ میری خود داری اور غیرت مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ تونے اپنی حکمت و رحمت سے جو فیصلہ کردیا، اس کے خلاف حرفِ شکایت زبان پر لائوں۔ مجھے یہ بھی شِکوہ نہیں ہے کہ تو نے مجھے غریب و نادار کیوں بنایا اور اگر تو مجھے امیر بنادیتا تو تیرے خزانے میں کیا کمی آجاتی؟ میں تو ہرحال میں تیرا بندہ اور تیری رضا پر راضی ہُوں۔ تونے اپنی حکمت و رحمت سے جو کچھ میرے حِصّے میں لکھ دیا ہے، میں اُس پر صابر و شاکر ہوں۔ تو نے مفلسی اور ناداری کے ساتھ مجھے خود داری بھی بخشی ہے اور میری خودداری کا تقاضا یہی ہے کہ میرے تیرے فیصلے پر راضی اور ہرحال میں صابر و شاکر رہوں۔لیکن اے خدائے رحیم و کریم! اپنے لُطف و کرم سے مجھے اتنا تو بتادے کہ جب فرشتے ایک بے حقیقت آدمی کو دولت اور حکومت عطاکرتے ہیں تو کیا یہ سب کچھ تیری اجازت سے ہوتاہے؟‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ دولت اور حکومت عموماً نااہلوں کے ہاتھ میں رہتی ہے، اُنھوں نے ایک غریب اور خود دار انسان کو بارگاہِ خداوندی میں سوال کرنے کے پیرائے میں ہمیں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر چہ خود دار انسان اپنی غریبی اور ناداری کا گلہ کرنا پسند نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت برابر ایک کانٹے کی طرح ان کے دل میں کھٹکتی رہتی ہے کہ دُنیا کا انتظام درست نہیں ہے۔ اس میں اہلِ کمال طرح طرح کی تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھاتے ہیں اور نالائق لوگ مزے اُڑاتے ہیں۔ اصل گھوڑے پالان کے بوجھ تلے زخمی ہوتے رہتے ہیں اور گدھوں کے گلے میں ہیرے جواہرات کے ہار ڈالے جاتے ہیں۔ پنجاب کے دہقان سے اے کسان! تو ہزاروں برس مٹی میں ملا ہوا ہے۔ تونے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ تیری زندگی کا راز کیاہے؟ قدرت نے تجھے کس مقصد کے لیے پیدا کیا؟ تجھے زندگی کی جو حرارت بخشی گئی تھی، وہ اسی مٹی میں دب کر رہ گئی ہے۔ دیکھ! صبحِ اذاں ہوگئی۔ نیا دور آگیا۔ ہر ملک کے عوام بیدار ہورہے ہیں۔ تو بھی آنکھیں کھول اور غفلت کی نیند سے بیدار ہو۔ اے کسان! اس میں شک نہیں ہے کہ زمین والوںکا رزق زمین ہی سے وابستہ ہے، اہلِ زمین کی تمام ضرورتیں زمین ہی سے پوری ہوتی ہیں اور کھیتی باڑی زندگی کی اہم ضرورتوں میں سے ہے لیکن آبِ حیات اس خاکی اندھیرے میں نہیں۔ زندگی محض اسی کا نام نہیں کہ فصل پیدا کی، پیٹ بھرا اور محنت کے لیے تیار ہوگئے۔ زندگی کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو پہچانے اور اسے قدم قدم پر جانچتا اور پرکھتا بھی رہے کہ کہیں اس میں کوئی کھوٹ تو نہیں آگیا؟ کہیں اس کی قوت میں کمی تو نہیں آگئی؟ جو انسان یہ فرض انجام نہیں دیتا،سمجھنا چاہیے کہ اُس کی زندگی کا نگینہ جھُوٹا ہے، اس کی چمک دمک جعلی ہے اور انسان ہوتے ہوئے بھی اُسے انسانیت کا حقیقی مقام و مرتبہ حاصل نہیں۔ اے پنجاب کے کسان!تُو قبیلوں، ذاتوں اور خاندانوں کی پُرانی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہ زنجیریں توڑ ڈال۔ ذاتوں، قبیلوں اور خاندانوں کے پُرانے بُتوں ٹکڑے ٹکڑے کردے اور اپنا رشتہ اسلام سے جوڑ لے۔تجھے خبر بھی ہے کہ سچا اور پکا دین کیا ہے؟ کامیابی کے بند دروازے کس طرح کھُلتے ہیں؟ سچا اور پکا دین یہی ہے کہ دُنیا میں توحید کے چہرے سے نقاب ہٹ جائے اور ساری دنیا کے بلکہ تمام کائنات میں خدا ئے واحد کا بول بالا ہو۔ کامیابی کے بند دروازے اس طرح کھُلتے ہیں کہ تو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں اور گروہوں میں بٹا رہنے کی بجائے ایک بڑی ملّت کا جزو بن جائے اور اپنے آپ کو اس ملّت میں گم کردے۔ سارے ظاہری امتیازات ختم ہو کر سارے مسلمان ایک ہوجائیں۔ اسی طرح توحید دنیا میں عام ہوسکتی ہے۔ اسی طرح کائنات میں خدائے واحد کا بول بالا ہوسکتا ہے۔ اے پنجاب کے کسان! تجھے میرا مشورہ ہے کہ تُو اپنے بدن کی مٹی میں دل کا دانہ بودے، کیوںکہ اسی دانے سے وہ پیدا وار حاصل ہوسکتی ہے جو انسان کے لیے شرف اور عزت و امتیاز کا باعث ہے۔ بدن کی مٹی میں دل کا دانہ بونے کا مطلب یہ ہے کہ تُو اپنے دل میں زندگی کے حقیقی نصب العین کی تڑپ پیدا کر جو تجھے خواب غفلت سے بیدارکردے۔ تو خواب ِ غفلت سے بیدار ہوگا تو تجھے اپنی خودی سے آگہی ہوگی اور جب ایک انسان اپنی خودی سے آگاہ ہوجاتا ہے تو وہ خاکی ہونے کے باوجود مٹی میں مٹی بن کر نہیں جیتا بلکہ زندگی میں عظیم الشان کارنامے انجام دیتا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس نظم میں بطورِ خاص پنجاب کے کسانوں سے خطاب کرتے ہوئے اُنھیں بیداری کا پیغام دیا ہے۔ اُنھیں تلقین کی ہے کہ وہ اپنے اندر خودی کا احساس پیدا کریں، قبیلوں، ذاتوں اور خاندانوں کی پُرانی زنجیروں کو توڑ کر اسلام سے صحیح معنوں میں رشتہ جوڑلیں اور چھوٹی چھوٹی گروہ بندیوں سے نکل کر ایک ملت کا جزو بن جائیں اور اپنے آپ کو اس ملّت میں گم کردیں۔اُنھوں نے پنجاب کے کسانوں کو یہ تلقین بھی کی ہے کہ وہ اپنے دلوں میں زندگی کی نئی روح پیدا کریں۔ اپنے دلوں کو زندگی کے حقیقی نصب العین سے آشنا کریں تاکہ ان کی خودی بیدار ہو اور وہ زندگی میں عظیم الشان کارنامے انجام دے سکیں۔ تاتاری کا خواب تاتاری نے خواب میں اپنی اور اپنی سرزمینِ تاتار کی حالتِ زار دیکھی اور اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’آہ! میرے وطن کی سرزمین کی حالت کیا سے کیا ہوگئی ہے ایک طرف صاحبانِ سجادہ و عمامہ بھولے بھالے عوام کو لُوٹ رہے ہیں عُلما اور صوفیائے دین نے مذہب کے نام پر لوگوں کو غلط راستے پر لگا رکھا ہے۔ دوسری طرف کُفر کی طاقتیں ایک سے بڑھ کر ایک دلفریب حربے اختیار کرکے مسلمانوں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ شراب خانوں کی ساقی گری کرنے والے خوب صورت لڑکوں کی بے باک نگاہیں ایمان کی دولت پر ڈاکا ڈال رہی ہیں۔ ’’دین اور ملّت کی چادر پارہ پارہ نظر آتی ہے۔ نہ دین سلامت ہے اور نہ ملّت میں اتّحاد کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ ملک اور سلطنت کا لباس چاک چاک اور تار تار ہورہا ہے کہ دونوں کا وجود خطرے میں پڑا ہوا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ابھی میرا سینہ ایمان کے نور سے منور ہے۔ لیکن یہ صورتِ حال کب تک باقی رہ سکتی ہے؟ مجھے تو یہ غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں فتنوں کے گھاس پھول کا انبار ایمان کے شعُلے کو بُجھا کر نہ رکھ دے۔ فتنوں کی وہ قیامت ہے کہ اس قیامت میں مجھے اپنا ایمان بھی باقی رہتا نظر نہیں آتا۔ آہ! میرے وطن کی سرزمین کی حالت میرے ایمان سے بھی کہیں ابتر ہے، بخارا اور سمرقند کی سرزمین تند و تیز طوفانوں اور آندھیوں میں گھر گئی اور اس کے بچائو کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آہ! اس کی حفاظت ہو تو کیسے ہو؟ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے دنیا بھر کی مصیبتوں نے جمع ہو کر میرے وطن پر یلغار کردی ہے۔ اپنے ارد گرد جہاں تک نگاہ جاتی ہے، مجھے آفتیں ہی آفتیں اور بلائیں ہی بلائیں نظر آتی ہیں، یہ آفتیں اور بلائیں ایک انگوٹھی کی مانند ہیں اور میری حیثیت اس انگوٹھی میں نگینے کی ہے۔ یُوں لگتا ہے جیسے حادثوں اور مصیبتوں کے اس طوفان میں میرا وطن بالکل بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔‘‘ ’’سُنو! میں تیمور کی روح ہوں۔ اگر تاتار کے مردانِ مجاہد مصیبتوں میں گھر گئے ہیں اور فتنوں کے طوفانوں نے اُنھیں اپنے گھیرے میں لے لیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کی تقدیر بھی ان فتنوں کے طوفانوں میں گھر گئی ہے۔ یاد رکھو! کائنات کا بڑے سے بڑا فتنہ اللہ کی تقدیر پر اثر انداز نہیں ہوسکتا لیکن اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو خُدا کے حکموں پر چلیں اور اس کے مقرر کیے ہوئے قاعدوں کے پابند رہیں۔ اگر تاتاری ان مصیبتوں کے طوفانوں سے نجات پانا چاہتے ہیں تو اُنھیں خدا کے حُکموں کا پابند ہونا چاہیے اور اپنی قوتوں کو متحد کرکے مجاہدوں کی طرح فتنوں اور مصیبتوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ لیکن تاتاریوں کی حالت کیا ہے؟ وہ ایک دوسرے سے جُدا جُدا ہیں، الگ الگ ٹکریوں اور گروہوں بٹے ہوئے ہیں۔ کیا عزّت کی زندگی یہی ہے؟ کیا قومیں اسی طرح دُنیا میں سربلند ہوتی ہیں؟کیا اتحاد اور اتفاق اسی کا نام ہے کہ ایک تاتاری دوسرے تاتاری کی جان کا دشمن ہو؟ کیا قومیں اسی طرح اپنے آپ کو مصیبتوں اور فتنوں کے طوفانوں سے بچاتی ہیں؟تم تو خود ہی ان تمام مصیبتوں اور فتنوں کے طوفانوں کے ذمہ دار ہو۔ اب بھی تم متحد ہوجائوتو ان تمام مصیبتوں اور ان تمام طوفانوں کا مُنہ پھیر سکتے ہو۔ اے میری قوم کے لوگو! اُٹھو اور اپنی خودی میں تازہ حرارت اور نئی آب و تاب پیدا کرو۔ ایسا کرلوگے تو تم نہ صرف اپنے خلاف یلغار کرنے والے تمام طوفانوں کا مُنہ پھیر دوگے بلکہ اس دُنیا میں ایک نیا انقلاب بھی برپا کرسکو گے! علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں تاتاریوں کو اتّحاد کی دعوت دی ہے۔ تاتاریوں سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنھیں کبھی چینی ترکستان اور رُوسی ترکستان کے باشندے کہا جاتا تھا۔ ان لوگوں کی سلطنتیں صرف باہمی دشمنی اور آپس کے جنگ و جدال کے باعث کمزور ہوئیں۔ اور پھر روس نے آہستہ آہستہ ایک ایک کرکے انھیں فتح کرتے ہوئے اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔علّامہ اقبالؒؒ نے تاتاریوں کو اتّحاد کا پیغام امیر تیمور کی روح کی زبانی دیا ہے جو اسلامی دور میں سرزمینِ ترکستان کا سب سے بڑا فاتح ہو گُزرا ہے۔ ہندوستان میں مغل سلطنت کا بانی شہشاہ بابر امیر تیمور ہی کی اولاد میں سے تھا۔ علاّمہ اقبالؒ نے تیمور کی رُوح کی زبانی تاتاریوں کو اتحاد کا جو پیغام دیا ہے، وہ خواب ہی کی شکل میں دیا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ نظم علّامہ اقبالؒؒ ؒ کے غیر معمولی کمالِ فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ علاّمہ اقبال ؒ اپنے افکار و خیالات کو موقع محل کے لحاظ سے موزوں ترین اور موثر ترین پیرائے میں ڈھالنے اور پیش کرنے کا فن بخوبی جانتے تھے۔ اس نظم میں پہلے ایک تاتاری عالمِ خواب میں اپنی اور اپنے ملک و قوم کی حالتِ زار بیان کرتا ہے۔ اس کے سُنتے ہی سمر قند کی سرزمین میں ایک زلزلہ سا آتا ہے اور تیمور کی رُوح اپنی قبر سے نکل کر تاتاریوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ تم متحد ہوجائو تو تمھیں کسی فتنے کا ڈر نہیں ہوسکتا۔ تم اگر اپنی خودی میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کرلو تو نہ صرف تمھاری ساری مصیبتیں ختم ہوجائیںگی بلکہ تم دُنیا میں ایک نیا انقلاب بھی برپا کرسکو گے۔ ابولعلا معرّی کہتے ہیں کہ ابوالعلا معرّی گوشت بالکل نہ کھاتا تھا اور صرف پھل پھول کھا کر گزراوقات کرتا تھا۔ اُس کے ایک دوست نے بھُنا ہوا تیتر اُس کے پاس بھیج دیا کہ شاید کھالے اور اسی تدبیر سے وہ چالاک آدمی اپنی قسم توڑ دے اور گوشت کھانے لگے۔ابوالعلا معرّی نے جو یہ لذیذ اور تروتازہ کھانا دیکھا تو وہ بولا۔ ’’اے غریب اور مسکین پرندے! ذرا یہ تو بتا کہ تیرا وہ کیا گُناہ تھا جس کی تجھے یہ سزا ملی ہے کہ پہلے تجھے ذبح کیا گیا اورپھر آگ پر بھُونا گیا؟ افسوس، تجھ پر سو بار افسوس کہ تو شاہین نہ بنا اور تیری آنکھ نے فطرت کے اشاروں کو نا سمجھا۔ یہ اشارے تو بڑے صاف اور واضح ہیں۔ تقدیر کے قاضی نے تو ازل دن ہی سے یہ فتویٰ اور فیصلہ دے رکھا ہے کہ کمزوری کے جُرم کی سزا اچانک اور ناگہانی موت کے سوا کچھ نہیں۔ اس دنیا میں جو کمزور اور بے قوت ہیں، وہ اسی طرح دوسروں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اے بد قسمت تیتر!اگر تو شاہین بنا ہوتا، اگر تو اپنے اندر شاہین کی سی قوت پیدا کرکے بلندیوں پر پرواز کرتا رہتا تو پھر کسی شکاری کا تیر تجھ تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس نظم میں عربی کے مشہور نابینا شاعر ابوالعلا معرّی کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا ہے۔ ابوالعلا معرّی کا اصل نام احمد بن عبداللہ بن سلیمان تھا اور وہ جنوبی عرب کے قبیلہ تنوخ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس قبیلے کے کچھ لوگ اپنے وطن سے ہجرت کرکے شام کے ایک مقام معّرۃ النعمان میں جابسے تھے، ابوالعلا وہیں ۳۶۳ہجری (۹۷۳عیسوی) میں پیدا ہوا۔ اور اسی وجہ سے معّری کہلایا۔ چھ سات سال کی عمر میں اُسے چیچک نکلی اور اسکے نتیجے میں اُس کی بینائی جاتی رہی۔ اس کا حافظہ بے حد قوی تھا۔ جو کچھ سن لیتا، وہ فوراً اُسے یاد ہوجاتا تھا۔ پینتیس سال کی عمر میں وہ بغداد گیا اور کوئی دوسال تک وہاں رہا۔ ایک بار بغداد کے ایک مشہور عالم سے کسی معاملے میں بحث چھڑ گئی معّری جب اپنی باتوں سے اُسے لاجواب کردیا تو وہ عالم پریشان ہو کر کہنے لگا۔’’یہ کون کُتا ہے؟ ابوالعلا معّری نے جواب دیا۔’’یہ وہ کُتا ہے جسے کُتّے کے ستّر نام یاد ہیں۔‘‘ بغداد میں دو سال گزارنے کے بعد ابوالعلا واپس چلا آیا اور پھر گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرلی اور پھر کبھی اپنے گھر سے باہر نہ نکلا۔ اُس نے چھیاسی برس کی عمر پائی اور ۴۴۹ہجری میں فوت ہوا۔کہتے ہیں کہ اُس نے چالیس اکتالیس سال کی عمر میں گوشت کھانا بالکل ترک کردیا تھا اور زندگی کے آخری پینتالیس سالوں میں سبزیوں اور پھلوں کے سوا اور کچھ نہ کھایا۔ علاّمہ اقبالؒ نے ابوالعلا معرّی کی زندگی کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے ہمیں خود معّری کی زبان سے زندگی کی یہ اہم ترین حقیقت بتائی ہے کہ اس دنیا میں قوت و طاقت کی فرماں روائی ہے۔ یہاں کمزور اور ضعیف کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ قوت اور ہمّت ہی زندگی کے اصل سامان ہیں۔ جو قوت اور ہمّت سے محروم ہیں، وہ اسی طرح دوسروں کے شکار ہوتے رہتے ہیں۔ تیتر ضعیف، کمزور اور قوت و ہمت سے محروم تھا، اس کی سزا اُسے یہ ملی کہ پہلے اُسے ذبح کیا گیا اور پھر آگ پر بھُونا گیا۔ اگر وہ شاہین ہوتا، اگر وہ اپنے اندر شاہین کی سی قوت و ہمّت کرکے آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرتا رہتا تو اس درد ناک انجام سے دوچار نہ ہوتا۔ پنجاب کے پیرزادوں سے ایک روز میں حضرتِ مجدّدؒ کے مزار مبارک پر حاضر ہُوا۔ اس مزار مبارک کی مٹی کو یہ شرف حاصل ہے کہ آسمان کے نیچے اس جگہ نورانی تجلیوں کا ظہور ہوتاہے۔ اس مٹی کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اس کے ذروں کی چمک دمک کے سامنے ستارے بھی شرمندہ ہیں۔ اس کی آب وتاب کے سامنے سورج اور چاند بھی اپنا منہ چھُپاتے نظر آتے ہیں۔ اس مٹی میں معرفت کے رازوں کو جاننے والا وہ بلند مرتبہ عارف کامل دفن ہے جس کی گردن جہانگیر جیسے عظیم الشان بادشاہ کے آگے بھی نہ جھکی اُسی کے طرزِ عمل کی برکت سے خدا کے پاک بندوں کی محفل میں گرمی، رونق اور چہل پہل ہے۔ یہ اُسی کا ولولہ انگیز کردار ہے جس کی پیروی کو مردان آزاد اپنے لیے سرمایۂ افتخار جانتے ہیں۔ وہ مبارک وجود ہندوستان میں ملّتِ اسلامیہ کے سرمائے کا نگہبان تھا۔ وہی تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ملّتِ اسلامیہ کی نگہبانی کے لیے چُن لیا تھا۔ اسی لیے اللہ نے اُسے بروقت اُس خطرے سے آگاہ کردیا جو ہندوستان میں اسلام کو لاحق تھا اور پھر اس مبارک وجود نے اپنی ساری زندگی ملّتِ اسلامیہ کے سرمائے کی حفاظت کے لیے وقف کردی۔ حضرت مجدد نے بادشاہ، حکمران طبقے اور درباریوں کی روش تیز زمانے کے حالات و رجحانات کو دیکھتے ہوئے بروقت اندازہ کرلیا تھا کہ شاہی دربار سے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام پر جو فتنہ اٹھایا گیا ہے، اگر اس کا سدِّ باب نہ کیا گیا اور تجدیدِ دین کے لیے بھرپور کوشش نہ کی گئیں تو اسلام اس سر زمین پر اپنی حقیقی شان کے ساتھ قائم نہ رہ سکے گا اور پھر انھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ تجدیدِ دین کی سرگرم کوششوں کے لیے وقف کردیا۔ میں نے مزار مبارک پر حاضر ہو کر حضرت مجدّدؒ کی خدمت میں عرض کیا۔ ’’اے حضرت! اپنے فیض سے مجھے بھی فقر کی دولت عطا فرمایے۔ میری آنکھیں بینا تو ہیں لیکن بیدار نہیں۔ ان میں دیکھنے کا جوہر تو موجود ہے لیکن ان میں حقیقی بیداری پیدا نہیں ہوئی جس سے وہ نیک اور بد میں امتیاز کرسکیں، اچھائی اور برائی کا فرق جان سکیں، کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرسکیں۔‘‘ حضرت مجدّدؒ کے مزار مبارک سے یہ آواز میرے کانوں میں آئی۔ ’’پنجاب کے لیے فقر کا سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ کیوںکہ اہلِ نظر پنجاب کی سرزمین سے بیزار ہوچکے ہیں۔ یادرکھو! وہ خطہ کبھی بھی اہل معرفت کا ٹھکانا نہیں ہوسکتااور نہ اللہ والے لوگ وہاں رہ سکتے ہیں جہاں درویشی کی کُلاہ سے دستار کا طُرّہپیدا ہو، جہاں فقیری کے نام پر امیری اور دُنیا داری کا طریقہ اختیار کر لیا جائے۔ جب تک فقیری کُلاہ قائم تھی، درویشی کے سلسلے میں کوئی فرق نہ آیا، ان لوگوں کے دلوں میں خدا کی محبت موج زن تھی اور ان میں کلمۂ حق کہنے کا سچا جوش، جذبہ اور ولولہ موجود تھا۔ جب فقر اور درویشی کی کُلاہ اُتر گئی اور اس کی جگہ دستار کا طُرّہ بلند ہوگیا تو خدا کی محبت کا جذبہ دلوں سے نکل گیا اور اس کی جگہ حکومت کی خدمت کا نشہ دل و دماغ پر چھا گیا۔ اب ان لوگوں کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ حکومت کے مقاصد پُورے کریں اور اس طرح اپنے لیے دولت کے انبار جمع کرتے جائیں۔‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے اس حقیقت کو حضرت مجدّدؒ کی زبانی بیان فرمایاہے۔ حضرت مجدّدؒ جن کا نام نامی شیخ احمد سرہندی اور لقب مجدّدؒ الف ثانی ہے، ہندوستان میں اسلامی فقر و درویشی کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ اکبر بادشاہ نے ابوالفضل اور فیضی جیسے درباری عالموں کے مشورے سے جو ’’دینِ الٰہی‘‘ ایجاد کیا تھا، اس کے خلاف سب سے پہلے آواز اٹھانے والے یہی حضرت مجدّدؒ الف ثانی تھے۔ شہنشاہ جہانگیر کے دور میں کئی خوشامدی درباریوں نے حضرت مجدّدؒ کے خلاف جہانگیر کے کان بھرے کیوںکہ شاہی دربار کے کئی اکابر اور مہابت خان جیسے فوج کے بڑے بڑے سالار حضرت مجدّدؒ الف ثانی کے مرید تھے۔ خوشامدی درباریوں کے بہکانے میں آکر شہنشاہ جہانگیر نے اُنھیں دربار میں طلب کیا تو حضرت مجدّدؒ نے ’’دینِ الہی ‘ ‘کے مطابق روِش اختیار کرنے کی بجائے اسلامی روایت کی پیروی کی۔ انھوں نے نہ تو بادشاہ کو سجدہ کیا اور نہ غیر مسنون طریقے کے مطابق سلام کیا۔ حضرت مجدد کی یہ روِش شہنشاہ جہانگیر کو ناگوار گزری اور اُس نے اُنھیں گوالیار کے قلعے میں نظر بند کردینے کا حکم دے دیا۔ مہابت خان کو اپنے مرشد کی گرفتاری کی خبرملی تو اُس نے جہانگیر کے خلاف بغاوت کردی اور شہنشاہ جہانگیر کو جہلم کے قریب گرفتار کرلیا۔ جب کہ وہ کشمیر کی طرف جارہا تھا۔ حضرت مجدّدؒ کو اس کی اطلاع ملی تو اُنھوں نے فوراً مہابت خان کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو رہا کردے۔ رہائی کے بعدخوشامدی درباریوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہوا تو شہنشاہ جہانگیر نے حضرت مجدّدؒ کورہا کردیا اور ان کی خدمت میں نذرانہ پیش کرنے کے علاوہ ایک مدت تک ساتھ رکھا بلکہ ایک مرتبہ کشمیر جاتے ہوئے حضرت مجدّدؒ کی دعوت بھی قبول کی۔ بہرحال یہ حضرت مجدّد ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جہانگیر نے شاہی دربار میں تعظیمی سجدے کا طریقہ موقوف کیا اور اس طرح اکبر کے اٹھائے ہوئے دینِ الٰہی کا فتنہ اپنی موت آپ مرگیا۔ پنجاب کے پیرزادوں کو اُن کی غلط روِش سے آگاہ کرنے کا کام علّامہ اقبالؒؒؒ نے حضرت مجدّدؒ کی زبانِ فیض ترجمان سے لیا ہے۔ اُن کو ان کی غلطیوں کی طرف متوجہ کرنے والے حضرت مجدّدؒ ہی موزوں ترین شخصیت ہوسکتے تھے کیوںکہ حضرت مجدّدؒ ہندوستان میں اسلامی فقر کے بہت بڑے علم بردار تھے۔ نظم میں علّامہ اقبالؒؒ ؒ حضرت مجدّدؒ کے مزارِ مبارک پر حاضر ہو کر فقر کی دولت عطا کیے جانے کی درخواست کرتے ہیں اور جواب میں حضرت مجدّدؒ کے مزار سے آواز آتی ہے کہ اللہ والے پنجاب کی سرزمین سے بیزار ہوچکے ہیں کیوںکہ یہاں کے پیر زادے فقیری اور درویشی کی گدیوں کے مالک بن کر امیری کے درجے پر پہنچے لیکن اُنھوں نے دین کی خدمت چھوڑ کر دنیا داری کا طریقہ اختیار کرلیا، انھیں دولت اور عزّت اپنے بزرگوں کی وجہ سے ملی جو اُونچے درجے کے درویش تھے لیکن اس دولت اور عزت کو اُنھوں نے اللہ کے بندوں کی بھلائی کی بجائے اپنی ذاتی اغراض کے لیے استعمال کیا اور اب کیفیت یہ ہے کہ ان کے دل سے خدا کی محبت تو نکل گئی ہے لیکن حکومت کی خدمت کا نشہ اُن کے دل و دماغ پر چھایا ہواہے۔ ابلیس کی عرض داشت ابلیس خداوندِ دوجہاں کی بارگاہ میں عرض کررہا تھا: ’’اے خالق و مالکِ کائنات! انسان کی مٹھی بھر خاک تو اپنی فتنہ انگیزیوں کے باعث آگ کا ٹکڑا بن گئی ہے۔ تو نے انسان کو تخلیق تو خاک سے کیا ہے لیکن اس نے زمین پر ایسے ایسے فتنے اٹھائے ہیں کہ انھیں دیکھ کر تیری ناری مخلوق بھی حیران رہ گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس خاک نے فتنہ پردازی میں نار کو بھی مات دے دی ہے۔اس مُشتِ خاک کی حالت کیا ہے؟ جان تو حد درجہ کمزور ہے لیکن بدن خوب موٹا تازہ ہے۔ اور اس بدن پر لباس خوب موزوں اور نفیس ہے۔ دل کی کیفیت تو یہ ہے جیسے اس پر نزع کا عالم طاری ہو مگر عقل خوب منجھی ہوئی اور چالاک ہے۔ جن چیزوں کی اہلِ مشرق کی شریعت میں ناپاک قرار دیا گیا تھا۔ اہلِ مغرب نے ان سب چیزوں کو پاک قرار دیا ہے۔ مشرق والے شراب کو حرام کہتے ہیں لیکن مغرب میں شراب عام پی جاتی ہے، پانی کی طرح پی جاتی ہے، بے تکلف پی جاتی ہے اور ایسے انداز میں پی جاتی ہے گویا اس سے بڑھ کر نیکی کا کام اور کوئی ہے ہی نہیں۔ اہلِ مشرق کی شریعت نے جُوئے کی ممانعت کی ہے۔ مغرب میں جوئے کے لیے جگہ جگہ کلب اور قمار خانے بنے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں گھڑ دوڑ، لاٹری، تاش کے کھیلوں کی صورت میں مغرب نے جوئے کی سیکڑوں صورتیں ایجاد کرلی ہیں۔ اہلِ مشرق کی شریعت میں سُود کو حرام قرار دیا گیا ہے لیکن مغرب کے سارے اقتصادی اور تجارتی نظام کی بنیاد ہی سُود پر ہے۔ ان کا سارا لین دین بنکوں کے ذریعے ہوتا ہے اور بنکوں کا سارا کاروبار سُودی کاروبار ہے۔ یہ تو چند مثالیں تھیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس مُشتِ خاک نے ہر حرام کو حلال کر ڈالا ہے۔ اے خُدا! تجھے شاید معلوم ہو کہ انسانوں کی بد اعمالیوں کو دیکھتے ہوئے حوروں کو یقین ہوگیا ہے کہ ان میں سے کوئی بہشت کے لائق نہیں اور یہ سب کے سب جہنم میںجائیں گے۔ اُنھیں یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اس طرح تو بہشت اپنی تمام نعمتوں، رعنائیوں اور راحتوں کے باوجود بے آباد رہ جائے گی۔ بہشت کی ویرانی کے تصوّر نے اُنھیں اُداس اور غمگین کررکھا ہے۔ اے خدا! آج کل کے سیاست دان عوام کے حق میں ابلیس بن گئے ہیں۔ انھوں نے میری مسند سنبھال لی ہے اور میرا کام مجھ سے بڑھ کر مہارت اور کامیابی سے انجام دے رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ اب آسمانوں کے نیچے میری کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں اُن برائیوں اور خرابیوں کا تذکرہ کیا ہے جو مغربی تہذیب کے غلبے کی وجہ سے دُنیا میں پیدا ہوئی ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ سارا تذکرہ ابلیس کی زبان سے کیا گیا ہے۔ ابلیس اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض داشت پیش کرتا ہے کہ آج کا انسان اپنی فتنہ پردازیوں کے باعث خود ابلیس کو بھی پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ مغربی تہذیب کے غلبے کی وجہ سے حلال و حرام کا سارا تصوّر ختم ہوگیا ہے۔ مغربی تہذیب کی بدولت شراب، جوا، سُود اوردیگر ایسی تمام باتوں کا چلن عام ہوگیا ہے جنھیں اہلِ مشرق کی شریعت نے ناپاک اور حرام قرار دے رکھا تھا۔ دُنیا میں ایسے ایسے سیاست دان پیدا ہوچکے ہیں جن کی چالاکی دیکھ کر مجھے بھی حیرت ہوتی ہے اور جن کی کارکردگی پر مجھے بھی رشک آتا ہے۔ ایسے میں دُنیا کو میری کوئی ضرورت نہیں رہی۔ کیوںکہ میری مسند اِن سیاست دانوں نے سنبھال لی ہے۔ باغی مُرید کیسا اندھیر ہے کہ ہم لوگوں کو تو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں اور ہمارے پیر کے گھر میں بجلی کے چراغ روشن ہیں۔ ہمارے گھر مٹی کے دیے ٹمٹماتی روشنی سے بھی محروم ہیں اور ہمارے پیر کا گھر بجلی کے قمقموں سے بقعۂ نور بنا ہوا ہے۔ مسلمان خواہ شہری ہو خواہ دیہاتی، نہایت سادہ مزاج اور بھولا بھالا ہوتا ہے۔ اپنی فطرت کی اس سادگی کے باعث وہ ان پیروں کو، جنھیں کعبے کے برہمن کہنا زیادہ صحیح ہے، بتوں کی طرح پوجتا ہے۔ میں اِنھیں کعبے کے برہمن کہتا ہوں تو کچھ غلط نہیں کہتا۔ یہ برہمن اس لیے ہیں کہ ان کے طور طریقے بالکل برہمنوں جیسے ہوتے ہیں۔ہندوئوں کے ہاں جیسے برہمنوں کی بُتوں کی طرح پوجا ہوتی ہے، اس طرح سادہ دل مسلمان اپنے پیروں کو پُوجتے ہیں۔ہاں، وہ برہمن ہندوؤں کے ہیںاور کعبے کے برہمن ہیں۔ یہ کعبے کے برہمن اس لیے ہیں کہ یہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ ہمارے پیر اپنے مریدوں سے جو نذرانہ اور نیاز لیتے ہیں، وہ نذرانہ نہیں، حرم کے پیروں کا سُود ہے۔ مکرو فریب کے جس لباس کو بھی دیکھوگے، تمھیں اس میں ساہوکار اور مہاجن بیٹھا نظر آئے گا۔ سود لینا تو مہاجنوں اور ساہوکاروں کا کام ہے۔ جب پیروں کی نذر نیاز بھی سُود کے سوا کچھ نہیںتو پیر بھی ساہوکار اور مہاجن کے سوا کچھ نہیں۔ حیرانی تو اس بات پر ہے کہ اِنھیں وعظ و نصیحت کی مسندیں ورثے میں ملی ہیں۔ یہ پیر اس لیے گدیاں سنبھالے بیٹھے ہیں کہ ان کے اسلاف اپنے وقت کے بہت بڑے بڑے بزرگ تھے۔ بزرگوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے وہ آبادئیگدیاں تو سنبھال لی ہیں مگر اِن پیروں کی سیرت اور کردار کو اُن درویشوں اور بزرگوں کے سیرت اور کردار سے کوئی نسبت نہیں، گویا عقابوں کے نشیمن کوّوں کے قبضے میں آگئے ہیں۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ وہ وقت گزر گیا جب لوگ اپنی سادگی کے باعث اپنے پیروں کی ہر بات کو ایمان کا درجہ دیتے تھے اور اُنھیں اپنے پیروں کے افعال و اعمال سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا، اب مریدوں میں بغاوت کی لہر پیدا ہورہی ہے اور پیروں کی بداعمالیاں دیکھ کر مریدوں کی اندھا دُھند عقیدت اور ارادت ختم ہوتی جارہی ہے۔ چنانچہ اس نظم میں پیروں کی بد اعمالیوں کو باغی مرید کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ باغی مرید اپنی اور اپنے پیر کی حالت کا موزانہ کرتا ہے کہ ہمیں تو اپنے گھر میں روشنی کے لیے مٹی کا دیا بھی میسر نہیں لیکن ہمارے پیر کے گھر میں بجلی کے قمقموں سے چراغاں کی سی کیفیت ہے۔ پیر صاحب کے نذرانوں کے سلسلے کو دیکھا جائے تو اُن میں سُود کھانے والے مہاجنوں میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان کی سیرت و کردار کا مقابلہ اُن بزرگوں کی سیرت اور کردار سے کیا جائے جن کی گدّیاں یہ سنبھالے بیٹھے ہیں تو بے ساختہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ عقابوں کے ٹھکانوں پر کوّوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ نا مناسب نہ ہوگا اگر اس نظم کے حوالے سے اُن پیر صاحب کا واقعہ بھی نقل کردیا جائے جو ایک بار علّامہ اقبالؒؒؒ سے ملنے آئے تھے۔ یہ پیر صاحب علّامہ اقبالؒؒ سے باتوں میں مصروف تھے کہ ان کا ایک مرید اُنھیں ڈھونڈتا ہوا وہاں آ پہنچا۔ مرید نے اپنی جیب سے دو روپے نکال کر پیر صاحب کو بطور نذرانہ پیش کیے اور پھر ادب سے ان کے گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔ ’’یا حضرت! میں ایک سو روپے کا مقروض ہُوں۔ دعا فرمائیے کہ مجھے اس قرض سے نجات مل جائے۔‘‘ پیر صاحب چوںکہ علّامہ اقبالؒؒ سے بہت متاثر تھے، اس لیے انھوں نے خود دُعا کرنے کی بجائے علاّمہ اقبال ؒ سے دعا کرنے کی درخواست کی، علّامہ اقبالؒؒؒ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا۔ ’’اے باری تعالیٰ! اس شخص کو قرض کے بوجھ سے نجات دے جو پہلے ایک سوروپے تھا اور اب بڑھ کر ایک سو دو روپے ہوگیا ہے۔‘‘ قطعہ کل پیرِ مُغاں نے اپنے مریدوں سے کہا۔ ’’سنو میں تمھیں ایک بات بتاتا ہوں اور یہ بات قدروقیمت سچے موتی سے بھی دس گُنا بڑھی ہوئی ہے۔ وہ بات کیا ہے؟ یہ جس قوم کے بچے خوددار اور ہنر مند نہ ہوں، اس کے حق میں فرنگی تہذیب کی شراب، شراب نہیں، زہیرلا پانی ہے جو اُنھیں ہلاک کرڈالے گا۔ اس تہذیب کے اثر سے وہی نوجوان محفوظ رہ سکتے ہیں جن کی خودی زندہ ہو، جن میں خودداری کا جوہر موجود ہو اور جو اپنی ہُنرمندی کی بدولت اس قابل ہوں کہ خودداری اور آزادی سے اکتسابِ کرسکیں اور اس طرح فرنگیوں کا محتاج بننے پر مجبور نہ ہوں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ نے اس قطعہ میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ جو قوم خوداری اور ہُنر مندی کے اوصاف سے محروم ہو، وہ اگر فرنگی تہذیب کو اپنائیگی تو فنا کے گھاٹ اُتر جائے گی۔ فرنگی تہذیب کے مُضر اثرات سے وہی قوم محفوظ رہ سکتی ہے جس کے نوجوان میں خودی اور خوداری کا جوہر ہو، اور جو اپنے اندر ایسے ہُنر بھی رکھتے ہوں کہ فرنگیوں کی محتاجی اور غلامی قبول کیے بغیر کسبِ معاش کرسکیں۔ حکایاتِ ضربِ کلیم لا اِلٰہ اِلا اللہ اے مسلمان! لا الہٰ اللہ یعنی کلمۂ توحید خودی کا چھُپا ہوا راز ہے۔ اگر خودی کو تلوار قرار دیاجائے تو اس کی سان لا الہٰ اِلا اللہ ہے جس پر یہ تلوار تیز کی جاتی ہے۔ پس خالص توحید کے بغیر خودی کی تلوار کچھ کام نہیں دے سکتی۔ خود ی کی ترقی اور اس کا ارتقائے کامل اس بات پر موقوف ہے کہ انسان لا الٰہ اِلاللہ پر اس طرح ایمان لائے کہ اس کے عمل سے یہ ثابت ہو کہ وہ کائنات میں اللہ کے سوا نہ کسی ہستی سے ڈرتا ہے نہ کسی کی اطاعت کرتاہے۔ وہ اللہ کے سوا نہ کسی کو اپنا معبود قرار دیتا ہے اور نہ مقصود۔ اس کا مرنا جینا صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔ اس کے بغیر خودی کی مخفی قوّتیں بروئے کار نہیں آسکتیں اور نہ خودی اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ سکتی ہے۔ جان لے کہ توحید خودی کے لیے سان کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس طرح سان پر چڑھانے سے تلوار صحیح معنوں میں تلوار بن جاتی ہے، اس طرح جب مسلمان حقیقی معنوں میں موحد بن جاتا ہے تو اُس کی خودی اپنے درجۂ کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں نمرود نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی کئی نمرود پیدا ہوگئے ہیں جو خدا کے بندوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ موجودہ زمانے کو بھی اپنے ابراہیم کی تلاش ہے کہ وہ توحید کا نعرہ لگائے اور عصرِ حاضر کے بتوں کو پاش پاش کردے۔ اے مسلمان! حقیقت تو یہ ہے کہ یہ دنیا تو ایک بُت خانہ ہے اور اس بُت خانے میں توحید کی صدا بلند کرنی چاہیے۔ یہ صدا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چلنے والا مردِ حق ہی لگاسکتا ہے۔ اے مسلمان! تو نے اپنا دل دُنیا میں لگالیاہے۔ تو نے وہ سودا کرلیا جو سراسر دھوکا ہے۔ تو نفع نقصان کے فریب میں مُبتلا ہوگیاہے۔ ارے نادان! نہ اس دنیا کی کوئی اصلیت ہے اور نہ اس کا نفع نقصان کوئی حقیقت رکھتا ہے۔ کیوںکہ اللہ کے سوا نہ کوئی معبودہے، نہ مقصود نہ مطلوب۔ اس لیے اس فریب کے طِلسم سے نکل اور لاالٰہ اِلا اللہ کا نعرہ لگا۔ اے مسلمان! یہ دنیا کا مال و دولت، رشتے دار، عزیز، دوست، یہ سب ایسے بُت ہیں جو وہم و گمان نے تراش رکھے ہیں۔ مال و دولت، عزیز رشتے دار، عہدے جاگیر، بیوی بچے، ان میں سے کسی کو ثبات نہیں ہے۔ اس لیے ان میں سے کسی کے ساتھ دل لگانا سراسر نادانی ہے۔ وہم و گمان کے ان بُتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ مستقل اور پائیدار حقیقت صرف لاالہٰ اِلااللہ ہے کہ اللہ ہی ایک مستقل اور ہمیشہ رہنے والی ہستی ہے اور وہی اس لائق ہے کہ اُس سے محبت کی جائے اور اُسے اپنا مقصودِ زندگی بنایا جائے۔ دُنیا کے عقلا اور حکما مدتوں سے اس مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں کہ زمان اور مکان کی حقیقت کیا ہے؟ وہ اس بحث میں اس قدر دُور چلے گئے کہ انھوں نے خدا کی بجائے زمان و مکان کے تصوّرات ہی کی پرستش شروع کردی۔ اے مسلمان! تُجھے معلوم ہونا چاہیے کہ اس کائنات میں نہ زمان کا وجود ہے نہ مکان کا وجود ہے۔ فقط ایک ہی ذات ہے جس کا وجود حقیقی ہے اور وہ اللہ ہے۔ صرف اللہ ہی موجود ہے اور صرف اللہ ہی معبودِ حقیقی ہے۔ اے مسلمان! دنیا کا ہر نغمہ کسی نہ کسی موسم سے مناسبت رکھتاہے لیکن توحید کا نغمہ ایسا نغمہ ہے جو کسی موسم کا پابند نہیں۔ بہار اور خزاں دونوں اس کے لیے یکساں ہیں۔ توحید کی حقیقت وہ حقیقت ہے جو ہروقت اور ہر حال میں درست ہے اور اس سے زندگی کی ہر حالت میں روحانی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ پس توحید کی صدا ہر فضا میں بلند ہونی چاہیے اور تو کسی بھی حال میں ہو، کلمۂ توحید کی اشاعت تیرا پہلا اور آخری فرض ہونا چاہیے۔ اے مسلمان! قوم کے افراد نے اپنی آستینوں میں بُت چھُپا رکھے ہیں۔ اور وہ توحید کی حقیقت سے بیگانے ہوچکے ہیں۔ انھوں نے غیر اسلامی تمدن و معاشرت، رنگ، نسل، وطن اور بیسیوں غیر اسلامی عقائد و نظریات کو اپنا رکھا ہے جو سراسر اسلام کی ضد ہیں۔ لیکن مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اذان کی آواز بلند کروں اور لا الٰہ اِلا اللہ کی کاری ضرب سے ان تمام بُتوں کو توڑ کر رکھ دوں۔ اس لیے میں تو بہرحال قوم کواسلام کا پیغام ہی سُنائوں گا کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود یا حاکم نہیں ہے۔ اسی پیغامِ توحید کے ذریعے قوم میں اسلامیت کی سچی رُوح پیدا ہوسکتی ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ کی یہ نظم حقیقت نگاری اور فلسفہ طرازی کا بہترین امتزاج ہے۔ اس نظم میںاُنھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ توحید کے بغیر انسان کی خودی کُند تلوار کی حیثیت رکھتی ہے۔ خودی میں بے انداز قوّتیں چھُپی ہوئی ہیں اور خودی سے کام لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اُن مخفی قوّتوں کی صحیح طریقے پر تربیت کرے۔ یہ تربیت توحید کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ خودی کی ترقی کے لیے توحید اسی طرح شرطِ اوّل ہے جس طرح تلوار کے لیے سان ضروری ہے۔ جس طرح سان پر تیز ہوکر تلوار صحیح معنوں میں تلوار بنتی ہے، اسی طرح خودی اُس وقت اپنے درجۂ کمال کو پہنچتی ہے جب مسلمان صحیح معنوں میں موحِد ہوجائے۔ جب تک خودی مرتبۂ کمال کو نہ پہنچے، انسان اپنا مقصدِ حیات حاصل نہیں کرسکتا اور اگر مقصدِ حیات حاصل نہ ہو تو انسان کا عدم اور وجود دونوں برابر ہیں۔ پس خودی کے ارتقا کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان کلمۂ توحید پر ایمان لائے۔ نہ صرف ایمان لائے بلکہ اپنے عمل سے یہ ثابت کردے کہ اس کائنات میں اُسے اللہ کے سوا اور کسی ہستی سے نہ محبت ہے نہ رغبت۔ وہ ڈرتا ہے تو صرف اللہ سے، اُس کا سر جھُکتا ہے تو صرف خُدا اور اس کے حکم کے سامنے، اُس کے سوا نہ کوئی معبود ہے، نہ مقصود اور نہ مطلوب۔ خدا کے حکم کے سامنے دُنیا اوراُس کی ظاہری دلچسپیاں اور دلفریبیاں سراسرفانی اور بے حقیقت ہیں، اس لیے ان سے منہ موڑ کر انسان کو صرف اللہ کی ذات سے لو لگانی چاہیے کہ وہی ایک ذاتِ حقیقی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام اے سیّدزادے! اگر تُو اپنے دین سے بیگانگی کے باعث اپنی خودی کو تباہ نہ کر بیٹھتا اور اپنی حقیقی حیثیت قائم رکھتا تو برگساں اور دوسرے مغربی فلسفیوں کو اپنا رہنما کیوں بناتا؟ تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ ہیگل کا فلسفہ بظاہر تو بہت عظیم الشان ہے لیکن وہ محض الفاظ کا ایک طومار ہے (یعنی مبالغہ آمیز بات ہے ) جس سے کچھ پلے نہیں پڑتا۔اُس نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں، اُن کی حقیقت ایک طِلسم سے زیادہ نہیں۔ اُس کا فلسفہ تو ایک ایسی سیپی ہے جو موتی سے خالی ہے۔ ہیگل، برگساں اور دوسرے فلسفی اگر چہ بہت بڑے فلسفی مانے جاتے ہیں لیکن جو کچھ وہ لکھ گئے ہیں، اس سے انسانیت کے اصل مسائل کے متعلق کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔انسانیت کے جو مسئلے توجہ کے مستحق ہیں وہ یہ ہیں کہ زندگی کیسے محکم ہوسکتی ہے اور خودی کیسے زمان و مکان کی قیود سے بالا تر ہوکر لافانی بن سکتی ہے؟ انسان کو اس شے کی تلاش ہے جس سے انسانیت کو ثبات اور پائداری نصیب ہو۔ اُسے دنیا میں صحیح اور احسن طریق پر زندگی بسر کرنے کا نظام درکار ہے۔ کیا ان مسائل کا کوئی اطمینان بخش جواب برگساں اور دوسروں کی کتابوں میں مل سکتا ہے؟ جب یہ فلسفی انسان اور انسانیت کی حقیقی طلب اور ضرورت ہی سے واقف نہیں تو یہ انسانیت کو راستہ کیا دکھاسکتے ہیں؟ اے سیّدزادے! جس شے سے اس دُنیا کی تاریکی دُور ہوسکتی ہے، جو شے انسان اور انسانیت کی مشکلات کو آسان کرسکتی ہے، جس شے سے اس کائنات کے اندھیرے میں اُجا لا ہوسکتا ہے اور جو شے اس دُنیا کی تاریک رات کو جگمگاتی صبح میں تبدیل کرسکتی ہے، وہ برگساں اور ہیگل کا فلسفہ نہیں بلکہ مومن کی اذان ہے۔ وہ اذان جس سے آفاق گونج اٹھتے ہیں اور کائنات میں خدا کی کبریائی کے اعلان اور اس کی توحید کے پیغام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اے سّید زادے! ذرا سوچ اور غور کرکہ تُو کون ہے اور میں کون ہُوں؟ میری اصل و نسل سومناتی ہے۔ میں برہمنوں کی اولاد ہوں۔ میرے آباواجداد کشمیری برہمن تھے اور بُت پرست تھے۔ اس کے برعکس تو ہاشمی سیّدؐ کی اولاد ہے، سیّد زادہ ہے۔ میرا جسم جس گھرانے میں پیدا ہوا۔ وہ برہمنوں کا گھرانا تھا۔ برہمن زادہ ہونے کی حیثیت سے فلسفہ میرے آب و گل میں ہے اور میرے دل کی رگ رگ میں سمایا ہوا ہے۔ کیوںکہ برہمنوں کا تو مشغلہ ٔ حیات ہی فلسفہ ہے۔ مجھے بظاہر کتنا ہی حقیر اور بے ہُنر سمجھ لیا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں اس فلسفے کی رگ رگ اور نس نس سے واقف ہوں۔ میں نے دنیا بھرکے فلسفیانہ مدارسِ فکر پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔ اے سیّدزادے! تیرے جنونِ عشق کے شعلے میں کوئی تپش او رسوز موجود نہیں، گویا اسے شُعلہ کہنا ہی درست نہ ہوگا۔ آ!میں تجھے دل کو روشن کرنے والا ایک نکتہ بتاتا ہوں۔ عقل کا انجام یہ ہے کہ وہ خدا کے حضور سے محروم ہوجائے اور فلسفہ انسان کو زندگی کی حقیقتوں سے دُور پھینک دیتا ہے۔ جو لوگ عقل کے چکّروں میں پڑجائیں، اُنھیں ایمان اور یقین کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور فلسفی اُن بحثوں میں اُلجھے رہتے ہیں جنھیں زندگی کی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کوئی کتنا ہی بڑا فلسفی کیوں نہ ہو، زندگی کے پیچیدہ مسائل حل نہیں کرسکتا۔ فلسفیانہ افکار خیالات کے ایسے بے آواز نغمے ہیں جو ذوقِ عمل کے لیے موت کا پیغام ہیں۔ فلسفہ کسی کے لیے بظاہر کتنا ہی دلکش کیوں نہ ہو، وہ انسان کی قوتِ عمل کو مُردہ کردیتا ہے۔ فلسفی آدمی گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر غورو فکر تو کرسکتا ہے لیکن اس سے ہمّت، جواں مردی اور اولوالعزمی کے کسی کارنامے یا جہاد فی سبیل اللہ جیسے جذبے کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی۔ اس لیے کہ فکر میں غرق رہنے سے عمل کی قوت مرجاتی ہے۔ اے سیّد زادے! یہ تو فلسفے کی حقیقت تھی جو میں نے تجھے بتائی۔اس کے مقابلے میں دین کو دیکھ۔ دین فلسفے کی طرح چند نظر یات یا قیاسات اور ظن و تخمین کا نام نہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کا دستور العمل ہے اور حیاتِ انسانی کے لیے مکمل ضابطہ ہے۔ اس کی برکت سے انسان کا قدم زندگی کے راستے پر استوار ہوجاتا ہے۔ دین تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پھیلا ہے۔ دین ان جلیل القدر ہستیوں کی عظمت کا آئینہ دار ہے۔ دین ان مقّدس و محترم شخصیتوں کی بتاہی ہوئی راہ ِ عمل ہے جس پر چل کر انسانیت کو اپنے دُکھوں کاعلاج ملتا ہے اور انسان پر اس کی خودی کا راز فاش ہوتا ہے۔ پس اے فلسفہ زدہ سیّد زادے! برگسان، ہیگل اور دیگر فلسفیانِ مغرب سے قطع تعلق کرکے اور تمام دوسرے سہارے چھوڑ کر دل کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی سے وابستہ کرلے۔ یہ مت دیکھ کہ مغرب کے فلسفی کیا کہتے ہیں؟ وہ تو خود اندھے ہیں اور اندھا دوسروں کو راستہ نہیں دکھا سکتا، بلکہ یہ دیکھ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایاہے۔ تجُھے اور سب کچھ چھوڑ کر حضورؐ ہی کے ارشادات کی تعمیل اور پیروی میں لگ جانا چاہیے۔ اے علیؓ کے بیٹے! تجُھے بو علی سینا جیسے فلسفیوں کے پیچھے نہیں چلنا چاہیے۔ اے سیّدزادے!جب تجھے دین سے آگاہی نہ ہو تو پھر تیرے لیے محفوظ راستہ یہی ہے کہ تو بخاری یعنی بوعلی سینا جیسے فلسفی کی بجائے قریشی یعنی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو اپنا رہنما بنالے جنھیں خدا کی رحمت سے راستہ دیکھنے اور دکھانے والی آنکھ عطا ہوئی۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں دین اور فلسفہ دونوں کا بڑی عمدگی سے موزانہ کرتے ہوئے فلسفہ پردین کی برتری اور فوقیت کو نہایت موثر اور دل نشین انداز میں پیش کیا ہے۔ نظم میں جس سیّدزادے سے خطاب ہے، وہ ایک مرتبہ علاّمہ اقبال ؒ کی خدمت میں گئے۔ وہ اگر چہ اتنے زیادہ فلسفہ زدہ نہیں تھے مگر گفتگو میں اُنھوں نے کچھ ایسا ہی انداز اختیار کیا جس وہ برگساں، ہیگل اور اور دیگر فلسفیانِ مغرب سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اقبالؒ ان دنوں بیمار تھے اور اُن کے احساسات اور بھی نازک ہوگئے تھے۔ نوجوان سیّدزادے کی فلسفہ زدہ گفتگو کا اثر اُن پر بہت زیادہ ہوا۔ اُنھوں نے اس نوجوان کے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دے دیے لیکن دل پر یہ اثر برابر قائم رہا کہ معلوم نہیں ایسے ہی کتنے پڑھے لکھے نوجوان فلسفیانِ مغرب کے آزادنہ خیالات سے متاثر ہیں۔ علاّمہ اقبال ؒ نے فلسفیانہ انداز میں گفتگو کی تھی مگر حقیقت میں اس نظم کے مخاطب وہ تمام حضرات ہیں جو فلسفیانِ مغرب کے افکار سے متاثر ہو کر دین اور اقدارِ دین کو ہدفِ تنقید واعتراض بناتے رہتے ہیں۔ گویا واقعہ اگر چہ خاص ہے لیکن خطاب عام ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے دین اور فلسفہ کا موازنہ کرتے ہوئے اس نظم میں یہ بتایا ہے کہ انسان اور انسانیت کے مسائل کا کوئی علاج فلسفے کے پاس نہیں۔ کیوںکہ فلسفی جن معاملات ومسائل پر غور کرتے ہیں، وہ انسان اور انسانی زندگی کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ فلسفے کی عقلی بحثوں میں پڑ کر انسان ایمان اور یقین کی دولت سے محروم ہوجاتاہے، اس لیے فلسفیانہ موشگافیوں سے قطع نظر کرکے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی کو مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔ یہی وہ دستورالعمل ہے جو انسان کے لیے فلاح کا ضامن ہے اور یہی وہ ضابطۂ حیات ہے جو ہر لحاظ سے انسان اور انسانیت کے لیے مکمل ترین ضابطۂ حیات کہلانے کا مستحق ہے۔ شکرو شکایت اے باری تعالیٰ! اگر چہ میں ایک نادان اور بے سمجھ بندہ ہوں، لیکن تیرا شکر ادا کرتا ہوںکہ تُونے مجھے اپنی محبت عطا فرمائی ہے اور اپنے فضل و کرم سے میری روح کو عالمِ بالا کے اُس پاکیزہ جہاں کے ساتھ وابستہ کردیا ہے جہاں تیری ذات کے سوا اور کوئی نہیں۔ اسی لیے میرے دل میں مذہب و ملّت کی خدمت کا جذبہ موج زن ہے۔ تیرے اسی لُطف و احسان کی بدولت میں اس قابل ہوگیا ہوں کہ میں نے لاہور سے بخارا اور سمر قند کی سرزمین تک مسلمانوں کو قرآن مجید کا پیغام سنایا اور اُن کے دلوں میں زندگی کا ایک تازہ ولولہ اور جوش پیدا کردیا ہے۔ اسی ولولے اور جوش کی بدولت مسلمان پھر سے اسلام کو دنیا میں سربلند کرنے کے لیے کوشاں ہورہے ہیں۔ اے خدا! یہ میرے ہی نغموں کا اثر ہے کہ خزاں کے موسم میں بھی صبح کے وقت نغمہ سرائی کرنے والے پرندے میری صحبت میں خوش و خرم رہتے ہیں۔ اگر چہ مسلمانوں پر زوال کی حالت طاری ہے اور اُن کی زندگی کے چمن زاروں پر خزاں چھائی ہوئی ہے لیکن اس گئے گُزرے دور میں بھی میری قوم کے درد مند لوگ میرے شعر ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں اور ان سے مستفید ہوتے ہیں، اس لیے کہ ان میں اُنھیں بہار کا سا لُطف آتا ہے۔ اے باری تعالیٰ! میں تیرے اس لُطف و احسان کا جتنا بھی شُکر ادا کروں کم ہے لیکن میں بڑے رنج کے ساتھ تیری جناب میں ایک عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میرے لیے یہ انتہائی دُکھ کی بات نہیں کہ مجھے ایسے اعلیٰ درجے کے حیات بخش جوہر عطا فرمانے کے بعد تونے مجھے ایک ایسے مُلک میں پیدا کیا ہے جہاں کے باشندے غلامی پر راضی ہیں؟ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم ایک لطیف شاعرانہ اندازِ بیان کی حامل ہے۔ اس نظم کے ذریعے علاّمہ اقبالؒ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ غلامی پر رضا مند ہوجانا کسی بھی قوم کے لیے باعث عزّت نہیں۔ مسلمان تو اپنے دل کو ایسے تصوّر سے آلودہ نہیں کرسکتا۔ پس جو مسلمان کافر کی غلامی پر رضامند ہو اور اس غلامی سے رہائی کی کوشش نہ کرے، وہ مسلمان ہی نہیں۔ کیوںکہ اللہ کا بندہ کسی کافر کا بندہ کیسے ہوسکتا ہے؟ علاّمہ اقبالؒ ایک طرف تو اپنی غیر معمولی شاعرانہ صلاحیتوں پر خُدا کا شکرادا کرتے ہیں کہ ان صلاحیتوںکی بدولت اُنھو ںنے مسلمانوں کے خُون کو گرمادیا ہے اور اُن کے دلوں کو ایک تازہ ولولہ بخشا ہے، دوسری طرف وہ خُدا سے شکایت کرتے ہیں کہ اے خُدا! تو نے مجھے ایسے ملک میں پیدا کردیا ہے جہاں کے لوگ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں لیکن کافروں کی غلامی پر راضی ہیں۔ وہ کلمہ تو تیرا پڑھتے ہیں لیکن اطاعت کافروں کی کرتے ہیں۔ افرنگ زدہ اے مسلمان نوجوان! تیرے وجود میں مجھے کہیں اسلام کی جھلک نظر نہیں آتی۔ تیرا وجود تو سرسے پائوں تک فرنگی تہذیب کا پرتو ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیری عمارت اسی فرنگی تہذیب کے معماروں نے بنای ہے۔تیری ہر چیز فرنگی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ تیرے دل و دماغ، فکرونظر، رہن سہن، جسم و لباس، بودوباش غرض کہ ہر چیز سے فرنگیت ٹپک رہی ہے۔ تجھ میں اسلام کا کوئی جوہر موجود نہیں۔ ظاہر ہے کہ جیسے معمار ہوں گے، ویسی ہی عمارت بنے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تیرا خاکی جسم خودی سے بالکل خالی ہے۔ تو ایک ایسی نیام ہے جس پر سونے کے نفیس نقش و نگار بنے ہوئے ہیں لیکن اس نیام میں تلوارموجود نہیں خالی نیام چاہے کتنی ہی قیمتی اور کیسی ہی خوب صورت کیوں نہ ہو، میدانِ جنگ میں کیا کام دے سکتی ہے؟ اے مسلمان نوجوان!تو مغربی علوم پڑھ کر خدا کے وجود کا منکر ہو گیا ہے۔ تیری بات چیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیری نگاہ میں خُدا کا وجود ثابت نہیں ہے۔ تو خُدا کے وجود کے ثابت نہ ہونے کی بات کرتاہے، لیکن میں تویہ کہوں گا کہ میری نگاہ میں خود تیرا وجود ہی ثابت نہیں ہے۔ اے فرنگ زدہ نوجوان! تجھے معلوم بھی ہے وجود کسے کہتے ہیں؟ تیرے خاکی جسم کا نام تو وجود نہیں ہے بلکہ وجود تو جوہرِ خودی کی نمود اور اس کے اظہار کا نام ہے۔ وجود اسی حالت میں ثابت ہوسکتا ہے جب انسان کی خودی بروے کار آئے اور تیرا حال تو یہ ہے کہ تو خودی ہی سے خالی ہے۔اس لیے اے افرنگ زدہ مسلمان نوجوان! تو اس بات کی فکر چھوڑ کہ خدا کا وجود ثابت ہے کہ نہیں بلکہ اپنے وجود کی فکر کر، خدا کا وجود تو بعد میں ثابت ہوگا، تُو پہلے اپنا وجود تو ثابت کر، جب تک خُود تیرا جوہر نمود سے محروم ہے، جب تک تیری خودی دُنیا پر آشکار نہیں ہوتی اور جب تک ایک صحیح مسلمان بن کر اپنی حقیقی ہستی کو دُنیا کے سامنے نمایاں نہیں کرتا، اُس وقت تک تیرا اپنا وجود ثابت نہیں ہوسکتا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں اُن مسلمان نوجوانوں سے خطاب کیا ہے جو فرنگی تہذیب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اسی فرنگی تہذیب کو انھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ اُن کی چال ڈھال، وضع قطع، خور و نوش، گفتگو، زبان و تمدن، تہذیب و معاشرت، عقائد و افکار غرض کہ زندگی کے ہر شعبے پر فرنگی تہذیب کا غلبہ ہے۔ علاّمہ اقبالؒنے اسی کیفیت کو ’’سگ زدہ‘‘ کی طرح’’افرنگ زدہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ جس طرح ’’سگ زدہ‘‘ کی رگ رگ میں دیوانے کُتّے کا زہر سرایت کرجاتاہے، اسی طرح افرنگ زدہ وہ ہے جس کی رگ رگ میں فرنگی خیالات و نظریات سرایت کرجائیں۔ جس طرح دیوانے کتیکے زہر سے جسمانی موت واقع ہوجاتی ہے، اسی طرح فرنگی خیالات و نظریات کے زہرسے مسلمانوں کی روحانی موت واقع ہوجاتی ہے۔ علاّمہ اقبال ؒ فرنگی تہذیب میں ڈوبے ہوئے نوجوان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تیری ہر چیز فرنگی تہذیب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔تو ایک ایسی شہری نقش و نگار والی نیام کی مانند ہے جس کے اندر تلوار موجود نہیں۔ تو مغربی علوم کے زیر اثر آکر خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا کا وجود ثابت نہیں ہے کیوںکہ تیرا وجود خودی سے محروم ہے اور وجود خودی کے جوہر کے آشکار ہونے کا دوسرا نام ہے۔ پہلے اپنے اندر خودی پیدا کر اور پھر اس کے جوہروں کو دنیا کو دکھا، تب تیرا وجود ثابت ہوگا۔ علاّمہ اقبالؒ کی اس نظم سے اس درد کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے جو اُن کے دل میں ملّت کے نوجوانوں کے لیے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس درد کی کسک نے علاّمہ اقبالؒ کو شہرتِ عام اور اُن کے کلام کو بقائے دوام بخشی ہے۔ قلندر کی پہچان قلندر جواں مرد درویش ہے۔ وہ زمانے سے کہتا ہے کہ اے زمانے! تُو دُنیا کو اپنے پیچھے چلانے کا عادی ہے لیکن میں مردِ مومن اور بندۂ حق ہوں۔ میں تیری پیروی نہیں کروں گا بلکہ تجھے میری پیروی کرنی پڑے گی۔ میں تجھ حکم دیتا ہوں کہ جدھر میں جارہا ہوں، تو بھی اُدھر چل۔ اے زمانے! میں جو ہنگامے پیدا کرسکتا ہوں، تُو اُن کی تاب نہیں لاسکتا۔ وہ تیری طاقت سے بالا ہیں۔ تو خیر چاہتا ہے تو قلندر کی قیام گاہ سے بچتا ہوا نکل جا۔ اگر تو میری زد پر آگیا تو میں تجھے اپنا اسیر بناے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔ تو ساری دنیا کو اپنا پابند اور مطیع بنا سکتا ہے لیکن مومن کو اپنا پابند اور مطیع نہیں بنا سکتا کیوںکہ وہ تو زمانے پر حکمرانی کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اے زمانے! اگر تو چڑھتا ہوا دریا ہے تو مجھے اس کی بالکل پروا نہیں۔ میں کبھی کشتی اور ملاّح کا محتاج نہیں ہوا اور نہ میری فطرت کشتی اور ملاّح کی محتاجی قبول کرسکتی ہے۔ اگر تو جوش و خروش دکھاتے ہوئے دریا کی شکل میں میرے سامنے آئے گا تو میں کشتی اور ملاّح کا سہارا لینے کی بجائے تجھے حکم دوں گا کہ تو اترجا اور پایاب ہو جا۔ اے زمانے! کیا یہ حقیقت نہیں کہ میرے نعرئہ تکبیر نے تیرے طِلسم کو پاش پاش کرکے رکھ دیا ہے؟ اگر تجھ میں اس حقیقت سے انکار کی جرأت ہے تو کر دیکھ۔ اگر تو تاریخی حقائق کو جھُٹلانے کا حوصلہ رکھتا ہے تو انھیں جھُٹلادے لیکن میں جانتا ہو ںکہ تو ایسا نہیں کرسکتا۔ اے زمانے! جان لے اور اچھی طرح جان لے کہ میں قلندر ہوں۔ میں سورج، چاند اور تاروں کا حساب لیتا ہوں۔ میںدن اور رات کا غلام نہیں بلکہ دن اور رات میرے غلام ہیں۔ میں زمانے کی سواری نہیں بلکہ زمانے کا سوار ہوں۔ میں زمانے کی مرضی پر نہیں چلتا بلکہ زمانے کو اپنی مرضی پر چلاتا ہوُں۔ زمانے مجھ پر حکمران نہیں ہے بلکہ میں اس زمانے پر حکمران ہوں۔ زمانہ ساری دنیا پر حکم چلاتا ہے لیکن میں زمانے پر حُکم چلاتا ہوں۔ علاّمہ اقبالؒ نے اس نظم میں ہمیں قلندر یعنی مردِ مومن کی پہچان بتائی ہے کہ قلندر زمان و مکان پر حکمراں ہوتا ہے۔ دنیا زمانے کی پیروی کرتی ہے لیکن قلندر یا مردِ مومن زمانے سے اپنی پیروی کراتا ہے۔ دُنیا زمانے کے پیچھے پیچھے چلتی ہے لیکن قلندر زمانے کو اپنے پیچھے پیچھے چلاتا ہے۔ چنانچہ اس نظم میں قلندر نے زمانے کو مخاطب کرتے ہوئے خود اپنے اوصاف ایک ایک کرکے بتائے ہیں کہ قلندر زمانے کو حکم دیتا ہے کہ جدھر میں جارہا ہوں، تو بھی ادھر چل اور زمانہ اس حکم کی تعمیل پر مجبور ہوتا ہے، اور اگر زمانہ چڑھتے ہوئے دریا کی صورت میں قلندر کے سامنے آئے تو اُس کا حکم پاکر پایاب ہوجاتا ہے۔ غرض زمانہ قلندر پر حکومت نہیں کرتا بلکہ قلندر زمانے پر حکومت کرتاہے۔ فلسفہ جوانوں کے خیالات پوشیدہ ہوں یا ظاہر، قلندر کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے، اے مسلمان نوجوان! میں تیرے حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ جو کچھ تُجھ پر گزررہی ہے، اس سے اچھی طرح باخبر ہُوں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ توکس قسم کے تشکیک آمیز خیالات اور الحاد انگیز نظریات و تصورات میں مُبتلاہے اور تیرا دل و دماغ کس قسم کے شکوک و شُبہات کی آماج گاہ بنا ہُوا ہے، اس لیے کہ مدّت ہوئی، میں بھی اسی راستے سے گُزرا تھا جس پر تو چل رہا ہے۔ اے مسلمان نوجوان! دیکھ میں تجھے سمجھاتا ہوں کہ عقل مند آدمی لفظ، اور عبارت کے ایچ پیچ میں نہیں الجھا کرتے۔ اُنھیں تو الفاظ سے نہیں، معنی سے مطلب ہوتاہے۔ بالکل اس طرح جس طرح غوطہ خوراگر چہ سیپی کی تلاش میں ہوتا ہے لیکن اس کا مقصود سیپی نہیں، سیپی کے اندر چھُپا ہوا موتی ہوتاہے۔ پس اے مسلمان نوجوان! اگر تجھے معنی کی آرزو ہے، اگر تجھے حقیقت سے آگاہ ہونے کا شوق ہے تو وہ عقل پیدا کرجو شعلے اور شرر میں امتیاز کرسکے۔ ایسی عقل کتابوں سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اربابِ جنوں ہی کے حلقے میں مل سکتی ہے۔ عاشقانِ حق کی صحبت کے طفیل ہی تجھے وہ عقل میسر آسکتی ہے جو چنگاری کو دیکھ کر شعلے کاپتا لگالے اور چمک سے آگ کا اندازہ کرلے۔ اے مسلمان نوجوان! جب عاشقانِ حق کی صحبت کے طفیل تجھے وہ عقل حاصل ہوجائے جو شعلے اور شرر میں امتیاز کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو تو پھر تیرا دل جس فلسفے کی تصدیق کردے، تیرا دل جس پیچ دار مطلب کی صداقت پر مطمئن ہوجائے، وہی صحیح اور قیمت میں موتیوں سے کہیں بڑھ کر ہے اور جس عقلی مسئلہ یا فلسفہ کی تصدیق تیرا دل نہ کرے، وہ غلط اور مہمل ہے۔ کیوںکہ عاشقانِ حق کے نزدیک اصل معیار اور کسوٹی عقل کی تصدیق نہیں بلکہ دل کی تصدیق ہے۔ اے مسلمان نوجوان یاد رکھ!جو فلسفہ خونِ جگر سے نہ لکھا جائے، جسے دل کی تائید حاصل نہ ہو اور جس کی تصدیق انسان کا دل اور انسان کی روح نہ کرے، اسی کے متعلق یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یا تو مُردہ ہے یا اس پر جان کنی کی کیفیت طاری ہے۔ پس ایسا فلسفہ مردود ہے اور کسی توجہ کا مستحق نہیں ہے۔ اگر تو اس کی طرف بڑھے گا تو تُجھے سوائے گمراہی کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جان لے کہ مومن کا دل یا نُورِ ایمانی ہی فلسفے کی صحت کی کسوٹی ہے۔ صحیح فلسفہ وہ ہے جس کی تصدیق دل کرسکے۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں فلسفے کی حقیقت بیان کی ہے کہ فلسفہ پیچ در پیچ لفظی بحثوں اور عقلی موشگافیوں کا دوسرا نام ہے، وہ مسلمان نوجوان سے خطاب کرتے ہوئے ذاتی تجربہ، مطالعہ اور مشاہدہ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ عقل مند لوگ لفظی بحثوں میں اُلجھنے کی بجائے مفہوم و معنی سے واسطہ رکھتے ہیں، لیکن وہ عقل جو حق اور باطل میںامتیاز کرسکتی ہو، وہ صرف عاشقانِ حق کی صحبت کے فیض ہی سے مل سکتی ہے۔ جسے عاشقانِ حق کی صحبت کے طفیل ایسی عقل مل جائے۔اُس کا دل نُورِ ایمانی سے منوّر ہوجاتا ہے اور پھر وہی فلسفہ صحیح ہوتا ہے جس کے صحیح ہونے کی گواہی اس کا دل دے۔ جس فلسفے کی تصدیق دل نہ کرے، وہ ہرگز اس لائق نہیں کہ مسلمان اس کی طرف متوجہ ہو اور اپنی عمر عزیز کے گراں قدر ماہ و سال اس کے کارِلاحاصل میں گنوائے۔ کافر و مومن کل میں سیر کو نکلا تو دریا کے کنارے میری ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی۔ اُنھوں نے مجھ سے پُوچھا۔ ’’اقبال! تو کیا ڈھونڈرہا ہے؟‘‘میں نے جواب دیا۔ ’’یا حضرت! میں افرنگ کے زہر کا تریاق ڈھونڈرہا ہوں۔ افرنگ نے میری قوم کی ذہنیت کو مسموم کردیاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس زہر کا تریاق ہاتھ آجائے تو اپنی قوم کو از سر نو مسلمان بنادُوں۔‘‘اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’اے اقبال! توُ افرنگ کے زہر کے تریاق کی جستجو میں ہے؟ سُن! میں تجھے ایک ایسا نُکتہ بتاتا ہوں جو تلوار کی طرح کاٹ کرنے والا، صیقل کیا ہوا، روشن اور چمکیلا ہے۔ وہ یہ ہے کہ مسلمان کو بتا دے کہ کافر اور مومن میں کیا فرق ہے،تاکہ مسلمان اپنے آپ کو مومن بنالے اور جب وہ مومن بن جائے گا تو وہ افرنگ کے زہر کا تریاق بھی حاصل کرسکے گا بلکہ وہ تریاق خود اُس کے اندر پیدا ہوجائے گا۔ اے اقبال! کافر کی پہچان یہ ہے کہ کافر آفاق میں گُم ہو جاتا ہے جب کہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ آفاق خود اُس میں گم ہوجاتے ہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس نظم میں حضرت خضر علیہ السلام کی زبان سے کافر اور مومن کے درمیان فرق بیان فرمایا ہے کہ کافر اپنے آپ کو کائنات میں گُم کردیتاہے جب کہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ کائنات اُس میں گُم ہوجاتی ہے۔ کافر چوںکہ توحیدِ الہٰی سے بیگانہ ہوتا ہے،اس لیے وہ کائنات کی تمام چیزوں سے ڈرتے ہوئے اُنھیں اپنا معبود اور مسجود بنالیتا ہے۔جیسے پُرانے زمانے میں لوگ چاند، تاروں، سورج، سانپ، دریا، پہاڑ وغیرہ کی پُوجا کرتے تھے۔یا پھر کافر دُنیا کی چیزوں میں دل لگا کر اس طرح مگن ہوجاتا ہے کہ خدا کو بھی یاد نہیں رکھتا یا وہ موجودہ دور کے سائنس دانوں کی طرح مادّی چیزوں کے کھوج میں اس طرح گُم ہوجاتا ہے کہ اپنے خالق و مالک کو بالکل بھلا بیٹھتا ہے۔ وہ عجیب و غریب چیزیں تو ایجاد کرلیتا ہے لیکن خدا سے غافل ہوجاتا ہے۔ اور اس کی ایجاد کردہ چیزوں سے انسانیت کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ یُوں اُس کا وجود آفاق یعنی کائنات میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ نہ کائنات میں اس کی کوئی حیثیت ہوتی ہے اور نہ وہ کائنات پر حکمرانی کرسکتاہے۔ اس کے برعکس مومن اپنے آپ کو خدا میں گم کردیتا ہے اور جب وہ اپنے آپ کو خدا کے حکم کے تابع کردیتا ہے تو پوری کائنات اُس کے حکم کے تابع ہوجاتی ہے۔ مومن کا عقیدہ ہی یہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے، وہ بندۂ حق کی خدمت کے لیے ہے۔ وہ توحید کا ماننے والا ہے، وہ جانتا ہے کہ صرف اللہ مجھ پر حکمران ہے۔ اللہ کے سوا کوئی طاقت مجھ پر حکومت نہیں کرسکتی۔ اس کائنات کی کوئی شے مجھ پر حاکم نہیں ہوسکتی اور نہ میں کائنات کی کسی شے کا غلام ہوسکتا ہوں حتیٰ کہ کوئی انسان بھی مجھ پر حکومت نہیں کرسکتا۔ میں اللہ کا غلام ہوں اور یہ کائنات میری غلام ہے۔ چنانچہ جب ایک مومن اطاعتِ الٰہی کی بدولت اپنی خودی کی مخفی طاقتوں کو درجۂ کمال تک پہنچالیتا ہے تو ساری کائنات اُس کی مطیع فرمان ہوجاتی ہے اور وہ زمان و مکان پر حکمران ہوجاتا ہے، یعنی کائنات مومن کے اندر گم ہوجاتی ہے اس لیے کہ مومن کے مقابلے میں آفاق یا کائنات کی کوئی حیثیت نہیں رہتی جب کہ کافر کی حالت یہ ہے کہ آفاق یا کائنات کی طاقت کے سامنے اُس کی یا اس کی طاقت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ لاہور و کراچی غیرت مند مسلمان صرف اللہ پر نظر رکھتاہے۔جو کچھ مانگتاہے، اُسی سے مانگتا ہے۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے کچھ طلب نہیں کرتا اور نہ توقع رکھتاہے۔ بھلا ایک غیّور مسلمان کے لیے موت سے ڈرنے اور خوف کھانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ وہ تو موت سے بالکل نہیں ڈرتا ہے۔ اس کے لیے تو موت کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اس مادی دُنیا سے اُٹھ کر رُوحانی دنیا کی طرف چلا جائے۔ اُس کے نزدیک موت، زندگی کا سلسلہ منقطع ہونے کا نام نہیں بلکہ اپنے حقیقی اور اصلی گھر کی طرف واپس جانے کانام ہے جس کی طلب ہر صاحبِ ایمان کو ہروقت ہونی چاہیے۔ اے مسلمان! یہ ہمارے شہید جو لاہور اور کراچی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس پر قربان ہوگئے، تُو ان کا خون بہا انگریزی حکومت اور اہل کلیسا سے نہ مانگ۔ بھلا اہلِ کلیسا ان شہیدوں کا خون بہا کیا دے سکتے ہیں۔ ان شہیدوں کا خون تو قدروقیمت میں حرم کعبہ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ اے مسلمان! کیا تجھے قرآن حکیم کا یہ ارشاد یاد نہیں رہا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو مت پکارو‘‘۔ پس جب خُدا کے سوا کسی کو پُکارنا درست نہیں تو شہیدوں کے خون کی قیمت کیوں کسی سے مانگی جائے؟ تجھے تو اللہ سے اس بات کی توفیق طلب کرنی چاہیے کہ تو خود دشمنانِ دین سے ان شہیدوں کے خون کا انتقام لے سکے۔ علاّمہ اقبال ؒ نے اس نظم میں لاہور اور کراچی میں ہونے والے دو اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ۱۹۲۷ء میں ہندوستان کے دشمنِ انسانیت آریہ سماجیوں نے ایک سکیم کے تحت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ لاہور کے ایک آریہ سماجی چموپتی نے ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی رُسوائے عالم کتاب لکھی۔ جس میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت ناگوار انداز میں ذکر کیا گیا تھا، اس کتاب کو لاہور ہی کے ایک دوسرے آریہ سماجی راجپال نے شائع کیا۔ اس پر سارے ہندوستان میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور اس سرے سے اُس سرے تک مسلمانوں میں ایک آگ سی لگ گئی۔ اس زمانے میں حکیم اجمل خان، ڈاکٹر انصاری اور دوسرے مسلمان کانگریسی رہنما تو مسلمانوں کو ہندوئوں سے دوستی اور بھائی چارے کی تلقین کررہے تھے جب کہ ہندو لیڈر اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لیے شُدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں چلانے کے ساتھ ساتھ پے درپے ایسے مضامین، رسالے اور کتابیں چھاپ رہے تھے جن کا مواد اور زبان دونوں مسلمانوں کے لیے انتہائی دل آزار اور تکلیف دہ تھے۔ مسلمانوں کی طرف سے راجپال کے خلاف مقدمہ دائر ہوا لیکن ہائی کورٹ کے جج جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے اُسے بری کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان نوجوان آپے سے باہر ہوگئے۔ ۱۹۲۸ء میں لاہور میں ایک بڑھئی کے ان پڑھ بیٹے علیم الدین کی غیرتِ دینی نے جوش مارا اور اس نے دن کے وقت راج پال کی دکان میں جاکر اُسے قتل کردیا۔ میانوالی جیل میں اُسے پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس کی میّت لاہور لانے کے لیے ایک ہمہ گیر تحریک شروع ہوگئی۔ بڑی مشکل سے حکومت نے میّت لانے کی اجازت دی۔ نومبر ۱۹۲۹ میں شہادت کے چھ ماہ بعد علیم الدین شہید کی میّت لاہور آئی اور دُوردُور سے لاکھوں آدمیوں نے لاہور پہنچ کر اس کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔چھ ماہ بعد بھی میّت کو دیکھ کر یُوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک روز پہلے وفات ہوئی ہے۔ علیم الدین کی قبر لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں اب تک زیارت گاہ عوام بنی ہوئی ہے۔ چوںکہ راج پال کے بری ہوجانے سے آریہ سماجی ہندوئوں کے حوصلے بڑھ گئے تھے، اس لیے ایک آریہ سماجی نے کراچی میں اور دوسرے نے کلکتہ میں راجپال کی تقلید کرتے ہوئے اسی طرح کی دل آزار کتابیں شائع کیں۔ اس پر سرحد کے ایک پٹھان عبدالقیوم خان نے کراچی میں اُس ہندو ناشر کو قتل کردیا۔ اُسے پھانسی کی سزا ہوئی۔ لاہور سے تین نوجوان کلکتہ پہنچے اور کلکتہ میں جس ہندونے ایسی ہی کتاب چھاپی تھی، اُسے ان تین نوجوانوں میں سے ایک عبداللہ خان نے موت کے گھاٹ اتار کر غیرتِ دینی اور اپنے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا ثبوت دیا۔ کلکتہ کے واقعہ کو زیادہ شہرت نہیں ملی، غالباً اس وجہ سے کہ وہ ایک دُور افتادہ مقام پر پیش آیا تھا اور اُن نوجوانوں کے کارنامے کا علم ملک کے تمام مسلمانوں کو نہ ہوسکا مگر لاہور اور کراچی کے واقعات بہت مشہور ہوئے اور مدتوں مسلمانوں کی زبانوں پر علیم الدین شہید اور عبدالقیوم شہید کا نام رہا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے یہ نظم اِنھی دوواقعات سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ خاص طور پر علیم الدین شہید کے متعلق اُن کے جذبات و احساسات کی کیفیت ہی کچھ اور تھی۔ وہ جب کبھی گفتگو کے دوران میں علیم الدین شہید کا ذکر آتا تھا تو وہ ہمیشہ لیٹے سے اُٹھ بیٹھ جاتے تھے اور علیم الدین شہید کا نام لیتے ہوئے آنسو اُن کے رُخساروں پر موتیوں کی لڑیوں کی طرح بہنے لگتے تھے اور وہ ایک ناقابلِ بیان کیفیت کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ ’’ہم پڑھے لکھوں سے تووہ اَن پڑھ ترکھان کا لڑکا ہی عقل مند نکلا۔ ہم بحثوں میں ہی اُلجھے رہے اور وہ کامیاب ہوگیا۔ علاّمہ اقبالؒ نے اس نظم میں اپنی طبیعت کے مطابق مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ناموسِ رسالتؐ کی خاطر شہید ہونے والے ان جوانوں کے خون کی قیمت انگریزوں اور اہلِ کلیسا سے نہ مانگو۔ بھلا اہلِ کلیسا ان شہیدوں کے خون کی قیمت کیا دے سکتے ہیں۔ جب کہ ان کا خون قدروقیمت کے لحاظ سے حرم ِکعبہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ محض شاعرانہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے اخذ کردہ مضمون ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار کعبے کا طواف کررہے تھے۔ طواف کرتے کرتے یکایک ٹھہر گئے اور کعبے کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:’’تو اس دُنیا میں اللہ کو سب سے پیارا ہے لیکن ایک مسلمان کا خُون تجھ سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن مسلمانوں نے ناموسِ رسول ؐ کی خاطر شہادت پائی، اُن کا خُون یقینا بہت قیمتی ہونا چاہیے اور ہے!پھر علّامہ اقبالؒؒ مسلمان کو ارشادِ خداوندی کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب اللہ کے سوا کسی کو پکارنا درست نہیں پھر اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خاطر شہید ہونے والے کے خون کی قیمت کیوں کسی سے مانگی جائے؟ مردِ مسلمان مومن کی شان اور آن ہر لحظہ نئی ہوتی ہے۔ وہ اپنی بات چیت اور عمل میں خداتعالیٰ کا ایک نشان ہوتاہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ روز نئی آن اور نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے، اسی طرح مومن بھی ہر لحظہ نئی آن اور نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ ہر وقت حرکت اور عمل میں مصروف رہتا ہے اور کسی بھی لمحہ کہیں نہیں ٹھہرتا۔ اُس کا کلام اور اُس کا عمل دونوں خدا کی ذات کی دلیل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اقوال اور اپنے اعمال سے اللہ اور اللہ کے کلام کی سچائی کے دلائل پیش کرتا رہتا ہے۔ مومن کا وجود خداتعالیٰ کے وجود کی مجسم دلیل ہے۔ اُس کی گفتار اور اُس کے کردار کو دیکھ کر دُنیا اللہ کی ہستی پر ایمان لاتی ہے۔ جس کائنات کی تخلیق چار عناصر یعنی آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے ہوئی ہے، اس طرح مسلمان بھی چار عناصر، قہّاری، غفّاری، قدّوسی اور جبروت سے ترکیب پاتاہے۔ یعنی انسان اُس وقت مسلمان بنتا ہے جب اُس کی زندگی سے چار باتیں ظاہر ہوں۔ پہلی یہ کہ اُس کا قہرو غضب اتنا شدید ہو کہ دشمن لرز اُٹھیں اور مرعوب ہوجائیں۔ دوسری یہ کہ وہ عفو درگزر سے کام لیتے ہوئے خطا کاروں کو معاف کرسکے اور اس طرح لوگوں کے دل جیت لے۔ تیسری یہ کہ اس کے کردار سے پاکیزگی اور تقدس ظاہر ہو۔ چوتھی یہ کہ وہ عظمت و جلال کا پیکر ہو، صاحب حکومت ہو اور کسی کا غلام نہ ہو۔ بندۂ مومن کی تخلیق اگر چہ دوسرے انسانوں کی طرح خاک ہی سے ہوئی ہوتی ہے اور وہ روئے زمین ہی پر رہتا ہے مگر وہ خاکی نہیں، آفاقی ہوتا ہے۔اُس کے کردار کی بلندی اُسے جبریلِ امین کا ہمسایہ بناتی ہے۔وہ جغرافیائی وطنیت کے جال میں کبھی نہیں پھنستا۔ وہ وطن دوست تو ہوتا ہے لیکن وطن پرست نہیں ہوتا۔ وہ اپنے دین کے لیے اپنے وطن ترک کرسکتا ہے لیکن اپنے وطن کے لیے اپنے دین کو ترک نہیں کرسکتا۔ وہ وطن کی خدمت ضرور کرتا ہے لیکن اسے قومیت کی بنیاد نہیں بناتا۔ اس لحاظ سے نہ بخارا کو اس کا وطن کہہ سکتے ہیں اور نہ بدخشان یا کسی اور جگہ کو۔یہ راز کسی کو معلوم نہیں کہ بندۂ مومن اگر چہ بظاہر قرآن پڑھتا ہوا نظر آتا ہے لیکن دراصل وہ خود قُرآن ہوتا ہے۔ اُس کی پوری زندگی اور اس کا عمل قرآنی احکام کا عملی نمونہ ہوتا ہے۔ مومن کے ارادے اور خیالات قدرت کے مقاصد کی کسوٹی ہوتے ہیں۔قدرت کیا چاہتی ہے؟اس کا جواب مومن کے ارادوں سے ملتاہے۔ قدرتِ کا ملہ جن مقاصد کی تکمیل چاہتی ہے، مومن الٰہی کی تکمیل کے ارادے باندھتا ہے۔ اُس کے ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدرت کو کیا منظور ہے؟ جو اس کا ارادہ ہوگا، وہی کچھ قدرت کو منظور ومقصود ہوگا۔ جو کچھ قدرت چاہتی ہے،مومن اُسی کو لباس عمل پہناتا ہے۔ اس طرح مومن کا ارادہ ہی قدرت کے مقاصد کی کسوٹی اور معیار بن جاتا ہے۔ قدرت کا مقصد معلوم کرنا ہو تو مومن کے ارادوں کا جائزہ لے لو۔ قدرت کا مقصد وہی ہوگا جو مومن کے ارادوں سے ظاہر ہو۔ وہ دنیا میں بھی حق و باطل کی میزان ہے اور قیامت میں بھی۔ یعنی حق وہ ہے جسے مومن حق سمجھے اور قرار دے۔ مومن جو کچھ کرتا ہے،وہ نیکی ہے اور جس کام کے کرنے سے پرہیز کرتاہے، وہ بدی ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں میں اُس کا کردار نیکی اور بدی، حق اور باطل کی تمیز کا معیار ہے۔ وہ دنیا میں بھی نیکی کو بدی سے الگ کرتا ہے اور قیامت میں بھی نیک و بد کا معیار وہی ہوگا۔ مومن کے کردار میں موقع محل کے تقاضے کے مطابق تبدیل واقع ہوتی رہتی ہے۔ جہاں نرمی اور ملائمت کی ضرورت ہو، وہاں مومن وہ شبنم ہوتا ہے جس سے لالے کے جگر میں ٹھنڈک پڑتی ہے، جہاں باطل سے مقابلے کا موقع آ جائے، وہاں مومن ایسا طوفان بن جاتا ہے جس سے دریائوں کے دل دہل جائیں۔ وہ اپنوں کے لیے حد درجہ نرم اور دشمنوں کے ساتھ حد درجہ سخت ہوتا ہے۔۔ وہ اپنوں کے لیے تسکین اور راحت کے سامان بہم پہنچاتا ہے،مسکینوں اور غم زدوں کے لیے مونس اور ہمدرد ہوتا ہے،مگر دشمنوں کے لیے ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے جس سے دریائوں کے دل بھی دہل جاتے ہیں اور جسے کوئی قوت روک نہیں سکتی اور اس طرح ظالموں اور نوبر دستوں کے لیے ایک بلائے بے درماں بن جاتا ہے۔ مومن کی زندگی فطرت کے نغموں کی طرح دل کش ہوتی ہے۔اس میں فطرت کے قوانین کے ساتھ ایسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جیسی سورۂ رحمن کی آیتوں میںنظر آتی ہے۔ جس طرح سورۂ رحمن پڑھنے میں حد درجہ دل آویز معلوم ہوتی ہے اور سُننے والے پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اُسی طرح مومن کے شب وروز میں ایک خاص دل آویزی پائی جاتی ہے اور اُس کے کردار کی یہ دل آویزی دوسرے انسانوں کو ایسا متاثر کرتی ہے کہ وہ بغیر کسی بحث مباحثے اور دلیل کے اُس خدا کی ذات کے قائل ہوجاتے ہیں جس پر مومن ایمان رکھتا ہے۔ میرے فکر و خیال کے کارخانے میں ستارے بنتے ہیں۔ تو اپنی قسمت اور تقدیر کے ستارے کو پہچان اور میرے کلام سے لے لے۔ میں اپنے شعروں میں زندگی کے حقائق و معارف بیان کررہا ہوں۔ تو ذرا غور کر اور دیکھ تو سہی، ان میں سے کون سا نکتۂ معرفت تیرے دل کو بھاتا ہے۔ جو تجھے پسند آئے، اُسی کو اختیار کرلے، یقینا تیرا مقدّر سنور جائے گا۔ اس لیے کہ میرے کلام میں وہ پیغام ہے جس پر عمل کرکے تو اپنا مقدّر سنوار سکتا ہے اور اپنے سوئے ہوئے نصیبوں کو جگا سکتا ہے۔ علاّمہ اقبالؒ نے اس نظم میں مردِ مومن کی نمایاں صفات بیان کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہرروز ایک نئی آن اور نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے، اُسی طرح مومن بھی ہرلحظہ حرکت و عمل میں مصروف ہے اور مسلسل ترقی کرتا رہتا ہے اور اُسے دیکھ کر لوگ خود بخود خدا کی ذات کے قائل ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی تخلیق چار عناصر آگ، پانی، ہوا، مٹی سے ہوئی ہے۔ علاّمہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ عام انسانوں کی تخلیق آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے ہوئی ہوگی لیکن مومن جن چار عناصر سے مل کر بنتا ہے وہ قہّاری،غفّاری، قدّوسی اور جبروت ہیں۔ مومن کا قہرو غضب ایسا شدید ہوتا ہے کہ دشمن کانپ کانپ اُٹھتے ہیں۔ چنانچہ منکرین زکوٰۃ کے معاملے میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسی ہی قہّاری کا مظاہرہ کیا۔ فتحِ مکہ کے موقع پر رسولِ ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غفّاری کا بے مثال نمونہ دکھا یا اور لاتثریب عَلیکُم الیَوم کہہ کر اُن اہلِ مکہ کو معاف فرمادیا جنھوں نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام پر ظلم و ستم ڈھانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ قدّوسی کے لحاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاکیزہ کردار بے مثال تھا کہ جن کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے تھے۔ جبروت کی کیفیت حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار سے ظاہر تھی کہ جن کے رعب و جلال سے رومی سفیر پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ اسی طرح علاّمہ اقبال نے یہ بتایا ہے کہ مومن جغرافیائی حدبندیوں سے ماوِرا ہوتا ہے۔ کوئی خاص جگہ شہر یا ملک اس کا وطن نہیں ہوتا، یہ ساری دُنیا بلکہ ساری کائنات اس کے وطن کی حیثیت رکھتی ہے۔مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے۔مومن کا مقام ہر کہیں ہے۔ علاّمہ اقبالؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مومن بظاہر تو قرآن پڑھتا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں وہ خود قرآن ہوتا ہے۔ کیوںکہ اس کی ساری زندگی قرآن حکیم کی عملی تفسیر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر وہ قدرت کے مقاصد کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔ جو کچھ قدرت کا منشا ہوتا ہے، وہی کچھ مومن کا ارادہ ہوتا ہے۔ مومن کا عمل دنیا میں بھی حق اور باطل کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے اور قیامت میں بھی اس کی یہی حیثیت ہوگی۔ علّامہ اقبالؒؒؒ مومن کے کردار کا نمایاں ترین پہلو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں مومن اپنوں کے لیے انتہائی رحم دل اور دشمنوں کے لیے انتہائی سخت ہوتا ہے۔ وہ لالے کے جگر کے لیے شبنم بن جاتا ہے اور باطل کے مقابلے مین ایسا طوفان بن جاتا ہے جس سے دریائوں کے دل بھی دہل جائیں۔مومن کے کردار کا یہ نمایاں وصف قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: ’’مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِرُحَمَائُ بَیْنَھُمْ‘‘ ’’محمدؐ خدا کے رسول ہیں اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل ہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ نے اسی ارشاد ربانی کے مضمون کو شاعرانہ لباس پہنایا ہے اور مومن کو جگرِ لالہ کے لیے شبنم اور باطل کے لیے دریائوں کے دل دہلادینے والا طوفان قرار دیا ہے، انھوں نے مومن کے کردار کے اسی مضمون کو اور کئی اشعار میں پیش کیاہے۔ مثلاً اے رہروِ فرزانہ، رستے میں اگر تیرے گلشن ہے تو شبنم ہو، صحرا ہے تو طُوفان ہو ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزِم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن گُزر جا بن کے سیل تُندرو کوہ و بیاباں سے گلُستاں راہ میں آئے تو جُوئے نغمہ خواں ہوجا مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا علّامہ اقبالؒؒؒ نے مومن کے شب و روز کو فطرت سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مومن کی زندگی میں فطرت کے نغموں کی سی دل آویزی پائی جاتی ہے۔ اُس کی زندگی میں فطرت کے ساتھ ایسی ہم آہنگی پائی جاتی ہے جیسے سورۂ رحمن کی آیات میں نظر آتی ہے۔ مومن کی صفات کا انتہائی موثر اور دل نشین نقشہ کھینچنے کے بعد علّامہ اقبالؒؒؒ اپنے پڑھنے والوں سے مخاطب ہوتے ہیں کہ میرا کلام تمھارے لیے زندگی کے ولولہ انگیز پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ تم اس پر عمل کروگے تو تمھاری بگڑی بن جائے گی، تمھاری سوئی ہوئی قسمت جاگ اُٹھے گی، تمھارا مقدر سنور جائے گا تمھاری پستی بلندیوں میں تبدیل ہوجائے گی اور تمھارے زوال کی جگہ اوج اور عروج لے لے گا۔ سُلطان ٹیپو کی وصیّت اے مسلمان! کیا تُو عشق کے راستے کا مسافر ہے؟ اگر یہ سچ ہے، اگر تو واقعی اللہ کا عاشق ہے اور تیرا مقصدِ حیات اُس تک پہنچنا ہے تو پھر کہیں ٹھہرنا قبول نہ کر۔ تیرے لیے کسی منزل کو قبول کرلینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تجھے دنیا سے دل نہیں لگاناچاہیے اور اس دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت یا لذّت بھی ایسی نہیں ہونی چاہیے کہ تجھے راہِ عشق پر چلنے سے باز رکھ سکے۔ اگر لیلیٰ بھی تیرے پہلو میں آبیٹھے تب بھی تجھے محمل قبول نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ جن لوگوں کے دل عشقِ حق سے معمورہوتے ہیں، وہ دُنیا کی کسی چیز سے دل نہیں لگا سکتے۔ بڑی سے بڑی نعمت اور دولت بھی اُن کے حوالے کردی جائے تو اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتے اور اپنے مقصد کی تکمیل میں لگے رہتے ہیں۔ اے پانی کی ندّی! تو پھیل اور بڑھ کر تُندو تیز دریا بن جا۔ تجھے کنارہ عطا کیا جائے تو اسے ٹھکرادے۔ عشقِ حق کے رہرَوکا تو خاصہ ہی یہ ہے کہ وہ کسی جگہ رُکے نہیں۔ ہر لحظہ بڑھتا اور ترقی کرتا جائے۔ اگر دُنیا اُسے عافیت اور سکون کی طرف بلائے تو اسے ٹھکرادے۔ کیوںکہ عشقِ حق کا مسافر عیش کی زندگی کے لیے نہیں، جہدِ مسلسل کے لیے پیدا ہوا ہے۔ اے مسلمان! تو اس کائنات کے بُت خانے میں گُم نہ ہوجا۔ اس کی فانی دل چسپیوں میں کھو کر اپنے مقصد ِ حیات سے غافل مت ہو۔ دُنیا میں عیش و عشرت کے جو سامان ہیں، ان کا متوالا نہ بن۔ تُو تو محفل گداز ہے۔تجھے محفل کی گرمی، رونق اور رنگینی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے۔ تیرے نصب العین کا تقاضا تو یہ ہے کہ تو محفل کی رنگینیوں اور عیش و عشرت کے سامانوں کو ختم کردے اور ان کی ظاہری دلکشی سے خود کو محفوظ رکھے۔ جان لے کہ جو لوگ بلند مقاصد لے کر آتے ہیں، اُنھیں دنیا وی عیش و عشرت کے سامان ایک لمحے کے لیے بھی گوارا اور قبول نہیں ہوتے۔ وہ ایسی چیزوں کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے جو اُنھیں اپنی جہدِ مسلسل سے غافل کردیں یا جو اُن کے جذبۂ جہاد اور ولولۂ تگ و تاز کو سردیا دھیما کرنے کا باعث ہوں خواہ ایسی چیز دولت ہو، سلطنت ہو، شان و شوکت ہو، عیش و عشرت ہو یا کچھ اور۔ اے مسلمان! ازل کی صبح جب یہ دُنیا ظہور میں آئی تو حضرت جبریل علیہ السلام نے مجھے یہ سبق پڑھایا تھا کہ تجھے وہ دل قبول نہیں کرنا چاہیے جو عقل کا غلام ہو۔ انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے مرحلے آتے ہیں جب عقل دل کو نفع نقصان کے چکّر میں اُلجھا کر اُسے اپنے فرض کی ادائیگی سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسے میں انسان کا دل اگر عقل کا غلام ہو تو وہ عقل کی باتوں میں آکر اپنے فرض کی بجا آوری سے کنارہ کرلیتا ہے۔مگر وہ بلند ہمّت انسان جن کا دل عقل کا غلام نہیں ہوتا، ہمیشہ اور ہر حال میں فرض کی بجا آوری کو مقّدم رکھتے ہیں اور خطرات کی کبھی پروا نہیں کرتے۔ عقل تو دل کو یہی سمجھاتی رہے گی کہ میدانِ جنگ میں جان جانے کا خطرہ ہے، حالانکہ مسلمان کا فرضِ منصبی ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اور جہاد اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے ہی کا دوسرا نام ہے۔ اے مسلمان! باطل تو ہمیشہ دوئی پسند واقع ہواہے۔ وہ تو خدا کے ساتھ ساتھ طاقت ور انسان یا طاقت ور قوم کی اطاعت بھی قبول کر لیتا ہے لیکن حق وحدہٗ لا شریک ہے اور حق کی تلقین یہ ہے کہ خُدا کے سوا اور کسی کی اطاعت مت کرو۔ چوںکہ تو حق پرست ہے، اس لیے حق کے ساتھ باطل کو شامل مت کر۔ اب اور اللہ کے سوا اور کسی کی اطاعت مت کر۔ یاد رکھ! تجھے حق کے ساتھ باطل کی شرکت کسی حال میں بھی قبول نہیں کرنی چاہیے۔کہ عشقِ حق کے راستے پر چلنے والے کی شان ہے۔ آزمائش کا وقت آجائے تو سچا عاشق بغیر کسی جھجھک اور ہچکچاہٹ کے حق کا راستہ اختیار کرلیتا ہے خواہ اس کا نتیجہ کچھ ہی نکلے۔ اس کے برعکس باطل ایسے موقعوں پر طرح طرح کے بہانے ڈھونڈ لیتا ہے اور حق کے ساتھ غیر حق کی اطاعت بھی قبول کرلیتا ہے، حالانکہ حق کا کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اے مسلمان! تو بھی حق کے ساتھ باطل کو شریک نہ کر۔ اگر تو اپنے عشق کے دعوے میں سچا ہے تو ہر قسم کے خطرات سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی حق اور صرف حق کے لیے وقف کیے رکھ۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ کی اس نظم کا عنوان اگر چہ سلطان ٹیپو کی وصیت ہے مگر یہ اشعار ٹیپو سلطان کی کسی خاص وصیت کا ترجمہ نہیں بلکہ سلطان شہید کی سیرت کے متعلق علاّمہ اقبالؒ کے تاثرات کا مرقع ہیں۔سُلطان ٹیپو شہید سے علّامہ اقبالؒؒ کو بے حد عقیدت تھی۔ جاوید نامہ میں سلطان ٹیپو شہید کا تذکرہ اس عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس نظم کے اشعار میں علّامہ اقبالؒؒ نے اُن اصولوں کی وضاحت کی ہے جن پر یہ ’’مردِمومن‘‘ساری زندگی عمل پیرا رہا۔ سلطان ٹیپو کا اصل نام فتح علی خان تھا۔ ۱۷۵۱ء میں پیدا ہوا۔ شجاعت اور مردانگی، دلیری اور جانبازی، یہ خوبیاں اس کی سرشت میں تھیں۔اُس کا باپ حیدر علی سلطنتِ میسور کا فرماںروا تھا، جو آخری دور میں دکن کی سب سے بڑی، سب سے اچھی اورطاقت ور سلطنت تھی۔ فتح علی خان کو اُس باپ نے۱۷۶۷ء میں اپنی فوج میں ایک رجمنٹ کا افسر بنادیا اور اُس نے ۷۶۷ا میں جب کہ اس کی عمر صرف سولہ سال تھی، مرہٹوں کے مقابلے میں پہلی کامیابی حاصل کی۔ حیدر علی برصغیر کا پہلا فرماں روا تھا جس نے ہندوستان میں انگریزی تسلط کے خطرات کا صحیح اندازہ لگایا اور پھر اس خطرے کی بیخ کنی کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ میدانِ جنگ میں اس کا انتقال ہوا اور ٹیپو سلطان کو والد کی میراث میں سلطنت کے ساتھ انگریز دشمنی بھی ملی۔اپنے عہدِ حکومت کا ایک ایک لمحہ انگریزوں کی مخالفت میں بسر کردیا۔ انگریزی خطرے کے انسداد کے لیے اُس نے ہندوستان کے اندر اور باہر کی ہر قوت کو ساتھ ملانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ جب کوئی بھی قوّت اس جہاد میں شریک ہونے کے لیے تیار نہ ہوئی بلکہ مرہٹے اور نظام انگریزوں سے مل گئے تو سلطان نے تنہا جان کی بازی لگا دی۔ انگریز اُسے بڑی سلطنت دے کر ساتھ ملالینا چاہتے تھے لیکن سلطان بخوبی جانتا تھا کہ انگریزوں کی پیش کش قبول کرنے کے بعد اپنی اور مُلک کی آزادی باقی نہ رہے گی۔ اس لیے اُس نے آزادی کے لیے بے تکلف جان دے دی۔ ۱۷۹۹ء میں ۳ مئی کو میر صادق اور دوسرے غداروں کی بدولت سلطان ٹیپو نے میدانِ جنگ میں شہادت پائی۔ اُس کا قول تھا کہ شیر کی زندگی کا ایک دن گیدڑ کی زندگی کے سوسال سے بہتر ہے۔ سُلطان نے اپنے خونِ شہادت سے اس قول پر مہر تصدیق لگادی۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے سُلطان ٹیپو شہید کی زبانی عاشقِ حق کی شان بیان فرمائی ہے کہ وہ برابر اپنے نصب العین کو نگاہ میں رکھتا ہے اور اس کی تکمیل کے لیے مسلسل جدوجہد میں لگارہتا ہے۔ وہ دُنیا اور اس کی دلچسپیوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور ایسی ہر ترغیب و تحریص کو حقارت سے ٹُھکرادیتا ہے جو اُسے جدوجہد کے راستے سے ہٹا کر عافیت اور سکون کی طرف مائل کرے۔ اُس کا دل عقل کا غلام نہیں ہوتا اور وہ ہرقسم کے خطرات سے بے نیاز ہو کر ہر حال میں اپنے فرض کی بجا آوری کو مقدّم رکھتا ہے۔ چنانچہ اُس کی زندگی حق اور صرف حق کے لیے وقف رہتی ہے اور وہ کسی مرحلے پر بھی حق کے ساتھ باطل کو شریک نہیں کرتا۔ جاوید سے اے بیٹے! یہ دور کُفر و الحاد کا دور ہے جو دین کو مٹانے اور تباہ کرنے پر تُلا ہُوا ہے۔ اس کی فطرت ہی میں کافری رچی ہوئی ہے۔ اس لیے تو بخوبی سمجھ لے کہ خُدا کے سچے اور مقبول بندوں کا آستانہ شہنشاہوں کے دربار سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ بادشاہوں کے محلّات میں کھانے پینے کی عمدہ چیزیں تو مل سکتی ہیں۔عیش و آرام کے سامان تو میسّر آسکتے ہیں لیکن روح کو سکون اور حقیقی مسرّت نہیں مل سکتی۔ ہدایت کی جو دولت خدا کے بندوں کی صحبت میں مل سکتی ہے، وہ بادشاہوںکے درباروں میں میسّر نہیں آسکتی یہ بھی یاد رکھ کہ یہ دور جادوگری، عیاری اور فریب کاری کا دورہے۔ جس طبقے اور جس گروہ کو بھی دیکھو، اس کے طور طریقے جادو بھرے نظر آتے ہیں۔ وہ باہر سے کچھ دکھائی دیتے ہیں اور اندر سے کچھ اور ہیں۔ اس لیے تجھے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنی ہوگی۔ یہ نہیں کہ جو بھی گدڑی پہن کر مصلّے پر بیٹھ جائے اور تسبیح ہاتھ میں تھام لے تو اُسے اللہ کا مقبول بندہ سمجھ کر اُس کی طرف لپکنے لگے۔ اے بیٹے! کافرانہ نظامِ حکومت کی بدولت زندگی کا سرچشمہ خشک ہوگیا ہے۔ علم اور معرفت کے جن وسیلوں سے انسانوں کے دل اور دماغ روشن ہوتے تھے، اب وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ حقیقت اور معرفت کی وہ شراب جو گزرے زمانے میں پی جاتی تھی، وہ باقی نہیں رہی۔ مکتب اور درس گاہیں اُن بزرگوں سے خالی ہوچکی ہیں جن کی نگاہیں نوجوانوں کو ادب سکھانے کے لیے تازیانوں کا کام دیتی تھیں۔ جن کی نگاہوں ہی سے گناہوں میں ڈوبے ہوئے انسانوں کی اصلاح ہوجاتی تھی۔ درس گاہوں میں ادب اور تربیت کی دولت ہی باقی نہیں رہی لیکن تُو اس حقیقت سے کبھی غافل نہ ہونا کہ تو جس خاندان کا چشم و چراغ ہے، اُس کا مزاج شروع ہی سے عارفانہ ہے۔ اس خاندان کے افراد ہمیشہ سے بزرگوں کی صحبت میں بیٹھتے چلے آئے ہیں۔ پس تو اپنے دل کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے منور کرلے۔ تیرے اندر لاالٰہ کا یہ جوہر ہو اور توحید کا جذبہ تیری فطرت میں رچا بسا ہو تو پھر فرنگیانہ تعلیم تجھے کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ اے بیٹے! تو شوق سے ہر پھُول کی شاخ پر چہک اور جس علم سے فائدہ اُٹھاناچاہتا ہے، اُٹھا لیکن دُنیا یا اس کی دلچسپیوں کو مقصودِ حیات مت بنا۔ تجھے یہ بنیادی نکتہ برابر یاد رکھنا چاہیے کہ تیری خودی تیرا اصلی ٹھکانہ اور آشیانہ ہے۔ اِسی کی بدولت تو اپنی اور اپنے خاندان کی امتیازی حیثیت برقرار رکھ سکتا ہے، اس لیے تجھے ایک لحظہ کے لیے بھی اپنی خودی کی حفاظت اور تربیت سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ اے بیٹے! آدمی وہ سمندر ہے جس کا ہر قطرہ اپنی جگہ بحرِ بے کراں کی حیثیت رکھتا ہے۔ آدمی کی قوتیں اور ممکنات بے اندازہ ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھ اور اپنی قوتوں کو بروئے کار آنے کا موقع دے لیکن اس کے لیے جدوجہد کرنا لازمی ہے۔ تو اپنی خودی کو مخفی صلاحیتوں سے ٹھیک ٹھیک کام لے تو خدا جانے کیا کچھ کردکھائے۔ دیکھ لے کہ کسان اگر کاہل اور آرام طلب نہ ہو اور ہمہ وقت محنت اور مشقت میں لگا رہے تو اُس کے بوئے ہوئے ایک ایک دانے سے ہزاروں دانے بن جاتے ہیں۔ اس طرح تیری شخصیت میںسیکڑوںخوبیاں پوشیدہ ہیں جن کی تربیت کے لیے تجھے سعیِ پیہم سے کام لینا ہوگا۔ اے بیٹے غافل نہ بیٹھ! یہ کھیل کو د کا وقت نہیں۔ خدا نے انسان کو زندگی اس لیے عطا نہیں کی کہ وہ اسے کھیل کو د میں یا بے کار باتوں میں ضائع کردے۔ یہ دنیا دارالعمل ہے۔ تیرے لیے ضروری ہے کہ تو کوئی ہُنر، علم یا فن سیکھے اور پھر دُنیا میں اپنا نام پیدا کرے۔ اے بیٹے یاد رکھ! اگر سینے میں عشقِ حق سے بھرا ہوا دل نہ ہو تو زندگی خام رہ جاتی ہے اور اس میں پختگی نہیں آتی۔ اس لیے کہ پختگی عشقِ حق ہی کی بدولت پیدا ہوتی ہے اور جب تک دل میں ترقی کرنے کا جذبہ اور آگے بڑھنے کا ولولہ نہ ہو، انسان اس دُنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ دیکھ لے! اگر شکار عقل مند، دور اندیش اور چُست و چالاک ہو تو وہ شکاری کے جال میں نہیں آتا، اس طرح اگر تُو عقل مندی، دُور اندیشی اور چستی و چالاکی سے کام لے گا تو کسی کے فریب میں نہیں آسکے گا۔ اے بیٹے! وہ آبِ حیات جس کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں سننے میں آتی ہیں اور جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے جو کوئی پی لے، ہمیشہ کی زندگی پاجاتا ہے وہ اور کہیں نہیں، اسی دُنیا میں موجود ہے لیکن اس کے لیے سچی پیاس کا ہونا شرط ہے۔ جس کی پیاس سچی ہوگی، جس کے دل میں اس کے حصول کی تڑپ ہوگی، وہی اس کے لیے لگاتار جدوجہد کرے گا اور وہی اُس تک پہنچ سکے گا۔ پس اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تیرا نام دنیا میں ہمیشہ رہے اور تو اپنے نام کی طرح جاوید ہوجائے تو اس مقصد کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور کوشش کر۔ کوشش کرے گا تو اپنی مُراد کو پہنچ جائے گا۔ اے بیٹے! غیرت ہی حقیقی راستہ ہے اور حقیقی طریقت اسی کا نام ہے کہ تیرے دل میں دین کی عزّت دُنیا میں قائم رکھنے کا بے پناہ جذبہ ہو اور تو اس کی خاطر سب کچھ کرنے اور بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہو۔ یہی شریعت کی رُوح ہے اور اسی سے فقیری اور درویشی درجۂ کمال کو پہنچتی ہے۔ شریعت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے سے مسلمان کے اندر دین کے لیے غیرت پیدا ہوجائے۔ جب تک غیرت کا رنگ پیدا نہ ہو، شانِ فقر کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ جو چیز مسلمان کو غیر اللہ کی غلامی یا اطاعت سے بازرکھ سکتی ہے، وہ یہی غیرت ہے۔ اگر مسلمان میں غیرت نہیں توکچھ بھی نہیں۔ چنانچہ میرے بیٹے دیکھ لے کہ شاہین موت قبول کرلے گا لیکن چکور، تیتر یا کسی اور پرندے کی غلامی کبھی نہیں کرے گا۔ شاہین کی غیرت اس قسم کی زندکی کو قبول ہی نہیں کرسکتی۔ اے بیٹے! یاد رکھ کہ شاعری بذات خود کوئی قابل فخر یا نایاب چیز نہیں ہے۔ ہر ملک اور ہرزبان میں سیکڑوں ہزاروں شاعر ہوئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں ہزاروںآدمی ایسے ہو گزرے ہیں جنھیں شاعری کے لحاظ سے انوری اور جامی کے ہم پلّہ قرار دیا جاسکتا ہے، اس لیے میں شاعری کو اپنے لیے باعث فخر نہیں سمجھتا۔ اس دُنیا میں میری بساط کیا ہے؟ میری حیثیت یا حقیقت تو صرف اتنی ہے کہ میں آہستہ آہستہ فریاد کرتا رہا۔ وہ کسی نے سنی، کسی نے نہ سُنی۔ اس لیے کہ میں چھت پرکھڑا نہ تھا، چھت کے نیچے ہی کھڑا آہ و فغاں میں مصروف رہا۔ چھت پر کھڑے ہوکر جو فریاد کی جائے، اُسے تو سب سُن لیتے ہیں۔ مگر میں قوم کو اپنے دردِ دل کی داستان اس طرح سُناتا رہا جس طرح کوئی عاشق محبوب کے بالا خانے کے نیچے کھڑے ہو کر اپنا دردِ دل اُسے سنانے کی کوشش کرتا ہے البتہ میں نے راست گفتاری اور حق گوئی کا دامن نہیں چھوڑا۔ میں نے ہرحال میں وہی بات کہی جسے میں سچ سمجھتا تھا۔ اس میں نہ کسی کی رعایت کی اور نہ کسی کی ناراضی کی پروا کی۔ اسی سچائی کی برکت سے مجھے دنیا کی نظروں میں عزّت اور قدرومنزلت نصیب ہوئی۔ اے بیٹے یاد رکھ! شہرت، ناموری اور نیک نامی باپ سے بیٹے کو ورثے میں نہیں ملتی۔ یہ اللہ کی دین ہے جسے چاہے دے۔ یہ دولت صرف اُسے مل سکتی ہے جو اس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرے اور اللہ کی سُنّت یہ ہے کہ وہ اُنھی لوگوں کو شہرت، ناموری اور نیک نامی عطا کرتا ہے جو اُس کے مستحق ہوتے ہیں۔ دیکھ! حضرت نظامی گنجوی اپنے فرزند کو کیا خوب نصیحت فرماگئے ہیں۔ وہی نصیحت میں بھی تجھے کرتا ہوں وہ فرماتے ہیں۔ ’’اے بیٹے! دنیا میں جس جگہ بزرگی درکار ہے، وہاں محض میرا بیٹا ہونے کی بنا پر تجھے بزرگی کا مقام نہیں مل سکے گا۔ بزرگی کا مقام حاصل کرنے کے لیے میری فرزندی سے تجھے کچھ فائدہ نہ پہنچے گا۔ اس لیے کہ بزرگی ہر انسان کے اپنے عمل اور کردار پر موقوف ہے۔ یہ دوسروں کی نسبت سے حاصل نہیں ہوتی۔ بزرگی کے مقام پر فائز ہونے کے لیے کسی بزرگ کا بیٹا نہیں، بزرگ ہونا شرط ہے۔ اے بیٹے! مومن کے لیے اس دنیا کے شب و روز بڑے ہی کٹھن ہیں۔ اُس کے دن اور رات سخت مصیبت میں گزرتے ہیں۔ وہ دُنیا اور اُس کی فریب کاریوں سے ہروقت بیزار اور متنفّر رہتا ہے۔ وہ کرے بھی تو کیا کرے؟ وہ دیکھتا ہے کہ دین اور حکومت دونوں جُوا بن گئے ہیں۔ حکمران اور دین دار جو کچھ کررہے ہیں، اس کی حیثیت جوئے سے زیادہ نہیں۔ حکمران تو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر حیلہ، ہر چیز جائز سمجھتے ہیں اور دنیا پرست لوگ جاہ و منصب اور دولت و ثروت کے حصول کے لیے اپنا ایمان بیچ ڈالنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ لیکن جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ دین داری کے دعوے دار بھی ضرورت کے وقت دین کو دائو پر لگا دینے سے دریغ نہیں کرتے اُسے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ آج کی دنیا میں عمل کا دھنی اور کردار کا غازی کوئی نظر نہیں آتا۔ باتوں کے دھنی اور گفتار کے غازی بہت مل جائیں کے۔ نری باتیں بنانے والے تو بہت ہیں لیکن ایسا مردِ مجاہد کہیں نظر نہیں آتا جو عمل کی شراب میں مست ہو۔ اے بیٹے! اگر تجھ میں ہمت اور حوصلہ ہے تو وہ فقر تلاش کر جس کا سرچشمہ حجاز ہے۔ اپنے اندر و فقر پیدا کر جس کی تعلیم سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ اسی حجازی فقر سے انسان میں اللہ کی سی شانِ بے نیازی پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ کسی انسان کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ کسی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرنا تو ایک طرف رہا، وہ اللہ کے سوا کسی کو بھی اپنا حاجت روا نہیں سمجھتا۔ جو شخص فقرِ حجازی کے مقام کا حامل ہو، اُس کا مقام غیر اللہ کے لیے اسی طرح پیامِ موت بن جاتا ہے جس طرح شہباز کا چڑیا اور کبوتر کے لیے پیامِ مرگ ثابت ہوتا ہے۔ وہ عام لوگوں پر اسی طرح غالب آسکتا ہے جس طرح شہباز چڑیا اور کبوتر پر غالب آجاتا ہے۔اس فقر سے انسان کی عقل بو علی سینا اور فخرالدین رازی کے فلسفے کی تعلیم کے بغیرہی روشن ہوجاتی ہے۔ اگر فطرت میں ایازی یعنی غلامی کا رجحان نہ ہو تو اس فقر کی بدولت انسان بُت شکن بن جاتا ہے اور اُسے سلطان محمود غزنوی کی سی سِطوت اور شان و شوکت میسّر آجاتی ہے۔ اے بیٹے! تیری دنیا کا یہ مردِ مومن اپنے حجازی فقر کی بدولت مُردوں کو زندہ کرسکتا ہے، اگرچہ اُسے حضرت اسرافیل علیہ السلام کی طرح صور پھونکنے کا کوئی شوق نہیں ہوتا۔ وہ محض اپنی نگاہ سے دُنیا میں انقلاب پیدا کرسکتا ہے۔ بظاہر اُس کی نگاہ سے دنیا میں ایک تلاطم برپا ہوجاتا ہے لیکن دراصل وہ اپنی نگاہ سے دُنیا کے بگڑے ہوئے کام بناتا ہے اور بگاڑ کی اصلا ح کرکے لوگوں کی کردارسازی کرتا ہے، اور اس کا وجود دنیا کے لیے باعثِ رحمت ہوتا ہے کیوںکہ وہ اپنی جادو بھری نگاہوں ہی سے ایک عالمگیر انقلاب برپا کرکے مرُدہ دلوں کو زندہ کردیتا ہے۔ اے بیٹے! جس شخص کو اس فقرِ غیور کی دولت مل جاتی ہے، وہ تلوار اور نیزے کے بغیر ہی مجاہد اور مردِ غازی بن جاتا ہے۔ وہ اپنی نگاہ سے وہی کام لیتا ہے جو ایک غازی نیزے اور تلوار سے لیتا ہے، پس اے بیٹے! تو اپنے لیے اللہ سے یہی فقر طلب کر۔ کیوںکہ مومن کے لیے اسی فقر میں امیری ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ نے ان تین نظموں میں اپنے عزیز فرزند جاوید اقبال سے خطاب کیا ہے اور اس خطاب کے پردے میں ملتِ اسلامیہ کے نوجوان کو بیش قیمت نصیحتیں فرمائی ہیں۔ پہلی نظم میں اُنھوں نے اللہ والوں کی صحبت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ موجودہ زمانہ دین کو مٹانے پر تُلا ہُوا ہے لیکن اگر تم اللہ کے مقبول بندوں کی صحبت اختیار کرو اور اپنے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا چراغ روشن کرلو تو مغربی تعلیم تمھارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ اس کے ساتھ ہی وہ خودی کی حفاظت و تربیت اور جہدِ مسلسل کا درس دیتے ہوئے نوجوانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تمھیں اپنی زندگی کی مہلت کو کھیل کود میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ علم و ہُنر حاصل کرکے سعیِ پیہم سے دنیا میں نام پیدا کرنا چاہیے۔ دوسری نظم میں علاّمہ اقبال نے غیرت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اپنے پیغام کی صداقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مجھے شہرت اور مقبولیت شاعری کے باعث حاصل نہیں ہوئی۔ شاعر تو بہت ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ میں نے قوم کو دردِ دل کی داستان نہایت دل سوزی کے ساتھ سنائی ہے اور اپنے شعروں میں جو حقائق و معارف بیان کیے ہیں، ان کی سچائی میں کلام نہیں۔ کیوںکہ وہ قرآنی حقائق و معارف کے سوا اور کچھ نہیں۔ اسی صداقت کی وجہ سے میں دنیا کی نظروں میں محترم ٹھہرا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی وہ اس اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بزرگی کسی کو میراث میں نہیں ملتی۔ محض کسی کا بیٹا ہونے کی بنا پر کسی نوجوان کو بزرگی کا مقام اور منصب نہیں مل جاتا۔ اس کے لیے اُس کا خود کوشش اور جدوجہد کرنا شرط ہے۔ ہر شخص کا مقام اُس کے اپنے عمل اور کردار کی بنا پر متعین ہوتا ہے نہ کہ دوسروں سے نسبت کی بناپر۔ چنانچہ بزرگی کے مقام پر فائز ہونے کے لیے بزرگ کا عزیز یا قرابت دار نہیں، بزرگ ہونا ضروری ہے۔ تیسری نظم میں علّامہ اقبالؒؒ نے فقرِ حجازی یعنی اسلامی فقر کی اہمیت بیان کی ہے کہ اس فقر سے آدمی میں اللہ کی سی شانِ بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسا شخص کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتا اور اُس کی نگاہوں سے مُردے جی اُٹھتے ہیں۔ وہ ایک ایسا غازی ہوتا ہے جس کی نگاہ ہی اُس کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتی ہے۔ آخر میں علاّمہ اقبال جاوید اقبال کو اور اس کے پردے میں ملّتِ اسلامیہ کے ہر نو جوان کو تلقین کرتے ہیں کہ تو اپنے لیے اللہ سے اس فقر حجازی کے حصول کی دُعا کر۔ کیوںکہ یہی فقر ایک مومن کے لیے سب سے بڑی دولت ہے اور اسلام کا نصب العین ہی یہ ہے کہ مسلمان فقر کی طاقت سے دُنیا پر حکومت کرے اور اس طرح دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت بن جائے۔ شعاعِ اُمید سورج نے ایک روز اپنی شعاعوں سے کہا۔ ’’اے میری شعاعو! یہ دنیا بھی عجیب چیز ہے۔ اس میں کبھی صبح ہوتی ہے اور کبھی شام۔ اگر چہ تم عرصہ دراز سے اس فضا کی وسعت میں پھرتے ہوئے دُنیا اور دنیا والوں پر روشنی کی بارش کررہی ہو لیکن دُنیا والے تمھاری کوئی قدر نہیں کرتے، وہ تمھارے ساتھ بے مِہری کا سلوک کرتے ہیں اور زمانے کی یہ بے مِہری بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ تم کبھی ریت کے ذرّوں پر چمکتی ہو اور کبھی بادِ صبا کی طرح گل ولالہ کا طواف کرتی ہو لیکن نہ تمھیں ریت کے ذروں پر چمکنے میں راحت ہے اور نہ گل ولا لہ کا طواف میں تمھارے لیے آرام اور خوشی کا کوئی سامان ہے۔ بھلا تمھیں فضا کی وسعتوں میں اس بھاگ دوڑ سے کیا حاصل ہے؟ میں تو چاہتا ہوں کہ تم باغوں، بیابانوں، آبادیوں اور ویرانوں سب کو چھوڑ کر پھر سے میرے دل میں سما جائو۔ جب اتنی دیر تک روشنی پھیلاتے رہنے کے باوجود زمانے کی بے مِہری کا سلسلہ کم نہیں ہُوا بلکہ اور بڑھتا جارہا ہے تو تمھارا دنیا کو مزید فائدہ پہنچانا بے فائدہ ہے، اس لیے تم دنیا پر ضیا باری کا یہ سلسلہ ختم کردو اورواپس میری دنیا میںآجائو۔ سورج کا یہ پیغام سُنتے ہی کائنات کے گوشے گوشے سے شعاعیں سورج کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اُس سے بغل گیر ہونے لگیں۔ ایک شور سا مچ گیا کہ مغرب میں روشنی کی اب کوئی صورت نہیں رہی، اس لیے کہ مشینوں کے دھوئیں نے اس کی فضا کو سیاہ لباس پہنادیا ہے۔ مشینوں کی کثرت سے مغرب میں ہر طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا ہے۔ سورج کی شعاعیں مشینوں کے دھوئیںکی اس موٹی چادر کو چیر کر زمین تک کیسے پہنچیں گی۔ مغربی قومیں اپنی مادہ پرستی اور مال و زر کی ہوس میں اتنی آگے نکل گئی ہیں کہ اُنھوں نے اللہ سے منہ موڑ کر مشینوں ہی کو اپنا سہارا بنالیا ہے اور مادی ترقی ہی کو اپنا مقصدِ حیات سمجھ لیا ہے۔ ایسے میں مغرب کے باطن کو روشنی کی کوئی اُمید نہیں رہی۔ رہا مشرق تو وہ اگر چہ نظارے کی لذّت سے محروم نہیں ہُوا اور اس کے سینے میں ایمان کا نُور ابھی باقی ہے لیکن وہ ایک سر ے سے دوسرے سرے تک خاموش اور سُنسان ہے۔ اس میں کوئی ہنگامہ، کوئی جوش و خروش اور جدوجہد کی کوئی گرمی نظر نہیں آتی۔ گویا کہ مغرب ایمان سے اور مشرق عمل سے محروم ہے۔ سو اے آفتاب! واقعی اس دنیا پر مزید ضیا باری کا کوئی فائدہ نہیں۔ دُنیا میں ہمارا چمکنا بے سُود ہے۔ ہم خود بھی اس بے سُود کام سے بیزار ہوچکے ہیں۔ تو ہمیں دوبارہ اپنے روشن سینے میں چھُپالے کہ ہمارا اصل اور حقیقی ٹھکاناوہی ہے۔ جب شعاعوں نے کائنات کے گوشے گوشے سے سمٹ کر آتے ہوئے سورج سے یہ بات کہی تو ایک شوخ کرن جو شوخی اور چمک میں حُور کی نگاہ کو شرماتی تھی اور بے تابی و بے قراری میں پارے سے بھی بڑھی ہوئی تھی، آفتاب سے عرض کرنے لگی: ’’اے مشرق کے تاجدار! مجھے اُس وقت تک روشنی پھیلانے کی اجازت دے دے جب تک سرزمینِ مشرق کے ایک ایک ذرّے میں دُنیا کو چمکانے کی صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔ میں ہندوستان کی تاریک فضا کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گی جب تک اس ملک کے باشندے اپنی غفلت کی گہری نیند سے بیدار نہ ہوجائیں۔ یہ وہ خاک ہے جو تمام مشرقی ممالک کی اُمیدوں کا مرکز ہے اور اقبال نے اسی سرزمین کو اپنے اشکوں سے سیراب کیا ہے اور اس کے باشندوں کو اپنا حیات بخش پیغام دیا ہے، چاند ستاروں کی آنکھیں اس خاک سے روشن ہیں۔ یہ وہ خاک ہے جس کا ہر سنگ ریزہ سچے موتی سے بھی بڑھ کر قیمتی ہے۔ اس سرزمین نے ایسی ایسی ہستیاں پیدا کی ہیں جو علم و حکمت کے سمندر میں غوطے لگاتی رہیں اور جن کے لیے بڑے سے بڑا طوفانی سمندر بھی ایک پایاب دریا کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان میں عالم بھی تھے اور فلسفی بھی، رشی بھی تھے اور ولی بھی، داعیانِ حق بھی تھے اور بانیانِ مذاہب بھی۔ افسوس کہ جس ساز کے نغموں سے اس سرزمین کے باشندوں کے دلوں میں حرارت موجود تھی، وہی ساز اب مِضراب سے محروم ہوگیا۔ اس سرزمین کی وہ پہلی سی حالت باقی نہ رہی اور روشنی کی وہ کرنیں جو اس سرزمین سے باہر اُجالا کررہی تھیں۔ وہ خود ماند پڑگئیں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ برہمن یعنی ہندو بُت خانے کے دروازے پر پڑا سورہا ہے اور مسلمان مسجد کی محراب کے نیچے بیٹھا اپنی تقدیر کو رورہا ہے۔ ایک غافل ہے اور دوسرا عمل سے بیگانہ ہے۔ بے شک یہ حالات حوصلہ افزا نہیں ہیں لیکن میں اپنی روشنی کیوں روکوں؟ مجھے نہ مشرق سے بیزار ہونا چاہیے اور نہ مغرب سے پرہیز کرنا مجھے زیب دیتا ہے۔ مجھے تو قدرت کی طرف یہی اشارہ ہورہا ہے کہ نہ خود مایوس ہوں اور نہ دوسروں کو مایوس ہونے دوں بلکہ ہررات کو اپنی روشنی سے صبح کی صورت بدل دُوں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ نے اس خوب صورت تمثیلی نظم میں اپنے دور کے غلام ہندوستان کے باشندوں کو رجائیت کی تعلیم دی ہے اور نصیحت کی ہے کہ حالات کی سنگینی اور فضا کی تاریکی کے باوجود وہ مایوس اور نااُمید نہ ہوں۔ ایک وقت آئے گا جب حالات بدل جائیں گے اور فضا پر تاریکی کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں، وہ چھٹ جائیں گے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے سورج کی ایک کرن کی زبانی اپنے ہم وطنوں کو اُمید اور روشنی کا پیغام دیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ مایوسی اور نااُمیدی ہی سب بڑا گناہ ہے۔ کوئی انسان یا قوم جب مایوس ہو جائے۔تو پھر اُس کی نجات اور فلاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ یہ نظم اُن لوگوں کا مُنہ بند کرنے کے لیے کافی ہے جو علّامہ اقبالؒؒؒ کی ذات پر فرقہ پرستی اور تنگ نظری کا الزام لگاتے نہیں تھکتے۔ اس نظم میں اُنھوں نے ہند اور سرزمینِ ہند کا ذکر جس محبت بھرے انداز میں کیا ہے اور ہندوستان کے شان دار ماضی کی طرف جس بلیغ انداز میں اشارے کیے ہیں، وہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ علاّمہ اقبالؒ کو سرزمینِ ہند سے بے حد محبت تھی اور وہ اس سرزمین کے تمام باشندوں کا (خواہ وہ ہندوں ہوں یا مسلمان) بھلا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ اس نظم میں سورج کی کرن کی زبانی یہ بات کہلواتے ہیں کہ میں سرزمینِ ہند کو اُس وقت تک منور کرتی رہوں گی جب تک اس سرزمین کے تمام باشندے غفلت کی گہری نیند سے بیدار نہیں ہوجاتے۔ اس لیے کہ یہی سرزمین تمام ممالک ِ مشرق کی اُمیدوں کا مرکز ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے کرن کی زبانی اپنے عہد کے ہندوستان کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے، اس کی درستی میں کلام نہیں۔ اب ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی نہ کسی رنگ میں مشرق کے ممالک کی اُمیدوں کا مرکز ہیں اور چاہیں تو ان کے لیے نئی زندگی کا پیام بن سکتے ہیں۔ اہلِ ہُنرسے اے صاحب ہُنر! سورج، چاند اور ستاروں وغیرہ کی چمک دمک اور بقا تھوڑی دیر کے لیے ہے۔ زمین و آسمان اور ان کے سب مظاہر عارضی اور فانی ہیں لیکن تیری خودی اگر عشق کی بدولت پختہ ہوجائے تو لازوال ہوجاتی ہے اور اس کا وجود ہمیشہ کے لیے قائم رہتا ہے۔ پس تو کائنات کی تمام چیزوں کو چھوڑ کر جو عارضی، آنی اور فانی ہیں، ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والی چیز خودی کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم جدوجہد کر۔ یاد رکھ! تیرے کعبے کا باطن کالے اور گورے کے امتیاز سے پاک ہے۔ سُرخ، سفید اور نیلے رنگ کی قید تیرے لیے باعثِ ننگ و عار ہے۔ تیرا دین تو رنگ اور نسل کا امتیاز روا نہیں رکھتا، وہ تو تمام انسانوں کے لیے مساوات اور برابری کا پیغام ہے۔ اسلام کی رُوح تو نسلِ انسانی کی مساوات کا سبق دیتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی صاحبِ ہُنر اپنے فن کے ذریعے نسلی امتیاز کے تصوّرکو فروغ دیتا ہے تو وہ سچا فنکار نہیں ہے۔ اے صاحبِ ہُنر! تیری خودی جب خلوت میں ہوتی ہے تو ذکر و فکر کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے اور جب وہ جلوت میں ہوتی ہے تو شعرا نغمے کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ جب تو کائنات میں غور کرتا ہے تو یہ فکر تیری خودی پر کائنات کے رازوں کو منکشف کرتی ہے اور جب تو خالقِ کائنات کی ہستی سے آگاہ ہو کر اس کی اطاعت کرتا ہے تو یہ ذکر تیری خودی کو بلند کرتا ہے۔ پھر جب تیری خودی کو اللہ کی حضوری نصیب ہوتی ہے تو تیرا ہُنر شعر اور نغمے کی صورت میں اہلِ دنیا کے سامنے آتا ہے۔ اے صاحبِ ہُنر! اگر تو غلامی کی لعنت میں گرفتار ہے یا غلامی اور محکومی کے آلام و مصائب نے تیری رُوح کو نحیف و نزار کردیا ہے تو پھر تیرا ہُنر غلامی اور محکومی کا مظہر ہوجائے گا۔ بُت خانہ، بُتوں کے گرد طواف کرنا، بتوں کو سجدہ کرنا اور ایسی ہی دیگر غلامانہ علامتیں تیرے فن کی امتیازی خصوصیات بن جائیں گی گویا غلامی اور محکومی میں تیرا فن بُت پرستی یعنی غیروں کی غلامی کا سبق دیتاہے۔لیکن اگر تیری رُوح اپنی ذاتی شرافت اور عظمت و برتری سے آگاہ ہوجائے، تیری خودی بیدار ہو تو پھر ساری کائنات تیری غلامی کرے گی۔ انسان اور جِن تیرے لشکر ہوں گے اور تو اُن لشکروں کا سردار ہوگا۔ اس نظم میں علّامہ اقبالؒؒ نے اہلِ ہُنر اور صاحبِ فن حضرات سے خطاب کرتے ہوئے انھیں خودی کے مرتبہ وہ مقام سے آگاہ کیا ہے اور اُنھیں کائنات کے فانی مظاہر کو چھوڑکر ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی خُودی کے حصول کی تلقین کی ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جس فنکار کی رُوح غلام ہو، اس کا فن بھی غلامی کی تبلیغ کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جس فنکارکی روُح آزاد ہو، جسے اپنی خودی کے مقام و مرتبہ کا احساس ہو، وہ اپنے فن کے ذریعے پوری کائنات پر چھا جاتا ہے اور ساری کائنات اسی کی غلامی کرتی ہے۔ نسیم و شبنم ایک روز نسیم نے شبنم سے کہا،’’اے شبنم! میں ساری زندگی گلاب اور لالہ غُنچوں کو شگفتہ کرتی رہی لیکن تاروں کی فضا تک پہنچنا نصیب نہ ہوا۔ قدرت نے مجھ سے صرف پھُول کھِلانے کا کام لیا اور بلندیو ں پر پہنچنے کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ میری تمام عمر فضائے ارضی میں بسر ہوگئی لیکن فضائے انجم تک میری رسائی نہ ہوسکی۔آج میں مجبور ہوگئی ہوں کہ اپنے وطن کو چھوڑدوں اور اس باغ سے نکل جائوں کیوںکہ بلبل اپنی دُھن میں خوشی سے بھرے ہوئے نغمے گاتی ہے۔ وہ اس کے لیے اور اہلِ چمن کے لیے شاید باعثِ لُطف ہوں لیکن مجھے بلبل کی اس نغمہ سرائی میں کوئی لُطف نہیں آتا، اسی لیے میں ترکِ وطن کرنا چاہتی ہوں۔ اے شبنم! تجھے قدرت نے آسمان اور زمین دونوں کا محرم بنایاہے۔ تو آسمان کی فضا سے بھی واقف ہے اور چمن کی فضا بھی تیری دیکھی بھالی ہے۔ مجھے یہ بتا کہ چمن کی خاک اچھی ہے یا آسمان کی فضا اچھی ہے؟ باغ میں رہنا اچّھا ہے یا آسمانوں پر چلا جانا؟‘‘ نسیم کا یہ سوال سُن کر شبنم نے جواب دیا۔ ’’اے نسیم! اگر تجھے باغ کا کوڑا کرکٹ اور گھاس پھُوس اپنی طرف نہ کھینچے تو یقین رکھ کہ باغ بھی آسمانوں کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اگر تو اپنی نظر بلند اور مقاصد کو ارفع کرلے تو گلشن بھی افلاک کا ہم رُتبہ ہے۔ اس میں بھی وہی عظمت پوشیدہ ہے جو سدا پرۂ افلاک میں نظر آتی ہے۔ ضرورت اُس تیز نظر کو پیدا کرنے کی ہے جو باغ کی مخفی عظمت کو دیکھ سکے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں نسیم اور شبنم کے مکالمے کے پیرائے میں ہمیں یہ بتایا ہے اگر انسان اس دنیائے فانی کی لغو دلچسپیوں میں نہ اُلجھے اور اپنی زندگی کا اصل مقصد پیشِ نظر رکھے تو یہ دنیا بھی آسمانوں کی طرح قدرت کا ایک راز ہے۔ دراصل اس نظم میں نسیم کی گفتگو سے اُن لوگوں کا رویّہ ظاہر کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ دُنیا بُری ہے اور یہاں رہ کر خدا نہیں مل سکتا، اس لیے خدا کو پانے کے لیے دُنیا ترک کرنا ضروری ہے، اقبالؒ نے شبنم کی زبانی ایسے لوگوں کو یہ جواب دیا ہے کہ اگر انسان فانی دنیا کی دلچسپیوں میں (جن کی حیثیت باغ کے کوڑا کرکٹ اور گھاس پھُوس کی سی ہے ) منہمک ہو کر اپنے مقصدِ حیات سے غافل نہ ہوجائے تو اُسے ترک دنیا کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ زندگی کا حقیقی مقصد نظروں کے سامنے رہے تو انسان دُنیا میں رہ کر بھی اللہ سے تعلق پیدا کرسکتا ہے۔ اہرام مصر اے فن کاری کے دعوے دار، ذرا سوچ اور غور تو کر! مصر میں اہرام کے آگے جگر کو تپا دینے والا جو وسیع ریگستان ہے، اس کی سُنسان فضا میں قدرت نے صرف ریت کے ٹیلے تعمیر کیے ہیں۔ اس ریگستان میں ریت کے ٹیلوں کا ایک انبار لگا ہے جنھیں تیز ہوائیں ایک جگہ سے دوسری جگہ اُٹھائے پھرتی ہیں۔ ریت کے یہ ٹیلے آج بنتے ہیں اور کل بگڑجاتے ہیں۔ لیکن اسی وسیع ریگستان میں انسان نے جو اہرام تعمیر کیے ہیں، وہ نہایت عظیم الشان، مستحکم اور پائیدار ہیں جن کی عظمت و رفعت کے آگے آسمان بھی سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ یہ اہرام ہزاروں سال سے قائم ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیشہ قائم رہنے والی یہ تصویر کس ہاتھ نے کھینچی؟یقینا انسانی ہاتھ نے کھینچی لیکن اُن انسانوں کے ہاتھوں نے جن کا ہُنر فطرت کی غلامی سے آزاد تھا۔ پس اگر تو بھی فنکاری اور ہُنر مندی کا دعوے دار ہے اور ایسی ہی غیر فانی تصویریں کھینچنا چاہتا ہے تو اپنے ہُنر کو فطرت کی غلامی سے آزاد کرلے۔ تیرے فن کو پائیداری اور دوام تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب تیرا فن فطرت کی زنجیروں کا اسیر نہ ہو۔ یاد رکھ! ہُنر مند انسان شکار کرتے ہیں، شکار ہوتے نہیں۔ فنکار صید نہیں، صیادہوتا ہے فکر سے اپنے فن میں رنگِ دوام بھرتا ہے۔ ایسے فنکاروں کا طریقہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ فطرت کی تقلید میں آج بننے اور کل بگڑ جانے والے ریت کے تودے تعمیر کرتا رہے۔بلکہ وہ اپنی ہُنر مندی کے زور سے اہرام جیسے نقش تعمیر کرتا ہے جنھیں زمانے کی کوئی گردش مٹا نہیں سکتی۔ علاّمہ اقبال ؒ نے اس نظم میں اہرامِ مصر کے حوالے سے ہمیں یہ بتایا ہے کہ فن کار اور ہُنر مند اپنے فن اور ہُنر کو اُس وقت درجۂ کمال پر پہنچا سکتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو اور اپنے فن کو فطرت کی تقلید، قید اور پیروی سے آزاد کرلیں۔ فن اورہُنر کے اندر رنگِ دوام اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ نہ صرف جدّت لیے ہوئے ہو بلکہ فطرت کی غُلامی سے آزاد بھی ہو۔ علاّمہ اقبالؒ نے اہرام کی مثال دیتے ہوئے بتایا ہے کہ مصر کے ریگستانوں میں قدرت نے جو ریت کے ٹیلے بناے ہیں، وہ تو روز بنتے بگڑتے رہتے ہیں لیکن انسانی ہاتھ نے اس صحرا کے سینے پر اہرام کی جو تصویر کھینچی ہے، وہ اب تک قائم دوائم ہے۔ واضح رہے کہ اہرام وہ عظیم الشان شاہی مقبرے ہیں جو قاہرہ سے باہر چند میل دُور نیل کے کنارے قائم ہیں اور جو کم و بیش پانچ ہزار سال پہلے تعمیر ہوئے تھے۔ اس پُوری مدت میں ان کی کبھی مرمت نہیں ہوئی لیکن وہ بدستور موجود ہیں اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مزید ہزاروں سال تک اسی طرح قائم رہیں گے۔ علاّمہ اقبالؒ نے ان کی پائیداری سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ وہی فن پائیدار اور رنگِ دوام کا حامل ہوتا ہے جو فطرت کی غلامی سے آزاد ہو۔ صبحِ چمن پُھول نے شبنم سے کہا!’’اے شبنم! اے زمین پر آسمانوں کا پیغام لانے لے جانے والی! تو شاید یہ سمجھتی ہے کہ میرا وطن بہت دوُر ہے اور میں وہاں تک نہیں پہنچ سکوں گا لیکن دیکھ لے کہ میں اپنے وطن، اپنی زمین پر آپہنچا ہوں۔ پھُول کی بات سُن کر شبنم نے جواب دیا:’’اے پھُول! تیری یہ بات بالکل درست ہے کہ زمین آسمان سے دُور نہیں مگر یہ راز یوںہی فاش نہیں ہوجاتا اور نہ ہرکسی پر اس کی صداقت آشکار ہوتی ہے۔ یہ راز صرف اُسی پر ظاہر ہوتا ہے جومحنت و مشقت سے کام لیتا ہے۔ پرواز کی محنت اور مشقت اٹھانے کے بعد ہی یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ زمین آسمان سے دُور نہیں ہے لیکن اگر کوئی محنت سے جی چرائے، جہدوجہد سے کام نہ لے تو اُس کے لیے بلاشبہ زمین آسمان سے دُور نہیں، بہت دور ہے۔‘‘ پھول اور شبنم کی یہ گفتگو سُن کر صبح نے کہا: ’’دیکھو! گلستان کی سیر کرنے کے لیے آئو تو باغ کے صحن میں بادِ نسیم کی مانند قدم رکھو کہ شبنم کا موتی بھی پائوں کے نیچے آئے تو ٹوٹنے نہ پائے۔ دنیا میں اسی طرح زندگی بسر کرو کہ تمھاری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ بے شک پہاڑوں اور جنگلوں سے بغل گیر ہوتے رہو لیکن آسمانوں کا دامن تمھارے ہاتھ سے نہیں چھُو ٹنا چاہیے۔ دُنیا میں جس سے چاہو ملو جلو، جس سے چاہو تعلقات اور روابط رکھو لیکن اللہ کے ساتھ تمھارا تعلق اور ربط ہر حال میں قائم رہنا چاہیے۔‘‘ علاّمہ اقبال ؒ نے اس نظم میں پھول، شبنم اور صبح کی زبانی زندگی کی چند حقیقتوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اُنھوں نے بتایا ہے کہ بظاہر زمین آسمان سے اور آسمان زمین سے بڑی دُور ہے لیکن جو انسان شوقِ پرواز کے علاوہ ہمّتِ پرواز بھی رکھتا ہو، اُس کے لیے یہ فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔جو پرواز کی محنت و مشقت اُٹھا لیتا ہے، اُس کے لیے یہ فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایک شخص محنت و مشقت اور جدوجہد سے جی چُراتا ہے تو اُس کے لیے یہ فاصلے ناقابل عبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی علاّمہ اقبالؒ نے صبح کی زبان سے ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کیا ہے کہ ہمیں دنیا میں زندگی اس طرح بسر کرنی چاہیے کہ ہماری ذات سے، ہمارے کسی قول سے یا ہمارے کسی فعل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ہم اس دُنیا سے جس طرح چاہیں فائدہ اُٹھائیں، جس سے چاہیں تعلق اور ربط ضبط بڑھائیں لیکن خدا سے تعلق کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ذوقِ نظر یہ اُس چینی کا واقعہ ہے جسے قتل کی سزادی گئی تھی۔ جب جلاّد نے اُسے قتل کرنے کے لیے تلوار بلند کی تو اُس نے جلّاد سے کہا: ’’ذرا ٹھہر کہ میں تیری تلوار کی آب وتاب دیکھ لوں۔ یہ تو بہت ہی دلکش منظر ہے جو میرے سامنے آگیا ہے۔ مجھے اس منظر کو دیکھ کر اپنے ذوقِ نظر کی تسکین کرلینے دے۔ میں تیری تلوار کی تاب ناکی سے اپنے ذوقِ نظر کی تسکین کرلوں، اس کے بعد بے شک مجھے شوق سے قتل کردینا۔ علّامہ اقبالؒ نے اس نظم میں ایک چینی کا واقعہ بیان کیا ہے جسے موت کی سزا ملنے والی تھی لیکن اپنی موت سے گھبرانے کی بجائے اُس نے جلّاد کی تلوار کی چمک دیکھ کرجلّاد سے کہا تو ذرا ٹھہر جا تاکہ میں تیری تلوار کی آب و تاب دیکھ کر اپنے ذوقِ نظر کی تسکین کرلوں۔ علاّمہ اقبال ؒ نے اس واقعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اُس چینی کی خودی بہت بلند تھی۔ اُس کی ہمت اور بے خوفی سے یہ واضح ہوگیا کہ اُس کے دل میں موت کا ذرا بھی خوف نہیں تھا۔ اس چینی کی جگہ اگر کوئی اور شخص ہوتا جس کی خودی ناقص یا پست ہوتی تو وہ جلاّد کی تلوار دیکھ کر سرا سیمہ ہوجاتا اور اُس کے سارے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ لیکن اُس چینی کی خودی چوںکہ بلند تھی اس لیے موت کے تصور سے اُس پر قطعاً کوئی پریشانی طاری نہیں ہوئی۔ اس واقعہ کے ذریعے علّامہ اقبالؒؒ نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اگر کسی شخص کی خودی بلند ہوجائے تو وہ موت سے بالکل نہیں گھبراتا۔ موت سے اُس کی بے پروائی کا عالم یہ ہوتا ہے کہ وہ قتل گاہ کی طرف اس شان سے جاتا ہے جیسے کسی کی دعوت میں جارہا ہو۔ چوںکہ اُس کی خودی مرتبۂ کمال کو پہنچ جاتی ہے اس لیے وہ کائنات میں کمال اور حسن و جمال کی قدر کرنا سیکھ جاتا ہے۔ چنانچہ جہاں اُسے کسی چیز میں کمال اور حسن و جمال کی جھلک نظر آتی ہے، وہ اسے ضرور دیکھتا ہے اور اس طرح اپنے ذوقِ نظر کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔اور یہ ذوقِ نظر انسان میں اُسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب اُس کی خُودی بلند ہوجائے۔ ایک بحری قزاق اور سکندر وہ ایک سمندری ڈاکو تھا اور اُس کی لُوٹ مار نے دُور دُور تک دہشت پھیلا رکھی تھی۔ آخر وہ بڑی مشکل سے گرفتار ہُوا۔ جب اُسے گرفتار کرکے سکندرِ اعظم کے سامنے پیش کیا گیا تو سکندر نے غضب ناک ہو کر کہا: ’’او کم بخت! تیری غارت گری نے سمندر کی وسعتوں میں آہ و فریاد کا شور بپا کر رکھا ہے۔ اب تو میرے قابو میں آگیا ہے تو بتا،تجھے میرا قیدی بن کر رہنا منظور ہے یا میں اپنی تلوار سے تیری گردن اُڑا دوں؟‘‘سکندر کی یہ غضب ناک باتیں سُن کر وہ ڈاکو ذرا بھی نہ گھبرایا بلکہ اُس نے بڑی دلیری سے جواب دیا۔ ’’اے سکندر! تو جواں مرد ہے اور جواں مردوں کا یہ کام نہیں کہ اپنے ہم پیشہ آدمیوں کو ذلیل کریں۔ تیرا پیشہ بھی لوٹ مار ہے اور میرا پیشہ بھی لُوٹ مار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میں سمندری لٹیرا ہوں اور تو میدانی لُٹیرا۔ لیکن اے سکندر! تُو خود انصاف کر۔ تو میری لُوٹ مار کو جُرم سمجھتا ہے لیکن اپنی لُوٹ مار کو کیا کہے گا؟ میں تو ایک چھوٹا سا ڈاکو ہوں جو ایک جہاز یا قافلہ لُوٹتا ہے لیکن تو اتنا بڑا لٹیرا ہے کہ مُلکوں کے مُلک لُوٹ لیتا ہے اور خزانوں کے خزانے لوٹ کر بھی تیرا دل سیر نہیں ہوتا۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم میں بحری قزاق اور سکندر کی گفتگو کے پیرائے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ملوکیت اور قزاقی میں صرف نام کا فرق ہے ورنہ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ ڈاکو ایک چھوٹا بادشاہ ہے اور بادشاہ ایک بڑا ڈاکو ہوتا ہے۔ڈاکو ایک گھر لُوٹتا ہے تو بادشاہ ایک نہیںکئی مُلک لُوٹتا ہے۔ ڈاکو ایک گھر اُجاڑتا ہے تو بادشاہ شہروں کے شہر اُجاڑ دیتا ہے اور بستیوں کی بستیاں روند ڈالتا ہے۔ ڈاکو ایک آدمی کو قتل کرتا ہے لیکن بادشاہ جنگوں میں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو تہ تیغ کر ڈالتا ہے۔ گویا کہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکو اور بادشاہ ایک ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ لوٹ مار اور قزافی، سفاکی اور خونریزی، قتل اور غارت گری دونوں ہی کا کام ہے۔ حکایاتِ ارمغانِ حجاز بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو اے میرے بیٹے! میری دعا ہے کہ تیرے بیابان کی ہوا تجھے گوارا ہو۔ خدا کرے کہ تجھے یہ بیابانی ماحول راس آئے۔ یہ ماحول فطری اور سادہ ہے۔ اس کے مقابلے میں شہری زندگی اور تمدن میں طرح طرح کی پیچیدگیاں اور قسم قسم کے تکلّفات ہیں۔ فطری سادگی کے لحاظ سے اس بیابان سے نہ دلی بہتر ہے نہ بخارا۔ اس بیابان میں ہمیں جو آزادی میسر ہے، وہ دنیا کے کسی بھی شہر اور کسی بھی ملک میں نہیں مل سکتی۔ یہ وادی بھی ہماری ہے اور وہ صحرا بھی ہمارا ہے۔ ہم سیلِ رواں کی طرح جدھر چاہیں آجاسکتے ہیں۔ ہمیں کوئی روکنے یا ٹوکنے والا نہیں ہے۔ جہاں چاہیں، خیمے ڈال دیں اور جہاں جی چاہے گھومیں پھریں۔ اس آزادی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے۔ شہروں کی مصنوعی زندگی کی خاطر ہم اس آزادی کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتے۔ اے بیٹے! یہ دنیا تگ ودو اور جدوجہد کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ انسان اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرنے کے لیے تگ ودو کرتا ہے اور جب تگ ودو کے باوجود اس کی ضرورتیں پوری نہیں ہو تیں تو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلادیتا ہے۔ لیکن اے بیٹے! یاد رکھ کہ غیرت اور خود داری بہت قابلِ قدر وصف ہے۔ ضرورت کسی کی امداد حاصل کرنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن غیرت کا تقاضا ہے کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مرجانا بہتر ہے۔ جو شخص اپنی ضرورت کا گلا گھونٹ کر اپنی غیرت اور خودداری کو بچالیتا ہے، قدرت اس کو تاجِ شاہی پہناتی ہے۔ کیوںکہ وہ ایسا غیرت مند درویش ہے جو ہر حال میں اپنی خودداری کی حفاظت کرتا ہے۔ اے بیٹے! تُو کسی مردِ کامل کی صحبت اختیار کر۔ سُنا ہے کہ ان لوگوں کے پاس کوئی اکسیر ہوتی ہے، جس سے وہ شیشے کے نازک اور کمزور وجود میں سنگِ خارہ کی سی سختی پیدا کردیتے ہیں۔ اس دور میں ایسے شیشہ گر اور شعبدہ باز تو بہت مل جائیں گے جو اپنے فن کا کمال دکھا کر پتھروں کو پانی بنادیتے ہیں، مگر شیشے کو سنگِ خارہ کی طرح سخت بنا دینا ایک ایسا فن ہے جس میں کمال ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہ صرف اللہ والوں کا کمال ہے جو اپنی ایک نگاہ سے ایک انسان کی کایا پلٹ دیتے ہیں اور محکوم کو حاکم، کمزور کو زور آور، زیر دست کو زبردست اور کافر کو مومن بنادکھاتے ہیں۔ تجھے کسی ایسے ہی مردِ کامل سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ تیرے وجود کا شیشہ سنگِ خارہ کی طرح سخت ہو جائے۔ ظاہری بے سروسامانی کے باوجود تو بلا خوف وخطر دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے ٹکرا جائے۔ نہ صرف ٹکرا جائے بلکہ اس پر غالب بھی آجائے۔ اے بیٹے! کسی قوم کی تقدیر اس کے افراد ہی کے ہاتھوں بنتی یا بگڑتی ہے۔ قوم افراد ہی کا مجموعہ تو ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد پست کردار اور بے غیرت ہوں اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے ہوں تو ایسی قوم اپنی ظاہری امارت کے باوجود خودداری سے محروم ہو کر دوسروں کی محکوم بن جاتی ہے۔ اور جس قوم کے افراد غیرت مند اور خوددار ہوں، اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے والے ہوں تو ایسی قوم بظاہر غریب اور نادار ہونے باوجود غیرت مند اور خوددار قوم کی حیثیت سے دنیا میں اونچا مقام پاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملّت کا ہر فرد ملّت کی تقدیر کے ستارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اے بیٹے! یہروں خطرات بھی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان خطرات سے ڈر کر محض سمندر کے کنارے بیٹھا رہے، تو چاہے وہ کیسا ہی ماہر غوطہ خور ہو، سمندر سے کوئی دولت حاصل نہیں کرسکتا۔ سمندر کی دولت تو وہی غوطہ خور حاصل کرے گا، جو ساحل کے آرام و سکون کو خیر باد کہہ کر خطرات سے بھرے ہوئے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے اور پھر تمام خطرات کا سامنا کرتے ہوئے سمندر کی تہ سے موتی نکال لاتا ہے۔ اے بیٹے! جان لے کہ مسلمان کے لیے اس کا دین اور ایمان ہر شے پر مقدم ہے۔ یہ دین وایمان دنیا کی قیمتی سے قیمتی شے سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ اگر دین ہاتھ سے دے کر ملت کو آزادی نصیب ہوتی ہو تو ملت کو ایسا سودا نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ایسی تجارت میں مسلمان کو گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ مسلمان وقتی طور پر محکومی اور زیر دستی تو گوارا کرسکتا ہے، لیکن اپنے دین اور ایمان کو کسی قیمت پر بھی ہاتھ سے نہیں دے سکتا۔ اے بیٹے! دنیا میں اس وقت روح اور بدن کے درمیان معرکہ جاری ہے۔ ایک طرف مذہب اور اس کے نام لیوا ہیں جو ہر حال میں دین کی سلامتی اور روحانی اقدار کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مادّہ پرستی اور اس کے علم بردار ہیں جو ہر قیمت پر مادّی ترقی اور مادّی مفادات و فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے تمام مذہبی، اخلاقی اور روحانی اقدا ر کو پسِ پشت ڈالتے جارہے ہیں۔ مادّیت کے یہ علم بردار بہ ظاہر تو مہذّب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان کا عمل جنگل کے درندوں کا سا ہے۔ جس طرح جنگل کے درندے دوسرے جانوروں کو چیڑ پھاڑ کر کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح تہذیب کے یہ درندے دین و ایمان کے نام لیواؤں کو ہڑپ کر جانا چاہتے ہیں۔ روح اور بدن کا یہ معرکہ حقیقت میں اللہ اور ابلیس کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس معرکے میں جو حق اور باطل کا معرکہ ہے، اللہ تعالیٰ کو مومن کے ایمان کی مضبوطی اور کردار کی طاقت پر بھروسا ہے جب کہ ابلیس نے یورپ کی مشینوں کا سہارا لے رکھا ہے۔ اس جنگ میں فتح یقیناً مومن اور اس کے ایمانِ محکم کی ہوگی۔ اے بیٹے! کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس دنیا میں تقدیرِ اُمَم کیا ہے اور کس قوم کی تقدیر میں اللہ نے کیا لکھا ہے؟ کسی کو علم نہیں کہ کون سی قوم دنیا میں عروج حاصل کرے گی اور کس قوم کو زوال آجائے گا؟کون سی اُمّت اوج اور سر بلندی حاصل کرے گی اور کون سی اُمّت پستی اور ذلّت کا شکارہوجائے گی۔ لیکن مومن کی فراست پر یہ سب معاملات روشن ہوتے ہیں اور وہ قدرت کے ذرا سے اشارے سے قوم کی تقدیر کا ادراک کرلیتا ہے۔ اے بیٹے! حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں قوموں کا عروج وزوال صرف اس بات پر موقوف ہے کہ کس قوم کاعمل کس حد تک اللہ کے لیے خاص ہے۔ جس قوم کے پاس خلوصِ عمل کی یہ دولت جس حد تک ہو گی، اسی حد تک اسے دنیا میں عروج حاصل ہوگا لیکن خلوصِ عمل کی یہ دولت یوں ہی حاصل نہیں ہوجاتی، اس کے لیے پرانے بزرگوں سے رجوع کرنا لازم ہے۔ اس لیے اے میرے بیٹے! توان بزرگوں اور اللہ والوں کی صحبت اختیار کر اور ان سے خلوصِ عمل کی دولت مانگ۔ تیری دعا یہ ہونی چاہیے کہ اللہ تجھے یہ توفیق دے کہ تیرا ہر عمل خالصتاً اللہ اور صرف اللہ ہی کے لیے ہو۔ تو بزرگوں کی خدمت میں رہے گا، ان کی صحبت اختیا ر کرے گا تو کیا عجب کہ وہ تیرے حال پر مہربان ہوکر تجھے خلوصِ عمل کی دولت بخش دیں۔ وہ بادشاہ ہیں اور بادشاہوں کے لیے کو ئی عجب نہیں کہ وہ فقیر کے حال پر نوازش کریں۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒنے اس نظم میں ایک بڈھے بلوچ کی زبانی بیٹے کو یعنی کہ ہر مسلمان نوجوان کو یہ پیغام دیا ہے کہ اپنی سادہ اور فطری زندگی پر قناعت کرنا سیکھو اور تہذیب و تمدن کی ظاہری سہولتوں اور آرام و آسائش کی خاطر اپنی آزادی قربان نہ کرو۔ دین کی قربانی دے کر ظاہر ی آزادی اور مادّی سہولیات حاصل کرنا، گھاٹے کا سودا ہے اور ایک مسلمان کو خسارے کا یہ سودا کبھی نہیںکرنا چاہیے، بلکہ صرف اور صرف اپنے وسائل پر بھروسا کرنا چاہیے۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال مت دراز کرو کیوں کہ ایسا کرنا غیرت اور خودداری کے خلاف ہے۔ مسلمان کوہر حال میں اپنی غیرت اور خود داری کی حفاظت کرنی چاہیے۔ یہ دَور دین اور مادّہ پرستی کے درمیان جنگ کا دور ہے۔ اس جنگ میں ابلیس نے تو یورپ کی مشینوں کا سہارا لے رکھا ہے جب کہ اللہ کو مومن کی قوتِ ایمانی پر بھروسا ہے۔ یقیناً فتح مومن کی ہو گی کیوںکہ ؎ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی آخر میں علّامہ اقبالؒؒ خلوصِ عمل کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عمل کا اللہ کے لیے خالص ہونا بہت بڑی دولت ہے۔ تمھارے اسلاف نے اسی خلوصِ عمل کی بدولت عزت پائی تھی اور تم بھی اگر اپنے اندر عمل کا ویسا ہی اخلاص پیدا کرلو تو تمھیں بھی عزت و احترام اور اوج و سر بلندی کا ویسا ہی مقام مل سکتا ہے۔ تصویر و مصوّر تصویر نے تصویر بنانے والے سے کہا۔ ـ’’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ میری نمائش تیرے ہنر کی بدولت ہے۔ تیری کاری گری اور مہارت سے میں وجود میں آئی ہوں۔ میرا وجود اصلی یا حقیقی ہی نہیں بلکہ تیرے ہنر کا ایک کرشمہ ہے۔ لیکن اے مصوّر! یہ بات میرے لیے سخت تکلیف دہ ہے کہ تو میری نظر سے پوشیدہ ہے۔ مجھے تیرے دیدار کی آرزو ہے لیکن کتنی نا انصافی اور ظلم کی بات ہے کہ تو نے مجھے اپنے دیدار سے محروم رکھا ہے۔‘‘ تصویر کی بات سن کر مصوّر نے جواب دیا۔ ’’اے تصویر! تجھے یہ بات معلوم نہیںکہ آنکھ والے کے لیے حقیقت کا دیدار موت کا پیغام بن جاتا ہے۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ چنگاری نے جب جہاں بینی کی آرزو کی تو اس آرزو کی بہ دولت اس کا کیاحشر ہوا؟ جب تک چنگاری میں جہاں بینی کی آرزو پیدا نہیں ہوئی تھی، تب تک وہ آگ کے اندر چھپی ہوئی اور ہر مصیبت سے محفوظ تھی، لیکن جب اس میں جہاں بینی کی آرزو پیدا ہوئی تو وہ اپنی اصل آگ یا شعلے سے جدا ہوگئی کیوں کہ اس جدائی کے بغیر اس کے لیے جہاں بینی ممکن نہیں تھی۔ چنگاری نے آگ اور شعلے سے جدا ہو کر دنیا کو تو دیکھ لیا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ فنا ہوگئی۔ اس سے ثابت ہوا کہ دیکھنے کی آرزو کا نتیجہ فنا کے سوا اور کچھ نہیں۔ دیکھنے کی آرزو سے نظر پیدا ہوتی ہے اور نظر کا نتیجہ سوائے درد و غم اور سوز و تب وتاب کے کچھ نہیں۔ اس لیے اے نادان! میں تجھے مشورہ دیتاہوں کہ تو نظر کی بجائے صرف خبر پر قناعت کر۔‘‘ مصوّر کی اس بات پر تصویر نے کہا۔ ’’اے مجھے تخلیق کرنے والے! تیری بات یقینا درست ہے اور تیرا مشورہ بھی ہر لحاظ سے صائب ہے، لیکن میں بڑے ادب سے یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ میں خبر کی منزل پر قناعت کرنا نہیں چاہتی۔ یہ تو ایک ادنیٰ درجے کی زندگی ہے۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ خبر پر صرف وہی قناعت کرتے ہیں، جو کم ہمت اور کم عقل ہوتے ہیں۔ خبر تو عقل و خرد کی ناتوانی کا ثبوت ہے جب کہ دل کو حیاتِ جاودانی دیدار کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ زمانہ تگ وتاز اور تجربات و مشاہدات کا زمانہ ہے۔ اس تگ و تاز کی بدولت ایجادات و اختراعات، تحقیقات و مشاہدات اور تجربات و انکشافات کا ایک وسیع سلسلہ جاری ہے۔ زمانے کے مو جودہ مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ بات قطعاً نہیں جچتی کہ تو اپنے دیدار کے طالب کو’’لن ترانی‘‘ کے الفاظ کہہ کر اپنے دیدار سے محروم کردے۔‘‘ تصویر کی یہ دلیل سن کر مصوّر نے جواب دیا۔ ’’اے تصویر! تیری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تو اپنی طلب میں مخلص ہے اور واقعی میرا دیدار کرنا چاہتی ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ تو میرے ہنر کے کمالات کی بہ دولت وجود میں آئی ہے۔ توخودبہ خود موجود نہیں ہوگئی، بلکہ میری کاری گری اور مہارت نے تجھے تخلیق کیا ہے، اس لیے تجھے اپنے تخلیق کرنے والے سے مایوس اور نا اُمید نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تجھے میرے دیدار کی آرزو ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ تُو اپنا مشاہدہ کر۔ میں تجھ سے جدا تو نہیں ہوں، بلکہ تیرے ہی اندر پوشیدہ ہوں۔ جب تجھے اپنا اور اپنی خودی کا مشاہدہ کرنے کی اہلیت حاصل ہو جائے گی، جب تیرا اپنا آپ تجھ پر ظاہر اور عیاں ہوجائے گا تو تجھے میرا دیدار بھی حاصل ہوجائے گا، اس لیے کہ اُس وقت تجھے معلوم ہوگا کہ تُو، تُو نہیں ہے بلکہ میں ہوں۔ پس اگر تو میرا دیدار کرنا چاہتی ہے تو اپنا دیدار کر، تو اپنے آپ کو دیکھنے کے قابل ہو جائے گی تو مجھے بھی دیکھ سکے گی کہ میرے دیدار کی واحد شرط یہی ہے کہ تُو خود اپنی نظروں سے پنہاں نہ ہو۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒکی یہ نظم ایک تمثیلی نظم ہے، جس میں انھوں نے تصویر اور مصوّر کے پردے میں انسان اور خدا کا مکالمہ رمز اور کنائے کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اس نظم میںتصویر سے عمومی طور پر کائنات اور خصوصی طور پر انسان مراد ہے، جب کہ مصوّر سے مراد خدا کی ذات ہے جو انسان اور اس وسیع و عریض کائنات کی خالق ہے۔ انسان بارگاہِ خداوندی میں عرض کرتا ہے کہ اے خالقِ کائنات! اگرچہ میرا وجود تیری تخلیق کا کرشمہ ہے اور میں تیرے ہنر اور کمال کی بدولت ہی نیستی سے ہستی کی صورت میں آیا ہوں لیکن میرے لیے یہ بات سخت تکلیف دہ ہے کہ میں تجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ایک تخلیق پر اس سے بڑا ظلم اور اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا خالق اس کی نظروں سے پوشیدہ ہو؟ میرا دل تجھ سے ملاقات کی شدید آرزو رکھتا ہے اور تیرے دیدار کی تمنّا مجھے ہر لحظہ بے تاب وبے قرار کیے رکھتی ہے۔ آخر تو کب تک میری اس بے تابی وبے قراری کا تماشا کرتا رہے گا؟ وہ دن کب آئے گا جب میری اس بے تابی کا خاتمہ ہوگا اور میری نگاہیں تیرے دیدار سے شاد وبامراد ہوںگی۔ انسان کی ان باتوں کے جواب میں بارگاہِ خداوندی سے ارشاد ہو تا ہے کہ اے نادان! کیا تُو اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ حقیقت کو دیکھنے کی آرزو دیدار کے طالب کے لیے زندگی نہیں، موت کا پیغام بن جاتی ہے۔ تو اگر اس بات کو مثال سے سمجھنا چاہتاہے تو چنگاری کے حال پر غور کر۔ چنگاری میں جب تک دنیا اور دنیا کی حقیقت کو دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی تھی، تب تک وہ آگ کے اندر پوشیدہ تھی اور اس طرح ہر مصیبت، ہر آفت سے محفوظ تھی۔ اس کے وجود کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ لیکن جب اس کے دل میں دنیا کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو اس خواہش کی بدولت وہ اپنی اصل یعنی آگ سے جدا ہو گئی۔ آگ سے جدا ہوئے بغیر اس کے لیے دنیا کو دیکھنا ممکن ہی نہیں تھا، آگ سے جدا ہو کر چنگاری نے دنیا کو تو دیکھ لیا لیکن دوسرے ہی لمحے وہ خود فنا کی آغوش میں پہنچ گئی۔ پس تجھے بھی جان لینا چاہیے کہ دیدار کی آرزو کرنا اپنے آپ کو فنا کی آغوش میں دھکیلنا ہے۔ نظر کی آرزو کرنا یعنی بطورِخود اپنے خالق کی ذات کے مشاہدے کی خواہش اور اس خواہش پر اصرار کا حاصل مسلسل درد وغم، پیہم اضطراب، پیچ و تاب، تڑپ اور بے قراری کے سوا کچھ نہیں۔ دیدار کے لیے اوّل تو بڑے حوصلے اور ظرف کی ضرورت ہے، اور یہ حوصلہ، یہ ظرف بڑی مشکل سے پیدا ہو تا ہے۔ پھر اگر دیدار کی طاقت حاصل بھی ہوجائے تو دیدار کے بعد تُو اپنے آپ میں کب رہے گا؟ کیا تجھے ان ہستیوں کے حال سے آگاہی نہیں جنھوں نے اپنے خالق کی تجلّی کی ہلکی سی جھلک ہی دیکھی تھی اور اس کے بعد ان کا کیا حال ہوا؟ اس لیے تیرے لیے بہتر یہی ہے کہ تو نظر یعنی خود مشاہدہ کرنے کی تمنّا کرنے کی بجائے خبر یعنی ایمان بالغیب کو اپنے لیے کافی سمجھے۔ اس ارشادِ خداوندی پر علّامہ اقبالؒؒؒ پھر انسان کی زبان سے کہلواتے ہیں کہ اے خالقِ کائنات! تُو نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ اگر چہ ہر لحا ظ سے درست ہے لیکن میں جو اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز ہوں، یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ محض خبر پر قناعت کروں۔ خبر پر قناعت کرنا ابتدائی اور ادنیٰ درجے کی زندگی ہے۔ جب کہ میں انتہائی اعلیٰ مدارجِ زندگی کا طلب گار ہوں۔ خبر پر تو وہ لوگ قناعت کرتے ہیں جنھیں عقل کی نعمت کم ملی ہوتی ہے اور جو ہمت و حوصلہ سے تہی ہوتے ہیں۔ جو خبر پر قناعت کر بیٹھتا ہے وہ تو گویا اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ اس کی عقل کمزور و ناتواں ہے۔ اور مجھے یہ بات ہر گز ہرگز تسلیم نہیں۔ پھر علّامہ اقبالؒؒ ؒ نئے زمانے کے نئے تقاضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انسان کی زبان سے کہلواتے ہیں کہ اے باری تعالیٰ! موجودہ زمانہ انسانی عقل کی تیزی و طراری، تگ و تاز اور جدوجہد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ موجودہ دور کے انسان نے ایک طرف سمندروں کی گہرائیوں کو کھنگال ڈالا ہے تو دوسری طرف وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ تجربات و مشاہدات کی بدولت ایک طرف نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں تو دوسری طرف ایجادات و اختراعات کا وسیع سلسلہ جاری ہے۔ آج کا زمانہ تجربات اور مشاہدات کا ز مانہ ہے۔ زمانۂ قدیم میں جب موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر تجھ سے ہم کلام ہونے کے بعد تیرے دیدار کی خواہش کی تھی تو تیری طرف سے ’’لَن’ تَرَانی‘‘(تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ) کا جواب پایا تھا، مگر موجودہ زمانے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ موجودہ زمانے کے مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ بات بالکل نہیں جچتی کہ تو اپنے دیدار کے طلب گاروں کو ’’لن ترانی‘‘ کہتے ہوئے ٹال دے اور اپنے دیدار سے محروم رکھے۔ انسان کی ان باتوں کے جواب میں بارگاہِ خداوندی سے ارشاد ہوتا ہے کہ اے انسان! تیری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تیری طلب صادق ہے۔ تو محض رسمی طور پر تقاضا نہیںکررہا بلکہ تو واقعی میر ادیدار کرنا چاہتا ہے۔ اے انسان! تجھے یہ تو معلوم ہے کہ تو خود بہ خود وجود میں نہیںآیا بلکہ میری تخلیق کا ہنر تجھے عالمِ وجود میں لایا ہے، اس لیے تجھے اپنے خالق سے مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہیے بلکہ تجھے اپنے اندر وہ اہلیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس کی بہ دولت تو میرا دیدار کرسکے۔ اور اس کی صورت یہی ہے کہ تو اپنے آپ کا اور اپنی خودی کا مشاہدہ کر۔ تو اپنے آپ کو جان جائے گا تو مجھے بھی پہچان جائے گا۔ تو اپنی ذات کی معرفت حاصل کرلے گا تو تجھے اپنے خالق کی معرفت بھی حاصل ہوجائے گی۔ اس لیے کہ میں تجھ سے جدا تو نہیں ہوں، بلکہ تیرے اند ر ہی پوشیدہ ہوں۔ جب تجھے اپنا اور اپنی خودی کا مشاہدہ کرنے کی اہلیت حاصل ہوجائے گی اور اس طرح تو اپنی ذات کا عرفا ن حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا تو تجھے میرا دیدار بھی حاصل ہو جائے گا۔ پس اگر تو میرا دیدار کرنا چاہتا ہے تو پہلے اپنا دیدار کرے۔ جب تیری نگاہ ان پردوں اور حجابات کے پار دیکھ سکے گی جو تیری اپنی ذات پر پڑے ہوئے ہیں، تو تیری نگاہ ان حجابات کے پار دیکھنے میں بھی کامیاب ہو سکے گی جن میں تیرے خالق کی تجلّی مستور ہے۔ جان لے اور اچھی طرح جان لے کہ میرے دیدار کی واحد شرط یہی ہے کہ تو خود اپنی نظروں سے پوشیدہ نہ ہو۔ تو اپنا دیدار کرنے کے قابل ہو گا تو میرا دیدار بھی کرسکے گا۔ اس طرح اس تمثیلی نظم میں علّامہ اقبالؒؒ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اگر کسی انسان کو خدا کے دیکھنے کی آرزو ہو تو اُسے اپنے آپ کو دیکھ لینا کافی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حدیث پاک میں ان الفاظ میں وارد ہوئی ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ ترجمہ: جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلی، تو اُس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلی۔ یہ اپنے نفس ہی کی معرفت ہے جسے علّامہ اقبالؒؒؒ نے اپنی خودی کو پہچاننا، اپنے آپ کا مشاہدہ کرنا یا اپنی ذات کا عرفان حاصل کرنا قرار دیا ہے۔ جو انسان اپنی خودی کو پہچان جائے گا، جو اپنے آپ کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوگا اور جسے اپنی ذات کا عرفان حاصل ہوجائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کو بھی پہچان جائے گا اور اُسے اللہ تعالیٰ کے دیدار کی نعمت بھی حاصل ہوسکے گی۔ عالمِ برزخ ایک مردے نے اپنی قبر سے سوال کیا۔ ’’اے میری قبر! ذرا یہ تو بتا قیامت کیا چیز ہے؟ یہ کس آج کی کل ہے؟ تو ذرا مجھے قیامت کی حقیقت سے آگاہ تو کر۔‘‘ مُردے کا سوال سن کر قبر نے حیرانی سے جواب دیا۔ ’’اے صد سالہ مُردے! کیا تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ قیامت کیا چیز ہے؟ یہ تو میرے لیے بڑی تعجب کی بات ہے کہ تو قیامت کی حقیقت سے بے خبر ہے۔ سُن اور جان لے کہ قیامت دوبارہ جی اٹھنے کو کہتے ہیں اور ہر شخص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگا کیوں کہ یہ تو اس کی موت کا تقاضا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لے کہ قیامت موت کا لازمی نتیجہ ہے۔‘‘ قبر کی یہ بات سن کر مُردے نے کہا۔ ’’اے میری قبر! میں تو اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں ہوا، جس موت کا پوشیدہ تقاضا قیامت یعنی دوبارہ زندگی ہے۔ اگرچہ مجھے اس قبر میں پڑے ہوئے سو سال ہوگئے ہیں، لیکن صد سالہ مُردہ ہونے کے باوجود میں اپنی قبر کی تاریکیوں سے بیزار نہیں ہوں۔ مٹی کے اس ظلمت کدے میں سو سال سے پڑے ہونے کے باوجود میرے اندر دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی آرزو پیدا نہیں ہوئی۔ اگر قیامت اسی کا نام ہے کہ میرا نحیف و نزار بدن ایک بار پھر میری روح کی سواری بنے تو میں ایسی قیامت کا طلب گار نہیں ہوں۔‘‘ مُردے کی یہ باتیں سن کر قبر سخت حیران ہوئی کہ یہ کیسا مُردہ ہے جو دوبارہ زندہ نہیں ہونا چاہتا۔ آخر اسے کس قسم کی موت آئی تھی کہ اس موت کے بعد زندگی کی طلب نہیں ہے۔ قبر ان حیرانیوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ غیب سے ایک آواز آئی اور اس آواز نے قبر کی حیرانی کو دور کیا۔ غیب سے آنے والی آواز نے کہا۔ ’’وہ موت جس کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے، نہ تو سانپ، بچھو اور دیگر کیڑے مکوڑوں کا نصیب ہے اور نہ ایسی موت چوپایوں اور درندوں کی قسمت میں لکھی ہے۔ ہمیشہ کی یہ موت صرف اور صرف غلام قوموں کا مقدّر ہے۔ جو لوگ زندگی میں غلام تھے اور زندگی کے جوش اور ولولے سے محروم تھے اور جن کی زندگی ایسی زندگی تھی جو زندگی کی حقیقی حرارت سے محروم تھی، بھلا ایسے لوگ جن کا بدن زندگی میں بھی رُوح سے خالی تھا،مرنے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہو سکتے ہیں؟ انھیں تو بانگِ اسرافیل بھی زندہ نہیں کرسکتی۔ قیامت کے دن جب اسرافیل اپنا صور پھونکے گا تو اس کی آواز سے صرف وہ لوگ زندہ ہوسکیں گے جو مرنے سے پہلے آزاد مرد تھے، گویا صحیح معنوں میں زندہ تھے۔ غلام قومیں تو زندگی ہی میں زندگی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ غلام قوموں کے افراد تو زندگی ہی میں مرجاتے ہیں، اس لیے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتے۔ یہ صحیح ہے کہ اس دنیا کے ہر ذی رُوح کی منزل قبر کی آغوش ہے، لیکن مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا صرف آزاد مردوں کا کام ہے۔ آزاد مرد تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے، لیکن غلام مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ وہ تو دوبارہ زندہ ہونے کی صلاحیت ہی سے محروم ہو چکا ہے۔ غلام تو ایک طرح سے زندگی ہی میں مرچکا ہوتا ہے، مرنے کے بعدبھلا کیا زندہ ہوگا۔‘‘ غیب کی یہ آواز سن کر قبر کی حیرانی دور ہوئی اور وہ مردے سے کہنے لگی۔ ’’او کم بخت! اب میں سمجھی کہ میری مٹی میں اس قدر سوزش اور جلن کی کیفیت کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ آہ ظالم! اب مجھے معلوم ہو ا کہ تو دنیا میں غلامی کی لعنت میں گرفتار تھا۔ تو آزاد نہیں،محکوم تھا۔ اسی وجہ سے میری مٹی کی تاریکیاں اور زیادہ تاریک ہو گئی ہیں، بلکہ تیری میّت سے زمین کی شدید توہین ہوئی ہے۔ تیرے وجود نے زمین کا پردۂ ناموس چاک کر ڈالا ہے۔ میں دُعا کرتی ہوں کہ خدا محکوم اور غلام کی میّت سے سو بار بچائے۔ اے اسرافیل! جلد اپنا صور پھونک تاکہ زمین تہ وبالا ہوجائے اور مجھے اس ناپاک مُردے کے وجود سے نجات ملے۔ اے خدائے کائنات! میں تیری بارگاہ میں فریاد کرتی ہوں کہ اس محکوم اور غلام مُردے کے نجس وناپاک وجود سے جلد میری خلاصی فرما۔‘‘ قبر کی اس فریاد کے جواب میں غیب سے پھر ایک آواز آئی۔ اس آواز نے کہا۔ ’’اے قبر اطمینان رکھ۔ قیامت اپنے مقررہ وقت پر ضرور آ ئے گی۔ اگرچہ قیامت برپا ہونے پر اس کائنات کے سارے نظام کا درہم برہم ہونا ایک لازمی امر ہے، لیکن یہ ہنگامہ اپنی جگہ بے حد ضروری ہے کیوں کہ اسی ہنگامے کی بہ دولت وجود کے بھید ظاہر ہوں گے۔ دنیا میں ہر شخص نے جوجو کام کیے ہیں، اُن کے نتائج قیامت کے ہنگامے کے ذریعے ہی ظاہر ہوں گے۔ جس طرح زلزلے سے پہاڑ اور ٹیلے بادلوں کے ٹکڑوں اور روئی کے گالوں کی طرح اُڑ جاتے ہیں اور وادیوں میں نئے چشمے نمودار ہوجاتے ہیں، اسی طرح قیامت بھی ایک طرح کا زلزلہ ہے، جس کی بدولت ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ تعمیر کے لیے تخریب لازم ہے۔ ہر نئی تعمیر سے پہلے پرانی عمارت کو بالکل مسمار کرنا پڑتا ہے۔ پرانی عمارت کو منہدم کیے بغیر نئی عمارت تعمیر ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی تخریب میں زندگانی کی تمام مشکلات کا حل پوشیدہ ہے۔ جب قیامت کے بعد زندگی کو نئی بنیاد وں پر استوار کیا جائے گا تو زندگی کی وہ تمام مشکلات دور ہو جائیں گی جن سے اسے موجودہ صورت میں واسطہ پڑتا ہے۔‘‘ اپنے مردے سے سوال وجواب اور پھر غیب کی آواز سننے کے بعد قبر یُوں گویا ہوئی۔ ’’آہ! یہ غلامی اور محکومی جو ہمیشہ ہمیشہ کی موت کی حیثیت رکھتی ہے، اس دنیا میں سب سے بڑی لعنت ہے۔ مرگِ دوام اسی غلامی کا نتیجہ ہے اور یہ غلامی اس وجہ سے ہے کہ دنیا میں طاقت ور اور کمزور، قوی اور ضعیف، حاکم اور محکوم،قوموں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ طاقت ور قومیں کمزور اور ضعیف قوموں کو اپنا غلام بنا کر رکھنا اور ان پر حکومت کرنا چاہتی ہیں۔ عقل نے طرح طرح کے بت تراش رکھے ہیں اور خدا سے منہ موڑ کر ان بتوں کو اپنا خدا بنارکھا ہے۔ حاکم قومیں طرح طرح کے حیلوں سے غلام قوموں کا استحصال کرتی ہیں اور قسم قسم کے فریبوں سے انھیں اپنی غلامی پر راضی رکھتی ہیں۔ چناں چہ عقل مند ہوں یا بے وقوف، خواص ہوں یا عوام، عالم ہوں یا جاہل، سب اپنی اپنی ذاتی خواہشات کے بتوں کی پرستش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دنیا میں جسے بھی دیکھو، وہ اپنی ہی خواہشات کا بندہ ہے اور خدائی قوانین کی بجائے اپنی خواہشات ہی کی پرستش کرتا ہے۔ وہ انسان جو خدائی صفات کا حامل تھا، جسے خالقِ کائنات نے اشرف المخلوقات ٹھہرایا تھا، اس دنیا میں کس قدر ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ ایسے جہان کا قائم رہنا قلب و نظر پر گراں گزرتا ہے، جس میں انسان، انسان کا غلام ہو۔ کیوں کہ غلامی سے بڑھ کر اور کوئی لعنت نہیں۔ انسانی مقدر کی یہ تاریک رات ختم کیوں نہیں ہو تی۔ یہ تاریک رات ختم ہو کر صبح کا اجالا کیوں نمودار نہیں ہوتا؟‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒنے اس تمثیلی نظم میں قبر، مردے اور غیبی آواز کے درمیان مکالمے کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ جو لوگ زندگی میں غلامی کی لعنت میں گرفتار اور اس پر راضی ہوتے ہیں اور اس طرح اپنی خودی کو ذلیل کرکے ایک طرح سے مار ڈالتے ہیں وہ خود بھی بہ ظاہر زندہ ہونے کے باوجود جیتے جی مرجاتے ہیں اور ایسے لوگ مر کر دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے۔ غلامی کی زندگی مرنے کے بعد زندہ ہونے کی صلاحیتوں کو فنا کر ڈالتی ہے۔ اُن کے نزدیک غلامی اتنی بڑی لعنت ہے کہ قبر بھی غلام کی میّت سے نفرت کرتی اور اس کے ناپاک وجود سے پناہ مانگتی ہے۔ عالمِ برزخ یعنی موت کے بعد سے صور پھونکے جانے تک کے درمیانی وقفے کی حالت کو علّامہ اقبالؒؒ نے اس نظم کا عنوان بنایا ہے۔ اس عالم میں ایک مُردہ جسے قبر میں پڑے ہوئے سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اپنی قبر سے سوال کرتاہے کہ قیامت کسے کہتے ہیں؟ قبر جواب دیتی ہے کہ قیامت ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے، یعنی مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کا نام قیامت ہے۔ اس پر مُردہ کہتا ہے کہ مجھے تووہ موت آئی ہی نہیں جس کا پوشیدہ تقاضا قیامت ہے۔ اگر قیامت اسی کا نام ہے کہ میری رُوح ایک بار پھر میرے جسم پر سوار ہو جائے تو میں ایسی قیامت نہیں چاہتا۔ میں تو اپنی قبر کی تاریکیو ں سے بیزار نہیں ہوں۔ قبر کو مُردے کی یہ بات سُن کر سخت حیرانی ہوتی ہے۔ اسے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ موت کی ایک قسم ایسی بھی ہے، جس کا پوشیدہ تقاضا قیامت نہیں ہے یعنی جس کے بعد زندگی نہیں ہے۔ غیب سے آنے والی صدا، قبر کی یہ حیرانی دور کرتی ہے۔ غیب سے آنے والی آواز بتاتی ہے کہ یہ مُردہ سچ کہتا ہے۔ ایسی موت جس کے بعد کوئی زندگی نہیں، صرف محکوم قوموں کا مقدّر ہے۔ وہ غلام جن کا بدن زندگی میں بھی رُوح سے خالی تھا، وہ تو صور پھونکے جانے پر بھی دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے۔ چوں کہ یہ مُردہ غلام تھا، اس لیے یہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا اور نہ اسے دوبارہ زندہ ہونے کی آرزو ہے۔ غیب کی آواز سے قبر کی حیرانی دور ہوتی ہے تو مُردے سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ اب میں سمجھی کہ میری مٹی میںاس قدر سوزش اور جلن کہاں سے آگئی ہے؟ مجھے اب معلوم ہو ا کہ دنیا میں یہ بندہ محکوم تھا اور غلامی کی لعنت میں گرفتار تھا۔ اس کے بعد قبر غصے کے عالم میں اسرافیل کو پکارتی ہے کہ جلد صور پھونک دے تاکہ مجھے اس ناپاک میّت سے نجات مل جائے۔ زمین کی اس فریاد کے جواب میں غیب سے پھر صدا آتی ہے کہ اطمینان رکھ! قیامت اپنے مقررہ وقت پر ضرور آئے گی۔ قیامت آئے گی تو سب کچھ ملیامیٹ ہوجائے گا۔ اس تخریب کے بعد ایک نئی دنیا تعمیر ہوگی، جو اُن تمام مشکلات و مصائب سے پاک اورمبرّا ہو گی جن سے انسانی زندگی اس دنیا میں دوچار رہتی ہے۔ غیب کی یہ آواز سن کر زمین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پھر عرض کرتی ہے کہ اے خدا! ایسا دور کب آئے گا بلکہ جلد کیوں نہیں آجاتا کہ انسان کو انسان کی محکومی اور اپنی موجودہ ذلّت وخواری سے نجات ملے۔ اس طرح علّامہ اقبالؒ ؒ نے زمین کی زبان سے یہ پیغام دیاہے کہ ایسا نظام سخت نفرت کے لائق ہے جس میں انسان، انسان کا غلام ہو، اور وہ قوم تو اور بھی زیادہ لائقِ ملامت ہے جو کسی دوسری قوم کی محکومی اور غلامی پر راضی ہو جائے۔ کیوں کہ غلامی اور محکومی سے زیادہ بڑی لعنت اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔ یہ تو لعنت ہے کہ قبر بھی محکوم اور غلام کی میّت سے نفرت کرتی ہے۔ پس انسان کو چاہییے کہ وہ ہر ایسے نظام کو نیست ونابود کرنے کی بھرپور جدوجہد کریں جو انسان کو انسان کا غلام بناتاہو اور اس غلامی پر راضی رہنا سکھاتا ہو۔ معزول شہنشاہ میں اُس نیک انجام بادشاہ کی خدمت میں ہدیۂ مبارک پیش کرتا ہوں جس نے اپنے ضمیر کی آزادی برقرار رکھنے کے لیے اپنے تخت وتاج کو قُربان کردیا۔ اُس کی اِس قربانی سے ملوکیت اور بادشاہت کے وہ راز جو اب تک پوشیدہ تھے، ظاہر ہوگئے ہیں۔ اب ساری دنیا کو معلوم ہو گیا ہے کہ انگریزوں کی نظروں میں اپنے بادشاہ کا کیا مقام ہے۔ اُن کے نزدیک تو بادشاہ کی حیثیت بالکل مٹی کے اُس بت کی سی ہے، جسے پُجاری جب چاہیں، ٹکڑے ٹکڑے کرسکتے ہیں۔ اب یہ حقیقت کُھل کر سامنے آگئی ہے کہ انگریزوں کی نگاہ میں اپنے بادشاہ کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے اور وہ اپنی زندگی کے ذاتی اور نجی معاملات کو بھی اپنی مرضی سے انجام نہیں دے سکتا۔ یہ ڈھونگ تو اُنھوں نے محض ہم غلاموں کو قابو میں رکھنے کے لیے رچا رکھا ہے، چناں چہ اُنھوں نے اس بادشاہ کو جو اُن کی مرضی کے مطابق نہیں تھا، تخت و تاج سے دست بردار ہو نے پر مجبور کردیا اور ہمیں مرعوب کرنے کے لیے دوسرے بادشاہ کو تخت پر بٹھا دیا۔ اس طرح اُس نیک انجام بادشاہ نے اپنے ضمیر کی آزادی کی خاطر تخت و تاج کی قربانی دے کر برطانوی شہنشاہیت کا یہ راز دنیا پر فاش کردیا کہ برطانیہ کا بادشاہ محض برائے نام بادشاہ ہے اور انگریز جب چاہیں، اپنے بادشاہ کو تخت و تاج سے علیٰحدہ کرسکتے ہیں۔ اُس کی اس قربانی کے بغیر یہ راز دنیا پر آشکار نہیں ہو سکتا تھا اور اسی لیے میں اُسے مبارک باد کا مستحق سمجھتا ہوں۔ علّامہ اقبالؒؒ کی یہ نظم شہنشاہِ انگلستان ایڈورڈ ہشتم سے متعلق ہے جو جارج پنجم کی وفات پر ۲۰؍ جنوری ۱۹۳۶ء کو تخت نشین ہو ا تھا اور صرف ساڑھے دس ما ہ ’’شہنشاہِ انگلستان‘‘ رہنے کے بعد ۱۰؍ دسمبر ۱۹۳۶ء کو تاج و تختِ شاہی سے دست بردار ہو گیا تھا۔ ولی عہدِ انگلستان کی حیثیت سے اس نے معاشرتی سر گرمیوں سے بھر پور زندگی گزاری تھی اور وہ عوام میں بے حدمقبول تھا۔ اُس نے پہلی جنگِ عظیم میں دوسرے برطانوی فوجیوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا تھا اور اکثر برطانوی فوجی اس کی جرأت کے مداح تھے۔ اس نے برطانوی سلطنت کے تمام مقبوضات (کینیڈا، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، ہندوستان وغیرہ ) کے علاوہ ریاست ہائے متحدہ امریکا، جاپان اور کئی دیگر ممالک کا سفر کیا تھا۔ اس کی ان تمام سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے عام رائے یہی تھی کہ وہ اپنے باپ دادا سے کہیں بڑھ کر کامیاب بادشاہ ثابت ہوگا۔ ۱۹۳۱ء میں جب وہ ولی عہد کی حیثیت سے جنوبی امریکا کے دورے سے واپس آیا تو اس کی ملاقات مسز سمپسن (ویلس دار فیلڈ سمپسن ) سے ہوئی۔ آشنائی کا آغاز ہوا تو ایڈورڈ زیادہ سے زیادہ اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔ مسز سمپسن کی جرأت، صاف گوئی اور ندرتِ فکر نے اُس کے دل میں گھر کرلیا اور پھر اُس نے اُسے اپنی شریکِ زندگی بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ ایڈورڈ کو معلوم تھا کہ اس کی خواہش پوری ہونے میں بڑی دشواریاں ہیں۔ سب سے بڑی دشواری قانونِ ازدواجِ شاہی ۱۷۷۲ء تھا، جس کی رُو سے شاہی خاندان کا کوئی فرد کسی مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرسکتا تھا مگر ایڈورڈ کو شاید یقین تھا کہ عوام میں اُسے ولی عہد کی حیثیت سے جو مقبولیت حاصل ہے، اس کی وجہ سے اس خواہش کے پورا ہونے اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے دور ہو نے کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔ مگر جارج پنجم کی وفات کے بعد جب ۲۰؍جنوری ۱۹۳۶ء کو اُس نے انگلستان کے شاہی تخت وتاج کو زینت بخشی تو اُسی روز اسے احساس ہو گیا کہ اس کی ولی عہدی کا آزاد زمانہ ختم ہوگیا ہے اور اب اسے اپنی زندگی شاہی وقار اور حدود کے اندر رہ کر گزارنی ہوگی۔ اُسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ برطانیہ کے وزیر اعظم جارج بالڈون اور دیگر عمائدینِ سلطنت کے علاوہ لاٹ پادری (آرچ بشپ آف کنٹربری )اگرچہ اس کی جہان بینی اور علم وتجربہ کے معترف ہیں لیکن انھیں اس کے مسز سمپسن سے تعلقات پسند نہیں۔ ولی عہدی کے زمانے میں ایڈورڈ نے جو کام کیا تھا، عوام نے اُسے پسند کیا تھا اور اسے اُمید تھی کہ اس کی بادشاہت کا دور بھی اسی طرح سراہا جائے گا۔ تخت نشین ہونے کے وقت اس کی عمر۴۱ برس تھی اور وہ زندگی کو قریب سے دیکھ چکا تھا۔ اس سے پہلے کسی ولی عہد نے دنیا کے مختلف ممالک کا اتنا سفر نہیں کیا تھا۔ اسے تجارت، صنعت،معیشت اور زندگی کے کئی دوسرے شعبوں کا وسیع تجربہ تھا۔ اسی لیے اسے عوام کی حمایت کا پورا یقین تھا۔ مگر تخت نشینی کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اگرچہ لوگ بادشاہت کے عادی تھے اور ولی عہد کی حیثیت سے ایڈورڈ کی خوش طبعی، آزادی اور معرکہ آرائی و مہم آزمائی اُنھیں پسند بھی تھی لیکن اس کے بادشاہ بننے کے بعد اُس کے یہی اوصاف ناپسندیدہ ہو گئے۔ اُسے بطور ولی عہد عوام سے اپنے رابطے پر ناز تھا اور ایک بار اُس نے اپنے والد کو اطالیہ کے محاذ ِ جنگ سے خط لکھتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ یورپ کی بادشاہتیں ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں کیوں کہ حکمرانوں کا عوام سے رابطہ نہیں رہا لیکن ہماری بادشاہت قائم رہے گی کیوں کہ ہمارا رابطہ عوام سے قائم ہے۔ بادشاہ بننے کے بعد وہ اس رابطے کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہتا تھا، لیکن اب وہ نہ تو اپنی مرضی سے کسی سے ملنے جا سکتا تھا اور نہ اپنی مرضی سے کسی کو اپنے پاس ملاقات کے لیے بُلا سکتا تھا۔ شا ہ ایڈور اور مسز سمپسن کی باہمی دل چسپی اب کوئی پوشیدہ راز نہیں تھی۔ وہ سرکاری طور پر شاہی تقریبات میں شریک ہوتی تھی اور جب شاہ ایڈورڈ نے تُر کیہ اور بلقان کا دورہ کیا تو اس دورے میں چند وزرا اور رُفقا کے علاوہ مسز سمپسن بھی اُس کے ساتھ تھی۔ مسز سمپسن نے اپنے شوہر سے طلاق حاصل کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی تو اخبارات میں اس مقدمے کی کارروائی شہ سرخیوں کے ساتھ جگہ پانے لگی۔ بعض اخبارات نے یہ پیش گوئی کرنا شروع کردی تھیں کہ مسز سمپسن طلاق حاصل کرتے ہی شاہِ انگلستان سے شادی کرلے گی۔ اخبارات میں چھپنے والی خبروں سے پریشان ہو کر وزیرِاعظم نے ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو شاہ ایڈورڈسے ملاقات کی اور اشاروں کنایوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ مسز سمپسن کو چاہیے کہ طلاق کا مقدمہ واپس لے لے۔ کیوں کہ اخبارات میں جو خبریں اور افواہیں چھپ رہی ہیں، اُن سے بادشاہت کے وقار اور حیثیت کو ضُعف پہنچنے کا خطرہ ہے مگر شاہ ایڈورڈ نے اس سلسلے میں مسز سمپسن پر کسی قسم کا دباؤ ڈالنے سے صاف انکارکردیا۔ شاہ ایڈورڈ اور وزیر اعظم کی یہ گفتگو اگرچہ دوستانہ انداز میں ختم ہوئی تھی، لیکن اس سے شاہ ایڈورڈکو ہوا کے رُخ کا اندازہ ہو گیا تھا کہ جو چیز اُس کی ذاتی زندگی سے متعلق تھی، وہ حکومت پر اثر انداز ہورہی تھی اور گمان یہی تھا کہ اس کا نتیجہ کوئی خوشگوار نہیں ہوگا۔ ۲۳؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو مسز سمپسن کے مقدمۂ طلاق کی سماعت شروع ہوئی۔ شاہ ایڈورڈ اگرچہ سرکاری کاموں میں مشغول تھا لیکن اُس کا دل اس مقدمے میں اٹکا ہوا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعدمتعلقہ وکیل نے اُسے ٹیلی فون پر اطلاع دی کہ طلاق کی اجازت مل گئی ہے، لیکن وہ ۶ماہ یعنی اپریل ۱۹۳۷ء سے پہلے کسی سے شادی نہیں کرسکتی۔ شاہ ایڈورڈ کی تاج پوشی کی تقریب کا انعقاد ۱۲؍ مئی ۱۹۳۷ء کو ہونا تھا، اس لیے اسے اطمینان تھا کہ انتظام وغیرہ کرنے کے لیے اس کے پاس کافی وقت ہے۔ شاہ ایڈورڈ کے پاس انتظام وغیرہ کرنے کے لیے تو کافی وقت تھا مگر اب وہ ولی عہد نہیں بادشاہ تھا۔ آئینی بادشاہ کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ سیاسیات سے بالا تر ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی زندگی سے بھی بالا تر ہو۔ اس ستم ظریفی کا اندازہ اُسے ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۶ء کو اپنے نام آئے ہوئے ایک نہایت ضروری اور خفیہ مراسلے سے ہوا۔ اس مراسلے سے اُسے معلوم ہوا کہ حکومت اس کے اور مسز سمپسن کے باہمی تعلق پر غور کرنے کے لیے ایک اجلاس طلب کررہی ہے۔ اس مراسلے میں شاہ ایڈورڈسے کہا گیا تھا کہ مسز سمپسن فوراًملک سے باہر چلی جائے ورنہ حالات کے بگڑنے کا سخت اندیشہ ہے۔ اس خط سے شاہ ایڈورڈ کو سخت صدمہ ہو ا۔ وہ اس تجویز سے سخت پریشان ہوا۔ جس عورت سے اُسے محبت تھی اور جس سے وہ شادی کرنا چاہتاتھا، حکومت چاہتی تھی کہ وہ اس عورت کواپنی سلطنت سے باہر نکال دے۔ شاید حکومت اس کے جذبۂ محبّت کی آزمائش کرنا چاہتی تھی۔ شاہ ایڈورڈ نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی۔ یہ کسی شہزادے کا بحران نہیں تھا۔ پُرانا زمانہ ہوتا تو ایک شہزادے کی محبت افسانہ یا گیت بن جاتی لیکن یہ بحران بادشاہ کا بحران تھا اور زمانہ بھی جدید تھا۔ صبح ہونے تک وہ اس فیصلے پر پہنچ چکا تھا کہ اگر حکومت میری شادی کے خلاف ہے تو میں تختِ شاہی چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ شاہ ایڈورڈ اب یہ راز زیادہ دیر تک اپنے سینے میں نہیں رکھ سکتاتھا۔ اُس نے مسز سمپسن کو اعتماد میں لے کر وہ خط اسے پڑھوادیا اور اسے اپنے فیصلے سے بھی آگاہ کردیا۔ مسز سمپسن نے جلد بازی سے احتراز کرنے اور کوئی اور راستہ نکالنے کا مشورہ دیا لیکن شاہ ایڈورڈ اپنے دل اور ضمیر کی آزادی کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے کا تہیّہ کرچکا تھا۔ ۱۶؍نومبر ۱۹۳۶ء کو شاہ ایڈورڈ اور وزیر اعظم جارج بالڈون کی ملاقات ہوئی۔ وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ بادشاہ کی مسز سمپسن سے شادی آئینی دشواری پیدا کردے گی۔ آئین کی رُو سے ایک طلاق یافتہ عورت ملکہ نہیں بن سکتی اور عوام بھی ایک مطلقہ عورت کو اپنی ملکہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ بالڈون کا خیال تھا کہ بادشاہ مسز سمپسن کو ایک داشتہ کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ اس کی نظیر موجود ہے۔ مگر شاہ ایڈورڈ نے بالڈون کو صاف صاف بتادیا کہ میں مسز سمپسن سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اگر بادشاہ کی حیثیت سے شادی ہو تو بہتر، ورنہ میں تخت و تاج سے دست بردار ہونے کو تیار ہوں۔ اس مسئلے پر برطانوی کابینہ کا اجلاس ہوا تو اس کے سارے کے سارے ارکان وزیر اعظم کے ہم نوا تھے، ان میں سے کوئی بھی شاہ ایڈورڈ کے حق میں لب کشائی کے لیے تیار نہ تھا۔ جارج بالڈون کی مضبوط حیثیت کی وجہ سے تمام وزیر اُس کے ساتھ تھے۔ ان میں سے کئی ایک وزرا اگر چہ شاہ ایڈورڈ کے دوست تھے اور اُنھیں شاہ ایڈورڈ سے ذاتی طور پر ہمدردی بھی تھی، لیکن وہ اُس کے حق میں کوئی بات کہنے سے معذور تھے۔ بعد میں مسز سمپسن (جو طلاق کے بعد ویلس وار فیلڈ رہ گئی تھی) کے ایک قانون دان دوست کی طرف سے غیر مساوی شادی کی تجویز سامنے آئی۔ غیر مساوی شادی کا مطلب یہ تھا کہ اگر شاہی خاندان کا کوئی مرد کسی عام عورت سے شادی کرلے تو ایسی شادی کو جائز سمجھا جائے گا اور اس سے ہونے والی اولاد بھی جائز ہوگی، لیکن بیوی کو شوہر کے برابر مرتبہ حاصل نہیں ہوگا۔ یعنی بادشاہ اگر غیر شاہی خاندان کی عورت سے شادی کرلے تو وہ عورت ملکہ نہیں کہلاسکے گی اور اس کی اولاد تخت و تاج کی وارث نہیں ہوگی۔ یورپ کے بعض شاہی خاندانوں میں یہ روایت موجود تھی لیکن انگلستان میں ایسی شادی کو قانونی جوازحاصل نہیں تھا۔ یہ تجویز پسندیدہ نہ ہونے کے باوجود بطور متبادل کے قابلِ غور تھی،چناں چہ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے شاہ ایڈورڈ نے اسے وزیر اعظم جارج بالڈون تک پہنچایا۔ وزیر اعظم نے اپنی کابینہ سے مشورہ کیا تو سوائے ایک وزیر کے سب نے غیر مساوی شادی کی تجویز مسترد کردی۔ وزیر اعظم نے شاہ ایڈورڈ کو اطلاع بھجوائی کہ کابینہ نے غیر مساوی شادی کی تجویز بھی مسترد کردی ہے، پھر وہ بادشاہ کو اس فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے خود حاضر ہوا۔ اُس نے شاہ ایڈورڈ کے سامنے تین متبادل تجاویز رکھیں، پہلی یہ کہ بادشاہ شادی کا ارادہ ترک کردے، دوسری یہ کہ بادشاہ وزرا کے مشورے کے خلاف شادی کرلے اور تیسری یہ کہ بادشاہ تخت سے دست بردار ہوجائے۔ وزیر اعظم کا مشورہ پہلی تجویز کے حق میں تھا لیکن شاہ ایڈورڈ کا جواب تھا کہ تخت و تاج رہے یا نہ رہے، میں یہ شادی ضرور کروں گا۔ شام کے کھانے کے بعد شاہ ایڈورڈ نے ویلس وار فیلڈ (مسز سمپسن ) کو اپنے اور وزیر اعظم کے درمیان ہونے والی گفتگو سے آگاہ کیا۔ ویلس نے کہا کہ جو مناسب ہو، وہ کیجیے، تاہم میرا مشورہ ہے کہ آپ تخت و تاج نہ چھوڑیں، میں یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس کے ساتھ ہی اُس نے انگلستان چھوڑ جانے کی بات کی۔ شاہ ایڈورڈ نے بھی یہی بہتر خیال کیا کہ وہ اس وقت ملک سے باہر چلی جائے۔ اپنی قوم سے نبٹنا ایڈورڈ کا اپنا کام تھا۔ شاہ ایڈورڈ اپنے آپ کو حق بہ جانب سمجھتا تھا، اس لیے اُس نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کرنے کا ارادہ کیا مگر اس میں پیچ یہ آن پڑتا تھا کہ بادشاہ حکومت کے مشورے سے بلکہ اجازت کے بغیر قوم سے خطاب کرہی نہیں سکتا تھا۔ اور وہ صاف محسوس کررہا تھا کہ حکومت ایسے خطاب کی اجازت کبھی نہیں دے گی۔ تاہم اس کے سوا اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا اس لیے اس نے وزیر اعظم سے بات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اخبارات نے شاہ ایڈورڈ اور ویلس کے بارے میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ شاہ ایڈورڈ حیران تھا کہ وہ انگلستان کا بادشاہ ہے یا کوئی دو ٹکے کا آدمی! وہ اخبارت جو اُس کے زمانہ ولی عہد ی میں اُس کے مدح و ستائش اور تعریف و توصیف میں لگے رہتے تھے، اب اُس پر کیچڑ اُچھالنے اور اُس کے پرخچے اُڑانے پر تُلے ہوئے تھے۔ تمام اخبارات یک زبان اور حکومت کے ہم نوا تھے، شاہ ایڈورڈکا طرف دار کوئی بھی نہیں تھا۔ ایسی ناموافق فضا میں ویلس کا انگلستان میں رہنا ناممکن تھا۔ چناں چہ شام کے جھٹ پُٹے میں راز داری کے پُورے اہتمام کے ساتھ فرانس چلی گئی۔ پھر شاہ ایڈورڈ نے وزیر اعظم سے قوم سے خطاب کے بارے میں بات کی۔ یہ خطاب ایک سیدھے سادے بیان کی صورت میں تھا۔ یہ قوم کے نام ایک اپیل تھی جس میں شاہ ایڈورڈ نے اپنے مسائل بیان کرکے قوم سے ان کا حل مانگا تھا، اُس نے قوم سے وہی کچھ مانگا تھا جو قوم تو شاید دے سکتی تھی مگر وزیر اعظم اس کے لیے تیار نہ تھا۔ اگلے دن سہ پہر کے وقت شاہ ایڈورڈ کو معلوم ہوا کہ برطانوی کابنیہ نے اُسے قوم سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کابینہ کا کہنا یہ تھا کہ بادشاہ کابینہ کی رائے کے بغیر کوئی بیان جاری نہیں کرسکتا اور بادشاہ کابینہ کی رائے کا پابند ہے۔ وزیر اعظم نے شاہ ایڈورڈ کو اس کی اطلاع خود آکر بڑی شائستگی سے دی۔ شاہ ایڈورڈ نے اگلے دن صبح وزیر اعظم کو آگاہ کردیا کہ میں نے تخت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حکومت کی طرف سے غیر مساوی شادی کی اجازت سے انکاراور قوم سے خطاب کرنے کی اجازت سے انکار کے بعد اب اور کوئی باعزت راستہ شاہ ایڈورڈ کے سامنے رہ ہی نہیں گیا تھا۔ ساری عمر ایک کٹھ پُتلی بنے رہنے اور اپنی بے کسی و بے بسی کی آگ میں جلنے کی بجائے اُس نے اُس تاج و تخت کو ٹھوکر ماردی جو اُس کے قلب و ضمیر کا بوجھ اور اُس کی زندگی کی خوشیوں کے راستے کا بھاری پتھر بنتا جارہا تھا۔ ۱۰دسمبر ۱۹۳۸ء کو اُس نے اپنے چھوٹے بھائی جارج ششم کے حق میں تاج و تخت سے دست برداری کی دستاویز پر باقاعدہ دستخط کردیے، اور یُوں دُنیا کو اس راز سے آگاہ کردیا کہ شہنشاہ انگلستان کہنے کو شہنشاہ ہے لیکن برطانوی نظامِ حکومت میں اُس کی حیثیت ایک مٹی کے بُت سے زیادہ نہیں جسے عوام جب چاہیں ٹُکڑے ٹُکڑے کرسکتے ہیں۔ علاّمہ اقبال ؒ نے شاہ ایڈورڈ ہشتم کو جہاں اس حوالے سے ہدیۂ تبرک پیش کیا ہے کہ اُس نے دل اور ضمیر کی آزادی کی خاطر اپنے تخت و تاج کی قربانی دے کراپنے آپ کو اور اپنی محبت کو زندۂ جاوید بنالیا، وہاں وہ اسے اس حوالے سے بھی لائق مبارک باد سمجھتے ہیںکہ اس قربانی کی بدولت فرنگی ملوکیت و بادشاہت کے وہ بھید دُنیا کے سامنے آگئے جن پر اب تک پردہ پڑا ہوُا تھا۔ شاہ ایڈورڈ نے جس طرح اور جس حال میں تاج و تخت سے دست برداری اختیار کی، اُس سے ساری دُنیا کو معلوم ہوگیا کہ شہنشاہِ انگلستان کی خود انگریزوں کی نگاہوں میں کوئی قدروقیمت نہیں اور وہ اپنی زندگی کے معاملات کو بھی اپنی مرضی کے مطابق انجام نہیں دے سکتے۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒؒ مزید کہتے ہیں کہ یہ ڈھونگ تو انگریز نے محض ہندوستانیوں جیسے غلاموں کو قابو میں رکھنے کے لیے رچایا ہوا ہے۔ چناں چہ جب کوئی بادشاہ اُن کی مرضی کے مطابق نہیں چلتا، تو وہ اُسے تخت شاہی سے چلتا کردیتے ہیں اور غلاموں کو مرعوب کرنے کے لیے دوسرے بادشاہ کو تخت پر بٹھادیتے ہیں۔ دوزخی کی مناجات ایک دوزخی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا مانگتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’اے قادرِمُطلق! اس دُنیا میں جتنے انسان آباد ہیں، ان میں سے کوئی بھی تیری عبادت اخلاص کے ساتھ نہیں کرتا۔ وہ سب کے سب غرض مند ہیں اور انھوں نے اپنی اغراض، اپنی خواہشات اور اپنی حرص و ہوا کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ یہ اپنی اغراض و خواہشات کے غلام ہیں اور انھیں بُتوں کی طرح پُوجتے ہیں۔ یہ تُجھے صرف اُس وقت یاد کرتے ہیں جب اپنے بُتوں سے رنجیدہ، مایوس یا ناراض ہوتے ہیں۔ تیری یاد انھیں اُس وقت آتی ہے جب ان کی خواہشات اور اغراض پوری نہیں ہوتی یا جب اُنھیں اپنے اُن دنیاوی آقاؤں سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے جن کو اُنھوں نے عملاً خُدا کا درجہ دے رکھا ہے۔ اے خدائے بزرگ و برتر! چوںکہ دُنیا والوں نے تجھے چھوڑ کر اپنی خواہشات، اغراض اور حرص و ہوا کو اپنا معبود بنالیا ہے اور اُنھوں نے خدائے واحد کی بندگی کرنے کی بجائے اپنے دُنیاوی آقاؤں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ اس لیے اُن کی ظاہری عبادت کسی کام نہیں آتی۔ نہ ہندوئوں کو ان کی پوجا پاٹ سے کوئی فائدہ ہے نہ مسلمانوں کی نمازیں اُن کے کسی کام آتی ہیں۔ چوں کہ اُن کی حماقت اور جہالت و پسماندگی کی وجہ سے دوسری طاقت ور قومیں اُن پر غالب آگئی ہیں اور وہ محکوم بن گئے ہیں، اس لیے ان کی پُوجا پاٹ اور نمازیں سب بے اثرہوکر رہ گئی ہیں۔ ہندو دن رات مندروں میں پُوجا پاٹ کرتے ہیں اور مسلمان دن رات مسجدوں میں نمازیں پڑھتے ہیں، لیکن یہ پُوجا پاٹ اور نمازیں اُنھیں غلامی اور محکومی سے نجات نہیں دلاسکتیں۔ کیوں کہ حقیقت میں وہ ایک نفسانی خواہشات کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ چناں چہ پُوجا پاٹ اور نمازوں کے باوجود اُن کی غلامی اور محکومی کی زنجیریں روز بروز سخت ہوتی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بچارے صرف آہ و زاری اور نالہ و فریاد کے لیے وقف ہو کر رہ گئے ہیں۔ اے خُدا! اگر چہ انسانوں نے بڑے بڑے شہر بسائے ہیں اور ان شہروں میں مختلف عالی شان عمارتیں آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔ صرف یہی نہیں ان کی رنگینیاں اور رعنائیاں رشکِ جنت معلوم ہوتی ہیں۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہر شہر ایک ویرانہ ہے جو نادانوں یا ظاہر بین آنکھوں کو آباد نظر آتا ہے۔ کیوں کہ ان شہروں میں فلک بوس عمارتوں، رنگینیوں اور رعنائیوں اور دولت کی ریل پیل کے باوجود ہزاروں لوگ ایسے ہیں،جنھیں دو وقت کو روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی، جو بیمار پڑجائیں تو اُن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا اور جو بھُوک کو ٹالنے کے لیے اپنی عزّت و آبرو کا سودا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اے قادرِمُطلق! اس دُنیا میں مزدور کی بدقسمتی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ کتنے ظلم کی بات ہے کہ تیشہ چلا چلا کر، پہاڑوں کا سینہ چیر کر، نہر تو فرہاد کھودتا ہے مگر اس نہر سے سیراب و شاداب صرف پرویز ہوتا ہے اور فرہاد تشنہ لب کا تشنہ لب رہتا ہے۔ سرمائے اور دولت کے ہاتھوں محنت کا یہ استحصال قدیم زمانے سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ پہلے کی طرح آج بھی مزدور فرہاد سرمایہ دار پرویز کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔ اے خُدا! یورپ والوں نے بظاہر علم و حکمت، معیشت و تجارت،سیاست و تمدن کو بے حد فروغ دیا ہے۔ وہ جہاں جہاں گئے ہیں، اُنھوں نے وہاں قسم قسم کے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ مختلف علوم و فنون کے فروغ کے لیے تحقیقات کا وسیع انتظام کیا ہے، تجارت اور صنعت کو ترقی دی ہے اور اس طرح بہ ظاہر اُس ملک کی کایا پلٹ دی ہے جو اُن کے زیرِ نگیں آیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ علم و حکمت کے یہ تمام مراکز، معیشت و تجارت کے یہ تمام سلسلے اور سیاست و تمدن کی یہ تمام ترقیاں اور علوم و فنون کے فروغ اور تحقیقات کی تمام سرگرمیاں سب کی سب اُن کے نظامِ ملوکیت کی تائید اور تقویت کے لیے وقف ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ بندوں کو خدا کی غلامی کی بجائے انسانوں کی غلامی کا درس دیاجائے۔ نہ صرف درس دیا جائے بلکہ اُنھیں اس غلامی کا ایسا عادی اور خوگر بنادیا جائے کہ ان کے دلوں میں آزادی کے حصول کی خواہش اور تڑپ کبھی پیدا ہی نہ ہونے پائے۔ یورپ کا سوداگر جہاں جہاں بھی گیا ہے، اُس نے سوداگری اور تجارت کی آڑ میں ملوکیت کا یہی کھیل کھیلا ہے اور بڑی کامیابی سے کھیلا ہے۔ اے خُدائے کائنات! ان حالات میں، میرا تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ جہنم کا خِطّہ ، جہاں قیامت کے شُعلے بھڑک رہے ہیں،جہاں ہر طرف آگ ہی آگ ہے، جہاں جسم اور روح کے لیے طرح طرح کے مصائب اور قسم قسم کے عذاب ہیں۔ یہ خطہ سوداگرِ یورپ کی غلامی سے آزاد ہے۔ اس جہنم میں ہزاروں مصائب سہی، اس میں سیکڑوں عذاب سہی لیکن اے خُدا! تیرا شکر ہے کہ یہاں غلامی کی لعنت تو نہیں ہے۔ یہاں کے رہنے والے دوزخی ہی سہی، لیکن کم ازکم اتنا تو ہے کہ وہ یورپ کے سوداگروں کی غلامی سے آزاد ہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ کی اس نظم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ غُلامی کی لعنت، دوزخ کی پُر عذاب زندگی سے بھی بدتر ہے۔ اس تمثیلی نظم میں اُنھوں نے ایک دوزخی کی زبان سے اس حقیقت کا اعلان کرایا ہے کہ یورپی اقوام کی سوداگرانہ سیاست نے انسانوں کی زندگی کو تلخ کرکے رکھ دیا ہے، اور اس طرح یہ دُنیا دوزخ سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ یورپ والے جہاں جہاں بھی گئے، سوداگروں اور تاجروں کی بھیس میں گئے اور اسی سوداگری اور تجارت کے پردے میں اُنھوں نے دُنیا کے مختلف ممالک کو اپنا غلام بنایا۔ بہ ظاہر اُنھوں نے ان ملکوں میں تعلیم، صنعت، تجارت، علم وفنون، تہذیب و تمدن کو فروغ دیا۔ نئے نئے شہر بسائے، عالی شان اور فلک بوس عمارتیں تعمیر کیں، لیکن اُن کا یہ سارا سلسلہ ملوکیت کے فروغ کے لیے تھا اور اس سے غرض یہی تھی کہ اپنے زیرِ نگیں ملکوں کے لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بناے رکھیں اور اُن کے ذہنوں کو اس طور سے بدل کر رکھ دیں کہ اُن کے دلوں میں آزادی کے حصول کا کبھی خیال تک نہ آئے اور وہ اپنی غلامانہ زندگی ہی کو اپنے لیے بہتر سمجھیں۔ ان یورپی سوداگروں نے اپنے سرمائے کے زور پر غریب مزدور کا جس طرح خون چُوسا ہے اور اس کی محنت کا جس طرح استحصال کیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالی شان شہروں میں ایک طرف تو دولت کی ریل پیل نظر آتی ہے اور دوسری طرف ہزاروں لاکھوں لوگ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں دم توڑتے نظر آتے ہیں۔ ایک طرف امیروں کے ہاں عیش و عشرت اور راگ رنگ کے ہنگامے ہیں، دوسری طرف سیکڑوں ہزاروں غریبوں کے ہاں چُولھا بھی گرم نہیں ہوتا۔ نہر فرہاد کھودتا ہے اور اس نہر کا پانی پرویز کے تصرّف میں آتا ہے۔ سرمائے کے ہاتھوں محنت کا استحصال کل بھی اسی طرح ہورہا تھا اور آج بھی اسی طرح ہورہا ہے۔ دوزخی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُنیا کا یہ درد ناک نقشہ کھینچتے ہوئے یورپ کے سوداگروں کی عیّاری و مکاری کا پول کھول کر رکھ دیتا ہے اور آخر میں خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ جہنم میںاگر چہ طرح طرح کے عذاب ہیں، لیکن مقامِ شکر ہے کہ یہ آتشں اور پُر عذاب خِطّہ سوداگرِ یورپ کی غلامی سے آزاد ہے۔ یہی وہ سبق ہے جو علاّمہ اقبال نے اس تمثیلی نظم کے ذریعے پیش کیا ہے کہ غلامی کی زندگی دوزخ کی زندگی سے بھی بدتر ہے۔ آوازِ غیب اے مسلمان! عرش بریں سے ہرروز صبح کے وقت آواز آتی ہے، گویا خُدا تُجھ سے دریافت کرتا ہے کہ اے مسلمان! تونے کبھی سوچا بھی ہے کہ تو جو ہرِ ادراک سے محروم کیوں ہوگیا؟ کیا تونے کبھی اُن اسباب وجوہات پر غور بھی کیا ہے جن کے باعث تو علم کی نعمت اور حصولِ علم کی لذت سے بیگانہ ہوگیا؟ کبھی تو نے یہ سوچنے کی زحمت بھی کی کہ تجھ میں علم حاصل کرنے کی تڑپ کیوں نہیں رہی؟ تیرا وہ علمی ذوق و شوق کہاں چلا گیا جس کے لیے تُوکبھی ساری دُنیا میں مشہور تھا؟ اے مسلمان! تیرا نشترِ تحقیق کس طرح کُند ہوگیا؟ کیا بات ہے کہ اب تُو نہ تحقیق و اکتشاف کی طرف مائل ہوتا ہے، نہ کوئی نئی شے ایجاد کرتا ہے؟ تُو نہ کوئی نئی بات دریافت کرتا ہے اور نہ دُنیا کے سامنے کوئی عملی نظریہ پیش کرتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تجھے تو ستاروں کا جگر چاک کرنا چاہیے تھا مگر تُو خاک نشین ہو کر رہ گیا ہے اور ستاروں پر کمندیں دوسرے ڈال رہے ہیں۔ اے مسلمان! ہم نے تو تجھے ظاہری اور باطنی دونوں خلافتیں عطا کی تھیں۔ ہم نے تو تجھے دین اور دُنیا دونوں میں سَروَری کی اہلیت عطا کی تھی۔ ہم نے تجھے ساری کائنات پر حکومت کرنے کے لیے پیدا کیا تھا اور تو ہے کہ ساری کائنات کا غُلام بن کر رہ گیا ہے۔ ہم نے تجھے دُنیا میںشُعلہ بنا کر بھیجا تھا تاکہ تو کُفر اور باطل کے خس و خاشاک کو پھُونک کر رکھ دے لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ وہی شعلہ آج کفر اور باطل کے خس و خاشاک کو جلانے کی بجائے اس کفراور باطل کاغلام بنا ہُوا ہے اور تیرا وہ سر جسے صرف اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہونا چاہیے تھا، کفر اور باطل کی قوتوں کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ اے مسلمان! ہم نے تو تمام کائنات اور کائنات کے تمام مظاہر کو تیرے لیے مسخر کردیا تھا، پھر کیا بات ہے کہ سورج، چاند، ستارے اور دیگر عناصرِکائنات تیرے محکوم نہیں اور تجھے ان پر کوئی قُدرت و اختیار حاصل نہیں۔ کیا بات ہے کہ تیری نگاہوں سے افلاک پر لرزہ طاری نہیں ہوتا؟ سورج، چاند اور ستارے تو بہت دُور ہیں، تیری تو اپنی ہی دنیا میں یہ کیفیت ہے کہ کوئی تجھ سے مرعوب نہیں اور تُو سب سے مرعوب ہے۔ تیری نگاہ کبھی ایک عالم کو زیر وزبر کر ڈالتی تھی اور اس سے افلاک پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ آج تیری یہ کیفیت ہے کہ تو اپنے سے کہیں کم تر اقوام کی غلامی کررہا ہے اور تو ان کے سامنے نگاہیں اُٹھا کر بات بھی نہیں کرسکتا۔ اے مسلمان! اگرچہ تیری رگوں میں اب بھی لہو دوڑ رہا ہے۔ تو کھاتا ہے، پیتا ہے اور زندہ انسانوں کی طرح سارے جسمانی افعال و اعمال بجا لاتا ہے، لیکن یہ تری زندگی انسانوں کی نہیں، حیوانات کی سی زندگی ہے۔ تیرے اندر سے غور فکر اور جرأتِ کردار کی وہ صفات نکل گئی ہیں جو آدمی کو انسان بناتی ہیں اور اُس کی زندگی کو حیوانی زندگی سے ممتاز و ممیز کرتی ہیں۔ تیری سوچوں میں وہ گرمی نہیں رہی جس سے انسان کے اندر عمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ تیرے اندر وہ ولولہ نہیں رہا جو انسان کو جدوجہد پر راغب کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تیرے اندر فکر کی وہ بے باکی اور بے خوفی بھی نہیں رہی جسے کبھی مسلمان کی امتیازی شان کی حیثیت حاصل تھی۔ فکر کی اسی بے باقی اور بے خوفی کی بدولت مسلمان کے اندر اتنی اخلاقی جرأت ہوتی تھی کہ وہ جس بات کو حق سمجھے، بغیر کسی جھجک، ہچکچاہٹ، خوف یا رُو رعایت کے اس کا اظہار کردیتا تھا۔ اس حق گوئی کے سلسلے میں کسی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی مرعوب نہ ہوتا تھا، لیکن تو مسلمان کی اس امتیازی شان سے محروم ہوکر اس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ تیری زندگی اور حیوانوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ اے مسلمان! یاد رکھ، وہ آنکھ جس کی نگاہ پاک نہیں، وہ بہ ظاہر روشن اور بینائی کی مالک ہوتی ہے، بہ ظاہراُسے سب کچھ دکھائی بھی دیتا ہے۔ لیکن سب کچھ دیکھنے کے باوجود وہ آنکھ جہاں بین نہیں ہوتی۔ وہ دُنیا کو دیکھتی تو ہے لیکن دُنیا کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی۔ اس پاک نگاہی کا وصف صرف اُسی شخص کی آنکھ کو حاصل ہوتا ہے جو فقر کی دولت سے مالا مال ہو۔ جس شخص میں فقر کی شان نہیں ہوتی، وہ شخص کبھی اپنی اور اس دُنیا کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کی نگاہیں ظاہر کو دیکھتی ہیں اور ظاہر ہی میں اُلجھ کر رہ جاتی ہیں، لیکن جس شخص میں فقر کی شان ہو، چیزوں کے ظاہر کو دیکھ کر اُن کی باطنی حقیقت کا ادراک کرلیتا ہے۔ اور ایک مسلمان صحیح معنوں میں اُس وقت مسلمان ہوسکتا ہے اور مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکتا ہے جب اُس کی آنکھ کے اندر پاک نگاہی کا یہ وصف موجود ہو کہ وہ چیزوں کے ظاہر سے دھوکا نہ کھائے بلکہ ظاہر کو دیکھتے ہی باطن کا ادراک کرلے۔ اے مسلمان! افسوس کا مقام یہی ہے کہ تُو اس شانِ فقر سے محروم ہو چکا ہے۔ تجھ سے وہ پاکیزگیِ قلب اور آئینہ ضمیری رُخصت ہوچکی ہے، جو صرف مومنانہ زندگی سے پیدا ہوتی ہے۔ افسوس کہ سُلطانی، مُلاّئی اور پیری نے تجھے مار کر رکھ دیا ہے۔ شانِ فقر کے فقدان کے باعث تو ملوکیت، مُلّائیت اور پیر پرستی کی لعنتوں میں گرفتار ہوگیا۔ تونے خدا پرستی کی بجائے سُلطان پرستی، مُلّا پرستی اور پیر پرستی اختیار کرلی۔ بادشاہوں نے تجھے سیاسی طور پر اپنا غلام بنایا۔ ملاّئوں نے ذہنی طور پر تجھے اپنا غلام بنا لیا اور پیروں نے روحانی طور پر تجھے اپنا غلام بنایا۔ اس دوہری تہری غلامی کی لعنت میں گرفتار ہو کر تو مسلمان کی حیثیت سے فنا ہوگیا اور تیری زندگی انسانی شرف و فضیلت کے درجے سے گر کر حیوانی زندگی کی سطح پر آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ تُو مسلمان کہلانے کے باجوود اسلام سے بیگانہ ہے اور اس طرح دُنیا میں برابر ذلیل وخوار ہورہا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس تمثیلی نظم میں عرشِ بریں سے آنے والی آوازِ غیب کے ذریعے مسلمان کی موجودہ پستی اور زوال واد بار کی کیفیت کو استفہامیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ اور پھر اس زوال و ادبار کے اسباب بیان فرماتے ہیں۔ عرش بریں سے آنے والی یہ آوازِ غیب ہر صبح مسلمان سے خطاب کرتی ہے اور اس سے دریافت کرتی ہے کہ اسے مسلمان! تُو جوہرِ ادراک سے کیوں محروم ہوگیا؟ تیری سوچنے سمجھنے اور غور فکر کرنے کی صلاحیتیں سلب کیوں ہوگئیں؟ تو علم اور حصولِ علم سے بیگانہ کیوں ہوگیا؟ تو تحقیق کے میدان سے پیچھے کیوں ہٹ گیا؟ تُونے دنیا اور کائنات کے انکشاف و اکتشاف کے دروازے اپنے اُوپر بند کیوں کرلیے؟ دوسری قومیں ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہیں۔ حالاں کہ قدرت نے ستاروں کا جگر چاک کرنے کی اہلیت سے تجھے نوازاتھا۔ تجھے دین اور دُنیا دونوں میں سربلندی کی اہلیت عطا کی گئی تھی، لیکن تو دین اور دُنیا دونوں کے لحاظ سے ذلیل و رُسوا ہورہا ہے۔ تجھے کائنات پر حکومت کرنے کے لیے پیدا کیا گیاتھا لیکن تو کائنات کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ کبھی تیری نگاہ افلاک کو لرزہ براندام کردیتی تھی لیکن آج تو خود دوسروں کے خوف سے لرزہ براندام رہتا ہے۔ تو بظاہر تو زندہ ہے لیکن تیری زندگی اور حیوانوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا۔ تیرے اندر سے حق گوئی، بے باقی اور جرأت و کردار کی وہ صفات نکل گئی ہیں جو مومن کا طرۂ امتیاز تھیں۔ آوازِ غیب کے ذریعے اس نظم میں علّامہ اقبالؒ نے مسلمان کی موجودہ سراپا زوال کیفیت کا نقشہ کھینچنے کے بعد جس طرح آخری شعر میں اس زوال کے اسباب بیان فرمائے ہیں، وہ گویا کوزے میں دریابندکرنے والی بات ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہنا چاہیے کہ علّامہ اقبالؒؒؒ نے ملّتِ اسلامیہ کے زوال کے اسباب کے بارے میں اپنی تمام عمر کے غورفکر کا نچوڑ پیش کردیا ہے اور وہ نچوڑ اس نظم کے آخری مصرعے میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے ؎ اے کُشتۂ سُلطانی و ملائی و پیری! یعنی علّامہ اقبالؒؒؒ کے نزدیک ملّتِ اسلامیہ کے سیاسی، علمی، اخلاقی اور تمدّنی زوال اور مسلمانوں کے بحیثیت قوم و ملّت فنا ہوجانے کے تین اسباب ہیں۔ (الف )مسلمانوں میں خلافت کی بجائے سُلطانی یعنی ملوکیت اور بادشاہت کا نظام رائج ہوگیا۔ (ب)ملّائوں نے مسلمانوں میں اندھی تقلید کا مرض پیدا کردیا اور اس طرح اُن کی غور فکر اور تدبّر و اجتہاد کی صلاحیتیں زنگ آلود ہوتے ہوتے ختم ہوگئیں۔ (ج)پیروں نے مسلمانوں میں پیر پرستی یا انسان پرستی کا رنگ پیدا کردیا اور وہ خدا کی بجائے پیروں فقیروں کو اپنا ملجا و ماویٰ اور مددگار و حاجت روا سمجھنے لگے۔ یہاں تک کہ اُنھوں نے اپنے پیروں کو کم وبیش خُدا ہی کے مساوی مقام دے ڈالا۔ سُلطانی ملوکیت اور بادشاہت کی بدولت مسلمانوں میں وہ نظامِ حکومت اپنی تمام تر خرابیوں سمیت درآیا جو قیصرو کسریٰ کا نظامِ حکومت اور قرآنی نظامِ حکومت کی عین ضد ہے اور جسے مٹانے ہی کے لیے اسلام آیا تھا۔ اس طرح ملوکیت نے مسلمانوں کو خدا کی بندگی اور خدا کے قانون کی تعمیل کی بجائے بادشاہوں کی بندگی اور ایک انسان یا چند انسانوں کے بناے ہوئے قانون کی تعمیل کی راہ پر ڈال دیا۔ مُلّائوں میں ایسے افراد کی کثرت ہوگئی جو اپنے آپ کو شریعت اور دینِ حق کا اجارہ دار سمجھتے تھے اور اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ ان مُلّائوں نے عام مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بٹھادی کہ شریعت کا علم صرف ہمارے پاس ہے، تم خود کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لیے جو کچھ ہم کہیں، آنکھ بند کرکے اُس پر یقین کرو۔ شریعت پر عمل کرنا چاہتے ہو تو ہماری اطاعت کرو۔ ہم سے اختلاف کروگے تو اسلام سے خارج ہوجائوگے۔ اس طرح اُنھوں نے ایک طرف تو اندھی تقلید کو فروغ دیا۔ دوسری طرف اُن کے دلوں اور دماغوں پر پہرے بٹھا دیے۔ یوں مُلّائوں میں باہمی منافرت کا بازار بھی گرم ہوا اور عام مسلمان ذہنی طور پر ان مُلّائوں کے غلام ہوگئے۔ وہ خود اپنے ذہن سے کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہ رہے اور اُنھوں نے مُلّائوں کی باتوں ہی کو قرآن و حدیث سمجھا۔ ملّاؤں نے تو اپنے آپ کو شریعت کا اجارہ دار سمجھا تھا، پیروں نے عام مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات بٹھادی کہ طریقت کا علم صرف ہمارے پاس ہے۔ تم خود خدا تک نہیں پہنچ سکتے اس لیے خدا سے ملنا چاہتے ہو تو ہماری اطاعت کرو۔ اس طرح مریدوں میں اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی بجائے پیروں کی اطاعت کا جذبہ پروان چڑھا اور ان پر خدا پرستی کی بجائے پیر پرستی کا رنگ غالب آگیا۔ ملوکیت نے مسلمانوں کو بادشاہوں کی بندگی کے راستے پر ڈالا ہی تھا، ملّائوں اور پیروں کی تلقین کا نتیجہ بھی یہ نکلا کہ مسلمان شخصیت پرستی کی لعنت میں گرفتار ہوگیا۔ اس پر شخصیت پرستی کا رنگ جتنا زیادہ چڑھتا گیا، اتنا ہی وہ خدا پرستی سے دور ہوتا گیا۔ مُلّائیت اور پیری بہ ظاہر ملوکیت کے ساتھ لگّا نہیں کھاتیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملّائوں اور پیروں کو یہ موقع صرف ملوکیّت ہی کی بہ دولت حاصل ہو سکا کہ وہ مسلمانوں کو شخصیت پرستی کی لعنت میں مبتلا کردیں کیوں کہ بادشاہوں کی ’’خدائی‘‘ بھی اسی صورت پنپ سکتی ہے جب عوام میں شخصیت پرستی کا رجحان موجود ہو۔ اس لیے اکثر بادشاہ ملّائوں اورپیروں دونوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔ اس طرح علّامہ اقبالؒؒ نے سلطانی ملّائی اور پیری کو مسلمانوں کی موجود پستی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک بادشاہوں نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر اپنا غلام بنایا، ملّائوں نے مسلمانوںکو ذہنی اعتبار سے اپنی غلامی کا اسیر کیا اور پیروں نے روحانی اعتبار سے مسلمانوں کواپنا غلام بنا ڈالا۔ اس غلامی کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمان خلافت و نیابتِ الٰہیہ کے جلیل القدر منصب سے گر کر حیوانات کی سطح پر آگیا۔ اب اس کی زندگی اور حیوانات کی زندگی میں معناً کوئی فرق نہیں رہا ہے۔ واعظ اور کافر ز دوزخ واعظ کافر گرے گُفت حدیثے خوشتر ازوئے کافرے گُفت ندا نہ آں غلام احوالِ خُودرا کہ دوزخ را مقامِ دیگرے گُفت ایک روز ایک واعظ نے جو لوگوں کو کافر بنانے کے فن میں ماہر تھا اور دوسروں پر کفر کے فتوے لگاتا رہتا تھا، اپنے وعظ کے دوران میں دوزخ کا بیان کیا۔ اس نے دوزخ اور اس کے عذاب کا بڑاخوف ناک نقشہ کھینچا اور اپنا وعظ اس بات پر ختم کیا کہ آخرت میں کافروں کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا۔ اتقاق سے ایک کافر بھی اس واعظ کی مجلس میں موجود تھا واعظ کی بات سن کر اس نے ایک ایسی بات کہی جو واعظ کی بات سے کہیں زیادہ اچھی،معقول اور دل کو لگنے والی تھی۔ اس نے کہا: ’’جو شخص دوسروں کا غلام ہو اور دوزخ کو دوسروں کا ٹھکانا بتائے، اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ وہ پرلے درجے کا بے قوف ہے۔ کیوں کہ وہ خود اپنی حالت سے آگاہ نہیں ہے۔ بھلا کوئی دوزخ غلامی سے بدتر بھی ہوسکتی ہے؟‘‘ اس رباعی میں علّامہ اقبالؒؒ نے اُن واعظوں پر طنز کیا ہے، جو اٹھتے بیٹھتے دوسروں پر کفر کے فتوے جڑتے رہتے ہیں اور کافروں کو دوزخ کا ایندھن قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ وہ خود غلام ہیں اور نہیں جانتے کہ غلامی کی زندگی دوزخ کے عذاب سے بھی بدتر ہے اور جو مسلمان مسلمان ہونے کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی غلامی پر رضامند ہو، وہ کافروںسے بھی گیا گزرا ہے۔ علّامہ اقبالؒ نے یہی بات اپنی دو نظموں عالمِ برزخ اور دوزخی کی مناجات میں ایک دوسرے انداز میں کہی ہے۔ عالمِ برزخ میں انھوں نے بتایا ہے کہ جو لوگ زندگی میں غلامی کی لعنت میں گرفتار اور اس پر راضی ہوتے ہیں اور اس طرح اپنی خودی کو ذلیل کرتے ہوئے ایک طرح سے مار ڈالتے ہیں۔ وہ خود بھی بہ ظاہر زندہ ہونے کے باوجود جیتے جی مر کر دوبارہ زندہ ہونے کی صلاحیتوں کو فنا کر ڈالتے ہیں۔ ان کے نزدیک غلامی اتنی بڑی لعنت ہے کہ قبر بھی غلام کی میت سے نفرت کرتی اور اس کے ناپاک وجودہ سے پناہ مانگتی ہے۔ دوزخی کی مناجات میں بھی علّامہ اقبالؒؒ نے یہی بتایا ہے کہ غلامی کی لعنت دوزخ کی پُر عذاب زندگی سے بھی بدتر ہے۔ وہ ایک دوزخی کی زبان سے اس حقیقت کا اعلان کراتے ہیں کہ جہنم میں اگر چہ طرح طرح کے عذاب ہیں۔ لیکن مقامِ شکر ہے کہ یہ آتشیں اور پُر عذاب خطہ سوداگرِ یورپ کی غلامی سے آزاد ہے۔ مریدِپختہ کار ایک شخص ایک پیر کا مرید تھا اور حسنِ اتفاق سے خاصا پڑھا لکھا اور سمجھ دار ہونے کے علاوہ صحیح اسلامی تعلیمات سے آگاہ بھی تھا۔ چناںچہ وہ آنکھیں بند کرکے پیر صاحب کی اطاعت کرنے کی بجائے کبھی کبھی اُن کی کسی بات پر اعتراض کردیا کرتا تھا۔ ایک بار اس مرید نے اپنے پیر سے کہا۔ ’’یا پیرو مرشد! میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ اپنے بزرگوں کے مزاروں پر مُجاور بن کر بیٹھتے ہیں اور اس طرح اپنے بزرگوں کی ہڈیاں بیچ کر قبروں کی آمدنی کو اپنی روزی کا ذریعہ بناتے ہیں، وہ روحانی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ اُن کا قبروں کی آمدنی پر گزارا کرنا اخلاقی اعتبار سے انتہائی ذلّت آمیز ہے۔ اس طرح تو وہ ایسی ذلّت کی زندگی بسر کرتے ہیں جس میں وہ ایک بار عزت آبرو سے مرنے کی بجائے ہر روز بلکہ ایک ایک دن میں کئی کئی بار مرتے ہیں۔ اُن کا یہ ایک ایک دن میں کئی کئی بار مرنا اصل موت سے کہیں زیادہ درد ناک اور عبرت انگیز ہے۔‘‘ علاّمہ اقبال نے اس رُباعی میں یہ بتایا ہے کہ ایک مسلمان کے شایانِ شان یہی ہے کہ وہ اپنی روزی زورِ بازو سے حاصل کرے۔ جو حضرات اپنے بزرگوں کی قبروں کے مجاور بن کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان قبروں سے حاصل ہونے والے نذرانوں چڑھاووں وغیرہ کو اپنی روزی کا ذریعہ بنالیتے ہیں، وہ روزی اُن کے تو کیا، کسی مسلمان کے بھی شایان شان نہیں۔ کیوںکہ ہاتھ پائوں ہلا ئے بغیر جو روزی حاصل ہوتی ہے، وہ جسم کو کاہل، سست اور آرام طلب بنادیتی ہے۔ اُس مفت خوری سے اگرچہ اُن کا جسم خوب توانا ہوجائے لیکن اُن روح مرجاتی ہے۔ــ اس سے ملتی جُلتی بات علّامہ اقبالؒ ؒ نے اپنی نظم ’’باغی مرید‘‘ میں کہی ہے کہ پیروں کی بداعمالیاں دیکھ کر اُن کے مرید ارادت اور عقیدت سے دست کش ہونے لگے ہیں۔ اس نظم میں ایک مرید اپنے پیر کے بارے میں ’’باغیانہ‘‘ قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم لوگوں کو تو مٹی کا دیا بھی میسر نہیں اور پیر کے گھر میں بجلی کے چراغ جل رہے ہیں۔ مسلمان پیروں کو کعبے کے بُتوں کی طرح پوجتا ہے اور یہ پیر ہم مریدوں سے نذرانے بالکل اس طرح وصول کرتے ہیں جس طرح کوئی ساہوکار یا مہاجن اپنی مقروض اسامی سے قرض کا سُود وصول کرتا ہے۔ حیرانی تو اس بات کی ہے کہ یہ پیر جن بزرگوں کے مزاروں پر مجاور بنے بیٹھے ہیں، اُن بزرگوں کے بلند پایہ کردار سے اِن کے کردار کو کوئی نسبت ہی نہیں۔ گویا عقابوں کے ٹھکانوں پر کوّوں نے قبضہ کررکھاہے۔ پیرِ خرقہ باز ایک دن ایک خرقہ باز اور پیشہ ور پیر نے جس کی پیری محض ایک ڈھونگ اور ڈھکوسلا تھی، اپنے بیٹے کو اپنے پیشے کے اسرار و رموز اور دائو پیچ سمجھاتے ہوئے کہا: ’’اے جانِ پدر! میں تمھیں ایک بڑے کام کی بات بتاتا ہوں۔ اس نکتے کو تمھیں جان سے بھی زیادہ عزیز رکھنا چاہیے اور تم اس پر عمل کروگے تو تمھارے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ اگر تم اس دور میں اپنے پیری مُریدی کے کاروبار کو فروغ دینا چاہتے ہو، اگر تم اپنی زمینیں، جاگیریں، مال اموال، ٹھاٹھ باٹ اور خود اپنی گدّی کو قائم اور محفوظ رکھنا چاہتے ہو تو تمھیں اس دور کے نمرود صفت حکمرانوں سے راہ و رسم رکھنی چاہیے۔ تم ان حکمرانوں سے راہ و رسم رکھوگے تو نہ صرف تمھاری گدّی اور اس سے وابستہ جاگیریں محفوظ رہیں گی، بلکہ ان حکمرانوں کی حمایت کی بدولت تمھارے پیری مریدی کے سلسلے اور کاروبار کو مزید فروغ ملے گا۔ پھر اگر تم چاہو تو وقت کے ان نمرودوں کی تائید و حمایت کے ذریعے ’’براہیمی‘‘ بھی کرسکتے ہو، یعنی جس طرح نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بھڑکتی آگ میں ڈالا تھا اور آگ اُن کے لیے گلزار بن گئی تھی، اس طرح کا کرشمہ وقت کے ان نمرودوں کی درپردہ تائید و حمایت کی بدولت تم بھی دکھا سکتے ہو۔ اس طرح نہ صرف تمھاری پیری کے درجات ومقامات بلند ہوسکتے ہیں بلکہ تم مسلمانوں کے مذہبی پیشوا بھی بن سکتے ہو۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس رُباعی میں ایک ڈھکوسلے باز پیر کی زبانی اُس کے پیری مریدی کے ڈھونگ کا راز فاش کیا ہے۔ ’’مرید پختۂ کار‘‘ میں تو مُرید نے اپنے پیر سے صرف اتنی بات کہی تھی کہ جو لوگ اپنے بزرگوں کے مزاروں پر مجاور بن کر بیٹھتے ہیں اور اپنے بزرگوں کی ہڈیوں کو بیچ کر قبروں کی آمدنی کو اپنی روزی کا ذریعہ بناتے ہیں، وہ ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں کیوں کہ اس طرح کی مفت خوری سے اُن کی رُوح مرجاتی ہے۔ مگر یہاں ایک پیشہ ور پیر خود اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ اور خرقہ باز پیری کے ڈھول کا پول کھولتا ہے اگر تم اپنے کاروبار کو چمکانا اور فروغ دینا چاہتے ہو تو صاحبانِ اقتدار سے بنا کر رکھو۔ وقت کے ان نمرودوں سے تمھاری بنی رہے گی تو تم بھولے بھالے مسلمانوں کے سامنے براہیمی جیسے کئی تماشے دکھا سکتے ہو اور اس طرح اُن کی مذہبی قیادت کا منصب بھی تمھارے ہاتھ آسکتا ہے۔ ایسے ہی پیشہ ور پیروں کی وجہ سے علّامہ اقبالؒ ؒ نے ’’آوازِ غیب‘‘ میں ملوکیت اور مُلّائیت کے ساتھ ساتھ پیری یا پیر پرستی کو بھی ملتِ اسلامیہ کے زوال و ادبار کا سبب ٹھہرایا ہے۔ دخترانِ ملّت اے بیٹی! دلبری اور دل رُبائی کے یہ سوقیانہ انداز ترک کردے کیوں کہ بے جا آزادی کے اور بے باکی کے یہ طور طریقے ایک مسلمان لڑکی کو زیب نہیں دیتے۔ تُو اس حُسن و جمال کی طرف مائل مت ہو جس کا سارا انحصار غازہ اور پوڈر پر ہے، بلکہ تُجھے تو نگاہوں سے دلوں کی تسخیر کا ہُنر سیکھنا چاہیے۔ تُجھے اپنی سیرت کو اس قدر دل کش بنالینا چاہیے کہ ہر دیکھنے والا تیری عِفّت اور پاکیزگی کا معترف ہوجائے۔ اے بیٹی! اس میں شک نہیں کہ تری نگاہ ایک شمشیرِ خُدا داد کی حیثیت رکھتی ہے اور تیری شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے ایک فطری دل کشی بخشی ہے۔ تیری اسی شمشیرِ خداداد کی بہ دولت ہمیں حق تعالیٰ کی طرف سے جان ودیعت ہوئی ہے کیوں کہ تیری شخصیت کی فطری دل کشی اور قدرتی کشش کی وجہ سے ہی نسلِ انسانی کا سلسلہ قائم ہے، لیکن سچّے اور کھرے دل کو وہی پاکیزہ شخصیت مسحور کرتی ہے جس نے اپنی شمشیر کو شرم و حیا سے آب دی ہو۔ حکمائے اخلاق کی نگاہ میں وہی عورت احترام کے لائق ٹھہرتی ہے جس کی نگاہوں کو شرم و حیا نے زینت دی ہو۔ عاقلوں کے نزدیک وہی عورت صحیح معنوں میں عزت کی مستحق ہے جو با حیا ہو۔ اے بیٹی! موجودہ زمانے کا ضمیر سب پر عیاں ہے۔ اس زمانے کی خصوصیت اور ماہیت بالکل واضح ہوچکی ہے کہ یہ دور مادّہ پرستی اور ظاہربینی کا دور ہے۔ دُنیا ظاہری حُسن پر مرتی ہے۔ لوگ ظاہر پرستی میں مُبتلا ہیں اور ظاہری آب و تاب پر جان دیتے ہیں۔ آب و رنگ کی مصنوعی کشش اُن کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ میں اس دورِظاہر پرستی میں تجھے ایک مشورہ دیتا ہوں کہ اگر تُو دُنیا میں چمکنا ہی چاہتی ہے تو جہاں تابی کا اندازِ نُورِ حق سیکھ لے۔ دیکھ اللہ تعالیٰ کا نُور اس دُنیا میں ہر جگہ جلوہ گر ہے، لیکن اپنی سیکڑوں بلکہ ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں تجلیات کے باوجود وہ حجاب میں ہے۔ خدا کی ذات دُنیا میں ہرجگہ جلوہ نُما ہونے کے باوجود بھی پردے میں ہے اور ایسے پردے میں ہے کہ آج تک کسی نے اُسے نہیں دیکھا۔ پس اگر تجھے اپنے ظہور اور نمود کی آرزو ہے تو اپنے جسم، لباس اور ظاہری زیب و زینت کی بجائے تجھے اپنی پاکیزگیِ سیرت و کردار کی نمائش کرنی چاہیے۔ اے بیٹی! اس دُنیا کی بقا اور اُستواری عورتوں پر موقوف ہے۔ عورتوں ہی کی بہ دولت اس دنیا کا نظام محکم اور قائم ہے۔ کیوں کہ اُن کی فطرت ممکنات کی امین اور راز دار ہے۔ اُن کی فطرت ہی میں آئندہ انسانی نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورتوں کے اخلاق اچھے ہوں اور اُن میں پاکیزگی و عفّت کے جوہر برقرار و موجود ہوں تو وہ اپنی اولاد کی تربیت صحیح طریقے پر کرسکتی ہیں۔ اگر کوئی قوم اس اہم حقیقت سے بے خبر ہو یا غافل ہوجائے تو اُس کے کاروبارِ زندگی کا نظام بے ثبات ہوجاتا ہے۔ ایسی قوم کی عُمرانی و معاشرتی زندگی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے۔ کیوں کہ نسلِ انسانی کی زندگی عورتوں کی سیرت کی پختگی و پاکیزگی ہی پر موقوف ہے۔ اے بیٹی! میرے اندر اسلام اور ملّت سے محبت کا یہ جذبہ میری پاک طینت ماں ہی نے پیدا کیا تھا۔ آنکھ اور دل کی یہ دولت مدرسوں اور درس گاہوں سے حاصل نہیں ہوتی لیکن موجودہ دور کی درس گاہوں اور تعلیمی اداروں کی حیثیت سحر وافسوں یا جادو منتر کے کھیل سے زیادہ نہیں۔ ان درسگاہوں میں تعلیم پانے والے تو اپنی عقل اور اپنے ایمان دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اے بیٹی! بلاشبہ وہ قوم بہت ہی مبارک ہے جس کی جدوجہد سے اس کائنات میں قیامت جیسے ہنگامے برپا ہوسکیں لیکن یہ بات کسی قوم کو یوں ہی اور بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہوجاتی۔ یہ تو اس قوم کی عورتوں کی پاکیزگیِ سیرت و کردار پر منحصر ہے۔ کسی قوم نے ماضی میں کیسی شان دار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور مستقبل میں وہ کیسی کیسی کامیابیاں حاصل کرے گی، ان ساری باتوں کی اُس قوم کی عورتوں کی پیشانی کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے، یعنی جیسی عورتیں ہوںگی ویسی ہی قوم ہوگی۔ اے بیٹی! تو اگر مجھ درویش کی ایک نصیحت مان لے تو چاہے قوموں کی قومیں اور اُمتوں کی اُمتیںتباہ ہوجائیں لیکن تُو اور تیری قوم تباہ نہیں ہوسکے گی۔ اور وہ نصیحت یہ ہے کہ تو حضرتِ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تقلید کر اور اس مادّہ پرست دور اور ہوا و ہوس پرست انسانوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہو جا۔ جب تو فاطمۃ الزہرا ؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو اس ہوس پرست زمانے کی نگاہوں سے پوشیدہ کرلے گی تو تب ہی شہیدِ کربلا حضرت شبیرؓ جیسے فرزندوں کی ماں بن سکے گی۔ سو اے بیٹی! تو فاطمہؓ بن کر اس زمانے کی نگاہوں سے چھُپ جا تاکہ تیری آغوش میں حُسینؓ جیسا فرزند پرورش پاسکے۔ اے بیٹی! تو مسلمان ہو کر قوم کی کایا پلٹ دے اور اس کی تاریک شام کو روشن صبح میں بدل دے۔ تُو قوم کی زبوں حالی کا خاتمہ کردے اور اس کی صورت یہی ہے کہ اہلِ نظرکو پھر قرآن سُنا۔ خود بھی قرآن پڑھ اور اپنے بچوں کو بھی قرآن پڑھا۔ تو جانتی ہے کہ تیری قرأت کے سوز نے عمرؓ ابن خطاب کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا تھا اور وہ عمر جو شمشیرِ برہنہ ہاتھ میں لے کر داعیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا سر قلم کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا تھا، تیری زبان سے قرآن سُن کر اُس کی کیفیت ہی بدل گئی تھی۔ تیری قرأت کے سوز نے اُس عمر ابنِ خطاب کو فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنادیا تھا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے ان آٹھ رباعیوں میں دُخترانِ ملّت یعنی مسلمان لڑکیوں سے خطاب کیا ہے۔ اُنھیں یہ تلقین کی ہے کہ وہ دلبری اور دل ربائی کے کافرانہ طور طریق چھوڑ کر وہ شرم و حیا اختیار کریں جسے اسلام نے عورت کی فطرت کی حقیقی دل کشی قرار دیا ہے اور جس کی بہ دولت عورت کو صحیح معنوں میں عزّت و احترام کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒ ؒ مسلمان لڑکیوں کو دورِ حاضر کی ظاہر پرستی اور مصنوعی آب و تاب سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسلمان لڑکی کو دنیا میں چمکنا ہی ہے تو اس کا طریقہ حق تعالیٰ کے نُور سے سیکھنا چاہیے کہ حق تعالیٰ کا نُور صد ہا تجلیوں میں جلوہ گر ہونے کے باوجود حجاب اور پردے میں ہے۔ چناں چہ مسلمان لڑکی کو بھی جسم، لباس اور ظاہری زیب و زینت کی نمائش کی بجائے اپنی پاکیزگیِ سیرت اور اعلیٰ کردار کی نمائش کرنی چاہیے۔ علّامہ اقبالؒ ؒ مسلمان لڑکیوں کو اُن کا حقیقی مقام اور اُن کے اصل فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اُنھیں دنیا میں عورت کے مقام سے آگاہ کرتے ہیں کہ عورتوں ہی کی بہ دولت دُنیا کا نظام محکم اور قائم ہے اور عورتوں ہی کے ذریعے نسلِ انسانی کا سلسلہ چلتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ عورت ہی آئندہ انسانی نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہوتی ہے، اس لیے اگر عورت میں پاکیزگی اور عِفّت کے جوہر موجود ہوں تبھی وہ اپنی اولاد کی تربیت صحیح طریقے سے کرسکتی ہے اور جو قوم عورت کے اس مقام سے بے خبر یا غافل ہوجائے، اُس کی زندگی کا سارا کاروبار تہ و بالا ہوجاتا ہے۔ مُسلمان لڑکیوں کو اُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے علّامہ اقبالؒ ؒ خود اپنی مثال پیش کرتے ہیں کہ میرے اندر اسلام اور ملّت سے محبت کا جذبہ میری نیک طینت ماں ہی نے پیدا کیا تھا۔ یہ جذبہ مجھے کسی مدرسے یا درس گاہ سے نہیں ملا تھا۔ اور تمھیں یہ جذبہ کسی مدرسے یا درس گاہ سے نہیں، اپنی نیک فطرت مائوں ہی سے مل سکتا ہے۔ مکتب اور درس گاہوں کی تعلیم تو محض ایک ڈھونگ ہے، جہاں سے طالب علم کچھ حاصل تو کرنہیں پاتا، اُلٹا اپنی عقل اور اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اس لحاظ سے مسلمان نوجوان کی صحیح اور حقیقی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے اور یہ تربیت تبھی صحیح ہوسکتی ہے جب ماں نیک سیرت، پختہ کردار اور پاکیزہ اطوار کی مالک ہو۔ علاّمہ اقبالؒ مسلمان لڑکیوں کو اُن کے مقام کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی بھی قوم کے ماضی، حال اور مستقبل کو اس قوم کی عورت کے کردار کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جیسی عورتوں کی سیرت ہوگی ویسی ہی اُس قوم کی سیرت ہوگی۔ جیسا عورتوں کا کردار ہوگا۔ ویسا ہی اُس قوم کا کردار ہوگا۔ علّامہ اقبالؒ ؒ دُخترانِ ملّت کو اُن کے مقام سے آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے بیٹی! اگر تو مجھ درویش کی ایک نصیحت مان لے تو پھر تُو کبھی فنا نہیں ہو سکے گی اور وہ نصیحت یہ ہے کہ تو حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مانند موجودہ زمانے کی نگاہوں میں پوشیدہ ہوجا، تاکہ تو امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر فرزند کی ماں بن سکے۔ تو اپنی قوم کو شہیدِ کربلا جیسا بیٹا اُس وقت دے سکتی ہے، جب تو خود شہیدِ کربلا کی ماں کی تقلید کو اپنا اصولِ زندگی بنا لے، تو بتولؓ بن جائے گی تو تیری آغوش میں شبیر ؓ جیسا بیٹا بھی آسکے گا۔ آخر میں علّامہ اقبالؒؒ مسلمان لڑکیوں کو ان کی اہمیت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے بیٹی! اُٹھ اور قوم کی اندھیری رات کو دن کے اُجالے میں بدل دے۔ قرآن کا دامن تھام اور اپنی قوم کو قرآن سُنا۔ یہ بات کہتے ہوئے علّامہ اقبالؒؒ حضرتِ عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے بیٹی! تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تیرا قرآن سُنانا کس درجہ اثر رکھتا ہے۔ تیری قرأت کے سوز نے تو عمر ابنِ خطاب کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا تھا، اور وہ عمر جو شمشیرِ برہنہ لے کر گھر سے اس لیے نکلا تھا کہ اسلام کے ’’فتنے‘‘ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردے، تیری زبان سے قُرآن سُن کر خود اسلام کا حلقہ بگوش ہوگیا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ تاریخِ اسلام کا ایک روشن باب اور اپنی جگہ ایک ایمان افروز واقعہ ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت قریش کے دوسرے سرداروں کی طرح حضرت عمرؓ بھی اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے۔ اسلام اُن کی نگاہ میں سب سے بڑا جرم تھا۔ جو شخص اسلام قبول کرتا، حضرت عمرؓ اس کے دُشمن ہوجاتے تھے اور اس کو ہرامکانی اذیت پہنچانے میں دریغ نہ کرتے۔ اُن کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ اُس کو بے تحاشا مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے کہ ذرا دم لے لُوں پھر ماروں گا۔ اُس کنیز کے علاوہ اور جس جس پر بس چلتا تھا، اُسے زد و کوب کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان سختیوں کے باوجود وہ ایک شخص کو بھی اسلام سے بد دل نہ کرسکے، اس پر اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ (نعوذباللہ )خود بانیِ اسلام کا قِصّہ پاک کردیں۔ یہ سوچتے ہوئے تلوار لی اور سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیے۔ حضرت عمرؓ تلوار لیے گھر سے نکلے تو راستے میں بنی زہرہ کا ایک شخص نعیم بن عبداللہ ملا اور اُس نے سوال کیا: ’’اے عمر! اس شان سے آج کہاں کے ارادے ہیں؟‘‘حضرت عمرؓ نے جواب دیا: ’’آج محمد کا قِصّہ (نعوذ باللہ ) ختم کرنے جارہا ہوں۔‘‘ نعیم بن عبداللہ نے کہا۔ ’’پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمھاری بہن اور بہنوئی دونوں محمدؐ پر ایمان لاچکے ہیں۔‘‘ حضرت عُمرؓ اتنا سُنتے ہی آگ بگولا ہوگئے اور سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ اُس وقت وہ دونوں میاں بیوی حضرت خبّابؓ سے قرآن پڑھ رہے تھے۔ انھو ں نے حضرت عمرؓ کو آتے دیکھا تو پردے کے پیچھے چھپ گئے۔ حضرت عمرؓ بہن کے دروازے پر دستک دینے ہی والے تھے کہ ان کے کانوں میں اللہ کے کلام کی آواز پڑی۔ یہ آواز حضرت عمرؓ کی بہن کی تھی جو اُس وقت سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات کی تلاوت کررہی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے دستک دی تو بہن نے کلام اللہ کے اجزا چھپادیے اور پھر جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ نے بہن سے پوچھا کہ تم ابھی کیا پڑھ رہی تھیں؟ بہن نے کہا کہ کچھ نہیں تو حضرت عمرؓ بولے کہ نہیں میں سُن چکا ہوں کہ تم دونوں اپنے آبائی دین کو چھوڑ بیٹھے ہو۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی وہ اپنے بہنوئی سے دست و گریبان ہوگئے۔ بہن نے شوہر کو بچانے کی کوشش کی تو حضرت عمرؓ نے دونوں کو مار مار کر لہو لُہان کردیا۔ اس پر بہن نے کہا کہ اے عمرؓ خواہ تم ہمیں جان سے مار دو، اب اسلام ہمارے دلوں سے نہیں نکل سکتا۔ بہن اور بہنوئی کا استقلال دیکھ کر حضرت عمرؓ کا دل بھی پسیج گیا۔ وہ آب دیدہ ہوگئے اور ذرا توقف کے بعد کہنے لگے کہ تم جو کچھ پڑھ رہی تھیں، مجھے بھی سنائو۔ بہن نے کہا کہ پہلے باوضو ہوجائو۔ حضرت عمرؓ نے وضو کیا تب بہن نے قرآن کے اجزا لاکر سامنے رکھ دیئے اور پڑھنا شروع کیا۔ سَبَّحَ لِلّٰہِ مَافِیْ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیْمُ کلامِ الہٰی کا ایک ایک لفظ حضرت عمرؓ کے دل میں اُترتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ جب ان کی بہن اس آیت پر پہنچیں، اٰمِنُو بِِاللّٰہِ وَ رَسُولِہٖ تو حضرت عمر ؓ بے اختیار پُکار اُٹھے : اَشْھَدُاَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ و اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ یہ سُنتے ہی حضرت خبّابؓ پردے سے باہر نکل آئے اور اُنھیں مبارک باد دی۔ آن کی آن میں بہن کی قرأت نے حضرتؓ عمرکی تقدیر بد ل دی تھی۔ اب انھوں نے پوچھا۔ ’’مجھے بتائو حضور کہا ں ہیں؟‘‘ یہ وہ زمانہ تھا جب حضور سرورِ کائنات صلی اللہ عیلہ وسلم کوہِ صفا کے دامن میں واقع حضرت ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان میں پناہ گزین تھے۔ حضرت عمرؓ بہن کے گھر سے سیدھے یہاں تشریف لائے اور آستانۂ مبارک پر دستک دی۔ چوں کہ ننگی تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی، اس لیے صحابہ کو تردد ہوا۔ لیکن امیر حمزہؓ بولے۔ ’’آنے دو! اگر نیک نیتی سے آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اُسی کی تلوار سے اُس کا سر قلم کردیا جائے گا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا دامن پکڑ کر پُوچھا۔ ’’عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟‘‘ حضورؐ کی آواز سنتے ہی حضرت عمرؓ پر کپکپی طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ اُنھوں نے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ! ایمان لانے کے لیے۔ حضورؐ بے ساختہ پکار اُٹھے: ’’اللہ اکبر!‘‘ اور حضور کے ساتھ ہی سب صحابہ نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا کہ تمام پہاڑیاں گونج اُٹھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کے بعد مسلمانوں نے پہلی مرتبہ اعلانیہ طور پر بیت اللہ میں نماز پڑھی اور اس طرح حضرتؓ کے ایمان لانے سے اسلام کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلا م کا یہ ایمان افروز واقعہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق اور فردوسیِ اسلام جناب حفیظ جالندھری نے شاہنامۂ اسلام، جلد اوّل میں جس ولولہ انگیز انداز میں پیش کیا ہے، وہ اپنی جگہ خاصے کی چیز ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے مسلمان لڑکیوں کو اُن کے مقام و مرتبہ سے آشنا کرانے کے لیے اُنھیں اسی ایمان افروز واقعہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اے بیٹی! تیری قرأت کے سوز نے تو عمرؓ کی تقدیرکو بدل کر رکھ دیا تھا، اس لیے تُو ایک بار پھر قرآن کا دامن تھام،قوم کو قرآن سنا اور قوم کی تقدیر بدل ڈال، یہ کام تو اور صرف تو ہی کرسکتی ہے۔ تیرے فیضِ تربیت ہی سے مسلمان قوم کی اندھیری رات دن کے اجالے میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ برہمن اے مسلمان! تو نے برہمن کا شریکِ سفر ہوکر اپنے اور اپنی قوم کے حق میں سیکڑوں مصیبتوں اور فتنوں کا دروازہ کھول دیا۔ برہمن کی قوم تو اس سفر میں تجھ سے بہت آگے تھی۔ نیتجہ یہ نکلا کہ تو دو قدم چلا اور معذور ہوکر رہ گیا۔ اے مسلمان کس قدر عبرت کامقام ہے کہ برہمن نے تو اپنے بتوں سے اپنے طاق کوآراستہ کرلیا۔ اس نے اپنی مردہ زبان، مردہ تہذیب اور مردہ طرزِ معاشرت کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی قوم میں مذہبی بیداری پیدا کر ڈالی۔ لیکن تیرا طرزِعمل یہ ہے کہ تو نے قران کو بالائے طاق رکھ دیا۔ تو نے قران حکیم سے اپنا تعلق توڑکر ہندوئوںسے اپنا تعلق جوڑلیا اور تو اپنے مذہب کے مسلّمہ عقائد سے منہ پھیرتے ہوئے ہندوئوںکے عقائد کی تبلیغ کرنے لگا۔ برہمن اگرچہ کافر ہے۔ لیکن میں اسے بے کار یا ناکارہ نہیں کہتا۔ کیوں کہ وہ تو اپنے عقائد کے مطابق برابر جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنی مسلسل سعی سے بھاری پتھروں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا رہتا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ جب تک بازوئوں میں زور اور قوت موجودنہ ہو، کوئی شخص پتھر سے اپنا معبود نہیں تراش سکتا۔ چوں کہ برہمن اپنے مقصود کے لیے جدو جہد کرسکتا ہے اور کرتا ہے، اس لیے بت پرستی کی غلط رسم کے باوجود برہمن اس لحاظ سے قابلِ تعریف ہے کہ وہ پتھر سے اپنا خدا تراشنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور اپنے معبودوں کووجود میں لانے کے لیے بھاری پتھروں کو توڑڈالتا ہے۔ اے مسلمان! جان لے کہ برہمن بے حد عیّار اور چالاک واقع ہوا ہے۔ وہ تیرے ساتھ لاکھ گھل مل جائے۔ وہ چاہے اٹھتے بیٹھتے تیری محبت، دوستی اور رفاقت کا دم بھرتا رہے۔ لیکن وہ اپنا کام اور اپنے مقصد سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف ہر لحظہ اپنے مقاصد کو ہر وقت پیشِ نظر رکھتاہے۔ بلکہ ان مقاصد سے کسی کو آگاہ بھی نہیں کرتا۔ کوئی ساری عمر بھی اس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہے تب بھی نہیں جا ن سکتا کہ اس کے دل میں کیاہے۔ کوئی اس کا رفیق اور ساتھی ہی کیوںنہ ہو، برہمن اپنے دل کے راز اس سے پوشیدہ رکھتا ہے۔ چاہے کسی شخص پر اس کو انتہائی بھروسا ہو، پھر بھی اس سے اپنے دل کی بات نہیں کہتا۔ اس غیر معمولی احتیاط اور راز داری کے ساتھ ساتھ وہ غضب کا عیّار اورچالاک بھی واقع ہوا ہے۔ اسی کی چالاکی اور عیّاری تو دیکھ! وہ مجھ سے تو یہ کہتاہے کہ تم تسبیح سے قطع تعلق کرلو۔ لیکن اپنے کاندھے پر زُنّار اسی طرح ڈالے رہتا ہے۔ وہ مجھے تو یہ تلقین کرتا ہے کہ مذہبی تنگ نظری چھوڑکر آزاد خیالی کی روش اپنائولیکن خود اپنی مذہبی تنگ نظری کا دامن نہیں چھوڑتا۔ وہ مجھے تو اسلام کے اصولوں سے الگ ہو کرروشن خیال بننے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن خود اپنے ہندومذہب کے چھوٹے چھوٹے اصول سے بھی دست بردار نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ سُوت کا وہ ڈورا جسے وہ کاند ھے پر اور کمر میں اَڑاڈالے رہتا ہے اور جسے جنیو یا زُنّارکہا جاتا ہے، اسے بھی وہ کسی وقت اپنے تن سے جدا کرنے پر تیّار نہیں ہوتا۔ برہمن کی چالاکی اور عیّاری صرف اتنی ہی نہیںہے۔ وہ تو چالاکی اور عیّاری میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس عیّاری کا ایک ادنیٰ سا کرشمہ یہ ہے کہ اس نے مسلمان سے کہا کہ اے مسلمان تجھے غیر کے درسے کچھ حاصل نہ ہوسکے گا۔ تجھے غیر کی بجائے اپنوں سے دوستی قائم کرنی چاہیے۔ ہم سے تجھے کوئی نقصان نہیںپہنچ سکتا۔ کیوں کہ ہم تیرے پرانے خیر خواہ ہیں۔ ہم اورتم دونوں ہم وطن ہیں۔ ایک ہم وطن اپنے دوسرے ہم وطن کے لیے سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں چاہتا۔ برہمن کی اس عیّاری کے مقابلے میں مسلمان کی سادگی ملاحظہ ہو کہ وہ برہمن کے اس جال میں پھنس گیا۔ چناں چہ یوں تو دو مولوی ایک مسجد میں نہیں رہ سکتے۔ جس طرح دو تلواریں ایک نیام میں نہیںرہ سکتیں۔ مگر ہندوئوں کے جادو نے یہ کرشمہ کردکھایا ہے کہ ایک بت خانے میں دو مولوی بڑے مزے سے رہ رہے ہیں اور آپس میں بالکل نہیں لڑتے۔ حالاں کہ یہی مولوی مسجد میں ہوں تو ایک دوسرے پر کفرکے فتوے لگاتے رہتے ہیں اور ان میں سے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو بھی تیار نہیں ہوتا۔ برہمن کے عنوان کے تحت ان چار رباعیوں علّامہ اقبالؒؒؒ نے ایجاز وبلاغت کا کمال دکھاتے ہوئے ہندو قوم کی عیّاری، مکاری اور پُرکاری کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے عیّار فطرت ہندو قوم کے سراپا عیّاری اور سر تا سرمکّاری پر مبنی طرزِعمل اور ان سیاسی سرگرمیوں کی طرف بھی اشارہ کیاہے۔ جن کا سلسلہ ۱۸۸۵ میں انڈین نیشنل کانگریس کے قیام سے لے کر ۱۹۳۷ء (بلکہ اس کے بعد) تک پھیلا ہوا ہے۔ انھوں نے ہند قوم کے کردار کے مبثت اور منفی دونوں پہلوئوں کی جھلک دکھاتے ہوئے متحدہ قومیّت کے اس دام ہم ر نگِ زمیں کی حقیقت بھی واضح کی ہے، جس کے حلقوں میں سادہ لوح مسلمان ہی نہیں مسلمان قوم کے بہت سے اکابر علماء اور صلحا گرفتار رہے ہیں۔ ۱۸۸۵ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ہندوستانیوں پر سختیاں کرتے ہوئے انھیں ہر طرح سے دبانے کی کوشش تو کی تھی، مگر انگریزی حکو مت کے زیرِسایہ ہندو اور مسلمان دونوں بہ قدرِتوفیق آہستہ آہستہ جدید تعلیم حاصل کررہے تھے۔ اور یہ ناممکن تھا کہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنی غلامی کا احساس نہ ہوتا اور وہ حصولِ آزادی کی کوشش دوبارہ شروع نہ کرتے اس احساس کے تحت انگریزوں نے خود ہی آگے بڑھ کر ہندوئوں کو تھپکی دی۔ کیوں کہ مسلمان ان کے نزدیک بہر حال زیادہ خطرناک تھے۔ چناں چہ ۱۸۸۵ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا۔ اس کاخاکہ، اسکیم اور ساری تفصیلات انگریزوں کی مرتب کردہ تھیں۔ اس کا خاکہ تو ایک انگریز افسرمسٹر ہیوم نے مرتب کیا تھا البتہ اسے آخری شکل دینے میں وائسرے لارڈ فرن اور بہت سے دوسرے نمایاں انگریز سیاست دانوں اور افسروں کے مشورے اور تجاویز شامل تھیں۔ اس کے ابتدائی جلسوں میں برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر اور دیگر سرکردہ بطور صدر شریک ہوتے رہے اور کانگریس کئی سال تک برطانوی وزیرِ اعظم گلیڈ سٹون کی سال گرہ مناتی رہی۔ ہر سالانہ اجلاس میں ان کے لیے مبارک باد کی قرارداد منظور ہوتی تھی۔ یہ ساری چاپلوسیاں اور خوشامدیں انگریزوں کو خوش کرنے اور ان سے اپنے مخصوص مفادات حاصل کرنے کے لیے تھیں۔ مقصد یہ تھا کہ ہندوئوں کو انگریزوں کی زیادہ سے زیادہ قربت حاصل ہو، انھیں سرکای دفاتر میں اعلیٰ ملازمتیں اوراچھے عہدے مل جائیں اور مرکز ی و صوبائی کونسلوں میں نمائندگی مل جائے۔ برطانوی مفادات کی خاطر برِصغیر کی تمام آبادی کو ایک قومیّت میں متحد کرنا شروع ہی سے کانگریس کا مقصد تھا۔ ہندو چاہتے تھے کہ چند مسلمان بھی کانگریس میں شامل ہوجائیں تاکہ تمام ہندوستانیوں کو ایک قوم کہا جاسکے اور کانگریس تمام ہندوستانی قوم کی نمائندگی کا دعویٰ کر سکے۔کانگریس کے قیام کے وقت پُوری مسلمان قوم انگریزی تعلیم سے بے بہرہ تھی۔ مسلمانوں کو برطانوی سیاسی اداروں کی نوعیت، اہمیت اور افادیت سے ذرا سی بھی آگاہی نہیں تھی۔ مسلمان رہنماؤں میں صرف سر سیّد احمد خاں ایسے شخص تھے جو اس تمام صورتِ حال کو بھانپ سکے تھے کہ ہندوؤ ں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی تنظیم کانگریس میں مسلمانوں کا شامل ہونا، آپ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ سارے مفادات حاصل کرنے کے بعد ہندو سیاسی میدان میں مسلمانوں کو پیچھے دھکیل دینا چاہتے تھے۔ کانگریس کے ابتدائی اجلاس میں صرف دو مسلمان شریک تھے۔ ۱۸۸۸ء میں ان کی تعداد ۷۵ ہوگئی جن میں علی گڑھ کالج کے کچھ طالب علم بھی شامل تھے۔ چناں چہ سر سیّد احمد خاں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شریک ہونے سے منع کیا اور ایک ایک کرکے اس کے نقصانات گنوائے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے ایک تقریر لکھنؤ میں ۲۸؍دسمبر ۱۸۸۷ء کو اور دوسری تقریر میرٹھ میں ۱۶؍مارچ ۱۸۸۸ء کو فرمائی۔ ان تقریروں میں اُنھوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ مسلمان اپنے مذہب، خیالات، رسم ورواج، رہن سہن کے طریقوں غرض کہ ہر لحاظ سے ہندوؤں سے علیحدہ ملّی تشخّص رکھتے ہیں اور ان کا کانگریس میں شامل ہونا قومی لحاظ سے مضر ہے۔ اُنھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہندودراصل یہ چاہتے ہیں کہ انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرکے حکومت کے اہم عہدوں پر پہنچ جائیں۔ وہ اگرچہ مسلمانوں کی دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن حقیقت میں مسلمانوں کو کمزور کرکے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ گائے کے ذبیحہ کی مخالفت اور اردو ہندی کا تنازعہ اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ اس لیے سرسیّد احمد خان کانگریس میں مسلمانوں کی شرکت کے خلاف تھے تاکہ ہندو، مسلم دوستی کا رُوپ دھار کرمسلمانوں کے چُھپے دشمنوں کا کردار ادا نہ کرسکیں۔ ۱۸۶۷ء جب بنارس کے ہندوئوں نے یہ مطالبہ کیا کہ سرکاری دفاتر اور عدالتوں سے اُردو زبان اور فارسی رسم الخط کو ختم کرکے ہندی زبان کو دیونا گری رسم الخط میں رائج کیا جائے تو سرسیّداحمد خان کو یقین ہوگیا کہ ہندو اور مسلمان کا بطور ایک قوم کے ساتھ ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لیے مشترک کوشش کرنا محال ہے۔ اس بات کا ذکر اُنھوں نے بنارس کے ڈپٹی کمشنر مسٹر الیگزینڈر شیکسپیر سے بھی کیا، اور پھر اُردو زبان کے تحفظ کے لیے ایک تنظیم بھی قائم کی۔ سرسیّداحمد خان کی نصیحتوں کا مسلمانوں نے خاطر خواہ اثر لیا اور بحیثیت قوم وہ کانگریس سے الگ ہی رہے، اس حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۸۹۳ء میں ۱۱۶۳ مندوبوں میں سے مسلمانوں کی تعداد ۲۰ تھی۔ ۱۹۰۵ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف ۱۷رہ گئی اور متحدہ قومیّت کا ڈھول پورے زور و شور سے پیٹتے رہنے کے باوجود یہ بات پوری طرح آشکار ہوگئی کہ انڈین نیشنل کانگریس حقیقت میں صرف ہندوئوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ مگر ہندوئوں کی نمائندہ کانگریس کو تحریکِ خلافت کے دوران مسلمانوں میں جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ اپنی جگہ حیرت انگیز تھی۔ جب پہلی جنگ عظیم ختم ہوئی( ۱۹۱۹ئ) تو ترکی سلطنت پارہ پارہ ہوچکی تھی۔ وہ خلافتِ عثمانیہ جس کا پرچم کبھی تین براعظموں، یورپ ایشیا اور افریقہ پر لہراتا تھا، اپنے مقبوضات اور اپنی ساری شان و شوکت سے محروم ہوچکی تھی۔ مسلمانانِ ہند خلافت اور ترکی کے تحفّظ کے لیے سر پر کفن باندھے میدان میں کود پڑے۔ ان کی جدوجہد نے تحریکِ خلافت کا نام پایا۔ اس تحریک کے روحِ رواں مولانا محمد علی جوہر تھے، گاندھی جی تحریکِ خلافت سے کچھ دیر پہلے ہی جنوبی افریقہ سے ہندوستان آئے تھے۔ جلیانوالہ باغ کے سانحہ کی وجہ سے وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے اور تحریک عدم تعاون شروع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن اُنھیں ہندوئوں کی کمزوریوں کا بھی اندازہ تھا، اس لیے اُنھوں نے مسلمانوں کے جوش و خروش سے فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا، اُن کا خیال تھا کہ تحریکِ خلافت نے مسلمان عوام میں جو بے پناہ توانائی پیدا کی ہے، اُسے تحریک عدم تعاون کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے اُنھوں نے ہندو عوام کی طرف سے مسلمانوں کے مطالبات کی دو ٹوک حمایت کی۔ اس طرح کانگریس تحریکِ خلافت کی حمایت کے طفیل ایک مقبول اور عوامی جماعت بن گئی اور اس کا نام گائوں گائوں، گھر گھر پہنچ گیا۔ اس سے پہلے کانگریس میں مسلمان کم ہی نظر آتے تھے لیکن اب مسلمانوں نے بڑی تعداد میں کانگریس میں شرکت اختیار کی۔ چناں چہ دسمبر ۱۹۲۰ء میں ناگ پور کے مقام پر کانگریس کا جو سالانہ اجلاس ہوا، اس میں مسلمان مندوبوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ مسلمانوں کی کانگریس میں شمولیت سے کانگریس تو ایک مقبول عوامی جماعت بن گئی لیکن خود مسلمان کو کچھ حاصل نہ ہوا، اس لیے کہ ہندوئوں کو تحریکِ خلافت کی کامیابی یا ناکامی سے توکوئی دلچسپی نہیں تھی، اُنھو ں نے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرکے اپنے لیے کچھ سیاسی فوائد حاصل کرنے تھے، اور وہ کرچکے تھے۔ مسلمانوں کے مسائل سے اُنھیں چنداں دل چسپی نہ تھی، وہ صرف مسلمانوں کی توانائیوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔ علّامہ اقبالؒؒ نے پہلی رُباعی میں مسلمانوں کے لیے اس المیے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اے! مسلمان تو نے کانگریس میں شرکت کرکے اور ہندو قوم کی ہم نوائی اختیار کرکے اپنے لیے اور اپنی قوم کے لیے سیکڑوں فتنوں اور مصیبتوں کا دروازہ کھول دیا۔ ہندو قوم تو ایک عرصہ سے سیاسی جدوجہد کی تیاری کررہی تھی۔ وہ تجارت، تعلیم، تنظیم غرض کہ ہرشعبہ زندگی میں تجھ سے کہیں آگے تھی۔ تیرا اور اُس کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا تُو کچھ دنوں تک تو اُس کا شریکِ کار اور ہم سفر رہا لیکن اس کے بعد تیری کمزوریاں ہندوئوں پر عیاں ہوگئیں اور تُو دو قدم چل کر معذور ہوگیا۔ پھر تو نے ہندو کے رفیق کار اور برابر کے ساتھی کی بجائے خیمہ بردار کی حیثیت قبول کرلی۔ اس کے بعد تیرا کام صرف یہ رہ گیا کہ ہرمعاملے میں کانگریس کی ہم نوائی کرتا رہے اور موقع بے موقع گاندھی کی قصیدہ خوانی کرتا رہے۔ کانگریس کی ہم نوائی میںبہت سے مسلمان لیڈر اور عُلما گاندھی کی قیادت کا دم بھرتے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کو ہندوئوں کی خوشنودی کی خاطر گائے کے ذبیحہ سے باز رہنے کی تلقین کرنے لگے تھے اور ’’السلام علیکم‘‘ اور ’’وعلیکم السلام‘‘کی بجائے ’’نمستے علیکم‘‘ اور ’’وعلیکم نمستے‘‘ کاسبق پڑھانے لگے تھے۔ انتہا یہ تھی کہ انھوں نے ۱۹۲۱ء میں شروہا نند جیسے دُشمنِ اسلام کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر لا بٹھایا تھا اور اُنھیں مطلق خیال نہ آیا تھا کہ وہ ہندوئوں کو خوش کرنے کے جوش میں خُدا اور رسولِ خُدا کی ناراضی مول لے رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہندوئوں کی روش یہ تھی کہ وہ ایک ایک کرکے اپنے مردہ مذہبی شعائر کو زندہ کررہے تھے اور اپنی قوم میں مذہبی بیداری پیدا کررہے تھے۔ علاّمہ اقبالؒ نے کانگریس کی ہم نوائی کرنے والے مسلمانوں کی اسی غیر اسلامی روش،عاقبت نااندیشی اور سادہ لوحی پر تبصرہ کیا ہے کہ اے مسلمان! ہندو نے تو اپنے بتوں کو اپنے طاق میں سجالیا ہے اور تونے قرآن کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ہندو نے تو اپنی قوم میں مذہبی بیداری پیدا کرڈالی ہے اور تو ہندوکو خوش رکھنے کی خاطر اسلام ہی سے دست بردار ہوتا جارہا ہے۔ مسلمان قوم کی اس روش کو مولانا عبدالباری فرنگی محل مرحوم نے اس شعر سے ظاہر کیا تھا ؎ عمرے کہ بہ آیات و احادیث گزشت رفتی و نثارِ’’بُت پرستی‘‘ کردی مسلمان قوم کے اس افسوس ناک رویے کا ذکر کرنے کے بعد علّامہ اقبالؒؒؒ دوسری رُباعی میں برہمن یا ہندو کے کردار کے ایک مُثبت پہلو کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ہندو کو محض اس لیے، ہیچ، بے کار اور فضول نہیں سمجھتا کہ وہ کافر اور بُت پرست ہے اور ایک خُدا کو ماننے کی بجائے سیکڑوں بلکہ ہزاروں بُتوں کو اپنا خدا اور معبود بناے ہوئے ہے۔ کافر اور بُت پرست ہونے کے باوجود اُس کی زندگی کا یہ پہلو لائقِ ستائش ہے کہ وہ برابر جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنی سعیِ پیہم سے بھاری پتھروں کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتا ہے۔ وہ اپنا معبود اگر چہ پتھّر سے تراشتا ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ جب تک بازوئوں میں طاقت نہ ہو، کسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ پتھر سے اپنا معبود یابُت تراش سکے۔ ہندو اپنے مقصود کے لیے جدوجہد کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ’’معبود‘‘ خارجی یا مادی شے ہے چناں چہ وہ اپنے معبود کو تراشنے کے لیے محنت کرتا ہے اور محنت کرنے والے کی ہستی کو بیکار یا فضول نہیں کہا جاسکتا۔ علّامہ اقبالؒؒ کے نزدیک حرکت،عمل اور جدوجہد انسانی کردار کے پسندیدہ پہلوئوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں کہ اگر چہ بُت پرستی اپنی جگہ مذموم ہے اور اس کی تائید کسی انداز سے بھی نہیں کی جاسکتی مگر ہندو قو م کی یہ جدوجہد بہرحال قابل ستائش ہے کہ وہ اپنے معبودوں کو عالمِ وجود میں لانے کے لیے پتھروں کو توڑ دیتی ہے۔ پتھر سے خُدا تراشنے کے لیے بڑی جدوجہد درکار ہے۔ اس لیے بُت پرستی کے مذموم فعل کے باوجود ہندوقوم کی محنت اور جدوجہد اپنی جگہ تعریف کی مستحق ہے۔ ہندو قوم کے کردار کے مثبت پہلو کا ذکر کرنے کے بعد علّامہ اقبالؒؒ ؒ تیسری رباعی میں اس کے ایک منفی پہلو کا ذکر کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ہندو قوم کی سیرت اور کردار کا اہم ترین پہلو ہے کہ ہندو انتہائی عیّار، چالاک اور زمانہ ساز واقع ہوا ہے۔ وہ کسی حال میں بھی اپنے مقصد سے غافل نہیں ہوتا اور نہ اس مقصد کو کسی پر ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہیں بھی جائے اور کہیں بھی رہے، وہ کسی بھی حال میں ہو اپنے مقصد اور اپنے کام کو ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے۔ اور چاہے کوئی اُس کا کیسا ہی قابلِ اعتماد ساتھی، رفیق یا دوست ہو وہ اپنے دل کی بات اُس سے بھی چھپائے رکھتا ہے۔ وہ مسلمانوں سے تو یہ کہتا ہے کہ کانگریس میں آئو تو مسلمان بن کر نہیں، قوم پرست اور ہندوستانی بن کرآئو لیکن خود اس کا اپنا طرز عمل یہ ہے کہ وہ ہندو دھرم ہی کو قوم پرستی سمجھتا ہے۔ وہ مسلمان کو روشن خیالی کی تلقین کرتا ہے لیکن خود اپنی مذہبی تنگ نظری سے دست بردار نہیں ہوتا۔ مسلمان کو تو وہ تسبیح پھینک دینے کی تلقین کرتا ہے لیکن اپنا جنیو بہ دستور اپنے کندھے پر ڈالے رکھتا ہے۔ ہندو کی عیّاری کی مزید اور سب سے بڑی مثال علّامہ اقبالؒؒؒنے چوتھی رُباعی میں دی ہے کہ ہندومسلمان سے یہ کہتا ہے کہ اے مسلمان! تجھے غیروں سے کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا۔ غیروں کی بجائے تجھے اپنوں سے دوستی کرنی چاہیے۔ ہم اور تم دونوں ایک ہی وطن کے رہنے والے ہیں اور ہم سوائے تمھاری بھلائی کے اور کچھ نہیں چاہتے۔ ہندوکا یہ ایسا منتر تھا کہ اس میں بڑے بڑے مسلمان پھنس گئے۔ مسلمانوں کے کتنے ہی عُلما گاندھی کا کلمہ پڑھنے لگے۔ ان علما میں شیعہ تھے اور سنُی بھی، اہلحدیث بھی تھے اور اہلِ قرآن بھی، مقلّد بھی تھے اور غیرمقلّد بھی، یہ علما مساجد میں اور منبرِ رسولؐ پر بیٹھ کر تو ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہتے تھے لیکن ہندوکی ساحری نے ایسا کمال دکھایا تھا کہ جو دومولوی ایک مسجد میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے، وہ کانگریس کے بُت خانے اور گاندھی کے آشرم میں ایک جگہ جمع ہوگئے۔ مسلمانوں کی سادگی اور سادہ لوحی ملاحظہ ہو کہ وہ وردھا آشرم کے جادوگر گاندھی کے جال میں ایسے پھنسے کہ اور سب کچھ بھول گئے۔ وہ کانگریس سے باہر تھے تو آپس میں لڑتے رہنے اور ایک دوسرے کو کافر ٹھہرانے کے سوا اُنھیں اور کوئی کام نہ تھا مگر گاندھی کے چرنوں میں آکر وہ ایک دوسرے دوش بدوش زندگی بسرکرنے لگے اور اُنھیں آپس کی لڑائی بھی بھول گئی۔ علاّمہ اقبالؒ نے یہاں ہندو کے ساحرانہ کردار کا جو رُخ بیان کیا ہے، وہ اپنی جگہ قابلِ تعریف سہی لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہوگا کہ گاندھی کے چیلے بن کر مسلمان رہنمائوں نے جو رنگ اختیارکیا، وہ بھی اُن کے نزدیک پسندیدہ اور قابل تعریف تھا، اُنھوں نے تو طنز کے پیرائے میں بات کی ہے کہ اگرچہ دو مُلّا ایک مسجد میں نہیں سماسکتے لیکن ہندئوں کی ساحری کا کمال دیکھیے کہ اُنھوں نے اپنے بُت خانے میں دومُلّائوں کو جمع کردیا ہے اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا ہے جس کی نشان دہی علّامہ اقبالؒؒ نے پہلی رُباعی میں کی ہے کہ ہندو نے تو اپنی مذہبی اقدار کو فروغ دیا ہے اور مسلمان نے قرآن کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ قرآنِ حکیم سے تعلق منقطع ہونے کا نتیجہ ہے کہ مسلمان نے مکّہ اور مدینہ کو چھوڑ کر وردھا کو اپنا قبلہ بنالیا ہے، صوفی کے پاس کرامات ہیں، مُلّا کے پاس روایات ہیں اور عوام کے پاس خرافات ہیں۔ قرآن کسی کے پاس نہیں ہے۔ تقدیر و تدبیر بہ روما گفت با من راہبِ پیر کہ دارم نکتہ از من فرا گیر کند ہر قوم پیدا مرگ خود را ترا تقدیر و مارا کشت تدبیر شہر روم میں عیسائیوں کے اُسقفِ اعظم پوپ سے جب میری ملاقات ہوئی تو اُس نے مجھ سے کہا: ’’اے اقبال! میں تُجھے ایک نُکتہ سمجھاتا ہوں۔ تُونے بہت کچھ پڑھا ہوگا اور بہت سے لوگوں کی دانش مندانہ باتیں سُنی ہوگی مگر جو بات میں تجھے بتانا چاہتا ہوں، وہ تُو نے نہ کسی کتاب میں پڑھی ہوگی اور نہ کسی کی زبان سے سُنی ہوگی۔ وہ نُکتہ یا پتے کی بات یہ ہے کہ اس دُنیا میں ہر قوم اپنی موت کا سامان خود مہیا کرتی ہے۔ ہر قوم جو اندازِ فکر و عمل اختیار کرتی ہے، وہی اُس کے لیے تباہی اور موت کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ دیکھ لو کہ تم مسلمانوں کو تقدیر نے مارا اور ہم یورپ والوں کو تدبیر نے تباہ کیا۔ مسلمان اس لیے تباہ و برباد اور ذلیل و خوار ہوئے کہ انھوں نے تدبیر سے مُنہ موڑ کر اپنی بے عملی کو تقدیر کا نام دے لیا اور تقدیر پر بھروسا کرکے ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ جب کہ یورپ والے اس لیے تباہ ہوئے کہ اُنھوں نے تقدیر سے مُنہ موڑ کر اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ لیا اور اپنے آپ کو مختارِ مطلق سمجھتے ہوئے خُدا سے بیگانہ ہوگئے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس رباعی میں پوپ کی زبانی جبرو اختیار کے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے انسانی زندگی میں تدبیر اور تقدیر دونوں کا مقام واضح کیا ہے۔ انسان اس دُنیا میں نہ تو مجبور محض ہے اور نہ مُختارِ مطلق، بلکہ وہ ایک لحاظ سے مجبور بھی ہے اور ایک لحاظ سے مختار بھی ؎ چُنیں فرمودۂ سلطانِ بدرؐ است کہ ایمان درمیانِ جبرو قدر است (حضور ِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ایمان جبر اور قدر کے درمیان ہے ) چناں چہ پوپ کی زبان سے اقبالؒ یہ کہلواتے ہیں کہ اُس دُنیا میں ہر قوم اپنی موت خود خریدتی ہے۔ جبرو قدر کے بارے میں ایک قوم جو اندازِ فکر و عمل اختیار کرتی ہے، وہی اُس کے لیے موت کے اسباب فراہم کرتا ہے۔ اقبال ؒ نے اس بات کی وضاحت کے لیے پوپ کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ مسلمان کو تقدیر نے اور پوپ والوں کو تدبیر نے ہلاک کیا۔ مسلمانوں نے اپنے آپ کو مجبور محض سمجھ لیا اور اپنی بے عملی کو تقدیر کا نام دیتے ہوئے خارجی اسباب و مادّی وسائل سے یکسر بے نیاز ہوگئے۔ یوں اُن کی تقدیر پرستی اُن کے لیے تباہی، ہلاکت اور موت کا باعث بن گئی۔ اس کے برعکس یورپ والوں نے اپنے آپ کو مختارِ مطلق سمجھ لیا اور خُدا سے بالکل بیگانہ ہوگئے۔ چناں چہ اُن کی تدبیر ہی اُن کے لیے موت کا سامان بن گئی۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ انسان نہ مجبور محض ہے اور نہ مختار مطلق بلکہ اس کا مقام ان دونوں کے درمیان ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اُن سے سوال کیا کہ انسان مجبور ہے یا مختار ہے؟ آپ نے اُسے ارشاد فرمایا کہ اپنی ایک ٹانگ اوپر اٹھائو۔ اُس نے اپنی ایک ٹانگ اُوپر اٹھالی تو آپ نے اُس سے فرمایا کہ اپنی دوسری ٹانگ بھی اوپر اُٹھالو۔ اس شخص نے جواب دیا کہ دوسری ٹانگ تو میں نہیں اُٹھا سکتا، اُٹھائوں گا تو کھڑا کیسے رہ سکوں گا؟ زمین پر گرپڑوں گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بس تقدیر اسی کا نام ہے۔ انسان ایک حد تک مختار ہے اور اس حد سے آگے مجبور ہے۔ مسلمانوں نے تقدیر پرستی کو جس طرح اپنی بے عملی، ترکِ دُنیا بلکہ غیروں کی محکومی کا جواز بنایا ہے، اس کی طرف علّامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں جگہ جگہ اشارے کیے ہیں۔ اپنی ایک نظم ’’تن بہ تقدیر‘‘(ضربِ کلیم ) میں اُنھوں نے اس بات پر دُکھ کا اظہار کیا ہے کہ جس قرآن کی برکت سے مسلمانوں کو ایسا بلند مقام نصیب ہوا تھا کہ چاند تارے بھی اُن کے مطیعِ و فرمانبردار ہوگئے تھے، اب اسی قرآن کو دُنیا ترک کردینے کی تعلیم کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ قرآنِ حکیم نے مسلمانوں کو ایمان کی پختگی عطا کرکے ایک ایسا مقام بخشا تھا کہ اُن کے ارادے مشیتِ الٰہی بن گئے تھے، مگر اب وہ تقدیر پر بھروسا کیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ جب وہ احکامِ الٰہی کی پور ی طرح تعمیل کرتے تھے تو خُدا اُن کی مدد کرتا تھا۔ وہ راہِ حق میں جو بھی قدم اُٹھاتے تھے، اللہ کی تائید سے وہ فتح و کامرانی کی منزلِ مقصود کی طرف اٹھتا تھا۔ لیکن آج انھوں نے تقدیر کا مطلب ہی کچھ اور سمجھ لیا اور اس کے نتیجے میں اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگے ہیں۔ ایک دوسری نظم ’’تقدیر‘‘ (ضربِ کلیم) میں علّامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نااہل اور نالائق کو قوت و طاقت اور عظمت و بزرگی حاصل ہوجاتی ہے اور باکمال زمانے میں ذلیل و خوار پھرتے نظر آتے ہیں۔ بے شک دُنیا میں ایسی مثالیں ملتی ہیں لیکن اس حقیقت کی طرف بہت کم لوگوں کی نظر جاتی ہے کہ تقدیر کی نظر ہرآن اور ہر لحظہ قوموں کے عمل پر رہتی ہے۔ تقدیر مسلسل قوموں کے اعمال کو نگاہ میں رکھتی ہے۔ جو قومیں جدوجہد میں سرگرم رہتی ہیں، ہمت، جاں بازی اور سرفروشی سے کام لیتی ہیں، وہ یقینا ترقی کرتی اور عروج پاتی ہیں، جو حق و انصاف پر کاربند ہوتی ہیں، اُن کا عروج پائدار ہوتا ہے اور جو خدائی فرمان کو پس پُشت ڈال دیتی ہیں، یا حق و انصاف سے رُوگردانی کرتی ہیں، اُن کا عروج چار دن کی چاندنی ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی بدعملی کی بنا پر یا تو مٹ جاتی ہے یا ذلیل و خوار ہو کر اپنی حیثیت کھوبیٹھتی ہیں۔ چناں چہ مسلمان اس لیے تباہ ہوئے کہ اُنھوں نے تقدیر پرستی کے غلط تصور کا سہارا لے کر بے عملی اور ترکِ دُنیا کو اختیار کرکے تدبیر اور جدوجہد سے کنارہ کشی کرلی،جب کہ یورپ والے اس لیے برباد ہوگئے اُنھوں نے اپنی تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے خدا سے بیگانگی اختیار کرلی۔ اللہ تعالیٰ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے اور وہ قانون یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو نعمت کسی گروہ یا قوم کو عطا فرماتا ہے، وہ اسے پھر کبھی نہیں بدلتا جب تک خود اُس گروہ یا قوم کے افراد اپنی حالت نہ بدل ڈالیں۔ بالفاظ دیگر علاّمہ اقبال نے مسلمانوں کو یہ سبق دیا ہے کہ تمھیں عروج صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب تمھاری زندگی کا ایک رخ تقدیر اور دوسرا رُخ تدبیر کا ترجمان ہو۔ تقدیر کے ساتھ تدبیر لازمی ہے اور تدبیر کے ساتھ تقدیر ضروری ہے۔ نہ تدبیر کو ترک کرکے تقدیر پر بھروسا کرکے بیٹھے رہنے سے کچھ حاصل ہوسکتا ہے اور نہ مشیتِ الٰہی سے قطع تعلق کرکے محض تدبیر سے بات بن سکتی ہے۔ موت سُنا ہے کہ موت کے فرشتے نے ایک روز بارگاہِ خداوندی میں عرض کی: اے خالقِ کائنات! تونے اس وسیع و عریض کائنات میں قسم قسم کی مخلوق کو پیدا فرمایا ہے مگر یہ انسان جسے تُونے مٹی سے تخلیق کیا ہے، عجیب شے ہے کہ اس کی آنکھ کبھی غیرت سے نم ہی نہیں ہوتی۔ مجھے اس کے وجود میں غیرت کا جذبہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ تُو نے اسے زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر بھیجا ہے لیکن یہ ساری عمر بے غیرتی کی زندگی بسر کرتا ہے اور اپنے آپ کو سو سو طرح سے ذلیل کرتا ہے۔ اوّل تو اسے خیال ہی نہیں آتا کہ خُدا نے مجھے کیا بنایا تھا اور میں کیا بن گیا ہُوں؟ مجھے دُنیا میں کس لیے بھیجا گیا تھا اور میں کیا کررہا ہوں؟ مجھے دُنیا میں رہتے ہوئے کیا کرنا تھا اور میں نے کیا کیاہے؟ اور اگر اسے خیال آ بھی جائے تو اسے اپنی بے غیرتی اور ذلت و رسوائی یا بد اعمالی پر ذرا سی ندامت بھی محسوس نہیں ہوتی۔ جب میں اس کی رُوح تیرے حکم کے مطابق قبض کرتا ہوں تو مجھے شرم محسوس ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ یہ انسان ایسا بے غیرت واقع ہوا ہے کہ اسے نہ تو مرتے وقت شرم محسوس ہوتی ہے اور نہ اسے مرنے ہی سے شرم آتی ہے۔ اے خُدائے بزرگ و برتر! تُو اس نادان انسان پر رحم فرما۔ اگر چہ تُو نے اس کی تخلیق مٹی سے فرمائی ہے، لیکن اسے اشرف المخلوقات بھی تو بنایا ہے اور کائنات کی حکومت کی باگیں اس کے ہاتھوں میں دی ہیں، اور کچھ نہیں تو اس کے فرضِ منصبی ہی کی خاطر اسے ثبات اور استحکام عطا فرما۔ یہ نادان موت کی ذِلّت اس لیے برداشت کرلیتا ہے کہ اسے نہ تو زندگی کے مقام و مرتبہ سے آگاہی حاصل ہے اور نہ اسے حیاتِ ابدی حاصل کرنے کے اصول و قانون کا علم ہے۔ علّامہ اقبالؒ ؒ نے ان دو رُباعیوں میں موت کے فرشتے کی بارگاہِ خدا وندی میں التماس کے پیرائے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ بیش تر لوگ حیاتِ ابدی کے قانون سے واقف نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد ہمیشہ رہنے والی زندگی خود بخود مل جائے گی اور اس لیے وہ موت کی ذِلّت کو برداشت کرلیتے ہیں، بلکہ اپنی ساری زندگی میں ذلتوں پر ذلتیں برداشت کرتے ہوئے بھی انھیں غیرت نہیں آتی۔ حالاں کہ حیاتِ ابدی اُسے اور صرف اُسے ملے گی جو اپنی زندگی میں اس کے حصول کے لیے کوشش اور جدوجہد کرے گا۔ اس سلسلے میں خود علّامہ اقبالؒؒؒ کے یہ الفاظ قابل غور و توجہ ہیں : ’’ہر خُودی پر سُکرات کا عالم طاری ہوتا ہے، یہ تو ہرشخص جانتا ہے لیکن اس کش مکش کے نتیجے سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب رُوح اس جسمِ خاکی سے اپنا تعلق منقطع کرتی ہے تو اُسے زبردست دھچکا (SHOCK)لگتا ہے اور اس کی حالت کچھ دیر کے لیے ایسی ہوجاتی ہے، جیسے کسی شخص کا سر دیوار سے ٹکرا جائے تو وہ کچھ دیر کے لیے بے ہوش ہوجاتا ہے اور اگر یہ تصادم بہت شدید ہو تو پھر کبھی ہوش میں نہیں آتا یعنی مرجاتا ہے۔ اسی طرح جس شخص نے زندگی میں اپنی خودی کو اس یقینی تصادم کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیا۔ وہ شخص مرکر زندہ نہیں ہوگا۔ اس سے مُراد یہ ہے کہ اُس میں آئندہ زندگی میں ترقی کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہوگی۔ اُس کی خُودی میں اور ایک حیوان مطلق کی خودی میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ پس اُس کا شمار حیوانات میں ہوجائے گا۔‘‘ گویا حیاتِ ابدی حاصل کرنے کے لیے ہر شخص کو بطورِ جدوجہد کرنا لازم ہے۔ مرنے کے بعد حیاتِ ابدی ملے گی تو سہی لیکن صرف اُن ہی لوگوں کو جنھوں نے اُس دنیا میں اپنی خودی کی نشوو نما کرکے اپنے اندر اس کی صلاحیت پیدا کرلی ہوگی۔ اِبلیس سے (بگو ابلیس را) اے ابلیس! میں تجھ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تُو کب تک اِس دُنیا کے جھگڑوں میں پھنسارہے گا؟ تُوکب تک اپنے آپ کو انسانوں اور اُن کے بکھیڑوں میں اُلجھائے رکھے گا؟ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ تُجھے اِس دُنیا سے اس قدر دلچسپی کیوں ہے؟ یہ دُنیا تو ہرگز اس لائق نہیں ہے کہ کوئی سمجھ دار شخص اس سے وابستگی پیدا کرے اور سب کچھ چھوڑ کر اسی کا ہو رہے۔ مجھے تو یہ دُنیا بالکل پسند نہیں آئی۔ کیوں کہ اس کی ہرصبح شام کی تمہید کے سوا کچھ نہیں اور یہاں کی ہر خوشی کا انجام غم ہے۔ معلوم نہیں تجھے اس دُنیا میں کیا نظر آیا ہے کہ تُو اس کا شیدا بنا ہوا ہے اور تیری ساری سرگرمیوں کا مرکز و محور یہی ایک دُنیا بن کر رہ گئی ہے۔ اے ابلیس! تو جانتا ہے کہ جب یہ دُنیا عدم سے وجود میں آئی تو بالکل سُنسان اور بے رونق تھی۔ اس میں نہ کشاکش تھی نہ کش مکش، نہ بزم کی رونقیں تھیں نہ رزم کے ہنگامے، نہ کسی قسم کی جدوجہد تھی نہ کسی طرح کی دوڑ دُھوپ، نہ کوئی رنگ تھا نہ کوئی آہنگ۔ پھر جب خالقِ کائنات کو یہ منظور ہُوا کہ اس دنیا کی سرد اور خاموش فضائیں ہنگاموں سے، رونقوں سے، جدوجہد اور کش مکش سے اور رنگ و آہنگ سے معمور ہوجائیں تو اُس نے انسان کو تخلیق کیا۔ انسان کی تخلیق اگر چہ خاک سے ہوئی تھی مگر اس خاک میں خالقِ کائنات نے آگ کا عنصر بھی شامل کررکھا تھا۔ چناں چہ اور بہت سی صفات کے علاوہ انسان کو سوز یعنی جلنے جلانے کی آتشیں صفت بھی ودیعت ہوئی اور انسان کی فطرت کے اس سوز کی بہ دولت دُنیا کی خاموش فضائوں میں ہنگامے وجود میں آئے، جدوجہد کی کیفیت پیدا ہوئی اور رنگ و آہنگ کا ظہور ہُوا۔ اے ابلیس! سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم انسان اس دُنیا میں وجود میں نہ آئے ہوتے تو پھر تو بھی وجود میں نہ آیا ہوتا۔ خُدا نے ہمارے وجود کے اندر جو آگ رکھی ہے، اسی آگ سے تیرا وجود پیدا ہوا ہے۔ اے ابلیس! جب تک انسان کا وجود خُدا کے وجود سے الگ نہ تھا، اُس وقت تک نہ تو وہ اپنے وجود سے آگاہ تھا اور نہ اُسے اپنے شوق کی خبر تھی، لیکن جب اُس کا وجود خدا کے وجود سے الگ ہوگیا تو اس جُدائی نے اُسے اپنے وجود سے آگاہ کرکے اُسے شعورِ ذات بخش دیا۔ اس جُدائی کی بہ دولت وہ نہ صرف دانا بینا اور روشن بصر ہوگیا بلکہ اس جُدائی نے اس کے شوق اور جذبۂ عشق کو تیز تر کردیا اور وہ اپنی اصل سے وابستہ ہونے کے لیے بے قرار ہوگیا۔ اے ابلیس! میں یہ تو نہیں جانتا کہ تیرااپنا حال کیا ہے، ہاں اپنے متعلق یہ کہہ سکتا ہُوں کہ میرے اندر خودی کا احساس اس جدائی کی بہ دولت ہی پیدا ہوا ہے۔ اس عالمِ آب و گل میں آنے کے بعد ہی میرے اندر خودی کا شعور پیدا ہوا ہے۔ گویا اس آب و گل ہی نے مجھے اپنے آپ سے باخبر کیا ہے۔ اے ابلیس! بے شک تو بہت پیچ و تاب کھارہا ہے کہ تجھے خدا نے رجیم، کافر اور طاغوت قرار دے کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ تو راندۂ درگاہ، منکر، نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والا ٹھہرادیا گیا۔ تو شاید یہ سمجھتا ہوگا کہ یہ پیچ و تاب اس کائنات میں صرف تیرا مقسوم ہے۔ نہیں، تیری طرح میں بھی ازل کی صبح ہی سے پیچ و تاب کا اسیر ہوں۔ جب خدا نے مجھے اس دُنیا میں بھیجا تو میرے دل میں ایک کانٹا چبھودیا، جس کی خلش نے مجھے بے تاب و بے قرار کررکھا ہے۔ کیوں کہ یہ کانٹا شوق اور عشقِ الہٰی کا کانٹا ہے۔ شوق اور عشق کا یہ خار مجھے برابر بے چین کیے رکھتا ہے۔ کیوں کہ یہی شوق مجھے اپنی اصل سے وابستہ ہونے کے لیے بے قرار و بے تاب رکھے ہوئے ہے۔ اے ابلیس! تو میری حالت سے بہ خوبی واقف ہے۔ انسان تو خطا کا پُتلا ہے۔ اُس سے اگر ایک نیکی ہوتی ہے تو سوگُناہ سرزد بھی ہوتے ہیں۔ وہ تو اپنی ماہیت ہی کے لحاظ سے ایک ایسی کِشتِ خراب ہے جس میں خیروخوبی کا کوئی دانہ نہیں اُگ سکتا۔ وہ تو اپنی خلقت ہی کے لحاظ سے کمزور اور ناقص ہے۔ تو نے واقعی بڑی ہمّت کی ایک سجدہ کرنے سے انکار کرکے ہمارے بے حساب گناہ اپنے ذمے لے لیے۔ ایک ہم ہیں کہ خود گناہوں پر گناہ کیے جاتے ہیں اور نام شیطان کا لیے جاتے ہیں کہ اُس نے ہمیں ورغلایا اور ہم سے گُناہ کروادیے۔ اے ابلیس! جب تُو نے بھی اس دُنیا میں اپنا کھیل کھیلنا ہے اور ہمیں بھی اس دنیا میں اپنا کھیل کھیلنا ہے تو کیوں نہ ہم اپنا اپنا کھیل عزّت، وقار اور شاہانہ شان کے ساتھ کھیلیں۔آئو اس دُنیا کی بازی کو ایسے انداز سے کھیلیں جو ہم دونوں کے شایانِ شان ہو اور اس طرح اس دُنیا میں سوز و گداز کا رنگ پیدا کردیں۔ جس خالقِ کائنات کی طرف سے تجھے بھی بہت سی صلاحیتیں ملی ہیں، اسی خالقِ کائنات نے ہمیں بھی بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آئو کہ ہم ان صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اِسی دُنیا کو بہشتِ بریں کا نمونہ بنادیں۔ علاّمہ اقبال ؒ اِن چھ رُباعیات میں ابلیس سے مخاطب ہوئے ہیں کہ تو نے اپنے آپ کو اس دُنیا کی دل چسپیوں میں کیسے اُلجھالیا ہے، جب کہ خود مجھے یہ دنیا بلکل پسند نہیںآئی۔ کیوں کہ یہاں کی ہرخوشی کا انجام غم ہے۔ پھر علّامہ اقبالؒؒؒ اس دنیا میں انسان کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب یہ دُنیا وجود میں آئی تو ہرقسم کے ہنگاموں سے تہی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق فرمایاتو یہی دُنیا ہنگامہ ہائے شوق سے معمور ہوگئی۔ انسان جب تک تخلیق نہیں ہوا تھا اور اس کا وجود خُدا کے وجود کی آغوش میں چھپا ہو اتھا، تب تک اُسے اپنے وجود، اپنی ذات یا اپنی ہستی کا کوئی شعورنہ تھا مگر جب وہ عدم سے وجود میں آیا تو اُسے اپنے وجود، اپنی ذات اور اپنی ہستی سے آگاہی بھی ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اُسے اپنی اصل سے وابستہ ہونے کے شوق نے بے قرار بھی کردیا۔ اُس کے شوق کی یہی بے قراری اس کی خودی کو پروان چڑھانے کا باعث بن گئی۔ پھر علّامہ اقبالؒ ؒ اپنے اور ابلیس کے پیچ و تاب کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تو اس لیے مسلسل اضطراب وبے قراری اور پیچ و تاب کا اسیر ہے کہ تُجھے آدم ؑ کو ایک سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں راندۂ درگاہ، منکر، نافرمان،حد سے تجاوز کرنے والا اور مردود و مقہور قرا ر دے کر بارگاہِ خداوندی سے نکال دیا گیا۔ لیکن تو یہ خیال نہ کر کہ یہ حال صرف تیرا ہی ہے۔ خود میں بھی اسی حال میں ہوں۔ خالقِ کائنات نے جب مجھے تخلیق کیا تو میرے دل میں شوق اور عشق کا ایک کانٹا بھی چبھو دیا، جس کی خلش مجھے برابر بے تاب و بے قرار رکھتی ہے اور جس کی وجہ سے میں اپنی اصل سے وابستہ ہونے کے لیے مسلسل پیچ و تاب کھاتا رہتا ہوں۔ علّامہ اقبالؒ ؒ ابلیس کی اس ہمّت اور حوصلے کی داد دیتے ہیں کہ اس نے ایک سجدے سے انکار کرکے بنی آدم کے سارے گناہ اپنے سر لے لیے۔ جب کہ انسان اتنا کمزور اور ناقص واقع ہوا ہے کہ گناہ تو خود کرتا ہے لیکن خود گناہ کا اعتراف کرنے کی بجائے شیطان کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے کہ اس نے مجھ سے گناہ کروادیے۔ آخر میں علّامہ اقبالؒ ؒ ابلیس سے کہتے ہیں کہ آؤہم اس دنیا میں اپنا اپنا کھیل شان اور وقار کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس دنیا میں سوز و گداز کا رنگ پیدا کردیں اور اس دُنیا ہی کو بہشتِ بریں کا نمونہ بنادیں۔ علّامہ اقبالؒ ؒ نے جس ابلیس کو زندگی کی بازی وقار اور شان کے ساتھ کھیلنے کی دعوت دی ہے، اس سے مُراد وہ ابلیس ہے جو خودانسان کے اندر پوشیدہ ہے اور جس کی بابت خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ وہ انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ چناں چہ بہت سے بزرگوں اور صوفیا نے خارجی ابلیس کی بجائے انسان کے اپنے وجود کے اندر پوشیدہ داخلی ابلیس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اُسے مطیع و فرمان کرنے اور مسلمان بنالینے کی تلقین کی ہے۔ ان ہی بزرگوں کی ہم نوائی کرتے ہوئے علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے یہ بات کہی ہے کہ اگر انسان اپنے اندر کے ابلیس کو مسلمان بنالے تو اس دُنیا کو بہشت میں تبدیل کرسکتا ہے۔ اگر انسان قرآن مجید کے احکام کی اطاعت کرنے لگے تو اُس کا ابلیس بھی مسلمان ہوجائے گا۔ خوشترآں باشد مسلمانشی کُنی کُشتۂ شمشیرِ قرآنشں کُنی یعنی ہے یہی بہتر مسلمان اُس کو کر کُشتۂ شمشیرِ قرآں اُس کو کر نگہداشت خُودِی شُنیدم بیتکے ازمردِ پیرے کُہن فرزانۂ روشن ضمیرے اگر خودرا بنا داری نگہداشت درگیتی رابگیروآں فقیرے ایک بزرگ نے جو بڑے ہی عقل مند،روشن ضمیر اور صاحبِ باطن تھے، مجھے ایک نہایت ہی قیمتی بات بتائی۔ اُنھو ںنے کہا۔ ’’سنو! اگر کوئی مسلمان، نادار اور مفلس ہو، اُسے تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر ہو اور نہ پیٹ بھرنے کو روٹی، لیکن اس ناداری اور مفلسی کی حالت میں وہ اپنی خودی کی حفاظت کرسکے، کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہ کرے اور اپنی کسی ضرورت کے سلسلے میں کسی سے کوئی توقع نہ رکھے تو وہ ظاہری طور پر فقر اور مفلس و نادار ہونے کے باوجود ایک دن ساری کائنات پر حکمران ہوجائے گا بلکہ اِس دنیا کے علاوہ عُقبیٰ کا بھی مالک بن جائے گا۔‘‘ علّامہ اقبالؒ ؒ نے اس رُباعی میں خود ی کی نگہداشت اور حفاظت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ وہ مسلمان نوجوانوں کو خودی بلند کرنے کے ساتھ ساتھ خودی کی حفاظت کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ یہاں اُنھوں نے ایک روشن ضمیر اور صاحبِ باطن بزرگ کی بات کے حوالے سے یہ بتایا ہے کہ مسلمان چاہے کتنی ہی مفلسی کا شکار ہو، چاہے وہ نانِ شبینہ کا بھی محتاج ہو لیکن اُسے چاہیے کہ کسی حال میں بھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے۔ اگر وہ اپنی ضرورت کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا اور ناداری کی حالت میں بھی اپنی خودی کی حفاظت کرتا ہے تو ایک دن دونوں جہان اس کے قبضہ و تصرف میں آجائیں گے۔ قُرونِ اولیٰ کے مسلمانوں اور تمام بزرگانِ دین کی شانِ امتیاز یہی رہی ہے کہ اُنھوں نے فقروفاقہ میں زندگی بسر کی لیکن بادشاہوں اور وقت کے بڑے چھوٹے حکمرانوں کے آگے کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔ دستِ سوال دراز کرنا تو بڑی بات ہے، اگر کسی بادشاہ یا حکمران نے کوئی جاگیر یا دولت از خود پیش کی تو بھی اُسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ اُنھیں فقرو فاقہ کی زندگی گوارا تھی مگر اپنی خودی کی تذلیل گوارا نہ تھی۔ اپنی خودی کی اسی نگہداشت نے اُنھیں اور اُن کی بارگاہوں کو ایک عالم کا مرجع بنادیا تھا۔ خودی کی حفاظت و نگہداشت پر زور دیتے ہوئے علّامہ اقبالؒؒ ’’ساقی نامہ‘‘ میں کہتے ہیں ؎ خودی کے نگہبان کو ہے زہرِ ناب وہ ناں جس سے جاتی رہے اس کی آب وہی ناں ہے اس کے لیے ارجمند رہے جس سے دُنیا میں گردن بلند فرد فالِ محمود سے درگزر خُودی کو نگہ رکھ، ایازی نہ کر دو نصیحتیں زپیرے یاد دارم ایں دو اندرز نباید جز بجانِ خویشتن زیست گریز از پیش آں مرد فرددشت کہ جانِ خود گز کردو بہ تن زیست میں ایک صاحبِ باطن، روشن ضمیر اور دانش مند بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے ازراہِ محبت و شفقت مجھے دونصیحتیں فرمائیں۔ اُن کی وہ نصیحتیں مجھے آج تک یاد ہیں۔ اُن کی پہلی نصیحت یہ تھی: ’’اپنی زندگی دوسروں کے سہارے مت بسرکرو۔ اپنے آپ پر اپنی ذات پر اور اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا زندگی کی پہلی شرط ہے۔ جوشخص دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرتا ہے یا اپنی زندگی کے لیے دوسروں کے سہارے ڈھونڈتا ہے یا دوسروں سے سہارے کی توقع کرتا ہے، وہ کبھی انسانیت کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ اُن کی دوسری نصیحت یہ تھی : ’’اُس کمزور اور ذلیل شخص سے دور رہو جو اپنے جسم کی آسائش کے لیے روح کو گروی رکھ دے۔ تمھیں ایسے شخص کے قریب جانے سے بھی گریز کرنا چاہیے جو اپنے تن کی خاطر اپنی جان کا سودا کرڈالے۔ جس شخص کو اپنے جسم کے آرام و آسائش اور جسمانی تقاضوں کی تسکین کو اپنی روح کی خاطر بیچ دینے یا گروی رکھ دینے سے بھی عار نہ ہو، اُس کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔ علّامہ اقبالؒ ؒ اس رُباعی میں ایک بزرگ کی دو ایسی نصیحتیں بیان کی ہیں۔ جن کا تعلق غیرت اور خود داری کی زندگی سے ہے۔ غیرت اور خودداری کی زندگی کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ضرورت کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے اور دوسروں کے سہارے تلاش نہ کرے۔ خود داری کی پہلی شرط یہی ہے کہ انسان دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرنے کی بجائے اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور آپ اپنا سہارا بنے۔ جو شخص زندگی بسر کرنے کے لیے اپنی ذات پر اور اپنی قوتِ بازو پر اعتماد کرتا ہے، وہی صحیح معنوں میں اپنے باغیرت اور خوددار ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اس کے برعکس جو شخص دوسروں کے سہارے زندگی بسر کرتا ہے، وہ انسانیت کے مقامِ بلند سے گر کر حیوانات کی سطح پر آجاتا ہے۔ غیرت اور خودداری کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی روح کے تقاضوں کو جسم کے تقاضوں پر ترجیح دے، یہ نہیں کہ اپنے جسمانی آرام و آسائش کی خاطر اپنی روح کو دوسروں کے ہاتھ بیچ ڈالے۔ چناں چہ علّامہ اقبالؒؒ ؒ کو صاحبِ باطن، روشن ضمیر اور دانش مند بزرگ نے جو دوسری نصیحت کی، وہ یہی تھی کہ تمھیں ایسے شخص کے قریب نہیں پھٹکنا چاہیے جسے اپنے تن کی خاطر اپنی روح یا اپنے من کو بیچ ڈالنے سے بھی عار نہ ہو۔ ایسا شخص حیوانوں سے گیا گزرا تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کا وجود دوسروں کے لیے اور اپنی قوم کے لیے بھی بے حد خطرناک ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایسا شخص اپنے فائدے کی خاطر پوری قوم کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آتا اور ایک حقیر سے منصب یا عہدے کے لالچ میں پوری ملّت سے غداری کرنے سے بھی اُسے باک نہیں ہوتا۔ بہ الفاظِ دیگر علّامہ اقبالؒؒؒ مسلمانوں اور خاص طور پر مسلمان نوجوانوں کے دل میں یہ بات بٹھادینا چاہتے ہیں کہ دوسروں کے سہارے زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ زندگی میں اپنی ہمّت اور اپنے زورِ بازو سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایسے لوگوں سے دور رہنا چاہیے جو اپنے تن کی دنیا آباد کرنے کے لیے اپنے من کی دُنیا اُجاڑ ڈالتے ہیں، جو جسم کے آرام کی خاطر اپنی روح کو بیچ دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ذرا سے مادّی فائدے کے لیے نہ صرف خود بک جاتے ہیں بلکہ اپنی قوم اور ملّت تک کو بیچ ڈالتے ہیں۔ من اور تن یا روح اور جسم کے سلسلے میں علّامہ اقبالؒؒؒ کے درج ذیل اشعار خصوصیت سے توجہ طلب ہیں کہ ان میں مندرجہ بالا دونوں نصیحتیں بہ اندازِ دگر بیان ہوئی ہیں ؎ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن من کی دنیا؟ من کی دنیا، سوز و مستی،جذب و شوق تن کی دنیا؟ تن کی دُنیا، سود و سودا مکرو فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھائوں ہے، آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دُنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جُھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا، نہ تن موج و ساحل بساحل گفت موج بے قرارے بفرعونے کُتم خوا را عیارے گہے برخویش می پیچم چو مارے گہے رقصم یہ ذوقِ انتظارے سمندر کی ایک بے تاب و بے قرار موج نے ساحل سے کہا۔ ’’اے ساحل! تُو تو بے عملی کی تصویر بنا ایک جگہ پڑا ہے۔ تیری زندگی میں حرکت، عمل اور جدوجہد نام کو بھی نہیں تُو دن رات لہروں کے طمانچے اور موجوں کے تھپیڑے کھاتا ہے اور کھائے جاتا ہے۔ اس کے باوجود میںتیرے اندر حرکت کی کو ئی علامت پیدا نہیں ہوتی، عمل کا کوئی جذبہ تیرے وجود میں انگڑائی نہیں لیتا، تیری بے عملی اور بے حسی، بے عملی اور بے حسی ہی رہتی ہے، جدوجہد کی شکل اختیار نہیں کرتی۔ اس کے برعکس تو مجھے دیکھ! میں سراپا حرکت و عمل ہوں۔ مجھے ایک لحظہ کے لیے بھی سکون اور قرار نہیں۔ میں تو ہمیشہ فرعون سے مقابلہ کرکے اپنی طاقت کا امتحان کرتی ہوں۔ فرعون سے ٹکراکر ہی میرے کھرے کھوٹے کا پتا چلتا ہے۔ اے ساحل! میری زندگی دو حالتوں سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔ کبھی تو میں خُود اپنے وجود کے گرد سانپ کی طرح لپٹتی ہوں اور اس طرح اپنی تربیت کرکے اپنے مخفی قوتوں کو پروان چڑھاتی ہوں اور کبھی میں حالتِ انتظار میں رقصاں ہوتی ہوں کہ کب کوئی ایسا حریف میرے مقابل آئے جس سے ٹکرا کر میں اپنی طاقت کا امتحان کرسکوں۔ اس طرح میری زندگی ایک مسلسل جدوجہد، ایک متواتر بے قراری میں بسر ہوتی ہے اور میرا وجود ایک لحظے کے لیے بھی سکون اور قرار سے آشنا نہیں ہونے پاتا۔ یہی بے تابی میری زندگی ہے اور یہی بے قراری میری طاقت اور توانائی کا راز ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے اس رُباعی میں موجِ بے قرار کی ساحل سے گفتگو کے پیرائے میں ایک سراپا عمل مسلمان اور ایک بے عمل مسلمان کی زندگی کا فرق بیان کیا ہے۔ سمندر کی بے تاب و بے قرار موج سرتا سر حرکت، عمل اور جدوجہد ہونے کی وجہ سے اُن کے نزدیک مرد مومن کی علامت ہے جو ہمیشہ باطل اور طاغوتی قوتوں سے مقابلہ کرکے اپنی طاقت کا امتحان بھی کرتا ہے اور اس مقابلے کے ذریعے اپنی خودی اور مخفی قوتوں کی تربیت بھی کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ساحل بے عملی کی تصویر اور حرکت سے مرحوم ہونے کی بنا پر ایک بے عمل مسلمان کر مترادف ہے کہ وہ زمانے کے تھپیڑے کھاتا ہے، باطل کی قوتیں اُسے کچوکوں پر کچوکے لگاتی ہیں، طاغوتی طاقتیں اُسے اپنے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بناتی ہیں لیکن اپنی جگہ ٹس سے مس نہیں ہوتا، اُس میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ وہ آمادۂ جدوجہد نہیں ہوتا اور تقدیر کے نام پر زمانے کا ہر ظلم و ستم خاموشی سے چُپ چاپ اور بغیر کوئی احتجاج کیے برداشت کرتا رہتا ہے۔ اسی لیے علّامہ اقبالؒؒ نے ’’نہنگ با بچۂ خویش‘‘ میں مگر مچھ کی زبان سے اپنے بچے کو یہ بات کہلوائی ہے کہ آرام طلبی، راحت پسندی اور عافیت کوشی ہمارے مذہب میں حرام ہے،اس لیے تجھے ساحل سے دُور رہتے ہوئے اور موجوں سے لڑتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔ یہی تلقین علّامہ اقبالؒؒ نے پیامِ مشرق کی ایک رباعی میں کی ہے میارا بزم برساحل کی آنجا نوائے زندگانی نرم خیز است بدریا غلط و باموجش در آویز حیاتِ جاوداں اندر ستیز است اپنی زندگی کی محفل ساحل پر آراستہ مت کر کیوں کہ وہاں تو زندگانی کا نغمہ بڑے ہی دھیمے سُروں میں ہے۔ اس کی بجائے تو سمندر میں کود کر اس کی موجوں سے دست و گریباں ہو۔ کیوں کہ حیاتِ جاوداں تو جدوجہد ہی میں پوشیدہ ہے۔ بہ الفاظ دیگر مردِ مومن یا سراپا عمل مردِ مسلمان ہمہ وقت مصروفِ جہاد رہتا ہے۔ وہ میدان میں ہوتا ہے تو باطل اور طاغوتی طاقتوں سے نبرد آزما ہوتا ہے اور گھر میں ہو تو اپنے نفس سے جدوجہد کرکے اپنی خودی کی تربیت کرکے اپنے آپ کو باطل سے مزید نبرد آزمائیوں کے لیے تیار کرتا ہے۔ گویا وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک جدوجہد یا جہاد میں مصروف رہتا ہے۔ آرام و سکون سے اُس کی زندگی قطعا نا آشنا ہوتی ہے۔ حکایاتِ پیامِ مشرق گل اور خار سحری گفت بلبل باغباں را دریں گل جز نہال غم نگیرد بہ پیری می رسد خار بیاباں دلے گل چوں جواں گردو، بمیرد ایک روز صبح کے وقت ایک بلبل نے باغبان سے کہا۔ ’’اس دنیا کی کیفیت بھی کتنی عجیب ہے۔ اس کی مٹی کی خاصیت تو یہ ہے کہ اس میں صرف رنج و غم کا پودا ہی سر سبز ہوتا ہے۔ ہم اس دنیا کی حسین و جمیل چیزوں سے دل لگاتے ہیں، لیکن ان اشیاء کا حسن و جمال عارضی ثابت ہوتا ہے۔ یہ حسین و جمیل اشیاء جب چند روز اپنی بہار دکھا کر فنا ہوجاتی ہیں تو ہمارے دلوں کو رنج و غم میں مبتلا کر جاتی ہیں۔ ہم جو اِن چیزوں کے حسن و جمال اور خوب صورتی و رعنائی کے شیدائی ہوکر ان کی محبت کے گیت گاتے ہیں، ان کے حسن کی بہار کے فنا ہونے پر کفِ افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔حالاں کہ اس دنیا کے باغ میں پھول بھی ہوتے ہیں اور کانٹے بھی، مگر کانٹے میں نہ تو حسن ہے نہ دل کشی، اس لیے کسی کا ہاتھ اس کی طرف نہیں بڑھتا۔ نہ کوئی اسے حاصل کرنے کی تمنا کرتا ہے اور نہ کوئی اس کی شکل و صورت پر فریفتہ ہوتا ہے۔ چناں چہ وہ ایک عرصے تک اپنی شاخ پر لگا رہتا ہے اور اپنی پوری عمر کو پہنچ کر یعنی کہ بوڑھا ہوکر مرتا ہے، مگر پھول میں چوں کہ حسن و جمال اور خوب صورتی و رعنائی پائی جاتی ہے، اس لیے اس کا حسن و جمال ہی اس کی موت کا سامان بن جاتا ہے کہ ادھر وہ جوان ہوا، ادھر اسے موت آئی۔ وہ کِھل کر پھول بنا اور ساتھ ہی اس کی موت کا پیغام آگیا۔ اوّل تو اسے کِھلتے ہی توڑ لیا جاتا ہے اور اگر وہ شاخ میں رہ بھی جائے، تب بھی اس کی زندگی اس قدر مختصر ہوتی ہے کہ صبح کِھلا اور شام ہوتے ہوتے مُرجھا کر موت کی آغوش میں پہنچ گیا۔ علّامہ اقبالؒؒ نے اس رباعی میں بلبل کی باغبان سے گفتگو کے پیرائے میں یہ حقیقت بیان کی ہے کہ اس دنیا میں حسن و جمال ہر لحظہ روبہ زوال ہے۔ انسان اس دنیا میں قدرتی طور پر حسین و جمیل اشیاء سے دل لگاتا ہے اور جب یہ حسین و جمیل اشیاء چند روز اپنے حسن و جمال کی بہار دکھا کر فنا ہوجاتی ہیں تو وہ افسوس سے ہاتھ ملتا رہتا ہے اور اس طرح یہ الم انگیز حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس دنیا کے باغ میں اگر کوئی پودا سرسبز ہوتا ہے تو وہ غم کا پودا ہے۔ کانٹا اپنی طبعی عمر پوری کرکے باغ سے رخصت ہوتا ہے لیکن پھول جوان ہوتے ہی موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ کم و بیش یہی مضمون علّامہ اقبالؒؒؒ نے بانگِ درا میں اپنی نظم ’’حقیقتِ حسن‘‘ میں پیش کیا ہے کہ ایک روز حسن نے خدا کی بارگاہ میں عرض پیش کی کہ اے خدا! تو نے مجھے غیر فانی کیوں نہ بنا دیا؟ اس پر خدا تعالیٰ کی بارگاہ سے جواب ملا کہ یہ دنیا تو رنگا رنگ تصویروں کا گھر ہے، جن میں سے کوئی بھی چیز اصل نہیں۔ یہ دنیا تو فنا ہونے والی ہے اور اس کا ظہور ہی تغیّر کے رنگ سے ہوا ہے۔ اسی لیے اس کی ہر چیز لحظہ بہ لحظہ بدلتی رہتی ہے۔ اس دنیا میں تو وہی شے حسین کہلاتی ہے جو فنا ہوجانے والی ہو۔ واضح رہے کہ حقیقتِ حسن کا اصل خیال علّامہ اقبالؒؒؒ نے جرمن نثر میں دیکھا تھا، جسے انھوں نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اردو نظم میں منتقل کردیا۔ ’’حقیقتِ حسن‘‘ میں حسن کے فانی ہونے کی حقیقت کا اظہار، حسن کی بارگاہِ خداوندی میں عرض کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، جب کہ اس رباعی میں یہ حقیقت بلبل کی زبان سے پھول اور کانٹے کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے بیان ہوئی ہے کہ کانٹا چوں کہ حسن اور دلکشی سے محروم ہے، اس لیے وہ عرصۂ دراز تک شاخ پر لگا رہتا ہے، یعنی بوڑھا ہوکر مرتا ہے مگر پھول جس میں حسن پایا جاتا ہے، جوان ہوتے ہی فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ اخترِ صبح گزشتی تیز گام اے اختر صبح مگر از خواب ما بیزار رفتی من از نا آگہی گم کردہ راہم تو بیدار آمدی، بیدار رفتی اے صبح کے ستارے! تو آسمان پر نمودار تو ہوا، لیکن بہت تیزی کے ساتھ گزر گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تو ہمیں کوئی پیغام دینے آیا تھا، لیکن جب تو نے دیکھا کہ ہم لوگ بیدار ہونے کے وقت بھی غفلت اور مدہوشی کی نیند سو رہے ہیں تو ہماری غفلت پر تو ہم سے ناراض ہوگیا اور ٹھہر کر ہمارے بیدار ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے نہایت تیزی کے ساتھ ہماری دنیا سے چلا گیا۔ اے صبح کے ستارے! تیری ناراضی اور برہمی بالکل بجا ہے۔ ہم اپنی غفلت کی وجہ سے اپنی راہ گم کر بیٹھے۔ ہم سوتے رہے اور اس طرح اپنی زندگی کا مقصد حاصل نہ کر سکے۔ قدرت نے ہمارے لیے جو منزل مقرر کر رکھی تھی، ہم اپنی غفلت کے باعث اس تک نہیں پہنچ سکے۔ اس طرح ناکامی و نامرادی ہمارا مقدر بن گئی، مگر تُو چوں کہ بیدار تھا، اس لیے کامیاب و کامران رہا۔ تو ایک لحظے کے لیے بھی غفلت کا شکار نہیں ہوا… تو بیدار آیا، بیدار رہا اور بیدار ہی گیا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس رباعی میں صبح کے ستارے سے خطاب کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اس دنیا میں کامیابی و کامرانی ان ہی کا مقدر بنتی ہے جو قوانینِ فطرت کی پابندی کرتے ہوئے اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے ہیں۔ ستارے فطرت کے قوانین کی پابندی کرتے ہوئے کمال دیانت داری اور انتہائی باقاعدگی و مستعدی کے ساتھ اپنا فرضِ منصبی انجام دیتے ہیں، لیکن انسان فطرت کے قوانین کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہے۔ وہ ان قوانین سے آگاہی بھی حاصل نہیں کرتا اور اس طرح اپنی راہ گم کردیتا ہے۔ وہ غفلت کی نیند سوتا رہتا ہے، اس لیے اس کی زندگی کی منزل کھوئی ہوجاتی ہے۔ ستارے ہشیار و بیدار رہتے ہیں، اس لیے اپنی منزل کو پالیتے ہیں۔ حرکت اور بیداری کا یہی پیغام علّامہ اقبالؒؒؒ نے بانگِ درا میں اپنی نظم ’’چاند اور تارے‘‘ میں بھی دیا ہے، جس میں چاند ستاروں سے کہتا ہے کہ اس جہان کی زندگی حرکت پر موقوف ہے اور حرکت یہاں کا پرانا دستور ہے۔ یہاں تلاش ہر شے کو ہر وقت حرکت میں رکھتی ہے۔ اس راستے میں ٹھہرنا بالکل بے جا ہے، کیوں کہ ٹھہرنے میں موت چُھپی ہوئی ہے، یعنی جو ٹھہرا، ختم ہوگیا۔ چلنے والے آگے نکل جاتے ہیں اور خود ذرا بھی ٹھہرے، وہ دوسروں کے قدموں تلے آکر روندے اور کچلے جاتے ہیں۔ اس چلنے کا آغاز عشق سے ہوتا ہے اور اس کی آخری منزل حسن کے سوا کچھ نہیں۔ پروانہ شُتیدم در عدم پروانہ می گفت دمے از زندگی تاب و تبم بخش پریشاں کُن سحر خاکسترم را ولیکن سوز و ساز یک شبم بخش سنا ہے کہ پروانے نے دنیا میں آنے سے پہلے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی۔ ’’اے خدا! تو اگر مجھے دنیا میں بھیجنا چاہتا ہے تو مجھے زندگی کی تب و تاب سے کچھ حصہ عطا فرما۔ میںدنیا میں ایک عاشق کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔ میں کسی طویل زندگی کا آرزو مند نہیں ہوں۔ بے شک مجھے صرف ایک رات کی زندگی ملے اور اس ایک رات کے اختتام پر صبح کے وقت میرے وجود کی خاکستر پریشاں ہوکر بکھر جائے، لیکن عاشقِ صادق کی حیثیت سے سوزو ساز کی کیفیت میں بسر ہو۔ میں نہ صرف عشق کی آگ میں جلوں بلکہ اس جلنے میں مجھے لطف اور لذت بھی محسوس ہو۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس رباعی میں پروانے کی بارگاہِ خداوندی میں التجا کے پیرائے میں ایک عاشقِ صادق کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ عاشق کی زندگی کا جامع اظہار ’’سوز و ساز‘‘ سے بہتر الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ عاشق کی ساری زندگی ان ہی دو باتوں سے عبارت ہے کہ وہ عشق کی آگ میں جلتا ہے اور اس آگ میں جلتے ہوئے اسے ایک ایسا کیف ملتا ہے کہ اس کے آگے وہ دنیا جہان کی نعمتوں، راحتوں اور آسائشوں کو ہیچ سمجھتا ہے۔ وہ اپنی سوز و ساز سے بھرپور زندگی کو اس درجہ قیمتی سمجھتا ہے کہ اس کے بدلے میں ’’شانِ خداوندی‘‘ بھی لینے کو تیار نہیں ہوتا: متاعِ بے بہا ہے درد و سوزِ آرزو مندی مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی پروانے کی طرف سے ’’سوزو ساز‘‘ سے بھرپور صرف ایک رات کی زندگی کی خواہش کے استعارے میں علّامہ اقبالؒؒؒ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ سوزوساز یا سوزو گداز کی کیفیت ہی وہ جوہر ہے، جس سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ یعنی انسان سوزو ساز ہی کا دوسرا نام ہے اور اسی میں اس کی ہستی کا راز مضمر ہے۔ پروانے کی زندگی کا یہ سبق آموز رُخ علّامہ اقبالؒؒؒ نے بانگِ درا میں اپنی نظم ’’شمع و پروانہ‘‘ میں بھی پیش کیا ہے۔ جس میں وہ شمع سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہیں کہ پروانہ تجھ سے پیار کیوں کرتا ہے؟ یہ ننھی سی جان تجھ پر کس وجہ سے قربان ہوئی جاتی ہے؟ تیری ادا دیکھ کر یہ پارے کی طرح تڑپنے لگتا ہے۔ تو نے اسے عشق کے کیا طور طریقے سکھا دیے ہیں؟ جہاں تیرا جلوہ ہو، وہاں یہ بار بار گھومنے اور چکر کھانے لگتا ہے۔ تیرے اوپر بے قرار ہوکر بار بار گرنا اس کے لیے موت کا سامان ہے۔ کیا اس کی جان کو موت کا دکھ سہ کر ہی آرام ملتا ہے؟ کیا تیری لو میں اسے وہ زندگی نظر آتی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی؟ ہر وجود کے لیے ایک نماز ہے۔ پروانے کی نماز یہ ہے کہ تیرے سامنے جل کر مر جائے۔ اگرچہ اس کے پہلو میں ننھا سا دل ہے، لیکن اس میں سوز و ساز کا حوصلہ اور سوز و گداز کی لذت موجود ہے۔ بُوئے گل جنت کی ایک حور یہ سوچ سوچ کر حیران و پریشاں ہوتی تھی کہ ہمیں آج تک کسی نے دنیا کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ اس دنیا کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے، جہاں صبح بھی ہوتی ہے اور شام بھی۔ ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ دنیا میں کبھی دن کا اجالا ہوتا ہے اور کبھی رات کی تاریکی۔ یہ صبح و شام کی بات اور اس سے بڑھ کر دن کے اجالے اور رات کی تاریکی کی بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ یہاں جنت میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں نہ صبح ہے نہ شام۔ یہاں نہ دن کا اجالا ہے اور نہ رات کی تاریکی۔ پھر یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس دنیا میں لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ یہ بات تو میرے لیے بے حد عجیب و غریب ہے، کیوں کہ جنت میں نہ تو کوئی پیدا ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے۔ جنت کی فضائیں تو صبح و شام، دن اور رات، جینے اور مرنے کی کیفیتوں سے بالکل پاک ہیں۔ اس لیے کیوں نہ میں خود دنیا میں جائوں اور وہاں جاکر دنیا کی حقیقت معلوم کروں کہ وہاں صبح و شام اور دن اور رات کا چکر کیا ہے اور مرنا جینا کسے کہتے ہیں؟ یہ سوچ کر وہ حور جنت سے روانہ ہوئی اور اس نے دنیا میں قدم رکھا۔ دنیا میں آکر وہ موجِ نکہت کی صورت اختیار کرکے پھول کی ایک ٹہنی میں پنہاں ہوگئی۔ پھر اس نے آنکھ کھولی اور غنچے کی شکل میں آگئی۔ غنچے میں آنے کے بعد وہ مسکرائی اور کِھل کر پھول بن گئی۔ پھول کی صورت میں شگفتہ ہونے اور کچھ دیر مسکرانے کے بعد وہ پتیوں کی صورت میں زمین پر گر پڑی۔ جب وہ پتّی پتّی ہوکر زمین پر گری اور قیدِ ہستی سے آزاد ہوئی تو اس کے سینے سے ایک آہ نکلی… یہی وہ آہ ہے جسے ہم دنیا والے خوشبو کہتے ہیں۔ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم ایک خوب صورت تخیّلی نظم ہے، جس میں انھوں نے یہ بتایا ہے کہ پھول میں خوشبو کہاں سے آئی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن جنت میں ایک حور کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ آج تک کسی نے مجھے دنیا کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا۔ سنا ہے کہ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں صبح بھی ہوتی ہے اور شام بھی، دن بھی ہوتا ہے اور رات بھی۔ پھر وہاں لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، جب کہ جنت میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ چناں چہ وہ حور جنت سے چلی اور زمین پر آکر پھول کی ٹہنی میں چھپ گئی۔ وہاں سے وہ غنچے کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر پھول بن گئی۔ جب وہ پتّی پتّی ہوکر زمین پر گری اور فنا ہوکر واپس جنت کی طرف جانے لگی تو اس کے سینے سے ایک آہ نکلی۔ اس آہ کو دنیا والوں نے خوشبو کا نام دے دیا۔گویا پھول اگرچہ مادّی دنیا سے تعلق رکھتا ہے، لیکن اس کے اندر جو خوشبو ہے، وہ غیر مادّی ہے اور فی الحقیقت ایک لطیف آسمانی جوہر ہے۔ افکارِ انجم سنا ہے کہ ایک ستارے نے دوسرے ستارے سے کہا: ’’ہم ایسی فضا میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو غیر محدود ہے۔ اس فضا کی کیفیت ایک ایسے سمندر کی طرح ہے جس کا کوئی ساحل، کوئی کنارا نہ ہو۔ ہم ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ قدرت نے ہماری فطرت ہی میں سفر رکھ دیا ہے، لیکن ہمیں اپنی منزلِ مقصود کوئی پتا نہیں۔ ہمیں سفر کرتے اور چلتے ہوئے کروڑوں برس ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود ہم ویسے کے ویسے اور وہیں کے وہیں ہیں، جیسے اور جہاں کروڑوں سال پہلے تھے۔ ایسے حالات میں ہمیں اپنی چمک دمک سے کیا فائدہ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کمندِ روزگار کے اسیر اور قوانینِ فطرت میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں نہ اپنے مسلسل سفر سے کچھ حاصل ہوا ہے اور نہ ہماری چمک دمک نے ہمیں کوئی فائدہ پہنچایا ہے۔ ہم سے تو وہی اچھے ہیں جو وجود سے محروم ہیں اور عدم میں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہماری زندگی محض سفر ہے اور سفر بھی ایک ایسا مسلسل سفر جس کا نہ آغاز ہے نہ انجام۔ ہمارے لیے اپنی یہ حالت ایک ایسے بھاری بوجھ کی طرح ہے جسے ہم قطعاً برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے ہونے سے تو نہ ہونا اچھا ہے۔ ہماری ہستی سے تو نیستی کہیں بہتر ہے۔ مجھے تو یہ نیلگوں فضا اپنی تمام رفعتوں کے باوجود پسند نہیں آئی۔ اس کی بلندی سے تو ارضِ خاکی… دنیائے آب و گِل… کی پستی بدرجہا بہتر ہے۔یہ دنیا ئے آب و گِل اپنی پستی کے باوجود ہماری بلند و بالا فضا ئے نیلگوں پر فوقیت رکھتی ہے، کیوں کہ یہ دنیائے آب و گل اس مبارک اور خوش قسمت انسان کا مسکن ہے، جو اپنے وجود میں ایک جان بے قرار رکھتا ہے، جس کے اندر جستجو اور تگ و دو کی صفت پائی جاتی ہے، جو ہماری طرح کمندِ روزگار کا اسیر نہیں بلکہ رہوارِ روزگار کا سوار ہے۔ ہم اسیرِ روزگار ہیں، لیکن وہ حاکمِ روزگار ہے۔ وہ اپنی جستجو اور تگ و دو کی بہ دولت زندگی میں انقلاب پیدا کرتا رہتا ہے۔ سچ پوچھو تو زندگی کی قبا اسی کے قامت پر راس آئی ہے۔ صحیح معنوں میں زندگی کا اطلاق اسی پر ہوسکتا ہے، کیوں کہ وہ اپنی دنیا میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ وہ ایک طرف تو کائنات کے پوشیدہ اسرار کو ظاہر کرتا رہتا ہے، دوسری طرف خود نئی نئی چیزیں پیدا کرتا رہتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ ہم سے کہیں برتر و افضل ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں ستاروں کی زبان سے انسان کی عظمت کا اعتراف کردیا ہے۔ ستاروں کے نزدیک انسان اس لیے اشرف المخلوقات ہے کہ وہ قوانینِ فطرت کا اسیر ہونے کی بجائے فطرت کا حاکم ہے اور اس کے بے قرار وجود میں تخلیق کی شان پائی جاتی ہے اور اس وصف میں کائنات کی کوئی بھی مخلوق اس کی ہمسری نہیں کرسکتی۔ اپنی تمام رفعتوں کے باوصف ستارے انسان کو اس لیے مبارک اور خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی جہدِ مسلسل سے اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرتا رہتا ہے، اپنے سفر میں منزلوں پر منزلیں مارتا چلا جاتا ہے اور نو بہ نو چیزیں وجود میں لاتا رہتا ہے۔ زندگی ایک رات موسمِ بہار کے بادل نے روتے ہوئے کہا۔ ’’یہ زندگی تو محض گریۂ پیہم ہے، مسلسل روتے رہنے کا دوسرا نام ہے۔ اس زندگی میں تو غم ہی غم اور دکھ ہی دکھ ہیں، آرام اور راحت کا کہیں نام و نشان بھی نہیں۔‘‘ موسمِ بہار کے بادل کی یہ بات سن کر بجلی تیزی سے چمکی اور اس نے چمک کر کہا۔ ’’اے ابرِ بہار! تو جو سمجھا، غلط سمجھا اور تو نے جو کہا، غلط کہا۔ یہ زندگی تو محض خندۂ یک دم ہے۔ ایک لمحے کی ہنسی اور دم بھر کی مسکراہٹ کا نام زندگی ہے۔‘‘ نہیں معلوم کہ بادل اور بجلی کے درمیان اس مکالمے کی خبر گلشن میں کس طرح پہنچ گئی کہ پھول اور شبنم میں بھی اسی مسئلے پر گفتگو ہو رہی ہے۔ پھول کہتا ہے کہ زندگی خندۂ یک دم ہے اور شبنم پھول کی بات کو جھٹلاتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ زندگی محض گریۂ پیہم کا نام ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں بادل اور بجلی کے درمیان مکالمے کے ذریعے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ زندگی کی ماہیت تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن ہر شخص زندگی کو اپنے اپنے زاویۂ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس لیے ہر شخص کا نظریۂ زندگی دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ بادل کا بارش کی صورت برسنا گویا ایک طرح کا رونا ہے، اس لیے بادل کے نزدیک زندگی محض گریۂ پیہم ہے۔ بجلی چوں کہ ذرا سی دیر کے لیے چمکتی ہے اور بجلی کی یہ چمک ایک طرح کی مسکراہٹ ہے، اس لیے بجلی نے زندگی کو خندۂ یک دم قرار دیا ہے۔ غرض اس دنیا میں ہر شخص زندگی کی بابت جو رائے یا نظریہ قائم کرتا ہے، وہ اس کی اپنی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جس کی زندگی آرام سے گزرتی ہے، اس کے نزدیک زندگی عیش ہی عیش، آرام ہی آرام ہے اور جو بچارا دکھوں اور مصیبتوں کا مارا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ زندگی دکھوں اور مصیبتوں کا نام ہے۔ کسی کے لیے یہ دنیا خوشیوں کا گہوارہ ہے اور کسی کے نزدیک دکھوں کا پُشتارہ ہے۔ دنیا میں ایک شخص کو جیسا کچھ پیش آتا ہے، زندگی کے بارے میں اس کی سوچ ویسی ہوجاتی ہے۔ محاورۂ علم و عشق علم نے عشق سے کہا۔ ’’دیکھ! میری نگاہ ہفت اقلیم کے رازوں کو جانتی ہے اور میں عناصرِ اربعہ کے اسرار و رموز سے بھی آگاہ ہوں۔ زمانہ میری کمند کا اسیر ہے، ساری کائنات پر میرا سکہ رواں ہے۔ آگ، پانی، مٹی اور ہوا، سب پر میری حکمرانی ہے۔ میں اس مادّی کائنات ہی کے بارے میں غور و فکر کرتا ہوں، جسے ہر کوئی دیکھتا اور محسوس کرتا ہے، بھلا مجھے عالمِ لاہوت سے کیا واسطہ؟ کارکنانِ قضا و قدر نے تو مجھے اسی محسوس و مشہود مادّی عالم سے وابستہ کر رکھا ہے۔ اس لیے میری جولان گاہ یہی عالمِ محسوسات ہے، مجھے کسی اور عالم سے نہ کوئی واسطہ ہے نہ مطلب۔ میرے ساز سے سیکڑوں نغمے نکلتے ہیں اور ان کی بہ دولت سیکڑوں بلکہ ہزاروں علوم و فنون کو فروغ حاصل ہوتا ہے، نئی نئی معلومات، نئی نئی تحقیقات اور نئے نئے انکشافات سامنے آکر دنیا کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ میں اپنی معلومات کے سرمائے کو اپنے کہنے تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اپنے سینے کا ہر راز دنیا کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ میرا خزینۂ معلومات ایسا نہیں ہے کہ صرف چند خاص الخاص افراد تک اس کی رسائی ہو بلکہ میری دولت اور میرا سرمایۂ معلومات خاص و عام سب کے لیے ہے۔ میرے ہاں ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے جو بند کمروں میں یا صرف خاص خاص شاگردوں کو دی جاتی ہو۔ میرے ہاں تو ہر راز ایک کُھلا راز ہے۔ میرے خزانے تو سب کے لیے کُھلے ہیں۔ میری دولت ساری دنیا کے لیے ہے اور میرے خزینۂ معلومات سے ساری دنیا استفادہ کرتی ہے۔ میرے ہاں کوئی ایسا راز نہیں ہے، جو سینہ بہ سینہ چلتا ہو۔ ہر نئی تحقیق بلا تاخیر دنیا والوں کے سامنے آجاتی ہے۔ ہر انکشاف سے ساری دنیا آگاہ ہوجاتی ہے۔‘‘ علم کی یہ باتیں سن کر عشق نے کہا۔ ’’اے علم! میں تیری چالاکیوں اور فسوں کاریوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ تو وہ آفت کا پرکالہ ہے کہ پانی میں آگ لگا سکتا ہے۔ تو اپنی ایجادات اور اپنے انکشافات کی بہ دولت ہوا کو آتش ناک زہر دار اور مہلک بنا سکتا ہے۔ قدرت کا قانون تو یہ ہے کہ دریا سے پانی کی موجیں بلند ہوتی ہیں اور اس کا پانی آگ کو سرد کردیتا ہے، لیکن تیری ایجادات کی بہ دولت انسانوں کو ایسی طاقت میسر آسکتی ہے کہ وہ دریائوں سے پانی کی موجوں کی بجائے شعلے پیدا کردیں اور وہ ہوا جسے قدرت نے ہر جاندار کے لیے زندگی کا وسیلہ بنایا ہے، اسے زہریلی اور مہلک بنا کر موت کا حیلہ بنا ڈالیں۔ ’’اے علم! جب تک تو میرے ساتھ رہا، تب تک تیرا وجود دنیا والوں کے لیے خیر و برکت کا موجب بنا رہا، تو جب تک میرے ساتھ تھا، ایک نور تھا۔ جب تو نے اپنا تعلق مجھ سے توڑ لیا تو تیرا نور، نار میں تبدیل ہوگیا اور تو کائنات کے لیے مفید ہونے کی بجائے مضر ہوگیا۔ میری طرح تو بھی اسی عالمِ بالا میں پیدا ہوا تھا، جس کا تو آج انکار کر رہا ہے لیکن افسوس کہ تو شیطان کے پھندے میں گرفتار ہوگیا، اور اب تو دنیا کے لیے موجبِ خیر و برکت ہونے کی بجائے سامانِ ہلاکت بنا ہوا ہے۔ تیری ہی بہ دولت دنیا میں ایسی ایسی تباہ کن ایجادات ہو رہی ہیں جو آن کی آن میں ہنستے بستے شہروں کو تباہ و برباد کرسکتی ہی اور لاکھوں بندگانِ خدا کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہیں۔ ’’اے علم! تو اپنے طرزِ عمل کو تبدیل کر، تو اس دنیا کو اجاڑنے کی بجائے آباد کر۔ اسے ویران کرنے کی بجائے اسے گلستان بنا۔ دنیا کی تباہی اور بربادی کا سامان بننے کی بجائے اس کی آبادی کا ذریعہ بن کر اس عالمِ پیر کو پھر سے جواں کردے اور اس کی صورت تو یہ ہے کہ کچھ دنوں میری محبت میں رہ کر اپنے دل میں محبت اور درد کا رنگ پیدا کرلے۔ میرے دردِ دل سے ایک ذرہ لے کر اپنے دل کو بھی درد سے آشنا کرلے۔ جب تیرے دل میں محبت اور درد کا رنگ پیدا ہوجائے گا تو پھر تیرا وجود دنیا کے لیے مضر ہونے کی بجائے مفید ہوجائے گا، پھر تیری ایجادات دنیا کے لیے تباہی و بربادی کا سامان بننے کی بجائے آبادی کا ذریعہ بن جائیں گی۔ پھر تو اہلِ عالم کے لیے اذیت، مصیبت اور زحمت کی بجائے راحت برکت اور رحمت کا باعث بن جائے گا اور آسمان کے نیچے اس دنیا کو ایک بہشتِ جاوداں کی صورت دے سکے گا۔ ’’اے علم! تو اس حقیقت کو فراموش مت کر کہ ہم دونوں روزِ ازل سے ایک دوسرے کے ہمدم، رفیق کار اور ساتھی رہے ہیں۔ ہم دونوں فی الحقیقت ایک ہی نغمہ کے زیرو بم ہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں علم اور عشق کے درمیان مکالمے کے ذریعے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ علم اگرچہ اپنی جگہ ایک قابلِ قدر چیز ہے اور اس کی بہ دولت دنیا میں سیکڑوں علوم و فنون فروغ پاتے ہیں، طرح طرح کے انکشافات سامنے آتے ہیں اور قسم قسم کی ایجادات ہوتی ہیں، جن سے دنیا اور اہلِ دنیا کی کایا پلٹ جاتی ہے، لیکن اگر علم عشق کے تابع نہ ہو تو اس کا وجود دنیا کے لیے رحمت کی بجائے زحمت اور آبادی کی بجائے بربادی کا سامان بن جاتا ہے۔ بقول مرشد رومیؒ ؎ علم را بر تن زنی، مارے بود علم را بر دل زنی، یارے بود یعنی اگر تو علم کو اپنے تن یا نفس کے تابع کردے گا تو تیرا علم تیرے حق میں وبال اور مصیبت بن جائے گا اور اگر تو علم کو اپنے دل، عشق یا وحی الٰہی کے تابع کردے گا تو تیرا علم نہ صرف تیرے حق میں، بلکہ ساری دنیا کے حق میں رحمت بن جائے گا۔ کرم کتابی ایک رات میں نے اپنے کتب خانے میں کرم کتابی (دیمک) اور پروانے کی گفتگو سنی۔ کرم کتابی نے پروانے سے کہا۔ ’’میں نے بہت دنوں تک بوعلی سینا کی کتابوں میں بسیرا کیا اور ایک مدت تک ظہیر فاریابی کے دیوان کو دیکھا۔ بوعلی سینا جیسے اونچے درجے کے فلسفی اور ظہیر فاریابی جیسے بلند پایہ شاعر کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے باوجود مجھے زندگی کی حقیقت سے آگاہی حاصل نہ ہوسکی۔ اتنا کچھ مطالعہ کرلینے کے باوجود میں اندھیرے میں بھٹک رہا ہوں اور میری قسمت کا دن حقیقت کے آفتاب کی روشنی سے محروم ہونے کے باعث رات کی طرح تاریک ہے۔‘‘ کرم کتابی کی یہ بات سن کر پروانے نے جواب دیا۔ ’’میرے دوست! یہ نکتہ تمھیں کسی کتاب سے نہیں ملے گا۔ زندگی کی حقیقت کتابوں سے معلوم نہیں ہوسکتی۔ اگر تو اس راز سے واقف ہونا چاہتا ہے تو عشق اختیار کر اور اپنی جان کو عشق کی تپش سے ہمکنار کر۔ عشق کی آگ ہی زندگی کو صحیح معنوں میں زندگی بناتی ہے اور اسے قوتِ پرواز بخشتی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس تمثیلی نظم میں کرمِ کتابی اور پروانے کے مکالمے کے پیرائے میں یہ واضح کیا ہے کہ زندگی کی حقیقت فلسفیوں کی کتابوں اور شاعروں کے دیوانوں سے معلوم نہیں ہوسکتی، بلکہ عشق ہی سے معلوم ہوسکتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی حقیقت فلسفہ اور شاعری کی دسترس سے بالا تر ہے۔ اس نظم میں کرمِ کتابی سے عالم یا فلسفی مراد ہے اور پروانہ سے عاشق یا مومن مراد لیا گیا ہے۔ دیمک کتابوں کو چاٹ چاٹ کر ختم کردیتی ہے، لیکن پھر بھی اس کا سینہ تاریک کا تاریک رہتا ہے۔ ایک عالم یا فلسفی بھی کتابی کیڑا بن کر دنیا جہان کی کتابیں پڑھ ڈالتا ہے، لیکن پھر بھی اس کا سینہ زندگی کی حقیقت کے نور سے تہی رہتا ہے اور وجہ اس کی یہی ہے کہ فلسفے اور شاعری کی کتابیں پڑھ کر زندگی کی حقیقت معلوم نہیں ہوسکتی۔ زندگی کی حقیقت صرف عشق کی آگ اور ایمان کی تپش کے ذریعے ہی معلوم کی جاسکتی ہے۔ بقول مولانا ظفر علی خاں ؎ ایمان نہیں وہ جنس، جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے! ڈھونڈے سے ملے گی عاشق کو یہ قراں کے سیپاروں میں چناں چہ زندگی کی حقیقت سے باخبر ہونے کے لیے عشق اور ایمان کی تپش درکار ہے کیوں کہ اسی عشق کی تپش سے وہ ذوقِ پرواز پیدا ہوتا ہے، جو زندگی کا دوسرا نام ہے اور جو زندگی کو زندہ تر بناتا ہے۔ زندگی جز لذت پرواز نیست! آشیاں با فطرت او ساز نیست اور سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی کبر و ناز ایک روز پہاڑ کی چوٹی پر جمی ہوئی برف نے غرور و تکبر کے انداز میں پہاڑی ندّی سے کہا۔ ’’تیری وجہ سے ہماری زندگی بہت تلخ ہوگئی ہے۔ تو بہت گستاخ، شوخ، بے باک اور آوارہ ہے۔ تیری گستاخی، بے باکی اور آوارگی سال بہ سال بڑھتی ہی جاتی ہے۔ تو اس لائق نہیں ہے کہ تیرا شمار کوہستانیوں کے خاندان میں کیا جائے، اس لیے تو اپنے آپ کو ’’ابرِ کوہسار کی دختر‘‘ کہنا چھوڑ دے اور یہاں سے بہت دور کسی مرغزار کی طرف نکل جا۔ کوہساروں کے مکین تو بلندیوں کے باسی ہیں۔ مجھ کو دیکھ کہ میرا ٹھکانا پہاڑ کی بلند و بالا چوٹی پر ہے جب کہ تو زمین میں گری پڑی ہے اور پتھروں کی ٹھوکروں میں آکر غلطاں و پیچاں ہے۔ تیرا یہ طرزِ عمل ہم بلند و بالا کوہستانیوں کے لیے باعثِ ننگ و رسوائی ہے۔ پس مناسب یہی ہے کہ تو یہاں سے چلی جائے اور کوہساروں سے دور کسی مرغزار کو اپنا ٹھکانا بنالے۔‘‘ برف کی یہ متکبّرانہ باتیں سن کر ندّی نے کہا۔ ’’تجھے ایسی دل کو جلانے والی باتیں نہیں کرنی چاہییں۔ تکبّر اور غرور کا یہ انداز ترک کردے۔ تجھے اپنے آپ پر اس طرح غرور اور فخر و ناز نہیں کرنا چاہیے۔ خیر، میں تو یہاں سے جارہی ہوں، کیوں کہ تیرے خیال کے مطابق میرا روّیہ کوہستانیوں کے قبیلے کے شایانِ شان نہیں ہے، لیکن تو اپنے آپ کو آفتاب کی شعاعوں سے بچانا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چند روز کے بعد تو آفتاب کی گرمی سے پگھل جائے۔ تیرا سارا غرور و تکبر خاک میں مل جائے اور تجھے بھی میری طرح روتے اور آنسو بہاتے ہوئے کوہستانیوں کے خاندوادے کو خیرآباد کہنا پڑے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس تمثیلی نظم میں پہاڑ کی برف اور کوہستانی ندّی کے درمیان مکالمے کے پیرائے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ہم دوسروں کے عیبوں کو تو دیکھتے ہیں مگر اپنے عیبوں پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ ہمیں دوسروں کی آنکھ کا تنکا تو نظر آجاتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اکثر اوقات ہم دوسروں پر ان عیبوں کی بنا پر اعتراض کرتے رہتے ہیں جو خود ہماری ذات میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ چناں چہ اس نظم میں برف اپنے آپ پر غرور کرتے ہوئے پہاڑی ندی کو اس کی شوخی، بے باکی اور آوارگی پر بُرا بھلا کہتی ہے کہ تو بلند وبالا پہاڑوں کی رفعتوں کو چھوڑ کر زمین کی پستیوں میں آگئی ہے اور تیرا یہ طرزِ عمل ہم کوہستانیوں کی شان کے خلاف ہے، اس لیے تو یہاں سے کہیں اور چلی جا کیوں کہ تو کوہستانیوں کے قبیلے میں رہنے کے لائق نہیں رہی۔ برف کی باتوں کے جواب میں پہاڑی ندّی کہتی ہے کہ تجھے اپنے آپ پر اس قدر غرور نہیں کرنا چاہیے۔ میں تو یہاں سے جاتی ہوں، کیوں کہ تیرے خیال کے مطابق میں یہاں رہنے کے قابل نہیں، لیکن تو ذرا اپنے آپ کو سورج کی گرم گرم شعاعوں سے بچا کر رکھنا۔ اس طرح ندّی گویا برف کو پہاڑ کو اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ کسی وقت میں بھی تیری ہی مانند پہاڑ کی چوٹی پر جمی ہوئی تھی۔ سورج کی شعاعوں سے پگھل کر ندی کا پانی بننے سے پہلے میں بھی وہی تھی، جو اس وقت تُو ہے اور کچھ دنوں بعد تیری حالت بھی وہی ہوجائے گی جو اس وقت میری ہے۔اس لیے تجھے غرور و تکبّر کا یہ بے جا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہ الفاظِ دیگر ہمیں دوسروں کے عیب اور کمزوریاں دیکھنے کی بجائے اپنے عیبوں اور کمزوریوں پر نظر کرنی چاہیے۔ اپنے عیبوں کی اصلاح اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دوسروں کے عیبوں پر اعتراض وہی کر سکتا ہے جو خود ان عیبوں سے پاک ہو اور یہ بات سراسر مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ چناں چہ ہمیں دوسروں کو ان کے عیبوں کی بنا پر ہدفِ اعتراض بناتے ہوئے کسی غرور، تکبر یا فخر و ناز کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ عین ممکن ہے کہ جب ہم خود اپنا جائزہ لیں تو ہمیں اپنی ذات میں ان سے کہیں زیادہ عیب دکھائی دیں اور ہم بر بناے انصاف یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ دنیا میں خود ہم سے زیادہ کوئی برا ہے ہی نہیں۔ حقیقت ایک عقاب نے سمندر کی سطح پر تیرتی ہوئی جوئینہ (دھوبن چڑیا) سے کہا۔ ’’میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں، محض ایک سراب ہے، دیکھنے میں پانی معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں پانی نہیں ہے، محض دھوکا ہے۔‘‘ ’’اے عقاب! تجھے تو یہ سراب دکھائی دیتا ہے، لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ سراب نہیں، آب ہے۔ دیکھنے اور جاننے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔‘‘ عقاب اور جوئینہ کی یہ گفتگو جب مچھلی نے سنی تو اس سے نہ رہا گیا اور وہ بولی۔ ’’ارے نادانو! جو تم دیکھ رہے ہو یہ نہ سراب ہے اور نہ آب ہے بلکہ ایک ایسی چیز ہے جو پیچ و تاب میں ہے، جس میں ہر لحظہ، ہر لمحہ، حرکت، ہنگامۂ تلاطم اور جوش و خروش برپا ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں فلسفہ کا نہایت اہم اور قیمتی نکتہ بیان کیا ہے۔ اہلِ فلسفہ کے نزدیک علم کے تین مدارج ہیں۔ پہلا علم الیقین، دوسرا عین الیقین اور تیسرا حق الیقین۔ چناں چہ کسی شے کی حقیقت سے آگاہی اسی وقت ہوسکتی ہے، جب طالبِ حقیقت اس شے سے واصل یا ہم آغوش ہوجائے یا بہ الفاظِ دیگر خود وہی شے بن جائے، اسی نکتے کو علّامہ اقبالؒؒؒ نے عقاب، جوئینہ اور مچھلی کے مکالمے کے ذریعے واضح کیا ہے۔ عقاب پانی کو دور سے دیکھتا ہے، اس لیے اسے سراب سمجھ لیتا ہے۔ گویا کہ اس کی نگاہ دھوکا کھاگئی۔ ویسے بھی دور سے دیکھا جائے تو سراب اور آب میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ جوئینہ چوں کہ عقاب کے مقابلے میں پانی سے بہت نزدیک ہے، بلکہ پانی کی سطح پر تیر رہی ہے، اس لیے وہ عقاب کی بات سن کر نہایت یقین اور وثوق سے کہتی ہے کہ یہ سراب نہیں، آب ہے کیوں کہ میں اس کی سطح پر تیر رہی ہوں۔ اگر یہ سراب ہوتا تو میرے تیرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مچھلی عقاب اور جوئینہ دونوں کے مقابلے میں پانی سے زیادہ قریب ہے۔ عقاب تو پانی سے دور ہے اور جوئینہ پانی کی سطح پر ہے جب کہ مچھلی پانی کے اندر ہے، اس لیے وہ پانی کے بارے میں ان دونوں سے زیادہ واقف ہے۔ چناں چہ عقاب اور جوئینہ کی باتیں سن کر وہ کہتی ہے کہ یہ نہ سراب ہے اور نہ آب بلکہ ایک ایسی چیز ہے جو پیچ و تاب میں ہے۔ مچھلی نے پانی کے بارے میں جو بات کہی، وہ نہ عقاب کو نظر آئی اور نہ جوئینہ کو محسوس ہوئی، کیوں کہ وہ دنوں پانی سے باہر ہیں جب کہ مچھلی پانی کے اندر ہے۔ اس کے باوجود مچھلی نے دو ٹوک انداز میں کوئی بات نہیں کہی۔ اس نے بتایا ہے تو صرف اتنا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو پیچ و تاب میں ہے، جس میں ہر گھڑی حرکت، ہنگامہ، تلاطم اور جوش و خروش برپا ہے۔ مچھلی اگرچہ پانی کے اندر ہے لیکن پانی کے اندر ہونے کے باوجود وہ مچھلی ہی ہے، پانی نہیں ہے۔ وہ پانی بن کر حق الیقین کے درجے کو پہنچ جائے، تب اسے پانی کی ماہیت اور حقیقت معلوم ہوسکتی ہے۔ قطرۂ آب بارش کا ایک قطرہ بادل سے ٹپک کر سمندر میں گرا۔ جب اس نے سمندر کی وسعت کو دیکھا تو اسے اپنے ذرا سے وجود پر خجالت محسوس ہونے لگی۔ اس نے اپنے آپ سے کہا کہ افسوس، میں گرا بھی تو کہاں گرا! بھلا اس وسیع و عریض سمندر کے سامنے میری کیا حقیقت ہے۔ اس سمندر کے مقابل میرا حقیر وجود تو کچھ معنی ہی نہیں رکھتا۔جب قطرے نے اپنی کم مائیگی پر افسوس کا اظہار کیا تو سمندر سے ایک پُرخروش آواز بلند ہوئی۔ سمندر نے قطرے سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’اے قطرۂ آب! اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی پر افسوس مت کر، میری نگاہ میں تُو حقیر و بے مایہ نہیں بلکہ بے حد قیمتی اور گراں مایہ ہے۔ تو نے دنیا میں بہت سے انقلابات دیکھے ہیں۔ تو نے دنیا میں شام و سحر اور دن رات کی کیفیات کا مشاہدہ کیا ہے۔ تو نے باغ، صحرا اور جنگل کے مناظر دیکھے ہیں۔ کبھی تو گھاس کی پتّی پر مقیم رہا ہے، کبھی تو نے بادلو ںکے کاندھے پر سواری کی ہے اور آفتاب کے عکس سے تجھ میں چمک اور درخشانی پیدا ہوئی ہے۔ کبھی تو نے صحرائوں میں خشکی اور ریگستانوں کی پیاس کا تجربہ کیا ہے اور کبھی باغوں کی سیر کی ہے۔ کبھی تو انگور کی بیل میں پہنچ کر شراب بن گیا ہے اور کبھی خاک میں مل کر زندگی کے سوزوساز سے محروم ہوگیا ہے۔ تو ان ساری کیفیتوں سے گزرا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تو میری موجوں ہی سے پیدا ہوا ہے۔ تو میرے وجود ہی سے وجود میں آیا ہے۔ تو مجھ ہی سے پیدا ہوا ہے اور اب مجھ میں گر کر اپنی اصل سے آملا ہے۔ اس لیے رنجیدہ اور اداس مت ہو۔ بلکہ میری آغوش میں آرام کر اور میرے آئینے میں جوہر بن کر چمک۔ تو قطرہ بن کر میری آغوش میں آیا تھا، اب موتی بن کر میری آغوش سے نکل اور دنیا میں چاند اور ستاروں سے بھی زیادہ تابناک زندگی بسر کر۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم کے ذریعے شیخ سعدیؒ کی ایک معروف حکایت کو اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔ شیخ سعدیؒ نے بوستان میں یہ حکایت لکھی ہے کہ بارش کا ایک قطرہ ابر سے ٹپک کر سمندر میں گرا۔ جب اس نے سمندر کی وسعت دیکھی تو اسے اپنے وجود پر بڑی شرم آئی کہ افسوس! میں گرا بھی تو کہاں؟ بھلا سمندر کے سامنے میری کیا حقیقت ہے؟ جب اس نے اپنے آپ کو حقارت کی نظر سے دیکھا تو ایک سیپی نے فوراً آگے بڑھ کر اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور کچھ عرصے کے بعد وہ حقیر قطرہ ایک آب دار موتی بن کر سیپی سے نکلا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے شیخ سعدیؒ کی حکایت کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ شروع کے دو شعر تو شیخ سعدی ہی کی حکایت کی ہیں، اس کے بعد قطرے سے سمندر کا خطاب ہے کہ تو اپنے حقیر وجود پر شرمندہ نہ ہو، اس لیے کہ میری نظر میں تیرا وجود بڑا قیمتی ہے۔ ایک تو اس لیے کہ تو نے دنیا کے بہت سے انقلابات دیکھے ہیں۔ دوسرے اس لیے کہ تو مجھ ہی سے پیدا ہوا ہے اور اب مجھ میں شامل ہوکر دوبارہ اپنی اصل سے آملا ہے۔ اب تو میری آغوش میں آرام کر۔ میری آغوش سے تو ایسا موتی بن کر نکلے گا جس کی چمک دمک چاند ستاروں کی درخشانی کو بھی ماند کردے گی۔ محاورہ مابین خدا و انسان خدا نے انسان سے کہا۔ ’’اے انسان! میں نے اس جہان کو ایک ہی آب وگِل سے بنایا تھا۔ دنیا کے تمام انسانوں کو یکساں پیدا کیا تھا۔ دنیا کے تمام انسان آدمؑ کے بیٹے ہیں اور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی، لیکن تو نے انسانوں کو مختلف قوموں ایرانی، تاتاری، حبشی وغیرہ میں تقسیم کردیا۔ میں نے زمین سے خالص فولاد پیدا کیا، لیکن تو نے اس دھات سے جسے تیرے فائدے کے لیے بنایا گیا تھا، تلوار، تیر اور تفنگ جیسے مہلک ہتھیار بنائے۔ اسی فولاد سے تو نے درختوں کو کاٹنے کے لیے کلہاڑی بنائی اور اسی فولاد سے تو نے گیت گانے والے پرندوں کو اسیر کرنے کے لیے پنجرے بنائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تو ہر خیر کو شر بنانے پر تلا ہوا ہے اور تجھے رحمت کو زحمت بنا دینے کے سوا اور کچھ نہیں آتا۔‘‘ خدا کی یہ بات سن کر انسان نے جواب دیا۔ ’’اے خدا! میری زندگی کا صرف یہی ایک رخ نہیں ہے، جو تو نے بیان کیا ہے۔ میں نے زمین پر آکر یقیناً انسانوں کو مختلف قوموں میں تقسیم بھی کیا ہے اور میں نے لوہے جیسی مفید دھات سے مہلک ہتھیار بھی بنائے ہیں، لیکن میں نے ان باتوں کے علاوہ اور بہت کچھ بھی کیا ہے جو قابلِ داد ہے۔ اے خدا! تو نے اس دنیا میں رات پیدا کی تو میں نے تیری تاریک رات کو منوّر کرنے کے لیے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی پیدا کی تو میں نے اس مٹی سے پیالے بنائے۔ تو نے بیابان، کوہسار اور جنگل پیدا کیے تو میں نے پھولوں کی کیاریاں، باغ اور چمن بناے۔ تو نے تو پتھر پیدا کیا تھا لیکن میں وہ ہوں جو اس پتھر سے آئینہ بناتا ہے۔ تو نے زہر پیدا کیا ہے، لیکن میں وہ ہوں جو زہر کو تریاق اور دوائے شیریں میں تبدیل کرلیتا ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں خدا اور انسان کے درمیان مکالمے کے پیرائے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ انسان میں اگر کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں تو اس میں کچھ خوبیاں بھی ہیں۔ انسان کی فطرت میں قدرت نے خیر اور شر دونوں رکھے ہیں۔ جہاں انسان نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو خیر کی بجائے شر، آبادی کی بجائے بربادی اور رحمت کی بجائے زحمت کے ہتھیار بنا دیا ہے، وہاں اس نے اس دنیا کو اپنی عقل اور ذہانت کے بل بوتے پر سجایا اور سنوارا بھی ہے۔ ایک طرف اس نے بنی نوع انسان کی تباہی کے لیے مہلک ترین ہتھیاروں کے ڈھیر لگا دیے ہیں، دوسری طرف زہر سے تریاق کا کام لے کر جذام اور کوڑھ جیسی جان لیوا بیماریوں کی دوائیں بھی تیار کی ہیں۔ ایک طرف اس نے لوہے اور فولاد کو سامانِ ہلاکت بنایا ہے اور دوسری طرف اسی لوہے سے مختلف وسائلِ سفر اور ذرائع حمل و نقل تیار کرکے سفر میں اتنی آسانیاں پیدا کردی ہیں کہ دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے اور ایک شخص ایک دن رات میں زمین کے گرد چکر لگا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے کسی انسان کی خامیوں ہی پر نظر نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اس کی خوبیوں اور کارناموں کی بھی داد دینی چاہیے۔ شاہین و ماہی ایک شاہین سمندر کے کنارے کھڑا ہوا تھا۔ ایک مچھلی نے اسے سمندر کی طرف دیکھتے پایا تو اس سے کہا۔ ’’یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو، کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ موجوں کا یہ سلسلہ ایک عظیم الشان اور وسیع و عریض سمندر ہے جس میں بڑے بڑے اور خوں خوار قسم کے نہنگ، گھڑیال اور مگر مچھ پائے جاتے ہیں جن کے جوش و خروش اور ہیبت ناکی کے سامنے کالی گھٹائوں کی بھی کچھ وقعت نہیں۔ اس وسیع و عریض سمندر کے سینے میں سیکڑوں ہزاروں دیکھی اور ان دیکھی بلائیں چُھپی ہوئی ہیں۔ اس سمندر میں بڑے بڑے طوفان اٹھتے ہیں جن کی شدّت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ اس میں بڑے بڑے بھنور پڑتے ہیں اور اس کے اندر نہ جانے کیسی کیسی آفات پوشیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی تہ میں چمک دار موتی بھی ہیں۔ جب اس سمندر میں تلاطم برپا ہوتا ہے تو کسی کی طاقت نہیں کہ اس سے بچ کر کہیں جاسکے اور اپنی جان سلامت لے جائے۔ اس کا ہمہ گیر طوفان ہمارے سروں پر بھی ہوتا ہے اور پیروں کے نیچے بھی، دائیں بھی اور بائیں بھی۔ غرض اس سے کسی کو کہیں بھی پناہ نہیں مل سکتی۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہ ہر لحظہ جوان اور رواں دواں نظر آتا ہے۔ گردشِ ایام اس پر مطلق اثر انداز نہیں ہوتی۔ نہ یہ بوڑھا ہوتا ہے، نہ اس کی طاقت میں کمی آتی ہے۔ زمانے کی گردش اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرسکتی۔‘‘ سمندر کی شان اور ہیبت بیان کرتے کرتے مچھلی کا چہرہ جوش سے تمتمانے لگا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سمندر کی ہیبت ناکیوں کا ذکر سن کر شاہین خوف زدہ ہوجائے گا، لیکن اس کی توقع کے بالکل برعکس مچھلی کی ساری باتیں سن کر شاہین ہنسا اور ہوا میں بلند ہوتے ہوئے اس نے مچھلی سے کہا۔ ’’تجھے شاید معلوم نہیں کہ میں شاہین ہوں۔ تو مجھ سے اور میری فطرت سے واقف نہیں، اس لیے تو نے سمندر کی عظمت کا نقشہ کھینچ کر مجھے مرعوب کرنا چاہا۔ اے نادان! میں ساکنانِ ارض میں سے نہیں ہوں بلکہ شاہین ہوں۔ بھلا مجھے دنیا سے کیا واسطہ؟ اس سمندر کی تو حقیقت ہی کیا ہے، ساری دنیا میرے پروں کے نیچے ہے۔ صحرا ہو یا سمندر، جنگل ہو یا پہاڑ، میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ہم شاہینوں کو تیری دنیا کی کوئی چیز مرعوب نہیں کرسکتی۔‘‘ ’’سن! اگر تجھے بھی اس بلند مقام کو حاصل کرنے کی آرزو ہے تو پانی اور زمین کی سطح سے اوپر اٹھ اور فضائے آسمانی میں پرواز کر۔ یاد رکھ! آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے والوں کی نگاہ میں اس سمندر کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کی موجیں، اس کے گرداب، اس کے نہنگ اور اژدر، اس کی دیدہ و نادیدہ بلائیں، اس کا تلاطم، اس کی سرکش موجیں… یہ سب ان کے لیے خوف و خطر کا باعث ہیں جو زمین کی پستیوں میں رہتے ہیں۔ شاہین تو آسمان کی فضائوں میں پرواز کرتا ہے، یہ آفات اس کے ناخن کو بھی نہیں چھو سکتیں، لیکن اس نکتے کو صرف صاحبِ بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا سمجھنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں شاہین اور مچھلی کے مکالمے کے پیرائے میں یہ حقیقت افروز نکتہ بیان کیا ہے کہ جن کی فطرت پست ہوتی ہے، وہ دوسروں کے مادّی سازوسامان، مال و دولت اور دنیاوی شان و شوکت، جاہ و جلال سے مرعوب ہوجاتے ہیں، لیکن جن کی نگاہ مادّیت سے بلند ہوتی ہے، وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے خواہ وہ دنیاوی اعتبار سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ مچھلی چوں کہ پستیوں کی مکین ہے اس لیے سمندر اور اس کی موجیں، اس کے نہنگ اور مگرمچھ، اس کے گرداب اور تلاطم اور اس کی طوفان خیزیاں اس کے لیے خوف و خطر کا باعث ہیں، مگر شاہین چوں کہ بلند و بالا فضائے آسمانی میں پرواز کرنے والا ہے اور اس لحاظ سے بلند فطرت کا مالک ہے، اس لیے اس کی نگاہوں میں سمندر اور اس میں اٹھنے والے سیلِ بلاخیز کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ سمندر کا یہ سیلِ بلاخیز مچھلیوں کو نیست و نابود کرسکتا ہے، ساحلی آبادیوں کو بھی غارت کرسکتا ہے، لیکن شاہین کے ناخن تک کو بھی نہیں چھو سکتا۔ بہ الفاظِ دیگر اہلِ دنیا کی دولت اور جاہ و جلال کے مظاہر صرف اس شخص کو مرعوب کرسکتے ہیں، جو علائقِ دنیاوی میں گرفتار ہو، لیکن جو شخص علائقِ دنیا سے قطع نظر کرلے، وہ اہلِ دنیا کی دولت اور جاہ و جلال کے بڑے سے بڑے ماہر کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، اس کا فقرِ غُیور شوکتِ دارا وجم کو پرِکاہ کے برابر بھی نہیں سمجھتا… اور یہ مقام اسے اس لیے اور صرف اس لیے حاصل ہے کہ اس کی فطرت بلند پرواز ہے۔ یہ بلند پروازی صرف اس کا نصیب ہے جو اپنے آپ کو زمین کی پستیوں سے آزاد کرسکے ؎ جہاں میں لذتِ پرواز حق نہیں اس کا وجود جس کا نہیں جذبِ خاک سے آزاد کرمک شب تاب میں نے سنا کہ ایک جگنو یہ کہہ رہا تھا کہ میں وہ چیونٹی نہیں ہوں جس کے کاٹنے سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے۔ میں تو ایک بے ضرر کیڑا ہوں۔ میری ذات سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ مگر یہ خیال مت کرنا کہ میں پروانے کا ہم مشرب واقع ہوا ہوں۔ ہرگز نہیں! میں تو کسی غیر کا احسان اپنے سر لیے بغیر جلتا ہوں۔ کسی کا احسان لینا میری فطرت کے خلاف ہے۔ رات خواہ کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، میں روشنی کے لیے کسی دوسرے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا بلکہ اپنی راہ کو خود منوّر کرتا ہوں۔ میں اپنی راہ کا چراغ خود بنتا ہوں، کیوں کہ میں خود افروز ہوں۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم کے ذریعے جگنو کی زندگی کا وہ پہلو نمایاں کیا ہے جسے وہ فقرِ غُیور کا نام دیتے ہیں۔ جگنو اپنے راستے کو خود منوّر کرتا ہے، کسی غیر کا دست نگر نہیں ہوتا۔ وہ کسی کا احسان اٹھانے کی بجائے خود اپنے راستے کا چراغ بنتا ہے۔ وہ پروانے کی مانند روشنی کے لیے شمع کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ خود افروز ہوکر اپنی تاریک رات کو اپنی ہی روشنی سے درخشاں کرتا ہے۔ جگنو کے اس اہم وصف کو علّامہ اقبالؒؒؒ نے اپنی نظم ’’پروانہ اور جگنو‘‘ (بالِ جبریل) میں بھی پیش کیا ہے۔ اس نظم میں پروانہ جگنو سے کہتا ہے کہ پروانے کو جو مقام حاصل ہے، جگنو اس تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ شمع روشن ہوتی ہے تو پروانہ شمع پر گر کر جل مرتا ہے۔ پروانہ شمع کی آگ پر اپنی جان قربان کر ڈالتا ہے، لیکن جگنو کے پاس جو آگ ہے، اس میں جلنے جلانے کی تاثیر ہے ہی نہیں، جگنو کے پاس جو آگ ہے، وہ سوز سے محروم ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ جگنو اس بے سوز آگ پر کیوں غرور کرتا ہے؟ یہ آگ تو کسی کو جلانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ پروانے کی اس بات کے جواب میں جگنو کہتا ہے کہ خدا کا شکر ہے کہ میں پروانہ نہیں بنا، اس لیے کہ مجھے جل مرنے کے لیے دوسرے سے آگ کی بھیک نہیں مانگنی پڑی۔ اس طرح علّامہ اقبالؒؒؒ نے جگنو کے وصف ’’خود افروزی‘‘ کو نمایاں کرتے ہوئے ہمیں غیرت اور خود داری کا درس دیا ہے۔ جگنو کی زندگی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہر وجود کو صرف اپنے جوہروں سے کام لینا چاہیے۔ اپنے جوہر کی نمائش کے لیے دوسروں کا محتاج ہونا غیرت اور خودداری کے خلاف ہے۔ جس طرح جگنو خود چراغ بن کر اپنی راہوں کو منوّر کرتا ہے، اسی طرح ہمیں بھی اپنا چراغ خود بننا چاہیے ؎ تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی تنہائی میں سمندر کے کنارے گیا اور اس کی بے تاب و بے قرار موج سے پوچھا۔ ’’تجھ پر ایسی کیا افتاد پڑی ہے کہ تو ہر وقت مضطرب و بے قرار رہتی ہے؟ میں جانتا ہوں کہ تیرے گریبان میں لاکھوں موتی ہیں لیکن یہ تو بتا کہ تیرے سینے میں میری طرح دل جیسا موتی بھی ہے؟ کیا تو بھی میری طرح کسی کے عشق میں مبتلا ہے؟‘‘ میرا سوال سن کر سمندر کی موج تڑپی اور ساحل سے پیچھے ہٹ گئی مگر منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے پہاڑ کا رخ کیا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تو بالکل ہی بے درد اور بے حس واقع ہوا ہے یا کبھی تیرے کانوں تک کسی غم کے مارے کی آہ و فغاں بھی پہنچتی ہے؟ اگر تیرے پتھر وجود کے اندر قطرۂ خون سا لعل بھی ہے اور اس لعل کی بہ دولت تیرے سینے میں محبت اور ہمدردی کا جذبہ بھی ہے تو دو گھڑی کے لیے مجھ ستم رسیدہ کی داستان بھی سن!‘‘ میری بات سن کر پہاڑ دم بہ خود رہ گیا۔ اس نے اپنے آپ کو اپنے دامن میں چھپا لیا مگر منہ سے کچھ نہ کہا۔ میں ایک طویل مسافت طے کرکے چاند کے پاس گیا اور اس سے پوچھا۔ ’’اے مسافر! تیری کوئی منزل بھی ہے کہ نہیں؟ ساری دنیا تیری پیشانی کے عکس سے سمن زار بنی ہوئی ہے۔ تیری چاندنی نے سارے جہاں کو منوّر کر رکھا ہے، لیکن یہ تو بتا کہ تیرے سینے میں جو داغ ہے، اس کا فروغ کسی دل کے جلوے کے باعث ہے یا نہیں؟ تو بھی کسی کی محبت میں گرفتار ہے یا نہیں؟ میری بات سن کر چاند نے ستارے کی طرف اس طرح دیکھا جیسے کوئی اپنے رقیب کو دیکھتا ہے، لیکن وہ منہ سے کچھ نہ بولا۔ اس کی خاموشی گویا زبانِ حال سے کہہ رہی تھی کہ تو کس فروغ کی بات کرتا ہے؟ میرا یہ فروغ، چمک دمک، چاندنی، ذاتی ہے ہی کہاں؟ میری روشنی تو ستارے کی طرح آفتاب سے مستعار ہے۔ آخر میں چاند اور سورج کی حدوں سے گزر کر بارگاہِ ایزدی میں حاضر ہوا اور عرض کی۔ ’’اے باری تعالیٰ! تیری اس وسیع و عریض کائنات میں ایک ذرّہ بھی ایسا نہیں ہے جو میرا درد آشنا ہو۔ یہ ساری کائنات دل سے خالی ہے اور میری مشتِ خاک سراپا دل ہے۔ یہ جہان جذبۂ عشق سے یکسر خالی ہے اور میں سراپا عشق ہوں۔ تیری یہ دنیا دیکھنے میں تو بہت دل کش ہے، لیکن اس قابل نہیں ہے کہ میں اس میں نغمہ سرائی کروں۔ میں اپنے نغمے سنائوں تو کسے سنائوں اور اپنے عشق کی داستان بیان کروں تو کس کے سامنے بیان کروں؟ یہاں نہ میرا کوئی ہم نوا ہے نہ ہم مشرب، نہ ہم زبان ہے نہ ہم داستان۔‘‘ میری عرض سن کر خدائے کائنات کے لبوں پر ایک تبسم نمودار ہوا اور بس۔ اگرچہ خدا نے میری معروضات کے جواب میں کچھ ارشاد نہیں فرمایا، لیکن اس کے لبوں پر نمودار ہونے والا تبسم ایک طرح سے میری معروضات کی تصدیق کر رہا تھا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس دلکش اور اثر آفریں نظم میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ساری کائنات میں کوئی ہستی چشمِ حقیقی کے بوجھ کو اٹھانے کی متحمّل نہیں ہوسکی۔ یہ شرف آیا تو صرف انسان کے حصے میں آیا اور یہ بوجھ اٹھایا تو صرف انسان نے اٹھایا۔ چناں چہ اس اعتبار سے انسان اس پوری کائنات میں بالکل تنہا اور منفرد ہے اور اس شرف میں کائنات کی کوئی شے، کوئی ہستی انسان کی شریک و سہیم نہیں ہے۔ خواجہ حافظ شیرازی نے کہا ہے ؎ آسماں بارِ امانت نتو انست کشید قرعۂ فال بنام من دیوانہ زد ند اور میر تقی میر کہتے ہیں ؎ سب پہ جس بار نے گرانی کی اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا مگر علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس بات کو جس خوب صورت انداز میں ادا کیا ہے اور جس طرح اپنی فکرِ رسا اور رفعتِ تخیل کا کمال دکھایا ہے اس کا جواب نہیں۔ انسان کا بجا طور پر یہ دعویٰ ہے کہ اس ساری کائنات میں دل صرف اس کے پاس ہے، باقی ساری کائنات دل سے یکسر خالی ہے، چناں چہ جذبۂ عشق، درد و سوز اور سوزو ساز کی کیفیات سے صرف اس کا وجود آشنا ہے، کائنات کی اور کوئی مخلوق ان کیفیات سے آشنا نہیں۔ اس لحاظ سے انسان کائنات میں بالکل تنہا ہے۔ انسان اس دعوے کے ساتھ پہلے سمندر کی موجِ بے تاب کے پاس جاتا ہے اور اس سے دریافت کرتا ہے کہ کیا تیرے سینے میں بھی دل ہے تو پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ پھرانسان پہاڑ کے پاس جاتا ہے اور اس سے دریافت کرتا ہے کہ کیا تیرے سنگین وجودکے اندر بھی کوئی دل ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس میں محبت اور ہمدردی کا جذبہ ہے یا نہیں؟ پہاڑ کی طرف سے کوئی جواب نہ پاکر انسان ایک لمبا سفر کرکے چاند کے پاس پہنچتا ہے اور اس سے دریافت کرتا ہے کہ تُو جو اپنی چاندنی سے سارے جہان کو منوّر کرتا ہے، یہ بتا کہ تیرے داغ کی چمک دمک کسی دل کے جلوے کی بہ دولت ہے یا نہیں؟ چاند کچھ جواب دینے کی بجائے ستارے کی طرف دیکھ کر رہ جاتا ہے۔ جیسے زبانِ حال سے کہہ رہا ہو کہ اے انسان! میرا داغ کہاں اور جلوۂ دل کہاں۔ میری تو روشنی بھی اپنی نہیں بلکہ سورج سے مانگی ہوئی ہے۔ سمندر کی موج، پہاڑ اور چاند کی طرف سے جب انسان کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملتا تو وہ آخر کار بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اے خدا! میں تو اس بھری کائنات میں تنہا ہوں۔ اس کائنات میں کوئی ایک شے بھی ایسی نہیں جو میرے درد سے آشنا اور میری طرح درد آشنا ہو۔ تیری ساری کائنات دل سے خالی ہے اور میری خاک سراپا دل ہے۔ سارا جہاں جذبۂ عشق سے تہی ہے اور میں سراپا عشق ہوں۔ میں اپنا حال کہوں تو کس سے کہوں؟ عشق کے نغمے سنائوں تو کیسے سنائوں؟ یہاں تو نہ کوئی میرا راز داں ہے نہ درد آشنا، نہ ہم زباں ہے نہ ہم مشرب۔ میں کہوں تو کیا کہوں اور کسی سے کہوں؟ بقول الطاف حسین حالی ؎ کوئی محرم نہیں ملتا جہاں میں مجھے کہنا ہے کچھ اپنی زباں میں انسان کی ان معروضات کے جواب میں خدا کے لبوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔ یہ مسکراہٹ گویا انسان کے دعوے کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ تبسم انسان کے اس دعوے پر مہرِ تصدیق ثبت کردیتا ہے کہ خالقِ کائنات نے انسان کے علاوہ اور کسی مخلوق کے سینے میں جذبۂ عشق رکھا ہی نہیں ہے۔ یہ شرف صرف انسان کے لیے خاص ہے۔ حکمتِ فرنگ سنا ہے کہ ملک ایران میں ایک شخص رہتا تھا جو بڑا عقل مند، ادا فہم، رمز آشنا اور نکتہ بیں تھا۔ جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوا اور اس پر نزع کی حالت طاری ہوئی تو جان کنی کی اس حالت سے اسے بہت تکلیف ہوئی۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو اس کی جان سراپا شِکوہ و شکایت تھی۔ مرنے کے بعد جب وہ خدا کے سامنے حاضر ہوا تو اس نے عرض کی۔ ’’اے خدا! مجھے موت کے فرشتے سے سخت شکایت ہے۔ یہ فرشتہ ہزاروں لاکھوں برس سے انسانوں کی روح قبض کرتا آرہا ہے مگر ابھی تک اپنے فن میں کامل نہیں ہے۔ تو نے ایک ہی کام اس کے سپرد کر رکھا ہے اور اسے لوگوں کی جان نکالنے کے سوا اور کوئی کام بھی نہیں، اس کے باوجود یہ اب تک اپنے کام پر حاوی نہیں ہوسکا۔ یہ ابھی تک پرانے طریقوں سے لوگوں کی جان نکالتا چلا آرہا ہے جس سے مرنے والوں کو سخت اذیت ہوتی ہے اور وہ دنوں، بلکہ ہفتوں اور مہینوں تک جان کنی کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں، حالاں کہ دنیا میں جان لینے اور ہلاک کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوچکے ہیں۔ ’’اے خدا! یورپ کے لوگوں نے اپنی تمام عقل و دانش ایک اس بات کے لیے وقف کر رکھی ہے کہ وہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے نئے سے نئے اور کارگر سے کارگر طریقے ایجاد کریں۔ ان کی تمام سوچوں کا مرکز و محور موت ہے اور ان کی تمام حکمت و دانائی موت کی پرستار ہے۔ ان کی ہلاکت آفرینی کے ہنر ایسے انوکھے اور نرالے ہیں کہ ان سے انسانوں کو کہیں امان نہیں۔ وہ نہ سمندر کی تہ میں چھپ کر اپنی جان بچا سکتا ہے اورنہ فضائے آسمانی کی وسعتوں میں جاکر محفوظ رہ سکتا ہے۔ وہ چاہیں تو سمندر کو نابود کردیں اور چاہیں تو قطرے کو طوفان بنا دیں۔ اہلِ یورپ کی ایجاد کردہ آبدوزیں نہنگوں اور مگرمچھوں کی طرح سمندروں میں دوڑتی پھرتی ہیں اور ان کے طیّارے ہوائوں کو طمانچے مارتے پھرتے ہیں۔ کیا تو نے نہیں دیکھاکہ جب یورپ والے مہلک گیسیں چھوڑتے ہیں تو ان سے آفتاب کی روشن آنکھیں بھی اندھی ہوجاتی ہیں اور دن کا اجالا رات کی سیاہی میں ڈھل جاتا ہے؟ جب ان کی توپیں اور بندوقیں گولوں اور گولیوں کا مینھ برساتی ہیں تو آن کی آن میں ہزاروں آدمی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ موت کی یہ برق رفتاری دیکھ کر تو خود موت کا فرشتہ دم بخود رہ جاتا ہوگا۔ ’’اے خدا! میں تجھ سے دست بستہ التجا کرتا ہوںکہ تو اپنے فرشتۂ اجل کو چند دنوں کے لیے یورپ میں بھیج دے۔ یہ فرشتہ تو اب تک اپنے فن میں اتنا خام اور اناڑی ہے کہ بعض اوقات اسے ایک آدمی کی جان نکالنے میں کئی کئی گھنٹے، دن بلکہ ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں۔ تو اسے یورپ میں بھیج دے گا تو یہ اہلِ یورپ سے انسانوں کو تیزی کے ساتھ ہلاک کرنے کا فن سیکھ سکے گا اور پھر اپنے کام کو زیادہ مہارت اور چابک دستی کے ساتھ انجام دے سکے گا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم ایک طنزیہ نظم ہے اور اس میں انھوں نے ایک ایرانی مُردے کی زبان سے یہ حقیقت واضح کی ہے مغربی قوموں نے انسانوں کو ہلاک کرنے کے لیے ایسے نئے نئے آلات ایجاد کرلیے ہیں، جن کا پہلے کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا اور جن کی ہلاکت آفرینی کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کو آن واحد میں موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ ہنستی کھیلتی بستیوں، آبادیوں اور شہروں کو آناً فاناً کھنڈرات میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ خشکی کو تری اور تری کو خشکی بنا سکتے ہیں۔ ان کی ساری عقل و دانش ایک اسی نکتے پر مرکوز ہے کہ کس طرح کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا جاسکتا ہے۔ ان کی آبدوزیں سمندروں میں موت کا کھیل کھیلتی ہیں۔ ان کے طیّارے فضائوں میں موت کا رقص کرتے ہیں۔ ان کی توپیں اور بندوقیں زمین پر تباہی اور ہلاکت و بربادی کا یہ ہنگامہ دکھاتی ہیں۔ ایسا ہنگامہ جسے دیکھ کر خود موت کا فرشتہ بھی دم بہ خود رہ جاتا ہے۔ اہلِ یورپ کی ان ہی ہلاکت آفرینیوں اور ہلاکت سامانیوں پر طنز کرتے ہوئے علّامہ اقبالؒؒؒ نے ایرانی مُردے کی زبان سے بارگاہِ خداوندی میں یہ درخواست کرائی ہے کہ موت کے فرشتے کو چند روز کے لیے یورپ بھیج دیا جائے۔ یہ فرشتہ ہزاروں لاکھوں سال سے لوگوں کی جان نکالنے کا کام کرتے رہنے کے باوجود اپنے فن میں اب تک ماہر نہیں ہوا اور اسے بعض لوگوں کی جان نکالنے میں دن، ہفتے اور مہینے لگ جاتے ہیں۔ یہ فرشتہ یورپ والوں کے پاس جائے گا تو ان سے یہ ہنر اور فن سیکھ سکے گا کہ لوگوں کی جان تیزی کے ساتھ کیسے نکالی جاسکتی ہے۔ زندگی و عمل سمندر کے ساحل نے، جو روزِ اوّل ہی سے سکون اور ٹھہراؤ کی حالت میں چلا آرہا تھا، اپنی حالت پر حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’میں اگرچہ ایک مدّت سے جی رہا ہوں لیکن میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ میں کون ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں جب سے وجود میں آیا ہوں، یہاں ایک ہی حالت میں پڑا ہوں۔ ایسے میں مجھے کس طرح معلوم ہو کہ میں کیا ہوں اور میری زندگی کیا ہے؟‘‘ سمندر کی ایک موج قریب ہی تھی۔ وہ سراپا حرکت اور جذبۂ عمل سے سرشار تھی۔ ساحل کی بات سن کر وہ تیزی اور بے قراری سے اٹھی اور بولی: ’’اے ساحل! تیری زندگی کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی، لیکن اپنے بارے میں مجھے اتنا پتا ہے کہ میری زندگی حرکت اور عمل پر منحصر ہے۔ اگر میں حالتِ حرکت میں ہوں تو زندہ ہوں اور اگر حرکت سے محروم ہوکر ساکن ہوجائوں تو فنا ہوجائوں گی۔ میرے نزدیک تو زندگی حرکت، عمل اور جدوجہد ہی کا نام ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم مشہور جرمن شاعر ’’ہائنا‘‘ کی نظم موسوم بہ ’’سوالات‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ یہ شاعر عاشقانہ شاعری کا امام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی شاعری میں قدیم اسلوبِ بیان اور جدید عاشقانہ تصوّرات کا نہایت خوش گوار امتزاج پایا جاتا ہے اور تمام نقادانِ فن کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ ہائنا سے بڑھ کر عاشق کی نفسیاتی کیفیات کا بیان کسی شاعر کی نظموں میں نہیں ملتا۔ اس نظم میں علّامہ اقبالؒؒؒ نے ساحل اور موج کے مکالمے کے ذریعے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ زندگی دراصل عمل اور جدوجہد سے عبارت ہے۔ جو زندگی عمل سے محروم اور جدوجہد سے تہی ہو، وہ موت بلکہ موت سے بھی بدتر ہے۔ ساحل چوں کہ افتادگی کی حالت میں سکون کے ساتھ ایک جگہ پڑا ہے، اس لیے وہ بہ ظاہر زندہ ہونے کے باوجود زندگی سے محروم ہے کہ اسے اپنی ہستی کا ادراک ہی نہیں ہے۔ جب کہ موج حرکت اور عمل کی حالت میں ہے اور اس کا وجود اس وقت تک ہے جب تک وہ حرکت اور عمل کی حالت میں ہے۔ وہ ساکن ہوجائے تو فنا ہوجاتی ہے اور اس کا وجود باقی نہیں رہتا۔ اپنی حرکت اور عمل کی اہلیت کی بہ دولت ہی موج سمندر کی بے کراں وسعتوں اور طوفانوں کی شدت میں بھی اپنا وجود قائم رکھتی ہے۔ اسی لیے موجوں سے مخاطب ہوتے ہوئے علّامہ اقبالؒؒؒ ایک رباعی میں کہتے ہیں ؎ ظلامِ بحر میں کھو کر سنبھل جا! تڑپ جا، پیچ کھا کھا کر بدل جا نہیں ساحل تری قسمت میں اے موج اُبھر کر جس طرف چاہے، نکل جا غنی کشمیری مُلّا محمد طاہر غنی کشمیری، کشمیر مینو نظیر کا شاعرِ بے نظیر تھا۔ اس کا دستور تھاکہ جب وہ گھر میں ہوتا تھا تو گھر کا دروازہ بند رکھتا تھا اور جب گھر سے باہر جاتا تھا تو دروازہ کُھلا چھوڑ دیتا تھا۔ ایک بار ایک شخص نے اس سے کہا۔ ’’اے نواسنجِ بلبل صفیر! تیرے اس طرزِ عمل پر ہر کسی کو تعجب ہوتا ہے کہ تو گھر میں ہوتا ہے تو دروازہ بند رکھتا ہے اور جب باہر جاتا ہے تو دروازہ کُھلا چھوڑ دیتا ہے، حالاں کہ لوگوںکا دستور تو یہ ہے کہ جب وہ گھر سے باہر جاتے ہیں تو گھر کو تالا لگا کر جاتے ہیں کہ کہیں ان کی عدم موجودگی میں کوئی چور گھر میں گھس کر گھر کا قیمتی سامان نہ چرا لے۔ تیرا دستور عامل لوگوں کے بالکل برعکس ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘ غنی کشمیری نے جواب دیا۔ ’’میرے دوست! لوگوں کا میرے طرزِ عمل پر حیران ہونا ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ میں جو کچھ کرتا ہوں بالکل درست کرتا ہوں۔ میرے گھر میں سوائے میرے اور قیمتی سامان کون سا ہے، جس کی حفاظت کی فکر کی جائے۔ غنیؔ جب تک اپنے گھر میں ہوتا ہے، اس کے گھر میں اس کی اپنی ذات کی متاعِ گراں موجود ہوتی ہے اور وہ اس کی حفاظت کے خیال سے اپنے گھر کا دروازہ بند کیے رکھتا ہے اور جب وہ گھر سے باہر چلا جاتا ہے تو پھر گھر میں ایسی کون سی قیمتی چیز باقی رہ جاتی ہے جس کی حفاظت کی جائے، اس لیے وہ گھر کا دروازہ کُھلا چھوڑ جاتا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں کشمیر جنت نظیر کے غیرت مند، خوددار، قناعت پسند شاعر اور درویش مُلّا محمد طاہر غنی کشمیری کی اس عادت کو اپنی نظم کا موضوع بنایا ہے کہ جب وہ گھر میں ہوتا تھا تو دروازہ کھلا چھوڑ دیتا تھا۔ غنی کشمیری شیخ محسن خانی کا شاگرد تھا۔ تحصیلِ علوم و فنون سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ۱۰۶۰ ہجری میں شاعری شروع کی اور بہت جلد اپنے ہم عصر شعراء میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ جس طرح حکیم مومن خاں مومن کے متعلق مرزا غالبؔ نے کہا تھا کہ وہ میرا سارا دیوان لے لیں اور اپنا یہ شعر مجھے دے دیں ؎ تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا اسی طرح مرزا صاحب غنی کشمیری کے بہت قدر دان تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش غنیؔ میرا سارا دیوان مجھ سے لے لیتا اور اپنا یہ شعر مجھے دے دیتا ؎ حُسن سبزے بحظِ مرا کرد اسیر دام ہم رنگِ زمیں بُود، گرفتار شُدم جس طرح خواجہ حافظ شیرازی کی شہرت شیراز سے سرزمینِ بنگالہ تک پہنچ گئی تھی، اسی طرح غنی کشمیری کی شاعری نے اہلِ ایران سے بھی اپنا لوہا منوا رکھا تھا۔ چناں چہ مشہور ہے کہ ایران کے ایک شخص نے ایک مصرع کہا ؎ کہ از لباس تو بوئے کباب می آید (ترے لباس سے بوئے کباب آتی ہے) وہ اس مصرع کو لے کر یکے بعد دیگرے ایران کے تمام مشہور و معروف شعراء کے پاس گیا کہ وہ اس مصرع پر گرہ لگا کر شعر مکمل کریں، مگر کوئی شاعر بھی اس مصرع پر گرہ لگا کر شعر مکمل نہ کرسکا۔ اس پر اس شخص نے ایران سے کشمیر کا سفر اختیار کیا اور سفر کی صعوبتیں اٹھاتا ہوا غنی کشمیری کے گھر پہنچا۔ غنی کشمیری نے اپنے ایرانی مہمان کو گھر میں بٹھایا، اس کی خاطر تواضع کے لیے کچھ سامان مہیا کرنے کی خاطر باہر چلا گیا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس کام میں غنیؔ کشمیری کو خاصی دیر ہوگئی۔ مہمان بیٹھے بیٹھے اور انتظار کرتے کرتے اکتا گیا تو اس نے قلم دان سے قلم اٹھایا، ایک پرزۂ کاغذ پر مصرع لکھا اور اسے قلم دان کے پاس رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔ خاصی دیر بعد غنی کشمیری واپس آیا تو دیکھا کہ مہمان غائب ہے۔ قلم دان کی طرف نگاہ کی تو وہاں کاغذ کا ایک پُرزہ پڑا تھا۔ غنیؔ کشمیری نے وہ پُرزہ اٹھا لیا کہ شاید مہمان جاتے ہوئے کوئی پیغام چھوڑ گیا ہو۔ دیکھا تو اس پر ایک مصرع لکھا تھا : کہ از لباس تو بوئے کباب می آید غنی کشمیری نے اسی وقت قلم اٹھایا اور اس پر گرہ لگا کر شعر مکمل کردیا ؎ کدام سوختہ جاں دست زو بہ دامانت کہ از لباس تو بوئے کباب می آید! ترجمہ: یہ کون سوختہ جاں چھو گیا ترا دامن ترے لباس سے بوئے کباب آتی ہے! غنی کشمیری اپنے دور کے عام شعرا کے برعکس انتہائی غیور، خوددار اور قناعت پسند تھا۔ مرزا بیدل کی طرح وہ بھی ساری عمر کسی امیر یا بادشاہ کے دروازے پر نہیں گیا۔ شہنشاہ عالمگیرؒ نے اس کی قابلیت کا حال سنا تو سیف خاں گورنر کشمیر کو لکھا کہ غنیؔ کو ہمارے پاس بھیج دو۔ سیف خاں نے غنی کشمیری کو طلب کیا اور بادشاہ کے حکم سے آگاہ کیا۔ غنی کشمیری نے کمالِ استغنا سے جواب دیا۔ ’’بادشاہ کو لکھ بھیجو کہ غنیؔ دیوانہ ہوگیا ہے، اس لیے باریابی کے لائق نہیں ہے۔‘‘ سیف خاں نے کہا۔’’میں آپ ایسی بیگانۂ روزگار شخصیت کے لیے یہ تضحیک آمیز الفاظ کیسے لکھ سکتا ہوں؟ اس کے علاوہ آپ تو باہوش و حواس ہیں۔‘‘ گورنر کی یہ بات سن کر غنی نے کہا۔’’اگر یہ بات ہے تو میں دیوانہ ہو جاتا ہوں۔‘‘ یہ الفاظ کہہ کر غنی کشمیری اپنے گھر واپس آیا اور اسی دن اس پر دیوانگی کا عالم طاری ہوگیا۔ تین چار روز اس کیفیت میں رہنے کے بعد اس نے صرف چالیس سال کی عمر میں ۱۰۷۹ ہجری میں وفات پائی اور سری نگر میں مدفون ہوا۔ غنیؔ کشمیری کی طبیعت میں علائقِ دنیا سے کمال بے تعلقی پائی جاتی تھی۔ دنیا اور دنیاوی سازوسامان کی رغبتوں سے وہ قطعاً بے نیاز تھا۔ اس لحاظ سے وہ معنوی طور پر بھی غنی تھا۔ اپنی بابت اس نے خود کہا ہے ؎ سعیِ روزی بر نمی دارد مرا از جائے خویش آبرو چوں شمع می ریزم و لے بر پائے خویش یعنی مرزا غالب کے الفاظ میں ؎ ڈالا نہ بے کسی نے کسی سے معاملہ اپنے سے کھنچتا ہوں، خجالت ہی کیوں نہ ہو اس لیے علّامہ اقبالؒؒؒ جاوید نامہ میں غنی کشمیری کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎ شاعرِ رنگیں نوا، طاہر غنیؔ فقرِ او باطن غنی، ظاہر غنیؔ خطاب بہ مصطفیٰ کمال پاشا اَیَدہُ اللہ (جولائی ۱۹۲۲ئ) اے مصطفیٰ کمال! یہ ایک اُمّی کی سراپا حکمتِ تعلیم کا اثر ہے کہ ہم مسلمان تقدیرِ الٰہی کے پوشیدہ راز سے واقف ہوگئے۔ یہ سرکارِ دو عالم ﷺ کی حیات افروز تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ ہم اس حقیقت سے آگاہ ہوئے کہ دراصل سب کچھ اللہ ہی کے اختیار اور قبضۂ قدرت میں ہے۔ وہ چاہے تو مٹھی بھر بے سروسامان مسلمان اپنے سے کئی گنا کفار کی سازوسامان سے لیس جمعیت پر غالب آسکتے ہیں۔ اے مصطفیٰ کمال! یوں تو ہماری اصل مٹی ہی ہے اور دنیا میں بسنے والے تمام دیگر انسانوں کی طرح ہمارے وجود کا خمیر بھی خاک ہی سے اٹھا ہے، لیکن یہ اس اُمّی ہی کی نگاہِ فیض ہے کہ ہم دنیا میں خورشید جہاں تاب ہوگئے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ کے فیضانِ نظر نے ہمیں غلاموں سے آقا اور محکوموں سے حاکم بنا دیا، ہم پست تھے، بلند ہوگئے، زیرِ دست تھے، زبردست ہوگئے، ضعیف تھے، قوی ہوگئے، دوسروں کی رعایا تھے، ایک عالَم کے حکمران بن گئے۔ لیکن افسوس! حکمرانی کے نشے میں ہم نے عشق کے نکتے کو اپنے دلوں سے محو کردیا۔ عیش و عشرت میں پڑ کر ہم نے عشق کے جذبے سے اپنے سینوں کو خالی کردیا۔ قدرت کی طرف سے ہمیں ہمارے قصور کی سزا ملی۔ چوں کہ ہماری تقصیر بہت بڑی تھی، اس لیے بہت بڑی ذلّت بھی ہمارے حصے میں آئی۔ اور ہم جو ایک عالم کے حکمران تھے، ذلیل و خوار ہوکر دوسروں کے محکوم و زیرِ دست بن گئے، زمانے بھر کی ذلّتیں ہمارا مقدر بن گئیں۔ اے مصطفیٰ کمال! خدا نے ہماری فطرت کچھ ایسی بنای ہے کہ ہمیں صحرا کی ہوا زیادہ راس آتی ہے۔ صحرا کی ہوا کی بجائے خیابانوں کی فضا اور بادِ صبا کے نرم و نازک جھونکوں سے ہماری فطرت کے غنچے کھلنے اور شادماں ہونے کی بجائے پژمردہ اور دل گیر ہوجاتے ہیں۔ جب تک ہماری فطرت بادِ صحرا کے قریب رہی، جب تک ہماری زندگی سخت کوشی، جفاکشی اور جدوجہد سے عبارت رہی، تب تک ہمیں دنیا میں سرفرازی و سربلندی کا مقام حاصل رہا۔ پھر جب ہم عیش و عشرت میں پڑ گئے جب ہماری زندگی میں سخت کوشی کی جگہ نرم کوشی اور سہل پسندی نے لے لی۔ جب ہم جفاکش اور سخت جان کی بجائے آرام طلب اور سہل انگار بن گئے اور جب جدوجہد اور تگ و دو ہماری زندگیوں سے نکل گئی تو ہم بلندیوں سے پستیوں میں آپڑے، عروج کی بجائے زوال اور شان و شوکت کی بجائے ذلت و مسکنت ہمارا نصیب بن گیا۔ ایک وہ وقت تھا کہ ہماری آواز گنبدِ افلاک سے بھی اوپر جاتی تھی اور ہمارا نعرہ ایک عالم میں غلغلہ ڈال دیتا تھا، مگر جب ہم عیش و عشرت میں مبتلا ہوگئے تو ہماری وہی غلغلہ انداز نوا آہ و فریاد میں تبدیل ہوگئی۔ لیکن اے مصطفیٰ کمال! تو ظاہری اسباب، مادّی سازو سامان، اپنی بے سرو سامانی اور دشمنوں کی کثرت، کسی بات کی پرواہ مت کر۔ اگرچہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے، لیکن یہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شکار بغیر کسی جال اور پھندے کے بھی ہاتھ آجاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تیروکمان اور شکار کے تمام لوازمات موجود ہونے کے باوجود شکاری خود شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے تو بلا خوف و خطر پیش قدمی کیے جا، آگے بڑھے جا۔ تجھے جس طرف موقع ملے اس سمت بلا تامل اپنے گھوڑے کو بڑھائے لیے جا۔ تو کچھ دنوں کے لیے اپنی تدبیر کو بالائے طاق رکھ کر تقدیر کی کارفرمائی کا تماشا بھی دیکھ لے۔کیا تو اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہے کہ ہم بارہا اپنی بہترین تدبیروں کے باوجود اپنے مقصد کے حصول میں ناکام ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات بے سرو سامانی کے باوجود کامیابی ہمارے قدم چوم لیتی ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم ایک اہم تاریخی نظم ہے جس میں انھوں نے جدید ترکیہ کے بانی اور ترک قوم کے عظیم محسن مصطفیٰ کمال پاشا سے خطاب کیا ہے۔ مصطفیٰ کمال ۱۸۸۰ء میں سالونیکا میں پیدا ہوا۔ ۱۹۰۴ء میں ملٹری کالج کا کورس ختم کرنے کے بعد فوج میں کپتان کے عہدے سے فوجی ملازمت کا آغاز کیا۔ ۱۹۱۱ء میں اس نے انور پاشا شہید کی زیرِکمان طرابلس کی جنگ میں حصہ لیا مگر اس کو اپنی فوجی مہارت اور جنگی قابلیت دکھانے کا موقع اس کے دس سال بعد جاکر ۱۹۲۱ء میں ملا۔ پہلی عالمی جنگ میں، جو ۱۹۱۴ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۱۹ء میں ختم ہوئی۔ ترکیہ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ جرمنی کی شکست پر ترکیہ کو بھی شکست ہوئی اور سارے ملک پر برطانیہ فرانس اور اطالیہ کی اتحادی فوجوں کا قبضہ ہوگیا۔ خلافتِ عثمانی کے برائے نام خلیفہ سلطان محمد چہارم کی برائے نام بادشاہت اگرچہ قائم رکھی گئی تھی مگر سارے معاملات فاتح اتحادی ملکوں کی مرضی سے طے ہوتے تھے۔ اناطولیہ کے صوبے نے یہ صورتِ حال قبول نہ کی اور وہاں اتحادی فوجوں کے خلاف مزاحمت شروع ہوگئی۔ پرانی عثمانی فوج اگرچہ ختم کردی گئی تھی، لیکن اس فوج کا کچھ حصہ ابھی تک اناطولیہ میں اتحادی فوجوں کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ بادشاہ اس صورت حال سے بہت پریشان تھا۔ ایسے میں اسے کسی ایسے مضبوط فوجی جرنیل کی ضرورت تھی جو اناطولیہ کی بغاوت کو فرو کرسکے۔ نظرِ انتخاب مصطفیٰ کمال پر پڑی اور اسے اناطولیہ کی بغاوت پر قابو پانے کا حکم دے کر اناطولیہ کی طرف روانہ کردیا۔ چناں چہ ۱۵ مئی ۱۹۱۹ء کو مصطفیٰ کمال مشرقی صوبوں کے گورنر جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے ایک چھوٹے سے بحری جہاز میں اناطولیہ کے شمال مشرقی ساحل کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا جہاز بحیرۂ اسود میں داخل ہوا ہی تھا کہ حکام کو یہ شک پڑ گیا کہ کہیں مصطفیٰ کمال بھی باغیوں کے ساتھ نہ مل جائے۔ چناں چہ اسے پیغام بھیج کر راستے ہی سے واپس طلب کیا گیا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ عین اسی روز اتحادی افواج نے ترکیہ اور عثمانی مقبوضات کے حصے بخرے کرنے کا فیصلہ کیا اور ازمیر(ایک علاقہ) یونان کے حوالے کرنے کا اعلان کردیا۔ اتحادیوں کے اشارے پر یونانی فوجوں نے ساحل اناطولیہ پر لنگر انداز ہونے کے بعد از میر کی بندرگاہ پر قبضہ کیا اور پھر اندرونِ ملک قبضہ کرتے ہوئے بروصہ تک چلے گئے۔ مصطفیٰ کمال نے اناطولیہ پہنچ کر لوگوں میں آزادی کی ایک لہر پیدا کردی، اس نے انقرہ میں موجود ترک فوج کے کمانڈر سے مشورہ کرکے یونانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ شروع کرادی اور محبِّ وطن افراد پر مشتمل ایک نئی فوج بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس نے گائوں گائوں جاکر ترکوں میں آزادی کی روح پھونک دی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے انقرہ میں عارضی فوجی حکومت قائم کردی اور اعلان کردیا کہ انقرہ کی حکومت ہی ترکیہ کی صحیح نمائندہ حکومت ہے۔ سلطان محمد چہارم کو مصطفیٰ کمال کی سرگرمیوں کی اطلاع ملی تو اس نے مصطفیٰ کمال کو فوراً واپس آنے کا حکم دیا مگر مصطفیٰ کمال نے انکار کردیا۔ ادھر اتحادیوں کے اشارے پر یونان نے ترکیہ پر حملہ کردیا۔ ۳۱ اگست ۱۹۲۱ء کو یونانی فوجوں نے پیش قدمی کی اور انقرہ کے مغرب میں کوئی پچاس کلومیٹر دور سقاریہ کے پہاڑی علاقوں میں ترک جانبازوں نے ان کا مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں ترکوں نے اپنی پانچ سو سالہ جنگی روایات کو ایک بار پھر زندہ کردکھایا اور وہ سترہ (۱۷) دنوں تک نہایت بے سروسامانی کے باوجود یونانیوں کے ٹڈی دل لشکر کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس جنگ میں انھوں نے یونانیوں کو شکست دے کر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد سردی کا زمانہ شروع ہوگیا اور مصطفیٰ کمال کو پورے آٹھ ماہ اپنی طاقت مجتمع کرنے کے لیے مل گئے اور پھر اس نے ۲۶ جولائی ۱۹۲۲ء کو مدافعانہ جنگ کی بجائے پہلی مرتبہ یونانیوں کے خلاف جارحانہ پیش قدمی شروع کی اور تمام دنیائے اسلام مصطفیٰ کمال زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی۔ یہی وہ نازک موقع تھا جب علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم کی صورت میں مصطفیٰ کمال کو یہ ولولہ انگیز پیغام دیا کہ تم ظاہری اسباب، مادّی سازو سامان، یونانی فوجوں کی کثرت اور انگریزی حکومت کی طرف سے یونانیوں کی مکمل تائید و حمایت، کسی بات کی پرواہ نہ کرو۔ اس دنیا میں ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ انتہائی بے سرو سامانی کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ آجاتا ہے اور ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ تمام تیّاریوں، تدبیروں اور سازو سامان کے باوجود ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کبھی بغیر تیر کمان کے بھی شکار ہاتھ آجاتا ہے اور کبھی تیر کمان کے باوجود شکاری خودشکار ہو کے رہ جاتا ہے۔ اس لیے تمھیں جدھر راستہ ملے پیش قدمی کرتے جائو اور تدبیر کی احتیاط کو ایک طرف رکھ کر تقدیر کی کارفرمائی دیکھو، اس لیے کہ تم خود جانتے ہو کہ کبھی ہزار تدبیروں کے باوجود کچھ نہیں بنتا اور کبھی بے سروسامانی کے باوجود کامیابی ہاتھ آجاتی ہے۔ ستمبر ۱۹۲۲ء کے پہلے ہفتے میں ترکوں نے مصطفیٰ کمال پاشا کی ولولہ انگیز قیادت میں یونانیوں کے خلاف لڑتے ہوئے سمرنا فتح کرلیا اور اس طرح یونانیوںکو ایشیائے کوچک سے نکال باہر کیا۔ عالم اسلام نے ترکوں کی اس فتح پر چراغاں کیا اور مصطفیٰ کمال کو تمام مسلمانوں کے ہیرو اور ایک غازی کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے مصطفیٰ کمال کے نام اس ولولہ انگیز نظم کا آخری شعر نظیری سے لیا ہے۔ نظیریؔ کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ اس کے تین سو سال بعد کوئی شاعر اس شعر سے ترکوں کی حوصلہ افزائی کا کام لے گا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ کے نزدیک بھی اپنی بات کی تائید اور وضاحت کے لیے غالباً اس سے بہتر اور کوئی شعر نہیں ہوسکتا تھا، چناں چہ انھوں نے اس پر تضمین کرکے اس شعر کو حیاتِ جاوداں عطا کردی۔ بلکل اسی طرح جس طرح انھوں نے جاوید نامہ اور ز بورِ عجم میں نظیری کے ایک مصرعے کو یہ کہہ کر زندہ جاوید کردیا ہے کہ میں اس مصرعے کو ملکِ جم کے عوض دینے کے لیے بھی تیار نہیں ؎ بملکِ جم نہ دہم مصرعِ نظیریؔ را ’’کسے کہ کشتہ نشد، از قبیلۂ مانیست‘‘ مصطفیٰ کمال کی قیادت میں یونانیوں کے خلاف ترکوں کی بے سروسامانی کے باوجود کامیاب جنگ کی طرف علّامہ اقبالؒؒؒ نے اپنی مشہور نظم ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے پہلے بند کے اس شعر میں بھی اشارہ کیا ہے ؎ وہ چشمِ پاک بیں کیوں زینتِ برگستواں دیکھے نظر آتی ہے جس کو مردِ غازی کی جگر تابی وہ کہتے ہیں کہ جس حقیقت نگر اور حق شناس آنکھ کو مرد غازی کی بہادری، دلیری اور جانفشانی نظر آتی ہے، اسے یہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اس کے گھوڑوں میں جو پاکھریں پڑی ہوئی ہیں ان کی زیب و زینت کی کیا کیفیت ہے؟ بے شک مسلمانوں کے پاس لڑائی کا وہ سازوسامان موجود نہیں جو اہلِ یورپ کے پاس ہے، لیکن ان میں جانباز مجاہدوں کی کمی نہیں اور اس کی تازہ مثال وہ ترک غازی پیش کرچکے ہیں جنھوں نے مصطفیٰ کمال کی زیرِ قیادت یورپ کی بڑی بڑی طاقتوں کے سازشی پھندے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ ان کے پاس کون سا سازوسامان تھا؟ وہ اپنی ہمت سے اٹھے اور یونانیوں کو پے درپے شکستیں دے کر اناطولیہ سے نکال باہر کیا حالاں کہ انگریز اور فرانسیسی یونانیوں کی پشت پر تھے۔ یونانیوں سے نپٹنے کے بعد ترک غازی قسطنطنیہ (استنبول) کی طرف بڑھے تو انگریزوں اور فرانسیسیوں سے جنگ کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا، مگر ترک جانباز اس سے بالکل ہراساں نہ ہوئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس نے ترکوں سے صلح کرلی۔ انگریزوں نے نئی وزارت کے تحت ترکوں سے صلح کی گفتگو شروع کی۔ اس گفت و شنید کی بہ دولت صلح نامہ اوزان طے پایا، جس کے تحت ترکوں کو آزادی مل گئی۔ چناں چہ اس مثال سے روزِ روشن کی طرح واضح اور آشکارا ہے کہ ہمت، دلیری اور جانفشانی موجود ہو تو بڑے سازو سامان کے بغیر بھی فتح و نصرت پائوں چومنے لگتی ہے۔ طیّارہ ایک روز ایک طائر پھول کی ایک ٹہنی پر بیٹھا ہوا دوسرے طائروں سے کہہ رہا تھا: ’’خدا نے انسانوںکو بال و پر عطا نہیں کیے بلکہ اس بے وقوف کو زمین ہی پر رہنے کے لیے بنایا ہے۔‘‘ میں نے اس پرندے کی بات سنی تو اس سے کہا۔ ’’اے طائرِ مغرور! میں تجھ سے سچی بات کہوں تو بُرا نہ ماننا۔ یہ ٹھیک ہے خدا نے ہمیں اڑنے کے لیے بال و پر نہیں دیے لیکن ہم نے طیّارہ بنا کر اپنے لیے بال و پر بنا لیے ہیں اور اس طیّارے کے ذریعے ہم نے آسمان کی طرف جانے کا انتظام کرلیا ہے۔ کیا تجھے خبر بھی ہے کہ طیّارہ کسے کہتے ہیں؟ طیّارہ تو آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہے اور فرشتوں سے بھی زیادہ تیز اڑتا ہے۔ وہ پرواز میں شاہین کو مات کرتا ہے اور طاقت کے لحاظ سے عقاب کی بھی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کی آنکھ لاہور سے فاریاب تک کے منظر کو دیکھ سکتی ہیں۔ جب وہ پرواز کرتا ہے تو فضائے آسمانی میں ایک شور برپا ہوجاتا ہے، لیکن جب اپنے مستقر پر پہنچتا ہے تو مچھلی کی طرح خاموش اور پرسکون ہوجاتا ہے۔ یوں سمجھ لو کہ انسان کی عقل نے اس آب و گِل سے ایک ایسا جبریل تخلیق کیا ہے جو زمین سے آسمان تک جانے کے لیے اس کی رہنمائی کرسکتا ہے۔‘‘ اس عقل مند پرندے نے میری باتیں سن کر میری طرف دوستانہ اور مربّیانہ انداز میں دیکھا۔ پھر اس نے اپنے پر کو اپنی چونچ سے کھجایا اور کہنے لگا۔ ’’اے انسان! تو نے جو کچھ کہا ہے، یقیناً سچ ہے۔ مجھے اس پر حیرانی ہے نہ تعجب، لیکن میرے دوست! تو نے جو اپنی نگاہوں کو معاملاتِ کیف و غم میں الجھا رکھا ہے، تو جو پست و بلند کے طِلسم میں اسیر ہوکر رہ گیا ہے، تجھ سے یہ پوچھنا یقیناً نامناسب نہ ہوگا کہ کیا تو نے اپنے زمینی معاملات سب کے سب درست کرلیے ہیں، جو اب تو آسمان پر جانے کی تیاری کر رہا ہے؟ پہلے انسان کی طرح زمین پر رہنا تو سیکھ۔ ابھی تو تو نے زمین پر اپنے فرائض اور معاملات ہی کو بخیر و خوبی انجام نہیں دیا۔ پہلے تو زمین پر اپنے کام کو انجام دے، پھر آسمان کی طرف پرواز کا خیال کرنا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں شیخ سعدی شیرازی کے ایک مشہور شعر کی تضمین کی ہے اور اس کے ذریعے روئے زمین پر انسان کی مادّی ترقی پر طنز کیا ہے کہ انسان یوں تو دن رات مادّی ترقی کر رہا ہے اور مادّی ترقی کرتے کرتے یہاں تک آپہنچا ہے کہ ایک طرف سمندروں کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو ٹٹول رہا ہے تو دوسری طرف آسمان کی وسعتوں میں پرواز کر رہا ہے۔ ایک طرف اس نے فطرت کے عناصرِ اربعہ… آگ، پانی، مٹی، ہوا… کو اپنے تصرف میں کرلیا ہے، دوسری طرف اپنے طیّاروں کے ذریعے سیاروں اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے۔ ایک طرف اس کے آلات پاتال میں چھپے ہوئے خزانوں کی خبریں دے رہے ہیں، دوسری طرف اس کے آلات وسیع و عریض کائنات میں کروڑوں اربوں نوری سالوں کی مسافت پر واقع دنیائوں کی معلومات فراہم کر رہے ہیں، مگر اس ساری مادّی ترقی کے باوصف وہ خود اپنی اور اپنی معاشرت کی اصلاح نہیں کرسکا۔ اس نے سورج کی شعائوں کو تو اپنا غلام بنا لیا لیکن خود اپنے نفس امارہ کی غلامی سے نہ نکل سکا۔ مادّی ترقی کے لحاظ سے بھی نیچے گر گیا۔ زمین پر اس کے سارے معاملات اصلاح و درستی کے طلب گار ہیں اور زمین کے کاموں کو چھوڑ کر آسمانوں کے معاملات میں الجھا ہوا ہے۔ کم و بیش یہی بات علّامہ اقبالؒؒؒ نے اپنی نظم ’’زمانۂ حاضر کا انسان‘‘ (ضربِ کلیم) میں کہی ہے کہ موجودہ دور کے انسان کی حالت یہ ہے کہ اس کا دل عشقِ حق سے بالکل خالی ہے اور عقل اسے سانپ کی طرح ڈستی چلی جارہی ہے۔ وہ عقل کو اپنی نظر کا فرماں بردار نہ بنا سکا۔ اگر ایسا کرلیتا تو عقل اس کے لیے مصیبت کا باعث نہ بنی رہتی۔ وہ ستاروں کے راستے کا کھوج لگاتا پھرتا ہے، لیکن اپنے افکار کی دنیا میں اس نے کبھی سفر نہ کیا۔ اس نے ستاروں کے مشاہدے میں تو ساری عمر گزاردی مگر اپنی حقیقت معلوم کرنے کی کبھی کوشش نہ کی۔ وہ اپنی حکمت و دانش کے پیچ و خم میں اس طرح الجھ کر رہ گیا کہ آج تک نفع اور نقصان کا فیصلہ بھی نہیں کرسکا۔ اسے آج تک یہ معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ اس کے لیے حقیقی فائدے کا کام کون سا ہے اور اس کا حقیقی نقصان کس کام میں ہے؟ زندگی بسر کرنے کا اچھا طریقہ کیا ہے اور بُرا کیا؟ کون سی باتیں اسے صحیح معنوں میں انسان بناتی ہیں اور کون سی باتیں اسے انسانیت کے مقام سے گرا دینے کا باعث بنتی ہیں؟ وہ سورج کی کرنوں کو تو اپنے قبضے اور گرفت میں لے آیا اور ان سے مختلف کام لینے لگا لیکن زندگی کی اندھیری رات میں صبح کا اجالا پیدا نہ کرسکا۔ شوپن ہار ونیٹشا ایک پرندہ چمن کی سیر کرنے کے لیے اپنے گھونسلے سے اڑا۔ وہ چمن کی سیر کرتا پھر رہا تھا کہ پھول کی ٹہنی سے ایک کانٹا اس کے نازک جسم میں چُبھ گیا۔ اس پر اس نے چیخ چیخ کر دنیا کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا کہ اس کی فطرت ہی میں بدی اور بُرائی رچی ہوئی ہے کہ یہاں جو بھی آتا ہے، اسے قدم قدم پر دکھ اور تکلیف، رنج اور غم، مصیبتوں اور محرومیوں کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔ اس نے دیکھا کہ چمن میں اور بہت سے پرندے خود اس کی طرح درد اور تکلیف میں مبتلا ہیں، چناں چہ وہ اپنے درد پر آہ و زاری کرنے کے علاوہ دوسروں کی تکلیف پر بھی آہ و زاری کرنے لگا اور اس نے ایک طرح سے اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ ٹھہرا لیا کہ خود اپنی تکالیف اور دوسروں کی تکالیف پر آہ و زاری کرتا رہا۔ چوں کہ اس نے دنیا کو مصیبتوں کا گھر سمجھ لیا تھا، اس لیے اسے ہر طرف مصیبتیں ہی مصیبتیں نظر آنے لگیں۔ جب اس نے باغ میں لالہ کے پھول کو دیکھا کہ اس کی پتیاں تو سرخ ہیں مگر اس کے اندر ایک داغ سا ہے تو وہ یہ سمجھا کہ لالہ نے بے گناہوں کے قتل پر اس قدر ندامت اور افسوس کیا ہے کہ اس کا جگر داغ دار ہوگیا ہے۔ جب اس نے غنچے کو دیکھا تو اسے فطرت کا شاہکار سمجھنے کی بجائے بہار کا فریب سمجھنے لگا کہ یہ وہ جال ہے جو فطرت نے دوسروں کو پھانسنے کے لیے بنایا ہے اور اس لیے اسے خوب صورت اور دل کش بنا دیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس دنیا کی تو بنیاد ہی ٹیڑھی ہے۔ بدی، بُرائی، دکھ اور رنج اس دنیا کی ذات میں داخل ہے۔ یہاں کوئی صبح ایسی نہیں ہوئی جو شام میں تبدیل نہ ہوئی ہو چناں چہ یہاں ہر کسی کی زندگی دکھ اور درد، رنج اور غم کی مسلسل داستان ہے۔ وہ نواطراز اپنی پوری طاقت سے نالہ و فریاد کرتا اور دنیا کو بُرا بھلا کہتا رہا یہاں تک کہ اس کی زندگی بالکل تلخ ہوگئی اور اس کی نوا خون ہو ہوکر اس کی آنکھوں سے ٹپکنے لگی۔ جب اس کی آہ و فغاں ایک ہُد ہُد نے سنی تو اسے اس کے حال پر بڑا ترس آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنی چونچ کے ذریعے اس کے نازک جسم میں چبھا ہوا وہ کانٹا نکال دیا۔ جس کی وجہ سے وہ مسلسل آہ و زاری کرتا رہا تھا۔ پھر اس نے پرندے سے کہا۔ ’’تو ذرا عقل سے کام لے تو تیرے ہر دکھ کے اندر سے تیرے لیے سکھ کا پہلو نکل سکتا ہے۔ پھول کا سینہ چاک ہوتا ہے تو وہ اپنے سینے کے شگاف سے زرِ خالص پیدا کرلیتا ہے۔ تو اس دنیا کو غور سے دیکھ! یہ دنیا محض دکھوں اور مصیبتوں کا گھر نہیں ہے بلکہ اس دنیا کی تخلیق اس نہج پر ہوئی ہے کہ ہر رنج کے پردے میں راحت پوشیدہ ہے۔ تو اگر تحمل، برداشت اور حوصلے سے کام لے تو دکھ اور مصیبت تیرے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ تو دنیا کی مصیبتوں سے نبٹنے کے لیے جس قدر جدوجہد کرے گا، اتنی ہی تیری سیرت پختہ ہوگی اور جس قدر تیری سیرت پختہ ہوگی، اسی قدر تیری کامیابی کے امکانات روشن ہوتے جائیں گے۔ لہٰذا اس دنیا کے دکھ اور درد، تکلیفیں اور ناکامیاں، صدمے اور مصیبتیں، سب بُرائی کے پردے میں بھلائی کا سامان ہیں۔ ’’پس تجھے مصیبت پر نہ تو واویلا کرنا چاہیے اور نہ اس سے بھاگنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ ہر مصیبت کو اپنے لیے درپردہ راحت سمجھنا چاہیے اور اپنے ہر درد کو درماں یقین کرنا چاہیے۔ اگر تو خارکا خوگر ہوجائے یعنی مصائب کو حوصلے سے برداشت کرنے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کرلے تو تیری زندگی سراپا چمن بن جائے گی۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں پرندے اور ہُد ہُد کی حکایت کے پیرائے میں شوپن ہار اور نیٹشے کے فلسفے کے بنیادی اصولوں پر تبصرہ کیا ہے۔ شوپن ہار کا فلسفہ یہ ہے کہ خواہشِ زیست حیات کی اصلی بنیاد ہے۔ اسی کی بہ دولت انسان زندہ رہنا چاہتا ہے لیکن انسان کا ماحول قدم قدم پر اس کے جینے میں اور آرزوئوں کے حصول میں رکاوٹیں پیدا کرتا ہے اور اس کا نتیجہ دکھ اور رنج و غم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ چناں چہ شوپن ہار کے نزدیک دنیا سراسر دکھ اور عذاب ہے اور اس بدی اور دکھ سے نجات کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ زندگی کو ختم کردیا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری ہر سانس موت کو دفع کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے۔ ہم جب تک زندہ رہتے ہیں، موت سے برسرِ پیکار رہتے ہیں اور انجام کار موت ہم پر غالب آجاتی ہے۔ نیٹشے کا فلسفہ شوپن ہار کے فلسفے کی بالکل ضد ہے۔ شوپن ہار تو زندگی کی نفی کرنے کی تعلیم دیتا ہے لیکن نیٹشے یہ کہتا ہے کہ زندگی کا اثبات کرو اور پوری طاقت کے ساتھ اثبات کرو۔ اس کے نزدیک مقصدِ حیات چوں کہ حصولِ طاقت ہے، اس لیے وہ ایک مخصوص اخلاقی نظریے کا علم بردار ہے یعنی حلم، بردباری، ایثار، ہمدردی، غمگساری، دلسوزی، رحم دلی، عاجزی مسکینی اور فروتنی یہ تمام خصائل کمزوری کی علامت ہیں، اس لیے ان سے اجتناب لازم ہے۔ نیٹشے کہتا ہے کہ فطرت نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا ہے۔ قوی اور ضعیف، کمزور قومیں ترکِ دنیا، عاجزی مسکینی اور فروتنی کو عمدہ صفات قرار دیتی ہیں اور طاقتور قوموں کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ نیٹشے کے نزدیک انسان کا نصب العین یہ ہے کہ وہ طاقت حاصل کرے تاکہ دنیا پر حکومت کرسکے ایسے طاقت ور انسان کو اس نے ’’فوق البشر‘‘ کا نام دیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر شوپن ہار کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا بُری ہے اور زندگی دکھ ہے اس لیے ہمیں دونوں سے قطع تعلق کرلینا چاہیے اور نیٹشے کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا اچھی ہے اور زندگی راحت ہے، اس لیے دونوں کو حاصل کرنا چاہیے اور ان دونوں کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے اندر طاقت پیدا کی جائے، یعنی دنیا سے فرار بالکل احمقانہ فعل ہے۔ اس کے برعکس جفاکشی کی بہ دولت اپنے اندر طاقت پیدا کرنا چاہیے۔ تکلیف آئے تو برداشت کرنا چاہیے اور طاقت کے ذریعے سے دنیا کو فتح کرنا چاہیے اور اس سے تمتّع حاصل کرنا چاہیے۔ گویا علّامہ اقبالؒؒؒ نے پرندے اور ہُد ہُد کے استعارے کی زبان میں یہ بیان کیا ہے کہ جب شوپن ہار نے دنیا کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا تو اس نے دیکھا کہ یہاں تو قدم قدم پر دکھ اور تکلیف ہے اور اس کا نتیجہ رنج و غم ہے۔ یہ دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ دنیا بدی اور بُرائی کا گھر ہے۔ چناں چہ اس نے اپنی زندگی کا مقصد یہ قرار دے لیا کہ خود اپنی اور دوسروں کی تکالیف اور مصیبتوں پر آہ و زاری کرتا رہے۔ چوں کہ اس نے دنیا کو بلاخانہ اور مصیبتوں کا گھر تصور کرلیا تھا، اس لیے اسے ہر طرف بلائیں ہی بلائیں اور مصیبتیں ہی مصیبتیں نظر آنے لگیں۔ گلِ لالہ کا داغ اسے بے گناہوں کے قتل پر اظہارِ ندامت کا مظہر محسوس ہوا اور غنچے کو اس نے فطرت کے شاہکار کی بجائے فطرت کی عیّاری کی دلیل سمجھا۔ یہاں غنچے سے حقیقتاً عورت مراد ہے جس کے متعلق اس نے کہا ہے کہ: ’’عورت دراصل وہ دام ہے جسے فطرت نے کمالِ عیّاری سے کام لے کر مَردوں کے پھانسنے کے لیے بچھایا ہے اور اسی لیے اس کو چند سال کے لیے دلکشی عطا کردی ہے تاکہ مرد اس سے شادی کرکے فطرت کے مقصد (تسلسلِ حیات) کی تکمیل کرسکے۔‘‘ شوپن ہار کے نزدیک ہر شخص کی زندگی رنج و غم کی مسلسل داستان ہے۔ جب اسے اس کا یقین ہوگیا تو وہ ساری عمر اہلِ دنیا کو ترک دنیا کی تلقین کرتا رہا اور پوری طاقت کے ساتھ دنیا اور علائق دنیا کی مذمت کرتا رہا۔ چناں چہ اس کی اپنی زندگی بالکل تلخ ہوگئی اور یہ دنیا اسے انتہائی خوف ناک نظر آنے لگی۔ جب اس کا یہ مایوسی بھرا فلسفہ اور قنوطی خیالات و نظریات نیٹشے تک پہنچے تو اس نے شوپن ہار کے غلط خیالات و نظریات کی تردید کی اور اس سے کہا کہ تو اس دنیا کو غور سے دیکھ۔ یہاں ہر رنج کے پردے میں راحت ہے۔ دکھوں اور مصیبتوں کو حوصلے اور تحمل سے برداشت کیا جائے تو ان سے نقصان کی بجائے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کیوں کہ ہم ان دکھوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جس قدر جدوجہد کریں گے، اتنی ہی ہماری صلاحیّتوں کی نشوونما ہوگی اور ہماری کامیابی کے امکانات روشن ہوتے جائیں گے ہم اگر درد ہی کو درماں بنالیں اور کانٹوں کی چبھن کے خوگر ہوجائیں تو یہ چیز سراپا چمن، سراپا پہلو اور سراپا راحت بن جائے گی۔ اسی بات کو مرزا غالب نے اپنے شعر میں یوں ادا کیا ہے ؎ رنج کا خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں جلالؒ وہیگل ایک رات میں نامور جرمن فلسفی ہیگل کے فلسفے کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ہیگل وہ فلسفی ہے جس کے فلسفیانہ افکار نے روح کو مادّی علائق سے معرّا کردیا اور کائنات کو روح ہی کی جلوہ گری قرار دیا۔ اس کے خیالات کی وسعت کے سامنے اس کائنات کی وسعت بھی اپنی تنگ دامانی کے باعث خجل اور شرمندہ نظر آتی ہے۔ جب میں نے اس کے فلسفے میں زیادہ غور کیا تو میری عقل کی کشتی ایک طوفان سے دوچار ہوگئی۔ مجھ پر اضطراب اور تحیّر کی ایک شدید کیفیت طاری ہوگئی۔ اسی شدید کیفیت کی حالت میں نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اور میں باقی و فانی کے گورکھ دھندوں کی طرف سے آنکھیں بند کرکے خواب کی افسوں بھری دنیا میں پہنچ گیا۔ میں اگرچہ باقی و فانی کے گورکھ دھندوں کی طرف سے آنکھیں بند کرکے نیند کی دنیا میں پہنچ گیا تھا مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس عالمِ خواب میں بھی میری نگاہِ شوق تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کیفیت میں مجھے مرشد رومی کی زیارت ہوئی۔ مرشد رومی تو وہ آفتاب ہے کہ اس کی تجلّیات نے روم و شام بلکہ ساری دنیا سے اسلام کو منوّر اور نورانی کردیا ہے۔ اس کا عارفانہ کلام دنیا کے گم کردہ راہ انسانوں کو اس طرح ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے جس طرح رات کے اندھیرے میں جنگل میں بھٹکتے ہوئے کسی مسافر کو درویش کے جھونپڑے میں جلتے ہوئے چراغ سے رہنمائی ملتی ہے۔ اس کے الفاظ معانی کا ایسا خزانہ ہیں جو بے بہا ہے۔ اس کے حرفوں سے معانی ایسے نکلتے ہیں جیسے باغ میں زمین سے لالہ کے سرخ سرخ پھول نمودار ہوتے ہیں۔ غرض اس کا کلام سراسر معانی سے لبریز ہے۔ مرشد رومیؒ نے مجھ سے کہا: ’’ارے نادان! کیا تو سراب میں کشتی چلا رہا ہے؟ کیا تو ہیگل کے فلسفے میں حقیقت تلاش کر رہا ہے؟ جس طرح سراب سے پانی نہیں مل سکتا، اسی طرح ہیگل کے فلسفے سے حقیقت یا معرفتِ الٰہی حاصل نہیں ہوسکتی، کیوں کہ ہیگل کے فلسفے کا سارا دارومدار منطق پر ہے اور منطق سے اور سب کچھ مل سکتا ہے، مگر خدا نہیں مل سکتا۔ اگر تو حقیقت کا جویا ہے تو مسلکِ عشق اختیار کر۔ عقل کے ذریعے خدا کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈنے چلے۔ بھلا آفتاب کی روشنی کے سامنے چراغ اور اس کی روشنی کی کیا حقیقت ہے؟ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ہیگل کا فلسفہ اپنی غیر معمولی عظمت و شوکت کے باوجود محض ایک سراب ہے۔ وہ الفاظ کا ایسا طِلسم ہے جس کے اندر خزینۂ معنی نہیں، وہ ایسا پوست ہے جس کے اندر مغز نہیں اور وہ ایسا صدف ہے جس کے اندر موتی نہیں ؎ ہیگل کا صدق گہر سے خالی ہے اس کا طِلسم سب خیالی علّامہ اقبالؒؒؒ نے مرشد رومی کی زبان سے یہ کہلوایا ہے کہ ہیگل کا فلسفہ محض سراب ہے۔ جس طرح سراب میں کشتی نہیں چل سکتی، اسی طرح ہیگل کے فلسفے کے مطالعے سے انسان کو صحیح یا حقیقی علم یعنی خدا کی ذات کا عرفان یا معرفتِ الٰہی حاصل ہونا ناممکن ہے۔ فلسفے میں تو علم کا مقصود صرف اتنا ہے کہ انسان کو حقیقت کا علم حاصل ہوجائے۔ ہیگل نے اگرچہ مادّہ کی بجائے روح کو حقیقت قرار دیا ہے، لیکن اس نے جو کچھ لکھا ہے، وہ اس قدر مُبہم ہے کہ سب کچھ پڑھ جانے کے باوجود بھی انسان کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور وہ یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہیگل کا مسلک کیا ہے چناں چہ ایک طرف تو مسیحی علماء نے اس کی تصانیف سے مسیحیت کی تائید میں دلائل حاصل کیے تو دوسری طرف مذہب کا انکار کرنے والوں نے اس کی کتابوں سے مذہب کے خلاف دلائل اخذ کیے۔ اس کا ایک شاگرد یہ کہتا ہے کہ ہیگل خدا پرست تھا تو دوسرا شاگرد یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خدا کا منکر تھا۔ ع شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا علّامہ اقبالؒؒ نے اپنی نظم ’’ایک فلسفہ زدہ سیّد زادے کے نام‘‘ (ضربِ کلیم) میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہیگل اگرچہ بہت بڑا فلسفی مانا جاتا ہے، لیکن جو کچھ وہ انسانیت کے لیے چھوڑ گیا ہے، وہ سراسر بے سود ہے، اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ ویسے بھی عقل انسان کی کیا رہنمائی کرسکتی ہے؟ عقل کا انجام تو یہ ہے کہ وہ خدا کے حضور سے محروم ہوجائے اور فلسفہ انسان کو زندگی کی حقیقتوں سے دور پھینک دیتا ہے۔ چناں چہ جو انسان عقل کے چکروں میں پڑ جائیں، انھیں ایمان اور یقین کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور فلسفی ان بحثوں میں لگے رہتے ہیں، جنھیں زندگی کی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ اپنی ساری زندگیاں ان بحثوں میں کھپانے کے بعد بھی اکبر الٰہ آبادی کے اس شعر کے مصداق بنے رہتے ہیں ؎ فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں! ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں اسی لیے مرشدِ رومیؒ نے نظم کے آخر میں یہ نصیحت کی ہے کہ عشق کی راہ عقل سے طے نہیں ہوسکتی اور نہ چراغ لے کر آفتاب کو ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ خود علّامہ اقبالؒؒؒ نے ایک دوسری جگہ یہ تلقین فرمائی ہے ؎ گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے، منزل نہیں ہے پٹوفی اے پٹوفی! تو نے اس دنیا میں بہت تھوڑے دنوں نغمہ سرائی کی، لیکن تو نے اپنی غیر فانی نظموں کی بہ دولت دلوں میں وطن کی محبت کا جذبہ پیدا کردیا اور ابنائے وطن کے دلوں کو دنیا کی محبت سے پاک کرڈالا۔ تیری نظموں نے ان کے دلوں میں حبِّ وطن کا ایسا زبردست جذبہ پیداکردیا کہ دنیاوی لالچ، فائدوں اور مصلحتوں کا خیال ان کے دلوں سے بالکل نکل گیا۔ اے پٹوفی! تو نے اپنے خون سے اپنے محبوب وطن کی آزادی کے درخت کی آبیاری کی۔ تو نے اپنے لہو سے اپنے نہالِ وطن کو سینچا، اور تو نے لہو کو گرما دینے والے کلام سے اپنی قوم کے نوجوانوں کے دلوں میں آزادی کی آگ روشن کردی۔ جس طرح بادِ صبح گاہی غنچوں کے دلوں کو کھلا دیتی ہے اسی طرح تو نے اپنی غیر فانی نظموں سے اپنی قوم کے نوجوانوں کے دلوں کے غنچے کھلا دیے اور ان میں اپنے وطن کے لیے سب کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا کردیا۔ اے پٹوفی! تو خود اپنی نوا میں گم ہوگیا اور تیرا کلام ہی تیرا مرقد بن گیا۔ آج دنیا میں تیری کوئی مادّی یادگار نہیں۔ کہیں تیرا مزار نہیں، کہیں تیری قبر کا نشان نہیں، صرف تیری شاعری ہی تیری یادگار کی صورت میں دنیا میں باقی ہے۔ اے پٹوفی! بات یہ ہے کہ تیرا وجود اس زمین، اس مادّی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ وطن کی راہ میں شہادت پانے کے بعد تیری لاش کہیں نہیں ملی، مگر اس کی وجہ کیا تھی؟ یہی کہ تیرا وجود اس دنیا سے تعلق نہیں رکھتا تھا، چوں کہ تو اس زمین سے نہیں تھا، اس لیے تو نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ تیرا جسم اس دنیا، اس زمین کے حوالے کیا جائے۔ تیرا وجود خاکی نہیں تھا اس لیے تو خاک کی طرف واپس نہیں آیا۔ تو اپنی شاعری ہی میں چھپ گیا اور تیرا کلام ہی تیرا مرقد بن گیا۔ یہی تیری یادگار ہے اور یہی تیرا مزار ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم کے ذریعے سرزمینِ ہنگری کے عظیم سپوت اور جواں مرگ شاعر الیگزینڈر پٹوفی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ہنگری کا یہ وطن دوست شاعر پاکیزگیِ خمیر، پختگی ِسیرت و کردار اور حریتِ فکر و عمل کے لحاظ سے ایک قابلِ صد رشک مقام کا حامل ہے۔ الیگزینڈر پٹوفی کے باپ نے برسوں کی ضمیر فروشی کے بعد شہنشاہ لیو پولڈ کی بارگاہ سے نوابی کا خطاب اور خلعت حاصل کیا تھا، لیکن نوجوان پٹوفیؔ نے جس کی رگ رگ میں حریتِ وطن کا نشہ سمایا ہوا تھا، اس غلامانہ زندگی کے خلاف اپنی پوری قوت کے ساتھ بغاوت کی۔ چناں چہ اس جرم میں باپ نے اسے گھر سے نکال دیا۔ چار سال تک الیگزینڈر پٹوفی نے ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کیں، لیکن اپنی حریتِ ضمیر کو برقرار رکھا۔ اس عرصے میں اسے بارہا مسلسل فاقے بھی کرنے پڑے، لیکن اس نے اپنے ضمیر فروش باپ سے امداد طلب نہیں کی۔ مصائب بھری زندگی کے اس دورِ ابتلا و آزمائش نے اس کی خوابیدہ قوتوں کو بیدار کردیا اور اس کے جوہروں کو اسی طرح چمکا دیا جس طرح سونا کٹھالی میں پڑنے کے بعد کندن ہوکر نکلتا ہے۔ شاعر تو وہ پہلے بھی تھا مگر اب صحیح معنوں میں شاعر بن گیا۔ چناں چہ اس عرصے میں اس نے بہت سی نظمیں لکھیں، جن کے ایک ایک مصرعے سے حریت کی خوشبو آتی ہے۔ چوں کہ ملوکیت میں حریت کی تلقین کو بغاوت کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے نوجوان پٹوٹی جس ناشر کے پاس اپنا مجموعۂ کلام لے کر جاتا تھا، وہ اس کو دیکھ کر کانوں پر ہاتھ رکھتا تھا۔ بالآخر پٹوفی کے ایک قدردان وارس مارتی (VOROS MARTY) نے جو ایک فارغ البال، علم دوست اور دولت مند تاجر تھا، اپنے ایک ناشر دوست کو ان باغیانہ نظموں کی اشاعت پر آمادہ کیا اور اس طرح ۱۸۴۴ء میں جب کہ پٹوفی کی عمر صرف ۲۱ سال تھی، اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا۔ان نظموں نے سارے ہنگری میں آگ لگا دی اور چند ماہ کے بعد بچے بچے کی زبان پر پٹوفی کا نام ہوگیا۔ اس کے بعد چار سال کے قلیل عرصے میں اس کی نظموں کے نو (۹) مجموعے اور شائع ہوئے۔ ان نظموں نے ہنگری کے عوام کے دلوں میں حبِّ وطن کا زبردست جذبہ پیدا کردیا۔ ۱۸۴۸ء میں جب ہنگری میں انقلاب رونما ہوا تو عوام نے اسے اپنا قائد بنا لیا اور یہ بہادر محب وطن ۳۱ جولائی ۱۸۴۸ء کو سیگسور (SEGSVAR) کی جنگ میں دادِ شجاعت دیتا ہوا اپنے وطن پر اس شانِ ادا سے نثار ہوگیا کہ جنگ کے بعد ہزار تلاش و جستجو پر بھی اس کی نعش نہ ملی کہ اس کے پرستار اور عقیدت مند اس کے مرقد کی صورت میں اس شہیدِ وطن کی کوئی یادگار قائم کرسکتے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے پٹوفی کی شاعرانہ عظمت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اس کی راہِ وطن میں شہادت پانے کے بعد لاش نہ ملنے سے یہ نرالا اور فکر انگیز نکتہ پیدا کیا ہے کہ جنگ کے بعد پٹوفی کی لاش اس لیے نہیں ملی کہ اس کا وجود اس زمین سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ وہ بظاہر خاکی کے ہونے کے باوجود خاک سے رشتۂ پیوند نہیں رکھتا تھا۔ اس لیے اس نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ اس کا جسم خاک کے حوالے کیا جائے۔ جو خاکی ہوتے ہیں۔ انھیں تو ایک نہ ایک دن پیوندِ خاک ہونا ہی ہوتا ہے، مگر پٹوفی کا وجود چوں کہ خاکی نہیں تھا، اس لیے وہ خاک کی طرف واپس نہیں آیا اور اپنی شاعری ہی میں پنہاں ہوگیا۔ حکیم اگسٹس کومٹ و مردِ مزدور فرانس کے مشہور فلسفی اگسٹس کومٹ نے مزدور سے کہا: ’’اے مردِ مزدور! تمام انسان آپس میں اس طرح مربوط ہیں جس طرح ایک جسم کے اعضا باہم مربوط ہوتے ہیں یا جس طرح ایک درخت کی شاخیں اور پتے باہم مربوط ہوتے ہیں۔ جس طرح فطرت نے انسانی اعضاء کے مختلف وظائف مقرر کردیے ہیں کہ دماغ کا کام سوچنا ہے اور پائوں کا کام چلنا ہے، اسی طرح فطرت نے انسانوں کے مختلف طبقات قائم کردیے ہیں، چناں چہ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی سرمایہ دار ہے تو کوئی مزدور، کوئی صنعت کار ہے تو کوئی کاریگر، کوئی زمیندار ہے تو کوئی کاشت کار۔ ہر شخص وہی کام کرتا ہے جو فطرت نے اسی کے لیے مقرر کر دیا ہے اور جس کے لیے فطرت نے اسے موزوں بنایا ہے۔ بادشاہ غلام نہیں بن سکتا اور غلام سے بادشاہی نہیں ہوسکتی۔ زندگی میں اس تقسیم کار کی بہ دولت ہی راحت اور آسائش کا رنگ پیدا ہوتا ہے۔ اسی تقسیم کار سے زندگی کے کانٹے سراپا چمن بنتے ہیں اور اسی تقسیم کار سے زندگی کی دشواریاں آسان ہوجاتی ہیں۔‘‘ فلسفی اگسٹس کومٹ کی باتیں سن کر مزدور نے جواب دیا: ’’اے فلسفی! تو مجھے اپنے فلسفے سے دھوکا دینا چاہتا ہے! تو مجھے یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ ہم اس طِلسم قدیم کو نہیں توڑ سکتے اور پرانے نظام کو تہ و بالا نہیں کرسکتے؟ تیرا یہ فلسفہ بالکل غلط ہے اور ہم ایک لحظہ کے لیے اسے درست ماننے کو تیار نہیں۔ تو ملمّع سازی سے مسِ خام کو سونا ظاہر کر رہا ہے اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے مجھے غلامی کا سبق پڑھا رہا ہے، لیکن میں تیرے فریب میں نہیں آسکتا۔ میں اب اپنی حیثیت اور اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہوچکا ہوں۔ ’’اے فلسفی! اس دنیا میں جگہ جگہ میری محنت کی جلوہ گری ہے۔ میری آبناے نے سمندر کو اپنا اسیر کر دکھایا ہے۔ میرے ہی تیشہ کی بہ دولت پہاڑوں سے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں۔ میری ہی محنت سے کارخانہ داروں کے کارخانے چل رہے ہیں۔ میری ہی مشقت کی بہ دولت سرمایہ داروں کی تجوریاں بھر رہی ہیں۔ اے فلسفی! تو نے کوہ کن کا حق اسی پرویز کو دے ڈالا جو پرلے درجے کا عیّار ہے اور جس نے کبھی محنت اور مشقت کی تکلیف اٹھائی ہی نہیں! تو مزدور کا حق اس سرمایہ دار کو دے دینا چاہتا ہے جس نے کبھی تنکا تک نہیں توڑا! ’’اے فلسفی! تو اپنی حکمت اور اپنے فلسفے کے زور سے غلط کو صحیح اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش مت کر۔ تو خضر کو سراب سے مطمئن نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ خضر سراب کی حقیقت جانتا ہے اس طرح تو مردِ مزدور کو اپنے فلسفیانہ دلائل سے مطمئن نہیں کرسکتا، کیوں کہ مردِ مزدور کے نزدیک تیرا فلسفہ سرمایہ داری کی حمایت کے ڈھونگ سے زیادہ نہیں۔ ’’اے فلسفی! سچی بات تو یہ ہے کہ سرمایہ دار کا وجود دوشِ زمین پر محض ایک بوجھ ہے کیوں کہ اسے تو سوائے کھانے پینے اور سونے کے اور کوئی کام ہی نہیں جب کہ اس دنیا میں جس قدر فارغ البالی، شادمانی اور ترقی نظر آتی ہے، وہ سب مزدور کی محنت اور جفا کشی کا ثمرہ ہے۔ سرمایہ دار کی حیثیت تو یہاں ایک چور اور لٹیرے سے زیادہ نہیں۔ افسوس ہے تیری عقل و دانش پر کہ تو سرمایہ دار کے جرم پر تو پردہ ڈال رہا ہے اور مزدور کو مجرم سمجھتا ہے۔ کیا تجھے اس عقل و دانش پر ناز ہے؟‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں فرانس کے مشہور فلسفی اگسٹس کومٹ کے نظریات اور ان پر مردِ مزدور کے ردِّ عمل کو واضح کیا ہے۔ کومٹ کا فلسفہ کائنات کے ظواہر سے بحث کرتا ہے کہ عقلِ انسانی صرف مظاہر کا علم حاصل کرسکتی ہے اور انسان کو حقیقی علم صرف ان چیزوں کا حاصل ہوسکتا ہے جو حواسِ خمسہ سے محسوس ہوسکتی ہیں۔ اگسٹس کومٹ نے ایک نوجوان اور حسین و جمیل عورت سے شادی کی تھی جو صرف دو سال بعد انتقال کرگئی تھی۔ کومٹ کو اس کی وفات سے بہت صدمہ ہوا تھا اور جب تک وہ زندہ رہا، اپنے دل میں اس کی پرستش کرتا رہا۔ اسی جذبے کے تحت وہ سائنس کی دنیا سے نکل کر مذہب کی طرف آیا اور اس نے یہ تعلیم دی کہ انسان کو انسانیت کی پرستش کرنی چاہیے۔ بہ الفاظِ دیگر انسان کو خدا کی بجائے انسانیت کو اپنا معبود قرار دینا چاہیے اور سب انسانوں سے محبت کرنی چاہیے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں اگسٹس کومٹ کے فلسفے کے اس پہلو کو پیش کیا ہے کہ تمام انسان ایک جسم کے اعضا کی طرح آپس میں مربوط ہیں۔ ہر انسان کے ذمے فطرت کی طرف سے کوئی نہ کوئی فرض لگایا گیا ہے۔ جس طرح دماغ سوچتا ہے، ہاتھ کام کرتے ہیں اور پائوں چلتے ہیں، اسی طرح مختلف انسان دنیا میں مختلف کام کرتے ہیں اور ہر شخص وہی کام کرتا ہے جو اس کے لیے فطرت کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے۔ چناں چہ قدرت کی اسی تقسیم کار کی بہ دولت دنیا کا نظام چلتا ہے اور اس میں اہلِ دنیا کو راحت اور آرام کا سامان میسر آتا ہے۔ اگسٹس کومٹ کے ان افکار پر مردِ مزدور کا ردِّ عمل ایک طرح سے کارل مارکس کے اشتراکی فکر کا ردِّ عمل ہے۔ مردِ مزدور اگسٹس کومٹ کی باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی بجائے طیش کھا کر جواب دیتا ہے کہ اے فلسفی! تو مجھے اپنی فلسفیانہ باتوں سے فریب دینے کی کوشش مت کر۔ کیا تو مجھے یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ ہم مزدور اس پرانے سرمایہ دارانہ نظام کو توڑ نہیں سکتے، تو قدرت کی تقسیم کار کے پردے میں مجھے یہ سبق پڑھانا چاہتا ہے کہ میں ساری عمر مزدور بنا رہوں اور صبر شکر کرکے سرمایہ دار کی غلامی کیے جائوں؟ لیکن یاد رکھ کہ آج کا مزدور جاگ چکا ہے، وہ تیری چکنی چپڑی باتوں کے فریب میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ تو مزدور کا حق سرمایہ دار کو دینا چاہتا ہے، حالاں کہ اس دنیا میں جو رونق، چہل پہل اور ترقی نظر آتی ہے، وہ سب مزدور کی محنت کا کرشمہ ہے۔ سرمایہ دار نے تو اس کے لیے ایک تنکا تک نہیں توڑا۔ اسے تو سوائے کھانے پینے اور نیند کے مزے لوٹنے کے اور کوئی کام ہی نہیں۔ اس دنیا میں تو اس کی حیثیت ایک چور اور لٹیرے کی ہے اور تعجب ہے کہ تو اس چور اور لٹیرے کے جرم کی پردہ پوشی کرتے ہوئے مجھے اس کی غلامی کا سبق پڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے مردِ مزدور کے ان نظریات کو بانگ درا میں ظریفانہ رنگ میں بھی پیش کیا ہے ؎ کارخانے کا ہے مالک مردکِ نا کردہ کار عیش کا پتلا ہے، محنت ہے اسے ناسازگار حکمِ حق ہے لیسَ لِلاِنسَانَ اِلَّا مَاسَعیٰ کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار جلال و گوئٹے ایک روز جنت میں جرمنی کے نامور شاعر گوئٹے کو مولانا جلال الدین رومیؒ کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا۔ مرشدِ رومیؒ کی شان تو یہ ہے کہ وہ پیغمبر نہیں لیکن صاحبِ کتاب ہے اور اس کی کتاب جو مثنوی مولانا رومی کے نام سے معروف ہے اسے ’’قرآن در زبان پہلوی‘‘ کہا جاتا ہے… تو گوئٹے کو جب مرشد رومیؒ کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا تو اس نے اس واقفِ اسرار قدیم کو اپنا شاہکار ڈرامہ فائوسٹ (FAUST) سنایا جس میں اس نے حکیم فائوسٹ اور شیطان کے عہدو پیمان کی قدیم روایات کو اس انداز سے نظم کیا ہے کہ اس میں انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج بخوبی سامنے آجاتے ہیں۔ جب مرشدِ رومیؒ نے اس عظیم شاعر کا عظیم ترین ڈرامہ خود اس کی زبانی سنا تو کہا: ’’اے نکتہ دانِ المنی! تو نے شاعری کے قالب میں نئی روح پھونک دی ہے۔ تو نے عشق و محبت کے اسرار فاش کرکے اس جہانِ کہنہ کو نئی زندگی عطا کردی ہے۔ تو نے اپنے ڈرامے میں سوزوسازِ جاں کا حقیقت افروز مرقع پیش کرکے زندگی کی حقیقت کو آشکار کردیا ہے۔ اے جانِ نگارِ سخن! تو نے صدف میں گوہر کی تعمیر کا مشاہدہ کیا ہے اور اس طرح انسان کی روحانیت کے تمام مدارج واضح کردیے ہیں۔ ’’اے فخرِ المانیہ! تو نے ایک قابلِ صد رَشک مقام پایا ہے اور سچ یہ ہے کہ ایسا مقامِ بلند ہر شخص کو نصیب نہیں ہوسکتا، کیوں کہ رمزِ عشق ایک ایسی رمز ہے جس سے ہر کسی کو آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ وہ درگاہ ہے کہ ہر کس و ناکس اس کے لائق نہیں۔ اس تک رسائی تو کسی کسی کا نصیب ہے۔ کیوں کہ عشق کے کمالات کا بیان کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ ایک خوش نصیب اور محرمِ راز فنکار ہی اس نکتے کو سمجھ سکتا ہے کہ انسان کی امتیازی خصوصیت عقل و خرد نہیں، عشق ہے۔ ابلیس نے عقل کو اپنا رہنما بنایا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مردود ہوگیا، لیکن آدمؑ نے عشق کو اپنا رہنما بنایا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مقبولِ بارگاہ ہوگیا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں مرشدِ رومیؒ کے زبان سے جرمنی کے نام ور ترین شاعر گوئٹے کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ اس باکمال المانوی شاعر کے کمالِ فن کے حد درجہ معترف ہیں اور انھوں نے اپنے کلام میں جگہ جگہ اس کے کمالِ فن کا اعتراف کیا ہے۔ ’’بانگِ درا‘‘ میں ’’مرزا غالب‘‘ کے عنوان سے انھوں نے جو نظم کہی ہے، اس میں غالب کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے انھوں نے گوئٹے کو غالب کا ہم نوا قرار دیا ہے ؎ آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے گلشنِ و یمر میں ترا ہم نوا خوابیدہ ہے علاوہ ازیں انھوں نے ’’پیامِ مشرق‘‘ میں گوئٹے کی مشہور نظم ’’نغمۂ محمّدؐ‘‘ کا ایک نہایت آزاد ترجمہ ’’جوئے آب‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ انھوں نے یہ تصریح بھی فرما دی ہے کہ اس نظم میں اس المانی شاعر نے زندگی کے اسلامی تخیّل کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے اور یہ نظم اصل میں ایک مجوزہ اسلامی ڈرامے کا جزو تھی، جس کی تکمیل گوئٹے سے نہ ہوسکی۔ اس نامکمل ڈرامے کی تمہید میں گوئٹے نے لکھا ہے: ’’میں نے یہ نظم اس لیے لکھی تھی کہ آںحضرت (ﷺ) کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے جب کہ وہ کامیابی کے لحاظ سے مرتبۂ کمال پر تھے، ان کے رفیقِ کار حضرت علیؓ ان کی شان میں پڑھ کر سنائیں۔‘‘ اس تمہید سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمنی کا یہ یگانۂ روزگار شاعر آں حضرت ﷺ کی پیغمبرانہ شان سے اور اس کامیابی سے جو آپ کو اپنے مقصد میں حاصل ہوئی، بہت متاثر تھا۔ اور ایک اس نظم ہی کی بات نہیں، ’’پیامِ مشرق‘‘ تو پوری کی پوری ’’در جوابِ دیوانِ شاعر المانوی گوئٹے‘‘ لکھی گئی ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے دیباچے میں آغاز ہی میں صراحت فرما دی ہے کہ پیامِ مشرق کی تصنیف کا محرک جرمن ’’حکیم حیات‘‘ گوئٹے کا ’’مغربی دیوان‘‘ ہے جو ہائنا کے الفاظ میں ایک گلدستۂ عقیدت ہے، جو مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے اور جس سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ مغرب اپنی کمزور اور سرد روحانیت سے بیزار ہوکر مشرق کے سینے سے حرارت کا متلاشی ہے۔ زمانۂ قدیم سے کیمیا گری کو ایک پراسرار فن کی حیثیت حاصل رہی ہے اور کیمیا گر تانبے، چاندی، پارہ اور دیگر کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ کیمیا گروں کی ان کوششوں نے طرح طرح کی پراسرار روایتوں اور رنگ رنگ کی لرزہ خیز حکایتوں کو جنم دیا ہے۔ ایسی ہی ایک روایت اس کیمیا گر کی ہے جسے مغربی ادب میں ڈاکٹر فائوسٹس (FAUSTUS) یا فائوسٹ (FAUST) کا نام دیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس حکیم یا کیمیا گر نے سونے اور دیگر ناممکن الحصول دنیاوی نعمتوں کی خاطر اپنی روح شیطان کے ہاتھ بیچ دی تھی۔ ایک خاص مدت کے لیے ان دونوں میں ایک معاہدہ ہوگیا تھا۔ شیطان نے اسے حسبِ طلب دنیا کی ہر چیز اسے مہیا کرنے کا قول دیا تھا اور اس کے عوض اس سے اپنے ہر حکم کی بلا چوں و چرا تعمیل کا قول لے لیا تھا۔ اس قول و قرار کے نتیجے میں کیمیا گر کو ڈھیروں سونا مل جاتا ہے اور جس چیز کی خواہش کرتا ہے، فوراً مل جاتی ہے۔ کبھی وہ ماضی کے گم شدہ ایوانوں کی سیر کرتا ہے تو کبھی مستقبل کے دریچوں میں جھانکتا ہے۔ کبھی وہ طلسماتی رتھ میں بیٹھ کر آسمانوں کی سیر کرتا ہے تو کبھی پاتال تک کے اسرار سربستہ اس کی نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں… یہ سب کچھ تو اسے مل جاتا ہے، لیکن شیطان کے احکام کی تعمیل میں اسے بیسیوں ایسے گھنائونے اور انتہائی قابلِ نفرت و ملامت کام کرنے پڑتے ہیں جو اس کے ضمیر کے خلاف ہوتے ہیں اور جن سے اس کی روح ایک کرب زارِ مسلسل بن جاتی ہے۔ کیمیا گر اور شیطان کے عہد و پیمان کی اس حکایت و روایت کو کم و بیش ہر زبان کے نامور ادیب نے موضوعِ قلم بنایا ہے۔ انگریزی ادب میں مارکو کا ڈرامہ ڈاکٹر فائوسٹس (Dr. FAUSTUS) اس کی نمایاں مثال ہے مگر اس قدیم روایت کو جس خوب صورت اور منفرد انداز سے گوئٹے نے اپنے شاہکار ڈرامے کا موضوع بنایا ہے، وہ اپنی جگہ عدیم النظیر ہے۔ چناں چہ اس میں ایک طرف تو انسان کے امکانی نشوونما کے تمام مدارج بہ خوبی سامنے آجاتے ہیں، دوسری طرف یہ اہم اخلاقی نکتہ سامنے آتا ہے کہ انسان کی امتیازی خصوصیت عقل و خرد نہیں، عشق ہے۔اسی اہم نکتے کی بنا پر علّامہ اقبالؒؒؒ نے مرشد رومیؒ کی زبان سے گوئٹے کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوئٹے نے جو قابلِ صد رَشک مقام پایا ہے۔ وہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا کیوں کہ رمزِ عشق سے آگاہ ہونا ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتا اور نہ عشق کے کمالات کا بیان کرنا ہر کسی کے بس کی بات ہے۔ ایک محرمِ راز فنکار ہی اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ انسان کا امتیازی وصف عشق ہے، عقل و خرد نہیں۔ وہ عشق کو اپنا رہنما بناے گا تو ساری کائنات کو مسخّر کرے گا اور عقل و خرد کی غلامی قبول کرے گا تو انسانیت کے شرف سے بھی محروم ہوکر ناقابلِ بیان پستیوں میں گرتا چلا جائے گا۔ موسیو لینن و قیصر ولیم موسیو لینن نے قیصر ولیم سے کہا۔ ’’عوام صدیوں سے محکوم و مظلوم چلے آرہے تھے۔ وہ دانوں کی طرح چکّی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے۔ ایک طرف زاروں اور قیصروں نے انھیں اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ دوسری طرف کلیسا کے پاپائوں نے انھیں اپنے دام میں اسیر کر رکھا تھا۔ ایک طرف ملوکیت نے انھیں اپنے دامِ فریب میں الجھا رکھا تھا اور دوسری طرف پاپائیت نے انھیں اپنا بندہ بے دام بنا رکھا تھا۔ لیکن دیکھ لو کہ انجام کار بھوکے ننگے عوام نے اپنے آقائوں کے اس لباس کو تار تار کرکے رکھ دیا جو خود ان کے خون سے رنگین تھا۔ انھوں نے اپنی ذلّت بھری زندگی سے تنگ آکر اپنے آقائوں کو ان کی آقائیت سمیت ختم کردیا۔ انھوں نے پیرِ کلیسا کی چادر بھی جلا ڈالی اور قبائے سلطان کو بھی خاکستر کر دیا۔ اب نہ زاروں اور قیصروں کی ملوکیت ہے اور نہ کلیسا کی پاپائیت۔ عوام ان دونوں پھندوں سے آزاد ہوچکے ہیں۔‘‘ موسیو لینن کی یہ باتیں سن کر قیصر ولیم نے جواب دیا۔ ’’تم غلط کہتے ہو کہ عوام آزاد ہوگئے۔ عوام کہاں آزاد ہوئے ہیں؟ وہ بیچارے تو اب بھی غلام ہیں۔ پہلے وہ زارؔ کے غلام تھے، اب صدرِ جمہوریہ کے غلام ہیں۔ پہلے ان کی گردنوں میں ملوکیت کی غلامی کا پٹّا تھا، اب ان کی گردنوں میں اشتراکیت کی غلامی کا پٹّا ہے۔‘‘ ’’اے لینن! تم ملوکیت کو عبث بدنام کر رہے ہو۔ جب طواف برہمن کی سرشت میں داخل ہو تو اس میں بُتوں کے عشوہ و ناز کا کیا گناہ؟ حقیقت یہ ہے کہ غلامی تو انسان کی سرشت میں داخل ہے، اس لیے وہ بہرحال غلامی میں مبتلا رہے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان جدت پسند واقع ہوا ہے۔ اس لیے وہ پرانے خدائوں سے بیزارہوکر نئے نئے خدا تراشتا رہتا ہے۔ پہلے اس کے خدائوں اور آقائوں کے لقب زار اور قیصر ہوتے تھے، اب اس کے خدائوں کے لقب کچھ اور ہوگئے ہیں۔‘‘ ’’اے لینن! جب مسافر خود ہی اپنی متاع کے لوٹنے والے ہوں تو رہزنوں کے ظلم و ستم کی شکایت کیا معنی؟ جب انسان خود ہی غلامی کا پٹّا اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار ہو تو آقائوں کے ظلم و جور کی شکایت کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ ملوکیت کی شکایت مت کرو۔ شاہی تاج اگر جمہور کے سر کی زینت بن جائے تو اس کی محفل میں بھی وہی ہنگامے ہوتے ہیں جو ملوکیت سے خاص ہیں اور جن کی وجہ سے تم ملوکیت کو بُرا بھلا کہتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے دل سے ہَوس کبھی نہیں جاتی، وہ کوئی رنگ اور کوئی حیثیت بھی اختیار کرلے، اس کے دل میں حرص و ہوس کا الائو اسی طرح بھڑکتا رہتا ہے، جس طرح آتش دان میں آگ جلتی رہتی ہے، خواہ اس کی ظاہری شکل و صورت میں کیسی ہی تبدیلی کردی جائے۔‘‘ ’’اے لینن! عروسِ اقتدار بہ دستور عوام کو اپنی زلفوں کے پیچ و خم میں الجھانے میں لگی ہے۔ اربابِ اقتدار ملوکیت کی طرح ہی عوام کو اپنا غلام بنانے اور غلام بناے رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں اور عوام اقتدار کے نئے خدائوں کے سامنے اسی طرح سجدہ ریز ہیں جس طرح وہ قیصر و زار کے دور میں تھے۔‘‘ ’’اے لینن! حقیقت یہ ہے کہ شیریں کی دنیا تو عشّاق سے تہی ہو ہی نہیں سکتی۔ کوئی نہ کوئی اس کے حسن کے جلوئوں کا طلب گار اور اس کے عشوہ و نازو ادا کا خریدار بن کے سامنے آتا رہے گا۔ اگر خسرو پرویز نہ ہوگا تو اس کی جگہ فرہاد کوہکن اس کا طلب گار اور خریدار بن کر آجائے گا۔ یہی کیفیت اقتدار کی ہے۔ عوام کا مقدر تو غلامی ہے، وہ ہمیشہ غلام رہیں گے کیوں کہ غلامی ان کی سرشت میں داخل ہے۔ اقتدار کی غلامی کا جُوا ہمیشہ ان کی گردنوں میں پڑا رہے گا خواہ کوئی بادشاہ زاد ان پر حکومت کرے یا کسی مزدور کا بیٹا ان کا حاکم و آقا بن جائے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں مشہور اشتراکی رہنما اور اشتراکی روس کے پہلے صدر لیننؔ اور جرمنی کے آخری شہنشاہ فریڈرک و لہیلم المعروف بہ قیصرولیم ثانی کے درمیان مکالمے کے پیرائے میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ طاقت ور کی غلامی انسان کی سرشت میں داخل ہے، اس لیے طرزِ حکومت خواہ شخصی ہو خواہ جمہوری، انسان بہرحال غلامی میں مبتلا رہے گا۔ نظم میں لینن اس بات پر فخر و مباہات کا اظہار کرتا ہے کہ عوام جو صدیوں سے ملوکیت اور کلیسا کے اسیر تھے اور اس طرح چکی کے دو پاٹوں میں پستے چلے آرہے تھے، انھوں نے بالآخر ملوکیت اور کلیسا دونوں کی غلامی سے نجات حاصل کرلی ہے اور اب وہ آزاد ہوگئے ہیں۔ لینن کے اس اظہارِ فخر و مباہات کے جواب میں علّامہ اقبالؒؒ نے قیصر ولیم کی زبان سے حقیقت کا اظہار کرایا ہے کہ مسندِ اقتدار پر کسی بادشاہ کا بیٹا فائز ہو یا یہ مسند کسی مزدور کے بیٹے کے تصرف میں ہو۔ دونوں غلام تھے، اب وہ اشتراکیت کے غلام ہیں۔ اقتدار اور صاحبانِ اقتدار کی خدائی کے کھیل ہمیشہ وہی رہتے ہیں چاہے خداوندانِ اقتدار اپنا نام کچھ بھی رکھ لیں۔ جس طرح گزشتہ زمانے میں مطلق العنان بادشاہ اپنے دشمنوں کو قتل کرا دیا کرتے تھے، اسی طرح موجودہ زمانے میں جمہوری حکومتوں کے سربراہ اپنے مخالفین کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ یہی وہ المناک حقیقت ہے جس کی طرف علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے ؎ زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی قسمت نامۂ سرمایہ دار و مزدور سرمایہ دار نے مزدور سے کہا ’’اے بھائی! آئو ہم اس دنیا کی چیزوں کو منصفانہ طور پر آپس میں تقسیم کرلیں تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقع نہ رہے، بلکہ میں تو تمھاری بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت یہاں تک ایثار کرنے کو تیار ہوں کہ جتنی اچھی اچھی عمدہ اور اعلیٰ درجے کی چیزیں ہیں وہ تم لے لو اور گھٹیا درجے کی چیزیں میرے لیے رہنے دو۔‘‘ ’’تم نے دیکھا ہوگا کہ فولاد اور لوہے کے کارخانوں میں کتنا شور ہوتا ہے۔ ان میں کام کرنے والی مشینوں کی گڑ گڑاہٹ اور بے ہنگم شور سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ سو تم یہ شور و شغب والے کارخانے میرے لیے رہنے دو اور کلیسا کے پیارے پیارے نغمے اور میٹھے میٹھے گیت خود لے لو۔‘‘ ’’تمھیں باغوں، کھیتوں اور درختوں کا حال تو معلوم ہی ہے۔ ہر بادشاہ ان پر خراج وصول کرتا ہے۔ صرف خراج ہی وصول نہیں کرتا بلکہ ان کی آمدنی پر قسم قسم کے محصول عاید کرکے ان کی پیداوار کا بیشتر حصہ خود ہتھیا لینے کی فکر میں رہتا ہے۔ اس لیے تم ہزاروں پریشانیوں کی جڑ ان باغوں، کھیتوں اور درختوں کو میرے لیے رہنے دو اور جنت کے باغوں، سدرہ اور طوبیٰ کو خود لے لو۔ نہ ان پر کوئی بادشاہ خراج اور محصول عاید کرے گا اور نہ تمھیں ان کے بارے میں کسی قسم کی پریشانی ہوگی۔‘‘ ’’تم شراب کے بارے میں تو جانتے ہی ہو، کیسی نامراد چیز ہے۔ ایک طرف تو یہ درد سر پیدا کرتی ہے، دوسری طرف اسے پی کر آدمی اپنے آپ سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔ عقل مندوں نے اسے تمام خرابیوں اور بُرائیوں کی جڑ قرار دیا ہے کہ اسے پینے کے بعد آدمی کسی کام کا نہیں رہتا اور ہر وہ بُرائی کر گزرتا ہے جس کے وہ ہوش و حواس قائم ہونے کی حالت میں قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ سو تم اس تمام خرابیوں کی جڑ شراب خانہ کو میرے لیے رہنے دو اور پانی جیسی پاک صاف چیز کو خود لے لو کہ یہ نہ تو شراب کی طرح نجس اور ناپاک ہے اور نہ اس کے پینے سے کسی خرابی کا اندیشہ ہوتا ہے اور جسے آدم و حوا کی صہبائے پاک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‘‘ ’’مرغابیاں، تیتر، چکور، بٹیر، کبوتر اور دوسرے پرندوں کے شکار میں کتنی مصیبتیں اٹھانی پڑتی ہیں، تم ان سے ناواقف نہ ہوگے، اس لیے ان پرندوں کو تم میرے لیے رہنے دو اور ہُما جیسے بابرکت پرندے کا سایہ اور عنقا جیسے بے مثال پرندے کا شہپر خود لے لو کہ وہ مبارک پرندہ ہے کہ جس کے سر پر سے گزر جائے وہ بادشاہ ہوجاتا ہے اور عنقا ایسا نادر و نایاب پرندہ ہے کہ جسے اس کا پر مل جائے اس سے بڑا خوش نصیب اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘ ’’سو اے میرے بھائی! یہ زمین اور اس کے نجس و ناپاک پیٹ میں جو کچھ ہے، وہ میرے لیے رہنے دو اور اس زمین سے لے کر آسمان بلکہ عرشِ معلیٰ تک جو کچھ ہے وہ خود لے لو۔ زمین اور اس کے اندر جو کچھ ہے، وہ میری ملکیت ہے اور زمین سے آسمان بلکہ عرشِ معلّیٰ تک ساری کائنات تمھاری ملکیت ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم سرمایہ دارانہ ذہنیت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اس کا ایک ایک شعر طنز سے بھرپور ہے اور سرمایہ داری ذہن کو عریاں کرتا ہے۔ سرمایہ دار نے دنیا کی چیزوں کو مزدور کے ساتھ منصفانہ طور پر تقسیم کرتے ہوئے جس ’فیاضی‘ اور ’دریادلی‘ کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی داد نہیں دی جاسکتی۔ اس نے گھٹیا اور کم تر درجے کی چیزیں اپنے پاس رکھی ہیں اور عمدہ و اعلیٰ تر درجے کی چیزیں مزدور کے حوالے کردی ہیں۔ لوہے کا کارخانہ اپنے لیے رکھ لیا ہے اور کلیسا کے نغمے مزدور کو بخش دیے ہیں۔ باغات، کھیت اور درخت خود رکھ لیے ہیں اور بہشت بریں کی نعمتوں کو مزدور کی جھولی میں ڈال دیا ہے۔ شراب اپنے لیے رکھ لی ہے اور پانی جسے آدم و حوا کا پاک شربت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، مزدور کے لیے رہنے دیا ہے۔ مرغابیوں، تیتروں، چکوروں اور کبوتروں جیسے عام پرندوں کو اپنے شکار کے لیے رکھ لیا ہے اور ہُما اور عنقا جیسے نادر و نایاب پرندوں کو مزدور کو بخش دیا ہے۔ غرض اس نے زمین اور اس کے اندر جو کچھ ہے اسے تو اپنے لیے رکھ لیا ہے اور زمین سے آسمان بلکہ عرشِ معلّیٰ تک ساری کائنات مزدور کو بخش دی ہے۔ سرمایہ دار کی ’فیاضی‘ اور ’سخاوت‘ کی یہ تمثیل دو بھائیوں کی حکایت کی یاد دلاتی ہے جن کا باپ ترکے میں ایک گائے، ایک کھجور کا درخت اور ایک کمبل چھوڑ گیا تھا۔ بڑا بھائی بڑا لالچی اور چالاک تھا جب کہ چھوٹا بھائی سادہ لوح اور بھولا بھالا واقع ہوا تھا۔ بڑے بھائی نے باپ کے مرنے کے کچھ دن بعد چھوٹے بھائی سے کہا: ’’پیارے بھائی! بہتر ہوگا کہ ہم اپنے مرحوم باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو آپس میں تقسیم کرلیں تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقع نہ رہے۔‘‘ چھوٹے بھائی نے جواب دیا۔ ’’اچھی بات ہے بھیا! لیکن یہ تقسیم کیسے ہوگی؟ مثلاً ہم گائے کو کیسے تقسیم کریں گے؟ کیا ہم اسے دو حصوں میں کاٹیں گے؟‘‘ بڑا بھائی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔’’تم بالکل بدھو ہو۔ ارے بے وقوف! ہم اسے زبانی طور پر تقسیم کریں گے۔ مثلاً گائے کا اگلا حصہ بہتر اور صاف ستھرا حصہ ہے، وہ تمھارا ہوگا۔ گائے کا پچھلا حصہ جو گائے کے پیشاب اور گوبر کی وجہ سے اکثر گندا رہتا ہے، وہ میرا ہوگا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کی اس سخاوت اور فیاضی سے بہت خوش ہوا کہ اس نے گائے کا صاف ستھرا حصہ مجھے دے دیا ہے اور گندا حصہ اپنے لیے رکھ لیا ہے۔ اس نے گائے کی اس تقسیم کو قبول کرتے ہوئے کہا۔ ’’گائے کی تقسیم تو ہوگئی بھائی جان! اب ہم کھجور کو کیسے تقسیم کریں گے؟‘‘ بڑے بھائی نے جواب دیا۔’’بالکل اسی طرح۔ کھجور کے درخت کی چوٹی پر تو تم چڑھ نہیں سکتے۔ وہ میں لے لیتا ہوں اور اس کا نچلا حصہ یعنی تنا تمھارا ہوگا۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘ چھوٹے بھائی کے خیال میں یہ تقسیم بھی ٹھیک تھی۔ اس نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے بھائی جان! اور اب کمبل کس طرح تقسیم کریں گے؟‘‘ بڑے بھائی نے کہا۔ ’’اس کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک یہ تمھارا ہوگا اور سورج غروب ہونے سے طلوع ہونے تک یہ میرے پاس رہے گا۔‘‘ چھوٹا بھائی اس تقسیم کو کچھ سمجھا۔ کچھ نہ سمجھا، لیکن اس نے اسے قبول کرلیا کیوں کہ اس کے خیال میں یہ تقسیم منصفانہ تھی بلکہ بڑے بھائی نے خاصی فیاضی سے کام لیا تھا۔ اب اس تقسیم کے مطابق عمل شروع ہوگیا۔ چھوٹا بھائی گائے کو چارہ ڈالتا اور بڑا بھائی اس کا دودھ دوہتا۔ اس دودھ میں سے ایک قطرہ بھی چھوٹے بھائی کو نہیں ملتا تھا کیوں کہ گائے کے پچھلے حصے کا مالک بڑا بھائی تھا۔ چھوٹا بھائی نہیں۔ اس کی بجائے بڑا بھائی چھوٹے بھائی کی تعریف کرتا کہ شاباش تم گائے کی خوب دیکھ بھال کر رہے ہو اور اسے خوب اچھی چارہ دیتے ہو۔ اس تعریف سے خوش ہوکر چھوٹا بھائی اور زیادہ گھاس چارہ ڈالتا اور گائے زیادہ دودھ دیتی۔ اسی طرح چھوٹا بھائی باقاعدہ کھجور کے درخت کو پانی دیتا۔ جب کھجوریں پکیں تو بڑا بھائی درخت پر چڑھا۔ اس کی بجائے وہ اپنے چھوٹے بھائی کی تعریف کرنے لگا کہ شاباش! تم نے درخت کی خوب دیکھ بھال کی ہے۔ سادہ لوح چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کی اس تعریف ہی سے خوش ہوگیا۔ کمبل طلوعِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک چھوٹے بھائی کے پاس رہتا تھا اور غروبِ آفتاب سے لے کر طلوعِ آفتاب تک بڑے بھائی کے استعمال میں آتا تھا۔ چھوٹے بھائی کو کمبل استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی۔ کیوں کہ دن میں کافی گرمی ہوتی تھی۔ رات کے وقت جب وہ سردی سے کانپ رہا ہوتا، اس وقت کمبل بڑے بھائی کے پاس ہوتا تھا۔ چھوٹا بھائی تو سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے رات گزارتا اور بڑا بھائی کمبل میں لپٹ کر آرام سے گہری نیند کے مزے لیتا۔ دن اسی طرح گزر رہے تھے کہ گائوں کے ایک بزرگ کو اس تقسیم کا حال معلوم ہوا۔ وہ بزرگ تو فوراً جان گئے کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے ساتھ دھوکا اور ظلم کر رہا ہے لیکن وہ حیران تھے کہ چھوٹا بھائی اس دھوکے اور ظلم پر کیسے راضی ہوگیا؟ وہ ایک روز ان کے گھر آئے تو دیکھا کہ چھوٹا بھائی گائے کو چارہ ڈال رہا ہے بزرگ نے اس سے کہا۔ ’’یہ تم گائے کو چارہ کیوں ڈال رہے ہو؟‘‘ چھوٹے بھائی نے سادگی سے جواب دیا۔’’اس لیے کہ گائے کا اگلا حصہ میرا ہے۔‘‘ بزرگ نے پوچھا۔’’اور گائے کا دودھ کون لیتا ہے‘‘۔ چھوٹے بھائی نے اس سادگی سے جواب دیا۔’’میرا بڑا بھائی لیتا ہے کیوں کہ گائے کے پچھلے حصے کا مالک وہ ہے۔‘‘ بزرگ نے پھر پوچھا۔’’کیا وہ تمھیں کچھ دودھ دیتا ہے؟‘‘ چھوٹے بھائی نے نفی میں جواب دیتے ہوئے سر ہلا دیا۔ بزرگ نے کہا۔ ’’پھر تو تم بے وقوف ہو۔ بہت بڑے بے وقوف گائے کی دیکھ بھال تم کرتے ہو اسے چارہ دانہ تم ڈالتے ہو اور اس کا دودھ تمام کا تمام تمھارا بھائی لے لیتا ہے۔‘‘ چھوٹے بھائی نے بے بسی سے کہا۔‘‘لیکن میں کیا کرسکتا ہوں؟ ہمارے درمیان باپ کی چھوڑی ہوئی چیزوں کی تقسیم اسی طرح ہوئی ہے۔ گائے کا اگلا حصہ میرا ہے اور پچھلا حصہ میرے بڑے بھائی کا۔ کھجور کے درخت کا نچلا حصہ میرا ہے اور اوپر کا حصہ میرے بڑے بھائی کا۔ کمبل دن کو میرے پاس ہوتا ہے اور رات کو میرے بڑے بھائی کے پاس۔‘‘ اس پر بزرگ نے کہا۔’’یہ تقسیم نہیں۔ ظلم ہے۔ ادھر آئو اور میری بات دھیان سے سنو۔‘‘ بزرگ نے چھوٹے بھائی کو اپنے پاس بلا کر اس کے کان میں کچھ باتیں کیں اور پھر وہاں سے چلے گئے۔ اگلے دن جب بڑا بھائی گائے کا دودھ دوہنے لگا تو چھوٹا بھائی ایک چھڑی لے کر آیا اور اس نے وہ چھڑی گائے کے سر پر دے ماری۔ گائے نے ادھر ادھر حرکت کی تو بڑے بھائی نے چلا کر کہا۔ ’’رک جائو۔ تم دیکھتے نہیں کہ میں دودھ دوہ رہا ہوں۔ گائے کو آرام سے کھڑا رہنے دو پریشان نہ کرو۔‘‘ چھوٹے بھائی نے کہا۔’’میں گائے کے اگلے حصے پر چھڑی مار رہا ہوں جو میرا حصہ ہے۔ میں گائے کے اس حصے سے جو چاہیں کروں، کوئی مجھے روکنے کا مجاز نہیں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے گائے کے سر پر ایک اور چھڑی ماری۔ گائے بُری طرح اچھلی اور بڑا بھائی دودھ کے برتن کو سنبھالنے کی کوشش میں گرتے گرتے بچا۔ وہ عقل مند اور چالاک تھا، فوراً سمجھ گیا کہ کسی شخص نے اس کے چھوٹے بھائی کو یہ حرکت کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چھوٹے بھائی کو بڑے بھائی کی چالاکی کا علم ہوگیا ہے اور اب اسے مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ چناں چہ اس نے کہا۔ ’’پیارے بھائی! میں گائے کا آدھا دودھ تمھیں دیا کروں گا۔ بس اب تم خوش ہوجائو اور گائے کو مارنے سے رک جائو۔ شاباش!‘‘ چھوٹے بھائی نے کہا۔’’تم مجھے گائے کا آدھا دودھ ہی نہیں دیا کرو گے بلکہ گائے کے چارے دانے کا آدھا خرچ بھی برداشت کرو گے۔‘‘ بڑے بھائی کے لیے اسے منظور کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ چناں چہ اس روز کے بعد وہ گائے کے چارے دانے کا آدھا خرچ بھی اٹھانے لگا اور چھوٹے بھائی کو گائے کا آدھا دودھ بھی دینے لگا۔ اس بات کو چند دن ہی گزرے تھے کہ بڑا بھائی کھجور کے درخت پر چڑھا تاکہ پکی ہوئی کھجوریں توڑ سکے۔ ابھی اس نے مٹھی بھر کھجوریں ہی توڑی تھیں کہ اس نے ایک کلہاڑے کے درخت کے تنے سے ٹکرانے کی آواز سنی۔ اس نے نیچے جھانکا تو دیکھا کہ اس کا چھوٹا بھائی درخت کا تنا کلہاڑے سے کاٹ رہا ہے۔ اس نے چلا کر کہا۔ ’’ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ کیا تم دیکھتے نہیںکہ میں اوپر کھجوریں توڑ رہا ہوں۔‘‘ چھوٹے بھائی نے درخت کے تنے پر کلہاڑا چلاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے اس سے کیا کہ تم اوپر کیا کر رہے ہو؟ میں تو درخت کے اس حصے کو کاٹ رہا ہوں جو میرا ہے۔ تمھیں اس سے کیا؟‘‘ بڑا بھائی سمجھ گیا کہ کسی شخص نے اس کے چھوٹے بھائی کو ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے اور اب اسے مزید بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ چناں چہ اس نے کہا۔ ’’پیارے بھائی! میں تمھیں آدھی کھجوریں دوں گا۔ بس اب تم خوش ہوجائو اور درخت کاٹنے سے بازرہو۔ شاباش۔‘‘ چھوٹے بھائی نے کہا۔’’تم مجھے آدمی کھجوریں ہی نہیں دو گے بلکہ درخت کو پانی دینے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کا آدھا خرچ بھی برداشت کرو گے۔‘‘ بڑے بھائی کے لیے اسے منظور کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ چھوٹے بھائی نے درخت کاٹنا بند کردیا اور بڑے بھائی نے آدھی کھجوریں اس کے حوالے کردیں۔ اس روز شام ہوئی تو بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے کمبل لینے آیا۔ دیکھا تو کمبل بھیگا ہوا تھا۔ اس نے کسی قدر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تم نے کمبل کو کیا کردیا ہے؟ بھلا میں اس گیلے کمبل کے نیچے کیسے سو سکتا ہوں؟‘‘ چھوٹے بھائی نے سادگی سے جواب دیا۔ ’’مجھے کیا معلوم کہ تم اس کمبل کے نیچے کیسے سوسکتے ہو یا نہیں؟ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک یہ کمبل میرا ہے اور دن کے وقت میں اس کے ساتھ جو حرکت چاہوں کرسکتا ہوں، کوئی مجھے روکنے کا مجاز نہیں۔‘‘ بڑا بھائی سمجھ گیا کہ ایسا کرنے کا مشورہ بھی اس کے چھوٹے بھائی کو اسی شخص کی طرف سے دیا گیا ہے جس نے گائے کے سر پر چھڑی مارنے اور کھجور کے تنے کو کاٹنے کے مشورے دیے تھے۔ وہ شخص کون تھا یا کون ہوسکتا تھا؟ اس کی تحقیق کا تو کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کہ اب اس کے چھوٹے بھائی پر اس کی چالاکی پوری طرح ظاہر ہوگئی تھی اور اس نے اس چالاکی کا توڑ بھی کرلیا تھا۔ چناں چہ اس نے بڑے ہی محبت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’پیارے بھائی! آج تو یہ کمبل گیلا ہے۔ کل دن میں یقیناً سوکھ جائے گا۔ سو کل رات سے اس کمبل کو ہم دونوں اوڑھ لیا کریں گے۔ یہ خاصا بڑا ہے اور ہم اکٹھے سوئیں تو اس ایک ہی کمبل میں زیادہ آرام سے رات گزار سکتے ہیں۔‘‘ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ سرمایہ دار جو زمین اور اس کے اندر جو کچھ ہے، اسے تو اپنے لیے رکھ لیتا ہے اور غیر معمولی ’’سخاوت‘‘ اور ’’فیاضی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمین سے آسمان بلکہ عرشِ معلّیٰ تک ساری کائنات اپنے مزدور بھائی کو بخش دیتا ہے، اپنے مزدور بھائی کی طرف سے اسی طور سے اور ایسے ہی ہنگامہ خیز عمل کا مستحق ہے جیسے کہ حکایت بالا میں چھوٹے بھائی کی طرف سے دیکھنے میں آیا۔ علّامہ اقبالؒؒؒ کے نزدیک یہ ہنگامہ خیز عمل بھی حرفِ مقدر بن چکا ہے اور اس کا اظہار انھوں نے اگلی نظم ’’نو ائے مزدور‘‘ میں خود مزدور کی زبان سے کرایا ہے۔ نوائے مزدور دنیا میں جس قدر شان و شوکت کے آثار نظر آتے ہیں، وہ سب میری محنت، مشقت کا نتیجہ ہیں۔ میں خود تو موٹا جھوٹا پہن کر گُزر اوقات کرتا ہوں، لیکن میری محنت اور مشقت کی بہ دولت وہ امیر اور سرمایہ دار جو ہاتھ پائوں تک نہیں ہلاتا، ریشم اور حریر کا لباس پہنتا ہے۔ میں نہایت مشقت اور جانفشانی کے ساتھ کان کھودتا ہوں اور میری محنت کا ثمرہ حاکم اور والی کی انگوٹھی میں جڑے جانے والے لعل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ میں اگر کان کھودنے میں اپنی جان نہ کھپائوں تو حاکم اور والی کو اپنی انگوٹھی کے لیے نگینہ کہاں سے ملے؟ میرے بچوں کی آنکھوں کے آنسو ہی امیروں کے گھوڑوں کے چمکتے دمکتے مرصع سازوں میں ٹنکے ہوئے ہیرے جواہرات کا روپ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ میں اپنے روتے بلکتے بچوں سے منہ پھیر کر جو محنت مشقت کرتا ہوں۔ یہ اسی کا ثمرہ ہے کہ امیر لوگ مرصع سازوں والے گھوڑوں پر سوار ہوکر سیر کے لیے نکلتے ہیں۔ کلیسا کے عہدے دار جونک کی طرح میرا خون چوس چوس کر موٹے ہوگئے ہیں اور میرے ہی زورِ بازو کی بہ دولت سلطنت کے اختیار و اقتدار کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے آنسوئوں ہی نے اس دنیا کو سیراب کیا ہے۔ میری محنت اور مشقت کی بہ دولت ہی یہ بنجر اور ویران زمین رشکِ گلستاں بن گئی ہے اور لالہ و گُل کے چہرے پر جو رونق و رعنائی دکھائی دے رہی ہے، وہ میرے ہی خونِ جگر کی بہ دولت ہے۔ میری ہی محنت اور جفاکشی کی بہ دولت امیروں اور سرمایہ داروں کے چہروں پر خون کی سرخی دوڑ رہی ہے۔ اے دنیا بھر کے مزدور اور محنت کشو! آئو سنو! وقت کے ساز سے ایک نیا نغمہ نکل رہا ہے۔ دنیا میں ایک نئی آواز بلند ہو رہی ہے۔ یہ آواز مزدوروں اور محنت کشوں کی حمایت میں بلند ہو رہی ہے۔ آئو کہ ہم اس آواز میں اپنی آواز ملا دیں۔ آئو کہ ہم اس نئے نغمے کے ہم نوا ہو جائیں۔ آئو ہم اس دنیا سے ملوکیت اور سرمایہ داری کے پرانے نظاموں کا خاتمہ کر ڈالیں۔ نہ ملوک رہیں، نہ ان کی ملوکیت رہے۔ نہ سرمایہ دار رہیں نہ ان کی سرمایہ داری رہے۔ نہ صیاد و گلچیں رہیں اور نہ ان کی صیادی و گلچینی کا چلن رہے۔ آئو ہم دنیا میں ایک نیا نظام قائم کریں۔ دنیا کو ایک نیا نظامِ حیات دیں جس میں نہ کوئی حاکم ہو نہ محکوم، نہ راعی ہو نہ رعایا، نہ آقا ہو نہ غلام۔ ایسا نظام جو ہر قسم کے جبرو استبداد اور استحصال سے پاک ہو۔ آئو! ہم گلشن جہاں کے قزاقوں سے خونِ لالہ کا انتقام لیں۔ آئو کہ ہم بادشاہوں اور سرمایہ داروں سے مزدوروں اور محنت کش عوام کے اس خون کا انتقام لیں جو وہ صدیوں سے چوستے آئے ہیں اور جو اب بھی ان کے خون آلود جبڑوں سے ٹپک رہا ہے۔ آئو کہ ہم بادشاہوں اور سرمایہ داروں کے فرسودہ نظام ختم کرکے اس دنیا میں ایک نیا نظام قائم کریں۔ اے مزدورو! اے محنت کشو! تم کب تک اس انداز میں زندگی بسر کرتے رہو گے جس طرح پروانہ شمع کے گرد طواف کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے؟ تم کب تک بادشاہوں کی غلامی کرتے رہو گے؟ تم کب تک اپنا خون پسینہ ایک کرکے سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتے رہو گے؟ تم کب تک اپنی حقیقت سے غافل رہو گے؟ تمھیں کب تک اپنے مقام، اپنی حیثیت اور اپنی اہمیت کا احساس نہیں ہوگا؟ تم کب تک اپنی طاقت سے بے خبر رہو گے؟ تم کب تک یہ نہیں جان پائو گے کہ تم کیا ہو اور کیا کچھ کرسکتے ہو؟ تم کب تک یوں اپنے آپ سے بیگانہ بن کر زندگی بسر کرتے رہو گے اور اپنے آپ کو نہیں پہچانو گے؟ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم ایک طرح سے ’’قسمت نامۂ سرمایہ دار و مزدور‘‘ کا جواب ہے۔ اس ولولہ انگیز نظم میں علّامہ اقبالؒؒؒ نے مزدوروں اور محنت کشوں کے جذبات و خیالات کی پُرخلوص اور بھرپور ترجمانی کرتے ہوئے ایک مزدور کی زبان سے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ اس دنیا کی ساری شان و شوکت، زیب و زینت، رعنائی و زیبائی مزدور کی محنت اور مشقت کی رہینِ منت ہے۔ سونے چاندی کے ڈھیر ہوں یا ہیرے جواہرات اور لعل و یاقوت کے انبار، اطلس و کمخواب کے پارچات ہوں یا دیبا و حریر کے ملبوسات، سب میں مزدور کی محنت کا رنگ اور مشقت کا رنگ جھلکتا ہے۔ مزدور خود موٹا جھوٹا پہن کر اپنے نیم عریاں جسم پر موسموں کی سختیاں جھیلتا ہے لیکن اس کی جفاکشی کی بہ دولت امیروں کو دیباو حریر، اطلس و کمخواب اور شال دوشالے میسر آتے ہیں ؎ سرما کی ہوائوں میں ہے عُریاں بدن اس کا دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالہ امیروں کی امیری، شاہوں کی شاہی، سرمایہ داروں کی تن آسانی، اہلِ کلیسا کی فربہی سب مزدور کی بہ دولت ہیں۔ حاکم کا اختیار، والی کا اقتدار، مہکتے ہوئے گل و گلزار، لالہ و گل کے چہروں کا نکھار، سب مزدور ہی کی محنت کا ثمرہ ہیں۔ گلشنِ ہستی کی سیرابی اور باغِ جہاں کی سرسبزی و شادابی مزدور ہی کی محنت، مشقت اور جفاکشی کا کرشمہ ہے۔ نظامِ ہست و بود میں مزدور کی اہمیت کا ذکر کرنے کے بعد مزدور دنیا بھر کے مزدوروں اور محنت کشوں سے خطاب کرتا ہے کہ سنو! دنیا میں محنت کشوں کی حمایت میں ایک نئی آواز بلند ہو رہی ہے۔ دنیا بھر کے مزدوروں اور محنت کشوں کو چاہیے کہ اس آواز سے ہم آواز ہوکر دنیا سے ملوکیت اور سرمایہ داری کا خاتمہ کردیں اور ایک ایسا نظام قائم کریں جو مزدوروں اور محنت کشوں کے استحصال سے پاک ہو۔ اب موقع ہے کہ تم بادشاہوں اور سرمایہ داروں سے ان مظالم کا انتقام لو جو وہ صدیوں سے مزدوروں اور محنت کشوں پر روا رکھتے آئے ہیں۔ یہ موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا؎ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا اس لیے اے دنیا بھر کے محنت کشو! اٹھو اور آگے بڑھ کر ملوکیت اور سرمایہ داری کے پرانے نظاموں کا خاتمہ کر ڈالو اور دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرو جو ہر قسم کی اونچ نیچ، ظلم، نا انصافی اور استحصال سے پاک ہو ؎ اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے ضروری نوٹ:۔ علّامہ اقبالؒؒؒ کی یہ نظم انقلابِ روس (۱۹۱۷ئ) کے بعد کی تحریر ہے جب کہ اشتراکی رہنمائوں نے زارِ روس کا تختہ الٹنے کے بعد روس میں لینن کی قیادت میں مزدوروں کی عوامی جمہوریت قائم کردی تھی۔ یہ عوامی جمہوریت دنیا بھر کے مزدوروں، محنت کشوں اور مظلوم و محکوم طبقوں کے علاوہ استعماریت کے غلام ملکوں کی ہمدرد کے طور پر سامنے آئی تھی۔ دنیا کے بہت سے دیگر افراد کی طرح علّامہ اقبالؒؒؒ نے بھی روس کی اس نئی عوامی جمہوریت سے بہت سی نیک خواہشات اور توقعات وابستہ کرلی تھیں۔ اس نظم کی طرح ان کی کئی دیگر نظمیں مثلاً لینن خدا کے حضور میں۔ فرشتوں کا گیت، فرمانِ خداوندی، فرشتوں کے نام وغیرہ ایک طرح سے اِنھی نیک خواہشات و توقعات کا اظہار ہیں۔ مگر جب یہ توقعات نقش برآب ثابت ہوئیں اور عوامی جمہوریت کے اندر سے استبداد کا دیو اپنی پوری خوں خواریوں کے ساتھ نمودار ہوا اور اس کی خوں آشامیوں کے سامنے زاروں اور شہنشاہوں کی سفاکیاں اور چیرہ دستیاں بھی گرد ہوگئیں تو علّامہ اقبالؒؒؒ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ؎ زمامِ کار گر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی آزادیِ بحر ایک بطخ نے کہا۔ ’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے سمندر کو آزادی حاصل ہوگئی۔ خواجہ خضر نے فرمان جاری کردیا ہے اور ان کے فرمان کے مطابق اب سمندر اور اس کی تمام مخلوق کو غلامی سے نجات مل گئی ہے۔ صد شکر کہ اب ہم کسی کے غلام نہیں رہے۔‘‘ قریب ہی ایک مگرمچھ سمندر میں تیرتا پھر رہا تھا۔ اس نے بطخ کی بات سنی تو کہنے لگا۔ ’’اے بطخ! یہ ٹھیک ہے کہ سمندر آزاد ہوگیا ہے اور اس کے ساتھ ہی تجھے بھی غلامی سے آزادی حاصل ہوگئی ہے۔ بے شک اب تو اس امر کی بابت آزاد ہے کہ اس وسیع سمندر میں جہاں جی چاہے جائے، کوئی تجھے روکنے ٹوکنے یا منع کرنے والا نہیں، لیکن یاد رکھ! تجھے ہم سے اور ہماری طاقت سے بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔ ہم بہت کچھ ہیں اور بہت کچھ کرسکتے ہیں۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس نظم میں بطخ اور مگرمچھ کی گفتگو کے پیرائے میں موجود زمانے کی نام نہاد آزادی کے کھوکھلے پن کو واضح کیا ہے کہ آج کے دور میں کچھ ملک بظاہر آزاد ہوجاتے ہیں، لیکن ظاہری طور پر آزادی حاصل کرلینے کے باوجود وہ حقیقتاً دوسرے طاقت ور ملکوں کے محکوم اور غلام بنے رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک قوم بظاہر غلامی سے آزاد ہوجاتی ہے، لیکن اس قوم کے کمزور افراد بہ دستور طاقت ور افراد کے غلام بنے رہتے ہیں۔ قوم کے طاقت ور طبقات اپنے سرمائے، اثر و رسوخ اور فراوانیِ وسائل کی بنا پر قوم کے ضعیف اور کمزور طبقات کو بہ دستور اپنا محکوم بناے رکھتے ہیں۔ آزادی حاصل ہونے کے باوجود محکومی اور غلامی ہی ان بچاروں کا مقدر رہتا ہے۔ آزادی ان کے لیے صرف آقائوں کی تبدیلی بن کر آتی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ چناں چہ اس نظم میں جب بطخ کی طرف سے آزادی مل جانے پر خوشی کا اظہار ہوتا ہے تو مگر مچھ اسے جتاتا ہے کہ ہاں تجھے یہ آزادی تو یقیناً مل گئی ہے کہ تو جہاں چاہے جائے، کوئی تجھے روکنے ٹوکنے والا نہیں مگر تو ہم سے، ہمارے اثر و رسوخ سے اور ہماری طاقت سے غافل مت ہوجانا۔ بہ الفاظِ دیگر دورِ حاضر کی سیاست ایک ایسی ملمع سازی اور عیّاری ہے جس میں آزادی صرف نام کی آزادی ہے۔ عوام بہ ظاہر آزاد ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں سرمایہ داروں اور زمینداروں کے غلام ہوتے ہیں۔ ایک قوم بظاہر آزاد ہوتی ہے، لیکن حقیقتاً دوسری بڑی اور طاقت ور قوموں کی غلام اور محکوم ہوتی ہے۔ دورِ حاضر کے اسی فریب کو پیش نظر رکھتے ہوئے علّامہ اقبالؒؒؒ ایک دوسری جگہ کہتے ہیں ؎ مجھے تہذیبِ حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی کہ ظاہر میں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری گل و دستار باغ میں ایک پھول نے دوسرے پھول سے کہا۔ ’’عیشِ نو بہار بہت خوب ہے اور جو زندگی چمن میں بسر ہو، وہ بھی بہت خوب ہے۔ ہمارے لیے اس سے اچھی بات اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہم سانس لیں تو بہاروں کی فضا میں سانس لیں اور ہماری زندگی بسر ہو تو چمن میں اپنے ساتھیوں کے درمیان بسر ہو۔ اس لیے میں تجھے یہ مشورہ دیتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ کوئی شخص تجھے شاخ سے توڑ کر اپنی دستار کی زینت بنالے، تیرے لیے شاخ کے کنارے ہی پر مرجانا بہتر ہے۔ ہمیں اپنی آزادی کو ہر حال میں عزیز رکھنا چاہیے اور حالتِ غلامی کی ذلّت سے بچنے کے لیے موت کی تلخی بھی گوارا کرلینی چاہیے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس رباعی میں پھول کی زبانی یہ تلقین کی ہے کہ غلامی کی زندگی اختیار کرنے سے پہلے مرجانا بہ درجہا بہتر ہے۔ پھول ٹہنی پر کھلتا ہے۔ اس کی زندگی کی مدّت اگرچہ مختصر ہوتی ہے، لیکن جب تک وہ ٹہنی پر موجود رہتا ہے، اہلِ چمن کے درمیان آزادی سے زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کی یہ زندگی اس کی اجتماعی زندگی بھی ہوتی ہے مگر جب کوئی شخص اسے شاخ سے توڑ کر اپنی دستار کی زینت بنا لیتا ہے تو اس کی آزادی کی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ اہلِ چمن کی اجتماعی زندگی سے بھی کٹ جاتا ہے۔ غلامی کی یہ حالت ایسی ذلّت ہے کہ اس سے بڑی ذلت اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ اس سے پہلے کہ کوئی شخص پھول کو شاخ سے توڑ کر اپنی دستار میں سجا لے، پھول کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ آزادی کی عزت اور اس کے تحفظ کی خاطر شاخ پر رہتے رہتے ہی مرجھا کر ختم ہوجائے۔ بہ الفاظ دیگر پھول کے پیرائے میں علّامہ اقبالؒؒؒ نے مردِ مسلمان کو اور بالخصوص ملتِ اسلامیہ کے ہر نونہال کو یہ سمجھایا ہے کہ آزادی کی زندگی ایک نعمتِ گراں مایہ ہے اور اسی کے ساتھ افرادِ ملّت کے درمیان رہتے ہوئے اجتماعی زندگی کے مواقع بھی اتنے ہی قابلِ قدر ہیں، ان کی حفاظت کے لیے اگر جان بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ غلامی کی ذلّت سے بچنے کے لیے موت کی تلخی بھی گوارا کرلینی چاہیے۔ کیوں کہ بقول سلطان ٹیپو شہید ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ خود علّامہ اقبالؒؒؒ اپنی نظم ’’ہندی مکتب‘‘ (ضربِ کلیم) میں فرماتے ہیں ؎ آزاد کی اک آن ہے محکوم کا اک سال کس درجہ گراں سیر ہیں محکوم کے اوقات آزاد کا ہر لحظہ پیامِ ابدیت! محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات حکایاتِ اسرار و رموز حکایت حضرت بوعلی قلندرؒ و پادشاہِ دہلی حضرت شیخ بوعلی قلندرؒ کا ایک مرید بازار جارہا تھا۔ وہ اپنے مرشد کے عشق کی محبت میں ایسا سرمست تھا کہ اسے گردوپیش کی کچھ خبر نہ تھی۔ وہ اپنے عشق کی دنیا میں کھویا ہوا بازار میں چلا جارہا تھا کہ ادھر سے حاکمِ شہر کی سواری نمودار ہوئی، جس کے ساتھ غلاموں اور چوب داروں کی ایک جماعت چلی آرہی تھی۔ غلاموں اور چوب داروں میں سے جو شخص حاکم کی سواری کے آگے آگے چل رہا تھا، اس نے شیخ بوعلیؒ کے مریدکو آواز دی۔ ’’او بے خبر! ایک طرف ہٹ جا۔ حاکم کی سواری کا راستہ نہ روک۔‘‘ مرید تو اپنی دنیا میں مست تھا۔ وہ بے چارہ حاکموں کی تعظیم اور تکریم کے آداب کہاں جانتا تھا اور وہ جانتا بھی ہوتا تو اس سے کیا فرق پڑتا؟ وہ تو اپنے ذکر و فکر کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسے پتا بھی نہ چلا کہ کون آرہا ہے اور اسے کیا کہا جارہا ہے؟ چوب داروں اور غلاموں کی للکار پکار کے باوجود وہ اپنے راستے پر چلتا گیا اور حاکم کی تعظیم کے لیے راستے سے ایک طرف نہ ہوا۔ حاکم کی سواری کے آگے آگے چلنے والا چوب دار حاکم کی ہمرکابی کے باعث غرور و تکبر کے نشے میں مست تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ درویش نے اس کا حکم نہیں مانا تو اسے بڑا غصہ آیا۔ اس نے اپنی لاٹھی درویش کے سر پر دے ماری۔ درویش کا سر پھٹ گیا۔ حاکم کی سواری کے باعث اسے یہ اذیت پہنچی تو وہ رنجیدہ اور ناخوش و افسردہ دل ہوکر چلا گیا۔ درویش کے لیے فریاد کی جگہ نہ تو حاکم کی کچہری تھی اور نہ بادشاہ کا دربار۔ اس کے لیے تو اس کے مرشد ہی حاکم تھے اور مرشد ہی بادشاہ۔ وہ زخمی ہوکر سیدھا اپنے مرشد کے پاس پہنچا اور ان کی بارگاہ میں اپنی مظلومیت کی فریاد کی۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ جب شیخ بوعلی قلندرؒ نے یہ سنا کہ حاکم کے چوب دار نے بے وجہ درویش کو زخمی کیا ہے تو حاکم کے غرورِ جاہ پر ان کا فقر جلال میں آگیا۔ ان کی زبان سے الفاظ اس طرح نکلے جس طرح بجلی پہاڑ پر گرتی ہے۔ فوراً اپنے منشی کو طلب کیا اور کہا: ’’قلم اٹھا اور فقیر کی طرف سے بادشاہ کے نام فرمان لکھ کہ تیرے حاکم نے میرے مرید کا سر پھوڑ دیا ہے اور اپنے لیے آگ کو دعوت دی ہے۔ اے بادشاہ! اس بد فطرت حاکم کو حکومت سے معزول کردے، اگر اسے قرار واقعی سزا نہ دی گئی تو تمھاری سلطنت میں کسی اور کو بخش دوں گا۔‘‘ جب شیخ بوعلی قلندرؒ کا یہ عتاب نامہ بادشاہ دہلی سلطان علاؤالدین خلجی کے پاس پہنچا تو وہ اپنے غیر معمولی جاہ و جلال کے باوجود سر سے پائوں تک کانپ اٹھا۔ اس کے سارے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا اور اس کا رنگ ڈوبتے سورج کی طرح زرد پڑ گیا۔ اس نے فوراً حکم دے دیا کہ حاکم کو سزا کے طور پر زنجیروں میں جکڑ دیا جائے اور شیخ بوعلی قلندرؒ سے اس قصور کی معافی مانگی جائے۔ اب سوال یہ تھا کہ معافی نامہ لے کر کون حضرت بوعلی قلندرؒ کی بارگاہ میں جائے۔ اس غرض کے لیے بادشاہ کی نظرِ انتخاب امیر خسرو پر پڑی جن کی شیریں زبانی اور رنگیں بیانی سب کے نزدیک مُسلّم تھی۔ چناں چہ سلطان علائو الدین خلجی نے امیرخسرو کو اپنی طرف سے سفیر بنا کر شیخ بوعلی قلندرؒ کی خدمت میں پانی پت بھیجا تاکہ وہ بادشاہ کی طرف سے حاکم کی زیادتی پر معذرت خواہی کریں۔ امیر خسرو نے شیخ بوعلی قلندرؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر ایک پُرسوز غزل گائی۔ امیر خسرو کے نغمے تو کائنات کے ضمیر کے آئینہ دار تھے اور ان کی فطرت چاند کی طرح روشن اور نورانی تھی۔ ان کی غزل نے شیخ بوعلی قلندرؒ کے دل پر بڑا اثر کیا اور ان پر جلال اور غیظ وغضب کی جو کیفیت طاری تھی وہ جاتی رہی۔ یہ امیر خسرو کے نغمے کا اعجاز تھا کہ جس شوکت اور شکوہ کو پہاڑ کی سی پختگی اور پائداری حاصل تھی، اسے ایک نغمۂ شیریں نے نرم کردیا۔ امیر خسرو کی غزل سن کر جب شیخ بوعلی قلندرؒ نے خوشی کا اظہار فرمایا، تب امیر خسرو نے بادشاہ کا معافی نامہ ان کی خدمت میں پیش کیا اور خود بھی بہت کچھ عرض معروض کی۔ اس طرح وہ اپنے بادشاہ کے لیے ایک فقیر کی بارگاہ سے معافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس حکایت کے ذریعے اس امر کی توضیح فرمائی ہے کہ جس شخص کی خودی عشق و محبت کی کٹھن راہ سے گزر کر پختہ اور محکم ہوجاتی ہے، اس کے تصرف و اختیار کی کوئی حد نہیں رہتی۔ اس کی خودی نظامِ عالم کی ظاہری و مخفی قوّتوں کو اسیر کرلیتی ہے اور زمانے کی فرماں روائی کا منصب سنبھال لیتی ہے۔ وہ دنیا بھر کے جھگڑوں میں ثالث بن جاتی ہے۔ دارا اور جمشید جیسے بادشاہ اس کی فرماں برداری قبول کرلیتے ہیں۔ اسی لیے وہ فرماتے ہیں کہ درویشوں کے دل میں نشتر چبھونے اور ان پر زخم لگانے سے اجتناب کرو، کیوں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عشق و محبت سے اپنی خودی کو اس درجہ مستحکم کرچکے ہوتے ہیں کہ ان کے اندر کائنات کی ظاہری اور مخفی قوّتوں سے کام لینے اور ان کو مسخر کرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے، اور ان کا جذب و جلال ہفت اقلیم کے فرماں روائوں کے تخت و تاج کو بھی لرزہ بر اندام کردیتا ہے۔ حکایت شیراں و گوسفنداں زمانۂ دیم کی بات ہے۔ کسی چراگاہ میں کچھ بھیڑ بکریاں رہا کرتی تھیں۔ چوں کہ چراگاہ سرسبز تھی اور اس میں ہر طرف گھاس اور سبزہ لہلہاتا تھا اور اس میں کسی طرح کا کٹھکا بھی نہ تھا، اس لیے بھیڑ بکریاں بڑے اطمینان سے وہاں رہ رہی تھیں۔ ان کا ریوڑ بڑی دل جمعی سے اس چراگاہ میں بڑھتا اور پھلتا پھولتا رہا۔ پھر ایک مدت بعد ان کی تقدیر جو گردش میں آئی تو ایک رات اچانک جنگل کے شیر آپہنچے اور انھوں نے چراگاہ پردھاوا بول دیا۔ انھوں نے بھیڑ بکریوں کو چیرنا پھاڑنا شروع کردیا اور چراگاہ بھیڑ بکریوں کے خون سے لالہ زار بن گئی۔ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ میں ایک بکری بڑی دانا، زیرک اور سمجھ بوجھ والی تھی۔ اس نے جب دیکھا کہ شیر چراگاہ پر قابض ہوگئے ہیں اور بھیڑ بکریاں ان کے سامنے بالکل بے بس اور عاجز ہیں تو اس کے دل پر سخت چوٹ لگی۔ اس نے سوچنا شروع کیا کہ شیروں کے خوں خوار فولادی پنجوں سے بچنے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے؟ بھیڑ بکریوں کو اس مصیبت سے کیسے نجات مل سکتی ہے؟ آدمی کمزور اور ناتواں ہو تو وہ اپنی عقل سے کام لے کر حفاظت کے حیلے تراشتا ہے۔ ویسے بھی غلامی اور محکومی کی حالت میں تدبیریں سوچنے والے کی قوّت خوب تیز ہوجاتی ہے۔ چناں چہ اس بکری نے دل میں سوچا کہ ہم جس الجھن میں پھنس گئے ہیں، اس سے نکلنا بہت مشکل ہے۔ بھیڑ بکریاں زور اور قوّت کے بل پر تو کبھی اور کسی صورت میں بھی شیروں سے نجات حاصل نہیں کرسکتیں، کیوں کہ ہم بہت کمزور ہیں اور شیر ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور ہیں۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ بھیڑ بکریوں کے سامنے کتنے یہ وعظ کیے جائیں، انھیں کتنا ہی جوش دلایا جائے، ان کو کتنا ہی درسِ خودی دیا جائے۔ یہ ممکن نہیں کہ ان میں شیروں کی سی دلیری پیدا ہوجائے۔ بھیڑ بکریوں کے بزدل اور بے حوصلہ ریوڑ میں تو شیروں کی سی خوبی پیدا کرنا سراسر نا ممکن ہے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ شیروں کو خودی سے بے پرواہ کرکے انھیں بھیڑ بکریوں کے درجے پر لے آیا جائے اور ان میں بھیڑ بکریوں کا سا مزاج پیدا کرکے ان کے اندر بزدلی اور بے حوصلگی پیدا کردی جائے۔ وہ پختہ عمر بکری زمانے کا گرم سرد دیکھ چکی تھی اور اس نے ذہن رسا پایا تھا۔ یوں بھی جب غلامی اور محکومی میں جذبۂ انتقام پختہ ہوجائے تو عقل حیلہ گری اور فتنہ انگیزی میں تیز ہوجاتی ہے۔ لہٰذا دنوں اور ہفتوں کے سوچ بچار کے بعد اس نے ایک منصوبہ تیار کرلیا اور پھر ایک روز اس نے یہ اعلان کردیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیروں کی ہدایت کے لیے پیغمبر اور رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ چناں چہ اس اعلان کے ساتھ اس نے خون آشام شیروں کے لیے وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس نے شیروں سے کہا۔ ’’اے جھوٹے اور خود پسند گروہ! تم سختی والے دن سے بالکل غافل ہو۔ مجھے روحانی قوّت کی دولت عطا ہوئی ہے اور خدا نے مجھے تمھاری ہدایت اور رہنمائی کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ میں ایک ایسا آئینِ حیات لے کرآئی ہوں جس سے بے نور آنکھوں کو نور اور مسرّت سے محروم دلوں کو مسرّت میسّر آئے گی، جو بصیرت سے نا آشنا ہیں اور جو حق و باطل میں تمیز نہیں کرسکتے، میں ان کے لیے بصیرت کا چراغ اور ہدایت کا نور بن کر آئی ہوں۔ ’’اے شیرو! اپنے بُرے اور نا شائستہ کاموں سے توبہ کرو۔ تم اب تک اپنا نقصان کرتے رہے ہو، اب تمھیں اپنے فائدے کی بھی کچھ فکر کرنی چاہیے۔ دیکھو، اس دنیا میں جسے طاقت اور قوّت حاصل ہے، وہ سخت بدبخت ہے۔ یہاں غضب ناک اور زور آور سے بڑھ کر کوئی بدنصیب نہیں۔ خوش بخت اور خوش نصیب تو وہ ہیں جو قوّت کے مقابلے میں ضعیفی اور دولت مندی کی بجائے ناداری کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ’’اے شیرو! نیک روحیں تو وہ ہیں جو گوشت خوری کی بجائے گھاس پات پر گزر اوقات کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو گوشت کھانا چھوڑ دے، اسے بارگاہِ خداوندی میں مقبولیت کا درجہ مل جاتا ہے۔ اے شیرو! بے شک تمھارے دانت بڑے تیز ہیں۔ تم ہر جانور کو پھاڑ کھاتے ہو، لیکن دانتوں کی یہی تیزی تمھارے لیے ذلّت اور رسوائی کا سامان ہے، کیوں کہ اس سے عقل کی آنکھ اندھی ہوجاتی ہے۔ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ بہشت صرف کمزوروں اور ضعیفوں کے لیے ہے؟ آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ قوّت و طاقت پر بھروسا رکھنے والے سراسر گھاٹے اور خسارے میں رہتے ہیں۔ ان کی قوّت ہی ان کے لیے خسارے کا باعث بن جاتی ہے۔ پس جو یہاں ضعیف اور کمزور دکھائی دیتے ہیں، جنت اور اس کی تمام نعمتیں ان کے لیے ہیں اور جو یہاں صاحبِ قوّت و طاقت نظر آتے ہیں، ان کے لیے آخرت کی زندگی بڑی ہی دردناک ہوگی۔ پس اگر تم بھلائی اور سلامتی کے طالب ہو تو اپنے آپ کو بے زور اور حقیر بناو کیوں کہ قوّت و طاقت قدرت کے عذاب اور مصیبتوں کو دعوت دینے کا باعث بنتی ہے۔‘‘ ’’اے شیرو! بجلی اکیلے دانے کو کبھی اپنا نشانہ نہیں بناتی، لیکن جب بہت سے دانے جمع ہوکر خرمن کی شکل اختیار کرلیتے ہیں تو بجلی کے گرنے کا راستہ کھل جاتا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ خرمن جمع ہی نہ کیا جائے۔ جب تک تم ایک حقیر دانہ بنے رہو گے، تمھیں بجلی کا کوئی خوف نہ ہوگا۔ اگر خرمن بنو گے تو برقِ سوزاں ضرور تمھیں اپنی لپیٹ میں لے کر جلا ڈالے گی۔‘‘ ’’اے شیرو! اگر تم عقل مند ہو تو فقط ایک ذرّہ ہی بنے رہو، صحرا بننے کی تمنا، خواہش یا کوشش بالکل نہ کرو۔ ذرّہ بنے رہوگے تو سورج کی روشنی سے فیض حاصل کرسکو گے، کیوں کہ ذرّہ آفتاب سے منوّر ہوتا ہے مگر صحرا آندھیوں اور طوفانوں کی آماج گاہ بنا رہتا ہے۔ ’’اے شیرو! تم بھیڑ بکریوں کو ذبح کرنے پر فخر کرتے ہو، حالاں کہ یہ تباہی اور ذلت کا مقام ہے۔ عزت اور بلندی کا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو خود کو ذبح کرو اور اپنے آپ کو مٹائو۔ زندگی خودی کو مٹا دینے سے استوار ہوتی ہے جب کہ جبر و اقتدار زندگی کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتے ہیں اور اس میں استحکام نام کو نہیں چھوڑتے۔ ذرا اس چراگاہ کے سبزے پر نظر ڈالو، ہر آنے جانے والا اسے روندتا رہتا ہے لیکن وہ پھر اُگ آتا ہے۔ اپنی پامالی کی بہ دولت وہ بار بار ابھرتا ہے اور موت پر قابو پالیتا ہے۔ اس کی پامالی اسے ختم نہیں کرتی بلکہ زندہ رہنے کی قوّت عطا کرتی ہے۔‘‘ ’’پس اے شیرو! اگرتم عقل مند ہو تو اپنی ہستی سے غافل ہوجائو۔ عقل مند وہی ہے جو احساسِ ذات کو فنا کردے اور دیوانہ وہ ہے جو اپنی ذات سے غافل نہ ہو۔ اگر ذہن رسا چاہتے ہو تو اپنی آنکھیں، کان اور لب بند کرلو کہ ان کے استعمال سے حقیقی علم کی راہیں مسدود ہوتی ہیں۔ آنکھیں اور کان بند کرلو گے اور لبوں پر مہر لگا لو گے تو تمھاری فکرِ بلند آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچے گی۔ یاد رکھو! دنیا کی یہ چراگاہ سراسر ناکارہ اور بے حقیقت ہے۔ یہ دنیا اور اس کی مسرتیں ہیچ اور موہوم ہیں اور ان کے لیے تگ و دو کرنے والے بالآخر نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے۔ سو اے نادانو! تم بھی دنیا اور اس کی مسرتوں کے پیچھے نہ پڑو اور ان سے بے تعلق ہوجائو۔‘‘ شیروں پر اس خواب آور تعلیم کا گہرا اثر ہوا۔ وہ ایک مدت تک مسلسل جدّوجہد اور محنت و مشقت سے کام لینے کے بعد تھک کر چور ہوچکے تھے۔ اب ان کی آرزو تھی کہ ان کے جسموں کو ذرا آرام ملے۔ تن آسانی اور آرام طلبی کے اس میلان کی حالت میں بکری نے سکون و راحت کی نیند لانے والی نصیحت سنائی تو انھیں بہت پسند آئی۔ اس نئی تعلیم سے ان کے کان مانوس اور دل متاثر ہونے لگے۔ چناں چہ ان کی طبیعتیں سخت کوشی اور جفا طلبی سے بیزار ہوگئیں۔ اب تک وہ بھیڑ بکریوں کا شکار کرتے رہے تھے، اب انھوں نے خود بھیڑ بکریوں کا مسلک اختیار کرلیا۔ انھوں نے شکار سے ہاتھ اٹھا لیا اور گھاس پات پر گزر اوقات کرنے لگے۔ انھیںگھاس پات خوب راس آئی اور وہ اسی کے عادی ہوگئے۔ پھر وہ یہ بھول ہی گئے کہ کبھی وہ گوشت خور بھی ہوا کرتے تھے۔گھاس پات کے عادی ہوجانے سے ان کے مزاج، اعصاب اور جسمانی صلاحیتوں پر خوفناک اثر پڑا۔ ان کے اوصافِ شیری زائل ہوگئے۔ دانتوں میں تیزی باقی نہ رہی اور آنکھوں سے ہیبت و جلال کے جو شعلے برستے تھے، وہ بجھ گئے۔ کوششِ کامل اور جدوجہد کا جو ولولہ ان کے دلوں میں اٹھا کرتا تھا، وہ سرد پڑ گیا۔ کبھی ان کے سینوں میں ہمّت، حوصلے، جوش اور ولولے سے بھرے ہوئے دل تھے، اب گویا وہ دل ہی ان کے سینوں سے نکل گئے۔ شیروں کے وہ فولادی پنجے جن سے سب پر لرزہ طاری رہتا تھا، بالکل بے زور ہوگئے، ان کے دلوں پر افسردگی چھا گئی۔ دل مرگئے تو جسموں نے قبروں کی صورت اختیار کرلی اور ان کے بدن ہڈیوں کے پنجر نظر آنے لگے۔ جب جسموں کی طاقت کم ہوئی تو جانوں کا خوف بڑھ گیا۔ اس خوف کے نتیجے میں ان کی ہمّت اور حمیت نے بھی جواب دے دیا۔ ایسی صورت میں عزم و استقلال، اعتبار و اقتدار اور عزت و اقبال کہاں باقی رہتے ہیں؟ وہ شیر جن کی دہاڑوں سے وادی و صحرا کے دل کانپتے تھے، اب بے ہمّتی نے ان کی آواز کو بے اثر اور ان کے دست و بازو کو بے جان بنا ڈالا۔ ان کی ہمّتیں پست ہوئیں تو اس کے نتیجے میں ان کی فطرت بھی پست ہوگئی۔ شیر جب تک بیدار اور چوکس تھے، شیر تھے، جب بکری کے جادو نے انھیں اپنے آپ سے غافل کردیا تو وہ شیری کے تمام اوصاف سے محروم ہوگئے۔ نہ صرف ان کی قوّتوں کو زوال آگیا بلکہ انھیں اپنے زوال کا احساس بھی نہ رہا اور وہ اپنے زوال کو تہذیب کا نام دینے لگے کہ پہلے ہم سخت وحشی اور خوں خوار درندے تھے اور اب نہایت مہذب اور شائستہ جانور بن گئے ہیں۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس حکایت کے ذریعے اس امر کی توضیح فرمائی ہے کہ خودی کو ختم کرنے کا مسئلہ نوعِ انسانی میں سے مغلوب قوموں نے ایجاد کیا تاکہ اس مخفی طریقے سے کام لے کر غالب قوموں کے اخلاقِ عالیہ کو کمزور کرسکیں۔ خودی کے لیے سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ کسی فرد یا قوم کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوجائے کہ قوّت و طاقت، سطوت و حکومت اور جوشِ عمل زندگی کی اصل سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ اس کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ سخت کوشی کے مقابلے میں تن آسانی، اقتدار کے مقابلے میں مسکینی اور تونگری کے مقابلے میں افلاس بہتر اور افضل ہیں اور یہ تصور اس کے ذہن میں بیٹھ جائے کہ یہ حیاتِ انسانی موہوم اور یہ دنیا بے رنگ و بو محض فریبِ نظر ہے اور اس کے حصول یا اس کی بہبود کے لیے کوشش کرنا اور جان جوکھوں میں ڈالنا قطعی بے سود اور لاحاصل شے ہے۔ علّامہ اقبالؒؒؒ اس حکایت کے ذریعے واضح کرتے ہیں کہ یہ نظریۂ حیات جس سے خودی کی نفی ہوتی ہے اور عمل کے سوتے خشک ہوجاتے ہیں، زندہ اور فعال قوموں کے خلاف کمزور اور محکوم قوموں کی ایک گہری سازش کا نتیجہ ہے، جب کمزور قوموں نے طاقت ور اور جوشِ عمل سے سرشار قوموں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پایا تو اپنی بے بسی کا علاج اور حریف کی قوّت کا جواب فقط اسی صورت میں دیکھا کہ حریف کے دل و دماغ کو ایک زہرناک تصوّرِ حیات سے بھر دیا جائے تاکہ وہ دست و بازو جن کا مقابلہ کرنے کی یوں ان میں ہمّت و طاقت نہیں، خود بہ خود شل ہوکر رہ جائیں۔ جس طرح بکری کے وعظ نے شیروں کو زندگی سے محروم کرکے زوال کی منزل پر پہنچا دیا، اسی طرح محکوم قومیں فریب کے ہتھکنڈے استعمال کرکے غالب و طاقت ور قوموں کو پستی میں پہنچا دیتی ہیں۔ وہ براہِ راست مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ دست بہ دست لڑائی کی ان میں ہمّت نہیں ہوتی، لیکن اپنی غلط اور خود غرضانہ تعلیم و تلقین سے آہستہ آہستہ انھیں مکمل شکست دینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ چناں چہ بکری کا وعظ اس خود غرضانہ تعلیم و تلقین کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وعظ میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو وقت کے عام عالموں، صوفیوں، روحانیت کے دعوے داروں، شاعروں اور ترکِ دنیا کی ترغیب دینے والے دوسرے لوگوں کی زبانوں پر رہتی ہیں اور اس میں قطعاً شک نہیں کہ یہ تمام باتیں قوم اور افرادِ قوم کو زندگی کی جدوجہد میں ناکارہ بنا دینے والی ہیں۔ اسی لیے علّامہ اقبالؒؒؒ ہر اس تحریک اور فلسفے کے مخالف ہیں جو انسانوں کے قوائے عمل کو مضمحل اور ان کے ارادوں کو کمزور اور بے جان بنا دے۔ ان کے نزدیک وہ تصوّرات خودی کے لیے انتہائی زہرناک ہیں جو دنیا کو موہوم اور دنیوی جدوجہد کو بے سود ٹھہراتے ہیں اور جن کی بہ دولت عاجزی، فروتنی، مسکینی اور دلگیری پیدا ہوتی ہے۔ حکایت حضرت علیؒ ہجویری و نوجوانِ مرو کہتے ہیں کہ شہر مرو کا ایک بلند و بالا جوانِ رعنا لاہور آکر حضرت علی ہجویریؒ المعروف بہ داتا گنج بخشؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایک خاص غرض لے کر اتنی دور سے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ وہ غرض یہ تھی کہ اس کے دل و دماغ پر جو تاریکیاں چھائی ہوئی تھیں، انھیں آفتابِ ہجویر کی روشنی زائل کردے۔ چناں چہ اس نے ان کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی: ’’یا حضرت! میرے دشمن قوی ہیں اور میں ان کے درمیان اس طرح گھرا ہوا ہوں جیسے پتھروں کے حلقے میں صراحی کہ اس کا نازک وجود ہلکی سی ٹھیس بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ یا حضرت! مجھے کوئی ایسا گر بتا دیجیے کہ مجھے ان سے چھٹکارا حاصل ہو اور میں اپنے دشمنوں کی موجودگی کے باوجود کامیاب و کامران زندگی بسر کر سکوں۔‘‘ حضرت علی ہجویریؒ حقیقت شناس بزرگ تھے۔ ان کی ذاتِ گرامی جلال اور جمال دونوں کا دل آویز مرقع تھی کہ اہلِ حق کی شان یہی ہوتی ہے۔ وہ دعوتِ حق دیتے ہیں تو سراپا جمال ہوتے ہیں اور جب باطل سے مقابلے کی نوبت آجائے تو سراپا جلال بن جاتے ہیں۔ مرو کے جوانِ رعنا کی عرض سن کر انھوں نے فرمایا۔ ’’اے نوجوان! تو زندگی کے راز سے آگاہ نہیں۔ تو یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کیا ہے اور انجام کیا؟ تجھے اپنی قوّت کا احساس نہیں ورنہ تیرے دل میں دوسروں کا خوف کبھی گھر نہ کرتا۔ تو غیروں کا وسوسہ دل سے نکال دے۔ غیروں کا خوف اسی وقت دل میں راہ پاتا ہے جب انسان کی فطری قوّت سوئی ہوئی ہو۔ وہ قوّت جاگ اٹھے تو پھر اسے کسی کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے؟ تجھے اللہ تعالیٰ نے جو فطری قوّت عطا کی تھی، وہ سوگئی ہے۔ تو اسے بیدار کر اور خود بیدار ہو۔ دیکھ! پتھر اگر اپنے آپ کو شیشہ خیال کرلے تو وہ شیشے کی طرح نازک ہوکر ٹوٹنے لگتا ہے جو مسافر اپنے آپ کو کمزور و ناتواں اور بے طاقت سمجھ لیتا ہے، وہ اپنا سب کچھ رہزنوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور رہزن اس کا مال ہی نہیں، اس کی جان بھی لے کر رہتا ہے۔ اے نوجوان! توکب تک اپنے آپ کو آب و گِل کا ایک حقیر پیکر سمجھتا رہے گا۔ اٹھ اور اپنی خاک سے شعلۂ طور پیدا کر۔ اس دنیا میں آب و گِل کا پیکر تو سب کو ملا ہے، لیکن جو اہلِ عزم و ہمّت تھے، انھوں نے اپنی خاک سے وہ آگ پیدا کی جو ان کے تمام مخالفوں کو بھسم کر گئی۔ پس تو بھی اپنے خاکی وجود کے اندر عزم و ہمّت کا ولولہ پیدا کر۔ اے جوانِ عزیز! نہ عزیزوں سے خفا رہنے سے کچھ حاصل ہوتا ہے اور نہ دشمنوں کی شکایتیں کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ تو دشمنوںکا خوف و ہراس دل سے نکال دے۔ تیری نظر اگر حقیقت بین ہو تو تجھے معلوم ہوگا کہ جسے تو اپنا دشمن کہتا ہے، وہ اصل میں تیرا دوست ہے، کیوں کہ اس کا وجود تیرے وجود کے لیے ہمّت اور سرگرمی کا چشمہ ہے۔ اگردشمن نہ ہو تو انسان کو اپنی قوّتوں کے اندازے اور آزمائش کا موقع نہیں مل سکتا۔ دشمن نہ ہو تو وہ قوّتیں عمل میں نہیں آتیں۔ پس جسے تو دشمن کہتا ہے، اسی کی بہ دولت تیرے عمل کی خوابیدہ قوّتیں بیدار ہوتی ہیں اور اسی کی وجہ سے تیری زندگی کے بازار کی رونق اور سرگرمی بڑھتی ہے۔ اسی لیے تیرا دشمن تیرے حق میں فضلِ الٰہی سے کم نہیں، کیوں کہ اس کے بغیر تیرے اندر ہمّت و حمیت کا جوش پیدا نہیں ہوسکتا۔ یاد رکھ! دشمن انسان کے وجود کی کھیتی کے لیے ابرِ رحمت کا حکم رکھتا ہے، جو اس کے ممکنات اور اس کی خفتہ و خوابیدہ صلاحیتوں کو خوابِ گراں سے بیدار کرتا ہے۔ جس طرح بادل کے برسنے سے زمین کی پوری قوّتِ نمو سبزے کی شکل میں نمایاں ہوجاتی ہے، اسی طرح دشمن سے مقابلہ آن پڑنے پر انسان کی تمام سوئی ہوئی قوّتیں جاگ اٹھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اوصاف اور جوہر اس کی فطرت میں رکھے ہیں۔ وہ تمام بروئے کار آجاتے ہیں۔ پس اے جوانِ عزیز! تو دشمنوں سے خوف کھانے اور ان سے ہراساں ہونے کی بجائے انھیں ایک طرح سے اپنا دوست اور اپنے حق میں فضلِ خداوندی سمجھ کہ جب دشمن سے پنجہ آزمائی کی نوبت آتی ہے تو انسان کا عزمِ مقابلہ اس کی تمام قوّتوں کو حرکت و عمل میں لے آتا ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے یہ حکایت اس امر کی توضیح کے لیے بیان فرمائی ہے کہ انسان کو زندگی میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب سے گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ اپنے دشمنوں سے ہراساں ہونا چاہیے، کیوں کہ مشکلات و مصائب خودی کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ ہیں اور دشمنوں سے مقابلہ کی بہ دولت انسان کی خفتہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ عام لوگ مشکلات سے گھبراتے ہیں، لیکن جو لوگ صاحبِ ہمّت و عزیمت ہیں، وہ مشکلات کو عزیز جانتے ہیں۔ کیوں کہ مشکلات ہی کے ذریعے ان کے زور و قوّت کی ممکنات عمل میں نمایاں ہوتی ہیں۔ اگر ہمّت پختہ اور استوار ہو تو راستے میں جو پتھر رکاوٹ بن جاتا ہے، وہ بھی پانی بن کر بہہ نکلتا ہے، کیوں کہ راستے میں جو پتھر رکاوٹ بنتا ہے، وہ اصل میں عزم و ہمّت کی تلوار کے لیے سان کا کام دیتا ہے جس سے تلوار کی دھار تیز ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت انسان کے دشمنوں کی ہے۔ عام لوگ اپنے دشمنوں سے ہراساں رہتے ہیں، لیکن جو صاحبِ ہمّت و عزیمت ہیں، وہ اپنے دشمنوں کو حقیقتاً دوست اور اپنے حق میں اللہ تعالیٰ کا فضل جانتے ہیں کہ ان سے مقابلے کی بہ دولت ہی ان کی فطرت کے تمام خوابیدہ جوہر نمایاں اور آشکار ہوتے ہیں۔ حکایت الماس و زغال کہتے ہیں ایک روز کان میں کوئلے نے الماس سے کہا: ’’اے الماس! تو ایسے جلووں کو دامن میں سمیٹے بیٹھا ہے جن پر کبھی زوال نہیں آتا۔ تیری چمک دمک اور آب و تاب برابر باقی رہتی ہے۔ میں اور تو دونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ہمارا رہن سہن بھی ایک ہی وضع کا ہے اور ہم دونوں کے وجود کی اصل بھی ایک ہے۔ پھر یہ کیا ماجرا ہے کہ میں تو کان میں پڑا پڑا اپنی ناکارگی اور بے وقعتی کے رنج و غم میں مرتا رہتا ہوں اور تو بادشاہوں کے تاج کی زینت بنتا ہے۔ جب ہم دونوں ساتھی ہیں، ایک ہی کان سے نکلتے اور ایک ہی معدن سے برآمد ہوتے ہیں، جب ہماری زندگی اور ہست و بود کی اصل ایک ہے تو پھر ہم دونوں میں اتنا فرق کیوں ہے کہ میری قیمت خاک سے بھی کم ہے تو تاجِ شہنشاہ ہی میں جگہ پاتا ہے۔ میں اس غم میں گھلا جاتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں اور تیری آب و تاب لازوال جلووں کی امین ہے۔ ’’میری شکل و صورت اتنی بُری ہے کہ مجھے مٹی سے بھی کم تر سمجھا جاتا ہے اور تیرے حسن و جمال کا یہ عالم ہے کہ تجھے دیکھ کر آئینے کا دل بھی حسد سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے۔ میں خود تاریک ہوں مگر انگیٹھی میں پہنچتا ہوں تو اس کے لیے روشنی کا سامان بن جاتا ہوں اور میرے کمال کی حد یہ ہے کہ جل کر خاکستر ہوجائوں۔ ہر کوئی میرے سر پر اپنا پائوں رکھ کر مجھے توڑتا ہے اور پھر میرے وجود میں چنگاری ڈال دیتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ میری کیفیت آنسو بہائے جانے کے قابل ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری ہستی دھوئیں کی ایک لہر ہے جس کے تمام اجزاء باہم مل گئے ہیں اور ایک اڑتی سی چنگاری اس میں پڑ جائے تو میری ہستی ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تیرا چہرہ ستاروں کی طرح دمکتا ہے۔ تیری فطرت بھی اسی طرح درخشاں ہے اور تیرے ہر پہلو سے جلووں کی لہریں اٹھتی ہیں تو کبھی قیصر و کسریٰ کی آنکھ کا نور بن جاتا ہے اور کبھی خنجر کے دستے کی زیب و زینت کا سامان بنتا ہے۔ اے الماس! جب ہم دونوں کی اصل ایک ہے تو میری اور تیری حالت میں اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ الماس نے کوئلے کی یہ باتیں سنیں تو اس نے جواب دیا۔ ’’اے رفیقِ نکتہ بیں! یہ سب پختگی اور ناپختگی کے کھیل ہیں۔ خاکِ سیاہ اپنے اندر پختگی اور استواری پیدا کرلیتی ہے تو انگشتری کا نگینہ بن جاتا ہے۔ وہ معمولی مٹی گرد و پیش سے برابر ٹکراتی ہے اور اپنے ماحول سے ٹکرائو اور کشمکش کی بہ دولت پتھر کی طرح سخت، مضبوط اور مستحکم ہوجاتی ہے۔ میرا وجود بھی پختگی ہی کے باعث سراپا نور ہوا۔ میرے جسم سے جو شعاعیں پھوٹ رہی ہیں اور میرا سینہ جلووں سے معمور ہے تو اس کا باعث پختگی ہے۔ تو اس لیے ذلیل ہوا کہ تیرا وجود خام اور نا پختہ رہ گیا۔ تو اسی لیے جل اٹھا کہ تیرا بدن ناپختگی کے باعث نرم رہ گیا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے الماس و زغال یعنی ہیرے اور کوئلے کی اس حکایت کے ذریعے یہ امر واضح کیا ہے کہ سخت کوشی اور پختگی ہی سے زندگی میں عظمت کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ کوئلے اور ہیرے کی اصل ایک ہے، دونوں کاربن کی مختلف صورتیں ہیں، لیکن ہیرے کی پختگی اسے تاجِ شاہی تک پہنچاتی ہے اور کوئلے کی ناپختگی اسے انگیٹھی کا ایندھن بناتی ہے۔ اسی لیے علّامہ اقبالؒؒؒ یہ تلقین کرتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کے خوف و وسواس سے آزاد رہنا چاہیے اور پتھر کی طرح اپنے اندر پختگی پیدا کرنی چاہیے تاکہ ہماری شخصیت و کردار کو الماس کی مضبوطی و دلآویزی حاصل ہو۔ جو وجود سخت کوش اور سخت گیر ہو، جو زیادہ سے زیادہ محنت و مشقت کے لیے تیار ہو اور اپنی پختگی کی بنا پر دوسروں کی گرفت اور دست بُرد میں نہ آئے، اسی سے دونوں جہان روشنی کے طلب گار ہوتے ہیں۔ حجرِ اسود کی مثال ہمارے سامنے ہے جو حرم پاک کے پردے سے سر باہر نکالے ہوئے ہے۔ حرمِ کعبہ کا ہر حصہ غلاف سے چھپا رہتا ہے، لیکن جس کونے میں حجرِ اسود نصب ہے، وہاں غلاف کا تھوڑا سا حصہ اوپر اٹھا دیا گیا ہے تاکہ حرمِ کعبہ کا طواف کرنے والوں کو حجرِ اسود نظر آئے اور وہ طواف کا ہر پھیرا پورا ہونے پر اسے بوسہ دے سکیں۔ کہنے کو یہ ایک عام پتھر ہے مگر جب اس نے اپنے اندر پختگی پیدا کرلی تو اس کا مقام و مرتبہ طور سے بھی اونچا ہوگیا۔ صدیاں گزر گئی ہیں، کالے گورے سب عقیدت سے اسے بوسہ دیتے چلے آرہے ہیں۔ یہ سب پختگی ہی کا کرشمہ ہے۔ پس زندگی کی عزت و آبرو سختی اور پختگی میں ہے۔ جو ناپختہ ہوگا۔ وہ ناکارہ بھی ہوگا اور کمزور بھی۔ حکایتِ شیخ و برہمن کہتے ہیں کہ ہندوستان کے مشہور شہر بنارس میں ایک برہمن رہتا تھا جو وجود اور عدم، فنا اور بقا کے مسئلوں میں ڈوبا رہتا تھا۔ اسے زندگی اور موت کے سربستہ راز پالینے کی بڑی جستجو تھی۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا تھا کہ زندگی کی کیا حقیقت ہے؟ فنا کس حالت کو کہتے ہیں؟ وجود کیا ہے؟ اور عدم کس کیفیت کا نام ہے؟ وہ برہمن علم و فضل میں بڑا اونچا مرتبہ رکھتا تھا۔ اسے حکمت اور فلسفے میں خاص کمال حاصل تھا۔ اس کے علم و فضل کے ساتھ اس کے اخلاق کی بھی بڑی شہرت تھی اور اسے خدا کی تلاش کرنے والے بزرگوں سے عقیدت بھی تھی۔ اس کی عقل بڑی تیز واقع ہوئی تھی اور اس کا ذہن ہر قسم کے مشکل مسائل کا ادراک با آسانی کرلیتا تھا۔ جس طرح عنقا بہت بلندی پر اپنا گھونسلا بناتا ہے۔ اسی طرح اس برہمن کا دماغ بھی ہمیشہ بلندیوں پر پرواز کرتا رہتا تھا۔ وہ مدت تک فکری محنت و مشقت میں لگا رہا۔ حکمت و فلسفہ کے تمام دفتر کھنگال ڈالے اور عقل و دانش کے ہر کوچے کی سیر کی مگر اس ساری محنت و مشقت کے باوجود گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا اور وہ زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ معلوم کرنے میں ناکام رہا۔ آخر کار وہ ایک شیخ کامل کے آستانے پر حاضر ہوا جن کے سینے میں حق شناس دل موجود تھا۔ برہمن نے ان کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی نامرادی کا حال سنایا۔ شیخِ کامل نے اس کی نامرادی کی داستان سن کر فرمایا۔ ’’تو بلند آسمانوں پر اڑتا پھرتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے زمین سے بھی وفا کا پیمان باندھ لے۔ تو خود تو جنگلوں جنگلوں مارا مارا پھرتا رہا اور تیرا بے باک خیال آسمانوں سے بھی آگے نکل گیا۔ زمین کے ہنگاموں سے الگ تھلگ رہ کر تو نے آسمانوں پر پرواز کی اور فکر وتخیّل کے زور سے زندگی کے عُقدے کو سمجھنا چاہا۔ تیراپہلا قدم ہی غلط تھا۔ اگر تو زندگی کی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو آسمان کی بلندیوں سے اتر آ اور زمین سے اپنا رشتہ قائم کر۔ یاد رکھ! یقین کی کمی اور تذبذب سامانِ زیست کے رہزن ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تو بتوں سے بیزاری اختیار کرلے۔ تجھے کفر پسند ہے تو بے شک کافر ہی رہ۔ لیکن اتنا تو کر کہ تو زُنّار پہننے کے قابل ہوجائے اور کفر کے لیے باعث ننگ نہ رہے۔ تیرے پاس ایک پرانی تہذیب بطور امانت موجود ہے، اس کا حق ادا کر اور باپ دادا کے طور طریقے نہ چھوڑ، اگر قومی زندگی جمعیت و اتحاد پر موقوف ہے تو ظاہرہے کہ کفر بھی سرمایۂ جمعیت ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ تو کافری کے طور طریقوں میں بھی کامل نہیں ہے۔ تو کفر کے معیار پر بھی پورا نہیں اترا اور اس میں بھی درجۂ کمال حاصل نہ کرسکا۔ اسی لیے تو اپنے دل کے حرم کا طواف کرنے کے قابل نہ ہوسکا اور صاحبِ دل نہ بن سکا۔ ہم دونوں تسلیم و رضا کے راستے سے ہٹ گئے۔ تو بت پرست تھا اور آزر کے طریقے سے دور چلا گیا۔ میں توحید پرست تھا مگر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے طریقے پر نہ چل سکا، چناںچہ ہمارا دل عاشقی کے جنون میں کامل نہ ہوسکا۔ بھلا جب خودی کا چراغ وجود کے اندر بجھ گیا ہو تو آسمان کی منزلیں طے کرنے والے خیال سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟جب تک سینے میں خودی کی شمع روشن نہ ہوگی۔ فکر خواہ آسمان تک پرواز کرے، سب لاحاصل ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس حکایت کے ذریعے یہ امر واضح کیا ہے کہ ملّی زندگی کا تسلسل خاص ملّی روایات کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہنے پر موقوف ہے۔ دنیاوی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا انسان کی حیثیت سے ہمارا فرضِ اوّلین ہے۔ وہ انسان ہی کیا جس کی فکر تو آسمان تک پرواز کرے لیکن وہ زمین کے مسائل سے لا تعلق ہو یا ان مسائل کو حل کرنے سے عاجز ہو۔ اسی خیال کو علّامہ اقبالؒؒؒ نے ضربِ کلیم میں یوں ادا کیا ہے ؎ اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے بُری ہے مستیِ اندیشہ ہائے افلاکی اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی خاص ملّی روایات کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ رہے۔ وہ کافر ہے تو زُنّار کے شایانِ شان بنے اور مسلمان ہے تو ابراہیم علیہ السّلام کا سا جوشِ ایمان دکھائے۔ افراد کی سیرت اس وقت تک پختہ نہیں ہوسکتی جب تک وہ اپنی مخصوص ملّی روایات کو اپنے اندر جذب نہ کرلیں۔ ہر قوم اور جماعت اپنی کچھ روایات و تصوّرات رکھتی ہے۔ ہر قوم اپنی ثقافت، اپنے اخلاق کے کچھ معیار اور خیر و شر کے کچھ اصول رکھتی ہے۔ ہر قوم کے نزدیک زندگی گزارنے کے کچھ ضوابط اور نیک و بد کے کچھ پیمانے ہوتے ہیں۔ پس کوئی کافر ہو یا مومن، بُت پرست ہو یا آتش پرست، اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی قوم اور معاشرے کی روایات کا احترام کرے اور ان سے وابستہ رہ کر زندگی گزارے۔ اس لزوم اور پابندی کے بغیر اجتماعی زندگی کا تسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔ ملّی زندگی کا تسلسل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ افراد اپنے وجود کے اندر خودی کی شمع روشن کرکے ان ذمہ داریوں کو پورا کریں جو قوم اور ملّت کے افراد کی حیثیت سے ان پر عاید ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں تو خواہ ان کی فکر آسمانوں کو طے کرے اور ستاروں کی خبر لاتی پھرے، اس سے انھیں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ مکالمۂ گنگا و ہمالہ کہتے ہیں کہ ایک روز آبِ گنگا نے ہاتھ بڑھا کر ہمالہ پہاڑ کا دامن پکڑ لیا اور اس سے کہا۔ ’’جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے تُو برف کے بے اندازہ انبار کندھے پر اٹھائے کھڑا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزِ ازل سے تیرے سر پر برف کا تاج دھرا ہے اور دریا تیرے قدموں میں بل کھا کھا کر تیری عظمت کے گیت گاتے ہیں۔ قدرت نے بلندی میں تجھے آسمان کا ہمراز بنایا ہے، لیکن تیرے پائوں کو خِرامِ ناز سے محروم رکھا ہے۔ بھلا اس بلندی و رفعت اور تمکین و وقار سے کیا حاصل جب کہ تیرے پائوں میں چلنے کی سکت ہی نہیں۔ زندگی تو چلنے اور مسلسل چلنے کا نام ہے۔ دیکھ کہ موج کا سارا وجود ہی حرکت اور تگ و دو سے عبارت ہے جب کہ تو اس لذت و نعمت سے محروم ہے۔‘‘ ہمالہ پہاڑ نے دریا سے یہ طعنہ سنا تو غصے کے مارے آگ کے سمندرکی طرح بھڑک اٹھا اور غضب ناک ہوکر بولا۔ ’’اے دریا! تیری وسعت میرے لیے آئینے کی طرح ہے اور تجھ ایسے سیکڑوں دریا میرے سینے میں ہیں۔ تو جسے خرامِ ناز کہتا ہے وہ تو تیری موت کا سامان ہے۔ تیری حرکت اور تیرا چلنا تو اپنے آپ کو ختم کرلینے کا ذریعہ ہے۔ جو کوئی اپنی ہستی سے بیگانہ ہوجائے اور اپنے مقام پر قائم نہ رہ سکے، وہ اس قابل ہے کہ فنا کے گھاٹ اتر جائے، تو اپنے بہائو اور اپنے خرام پر نازاں ہے، یہ محض تیری نادانی ہے۔ تو اپنے مقام اور اس کی حقیقی حیثیت سے واقف نہیں اور تیری حماقت و نادانی کا یہ حال ہے کہ تو اپنے نقصان پر فخر و ناز کر رہا ہے، تو نہیں جانتا کہ جب تو اپنی ہستی کو سمندر کی نذر کردیتا ہے تو تیرا حال اس نادان مسافر سے مختلف نہیں ہوتا جو اپنے آپ کو رہزنوں کے حوالے کردیتا ہے۔ تجھ سے تو وہ ساحل کہیں بہتر ہے جو اپنی جگہ جما کھڑا ہے۔ اے دریا! تو جب سمندر میں جاگرتا ہے تو تیرا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔ تجھے تو چاہیے کہ باغ میں پھول کی طرح خود دار بن کر رہے۔ یہ نہیں کہ اپنی خوشبو پھیلانے کے لالچ میں گلچیں کے پیچھے مارا مارا پھرے۔ دیکھ کہ پھول جب تک باغ میں رہتا ہے، خود دار ہوتا ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ ولولہ اٹھے کہ میں اپنی خوشبو اس باغ سے باہر جگہ جگہ پھیلائوں اور ایک دنیا کو اپنی خوشبو سے معطر کروں تو اس کی خودداری ختم ہوجاتی ہے اور گلچیں اسے توڑ کر جہاں چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے۔ اس طرح خوشبو پھیلانے کی آرزو اس کی خودداری ہی نہیں، اس کی ہستی کو بھی مٹا دیتی ہے۔ پس زندگی یہ نہیں کہ اپنی ہستی کو فنا کردیا جائے بلکہ زندگی اس کا نام ہے کہ اپنی جگہ قائم رہ کر ترقی و استحکام کے لیے سعی کی جائے اور خودی کی کیاری سے پھول چنے جائیں۔ اے دریا! تو مجھے بے حاصل کا طعنہ دیتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ صدیاں گزر گئی ہیں اور میں ایک ہی جگہ قدم جمائے کھڑا ہوں۔ تو سمجھتا ہے کہ میں اپنی منزل سے دور ہوں۔ مگر اس حقیقت کو نہیں دیکھتا کہ میرا وجود بڑھتے بڑھتے آسمان تک جا پہنچا ہے۔ ستارے میری چوٹیوں کے سامنے سجدہ ریز ہیں اور ثریا بھی میرے دامنِ عافیت میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ میں آسمانوں کے راز سے اور فرشتوں کی پرواز سے آشنا ہوں۔ اے دریا! تیری ہستی تو سمندر میں جاگرنے کے بعد بے نشاں ہوجاتی ہے جب کہ میری چوٹی ستاروں کی سجدہ گاہ ہے۔ میں مسلسل جدوجہد کرتا رہا اور اپنے آپ کو سوزِ پیہم کی آگ میں جلاتا رہا اور اس کا ثمرہ مجھے یہ ملا کہ میرا دامن لعل و الماس اور دیگر گہرہائے آبدار سے بھر گیا۔ میرے اندر پتھر ہیں اور پتھروں کے اندر آگ ہے۔ وہ ایسی آگ ہے کہ پانی اس تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اے دریا! یاد رکھ کہ زندگی پانی کی طرح بہہ جانے میں نہیں۔ پہاڑ کی مانند خودکو قائم رکھنے میں ہے۔ تو پانی کا قطرہ بھی ہو تو اپنے آپ کو اپنے پائوں میں نہ گرا بلکہ اپنے اندر طوفان کا جوش پیدا کرنے کی کوشش کر۔ سمندر میں مل کرا پنے آپ کو فنا کردینے کی بجائے سمندر سے دست و گریباں ہوجا۔ اے دریا! تو گوہر کی آب و تاب کا طلب گار ہو اور گوہر کا ریزہ بن جا۔ اس طرح تو آویزہ بن کر کسی محبوب کے کان تک پہنچ جائے گا۔ یا پھر اپنے آپ کو بڑھا اور تیز رفتار ہوجا۔ اپنے آپ کو ایسا بادل بنا لے جس سے بجلیاں گرتی ہیں اور جس سے دریائوں کو لبریز کرنے والا پانی برستا ہے۔ اے دریا! اگر تو بادل بن جائے گا تو سمندر طوفان پیدا کرنے کے لیے تیرے پاس پانی کی بھیک مانگنے آئے گا۔ تو اسے اتنا پانی دے گا کہ وہ اپنی تنگ دامانی کی شکایت کرنے لگے گا۔ پھر وہ تیرے مقابلے میں اپنے آپ کو ایک موج سے بھی کم تر سمجھے گا اور اپنی ہستی تیرے قدموں میں ڈال دے گا۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس حکایت میں ہمالہ اور گنگا کی گفتگو کے ذریعے خودی اور خودداری کی حفاظت کی تلقین کی ہے۔ دریا پہاڑ کو یہ طعنہ دیتا ہے کہ تو صدیوں سے ایک ہی جگہ کھڑا ہے۔ اگرچہ ازل سے تیرے سر پر برف کا تاج ہے اور تیری چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہیں، مگر یہ عظمت و شوکت کس کام کی جب کہ تو اپنی جگہ سے ہل تک نہیں سکتا، حالاں کہ زندگی نام ہی حرکت اور تگ و دو کا ہے۔ دریا کے اس طعنے کے جواب میں پہاڑ اسے اس حقیقت سے آگاہ کرتا ہے کہ حرکت اور تگ و دو اس کا نام نہیں ہے کہ تو اپنے آپ کو سمندر میں گرا کر اپنی ہستی فنا کر ڈالے بلکہ یہ ہے کہ اپنی خودی کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی ہستی کو محکم بنانے کے لیے جدوجہد کرے۔ زندگی پانی کی طرح بہہ جانے میں نہیں بلکہ خود کو پہاڑ کی طرح قائم رکھنے میں ہے۔ چناں چہ پہاڑ دریا کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ تو پانی کا قطرہ ہو تب بھی تجھے اپنے وجود کی حفاظت کرنی چاہیے اور اپنے اندر سمندر سے لڑجانے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ یا پھر تجھے بڑھ کر تیز رفتار بادل بن جانا چاہیے کہ سمندر بھی تجھ سے پانی کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ بہ الفاظِ دیگر اس جہانِ رنگ و بو میں خود داری کے ساتھ جینا اور اپنے جوہرِ خودی کی حفاظت کرنا ہی صحیح معنوں میں زندگی ہے۔ اپنے وجود کو کسی دوسرے وجود کی نذر کرکے اپنے آپ کو بے نشان کردینا اس کا کام ہے جو اپنی ہستی اور اس کی اہمیت کے احساس سے بیگانہ ہو۔ وہ اسی قابل ہے کہ فنا کے گھاٹ اتر جائے۔ مگر جسے اپنی ہستی عزیز ہو، وہ اپنے مقام پر رہ کر اس کی بقا اور استحکام کے لیے جدوجہد کرے گا اور اس طرح دوسروں سے اپنے آپ کو، اپنی غیرت و خودداری کو اور اپنی ہستی کو منوالے گا۔ محاورۂ تیر وشمشیر ایک روز عین میدانِ جنگ میں تیر نے تلوار سے کہا۔ ’’اے تلوار! تو بڑی خوبیوں کی مالک ہے۔ تیرے جوہر کمال کے جوہر ہیں۔ حضرت علیؓ کی ذوالفقار بھی تیرے ہی اسلاف میں سے تھی۔ تو نے حضرت خالدؓ بن ولید کی قوّتِ بازو بھی خوب دیکھی کیوں کہ انھوں نے تجھ سے کام لیتے ہوئے ملکِ شام میں وہ فتوحات حاصل کیں جن کی ساری تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ اے تلوار! تو دشمنوں کے لیے خدا کے قہر و غضب کی آگ ہے، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ دوستوں کے لیے جنت الفردوس بھی تیرے ہی سائے میں ہے۔ تو جب میدانِ جنگ میں اپنے جوہر دکھاتی ہے تو انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہوئے کشتوں کے پشتے لگا دیتی ہے اور دشمنوں کے لیے ایک قہر بے اماں ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ دشمنانِ حق تیرے ہی ذریعے سے اپنی سزا کو پہنچتے ہیں۔ دوسری طرف جو مجاہد اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پاتے ہیں، وہ سیدھے بہشت بریں میں پہنچ جاتے ہیں۔ چناں چہ انھیں تیرے ہی سائے کے نیچے آکر بہشت ملتی ہے۔ اے تلوار! تو تو جو ہے سو ہے لیکن میں بھی کچھ کم نہیں۔ میں ترکش میں رہوں یا ہوا میں چلوں، جہاں جاتا ہوں سراپا آگ بن کر جاتا ہوں۔ جب میں کمان سے نکل کر مقابل کے سینے کی طرف جاتا ہوں تو اس کے سینے میں پیوست ہونے سے پہلے سینے کی گہرائی میں خوب اچھی طرح چھان بین کرتا ہوں۔ اگر مجھے وہاں قلبِ سلیم نہ ملے اور ایسا دل دل نظر آئے جو خوف، غم اور مایوسی کا شکار ہو تو میں اپنی نوک سے اسے ٹکڑے ٹکڑے کرکے خون میں نہلا دیتا ہوں۔ لیکن اے تلوار! اگر میں یہ دیکھوں کہ میرے مقابل کے سینے کے اندر مومن کا دل ہے جس کی وجہ سے پورا سینہ آئینے کی طرح صاف ہے، اس میں خوف، غم اور مایوسی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں اور اس کے باطن کے نور سے اس کا ظاہر بھی روشن ہے تو اس کی حرارت سے میری جان پانی پانی ہوجاتی ہے اور میری نوک شبنم کے قطرے کی طرح ٹپک کر بے اثر ہوجاتی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒؒ نے تیر اور تلوار کے اس مکالمے کے پیرائے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ صاحبِ ایمان کے قلب میں مایوسی، غم اور خوف کی گنجائش ہی نہیں ہوتی، تیر اور تلوار جیسی جان لیوا چیزیں قلبِ مومن کے نور کو دیکھ کر خود پانی پانی ہوجاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو انسان مایوسی، غم اور خوف کا مارا ہوا ہوتا ہے، وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی مُردوں کے برابر ہوتا ہے، اس لیے تیر اور تلوار جیسی چیزوں کی ذرا سی حرکت اس کے جسم اور جان کا رشتہ منقطع کردیتی ہے۔ دراصل علّامہ اقبالؒؒؒ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مایوسی، غم اور خوف تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔ ان میں مبتلا انسان زندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں ہوتا بلکہ مُردوں سے بدتر ہوتا ہے۔ ہماری زندگی آرزوئوں سے قائم ہے۔ ہزار مشکلات کے باوجود جب تک امید اور آرزو کا چراغ سینے میں روشن رہتا ہے۔ ہمارے اندر زندگی اپنے تمام ممکنات کے ساتھ موجود رہتی ہے، لیکن جب امید کا چراغ بجھ جائے، آرزوئوں کی شمع گل ہوجائے اور دل مایوسیوں کے اندھیروں کی گرفت میں آجائے، تو انسان کے ہاتھ سے زندگی کا دامن خود بخود چھوٹ جاتا ہے کیوں کہ مایوسی انسانی صلاحیتوں کے لیے موت کا پیغام ہے۔ یاس اور نا اُمیدی زندگی کے تمام سوتوں کو خشک کر ڈالتی ہے۔ اسی طرح غم انسانی زندگی کو اس طرح اندر ہی اندر کھا جاتا ہے، جیسے دیمک لکڑی کو کھا جاتی ہے۔ غم انسان کی خوشیوں ہی پر ڈاکا نہیں ڈالتا بلکہ اس کے جذبۂ عمل کو بھی غارت کردیتا ہے۔ وہ انسان کو جدوجہد کی کش مکش کے راستے سے ہٹا کر تقدیر پرستی کے نام پر بے عملی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ اسی طرح خوف انسان کی تمام اخلاقی فضیلتوں کو سلب کرلیتا ہے، خوف ہمّت و ولولہ اور شجاعت و مردانگی کا ازلی دشمن ہے۔ اس کا سایہ تک بھی دل کے عزم و ارادوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ خوف ہاتھ پائوں سے عمل کی قوّت اور دماغ سے سوچ بچار کی صلاحیت چھین لیتا ہے۔ خوف کی حالت میں دشمن کی تلوار ہی اس پر زیادہ قوّت سے نہیں پڑتی بلکہ دشمن کی نظر بھی اس کے لیے تلوار بن جاتی ہے۔ انسان کی ذات سے جو کمینہ حرکات سرزد ہوتی ہیں، ان سب کی جڑیں خوف میں پیوست ہیں۔ خوشامد، جھوٹ، ریاکاری، ضمیر فروشی، مکروفریب جیسے تمام عیوب خوف کے جذبے ہی سے پیدا ہوتے ہیں، بلکہ شرک بھی خوف ہی کی ایک صورت ہے۔ چناں چہ توحید ہی انسان کو ان بیماریوں سے شفا اور امان بخشتی ہے۔ توحید کا عقیدہ جس دل میں راسخ ہوجاتا ہے۔ اس دل میں مایوسی، غم اور خوف کا گزر ہی ممکن نہیں۔ جس طرح روشنی آجانے سے تاریکی غائب ہوجاتی ہے، اسی طرح دل میں توحید کے نور کا اجالا ہوتے ہی مایوسی، غم اور خوف کے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں۔ توحید پرستوں کی ہزاروں سال کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ انھوں نے بڑی سے بڑی طاقت کے سامنے بھی انتہائی بے خوفی کا مظاہرہ کیا اور انتہائی نازک اور نامساعد حالات میں بھی ان پر مایوسی طاری نہیں ہوئی۔ بہ الفاظِ دیگر توحید انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ یہ عقیدہ جب ایک زندہ حقیقت کے طور پر انسانی قلب میں اپنا مقام بنا لیتا ہے اور جب انسان اس میں ڈھل جاتا ہے تو اس میں مومن کی صفات ابھرتی ہیں اور وہ مایوسی، غم اور خوف سے کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں پُرامید، خوش اور نڈر رہتا ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اسے خوف زدہ نہیں کرسکتی۔ ناسازگار سے ناسازگار حالات اسے مایوس نہیں کرسکتے۔ شدید سے شدید غم بھی اس کے دل کو متاثر نہیں کرسکتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے علّامہ اقبالؒؒ ؒ نے تیر کی زبان سے بیان کیا ہے کہ جب تیر کی نوک مومن کے سینے کو دیکھتی ہے کہ اس کے دل کے اندر خوف، غم اور مایوسی کا کہیں نام و نشان بھی نہیں تو وہ شبنم کے قطرے کی طرح ٹپک کر بے اثر ہوجاتی ہے۔ حکایاتِ جاوید نامہ حکایت فرعونِ کبیر و فرعونِ صغیر فلکِ زہرہ کی سیر کرتے ہوئے جب ہم ایک کوہستان کے قریب پہنچے تو مرشدِ رومی نے مجھ سے کہا۔ ’’اے فرزند! اس کوہستان کے پیچھے ایک قلزمِ الماس گُوں ہے۔ یہ ایسا سمندر ہے جس میں نہ موجیں اٹھتی ہیں نہ طوفان آتا ہے۔ ہر طرف سکون ہی سکون ہے، ایسا سکون جو کبھی زائل نہیں ہوتا۔ اس سمندر میں دو سرکش روحیں قید ہیں۔ یہ ان لوگوں کی روحیں ہیں جو اپنی زندگی میں غائب کے منکر اور حاضر کے پرستار تھے۔ ان میں سے ایک مشرقی ہے اور دوسرا مغربی۔ یہ دونوں اللہ کے بندوں کے دشمن تھے۔ ایک کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فنا کیا اور دوسرے کو ایک درویش کی تلوار نے ٹھکانے لگایا۔ یہ دونوں فرعون ہیں۔ ایک چھوٹا فرعون ہے جو انگریزی فرعون ہے۔ دوسرا بڑا فرعون ہے جو مصری فرعون ہے۔ دونوں سمندر کی آغوش میں پیاسے مر گئے۔ اگرچہ موت ہر جان دار کا مقدر ہے، مگر سرکشوں اور جبّاروں کی موت خدا کی نشانیوں میں سے ہے۔ آئو چل کر انھیں دیکھیں۔‘‘ میں نے مرشدِ رومیؒ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔ مرشدِ رومیؒ میرا ہاتھ تھام کر آگے بڑھے اور پھر سمندر میں داخل ہوگئے۔ سمندر نے انھیں بالکل اس طرح راستہ دے دیا جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو دریائے نیل نے راستہ دے دیا تھا۔ اس سمندر کی تہ میں ایک وادیِ بے رنگ و بو تھی جس پر تہ در تہ تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ مرشدِ رومیؒ نے سورۂ طٰہٰ کی تلاوت فرمائی تو کلام اللہ کی برکت سے سمندر کی تہ میں روشنی ہوگئی اور یوں محسوس ہوا جیسے سمندر کی تہ میں ایک جگمگاتا چاند نمودار ہوگیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اس سمندر کی تہ میں بہت سے خشک اور سرد پہاڑ تھے اور وہاں دو شخص حیران و سرگرداں بیٹھے تھے۔ ان میں ایک تو مصری فرعون رعمیسص تھا اور دوسرا انگریزی فرعون کچنر ذوالخرطوم۔ ان دونوں نے پہلے تو مرشدِ رومیؒ کی طرف دیکھا اور پھر حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ پھر مصری فرعون نے کہا: ’’ہیں! اس تاریکی میں یہ نور کہاں سے ظاہر ہوگیا؟‘‘ یہ سن کر مرشدِ رومیؒ نے جواب دیا۔ ’’یہ وہ نور ہے جس کی بہ دولت ہر پنہاں شے ظاہر ہوجاتی ہے۔ اس نور کی اصل آفتاب نہیں بلکہ یدِبیضا ہے۔ میں نے اللہ کے کلام کی تلاوت کی، اس سے یہ نور ظاہر ہوگیا۔‘‘ یہ سن کر فرعون نے ایک آہ کھینچی اور کہا۔ ’’افسوس میں نے عقل اور دین دونوں کو ضائع کردیا۔ میں نے اس نور کو دیکھا تھا مگر افسوس میں نے اس نور کو نہ پہچانا۔ موسٰی ؑ میرے پاس یہ نور لے کر آئے تھے، مگر میں نے موسٰی ؑکی دعوت کو رد کردیا۔ ’’اے بادشاہو! میرے حالِ زار سے عبرت حاصل کرو۔ اے ظاہری فائدے کے لالچ میں نقصان کا سودا کرنے والو! میری طرف عبرت کی نگاہ کرو۔ افسوس ہے اس قوم کے حال پر جو دولت کے لالچ میں اندھی ہوچکی ہے اور لعل و جواہر و طمع میں قبروں کو کھودنے سے بھی باز نہیں آتی۔ ’’ہماری وہ حنوط شدہ لاشیں جو مختلف عجائب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں، زبانِ حال سے اپنا افسانہ سنا رہی ہیں کہ بادشاہ اپنی رعایا پر کیسے کیسے ظلم کرتے آئے ہیں اور وہ عقل و دانش کے نام پر کیسی کیسی حماقتوں کا ارتکاب کرتے رہے ہیں۔ ہماری یہ لاشیں ملوکیت کے مفاسد کی خبر دیتی ہیں اور اندھوں کو بھی دکھا دیتی ہیں کہ ملوکیت کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ’’ہماری یہ لاشیں دنیا والوں کو بتا رہی ہیں کہ ملوکیت کی غرض کیا ہے؟ صرف یہ کہ اللہ کے بندوں میں نفاق، اختلاف اور پھوٹ پیدا کرنا، انھیں آپس میں لڑانا اور اس طرح اپنے لیے سامانِ استحکام پیدا کرنا۔ وہ جس ملک کو فتح کرتے ہیں، اس کے باشندوں میں ایک دوسرے سے دشمنی کا بیج بو دیتے ہیں تاکہ وہ آپس میں لڑتے رہیں۔ بادشاہوں کے اس ناپاک طریقِ عمل سے ملک تباہ ہوجاتا ہے اور اصلاحِ احوال کی تمام تدبیریں بیکار ثابت ہوتی ہیں۔ افسوس کہ یہ باتیں مجھے اب معلوم ہوئی ہیں۔ اس وقت معلوم نہ تھیں جب موسٰی ؑ میرے پاس ہدایت کی روشنی لے کر آئے تھے۔ اب اگر میں دوبارہ موسٰی ؑ سے مل سکوں تو بلاشبہ ان پر ایمان لے آئوں گا اور ان سے اپنے دل کے لیے روشنی حاصل کروں گا۔‘‘ مصری فرعون کی باتیں سن کر مرشدِ رومیؒ نے کہا: ’’یہ تو صحیح ہے کہ حاکمی کے بغیر دنیا کا نظام نہیں چل سکتا۔ نظم و نسق کے لیے کسی نہ کسی حکومت کا ہونا ضروری ہے لیکن وہ حکومت جس کی بنیاد اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت پر نہ ہو، سراسر خام ہے اور بنی آدم کے حق میں رحمت کی بجائے زحمت اور برکت کی بجائے لعنت کا موجب بن جاتی ہے۔ بے شک ملوکیت اپنی جگہ ضروری ہے۔ کوئی بادشاہ نہ ہو تو ملک میں فوراً ابتری پھیل جاتی ہے، مگر ملوکیت کے ساتھ یدِبیضا ہونا لازمی ہے۔ یہ یدِبیضا اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر محض ملوکیت حرام ہے۔ کیوں کہ ہر مطلق العنان بادشاہ اللہ کے بندوں کو اپنا بندہ اور غلام بناتا ہے جو ایک طرح سے اللہ کے خلاف بغاوت ہے لیکن جو بادشاہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو اپنا ہادی اور رہنما بناتا ہے، وہ اللہ کے بندوں پر خود حکومت نہیں کرتا بلکہ ایک طرح سے نیابتِ الٰہی کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ اس کی حکومت دراصل خدا کی حکومت ہوتی ہے اور حکومت کی یہ صورت بنی آدم کے حق میں رحمت و برکت بن جاتی ہے۔ حاکمیت اور ملوکیت بذاتِ خود ایک مذموم شے ہے، کیوں کہ وہ انسان کو کمزور کرکے قوت حاصل کرتی ہے۔ وہ محکوموں کے ضعف سے قوی اور محروموں کی محرومی سے توانا ہوتی ہے۔ رعایا جتنی مفلوک الحال ہوتی ہے، بادشاہ اتنا ہی مرفہ الحال ہوتا ہے، محکوم جس قدر مفلس، قلاش، ضعیف ہوتے ہیں، حاکم اتنا ہی امیر، دولت مند اور قوی ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاج کی بقا باج اور تسلیمِ باج پر موقوف ہے، اس لیے بادشاہ ہمیشہ رعایا کا خون چُوستا رہتا ہے۔ خراج دینے اور بادشاہوںکی اطاعت قبول کرلینے سے انسان اگر پتّھر کی طرح سخت ہو تو بھی شیشے کی طرح نازک اور کمزور ہوجاتا ہے کہ ذرا سی ٹھیس لگی اور ٹوٹ گیا۔ ملوکیت کا قیام فوج، قیدخانہ اور زنجیر پر موقوف ہے۔ بادشاہ انسانوں کو زبردستی اپنا غلام بناتے ہیں اور جو ان کا غلام بننے سے انکار کرتا ہے، اسے زنجیروں میں جکڑ کر قیدخانے میں ڈال دیتے ہیں۔ ایسی ملوکیت حقیقت میں رہزنی ہے۔ اس لحاظ سے ملوکیت اور رہزنی میں کوئی فرق نہیں۔ بادشاہ وہی بنتا ہے، جس کے پاس یہ سامان زیادہ مقدار میں ہو۔ اگر ڈاکو کے پاس فوج کثیر جمع ہوجائے تو وہ بھی آن واحد میں بادشاہ بن سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک بادشاہ اور ایک ڈاکو میں کوئی فرق نہیں، مگر سچا بادشاہ یا حاکم وہ ہے جو لوگوں پر فوج، قید خانہ اور زنجیروں کے بغیر حکومت کرسکے۔‘‘ مرشدِ رومی کی ان باتوں کے جواب میں مصری فرعون نے تو کچھ نہیں کہا لیکن کچنرذوالخرطوم کو فرعون اور مرشدِ رومیؒ دونوں کی کھری کھری باتیں بُری طرح کھٹک رہی تھیں۔ کیوں کہ ان سے انگریز قوم کی خباثت اور کمینگی ظاہر ہوتی تھی۔ چناں چہ کچنرذوالخرطوم نے اپنی قوم کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا: ’’انگریز قوم کے مقاصد بہت بلند اور اعلیٰ و ارفع ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہم نے قدیم شاہانِ مصر کے مقابر کی کھدائی کی لیکن اس کا مقصد زر و جواہر کا حصول نہیں تھا بلکہ علمی خدمت ہمارے پیشِ نظر تھی۔ مقصد یہ تھاکہ ہمیں ایسی تاریخی معلومات میسر آجائیں جن کی مدد سے مصر کی قدیم تاریخ صحیح طور پر مرتب کرنے میں مدد مل سکے۔ مصر اور فرعون و کلیم کی سرگزشت ایسے ہی آثارِ قدیم میں جھانکنے سے معلوم ہوسکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ علم و حکمت تو نام ہی سربستہ رازوں کے کھولنے کا ہے۔ اگر علم و حکمت کے دعوے کے باوجود ہم جستجو اور تحقیق سے ہاتھ اٹھا لیں تو نہ علم باقی رہتا ہے نہ حکمت۔ حکمت پسند قومیں اگر تحقیق و جستجو کی تگ و دو نہ کریں تو انکشافات، ایجادات اور اختراعات کا سارا سلسلہ بند ہوجائے اور خود حکمت ذلیل و خوار ہوکر رہ جائے۔‘‘ کچنرذوالخرطوم کی بات سن کر مصری فرعون نے فوراً اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہماری قبروں کو تو تم لوگوں نے، چلومان لیا کہ ، علم و حکمت کے نام پر کھودا تھا لیکن مہدی کی تربت کے اندر کون سا علم و حکمت کا خزانہ تھا جو تم نے اسے بھی کھود ڈالا؟‘‘ فرعون کے اس اعتراض پر کچنرلاجواب ہوگیا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا۔ یہ تو گویا فرعون نے اس کے منہ پر طمانچہ کھینچ مارا تھا۔ وہ فرعون کے اعتراض کا جواب دے بھی کیا سکتا تھا؟ مہدی سوڈانی کی تربت تو اس نے اپنے اندھے جذبۂ انتقام کی تسکین کے لیے کھدوا ڈالی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک بجلی سی چمکی، گلشنِ جنت کی ٹھنڈی ٹھنڈی عطر بیز ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ درویشِ مصر مہدی سوڈانی کی روح نمودار ہوئی اور اس نے کچنر ذوالخرطوم سے مخاطب ہوکر کہا۔ ’’اے کچنر! اگر تو کچھ بھی سمجھ رکھتا ہے تو درویش کی خاک کا انتقام دیکھ! تو نے ایک مرد درویش کی نعش کی بے حرمتی کی تو تجھے اس کا یہ بدلہ ملا کہ خدا نے تجھے مرنے کے بعد قبر ہی نصیب نہیں کی۔ تیری نعش کو زمین نے اپنے دامن میں لینے سے انکار کردیا اور تیری خاک کا مرقد بنا بھی تو سمندر کے شوریلے پانیوں میں بنا۔‘‘ اتنا کہہ کر مہدی سوڈانی نے ایک آہِ سرد کھینچی اور پھر عرب قوم سے یوں خطاب کیا: ’’اے روحِ عرب! بیدار ہو اور بیدار ہوکر اپنے اسلاف کی طرح زمانوں کی تخلیق کر۔ اے شاہِ مصر فواد! اے عراق کے حکمران فیصل! اے حجاز کے والی ابن سعود! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کب تک اس طرح تفرقہ کا شکار رہو گے؟ کب تک صرف اپنی ذاتی ترقی کے لیے کوشاں اور ملتِ اسلامیہ کے مفاد سے غافل رہو گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے سینے کے اندر وہ سوز، تڑپ اور جذبہ پیدا کرو جو تمھارے اسلاف سے خاص تھا اور پھر متحد ہوکر دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے ملتِ اسلامیہ کو اس مقامِ بلند تک پہنچائو جو اسے پہلے حاصل رہا ہے۔ اے سرزمینِ حجاز! وقت آگیا ہے کہ تیری خاک سے دوسرا خالدؓ پیدا ہو اور تیرے ذریعے نغمۂ توحید ایک بار پھر دنیا میں گونجے۔ اے ارضِ حجاز! تیرے دشت کے نخیل تو پہلے سے کہیں زیادہ نشوونما پارہے ہیں، پھر کیا بات ہے کہ تیری خاک سے ابھی تک دوسرا فاروقِ اعظمؓ پیدا نہیں ہوا؟ اے مومنانِ مشک فام کی دنیا سوڈان! مجھے تجھ سے بڑی امیدیں ہیں۔ مجھے تیری خاک سے بوئے دوام آتی ہے۔ اے سوڈان کے لوگو! تمھاری زندگی کب تک ذوقِ جدوجہد سے محروم رہے گی؟ تم کب تک غلام بنے رہو گے؟ تمھاری تقدیر کب تک غیروں کے ہاتھ میں رہے گی؟ تم کب تک اپنے مقام سے غافل رہو گے؟ مسلمان اور غیروں کا غلام!!! میں جب اس بات کا تصور کرتا ہوں تو میرے جگر سے دھواں اٹھنے لگتا ہے۔ ’’تم مصائب سے گھبراتے ہو! مسلمان ہوکر مصائب سے گھبراتے ہو! کیا تم نے سرکارِ دو عالمؐ کی حدیث نہیں سنی کہ مرد کے لیے روزِ بلا فی الحقیقت روزِ صفا ہے۔ مسلمان کے لیے مصیبت اور جنگ کا دن صفائی، پاکیزگی اور تزکیۂ نفس کا دن ہوتا ہے کیوں کہ اگر وہ جنگ میں مارا جائے تو شہادت کا مقام پاتا ہے اور زندہ رہے تو غازی کے لقب سے سرفراز ہوتا ہے۔ وہ شہید ہو یا غازی، دونوں صورتوں میں اس کے لیے جیت ہی جیت اور کامرانی ہی کامرانی ہے۔ اللہ کے راستے میں لڑنے والا مجاہد کسی صورت میں بھی گھاٹے اور نقصان میں نہیں رہتا۔ فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مجاہد کے لیے دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں سرفرازی ہی سرفرازی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒؒ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں فلک زہرہ کی سیر کرتے ہوئے فرعون اور کچنر کی روحوں سے ملاقات کا نقشہ کھینچا ہے اور اس طرح مصر کی تاریخ کے دو واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک واقعہ بڑے فرعون رعمیسص کا ہے، جس نے خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا اور جس کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السّلام پیغامِ ہدایت لے کر گئے تھے مگر اس نے اس پیغامِ ہدایت کو رد کردیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرعون کے بھرے دربار میں اپنے یدِبیضا کی مدد سے فرعون کے نامی گرامی جادوگروں کو شکست دے دی تھی۔ شکست کھا کر جادوگر تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر ایمان لے آئے تھے مگر فرعون اپنے انکار اور کفر میں کچھ اور شدید ہوگیا تھا۔ پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام خدا کی ہدایت کے مطابق اپنی قوم کے لوگوں کو لے کر مصر سے نکلے تھے تو فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام تو یدِبیضا کی کرامت اور حکمِ خداوندی کے طفیل دریا پار ہوگئے تھے مگر فرعون اپنی فوجوں سمیت دریا میں غرق ہوگیا تھا۔‘‘ دوسرا واقعہ چھوٹے فرعون کا ہے جسے تاریخ کچنر کے نام سے یاد کرتی ہے اور جسے حکومتِ برطانیہ نے لارڈ کچنر آف خرطوم کا خطاب دیا تھا، اس خطاب کا عربی ترجمہ علّامہ اقبالؒؒ نے ’’ذوالخرطوم‘‘ کی صورت میں کیا ہے۔ خرطوم سوڈان کا مشہور شہر اور دارالحکومت ہے، جسے لارڈ کچنر نے ۱۸۹۸ء میں فتح کیا تھا۔ انگریزوں نے ۱۸۸۲ء میں مصر کو مکمل طور پر اپنے زیرِ نگیں کرلیا تھا مگر سوڈان میں مہدی سوڈانی کے مجاہدوں نے حکومتِ برطانیہ کی اطاعت کا جوا اپنے گلے میں ڈالنے سے انکار کردیا۔ مہدی سوڈانی کا اصل نام محمد احمد بن عبداللہ تھا۔ اس کی ولادت ۱۸۳۳ء میں ہوئی تھی اور ۱۸۶۱ء میں اس نے اپنی زندگی کو اسلام کی سربلندی کے لیے وقف کردیا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے نیل ابیض کے ایک جزیرے میں ایک جامع مسجد، ایک مدرسہ اور ایک خانقاہ تعمیر کی تاکہ مسلمانوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی روح پیدا ہوسکے۔ ۱۸۷۲ء میں اس نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر مصر اور سوڈان کی سیاحت کرکے حالات کا جائزہ لیا۔ اس دورے میں اسے معلوم ہوا کہ عوام مصری حکومت کے ظلم و ستم سے نالاں ہیں۔ ۱۸۸۱ء میں اس نے اپنی امامت کا باضابطہ اعلان کیا اور پھر ۱۸۸۳ء میں علمِ جہاد بلند کردیا۔ اسماعیل پاشا خدیو مصر نے ایک انگریز ہکس پاشا کو مقابلے کے لیے بھیجا لیکن مہدی کے سربکف مجاہدوں نے اسے قتل کردیا۔ اس کے بعد ۱۸۸۴ء میں انگریزی حکومت نے جنرل گارڈن کو بھیجا، مگر اسے ناکامی ہوئی، اور وہ مہدی کے مجاہدین کے ہاتھوں مارا گیا۔ جون ۱۸۸۴ء میں برطانوی حکومت نے لارڈ کچنر کی سرکردگی میں ایک امدادی مہم خرطوم کی طرف روانہ کی، جسے مہدی کے مجاہدین نے محاصرے میں لے رکھا تھا، مگر اس امدادی فوج کے پہنچنے سے دو دن پہلے مجاہدین نے خرطوم فتح کرلیا۔ کچنر واپس مصر چلا گیا۔ جہاں اسے مصری افواج کا سپہ سالار مقرر کردیا گیا۔ ۱۸۸۵ء میں مہدی سوڈانی نے وفات پائی۔ اس کی وفات کے بعد ۱۳ سال تک مجاہدین سوڈان پر حکومت کرتے رہے۔ حکومتِ برطانیہ اس دوران میں جنگی تیاریوں میں لگی رہی اور بالآخر ۱۸۹۸ء میں کچنر پوری تیاریوں کے بعد سوڈان پر حملہ آور ہوا۔ اس مہم میں مصری فوج بھی اس کے ہم رکاب تھی کیوں کہ ۱۸۸۲ء میں مصر بھی تاج برطانیہ کے تحت آچکا تھا۔ ۲ ستمبر ۱۸۹۸ء کو کچنر نے اُمِّ درمان کے مقام پر مجاہدین کو شکست دی اور ۴ ستمبر ۱۸۹۸ء کو وہ ایک فاتحانہ شان سے خرطوم میں داخل ہوا۔ خرطوم میں داخل ہوتے ہی پہلا کام اس نے یہ کیا کہ مہدی سوڈانی کی قبر کھدوائی اور اس مردِ درویش کی ہڈیوں کو سرِ بازار نذرِ آتش کرکے اپنے اندھے بہرے جذبۂ انتقام کی دیرینہ آگ بجھائی۔ اس عظیم کامیابی پر کچنر کو لارڈ کا خطاب دیا گیا اور برطانوی پارلیمنٹ نے مجاہدینِ سوڈان کو فنا کرنے اور سوڈانیوں کو برطانیہ کا غلام بنانے کے کارنامے کے عوض اسے ۳۰ ہزار پونڈ کا خطیر انعام دیا۔ ۱۹۰۰ء میں لارڈ کچنر کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر ہندوستان کی فوجوں کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ ہندوستانی افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے اس نے اس وقت کے سخت گیر اور تند مزاج وائسرائے ہند لارڈ کرزن سے ٹکر بھی لی اور اسے نیچا بھی دکھایا۔ دراصل کمانڈر انچیف کی حیثیت سے لارڈ کچنر فوج کے انتظام کو کلیتاً اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا تھا اور اس انتظام میں کسی کی مداخلت یا ترمیم و تنسیخ اسے گوارا نہ تھی۔ چناں چہ اس کی فوجی انتظام کے سلسلے میں پیش کردہ تجاویز پر جب وائسرائے کی کونسل کے فوجی ممبر معترض ہوئے تو اس نے صاف کہہ دیا کہ میں اپنی فوجی تجاویز میں کسی قسم کا ردوبدل قبول یا برداشت نہیں کروں گا۔ وائسرائے ہند لارڈ کرزن پرانا انتظام برقراررکھنے پر مصر تھا۔ اس طرح کمانڈر انچیف لارڈکچنر اور وائسرائے ہند لارڈ کرزن میں ٹھن گئی۔ آخر یہ معاملہ وزیرِ ہند تک پہنچا۔ اس نے لارڈ کچنر کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اس کے نتیجے میں لارڈز کرزن وائسرائے کے عہدے کو خیر باد کہہ کر ۱۹۰۵ء میں واپس انگلستان چلا گیا۔ کچنر اور کرزن کے اس معرکے کو اکبر الٰہ آبادی نے اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں ایک قطعہ کا موضوع بنایا ہے ؎ کرزن و کچنر کے جھگڑوں میں جو کل وہ صنم انصاف کا طالب ہوا کہہ دیا میں نے یہ اس سے صاف صاف دیکھ لو تم، زن پہ نر غالب ہوا ۱۹۱۰ء میں لارڈ کچنر کو فیلڈ مارشل کا عہدہ ملا۔ ۱۹۱۴ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوا تو اسے جنگی کونسل کا رکن اور بعد ازاں مغربی محاذ کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ اس حیثیت میں اس نے اپنی تمام کوششیں اس ہدف پرمرکوز کردیں کہ جنگ میں برطانیہ اور اس کے اتحادی فتح سے ہمکنار ہوں۔ ان کوششوں کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اسے ۵ اگست ۱۹۱۴ء کو جنگی کونسل کا رکن بنایا گیا تھا اور اس سے اگلے ہی دن اس نے دارالعوام سے فوج کے لیے مزید پانچ لاکھ سپاہی طلب کرنے کے علاوہ ایک لاکھ رنگروٹوں کی بھرتی کے لیے اشتہار بھی دے دیا تھا۔ ۵ جون ۱۹۱۶ء کو وہ ایک اہم خفیہ مشن پر ہمپ شائر نامی بحری جہاز میں روس کی طرف روانہ ہوا۔ اُسی شام یا تو کسی جرمن آبدوز نے اسے اپنا نشانہ بنایا یا وہ جہاز کسی بارودی سرنگ سے جا ٹکرایا۔ بہرحال جہاز کے اندر ایک دھماکا ہوا اور لارڈ کچنر اس جہاز کے ساتھ ہی غرقاب ہوکر سمندر کی تہ میں پہنچ گیا۔ اس طرح مصر کی تاریخ کے دو مختلف ادوار سے تعلق رکھنے والے یہ دو کردار ایک جیسے انجام سے دوچار ہوئے۔ دونوں غرقِ دریائے شور ہوئے۔ دونوں سمندر کی آغوش میں پیاسے مر گئے۔ قبر نہ بڑے فرعون کو نصیب ہوسکی اور نہ چھوٹے فرعون کا مقدر بن سکی۔ علّامہ اقبالؒؒؒ نے مصری فرعون کی زبان سے یہ شکوہ کرایا ہے کہ اہلِ فرنگ نے زرو جواہر کے لالچ میں فراعنۂ مصر کے مقابر کھود ڈالے اور اس طرح ان کی لاشیں مختلف عجائب خانوں میں رکھی ہوئی اپنے دیکھنے والوں کو درسِ عبرت دے رہی ہیں کہ دیکھو برخود غلط بادشاہوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے تو اکا دکا طالع آزما وادیِ شاہاں میں فراعنہ کے مقبروں سے زرو جواہر یا کسی فرعون کی حنوط شدہ لاش حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن مصر پر انگریزوں کا تسلط ہونے کے بعد تو یہ کام باقاعدہ مہمّات کے تحت انجام پانے لگے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ لندن، پیرس، نیویارک، برلن اور دیگر اہم یورپی مقامات پر واقع عجائب خانے فراعنہ کے مقابر سے برآمد ہونے والی ممیوں یعنی حنوط شدہ لاشوں اور دیگر نوادرات کے لیے منہ مانگے دام دینے کو تیار رہتے تھے۔ چناں چہ یہ مہمّات ایک انتہائی نفع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گئی تھیں۔ بعض دفعہ مصری نوادرات سے دلچسپی رکھنے والے امرا کسی مہم کا سارا خرچ خود برداشت کرلیتے تھے اور بعض اوقات کسی عجائب خانے کے منتظم یا تو ایسی مہم میں سرمایہ لگانے کو تیار ہوجاتے تھے یا اس مہم سے حاصل ہونے والے نوادرات کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے پیشگی رقم دے دیتے تھے۔ ایسے مہم جوئوں اور طالع آزمائوں میں سے اکثر اگرچہ بُرے انجام سے دوچار ہوئے یا انھیں موت آئی تو نہایت عبرت ناک انداز میں آئی اور عوام الناس میں یہ تاثر پھیلتا رہا کہ انھیں فرعونوں کی بد دعا لگ گئی ہے، مگر اس تاثر کے باوجود ان کی جگہ نئے مہم جو اور طالع آزما میدان میں آجاتے تھے۔ مصری فرعون رعمیسص کی طرف سے جب اہلِ فرنگ کی اس حرص و ہوس پر مبنی روش کا شکوہ کیا جاتا ہے تو انگریزی فرعون اپنی قوم کے روّیے کی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ وضاحت کرتا ہے کہ اہلِ فرنگ کے مقاصد تو بہت بلند واقع ہوئے ہیں۔ انھوں نے فراعنۂ مصر کے مقابر کی جو کھدائی کی، وہ زرو جواہر کے لالچ میں نہیں بلکہ علم و حکمت کے فروغ کی خاطر کی تھی۔ ان کا مقصد تو یہ تھا کہ ان مقابر سے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے مصر کی قدیم تاریخ صحیح طور پر مرتب کی جاسکے۔ کچنر کا یہ عذر سراسر عذرِ لنگ تھا۔ اس نے اپنی قوم کی جو صفائی پیش کی وہ سراسر لغو تھی۔ اس نے اپنی قوم کی خباثت اور کمینگی کو خوب صورت الفاظ کے پردے میں چھپانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اس کی توجیہ دور ازکار اور خلافِ حقیقت تھی۔ چناں چہ مصری فرعون نے جب یہ اعتراض کیا کہ اچھا! ہماری قبریں تو خیر علم و حکمت کے فروغ کی خاطر کھود لی گئی تھیں مگر درویشِ مصر مہدی سوڈانی کی قبر کے اندر علم و حکمت کا کون سا خزانہ چھپا ہوا تھا جو تم نے اسے بھی کھدوا ڈالا؟ تو کچنر لاجواب ہوگیا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ ظاہر ہے کہ اس اعتراض کا اس کے پاس کیا جواب ہوسکتا تھا؟ اس نے اپنی قوم کی جو صفائی پیش کی تھی، اس کے جال میں وہ خود پھنس گیا تھا، کیوں کہ مہدی سوڈانی کی قبر کھدوا کر اور اس کی ہڈیاں سرِ بازار جلوا کر اس نے محض اپنے بہیمانہ جذبۂ انتقام کی تسکین کی تھی۔ عین اس مرحلے پر درویشِ مصر مہدی سوڈانی کی روح نمودار ہوکر کچنر سے مخاطب ہوتی ہے کہ او پیکرِ رعونت و استکبار! تو نے درویش کی خاک اڑا کر اپنے انتقام کی آگ تو بجھا لی، لیکن درویش کی خاک کا انتقام بھی دیکھا؟ تو نے تو اس کی قبر کھدوا ڈالی تھی، مگر تجھے قبر ہی نصیب نہیں ہوئی۔ تو نے اس کی ہڈیوں کو سرِ بازار جلوا کر اپنے انتقام کی پیاس بجھائی تھی مگر تیری ہڈیوں کو تو خاک کا دامن ہی نصیب نہیں ہوا۔ تیری ہڈیوں کو تو مٹی نے بھی اپنے دامن میں لینے سے انکار کردیا اور خاک کی بجائے سمندر کا پیٹ تیرا مرقد و مدفن بنا۔ قدرت اسی طرح جبّاروں، سرکشوں اور متکبّروں کو سزا دیا کرتی ہے۔ اس کے بعد مہدی سوڈانی کی روح قومِ عرب سے مخاطب ہوکر عربوں کو دینِ اسلام کی سربلندی کے لیے متحد ہونے اور متحد ہوکر جدوجہد کرنے کی تلقین کرتی ہے اور انھیں خوابِ غفلت سے جھنجھوڑتے اور غیرت دلاتے ہوئے کہتی ہے کہ تم کب تک غیروں کے غلام بنے رہو گے؟ مسلمان کے لیے ایک لمحے کے لیے بھی غیر کی غلامی ناقابلِ برداشت ہے۔ مسلمان کو تو تکالیف سے گھبرانا ہی نہیں چاہیے کہ حدیثِ پاک کے مطابق مسلمان کے لیے ’’روزِ بلا‘‘ ہی ’’روزِ صفا‘‘ ہے۔ مسلمان جنگ میں مارا جائے تو شہید ہوتا ہے اور زندہ رہے تو غازی کہلاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں اس کی جیت ہوتی ہے۔ اس طرح علّامہ اقبالؒؒؒ نے فرعون اور کچنر کی روحوں سے ملاقات کے ذریعے ایک طرف تو یہ بتایا ہے کہ سرکش، جبّار اور متکبّر بادشاہ اور حاکم کیسے کیسے عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مہدی سوڈانی کی روح کی زبانی ملّت کو اتحاد اور جدوجہد کی تلقین کی ہے تاکہ عالمِ اسلام غیروں کی غلامی سے نجات حاصل کرکے پھر سے عظمت و شوکت کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ حکایتِ سُلطان مُظفّر گجراتی کہتے ہیں کہ سُلطان مُظفّر شاہ والیِ گجرات(کاٹھیاواڑ) کے پاس ایک بیش قیمت گھوڑا تھا جسے وہ اپنے بیٹوںکی طرح محبوب اور عزیز رکھتا تھا۔ عربی نسل کا یہ سبز رنگ گھوڑا اصیل، باوفا اور حسب نسب کے ہر عیب سے پاک تھا۔ اس گھوڑے کی خوبیاں کوئی کیا بیان کرے! اُس کا سانچے میں ڈھلا ہوا جسم اور جسم کا ایک ایک بند موجبِ تسکینِ نظر تھا۔ اُس کی آنکھیں دیکھ کر غزالانِ دشت و صحرا شرماتے تھے اور اُس کی چال دیکھ کر آہو چوکڑی بھول جاتے تھے۔ میدانِ جنگ میں اس بے نظیر گھوڑے کی تیزی و طرّاری دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ کوہ و دریا سے ہوا کی طرح گزرتا تھا۔ اُس کی جُست و خیز میں شعلے کی لپک اور تگ و دو میں بجلی کی چمک تھی۔ اُس کی چستی و چالاکی بجلی کے کوندوں کو مات کرتی تھی۔ وہ دوڑتا تھا تو اُس کے سمّوں تلے آنے والے پتّھر ریزہ ریزہ ہو جاتے تھے اور اُن سے چنگاریاں نکلتی تھیں۔ ایک روز ایسا ہُوا کہ انسانوں جیسا ارجمند یہ گھوڑا بیمار ہوگیا۔ دردِ شکم نے اُسے ایسا بے حال کیا کہ وہ حرکت کرنے سے بھی معذور ہو گیا۔ بیطار نے بہت علاج کیا لیکن حیوانات کے اس طبیب کی تمام کوششوں کے باوجود اُسے شفا نہ ہوئی۔ جب اُس کے پیٹ کے درد نے کسی طرح ٹھیک ہونے کا نام نہ لیا تو بیطار نے گھوڑے کو شراب پلا دی۔ شراب سے گھوڑا دوبارہ تندرست تو ہوگیا مگر سلطان مظفّر پھر زندگی بھر دوبارہ اس گھوڑے پر سوار نہیں ہُوا۔ علاّمہ اقبالؒ نے جاوید نامہ کے آخر میں ’’خطاب بہ جاوید‘‘ کے عنوان سے ملّتِ اسلامیہ کے نونہالوں سے بطورِ خاص خطاب کیا ہے۔ اس خطاب کے ایک حِصّے میں اُنھوں نے ارشاد فرمایا ہے کہ دینِِ اسلام کی حقیقت تین باتوں میں پوشیدہ ہے۔ اوّل: صدقِ مقال یعنی ہر حال میں سچ بولنا۔دوم: اکلِ حلال یعنی جائز طریقوں سے رزق حاصل کرنا اور رزقِ حلال کھانا اور سوم: خلوت و جلوت دونوں حالتوں میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر یقین کرنا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں دین کے معاملے میں الماس کی طرح سخت ہوجانا چاہیے۔ کوئی طاقت ہمیں دین سے برگشتہ نہ کر سکے اور مداہنت یا منافقت ہمارے پاس بھی نہ پھٹک سکے۔ ہمیں اللہ ہی سے لو لگا لینی چاہیے اور ہر خوف کو دل سے نکال کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے علاّمہ اقبال سُلطان مظفر شاہ والیِ گجرات (کاٹھیاواڑ) کی حکایت قلم بند فرمائی ہے۔ یہ بادشاہ جس کا لقب حلیم تھا اور جو نہایت پابندِ شرع، متقّی اور پارسا تھا، سُلطان محمود شاہ والیِ گجرات کا فرزندِ ارجمند تھا۔ سلاطین گجرات کا تخت ۱۴۵۶ء میں سُلطان محمود کے حِصّے میں آیا تھا جب کہ اُس کی عمر محض چودہ سال تھی اور وہ ۵۵ سال نہایت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کر کے ۱۵۱۱ء میں فوت ہُوا تھا۔ سلطان محمود شاہ نہایت پابندِ شرع اور خُدا ترس بادشاہ تھا۔ شجاعت، سخاوت، بُردباری، حیا اور فراست اُس کے نمایاں اوصاف تھے اور اُس کی زبان ساری عمر کسی کلمۂ بد سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ سُلطان محمود شاہ کی تقریباً ساری عمر جنگ و جدل میں بسر ہوئی تھی مگر اُس نے کسی ایک معرکے میں بھی شکست نہیں کھائی تھی۔ جونا گڑھ اور پاوا گڑھ کے ناقابلِ تسخیر قلعوں کو فتح کر کے اُس نے اپنی شجاعت و دلیری کا سِکّہ سارے ہندوستان میں بٹھا دیا تھا۔ ان ہی قلعوں کی تسخیرکی بنا پر اُس نے بے گڑھا یعنی ’’دو قلعوں والا‘‘ کا لقب پایا، جو کثرتِ استعمال سے بیگڑا ہوگیا۔ سُلطان محمود شاہ اس قدر بھاری زرہ بکتر پہنتا تھا کہ طاقت ور سے طاقت ور پہلوان بھی اُسے بمشکل اُٹھا سکتا تھا اور وہ ایک سو ساٹھ تیروں کا ترکش کمر سے باندھتا تھا۔ نیزہ زنی میں اُس کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ تین نیزوں ہی میں اُس نے ایک مست ہاتھی کا مُنہ پھیر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ سلطان محمود شاہ اشاعت و تبلیغِ اسلام کا بھی شائق تھا۔ وہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال بُخاری کے پوتے حضرت شاہ عالمؒ کا مرید تھا۔ شاہ عالم اُس کے حقیقی خالو بھی تھے، اسی لیے اُس نے بچپن میں اُن ہی کی آغوش میں پرورش پائی تھی۔ یہ اسی فیضِ صحبت کا اثر تھا کہ سُلطان محمود شاہ نے ساری عمر تبلیغ و اشاعتِ اسلام میں بسر کی اور آج گجرات کاٹھیاواڑ کے علاقے میں جس قدر مسلمان نظر آتے ہیں، اُن کے آبائو اجداد کی اکثریت نے سُلطان محمود شاہ کی تبلیغی کوششوں سے اسلام قبول کیا تھا۔ تبلیغ و اشاعتِ اسلام سے سُلطان محمود شاہ کی دل چسپی اور شغف کا یہ حال تھا کہ جتنا عرصہ دارالحکومت احمد آباد میں قیام کرتا، ہر روز عصر کی نماز کے بعد احمدآباد کے مانک چوک میں آکھڑا ہوتا تھا اور خود اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ہندوئوں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا۔ تمام امیر، وزیر اور درباری دست بستہ اس کے پیچھے کھڑے رہتے تھے۔ وہ اسلام کی خوبیاں کچھ ایسے پیارے انداز میں بیان کرتا تھا کہ اُس کی تقریر کے بعد بہت سے ہندو اسلام قبول کر لیتے تھے۔ سُلطان مظفرشاہ جس کی حکایت علاّمہ اقبالؒ نے بیان کی ہے، اس ہمہ صفت موصوف بادشاہ سلطان محمود شاہ کا نُورِ نظر تھا اور دین داری و خداترسی میں اپنے باپ کی تصویر تھا۔ سُلطان محمود خلجی حُکمرانِ مالوہ نے جب سُلطان مظفّر شاہ کو راجپوتوں کے مقابلے میں اپنی مدد کے لیے بُلایا تو سُلطان مظفّر شاہ نے بروقت امداد کی اور راجپوتوں کو شکست دینے کے بعد مملکتِ مالوہ دوبارہ سلطان محمود خلجی کے حوالے کر دی۔ سُلطان محمود خلجی سُلطان مظفر شاہ کی اس عالی ظرفی اور شرافتِ نفس سے اس قدر متاثر ہوا کہ اُس نے ہاتھ باندھ کر کہا کہ آپ میرے باپ کی جگہ ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہُوں کہ آپ مانڈو چل کر غریب خانہ کو رونق بخشیں۔ مانڈو جس کا نام اس زمانہ میں شادی آباد تھا۔ مالوہ کا دارالحکومت تھا اور علم و فن کا مرکز تھا۔ وہاں کی عمارتیں دلّی، آگرہ اور لاہور کی عمارتوں کا مقابلہ کرتی تھیں۔ مانڈو کا قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہُوا تھا اور اس کا محیط ۲۳ میل کے قریب تھا۔ اس کے اندر شاہی محلاّت، مقابر، مساجد اور باغات بنے ہوئے تھے۔ سُلطان مظفر شاہ نے اس کی درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا اور اپنے امیروں، وزیروں کے ساتھ مانڈو آیا۔ سلطان محمودخلجی نے تعظیم و تکریم اور خاطر مدارات میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور رات کے کھانے کے بعد ایک ہزار کنیزیں سلطان مظفر شاہ کی خدمت میں پیش کیں، مگر اُس نے یہ کہہ کر اپنے میزبان کو حیران کر دیا کہ ان سب کنیزوں کو واپس بھیج دو، مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ہے۔ سُلطان مظفر شاہ ۱۵۱۱ء میں تخت نشین ہُوا تھا اور اُس نے ۱۵۲۶ء تک حکومت کی۔ اس سارے عرصے میں اُس کا معمول یہ رہا کہ فرصت کے اوقات میں قرآن مجید کی کتابت کیا کرتا تھا۔ اُس کے مزاج میں نرمی بہت زیادہ تھی۔ وہ کبھی کسی شخص پر غضب ناک نہیں ہوا، اس لیے اُس کا لقب ’’حلیم‘‘مشہور ہو گیا تھا۔ علاّمہ اقبالؒ نے اس حِلم خُو بادشاہ کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ اُس کے پاس عربی نسل کا ایک نہایت عمدہ اور بیش قیمت گھوڑا تھا، جسے وہ فرزندوںکی طرح عزیز رکھتا تھا۔ ایک بار وہ گھوڑا دردِ شکم میں مُبتلا ہو گیا تو بیطار نے علاج کے طور پر گھوڑے کو شراب پلادی۔ گھوڑا تو تن درست ہوگیا مگر اس کے بعد سُلطان مظفر شاہ نے کبھی اس گھوڑے پر سواری نہیں کی۔ وہ زندگی میں صدقِ مقال اور اکلِ حلال کے اصول پر کاربند تھا۔ اُس کے احساسِ دین داری اور پابندیِ شرع کے جذبے نے یہ گوارا نہ کیا کہ جس گھوڑے کے پیٹ میں شراب جیسی حرام چیز داخل ہوچکی ہے، وہ اس پر ایک بار بھی سواری کرے۔ مردِ مسلمان خداا ور رسول کے احکام کی اطاعت میں ایسی ہی غیر معمولی احتیاط کا ثبوت دیتا ہے۔ حرام سے اُس کے اجتناب کا یہ حال ہے کہ وہ حرام کے قریب بھی نہیں پھٹکتا اور اگر اُس کے گھوڑے میں کوئی حرام شے بطورِ دوا بھی چلی جاتی ہے تو وہ اس گھوڑے کی سواری اپنے لیے حرام کر لیتا ہے۔ مردِ مسلمان کا یہی غیر معمولی جذبۂ اطاعت اور کیفیتِ تقویٰ ہے، جس کی طرف علاّمہ اقبالؒ نے ہمیں اس حکایت کے ذریعے متوجہ کیا ہے۔ تا کہ تمام مسلمان بالعموم اور نونہالانِ ملّتِ اسلامیہ بالخصوص اپنے اندر اطاعت و تقویٰ کی یہ شان پیدا کر سکیں۔