موضوعات فکر اقبال پروفیسر سمیع اللہ قریشی اقبال اکادمی پاکستان عبداللہ قریشی اور والدہ محترمہ رشیدہ خاتون کے نام خطبات اقبال کا پس منظر (۱) مسلمانوں میں اپنی فکری میراث اور مذہبی روایت کو تنقیدی نظر سے دیکھنے کا رحجان بحیثیت ایک تحریک انیسویں صدی میں ہوا۔ رفتہ رفتہ مغربی علوم مشرق میں رواج پانے لگے اور مذہبی مسلمات کو تشکیک کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔ ۱۴۰۶ء کے بعد سے جب ابن خلدون نے وفات پائی۔ ۱۸۳۰ء تک اسلامی دنیا علوم و فنون کی ہر شاخ میں فکر تازہ سے محرومر ہی۔ انہی درمیانی صدیوں میں تہذیب مغرب کی نمو ہوئی اور اس کے عالمگیر امکانات واضح ہوئے۔ انیسویں صدی کی ابتداء میں دنیائے اسلام میں جگہ جگہ ایسے مفکرین ابھرے جنہوں نے چاہا کہ اسلامی تہذیب کے علمی اور ثقافتی ورثے کی تشکیل نو کے سامان کیے جائیں۔ ایسے ہی دوسری صدی ہجری کے معتزلہ اور تعقل پسند اخوان الصفا کی مذہبی تشریحات پھر سے سامنے آنے لگیں تاکہ متکلمین سائنس، فلسفہ اور مذہب کے مسلمات کا تعارض کسی طور رفع کر سکیں، لیکن سابقہ صدیوں میں مغربی نشاۃ ثانیہ سے اغماض برتنے اور تحریک احیائے علوم سے عمداً گریزاں رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان غیر شعوری طور پر غرور کا شکار ہو گئے۔ یہ انیسویں صدی سے ذرا قبل کا ایک تہذیبی حادثہ بلکہ المیہ تھا جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ بیت گیا اور اس غرور نے انہیں علوم و فنون کے نئے افق تلاش کرنے سے روک دیا۔ برعظیم پاک و ہند میں حالت قدرے مختلف رہی۔ اگرچہ غرور یہاں بھی کچھ کم نہ تھا، تاہم اٹھارہویں صدی میں شاہ ولی اللہؒ کی صحت مندانہ فکر کے اثرات مسلمان معاشرے نے بالعموم اور آنے والے مفکرین نے بالخصوص بڑی شدت سے قبول کیے۔ اسلامی فکر کی تاریخ میں صدیوں بعد شاہ ولی اللہ پہلے شخص ہیں کہ اجتہاد سے متعلق ان کی تعلیمات میں اپنے عہد کے علماء کے رویے سے بے اطمینانی کا برملا اظہار ہوا۔ انہوں نے ابن خلدون کے بعد صدیوں کے فاصلے سے خالص عمرانی انداز میں سوچا اور معاشرتی ذمہ داری یا معاشرتی توازن پر زور دیا۔ اس انقلابی فکر میں تغیر کا احساس انیسویں صدی کے آخر میں آ کر ہوا۔ سید جمال الدین افغانی، سرسید احمد خاں، علامہ رشید رضا، فرید وجدی آفندی، مفتی محمد عبدہ، شیخ جوہری طنطاوی وغیرہ ہم ان بزرگوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے آگے چل کر اسلام میں عقلیت کی تحریک کو سہارا دیا۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں: ’’ سرسید احمد خاں کا اثر بحیثیت مجموعی ہندوستان تک محدود رہا۔ غالباً یہ عصر جدید کے پہلے مسلمان تھے جنہوں نے آنے والے دور کی جھلک دیکھ لی تھی۔ سرسید احمد خاں کی حقیقی عظمت اس واقعہ پر مبنی ہے کہ یہ پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کو جدید رنگ میں پیش کرنے کی سعی کی اور سر گرم عمل ہوئے۔‘‘ (حرف اقبال) کچھ اسی قسم کے خیالات کو حالی نے حیات جاوید میں محفوظ کیا ہے: ’’ سرسید کو کسی پہلو سے بھی دیکھا جائے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑا بھاری پتھر تھا جو اسلامی معاشرے کے ٹھہرے ہوئے پانی میں لڑھکا دیا گیا اور اس نے جو لہریں پیدا کیں، وہ آج تک برابر حرکت میں ہیں، خواہ وہ ہمیشہ اس سمت میں نہ ہوں جسے سرسید پسند کرتے تھے۔‘‘ (حیات جاوید) سرسید پہلے آدمی ہیں جنہوں نے تقلید محض کو مسلمان کے وقار کے خلاف گردانا۔ چنانچہ برصغیر میں اسلامی فکر کی تشکیل جدید میں جن بزرگوں کی کوششوں کو زیادہ دخل ہے، ان میں نمایاں سرسید، سید امیر علی، مولوی چراغ علی اور اقبال ہیں۔ یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن کو اپنا رہنما ٹھہرایا اور تعقطل (Rationalism) نیز حصول علم کے جملہ ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ تر وحی الٰہی پر اپنے مذہبی فکر کی بنیاد رکھی۔ (۲) اقبال جو بیسویں صدی کے مسلمان متکلمین اور فقہا میں بہت نمایاں ہیں اور جو اسلام میں تحریک تعقل کے پرجوش موید تھے، فلسفہ جدید کا طالب ہونے کی وجہ سے انہیں اس بات کا پورا پورا احساس تھا کہ کسی بھی تہذیب کی فکری بنیاد فلسفے پر ہی استوار ہوا کرتی ہے اور اقوام عالم اپنے مخصوص فلسفے کے سہارے ارتقاء کی منزلیں طے کرتی اور سیاسی، ثقافتی، عمرانی، تعلیمی اور معاشی تقاضوں سے عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ اپنے مخصوص فلسفہ حیات سے گریز کر کے ہر تہذیب پہلے زوال آمادہ اور رفتہ رفتہ موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ تہذیبی زوال آمادگی کا مرض اس وقت لاحق ہوتا ہے جب ان کا انداز فکر و نظر اور علم و عمل عصری تقاضوں کی پروا نہیں کرتا۔ کسی تہذیب پر بیتنے والا یہ لمحہ بے حد نازک ہوتا ہے۔ اقبال جس عہد میں ایک متکلم، فقیہ، فلسفی، شاعر اور تہذیب اسلامی کے نباض کی حیثیت سے ابھرے، برصغیر کے مسلمان عوام ذہنی طور پر پسماندہ، نفسیاتی مریض اور زندگی کی ہر سطح پر احساس محرومی کا شکار تھے۔ وہ صرف ماضی میں گم تھے۔ ان کا حال بے معنی تھا اور مستقبل سے ان کا تعلق صرف مہدی کے موہوم انتظار کی حد تک باقی تھا ورنہ وہ بری طرح مایوس اور قنوطیت کا شکار تھے۔ مسلمانوں کے ماضی کے پرشوکت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن محض ماضی پرستی کی بناء پر مستقبل اور با وقار مستقبل کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔ جس قوم کا اپنے مذہب کی انقلاب آفریں تعلیم پر یقیں باقی نہ رہا ہو وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور مستقبل کی ضرورتوں سے خوف زدہ رہنے لگتی ہے۔ نتیجتاً خود اعتمادی اور عمل کی قوت کھو دیتی ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں اقبال نے بھی یہی سوچتے ہوئے تحریر کیا: ’’ ہندوستان کے مسلمان کئی صدیوں سے ایرانی تاثرات کے اثر میں ہیں۔ ان کو عربی اسلام سے اور اس کے نصب ا لعین اور غرض و غایت سے آشنائی نہیں۔‘‘ ’’ روزگار فقیر‘‘ کے حوالے سے یہ قول بھی انہی کا ہے کہ: ’’ ہندوستان کے مسلمان اس عربی اسلام کو بہت کچھ فراموش کر چکے ہیں اور عجمی اسلام ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔‘‘ اور یہ بھی کہا کہ: ’’ اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید اسلام کی تاریخ میں ایسا وقت پہلیکبھی نہیں آیا۔ ‘‘ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کی مادی اور ذہنی پسماندگی کا یہی تاریخی پس منظر تھا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام کی فکری اور ثقافتی ہیئت کی تشکیل جدید کو اپنا موضوع بنایا۔ ۱۹۲۶ء میں سید سلیمان ندوی کو ایک خط میں لکھا: ’’ مسلمانوں پر اس وقت روحانی اعتبار سے وہی زمانہ آ رہا ہے جس کی ابتدا یورپ کی تاریخ میں لوتھر کے عہد سے ہوئی، مگر چونکہ اسلامی تحریک کی کوئی خاص شخصیت رہنما نہیں ہے اس واسطے اس تحریک کا مستقبل خطرات سے خالی نہیں، اور نہ عامہ المسلمین کو یہ معلوم ہے کہ اصلاح لوتھر نے مسیحیت کے لیے کیا نتائج پیدا کیے۔ ‘‘ (اقبال نامہ) ۱۹۲۵ء میں یہی سوچتے ہوئے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نظر سے زمانہ حال کے فقہ (Jurisprudence) پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ہدایت کو ثابت کر دے گاوہی اسلام کا مجدد ہو گا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم۔۔۔۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کو تحریر فرمایا: ’’ افسوس ہے زمانہ حال کے اسلامی فقہا یا تو زمانے کے میلان طبیعت سے بالکل بے خبر ہیں یا قدامت پرستی میں مبتلا ہیں۔ مذہب اسلام اس وقت زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے۔‘‘ ان حالات میں اور کچھ ایسی ہی سوچ کے تحت اقبال نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کا بیڑا اٹھایا اور مسلمان دانشوروں، ذہین افراد اور طبقہ علماء کے لیے ایسے راستے تجویز کیے جو درخشندہ اور جاندار مستقبل کی طرف لے جاتے ہوں۔ وہ خود خطہ مشرق کے فرد تھے اس لیے مشرقی روایات کی مخالفت کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہیں ان روایات پر ناز بھی تھا ۔ دوسری طرف مغربی افکار کو تمام تر رد کر دینا بھی عالمانہ دیانت داری کے خلاف تھا لہٰذا اپنے خطبات میں اقبال نے پوری کوشش کی کہ فکر و دانش اور علوم و فنون کے میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ کیا ہے اسے گنایا جائے۔ اقبال نے مشرق و مغرب کے افکار کو متناسب اور موزوں امتزاج کے ساتھ قرآنی معیار علم پر جانچ کر نئی اسلامی فکر کا موضوع بنایا لیکن مغرب سے بس اسی قدر تعلق رکھا کہ متکلم کی حیثیت سے سائنسی رویے اور محسوسات سے رابطہ رکھا جائے کہ (بقول اقبال) یہ بھی اصل میں اسلامی فکر ہی کی میراث ہے۔ تاہم اقبال نے کہیں اور کبھی تہذیب و ثقافت کے ان پہلوؤں کو قبول نہیں کیا، جو دینی اقدار کے برعکس تھے۔ ان کے نزدیک مشرق کی اخلاقی اور مذہبی فضا صرف اس لیے زہر آلود ہوئی کہ عقیدۂ آخرت کے بارے میں مسلمانوں نے مایوس کن غور و فکر کا ثبوت دیا۔ ان حالات میں اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی فکر نو کی تشکیل جدید محسوس حقائق ہی پر استوار کی جائے۔ اقبال اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں نے اپنی نا اہلی اور روحانی افلاس کے سبب وحدت ملت کے مفہوم کو وطنیت اور قوم پرستی میں خبط کر دیا ہے اور وہ ایک طرح سے اپنے روحانی احیاء سے مایوس ہو کر نام نہاد تصوف کی فکری آسودی کی جانب نکل گئے ہیں۔ انہیں یقین تھا کہ ’’ اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسان کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے۔ اس کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔‘‘ چنانچہ مسلم کانفرنس کے خطبہ صدارت ۱۹۳۱ء میں فرمایا: ’’ مگر آپ کے مذہب کا یہ اعلیٰ تخیل مولویوں اور فقہ پرستوں کی دقیانوسی خیال آرائیوں سے رہائی کا طالب ہے۔ روحانی طور پر ہم ایسے خیالات اور جذبات کے قید خانے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جنہیں ہم نے صدیوں کے دوران میں اپنے گردا گرد اپنے ہی ہاتھوں سے بن لیا ہے اور اس بات کے کہنے کی ضرورت ہے (اگرچہ یہ بات بوڑھی نسل کے لیے باعث شرم ہے) کہ ہم نوجوان نسل کو اقتصادی، سیاسی، نیز مذہبی خطرناک مواقع کے لیے، جو موجودہ دور اپنے ہمرا لا رہا ہے، مسلح کرنے سے قاصر رہے ہیں۔‘‘ اقبال سمجھتے تھے کہ اسلام محض عقائد کے مجموعے کا نام نہیں۔ نہ اسے مذہبی اجارہ داروں کی ملکیت تسلیم کیا جا سکتا ہے، بلکہ یہ ایک سراپا حرکت دین ہے اور اسلام ماہیت حیات و کائنات کے عرفان اور اس کے مطابق زندگی کے رحجان اور میلان کا نام ہے، اور اسلام کا مقصد زندگی کو کسی ایک شکل میں جامد کرنا ہرگز نہیں، بلکہ اسے ایک لامتناہی انقلاب و ارتقاء کا راستہ بنانا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’ اسلام جدید تفکر اور تجربے کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور کوئی ولی یا پیغمبر بھی اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکی کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا۔‘‘ (حرف اقبال) ایک اور تحریر میں ان کے قلم سے یہ جملے بھی ادا ہوئے کہ: ’’ چونکہ ہمارے فقہا کو ایک عرصہ دراز سے عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ عصرجدید کی داعیات سے بالکل بیگانہ ہیں، لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اس میں از سر نو قوت پیدا کرنے کے لیے اس کی ترکیب و تعمیر کی طرف متوجہ ہوں۔‘‘ اسی طرح قسطنطنیہ کے شعبہ دینیات کے سربراہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا: ’’ ادارہ دینیات پر کسی ایسے شخص کو پروفیسر متعین کیا جائے جس نے اسلامی دینیات اور جدید یورپین فکر و تصورات کا مطالعہ کیا ہو تاکہ وہ مسلم دینیات کو افکار جدیدہ کا ہم پایہ بنا سکے۔ قدیم اسلامی دینیات کا تار و پود بکھر چکا ہے جس کا مدار زیادہ تر یونانی حکمت پر تھا۔ وقت آ چکا ہے کہ اس کی نئی شیرازہ بندی کی جائے۔ ‘‘ (اقبال نامہ) (۳) دسمبر ۱۹۲۸ء کے آخری دنوں میں اقبال کو دعوت دی گئی کہ وہ مدراس مسلم ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام اپنے خطبات پیش کریں۔ چنانچہا قبال نے مدراس کے سہ روزہ قیام کے دوران خطبات دیے۔ جنوبی ہندوستان کے اس عملی سفر میں اقبال بنگلور اور سرنگا پٹم بھی ٹھہرے۔ ایک خطبہ میسور یونیورسٹی میں بھی دیا۔ جنوری ۱۹۲۹ء میں اقبال حیدر آباد دکن پہنچے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام خطبات کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہاں سے اقبال علی گڑھ آئے اور مسلم یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ نے ان خطبات کے تیسرے دور کا اہتمام کیا۔ یہاں خطبات کی افتتاحی تقریب کا آغاز وائس چانسلر سر راس مسعود کی تقریر سے ہوا اور اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سید ظفر الحسن صدر شعبہ فلسفہ نے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے خطبات اقبال کو ذہنی مائدہ (Intellectual Feast) قرار دیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا: ’’ اسلام کے اصولوں اور جدید سائنس اور فلسفہ پر اقبال بہت گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان مسائل پر انہیں بھرپور اور تازہ تر معلومات حاصل ہیں۔ ایک نئے فکری نظام کی تشکیل کے لیے وہ حد درجہ صاحب فراست ہیں۔ اسلام اور فلسفہ کو قریب تر لانے پر جو قدرت انہیں حاصل ہے اس میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی چیز نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ اس روایت کا ایک دفعہ پھر احیاء کریں جس کا آغاز صدیوں پہلے نظام اور اشعری جیسے علماء نے اس وقت کیا تھا جب ان کا سامنا یونانی علوم اور فلسفہ سے ہوا۔ اپنے خطبات میں جن سے انہوں نے ہمیں نوازا ہے۔ گویا ایک نئے علم کلام کی بنیاد رکھی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ کام صرف وہی کر سکتے تھے۔‘‘ ڈاکٹر ظفر الحسن نے ان خطبات کو نہ صرف اسلام کے عظیم اصولوں کی شاندار تشریح قرار دیا بلکہ انہیں علمائے وقت کے لیے ’’ معنی خیز ذہنی تحریک‘‘ (Pregnant Suggestions) کا نام بھی دیا۔ ۱۹۳۰ء میں جب ان خطبات کا پہلا ایڈیشن لندن سے شائع ہوا تو ان کی تعداد چھ تھی۔ ۱۹۳۴ء میں Aristotelien Society, London کی دعوت پر جب ساتواں خطبہ لکھا گیا تو خفیف لفظی ترمیمات کے ساتھ اسی سال یہ مجموعہ اپنی قطعی اور مکمل شکل میں ’’ The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam‘‘ کے نام سے شائع ہو گیا۔ اقبال کے ہم عصر مستشرق سر ڈینسن راس کو یہ تسلیم کرتے ہی بنی کہ: ’’ خطبات میں اقبال نے اسلام کو مرکز بنا کر ایک بہتر نظام عالم کے قیام کے لیے اپنے نظریات اور مقاصد پیش کیے اور وہ غالباً ان خطبات ہی کی بناء پر زیادہ بہتر طریقہ سے یاد رکھے جائیں گے۔‘‘ (اردو، اقبال نمبر) (۴) اسلامی الٰہیات یا اسلامی فکر کی تشکیل نو کے عنوانس ے ترتیب دیے گئے ان خطبات کا آغاز جس جملے سے ہوتا ہے وہی دراصل تمام خطبات کی روح ہے یعنی ’’ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فکر کے مقابلے میں عمل پر زیادہ زور دیتی ہے۔‘‘ دیباچہ بے حد فکر انگیز ہے جس میں اقبال نے کھل کر کہا کہ ’’ صحیح قسم کے سلسلہ ہائے تصوف نے تو بے شک ہم مسلمانوں میں مذہبی احوال و واردات کی تشکیل اور رہنمائی میں بڑی قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں، لیکن آگے چل کر ان کی نمائندگی جن حضرات کے حصے میں آئی، وہ عصر حاضر کے ذہن سے بالکل فائدہ نہ اٹھا سکے وہ آج بھی انہی طریقوں سے کام لے رہے ہیں جو ان لوگوں کے لیے وضع کئے گئے تھے جن کا تہذیبی مطمع نظر بعض اہم پہلوؤں کے لحاظ سے ہمارے مطمع نظر سے بہت مختلف تھا۔ میں نے اسلام کی روایات،فکر، علیٰ ہذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو علم انسان کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئیں، الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ مطالبہ غلط نہیں کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔ یہ وقت اس طرح کے کسی کام کے لیے بے حد مساعد ہے۔ وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سر دست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں، تاہم یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور و فکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جیسے جیسے جہان علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے، فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں، اور شاید ان نظریوں سے جو ان خطبات میں پیش کیے گئے ہیں، زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کے نشوونما پر بہ احتیاط نظر رکھیں اوراس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔‘‘ میر غلام بھیک نیرنگ کو خطبات کے ترجمے کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا: ’’ ان خطبات کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفے سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے تخیلات میں خامیاں ہیں تو ان کو رفع کیا جائے۔ میرا کام زیادہ تر تعمیر ہی ہے اور اس تعمیر میں میں نے فلسفہ اسلام کی بہترین روایات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے، مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اردو خو ان دنیا کو شاید ان سے فائدہ نہ پہنچے کیونکہ بہت سی باتوں کا علم میں نے فرض کر لیا ہے کہ پڑھنے یا سننے والے کو پہلے سے حاصل ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہ تھا۔‘‘ (۵) مختلف عناوین کے تحت ترتیب دیے گئے ان سات خطبات کے موضوعات بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ان میں ایک ایسا تسلسل اور منطقی ربط موجود ہے جو انہیں ایک مکمل کتاب کی شکل دے دیتا ہے۔ خطبات کے موضوعات بالترتیب یہ ہیں: ۱۔ علم اور مذہبی مشاہدات ۲۔ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار ۳۔ ذات الٰہی کا تصور اور حقیقت دعا ۴۔ خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الموت ۵۔ اسلامی ثقافت کی روح ۶۔ الاجتہاد فی اسلام ۷۔ کیا مذہب کا امکان ہے؟ اقبال نے فکر مذہبی کو موضوع قرار دیا ہے۔ یہی چیز اسلام کے واسطے سے الٰہیات اسلامی کہلاتی ہے۔ پہلے دو خطبوں میں علم اور ذرائع علم پر بحث ہے اور فکر و وجدان کی راہ سے ذات الٰہی کا اثبات کیا گیا ہے۔ عقل اور وجدان، علم کے دو معتبر ذرائع ہیں۔ عقل خیالات، اور وجدان، محسوسات کے لیے ذمہ دار ہے مگر وجدان بھی ایک طرح کی اعلیٰ تر عقل ہی ہے اور اسلامی تہذیب کے ارتقاء میں دونوں ممد و معاون ہیں۔ ذرائع علم کی تشریح کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ سماعت تو تاریخ انسانیت کا مطالعہ ہے، بصارت سے مراد فطری علوم یا مطالعہ فطرت ہے او ردل و دماغ میں انسان کی ذہنی اور روحانی صلاحیتیں شامل ہیں۔ جیسے جیسے انسان ان تمام ذرائع کے صحیح استعمال پر قادر ہوتا جائے گا، انفس و آفاق میں خدا کے قوانین اور ان کے اثرات (یا آیات الٰہیہ کی تفہیم) اس پر منکشف ہوتے چلے جائیں گے۔ اقبال کے نزدیک وجدان کی طاقت انسان کے تحت الشعور کا حصہ ہے اس لیے یہ محسوسات کا حصہ بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔ روح کے وجود سے انکار ممکن نہیں۔ رسول عربی نے وقت یا زمانے کو خدا کہا اور وقت کو عصر حاضر کے فلسفی اور سائنس دان بھی ازلی اور ابدی مانتے ہیں۔ یہ احساس گویا خدا کے تصور کا ایک نیا پہلو ہے۔ یعنی خدا محسوس تو نہیں کیا جا سکتالیکن خود محسوسات کا وجود خدا کا ثبوت ہے۔ اسی کو اقبال وجدانی تجربے کی اہمیت قرار دیتے ہیں۔ یونانی فلسفے کے زیر اثر جونہی مسلمانوں نے عقل و وجدان میں تفریق پیدا کر دی، وہ علوم و فنون میں مغرب سے پیچھے رہ گئے۔ اقبال نے محسوس کیا کہ نظریہ اضافیت، اور زمان و مکان کے نئے نظریات نے عقل و وجدان کا مفہوم وسیع کر دیا ہے۔ اب مسلمانوں کو اسلام کی تہذیبی ترقی کے لیے نئے افق تلاش کرنا ہوں گے۔ چنانچہ تیسرے اور چوتھے خطبے میں ذات الٰہی کا تصور اس کی صفات، انسان، کائنات، حیات بعد الموت، دعا خیر و شر اور جبر و قدر کے مسائل زیر بحث آئے۔ گویا اس بات پر غور کیا گیا ہے کہ زمان و مکاں میں انسان کا نظریہ حیات کیا ہونا چاہیے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر خدا نہ ہوتا تو اس کا تصور بھی نہ ہوتا کیونکہ معروض کے بغیر تصور کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہی وہ روحانی تجربہ ہے جس سے وجدانی کیفیت نصیب ہوتی ہے اور یہ قوت مادی، حیاتی اور شعوری تین مدارج سے گزر کر نصیب ہوتی ہے۔ حیات ایک ایسا جوہر ہے جو انسانی زندگی کی خارجی اور داخلی سمتوں کو متصل کرتا ہے۔ عالم موجودات میں ہر چیز متحرک ہے اور زندگی میں یقین محکم کے بغیر کسی مثبت عمل کی توقع عبث ہے۔ یہاں اقبال نے خودی کے قدر آفریں اور موثر پہلوؤں پر بحث کی ہے اور انسان کامل کی خودی کو قدر آفریں قرار دیا ہے۔ اقبال کے نزدیک انسان کامل کی خودی بقائے دوام حاصل کرتی ہے۔ مادے کو اقبال نے ایک ایسی روح قرار دیا ہے جو زمان و مکان میں محصور ہے۔ در حقیقت یہی روح وحدت انسانی ہے جو نصب العین کی تلاش میں سر گرم عمل ہے اور اسی نصب العین کو زمان و مکان میں متشکل کرنے کی آرزو دراصل قیام مملکت کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی مادی یا دنیاوی ہے، اس کی اصل روحانی ہے۔ مادی اشیاء کی کوئی حقیقت نہیں جب تک کہ ان کی بنیاد روحانی نہ ہو۔ پس اسلام کے نقطہ نظر سے مملکت، انسانی اداروں کے روحانی پہلو کو اپنے معراج تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے۔ اسلامی فکر و فلسفے کا امتیاز یہی ہے کہ مسلمان، روح، مادہ، حیات و ممات اور حیات بعد الموت پر یقین محکم رکھے۔ جب ایسا ہو گا تو اس دنیا میں انسان کے بنیادی مسائل یعنی خدا، تخلیق، دعا، جبر و اختیار اور حیات بعد الموت کے تصورات کا مفہوم آسان ہو جائے گا۔ اسی کے ادراک پر اسلامی ثقافت کی بنیاد ہے۔ اسلامی ثقافت، اسلام کے نظام مدنیت، ریاست اور قانون کی بحث پانچویں اور چھٹے خطبے میں کی گئی ہے۔ اقبال اسلام کی تمدنی تاریخ کو باطنی اور ظاہری دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اسلام کی ظاہری تاریخ مسلمان بادشاہوں کے جاہ و جلال سے عبارت ہے، جب کہ باطنی تاریخ وہ ہے جس پر اسلامی فکر دینی کی تشکیل جدید کی بنیاد ہے۔ اسلام نے تاریخ عالم میں پہلو دار انقلاب برپا کیا۔ علم کی دنیا میں اسلام کا ظہور اپنی ذات میں استقرائی عمل کے ظہور کے مترادف ہے۔ الہامی کتب میں صرف اسلام نے تدبر و تفکر اور مشاہدہ انفس و آفاق کی دعوت عام دی ہے۔ انسان کی تاریخ قرآن کے نزدیک تیسرا ذریعہ علم ہے۔ عروج و زوال اقوام کے بارے میں قرآن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اقوام کو اجتماعی طور پر جانچا جات اہے اور انہیں اپنی بد کرداریوں کے نتیجے اسی دنیا میں بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہ انسانی معاشرے کا سائنسی تقاضا ہے۔ سائنسی تاریخ نگاری کا امکان اس وقت روشن ہوتا ہے جب پختہ عقل، وسیع تجربہ اور زندگی اور وقت کی ماہیت کے بارے میں بعض بنیادی تصورات سے پوری آگاہی حاصل ہو۔ اسلامی ثقافت کا مفہوم اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ مشاہدات کے لیے زاویہ نظر بدلتے ہی تصورات کو نیا مفہوم مل جائے کیونکہ اسلام بذات خود تحریک ہے جو ہر دور کے تغیرات کو اپنے اندر جذب کر کے تجربے اور روایت کو نئے سرے سے منظم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن محض عقیدے کی بجائے عمل یعنی تجربے پر زور دیتا ہے۔ جب تک اسلام ایک تہذیبی قوت رہا، مسلمان دنیا پر چھائے رہے۔ جونہی مذہب عقائد و رسوم کا ایک انبار بنا، اشاعت اسلام اور اسلام کے تہذیبی افق کی وسعت کا عمل رک گیا۔ ارتقاء کے نظریے کو اقبال نے اپنے خطبات میں اسلامی فکر و فلسفے کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ نظریہ ارتقاء کے بارے میں ان کا اہم ترین مرکزی نقطہ یہ تھا کہ اس کا تصور نہ صرف اسلامی فلسفے میں بلکہ قرآن میں بھی پوری طرح موجود ہے۔ اقبال کے نزدیک مذہب کا جوہر صرف اجتہاد سے حاصل ہو سکتا ہے۔ آخری خطبے میں عصر جدید کے فلسفہ اور مذہب کے امکان یا انسان کی تقدیر اور انسانی تہذیب و تمدن کے مستقبل پر غور کیا گیا ہے اور یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان کی تقدیر بہرحال کسی ایسی برتر ہستی سے وابستہ ہے جو کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے اور مذہب اس لیے ایک ناقابل انکار سچائی ہے۔ (۶) خطبات کے واسطے سے اقبال کو نژاد نو کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر وہ فکر مغرب کی اس ترقی پسند قوت کو اپنے اندر جذب کر لے جو گزشتہ پانچ صدیوں سے فلسفے اور سائنس کے میدان میں ظہور پذیر ہوئی ہے تو اسلام اپنے پیروؤں کے ذوق تحقیق میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ کچھ یہی افکار خطاب نہ نژاد نو کا موضوع ہیں۔ یہاں بھی اقبال تہذیب و افکار مغربی کے بارے میں دنیائے اسلام کے تردد کا ذکر کرتے ہیں اور فکر اسلامی کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دیتے ہیں۔ اقبال عقیدتاً اس بات کے قائل تھے کہ فکر مغربی کی یلغار سے بچنے کی صرف یہی صورت ہے کہ اسلامی فکر اور ثقافتی و تمدنی رحجانات مغربی فکر سے اثر پذیر ہوں۔ انہیں اس بات کا بھی احساس تھا کہ مغرب کا معاصر فلسفہ، مذہب اور الہام کی روشنی سے بیگانہ ہو کر نہ صرف گمراہ ہو چکا ہے بلکہ اب ایک سائنسی تجربہ گاہ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ انہیں یقین تھا کہ اسلامی افکار کی فلسفیانہ تشکیل نو اور مغربی تمدن کے ادغام سے صحت مند ثقافتی اور فکری نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اقبال تہذیب مغرب کی ہر چیز کو حرف آخر سمجھتے تھے یا اسے بے سوچے سمجھے اختیار کر لینے کے قائل تھے۔ انہوں نے تہذیب جدید کے بے شمار اخلاقی تصورات و اقدار کو پوری جرات کے ساتھ رد بھی کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ چاہتے تھے کہ جدید سیاسی اور معاشی نظام کو ایسی انسانی قدروں کے مطابق ڈھالا جائے جن کی بنیاد اسلام کی آفاقی تعلیم پر ہو۔ (۷) اقبال کے نزدیک اسلام کے ماضی کی نئی دریافت اس لیے بھی ضروری ہے کہ اسلام کو زمانہ حال کی اصطلاحوں میں کوئی منقطی بنیاد مہیا کی جائے۔ شاید اسی لیے انہوں نے وحی کے لیے Pragmatic Test کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اپنے موقف کے ثبوت میں جو دلائل اقبال دیتے ہیں وہ پہلے سے قائل لوگوں کو اپنے یقین میں پختہ تر کر دیتے ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ منکرین پر کوئی اثر مرتب نہ کریں۔ اقبال نے اپنے علم کلام کے ذریعے ایک طرح سے علی گڑھ تحریک کو زیادہ مربوط الفاظ میں بیان کیا ہے بلکہ خطبات اسی تحریک کی بلوغت کے شاہد ہیں۔ اقبال کے ان فکری رحجانات کو زندگی کے کئی پہلوؤں میں شناخت کیا جا سکتا ہے۔ اول اقبال نے خطبات میں جو کام اپنے ذمہ لگایا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کے اس دعویٰ کو کہ وہ ایک مربوط، جامع اور متحرک نقطہ نظر ہے، ثابت کیا جائے۔ دوسرے اقبال کا موقف یہ ہے کہ تعقل اور ایمان کے درمیان قرآن کسی دوئی اور تفریق کا قائل نہیں۔ وہ مذہب اور سائنس کو اپنے مقاصد میں ایک دوسرے سے الگ نہیں جانتا۔ تیسرے اقبال نے اسلام کے ثقافتی اور فلسفیانہ توارث کو از سر نو تعمیر کرنے کی قابل صد ستائش کوشش کی ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں، لیکن دین کی موجودگی میں بھی فلسفے کا امکان باقی ہے۔ ایک فلسفی دین کے اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے دین کے افکار کی تشکیل نو میں حصہ لے کر اس کی آب و تاب میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اقبال خود اس کی بہترین مثال ہے چوتھے وحی و الہام کے سارے انسان سوچ کے جنگل میں بے راہ ہوئے بغیر سفر کر سکتا ہے۔ یہ سفر موجودات کو نئے رشتوں میں منقلب کر کے ایک طرح کی تخلیقی سرگرمی دکھا سکتا ہے۔ اگر وحی کی روشنی کے بغیر محض چند مفروضات کے سہارے فکر کی ایسی عمارت استوار ہو سکتی ہے جس پر مشکل ہی سے منطقی اعتراض وارد ہو سکے تو وحی کی بنیادیں زیادہ پائیدار ثابت ہوں گی۔ پانچویں اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اقبال نے خطبات کے واسطے سے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ علم و فنون اور فکر و دانش کے میدان میں مسلمانوں نے جو کچھ پیش کیا ہے، سامنے لایا جائے، مگر اس بات کا کیا علاج کہ من حیث المجموع مسلمانوں نے فلسفے کو کبھی اس قابل خیال نہیں کیا کہ اس کی وساطت سے بھی کون و مکاں او رحیات انسانی کی معنویت کی تفہیم بآسانی ہو سکتی ہے اور یہ کہ دین کے اصولوں کی وضاحت فلسفے کے تعاون سے بھی کی جائے کہ آج خطبات اقبال کے وسیلے سے اسلام کی فکری روایت کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر سرسید اور اقبال کی اسلامی فکر کے سوتے خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیے گئے اور مسلمانوں نے اپنے آس پاس بہنے والی ندیوں کے تازہ تر پانیوں کو اپنے علوم و فنون اور فکر و دانش کی خاموش اور ساکن جھیل میں آنے سے روکے رکھا تو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی امید عبث ہو گی۔ ٭٭٭ اقبال اور مثالی شخصیت کے تکمیلی مراحل انسان کی شخصیت مثل ایک شجر کے ہے جس کا تنا، شاخیں اور پتے اجتماعی کوشش کے صلے میں ایک پھول لاتے ہیں۔ یہی وہ گل سرسبد ہے جسے انسان کی زندگی میں اس کا رخ کردار کہا جا سکتا ہے۔ شجر شخصیت کا تنا، شاخیں اور پتے در حقیقت تعلیم و تربیت، خیالات، جذبوں اور ماحول کی دنیا ہے جو شخصیت کے گل کو رخ کردار کا پھول بن کر کھلنے کی توفیق عطا کرتی ہے اور انسان کے شجر شخصیت پر رخ کردار کا یہ انمول پھول برس کی کوشش اور محنت کے بعد ہی کہیں کھلتا ہے۔ شخصیت کا رخ کردار جسے (Attitude) بھی کہا جا سکتا ہے، ایک طرح کی نفسی توانائی جس شخصیت کی پہلو دار اور گوناگوں جہتوں سے فیض یاب ہوتی ہے، اپنی اصل سے کہیں ارفع و بلند ہو کر تخلیقی مقاصد کے لیے بروئے کار لائے جانے کے قابل ٹھہرتی ہے۔ انسان کی ہستی پر من حیث الجموع یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ سب انسانوں کی شخصیت ایک سی ہوتی ہے، البتہ یہ خواہش ضرور کی جا سکتی ہے اور اسے جائز ہی شمار کیا جائے گا کہ بہت سے انسانوں یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کی شخصیات میں ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔ انسان اپنی فطرت میں نوری یا ناری نہ سہی مگر ایک خاص وحدت کا مالک ضرور ہے، مگر انسانوں میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی الگ شخصیت ہے جو واضح بھی ہو سکتی ہے اور منفی بھی، اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ذات میں اس کی شخصیت کا مثبت یا منفی ہونا ہی سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہر انسان کی اپنی فطرت اور ذات کے اندر جو کچھ بھی ہنگامہ کار زار برپا ہے، اس میں شخصیت ہی بالآخر ایک نقطہ توازن قرار پاتی ہے۔ انسان بے شک بے شمار تضادات کا مجموعہ ہے مگر یہ کہنا محل نظر ہو گا کہ انسان کا سرے سے کوئی (Synthesis) ہی نہیں ہے۔ ہر شخص میں دیانت اور سچائی کا کچھ نہ کچھ مادہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ ہر شخص چونکہ اپنی ذات میں ایک علیحدہ ’’ شخص‘‘ ہے لہٰذا ایک کردار بھی ہے۔ اگر وہ اس کردار کو کھودے یا نظر انداز کیے رکھے تو وہ محض ایک شخص ہے اور اگر وہ اس کرہ دار کو نہ صرف یہ کہ برقرار رکھے بلکہ اس صفت ارتقاء پذیری کی تحریم بھی کرے تو وہ شخص ’’ شخصیت ‘‘ بن سکتا ہے۔ کردار شخصیت کا پیرایہ اظہار ہے اور یہ مکمل بھی ہو سکتا ہے اور نا مکمل بھی، یعنی اچھا بھی اور برا بھی۔ اگر کردار مکمل ہے تو شخصیت کو مکمل اور بھر پور کہا جائے گا اور اگر کردار ناقص یا نا مکمل ہے تو شخصیت نامکمل، ناقص اور منفی رحجانات کی حامل ہو گی۔ مکمل کردار شخصیت کے مثبت رحجانات کے اظہار کا صراط مستقیم ہے اور اس طرح صراط مستقیم پر گامزن ہونے کے لیے بنیادی طور پر فطرت کا شعور لازم ہے جب کہ فطرت انسانی اپنی کنہ میں وہی کچھ ہے جو فطرت ازلی یا فطرت خداوندی ہے۔ اقبال تعمیر شخصیت اور رخ کردار کی تشکیل کے باب میں در حقیقت اسی فطرت ازلی کا نقیب ہے جو فطرت انسانی کا منبع ہے مگر جس سے انسان نے عملاً یا تو ہمیشہ اغماض کیا یا اسے گم شدہ تصور کیا، جسے مثلاً رسل (Russel) کا قول ہے:’’ جہاں تک طبعی قوانین کا تعلق ہے، سائنس نے ان کو سمجھنے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے لیکن اپنے بارے میں ہم اتنا بھی ابھی تک نہیں جان سکے جس قدر ستاروں اور الیکٹرون کے متعلق جانتے ہیں‘‘ اور اقبال کہتے ہیں: ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہ کر سکا1؎ رسل اور اقبال دونوں نے انسان کی اپنی شخصیت کی پرتوں کو کھولنے اور اس جہان امکانات کی تفہیم کا درباز کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ قرآن نے واضح الفاظ میں مثالی شخصیت کے رخ کردار کے اس صراط مستقیم کی طلب کی خواہش کو انسان کے ان مطالبوں میں شامل کر دیا ہے جو وہ فطرت ازلی سے حاصل کرتا ہے اور یہ خواہش اپنی ذات میں تعمیر شخصیت کے تخلیقی عمل کی نتیجہ خیز محرک بن جاتی ہے۔ شخص اور شخصیت دو مختلف چیزیں ہیں جن میں بنیادی فرق ظرف کا فرق ہے۔ ایک شخص معاشرے میں اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جس قدر کہ قطرہ دریا میں، لیکن یہی شخص جب شخصیت کے سانچے میں ڈھلتا ہے تو ایک طرح سے پوری معاشری ہیئت پر محیط ہو جاتا ہے۔ شخص، شخصیت کے سانچے میں اس وقت ڈھلتا ہے جب اسے زندگی کرنے کے عمل کے دوران اپنی ذات کے اجتماعی شعور سے رشتہ جوڑنے کے راز کا علم ہو جائے اور پھر اس راز کے کھلنے کے بعد وہ اس پر عمل پیرا بھی ہو جائے۔ چنانچہ شخصیت یا مثالی شخصیت سے مراد کسی ایسے شخص کا وجود ہے جو ہر اعتبار سے انسانیت کے معیار پر پورا اترتا ہو، جو اپنے وجود کو انسانیت کے لیے اور انسانیت کی امانت خیال کرتا ہو۔ شخص کے اندر جوہر انسانیت کی موجودگی ہی اسے شخصیت بخشتی ہے۔ شخص محض وجود ہے جس کے اعمال معاشرے کے قوام پر مثبت یا منفی کسی بھی رنگ میں شدت سے اثر انداز ہو سکتے ہیں، جب کہ مثالی یا مثبت شخصیت ذات اور صفات ہر دو کا خوبصورت اجتماع ہے۔ محض ایک شخص ہونا میرے اور آپ کے معقول اور معتبر ہونے کی دلیل یا ثبوت نہیں۔ یہ ثبوت تو فی الحقیقت شخصیت مہیا کرتی ہے۔ یہ کارنامے فقط شخصیت ہی انجام دے سکتی ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنا دے۔ معاشرے میں عام طور پر چلتے پھرتے لوگ ’’ شخص‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں۔ شخصیتیں گنی چنی ہوا کرتی ہیں۔ اقبال کی خودی کا اختیار بھی اپنے اندر شخص سے شخصیت بننے کا مفہوم ہی رکھتا ہے اختیار خودی کا موقع بھی اشخاص کو کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ خودی یا شخصیت ہی وہ رتبہ بلند ہے کہ ملا جس کو مل گیا۔ ایکس وال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ معاشری ہیئت میں منفی شخصیت کی کیا قدر و قیمت ہے، قرآن نے اپنے نظام میں جو ایک روحانی نظام ہے، آدم کے مقابلے میں ابلیس کو پیش کر کے بڑی حکمت سے اس سوال کا جواب پیش کر دیا ہے۔ چنانچہ آدم مثبت اور ابلیس منفی شخصیتوں کے نمائندہ ہیں۔ مگر چونکہ منفی شخصیت کی بنیاد بھی ایک جوش اور تحرک سے ہوتی ہے اس لیے خدا اسے بھی نظر انداز نہیں کرتا چنانچہ زمین پر بھی ایک بہت برا شخص ہر پہلو سے برا نہیں ہوتا۔ اس کی شخصیت کا کوئی نہ کوئی گوشہ اپنے اندر کوئی نہ کوئی عظمت اور تاب ناکی ضرور رکھتا ہے جسے عام طور پر تعصب کے باعث نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اقبال نے بھی فطرت ازلی کے تتبع میں اپنے نظام فکر میں پوری فراغ دلی کا ثبوت دیتا ہے اور ابلیس کی منفی شخصیت میں سے مقصد کی لگن، خود داری، عزت نفس، ہمت و حوصلہ اور بے پناہ عزم کی خوبیوں سے اعراض نہیں کیا۔ قبل اسلام کے عرب جاہلی معاشرے میں مروہ کی جو قدر و قیمت ہو سکتی ہے، ابلیس کی شخصیت میں وہی قدر و قیمت مندرجہ بالا اوصاف کی ہے۔ چنانچہ اقبال نے ابلیس کی ان صفات کو بھی مثالی شخصیت اور مثبت شخصیت کے لازمے شمار کیا ہے اور اس میں ہر گز کوئی قباحت محسوس نہیں کی، مگر اس فرق کے ساتھ کہ منفی شخصیت ان خصائص سے ناجائز انتقاع (Explotation) کرتی ہے جب کہ مثبت شخصیت انہیں اپنی واردات بناتی ہے اور ان تمام صفات کا انتقاع مثبت ہوتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ منفی شخصیت اپنی شخصیت کا قصر دوسروں کو فنا کر کے تعمیر کرتی ہے لیکن جلد یا بدیر خود بھی فنا ہو جاتی ہے البتہ مثبت اور مثالی شخصیت دوسروں کے لیے فنا ہو کر زندہ جاوید ہو جاتی ہے اور در حقیقت فنا نہیں ہوتی۔ ایسی ہی شخصیتوں کے خاکستر سے نسل در نسل مثبت شخصیتیں جنم لیتی رہتی ہیں۔ یہی شخصیتیں دیو مالائی ققنس ٹھہرتی ہیں اور ایسی ہی شخصیتوں کا فیض قرن ہا قرن تک جاری و ساری رہتا ہے۔ ان کے برعکس منفی شخصیتیں کالی آندھیوں کی طرح اٹھتی ہیں اور ان کا واحد فریضہ انسانوں کا استحصال ہوا کرتا ہے۔ منفی شخصیت خلا سے گھبرا جاتی ہے اور اس کے پاؤں ایک روز اچانک زمین کو چھوڑ دیتے ہیں، مگر مثبت، مثالی یا قرآن کی زبان میں ایسی شخصیت جو بسطہ فی العلم و الحسم کی مصداق ہے یعنی ایک صاحب ایمان، مخلص، امانت دار اور مضبوط انسان کبھی کسی خلا سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ اپنی ذات کی ہمہ گیری سے اسے پر کرتا ہے اور ہر صورت حال سے نپٹ سکتا ہے، تعمیر کرتا ہے، تخلیق میں منہمک رہتا ہے، یہاں تک کہ کوئی بھی پیش آمدہ بحران (Crisis) یا خلدا اس کی ذاتی دیانت و امانت، ایثار و خلوص اور مضبوطی و طاقت سے پر ہو جاتا ہے۔ بلکہ وہ ایسا وجود ہوتی ہے کہ اگر کہیں ٹھہر جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آس پاس، دائیں بائیں معاشرے کی صحت مند حرکت پذیری میں دل کا سکون و طمانیت گھل مل گیا ہے۔ اقبال نے مثالی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں یہی بات شاہین، مرد مومن اور مرد کامل کے حوالوں سے بہت خوبصورتی کے ساتھ کہہ دی ہے۔ اقبال کے نظام فکر میں شخصیت کے تصور کا ایک مربوط ارتقاء پایا جاتا ہے۔ فکری کرب کے عبوری دور میں اقبال نے ۱۹۱۰ء میں اپنے منتشر افکار کو اختصار کے ساتھ سمیٹنے کی ایک کوشش (Stray Reflection)2؎ میں کی تھی۔ شخصیت، جسے یہاں اقبال نے محض (Personality) کا نام دیا تھا۔ آگے چل کر یہی تصور اقبال کے مایہ ناز تصور خودی میں ڈھل گیا۔د ر حقیقت یہ اس وقت ہوا جب ۱۹۱۵ء میں مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ میں انہیں اپنے تصور شخصیت کا جائزہ لینے اور اپنے نتائج فکر کو شعر کے پیرائے میں اور پھر ۱۹۲۹ء کے قریب اپنے شاندار خطبات میں علمی ڈھب میں پیش کرنے کا موقع ملا۔ Stray Reflection میں شخصیت کے زیر عنوان اقبال نے ایک طرح سے اپنے فلسفہ خودی کی ابتدائی صورت پیش کی ہے۔ تب تک انہوں نے خودی کی اصطلاح اپنے فلسفیانہ مفہوم کے ساتھ پیش نہیں کی تھی۔ تاہم اپنے عظیم نظریہ خودی کا شخصیت یا (Personality) کے عنوان سے ایک تصور انہوں نے ان الفاظ میں اپنی یاد داشتوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ شخصیت کی بقاء کوئی کیفیت نہیں بلکہ ایک طریق عمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ روح و بدن کی تفریق نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کئی مذہبی نظام اسی باطل تفریق پر مبنی ہیں۔ انسان اصلاً ایک توانائی، ایک قوت یا قوتوں کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کے عناصر کی ترتیب میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ ان قوتوں کی ایک مخصوص ترتیب کا نام شخصیت ہے۔ یہاں اس سے کوئی بحث نہیں کہ آیا یہ ترتیب محض اتفاقی ہے۔ میں اسے فطرت کے حقائق میں سے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہوں او ریہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا قوتوں کی یہ مخصوص ترتیب جو ہمیں اتنی عزیز ہے، بعینہ قائم رہ سکتی ہے؟ کیا ممکن ہے کہ یہ قوتیں جس طرح زندہ، صحت مند شخصیت پر عمل پیرا ہیں، اسی رخ پر ان کا عمل جاری رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ممکن ہے انسانی شخصیت کو ایک دائرہ فرض کیجئے اور یوں سمجھئے کہ قوتوں کی ایک خاص ترتیب کے نتیجے میں ایک دائرہ تشکیل پاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دائرے کے تسلسل کو ہم کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں؟ بظاہر اس کی صورت یہی ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو کچھ اس طرح تقویت پہنچائیں کہ اس کے قوائے ترکیبی کو اپنے مقررہ معمول کے مطابق عمل کرنے میں مدد ملے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ فعلیت کی ان تمام صورتوں سے دست بردار ہو جائیں جو شخصیت کی تحلیل کرنے پر آمادہ ہوں مثلاً عجز و انکسار، قناعت، غلامانہ فرماں برداری وغیرہ۔ ان کے خلاف بلند حوصلگی، عالی ظرفی، سخاوت اور اپنی روایات و قوت پر جائز فخر، ایسی چیزیں ہیں جو شخصیت کے احساس کو مستحکم کرتی ہیں۔‘‘ ’’ شخصیت انسان کا عزیز ترین سرمایہ ہے، لہٰذا اس کو خیر مطلق قرار دینا چاہیے اور اپنے تمام اعمال کی قدر و قیمت کو ایس معیار پر رکھنا چاہیے۔ خوب وہ ہے جو شخصیت کے احساس کو بیدار رکھے اور ناخوب وہ ہے جو شخصیت کو دبائے اور بالآخر اسے ختم کر دینے کی طرف مائل ہو۔ اگر ہم وہ طرز زندگی اختیار کریں جس سے شخصیت کو تقویت پہنچے تو دراصل ہم موت کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ موت، جس کی ضرب سے ہماری شخصیت کی اندرونی قوتوں کی ترتیب گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ پس شخصیت کی بقاء ہمارے اپنے اختیار میں ہے جس کے حصول کے لیے جدوجہد ضروری ہے۔ یہ خیال جو یہاں پیش کیا گیا ہے، دور رس نتائج کا حامل ہے۔ کاش اس نقطہ نظر سے اسلام، بدھ مت اور عیسائیت کی تقابلی حیثیت پر بحث کرنے کا مجھے موقع میسر آتا لیکن بد قسمتی سے اس مسئلے کی تفصیلات کا جائزہ لینے کی مجھے فرصت نہیں۔‘‘ یہ ملت پر اقبال کا احسان ہے کہ شخصیت کے موضوع پر ۱۹۱۰ء میں سوچے گئے اس نقطے کو انہوں نے نہ ترک کیا اور نہ ادھورا چھوڑا، بلکہ اگلے چند ہی برسوں میں اسے خودی کے عنوان سے ترتیب دیا اور لکھا کہ: ’’ جہاں اندرونی احساس موجود ہو وہاں خودی گویا اپنا کام کر رہی ہے۔ خود خودی کو ہم اس وقت جانتے ہیں جب وہ کچھ معلوم کر رہی ہو، فیصلہ کر رہی ہو یا عزم کر رہی ہو۔ خودی یا روح کی زندگی ایک قسم کا تناؤ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خودی اپنے ماحول پر اثر انداز ہو رہی ہے اور ماحول خودی پر اثر انداز ہو رہا ہو اور باہمی اثر اندازی کے اس میدان سے باہر کھڑی نہیں رہتی بلکہ اس کے اندر ایک حکمران قوت کی حیثیت سے موجود رہتی ہے اور اپنے تجربات کے ذریعہ سے اپنی تعمیر اور تربیت کرتی ہے۔‘‘ پھر خودی کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا: ’’ میری اصل شخصیت ایک چیز نہیں بلکہ ایک فعل قرار پاتی ہے۔ میرا تجربہ ایسے افعال کا ایک سلسلہ ہے جو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور جن کو ایک حکمران مقصد کی وحدت ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ میری ساری حقیقت میرے حکمران جذبہ فکر و عمل کے اندر موجود ہے۔ آپ میرا تصور اس طرح سے نہیں کر سکتے کہ گویا میں کوئی چیز ہوں، جو فاصلہ کے اندر کہیں پڑی ہے یا گویا میں مادی دنیا کے اندر موجود تجربات کا ایک سلسلہ ہوں، بلکہ آپ کو چاہیے کہ آپ میری تشریح، تفہیم یا تعریف میرے اندازوں اور فیصلوں کی بناء پر میرے رحجانات فکر و عمل کی بنا پر، میرے عزائم اور مقاصد اور میری آرزوؤں اور امیدوں کی بنا پر کریں۔‘‘ اور کہا کہ: وجود کیا ہے؟ فقط جوہر خودی کی نمود کر اپنی فکر کہ جوہر ہے بے نمود ترا3؎ تعمیر شخصیت کے معاملے میں اقبال جس حرکی عملیت (Dynamic Activism) کے قائل ہیں وہ ایک اس قدر زور دار اور طاقتور عمل ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں کی تعمیر و تشکیل کا ضامن بن جاتا ہے۔ اقبال کی یہ حرکی عملیت کچھ تسلیم شدہ بنیادی اور صحت مند اقدار کا صلہ ہے۔ قدروں کے معاملے میں جہاں ایک طرف یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ انسان کی صالح اور صحت مند زندگی کا دار و مدار ان پر ہے، وہاں قدروں کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ خود اپنی ذات میں کوئی قدر (Value) کس قدر جاندار ہے۔ مثبت اقدار کے لیے ضروری ہے کہ ان میں اس قدر استقلال اور پائیداری ہو کہ وہ نت نئی تہذیبی ہستیوں کے ایک ہی جھونکے سے تہ و بالا ہو کر نہ رہ جائیں۔ مثبت قدریں، جو مثبت اور مثالی شخصیت کی تعمیر میں ممد و معاون ہوتی ہیں، زمانوں کے تجربے اور طویل ریاضتوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ شخصیتیں ایسی ہی قدروں کے اتباع میں شخصیتیں بنتی ہیں ۔ نوجوان نسل کی تربیت کے لیے ان کے درمیان مثالی شخصیتوں کا وجود حد درجہ ضروری ہے، کیونکہ محض مطالعہ بے کار بھی ہو سکتا ہے اور بعض حالتوں میں خطرناک بھی۔ علم کو مفید مطلب روپ شخصیتیں ہی دیا کرتی ہیں۔ شخصیتوں کے اسی فیضان نظر سے انسان کا فکر و عمل صرف ایک اور اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ خیر کے اس عمل کا دائرہ پھیل کر پوری معاشری ہیئت پر محیط ہو جاتا ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ فرد اور معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے مثبت قدریں کون سی ہیں اور ان کا منبع کیا ہے؟ اقبال کا یہ عقیدہ ہے کہ فرد کی ذات اور کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے، اور تعمیر شخصیت در حقیقت معاشرے میں مثالی شخصیتوں کے وجود کے بھرپور امکان کی شہادت ہے۔ اقبال کے ہاں عبودیت اظہار شخصیت کی سب سے پہلی منزل ہے جو بالواسطہ عمل کو راہ دینے کا باعث بنتی ہے اور عمل ہی انسان کی بالآخر تقدیر ٹھہرتا ہے جو جذبہ جستجو کے ساتھ مملو ہے۔ انہی باتوں میں انسان کی پر خلوص شرکت جہاں اس کی روح میں پاکیزگی، بلند خیالی، ذوق لطیف اور پاک ضمیری پیدا کرتی ہے، وہاں مدنیت کی روح کو بھی عفیف بنا دیتی ہے۔ ذوق عبودیت میں مثالی شخصیت کی تعمیر کا راز پنہاں ہے۔ عبودیت انسان کو خود اپنی ذات پر ایمان لانا بھی سکھاتی ہے اور خدا کی ذات پر بھی۔ اقبال نے تعمیر شخصیت کے اس مرحلے میں یقین محکم اور عمل پیہم کو بھی شامل کر دیا ہے۔ کردار کے کندن بننے کے اس عمل کے نتیجہ میں شخصیت سخت کوش، خارا شگاف، بے خوف، عقابی روح رکھنے والی، بے باک، فولاد مزاج، قاہری اور دلبری کی صفات سے متصف ہو کر ابھرتی ہے اور اس کا دل تپش شوق سے گرم اور سینہ پر تو عشق سے فرزاںہوتا ہے۔ یہ اقبال کے ہاں مثبت شخصیت کے پیکر محسوس کا طلوع ہے۔ یہ شخصیت خود کو پہچان کر خدا کو پہچاننے کے قابل ہے۔ ہزار سجدوں سے نجات پا کر ماسوا سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔ شخصیت کی یہی صفت فرد کو لاہوتی اور ملت کو جبروتی بنا دیتی ہے اور معاشرہ کی یہ شخصیت زمانے کو اپنے ساتھ ڈھالنے کی قوت رکھتی ہے، خود زمانے کے ساتھ نہیں ڈھل جاتی۔ یہ جہاں کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جہاں اس کے لیے ہوتا ہے۔ تعمیر شخصیت کے اس مرحلے پر شخصیت کے اوصاف میں طبع بلند، مشرب ناب، دل گرم، نگاہ پاک بیں، جان بے تاب شامل ہو جاتے ہیں اور فرد اپنی ذات میں ایک ایسا کارواں بن جاتا ہے کہ ستارے اس کی گرد راہ ہو جاتے ہیں۔ اس کی فطرت میں ممکنات زندگی کی امانت داری کا رحجان بڑھ جاتا ہے اس کے مزاج میں صداقت، عدالت اور شجاعت کا قوام گاڑھا ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا کی امانت کا اہل ٹھہرتا ہے۔ اس کی ایک نگاہ تقدیروں کو بدل کے رکھ دیتی ہے اور شخصیت ولایت، بادشاہی اور علم اشیاء کی جہانگیری کے منصب کے لائق ٹھہرتی ہے۔ اب یہ سیر چشم ہے، خادم بھی ہے اور مخدوم بھی۔ اس کی ذات میں درویشی و سلطانی کا ایک بے نظیر اجتماع ہے۔ اب وہ قطرہ، مثال بے بحر بے پایاں بن جاتا ہے۔ اس کی شخصیت میں سرشت طوفان پوشیدہ ہے اور ہیچ مقداری کے طلسم کا اسیر نہیں رہتا۔ شخصیت کی تعمیر کے ان تعمیری مراحل میں غفاری و قہاری و قدوسی و جبروت، نگاہ بلند، سخن دلنواز اور پر سوزجان کی کیفیات شامل ہیں جن کا صلہ جہاں داری، جہاں بینی، جہاں بانی اور جہاں آرائی ہے۔ اب اس کا سوز ہمہ سوز ہے اور اس کا شباب بے داغ ہے۔ وہ قبیلے کی آنکھ کا تارا ہے، جسورو و غیور ہے۔ اس کی ضوب کاری ہے اور اس کا جگر چیتے کا ہے اور اس کا تجسس شاہین کا سا وہ لہو گرم رکھنے کے لیے پلٹ پلٹ کر جھپٹتا ہے۔ خود شناسی اور خدا شناسی کے طفیل مثالی شخصیت فقر و غناء کے دور میں داخل ہو جاتی ہے جو انسانی کردار کی ایک اعلیٰ ترین صفت ہے۔ جس سے اسرار جہانگیری کھلتے ہیں اور مٹی میں بھی اکسیر کی صفت در آتی ہے۔ شبیر کا وجود اسی فقر و غنا کا مرہون ہے مگر کچھ اسی طرح کہ فقر و غنا کا معیار بلند ہو جاتا ہے۔ فقر شخصیت کے ہاتھ میں ایک ایسی تلوار ہے جو کردار کے محسوس پیکر میں ڈھل کر حیدر کرار اور خالد سیف اللہ بن جاتی ہے۔ یہ بھی تعمیر شخصیت کے مراحل ہیں اور شخصیت تکمیل کی حدود میں داخل ہو رہی ہے۔ اب اس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ قرار پاتا ہے۔ وہ غالب و کار آفریں و کار کشا و کار ساز ہو جاتی ہے۔ اسے خالی ہونے کے باوجود نوری نہاد اور بندۂ مولا صفات کی سند عط اہوتی ہے۔ خدا کی نیابت کی پوری پوری اہلیت اس میں آ جاتی ہے۔ پھر ہر لحظہ اس کی ایک نئی شان ہے اور وہ واقعتاً گفتار و کردار میں خدا کی رباہن ہے۔ اب اس کے اسیر حرص و ہوس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اکل حلال اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ مثالی شخصیت اب اپنی پہچان شرق و غرب کے حوالے سے نہیں کرتی بلکہ گیرندۂ آفاق اور سوار اشہب دوراں بن کر ایک طرح کی روحانی جمہوریت کے ایوان میں داخل ہو جاتی ہے اور انفس و آفاق میں خدا کی آیات کا تماشا کرتی ہے، یہاں تک کہ آیات خداوندی کی قرات کرتی ہوئی خود ایمان کی پختگی کی وہ انتہا بن جاتی ہے کہ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے آفاق بھی اس میں گم ہو جاتے ہیں۔ یوں تعمیر شخصیت کا عمل اقبال کے نزدیک ایک حقیقت سے دوسری حقیقت کو پہچانتا ہوا نظریے سے واردات کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی تربیت یافتہ شخصیتوں کا پھیلاؤ خود ملت بیضاء ہے۔ شخصیتوں کی موت، موت نہیں بلکہ ہجرت سوئے دوست ہے اور دم مرگ ان کے لبوں کا تبسم ہی ان کی شخصیتوں کی مثالیت اور عینیت اور ہمہ گیری کا راز فاش کرتا ہے۔ افکار اقبال کے مخاطب عام طور پر نوجوان ہیں۔ اس لیے قومی تشخص کی تشکیل میں اس پہلی کڑی کی تربیت کو اقبال نے اپنی فکری نظام میں ہر جگہ ترجیح دی ہے اور واضح کر دیا ہے کہ احساس کمتری دور کیے بغیر شخصیت کی تعمیر کا عمل کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ اقبال در حقیقت معرفت نفس کے مبلغ ہیں اور ہر وہ شخص جو اپنی ذات سے گریزاں ہے اور اپنی ذات کے اندر جھانکنے سے خوف زدہ ہے، اسے اس دنیا ہی میں اضطراب اور بے چینی کا عذاب چکھنا ہے، اس کا جہنم وہی ہے جسے قرآن نے نار تطلع علی الافئدۃ سے تعبیر کیا ہے اور آج انسانوں کی اکثریت کے دلوں میں یہی آگ بھڑک رہی ہے۔ افکار اقبال کی روشنی میں شخصیت کے شجر کو اپنی نمو کے مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر جس پھول کو کھلانا ہوتا ہے وہ پھول ملت بیضاء کے نوجوانوں کے سوا کون ہو سکتا ہے۔ کاش ملت بیضاء کے پھولوں میں وہ خوشبو بقدر وافر لوٹ آئے جسے اقبال مشام جاں بنا لینے کو ترستے رہے۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ ضرب کلیم، کلیات۔ ص ۶۹/۶۳۱ ۲۔ مرتبہ، جاوید اقبال، لاہور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، ۱۹۶۱ء ۳۔ ضرب کلیم، کلیات۔ ص ۳۴/۴۹۶ اقبال اور استعمار اقبال نے برصغیر کی غلامی کے ایام میں جب انگریز کی تہذیبی استعماری یلغار عروج پر تھی، آنکھ کھولی، اس وقت پورا برصغیر استعمار کا براہ راست ہدف تھا۔ مشرق پر اس کی حریص نظریں گڑی ہوئی تھیں اور یہ سب نتیجہ تھا مسلمان اقوام کے داخلی انتشاد، بے حسی اور سہل پسندی کا مسلمان اقوام خود اپنے ملی شعور کو مجروح کرنے پر تلی بیٹھی تھیں۔ تعصب اور لسانی اور نسلی منافرت ان میں عام ہو چکی تھی۔ وطنیت کا تصور اور تعصب فراواں تھا اور مذہب میں فقط ظاہر داری کے رویے کو فروغ حاصل تھا۔ گویا پوری ملت اسلامیہ عالم پیری سے گزر رہی تھی۔ 1؎ اقبال نے یہ سب کچھ اپنی رگ جاں میں محسوس کیا۔ تہذیب مغرب کے اثرات اقبال کے سامنے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان کا گہرا مطالعہ کیا۔ پھر ایک لائحہ عمل کے تحت جہاں تہذیب فرنگ پر بھرپور علمی انتقاد کیا وہاں مغرب زدہ مسلمانا قوام کو اس استعمار سے نبٹنے کی تعلیم بھی دی۔ مشرق میں الحاد اور لا دینیت کے اثرات نے مشرق کا وقار دگرگوں کر کے رکھ دیا تھا۔ اقبال نے پہلے مرض کی تشخیص کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قرون وسطیٰ کا تصوف، قومیت اور ملحدانہ سوشلزم پاس زدہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا کسی طور نہیں کر سکتے۔ 2؎ اپنے آس پاس کی الٹ پلٹ او رتہذیبی اور سیاسی تغیر پذیری کو دیکھ کر عقیدے کی معنویت اور وقعت ان پر اور کھل گئی۔ 3؎ اقبال ان مسلم مفکرین میں سے ہیں جنہیں اس صدی کے آغاز ہی میں مغربی تہذیبی اور سیاسی خلفشار اور استعماری رویے کا تنقیدی اور غائر جائزہ لینے کا نہ صرف موقع ملا بلکہ اس میں انہیں ایسے محرکات نظر آئے جو اگرایک طرف اقوام مشرق کے لیے تباہ کن تھے تو دوسری جانب خود مغرب کی تباہی پر بھی شاہد تھے۔ 4؎ انہیں اس بات کا اندازہ اپنے پہلے سفر اور قیام یورپ کے دوران ہی ہو گیا تھا۔ چنانچہ آخری سفر یورپ ما بیچ کے زمانے اور وفات تک انہیں مغرب کے تاجرانہ رویے اور استعمارانہ ذہنیت کے ساتھ ہی ساتھ اقوام مغرب کے استحصال، ہوس زر اور حب جاہ کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کا پورا پورا موقع ملا۔ 5؎ پہلی جنگ عظیم کا تہذیبی اور سیاسی صلہ ان کے پیش نظر تھا جس میں انہیں سرا سر سامان عبرت نظر آیا۔ 6؎ اپنے عہد کے تہذیبی اور سیاسی انقلابات اور بعض مغربی تحریکوں کے دور رس نتائج کو اقبال اچھی طرح بھانپ گئے تھے۔ اس ساری الٹ پلٹ میں انہیں کرۂ ارض کے مشرق و مغرب دونوں خطوں کے خرابے پیش از وقت نظر آ رہے تھے۔ انہیں دکھائی دے رہا تھا کہ مغرب کی طرف سے اٹھنے والے تہذیبی اور سیاسی استعمار کی آندھی مشرق کی معرفت اور مغرب کے رویے کی صداقت اور محنت ہر چیز کو ملیا میٹ کر کے رکھ دے گی۔ عہد اقبال ہی میں مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کے حوالے سے اقبال کے ملفوظات اور اس کی فکر پوری طرح کھل کر سامنے آ سکی یا نہیں۔ 7؎ اس میں اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ عصر اقبال ابھی جاری ہے اس لیے کہ ا فکار اقبال میں کئی بیتی ہوئی صدیوں اور آنے والے زمانوں کی روح دھڑکتی ہے۔ چنانچہ اگر وہ کل مغرب کے تہذیبی اور سیاسی استعمار کے محاذ پر کھڑے مصروف جدوجہد نظر آتے تھے تو آج بھی اور آنے والی کل بھی وہ اس جدوجہد میں مصروف نظر آ رہے ہیں اور آتے رہیں گے۔ اس بات میں ہرگز کوئی کلام نہیں کہ انسانیت کی معاشری، معاشی، تہذیبی اور سیاسی رہنمائی رفتہ رفتہ ایشیا کی طرف لوٹ رہی ہے اور ایشیا کا تشخص اب ملت بیضا کے وجود کے ساتھ ہی مشروط ہے، یعنی اسلام اور فقط اسلام کے ساتھ اقبال نے مغرب کے تہذیبی اور سیاسی استعمار کے خلاف اپنی فکری جدوجہد کا آغاز کرنے سے قبل مغرب کی تاریخ کا بھرپور مطالعہ کیا ہے اور پھر رہبانیت، وطنیت، کلیسائی نظام، نسلیت اور قومیت کے ان تمام حربوں کے استعمال کی ایک مربوط ترجیح پیش کی ہے۔ جنہیں مغرب نے اپنے ہاں آزمانے کے بعد ان کا ہدف مشرق کو اپنے مطالب کی بر آوری کے لیے بنایا ہے۔ 8؎ اقبال نے یورپی تہذیب و تمدن کی اٹھان اور اس کے ابال کے عین جوانی کے عالم میں دیکھا اور اس بات سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ حسن کا ایک وسیع تر احساس اقبال کو اپنے قیام یورپ ہی کے دوران میں نصیب ہوا لیکن کس قدر عجیب بات ہے کہ اس احساس کی تہ میں وہ مغربی رویہ بھی انہیں نظر آ جاتا ہے جس میں انسان کی غمگساری کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ 9؎ واقعہ یہ ہے کہ اقبال کے ہاں مغربی استعمار کے خلاف کوئی جزوی ذہنی رویہ مرتب نہیں ہوتا ۔ اس باب میں ان کے ہاں مغربی استعمار کے خلاف کوئی جزوی ذہنی رویہ مرتب نہیں ہوتا۔ اس باب میں ان کے ہاں ایک مکمل ذہنی ارتقاء پایا جاتا ہے جسے کسی ایک مسلم خطے یا مسلم قوم کے ساتھ محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کا رویہ پورے مشرق میں ہونے والے مغربی تہذیبی اور سیاسی انقلاب کو محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے دوسرے مسلم مفکرین سے بہت آگے ہیں۔ ان کے پورے فکری دفاعی نظام میں کسی ایک خطے یا کسی ایک قوم کے سیاسی رویے کے ساتھ زمانی مطابقت اگر ارادی ہے تو اتفاقی بھی ہے ورنہ فی الاصل ان کی سوچ پورے مشرق کے لیے ہے اور ان کا یہی فکری آفاقی رویہ ان کی جدوجہد کو دوام اور اثبات کی سند عطا کرتا ہے۔ وہ برصغیر کے باشندے تھے لیکن برصغیر میں بھی مسلمانوں کی محض سیاسی یا اقتصادی جدوجہد ان کے نزدیک بے کار تھی۔ وہ اسے بھی حفاظت تہذیب اسلامی کے ساتھ مشروط سمجھتے تھے۔ اسلام سے الگ رہ کر کوئی بھی جدوجہد ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اپنے ایک پیغام میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ جمہوریت، قومیت، اشتراکیت اور فسطائیت وغیرہ سب ملوکیت کے شاخسانے ہیں۔ جنہوں نے روح انسانی کو یوں کچلا ہے کہ تاریخ انسانیت کے تاریک ادوار بھی اس کی مثال پیش نہیں کرتے۔ یہ سب تسلط کی بھوک کے مختلف اظہار ہیں اور یہ ساری مغربی جدوجہد ایک استعماری جبر ہے جس نے کمزور اقوام پر اپنی حکومت کا جوا ڈال کر انہیں ان کے مذہب، اخلاق، تہذیب و ثقافت روایات اور ادب سے محروم کر دیا ہے۔ یہ استعمار ملوکیت کی جونک ہے جو برابر مشرق کا خون چوس رہی ہے۔ 10؎ قیام یورپ کا زمانہ اقبال کی چشم بصیرت پوری طرح وا ہونے کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ جب انہوں نے مشرق اور مغرب کا تہذیبی موازنہ کیا اور اسلام کا رخ کردار ان کے سامنے ایک معین شکل کر گیا۔ یہ درست ہے کہ اقبال کا براہ راست خطاب ملت اسلامیہ ہی سے رہا مگر انہوں نے معذرتی لہجہ کبھی اختیار نہیں کیا بلکہ اسلام کو عالمی تحریک اور انسانی حوالے سے پیش کرنے کی سعی کی اور گویا اسلام کو ایسے ڈھب سے پیش کر کے مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کا مقابلہ کیا جس میں یہ پوری انسانیت کی واحد فلاح کی ضمانت بن جاتا ہے۔ 11؎ جس کے نتیجے میں تعصب اور تنگ دائروں سے ابھرنے والے تضادات حق اور احترام کے نصب العین کے تابع ہو کر زائل ہو جاتے ہیں اور عالمگیر وفاداری سے مملو معاشرے کی تشکیل ممکن ہو جاتی ہے۔ یہ نتیجہ اقبال کے فکری نظام میں ایک عقیدہ بلکہ ایک مسلمہ حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ 12؎ انہوں نے برصغیر، بلکہ پورے مشرق کی زوال آمادگی اور اس کے مصائب کا سرچشمہ مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کو قرار دیا جس نے روح مشرق کو کچل کر رکھ دیا تھا، یہی نہیں بلکہ اسے اظہار نفس کی اس مسرت سے بھی محروم کر دیا تھا جس کی بدولت کبھی اس میں ایک شاندار تہذیب پیدا ہوئی تھی۔ 13؎ قیام یورپ نے مغرب کے جدید تمدن کا طلسم ان کی نظروں میں تار عنکبوت بنا کر رکھ دیا تھا۔ وہ اس تنگ نظری اور تعصب سے اور خود غرضانہ رویے سے واقف ہوئے جسے مغربی استعمار نے تہذیب اور سیاست کے عنوان سے اپنے دامن میں چھپا رکھا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے مابعد کی بربادی پورے مغرب کے لیے طعنہ بن جاتی ہے جس میں تہذیب اور سیاست کے نام پر وطنیت، نسلیت اور نام نہاد مساوات اور بے روح صداقت کے پرخچے اڑ گئے۔ اس جنگ کی مابعد یات اپنے ساتھ سرمایہ داری اور استبداد لے کر آئیں او ریہ سارا کچھ پوری انسانیت کے لیے مغرب کے ہولناک تحائف تھے۔ مغربی تہذیبی استعمار کی یلغار میں اقوام مشرق نے جو رعنائی دیکھی، اقبال نے اس رعنائی کے باطن میں منافقت، خود فروشی، استبداد اور قیصریت کو دریافت کیا اور نفسانیت اور انانیت محض کو محسوس کیا، مگر ان کی فکر میں یہ بات محض احساس کی حد تک ہی نہ رہی بلکہ اپنے فکری استحکام کے بل پر اقبال نے اس استعمار کے خلاف ایک باقاعدہ جہاد کا آغاز کیا۔ 14؎ یورپ میں اقبال وطنیت کے جذبے سے سرشار گئے تھے۔ یہ وطنیت اس شجر استعمار کی ایک شاخ تھی جسے فرنگی مقامروں نے مشرق کی سر زمین میں کاشت کیا تھا، لیکن جب اقبال کو پورے مغرب میں مادہ پرستی، دہریت اور زر پرستی نظر آئی تو استعماری وطنیت کا مفہوم ان پر کھل گیا او روہ خوب سمجھ گئے کہ مغرب میں وطنیت سے مراد بین الملی تنازعات کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ پھر تہذیب نوی کے تراشیدہ اس بت سے انہیں نفرت ہو گئی۔ انہوں نے مسلمان کی تعریف صرف مصطفویٰ ہونا اور اس کا دیس فقط اسلام کو قرار دیا اور مسلمانوں کے لیے یہ تجویز کیا کہ وہ جس قدر جلد ہو سکے اس بت کو خاک میں ملا دیں اگر یہ قائم رہتا ہے تو قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے۔ 15؎ وطنیت جہاں جہاں بھی مشرق میں مغربی استعمارانہ حکمت عملی کے تحت آئی، اس نے اقوام مشرق کو شدید نقصان پہنچایا جو آگے چل کر اقتصادی انحطاط کا باعث بھی بنا۔ خود مغرب میں بھی اس کے نتائج کچھ مختلف نہ تھے۔ وطنیت کے مکروہ رویے نے ہی اقبال کو مغربی استعمار کے ایک اور حربے، سرمایہ داری سے بھی متنفر کر دیا جو اسلام کی روح کے بھی خلاف تھا۔ اگرچہ سرمایہ داری کے خلاف یہ رحجان خود مغرب کے ایک حصے میں پیدا ہوا لیکن وہ اس قدر شدید تھا کہ حد اعتدال سے آگے نکل گیا اور اشتراکیت میں ڈھل گیا۔ اقبال کے ہاں اشتراکیت کے اس پہلو کے لیے بہرحال ایک نرم گوشہ موجود ہے۔ 16۔؎ جس کا تعلق انسان دوستی یا فلاح انسانیت سے ہے اگرچہ اس کی مذہب بیزاری اور دہریت سے انہوں نے کبھی کوئی واسطہ نہ رکھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے ہر عہد میں اقبال کی متاع عزیز رہا ہے۔ چنانچہ اشتراکیت کے لیے بھی جو ہر چند اپنی بعض صورتوں میں مغربی استعمار ہی کی ایک شکل ہے، اقبال نے صرف اس حد تک استحسانی رویہ روا رکھا جس کا تعلق فلاح انسانی سے تھا۔ سود، جس پر سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہے، اس کی نفی کرتے ہوئے اقبال نے اسلام اور اشتراکیت کے تعلق کو واضح کر دیا ہے۔ 17؎ مزدور کا جو حشر زردار کے ہاتھوں ہو رہا تھا وہ مغربی استعماری ذہنیت کا ایک مکروہ اظہار تھا جس کے خلاف اپنے عہد کے مشرقی شعراء میں سے صرف اقبال کو حرف حق کہنا نصیب ہوا۔ اقبال کی نظم ’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ نظم مغربی مدنیت کے بھیانک چہرے سے پردہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ اقبال مغربی استعمار کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک حد تک اشتراکیت کے ساتھ چلتے ہیں مگر وہ اعمال کے جائزے کے بعد انسانوں میں صحت عمل کی بنیاد امتیاز کے قائل بھی ہیں اور محض مساوات شکم کو معاشری ہیئت کے لیے امن کی بنیاد ہر گز نہیں مانتے۔ مارکس جو اشتراکیت کا فکری منبع ہے، اس کے احترام کے باوجود اقبال کو اس سے اختلاف بھی ہے اور وہ اس کی مساوات شکم کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ آگے چل کر وہ اشتراکی آمرانہ رویے کی بھی نفی رکتے ہیں جس میں زمام کار بے شک مزدور کے ہاتھ میں چلی جائے لیکن ان کے نزدیک یہ بھی ایک طرح سے پرویزی حیلہ ہے۔ 18؎ جہاں تک مغربی استعماریت کی ایک شاخ فسطائیت کا تعلق ہے ’’ ضرب کلیم‘‘ میں اقبال نے مسولینی کی زبان سے یورپ کے سیاسی مدبرین کو جو کچھ کہلوایا ہے، وہ اس بات کی شہادت ہے کہ اقبال نے فسطائی وطنیت کو ہر گز کلمہ خیر سے یاد نہیں کیا بلکہ ایک طنز کے پیرائے میں اسے بھی مغربی استعمار ہی کی ایک مکروہ شکل تسلیم کیا ہے۔ مسولینی کیز بان سے اقبال مغربی استعمار کو پردہ تہذیب میں غارت گری اور آدم کشی قرار دیتے ہیں۔ 19؎ مغربی استعمار اپنے ساتھ اقوام مشرق کے لیے سیاسی حوالے سے ایک اہم سوغات جمہوریت کے نام سے بھی لے کر آیا اور یہ ایک ایسا سیاسی فلسفہ ہے جو بظاہر خوبصورت بھی ہے لیکن جمہوریت کے حوالے سے اپنی زرداری کے بل پر سریر آرائے حکومت علی العموم سرمایہ دار یا زمیندار ہی منتخب ہوتے ہیں۔ حکومت بظاہر اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے لیکن فی الحقیقت ایک مختصر گروہ اکثریت پر حکومت کرتا ہے۔ اقبال نے جس استعماری طرز جمہوری سے گریز کا سبق دیا وہ در حقیقت یہی جمہوری، استبداد یا مغز دو صد خر کی حکمرانی ہے ۔20؎ اس سیاسی نظام میں بظاہر مجلس آئین، اصلاح و رعایات و حقوق کی بات ہوتی ہے لیکن اقبال مغربی جمہوری نظام کو رائے قیصری شمار کرتے ہیں۔ 21؎ ان کا اپنا عقیدہ اس بات میں رو سو کے قریب قریب ہے یعنی یہ کہ جمہوریت بے شک ایک اچھا سیاسی فلسفہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسے ایسی جگہ عمل میں لایا جائے جہاں عوام کا سیاسی شعور اپنے معراج پر ہو۔ اقبال معاشرے میں انسان کی قدر و قیمت اسے گن کو نہیں بلکہ اس کے عملی پایہ کو دیکھ اور پر کھ کر متعین کرتے ہیں اور مغربی جمہوریت کے مقابلے میں انسان کی رائے کا یہی معیار پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو اقبال سلطانی جمہوری کا نام دے کر اس کو مشرق میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں، اس کا مغربی سیاسی جمہوری فلسفے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی بنیاد سرا سر تعلیمات اسلامی پر ہے۔ اقبال کی زندگی میں ہی اقوام مغرب نے جمعیت اقوام کی داغ بیل ڈالی اور اسے اس طرح تشکیل دیا کہ اس میں بظاہر اقوام مشرق کو بھی جگہ دی گئی ۔ جہاں تک اس بین الاقوامی ادارے کے مقاصد کا تعلق تھا، یہ ظاہری طور پر واقعی دلکش و دلپذیر تھے۔ جنگ سے گریز، امن عالم اور اتحاد کی ترقی، عدل کا قیام اور انصاف کا احترام، تنازعات کی مخلصانہ ثالثی، یہی دل فریب باتیں جمعیت اقوام کے مقاصد عالیہ تھے لیکن اس کے سامنے مغربی اقوام نے ایشیائی و افریقی اور بعض یورپی غریب قوموں کے ساتھ قاہریت کے مظاہرے کیے اور اس جمعیت کے مقاصد کو کھلم کھلا پامال کیا، لیکن مغربی استعماری ذہنیت رکھنے والے اقوام، جو اس مجلس پر چھائی ہوئی تھیں، انہوں نے اس کے ضمیر کو بیدار نہیں ہونے دیا۔ ان قوموں نے تخفیف اسلحہ کی قرار دادیں بھی منظور کیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلحہ کے انبار بھی لگا دیے۔ اقبال نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جمعیت ایمان کی دولت سے محروم ہے اور اس کی اساس سرا سر مادیت اور خود غرضی پر رکھی گئی ہے اس لیے کامیابی اس کے نصیب میں ہرگز نہیں۔ اقبال نے مشرق کو اس کے حربوں سے متنبہ کرتے ہوئے اسے فتنہ گروں کی جماعت اور داشتہ پیرک افرنگ قرار دیا اور کہا کہ مغربی عظیم طاقتوں کا یہ اتحاد صرف کمزور قوموں کی تباہی اور کی بندر بانٹ چاہتا ہے اور نام نہاد درد مندان جہاں کے باطن کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ 22؎ پھر ساتھ ہی اس کا حل بھی تجویز کر دیا اور مغرب کے استعماری رویوں کی کوتاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلم اقوام مشرق کی ایک الگ جمعیت اقوام کا ذکر کیا۔ جس کے لیے وہ بطور مرکز طہران کا نام تجویز کرتے ہیں۔ آج سے لگ بھگ پچاس سال قبل پیش کی گئی اقبال کی یہ تجویز کس قدر معنی خیز ثابت ہو رہی ہے۔ 23؎ واقعہ یہ ہے کہ مشرق اور اقوام مشرق پر مغربی استعماری سیاسی، معاشی اور تہذیبی اثرات کا غلبہ ایک طرح کے استحصال کا واضح رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ تاریخ کے جس عہد میں مشرق کو اس مکروہ استحصال کا سامنا ہوا، اقوام مشرق ذہن اور رویے کے ایک عجیب تضاد کا شکار ہو گئیں۔ مغربی استعمار کی یلغار نے اقوام مشرق کے اندر معاشرتی سطح پر ایک تہذیبی تصادم کی صورت بھی پیدا کر دی۔ اب یہ اپنے ماضی سے پوری طرح منقطع ہونے کی ہمت نہ رکھتی تھیں کیونکہ ان کا ماضی واقعی اس قدر شاندار اور قوی تھا کہ آسانی کے ساتھ اس کا گلا گھوٹنا ممکن ہی نہ تھا اور استعمار کے تہذیبی اور سیاسی حربے بھی اس قدر دلکش اور دلفریب تھے کہ ان سے بھی مفر ممکن نہ تھا ملت اسلامیہ کا یہ ایک عجیب و غریب اور خطرناک موڑ تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس موڑ پر ملت کی رہنمائی کرنے والا کوئی بھی دانش ور عزم اور عقیدے کے ساتھ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دیتا۔ چند ایک نام گنے بھی جا سکتے ہیں لیکن ان کا تجزیہ یا تو سرے سے درست نہ تھا یا ادھورا تھا۔ ان میں سے بعض تو توجیہ اور تاویل کے شکار تھے اور بعض معذرتی ہو کر رہ گئے۔ چند ایک کو مصلحت اور ذہنی مرعوبیت کا مرض چاٹ کیا۔ اس سارے پس منظر میں فقط اقبال ہی ایک ایسے مسلم دانش ور اور فلسفی شاعر نظر آتے ہیں جو مغربی استعماری حربوں کی تہ میں اتر کر ان کا مناسب تجزیہ بھی کرتے ہیں اور پھر اس سلسلے کی دانش ورانہ ذمہ داریاں بھی نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ انہیں تہذیبی اور سیاسی، ہر محاذ پر بجا لاتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اقبال نے اپنا فرض صرف اقبال یورپ کے دوران ہی نہیں نبھایا بلکہ عمر کے آخری ایام تک انہوں نے مغربی فکر و فلسفہ اور سیاسی رویے کا بنظر غائر مطالعہ بھی جاری رکھا۔ یہ فیصلہ انہوں نے قیام یورپ کے دوران ہی کر لیا تھا کہ قصر ملت بیضا کے دریچے دو طرفہ کھولے جائیں تاکہ افکار تازہ کی صحت مند ہوا سے اقوام مشرق کی فضا محروم نہ ہو جائے اور صدیوں کے علمی رویے کا بند پانی بو بھی نہ دینے لگے اور یہ کہ اگر ایسا نہ ہوا تو مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کا مقابلہ اقوام مشرق کے بس کی بات نہ رہے گی۔ 24؎ اقبال اس صدی کے وہ واحد مسلمان مفکر ہیں جنہوں نے اسلام کو ایک مربوط فکر کے لباس میں اس دعوے کے ساتھ پیش کیا کہ یہ خود زمانہ حاضر کے خیالات، میلانات اور رحجانات کے لیے معیار تنقید ہے۔ 25؎ ان کی صائب رائے یہ تھی کہ اگر مسلمان دانش ور اسلامی فکر میں کوئی قابل قدر اضافہ نہیں کر سکتے تو کھوکھلی تجدد پسندی پر صحت مند تنقید تو کی جائے تاکہ استعماری تجدد پسندی کے سیلاب کے آگے بند باندھا جا سکے۔ 26؎ اقبال نے اصولی طور پر مغربی استعمار کی مخالفت کو اپنا عقیدہ یا لائحہ عمل فقط اس لیے بنایا کہ وہ جان گئے کہ مغرب مشرق کے لیے خدائی کرنے کا دعویدار بن چکا ہے جبکہ خود مغرب نے اپنے لیے اقتدار اور زر اندوزی کے بتوں کو بطور خدا کے تجویز کر لیا ہے۔ ان حالات میں مغربی دین و دانش کے پس منظر میں ہوس کی حیلہ گری کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہر چند کہ اشتراکیت نے مغرب ک مکروہیت کو بے نقاب کیا تھا اور یہ مشرق کی سہل پسندی کا ایک توڑ بھی تھا اور اس سے زر پرستانہ مادیت کے تار و پود بکھرنے کے امکانات پیدا ہوئے تھے۔ اقبال نے اسی وجہ سے مشرق و مغرب، دونوں کے لیے اسے روز حساب کا درجہ دیا تھا۔ یہ مغربی کلیسا کی مضبوط دیوار میں ایک زبردست دراڑ تھی۔ اس سے قیصرانہ ملوکیت کی ہوس رانی کے دن مختصر ہوتے نظر آتے تھے۔ اقبال کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی تربیت کے بعد مغربی چیلنج، غلبہ اور تسلط کے خلاف اقوام مشرق کے ضمیر کی تربیت کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اسلام کا بیج ان کے شعور کی گہری سطح سے پھوٹتا ہے اور تناور درخت بنتا ہے۔ چنانچہ یہ اقبال تھے جنہوں نے صدیوں کے فاصلے سے نئے ڈھب کے ساتھ مسلمان اقوام کے ساتھ تعلق اور ماحول کے خلاف رد عمل کو ان کی تاریخ کی اساس اور روح قرار دیا۔ اقبال مغربی استعمار کے اس لیے بھی خلاف ہیں کہ اس کی مدنیت کا ضمیر دین کی روح سے خالی ہے اور مغربی اخوت کا دار و مدار فقط نام و نسب پر رہ گیا ہے جسے اب عیسائی اخلاقیات بھی ختم کرنے سے معذور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مغرب کا قبول اسلام بھی شاید اس کی مدنیت کے ضمیر کو پاک نہ کر سکے کیونکہ مغرب اگر اسلام قبول بھی کر لے تو بھی وہ مشرق کے سیاہ روز مسلمان کو غلام ہی رکھے گا۔ کیونکہ وہ نسلی غرور کا شکار ہے اور اس نسلیت کو اقوام مشرق میں بھی پھیلا رہا ہے۔ 27؎ مغربی استعمار کے جملہ پہلوؤں کے حسن و قبحہ اقبال پر خوب خوب منکشف ہوئے۔ انہوں نے تہذیب، علم، حکمت اور سیاست کے مغربی معجزات کے غرور کو بھی ملاحظہ کیا مگر اس کی تہ میں انسان کی مردہ دلی اور بے ضمیری کو بھی دیکھا۔ مشرق کی خودی اور مغرب کا ضمیر، دونوں ان کے نزدیک مردہ ہو چکے تھے۔ وہ مشرق اور مغرب ہر دو کی روش اور مزاج سے غیر مطمئن تھے۔ ان کے نزدیک مغرب کی استعماری چال بازیاں اور مشرق کے بے روح مراقبات اور توکل و قناعت، انسان کی بربادی کے لیے یکساں حکم رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بڑے سلیقے سے بیک وقت ان کی مدافعت اور ان کی اہمیت کے اظہار کا رویہ اپنایا اور جہاں ان کے تاریک پہلوؤں کی بے معنویت کو واضح کیا، وہاں ان کی معنویت کے دوسرے رخ کو نکھارنے کی ذمہ داری بھی اٹھائی۔ ایک دانش ور کے لیے حقیقتاً یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا تاہم اقبال اس سے بخوبی عہدہ برآ ہوئے۔ تہذیب مغربی کی گہرائیوں میں اترنے کے بعد جہاں وہ اس کے بے رحم ناقد تھے وہاں انہیں اس کے باطن میں اگر کچھ خوبیاں بھی نظر آئیں تو انہوں نے ان سے اعتنا نہیں برتا۔ یہ بات بہر طور لائق استحسان ہے کہ مغربی فکر کے گہرے باطن میں علم کی سچی لگن، تسخیر فطرت اور جہالت کے خلاف جدوجہد کی جو قوت بخش قدریں موجود ہیں، وہ بہرحال موجود ہیں۔ 28؎ مغربی قوموں میں سے خاص طور پر انگلستان کی قوت عمل کو انہوں نے شاندار لفظوں میں اس طرح سراہا بھی ہے کہ سچائی، ہمت، بلند نظری اور قوت کی اقدار کو خراج بھی دیا جائے اور اس کی تائید اور توصیف میں بخل سے کام نہ لیا جائے۔ 29؎ دراصل اقبال فرسودگی اور گریز کے مخالف تھے اور فرد کی آزادی پر یقین رکھتے تھے اور معاشرے میں ہر سطح پر ندرت، جدت اور انقلاب کے آرزو مند تھے۔ سیاست کو اخلاق سے بے تعلق نہیں جانتے تھے۔ جنگ عظیم کی حشر سامانیاں ان کے سامنے تھیں جس نے انسان کی جغرافیائی پہچان کو اس کے لیے ایک آزار بنا کر رکھ دیا تھا۔ پیام مشرق کا دیباچہ ان کی اسی سوچ کی شہادت ہے۔30؎اقبال کے ہاں دوسرے مسلمان مفکرین سے ایک الگ رنگ پایا جاتا ہے۔ وہ اسلامی اتحاد کو بجائے خود مغربی استعمار کے مقابلے میں ایک سیاسی وحدت خیال کرتے تھے۔ 31؎ مشرق میں عالم اسلام کا انتشار اقبال کے نزدیک یورپ کی جن قباحتوں سے پیدا ہوا، انہیں اقبال نے اپنے افکار میں نام بنام گنوایا ہے مثلاً مغربی رویے کا دور خا پن، یورپ کا جغرافیائی قومیت پر اصرار، اس کا سرمایہ دارانہ نظام معیشت جس نے انسانوں کی اکثریت کی محرومیوں کا شکار بنا دیا، بے محابا آزادی نسواں جس سے یہ طبقہ رفتہ رفتہ جنس تجارت بن کر رہ گیا اور اس کے بد اثرات اقوام مشرق کے جسد میں ایک زہر بن کر سرائیت کر گئے۔ پھر تہذیب و ثقافت کا یکسر مادیتی رویہ افکار مغربی کی اٹھی جہتوں کے فروغ سے اقبال پریشان تھے۔ چنانچہ انہوں نے تہذیب مغرب کا تنقیدی جائزہ لینے کا مشورہ دیا اور برے بھلے کی پہچان خود کرنا سکھایا۔ ایک طنز کے انداز میں انہوں نے مشرق کو بتایا کہ قوت مغرب کا راز جنگ و رباب، دختران بے حجاب، ساحران لالہ رو، عریانی ساق، قطع مو، فروغ خط لاطینی یا لادینی افکار میں ہر گز نہیں بلکہ قوت افرنگ اس کے علم و فن میں ہے اور اگر ہو سکے تو مشرق اس علمی رویے کو اپنائے لیکن مشرق اس مغز کی بجائے ملبوس فرنگ پر ہی قناعت کر گیا ہے۔ 32؎ اس ذہنیت نے مسلمانوں میں اتحاد کی بجائے علیحدگی پسندی کے رحجان کو فروغ دیا ہے۔ 33؎ وطنیت اور قومیت جن پر مغربی استعمار کا دار و مدار ہے، ان کی نفی اقبال کے فکر کے اساسی محرکات میں سے ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کا وطن فقط اسلام ہے۔ یہی ان کی تہذیبی اور سیاسی فکر کا بنیادی نکتہ ہے۔ 34؎ اس باب میں انہیں برصغیر کے بعض دینی رہنماؤں کی مصلحت کیش روش سے گلہ بھی تھا۔ 35؎ جو مغربی استعمار کی ملوکانہ اغراض میں اس کے معاون بن رہے تھے۔ عالم اسلام میں خلافت کا اپنے انجام کو پہنچنا بے شک ایک تاریخی المیہ تھا۔ اقبال بھی اس سے متاثر ہوئے اس لیے کہ در پردہ مغربی استعمار بھی اس کے عقب میں تھا۔ تاہم اقبال کسی نمائشی خلیفہ کے وجود کو اتحاد اسلامی کی راہ میں رکاوٹ اور استعماری حربوں میں شریک جانتے تھے۔ اس کا علاج انہوں نے یہ تجویز کیا کہ اسلامی جمہوریتوں کی ایک برادری تشکیل دی جائے۔ وہ مغربی استعمار کی یلغار کے سامنے ایک عرب وفاق کے قیام کی اہمیت کے بھی قائل تھے۔ دوسری طرف ایشیائی قوموں کو انہوں نے ایک جمعیت اقوام ترتیب دینے کا مشورہ بھی دیا۔ دراصل اقبال عالم اسلام کی دولت مشترکہ کو مغربی استعمار کے خلاف بطور دفاع کے قائم ہوتے دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ انہیں دکھ تھا کہ ایرانی ہوں ترک یا عرب، تمام اقوام مشرق محکومی کے باعث مغربی استعمار کی حیلہ گری کو محسوس کر لینے کی قوت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ 36؎ اقبال نے ترکوں کے انقلاب کے بعد محسوس کیا کہ مغرب کی معاشری تقلید محض سے کسی قوم کی عملیت کے قویٰ نئی زندگی حاصل کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں اور یہ رویہ بھی محض ماضی پرستی کے رویے سے اپنے نتائج کے اعتبار سے کچھ مختلف نہیں۔ مغربی استعمار کے خلاف اتاترک اور رضا شاہ نے پہلے پہل جو کچھ کیا، اقبال ا س سے بے شک متاثر تھے لیکن انہیں بھی مغربی تہذیبی طوفان میں بہتے ہوئے پایا تو مایوس بھی ہوئے۔ 37؎ وہ عربوں کی غلط اندیشی سے بھی پریشان تھے۔ 38؎ مصر میں سیاسی بیداری کو دیکھا لیکن اس کے ہمراہ آنے والی عیش پسندی اور تقلید مغربی انہیں کھلتی تھی۔ ایران میں ساسانی اقدار تہذیب کے احیاء کی تحریک، جو نسل کی بنیاد پر چلائی گئی، اقبال کی روح کا آزار تھی۔ برصغیر میں مسلمانوں کے تہذیبی زوال اور اقتصادی مسئلے پر وہ بار بار قائد اعظم کو خطوط لکھ کر ایک نئے وطن اور آزادی کی تحریک کو جاری رکھنے کی تاکید کر رہے تھے، اور یہ ساری اقوام مغربی استعمار کی نئے مینا گداز میں مست تھیں اور اس کی یلغار کے آگے بے دست و پا تھیں۔ مغربی عقل فسوں پیشہ نے مشرق میں مجرد وطنیت کو فروغ دیا۔ اقبال نے اس پر بھی ماتم کیا اور اس کے پیراہن کو مذہب کا کفن قرار دیا۔ 39؎ مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کا ایک اور خطرناک رخ بھی تھا جس کا تجزیہ کیے بغیر اقبال سے رہا نہ جا سکا۔ انہیں اس کی زہر ناکی میں پنجہ یہود بھی نظر آ گیا تھا جو سرا سر مغربی سازش کے تحت ارض مقدس اور فلسطین میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہے تھے۔ مغربی استعمار کی دلی خواہش تھی کہ یہود کی حمایت کرتے ہوئے فلسطین میں عربوں کی قوت کو ختم کر دیا جائے۔ غیر قانونی طور پر وہاں عربوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے وہاں پورے یورپ سے یہودی لا بسائے جائیں یہاں تک کہ ان کا ملک اسرائیل بن جائے اقبال نے اسے استعماری حیلہ گری قرار دیا 40؎ بلکہ اس مسئلہ پر ایک بھرپور بیان سارے عالم اسلام کے لیے جاری کیا۔ 41؎ آپ نے ارض مقدس میں اسرائیل کے قیام کی سازش کو مشرق کے دروازے پر ایک خطرناک مرکز کا قیام قرار دیا۔ 42؎ انہوں نے مصر کو بھی یہودی استعمار سے متنبہ کیا اور کہا کہ عالم عرب پر ناجائز تسلط جمانے کے لیے جس طرح یہود کو مغرب نے کھلی چھٹی دے دی ہے، ایک روز یہ سود خور قوم اس قدر طاقت ور ہو جائے گی کہ خود مغربی استعمار اس کے اشارے پر رقص کرے گا۔ 43؎ اقبال نے مغربی دانشوری کی تہ میں موجود مادیت کا طوفان دیکھا تھا جن پر اس تہذیب کی اساس ہے۔ مغربی استعماری ذہنیت نے تہذیب کے محاذ پر یہی جراثیم اقوام مشرق میں پھیلائے اور خود فراموش عالم مشرق ان سے متاثر ہوتا رہا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبال نے مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کی یلغار کا دو طرفہ دفاع کیا یعنی مشرق کو روحانی زوال آمادگی سے بچایا جائے اور سیاسی محاذ پر اسے تنبیہہ کی جائے۔ مغرب نے مشرق کو ذہنی غلام بنانے کے لیے اپنے مخصوص نظام تعلیم سے بھی فائدہ اٹھایا اور غلام مشرق کی نئی نسل کو گرفتار خرافات کر دیا جن میں موسیقی اور صورت گری کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھا۔ اس نظام تعلیم نے مشرق کی خودی کو تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر ملائم اور موم کرنے کے بعد اسے جس طرف چاہا پھیر لیا اور مغرب نے یوں غلام مشرقی کو تیغ سے زیر کرنے کے ساتھ ہی ساتھ خرافات سے زیر کرنے کا حربہ بھی خوب خوب آزمایا۔ 44؎ یہاں پوری انسانیت کے لیے اقبال کی اخلاص مندی بھی سامنے آتی ہے کہ چونکہ مادیت اور بے راہ عقلیت اقوام مشرق کے علاوہ خود اقوام مغرب کے لیے بھی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہیں، اس لیے محض انسانی بنیاد پر انہوں نے مغرب کو بھی بعض فتنوں کی ہلاکت آفرینی سے متنبہ کیا۔ 45؎ اس مغربی عقلیت نے جو علم کے واسطہ سے مشرق میں در آئی تھی، مسلمانوں میں محدود وطنیت کے تصور کو فروغ دیا تھا۔ اقبال نے اس پر بہت احتیاط کے ساتھ نکلسن کے نام ایک خط میں توجہ دلائی کہ اجتماعی زندگی کے ارتقاء اور نشوونما میں قبیلے اور قومی نظامات کا وجود ایک عارضی حیثیت رکھتا ہے اور جب اسی کو انتہائی منزل قرار دے دیا جائے تو یہ بدترین لعنت بن جاتے ہیں۔ اقبال نے جسمانی غلامی سے زیادہ ہمیشہ ذہنی غلامی کوخطرناک جانا۔ تہذیب مغربی نے اقوام مشرق میں جو مصلحت آمیز رویہ اور معذرتی لب و لہجہ پیدا کر دیا تھا اس کی خطرناکی سے اقبال آگاہ تھے۔ ان کے سامنے ایک طبقہ مسلمانوں کے درمیان ایسا بھی موجود تھا جو تہذیب ملت بیضاء کو تہذیب مغرب سے ہم آہنگ کرنا چاہتا تھا۔ یہ رویہ دانستہ اور نا دانستہ، دونوں سطحوں پر پایا جاتا تھا۔ اقبال نے اس کے خلاف دانش ورانہ جنگ لڑی۔ ذہنی اور سیاسی انحطاط کے اس دور میں جب مسلمان اپنے ماضی سے ایک طرح سے لا تعلق ہوئے بیٹھے تھے اور اپنے تہذیبی فاتحین کی ہمرکابی پر فخر محسوس کرتے تھے، اقبال نے اجتہادی اور تقلیدی دونوں رویوں پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ مغربی تہذیب نے معاشرتی اقدا رکے اظہار میں مبالغہ آرائی کی، اگرچہ اپنے باطن میں یہ اقدار کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ یہ بات اسلامی کلچر کے خلاف ہے جس کی اساس اعتدال اور توازن پر ہے اور جو حیات دنیاوی اور حیات آخر دونوں پر محیط ہے۔ اسی باعث اقبال نے مغربی تعلیمی مادیت کو تاریخ کی تخلیقی صلاحیت کا دشمن سمجھا۔ 46؎ مغرب کا ثقافتی رویہ اقبال کی شاعری کی زبان میں بے ذوق ہے اور دل بیدار عطا کرنے سے محروم ہے۔ اس میں خود اپنے افکار کا سفر کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بے حرم بھی ہے اس لیے اس کی بنیاد پر خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کے امکانات معدوم ہونے لگتے ہیں۔ عورت کی آزادی مغربی استعمار کا ایک اور شاخسانہ ہے جس سے اقوام مشرق بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ اس سے نژاد نو کی پاکیزہ امومت سے محرومی کا جو سلسلہ چلا، اس کے اثرات دور رس ہیں۔ جاوید نامہ میں اقبال نے اس محاذ پر بھی اپنا نقطہ نظر خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی ہر سطح پر مرد و عورت کی مساوات کی نفی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خاندانی وحدت کے رشتے کو جو بنی نوع انسان کی روحانی زندگی کا جزو اعظم ہے، یہ حریت توڑ دیتی ہے۔ 47؎ شعر کے پیرائے میں بھی انہوں نے تہذیب فرنگ کے اس حربے پر بھرپور تنقید کی ہے 48؎ اور مغربی استعمار کے اس پہلو کو مرگ امومت سے تشبیہہ دی ہے۔ 49؎ عورت مشرق میں ہمیشہ سرمایہ ملت سمجھی گئی ہے کیونکہ جملہ تہذیبی او صاف اسی کے وجود کے مرہون ہوتے ہیں۔ اقبال نے مشرقی عورت کو اسوۂ بتولؓ اپنانے کی تلقین کی۔ وہ عورت کو تمدن کی جڑ سمجھتے تھے جس سے تمام نیکیاں نمو کرتی ہیں۔ اسے زیور تعلیم سے مزین کرنا سارے خاندان کو تعلیم دینا ہے، لیکن مغربی ڈھب کی تعلیم اس کے لیے سم قاتل ہے۔ 50؎ یہ مسئلہ عمر بھر ان کے پیش نظر رہا اور اس عقدۂ مشکل کی کشود ممکن نہ ہو سکی۔ 51؎ اقبال مشرق کے ساتھ جس مغربی تہذیبی اور سیاسی استعمار کا مقابلہ کرتے ہیں، اس کے بنیادی اجزاء عام طور پر مندرجہ بالا امور ہیں۔ شیشے کی یہ عمارت جو آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔مغرب کی نعمتیں ایسی بھی ہیں جو اقبال کے نزدیک اصل اسلام کا وہ اجر ہیں جنہیں مغرب نے چپکے چپکے وصول کیا۔ بہرحال اگر انہوں نے مغرب کے استعمار کے خلاف جدوجہد کی ہے تو مشرق کے لیے گن بھی نہیں گائے، بلکہ اس پر بھی انتقاد کیا ہے۔ ہاں مگر مغربی استعمار کی چیرہ دستیوں کو انہوں نے کھل کر نمایاں کیا ہے اور مشرق کو اس کی سست روی پر جھنجھوڑا ہے۔ مشرق کی جو صورت حال تھی اور جو لوگ اس کے ذمہ دار تھے، اقبال نے سب کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا کہ احیائے ملت کے لوگ اس کے ذمہ دار تھے، اقبال نے سب کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا کہ احیائے ملت کے لیے یہ از بس ضروری تھا۔ 52؎ اس کے باوجود انہیں مشرق کی پختہ اقدار پر یقین تھا اور ان کی بحالی پر ان کا ایمان تھا۔ وہ مانتے تھے کہ اپنی ساری فسوں گری کے باوصف فرنگ رہگزر یہ سیل بے پناہ میں ہے اقبال کی فکری دیانت داری یہ ہے کہ مغربی استعمار کو انہوں نے صرف اپنے وطن برصغیر کے حوالے سے نہیں دیکھا بلکہ اس کے مضمرات اور خطرات کو پورے علام اسلام اور اقوام مشرق یہاں تک کہ خود مغرب کے لیے بھی محسوس کیا اور اپنے تجزیے، پیغام اور اپنے افکار کو شاعری، نثر، خطبات، فارسی اردو اور انگریزی، ہر حوالے اور وسیلے سے پیش کیا۔ ہر چند کہ اقوام مشرق کی جنگ مغربی استعمار کے تہذیبی اور سیاسی محاذ پر ابھی جاری ہے مگر مشرق نے جو تہذبی اور سیاسی سنبھالا لیا ہے، وہ بے شک بقول ڈاکٹر علی شریعتی، اقبال ہی کے خواب کی تعبیر کا ایک حصہ ہے۔ غلام مشرق کی استعماری زنجیریں کٹ چکی ہیں مگر استعمار بھی ساتھ ہی ساتھ اپنے رنگ میں بدل بدل کر حملے کر رہا ہے۔ جبر کے خفیہ ہاتھوں نے دستانے پہن رکھے ہیں، مگر یہ خواب اپنی مکمل تعبیر کے ساتھ ایک روز سامنے آ کر رہے گا۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ عصر حاضر میں اقبال کے افکار کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اس لیے کہ اس کے باطن میں روح عصر ہے۔ مغربی استعمار کے تہذیبی اور سیاسی محاذ پر اقبال کی تمام تر فکری جدوجہد اقوام مشرق اور ملت اسلامیہ کے پاس آج بھی ایک متحرک امانت ہے، اس لیے کہ ایک عقیدے کے طور پر اقبال نے مشرق کے اتحاد پر ایمان رکھا۔ 