تاریخ تاریخِ ہند از ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ایم اے ، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لاء لالہ رام پرشاد صاحب، ایم اے پروفیسر ہسٹری، گورنمنٹ کالج لاہور ۱۹۱۳ئ؁ فہرست مضامین ٍ۱- ۹ حصہ نثر دیباچہ یہ مختصرتاریخ اُنہیں اصول پر لکھی گئی ہے۔ جن پر ہندوستان کی بڑی بڑی تاریخیں مبنی ہیں اور طلبہ کو اعلیٰ جماعتوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ واقعات ِ تاریخی کی صحت میں بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔ واقعات کے اسباب بیان کیے ہیں اور سوچنے اور نتائج صحیح پر پہنچنے کے لیے طالب علموں کے واسطے سامان مہیا کیا گیا ہے۔ انگریزی راج کے خاص خاص انتظامات کی کامیابی یا ناکامی پر بھی نظر ڈالی ہے۔ ہاں جن امور میں اختلاف رائے ہے۔ اُن پر خواہ مخواہ رائے زنی نہیں کی گئی۔ اصلی کتاب میں ہر ایک باب کے خاتمے پر مستند تاریخوں کے نام دیے ہوئے ہیں۔ جن میں سے مضمون لیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ وہ کتب اکثر انگریزی ہیں۔ اردو میں اُن کے نام لکھنے لا حاصل تھے۔ انگریزی کتاب میں فرنگستانی تاریخ کے حوالے اور فرنگستانی نام بھی اکثر آجاتے ہیں۔ وہ اُردو خواں طلبہ کی آسانی کے لحاظ سے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بعض بعض جگہ مطالب کی تشریح کر دی ہے۔ غرض کوشش یہ کی ہے کہ تاریخ ہندوستان کی کہانی عام فہم عبارت میں دلچسپ طور پر طالب علموں کے سامنے پیش کی جائے۔ جس میں نہ غیر معروف واقعات کی بھرمار ہو۔ نہ لمبی چوڑی تفصیلات ہوں۔ بلکہ کہانی کے طور پر طلبہ لطف لے لے کر پڑھا کریں اور صحیح واقعات تاریخی سے واقف ہو جائیں۔ سرکاری پالیسی کی نسبت بھی غلط خیال دور کرنے میں یہ کتاب بہت کچھ مدد دیگی۔ مختصر تاریخِ ہند ________________ پہلا باب ہندوئوں کا زمانہ پہلی فصل ۔ ملک ہند اور اُس کی طبعی ہئیت ۱- وسعت اور حدود صوبۂ برما کو چھوڑ کر باقی ملک ہند کی نسبت ہم عموماً یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ ملک ہے جو کوہ ہمالیہ اور بحر ہند کے درمیان واقع ہے۔ مغرب میں برٹش بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے لے کرآسام کی مشرقی حد تک اس ملک عرض ایک ہزار آٹھ سو میل ہے اور شمال میں پشاور سے لے کر ہند کی نہایت جنوبی حد راس کماری تک طول بھی تقریباً اتنا ہی ہے۔ ان حدود کے اندر کے علاقے کا رقبہ پندرہ لاکھ ستاسی ہزار مربع میل سے زیادہ ہے اور اگر اس میں برما کا علاقہ بھی شامل کیا جائے تو سلطنت ہند کا کل رقبہ اٹھارہ لاکھ مربع میل کے قریب ہو جاتا ہے۔جو کل سلطنت انگلشیہ کی چوتھائی کے قریب ہے۔ اس ملک کی حدود اربعہ یہ ہیں۔ شمال میں سلسلۂ کوہ ہمالیہ جو دنیا بھر میں سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ اسی پہاڑ کی گھاٹی سے ایک طرف تو دریائے سندھ پنجاب کے شمالی کونے میں ۷۲ درجے طول بلد مشرقی کے قریب نکلتا ہے۔ دوسری طرف دریائے ویہانگ جو برہم پُتر کی ایک بری شاخ ہے۔ آسام کے شمال مشرق میں ۹۵ درجے ۳۰ چانئے طول بلد مشرقی کے قریب اس سلسلۂن کوہ سے نکلتا ہے اور ان دونو مقاموں کے درمیان ایک لگاتار فاصلِ آب چلا گیا ہے۔ جس کی بلندی سطحِ سمندر سے بحساب اوسط اُنیس ہزار فٹ ہے اور طول چودہ سو میل ہے۔ کوہِ ہمالیہ کی سب سے اونچی چوٹی گوری شنکر ہے۔ جو سطح بحر سے ۲۹۰۰۲ فٹ بلند ہے۔ دریائے سندھ کے مغرب میں پشاور کے قریب درۂ خیبر ہے۔ جہاں سے ایک راستہ سلسلۂ کوہ سفید کی شمال کی جانب دشوار گزار گھاٹیوں میں سے ہو کر جلال آباد اور کابل کو جاتا ہے۔ کوہ سفید کے جنوب میں درۂ کُرم ہے اور یہاں سے بھی ایک سڑک کابل کو جاتی ہے۔ جو نہایت ہی خراب اور پہاڑی علاقے میں سے ہو کر پیوار کو تل اور درۂ شتر گردن کی مشہور چڑھائیوں کے پاس سے گزرتی ہے۔ کوہ سلیمان دریائے سندھ کے مغرب میں شمالاً جنوباً اس دریا کے متوازی چلا گیا ہے اور شمال مغربی سرحدی صوبے کے میدانوں کو کابل کی سطح مرتفع اور سیستان سے جدا کرتا ہے۔ اس کی سب سے اونچی چوٹی تخت سلیمان ہے۔ جس کی بلندی بارہ ہزار فٹ سے کم ہے۔ جنوب کی طرف اس پہاڑ کی بلندی اور بھی کم ہوتی گئی ہے۔ یہاں تک کہ آخر کار اُس کا رُخ مغرب کو ہو گیا ہے اور میدا درۂ بولان تک پھیلا ہوا ہے۔ اُس کی سر حد کے برابر برابر جا کر اُس کے ہم سطح ہو گیا ہے۔ اسی درے میں سے ہو کر جنگی اور تجارتی سامان کے لیے ایک بڑی سڑک ہند سے برٹش بلوچستان کے شہر کوئٹہ اور شہر قندھارو ہرات اور عموماً سارے مغربی ایشیا کو جاتی ہے۔ اسی درۂ بولان سے سلسلۂ کوہ ہالہ شروع ہوتا ہے۔ جو دریائے سندھ کی وادی کے برابر برابر مغرب کی جانب تقریباً سمندر تک چلا گیا ہے۔ کراچی سے راس کماری تک ہند کے مغرب اور جنوب مغرب میں بحر ہند واقع ہے اور راس کماری سے برما کی حدود تک ہند کے مشرق اور جنوب مشرق میں خلیج بنگالہ ہے۔ برما کے جنوب مغرب میں خلیج بنگالہ ہے ۔ اس کے شمال اور شمال مغرب میں وہ سنسان پہاڑی علاقہ ہے جس کے بعض حصوں کا حال ابھی تک پورا پورا دریافت نہیں ہوا اور یہ پہاڑی علاقہ برما کو آسام اور تبت سے جدا کرتا ہے اور شمال مشرق اور مشرق میں بھی ایسے ہی پہاڑ اس کو چین اور سیام سے جدا کرتے ہیں۔ ۲- ہند کے دو بڑے حصے برما کے علاقے کو چھوڑ کر باقی ہندوستان خاص دو حصوں پر منقسم ہے۔ جن کو عام بول چال میںہندوستان اور دکن کہتے ہیں۔ ان حصوں کو سطوحِ مرتفع کا وہ سلسلہ جدا کرتا ہے۔ جو جزیرہ نمائے ہند کے شمالی حصے میں تقریباً ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک خطِ سرطان کے عین جنوب کو ملک کے سارے طول میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ سطوح مرتفع ہند میں نہایت مشہور فاصل آب ہیں۔ ان کے شمالی اطراف کا پانی بہ کر دریائے نربدا اور گنگا میں جا ملتا ہے اور جنوب کی جانب کا دریائے ٹاپٹی، مہاندی اور بعض اور چھوٹی چھوٹی ندیوں میں جا گرتا ہے۔ اس کا عام رُخ جنوب مغرب سے شمال مشرق کی طرف ہے۔ مغرب میں دریائے نربدا اور ٹاپٹی کے طاسوں کے مابین اس سطح مرتفع کو کوہ ست پُڑا کہتے ہیں اور مشرق کی طرف یہ سطح چُٹیا ناگہور اور ہزاری باغ واقع بنگال کی سطح مرتفع سے جا ملتی ہے۔ آگے چل کر یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اس سطح مرتفع کا مغربی حصہ ہند کی دو بڑی قوموں کے درمیان ایک حد ہے ۔ یعنی اس کے شمال کی طرف ہندی زبان بولنے والے لوگ رہتے ہیں اور جنوب میں مرہٹی بولنے والے ۔ ان تمام وجوہات سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سطوح مرتفع کے اس سلسلے کو شمالی اور جنوبی ہند کی حد سمجھا جائے اور اسی سبب سے ان حصوں کو عام لوگ بول چال میں ہندوستان اور دکن کہتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ الفاظِ ہندوستان اور دکن کا استعمال مبہم اور غیر محدود طور پر ہوتا ہے۔ فرنگستان کے جغرافیہ دان لفظِ ہندوستان سے بعض اوقات تمام ہند مراد لیتے ہیں۔ مگر بعض اوقات اس اصطلاح کا اطلاق صرف دریائے گنگا کی بالائی وادی پر کیا جاتا ہے۔ جہاں ہندی بولنے والی قومیں آباد ہیں۔ جب اس اصطلاح کو دکن کے مقابل بولتے ہیں تو اس سے عموماً مراد جنوبی ہند کے مقابلے میں شمالی ہندسے لی جاتی ہے۔ ان دونوں حصوں کو جدا کرنے والی سطح مرتفع کی نسبت بھی مختلف خیال ہیں۔ بعض اوقات یہ حد دریائے نربدا سمجھی جاتی ہے ۔ بعض اوقات وہ سطح مرتفع جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور بعض اوقات کو ہِ بندھیاچل جو وادی نربدا کی شمالی حد ہے۔ اسی طرح لفظِ دکن سے بھی بعض اوقات تو جنوبی ہند کی بڑی سطح مرتفع کے شمالی حصے سے مراد لی جاتی ہے اور بعض اوقات خاص نظام حیدر آباد کی باجگزار ریاست سے اور دونوں وسعت میں تقریباً برابر سمجھے جاتے ہیں ۔ ہند کے سارے قدیم مُورخ کوہ بندھیاچل کو ہندوستان اور دکن کی حد خیال کرتے ہیں۔ ۳- شمالی ہند کی قدرتی تقسیم شمالی ہند اُس وسیع میدان کا نام ہے جس میں مفصّلہ ذیل علاقے شامل ہیں۔ اول مغرب کی طرف دریائے سندھ کا طاس یا بیسن اور تھر یعنی ہند کا صحرائے اعظم۔ دوم مشرق اور وسط میں وہ علاقہ جو دریائے گنگا اور اس کے معاونوں سے سیراب ہوتا ہے۔ اُس میں زمانہ حال کے یہ صوبے شامل ہیں۔ صوبجات متحدہ اودھ و آگرہ۔ بہار ۔ بنگالہ ۔ راجپوتانے اور وسط ہند کی ایجنٹی کے حصے (دیکھو ضمیمۂ حصہ اول)۔ سوم انتہائے مشرق میں وہ دو وادیاں جو دریائے برہم پُتر اور اس کے معاونوں کا طاس ہیں۔ اس علاقے کو آج کل آسام اور مشرقی بنگالہ کہتے ہیں۔ ہند کے اس بڑے میدان کے شمال و مغرب میں ہمالیہ اور سلیمان کے سلسلہ ہائے کوہ واقع ہیں اور اُس کے مغربی اور وسطی حصوں میں سے بعض کے جنوب میں مالوہ اور بگھیل کھنڈ کی سطح مرتفع واقع ہے۔ جس کو دریائے نربدا کی وادی۔ لوہ ست پُڑا اور دیگر وسطی پہاڑوں کے سلسلے سے جدا کرتی ہے۔ ۴- شمالی ہند کی مصنوعی تقسیم پنجاب میں نواب لفٹنٹ گورنر صاحب کا کام بہت بڑھ گیا تھا۔ سرحد کی طرف سے ہمیشہ فکر لگا رہتا تھا ۔ امیر کابل سے دوستی تو تھی۔ مگر پٹھانوں میں سے کوئی نہ کوئی برسر پرخاش رہا کرتا تھا۔ اس لیے لڑائیوں کی تکلیف ہمیشہ رہا کرتی تھی۔ اس کے رفع کرنے کے لیے دریائے سندھ کے پار کے چند علاقے اکٹھے کر کے ایک نیا صوبہ بنایا گیا اور اس صوبے کی حکومت ایک چیف کمشنر کے سپرد کی گئی۔ اب وہاں خاطر خواہ امن ہو گیا ہے۔ اس صوبے کا دارالخلافہ پشاور قرار پایا ہے۔ اس صوبے میں کئی نئے مدرسے بن گئے ہیں۔ زراعت میں ترقی ہو گئی ہے اور سرکاری آمدنی ہر طرح سے بڑھ رہی ہے۔ صوبۂ بنگال میں بھی کام بہت بڑھ گیا تھا۔ اس لے لارڈ کرزن نے وہاں بھی یہی تجویز کی کہ اس کے دو حصے کیے جائیں۔ ایک آسام اور مشرقی بنگال اور دوسرا بنگال کہلایا۔ یہ انتظام ۱۶ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو کیا گیا۔ اس پر بنگالیوں نے بڑا شور مچایا اورسودیشی اشیا کا استعمال شروع کر دیا۔ کچھ دیر تو بڑا جھگڑا رہا اور انگریزی اشیا کی تجارت میں بھی کسی قدر کمی ہو گئی۔ مگر آہستہ آہستہ امن چین ہو گیا۔ ۵- شمالی ہند کے میدان شمالی ہند کے بڑے میدان میں وادیٔ سندھ اور تھر یعنی ہند کا صحرائے اعظم اور وادیٔ گنگا واقع ہے۔ یہ حصے ایک دوسرے سے ملے جُلے ہیں اور ظاہراً طور پر کسی طرح ان کی تمیز نہیں ہو سکتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گو ان دو بڑے دریائوں کے فاصل آب کی بلندی دہلی کے شمال میں کسی جگہ پر سطح سمندر سے آٹھ سو سے لے کر ایک ہزار فٹ تک ہے۔ مگر اس کے دونوں طرف ڈھلان اس قدر بتدریج کم ہوتا جاتا ہے کہ نظر بھی نہیں آتا۔ اس میدان کے مغربی حصے میں یہ علاقے ہیں۔ اول دریائے سندھ اور اس کے معاونوں کی وادی۔ دوم کَچھ کی شور دلدلیں۔ سوم صحرا کا ریگ رواں اور چٹیل میدان۔ جس میں سندھ کا بہت سا حصہ پنجاب کا جنوبی حصہ اور مغربی راجپوتانہ واقع ہیں اور چہارم راجپوتانے میں اس صحرا کا جنوب مشرقی کنارہ جو بہت بنجر نہیں ہے۔ کیونکہ اُس میں بارش بھی ہو جاتی ہے اور دریائے لونی اس کو سیراب کرتا ہے۔مگر بہ ہئیت مجموعی یہ سارا علاقہ خشک ہے اور بہت سے حصے میں بارش کا ایک قطرہ نہیں پڑتا۔ پنجاب کے پانچوں دریا مل کر ایک معاون بن جاتے ہیںاور مقام مٹھن کوٹ پر سندھ میں جا گرتے ہیں۔ اور انہیں پانچوں دریائوں کی وجہ سے اس ملک کا نام پنجاب پڑ گیا ہے۔ یہ تمام دریا ہمالیہ کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔ اور پنجاب میں جنوب مغربی رُخ کو بہتے ہیں۔ ان کے نام ترتیب وار یہ ہیں۔ ستلج جو سب سے بڑا اور سب سے جنوب میں ہے ۔ بیاس جو سب سے چھوٹا ہے۔ راوی جس پر لاہور واقع ہے۔ چناب جو سب سے چوڑا ہے اور جہلم جس میں کشمیر کا سارا پانی بہہ کر مل جاتا ہے ۔ پنجاب کے میدانوں کا رُخ ہمالیہ سے سمندر کی طرف شمال مشرق سے جنوب مغرب کو ہے۔ ان دریائوںکے درمیان کے قطعاتِ خشکی کو دو آبہ کہتے ہیں۔ اور ان کی زمین بانگر اور کھادر کی قسم کی ہے۔ کھادر وہ زرخیز زمین ہوتی ہے جو دریا کے کنارے کنارے طغیانی کی حد سے نیچے واقع ہے اور اُس کے اندر اندر دریا اپنا گزر گاہ ہر سال بدلتا رہتا ہے۔ بعض اوقات تو اپنے پُرانے راستے سے کئی میل دور جا پڑتاہے ۔ بانگر دریائوں کے درمیان کی اُس اونچی زمین کا نام ہے۔ جو عموماً خشک اور بنجر ہوتی ہے۔ اس پر نباتات بہت نہیں ہوتی۔ صرف کہیں کہیں جھاڑیاں ہوتی ہیں۔ مگر پنجاب کے شمالی اور کم خشک حصے کی بانگر زمیں میں گہیوں کی عمدہ فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ دریائے گنگا اور اس کے معاونوں سے تین لاکھ اکانوے ہزار مربع میل رقبہ سیراب ہوتا ہے۔ دریائے سندھ کی وادی کا رقبہ اس رقبے سے بیس ہزار مربع میل کم ہے۔ دریائے گنگا ہمالیہ سے ہر دو ار کے قریب نکلتا ہے اور جنوب مشرقی سمت میں بہہ کر خلیج بنگالہ میں جا گرتا ہے۔ اس کی کل لمبائی پندرہ سو میل کے قریب ہے۔ جمنا دریائے گنگا میں مقامِ الٰہ آباد پر جا ملتی ہے اور اس مقام سے اوپر اوپر جمنا اتنی بڑی ہے کہ اُسے معاون نہیں بلکہ بڑا دریا سمجھنا مناسب ہے۔ آگرہ۔ متھرا اور دہلی اس کے کناروں پر بستے ہیں ۔ دریائے گنگا اور جمنا کی نہایت ہی زرخیز درمیانی قطعے کو دوآبہ کہتے ہیں۔ یہ ہند کے تمام دوآبوں میں نہایت مشہور دوآبہ ہے۔ گنگا کے اور مشہور معاون یہ ہیں۔ جنوب میں مالوہ کی طرف سے چنبل۔ بھوپال اور بندھیل کھنڈ کے طرف سے بیتوا اور وسطِ ہند کی طرف سے سون۔ سمال میں اودھ کی طرف سے گوبتی ۔ نیپال کی طرف سے راپتی۔ گندک اور کوسی اور سکم کی طرف سے تِشٹا +گنگا کا مشہور ڈلٹا مرشد آباد کے قریب ایک مقام ایک مقام سے شروع ہوتا ہے اور اس سے نیچے گنگا کی کئی شاخوں کا رُخ مدتوں سے بدلتا چلا آتا ہے ۔ ان شاخوں میں سے سب سے بڑی کانام آج کل پدما ہے۔ جس کو اب بھی بعض اوقات گنگا کہہ دیتے ہیں۔ قدیم زمانے میں بڑی شاخ کا نام بھاگیرتھی تھا۔ مگر اب وہ بہت چھوٹی سی شاخ رہ گئی ہے۔ اور کئی اور شاخوں کے ساتھ مل کر دریائے ہگلی کے نام سے مشہور ہے۔ جس پر کلکتہ آباد ہے۔ گنگا کے ڈلٹے اور اس کے متصل برہم پُتر کے ڈلٹے سے دریائوں کا وہ عجیب و غریب جال بچھا ہوا ہے جس کے سبب آسام اور مشرقی بنگال مشہور ہے۔ ۶- شمال مشرقی وادیاں دریائوں کے اس جال سے مشرق کی طرف دو نو برآمد میدان اُن پہاڑوں کی قطاروں میں واقع ہیں ۔ جو سلسلۂ کوہ ہمالیہ کو جزیرہ نما ئے برما کے سلسلۂ کوہ سے ملحق کرتے ہیں۔ ان دونوں میدانوں سے جو زیادہ شمال کی طرف ہے وہ برہم پُتر کا میدان ہے۔ جسے آسام کہتے ہیں۔ یہ طول میںزیادہ مگر عرض میں کم ہے۔ اس کے شمال میں ہمالیہ اور جنوب میں گارو۔ کھاسی اور ناگا کی پہاڑیوں کی زیریں سطح مرتفع ہے۔ دوسری وادی دریائے سُرما کی ہے۔ جس میں کچھار اور سلہٹ کے ضلعے واقع ہیں۔ اس کا عرض طول کی نسبت زیادہ ہے اور اس میں کہیں کہیں دلدلیں بھی ہیں۔ یہ وادی گارو۔ کھاسی اور ناگا کی پہاڑیوں کو علاقہ ٹپڑہ اور لوشائی سے جدا کرتی ہے۔ آسام کی وادی چائے کا گھر ہے۔ اس کی سطح بالکل ہموار ہے۔ صرف کہیں کہیں سطح مستوی پر مخروطی پہاڑیاں واقع ہیں۔ جن کی بلندی کسی کسی جگہ یکا یک دوسو فٹ سے سات سو فٹ تک ہو گئی ہے۔ بہت سے دریا اس میدان سے بہہ کر دریا برہم پُتر میں جا ملتے ہیں۔ یہاں بارش بہت ہوتی ہے۔ ۷- سطح مرتفع مالوہ مالوہ اور بگھیل کھنڈ کی بڑی سطح مرتفع میں وہ قطعہ شامل ہے۔ جس کے شمال میں دریائے گنگا کا میدان ۔ شمال مغرب میں ہند کے صحرائے اعظم کا نیم زرخیزحاشیہ جس کو دریائے لونی سیراب کرتا ہے۔ جنوب میں وادیٔ نربدا اور جنوب مشرق میں دریائے گنگا کے معاون سون کی وادی ہے۔ اس کا ڈھلان کو ہ بندھیا چل سے جو اُس کی جنوبی دیوار ہے۔ دریائے گنگا کے میدان تک تقریباً بالکل شمال کو ہے۔ اس سطح مرتفع کا سار پانی بہہ کر دریائے گنگا میں آ پڑتا ہے۔ صرف جنوب مغرب میں ایک چھوٹے سے قطعے کا پانی دریائے مہی میں جا ملتا ہے۔ مہی ایک گم نام سا دریا ہے۔ جو خلیج کھمبایت میں گرتا یہے۔ اردلی پربت جو راجپوتانے کے بیچو بیچ جنوب مغربی گوشے سے لے کر دہلی کے قریب تک چلا گیا ہے۔ اس سطح مرتفع کے مغرب اور شمال مغرب میں دیوار کی مانند کھڑا ہے۔ اس پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی کوہ آبو پانچ ہزار فٹ سے زیا دہ بلند ہے ۔ اس سطح مرتفع کی زمین میں بہت نشیب و فراز پائے جاتے ہیں ۔ کہیں کہیں پہاڑیاں بھی ہیں۔ جن میں سے سب سے بلند پہاڑی کی اونچائی دو ہزار پانچ سو فٹ سے زیادہ نہیں ہے۔ اس سطح مرتفع اور وسطی پہاڑ ست پُڑا کے مابین نربدا کی تنگ اور لمبی وادی ہے۔ یہ دریا مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہوا بھڑوچ کے پاس بحیرۂ عرب یا بحر ہند میں جا گرتا ہے۔ ۸- جنوبی ہند کی قدرتی تقسیم ہند کا جو حصہ ست پُڑا سے جنوب کو ہے وہ مثلث کی سی شکل کا ایک جزیرہ نما ہے۔ اس مثلث کا راس تو راس کماری ہے اور قاعدہ ست پُڑا اور اس کے پاس کے پہاڑ ہیں۔ اس کا مشرقی ضلع خلیج بنگالہ پر ہے۔ جسے ساحل کورو منڈل کہتے ہیں اور مغربی ضلع بحر ہند پر ہے جسے ساحل مالا بار کہتے ہیں۔ یہ سارا علاقہ اندر سے ایک وسیع سطح مرتفع ہے۔ جسے دکن اور میسور کی سطح مرتفع کہتے ہیں اور اس کی شکل تکون کی سی ہے۔ اس کا قاعدہ اور ضلعے جنوبی ہند کے مثلث کے قاعدے اور ضلعوں کے متوازی ہیں۔ اس سطح مرتفع کے شمال مغربی حاشیے پر ٹاپٹی کی وادی ہے اور مغرب میں وہ گرم مرطوب اور کسی قدر ناہموار تنگ قلعہ ہے۔ جو مغربی گھاٹ اور بحر ہند کے درمیان واقع ہے۔ مشرق میں مشرقی گھاٹ اور خلیج بنگالہ کے درمیان پست زمین کا ایک قطعہ ہے۔ جس کی آب وہوا گرم ہے اور جس کا طول مختلف مقامات میں مختلف ہے۔ مگر عام طور پر اس کا عرض مغربی قطعے کے عرض سے زیادہ ہے۔ جنوب میں مثلث کے راس سے پرے وہ پہاڑی علاقہ ہے۔ جس راس کماری تک پھیلا ہوا ہے۔ ۹- دکن اور میسور کی سطح مرتفع جزیرہ نمائے ہند کے وسطی اور غربی حصے میں کو ست پُڑا اور سطح مرتفع دکن کے درمیان ٹاپٹی اور اس کے معاون پورنہ کی وادیاں واقع ہیں۔خاندیس اور برار کے عمدہ میدان جو رُوئی کی پیداوار کے باعث مشہور ہیں۔ یہی وادیاں ہیں ۔ دریائے پورنہ کی وادی کے سرے پر برار کے میدان آہستہ آہستہ دریائے گوداوری کے معاونوں کے میدانوں سے جا ملتے ہیں۔ یہ میدان دریائے گوداوری سے اتنہائے جنوب تک پھیلے چلے گئے ہیں اور مل مِلا کر ایک بڑی ڈھلان بن جاتی ہے جو سطح مرتفع دکن میں سب سے پست علاقہ ہے۔ مشرق کی طرف خلیج بنگالہ کے کنارے کنارے اڑیسہ تک ایک بہت بڑا کوہستانی علاقہ چلا گیا ہے۔ جس کو مہاندی اور اُس کے معاون سیراب کرتے ہیں۔ اُس میں ممالک متوسط کا بڑا حصہ۔ چھوٹا ناگ پور کا جنوبی حصہ اور اُڑیسہ شامل ہیں۔ دریائے مہاندی کی بری شاخ ان پہاڑیوں کے کٹک کے نزدیک ایک تنگ گھاٹی میں سے اپنے دہانے کے قریب ہی نکلتی ہے۔ اس کا دہانہ اُس برآمد میدان کا ایک حصہ ہے۔ جو پھیلتے پھیلتے دریائے گنگا کے ڈلٹے سے جا ملتا ہے۔ مغربی گھاٹ اس سطح مرتفع کی مغربی حد ہے اور مشرقی گھاٹ (جو مغربی گھاٹ سے پست ہے اور اُ س جیسا لگا تار چلا بھی نہیں گیا) اس کی مشرقی حد ہے۔ اس جزیرہ نما کے بڑے بڑے دریا مغربی گھاٹ کے قریب سے نکل کر مشرق کی طرف بہتے ہوئے مشرقی گھاٹ میں سے گزرتے ہیں۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس ملک کی عام ڈھلان مغربی گھاٹ سے خلیج بنگالہ کی طرف مشرق کو ہے اور مشرقی گھاٹ پر جا کر یہ ڈھلان کم و بیش دفعتہ سیدھی نیچے کو چلی جاتی ہے۔ اس لیے اگر دکن کو مغرب سے مشرق کی طرف یعنی بحر ہند سے خلیج بنگالہ کی طرف عموداً کاٹا جائے تو اُس کی شکل مندرجہ ذیل ہو گی: دریائے گوداوری اور اُس کے معاونوں کے طاس میں جن میں زیادہ مشہور واردھا اور دین گنگا ہیں۔ سطح مرتفع دکن کا وہ وسیع پست علاقہ شامل ہے۔ جو ناگ پور میں ایک ہزار فٹ کی بلندی سے اُترتے اُترتے سطح سمندر تک پہنچ گیا ہے۔ ایک چوڑا اور پست علاقہ دریائے کرشنا اور اُس کے معاون بھیما اور تنگ بھدرا کے طاسوس سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ پست علاقہ میسور کی جنوبی سطح مرتفع کو جس میں بنگلور تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ دکن خاص کی شمالی سطح مرتفع سے جدا کرتا ہے۔اس سطح مرتفع کے وسطی حصے پر سوائے اُن قطعات کے جہاں باقاعدہ کاشت ہوت ہے۔ صرف گھاس ہی اُگتی ہے۔ زمین بھی نا ہموار ہے او ر کہیں کہیں ننگی پہاڑیاں اور اکیلی کھری ہوئی چوٹیاں ہیں۔ کرشنا کی نا ہموار وادی کا بھی یہی حال ہے۔ مدراس کے ذرا جنوب سے مشرقی گھاٹ مغرب کو مُرط گیا ہے اور میسور کی سطح مرتفع کی سر حد بنا ہوا ہے اور جس مقام پر یہ مغربی گھاٹ سے جا ملتا ہے۔ وہاں بنلگری پربت کی بلند تکونی سطح مرتفع واقع ہے۔ جس کی سب سے اونچی چوٹی ڈوڈا بٹ سطح سمندر سے ۸۶۴۰ فت کے قریب بلند ہے۔ نیلگری کے جنوب میں وہ فراخ و پست علاقہ ہے۔ جسے درۂ پال گھاٹ کہتے ہیں۔ یہ علاقہ جس کی زیادہ سے زیادہ بلندی ۱۵۰۰ فٹ ہے۔ جزیرہ نمائے ہند کے ساحل کے پست مشرقی کنارے کو پست مغربی کنارے سے وصل کرتا ہے۔ اور نیلگری پربت کی سطح مرتفع کو ٹراونکور اور ہند کے جنوبی گوشے کی سطوح مرتفع سے جدا کرتا ہے۔ میسور کی سطح مرتفع کو مشرق کی طرف تین چھوٹے چھوٹے دریا یعنی پنار۔ پلار اور جنبی پنار سیراب کرتے ہیں اور جنوب کی طرف دریائے کاویری اُس کو اور نیلگری پربت کو شاداب کر تا ہے۔ خلیج بنگالہ میں گرتے وقت کاویری کی دو شاخیں ہو جاتی ہیں۔ جن میں سے شمالی شاخ کو کالرون کہتے ہیں۔ ۱۰- مغربی ساحل بحر کا کنارہ جزیرہ نما ئے ہند کے مغرب میں مغربی گھاٹ سے آگے پست زمین کا جو تنگ قطعہ ہے۔ اُس کے جنوبی حصے کو مالابار اور شمالی حصے کو کانکن کہتے ہیں۔ اس کا عرض مختلف ہے۔ کہیں بیس میل اور کہیں پچاس میل ۔ مغربی گھاٹ سے نکل کئی ندیاں اس کو سیراب کرتی ہیں۔ زمین اس کی ناہموار ہے۔ کیونکہ مغربی گھاٹ کی کئی چھوٹی چھوٹی شاخیں اس کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ چونکہ بارش بکثرت ہوتی ہے اور گرمی بہت پڑی ہے۔ اس لیے یہاں کے جنگل گنجان ہیں اور منطقۂ حارہ کی پیداوار یہاں بہت ہوتی ہے۔ ۱۱- مشرقی ساحل بحر کا کنارہ جزیرہ نمائے ہند کے مشرق کی طرف ساحل کے برابر برابر جو میدان چلا گیا ہے۔ وہ مغربی ساحل کے میدان کی نسبت بہت چوڑا ہے۔ اگرچہ مدراس کے قریب تھوڑی دور تک اس کا کُل عرض صرف تیس میل ہے اور وزیگاپٹم کے نزدیک اور بھی تنگ ہے۔ اس کے جنوبی حصے کو کر ناٹک کہتے ہیں۔ مدراس کے جنوب کی طرف یہ میدان جزیرہ نمائے ہند کی چوڑائی کو ایک تہائی سے لے کر نصف تک گھیرے ہوئے ہے اور دریائے کاویری کی وادی سے شروع ہو کر نیکگری پربت کے دامن تک چلا گیا ہے اور وہاں سطح سمندر سے دو ہزار فٹ سے زیادہ بلند ہے۔ اس میں دریائے کاویری ، کرشنا، گوداوری اور مہاندی کے برآمد ڈلٹے شامل ہیں اور ان کے علاوہ کئی چھوٹی چھوٹی ندیوں مثلاً پنار اور پالار کے گُل طاس بھی اس میں شامل ہیں۔ اس میں ہند کے بعض نہایت گرم اضلاع داخل ہیں اور زمین عموماً نہایت ہی زرخیز ہے۔ دریائے کاویری کے ڈلٹے پر تبخور کے ضلع کی بڑی زرخیزی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں آبپاشی کا بہت عمدہ بندوبست ہے۔ ۱۲- لنکا لنکا کا جزیرہ راس کماری کی جنوب مشرق میں واقع ہے۔ اس کا مغربی ساحل اُسی طول بلد میں ہے۔ جس میں جزیرہ نمائے ہند کا وہ مشرقی شاحل ہے جو نگاپٹم اور پانڈیچری کے درمیا ن واقع ہے۔ جو سمندر لنکا کو ہند سے جداکرتا ہے۔ اُس کے جنوبی حصے کو خلیج مینار اور شمالی کو آبنائے پاک کہتے ہیں۔ اس میں جا بجا مونگے کی پہاڑیوں اور جزیروں کے پُل بندھے ہوئے ہیں۔ جس کو رام چندر یا آدم کا پُل کہتے ہیں اور ان کی وجہ سے سارا دودبار جہاز رانی کے قابل نہیں رہا۔ لنکا کو محل وقوع کے لحاظ سے ہند کا جزیرہ معلوم ہوتا ہے۔مگر ملکی انتظام کی رُو سے اس کا سلطنت ہند سے کچھ تعلق نہیں ۔ بلکہ یہ سلطنت انگلستان کے ماتحت ایک علیحدہ بستی ہے اور ایک گورنر کے زیر حکومت ہے جس کی تقرری بستیوں کے محکمے (کلونِئل اَوفس) کے ہاتھ میں ہے اور اس محکمے کا صدر دفترلندن میں ہے۔اہل ہند اس جزیرے کو سنگالہ یا لنکا اور مسلمان سیلان یا سرندیپ کہتے ہیں اور انگریزی نام سیلون بھی سیلان سے بنا ہے۔ ۱۳- برما برما کا بڑا صابہ جزیرہ نمائے ہند چینی کا ایک بڑا قابلِ وقعت حصہ ہے اور جغرافیے کے لحاظ سے یہ ہندوستان خاص سے جدا ہے۔ مگر ملکی انتظام کی رُو سے سلطنتِ ہند کا ایک حصہ ہے اور ایک لفٹنٹ گورنر ماتحت ہے۔ ملکی انتظام کی اغراض کے لحاظ سے کل صوبۂ برما دو حصوں پر منقسم ہے۔ اول لوئر برما جو ۱۸۲۴ء اور ۱۸۵۲ ء کی لڑائیوں سے فتح ہوا۔دوم اپر برما جو ۱۸۸۶ء میں قلمرو انگریزی میں شامل ہو گیا۔ مگر جغرافیے کے لحاظ سے دونوں حصے ایک ہی ہیں۔ کیونکہ ایرادتی اور سالوین دریائوں کی بنالائی وادیوں سے اپر برما بنتا ہے اور انہی دریائوں کی جنوبی وادیوں سے لوئر برما ۔ شان کی بعض ریاستوں اور سرحد کے بہت سے وسیع اور پہاڑی علاقے کو چھوڑ کر جس کا پورا پورا حال ابھی دریافت نہیں ہوا۔ باقی کُل صوبے کا رقبہ ایک لاکھ انہتر ہزار مربع میل کے قریب ہے۔ اس میں سے اٹھاسی ہزار مربع میل کے قریب اپر برما میں شامل ہیں اور اکیاسی ہزار مربع میل کے قریب لوئر برما میں۔ جو علاقہ تبت، چین اور سیام کی سرحد پر ایک غیر منتظم حالت میںہے اور جس کا حال ابھی بخوبی معلوم بھی نہیں ہوا۔ اس کے رقبے کا ۶۸ ہزار مربع میل کے قریب تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس صوبے کی بڑی بڑی طبعی باتوں میں کوئی چیز خاص ذکر کے قابل نہیں ہے۔ آسام کی وادی کے بالائی سرے سے پہاڑوں کا ایک سلسلہ جنوب کو چلا گیا ہے۔ اسن پہاڑوں میں سے جو نہایت مغرب میں ہیں۔ پٹکوئی کی پہاڑیاں کہتے ہیں۔یہ پہاڑیاں آسام کو اپر برما سے جدا کرتی ہیں اور اُن کی شاخیں پھیلتے پھیلتے لوشائی کی پہاڑیوں سے جا ملتی ہیں۔ منی پور کی باجگزار ریاست جو ملکی تقسیم کے لحاظ سدے آسام سے متعلق ہے۔ اس سلسلۂ کوہ کی ایک وادی میں واقع ہے اور اس علاقے کا پانی دریائے ایراوتی کے یاک معاون میں جا گرتا ہے۔ آگے بڑھ کر جنوب میں سلسلۂ پٹکوئی کی ایک شاخ ہے۔ اُس کا نام ارکان یوما ہے۔ یہ شاخ ایراودی کی وادی کو اراکان کے علاقے سے جدا کرتی ہے۔ جوساحل سمندر کے قریب واقع ہے۔ برما کا یہ سمندرری علاقہ بنگالے کی کمشنری چٹا گانگ کے متصل واقع ہے ۔ اراکان یوما کو ساحل کا سلسلۂ کوہ بھی کہتے ہیں۔ یہ راس نگریس کے پاس سمندر کے اندر چلا گیا ہے۔ جنوب میں اور آگے چل کر سمندر کے اندر اسی کے حصے بڑے اور چھوٹے کو کو کے جزیروں اور جزائر انڈمن اور نکوبار تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ پیگو کے زرخیز علاقے میں دریائے ایراودی کا ڈلٹا اور اس کا سر سبز زیریںطاس شامل ہے۔ یہ علاقہ لوئر برما کے وسط میں واقع ہے اور ساگون کی لکڑی اور چاول کے سبب مشہور ہے۔ ایراودی کی وادی میں وہ میدانی علاقہ شامل ہے۔ جس میں بست پہاڑیاں جا بجا واقع ہیں۔ ان پہاڑیوں کا رخ عموماً شمالاً جنوباً ہے اس وادی کے مشرق کی طرف پیگو یوما کی پہاڑیاں ہیں جو اس کو دریائے سالوین کی وادی سے جداکرتی ہیں۔ لوئر برما کا تیسرا اور نہایت جنوبی حصہ تناسرم کا علاقہ ہے۔ جس میں دریائے سالویں کا ڈلٹا اور وہ لمبا تنگ ساحل شامل ہے۔ جو جنوب کی طرف پھیلتا چلا گیا ہے اور جس کے مشرق میں سیام کے پہاڑہیں۔ ۱۴- برٹش بلوچستان جس طرح نہایت مشرق میں برما کا صوبہ ہندوستان خاص سے جداہے۔ اُسی طرح نہایت مغرب میں برٹش بلوچستان بھی خاص ہندوستان سے پرے ہے۔ اس میں پشین اور افغانستان کی اور کوہستانی وادیوں کا کچھ علاقہ شامل ہے۔ جو ۱۸۷۹ء میں امیر کابل نے انگریزوں کے سپرد کیا تھا اور کسی قدر کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے ضلعوں کا بھی علاقہ شامل ہے۔ جو خان قلات کے باجگزار عملداری میں ہے اور جس پر خان کی طرف سے انگریزی افسر حکومت کرتے ہیں۔ یہ تمام اضلاع کوہ سلیمان کے مغرب میں سطح مرتفع پر واقع ہیں اور بولان اور سندھ پشین ریلوے درۂ بولان کے دشوار گزار راستے سے گزر کر ان کو ہند سے ملاتی ہے۔ ریل کی یہ لائن محکمہ انجنئیری کی لیاقت کا ایک اعلیٰ ثبوت ہے۔ ۱۵- ساحل اور بندر گاہ عام طور پر ہند کا ساحل بہت شکستہ نہیں ہے اور اس پر اچھے بندر گاہ بہت کم ہیں۔ کلکتہ دنیا بھر میں ایک نہایت خطر ناک بندرگاہ ہے اور سمندر سے ۸۰ میں کے فاصلے پر ایک پیچ در پیچ دریا پر واقع ہے اور جوار کے وقت کئی مقامات پر پانی کی گہرائی بیش فٹ بھی مشکل سے ہوتی ہے۔ گزر گاہ دریا بھی تنگ اور پیچ دار ہے۔ مدراس جہازوں کے کھڑے ہونے کے لیے ایک کھُلی جگہ ہے۔ یہاں بہت سا روپیہ خرچ کر کے ایک مصنوعی بندرگاہ بنایا گیا ہے۔ اس کا ساحل ، بحری موجوں کے باعث مشہور ہے۔ بلکہ ساحل کو رو منڈل پر جتنے بندرگاہ ہُگلی سے لے کر راس کماری تک واقع ہیں۔ سب اسی قسم کے ہیں۔ لنکا میں ٹرنکو مالی کا بندر گاہ اول درجے کا ہے۔ ایشیا میں شاہی بحری فوجوں کے لیے جہازوں کے بننے کا صدر مقام یہی ہے۔ مگر یہ ایک دشوار گزار جگہ میں واقع ہے۔ جو صحت کے لحاظ سے بھی اچھی نہیں۔ لنکا کے نہایت جنوبی سرے پر بندرگاہ گیلی ہے۔ یہ بھی اچھ بندر گاہ ہے۔ مگر ذرا خطر ناک ہے۔ لنکا کے مغربی ساحل پر بندر گاہ کولمبو ہے، یہ جگہ صحت کے لحاظ سے اچھی ہے اور لنکا کی جو تجارتی اشیا غیر ممالک کو جاتی ہیں وہ قدرتاً اسی بندرگاہ کے راستے جاتی ہیں۔ جو جہاز ولایت سے مدراس، کلکتے ، سنگاپور، مجمع الجزائر ہند، چین ، جاپان اور آسٹرلیشیا کو جاتے ہیں وہ سب کوئلے اور مسافروں کے لیے یہاں ٹھیرتے ہیں۔ کولمبو بھی مدراس کی طرح جہازوں کے ٹھیرنے کے لیے کھُلی جگہ ہے۔ یہاں ایک بند بھی ہے۔ جس کی وجہ سے اس بندرگاہ کی خوبی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ساحل ملیبارپر بہت سے عمدہ عمدہ بندرگاہ ہیں۔ مثلاً کو چین، کلی کٹ اور منگلور۔ بمبئی کا بندرگاہ نہایت عمدہ ہے اور کہتے ہیںکہ اسی سبب سے پرتگیزوں نے اس کا نام مامبے یا مومبیسے بدل کر بوان باہیا کر دیاتھا۔ اس لفظ کے معنی ’’عمدہ بندرگاہ‘‘ ہیں۔ چونکہ اُس بندرگاہ کا ریل کے ذریعے ہند کے تمام حصوں کے ساتھ تعلق ہے۔ اس لیے یہ بندر گاہ تجارت کے لحاظ سے نہایت مفید ہے اور بھڑوچ دریائے نربدا کا۔ مگر ان دونوں بندرگاہوں میں موسم گرما کی موسمی ہوائوں کے وقت بڑے بڑے جہاز ٹھیر نہیں سکتے۔ کلکتے اور بمبئی سے اُتر کر ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی بندرگاہ آج کل کراچی ہے۔ یہ دریائے سندھ کے ڈلٹے کے شمال مغربی گوشے پرواقع ہے اور چونکہ اور بندرگاہوں کی نسبت یورپ کے بہت نزدیک ہے اور علاوہ اس کے پنجاب اور شمالی ہند کے ساتھ ریل کی سڑکوں کے ذریعے ملا ہوا ہے۔ اس واسطے اس کی وقعت روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ مشرقی بنگال میں کلکتے سے مشرق کو چٹا گانگ کا بندر گاہ ہے۔ مگر یہ صرف چھوٹے چھوٹے جہازوں کے لیے ہے اور اس علاقے کے چاولوں کی پیداوار اسی کے راستے دساور کو جاتی ہے۔ برما کے بندرگاہ یہ ہیں۔ اول اکیاب۔ دوم رنگون جو ایراودی کی ایک شاخ کے دہانے پر واقع ہے۔ سوم مولمین جو دریائے سالوین کے دہانے پر ہے۔ مالا بار اور تراونکور کے ساحل کے برابر برابر ریتلے راس واقع ہیں۔ جن کے درمیان پان کی کھاڑیاں سی بن گئی ہیں۔ جو ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ ہیں کہ ساحل کے پاس پاس جہاز رانی کا ایک عمدہ سلسلہ بن گیا ہے۔ دوسری فصل ۔ آریا ہندوئوں کا ہند کو فتح کرنا ۱- ہند کی قدیم تاریخ کے ماخذ قدیم زمانے میں کسی کو اس ملک میں یہ خیال نہیں آیاکہ جو واقعات اس نے اپنی آنکھوں دیکھے یا کانوں سنے۔ اُن کو قلمبند کرتا۔ اس غفلت سے یہ خرابی پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کی عملداری سے پہلے جس کو قریب نو سو برس کے ہوئے ہیں۔ ہند میں کوئی معتبر تاریخ نہیں لکھی گئی۔پسہند کے قدیم حالات جس قدر معلوم ہوئے ہیں۔ تاریخوں سے نہیں ہوئے۔ بلکہ اُن کا ماخذ اور ہی چیزیں ہیں۔ مثلاً داستانیں۔ یا قدیم روایتیں جو زباں زد خلائق ہیں۔ قدیم مذہبی یا شاعرانہ کتابیں۔ جن سے اشارۃً بعض واقعات معلوم ہوتے ہیں۔ حوالے جو ہند کے معا ملات کی نسبت اور ملکوں کے مؤرخوں نے اپنی کتابوں میں دیے ہیں۔ پتھر یا دھات دریافت ہوتے ہیںَ ان سب کے سوا بعض اور ماخذ بھی ہیں۔ جن کے بیان کی اس مقام پر کچھ ضرورت نہیں معلوم ہوتی۔ ۲- وید ہندوئوں کے نزدیک ویدوں کی کتابیں نہایت متبرک ہیں۔ ان کی زبان سنسکرت ہے۔ زمانہ قدیم میں یہی زبان سارے شمالی ہند کے اندر بولی جاتی تھی۔ ویدوں کے بعض حصے تین ہزار دو سو برس سے بھی پہلے کی تصنیف خیال کیے جاتے ہیں اور ان میں جو دعائیں ہیں۔ وہ سب سے پُرانی تصنیفات ہیں۔ ان سے اور نیز اور وسیلوں سے اُس زمانے کے ہندوئوں کا کچھ حال دریافت ہوتا ہے۔ ۳- زمانہ سلف کے ہندو غرض معلوم ہوتا ہے کہ ملک ہند میں یہ جو لاکھوں ہندو آباد ہیں۔ ہمیشہ سے یہیں کے رہنے والے نہیں ہیں۔ بلکہ نہایت قدیم زمانے میں ان کے بزرگ وسط ایشیا کے قطعات مرتفع میں رہتے اور آریا کہلاتے تھے۔ یہ لوگ صرف ایک اسی جرگے کے بزرگ نہ گھے ۔ جو وہاں سے ہند میں چلا آیا اور ہندو کہلایا۔ بلکہ اہل فرنگ جو وہاں سے جا کر یورپ میں آباد ہوئے اور پارسی جو فارس میں جاکر بسے ان سب کے بزرگ بھی وہی تھے۔ آخر کار آریا نسل کے ہندو سط ایشیا سے روانہ ہو کر جنوب کی طرف چلے اور جو اونچا پہاڑ نقشوں میں ہندوکش کے نام سے درج ہے اس سے گزر کر اول پنجاب میں وارد ہوئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے پانچ معاون جو بالفعل ملک پنجاب کو شاداب کرتے ہیں۔ اس وقت ان کے علاوہ ایک اور دریا بھی یہاں بہتا اور دریائے سندھ میں مل جاتا تھا۔ اس کا نام دریائے سرسُتی تھا اور اب یہ دریائے سندھ تک مطلق نہیں پہنچتا۔ بلکہ رستے ہی میں ریت کے اندر جذب ہو جاتا ہے۔ غرض آریا ہندو دریائے سرستی اور نیز پنجاب کے اور دریائوں کے کناروں پر کئی سو برس تاک آباد رہے اور وید کی دعائوں میں جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت غالباً وہ یہیں بود و باش رکھتے تھے اور اس کا نام انہوں نے برہمار ورت رکھا تھا۔ اُس زمانے میں اُن کی حکومت کسی راجہ یا حاکم سے متعلق نہ تھی۔ بلکہ ہر ایک گھرانے کا بزرگ ہی اپنے اپنے خاندان کا سردار ہوا کرتا تھا اور وہی اس گھرانے کا پروہت یعنی پیشوائے دین بھی ہوتا تھا۔ ان آریا ہندوئوں کو جب کبھی ضرورت پڑتی تھی تو وہ ہندکے اصلی باشندوں سے جو ان کی نسبت سیاہ فام تھے۔ لڑا، بھڑا بھی کرتے تھے اور چونکہ آریا اُن کی نسبت بہادرتھے اور ہتھیار بھی عمدہ رکھتے اور زرہ بکتر لگاتے تھے۔ اس لیے اپنے مخالفوں پر اکثر فتح پا تے تھے۔ غرض اس طرح اُنہوں نے اصلی باشندوں کو میدانوں سے ہٹا کر پہاڑوں اور جنگلوں کی طرف بھگا دیا۔ جہاں ان کی اولاد اب تک موجود ہے۔ مگر اُس زمانے میں یہ لڑائیاں بہت ہی کم ہوا کرتی تھیں۔کیونکہ اس وقت آریا ہندو عموماً پنجاب ہی کے زرخیز میدانوں پر قناعت کییت پڑتے تھے اور کسی سے بگاڑ نہ کرتے تھے۔ اس وقت ان کی عادتیں بہت سیدھی سادی تھیں۔ سب اپنے مواشی چراتے اور کبھی کبھی کچھ بُری بھلی کھیتی باڑی بھی کر لیا کرتے تھے۔ ۴- زمانہ شجاعت کے قدیم ہندو جو حال ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ غالباً وہ کئی سو برس تک رہا اور اس عرصے میں آرای ہندو روز بروز زیادہ اور آسودہ ہوتے گئے۔ آخر یہ ہوا کہ جو میدان پنجاب سے بھی زیادہ زرخیز اور گنگا اوراس کے معاونوں سے سیراب ہوتے تھے اُن کو فتح کرنے پر انہوں نے کمر باندھی ۔ ان عمدہ قطعوں کے فتح کرنے کے لیے آریا ہندوبرسوں بلکہ شاید کئی سو برس تک لڑتے بھڑتے رہے۔ تاریخ ہند کے اُس زمانے کو زمانۂ شجاعت کہتے ہیں۔ کیونکہ اُس زمانے میں ہندو بڑے مشہور اور بہادر سرداروں کے ساتھ ہند کے اصلی باشندوں سے متواتر لڑتے رہے اور رفتہ رفتہ ان کو یا تو اپنا غلام کر لیا یا مار کر پہاڑوں اور جنگلوں میں ہٹا دیا۔ جیسا کہ ان اصلی باشندوں کی اولاد سنتھال اور بھیل وغیرہ قوموں کی بودوباش سے ظاہر ہے۔ ۵- برہمنوں کا آغاز ان لڑائیوں میں جو لوگ سردار مقرر ہوئے تھے۔ وہ بڑے بڑے ضلعے فتح کرنے اور بہت سی جمعیت فراہم ہو جانے سے بڑے زبردست ہو گئے اور یوں ہی بڑھتے بڑھتے راجہ مہاراجہ بن گئے۔ چونکہ یہ سردار ہمیشہ لڑائیوں میں مصروف رہتے تھے۔ اس لیے اب انہیں پروہت کا کام انجام دینا دشوار ہو گیا۔ پس کچھ مدت بعد پروہتوں کی ایک علیحدہ قوم بن گئی۔ جن کانام برہمن ہوا۔ پھر برہمنوں نے آخر میں اس قدر زور پکڑا اورایسااقتدار پیدا کیا۔ کہ اُن کے سامنے راجائوں کی بھی کچھ حقیقت نہ رہی۔ اس طرح آریا ہندوئوں میں آخر کار دو بڑی قومیں ہو گئیں۔ ایک تو برہمن جن کا مرتبہ عوام کے نزدیک خدا سے کچھ ہی کم تھا۔ اس لیے ان کی تعظیم پرلے درجے کی ہوتی تھی۔ دوسرے کھشتری یعنی سپاہی لوگ جن میں سے فوج کے سردار اور راجہ ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے کی نسبت بہت سی داستانیں اور مشہور قصے اب تک موجود ہیں۔ چنانچہ رامائن اور مہابھارت جو سنسکرت میں دو بڑی عمدہ نظم کی کتابیں ہیں۔ ان کے قصے خاص کر مشہور ہیں۔ ان سے دریافت ہوتا ہے کہ آریا ہندوئوں کی عادتیں اس ابتدائیں زمانے میں سیدھے سادے انگھڑ سپاہیوں کی سی تھیں۔ کیونکہ رانا اور راجہ تک خود مواشی چراتے اور بنوں کوجلا جلا کر زراعت کے واسطے زمینیں صاف کرتے اور وقت معین پر اپنی گایوں کے بچھڑوں پر نشان کرتے اور دہقانوں اور کسانوں کے اکثر معمولی کام برابر کیا کرتے تھے۔ ایک قبیلے کے سب لوگ خواہ امیر خواہ غریب ایک ہی جگہ تعلیم و تربیت پاتے اور اپنی کھیتی اور مویشی کے بچانے کو دشمنوں اور قزاقوں سے لڑنا سیکھتے تھے۔ اس وجہ سے اُن سب کو مُکہ بازی ، کُشتی، تیر اندازی ، گوپیا پھرانا، پھندا ڈالنا اور ہتھیاروں کا استعمال کرنا اچھی طرح آجاتا تھا۔ ہند کے آریا لوگوں میں یہ بھی دستور تھا کہ اپنے ان آریا بھائیوں کی طرح جو مغرب میں جا کر یورپ میں آباد ہوئے۔ دعوتوں کی تقریبوں میں شراب و کباب کھایا پیا کرتے تھے۔ مگر اُن کے کھانوں میں اور کسی طرح کا تکلف نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ بڑے سیدھے سادے ہوتے تھے۔ ان لوگوں کو ہند کے سیاہ فام اصلی باشندوں سے ہمیشہ جنگ رہا رکتی تھی۔ جن کو وہ بعض وقت دیت اور بعض وقت اسر کہا کرتے تھے اور اکثر راکشس یعنی دیو اور ناگ یعنی سانپ خیال کیا کرتے تھے۔ لیکن آریا ہندو اپنی فتوحات کی بدولت جس قدر زیادہ متمول ہوتے گئے، اُسی قدر اُن میں رفتہ رفتہ شائستگی بلکہ عیش و آرام بھی زیادہ ہوتا گیا۔ چنانچہ زمانۂ شجاعت کے آخر میں جب آریا ہندو کل شمالی ہند یعنی آریا ورت کو بنگالے تک فتح کر چکے اور جو اصلی باشندے مر کھپ کر بچ رہے تھے۔ اُن کو اپنا غلام بنا چکے تو مہا راجا ئوں کے محلوں میں بڑی دولت اور عیش و طرب کا سامان دکھائی دینے لگا۔ امراء بھی بڑے دولتمند اور زبردست ہوگئے اور اہل تجارت و حرفت بھی بڑے آسودہ حال بن گئے۔ یہ لوگ ویش کہلاتے تھے اور ہندوئوں کی تین اونچی ذاتیں جو دوج یعنی دوجنمی یا زنارہند سمجھی جاتی ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ بھی تھے اس امر کا مفصل بیان آئندہ کیا جائے گا۔ ۶- زمانۂ شجاعت کی داستانیں پہلے بیان ہو چکا ہے کہ زمانۂ شجاعت کی اکثر داستانیں ہند کی دو بڑی رزمیہ نظموں یعنی رامائن اور مہا بھارت میں موجود ہیں۔ چنانچہ رام چند جی جو اجودھیا یعنی اودھ کے سورج بنسی خاندان شاہی کے ایک بڑے بہادر راجہ ہوئے ہیں۔ اُن کی مہمات کاحال رامائن میں مفصل لکھا ہے ۔ اول تو اُن کی طفولیت اور شباب کا حال اس میں مذکور ہے۔ پھر یہ لکھا ہے کہ راجہ رامچندر جی کی شادی راجہ جنک کی حسین بیٹی سیتا کے ساتھ ہوئی اور اس کے بعد رامچندر جی نے بن باس ہو کر ڈنڈک کے لق ودق جنگل میں وسط ہند کے اندر سکونت اختیارکی ۔ یہ سب ماجرے نہایت عمدہ اور ولولہ انگیز زبان میں تحریر ہوئے ہیں۔ مگر تاریخ کے اعتبار سے جو نہایت عظیم ماجرا رامائن میں درج ہے وہ یہ ہے کہ آریا ہندوئوں کے بہادر راجہ رامچندر جی نے جنوبی ہند اورجزیرۂ لنکا پر حملہ کر کے اس کو فتح کیا۔ اس کے بعد یہاں کے لوگ راجہ رام چندر جی کو وشِنوں کا اوتار سمجھ کر اُن کی پرستش کرنے لگے۔ یہ تو رامائن کی کیفیت ہوئی۔ اب رہی مہا بھارت کی بڑی مشہور نظم۔ اس میں یوں تو بہت سی داستانیں مذکور ہیں۔ مگر سب سے بڑا واقعہ پانڈوں اور کوروں کی مشہور لڑائی ہے۔ یہ دونو گروہ ایک ہی خاندان شاہی کی اولاد تھے۔ جس کی نسبت یہ روایت ہے کہ وہ چاند کی اولاد سے تھااور اس لیے اس کو چندر بنسی خاندان کہتے ہیںَ اس لڑائی کی بنا یہ تھی کہ جہاں اب شہر دہلی بستا ہے۔ اس کے قریب ہستنا پور نام کا ایک شہر تھا جواُس زمانے میں ایک بڑی سلطنت کا پایۂ تخت تھا۔ اس سلطنت کی بابت پانڈوں اور گوروں میںنزاع ہو کر بڑی لڑائی ہوئی۔جس میں بہت سے مشہور سردار شریک تھے۔ منجملہ ان کے کرشن جی بھی تھے۔ جو پانڈوںکے طرفدار تھے۔ یہ وہ مشہور شخص ہیں۔ جن کو ہندو رامچندر جی کی طرح وشنو کا اوتار سمجھ کر پوجتے ہیں۔ غرض کرو چھیتر کے میدان میں اٹھارہ روز تک اس جنگ عظیم کا ہنگامہ گرم رہا اور مہا بھارت میں لکھا ہے کہ اس کے بعد جس قدر راجا ہند میں ہوئے اُن میں سے اکثروں کے بزرگ دونو فریقوں میں سے ایک نہ ایک کے طرفدار ہو کر اس لڑائی میں شریک تھے۔ آخر کار پانڈو نے جو پانچ بھائی تھے، فتح پائی، مگر وہ چند روز بعد دروپدی کو جو ان سب کی زوجہ تھی۔ ساتھ لے کر کوہ ہمالیہ کی طرف چلے گئے اور اندر دیوتا نے اُن کو سورگ خوگ یعنی بہشت میں پہنچا دیا۔ تیسری فصل ۔