53؎ ان کا اپنا اعلان ہے: ’’ ہماری قوم ایک شاندار مستقبل رکھتی ہے اور جو مشن اسلام کا اور ہماری قوم کا ہے، وہ ضرور پورا ہو کر رہے گا۔‘‘ 54؎ ٭٭٭ حواشی ۱۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دیگری تیرے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری (کلیات اقبال، حصہ اردو، ارمغان حجاز، ص ۶۸۰/۳۸) ۲۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۱۸۹ ۳۔ ’’ فی الحقیقت جس چیز کو اہمیت حاصل ہے وہ آدمی کا عقیدہ ہے۔ اس کی تہذیب اور اس کی تاریخی روایات ہیں۔ میری نگاہوں میں یہ چیزیں اس قابل ہیں کہ جن کی خاطر آدمی کا جینا اور مرنا ہو، نہ کہ زمین کا لکڑا جس کے ساتھ عارضی طور پر روح انسانی کا رابطہ ہو گیا ہو۔‘‘ (انگریزی تقاریر و خطبات (ترجمہ) ص ۵۶) ۴۔ دیار مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زیر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۱۴۱/۱۴۱) ۵۔ عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب (کلیات اقبال، حصہ اردو، بال جبریل، ص ۳۹۲/۱۰۰) ۶۔ گرچہ دارد شیوہ ہائے رنگا رنگ من بہ جز عبرت نگیرم از فرنگ (کلیات اقبال، حصہ فارسی، جاوید نامہ، ص ۶۶۰/۷۲) ۷۔ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۲۶۵/۲۶۵) ۸۔ ’’ سر زمین مغرب میں مسیحیت کا وجود محض ایک رہبانی نظام کی حیثیت رکھتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس سے کلیسائی ایک وسیع حکومت ہو گی۔ لوتھر کا احتجاج دراصل اس کلیسا کی حکومت کے خلاف تھا۔ اس کو کسی دنیوی نظام سیاست سے کوئی بحث نہیں تھی کیونکہ اس قسم کا کوئی نظام سیاست مسیحیت میں موجود نہیں تھا۔ غور سے دیکھا جائے تو لوتھر کی بغاوت ہر طرح سے حق بجانب تھی۔ اگرچہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ خود لوتھر کو بھی اس امر کا احساس نہ تھا کہ جن مخصوص حالات کے تحت اس کی تحریک کا آغاز ہوا ہے اس کا نتیجہ بالآخر یہ ہو گا کہ مسیح کے عالمگیر نظام اخلاق کی بجائے مغرب میں ہر طرف بے شمار ایسے اخلاقی نظام پیدا ہو جائیں گے جو خاص خاص قوموں سے متعلق ہوں گے اور لہٰذا ان کا حلقہ اثر بالکل محدود رہ جائے گا۔ یہی وجہ ہے جس ذہنی تحریک کا آغاز لوتھر اور روسو کی ذلت سے ہوا، اس نے مسیحی دنیا کی وحدت کو توڑ کر اسے ایک ایسی غیر مربوط اور منتشر کثرت میں تقسیم کر دیا جس سے اہل مغرب کی نگاہیں اس عالمگیر مطمح نظر سے ہٹ کر جو تمام نوع انسان سے متعلق تھا، اقوام و ملل کی تنگ حدود میں الجھ گئیں۔ اس نئے تخیل حیات کے لیے انہیں کہیں زیادہ واقعی اور مرئی اساس مثلاً تصور وطنیت کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا اظہار بالآخر ان سیاسی نظامات کی شکل میں پیدا ہوا جنہوں نے جذبہ قومیت کے ماتحت پرورش پائی۔ یعنی جن کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ سیاسی اتحاد و اتفاق کا وجود عقیدہ وطنیت ہی کے ماتحت ممکن ہے۔‘‘ (خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ، ۱۹۳۰ئ) ۹۔ ہے گرم خرام موج دریا دریا سوئے بحر جادہ پیما بادل کو ہوا اڑا رہی ہے شانوں پہ اٹھائے لا رہی ہے ٭٭٭ لذت گیر وجود ہر شے سرمست مے نمود ہر شے کوئی نہیں غم گسار انساں کیا تلخ ہے روزگار انساں (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۱۲۷۔ ۱۲۶) ۱۰۔ یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں غضب ہے یہ ’’مرشدان خود بیں‘‘ خدا تری قوم کو بچائے بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۱۶۲) ۱۱۔ ’’ اگر عالم انسانیت کا مقصد اقوام متحدہ کا امن، سلامتی اور ان کی موجودہ ہیتوں کو بدل کر ایک واحد اجتماعی نظام قرار دیا جائے تو سوائے نظام اسلامی کے کوئی دوسرا نظام ذہن میں نہیں آ سکتا کیونکہ قرآن سے میری سمجھ میں جو کچھ آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ نظر کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔‘‘ (خط بجواب حسین احمد مدنی، روزنامہ احسان، مارچ ۱۹۲۸ئ) ’’ مجھے اس جماعت سے دلی ہمدردی ہے جو میرے اوضاع اور اطوار اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے اور جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا ہے جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اس کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے از سر نو زندہ ہو کر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب بھی میری ذات میں سرگرم کار ہے۔‘‘ (ایضاً) ۱۲۔ خطبہ صدارت، مسلم لیگ الہ آباد ۱۹۳۰ء ۱۳۔ ’’ ایک سبق جو میں نے اونچے اسلام سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ آڑے وقتوں میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی ۔ اگر آج اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جمادیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں از سر نو مجتمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہو جائے گا۔‘‘ ۱۴۔ ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر ٭٭٭ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کی ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں، مٹ جائے گا ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر نسل اگر مسلم کی، مذہب پر مقدم ہو گئی اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۲۶۵) ٭٭٭ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐ ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۲۴۸) ۱۵۔ اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۱۶۱۔ ۱۶۲) ۱۶۔ قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمئی گفتار (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۹۸/۱۳۶) ۱۷۔ چیست قرآں؟ خواجہ را پیغام مرگ دست گیر بندۂ بے ساز و مرگ ہیچ خیر از مردک زر کش مجو ۱۸۔ لن تنالو البر حتی تنفقوا از ربا آخر چہ می ز آید فتن کس نہ داند لذت قرض حسن از ربا جاں تیرہ دل چوں خشت و سنگ آدمی درندۂ بے دندان و چنگ (کلیات اقبال، حصہ فارسی، جاوید نامہ، ص ۶۶۸/۸۰) زمام کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا طریق کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی (کلیات اقبال، حصہ اردو، بال جبریل، ص ۳۳۲/۴۰) ۱۹۔ میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! تو چھلنی میں چھاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟ یہ عجائب شعبدے کس کی ملوکیت کے ہیں راجدھانی ہے، مگر باقی نہ راجہ ہے نہ راج آل سیزر چوب نے کی آبیاری میں رہے اور تم دنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشت دہقاں تم نے لوٹے تخت و تاج پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کشی کل روا رکھی تھی تم نے، میں روا رکھتا ہوں آج (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۱۲/۱۵۰) ۲۰۔ گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید ۲۱۔ ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری ٭٭٭ اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ! اے ناداں، قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۲۶۱۔ ۲۶۲) ۲۲۔ برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن درد مندان جہاں طرح نو انداختہ اند من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند (کلیات اقبال، حصہ فارسی، پیام مشرق، ص ۳۶۳/۱۹۳) ۲۳۔ بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے تقدیر تو مبرم نظر آتی ہے و لیکن پیران کلیسا کی دعا یہ ہے کہ ٹل جائے ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۱۸/۱۵۶) ٭٭٭ پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر کیا ہو جو نگاہ فلک پیر بدل جائے دیکھا ہے ملوکیت افرنگ نے جو خواب ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۰۹/۱۴۷) ۲۴۔ پردہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں راز خارم پاک کن (کلیات اقبال، حصہ فارسی، اسرار و رموز، ص ۱۶۸/۱۶۸) ۲۵۔ ’’ اقبال سوشلزم اور اسلام‘‘ پروفیسر کرار حسین، نقوش شمارہ ۱۲۳، دسمبر ۱۹۷۷ء ص ۱۲۳ ۲۶۔ ’’ اور اگر ہم اسلامی فکر میں کوئی اضافہ نہیں کر سکتے تو کم از کم صحت مند تنقید سے عالم اسلام میں امنڈتے ہوئے تجدد پسندی کے سیلاب کو ضرور روک سکتے ہیں۔‘‘ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۱۵۲) ۲۷۔ ضمیر اس مدنیت کا دین سے ہے خالی فرنگیوں میں اخوت کا ہے نسب پہ قیام بلند تر نہیں انگریز کی نگاہوں میں قبول دین مسیحی سے برہمن کا مقام اگر قبول کرے دین مصطفی انگریز سیاہ روز مسلمان رہے گا پھر بھی غلام (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۲۴/۲۶) ۲۸۔ The most remarkable phenomenon of modern history. however, is the enormous repidity when the world of Islam is spiritually moving towards the west. there is nothing wrong in the movement, for European Culture, on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phase of the of culture of Islam. our only fear is tat the dazzling exterior of European Culture may asset our movement, and we may fail to reach the truf inwarone of that culture. (Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.7) ۲۹۔ ’’ حق یہ ہے کہ انگریز قوم کی نکتہ رسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے کہ اس قوم میں جس واقعات دیگر اقوام عالم کی نسبت زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی فلسفیانہ نظام، جو واقعات متعارفہ کی تیز روشنی کا متحمل نہ ہو سکتا ہو، انگلستان کی سر زمین میں آج تک مقبول نہیں ہوا۔ لہٰذا حکمائے انگلستان کی تحریں ادبیات عالم میں ایک خاص پایہ رکھتی ہیں اور اس قابل نہیں کہ مشرقی دل و دماغ ان سے مستفید ہو کر اپنی قدیم فلسفیانہ روایات پر نظر ثانی کریں۔‘‘ (مقالات اقبال مرتبہ سید عبدالواحد معینی لاہور ۱۹۶۳ء ص ۱۵۸) ۳۰۔ ’’ یورپ کی جنگ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو تقریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کرنی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ حکیم آئن سٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے۔ خالص ادبی اعتبار سے دیکھیں تو جنگ عظیم کی کوفت کے بعد یورپ کے قوائے حیات کا اضمحلال ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کی نشوونما کے لیے نا مساعد ہے، بلکہ اندیشہ ہے کہ اقوام کے طبائع پروہ فرسودہ، ست رگ اور زندگی کی دشواریوں سے گریز کرنے والی عجمیت غالب نہ آ جائے اور جو جذبات قلب کو افکار دماغ سے متمیز نہیں کر سکتی۔ البتہ امریکی مغربی تہذیب کے عناصر میں ایک صحیح عنصر معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ قدیم روایات کی زنجیروں سے آزاد ہے اور اس کا اجتماعی وجدان نئے اثرات و افکار کو آسانی سے قبول کر سکتا ہے۔‘‘ ’’ اس وقت دنیا میں او ربالخصوص ممالک مشرق میں ہر ایسی کوشش، جس کا مقصد افراد قوم کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابل احترام ہے۔‘‘ (’’ کلیات اقبال فارسی۔ پیام مشرق‘‘ ص ۱۸۳۔ ۱۸۲) ۳۱۔ ’’ نئے اسکول کے مسلمانوں کو معلوم ہو گا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے، وہ محض بودے اور ست تاروں کا بنا ہو اایک ضعیف چیتھڑا ہے۔ قومیت کے اصول فقہ صرف اسلام نے ہی بتائے ہیں جن کی پختگی اور پائیداری مرور ایام و اعصار سے متاثر نہیں ہو سکی۔‘‘ (’’ مکاتیب اقبال‘‘ لاہور ۱۹۵۴ئ، ص ۹) ۳۲۔ شرق را از خود برد تقلید غرب باید ایں اقوام را تنقید غرب قوت مغرب نہ از چنگ و رباب نے ز رقص دختران بے حجاب ٭٭٭ محکمی او را نہ از لا دینی است نے فروغش از خط لاطینی است قوت افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش چراغش روشن است ٭٭٭ علم و فن را اے جوان شوخ و شنگ مغز می باید نہ ملبوس فرنگ (کلیات اقبال، حصہ فارسی، جاوید نامہ، ص ۷۶۶/۱۷۸) ۳۳۔ حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۲۶۴) نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ ’’خواجگی‘‘ نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۲۶۲) ۳۴۔ ’’ قومیت کا عقیدہ، جس کی بنیاد نسل یا جغرافیائی حدود ملک پر ہے، دنیائے اسلام میں استیلا کر رہا ہے اور مسلمان عالمگیر اخوت کے نصب العین کو نظر انداز کر کے اس عقیدے کے فریب میں مبتلا ہو رہے ہیں جو قومیت کو ملک و وطن کی حدود میں مقید رکھنے کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ اول، ص ۴۶۸) ۳۵۔ ’’ میں نظریہ وطنیت کی تردید اس زمانے سے کر رہا ہوں، جبکہ دنیائے اسلام اور ہندوستان میں اس نظریے کا کچھ ایسا چرچا بھی نہ تھا۔ مجھ کو یورپین مصنفوں کی تحریروں سے یہ بات پوری طرح معلوم ہو گئی تھی کہ یورپ کی ملوکانہ اغراض اس امر کی متقاضی ہیں کہ اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حربہ نہیں کہ اسلامی ممالک میں فرنگی نظریہ وطنیت کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ ان لوگوں کی یہ تدبیر جنگ عظیم میں کامیاب بھی ہو گئی اور اس کی انتہا یہ ہے کہ ہندوستان میں اب مسلمانوں کے بعض دینی پیشوا بھی اس کے حامی نظر آتے ہیں۔‘‘ (’’ حرف اقبال‘‘ ص ۲۲۶) ۳۶۔ نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیوں کر یہ فرنگی مدنیت کہ جو خود ہے لب گور (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۳۱۔ ۵۳۲/۶۹۔ ۷۰) ۳۷۔ نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۰۴/۱۴۲) ۳۸۔ جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۱۵/۱۵۳) ۳۹۔ اس دور میں مے اور ہے جام اور ساقی نے بناء کی روش لطف و ستم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے (کلیات اقبال، حصہ اردو، بانگ درا، ص ۱۶۰) ۴۰۔ ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا؟ مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۱۸۔ ۶۱۹/۱۵۶۔ ۱۵۷) ۴۱۔ ’’ فلسطین میں یہود کے لیے ایک قومی وطن کا قیام محض ایک حیلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی امپریلزم مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں اپنے ایک مقام کی متلاشی ہے۔‘‘ (’’ اقبال نامہ‘‘ جلد اول، ص ۴۵۱) ۴۲۔’’ اقبال نامہ‘‘ جلد دوم، ص ۲۷ ۴۳۔ تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ (کلیات اقبال، حصہ اردو، بال جبریل، ص ۴۵۹/۱۶۷) ٭٭٭ ہے نزع کی حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۶۰۲/۱۴۰) ۴۴۔ آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات محکوم کے حق میں ہے یہی تربیت اچھی موسیقی و صورت گری و علم نباتات (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۴۰/۷۸) ۴۵۔ اقبال کا خط بنام پروفیسر نکلسن اور یہ اشعار بھی: از من اے باد صبا گوے بداناے فرنگ عقل تا بال کشود است گرفتار تر است برق را ایں بہ جگری زند، آں رام کند عشق از عقل فسوں پیشہ جگر دار تر است چشم جز رنگ گل و لالہ نہ بیند، ورنہ آن چہ در پردۂ رنگ است پدیدار تر است عجب آں نیست کہ اعجاز مسیحا داری عجب ایں است کہ بیمار تو بیمار تر است دانش اندوختہ دل ز کف انداختہ آہ زاں نقد گراں مایہ کہ در باختہ (کلیات اقبال، حصہ فارسی، پیام مشرق، ص ۳۵۸/۱۸۸) ۴۶۔ یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟ وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات (کلیات اقبال، حصہ اردو، بال جبریل، ص ۳۹۹۔ ۴۰۰/۱۰۷۔ ۱۰۸) ۴۷۔ ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ ص۳۸۔ ۴۸۔ کوئی پوچھے حکیم یورپ سے ہند و یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش کیا یہی ہے معاشرے کا کمال؟ مرد بیکار و زن تہی آغوش (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۵۴۔ ۵۵۵/۹۲۔ ۹۳) ۴۹۔ تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت ہے حضرت انساں کے لیے اس کا ثمر موت جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۵۸/۹۶) ۵۰۔ ’’ لیکن اس ضمن میں ایک غور طلب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مشرقی عورتوں کو مغربی طریق کے مطابق تعلیم دی جائے یا کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے ان کے شریفانہ اطوار مشرقی دل و دماغ کے ساتھ خاص میں قائم رہیں۔ میں نے اس سوال پر غور و فکر کیا ہے مگر چونکہ اب تک کسی قابل عمل نتیجے پر نہیں پہنچا، اس لیے فی الحال اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا۔‘‘ (مضامین اقبال، ص ۴۲) ۵۱۔ میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود (کلیات اقبال، حصہ اردو، ضرب کلیم، ص ۵۵۹/۹۷) ۵۲۔ بگزر از خاور و افسونی افرنگ مشو کہ نیرزد بہ جوئے ایں ہمہ دیرینہ و نو (کلیات اقبال، حصہ فارسی، زبور عجم، ص ۵۲۲/۱۳۰) بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا، وہاں بے ذوق ہے صہبا (کلیات اقبال، حصہ اردو، بال جبریل، ص ۳۱۵۔ ۲۳) ۵۳۔ ’’ اسلام ایک عالمگیر سلطنت کا یقینا منتظر ہے جو نسلی امتیازات سے بالاتر ہو گی اور جس میں شخصی اور مطلق العنانی بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی گنجائش نہ ہو گی۔ دنیا کا تجربہ خود ایسی سلطنت پیدا کر دے گا۔ غیر مسلموں کی نگاہوں میں شاید یہ محض خواب ہو، لیکن مسلمانوں کا یہ ایمان ہے۔‘‘ (گفتار اقبال) ٭٭٭ ’’ میرا مذہبی عقیدہ یہی ہے کہ اتحاد ہو گا اور دنیا پھر ایک دفعہ جلال اسلامی کا نظارہ دیکھے گی۔‘‘ (اقبال نامہ ، حصہ دوم، ص ۱۶۳) ۵۴۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ ص ۱۴۳ ٭٭٭ اقبال کا نظریہ آبادی اقبال نے آبادی کی کثرت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چند در چند مسائل کو بیسویں صدی کے آغاز میں نہ صرف محسوس کیا بلکہ موجودہ صدی کے اس نہایت اہم مسئلے پر اپنی جچی تلی رائے کا اظہار بھی کیا۔ معاشیات کے مضمون سے اقبال کو گہری دلچسپی تھی۔ انہوں نے ہر چند کہ دوران تعلیم اس علم کا باقاعدہ مطالعہ نہیں کیاتھا، تاہم اقتصادی مسائل و نظریات کو خوب اچھی طرح سمجھنے لگے تھے۔ اس باب میں ان کا مطالعہ خاصا وسیع ہو چکا تھا۔ قائد اعظم کے نام اپنے خطوط میں جگہ جگہ اقبال مسلمانوں کی مجوزہ مملکت کے اقتصادی امور کو زیر بحث لائے ہیں اور دور حاضر کے عمرانی تقاضوں سے مناسبت رکھنے والے معاشی نظام کو اپنی ضرورتوں کے مطابق اختیار کرنے کی طرف اشارے بھی کیے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے نام سے انہوں نے اردو میں اس موضوع پر اپنی سب سے پہلی کتاب تصنیف کی۔ یہ کتاب ۱۹۰۱ء تا ۱۹۰۳ء کے لگ بھگ مرتب ہوئی اور دسمبر ۱۹۰۴ء میں لاہور سے شائع ہوئی۔ قیام جرمنی کے زمانے میں جولائی ۱۹۰۷ء کے ایام میں اقبال نے جہاں عطیہ بیگم کو اپنے جرمن امتحان کے سلسلے میں اپنا ’’ تاریخ عالم‘‘ کا مسودہ سنایا اور اپنی تحقیقی مقالہ ’’ فلسفہ عجم‘‘ انہیں پیش کیا، وہاں بقول عطیہ ’’ دوسرے دن اقبال نے علم الاقتصادکا اصل مسودہ بھی مجھے نذر کیا۔‘‘ کتاب کے دیباچے میں اقبال نے اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کا شکریہ ادا کیا ہے جن کی تحریک پر یہ کتاب لکھی گئی: ’’ استاذی المعظم حضرت قبلہ آرنلڈ صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اس کتاب کے لکھنے کی تحریک کی اور جن کے فیضان صحبت کا نتیجہ یہ اوراق ہیں۔‘‘ انہوں نے مولانا شبلی نعمانی کا شکریہ بھی یہ کہتے ہوئے ادا کیا ہے کہ: ’’ مخدوم و مکرم جناب قبلہ مولانا شبلی نعمانی مدظلہ بھی شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی۔‘‘ ۱۹۶۱ء میں اقبال اکادمی کراچی نے اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جس میں جناب ممتاز حسن اور ڈاکٹر انور اقبال قریشی کا پیش لفظ اور مقدمہ بھی شامل تھا۔ کتاب کے انتساب میں اقبال نے اسے اپنی علمی کوششوں کا پہلا ثمر قرار دیا۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ دسمبر ۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی، لیکن مدیر ’’ مخزن‘‘ شیخ عبدالقادر اس کے مشمولات سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے مسودے میں سے ایک باب اپریل ۱۹۰۴ء کے ’’مخزن‘‘ کے شمارے میں علیحدہ حاصل کر کے بطور خاص ایک ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع کیا۔ یہ باب ’’ آبادی‘‘ کے موضوع پر اقبال کے خیالات پر مشتمل تھا۔ ظاہر ہے کہ علامہ اقبال نے خاص طور پر اس مخصوص باب کی پیشگی اشاعت کو پسند فرمایا ہو گا۔ شیخ عبدالقادر نے لکھا: ’’ شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے نے حال میں ایک کتاب پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے ایماء سے علم الاقتصاد کے موضوع پر لکھی ہے جس کا انگریزی نام ’’ پولیٹیکل اکانومی‘‘ ہے اور جسے عموماً علم سیاست مدن کہتے ہیں بلا مبالغہ اس ضمن میں ایسی جامع اور عام فہم کتاب اردو زبان میں آج تک نہیں لکھی گئی۔ ہندوستان میں اس علم کا ابھی بہت کم چرچا ہے حالانکہ اسے بغور پڑھنے کی ہندوستان کو نہایت ہی ضرورت ہے۔ جب یہ کتاب شائع ہو گی تو ہمیں کامل امید ہے کہ شیخ صاحب کی شہرت اور اس کی ذاتی مقبولیت کو اڑا لائے گی۔‘‘ دسمبر ۱۹۰۴ء کے شمارے میں جب کتاب شائع ہو چکی، تو اس کا اشتہار شائع کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر نے پھر لکھا: ’’ جس عرق ریزی سے شیخ صاحب نے یہ کتاب لکھی ہے اور جس خوبی سے انہوں نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے دقیق اصول کو واضح کیا ہے، اس کا اندازہ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اس قسم کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہوتا رہتا ہے۔ توضیح اصول کے ساتھ ساتھ مصنف نے ہندوستان کے موجودہ تمدنی، اخلاقی اور اقتصادی حالات کی طرف اشارے کیے ہیں جن سے پڑھنے والے کی نظر وسیع ہوتی ہے اور اس کو مسائل اقتصاد پر آزادانہ غور و فکر کرنے کی تحریک ہوتی ہے، کیونکہ ہندوستان کی آئندہ قسمت کا دار و مدار زیادہ تر اس ملک کے موجودہ اقتصادی حالات پر منحصر ہے۔ اب وقت اس بات کا مقتضی ہے کہ پبلک کم وزنی لٹریچر سے دست بردار ہو کر ان کتابوں کی طرف متوجہ ہو جن کا موضوع انسان کی عملی زندگی اور اس کے تمدنی حالات پر غور کرنا ہے۔‘‘ اقتصادیات کا مطالعہ کرتے ہوئے، جیسا کہ اس کتاب کے دیباچے سے ظاہر ہوتا ہے، اقبال کی نظر اس انسانی پہلو پر زیادہ تھی کہ نا مساعد حالات افراد اور اقوام پر کیا اثر ڈالتے ہیں اور قوموں کے عروج و زوال میں ان کو کہاں تک دخل ہے۔ اس بات کا اقبال کو اس شدت سے احساس تھا کہ انہوں نے فرمایا: ’’ غریبی قوائے انسانی پر برا اثر ڈالتی ہے بلکہ بسا اوقات انسانی روح کے مجلہ آئینہ کو اس قدر زنگ آلود کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی لحاظ سے اس کا وجود عدم برابر ہو جاتا ہے۔‘‘ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں اقبال نے دو موضوعات کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ اول یہ کہ قومی تعلیم کو معاشی ترقی اور ملکی پیداوار کی افزائش کا لازمی وسیلہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ ملک کی اخلاقی اور تمدنی ترقی کے لیے اقبال اقتصادی خوشحالی کو ایک ناگزیر شرط خیال کرتے ہیں اور یہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں کہ تعلیم اور اقتصادی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ دوم، آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی کی معاشی اور معاشرتی اہمیت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور آبادی کی مناسب تحدید کے بارے میں یہ تصور کم از کم برصغیر میں اردو زبان میں سب سے پہلے اقبال ہی نے پیش کیا ہے۔ بلا شبہ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ایک انقلابی تصور تھا۔ اس مسئلے پر اگرچہ باقاعدہ کتاب ’’ ہندوستان کی آبادی کا مسئلہ‘‘ پی کے وائل نے لکھی مگر وہ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی۔ اس لحاظ سے برصغیر میں مسئلہ آبادی پر قلم اٹھانے والے کے پیشرو اقبال ہیں۔ اردو ہی میں اس موضوع پر ۱۹۱۶ء میں پروفیسر الیاس برنی کی ایک کتاب انجمن ترقی اردو نے بھی ’’ علم المعیشت ‘‘ کے نام سے شائع کی۔ پروفیسر برنی نے اپنی کتاب اقبال کو بھی برائے نقد و تبصرہ روانہ کی۔ رسید میں ۸ مارچ ۱۹۱۷ء کو اقبال نے اپنے مکتوب میں لکھا:’’ کتاب المعیشت مجھے مل گئی تھی۔۔۔ آپ کی تصنیف اردو زبان پر ایک احسان عظیم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اردو زبان میں علم الاقتصاد پر یہ پہلی کتاب ہے اور ہر پہلو سے کامل۔‘‘ پھر ایک ہی ماہ بعد ۱۵ اپریل ۱۹۱۷ء کو مہاراجہ کرشن پرشاد شاد کو لکھا:’’ علم الاقتصاد پر اردو میں سب سے پہلے مستند کتاب میں نے لکھی۔‘‘ بہرحال اقبال نے اپنے طور پر ایک خاص نقطہ نظر کے تحت اقتصادیات پر قلم اٹھایا۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچے میں وہ کہتے ہیں کہ: ’’ یہ علم انسان کے لیے انتہا درجے کی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا مطالعہ قریباً قریباً ضروریات زندگی سے ہے۔ بالخصوص اہل ہندوستان کے لیے تو اس علم کا پڑھنا اور اس کے نتائج پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہاں مفلسی کی عام شکایت ہو رہی ہے۔ ہمارا ملک کامل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوریوں اور نیز ان تمدنی اسباب سے بالکل ناواقف ہے جن کا جاننا قومی فلاح و بہبود کے لیے اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔ انسانی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جو قومیں اپنے تمدنی اور اقتصادی حالات سے غافل رہی ہیں، ان کا حشر کیا ہو رہا ہے۔‘‘ ’’ علم الاقتصاد‘‘ پانچ حصوں میں بیس ابواب پر مشتمل ہے۔ اقتصادیات کا تمدن اور عمرانیات سے تعلق واضح کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: ’’ کسی شے کی حقیقی قدر و منزلت اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں تک ہماری زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد کے حصول میں ہم کو مدد دیتی ہے یا یوں کہو کہ ہر شے کی اصل وقعت کا فیصلہ تمدنی امور سے ہوتا ہے۔‘‘ لذت کوشی کے مضر اثرات پر اقبال نے تنقید کرتے ہوئے کہاـ: ’’ بعض اشیاء جن سے عارضی لذت حاصل ہوتی ہے، انسانی زندگی کو تازگی اور شگفتگی بخشنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں لیکن اس کے برخلاف یہ بھی سچ ہے کہ بعض پرانی متذب قوموں کی بربادی عارضی لذات کی جستجو اور ان اشیاء سے بے پروا رہنے کی وجہ سے ہوئی جن سے انسانی زندگی کو حقیقی قوت اور جلا حاصل ہوتی ہے۔ زمانہ حال کی تہذیب اس صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ لذیذ اور مفید میں امتیاز کیا جائے اور اس امتیاز کو ملحوظ خاطر رکھ کر اپنے افعال و اعمال کو مرتب کیا جائے تاکہ ہمیں اپنی زندگی کی اصل غرض یعنی بہبودی نوع انسان کے لیے آسانی ہو۔‘‘ اقبال کے نزدیک غربت و افلاس وہ لعنتیں ہیں جو انسانی کردار پر مضرت رساں اثر ڈالتی ہیں اور اس کی شخصیت کی مکمل نشوونما میں روک بنتی ہیں۔ وہ معاشی اطمینان کو آزادی کی مانند انسانی شخصیت کے بھر پور اظہار کا لازمہ سمجھتے ہیں۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے دیباچے میں ان کے اس نقطہ نظر کی گواہی موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ اس زمانے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا مفلسی بھی نظم عالم میں ایک ضروری جزو ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہر فرد مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو؟ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ گلی کوچوں میں چپکے چپکے کراہنے والوں کی دل خراش صدائیں ہمیشہ کے لیے صفحہ عالم سے حرف غلط کی طرح مٹ جائیں؟‘‘ جدید ضروریات کی وضاحت کے باب میں لکھا: ’’ مفلسی تمام جرائم کا منبع ہے۔ اگر ایسی بلائے درماں کا قلع قمع ہو جائے تو دنیا جنت کا نمونہ نظر آئے گی اور چوری، قتل، قمار بازی اور دیگر جرائم، جو اس دہشت ناک آزار سے پیدا ہوتے ہیں، یک قلم معدوم ہو جائیں گے۔ مگر موجودہ حالات کی رو سے اس کالی بلا کے پنجے سے رہائی پانے کی یہی صورت ہے کہ نوع انسانی کی آبادی کم ہو تاکہ موجودہ سامان معیشت کفایت کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نئے نئے جزائر دریافت ہوتے جائیں، جہاں انسان جا کر آباد ہو اور قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ کامل طور سے کیا جائے تو آبادی کی افزائش آسائش انسانی میں خلل انداز نہ ہو سکے گی، مگر چونکہ زمین کمیت میں محدود ہے اور اس کی پیداوار کچھ نہ کچھ قانون مذکور کے تابع ہے، اس واسطے ضرور ہے کہ افزائش آبادی کے خوف ناک نتائج ہمارے آرام و آسائش کے مخل ہوں اور ہمیں اس فراغت سے محروم کریں جو بصورت کمی آبادی ہم کو حاصل ہوتی۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم کمی آبادی کے اسباب کو عمل میں لائیں جو ہمارے اختیار میں ہیں کہ ان اسباب کا عمل قدرتی اسباب کے عمل سے متحد ہو کر آبادی انسان کو کم کرے اور دنیا مفلسی کے دکھ سے آزاد ہو کر عیش و آرام کا ایک دلفریب نظارہ پیش کرے۔‘‘ انہوں نے لکھا:’’ آبادی کا مناسب حدود سے باہر نکل جانا افلاس اور دیگر بد نتائج کا سرچشمہ ہے۔‘‘ اقبال نے مفلسی اور بد حالی کے بے شمار اسباب گنواتے ہوئے خاص طور پر برصغیر میں مسلمانوں کی غربت کی وجوہات تلاش کی ہیں۔ ان کی رائے میں: ’’ اکثر قدیم قوموں میں ایک سے زیادہ بیویاں کرنا مستحسن تصور کیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ ہر قبیلہ اپنے افراد کی تعداد کو زیادہ کرنا چاہتا تھا کہ اس سے جنگ و جدل میں، جو تمدن کے ابتدائی مراحل کا خاصہ ہوتا ہے، دیگر قبائل پر غلبہ رہے۔ تاہم یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ اقتصادی لحاظ سے تعدد ازواج تمدن کی ہر صورت میں مستحسن ہے کیونکہ اس سے آبادی بہت بڑھتی ہے جو بسا اوقات قوموں کے افلاس کا باعث ہوتی ہے۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں: ’’ تمدن کے ابتدائی مراحل میں انسانی ضروریات بہت محدود تھیں مگر تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات کا دائرہ بھی وسیع ہوتا جاتا ہے۔ جہاں پہلے صرف خوراک کی خواہش تھی، جب یہ پوری ہوئی تو انسان کو مکانوں کی آراستگی اور اس کے نقش و نگار کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ ہر جدید خواہش یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنی کسی اور خواہش کو دبائے رکھے اور اس کو پورا کرے، لہٰذا انسان اپنی جدید خواہش کے پورا کرنے کی دھن میں اپنی پہلی ضروریات کو محدود کرتا ہے یہاں تک کہ بالعموم اپنی قوت توالد و تناسل کو بھی کفایت شعاری سے برتنے لگتا ہے۔ موجودہ زمانے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ باپ اپنے بیٹوں کی شادیاں نہیں کرتے جب تک وہ تعلیم سے فارغ نہ ہو لیں۔ بیٹے کی تعلیم کو اس کی شادی پر مقدم سمجھتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اس خیال کا محرک بھی یہی امر ہوتا ہے کہ بیٹے کی شادی ہو گئی تو اولاد پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور بیٹے کو اپنے بچوں کی پرورش کے خیال سے تعلیم کو خیر باد کہنا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ شادی کو اس طرح معرض التواء میں ڈالنا گویا اولاد کی تعداد کو کم کرنا ہے جو بصورت دیگر ایام کتخدائی میں پیدا ہونی ممکن تھی۔ علاوہ بریں تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ انسان کو مختلف اقسام کی خوردو نوش اور طرح طرح کے اسباب تن آسانی کی بھی خواہش ہوتی ہے جو اسے محنت کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور ا سکی قوت توالد و تناسل پر وہ زبردست اثر کرتی ہے کہ مفلسی کا خوف بھی وہ اثر نہیں کر سکتا کیونکہ امیرانہ ٹھاٹھ سے گزارا کرنا انسان کی ا یک جبلی خواہش ہے اور بسا اوقات یہ خواہش اس کو اپنی فطرت کے حیوانی تقاضوں کو پورا کرنے سے روکتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس بعض ممالک میں جہاں کی زمین بالعموم چھوٹے چھوٹے مالکان خود کاشت میں منتقم ہے، زمیندار زیادہ اولاد سے گھبراتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس قدر اولاد زیادہ ہو گی اسی قدر ان کی جائیداد زیادہ حصوں میں منقسم ہو گی، اور اگر ان کی اولاد کے ہاں بھی اولاد پیدا ہونی شروع ہو گئی تو حصہ زمین کی وہ قلیل مقدار ان کے گزارے کے لیے کسی طرح کافی نہ ہو گی۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ افزائش آبادی کو روکنے کی خواہش زیادہ زور کے ساتھ اسی صورت میں عمل کرتی ہے جب کہ زمین کی کاشت نقطہ تقلیل تک پہنچ گئی ہو یا بالفاظ دیگر جب انسان کو یہ خیال ہو کہ سامان معیشت کی مقدار کافی طور پر مہیا نہ ہو سکے گی۔ اس اصول کی رو سے تم خود اندازہ کر سکتے ہو کہ ہندوستان کی موجودہ حالت کس امر کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘ زمین کی کاشت اور زمیندار کے رویے کے حوالے سے انہوں نے قرآن حکیم کے ارشاد لیس للاانسان الا ما سعی یعنی جن چیزوں کے لیے انسان نے کوشش اور جدوجہد نہیں کی ان پر بھلا اس کا کیا حق ہے؟ کی بڑی خوبصورت تفسیر کی ہے زمین کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ: ’’ یہ شے کسی فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ قدرت کا ایک مشترکہ عطیہ ہے جس پر قوم کے ہر فرد کو مساوی حق ملکیت حاصل ہے۔‘‘ یہ رائے قرآن کے محاورے الارض للہ کی موزوں تفسیر ہے۔ اقبال کے نزدیک افزائش آبادی کے نتیجے میں حصول خوراک کی خاطر غیر مزروعہ زمین بھی زیر کاشت لائی جائے گی۔ ساتھ ہی پہلے سے زیر کاشت رقبوں کے لگان اور بٹائی میں اضافہ ہو گا۔ دونوں قسم کی زمین پر محنت غریب کسان کرتا ہے مگر اضافہ زمیندار کی آمدنی میں ہوتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’ زمیندار کی ذاتی کوششوں اور ان کی زمینوں کے محاصل کی مقدار میں کوئی فرق نہیں آتا۔ پھر ان کا کوئی حق نہیں کہ دولت مند ہوتے جائیں۔ کوئی وجہ نہیں کہ آبادی کی زیادتی سے قوم کے خاص افراد کو فائدہ پہنچے اور باقی اس سے محروم رہے۔‘‘ اقبال نے مزدور کی بے روزگاری پر بھی بحث کی ہے کہ دنیا میں محنت کش کی معاشی ذمہ داریوں کو سہارا دینے اور اس کے کنبے کی دیکھ بھال کے لیے کوئی بھی آگے نہیں آتا، ریاست نہ کوئی دوسرا ادارہ۔ وہ کہتے ہیں: ’’ جب کوئی دست کار بے روزگا رہو کر مفلس ہو جاتا ہے تو بالعموم فطری خود داری او رہم چشموں کی نگاہوں میں وقعت پیدا کرنے کی آرزو اس پر کوئی اثر نہیں کر سکتی جو قدرتاً انسان کو اوروں سے بڑھ جانے کی ایک زبردست تحریک دیتی ہے۔ مفلسی کا آزار انسان کے روحانی قویٰ کا دشمن ہے اور وہ مایوسی فکر اور غفلت شعاری، کاہلی اور فلاکت کی اور صورتیں جو اس بلائے درماں کے ساتھ آتی ہیں، دست کار کی ذاتی قابلیت اور اس کی محنت کی کارکردگی پر ایسا برا اثر ڈالتی ہیں کہ اس کے کام کی وہ کیفیت اور کمیت نہیں رہتی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ ایک دفعہ کی شکست بے چارے دست کار کو ہمیشہ کے لیے کار زار زندگی کے ناقابل کر دیتی ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں: ’’ اجرت کی بحث میں بالعموم یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ جب دست کار افزائش آبادی کے بد نتائج کو محسوس کریں گے تو خود بخود ایسے وسائل اختیار کریں گے جن سے آبادی کم ہو، مگر تجربہ اس بات کے خلاف ہے۔ چین اور ہندوستان کی موجودہ حالت یہی ظاہر کرتی ہے۔ غریبی اور افلاس کی صورت میں انسان کی قوت توالد و تناسل مزید زور کے ساتھ عمل کرتی ہے جس سے آبادی تیزی کے ساتھ بڑھتی ہے اور مفلسی کے درد کی شدت کو اور زیادہ جاں فرسا بنا دیتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افزائش آبادی کا قدرتی علاج یعنی قحط ان ممالک کو آئے دن ستاتا رہتا ہے۔‘‘ کسان اور مزدور، جن کا تعلق پاکستان کی بیشتر آبادی سے ہے، آج بھی اس قسم کے مسائل سے دو چار ہیں۔ اقبال نے ان مصائب کو ٹالنے کے لیے پہلا نسخہ یہ تجویز کیا ہے کہ تعلیم کو قومی پیمانے پر عام کیا جائے۔ اقبال کے اپنے الفاظ میں تعلیم سے ’’ محنت کی کارکردگی اور اس کی ذہانت ترقی کرتی ہے، اس کے اخلاق سنورتے ہیں او روہ اس قابل بنتا ہے کہ اس پر اعتماد کیا جائے۔‘‘ صورت احوال کی بہتری کے لیے ’’ دوسری تجویز‘‘ وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ملک کی آبادی پر مناسب گرفت یوں کی جائے کہ عائلی منصوبہ بندی اور ضبط تولید کو مناسب اہمیت دی جائے۔ ان کے نزدیک کثرت اولاد خاندان کی ذہنی اور جسمانی صحت پر ناخوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے اور آبادی کی کثرت قومی مفلسی میں اضافہ کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ اس سے قوم کی روحانی، اخلاقی اور جسمانی نمو پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’ اگر کسی شخص کی آمدنی قلیل ہو اور اس کی اولاد بڑھتی جائے تو صاف ظاہر ہے کہ اس خاندان کی فارغ البالی وہ نہ رہے گی جو پہلے اسے حاصل تھی۔ موجودہ آمدنی تمام افراد کے گزارے کے لیے کافی نہ ہو گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خاندان کی جسمانی حالت میں فرق آ جائے گا اور وہ پس انداز بھی جو کسی آڑے وقت کے لیے جمع رکھا ہو گا، خرچ ہو جائے گا، بلکہ قلت معیشت کی وجہ سے خاندان مذکور میں بعض ایسی بیماریاں پیدا ہوں گی جن کا اثر نسلاً بعد نسلاً منتقل ہوتا جائے گا۔ جب کسی قوم میں آبادی مناسب حدود سے زائد ہو جاتی ہے تو قدرت خود بخود وبا اور قحط کے تازیانوں سے اس کا علاج کرتی ہے۔ بچے اور بوڑھے اجل کا شکار ہو جاتے ہیں، جوانوں کی قوت مردی میں فرق آ جاتا ہے اور قحط بالعموم آبادی کی افزائش کو روکتا ہے، مگر محقق واکر (Walker) کے نزدیک انسانی قبائل کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ وبا اور قحط کے وسائل کسی قوم کی آبادی کو مستقل طور پر کم نہیں کرتے۔‘‘ اقبال در حقیقت ملت اسلامیہ کے احیاء کو شاہین صفت صحت مند اولادوں کے ذریعے دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ ایک موقع پر بیگم راس مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:’’ شادی کا بنیادی مقصد صالح، توانا اور خوش شکل اولاد پیدا کرنا ہے۔‘‘ عاشق حسین بٹالوی راوی ہیں کہ ایک موقع پر فرمایا’’ میں تو چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے بچے خوش رو اور سرخ و سپید ہوں تاکہ ہم لوگ صحیح معنوں میں ملت بیضا بن جائیں۔‘‘ کچھ اسی تصور کو اقبال نے اپنے اشعار میں بھی موزوں کیا: قوم را سرمایہ صاحب نظر نیست از نقد و قماش و سیم و زر نقد او فرزند ہائے تندرست سخت کوش و تر دماغ و چاق و چست فقیر وحید الدین کی روایت ہے کہ سفر یورپ کے دوران اٹلی میں مسولینی نے اقبال سے جب کوئی اچھوتا مشورہ طلب کیا تو انہوں نے کہا:ـ کہ ’’ ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اسے حد سے نہ بڑھنے دینا چاہیے۔‘‘ مسولینی نے حیران ہو کر کہا:’’ اس میں کیا مصلحت ہو گی؟‘‘ اقبال نے کہا: کہ ’’شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی چلی جاتی ہے اس کی تہذیبی اور اقتصادی توانائی اس قدر کم ہوتی جاتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرکات شر لے لیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں بلکہ میرے پیغمبرؐ نے آج سے تیرہ سو سال قبل اپنی قوم کو مصلحت آمیز ہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے۔‘‘ یہ حدیث سنتے ہی مسولینی اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ زور سے مار کر کہا:’’ یہ کس قدر حسین تخیل ہے۔‘‘ ’’ علم الاقتصاد‘‘ میں مسئلہ آبادی پر اقبال نے ایک مستقل باب باندھا ہے جس میں مسئلہ آبادی پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے یہ نتائج اس وقت مرتب کیے ہیں جب بیسویں صدی کا آغاز تھا اور برصغیر کی آبادی تیس کروڑ تھی: ’’ ہمارے ملک میں سامان معیشت کم ہے اور آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ قدرت قحط اور وبا سے اس کا علاج کرتی ہے، مگر ہم کو چاہیے کہ بچپن کی شادی اور تعدد ازدواج کے دستور کی پابندیوں سے آزاد ہو جائیں۔ اپنے قلیل سرمائے کو زیادہ دور اندیشی سے صرف کریں اور عاقبت بینی کی راہ سے اپنی قوم کے انجام کی فکر کریں۔ تاکہ ہمارا ملک مفلسی کے خوف ناک نتائج سے محفوظ ہو کر تہذیب و تمدن کے ان اعلیٰ مدارج تک رسائی حاصل کرے جن کے ساتھ ہماری حقیقی بہبودی وابستہ ہے۔۔۔۔ ہم بنی آدم کو کلی طور پر شادی وغیرہ کی لذت اٹھانے سے روکنا نہیں چاہتے۔ ہمارا مقصد صرف اس قدر ہے کہ بچوں کی کم سے کم مقدار پیدا ہو۔ اور بیوی کی خواہش ایک فطری تقاضا ہے اور اس کو بالکل دبائے رکھنا بھی صحت کے خلاف ہے۔ لہٰذا اقتصادی لحاظ سے ان کی بہبودی اسی میں ہے کہ وہ حتی المقدور ان حیوانی خواہشوں کو پورا کرنے سے پرہیز کریں اور جہاں تک ممکن ہو بچوں کی کم سے کم تعداد پیدا کریں۔ یہ مطلب بڑی عمر میں شادی کرنے یا باالفاظ دیگر شرح پیدائش کو کم کرنے اور نفسانی تقاضوں کو بالعموم ضبط کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘ مزدور اور کاشت کار کے محرکات محنت پر بحث کرتے ہوئے اقبال نے ایک بے حد صائب مشورہ دیا ہے کہ: ’’ جو دست کار اپنے حیوانی جذبات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جسمانی اور روحانی قویٰ کو نقصان پہنچاتا ہے وہ نہ صرف اپنی ذات پر بلکہ اپنے ملک و قوم پر بھی ظلم کرتا ہے۔‘‘ قانون آبادی کے زیر عنوان اقبال مسائل آبادی پر ماہرین معاشیات کے افکار کی روشنی میں ایک بھرپور بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی قوم کے افراد کے زیادہ ہونے سے اس قوم کے دست کاروں کی تعداد بڑھتی ہے مگر اس وقت یہ امر محل بحث نہیں۔ ہم قانون آبادی پر اس تعلق کے لحاظ سے نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں جو افزائش افراد اور پیداوار دولت کے درمیان ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ یہ قانون تین قضا یا پر منقسم ہو سکتا ہے۔‘‘ ’’ اول یہ کہ آبادی ہمیشہ بڑھنے کا میلان رکھتی ہے اور اس کی افزائش اس امر کا خیال نہیں رکھتی کہ آیا مزید آبادی کے گزارے کے لیے کافی سامان معیشت ہو گا یا نہیں۔ بعض حکماء نے تخمینہ لگایا ہے کہ بڑے بڑے قحط اور وبائیں نہ آئیں تو آبادی تیس سال میں دگنی ہو جائے گی۔‘‘ ’’ دوم، اگر زمین کے کسی قطعہ میں آبادی اس طرح دگنی تگنی ہو جائے اور دیگر اسباب اس کی افزائش کی سد راہ نہ ہوں، مثلاً وبا، قحط، جنگ اور شادیوں کی کمی وغیرہ، تو ایک خاص میعاد کے بعد قطعہ مذکور کی پیداوار وہاں کے آدمیوں کے لیے مشکل سے کافی ہو گی اور بالآخر مطلق کفایت نہ کرے گی، یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ آبادی کی مفروضہ افزائش کا سلسلہ جاری نہیں رہے گا۔‘‘ ’’ سوم، ہمارا گذشتہ تجربہ جو ہم کو صنعت و حرفت کی ترقی کا مشاہدہ کرنے سے حاصل ہوا ہے، اس امر کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ فن زراعت کی آئندہ ترقی سے ہم اپنی آبادی کی مفروضہ افزائش کے مطابق خوراک کی زیادہ مقدار پیدا کر سکیں گے۔‘‘ ’’ قضیہ نمبر دو پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون تقلیل حاصل بھی قانون آبادی کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے اور ان دونوں کے اجتماع سے یہ نتیجہ قائم ہوتا ہے کہ آبادی کے ایک خاص تک بڑھ جانے کے بعد زرعی دست کاروں کی مزید آبادی سے محنت کی قابلیت پیداوار کم ہوتے جانے کا میلان رکھتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس قدر آبادی زیادہ ہو گی اور ایک حد معین سے بڑھتی جائے گی (یہ حد معین مختلف ممالک کی صورت میں مختلف ہو سکتی ہے کیونکہ مختلف اقوام و ممالک میں صنعت و حرفت و فن زراعت اور دیگر ایجادات کی ترقی کے مدارج مختلف ہیں، مثلاً ممکن ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک ایجادات زرعی کے بل پر بیس کروڑ آبادی کا متحمل ہو سکے اور ایک اور ملک جو اس سے وسعت میں بہت زیادہ ہو لیکن ایجادات میں کم ہو اس سے آدھی آبادی کا بھی متحمل نہ ہو سکے ) اسی قدر زمین مزروعہ کی کاشت نقطہ تقلیل تک جلد پہنچے گی جس کا نتیجہ جو کچھ پیداوار دولت پر ہو گا ظاہر ہے۔‘‘ اقبال عائلی منصوبہ بندی کے لائحہ عمل کو قومی بہبود کا ایک اہم ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشی عوامل پر ان کی نظر پختہ تر ہوتی گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں کے اقتصادی مسائل سے ان کی دلچسپی تا آخر قائم رہی۔ انہیں برصغیر کے غریب مسلمان عوام کی اقتصادی مجبوریوں کا خوب اندازہ تھا۔ چنانچہ ۱۹۳۷ء میں وفات سے چند ماہ قبل قائد اعظم کے نام ایک مکتوب میں انہوں نے بڑے دکھ سے کہا:’’ ہمارے سیاسی اداروں نے غریب مسلمانوں کی اصلاح حال کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں دی۔‘‘ قائد اعظم کے نام ا قبال کے اکثر خطوط سے ان کی اس خواہش کا اظہا رملتا ہے کہ وہ برصغیر کے لیے مقدر مسلمان ریاست کے صرف ثقافتی اور روحانی ہی نہیں معاشی مستقبل کو بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں ہندوستان کے دستور کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے قائد اعظم کے نام ایک مکتوب میں اقبال نے نہایت اہم موضوع کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی: ’’ یہ دستور تو اس معاشی تنگ دستی کا جو شدید تر ہوتی جا رہی ہے، ہر گز کوئی علاج نہیں۔ فرقہ وارانہ فیصلہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی وجود کو بے شک تسلیم کرتا ہے لیکن کسی قوم کے سیاسی وجود کا اعتراف، جو اس کی معاشی پسماندگی کا کوئی حل تجویز نہ کرتا ہو اور نہ کر سکے، اس کے لیے بے سود ہے۔‘‘ عمر کے آخری سالوں میں اقبال کو یہ احساس زیادہ شدت سے ہونے لگا تھا کہ مسلمان عوام کی معاشی حالت روز بروز دگرگوں ہوتی چلی جا رہی ہے۔ انہوں نے قائد اعظم کے پاس اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا: ’’ روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ پچھلے دو سو سال سے ان کی معاشی حالت برابر گرتی جا رہی ہے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جائے؟ مسلم لیگ کے مستقبل کا انحصار تمام تر اسی پر ہے کہ وہ اس مسئلے کا کیا حل تجویز کرتی ہے۔‘‘ آگے چل کر لکھا: ’’ شریعت اسلامیہ کے طویل اور گہرے مطالعے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریق پر سمجھا جائے اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم معمولی معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔‘‘ ایک طرح سے اقبال نے گویا یہ بات اصولاً تسلیم کی ہے کہ قرآن کی تفسیر معقول (Rational) ہونی چاہیے۔ اس سے مدعا یہ ہے کہ اسے گرد و پیش کے احوال سے متاثر ہونے والے انسانی رویے سے مطابق ہونا چاہیے۔ نئے اور غیر متوقع حالات ہمیشہ رونما ہوتے رہتے ہیں، معاشرے کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اور تشریح ان حالات و متقضیات کی روشنی میں کی جانی ضروری ہے۔ یوں بھی بعید اور قریب کے حقائق کو جانچتے ہوئے ماضی سے حال کی جانب اس طرح پیش قدمی کرنی چاہیے کہ مفروضات و قیاسات اور غیر مطلق اور قابل ترک اعتقادات سب نگاہ کے سامنے رہیں۔ ممتاز حسن نے ’’ علم الاقتصاد‘‘ کی اٹھاون سال بعد دوسری اشاعت کے پیش لفظ میں ضبط تولید کے بارے میں اقبال کی ایکا ور تحریر لاہور سے شائع ہونے والے ایک طبی ماہنامے ’’ الحکیم‘‘ کی نومبر ۱۹۳۶ء کی اشاعت سے بھی نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحدید آبادی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں تا آخر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہی رائے ’’ ہمدرد صحت‘‘ دہلی کے ضبط تولید نمبر جولائی ۱۹۳۹ء میں بھی نقل ہوئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اصولاً ضبط تولید کے قائل ہیں۔ تاہم محض حظ نفس کی خاطر اسے اپنانے کو ہرگز پسند نہیں کرتے۔ اس مسئلے کا شرعی جائزہ لیتے ہوئے اقبال نے اپنی رائے کو نہایت معقولیت سے پیش کیا۔ کہتے ہیں: ’’ شریعت اسلامیہ نے اجتماعی مسائل میں مصالح امت کو نظر انداز نہیں کیا اور اس کے تصفیے کو اہل علم پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ حالات اور مقتضائے وقت کے مطابق ان کا فیصلہ کریں۔ اس لیے اگر حظ نفس مقصود نہ ہو ، حقیقی ضرورت موجود ہو اور فریقین رضا مند ہوں تو جہاں تک میرا علم رہنمائی کرتا ہے شرعاً ضبط تولید قابل اعتراض نہیں ہے۔ اصول شرعی سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی خاوند اپنی بیوی کو، اگر وہ اولاد کی خواہش مند نہ ہو، اولاد پیدا کرنے پر با کراہ مجبور نہیں کر سکتا۔‘‘ بے شک آگے چل کر انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’ لیکن دنیا میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بیشتر حصہ حظ نفس پر مبنی ہے او رمحض حظ نفس کے لیے ایسا کرنا میرے نزدیک حرمت کے درجے تک پہنچنا ہے۔ شرعی پہلو سے جو میں نے رائے دی ہے وہ ماہر شریعت کی حیثیت سے نہیں دی، محض اپنے علم و مطالعہ کی بناء پر دی ہے۔‘‘ اس باب میں ماہنامہ ’’ الحکیم‘‘ میں مولانا ابو الکلام آزاد بھی اقبال کے ساتھ متفق نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ: ’’ بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلہ میں شرع مداخلت کرے۔ یہ ایک خالص طبی اور اجتماعی مسئلہ ہے۔ اگر اصحاب علم محسوس کریں کہ سوسائٹی کے مصالح کے لیے اس کی ضرورت ہے تو ضرور اس کے حق میں رائے دے سکتے ہیں۔ اس طرح کی تمام باتوں کو مصالح مرسلہ سمجھنا چاہیے اور ان کا دروازہ پوری طرح باز ہے۔‘‘ جہاں تک مصالح مرسلہ کی فقہی حیثیت کا تعلق ہے، ان کا مقصد یہی تسلیم کیا گیا ہے کہ انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کے تقاضوں کو بجا طور پر پورا کیا جائے اور اس کی بہتری کے انتہائی منفعت بخش ذرائع اختیار کیے جائیں جن میں عدل اجتماعی اور حقیقی انصاف کے ساتھ ہی ساتھ روح شریعت کا پورے طور پر خیال رکھا گیا ہو۔ تمام ائمہ اس اصول پر متفق ہیں کہ مسائل معاملات میں عقلی پیمانے استعمال کیے جا سکتے ہیں جو مصالح اور رفاہ عامہ پر مبنی ہوں۔ اگر دلائل شرعیہ کسی امر کی مصلحت واضح نہ کریں تو اس میں مصالح عامہ سے استصواب کیا جا سکتا ہے اور خود مصلحت اور مفاد عامہ ایک شرعی دلیل بن جاتی ہے۔ گویا مصالح مرسلہ کسی حکم کو ایسے ضابطہ معنوی کے ساتھ منسلک کرنا ہے جو مصلحت عامہ اور منشائے شریعت دونوں کے موافق ہو۔ دوسرے الفاظ میں کسی ایسے اصول کا قیام جس میں رفاہ عامہ اور منشائے شریعت دونوں کا لحاظ رکھا جائے اور اسی کے مطابق حکم لگایا جائے۔ شرط یہ ہے کہ مسئلہ عبادات کا نہ ہو بلکہ امور دنیاوی سے متعلق ہو تاکہ اس میں فکر و نظر کے ذریعے مصلحت کا یقین کیا جا سکے اور یہ کہ مصلحت عامہ روح شریعت کے موافق ہو۔ علاوہ ازیں مصلحت عامہ کا تعلق ضروریات زندگی یا امور عامہ سے ہو اور ضروریات زندگی سے مراد فقہا کے نزدیک مذہب، جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت متصور ہے۔ امور عامہ سے مراد وہ امور ہیں جو معاش کی بہتری کے لیے ضروری ہیں اور قومی، ملکی اور انفرادی سہولتوں کا لحاظ تو خود قرآن مجید بھی رکھتا ہے۔ ’’ علم الاقتصاد‘‘ کے پانچویں حصے کے باب اول ’’ آبادی‘‘ میں اقبال کہتے ہیں: ’’ جو خیال یا مذہب انسان کے تمدنی حالات اور اس کی عقلی ترقی کے ساتھ ساتھ ترقی نہ کرے گا ضرور ہے کہ وہ انسان کی جدید روحانی ضروریات کو پورا نہ کر سکنے کے باعث معدوم ہو جائے گا۔‘‘ حشرات الارض اور اشرف المخلوقات انسان میں جو فرق ہے۔ وہ بہرحال مقتضائے قرآنی کے مطابق ملحوظ خاطر رہنا چاہیے اور اس کے لیے عملی اقدامات ہوتے رہنے چاہئیں تاکہ کوئی لمحہ ایسا نہ آ جائے جب انسان کی تعداد حشرات الارض سے آگے نکل جائے اور یوں وہ شرف انسانیت کھو بیٹھے۔ بے شک کوشش اور جدوجہد انسان پر خدا کی بے پایاں رحمتوں کے خزانے کھول دیتی ہے، لیکن آبادی اور رزق کے مسئلے کا صرف مادی پہلو ہی اصل پہلو نہیں، کیونکہ انسانی زندگی محض مادی اور تقاضوں کا نام ہی تو نہیں انسانی زندگی تو شخصی، اجتماعی اور روحانی تقاضوں میں توازن چاہتی ہے۔ بے شک انسان کو مادی وسائل میسر آ جائیں تو بھی اس دھرتی پر انسان کا مسئلہ پورے طور پر حل نہیں ہو جاتا۔ دولت کی فراخی انسان کو زیادہ شادیوں اور زیادہ اولاد پیدا کرنے کا حق ہرگز نہیں دیتی، کیونکہ مسئلہ صرف کنبے کی مالی کفالت کا نہیں بلکہ آدمی کو انسان بنانے کا ہے۔ محنت کے باب میں اقبال نے افزائش آبادی، پیدائش دولت اور محنت کے حوالے سے زندگی کے بارے میں عام طور پر ایک معتدل رویہ اختیار کرنے کا ذکر بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ انسان کی آبادی دن بدن بڑھتی جاتی ہے اور تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ اس کی ضروریات بھی بڑھتی جاتی ہیں، لہٰذا اگر وہ صرف قدرتی اسباب کی پیدائش کے بھروسے پر رہتا اور اپنی روز افزوں ضروریات کے پورا کرنے کی نئی نئی راہیں نہ نکالتا یا بالفاظ دیگر یوں کہو کہ اپنی عقل کے زور سے قانون تقلیل حاصل کے اثر کا مقابلہ نہ کرتا، تو اس میں امن و آسائش میں انتہا درجے کا خلل پیدا ہوتا، بلکہ اس کی نسل کا بقاہی محال ہو جاتا۔ پس ظاہر ہے کہ اصول تنظیم محنت اور اصول تقلیل حاصل ایک دوسرے کے حریف ہیں جن میں ایک قسم کی جنگ چلی جاتی ہے جس سے پیدائش دولت میں اعتدال قائم رہتا ہے اور اعتدال ہی ہر شے کی جان ہے۔‘‘ شخصیت کی تعمیر، اس کی اخلاقی تربیت اور کردار کی پاکیزگی کے لیے پر سکون اور خوشگوار ماحول کا بہت زیادہ حصہ ہے۔ بچہ اخلاقی شائستگی، خود اعتمادی اور عزت نفس کے اصول سب سے پہلے ماں کی آغوش ہی سے سیکھتا ہے اور اس نعمت سے محروم نسل فکری انتشار اور بے مقصدیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ کثرت اولاد کی موجودگی میں اقبال کی یہ دیرینہ خواہش بھلا کب پوری ہو سکتی ہے جس کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے: ’’ مسلم خواتین کا کام گھر میں رہ کر صالح بنیادوں پر خاندانی نظام کی تعمیر کرنا ہے کہ اسی طرح معاشرے میں اعتدال اور سکون قائم رہ سکتا ہے۔ اگر عورتوں کے اخلاق پسندیدہ ہوں، ان میں تطہیر فکر، پاکیزگی قلب اور عفت نگاہ ملحوظ ہو تو وہ اپنی اولاد کی بہتر تربیت کر سکتی ہیں۔ اگر قوم اس حقیقت سے غافل ہو جائے تو مغرب کی تقلید میں اس کی معاشرتی، عمرانی اور اخلاقی زندگی تباہ ہو جائے گی۔‘‘ مسئلہ آبادی اور تربیت اولاد کے باب میں اقبال کی ان آراء کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ۱۹۴۴ء کے یوم اقبال کے موقع پر اپنے پیغام میں کس قدر درست فرمایا تھا کہ: ’’ اس عظیم شاعر کے دل و دماغ نے ان پنہاں جذبات، حسیات اور افکار کی عکاسی کی ہے جن کا سرچشمہ اسلام کی سرمدی تعلیم ہے۔ اقبال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اور مخلص پیروکار تھے۔ وہ اول اور آخر مسلمان تھے اور وہ اسلام کے صحیح مفسر تھے۔‘‘ قائد اعظم خود بھی پاکستان کو طاقتور اور توانا قوم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک موقع پر قوم کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’ آپ کے پاس کامیابی کی ایک کلید ہے اور وہ ہے آئندہ نسل اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کیجئے کہ وہ پاکستان کے قابل فخر شہری اور موزوں سپاہی بن سکیں۔ آپ نے پاکستان کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں، اس پاکستان کے لیے جسے اب ساری دنیا ایک حقیقت تسلیم کر چکی ہے۔ بس ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیے، پھر وہ وقت دور نہیں جب ساری دنیا کی اقوام پاکستان کی تعریف و توصیف کریں گی۔ ان شاء اللہ‘‘ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو ملت کے نام عید کا پیغام دیتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا:’’ یہ مملکت محض زندگی کے لیے نہیں، بلکہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے بنی ہے۔‘‘ فکر اقبال سے ان تمام حقائق و شواہد کے باوجود، جس کے مصدق قائد اعظم بھی تھے، جو لوگ فرسودہ معاشرتی عقائد و اقدار، غلط رسوم و رواج اور غیر حقیقت پسندانہ جذباتی رویے کے تحت مسئلہ آبادی کو ہرگز کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں، اس کے بحران کو بے معنی اور یکسر ناقابل توجہ خیال کرتے ہیں او رعائلی منصوبہ بندی کی افادیت کو قرآن و سنت کے منافی خیال کرتے ہیں اور مصالح امت کے قائل نہیں، ان سے بڑا عاقبت نا اندیش اور کون ہو سکتا ہے؟ مستقبل کو خوب تر اور روشن تر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حال میں اس کے بارے میں غور و فکر کر کے کچھ اقدامات تجویز کیے جائیں۔ ۱۹۱۰ء میں علی گڑھ میں اپنے مشہور خطبے ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں اقبال نے تجویز کیا تھا کہ: ’’ سب سے زیادہ اہم عقدہ اس مسلمان کے سامنے، جو قومی کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہے، یہ ہے کہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو سدھارے۔ اس کا یہ فرض ہے کہ ہندوستان کی عام اقتصادی حالت پر غائر نظر ڈال کر ان اسباب کا پتہ لگائے جنہوں نے ملک کی یہ حالت کر دی ہے۔ اس کا یہ فرض ہے کہ کسی اور مسئلہ پر غور کرنے سے پہلے یہ دریافت کرے کہ ملک کی حالت میں کس حد تک ان بڑی بڑی اقتصادی قوتوں نے حصہ لیا ہے جو آج کل دنیا میں اپنع مل کر رہی ہیں، کس حد تک اہل ملک کے تاریخی روایات، عادات، اوہام اور اخلاقی کمزوروں نے حصہ لیا۔‘‘ اس میں کیا شک ہے کہ افزائش آبادی بھی ان قوتوں میں سے ایک ہے جو دنیا بھر کے ممالک کی اقتصادیات پر بڑی شدت اور تیزی کے ساتھ منفی رنگ میں اثر انداز ہو رہی ہیں۔ اسی لیے اقبال نے کنبہ پروری کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے کہا: ’’ اگر نوع انسان کی آبادی بغیر کسی قید کے بڑھ جائے اور انسان اپنی عقل خدا داد کی وساطت سے اپنے وسائل زندگی کو زیادہ کرنے کی راہیں نہ سوچے تو بنی آدم کا کیا حشر ہو گا؟‘‘ اقبال کے افکار برصغیر کی ملت اسلامیہ کے لیے بالعموم اور اپنے خواب کی تعبیر پاکستان کے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اہمیت کے حامل ہیں۔ آبادی کے بے ہنگم اضافے کے خطرے سے انہوں نے ملت کو واضح الفاظ میں آگاہ کیا ہے۔ مالتھس کے نظریہ آبادی پر بحث کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ: ’’ حکیم موصوف یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ نوع انسان کی آبادی اس قدر بڑھ جانے کا میلان رکھتی ہے کہ قیام زندگی کے قدرتی وسائل اس کے لیے کفایت نہیں کر سکتے۔‘‘ پھر متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ اگر نوع انسان کی آبادی بغیر کسی قید کے بڑھ جائے اور انسان اپنی عقل خدا داد کی وساطت سے اپنے وسائل زندگی کو زیادہ کرنے کی راہیں نہ سوچے تو بنی آدم کا کیا حشر ہو گا؟ فطرتاً انسان اس قسم کی ہستی ہے کہ اس کے قویٰ نظام قدرت کے ان قویٰ کا مقابلہ کر سکتے ہیں جو اس کے قیام زندگی کے مخالف ہیں۔ قدرت عظیم الشان جنگوں، وباؤں اور قحطوں کی وساطت سے خود بخود آبادی انسان و حیوان کو کم کرتی ہے اور انسان اپنی انجام بینی کی وجہ سے اپنے شہوانی قوی پر غلبہ پا سکتا ہے یا افزائش آبادی کے میلان کو اختیاری طور پر بھی روک سکتا ہے۔ حکیم مالتھس کے نزدیک افلاس اور دیگر برائیوں کا اصل منبع آبادی کا اندازے سے بڑھ جانا ہے۔ اکثر ممالک کے مشاہدے سے معلوم ہوا ہے کہ نوع انسان کی آبادی پچیس سال میں دگنی ہو جانے کا میلان رکھتی ہے۔ جب یہ حال ہو تو وہاں کے لوگوں کو چاہیے کہ انجام بینی سے کام لیں اور ان وسائل کو اختیار کریں جو آبادی کی ترقی کو روکتے ہیں انسان کی قوت توالد و تناسل قدرتاً کچھ اس قسم کی ہے کہ اگر اس کے عمل کو اختیاری یا غیر اختیاری اسباب سے روکا نہ جائے ت واس کا وجود مجموعی طور پر بنی آدم کی بربادی اور تباہی کا باعث ہو گا۔‘‘ مضبوط قومی اقتصادیات کی تشکیل و تربیت کے لیے اقبال کنبہ بندی کو لازم و ملزوم خیال کرتے ہیں اور وہ اسے پیش آمدہ معاشی مسائل کا ایک حل سمجھتے ہیں۔ ان کی چشم بصیرت سالہا سال پہلے سے جو کچھ دیکھ رہی تھی، آج عملاً ہمارا انہی حالات کے ساتھ سامنا ہے۔ اضافہ آبادی کے باب میں ان کے اقتصادی تجزیے سے یہی نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ اگر دل سچائی سے معمور ہو تو کردار کو حسن کی دولت نصیب ہوتی ہے اور کردار کا حسن عائلی زندگی کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔ عائلی زندگیاں خوشگوار ہوں تو قوم منظم ہوتی ہے اور اگر اقوام میں تنظیم پیدا ہو جائے تودنیا کے گہوارۂ امن اور سلامتی و خوش حالی بننے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ ٭٭٭ ماخذ ۱۔ شیخ محمد اقبال، ایم۔ اے ’’ علم الاقتصاد‘‘ اقبال اکادمی، کراچی ۱۹۷۱ء ۲۔ ’’ مخزن‘‘ لاہور، مدیر شیخ عبدالقادر، بابت ماہ اپریل و دسمبر ۱۹۰۴ء ۳۔ عطیہ بیگم ’’ اقبال‘‘ ترجمہ ضیاء الدین برنی، اقبال اکادمی، کراچی ۱۹۶۹ء ۴۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور، ’’ شاد اقبال‘‘ ۵۔ محمد جہانگیر عالم، مترجم ’’ اقبال کے خطوط جناح کے نام‘‘ ۶۔ ماہنامہ ’’ الحکیم‘‘ لاہور، نومبر ۱۹۳۲ئ، ضبط تولید نمبر ۷۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی ’’ فلسفہ شریعت اسلام‘‘ ترجمہ عنایت اللہ، مجلس ترقی ادب لاہور ۸۔ علامہ اقبال ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ ترجمہ مولانا ظفر علی خاں ۹۔ فقیر سید وحید الدین ’’ روزگار فقیر‘‘ ۱۰۔ ماہنامہ ’’ ہمدرد صحت‘‘ ضبط تولید نمبر، جولائی ۱۹۳۹ء ۱۱۔ غلام دستگیر نامی ’’ آثار اقبال‘‘ ٭٭٭ فکر اقبال میں سائنس کا مقام فطرت کا یہ رویہ تسلیم شدہ ہے کہ وہ چند خلقی مہیجات کے ساتھ نامیاتی اجسام کی ابتدا کرتی ہے اور پھر انہی اجسام کو ایک سازگار ماحول میں از خود نمو پذیر ہوتے رہنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ ٹھیک اسی ڈھب پر اسلامی فکر کے تخم، اسلامی فکر نے بڑی فراخ دلی سے کشت تہذیب میں کاشت کیے اور انسانی عقل کی رہنمائی کچھ اس طور کی کہ اسے کبھی کڑی پابندیوں میں جکڑ کر رکھنا گوارا نہ کیا اور مسلمانوں کی ذہنی سرگرمیاں اور ان کی رہنمائی صدیوں میں نمو پذیری کے منہاج پر سرگرم عمل رہیں جس کے شاندار فیصلے کی شہادت سائنس اور فلسفہ کے میدان میں نئے انسان کی تاریخ آج بھی دیتی ہے اور کل بھی دے گی۔ یہ سب کچھ صرف اسی لیے ممکن ہو سکا کہ قرآن نے کائنات کے اجمالی خاکے کی جو توحیدی تشریح پیش کی تھی، اسے ہر عہد میں تعبیر و تشریح اور توضیح و تاویل کے لیے خود ہی کھلا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ایسا فراخ دلانہ طرز عمل دنیا کی علمی تاریخ میں پہلی دفعہ اسلام ہی نے پیش کیا اور وہ غیر معمولی قوت معرکہ جو روح اسلام نے علوم کو بخشی، اس کا صدور فقط قرآن و احادیث سے ہوتا ہے۔ قرآن ہی الٰہیات کی وہ پہلی کتاب ہے جس میں عقیدے اور علم کے مابین کوئی قطعی انفعال نظر نہیں آتا۔ قرآن کے اس علمی رویے نے اسلام کو ایک جامد نہیں بلکہ فعال اور محرک دین کا مقام عطا کیا ہے جس میں تحقیق و اجتہاد کے دروازے ہر وقت باز رہے ہیں۔ سوچ بچار کے معاملے میں قرآن نے اب مخصوص لب و لہجے میں فکر انسانی کو انگیخت دی ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ ان آیات کی تکرار معنی خیز ہے کہ ’’ آخر تم سوچتے کیوں نہیں‘‘ کیا تم سوچتے نہیں ’’ تم غور و فکر سے کام کیوں نہیں لیتے‘‘ دلیل کیوں نہیں دیتے، کیا تم چشم بصیرت کے مالک نہیں ہو؟ وحی کی ابتداء ہی ایسے الفاظ سے ہوتی ہے جن کا تعلق براہ راست علم سے ہے اور جن میں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس رحمان اور رحیم کے نام سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جس نے انسان کو نوشت و خواند اور اشیاء کا علم عطا کیا۔ یہ دعا بھی آپ کو قرآن نے سکھائی ہے کہ ’’ اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ قرآن ہی نے یہ اعلان کیا کہ علم سے بے بہرہ انسان علم سے بہرہ ور انسانوں کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے۔ اس نے عقل اور مشاہدے سے کام نہ لینے والوں کو چوپایوں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ قرآن نے علم و حکمت کے حصول کو خیر کثیر سے تعبیر کیا اور علم کو شرف نیابت الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ بتایا۔ قرآن مجید نے بے شمار مقامات پر بنی نوع انسان کو مظاہر فطرت، زمین وآسمان کی تخلیق، موسمی تغیر و تبدل، گردش لیل و نہار، سمندر، ہوا، چاند، ستارے، طلوع و غروب آفتاب، چشمے، دریا، وادیاں، پہاڑ، میوہ جات، غلہ، مال مویشی اور جہاز رانی وغیرہ پر نظر غائر ڈالنا تجویز کیا ہے۔ سورۃ ہائے بقرہ، آل عمران، انعام، یونس، نمل اور غاشیہ میں حصول حکمت و علم کی جانب سے بہت واضح اشارے موجود ہیں اور حکمت دراصل ہی Science ہے جو حقائق کی تہ تک پہنچنے کے بعد وسیع و بسیط کائنات میں ان کے مقام کو متعین کرتی ہے۔ چنانچہ حکمت سے فقط ذہنی نظریے مراد نہیں بلکہ اس کے اصل مفہوم میں زندگی کی حقیقتوں کا جذب و انجذاب شامل ہے۔ حکمت ہی وہ سائنس ہے جو زندگی کی نئی جہتوں کا سراغ لگانے کا باعث بنتی ہے۔ نئے آفاق کی جستجو سکھاتی ہے اور اشیاء کو معنویت سے آگاہ کرتی ہے۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی باعث دعا فرمایا کرتے تھے کہ پروردگار مجھے مخفی حقیقتوں کے اصل روپ سے آگاہی بخش۔ حضور ؐ کے اقوال میں عقل کی برتری اور حصول علم کی فضیلت کا ذکر تکرار کے ساتھ ہے۔ بعض مواقع پر حضورؐ کے اپنے رویے سے بھی سائنس اور نفسیاتی توجیہات کی جستجو کے عمل کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً یہودی لڑکے ابن الصیداء کی خود کلامی اور مدینے کے نواح میں باغبانوں کو نر اور مادہ کھجور کے درختوں کی باروری کے عمل میں مصروف دیکھ کر سوالات کرنا۔ گویا قرآن و احادیث اور حضورؐ کا ذاتی عمل اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سائنس اور فلسفہ کے بارے میں اسلام کا رویہ علی العموم مثبت ہے اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اسلام کا آغاز در حقیقت علم کی دنیا میں استقرائی ذہن کا آتاز تھا اور جس حکمت اور علم کی ترویج و اشاعت کے امکانات کو اسلام دنیا کے سامنے رکھنا اس کا حصول فرد کی صلاحیتوں کی نمو اور جلا کی ذمہ داری بھی بن جاتا ہے اور انسان کو حقائق فطرت پر اپنی گرفت پختہ تر کرنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔ یہ سند انسان کو اسلام ہی نے عطا کی ہے کہ صرف وہی اشیاء کو ان کے صحیح ناموں سے یاد کرنے کا وصف رکھتا ہے اور اس کا ذہن نئی اشیاء کے نئے نام تجویز کرنے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہے۔د ر حقیقت اشیاء کے بارے میں انسان کا یہی رویہ کائنات کے ساتھ اس کے نت نئے رشتوں کی اطلاع دیتا ہے اور اس استقرائی انداز حصول علم کا آخری صلہ خالق کائنات کے ساتھ ایک تعلق کی استواری ہے اور بالتجربہ اس اقرار تک پہنچنا ہے کہ کائنات میں ایک عظیم اور غالب قوت موجود ہے جو ہمیں ہر آن اپنی حیرت انگیز فعالیتوں اور پیہم تخلیقی عمل سے ششدر کیے دے رہی ہے۔ اب یہ بات بھی طے ہو جاتی ہے کہ اگر انسان اشیاء کا سائنسی مطالعہ اور مشاہدہ اور تجزیہ اور تجربہ نہیں کرتا تو وہ اشیاء کی ماہیت سے کسی طور آگاہ نہیں ہو سکتا اور یہ بھی کہ ہر چند بادی النظر میں اشیاء کی ماہیت پر غور و فکر کا عمل سادہ دکھائی پڑتا ہے مگر واقعتاً پرکار اور پیچیدہ ہے اور اپنے اندر ہزار گونہ اسرار لیے ہوتا ہے۔ انسانی ذہن کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے نہ صرف جوہر اور سالمات کے وجود کی حرکت کے مشکل ترین سائنسی مشاہدے کو ممکن بنا لیا بلکہ غیر معین اور نا معلوم اشیاء کے امکان وجود کا اصول بھی دریافت کر لیا۔ روز بروز اشیاء کی حقیقتوں کے اسرار تہ در تہ کھلتے چلے جا رہے ہیں اور یہ حیرت ناک مگر شاندار فریضہ بجا لانے والا انسان خود اپنے اس معجزانہ طرز عمل پر فق ہے اور اس اعتراف پر مجبور ہے کہ: ربنا ما خلقت ہذا باطلا (آل عمران) اقبال نے انسان کے اس تخلیقی رویے اور پھر روحانی رد عمل کو جس کا آخری صلہ ذات مطلق سے آگہی ہے، عین عبادت قرار دیا ہے اور یوں ہر مسلمان کو زندگی اور کائنات کے باب میں اپنے عمومی رویے میں گویا ایک سائنس دان ہی دیکھنا پسند کرتا ہے۔ گویا اقبال کے نزدیک اسلام، مسلمان اور سائنسی رویے کے مابین کوئی تفاوت، تفریق موجود نہیں۔ مسلمان اقوام نے اپنی تاریخ کی ابتدائی صدیوں سے ہی اپنی سوچ کا نہج قرآن کے منہاج کی پیروی میں سائنسی قرار دے دیا تھا اور یہ اپنے مزاج میں از ابتداء استقرائی تھا۔ صدیوں بعد مغرب میں سائنسی انداز فکر اور ایجاد و دریافت کی باز گشت حقیقت میں اسی اسلامی استقرائی فکر کا صلہ تھی۔ جرمن مورخ Deutsch نے قرآن کے اسی سائنسی رویے کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے: ’’ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی بدولت عرب اقلیم یورپ میں شاہانہ کروفر کے ساتھ وار دہوئے تاکہ ظلمت میں گھری ہوئی انسانیت کے لیے اجالا پھیلائیں۔ پیلاس یعنی یونان کے علم و حکمت کو مردوں میں سے زندہ کر کے اٹھائیں۔ مشرق کی طرح مغرب کو بھی فلسفہ، طب، فلکیات اور موسیقی کے زریں فنون کی تعلیم دیں۔ جدید سائنس کے نومولود کی پرورش کریں اور منظر معنی پر ہم سے پہلے نمودار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پیچھے آنے والوں کی صفوں میں ہمارا شمار کرائیں تاکہ ہم اس دن پر گریہ و زاری کرتے رہیں جب غرناطہ کا سقوط ہوا تھا۔‘‘ Briffault نے اپنی معرکہ الآراء کتاب The Making of Humanity میں جس کے اقبال ہمیشہ معترف رہے، یہ تسلیم کر لیا کہ: ’’ ہماری سائنس عربوں کی تحقیق و تدقیق کی رہین منت ہے۔ انہوں نے سائنسی دور سے قبل ہی فلکیات اور ریاضیات میں دسترس حاصل کر لی تھی۔ موجودہ سائنسی ترقی میں عربوں کی کاوشوں کا بڑا دخل ہے۔ یہ کہنا کسی طور بھی درست نہیں کہ موجودہ سائنسی ترقی یونانیوں کی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔ یہ درست ہے کہ یونانیوں نے بھی تحقیق کے میدان میں قابل قدر کام کیا تھا لیکن ان کا طریق کار انتہائی غیر سائنسی تھا۔ عمیق مشاہدہ اور تجرباتی مطالعہ تو یونانیوں کے مزاج کے لیے بالکل اجنبی تھا۔ آج یورپ میں جس سائنسی ترقی کا دور دورہ ہے، اس کی بنیاد عربوں نے ہی استوار کی تھی۔ یونانی تو تجرباتی اصول سے بالکل نا آشنا تھے۔ ‘‘ 1؎ بریفالٹ نے یہ بھی لکھا: ’’ اگرچہ یورپ کی ترقی کا ایک بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس سے قطعی طور پر اسلامی ثقافت کے نقوش کا پتہ نہ ملتا ہو لیکن اس قوت کی پیدائش پر اس کے اثرات جس قدر واضح اور اہم ہیں کسی دوسری جگہ نہیں۔ یہی تو نئی سائنس کی مستقل دائمی قوت اور کامیابی کا عظیم سرچشمہ ہے، یہی طبعی سائنس اور سائنسی آرٹ ہے۔‘‘ مشہور فرانسیسی سائنس دان سیڈیلو نے گواہی دی کہ مسلمان سائنس دان کس قدر سچا سائنسی رحجان رکھتے تھے۔ وہ کہتا ہے: ’’ وہ معلوم سے نامعلوم کی طرف آتے تھے اور کسی ایسی بات کو سچ نہ مانتے تھے جن کی توثیق ذاتی تجربے یا تجربہ گاہ سے نہ ہوتی۔ سائنس کے مسلمان ا ستادوں نے انہی اصولوں کی تعلیم دی اور انہی کا دعویٰ کیا۔‘‘ رسالہ Islamic Review کے مارچ ۱۹۵۵ء کے شمارے میں جان ڈبلیو کیمپل جونیئر نے لکھا ہے: ’’ اسلام نے وہ کچھ حاصل کیا کہ دوسری کسی قوم نے اس کے حصول کی کوشش نہیں کی۔ اسلام نے سائنس ایجاد کی یہ کام روما اور یونان نہ کر سکے۔ ان میں سے ہر ایک نے دو میں سے صرف ایک جزو پیدا کیا جو سائنسی فکر کی عمارت کے لیے ضروری تھا۔ در حقیقت ان سے پہلے کی قوموں نے بھی یہی کیا اور ان کے بعد وہ آزادانہ طور پر یہی کچھ کر پائے لیکن دونوں باتوں میں کوئی کامیاب نہ ہوا۔ فلسفہ خوب ہے لیکن یہ تنہا قائم نہیں رہ سکتا۔ ایتھنز اپنے دلفریب فلسفے پر منہ کے بل گرا کیونکہ یہاں نکاس کے لیے بد رو تھی نہ آبی گزر گاہ۔ روما کے پاس صفائی ستھرائی کا شاندار انتظام تھا لیکن حکیمانہ فکر کا نظام نہ تھا۔ روما کے دل میں ایتھنر کے نفیس فلسفے کا احترام تھا نہ یونان کے دل میں روما کی درشت مادہ پرستی کا۔ ہم نے سائنس کی میراث روما سے لی ہے نہ یونان سے بلکہ اسلام سے لی ہے۔‘‘ پروفیسر ہولم پارڈ نے اپنے سائنسی مجلے Endeavour میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا: ’’ ایک ہزار سال ہونے کو آئے ہیں، اسلام اور صرف اسلام میں سائنس کا شعلہ درخشاں ہوا۔‘‘ سائنسی مورخ جارج سارٹن نے مسلمانوں کے سائنسی رویے کو یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا کہ: ’’ گیارہویں صدی کے اختتام تک عربی ہی بنی نوع آدم کی سائنسی اور ترقی پسندانہ زبان تھی۔ اس دور میں اگرکوئی شخص خوب باخبر ہونا اور تازہ ترین معلومات حاصل کرنا چاہتا تو اسے عربی پڑھنا پڑتی۔‘‘ اقبال نے یہ سب کچھ ان الفاظ میں اپنے اشعار میں سمیٹ لیا: حکمت اشیاء فرنگی زاد نیست اصل او جز لذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلمان زادہ است ایں گہر از دست ما افتادہ است چوں عرب اندر اروما پرکشاد علم و حکمت را بنا دیگر نہاد دانہ آں صحرا نشیناں کاشتند حاملش افرنگیاں براشتند ایں پری از شیشہ اسلاب ماست باز صیدش کن کہ او از قاف ماست اقبال نے اپنے فکری نظام میں سائنس کا جو مقام متعین کیا ہے وہ سرا سر اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے اور قرآن و احادیث کے واضح کردہ اس باب میں منہاج کے عین مطابق ہے۔ موحد ہونے کی بنیاد پر انہوں نے مادہ، انسان، ذہن اور زندگی کے ظاہری اختلاف میں حقیقت واحدہ ہی کو تلاش کیا ہے۔ وہ ایسے علم یا ایسی سائنس کی ترویج چاہتے ہیں جس کی ابتداء وجودیتی مفروضات سے نہیں ہوتی۔ قرآن کی تعلیمات کے پس منظر میں اقبال کا یہ نظریہ علم یا سائنس زیادہ ہمہ جہت اور ہمہ گیر بن جاتا ہے کیونکہ اس میں بے شمار ذہنی اور عقلی تجربات کی ایسی گنجائش موجود ہے جس کی کوئی حدود ہی نہیں ہیں۔ اقبال اسلامی فکر کی طویل زنجیر کی عہد حاضر کی کڑیوں میں سے وہ نہایت اہم کڑی ہیں جن کی ذات میں مذہب، فلسفہ اور سائنس کا اجتماع موجود ہے۔ ہر چند کہ انسانی تہذیب کے ان تینوں اداروں کی زبان، قواعد اور طریق کار میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے تاہم اقبال قرآن کی روشنی میں ان تینوں میں کوئی تضاد محسوس نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ تینوں انسان کے لیے حقیقت واحدہ کی تقسیم میں ممد و معاون ٹھہرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ترقی پذیر انسانی تمدن کو مختلف مراحل طے کرانے کا باعث بنتے ہیں۔ مذہب کی ایک غایت اقبال کے نزدیک یہ بھی ہے کہ انسان اشیاء کی ماہیئت کا مطالعہ سائنسی ڈھب پر کرے تاکہ اس کی شخصیت کی داخلی وحدت اور سالمیت برقرار رہے اور جب فرد کی شخصیت معاشرے میں ضم ہو تو اس کی انفرادیت بھی مجروح ہوئے بغیر معاشرتی سالمیت کے قیام کے لیے سر گرم عمل رہے۔ اقبال نے اپنے سامنے سائنس اور فلسفے کا جو رویہ دیکھا، اس میں خوبیاں اور خامیاں دونوں موجود تھیں۔ خوبیوں کا انہیں ہمیشہ اعتراف رہا مگر ان دونوں اداروں کی بعض فاش خامیوں سے وہ صرف نظر نہ کر سکے۔ انہیں یہ اطلاع تھی کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء میں انسان حیوان کی صف میں آ جاتا ہے۔ فرائڈ، ژونگ اور میکڈوگل نے اسے جنس کی دلدل کے سپرد کر دیا ہے اور اسے بنیادی جبلتوں کا غلام بنا دیا۔ اگر فلسفیوں نے انسان کو مجبور محض کہا تو سائنس دانوں نے بھی انسان کی بے بسی کو تسلیم کر لیا اور اسے علت و معلول کی مشین کا پرزہ بنا لیا۔ اپنے خطبات میں اقبال کا ایسی ہی سوچ اور فکر کے خلاف اعلان جہاد تھا اور شاید پہلی دفعہ واضح الفاظ میں فرد کے تحرک کو زندگی کے مترادف قرار دیا۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ 2؎ کا دیباچہ اصل خطبات کی طرح بے حد معنی خیزہے جس میں اقبال کہتے ہیں: قرآن پاک کا رحجان زیادہ تر اس طرف ہے کہ فکر کی بجائے عمل پر زور دیا جائے۔ عہد حاضر کے انسان کو محسوس فکر کی عادت ہو گئی ہے جس کا تعلق اشیاء اور حوادث کی دنیا سے ہے اور یہ وہ عادت ہے جس کی اسلام نے اور نہیں تو اپنے تہذیبی نشوونما کے ابتدائی دور میں حمایت کی۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے: خلقکم من نفس واحدۃ (البقرہ) اس آیت کا اشارہ جس حیاتی وحدت کی طرف ہے، اگر آج اسے تجربے میں لایا جائے تو کسی ایسے منہاج کی ضرورت ہو گی جو عضویاتی اعتبار سے تو زیادہ سخت یعنی شدید بدنی ریاضت کا طالب نہ ہو مگر نفسیاتی اعتبار سے اس ذہن کے قریب تر ہو جو گویا محسوس کا خوگر ہو چکا ہے تاکہ وہ اسے بآسانی قبول کر لے۔ لیکن پھر جب تک ایسا کوئی منہاج متشکل نہیں ہو جاتا، یہ مطالبہ کیا غلط ہے کہ مذہب کی بدولت ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔۔۔ میں نے اسلام کی روایات فکر، علی ہذا ان ترقیات کا لحاظ رکھتے ہوئے، جو علم انسانی کے مختلف شعبوں میں حال ہی میں رونما ہوئی ہیں، الٰہیات اسلامیہ کی تشکیل جدید سے ایک حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یوں بھی یہ وقت اس طرح کے کسی کام کے لیے بڑا مساعد ہے۔ قدیم طبیعیات نے خود ہی اپنی بنیادوں پر تنقید کرنا شروع کر دی لہٰذا جس قسم کی مادیت ابتداء اس کے لیے ناگزیر تھی، بڑی تیزی سے ناپید ہو رہی ہے اور وہ دن دور نہیں کہ مذہب اور سائنس میں ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہو جو سر دست ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ بایں ہمہ یاد رکھنا چاہیے کہ فلسفیانہ غور و فکر و تفکر میں قطعیت کوئی چیز نہیں۔ جیسے جیسے جہان علم میں ہمارا قدم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے لیے نئے نئے راستے کھل جاتے ہیں، کتنے ہی اور، اور شاید ان نظریوں سے، جو ان خطبات میں پیش کئے گئے ہیں، زیادہ بہتر نظریے ہمارے سامنے آتے جائیں گے۔ ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کی نشوونما پر با احتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال سائنس کسی ایسی چیز کو شمار کرتے ہیں جو خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کا باعث بن سکے۔ ڈاکٹر سلیم عبداللہ کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران اقبال نے یہ تسلیم کیا تھا کہ: ’’ وہ فلسفہ اور مذہبی تعلیم جو انسانی شخصیت کی نشوونما کے منافی ہو، بے کار چیز ہے۔ تصوف نے Scientific روح کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتے، تعویذ تلاش کرتے ہیں۔ گوش و چشم کو بند کرنا اور صرف چشم باطن پر زور دینا جمود اور انحطاط ہے۔ قدرت کی تسخیر جدوجہد سے کرنے کی جگہ سہل طریقوں کی تلاش ہے۔ ’’ شجر ممنوعہ‘‘ میرا خیال ہے تصوف سے مراد ہے۔ خالص اسلامی تصوف یہ ہے کہ احکام الٰہی انسان کی اپنی ذات کے لیے احکام بن جائیں۔ ‘‘ 3؎ اقبال نے اسلام کو عہد حاضر کے دور انکشاف میں گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس کا مستقبل کائناتی اسرار کے انکشاف کے مختلف مراحل کے ساتھ وابستہ قرار دیا۔ ان کا یہ موقف درست تھا کہ مذہب کے مستقبل کا مدار یا اس کا امکان ا س کے اپنے رویے پر ہے کہ کس حد تک یا مذہبی تجربہ قابل قبول ٹھہرتا ہے۔ انہوں نے مذہبی تجربے کے لیے عمل کا وہی معیار مقرر کیا جو سائنسی تجربے کے اثبات کے لیے عقل ٹھہراتی ہے۔ چنانچہ مذہب اور سائنس کا مستقبل ان کے نزدیک ایک سا ہے۔ وہ اس تصور کی قدر کرتے ہیں جو سائنسی بھی ہے اور اسباب و نتائج پر یقین بھی رکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انسانی تاریخ کی میکانکی اصولوں کی روشنی میں جانچ پرکھ بھی رکھتا ہے، کیونکہ اقبال کے نزدیک انسانی فطرت کا اصل نگران معروض مطلق کے سوا کوئی او رنہیں۔ مذہب کے معاملے میں اقبال ہمیں جس شعور سے آشنا کراتے ہیں وہ در حقیقت سائنسی حقائق ہی کا بخشندہ شعور ہے۔ وہ اسلام کو انسان کی بنیادی فطرت کے ساتھ وابستہ سمجھتے ہیں اور اسی لیے ان کے نظام فکر میں انسانی فطرت کے نئے امکانات کے انکشاف کی اہمیت مسلمہ ہے۔ سرسید نے جدید سائنس اور فلسفہ کے مقابلے میں جو معذرتی رویہ اختیار کیا تھا، اقبال نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے عقائد کی تاویلات کرنے کی بجائے اسلام کی اصل روح کی نشاندہی کی ہے اور اسلام کی معذرتی خدمت کی بجائے اس کی ٹھیٹھ تعبیر کو رواج دیا ہے۔ سرسید کے ہاں تعقل سائنسی نہیں مرعوبیت کا رنگ رکھتا ہے۔ اس لیے اس کی بنیادیں کمزور تھیں۔ چنانچہ آئن سٹائن تک آتے آتے جدید سائنس نے سرسید کے تعقل کی تمام تر عمارت زمین بوس کر دی بلکہ سرسید نے تو کیا خود مغربی سائنس دان آئن سٹائن کے انکشاف سے فق ہو کر رہ گئے، لیکن اقبال کا معاملہ دوسرا ہے اس لیے کہ وہ مغربی فکر کے پس منظر اور اس کی اساس کی خوبیوں اور خامیوں دونوں سے واقف تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے نظام فکر میں اس بات کے امکانات کم سے کم تر ہو گئے کہ اسلام کسی رعب تلے آ جائے۔ ۱۹۱۱ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے تیسرے روز اجلاس کے صدارتی خطبے میں اقبال نے کہا: ’’ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں جب سے کہ یورپ کی ترقی کا آغاز ہوا، یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا۔ ان یونیورسٹیوں میں مختلف ممالک یورپ کے طلبہ آ کر تعلیم حاصل کرتے اور پھر اپنے اپنے حلقوں میں علوم و فنون کی اشاعت کرتے تھے۔ کسی یورپین کا یہ کہنا کہ ’’ اسلام اور علوم یکجسا نہیں ہو سکتے‘‘ سرا سر ناواقفیت پر مبنی ہے اور مجھے تعجب ہے کہ علوم اسلام اور تاریخ اسلام کے موجود ہونے کے باوجود کوئی شخص کیوں کر کہہ سکتا ہے کہ علوم اور اسلام ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے۔ بیکن، ڈیکارٹ اور مل یورپ کے سب سے بڑے فلاسفر مانے جاتے ہیں جن کا فلسفہ کسی بنیاد، تجربہ اور مشاہدہ پر ہے لیکن حالت یہ ہے کہ ڈیکارٹ کا میتھڈ (Method) امام غزالیؒ کی احیاء العلوم میں موجود ہے اور ان دونوں میں اس قدر مطابقت موجود ہے کہ ایک انگریز مورخ نے لکھا ہے کہ اگر ڈیکارٹ عربی جانتا ہوتا تو ہم ضرور اعتراف کرتے کہ ڈیکارٹ سرقہ کا مرتکب ہوا ہے۔ راجر بیکن خود ایک اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا۔ جان اسٹوراٹ مل نے منطق کی شکل اول پر جو اعتراض کیا ہے بعینہ وہی اعتراض امام فخر الدین رازی نے بھی کیا تھا اور مل کے فلسفہ کے تمام بنیادی اصول شیخ بو علی سینا کی مشہور کتاب ’’الشفائ‘‘ میں موجود ہیں۔ غرض یہ کہ تمام وہ اصول جن پر علوم جدیدہ کی بنیاد ہے، مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں بلکہ میرا دعویٰ ہے کہ نہ صرف علوم جدیدہ کے لحاظ سے بلکہ انسانی زندگی کا کوئی پہلو اور اچھا پہلو ایسا نہیں کہ جس پر اسلام نے بے انتہا روح پرور اثر نہ ڈالا ہو۔‘‘ 4؎ خطبا ت میں انہوں نے کہا: ’’ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ تجرباتی طریق تحقیق یورپ کی ایجاد ہے۔ یورپ نے اس بات کا اعتراف کرنے میں بڑی دیر کی ہے۔ اس کے ہاں کے مروجہ سائنسی طریق تحقیق کا اصل ماخذ اسلام ہے تاہم اس بات کا مکمل اعتراف ہو کر رہا ہے۔‘‘ ۱۹ مارچ ۱۹۳۸ ء کی گھریلو نشست میں اقبال نے کہا تھا: ’’ مسلمانوں کا علمی ورثہ بڑا عظیم اور قابل فخر ہے۔ علم و حکمت کی کوئی شاخ نہیں ہے جس پر ان کی ذہانت اور اجتہاد کا نقش ثبت نہیں۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے صحیح معنوں میں علمی روح پیدا کی اور علوم و فنون کو ان کے اصل راستے پر ڈال دیا۔ علم کا وجود جسے آج کل سائنس کہتے ہیں، انہی کا مرہون منت ہے۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے وہ شرائط بہم پہنچائیں جن پر علم کی ترقی اور نشوونما کا دار و مدار ہے۔ یہ شرائط کیا تھیں؟ مشاہدہ، معائنہ، فکر و نظر، محسوس اور غیر مرئی کا احترام، تجربہ وتحقیق، تفتیش، حقائق کا اثبات، ان کا مطالعہ اور ان کی مسلسل تاویل و تعبیر یہ شرائط یوں نہ ہوتیں تو علم کا راستہ دیر تک رکا رہتا۔ ‘‘ 5؎ اقبال کے ہاں مذہب ہو یا سائنس، کورانہ تقلید پسندی کا کوئی جواز نہیں۔ وہ اگر مذہب کی سائنسی تعبیر کے قائل ہیں تو سائنس کی مذہبی تشکیل کا تاثر بھی دیتے ہیں۔ ہر چند کہ انہوں نے تہذیب جدید اور نئی سائنس ہر دو کی کوتاہیوں اور خامیوں پر تنقید کی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ رسمی مذہب، بے روح عقائد اور ناقص تصوف پر بھی گرفت کرتے ہیں جو خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرنے سے عاجز رہے۔ سرسید یورپ کی جس بے روح استدلالیت اور تجربی نظریات (Empirical Theories) سے متاثر ہو کر تعقل پسندی کی انتہا پر پہنچ کر یکسر معذرتی ہو گئے تھے، وہ اٹھارویں صدی کے یورپی اور فرنگی فکری سرمایہ سے مرعوبیت کا نتیجہ تھا کہ وہ خود بے ضرورت عقلیت پسندی کا انبار تھا۔ اقبال از ابتدا استقرائی نہج پر ماہیت اشیاء کا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں مگر اساسی اخلاقی قدروں سے بھی اغماض نہیں برتتے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کا معیاری دستور سرا سر سائنس اور عقل کے بل پر تیار نہیں ہوتا مگر ان کے ہاں مذہب بھی تہ در تہ اسرار کے گورکھ دھندے کا نام نہیں۔ چنانچہ معجزات، معراج اور ختم نبوت کی جو تعبیر وہ پیش کرتے ہیں، در حقیقت وہی جدید اخلاقی، نفسیاتی اور عمرانی رحجانات کے عین مطابق ہے۔ اقبال کے نظریہ خودی میں در حقیقت ان کا یہی سائنسی رحجان طبع اپنی معراج کو پہنچ گیا ہے اور سائنسی انداز فکر کو اقبال کے ہاں ایک خوبصورت اور موثر اسلوب مل گیا ہے۔ اقبال کا تقدیر یزداں بننے کی طرف اکسانا اقبال کی اسی سائنسی طرز فکر کا نتیجہ ہے۔ اقبال نے مغربی اور مشرقی نظام فکر میں ایک حسین تناسب کی تشکیل کی ہے۔ جدید مغرب سے انہیں سائنسی رویہ اور محسوسات سے ایک گونہ تعلق یوں نصیب ہوا کہ یہ اپنی اصل میں اسلام ہی کا ورثہ تھا اور مشرق کی اخلاقی اور مذہبی اقدار کی عمارت کو انہوں نے اسی اسلامی ورثے کی بنیادوں پر اٹھایا۔ اس طرح انیسویں صدی کے سائنسدانوں کی اس کھوکھلی عظمت کے جالے بھی کٹ جاتے ہیں جو انہوں نے بڑی شان سے اپنے اطراف میں بن رکھے تھے اور دوسری طرف مذہب رسم پرستی کا جادو بھی اتارنے کی سعی کی اس اعتبار سے اقبال کا طرز فکر سائنس میں ایک طرح سے خالص مادیت کے رحجان اور مذہب میں مجرد اور بے روح رسم پرستی کی نفی کے جذبوں پر مبنی ہے۔ گویا وہ حقیقت کے ان حرکی، تخلیقی اور نمو پذیر پہلوؤں کو اپنے فکر میں ترجیح دیتے ہیں جن کی رو سے کائنات ہر لمحہ و ہر آن نمو پذیر ہے اور یہی فکری رویہ قرآن کے سائنسی رویے کے قریب تر ہے۔ وہ قرآن کے تصور کن فیکون اور آئن سٹائن (Einstein) کے نظریہ اضافیت، دونوں کی صحت سے متاثر ہوتے ہیں۔ خطبات میں ان کا ایک قول ہے کہ: ’’ آئن سٹائن یہ بات کہنے میں حق بجانب ہے کہ کائنات محدود ہوتے ہوئے بھی بے پایاں ہے۔‘‘ ۱۰ جنوری ۱۹۳۸ء کی گھریلو نشست میں جب اقبال کے سامنے یہ سوال اٹھایا گیا کہ قرآن کہتا ہے ’’ ایک وقت آئے گا جب لوگ اپنے رب کی طرف دوڑتے ہوئے جائیں گے ‘‘ (یٰسین) ’’ اور جب تیرا رب اور فرشتے صف بہ صف آئیں گے ‘‘ (فجر) ’’ اور جب یوں محسوس ہو گا کہ تیرا خدا زمین پر اتر آیا ہے اور زمین تیرے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی‘‘ (زمر) اور یہ بھی کہ ’’ جس روز یہ ارض و سما بدل کر کچھ سے کچھ ہو جائیں گے‘‘ (ابراہیم) تو کیا قرآن یہ بتانا چاہتا ہے کہ ابھی اس خاک دان میں کوئی اور کھیل بھی کھیلا جائے گا؟ تو انہوں نے اس کا یہی جواب دیا تھا کہ ہم ارض و سما اور ان کے درمیان ہر چیز کا ادراک اپنے شعور ہی کے ذریعے کرتے ہیں۔ ان کا تصور ہمارے شعور کے تابع ہے۔ جس روز یہ شعور بدلا، ارض و سما بھی بدل جائیں گے۔ قرآن کا خطاب ہمارے شعور ہی سے تو ہے۔ اقبال نے کہا’’ سر دست ہم اپنے ارتقاء کی ایک منزل میں ہیں۔ اس سے آگے جو منزل ہے اس میں قدم رکھا تو شعور کی تبدیلی سے ارض و سما بدل جائیں گے۔‘‘ پھر کہا’’ شعور میں بھی تو ارتقاء جاری ہے اور ارتقاء کا تقاضا یہ ہے کہ زمان و مکان کے ابعاد ختم ہو جائیں۔‘‘ کئی سال قبل بھی انہیں خدا کے نور اور آئن سٹائن کے نظریہ نور میں ایک تطابق نظر آیا تھا۔ ۱۴ مئی ۱۹۲۲ء کو سید سلیمان ندوی کے نام انہوں نے اسی سائنسی منہاج پر ایک فکری جستجو کا اظہار یہ لکھ کر کیا تھا: ’’ رویت باری کے متعلق جو استفسار میں نے آپ سے کیا تھا، اس کا مقصود فلسفیانہ تحقیقات نہ تھی۔ خیال تھا کہ شاید اس بحث میں کوئی بات ایسی نکل آئے جس سے آئن سٹائن کے انقلاب انگیز نظریہ نور پر کچھ اور روشنی پڑے۔ اس خیال کو ابن رشد کے ایک رسالے سے تقویت ہوئی جس میں انہوں نے ابو المعالی کے رسالہ سے ایک فقرہ اقتباس کیا ہے۔ ابو المعالی کا خیال آئن سٹائن سے بہت ملتا جلتا ہے۔ گو مقدم الذکر کے ہاں یہ بات محض ایک قیاس ہے اور موخر الذکر نے اسے علم ریاضی کی مدد سے ثابت کر دیا ہے۔‘‘ 6؎ نور، خدا کی پیدا کردہ پہلی مادی چیز ہے اس لیے یہ خدا کے قریب ترین ہے اور لطیف ترین ہے۔ کوئی مادی چیز نور سے رفتار میں بڑھ نہیں سکتی۔ خطبات میں کہتے ہیں:’’ جدید طبیعیات کی تعلیم یہ ہے کہ نور کی رفتار سے زیادہ رفتار کسی چیز کی نہیں ہو سکتی اور یہ رفتار تمام مشاہدہ کرنے والوں کے لیے یکساں رہتی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ان کی اپنی حرکت کس نظام سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نور مادی تغیرات کی اس دنیا میں ہستی مطلق سے قریب ترین چیز ہے۔‘‘ 7؎ در حقیقت سائنس دان جنہیں مشاہداتی حقیقتیں کہتا ہے وہ بھی کچھ وجدانی مفروضوں کی منظم صورتیں ہوتی ہیں۔ یہ مفروضے ایک طرح سے مذہبی ما بعد الطبیعیات کے عالم سے درآمد ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ یہ سائنسی حقیقت خود سائنس دان کے مشاہدے میں نہیں آئی ہوتی مگر وہ اس کی عدم موجودگی میں بھی محض اس کے اثرات کی بنیاد پر اس پر ایمان لاتا ہے۔ شاید یہ بھی سائنسی فکر میں ایمان بالغیب کی ایک صورت ہو۔ آخر ایٹم بھی تو ایک وجدانی مفروضہ ہے جس کے داخلی نظام کو آج تک کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کو اپنی انتہا پر پہنچ کر فلسفے میں ڈھلنا پڑتا ہے۔ گویا شعوری ارتقاء کے ایک مرحلے پر آ کر سائنس اور فلسفہ میں کچھ فرق نہیں رہ جاتا۔ ایڈنگٹن (Eddington) اور جیمز جینر (James jeans) کے ہاں یہی ہوا لیکن بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی۔ جہان حیرت تو ابھی ان آیات میں کھلتا ہے جو ذات باری نے انفس و آفاق میں رکھ دی ہیں اور ایڈنگٹن اور جیمز جینز کی روحانیت اس کے مقابلے میں ابھی ناقص ہے۔ ایک اور موقع پر حفیظ ہوشیار پوری نے اس روحانیت کے بارے میں اقبال سے ان کی رائے دریافت کی جس کا چرچا ایڈنگٹن اور جیمز جینز جیسے سائنس دانوں کے حوالے سے ہو رہا تھا اور پوچھا کہ کیا واقعی موجودہ سائنس مذہب کی طرف آ رہی ہے؟ اقبال نے جواب میں کہا:’’ ہمیں ان حالات سے خوش نہیں ہونا چاہیے۔ موجودہ سائنس انیسویں صدی کی سائنس کے خلاف ہے جس کی بنیاد میکانیت اور مادیت پر تھی کیونکہ مادے کی ماہیت کے متعلق اب سائنس کا نظریہ بدل گیا ہے۔ اس لیے موجودہ انقلاب کو بعض لوگ روحانیت پر ہی محمول کرتے ہیں۔ ممکن ہے مادہ کے متعلق ہمارا نظریہ بدل جائے اور روحانیت آمیز خیالات کی یہ عارضی روخس و خاشاک کی طرح بہ جائے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ تخلیقات کے انتہائی مراحل پر سائنس کا حیرت و استعجاب سے دو چار ہو کر فلسفہ اور روحانیت کے دامن میں پناہ لینا اس کے اعتراف عجز و شکست کی دلیل ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے حقیقت کو پا لیا ہے۔ جہاں سائنس ختم ہوتی ہے وہاں سے فلسفہ شروع ہوتا ہے اور حیرت و استعجاب جو سائنس کا انجام ہے فلسفہ کا آغاز ہے جو کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ جیمز جینز قادر مطلق کو ایک بڑے ریاضی دان سے تشبیہہ دیتا ہے، فرمایا: ’’ یوں تو خدا کو شاعر مطلق بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ دنیا جو اس کی تخلیق ہے، ایک ایسی نظم ہے جس کا مطلع اور مقطع ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔‘‘ 8؎ ایک اور موقع پر جدید سائنس کی روشنی میں اس موضوع پر گفتگو ہر رہی تھی کہ دنیا ایک اتفاقی ظہور ہے یا اس کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے۔ اس بارے میں سر جیمز جینز کے ہاں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ اس تضاد کے حوالے سے حفیظ ہوشیار پوری نے پوچھا کہ ’’ جیمز جینز کے نزدیک ایک طرف تو دنیا کسی مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہے کیونکہ وہ کسی خلاق (Creator) کا قائل ہے اور جہاں خلاق کا تصور ہو گا وہاں مقصد کا ہونا ضروری ہے لیکن دوسری طرف وہ اس عالم امکان کی ہیبت ناک وسعتوں میں انسان کو (Astronomy) کی رو سے ایک نہایت غیر اہم اور بے بس چیز تصور کرتا ہے۔ غیر محدود قوت تخلیق کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس کا یہ نظریہ نہایت مایوس کن ہے۔‘‘ اقبال نے سر جیمز کے ہاں اس تضاد کے متعلق اتفاق کیا اور فرمایا:’’ اس قسم کی متضاد باتیں موجودہ سائنس دانوں کے ہاں پائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تضاد سے صرف وہ سائنس دان محفوظ ہوں گے جنہیں قرآن کی زبان میں راسخون فی العلم (آل عمران) کہا گیا ہے۔‘‘ 9؎ راسخون فی العلم اور انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء کی تفسیر کرتے ہوئے ایک مرتبہ اقبال نے کہا:’’ موجودہ دنیا اپنے تمام علم و تہذیب و صنائع و بدائع سمیت مسلمانوں کی مخلوق ہے۔ حقیقی خالق بے شک اللہ تعالیٰ ہے لیکن اس کے علاوہ بھی خالق ہو سکتے ہیں جیسا کہ آیہ احسن الخالقین سے ظاہر ہے۔‘‘ 10؎ ۱۶ جنوری ۱۹۳۸ء کی نشست میں فرمایا: ’’ علم کے چار ذرائع ہیں اور قرآن نے ان چاروں کی طرف واضح رہنمائی کی ہے۔ مسلمانوں نے اس کی تدوین کی اور دنیائے جدید اس باب میں ہمیشہ مسلمانوں کی منت کش رہے گی۔ پہلا ذریعہ وحی ہے اور وہ ختم ہو چکا ہے۔ دوسرا ذریعہ آثار قدماء ہوتا رہا ہے جس پر آیات قرآنی متوجہ کر رہی ہیں مثلاً ’’ سیروا فی الارض‘‘ اس آیت نے علم آثار کی بنیاد رکھ دی جس پر مسلم مصنفین نے عالی شان قصر تعمیر کیے ’’ ذکر بایام اللہ‘‘ یہ آیت تاریخ کا ابتدائی نقطہ ہے جس نے ابن خلدون جیسے باکمال محقق پیدا کیے۔ علم کا تیسرا ذریعہ علم النفس ہے جس کا آغاز ’’ فی انفسکم افلا تبصرون‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس کو حضرت جنید اور ان کے رفقاء و اتباع نے کمال تک پہنچایا۔ آخری ذریعہ صحیفہ فطرت ہے جس پر قرآن مجید کی بے شمار آیات دلالت کر رہی ہیں مثلاً’’ والی الارض کیف سطحت‘‘ (الغاشیہ) اس علم پر علمائے اندلس نے بہت توجہ مبذول کی۔‘‘ 11؎ سوال یہ ہے کہ پھر مذہب سائنس میں کب ڈھلتا ہے؟ یا سائنس کب صاحب ایمان ہونے لگتی ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ یہ دونوں ادارے انسان اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں کچھ معتقدات پیش کرتے ہیں۔ سائنس کے اصول تجربے اور مشاہدے سے معلوم کیے جاتے ہیں۔ جب کسی مذہب پر بھی ایسا وقت آ جائے کہ اس کے معتقدات کا مدار بھی چیزوں کے تعارفی اوصاف اور خواص پر ہونے لگے تو یہ مذہب سائنس میں ڈھل جاتا ہے۔ اقبال کے فلسفے میں بھی اسلام اس لیے سائنس کا قالب اوڑھ لیتا ہے کہ اقبال کے نزدیک اسلام کے معتقدات بھی ایک خاص چیز کے تعارفی اوصاف و خواص پر مبنی ہیں۔ اب ہر نیا انکشاف اسلام کی سائنس کا عنصر بنتا چلا جائے گا۔ اب اسلامی افکار کی تشکیل کے لیے تصوف کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ اقبال خود لکھتے ہیں: ’’ اب اسلام قرون وسطیٰ کے اس تصوف کی تجدید کو روا نہ رکھے گا جس نے اس کے پیروؤں کے صحیح رحجانات کو کچل کر ایک مبہم تفکر کی طرف اس کا رخ پھیر دیا تھا۔ اس تصوف نے گذشتہ چند صدیوں میں مسلمانوں کے بہترین دماغوں کو اپنے اندر جذب کر کے سلطنت کو معمولی آدمیوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا۔ جدید اسلام اس تجربہ کو دہرا نہیں سکتا۔ اسلام جدید تفکر اور تجربہ کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی یا پیغمبر بھی اس کو قرون وسطیٰ کے تصوف کی تاریکیوں کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا ہے۔‘‘ 12؎ تفکر کے جس سائنسی رویے کی تعلیم اور انداز قرآن نے دیے تھے، جدید ترین یورپی سائنس دانوں اور فلاسفروں کا مزاج بھی اب اس طرف آ رہا ہے۔ مثلاً برٹرینڈرسل نے بھی ایک بڑی متوازن بات کہی تھی کہ سائنسی نقطہ نظر رکھنے کے لیے لازم ہے کہ ہر حقیقت کو دیکھو، اس پر غور و خوض کرو، نہ سمجھ سکو تو ماہرین سے پوچھو، پھر بھی تفہیم نہ ہو پائے تو اس کے متعلق اپنی رائے معطل رکھو لیکن اس کی طرف سے ذہن بند نہ کرو۔ اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہو جائیں تو اس پر اپنی سوچ کا از سر نو آغاز کرو۔ قرآن کا استخراجی انداز اور پیغمبر اسلام کا ذاتی رویہ بالکل یہی کچھ تھا، مگر پھر سائنس پر ایک ایسا دور بھی آیا جب اس کا رویہ خارجی نہیں، داخلی ہو کر رہ گیا اور اس نے صرف اپنے مطلب کی حقیقتوں کو قابل توجہ سمجھا اور علت و معلول سے آگے کی حقیقتوں سے صرف نظر کیا گیا۔ لیکن اب اس بات کا امکان روشن ہو رہا ہے کہ قرآنی رویے کی مانند سائنس بھی مستقبل کے وجود کو تسلیم کر لے۔ اب سائنس دان اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں جس میں سائنسی محقق کا زاویہ نظر بدل گیا ہے۔ اب سائنس روحانی ایوان میں قدم رکھ چکی ہے۔ پہلے سب کچھ کا سائنسی ذہانت پر مدار تھا، اب محض سائنسی ذہانت ناکافی ہے۔ چنانچہ والف گینگ پولی کہتا ہے: ’’ آج ہم علم کے ایک نئے مفہوم سے آشنا ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تضادات کو ترک کر کے ہم میں ایک نئی سوجھ بوجھ پیدا ہو گی اور ہمارا روحانی وجدان کائنات میں ہم آہنگی پیدا کرے گا، جو اب ایک مسلمہ حقیقت بن کر ابھری ہے۔‘‘ عہد حاضر میں فرانس کے معروف سائنس دان لوئی پاول نے طبیعیات کو مذہب میں ڈھلتے دیکھ کر اپنی ایک رپورٹ میں سائنس کی نئی سمتوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے: ’’ آج سائنس کی کیا کیفیت ہے۔ ایوان سائنس کے ہر اہم رخ پر نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ طبیعیات کا تو یہ عالم ہو گیا ہے کہ بند دیواریں ٹوٹ گئیں اور اس نے ایک کلیسا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایسا کلیسا جس کے چاروں طرف شیشہ لگا ہوا ہے۔ ان شیشوں میں سے ایک دوسرے جہان کی شکل صاف نظر آتی ہے۔ یہ دوسرا جہان ہمارے بہت قریب ہے اس قدر قریب کہ حیرت ہوتی ہے۔‘‘ ’’ اب مادے کی طاقتیں اس حد تک واضح ہو گئی ہیں کہ وہ روح کے ہم پلہ ہو کر کھڑا ہو گیا ہے۔ مادے میں جو توانائی موجود ہے، اس کی کوئی حد نہیں۔ اس میں تغیر و تبدل کے ان گنت امکانات ہیں۔ چاہے کائنات کو دبا دبا کر ذرہ بنا لو، چاہے ذرے کو پھیلا پھیلا کر کائنات میں تبدیل کر دو۔ انیسویں صدی کے دو لفظ بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں Materialist اور Rationalist اب عقل کے اصول نہیں چلتے اب جدید طبیعیات میں کوئی بات بیک وقت سچی بھی ہو سکتی ہے اور جھوٹی بھی۔ اب یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں بات ممکن نہیں۔ جدید سائنس کی روشنی میں واضح طور پر ظاہر ہے کہ ان کی تاریخ ایک خصوصی راستے پر چل رہی ہے۔ انسان کی طاقتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ عام ذہنی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے۔ ایک قوت ہے جو عوام کی سوچ کی اہلیت کو ابھار رہی ہے اور ایک ایسی تہذیب کی طرف لے جا رہی ہے جو تہذیب حاضرہ سے اتنی ہی مختلف ہو گی جس قدر ہم زمانہ جاہلیت سے مختلف ہیں۔‘‘ یوم تبدل الارض غیر الارض (ابراہیم) کی تعبیر کرتے ہوئے اقبال نے بھی کم و بیش یہی بات کہی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا: ’’ ہمیں چاہیے کہ ہم شعور میں ارتقاء کا عمل دخل تسلیم کر لیں جس کا ایک ثبوت حیاتیات کی دنیا سے مل جاتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انسان کا شعور باقی سب انواع حیات کے شعور سے ترقی یافتہ ہے۔ چنانچہ یہ سوال کہ جس روز زمین بدل کر کچھ اور ہو جائے گی اور آسمان بھی، ایک انسان ہی کر سکتا تھا کوئی دوسرا نہ کرتا۔ پھر قطع نظر اس سے کہ کائنات اور جو کچھ اس میں ہے ہم اس کے شعور کے لیے اعضائے حواس کے محتاج ہیں۔ ان حواس میں ذرا سے خلل یا تبدیلی سے شعور بھی بدل جاتا ہے۔ عالم خواب اور بیداری کی طرح ہمارے ذہن کی مختلف کیفیتوں میں بھی ادراک کی دنیا یکساں نہیں رہتی۔ یہ وہ بات ہے جس کی مثالیں عام ہیں اور جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ بہرحال یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ اگر ہمارے ارتقاء کی موجودہ منزل ہمارے شعور کے ارتقاء کی آخری منزل نہیں اور ہمارے لیے ارتقاء کی اور بھی منزلیں ہیں تو ہمارے شعور کے بھی کئی ایک مدارج ارتقاء ہیں جن کا کچھ اندازہ نہیں، شاید بعض مخصوص اور منفرد ہستیوں کو اس زندگی میں بھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ان آیات میں جس تبدیلی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے ہمارا شعور بھی لازماً بدل جائے گا۔‘‘ اقبال کا یہ موقف جس سے سائنس کی نئی سمتیں روشن ہوتی ہیں اور واقعتاً ہو رہی ہیں، اس کا اظہار خطبات میں جگہ جگہ موجود ہے۔ یعنی ہر لحظہ کائنات تغیر پذیر ہے اور ہر لحظہ مشیت ایزدی کی کار فرمائی جاری ہے۔ چنانچہ جیسے ہماری نشاۃ الاولیٰ یا موجودہ زندگی میں شعور کی ایک سطح ہے اور دوسری زندگی یعنی نشاۃ ثانیہ میں جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے ضرور ہمارے شعور کی کوئی دوسری سطح ہو گی۔ بالکل اسی طرح عالم کائنات کی بھی ایک نشاۃ ثانیہ ہے۔ ضرور اسی دوسری نشاۃ میں ارض و سماوات کی صورت کچھ اور ہو گی۔ قرآن کہتا ہے: اولم یروا کیف یبدی اللہ الخلق ثم بعیدہ ان ذلک علی اللہ یسبر۔ قل سیروا فی الارض فانظروا کیف بداء الخلق ثم اللہ ینشی النشاہ الاخرہ (العنکبوت۔ ۱۹۔ ۲۰) ’’ کیا وہ غور نہیں کرتے کہ کس طرح اللہ پہلی بار پیدا کرتا ہے۔ پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرتا ہے۔ یہ اللہ پر آسمان ہے۔ کہو زمین میں چلو پھرو۔ پھر دیکھو کہ کس طرح اس نے پہلی بار پیدا کیا اور اللہ ہی پھر اٹھائے گا۔‘‘ ان آیات میں کائنات کی دوسری نشاۃ کا صاف اعلان ہے اور وہ دن خود ہمارے اندر شعوری تبدیلیوں کا دن ہو گا۔ ایسی تبدیلیاں جن پر قرآن کی سند ہمارے لیے کافی ہے۔ لیکن ان آیات میں سائنسی اعتبار سے مستقبل کا وجود مسلمہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس مستقبل کی حقیقی نوعیت کا اندازہ انسان اپنے ارتقاء کی موجودہ منزل پر نہیں کر سکتا مگر آنے والے مستقبل کے وجود کو قرآن اور جدید ترین سائنس دونوں تسلیم کرتے تھے اور یہ نکتہ بہرحال اقبال نے واضح کیا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں سائنس کی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ یہی تھی کہ وہ ان واضح حقیقتوں سے گریزاں ہو گئے تھے جو عبارت ہیں محسوسات اور مدرکات سے۔ یعنی انسان کے گوناگوں احوال تاریخ اور عالم فطرت ان کے حوادث اور مظاہر سے۔ یہ روش تو قبل از اسلام کے انسان کی روش تھی۔ اسلام نے انسان کی توجہ حقائق کی طرف مبذول کرائی اور حقائق اشیاء کے مطالعے اور مشاہدے پر زور دیا۔ جدید ترین سائنس نے آج اپنے لیے اسی رویے کا انتخاب کیا ہے۔ ایک موقع پر اقبال نے کہا تھا: ’’ کائنات کیا ہے؟ بظاہر ایک مادی وجود مگر جو ممکن ہے اپنی کنہ میں روح ہو۔ جدید سائنس کے نظریات اس باب میں بڑے معنی خیز ہیں۔ ہیگل نے کیا کہا تھا کہ حقیقت مطلقہ دراصل ایک ذہن ہے۔ سائنس کو البتہ اس ذہن کے منفرد اور سزا وار عبادت ہونے سے انکار ہے۔ مطلب یہ کہ کائنات کا ذہن ہونا ازروئے سائنس محال نہیں پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ذہن انفرادی ہو۔‘‘ ایک طرح سے اقبال اپنے استاد Mactaggert کے اس قول سے متفق تھے کہ در حقیقت مادے کو مادہ کہنا ہی غلط ہے۔ یوں بھی جدید سائنس کو مادیت پر اصرار نہیں رہا جیسے پچھلے دنوں میں کبھی ہوا کرتا تھا۔ اب سائنس کے مباحث میں مادہ، مادی اجسام اور Atom وغیرہ کو علامتوں کی حیثیت حاصل ہے اور یہ وہی کچھ ہیں جنہیں قرآن نے اسماء کے لفظ سے یاد کیا ہے اور یہ اپنی ذات میں کوئی مستقل چیزیں نہیں ہیں۔ سائنس کو عالم طبعی کے کردار سے بحث رہی ہے۔ سائنس کا مقصد بھی کائنات کا مخصوص نقطہ نظر سے مطالعہ ہے لیکن اب سائنس اس ایک نقطہ نظر کے علاوہ دوسرے نقطہ ہائے نظر کی طرف بھی آ رہی ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’ جواہر یا وہ ترکیب جو عبارت ہے وجود انسانی سے کیا ایک دفعہ بکھر کر علیٰ حالہ پھر بھی قائم ہو سکتی ہے؟ سائنس کا جواب اس سلسلے میں اگر مثبت نہیں تو منفی بھی نہیں ہے۔ اس کے امکان سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن پاک نے اس حقیقت کو مختلف مثالوں سے سمجھایا ہے۔ مثلاً زمین کا مردہ ہو کر پھر روئیدگی حاصل کرنا۔ حیاتیاتی اعتبار سے تو ہم یہی کہیں گے کہ خلق اول کا عمل بطن مادر میں رونماہوتا ہے۔ آگے چل کر امر عالم کائنات اس کا جولاں گاہ بنتا ہے۔ پھر اس کے لیے موت ہے ایک گوشہ زمین اور جسم کا زوال و انتشار لیکن اس کے باوجود اس کی وحدت قائم رہتی ہے۔ لہٰذا وہ پھر زندگی حاصل کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر بطن مادر کی طرح بطن مرقد میں بھی ایک عمل رونما ہوتا ہے اور یہی عمل ہے جس کی تکمیل پر اسے ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ وہ گویا بطن مادر کی طرح بطن مرقد سے باہر قدم رکھتا ہے۔ کذالک الخروج‘‘ یہاں بھی در حقیقت اقبال نے سائنس کے نئے آفاق کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی نشست میں فرمایا: ’’ سائنس کی زبان میں ہم یوں کہیں گے کہ شعور وہ حقیقت ہے جو انسان کے اندر پہلے ہی سے موجود تھی۔ شعور ہی سے گویا ان کا وجود ہے۔ لہٰذا شعور کا تسلسل حیات بعد الموت پر بھی قائم رہتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں آیا ہے کہ قیامت کے روز کافر کہیں گے لو ان لنا کرۃ (البقرۃ) کاش ہمیں ایک بار پھر دنیاوی زندگی مل جائے۔ قرآن چاہتا ہے کہ ایک حقیقت بطور حقیقت ہمارے ذہن میں جا گزیں ہو جائے۔‘‘ اور یہی خالص سائنسی حقیقت ہے جس پر مستقبل کی سائنس کا مدار ہے۔ خطبات میں اقبال کا ایک قول ہے: ’’ حقیقت کائنات کوئی ایسی قوت حیات نہیں جو کسی نصب العین سے بے نیاز ہو بلکہ اس کی فطرت سرا سر نصب العین کی جستجو ہے۔‘‘ انیسویں صدی تک کے سائنس دانوں کا یہی عقیدہ تھا کہ مادے کا اپنا ایک خارجی وجود ہے جس کا کسی دوسری چیز پر کوئی مدار نہیں، لیکن اب یہ عقیدہ کم و بیش تبدیل ہو چکا ہے۔ اقبال نے خطبات میں برسوں پہلے اس بارے میں اپنا واضح اور منفرد موقف پیش کر دیا تھا انہوں نے کہا تھا: ’’ طبیعیات ایک تجرباتی علم ہے جو ہمارے حسی تجربات سے بحث کرتا ہے۔ ماہر طبیعیات کی تحقیق و تجسس کا آغاز و انجام محسوس مظاہر قدرت سے تعلق رکھتا ہے جس کے بغیر وہ اپنے دریافت کردہ حقائق کی صداقت کا امتحان نہیں کر سکتا۔ یہ صحیح ہے کہ وہ غیر مرئی اشیاء کو بھی اپنے مفروضات میں داخل کرتا ہے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے بغیر وہ اپنے حسی تجربات کی تشریح نہیں کر سکتا۔ گویا طبیعیات کا علم فقط مادی دنیا کا مطالعہ ہے جسے ہم اپنے حواس کی مدد سے جان سکتے ہیں۔ یہ مطالعہ جن ذہنی اعمال و افعال پر یا جن روحانی یا جمالیاتی احساسات و تجربات پر موقوف ہے، اگرچہ وہ سب مل کر ہمارے تجربہ کی پوری وسعت کا ایک عنصر ہیں تاہم وہ طبیعیات کے دائرہ تحقیق سے خارج تصور کیے جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ظاہر ہے کہ طبیعیات کا مطالعہ مادی کائنات تک یعنی کائنات کے اس حصے تک جس کا مشاہدہ ہم اپنے حواس سے کرتے ہیں، محدود ہے۔ لیکن جب میں آپ سے پوچھوں کہ آپ مادی دنیا میں کون سی چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ اپنے ارد گرد کی معروف اشیاء کا ذکر کریں گے۔ مثلاً زمین، آسمان، پہاڑ، کرسیاں، میز وغیرہ۔ جب میں آپ سے مزید سوال کروں کہ ان اشیاء میں سے آپ خاص کر کس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں تو آپ کا جواب فوراً یہ ہو گا کہ ان صفات و خصوصیات کا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ہم اپنے حواس کی شہادت کی حقیقت کا ایک تصور قائم کرتے ہیں۔ اس تصور کا حاصل یہ ہے کہ اشیاء اور ان کے اوصاف اگر ایک چیز میں ہیں تو یہ دراصل حقیقت مادہ کا ایک نظریہ ہے، یعنی محسوسات کی حقیقت اور ادراک کرنے والے شعور کے ساتھ ان کا تعلق اور ان کے بنیادی اسباب کا نظریہ مختصر پر یہ نظریہ حسب ذیل ہے: محسوسات (رنگ و آواز) ادراک کرنے والے ذہن کی حالتیں ہیں۔ لہٰذا اگر قدرت کو خارج میں وجود رکھنے والی کوئی چیز قرار دیا جائے تو یہ قدرت کے دائرے میں نہیں آتیں۔ اس بناء پر وہ کسی معقول معنوں میں مادی اشیاء کی صفات نہیں ہو سکتیں۔ جب میں یہ کہوں کہ آسمان نیلا ہے تو میرا مطلب اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا کہ آسمان میرے ذہن میں نیلاہٹ کا ایک احساس پیدا کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ نیلاہٹ ایک صفت ہے جو آسمان میں پائی جاتی ہے۔ ذہنی حالتوں کی حیثیت سے وہ تاثرات ہیں یعنی کچھ ایسے نتائج جو ہماری ذات میں نمودار ہوتے ہیں۔ ان نتائج کا سبب مادی ہے یا مادی چیزیں ہیں جو ہمارے حسی اعصاب اور دماغ کے ذریعہ سے ہمارے شعور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ مادی سبب چھونے یا ٹکرانے سے عمل کرتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس میں صورت، حجم، ٹھوس پن اور مزاحمت کی صفات موجود ہوں۔‘‘ ’’ پہلا شخص جس نے اس نظریہ کی تردید کا کام اپنے ذمہ لیا کہ مادہ ہمارے حسی تجربات کا ایک نا معلوم سبب ہے برکلے (Berkely) تھا۔ ہمارے زمانہ میں وائٹ ہیڈ نے جو کہ ایک ممتاز ماہر ریاضیات اور سائنس دان ہے، قطعی طور پر ثابت کر دیا ہے کہ مادیت کا مروج نظریہ بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اس نظریے کی مدد سے رنگ و آواز لفظ ذہنی حالتیں ہیں اور قدرت کا کوئی جزو نہیں۔ آنکھ یا کان میں جو چیز داخل ہوتی ہے وہ رنگ یا آواز نہیں بلکہ Ether کی نا قابل دید امواج یا ہوا کی ناقابل شنید لہریں ہیں۔ قدرت وہ انہیں جو ہم اسے سمجھتے ہیں۔ ہمارے ادراکات سراب کی طرح ہیں اور یہ کہنا ممکن نہیں کہ وہ قدرت کی صحیح بے نقابی کرتے ہیں۔ قدرت خود اس نظریے کے مطابق دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک ہمارے ذہنی تاثرات اور دوسرے وہ خارجی، نا قابل فہم اور نا قابل امتحان موجودات جو ان تاثرات کو پیدا کرتے ہیں۔ اگر طبیعیات واقعی مدرک اور معلوم اشیاء کا کوئی مربوط اور صحیح علم ہے تو مادہ کا مروج نظریہ ترک کر دینا ضروری ہے اور اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ یہ ہمارے حواس کی شہادتوں کو جن پر ایک ماہر طبیعیات، جو تجربات و مشاہدات سے سروکار رکھتا ہے، کلی انحصار کرنے پر مجبور ہے، مشاہدہ کرنے والے کے ذہنی تاثرات سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا۔ یہ نظریہ قدرت اور قدرت کا مشاہدہ کرنے والے کے درمیان ایسی خلیج حائل کر دیتا ہے جسے پاٹنے کے لیے اسے اس مشکوک مفروضہ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی نامعلوم چیز ہے جو گویا فضائے بسیط کے ایک برتن میں پڑی ہے اور کسی خاص قسم کے ٹکراؤ کے نتیجے کے طور پر ہمارے احساسات کو پیدا کرتی رہتی ہے۔ پروفیسر وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں یہ نظریہ قدرت کے ایک حصہ کو محض ایک خواب اور دوسرے حصہ کو محض ایک اٹکل بنا کر رکھ دیتا ہے۔ اس طرح سے طبیعیات اپنی بنیاد پر تنقید کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بالآخر اس بات کی معقول وجہ پاتی ہے کہ اپنے ہی تراشے ہوئے بت کو آپ ہی توڑ ڈالے۔ اس طرح سے تجرباتی نقطہ نظر جو شروع میں گویا حکمیاتی مادیات کو ضروری قرار دے رہا تھا، آخر کار مادہ کے خلاف بغاوت پر ختم ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ کہ چونکہ اشیاء ایسی ذہنی حالتیں نہیں جو کسی نامعلوم چیز سے، جسے ہم مادہ کا مقام دیتے ہیں، پیدا ہو رہی ہیں لہٰذا مادہ سچ مچ کے مظاہر قدرت ہیں جو قدرت کی حقیقت ہیں اور جن کو ہم بالکل اسی طرح سے جانتے ہیں جیسا کہ وہ فی الواقع قدرت کے اندر موجود ہیں۔‘‘ ایک سائنس دان ڈاکٹر جوڈ (Joad) نے بھی یہی فیصلہ دیا ہے کہ: ’’ جدید مادہ ایسی بے حقیقت چیز ہے جو ہاتھ نہیں آ سکتی۔ یہ فاصلہ اور وقت کے مرکب کا ایک ابھار، برقی رو کا ایک جال یا امکان کی ایک لہر ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے کے اندر کھو جاتی ہے۔ اکثر اوقات اسے مادہ کی بجائے دیکھنے والے کے شعور کا ہی ایک پھیلاؤ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ اقبال اس بات پر پھر آئن سٹائن ہی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ لیکن مادہ کے تصور کو جس شخص نے سب سے بڑی ضرب لگائی ہے وہ ایک اور ممتاز ماہر طبیعیات حکیم آئن سٹائن (Einstien) ہے جس کے انکشافات نے نوع بشر کی علمی دنیا کے اندر ایک دور رس انقلاب کی داغ بیل ڈالی ہے۔‘‘ رسل (Russel) کہتا ہے: ’’ نظریہ اضافیت نے وقت کو فاصلہ میں مدغم کر کے مادہ کے قدیم تصور کو فلسفیوں کے خام دلائل سے بڑھ کر شکستہ کیا ہے۔ عقل عامہ کے نقطہ نظر سے مادہ ایک ایسی چیز ہے جو مرور وقت سے نہیں بدلتا اور فضا میں حرکت کرتا ہے، لیکن اضافیت کی جدید طبیعیات کی رو سے یہ نظریہ بے بنیاد ہو گیا ہے اب مادہ کا کوئی جزو ایک ایسی قائم بالذات شے نہیں جس کی فقط حالتیں بدلتی رہیں بلکہ وہ ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے متعدد واقعات کا ایک نظام ہے۔ مادہ کا وہ پرانا ٹھوس پن جاتا رہا ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام خاصیات بھی جاتی رہی ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک فلسفی کو گریز پا خیالات سے زیادہ حقیقی نظر آتا تھا۔‘‘ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے تصور کائنات میں ایک انقلاب پیدا کر دیا تھا۔ اس سے علت ومعلول کے رشتے ٹوٹنے لگے تھے اور قانون تعلیل کی صحت مشتبہ ہو گئی تھی۔ آئن سٹائن نے زمانے کو مرور نہیں بلکہ مکان کا چوتھا بعد کہا ہے۔ اس سے علت و معلول کا تصور ہی غلط ہو جاتا ہے۔ قانون تعلیل سابقہ صدیوں کی سائنس کے میکانکی طریق کی بنیاد تھا۔ اقبال کے زمانے میں آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت اور پلانک کے نظریہ مقادیر برقی نے اس کی بنیادیں ادھیڑ کر رکھ دیں۔ ان نظریات کا حاصل یہ تھا کہ واقعات توانائی کے تغیر پر مبنی ہیں اور توانائی میں تبدیلی مسلسل نہیں بلکہ غیر مسلسل ہوتی ہے۔ ان نظریات نے مادہ اور توانائی کو ایک ہی ثابت کر دیا۔ اقبال نے بھی انہی انکشافات کی فلسفیانہ قدر و قیمت متعین کی اور لکھا: ’’ فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس نظریہ کی دو خوبیاں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ نظریہ اضافیت نے اس خیال کی نفی کی ہے جس کی رو سے کلاسیکی طبیعیات کو مادے کا قائل ہونا پڑا تھا اور جس کے تحت جوہر کی حیثیت وقوع فی المکان سے زیادہ نہیں رہتی۔ آئن سٹائن نے فطرت کے خارجی وجود سے انکار پیش کیا۔ اسی وجہ سے جدید طبیعیات میں جوہر کی حیثیت یہ ہوئی کہ یہ مربوط حوادث کا ایک نظام ہے شے نہیں کہ انہی متغیر حالتوں کے ساتھ زمانے میں مرور کرے۔ اس نظریے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کی رو سے مکان کا انحصار مادے پر ہے لہٰذا آئن سٹائن کے نقطہ نظر سے کائنات کا یہ تصور درست نہیں کہ اس کی مثال ایک جزیرے کی ہے جو لامتناہی مکان میں واقع ہے، اس لیے کہ مکان بجائے خود لامتناہی ہے۔ گو غیر محدود دنیا میں اس کے ماوراء مکان محض کا کوئی وجود ہی نہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اگر مادہ نہ ہوتا تو کائنات لوٹ کر ایک نقطہ پر آ جاتی۔‘‘ اقبال نے آئن سٹائن کے انکشافات کو سراہا بھی ہے مگر بعض امور میں اختلاف کا اظہار بھی خالص سائنسی زبان میں کر دیا ہے۔ اقبال حقیقت زماں کے قائل تھے اور باب میں وہ برگساں کے تصور زماں سے اتفاق رکھتے تھے۔ آئن سٹائن ایک طرح سے مکان کو زمان پر ترجیح دیتا ہے اور بظاہر زمان کا ابطال کرتا ہے جبکہ اقبال کے نزدیک حقیقت مطلقہ کا لازمی جزو ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت سے ایک زبردست مشکل رونما ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر اس کا نظریہ صحیح تسلیم کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زمانے کا وجود بھی غیر حقیقی ہے۔ کیونکہ جس نظریہ کی رو سے زمانے کی حیثیت بعد رابع سے زیادہ نہیں اس سے یہ ماننا ضروری ہو گا کہ ماضی کی مثل استقبال کا وجود پہلے سے قائم ہے لہٰذا متعین ہے۔ پس زمانہ کوئی آزاد تخلیقی حرکت نہیں، وہ مرور نہیں کرتا، نہ حوادث رونما ہوتے ہیں۔ ہم ان سے صرف دو چار ہوتے ہیں۔‘‘ اسی باعث اقبال نے برگساں کے زمان، جسے آگے چل کر اس نے استدام کا نام دیا ہے، زمان کی اہمیت کا زیادہ بہتر اظہار ہے لیکن اقبال برگساں کے اس تصور کو تسلیم نہیں کرتے کہ کائنات کی کوئی غرض و غایت نہیں۔ وہ زمانے اور کائنات ہر دو کا اثبات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’ قدرت خالص مادیت کا ایک ڈھیر نہیں جو کسی خلاء میں پڑا ہوا ہو۔ یہ واقعات کی ایک تعمیر ہے اور کردار کی منظم صورت ہے اور اس لحاظ سے وجود مطلق کے ساتھ ایک عضویاتی تعلق رکھتی ہے۔ قدرت خدا کی شخصیت کے ساتھ وہی تعلق رکھتی ہے جو کردار انسانی شخصیت کے ساتھ رکھتا ہے۔ قرآن کے خوبصورت الفاظ میں یہ اللہ کی عادت ہے (سنہ اللہ) انسانی نقطہ نظر سے یہ وجود مطلق کی تخلیقی فعلیت کی ایک توجیہہ ہے جو ہم اپنے موجودہ حالات میں اس پہ عائد کرتے ہیں۔ قدرت کا علم خدا کے کردار کا علم ہے۔ جب ہم قدرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہم دراصل خودی مطلق سے ایک طرح کی واقفیت پیدا کر رہے ہوتے ہیں اور یہ قدرت ہی کی ایک شکل ہے۔‘‘ اب تو ڈاکٹر جوڈ، پروفیسر پلازک اور سر آلیور لاج نے کھل کر مادے کو شعور کا نتیجہ اور شعور کو ایک ایسی بنیادی حقیقت ماننا شروع کر دیا ہے جو کائنات پر حکمران ہے۔ اقبال نے کائنات اور اس کی تخلیق اور اس میں انسانی ارتقاء پر بھی سائنسی انداز فکر میں بات کی ہے اور یہاں بھی ان کا استدلال قرآن کے منہاج سے گریز نہیں کرتا۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ یہ کائنات چھ دنوں میں وجود میں آئی اور یہ کہا کہ ایک ایسا دن جس کی طوالت تمہارے حسابات کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہوتی ہے۔ اقبال نے خطبات میں کہا: ’’ اگر ہم اس حرکت کا جس کا نام تخلیق ہے، خارج سے مشاہدہ کریں، دوسرے الفاظ میں اگر ہم اسے ذہنی طور پر سمجھیں تو یہ ایک ایسا عمل ہے جو ہزاروں سال کی مدت میں پھیلا ہوا ہے کیونکہ قرآن کی مصطلحات کے مطابق اور تورات کی مصطلحات کے مطابق بھی خدا کا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ لیکن ایک اور نقطہ نظر سے یہ ہزاروں سال کا عمل تخلیق ایک واحد ناقابل تقسیم فعل ہے جو ایسا سریع الحرکت ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا۔ پھر اس کائنات میں زمین بنتی ہے اور انسان کی تخلیق ہوتی ہے اور اسے علم اسماء یا جوہر خودی کی پہچان کا سلیقہ عطا ہوتا ہے اور یہ تاریخ کائنات کا حیرت انگیز اور عظیم الشان لمحہ ہے۔ اگر کائنات اور انسان کے ارتقاء پر لاکھوں برس صرف ہوئے ہیں تو اس میں انسان کا وجود بے معنی نہیں ہو سکتا۔ اس کا ارتقاء خود کائنات کے ارتقاء کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔‘‘ اولیکن انسان کے ظہور کے بارے میں اقبال نے جاحظ، ابن مسکویہ اور اخوان الصفاء کی تشریحات کی تصدیق کی ہے جو خالص سائنسی مزاج کی ہیں اور جنہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ جاندار کی زندگی میں نقل مکانی اور ماحول سے تغیر پیدا ہوتا ہے۔ اقبال نے اس تشریح کو قدرتی اور روح قرآن کے مطابق کہا ہے۔ انہوں نے اس پر مفصل بحث کرتے ہوئے خطبات میں کہا: ’’ ریاضیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں ارتقاء کا تصور بھی آہستہ آہستہ تعمیر پاتا رہا ہے۔ جاحظ پہلا شخص ہے جس نے اس بات کی طرف توجہ کی کہ ا یک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کر جانے سے جانوروں کے اندر جسمانی تغیرات رونما ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد ابن مسکویہ نے جو البیرونی کا ہم عصر تھا، اس خیال کو ایک واضح نظریے کی شکل دی اور اپنی مذہبی کتاب ’’ الفوظ الاصغر‘‘ میں اسے پیش کیا۔ میں یہاں اس کے ارتقائی نظریہ کا اختصار پیش کرتا ہوں۔ اس کی علمی حیثیت کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لیے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی فکر کس سمت حرکت کناں رہی۔ ابن مسکویہ کا خیال ہے کہ ارتقاء کا سب سے نچلے درجے میں پودوں کو پیدا ہونے اور نشوونما پانے کے لیے کسی بیج کی حاجت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ نوع کو بیج کے ذریعے قائم رکھتے ہیں۔ اس قسم کے پودے جمادات سے صرف اسی لحاظ سے ہی مختلف ہوتے ہیں کہ ان میں کسی قدر حرکت کی قوت ہوتی ہے جو بلند درجہ نباتات میں اور ترقی کر جاتی ہے اور اپنا مزید اظہار اس طرح سے کرتی ہے کہ پودا اپنی شاخیں پھیلا دیتا ہے اور اپنی نوع کو بیج کے ذریعہ سے قائم رکھتا ہے۔ ہر حرکت کی قوت رفتہ رفتہ ترقی کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم ایسے درختوں تک پہنچ جاتے ہیں جن کا تنا اور پتے اور پھل ہوتے ہیں۔ ارتقاء کے ایک بلند درجے پر نباتاتی زندگی کی اشکال اس قسم کی ہوتی ہیں کہ ان کو اپنی نشوونما کے لیے بہتر زمین اور آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ارتقاء کے آخری درجہ میں انگور کی بیل اور کھجور کا درخت آتے ہیں جو گویا حیوانی زندگی کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ کھجور کے درخت میں جنسی امتیاز واضح طور پر نمودار ہو جاتا ہے۔ جڑوں اور ریشوں کے علاوہ اس میں ایک ایسی چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو حیوان کے دماغ کی طرح کام کرتی ہے اور جس کی سلامتی پر کھجور کے درخت کی زندگی کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ نباتاتی زندگی کے ارتقاء کا بلند ترین مقام ہے جس کے بعد حیوانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ حیوانی زندگی کی طرف پہلا قدم زمین میں گڑ جانے سے آزادی ہے جو آزادی حرکت کا پیش خیمہ ہے یہ حیوانی زندگی کا اولین درجہ ہے جس میں چھونے کی حس سب سے پہلے اور دیکھنے کی حس سب سے آخر میں نمودار ہوتی ہے۔ حسوں کے ارتقاء سے حیوان حرکت کی آزادی حاصل کرتا ہے جیسا کہ کیڑوں مکوڑوں، رینگنے والے جانوروں، چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی صورت میں ہوتا ہے۔ چوپایوں کی حیوانی زندگی گھوڑے میں اور پرندوں کی حیوانی زندگی باز میں اپنے کمال پر پہنچتی ہے اور آخر کار بندر میں جو ارتقاء کی سیڑھی پر حضرت انسان سے صرف ایک قدم پیچھے ہے، انسانیت کی سرحدوں تک جا پہنچی ہے۔ بعد کا ارتقاء ایسے حیاتیاتی تغیرات پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے کے طور پر عقلی اور روحانی قوتیں بڑھتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ انسانیت بربریت سے نکل کر تہذیب کے میدان میں قدم رکھ لیتی ہے۔‘‘ اسی طرح اسلامی فکر کے تمام خطوط کائنات کی حرکی یا ارتقائی تصور پر مرتکز ہو جاتے ہیں۔ اس نظریہ کو ابن مسکویہ کے اس تصور سے کہ زندگی ایک ارتقائی حرکت ہے اور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے اور تقویت ملتی ہے۔ اقبال نے قرآن میں بیان کردہ تصور آدم کی تاویل بھی سائنسی منہاج پر کی ہے اور اسے استعاراتی زبان میں، جو الہامی کتب کا مشترکہ خاصہ ہے، ارتقائے انسانی کے باب میں ایک اہم نکتہ بتایا ہے۔ انہوں نے مسلمان مفسرین میں پہلی دفعہ کھل کر یہ بات کہی ہے کہ ہبوط آدم کا قرآنی قصہ اس کرۂ ارض پر انسان کے اولین ظہور سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بقول اقبال: ’’ اس کا مطلب یہ بتانا ہے کہ کس طرح سے انسان ایک ابتدائی حالت سے، جو جبلی خواہشات کے تابع فرمان ہوتی ہے، ترقی کر کے اس حالت میں قدم رکھتا ہے جہاں اسے ایک ایسی آزاد شخصیت کی شعوری ملکیت حاصل ہوتی ہے جو شک اور نافرمانی بھی کرسکتی ہے۔ ہبوط آدم کا مطلب کوئی اخلاقی گراوٹ نہیں بلکہ وہ انسان کا معمولی شعور کی حالت سے گزرنے کے بعد خود شعوری کی اولین جھلک دینا ہے اور پابند قدرت اور مجبور زندگی کے خواب سے بیدار ہونے کے بعد خود اپنی ذات کے اندر افعال اور واقعات کے علل و اسباب کی دھڑکن کو محسوس کرنا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ ارتقائے انسانی کے بارے میں اقبال کا یہ نقطہ نظر ہر چند کہ متجحرات کی دریافت پر مبنی نہیں، نہ اس کے پس منظر میں ڈارون کی تحقیق و تفتیش کار فرما ہے لیکن شعور یا خودی کی فطرت کے ارتقاء کو سائنسی روپ اقبال نے دیا ہے۔ سائنس کو بھی ایک روز اسی کی طرف آنا پڑے گا اور قرآن کے نظریہ ارتقائے انسانی کو قبول کرنا ہو گا کہ انسان اپنے ارتقاء کے ہر مرحلے پر انسان ہی تھا۔ قرآن نے اس ارتقاء کو جنین کی مثال دے کر بہت خوبصورتی سے سمجھایا ہے۔ اقبال نے اپنی سائنسی فکر کے منہاج کو یعنی مطالعہ و مشاہدۂ قدرت کو قرآن ہی کی زبان میں آیات اللہ کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کی ترتیب، تشکیل، تعمیر، وحدت، یکسانیت، مقصدیت، توافق، ریاضیاتی نظم، زندگی کی نمو اور تسلسل اور انسانی شعور کا ارتقائ، ان تمام چیزوں سے آنکھ بند نہیں کی جا سکتی۔ یہ مطالعہ اور مشاہدہ ہی کے لیے کائنات میں موجود ہیں جو سائنس دان کو بے خدا نہیں با خدا بتاتا ہے، بلکہ سچے سائنس دان کی شخصیت کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ ساری باتیں حقیقت مطلقہ کے نشانات ہیں جو انسان کے روبرو جلوہ گر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ: ’’ مطالعہ قدرت کی یہ دعوت اس حقیقت کے تدریجی انکشافات کے ساتھ مل کر قرآن کی تعلیم کے مطابق کائنات اپنی اصل کے اعتبار سے متحرک، غیر محدود اور ترقی پذیر ہے، آخر کار یونانی فلسفہ کے ساتھ مسلمان مفکرین کے تصادم کا باعث ہوئی۔‘‘ اقبال کہتے ہیں، اس فکری تصادم ہی نے اسلامی تہذیب کے علوم کو اپنی حقیقی روح سے آشنا کیا۔ لہٰذا جو شخص خدا کی آیات کا مشاہدہ اور مطالعہ خدا کی آیات سمجھ کر کرتا ہے، دراصل وہی صحیح معنوں میں سائنس دان بھی ہے اور صاحب ایمان بھی۔ ہر چہ مے بینی ز انوار حق است حکمت اشیاء ز اسرار حق است ہر کہ آیات خدا بیند حراست اصل ایں حکمت ز حکم انظر است اقبال کے نزدیک حکمت اشیاء ہی سائنس کا علم ہے اور اسرار حق اسی سے فاش ہوتے ہیں۔ وہ محض تصورات کی پرورش کو بے کار خیال کرتے ہیں کیونکہ کسی بھی حقیقت تک رسائی کا حصول محض تصورات کے بل پر کوئی سنجیدہ اور علمی کوشش نہیں ہے اور اگر ہے تو موثر نہیں وہ کہتے ہیں: ’’ سائنس کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ الیکٹران کا وجود حقیقی ہے یا غیر حقیقی۔ ہو سکتا ہے کہ الیکٹران محض ایک علامت یا قرار داد ہو۔ صرف مذہب ہے جو حقیقت کے متعلق سنجیدہ طور پر بحث کرتا ہے۔ ایک اعلیٰ درجے کی واردات کی حیثیت سے مذہب کا یہ کام ہے کہ وہ فلسفہ الٰہیات کے تصورات کی تصحیح کرے یا کم از کم اس عقل محض کو مشتبہ ثابت کر ے جو اس قسم کے تصورات کی تشکیل کرتی ہے۔ سائنس کے لیے تو یہ ممکن ہے کہ مابعد الطبیعیات کو سرے سے نظر انداز کر دے یا Lange کی طرح اس کو ایک جائز قسم کی شاعری سمجھے یا Nietzche کے بقول اس کو سن رسیدہ لوگوں کا کھولانا بنا دے لیکن ایک مذہبی عالم جو اشیاء کی ترکیب میں اپنا مقام اور مرتبہ تلاش کر رہا ہو، اس بات پر قانع نہیں ہو سکتا کہ صرف اشیاء کے طرز عمل سے واقفیت حاصل کرے۔ جہاں تک حقیقت مطلقہ کی ماہیت کا تعلق ہے، سائنس کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس کے برعکس چونکہ خودی بذات خود زندگی اور اس کے واردات یعنی مشاہدات اور تجربوں کے حصول اور جذب و اکتساب کا ایک مرکز ہے۔ اس کی ہستی کا دار و مدار ہی اس پر ہے۔‘‘ در حقیقت سائنس نے زندگی کو وحدت کے اعتبار سے اپنے دائرہ کار میں نہیں رکھا بلکہ اس کو مختلف حصوں جیسے مادہ زندگی اورر ذہن میں تقسیم کر دیا ہے۔ یوں سائنسی علوم طبعی، نفسیاتی اور حیاتیاتی علوم کے بڑے بڑے تین گروہوں میں بٹ گئے ہیں چنانچہ ہر شاخ صرف ایک حصے کو اپنا موضوع بنا سکتی ہے۔ مذہب بہرحال زندگی کو ایک پوری اور مکمل وحدت کے طور پر لیتا ہے۔ اس بات کو اقبال نے محسوس کیا اور پھر اس کی بڑی مناسب توجیح پیش کرتے ہوئے کہا: ’’ اس میں شک نہیں کہ سائنس کے نظریوں کی بدولت ہمیں قابل اعتماد علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ ہم اس کی توثیق کر سکتے ہیں اور ان نظریوں کی مدد سے واقعات کی پیش گوئی اور قوائے فطرت پر تصرف حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہ کرنا چاہیے کہ جس چیز کو سائنس کہا جاتا ہے وہ حقیقت کا کوئی واحد اور منظم تصور پیش نہیں کرتی۔ اس کے یہاں کچھ ہے تو حقیقت کے جزوی تصورات ہیں جن کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں۔ یوں تو سائنس کا موضوع مادہ بھی ہے اور حیات نفس بھی، لیکن جہاں آپ نے یہ سوال کیا کہ مادہ، حیات اور نفس کا باہمی تعلق کیا ہے، آپ پر یہ بات آشکار ہو جائے گی کہ ان سے جن علوم میں بحث کی جاتی ہے ان کی حیثیت محض ٹکڑوں کی ہے لہٰذا وہ اس قابل ہی نہیں کہ اس سوال کا کوئی مکمل یا شافی جواب دے سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مختلف علوم فطری کی مثال ان زاغ و زغن کی سی ہے جو فطرت کے مردہ جسم پر جھپٹتے ہیں اور ان میں ہر ایک اس کے جسم کا ایک ٹکڑا نوچ لے جاتا ہے۔ سائنس کا موضوع بحث ہونے کی حیثیت سے فطرت کا وجود دراصل ایک مصنوعی چیز ہے جس پر یہ مصنوعی کیفیت اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ سائنس اس کے ایک چھوٹے سے حصے کا انتخاب کرتی ہے تاکہ پوری صحت کے ساتھ اس کا مطالعہ کر سکے۔ جونہی ہم سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے زیر اثر ملاحظہ کریں تو اس کی نوعیت یک لخت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن مذہب چونکہ حقیقت کلی کا طلب گار ہے اور اس لیے ان معیشات کی شیرازہ بندی میں، جو انسانی تجربوں اور مشاہدوں نے بہم پہنچائے ہیں، ایک مرکزی مقام حاصل کرتا ہے اس لیے مذہب کو حقیقت کے جزوی نظریوں سے کوئی خوف نہیں ہو سکتا۔ علوم نظری کی امتیازی خاصیت ہی یہ ہے کہ وہ جزوی ہوں، اس لیے کہ بہ اعتبار اپنی ماہیت اور اپنے فعل کے ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ حقیقت کا کوئی واحد اور مکمل نظریہ قائم کر کے۔ یہی وجہ ہے کہ علم و حکمت کی تدوین میں ہم جن تصورات سے کام لیتے ہیں وہ جزوی ہوتے ہیں او ران کا اطلاق حقیقت کے مختلف مدارج کے لحاظ سے اضافی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر علت ہی کا تصور لیجئے جو ایک اضافی تصور ہے اور جس کا تعلق صرف ان اعمال سے ہے جن کا مطالعہ علم طبیعیات میں کیا جاتا ہے، مگر جن میں وہ اعمال شامل نہیں ہیں جو دوسرے علوم کا موضوع بحث ہیں۔ لیکن جہاں آپ نے حیات اور شعور کی دنیا میں قدم رکھا اس شعور کی نوعیت ہی بدل جائے گی اور آپ بعض ایسے تصورات کی ضرورت محسوس کریں گے جن کا تعلق فکر کے ایک جداگانہ نظام سے ہو گا۔‘‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس سے اقبال نے فطرت کے سائنسی مشاہدے کی نفی کر دی ہے یا اس کی سعی و کوشش پر شک کا اظہار کیا ہے ایسا ہرگز نہیں کیونکہ سائنس کے منہاج کو بھی وہ حقیقت مطلقہ کی طرف جانے والی شاہراہ ہی کی ایک شاخ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’ فطرت کا سائنسی مشاہدہ ہمیں حقیقت مطلقہ کے طرز عمل سے قریب تر رکھتا ہے اور میں زیادہ گہری بصیرت کے لیے ہمارا اندرونی ادراک تیز تر کر دیتا ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں: ’’ اگر بصیرت کے ساتھ طاقت نہ ہو تو اس سے اخلاق و عادات میں سربلندی تو پیدا ہو گی لیکن اس سے کسی پائیدار تمدن کی بنیاد نہیں پڑے گی۔ اسی طرح اگر طاقت اور قوت بصیرت سے محروم ہیں تو اس کا نتیجہ بجز ہلاکت اور تباہی کے کچھ نہیں ہو گا۔ دونوں کا امتزاج ضروری ہے تاکہ عالم انسانی روحانی اعتبار سے آگے بڑھ سکے۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ جدید سائنس نے آج کے انسان پر عجیب و غریب ذمہ داریاں عائد کر دی ہیں۔ ایسے میں وہ زندگی کے میدان میں حیران اور ششدر کھڑا نظر آتا ہے چنانچہ اس صورت حال میں مذہب کی اہمیت خود سائنس کی بقاء کے لیے اور بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ جس مایوسی اور دل گرفتگی میں آج کل دنیا گرفتار ہے اور جس کے زیر اثر انسانی تہذیب کو ایک زبردست خطرہ لاحق ہے، اس کا علاج نہ تو عہد وسطیٰ کی صوفیانہ تحریک سے ہو سکتا ہے اور نہ جدید زمانے کی وطنیت اور لادینی اشتراکی تحریکوں سے اس وقت دنیا کو حیات نو کی ضرورت ہے۔ اگر عصر حاضر کا انسان دوبارہ وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھائے گا جو جدید سائنس نے اس پر ڈال رکھی ہے تو صرف مذہب کی بدولت صرف اسی طرح اس کے اندر ایمان یقین کی اس کیفیت کا احیاء ہو گا جس کی بدولت وہ اس زندگی میں ایک انفرادیت پیدا کرتے ہوئے آگے چل کر بھی اسے محفوظ اور برقرار رکھ سکے گا۔‘‘ اقبال کو اس بات کا پورا پورا احساس تھا کہ آج اگر مسلمان سائنسی علوم سے بے پروا ہو رہے ہیں تو یہ سب اس لیے کہ وہ اس ذوق مشاہدہ و تجربہ کو کھو چکے ہیں جو قرآن نے انہیں عطا کی تھا ۔ ۱۹ مارچ ۱۹۳۸ ء کی گھریلو نشست میں فرمایا: ’’ عالم اسلام میں تجربہ و تحقیق کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ نہ استعجاب علم ہے نہ علم کے لیے کوئی سعی و کاوش یورپ کی حالت اس سے کسی قدر مختلف ہے۔ وہاں تحقیق ہے، تجربہ ہے، علم سے دلی شغف ہے، شب و روز محنت ہے، شب و روز انہماک ہے، حالانکہ ایک زمانے میں وہاں تجربہ و تحقیق تو درکنار، علم کا نام لینا بھی گناہ میں داخل تھا۔‘‘ ’’ طب کی ترقی بھی اسی لیے رک گئی کہ مسلمانوں نے علم و حکمت سے کنارہ کشی کر لی۔ تجربے اور مشاہدے سے منہ موڑ لیا۔ تحقیق و تفتیش کا سلسلہ ختم ہوا جو کچھ اسلاف چھوڑ گئے تھے اس پر قناعت کر لی۔ دوسروں کی رائے اور سمجھ پر بھروسا کرنے لگے طب کی ترقی سب سے رک چکی ہے۔‘‘ آج مسلمانوں میں علمی تجسس کا فقدان ہے۔ عالم اسلام کا ذہنی انحطاط حد درجہ اندوہناک ہے۔ مسلمانوں میں علمی روح باقی ہے نہ علم و حکمت سے کوئی دلی شغف۔ تھوڑی بہت بیداری جو نئی تعلیم اور مغرب کے زیر اثر پیدا ہوئی، اس کا نتیجہ بھی یہ ہوا کہ علم و حکمت کے بارے میں ان کے ذہن نے کوئی اچھا تاثر قبول نہیں کیا وہ علم و حکمت کی صحیح روح کو سمجھتے ہیں نہ اس کے ماضی کے عہد بعہد ارتقائ، انقلابات اور تغیرات کو نہ اس میں قوموں کے حصے اور ان کے نقطہ نظر کو اگر کچھ ہے تو تقلید یا پھر یورپ سے چند ایک مستعار لیے ہوئے خیالات کا اعادہ۔ ۲۱ مارچ کی نشست میں مزید فرمایا: ’’ دراصل اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ نئے تجربات کے ساتھ ساتھ پرانے تجربات کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ نظری علوم میں تو ایسا کم ہوتا ہے لیکن ان علوم کے عملی اطلاق میں یا جب ان کی بناء پر کسی فن کی تشکیل ہوتی ہے تو یہ غلطی اکثر سر زد ہو جاتی ہے، مثلاً طب میں کہ اہل یورپ نے اگرچہ یہ فن مسلمانوں سے سیکھا اس کی علمی اور فنی اسابیات کے لیے وہ مسلمانوں کے مرہون منت ہیں لیکن اپنی علمی ترقیات، اجتہادات اور اکتشافات کے زعم میں وہ اپنے پیشروؤں کے سرمایہ معلومات کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ انداز بڑا غلط ہے۔‘‘ ’’ دوا سازی اور غذا کے بارے میں تو اس انداز نے حد درجہ تعصب کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اگر اس کا نام علم ہے تو یہ علم نہیں ہے۔ انہیں مسلمانوں سے سبق لینا چاہیے۔ انہوں نے قدما کی خدمات کو کبھی اس رنگ میں نہیں دیکھا جیسے اہل یورپ مسلمان اطباء کی خدمات کو دیکھتے ہیں اور خواہ مخواہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے ان کی حیثیت صرف متبعین کی تھی۔ وہ ایک طرح سے صرف بقراط اور جالینوس وغیرہم کی معلومات کے بھروسے زندہ تھے اور ان کے اپنے کوئی اجتہادات ہیں نہ اکتشافات۔‘‘ ’’ علم ترقی تو کرتا ہے مگر جزواً جزواً۔ اس میں کئی ناہمواریاں باقی رہ جاتی ہیں، لہٰذا اس طرح جو نتائج مرتب ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ تمام و کمال قابل قبول ہوں ۔ ضروری نہیں کہ ان کی بناء پر پچھلے سب نتائج کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ نقطہ سمجھنے کا ہے مسلمانوں کے طب کے بہت سے نتائج آج بھی ویسے ہی صحیح ہیں جیسے آج سے صدیوں پہلے صحیح تھے۔ ان کا تعلق دواؤں سے ہے، تشخیص و تدبیر سے ، غذاؤں سے کوشش کیجئے یہ نتائج محفوظ رہیں۔‘‘ سائنسی منہاج پر تفکر کے اعتبار سے اقبال آج بھی ترقی پسندی کے امام ٹھہرتے ہیں۔ اس باب میں ان کا ایک مخصوص بنیادی نقطہ نظر ہے جو بجا طور پر اسلامی نظریہ حیات کی روح ہے۔ اپنے پانچویں خطبہ ’’ اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں ساری بات ذیل کے الفاظ میں کھول کر بیان کر دی ہے اور یہی فی الاصل اسلام کے حوالے سے ان کی سائنسی فکر کا منہاج ہے: ’’ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے پیغمبر اسلام ؐ کی ذات گرامی کی حیثیت دنیائے قدیم اور جدید کے درمیان ایک واسطہ ہے۔ بہ اعتبار اپنے سرچشموں کے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے لیکن بہ اعتبار اس کی روح کے دنیائے جدید سے یہ آپ ہی کا وجود ہے کہ زندگی پر علم و حکمت کے وہ تازہ سرچشمے منکشف ہوئے جو اس کے آئندہ رخ کے عین مطابق تھے۔ لہٰذا اسلام کا ظہور، جیسا کہ آگے چل کر خاطر خواہ طریق پر ثابت کر دیا جائے گا، استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ اسلام نے خوب سمجھ لیا تھا کہ انسان ہمیشہ سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ذات کی تکمیل ہو گی تو یونہی کہ وہ خود اپنے وسائل سے کام لینا سیکھے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اگر دینی پیشوائی کو تسلیم نہیں کیا یا موروثی بادشاہت کا جائز نہیں رکھا یا بار بار عقل اور تجربے پر زور دیا یا عالم فطرت اور عالم تاریخ کو علم انسانی کا سرچشمہ ٹھہرایا تو اس لیے کہ ان سب کے اندر یہی نکتہ مضمر ہے کیونکہ یہ تصورات خاتمیت ہی کے مختلف پہلو ہیں، لیکن یہاں یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حیات انسانی اب واردات باطن سے جو بہ اعتبار نوعیت انبیاء کے احوال و واردات سے مختلف نہیں، ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکی ہے۔ قرآن مجید نے آفاق و انفس دونوں کو علم کا ذریعہ ٹھہرایا ہے اور اس کا ارشاد ہے کہ آیات الٰہیہ کا ظہور محسوسات و مدرکات میں خواہ ان کا تعلق خارج کی دنیا سے ہو یا داخل کی ہر کہیں ہو رہا ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس کے ہر پہلو کی قدر و قیمت کا کماحقہ، اندازہ کریں اور دیکھیں کہ اس سے حصول علم میں کہاں تک مدد مل سکتی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ تصور خاتمیت سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ زندگی میں اب صرف عقل ہی کا عمل دخل ہے، جذبات کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ بات نہ کبھی ہو سکتی ہے نہ ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ واردات باطن کی کوئی بھی شکل ہو، ہمیں بہرحال حق پہنچتا ہے کہ عقل اور فکر سے کام لیتے ہوئے اس پر آزادی کے ساتھ تنقید کریں۔ اس لیے کہ اگر ہم نے ختم نبوت کو مان لیا تو گویا عقیدتاً یہ بھی تسلیم کر لیا کہ اب کسی شخص کو اس دعوے کا حق نہیں پہنچتا کہ اس کے علم کا تعلق چونکہ کسی مافوق الفطرت سرچشمے سے ہے لہٰذا ہمیں اس کی اطاعت لازم آتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو خاتمیت کا تصور ایک طرح کی نفسیاتی قوت ہے جس سے اس قسم کے دعوؤں کا قلع قمع ہو جاتا ہے اور جس سے مفقود یہ ہے کہ انسان کی باطنی واردات اور احوال کی دنیا میں بھی علم کے نئے نئے باب کھل جائیں۔‘‘ یہ اقتباس اقبال کی فکر نقطہ مرکزیہ ہے یعنی یہ کہ اسلام کے ظہور کا مقصد دراصل یہ تھا کہ مذہبی رہنمائی کا عہد اپنے انجام کو پہنچ کر اب انسان کے اپنی ذات پر اعتمار کا استقرائی عمل سے کام لینے کے عہد کا آغاز ہوتا ہے اور استقرائی عمل ہی گویا تجربہ مشاہدہ اور پھر اس سے استخراج نتائج سے عبارت ہے یہی سائنس طریق و تفکر کا دوسرا نام ہے اور یہی اقبال کا اعلان ہے کہ انسان اب سائنس کے عہد میں زندہ ہے۔ ٭٭٭ حواشی ۱۔ محمد رفیع الدین، حکمت اقبال، لاہور، ص ۲۱۷ ۲۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، صفحات: از، رح ۳۔ محمود نظامی (مرتبہ) ملفوظات اقبال۔ ص ۱۶۲ ۴۔ گفتار اقبال ۵۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) اقبال کے حصور (نشستیں اور گفتگوئیں) جزو اول کراچی۔ جولائی ۱۹۷۱ئ۔ ص ۳۷۴ ۶۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) اقبال کے حضور۔ جزو اول، ص ۶۲، ۶۳ ۷۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ص ۹۸ ۸۔ محمود نظامی (مرتبہ) ملفوظات اقبال۔ ص ۹۸۹۔ ۱۹۰ ۹۔ محمود نظامی (مرتبہ) ملفوظات اقبال۔ ص ۹۹۲۔ ۱۹۳ ۱۰۔ محمود نظامی (مرتبہ) ملفوظات اقبال۔ ص ۶۴ ۱۱۔ محمودنظامی (مرتبہ) ملفوظات اقبال ص ۶۳ ۱۲۔ محمد رفیع الدین، حکمت اقبال۔ ص ۵۲ ۱۳۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) اقبال کے حضور (نشستیں اور گفتگوئیں) جزو اول، صفحہ ۱۶۲ ۱۴۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) اقبال کے حضور (نشستیں اور گفتگوئیں) جزو اول، ص ۱۶۳ ۱۵۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ صفحہ ۴۸، ۴۹ ۱۶۔ محمد رفیع الدین، حکمت اقبال صفحہ ۸۵، ۸۶ ۱۷۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، صفحہ ۵۰،۵۱ ۱۸۔ محمد رفیع الدین، حکمت اقبال۔ صفحہ ۸۶۔ ۸۷ ۱۹۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ صفحہ ۵۱، ۵۲ ۲۰۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ صفحہ ۵۸، ۵۹، ۶۰ ۲۱۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، صفحہ ۶۰ ۲۲۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، صفحہ ۲۰۵، ۲۰۶، ۲۰۷ ۲۳۔ سید نذیر نیازی (مترجم) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، لاہور۔ مئی ۱۹۸۶ء صفحہ ۲۶۷، ۱۲۸ ۲۴۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) اقبال کے حضور۔ صفحہ ۳۷۲۔ ۳۷۳ ۲۵۔ سید نذیر نیازی (مرتبہ) اقبال کے حضور۔ صفحہ ۳۹۲ ۲۶۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، صفحہ ۹۵۔ ۱۹۳ ٭٭٭ اقبال کے نزدیک دعا اور عبادت کا مفہوم تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے تیسرے خطبے میں اقبال نے دو چیزوں کو اپنا موضوع بنایا ہے: ذات الٰہیہ کا تصور اور حقیقت دعا ظاہر ہے کہ دونوں موضوعات لازم و ملزوم ہیں۔ ذات الٰہی کے بارے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ: ’’ تغیر کی اس دنیا میں نور ہی وہ شے ہے جس کو ذات مطلق سے قریب ترین مماثلت حاصل ہے۔‘‘ اور ازروئے طبیعیات جدید ’’ نور کی رفتار میں کوئی اضافہ ممکن نہیں۔‘‘ ’’ اس لیے ناظر کا تعلق خواہ کائنات کے کسی بھی سیارے سے کیوں نہ ہو، اس نور کی یکسانی میں کوئی فرق واقع نہ ہو گا۔‘‘ اس سے بقول اقبال یہ نتیجہ مترتب ہوا کہ ’’ فلسفہ مذہب کی تاریخ میں جس طرز فکر کا اظہار ہوتا ہے، اس کا رحجان بے شک وحدۃ الوجودی ہے لیکن قرآن نے ذات الٰہیہ کو نور سے تعبیر کر کے ذات الٰہی کی مطلقیت کی طرف اشارہ کیا ہے، ہر کہیں موجودگی کی طرف نہیں۔‘‘ اقبال بطور شہادت قرآن کی آیت پیش کرتے ہیں: اللہ نور السموات والارض مثل نورہ کمشکواۃ فیھا مصباح، المصباح فی الزجاجہ والزجاجۃ کانہ کوکب دری (نور۔ ۳۵) ’’ اللہ ( ہی کے نور سے) آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔ اس کے نور کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہے اور وہ چراغ ایک شیشے کی قندیل میں ہے اور وہ قندیل (اس قدر شفاف ہے کہ) گویا وہ موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے۔‘‘ ذہن اس آیت سے بادی النظر میں یہی خیال قبول کرتا ہے کہ ذات الٰہیہ کو انفرادیت سے دور دکھایا گیا ہے اور اس کی ہر کہیں موجودگی کی طرف اشارہ ہے لیکن اقبال نور کے استعارے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس خیال کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں: ’’ اول تو اس استعارے نے نور کو شعلے میں مرکوز کر دیا ہے اور پھر اس کی انفرادیت پر مزید زور اس طرح دیا ہے کہ یہ شعلہ ایک شیشے میں ہے اور شیشہ ستارے کی مانند ہے جس کا ظاہر ایک مخصوص اور متعین وجود ہے۔‘‘ مگر پھر بھی کہتے ہیں کہ ’’ روحانی مراتب کی تعیین میں وسعت اور پہنائی ایک بے حقیقت سی چیز ہے اور ذات الٰہیہ ان معنوں میں مطلق اور انفرادی ہے کہ زمان و مکاں سے بے نیاز ہے، مگر ان معنوں میں ہر کہیں موجود ہے کہ ہمارے زمان و مکاں اس کی ذات کا ایک حصہ ہیں اور بقول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ خدا ہے لہٰذا ذات حقیقی نہ تو مکانی لامتناہیت کے معنوں میں لامتناہی ہے اور نہ ہم انسانوں کی طرح جو مکاناً محدود اور جسماً دوسرے انسانوں سے جدا ہیں، متناہی وہ لامتناہی ہے تو ان معنوں میں کہ اس کی تخلیقی فعالیت کے ممکنات جو اس کے اندرون وجود میں مضمر ہیں لا محدود ہیں اور یہ کائنات جیسا کہ ہمیں اس کا علم ہوتا ہے ان کا جزوی مظہر ’’ گویا‘‘ ذات الٰہیہ کی لامتناہیت اس کی افزونی اور وسعت میں ہے، امتداد اور پہنائی میں نہیں۔ وہ ایک سلسلہ لامتناہیہ پر تو ضرور مشتمل ہے۔ لیکن بجائے خود یہ سلسلہ نہیں۔‘‘ ’’ خدائی کی ابتدا ہے نہ انتہا۔ اس کی آنکھ جملہ مرئیات کو دیکھتی اور اس کے کان تمام آوازوں کو سنتے ہیں مگر ایک واحد اور ناقابل تجزیہ عمل ادراک کی صورت میں زمان و مکان اور مادہ بجائے خود ذات الٰہیہ کی آزادانہ تخلیقی فعالیت کی وہ تعبیریں ہیں جو فکر نے اپنے رنگ میں کی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں کہ اپنے سہارے آپ قائم رہ سکیں۔‘‘ پہلے خطبہ ’’ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ میں انہوں نے یہ نظریہ بھی پیش کیا ہے کہـ: ’’ فطرت یا عالم طبعی ایک گزرتا ہوا لمحہ ہے، حیات الٰہیہ میں اس کا ہونا مستقل بالذات ہے۔ اس کی اپنی سرشت اور وجود میں داخل، سرتاسر مطلق ہے اور اس لیے ناممکن ہے کہ ہم اس کا کوئی کامل و مکمل تصور کر سکیں۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے لیس کمئلہ شئی اس کے باوجود اس نے اسے سمیع و بصیر کہا ہے۔‘‘ اقبال کہتے ہیں: ’’ عالم فطرت مادے کا کوئی ڈھیر نہیں کہ خلا میں پڑا ہو بلکہ حوادث کی ایک ترکیب، ایک باقاعدہ طریق کار اور اس کے لیے حقیقی انا سے نامی طور پر وابستہ ہے لہٰذا فطرت کو ذات الٰہیہ سے وہی نسبت ہے جو سیرت اور کردار کو ذات انسانی سے۔ قرآن مجید نے بھی کس خوبی سے اسے سنت الٰہیہ قرار دیا ہے۔ یوں ہمیں عالم فطرت کے بارے میں کہنا چاہیے کہ یہ حقیقی انا کی تخلیقی فعالیت کی وہ تعبیر ہے جو ہم اپنے ارتقاء کی موجودہ منزل میں انسانی نقطہ نظر سے کرتے ہیں۔ پھر اس پیہم اور ہر لحظہ پیش رس حرکت میں اس کی حیثیت، گوہر لمحے پر متناہی ہو گی لیکن وہ ہستی جس سے اس کو جزو اور کل کا سا تعلق ہے، چونکہ خلاق ہے لہٰذا اس میں اضافہ ممکن ہے اس لیے ہم اسے بھی غیر محدود کہتے ہیں تو ان معنوں میں کہ اس کی وسعت پر کوئی حد قائم نہیں کی جا سکتی۔ یعنی وہ غیر محدود ہے تو بالقوۃ نہ کہ بالفعل اس لیے فطرت کا تصور بھی بطور ایک زندہ اور ہر لحظہ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی وحدت نامیہ کی حیثیت سے کرنا چاہیے جس کے نشوونما پر ہم خارج سے کوئی حد قائم نہیں کر سکتے۔ ا سکی کوئی حد ہے تو داخلی یعنی وہ ذات مشہود جو اس میں جاری و ساری ہے اور جس نے اس کو سہارا دے رکھا ہے۔ قرآن پاک کا ارشاد بھی یہی ہے وان الی ربک المنتہی (نجم: ۴۲) اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو علوم طیبہ میں بھی روحانی اعتبار سے نئے معنی پیدا ہو جاتے ہیں کیونکہ فطرت کا علم سنت اللہ کا علم ہے جس کے مشاہدے میں ہم ذات مطلق ہی سے قرب و اتصال کی سعی کرتے ہیں اور اس لیے یہ بھی گویا عبادت ہی کی دوسری شکل ہے۔‘‘ تیسرے خطبے میں اقبال ایک سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’ ہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور کی خیر کا دامن اس سے، جس کی کائنات میں اتنی فراوانی ہے، کیسے جوڑ سکتے ہیں جبکہ زندگی جیسی امانت کا بار گراں بھی انسان کو سونپا گیا ہو۔‘‘ اقبال قرآن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ انسان ہونا نام ہی اس بات کا ہے کہ ہر قسم کی سختیاں اور مصائب برداشت کیے جائیں۔ والصابرین فی الباساء والصراء و حین الباس (بقرہ۔ ۱۷۷) ’’ تنگی اور بیماری میں اور دوران جنگ برداشت سے کام لینے والے کامل یہی لوگ ہیں۔‘‘ یہ مرحلہ خودی میں استحکام پیدا کرنے سے طے ہوتا ہے اور یہیں پہنچ کر ہمارا یہ ایمان کہ انجام کار غلبہ خیر ہی کو ہو گا ایک مذہبی عقیدے کی شکل اختیار کر لیتا ہے: واللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (یوسف۔ ۲۱) ’’ خدا اپنی بات پوری کرنے پر کامل قدرت رکھتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس حقیقت سے بیگانہ ہے۔‘‘ چنانچہ اس بارے میں اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس حقیقت مطلقہ کے ادراک کی بے شک ایک صورت یہ ہے کہ اپنے حواس سے کام لے کر مظاہر اور موجودات عالم کے مطالعہ اور مشاہدہ کی عادت اپنائی جائے لیکن اس کا دوسرا طریق یہ بھی ہے کہ اس حقیقت سے براہ راست تعلق پیدا کیا جائے جس کا انکشاف ہمارے اندرون ذات میں ہوتا ہے۔ قرآن نے اسی اندرون ذات کے لیے فواد یا دل کا لفظ استعمال کیا ہے جسے قرآن ہی کے ارشاد کے مطابق قوت بینائی بھی حاصل ہے۔ دعا اسی دل کا پیرایہ اظہار ہے۔ دعا کے لیے اصل لفظ جو اقبال نے استعمال کیا وہ Prayer ہے دعا ہی در حقیقت عبادت کا اصل مفہوم رکھتی ہے۔ عبادات خواہش دعا کی مختلف شکلیں ہیں جنہیں Prayers یا عبادات یا نماز بھی کہا جا سکتا ہے۔ قرآن نے بھی عبودیت کے اظہار کی عملی خواہشات کے لیے ایک ہی جامع لفظ صلوۃ انتخاب کیا ہے۔ گویا عبادات اور دعا ایک ہی چیز ہے۔ چنانچہ دعا کی حقیقت کو پانے اور ذات الٰہیہ کے تصور کو واضح کرنے کے لیے اقبال بے شک جدید عصری تقاضوں کے تحت مخصوص فلسفیانہ اصطلاحوں میں گفتگو کرتے ہیں مگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’مذہب کے عزائم فلسفہ سے بلند تر ہیں۔‘‘ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ مذہب کے لیے یہ ممکن نہیں کہ صرف تصورات پر قناعت کر لے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنے مقصود و مطلوب کا زیادہ گہرا علم حاصل کر لے اور اس سے قریب تر ہوتا چلا جائے اور یہ قرب دعا کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔‘‘ قرآن نے دنیا میں انسان کی تخلیق کی غرض عبودیت قرار دی ہے اور صرف اس عبودیت کو کامل قرار دیا ہے جس میں خدائی صفات کا پرتو نظر آئے اور جو اخلاق خداوندی کا مکمل ظہور ہو۔ بے شک انسان کی پیدائش کی غرض و غایت معرفت الٰہی ہے، مگر حصول معرفت الٰہی کا ایک اور بڑا وسیلہ دعا بھی ہے جو انسان اور خدا کے درمیان نہ صرف یہ کہ ایک طرح براہ راست تعلق ہے بلکہ خدا شناسی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اپنے پہلے خطبے ’’ علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں اقبال نے دعا اور عبادت کے مفہوم کو یوں واضح کیا ہے: ’’ ہمیں اپنی ذات اور ہستی کا علم تو بے شک داخلی غور و فکر اور ادراک بالحواس، دونوں ذرائع سے ہوتا ہے لیکن دوسرے اذہان کے مشاہدے کی ہمیں کوئی حس نہیں ملی۔ لہٰذا ہمارے پاس نفس غیر کی موجودگی کی کوئی دلیل ہے تو صرف یہ کہ دوسروں سے بھی کچھ ویسی ہی جسمانی حرکات سر زد ہوں جیسی ہم سے، اور جن کو دیکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کوئی صاحب شعور ہمارے سامنے موجود ہے۔‘‘ اقبال جسے شعور ہستی کہتے ہیں در حقیقت وہی حقیقت مطلقہ ہے جو انسان کی رگ جاں سے قریب تر ہے: ونحن اقرب الیہ من حبل الورید (ق:۱۶) ’’ ہم انسان سے اس کی رگ جاں سے بھی قریب تر ہیں۔‘‘ قرآن مجید خود قبولیت دعا کو خدا کی ہستی کے ثبوت کے لیے بطور دلیل پیش کرتا ہے۔ ان یحیب المضطر اذا دعاہ و یکشف السوء ولجعلکم خلفاء الارض۔ الہ مع اللہ (فیل۔ ۶۲) ’’ بتاؤ خدا کے سوا مضطر کی دعا کون سنتا ہے، جب وہ اس کے حضور دعا کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو کون دور کرتا ہے اور انہیں زمین کا وارث بناتا ہے؟ کیا اس کے سوا بھی کوئی معبود ہے؟‘‘ یہ درست ہے کہ بعض اوقات دعا کے بغیر بھی مشکلات کا ازالہ ہو جاتا ہے اور مسائل حل ہو جاتے ہیں لیکن اس سے دعا کی افادیت کو ضعف نہیں پہنچتا۔ بے شمار بیمار بغیر دوا بھی صحت یاب ہو جاتے ہیں لیکن اس سے دعا کی افادیت کو ضعف نہیں پہنچتا، بے شمار بیمار بغیر دوا بھی صحت یاب ہو جاتے ہیں مگر ا س سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا ہے کہ دوا بے فائدہ ہے البتہ یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ خدا جسے چاہے بغیر دوا کے بھی صحت بخش سکتا ہے۔ تمام دوسرے اعمال کی طرح دعا بھی ایک عمل ہے اس لیے نتیجہ خیز بھی ہے۔ تدبیر کا عمل اور نتیجہ امور قانون فطرت سے متعلق ہے اس لیے انسانی علم و ادراک کے حیطہ میں ہے، مگر دعا کا عمل اور نتیجہ قانون مشیت کے تابع ہے اس لیے انسانی علم و ادراک کے حیطہ سے باہر ہے۔ تاہم اقبال نے اپنی تائید میں مغربی مفکر پروفیسر رائس (Royce) کے اس قول کو پیش کیا ہے جس نے خود اپنے نظریے کی سند قرآن سے تلاش کی ہے: Response is no doubt the best of the presence of a consecious self, and the Quran also takes the same view. اور پھر اپنے نظریے کی بنیاد قرآن کی ان آیات پر رکھی ہے: وقال ربکم ادعونی استجب لکم۔ ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین۔ (المومن: ۶۰) ’’ اور تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو۔ میں تمہاری دعا سنوں گا۔ جو لوگ ہماری عبادت کے معاملہ میں اکڑ سے کام لیتے ہیں وہ ضرور جہنم میں رسوا ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘ واذ سالت عبادی عنی فانی قریب۔ اجیب دعو الداع اذا دعان (بقرہ: ۱۸۶) ’’ اے رسولؐ! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتا کہ میں ان سے قریب تر ہوں، جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں۔‘‘ اقبال کو یقین تھا کہ نفس غیر سے معاملے میں ہمارا مشاہدہ حضوری طور پر ہوتا ہے اور ہمیں کبھی شبہ نہیں ہوتا کہ ہمارا آپس کا معاملہ محض فریب ہے۔ ہم دوسری صاحب شعور ہستیوں سے اپنے نفس کی طرح شعور سے عاری اشیاء سے بھی جواب کا انتظار کرتے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہمارا تعلق واقعی کسی حقیقت سے ہے یا نہیں۔ خدا تو پھر خدا ہے اور یہ سب ہم اس لیے کرتے ہیں کہ مذہب نے سائنس سے بہت پہلے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنی مذہبی زندگی میں ٹھوس حقیقتوں سے تعلق پیدا کریں۔ اس کیفیت کے اظہار کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشا دکس قدر پر حکمت ہے کہ تو یوں عبادت کے لیے کھڑا ہو کہ تجھے یہ محسوس ہو کہ تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم یہ سمجھ کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے: کانک تراہ فان لم تکن تراہ فھو یراک اور یہی عبدیت کا کمال ہے۔ اقبال کے نزدیک نفس انسانی حقیقت کلی کا عکس اپنے اندر جذب کرتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ (بقرہ: ۱۳۸) ’’ خدا کا رنگ اور خدا کے رنگ سے بڑھ کر بھلا کون سا رنگ ہو سکتا ہے۔‘‘ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگ میں رنگین ہونے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کی تمنا، آرزو، میلان اور رحجان، اس کی دعائیں اور عبادات، ذات خداوندی کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں جو سر چشمہ حسن و خیر ہے۔ خطبات میں اقبال کہتے ہیں: ’’ فلسفہ، اشیاء کو عقلی اعتبار سے اور حقیقت کو فاصلے سے دیکھتا ہے لیکن مذہب حقیقت سے قریبی تعلق پیدا کرتا ہے۔ فلسفہ صرف نظریہ ہے جب کہ مذہب ایک جیتا جاگتا تجربہ اور قریبی اور گہرا تعلق۔ اس گہرے تعلق کے حصول کے لیے خیال کو اپنی سطح سے بلند ہونا چاہیے اور یوں اپنے مقصود قلب کو اس کیفیت کی رو سے حاصل کرنا چاہیے جسے مذہب کی زبان میں دعا کہتے ہیں۔ دعا یعنی ان گراں مایہ الفاظ میں سے ایک لفظ جو دم آخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس پر تھے۔‘‘ اقبال نے دعا کی تعریف یہ کی ہے کہ ’’ دعا وہ چیز ہے جس کی انتہا روحانی تجلیات پر ہوتی ہے اور جس سے مختلف طبائع مختلف اثرات قبول کرتی ہیں۔‘‘ پھر اقبال نے نبوت اور ولایت کے شعور پر دعا کے نتیجے میں مذہبی مشاہدات کے جو مختلف اثرات مترتب ہوتے ہیں، ان کا ذکر کیا ہے، اور اس معاملے میں ادراک اور سے تعقل کے غلبے کا اعتراف کیا ہے۔ صلوٰۃ بمعنی دعا یا عبادت کو اقبال ایک جبلی امر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ولیم جیمز (William James) کے ساتھ متفق ہیں۔ اپنے خطبات میں اس کی مشہور کتاب Varities of Religious Experience (نفسیات واردات روحانی) سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں: ’’ سائنس کچھ بھی کہے، مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ جب تک دنیا قائم ہے، دعا یا عبادت کا سلسلہ بھی قائم رہے گا سوائے اس کے کہ ہم انسانوں کی ذہنی ساخت میں کوئی اساسی تبدیلی واقع ہو جائے مگر جس کا (جہاں تک ہمارے علم کا تعلق ہے) کوئی امکان نہیں۔ دراصل دعا کو تحریک ہوتی ہے تو اس لیے کہ اختیار انفس انسانی کے اگرچہ کئی مراتب ہیں بایں ہمہ اس کی تہوں میں ایک نفس اجتماعی پوشیدہ ہے جسے اپنا سچا ہمدم (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبان میں رفیق اعلیٰ) کسی عالم امثال ہی میں مل سکتا ہے۔ لہٰذا کتنے انسان ہیں جو ہمیشہ نہیں تو اکثر اس رفیق اور دم ساز کی تمنا اپنے سینوں میں لیے پھرتے ہیں اور جس کی بدولت ایک حقیر سا انسان بھی، جسے بظاہر لوگوں نے دھتکار دیا ہو، محسوس کرتا ہے کہ اس کی ہستی اپنی جگہ پر کچھ ہے۔ یہ اندرونی سہارا نہ ہو تو ان حالتوں میں جب ہمارا نفس اجتماعی ناکام ہو کر ہمارا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، دنیا بہتوں کے لئے جہنم بن جائے۔ میں کہتا ہوں بہتوں کے لیے کیونکہ جہاں تک یہ احساس کہ ایک اعلیٰ و ارفع ہستی ہمارے اعمال و افعال کو دیکھ رہی ہے، بعض لوگوں میں تو بڑا قوی ہو گا، بعض میں خفیف گو بعض طبائع کی ساخت ہی ایسی ہے کہ ان میں یہ احساس بہ نسبت دوسروں کے زیادہ شدت کے ساتھ جاگزیں ہو گا لہٰذا میں سمجھتا ہوں جتنا یہ احساس کسی دل میں قوی ہو گا اتنا ہی مذہب سے اسے زیادہ گہرا لگاؤ ہو گا۔ لیکن پھر اس کے ساتھ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں، وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں کیونکہ تھوڑا ہو یا بہت، یہ احساس ان کے اندر بھی موجود ہو گا۔‘‘ جیمز کا مذہب دعا کے بارے میں یوں ہے کہ اگر ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں تو دعا بھی اس کا لازمہ ہو گی اور دعا کے نتیجے میں یہ خواہش بھی ہو گی کہ اسے بپایہ قبولیت جگہ بھی ملے۔ قرآن صدیوں پہلے اس بارے میں صاف الفاظ میں اعلان کر چکا ہے۔ ادعونی استجب لکم (مومن: ۶۰) ’’ تم مجھے پکارو۔ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘ اقبال اور جیمز دونوں کے نزدیک دعا ایک ایسی نفسیاتی حقیقت ہے جس سے انکار کسی طور ممکن نہیں اور جو سارے نفس انسانی کو کچھ اس طرح محیط ہے کہ تمام تمناؤں، خواہشوں، آرزوؤں، ضرورتوں، حالتوں اور کیفیتوں کا سہارا بھی ہے۔ مگر اقبال اس سے بڑھ کر دعا کو حصول علم کا ذریعہ بھی شمار کرتے ہیں اور اسے ایک طرح کے غور و تفکر سے مشاہد، بلکہ اس سے ارفع ٹھہراتے ہیں کہ: ’’ بالفعل غور و فکر بھی تحصیل و اکتساب کا ایک عمل ہے جو بحالت دعا ایک نقطے پر مرکوز ہو جاتا ہے اور کچھ ایسی طاقت اور قوت حاصل کر لیتا ہے جو فکر محض کا حاصل نہیں۔ فکر کی حالت میں تو ہمارا ذہن حقیقت مطلقہ کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے اعمال و افعال پر نظر رکھتا ہے لیکن دعا کی صورت میں وہ ایک نرم خرام کلیت کی منزل بہ منزل رہنمائی کو چھوڑ کر فکر سے آگے بڑھتا ہے اور حقیقت مطلقہ پر تصرف حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ یوں بالا ارادہ اس کی زندگی میں حصہ لے سکے۔‘‘ اس کا جواز اقبال یہ پیش کرتے ہیں کہ: ’’ دعا بھی روحانی تجلی کے ایک ذریعہ کی حیثیت سے ایک حیاتی عمل ہے جس میں انسان دفعتاً یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی بے نام شخصیت کے لیے ایک وسیع تر زندگی میں بھی کوئی نہ کوئی جگہ ہے۔‘‘ خالص روحانی مشاہدہ بوسیلہ دعا، زندگی کے ان سرچشموں کی خبر لاتا ہے جو ہمارے اعماق وجود میں سر بستہ ہیں۔ دعا جس قسم کی روحانی تجلی سے روشناس کراتی ہے وہ شخصیت ساز ہوتی ہے اور انسان اسی سے ایک نئی اور انوکھی قوت اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ خدا کو ماننے کے بعد انسان کا یہ بھی جی چاہتا ہے کہ اسے اس کی موجودگی کا حقیقی اور واقعی تجربہ ہو۔ یہ تجربہ بذریعہ دعا زیادہ ممکن الحصول ہو جاتا ہے۔ دعا کو ایک نفسیاتی حقیقت اور ایک ذریعہ علم قرار دینے کے بعد اقبال اس کا تاریخی مطالعہ بھی کرتے ہیں تو بھی یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ دعا یا عبادت کی روش اختیار کر کے انسان خدا تک پہنچتا ہے اور یہی مقصد انسانیت ہے۔ اقبال کہتے ہیں: ’’ دعا گویا ان ذہنی سرگرمیوں کا لازمی تکملہ ہے جو فطرت کے علمی مشاہدے میں سرزد ہوتی ہیں۔ فطرت کا علمی (Scientific) مشاہدہ ہمیں حقیقت مطلقہ کے کردار سے قریب تر رکھتا ہے اور یوں اس میں زیادہ گہری بصیرت کے لیے ہمارا اندرونی ادراک تیز تر کر دیتا ہے۔‘‘ اقبال کو اپنے جوانی کے ایام میں دو ایسی شخصیتوں کا پورا پورا مطالعہ کرنے کا موقع ملا جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں ہندوستان کے مسلمانوں پر جداگانہ مگر دور رس نتائج مرتب کیے اور مسلمانوں کے علم کلام کو بھی شدت سے متاثر کیا۔ یہ سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد قادیانی تھے۔ دعا کے بارے میں دونوں نے جو نظریات پیش کیے وہ نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کی ضد تھے بلکہ تفریط اور افراط کا مضمون بھی تھے۔ سید نذیر نیازی کی مرتب کردہ ۱۴ مارچ ۱۹۳۸ء کی گھریلو نشست اور گفتگو میں اقبال نے دونوں کا محاکمہ کرتے ہوئے کہا: ’’ دعا کے بارے میں سرسید احمد خان اور مرزا صاحب نے انتہا کر دی۔ سرسید پر تو علت و معلول کا خیال اس درجہ غالب تھا کہ اس وقت کے علوم طبعی کے زیر اثر انہوں نے نیچر کا جو تصور قائم کیا اس کی رو سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ حوادث کی ترتیب میں کوئی رد و بدل ہو سکے یا ان سے وہ نتیجہ مترتب نہ ہو جس کا باعتبار علت و معلول مترتب ہونا ضروری ہے، لہٰذا وہ بار بار نیچر کا نام لیتے اور پھر اس کے اس حد تک قائل ہو گئے کہ انہوں نے سمجھا کائنات کے جملہ حوادث علت و معلول کی کڑی زنجیر میں اس سختی سے منسلک نہیں کہ ایک کے بعد دوسرے کا ظہور یقینی ہو۔ اب فرض کیجئے حادثہ الف رونما ہے اور یہ حادثہ کسی دوسرے مثلاً حادثہ ب کی علت ہے۔ تو بحیثیت معلول حادثہ ب کا ظہور گویا پہلے متعین ہو چکا ہے لہٰذا حادثہ وقوع میں آئے گا اور ضرور آئے گا۔ یہ نیچر ہے اور نیچر کی کارروائی رک سکتی ہے نہ اسے کوئی روک سکتا ہے۔ نیچر اپنا کام کرتا رہے گا۔ حوادث کی ترتیب علت و معلول کی پابند ہے اور اس ترتیب میں رد و بدل نا ممکن ہے۔ یہ گویا امر ربی ہے یوں سرسید کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دعا سے بجز تسکین قلب کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ اقبال کو الدعا والاستجابتہ کے نام سے شائع ہونے والے سرسید احمد خان کے اس رسالے کی اطلاع تھی ۱۸۹۲ء یا ۱۸۹۳ء کے لگ بھگ تصنیف کیا گیا تھا، جس میں سرسید احمد خان نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ دعا کی حیثیت سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ اس کے نتیجے میں اضطرار کی جگہ صبر و استقلال کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی دعا کا مستجاب ہونا ہے۔ ان کے نزدیک استجابت دعا کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ دعا میں مانگا گیا ہے وہ دیا جائے گا۔ کیونکہ اگر استجابت دعا کے یہی معنی ہوں کہ سوال بہرحال پورا کرایا جائے گا تو وہ مشکلات پیش آتی ہیں اول یہ کہ ہزاروں دعائیں عاجزی اور اضطرار سے مانگی جاتی ہیں مگر انہیں نپایہ قبولیت جگہ نہیں ملتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دعا قبول نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ جو امور ہونے والے ہیں وہ مقدر ہیں اور جو نہیں ہونے والے وہ بھی مقدر ہیں۔ ان مقدرات کے خلاف ہر گز کوئی چیز ممکن الوقوع نہیں۔ مگر خدا یہ بھی کہتا ہے کہ ادعونی استجب لکم اس تناقض کو سرسیداحمد خان یہ کہہ کر دور کرتے ہیں کہ استجابت دعا کی حقیقت اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ دعا ایک عبادت متصور ہو کر اس پر ثواب مترتب ہوتا ہے اگر مقدر میں ایک چیز کا ملنا ہے اور اتفاقاً اس کے لیے دعا بھی کی گئی ہے تو وہ چیز مل جاتی ہے مگر دعا سے نہیں بلکہ اس کا ملنا مقدر تھا۔ دعا سے قوت متخیلہ حرکت میں آ کر صبر و استقلال کا جذبہ اضطرار پر غالب ہوتا ہے اور ایک پر سکون کیفیت دل کو نصیب ہو جاتی ہے۔ یہی عبادت اور دعا ہے۔ سرسید کہتے ہیں اضطرار کے تحت استداد کی توقع انسانی فطرت کا خاصہ ہے اس لیے انسان اپنے فطری خاصے کے زیر اثر دعا کرنے پر مجبور ہوتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کا سوال پورا ہو گا یا نہیں۔ اس لیے یہ جو کہا گیا ہے کہ خدا ہی سے مانگو تو بمقتضائے فطرت انسانی کہا گیا ہے۔ گویا سرسید کے نزدیک دعا ذریعہ حصول مقصود نہیں نہ تحصیل مقاصد کے لیے اس کا کچھ اثر ہے اور دعا صرف عبادت کے لیے موضوع ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عبادت اور دعا کے معاملے میں سرسید واقعی تفریط کا شکار ہو گئے تھے۔ ان کا نقطہ نظر اس باب میں معتزلہ سے بھی آگے نکل جاتا ہے مضامین سرسید میں ان کی ایک عبارت نقل ہے کہ: ’’ تمام نیکیاں اور عبادتیں جو قانون قدرت کے برخلاف ہیں، پوری نیکیاں اور عبادتیں نہیں ہیں۔ اصلی اور سچی عبادت وہی ہے جو قانون قدرت کے اصول کے مطابق ہے۔ تمام قویٰ جو خدا تعالیٰ نے انسان میں پیدا کیے ہیں اس لیے پیدا نہیں کیے کہ وہ بے کار کر دیے جاویں بلکہ اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ سب کام میں لائے جاویں۔ شریعت حقہ مصطفویہ علی صابھا الصلوۃ والسلام نے کوئی نئی بات نہیں پیدا کی بلکہ صرف ان قویٰ کے کام میں لانے کا طریقہ بتایا ہے جس سے جملہ قویٰ شگفتہ و شاداب اور اعتدال پر رہیں اور ایک کے غلبہ سے دوسرا بیکار اور پژ مردہ نہ ہو جائے مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو اس نکتے کو سمجھتے ہیں بلکہ اس طریقہ کو جس کو ہمارے پیغمبر خدا نے رہبانیت قرار دیا ہے اور جس کو ہندی زبان میں جوگ کہتے ہیں کمال عبادت اور منتہائے زہد و تقویٰ قرار دیتے ہیں۔‘‘ سرسید کے آخری عہد کے مضامین میں ایک مضمون ’’ مکاشفہ‘‘ کے موضوع پر ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مکاشفہ فقط وہ حالت ہے جو خود انسان کے خیال میں پیدا ہوتی ہے ۔ مکاشفہ نظری، نوری، الٰہی، روحانی، صفائی ہر چیز سرسید کے نزدیک بجز انسان کے اپنے خیال کے اور کوئی دوسری چیز نہیں وہ کہتے ہیں: ’’ اگر یہ حالت انسان کی خدا کی صفت علمی میں بیٹھ جانے سے پیدا ہوئی ہو تو اس کو علم لدنی حاصل ہوتا ہے اور اگر خدا میں جو صفت سننے کی ہے، اس میں بیٹھ گیا ہو تو وہ خدا کا کلام سن سکتا ہے جیسا کہ موسیٰ سنتے تھے اور اگر وہ خدا کے بصیر ہونے کی صفت میں بیٹھ گیا ہے تو اس کو خدا کا دیدار ہونے لگتا ہے، اور اگر وہ خدا کے جلال کی صفت میں بیٹھ جاتا ہے تو اس کو بقائے حقیقی حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ خدا کی جس صفت میں بیٹھ جاتا ہے اس کے موافق حالت اس پر طاری ہو جاتی ہے جس کو وہ مکاشفہ سمجھتا ہے مگر وہ بجز اس کے خیال کے اور کوئی چیز نہیں۔‘‘ ’’ اب صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ مکاشفتہ ذاتی ایسی چیز ہے جس کا بیان کسی طرح نہیں ہو سکتا۔ پس ان بیانات سے اس قدر سمجھ میں آتا ہے کہ انسان جو کچھ اپنے خیالات میں پکا لیتا ہے اس کا نام مکاشفہ ہے اور یہ حالتیں جو صوفیاء کرام نے بیان کی ہیں، سب خیال ہی خیال ہیں اور خیال کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ گویا سرسید کے نزدیک دعا اور عبادت کے نتیجے میں پیش آنے والا مکاشفہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اس باب میں اولیاء یا صوفیاء بلکہ پیغمبران کرام نے بھی جو کچھ بیان کیا وہ محض ایک اتفاق اور دل کا خیال ہی تھا۔ اگر سرسید کے اس نقطہ نظر سے اتفاق کر لیا جائے تو انبیائ، صوفیاء اور اولیاء کی راست بازی، نیکی اور معاملت مشکوک ہو جاتی ہے بلکہ اس سے سلسلہ نبوت پر بھی زد پڑتی ہے اور بقول سرسید گویا انبیاء کے مکاشفے وہم اور ان کے دل کے خیالات کے سوا کچھ بھی نہ تھے، نہ خدا کے نور کی تجلی سے ان کا دل منور ہوتا تھا۔ مرزا غلام احمد کے تصور دعا کے بارے میں اقبال کا خیال تھا کہ ’’ مرزا صاحب کے نزدیک دعا سے سب کچھ ممکن ہے۔ آپ دعا کرتے جائیے، جو چاہتے ہیں ہو جائے گا۔ حالانکہ ایک بہت بڑا مسئلہ اس سلسلے میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی حادثے کی توجیہہ یہ سمجھ کر کی جاتی ہے کہ وہ نتیجہ ہے قبولیت دعا کا تو ہمارے پاس اس کا ثبوت کیا ہو گا یہ کیسے معلوم ہو گا کہ دعا نہ کی جاتی تو یہ حادثہ پیش نہ آتا۔ معترض کہہ سکتا ہے کہ اسے بہر کیف پیش آنا تھا اس لیے کہ حوادث ما قبل کا رخ اسی جانب تھا، لہٰذا پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ حوادث میں کیا رد عمل ممکن ہے؟ کیا دعا اس ترتیب کو روک سکتی ہے؟ علت و معلول کا تقاضا تو یہی ہے کہ ان کی ایک ترتیب ہو، ماضی میں بھی اور مستقبل میں بھی۔‘‘ خود مرزا غلام احمد نے دعا کے بارے میں اپنا نقطہ نظر اپنی کتاب برکات الدعا میں یوں بیان کیا ہے کہ: ’’ جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اور کامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتا ہے اور غایت درجہ بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آتے نکل جاتا ہے، پھر آگے کیا دیکھتا ہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اس کی روح اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے اور قوت جذب جو اس کے اندر رکھی گئی ہے، وہ خدا تعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے، تب اللہ جل شانہ، اس کام کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس دعا کا اثر ان تمام مادی اسباب پر ڈالتا ہے جن سے ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لیے ضروری ہیں۔ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثر نہیں جیسی کہ دعا ہے۔‘‘ اسی زمانے میں علامہ راشد الخیری نے ان دونوں حضرات کے تصور دعا میں تفریط اور افراط کو محسوس کرتے ہوئے خود اس موضوع پر ایک رسالہ لکھا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ: ’’ میری نگاہ سے اس گروہ کی تصانیف جو دعا کا منکر ہے اور اس جماعت کی کتابیں جو دعا پہ یقین رکھتی ہے، دونوں گزری ہیں۔ اس سلسلہ میں سرسید علیہ رحمتہ اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دلائل خصوصیت سے قابل توجہ ہیں۔ متقدمین نے بھی اس مسئلہ پر کافی بحث کی ہے۔ خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ان پاک روحوں کو جو اس میدان کے تمام خس و خاشاک کو اتنا صاف اور پاک کر گئیںکہ صداقت کی روشنی چاروں طرف جگمگا رہی ہے۔‘‘ (دعائیں، طبع پنجم، ص ۷) دعا کے بارے میں اپنے عہد کی دو اہم شخصیتوں کے نقطہ ہائے نظر پر اقبال کے محاکمے سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے تو ہم اس کی قدرت کاملہ کا رشتہ علت و معلول کی کار فرمائی سے کیسے جوڑیں؟ اور کیا اس کار فرمائی کی نوعیت ابدی، مطلق اور غیر متبدل ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ دعا میں جبر و اختیار دونوں پہلو موجود ہیں۔ دعا اپنی ذات میں تسلیم و رضا، سکون و اطمینان، صبر و تحمل، عزم و حوصلہ اور امید و اعتماد کا مجموعہ ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ انسانی زندگی اپنی ذات میں یکسر دعا کا مفہوم رکھتی ہے۔ اقبال نہ دعا کی ضرورت کے منکر تھے نہ اس کی تاثیر کے، لیکن ان کا موقف سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد دونوں سے مختلف تھا وہ دعا کے موقع اور محل کے قائل تھے، یہی نہیں بلکہ خودی کے استحکام کے بعد تو وہ خود میں اس سے بھی اگلی منزل دیکھتے تھے: خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے یہی مسلک ان کے مرشد مولانا روم کا بھی تھا مرضی او در رضائش کم شود دعا عزم و ہمت کا منبع ہے، بے چارگی اور بے بسی کا مظہر نہیں۔ توکل اور یقین اور چیز ہے، اور یہ کہ دعا کے نتیجے میں وہی کچھ ہو گا جس کی ہم آرزو رکھتے ہیں اور چیز ۔ توکل کا مفہوم اسلام کے نزدیک یہ ہے کہ حصول ترقیات کے لیے انسان محنت کرے جیسا کہ محنت کرنے کا حق ہے مگر اس پر بھروسا نہ کرے کیونکہ محنت خدا نہیں ہے۔ دعا بھی ہونی چاہیے مگر صرف دعا پر بھروسا غلط ہے کیونکہ دعا بھی خدا نہیں۔ قرآن کہتا ہے: ان الفضل بید اللہ یثوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم (جدید: ۲۹) ’’ فضل خدا کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ بڑے فضلوں والا ہے۔‘‘ دنیا عالم اسباب ہے جہاں زندگی کچھ اصولوں اور ضابطوں کی تابع ہے۔ اس میں ہماری سعی و عمل، ہمارے وسائل، ذرائع، ہمارے اقدام بہر حال اپنے مستقل معنی اور مفہوم رکھتے ہیں۔ دعا کے بارے میں سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد سے بالکل علیحدہ اور معتدل موقف یہی تھا جو اقبال نے اختیار کیا یہ ذہنی رویہ اس لیے بھی قابل قبول ہے کہ بقول سید نذیر نیازی (بحوالہ اقبال، نشستیں اور گفتگوئیں) ’’ یوں مانگنے کو لوگ شب و روز دعائیں مانگتے ہیں، اور اء و وظائف میں مشغول رہتے ہیں، مزاروں اور خانقاہوں کا رخ کرتے اور پیروں فقیروں کا سہارا لیتے ہیں، جیسے سلسلہ امور کسی پر اسرار قوت کے تابع ہے اور نفس انسانی اس کی نیرنگیوں کی آماج گاہ مگر کیا اس سارے عمل کے نتائج بھی مثبت برآمد ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ہر گز نہیں۔‘‘ اقبال نے ۱۴ مارچ ۱۹۳۸ء کی گھریلو نشست میں مسئلے کو یہ کہتے ہوئے زیادہ صاف کر دیا کہ ’’وہ جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے، وہ ہم سے اور ہماری دنیا سے بے تعلق تو نہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اسی سے کہتے ہیں وہ کہتا مجھی سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو سنتا ہوں اور اس کو قبول کرتا ہوں۔ زندگی کیا ہے؟ ایک مسلسل دعا۔ اس نکتے کو دو شخص خوب سمجھے ابن خلدون اور ابن عربی۔‘‘ اور واقعہ یہ ہے کہ دعا اور عبادت کے بارے میں ابن خلدون اور ابن عربی کا نقطہ نظر مسلمانوں کے علم الکلام میں خاصے کی چیز اور اقبال کے موقف سے بہت حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ تاہم اقبال کا تفکر ان دونوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کے باب فی علم التصوف میں انسان کے ذوق عبادت کے سلسلے میں یہ حکم لگایا کہ انسان حیوانات سے اپنے ادراکات کی وجہ سے ممتاز ہے۔ انہوں نے ان ادراکات کی دو اقسام گنوائی ہیں۔ اول وہ جن کا تعلق علوم و معارف اور یقین و ظن کی کیفیتوں سے ہے، اور دوسرے وہ جو حزن و فرح کے احوال سے متعلق ہیں۔ لیکن وہ محض ادراکات کو مجاہدہ اور ریاضت کا رہین منت بھی قرار دیتے ہیں۔ عبادت کے طور پر مالک جب ریاضت کرتا ہے تو اس پر مسرت و شادمانی کے در وا ہوتے ہیں، یہاں تک کہ وہ توحید و معرفت کی اس سرحد تک پہنچ جاتا ہے جو مطلوب اور عنایت اصلی ہے۔ ابن خلدون نے فقیہہ اور صوفی کی عبادت میں ایک فرق قائم کیاہے۔ فقیہہ اعمال کو اطاعت و امشال کے ترازو پر تولتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ آیا عبادات صحیح طریق پر ادا ہوئیں یا نہیں، جب کہ صوفی عبادات کو ذوق اور وجدان کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ روح کو ان سے لذت اور اتقاء نصیب ہوا ہے یا نہیں۔ یہ ایک طرح کا محاسبہ نفس ہے۔ ابن خلدون کے نزدیک نفس اور روح کا ارتقاء عبادت کے نتیجے میں جاری رہتا ہے، اور سالک کے سامنے ایک مقام کے بعد دوسرا مقام آتا رہتا ہے۔ اس لیے عبادت یا ریاضت کی کوئی ایک ہی شکل نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر قوائے جسمہ کے تقاضوں کو ختم کر کے روح کو اس کی صحیح غذا بہم پہنچائی جائے تو موجودات کا کوئی گوشہ انسان کی دسترس سے باہر نہیں رہ سکتا اور از سمک تابہ سماک ہر چیز کی حقیقت اس پر منکشف ہوتی رہتی ہے ابن خلدون کہتے ہیں کہ یہ کیفیت اپنے نتائج کے اعتبار سے ہمیشہ صحیح اور کامل نہیں ہوتی جب کہ اس میں استقامت نہ ہو کیونکہ کبھی کبھی فاقہ اور خلوت سے ایسے لوگوں کو کبھی کشف عطا ہو جاتا ہے جو دینی اعتبار سے کسی مقام پر فائز نہیں ہوتے۔ اقبال نے یہی نکتہ بخاری اور مسلم میں عبداللہؓ بن عمر کے روایت کردہ مدینہ کے یہودی قبیلہ کے نوجوان ابن صیاد کے واقعہ سے واضح کیا ہے جس کی غیر معمولی کیفیات معلوم کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کی ایک جماعت کے ہمراہ خود چل کر اس کے پاس گئے۔ اسے پکڑ کر خوب بھینچا اور پوچھا ’’ تو امور غیب میں سے کیا دیکھتا ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’ کبھی سچی خبر اور کبھی جھوٹی خبر‘‘ فرمایا ’’تجھ پر امور کو مشتبہ کیا گیا ہے۔‘‘ پھر حضور ؐ ایسے وقت اسے دیکھنے تشریف لے گئے جب وہ ایک باغ میں چادر اوڑھے لیٹا ہوا تھا اور اس کے بستر سے ناقبال فہم آواز آص رہی تھی، مگر اس کی ماں نے حضور ؐ کو دیکھتے ہی اسے جگا دیا۔ حضورؐ نے فرمایا: ’’ اگر اس کی ماں اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتی تو اس کی کچھ ذہنی کیفیت کا پتہ چل جاتا۔‘‘ ابن خلدون نے اپنے نقطہ نظر کو بڑی خوبصورتی سے ایک اور مثال دے کر پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک اس حقیقت کو آئینہ کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جو چیز بھی اس کے سامنے جائے گی اس میں منعکس ہو گی اور اس کی ایک صورت اس میں مرقسم ہو گی۔ اگر یہ آئینہ مسطح نہیں بلکہ محدب یا مقعر ہے تو اس کا اثر اس نقش اور عکس پر بھی پڑے گا، اس لیے اس کا ٹیڑھا اور ترچھا نظر آنا لازمی ہے۔ صحیح اور کامل انعکاس اس وقت حاصل ہو سکتا ہے کہ جب آئینہ مسطح اور ہموار ہو۔ نفس انسانی کی بھی یہی حالت ہے اگر اس میں استقامت اور استواری ہے تو ریاضت و عبادت سے اس میں حقائق اشیاء کا انعکاس درست ہو گا، ورنہ نہیں۔حقائق اشیاء کو جس پیرایہ میں دیکھا جاتا ہے وہ سرا سر وجدانی ہے اور الفاظ کا جامہ چونکہ صرف محسوسات ہی کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے حقائق تک درست رسائی وہ شخص حاصل کر سکتا ہے جو اس وجدان سے مالا مال ہو۔ پروفیسر Royce نے بڑے اختصار کے ساتھ یہی بات عصر حاضر میں کہی تھی جسے اقبال نے اپنی تصدیق کے ساتھ خطبات میں نقل کیا ہے۔ تاہم ابن خلدون کے نزدیک اچھا یہی ہے کہ جس طرح ہم عالم حس میں کشف سے پہلے اطاعت و پیروی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہوتے ہیں، عبادت کے نتیجے میں کشوف کے بعد بھی اپنا وطیرہ وہی رکھیں۔ جہاں تک شیخ اکبر کا تعلق ہے، عبادت کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ان کے نظریہ وحدت الوجود کے ساتھ مربوط ہے۔ شیخ اکبر، محی الدین ابن عربیؒ جن پر مسئلہ وحدۃ الوجود کے باب میں عینیت یا حلول و اتحاد کا الزام ہے فتوحات مکیہ کے باب ۵۵۷ میں خود تصریح کرتے ہیں: ’’ عالم حق تعالیٰ کا عین نہیں اس لیے کہ اگر وہ حق تعالیٰ کا عین ہوتا تو حق تعالیٰ کا بدیع ہونا صحیح نہیں ہوتا۔‘‘ گویا شیخ اکبر خود تعلیم کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی حقیقت یہ ہے کہ وہ عدم سے وجود میں لانے والا ہے کیونکہ عالم اگر عین حق ہوتا اور حق تعالیٰ کبھی عدم کے ساتھ متصف نہیں ہوا تو عالم بھی عدم کے ساتھ متصف نہ ہو گا پھر اس کو عدم سے وجود میں لانے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ پس ثابت ہوا کہ عالم اور حق متحد اور عینیت اور اتحاد اگر انسانی کلام میں ہے تو اصطلاحی طور پر ہے جس کا حال بہرحال یہی ہے کہ خلق کا وجود حق کے وجود کے تابع ہے۔ اسی طرح اپنی کتاب ’’ فصوص الحکم‘‘ میں شیخ اکبر لکھتے ہیں کہ: ’’ اگرچہ حق نے ہمیں بھی تمام وجودہ سے ان چیزوں کے ساتھ موصوف فرمایا ہے جن سے اپنے کو متصف فرمایا ہے پھر بھی کوئی بات فرق کی ضرور ہے کہ ہم وجود میں اس کے محتاج ہیں ہمارا وجود اس پر موقوف ہے اس لیے کہ ہم ممکن ہیں اور وہ ایسی ہر چیز سے غنی ہے جس میں ہم اس کے محتاج ہیں۔‘‘ غیریت کے اثبات پر شیخ اکبر کے ہاں یہ ایک نقص صریح ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح ’’ العقیدۃ الصغریٰ‘‘ میں شیخ کا ارشاد ہے کہ ’’ خدا تعالیٰ اس سے برتر ہے کہ اس میں حوادث حلول کریں یا وہ حوادث میں حلول فرمائے۔‘‘ اسی طرح ’’ شجرۃ الکون‘‘ میں فرمایا ہے: ’’ وہ فرد ہے صمد ہے، نہ کسی شے کے اندر ہے نہ کسی شے پر ہے، نہ کسی شے کے ساتھ قائم ہے نہ کسی شے کا محتاج ہے، نہ وہ ہیکل ہے نہ شبیہ ہے، نہ صورت ہے نہ جسم ہے نہ ذی کیفیت ہے نہ مرکب ہے۔ لیس کمثلہ شعئی وھو السمیع العلیم‘‘ عبادت کے ضمن میں کشف کی ماہیت پر شیخ اکبر نے جو نتائج مرتب کیے ان کا ماحصل یہ ہے کہ معین انسانوں میں اس کی طبعی صلاحیت ہوتی ہے جو مجاہدہ، ریاضت، دعا اور عبادات سے بڑھ جاتی ہے، مگر شیخ کے نزدیک کشف کوئی بے خطا ذریعہ علم نہیں، زیادہ سے زیادہ اس کی حیثیت ایک حاسہ ادراک کی ہو سکتی ہے اور جس طرح انسان کے دیگر حواسی ادراکات بہرحال انسانی، یعنی محدود، ناقص اور خطا پذیر ہوتے ہیں، وہی حال کشفی ادراکات اور معلومات کا ہے۔ شیخ اکبر نے فتوحات مکیہ باب ۱۸۱ میں مشائخ صوفیا کی دو اقسام واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:’’ ایک وہ جو کتاب و سنت کے عارف ہیں، ظاہر میں کتاب و سنت کے موافق گفتگو کرتے ہیں اور باطن میں کتاب و سنت کے رنگ میں رنگین ہوتے ہیں، خدا کی حدود کے پاسدار ہیں اور اس کے عہد کو پورا کرتے ہیں، احکام شریعت کے پابند ہیں، امت پر شفقت کرتے ہیں، کسی گناہگار کو حقیر و ذلیل نہیں کرتے، اللہ کو جو محبوب ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور جو اللہ کو مبغوض ہے اس سے بغض رکھتے ہیں۔ اللہ کے راستے میں کسی ملامت کی پروا نہیں کرتے ہیں، اچھی باتوں کا امر کرتے ہیں، متفق علیہ منکر سے منع کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔ ان کا احترام واجب ہے۔ انہی کی صورت دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو صاحب احوال نہیں۔ ان کی حالت بدلتی رہتی ہے۔ ظاہر میں ان کے اندر شریعت کا وہ تحفظ نہیں جو اگلوں میں ہے نہ ان کی سی احتیاط ہوتی ہے کہ ان کے احوال کو تسلیم کر لیا جائے مگر ان کی صحبت اختیار نہ کیا جائے۔ اگر ان سے کچھ کرامات بھی ظاہر ہو تو ان پر بھروسا نہ کرنا چاہیے جب کہ ان کے اندر شریعت کے ساتھ سوء ادب بھی موجود ہے کیونکہ ہمارے لیے خدا تک پہنچنے کا راستہ اس کے سوا کوئی نہیں ج وخدا نے شریعت میں مقرر کر دیا ہے۔ جس شخص میں شریعت کا ادب نہ ہو اس کی اقتداء نہ کی جائے اگرچہ وہ اپنے حال میں سچا ہو۔ البتہ اس کا احترام کیا جائے گا۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے شرکاء کو خدا کی طرف سے یہ بشارت دی تھی۔ اعملوا ماشئتم فقد غفرت لکم (جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا) لیکن فتوحیات مکیہ کے باب ۹۶ میں شیخ اکبر کہتے ہیں:’’ اس سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ ان صحابہ سے فرائض ساقط ہو گئے تھے۔ دنیا میں انبیاء سمیت حدود کسی سے بھی ساقط نہیں کی گئیں، اسی لیے نبی کریم ؐ عبادات اور دعاؤں میں شبانہ روز مصروف رہتے تھے۔ بے شک وہ آخرت میں ہر قسم کے مواخذہ سے بری ہیں اور ازلی طور پر مغفور ہیں لیکن دنیا میں انہیں بھی تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔‘‘ اس باب میں ابن عربی کے فلسفہ کی ایک خوبصورت مگر بالواسطہ وضاحت Professor Rom London نے اپنی کتاب Islam and the Arahs کے باب نہم میں صفحہ ۱۵۸ پر Philosophy کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں: The universe is however not created caused or willed by God. as it is for most of the other Muslim Philosophers it is simply the coming in to manifestation of something already existing in God. A thing comes in to existence not because of God's will but because of the specific nature of laws with the thing itself. so Ibn Arabi's God is actually the name for all the laws inherent in existence. Since everything that is an aspect of manifestation of the dinvine essence. there is for Ibn Arabi. no Sepration between man and God our sense of Sepration is only apparent and due to our ignorance. Likewise though God does not specifically disire evil. even ecil (or rather what man considers evil) is a manifestation of certain laws that have their being in God. in order to be perfect. that is complete. the universe must include what we regard as imperfection otherwise it would be incomplete. Everything being a manifestation of God. man's free-will too belongs to that catefory in other words whatever man does comes from God. This however doed not imply that God is a Capricious despot who silfully imposes his decison upon man. if man cannot escape from making a particular choice. this is due to the fact what interperation by us umplies predestination for man in never fully aware of the laws under whose command he acts and thus he must behave as though he actually had a free-will his fate is not predetermined but self-determined. اقبال زندگی میں علم کی جستجو کو بھی عبادت اور دعا ہی کی ایک شکل گردانتے ہیں۔ وہ کائنات کو اضافہ پذیر سمجھتے ہیں اور پر زندہ جاوید تمدن کی بنیاد استوار کرنے کے حامی ہیں۔ اسی لیے وہ اجتماعی عبادت یا دعا کے قائل ہیں او راسے زیادہ مبنی بر صداقت و خلوص تصور کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حالت اجتماعی میں ایک عام انسان کی قوت ادراک بھی کہیں زیادہ تیز ہو جاتی ہے اس کے ارادے اور عزم میں جو تحرک اجتماعی دعا کے نتیجے میں پیدا ہو سکتا ہے وہ تنہا اور الگ تھلگ رہنے سے ہر گز ممکن نہیں۔ اقبال فطرت کے علمی مشاہدے کو ویسا ہی عملی قرار دیتے ہیں جیسا کہ تلاش حقیقت میں صوفی سلوک اور عرفان کی منازل طے کرتا ہے۔ علمی تگ و دو کا قافلہ بھی بالآخر مشاہدۂ حق پر آ کر ٹھہرے گا۔ بصیرت، عبادت کی طاقت اور قوت کے بغیر اخلاق و عادات میں تو ترفع پیدا کر دے گی مگر علمی بصیرت میں عبادت اور دعا کا امتزاج ہی وہ چیز ہے جو زندہ جاوید تمدن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تہذیب نو کی یہی محرومی ہے اور اس لیے بقول اقبال تہذیب مغرب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کر رہی ہے۔ اقبال کہتے ہیں مسلمانوں کے لیے ’’ دونوں کا امتزاج ضروری ہے تاکہ عالم انسانی روحانی اعتبار سے آگے قدم بڑھا سکے۔‘‘ وہ سمجھتے ہیں کہ نفسیات اس راز کو آج تک دریافت نہیں کر پائی کہ آخر وہ کیا قوانین ہیں جن سے اجتماعی حالت میں انسان کی قوت احساس افزوں ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں تیسرے خطبہ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’ اسلام نے عبادت کو اجتماعی شکل دے کر روحانی تجلیات میں ایک اجتماعی شان پیدا کر دی ہے، اور اس پر ہمیں خاص طور پر توجہ کرنی چاہیے۔ ذرا خیال کیجئے کہ روز مرہ کی صلوٰۃ با جماعت کے ساتھ ساتھ جب ہر سال مسجد حرام کے ارد گرد مکہ معظمہ میں حج کا منظر ہماری آنکھوں میں پھر جاتا ہے تو ہم کس خوبی سے سمجھ لیتے ہیں کہ اسلام نے اقامت صلوٰۃ کے ذریعے عالم انسانی کے اتحاد و اجتماع کا فلسفہ کس کس طرح سے وسیع سے وسیع تر کرایا ہے۔‘‘ دعا اپنے نتائج کے لیے تدبیر بھی چاہتی ہے۔ گویا دوا اور دعا کا باہمی گہرا تعلق ہے۔ تدبیر، علم و عقل کی کارفرمائی اور ہماری کوشش و کاوش اپنی ذات پر اعتماد اور ذمہ داری کے احساس ہی کے اجتماع کا نام ہے اور دعا اپنے اعماق حیات میں جذب ہو کر اپنے وجود اور ہستی کے حقیقی کرشمے یعنی ذات خداوندی سے ربط و اتصال ہے۔ جب یہ منزل انسان کو یا بالفاظ دیگر دعا کرنے والے کو نصیب ہو جاتی ہے تو قبولیت دعا کا مقام آ جاتا ہے۔ در حقیقت یہی وہ مقام ہے جسے خدا تعالیٰ نے یزیدنی الخلق ما یشاء (فاطر:۱) ’’ اللہ جس قدر چاہتا ہے زیادتی بخشتا ہے‘‘ کہا ہے۔ یہ وہ مرحلہ جب انسان کن کے تخلیقی عمل میں شریک ہو کر فیکون کا حصہ بن جاتا ہے اور گویا کائنات اور اس کے حوادث میں ایک طرح سے اس کا عمل و دخل بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ خود اقبال نے کہا ہے: نائب حق در جہاں بودن خوش است بر عناصر حکمراں بودن خوش است ان کے کلام میں خدائی میں مومن کے اسی عمل دخل کی طرف یہ اشارات بھی ملتے ہیں: ’’ تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟‘‘ ’’ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘ ’’ در رضائے اور رضائش کم شود‘‘ کیا عجب کہ قرآن نے جسے حق کا نام دیا ہے وہ یہی انسان کی رضا یا انسان کے قول و فعل کا نتیجہ دعا ہو۔ قرآن کہتا ہے: وما خلقنا السموات والارض وما بینھا لعبین ما خلقھما الا بالحق ولکن اکثرھم لا یعلمون (الدخان) ’’ اور انسانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے کھیل ہی کھیل میں تخلیق نہیں کیا۔ ہم نے انہیں ایک دائمہ مقصد کے لیے پیدا کیا تھا لیکن لوگوں میں سے اکثر اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔‘‘ دوسری جگہ قرآن نے اسے مزید واضح کیا ہے: ان فی خلق السموات ولارض واختلاف الیل والنھار لایت لاولیٰ الالباب۔ الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعود وعلی جنوبھم و یتفکرون فی خلق السموت والارض ربنا ما خلقت ہذا باطلاً۔ ’’ اس میں کیا شک ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور گردش لیل و نہار میں دانش مندوں کے لیے بے شمار نشانات موجود ہیں۔ وہ دانش ور جو اٹھتے بیٹھتے اور پہلوؤں پر لیٹے، اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ خدایا تو نے اس عالم کو بے فائدہ تخلیق نہیں کیا۔‘‘ گویا دعا کے نتیجے میں غیر جامد کائنات میں وسعت کی گنجائش موجود ہے۔ یزیدنی الخلق ما یشاء (فاطر:۱) ’’ اللہ جس قدر چاہتا ہے زیادتی بخشتا ہے۔‘‘ قرآن نے یہ نظریہ باطل ٹھہرایا ہے کہ کائنات ایک بے حرکت یا ناقابل تغیر چیز ہے، بلکہ بقول اقبال ’’ اس کے باطن میں ایک نئی آفرینش کا خواب پوشیدہ ہے۔‘‘ قل سیروا فی الارض فانظرا کیف بدہ الحق ثم اللہ ینشئی النشاۃ الاخرۃ (عنکبوت: ۱۹) ’’ تو کہہ ملک میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے مخلوق کی پیدائش کس طرح شروع کی تھی پھر موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ بھی کیا۔‘‘ انسانی آنکھ زمانے کی وسیع تر مگر خاموش روانی کا مشاہدہ شاید گردش لیل و نہار سے آگے کرنے سے قاصر ہے لیکن یہی گردش لیل و نہار کائنات کے پر اسرار اہتزاز کی طرف معنی خیز اشارہ ضرور ہے: یقلب اللہ الیل والنھار ان فی ذالک لعبرۃ للاولیٰ الابصار (نور: ۴۲) ’’ اللہ رات اور دن کو گردش میں رکھتا ہے۔ اس میں دانش وروں کے لیے بڑی عبرت ہے۔‘‘ در حقیقت یہ آیات الٰہی ہیں جن پر تفکر انسان کے لیے ان ذرائع کی تلاش آسان کر دیتا ہے جو تسخیر فطرت سے وابستہ ہیں یا جن سے تسخیر فطرت متعلق ہیـ: وسخر لکم الیل والنھار والشمس والقمر والنجوم مسخرات بامرہ ان فی ذالک لایات لقوم یعقلون (نخل: ۱۲) ’’ اللہ نے دن رات اور چاند سورج کو تمہاری خدمت پر مامور کر رکھا ہے اور دوسرے تمام سیارے اور ستارے بھی اس کے حکم سے تمہاری خدمت پر متعین ہیں۔ جو لوگ دانش ور ہیں ان کے لیے اس میں بے شمار نشانات ہیں۔‘‘ الم تروان اللہ سخرلکم ما فی السموات وما فی الارض واسبع علیکم نعمہ ظاھر و باطنہ ’’ کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے اور تمہارے لیے زمین میں ظاہری اور باطنی نعمتیں مسخر کر دی ہیں۔‘‘ اقبال اپنے پہلے خطبے ’’ علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کہتے ہیں: ’’ جب انسان کے گرد و پیش کی قوتیں اسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں تو وہ ان کو جیسی چاہے شکل دکھا سکتا ہے اور جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے، لیکن اگر اس کا راستہ روک لیں تو اسے یہ قدرت حاصل ہے کہ اپنے اعماق وجود میں اس سے بھی ایک وسیع تر عالم تیار کر لے جہاں اس کو لا انتہا مسرت اور فیضان خاطر کے نئے نئے سرچشمے مل جاتے ہیں، اس کی زندگی میں آرام ہی آرام ہیں اور اس کا وجود برگ گل سے بھی نازک ہے۔ اس کے باوجود حقیقت کی کوئی شکل ایسی طاقت ور، ایسی ولولہ خیز اور حسین و جمیل نہیں جیسی روح انسانی۔ لہٰذا باعتبار اپنی کنہ کے جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے، انسان ایک تخلیقی فعالیت ہے، ایک صعودی روح جو اپنے عروج و ارتقاء میں ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں قدم رکھتا ہے۔‘‘ فلا اقسم بالشفق والیل وما وسق والقمر اذا تسق لتمرکن طبقا عن طبق (انشفاق: ۲۰۔۱۷) ’’ اور ان کے خیال کے بطلان کے طور پر ہم شفق کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں اور رات کو بھی اور اسے بھی جسے وہ سمیٹ لیتی ہے اور چاند کو بھی جب وہ تیرہویں کا ہو جائے۔ تم ضرور مزید درجہ بدرجہ ان حالتوں کو پہنچو گے۔‘‘ انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری آرزوؤں میں شریک ہو جو اس کے گرد و پیش موجود ہے اور اپنی، علیٰ ہذا القیاس کائنات کی تقدیر خود متشکل کرے وہیں اس کی قوتوں سے توافق پیدا کرتے ہوئے اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اپنی خواہش کے مطابق ڈھال کر اس لحظہ بہ لحظہ پیش رس اور تغیر زا عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو: ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسھم (رعد:۱۲) خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت بدل نہیں لیتا، لیکن اگر وہ پہل نہیں کرتا، اپنی ذات کی وسعتوں اور گوناگوں صلاحیتوں کو ترقی نہیں دیتا، زندگی کی بڑھتی ہوئی روکا کوئی تقاضا اپنے اندرون ذات میں محسوس نہیں کرتا، تو اس کی روح پتھر کی طرح سخت ہو جاتی ہے اور وہ گر کر بے جان مادے کی سطح پر جا پہنچتا ہے۔ اس کی زندگی اور علیٰ ہذا القیاس پے در پے ترقی پذیر روح کے سفر کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اس حقیقت سے رابطہ استوار کرے جس نے اس کا ہر چہار طرف سے احاطہ کر رکھا ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو نفوس و اقوام یا تو دعا کی قائل ہی نہیں یا اس کے ذکر سے غافل ہیں یا سرے سے دہریہ ہیں اور انہوں نے مادیت کے زیر اثر عبودیت اور ربوبیت کے رشتہ کو منقطع کر دیا ہے، پھر ان کو دعایا عبادت کے بغیر مثبت نتائج کس لیے حاصل ہو جاتے ہیں؟ اس کا جواب اگرچہ کائنات کی اضافہ پذیری میں مضمر ہے اور یزید نی الخلق ما یشاء میں ہر ایک کے لیے خدا کی ربوبیت کا اعلان ہے، تاہم قرآن یہ بھی تو کہتا ہے کہ: من کان یرید حرث الاخرۃ نزدہ فی مرثہ و من کان یرید حرث الدنیا نئوتیہ منھا وما لہ فی الاخرۃ من نصیب (شوری:۶) ’’ جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کی آخرت کی کھیتی کو اس کے لیے بڑھتے ہیں اور جو کوئی اس دنیا کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کو دنیا کی کھیتی سے حصہ دے دیتے ہیں (اسے متاع دنیاوی مل جاتی ہے) مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں رہتا۔‘‘ بغیر دعا اور عبادت کے بندوں کو خدا کی یہ عطا اس کی صفت ربوبیت کا مظہر ہے من کان یرید العاجلتہ عجلنا لہ فیھا مانشاء لمن ترید ثم جعلنا لہ جھکم یصلہا مذموما مدحورا ومن ارادا الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاولٰئک کان سعیہم مشکورا کلا نمد ھولاء وھولاء من عطاء ربک وما کان عطاء ربک محظورا (بنی اسرائیل ۱۷) ’’ جو شخص صرف دنیا کا خواہاں ہو۔ ہم ایسے لوگوں میں سے جسے چاہتے ہیں اس دنیا میں کچھ دنیاوی فائدہ عطا کر دیتے ہیں۔ پھر اس کے لیے جہنم کا عذاب مقرر کر دیتے ہیں جس میں وہ مذمت کیا گیا اور دھتکارا گیا بن کر داخل ہو جاتا ہے، اور جو آخرت کے حصول کا ارادہ کرتا ہے اور اس کے لیے کماحقہ کوشش کرتا ہے ایسے حال میں کہ وہ ایمان لانے والا ہوتا ہے۔ خدا ایسوں کی کوشش کی قدر کرے گا۔ ہم دونوں قسم کے انسانوں کی مدد کرتے ہیں جو میرے رب کی عطا کی وجہ سے رد نہیں کی جاتی۔‘‘ اس آیت سے یہ مضمون اخذ ہوتا ہے کہ خدا انسانوں کی دنیا کے اندر کوشش و کاوش کو جس کے لیے اور جس حد تک چاہتا ہے بار آور کرتا ہے ان کوششوں کی وجہ سے نہیں دیتا کیونکہ ربوبیت کے تقاضوں میں یہ بھی شامل ہے کہ انسانوں کی کوششوں کو بھی ان کی نیت کا پھل دیا جائے اگر وہ ایسا نہ کرے تو ایمان کا معاملہ اسی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کفر کی موجودگی کا ملال بھی باقی نہیں رہتا خدا کی مشیت اس قسم کی ہے کہ دونوں قسم کے انسانوں کو فائدہ پہنچاتی ہے اگرچہ اس کا نتیجہ یہ ہو گا: من کان یرید حیواۃ الدنیا و زینتھا نوف الحیحم اعمالھم فیھا۔ وھم فیھالا ینجسون۔ اولائک الذین لیس لھم فی الاخرۃ الا النار و حبط ما ضعوا فیھا وباطل ما کون یتملون (بقرہ) ’’ جو کوئی چاہتا ہے دنیاوی زندگی کی آسائش اور اس کی زینت ہم انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اسی زندگی میں پورا دیں گے اور اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی مگر وہ لوگ ایسے ہوں گے کہ آخرت میں ان کے لیے سوائے آگ کے اور کچھ نہیں ہو گا کیونکہ جو کچھ انہوں نے اس دنیا کی زندگی میں کیا تھا وہ ضائع ہو چکا ہو گا اور ان کے سب اعمال بے بنیاد ثابت ہوں گے۔ جس مقصد کے لیے انہوں نے اعمال کیے تھے وہ ان کو یہاں مل چکا۔ آخر زندگی کے لیے کچھ باقی نہ رہا۔‘‘ گویا خدا کی صفت ربوبیت اپنے عمومی معنوں میں مادی فوائد تو ہر انسان کو پہنچاتی ہے مگر مادی کے علاوہ روحانی فوائد صرف اسلام کے واسطے سے ملتے ہیں اور اسلام کی یہی وہ بنیادی اور درست تعلیم ہے جو دنیا کے ہر پیغمبر نے اپنی قوم کے سامنے رکھی۔ فمن الناس من یقول ربنا اتنا فی الدنیا وما لہ فی الآخرۃ من خلاق ومنھم من یقول ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرہ حسنۃ و قنا عذاب النار اولئک لھم نصیب مما کسبوا واللہ سریع الحساب۔ (البقرہ) ’’ لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس دنیا میں دے اور ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی اچھی چیزیں دے اور آخرت میں بھی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ان کے لیے حصہ اس سے جو کمایا انہوں نے اور خدا جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ ان تمام آیات سے یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ انسانوں کی سعی و عمل کا ضرور لحاظ کرتا ہے اور اس میں ایمان یا کفر کا کوئی امتیاز نہیں۔ انسان کی کوشش اگر فقط دنیاوی امور تک محدود ہے تو اسے دنیا مل جاتی ہے مگر یہ شخص روحانی اور اخلاقی متاع کھو بیٹھتا ہے اور خدا کی دی ہوئی دولت سے اپنا جہنم آپ پیدا کرتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تا دم مرگ اسے یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ دعا سے مستغنیٰ انسانوں کے دلوں کلے نیچے جیتے جی جہنم بھڑکتی رہتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دعا اچھے نتائج کے ساتھ انسان کی روحانی تربیت کا سامان بھی ہے اور انسانی عقل کی تربیت کر کے اس متاع اور وسیلے تک اسے بہم پہنچا دیتی ہے جو عام حالات میں انسان کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں اور انسان کے اندر بے پناہ امید اور حوصلہ کا باعث بنتی ہے انسان کا عزم راسخ ہو جاتا ہے اور وہ خدا کی مدد پر بھروسا کرتے ہوئے کسی کام کو بھی اپنے لیے مشکل نہیں سمجھتا۔ اس میں سرا سر انسان کی اپنی فلاح کے سامان ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو انسان کے اس رویے سے بے نیاز ہے۔ انسان کی دعا سے فائدہ نہ اٹھانا خود اس کے لیے عذاب کا موجب بن سکتا ہے۔ قل ما یعبثوبکم ربی لولا دعاء کم لقد کذبتم فسوس یکون لزاما (فرقان: آیت آخرہ) ’’ تو ان سے کہہ دے کہ میرے رب کو تمہاری کیا پروا ہے تمہاری طرف سے دعا نہ کی جائے۔ پس جب تم نے اس حقیقت کو جھٹلا دیا تو یہ مستقل عذاب بن کر تمہارے ساتھ چمٹ جائے گی۔‘‘ دعا انسانی تدبیر کو صائب بناتی ہے اور مطلوبہ امور کی طرف نہ صرف رہنمائی کرتی ہے بلکہ اس راہ میں پیش آنے والی تمام مشکلات کو دور کر کے اچھے نتائج کے حصول کی وجہ بن جاتی ہے۔ تاہم قبولیت دعا سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ دعا بعینہ اسی شکل میں قبولیت کا درجہ حاصل کتی ہے جس رنگ میں وہ کی جائے۔ یہ قبولیت خدا کی مرضی کے مطابق ہو گی وہ جس قدر چاہے گا قبول کرے گا وہ اگر چاہے گا تو اس کی قبولیت کو کسی اور شکل میں تبدیل کر سکتا ہے۔ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے دوسرے خداؤں کے مقابلے میں اپنا یہی امتیاز پیش کیا ہے۔ ھل یسمعونکم اذا تدعون او ینفحولکم او تصرون۔ (انبیائ) ’’ کیا وہ تمہاری دعا سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو یا تمہیں کوئی نفع دے سکتے ہیں یا کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘ مگر خدا تعالیٰ کی قوتوں کا اندازہ انسان نے بہت کم لگایا ہے۔ وہ خود کہتا ہے: ما قدروا اللہ حق قدرہ والارض جمیعاً قبضہ یوم القیامتہ والسماوات معلومات یمینہ سبحنہ و تعالیٰ عما یشرکون (زمر) ’’ ان لوگوں نے خدا کی صفات کا صحیح اندازہ نہیں لگایا۔ حالانکہ قیامت کے دن زمین ساری کی ساری اس کے کامل تصرف میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ وہ ذات پاک ہے اور مشرکانہ عقائد سے بہت بالا ہے۔‘‘ واللہ غالب علی احرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (یوسف) ’’ اللہ اپنی بات کو پورا کرنے پر کامل قدرت رکھتا ہے مگر اکثریت اس حقیقت سے واقف نہیں۔‘‘ کائنات میں اضافہ بے شک و شبہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر انسان کی خواہش اور آرزو بھی بشکل دعا اس اختیار میں شامل ہے، مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم سعی و تدبیر سے دست کش ہو جائیں اور عمل و اقدام کو کوئی وقعت نہ دیں: ویستحیب الذین آمنوا و عملو الصلحت و یزیدھم من فضلہ (شوریٰ: ۲۷) ’’ خدا ان کی دعائیں قبول کرتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں اور اللہ اپنے فضل سے ان کی دعاؤں سے بڑھ کر انہیں دیتا ہے۔‘‘ دعا کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم توقعات و امکانات کے پابند ہو کر رہ جائیں اور قوت عمل کو ترک کر دینے کے باوجود ہمیشہ مثبت نتائج کی امید رکھیں۔ دعا کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ کائنات تو پہلے سے بنی ہوئی مصنوع ہے جس میں فقط علت و معلول کی کار فرمائی ہے اور یہاں حوادث کی ایک ایسی ترتیب ہے جس میں رد و بدل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں دعا کی حیثیت سوائے تسکین قلب کی ایک صورت کے اور کچھ بھی نہیں رہ جاتی۔ اس اعتبار سے دعا کے باب میں سرسید احمد خان اور مرزا غلام احمد دونوں کے دعاوی اقبال کے نزدیک بجا طور پر افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ دعا کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حصول مقاصد کے لیے انسان اپنے خدا کے احکام کے مطابق اسباب اور ذرائع فراہم کرے، اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے پوری قوت عمل میں لائے اور دل کی گہرائیوں سے اس بات پر ایمان رکھے کہ: افوض امری الی اللہ ان اللہ بصیر بالعباد واقعہ یہ ہے کہ علت و معلول اور حوادث کی ترتیب کا تعلق صرف انسان کی خارجی دنیا ہی سے نہیں بلکہ انسانی ذہن سے بھی ہے اور انسان کا باطن ایک ایسی صورت حال ہے جو علت و معلول سے کوئی واسطہ نہیں رکھتی ۔ قرآن ک ارشاد ہے: وان الی ربک المنتھی (نجم ۴۲) ’’ اور بے شک آخری فیصلہ تیرے رب ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ اس آیت میں خدا نے اپنی ہستی کے ثبوت میں اس بات کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ عالم موجودات میں جو علل و معلولات کا سلسلہ مربوط نظر آتا ہے، اس کی آخری علت خدا کی ذلت ہے، کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ اس محدود دنیا میں علل و معلومات کا سلسلہ غیر محدود ہو۔ اسے کہیں تو جا کر ختم ہونا ہے۔ یہی آخری علت خدا کی ذات ہے خدا کی ذات منتہی بھی ہے اور انتہا بھی ہے۔ ھو الاول والآخر والظاہر والباطن وھو بکل شئی علیم (حدید:۳) ’’ وہی اول و آخر و ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘ خدا تعالیٰ کا علت العلل ہونا اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ خود تو کوئی تغیر و تبدل قبول نہ کرے لیکن انسان کے ساتھ اپنے رشتہ ربوبیت کی تصدیق و تشویش کے لیے ان کی پکار کا جواب یوں دے کہ حوادث کی ترتیب بدل جائے۔ اگرچہ یہ تبدیلی اس کی صنعت کی تبدیلی کے مترادف ہرگز نہ ہو گی کیونکہ یہ بھی تو ہے کہ: کل یوم ھو فی شان (رحمان:۲۹) وہ ہر آن ایک نئی حالت میں ہوتا ہے۔ اور اس سے مراد بھی یہی ہے کہ خدا کا کائنات کے لیے ہر لحظہ نئی شان سے ربوبیت کرنا فقط انسان کی خاطر ہے تاکہ انسان خلافت اللہ کی برکت سے نہ صرف موجودات عالم پر حکومت کرے بلکہ عالم موجودات میں متصرف ہو کر خدا کی ہر لحظہ نئی شان کا مظہر بنے۔ ۷ فروری ۱۹۳۸ء کی گفتگو میں اعمال کے بارے میں اقبال کی رائے یہ تھی کہ نیک عمل کبھی ضائع نہیں جاتا۔ یہ خیال غلط ہے کہ اس کا اجر صرف آئندہ زندگی میں ملتا ہے: وما تقدمو الانفسکم من خیر تحدوہ عند اللہ (:) کے ساتھ یہ ارشاد باری تعالیٰ بھی قرآن مجید میں موجود ہے: ان اللہ لا یضیع احرا المحسنین (توبہ: ۱۲۰) ’’ اللہ احسان کرنے والوں کا صلہ ضائع نہیں کرتا۔‘‘ عبادت یا دعا بھی اعمال صالحہ میں سے ایک عمل ہے اگرچہ اس کا تعلق انسان کے باطن اورضمیر سے ہے۔ قرآن تو اس معاملے میں اصولاً کسی خاص سمت کی طرف منہ کرنے کا بھی قائل نہیں۔ واللہ المشرق والمغرب۔ فاینھا تولو افئم وجہ اللہ (بقرہ: ۱۱۵) ’’ مشرق و جنوب اللہ ہی کے لیے ہیں اس لیے تم جدھر بھی رخ کرو گے ادھر کی توجہ کو پاؤ گے۔‘‘ لیس البر ان تولو وجوھکم قبل المشرق والمغرب (بقرہ: ۱۷۷) ’’ تمہارا مشرق و مغرب کی طرف منہ پھیرنا کوئی بڑی نیکی نہیں۔‘‘ تاہم اقبال نے عبادت کی غرض سے ایک خاص سمت کے انتخاب کے لیے تیسرے خطبے میں بڑی خوبصورت دلیل دی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جسم کی وضع بھی ان عوامل میں سے ایک ہے جن سے ذہن کی روش متعین ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام نے عبادت کے لیے ایک مخصوص سمت انتخاب کی تو محض ا س لیے کہ جماعت کے اندر ایک ہی قسم کے جذبات کار فرما ہوں بعینہ جس طرح اس کی ظاہری شکل سے مساوات اجتماعی کی حس بیدار ہوتی اور پرورش پاتی ہے کیونکہ صلوٰۃ بالجماعت سے مقصود ہی یہ ہے کہ شرکائے جماعت میں اپنے مرتبہ و مقام یا نسلی حیثیت کا کوئی احساس باقی نہ رہے، مثلاً یوں ہی سوچئے کہ جنوبی ہندوستان کا وہ برہمن جس کو اپنے شرف ذات کا غرہ ہے، اگر ہر روز ایک اچھوت کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہونے لگے تو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کیسا زبردست انقلاب رونما ہو جائے گا۔ نوع انسان ایک ہے اس لیے کہ وہ محیط ہر کل ذات جس نے ہر شے کو اپنے دامن میں سمیٹ رکھا ہے جوہر انا کی خالق اور اس کا سہارا ہے ایک ہے۔‘‘ اقبال کہتے ہیں کہ اگر مسلمان عبادت اور دعا کے نتیجے میں زیادہ سے زیادہ مثبت نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اس ارادے کو اجتماعی شکل دینا ہو گی کیونکہ صرف وہی عبادت خلوص اور صداقت پر مبنی ہوتی ہے جس کی روح ہمیشہ اجتماعی ہو، اگرچہ دعا انفرادی ہو یا اجتماعی بہرحال انسانی ضمیر کی اس حد درجہ پوشیدہ آرزو کی ترجمان ہے کہ کائنات کے ہولناک سکوت میں کوئی اس کی پکار کا جواب دے۔ دعا اور عبادت کے دوران ہی میں دراصل انسان کو اثبات ذات کا وہ لمحہ بھی نصیب ہوتا ہے جس میں انسان نہ صرف اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہو جاتا ہے بلکہ اس کو یہ تنبیہہ بھی ہوتی ہے کہ کائنات میں اس کا مقام واقعی ایک فعال عنصر کا ہے۔ اقبال کے الفاظ میں ’’ یہی وجہ ہے کہ نفس انسانی کی اس روش کے پیش نظر، جو دعا میں اختیار کی جاتی ہے، اسلام نے صلوٰۃ میں نفی و اثبات دونوں کی رعایت کو ملحوظ رکھا۔‘‘ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے فلسفہ حیات میں فرد کی حیثیت ملت کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ فرد کو بہرحال اپنی خودی کے استحکام کے بعد ملت کے اندر جذب ہو جانا ہے۔ اس لیے قرآن فرد کے لیے یہی تجویز کرتا ہے کہ وہ اجتماعی مصالح اور مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعا مانگے اور اجتماعی خیر و بہبود کا لحاظ رکھے۔ شاید اسی لیے قرآن کی دعاؤں کی حیثیت انفرادی ہونے کی بجائے ہر جگہ اجتماعی ہے۔ اس لیے قرآنی دعاؤں کا آغاز ربنا سے ہوتا ہے۔ خطبہ چہارم بعنوان ’’ خودی، جبر و قدر اور حیات بعد الممات‘‘ میں ایک ضمنی بحث میں اقبال کہتے ہیں کہ اوقات صلوٰۃ کی تعین بھی جو قرآن مجید کے نزدیک خودی کی زندگی اور اختیار کے حقیقی سرچشمے سے قریب لا کر اسے اپنی ذات پر قابو یا محاسبہ نفس حاصل کرنے کا موقع دیتی ہے، اس مقصد کے پیش نظر کی گئی ہے کہ ہم نیند اور کسب معاش کے ایسے اثرات سے محفوظ رہیں جن سے انسان کی زندگی ایک کل کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کے الفاظ میں: ’’ دعا یا صلوٰۃ سے اسلام کی غرض یہ بھی ہے کہ خودی میکانیت سے بچے اور اس کے بجائے آزادی اور اختیار کو اپنائے۔‘‘ صلوٰۃ با جماعت پر اسلامی معاشرے میں اسی لیے شروع سے زور دیا جاتا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مراقبات ذکر و فکر کے نتیجے میں جماعتی مصالح مجروح ہوں۔ اقبال نے خطبہ ہفتم ’’ کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں اس نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شاید اسی لیے اسلامی صلوٰۃ میں موسیقی کی آمیزش برداشت نہیں کی گئی تاکہ مشاہدہ روحانی میں جذبات کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ یہ کہتے ہوئے غالباً اقبال کے ذہن میں قرآن کے یہ ارشادات ہیں کہ: ادعوا ربکم تصرع او خفیتہ انہ لا یحب المتعدین (اعراف:۵۱) ’’ تم اپنے رب کو گڑگڑا کر بھی اور آہستگی سے بھی پکارو۔ وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ قد افلح المومنون الذین ھم عن صلواتھم خاشعون (مومنون:۱) ’’ وہ اپنی مراد کو پا گئے جو اپنی عبادات میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نمازیں خشک اور بے مغز نہیں ہوتیں بلکہ وہ اسے اپنے آنسوؤں سے تر کرتے ہیں اور ان میں ایک روح پیدا کر دیتے ہیں۔‘‘ اقبال اپنی بحث کو سمیٹ کر بالآخر اس نقطے پر لانے میں کامیاب ہو گئے کہ: ’’ اسلام میں صلوٰۃ با جماعت حصول معرفت ہی کا سرچشمہ نہیں، اس کی قدر و قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ صلوٰۃ اجتماعی سے اس تمنا کا اظہا ربھی مقصود ہے کہ ہم ان سب امتیازات کو مٹاتے ہوئے جو انسان اور انسان کے درمیان قائم ہیں، اپنی اس وحدت کی ترجمانی، جو گویا ہماری خلقت میں داخل ہے، اس طرح کریں کہ ہماری عملی زندگی میں اس کا اظہار واقعی ایک حقیقت کے طور پر ہونے لگے۔‘‘ اقبال انسان کو ایک جہان امکان سمجھتے ہیں جیسا کہ قرآنی ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان غیر متناہی ترقیات کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کی استعداد اعلیٰ سے اعلیٰ تر ہے اور اپنی غیر معمولی صفات کی وجہ سے اسے تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے: لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ (التین:۴) ’’ یقینا ہم نے انسان کو احسن ترین شکل میں پیدا کیا۔‘‘ ولقد کرمنا بنی آدم (بنی سرائیل: ۷۵) ’’ ہم نے بنی نوع انسان کو بہت شرف بخشا ہے۔‘‘ ھو الذی جعلکم خلئف فی الارض۔ (فاطر: ۳۹) ’’ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا میں اپنا نائب بنایا۔‘‘ وسخر لکم ما فی السموات وما فی الارض جمیعا منہ (جاثیہ: ۱۳) ’’ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کچھ اس نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے۔‘‘ خدا نے انسان کو اپنی نیابت اسی لیے بخشی ہے کہ وہ انسان کی صفات حسنہ کو ظاہر کرے تاکہ انسان اپنی سعی و عمل اور محنت شاقہ سے ایک نیا جہاں معنی آباد کرے، جو اس بات کی دلیل ہو کہ انسان واقعی متصف صفات الٰہیہ ہے اور کائنات کو اپنے تصرف میں لا کر اوج کمال تک پہنچانا اس کے فرائض میں شامل ہے۔ انہیں لامتناہی ترقیات کے حصول اور جہان امکان کی دریافت کے لیے انسان کو دعا کا حربہ اور قوت موثرہ عطا ہوئی ہے۔ عقلی معرفت صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اعانت کی ضرورت محسوس کراتی ہے، خدا سے تعلق پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتی۔ کامل معرفت صرف ایمان سے نصیب ہوتی ہے جس کی لازمی شرط عالمین کی تخلیق پر غور و فکر ہے۔ یہ ایک طرح کی روحانی مسافت ہے جو انسان کو خدا تک طے کرنا پڑتی ہے۔ یہی قرآن کی زبان میں صراط مستقیم ہے۔ اقبال جسے صلوٰۃ بالجماعت کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان کو تخلقوا باخلاق اللہ کے ارشاد نبویؐ کے تحت چار صفات اپنے اندر پیدا کرنا ہیں۔ ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت۔ معاشرے میں خدا کی مخلوق سے محض خدا کی رضا کی خاطر اپنی صفات کے مطابق انسان کا سلوک عبادت کہلاتا ہے۔ یہ تمام صفات یا خدا تعالیٰ کے فیوض محنت اور دعا سے وابستہ ہیں۔ محنت یہ ہے کہ انسان صفات الٰہی کے مطابق بھرپور اور با عمل زندگی گزارنے کی کوشش کرے اور دعا یہ ہے کہ انسان خدا کی قدرتوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے خدا کی صفات کا مظہر بننے کے لیے اس کا فیض طلب کرے۔ یہاں دعا ایک ایسا عمل ثابت ہوتی ہے جو بے شک پیش کرنے والے واقعہ کو روک تو نہ سکے لیکن انسان کے اندر ایک ایسی کیفیت پیدا کر دے جو انسان پر منفی اثرات مرتب ہی نہ ہونے دے۔ اس کے برعکس ایک نئی صحت مند تبدیلی پیدا کر دے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے: تری دعا سے قضا تو نہیں بدل سکتی مگر ہے اس سے یہ ممکن کہ تو بدل جائے یہی انعمت علیہم کا مقام ہے اور یہی دعا اور عبادت کا اصل مفہوم ہے۔ ٭٭٭ ماخذات ۱۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ، ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ترجمہ سید نذیر نیازی ۲۔ نفسیات واردات روحانی، ولیم جیمز ترجمہ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم۔ ۳۔ الدعا والاستجابہ، سید احمد خاں ۴۔ برکات الدعا، مرزا غلام احمد ۵۔ دعائیں، راشد الخیری ۶۔ مضامین سرسید، مرتبہ محمد اسماعیل پانی پتی ۷۔ فصوص الحکم، محی الدین ابن عربی ۸۔ فتوحات مکیہ، محی الدین ابن عربی ۹۔ مقدمہ، ابن خلدون ۱۰۔ اقبال کے حضور (نشستیں اور گفتگوئیں) سید نذیر نیازی ۱۱۔ العقیدہ الصغریٰ، محی الدین ابن عربی۔ ۱۲۔ Prof. Rom London Islam and the Arabs ٭٭٭ فلسفہ وجودیت اور اقبال (۱) یہ بات ہیگل (Hegel) کی زبان سے ادا ہوئی تھی کہ ’’ خالص وجود اور خالص عدم میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ تب اقبال نے اس پر بڑی جرأت سے کہا:’’ ہیگل کا صدف گوہر سے خالی۔‘‘ کچھ لوگ یہیں سے اقبال کے ہاں وجودی رویے کا سراغ لگاتے ہیں اور وجودیت سے فکر اقبال کی ہم آہنگی تلاش کرتے ہیں۔ بے شک اقبال کے افکار فلسفہ کے کسی خاص مکتبہ فکر اور ادب کی کسی مخصوص تحریک سے ہرگز وابستہ نہیں، تاہم فلسفہ اور ادب کے موضوعات میں اس قسم کی مطابقت کی تلاش ہر گز بے معنی بھی نہیں۔ پھر بھی ایک بات سے کسی طور پر انکار ممکن نہیں کہ اپنے افکار کی تشریح میں اقبال کا ادعا نہ صرف قرآن مید سے انحراف کا قائل نہیں بلکہ قرآن کو اقبال اپنے نظریات کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔ وہ حقیقت کو قرآن کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور پھر اس کا ابلاغ اور توضیح جدید فلسفیانہ اصطلاحات اور افکار کے حوالے سے کرتے ہیں۔ چنانچہ ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے ساتوں خطبے ان کے اس طرز عمل کے گواہ ہیں۔ اقبال نطشے (Nietzsche) سے بالواسطہ متاثر تھے۔ ممکن ہے نطشے کے حوالے سے ان تک وجودی فلسفیوں کے خیالات پہنچے ہوں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ فکر اقبال کی اساس اور اس کا تانا بانا عام طور پر اسلامی عجمی کلیات پر ہے۔ چنانچہ ان کے فکر کا بنیادی محرک تو بے شک اسلام ہی ہے، مگر مختلف دیگر مکاتب فکر مثلاً وجودیت وغیرہ سے ان کا متاثر ہو نا یا نادانستہ طور پر ان کی رو میں سوچنا کچھ بعید بھی نہیں ہے۔ اقبال کے فکر کی مسافرت کے ایام میں ایسا تو نہ تھا کہ وجودیت کے مکتبہ فکر سے ان کا تعارف نہ ہوا ہو کیونکہ اس وقت تک وجودیت کا مسلک دنیا بھر میں خاصی اہمیت اختیار کر چکا تھا، مگر یہ ضرور ہے کہ ان کے ہاں نظم یا نثر میں کسی جگہ بھی فلسفہ وجودیت کا ذکر نام لے کر نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود جب وہ یہ کہتے ہیں کہ: نیشتر اندر دل مغرب فشرد دستش از خون چلیپا احمر است آنکہ بر طرح حرم بت خانہ ریخت قلب او مومن دماغش کافر است تو لگتا ہے کہ اقبال نطشے کی قلبی کیفیتوں سے قریب تر ہو کر اسے خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور نطشے وہی تھا جس کی موت کے ساتھ انیسویں صدی ختم ہوئی۔ وہ بہرحال ایک وجودی تھا اس لیے وجودی نقطہ نظر سے اگر اقبال کے کلام اور ان کے خطبات و افکار کا مطالعہ کیا جائے تو فرد، آزادی، عقل، ذات، ارادۂ ذات اور انسان جیسے موضوعات پر وجودیت کا پرتو اور وجودی افکار سے مشابہت اور معنوی ہم آہنگی دیکھی جا سکتی ہے۔ بے شک وجودیت سے فکری اختلاف اور تضاد بھی اقبال کے ہاں موجود ہے، لیکن یہ اختلاف اور اتفاق کی دونوں صورتیں در حقیقت اس لیے ہیں کہ اقبال کے ہاں شے کی قدر و قیمت کا معیار ان کا نظریہ خودی ہے۔ خودی کو استحکام بخشنے والی ہر چیز ان کے نزدیک قابل قبول ہے اور ہر وہ چیز جو خودی کے اضمحلال کا باعث بنے، قابل مذمت ٹھہرتی ہے۔ ان کی فکری افتاد خلیفہ عبدالحکیم کی رائے میں اس کے سوا کچھ اور نہ تھی کہ ’’ انہوں نے جو کچھ بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا، جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جاری حقیقت سے ہٹا ہوا نظر آیا اس کی تردید کر دی۔‘‘ (۲) وجودیت کی شکل میں برپا ہونے والی تحریک در حقیقت عالمی محاربات ہی کا نتیجہ ہے۔ سمجھا یہ گیا تھا کہ عالمی جنگیں یورپ کے اعلیٰ نصب العین کی تکمیل کا باعث بنیں گی یا پھر یورپ اور امریکا کی مادی ترقی کے ساتھ ہی ساتھ لگے ہاتھوں اس تمام تر ترقی سے وابستہ بھرم کے کھرے کھوٹے کا بھی فیصلہ ہو جائے گا، لیکن ہوا یہ کہ خاص طور پر جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو پتا چلا کہ یہ سب تو ایک بھیانک خواب کے سوا کچھ بھی نہ تھا اور انسان تو محض تاریکیوں میں بھٹکنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے، نیز عہد حاضر کی میکانیت اور صنعت نے فرد کو غیر اہم بنا دیا ہے جس سے انسان خود نا آشنائی کے عذاب میں مبتلا ہو کر رہ گیا ہے اور اپنی موضوعیت کو نمایاں کرنے کا اسے کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔ پھر تو اوپر تلے بہت سی آوازیں آنے لگیں۔ ہر شے پر انسانی اعتماد متزلزل ہو کر رہ گیا۔ مذہب اور قدروں کی اہمیت ختم ہو گئی۔ جوہریت پر مبنی فلسفہ اور اخلاق انسانی زندگی کے لیے بے معنی قرار پائے۔ سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا اور وجودی مفکر ابھرے۔ نطشے نے خدا کی موت کا اعلان کیا تھا ہیڈیگر (Heidegger) نے کہا ’’ انسان تنہا اور تھکن سے چور فرد ہے‘‘ مگر بریشت (Brecht) نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ انسان مر چکا ہے۔‘‘ وجودیوں کا دعویٰ یہ تھا کہ آج تک وجود کو نظر انداز کر دینے کے نتیجے میں بالآخر انسان محقلات (Concepts) بن کر رہ گئے ہیں او ریہ تمام تر غلط ہوا ہے۔ انہوں نے ہیگل کی حقیقت اولیٰ (Absolute) اور جدلیاتی ارتقاء پر گرفت کی اور کہا کہ اگر حقیقت صرف حقیقت اولیٰ سے ہی وابستہ ہے تو باقی سب کچھ اور ہر موجود شے حتیٰ کہ افراد بھی غیر حقیقی ہیں اور یہی چیز انسان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس سے تو سرے سے انسان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ انسانیت تو بعد کی بات ہے ہیگل کے ہاں فکر جس جدلیاتی انداز میں ارتقاء پذیر ہوتا ہے اس کی انتہا حقیقت اولیٰ ہے۔ خرد کہیں بھی نہیں یا ہے تو محض ضمنی حیثیت میں کیر کیگارڈ (Kierkegaard) نے یہی محسوس کرتے ہوئے کہ مثالیت یا جدلیت میں فرد کی انفرادیت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہا کہ ہیگل کی ’’ حقیقت اولیٰ‘‘ میں میرا دم گھٹتا ہے۔ یہاں میرے لیے تو کوئی بھی جگہ نہیں اور اقبال بھی جب یہاں فرد کے خودی کو مجروح ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا کہـ:’’ ہیگل کا صدف گہر سے خالی۔‘‘ وجودیت پسندوں نے فرد کی موت کی ذمہ دار ریاست، ادارے، سائنس، تہذیب و ثقافت، مذہب و اخلاق، معاشرتی اقدار، تاریخی جبریت اور جدلیاتی عمل کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان سے تو انسان کے مسائل اور پیچیدہ اور تہ در تہ ہوتے چلے جاتے ہیں حالانکہ انسان اپنے انتخاب اور عمل میں آزاد اور پوری طرح ذمہ دار ہے، خوف زدہ نہیں۔ سب کچھ انسان ہی ہے اور باقی جو کچھ ہے اس کا انسان کے حوالے کے بغیر کوئی وجود نہیں۔ عالم میں جوہر کی شرط یہی وجود ہے چنانچہ کوئی خارجی قوت یا نصب العین یا حقیقت اولیٰ انسان کے وجود کو نہ ترتیب دے سکتی ہے اور نہ تشکیل کرتی ہے۔ وجودیت پسندوں نے بے معنویت سے بھی معنی کی تخلیق کی ہے۔ ان کے نزدیک انسان اپنے فعل سے اپنے معنی تخلیق کرتا ہے ورنہ بجائے خود زندگی بے معنی ہے۔ قدیم فلسفہ اور اخلاقیات میں فرد کو جماعت پر قربان کر دیا گیا ہے۔ افراد جماعتی عضویہ (Society Organism) کے لیے اعضاء شمار کیے جاتے رہے جن کا اپنا کوئی مقصد نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ عضویہ کے کام کو جاری رکھیں، گویا کہ افراد جماعتی مقصد اپنا کر اپنی حیثیت کھو دیں، کیونکہ قدرت نے ہمیشہ انواع کی حفاظت کی ہے اور اگر کبھی نوع ختم ہوئی ہے تو افراد کی غفلت کے باعث۔ اس لیے صرف اسی اخلاق کو پذیرائی ہے جو بقاء کی جدوجہد میں ممد و معاون ہو۔ اسی باعث وجودیوں نے مذہب پر نہ صرف گرفت کی بلکہ اسے فرد کا دشمن قرار دیا۔ مذاہب کا یہ دعویٰ کہ خدا نے کائنات کو ایک مقصد کے تحت عدم سے وجود بخشا اور ہر چیز شعوری یا غیر شعوری انداز میں خدا کے مقصد کی تکمیل میں مصروف ہے، وجودیوں کے لیے قابل قبول نہیں۔ وہ اس میں فرد کی نفی دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں مذہب اس لیے فرد کا دشمن ہے کہ وہ خدا کو حقیقت سمجھتا ہے اور فرد کو دوسرے درجے پر شمار کرتا ہے۔ اس معاملے میں اقبال کا لب و لہجہ مختلف ہے اگرچہ وہ وجودیوں کے آس پاس ہی نظر آتے ہیں: آیہ کائنات کا معنی دیر یاب تو نکلے تیری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو وجودیوں کے نزدیک بالخصوص اور بیسویں صدی کے دانشوروں کے نزدیک بالعموم پرانی اخلاقی قدروں اور مذہب سے نئی نسل مایوس ہوچکی ہے۔ فرد کی علیحدگی، تنہائی، محرومی، بے بسی اور اقدار کی مکمل تباہی اخلاق اور مذہب کی ناکامی کی دلیل ہے۔ فلسفہ وجودیت نے احساس کے اظہار کی نئی ہیئت کو عقلی طور پر پیش کیا ہے اور اسی لیے یہ مزاجی اعتبار سے فلسفہ، سائنس، مذہب، سیاست، تاریخی اور مادی جبریت اور نفسیات کے خلاف بھی ایک احتجاج اور رد عمل کے طور پر ابھرا ہے۔ وجودیوں کے نزدیک تہذیب و تمدن کی ترقی نے فرد کی ذاتی حیثیت کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ فرد کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے اور اس کے متعلق خارجی حقائق کے تعلق کو ابھارنے کے عمل کو اولیت دی جاتی رہی ہے۔ بطور احتجاج وجودیت پسند رویے نے تمام مروجہ اداروں اور ضابطوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے اور اس کے برعکس اپنے اندر کے خلاف کو سامنے لے آئے ہیں۔ اس عہد میں ژاں پال سارتر (Sartre) نے جو ادیب بھی تھے اور فلسفی بھی، فرد کی آزادی کے بوجھ اور تنہائی کے درد کو اپنے افکار کا موضوع بنایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لاتعلقی کا رویہ جذباتی زیادہ ہے اور فکری کم عجیب بات ہے پھر بھی یہ تحریک فلسفے سے زیادہ متعلق ہے اور ادب سے کم کم، مگر اس سے بھی عجیب تر یہ ہے کہ یہ تحریک فلسفے کے واسطے سے کم اور ادیبوںکی کوششوں سے زیادہ مقبول ہوئی۔ بہرحال یورپ نے اس تحریک کو بھی حسب دستور دیکھتے ہی دیکھتے قبول کر لیا۔ غالباً یہ سمجھتے ہوئے کہ وجودیت کے فلسفے نے فرد کو اس کا کھویا ہوا تشخص لوٹانے کا بیڑا اٹھایا ہے اور فرد پر حاوی ہر ادارے کو ختم کرنے کی سعی کی ہے، خواہ وہ معاشرہ ہو، اخلاق، مذہب یا خود فلسفہ۔ (۳) وجودیت کے دو واضح مذہب ہیں۔ الٰہیات اور ملحدانہ الٰہیات مکتبہ فکر کا بانی امام کیر کیگارڈ ہے جسے سب سے پہلے ہیگل کے الٰہیات فلسفے میں انسانی تشخص اور آزادی کے کھو جانے کا احساس ہوا۔ فکری مسافرت کے میدان میں وہ مختلف راستوں، مثلاً جمالیات اور اخلاقی اقدار کے موڑ کاٹتا ہوا بالآخر ایمان اور مذہب کی طرف آ نکلا اور خدا کے حوالے سے وجود کا اثبات کرنے لگا۔ کیر کیگارڈ کی رائے میں تعلق باللہ کے بعد تمام اصول اور ضابطے ختم ہو جاتے ہیں اور فرد کی ذات اپنا معراج پا لیتی ہے۔ وجودیت کی یہ قسم گویا ایک طرح کی طریقت ہوئی جس میں جمالیات یا عشق مجازی کے واسطے سے اخلاقیات کی منزل تک پہنچا جاتا ہے اور پھر ایمان اور خدا کے حوالے سے الٰہیات کی منزل نصیب ہوتی ہے۔ کیر کیگارڈ شخصیت کے مذہبی رخ کی بازیافت کا مشورہ دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عقل عقیدے کو ہضم کر لینے کے درپے ہے اس لیے انسانی مسائل کا واحدحل یہ ہے کہ انسان خود کو کلیسائی عقائد پر استوار کرے۔ جیسپرز (Jaspers) اسی طرح کی سوچ کا دوسرا وجودی مفکر ہے، مگر اس کی باتوں میں ابہام بے اندازہ ہے۔ ملحدانہ مکتبہ فکر کی ابتدا نطشے سے ہوتی ہے جس نے خدا کی موت کا اعلان کر کے ہر چیز کو مباح قرار دے دیا اور انسان کو ہر قسم کی اقدار اور ضابطوں سے آزاد جانا۔ اس نے کہا ’’ اخلاق نفسیاتی حقیقتوں سے بے خبر ہے اس لیے کاذب ہے‘‘ اور یہ کہ ’’ طاقت کسی چیز کو حاصل کر کے خاموش ہو جانے کا نام نہیں بلکہ طاقت کا مطلب ہے ہر لمحے زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول، کیونکہ اقتدار حاصل کرنے کی یہ لامتناہی خواہش ہی انسان کو زندہ رکھتی ہے۔‘‘ مارٹن ہیڈیگر اور ژاں پال سارتر کے افکار کی تشکیل ان ہی خیالات کی روشنی میں ہوئی۔ نطشے نے کہا تھا:’’ انسان کائنات میں پھینک دیا گیا ہے، لیکن اس کا پھینکنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنا جوہر خود متعین کرتا ہے۔‘‘ اور سارتر نے اعلان کیا کہ ’’ انسان سب سے پہلے وجو دمیں آتا ہے اپنے آپ سے دوچار ہوتا ہے دنیا میں ابل پڑتا ہے اور اپنی تعریف بعد میں متعین کرتا ہے۔‘‘ اس نے یہ بھی کہا کہ:’’ انسان اس کے سوا اور کچھ نہیں جو وہ خود کو بناتا ہے۔‘‘ انسان کے سامنے ہزاروں راستے اور دشت ہائے امکان ہیں۔ وہ ان میں سے انتخاب خود کرتا ہے مگر اس کا وجود انتخاب سے پہلے ہے اور قدریں اس کے انتخاب کے بعد جنم لیتی ہیں اس لیے وجود پہلے اور جوہر بعد میں ہے۔ فرد کے لیے جبریت کی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اس دنیا میں آزاد ہی پیدا ہوتا ہے دشت امکان میں جو کچھ فرد مستانہ طے کرے ہے وہی اس کا عمل بنتا ہے۔ فرد کی آزادی انتخاب اس کی زندگی کو با معنی بناتی ہے ورنہ یہ دنیا سرا سر بے معنی ہے۔ لے دے کے آگہی یا شعور ہی ایک ایسی قدر ہے جو سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہیڈیگر کا مرکزی موضوع انسان کی خود اجنبیت (Self-Strangement) ہے۔ اس کا فلسفہ لادینی ہے نہ دینی، تاہم اس کے ہاں یہ اعتراف واضح ہے کہ دنیا خدا کے وجود سے خالی ہے اس کے نزدیک وجود کے معنی خود سے علیحدہ ہو کر اپنا احساس کرنا ہے۔ وہ کہتا ہے میرا وجود میرے پوست کے اندر میرا جسم نہیں بلکہ وہ ایک ایسی شے ہے جومیدان میں یا اس دنیا میں پھیلی ہوئی ہے جس کی نگہداشت میرا کام ہے اس کے نزدیک انسان کو وقت کا احساس اس لیے ہے کہ اسے اپنی موت کا احساس ہے وہ حال کے بجائے مستقبل کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک آدمی وہ نہیں ہے بلکہ وہ ہے جو ہونے والا ہے۔ اس کے ہاں وجود کی کچھ زیادہ وضاحت نہیں ملتی۔ سارتر نطشے اور ڈیکارٹ (Descartes) کے خیالات کے زیر اثر خدا کی موت کو تسلیم کر لینے کے بعد اس کی جگہ انسان کو دیتا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کا باقاعدہ مطالعہ ہی اصل کام ہے۔ یہ بات مارکس (Marx) کے اس قول سے کچھ مختلف نہیں کہ انسانیت کی جڑ خود انسان ہے۔ وہ انسان کے فعل کو فقط شعوری خیال کرتا ہے اور لاشعور کے وجود کا منکر ہے اس کے خیال میں انسان اپنی آزادی سے خوف زدہ رہتا ہے اور اسی لیے دوسروں کو آزادی سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ ہر انسان کی معنویت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے تمام انسانوں کے لیے کوئی ایسا معیار وضع نہیں کیا جا سکتا جو سب پر حاوی ہو۔ انسان اپنی حقیقتوں سے انکشاف اور آگاہی کے بعد ہی خود فریبی سے بچ سکتا ہے۔ تنہائی کے مقابلے کا حوصلہ قدروں کو جنم دیتا ہے اور انسانی کردار کی تشکیل میں معاون بنتا ہے ورنہ یہ دنیا بے معنی اور لغو ہے۔ شعور یا آگہی زندگی کی سب سے بڑی قدر ہے۔ فرد کا وجود واحد حقیقت ہے جس سے آگے کوئی حقیقت نہیں۔ انسان کو اپنے جوہر سے پہلے اپنے وجود کا احساس ہوتا ہے اس کے الفاظ میں ’’ کوئی خدا نہیں، کوئی ازلی گناہ نہیں، کوئی ورثہ نہیں، کوئی ماحول نہیں، کوئی نسل نہیں، کوئی ذات نہیں، کوئی باپ یا ماں نہیں، کوئی ورثہ نہیں، کوئی ماحول نہیں، کوئی نسل نہیں، کوئی ذات نہیں، کوئی باپ یا ماں نہیں، کوئی مربی یا استاد نہیں، کوئی جبلت میلان یا رحجان نہیں۔ انسان آزاد ہے‘‘ بلکہ وہ کہتا ہے Man is conemend to be free سارتر کے نزدیک سب کچھ موت کا سامنا کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ خدا نہیں اس لیے مقدر نہیں اور چونکہ مقدر نہیں اس لیے انسان یا انسانی فطرت بھی بے حقیقت ہے اور کوئی جبریت نہیں۔ وہ ایمان داری کو ارفع قدر تسلیم کرتا ہے اور احساس گناہ، ناکامی، دکھ اور مایوسی میں بھی ایمان داری کو قائم رکھنے کا قائل ہے۔ اس کے نزدیک باعمل حقیقت کے سوا اور کسی حقیقت کا کوئی وجود نہیں۔ انسان کو اپنے افعال کے اسباب خارج میں تلاش نہیں کرنا چاہئیں۔ ہر چند کہ وہ تنہا ہے اور تنہائی کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اس میں موجود ہے، اس کے نزدیک کفر اور الحاد سے نتائج نکالنے کا نام وجودیت ہے۔ اس کے فلسفے کی بنیاد کفر پر ہے جب کہ خدا کی ہستی کا انکار کرنا عالم گیر اخلاقی اصولوں اور مستقل قدروں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کے مترادف ہے۔ اگر انسان کی آزادی کو بے حد و حساب مان لیا جائے تو فرد کا افراد کو ہدایت دینا بے معنی ہو جاتا ہے۔ اقبال کی رائے سارتر کے موافق تو ہر گز نہیں تاہم وہ بھی فرد کو اس کائنات میں بے پناہ درجہ دیتے ہیں: تو زندگی ہے پائندگی ہے باقی ہے جو کچھ ہے سب خاکبازی ٭٭٭ وہی جہاں ہے تیرا جہاں جس کو تو کرے پیدا یہ سنگ و خشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہے ٭٭٭ یہ ایک بات کہ مومن ہے صاحب مقصود ہزار گونہ فروغ ہزار گونہ فروغ ٭٭٭ تیری قندیل ہے تیرا دل تو آپ ہے اپنی روشنائی ٭٭٭ اک تو کہ حق ہے اس جہاں میں باقی ہے نمود سیمیائی وجودی فلسفی اور مفکر اس روایت پرست دنیا کو مردہ دنیا تصور کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس دور میں انسان کو ابدیت کے عذاب سے نجات مل گئی ہے اور اسے اپنے وجود کی معنویت کا شدت سے احساس ہوا ہے۔ اس کے نزدیک دنیا میں انسانی نصب العین اور انسانی مسرت و غم کی آمیزش اس کا نتیجہ ہے۔ مگر ان کے ہاں بنیادی خامی یہ ہے کہ ان میں کسی کا ذہن بھی ابدیت کے اس حصار کو نہیں توڑتا جو صدیوں سے انسانی فکر کو اپنا پابند بنائے ہوئے ہے۔ مذہب نے انسان کی تسکین کے لیے حیات بعد الموت کا فلسفہ پیش کیا تھا۔ وجودیت پسند ذہن چاہے وہ خدا کا حامی ہو یا منکر جب انسان کی مختصر زندگی کو دیکھتا ہے تو ابدیت کے نفسیاتی پس منظر میں اسے بے معنی گرداننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انسان نے بالطبع اپنے حال پر ماضی کو ترجیح دی ہے۔ اس عہد میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی بے اندازہ قوت ہے۔ اس قوت نے انسان کو اپنے وجود کے خلا، کھوکھلے پن، تنہائی یا بے معنویت کے احساس سے دو چار کر دیا ہے۔ ایک طرح سے وجودی رویے میں کہیں کہیں اجتماع ضدین بھی ہے۔ خدا کی بندگی سے آصزادی کے بے کراں میدان کی طرف انسان کے پھیلاؤ کی حقیقت کا انکشاف تو ضرور ہوا ہے مگر آئندہ کیا ہو گا اس کا وجودیت کو کچھ علم نہیں کیونکہ موضوعیت اور باطنیت کے اجاگر ہونے سے انفرادیت تو محفوظ ہو جاتی ہے مگر پھر آگے جانے کے راستے آپ ہی میں الجھ کر رہ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف نمائندہ وجودیوں کے خیالات میں یکسانیت اور اشتراک نہیں پایا جاتا۔ وجودی مفکرین کے ہاں رجائی رویہ اور جہان ممکنات کا تصور موجود تو ہے مگر کسی قدر غیر واضح اور مبہم ہے۔۔۔۔ اس قدر غیر واضح اور مبہم کہ نئی وجودیت کا مبلغ کولن ولسن (Collin Wilson) تو اسے اساسی طور پر قنوطی رویہ کہتا ہے اور اسے مطالعہ انسان کے سلسلے میں منفی زاویہ نگاہ کا حامل فلسفہ قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک پرانی وجودیت انسان کے تخلیقی امکانات کو نظر انداز کرنے کا رحجان رکھتی ہے۔ سارتر اور ہیڈیگر کی فکر یاس اور نا امیدی پر مبنی ہے اور تخلیقی قوت سے محروم ہے کیونکہ سارتر اپنی آزادی سے کام لینا نہیں سکھاتا۔ اس سے انسان کی بے ہمتی کے مغالطے کو فروغ ملتا ہے اور ان معنوں میں کولن ولسن اقبال کے زیادہ قریب ہے کیونکہ وہ سائنسی منہاج پر ظہور پذیر ہونے والے ان تغیرات کو اپنی فکر میں سمونے کی کوشش کرتا ہے جس کی رو سے انسان محض ایک مجہول نام نہیں بلکہ انسان کے روز مرہ شعور سے ماوراء بھی جہان حقیقی ہے۔ وہ شعور کے امکانات کو رضا کارانہ طور پر محدود کرنا زندگی گزارنے کی خاطر ضروری سمجھتا ہے، مگر ان امکانات سے دست بردار ہونا پسند نہیں کرتا۔ اقبال اور کولن ولسن متفق ہیں کہ انسانی ذات کا فہم حاصل کرنے کی خاطر نصب العین کے احساس کو شعور کی گہرائیوں میں از سر نو گرفت میں لیا جانا چاہیے۔ (۴) کیر کیگارڈ کے نزدیک خدا کے موضوع تسلیم کیے بغیر انسان اور خدا کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا اور یہ کہ خدا اپنے وجود کے لیے اپنی موجودگی کا محتاج ہے۔ اس کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ انسان صرف خدا کے وجود ہی میں موجود رہ سکتا ہے، مگر اس کے لیے انسان کو لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار خیال کرے اور در حقیقت گنگاہگار ہونے کا تصور ہی انسان میں مذہبی جذبے کی نمو کا باعث بنتا ہے اور اچھا عیسائی بننے کے لیے عقل کی آنکھ کو نکال باہر کرنے کی خواہش رکھتا ہے کہ ایسا کیے بغیر آسمانی بادشاہت میں داخلہ نا ممکن ہے۔ کیر کیگارڈ نے عقل کو ایک کسبی کا نام دے کر اپنی خرد دشمنی کا اعلان کیا ہے۔ وہ مروجہ عیسائیت کا مخالف ہے اور اس میں اصلاح کا خواہش مند ہے۔ اقبال بھی مروجہ اسلام میں ایک طرح کی تبدیلی کے خواہش مند تھے جس میں تعقل کو دخل ہو اور جو زمانہ حال کی کسوٹی پر کسا جائے۔ بظاہر دونوں کا مقصد ایک ہے، مگر جہاں کیر کیگارڈ خرد دشمن ہے، وہاں اقبال تعقل پسند ہیں، اگرچہ ان کی تعقل پسندی مجرد عقل پسندی نہیں بلکہ جذبہ عشق سے مملو خرد مندی ہے۔ کیر کیگارڈ نے اشتراکیت کے خلاف اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:’’ اجتماعی ملکیت کا دیو فرد کی انفرادیت کو ختم کر رہا ہے۔‘‘ اس نے اشتراکیت کی مخالفت میں اپنی رائے کا جواز یہ کہتے ہوئے پیش کیا ہے کہ:’’ اس کی اشاعت کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ فرد اپنی تنہائی میں وہ شجاعت پیدا کرے جو اس آدمی کے حصے میں آتی ہے جو صرف خدا کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ کہ:’’ اس عمل کو صرف اہل مذہب ہی روک سکتے ہیں۔‘‘ یہ رویہ اقبال کی سوچ کے برعکس ہے اقبال ایک مسلمان سوشلسٹ ہیں۔ وہ الارض للہ کے قرآنی نقطہ نظر کے قائل ہیں اور زمین کی ملکیت کے باب میں قومی ملکیت کے تصور کو درست کہتے ہیں اقبال کو بالعموم اشتراکیت کے معاشی تصورات سے اتفاق ہے۔ کارل جیسپرز ما بعد الطبیعیات افکار اور ازلی و ابدی صداقتوں کے تصورات کو محض غلط اور بے بنیاد وہم قرار دیتا ہے۔ وہ سائنس کا مخالف ہے اور فلسفے کو عقل سے آگے کی چیز خیال کرتا ہے۔ وجودیت پسندوں میں کیر کیگارڈ کے نزدیک مستقبل کی قدر و قیمت یہ ہے کہ وہ ایک دشت امکان ہے جس میں انسان کا وجود یوں آزاد ہے کہ اپنی تقدیر تو آپ بناتا ہے مگر اس میں کوئی جوہر نہیں اور وجود اپنے جوہر کے جبر اور لزوم کی کشمکش میں اپنی آزادی کھو دیتا ہے۔ لہٰذا انسان اپنے جوہر کی تصدیق خود کرتا ہے اور اپنی تعریف بھی آپ متعین کرتا ہے۔ الٰہیاتی وجودیت پسند اس باب میں بالعموم متفق ہیں۔ مارٹن ہیڈیگر انسان کو صاحب اختیار وجود گردانتا ہے جس کے پاس قوت فیصلہ ہے اس کے نزدیک صدات کا منبع اور موجد انسان ہے اور انسان کے سوا کوئی بھی دوسری ہستی نہیں۔۔۔۔ خدا بھی نہیں انسان کہاں سے وارد ہوا اور کہاں جا رہا ہے؟ یہ کوئی نہیں جانتا انسان کا نوعی احساس اسے تحفظ بخشتا ہے۔ اس کا ایک فرد ہونے کا احساس اسے تحفظ سے محروم کر دیتا ہے۔ ہیڈیگر بھی انسان کو ایک ایسا امکان قرار دیتا ہے جس کا وجود سامنے کھلے امکانات کا انتخاب کرتا ہے، تاہم وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ انسان کا انتخاب قطعی نہیں ہے۔ اس مکتبہ فکر کے ایک امام کارل جیسپرز نے یہی کہا کہ انسان کی امکانی قوتوں کا تصور نا ممکن ہے۔ انسان کچھ اس طرح نا مکمل ہے کہ کبھی بھی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا اس لیے اس کا مستقبل بھی کبھی متعین نہیں ہو سکتا۔ یہاں اقبال وجودیت پسندوں سے متفق نظر آتے ہیں کہ وہ بھی انسانی ارادے کی آزادی کے خواہاں ہیں۔ اسے تقدیر کا زندانی نہیں قرار دیتے۔ ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے کہ خاک ذرہ ہے تو تابع ستارہ نہیں ٭٭٭ ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخئی افلاک میں ہے خوار و زبوں ٭٭٭ نہ ستارے میں ہے نے گردش افلاک میں ہے میری تقدیر میرے نالہ بے باک میں ہے اقبال فطرت کو مجبور قرار دیتے ہیں اور انسان کو ندرت فکر عمل کے بل پر معجزات زندگی برپا کرنے والی عظیم ہستی قرار دیتے ہیں جس کے تمام تر امکانات کو ابھی واضح ہونا ہے۔ انسان کا مستقبل اقبال کے نزدیک بھی معرض امکان میں ہے۔ اقبال کا قول ہے کہ:’’ ہم زمانے کی حرکت کا تصور خط کشیدہ سے نہیں کریں گے کیونکہ یہ خط ابھی کھینچ رہا ہے اور اس سے مطلب وہ امکانات ہیں جو ہو سکتا ہے وقوع میں آئیں یا نہ آئیں۔‘‘ اقبال بھی انسان کو کسی جبر و لزوم کا پابند نہیں سمجھتے: فطرت آشفتہ کہ از خاک جہان مجبور خود گرے خود نگرے خود شکنے پیدا شد ٭٭٭ ناچیز جہان مہ و پرویں تیرے آگے وہ عالم مجبور ہے تو عالم آزاد امکان کی کوئی حد نہیں ممکنات کے جہان کے دروازے اقبال ہمیشہ وا دیکھتے ہیں۔ ہیڈیگر نے اس کو ’’ امکان کی قوت خاموش‘‘ کہا ہے۔ وجودیت اگر جہان امکان ہے تو بھی اس کے ہم نوا ہیں: زندہ جاں را امکاں خوش است مردہ دل را عالم العیاں خوش است اقبال نے کائنات کو کوئی ایسا منصوبہ نہیں سمجھا جو پہلے سے طے شدہ ہو اور جس میں اب اضافے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو۔ لہٰذا اس عالم آزادگان میں انسان فکر و عمل کے اختیار میں آزاد ہے اور آزادی کے بغیر وہ کبھی وجود میں نہیں آتا۔ اقبال کہتے ہیں:’’ ہمارے نزدیک قرآن مجید کے نقطہ نظر سے کائنات کا کوئی تصور اتنا بعید نہیں جس قدر یہ کہ وہ کسی پہلے سے سوچے سمجھے منصوبے کی زبانی نقل ہے۔ قرآن کی رو سے کائنات میں اضافہ ممکن ہے گویا یہ ایک اضافہ پذیر کائنات ہے کوئی بنا بنایا موضوع نہیں جس کو اس کے صانع نے مدت ہوئی تیار کیا تھا، جو اب مادے کے ایک بے جان ڈھیر کی طرح امکان مطلق میں پڑا ہے جس میں زمانے کا کوئی دخل نہیں۔ اس لیے اس کا عدم اور وجود برابر ہے۔‘‘ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون یہ رائے بھی اقبال ہی کی ہے کہ: کہ جان بے فطرت آزاد جاں نیست کم و بیش یہی بات سارتر نے کہی ہے کہ:’’ انسان بعض اوقات مجبور نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ سے اور مکمل آزاد ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر وہ موجود ہی نہیں۔‘‘ سارتر کا ادعا یہ ہے کہ ’’ انسان اپنے آپ کو وہ ہستی تسلیم کرے جس کی وجہ سے عالم کا وجود ہے۔‘‘ اقبال نے بھی یہی کہا ہے: جہان رنگ و بو گلدستہ ما ز ما آزاد و ہم وابستہ ما اور یہ کہ ’’ ہر موجودممنون نگاہیت‘‘ کارل جیسپرز کے نزدیک انسان کی آزادی کاو منبع خود اس کی اپنی ذات ہے اور انسان وہ ہستی ہے جو اپنی معراج کو پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس نے اپنی انا (Ego) کو خود متشکل کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’ بغیر فیصلہ کے انتخاب، بغیر عزم کے فیصلہ، بغیر فرض کے عزم اور بغیر وجود کے فرض نہیں ہو سکتا۔‘‘ اقبال بھی خودی کو اختیار اور خود گری کے مترادف خیال کرتے ہیں، جب کہتے ہیں کہ:’’خودی کی زندگی اختیار ک زندگی ہے جس کا ہر عمل ایک نیا موقف پیدا کر دیتا ہے اور یوں اپنی خلاقی اور ایجاد و طباعی کے لیے نئے نئے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔‘‘ اقبال کے نزدیک جبر سے اختیار کی نمو ہوتی ہے: در اطاعت کوش اے غفلت شعار می شود از جبر پیدا اختیار اسی لیے فطرت سے انسان کی وابستگی اور اس کی اطاعت از بس ضروری ہے۔ اقبال انسان کو شے نہیں بلکہ سراپا عمل کہتے ہیں: ہستم اگر می روم گر نہ روم نیستم انسان کو اپنی تکمیل کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور اس کے بغیر کائنات کی کوئی بڑی سے بڑی قوت حتیٰ کہ خدا بھی اسے وجود میں نہیں لا سکتا۔ خود گری نہیں تو انسان کا مقصد بے معنی ہے۔س ارتر منفعیت کا فلسفی ہے اور شعور کو ارادی اور اسے کسی نہ کسی شے سے وابستہ سمجھتا ہے جس کا ادراک بلا واسطہ ممکن نہیں۔ اس کے نزدیک:’’ مجرد وجود کوئی چیز نہیں‘‘ اس کا قول ہے کہ ’’ میں وہ ہوں جو میں نہیں ہوں اور میں وہ نہیں ہوں جو میں ہوں‘‘ یہی اس کا فلسفہ عدم و وجود ہے وہ اس کی تشریح یہ کہہ کر کرتا ہے کہ ’’ انسان وہ وجود ہے جس کے ساتھ عدم اس دنیا میں آیا ہے‘‘ اور’’ انسان کی آزادی اس کی ذات کے عدم ہی سے معرض وجود میں آتی ہے۔‘‘ وہ سوائے انسانی کائنات کے اور کسی کائنات کا قائل نہیں وہ وقت کی ضرورت کے تحت اس لیے خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے کہ انسان خود انسان کے لیے وجود مطلق بن جائے مگر یہیں وہ اقبال سے الگ نظر آتا ہے کیونکہ وہ انسان پسند بن جاتا ہے جبکہ اقبال انسان دوست ہیں۔ سارتر کائنات میں کسی نظم و ترتیب کا قائل نہیں جب کہ اقبال کو قرآن کے اس سائنسی مسئلے پر ایمان ہے کہ:’’ والسماء رفعھا و وضع المیزان ‘‘ اور خدا نے بلندیوں میں ایک توازن قائم کیا (الرحمن : ۸)یہاں اسی کائناتی توازن (Equilibrium) کا ذکر ہے جو تمام اجرام سماوی میں موجود ہے اور جس قانون کی وجہ سے یہ تمام سلسلہ ایک نظم میں منسلک ہے۔ سارتر کی انسان پسندی اس کے الحادی ہونے کا نتیجہ ہے۔ وہ خدا کے وجود کو انسان کی مختار فاعلیت کے راستے میں روک سمجھتا ہے اور اخلاقی اقدار کا خالق بھی محض انسان کو گردانتا ہے۔ اس لیے کسی ایک نظام اقتدار کو اپنانے اور کسی دوسرے کو ترک کرنے کا قائل نہیں۔ اور یہی اس کے ہاں آزادی کا منفی تصور ہے اور بے کراں کائنات میں انسان کو تنہا بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ رویہ بھی ایک طرح سے کیر کیگارڈ کی خرد دشمنی سے مماثلت رکھتا ہے اور احساس محرومی و بے گانگی اور خود اجنبیت کو راہ دیتا ہے۔ شاید اسی لیے سارتر عورت سے بھی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ اقبال کے نزدیک یوں تو: وجود زن سے ہے تصور کائنات میں رنگ اور اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطون وہ عورت کو برائی کا مرکز تو نہیں سمجھتے مگر عملاً وہ عورت کو ایک حد بندی سے باہر نہیں دیکھنا چاہتے۔ تاہم اقبال کی اس رائے میں خرد دشمنی اور خود اجنبیت والی بات ہرگز نہیں ہے۔ اسے ان کے عہد کے موجود معاشری رویے کا اثر کہا جا سکتا ہے۔ فلسفہ اشتمالیت میں سارتر بنی نوع انسان کے تمام مسئلوں کا شافی حل سمجھتا ہے۔ یہ اس کا اپنا قول ہے کہ:’’ تاریخ کی صحیح ترجمانی صرف مادیت ہی پیش کرتی ہے۔‘‘ وہ انسان کو تاریخ کے جدلیاتی عمل کے سامنے مجبور مانتا ہے۔ اقبال تاریخی مادیت یا تاریخ کے جدلیاتی عمل کو مارکس یا سارتر کا سا درجہ تو نہیں دیتے تاہم وہ ایشیا میں کیے جانے والے اس تجربے سے آنکھیں میچ کر گزر جانے میں عافیت بھی نہیں سمجھتے اور اس تجربے کی آزمائش کو برا نہیں جانتے۔ البتہ وہ اشتراکیت کے اس نقطہ نظر سے کہ تمام زندگی محض مادی اسباب کی عادلانہ یا مساویانہ تقسیم سے فروغ پائے گی یا پا سکتی ہے، متفق نہیں ہیں۔ اقبال اس ترقی میں روحانی ترقی کی شمولیت کو لازمی سمجھتے ہیں۔ وہ اشتراکیت کی معاشی تنظیم میں خدا کے تصور کو شامل کر لینے کے بعد اس عین اسلام قرار دیتے ہیں۔ اشتراکیت کے بارے میں ان کی بہت خوبصورت رائے یہ ہے کہ: قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمئی گفتار اندیشہ ہوا شوخئی گفتار پہ مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہیں اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار اگر اخلاقی اور روحانی زندگی معرض خطر میں نہ پڑے تو اقبال کے نزدیک بھی اشتراکیت کی کوششیں مستحسن ہیں۔ سارتر انسان کو ’’ عمل محض‘‘ کہتا ہے اور اقبال ’’ سراپا عمل‘‘ سارتر کا قول ہے کہ ’’ دنیا میں انسان کی موجودگی ایک طرح کا ہونا نہیں بلکہ محض کرنے اور انتخاب اور خود گری سے عبارت ہے۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’ شعور انتخاب اور آزادی ہم معنی ہیں۔‘‘ یہ قول بھی سارتر ہی کا ہے کہ ’’ انسان صرف اپنے اعمال اور مقاصد ہی کے بل پر کائنات میں کوئی امتیاز رکھتا ہے۔‘‘ اقبال اور سارتر دونوں انسان کی تخلیقی مفاہمت کے سلسلے کو ٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے: سر آدم ہے ضمیر کن فکان ہے زندگی سارتر اور اقبال دونوں اس کے باوجود انسان کو فطرت کے ناگزیر جبر سے آزاد بھی نہیں سمجھتے۔ سارتر نے کہا ’’ میں اپنی جماعت، قوم اور خاندان کے مقدر سے گریزاں نہیں رہ سکتا۔ مجھ میں اپنے نصیب اور قوت کو بنانے کی بھی طاقت نہیں۔ مجھے تو معمولی تقاضوں اور عادتوں پر بھی قابو نہیں۔ یہ ضروری ہے کہ فطرت پر حکمرانی کرنے کے لیے اس کی اطاعت بھی کی جائے۔‘‘ کم و بیش یہی بات اقبال بھی کہتے ہیں وہ بھی انسان کی آزادی کی حدود کے اندر انسان کی حیثیت تسلیم کرتے ہیں: صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے اقبال کی خودی سارتر کی انسانی داخلیت ہے۔ خودی یا انسانی داخلیت ہی اقدار حیات کا منبع ہے۔ اقبال کی خودی اگر ’’ کشتہ لذت پیکار‘‘ ہے تو سارتر کی Pour-soulفطرت سے متصادم اور مزاحم ہے۔ سارتر کہتا ہے: وہ (Pour-soi) آزاد نہیں رہ سکتی جو عالم سے مزاحم نہیں اقبال کہتے ہیں:’’ زندگی موت ہے کھو دیتی ہے جب ذوق خروش‘‘ اور بدریا غلط و با موجش در آویز حیات جاوداں اندر ستیز است اقبال بے شک سارتر کے ساتھ اس وقت ہم نوائی نہیں کرتے جب وہ یہ کہتا ہے کہ ’’ میرا بوجھ میری آزادی ہے‘‘ تاہم اقبال کے نزدیک بھی شعور کی پیدائش آزادی و اختیار کی ہے۔ شعود وجودیوں کے نزدیک ’’ فطرت میں نا آشنا اضافہ‘‘ ہے اور یہی انسان کی داخلیت ہے اس پر سارتر ایمان لاتے ہوئے کہتا ہے:’’ یہاں کوئی کائنات موجود نہیں سوائے انسانی کائنات اور انسانی داخلیت کی کائنات کے۔‘‘ اقبال کہتے ہیں: تو ہے، تجھے جو کچھ نظر آتا ہے نہیں ہے (۵) جہاں تک وجودیوں کے اس ادعا کا تعلق ہے کہ انسان کا وجود بے مثل اور بے نظیر ہے اور اس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے میں آزاد ہے، اپنے راستے خود تراشتا ہے اور اگر اس کا کوئی فیصلہ غلط ہو تو وہ اس میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ چنانچہ اسی لیے اس پر اپنی ذات کی طرف سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر کرے۔ اقبال ان سے متفق ہیں۔ اقبال کے ہاں فلسفہ خودی کی عمارت بھی کچھ ایسے ہی پتھروں سے تراشی گئی ہے۔ فلسفہ خودی انسانی شخصیت کی عملی مشکلات کی الجھنوں کو سلجھاتا ہے اقبال البتہ کیر کیگارڈ کے عیسائی تصوف سے آگے چلتے ہیں۔ ایک طرح سے اس کا وجودیتی فکر اقبال کے فلسفہ خودی کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ اقبال بھی عالم فطرت کی جبریت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ فرد کو ذوق اختیار کی لذت آشنائی بخشنا ان کا مقصد فن ہے۔ وہ فرد کو پر شکوہ دیکھنا پسند کرتے ہیں: فرشتہ صید، پیمبر شکار و یزداں گیر فرق صرف یہ ہے کہ اقبال کا انسان اپنی مصطفائی اور کبریائی صفات سے نمایاں نظر آتا ہے جب کہ وجودیت پسندوں کا انسان بے نام و نمود ہے تاہم جبریت نہ وجودیوں کو تسلیم ہے نہ اقبال کے ہاں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ کیر کیگارڈ نے انتخاب کی آزادی کے سلسلے میں حضرت ابراہیم ؑ کی مثال دی ہے۔ اقبال نے بھی عشق اور عقل کی آویزش میں حضرت ابراہیم ؑ کے رویے کو مثالی قرار دیا ہے مگر سارتر کا وجودی فکر انسانی شخصیت کی مشکلات کا مداوا تلاش کرنے کے بجائے اس کی مشکلات کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے، یہاں تک کہ اپنا آپ فنا کرنا سکھاتا ہے۔ یہ بات شاید کسی قدر تصوف کے تو قریب ہو لیکن اقبال کا فلسفہ خودی اس کا مخالف ہے۔ سارتر کے ہاں جو بے سمتی ہے اقبال اسے ایک سمت عطا کرتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ فرد بے شک آزاد ہے، مگر وہ خدا کی محبت اور رضا کے لیے آزاد ہے، اور یہی محبت اور حصول رضائے الٰہی انسان کی مشکلات کا تسلی بخش حل ہے۔ وجودیت اور فلسفہ خودی میں اشتراک یہ ہے کہ دونوں فرد کی آزادی کے علم بردار ہیں اور یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ انسانی شخصیت کیا ہے اور انسان کیا چاہتا ہے، آزادی کا صحیح استعمال کیا ہے اور اسے دوام کیسے بخشا جا سکتا ہے۔ مگر وجودیت میں کوئی عقلی ترتیب نہیں پائی جاتی جب کہ فلسفہ خودی میں ایک تنظیم ہے۔ وجودیت کی بے سمتی کا پس منظر عیسائیت کے قنوطی عقائد میں اور فلسفہ خودی کا پس منظر اسلام کی رجائیت ہے۔ عیسائیت انسانی شخصیت اور قدرت کے درمیان مستقل تضاد کو کبھی رفع نہیں کر سکی، جبکہ اسلام نے یہ تضاد انسان کو خدا کی نیابت بخش کر رفع کر دیا تھا۔ اقبال کے فلسفہ خودی میں انسانی حقیقت اور انسانی وجود ہونے کا کیا مفہوم ہے۔ اس اعتبار سے فلسفہ خودی وجودیت کی خوبیوں سے مملو ہے، مگر اس کی خامیوں کو نظر انداز کرتا ہوا آگے نکل گیا ہے۔ اقبال اور وجودیت میں ایک واضح مشابہت یہ ہے کہ جس طرح وجودیت پسندوں نے کلاسیکی یونانی فلسفے کی مجرد پسندی کو ہدف بنایا، اس کے خلاف عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے جامد و ساکت اور غیر متحرک تصورات سے عبارت قرار دیا اقبال نے بھی اسے یہ کہتے ہوئے رد کیا کہ زندگی متحرک، غیر جانب دار اور ہر لحظہ رواں دواں ہے اپنی ایک تحریر میں انہوں نے قرآن کی روح کو Anti-Classical قرار دیا ہے اور قدیم مسلم مفکرین کی فلسفہ یونان سے مرعوبیت کو اچھا نہیں سمجھا۔ وجودیوں نے اور وجودیوں میں سے خاص کر کیر کیگارڈ نے عقل محض کو بحیثیت ذریعہ علم کے کوئی اہمیت نہیں دی۔ اقبال بھی تلاش حق کے لیے علم کے حواسی خلائع کے علاوہ ایک دوسرے ذریعے یعنی وجدان پر بھی یقین رکھتے ہیں: خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں اقبال نے وجودیت پسندوں کی طرح فعل اور فیصلے کو اہمیت دی ہے۔ خطبات میں ان کا قول ہے کہ:’’ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو تصور کی نسبت فعل پر زیادہ زور دیتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے یہ قول بھی اقبال ہی کا ہے کہ ’’ ذات کا حتمی مقصد کچھ دیکھنا یا سننا نہیں بلکہ کچھ بننا ہے۔‘‘ اقبال ان ہی معنوں میں خودی کے ایسے فلسفے کے قائل ہیں جو ذات کی گہرائیوں سے اٹھتا ہی نہیں بلکہ ابلتا ہے: یا مردہ ہے نزع کے عالم میں گرفتار جو فلسفہ لکھا نہ گیا خون جگر سے اقبال فکر اور عمل کے درمیان کسی فاصلے کو پسند نہیں کرتے اس لیے وہ مومن کو صرف قاری ہی نہیں بلکہ مجسم قرآن خیال کرتے ہیں: قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اور یہ بھی کہا کہ: ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف وجودیت پسند عہد حاضر کے انسان کو مشینوں کا غلام سمجھتے ہیں اور فتویٰ دیتے ہیں کہ صنعتی نظام نے انسان کو خود اجنبیت کے حصار میں پابند کر دیا ہے۔ اقبال کو اس سے اتفاق ہے۔ وہ کہتے ہیں: مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری ٭٭٭ ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات فرد کو وجودیت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس نظام میں وجود جوہر پر مقدم ہے۔ فرد یا انسان کے مقام کا احساس اقبال کو بھی ہے: منکر حق نزد ملا کافر است منکر خود نزد من کافر تر است سارتر اور اقبال کے ہاں ذات انسانی کی اہمیت کے بارے میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ اگر سارتر کہتا ہے کہ Man finds himself thrown in to existence تو اقبال بھی کہتے ہیں: The Ego has a begninning in time and did not pre-exist in the spatiotemporal order. وجودی مفکرین انسانی آزادی اور انفرادی آزادی کے داعی ہیں۔ اقبال اس کی سند قرآن سے لاتے ہیں اور ’’ خطبات‘‘ میں اعتراف کرتے ہیں کہ ’’ قرآن اپنے سادہ لیکن پر زور انداز میں انسان کی انفرادیت پر زور دیتا ہے اور انسان کی منفرد ذات کا یہی تصور ہے جو ایک فرد کے لیے کسی دوسرے فرد کا بوجھ اٹھانا نا ممکن ٹھہراتا ہے اور اسے صرف اپنی ذاتی کوششوں کے نتائج کا حق دار ٹھہراتا ہے۔‘‘ اگر قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ انسان کو کائنات کی مختلف پر شکوہ چیزوں سے متاثر ہو کر ان کے سامنے جھکنے سے روکا گیا ہے۔ وہ اشیاء کا غلام نہیں بلکہ اشیاء کو اس کی غلامی بخشی گئی ہے: ۱۔خلق لکم ما فی الارض جمیعا (بقرہ: ۲۸) ۲۔ الم تر ان اللہ سخر لکم ما فی الارض والفلک تجری بامرہ (حج: ۶۵) ۳۔ وسخر لکم اللیل والنھار والشمس والقمر والنجوم مسخرا بامرہ (نحل:۹) ۴۔ والانعام خلقھا لکم فیھا دف و منافھا (نحل:۵) قرآن البتہ انسان کو اپنی ذات کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہونے سے بچاتا ہے اور کسی دوسری انتہا کا شکار نہیں دیکھنا چاہتا۔ وہ انسان پر اس کی عظمت یہ کہ کر آشکار کرتا ہے کہ اپنی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے حد اعتدال میں رہے۔ اسلام کے نزدیک اور اقبال کے نزدیک انسان اول و آخر انسان ہے اور یہی مقام اس کے لیے باعث عزت ہے۔ انسانی فضیلت کی اصل اس کی نائبانہ حیثیت میں ہے اسے خدا نے اپنی امانت (احزابـ:۳۲) سونپی، یعنی وہ خود دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہے اور دوسروں کو خدا کی بندگی کی دعوت یوں دے کہ بندگی کے نظام کو مستحکم کر کے انسانوں کو اس میں شامل کرے۔ وجودیت پسند، فرد کی آزادی کے قائل ہیں مگر ان کے ہاں آزادی کا تصور بے مہار ہے۔ اس میں اعتدال نہیں اقبال کے ہاں فرد کی خود ارادیت کا تصور بھی موجود ہے ان کے نزدیک فرد کی آزادی اپنے اندر ایک مقصد لیے ہوئے ہے۔۔۔۔ ایک ایسا مقصد جو اس کے لیے نصب العین کا انتخاب کرتا ہے یا وضع کرتا ہے۔ اس سے اس کے باطن کی عکاسی ہوتی ہے۔ وجودیت چونکہ رد عمل کی پیداوار ہے اس لیے ایک طرح کی فکری انتہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اعتدال نہیں ملتا۔ یہاں اقبال کا فکر واضح طور پر وجودیت پسندوں سے الگ ہو جاتا ہے۔ فلسفہ وجودیت میں دنیا کی تصویر مایوس کن اور غم انگیز ہے۔ یہاں انسان کے رحجانات اور میلانات و عواطف کی تعیین اس کا ماحول کرتا ہے۔ اسے اپنی صحیح سمت کا کوئی پتا نہیں، لیکن پھر اس کا کوئی فعل تاریخ عالم پر اپنے اثرات مرتب کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ یہی انسانی المیہ ہے جو وجودیوں کے نزدیک کرب، مایوسی اور تنہائی کو راہ دیتا ہے۔ وجودیت پسند بے شک انسان کی ہستی کے سرے سے انکاری تو نہیں ہیں نہ وہ اسے کوئی ایسی چیز سمجھتے ہیں جو محض معروضی حیثیت رکھتی ہو، انہیں یہ بھی تسلیم ہے کہ انسانی داخلیت ضرور کوئی معنی رکھتی ہے لیکن وہ انسان کی کوئی واضح تعریف کرنے میں ناکام رہے ہیں جب کہ اقبال کے ہاں انسان کی ایک معین اور واضح تعریف ملتی ہے۔ اسی لیے اقبال کے ہاں وجودیت پسندوں کے برعکس امید، اعتماد اور حوصلے کا پیغام ہے: عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے وجودیت پسند، انسان کا گناہ سے گریز نا ممکن خیال کرتے ہیں۔ اس وجودی عقیدے پر واضح طور پر عیسائیت کی روایتی گناہ اولیں کے عقیدے کا پرتو ہے۔ اقبال ہبوط آدم کے قصے کو بھی یہ کہتے ہوئے نئے اور صحت مند معنی بخش دیتے ہیں کہ ’’ اس سے مراد اس تبدیلی کو ظاہر کرنا ہے جو انسان قدیم جبلی سطح سے بلند ہو کر ایک آزاد اور با شعور ذات کا حامل ہوا، ایک ایسی باشعور ذات کا جو شک اور نا فرمانی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہبوط آدم کا مطلب ہر گز اخلاقی محرومی نہیں۔ یہ انسان کا سادہ شعور ہے، شعور ذات کی طرف رجوع ہے۔‘‘ وجودیت پسندوں میں بعض عبادت کا جواز صرف انفرادی سطح پر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کسی اجتماعی نظام عبادت کے قائل نہیں۔ ان کے خیال میں کسی اجتماعی طریق عبادت سے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان تمام تر اپنی توجہات ایک ہی طرف مرکوز رکھے۔ اقبال اجتماعی عبادت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اس سے انسانوں کے مشترک جذبات کو تقویت ملتی ہے اور رنگ و نسل کے امتیاز ختم ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے فلسفہ خودی کے بعض پہلو وجودیت سے ہم آہنگ ہیں، لیکن اقبال خرد کے معاملے میں کسی قدر عینیت پسند اور رومانی بھی ہیں۔ وہ فلسفہ اجتماع پر یقین رکھتے ہیں۔ فلسفہ خودی میں جو شخص سامنے آتا ہے وہ در حقیقت اجتماع کی نمائندگی کر رہا ہے جب کہ وجودیت میں کوئی ایک فرد کسی بھی دوسرے فرد کی نمائندگی کا حق نہیں رکھتا۔ تاہم تقدیر کے بارے میں اقبال کی رائے وجودیت کے اساسی تفکر سے قریب تر ہے: عبث ہے شکوۂ تدیر یزداں تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟ اگرچہ یہاں بھی اقبال حسن عمل اور کردار کو فرد کا جوہر قرار دیتے ہیں مگر یہ فرد بھی اجتماع کا نمائندہ ہے اور یہ بات سارتر کی وجودیت کے برعکس ہے۔ اقبال کا انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ رہتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اپنے باطن کی گہرائیوں میں اترتا ہے جب کہ سارتر کا انسان دوسرے انسانوں سے کٹ کر اپنے اندر کے خلاف میں گم ہو جاتا ہے۔ ٭٭٭ ماخذات ۱۔ قرآن مجید ۲۔ ’’ کلیات اقبال‘‘ اردو۔ فارسی ۳۔ سید نذیر نیازی، مترجم اقبال ’’ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ ۴۔ Theodor Haeker, Kierkegaard ۵۔Sartre, Existentialism As Humanism ۶۔ H.J. Blackhoni, Six Existentialist Thinkers اختتام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔The End