منو کا دھرم شاشتر ۱- زمانۂ برہمنی جب آریا ہندو دریائے سندھ سے بنگالے تک سارا شمالی ہند قرار واقعی فتح کر چکے اور مختلف مقاموں میں اُن کی بڑی سلطنتیں قائم ہو گئیںاور فتح مندوں کی اولاد راجہ و مہا راجہ بن گئی ۔ اُس وقت یہ سمجھنا چاہیے کہ شجاعت کے زمانے کا خاتمہ اور امن و بہبودی کے زمانے کا آغاز ہوا۔ اس زمانے می بڑی خاص بات یہ تھی کہ اُس وقت برہمنوں کا اقتدار بڑے زور شور پر تھا۔ چنانچہ یہ قوم اس وقت ہندوئوں میں ایسی زبردست ہو گئی کہ کوئی اور قوم اس سے لگا نہیں کھاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے کو بعض وقت زمانہ برہمنی کہا کرتے ہیںاور وہ شجاعت کے زمانے کے بعد ہوا اور قدیم زمانے سے جس کا ٹھیک وقت معلوم نہیںہے۔ شروع ہو کر سنہ عیسوی سے تین سو برس پہلے تک رہا۔ ۲- منو کا دھرم شاستر زمانہ برہمنی میں ہندوئوں کی جو رسمیں اور عادتیں تھی۔ وہ سب ایک سِمرتی یعنی دھرم شاستر میں جس کو منو کا دھرم شاستر کہتے ہیں۔ بہت واضح طور پر مذکور ہیں۔ خود اس بڑے نامور واضع قوانین یعنی منو کا حال توکچھ بھی تحقیق معلوم نہیں، مگر اس کے قوانین سے برہمنی زمانے کے ہندوئوں کا مجمل حال اچھی طرح دریافت ہوتا ہے۔ اس شاستر کی خاص خاص باتوں میں سے ایک بڑی مشہور بات یہ ہے کہ اس سے ذاتوں کا انتظام صاف اور قطعی طور سے ہو گیا ۔ چنانچہ اس میں ہندوئوں کی چار ذاتیں قرارپائیں۔ اول برہمن یعنی پروہت۔ دوم کھشتری یعنی سپاہی۔ سوم ویش یعنی اہل حرفہ۔ چہارم شودر ۔ یعنی خدمتی لوگ۔ ان میں سے پہلی تین ذاتوں کے لوگوں کو دوج یعنی دو جنما کہتے ہیں اور ان سارے قوانین کا میلان اسی طرف ہے کہ ان تینوں ذاتوں کے لوگ عروج پکڑی اور شودر کمزور اور مغلوب رہیں۔ ان قوانین کے زمانے میں جو ذاتوں کا انتظام تھا اس میں یہ باتیں بڑی عجیب تھیں۔ اول برہمنوں کو بہت ہی بڑا مرتبہ رکھا تھا۔ اور ان کو بہت ہی مقدس ٹھیرایا تھا۔ یہاں تک سمجھتے تھے کہ اور سب آدمی اور نیز دُنیا کی ساری چیزیں انہی کے فائدے اور آسائش کے واسطے بنی ہیں۔ برہمنوں کے بعض حقوق چھتریوں اور ویشوں کو بھی حاصل تھے۔ مگر یہ بہت ہی خفیف تھے۔ دوم شودروں کو نظرِ حقارت سے دیکھتے تھے۔ بلکہ ان سے نفرت بھی کرتے تھے۔ چنانچہ ان بیچاروں کا صرف یہ کام تھا کہ اور ذاتوں کے آدمیوں اور خاص کر برہمنوں کی خدمت کریں اور اگر کوئی خدمت نہ ملے تو کچھ دستکاری کر کے بُری بھلی طرح اپنا پیٹ بھر یں۔ مگر کبھی دولتمند نہ ہونے پائیں۔ شودروں کو ایسی ذلیل حالت میں رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہاں کے اُن لوگوں میں سے بچے کھچے تھے۔ جن کو آریا ہندوئوں نے مغلوب کر لیا تھا۔ سوم اس امر کا قرار واقعی انتظام نہیں تھا کہ جس حالت میں شودروں کو نوکری مل جائے۔ جیسا کہ اُن کے واسطے منو کے دھرم شاستر میں مقرر تھا۔ تو پھر صنعت و حرفت کے کام کون لوگ کریں۔ شاید اس صورت میں یہ کام جیسا کہ اب ہوتا ہے۔اُس وقت بھی مخلوط النسل لوگ جو چاروں اصلی ذاتوں کے باہم ازدواج سے پیدا ہوئے تھے۔ کیا کرتے ہوں گے۔ یہ بات بھی بیان کرنے کے قابل ہے کہ بعض آدمیوں کے نزدیک کھشتری اور ویش دونوں قوموں کا اب کہیں پتا نشان بھی نہیں رہا اور ہو لوگ سب مر کھپ گئے۔ مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ راجپوت اور کھتری اور چند قوموں کے لوگ اب تک اپنے تئیں کھشتریوں کی اولاد بتاتے ہیں اور بعض اقوام اہل حرفہ اپنے آپ کو ویش کہتی ہیں۔ پس حاصل کلام یہ ہے کہ اب اکثر ہندو مخلوط ذاتوں کے رہ گئے ہیں مگر ذات کا امتیاز جس قدر پہلے تھا ۔ اب اُس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اُس زمانے میں ہر ایک ریاست کی حکومت ایک راجہ سے متعلق ہوتی تھی۔ جو منو کے انتظام کے موافق خود مختار ہوا کرتا تھا۔ مگر اتنی پابندی ضرور تھی کہ برہمنوں کی صلاح پر اسے چلنا پڑتا تھا۔ طرفہ یہ ہے کہ جس قدر برہمنوںکا اختیار بڑھتا گیا۔ اُسی قدر راجہ زیادہ تر مطلق العنان ہوتے گئے۔ راجائوں کے ماتحت ہزار ہزار گائوں کے سردار۔ اُن کے ماتحت سو سو گائوں کے سردار ہوا کرتے تھے اور یہ سو سوس گائوں کا حلقہ اُس وقت ایسا ہوتا تھا۔ جیسا آج کل پرگنہ ہوتا ہے۔ پھر اُن سرداروں کے ماتحت گائوں کے مقدم ہوا کرتے تھے جو منڈل یا پٹیل کہلاتے تھے۔ یہ سارے کارکن راجہ کے اہلکار ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہند میں گائوں کے انتظام کا طریق مدتوں سے ایک سا چلا آتا ہے۔ گائوں کا مقدم یا نمبر دار راجہ کے ساتھ معاہدہ کر لیا کر تا تھا کہ میں مالگزاری کی بابت اس قدر روپیہ سرکار میں داخل کیا کروں گا اور پھر اس روپے کو حصہ رسد گائوں کے سب لوگوں پر تقسیم کر دیا کرتا تھا۔ مگر اس ساری مالگزاری کے ادا کرنے اور گائوں کے لوگوں کے نیک چلن رہنے کا وہ خود ہی ذمہ دار ہوا کرتا تھا۔ اس کو کچھ زمین معاف ہوا کرتی تھی اور اس کے علاوہ زمیداروں کی طرف سے کچھ رسوم مقرر ہوا کرتی تھی اور بعض اوقات راج سے بھی تنخواہ ملا کرتی تھی۔جب کبھی اس کے گائوں کے لوگوں میں کچھ جھگڑا قضیہ ہوتا تھا تو اُس کے تصفیے کے لیے وہ تو سر پنچ ہوا کرتاتھااور متخاصمین اور لوگوں کو اپنی طرف سے پنچ مقرر کیا کرتے تھے۔ نمبر دار کے تلے اور بھی کئی اہل کار ہوتے تھے جو اس کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان میں سے بڑے عہدہ دار یہ دو ہوتے تھے۔ اول گائوں کا محاسب یعنی پٹواری اور دوسرا چوکیدار۔ ان سب اہلکاروں کی اُجرت یا تو رسوم سے ادا ہوتی تھی۔ یا اُن کو زمین معاف ہوا کرتی تھی۔ یا بعض اوقات تنخواہ ملا کرتی تھی۔ منو نے فوجداری کے جو قوانین لکھے ہیں وہ سخت تو نہیں مگر بہت ناشائستہ ہیں۔ ہاں جائداد کی بابت جو قانون ہیں وہ معقول اور اچھے ہیں۔ دونوں طرح کے قوانین میں روز مرہ کی ذرا ذرا سی باتوں کی نسبت بھی ہدایتیں لکھی ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اونچی ذاتوں کی بڑی رعایت اور شودروں پر بڑا ظلم اور سختی روا رکھی گئی ہے۔ منو کے دھر شاسترکی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ قدیم رسموں کا بہت بڑا لحاظ رکھا گیا ہے۔ شادی کے قاعدے معقول اور واجبی ہیں۔ چنانچہ زوجہ کو تاکید آ حکم ہے کہ اپنے شوہر کے کہنے میں رہے اور اسی طرح اور عورتوں کی نسبت بھی یہی حکم ہے کہ جس رشتہ دار کے ماتحت ہوں اس کے حکم پر چلیں اور عورتوں کی آسائش اور عافیت کے لیے جو انتظام ضرور تھا وہ بھی ان میں موجود ہے۔ برہمنوں کو حکم ہے کہ اپنی عمر کے چار حصے کریں طفولتی میں علم تحصیل کریں۔ اور مجرد رہیں۔ دوسرے حصے میں گھر بار کریں ۔ اپنی زوجہ کے ہمراہ رہیںاور برہمنوں کے معمولی فرائض بجا لائیں۔ تیسرے حصے میں تارکِ دنیا ہو کر جنگلوں میں رہیں اور بہت سخت ریاضت کریں۔ چوتھے حصے میں اُن کو مذہب کے ظاہری فرائض کی پابندی کی ضرورت نہیں ۔ صرف گیان دھیان میں مصروف رہنا کافی ہے۔ اس زمانے میں یہاں کے حرفے اگر بہت عمدہ نہ تھے۔ تو کچھ خراب بھی نہ تھے اور سنار، سنگ تراش، مصوروغیرہ بہت سے پیشوں کے نام موجود ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ جو چیزیں شائستگی کے لیے ضروری تھیں۔ ان میں سے اکثر اُس زمانے کے ہندوئوں کو حاصل تھیں۔ ہندوئوں کو حکمت یا فلسفے کا شوق ہمیشہ سے رہا ہے اور یقین ہے کہ برہمنی زمانے میں اس علم سے یہاں کی قوم کی عادات پر بڑااثر ہوااور ہند میں بودھ مذہب کے پھیلنے کا بھی یہ امر کسی قدر باعث ہوا ہے۔ ۳- حکمائے ہند کے فرقے مختلف زمانوںمیں جن کا صحیح حال معلوم نہیں ہے۔ ہندوئوں میں حکما کے چھ بڑے بڑے فرقے قائم ہوئے۔ ان کو چھ درشن کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ اول کپل کا سانکھ شاستر۔ دوم پتنجلی کا بوگ شاستر۔ سوم گسُوتم کا نیائے شاستر۔ چہارم کناد کا وے شے شک شاستر۔ پنجم جیمنی کا پورو میمانسا۔ ششم بیاس کا اُتر میمانسا جس کو ویدانت بھی کہتے ہیں۔ چوتھی فصل ۔بودھ مذہب اور اُس کے بانی بُدھ کا بیان ۱- بُدھ اودھ کے شمال اور کوہ ہمالیہ کے دامن میں ایک سلطنت تھی۔جس کا نام کپل وست تھا۔ یہ سلطنت غالباً گورکھ پور یا نیپال میں واقع تھی۔ سنہ عیسوی سے قریب پانسو پچاس برس پہلے یہاں کے راجہ کے ہاں ایک کنور پیدا ہوا۔ جس کا نام ساکی منی یا گئوتم رکھا گیا۔ یہ شخص پیچھے بُدھ (یعنی عارف) کے نام سے مشہور ہوا۔ ساکی منی اگر چہ راجہ کا کنور اور قوم کا کھشتری یعنی سپاہی تھا۔ مگر اس کو آغاز شباب ہی سے مطالعہ اور غور و فکر کا بہت شوق تھا اور ابھی کچھ بہت عمر نہ ہونے پائی تھی کہ اپنے باپ کا راج پاٹ چھوڑ چھا ڑ کر فقیر ہو گیا۔ اول تو وہ برہمنوں کا چیلا بنا۔ پھر جنگل میں جا کر تپسیا کرنے لگا۔ انجام کار اُس نے ایک نیا مت نکالا جو بودھ مذہب کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مذہب ہند میں بہت جلد پھیل گیا اور قریب ایک ہزار برس تک یہاں اس کا غلبہ رہا۔ اب تک بھی اس مذہب کا یہ زور و شور ہے کہ دنیا کے تما آدمیو ں میں سے ایک تہائی اس کے پیرو ہیں۔ غرض اس وقت سے ساکی منی نے اپنا لقب بُدھ رکھا اور پھر عمر بھر لوگوں کو اپنے اس نئے مذہب کی یہ تعلیم دیتا رہا کہ درحقیقت تمام انسان یکساں ہیں۔ اُن کی ذات کچھ ہی ہو۔ اس سے کچھ فرق نہیں آتا۔ مُکتی یعنی نجات کا طریق یہ ہے کہ ہم دُنیا کی لذتوں اور خواہشوں سے کنارہ کریں اور اُن کا کچھ فکر نہ کریں اور جو خوبیاں بڑی ہیں۔ یعنی رات گفتاری اور پاکیزگی اور ایمانداری، ان پر عمل کریں اور ان سب سے بڑھ کر ساری مخلوق کے ساتھ خیر خواہی اور مہربانی کریں۔ بودھ مذہب کے مقلدوں کا بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نروان حاصل کریں ، یعنی فنا ہو جائیں۔ کیونکہ بُدھ کی تعلیم کے بموجب انسان نفسانی شہوتوں اور زحمتوں اور آتما کی دائمی اواگون یعنی تناسخ سے اسی طرح نجات پا سکتا ہے۔ چونکہ بودھ مذہب کی اخلاقی تعلیم پاک اور سیدھی سادی تھی اس لیے لوگوں کے دلوں میں کھُب گئی اور غالباً بُدھ کے جیتے جی ملک بہادراور اس کے گرد ونواح کے اضلاع کے اکثر لوگ اُس کے پیرو ہو گئے۔ یہاں تک کہ مگدھ دیس کے راجہ نے خود بودھ مذہب اختیار کر لیا۔ ۲- بودھ مذہب کی ترقی بہادر اور اس کے گرد و نواح ہی پر کیا منحصر تھا یہ نیا مذہب ہند کے اور ضلعوں میں بھی آناً فاناً پھیلنے لگا اور ہوتے ہوتے ملک تبت، برما۔ سیام جزیرۂ سنگلدیپ اور چین میں بھی پھیل گیا۔ بُدھ کی وفات کے چند روز بعد اس مذہب کے بڑے برے مقلدوں کی ایک سنگت یعنی مجلس منعقد ہوئی۔ پھر ایک اور جلسہ ہوا۔ اس کے بعد مگدھ کے راجہ اشوک کے عہد میں بودھ مذہب ہند کا راج دھرم ہو گیا اور اس کے جلوس کے سترھویں سال اس مذہب کے لوگوں کا ایک تیسرا جلسہ پھر منعقد ہوا۔ انہی تینوں جلسوں میں سے ایک نہ ایک میں بودھ مذہب کی کتب مقدسہ جن کو تری پٹک یعنی تین پٹاریاں کہتے ہیں ، تحریر ہوئیں۔ پانچویں فصل ۔ ایرانیوں اور یونانیوں کا ہند میں آنا ۱- اہل فارس کا پنجاب پر حملہ ساکی منی ابھی زندہ ہی تھا کہ فارس کے مشہور بادشاہ داراگشتاسپ نے پنجاب پر حملہ کیا اور جب اس کی فوج دریائے سندھ پر پہنچی تو اُس کے یونانی امیر البحر سائی لیکس نے کشتیوں کا ایک پُل تیار کر دیا۔ جس پر سے ساری فوج اُتر آئی اور پنجاب کا ایک حصہ فتح کر لیا۔ یہ حصہ دارا کی بڑی سلطنت کا ایک صوبہ بنا۔ ۲- سکندر اعظم کا حملہ ہند پر ایرانیوں کے حملے کو دو سو برس کے قریب گزرے ہوں گے کہ سکندر اعظم شاہ مقدونیہ نے اپنی یونانی سپاہ سے سلطنت فارس کو فتح کیا اور مسیح سے ۳۲۷ برس پیشتر وہاں سے ہند پر فوج کشی کی۔ سکندر اپنی سپاہ لیے پنجاب میں بڑھتے بڑھتے دریائے جہلم کو عبور کرکے گجرات پر پہنچا ۔ یہ وہی مقام ہے۔ جہاں ۱۸۴۹ء میں انگریزی سپاہ نے سکھوں کو ایک بڑی بھاری شکست دے کر پنجاب کی لڑائی کا خاتمہ کیا۔ غرض اس مقام پر یہاں کے راجائوں کی فوج نے متفق ہو کر سکندر کا مقابلہ کیا۔ اس فوج کا سردار شاہی خاندان پورو کا ایک راجہ تھا۔ جس کو یونانیوں نے پورس لکھا۔ ہندوئوں اور یونانیوں میں جو اس مقام پر بڑی لڑائی ہوئی۔ اس میں ہندوئوں کی سپاہ یونانیوں کی نسبت شمار میں بہت زیادہ تھی اور اس کے علاوہ وہ سو ہاتھی اور تین سو لڑائی کے رتھ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یونانیوں نے لکھا ہے کہ پورس کی فوج نے میدان جنگ میں مردانگی کی خوب داد دی۔ مگر پھر بھی سکند ر کی قواعد داں فوج کے سامنے اُن کے پیر نہ جمے۔ چنانچہ راجہ پورس کے دونو بیٹے لڑائی میں کام آئیاور اس کی فوج کو شکست فاش ہوئی۔ مگر سکندر راجہ کی بہادری دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آیا ۔ یہاں تک کہ اُس کی سلطنت پھر اُسی کو بخش دی۔ بلکہ کچھ اور بھی ملک عطا کیا ۔ اس وقت سے پورس سکندر کی وفاداری اور خیر خواہی میں ثابت قدم رہا۔ اس کے بعد سکندر مگدھ دیس کی بڑی سلطنت پر قبضہ کرنے کی نیت سے آگے بڑھنے پر مستعد ہوا۔ مگر پنجاب فتح کرنے میں یونانیوں کو اس قدر دقت پیش آئی تھی کہ سکندر کی فوج نے دریائے ستلج سے پار اُترنے سے کانوں پر ہاتھ دھرا۔ اس لیے سکندر کو مجبوراً فارس کی طرف اُلٹا پھرنا پڑا ۔ چنانچہ وہ خود تو فوج کا ایک دستہ ساتھ لے بلوچستان کے جنگلوں کی راہ واپس گیا اور اس کا مشہور امری البحر ینارکس باقی فوج کو ساتھ لے کر دریا کے رستے سندھ کے دہانے سے گزر خلیج فارس کی راہ سے دریائے فرات میں پہنچا۔ ۳- شاہ سلوکس کا ہند پر حملہ جب سکندر نے وفات پائی تو اس کا ایک عمدہ سردار سلوکس نام اُس کی ایشیائی سلطنت کے ایک حصے پر قبضہ کر بیٹھااور پھر یہ ارادہ کیا کہ ہند کی فتح کا عزم جو سکندرنے کیا تھا اُسے پورا کرے۔ اس وقت سلطنت مگدھ کا راجہ چندر گپت تھا۔ جو ہند میں نہایت دولتمند اور زبردست گنا جاتا تھا۔ (اس کو یونانیوں نے سنڈراکوٹس لکھا ہے)۔ غرض سلوکس راجہ چندر گپت پر حملہ کرنے کے لیے۔ دریائے گنگ تک آیا۔ مگر یہاں دونوں میں عہدو پیمان ہو گئے۔ چندر گپت نے تو پچاس ہاتھی خراج میں دینے منظور کیے اور سلوکس نے چندر گپت کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دی اور دریائے سندھ کے اُس طرف جس قدر صوبے اُس کے پاس تھے وہ بھی اُسی کو دے دیے۔ ۴- سلطنت باختر یونانیوں کی ایشیائی سلطنت کا ایک صوبہ افغانستان کے شمال میں واقع تھا۔ جس کا نام اُس وقت باختر تھااور اب اس کو بلخ کہتے ہیں اس صوبے کا یونانی حاکم شاہ سلوکس کے بعد وہاں کا بادشاہ بن گیا۔ اس خاندان کی سلطنت کئی سو برس تک بڑی زبردست رہی اور مغربی اور شمال مغربی ہند کا بھی ایک بڑا حصہ اکثر اس سلطنت میں داخل رہا۔ انجام کار ان بادشاہوں کا ایک خاندان جو سویٹر کے نام سے مشہور ہے۔ اپنی سلطنت کے شمالی حصے سے بے دخل ہو کر اپنے مقبوضاتِ ہند میں آکر پناہ گزیں ہوا اور یہاں برسوں تک سلطنت کرتا رہا۔ ملک سندھ اور ممالک صوبجات متحدہ اودھ و آگرہ کا ایک حصہ اور پنجاب اور افغانستان یہ سب ملک اس خاندان کے زیر حکومت تھے۔ ۵- قدیم ہندوئوں کی نسبت یونانیوں کی رائے ہند کے جو حالات یونانیوں نے لکھے ہیں ۔ اُن میں یہ امور نہایت عجیب ہیں ۔ اول منو کے دھرم شاستر سے اُن حالات کی مجمل مطابقت۔ دوم اس وقت سے اب تک جو دوہزار برس گزرے ہیں۔ ان میں بہت کم تغیر و تبدل ہونا۔ سوم ہندوئوں کی عادات اور حالات کا یونانیوں کو پسند آنا۔ یونانیوں نے لکھا ہے کہ ایشیا میں جس قدر قوموں سے ہم کو کام پڑا۔ اُن میں سے ہند کے لوگ زیادہ بہادر تھے اور وہ زبان کے بھی بڑے سچے تھے۔ انہوںنے ان کی نسبت یہ بھی لکھا ہے کہ وہ شراب نہیں پیتے تھے اور ہر ایک امر میں میانہ رو۔ صلح اندیش ، سادگی و دیانت میں مشہور اور عدالت میں رجوع کرنے سے نفور تھے۔ چوری ہندوستان مین نام تک کو نہ تھی۔ قفل کا استعمال بالکل نہ ہوتا تھا۔ لوگ محنتی ، کاریگر اور اچھے کاشتکار تھے۔ اپنے سرداروں کے ماتحت امن سے زندگی بسر کرتے تھے ۔ غلامی کا رواج ان میں مطلق نہ تھا۔ ہندوستان مین ۱۱۸ سلطنتیں تھیں۔ ہر ایک کا راجہ الگ الگ تھا۔ چندر گپت سب راجائوں پر حکومت کر تا تھا۔ مگر یونانیوں کے خیال میں ہر ایک سلطنت خود مختار تھی۔ زمینیں صرف بارانی تھیں۔ برہمنوں کا بڑا فرض یہ تھا کہ قحط سالی کی پیشین گوئی کرتے رہیں۔ تاکہ غلہ جمع ہوتا رہے۔ اگر کسی کی پیشین گوئی غلط ثابت ہوتی تھی تو آئندہ اُس پر یقین نہ کیا جاتا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ستی ہونے کا دستور ان میں جاری تو ہو گیا تھا مگر بہت کم تھا۔ کیونکہ یونانی مؤرخ ارسٹو بیوس نے لکھا ہے کہ میں نے ٹیکسلا میں وہاں کے جو جو عجیب و غریب حالات سنے ۔ ان میں سے ایک بات ستی ہونا بھی ہے۔ چھٹی فصل ۔ بودھ مذہب کا عروج و زوال ۱- چندرگپت راجۂ مگدھ جہاں اب ملک بہار واقع ہے وہاں قدیم زمانے میں ہندوئوں کی ایک بری زبردست سلطنت تھی جو مگدھ کی سلطنت کہلاتی تھی اور اُس کا پایہ تخت پاٹلی پتر دریائے گنگ کے کنارے پر اس جگہ واقع تھا۔ جہاں اب پٹنہ ہے۔ اس سلطنت کے دو راجائوں کا ذکر تو پہلے آچکا ہے۔ یعنی اول راجہ اشوک جو بُدھ کا معتقد ہو گیا تھا اور دوسراوہ جس کی قوت اور دولتمندی کا حال سن کر سکندرا عظم کو رشک پیدا ہوا تھا۔اُس کا نام راجہ نند دولتمند تھا۔ اس کے بعد چندر گپت جو ایک بڑا نامور راجہ گزرا ہے۔ گدی پر بیٹھا اور شاہی خاندان موریا کا بانی ہوا۔ اس راجہ کی نسبت یہ لکھا ہے کہ وہ ایک رذیل قوم کا تھا اور جب سکندر پنجاب سے چلا گیا۔ تو چندر گپت نے اس ملک پر قبضہ کر لیا اور پھر ہوتے ہوتے راجہ نند پر غالب آکر مگدھ کی سلطنت پر تسلط کر لیا ۔ اس کے بعد سلوکس یونانی بادشاہ ملک شام کی بیٹی سے اس کی شادی ہوئی اور چوبیس برس یعنی ۳۱۵ ؁ سے ۲۹۱ ؁ قبل مسیح تک اسنے بڑی شان و شوکت سے سلطنت کی اور یہ پہلا راجہ تھا جس نے سارے شمالی ہند کو تسخیر کر لیا تھا۔ ۲- راجہ اشوک چندر گپت کے بعد اُس کا بیٹا تخت پر بیٹھا اور اس نے بھی کچھ ملک فتح کیا۔ پھر اُس کے بعد اس کا بیٹا راجہ اشوک تخت نشین ہوا اور یہ ایسا زبردست گزراہے کہ موریا خاندان میں کیا بلکہ ہند کے سارے قدیم راجائوں میں کوئی اس کے برابر نہ تھا۔ یہ راجہ مسیح سے ۲۶۳ برس پیشتر سلطنت مگدھ کے تخت پر بیٹھا اور تقریباً ۴۰ برس تک راج کرتا رہا۔ اس کے راج میں بودھ مت راج دھرم ہو گیا اور اس کے جلوس کے سترھویں برس جو بودھ لوگوں کی تیسری بڑی مجلس اس کی سرپرستی سے منعقد ہوئی تھی۔ اس میں یہ بات سر عام مشہور کی گئی تھی۔ اس راجہ نے کئی مقامات پر کتبے نصب کرائے۔ جو بالفعل کئی شہروں میں دریافت ہوئے ہیںاور ان پر اُس کے بعض قانون اور اشتہار کندہ ہیں۔ ان کتبوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس کی سلطنت ہند میں ایک طرف دکن کے مشرقی حصے اور اوڑیسہ تک اور دوسری طرف گجرات کے مغرب اور پنجاب کے انتہائے شمال تک تو ضرور پھیل رہی تھی اور اگر اس سے بھی زیادہ ہو تو کچھ عجب نہیں۔ ۳- بودھ مذہب کا زوال موریا خاندان کے راجا ملک بہار میںسو برس سے زیادہ راج کرتے رہے۔ پھر اُن کے بعد بودھ مذہب کے اور زبردست شاہی خاندانوں کا دور دورہ رہا اور یہ مذہب مگدھ دیس میں ساتویں صدی تک اچھی طرح جاری رہا۔ اُس وقت ایک چینی ہیوئن سانگ نامی جو اس مذہب کا معتقد تھا ۔ یاترا کے لیے ہند میں آیا تھا۔ بودھ مذہب ہند میں یوں تو بارھویں صدی تک یعنی تیرہ سو برس سے زیادہ رہا۔ اور اس اثنا میں اکثر اوقات بڑے بڑے زبردست راجہ اور ریاستیں اس کی پیرو رہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسیح سے دو سو برس پیشتر ہی سے اس میں زوال شروع ہو گیا اور موریا خاندان پر زوال آتے ہی سارے ہند کے اندر برہمنوں کے مذہب میں دوبارہ جان پڑنے لگی۔قنوج کے بڑے مشہور شہر نے تو برہمنوں کی عقیدت سے قدم باہر دھرا ہی نہ تھا۔ مگر اب اور دیار و امصار بھی ایک ایک کر کے اپنے پہلے دھرم کی طرف جس کی شکل اب کسی قدر بدل گئی تھی۔ پھر رجوع کرنے لگے اور برہمنی مذہب نے جو ہئیت اس وقت اختیار کی وہی ہند میں آج تک قائم ہے۔ ۴- جین مت یہ مذہب بحیثیت عامہ بودھ مت سے ملتا جلتا ہے مگر بعض اصولوں کے لحاظ سے ان میں کچھ فرق ہے یہ قبل الذکر سے قدیمی ہے اور اب تک ہندوستان کے کئی حصوں میں اس کے پیرو پائے جاتے ہیں۔ اس مذہب کے آخری پیشوا مہابیر سوامی ساکی منی کے ہمعصر تھے۔ یہ صوبۂ بہار میں پیدا ہوئے اور کشتری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ قربانی اور یگ وغیرہ کے مخالف تھے۔ دیوی دیوتائوں کی پرستش کو ذریعۂ نجات نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ نیک اعمال اور تر لذاتِ دُنیوی کوافضل تصور رکتے تھے۔ یہ ۷۲ سال کی عمر پا کر انتقال کر گئے۔ بودھ مت کے زوال کے قریب اس مذہب کو دکن میں بہت عزت حاصل رہی اور اب تک اس کی عظمت کے نشان باقی ہیں۔ذاتوں کی تمیز اس میں بھی ہے ۔ آج کل تقریباً ۱۸ لاکھ جینی موجود ہیں۔ ۵- ہند کے باشندے ہندوستان میں تین قسم کے لوگ آباد تھے۔ اول اصلی باشندے جو جنگلی کہلاتے تھے۔ دوم آریا جو تاریخ کے زمانے سے پیشتر ہندوستان میں آکر آباد ہوئے۔ سوم تاتاری جو شروع تاریخ سے کچھ عرصہ پہلے یہاں آکر آباد ہونے شروع ہوئے۔ اُن کی آمد ہندوستان میں پہلی اور پانچویں صدی کے درمیان بکثرت ہوئی۔ ہر سہ اقسام مندرجۂ بالا کے رسم و رواج علیحدہ علیحدہ تھے۔ آریائوں کے سوا کل آادمی شکار ہر گزارا کرتے تھے۔ یہ لوگ دیوتائوں کے غصے کو قربانیاں دے کر ٹالا کرتے تھے۔ قربانیاں صرف جانوروں ہی کی نہیں دیتے تھے ۔ بلکہ انسان کی قربانی کا بھی رواج تھا۔ پہلے پہل آریائوں نے شکار کو چھوڑ کر کاشت پر گزارا کرنا شروع کیا اور ان کے ہاں ایک عورت کا صرف ایک ہی خاوند ہوتا تھا۔ ان کی جائداد کی تقسیم کے اصول تقریباً آج کل کے سے ہی تھے۔تاتاری جو ۱۲۶ ء سے ۴۰۰ ء کے درمیان ہندوستان میں آئے۔ نہ تو شکار پر گزارا کرتے تھے اور نہ آریائوں کی طرح کاشت اُن کی پسند تھی۔ وہ گڈریوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ کسی زمانے میں وسط ایشیا کے جنگلوں میں آوارہ پھرا کرتے تھے اور لڑائی میں مشغول رہنا ان کے لیے باعث فخر تھا۔ ۶- آریا اور ہندوستان ہندوستان میں شائستگی آریائوں سے شروع ہوئی۔ویشوں نے زمین کی کاشت کو اپنا شگل سمجھا۔ کھشتریوں نے جنگلی آدمیوں کو مغلوب کرنا شروع کیا۔ برہمنوں نے مذہب اور علم سنبھالا۔برہمنوں کے مذہب میں (جو اُس وقت ہندوستان میں رائج تھا) نیچ قوموں کی کچھ حقیقت نہ تھی۔ بودھ مذہب اس اصول پر بنا تھا کہ کُل انسان یکساں ہیں اس مذہب نے لوگوں کو یکجا کرنے میں بہت مدد دی۔ مگر اس سے پہلے کہ یہ آرزو پوری ہو یہ مذہب ہندسے جاتا رہا۔ بودھ مذہب کے زوال پر برہمنوں کا زور بڑھنے لگا اور بودھ مذہب کے معتقدوں کو ہند میں رہنا مشکل ہو گیا۔ دو صدیوں کے اندر ہی برہمن زبردست ہو گئے ۔ اول ایک بہار کے برہمن کمارل نے وعظ شروع کیا اور وید کے پُرانے طریقے پر مذہبی تعلیم دینے لگا۔ بودھ مذہب والے خداکی وحدانیت کو پورا پورا تسلیم نہ کرتے تھے ۔ کمارل نے ایک جنوبی ہندوستان کے راجہ کو تبدیل مذہب کے لیے اُکسایا اور اُس نے اپنی سلطنت میں کل بودھ مذہب والوں کو قتل کروا ڈالا۔ یہ بات درست ہو یا نہ و۔ مگر اس میں شک نہیں کہ برہمنوں کا زور بڑھنا شروع ہوا۔ بودھ مذہب والے کچھ تو اس خیال سے کہ خود مذہب ہی میں ذوال پیداہو رہے تھے اور کچھ اس لیے کہ بودھ مذہب والے کل قوموں کو ایک بنانا چاہتے تھے پست ہو گئے۔ ۷- ہندوئوں کی ذات وغیرہ بلحاظ قوم ہندوئوں کی دو قسمیں تھیں۔ ایک دوج یعنی دو جنمے۔ اس میں برہمن ، کھشتری اور ویش شامل تھے۔ دوسرے ایک جنمے ۔ جس میں شودر اور مخلوط النسل آدمی شامل تھے۔ ان دونوں میں اب تک تمیز ہوتی ہے۔ دو جنمے زنار پہنتے ہیں ۔ ایک جنمے کو اجازت نہیں اور وہ مقدس کتاب کو نہیں پڑھ سکتا۔ یہ اجازت صرف اس وقت حاصل ہوئی جبکہ سرکار انگریزی نے عوام کے فائدوں کے لیے مدارس جار ی کر دیے۔ گو ذاتوں کا امتیاز قوموں پر ہے۔ مگر اس میمی۹ں لوگوں کے پیشوں اور ان کی جائے سکونت کا بھی خیال رکھا ہے۔ پُرانے زمانے میں ہر ایک ذات کے لیے ایک پیشہ مقرر تھا۔ اُس کی تقسیم یا تو برہمن کھشتری ، ویش اور شودرمیں ہو سکتی تھی یا پروہتوں ، جنگجو آدمیوں ، کسانوں اور غلاموں وغیرہ مین ۔ برہمنوں کی بھی دس قومیں تھیں۔ ان میں سے پانچ وندھیاچل کے شمال میں رہتی تھیں اور پانچ جنوب میں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو دوسرے سے علیحدہ خیال کرتی تھی۔ اور اُن کے چھوٹے چھوٹے فرقے تعدا د میں ۱۸۸۶ تھے۔ اسی طرح کھشتریوں اور راجپوتوں کے بھی علیحدہ علیحدہ فرقے تعداد میں ۵۹۰ تھے۔ ظاہر میں تو ذاتوں کی تفریق سیدھی سادی معلوم ہوتی ہے۔ مگر درحقیقت بڑی پیچیدہ ہے۔ کیونکہ تین باتوں پر منحصر ہے۔ اول قوم۔ دوم پیشہ اور سوم جائے سکونت۔ اس طرح سے تقریباً تین ہزار ذاتیں ہیںاور سب علیحدہ علیحدہ ہیں۔ مختلف ذاتوں کے آدمی آپس میں شادی نہیں کر سکتے اور نہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھا ہی سکتے ہیں۔ معمولی قاعدہ تو یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو کی پکائی ہوئی خوراک کو کوئی نیچ ذات کا آدمی چھو بھی نہیں سکتا۔ ہر ذات کے آدمی کا فرض ہے کہ اپنے ہی بڑوں کے پیشوں کو اختیار کرے۔بلکہ عام لوگوں کا میلان تو اس طرف رہا ہے کہ ہر صوبے میں ہر ذات کے لیے الگ الگ صنعت ہو۔ لیکن یہ ہونا مشکل تھا ۔ بعض حالتوں میں نیچ ذات کے آدمی دستکاری وغیرہ میں سبقت لے جاتے تھے۔ مثلاً ویشوں کا یہ کام ہوتا تھا کہ وہ کھیتی باڑی کر کے گزارہ کریں۔ وہ بڑے بڑے ساہو کار اور سوداگر بھی ہو جاتے تھے۔ مگر اس قسم کے تغیر وتبدل ہونے کسی قدر ضروری بھی ہیں۔ـذاتوں کی تقسیم میں صنعت و حرفت کا دخل بھی کسی قدرضروری ہے۔ اس میں بچے کی تعلیم خاص پیشے کے لیے اچھی طرح سے ہو سکتی ہے۔ تجارت کے لیے خاص خاص قانون مقرر ہیں۔ اکثر لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ ململ، زری کے کپڑے اور اوزاروں کی ساخت میں ہندوستان کو ہمیشہ سے کمال حاصل رہا ہے۔ ۸- ہندوئوں کا مذہب ہندوئوں کے مذہب میں نہ صرف ذاتوں کا ہی دخل ہے۔ بلکہ مذہب کو بھی ۔ ویدوں پر کُل ہندوئوں کا یقین ہے۔ بودھ مذہب والوں کے سیدھے سادے اصولوں اور آریائوں کے سوا سب باشندوں کی جنگلی عادتوں سے یہ اثر پہنچا کہ سب کے سب دیوتائوں کی پرستش کرنے لگ گئے۔بودھ مذہب نے نہ صرف پرہیز گاری اور پاکیزگی پھیلائی۔ بلکہ دھرم سالہ وغیرہ کی تعمیر اسی مذہب سے نکلی۔ اصلی باشندوں کے رسم و رواج نے یہ اثر دکھلایا کہ لکڑی کے ٹکڑوں پتھروں اور درختوں کی پرستش ہونے لگی۔ ایک مٹی کا ڈھیلا درخت کے نیچے رکھ کر دیوتا مانا جاتا تھا۔ سانپ بھی دیوتا تھا۔ ایسی ایسی رسوم تاتاری باشندے وسط ایشیا سے لائے تھے ۔ شِو اور وِشنو کی پرستش کُل ہندوئوں کو آپس میں ملائے رکھتی تھی۔ یہ بات عموماً تسلیم کی جاتی ہے کہ ہندو مذہب ویدوں ہی سے شروع ہوا ہے۔ اور وید الہامی کتابیں تصور ہوتی ہیں۔ مگر درحقیقت ہندو مذہب کے کئی ماخذ ہیں۔ جن کا مختصر ذکر اوپر آچکا ہے۔ اچھا لائق برہمن صرف خدا ہی کو مانتا ہے۔ کم پڑھا ہو اخدا کی کسی پاک شکل میں پرستش کرتا ہے۔ معمولی برہمن خدا کو ایک اعلیٰ دیوتا سمجھتا ہے۔ شِو کو دوسری دفعہ پیدا کرنے والا ماناتا ہے۔ یہ اُس موت کا ایک نمونہ ہے۔جس سے سب خطرے دور کر دیے جائیں۔ اس خیال سے کہ شِو انسان کو دوسرے جنم میں لاتا ہے۔ اس کی پرستش کی جاتی ہے۔ عام لوگ وِشنو کو ایک اوتار سمجھ کر اُس کی پرستش بھی کرتے ہیں۔ نیچ ذات کے آدمی شِو کو ہلاک کر دینے والا مانتے ہیں۔مگر ہر ایک تعلیم یافتہ ہندو سمجھتا ہے کہ اُس کو کسی نہ کسی شکل میں خدا ہی کی پرستش کرنے چاہیے۔ ساتویں فصل ۔ برہمنوں کے مذہب کا دوبارہ سر سبز ہونا ۱- پُران برہمنوں کے مذہب کی اخیر کتب مقدسہ کو پُران کہتے ہیں اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اُن کے مصنفوں نے اُن کے مسائل کو ہندوئوں کے پرانے عقیدے کے مطابق تصور کیا ہے ۔ محققین کی عموماً یہ رائے ہے کہ یہ کتابیں آٹھویں صدی سے پہلے کی تصنیف نہیں ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جب برہمنوں کے مذہب نے دوبارہ رونق پائی ہے۔ اُس وقت کی کیا شکل تھی۔ اُن میں سے اکثر میں تو وشنو اور شِو وغیرہ کے معتقد فرقوں کے عقائد کی تشریح ہے۔ اس کے علاوہ دیوتائوں کے سارے قصے اور مشہور افسانے بھرے پڑے ہیں اور ان میں صرف دیوتائوں ہی کے نسب نامے اور تذکرے نہیں ہیں ۔ بلکہ بادشاہوں اور بڑے بہادروں کے بھی کُرسی نامے درج ہیں۔ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ اُن سے کچھ کچھ تاریخی حالات دریافت ہوتے ہیں۔ پُران تعداد میں اٹھارہ ہیں اور اگرچہ اُن میں ویدوں کی بڑی تعظیم و تکریم درج ہے۔ مگر اُن کا مت ویدوں اور درشنوں کے متوں سے بالکل مختلف ہے اور آج کل عام ہندوئوں کا جو مذہب ہے۔ اُس کو پُرانوں ہی کے مطابق سمجھنا چاہیے۔ اس میں تین دیوتائوں کو مسلم رکھا ہے۔ یعنی برھما خلقت کا پیدا کرنے والا۔ شِو ہلاک کرنے وال اور دِشن پرورش کرنے وال۔ ان میں سے دِشن اور شِو کی پرستش تو بہت ہوتی ہے اور برھما کی بہت کم۔ ان کے علاوہ بڑے بڑے بہادروں مثلاً راجہ رامچندرجی اور کرشن جی کو بھی اوتار سمجھ کر ان کی پوجا بھی کرتے ہیں اور ان سے کم درجے کے دیوتائوں کی تو کچھ گنتی ہی نہیں۔ ۲- راجپوتوں کا آغاز بودھ مذہب کو ہند سے خارج کرنے میں برہمنوں کو کئی سو برس لگے۔مگر چونکہ اس زمانے کی تاریخ معتبر اور واضح نہیں ہے۔ اس لیے اُس کے مفصل لکھنے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ اس وقت راجپوتانہ اور نیز ہند کے سارے شمالی ملک میں راجپوتوں کی بہت سی ریاستیں قائم ہوئیں اور اُن کو رونق و ترقی ہوئی۔ اُن میں سے بعض آج تک موجود ہیں۔ مثلاً میواڑیا اُودے پور اور ماڑواڑ یا جودھ پور اور اُن ریاستوں میں اُن کے خاندانوں کی جو تاریخیں موجود ہیں۔ اُن سے اُن کا قدیم حال کسی قدر معلوم ہوتا ہے۔ راجپوتوں کی اُن ریاستوں میں سے اکثر برہمنی مذہب کی پیرو تھیں اور یقین ہے کہ برہمنوں نے خاص کر اُن راجپوت راجائوں ہی کی مدد سے ہند میں پھر اقتدار حاصل کیا ۔ غرض پُرانوں میں جو یہ قصہ لکھا ہے کہ راجپوتوں کے بزرگ وید کے دشمنوں کو ہند سے رفع کرنے کے لیے معجزے کے طور پر پیدا کیے گئے تھے۔ اس کے معنی غالباً یہی معلوم ہوتے ہیں کہ اگنی کل راجہوتوں کا قصہ جو مشہور ہے وہ یہ ہے کہ کوہ آبو پر جو رشی لوگ رہتے تھے انہوں نے برھما سے فریاد کی کہ راکشس یعنی بودھ مت کے لوگ ویدوں کو پائوں میں روندتے ہیں اور انہوں نے سارے ہند پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس پر برھما نے حکم دیا کہ کھشتریوں کی نسل جس کو پرس رام نے غارت کر دیا تھا۔ پھر پیدا کی جائے۔ چنانچہ اگنی کُنڈ گنگا جل سے پاک صاف کیا گیا۔ اور پھر اس میں سے چار سورما جن کو اگنی کل یعنی آتشی نسل کے شخص کہتے ہیں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بڑے عجیب و غریب سپاہیانہ کرتب دکھا کر ملک کو راکشسوں سے پاک کر دیا۔ آج کل کے جو راجپوت ہیں اُن میں سے اکثر اپنے تئیں انہی اگنی کل سورمائوں کی نسل سے بتاتے ہیںجنہوں نے اس طرح برہمنی مذہب کو ترقی دی۔ جس زمانے کا یہ ذکر ہے۔ اُس میں چند صدیوں تک راجپوتوں کا اندھر خاندان ہند میں نہایت زبردست رہا۔ اُس کی کئی شاخیں تھیں۔ جن میں سے ایک تو مگدھ دیس سے بودھ لوگوں کو نکال کر وہاں راج کر رہی تھی۔ دوسری ورنگل میں فرمانروا تھی۔ تیسری دکن میں اوڑیسہ کے جنوب کی طرف تلنگانہ میں حکمراں تھی۔ چوتھی اُجین میں جو مالوے کے اندر اُس وقت نہایت مشہور تھا۔ حکومت کرتی تھی۔ یہاں کا بڑا بہادر راجہ بکرما جیت اندھر خاندان کا نہایت نامور راجہ گزرا ہے۔ اس کو اگنی کل راجپوتوں کے اعلیٰ خاندان پر مرا یعنی پوار سے بتاتے ہیں۔ اس کی فتوحات اور شجاعت اور اس کے تخت کی خوبصورتی اور دربار کے تجمل اور اُس کی ذاتی خوبیوں کے بہت سے افسانے مشہور چلے آتے ہیں۔ اُن میں سے بعض باتیں تو بے شک خاص بکرما جیت پر صادق آتی ہیں۔ مگر بعض غالباً قدیم زمانے کے اور بڑے بڑے راجائوں کے حال سے متعلق ہیں۔ جن کے نام یا تو مؤرخ بُھول گئے تھے یا اُن کو کبھی معلوم ہی نہیں ہوئے۔ اس لیے انہوں نے اُن کی حشمت اور فتوحات کو بکرما جیت سے منسوب کر دیا۔ ان مؤرخوںکا یہ قول ہے کہ دانشمندی اور انصاف اور شجاعت میں کوئی شخص بکرما جیت کے برابر نہیں ہوا اور اُس نے غیر ملکوں کے لوگوں کی عقل اور حکمت دیکھنے کے لیے فقیرانہ بھیس بدل کر بہت سی عمر ملکوں کی سیر و سیاحت میں صرف کی۔ یہ بھی لکھا ہے کہ جب اُس نے ملک گیری کا قصد کیا ہے اُس وقت اُس کی عمر پچاس برس کی تھی۔ پھر چند ہی مہینوں میں اُس نے ملک مالوہ اور گجرات کو فتح کر لیا اور تھوڑے ہی دنوں میں ہند کا مہاراجہ ادھراج ہو گیا۔ اگرچہ بکرما جیت کی سبھا بڑے تجمل و شان کی تھی۔ مگر وہ خود بڑی پرہیز گاری سے عمر بسر کرتا تھا۔ چنانچہ بوریے پر سویا کرتا تھا اور اُس کے مکان میں پانی کی ایک ٹھلیا کے سوا کچھ نہ رہتا تھا۔ اس کی سبھا میں بہت سے عالم و فاضل داخل تھے اور کالیداس جو سکنتلا کے مشہور ناٹک اور میگھ دُوت کے عمدہ قصیدے کا مصنف ہے وہ بھی اُن مشہور فاضلوں میںسے تھا۔ جو بکرما جیت کی سبھا کی رونق اور اس کے دربار کے رتن سمجھے جاتے تھے۔ بکرماجیت کا سمت جس کا آغاز سنہ مسیحی کے ۵۷ سال پیشتر سے ہے ہندوستان میں اب تک بہت دور دور تک مروج ہے اور سالباہن کا سمت جو ۷۷ ؁ء سے شروع ہوا ہے دکن میںبعض جگہ رائج ہے۔راجہ سالباہن برہمنوں کا بڑا حامی تھا۔ اور اس کا پایۂ تخت شہر پتن دکن میں دریائے گوداوری پر واقع تھا۔ ۳- میواڑ اور راجپوتوں کی اور ریاستیں میواڑ اصل میں مدھ واڑ کا مخفف ہے اور اس کے معنی قلعۂ وسطی ہیں۔ یہاں راجا گھلوٹ قوم کے راجپوت تھے۔ اور اُس زمانے کے بعد یعنی مسلمانوں کے حملے سے پہلے راجپوتانہ اور مالوے کے ایک بڑے حصے میں اُن کی سلطنت تھی۔ اس خاندان کے راجا اول قنوج میں راج کرتے تھے۔ پھر گجرات کے اندر مقام ولبھی میں حکمران رہے۔ آخر مسیح سے قریب پانسو برس پہلے فارس کی فوج نے دلبھی پر حملہ کے کے گھلوٹ راجپوتوں کو وہاں سے نکال دیا۔مگر بعد میں اس خاندان کے راہ گوہ کی شادسی شاہ فارس کی بیٹی سے ہوئی اور اُس نے گھلوٹ خاندان کی سلطنت پھر میواڑ میں قائم کی۔ یہاں کا راجہ جو مہارانائے اودے پور کہلاتا اور ہند کی سلطنت انگلشیہ کے بڑے باجگزار رئیسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ راہ گوہ ہی کی اولاد میں سے ہے۔ میواڑ کے علاوہ ہندوستان اور دکن میںاور بھی راجپوتوں کی کئی بڑی ریاستیں تھیں اور جب مسلمانوں نے ہند پر حملہ کیا اُس وقت شمالی ہند کی ساری ریاستیں اُن راجپوت راجائوں اور بنگالے کے راجہ کے ماتحت تھیں۔ جب اُن میں سے کوئی سب سے زیادہ زبردست ہو جاتا تھا۔ تو اس کو مہاراجہ ادھیراج یعنی سب راجائوں کا سردار کہا کرتے تھے۔ کبھی اُن میں سے میواڑ کا راجہ مہاراجہ ادھراج ہوتا تھا کبھی توار خاندان کا راجہ اجمیر۔ کبھی چوہان نسل کا راجہ دیلی ۔ کبھی راٹھور قوم کا راجہ قنوج اور کبھی سولنگی خاندان کا راجہ پٹن واقع گجرات اس خطاب سے ممتاز ہوتا تھا۔ ۴- بنگالے کے راجہ معلوم ہوتا ہے کہ مہا بھارت کے زمانے سے لے کر ۱۲۰۳ء تک جب بختیار خلجی نے بنگالے کو فتح کر کے اُس کو اول اول سلطنت اسلام میں شامل کیا۔ بنگالے میں چار خاندانوں کے راجا ایک دوسرے کے بعد تخت نشین ہوئے۔ اُن میں سے تیسرے خاندان کے راجائوں کے نام برابر پال ہی پر ہیں۔ یہ خاندان آٹھویں صدی سے دسویں صدی کے اخیر تک فرماں روا رہا۔ مؤرخوں کا قیاس ہے کہ یہ راجا بودھ مذہب کے تھے اور اُن میںسے ایک راجہ یعنی دیوپال دیو کی نسبت بیان کرتے ہیں کہ وہ تمام ہند پر راج کرتا تھا۔بلکہ اُس نے ملک تبت کو بھی فتح کر لیا تھا۔ اس بیان سے غالباً صرف یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ وہ مہاراجہ ادھراج مانا گیا تھا۔ اس خاندان کا پایۂ تخت اول گور تھا۔ اس کے بعد ندیا قرار پایا۔ پال خاندان کے بعد سین خاندان حکمراں ہوا۔ اس خاندان کا ایک راجہ ادے سور نام ۹۶۴ء کے قریب بنگالے میں فرماںروا تھا اور غالباً یہی راجہ اس خاندان کا بانی تھا۔ اس نے قنوج سے پانچ برہمنوں کو بلا کر بنگالے میں آباد کیا۔ اُن میںسے ہر ایک برہمن کے ساتھ ایک ایک کا ٹستھ بھی تھا۔ اب بنگالے میں جو برہمنوں اور کاٹستھوں کی پانچ اونچی ذاتیںہیں۔ وہ انہی برہمنوں اور کاٹستھوں کی اولاد ہیں۔ پھر اسی خاندان کے ایک راجہ نے جس کا نام بلال سین تھا۔ ان پانچوں قنوجی برہمنوں کی اولاد کے مدارج قائم کیے۔ اس خاندان کا اخیر راجہ لکھنیا تھا جس کو بختیار خلجی نے ندیا سے نکال دیا تھا۔ ۵- دکن کے راجا ہند کے نہایت جنوب میں اُس وقت کئی زبردست سلطنتیں تھیں۔ مگر یہاں اُن میںسے صرف تین کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اول پانڈی خاندان کی سلطنت جس کا پایۂ تخت مُدرا تھا۔ دوم چولا خاندان کی سلطنت جو پیشتر کانچی پرم (کانچی ورام) میں تھی اور پھر تنجور میںبدل گئی۔ سوم چیرا خاندان کی سلطنت جو منتہائے جنوب میں اور ساحل ملیبار پر تھی۔ اوریسہ میں کیسری خاندان کے راجا کئی سوبرس تک حکمراں رہے ۔ ان کا پایۂ تخت اول تو جاج پور تھا۔ مگر پھر کٹک ہو گیا تھا۔ اس خاندان کے بعد گنگا بنسی خاندان فرماں روا ہوا ۔ اوڑیسہ کے راجائوں کا لقب گج پتی تھا اور اس کے معنی صاحبِ فیل کے ہیں۔ ___________ دوسرا باب سلطنتِ اسلام کاابتدائی زمانہ پہلی فصل ۔ مسلمانوں کے ہندوستان پر حملے اب ہم تاریخ ہند کے اُس زمانے میں پہنچے ہیں ۔ جس میں مسلمانوں نے ہند پر حملے کر کے اُس کو فتح کرنا شروع کیا۔ اس زمانے سے تاریخ برابر مفصل اور واضح پائی جاتی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کو علم سیر و علم تاریخ کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے اور ہر عہد کے اندر اُن میں کوئی نہ کوئی ایسا نکل آتا تھا۔ جو اپنے زمانے کے واقعات کو قلم بند کر کے تاریخ کا سلسلہ قائم رکھتا تھا۔ ۱- ہندومذہب پر اسلام کا اثر مسلمانوں کے متواتر حملوں سے ہندو مذہب کو کسی قدر زوال تو ضرور ہوا۔ مگر یہ مذہب بالکل نابود نہیں ہو گیا۔ اس وقت تک بھی جنوبی ہند میں عموماً صرف ہندو آباد ہیں۔ کئی راجا اب تک برہمنوں کے تابع ہیں۔ لیکن شمال مغرب میں جہاں حملے لگاتار ہمیشہ ہوتے رہے۔ تقریباً ایک تہائی باشندے رفتہ رفتہ مسلمان ہو گئے۔ گنگا کی وادی میں مسلمان بادشاہوں کے ہی دارالخلافے پائے جاتے ہیں اور جنوبی بنگال کی وادیوں میں بھی زیادہ تر لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور اب کل آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان ہیں۔ جب بودھ مذہب کے زوال کے باعث ہندو مذہب ترقی کر رہا تھا۔ اُس وقت عرب میںایک نیا مذہب پیدا ہوا۔ اس مذہب کے بانی حضرت محمدؐ صاحب ۵۷۰ ء میں پیدا ہوئے اور ۴۰ برس کی عمر میں ایک نئے اور فاتح مذہب یعنی اسلام کی اشاعت کی۔ ان کی زندگی میں اس مذہب نے بہت کچھ ترقی کر لی۔ خاص کر عرب کا سارا حصہ اس مذہب کے سادے اصولوں پر مفتون ہو کر اُن پر ایمان لایا۔ ۶۳۲ء میں حضرت محمدؐ صاحب راہی ملک بقا ہوئے۔ اُن کے انتقال کے ایک سو سال کے اندر اندر مسلمانوں نے کئی ملکوںپر ہندوکش تک حملے کیے۔ مسلمانوں کو اپنی جمیعت بڑھانے میں تین سو سال لگے اور پھر وہ ہندوستان کے سر سبز میدانوں اور خوشگوار جگہوں پر قابض ہو گئے۔ شروع ہی سے ان کا خیال اس دولتمند ملک کی طرف تھا اور یہ ہمیشہ ڈر لگا رہتا تھا کہ وہ کسی نہ کسی دن ضرور حملہ آور ہوں گے۔ ۲- ہند پر مسلمانوں کے حملے اہل اسلام میں سے اول ہی اول جس نے ہند پر حملہ کیا۔ ابوالعاس عامل یمن تھا۔ اس نے حضرت عمر کے عہد میں ۱۵ ؁ہجری مطابق ۶۳۶ء کے اندر بمبئی کے قریب مقام تھانہ پر فوج کشی کی اور لُوٹ کا کچھ مال لے کر اُلٹا چلا گیا۔ پھر ۶۶۴ء میں جب مسلمانوںنے کابل فتح کیا تو عرب کاایک امری مہلب نام اُس راستے ہند میں ملتان تک آیا اور بہت سے لوگوں کو قید کر کے لے گیا۔ اس کے بعد پھر کئی بار مسلمانوں نے ہند پر حملے کیے اور یہاں کی لُوٹ سے مالا مال ہو کر الٹے پھر گئے۔ آخر ۷۱۲ء میں خلیفہ بغداد کے عہد میں عراق کے عامل حجاز کا بھتیجا محمد بن قاسم بہت سی فوج لے کر ہند پر چڑھ آیا اور سندھ کو فتح کرلیا۔ اس حملے کاباعث یہ ہوا کہ راجہ داہر والیٔ سندھ نے اہل عرب کے کچھ جہاز لوٹ لیے تھے۔ اس واسطے مسلمانوں نے سندھ پر حملہ کر کے راجہ داہر کو شکست دی اور ملک پر قبضہ کر لیا۔ ہندو اگرچہ مایوس ہو گئے تھے ۔ مگر ان کی دلیری دیکھ کر حملہ آور دنگ رہ گئے۔ راجپوت سپاہیوں نے اطاعت قبول کرنے سے تباہ ہونا بہتر سمجھا۔ انہوں نے لکڑیاں اکٹھی کر کے ایک بڑی چتا تیار کی۔ جس میں عورتوں اور بچوں نے گر کر جان دی۔ راجپوت سوار نہا دھو کر ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور دونوں دروازوں کو کھول کر حملہ آوروں پر جا پڑے اور جب تک ایک آدمی بھی زندہ رہا۔ میدان سے مُنہ نہ موڑا۔ کہتے ہیں کہ ۷۵۰ء میں راجپوتوں نے مسلمانوں کو سندھ سے نکال دیا۔ مگر ۸۲۸ء تک سندھ ہندوئوں کے قبضے میں نہیں آیا۔ خلیفہ ولید کی وفات کے بعد ماموں ابن ہاروں رشید نے ہند پر فوج کشی کی لیکن راجپوتوں نے اُس کو شکست دی۔ اس کے بعد ڈیڑھ سو برس تک مسلمانوں نے ہند پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ کیونکہ اُس وقت سے خلفا کی حکومت میں ضعف آتا گیا اور ہوتے ہوتے یہ نوبت پہنچی کہ ہر ایک صوبہ منحرف ہو کر خودمختار بن بیٹھا اور اخیر خلیفہ کے پاس صرف صوبہ بغداد ہی رہ گیا۔ ۳- اسلام کے حملوں کے وقت ہندوستان کی حالت اس سے پہلے کہ اسلام کا زور ہندوستان میں ہو۔ مسلمان ہندوکش کے مغرب تک کل ایشیا، افریقہ اور جنوبی یورپ میں فرانس اور سپین تک جا چکے تھے۔ ہندوئوں کی دلیرانہ طبیعت بار بار جوش میں آتی تھی۔ سلطنتوں کا فوجی انتظام بہت اچھا تھا۔ وندھیاچل کے شمال کی طرف تینوں دریائوں کی وادیوں میں ہندو راجا حکمران تھے ۔ شمال مغرب میں سندھ کے میدانوں میں اور دریائے جمنا کے اُس پار ہندو راجائوں کا ہی زور تھا۔ بہار سے اُس پار کی جنابی وادی تک پال خاندان کی حکومت تھی۔ وندھیاچل ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا اور مشرقی اوروسطی طبقے میں پہاڑی جنگجو قومیں آباد تھیں۔ ساحل بمبئی کی مغربی حد پر مالوے کی ریاست واقع تھی۔ ہند کے جنوب میں کئی بہادر ہندو راجا حکمراں تھے۔ یہ راجا غالباً آریا جسل کے نہیں تھے۔ اسلام کی حکومت کبھی سارے ہندوستان پر نہیں ہوئی۔ اس میں حملے اور فتح دونو شامل ہیں۔ ہندو خاندان کے راجا زیادہ رقبے پر حکمران تھے۔ مسلمانوں کے عروج کے وقت ہندو راجا خراج ادا کرتے تھے اور شاہی دربار میں بطور ایلچی کے روانہ ہوتے تھے مگر مغلیہ دربار کی یہ رونق ڈیڑھ سو سال سے زیادہ نہیں رہی۔ اس عرصے کے اندر اندر ہی ہندوئوں نے ملک کو فتح کر نا شروع کیا۔ راجپوتانے کے بہادر ہندو جنوب مشرق سے دہلی پر متواتر حملے کرتے رہے۔ شمال مغرب کی طرف سکھ اپنی فوجی طاقت دکھا رہے تھے۔ مرہٹوں کی نیچ ذاتوںکی جنگجو عادتوںاور برہمنوں کی مدبرانہ تدبیروں نے مل کر جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں سے خراج لینا شروع کیا۔ ۴- اسمٰعیل سامانی اسی زمانے میں اسمٰعیل سامانی صوبہ دار ماوراء لانہر و خراسان بھی خلیفہ سے باغی ہو کر بخارا کا بادشاہ بن گیا تھا۔ اس خاندان کے ایک بادشاہ کے ہاں الپتگیں نام ایک ترکی غلام تھا۔ جس نے اپنی عقل و دانائی کی بدولت رفتہ رفتہ یہاں تک عروج پکڑا کہ خراسان کا حاکم بن گیا۔ جب بادشاہ نے وفات پائی تو اُس کی جانشینی کی نسبت ارکانِ سلطنت میں اختلاف ہوا۔ بعض تو یہ چاہتے تھے کہ شاہ متوفی کے کم سن بیٹے منصور کو بادشاہ بنائیں اور بعض یہ کہتے تھے کہ بادشاہ کا چچا تخت پر بیٹھے۔ الپتگیں منصور کے خلاف تھا۔ مگر اور ارکان سلطنت اُسی کو تخت پر بٹھایا۔ اس وجہ سے بادشاہ اور الپتگیں کی باہم رنجش ہوئی۔ اس پر الپتگیں خود سر ہو گیا اور کابل و قندھار پر قبضہ کر کے اس نے غزنی کی اپنا دارالسلطنت مقرر کر دیا۔ ۵- سبکتگین الپتگیںکی وفات کے بعد اس کا بیٹا اسحاق دو برس سلطنت کر کے مر گیا اور سبکتگین تخت پر بیٹھا۔ سبکتگین اصل میں یزد جرد شاہ فارس کی نسل سے تھا۔ مگر زمانے کی گردش سے تباہ و خستہ ہو کر ایک سوداگر کے ہاتھ پڑا اور وہ اسے بخارا لے آیا۔ یہاں الپتگین نے اسے ہونہار دیکھ کر خرید لیا اور اُس کی عقل و دانائی کے سبب ترقی کرتے کرتے سپہ سالار ی کے رُتبے تک پہنچا دیا۔ بعض پُرانے مؤرخوں نے سبکتگیں کی خوش خلقی اور رحمدلی کے باب میں جس سے اُس کی سپاہ اس پر جان نثار کرتی تھی۔ یہ دلکش داستان لکھی ہے کہ جب وہ ادنیٰ درجے کے سواروں کے زمرے میں ملازم تھا ایک دن جنگل میں شکار کھیلنے گیا۔ وہاں کہیں ایک ہرنی اپنے بچے کے ساتھ چرتی ہوئی اُس کو نظر آئی۔ اُس کے جی میں آیا کہ کسی طرح اس بچے کو پکڑ لیجیے۔ اس خیال سے گھوڑے کو ایڑ لگا کر اس کی طرف جھپٹا اور آخر اُس کو پکڑ کر فتراک سے باندھ لیا اور گھر کی راہ لی۔ جب تھوڑی دور نکل آیا تو دیکھتا کیا ہے کہ اُس بچے کی ماںدرد انگیز آواز سے روتی ہوئی پیچھے پیچھے چلی آتی ہے۔ ہرنی کا یہ حال دیکھ کر سبکتگین کا دل بھر آیا اور وہیں اس نے بچے کو چھوڑ دیا۔ یہ دیکھ کر اُس کی ماں کی جان میں جان آگئی اور خوشی خوشی بچے کو ساتھ لے چوکریاں بھرتی جنگل کی طرف چلی گئی۔ مگر دور تک الٹی پھر پھر کر دیکھتی جاتی تھی۔ گویا زبان حال سے سبکتگین کی رحمدلی کا شکریہ ادا کرتی تھی۔ اسی رات سبکتگین کو خواب میں ایک فرشتہ نظر آیا اور اُس نے بشارت دی کہ تونے جو آج اُس جانور کو مصیبت اور درد میں مبتلا دیکھ کر اُس پر رحم کھایا۔ یہ خدا ئے جل شانہٗ کو بہت پسند آیا۔ اس کے صلے میں تجھ کو غزنی کی سلطنت ملے گی۔ مگر دیکھ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس منصب عالی پر پہنچ کر یہ خوبیاں جاتی رہیں اور جس قدر اب بے زبان جانوروں پر ترس کھاتا ہے اُس وقت آدموں پر اس سے بھی کم رحم کرے۔غرض سبکتگین نے الپتگیں کی بیٹی سے شادی کر کے غزنی کے تخت پر جلوس فرمایا۔ اُس وقت لاہور میں راجہ جسپال جو ذات کا برہمن تھا۔ راج کرتا تھا۔ اُس نے دریائے سندھ سے اُتر کر پشاور کی گھاٹی میں جو افغانستان سے پنجاب کو آتی ہے۔ سبکتگین پر حملہ کیا۔ اس وجہ سے سبکتگین نے پنجاب پر دو دفعہ یورش کی اور جسپال اور اس کے سارے راجپوت رئیسوں اور دہلی و اجمیر و قنوج وغیرہ کے راجا جو اُس کی مدد کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اُن سب کو شکست فاش دے کر اور بہت سا مال لیکر غزنی کو مراجعت کی۔ ۶- سلطان محمود غزنوی امیر سبکتگین اور راجہ جسپال میں جو لڑائیاں ہوئیں ۔ اُن میں محمود بھی شریک تھا اس لیے اُس کو خوب یقین ہو گیا تھا کہ ہند ایک بڑا دولتمند اور زرخیز ملک ہے۔ اوریہاں کے راجپوت سپاہی کیسے ہی بہادر کیوں نہ ہوں مگر کوہستان کے زبردست اور زحمت کش حملہ آوروں کے سامنے ہر گز نہیں ٹھیر سکتے۔ اس لیے اُس نے ۹۹۶ء میں غزنی کے تخت پر جلوس فرما کر پہلے تو ماوراء النہر کا ملک جو بحیرۂ خزرسے لے کر دریائے اٹک تک پھیلا ہوا تھا اُس میں اپنا سکہ بٹھایااورپھر عنان توجہ ہند کی طرف پھیری۔ محمود کا ہند کی دولت پر تو دانت تھا ہی۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی آرزو تھی کہ بڑے بڑے بانکے راجپوتوں کو تلوار کے زور سے دین اسلام میں داخل کرے اور اُس کا سبب زیادہ تر یہ ہوا کہ خلیفۂ بغداد نے اُس کے مذہبی جوش کو دیکھ کر ایک گراں بہا خلعت اس کے پاس بھیجا تھا اور امین الملۃیمین الدولہ خطاب دیا تھا۔ پس محمود نے یہ عہد کر لیا تھا کہ میں دین اسلام کے پھیلانے کے لیے ہر سال ہند پر حملہ کرونگا۔ سلطان محمود نے چونتیس برس سلطنت کی اوراس عرصے میں سترہ دفعہ ہند پر حملہ کر کے بیقیاس دولت و مال غزنی کو لے گیا۔ جس سے وہاں کے لوگ بھی خوب مالا مال ہوگئے اور شہر بھی عمدہ اور عالیشان عمارتیں بن جانے سے نہایت خوبصورت ہوگیا۔ نگر کوٹ اور تھانیسراور سومنات کے بڑے بڑے تیرتھوں اور متھرا کے مقدس شہر پر حملہ کرنے سے خاص کر بیشمار زرو جواہر محمود کے ہاتھ آیا۔ چونکہ محمود مندروں اور بتوں کے توڑنے میں ہمیشہ بڑا سر گرم رہا۔ اس لیے اس کا لقب بُت شکن پڑگیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگرچہ محمود نے ہند کو مشرق میں قنوج اور جنوب میں سومنات تک تاخت و تاراج کیا۔ مگر اُس مے مستقل سلطنت صرف پنجاب میں ہی قائم کی اور لاہور میں ایک نائب السلطنت مقرر کیا۔ ہند میں سلطنت اسلامیہ کا آغاز یہی ہے اس کے سترہ حملوں میں سے یہ بارہ بہت مشہور ہیں۔ پہلا حملہ ۱۰۰۱ئ۔ یہ حملہ راجہ جے پال اول والیٔ لاہور پر ہوا۔جس میں راجہ کو شکست ہوئی اور محمود قلعۂ ویہند فتح کر کے غزنی کو اُلٹا پھر گیا۔ راجہ جے پال غریت کے مارے زیست سے بیزار ہو کر چنتا میں بیٹھ کر مر گیا اور اُس کے بعد اُس کابیٹا راجہ انند پال سلطنتِ غزنی کا باجگزار راجہ بنا۔ دوسرا حملہ ۱۰۰۴ء میں یہ حمل راجۂ بھیرہ پر ہوااور وجہ یہ تھی کہ راجہ نے خراج ادا نہیں کیا تھا۔ تیسرا حملہ ۱۰۰۵ء ۔ یہ حملہ اس واسطے ہوا تھا کہ ابو الفتح لودھی صوبہ دار ملتان نے انند پال کے ساتھ سازش کر کے سلطان محمود کی اطاعت سے انحراف کیا تھا۔ محمود نے اول انند پال کو پشاور کے قریب شکست دی۔ پھر ملتان کا محاصرہ کر کے ابو الفتح کو مطیع کیا۔ چوتھا حملہ ۱۰۰۸ء ۔ یہ حملہ راجہ انند پال پر ہوا اور پہلے حملوں کی نسبت زیادہ تر مشہور ہے کیونکہ راجہ نے اس وقت اُجین، گوالیار، کالنجر ،دہلی اور اجمیر کے راجائوں کے پاس قاصد بھیج کر سب کو محمود سے لڑنے کے لیے بلایا اور پنجاب میں اس قدر فوج جمع ہوئی کہ پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ لکھا ہے کہ اُس وقت ہندوئوں کے دلوں میں عموماً ایک ولولہ پیدا ہو گیا تھا اور کیا مرد ، کیا عورت سب کے سب جان ومال سے مدد دینے کو تیار تھے۔ چنانچہ اُن کی عورتوں نے جواہرات اور زیور بیچ بیچ کر اس جنگ میں مدد دی اور گکھڑ اور پہاڑی جنگجو قوموں مے متفق ہو کر محمود کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ مگر محمود کی دلیری اور استقلال میں ذرا فرق نہ آیااور اٹک کے قریب راجہ کو شکست فاش دی۔ مگر اس لڑائی میں محمود کا بھی بہت سا نقصان ہوا۔ پھر محمود نگر کوٹ یعنی کوٹ کانگڑہ کی طرف روانہ ہوا۔ یہ مقام ہندوئوں کا بڑا تیرتھ ہے اور کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں پہنچ کر محمود نے مندر کو خوب لُوٹا اور بے شمار دولت لے کر غزنی کی طرف مراجعت کی۔ پانچواں حملہ ۱۰۱۰ء ۔ اس حملے میں محمود نے ملتان فتح کیااور ابو الفتح لودھی کو قید کر کے غزنی لے گیا۔ چھٹا حملہ ۱۰۱۴ء ۔ اس حملے میں محمود نے تھانیسر کے مشہور تیرتھ کو جو سرسُتی اور جمنا کے مابین واقع ہے۔ لُوٹا اور شہر کو جلا دیا اور بے شمار ہندوئوں کو قید کر کے غزنی لے گیا۔ ساتواں حملہ ۱۰۱۵ء ۔یہ حملہ کشمیر پر ہوا ۔مگر فوج رستہ بھول گئی اور جاڑے کا موسم آگیا۔ اس لیے نہایت زحمت اٹھائی اور بہت سے آدمی ہلاک ہوئے۔ آٹھواں حملہ ۱۸ئ۱۰۱۹ء ۔ یہ حملہ قنوج اور متھرا پر ہوا اور سومنات کے حملے کے سوا سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس دفعہ محمود کے ساتھ ایک لاکھ بیس ہزار فوج تھی۔ جو اُس نے بخارا اور سمرقند کے جدید علاقوں سے بھرتی کی تھی۔ محمود یہ فوج ہمراہ لے کر پشاور سے روانہ ہوا اور پہاڑوں کے نیچے نیچے پنجاب کے دریائوں کے منبعوں کے قریب ہوتا ہوا قنوج پہنچا۔ اُس زمانے میں قنوج کمال رونق پر تھا ۔ اس میں اس قدر دولت تھی کہ جس کا کچھ حد وحساب نہیں اور یہاں کا راجہ جو اکثر مہاراجہ ادھیراج کے لقب سے ممتاز ہوا کرتا تھا۔اُس کا دربار نہایت تجمل کا تھا۔ جب محمود قنوج پر آیا تو راجہ نے اپنے تئیں اس کے حوالے کر دیا۔ اس پر محمود اس کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آیا۔ بلکہ اس کا دوست بن گیا اور تین دن قیام کر کے وہاں سے رخصت ہوا۔ قنوج سے ہو کر محمود متھرا ٓیا۔ جو کرشن چندر کی ولادت گاہ ہونے کے باعث ہندوئوں کا بڑا تیرتھ ہے۔ اس شہر کی خوبی اور مندروں کی خوبصورتی دیکھ کر محمود لوٹ گیااور اُس کا یہ جی چاہا کہ غزنی کے اجاڑ پہاڑوں پر بھی ایسی ہی عمارتیں بنوائے ۔ یہاں محمود نے اپنی فوج کو بیس روز تک شہر لُوٹنے کی اجازت دی۔ اس کے بعد غزنی کو واپس چلا گیا۔ متھرا سے اس کی فوج اس قدر ہندوئوں کو پکڑ کر لے گئی کہ غزنی میں دو دو روپے ہندو غلام بکا۔ نواں حملہ ۱۰۲۲ء ۔ یہ حملہ راجۂ کالنجر پر اس وجہ سے ہوا کہ اُس نے راجہ قنوج پر محمود کی اطاعت قبول کر لینے کے باعث فوج کشی کر کے اُس کو قتل کر ڈالا تھا۔ اس لڑائی میں جیپال دوم والیٔ لاہور راجہ کالنجر کی مدد پر تھا۔ اس لیے محمود نے اُس کو شکست فاش دے کر لاہور پر دخل کر لیا اور وہاں اپنا ایک نائب مقرر کر دیا۔ جس سے ہند میں سلطنت اسلامیہ کی بنیاد پڑ گئی۔ دسواں حملہ ۱۰۲۳ئ۔ محمود نے دوبارہ کشمیر کا عزم کیا۔ مگر اب کے بھی کچھ کامیاب نہ ہوا۔ گیارھواں حملہ ۱۰۲۴ء ۔ اس حملے میں گوالیار اور کالنجر کے راجائوں نے محمود کی اطاعت قبول کی اور ان دونو مقاموں سے بہت سا زرو جواہر اور ہاتھی اُس کے ہاتھ آئے۔ بارھواں حملہ ۲۶ئ۱۰۲۷ء ۔ محمود کا یہ اخیر حملہ سومنات پر ہوا ۔ یہ جزیرہ نمائے گجرات میں ایک مشہور و معروف مندر ہے۔ اس مہم میں محمود کو ایک بڑا دور و دراز اور دشوار گزار سفر پیش آیا۔ اول وہ ملتان میں داخل ہوا۔ پھر تمام ریگستان کو کھوندتا ہوا گجرات کے قدیم پایۂ تخت اٹھلواڑہ میں پہنچا۔ یہاں کا راجہ بھیم ڈر کے مارے شہر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ پھر یہاں سے محمود سومنات کے مندر پر آیا۔ چونکہ یہ بڑا مشہور تیرتھ تھا۔ اس لیے اس کی حفاظت کو راجپوت راجا ہر طرف سے آکر جمع ہو گئے تھے۔ مگر محمود کے سپاہیوں کے آگے اُن کی کچھ پیش نہ چلی۔ تین روز تک لڑائی کا بازار خوب گرم رہا۔ آخر محمود نے فتح پائی اور بے شمار دولت اُس کے ہاتھ آئی۔ ہندوئوں کا اس لڑائی میں بڑا نقصان ہوا۔ اُن کے پانچ ہزار بہادر سوار لڑائی میں کام آئے۔ باقی کشتیوں میں بیٹھ کر چلتے بنے۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہاں کے پوجاریوں نے کروڑوں اشرفیاں محمود کے روبرو پیش کر کے التجا کی کہ وہ سومنات کی مورت کو نہ توڑے مگر اُس نے منظور نہ کیا اور کہا کہ میں قیامت کے دن اپنا نام بت فروش رکھوانا نہیںچاہتا۔ پھر جب اُس نے اپنے ہاتھ سے مورت کو توڑا تو اُس میں سے اس قدر جواہرات نکلے کہ پجاریوں کی رقم سے کہیں زیادہ قیمت کے تھے۔ محمود مندر کے دروازے اور مورت کے ٹکڑے غزنی لے کیا ۔ راستے میں اُس کے لشکر کے بہت سے آدمی تباہ ہوئے۔ محمود کے حال میں مؤرخوں نے ایک بڑا دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑا صاحبِ دل اور منصف مزاج تھا اور جب کوئی اُس کو نیک صلاح دیتا تھا تو ہر چند وہ اس کی طبیعت کے خلاف بھی ہوتی۔ فوراً مان لیتا تھا۔ لکھا ہے کہ غزنیسے ایران کو جوسڑک جاتی ہے۔ اُس پر بلوچی قزاقوں نے ایک مضبوط قلعہ لے لیا تھا اور جو سوداگر وہاں سے گزرتے تھے۔ اُن کو وہ لُوٹ لیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے تاجروں کے ایک قافلے کو لُوٹا اور خراسان کے ایک نوجوان کو مار ڈالا۔ اُس جوان کی بُڑھیا ماں روتی تھی ۔ محمود کے پاس آکر داد خواہ ہوئی۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ وہ مقام میرے پایۂ تخت سے بہت دور ہے۔ اس لیے وہاںا یسی واردات کا انسداد نہیں ہو سکتا۔ یہ سن کر اُس مظلومہ نے جواب دیاکہ پھر جس ملک کا تو اچھی طرح انتظام نہیں کر سکتا اُسے تُونے اپنے قبضے میں کیوں رکھ چھوڑا ہے؟ بڑھیا کی اس بے لاگ بات سے بادشاہ کے دل پر بڑی چوٹ لگی۔ چنانچہ وہ اُن قزاقوں کے غارت کرنے پر مستعد ہوا اور اُسی وقت حکم دیا کہ آئندہ جو قافلہ اُس سڑک پر جایا کرے۔ اُس کے ساتھ ایک جزار گارد ہوا کرے۔ اس بادشاہ کے تذکرے میں ایک اور مشہور قصہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں ایک عیب بھی تھا۔ یعنی بعض اوقات انصاف پر طمع غالب ہو جاتی تھی۔ محمود کو شعر و سخن کا بہت شوق تھا اور شاعروں کی بڑی قدر کرتا تھا۔ فردوسی جو دنیا میں فارسی زبان کا ایک بڑا زبردست شاعر گزرا ہے۔ اس پر بادشاہ کی بڑی نظر عنایت تھی۔ بادشاہ نے فردوسی کو شاہنامہ لکھنے کا حکم دیا اور فی شعر ایک اشرفی عطا کرنے کا وعدہ کیا۔ فردوسی نے بڑا خون جگر کھا کر ساتھ ہزار شعر لکھے اور کتاب شاہنامہ مرتب کر کے بادشاہ کی خدمت میں پیش کی۔ اس کتاب کی نظم ایسی عمدہ ہے کہ جب تک فارسی زبان دنیا میں باقی ہے ۔اُس کی شہرت کبھی کم نہ ہو گی۔ شاٹھ ہزار شعر دیکھ کر محمود اپنے وعدے سے پچتایا اور دون ہمتی سے فردوسی کو صرف ساٹھ ہزار روپے یعنی انعام موعودہ کا سولھواں حصہ دینے لگا۔ اس کو فردوسی نے منظور نہ کیا اور ناراض ہو کر غزنی سے چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ پیچھے محمود نے نادم ہو کر فردوسی کے پاس پورا انعام بھیجا۔ مگر جب اُس کے قاصد اشرفیوں کے توڑے لے کر فردوسی کے گھر پہنچے ہیں۔ اُس وقت فردوسی کا انتقال ہو چکا تھا اور لوگ اُس کا جنازہ لیے جاتے تھے۔ ۷- سلطنت غزنی کا تنزل سلطان محمود کے بعد ملک پنجاب ایک سو چالیس برس سے کچھ زیادہ اُس کی اولاد کے قبضے میں رہا۔ لیکن وسط ایشیا میں جو سلطنت غزنی کا علاقہ تھا وہ اس سے پہلے ہی اُن کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ انجام کار غور جو افغانستان میں غزنی اور ایران کے مابین ایک کوہستانی علاقہ ہے۔ اُس کے بادشاہوں نے خاندان غزنی کو مغلوب کر لیااور جب محمد غوری نے ہندوستان کو فتح کیا۔اس سے کچھ پیشتر خاندان غزنی کا اخیر بادشاہ قید خانے میں قتل ہو چکا تھا۔ اُس زمانے میں اجمیر، دلّی، قنوج ، پیواڑ اور انھلواڑہ یعنی گجرات کے راجا شمالی ہند میں حکمراں تھے اور چونکہ ان مٰں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ میں سب پر غالب ہو جائوں اس وجہ سے ان کے باہم لڑائی جھگڑے رہتے تھے۔ دوسری فصل ۔افغان پادشاہان دہلی خاندان غلاماں ۱- پرتھی راج بارھویں صدی کے اخیر میں جس قدر راجا شمالی ہند میں حکمرانی کر رہے تھے۔ اُن سب میں پرتھی راج جس کو رائے پتھورا بھی کہتے ہیں۔ نہایت زبردست اور نامور راجہ اور راجپوتوں کی بہادر قوم کی ناک تھا۔ ہندوئوں میں جن نامی گرامی سورمائوں کے افسانے زبان زد خلائق ہیں۔ اُن میں پرتھی راج بھی داخل ہے۔ چندر بردے جا یاک نامی ہندی شاعر گزرا ہے۔ اس راجہ کا نہایت مداح اور دوست تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے اشعار میں اس کی بڑی تعریف لکھی ہے۔ پرتھی راج کے بڑے زبردست راجہ ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اجمیر اور دلّی دونوں سلطنتوں کا راجہ تھا۔ اجمیر کی سلطنت تو اُس کو اُس کو اپنے باپ سومیشور سے جو راجپوتوں کی قوم چوہان کا راجۂ اجمیر تھا۔ میراث میں پہنچی تھی۔ اور دلّی کی سلطنت ہاتھ لگنے کی یہ کیفیت ہے کہ اُس کا نانا اننگ پال جو راجپوتوں کی قوم تواڑ کا راجہ دہلی تھا۔ اس کے ہاں کوئی بیٹاتو تھا نہیں ۔ صرف بیٹیاں ہی تھیں۔ جن میں سے ایک کی اولاد تو جے چند راجۂ قنوج تھا اور دوسری کی پرتھی راج۔ اس کو اننگ پال نے متبنٰے کر لیا تھا ۔ یہ بات جے چند کو نہایت ناگوار گزری اور اُس نے پرتھی راج کے راجۂ دہلی ہونے میں بہت کچھ مزاحمت کی۔ مگر ایک پیش نہ گئی۔ آخر دہلی کا راج بھی پرتھی راج ہی کے ورثے میں آیااور اس طرح وہ دونوں سلطنتوں کا راجہ ہو گیا۔ ۲- شہاب الدین عرب محمد غوری اس بہادر راجہ کو گدی پر بیٹھے ا بھی بہت عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس پر ایک ایسا زبردست غنیم چڑھ آیا کہ کبھی پیشتر ہند پر حملہ آور نہ ہوا تھا۔ یہ غنیم شہاب الدین عرف محمد غوری تھا۔ جو ایک بڑا بہادر اور مستقل مزاج سردار تھا۔ غور کابادشاہ تو درحقیقت شہاب الدین کابڑا بھائی غیاث الدین تھا مگر وہ اس کی نسبت صلح جو اور امن دوست تھا۔ اس لیے جب اس نے غور کے تند خو اور دیو ہیکل افغانوں کی مدد سے غزنی کو فتح کر لیا تو شہاب الدین کو وہاں کا بادشاہ مقرر کر کے آپ غور کو واپس چلا گیا۔ شہاب الدین جب غزنی کی سلطنت سنبھال چکا تو اُس نے ہند کا قصد کیا۔ اول تو ملتان کو فتح کیا۔ پھر دوسرے سال راجۂ انھلواڑہ پر فوج کشی کی۔ مگر زک پائی۔ اس کے بعد خاندان غزنی کا بادشاہ خسرو ملک جو لاہور میں حکمراں تھا۔اُس کو گرفتار کر کے ۱۱۹ء میں لاہور سے وسط ہندوستان کی طرف بڑھا اور ستلج اُتر کر قلعۂ سر ہند کو جو انبالے کے شمال میں ہے۔ فتح کر لیا۔ اب پرتھی راج بھی اپنے چوہان راجپوتوں اور مددگاروں کی زبردست فوج ساتھ لے کر شہاب الدین محمد غوری کے مقابلے پر نکلا اور تھانیسر کے قریب موضع تراوڑی کے پاس ایک بڑی سخت لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی کی کیفیت ایک مسلمان مؤرخ نے اس طرح لکھی ہے کہ جب طرفین کی فوج میدان جنگ میں صف آرا ہوئی تو سلطان شہاب الدین نے بھالا لے کر پرتھی راج کے ایک بڑے سورما سردار گوبند رائے کے ہاتھی پر حملہ کیا۔ یہ سردار بھی سلطان سے دو دو ہاتھ کرنے کو آگے بڑھا۔ مگر سلطان نے جس کو رستم ثانی اور شیرِ زماں کہنا بجا ہے ، گوبند رائے کے منہ پر ایک ایسا بھالا مارا کہ اس کے دو دانت ٹوٹ کر حلق میں جا پڑے۔ پھر دشمن نے بھی وار کیا اور سلطان کے بازو پر زخم شدید پہنچا۔ زخم کھا کر بادشاہ نے اپنے گھوڑے کی باگ موڑی اور ایک طرف چلا گیا۔ کیونکہ اس زخم سے اس شدت کا درد ہوا کہ وہ اپنے تئیں گھوڑے پر نہ سنبھال سکا۔ یہ دیکھ کر فوج شاہی کے پیر اکھڑ گئے اور بالکل جی چھوٹ گیا۔ شدت درد سے بے تاب ہو کر گھوڑے پر سے گرنے ہی کو تھا کہ ایک طرار اور بہادر جوان جو قوم کا خلجی پٹھانت تھا۔ اُس کو پہچان کر جھٹ اُس کے پیچھے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا اور اُس کو سنبھال کر میدان جنگ سے باہر لے آیا۔ جب محمد غوری اپنی سپاہ کی نظر سیس غائب ہو گیا تو پھر فوج کے پیر کہاں تھے۔ ایسی بے اوسان ہو کر بھاگی کہ جب تک دور پہنچ کر اپنے دشمنوں کے تعاقب سے محفوظ نہ ہو گئی۔ اُس کی جان میں جان نہ آئی۔ جب پرتھی راج کو یہ بڑی دھوم دھام کی فتح نصیب ہوئی تو اس نے تمام راجپوت راجائوں کا متفق کر کے ایک بڑا زبردست جتھا بنانا شروع کیا۔ تاکہ اگر اُس کے ہیبت ناک مخالف افغان پھر اس پر چڑھ آئیں تو اُن کو مغلوب کر سکے۔ اس میں وہ یہاں تک کامیاب ہوا کہ ب دوسری دفعہ محمد غوری کے مقابلے پر میدان میں آیا تو ڈیڑھ سو سے زیادہ راجپوت راجہ اس کے ہمرکاب تھے۔ مگر اُس کے خالہ زاد بھائی راجہ جے چند والیٔ قنوج کی قدیمی عداوت و حسد نے ہندوئوں کا کام بگاڑ دیا۔ محمد غوری جب سے زک اُٹھا کر اپنے ملک کو واپس گیا۔ اپنی فوج کو آراستہ اور تیار کرنے میں ہمہ تن مصروف رہا۔ لکھا ہے کہ جن سرداروں نے تراوڑی کے میدان پر پیٹھ دکھائی تھی اُن کو اس نے یہ سزا دی کہ جَو کے توبرے اُن کے مُنہ سے بندھوا کر شہر غور کے چاروں طرف پھرایا۔ جس سے یہ مراد تھی کہ وہ آدمی نہ تھے بلکہ گدھے تھے اور ان میں سے جنہوں نے جَو کھانے سے انکار کیا۔ اُن کے سر قلم کر دیے۔ اس لیے اکثر امرا نے توبے کے جَو کھانے منظور کیے۔ ۳- تھانیسر کا معرکۂ عظیم محمد غوری ہند کے ملک کو محمود غزنوی کی فتوحات کے باعث اپنا حق سمجھتا اور راجپوتوں کو جو بڑے مغرورتھے۔ بزور شمشیر طریق اسلام پر لانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ میدان جنگ میں پرتھی راج سے جو ایک زک کھا چکا تھا ۔ اُس کے انتقام کے لیے بھی دانت پیستا تھا۔ غرض محمد غوری دوسرے سال خوب طرح تیار ہوا اور ایک لاکھ بیس ہزار بڑے جزار سوار اور چالیس ہزار سپہ اور گھڑ چڑھے جو اس قدر جری نہ تھے۔ اپنے ہمراہ لے پھر دلّی کی طرف بڑھا۔ دوسری طرف بھی لاکھو سورما راجپوت پرتھی راج کے جھنڈے تکے لڑنے مرنے کو تیار کھڑے تھے۔ کیونکہ وہ خوب طرح جانتے تھے کہ ہمارے گھر بار۔ ملک و مذہب اور کل چیزوں کی بازی اس لڑائی پر لگ رہی ہے۔ غرض ۱۱۹۳ء میں ہندو اورمسلمانوں کے باہم تھانیسر کے میدان پر پھر ایک بڑا معرکہ ہوا۔ اس وقت ہندوئوں کے دلوں میں حب وطن نے ایک ایسا جوش پیدا کیا تھا کہ وہ مسلمانوںسے خوب ہی جی توڑ توڑ کر لڑے مگر محمد غوری کے مضبوط اور قواعد داں جوانوں کے آگے کچھ پیش نہ گئی۔ گوبند رائے جس نے محمد غوری کو پہلی لڑائی میں زخمی کیا تھا۔ عین معرکہ جنگ میں مارا گیا اور اُس کے آگے کے دو دانت جو پہلی لڑائی میں محمد غوری کے بھالے کی ضرب سے ٹوٹ گئے تھے۔ اُن سے اُس کا سر میدان میں پڑا ہوا پہچانا گیا۔ جب پرتھی راج نے دیکھا کہ اب میدان ہاتھ سے گیا اور اُس کی فوج میں کچھ دم باقی نہیں رہا تو اپنے ہاتھی سے اُتر گھوڑے پر سوار ہو میدان جنگ سے اُلٹا پھرا تاکہ اپنی پراگندہ فوج کو جمع کر کے ایک بار پھر مقابلہ کرے۔ مگر تھوڑی دیر بعد وہ قید ہو کر مارا گیا۔اوراُس ایک ہی لڑائی سے سلطنت اسلامیہ ہند میں قائم اور مستحکم ہو گئی۔ ۴- ہندوستان پر سلطنت اسلامیہ کا تسلط اس مقام پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مملکت ہند پر غیر سلطنت کے بادشاہوں کا اس طرح تسلط ہو جانا ہند کے راجائوں کے باہمی نفاق کا نتیجہ تھا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ جے چند راجۂ قنوج پرتھی راج سے بڑی عداوت رکھتا تھا اور جب وہ خود اس پر غالب نہ آسکا تو محمد غوری کو شہ دے کر اُس پر حملہ کرنے کو برانگیختہ کیا اور جس وقت تھانیسر پر محمد غوری دلّی اور اجمیر کے چوہان اور توار راجپوتوں کا ستھرائو کر رہا تھا۔ اُس وقت جے چند قنوج میں بیٹھا سیر دیکھتا رہا۔ حق یہ ہے کہ اُس نے یہ نالائق حرکت کر کے صرف اپنے بھائی پرتھی راج ہی سے بے وفائی نہیں کی۔ بلکہ اپنے سارے ملک سے دغا کی۔ مگر ساتھ ہی اُس کی سزا بھی اس کو قرار واقعی ملی ۔ کیونکہ دوسرے سال ۱۱۹۴ء میں محمد غوری نے اُس کجی بھی خوب خبر لی ۔ یعنی دوآبۂ گنگ و جمن میں مقام چندواڑ پر جنگ کر کے اس کو بھی شکست فاش دی۔ اسی اثنا میں قطب الدین ایبک جو اصل میں محمد غوری کا ایک غلام اور اس وقت فوج شاہی کا سردار اعظم تھا۔ اس نے دہلی اور اور مقاموں کو جو راجپوتوں کے دارالریاست تھے۔ فتح کر کے آخر کار کل ہندوستان پر تسلط کر لیا۔ اُس کی لیاقت اور وفاداری پر محمد غوری کو اس قدر تکیہ تھا کہ وہ خود تو افغانستان کو واپس چلا گیا اور اس کو ہند میں اپنا نائب السلطنت مقرر کر گیا۔ تیرہ برس بعد محمد غوری پھر ہند میں آیا۔ مگر اُس وقت گکھڑوں نے جو ہند کے اصلی باشندوں میں سے تھے۔ اسکو دائو پا کر پنجاب میں قتل کر ڈالا۔ لیکن اُس وقت سارے شمالی ہند پر اسلام کا بخوبی تسلط ہو گیا تھا۔ کیونکہ ادھر تو قطب الدین نے بہت سا ملک تسخیر کر لیا تھا اور اُدھر بختیار خلجی نے بہار اور بنگالہ فتح کر لیا تھا۔ غرض ۱۲۰۶ء میں محمد غوری کی وفات کے بعد قطب الدین ہندوستان کا سلطان قرار پایا اور شہر دہلی اُس کا پایۂ تخت ہوا۔ قطب الدین فنِ سپاہ کری سے خوب واقف اور سخاوت فیاضی میںایسا حاتم تھا کہ اُس کا لقب لک بخش یا لک داتا پڑ گیا تھا۔ اکبر کے زمانے تک یہ کیفیت رہی کہ جب کبھی فیاضی اور سخاوت میں کسی کی تعریف کرنی منظور ہوتی تھی تو کہا کرتے تھے کہ وہ قطب الدین ثانی ہے۔ ۵- خاندان غلاماں چونکہ قطب الدین خود بھی سلطان محمد غوری کا ایک غلام تھا اور اس کے جانشین بھی یا خود غلام تھے یا غلاموں کی اولاد تھے۔ اس لیے اس خاندان کا نام خاندان غلاماں مشہور ہو گیا ہے۔ اس خاندان کی سلطنت کوئی سو برس تک رہ کر ۱۲۹۰ء میں ختم ہوگئی۔ اس زمانے میں شمالی ہند کے اندر میواڑ کے سوا ہندوئوںکی حکومت کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا اور جن مسلمان سرداروں نے سندھ اور بنگالہ اور دور دور کے اضلاع فتح کیے تھے وہ اگرچہ اکثر سرکش بھی ہوجایا کرتے تھے۔ مگر پھر بھی سلاطین دہلی اُن کو عموماً مطیع و فرمانبردار رکھتے تھے۔ اس خاندان میں یہ بادشاہ نہایت مشہور گزرے ہیں ۔ اول شمس الدین التمش۔ دوم اس کی بیٹی سلطانہ رضیہ جس کے سوا کوئی اور عورت کبھی تخت دہلی پر نہیں بیٹھی۔ سوم بلبن۔ ۶- شمس الدین التمش شمس الدین التمش اصل میں تو ایک عالی خاندان کا شخص تھا۔ مگر انقلاب روزگار سے بچپن میں قطب الدین ایبک کے ہاتھ فروخت ہوا تھا۔قطب الدین نے اسے بہت لائق فائق دیکھ کر اپنی بیٹی کی شادی اُس کے ساتھ کر دی تھی۔ قطب الدین کے بعد شمس الدین التمش اُس کے کے بیٹے آرام کو تخت سے اُتار کر آپ بادشاہ ہو گیا۔ یہ بادشاہ غلام بادشاہوں میں سب سے بڑا ہوا ہے۔ اس نے سندھ کے بادشاہ کو بھی اپنا مطیع کیا اور خلجی سردارجو محمد بختیار خلجی کے بعد بنگالہ کے فرمانروا ہوئے۔ ان کو بھی حلقہ بگوش کر لیا اور ہندوستان میں ہندوئوں کی جس قدر ریاستیں نہایت زبردست تھیں۔ اُن سب کو فرمانبردار کر کے اس استحکام کے ساتھ اپنی حکومت قائم کی کہ اس کے پیچھے اُس کی بیٹی اور تین بیٹے اور پھر ایک پوتا نوبت نبوبت دہلی کے تخت پر متمکن ہوئے۔ التمش کی سلطنت ۱۲۱۰ء سے ۱۲۳۵ء تک رہی۔ ۷- مغلوں کی آمد اور راجپوتوں کی سرکشیاں مغلوں کی آمد آمد اور راجپوتوں کی سرکشیوں نے خاندان غلاماں کی جڑ کھوکھلی کر دی۔ کہتے ہیں کہ مغل اول اول شمال مشرق بنگال میں آئے اور آئندہ ۴۳ سال کے عرصے میں افغانستان کے دروں میں سے ہو کر بار بار پنجاب پر حملہ آور ہوئے۔ ہندوستان کے جنگلی باشندوں مثلاً گکھڑوں اور میوات کے پہاڑی علاقوں کیھ رہنے والوں نے پنجاب کے اسلامی مقبوضات کو دہلی تک تہہ و بالا کر دیا۔ راجپوتوں کی بار بار کی سرکشیوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوئوں کی طاقت اب تک کمزور نہیں ہوئی تھی۔ غلام بادشاہوں کے عہد میں صرف ہندوستان کا شمالی آدھا حصہ ہی اسلام کے قبضے میں آیا۔ ہندوستان نے مالوہ۔ راجپوتانہ سے بندھیل کھنڈ اور دہلی تک (گنگا اور جمنا کے کناروں کے برابر برابر )کئی دفعہ فساد برپا کیا۔ ۸- سلطانہ رضیہ بیگم سلطانہ رضیہ التمش کی بیٹی بڑی لئیق اورصاحب ہمت تھی۔ وہ سلطانہ نہیں بلکہ سلطان کے لقب سے مشہور تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اوائل سلطنت میں تو اُس کے باپ کے سب اوصاف جہانداری موجود تھے۔ مگر پیچھے وہ اپنے دربار کے ایک حبشی غلام پر حد سے زیادہ مہربانی کرنے لگی۔ اس سے سارے امرا ناراض ہوگئے اور انجام کار اُس کو معزول کر کے قتل کر ڈالا اوراس کے ایک بھائی کو تخت پر بٹھا دیا۔ ۹- غیاث الدین بلبن غیاث الدین بلبن پہلے تو سلطان ناصر الدین محمود ابن التمش کا وزیر تھا۔ مگر جب یہ نیک نہاد بادشاہ لا ولد مر گیا تو بلبن جو التمش کا داماد بھی تھا۔ تخت پر بیٹھا۔ اُس بادشاہ کے مزاج میں بڑی سخت گیری تھی اور وہ اپنی فوج کو بہت شائستہ رکھتا تھا۔ اس کے سردار طغرل خاں حاکم بنگالہ کی سرکشی اس کے عہد کا سب سے مشہور واقعہ ہے۔ طغرل خاں نے ۱۲۸۲ء میں خود سر ہو کر اپنا لقب سلطان مغیث الدین طغرل رکھا تھا۔ اور بلبن کے دولشکروں کو متواتر شکست دے چکا تھا۔ آخر بادشاہ نے خود چڑھائی کی اور ایک افسر شاہی دشمن کی فوج پر یکا یک بڑی بہادری سے جا پڑا۔ اگرچہ اس کے ہمراہ اس وقت صرف چالیس سوار تھے۔مگر دشمن پر اُس کی ہیبت چھائی کہ گویا سارا بادشاہی لشکر اس پر ٹوٹ پڑا ۔ پس طغرل خان بھاگ نکلا۔ مگر گرفتار ہو گیا اور اس کا سر کاٹ کر سلطان بلبن کے روبرو لایاگیا۔ جب یہ فساد اس طرح رفع ہو گیا تو بادشاہ نے اپنے دوسرے بیٹے بغراخاں کو بنگالے کا حاکم مقرر کیا۔ اس کے بعد جب بادشاہ کا بڑا بیٹا محمد جو حکم ملتان تھا۔ مغلوں کے ساتھ بڑی بہادری سے لڑتا ہوا کام آیا۔ تو بادشاہ نے بغرا خاںکو بنگالے سے دہلی بلایا کہ وہ اُس کو وارث تخت مقرر کرے۔ مگر اس نے منظور نہ کیا اور بنگالے کی بے کھٹکے حکومت پر ہی قناعت کی۔ کب بلبن کا انتقال ہو ا تو بغراخاں کا بڑا بیٹا کیقباد تخت نشین ہوا اور بغرا خاں حکومت بنگالہ پر قناعت کیے وہاں کے دارالریاست لکھنوتی میں پڑا رہا۔ ۱۰- کیقباد سلطان کیقباد کا وزیر نظام الدین نامی بڑا بیوفا اور حریص شخص تھا اور چونکہ بغرا خاں نے کیقباد کو اس بد طینت وزیر کی فطرتوں سے متنبہ کیا تھا اور کیقباد کو بھی حرکات نا شائستہ سے روکا تھا۔ اس لیے وہ نالائق وزیر باپ اور بیٹے میں نفاق ڈالنے کے درپے ہوا اور بادشاہ کو بنگالے پر فوج کشی کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ جب دونوں لشکر صوبہ بہار میں ایک دوسرے کے مقابل آئے تو دو روز تو یونہی آمنے سامنے پڑے رہے۔ تیسرے دن بنگالے کے ضعیف العمر بادشاہ بغراخاں نے اپنے نا خلف بیٹے کیقباد کو اپنے ہاتھ سے خط لکھ کر ملاقات کی درخواست کی۔ اول تو وزیر بے تدبیر نے یہ چاہا کہ ملاقات ہونے ہی نہ پائے۔ مگر جب دیکھا کہ بادشاہ ملے بغیر نہیں رہے گا تو اُس نادان بادشاہ یعنی کیقباد کو یہ پتی پڑھائی کہ آپ جیسے شاہنشاہ ہندوستان کا منصب اعلیٰ اس امرکا متقضی ہے کہ بادشاہ بنگالہ جب بازیاب ملازمت ہو تو تین بار مجرا بجا لائے۔ مگر بغرا خان نے اس کو بھی منظور کیا اور جب ملاقات کا وقت آیا تو اول کیقباد خیمۂ دربار میں بڑی شان وشوکت سے وارد ہوا پھر اس کا ضعیف باپ بھی آہستہ آہستہ آیا۔اور تخت کے سامنے پہنچتے ہی اول گورنش بجا لایا۔ چوبدار نے بھی حسب قاعدہ آواز لگائی۔ بھر بغرا خان نے ذرا اور آگے بڑھ کر دوسری گورنش کی اور جب تخت کے پاس پہنچا تو تیسری کورنش کے لیے جھکنے ہی کو تھا کہ کیقباد کی طبیعت اپنے باپ کے اس عجز وانکسار کو دیکھ کر بھر آئی وہ اپنی اس نالائق حرکت سے نہایت نادم ہو کر فوراً تخت سے اُترپڑا اور اپنے ضعیف باپ سے بغل گیر ہوا۔ پھر قصور معاف کراکر اس کو تخت پر بٹھایا اور آپ بڑے ادب سے نیچے بیٹھا۔ اس طرح سے شریر وزیر کے سب منصوبے خاک میں مل گئے اور بادشاہ کے بعض مقربوں نے اس کو تھوڑے ہی عرصے بعد زہر دے کر مار ڈالا۔ پھر اس کی جگہ جلال الدین فیروز خلجی حاکم سمانہ وزیر ہوا۔ اس کے بعد بغرا خان بنگالے میں ۱۲۹۲ء تک امن سے حکومت کر تارہا۔ مگر کیقباد کو جلال الدین خلجی نے ۱۲۹۰ء میں قتل کر ڈالا۔ اس وقت خاندان خلجی کی سلطنت کی بنیاد پڑی اور غلاموں کی بادشاہی کا خاتمہ ہوا۔ خاندان خلجی خلجی حقیقت میں ایک ترکی قوم تھی۔ مگر ایک مدت سے افغانستان میں رہنے سہنے کے سبب پٹھان یا افغان کہلانے لگی تھی اور ہند کے فتح کرنے میں ہمیشہ بادشاہان اسلام کی معین و مددگار رہی تھی۔ اس قوم کے جو لوگ ہند میں تھے۔ اُن کا سردار جلال الدین سلطان کیقباد کا وزیر بن گیا تھا۔ پھر وہ بادشاہ کو قتل کر کے آپ تخت پر بیٹھا اور خاندان خلجی کا بنی ہوا۔ اس خاندان کی سلطنت کل تیس برس رہی۔ مگر یہ تھوڑا ہی سا زمانہ ایک بڑے تاریخی واقعہ کے سبب بہت کچھ مشہور ہے اور وہ یہ ہے کہ جلال الدین خلجی اور اُس کے تُند مزاج اور خونخوار بھتیجے علائوالدین کے عہد میں مسلمانوں نے دکن پر تسلط کر کے اُس کو سلطنت دہلی کے تابع کر لیا۔ ۲- مسلمانوں کا دکن کو فتح کرنا سلاطین خلجیہ نے جو دکن کو فتح کیا اُس کی کیفیت یہ ہے کہ جلال الدین فیروز کے عہد میں اُس کا بھتیجا علائو الدین جو اودھ کا حاکم تھا۔ دکن کے شمال و مغرب کی طرف کوچ کرتا ہوا رام دیو راجہ مہاراشٹر کے علاقے پر حملہ آور ہوا اور راجہ سے اُس کے ملک کا ایک حصہ چھین لیا اور بہت سا روپیہ بھی خراج کے طور پر لیا۔ اس کے بعد جب گجرات فتح ہوا تو وہاں سے ملک کافور خواجہ سار جس سے بعد میں بڑے بڑے کارہائے نمایاں ظہور میں آئے اور گجرات کے راجہ کرن کی نہایت خوبصورت و حسین بیوی کنولا دیوی علائو الدین کے ہاتھ آئی اور جب وہ اپنے چچا کو فریب سے قتل کر کے دہلی کے تخت پر بیٹھ گیا تو انے نے پانے عہد سلطنت میں ملک کافور کو جو اُس کے ہاں ایک عمدہ ارکان سلطنت میں سے ہو گیا تھا، چار دفعہ تسخیر دکن کے لیے بھیجا۔ ملک کافور نے رام دیو کو جو اطاعت سے پھر گیا تھا۔ قید کر کے دہلی بھیج دیا۔ یہاں بادشاہ نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔ کہ جب وہ یہاں سے واپس گیا تو پھر ہمیشہ سلطنت دہلی کا خیر خواہ اور وفادار باجگزار رہا۔ ملک کافور نے دوار سمدر کے راجگان بلال کو بھی مغلوب کیا اور ورنگل کے راجہ کو بھی باجگزار بنایا اور سارے دکن کو رامیشور یا راس کماری تک تہہ و بالا کر کے وہاں ایک مسجد تعمیر کی تاکہ مسلمانوں کی حکومت کی یاد گار رہے۔ ۳- دیول دیوی دکن کی اُن فتوحات سے پہلے علائوالدین نے ۱۲۹۷ء میں گجرات کو خود فتح کیا اور پھر ۱۳۰۳ء میں چتوڑ گڑھ کے مشہور و معروف قلعے کو جو مہارانائے میواڑ کا پایۂ تخت تھا، تسخیر کر کے خوب لُوٹا۔ یہاں کے محاربوں میں ایک ایسا دلچسپ قصہ لکھا ہے جس کا بیان کرنا اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ راجہ گجرات کے ہاں اُس کی رانی کنولا دیوی کے بطن سے ایک لڑکی تھی جس کا نام دیول دیوی تھا ۔ یہ لڑکی ایسی حسین تھی کہ ہند میں اس کاکوئی ثانی نہ تھا۔ اس کی خوبصورتی کی دھاک سن کر بہت سے راجا اس پر جان دیتے تھے اور اس کے ساتھ شادی کرنے کی آرزو میں ایک دوسرے سے لڑنے مرنے کو تیارتھے۔ قضا کار یہ حسین عورت اپنے ہمراہیوں سمیت بادشاہ کی فوج کے ہاتھ پڑگئی اور گرفتار ہو کر دہلی آئی۔ یہاں آکر جب وہ محل شاہی میں داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی ماں کنولا دیوی بادشاہ کی بڑی چاہتی بیوی بنی ہوئی ہے ۔ تھوڑے دن بعد خضر خان ولی عہد سلطنت دیول دیوی کے جمال پر فریفتہ ہو گای اور دیول دیوی بھی اس کو چاہنے لگی۔ یہ بات اول اول تو بادشاہ کو ناگوار گزری۔ مگر آخر کار وہ خاموش ہو رہا اور دیول دیوی کی شادی خضر خان سے ہو گئی۔ امیر خسرودہلوی نے اس عشق کا حال اپنی ایک بڑی دلچسپ اور مشہور مثنوی میں لکھا ہے۔ دیول دیوی کی آخری عمر غم میں کٹی اور اسے اپنے پرلے درجے کی حسن کی سزا بھگتنی پڑی۔ کیونکہ خضر خان کی وفات کے بعد اگلے دو بادشاہوں نے اس سے زبردستی نکاح کر لیا۔ پہلے خضر خان کے بھائی نے جو بادشاہ کو قتل کرکے خود تخت پر قابض ہو بیٹھا تھا اور اس کے بعد رذیل اور غاصب خسرو خان نے۔ ۴- خسرو خان خاندان خلجی کا اخیر بادشاہ خسرو خان تھا جو صل میں نیچ ذات کا ہندو اور بادشاہ کا غلام تھا۔ مگر علائو الدین کے بیٹے قطب الدین مبارک خلجی نے اُس کو اپنا وزیر مقرر کر لیا تھا۔ وزیر ہوتے ہی یہ کمبخت اپنے آقا پر اور اس خاندان کے سارے ہوا خواہوں پر ہاتھ صاف کر کے تخت پر بیٹھ گیا اور دیول دیوی سے نکاح کر لیا۔ خسرو نام کو تو مسلمان تھا۔ مگر مسلمانوں کو بڑا ہی تنگ کرتا تھا اور ہندو بھی اس کی صورت تک دیکھنے کے روا دار نہ تھے۔ کیونکہ اول تو وہ ایک رذیل حالت سے عروج پر پہنچا تھا۔ دوسرے ہندو سے مسلمان ہو گیا تھا۔ غرض کچھ بہت عرصہ نہ گذرا تھا کہ ایک سردار نے جس کا نام غازی بیگ تغلق تھا ۔اُس کو میدان جنگ میں شکست دے کر مار ڈالا اور غیاث الدین تغلق شاہ اپنا لقب مقرر کر کے ۱۳۲۰ء میں تخت پر بیٹھ گیا۔ ۵- ہندوستان کی حالت ۱۳۰۶ء میں اُس وقت ہندوستان کے اسلامیہ بادشاہ صرف شاہان دہلی ہی نہ تھے۔ وسط ایشیا کے زبردست حملوں نے شمالی ہند میں بہت سے باشندوں کو مسلمان بنا دیا تھا۔ اول اول ترک جو غزنوی کہلاتے تھے۔ آئے پھر غوری خاندان کا دور دورہ رہا۔ مغل حملہ کرنے سے تو کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر باشاہان دہلی کے ہاں ملازم ہو گئے۔ خاندان غلاماں کے عہد میں مغل اس قدر طاقتور ہو گئے کہ اُن کو قتل ہی کرنامناسب خیال کیا گیا۔ ۱۲۹۲ء میں تین ہزار مغل اپنی رسم ورواج چھوڑ بیٹھے اور ان کو دہلی کے گردو نواح میں رہنے کے لیے جگہ ملی۔ انہوں نے کئی بار فساد برپا کیے اور علماء الدین نے پندرہ ہزار نو آبادوں کو قتل کر دیا۔ چند سال بعد ہندو گجرات میں سرکش ہوئے اور پھر چتوڑ کو فتح کر لای۔ بہت سی اسلامیہ فوجیں دکن سے نکال دی گئیں۔ ۱۳۰۳ء میں گجرات کے فتح ہونے پر راجپوتوں نے اطاعت قبول کرنے کی نسبت مرنے کو ترجیح دی۔ کسانوں میں اب تک ایک گیت گایا جاتا ہے ۔ جس کا مضمون یہ ہے کہ کس طرح رانی تیرہ ہزار عورتوں کے ساتھ جلتی ہوئی آگ میں جا گری اور بہادر لڑلڑ کر ہلاک ہوئیم بعض اردلی پربت کی طرف چلے گئے اور اگرچہ راجپوتگ علائو الدین کے عہد میں مطیع تو ہو گئے ۔ مگر اُن کی آزادی میں فرق نہ آیا۔ علائوالدین نے اپنے لڑکوں کو قید کر لیا اور خود بے اعتدالیوں میں پڑ گیا۔ کہتے ہیں کہ آخر کار اس کے جرنیل کافور نے اسے زہر دے کر مار ڈالا۔ خاندان تغلق ۱- سلطنت افغانیہ میں کن باتوں سے زوال آیا خاندان تغلق کے آٹھ بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے اور اُن کی حکومت تقریباً سو برس رہی۔ اس عہد میں رفتہ رفتہ پٹھانوں کی بڑی سلطنت کے اجزا متفرق ہو گئے۔ اور اس میں سے بہت سی خود سر سلطنتیں بن گئیں ۔ جن میں سے بعض بڑی زبردست بھی تھیں۔اس ابتری کے اسباب یہ تھے۔ اول اس خاندان کے بعض بادشاہ بڑے بیوقوف اور بُزدل تھے۔ دوسرے بڑے بڑے مسلمان سردار ار حاکم اپنے تئیں بادشاہ دہلی سے کچھ کم نہ سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ بادشاہ کے ساتھ نمک حلالی اور وفاداری نہ کرتے تھے۔ تیسرے امیر تیمور نے ۱۳۹۸ے میں ہند پر ایک سخت حملہ کر کے دلّی کو خوب لُوٹا اور قتل عام کیا اور گو وہ ہند میں چند ہی روز رہا۔ مگر سلطنت میں اس صدمے سے اور بھی جلد زوال آگیا۔ ۲- سلاطین خاندان تغلق خاندان تغلق میں یہ بادشاہ نہایت مشہور ہوئے ہیں۔ اول سلطان محمد تغلق ابن غیاث الدین تغلق۔۱۳۲۵ء سے ۱۳۵۱ء تک۔ اس کے عہد میں دکن کا بہت سا ملک اس کی سلطنت سے علیحدہ ہو گیا اور وہاں برہمنی خاندان کے بادشاہوں نے ایک خود سر حکومت قائم کر لی۔ اس کا حال آئندہ آئیگا۔ دوم فیروز شاہ برادر زادۂ سلطان محمد تغلق ۱۳۵۱ء سے ۱۳۸۸ء تک۔ اس کے عہد میں حاجی الیاس نے بنگالے میں خاندان افغانیہ کی ایک خود سر حکومت قائم کر لی۔ اس کا ذکر بھی آگے آئیگا۔ سوم فیروز شاہ کا پوتا سلطان محمود۔ ۱۳۹۲ء سے ۱۴۱۲ء تک ۔ا س کے عہدمیں جون پور اور گجرات اور مالوے میں مسلمانوں کی خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں۔ مگر امیر تیمور کے حملے کے آگے ان سب واقعات کی کچھ حقیقت نہیں۔ یہ حصہ ہند میں سو برس بعد سلطنت مغلیہ کے قائم ہونے کا گویا ایک پیش خیمہ تھا۔ ۳- امیر تیمور تیمور چغتائی نسل کا ایک تاتاری امری اور ترکوں اور مغلوں کے اُس ٹڈی دل کا سردار تھا۔ جو سارے وسطی اور مغربی ایشیا پر چھایا ہوا تھا۔اور بخارا اور سمر قند اس کے صدر مقام تھے۔ امری تیمور اگرچہ تاتاریوں کی وحشی قوم میں سے تھا۔ مگر علم و ہنر سے بالکل بے بہرہ نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے سوانح عمری آپ ہی لکھے ہیں اور علم سے بہرہ ور ہونے ہی کا باعث تھا کہ اور تاتاریوں کی نسبت عالموں کی قدر و منزلت اس کی نظر میں زیادہ تھی۔ چنانچہ جب وہ کسی ملک پر حملہ کرنے جاتا تھا تو بہت سے علماء اور فضلا کو بھی ساتھ لے جایا کر تا تھا۔ مگر یہ ایک بڑے لطف کی بات ہے کہ خوف و خطے کے وقت اُس کے لشکر میں عورتیں تو جیسا کہ قرین عقل ہے فوج کے پیچھے رہا ہی کرتی تھیں۔ مگر علما کا جرگہ عورتوں کے بھی پیچھے ہوا کرتا تھا۔ تیمور نے اپنی توزک میں لکھا ہے کہ محمود تغلق کے ضعف سلطنت کے باعث اُس میں اور اُس کے امرا میں جو لڑائی جھگڑے ہو رہے تھے ۔ ان کی وجہ سے مجھے ہند پر یورش کرنے کا حوصلہ ہوا ۔ تیمور نے پہلے قلعۂ بھٹنیر پر حملہ کیا۔ یہاں کے حاکم نے اس سے صلح کر لی اور دونوں کے باہم عہدو پیمان ہو گئے۔ مگر تیمور نے بد عہدی کر کے وہاں کے باشندوں کو قتل کرایااور پھر وہاں سے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔فصیل شہر کے قریب محمود تغلق نے اُس کا مقابلہ کیا مگر شکست فاش کھائی اور گجرات کی طرف بھاگ گیا۔ تیمور مظفر و منصور ہو کر دلّی میں داخل ہوا اور رعای۹ا کو امان دی۔ مگر دلّی میں کہیں ایک ، خفیف سا فساد برپا ہو گیا۔ اس پر تیمور نے غصے میںآکر قتل عام کا حکم دے دیا اور ااپ تو پانچ روز خوب جشن کرتا رہا اور اُس کی فوج رعایا کو قتل کرتی اور لُوٹتی رہی۔ پھر جو لوگ بچ رہے تھے۔ اُن میں سے ہزاروں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ لے گئی۔ اُن میں بہت سے نہایت شریف افغان امرا اور ہندوئوں کی عورتیں اور بچے بھی تھے۔ پھر تیمور ہند سے واپس چلا گیا۔ کیونکہ اُس کو اپنے ملک میں فساد برپا ہونے کا اندیشہ تھا ۔ لکھاہے کہ اُس کا ایک ایک سپاہی ہند سے ڈیڑھ ڈیڑھ سو غلام لے گیا۔ اور سپاہیوں کے لڑکے بیس بیس غلام اپنے واسطے الگ لے گئے۔ اور لوٹ کے مال و اسباب کا تو کچھ حد و حساب ہی نہ تھا۔ خاندان سادات و خاندان لودھی ۱- دولتخاں جب تیمور دہلی سے چلا گیا تو کچھ دن بعد محمود تغلق گجرات سے واپس آیا۔ مگر سلطنت میں مدت تک بے انتظامی اور فتور جاری رہا۔ کیونکہ بادشاہ کی کوئی نہ سنتا تھا۔ آخر جب محمود نے رحلت کی تو امرائے افغانیہ میں سے ایک شخص دولت خاں لودھی جو نہایت زبردست امری تھا۔ سلطنت پر قابض ہو بیٹھا۔ مگر تھوڑے ہی عرصے بعد سیدخضر خاں نے جس کو امیر تیمور ملتان کا حاکم مقرر کر گیا تھا۔ اُس کو مغلوب کر لیا۔ ۲- خاندان سادات خضر خاں نے اول اول تو یہ کہا کہ میں امیر تیمور کی طرف سے حکومت کر تا ہوں مگر چند روز بعد بالکل خود مختار بن بیٹھا اور بادشاہان ہند کے خاندان سادات کا بانی ہوا۔اس کے بعد اس کے بیٹے اور پوتے اور پڑوتے نے حکومت کی اور یہ خاندان ۱۴۱۴ء سے ۱۴۵۰ء تک فرمانروا رہا۔ مگر یہ بادشاہان ہند کہلانے کے مستحق نہیں ہیں کیونکہ ان کی حکومت دہلی سے کچھ بہت دور تک کبھی نہیں پھیلی۔ آخر کار بہلول لودھی نام ایک زبردست افغان نے جو حاکم لاہور تھا سادات سے سلطنت چھین لینے کا قصد کیااور اگرچہ اول اول وہ چند بار ناکام رہامگر آخر اُس نے خاندان سادات کے بے حقیقت بادشاہ کو تخت سے اتار دیا اور آپ سلطنت دہلی پر قابض ہو کر خاندان لودھی کا بانی ہوا۔ یہ خاندان سلاطین ہند کے افغانیہ خاندانوں میں اخیر تھا۔ ۳- خاندان لودھی خاندان لودھی میں بہلول لودھی اور اُس کا بیٹا سکندر دونوں بڑے زبردست اور اقبال مند بادشاہ گزرے ہیں۔ بہلول لودھی نے بہت عرصے تک سلطنت کی۔ یعنی ۱۴۵۰ء سے ۱۴۸۸ء تک حکمراں رہا۔ اس کے عہد کا بڑا واقعہ یہ ہے کہ وہ ۲۶ سال تک بادشاہانِ جونپور سے لڑتا رہا اور انجام کار اُس سلطنت کو فتح کر لیا یہ بادشاہ متقی اور پرہیزگار اور تدابیر ملکی میں بڑا ہوشیار تھا اور اہلِ علم سے بڑی محبت رکھتا تھا۔بہلول کے بعد سکندر نے صوبۂ بہار اور کل شمالی ہند پر اپنا تسلط بٹھا لیا۔ صرف ایک بنگالہ باقی رہ گیا تھا۔ اس بادشاہ نے دلّی کی جگہ آگرے کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور اس وقت سے لے کر شاہجہاں کے زمانے تک آگرہ ہی ہند کا پایۂ تخت رہا۔ سکندر کے بعد اُس کا بیٹا ابراہیم لودھی بڑا بے ہمت نکلا اور ظلم و ستم بھی بہت کرنے لگا۔ اس لیے پھر سلطنت میں ابتری ہو گئی اور انجام یہ ہوا کہ ہند سے افغانوں کی سلطنت جاتی رہی ۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ ابراہیم لودھی کے بعض امرا نے جو اس سے بیزارتھے۔ بابر کو جو امیر تیمور کی پانچویں پشت میں وسط ایشیا کے مغلوں اور ترکوں کا ایک بڑا مشہور چغتائی سردار تھا اور کابل میں حکمرانی کرتا تھا، لکھ بھیجا کہ آپ ہند پر فوج کشی کر کے اس ملک کو تسخیر کر لیجیے۔ چنانچہ بابر نے ۱۵۲۴ء میں کابل سے آکر لاہور پر تسلط کیا اور پھر دو سال بعد ۱۵۲۶ء میں پانی پت کے میدان پر ایک مشہور معرکے میں ابراہیم لودھی کو شکست دی۔ یہ پانی پت کی اول لڑائی کہلاتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ہندوستان سلاطین افغانیہ کے ہاتھ سے نکل کر سلاطین مغلیہ کے قبضے میں چلی گئی۔ تیسری فصل ۔سلطنت دہلی کی ہمسر حکومتوں کا حال ۱- دکن کی سلطنت برہمنی اور اُس کی شاخیں ہم پہلے اشارۃ ذکر کر چکے ہیں کہ دہلی کے خاندان افغانیہ میں بعض بادشاہ ایسے بے حقیقت ہوئے ہیں کہ اُن کے عہد میں کئی جگہ مسلمانوں کی اور خود مختار سلطنتیں قائم ہو گئیں ۔ ان میں سے دکن کی سلطنت برہمنی بڑی مشہور تھی۔ اس کا بانی ایک افغان سردار ظفر خان نامی گزرا ہے۔ جو محمد تغلق کے عہد میں تھا۔ دہلی سے جو حاکم فوج لے کر ظفر خان سے لڑنے گئے تھے ۔ اُن سب کو اس نے مغلوب کیا اور گلبرگہ کا اپنا تخت گاہ بنا کر سلطنت دکن کا خودسر بادشاہ بن گیا۔ ظفر خان اصل میں گنگو نام ایک برہمن کا غلام تھا ۔ گنگو اُس پر بڑی مہربانی کرتا تھا اور اُس نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تو بڑا صاحبِ نصیب ہو گا۔ غرض جب ظفر خان نے عروج پکڑا تو اپنے پُرانے مہربان آقا کی یادگار میں اپنا لقب سلطنا علائوالدین حسن گنگو برہمنی رکھا اور اسی وجہ سے اُس کا خاندان تاریخوں میں خاندان برہمنی کے نام سے مشہور ہے۔ اس خاندان کے اٹھارہ بادشاہ دکن کے تخت پر بیٹھے اور ۱۳۴۷ء سے لے کر ڈیڑھ سو برس سے زیادہ عرصے تک یعنی ۱۵۲۶ء تک حکمراں رہے۔ جس سال پانی پت کی اول لڑائی کے باعث ہندوستان میں سلطنت دہلی کے خاندان افغانیہ کا خاتمہ ہوا اُسی سال دکن میں برہمنی خاندان کا بھی چراغ گُل ہو گیا۔ مگر اس سلطنت کا زوال اس سے پیشتر ہی شروع ہو گیا تھا اور اس کی تباہی سے نئی نئی خود سر ریاستیں رفتہ رفتہ قائم ہوتی جاتی تھیں۔ آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ اُس کی جگہ دکن میں پانچ بڑی بڑی خود مختار ریاستیں قائم ہو گئیں اور جب تک کہ دلّی کے بادشاہانِ مغلیہ نے ان سب کو فتح نہ کر لیا برابر حکمرانی کرتی رہیں۔ ان پانچوں سلطنتوں کی کیفیت یہ ہے۔ اول سلطنت عادل شاہیہ جس کی بنیاد ۱۴۸۹ء میں عادل شاہ نے ڈالی تھی۔ اس کا پایۂ تخت بیجا پور تھا۔ یہاں کے بادشاہوں کی مرہٹوں اور مغلوں سے کئی بار لڑائی ہوئی اور آخر ۱۶۸۶ء میں اورنگزیب نے اس سلطنت کا نقش مٹا دیا۔ دوم سلطنت نظام شاہیہ جس کا بانی ایک شخص ملک احمد نامی تھا۔ جو ۱۴۸۷ء میں خود مختار بن بیٹھا تھا ۔اُس کا دارا لسلطنت احمد نگر تھا۔ چاند بی بی نے جو یہاں کے شاہی خاندان میںایک بڑی دلاور عورت گزری ہے۔ اس سلطنت کو اکبر بادشاہ کی فوج سے مدت تک بچایا اور جب تک اس کے دم میں دم رہا ، اکبر کی فوج اُس کو فتح نہ کر سکی۔ ملک عنبر بھی اسی سلطنت کا ایک بڑا منتظیم اور بہادر سردار تھا۔ ۱۶۳۷ء میں شاہجہاں نے اس کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں ملا لیا۔ سوم سلطنت قطب شاہیہ۔ جا کا بانی ایک شخص قطب الملک نامی گزرا ہے۔ اس کا آغاز ۱۵۱۲ء میں ہوا اور گولکنڈہ اُس کا تخت گاہ قرار پایا۔ یہ سلطنت دکن کے مشرقی حصے میں تھی۔ اور ۱۶۸۷ء میں اورنگزیب کے ہاتھ سے تباہ ہوئی۔ چہارم سلطنت عماد شاہیہ واقع ملک برار جس کا دارالحکومت ایلچ پور تھا۔ اس کو بادشاہ احمد نگر نے ۱۵۷۴ء میں فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ پنجم سلطنت برید شاہیہ جو بیدر میں تھی۔ ۲- ریاست بجے نگر محمد تغلق کے عہد میں جس طرح ظفر خان نے دکن میں سلطنت برہمنی کی بنیاد ڈالی۔ اُسی طرح ایک راجہ نے ۱۳۳۶ء میں ریاست بجے نگر قائم کی۔ اس کو بعض اوقات سلطنت برسنگھ بھی کہتے تھے اور اُس کا علاقہ وہ تھا جو اب مدراس احاطہ کہلاتا ہے۔ انجام کار یہاں کے راجہ کو جس کا نام رام راجہ تھا۔ بیجاپور اور احمد نگر اور گولکنڈہ اور بیدر کے مسلمان بادشاہوں نے باہم ایکا کر کے تلی کوٹ پر جو دریائے کرشنا پر واقع ہے۔ ۱۵۶۵ء میں شکست دی اور اُس کے راج کو غارت کر دیا اور لڑائی کے بعد بیچارے بوڑھے راجہ کو پکڑ کر بیدردی سے مار ڈالا اور نیز اور بھی بہت سی بے رحمیاں کیں۔ اس کے بعد رام راجہ کے بھائی نے چندر گری میں جو مدراس سے شمال مغرب کی طرف ستر میل کے فاصلے پر ہے۔ اپنے قدم جمائے۔ یہ وہی راجہ ہے۔ جس نے ۱۶۴۰ء میں انگریزوں کو وہ زمین عطا کی جہاں اب شہر مدراس واقع ہے۔ ۳- بادشاہان بنگالہ خاندان تغلق کے زمانے میں جس طرح دکن کے اندر یہ خود مختار ریاستیں قائم ہو گئی تھیں۔ اُسی طرح بنگالے میں بھی شمس الدین الیاس نے جو حاجی الیاس کے نام سے مشہور ہے۔ خود سری اختیار کر لی تھی۔ اس پر فیروز تغلق بادشاہ دہلی نے ۱۳۵۳ء میں اس کے مقابلے کو فوج بھیجی ۔ جس نے پنڈوہ کے قریب مقام ایکدالہ میں حاجی الیاس کو گھیر لیا۔ مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ آخر بادشاہی فوج کو اُلٹا ہٹنا پڑا اور حاجی الیاس بنگالے کا خود مختار بادشاہ بن گیا۔ اس کا خاندان وہاں کوئی سو برس سے زیادہ برابر حکمراں رہا۔ اس میں ایک دفعہ کچھ عرصے تک ہندوئوں کا بھی دور دورہ ہو گیا تھا۔ ہندوئوں کی حکومت کا بانی راجہ گنیش تھا۔ جس کو مسلمان مؤرخوں نے کنس لکھا ہے۔ اس خاندان کا پایۂ تخت دیناج پور تھا۔ بنگالے میں اس کے بعد حبشی غلاموں کا یاک خاندان فرماں روا رہا پھر اس کے بعد ۱۴۸۹ء میں سید سلطان علائوالدین نے اپنا سکہ بٹھایا۔ اس نے حسین شاہ والیٔ جونپور کو جو بہلول لودھی بادشاہ دہلی سے شکست کھا کر بھاگا تھا۔ اپنے ہاں پناہ دی۔ اس پر بادشاہ دہلی سے بگاڑ ہوا اور آخر علائوالدین کو سکندر لودھی سے صلح کرنی پڑی۔علائوالدین کے بعد اس کے دو بیٹوں نے سلطنت کی۔ ان میں سے اخیر بادشاہ یعنی محمود شاہ کو شیر شاہ نے ۱۵۳۸ء میں یہاں سے نکال دیا۔ مگر اس کے بعد ہمایوں نے پھر اُس کو تخت پر بٹھا دیا۔ لیکن وہ اس کے چند ہی روزبعد مر گیا۔ اور پھر شیر شاہ نے وہاں کی حکومت سنبھال لی۔ چنانچہ اُس کا خاندان ۱۵۶۴ء تک حکمراں رہا۔ اس کے بعد سلیمان شاہ جو افغانوں کے قبیلۂ کرارانی میں سے تھا۔ تخت پر بیٹھا اور جب اکبر کا سردار منعم خان ادھر آیا تو سلیمان شاہ نے اس سے صلح کر لی۔ مگر اُس کے بیٹے دائود نے فوج شاہی کا مقابلہ کیا اور آخر کار مغلوب ہوا۔ ۴- جونپور ۔ گجرات ۔ مالوہ خواجہ جہاں جو محمود تغلق بادشاہ دہلی کا وزیر تھا۔ ملک الشرق کے خطاب سے ممتاز ہو کر حاکم جونپور مقرر ہوا تھا۔ مگر ہو ۱۳۹۳ء میں خود مختار بادشاہ بن گیا اور جونپور کی زبردست سلطنت کا بانی ہوا۔ یہاں کے بادشاہوں کا دربار تزک و شان اور علماء و فضلا کی قدر دانی کے باب میں بہت مشہور تھا۔ آخر کار اس سلطنت کو بہلول لودھی نے ۱۴۷۴ء میں فتح کر لیا۔ مالوہ اور گجرات کے شاہی خاندان بھی خاندان تغلق کے اخیر سلاطین کے ضعف و کم ہمتی کے باعث پیدا ہو گئے تھے۔ پھر مالوے کے علاقے کو گجرات کے مشہور بادشاہ بہادر شاہ نے ۱۵۳۱ء میں فتح کر لیا۔ مگر وہ پرتگیزوں کے ہاتھ سے مارا گیا اور گجرات کو ۱۵۷۱ میں اکبر نے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ تیسرا باب سلطنتِ اسلام کادوسرا زمانہ۔ سلطنت مغلیہ کا حال پہلی فصل ۔ظہیر الدین بابر بادشاہ ۱۵۲۶ء سے ۱۵۳۰ء تک ۱- بابر بادشاہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ بابر امیر تیمور کی اولاد اور مغلوں کی قوم چغتائی میںسے تھا۔ اس نے بھی تیمور کی طرح اپنے سوانح عمری آپ لکھے ہیں۔ اس کتاب کا نام تزک بابری ہے اور اس میں بابر نے اپنا حال صاف صاف اورصحیح صحیح بیان کیا ہے۔ بابر ۱۴۸۳ء میں پیدا ہوا اور تقریباً چالیس سال کی عمر تک وسط ایشیا ہی کے لڑائی جھگڑوں میں مصروف رہا۔ اس عرصے میں اُس نے زمانے کے بہت سے انقلاب دیکھے اور بہت کچھ کھکیڑ اُٹھائی۔ اس کی سر گزشت بڑی عجیب ہے۔ کبھی تو وہ ایسا مظفر و منصور ہوتا تھا کہ اُس کی حکومت دور دراز تک پھیل جاتی تھی۔ اور کبھی ایسا پست اور مغلوب ہو جاتا تھا کہ بھاگنے تک کو بھی رستہ نہ ملتا تھا۔ مگر ہو اولواعزم اور بہادر اس بلا کا تھا کہ خوف و ہراش کبھی اس کے پاس نہ پھٹکتا تھا۔ مصیبت کے زمانے میں ایوب کی طرح صابر رہتا تھا۔ اپنے ارادوں میں بڑا مستقل تھا۔ اور ناکامی کی حالت میں ہمت نہ ہارتا تھا۔ اُس کے واقعات میں لکھا ہے کہ جب وہ فتحمند ہوتا تھا تو یہ کہا کرتا تھا کہ اے خدا! یہ فتح کچھ میری بہادری یا لیاقت سے نہیں ہوئی بلکہ صرف تیری مہربانی سے حاصل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی کلمات اس خدا پرست اور جوانمرد بادشاہ نے پانی پت کی مشہور لڑائی فتح کر کے اپنی زبان سے کہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی لائق تھا کہ اُس کو ایسی فتح حاصل ہو۔ اس بڑی فتح سے بابر کا صرف دہلی اور آگرے پر تسلط ہو گیا ۔ کیونکہ ابراہیم لودھی کی عملداری اس وقت اتنی ہی تھی۔ مگر شاہزادہ ہمایوں فوراً مشرق کی طرف بڑھا اور اُس نے جونپور تک سارا ملک تسخیر کر لیا۔ اس کے ایک برس بعد ۱۵۲۷ء میںراجپوتوں نے بڑے بہادر رانا سانگا مہارانائے میواڑ کے ماتحت جمع ہو کر مغلوں کو ہند سے نکالنے اور پھر سلطنت ہنود قائم کرنے کا مصمم ارادہ کیا۔ میدنی رائے والیٔ چندیری اور راجگان مارواڑ وجے پور اس معرکے میں مہا رانائے میواڑ کے ساتھ تھے۔ مگر بابر نے فتح پور سیکری کے قریب ان سب کو شکست فاش دی اور پھر چندیری کے سنگین قلعے پرہلا کر کے اُس کو فتح کر لیا۔ چندیری میں راجپوت بڑی بہادری سے لڑے اور ایک ایک نے میدان میں لڑ کر جان دی۔ اس معرکے سے سلطنت مغلیہ ہند میں مستحکم ہو گئی اور اسی سال بنگالہ اور بہار پر بھی بابر کا تسلط ہو گیا۔ ۲- بابر کی وفات بابر کی وفات کا حال بڑا عجیب و غریب ہے ۔ لکھا ہے کہ اُس کا بڑا بیٹا ہمایوں سخت بیمار تھا۔اور بابر نے ایک مشہور ایشیائی رسم کے موافق اُس کے لیے اپنی جان تصدق کرنی چاہی۔ چنانچہ وہ تین بار اپنے بیمار فرزند کے پلنگ کے گرد پھرا اور صدق دل سے دعا مانگی۔ کہ اس کی بیماری مجھ کو لگ جائے۔ اس کے بعد اُس کو کامل یقین ہو گیا کہ میری دعا قبول ہو گئی اور اس نے بآواز بلند کہا کہ ہمایوں کی بیماری مجھ میں آگئی ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ درحقیقت ہمایوں اُس وقت سے اچھا ہوتا گیا اور بابر کا حال آناً فاناً بگڑتا گیا۔ مگر اس کی صحت میں پہلے سے بھی کچھ فتور تھا۔ آخریہ ہوا کہ اپنے بچوں اور وزیروں کو یہ نصیحت کرتے کرتے کہ تم ہمیشہ اتفاق اور محبت سے رہنا ۲۶ دسمبر ۱۵۳۰ء کو رحلت کر گیا۔ اس کا جنازہ کابل میں لے جا کر دفن کیا گیا اور اس پر ایک خوشنما مقبرہ بنایا گیا۔ ۳- بابر کی خصلت بابر کے نام پر ایک یہ دھبا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ بڑی بے رحمی سے پیش آتا تھا۔ مگر وہ بڑا بہادر، صابر اور عالی حوصلہ تھا۔ اور فن محاربہ میں اُس کو خوب مہارت تھی۔ تاریخوں میں اس کے کئی قصے ایسے لکھے ہیں۔ جن سے اس کی کمال ایمانداری اور معدلت گستری ثابت ہوتی ہے۔ منجملہ اکے ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ چین کے ملک سے ایک بڑا مالدار قافلہ آتے آتے اس کے علاقے میں پہاڑوں کی برف کے اندر غارت ہو گیا۔ اس پر بابر نے حکم دیا کہ اُ س کا سارا مال و اسباب جمع کیا جائے اور چین میں آدمی بھیج کر اشتہار دلوایا کہ جو کوئی اس مال کا والی وارث ہو ۔ آکر لے جائے۔ دو برس بعد مال و اسباب کے وارث بابر کے دربار میں حاضر ہوئے۔ بابر نے بڑے تکلف کے ساتھ اُن کی خاطر تواضع کی اور اُن کا سارا مال و اسباب اُن کے حوالے کر دیا۔ خاندان تیموریہ کا شجرۂ نسب اس میں جو عدد خطوط وحدانی میں لکھے ہیں وہ بادشاہان مغلیہ کے سلسلۂ تخت نشینی کے نمبر ہیں۔ امیر تیمور سلطان محمد مرزا سلطان ابو سعید مرزا عمر شیخ مرزا ظہیرا لدین بابر جو خاندان مغلیہ کا پہلا بادشاہ ہوا (۱) ہمایوں (۲) اکبر (۳) شاہزادہ سلیم جو پیچھے جہانگیر کہلایا (۴) شاہزادہ خُرم جو پیچھے شاہجہان کے نام سے ملقب ہوا (۵) اورنگزیب یعنی عالمگیر اول (۶) شاہزادہ معظم جو پیچھے بہادر شاہ یا شاہ عالم اول کے نام سے ملقب ہوا (۷) جہاندار شاہ (۸) عظیم الشان رفیع الشان محمد اختر عالمگیر ثانی (۱۴) فرخ سیر (۹) رفیع الدولہ رفیع الدرجات روشن اختر محمد شاہ عالی گوہر یعنی (۱۱) (۱۰) (۱۲) شاہ عالم ثانی (۱۵) احمد شاہ (۱۳) دوسری فصل ۔نصیر الدین ہمایوں بادشاہ ۱۵۳۰ء سے ۱۵۵۶ء تک ۱- ہمایوں ہمایوں بادشاہ اثنائے فرماں روائی میں تخمیناً سولہ برس سلطنت سے خارج رہا اور اس عرصے میں سور خاندان کے پٹھان ہند میں حکومت کرتے رہے۔ بابر کی وفات کے بعد جب ہمایوں تخت پر بیٹھا تو اُس نے اپنی نادانی یا مروت و عالی حوصلگی سے عمدہ عمدہ علاقے جو جری سپاہیوں کی کان تھے۔ اپنے بھائیوں کو دے دیے اور اپنے باپ کا نیا فتح کیا ہوا ملک اپنے پاس رکھا۔ ۲- فتح گجرات ہمایوں کو اول لڑائی بہادر شاہ والیٔ گجرات سے پیش آئی۔ اس جنگ میں اس نے خوب ہی شجاعت و جوانمردی کی داد دی۔ کیونکہ چمپانیر جیسے مضبوط قلعے پر جہاں بہادر شاہ کا خزانہ جمع تھا کل تین سو سپاہیوں کے ساتھ سیڑھیاں لگا کر چڑھ گیا اور اُس کو فتح کر لیا۔ ۳- ہمایوں کی شیر شاہ سے لڑائی اس لڑائی کے بعد ہمایوں نے ارادہ کیا کہ شیر شاہ سوری کو جو چند روز سے بنگالے کا ملک دبا بیٹھا تھا۔ وہاں سے نکال دے۔ مگر یہ لڑائی ہمایوں کے حق میں بڑی زبون ہوئی۔ بادشاہ نے اول تو شہر گور دارالخلافۂ بنگالہ پر تسلط کر لیا۔ لیکن پیچھے شیر شاہ نے عہد و پیمان کے باب میں کچھ خط و کتابت کر کے جھٹ دھوکے سے اُس کو آدبایا۔ اس وقت اگر ہمایوں اپنے گھوڑے پر سوار ہو دریائے گنگ میں نہ اتر جاتا تو دشمن کے قبضے میں آہی چکا تھا۔ پھر دریا میں ڈوبتے ڈوبتے یوں بچا کہ ایک بہشتی نے جھٹ پٹ آن کر اس کو سنبھال لیا اور صحیح سلامت دریا پار اُتار دیا۔ وہاں سے بھاگ کر وہ آگرے آیا۔ اور اُس کے بھائی جو پہلے اُس کے دشمن تھے۔ اب مددگار اور خیر خواہ بن گئے اور سب نے متفق ہو کر ایک بڑی فوج تیار کی ۔ مگر ہمایوں کو پھر قنوج کے پاس شکست فاش ہوئی اور اب ناچار اُس کو ہند سے بھاگنا پڑا۔ چنانچہ بہت سی صعوبتیں اُٹھا کر وہ سندھ سے ہوتا ہواایران پہنچا۔ طہما سپ شاہ صفوی والیٔ ایران اول تو اس کے ساتھ کچھ اچھی طرح پیش نہ آیا ۔ کیونکہ ہمایوں اور اُس کی اکثر مسلمان رعایا سُنی تھی اور شاہ ایران اور اس کی رعایا شیعہ۔ اس لے شاہِ ایران یہ چاہتا تھا کہ ہمایوں بھی شیعہ مذہب اختیار کر لے ۔ مگر انجام کار شاہ طہماسپ نے دس ہزار سوار ہمایوں کے ساتھ کر دیے اور اس فوج سے اس نے اپنا ملک پھر فتح کر کے دہلی اور آگرے پر تسلط کر لیا۔ ۴- شیر شاہ بانیٔ خاندان سور شیر شاہ قوم افغان کا ایک بڑا بہادر سپاہی تھا اور اپنی دانائی اور شجاعت کی بدولت رفتہ رفتہ عروج پکڑ کر بنگالے کا بادشاہ ہو گیا تھا ۔ مگر افسوس ہے کہ اُس نے اُسی زمانے میں کئی بار دغا بازی کر کے اپنے نام کو بٹا لگایا۔ جب شیر شاہ نے۱۵۴۰ء میں قنوج کے قریب ہمایوں پر فتح پائی تو سارے ہندوستان کا بادشاہ ہو گیا اور پانچ برس میں بڑی دانشمندی اور خیر اندیشیسے سلطنت کرتا رہا۔ اس نے بنگالے سے لے کر دریائے سندھ تک ایک سڑک بنوائی اور اس کی ہر ایک منزل پر مسافروں کے آرام کے لیے سرائیں بنوائیں۔ اور ڈیڑھ ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کوئیں کھدوائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اُس کی اولاد بھی شجاعت اور دانائی میں اُس کی مانند ہوتی تو ہمایوں کو دلّی کا تخت پھر شاید ہی نصیب ہوتا۔ مگر سلیم شاہ ابن شیر شاہ کے بعد جو شیر شاہ کا بھتیجا محمد عادل شاہ سلیم شاہ کے صغیر سن بیٹے کو قتل کے کے تخت نشین ہوا وہ نالائق اور ظالم تھا ۔ اس لیے اُسی کے خاندان کے لوگ اس سے منحرف ہو گئے۔ چنانچہ ابراہیم سوری نے اُس سے دہلی اور آگرہ چھین لیا اور آپ بادشاہ بن بیٹھا۔ پھر چند روز بعد شیر شاہ کے دوسرے بھتیجے سکندر نے تخت پرقبضہ کر لیا۔ غرض یہی باعث تھا کہ جب ۱۵۵۶ء میں ہمایوں فارس کی فوج کے کر ہند میں پھر آیا تو اُس نے اپنے وفادار سردار بیرم خان کی مدد سے سکندر کو بھگا دیا اور دہلی اور آگرہ دونو پر تسلط کر لیا۔ اس طرح سلطنت تو ہمایوں کے ہاتھ لگ گئی۔ مگر ابھی خرخشہ نہیں مٹا۔ کیونکہ ادھر تو سکندر فوج لیے شمالی پہاڑوں کی تلیٹی میں منڈلاتا پھرتا تھا اور اُدھر عادل شاہ کا بہادر اور ہوشیار وزیر ہیموںبنگالے کی سرحد پر لڑنے کو مستعد کھڑا تھا۔ غرض سلطنت کی یہی کیفیت تھی کہ ہمایوں نے چھ مہینے بعد ایک مکان سے گر کر وفات پائی۔ تیسری فصل ۔جلال الدین اکبر بادشاہ ۱۵۵۶ء سے ۱۶۰۵ء تک ۱- اکبر کی اوائل عمر اکبر بادشاہان مغلیہ میں سے تیسرا بادشاہ تھا۔ اس کے عہد میں سارے شمالی ہند اور نیز دکن کے ایک حصے میں سلطنت مغلیہ کا تسلط ہو گیا تھا۔ اکبر ۱۵۴۲ء میں سندھ کے ریگستان میں امر کوٹ کے مقام پر اُس وقت پیدا ہواتھا جب اُس کا باپ ہمایوں شیر شاہ کے ہاتھ سے بھاگتا پھرتا تھا اور ابھی بچہ ہی سا تھا کہ ۱۵۴۳ء میں اپنے چچا مرزا کامران والیٔ قندھار کے ہاتھ آگیا اور ۱۵۵۵ء تک اُس کی حفاظت میں رہا۔ اس وقت اکبر اپنی انّا جی جی انگہ اور اُس کے خاوند انگہ خاں کے سپرد تھا۔ بڑا ہو کر وہ ان دونوں کے ساتھ ہمیشہ بڑی محبت کرتارہا۔ اکبر کی تخت نشینی سے چند سال بعد ایک امیر مسمیٰ ادہم خاں نے انگہ خاں کو محل شاہی میں خنجر سے مار ڈالا۔ اکبر اُس وقت محل میں پڑا سوتا تھا۔مگر شورو غل سے اُس کی آنکھ کھل گئی اور وہ فوراً باہر نکل آیا۔ ادہم خاں اُس کے ساتھ بھی گستاخی سے پیش آنا چاہتا تھا مگر اُس نے بڑھ کر ادہم خاں کے چہرے پر ایک ایسا مُکا لگایا کہ وہ چکر کھا کر گر پڑااوراُسی وقت لوگوں نے اُس کی مشکیں کس لیں۔ پھر حکم ہوا کہ اُس کو قلعے کے کنگرے پر سے سرنگوں گرا دیں۔ اکبر نے اپنے کوکہ مرزا عزیز کو کلتاش کو اعلیٰ درجے پر سرفراز فرمایا اور خان اعظم اُس کو خطاب دیا۔ یہ شخص اکبر اور جہانگیر کے عہد میں فوج کا ایک بڑا سپہ سالار رہا۔ مگر چونکہ بیباک بہت تھا۔ اس لیے اکبر اس سے اکثر ناراض ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن کبھی سزا نہ دیتا تھا۔ بلکہ یہ کہہ کر در گزر کرتا تھا کہ کیا کروں میرے اور عزیز کے درمیان ایک دود کا دریا واقع ہے جس سے گزرنا مجھ کو محال ہے۔ ہمایوں کی وفات کے وقت اکبر تیرہ برس اور چار مہینے کا تھا۔ اُس وقت اُس کو اور اُس کے اتالیق بیرم خان کو عادل شاہ اور سکندر سوری کی افواج افغانی سے مقابلہ پیش آیا۔ ۲- بیرم خاں بیرم خان قوم کا ترک اور مذہب کا شیعہ تھا اور تاریخ ہند میں بڑا مشہور و معروف ہوا ہے۔ جب ہمایوں اپنی سلطنت سے خارج ہو کر آوارہ دشت اوبار تھا۔ اُس وقت بیرم خاں نے بڑی وفاداری سے اُس کا ساتھ دیا اور جب وہ ہمایوں کے ساتھ ایران پہنچا تو شاہ ایران نے اُس کو خطاب خانی عطا کیا۔ اُس کے رفیقوں میں سے ایک شخص ابوالقاسم نامی حاکم گوالیار کی وفاداری اور جاں نثاری کا ایک قصہ مشہور ہے۔ کہتے ہیں کہ جب بیرم خان شیر شاہ سے بچنے کو گجرات کی طرف بھاگا جاتا تھا اُس وقت وہ رستے میں دشمنوں کے ہاتھ پڑگیا۔ ابوالقاسم ساتھ تھاا ور وہ بڑا شکیل اور وجیہ جوان تھا۔ دشمن سمجھے کہ بیرم خاں یہی ہے۔ مگر بیرم خان نے جھٹ آگے بڑھ کر کہا کہ نہیں بیرم میں ہوں ۔اس پر ابوالقاسم بولا کہ یہ غلط کہتا ہے ۔ بیرم میرا ہی نام ہے اور یہ میرا ایک خدمتگار ہے، مگر چونکہ بڑا دل چلا اور وفا دار ہے ۔ اس لیے میرے واسطے جان دینے کو تیار ہے۔ غرض اس حیلے سے اُس نے اپنے مربی کو بچا لیا۔اور آپ اس کے عوض جان دے دی۔ اس طرح بیرم چھوٹ کر بادشاہ گجرات کے پاس پہنچااور پھر وہاں سے ایران چلا گیا۔ بیرم خان فن سپاہگری میں خوب ماہر اور بڑا صاحب لیاقت تھا اور یہ کہنا بیجا نہیں ہے کہ ہمایوںکو ہندوستان کی سلطنت اسی جوانمرد کی بدولت پھر نصیب ہوئی۔ بیرم خان نے افغانی حاکموں کی سپاہکو اول مرتبہ ماچھی واڑہ پر بڑی زک دی۔ پھر ہمایوں نے اپنے مرنے سے کچھ پہلے اسے اکبر کا اتالیق مقرر کر کے دونوں کو سکندر سوری کے مقابلے پر بھیجا۔ جب ہمایوں مر گیا اور اکبر تخت نشین ہوا تو بیرم کو خان بابا خطاب مال اور بادشاہ نابالغ کی طرف سے نائب السلطنت ہوا ۔ پھر جس وقت اول ہیموں سے اور بعدمیں سکندر سوری سے مقابلہ آکر پڑا ۔ اُس وقت بھی بیرم خان فوج شاہی کا سپہ سالار تھا۔ ۳- ہیموں ہیموں بے دھڑک دلّی کی طرف بڑھا اور اکبر کی فوج کا جو دستہ تردی بیگ کے ماتحت تھا۔ اُس کو شکست دی۔ اس پر بیرم خان نے تردی بیگ کو اس قصور پر مروا ڈالا کہ اُس نے بے سوچے سمجھے کیوں ہیموں پر حملہ کیا۔ اس سیاست سے سارے عمائد چغتائی جو تردی بیگ کے ہم قوم و ہم مذہب تھے۔ بیرم خان کے دشمن ہو گئے۔ کیونکہ وہ قوم کا تر اور مذہب کا شیعہ تھااور تردی بیگ چغتائی اور سنی تھا۔ اس کے بعد بیرم فوراً کمر باندھ کر ہیموں سے لڑنے کو تیار ہو گیا۔ ۴- پانی پت کی دوسری لڑائی چنانچہ ۵ نومبر ۱۵۵۶ء کو پانی پت پر بیرم کی فوج کے ہر اول نے خان زماں کے ماتحت عادل شاہ کی فوج سے جس کا حاکم ہیموں تھا۔ بری بہادری کے ساتھ لڑ کر ہیموں کو شکست دی۔ اس لڑائی میں ہیموں اسیر ہو گیا اور بیرم نے اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ یہ پانی پت کی دوسری لڑائی کہلاتی ہے اور اس سے سلطنت مغلیہ استقلال کے ساتھ ہند میں قائم ہو گئی۔ کیونکہ چند روز بعد سکندر سوری نے خود اکبر کی اطاعت قبول کر لی اور اُس کی جاں بخشی ہوئی۔ ۵- بیرم خان کی معزولی بیرم خاں کے دلیرانہ انتظام اور لیاقت نبرد آزمائی کے باعث سلطنت کا کام بہت اچھی طرح انجام پاتا رہا۔ مگر اُس نے منصب اتالیقی کی حیثیت سے سختی اور نخوت کو کام فرمایا۔ اس لیے سارے اُمرا اس سے برگشتہ ہو گئے اور انہوں نے اکبر کو جس کی عمر اُس وقت اٹھارہ برس کی تھی۔ یہ سمجھایا کہ آپ خود عنان السلطنت اپنے ہاتھ میں لیں۔ غرض جب بیرم نے دیکھا کہ اب حکومت ہاتھ سے چلی تو اُس نے بغاوت کا جھنڈا کھڑا کیا۔ مگر زک پائی اور بادشاہ کے پائوں پر آکر گر پڑا۔ اس پر بادشاہ بڑی مروت اور مہربانی سے اس کے ساتھ پیش آیا۔اُس نے بعد بیرم دنیا سے کنارہ کر کے حج کے لیے مکے کو روانہ ہوا۔ مگر گجرات میں ایک شخص نے اُس کو مار ڈالا۔ بیرم خاں کے بعد بادشاہ کو سلطنت کا انتظام اپنے آپ کرنا پڑا۔ اور اب وہ نہایت دلیری ، دانشمندی اور لیاقت کے ساتھ اپنی سلطنت کے استحکام کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی زندگی میں سارے ہندوستان اور کشمیر اور قندھار اوردکن کے ایک حصے پر بھی قرار واقعی تسلط بٹھا لیا اور نہایت دبدبے اور جلال کے ساتھ سلطنت کی ۔ ۶- اکبر کی فتوحات اول تو اکبر کو اپنے ہی امیروں کی بغاوت دفع کرنی پڑی۔ جن کا سرغنہ وہی خان زمان تھا۔ جس نے پانی پت کی لڑائی فتح کی تھی۔ جب یہ بغاوت رفع ہو گئی تواُس نے چتوڑ، گجرات، بہار، بنگالہ ، اڑیسہ، کشمیر ، سندھ ، قندھار، احمد نگر،خاندیس اور برار کے ایک حصے کو ایک ایک کر کے فتح کیا۔ اکبر ہمیشہ اس مصلحت پر کار بند رہا کہ جب کوئی دشمن مغلوب ہوتا تو اُس کے ساتھ عنایت و مروت سے پیش آتا۔ بلکہ اچھا سلوک کرتا ۔ چنانچہ جو راجہ اور بادشاہ لڑائی میں مغلوب ہو جاتے تھے۔ اُن کو وہ عموماً اپنے دربار کے امیروں اور فوج کے افسروں میں داخل کر لیا کرتا تھا۔ اس طرح ہند کے بہت سے راجا اور بادشاہ اور خاص کر جے پور اور جودھ پور کے راجپوت اس کے بڑے احسان مند اور جاں نثار بن گئے۔ ان سب بڑی بڑی فتوحات کا مفصل بیان حد سے زیادہ طویل ہے۔ اس لیے صرف تین واقعات خلاصے کے طورپر لکھے جاتے ہیں۔ اول: راجپوتوں کے ساتھ اکبر کا سلوک دوم: اکبر کا بنگالے کو فتح کرنا۔ سوم: ریاست احمد نگر کی مشہور و معروف بیگم چاندبی بی سے اکبر کی لڑائیاں ۷- راجپوتوں کے ساتھ اکبر کا سلوک اس وقت امبیریعنی جے پور کا فرماں روا راجہ بہاری مل تھا۔ جس کو اکبر نے انجام کار مغلوب کیا اور پھر اُس کی بیٹی سے شادی کی۔ اس کے بعد اکبر کے بڑے بیٹے شاہزادہ سلیم (جہانگیر )کی شادی اسی خاندان کی ایک اور لڑکی سے ہوئی۔ غرض راجپوتوں میں اول اسی راجہ نے مغلوں سے ایسی رشتہ داری کا سلسلہ قائم کیا۔ راجہ بہاری مل کا بیٹا راجہ بھگوانداس اس عہد کے اہل دربار میں ایک نہایت ممتاز امیر تھا۔ کیونکہ اکبر نے اس کو امیرا لامراء کا خطاب عطا کیا اور پنجاب کا حاکم مقرر کر دیا تھا اور اُس کا بیٹا راجہ مان سنگھ جو بادشاہ کے ہاں نہایت عمدہ سپہ سالاروں میں سے تھا۔ منصب ہفت ہزاری پر سرفراز تھا۔ یہ منصب اکبر کی سلطنت میں امرا کے لیے سب سے اعلیٰ تھا۔ اس لیے فوج کے جس قدر مسلمان سردار تھے وہ سب راجہ مان سنگھ کے ماتحت تھے۔ اس راجہ سے پنجاب اورکابل میں اچھی اچھی خدمتیں ظہور میں آئیں اور جب وہ بنگالے کی خدمت پر مامور ہوا۔ تو اُس نے وہاں کا قرار واقعی انتظام اور وہاں کے افغان سرداروں کی بغاوت کا بخوبی انسداد کیا۔ رانائے چتوڑ جو اب رانا ئے اودے پور کہلاتا ہے ۔ اودے سنگھ پسر رانا سانگا تھا۔ اس ے چتوڑ پر اکبر کی بڑی سخت اور خونریز لڑائی ہوئی۔ جس میں اکبر فتحیاب ہوا۔ اس کے بعد اودے سنگھ کے بیٹے رانا پرتاب سنگھ نے اپنی سلطنت کے ایک حصے پر ۱۵۸۰ء میں پھر قبضہ کر لیا اور شہر اودے پور کی بنا ڈالی۔ جودھ پور یا مارواڑ کا رانا مالدیو تھا۔ اُس کی پوتی سے اکبر کے اپنے بیٹے جہانگیر ولیعہد سلطنت کی شادی کی اور یہ ملکہ جودھ بائی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شاہزادہ خرم جو پیچھے شاہجہاں کے نام سے بادشاہ دہلی ہوا وہ اسی کے بطن سے تھا۔ جہانگیر کی ماں بھی راجپوت تھی۔ راجہ جے پور اور رانائے جودھ پور نے تو بادشاہ کے ساتھ رشتہ ناطہ کیا۔ مگر رانائے اودے پور نے ایسی قرابت سے انکار کیا۔ بلکہ جن راجپوتوں نے ایسی رشتہ داری منظور کی تھی۔ اُن کو مطعون کیا۔ ۸- تسخیر بنگالہ جب اکبر گجرات کو فتح کر چکا تو بہار، بنگالہ اور اوڑیسے کی تسخیر کی طرف متوجہ ہوا۔ منعم خان جو بیرم خان کی جگہ خانخاناں مقرر ہوا تھا اور اکبر کی طرف سے جونپور کا حاکم تھا۔ اُس نے بنگالے کے افغان حاکم سلیمان کرارانی سے جبراً اطاعت کا اقرار کرا لیا تھا۔ مگر سلیمان کا بیٹا دائود خان منحرف ہو گیا۔ اس پر اکبر بذات خود فوج لے کر ۱۵۷۴ء میں وہاں پہنچا اور حاجی پور اور پٹنہ فتح کر لیا ۔ پھر اُس نے منعم خان کو بہار کی حکومت پر مامور کرکے حکم دیا کہ جب تک بنگالہ فتح نہ ہو جائے ، دائود خان کا پیچھا نہ چھوڑے ۔راجہ ٹوڈر مل جو صیغۂ مال کا بڑا نامی گرامی حاکم تھا۔ اُس پر اس مہم کا بڑا دارو مدار تھا۔ آخر یہ ہوا کہ دائود خان نے اوڑیسے میں مقام جلیسر کے قریب مغل ماڑی پر شکست کھا کر اکبر کی اطاعت قبول کی اور اس پر کٹک کا علاقہ اُسی کو عطا ہو گیا۔ تھوڑے دن بعد دائود خان نے پھر بغاوت کا جھنڈا کھڑا کیا اور بنگالے کو تاخت و تاراج کر نا شروع کر دیا۔ منعم خان گور کی آب وہوا کے ناموافق ہونے سے بیمار ہو کر مر گیا تھا۔ اور اس کی جگہ خان جہاں مقررہوا تھا اُس نے اور ٹوڈر مل نے جو اس کام میں خان جہاں کا نائب تھا۔ دائود کو آک محل پر ۱۵۷۶ء میں شکست دی اور یہاں دائود مارا گیا۔ اس کے بعد خان جہاں نے دائود کی رہی سہی جمیعت کو ہگلی کے قریب سات گائوں پر ایک اور شکست دی اور اپنے مرنے سے پہلے رفتہ رفتہ سالے بنگالے کو تسخیر کرلیا۔ بنگالے اور بہار کے بڑے بڑے جاگیردارانِ قوم مغل جن کو صوبجات مفتوحہ میں سرکار سے زمینیں عطاہوئی تھیں انہوں نے خان جہاں کی وفات کے تھوڑے عرصے بعد ایک بڑا بے ڈھب فساد برپا کیا۔ جاگیرداروں کے اس فساد کی آگ ابھی بجھنے نہ پائی تھی کہ پٹھانوں نے اوڑیسے میں پھر سر اٹھایا اور بنگالے کا ایک حصہ تاخت و تاراج کر ڈالا۔ آخر جب راجہ مان سنگھ ان صوبوں کا حاکم مقرر ہوا تو اُس نے اس حصے کو فتح کر کے ایک عرصے بعد وہاں قرار واقعی عمل بٹھایا۔ ۱۰- چاند بی بی سلطانۂ احمد نگر ریاست احمد نگر میں ہندو اور حبشی امرا کے باہم جھگڑے قضئے پڑ رہے تھے۔ اس لیے اکبر نے ۱۵۹۵ء میں اپنے دوسرے بیٹے مراد اور مرزا خان بسر بیرم خان کو روانہ کیا کہ ایسے وقت میں احمد نگر پر تسلط کر لیں۔ اُس وقت یہاں کا بادشاہ بہاد رنظام شاہ تو نا بالغ تھا اور ریاست کا انتظام اُس کی پھوپھی چاند بی بی کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے اول تو اپنے خسر شاہِ بیجا پور سے صلح کی اور حبشی امیروں کو گانٹھا۔ پھر شاہزادہ مراد جو محاصرے پر ذور ڈالتا جاتا تھا۔ اُس کے ہاتھ سے احمد نگر کو ایسی دانائی اور بہادری سے بچایا کہ سب دنگ رہ گئے۔ ایک دفعہ محاصرین نے فصیل شہر میں شگاف کر لیا اور قریب تھا کہ محصورین حواس باختہ ہو کر شہر کو حوالے کر دیں ۔مگر اتنے ہی میں سلطانہ سر سے پائوں تک زرہ بکتر سے آراستہ ہو چہرے پر نقاب ڈال تلوار ہاتھ میں لے اُس شگاف پر آموجود ہوئی اور اس بہادری سے لڑی کہ رات ہوتے ہوتے فوج مغلیہ کو ہٹا دیا پھر راتوں رات شگاف فصیل کو بھر کر بالکل تیار کر دیا۔سلطانہ رات بھر وہاں سے نہ ہلی تھی اور صبح کو پھر دشمن کے مقابلے پر مستعدکھڑی تھی۔ مگر مرادنے محاصرے سے ہاتھ اٹھایا اور باہم صلح ہو گئی۔ اس کے بعد ۱۵۹۹ء میں اکبر بذات خود برہانپور آیا۔ دولت آباد تو اس سے پہلے ہی فتح ہو چکا تھا۔ اب اکبر نے اپنے تیسرے بیٹھے شاہزادہ دانیال کو مع میرزا خان کے احمد نگر کا پھر محاصرہ کرنے کو بھیجا۔ چاند بی بی اس سے پہلے اپنے نابالغ بھتیجے کے مخالفوں کے ہاتھ سے قتل ہو چکی تھی۔ اس لیے اب کی دفعہ بادشاہی فوج فتحیاب ہوئی۔ شہر فتح ہو گیا۔ وہاں کے نمکحرام لوگ بہت سے قتل ہوئے اور بادشاہ نابالغ قید ہو گیا۔ ۱۱- اکبر کی وفات جب اکبر پر ضعف طاری ہونے لگا اور ایک مہلک بیماری اس کو عارض ہو گئی تو تخت نشینی کے لیے سلطنت میںبڑی نزاع پیدا ہوئی ۔ بعض کی تو یہ رائے تھی کہ شاہزادہ سلیم یعنی جہانگیرمالک تخت و تاج ہو اور بعض کہتے تھے کہ نہیں بادشاہ کا پوتا خسرو تخت نشیں ہو۔ جب لوگوں میں یہ حیص بیص اور قیل و قال ہو رہی تھی تو بادشاہ نے خود امراء و اراکین سلطنت کے روبرو اپنی زبان سے فرمایا کہ میرے بعد تخت کا وارث شاہزادہ سلیم کے سوا اور کوئی نہیں۔ اور اس کے تھوڑے عرصے بعد جاںبحق ہوا۔ اکبر مرتے مرتے اپنی اولاد اور وزرا ء و اراکین سلطنت کو یہ نصیحت کرتا رہا کہ سب باہم اتفاق رکھیں اور بادشاہ آئندہ کے وفادار و نمک حلال رہیں۔ ۱۲- اکبر کی خصلتیں اکبر قوی ہیکل اور وجیہ شخص تھا۔ لذائذ نفسانی کی طرف سے اپنی طبیعت کو بہت روکتا تھا۔ ریاضت جسمانی اور شکار کا بہت شوق رکھتا تھا اور اکثر ایک دین میں تیس چالیس میل تک پیادہ پا چلا جاتا تھا۔ معاملات اور مقدمانت کے انفصال کے لیے اوقات اور قاعدے باندھ رکھے تھے اور انہی کے بموجب عمل کرتا تھا۔ زبان سنسکرت سمجھ سکتا تھا اور ہر قسم کے علم کا قدر دان تھا۔ چنانچہ بہت سی عمدہ عمدہ علمی تصنیفات کا اُس نے خود اہتمام کیا۔ اپنے خاندان اور دوستوں سے اس کو بڑی محبت تھی اور وہ بڑا رحم دل اور کریم النفس بادشاہ تھا۔ ۱۳- اکبر کا عقیدہ اس نے مذہب اسلام کا ایک نیا فرقہ کھڑا کیا۔ یعنی ایک نیا عقیدہ نکال کر اُس کا نام دینِ الٰہی رکھا اور اپنے تئیں اُس کا ہادی ٹھیرایا۔ چونکہ اس نئے مذہب کے معتقد تخلئے میں اس کے روبرو سجدہ کرتے تھے۔ اس لیے بہت سے پکے مسلمان اس سے ناراض تھے اور کہتے تھے کہ اس نے وہ دعویٰ کیا ہے جو ذات باری کے سوا کسی کو شایاں نہیں۔اُس کی نسبت لوگوں کا یہ بھی گمان تھا کہ وہ آفتاب کی پرستش کرتا ہے۔ یہ بات صحیح ہو یا نہ ہو مگر اس میں کلام نہیں کہ پارسیوں کے عقیدے کی طرف اُس کی طبیعت کا بڑا میلان تھا اور یہ لوگ آفتاب کو خدا کا مظہر مانتے ہیں۔ اکبر کے مذہب میں ایک یہ بڑی خصوصیت تھی کہ اُس کو کسی کی مذہبی رائے یا عقیدے سے کچھ پر خاش نہ تھی۔ ہر شخص کو اختیار تھا کہ جس مذہب کا چاہے۔ معتقد اور پیرو ہو۔ ۱۴- اکبر کا انتظام سلطنت اکبرنے نہ صرف کل ہندوستان کو وندھیاچل کے شمال تک فتح ہی کیا بلکہ ملک کے تمام حصوں کو ایک سلطنت میں جمع کر دیا اور اس کے کئی صوبے بنا دیے ۔ ہر صوبے پر ایک نائب السلطنت مقرر تھا۔ جسے پورے پورے اختیارات حاصل تھے اور یہ اختیارات تین قسم کے ہوتے تھے ۔ فوجی ، دیوانی اور مالی ۔ بغاوتوں کو رفع کرنے کے لیے لشکر بھی نیا انتظام کیا۔ سپاہیوں کو جاگیر کی بجائے ماہوار تنخواہ ملنی شروع ہوئی۔ جہاں یہ ترکیب کار گر نہ ہو سکتی وہاں جاگیرداروں کو دربار دہلی کے ماتحت رکھا ۔ صوبے کے حاکموں کی آزادی کے کم کرنے کے لیے اُن کو بھی دربار کے ماتحت رکھا۔ مسلمان صوبہ داروں کاحق ایسا ہی خیال ہوتا تھا ۔ جیسا ہندوئوں کا۔ دیوانی انتظام کے لیے عدالتوں کے حاکم مقرر ہوئے اور وہ بڑے بڑے شہروں کے قاضیوں سے مدد لیتے تھے۔ شہروں کا پولیس تو کوتوال کے ماتحت تھا۔ مگر کل ہندوستان میں کوئی باقاعدہ پولیس انگریزوں کی سلطنت کے قائم ہونے تک مقرر نہیں ہوا۔ہر ایک گائوں میں ایک چوکیدار ہوتا تھا۔ زمینداروں اور مالی افسروں کی اپنی اپنی پولیس ہوتی تھی۔ مگر یہ کبھی کبھی دغا بازی کر کے لوگوں کو لوٹ بھی لیا کرتے تھے۔ ۱۴- اکبر کا مالی انتظام اکبر کا مالی انتظام ہندوئوں کے طریق انتظام پر مبنی تھا۔ اور وہی آج تک جاری ہے۔ پہلے کھیتوں کی پیمائش کی جاتی۔ ہر ایکڑ زمین کی پیداوار کا تخمینہ ہوتا اور کل پیدا وار کا ایک تہائی حصہ سرکار میں بطور معاملہ لیا جاتا۔ معاملہ نقدی میں وصول ہوتا تھا۔ اول اول یہ بندوبست ہر سال ہوتا رہا۔ بعدازاں کسانوں کو پیمائش وغیرہ کی تکلیفوں سے بچانے کے لیے معاملہ دس سال کے لیے مقرر کیا گیا۔ اکبر کے افسر پیداوار کا تیسرا حصہ وصول کیا کرتے تھے اور کُل معاملہ آج کل کی مقدار سے کہیں زیادہ ہوتا تھا۔ تقریباً انگریزی معاملے سے تین گنا وصول ہوتا تھا۔ہر صوبے کو اپنی آمدنی میں سے ایک سرکاری فوج کا خرچ بھی ادا کرنا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کئی اور ٹیکس وغیرہ بھی دینے پڑتے تھے۔ ۱۵- اکبر کے انتظام کی کیفیت اکبر اپنی ساری رعایا کو ایک نظر دیکھتا تھا۔ خواہ ہندو ہو ۔ خواہ مسلمان ۔ اُس کے نزدیک کچھ فرق نہ تھا۔ اس طرح اُس نے اپنی سلطنت کے دو متضاد اجزا کو باہم ترکیب دے کر ایک معجون معتدل بنا لیا تھا۔ جو راجہ یا بادشاہ یا سپہ سالار کیا ہندو کیا مسلمان شکست کھا کر بادشاہ کی اطاعت و وفاداری منظور کرتا تھا۔ وہ مورد عنایات و مراہم سلطانی ہوکر یا تو دربار شاہی میں جگہ پاتا یا کسی صوبے کا حاکم مقرر کر دیا جاتا تھا۔ اکبر نے اپنے جلوس کے ساتویں برس جزیہ موقوف کر دیا۔ یہ محصول جو غیر مذہب کے لوگوں سے فی کس لیا جاتا تھا۔ بعض بادشاہان افغانیہ کے عہد میں بہت سختی سے وصول کیا جاتا تھا۔اکبر نے اس محصول کے سوا تیرتھ یاترا کرنے والوںسے جو محصول لیے جاتے تھے وہ بھی سب معاف کر دیے۔ اس زمانے سے لے کر اورنگزیب کے عہد تک جزیہ پھر نہیں لیا گیا۔ مگر ہاں اورنگزیب نے اس کو دوبارہ جاری کر دیا۔ اکبر نے مالی انتظام میں بڑی بڑی اصلاحیں کیں۔چنانچہ زر مالگزاری تحصیل کرنے کا خرچ گھٹا دیا ۔سرکاری حاکم ، اہلکار جو رعیت سے ناجائز طور پر جبراً روپیہ لیا کرتے تھے۔ اُس کا انسداد کیا اور محصول سب پر برابر برابر اندازے کے ساتھ لگایا۔ یہ تمام اصلاحیں بادشاہ نے راجہ ٹوڈر مل کی حسن لیاقت کے ذریعے سے کیں۔مگر کہتے ہیں کہ راجہ ٹوڈر مل نے انتظام سررشتۂ مال میں جو بڑی دانائی ظاہر کی وہ اکثر شیر شاہ کے آئین پر عمل کرنے کا ثمرہ تھا۔ اکبر نے اپنی سلطنت کو اٹھارہ صوبوں پر تقسیم کر کے ہر صوبے کا ایک صوبہ دار یا نائب السلطنت مقرر کیا تھا اور ان صوبوں کی کیفیت اور سلطنت کے ہر صیغے کا حال اور یر ایک سررشتے کی حقیقت ابوالفضل کی آئین اکبر ی میں مشرح و مفصل درج ہے۔ یہ عالی دماغ شخص اور اس کا بھائی فیضی جو بڑا عالم و شاعر تھا۔ اکبر کے بڑے رفیقوں اور مشیروں میں تھے۔ مسلمانوں میں فیضی سب سے اول شخص تھا۔ جس نے زبان سنسکرت سیکھ کر ہندوئوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ابوالفضل بادشاہ کا وزیر اعظم بھی تھا اور سپہ سالار بھی ۔ ۱۶۰۳ء میں یہ نامور شخص شہزادہ سلیم کے اشارے سے قتل ہوا۔ اکبر نے سررشتۂ فوجی میں بھی بڑی بڑی اصلاحیں کیں۔ جن میں سے یہ ایک نہایت عمدہ تھی کہ سپاہ کی تنخواہ میں نقد روپیہ دیا جاتا تھا۔ جاگیر یا زمین نہیں ملتی تھی۔ چوتھی فصل ۔نور الدین جہانگیر ۱۶۰۵ء سے ۱۶۲۷ء تک۔ شہاب الدین شاہجہاں ۱۶۵۸ء تک ۔ محی الدین اورنگزیب عالمگیر ۱۷۰۷ء تک اکبر کا بیٹا اور پوتا اور پڑوتا جو اُس کے پیچھے ایک دوسرے کے بعد ہندوستان کے شہنشاہ ہوئے۔ ایسے دولتمند اور زبردست بادشاہ گزرے ہیں کہ ایک دن یہ اقبال مند ایک مشہور و معروف ملکہ ہند بنے گی اور وہ اس کی بدولت عمر بھر عیش کریں گے۔ جب نور جہاں کے ماں باپ اُس کو اس طرح جنگل میں چھوڑ کر آگے چلے تو پیچھے ایک قافلہ اُس جگہ پہنچا اور اس معصوم ننھی سی جان کو یوں جنگل میں پڑا دیکھ کر ایک سوداگر کو اُس پر ترس آیا ۔ اُس نے اُس کو اپنی بیٹی کی طرح پالنا چاہا۔ اور اُس کی ماں ہی کا کچھ مہینا کر کے اُس کی پرورش کے لیے مقرر کر دیا۔ غرض اس طرح نور جہاں اور اُس کے ماں باپ ہند میں پہنچے اور اس سوداگر کے ذریعے سے مرزا غیاث کی رسائی اکبر کے دربار تک ہو گئی۔اس کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں نور جہاں کے باپ اور بھائی نے دربار شاہی میں بہت کچھ رسوخ حاصل کر لیا اور اس کی ماں بے تکلف محل شاہی میں آنے جانے لگی۔ وہاں شاہزادہ سلیم جو پیچھے جہانگیر کے لقب سے بادشاہ ہوا۔ نورجہاں کے حسن و جمال کو دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا ۔ اکبر کو یہ بات نا گوار گزری اور اس نے مرزا غیاث کو سمجھا کر نور جہاں کی شادی ایک ایرانی نوجوان شیرافگن نام کے ساتھ کرا دی اور اسے شاہزادے کی نظر سے دور کرکھنے کے لیے شیر افگن کو بردوان کا حاکم مقرر کر دیا۔ جب جہانگیر بادشاہ ہو ا تو اس نے قطب الدین صوبۂ بنگالہ کو لکھا کہ وہ شیر افگن کو سمجھا کر نور جہاں کو طلاق دلوا دے۔ مگر شیر افگن نے یہ بات منظور نہ کی اور آخر قطب الدین اور شیر افگن خاں میں لڑائی کی نوبت پہنچی اور اس میں دونوں مقتول ہوئے۔ اس کے بعد نورجہاں دلّی بلائی گئی اور یہاں پہنچ کر محلِ شاہی میں داخل ہوئی۔ لیکن بادشاہ کو اپنے خاوند کا قاتل جان کر عرصے تک اُس کی صورت سے بیزار رہی۔ مگر کچھ مُدت بعد جہانگیر نے اُس کو پرچا لیا اور اب وہ بادشاہ کے نکاح میں آکر ملکۂ ہند بنی۔ اس کانام بادشاہ کے نام کے ساتھ سکے میں داخل ہوا۔اس کے اختیار و اقتدار کی کچھ حد نہ رہی۔ اُس کا باپ وزیر اعظم مقرر ہوا۔ اور اُس کا بھائی آصف خان بھی ایک منصب اعلیٰ پر سرفراز ہوا۔ مگر ان دونوں نے اپنے اختیارات سے کچھ نقصان نہ پہنچایا۔ بلکہ اُن کو بہت اچھی طرح برتا اور جہانگیر اگرچہ مے خوری اور عیش و عشرت میں غرق رہتا تھا۔ مگر ان دونوں کی خیر اندیشی اوردانشمندی نے امور سلطنت میں کچھ خلل نہ پڑنے دیا۔ ۳- سر طامس رو ۱۶۱۵ء میں سر طامس رو جیمس اول شاہِ انگلستان کی طر ف سے سفیر ہو کر بڑی شان و شوکت کے ساتھ جہانگیر کے دربار میں آیا۔ بادشاہ نے اُس کی بڑی خاطر تواضع کی اور درباریوں میں اُس کو سب سے ممتاز جگہ عنایت کی۔ اس سفیر کی سعی سے انگریزوں کی تجارت ہند میں چمک گئی اور اُس وقت سے اہل یورپ کی بستیاں ہند میں آناً فاناً رونق پکڑتی گئیں۔ آئندہ ذکر کیا جائے گا کہ اہل پرتگال یہاں پہلے ہی سے جم گئے تھے۔ ۴- شاہزادہ خُرم اور مہابت خان کی سرکشیاں جہانگیر کا سب سے چھوٹا بیٹا شہریارتھا۔ اُس سے نور جہاں کی بیٹی جو شیر افگن سے تھی۔ بیاہی گئی تھی۔ اس لیے نور جہاں یہ چاہتی تھی کہ جہانگیر کے بعد شہریار تخت نشین ہو۔ چنانچہ اس مطلب کے حاصل کرنے کے لیے اس نے چپکے چپکے جوڑ توڑ کرنے شروع کیے ۔ا س پر شاہزادہ خُرم یعنی شاہجہاںجو شہر یار سے بڑا تھا اور کئی موقعوں پر لڑائیوں میںبڑانام پا چکا تھا۔ اُس نے برہم ہو کر سرکشی اختیار کی اور اپنی قوت اور جوانمردی سے بنگالے پر قبضہ کر کے اُس پر دو برس تک حکمراں رہا ۔ مگر اس کے بعد اُس نے بادشاہ کی اطاعت قبول کر لی۔ مہابت خاں جو ایک بڑا مشہور و معروف سردار تھا ۔ کابل کی حکومت پر متعین تھا ۔مگر نور جہاں نے اُس کو وہاں سے اس اُمید پر دلّی بلا لیا تھا کہ شاہجہان کے خلاف جو منصوبے وہ باندھ رہی تھی۔ اُن میں اُس کی مدد کر۔ اول اول تو مہابت خان نور جہاں کا مدد گار رہا اور دکن میں جو معرکے اُس نے کیے۔ اُن کے باعث وہ سلطنت میں اس قدر معزز و ممتاز ہو گیاکہ اگر کوئی سردار رتبے میں اس سے بڑا تھا تو نور جہاں کا بھائی آصف خان تھا۔ مگر بعد میں مہابت خان شاہزادہ پرویز کا خیرخواہ اور طرفدار ہو گیا۔ اور چونکہ نور جہاں کو پرویز سے بھی اُسی قدر عداوت تھی جس قدر کہ شاہجہاں سے تھی اس لیے نور جہاں کی مہابت خان سے سخت دشمنی ہو گئی۔ اُس وقت جب کہ بادشاہ اپنی سپاہ لیے کابل کی طرف جارہاتھا۔ مہابت خان کے نام حکم جاری ہوا کہ حضور میں حاضر ہو۔ مہابت خان نے اس حکم کی تعمیل تو کی مگر تنہا نہ آیا۔ پانچ ہزار راجپوت سوار جاں نثار اپنے ساتھ لایا۔ جب بادشاہ کے لشکر میں آیا تو اُس کے نام یہ حکم پہنچا کہ وہ بازیاب ملازمت شاہی نہیں ہو سکتا۔ پس اُس کو یقین ہو گیا کہ دشمنوں نے میری تخریب و توہین پر کمر باندھ لی ہے۔ اس لیے اُں کے منصوبوں کو رد کرنے کے لیے اس نے ایک ایسی بیجا حرکت کی جس کی کوئی نظیر موجود نہیں ۔یعنی بادشاہ کا لشکر جو دریائے جہلم سے اُتر رہا تھا۔ جب سب عبور کر چکا اور بادشاہ تنہا اُترنے کو ہوا ۔ اُس وقت مہابت خاں نے کچھ جوانوں کو بھیج کر پُلکا ناکا روک لیا اور باقی فوج سے بادشاہ کو اپنے قبضے میں کر لیا۔ اب تو نور جہاں بڑی تلملائی اور بادشاہ کے چھڑانے کے لیے ہاتھ پیر مارے۔ مگر جب کوئی تدبیر پیش نہ گئی تو آپ بھی بادشاہ کے پاس چلی آئی ۔ مہابت خان اس کو قتل کرنا چاہتا تھا مگر اُس کی زندگی تھی اس لیے اُس کو کچھ گزند نہ پہنچی۔ غرض اب مہابت خان کا کوئی مزاحم نہ رہا اور ایک سال تک برابر اس کا غلبہ اور اقتدار قائم رہا ۔آخر نور جہاں ایک ایسی چال چلی کہ بادشاہ کو مہابت خان کے قبضے سے صاف نکال لیا اور مہابت خان کو بھاگتے ہی بنی۔ چنانچہ وہ دکن کی طرف بھاگ گیا اور وہاں شاہجہاں سے جا ملا۔ اس کے کچھ مدت بعد جب شاہجہاں اپنے باپ کی جگہ تخت پر بیٹھا تواُس نے نور جہاں کو امورِ سلطنت سے بالکل علیحدہ کر دیا۔ مگر اپنی عالی حوصلگی سے اُس کے لیے بڑی جاگیر مقرر فرمائی۔ شاہجہاں نے نور جہاں کے ساتھ تو ایسی فراخ حوصلگی کو کام فرمایا۔ مگر اپنے بھائی شہریار کو اور بابر کی اولاد میں سے جس قدر مرد تھے۔ اُن سب کو مروا ڈالا اور یہ اس کے نام پر ایک بڑا دھبا رہا۔ ۵- شاہجہاں کا عہد سلطنت شاہجہاں کے عہد سلطنت کا پہلا بڑا واقعہ خان جہاں لودھی صوبہ دار دکن کی سرکشی ہے۔ ابتدا میں وہ یہ چاہتا تھاکہ خود مختار بن جائے۔ مگر پھر تھوڑے دنوں بعد بادشاہ کا مطیع ہو گیا اور دکن سے مالوے کو متقل کیا گیا۔ اس کے بعد خان جہاں کو یہ شبہ ہوا کہ بادشاہ کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔ اس وجہ سے اسن نے خاص آگرے میں علانیہ بغاوت کا جھنڈا کھڑا کیا ۔اُس وقت چنبل ندی کے کنارے فوج شاہی سے اس کا مقابلہ ہوا اور اس نے شکست کھائی۔ یہاں اُس کا بیٹا اور بہت سے ہمراہی مارے گئے۔ مگر اس نے اپنا گھوڑا ندی میں ڈال دیا اور اُس سے عبور کر کے صاف نکل گیا۔ پھر یہاں سے وہ احمد نگر پہنچا اور بادشاہ احمد نگر سے رابطہ قائم کر کے دن میں ہنگامۂ جنگو جدال گرم کیا۔ مگر آخر کار بندیل کھنڈ میں کالنجر کے قریب شکست کھا کر مارا گیا۔ ۶- دکن کی مہمات اس کے بعد شاہ احمد نگر اور شاہ بیجاپور سے بادشاہ کی لڑائیاںرہیں۔ اور وہ ایک عرصے تک دکن ہی کی مہموں میںمصروف رہا۔ اور تو خود بادشاہ اور اس کے سردار ان لڑائیوں میں سرگرم رہے۔ پھر بادشاہ کے بیٹے اور خاص کر اورنگزیب جو تیسرا بیٹا تھا۔ برسرِ کارزار رہا۔ ۷- شاہجہاں کی عمارات اور شان و شوکت شاہجہاں کا نام خاص کر اس لیے صفحۂ روزگار پر یاد گار رہے گا کہ اُس نے بڑے بڑے عالیشان مکان بنوائے اور فائدہ عام کے لیے بہت سی عمارتیں تعمیر کرائیں اور اُس کا دربار ایک عجیب شان و شوکت کا تھا۔ اُس نے ساڑھے چھ کروڑ روپے لگا کر ایک تخت طائوس بنوایا تھا۔ جس پر بہت بیش قیمت جواہرات نصب تھے۔ آگرے کا روضۂ تاج گنج یعنی اُس کی بیگم ممتازمحل کامقبرہ جو سارا سفید سنگ مر مر کا بنا ہوا رنگ برنگ کے بیش قیمت پتھروں کے بیل بوٹوں سے مزین ہے یہ بھی اسی نے بنوایا تھا۔ اس عمارت سے بڑھ کر دنیا میں کوئی عمارت شاندار نہیں ہے تخت طائوس کے علاوہ شاہجہاں خزانے میں چوبیس کروڑ روپے اور بہت سا مال و اسباب چھوڑ کر مرا۔ ۸- شاہجہاں کی سلطنت بہر حال شاہجہاں نیک اور عادل بادشاہ تھا اور انتظام سلطنت میں کبھی غفلت نہ کرتا تھااس وجہ سے اور نیز بڑے بڑے عقلمند اور تجربہ کار اہلکار مقرر کرنے سے اُس کی سلطنت میں ہمیشہ امن و امان اور ملک میں بہبودی اور رونق رہی۔ ۹- اورنگزیب شاہجہاں کے چار بیٹے تھے۔ ایک تو اورنگزیب جو اُس کے بعد تخت پر بیٹھا اور تین اور ۔ یعنی دارا شکوہ اور شجاع جو اورنگزیب سے بڑے تھے اور مراد جو سب سے چھوٹا تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شاہجہاں بیمار ہوا اور دارا شکوہ جو بادشاہ کے پاس آگرے میں موجود تھا ۔اُس نے اس حال کے چھپانے میں بہت کچھ سعی کی مگر یہ خبر سب بھائیوں کو پہنچ گئی اور فوراً ہر ایک نے تخت پر ہاتھ مارنے کے لیے کمر باندھی۔ مگر آخر کار ۱۶۵۸ء میں اورنگ زیب نے نہایت دھوکے بازی اور بے رحمی سے اپنے تینوں بھائیوں اور ان کی اولاد کو ایک ایک کر کے شکست دے کر مارڈالا یا بھگا دیا اور آپ تخت پر بیٹھ گیا اور اپنے بوڑھے باپ کو اُس کے مرتے دم یعنی ۱۶۶۶ء تک قید رکھا۔ ۱۰- میر جملہ میر جملہ ایک بڑاسپہ سالار تھا اور اورنگزیب کو بھائیوں پر فتحیابی اُسی کی حسن سعی سے نصیب ہوئی تھی۔ اُس کے صلے میں اورنگزیب اُس کو مرزا شجاع کی جگہ جس کو میر جملہ نے اراکان کی طرف بھگا دیا تھا۔ بنگالے کا حاکم مقرر کر دیا۔ آخر شجاع اور اُس کا گھرانا سب تباہ ہو کر اراکان میں ہلاک ہوگئے اور میر جملہ نے بھی ایک بڑی مہم کے بعد جس میں اس نے کوچ بہار اور آسام کو پایمال کیا تھا ۔ ڈھاکے میں وفات پائی۔ ۱۱- اورنگزیب کے محاربات اورنگزیب یا تو سیوا جی مرہٹے سے لڑتا رہا یا بیجا پور اور گولکنڈے کی سلطنتوں کی تسخیر کرنے میں مصروف رہا۔ غرض اس طرح وہ ساری عمر دکن ہی میں لڑتا بھڑتا پھرا۔ راجپوتوں نے بھی بعض اوقات بڑی بے ڈھب سرکشیاں کیں۔ کیونکہ اورنگزیب اُن پر اور نیز اپنی ساری ہندو رعایا پر مذہبی تعصب سے بڑی سختی کرتا تھا۔ راجپوتوں کی سرکشی کے زمانے میں ایک بار ایسا ہوا کہ اورنگزیب کا چاہیتا بیٹا شاہزادہ اکبر بھی اس سے منحرف ہو کر دشمنوں سے جا ملا اور اس نے تخت پر قبضہ کرنا چاہا۔ اورنگزیب اگرچہ بہت ضعیف تھا ۔ مگر پھر بھی غالب آیااور تمام سرکشی فرو ہو گئی۔ شاہزادہ اکبر آخر کار ایران کو چلا گیا اور وہیں اس نے وفات پائی۔ اُس وقت انگریزوں اور فرانسیسیوںکی بستیاں ہند میں جلدی جلدی رونق پکڑتی جاتی تھیں۔ اس کا ذکر باب پنجم کی پہلی فصل میں مفصل کیا جائے گا۔ ۱۲- اکبر اور اورنگزیب کی خصلتوں کا مقابلہ اورنگزیب کے زمانے میں سلطنت مغلیہ کی وسعت اور شان وشوکت غایت درجے پر پہنچ گئی تھی۔ مگر اورنگزیب کی وفات کے قریب اُس میں زوال آنے لگا تھا۔ چونکہ اورنگزیب ان امور میں جو سلطنت سے واسطہ نہیں رکھتے تھے ۔بڑا پاک صاف اور متقی و پرہیزگار اور بڑا پکا مسلمان تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی تاریخوں میں اس کو بادشاہان مغلیہ میں سب سے عمدہ لکھا ہے۔ یہاں تک کہ اکبر پر بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ مگر اصل یہ ہے کہ اورنگزیب عام لیاقت اور ہمت و چالاکی میں اکبر کے برابر اور داد گستری اور جفا کشی میں بھی اُس کی مانند تھا۔ لیکن اور سب خصلتوں میں بالکل اکبر کے خلاف تھا۔ مصلحت ملکی کے اعتبار سے دونوں بڑے کامل تھے۔ مگر اورنگزیب حکمت یا فریب سے اپنا مطلب نکالتا اور ہمیشہ ٹیڑھی تدبیروں کو پسند کرتا تھا۔ اکبر بڑا عالی حوصلہ اور فراخ دل اور صلح کل تھا۔ سب کے ساتھ فیاضی سے برتتا اور مغلوب دشمن پر خصوصاً رحم کیا کرتا تھا۔ مگر اورنگزیب بڑا متعصب تھا۔ غیر مذہب کے لوگوں کو اذیت پہنچاتا۔ سب کی طرف سے بدظن رہتا۔ مغلوبوں پر سختی کرتا اور بُری طرح بھی کچھ ہاتھ لگتا تو کبھی نہ چوکتا تھا۔چونکہ اس کو کسی کا اعتبار نہ تھا۔اس لیے نہ اس کے دل کو کبھی چین آرام ملا اور نہ کسی مہم میں بالکل کامیابی ہوئی۔ آخر اس کی سلطنت کی جڑ کھوکھلی ہوگئی۔ شاہزادہ معظم جو وارثِ تخت و تاج تھا۔ وہ بھی اس کی بدگمانی سے نہ بچا۔ چنانچہ اورنگزیب نے ایک بار ناحق اس سے بدظن ہو کر چھ برس تک یعنی ۱۶۸۷ء سے ۱۶۹۴ء تک اس کو قید رکھا۔ اکبر اور اورنگزیب کی خصلتوں کا فرق اس امر پر غور کرنے سے خوب معلوم ہو گا کہ انہوں نے ہندوئوں سے اور خصوصاً راجپوتوں سے کس طرح سلوک کیا۔ اس تاریخ کے پڑھنے سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ اکبر کا برتائو راجپوتوں کے ساتھ ایسا تھا کہ وہ تا تو پہلے سلطنت دہلی کے دشمن تھے یا اکبر کے عہد میں نہایت وفادار اور جان نثار مددگار بن گئے۔ مگر اورنگزیب اُن سے اس طرح پیش آیا کہ وہ اُس سے بالکل متنفر ہو گئے۔ اورنگزیب نے آخر یہ حکم دے کر کہ کسی ہندو کو بادشاہی نوکری نہ ملے ۔ انتظام سلطنت میں سخت مشکل ڈال دی۔ پھر اُس نے ایک اور سخت حکم جاری کیا کہ نہ صرف ہندوستان کے ہندوئوں سے بلکہ سارے دکن کے ہندوئوں سے بھی جزیہ لیا جائے ۔ ان سب باتوں کا ثمرہ یہ ہوا کہ اکثر ہندو رعایا دل میں مرہٹوں کا دم بھرنے لگی اور یہی سلطنت مغلیہ کے آناً فاناً زوال پذیر ہونے کا ایک بڑا سبب ہوا۔ ۱۳- اورنگزیب کا مالی انتظام سوائے آسام کے تمام شمالی اور جنوبی ہندوستان معاملہ ادا کرتاتھا۔ اس کا ہندوستانی علاقہ تقریباً اسی قدر تھا ۔ جس قدر کہ انگریزی مقبوضات ہیں۔ اگرچہ ان کا سرکار سے آج کل کی نسبت کم تعلق تھا ۔ ان صوبوں میں سے اُس کے معاملے کی مقدار ۳۰ کروڑ سے ۳۸ کروڑ پونڈ ہوتی تھی۔ مگر اس کے دکن میں ۲۵ سال کے قیام کے بعد بھی صرف تیس کروڑ ہی وصول ہو سکتا تھا اور کوئی نہ کوئی صوبہ ہمیشہ جنگ پر آمادہ ہی رہتا تھا۔ اورنگزیب کے کُل خزانے میں پچپن کروڑ روپیہ سالانہ صرف زمین کی آمدنی سے جمع ہوتا تھا۔ تقریباً پچاس سال تک یہ معاملہ اسی طرح وصول ہوتا رہا۔ جب احمدشاہ درانی ہندوستان پر حملہ آور ہوا۔ تو خزانے کے داروغہ نے بھی اس کو یہی آمدنی بتائی۔ اورنگزیب نے اپنی زندگی میں مغلیہ بادشاہ کا نمونہ بن کر دکھایا۔ یہ بادشاہ دربار میں شاندار۔ خانگی زندگی میں سیدھا سادہ۔ کام میں ہوشیار۔ مذہب میں پکا اور لائق منشی تھا۔ مشہور شاعروں کے شعر یاد تھے۔ یہ بادشاہ بڑا ہی اچھا خیال کیا جاتا ۔ اگر اپنے باپ کو تخت سے نہ اُتارتا ، بھائیوں کو قتل نہ کرتا اور ہندوئوں کو تکلیف نہ پہنچاتا۔ لیکن اُس نے ہر ایک آدمی سے جو اُس کے مذہب کا نہ تھا۔ دشمنی پیدا کر لی اور اپنے رشتہ داروں سے بدظن ہو کر اُن کو عہدوں سے برطرف کر دیااور اور آدمی مقرر کیے۔ہندوئوں نے بھی دل میں بغض رکھا۔ سکھوں ۔ راجپوتوں اور مرہٹوں نے اُس کی آنکھ بند ہوتے ہی اپنا زور دکھانا شروع کیا۔ اُس کے مسلمان جرنیلوں نے اُس کی زندگی میں تو اُس کی مدد کی مگر اُس کے مرنے کے بعد اُس کی اولاد کے علاقوں کو دبا بیٹھے۔ پانچویں فصل ۔سلطنت مغلیہ کا تنزل اور بربادی ۱- اورنگزیب کے جانشین اورنگزیب کی آنکھ بند ہوتے ہی دستور کے موافق اُس کے بیٹوں میں تخت کے لیے جھگڑے اور لڑائیاں برپا ہوئیں۔ انجام یہ ہوا کہ محمد معظم نے جو اورنگزیب کا دوسرا بیٹا اور اپنے بڑے بھائی کی بغاوت اور اسیری کے بعد ولیعہد مقرر ہواتھا۔ اپنے دونوں بھائیوں کو مار ڈالا اور بہادرشاہ کے لقب سے تخت نشین ہوکر چھ سال تک سلطنت کی۔ اسے شاہ عالم اول بھی کہتے ہیں۔ اس کو دلّی کا تخت ایک بڑے زبردست سردار ذوالفقار خاں کی بدولت ہاتھ لگا تھا اور اسی سردار کے طفیل سے بہادرشاہ کے بعد اُس کا بڑا بیٹا معزالدین جہاندار شاہ تخت پر بیٹھا ۔ ذوالفقار خان اس بادشاہ کا وزیر تھا۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ جہاندار شاہ کو بھی وہ اختیار نہ تھا جو ذوالفقار خان کو حاصل تھا۔ ان دونوں نے بہادر شاہ کے اور بیٹوں اور رشتہ داروں کو جہاں تک ہو سکا ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا۔ مگر ہاں بہادر شاہ کا ایک پوتا فرخ سیر جو اپنے باپ کی جگہ بنگالے کا حاکم ہو گیا تھا۔جہاندار شاہ کے ہاتھ نہ آیا ۔ غرض جہاندار شاہ کو تخت پر بیٹھے پورا برس بھی نہ ہوا تھا کہ فرخ سیر نے جو شاہزادہ عظیم الشان ابن بہادر شاہ کا بیٹا تھا۔ دو زبردست امیروں کو گانٹھ کر بہت سی جمیعت بہم پہنچائی اور جہاندار شاہ کو آگرے کے قریب شکست دے کر اُس کو اور ذوالفقار خان کو قتل کیا ۔ یہ دونوں امیر جن کی مدد سے فرخ سیر تخت پر بیٹھا۔ سید حسین علی حاکم بہار اور اُس کا بھائی سید عبداللہ حاکم الٰہ آباد تھے۔کئی برس تک سلطنت کا سارا دار ومدار ان ہی پر رہا۔ کوئی چھ برس تک تو فرخ سیر برابر اُن کے کہنے پر چلتا رہا۔اس کے بعد اس نے ان کے اختیارات کو گھٹانا چاہا۔ یہ دیکھ کر سیدوں نے اُسے مروا ڈالا اور پھر انہوں نے تین بادشاہ ایک دوسرے کے بعد تخت پر بٹھائے۔ مگر اُن کی سلطنت بہت تھوڑے دن رہی۔ ان میں اول رفیع الدرجات تھا اور دوسرا رفیع الدولہ ۔ یہ دونوں رفیع الشان ابن بہادر شاہ کے بیٹے تھے۔ اور انہوں نے کل دو دو تین تین مہینے سلطنت کی۔ تیسرا بادشاہ جس کو سیدوں نے تخت پر بٹھایا ، محمد اختر ابن بہادر شاہ کا بیٹا روشن اختر تھا۔ جو محمد شاہ کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ اُس کی تخت نشینی کے تھوڑی مدت بعد سیدوںکو اور امیروں نے ایکا کر کے غارت کر دیا۔ اول حسین علی جب بادشاہ کو ساتھ لے کر نظام الملک سے لڑنے دکن کو روانہ ہوا تو رستے میں مارا گیا۔ پھر عبداللہ نے دہلی اور آگرے کے درمیان شاہ پور کی لڑائی میں شکست کھائی۔ جس سے اُس کا سار ازور بل ٹوٹ گیا۔ ان دونوں سیدوں کو جو مذہب کے شیعہ تھے۔ ہندوستان کا بادشاہ گر کہتے ہیں۔ ۲- سلطنت مغلیہ کے زوال سے نئی ریاستوں کا قائم ہونا۔ سلطنت مغلیہ کا جو مختصر حال اوپر بیان ہوا ۔اُس سے واضح ہے کہ اورنگ زیب کے بعد جو چھ بادشاہ دہلی کے تخت پر بیٹھے وہ کسی نہ کسی بڑے امیر کے وسیلے سے بادشاہ ہوئے۔ چنانچہ اور دو بادشاہ تو ذوالفقار خاں کے وسیلے سے اور باقی چار سیدوں کے ذریعے سے تخت نشین ہوئے۔ پس یہ سردار بادشاہوں کی نسبت بہت زیادہ اختیار رکھتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی اور سب امرا سلطنت کو بھی خود سر ہو جانے کی ہوس ہوئی۔ غرض محمد شاہ جس نے ۱۷۱۹ء سے ۱۷۴۸ء تک سلطنت کی ۔ اس کی وفات سے پہلے جس قدر صوبے اور دور تھے ۔ اُن کے حاکم خود مختار بن بیٹھے تھے اور بادشاہ کی حکومت صرف نام ہی کی رہ گئی تھی۔ اس طر پر جو نئی سلطنتیں اُس وقت ہند میں قائم ہوئیں۔ اُن میںسے مرہٹوں کی سلطنت بہت ہی زیادہ زبردست تھی۔ کیونکہ اُن کی حکومت ہند میں سب پر غالب ہو گئی تھی۔ ان کا حال آئندہ باب میں بیان کیا جائے گا۔۔ ۳- سکھوں کا حال سکھوں نے بھی اس زمانے میں زور پکڑا ۔ ابتدا میں یہ فرقہ کسی کو کچھ آزار نہ پہنچاتا تھا۔ مگر پیچھے جب اورنگزیب اور اس کے بیٹے بہادر شاہ نے اُن کو بُری طرح ستایا اور اذیت دی تو انہوں نے بھی ٹھاٹھ بدلا اور سپاہیوں کا ایک زبردست گروہ بن گئے۔ اس فرقے کے بانی گرو نانک صاحب بابر کے عہد میں گزرے ہیں۔ وہ مسئلہ توحید کی تلقین کرتے تھے اور ان کا طریق مذہب بعض امور میں اسلام سے اور بعض میں ہندوئوں کے مذہب سے ملتا جلتا تھا۔ غرض اس طریق پر گرو نانک صاحب کے بہت سے مُرید ہو گئے۔ یہ لوگ سکھ کہلاتے ہیں۔ اور سکھ کے معنی مُریدہیں۔ گرو نانک صاحب کے انتقال کے بعد اور گرو گدی پر بیٹھے۔ مگر سترھویں صدی میں جو دسویں گرو گوبند سنگھ ہوئے وہ ایک اولعزم اور جنگجو آدمی تھے اور انہوں نے سکھوں کو بالکل ایک جنگی فرقہ بنا دیا۔ آخر اُن کو ایک دشمن نے مار ڈالا اور اُن کے عزیزوں اور سکھوں نے طرح طرح کی اذیتیں اُٹھائیں۔بہادر شاہ، جہاندار شاہ اور فرخ سیرکے زمانے میں ایک شخص بندا نامی سکھوں کا سرگردہ تھا۔ جب اُن پر مسلمان برابر ظلم اور سختیاں کرنے لگے تو آخر بہادر شاہ کے عہد میں اُن کے غیظ و غضب کی آگ بھی بھڑک اُٹھی۔ اور انہوں نے بھی اپنے مخالفوں پر بڑی زیادتیاں کرنی شروع کیں۔ اس وجہ سے بادشاہ نے ان پر یورش کی اور اپنی عمر کے اخیر پانچ برس میں انہی سے لڑتا رہا ۔ سکھ فوج شاہی کی تاب نہ لائے۔ اس لیے پہاڑوں میں بھاگ گئے۔ مگر جب بہادر شاہ کا انتقال ہوگیا تو پھر وہ مسلمانوں سے انتقام لینے کو اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آخر فرخ سیر کے زمانے میں بندا اور اُس کے بہت سے ہمراہی سکھ گرفتار ہوئے اور کمال اذیت سے مارے گئے۔ اُن لوگوں سے اُس ازیت اور موت کے وقت نہایت درجے کی بہادری ظاہر ہوئی اور ایک نے بھی اپنے عقیدے سے انکار کر کے اپنی جان کو بچانا منظور نہ کیا۔ فرخ سیر نے اُن کو اس طرح چُن چُن کر قتل کیا تھا کہ گویا سکھوں کا نام و نشان تک باقی نہ رکھا تھا۔ مگر اس صدی کے گزرنے سے پہلے پھر اُن کی ایک زبردست جمیعت قائم ہو گئی۔ چنانچہ یہ امر ساتویں باب کی چوتھی فصل میں مہا راجہ رنجیت سنگھ کا حال پڑھنے سے بخوبی واضح ہو گا۔ ۴- صوبوںکا سلطنت دہلی سے علیحدہ اور خود سر ہو جانا مرہٹوں کی سلطنت تو خود سر تھی ہی۔ اُس وقت اُس کے علاہ کئی صوبے بھی سلطنت دہلی سے الگ ہو کر علیحدہ سلطنتیں بن گئیں۔ ان میں سے راجپوتانہ ، صوبہ دکن ، اودھ اور بنگالہ بڑی زبردست سلطنتیں تھیں۔ ۵- اجیت سنگھ رانائے جودھپور جسونت سنگھ رانائے جودھپور اورنگزیب کے عہد میں ایک بڑا زبردست راجہ تھااور راجپوت جو اورنگزیب سے بگڑ گئے تھے ۔ (تیسریباب کی چوتھی فصل دیکھو) اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ جسونت سنگھ کے لڑکوں کے ساتھ جو بدسلوکی ہوئی تھی۔ اُس کا وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔چنانچہ آخر جب صلح ہو گئی تو عہد نامے کی سب سے بڑی شرط یہی ٹھیری کہ جسونت سنگھ کا بڑابیٹا اجیت سنگھ سن بلوغ کو پہنچ کر مارواڑ کی گدی پر بٹھایا جائے۔ یہ کراجہ بڑا دانشمند اور زبردست حاکم ہوا اور فرخ سیر نے اُس کی بیٹی سے شادی کر کے اُس سے صلح کر لینی غنیمت جانی۔ پھر محمد شاہ کے عہد میں دربار شاہی نے اجیت سنگھ کو خود مختار راجہ تسلیم کیا۔ پس اس وقت سے راجپوت سلطنت مغلیہ سے الگ ہو گئے۔ ۶- نظام الملک آصف جاہ نظام الملک آصف جاہ فرخ سیر کے زمانے میں دکن کا صوبہ دار مقرر ہوا۔ اور جب امرائے سلطنت نے سیدوں کی مخالفت پر ایک کر کے ۱۷۲۰ء میں شاہ پور کے میدان میں ان کی فوج کو شکست فاش دی اور اُن کے اقتدار کو خاک میں ملا دیا تو اُس وقت نظام الملک ہی ان سب امرا کا سرگردہ تھا۔ پھر وہ محمد شاہ کا وزیر ہو گیا۔ مگر آخر پھر صوبہ دارائے دکن پر واپس چلا گیااور اس وقت سے یہ صوبہ خود سر ہو گیا (دیکھو پانچویں باب کی پہلی فصل)۔ نظام حیدرآباد اُسی کی اولاد میںسے ہے۔ ۷- سعادت خان سیدوں کی مخالفت میں نظام الملک کا بڑا رفیق سعادت خان تھا۔ یہ اصل میں فارس کا ایک سوداگر تھا۔ مگر دہلی کے دربار شاہی میں بڑھتے بڑھتے اودھ کا صوبے دار مقرر ہو گیا تھا اور پھر وہاں خودمختار بن بیٹھا۔ اودھ کی سلطنت جب تک ۱۸۵۶ء میں قلمرو سرکار انگریزیء میں شامل ہوئی اسی کی اولاد کے قبضے میں رہی۔ ۸- علی وردی خاں نواب بنگالہ صوبہ بنگالہ بھی محمد شاہ کے عہد میں درحقیقت خود سر ہو گیا تھا ۔ کیونکہ شجا الدولہ مرشد قلی خان کے بعد بنگالے کا صوبے دار ہو گیا تھا۔ جب اُس نے نادر شاہ کے حملے کے ایام میں وفات پائی اور اُس کا بیٹا اس کا جانشین ہوا تو اُس کو علی وردی خاں جو امرائے دربار شاہی میں بڑا تجربہ کار اور صاحب لیاقت آدمی تھا، حکومت سے برطرف کے کے آپ صوبے دار بنگالہ بن بیٹھا۔ پیچھے محمد شاہ نے اس غاصب کو اپنی طرف سے وہاں کا صوبے دار مقرر کر دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اُس وقت مطلق العنان تھا۔ کچھ بادشاہ دہلی کے تابع نہ تھا۔ ۹- نادرشاہ کا حملہ محمد شاہ کے عہد میں سلطنت دہلی پر غیر ملک کے دشمنوں نے دوبڑے سخت حملے کیے جن سے سلطنت مغلیہ اور بھی جلد تباہ ہو گئی۔ مرہٹوں کی دست برد سے سلطنت میں ہنوز خرابی پڑی ہوئی تھی کہ ادھر سے نادر شاہ جیسا جلاد شخص ہند پر چڑھ آیا۔ یہ بہادر شخص اصل میں ایک غریب گڈریا تھا۔ جو بحیرۂ خزر کے کنارے پر رہتا تھا۔ مگر اپنی دلیری اور مردانگی سے ایک نامور شخص ہو گیا اور جب افغانوں نے ایران پر حملہ کرکے وہاں ظلم برپا کر رکھا تھا۔ اُس وقت نادر شاہ نے شاہ ایران کی طرف سے افغانوں کو شکست پر دشکست دے کر ملک کو اُن کے پنجے سے چھُڑایا۔ مگر پیچھے آپ ہی سلطنت فارس کو دبا بیٹھا اور افغانوں کے حملے کا انتقام لینے میں ہرات اور قندھار کو بھی فتح کر لیا۔ پھر اس لچر حیلے سے کہ ہمارے بعض دشمن سلطنت مغلیہ میں پناہ گزیں ہیں۔ اول کابل تک آیا۔ پھر بڑھتے بڑھتے ۱۷۳۸ء میں دریائے اٹک سے اُتر آیا ۔ اُس وقت دربار شاہی کی یہ کیفیت تھی کہ ایک تو بادشاہ دہلی ، نادرشاہ کی فوج کو ایسا زبردست نہ جانتا تھا۔ دوسرے اُس کے سرداران جلیل القدر یعنی نظام الملک آصف جاہ اور سعادت خاں کی نسبت بیوفائی کا احتمال بھی کیا جاتا ہے۔ غرض انجام یہ ہوا کہ نادر شاہ مُنہ اٹھائے ہندوستان میں چلا آیا اور کسی نے نہ روکا۔ جب دلّی کے پاس آگیا تو کرنال پر فوج شاہی نے اُس کا مقابلہ کیا مگر شکست فاش کھائی۔ اب محمد شاہ کو اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ اپنے تئیں نادرشاہ کے حوالے کر دے۔ چنانچہ وہ اپنے تئیں سپرد کر کے نادرشاہ کے ساتھ ساتھ دلّی میں داخل ہوا۔ اول اول تو نادر شاہ محمد شاہ کے ساتھ بہت اخلاق سے پیش آیا اور رعایائے دہلی کو اُس نے کچھ آزار پہنچانا نہ چاہا ۔ مگر جب دلّی کے لوگوں نے کچھ ہنگامہ برپا کیا اور کئی قزلباش مارے گئے تو نادرشاہ نے غضبناک ہو کر قتل عام کا حکم دے دیا۔ چنانچہ ایک دن رات یہ قیامت برپا رہی۔ اس کے بعد نادر شاہ بے حساب لوٹ کا مال جس میں شاہجہان کا تخت طائوس بھی تھا۔ اپنے ساتھ لے دہلی سے روانہ ہوااور چلنے سے پیشتر محمد شاہ کو پھر تخت پر بٹھا دیا اور ہند کے بڑے بڑے راجائوں اور نوابوں کو جن میں مرہٹے بھی داخل تھے۔ لکھ بھیجا کہ اگر تم محمد شاہ کا حکم نہ مانو گے تو میں تمہاری خوب خبر لوں گا۔ محمد شاہ کے بعد اول اُس کا بیٹا احمد شاہ پھر جہاندار شاہ کا بیٹا عزیزالدین عالمگیر ثانی۔ اس کے بعداُس کا بیٹا عالی گوہر شاہ عالم ثانی تخت پر بیٹھا۔یوں تو سلطنت مغلیہ میں محمد شاہ ہی کے عہد میں کچھ دم باقی نہ رہا تھال۔ مگر ان بادشاہوں کے زمانے میں سلطنت کا اور بھی رہا سہا چراغ گُل ہو گیا اور پیچھے جو بادشاہ ہوئے ۔ وہ نام ہی کے بادشاہ تھے۔ حقیقت میں سرکارِ انگریزی کے پنشن خوار تھے۔ ۱۰- احمد شاہ ابدالی کے حملے جو تباہی اور مصیبت ہند پر نادر گردی میں آئی تھی۔وہی ان تینوں بادشاہوں کے وقت میں چھ بار احمد شاہ ابدالی کے حملوں سے نازل ہوئی۔ یہ شخص ابدالی یا درانی قوم کے افغانوں کا سردار تھا۔اور نادر شاہ کے ہاں خزانچی کا عہدہ رکھتا تھا۔ جب نادر شاہ ۱۷۴۷ء میں مارا گیا تو احمد شاہ نے اس کا سارا خزانہ بھی دبالیا اور قندھار کی سلطنت پر بھی قبضہ کر لیا۔ پھر افغانوں کی جرارفوج ساتھ لے ہند پر چڑھ آیا۔ مگر شاہزادہ احمد نے جو پیچھے احمد شاہ بادشاہ ہوا۔ اپنی کاروائی اور جوانمردی اور نیز وزیر سلطنت نواب قمرالدین خاں کی مدد سے اس کو سر ہند پر ایک بڑی بھاری شکست دی۔ اس لیے وہ اپنا سا مُنہ لے کر اُلٹا چلا گیا۔ سلطنت مغلیہ کی فوج کا یہ اخیر معرکہ تھا۔ جس سے محمد شاہ کے اخیر زمانے میں کسی قدر جان پڑ گئی۔ مگر دوسرے سال ہی ابدالی ہند پر پھر چڑھ آیا اور اب کے بار فتحمند ہوا اور اپنے ہمنام شاہ دہلی کو دبا کر اُس سے ۱۷۴۸ء میں صوبہ پنجاب لے لیا۔ اس وقت پنجاب سلطنت دہلی سے الگ ہو گیا۔ نظام الملک کا پوتا نواب غازی الدین خاں جو عالمگیر ثانی کا وزیر اور ایک بڑا فتنہ پرداز شخص تھا۔ اُس نے ۱۷۵۷ء میں پنجاب کو پھر سلطنت دہلی میں شامل کرنے کا قصد کیا۔ اس وجہ سے احمد شاہ ابدالی نے پھر جھنجھلا کر ہند ہر تیسری بار یورش کی اوردلّی میں لوٹ مار کرنے کے بعد نجیب الدولہ رُہیلے افغان کو وزیر سلطنت مقرر کر کے قندھار کو واپس چلا گیا۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد نجیب الدولہ کو غازی الدین خان نے مرہٹوں کی مدد سے نکال دیا۔اور پھر رگھو ناتھ رائو۔مرہٹے نے پنجاب پر حملہ کیا۔ مرہٹوں کی اس مداخلت سے احمد شاہ درانی نے ہند پر چوتھی بار چڑھائی کی اور یہ بڑا سخت حملہ تھا۔ ابدالی نے پھر دلّی پر تسلط کر لیا اور مرہٹوں کو پانی پت پر ایسی شکست دی کہ ان میں دم باقی نہ رہا۔ یہ پانی پت کی تیسری لڑائی تھی۔ اس کا ذکر پیشوائوں کے حال میں آئندہ باب کی دوسری فصل میں مفصل بیان کیا جائے گا۔ ۱۱- شاہ عالم ثانی جس وقت احمد شاہ ابدالی پانی پت کے میدان پر مرہٹوں کو پامال کر رہا تھا۔ اُس وقت شاہ عالم ملکِ بہار میں انگریزوں سے جنگ کر رہا تھا۔ مگر اس سے اس کو کچھ حاصل نہ ہوا اور انجام کار اس نے سرکار انگریزی کا پنشن خوار ہونا منظور کیا ۔ اس کے بعد وہ چندسال آرام کے ساتھ الٰہ آباد میں رہا۔ مگر پھر مرہٹوں نے اسے سکھا پڑھا کر ۱۷۱۷ء میں اپنی طرف ملا لیااور ضابطہ خان کو جو اپنے باپ نجیب الدولہ کی جگہ وزیر اعظم تھا۔ دلّی سے نکالنے پر آمادہ ہوئے ۔ چنانچہ اُن کا یہ منصوبہ پورا ہوا اور اُس وقت سے لے کر ۱۸۰۳ء تک جبکہ انگریزوں نے دلّی کو فتح کیا۔ وہاں مرہٹوں کا خوب ڈنکا بجتا رہا۔ ۱۲- غلام قادر کے جور وستم اس عرصے میں ۱۷۸۸ء کے اندر صرف چند روز کے لیے پٹھانوں کا فریق پھر زبردست ہو گیا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے تک شہر دہلی رُہیلوں کے قبضے میں رہا اور شاہ عالم بادشاہ کو بھی انہوں نے اپنے قابومیں کر لیا۔ اُس وقت رُہیلوں کے سردار ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر نے ایک بڑی نالائق حرکت کی کہ اول تو شاہ عالم کے بیٹوں اور پوتوں کو بادشاہ کی آنکھوں کے سامنے بڑی بڑی اذیتیں پہنچائیں ۔ پھر بیچارے بوڑھے بادشاہ کی آنکھیں خنجر سے نکال لیں۔ مگر چند روز میں مرہٹے آن پہنچے اور انہوں نے بادشاہ کو اس ظالم ستمگر کے ہاتھ سے چھڑایا۔ لیکن بادشاہ پھر بھی نہایت تنگدست اور بے اقتدار رہا۔آخر ۱۸۰۳ء میں لارڈ لیک نے مرہٹوں کی دوسری جنگ میں شاہ عالم کو مرہٹوں کے پنجے سے چھڑا کر سرکار انگریزی کی طرف سے اس کی پنشن مقرر کر دی۔ اس طرح اُس وات سے ہند کی سلطنت انگریزوں کے ہاتھ آگئی۔ غلام قادر نے جو ظلم کیے تھے وہ اس کے آگے آئے کیونکہ سندھیا نے اس کو پکڑ کر سخت اذیت پہنچائی اور آخر اس کا سر قلم کر کے شاہ عالم کے قدموں میں رکھنے کو دہلی میں بھیجا۔ ۱۳- خاندان تیمورکے اخیر بادشاہ شاہ عالم کے بعد اس کا بیٹا معین الدین اکبر شاہ ثانی دلّی کا بادشاہ ہوا اور اپنے باپ کی طرح سرکار انگریزی کا پیشن خوار رہا۔ پھر اُس کے بعد اس کا بیٹا سراج الدین ابو ظفر بہادر شاہ اُس کا جانشین ہوا۔ جس پر خاندان تیموریہ کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ وہ ۱۸۵۷ء میں سرکار انگریزی کی باغی فوج کے ساتھ مل گیا۔اور جیسا ظلم شدید غلام قادر رُہیلے نے اُس کے دادا شاہ عالم پر دلّی کے قلعے میں کیا تھا۔ویسا ہی اُس نے اُس وقت اسی جگہ بے گناہ انگریزوں پر جو ہاں قید تھے ۔ کرایا یا روا رکھا۔ اُس کی پاداش میں وہ قید ہو کر رنگون میں جلا وطن کیا گیا اور وہیں مفلوج ہو کر مر گیا۔ ۱۴- صوبوں کی تکالیف صرف ایک مثال اُ ن بے رحمیوں کے ظاہر کرنے کو کافی ہے۔ جو شمال مغربی حملہ آوروں کے طفیل ہندوستان پر ہوتی رہیں۔ ۲۵۰۰ افغانی سرداروں کا گروہ متھرا کے شہر پر اُس وقت حملہ آور ہوا جبکہ چین سے زندگی بسر کرنے والے ہندو یاتری اس جگہ پرستش میں مشغول تھے۔ انہوں نے بہت سے گھروں اور اُن کے باشندوں کو جلا کر خاک میں ملا دیا اور کتنے ہی آدمی تلواروں اور نیزوں سے مارے گئے اور بہت سے آدمیوں ، عورتوں اور بچوں کو قید کر کے لے گئے۔ ہندوستان کے سرحدی اضلاع جن میں پہلے باشندوں کی کثرت تھی۔ بالکل خالی ہو گئے۔ گوجرانوالہ جو بدھ مذہب کے زمانے میں پنجاب کا دارالخلافہ تھا۔ ویران ہو گیا۔ موجودہ باشندے بعد میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ دوسری قسم کے حملہ آور سمندر سے آئے۔ جنوبی ہندوستان میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کی لڑائی میں کرناٹک سے دربار دہلی کی حکومت بالکل نیست و نابود ہو گئی۔ ۱۷۶۵ء میں بنگال ۔ بہار ۔ اوڑیسہ انگریزوں کے حوالے کیے گئے۔ پانی پت کی تیسری لڑائی سے جو ۱۷۶۱ء میں ہوئی، سلطنت مغلیہ صرف نام کو ہی رہ گئی تھی۔ یہ لڑائی احمد شاہ ابدالی اور مرہٹوں میں ہویء تھی۔ مغلوں نے فتح تو حاصل کر لی۔ مگر اُن میں اس قدر دم باقی نہ رہا کہ ہند میںحکومت بھی کر سکیں۔ انگریز آہستہ آہستہ اپنا قدم جماتے گئے۔ دہلی کے برائے نام بادشاہ حکومت تو کرتے تھے۔ مگر اُن کی حکومت صرف محلوں ہی میں محدود تھی۔ اکبر نے ہندوئوں سے دوستانہ سلوک کر کے سلطنت مغلیہ کی بنیاد مستحکم کر دی تھی اور ایک طاقتور تیسری جماعت بنا دی تھی۔ جس میں ہندوستان کے ہی باشندے تھے اور صرف اُن کی وجہ سے ہی وسط ایشیا کی طرف سے کوئی حملہ آور ادھر کا رُخ نہ کر سکا اور انہی کی مدد سے اُس نے مسلمان جرنیلوں کو اپنے قابو میںرکھا اورنگزیب اور اُس کے جانشینوں نے اس مدبرانہ تدبیر پر عمل نہ کیا اور مسلمان حملہ آوروں کو افغانستان سے اس طرف آنے کی جرات ہو گئی ۔ ہندوستانی صوبوں کے مسلمان حاکموں نے خود مختار ریاستیں قائم کر لیں اور جنگجو ہندو قومیں جنہوں نے اکبر کو سلطنت مغلیہ کے مستحکم کرنے میں مدددی تھی۔ اُس کی بربادی کا سبب ہوئیں۔ چوتھا باب مرہٹوں کا زمانہ پہلی فصل ۔سیوا جی کا حال اور مرہٹوں کے اقتدارکا بیان ۱- مہا راشٹر مرہٹوں کا ملک جسے پیشتر مہاراشٹر کہتے تھے۔ اس میں یہ علاقے داخل تھے۔ بمبئی احاطے کا کل جنوبی حصہ۔ ممالکِ متوسط ۔علاقۂ اجنٹی وسطِ ہند، علاقہ نظام حیدرآبا دکا ایک بڑا حصہ۔ ملک برار، مہاراشٹر کے شمالی حد ست پُڑا پہاڑ تھی اور مغربی حد سمندر اور مشرق کی طرف یہ ملک ناگ پور علاقہ ممالک متوسط سے پرے تک پھیلا ہوا تھا۔ ۲- قوم مرہٹہ اول اول جب مسلمانوں نے مرہٹوں پر حملے کیے تو یہ بھی مدت تک اُ ن کا مقابلہ کرتے رہے۔ مگر تابہ کیے۔ آخر دلّی کے بادشاہان افغانیہ کے عہد حکومت میں سب مرہٹے مغلوب ہو گئے۔ اور اکبر کے زمانے سے اورنگزیب کے عہد تک اس قوم میں سے کچھ تو سلطنتِ مغلیہ کی رعیت رہے اور کچھ سلطنت احمد نگر اور بیجا پور کی۔ ۳- سیوا جی کا عروج مرہٹوں کی سلطنت کا بانی سیوا جی ۱۶۲۷ء میں جو شاہجہان کے جلوس کا پہلا سال تھا۔ قوم راجپوت کے ایک معزز گھرانے میں جس کانام بھونسلا تھا۔ بمقام سائونیر پیدا ہوا۔ اُس کا باپ شاہ جی پہلے تو سلطنت احمد نگر کے مدارالمہام ملک عنبر کے ماتحت ایک افسر رہا۔ پھر شاہ بیجاپور کے ہاں ملازم ہو کر شاہجہاں اور مہابت خاں سے لڑتا رہا۔ شاہ جی کی نسبت ایک عجیب روایت مشہور ہے کہ ایک دیوی نے اُسے سُپنے میں آکر یہ کہا کہ تیرے خاندان میں ایک ایسا شخص پیدا ہو گا جو راجہ بنے گا اور ہندوئوں کے رسم و رواج کو ازسرِنو تازہ کرے گا۔گئو اور برہمن کی حمایت کرے گا۔ اور اُس کی نسل میں ۲۷ راجا گدی نشین ہو نگے۔ مرہٹوں میں جو جو ہنر سرداروں کے لیے سیکھنے ضروری سمجھے جاتے تھے۔ وہ سب سیوا جی کو چھُٹپنے ہی میں سکھائے گئے۔ مگر لکھنے پڑھنے سے وہ اس قدر بے بہرہ تھا کہ اس کو الف کے نام بے بھی نہیں آتی تھی۔ مرہٹوں میںجو دیوتائوں وغیرہ کے قصے کہانیاں مشہور چلی آتی تھیں۔ وہ سب اُس کو اچھی طرح یاد تھیں اور چونکہ وہ بڑا پکا ہندو اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔ اس لیے ساری عمر اورنگزیب کی مخالفت پر جما رہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بچپنے ہی میں خوب سوچ بچار کر لیا تھا کہ میں آئندہ ایسا ایسا کرونگا۔ سیوا جی اُنیس ہی برس کا تھا کہ اُس نے ٹورنیا کے پہاڑی قلعے پر جو پونا سے بیس میل جنوب مغرب کو ہے قبضہ کر لیا اس قلعے کے آس پاس کچھ کھنڈر پڑے تھے ۔ اُن میں سے اُس کے ہاتھ ایک بڑا خزانہ لگ گیا ۔ اُس سے اُس نے ایک اور قلعہ بنوایا۔ جس کا نام راج گڑھ رکھا۔ اس کے بعد سیوا جی کے اقبال کا ستارہ روز بروز عروج پکڑتا گیا۔ چنانچہ اُس نے اول قلعہ گونڈوانہ پر قبضہ کیا اور اُس کا نام سنگھ گڑھ رکھا۔ پھر قلعہ سوپا اور اُس کے بعد پورندھر کو فتح کیا اور ساتھ ہی اہلکاران بیجا پور کو ہر طرح سے دم دیت رہا اور وہ غالباً اس بھلاوے میں رہے کہ ہم جس وقت چاہیں گے سیوا جی کو اُکھیڑ پھینکیں گے۔ مگر جب سیوا جی کھلم کھلا دست درازیوں پر اُتر پڑا تو محمد عادل شاہ کے کان کھڑے ہوئے اور اُس نے شاہ جی کو بلاکر ایک سنگین قید خانے میں ڈال دیا اوراُس سب طر ف سے چنوا کر صرف ایک چھوٹا سا سوراخ رکھا اور یہ حکم دیا کہ اگر سیوا جی اس قدر عرصے میں اپنے تئیں حوالے نہ کر دے تو یہ سوراخ بند کر دیا جائے۔ اس پر سیوا جی نے اپنی گوں نکالنے کو شاہجہاں سے بے دھڑک خط وکتابت شروع کی اور اپنے مکرو فریب سے اُس کو ایسے ڈھب پر لے آیا کہ بادشاہ نے شاہ جی کا وہ قصور بھی معاف کر دیا جو پہلے اس سے بادشاہی فوج کے ساتھ مقابلہ کرنے میں سرزد ہوا تھا۔ اور اُس کو اپنے ہاں ایک خدمت دینے کا اقرار کرکے شاہِ بیجاپور سے اُس کی جاں بخشی کی سفارش کی۔ اس کے علاوہ سیوا جی کو بھی منصب پنجہزاری عطا فرمایا۔ اس صورت سے شاہ جی کی جاں بخشی تو ہو گئی۔مگر چار برس نظر بند رہا۔ ۴- افضل خاں کا قتل ہونا والئے بیجا ہور سیوا جی کے نیست و نابود کرنے پر پھر ایک بار آمادہ ہوا۔ مگر سیواجی نے اس دفعہ ایک بڑی دغا بازی کی۔ جس سے شاہ بیجا پور کا سارا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ سیوا جی نے بیجا پور کے سردار افضل خان کو اُتار چڑھائو دیکر گفتگو کے لیے ملاقات پر راضی کر لیا اور جب وہاں گیا تو ایک ہتھیار آستین میں چھپا کر لیتا گیااور بغلگیر ہوتے وقت جھٹ پٹ اُس کا کام تمام کر دیا۔ یہ دیکھ کر افضل خاں کی سپاہ کی ہمت ٹوٹ گئی۔ اس لیے کچھ تو تہ تیغ ہوئی اور کچھ قید ہوگئی۔ سیوا جی کی یہ عیاری مرہٹوں کی تاریخ میں بڑی مشہور ہے اس سے سیوا جی کو بڑا فائدہ ہوا ار اُس کی طاقت بڑھ گئی۔ چنانچہ اُس کے بعد اُس نے کئی لڑائیاں فتح کیں۔ ۵- اورنگزیب کے ساتھ سیوا جی کے معرکے پھر چند سال کے بعد جب شائستہ خاں بادشاہ دہلی کی طرف سے دکن کا حاکم تھا اور سیوا جی کی والئے بیجا پور سے صلح تھی۔ اُس وقت سیوا جی نے فوج مغلیہ پر حملہ کیا اور اورنگ آباد تک جو اُس صوبے کا دارالحکومت تھا ۔ ملک کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ اس پر شائستہ خاں نے جنوب کی طرف بڑھ کر اول چاکن فتح کیا۔ پھر پونا پہنچ کر خاص اُس مکان میں اُترا جہاں سیوا جی نے پرورش پائی تھی۔ سیوا جی کو اتنی تاب کہاں تھی کہ یہ دیکھے اور چپکا بیٹھا رہے۔ چنانچہ وہ ایک روز چراغ جلے کچھ آدمی ساتھ لے ایک برات کے ہمراہ ہو لیااور آنکھ بچا کر شہر میں جا داخل ہوا ۔ جس مکان میں شائستہ خاں اُتراہوا تھا ۔ اُس کے کونے کونے سے واقف تھا۔اُس کے باہر کے درجوں میں سے گزر کر یکا یک شائستہ خاں کو عین خواب گاہ میں جا لیا ۔ اُس وقت ضان کی تو دو انگلیوں ہی پر خیر گزری اور وہ جوں توں کر کے وہاں سے بھاگ گیا۔ مگر اُس کا بیٹا اور ہمراہی سب وہیں قتل ہوئے۔ اب سیوا جی وہاں سے اپنا کام کر چلتا ہوا اور بے دھڑک مشعلیں روشن کیے اپنے پہاڑی قلعہ سنگھ گڑھ پر جو وہاں سے بارہ میل تھا، جا چڑھا۔ اس معرکے سے اور کچھ نہیں تو اتنا ضرور ہوا کہ اُس کی سپاہ کا جی بڑھ گیا اوراُن کی نظروں میں بادشاہی سپاہ کی کچھ حقیقت نہ رہی۔ یہ واقعہ اُن معرکوں میں سے ہے۔ جن کے باعث مرہٹوں میں سیواجی کی بڑی دھاک ہے۔ اس کے بعد سیوا جی نے سورت کو جا لُوٹا اور یہاں انگریزوں کی کوٹھی کے سوا کوئی مکان اُس کی لُوٹ سے نہ بچا اور یہ کوٹھی بھی اس سبب سے بچی کہ یہ لوگ بڑی مردانگی اور استقلال کے ساتھ اُس سے لڑے۔ جب اورنگزیب کو سورت کے لُٹنے کی خبر لگی تو یہ امر اُس کو بڑا ناگوار گزرا۔ کیونکہ جو لوگ حج کو جایا کرتے تھے وہ سورت ہی سے سوار ہوا کرتے تھے اور اسی وجہ سے اُس کا نام باب المکہ پڑ گیا تھا۔ اس کے بعد ۱۶۶۴ء میں سیوا جی نے لقب راجائی اختیار کیا اور اپنے نام کا سکہ بھی جاری کیا۔ پھر جہازوں کا یاک بیڑا تیار کر کے جنوب کی طرف کنارے کنارے جا کر بار سلور کو تاراج کیا اور اس کے گردو نواح کو خوب لوٹا۔ چند کشتیوں پر کچھ مسلمان سوار ہوئے حج کے لیے مکے کی طرف جا رہے تھے۔ اُن کو بھی نہ چھوڑا ۔ اس پر اورنگزیب جو دین اسلام کا بڑا حامی تھا۔ نہایت افروختہ ہوا۔ اب تو بادشاہ نے سیوا جی کی گوشمالی کے لیے ایک لشکر جرار بھیجا اور میرزا راجہ کو جو ایک بڑا بہادر شخص تھا ۔ اُس کا سردار مقرر کیا۔ اب سیوا جی کے ہاتھ سے قلعے پر قلعہ نکلنے لگااور آخر یہ ہوا کہ پورندھر کے مستحکم قلعے میں گھر گیا اور اُس کو بادشاہ سے صلح کرتے ہی بنی۔ چنانچہ پورندھر میں ایک عہد نامہ ہوا۔ جس کی رُو سے اُس نے بیس قلعے تو بادشاہ کے حوالے کیے اور بارہ اپنے پاس رکھے اور یہ بھی بطور جاگیر اُس کے پاس رہے۔ بادشاہ کی طرف سے یہ قرار پایا کہ سیوا جی کا بیٹا سنبھا جی پنجہزاری مُقررہو اور بیجا پور کے بعض ضلعوں میں سیوا جی کو چوتھ اور سردیش مُکھی تحصلی کرنے کی اجازات دی جائے۔ مرہٹوں نے جو آئندہ رعایائے سلطنت مغلیہ کو ہر جگہ لُوٹا کھسوٹااور اُس سے زبردستی خراج لینے کا اناپ شناپ دعویٰ کیا۔ اُس کی دلیل وہ اُسی شرط کو گردانتے رہے۔ اس صلح کے بعد سیوا جی نے بادشاہی لشکر کے ساتھ ہو کر بیجا پور کی یورش میں وہ نام پایاکہ بادشاہ نے خوش ہو کر اُس کو تحسین و آفرین لکھی اور دلّی بلایا۔ پس سیوا جی اپنے بیٹے سنبھاجی کو لے کر بادشاہ کے حسب الطلب دلّی میں حاضر ہوا۔ مگر اورنگزیب اُس کے ساتھ بڑی نخوت سے پیش آیا۔ جب سیوا جی نے دیکھا کہ ایک تو آبرو میں فرق آیا۔ دوسرے قیدی بنا تو ایک ایسا پیچ کھیلا کہ اپنے بیٹے سمیت صاف نکل کر رائے گڑھ پہنچ گیا۔ بادشاہ سے اُس وقت بڑی چُوک ہوئی کہ اُس نے ایسے دشمن کو اپنا پکا دوست اورہوا خواہ بنانے کا موقع مفت ہاتھ سے کھو دیا۔ سیوا جی اب پھر کچھ عرصے تک علانیہ بادشاہ کا مقابلہ کرتا رہا مگر چند روز بعد جسونت سنگھ نے بیچ بچائو کر کے اورنگزیب سے اُس کی خاطر کواہ صفائی کرا دی۔ اصل میں تو بادشاہ کا یہ منشا تھا کہ جب موقع ملے اُس کو نیست و نابود کر دے۔ مگر اس وقت مصلحتاً اُس کو بالکل مطلق العنان رہنے دیا۔ ۶- سیوا جی کی تخت نشینی کا جشن سیوا جی راجہ تو پہلے ہی بن چکا تھا اور اپنا سکہ بھی جاری کر چکا تھا۔ اب رائے گڑھ میں اس نے بڑی دھوم دھام سے ۱۶۷۶ء میں تخت نشینی کا جشن کیا۔ اُس وقت اس نے سونے کا تُلا دان کر کے سولہ ہزار ہُنیں برہمنوں کو پُن کیںاورا پنا لقب بڑا لمبا چوڑا مقرر کیا اور ہر امر میں بادشاہوں سے بھی بڑھ کر اظہار جاہ و جلال کرنے لگا۔ اب سیوا جی کی سلطنت پھیل بھی گئی تھی اور زبردست بھی ہو گئی تھی اور مرہٹوں کو جو لُوٹ مار کرنے کی عجیب رکان یاد تھی۔ اُس سے سیوا جی کے پاس دولت بھی بہت کچھ جمع ہو گئی تھی۔ پھر اُس وقت اُس نے کرناٹک پر بڑی ظفر مندی کے ساتھ ایک مہم کر کے اپنی سلطنت اور قوت کو اور بھی ترقی دی۔ مگر اس کے بیٹے سنبھا جی کی بد چلنی کے سبب بُڑھاپے میں اُس کے دل پر ایک بڑا داغ لگا۔ یہ جوان بڑا تندخو اور اوباش تھا اور ایک دفعہ اُس کے باپ نے ایک سخت قصور کے سبب جو اُس کو سزا دی تو وہ بھاگ کر علانیہ لشکر مغلیہ میں جا ملا۔ ۷- سیوا جی کی وفات آخر سیوا جی کی عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ کچھ عرصے سے اُس کے گھُٹنے پر ورم ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کو بخار آنے لگا اور آخر اسی مرض میں اُس نے ۵ اپریل ۱۶۸۰ء کو رائے گڑھ میں انتقال کیا۔ سیوا جی بڑا دلاور سپاہی اور کارواں سپہ سالار اور لئیق منتظم تھا اس میںشک نہیں کہ اُس کی غارت گری اور لوٹ مار سے خلقت کو بڑی بڑی تکلیفیں پہنچیں۔ مگر اُس کے حتے الوسع ان تکلیفوں کے رفع کرنے کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔ کبھی وہ اپنا مطلب نکلانے کے لیے نہایت بے رحمی اور دغا بازی بھی کر بیٹھتا تھا۔ جیسا کہ افضل خان کے قتل کے معاملے میں ہوا۔ مگر بے مطلب کسی کوآزار نہ پہنچاتا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ آخر میں وہ شاید اپنی حرکتوں سے بڑا پشیمان تھا کیونکہ جس مذہبی جوش کا وہ ہمیشہ دم بھرتا رہا وہ بڑھاپے میں وہم و احتیاط اور نفس کشی سے بدل گیا تھا۔ یہ مذہبی جوش خواہ واقعی تھا اور خواہ بناوٹی۔ مگر اُس کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ مرہٹوں کے دلوں میں مذہبی اور قومی جوش بڑے زور و شور سے پیدا ہو گیا ۔ جس کے باعث بادشاہ دہلی کی جتنی ہندو رعایا اپنے مسلمان حاکموں سے ناراض تھی وہ سب مرہٹوں کی طرفدار ہو گئی۔ شجرہ خاندان سیوا جی سیوا جی سنبھا جی راجا رام جس کی زوجہ تارا بائی تھی ساہو سیوا جی راجۂ ستارہ سنبھا جی راجۂ کولھا پور دوسری فصل ۔سلطنت ِ مرہٹہ کی ترقی و تنزل ۱- سنبھا جی سیوا جی کے بیٹے سنبھا جی نے کچھ بہت عرصے تک حکومت نہیں کی اور اُس کی ساری عمر پرتگیزوںاور مسلمانوں سے لرتے جھگڑتے گزری۔ آخر کار اورنگزیب نے اُس کو قید کر لیا اور بڑے عذاب کے ساتھ قتل کرایا۔ ۲ - ساہو سیوا جی کا پوتاجو اُس وقت چھ برس کا تھا وہ بھی گرفتار ہوکر کئی سال تک بادشاہ کے ہاں قید رہا اورنگزیب اُس کو طنزاً ساہو (یعنی چور) کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ اس لیے اُس کا یہی نام مشہور ہو گیا ہے۔ چونکہ اُس نے محل شاہی میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے وہ بڑاکاہل اور عیش دوست ہو گیا تھا۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد جب اُس نے قید سے مخلصی پائی تو خوشی سے اپنے تئیں سلطنتِ مغلیہ کا تابع تسلیم کیا اور حکومتِ مرہٹہ کا سارا کاروبار اپنے وزیر کبیر بالاجی وشوا ناتھ کو سونپ دیا۔ ۳- بالا جی وشوا ناتھ پیشوائے اول بالاجی وشوا ناتھ جو ایک بڑا لئیق اور عقلمند برہمن تھا۔ ۱۷۱۲ء کے قریب شاہو کے ہاں ملازم ہو کر بعہدۂ پیشوائی سرفراز ہوا۔ یہ عہدہ اُس کی لیاقت ِ ذاتی کے باعث چند ہی روز میں اور سب عہدوں پر فائق ہو گیا۔ یہاں تک کہ اُس کے سامنے خاص راج گدی کی بھی حقیقت نہ رہی اور پھر یہ منصب بالاجی کے خاندان میں موروثی ہو گیا۔ پیشوائوں کا شجرہ بالاجی وشوا ناتھ پیشوا ئے اول باجی رائو (۲) بالاجی باجی رائو (۳) رگھو ناتھ وسواس رائو مادھو رائو (۴) نرائن رائو (۵) باجی رائو ثانی جو پانی پت کی مادھو رائو نرائن (۷) لڑائی میں کام آیا۔ (۶) تیسرے باب کی پانچویں فصل میں سادات اور نظام الملک کے باہمی نفاق کا ذکر ہو چکا ہے۔ یہ قضیہ تو آخر کار شاہ پور کی لڑائی سے طے ہوا ۔ مگر اس سے پیشوا کو دربارِ دہلی کے معاملات میں دخل ہو گیا کیونکہ پیشوا مرہٹوں کی فوج لے کر سید حسین علی کی کمک کو دلّی آیا۔ اور یہاں ۱۷۲۰ء میں محمد شاہ سے ایک عہد نامے پر دستخط کرائے ۔ جس سے مرہٹوں کو دکن کی آمدنی کی چوتھ یعنی چہارم حصہ اور سردیش مکھی یعنی دسویں حصے کا حق اور پونا اور ستارا کے درمیانی اضلاع پر سوراجیہ یعنی اقتدار مطلق حاسل ہو گیا۔ ۴- باجی رائو پیشوائے دوم اس عہد نامے کے چند روز بعد بالا جی نے انتقال کیا اور اُس کی جگہ اُس کا بڑا بیٹا باجی رائو پیشوا ہوا۔ یہ سب پیشوائوں میں بڑا لئیق اور مشہور ہوا ہے۔ اس نے ۱۷۳۶ء سے پہلے پہلے شاہان دہلی کا صوبہ مالوہ اور نزبدا و چمبل کا درمیانی علاقہ فتح کر لیااور اُس سال جب نظام الملک دکن سے بادشاہ کی مدد کو فوج لے کر آیا تو بھوپال کے قریب باجی رائو سے اُس کا مقابلہ ہوا۔ نظام الملک اس موقع پر گھر گیا اور اُس نے چار و ناچار ایک عہد نامہ لکھ کر وہ سارا ملک باجی رائو کو دے دیااور مصارف جنگ کی بابت بادشاہ سے پچاس لاکھ روپے دلانے کا وعدہ کیا۔ ساحل مغربی پر جو پرتگیزوں کی بستیاں تھیں۔ باجی رائو نے اُ ن پر بھی یورش کر کے بڑی فتح پائی اور قلعہ بسین کو مئی ۱۷۳۹ء میں پرتگیزوں سے ہلا کر کے چھین لیا۔ اس کے بعد باجی رائو کے دماغ میں یہ سمائی کہ اب سارے دکن کو فتح کیجیے۔ چنانچہ اُس نے ریاست نظام پر حملہ کیا مگر ناکام رہا اور چند ہی روز بعد ناصر جنب سے جو اُس وقت اورنگ آباد میں نظام الملک کا نائب تھا۔ صلح کر لینی پڑی اور اُس کے بع ۱۷۴۰ء میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ ۵- سردارانِ مرہٹہ پیشوائے سوم کا زمانہ حکومت مرہٹہ کے واسطے ایک طرح سے نہایت اقبال اور قوت کا زمانہ ہوا ہے۔ مگر پھر بھی اُس وقت سے مرہٹوں کے جتھے میں نفاق کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے اور اُس کا انجام یہ ہوا کہ حکومت مرہٹہ خاک میں مل گئی۔ کیونکہ سیوا جی کی اولاد میں تو ایک عرصے سے صرف نام ہی کی راجائی رہ گئی تھی۔ اختیار جس کو کہتے ہیں۔ وہ کچھ بھی نہ رہا تھا اور پیشوا جو بجائے خود راجہ اور بالکل مالک و مختار ہوتا تھا۔ اُس کو بھی مرہٹے سرداروں کا یاک جتھا پیدا ہو گیا تھا اور اُن کی یہ کیفیت تھی کہ جب پیشوا میں اتنی قوت و قدرت ہوتی تھی کہ اُن سب کو اپنے قابو میں رکھے تو وہ اُس کا حکم ماننے لگتے تھے۔ ورنہ مطلق العنان ہو جاتے تھے۔ اُس وقت مرہٹوں کے نہایت مشہور سردار یہ تھے۔ اول ساہو راجہ ستارا جو سیوا جی کی گدی پر بالاستحقاق مسند نشین تھا۔ دوم سنبھا جی راجۂ کولھاپور جو ساہو کا مخالف تھا یہ بھی سیوا جی کی اولاد میں تھا۔ مگر اُن دونو میں سے کسی کو کبھی بہت اختیار نہیں ہوا۔ سوم سیندھیا جسن نے اپنی ریاست مالوے کے شمال مشرق میں قائم کی۔ اس کی اولاد مرہٹوں میں اکثر نہایت زبردست رہی ہے۔ اور سب کا لقب سیندھیا ہوتا چلا آیا ہے۔ اگر چہ اس خاندان کے سردار اوائل میں سرکار انگریزی سے اکثر لڑتے رہے۔ مگر اب ایک مُدت سے مہاراجہ سیندھیا والئے گوالیار سلطنت انگلشیہ کے نہایت خیر خواہ اور وفادار باجگزار۔ رئیسوں میں سے ہیں۔ چہارم ملہار رائو ہلکر۔ اُس نے بھی اپنی ریاست مالوے میں قائم کی۔ اس کا دار الریاست اندور ہے اور اس خاندان کے رئیسوں کا لقب ہمیشہ ہلکر رہا ہے۔ یہ رئیس مرہٹوں کے سر گروہ بننے کے لیے اکثر خاندان سیندھیا کے حریف رہے ہیں۔ پنجم راگھو جی بھونسلا راجۂ برار۔ اس خاندان نے گٹک اور تقریباً سارے اوڑیسہ کو نواب بنگالہ سے چھین کر اپنی حکومت خلیج بنگالہ تک پھیلا لی تھی۔ مگر انگریز وں نے ۱۸۰۳ء کے اندر مرہٹوں کی دوسری لڑائی میں یہ مشرقی علاقے خاندان بھونسلا سے چھین لیے اور انجام کار اخیر راجۂ برار کی ریاست لارڈ ڈئل ہوزی گور نر جنرل کے عہد میں ۱۸۵۳ء کے اندر قلمروانگریزی میں شامل ہو گئی۔ ششم داما جی گائکواڑ راجۂ بڑودہ ۔ اس سر دار کی اولاد جس کا لقب گائکواڑ چلا آتا ہے اب تک صوبۂ گجرات میں حکومت کرتی ہے اور سرکار انگلشیہ کی باجگزار ہے۔ ان کے علاوہ پیشوا بھی ایک حاکم تھا۔ جو اس سارے جتھے کا سرگردہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کا دارالریاست اس وقت سے شہر پونا قرار پایا۔ ۶- بالا جی باجی رائو پیشوائے سوم اب ہم بالا جی باجی رائو پیشوائے سوم کا کچھ حال بیان کرتے ہیں یہ پیشواباجی رائو کا بڑا بیٹا تھااور اُس کے چھوٹے بھائی کا نام رگھو ناتھ رائوتھا۔بالاجی باجی رائو ۱۷۴۰ء میں مسند نشین ہوا۔ اور تینس برس تک حکمران رہا۔ اس کے وقت میں بہت سے بڑے بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ جن میں سے یہ واقعات نہایت عظیم ہیں۔یعنی سلطنت مغلیہ کے بڑے سردار نظام حیدرآباد سے دوبارہ سخت لڑائی ہوئی اور احمد شاہ ابدالی جو افغانستان سے ہند پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس سے مرہٹوں نے ایک بڑی شکست فاش کھائی۔ ۷- راجا پور کی لڑائی مرہٹوں اور نظام حیدر آباد کے باہم اول لڑائی ۵۲-۱۷۵۱ء میں راجا پور پر ہوئی تھی۔ اس میں فرانسیسی فوج کا بڑا مشہور افسر بوسے صلابت جنگ نظام حیدر آباد کا مدد گار تھا۔ چنانچہ اس کی حسن لیاقت سے پیشوا کو شکست ہوئی۔ مگر پھر بھی اُس نے تھوڑے ہی عرصے بعد نظام سے ایک بڑا علاقہ لے لیا۔ ۸- اوگیر کی لڑائی پھر دوسری لڑائیی ۱۷۶۰ء میں ہوئی۔ اس کا باعث یہ تھا۔ کہ پیشوا نے احمد نگر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس وجہ سے صلابت جنگ نے اُس پر فوج کشی کی ۔ انجام کار پیشوا کو مقام اوگیر پر فتح کامل ہوئی اور نظام کو اپنی قلمرو کے سارے شمال مغربی حصے مرہٹوں کی نذرکرنے پڑے۔ ۹- پانی پت کی تیسری لڑائی احمد شاہ ابدالی سے مرہٹوں کی لڑائی کا باعث یہ ہوا کہ ۱۷۵۸ء میں پیشوا کے بھائی رگھو ناتھ رائو نے حماقت سے پنجاب پر حملہ کیا اور یہ وہ ملک تھا جس کو احمد شاہ ابدالی والئے افغانستان نے بادشاہِ دہلی سے چھین کر اپنی قلمرو میں شامل کر لیا تھا۔ اُس وقت رُہیلہ سردار نجیب الدولہ جس کوا بدالی اپنی طرف سے دہلی میں چھوڑ گیا تھا اور نواب اودھ مرہٹوں کے مقابلے پر اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے چند روز بعد ابدالی خود بھی کابل سے ہند پر چڑھ آیا۔ اس وقت پیشوا خود نظام حیدر آباد کے مغلوب کرنے میں مصروف تھا۔ اس لیے افغانوں کا اول سیندھیا اور پھر ہلکر سے سامنا ہوا۔ مگر انہوں نے دو دفعہ شکست فاش کھائی اور بہت سے مرہٹے قتل ہوئے۔ آخر پیشواکا بیٹا وسواس رائو اور عم زاد بھائی شوداس رائو بھائو جو مرہٹوں کے نہایت عمدہ سرداروں میں سے تھا۔ شمال کی طرف روانہ ہوئے ۔ تاکہ ہلکر اور سیندھیا کے شکست کھانے سے مرہٹوں کے نام پر جو دھبا لگاتھا۔ اُس کو دھوئیں اور افغانوںکو زک دے کر اٹک کے پار نکال دیں۔ اُن کے اس زعم کی وجہ یہ تھی کہ اوگیر پر نظام کی فوج کو شکست دے کر وہ بہت پھول گئے تھے۔ اس دفعہ مرہٹے اپنے دستور قدیم کے خلاف بڑی کرّو فرّ کے ساتھ لڑائی پر چڑھے اور یہی اُن کے اوبار و زوال کے لچھن تھے۔ کل مرہٹے سرداروں کو حکم ہوا تھا کہ ہمرکاب چلیں۔ اس لیے اُس لڑائی میں اُن کے ساتھ ۵۵ہزار سوار ۔ ۱۵ہزار پیدل ۔ دو لاکھ پنڈارے اور بہیر اور دو سو ضرب توپیں تھیں اور مسلمانوں کے پاس ۴۶ہزار سوار اور ۳۸ہزار پیدل اور ۷۰ صرب توپیں تھیں۔ چونکہ ابدالی نے کُل فوج کے ساتھ ایک دفعہ ہی جم کر لڑنا منظور نہیں کیا۔ اس لیے ۲۸ اکتوبر ۶ جنوری ۱۷۶۱ء تک برابر چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ مرہٹے نا عاقبت اندیش تھے۔ اس لیے نہ اُن کے پاس رسد تھی نہ روپیہ اور اس پر طرہ یہ ہوا کہ سب طرف سے نرغے میں آگئے۔ شجاع الدولہ نواب اودھ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح مرہٹوں اور ابدالی میں صلح کرا دے۔ مگر ابدالی نے یہ منظور نہ کیا۔ کیونکہ وہ اپنی قوت اور مرہٹوں کی شکستہ حالی سے خوب واقف تھا۔ آخرکار ۷ جنوری ۱۷۶۱ء کو بھائو نے شجاع الدولہ کو یہ لکھا کہ اب کاسہ لبریز ہے اور ایک قطرے کی بھی گنجائش نہیں۔اس کے بعد ساری فوج مرہٹہ یہ ٹھان کر کہ مارا یا مرے ابدالی کے لشکر پر ٹوٹ پڑی ۔ صبح گجر دم سے دن کے دو بجے تک ہنگامۂ کارزار گرم رہا۔ ایک طرف سے ہر ہر مہادیو اور دوسری طرف سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند تھا۔ افغان مرہٹوں کی نسبت قوی ہیکل تھے اور تکلیف و مشقت جھیل سکتے تھے ۔ اس لیے اس سخت معرکے میں مرہٹوں کی تندی اور جوش و خروش پر غالب آگئے۔ آخر دن کے دو بجے وسواس رائو مارا گیا۔ اس پر بھائو مایوس ہو کر اپنے ہاتھی سے اُتر پڑا اور گھوڑے پر سوار ہو بیچ لڑائی میں جا گھسا۔ اور پھر اُس کا پتا نہ ملا۔ ہلکر میدان سے پہلے ہی کھسک گیا تھا۔ اس لیے اس پر نمک حرامی کا الزام لگا۔ غرض اس لڑائی میں ہزاروں مرہٹے تو کام آئے اور جو بچے وہ گھِر کر قید ہو گئے۔ پیشوا یہ خبر وحشت اثر سُن کر تھوڑے ہی عرصے بعد مر گیا اور واقعی مرہٹوں نے یہ شکست ایسی سخت کھائی کہ انہیں ہند میں سب کو مغلوب کر کے سلطنت کرنے کی جو اُمید تھی ۔وہ اگر بالکل ٹوٹ نہیں گئی تو اُس کے ضعیف ہو جانے میں تو کچھ کلام نہ رہا۔ ۱۰- مادھو رائو پیشوائے چہارم جب بالا جی باجی رائو پیشوا کا انتقال ہوگیا تو اُس کی جگہ اُس کا بیٹا مادھو رائو جس کی عمر صرف سترہ برس کی تھی۔ پیشوا مقرر ہوا ۔ یہ سب پیشوائوں میں بڑا بہادر گزرا ہے۔ چونکہ وہ نو عمر تھا اس لیے اُس کا چچا رگھو ناتھ رائو جو ایک بڑا ہوس ناک اور فطرتی شخص تھا۔ اُس کا سرپرست قرار پایا۔ اور رام شاستری جو ایک فاضل اجل مرہٹہ برہمن تھا۔ اُس کا گرو اور اتالیق مقرر ہوا۔ ۱۱- رام شاستری یہ برہمن صرف فاضل ہی نہیںبلکہ راستی اور دانائی کا بھی ایک عمدہ نمونہ تھا۔ جو شخص بدی کرتا۔ خواہ وہ کیسا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اُس کو رام شاستری سرزنش کیے بغیر نہ چھوڑتا اور بڑے رند اوباش تک اُس کا رعب مانتے تھے۔ اس میں محنت کشی، سرگرمی اور خیر اندیشی بھی بدرجہ کمال تھی اور مرہٹوں میں اب تک اُس کا نام عزت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ مادھو رائو کے عہد میں اکثر نظام حیدر آباد راجۂ برار اور میسور کے نئے سلطان حیدر علی سے مرہٹوں کے لڑائی جھگڑے رہے اور اُن میں مرہٹے اکثر فتحمند ہوئے۔ ۱۲- اہلیا بائی اندور کے رئیس ہلکر کے گھرانے میں اہلیا بائی نام ایک عورت مرہٹوں میں بڑی عمدہ اور نیک سیرت حاکمہ گزری ہے۔ جب ملہار رائو ہلکر مرہٹومیں بیالیس برس نہایت جوانمردی اور دلیری سے سرداری کر کے ۱۷۶۶ء میں عالم ضعیفی میں انتقال کر گیا تو اُس کے بعد اُس کا پوتا جانشین ہوا۔ کیونکہ اُس کا ایک ہی بیٹا تھا اور وہ پہلے ہی مر چکا تھا۔ مگر اُس لڑکے کی عمر نے بھی وفا نہ کی۔ یہ بھی چند ہی روز بعد مر گیا ۔ اس کے بعد ملہار رائو کی بہو اہلیا بائی فرمانروا ہوئی۔ اُس نے ۱۷۹۵ء میں وفات پائی اور مرتے دم تک حکومت کرتی رہی۔ یہ عورت ایک عجوبۂ روزگارتھی۔ پیشوا کی صلاح سے اُس نے ایک نہایت آزمودہ کار سپاہی ٹکا جی ہلکر کو جو اُس کے خاندان سے کچھ قرابت نہ رکھتا تھا اپنا متبنّٰے کیا ۔ اسی ٹکا جی کی اولاد اب تک اندور کی فرمانروا ہے۔ جب اہلیا بائی نے ٹکا جی کو متبنّٰے کر لیا تو اُس نے تو فوج کی سپہ سالاری سنبھالی اور اہلیا بائی ملک کے انتظام میں مصروف ہوئی۔ ٹکا جی اہلیا بائی کی ہمیشہ ایسی تعظیم و تکریم کرتا رہا۔ جیسی کہ لائق فرزند کیا کرتے ہیں۔ اہلیا بائی بڑی عابد اور رحم دل اور محنت کش عورت تھی۔ اندور یا تو ایک قصبہ تھا یا اُس کی سعی سے برا دولتمند شہر بن گیا۔ اہلیا بائی نے تعلیم بھی اچھی طرح پائی تھی اور اُس کی طبیعت میں ذکاوت بھی بہت تھی۔ جب وہ بیوہ ہوئی تو اُس کی عمر بیس برس کی تھی۔ پھر تھوڑے ہی عرصے بعد اُس کا بیٹا بھی مجنوں ہو کر مرگیا۔ اُن حادثوں کا اُس پر ساری عمر اثر رہا ۔ ایک بات اُس میں ایسی تھی کہ انگلستان کی مشہور ملکہ الزبت میں بھی نہ تھی۔ یعنی اُس کے ہاں خوشامدیوں کی دال ہر گز نہ گلتی تھی۔ وہ جب تک جی۔ نہایت پاک طینتی اور خوبی کے ساتھ حکومت کر تی رہی اور اب مالوے میں لوگ اُس کو ایک اوتار سمجھ کر پوجتے ہیں۔ ۱۳- نرائن رائو پیشوائے پنجم مادھو رائو پیشوا نے ۲۸ بر س کی عمر پا کر ۱۷۷۲ء میں انتقال کیا اور اُس کے بعد اُس کا چھوٹا بھائی نرائن رائو پیشوا ہوا اور اُس کا چچا رگھوناتھ رائو اُس کا بھی سر پرست رہا۔ مگر تھوڑے عرصے بعد اُس کی بدذات بیوی انند بائی نے بعض لوگوں کے ساتھ سازش کر کے اُس کم عمر پیشوا کو مروا ڈالا۔ اُس وقت مرہٹوں کی فوج نے پھر ایک بار ہندوستان کو پامال کیا اور دلّی پر قبضہ کر کے شاہ عالم ثانی کو بالکل اپنے قابو میں کر لیا۔ ۱۴- نانا فرنویس پیشوا کے دربار میں اس وقت نانا فرنویس ایک اعلیٰ رکن اور بڑا عقلمند و ہوشیار اہلکار تھا۔ ۱۵- رگھو ناتھ رائو جب نرائن رائو مارا گیا تو رگھو ناتھ رائو نے لقب پیشوائی اختیار کیا مگر اس سے اُس نے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا۔ کیونکہ اول تو نرائن رائو پیشوا کے ہاں اُس کی وفات کے بعد ایک بیٹا پیدا ہو گیا۔ دوسرے نانا فرنویس اور اور سارے بڑے بڑے مرہٹے سردار رگھو ناتھ رائو کی مخالفت پر متفق تھے۔ ۱۶- انگریزوں کی مرہٹوں سے اول لڑائی نرائن رائو پیشوائے پنجم کی وفات کے بعد اُس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام مادھو رائو نرائن رکھا گیا۔ اس پر رگھو ناتھ رائو نے اپنے استقلال و استحکام کے لیے یہ اُڑا دیا کہ یہ نرائن رائو کا بیٹا ہی نہیں ہے اور انگریزوں کو کہہ سن کر اپنا طرفدار کر لیا تاکہ وہ اُس پیشوائی کا حق بحال رہنے کے باب میں اُس کی اعانت کریں۔ اُس وقت ہند کا گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز تھا۔ اس نے اول تو رگھو ناتھ رائو کو مدد دینے سے انکار کیا۔ مگر جب دیکھا کہ انگریزوں کا بڑا مخالف نانا فرنویس فرانسیسیوں سے سازش کر تا ہے تو وارن ہیسٹنگز نے رگھو ناتھ رائو کی اعانت کرنی منظور کر لی۔ اس وجہ سے انگریزوں اور مرہٹوں کی باہم لڑائی ہوئی اور یہ مرہٹوں کی اول لڑائی کہلاتی ہے۔ انگریزوں نے جس وقت اس لڑائی کی تیاری کی ۔اُس وقت موقع اچھا نہ تھا۔ کیونکہ حیدر علی سلطان میسور اور نظام حیدر آباد اور سیندھیا اور مرہٹے سرداروں نے فوراً اُن پر ایک ساتھ حملہ کیا ۔ اس لڑائی کے بڑے بڑے واقعات یہ ہیں:- اول کرنیل گاڈرڈ ایک تھوڑی سی انگریزی فوج اپنے ہمراہ لے کر کلکتے سے چلا اور کوچ بہ کوچ ہندوستان طے کر کے ۱۷۷۹ء میں سورت پہنچا اور پھر سیندھیا اور ہلکردونوں کی فوجوں کو میدان سے ہٹا دیا اور بعد ازاں قلعہ بسین کو ہلا کر کے فتح کر لیا۔ دوم مقام ورگام پر ۱۷۷۹ء میں ایک بڑی ہتک کا عہد نامہ تحریر ہوا۔ جس کے ذریعے سے فوج بمبئی احاطہ کی ایک چھوٹی سی جمیعت نے مرہٹوں کے نرغے سے مخلصی پائی۔ مرہٹوں کی اس لڑائی کے اختتام پر ۱۷۸۲ئمیں انگریزوں اور مرہٹوں کے باہم مقام سلبئی پر عہد نامہ ہوا۔ جس کی بڑی شرطیں مرہٹوں کی طرف سے تو یہ تھیں کہ پرتگیزوں کے سوا اور سب اہلِ فرنگ یعنی فرانسیس وغیرہ مرہٹوں کے علاقے میں رہنے نہ پائینگے اور حیدر علی نے جو تھوڑا سا ملک انگریزوں کا فتح کر لیا ہے وہ اُس سے واپس کر ایا جائیگا اور انگریزوں نے یہ شرط کی کہ اگر مرہٹے رگھو ناتھ رائو کی پنشن مقرر کر دینگے اور جہاں اُس کا جی چاہے اُس کو رہنے کی اجازت دینگے تو ہم نا بالغ مادھو رائو نرائن کو پیشوا تسلیم کر لیں گے۔ اس پیشوا کے زمانہ نا بالغی کا ایک یہ واقعہ بڑا مشہور ہے کہ مہادا جی سیندھیا کا اختیار بہت بڑھ گیا۔اور اُس نے دلّی میں ایسا غلبہ و اقتدار پیدا کیا کہ کسی کو اُس کے سامنے سر اٹھانے کی مجال نہ رہی۔ اور پھر ہوتے ہوتے سارے مرہٹے سرداروں میں بھی نہایت زبردست اور آخر خودمختار ہو گیا۔ اور پیشوا کے تابع نہ رہا۔ پھر جب مہادا جی مر گیا تو پیشوا کے وزیر نانافرنویس کو مرہٹوں میں بڑا اقتدار اور اختیار حاصل ہوا۔ اُس نے تھوڑے ہی عرصے بعد نظام حیدرآباد سے اس بنا پر لڑائی چھیڑی کہ ادگیر کی لڑائی کے بعد جو خراج اُس نے دینا منظور کیا تھا۔ وہ برابر ادا نہیں کیا۔ اس لڑائی میں مرہٹوں کے سارے بڑے بڑے سردار پیشوا کے جھنڈے تلے حاضر تھے اور اُس کے بعد پھر کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا ۔ ۱۷- مقام کردلا کی لڑائی غرض کر دلا کے میدان میں مرہتوں نے ۱۷۹۸ء میں نظام پر فتح پائی۔ مگر یہ فتح مرہٹوں کو چنداں جوانمردی کے باعث نصیب نہیں ہوئی بلکہ بڑی وجہ یہ ہوئی کہ نظام کی فوج میں کچھ ایسی ہل چل مچ گئی کہ خود بخود میدان سے قدم اکھڑ گئے اور نظام کو چار و ناچار مرہٹوں سے صلح کرنی اور اپنے اہل کار معاصر الملک کو جو مرہٹوں کے دعوے کی مخالفت کر تا تھا۔ اُس کے حوالے کر نا پڑا۔ اس فتح کے بعد پیشوا کچھ اُداس سا نظر آیا اور جب نانا فرنویس نے اُس کا سبب دریافت کیا تو حالانکہ کہ پیشوا کی عمر اُس وقت صرف اکیس برس کی تھی۔ مگر اُس نے ایک بڑا معقول جواب یہ دیا کہ مجھ کو طرفین کی بے عزتی پر افسوس آتا ہے کہ ادھر تو نظام نے باوجود یکہ ہماری طرف سے کچھ معرکہ آرائی نہیں ہوئی۔ اس طرح کم ہمتی سے شکست مان لی اور اُدھر ہمارے سردار حالانکہ اُن سے کچھ شجاعت ومردانگی ظہور میں نہیں آئی۔ خواہ مخواہ ڈینگیں مارتے ہیں اور پھولے نہیں سماتے۔ ۱۸- مادھو رائو نرائن کی وفات اس لڑائی کے تھوڑے دن بعد ۱۷۹۵ء میں پیشوا نے جھونجل میں آکر خود کشی کی اور اُس کی وجہ یہ ہوئی کہ اُس نوجوان پیشوا کی رگھو ناتھا رائو کے بیٹے باجی رائو سے بڑی گہری دوستی تھی اور نانافرنویس کو جو اُس وقت اقتدار مطلق رکھتا تھا۔ اُن دونوں کا اختلاط سخت نا گوار تھا۔ اس لیے اُس نے پیشوا کا باجی رائو سے ملنا جلنا بند کر دیا۔ اس پر پیشوا محل کی چھت پر سے گر کر مر گیا۔ ۱۹- باجی رائو ثانی پیشوائے اخیر جب مادھو رائو نرائن پیشوائے ششم مر گیا تو بڑے جھگڑے فساد کے بعد رگھو ناتھ رائو کا بیٹا باجی رائو مسند پیشوائی پر متمکن ہوا اور اُسی سال ٹکا جی ہلکر کا بیٹا جسونت رائو اندور کی گدی پر بیٹھا۔ اُس کی دولت رائو سیندھیا اور پیشوا سے مُدت تک لڑائی ہوتی رہی ۔ آخر اُس نے پیشوا کا ایسا ناک میں دم کیا کہ پیشوانے بھاگ کر انگریزوں کے پاس پناہ لی ۔ ۲۰- عہد نامۂ بسین پھر ۱۸۰۲ء میںاُس کے اور انگریزوں کے درمیان ایک مشہور عہد نامہ ہوا جو عہد نامہ بسین کہلاتا ہے۔ اس سے انگریزوں کی سیندھیا اور راجہ برار سے لڑائی ٹھن گئی۔ یہ مرہٹوں کی دوسری لڑائی تھی۔ باجی رائو نے عہد نامہ بسین میں یہ شرطیں منظور کیں ۔ اول میں اپنے علاقے میں اُس کی حفاظت کے لیے ایک انگریزی فوج رکھونگا اور اُس کے خرچ کے لیے ۲۶ لاکھ روپے سالانہ ادا کرونگا۔ دوم کسی فرنگی کو جو انگریزوں کی مخالف قوم میں سے ہو گا اپنی عملداری میں قدم نہ رکھنے دونگا۔ سوم سورت پر مجھ کو جو کچھ دعویٰ ہے۔ اُس سے دست بردار ہوںگا۔ اور نظام اور گائکواڑ سے جو میرا تنازع ہے اُس میں انگریز جو فیصلہ کر دیں۔ مجھ کو بسرو چشم منظور ہے۔ چہارم میں سرکار انگلشیہ کی وفاداری اور رفاقت میں ہمیشہ ثابت قدم رہونگا۔ ان سب شرائط کی عوض سرکار انگریزی نے اُس کی یہ دلجمعی کی کہ تمہاری ریاست اور جان و مال کی ہر طرح حمایت و حفاظت کی جائے گی۔ ۲۱- انگریزوں کی مرہٹوں سے دوسری لڑائی جس وقت مرہٹوں کی دوسری لڑائی شروع ہوئی۔ اُس وقت ہند کا گورنر جنرل ایک بڑا لائق فائق انگریز تھا۔ جس کا نام لارڈ ولزلی تھا اور دو بڑے لئیق سپہ سالار اُس کی نیابت میں تھے۔ اُن میں سے ایک تو اُس کا بھائی جرنیل ولزلی تھا۔ جس نے پیچھے ڈیوک آف ولنگٹن خطاب پایا اور انگلستان کا نہایت عمدہ سپہ سالار ہوا۔ اور دوسرا لارڈ لیک اور اُن کے مخالف و حریف دولت رائو سیندھیا اور راگھو جی بھونسلاوالئے برار تھے۔ ۲۳- معرکہ اسئی ۱۸۰۳ء اس جنگ میں اول بڑا میدان جو جرنیل ولزلی نے مارا وہ اسئی کا میدان تھا۔ یہ مقام برار او ر خاندیس کی حدود پر واقع ہے۔ سیندھیا اور راگھو جی بھونسلا دونو فوج انگریزی کے سامنے تابِ مقاومت نہ لا کر بھاگ گئے۔ انگریزوں کی ایک تہائی فوج تو ضرور اس لڑائی میں کام آئی مگر انہوں نے کامل فتح پائی۔ اس جنگ میں انگریزوں نے مرہٹوں سے بہت سے شہر اور قلعے بزور شمشیر فتح کر لیے۔ مگر یہاں ہم صرف دو بڑی لڑائیوں کا ذکر کرتے ہیں جو دلّی اور لاسواری پر ہوئیں۔ یہ دونوں مہمیں لارڈ لیک نے فتح کیں۔ دلّی کی لڑائی میں سیندھیا کی طرف سے اُس کا فرانسیسی جرنیل بورکین مقابلے پر تھا۔ لارڈ لیک نے ۱۸۰۳ء میں اُس کو شکست فاش دی اور دلّی فتح کر کے شاہ عالم بادشاہ دہلی کو جو مُدت سے مرہٹوں کے پنجے میں پھنسا ہوا تھا۔ اپنی حفاظت میں لے لیا۔ ۲۴- لاسواری کی لڑائی اسی سال لارڈ لیک نے لاسواری کے میدان پر فوج مرہٹہ کو ایک اور بڑی شکست دی۔ اس لیے سال ختم ہونے سے پہلے سیندھیا اور راجہ برار دونوں نے انگریزوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اپنا بہت سا علاقہ نذر کیا۔ انگریزوں اور مرہٹوں کے باہم دوسری لڑائی ہوئی تھی۔ اُس میں جسونت رائو ہلکر شریک نہ تھا۔ ۲۵- مرہٹوں کی تیسری لڑائی مگر دوسرے سال اُس نے بھی فساد پر کمر باندھی۔ اس لیے ۱۸۰۴ء میں مر ہٹوں کی تیسری لڑائی شروع ہوئی۔ اس میں بھی انگریزی فوج نے بہت سے قلعے فتح کیے۔ ایک بھرت پور کے قلعہ مستحکم کی تسخیر میں ضرور ناکام رہے۔مگرپھر بھی وہاں کے راجہ پر انگریزوں کا ایسا خوف چھایا کہ اُس نے اُن سے عہد و پیمان کر کے ہلکر کا ساتھ چھوڑ دیا اور ۲۰ لاکھ روپے نذر کیے۔ آخر ہلکر خود پنجاب کی طرف بھاگ گیا اورپھر لڑائی میں قلعہ ڈیگ پر جو معرکہ ہوا۔ وہ نہایت مشہور ہے۔ اس میں انگریزوں کو کامل فتح ہوئی اور بہت سی توپیں اُن کے ہاتھ آئیں۔ مگر اُن کا بہادر جرنیل فریزر کام آیا۔ ۲۶- مرہٹوں کے زوا کے سبب مرہٹوں کا جو حال اوپر لکھا گیا ہے۔ اُس سے واضح ہے کہ انگریزوں نے اُن کے سارے بڑے بڑے سرداروں کو کسی طرح پست کر کے مطیع کیا۔ اُن کا اور باقی حال ہند کے گورنر جنرلوں کے حالات کے ساتھ اخیر میں مختصراً بیان جائیگا۔ یہاں صرف اتنا اور ذکر کیا جاتا ہے کہ مرہٹوں کے اقتدار میں کن باعثوں سے زوال آیا۔ اول باعث یہ ہے کہ مہاداجی سیندھیا کو اس قدر عظمت اقتدار حاصل ہوا کہ وہ پیشوا کی اطاعت سے باہر ہو کر اُس کا حریف ہو گیا ۔ دوم نرائن رائو پیشوا کی وفات پر مرہٹوں میں نفاق پیدا ہوگیا اور رگھو ناتھ رائو، نانا فرنویس، باجی رائو ثانی ، جسونت رائو ہلکر ا ور دولت رائو سیندھیا کے لڑائی جھگڑوں سے مرہٹوں کا جتھا بالکل ٹوٹ گیا۔ سوم خود اس جتھے ہی میں ایسے اسباب موجود تھے۔ جن سے اُس میں تفرقہ پڑنا اور پھر اس وجہ سے ضعف آجانا کچھ تعجب کی بات نہ تھی کیونکہ پیشوا اور اس کے مشیر تو قوم کے برہمن اور اونچی ذات کے تھے اور سیندھیا اور ہلکر اور راگھو جی بھونسلا نیچ قوم کے مرہٹے تھے۔ چہارم شاہ عالم ثانی اب انگریزوں کی حمایت میں تھااور اُن کے زمانے میں ممکن نہ تھا کہ وہ خرابیاں اور بد انتظامیاں جن سے مرہٹوں کو عروج حاصل ہوا تھا، موجود رہیں۔ پانچواں باب اہل فرنگ کی ابتدائی مہمات ۱- یورپ کی وہ قومیں جنہوں نے ہند میں تجارت کی بستیاں بنائیں یورپ کی اقوام مفصلہ ذیل نے مختلف زمانوں میں ہند کے اندر اپنی بستیاں بنا کر اپنا قدم استحکام سے جمایا۔ اول پرتگیز یعنی اہل پُرتگال۔ دوم ولندیز یعنی اہل ہالینڈ۔ سوم ڈینز یعنی ایل ڈنمارک۔ چہارم انگریز یعنی اہل انگلستان اور پنجم فرانسیس یعنی اہل فرانس۔ ان میں سے خدا نے انگریزوں کو تو وہ اقبال و قدرت عطا کی جس سے ہند پر اُن کا کامل تسلط ہو گیا اور انجام کار یہی یہاں کے بادشاہ بنے۔ مگر پرتگیزوںاور فرانسیسیوں نے بھی ہند میں بہت کچھ عروج پایا ہے۔ ابتدا میں تو یہ سب قومیں یاں صرف تجارت کے لیے آئیں اور اسی غرض سے اُنہوں نے بستیاں بنائیں۔ مگر پرتگیزوں نے چند ہی روز بعد یہ چاہا کہ ہند میں اپنی سلطنت قائم کر لیں۔ مسلمان ہندوستان پر شمال مغرب سے حملہ آور ہوئے ۔ لیکن عیسائی فاتح سمندر میں سے ہو کر جنوب کی طرف سے وارد ہوئے۔ سکندر اعظم کے عہد سے لے کر واسکوڈی گاما کے ہند میں آنے تک یورپ اور ہندوستان میں بہت ہی کم آمدورفت رہی۔ کبھی کبھی کوئی مسافر آجاتا تھا اور یورپ کو واپس جا کر یہاں کی ریاستوں اور بے انتہا دولت کا حال سناتا تھا۔ تاریخ یورپ کے وسطی زمانے میں جو آٹھویں صدی سے پندرھویں صدی تک سمجھا جاتا ہے ۔ یورپ کی ہند سے اکثر اس طریق پر تجارت رہی کہ بحیرہ روم کے کنارے پر جو قومیں آباد تھیں۔ وہ ملک مصر اور شام کی بندرگاہوں میں آکر ہند کی اجناس جو فارس یا بحیرۂ قلزم کی راہ سے وہاں آتی تھیں۔ خرید کر کے جاتی تھیں۔ ان قوموں میں سے اخیر میں اہل ویننس اور جنوا اس تجارت میں بڑے سر گرم رہے۔ ۲- یورپ اور ہند کے مابین پرتگیزوں کا بحری رستہ دریافت کرنا پندرھویں صدی میں پرتگیزوں نے علم جہاز رانی میں علم یکتائی بلند کیا۔ ۱۴۹۲ء میں کولمبس سلطنت ہسپانیہ کے زیر سایہ مغرب کی طرف سفر کرتا ہوا بحر ظلمات میں اس ارادے سے آیا کہ ہندوستان کو دریافت کرے۔ کولمبس اپنے ساتھ ایک شاہی فرمان بھی لایا تھا۔ مگر قسمت کی خوبی دیکھیے کہ ہندوستان کی بجائے وہ امریکہ پہنچ گیا۔ جس کا نام ہندوستان سمجھ کر جزائرغرب الہند رکھا اور ۱۴۹۰ء میں اُن میں سے ایک صاحب کمال ناخدا جس کانام واسکوڈی گاما تھا۔ ساحل براعظم افریقہ کے گرد ہوکر ہند کا بحری رستہ دریافت کیا۔ یہ پرتگیزوں کی بڑی خوش قسمتی تھی۔ کیونکہ جس قدر تجارت ایشیا اور یورپ مین ہوتی تھی۔ وہ سب اُس وقت سے پرتگیزوں کے ہاتھ میں آگئی اور بہت عرصے تک انہیں کے قبضے میں رہی۔ واسکوڈی گاما ہند میں اول کلی کٹ پر پہنچا ۔ یہ مقام گوآ اور کوچین کے مابین ساحل ملیبار پر واقع ہے۔ اُس وقت یہ ایک چھوتے سے رئیس زمورن کی ریاست سے متعلق تھا۔پرتگیزوں نے اول اپنی بستیاں اسی ساحل پر بنانی شروع کیں اور ہند کے راجائوں نے ہرچند مزاحمت کی مگر ایک پیش نہ گئی۔ ۳- ال بو کرک اعظم پھر ہوتے ہوتے پر تگیزوں کی بستیاں ہند میں بڑھ گئیں۔ اس وجہ سے شاہ پرتگال نے یہ مصلحت سمجھی کہ اپنا ایک نائب ہند میں مقرر کرے۔ جو اُن سب بستیوں کا فرمانروا رہے اور ہند کے راجائوں اور بادشاہوں سے جو لڑائی بھڑائی ہو اُس کا بھی اہتمام کرے۔ غرض دوسرا نائب ال بو کرک اعظم ۱۵۰۸ء میں یہاں آیا اور اُس نے اول تو گوآ فتح کیا ۔ جو آج کے دن تک پرتگیزوں کے پاس ہے۔ پھر اور بہت سے مقاموں پر تسلط کر لیا۔ مگر شاہ پرتگال نے بڑی ناشکری سے اُس کو عالم ضعیفی میںعہدے سے موقوف کر دیا۔ ۴- مملک مقبوضہ سلطنت پُرتگال ہند میں پرتگیزوں کی حکومت لا ال بوکرک کے عہد میں سب سے زیادہ اقتدار اور رونق حاصل رہی اور اہل پرتگال نے اس نامور سردار کے جیتے جی تو اُس کی کچھ قدر نہ کی مگر مرنے کے بعد اُس کی خوبیوں سے واقف ہو کر ال بوکرک اعظم اُس کا خطاب مقرر کیا۔ ال بو کرک کے بعد ستر برس کے عرصے میں چند شہر اور تجار ت کی کوٹھیاں اور پر تگیزوں کی عملداری میں بڑھ گئیں۔ مگر یہ کچھ عمدہ نہیں تھیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ ہند میں پر تگیزوں کی سلطنت خاص کر بحری اعتبار سے تھی۔ یعنی وہ ہند کے بحیروں کے مالک تھے اور اُن کے بیڑوں کو کئی آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا اور بہت سی بڑی عمدہ بندر گاہیںاُن کے پاس تھیں۔ جہاں سے وہ دور دور کی تجارت بھگتایا کرتے تھے اور اس ساری تجارت کی حفاظت کے لیے اُن کے جنگی بیڑے موجود رہتے تھے۔ یہ بندرگاہیں سب ایک جگہ نہ تھیں بلکہ افریقہ کے مشرقی ساحل اور جزیرہ ہرمز سے لے کر جزیرہ نمائے ملایا اور مجمع الجزائر مشرقی تک پھیل رہی تھیں۔ جب سولھویں صدی کے انجام میں اُن کی سلطنت ہند کو زوال آیا تو اُس وقت اُن کے یہ علاقے مشہور تھے۔ گوآ اور بعض چھوٹی چھوٹی بندرگاہیں ہند کے ساحل مغربی پر اور جزیرۂ سنگلدیپ اور جزیرہ نمائے ملایا میں ملکا۔ ان کے علاوہ بنگالے میں بھی ان کی چند بستیاں بڑے موقع کی تھیں۔ جن میں سے ہگلی اور چاٹ گائوں عمدہ تھیں۔ اسی طرح گجرات میں بندرگاہ دیو اور بعض چھوٹے چھوٹے مقام اور بھی پرتگیزوں کے پاس تھے۔ یہ سب مقام تو بیشک پر تگیزوں کی عملداری میں تھے۔ مگرا ُن کے آس پاس کا علاقہ چند کوس سے زیادہ اُن کی حکومت میں نہ تھا۔ غرض اُن کی حکومت اُن کی تجارتی کوٹھیوں اور آبادیوں کی حدود ہی تک رہتی تھی۔ ۵- ہندوستان میں پرتگیزوں کی بے رحمیاں پوری ایک صدی تک یعنی ۱۵۰۰ء سے ۱۶۰۰ء تک پرتگیزوں نے ہندوستان کی تجارت سے فائدہ اُٹھایا۔ لیکن پرتگیزوں کے پاس نہ تو ملکی طاقت ہی تھی اور نہ اُن کی فوج ہی اس قدر بہادر تھی کہ ہندوستان میں ایک زبر دست سلطنت قائم کر سکیں ۔ وہ تاجر نہ تھے۔ بلکہ جنگجو آدمی اور بت پرستوں کو اپنے مذہب کا دشمن سمجھتے تھے۔ انہوں نے بہت سی بیرحمیاں کیں۔ صرف ال بو کرک نے ہی ہندوئوں سے دوستی پیدا کی اور ہندوشہزادوں سے اتحاد بڑھایا۔ اسی لیے اب تک اُسی کو عزت سے یاد کرتے ہیں۔ گوآکے ہندو اور اس کے مزار پر جا کر فریادیں کیا کرتے تھے اور خدا سے دعا مانگتے تھے کہ اس کے جانشینوں کی بیرحمیوں سے بچتے رہیں۔ ۱۵۸۰ء میں فلپ ثانی کے عہد میں سپین اور پُرتگال مل کر سلطنت متحدہ ہو گئی۔ مگر ۱۶۴۰ء میں پرتگال پھر علیحدہ ہو گیا۔ اسی اثنا میں دو زبردست دشمن انگریز اور ولندیز ہندوستان میں آموجود ہوئے اور پرتگیزوں کی ہندوستانی سلطنت اب اُتنی ہی جلدی گھٹنے لگی۔ جتنی جلدی قائم ہوئی تھی۔ ۶- ولندیزوں کا ہند میں آنا سولھویں صدی کے اخیر میں ہالینڈ کے بہادر جہاز رانوں کو بھی یہ امنگ ہوئی کہ ایک عرصے سے پرتگیز ہند کی تجارت سے مالا مال ہو رہے ہیں۔ آئو ۔ اب ہم بھی وہاں چلیں اور اُس ملک کی تجارت سے ہاتھ رنگیں۔ یہ دُھن باندھ کر وہ ہند کی طرف آئے اور پچاس برس کے عرصے میں انہوں نے پرتگیزوں سے کئی بستیاں چھین لیںاور یا تو پرتگیز ہند کے ساحل بحر پر حکمراں تھے۔ یا اب اہل ہالینڈ کا بحری اقتدار سب پر غالب ہو گیا۔ بنگالے میں جو چنسرا نام ایک مقام ہے۔ وہ ان لوگوں کی حکومت کا صدر تھا۔ مگر اُن کی حکومت کو بہت عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُن کو ایک ایسی ہمسر قوم سے آکر مقابلہ پڑا۔ جو اہل پرتگال سے کہیں زیادہ زبردست تھی۔ یعنی اب ان کی اہل انگلستان سے مٹ بھیڑ ہوئی۔ کیونکہ کچھ عرصے سے انگریز بھی ہند میں اپنے قدم جمانے لگے تھے۔ ۷- ہندوستان میں ولندیزوں کا عروج ولندیز ہی یورپ کی پہلی قوم تھی جو پرتگیزوں کی تجارت میں مخل ہوئی۔ سولھویں صدی میں برگس اینٹ ورپ اور ایم سٹرڈم میں ہندوستان کی پیداوار زیادہ تر جایا کرتی تھی اور جرمن اور انگریز اسے خرید لے جاتے تھے۔ ولندیزوں نے بھی یورپ اور ایشیا کے شمالی کنارے کے برابر برابر ہند کا بحری راستہ دریافت کیا۔ ولیم بارنٹس تین دفعہ اس کام کے لیے روانہ ہوا۔ مگر آخری بار راستے ہی میں مر گیا۔ پہلا ولندیز جو راس امید کے گرد ہو کر ہندوستان میں آیا۔ کارنیلس ہوئیمن تھا۔ ہالینڈ کے بہت سے شہروں میں تجارت کی کمپنیاں فوراً ہی بن گئیں اور پھر سب مل کر ایک ہو گئیں۔ ۱۶۱۹ء میں ولندیزوں نے جاوا میں شہر بیٹویا کی بنیاد ڈالی۔ ان کی بڑی تجارت کی کوٹھی امبونا میں تھی۔ سترھویں صدی میں ولندیزوں کی بحری طاقت دنیا میں سب سے بڑھی ہوئی تھی۔ ۱۶۲۳ء میں انہوں نے بہت سے انگریزوں کو قتل کر ڈالا۔ چند ایک ہندوستان سے بھاگ آئیاور ہند میں سلطنت انگریزی قائم کرنے کا سبب ہوئے۔ ولیم آف اورمینج کے بادشاہ انگلستان ہو جانے سے انگریزوں اور ولندیزوں میں لڑائیاں کم ہوئیں۔ ولندیز کچھ عرصے تک بے خوف و خطر جزائر ہند میں حکمران رہے اور انہوں نے پرتگیزوں کو چن چن کر وہاں سے نکالا۔ ولندیزوں کا عروج کچھ بہت عرصے تک نہیں رہا۔ اُن کے زوال کا باعث اُن کی تجارت ہی ہوئی۔ تجارت زیادہ تر مصالحوں ہی کی ہوا کرتی تھی اور وہ بھی بغیر کسی اصول کے وہ اپنے ہمسروں پر بڑی بے رحمیاں کیا کرتے تھے اور شائستگی بالکل نہ پھیلاتے تھے۔ رابرٹ کلابو نے اُن کو بڑا ضعف پہنچایا۔ جب اُس نے چنسرا پر حملہ کیا تو قلعہ کے اندر قید ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کی لڑائی میں انگریزوں نے ولندیزوں کی مشرقی کوٹھیاں چھین لیں۔ زمانہ حال میں ولندیز ہندوستان میں کسی جگہ کے حاکم نہیں ہیں۔ مگر چنسرا اور ناگ پٹن کے مکانات کی وضع اور ساحل کارومنڈل اور ملیبار کے بندرگاہوں کی چھوٹی چھوٹی نہریں اُن کی یاد کو تازہ کرتی رہتی ہیں۔ ۸- ہند میں انگریزوں کی ابتدائی مہمیں جس طرح ولندیزوں نے اول اول شمال مشرقی راہ سے بحر شمالی میں ہوکر یا اُس کے مقابل شمال مغربی رستے سے امریکہ کے شمالی کنارے کنارے ہندوستان آنے کا قصد کیا تھا۔ اُسی طرح انگریزوں نے بھی کیا۔چنانچہ کئی بار اُن کے جہاز اُس کی طرف روانہ ہوئے مگر بہت سی جانیں تلف ہوئیں۔ اور روپیہ بھی ضائع ہوا اور پھر بھی اںن مہموں سے کچھ کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے بعد راس امید کے سیدھے رستے سے انگریزوں کا اول بیڑا ہند کی طرف ۱۵۹۱ء میں روانہ ہوا۔ اس کا سردار لین کاسٹر تھا۔ مگر یہ بیڑا بھی منزل مقصود تک نہ پہنچا۔ بلکہ اُس نے اپنے ارادہ خاص سے منحرف ہو کر سمندر میں لوٹ مار شروع کر دی اور اس سفر کا انجام اچھا نہ ہوا۔ سارے جہاز یا غارت ہو گئے یا اُن کو لوگ چھوڑ چھوڑ کر بھاگ گئے۔لیکن اس ناکامی پر بھی انگریزوں کی ہمت نہ ٹوٹی اور ۱۶۰۰ء میں انگلستان میں ملکہ الزبت کے حکم سے انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی۔ واضح ہو کہ اس کے اٹھانویں برس بعد ایک اور کمپنی کھڑی ہو گئی اور دس برس بعد ۱۷۰۸ء میں پُرانی اور نئی دونوں کمپنیاں مل کر ایک کمپنی بن گئی۔ انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی اپنا پہلا بڑا ۱۶۰۱ء میں اسی لینکاسٹر کے ماتحت ہند کو روانہ کیا۔ یہ سفربڑا بامراد ہوا اور اس سے ایسی تقویت ہوئی کہ اس کے چند ہی روز بعد کمپنی نے کئی انگریزی بیڑے ہند کو اور بھیجے۔ ۹- انگریزی بستیوں کی ترقی ۱۶۱۳ء میں جہانگیر نے انگریزوں کو اپنے ملک میں چار کوٹھیاں بنانے کی اجازت دی اور سرطامس رو کی سفارت سے انگریزی تجارت کا سلسلہ ہند میںزیادہ مستحکم ہو گیا اور مقام سورت مدت تک اُ ن کی بڑی تجارت گاہ رہا۔ پھر ۱۶۳۸ء میں شاہجہاں نے ایک انگریزی ڈاکٹر کو جس کا نام بائن تھا۔ اپنی بیٹی کے معالجے کے لیے سورت سے بلایا اور خدا نے اس کے ہاتھ سے شہزادی کو شفا بخشی۔ اُس کے صلے میں بادشاہ نے بائن کو کمپنی کے لیے بڑے بڑے تجاری حقوق عطا کیے۔ پھر اس نے صوبہ دار بنگالہ کو اپنی حذاقت دکھا کر اُس سے بھی ایسا ہی انعام حاصل کیا۔ تھوڑے دن بعد ۱۶۴۰ء میں رام راجا والئے بیجانگر کے بھائی نے انگریزوں کو وہ زمین عنایت کی جس پر شہر مدراس واقع ہے۔ پھر شاہ چارلس اول کے حکم سے وہاں ایک قلعہ بنا۔ جس کا نام قلعہ سینٹ جارج رکھا گیا۔ کچھ عرصے بعد یہ مقام ساحل کارومنڈل کے علاقہ انگریزی کا صدر قرار پایا۔ بمبئی شاہ پرتگال کی طرف سے چارلس ثانی بادشاہ انگلستان کی ملکہ کے جہیز میں ملا اور بادشاہ نے اُس کو ۱۶۶۸ء میں کمپنی کے حوالے کر دیا اور اب سورت کی جگہ احاطہ ساحل مغربی کا صدر بمبئی قرار پایا۔ ابتدا میں انگریزوں کی تجارت مچھلی بندر میں تو ہوا ہی کرتی تھی۔ پھر اُن کو ۱۶۲۴ء میں بالاسور کے قریب مقام پیپلی پر بھی تجارت کی کوٹھی بنانے کی اجازت ہو گئی اور کچھ مدت بعد ۱۶۵۶ء میں ہگلی میں بھی انہوں نے کوٹھی اور قلعہ بنا لیا۔ مگر پھر جو انہوں نے کچھ دست تعدی دراز کیا تو اورنگزیب نے ۱۶۸۶ء میں اُدھر ہگلی۔ قاسم بازار اور پٹنے سے اور ادھر بمبئی کے سوا سورت اور اور سب مقاموں سے اُن کو نکلا دیا۔ اس کے بعد ۱۶۹۶ء میں انگریزوں نے اورنگزیب کے پوتے عظیم الشان کی اجازت سے چتانتی، کلکتہ اور گوبند پور اُن کے مالکوں سے خرید لیے اور پھر انہوں نے اجازت لے کر وہاں ایک قلعہ بھی بنا لیا اور اس کا نام اپنے بادشاہ ولیم ثالث کی یادگار میں ذرٹ ولیم رکھا۔ اب سے ۱۷۵۶ء تک کلکتے میں یہ کیفیت رہی کہ نواب مرشد آباد تو یہ چاہتا تھا کہ تاجران انگریزی سے جس طرح بنے ۔ جبراً و قہراً روپیہ لے اور وہ یہ کوشش کرتے تھے کہ کسی طرح ہم پر اس کا قابو نہ چلے۔ چنانچہ انہوں نے ۱۷۱۶ء میں بادشاہ فرخ سیر کے پاس اپنے وکیل بھیجے کہ عاملان ہندوستانی کے پنجہ ظلم و ستم سے اُن کی مخلصی کرائے اور اُن کا یہ تیر نشانے پر بیٹھا۔ پس اب انہوں نے کلکتے کو ایک علیحدہ احاطہ قرار دیا۔ اس وقت ہند میں انگریزی علاقوں کے تین احاطے تھے۔ ایک تو احاطہ سورت جو پیچھے احاطہ بمبئی قرار پایا۔ دوسرا احاطہ مدراس ۔ تیسرا احاطہ کلکتہ۔ واضح رہے کہ لفظ پریسیڈنسی جس کا ترجمہ احاطہ کیا جاتا ہے۔اصل میں اس سے یہ مراد تھی کہ وہاں کی کوٹھی کا مہتمم اس حصہ ملک کی سب ماتحت کوٹھیوں کا حاکم اعلیٰ ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ۱۷۶۲ء میں مرہٹوں نے بنگالے پر حملہ کر کے انگریزوں سے چوتھ مانگی۔ جب یہ جھگڑا رفع ہو گیا تو انگریزوں نے اس خیال سے کہ مبادا یہ وہاں پھر آئے۔ کلکتے کے گرد حفاظت کے لیے ایک خندق بنائ۔ جس کا نام اب تک مرہٹہ خندق ہے۔ ۱۰- ہند میں فرانسیسیوں کی ابتدائی بستیاں فرانسیسیوں نے اول ۱۶۰۴ء میں ہند کی طرف قصد کیا اور پھر ایک مدت بعد اُن کی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی۔ ہند میں فرانسیسی حکومت کا قائم کرنے والا درحقیقت اُن کا ایک گورنر مارٹن نام ہوا ہے۔ اس نے پانڈی چری کو جو جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ ۱۶۷۴ء میں راجہ بیجاپور سے خریدا۔ کچھ مدت بعد ولندیزوں نے ایک بار اورنگزیب کے سرداروں کو رشوت دے کر فرانسیسوں کواُس مقام سے نکال دیا۔ مگر وہ فرانسیسوں کے پھر ہاتھ آگیا اور اب مارٹن نے اُس کو خوب طرح مضبوط اور وسیع کر کے ایک بڑی تجارت گاہ بنا دیا۔ پھر فرانسیسوں نے ۱۶۸۸ء میں اورنگزیب سے مقام چندرنگر جو دریائے ہگلی پر کلکتے سے اوپر کی طرف واقع ہے۔ تجارتی کوٹھی کے واسطے لیا اور اُس کے بعد اور بھی کئی مقام اُن کے ہاتھ لگے۔ ہند کے فرانسیسی سرداروں میں ڈوپلے بڑا مدبر و منظم گزرا ہے۔ دس سال تو وہ چندر نگر کا گورنر رہا۔ پھر ۱۷۴۱ء میں پانڈی چری کا گورنر اور ہند کے کل فرانسیسی علاقے کا گورنر جنرل ہو گیا اور یہ عہدہ پاتے ہی ہند سے انگریزوں کو نکالنے اور فرانسیسی سلطنت قائم کرنے کی تدبیر کرنے لگا۔ پھر چند ہی روز میں ایک ایسا موقع اُس کے ہاتھ آیا کہ اُس نے اس منصوبے کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ وہ موقع یہ تھاکہ ۱۷۴۰ء میں یورپ کے اندر انگریزوں اور فرانسیسوں کے باہم لڑائی شروع ہوئی اور آٹھ برس تک رہی۔ ۱۱- دیگر ایسٹ انڈیا کمپنیاں پرتگیزوں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ ہندوستان میں تجارتی کمپنی بنائیں۔ مگر تجارت کو شاہی حق سمجھتے رہے۔ پہلی انگریزی کمپنی ۱۶۰۰ء میں قائم ہوئی۔ ۱۶۰۰ ء میں ولندیزوں نے کمپنی بنائی اور وہ بھی تجار ت کو اپنا قومی حق خیال کرتے رہے۔پھر فرانسیس آئے اور انہوں نے ۱۶۰۴ء میں پہلی کمپنی قائم کی۔ دوسری ۱۶۱۱ء میں۔ تیسری ۱۶۱۵ء میں۔ چوتھی ۱۶۴۲ء میں اور پانچویں ۱۶۴۴ء میں ۔ چھٹی فرانسیسی کمپنی مشرقی اور مغربی کمپنی کے مل کر ایک ہو جانے سے بنی۔ اس کمپنی کے کل حقوق شاہ فرانس کے حکم سے ۱۷۶۹ء میں بند کیے گئے اور کمپنی ۱۷۹۰ء میں ٹوٹ گئی۔ ڈنمارک والوں کی پہلی کمپنی ۱۶۱۲ء میں قائم ہوئی۔ دوسری ۱۶۷۰ء میں ۔ ڈنمارک والوں کے مقبوضات ترنکوبار اور سریرام پور تھے۔ جو اہل انگلستان نے ۱۸۴۵ء میں ان سے خریدے۔ ڈنمارک کے چند مقبوضات ساحل مالابار پر تھے۔ سکاٹ لینڈ والوں کی کمپنی ۱۶۹۵ء میں بنی ۔ مگر اُس نے کچھ تریق نہ کی۔ آسٹریا کی اوسٹنڈ کمپنی بھی قائم ہوئی۔ مگر اُس کا چند سال میں ہی دیوالہ نکل گیا۔ سویڈن اور پرشیا نے بھی ہندوستان میں تجارت شروع کی۔ اوسٹنڈ کمپنی کے دیوالہ نکلنے پر اُس کے ملازم بیکار ہو گئے ۔ مگر اُن کو سویڈن والوں نے نوکر رکھ لیا۔ لیکن یہ کمپنی کچھ بہت کامیاب نہ ہوئی۔ ہندوستان کی تجارت ایک ایسی نعمت تھی۔ جس کے لیے یورپ کی اقوام نے بے حد کوشش کی۔ بڑے بڑے زبردست بادشاہ ہند کی سلطنت کے خواب دیکھا کرتے تھے اور روپیہ اکٹھا کرنے کی حرص میں مبتلا تھے ۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے تمام دشمنوں کو شکست دی۔ پرتگال اور سپین کے باشندوں کو ہندوستان دوسرا پیرو معلوم ہوتا تھا۔ جہاں کے شہزادوں سے بے انتہا دولت مل سکتی تھی۔ اور وہ اس کو ایک ایسی دنیا سمجھتے تھے۔ جسے وہ لُوٹ سکتے ہیں۔ اور باشندوں کو عیسائی بنا سکتے ہیں ۔ ولندیزوں کے لیے ہندوستان بڑی تجارت گاہ تھا۔ جہاں مل کر ہی تجارت ہو سکتی تھی۔ کیونکہ ہندوستان کی تجارت کا نفع معقول نہ خیال کیا جاتا تھا۔ فرانسیسوں کے لیے بھی ہندوستان بڑی نفع اٹھانے کی جگہ تھی۔ جہاں بہت سی شہرت حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ شہرت اُن کے اور دیگراقوام کے حق میں مضر ثابت ہوئی۔ انگریزوں نے آہستہ آہستہ قدم بڑھائے ۔ اُن کو اس ملک کا حال اچھی طرح معلوم تھا۔ جب اُن کو سلطنت مغلیہ کے اُکھاڑنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا موقع ملا تو وہ اُس سے نہ چوکے اور کسی تکلیف یا مصیبت نے اُن کے ارادے کو نہ بدلا۔ چھٹا باب انگریزوں کی ابتدائی حکومت پہلی فصل ۔ انگریزوں اور فرانسیسوں کی ملک کرناٹک میں لڑائی ۱- آغاز جنگ انگریزوں اور فرانسیسوں میں جو لڑائی ۱۷۴۶ء میں شروع ہوئی۔ وہ اکثر ملک کرناٹک ہی میں ہوتی رہی اور جب تک انگریزوں نے ۱۷۶۱ء میں پانڈی چری کو خاطر خواہ فتح نہ کر لیا۔ رفع نہ ہوئی۔ اول اول فرانسیسوں کا پاسا خوب زبر رہا۔ کیونکہ اُن کے نامی جرنیل لا بورڈونے اور مشہور سردار ڈوپلے نے مل کر ۱۷۴۶ء میں مدراس کو جو اس علاقے میں انگریزوں کا صدر مقام تھا۔ فتح کر لیا۔ نظام الملک جس کا اوپر کئی بار ذکر آچکا ہے۔ نام کو تو دکن میں سلطنت مغلیہ کی طرف سے صرف صوبہ دار تھا۔ مگر حقیقت میں وہ مُدت سے حیدر آباد کا رئیس خود مختار ہو گیا تھا۔ اسی طرح کرناٹک کا نواب بھی خود مختار بن گیا تھا۔ مگر دوست علی کو جو کرناٹک کا پہلا خود مختار نواب تھا۔ مرہٹوں نے شکست دے کر قتل کر ڈالا اور اُس کے داماد چندا صاحب کو قید کر لیا۔ اس کے بعد ۱۷۴۳ء میں نظام حیدرآباد کا ایک سردار جس کا نام انورالدین تھا۔ نواب کرناٹک مقرر ہوا۔ جب مدراس کو فرانسیس فتح کر چکے تو تھوڑے عرصے بعد انور الدین نے اُن سے کہا کہ یہ شہر مجھ کو دے دو۔ ڈوپلے نے اُس سے انکار کیا۔ اس پر نواب نے اپنے بیٹے کو دس ہزار فوج کے ساتھ مدراس کو روانہ کیا۔ کہ فرانسیسوں سے زبردستی مدراس چھین لے۔ ڈوپلے نے پاراڈیس کو جو ایک بڑا لئیق افسر اور بہادر و کار دان سپہ سالار تھا۔ نواب کرناٹک کے مقابلے پر بھیجا۔ فرانسیسوں کی اس لڑائی میں پورے ایک ہزار جوان بھی نہ تھے۔ تو بھی انہوں نے نواب کے لشکر عظیم کے دھوئیں بکھیر دیے۔ اس لڑائی سے ضمناً بڑے بڑے نتیجے پیدا ہوئے کیونکہ اس سے اہل فرنگ اور سرداران ہند دونوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی۔ کہ رئوسائے ہندکی سپاہ ہندوستانی کتنی ہی کیوں نہ ہو ۔ فرنگیوں کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ اس لڑائی کے بعد پاراڈیس مدراس کا گورنر مقرر ہوا۔ مگر چند ہی روز میں انگریزوں کی کمک کو ایک زبردست بیڑا آپہنچا۔ جس کی مدد سے انہوں نے فرانسیسوں کو مدراس سے نکال دیا۔ بلکہ اُن کے صدر مقام پانڈی چری کا محاصرہ کر لیا۔ اس کے بعد تھوڑی مدت تک انگریزوں اور فرانسیسوں میں صلح رہی اور دونوں نے جو جو مقام ایک دوسرے سے فتح کیے تھے واپس کر دیے تاکہ جو صورت لڑائی سے پہلے تھی پھر وہی قائم ہو جائے۔ ۲- ڈوپلے کی فتح یابی ۱۷۲۸ء میں نظام الملک نے ایک سو چار برس کی عمر میں وفات پائی اور اب اُس کے بیٹوں میں ریاست حیدر آباد کی نسبت تنازع ہوا ۔ چھوٹے بیٹے ناصر جنگ نے اپنے بڑے بھائی مظفر جنگ کو ریاست سے نکال دیا اور وہ مرہٹوں سے مدد مانگنے ستارے آیا اور یہاں چندا صاحب سے اُس کی کمال دوستی ہو گئی۔ چندا صاحب اگرچہ ستارے میں مرہٹوںکا قیدی تھا۔ مگر اس استحقاق سے کہ دوست علی کا داماد تھا۔ کرناٹک کی نوابی کے دعوے پر بدستور اڑا ہوا تھا۔ فرانسیس مظفر جنگ اور چندا صاحب دونوں کے حامی و مدد گار ہو گئے۔ چنانچہ ڈوپلے نے مرہٹوں کو روپیہ دے کر چندا صاحب کو اُن کی قید سے چھرالیا اور اپنی فرانسیسی سپاہ مظفر جنگ اور چندا صاحب کی فوجوں کے ساتھ شامل کر کے لڑائی پر چڑھا۔ انورالدین کو مقام امبور پر شکست ہوئی اور وہ اور اُس کا بیٹا لڑائی میں کام آئے۔ اس مشہور معرکے میں فرانسیسی فوج کا جرنیل بوسے تھا جو ایک بڑا مشہور افسر گزرا ہے۔ اب کچھ عرصے تک مظفر جنگ صوبہ دار دکن اور چندا صاحب کرناٹک رہا۔ مگر اُن کا عروج کچھ بہت عرصے تک نہیں رہا۔ تھوڑے ہی دن بعد انورالدین کے چھوٹے بیٹے محمد علی نے تباہ و خستہ ہو کر نوابئے کرناٹک کے لیے انگریزوں سے اعانت چاہی اور ناصر جنگ صوبہ دار ئے دکن کا دعویدار ہوا۔ پس اب ایک طرف تو محمد علی اور ناصر جنگ تھے۔ جن کے حامی انگریز بنے اور دوسری طرف چندا صاحب اور مظفر جنگ تھے۔ جن کے مددگار فرانسیس ہوئے اور ان دونوں میں لڑائی چمکی۔ اس لڑائی میں کبھی ایک ور ہو جاتا اور کبھی دوسرا زبر۔ خلاصہ یہ کہ ناصر جنگ صوبہ دار دکن تو ہوا۔ مگر دوسری لڑائی میں ماراگیا اور پھر مظفر جنگ اس منصب پر بحال ہو گیا۔ لیکن آخر وہ بھی مقتول ہوا۔ اور انجام کار فرانسیسوں نے نظام الملک کے ایک اور چھوٹے بیٹے صلابت جنگ کو مسند پر بٹھایا اور بوسے کی مدد سے صلابت جنگ اورنگ آباد میں صوبہ دارئے دکن پر قائم رہا اور اس نے چندا صاحب کو نواب کرناٹک مقرر کر دیا۔ اس جنگ میں فرانسیسی فوج نے بوسے کے ماتحت بڑے بڑے نمایاں کام کیے اور بوسے نے قلعہ جنجی کو جو کرناٹک میں سب سے زیادہ مضبوط ہے ۱۷۵۰ء میں ۲۴ گھنٹے کے اندر فتح کر لیا۔ اب فرانسیسیوں کا گورنر جنرل ڈوپلے اور اس کا بہادر سپہ سالار بوسے بڑے ظفر مند و خُورسند تھے۔ چنانچہ جس مقام پر ڈوپلے نے ناصر جنگ کی فوج کو شکست دی تھی۔ وہاں اس نے فتح کی یادگار میں ایک مینار تعمیر کرایا اور ایک شہر آباد کرنے کا بھی حکم دیا۔ جس کا نام ڈوپلے فتح آباد رکھا۔ اُس وقت انگریزوں کا حال بالکل خستہ و خراب تھا۔ ۳- کرنیل رابرٹ کلائیو جب انگریز کا حال ایسا تباہ ہو رہا تھا ۔ خدا کی قدرت سے اُن میں ایک ایسا جواں مرد اور کارداں نوجوان نمودار ہوا۔ جس کی حسن لیاقت سے لڑائی کا رنگ بالکل پلٹ گیا۔ اس نامور شخص کا نام رابرٹ کلائیو تھا۔ یہ ۱۷۲۵ء میں انگلستان کے ایک کم بضاعت شریف شخص کے ہاں پیدا ہوا اور اٹھارہ برس کی عمر میں ملکی خدمت کے لیے بھرتی ہوکر ہند میں آیا۔ اس وقت تک یہاں ملکی عہدہ داروں کو صرف معاملات تجارت ہی سے تعلق تھا۔ مگر کلائیو کی طبیعت میں چالاکی اور تندی بہت تھی۔ اس لیے جب فرانسیسوں سے انگریزوں کی لڑائی چھڑی تو کلائیو ملکی کام چھوڑ کر صیغہ جنگ میں بھرتی ہو گیا اور پانڈی چری کے اول محاصرے اور دیوی کوٹا کی فتح میں اُس نے بڑے جوہر دکھائے۔ اُس وقت لڑائی کی جو کیفیت تھی۔ اُس سے تو انگریزوں کی تباہی میں کچھ شک و شبہ نہ رہا تھا۔ مگر خدا کی کار سازی سے کلائیو کی دلیری اور عقلمندی نے انگریزوں کی نائو کو ڈوبتے ڈوبتے بچا لیا۔ اس وقت فرانسیسوں اور چندا صاحب دونوں کی مشترک فوج نے ترچناپلی میں انگریزوں کا سخت محاصرہ کر رکھا تھا اور اُن سے بچنے کی کوئی صورت نہ دکھائی دیتی تھی کلائیو نے جھٹ مدراس کے گورنر کے پاس جا اُس کی منت سماجت کی کہ آپ مہربانی کر کے مجھے ترچناپلی کو دشمنوں کے ہاتھ سے بچانے کے لیے مخالفوں کے ملک پر حملہ کرنے کی اجازت دیجیے۔ گورنر نے اس بات کو منظور کیا ۔ ۴- معرکہ ارکاٹ کلائیو چندا صاحب کے دارالریاست ارکاٹ کو فتح کرنے کے لیے مستعد ہو گیا۔ اس وقت اگر چہ اس کے پاس ہندوستانی اور انگریزی سپاہی سب ملا کر صرف پانچ سو جوان اور چند ہلکی توپیں تھیں۔ تو بھی وہ بڑی جوانمردی سے بجلی اور گرج کے ایک سخت طوفان میں بیدھڑک ارکاٹ پر چڑھ گیا۔ اس کی دلیری دیکھ کر مخالف دنگ رہ گئے اور کہنے لگے کہ یہ لوگ کس بلا کے بنے ہوئے ہیں کہ آتش آسمانی بھی اُن پر کچھ اثر نہیں کرتی۔ غرض آخر اُن کے پیر اُکھڑ گئے۔ اور کلائیو نے ارکاٹ کو فتح کر لیا۔ پھر جب چندا صاحب نے اپنے بڑے لشکر میں سے جو ترچناپلی کا محاصرہ کر رہا تھا۔ دس ہزار سپاہ اپنے بیٹے راجہ صاحب کے ساتھ ارکاٹ کو کلائیو سے چھین لینے کے لیے روانہ کی تو کلائیو اپنی بہت چھوتی سی جمیعت کے ساتھ جس میں اب گھٹتے گھٹتے کل ۳۲۰ جوان اور ۴ افسر رہ گئے تھے۔ اپنے مخالفوں کے انبوہ کثیر سے شہر کو بچانے پر مستعد ہو گیا اور سات ہفتے تک برابر ڈٹا رہا۔ اس اثنا میں راجہ صاحب نے اس کو روپے کا لالچ بھی دیا اور دھمکی بھی دی کہ وہ کسی طرح شہر اُس کے حوالے کر دے مگر کلائیو نے ذرا بھی پروا نہ کی۔ اس محاصرے میں جب ایک بار محاصرین کے پاس سامان رسد تھُڑ گیا تو ہندوستانی سپاہیوں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ ہم چاوہ پکا کر اُس کی پیچ پر تو خود گزارہ کر لینگے اور خشکہ سب گوروں کو دیدیا کرینگے کیونکہ اُن کو ہم سے زیادہ مقوی غذا درکار ہے۔ اس سے یہ بات بخوبی ثابت ہوئی کہ کلائیو ایک ایسا نمونہ تھا جس کو دیکھ کر اُس کے سپاہیوں میں کمال جفا کشی اور شجاعت پیدا ہوگئی تھی۔ مراردی رائو مرہٹہ سردار گُٹی جو چھ ہزار سپاہ لیے مقام امبور پر کھڑا انتظار کر رہا تھا کہ دیکھیے اورنٹ کس کروٹ بیٹھتا اور نصیب کس کی یاوری کرتا ہے۔ کلائیو کی بہادری دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ جس صورت میں انگریز اپنے کام میں ایسے مستعد ہیں تو مناسب ہے کہ ہم بھی اُن کی مدد کریں۔ یہ سوچ بچار کر جھٹ کلائیو سے آملا اور ادھر مدراس کے گورنر سانڈرس نے بھی ارکاٹ کی بہادر فوج کو کمک بھیجنے میں بڑی کوشش کی۔ غرض راجہ صاحب نے ارکاٹ پر دانت پیس پیس کر بہتیرا حملہ کیا۔مگر ایک پیش نہ گئی اور چار سو آدمی کام آئے۔ آخر ناچار اُس نے محاصرے سے ہاتھ اُٹھایا اور اپنا سا مُنہ لے کر اُلٹا پھر گیا۔ کلائیو کے اس بڑے مشہور و معروف معرکے سے لوگوں کے دلوں پر انگریزوں کی بہادری کا خوب سکہ بیٹھ گیا۔ اب کلائیو لڑائی پر لڑائی مارنے مارنے لگا۔ اور ڈوپلے نے جو مینار اور شہر اپنی فتح کی یاد میں بنایا تھا۔ اُس کو بھی کلائیو نے مارچ ۱۷۵۲ء میں مسمار کرا دیااور یہ اس بات کی علامت تھی کہ گویا اُس نے ہند کی فرانسیسی حکومت خاک میں ملا دی۔ کئی معرکوں کے بعد چندا صاحب مارا گیا اورفرانسیسی فوج نے ۱۷۵۶ء میں سریرنگم پر ترچناپلی کے قریب انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اکتالیس توپیں بھی نذر کیں۔ اس کے بعد فرانس کے ناقدر شناس حکام نے ڈوپلے جیسے بہادر سردار کو وقت کے ساتھ معزول کر کے واپس بلا لیا اور وہ دس برس تباہ وخستہ حال رہ کر آخر فرانس کے دارالحکومت پیرس کے اندر فوت ہو گیا۔ ۵- وندواش کا معرکہ اور فرانسیسیوں کی حکومت کا بالکل تباہ ہونا۔ اگرچہ اب تک فرانسیسی سپہ سالار بوسے اورنگ آباد میں صلابت جنگ صوبہ دار دکن کے ہاں رکن اعظم تھا۔ مگر پھر بھی فرانسیسوں کے نئے گورنر نے انگریزوں سے دب کر صلح کر لی اور محمد علی کو جس کے حامی انگریز تھے۔ نواب کرناٹک تسلیم کر لیا۔ مگر یہ صلح چند ہی روز رہی۔ چنانچہ ۱۷۵۷ء میں انگریزوں اور فرانسیسوں میں پھر لڑائی شروع ہو گئی اور یہ اخیر لڑائی تھی۔ کلائیو اس اثنا میںمدراس کا گورنر مقرر ہو گیا تھا۔ لیکن اس عہدے پر مامور ہوتے ہی اس کو بنگالے کی طرف جانا پڑا تاکہ سراج الدولہ نے کلکتے میں بلیک ہول یعنی کائبہ تنگ و تاریک کے اندر انگریزوں کو بند کر کے اُن پر جو بے رحمیاں کی تھیں۔ اُن کی اُس کو قرار واقعی سزا دے۔ اُس وقت گورنمنٹ فرانس نے ایک نئے سردار کو جس کا نام کونٹ لالی تھا۔ اس لیے ہند میں بھیجا کہ وہ کرناٹک سے انگریزوں کو نکا ل دے۔ اس نئے حاکم کی سعی سے صرف اتنا ہوا کہ فرانسیسوں نے مدراس کامحاصرہ کر لیا اس سے زیادہ کچھ نہ ہو سکا اور انجام کار ۱۷۵۸ء میں ناچار اُسے پانڈی چری کی طرف ہٹ جانا پڑا۔ ۶- وندواش کی لڑائی چند روز بعد ۱۷۵۹ء میں انگریزوں کی کمک آ پہنچی۔ اُس کا سپہ سالار کرنیل آئر کوٹ تھا۔ جس نے اس جنگ میں بڑے بڑے معرکے کیے اور خوب حق شجاعت ادا کیا۔ لالی اور بوسے فرانسیسی فوج لے کر وندواش پر چڑھ آئے تھے۔ یہ سن کر کوٹ فوراً اُدھر روانہ ہوا اور فرانسیسوں کو شکست فاش دی۔ اس معرکے میں بوسے قید ہو گیا۔ اور اب ہند میں فرانسیسی سلطنت قائم ہونے کی امید بالکل منقطع ہو ئی۔ تھوڑے عرصے میں کوٹ نے سب شہروں کو جو فرانسیسوں کے قبضے میں تھے۔ یا جن میں اُن کا بڑا دخل تھا۔ ایک ایک کر کے فتح کر لی اور پھر پانڈی چری بھی انگریزوں کے ہاتھ آگئی۔ لالی قید ہو کر مدراس بھیجا گیا اور انجام کار شہر پیرس میں اُس کا سر قلم کیا گیا اور آخر ۱۷۶۹ء میں فرانسیسوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی ٹوٹ گئی۔ دوسری فصل ۔ کلائیو کا پلاسی کی لڑائی فتح کرنا ۱- بنگالے کے خود مختار نواب جس زمانے میں یورپ کی دو نہایت زبردست قومیں یعنی انگریز اور فرانسیس دکن کی حکومت کے لیے کرناٹک میں باہم جنگ کر رہی تھیں۔ کلائیو کی کاردانی اور بہادری سے بنگالے میں انگریزوں کا عمل دخل ہو گیا اور پھر اسی سبب سے تھوڑے عرصے بعد انگریز ہندوستان کے شاہنشاہ بن گئے۔ مگر انگریزوں کا کبھی یہ ارادہ نہیں ہوا تھاکہ ہم بنگالے کو فتح کریں۔ لیکن جب وہاں کے ایک بے رحم نواب نے اُن پر ایک سخت ظلم کیا۔ تو اُس کی بیرحمی کی خاطر خواہ سزا دینے کے لیے اُس کو ریاست سے معزول کرنا ضرور ہوا۔ تیسرے باب کی پانچویں فصل میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ محمد شاہ دہلی کے عہد سلطنت میں ایک زبردست امیر نواب علی وردی خاں بنگالہ ، بہار اور اُڑیسے کے وسیع صوبوں میں خود مختار ہو گیا تھا۔ اس نواب کا وقت اکثر مرہٹوں سے لڑنے بھڑنے میں صرف ہوا۔ کیو نکہ وہ اس کی عملداری پر بار بار چڑھ آتے اور ملک کو تباہ کرتے تھے۔ آخر جب علی وردی خاں نے تنگ آکر ملک اُڑیسہ مرہٹوں کے راجہ برار کی نذر کیا۔ اُس وقت بنگالے میں امن ہوا۔ ۲- علی وردی خاں علی وردی خان کو مؤرخوں نے غاصب لکھا ہے۔ مگر اُس نے فے الجملہ بڑی دانائی اور خوبی کے ساتھ حکومت کی۔ جس سے اُس کی ہندو اور مسلمان رعایا بڑی دولتمند اور خوشحال ہو گئی۔ کلکتے میں جو تاجران انگلستان علی وردی خان کی عملداری میں رہتے تھے۔ ان سے وہ بہت سا محصول لیا کرتا تھا اور یہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ اُن کو ملک میں کچھ بھی اختیار حاصل ہو۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہ اُن کی حفاظت کرنے اور اپن کی تجارت کو ترقی دینے میں بھی حتے الوسع کوشش کرتا تھا۔ اس وجہ سے انگریز بھی وہ جو کچھ مانگتا تھا ۔ اُس کو دینے میں کچھ عذر نہ کرتے تھے۔ ۳- سراج الدولہ جب ۱۷۵۶ء میں علی وردی خاں کا انتقال ہو گیا تو اس کا پوتا سراج الدولہ جو بڑا ظالم اور عیاش تھا۔ نواب بنگالہ ہوا۔ اُس نے اپنی ہندو رعایا پر نہایت سخت ظلم کیے۔ مثلاً بڑے بڑے شریف خاندانوں کو اپنی اوباشی کے سبب بے حرمت کیا۔ دولتمندوں کو لوٹ لوٹ کر مفلس بنا دیا اور بے رحمیاں کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا۔ ۴- حادثہ بلیک ہول (کلبۂ تنگ و تار) سراج الدولہ نے جو ظلم اور ستم کیے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اُس نے ڈھاکے کے بڑرے متموّل حاکم راج بلب کی دولت پر دندان طمع تیز کیے اور جب اُس کا بیٹا کشن داس اپنے باپ کی کچھ دولت لے کر کلکتے بھاگ آیا تو نواب نے انگریزوں کے نام حکم بھیجا کہ اُس کو میرے حوالے کر دو۔ کلکتے میں جو انگریز حاکم تھا اُس نے لکھا کہ ہم بے گناہ شخص کو جس نے ہمارے ہاں آکر پناہ لی ہے حوالے نہ کرینگے۔ نواب نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ انگریز کلکتے کے قلعے اور فصیل کو ڈھا دیں اور اس کی تعمیل سے بھی حاکم کلکتہ نے انکار کیا تھا۔ پس ا ب سراج الدولہ نے کمپنی کی کوٹھی جو اُس کے دارالریاست مرشد آباد کے قریب قاسم بازار میں تھی۔ اُس پر فوراً قبضہ کر کے لوٹ لیا اور جس قدر انگریزی افسر وہاں اُس کے ہاتھ آئے ۔ اُن سب کو قید کر لیا۔ پھر یہاں سے فارغ ہو کر کلکتے پر چڑھ گیا۔ وہاں انگریز اُس کے مقابلے کے لیے مطلق تیار نہ تھے۔ اس لیے انہوں نے اُس سے آشتی رکھنی چاہی۔ مگر بھلا وہ کب سنتا تھا۔ آخر انگریزوں نے مرہٹہ خندق کے پاس اُس کا کچھ یونہی سا مقابلہ کیا۔ لیکن اُن کو نواب کی فوج سے کیا نسبت تھی۔ نواب کے توپ خانے نے انگریزوں کے بودے مورچوں پر جو گولہ برسانا شروع کیا تو انگریز قلعے میں چلے آئے اور اضطراب و پریشانی میں کچھ باہم صلاح و مشورہ کر کے عورتوں اور بچوں کو دو بڑے افسروں کے ساتھ کشتیوں پر چڑھا کر روانہ کر دیا۔ جب رات ہوئی تو گورنر کلکتہ کی بھی ہمت ٹوٹ گئی۔ اُس وقت صرف ایک کشتی باقی تھی۔ اُس پر وہ بھی سوار جو جہازوں کی طرف چلا گیا اور جہازوں نے لنگر اٹھا سمندر کا رُخ کیا۔ اب قلعہ میں جو بیچارے سپاہی اورافسر تھے وہ رہے اور ان کا نصیب۔ انہوں نے ایک انگریز کو جس کا نام ہانول تھا اپنا افسر مقرر کیا اور اُس شخص نے دوسرے روز بجز اس کے کچھ چارہ نہ دیکھا کہ نواب سے صلح کر لے۔ سہ پہر کو نواب کی فوج قلعے کے اندر داخل ہوئی اور نوا ب نے ہانول کو طلب کر کے یہ کہا ۔ تم نے مجھ سے سرکشی کی اور انگریزی کوٹھی کا روپیہ چھپا دیا۔ لیکن خبر میں تم لوگوں کو کچھ ضرر نہ پہنچائوں گا۔ اس وعدے کے باوجوداُس نے قلعے کے سارے انگریزوں کو جو ۱۴۶ شخص تھے۔ ایک تنگ و تار کوٹھڑی میں بند کردیا۔ یہ مکان صرف ۱۸ فٹ مربع تھا اور روشنی اور ہوا کے لیے اس میں صرف ایک جانب دو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں۔ یا تو اُس میں صرف ایک قیدی بند ہوا کرتا تھا۔یا اب اتنے آدمی بھرے گئے۔ اور موسم بھی وہ کہ خوب شد ت کی گرمی پڑرہی تھی۔ غرض ان بدبخت قیدیوں نے رات بھر ایسی تکلیف سہی کہ بیان سے باہر ہے۔ اُن مصیبت کے ماروں نے دربانوں کو دھمکایا بھی اور لالچ بھی دیا کہ یا تو ہم کو مار ہی ڈالو کہ اس عذاب سے چھوٹیں ۔ نہیں تو نواب سے کہہ سن کے کوئی اچھی جگہ بدلوا دو۔ مگر بے رحمت نواب اپنی خواب گاہ میں پڑا سوتا تھا۔ سپاہی یا تو اُس کو جگاتے ہوئے ڈرے یا بہانہ ہی کر کے ٹال گئے۔ غرض وہ نامراد اسی قفس میں پڑے بلکا کیے۔ جب تک اُن کے بدن میں کچھ طاقت رہی۔ ہوا کے لیے کھڑکیوں کے پاس آئے اور پانی کی جو دو چار مشکیں اندر پہنچ گئی تھیں۔ اُن میں سے چھین جھپٹ کر پانی لینے کے لیے انہوں نے دیوانہ وار جدو جہد کی۔ مگر جوں جوں اُن کی طاقت سلب ہوتی گئی۔ اُن کی جدوجہد بھی کم ہوتی گئی اور آخر ضعف و ناتوانی کے عالم میں ہائے ہائے کرنے لگے۔ انجام کار صبح کو ۱۴۶ آدمیوں میں سے صرف ۲۳ سسکتے ہوئی نکلے اور باقی ۱۲۳ کی لاشوں کا ڈھیر لگا ہوا تھاجن کے سڑ جانے سے وبا اور بدبو پھیل رہی تھی۔ یہ تو تحقیق نہیں کہ نواب نے دیدہ و دانستہ اتنے بے گناہوں کا خون کیا۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اُس کو یہ گمان ہوا کہ انگریزوں نے روپیہ چھپا دیا ہے اور اس کی تلاش میں وہ ایسا محو ہوا کہ اُس نے کوئی ایسی تدبیر نہ کی جس سے اُن بیچاروں کا خون ناحق نہ ہوتا اور یہ بظاہر اُس کو اس حادثے سے کچھ افسوس و ندامت بھی نہیں ہوئی۔ اگرچہ اُس نے نہ کسی کو اپنے ہاتھ سے مارا اور نہ زبان سے مارنے کا حکم دیا۔ مگر پھر بھی یہ جو کچھ ہوا۔ اُسی کی شرارت سے ہوا۔ پس جو مکافات اُس کو ملی وہ اُس کا سزاوار تھا۔ ۵- کلائیو کا بنگالے کو فتح کرنا بنگالے میں جب یہ حادثہ ہوا تو اس کی خبر فوراً مدراس میں پہنچی اور وہاں سب لوگ گھبرا اُٹھے۔اتفاق سے کرنیل کلائیو اور امیر البحر واٹسن جو نہایت جری افسر تھے۔ اُس وقت مدراس میں موجود تھے۔ دونوں یہ خبر سنتے ہی انتقام لینے پر آمادہ ہو گئے اور نو سو گورے اور پندرہ سو تلنگے جو اس واقعہ سے جوش میں بھر آئے تھے اور اپنے سرداروں کے ساتھ لڑنے مرنے کو مستعد تھے۔ اُن کو اپنے ساتھ لے بنگالے کی طرف چلے۔ مگر کئی وجوہات سے راستے میں دیر لگ گئی اور آخر جس وقت دسمبر ۱۷۵۶ء کو ہگلی پر آکر اُترے۔ اُسی وقت انتقام لینے پر کمر باندھ لی۔ پہلے تو چھوٹتے ہی بج بج فتح کیا۔ پھر کلکتہ لیا۔ اس کے بعد ہلا کر کے شہر ہگلی پر قبضہ کر لیا۔ نواب ستمگار کرناٹک کے معرکوں کی کیفیت سُن چکا تھا اور میدان ارکاٹ کے شیر کرنیل کلائیو کا خوف اُس کے دل پر چھا رہا تھا۔ اس لیے جب کلائیو کلکتہ فتح کر چکا تو نواب نے اُس سے صلح کا پیغام ڈالا اور کہا کہ انگریزوں کا جو کچھ منصب و مرتبہ پہلے تھا وہی اب بھی رہے گا۔ واٹسن نے جو ایک کھرا آدمی اور پرانا تجربہ کار افسر تھا۔ بلیک ہول جیسے حادثہ عظیم کے برپا کرنے والے سے صلح کر نی منظور نہ کی اور یہ کہا کہ ایسے موذی کو خوب طرح سزا دیے بغیر نہ چھوڑنا چاہیے۔ مگر کلائیو نے مصلحت ملکی کے خیال سے صلح کر لینی مناسب سمجھی اور اب بنگالے سے فرانسیسی حکومت کو اُکھیڑ پھینکنے کا موقع کلائیو کے ہاتھ لگا۔ چنانچہ وہ اس سے نہ چُوکا۔ لیکن نواب کو یہ منظور نہ تھا۔ اس لیے وہ مزاحم ہوا اور نیز فرانسیسوں کو روپے اور سپاہ دونوں سے مدد دیتا رہا۔ مگر کلائیو چندر نگر پر جا ہی چڑھا اور امیر البحر واٹسن کے بیڑے کی کمک سے مئی ۱۷۵۷ء میں اُس کو فتح کر لیا۔ ۶- سراج الدولہ کے برخلاف سازش سراج الدولہ کے مجنونانہ ظلم و تعدی سے اُس کی ہندو رعایا بہت ہی تنگ آگئی تھی۔ آخر یہاں تک نوبت پہنچی کہ انہوں نے نواب کے غارت کرنے کے لیے ایک بڑی زبردست سازش کی ۔ جس کے سرغنہ راجہ رائے دُرلب نواب کا خزانچی اور جگت سیٹھ ہند کا نہایت بڑا ساہو کار تھے۔ نواب کا سپہ سالار میر جعفر اور اور بہت سے مسلمان جو نواب کی حرکتوں سے بہت ناراض تھے وہ بھی اس سازش میں شامل ہوئے اور انگریز بھی بخوشی شریک ہو کر اُن کے معاون بنے۔ اس معاملہ میں واٹسن رزیڈنٹ مرشد آباد انگریزوں کا گویا وکیل تھا۔ اصل یہ ہے کہ کرنیل کلائیو کیا بلکہ کلکتے کی کونس کے سارے ممبروں کا اس بات میں اتفاق تھا کہ جب تک سراج الدولہ کا دم میں دم باقی ہے۔ انگریز بنگالے میں امن و امان سے نہیں رہ سکتے۔ غرض سراج الدولہ کے برخلاف یہ بھاری سازش قائم ہوئی اور یہ قرار پایا کہ میر جعفر نواب بنگالہ مقرر کیا جائے اور وہ انگریزوں کو شکریے میں اُن کے سارے نقصانوں کا کافی عوض اور اُن کی اعانت کا عمدہ صلہ نذر کرے۔ ۷- اوما چند اوما چند بنگالی جو ایک بڑا فطری شخص تھا اور نواب اور انگریزوں کے باہم معاملات بھگتایا کرتا تھا وہ بھی اس سازش میں بڑی سرگرمی کے ساتھ مصروف تھا۔ مگر جب سب کچھ پخت و پز ہو چکی تو عین تنت کے وقت اوما چند یہ رنگ لایا کہ یا تو کام بنے پر مجھ کو تیس لاکھ روپیہ دو اور اس کا اطمینان اب کر دو ورنہ میںجا کر نواب کے سامنے بھانڈا پھوڑ دیتا ہوں۔ یہ سن کر کلائیو اور سارے سازش کرنے والوںکی امید ٹوٹ گئی اور آخر وہ اس پر اُتر آئے کہ اوما چند سے فرریب کیجیے اور کسی طرح اس مشکل کو ٹالیے اس لیے انگریزوں کا میر جعفر سے جو عہد وپیمان ہوا۔ وہ دو کاغذوں پر لکھا گیا۔ ایک تو سفید کاغذ پر جو اصلی اور صحیح تھا اوراُس میں اوما چند کا کچھ ذکر نہ تھا۔ دوسرا سرخ کاغذ پر جو جھوٹا اور نادرست تھا اور اُس میں اوما چند کو روپیہ دینے کا اقرار درج ہوا۔ یہی کاغذ اُس بد عہد کو دکھایا گیا۔ غرض اس دغا سے کام تو نکل گیا۔ مگر کلائیو کے نام پر ہمیشہ کے لیے ایک بڑا دھبا رہا۔ واٹسن جس نے پہلے سراج الدولہ کے ساتھ زمانہ سازی کر کے دکھاوے کی صلح کرنے سے انکار کیا تھا اور اس طرح اپنا کھرا پن سب پر ظاہر کر دیاتھا ،اب بھی اُس نے جعلی کاغذ پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔ اس لیے اُس کے دستخط اوروں نے بنا دیے۔ اب کلائیو نے نواب کو صاف لکھ بھیجا کہ ہم کو جس قدر تکلیفیں ہیں۔ اُن کو رفع کر دو اور میں بھی فوج لیے آتا ہوں تاکہ اگر یوں بندوبست نہ ہو تو تلوار کے زور سے ہو جائے اور یہ لکھتے ہی کچھ فوج لے چندر نگر سے چل کھڑا ہوا۔ اس کے پاس پورے تین ہزار جوان بھی نہ ھتے اور نواب کے پاس ساٹھ ستر ہزار پیادہ و سوار اور بہت سا توپ خانہ تھا۔ اب جوں جوں کلائیو نواب کے لشکر کی طرف بڑھتا آتا تھا۔ میر جعفر کا دل کچا ہوتا جاتا تھا۔ چنانچہ اُدھر تو اس نے انگریزوں سے خط وکتابت موقوف کر دی اور اُدھر نواب کے سامنے حلف اُٹھا لیا کہ میں آپ سے دغانہ کروں گا۔ جب کلائیو نے یہ رنگ دیکھا تو اپنے افسروں کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ دشمن کی جمیعت اور قوت ہم سے جس قدر زیادہ ہے ۔ اُس کا حال تم جانتے ہو۔ اب یہ کہو کہ اس وقت لڑنا مصلحت ہے یا کسی عمدہ موقع کا انتظار کرنا چاہیے۔ تیرہ افسروں کی رائے تو یہ ہوئی کہ یہ موقع اچھا نہیں ہے اور جب تک اچھا موقع ہاتھ نہ لگے اور باقی سات افسروں کا اس پر اتفاق تھا کہ بے تامل ابھی لڑنا چاہیے۔ اس فریق کا سردار آئر کوٹ تھا۔ ۸- پلاسی کی لڑائی کلائیو نے کونسل کو تو برخاست کیا اور آپ ایک باغ میں جو قریب تھا ۔ اکیلا ٹہلنے لگااور گھنٹہ بھر خوب طرح سوچ بچار کرنے کے بعد اُس کی رائے بھی اسی طرف ڈھلی کہ کوٹ کی تجویز بہت ٹھیک ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ جو کچھ ہو سوہو۔ غنیم پر ابھی دھاوا کرو۔ چنانچہ صبح گجروم اپنے جوانوںکو ساتھ لے دریا پار ہوا اور دن نکلتے مقام پلاسی کے میدانوں اور باغوں پر جہاں نواب کا لشکر پڑا ہوا تھا۔ آپہنچا۔ اول اول انگریزی فون نے خود حملہ نہیں کیا۔ صرف نواب کی فوج کے وار خالی دیتی رہی۔یعنی اُس طرف سے جو سوار اُس پر حملہ کرتے تھے اُن کو پیچھے ہٹاتی اور کبھی کبھی گولے مارتی رہی۔ میر جعفر ہنوز حالت تذبذب میں تھا۔ مگر جب نواب کے چند بڑے بڑے افسر میدان میں کام آچکے۔ اُس وقت میر جعفر کی فوج نواب کی فوج سے کچھ کترا کر الگ ہوتی ہوئی دکھائی دی۔ یہ دیکھتے ہی کلائیو نے ترت اپنی ساری فوج کا ہلا بول دیااور ایسا دبایا کہ دشمن کے پائوں اُکھڑ گئے۔ سراج الدولہ ایک تیز رفتار اونٹ پر سوار ہو کر دو ہزار سوار ساتھ لے مرشد آباد بھاگ گیا اورمیدان انگریزوں کے ہاتھ رہا۔ پلاسی کی اس بڑی لڑائی سے جو ۲۳ جون ۱۷۵۷ء کو وقوع میں آئی۔ انگریز اول تو بنگالے کے اور انجام کار سارے ہند کے بادشاہ ہو گئے۔ اس لڑائی میں انگریزوں کے ۲۲ آدمی مارے گئے اور پچاس زخمی ہوئے۔ جب میر جعفر نے دیکھا کہ انگریزوں کی فتح ہوئی تو کھلم کھلا اُن سے آملا۔ انگریزوں نے اُس کی لغزش کا کچھ خیال نہ کیا۔ بلکہ اُس کو صوبجات بنگاکہ، بہار اورـاُڑیسے کا نواب تسلیم کر لیا ۔ سراج الدولہ بھیس بد ل کر مرشد آباد سے بھی بھاگ گیا اور انگریزوں نے وہاں قبضہ کر لیا۔ آخر ایک ہندو نے جس کے سراج الدولہ نے کان کٹوا ڈالے تھے ۔ اُس کو پہچان کر پکڑوا دیا ۔ جب وہ نواب میر جعفر کے روبرو آیا تو اُس نے اُس کے قتل کرانے میں تامل کیا۔ مگر اُس کے بیٹے میرن نے اُس کو مروا ڈالا۔ عہدنامے میں جو کچھ قول قرار ہوئے تھے۔ اب اُن کے پورا کرنے کا وقت آیا۔ چنانچہ کمپنی اور انگریزی تاجروں اور کلکتے کے ہندوستانی اور ارمنی سوداگروں کا جو نقصان کلکتے کی لُوٹ کے وقت ہوا تھا۔ اُس کے عوض اُن کو بہت سا روپیہ ملا۔ اور برّی اور بحری فوج اور اُس کے افسر جن میں کلائیو اور واٹسن اور کونسل کے ممبر بھی شامل تھے۔ اُن کو بھی لُوٹ کے مال میں سے حصہ ملا۔ اوما چند بھی بیٹھا بیٹھا خیالی پلائو پکا رہا تھا کہ اب مجھ کو بھی تیس لاکھ روپیہ ملے گا۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد اُس کے کان کھول دیے گئے کہ تمہارا کچھ حق نہیں ہے۔ یہ سنتے ہی وہ سُن ہو گیا اور ہوش و حواس اُڑ گئے۔ مگر پھر کلائیو نے اس کی سفارش کی کہ اس شخص سے بہت کچھ کام نکلیں گے۔ اس لیے اس کو جواب صاف دینا مناسب نہیں۔ تیسری فصل ۔کلائیو کا انتظام اور بادشاہ ِ دہلی کی طرف سے بنگالہ کی خدمتِ دیوانی کا کمپنی کے نام مقرر ہونا کلائیو دو بار بنگالے کی انگریزی آبادیوں کا گورنر مقرر ہوا۔ جن میں سے اول دفعہ تو وہ تین برس ۱۷۵۷ء سے ۱۷۶۰ء تک اس عہدے پر رہاا ور دوسری دفعہ ۱۷۶۵ء سے ۱۷۶۷ء تک صرف اٹھارہ مہینے۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جب کلائیو ۱۷۵۷ء میں بنگالے آیا۔ اُس وقت وہاں انگریزوں کا کام بالکل بگڑ رہا تھا اور انگریزی سوداگر اورعہدہ دار وہاں سے نکال دیے گئے تھے۔ مگر پھر جب وہ ۱۷۶۷ء میں بنگالے سے رخصت ہوا تو اس میں کچھ شک نہیں کہ اُس وقت وہ ہند میں نہایت زبردست حاکم تھا اور انگریز بنگالے بہار ، اوڑیسے کے قطعی مالک تھے اور بادشاہ دہلی بھی اس امر کو بخوبی تسلیم کر چکا تھا۔ کلائیو گورنر بنگال ۱۷۵۷ء میں کلائیو کو کمپنی کے ڈائرکٹروں نے بنگالے کی بستیوں کا پہلا گورنر مقرر کیا۔ اُس وقت دو طاقتیں بڑی زبردست تھیں۔ شمال مغرب کی طرف شہزادہ عالی گوہر جو بعد میں شاہ عالم کہلایا۔ افغان اور مرہٹوں کا ایک لشکر لے کر بنگال کے صوبہ پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھا اور نواب وزیر والئے اودھ اُس کی کی مدد پر تھا۔ جنوب کی طرف لالی اور بوسے کے ماتحت فرانسیسی سپاہ بھی مدراس میں انگریزوں پر اپنا رعب ڈال رہی تھی۔ کلائیو کا نام دونوں کو ڈراتا تھا۔ بنگالے کا نواب میر جعفر شہزادے کو روپیہ دے کر ٹالنا چاہتا تھا۔ اُس نے پہلے پٹنے پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن کلائیو ۴۵۰ انگریزوں اور ۲۵۰۰ دیسی سپاہیوں کو ساتھ لے کر حملہ آور ہوا اور مغل سپاہی لڑائی کے بغیر ہی تتر بتر ہو گئے۔ اسی سال کلائیو نے کرنیل فورڈ کے ماتحت فوج روانہ کی اور اُس نے فرانسیسوں سے سیسپٹم (سریرنگ پٹم ) جو ساحل مدراس پر واقع ہے، چھین لیا اور شمالی علاقوں اور نظام حیدر آباد پر ہمیشہ کے لیے اپنا رعب بٹھا لیا۔ کلائیو نے پھر ولندیزوں پر حملہ کیا۔ کیونکہ صرف یہی قوم انگریزوں کے مقابل ہو سکتی تھی۔ اس کو بحری اور برّی شکست دی اور اُس وقت سے اُن کی بستی چنسرا صرف نام کو ہی رہ گئی۔ ۱- میر جعفر پلاسی کی لڑائی کے بعد میر جعفر بنگالے کا نواب ہوا۔ مگر وہ تو صرف نام کا ہی نواب تھا۔ درحقیقت کلائیو نوابی کرتا تھا۔یعنی جو کچھ وہ کہتا تھا وہی میر جعفر بجا لاتا تھا۔ جب تک کلائیو ہند میں رہا۔ اُس کی یہی کیفیت رہی اور جب کبھی میر جعفر پر کوئی غنیم چرھ کر آتا تھا تو اُس کے مقابلے کو بھی کلائیو ہی جاتا تھا۔ چنانچہ جب ایک بار مرزا عالی گوہر نے جو بعد میں شاہ عالم ثانی کے لقب سے مشہور ہوا۔ صو بۂ بہار پر حملہ کیا تو کلائیو نے انگریزی فوج بھیج کر اُس کو پتنے کے قریب شکست دی اور اُس کو اور اُس کے مددگار نواب وزیر والئے اودھ کو وہاں سے بھگا دیا۔ یہ پٹنے کی پہلی لڑائی تھی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ کلائیو تو بنگالے کی حکومت کر تا تھا اور میر جعفر مرشد آباد میں پڑا عیش اُڑاتا تھا۔ کلائیو تین برس بنگالے کی گورنری کے کے پانچ سال ۱۷۶۰ء سے ۱۷۶۵ء تک کے لیے ولایت چلا گیا اور اُس کی جگہ وئن سٹارٹ گورنر ہوا۔اُس نے اور اُس کی کونسل نے جب یہ دیکھا کہ نواب بڑا فضول خرچ ہے اور اندھا دھند روپیہ اڑاتا ہے ۔ مگر انگریزوں کا روپیہ ادا کرنے میں لیت و لعل کرتاہے تو انہوں نے اُس کو معزول کر کے اُس کی جگہ اُس کے بھتیجے میر قاسم کو مقرر کر دیا۔جس کی مفصل کیفیت آگے بیان کی جائے گی۔ لیکن کچھ عرصے بعد کلکتے کی کونسل نے اُس کو بھی مسند سے اُتار کر پھر میر جعفر ہی کو نواب بنا یا۔ اور اس عنایت کے عوض میں اُس سے زر کثیر لیا۔ جنوری ۱۷۶۵ء میں میر جعفر انتقال کر گیا اور اُس کی موت کا باعث کسی قدر یہ بھی ہوا کہ کلکتے کے انگریز جو اُس سے آئے دن ہزاروں روپے مانگتے تھے ۔ اُس سے اُس کی جان عذاب میں آگئی تھی۔ میر جعفر کی وفات کے بعد کونسل نے اور روپیہ لے کر اُس کے بیٹے ناظم الدولہ کو مسند پر بٹھا دیا۔ اس شخص پر صوبہ دارئے بنگالہ ختم ہوئی۔ کیونکہ اُس کے عہد میں بادشاہ دہلی نے صوبۂ بنگالہ کی دیوانی ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دی۔ کمپنی کی یوں تو ایک مدت سے بنگالے میں حکومت تھی۔ مگر اب بادشاہ کی طرف سے دیوانی کا فرمان عطا ہونے سے وہ جسب ضابطہ بھی حاکم بنگالہ ہو گئی۔ ۲- میر قاسم جب میر قاسم اپنے چچا میر جعفر کی جگہ بنگالے کا نواب مقرر ہوا تو اُس نے ۱۷۶۰ء میں میں تین ضلعے بردوان، میدنی پور اور چاٹ گائوں انگریزوں کی نذر کیے۔ یہ نواب بڑا ہوشیار اور مستقل مزاج تھا۔ اُس نے یہ ارادہ کیا کہ انگریز جنوں نے اُس کو حکومت دلوائی تھی۔ اُن کی تابعداری سے اپنے تئیں آزاد کرے چنانچہ اول چال تو وہ یہ چلا کہ مرشد آباد جو کلکتے سے قریب تھا۔ وہاں سے اُس نے اپنا دارالحکومت منگیر میں بدل ڈالا۔ تاکہ ا نگریزوں سے وہ دور رہ کر چپکے چپکے تیاریاں کرے ۔ پھر دوسری تدبیر یہ کی کہ فوج بھرتی کر کے اُس کو فرنگیوں کی طرح قواعد سکھانے لگا۔ ۳- پٹنے کی دوسری لڑائی اس وقت شاہ عالم ثانی نے صوبۂ بہار پر مستقل قبضہ کر لینے کا از سرنو قصد کیا۔ مگر کرنیل کارنک نے پھر پٹنے کے پاس اُس کو شکست دی۔ لڑائی کے بعد بادشاہ کارنک کے ساتھ پٹنے آیا۔ وہاں میر قاسم نے اُس کے حضور میں اظہار اطاعت کیا اور بنگالہ، بہار اور اوڑیسے کی صوبہ داری کا خلعت پایا۔ ۴- بکسر کی لڑائی کچھ عرصے بعد میر قاسم اور انگریزوں میں برملا تکرار ہو گئی۔ اول اول تو نواب حق بجانب تھا اور کونسل کے انگریزوں کی طرف سے اُس کے ساتھ بے انصافی اور سختی ہوتی تھی۔ میر قاسم نے نواب وزیر والئے اودھ سے مل کر سازش شروع کی۔ کمپنی کے نوکروں نے بنگال میں اپنی تجارت کا حق ظاہر کیا۔ اس دعوے سے نواب کی چنگی کے افسروں اور دیسی سوداگروں میں جھگڑے شروع ہو گئے اور سوداگروں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ کمپنی کے نوکروں کی جگہ کام کرتے ہیں۔ نواب کا بیان تھا کہ اُس کے اختیارات کو ہر جگہ بر طرف کیا جاتا ہے۔ کونسل کے بہت سے ممبروں نے اُس کی شکایت کو نہ سنا ۔ مگر گورنر وین سٹارٹ اور وارن ہیسٹنگز نے جوا س وقت ایک چھوٹا ممبر تھا۔ عہد و پیمان کرانے چاہے مگر اُس سے نقصان ہوا۔ نواب کے افسروں نے انگریزی کشتی پر گولہ باری شروع کی اور انگریزوں کے برخلاف بغاوت کھڑی ہو گئی۔ پٹنے میں ۲۰۰۰ سپاہی مارے گئے اور تقریباً ۲۰۰ انگریز جو بنگالے کی مختلف جگہوں میں مقیم تھے، مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور قتل ہوئے۔ اس کے بعد فوج انگریزی نے دھاوا کر کے پٹنہ فتح کر لیا ۔ مگر میر قاسم وہاںسے اودھ کی طرف بھاگ گیا اور اُس نے نواب وزیر والئے اودھ اور شاہ عالم بادشاہ دہلی کے پاس جا کر پناہ لی۔ ان دونوں نے میر قاسم کی مدد کے لیے کمر باندھی۔ تینوں اکٹھے ہو کر پٹنے کی طرف آئے۔ مگر اُدھر سے انگریزی فوج نے اُن کو ہٹا دیا۔ پھر انہوں نے بکسر پر دریائے سون کے قریب مورچے باندھے اور اکتوبر ۱۷۶۴ء کو میجر منرو کی فوج سے اُن کی لڑائی ہوئی جس میں ا نہوں نے شکست فاش کھائی اور انگریزوں نے مخالفوں کی ۱۶۰ توپیں چھین لیں۔ ۵- بادشاہ کی طرف سے بنگالے کی دیوانی کمپنی کو عطا ہوئی۔ اس فتح سے برے عمدہ نتیجے پیدا ہوئے یعنی نواب وزیر والئے اودھ جو نام کو تو شاہ عالم ثانی کا تابعدار تھا مگر حقیقت میں ایک مدت سے نہ صرف اودھ بلکہ ساری سلطنت مغلیہ کا مالک و مختار بن رہا تھا، اس لڑائی میں بالکل بست ہو گیا اور اُس کے بعد اُس نے بھی ناچار انگریزوں کے لطف و کرم کا دامن پکڑا۔ اس طرح انگریز اب وسط ہندوستان کے بھی مالک ہو گئے۔ پھر بادشاہ بھی خود انگیریزوں کے لشکر میں چلا آیااور اس بات کا خواہاں ہوا کہ انگریزوں کی مدد سے دہلی میں اُس کی سلطنت کو استحکام ہو جائے۔ جب کلائیو رخصت لے کر ولایت چلا گیا تو کلکتے کے انگریزی حاکم بڑے بدنیت ہو گئے۔ کونسل کے ممبر اپنے ملک کے فائدے کی نسبت ذاتی فائدے اور دولت کھینچنے کی طرف زیادہ متوجہ تھے۔ پس کمپنی نے جب یہ صورت دیکھی۔ تو ہر چند وہ کلائیو کی اگلی خدمات سے کچھ خوش نہ تھی تو بھی ان خرابیوں کے انسداد کے لیے اُس کو کلائیو سے بہتر اور کوئی آدمی نہ سُوجھا۔ چنانچہ اُس نے کلائیو کو کہا کہ آپ ایک دفعہ اور ہند جائیں اور وہاں کے انتظام میںجو خرابیاں پڑ رہی ہیں ، اُن کی بخوبی اصلاح کریں۔ کلائیو نے اول تو یہ بات منظور نہ کی۔ مگر آخر اُس نے کمپنی کا حکم مان لیا۔ چنانچہ ۱۷۶۵ء میں پھر کلکتے آیا اور آتے ہی حسب منشائے کمپنی یہ حکم جاری کیا کہ کمپنی کا کوئی ملازم نذر بھینٹ نہ لے اور زیادہ تر پختگی کے لیے سب سے اقرار نامے لکھوا لیے۔ کہ ہم اس قاعدے کے پابند رہیں گے۔ اس قصے سے نبٹ کر کلائیو الٰہ آ باد روانہ ہوا ۔ وہاں انگریزی فوج جمع تھی اور شاہ عالم اور شجاع الدولہ جرنیل کارنیک کے لشکر میں موجود تھے اور عہد نامے کی التجاکر رہے تھے۔ کلائیو نے آکر اس معاملے کا بھی فیصلہ کیا۔ یعنی اودھ میں شجاع الدولہ کو اس شرط پر بحال کیا کہ وہ سرکار انگریزی کا دوست اور وفادار رہے اور اضلاع کورا و الٰہ آباد بادشاہ کو دے دیے۔ پھر شاہ عالم نے ۲۱ لاکھ روپے سلا کے عوض صوبۂ بنگالہ ، بہار اور اوڑیسے کی دیوانی انگریزوں کو عطا کی۔ اس لقب سے ظاہر میںتو صرف یہ مراد تھی کہ ا نگریز ان صوبوں کی آمدنی تحصیل کیا کریں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اُن صوبوں کی ساری حکومت انگریزوں کے قبضے میں آگئی۔ اس میں شک نہیں کہ جو اختیار بادشاہ نے آج انگریزوں کو عطا کیا وہ اُ ن کو واقعہ میں بہت بیشتر سے حاصل تھا۔ مگر پھر بھی فرمان شاہی کی رو سے اس کا عطا ہونا ایک بڑی بات تھی۔ کیونکہ پہلے وہ ایک جائز طور سے ان صوبوں کے حاکم نہ تھے اور اب ان کو مسند شاہی حاصل ہو گئی۔ یہ امر اہم ۱۲ اگست ۱۷۶۵ء کو وقوع میں آیا اور اس کے چند ہی روز بعد نواب بنگالہ کو انتظام ملکی سے دست بردار ہو کر ایک پنشن بیش قرار منظور کرنی پڑی۔ مرشد آباد میں بھی ایک برائے نام نواب رہتا تھا۔ جس کو انگریزوں کی طرف سے ۹ لاکھ روپیہ سالانہ ملا کرتا تھا۔ اس رقم کا نصف وہ بادشاہ دہلی کو بنگال، بہار اور اوڑیسہ کا خراج دیا کرتا تھا۔ یہ ایک طرح کی دو عملی تھی۔ انگریز تو بنگال، بہار اور اُڑیسہ کا محصول وصول کیا کرتے تھے اور لشکر کو درست حالت میں رکھتے تھے اور نواب کو فوجداری اختیارات حاصل تھے۔ گویا کمپنی دیوان تھی اورنوا ب نظام تھا۔ محصول کا اکٹھا کر نا ۱۷۶۵ء سے ۱۷۷۲ء تک دیسی افسروں کے ہی ہاتھ میں رہا۔ ۶- کلائیو کی اصلاحیں اس کے بعد کلائیو کوئی چند ہی مہینے اور ہند میں رہا ۔ مگر اس عرصے میں اُس نے بڑی سرگرمی کے ساتھ حکومت انگریزی کے انتظام میں اصلاحیں کیں اور یہی اُس کے ہند میں دوبارہ آنے کی غرض تھی۔ چنانچہ اول تو اُس نے افسرانِ فوج کے وسائل منفعت کم کیے اور جب کوئی دو سو افسران جنگی نے ایکا کر کے اُس کی مخالفت کی۔ تو اُس نے بڑے استقلال کے ساتھ اُس کو رفع کیا۔ پھر ملازمان کمپنی نے ( جو اپنی ذاتی تجارت کیا کرتے تھے) اُس کے انسداد کے لیے بڑی سخت تدبیریں کیں۔ یہ سب کام کر کے کلائیو ۱۷۶۷ء میں ہند سے رخصت ہوا اور پھر ادھر کا قصد نہیں کیا۔ دو برس پہلے جب وہ ولایت سے آیا تھا ۔ اُس وقت کی نسبت اب وہ زیادہ تنگدست ہو کر گھر گیا۔ مگر ولایت میں اُس کی بڑی تعظیم و تکریم ہوئی۔ اس نے ہند میں جو اصلاحیں کی تھیں۔ اُن کے سبب اُس کے بہت دشمن ہو گئے تھے۔ چنانچہ جن کو اُس نے سزا دی تھی یا جن کے بڑے منصوبے توڑے تھے۔ وہ سب کے سب اُس کے درپے ہو گئے اور اُس وقت کمپنی کے ممبران منتظم نے جیسا چاہیے تھا۔ ویسا اُس کا ساتھ نہ دیا۔ مگر آخر میں پارلیمنٹ کی یہ رائے ہوئی کہ کلائیو نے اپنے ملک کے فائدے کے لیے بڑے بڑے عمدہ کام انجام دیے ہیں۔ اس سبب سے وہ سارے الزاموں سے بری ہو گیا اور اپنے حریف ڈوپلے سے دس برس بعد ۱۷۷۴ء میں مر گیا۔ ساتواں باب سلطنت انگلشیہ ہند پہلی فصل ۔ وارن ہیسٹِنگز، ہند کا اول گورنر جنرل ۱- دوئلی کی موقوفی جب کلائیو ہند سے چلا گیا تو سرلسٹ بنگالے کا گورنر مقرر ہوا اور اُس کے بعد ۱۷۷۲ء تک کارٹئیر اسی عہدے پر ممتاز رہا۔ اس عرصے میں بنگالے میں دو عملی رہی۔ یعنی نواب کے اہلکاروں کا بھی حکم چلتا تھا اور کمپنی کے افسروں کا بھی۔ اس دو عملی سے بڑی بے انتظامی اور بے ایمانی پھیل رہی تھی۔ رعایا کا جدا نقصان ہوتا تھا اور سرکاری آمدنی میں الگ غبن کیا جاتا تھا۔ اگر فائدہ تھا تو افسران سرکاری کا تھا کہ وہ بے تامل مال جمع کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر کمپنی اس دو عملی کے رفع کرنے پر مستعد ہوئی۔ چنانچہ اس کام کے لیے اس نے وارن ہیسٹنگز کو ۱۷۷۲ء میں بنگالے کا گورنر مقرر کر کے بھیجا اور کمپنی کو دیوانئے صوبۂ بنگالہ کی حیثیت سے جو اختیارات حاصل تھے وہ سب اُس کو تفویض کیے۔ وارہیسٹنگز ۱۷۳۲ء میں پیدا ہوا اور ۱۸ برس کی عمر میں کمپنی کی ملازمت میں بھرتی ہو کر آیا۔ ۴۰ برس کی عمر میں گورنر بنگال مقرر ہوا اور ۱۷۵۷ء میں پلاسی کی لڑائی کے بعد مرشدآباد میں ملکی معاملات پر مامور ہوا۔ ۱۷۶۱ء میں کلکتے کی کونسل کا ممبر ہوا اور ۱۷۶۴ء میں ولایت واپس چلا گیا۔ وارن ہیسٹنگز پہلے بھی بنگالے میں ایک مدت تک بڑے بڑے ملکی عہدوں پر مامور رہ چکا تھااور پھر مدراس کی کونسل کا ممبر ہو گیا تھا اور ان خدمتوں پر اُس سے کارہائے نمایاں ظہور میں آگئے تھے۔ اب جو وہ بنگالے کا گورنر مقرر ہوکر آیا تو آتے ہی اُس نے مرشد آباد کی جگہ کلکتے کو حکومت انگریزی کا صدر مقام بنایا۔ دیوانی اور فوجداری کی نئی عدالتیں قائم کر نے کا انتظام کیا اور ایک نیا مجموعۂ قوانین تیار کرنے میں مشغول ہوا۔ ۲- رُہیلوں سے انگریزوں کی لڑائی وارن ہیسٹنگز دو برس تک تو بنگالے کا گورنر رہا اور پھر ۱۷۷۴ء میں کمپنی کے کل علاقۂ ہند کا گورنر جنرل مقرر ہو گیا۔ اس کے عہد گورنری کا نہایت مشہور واقعہ رُہیلوں کی لڑائی ہے اور اُس کی کیفیت یہ ہے کہ رُہیلوں نے جو پٹھانوں کی قوم میں سے ہیں، محمد شاہ کے عہدِ سلطنت کو ضعیف دیکھ کر ہند کا ایک صوبہ جو اودھ کے شمال مغرب میں واقع ہے اور اب اُن کے نا م سے رُہیلکھنڈ مشہور ہو گیا ہے۔ فتح کر کے اُس پر قبضہ کر لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد جب ۱۷۷۱ء میں مرہٹوں نے اس صوبے پر حملہ کیا تو نواب وزیر والئے اودھ کا قول ہے کہ رُہیلوں نے مجھ سے مدد مانگی اور یہ کہا کہ اگر تم ہم کو مرہٹوں کے ہاتھ سے بچائو گے تو ہم تم کو چالیس لاکھ روپیہ دیں گے۔ اس کے تیسرے برس مرہٹے رُہیلکھنڈ سے چلے گئے۔ پس نواب وزیر نے رُہیلوں سے چالیس لاکھ روپے کا دعویٰ کیا مگر انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہم نے کچھ اقرار نہیں کیا تھا۔ اس پر نواب اودھ نے وارن ہیسٹنگز کی طرف رجوع کی اورہیسٹنگز کو نواب کی بات کا یقین آگیا۔ غرض انجام یہ ہوا کہ تھوڑی سی انگریزی فوج نے رُہیلکھنڈ میں جا کر رُہیلوں کو شکست دی اور اُن کا ملک چھین کر نواب اودھ کے حوالے کر دیا اور اُس کے صلے میں نواب نے وہ چالیس لاکھ روپے مع کل مصارف جنگ سرکار انگریزی کو دے دیا۔ ۳- ہیسٹنگز کا راجائوں سے سلوک لارڈ ہیسٹنگز کا اصلی مدعا یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح روپیہ حاصل کرے اور کمپنی کے علاقوں کو دوسروں کے حملوںسے بچائے۔ بنگال کی سرحد سے تھوڑے فاصلے پر پُرانی مغلیہ سلطنت کے صوبہ داروں نے خودمختار ریاستیں قائم کر لی تھیں۔ جن میںسے اودھ بڑی زبردست تھی۔ مرہٹے شمالی ہند کے مالک بنے ہوئے تھے اور بادشاہ دہلی صرف برائے نام اُن کے ماتحت تھا۔ وارن ہیسٹنگز نے نواب اودھ کو اس خیال سے دوست بنانا چاہا کہ اگر مسلمانوں کی ریاستیں زبردست ہو جائیں تو مرہٹے بنگال پر حملہ آور نہ ہو سکیں گے۔ مگر یہ ریاستیں کچھ یونہی سی تھیں۔ اس لیے یہ تدبیر کچھ کارگر نہ ہوئی اور گورنر جنرل کو انگریزی علاقہ دریائے گنگا سے پار بڑھانا اور اُن ریاستوں کو قابو میں لانا پڑا ۔ ہیسٹنگز نے بنگال سے بہت سا روپیہ حاصل کیا ۔ نواب بنگال کی آمدنی اُس کی زندگی میں ہی کم کر دی گئی تھی اور اُس کے مرنے کے بعد جب اُس کا چھوٹا بیٹا نواب ہواتو اور بھی تخفیف کی گئی۔ ہیسٹنگزنے دربار دہلی کا خراج جس کو کلائیو نے بنگال عطا ہونے کے عوض میں دینا منظور کیا تھا۔ اس لیے بند کر دیا کہ بادشاہ مرہٹوں کے قبضے میں تھا اور اس کو روپیہ دینا گویا مرہٹوں کو ہی روپیہ دینا تھا اور وہ انگریزوں کے دشمن تھے۔ گورنر جنرل جانتا تھا کہ اگر اُن کو مغلوب نہ کیا گیا تو وہ زبردست ہوتے جائیں گے۔ گنگا کی وادی کی علیحدگی پر کلائیو نے کورا اور الٰہ آباد شاہِ عالم کو دیے تھا۔ بادشاہ نے اب وہ مرہٹوں کو دے دیے۔ گورنر جنرل نے اس وجہ سے کہ ایسا کرنے سے بادشاہ نے اپنا حق زائل کر دیا ہے۔اُن کو نواب وزیر والئے اودھ کے پاس فروخت کر دیا۔ اس ترکیب سے کمپنی کے خرچ میں تقریباً ساڑھے سات کروڑ روپیہ کی تخفیف ہو گئی۔ ۴- رگئولیٹنگ ایکٹ جب انگلستان کی پارلیمنٹ نے لندن میں ہند کی حکومت انگریزی کی بہت سی بے انتظامیاں اور خرابیاں سُنیں تو یہاں کے انتظام کی اصلاح اور بہتری کے لیے ایک نیا قانون مرتب کیا ، جس کانام رگئولیٹنگ ایکٹ یعنی قانون انتظامی تھا۔ یہ قانون ۱۷۷۳ء میں منظور ہو کر دوسرے برس جاری ہوا۔ اس سے جو جو تغیر و تبدل ہوئے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بنگالے کا گورنر ہند کے کُل انگریزی علاقوں کا گورنر جنرل ہوا کرے اور چار ممبروں کی کونسل کے صلاح مشورے سے اُن سب علاقوں پر حکمرانی کیا کرے۔ پس جب کونسل میں کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو گورنر جنرل کو اُس کے فیصلہ کرنے میں کونسل کے ممبروں پر کچھ فضیلت نہ ہوتی تھی۔ یعنی کونسل کے ممبروں کی رائے جس پائے کی سمجھی جاتی تھی ۔ اُسی رتبے کی گورنر جنرل کی رائے بھی خیال کی جاتی تھی۔ غرض کہ کونسل کا ایک ایک ممبر گورنر جنرل کے برابراختیار رکھتا تھا۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ڈھنگ انتظام سلطنت کے حق میں بڑا مضر ہو تا ہے۔ غرض اب وارن ہیسٹنگز ہند کا گورنر جنرل تھا اور کونسل کے ممبروں کی یہ کیفیت تھی کہ ایک ہارول تو اکثر گورنر جنرل کی تجویزوں سے اتفاق کیا کرتا تھا اور یہ ہند میں آیا ہوا بھی مدت سے تھا۔ اور باقی تین ممبر یہاں کے حالات سے بالکل نا واقف تھے اور اُن میں سے ایک تو جس کا نام فرین سس تھا۔ گورنر جنرل کی سخت مخالفت کرتا تھا۔ اس وجہ سے کونسل میں گورنر جنرل کی بات نہ چلنے پاتی تھی اور جو کچھ وہ تینوں ممبر چاہتے تھے وہی ہوتا تھا۔ کئی سال تک یہی حال رہا اور جب ۱۷۷۶ء میں ان تینو ں ممبروں میں سے ایک مر گیا۔اُس وقت یہ دقت رفع ہوئی۔ ۵- نند کنوار جب تک کونسل میں یہ صورت رہی کہ گورنر جنرل کے مخالف ممبروں کی رائے کے سامنے اُس کی رائے نہ چلتی تھی۔ لوگ اُس کو بالکل بے اختیار سمجھتے تھے۔ اس لیے کئی شخصوں نے کونسل کے مخالف ممبروں کو خوش کرنے کے لیے اُس پر الزام لگائے۔ اُن میںسے نند کنوار کا الزام بڑا سخت تھا۔ باوجودیکہ نند کنوار بڑا بد عہد اور فریبی شخص تھا۔ مگر پھر بھی فرین سس اور کونسل کے اور ممبر اُس کے حمایتی بن گئے اور اُس کو شہ دی کہ وارن ہیسٹنگز پر شوق سے الزام لگائے۔ اتفاق سے اُسی وقت ایک بڑے نامی گرامی ہندوستانی سوداگر نے نند کنوار پر جعلسازی کی نالش دائر کی اور اُس جرم میں وہ یکا یک گرفتار ہو گیا۔ عدالت عالیہ کلکتے کے جج سر ایلیا امپے نے مقدمے کی تحقیقات اور تجویز کر کے جئوری کی رائے سے اُس کو مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا دی اور یہ کوئی عجیب بات نہ تھی کیونکہ اُس وقت قانون انگلستان کے بموجب عموماً جعل کی سزا پھانسی تھی۔ مگر نند کنوار کے اس طرح پھانسی پانے سے بڑا چرچا ہوا اور بعض لوگوں نے وارن ہیسٹنگز پر یہ الزام لگایا کہ اُس نے اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے ناحق نند کنوار کو پھانسی دلوائی۔ مگر یہ نرمی خام خیالی ہے اور کسی طرح یہ نہیں ثابت ہوتاکہ نند کنوار کو ناحق پھانسی ملی ہو۔ اگر اس معاملے میں وارن ہیسٹنگز کا قدم ہوتا تو کونسل کے ممبر جو اس کے مخالف تھے۔ مقدمے کو ولایت پہنچائے بغیر نہ رہتے ۔ مگر انہوں نے اس امر سے انکار کیا۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وارن ہیسٹنگز کو نند کنوار کے مقدمے اور سزا سے کچھ تعلق نہ تھا۔ کلکتے میں جو سُپریم کورٹ یعنی عدالت عالیہ مقرر ہوئی تھی۔ اُس کے جج اس امر میں بڑے ساعی و سرگرم تھے۔ کہ یہاں کے لوگوں کو ظلم سے بچائیں اور ہند کو قانون انگلستان سے مستفید کریں۔ مگر انہوں نے اس کام ممیں کئی بڑی غلطیاں کھائیں۔چنانچہ اُنہوں نے مالکان اراضٰ اور اُن کی اسامیوں کے معاملات میں مداخلت کی اور عدالت کے وکیلوں نے جہاں تہاں جھگڑے قصے کھڑے کیے اس پر وارن ہیسٹنگز نے زمینداروں کو اس قبیح مداخلت سے مخلصی دینے کے لیے آپ دخل دیا اور انتظام موجودہ کی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ سے درخواست کی۔ مگر گورنر جنرل کو اتنے ہی میں ایک اور ترکیب سوجھ گئی۔ جس سے اُس کا بہت سہل علاج ہو گیا۔ وہ یہ تھی کہ سُپریم کورٹ کو علاوہ کلکتے میں ایک اور عدالت عالیہ بھی تھی۔ جس کا نام صدر عدالت دیوانی تھا۔ اس عدالت کے حاکم گورنر جنرل اور اُس کی کونسل کے ممبر تھے۔ مگر اُن کو اتنی فرصت نہ تھی کہ اس کام کو انجام دیں۔ اس لیے وارن ہیسٹنگز نے سُپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو صدر عدالت دیوانی کا بھی اعلیٰ جج کر دیا۔ اس انتظام سے سب خوش ہو گئے اور اب چیف جسٹنس کی توجہ اس طرف مائل ہوئی کہ جیسے اہل ہند کے اوضاع و اطوار سیدھے سادے ہیں ۔ ویسی ہی اُن کی عدالت بھی سیدھے سادے طور پر عمل میں آئے۔ اس بندوبست کو کمپنی نے اس وقت تو منظور نہ کیا۔ مگر اُس کے بعد جب ہر احاطے میں سُپریم کورٹ اور صدر عدالت دیوانی کی عدالتیں مل کر ایک عدالت بن گئی۔ اُس وقت سے یہی قاعدہ جاری ہے۔ ۶- روپے کی فراہمی کے لیے گورنر جنرل کی تدبیریں وارن ہیسٹنگز اپنے عہد کے اخیر زمانے میں کئی بڑی بڑی لڑائیوں میں مصروف رہا۔ جن کا حال آگے بنان کیا جائے گا۔ چونکہ ان لڑائیوں کے واسطے بہت سے روپے کی ضرورت تھی اس لیے گورنر جنرل کو روپے کے فراہم کرنے میں بڑی کوشش کرنی پڑی۔ مگر اس کام میں وہ بعض سخت تدبیریں عمل میں لایا اور خاص کر چیت سنگھ راجۂ بنارس اور بیگمات اودھ کے ساتھ بڑی سختی کی۔ اسی سبب سے اور نیز بعض اور وجوہ سے اہل انگلستان نے اس پر پیچھے بڑے الزام لگائے۔ وارن ہیسٹنگز اور راجہ چیت سنگھ کی باہم تکرار بنارس پہلے نواب وزیر والئے اودھ کے علاقے میں تھا۔ مگر ۱۷۷۵ء سے کونسل کلکتے کے اکثر ممبروں نے جو گورنر جنرل کے مخالف تھے۔ اُس کی مرضی کے خلاف بنارس کا علاقہ نواب اودھ سے چھین کر سرکار انگریزی کی عملداری میں شامل کر لیا تھا۔ اس کے بعد یہ علاقہ ساڑھے بائیس لاکھ روپے سالانہ خراج پر وہاں کے ہندو زمیندار کے سپرد کر کے اُس کو سرکار انگریزی کے سایۂ حمایت میں لے لیا اور ایک رئیس باجگزار قرار دیا تھا۔ اب ۱۷۸۰ء میں جو سرکار کو سلطان میسور اور مرہٹوں سے لڑائیاں پیش آئیں اور مصارف جنگ کے لیے روپے کی اشد ضرورت ہوئی۔ تو گورنر جنرل نے راجہ چیت سنگھ کو لکھا کہ تم کو ساڑھے بائیس لاکھ سے زیادہ خراج دینا ہو گا اور سرکار کی کمک کے لیے کچھ سپاہ بھی بھیجنی پڑے گی۔ راجہ نے اُس کی بجاآوری سے پہلو تہی کرنی چاہی۔ اس لیے گورنر جنرل اس سے زبردستی اپنے حکم کی تعمیل کرانے کو بنارس چلا آیا اور آکر اپس کو چیت سنگھ کی نا شکری سے ایسا غصہ آیا کہ اُس کو گرفتار کر لینے کا حکم دے دیا۔ مگر بنارس کے لوگ راجہ چیت سنگھ کی اس قدر عزت و عظمت کرتے تھے کہ جونہی انہوں نے گورنر جنرل کا یہ حکم سُنا۔ فوراً ہتھیار باندھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور جو سپاہی راجہ کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ اُن کو مار ڈالا۔ پھر گورنر جنرل کے مکان کو آکر گھیر لیا ۔ اب راجہ تو شہر سے نکل کر بھاگ گیا اور گورنر جنرل نرغے میں پھنسا۔ اُس کے پاس اگرچہ اُس وقت لڑنے کے قابل سپاہی نہ تھے۔ مگر پھر بھی اُس کے اوسان بجا رہے اور وہاں سے نکل کر جوں توں کر کے چنار گڑھ جا پہنچا۔ پھر چاروں طرف سے فوج سمیٹ کر راجہ کی جمیعت سے جو بیس ہزار آدمی کی بھیڑ بھاڑ تھی خوب جنگ کی ۔ اور اُس کو شکست دے کر قلعہ بجے گڑھ جس میں راجہ چھپ گیا تھا۔ فتح کر لیا۔ راجہ یہاں سے بھاگ کر گوالیار چلا گیا اور قلعے میں راجہ کا جس قدر خزانہ تھا وہ سب گورنر جنرل کی فوج نے منگوا لیا۔ غرض گورنر جنرل کے ہاتھ نہ راجہ آیا اور نہ خزانہ۔ اس کے بعد گورنر جنرل چیت سنگھ کے بھتیجے کو راجۂ بنارس مقرر کر کے کلکتے کو واپس چلا گیا۔ ۸- معاملۂِ بیگمات اودھ اس کے ایک برس بعد بیگمات اودھ سے گورنر جنرل کو زرکثیر وصول ہوا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب نواب وزیر اودھ نے ۱۷۷۵ء میں انتقال کیا تو بیگمات یعنی اُس کی بیوی اور والدہ نے یہ کہا کہ نواب متوفی وصیت کر مرا ہے کہ اودھ کا سارا خزانہ ہم کو دیا جائے۔ وارن ہیسٹنگزکو تو اس امر کا یقین نہ آیا۔ مگر کونسل کے ممبروں نے اس دعوے کو تسلیم کر کے سارا خزانہ بیگمات کو دلوا دیا اور نواب جانشین کو مزاحمت کرنے سے روکا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خزانہ خالی ہو گیا اور نواب کے پاس فوج کی تنخواہ بانٹنے اور کمپنی کا روپیہ ادا کرنے کو کوڑی نہ رہی۔ اس کے بعد نواب نے گورنر جنرل سے آن کر کہا کہ کمپنی کا جو روپیہ مجھ کو دینا ہے۔ اُس کے ادا کرنے کی مجھ میں استطاعت نہیں۔ مگر ہاں بیگمات کے پاس جو خزانہ ہے وہ میرے ہاتھ لگ جائے تو ادا کر سکتا ہوں۔بیگمات پر اُس وقت یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ انہوں نے مال اور سپاہ دونوں سے چیت سنگھ کو مدد دی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ گورنر جنرل نے نواب اودھ کو اجازت دے دی کہ بیگمات سے ۷۶ لاکھ روپیہ چھین کر سرکار کا روپیہ ادا کرے۔ اگرچہ یہ تحقیق نہیں۔ کہ بیگمات نے جو سارا خزانہ اپنے تحت میں کر لیا تھا۔ اُس کا اُن کو کس قدر حق تھا۔ مگر وارن ہیسٹنگز کا یہ فعل انصاف پر مبنی نہیں معلوم ہوتا۔ گورنر جنرل نے یہ کام خواہ بُرا کیا خواہ بھلا۔ مگر کمپنی کی طرف سے اُس کو چیت سنگھ اور بیگمات دونوں کے مقدموں میں سخت سرزنش ہوئی۔ اس وجہ سے وارن ہیسٹنگز نے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ۱۷۸۵ء میں ہند سے رخصت ہو کر ولایت چلا گیا۔ وہاں اُس کے دشمنوں نے ہند کے معاملات کی بابت اُس پر مقدمہ کھڑا کیا۔ دیوان وکلا کے رکن مستغیث بنے اور دیوان امرا میںاُس کی خوب تحقیقات اور چھان بین ہوئی۔ یہ مقدمہ سات برس یعنی ۱۳ فروری ۱۷۸۸ء سے ۲۳ اپریل ۱۷۹۵ء تک زیر تجویز رہا اور ایک بڑے نامی مقرر نے جس کا نام برک تھا، بڑے زور و شور سے ہیسٹنگز پر الزام لگائے۔ لیکن آخر وارن ہیسٹنگز جرم سے بری ہو کر سرخرود ہوا۔اس مقدمے میں اُس کا دس لاکھ روپیہ صرف ہوا۔ اس سبب سے وہ کسی قدر تنگدست تو ہو گیا۔ مگر باقی عمر ڈیلس فورڈ میں ۱۸۱۹ء تک امن چین سے بسر کی۔ اور ایک دفعہ پھر جو اُس کو پارلیمنٹ میں ہند کے معاملات کی نسبت ۱۸۱۳ء میں اظہار دینے جانا پڑا تو دیوان وکلا کے سارے ممبر اُس کی تعظیم کو کھڑے ہوگئے۔ ۹- ہند کا قانون جو پٹ نے وضع کیا تھا ۱۷۸۴ء میں پارلیمنٹ نے گورنمنٹ ہند کے انتظام میں جو انگلستان اور ہند دونوں جگہ جاری تھا۔ بعض بڑے بڑے تغیر و تبدل کیے۔ ان میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ہند کی سلطنت انگریزی کے کل بڑے بڑے امور کی نگرانی بادشاہ انگلستان کے ایک وزیر کے سپرد ہوئی۔ یہ حاکم بورڈ آف کنٹرول (کمیٹی اہتمام) کا صدر نشین ہوتا تھا اور ہند کا گورنر جنرل مقر ر کرنا اُسی کے اختیار میں تھا۔ پارلیمنٹ کے جس قانون کے بموجب یہ تبدیلیاں عمل میںآئیں۔ اُس کا نام پٹس انڈیا بل ہے۔ یعنی ہند کا قانون مجوزۂ پٹ جو انگلستان کا ایک بڑا نامی گرامی وزیر اعظم گزرا ہے۔ پارلیمنٹ میں اس وزیر کبیر کا ایک بڑا مشہور ہمسر تھا۔ جس کا نام فاکس تھا۔ اس سے پیشتر اس نے بھی انتظام سلطنت ہند کی بابت پارلیمنٹ میں قانون کا مسودہ پیش کیا تھا۔ مگر وہ منظور نہیں ہوا۔ اگر وہ منظور ہو جاتا تو اُسی وقت سے ہند کی سلطنت انگریزی کی عنان حکومت خاص بادشاہ انگلستان کے ہاتھ میں آجاتی اور وہی انتظام جاری ہو جاتا جو آج کل ہے۔ وارن ہیسٹنگز نے چیت سنگھ راجۂ بنارس اور بیگمات اودھ پر جو سختیاں کیں۔ اُن کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت کئی بڑی لڑائیوں کے سبب روپے کی اشد ضرورت تھی۔ یعنی مرہٹوں اور سلطان میسور اور فرانسیسوں اور ولندیزوں سے ایک دفعہ ہی لڑائی آ پڑی تھی۔ مرہٹوں کہ یہ پہلی لڑائی تھی اور اس کا مختصر حال چوتھے باب کی دوسری فصل میں بیان ہو چکا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریزوں نے رگھو ناتھ رائو کی اول بار جو مدد کی اُس سے مطلب بر آری نہیں ہوئی اور اُس کی وجہ یہ تھی کہ انگریز اُس وقت کئی لڑائیوں میں پھنس رہے تھے۔ جن میں سب سے بڑا معرکہ سلطان میسور سے تھا۔ ریاست میسور میں جو جنوبی ہند کے اندر واقع ہے۔ حیدر علی نام ایک بڑا نامور بہادر سردار تھا۔ جس کی لیاقت کے باعث اُس ریاست کو بڑی قدرت و وقعت حاصل ہو گئی تھی۔ حیدر علی ا بتدا میں راجہ میسور کے ہاں فوج کا ایک کپتان تھا۔ ۱۷۶۱ء میں راجہ اور اس کے وزیر کو ریاست سے خارج کر کے آپ میسور کا سلطان بن بیٹھااور ایک فوج کثیر اور خزانہ عمیق فراہم کر کے قلعہ بید نور پر جس میں بیشمار خزانہ جمع تھا۔ قبضہ کر لیا۔ یہ خزانہ آئندہ لڑائیوں میں اُس کے بڑے کام آیا۔ ۱۷۶۵ء میں مادھو رائو پیشوائے چہارم نے حیدر علی کے علاقے پر یورش کی اور اُس کو شکست فاش دی۔ اس وجہ سے حیدر علی نے وہ سارا ملک جو شمالی سرحد پر فتح کیا تھا۔ مرہٹوں کو واپس دے دیااور ۳۲ لاکھ روپیہ ادا کیا۔ مگر اگلے سال حیدر علی نے اس نقصان کی کچھ کسر نکال لی۔ کیونکہ وہ مالا بار کے زرخیز ملک پر جو اُس کی ریاست کے مغرب میں تھا۔ فوج لے کر چڑھ گیا اور اُس کا اکثر حصہ فتح کر لیا۔ اس موقع پر حیدر علی نے ایک نہایت قبیح دغا بازی کی یعنی جب اُس نے زمورن یعنی راجۂ تلی کوت پر یورش کی تو اُس نے قلعے سے نکل کر اُس کی اطاعت منظور کر لی مگر پھر بھی حیدر علی نے اُس کے شہر پر یکا یک قبضہ کر کے اُس کو لُوٹ لیا۔ اس پر راجہ نے اس اندیشے سے کہ مبادا حیدر علی اس سے بڑھ کر کوئی بد سلوکی کرے ۔ اپنے محل میں آگ لگا کر وہیں اپنے تئیں ہلاک کر ڈالا۔ ۱۰- میسور کی پہلی لڑائی کلائیو کو ہند سے رخصت ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ گورنمنٹ مدراس اور حیدر علی کے باہم ۱۷۶۶ء میں پہلی لڑائی شروع ہوئی۔اس جنگ میں اول تو مادھو رائو پیشوا اور نظام حیدر آباد انگریزوں کے ساتھ تھے۔ مگر پیچھے حیدر علی نے دونوں کو روپے کا لالچ دیکر توڑ لیا۔ یہاں تک کہ نظام تو آخر میں حیدر علی کی طرف ہو کر انگریزوں سے لڑنے بھی لگا۔ اُس وقت انگریزی فوج کا سپہ سالار کرنیل سمث تھا۔اُس کے پاس صرف سات ہزار آدمی کی جمیعت تھی اور حیدر علی اور نظام کی فوج ستر ہزار تھی۔ اس لیے سمث کو ایک دفعہ بڑی دقت پیش آئی۔ مگر اُس نے انجام کار ساری فوج مخالف کو مقام چانگم پر پسپا کر دیا اور پھر چند روز بعد میدان ترینوملی پر اپنے سارے دشمنوں کو شکست دی۔ یہ دونوں مقام جنوبی ارکاٹ میں ہیں۔ یہ لڑائی دو برس تک اور ہوتی رہی اور اس عرصے میں کبھی ایک کا پاسا زیر ہو جاتا تھا اور کبھی دوسرے کا۔ اسی اثنا میں حیدر علی ایک بار ایسا تنگ ہوا کہ اُس کو صلح کے لیے درخواست کرنی پـڑی۔ مگر آخر میںوہ ایک ایسی چال کھیلا کہ سواروں کی ایک جمیعت کثیر ساتھ لے کر کرنیل سمث کی فوج سے بالا بالا جھٹ پٹ کوچ کر کے شہر مدراس کے قریب آ کھڑا ہوا۔ اس سے مدراس کی کونسل پر اس قدر ہیبت چھائی کہ انہوں نے حیدر علی سے فوراً صلح کر لی اور شرف یہ قرار پائی کہ لڑائی سے پہلے جو صورت تھی۔ وہی بحال ہو جائے۔ اس طرح اس عہد نامے سے میسور کی اول لڑائی کا خاتمہ ہوا۔ اُسی سال یعنی ۱۷۶۹ء میں مرہٹوں اور مادھو رائو پیشوا نے حیدر علی پر پھر چڑھائی کی اور متواتر شکستوں سے قریب تھا کہ حیدر علی کا کام تمام ہو جائے۔ مگر اُس نے اُس وقت مرہٹوں کو اپنا سارا شمالی ملک اور بہت سا روپیہ دینا منظور کر کے اُن سے اپنا پنڈ چھڑایا۔ لیکن چونکہ اُس کے بعد مادھو رائو کا انتقال ہو گیا اور مرہٹوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ اس وجہ سے حیدر علی نے جس قدر ملک و مال اُس وقت مرہٹوں کی نذر کیا تھا۔ اُس ے بھی زیادہ آئندہ چھ سال کے عرصے میں پھر حاصل کر لیا۔ ۱۰- میسور کی دوسری لڑائی ۱۷۸۰ء میں پھر حیدر علی اور انگریزوں کے باہم لڑائی ہوئی۔ یہ میسور کی دوسری لڑائی کہلاتی ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ انگریز اُس وقت مرہٹوں کی اول لڑائی کے مخمصوں میں پھنس رہے تھے۔ حیدر علی نے اس موقع کو غنیمت جان کر نظام اور مرہٹوں کو گانٹھا کہ میرے ساتھ ہو کر انگریزوں کو کرناٹک سے نکال دو۔ اس طرح حیدر علی ایک بڑا لائو لشکر لے کر کر ناٹک پر چڑھ گیا اور اول اول کئی معرکوں میں ظفر مند ہوا۔ چنانچہ اُس نے بہت سے انگریزی قلعے فتح کر لیے اور انگریزی فوج جو کرنیل بیل کے ساتھ تھی۔ اُس کو شکست دے کر کرنیل بیلی اور کوئی دو سو جوانوں کو قید کر لیااور انگریزی فوج کے سپہ سالار منرو کو بھی مدراس کی طرف ہٹ آنا پڑا۔ یہاں سے اُس نے وارن ہیسٹنگز کو کمک کے لیے کلکتہ لکھا اور اُس نے فوراً آئر کوٹ کے ہمراہ سمندر کی راہ سے فوج روانہ کی۔ اس فوج کے پہنچتے ہی لڑائی کا رنگ بدل گیا۔چنانچہ سر آئر کوٹ نے جو ایک بڑا بہادر اور کاروان جرنیل تھا۔ پورٹو نووو۔ پالی لور اور سولن گڑھ پر تین بڑے میدان مارے اور حیدر علی کو شکست پر شکست دی۔ اگلے سال یہ جوانمرد جرنیل بیمار ہو کر چلا گیا۔ مگر لڑائی برابر جاری رہی۔ اس میںکبھی انگریز فتحمند ہو جاتے تھے اور کبھی سلطان میسور غالب ہو جاتا تھا۔ آخر ۱۷۸۲ء میں حیدر علی کا یکا یک انتقال ہو گیااور اُس کا بیٹا ٹیپو اُس کی جگہ سلطان میسور مقرر ہوا۔ اُس کو انگریزوں سے بڑی سخت عداوت تھی اور باپ کی طرح بڑا بے رحم اور تند مزاج تھا۔ معرکہ آرائی اور نبرد آزمائی میں تو وہ حیدر علی کے برابر تھا اور علمیت عامہ میں اُس سے کہیں بڑھ کر۔غرض یہ میسور کے تخت پر بیٹھ کر ایک سال سے زیادہ انگریزوں سے لڑتا رہااور آخر جب انگریزی فوج کرنیل فلرٹن کے ہمراہ اس کے پایۂ تخت سریرنگ پٹم کی طرف بڑھنے لگی۔ تو اُس نے فوراً گورنر مدراس سے صلح کر لی۔ اس صلح پر گورنر جنرل راضی نہ تھا۔ مگر گورنر مدراس نے عہد نامہ منظور کر لیا۔ جس میںیہ قرار پایا کہ طرفین اپنے اپنے مفتوحات سے ہاتھ اٹھائیں۔ اس میں گورنمنٹ مدراس کا بہت نقصان ہوا۔ کیونکہ ٹیپو کی نسبت انگریزوں نے بہت سا ملک فتح کر لیا تھا۔ یہ عہد نامہ جس سے میسور کی دوسری لڑائی ختم ہوئی۔منگلور کا عہد نامہ کہلاتا ہے جو ۱۷۸۴ء میں مرتب ہوا۔ سلطان میسور سے انگریزوں کی دو لڑائیاں اور ہوئیں۔ جو میسور کی تیسری اور چوتھی لڑائیاں کہلاتی ہیں۔ تیسری لڑائی ۱۷۹۰ء میںلارڈ کازنوالِس گورنر جنرل کے زمانے میں ہوئی۔ اس لیے اس کا ذکر وہاں کیا جائیگا اور چوتھی لڑائی ۱۷۹۹ء میں لارڈ ولزلی کے عہد میں ہوئی۔ جس میں میسور کی ریاست انگریزوں نے بالکل فتح کر لی۔ دوسری فصل ۔لارڈ کارنوالِس گورنر جنرل میسور کی تیسری لڑائی اور بنگالے کا دوامی بندوبست ۱- انتظام ملکی کی اصلاحیں جب ۱۷۸۵ء میں وارن ہیسٹنگز گورنر جنرل اپنے عہدے سے مستعفی ہوا تو اس کی جگہ اُس وقت کوئی اور شخص مقرر نہیں ہوا۔ مگر ہاں دوسرے گورنر جنرل کے آنے تک سر جان میکفرسن جو کونسل کا رکن اعلیٰ تھا۔ عارضی طور پر کام انجام دیتا رہا۔ آخر لارڈ کارنوالِس ۱۷۸۶ء میں ہند کا گورنر جنرل مقرر ہو کر آیا۔جو عمائد انگریزی میںسے ایک بڑا مستقل مزاج اور چست و چالاک سردار تھا۔ کلائیو اور وارن ہیسٹنگز نے انتظام سلطنت کی اصلاح میں ہر چند کوشش کی۔ مگر پھر بھی حاکموں کی طمع و بد نیتی کے سبب اب تک اُس میں فتور پڑ رہا تھا۔ لارڈ کار نوالِس نے عنانِ حکومت سنبھالتے ہی انتظام مملکت میں بڑے استقلال کے ساتھ اصلاحیں کرنی شروع کیں۔ کمپنی کے افسروں اور عہدہ داروں کو تنخواہیں تو بہت قلیل ملتی تھیں اور رشوت ستانی اور اور ناجائز طریقوں سے روپیہ کمانے کے موقعے بہت سے حاصل تھے۔ پس وہ اکثر لالچ میں آجاتے تھے۔ لارڈ لارنوالِس نے یہ حکم جاری کیا کہ اب سے ہر ایک سرکاری ملازم کو تنخواہ معقول ملا کرے تاکہ اُس کو تجارت یا کسی اور طریق ناجائز سے روپیہ کمانے کے لیے کچھ عذر باقی نہ رہے۔ پھر اس خیر اندیشی کے ساتھ ہی یہ قاعدہ بھی جاری کر دیا کہ جہاں کسی افسر نے کوئی خطا کی ۔ وہیں بے دھڑک اُس کو قرار واقعی سزاد ی۔ ان دونوں تدبیروں سے خاطر خواہ انتظام ہو گیا۔ میسور کی دوسری لڑائی کے اختتام کے بعد ٹیپو سلطان کی حکومت اور دولت آناً فاناً بڑھتی گئی اور چھ برس کے اندر یعنی ۱۷۸۴ء سے ۱۷۹۰ء تک اُس نے ایک تو یہ کام کیاکہ جب مرہٹوں اور نظام حیدر آباد نے متفق ہو کر بڑی جرار فوج سے اُس کے ملک پر یورش کی تو اُس نے خوب مقابلہ کیا اور اُن کا دائو چلنے نہ دیا۔ دوسرے کانڑا ، کورگ اور مالا بار کے ضلعے فتح کر لیے۔ مگر وہاں بڑے بڑے ظلم اور بے رحمیاں کیں ۔ چنانچہ ہندوئوں کے مندر مسمار کر دیے اور جہاں تک ہو سکا لوگوں کو زبردستی مسلمان کیا۔ پھر اخیر میں اُس نے ٹراونکور پر جو ہند کے انتہائے جنوب میں ہے۔ حملہ کیا ۔ یہا ں اُس نے بڑی زک کھائی۔ جب وہ ٹراونکور کی سرحدی دیوار پر جو راجہ نے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کھینچ لی تھی۔ حملہ آور ہوا تو راجہ کی فوج نے اُس کو شکست دے کر ہٹا دیا اور اُس میں ٹیپو کا بڑا بھاری نقصان ہوا اور وہ خود بھی بمشکل اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگا۔ اس زک سے ٹیپو کو ایسا غصہ آیا کہ اُس نے اس کا بدلہ لینے پر کمر باندھی اور ٹراونکور کی چھوٹی سی ریاست جس نے بڑا دل کر کے اُس کا سامنا کیا اور اُس کو ہرا دیا تھا۔ اُس کو مغلوب کرنے کے لیے بڑی تیاریاں شروع کیں۔ چونکہ راجہ ٹراونکور انگریزوں کا دوست تھا۔ اس لیے گورنر جنرل نے اُس کو ٹیپو کے ہاتھ سے بچانے کا ارادہ کر لیا۔ ۲- میسور کی تیسری لڑائی نظام حیدر آباد نے ۸۹- ۱۷۸۸ء میں ایک وعدہ سابقہ کے بموجب ضلع گنٹور جو دریائے کرشنا کے جنوب میں واقع ہے۔ انگریزوں کے سپرد کر کے یہ اقرار کیا کہ میں ٹیپو کے مقابلے میں سرکار انگریزی کو مدد دونگا اور انگریزوں کی طرف سے یہ اقرار ہوا کہ ہم ٹیپو سے جو ملک فتح کریں گے اُس میں سے تم کو بھی حصہ دیں گے۔ اسی طرح جب نظام انگریزوں کا ساتھ دینے کو تیار ہو گیا تو گورنر جنرل نے سرکار پونا کو بھی لکھ کر اسی اقرار پر اپنے ساتھ شریک کر لیا اور جس وقت نانا فرنویس کی معرفت یہ پخت و پز ہو چکی۔ تو لارڈ لارنوالِس ۱۷۹۰ء میںفوج کی سپہ سالاری کے لیے خود کلکتے سے مدراس آ پہنچا اور بنگلور کو جو ٹیپو سلطان کی عملداری میں دوسرے درجے کا مضبوط اور برا شہر تھا۔ ۱۷۹۱ء میں فتح کر لیا۔ پھر دو مہینے بعد ٹیپو اور اُس کی ساری فوج کو مقام اری کیڑا پر کامل شکست دی۔ اس کے بعد میسور کے پایۂ تخت سری رنگ پٹم کا فتح ہونا بھی کچھ دشوار نہ تھا۔ مگر مرہٹے اپنے قول کے موافق مدد کو نہ آئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا سردار ہری پنت لڑنا نہیں چاہتا تھا۔ صرف لُوٹنا چاہتا تھا۔ اُس نے اس قدر دیر لگائی کہ لڑائی کے وقت پر نہ پہنچا۔آخر جب لارڈ لارنوالِس کے پاس سامان رسد ہو چکا تو اُس کو مدراس کی جانب اُلٹا ہٹنا پڑا۔ یہاں آکر اُس نے سال کے اخیر تک آئندہ لڑائی کے لیے خوب تیاریاں بھی کیں اور کئی قلعے بھی فتح کر لیے۔ پھر نیا سال شروع ہوتے ہی سریرنگ پٹم پر چڑھ گیا اور قریب تھا کہ اُس کو فتح کر لے۔ کیونکہ اُس کی بیرونی فصیل پر قبضہ کر چکا تھا۔ مگر ٹیپو نے اُس کی شرطیں منظور کر کے صلح کر لی اور وہ شرطیں یہ تھی کہ ٹیپو اپنا آدھا ملک اور تین کروڑ روپیہ تو انگریزوں کو دے اور تیس لاکھ روپیہ مرہٹوں کے حوالے کرے۔ اور اپنے دو بیٹے یرغمال میں دے۔ اگرچہ نظام اور مرہٹوں کی سپاہ نے اس لڑائی میں کچھ کام نہیں دیا تھا۔ بلکہ انہوں نے دغا بازی کر کے ٹیپو سے خط و کتابت جاری رکھی تھی۔ تو بھی لارڈ کارنوالِس نے جو ملک مفتوحہ میں سے حصہ دینے کا اقرار کیا تھا۔ اُس کا بخوبی ایفا کیا۔ اس لڑائی میں وندیگل، بڑا محال اور مالابار کے ضلعے انگریزوں کے ہاتھ آئے اور کورگ کا علاقہ انہوں نے اُس کے راجہ کو دے دیا۔ اس طرح میسور کی تیسری لڑائی ۱۷۹۲ء میں ختم ہوگئی۔ جب انگریز اس جنگ میں اول سے آخر تک کامیاب رہے ۔تو اُس سے لارڈ کارنوالِس کی بڑی نیک نامی ہوئی۔ اور گو کمپنی نے اس امر کو نا پسند کیا کہ اُس نے ایک نیا ملک فتح کر کے سلطنت انگریزی میں شامل کر لیا۔ لیکن بادشاہ انگلستان اُس سے خوش ہوا اور اُس کو مارکو ئیس خطاب دیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ لارڈ لارنوالِس کی نیکنامی فتوحات ملکی کے باعث اس قدر نہیں ہے۔ جس قدر اس وجہ سے ہے کہ اُس نے ۱۷۹۳ء میں بنگالے کی مالگزاری کا بندوبست دوامی کر دیا۔ ۳- بندوبست دوامی ہند کے ہر خاندان شاہی کے عہد میں سرکاری آمدنی کا دارومدار اکثر محاصل زمین ہی پر رہاہے۔ چنانچہ شاہان مغلیہ کے خزانے زر مال گزاری ہی سے مالامال رہتے تھے۔ مگر جو اہل کار اُن کے عہد میں اراضیات بنگالہ کی سرکاری جمع تحصیل کرتے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ اپنے علاقوں کی زمینوں کے مالک بن بیٹھے تھے اور وہاں کی عدالت اور انتظام فوج بھی اُنہیں کے ہاتھ تھا اور اکثر اُن میں سے وہیں کے امرائے قدیم کی اولاد تھے۔ سرکار انگریزی نے اول اول تو اُن لوگوں کے منصب اور دعوے تسلیم نہ کیے مگر پیچھے کمپنی نے یہ حکم بھیجا کہ مصلحت ملکی اس امر کی متقضی ہے کہ مالگزاری کے سارے معاہدے ز مینداروں ہی سے کیے جائیں۔ پس اُس وقت یہ تجویز ٹھیری کہ اول دس سال کے لی بندوبست کیا جائے۔ پھر اگر وہ خاطر خواہ معلوم ہو تو اُسی کو دوامی کر دیا جائے۔ چنانچہ لارڈ لارنوالِس نے اپنے آئین مصدرہ ۱۷۹۳ء کے بموجب بنگالے کے زمینداروں کو ملک مطلق تسلیم کیا اور کاشتکار اُن کی رعیت قرار پائے۔ یہ انتظام اور تو سب طرح عمدہ تھا۔ مگر صرف ایک یہ نقص تھا کہ اس سے زمینداروں کو کاشتکاروں پر حد سے زیادہ اختیار حاصل ہو گیا تھا۔ مسٹر شور اس بندوبست کے دوامی ہونے کے برخلاف تھا۔ مگر لارڈ کارنوالِس اور کمپنی کے اُن افسروں نے جو انگلستان میں تھے۔ تصفیہ کر دیا کہ اس کو دوامی کیا جائے۔ ۴- عدالتوں کی اصلاحیں جب لارڈ کارنوالِس دوامی بندوبست کے کام سے فارغ ہو اتو عدالت ہائے دیوانی و فوجداری میں اصلاح کرنے پر متوجہ ہو گیا۔ چنانچہ دیوانی کی عدالتیں قائم کر کے اُن کے لیے علیحدہ جج مقرر کیے اور کلکٹروں سے اختیارات دیوانی لے لیے۔ اسی طرح فوجداری کی عدالتوں کے انتظام میں بھی اصلاح کی اور بڑی بڑی جگہ انگریز جج مقرر کیے۔ قانون عدالت کی یہ صورت ہوئی کہ پہلے کلکتے کی عدالت عالیہ کے جج سر ایلیا امپے نے کُچھ سیدھے سادے قاعدے باندھ دیے تھے اور کئی برس سے عدالتوں میں یہی جاری تھے۔ اب لارڈ کارنوالِس کے حکم سے سر جارج بارلو نے ان قواعد کو بدل کر اور کچھ وسعت دے کر ایک مجموعہ قوانین تیار کر دیا۔ عدالتہائے دیوانی اور اُن کے ضوابط کا انتظام جو اب جاری ہے۔ اگر چہ اُس میں کچھ تغیر و تبدل ہوتے رہے ہیں۔ مگر بحیثیت مجموعی اب تک وہی چلا آتا ہے۔ جو اُس وقت قرار پایا تھا۔ اس انتظام میں بڑا عیب یہ تھا کہ پولیس کو رعایا پر ظلم کرنے کا اختیار مل گیا تھا اور اہل ہند کو معدلت گستری میں کچھ دخل نہ تھا۔ یہاں تک کہ اپن کو چھوٹے چھوٹے ماتحت علاقوں کے سوا کوئی سرکاری خدمت نہیں ملتی تھی۔ مگر یہ عیب پیچھے رفع ہو گیا۔ ۵- سر جان شور گورنر جنرل جب لارڈ لارنوالِس اپنے عہدے سے علیحدہ ہو کر ولایت چلا گیا تو سر جان شور جو ایک بڑا لئیق ملکی حاکم تھا۔ اُس کی جگہ ہند کا گورنر جنرل مقرر ہوا۔ اور پانچ سال یعنی ۱۷۹۳ء سے ۱۷۹۸ء تک اس عہدے پر ممتاز رہا۔ مگر اُس کے عہد میں کچھ بہت مشہور واقعات ظہور میں نہیں آئے۔ جس طرح لارڈ کارنوالِس کمپنی کی ہدایت کے موافق ہند کے راجائوں اور نوابوں کے باہمی تنازعات میں اپنا قدم ڈالنے سے پرہیز کرتاتھا۔ اُسی طرح سر جان شور نے بھی کیا۔، اس وجہ سے ان دونوں کے عہد کا حال ایک ہی فصل میں بیان کرنا مناسب ہے۔ غرض اس عدم مداخلت کے طریق سے ٹیپو سلطان اور مرہٹوں کو اپنے اپنے دل کی ہوس نکالنے کا خوب موقع ملا۔ چنانچہ مرہٹوں نے شیر ہو کر نظام حیدر آباد پر وار کیا اور کُردلا کے میدان جنگ میں شکست دے کر اُس کو خاطر خواہ پست کر دیا۔ اس وقت مرہٹوں میںپیشوا کے وزیر اعظم نانافرنویس کا خوب طوطی بول رہا تھا۔ ۶- سعادت علی کا نواب اودھ مقرر ہونا اگرچہ سر جان شور ہندوستانی رئیسوں کے جھگڑوں میں دخل دینا نہ چاہتاتھا۔ مگر پھر بھی ایک بار اُس کو مداخلت کرنی پڑی اور اُس کی کیفیت یہ ہے کہ آصف الدولہ نواب اودھ بڑا بیوقوف اور ناعاقبت اندیش تھا۔ ساری عمر عیاشی میں غرق رہا اور کبھی خواب غفلت سے بیدار نہ ہوا۔ سرکار انگریزی کی طرف سے اُس کو ہر چند ہدایت ہوئی کہ اپنی ریاست کی بہبود کی طرف متوجہ ہو۔ مگر اُس نے ایک نہ سُنی ۔ آخر ۱۷۹۷ء میں اُس نے انتقال کیااور وزیر علی جو اُس کا بیٹا کہلاتا تھا۔ اُس کا جانشین ہوا۔ مگر جب سر جان شور کو ثابت ہوا کہ وہ آصف الدولہ کی منکوحہ بیوی سے نہیں ہے اور اُس کا چال چلن بھی بُرا ہے تو اس نے اُس کو معزول کر کے آصف الدولہ کے بھائی سعادت علی کو نواب اودھ مقرر کرنے کی تجویز کی۔ سعادت علی اُس وقت بنارس میں رہتا تھا۔ اس لے اُس کی مسند نشینی کی بابت جو عہدو پیمان ہوا وہ بنارس کے رزیڈنٹ کی معرفت عمل میں آیا۔ پھر چند روز بعد سعادت علی لکھنؤ روانہ ہو ا۔ اس وقت گورنر جنرل بھی وہاں مقیم تھا۔ اُس سے وزیر علی کی بے لگام سپاآمادۂ پرخاش ہو گئی اور اُسے اپنی جان بچانی مشکل پڑی۔ مگر پھر بھی اُس نے نہایت استقلال اور دلجمعی کے ساتھ وہیں اپنا قدم جمائے رکھا۔ اور سعادت علی کو مسند پر بٹھا کر وزیر علی کو بنارس بھیج دیا۔ اُس نے یہاں کچھ عرصے بعد رزیڈنٹ کو مار ڈالا اور چند روز تک فساد برپا رکھا۔ مگر آخر شکست کھا کر قید ہو گیا۔ سر جان شور لارڈ ٹین مث خطاب پا کر ۱۷۹۸ء میں ولایت چلا گیا۔ تیسری فصل ۔لارڈ ولزلی گورنر جنرل سلطنت میسور کی فتح اور حکومت مرہٹہ کا مغلوب ہونا۔ ۱۷۹۸ء سے ۱۸۰۵ء ۱- سب سڈی اے ری سسٹم (انتظام امدادی) سرکار انگریزی اور ہندوستانی ریاستوں کے باہم ایک رابطہ قائم ہے۔ جو سب سڈی ایری سسٹم (امدادی انتظام) کے نام سے مشہور ہے۔ اس موقع پر اُس کی کچھ تشریح کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ اول تو یہ ڈھنگ وارن ہیسٹنگز گورنر جنرل نے نواب اودھ کے ساتھ برتا تھا پھر لارڈ ولزلی نے کل ہندوستانی ریاستوں کے ساتھ اسی قاعدے پر رابطہ قائم کیا۔ اس قاعدے کو جب کوئی ریاست عہدنامے کی رو سے منظور کرتی تھی۔ تو وہ سرکار انگریزی کی حکومت کو ہند میں ساری حکومتوں پر غالب مانتی تھی اور سرکار اُس کی حفاظت اور سلامتی کی ذمہ وار ہو جاتی تھی۔ پھر اُس ریاست کی طرف سے یہ بھی اقرار ہوا کرتا تھا کہ ہم سرکار انگریزی کی منظوری بغیر نہ کسی سے جنگ کریں گے اور نہ صلح اور اپنے ہاں کنٹجنٹ فوج رکھیں گے اور اس سے ضرورت کے وقت سرکار کی مدد کریں گے۔ اس انتظام کی یہ بڑی شرطیں تھیں۔ مگر جیسا موقع و محل ہوتا تھا۔ اُس کے موافق تغیر و تبدل بھی ہو جاتا تھا۔ لارڈ کارنوالِس اور سر جان شور کے عہد میں سرکار انگریزی کا ہندوستانی ریاستوں کے ساتھ جس طرح کا رابطہ تھا۔ اُس کی علت غائی یہ تھی کہ ہندوستانی ریاستوں کی قوت آپس میں ایسی تلی رہے کہ ایک دوسرے سے بہت کم یا زیادہ نہ ہو جائے۔ مگر یہ نیا قاعدہ اس سے عمدہ تھا اور اب جا بجا اسی کے مطابق عملدرآمد ہوا۔ ۲- ہندوستان میں فرانسیسی حکومت کا اثر اُس وقت نپولین بونا پارٹ بڑے زور میں تھا اور لارڈ ولزلی کو بڑا فکر تھا کہ کہیں وہ ہند پر حملہ آور نہ ہو۔ فرانس کی اُس وقت وہ حالت بھی۔ جو چند سال بعد روس کی رہی۔ یعنی ہر وقت اُس کی آمد آمد کی خبر گرم رہتی تھی۔ نیزفرانسیسی پلٹنیں نظام حیدرآ باد کو ڈرایا کرتی تھیں۔سیندھیا کے سپاہیوں کا سردار فرانسیسی تھا۔ ٹیپو سلطان میسور فرانسیسی ایلچی سے خفیہ طور پر خطو کتابت کر رہا تھا اور اُس نے اپنے علاقے میں آزادی کی بُو بھی پھیلا دی تھی۔ اُن سیب پر طُرہ یہ کہ نپولین بذات خود اُس وقت مصر میں تھا اور اسے سکندراعظم کی فتوحات کے خواب آرہے تھے اور کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کس طرف حملہ آور ہو گا۔ ۳- ہند کی حالت لارڈ ولزلی نے ہندوستان سے فرانسیسی حکومت ہمیشہ کے لیے دور کرنے کی تدبیر سوچ لی تھی۔ بنگالے میں کلائیو کی تلوار اور وارن ہیسٹنگز کی تدابیر نے انگریزوں کو سب طاقتوں سے بڑا تسلیم کرا دیا تھا۔ اس صدی کے ختم ہونے سے پہلے ہی انگریزوں کی طاقت بحری لحاظ سے بھی تسلیم ہو چکی تھی۔ نواب وزیر والئے اودھ نے انگریزی فوج کے لیے بھی خراج ادا کرنا منظور کر لیا تھا۔ نواب پوری طرح سے روپیہ ادانہ کر سکتاتھا اور وہ مقروض ہو گیا تھا۔ اس لیے اُسے اپنا علاقہ انگریزوں کی نذر کرنا پڑا۔ ۱۸۰۱ء کے عہد نامۂ لکھنؤ سے انگریزوں کو گنگا اور جمنا کے سرسبز قطعات اور رہیلکھنڈ بھی مل گیا۔ لارڈ ولزلی کے عہد سے پہلے جنوبی ہندوستان میں انگریزی مقبوضات صرف ساحلک پر کے شہر مدراس اور بمبئی ہی تھے۔لارڈ ولزلی نے یہ ارادہ کیا کہ انگریزی حکومت دہلی تک پھیلائے اور جنوبی ریاستوں کو سب سڈی اے ری سسٹم پر لے آئے۔ دیسی ریاستوں کو باہمی سازشوں سے اُس کو اپنی تدابیر پوری کرنے کا موقع مل گیا اور اب وہ وقت آ پہنچا کہ انگریز ہندوستان کے مالک بن جائیں۔ یا وہ ہندوستان سے چلے جائیں۔ مغلیہ سلطنت بالکل تباہ ہو چکی تھی اور حکومت یا تو مسلمان سرداروں یا ہندو راجائوں (جن سے بڑے مرہٹے تھے) اور یا انگریزوں کے ہاتھ میں چلی گئی تھی۔ لارڈ ولزلی نے مصمم ارادہ کیا کہ کسی نہ کسی طرح انگریز ہی سارے ہند کے مالک بن جائیں۔ ۴- میسور کی چوتھی لڑائی جب لارڈ ولزلی ہند کا گورنر جنرل مقرر ہوکر آیا تو کئی ہندوستانی ریاستوں نے سرکار کی مخالفت پر ایکا کر رکھا تھا اور اُن کے اتفاق کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ پچھلے دو گورنر جنرلوں نے ہندوستانی ریاستون کے معاملات میں مداخلت کرنے سے ہاتھ اُٹھا لیا تھا اور اُن کے لڑائی جھگڑوں میں شریک نہ ہوتے تھے۔ اس لیے ان کو انگریزوں کے مقابلے کی جرأت ہو گئی تھی۔ دوسرے یہ کہ فرانسیس جن سے سرکار انگریزی کی مدت سے لڑائی چھن رہی تھی۔ انہوں نے سپاہ اور روپے دونوں سے اُن ریاستوں کو مدد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ان وجوہات سے ٹیپو سلطان اور نظام حیدرآباد اور سیندھیا جو تمام مرہٹوں میں نہایت زبردست تھا۔ یہ سب سرکار انگریزی کی مخالفت پر آمادہ تھے اور فرانسیسیوں کے کہنے پر چلتے اور اپنی اپنی فوج کو اکثر فرانسیس افسروں کے ماتحت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ زمان شاہ درانی جو کابل و پنجاب کا بادشاہ اور ہندوستان کے دشمن مہیب احمد شاہ ابدالی کاپوتا تھا ، اُس نے بھی ٹیپو کی حمایت کے لیے شمالی ہند پر یورش کرنے کا قصد کیا۔ مگر لارڈ ولزلی اپنے دشمنوں پر غالب آیا اور سارے خوف و خطر مٹ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی بڑا صاحب ہمت اور لئیق حاکم تھا اور فوج کے سپہ سالار جو اُس کے ماتحت تھے۔ وہ بھی حسن اتفاق سے بڑے کاردان اور بہادر سپاہی تھے اور اُن میں خاص کر اُس کا بھائی کرنیل ولزلی بڑا ہی عمدہ سپہ سالارتھا۔ اُس نے آئندہ اپنی شمشیر کے زور سے کمال ناموری حاصل کی اور ڈیوک او ولنگٹن خطاب پایا۔ لارڈ ولزلی نے اول تو نظام حیدر آبد کو گانٹھ کر سب سڈی ایری قاعدے پر اُس سے عہد نامہ کیا۔ چنانچہ نظام نے ٹیپو کے مقابلے پر انگریزوں کے لیے ایک بڑی فوج بھیجی۔ جس کا حاکم کرنیل ولزلی مقرر ہوا۔ اس کے بعد گورنر جنرل جنگ میسور کے اہتمام کے لیے بذاتِ خود مدراس چلا آیا۔ اس لڑائی میں گورنر جنرل کے اس قدر ہمہ تن مصروف ہنے کا ایک سبب یہ تھی تھا کہ فرانس کا بڑا نامی گرامی سپہ سالار نپولین بونا پارٹ اُس وقت مصر پر جنگ کر رہا تھا اور ٹیپو نے انگریزوں کو ہند سے نکال دینے کے لیے برملا اُس کی مدد مانگی تھی اور یہ کہا تھا کہ میں فرانس کی سلطنت جمہور میں دل وجان سے شریک و متفق ہوں۔ غرض ان وجوہات سے لارڈ ولزلی بھی اس لڑائی کی تیاری میں کمال سرگرم تھا۔ پس اُس نے حکم دیا کہ دو فوجیں دو طرف سے میسور پر حملہ کریں۔